Language: UR
عربوں میں تبلیغِ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ اور آپؑ کے کے خلفائے کرام کی بشارت، گرانقدر مساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروز تذکرہ
عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام کی بشارات، گرانقدر مساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروز تذکرہ جلد اوّل (ابتداء سے 1954 ء تک) مؤلفه مربی سلسله عربک ڈیسک یو.کے.
- جلد اول MaṢāliḥul - ‘Arab – Vol: 1 (Urdu) - Compiled by: Muhammad Tahir Nadeem O Islam International Publications Limited First Published in UK in 2012 by: Islam International Publications Limited Islamabad Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ United Kingdom Printed in UK at: ISBN: 978-1-84880-112-7
”مصالح العرب“ کے بارہ میں حضرت امام ہمام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مکتوب گرامی واشغل لي من لذلك سلطانا الصبرا م وانتم الله امام جماعت احمدیه لندن 5-1-12 له الله الناحية العالم تحمدُهُ وَتُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم و عَلَى عَبْدِهِ المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ پیارے مکرم محمد طاہر ندیم صاحب هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله و بركاته آپ نے اطلاع دی ہے کہ آپ جماعت احمدیہ کی عرب ممالک میں تاریخ و واقعات جو آپ کے تحریر کردہ ہیں اور الفضل میں شائع ہورہے ہیں، کو کتابی شکل میں شائع کر رہے ہیں.اللہ تعالی اس کتاب کو پڑھنے والوں کے لئے معلوماتی اور ازدیاد ایمان کا باعث بنائے.آمین میں تو پورا ہفتہ الفضل انٹر نیشنل کا خاص طور پر آپ کے مضمون کی وجہ سے انتظار کرتا ہوں.خلافت ثانیہ کے دور کے تاریخی اور ایمان افروز واقعات اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے پیغامات اور ابتدائی مبلغین جن کے ذریعہ بعض عرب ممالک میں احمدیت کا پیغام پہنچا اور سعید روحوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی ، یہ سب تو ایمان افروز اور دل کو جلا بخشنے والے ہیں ہی لیکن اس دور میں جس طرح عرب ممالک میں احمدیت کا نفوذ ہو رہا ہے اور جس ایمانی حرارت کا نئے شامل ہونے والے مظاہرہ کر رہے ہیں، کن کن مشکلات سے گزر رہے ہیں وہ بھی پڑھنے والے پرانے احمدیوں کو اپنے جائزے لینے پر مجبور کرتا ہے اور نئے آنے والوں کو حوصلہ اور جرات دیتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کام کی بے انتہا جزاءدے کہ اپنے تمام علمی کام کے ساتھ اس ایمان افروز تاریخ کو بھی محفوظ ر کر رہے ہیں اور پھر ان واقعات کے بیان کے دوران کسی علمی یا عقیدے کے مسئلہ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی روشنی میں آپ کا بیان علمی تفسیری اور عقیدے کے مسائل بھی حل کر دیتا ہے اور اسی طرح غیروں کی بد عقیدگی اور بدعات کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے اور یوں ایک احمدی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کا مزید ادراک ہو جاتا ہے بلکہ ہر سعید فطرت کو ہوتا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ آپ کو اس کام کی بہترین جزاء دے اور پڑھنے والے اس سے فائدہ اٹھا سکیں.آمین نقل دفتر PS لندن والسلام خاکسار خليفة المسيح الخامس
مصالح العرب......جلد اول بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ عرض حال عرض حال سن 2008ء جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.یہ وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جاری ہونے والی خلافت علی منہاج نبوت کے قیام پر سو سال پورے ہوئے.یہ سال عربوں کے لحاظ سے بھی اہم تھا کیونکہ اس وقت تک عربوں کے لئے علیحدہ یب سائٹ اور علیحدہ ٹی وی چینل ایم ٹی اے 3 العربیہ کا اجراء عمل میں آچکا تھا اور عربوں میں تبلیغ کے لئے چند خاص پروگرامز شروع ہو چکے تھے جن میں ہر دلعزیز پروگرام الحوار المباشر سر فہرست ہے.یوں کہنا چاہئے کہ بلاد عربیہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ کو پہنچانے کے لئے آسمان سے دروازے کھول دیئے.اس تاریخی حوالے سے جماعت خدا تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کے شکرانے کے طور پر مختلف پروگرام بنارہی تھی.اس موقعہ پر جماعت کے دیگر رسائل واخبارات کی طرح الفضل انٹرنیشنل کا بھی ایک خاص نمبر شائع کیا گیا جس کے لئے مکرم نصیر احمد قمر صاحب مدیر الفضل انٹرنیشنل نے خاکسار کو عربوں میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی کاوشوں کے بارہ میں ایک مضمون لکھنے کا ارشاد فرمایا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے اس بارہ میں مواد اکٹھا کرنا شروع کیا تو وہ ایک مضمون سے بہت زیادہ تھا، لہذا اسے قسط وار چھاپنے کا کی
مصالح العرب......جلد اول عرض حال فیصلہ کیا گیا اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل اور اسکی خاص مدد سے جہاں مواد میسر آتا گیا وہاں گاہے گا ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعا، شفقت اور راہنمائی خاص برکتوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئی.اور ایک قسط سے شروع ہونے والا یہ مضمون محض خدا کے خاص فضل اور حضور انور کی نظر شفقت کی برکت سے آج تک جاری ہے.اس سارے مواد کو بنیادی طو پر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، حصہ تاریخ اور حصہ سیرت.حصہ تاریخ کی دو جلدیں ہیں جن میں سے یہ پہلی جلد قارئین کرام کی خدمت میں اس دعا کے ساتھ پیش ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اور اس خاکسار کو بھی اپنی جناب میں قبول فرماتے ہوئے اپنی مغفرت اور رحمت کی رداء میں چھپالے ، آمین.مواد کی فراہمی اور اسے کتابی شکل میں تیار کرنے میں بہت سے بزرگان اور احباب نے مدد وراہنمائی فرمائی ہے، دعا کی غرض سے ذیل میں ان کے اسماء گرامی درج کئے جاتے ہیں: استاذی المکرم میر محمود احمد ناصر صاحب سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ ، سید عبد الحی شاه صاحب مرحوم ناظر اشاعت ربوه ، مکرم نصیر احمد قمر صاحب مدیر الفضل انٹرنیشنل ، مکرم منیر الدین شمس صاحب، مکرم عبد المومن طاہر صاحب ، مکرم مبشر احمد ایاز صاحب، مکرم اسفند یار منیب صاحب، مکرم نوید احمد سعید صاحب، مکرم محمود احمد منیر صاحب، مکرم میرانجم پرویز صاحب ، مکرم شیخ مسعود احمد صاحب، مکرم طارق خلیل صاحب، مکرم طارق حیات صاحب اور انکی اہلیہ عائشہ طارق صاحبه، مکرم تنویر احمد صاحب ، مکرم محمد داؤد ظفر صاحب اور مکرم ڈاکٹر نعیم الجابی صاحب اسی طرح خاکسارا اپنی اہلیہ مکرمہ شازیہ نورین صاحبہ کا بھی اس فہرست میں بطور خاص ذکر کرنا چاہتا ہے جنہوں نے اس کام کی انجام دہی میں خاکسار کا بھر پورساتھ دیا.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا أَحْسَنَ الْجَزَاءِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ خاکسار محمد طاہر ندیم مربی سلسلہ عربک ڈیسک اسلام آباد ٹلفورڈ 30 جولائی 2012ء
6 7 8 9 11 11 12 13 14 15 17 17 21 1 3 3 4 5 3: مصالح العرب.....جلداول فہرست مضامین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں عربوں میں تبلیغ عربوں میں تبلیغ و نفوذ کے بارہ میں بشارت الہیہ عربوں میں تبلیغ اور مقبولیت کی بشارت عربوں کی خبر گیری اور راہنمائی کا ارشاد اہل مکہ کے فوج در فوج قبول احمدیت کی خوشخبری عربوں اور بلا دشام سے جماعت مومنین کی بشارت مصر کے بارہ میں خوشخبری آنحضور کی معیت اور ارض حجاز میں اکرام کی خوشخبری پہلا دور 1891ء تا 1899ء عرب دنیا سے پہلا احمدی الشیخ محمد بن احمد المکی صاحب رضی اللہ عنہ تعارف، سلسلہ احمدیہ سے رابطہ اور بیعت اظہار ندامت اور بیعت کا خط ایک عالم عرب مگی کا خط دوسرے جلسہ سالانہ میں شرکت ایک تصحیح عربوں کی طرف التفات حضور علیہ السلام کی پہلی عربی کتاب حضور کے پُر تاثیر کلمات کا جادو
21 24 26 26 27 27 27 28 36 38 40 41 41 ل پیا مل له الله الله ج چ ج 30 31 35 42 42 45 46 47 48 49 49 مصالح العرب.....جلداول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں قصیدہ iv عربی زبان کے خدائی علم کا دعویٰ اور عربی میں مقابلہ کی دعوت اول ابدال الشام حضرت محمد سعید الشامی الطرابلسی رضی اللہ عنہ حضرت اقدس مسیح موعود سے تعلق قادیان میں قیام اور بیعت دینی خدمات تذكرة واقعات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب حضرت مسیح موعود کے قلم مبارک سے آپ کے اوصاف کا بیان سیرت المہدی کی روایات میں آپ کا ذکر ایک روایت اور وضاحت حضرت عبد الله العرب صاحب لتبلیغ “ پر ایک برعکس رد عمل خلاصہ اشتہار السيد البغدادی خلاصہ خط السید البغدادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب حسنِ اتفاق یا تقدیر الہی حضرت حاجی مہدی صاحب عربی بغدادی تنزیل مدراس حضرت عبد الوہاب صاحب بغدادی حضرت سید علی ولد شریف مصطفی عرب حضرت عثمان عرب صاحب حضرت عبد الحی عرب الحویری تعارف اور بیعت
49 50 52 52 52 53 54 55 ه ی له ما نه آن که در این دل و دل در امان می ی ی ی ی 8 8 8 8 ده ده شه شه 54 55 56 57 58 59 60 60 61 61 62 62 مصالح العرب.....جلداول شادی اور بعض سعادتوں کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں ذکر حضرت سیٹھ ابو بکر یوسف تعارف اور ابتدائی خاندانی حالات اعلیٰ ساکھ کے تاجر اور عالم دین مرد کامل کی تلاش V صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان اور بیعت دستی بیعت کے لئے قادیان میں ورود نظام وصیت میں شمولیت وفات مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت سے تعلق احمدی حجاج کرام کی خدمت کی سعادت این سعادت بزور بازو نیست قادیان میں مستقل سکونت وفات اور آخری آرام گاہ حضرت احمد رشید نواب ابتدائی حالات اور احمدیت سے تعارف رؤیا اور اس کے پورا ہونے کا انتظار سفر قادیان اور حیرت انگیز تبدیلی بیعت اور رویا تھہیمات ربانیہ حضرت مسیح کی آمد ثانی کی غرض ایمان اچھا یا تکذیب حیات مسیح کا رڈ نشان مانگنا صدیقیت کے خلاف ہے 63 64 65 67
مصالح العرب.....جلداول حضرت احمد زہری بدرالدین vi ย حضرت ابوسعید عرب...«التبلیغ “ نے ان کا دل موہ لیا ی شخص کبھی جھوٹ بولنے والا نہیں ہے سارا قرآن ہمارے ذکر سے بھرا ہوا ہے اب تو بالکل جانے کو دل نہیں چاہتا آپ کی ایک خواب اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعبیر حَمَامَةُ الْبُشْرِى عربی زبان تمام زبانوں کی ماں ہے عربی زبان سیکھنے کی نصیحت عربی کی اشاعت و ترویج کے لئے عملی مہم اعجاز ا ح دوسرا دور 1900ء تا 1908ء اعجاز مسیح کا چیلنج اور مخالفین کی بیچارگی.ایک جائزہ وجہ اعجاز اعتراضات منکرین ایک اور چیلنج وه سَيُهْزَم فَلا يُرى ایک اعتراف فونوگراف کے ذریعہ عربی زبان میں تقریر ریکارڈ کرنے کی تجویز ایک پرانا الہام مصر میں تبلیغ مواہب الرحمن یہ معجزہ کی طرح پھرے گی 69 70 71 71 72 73 74 76 77 77 79 81 لا لا لا لله لله له له لا لا لا چه ن م 8 8 8 8 م م م م 8 8 83 84 86 86 89 90 92 93 94 95 96 96
97 98 102 105 108 109 109 110 110 110 111 113 115 116 117 119 120 120 121 123 123 124 124 125 vii مصالح العرب.....جلداول کتاب کی اشاعت اور سعید روحوں کے استفادہ کے متعلق امید ایک بغدادی الاصل ڈاکٹر صاحب کی قادیان آمد مجمع الا حباب والا خوان کا قیام حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں عربوں میں تبلیغ انجمن تشخید حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا سفر حج جلسہ الوداع اور محترم صاحبزادہ صاحب کی ایک دعا سفر پر روانگی عدن میں ورود مصر میں آمد جد ہ اور مکہ سے حضرت صاحبزادہ صاحب کے خطوط ایک اعتراض اور اس کا جواب مکہ مکرمہ میں تبلیغ اور آپ کے قتل کی سازش مکہ معظمہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب کا ایک مبارک رویا حج کے بعد مکہ معظمہ سے قادیان واپسی اور بعض مخالفین کا انجام عربی زبان میں ایک چار صفحہ کا ٹریکٹ شائع کرنے کی تجویز حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی مصر روانگی حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب ( نور اللہ مرقدہ) کے مکتب میں حضرت خلیفہ اول کی بیش قیمت نصائح قاہرہ اور بیروت میں تعلیم صلاح الدین ایوبیہ کالج بیت المقدس اسیری اور رہائی دوعربوں کا قادیان میں ورود حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں عربوں میں تبلیغ
127 128 129 132 134 135 135 137 137 138 139 139 140 140 140 141 143 144 144 144 144 146 146 147 مصالح العرب.....جلد اول بلاد اسلامیہ کے لئے عربی ٹریکٹ حضرت ولی اللہ شاہ صاحب کا اعزاز تِلْمِيدٌ مِنْ تَلَامِيذِ المَهْدِي“ دار التبلیغ مصر کا قیام نیل کے کنارے خدیو مصر کی والدہ کے محل میں ایک دشمن کی مجلس میں viii حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا سفر یورپ اور بلا د عربیہ میں نزول فتح مصر کی بنیاد مصر کے بارہ میں حضور کی پیشگوئی الازہر کی خلافت کمیٹی سے ملاقات مصر کے ایک مشہور صوفی مصر کے احمدی ایک مصلح کے امیدوار بدوی حضور کی ایک اور پیشگوئی اور اس کا پورا ہونا ایک پیاسی اور مستعد روح بیت المقدس میں القدس کی زیارت مفتی بیت المقدس کی حضور سے ملاقات عیسی علیہ السلام کی یادگاریں حیفا میں ورود بیت المقدس سے دمشق تک ہم حق کو لے کر دنیا میں نکلے ہیں مولوی عبد القادر المغربی
150 150 151 153 154 155 156 156 156 157 158 158 158 159 160 160 161 162 163 164 165 167 167 168 مصالح العرب.....جلداول دمشق کی فتح کا مصمم ارادہ جامع اموى منارة بيضاء ix وہ حسن واحسان میں تیرا نظیر ہوگا“ کا عظیم الشان جلوہ گورنر شام سے مبلغین احمدیت بھجوانے کا ذکر مخالف مولوی نے تشہیر کر دی حمص کا ایک بزرگ پہاڑ سے ٹکر ایک سعید فطرت لوگوں کا جم غفیر دمشق اور بیروت میں قیام کے بعض مزید قابل ذکر امور بیروت سے حیفا کے سفر کے قابل ذکر امور دمشق سے پورٹ سعید تک حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کا قیام مصر دار التبلیغ شام و فلسطین مبلغین کے لئے اہم نصائح حضرت حافظ روشن علی صاحب کی نصیحت سفر دمشق کا ایک واقعہ دمشق کا پہلا احمدی دمشق پر اتمام حجت اور مبلغین کرام کی قابل ستائش مساعی علامہ المغربی کی عربی دانی گرانقدر مساعی دمشق سے واپسی يا قلبي اذكر أحمدا
169 170 171 172 173 173 175 176 178 180 182 182 185 185 186 187 189 191 191 191 192 193 193 193 مصالح العرب.....جلداول آمنتُ بالمسيح الثاني ایک صوفی منش بزرگ ملک فیصل مرحوم کے سوالات ایک وضاحت X جماعت دمشق کے پہلے چندہ جلسہ سالانہ کی ادائیگی کا اچھوتا انداز مکرم منیر الحصنی صاحب کا قبول احمدیت مسیح موسوی کے پیرو اور مسیح محمدی کے غلام مولا ناشمس صاحب پر قاتلانہ حملہ...اور خطرہ ٹل گیا عربی اخبارات میں اس واقعہ کا ذکر مولانا شمس صاحب کو دمشق چھوڑنے کا حکم حضرت مولا نائٹس صاحب حیفا میں حضرت مولانا شمس صاحب کے حیفا میں مناظرے فلسطین میں شمس صاحب کی مخالفت فلسطین میں تبلیغ میں مشکلات یمن کے ایک ابتدائی احمدی الحاج محمد بن محمد المغربی سے ملاقات شیخ سلیم بن محمد الربانی....پاک تبدیلی کا شاندار نمونہ فلسطین کے کچھ ایمان افروز واقعات میری بیعت لیجئے احمدیت.مسیحیت کے لئے کاری ضرب احمدیوں کی تفسیر بہت پسند ہے مولا نا جلال الدین شمس صاحب کی مصر میں مساعی مناظره بر وفات مسیح مصر میں عیسائیت کی یلغار کا ایک جائزہ
194 195 195 197 198 198 199 199 203 204 205 205 206 208 210 211 214 215 218 218 219 219 221 222 مصالح العرب.....جلد اول کاش تم مسیحی مشنری ہوتے آخرین کے ابن عباس ایک پادری سے مناظرہ اور مصر کا پہلا احمدی مجھے کچھ نہیں آتا قوت دلائل و سحر کلام ہم آپ سے یہیں جہاد کریں گے سوڈان میں تبلیغ xi مصر کے ایک عربی مجلہ میں حضرت مولانا شمس صاحب کا ذکر بلاد عربیہ میں مدرسہ احمدیہ کا قیام بلا دعر بیہ میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد جماعت احمد یہ کبابیر حضرت شمس صاحب کی بلا دعر بیہ سے کامیاب واپسی حضرت مولا نائمس صاحب کی مساعی ایک جائزہ شاہزادہ فیصل کو مسجد فضل لندن کے افتتاح کی دعوت افتتاح مسجد کی اہمیت شاہزادہ فیصل کی مسجد فضل لندن میں آمد مقامات مقدسہ پر گولہ باری اور جماعت احمدیہ کا کلمہ حق معاملات حجاز میں جماعت احمدیہ کا موقف حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب کا حج حضرت خدیجہ کے مکان اور قبر کی بابت مشورہ مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ( یعنی جائے پیدائش سرور دو عالم ) پر امیر فیصل سے ملاقات سلطان ابن سعود کو احمدیت کی تبلیغ سلطان ابن سعود سے ایک اور ملاقات اور اتمام حجت
مصالح العرب.....جلداول شام کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ حضرت مسیح ناصرٹی کی ایک پیشگوئی کا پورا ہونا عراق سے متعلق محمود عرفانی صاحب کی بعض یا دیں 223 xii حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ادنیٰ خادم شاہی دربار میں دجلہ کے کنارے قاہرہ سے اخبار ”اسلامی دنیا“ کا اجراء احمد یہ مشن ایک سیاح کی نظر میں ایک مصری عرب کے قبول احمدیت کی دلچسپ داستان حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی بلا وعر بیہ میں آمد قادیان سے حیفا تک امید افزا حالات نومبائعين نئی جماعتیں انفرادی تبلیغ مناظرات عیسائی مشنری کرملی سے گفتگو امریکن مشن قاہرہ کے انچارج سے مناظرے مسجد سید نا محمود کبابیر فلسطین میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد مسجد بنانے کا عزم مسجد کا افتتاح جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کا اعتراف بلا دعر بیہ میں احمدی پر لیس کا قیام اور ماہوار عربی رسالہ کا اجراء ایک لطیفہ 224 225 225 226 227 227 228 230 231 231 232 232 232 233 234 236 238 238 238 238 239 240 242
243 243 243 244 244 245 245 246 246 247 247 247 248 249 250 250 252 253 254 254 255 256 256 256 مصالح العرب.....جلداول الحركة الأحمدية في البلاد العربية ایک انگریز خاتون کا قبول اسلام ایک یہودی سے گفتگو عیسائیوں کا مباحثہ سے فرار علمی مکالمه معجزانہ حفاظت کا واقعہ ایک اہم تبصرہ بعض تاثرات اور دلچسپ واقعات روز روز نہیں بلکہ کبھی کبھی زبر دست قوت بیان xiii کیا عجمی مسلمانوں کی نماز اللہ کے نزدیک مقبول نہیں؟ آپ کی اور ہماری ملاقات نہیں ہو سکے گی شکست کی وجہ علم لاہوت سے ناواقفیت مولانا ابوالعطاء صاحب کی جرأت اور حکمت عملی حسن تدبیر قبر سیح" قبر نوح" کے پاس ہے؟! کشمیر دُور ہے یا آسمان؟ تثلیث اور توحید کے حامی قاہرہ کا ایک واقعہ مدرسہ احمدیہ جدید خطوط پر ایک لطیف اور تاریخی بات عبرانی کی تعلیم عظیم الشان کام جماعت کو رجسٹر ڈ کرانے کی مساعی
مصالح العرب.....جلداول مولانا ابوالعطاء صاحب کی حیفا سے واپسی ”البشرای“، کبابیر، فلسطین مدیران "البشرى" اثر ونفوذ شرعی عدالت کے وکیل کا تبصرہ روح القدس سے تائید یافتہ کامیاب دفاع رسول پر مبارکباد رسالہ "البشرى البشری، جامعہ احمد یہ ربوہ 257 xiv عربی پریس میں جماعت احمدیہ کی خدمات کی بازگشت عراق میں شیخ احمد فرقانی کی شہادت سعودی حکومت اور جماعت احمد یہ....سلطان عبد العزیز ابن سعود پر قاتلانہ حملہ جماعت احمد یہ لندن کی طرف سے تار سعودی حکومت کا غیر مسلم کمپنی سے معاہدہ پر جماعتی موقف مخالف پروپیگنڈہ کا اصل سبب امام جماعت احمدیہ کا بصیرت افروز بیان یہ عبد العزیز کے باپ کا گھر نہیں حبشہ میں ڈاکٹر نڈ پیراحمد صاحب کی تبلیغی خدمات حضرت خلیفہ المسیح کی بیش قیمت نصیحت مخدوش حالات اور خدمت کی توفیق با شمر تبلیغی مہمات آپ کے پیچھے نماز جائز نہیں جہاز واپس آگیا عرب صاحب پر گھڑوں پانی پڑ گیا 258 259 260 260 260 261 262 262 265 269 270 271 271 272 272 274 276 277 277 277 280 282 284
286 290 290 295 295 296 296 303 303 304 305 308 309 309 310 310 311 311 313 313 314 315 315 317 مصالح العرب.....جلداول قادر خدا کی قدرتوں کے نظارے سر کو پیٹو آسماں سے اب کوئی آتا نہیں مجدد کی تلاش مولا نا محمد سلیم صاحب کی حیفا آمد نمائندہ سلطان مسقط قادیان میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا سفر مصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی زریں نصائح XV حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی مصر میں آمد ہندوستانی لیڈرز شیخ الازہر پر اتمام حجت سچ کی جیت ہندوستان واپسی مولانامحمد شریف صاحب کی فلسطین میں آمد 39_1938ء میں فلسطین کے حالات صبر آزما حالات وسائل کی کمی قابل تحسین قربانی احمدیہ پریس اور مجلۃ البشری تعلیم و تربیت کی ایک جھلک اشاعت لٹریچر جماعت احمد یہ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے دعوت مقابلہ اور مخالفین کا فرار جماعت احمد یہ یہ چیلنج قبول کرتی ہے عذر گناه بدتر از گناه
319 319 321 322 323 325 327 327 328 328 330 331 332 332 333 334 334 334 335 335 336 336 337 338 xvi مصالح العرب.....جلداول بہائیوں پر کاری ضرب زعیم بہائیت شوقی آفندی کے بھائی سے دلچسپ گفتگو شوقی آفندی کا تعاقب مدرسہ احمدیہ کہا بیر نو مبائعین کے بارہ میں بعض رپورٹس غریب الوطنی میں رفیقہ حیات کی وفات مرحومہ کا تعلیم وتربیت کے کام میں قابل ستائش نمونہ مهمان نوازی بلا دعر بیہ میں آپ کی شادی قتل کے منصوبے اور خدائی حفاظت تائید و نصرت خداوندی کے واقعات تبلیغی دورے نبی آسکتا ہے! قاہرہ میں تبلیغ احمدیت دمشق میں تبلیغ احمدیت بغداد میں تبلیغ احمدیت نئی جماعتیں تبلیغی میدان میں قربانیاں آپ کو سوال کی اجازت نہیں ہے! واہ رے جوش جہالت...با ادب با نصیب استجابت دعا کا حیرت انگیز واقعہ الہی مدد و نصرت رشدی بسطی صاحب اور ان کا اخلاص
مصالح العرب.....جلداول 339 xvii حضرت مصلح موعود کی دعا کا اعجاز چوہدری محمد شریف صاحب کی قابل قدر خدمات سب سے زیادہ خدمت مرکز میں واپسی بلاد عر بیہ میں دوبارہ ورود لبنان کے احمدیوں کا اخلاص تمنا بر آئی شام میں دو مبلغین کی آمد عظیم الشان تاریخی اہمیت کے حامل واقعات وو مدیر رابطہ اسلامیہ کی قادیان تشریف آوری نظام نو اور عباس محمود عقاد کی مدح سرائی سیرالیون میں مقیم لبنانی احمد پوں کا ذکر خیر مکرم سید حسن محمد ابراہیم احسینی مرحوم حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی مدح میں عربی قصیدہ مکرم سید امین خلیل سکیکی مرحوم بچہ کی معجزانہ شفایابی اور اہلیہ کی بیعت جذبہ قربانی اور آخری خواہش مدیر اخبار” وفاء العرب (دمشق) سے گفتگو امام جماعت احمد یہ مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے سینہ سپر مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے دعا کی تحریک شیخ الازهر علامہ محمود شلتوت کا فتویٰ وفات مسیح علامہ محمود شلتوت کا مختصر تعارف فتویٰ کے محرک 339 341 341 341 341 342 342 343 345 345 345 347 347 348 349 349 350 351 353 357 364 365 365
365 376 377 381 381 382 382 383 384 388 389 390 390 393 393 398 401 403 405 406 406 408 409 411 مصالح العرب.....جلد اول علامہ محمود شلتوت کے فتویٰ کا مکمل متن خلاصه بحث: محمود شلتوت کے فتویٰ کا رد عمل xviii علامہ محمود شلتوت کی طرف سے علماء کو مدلل اور مسکت جواب کتاب ”الفتاوی“ میں اشاعت مولوی رشید احمد چغتائی بلا دعر بیہ میں اردن مشن کی بنیاد حضرت مصلح موعود کی ہدایات اردنی پریس میں احمدی مبلغ اور جماعت احمدیہ کا ذکر اردن کی اہم شخصیتوں تک پیغام احمدیت عیسائیوں کے ایک خصوصی اجتماع میں تقریر حضرت مصلح موعود کا پیغام والی اُردن شاہ عبداللہ ابن الحسین کے نام شاه اردن سے احمدی مبلغ کی ملاقات اردن کے سب سے پہلے احمدی اردن مشن کی اسلامی خدمات زائرین کی نظر میں احمدی وفد مؤتمر عالم اسلامی کے دوسرے سالانہ اجلاس میں لبنانی پریس میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا تذکرہ عربی بول چال کے متعلق رسالہ لکھنے کی تجویز محترم منیر احصنی صاحب کی قادیان آمد مسئلہ فلسطین اور جماعت احمدیہ مسئلہ فلسطین کا پس منظر عرب زعماء مسجد فضل لندن میں مسئلہ فلسطین پر چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب کی تقریر چوہدری صاحب کی دوسری فاضلانہ تقریر
مصالح العرب.....جلداول اقوام متحدہ میں چوہدری صاحب کا مؤثر دفاع چوہدری صاحب کے خطاب کی پذیرائی 412 xix فلسطین کے متعلق سید نا مصلح موعودؓ کے دو معرکۃ الآراء مضامین فتنہ صیہونیت کے خلاف زبر دست اسلامی تحریک الكفر ملة واحدة حضرت مصلح موعودؓ کے مضامین نے تہلکہ مچا دیا فلسطین اور کشمیر میں بنواسرائیل آباد ہیں استعماری طاقتوں کی سازش اور اس کا انکشاف مفتی مصر کا فتویٰ تکفیر اور اس کا محرک فتویٰ تکفیر کا پس منظر لمحہ فکریہ سید نا حضرت مصلح موعودؓ کا مکتوب حضرت امام جماعت احمدیہ کا مکتوب مصری اخبار ” الیوم“ کے نام مصری زعماء اور صحافیوں کا زبردست احتجاج عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل کا بیان اخبار المصری“ کا بیان احمد خشابه پاشا کا بیان اخبار النداء“ کا بیان اخبار الْجَمْهُورِ المِصْرِئ کا بیان الدكتور اللبان بک کا بیان الشیخ محمد ابراہیم سالم بک کا بیان الشیخ علام نصار بک کا بیان اخبار الیوم“ کے نامہ نگار خصوصی مقیم کراچی کا بیان اخبار المصری کا مقالہ خصوصی 415 415 416 417 422 424 426 431 432 436 437 437 444 444 445 447 447 448 448 449 449 450 452
454 454 456 458 458 459 462 462 463 464 465 470 473 474 476 478 478 479 479 480 480 484 490 491 XX مصالح العرب.....جلداول مصری لیڈر السید مصطفی مومن کا بیان بیروت پریس مفتی مصر کے لقب کی منسوخی کا مطالبہ مفتی مصر کا بیان مفتی مصر کو پنشن دے دی گئی مصر کے شاہ فاروق کا عبرتناک انجام عجیب اتفاق جلا وطنی کا درد ناک منظر مصریوں کا رد عمل اور تاثرات حضرت مہدی موعود کی پیشگوئی ظفر اللہ خان قضیہ فلسطین کے ہیرو نمائندہ المصور“ کے احمدیوں کے خلاف تحریک کے بارہ میں تاثرات نہر سویز کا قضیہ، تیونس اور مراکش کی آزادی اور جماعت احمدیہ کا کردار تیونس اور مراکش کی تحریک آزادی کی حمایت اور دعا الجزائری نمائندہ احتفال العلماء کی ربوہ میں آمد بعض عربی کتب و اخبارات کے جماعتی مساعی کے حق میں تبصرے ایک نادر شہادت عیسائیت پر غلبہ کی شہادت زندہ اور بیدار فرقہ احیاء شریعت کے لئے کوشاں احمدی مبلغین کو خراج عقیدت انگریزی و جرمن ترجمه قرآن کریم اور عربی اخبارات کا خراج تحسین احمدیت اسلام کا روشن مستقبل عبدالوہاب العسکری کی ربوہ میں آمد
492 493 494 494 496 496 497 501 503 503 504 504 505 505 506 507 507 508 509 509 510 510 510 511 xxi مصالح العرب.....جلد اول کل اور آج میں فرق چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات کا پاکستانی پریس میں ذکر حضرت مصلح موعود کا اہم پیغام فلسطینی احمدیوں کا نام اسرائیلی تسلط میں جماعت احمد یہ کہا بیر کا مضبوط عزم و ہمت خلافت کی اطاعت کی برکات اہل کبابیر کی اہل قادیان سے مشابہت جاہلیت میں اہل عرب کی خوبیاں ربوہ کو تر ا مرکز توحید بنا کر.....( دعوت اتحاد) یمن میں عدن مشن کا قیام عدن مشن کے قیام کا پس منظر مبشر اسلامی کا عدن میں ورود ابتدائی تبلیغی سرگرمیاں سرکاری مخالفت علماء کی مخالفت شیخ عثمان میں دار التبلیغ کا قیام اور اس کے عمدہ اثرات عبد اللہ محمد شبوطی کی قبول احمدیت علماء کی طرف سے کمشنر کو عرضی اور اس کا ردعمل ڈاکٹر فیروز الدین صاحب کا انتقال ایک اور عالم آغوش احمدیت میں عیسائی مشنری کا تعاقب مباحثے اور انفرادی ملاقاتیں بیرونی شخصیتوں تک پیغام حق مبلغ عدن کی واپسی ایک عربی مکتوب کی اشاعت
مصالح العرب.....جلداول محمود عبد الله الشبوطی کا عزم ربوہ پہلا پبلک جلسه عبد الله الشبوطی اور سلطان الشبوطی کی ربوہ آمد حضرت مصلح موعودؓ سے یاد گار ملاقات Xxii حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی یمن میں آمد محمود عبد اللہ الشبوطی کی مراجعت اور تبلیغ حق مسقط مشن کی بنیاد ڈنڈے کے زور پر صداقت دبا نہیں کرتی جماعت احمد یہ شام کے جلسہ سیرت النبی کا اخبارات میں چرچا لیبیا کی آزادی میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا کردار بحث کا آخری دن اور مضطر بانہ دعا مصر کے وزیر خارجہ سے گفتگو مغربی طاقتوں کی چھاتی پیٹ رہا ہوں.“ لیبیا کی آزادی کا پروانہ حضرت چوہدری صاحب کا دورہ مصر اقوام متحدہ میں مصری نمائندہ کی شہادت اہل قادیان ایک عرب احمدی کی نظر میں اتحاد بین ا المسلمین کے سلسلہ میں گیارہ ممالک کے اتحاد کی تجویز پہلا اسلامی اصول اتحاد دوسرا اسلامی اصول اتحاد عالم اسلام کو دعوت اتحاد نازک زمانہ کی خبر 1953ء کے فسادات پر مصری پریس شاہ ابن سعود کی وفات پر حضرت مصلح موعوددؓ کی طرف سے تعزیت 511 511 512 512 513 513 514 516 517 519 521 521 523 523 524 526 527 528 529 529 529 530 531 533
534 536 536 538 539 541 xxiii مصالح العرب.....جلداول ہر میجسٹی شاہ سعودی عرب.....ریاض ! چوہدری ظفر اللہ خان کی خدمات کا اعتراف.....عراق کے نائب سفیر کا اعتراف شاہ حسین کی طرف سے حضرت چوہدری صاحب کو دعوت حسن اتفاق سے وہ اردن کے بادشاہ ہیں دو لبنانی احمدیوں کا درد انگیز قصیدہ جلالتہ الملک شاہ سعود سے جماعت احمدیہ کراچی کے ایک وفد کی ملاقات 00000 XXXXXXXXXXXXXXX
1 مصالح العرب.....جلد اول XXXXXXXXXXXX XXXXXXXXXXXXX حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں تبلیغی مساعی اور سلسلہ میں داخل ہونے والے خوش نصیب عرب صحابہ کرام 00000
سید نا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیح موعود و امام مهدی
مصالح العرب.....جلد اول عربوں میں تبلیغ ونفوذ کے بارہ میں بشارت الہیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آخرین کو اولین سے ملانے والا موعود نبی وعدہ کے عین مطابق اہل فارس میں سے ظاہر ہوا.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہی روحانی فرزند اور خلق ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے (لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ ) کا عظیم وعدہ پورا کرنا تھا.چنانچہ جہاں اللہ تعالی نے آپ کی تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچانے کا الہام فرمایا وہاں مختلف قوموں اور ملکوں میں آپ کی تبلیغ کے خصوصیت سے پھیلاؤ کی بھی خبر میں عطا فرمائیں.اور یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ آپ جس نبی کعربی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم و عاشق صادق اور روحانی فرزند بن کے آئے تھے اس سے نسبت رکھنے والی عرب قوم اور بلا د عربیہ کے بارہ میں آپ کو خبریں نہ ملی ہوں.چنانچہ اللہ تعالی نے عربوں کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہامات بھی فرمائے اور رؤیا وکشوف کے ذریعہ بھی خبریں عطا فرمائیں.آئیے احمدیت کی تاریخ کے اس باب کا مطالعہ کر کے اپنے ایمانوں کو تازہ کرتے ہیں: عربوں میں تبلیغ اور مقبولیت کی بشارت ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: کوئی چھپیں چھبیس سال کا عرصہ گزرا ہے ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص میرا نام لکھ رہا ہے تو آدھا نام اس نے عربی میں لکھا ہے اور آدھا انگریزی 3
مصالح العرب.....جلد اول 66 میں لکھا ہے.الحکم جلد 9 نمبر 32 مؤرخہ 10 ستمبر 1905ء صفحہ 3، کالم نمبر 3) 1905ء میں حضور فرماتے ہیں کہ چھپیں چھپیں سال پہلے کا یہ رویا ہے اسکا مطلب ہے کہ غالبا یہ 1880ء کی بات ہے.اس رؤیا سے عرب و عجم میں آپ کے نام کی یکساں مقبولیت کی طرف بھی اشارہ معلوم ہوتا ہے.اور شاید حضور علیہ السلام کا مندرجہ ذیل ارشاد بھی اس رؤیا کی تعبیر - حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ہے.اس وقت ہمارے دو بڑے ضروری کام ہیں.ایک یہ کہ عرب میں اشاعت ہو، دوسرے یورپ پر اتمام حجت کریں.عرب پر اس لئے کہ اندرونی طور پر وہ حق رکھتے ہیں.ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہوگا کہ ان کو معلوم بھی نہ ہو گا کہ خدا نے کوئی سلسلہ قائم کیا ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ان کو پہنچائیں ، اگر نہ پہنچا ئیں تو معصیت ہو گی.ایسا ہی یورپ والے حق رکھتے ہیں کہ انکی غلطیاں ظاہر کی جاویں کہ وہ ایک بندہ کو خدا بنا کر خدا سے دور جا پڑے ہیں.عربوں کی خبر گیری اور راہنمائی کا ارشاد ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 253) 1893 ء میں حضور نے اپنی عربی کتاب حمامۃ البشری تالیف فرمائی ! میں خدائی بشارت اور حکم لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: وَإِنَّ رَبِّي قَد بَشَّرَنِي فِي الْعَرَبِ وَالْهَمَنِى أَنْ أُمَوِّنَهُمْ وَارِيَهُمْ 4 طَرِيْقَهُمْ وَأَصْلِحَ لَهُمْ شُيُوْنَهُم - 66 حمامة البشری روحانی خزائن جلد 7 ص 182 ترجمہ: اور میرے رب نے عربوں کی نسبت مجھے بشارت دی اور الہام کیا ہے کہ میں انکی خبر گیری کروں اور ٹھیک راہ بتاؤں اور انکے معاملات کو درست کروں.7 ستمبر 1905 ء کو آپ کو کشف میں ایک کاغذ دکھائی دیا اس پر لکھا تھا: مَصَالِحُ الْعَرَبِ مَسِيرُ الْعَرَبِ“ اس کی وضاحت میں حضور نے فرمایا: اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ عربوں میں چلنا ) شاید مقدر ہو کہ ہم عرب
مصالح العرب.....جلد اول میں جائیں.مدت ہوئی کہ کوئی چھپیں چھبیس سال کا عرصہ گزرا ہے ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص میرا نام لکھ رہا ہے تو آدھا نام اس نے عربی میں لکھا ہے اور آدھا انگریزی میں.انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہے لیکن بعض رؤیا نبی کے اپنے زمانہ میں پورے ہوتے ہیں اور بعض اولاد یا کسی متبع کے ذریعے پورے ہوتے ہیں، مثلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قیصر وکسری کی کنجیاں ملی تھیں تو وہ ممالک حضرت عمر کے زمانہ میں فتح ہوئے“.بدر جلد 1 نمبر 23 ، مؤرخہ 7 ستمبر 1905 ، صفحہ 2 ، احکام جلد 9 نمبر 32 مؤرخہ 10 ستمبر 1905 صفحہ 3) یہ پیشگوئی حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ پوری ہوئی.چنانچہ حضور تین دفعہ عرب ممالک میں تشریف لے گئے.پہلے آپ 1912ء میں منصب خلافت پر فائز ہونے سے قبل مصر تشریف لے گئے اور وہاں سے حج بیت اللہ شریف کی غرض سے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کا سفر اختیار کیا.اور دوسری دفعہ 1924ء میں حضور بیت المقدس اور دمشق اور بیروت وغیرہ تشریف لے گئے.جبکہ تیسری دفعہ 1955ء میں بغرض علاج یورپ کا سفر اختیار فرمایا جس کے دوران دمشق اور بیروت وغیرہ میں بھی کچھ ایام کے لئے قیام فرمایا.مسیر العرب کی پیشگوئی کے پورا ہونے کے بعد مصالح العرب کی جلوہ گری کا بیان آئندہ صفحات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے عہد مبارک میں عربوں میں احمدیت کی تبلیغ اور ان کے مصالح کے سلسلہ میں کی گئی کوششوں کے ضمن میں کیا جائے گا.انشاء اللہ تعالی.اہل مکہ کے فوج در فوج قبول احمدیت کی خوشخبری 1894 ء میں آپ نے اپنی عربی کتاب نور الحق تالیف فرمائی جس میں یہ بشارت تحریر فرمائی: وَإِنِّى أَرَى أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ يَدْخُلُوْنَ أَفْوَاجًا فِي حِزْبِ اللهِ الْقَادِرِ الْمُخْتَار، هذَا مِنْ رَبِّ السَّمَاءِ وَعَجِيْبٌ فِي أَعْيُنِ أَهْلِ الْاَرْضِيْن.“ اور میں دیکھتا ہوں کہ اہل مکہ خدائے قادر کے گروہ میں فوج در فوج داخل ہو جائیں گے.اور یہ آسمان کے خدا کی طرف سے ہے اور زمینی 5
مصالح العرب.....جلد اول لوگوں کی آنکھوں میں عجیب“.نور الحق حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 197) عربوں اور بلادشام سے جماعت مومنین کی بشارت "إني رأيتُ في مبشِّرة أُريتُها جماعةً من المؤمنين المخلصين والملوك العادلين الصالحين بعضهم من هذا المُلك وبعضهم من العرب وبعضهم من فارس وبعضهم من بلاد الشام وبعضهم من أرض الروم وبعضهم من بلادٍ لا أعرفها ـ ثم قيل لي من حضرة الغيب إن هؤلاء يصدّقونك ويؤمنون بك ويصلّون عليك ويدعون لك وأعطى لك بركات حتى يتبرك الملوك بثيابك وأُدخلهم في المخلصين هذا رأيتُ في المنام والهِمْتُ من الله العلام الجد النور، روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 339-340) میں نے ایک مبشر خواب میں مخلص مومنوں اور عادل اور نیکو کار بادشاہوں کی ایک جماعت دیکھی جن میں بعض اس ملک (ہند) کے تھے اور بعض عرب کے، بعض فارس کے اور بعض بلاد شام کے، بعض روم کے اور بعض دوسرے بلاد کے تھے جن کو میں نہیں جانتا.اس کے بعد مجھے خدا تعالی کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ لوگ تیری تصدیق کریں گے اور تجھ پر ایمان لائیں گے، اور تجھ پر درود بھیجیں گے، اور تیرے لئے دعائیں کریں گے، اور میں تجھے بہت برکتیں دوں گا یہانتک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے، اور میں ان کو مخلصین میں داخل کروں گا.یہ وہ خواب ہے جو میں نے دیکھی اور وہ الہام ہے جو خدائے علام کی طرف سے مجھے ہوا.16 اپریل 1885ء کو آپ نے ایک رؤیا دیکھی.اس بارہ میں حضور فرماتے ہیں:." آج اسی وقت میں نے خواب دیکھا ہے کہ کسی ابتلاء میں پڑا ہوں اور میں نے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ کہا اور جو شخص سرکاری طور پر مجھ سے مواخذہ کرتا ہے میں نے اس سے کہا کیا مجھ کو قید کریں گے یا قتل کریں گے.اس نے کچھ ایسا کہا کہ انتظام یہ ہوا ہے کہ گرایا جائے گا.میں نے کہا کہ میں اپنے خدا وند تعالی جل شانہ کے تصرف میں ہوں، 6
7 مصالح العرب.....جلد اول جہاں مجھ کو بٹھائے گا بیٹھ جاؤں گا، اور جہاں مجھ کو کھڑا کرے گا کھڑا ہو جاؤں گا.اور یہ امی الهام ہوا: "يَدْعُونَ لَكَ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللهِ مِنَ العَرَبِ“ یعنی تیرے لئے ابدال شام کے دعا کرتے ہیں اور بندے خدا کے عرب میں سے دعا کرتے ہیں.خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کب اور کیونکر اس کا ظہور ہو.والله أعلم بالصواب.( از مکتوب مؤرخہ 6.اپریل 1885 - مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ 86 )....اگست 1888ء میں آپ نے فرمایا: اللہ جل شانہ نے مجھے خبر دی ہے کہ يُصَلُّونَ عَلَيْكَ صُلَحَاءُ الْعَرَبِ وَأَبْدَالُ الشَّامِ وَتُصَلَّى عَلَيْكَ الأَرْضُ وَالسَّمَاءُ وَيَحْمَدُكَ اللَّهُ مِنْ عَرْشِهِ از مکتوب حضرت اقدس ، اگست 1888 ء مندرجہ الحکم جلد 5 نمبر 32 مؤرخہ 31 اگست 1901 ء صفحہ 6 کالم نمبر (2) الہام مندرجہ بالا کا مطلب ہے کہ صلحائے عرب اور ابدال شام تجھ پر درود بھیجیں گے اور زمین اور آسمان بھی تجھ پر درود بھیجیں گے اور اللہ عرش سے تیری تعریف کرے گا.مصر کے بارہ میں خوشخبری 19 / جنوری 1903ء کو حضرت اقدس نے عشاء سے پیشتر یہ رویا سنائی کہ: ددمیں مصر کے دریائے نیل پر کھڑا ہوں اور میرے ساتھ بہت سے بنی اسرائیل ہیں اور میں اپنے آپ کو موسی سمجھتا ہوں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھاگے چلے آتے ہیں.نظر اٹھا کر پیچھے دیکھا تو معلوم ہوا کہ فرعون ایک لشکر کثیر کے ساتھ ہمارے تعاقب میں ہے اور اسکے ساتھ بہت سامان مثل گھوڑے وگاڑیوں ورکھوں کے ہے اور وہ ہمارے بہت قریب آ گیا ہے.میرے ساتھی بنی اسرائیل بہت گھبرائے ہوئے ہیں اور اکثر ان میں سے بے دل ہو گئے ہیں اور بلند آواز سے چلاتے ہیں کہ اے موسی ! ہم پکڑے گئے.تو میں نے بلند آواز سے کہا: كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِيْن.“ اتنے میں میں بیدار ہو گیا اور زبان پر یہی الفاظ جاری تھے.( تذکره صفحه 373)
مصالح العرب.....جلد اول آنحضور کی معیت اور ارض حجاز میں اکرام کی خوشخبری غالباً 1891ء میں حضور نے ایک رؤیا دیکھی اس کے بارہ میں حضور فرماتے ہیں: ایک مدت کی بات ہے جو اس عاجز نے خواب میں دیکھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ پر میں کھڑا ہوں اور کئی لوگ مر گئے ہیں یا مقتول ہیں ان کو لوگ رنا چاہتے ہیں.اسی عرصہ میں روضہ کے اندر سے ایک آدمی نکلا اور اس کے ہاتھ میں سرکنڈہ تھا اور وہ اس سرکنڈہ کو زمین پر مارتا تھا اور ہر ایک کو کہتا تھا کہ تیری اس جگہ قبر ہوگی.تب وہ یہی کام کرتا کرتا میرے نزدیک آیا، اور مجھ کو دکھلا کر اور میرے سامنے کھڑا ہو کر روضہء شریفہ کے پاس کی زمین پر اس نے اپنا سرکنڈہ مارا اور کہا کہ تیری اس جگہ قبر ہو گی.تب آنکھ کھل گئی.اور میں نے اپنے اجتہاد سے اس کی یہ تاویل کی کہ یہ معیت معادی کی طرف اشارہ ہے.کیونکہ جو شخص فوت ہونے کے بعد روحانی طور پر کسی مقدس کے قریب ہو جائے تو گویا اس کی قبر اس مقدس کی قبر کے قریب ہو گئی.وَاللهُ أَعْلَمُ وَعِلْمُهُ أَحْكُمُ ،، (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 352) 8
مصالح العرب.....جلد اول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد میں عربوں میں احمدیت کی تبلیغ کے واقعات اور تاریخ کے ذکر کو خاکسار نے سہولت کے لئے دو ادوار میں تقسیم کیا ہے.پہلا دور $1899 1891 جیسا کہ ان الہامات اور رؤیا وکشوف سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تقریبا 1880 ء سے ہی عربوں کے بارہ میں خوشخبریوں، ان کے امور کی اصلاح، انہیں سیدھا راستہ دکھانے اور انکے احمدیت میں داخل ہونے کی بشارات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا ، تاہم 1891 ء تک نہ تو حضور نے کوئی عربی کتاب لکھی تھی ، نہ ہی عربوں میں تبلیغ کی راہ نکل سکی.لیکن وہ خدا جس نے یہ بشارات عطا فرمائی تھیں خود ہی ان کے پورا ہونے کے سامان کر رہا تھا.چنانچہ اس نے خود ہی تبلیغ کے سامان پیدا فرما دیے اور دیارِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سعادت مند اور نیک فطرت انسان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں لا ڈالا.یوں عربوں میں احمدیت کا پہلا پودا لگا.9
مصالح العرب.....جلد اول 11 عرب دنیا سے پہلا احمدی حضرت الشیخ محمد بن احمد المکی صاحب رضی اللہ عنہ ( بیعت: 10 جولا ئی 1891ء.وفات: 28 جولائی 1940) تعارف، سلسلہ احمدیہ سے رابطہ اور بیعت: حضرت الشیخ محمد بن احمد المکی رضی اللہ عنہ مکہ میں شعب بنی عامر میں رہائش رکھتے تھے.جہاں مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مولد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور بنو ہاشم کے مکانات واقع تھے.ان کے سلسلہ سے رابطہ اور بیعت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: حبّى فى الله محمد ابن احمد مكى من حاره شعب عامر.یہ صاحب عربی ہیں اور خاص مکہ معظمہ کے رہنے والے ہیں صلاحیت اور رشد اور سعادت کے آثار ان کے چہرے پر ظاہر ہیں.اپنے وطن خاص مکہ معظمہ سے زادہ اللہ مجدا وشرفا بطور سیر و سیاحت اس ملک میں آئے اور ان دنوں میں بعض بد اندیش لوگوں نے خلاف واقعہ باتیں بلکہ تہمتیں اپنی طرف سے اس عاجز کی نسبت انکو سنا ئیں اور کہا کہ یہ شخص رسالت کا دعویٰ کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم سے منکر ہے اور کہتا ہے کہ مسیح جس پر انجیل نازل ہوئی تھی وہ میں ہی ہوں.ان باتوں سے عربی صاحب کے دل میں یہ مقتضائے غیرت اسلامی ایک اشتعال پیدا ہوا تب انہوں نے عربی زبان میں اس عاجز کی طرف ایک خط لکھا جس میں یہ فقرات بھی درج تھے :
مصالح العرب.....جلد اول إنْ كُنْتَ عِيسى ابن مريم فَأَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً أَيُّهَا الْكَذَّابِ إِنْ كُنْتَ عيسى ابن مريم فَأنزِل عَلَيْنَا مَائِدَةً أَيُّهَا الدَّجّال یعنی اگر تو عیسی بن مریم ہے تو اے کذاب اے دجال ہم پر مائدہ نازل کر.لیکن معلوم نہیں کہ یہ کس وقت کی دعا تھی کہ منظور ہو گئی اور جس مائدہ کو دے کر خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے آخر وہ قادر خدا انہیں اس طرف کھینچ لا یا.لو دھیانہ میں آئے اور عاجز کی ملاقات کی اور سلسلہء بیعت میں داخل ہو گئے.فالحمدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّاهُ مِنَ النَّارِ وَأَنزَلَ عَلَيْهِ مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ- 12 ان کا بیان ہے کہ جب میں آپ کی نسبت بُرے اور فاسدظنون میں مبتلا تھا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص مجھے کہتا ہے کہ : يَا مُحَمَّدُ أَنْتَ كَذَّابٌ.یعنی اے محمد کذاب تو ہی ہے.اور ان کا یہ بھی بیان ہے کہ تین برس ہوئے کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ عیسی آسمان سے نازل ہو گیا ہے اور میں نے اپنے دل میں کہا تھا کہ انشاء اللہ القدیر میں اپنی زندگی میں عیسی کو دیکھ لوں گا.“ 66 (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 538-539) اظہار ندامت اور بیعت کا خط حضرت الشیخ محمد بن احمد المکی رضی اللہ عنہ جموں میں تھے جب آپ کو احمدیت کا پیغام ملا اور اس پر آپ کے رد عمل کا ذکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں ابھی آپ پڑھ چکے ہیں.لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انکے سخت جارحانہ الفاظ کے جواب میں ایک خط تحریر فرمایا تھا جس کو پڑھتے ہی ان پر حق آشکار ہو گیا، لہذا انہوں نے اپنے الفاظ پر ندامت کا اظہار کیا اور حضور کی خدمت میں معافی اور بیعت کا خط لکھا جسے حضور نے اپنی کتاب ”سچائی کا اظہار میں درج فرمایا ہے جہاں حضور فرماتے ہیں: اسلام کے مستند علماء کا تخت گاہ حرمین شریفین ہے زادهما الله مجدًا وشرفا وبركة، اور اسلام میں یہی بلا د عرب، خاص کر کے مکہ ومدینہ، دین کا گھر سمجھے جاتے ہیں.سوچی
مصالح العرب.....جلد اول 13 ان متبرک مقامات کے جگر گوشہ اور فاضل مستند بھی اس عاجز کے ساتھ شامل ہوتے جاتے ہیں.“ سچائی کا اظہار، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 75) ذیل میں حضرت الشیخ محمد بن احمد المکی کا مذکورہ خط مع ترجمہ درج کیا جاتا ہے.ایک عالم عرب ملکی کا خط الحمد لله بسم اللہ الرحمن الرحیم رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الخلق أجمعين إلى حضرة الجناب المحترم المكرم العزيز الأكرم مولانا ومرشدنا وهادينا ومسيح زماننا غلام أحمد حفظه الله تعالی آمین ثم آمين يارب العلمين أما بعد السلام عليكم ورحمة الله وبركاته قد وصلنا كتابكم العزيز قرأنا وفهمنا ما فيه وحمدنا الله الذي أنتم بخير وعافيةـ ويا سيدى أطلب من الله ثم من جنابكم العفو والسماح فيما قد ثم أخطأت ويا سيدى أنا ولدك وخادمك ومحسوب على الله، إلى جنابكم وإن شاء الله تعالى أنا تبت وعزمت على أن لا أعود أبدا ولا أتكلم بمثل الكلام الذى ذكر قط - جمّل الله حالكم و شكر الله فضلكم والسلام الراقم أحقر العباد محمد ابن أحمد مكى قد عجبنى الكلام الذى ذكرتم فى الكتاب الحمد لله الذى الله وعدنى بملاقاة جنابكم لا شك ولاريب أنك أنت من عند آمنا وصدقنا وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين- راقم محمد ابن أحمد مکی.(سچائی کا اظہار، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 79) بسم اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دور د وسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عزت واحترام کے اعلیٰ القاب سے مخاطب کرنے ، آپ کو مسیح و مہدی تسلیم کرنے اور
مصالح العرب.....جلد اول السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ : 14 عفو حضور کا نامہ گرامی ملا.ہم نے اسے پڑھ لیا ہے اور اسکے مضمون کو سمجھ لیا ہے، اور حضور کے بخیر و عافیت ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا ہے.سیدی، میں پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور اور اس کے بعد آپ کی خدمت میں اپنی غلطی پر عنہ و درگزر کی درخواست کرتا ہوں.سیدی، میں حضور کا بیٹا اور حضور کا خادم ہوں، اور اللہ کے سامنے اور بعد ازاں حضور کو جوابدہ ہوں.میں اپنی غلطی پر تو بہ کرتا ہوں اور یہ عہد کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی ایسی بات نہیں کہوں گا جیسی پہلے مجھ سے سرزد ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے حالات بہتر فرمائے اور آپ کے فضل واحسان کی بہتر جزا عطا فرمائے.والسلام راقم: احقر عباد محمد بن احمد مکی.آپ نے اپنے مکتوب میں جو کچھ لکھا ہے وہ مجھے بہت پسند آیا ہے.شکر ہے اس خداوند کریم کا جس نے مجھے آپ کی ملاقات کا وعدہ عطا فرمایا ہے.آپ کے خدا کی طرف سے ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، اس پر ہم ایمان لاتے ہیں اور اسکی تصدیق کرتے ہیں.وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین.راقم محمد بن احمد مکی یہاں پر قارئین کرام کی یادہانی کے لئے تحریر ہے کہ 4 اپریل 1885ء کو حضور کو الہام نازل ہوا.يَدْعُونَ لَكَ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللهِ مِنَ الْعَرَبِ یعنی تیرے لئے ابدال شام اور عرب کے نیک بندے دعا کرتے ہیں.اس آسمانی خبر کے تقریبا چھ سال بعد لدھیانہ میں 10 جولائی 1891ء کو پہلے عرب احمدی کی حیثیت سے حضرت محمد بن احمد مکی صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر لی.آپ کی بیعت 141 نمبر پر رجسٹر بیعت میں درج ہے.جہاں پورا نام یوں درج ہے: شیخ محمد بن شیخ احمد مکی من حارة شعب عامر دوسرے جلسہ سالانہ میں شرکت تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 355 ) بیعت کے بعد آپ نے کچھ عرصہ قادیان میں قیام فرمایا اور 1892ء کے جلسہ سالانہ میں بھی شرکت فرمائی.یہ جماعت کی تاریخ کا دوسرا جلسہ سالانہ تھا جس میں (327) احباب نے
مصالح العرب.....جلد اول 15 شمولیت اختیار کی جن میں سے ایک حضرت شیخ محمد بن احمد مکی تھے.ان تمام احباب کی فہرست حضور علیہ السلام نے اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام کے آخر پر دی ہے.کچھ عرصہ برکات سے مستفیض ہونے کے بعد 1893ء میں آپ مکہ شریف بخیریت پہنچ گئے.فریضہ حج کی بجا آوری کے بعد 4 اگست 1893 ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا جس میں اپنے بخیریت مکہ معظمہ پہنچنے اور مختلف لوگوں سے حضور کا ذکر کرنے اور ان کے مختلف تاثرات کے ذکر کے بعد یہ خوشخبری لکھی کہ میں نے شعب عامر کے اپنے ایک دوست تاجر السید علی طالع تک پیغام حق پہنچایا اور اسے حضور کے دعویٰ سے مفصل خبر دی تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے کہا ہے کہ میں حضور کی خدمت میں عرض کروں کہ حضور انہیں اپنی کتب ارسال فرما ئیں تو وہ انہیں شرفاء وعلماءِ مکہ مکرمہ میں تقسیم کریں گے.اس خط کے ملنے پر حضور نے اسے تبلیغ حق کا ایک غیبی سامان سمجھتے ہوئے ”حمامۃ البشری عربی زبان میں تصنیف فرمائی جس میں حضور نے دعویٰ مسیحیت ، دلائل وفات مسیح اور نزول مسیح اور خروج دجال کا کی حقیقت کا مفصل بیان اور مکفرین علماء کی طرف سے آپ کے عقائد اور دعویٰ پر اعتراضات کا جواب دیا ہے.( ما خذ ازالہ اوہام ، آئینہ کمالات اسلام، حمامۃ البشری، رجسٹر بیعت مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 355 ،مضمون حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ مسیح الاول کی مالی تحریکات روز نامہ الفضل ربوہ مورخہ 4 جنوری2002ء، روزنامه الفضل 19 مئی 1983ء، تین سو تیرہ اصحاب صدق وصفا از نصر اللہ خان ناصر و عاصم جمالی صفحه 147-148 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجام آتھم کے آخر میں اپنے تین سو تیرہ اصحاب باصفا کی فہرست درج کی ہے اس میں بھی آپ کا نام نمبر 98 پر مذکور ہے.ایک تصحیح ہمارے لٹریچر میں بعض جگہ حضرت محمد سعید الشامی الطرابلسی صاحب کو پہلا عرب احمدی لکھا گیا ہے.لیکن حالات و واقعات پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے عرب احمدی حضرت محمد بن احمد مکی صاحب تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا مفصل ذکر اپنی کتاب ازالہ اوہام میں فرمایا ہے.اور ازالہ اوہام 1891ء کی تصنیف ہے.جبکہ حضرت محمد سعید الشامی الطرابلسی صاحب آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصہ کو پڑھ کر احمدی ہوئے تھے
مصالح العرب.....جلد اول جو کہ 1893ء کی تالیف ہے.16 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب معلوم ہوا کہ عرب علاقوں میں حضور کی کتب کی اشاعت کے لئے ضروری ہے کہ کوئی مخلص ان بلا د سے اس سلسلہ میں کوشش اور تعاون کرے، لہذا حضور نے ایسے سلطان نصیر کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت شامی صاحب کو حضور کی دعا کے ثمرہ کے طور پر احمدیت کی آغوش میں ڈال دیا.اور حضور نے خود بھی انہیں اپنی دعا کا پہلا پھل قرار دیا.شاید اس بات سے سہؤا انہیں پہلا عرب احمدی سمجھ لیا گیا.واللہ اعلم.0000
مصالح العرب.....جلد اول 17 عربوں کی طرف التفات اور پہلی عربی تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب نور الحق حصہ اول میں فرماتے ہیں کہ جب میں نے ملک ہند کے اکثر مولویوں کو طرح طرح کی روحانی بیماریوں اور زہروں میں مبتلا پایا اور کتاب اللہ اور رسول اللہ سے بے رغبت پایا ، تو عربوں کی طرف توجہ کی.آپ فرماتے ہیں: (اردو تر جمہ از نور الحق نقل کیا جاتا ہے) پس جب ہند کی زمین میں ایسا زلزلہ آیا کہ ساری زمین ہل گئی اور علماء میں میں نے بخل اور حسد پایا تو میں نے اپنے دل میں ٹھان لیا کہ ان لوگوں سے اعراض کروں اور مکہ کی طرف بھاگوں اور صلحاء عرب اور مکہ کے برگزیدوں کی طرف توجہ کروں...سو خدا تعالیٰ نے اس حاجت کے پیدا ہونے کے وقت میرے دل میں یہ القاء کیا کہ میں کھلی کھلی عربی میں چند کتابیں تالیف کروں.سو میں نے خدا کے فضل اور اسکی رحمت اور اسکی توفیق سے ایک کتاب تالیف کی جس کا نام تبلیغ ہے پھر دوسری کتاب تالیف کی جس کا نام تحفہ ہے پھر تیسری کتاب تالیف کی جس کا نام کرامات الصادقین ہے ، پھر چوتھی کتاب تالیف کی جس کا نام حمامۃ البشری ہے.اور میں نے ان کتابوں کو صرف زمین عرب کے جگر گوشوں کے لئے تالیف کیا ہے.“ (اردو تر جمه از نور الحق ،حصہ اول، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 19-20) حضور علیہ السلام کی پہلی عربی کتاب.......11 جنوری 1893 ء کو جب حضور اپنی معرکة الآراء کتاب آئینہ کمالات اسلام کے اُردو حصہ کی تالیف سے فارغ ہوئے تو مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے ایک مجلس میں حضرت اقدس سے عرض کیا کہ اس کتاب کے ساتھ مسلمان فقراء اور پیر زادوں پر اتمام
18 مصالح العرب.....جلد اول حجت کے لئے ایک خط بھی شائع ہونا چاہئے جو دن رات بدعات میں غرق ہیں اور خدا کے قائم کردہ اس سلسلہ سے بے خبر ہیں.حضور کو یہ تجویز پسند آئی.چنانچہ حضور فرماتے ہیں: ” میرا ارادہ یہ تھا کہ یہ خط اُردو میں لکھوں لیکن رات کو بعض ارشادات الہامی سے ایسا معلوم ہوا کہ یہ خط عربی میں لکھنا چاہئے.اور یہ بھی الہام ہوا کہ ان لوگوں پر اثر بہت کم پڑے گا ، ہاں اتمام حجت ہوگا.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 359-360) چنانچہ آپ نے خدا داد قوت و مقدرت سے نہایت فصیح و بلیغ عربی زبان میں التبلیغ کے عنوان سے ہندوستان ، عرب، مصر، شام، ایران، ترکی ، اور دیگر ممالک کے سجادہ نشینوں ، زاہدوں ،صوفیوں کے نام ایک مکتوب تالیف فرمایا.حضور نے یہ پہلی عربی کتاب خدا تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت اور اس کے الہام اور اس کی خاص قدرت سے تالیف فرمائی جس کے بارہ میں حضور فرماتے ہیں: " والحمد لله أولا ،وآخرًا وظاهرًا وباطنا، هو وليى في الدنيا والآخرة أنطقنى روحه ، وحركتني يده ، فكتبت مكتوبى هذا بفضله وإيمائه وإلقائه......رب كتبت هذا المكتوب بقوتك وحولك ونفحات إلهامك، فالحمد لك يا رب العالمين أنت محسنی و منعمی و ناصری ،و ملهمي، ونور عينى وسرور قلبي وقوة إقدامي 66 یعنی: اول و آخر میں اور ظاہر و باطن میں سب تعریف اللہ تعالی کی ہی ہے، وہی میرا اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دوست و مددگار ہے.اسکی روح نے مجھے نطق کی طاقت بخشی، اور میرے ہاتھ کو جنبش دی، چنانچہ میں نے اسکے فضل اور اسکے اشارہ اور اسکے الہام سے اپنا یہ مکتوب لکھا ہے...اے میرے پروردگار، یہ مکتوب میں نے تیری دی ہوئی قوت اور طاقت سے اور تیرے الہام کے نفحات کی مدد سے لکھا ہے.پس اے پر دور گار عالم ہر قسم کی تعریف صرف تیرے لئے ہی ہے، تو مجھ پر احسان کرنے والا اور مجھ پر انعام کرنے والا ، اور میری مدد ونصرت اور مجھے الہام فرمانے والا ہے، تو میری آنکھ کا نور ہے اور میرے دل کا سرور ہے اور میرے ہر اقدام کی اصل قوت تو ہی ہے.اس کتاب میں حضور نے عربوں کو براہ راست مخاطب فرمایا ، اور خدا تعالیٰ کے الہام
مصالح العرب.....جلد اول وانعام اور اس کی مدد و نصرت وقوت سے لکھی گئی اس کتاب کا تقاضا تھا کہ حضور کا عربوں کو یہ خطاب بے مثال اور مؤثر ترین ہونا اور اعجازی رنگ لئے ہوئے ہو.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور جن الفاظ میں حضور نے عربوں کو مخاطب فرمایا وہ دل و دماغ پر اک عجیب کیفیت بر پا کر دیتے ہیں، اس کی ابتداء حضور نے ان الفاظ سے فرمائی: السلام عليكم أيها الأتقياء الأصفياء من العرب العرباء، السلام 66 19 عليكم يا أهل أرض النبوة وجيران بيت الله العظمى......اس خطاب کے ایک حصہ کا ترجمہ یہاں درج کیا جاتا ہے تاہم جن احباب کو عربی زبان سے واقفیت ہے انہیں چاہئے کہ حضور کے اصل عربی کلمات پڑھ کر علمی ، ادبی اور روحانی طور پر لطف اٹھائیں.السلام علیکم ! اے عرب کے تقوی شعار اور برگزیدہ لوگو.السلام علیکم ! اے سرزمینِ نبوت کے باسیو اور خدا کے عظیم گھر کی ہمسائیگی میں رہنے والو.تم اقوام اسلام میں سے بہترین قوم ہو اور خدائے بزرگ و برتر کا سب سے چنیدہ گروہ ہو.کوئی قوم تمہاری عظمت کو نہیں پہنچ سکتی.تم شرف و بزرگی اور مقام و مرتبہ میں سب پر سبقت لے گئے ہو.تمہارے لئے تو یہی فخر کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کا آغاز حضرت آدم سے کر کے اُسے اُس نبی پر ختم کیا جو تم میں سے تھا اور تمہاری ہی زمین اس کا وطن اور مولد ومسکن تھی.تم کیا جانو کہ اس نبی کی کیا شان ہے.وہ محمد مصطفیٰ ہے، برگزیدوں کا سردار ، نبیوں کا فخر ، خاتم الرسل اور دنیا کا امام.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان ہر انسان پر ثابت ہے.اور آپ کی وحی نے تمام گزشتہ رموز و معارف و نکات عالیہ کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے.اور جو معارف حقہ اور ہدایت کے راستے معدوم ہو چکے تھے ان سب کو آپ کے دین نے زندہ کر دیا.اے اللہ تو روئے زمین پر موجود پانی کے تمام قطروں اور ذروں اور زندوں اور مُردوں اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ ظاہر یا مخفی ہے ان سب کی تعداد کے برابر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت اور سلامتی اور برکت بھیج.اور ہماری طرف سے آپ کو اس قدر سلام پہنچا جس سے آسمان کناروں تک بھر جائے.مبارک ہے وہ قوم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھا.اور مبارک ہے وہ دل جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچا اور آپ میں کھو گیا اور آپ
مصالح العرب.....جلد اول کی محبت میں فنا ہو گیا.اے اُس زمین کے باسیو جس پر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدم پڑے! اللہ تم پر رحم کرے اور تم سے راضی ہو جائے اور تمہیں راضی برضا کر دے.اے بندگانِ خدا! مجھے تم پر بہت حسن ظن ہے.اور میری روح تم سے ملنے کے لئے پیاسی ہے.میں تمہارے وطن اور تمہارے بابرکت وجودوں کو دیکھنے کے لئے تڑپ رہا ہوں تا کہ میں اس سرزمین کی زیارت کر سکوں جہاں حضرت خیر الوریٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدم پڑے، اور اس مٹی کو اپنی آنکھوں کے لئے سرمہ بنالوں.اور میں مکہ اور اس کے صلحاء اور اس کے مقدس مقامات اور اس کے علماء کو دیکھ سکوں.اور تا کہ میری آنکھیں وہاں کے اولیائے کرام سے مل کر اور وہاں کے عظیم مناظر کو دیکھ کر ٹھنڈی ہوں.پس میری خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے اپنی بے پایاں عنایت سے آپ لوگوں کی سرزمین کی زیارت نصیب فرمائے اور آپ لوگوں کے دیدار سے مجھے خوش کر دے.اے میرے بھائیو! مجھے تم سے اور تمہارے وطنوں سے بے پناہ محبت ہے.مجھے تمہاری راہوں کی خاک اور تمہاری گلیوں کے پتھروں سے محبت ہے.اور میں تمہیں کو دنیا کی ہر چیز پر 20 ترجیح دیتا ہوں.اے عرب کے جگر گوشو! اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو خاص طور پر بے پناہ برکات ، بے شمار خوبیوں اور عظیم فضلوں کا وارث بنایا ہے.تمہارے ہاں خدا کا وہ گھر ہے جس کی وجہ سے اُم القُرئ کو برکت بخشی گئی.اور تمہارے درمیان اس مبارک نبی کا روضہ ہے جس نے تو حید کو دنیا کے تمام ممالک میں پھیلایا اور اللہ تعالیٰ کا جلال ظاہر کیا.تمہی میں سے وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے سارے دل اور ساری روح اور کامل عقل وسمجھ کے ساتھ اللہ اور اسکے رسول کی مدد کی ، اور خدا کے دین اور اس کی پاک کتاب کی اشاعت کے لئے اپنے مال اور جانیں فدا کر دیں.بے شک یہ فضائل آپ لوگوں ہی کا خاصہ ہیں اور جو آپ کی شایانِ شان عزت و احترام نہیں کرتا وہ یقینا ظلم وزیادتی کا مرتکب ہوتا ہے.اے میرے بھائیو! میں آپ کی خدمت میں یہ خط ایک زخمی دل اور بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ لکھ رہا ہوں.پس میری بات سنو، اللہ تعالیٰ تمہیں اسکی بہترین جزاء عطا ( آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 419-422) فرمائے.20
21 24 مصالح العرب.....جلد اول پھر اسی کتاب میں دوسری جگہ حضور نے فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: اے عرب کے کی مشائخ اور حرمین شریفین کے چنیدہ لوگو! میں نے ان تمام امور کو ہندوستان کے علماء کے سامنے رکھا لیکن انہوں نے ان کو قبول نہ کیا.میں نے انہیں سمجھایا لیکن وہ نہ سمجھے ، میں نے ان کو جگانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں جاگے.بلکہ اس کے برعکس میری تکفیر و تکذیب کی کوششوں میں لگ گئے.اے عرب اور مصر اور بلا دشام وغیرہ کے برادران، جب میں نے دیکھا کہ یہ ایک عظیم نعمت ہے اور آسمان سے نازل ہونے والا مائدہ ہے اور عطاؤں والے خدا کی طرف سے ایک قابل قدرنشان ہے تو میرے دل نے چاہا کہ میں آپ کو اس میں شریک نہ کروں.چنانچہ میں نے اس امر کی تبلیغ کو ایک فرض سمجھا اور ایسے قرض کے مشابہ خیال کیا جسے ادا کئے بغیر اسکا حق ادا نہیں ہوسکتا.اب میں نے آپ کو وہ سب کہہ دیا ہے جو میرے لئے میرے رب کی طرف سے ڈالا گیا ہے اور میں اس بات کے انتظار میں ہوں کہ تم کس طرح اس کا جواب دیتے ہو“.حضور کے پُر تاثیر کلمات کا جادو آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 488-490) حضور کے یہ پُر تاثیر کلمات ایسے ہیں کہ پتھر سے پتھر دل کو بھی پگھلا کے رکھ دیں.لیکن اُس زمانہ میں حضوڑ کی کتب کا عربوں تک پہنچنا نہایت مشکل تھا اس لئے اس عرصہ میں اکثر عرب آپ کے عربی کلام کے حسن و تاثیر سے نا آشنا رہے.لیکن تاریخ نے سینہ قرطاس پر بصد فخر ایک مثال یوں محفوظ کی کہ طرابلس کے ایک مشہور عالم السید محمد سعید الشامی نے جب یہ کتاب پڑھی تو بے ساختہ کہا: 'واللہ ایسی عبارت عرب نہیں لکھ سکتا.اور بالآخر اس سے متاثر ہو کر احمدیت قبول کر لی.ملخص از تاریخ احمدیت جلد 1 صفحه 473) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں قصیدہ 66 اسی کتاب ” التبلیغ “ کے آخر میں حضرت مسیح موعود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ایک معجزہ نما عربی قصیدہ بھی رقم فرمایا ہے جو چودہ سو سال کے اسلامی لٹریچر
مصالح العرب.....جلد اول 22 میں اپنی نظیر آپ ہے.جب حضور یہ قصیدہ لکھ چکے تو آپ کا روئے مبارک فرط مسرت سے چمک اٹھا اور آپ نے فرمایا: یہ قصیدہ جناب الہی میں قبول ہو گیا اور خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ جو شخص یہ قصیدہ حفظ کرلے گا اور ہمیشہ پڑھے گا میں اس کے دل میں اپنی اور اپنے رسول کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دوں گا ، اور اپنا قرب عطا کروں گا“.جب یہ قصیدہ السید محمد سعید الشامی کو دکھایا گیا تو وہ پڑھ کر بے اختیار رونے لگے اور کہا: خدا کی قسم میں نے اس زمانہ کے عربوں کے اشعار بھی کبھی پسند نہیں کئے مگر ان اشعار کو میں حفظ کروں گا.تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 473) یہ قصیدہ جماعت کے ہر چھوٹے بڑے میں یکساں مقبول ہے.اس کی ابتدا اس شعر سے ہوتی ہے: یا عين فيض الله والعرفان يسعى إليك الخلق كالظمآن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی زبان کے بارہ میں بعض جاہل یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضور نے اچھی خاصی عربی پڑھی ہوئی تھی اور قادر الکلام تھے اور خدا کی طرف سے تعلیم محض ایک بنائی ہوئی بات ہے.گو کہ یہ تحریر ایسے اعتراضات کے رد کے طور پر تو نہیں لکھی جارہی لیکن حضرت مسیح موعود کے جس عربی قصیدہ کی بات ہو رہی ہے اس کے بارہ میں ایک غیر از جماعت دوست کی رائے یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جس میں مذکورہ بالا اعتراض کا بھی رڈ ہو جاتا ہے.علامہ نیاز فتح پوری صاحب نے اس قصیدہ کے بارہ میں لکھا: ’اب سے تقریبا 65 سال قبل 1893ء کی بات ہے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعوی تجدید و مهدویت سے ملک کی فضا گونج رہی تھی اور مخالفت کا اک طوفان انکے خلاف برپا تھا.آریہ عیسائی اور مسلم علماء کبھی ان کے مخالف تھے اور وہ تن تنہا ان تمام حریفوں کا مقابلہ کر رہے تھے.یہی وہ زمانہ تھا جب انہوں نے مخالفین کو هَل مِن مُبارِز کے متعدد چیلنج دیئے اور ان میں سے کوئی سامنے نہ آیا.ان پر منجملہ اور اتہامات میں سے ایک اتہام یہ بھی تھا کہ وہ عربی و فارسی سے نابلد ہیں.اسی اتہام کی تردید میں انہوں نے یہ قصیدہ نعت عربی میں لکھ کر مخالفین کو
23 مصالح العرب.....جلد اول اس کا جواب لکھنے کی دعوت دی.لیکن ان میں سے کوئی بروئے نہ آیا.مرزا صاحب کا یہ مشہور قصیدہ 69 اشعار پر مشتمل ہے.اپنے تمام لسانی محاسن کے لحاظ سے ایسی عجیب وغریب چیز ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا ایک ایسا شخص جس نے کسی مدرسہ میں زانوئے ادب نہ نہ کیا تھا کیونکر ایسا فصیح و بلیغ قصیدہ لکھنے پر قادر ہو گیا.یہ قصیدہ نہ صرف اپنی لسانی وفنی خصوصیات بلکہ اس والہانہ محبت کے لحاظ سے جو مرزا صاحب کو رسول اللہ سے تھی بڑی پُر اثر چیز ہے.( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 474-475) 0000
مصالح العرب.....جلد اول 24 عربی زبان کے خدائی علم کا دعویٰ اور عربی میں مقابلہ کی دعوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ابتدائی عمر میں بعض پرائیویٹ استادوں سے عربی کا علم سیکھا تھا مگر یہ تعلیم محض ایک ابتدائی رنگ رکھتی تھی اور مروجہ تعلیم کے مرحلہ سے متجاوز نہیں تھی اور پنچاب و ہندوستان میں ہزاروں علماء ایسے موجود تھے جو کتابی علم میں آپ سے بہت آگے تھے.لیکن جب خدا تعالی نے آپ کو مبعوث فرمایا تو قرآن علوم سے آپ کو مالا مال کر دیا اور اسے کے ساتھ یہ خارق عادت رنگ میں عربی کا علم بھی عطا فرما دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب مکتوب احمد ( جو انجام آتھم کا عربی حصہ ہے ) میں تحریر فرمایا ہے کہ: ” وَإِنَّ كَمَالِى فِى اللّسَانِ الْعَرَبِي، مَعَ قِلَّةِ جُهْدِى وَقُصُوْرِ طَلَبِيْ آيَةٌ وَاضِحَةٌ مِنْ رَبِّيْ، لِيُظْهِرَ عَلى النَّاسِ عِلْمِي وَأَدَبِي، فَهَلْ مِنْ مُعَارِضِ فِي جُمُوع الْمُخَالِفِيْنَ؟ وَإِنِّى مَعَ ذَلِكَ عُلِّمْتُ أَرْبَعِينَ أَلْفًا مِنَ اللُّغَاتِ الْعَرَبِيَّةِ، وَأُعْطِيْتُ بَسْطَةٌ كَامِلَةٌ فِي الْعُلُوْمِ الْأَدَبِيَّةِ، مَعَ اِعْتِلَالِى فِى أَكْثَرِ الْأَوْقَاتِ وَقِلَّةِ الْفَتَرَاتِ، وَهَذَا فَضْلُ رَبِّي أَنَّهُ جَعَلَنِي أَبْرَعَ مِنْ بَنِي الْفُرَاتِ، وَجَعَلَنِي أَعْذَبَ بَيَانًا مِنَ الْمَاءِ الْفُرَاتِ وَكَمَا جَعَلَنِي مِنَ الْهَادِيْنِ الْمَهْدِيِّيْنَ، جَعَلَنِي أَفْصَحَ الْمُتَكَلِّمِينَ فَكَمْ مِنْ مُلَحٍ أُعْطِيْتُهَا، وَكَمْ مِنْ عَذْرَاءَ عُلِّمْتُهَا، فَمَنْ كَانَ مِنْ لُسُنِ
مصالح العرب.....جلد اول الْعُلَمَاءِ ، وَحَوَى حُسُنَ البَيَانِ كَالأَدَبَاءِ ، فَإِنِّي أَسْتَعْرِضُهُ لَو كَانَ مِنَ الْمُعَارِضِيْنَ الْمُنْكِرِينَ.“ (روحانی خزائن جلد 11 ص 234) اور باوجود بہت ہی تھوڑی جدو جہد اور کوشش کے میرا عربی زبان میں کمال حاصل کرنا میرے رب کی طرف سے ایک واضح نشان ہے تا وہ لوگوں پر میرا علم اور ادب ظاہر فرمائے.پس کیا میرے مخالفین کے گروہ میں کوئی ہے جو میرا مقابلہ کرے؟ اسکے ساتھ ساتھ مجھے عربی زبان کے چالیس ہزار لغات ( الفاظ ) بھی سکھائے گئے ہیں اور مجھے ادبی علوم میں کامل وسعت عطاء ہوئی ہیں باوجود یکہ میں اکثر بیمار رہتا ہوں اور صحت کے اوقات کم ہی ہوتے ہیں.یہ میرے رب کا فضل ہے کہ اس نے مجھے بنی فرات ( فارسی ترجمہ میں لکھا ہے کہ اس سے مراد عباسی دور کے چار وزراء ابو الحسن علی، ابو عبد اللہ جعفر ، ابوعیسی ابرہیم اور ان تینوں کے والد محمد بن موسیٰ بن حسن بن فرات ہیں) سے بھی زیادہ قادر الکلام بنایا ہے.اور میرے بیان کو میٹھے پانی سے بھی زیادہ شریں بنایا ہے.اور جیسے کہ اس نے مجھے ایسے ہادیوں میں سے بنایا ہے جو خدا سے براہ راست ہدایت پاتے ہیں ویسے ہی اس نے مجھے سب سے زیادہ بلیغ الکلام بنایا ہے.پس کتنے ہی ادب کے شہہ پارے مجھے عطا ہوئے ہیں اور کتنے ہی خوبصورت کلمات مجھے سکھائے گئے.پس ہر وہ شخص جو زبان کا ماہر ہے اور ادباء کی طرح حسن بیان پر قادر ہے اسے میں مقابلہ پر بلاتا ہوں اگر وہ مخالفت اور انکار کرنے.والوں میں سے ہے.ان الفاظ کے ساتھ آپ نے بڑی تحدی کے ساتھ یہ دعویٰ پیش کیا اور آخر عمر تک دہراتے رہے لیکن کسی کو آپ کے مقابلہ کی جرات نہ ہوئی.بعد ازاں آپ نے یہ بھی لکھا کہ اگر کوئی ایک فرد مقابلہ کی جرات نہیں کر سکتا تو میری طرف سے اجازت ہے کہ سب مل کر میرے مقابل پر آؤ اور میری جیسی فصیح و بلیغ اور معارف سے پُر عربی لکھ کر دکھاؤ، مگر کوئی بھی مقابل پر نہ آیا.آپ نے اس چیلنج کو صرف ہندوستانی علماء تک ہی محدود نہ رکھا بلکہ اسے عربوں اور مصریوں اور شامیوں تک وسیع کر دیا.اور نثر و نظم ، جمع و غیر سمع اور مقفی وغیر مقلی فصیح و بلیغ عربی زبان میں کتابیں لکھیں اور ادب کے ہر میدان میں اپنے گھوڑے دوڑائے اور شاہسواری کا حق ادا کر دیا.(ماخوذ از سلسلہ احمدیہ صفحہ 56 تا 58) 25 شما
مصالح العرب.....جلد اول اول ابدال النا) حضرت محمد سعید الشامی الطرابلسی رضی اللہ عنہ مكرم السید محمد سعید الشامی صاحب رضی اللہ عنہ کا ذکر خیر ہوا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جس قدر حالات ہمارے لٹریچر سے میسر آسکے ہیں یہاں درج کر دئیے جائیں.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کے مطابق ابدال الشام میں سے پہلے صالح انسان تھے جنہیں حضرت مسیح موعود کی بیعت کا شرف حاصل ہوا.آپ نہایت درجہ بزرگ اور نابغہء روزگار عالم تھے، فخر الشعراء اور مجد الأدباء کے ناموں سے یاد کئے جاتے تھے اور طرابلس کے رہائشی تھے جو کہ بیروت سے تمہیں کوس کے فاصلے پر ہے.آپ طرابلس سے براستہ کراچی کرنال گئے ، وہاں سے دہلی بغرض علاج حکیم اجمل خان دہلوی کے پاس گئے اور دہلی کے مشہور مدرسہ فتح پوری میں علوم عربیہ کی تدریس کے فرائض بجا لاتے رہے.حضرت اقدس مسیح موعود سے تعلق حضرت حافظ محمد یعقوب رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے جو ڈیرہ دون میں رہتے تھے.آپ کے ساتھ حضرت محمد سعید الشامی صاحب کا تعارف ہوا.ایک دفعہ آپ محترم حافظ صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حافظ صاحب نے آئینہ کمالات اسلام (جس کا عربی حصہ التبلیغ کے نام سے شائع ہوا) میں مندرجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نعتیہ قصیدہ سے آپ کا تعارف کروایا جسے پڑھ کر آپ بے ساختہ پکار اٹھے کہ :.26 26
مصالح العرب.....جلد اول عرب بھی اس سے بہتر کلام نہیں لا سکتے“.27 ازاں بعد آپ کو سیالکوٹ جانے کا اتفاق ہوا جہاں آپ کی ملاقات حضرت میر حسام الدین رضی اللہ عنہ سے ہوئی جنہوں نے آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصہ کی بابت گفتگو کے دوران اس کا رد لکھنے پر ایک ہزار روپیہ دینے کا وعدہ کیا.اس ملاقات میں حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے جن سے حضرت محمد سعید صاحب الشامی نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں معلومات اور تعارف حاصل کیا.التبلیغ کی عربی زبان کا سحر اور نعتیہ قصیدہ کی ادبی بلاغت اور معانی کے بحرز خار نے آپ کی سوچ میں تلاطم برپا کر دیا اور آپ کشاں کشاں قادیان چلے آئے.قادیان میں قیام اور بیعت آپ تقریباً سات ماہ تک تحقیق میں مصروف رہے.حضرت اقدس علیہ السلام کو نہایت قریب سے دیکھا اور حضور کے علمی فیضان سے متمتع ہوئے اور بالآ خر بعض مبشر روی کی بناء پر سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.دینی خدمات حضرت محمد سعید صاحب الشامی رضی اللہ عنہ نے دو کتابیں تصنیف کیں.ایک الإنصاف بين الأحباء‘ اور دوسری ”إيقاظ الناس“ ہے.تذکرہ واقعات آپ کے حضرت اقدس علیہ السلام کی صحبت میں رہنے کے ایام میں چند ایمان افروز واقعات کا ذکر ملتا ہے جو ذیل میں درج کئے جاتے ہیں: حضرت محمد سعید صاحب الشامی رضی اللہ عنہ ایک دفعہ اپنے حجرہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ دھوبی آپ کے دھلے ہوئے کپڑے لایا.آپ کے دل میں خیال گزرا کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت موجود ہوتے تو اسے اُجرت دے دیتے.عین اسی لمحہ جب حضرت محمد سعید صاحب الشامی رضی اللہ عنہ یہ بات سوچ رہے تھے کہ یکا یک حضور رونق 27
مصالح العرب.....جلد اول 28 افروز ہوئے اور اپنے دست مبارک سے دھوبی کو اس کی مطلوبہ رقم مرحمت فرما دی.ایک امر شرعی نے آپ کو سخت مشکل میں ڈال رکھا تھا اور اس بارہ میں اکثر احباب تشفی کرانے سے قاصر تھے.حضرت محمد سعید صاحب الشامی رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز ظہر کے لئے تشریف لائیں گے تو آپ سے دریافت کروں گا.آپ نے ظہر کی نماز میں آتے ہی فرمایا کہ جس مسئلہ نے آپ کو اور دیگر حضرات کو الجھن میں مبتلا کر رکھا ہے اس کا حل یہ ہے.حالانکہ آپ نے اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قطعا کوئی ذکر نہیں کیا تھا.(عالم روحانی کے لعل و جواہر نمبر 167.مطبوعہ روز نامہ الفضل ربوہ 21 جولائی 2001ء، صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریر جلسہ سالانہ 1964ء، ذکر حبیب صفحہ 42، بحوالہ تین سو تیرہ اصحاب صدق وصفال از نصر اللہ خان ناصر و عاصم جمالی صفحه 101-103 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجام آتھم کے آخر میں تین سو تیرہ اصحاب کی جو فہرست دی ہے اس میں آپ کا نام 55 نمبر پر مذکور ہے.حضور نے اپنی کتاب ”سچائی کا اظہار“ میں حضرت شامی صاحب کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے: ایک فاضل عرب کی اس عاجز کی کتاب آئینہ کمالات اسلام اور تبلیغ کے اعلیٰ درجہ کی بلاغت پر گواہی جو ایک بلدہ عظیمہ میں تعلیم ادب وغیرہ کے مدرس ہیں.اخی مکرم مولوی حافظ محمد یعقوب صاحب سلمہ.ڈیرہ دون سے لکھتے ہیں کہ میں ایمان لاتا ہوں اس بات پر کہ آپ امام زمانہ ہیں، موید من اللہ ہیں.علماء کو اللہ تعالیٰ نے ضرور آپ کا شکار بنایا ہے یا غلام.آپ کا مخالف کبھی کامیاب نہ ہوگا.مجھے اللہ تعالیٰ آپ کے خادموں میں زندہ رکھے اور اسی میں مارے.اے خدا تو ایسا ہی کر.ایک عرب عالم اس وقت میرے پاس بیٹھے ہیں.شامی ہیں، سیدی ہیں، بڑے ادیب ہیں.ہزاروں اشعار عرب عار بہ کے حفظ ہیں.ان سے آپ کے بارے گفتگو ہوئی وہ عالم تبحر اور میں عامی محض.مگر توفی کے معنے میں کچھ بن نہ پڑا.آپ کی عبارت ” آئینہ کمالات اسلام“ جو عربی ہے ان کو دکھائی گئی.کہا واللہ
مصالح العرب.....جلد اول ایسی عبارت عرب نہیں لکھ سکتا ہندوستانی کو تو کیا طاقت ہے.قصیدہ نعتیہ دکھایا.پڑھ کر رو دیا.اور کہا خدا کی قسم میں نے اس زمانہ کے عربوں کے اشعار کو کبھی پسند نہیں کیا اور ہندیوں کا تو کیا ذکر ہے ،مگر ان اشعار کو حفظ کروں گا.اور کہا واللہ جو شخص اس سے بہتر عبارت کا دعوی کرے چاہے عرب ہی کیوں نہ ہو.وہ ملعون مسیلمہ کذاب ہے.تَمَّ كَلَامُه.میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ کلام ربانی اور تائید سبحانی کا اعجاز ہے آدمی کا کام نہیں.میں نے حضرت کو اپنی جان اور اپنی اہل اور اولاد میں ما لک کر دیا.(سچائی کا اظہار، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 75-76 ) اسی طرح آپ نے اپنی کتاب ”سچائی کا اظہار میں حضرت شامی صاحب کا ایک خط اور اس پر حضور کا جواب بھی عربی زبان میں درج فرمایا ہے جو اپنی ذات میں عربی ادب کا ایک شہ پارہ معلوم ہوتا ہے.اس خط کا خلاصہ قارئین کی نظر کیا جاتا ہے.سب سے پہلے انہوں نے حضور کو مخاطب کرنے کا سحر انگیز طریق اختیار کیا ہے عرض 29 کرتے ہیں: اے وہ عظیم الشان وجود کہ جس کے اوصاف حمیدہ کے بارہ میں مجھے نسیم شوق نے آگاہی دی ہے، اور اے وہ ہستی کہ جس کے فیوض کے عطر سے نرگس کے پھولوں نے مہک مستعار لی ہے.29 پھر دعا گو ہوتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : اللہ کرے کہ حضور کے نجات کے سفینے علوم وفنون کے سمندروں میں محو سفر رہیں.اور لوگوں کے سر آپ کے بلند و بالا مرتبہ کے سامنے جھکے رہیں، اور زبانیں آپ کے محاسن کی گواہی دیتی رہیں.پھر لکھتے ہیں کہ: میرا آپ سے ملنے کا شوق نا قابل بیان ہے.مجھے قضا وقدر نے ملک ملک پھراتے ہوئے اس علاقے میں لا پھینکا اور ایک شفیق بھائی مولوی محمد یعقوب سے ملایا.اس کے ساتھ باتوں میں آپ کا ذکر چل نکلا اور جب آپ کے اخلاق و محاسن سے آگاہی ہوئی تو آپ سے ملاقات کی جستجو پیدا ہوگئی.لیکن راہ کی تکلیف، گرمی کی تپش ، تہی دستی ، اور قلت زاد جیسے امور میری راہ میں حائل ہیں.اس کے آگے انہوں نے دوشعروں میں اپنی حالت کا نقشہ کھینچا ہے جن کا ترجمہ ہے:
30 مصالح العرب.....جلد اول اگر مجھے قوت پرواز ہوتی تو میں وفورشوق سے آپ کی طرف اڑتا چلا جا تا اور کبھی گریز نہ کرتا.لیکن کیا کروں کہ میرے پر کٹے ہوئے ہیں اور پر کٹا پرندہ پرواز کرنے سے قاصر ہوتا ہے.تاہم جب تک قدم آپ کی طرف چل کے نہیں جا سکتے تب تک قلم سے ہی یہ پیاس بجھا تا ہوں کیوں کہ خط بھی تو آدھی ملاقات ہے اور ویسے بھی جب پانی میسر نہ آ سکتا ہو تو اسکے متبادل کو ہی اختیار کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے اس خط کے جواب میں اعلیٰ درجہ کی فصیح و بلیغ عربی زبان میں خط لکھا جس کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے: ”اے میرے پیارے اور مخلص مجھے تمہارا نامہ گرامی ملا.اسے کھول کر دیکھا اور اس کے مندرجات کو پڑھا تو پتہ چلا کہ یہ ایک سچے، پارسا، صاحب فہم و عقل اور صائب الرائے، صاحب بصیرت ناقد دوست کی طرف سے اس عاجز کے نام آیا ہے جسے تکفیر کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ہر چھوٹا بڑا اسے چھوڑ کر الگ ہو گیا ہے.ایسی حالت میں آپ جیسا تسلی دینے والا فاضل عربی محبت عطا ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جس نے مجھے آپ جیسے شرفاء کی محبت کی بشارت دی ہوئی ہے.میں نے عرب ممالک اور شام بھجوانے کے لئے ایک کتاب لکھی ہے تا میں ان معزز لوگوں کی طرف سے مدد پاؤں.ان بابرکت ایام میں آپ کا خط ملا تو میں نے اسے عرب ممالک کے اثمار میں سے پہلا ثمر خیال کیا.اور اسے شرق وغرب کی اصلاح کے کام کے لئے نیک فال کے طور پر لیا.اور میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ خدا تعالیٰ مجھے آپ کے ممالک میں لے جائے تا میں آپ لوگوں کے دیدار سے متمتع ہوسکوں.برادر من! اس ملک کے علماء نے مجھے کافر قرار دیا ، میری تکذیب کی، مجھے پر بہتان لگائے اور لعن طعن و بیہودہ گوئی کی مجھ پر بھر مار کر دی ہے.لہذا میں ان علماء اور ان کے علم سے بیزار ہو گیا ہوں اور ان لوگوں کے اسلام میں شک کرنے والوں میں سے ہو گیا ہوں.ان کے دلوں کو بدظنی کرنے اور خدائے معبود کی گستاخی کرنے میں یہود کے مشابہ پاتا ہوں.یہ مجھے کافر قرار دینے پر مصر ہیں اور انہوں نے مجھے تکلیف دینے کی کوئی کسر نہیں اٹھا
31 مصالح العرب.....جلد اوّل رکھی.انہوں نے ایک موحد اور مومن کو تحریر و تقریر میں کافر کہا ہے اور میری تکفیر میں جلد بازی پر نادم نہیں ہیں، بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ وقت تجدید دین اور شیطان کو شکست دینے کے لئے آنے والے مجدد کے ظہور کا نہیں ہے.وہ نہیں دیکھتے کہ ظلمت چھا گئی ہے اور دشمن اسلام پر حملہ آور اور نقب زن ہے.زمین پر صلیب کی عبادت کرنے والی قوم کا غلبہ ہے جو ہر ایک کو گمراہ کرنے پر کمر بستہ ہو گئے ہیں.خدا تعالیٰ نے ان کی اس حالت پر رحم فرماتے ہوئے ایک بندہ کو تجدید دین اور اتمام حجت کے لئے کھڑا کیا تا وہ ان کو ظلمتوں سے نکال کر روشنیوں کی طرف لائے.میں نے یہ دکھ درد آپ کے سامنے اس لئے بیان کئے ہیں کہ تا آپ کو اسلام کی کمزور حالت پر رحم آئے.میں آپ کو نیک اور مخلص نوجوان سمجھتا ہوں.آپ نے اپنے الفاظ سے مجھے خوش کر دیا ہے اور پیار بھری باتوں سے اس عاجز مورد طعن و ملامت کو تسلی دی ہے.اللہ آپ کو اس کی بہترین جزا عطا فرمائے اور آپ پر رحم فرمائے.وہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.سچائی کا اظہار، روحانی خزائن جلد 6 ص77-78) حضرت مسیح موعود کے قلم مبارک سے آپ کے اوصاف کا بیان والا ہو..آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: اور میں نے ان کتابوں ( التبلیغ تحفہ بغداد ، کرامات الصادقین ، حمامۃ البشری.ناقل ) کو صرف زمین عرب کے جگر گوشوں کے لئے تالیف کیا ہے.اور میری بڑی مراد یہی تھی کہ ان مقدس جگہوں اور مبارک شہروں میں میری کتابیں شائع ہو جائیں.پس میں نے دیکھا کہ کتابوں کا ان ملکوں میں شائع ہونا ایک ایسے نیک انسان کے وجود کی فرع ہے جو شائع کرنے سوئیں تضرع کے ہاتھ اٹھاتا اور دعائیں عاجزی سے کرتا تھا کہ یہ آرزو اور مراد میرے لئے حاصل اور متحقق ہو یہاں تک کہ میری دعا قبول ہوگئی اور میری طرف خدا کا فضل ایک ایسے آدمی کو کھینچ لایا جو صاحب علم اور فہم اور مناسبت تھا اور نیک بختوں میں سے تھا.اور میں نے اس کو پاک اصل اور پسندیدہ خلق والا اور پاک فطرت والا اور دانا اور پر ہیز گار پایا.سومیں اس کی ملاقات سے جو میری عین مراد تھی خوش ہوا اور اپنی دعا کا پہلا پھل میں نے اس کو خیال کیا.اس مجمل بیان کی تفصیل یہ ہے کہ بلا دشام سے ایک جوان صالح
مصالح العرب.....جلد اول میں 32 خوشر و میرے پاس آیا ، یعنی طرابلس سے ، اور حکیم و علیم اس کو میری طرف کھینچ لایا اور قریب سات مہینے کے یعنی اس وقت تک میرے پاس رہا اور میں نے فراست سے اس کے وجود کو باخیر دیکھا اور اس میں رشد پایا اور اس کے چہرہ میں صلاحیت کے انوار پائے اور صلحاء کے نشان پائے.پھر میں نے اس کے حال اور قال میں غور کی اور اس کے ظاہر اور باطنی تفحص کیا اور اس نور اور الہام کے ساتھ دیکھا جو مجھ کو عطا کیا گیا ہے.سو میں نے کی مشاہدہ کیا کہ وہ حقیقت میں نیک ہے اور متانت عقل اس کو حاصل ہے اور آدمی نیک بخت ہے جس نے جذبات نفس پر لات ماری اور ان کو الگ کر دیا ہے اور ریاضت کش انسان ہے.پھر خدا نے اس کو کچھ حصہ میری شناخت کا عطا کیا، سو وہ بیعت کرنے والوں میں داخل ہو گیا.اور خدا تعالی نے ہماری معرفت کی باتوں میں سے ایک عجیب دروازہ اس پر کھول دیا.اور اس نے ایک کتاب تالیف کی جس کا نام ایقاظ الناس“ رکھا اور وہ کتاب اس کے وسعت معلومات پر دلیل واضح ہے اور اس کی رائے صائب پر ایک روشن حجت ہے اور وہ کتاب ہر ایک مباحث کے لئے ہر ایک میدان میں کفایت کرتی ہے.اور جب اس نے اس کتاب کا تالیف کرنا شروع کیا تو بہت سی کتابیں حدیث اور تفسیر کی جمع کیں اور ہر ایک امر میں پوری غور کی سو یہ کتاب اس کے فکروں کا ایک دودھ اور اس کی نظروں کا ایک نور ہے اور عارف کی علامت اس کی معرفت کی باتیں ہی ہوتی ہیں.اور جب میں نے اس کی کتاب کو پڑھا اور صفحہ صفحہ کر کے اس کے باب دیکھے اور اس کی چادر اٹھائی تو میں نے اس کے بیان کو بیچ پایا اور اس کی شان کی میں نے تعریف کی اور میں نے اس میں کوئی ایسی بات نہ پائی جو اس کو بٹہ لگائے.اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا اس کی کتاب کو میری کتابوں کے ساتھ شائع کرے اور اس میں قبولیت رکھ دیوے اور اس میں اپنی روح داخل کرے اور بعض دل پیدا کرے جو اس کی طرف جھک جاویں.اور اس کے مؤلف کو دونوں جہانوں میں بدلہ دے اور اس کے مقاصد میں برکت ڈالے اور اس کو مقبولوں میں داخل کرے.اور جب وہ اپنی تالیف سے فارغ ہوا تو اس کے اخلاص نے اس کو اس بات پر آمادہ کیا کہ ہماری معرفت کی باتوں کو اپنے وطن کے علماء تک پہنچاوے اور ہماری خبریں ان میں پھیلا دے.اور منادی بن کر ہر ایک طرف آوازیں پہنچا وے اور کتابوں کو شائع کرے تا ان لوگوں پر حقیقت کھل جاوے اور یہ وہی مراد ہے جس کے
مصالح العرب.....جلد اول 33 لئے ہم دن رات دعائیں کرتے تھے.اور میں دیکھتا ہوں کہ یہ شخص اپنے قول اور وعدہ میں مرد صادق ہے.بیہودہ کلام سے پر ہیز کرتا ہے.اور زبان کو ہر ایک چراگاہ میں مطلق العنان نہیں چھوڑتا اور خدا تعالیٰ نے ہماری محبت اس کے دل میں ڈال دی.سو ہم سے وہ محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے.جو کچھ اس نے کہا اور وعدہ کیا میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ اس کا اہل ہے اور جیسا کہ کہا ویسا ہی کرے گا اور میں امید رکھتا ہوں کہ خدا اس کو ہمارے بیج کی نشو ونما اور تروتازگی کا باعث کرے اور ہمارا دودھ اس کے ذریعہ سے خوشگوار ہو جاوے.اور خدا سب مستبوں سے نیک تر ہے.اور میں نے دیکھا کہ یہ شخص ریاضت کش اور صابر ہے شکوہ اور جزع فزع اس کی سیرت نہیں اور میں نے بارہا دیکھا کہ یہ شخص ادنی چیزوں کے کھانے پر کفایت کرتا ہے اور ایسا ہی ادنی ملبوسات پر اگر لحاف نہ ہو تو اس کو مانگتا نہیں بلکہ دھوپ میں بیٹھنے اور آگ سینکنے سے گزارہ کر لیتا ہے اور تکلیف اٹھا کر اپنے تئیں سوال سے باز رکھتا ہے.میں نے اس میں فروتنی اور حلم اور انا بت اور نرمی دل کو پایا اور خدا بہتر جانتا ہے اور وہ اس کا حسیب ہے.میں نے جو دیکھا سو کہا.پس خدا کی رحمت سے کچھ تعجب مت کرو کہ وہ اس شخص کی سعی سے ان حرجوں کو اٹھاوے جو ہمیں پہنچ گئے.اور خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے جس بات کو وہ چاہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا اور جو کچھ وہ دیوے کوئی اس کو رد نہیں کر سکتا.وہ اپنے دین کا حافظ اور تمام ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اس کے دین کی مدد کریں..اور بھائیو یہ بھی تمہیں معلوم رہے کہ دیار عرب میں کتابوں کے شائع کرنے کا معاملہ اور ہماری کتابوں کے عمدہ مطالب عرب کے لوگوں تک پہنچانا کچھ تھوڑی سی بات نہیں بلکہ ایک عظیم الشان امر ہے اور اس کو وہی پورا کر سکتا ہے جو اس کا اہل ہو.کیونکہ یہ بار یک مسائل جن کے لئے ہم کا فر ٹھہرائے گئے اور جھٹلائے گئے کچھ شک نہیں کہ وہ عرب کے علماء پر بھی ایسے سخت گزریں گے جیسا کہ اس ملک کے مولویوں پر سخت گزر رہے ہیں.بالخصوص عرب کے اہل بادیہ کو تو بہت ہی ناگوار ہوں گے کیونکہ وہ بار یک مسائل سے بے خبر ہیں اور وہ جیسا کہ حق سوچنے کا ہے سوچتے نہیں اور ان کی نظریں سطحی اور دل جلد باز ہیں مگر ان میں قلیل المقدار ایسے بھی ہیں جن کی فطرتیں روشن ہیں اور ایسے لوگ کم پائے جاتے ہیں.سوان مشکلات کی وجہ سے جو تم سن چکے مصلحت دینی نے تقاضا کیا جو اس کام کے لئے ہم
34 مصالح العرب.....جلد اول اس عالم مذکور کو منتخب کریں جس کا نام محمد سعیدی النشار الحمیدی الشامی ہے اور کچھ شک نہیں کہ اس کی کا وجود اس مہم کے لئے از بس غنیمت ہے اور اس کا اس جگہ آنا خدا تعالیٰ کے فضل میں سے ہے اور وہ نیک دل اور بہت اچھا آدمی ہے اور اس طرف ضرورت بھی سخت ہے پس شاید خدا است کے ہاتھ پر ہمارے کام کی اصلاح کرے اور وہ اس تقریب سے اپنے وطن میں پہنچ جاوے اور سفر کی سخت مشقتوں سے نجات پاوے اور وطن اور دوستوں کی جدائی سے بھی رہائی ہو اور تم کو خدا تعالیٰ سے اجر ملے.اور میں نے صرف اللہ کے لئے یہ باتیں کی ہیں اور میں نے امانت سے نصیحت کرنے والا ہوں.اور وہ لوگ جن کا یہ گمان ہے کہ عرب کے لوگ قبول نہیں کریں گے اور نہ سنیں گے پس ہمارے پاس اس نادانی کا بجز اس کے اور کوئی جواب نہیں کہ ہم ان کے اس خیال پر لاحول پڑھیں اور ان کی سمجھ پر انا للہ کہیں.کیا وہ نہیں جانتے کہ عرب کے لوگ حق کے قبول نہ کرنے میں ہمیشہ اور قدیم زمانہ سے پیش دست رہے ہیں بلکہ وہ اس بات میں جڑ کی طرح ہیں اور دوسرے ان کی شاخیں ہیں.پھر ہم کہتے ہیں کہ یہ ہمارا کاروبار خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک رحمت ہے اور عرب کے لوگ الہی رحمت کے قبول کرنے کے لئے سب سے زیادہ حقدار اور قریب اور نزدیک ہیں اور مجھے خدا تعالیٰ کے فضل کی خوشبو آ رہی ہے.سو تم نو امیدی کی باتیں مت کرو اور نا امیدوں میں سے مت ہو جاؤ اور بدگمانیوں میں مت پڑو اور بعض ظن گناہ ہیں.سو تم ایسے ظن مت کرو جن سے بدگمان انسان کی ایمانی زمین ہل جاتی ہے اور نیت صالحہ میں جنبش آ جاتی ہے اور شیطانی وساوس بڑھتے ہیں.اور خدا کے تو کل پر کھڑے ہو جاؤ اور کوئی نیکی کر لو جو کر سکتے ہو اور اپنے بھائی کے لئے کچھ زاد سفر بہم پہنچاؤ جو اس کے سفر بحری اور بری کے لئے کافی ہو.خدا تمہارے ساتھ ہو اور تمہیں توفیق دے اور بہتر توفیق دہندہ.اور چاہئے کہ بھیجنے والے کے لئے جلدی کریں کیونکہ وقت تنگ ہے اور مہمان عزیز سفر کو تیار ہے اور ہم پر واجب ہو چکا ہے کہ جو غفلت میں ہیں ان کو بہت جلد متنبہ کریں.پس مناسب نہیں کہ تم مستی کر کے بیٹھے رہو بعد اس کے جو میں نے اس امر کی ضرورت بیان کر دی.پس تم مدد کے لئے آگے قدم بڑھاؤ اور مت پیچھے ہٹو اور ہاتھوں کو جھاڑو تا مدد دیے جاؤ اور خدا تعالی کی راہ میں ایک دوسرے سے سبقت کرو.(اردو ترجمه منقول از نور الحق حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 19 تا 29
مصالح العرب.....جلد اول سیرت المہدی کی روایات میں آپ کا ذکر سیرت المہدی کی بعض روایات میں حضرت محمد سعید الشامی صاحب کے حوالے سے بعض روایات کا ذکر ملتا ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت طیبہ کے بعض پہلوؤں پر 35 روشنی پڑتی ہے، یہ روایات درج ذیل ہیں: ونشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص محمد سعید صاحب عرب تھے اور وہ ڈاڑھی منڈوایا کرتے تھے.جب وہ قادیان میں زیادہ عرصہ رہے تو لوگوں نے انہیں داڑھی رکھنے کے لئے مجبور کیا.آخر انہوں نے داڑھی رکھ لی.ایک دفعہ میرے سامنے عرب صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ حضور میری داڑھی دیکھیں ٹھیک ہے.آپ نے فرمایا اچھی ہے اور پہلے کیسی تھی.گویا آپ کو یہ خیال ہی نہ تھا کہ پہلے یہ داڑھی منڈایا کرتے تھے.“ (سیرت المہدی روایت نمبر 1105 ) منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن محمد سعید صاحب عرب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی داڑھی کے متعلق پوچھا.اُس وقت ایک شخص نے عرض کی کہ حضور داڑھی کتنی لمبی رکھنی چاہئے.آپ نے فرمایا کہ میں داڑھیوں کی اصلاح کے لئے نہیں آیا.اس پر سب چپ ہو گئے.سیرت المہدی روایت نمبر 1106) میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عرب غالباً اس کا نام محمد سعید تھا.قادیان میں دیر تک رہا تھا.ایک روز حضور علیہ السلام بعد نماز مسجد مبارک میں حاضرین مسجد میں بیٹھے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر مبارک فرما رہے تھے کہ اس عرب کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غریب تھے.پس عرب کا یہ کہنا ہی تھا کہ حضور علیہ السلام کو اس قدر رنج ہوا کہ چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور محمد سعید عرب پر وہ جھاڑ ڈالی کہ وہ متحیر اور مبہوت ہو کر خاموش ہو گیا اور اس کے چہرہ کا رنگ فق ہو گیا.فرمایا کہ " کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غریب تھا جس نے ایک رومی شاہی ایچی کو اُحد پہاڑ پر سارا کا سارا مال مویشی عطا کر دیا تھا وغیرہ.اس کو مال دنیا سے لگاؤ اور محبت نہ تھی.“ (سیرت المہدی روایت نمبر 1246)
مصالح العرب.....جلد اول ایک روایت اور وضاحت حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں: وو (ذکر حبیب صفحہ 42) 36 غالباً 1894ء کے قریب دو عرب شامی جو علوم عربیہ کے ماہر اور فاضل تھے قادیان آئے، ایک عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہے.ہر دو کا نام محمد سعید تھا اور طرابلس علاقہ شام کے رہنے والے تھے.ان میں سے ایک صاحب شاعر بھی تھے.مالیر کوٹلہ میں ایک ہندوستانی لڑکی سے حضرت نواب محمد علی رضی اللہ عنہ نے شادی کروا دی.دوسرے محمد سعید نے ایک رسالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں تصنیف کیا تھا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر جو بصورت رسالہ چھپی تھی لے کر اپنے وطن ملک شام سلسلہ کی تبلیغ کے واسطے چلے گئے.اسی مضمون کی سیرت المہدی کی ایک روایت یوں ہے: حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا.کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک نوجوان عرب جو حافظ قرآن اور عالم تھا، آکر رہا اور آپ کی تائید میں اس نے ایک عربی رسالہ بھی تصنیف کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی شادی کا فکر کیا.میرے گھر کے ایک حصہ میں میرے استاد حافظ محمد جمیل صاحب مرحوم رہا کرتے تھے.ان کی بیوی کی ایک ہمشیرہ نو جوان تھی.حضرت صاحب نے ان کو رشتہ کے لئے فرمایا.انہوں نے جواباً عرض کیا کہ لڑکی کے والد سے دریافت کرنا ضروری ہے.لیکن میں حضور کی تائید کروں گا.اتنے میں خاکسار حسب عادت قادیان گیا.جب میں نے مسجد مبارک میں قدم رکھا.تو اس وقت حضرت صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور وہ عرب صاحب موجود تھے.حضرت اقدس نے فرمایا.کہ هذَا رَجُلٌ حَافِظٌ نُور مُحَمَّد “ اور حضور نے فرمایا.کہ میاں نور محمد آپ عرب صاحب کو ہمراہ لے جائیں اور وہ لڑکی دکھلا دیں.بعد نماز ظہر میں عرب صاحب کو ساتھ لے کر فیض اللہ چک کو روانہ ہوا.آپ کے ارشاد کے ماتحت کارروائی کی گئی.مگر انہوں نے پسند نہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی شادی مالیر کوٹلہ میں کرادی.“ حضرت مفتی صاحب کی تحریر سے ثابت ہوتا ہے کہ دو محمد سعید نامی عرب احمدی ہوئے (سیرت المہدی روایت نمبر 508)
مصالح العرب.....جلد اول تھے.ایک شاعر تھے جو شادی کر کے ہندوستان میں ہی رہ گئے.جبکہ دوسرے وہ ہیں جنہوں نے حضور کی تائید میں ایقاظ الناس رسالہ لکھا اور بعد ازاں اپنے وطن ملک شام سلسلہ کی تبلیغ کے واسطے چلے گئے.لیکن سیرت المہدی کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ایقاظ الناس رسالہ لکھنے والے محمد سعید صاحب کی شادی ہندوستان میں ہوئی.37 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب نور الحق میں جس محمد سعید الشامی کا ذکر کیا ہے وہ رسالہ ایقاظ الناس کے مصنف ہیں ، اور آپ نے انکے شاعر ہونے کا ذکر نہیں فرمایا، اسی طرح مکرم مولوی حافظ محمد یعقوب صاحب آف دیره دون نے جب آپ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ارسال کیا تو لکھا کہ شامی ہیں،سیدی ہیں، بڑے ادیب ہیں.ہزاروں اشعار عرب عار بہ کے حفظ ہیں.لیکن یہ نہیں لکھا کہ آپ خود بھی بڑے شاعر ہیں.ان تمام روایات اور حقائق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد سعید الشامی الطرابلسی جو کچھ عرصہ رہ کر تبلیغ کی غرض سے واپس اپنے ملک چلے گئے وہ بڑے ادیب فاضل اور عالم بزرگ تھے جنہوں نے حضور کی تائید میں ایقاظ الناس رسالہ لکھا.جبکہ دوسرے محمد سعید صاحب شاعر تھے جنکی شادی مالیر کوٹلہ میں ہوئی.شاید نام کی مماثلت اور ایک ہی ملک سے تعلق رکھنے کی وجہ سے سلسلہ کے لٹریچر میں اکثر اوقات ایک ہی محمد سعید الشامی کو جملہ صفات کا حامل قرار دیا گیا ہے.علاوہ ازیں یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ ایقاظ الناس رسالہ کے مصنف محمد سعید الشامی صاحب شاعر بھی ہوں اور ان کے اوصاف و واقعات اس لئے محفوظ رہ گئے کیونکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا ثمرہ بنے اور بعد میں اپنے ممالک میں حضور کی کتب شائع کرنے کی کوششیں کرتے رہے.واللہ اعلم بالصواب.
مصالح العرب.....جلد اول 38 38 حضرت عبد الله العرب صاحب آپ کا زمانہ بیعت بھی 1891ء سے 1893ء کے درمیانی عرصہ کا ہے کیونکہ آپ کا ذکر حضرت اقدس نے حَمَامَةُ الْبُشْری میں فرمایا ہے جو کہ 1893ء کی تصنیف ہے.آپ بہت بڑے تاجر تھے اور بلا دسندھ کے ایک بہت مشہور پیر جن کا نام پیر صاحب علم تھا ، کے مرید خاص تھے.ان پیر صاحب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی (یہ) پاکستان کے مشہور سیاسی لیڈر پیر صاحب پگاڑا کے آباء میں سے تھے ).ان پیر صاحب کو خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تو انہوں نے آپ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں دریافت کیا کہ کیا یہ شخص سچا ہے یا جھوٹا؟ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خواب میں جواب دیا کہ یہ سچا ہے اور خدا کی طرف سے ہے.اس پر ان پیر صاحب نے اپنے دو خاص مرید عبد اللطیف اور عبد الله العرب صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا جو آپ سے فیروز پور میں ملے اور عرض کی کہ اس طرح ہمارے پیر صاحب علم نے خواب میں دیکھا ہے اور انہیں آپ کی صداقت میں ادنیٰ شک بھی نہیں رہا لہذا انہوں نے ہمیں آپ کی خدمت میں بھیجا تا یہ عرض کریں کہ ہم آپ کے حکم اور اشارہ کے غلام ہیں جیسے آپ ارشاد فرمائیں گے ہم ویسا کرنے کے لئے تیار ہیں.اگر آپ ہمیں یہ فرمائیں کہ جاؤ امریکا کی سرزمین کی طرف سفر کرو تو ہمیں اس میں ذرا بھی تأمل نہیں ہوگا بلکہ آپ اس معاملہ میں ہمیں کامل اطاعت کرنے والا پائیں گے.(ماخوذ از حمامة البشری، روحانی خزائن جلد 7 صفحه 309-310 حضرت عبد الله العرب صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں آ کر ر ہے.ان کا سابقہ مسلک شیعہ تھا اور جب احمدیت قبول کی تو کئی دفعہ اپنے سابقہ عقیدہ پر بہت پشیمان ہوتے تھے.ایک دفعہ انہوں نے اپنے شیعہ عقیدہ ” تقیہ کے حالات حضرت مسیح موعود علیہ
مصالح العرب.....جلد اول السلام کی خدمت میں عرض کئے پھر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا جس نے ان کو نجات دی.حضرت اقدس نے فرمایا کہ: ” خدا تعالیٰ کا بڑا فضل ہے جب تک آنکھ نہ کھلے انسان کیا کر سکتا ہے“.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 173) حضرت اقدس کے ایماء پر عبد الله العرب صاحب نے کشتی نوح کے چند اوراق ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 166) 39 39 کا ترجمہ عربی زبان میں کیا اور پھر حضرت اقدس کو سنایا تو حضرت اقدس نے فرمایا: اگر یہ مشق کر لیں کہ اُردو سے عربی اور عربی سے اردو ترجمہ کر لیا کریں تو ہم ایک عربی پرچہ یہاں سے جاری کر دیں.سید عبد الله العرب صاحب نے ایک رسالہ ایک شیعہ علی حائری کے رد میں عربی زبان میں لکھا تھا جس کا نام سبیل الرشاد رکھا تھا، جب یہ رسالہ انہوں نے حضرت اقدس کو سنایا تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ ساتھ ساتھ اُردو ترجمہ بھی کرتے جاؤ تا کہ تم کو مشق ہو مگر عرب صاحب کو جرات نہ ہوئی کہ اتنی مجلس میں ترجمہ ٹوٹی پھوٹی اُردو میں سناویں.یہ رسالہ سن کر حضرت اقدس نے تعریف کی کہ: عمدہ لکھا ہے اور معقول جواب دیئے ہیں.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 168-169) 10 ستمبر 1901ء کو سید عبد اللہ عرب صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کہ میں اپنے ملک عرب میں جاتا ہوں وہاں میں ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں؟ فرمایا: مصدقین کے سوا کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھو.عرب صاحب نے عرض کیا وہ لوگ حضور کے حالات سے واقف نہیں ہیں اور ان کو تبلیغ نہیں ہوئی.فرمایا: ان کو پہلے تبلیغ کر دینا پھر یا وہ مصدق ہو جائیں گے یا مکذب.عرب صاحب نے عرض کیا کہ ہمارے ملک کے لوگ بہت سخت ہیں اور ہماری قوم شیعہ ہے.فرمایا: تم خدا کے بنو.اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کا معاملہ صاف ہو جائے اللہ تعالیٰ آپ اس کا متولی اور متکفل ہو جاتا ہے.از ملفوظات جلد 2 صفحہ 343)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے صحابہ کے درمیان تشریف فرما ہیں.آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے ترکی ٹوپی والے صحابی حضرت عبد اللہ العرب صاحب ہیں.MASHAN-E-TASONEER © 2007
MAKHZAN-E- TASAWFER 2007 حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے صحابہ کے درمیان تشریف فرما ہیں، حضرت عبد الله العرب آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے صحابہ کرام میں دائیں سے دوسرے نمبر پر ہیں.
مصالح العرب.....جلد اول 40 رض التبلیغ “ پر ایک برعکس رد عمل جب بھی انبیاء علیہم السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے تعلیم لے کر آتے ہیں تو ایک گروہ اسے خدا کی طرف سے ہدایت ورہنمائی سمجھ کر قبول کرتا ہے جبکہ دوسرا گروہ اسی سرزمین میں ہی اس تعلیم کو محض جھوٹ کا پلندہ تصور کرتا ہے اور انکار کر دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب "التبليغ “ کا بھی جہاں حضرت محمد سعید الشامی صاحب پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ اس کی فصاحت و بلاغت اور روحانی معارف کے دیوانے ہوگئے ، وہاں یہ کتاب بغداد سے حیدر آباد دکن میں آئے ہوئے ایک شخص السید عبد الرزاق قادری البغدادی نے بھی پڑھی اور اس کے بعد ایک اشتہار اور ایک خط عربی زبان میں لکھ کر حضور کو بھیجا جس میں آپ کے دعوی کو خلاف شریعت اور آپ کو جھوٹا مدعی اور واجب القتل قرار دیا جبکہ آپ کی کتاب التبلیغ کو معارض قرآن قرار دیا.خلاصہ اشتہار السید البغدادی بغدادی صاحب نے اپنے اشتہار میں نہایت جارحانہ اور غلیظ زبان استعمال کی ہے جس میں انہوں نے لکھا کہ ( حضرت ) مرزا غلام احمد قادیانی پنجابی نے دعوی کیا ہے کہ وہ مسیح موعود ہے ، خدا اس سے کلام کرتا ہے اور اس کی بیعت حق ہے اور یہ کہ عیسی وفات پاگئے ہیں.اس مضمون پر مشتمل اس کی کتاب آئینہ کمالات اسلام قرآن کی معارض اور شریعت محمدی کی توہین کے مترادف ہے.لہذا ایسے دجال اور مصل اور بطال وغیرہ کا علاج اس دنیا میں تلوار اور آخرت میں نار ہے.اس نے شریعت محمدیہ کی ہتک اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور عیسی علیہ السلام کی اہانت کی ہے.لہذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تین ماہ کے اندر اندر
مصالح العرب.....جلد اول آئینہ کمالات اسلام کے ہر ہر حرف اور ہر ہر سطر کا کافی وشافی جواب لکھوں گا اور اپنی کتاب کا نام "كشف الضال والظلام عن مرآة كمالات الإسلام “ رکھوں گا.اور اس کی کتاب کو عراق اور بغداد میں بھیج کر وہاں کے علماء کا فیصلہ لوں گا تا کہ اس فساد کی جڑ کا مکمل خاتمہ کیا جائے.خلاصہ خط السید البغدادی 41 28 ذی الحجہ 1310 ہجری کو بغدادی صاحب نے اپنے اس اشتہار کے ساتھ جو خط حضور علیہ السلام کی خدمت میں ارسال کیا اس کی زبان اشتہار کی نسبت بہت نرم تھی بلکہ اس میں حضور کو الأَجَلّ والمُطاع المبعَّل العالم الفاضل والمجتهد الكامل، وغیرہ کے القار سے مخاطب کیا.اس میں انہوں نے مزید لکھا کہ میں نے آپ کی کتاب پڑھی ہے اور اس کا جواب آپ سنیں گے نہیں بلکہ پڑھ لیں گے جو کہ میں تیار کروں گا.اس کے بعد انہوں نے لکھا کہ مجھے اپنی کتاب کا نسخہ ارسال کریں کیونکہ میں نے آپ کی کتاب کسی سے لے کر پڑھی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب حضور علیہ السلام نے ان کے خط کو نیک نیتی پر محمول کر کے نہایت محبت آمیز طریقہ سے اس کے جواب میں عربی زبان میں اپنی کتاب تحفہ بغداد تصنیف فرمائی ، جس میں آپ نے شیخ بغدادی کے تمام شبہات کا مفصل جواب دیا نیز اپنے دعوئی ماموریت اور وفات مسیح ناصری کا ثبوت اور امت محمدیہ میں مکالمات و مخاطبات الہیہ کا سلسلہ جاری رہنے کا ذکر فرما کر شیخ بغدادی صاحب کو کہا کہ اس سے مقصد یہ ہے کہ آپ اپنے خیالات کی اصلاح کریں اور اگر کسی بات کی حقیقت آپ پر ظاہر نہ ہو تو اس کے متعلق مجھ سے دریافت کریں.نیز لکھا کہ مولویوں کے فتاویٰ تکفیر سے دھو کہ نہ کھائیں بلکہ میرے پاس آئیں اور بچشم خود حالات دیکھیں تا حقیقت کو پاسکیں.اور اگر آپ لمبے سفر کی تکلیف برداشت نہ کر سکیں تو اللہ تعالیٰ سے میرے بارہ میں ایک ہفتہ تک استخارہ کریں.استخارہ کا طریق بتا کر فرمایا کہ استخاره ای شروع کرنے کے وقت سے مجھے بھی اطلاع دیں تا میں بھی اس وقت دعا کروں.اس می کتاب میں حضور نے دو قصیدے بھی تحریر فرمائے ہیں.جن میں سے دوسرے قصیدہ کا مطلع کچھ یوں ہے:
مصالح العرب.....جلد اول هَدَاكَ الله هَلْ قَتْلِي يُبَاحُ وَهَلْ مِثْلِى يُدَمرُ أَوْ يُجَاحُ 42 یعنی : (اے شیخ بغدادی) اللہ تمہیں ہدایت دے، کیا میرا قتل تیرے نزدیک امر مباح ہے؟ کیا میرے جیسا انسان بھی تمہاری نظر میں تباہی اور بیخ کنی کا مستحق ہے؟ شیخ بغدادی نے اپنے اشتہار میں کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نعوذ باللہ جھوٹے ہیں اور آپ کا علاج صرف تلوار ہے.اس کا جواب دیتے ہوئے حضور اپنے قصیدہ میں فرماتے ہیں: اے میری مخالفت میں مجھے تلوار سے قتل کرنے کی دھمکیاں دینے والے، تجھے کیا معلوم کہ مجھ پر تو اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی تلوار کب کی چل چکی ہے.نتیجه حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس رد جمیل کے بعد شیخ بغدادی صاحب کی طرف سے کسی قسم کے جواب کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا، نہ ہی ان کی طرف سے مجوزہ کتاب کے نشر ہونے کا پتہ چلتا ہے.اور یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ایسی کتاب کا جواب لکھنے کی جرات بھی کر سکتا یا اس کو اس اقدام کی توفیق مل سکتی جو کتاب خاص طور پر خدائی تائید اور اشارات سے لکھی گئی ہو.حسنِ اتفاق یا تقدیر الہی شیخ بغدادی صاحب کے خط کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کتاب کتاب لکھنا عظیم حکمتوں سے خالی نہ تھا.خدا تعالیٰ اس کے ذریعہ آئندہ زمانوں میں بہت بڑے بڑے نشان دکھانا چاہتا تھا.عجیب تصرف الہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب روحانی خزائن میں تو طبع ہوگئیں لیکن عربی کا تب میسر نہ ہونے کی وجہ سے ان کی کتابت ایسے کا تب حضرات نے کی جن کو عربی زبان کا علم بہت کم تھا یا بالکل نہیں تھا اس کی وجہ سے جہاں کتابت عربوں کے طریق پر نہ تھی وہاں کہیں کہیں بعض کتابت وغیرہ کی معمولی غلطیاں بھی رہ گئی تھیں.اس پر مستزاد یہ کہ یه کتب دیگر اردو کتب کے ساتھ مختلف جلدوں میں موجود تھیں جن کا علیحدہ طور پر حصول عربوں
43 مصالح العرب.....جلد اول کے لئے بہت مشکل امر تھا.چنانچہ ان عربی کتب کو علیحدہ طور پر ایڈیشن اول کے ساتھ ملا کر نئے اور خوبصورت طبع میں پرنٹ کرنے کا کام جماعت کے مرکزی عربک ڈیسک میں شروع ہوا ، اور کتاب تحفہ بغداد 2007 ء میں ہوئی اور یہ وہ وقت تھا جب عراق اور بغداد کی حالت ایسے زخم زخم جسم کی طرح تھی جو مرہم کی بھیک مانگنے کے لئے خون رو رہا ہو.جب MTA اور ہماری عربی ویب سائٹ کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اور آپ کے کلام سے اقتباسات ان لوگوں تک پہنچے تو ان کی کایا پلٹ گئی اور عرب اقوام سے بکثرت احمدیت میں داخل ہونے کا سلسلہ جاری وساری ہے.تحفہ بغداد کا اثر شیخ بغدادی پر تو معلوم نہیں ہوا یا نہیں لیکن خدا کی تقدیر دیکھیں کہ اس کتاب میں بتائے گئے استخارہ کے طریق کو اہل عراق اور دیگر عرب دنیا کے کئی نیک سیرت احباب نے آزمایا اور خدا تعالیٰ نے ان کی راہنمائی فرمائی اور وہ احمدیت کی آغوش میں آگئے اور یہ سلسلہ بڑھتا چلا جارہا ہے.احباب کے افادہ کے لئے ان میں سے ایک مثال ذیل میں پیش کی جاتی ہے: مکرم صفاء غانم السامرائی.از بعقو به کردستان عراق کہتے ہیں: جماعت کے ساتھ تعارف ہونے کے بعد میرے لئے نشان ظاہر ہوا.اس کی تفصیل یہ ہے: پچھلے سال مئی (2007ء) میں جبکہ رات کے وقت میں مختلف نئے چینلز کی تلاش کر رہا تھا کہ میں نے کسی کو یہ عدد کہتے ہوئے سنا: 10888.میں بہت گھبرا گیا.لیکن میں نے یہ فریکونسی ریسیور میں feed کی اور search کی تو اچانک میرے سامنے 14 نئے چینلز کی لسٹ آ گئی جن میں سے ایک MTA تھا.اور اس چینل پر سب سے پہلے جس شخصیت کو دیکھا وہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تھے جو لقاء مع العرب پروگرام میں موجود تھے.اس دن سے میں MTA کے مختلف پروگرامز دیکھ رہا ہوں.میں تو ایک لمبے عرصہ سے امام مہدی کو تلاش کر رہا تھا اور اپنے شیعہ دوستوں کے ساتھ اس سلسلہ میں بحث بھی کرتا تھا.الحمد للہکہ اللہ تعالیٰ نے امام مہدی کو ٹی وی کے ذریعہ) میرے گھر میں بھیج دیا.ایک دن MTA پر ایک پروگرام کلام الامام میں میں نے سید نا احمد علیہ السلام کا یہ کلام سنا جس میں آپ نے فرمایا کہ میرے بارہ میں خدا سے دعا کرو اور استخارہ کرو، اور دورکعت نماز
مصالح العرب.....جلد اول 44 ادا کرو اور خدا سے کہو کہ اے اللہ اگر مرزا غلام احمد امام مہدی ہے اور سچا ہے تو مجھے اس کی کی صداقت کا کوئی نشان دکھا تو اللہ تعالیٰ ضرور کوئی نشان دکھا دے گا.چنانچہ میں نے خلوص نیت سے یہ دعا کی.اس کے بعد مجھے مکمل انشراح صدر ہو گیا اور ایک ہفتہ بعد ہی میرے لئے وہ نشان بھی ظاہر ہو گیا جو کہ در حقیقت بہت عظیم نشان تھا.اس کی تفصیل یہ ہے کہ میری دوسری شادی 2001ء میں ہوئی لیکن ابھی تک ہم اولاد کی نعمت سے محروم تھے.اس کی وجہ میری بیوی کو لاحق کچھ ایسی مشکلات تھیں جن کی وجہ سے حمل نہیں ٹھہرتا تھا.چنانچہ اس دعا کے ایک ہفتہ بعد مجھے میری بیوی نے بتایا کہ اس کو اس دفعہ ماہواری نہیں ہوئی.دو دن بعد جب ہم نے ڈاکٹر سے چیک کروایا تو پتہ چلا کہ وہ حاملہ ہے.یہ نشان میرے لئے بہت عظیم الشان تھا.چنانچہ میں نے فوراً امام مہدی علیہ السلام کی بیعت کر لی ہے.میری درخواست ہے کہ آپ میری طرف سے حضرت مرزا مسرور احمد کی خدمت میں سلام عرض کریں اور میری بیعت ان کے حضور پیش کر دیں.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے لئے اس دنیا میں اس سے بڑا کوئی فخر نہیں ہوگا اگر مجھے حضور کا غلام اور خادم بن کر آپ کی جوتیاں صاف کرنے کی سعادت مل جائے.میری بیوی حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ سے بہت محبت کرتی ہے کیونکہ ان کی شکل اس کے والد سے ملتی ہے اس لئے جب بھی وہ انہیں ٹی وی پر دیکھتی ہے رو پڑتی ہے.ہم نے دوسرے تمام چینلز کو خیر باد کہہ دیا ہے اور اب صرف MTA ہی دیکھتے ہیں.(خط جنوری 2008ء)
45 مصالح العرب.....جلد اول علاوہ ازیں سلسلہ کی تاریخ میں دو ایسے اصحاب کا ذکر بھی ملتا ہے جن کا تعلق بغداد سے تھا اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شمولیت کی سعادت حاصل کی.ان دو اصحاب کے جس قدر حالات ملتے ہیں وہ ذیل میں درج کئے جاتے ہیں: حضرت حاجی مہدی صاحب عربی بغدادی نزیل مدراس تعارف و بیعت آپ کا تعارف عربی بغدادی کے طور پر ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے 131 جولائی 1897 ء کے مکتوب بنام سیٹھ عبد الرحمن مدراس میں ذکر ہے کہ آپ نے ایک فضیلت والی مسجد کیلئے چندہ کی تحریک کی تھی جس کا تذکرہ براہین احمدیہ میں ہے.اس پر حاجی مہدی نے بھی چندہ دیا.اس کا ذکر حضرت اقدس نے اپنے 9 /اکتوبر 1897 ء کے مکتوب میں فرمایا ہے.مزید برآں آپ نے 22 /نومبر 1898ء کے خط میں حضرت حاجی مہدی کے پچاس روپیہ بھجوانے کی رسید لکھی ہے.آپ مدراس میں وارد ہوئے ، اور مدراس کے دیگر مبایعین کے ساتھ ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.حضرت اقدس کی کتب میں ذکر حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کا ذکر سراج منیر میں چندہ دہندگان کے ضمن میں کیا ہے.(ماخذ ضمیمہ انجام آتھم ، سراج منیر، ذکر حبیب، مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ اول صفحہ 10 ، 22 ، بحوالہ تین سو تیرہ اصحاب صدق وصفا از نصر اللہ خان ناصر و عاصم جمالی صفحه (170) 0000
مصالح العرب.....جلد اول 46 حضرت عبد الوہاب صاحب بغدادی حضرت عبد الوہاب صاحب بغدادی سیاحت یا کاروبار کے لئے ملک ہند میں وارد ہوئے اور قبول حق کی توفیق پائی.حضرت اقدس علیہ السلام نے کتاب البریہ میں آپ کا نام قاضی عبد الوہاب نائب قاضی ضلع بلاسپور ممالک متوسط 268 نمبر پر درج فرمایا ہے.ممالک متوسط Middle East کو کہتے ہیں اور شاید بغداد کا علاقہ اس میں شامل تھا.واللہ اعلم بالصواب).( بحوالہ تین سو تیرہ اصحاب صدق وصفا از نصر اللہ خان ناصر و عاصم جمالی صفحه 306
مصالح العرب.....جلد اول 47 حضرت سید علی ولد شریف مصطفی عر حضرت سید علی ولد شریف مصطفیٰ عرب صاحب کی بیعت بھی غالباً 1891 ء تا 1893ء کے درمیانی عرصہ کی ہے جس عرصہ میں حضرت شیخ محمد بن احمد مکی صاحب نے بیعت کی.ان کا ایک خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ”سچائی کا اظہار میں درج فرمایا ہے جو کہ 1893ء کی تالیف ہے.حضور فرماتے ہیں: خلاصہ خط ایک عالم عربی سید علی ولد شریف مصطفے عرب : سید صاحب عرب نے اپنے ایک لمبے خط میں بہت سے اشعار قصیدہ نعتیہ کے طور پر اور ایک لمبی عبارت نثر میں بطور مدح و ثنا لکھی ہے چنانچہ اس کی طوفانی عبارتوں میں سے عبارت بھی ہے:.إلى جناب الأجل الناقد البصير طود العقل الغزير وكوكب الشرق المنير الإلهام ركن الدولة الا بدية سلطان الرعية الإسلامية ميرزا غلام احمد.فضائله تلوح كالكوكب في الآفاق للجاهل والعاقل الندى الذى لا يرى له الساحل ومنبع العلوم والعطايا التي هي صافية المناهل امید ہے کہ کسی دوسرے موقعہ پر اس فاضل عرب کا قصیدہ اور مفصل خط بھی چھاپ دیا جائے گا.بالفعل بطور شہادت اسی قدر کافی ہے.(سچائی کا اظہار روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 76 تا 80) اس خط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مشرق کا درخشندہ ستارہ، صاحب الہام، ابدی سلطنت کے شہنشاہ جیسے عظیم القاب سے یاد کیا گیا ہے.نیز یہ بھی کہا ہے کہ آپ کے علم با صفا کے سمندر کا کوئی کنارہ نہیں ہے.حضرت سید علی شعرب صاحب کے بارہ میں مزید معلومات میسر نہیں آسکیں.
مصالح العرب.....جلد اول 48 حضرت عثمان عرب صاحب حضرت عثمان عرب رضی اللہ عنہ کا تعلق طائف شریف سے تھا.ان کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے.ان کے بارہ میں مزید تفصیلات میسر نہیں آسکیں ، ان کا ذکر حضور نے ضمیمہ انجام آتھم میں 313 صحابہ میں 292 نمبر پر کیا ہے.اور انجام آتھم آپ نے 1896ء میں تالیف فرمائی تھی.انجام آنقم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ (328)
مصالح العرب.....جلد اول 49 حضرت عبدالمجی عرب الحویری تعارف اور بیعت آپ کا تعلق بھی عراق سے تھا اور شیعوں سے احمدی ہوئے تھے.آپ کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت کا شرف حاصل ہے.سیرت المہدی کی روایت نمبر 1200 میں آپ کی بیعت کا واقعہ اس طرح سے درج ہے: ملک مولا بخش صاحب پنشنرز نے بذریعہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک صاحب عبدالحی عرب قادیان میں آئے تھے.انہوں نے سنایا کہ میں نے حضرت اقدس کی بعض عربی تصانیف دیکھ کر یقین کر لیا تھا کہ ایسی عربی بجز خداوندی تائید کے کوئی نہیں لکھ سکتا.چنانچہ میں قادیان آیا.اور حضور سے دریافت کیا کہ کیا یہ عربی حضور کی خود لکھی ہوئی ہے.حضور نے فرمایا.ہاں اللہ تعالیٰ کے فضل و تائید سے.اس پر میں نے کہا کہ اگر آب میرے سامنے ایسی عربی لکھ دیں تو میں آپ کے دعاوی کو تسلیم کرلوں گا.حضور نے فرمایا یہ تو اقتراحی معجزہ کا مطالبہ ہے.ایسا معجزہ دکھانا انبیاء کی سنت کے خلاف ہے.میں تو تب ہی لکھ سکتا ہوں جب میرا خدا مجھ سے لکھوائے.اس پر میں مہمان خانہ میں چلا گیا اور بعد میں ایک چٹھی عربی میں حضور کو لکھی.جس کا حضور نے عربی میں جواب دیا.جو ویسا ہی تھا.چنانچہ میں داخل بیعت ہو گیا.“ شادی اور بعض سعادتوں کا ذکر اسی طرح سیرت المہدی ہی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی آپ کی شادی ریاست پٹیالہ کے ایک گھرانے میں ہوئی تھی لیکن یہ
مصالح العرب.....جلد اول 50 شادی چل نہ سکی اور علیحدگی ہوگئی.ایسا لگتا ہے کہ عبدالحیمی عرب صاحب بھی بیعت کے بعد قادیان کے ہی ہو کر رہ گئے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے عہد مبارک میں آپ کا ذکر متعدد امور کے ضمن میں بار بار آتا ہے.عبدالحی عرب نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ کے ساتھ 1912 میں عہد خلافت اولیٰ میں سفر بلا دعر بیہ اور حج بھی کیا.آپ کو جماعت احمدیہ کے پہلے عربی رسالہ ”مصالح العرب‘ کے مدیر ہونے کا شرف بھی حاصل ہے.سیرت المہدی میں ایک اور روایت میں آپ کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جودوسخا کا ذکر اس طرح ہوا ہے: ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ عبدالحیمی صاحب عرب نے مجھ سے ایک روز حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ہی ذکر کیا کہ حضرت صاحب کی سخاوت کا کیا کہنا ہے.مجھے کبھی آپ کے زمانہ میں کوئی تکلیف نہیں ہوئی.جو ضرورت ہوتی.بلا تکلف مانگ لیتا اور حضور میری ضرورت سے زیادہ دے دیتے اور خود بخود بھی دیتے رہتے.جب حضور کا وصال ہو گیا تو حضرت خلیفہ اول حالانکہ وہ اتنے سخی مشہور ہیں میری حاجت براری نہ کر سکے.آخر تنگ ہو کر میں نے ان کو لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ تو بن گئے مگر میری حاجات پوری کرنے میں تو ان کی خلافت نہ فرمائی.حضرت صاحب تو میرے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا کرتے تھے.اس پر حضرت خلیفہ اول نے میری امداد کی.مگر خدا کی قسم ! کہاں حضرت صاحب اور کہاں یہ.اُن کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.“ ( ماخذ تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 410.سیرت المہدی روایت نمبر 562 و 1200 و 1273 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں ذکر آپ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب نزول المسیح میں پیشگوئی نمبر 90 کے گواہان میں کیا ہے جہاں آپ کا نام یوں تحریر ہے : سید عبدالھی عرب حویری“.نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد 18 ص 594) اسی طرح آپ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی میں سخت زلزلہ
51 مصالح العرب.....جلد اول والی پیشگوئی مورخہ 28 فروری 1907ء کے قبل از وقت سُننے کے گواہوں میں فرمایا کی ہے.چنانچہ تمہ حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ کے صفحہ ۴۹۱ پر آپ کا نام یوں تحریر ہے: دعبدالحی عرب مصنف لغات القرآن.“ 66 نورعلیہ السلام کی اس تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبدالھی عرب صاحب نے لغات قرآن کی تالیف بھی فرمائی.استاذی المکرم والمحترم سید میر محمود احمد صاحب ناصر سابق پرنسپل جامعہ احمد یہ ربوہ نے ایک دفعہ بتایا کہ انہوں نے اس لغات قرآن کا وہ نسخہ بھی دیکھا ہے جو حضرت عبدالحی عرب صاحب نے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کیا تھا اور اس پر اپنے دستخط بھی کئے تھے.سلسلہ کی تاریخ میں عبدالمی عرب کو عبد الحی عرب بھی لکھا گیا ہے ، جیسا کہ حیات نور میں ہے، لیکن دراصل یہ حضرت عبد الحمی عرب صاحب ہی کی شخصیت ہے جنہیں حضرت مصلح موعود کے ساتھ سفر حج پر جانے کی سعادت ملی.0000
MAKHZAN -E- TASAWEER © 2009 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اپریل 1912 میں ایک وفد کے ہمراہ ہندوستان کے دینی مدارس کا دورہ کیا.اس دورہ کے دوران لکھنو میں لی گئی ایک تصویر کرسیوں پر دائیں سے بائیں: حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب عرفانی صاحب کے ساتھ کھڑے ہوئے: حضرت حافظ روشن علی صاحب ، حضرت قاضی سید امیر حسین صاحب، اور عقب میں دائیں سے دوسرے نمبر پر حضرت سید عبدالحی العرب صاحب گھڑے ہیں.(باقی لکھنو جماعت کے بعض مخلص احباب جماعت )
حضرت سیٹھ ابوبکر یوسف صاحب رضی اللہ عنہ
مصالح العرب.....جلد اول 52 52 حضرت سیٹھ ابو بکر یوسف تعارف اور ابتدائی خاندانی حالات حضرت ابو بکر یوسف صاحب رضی اللہ عنہ المعروف بہ سیٹھ ابوبکر یوسف آف جده ابن مکرم محمد جمال یوسف صاحب مرحوم و مغفور متوطن و متولد پیٹن ضلع گجرات احمد آباد ریاست بڑودہ ہندوستان.آپ کی تاریخ پیدائش غالباً 1865 بنتی ہے.آپ صدیقی النسب تھے اور قبولیت احمدیت سے پہلے رفاعی الطریقت اور حنفی ب تھے.اولاً رفاعی خاندان کے خلیفہ محمد زاہد سے اور پھر اسی خاندان کے خلیفہ سید نور الدین رفاعی سے بیعت ہوئے.گو ہندوستان کے بعض صدیقی النسب اپنے آپ کو خاندان سادات میں شمار کرتے ہیں مگر آپ نے اپنے آپ کو سادات ( جنہیں عربوں میں شریف) کہتے ہیں ) کی طرف منسوب نہیں کیا.گذشتہ تین سو سال سے آپ کے آباؤ اجداد کے مستقل گھر دو ملکوں میں تھے.ایک گھر گجرات کا ٹھیاواڑ میں تھا اور ایک عرب میں.عرب میں آپ کے دو گھر تھے ایک مکہ معظمہ میں اور دوسرا جدہ میں جو آپ کی تجارت کا مرکز ہونے کی وجہ سے زیادہ معروف و مشہور تھا.دو ممالک میں گھر ہونے کی وجہ سے عرب سے ہندوستان آپ کا آنا جانا لگا رہتا تھا.اعلیٰ ساکھ کے تاجر اور عالم دین - عرب اور ہندوستان میں آپ ایک بڑی اعلیٰ ساکھ کے مالک تاجر تھے.کپڑے کی تجارت کا ذکر آپ کی تحریرات سے ملتا ہے.تاریخ احمد بیت حیدر آباد دکن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بمبئی سے سفید جوار لے کر مدینہ کے عربوں میں فروخت کرتے تھے.اسی طرح
مصالح العرب.....جلد اول 53 چاول اور کالی مرچ کا بہت بڑا کاروبار تھا مگر زیادہ نام آپ نے ہیرے جواہرات کی تجارت میں کمایا.تجارت کے ساتھ ساتھ علوم دینیہ کی تحصیل کی لگن بھی تھی ، اور عبادات ، مناجات ، اور مجاہدات کی طرف بھی رجحان تھا.علماء وقت کی صحبت اور مجالس میں بیٹھک رہتی تھی اور آپ کو اپنے وسیع حلقہ احباب میں علوم دینیہ میں سند تسلیم کیا جاتا تھا.فقہ حنفیہ میں گہرا تفقہ تھا اور عنفوانِ شباب میں جب بیت اللہ اور رضہء رسول ﷺ کے قرب میں قیام کی سعادت نصیب میں آئی تو تصوف میں شغف بڑھا.مرد کامل کی تلاش صل الله ایک تاجر ہونے کی حیثیت سے عامتہ المسلمین کی اخلاقی علمی ، اور روحانی درماندگی سے پالا پڑا اور خصوصا مسلمان تجار کی دنیا طلبی اور دینی غفلت، حلال و حرام کی تمیز سے لا پرواہی غیر اسلامی مشرکانہ رسومات اور بدعتوں میں دلچسپی دیکھ کر دنیا سے دل اچاٹ ہو گیا اور پھر ایک ایسے مرد کامل فانی فی اللہ کی تلاش میں سرگرداں رہنے لگے جو امت مسلمہ کی دگرگوں حالت کو بہتری کی طرف لا سکے.یہ بھی خیال آتا کہ امام مہدی اور مسیح علیہما السلام کے نزول کا وقت بھی قریب ہے.عالم اسلام کی زبوں حالی کے تصور سے آپ کی حالت بسا اوقات خیال گزرتا کہ آپ کا آخری وقت آن پہنچا ہے.پھر دعاؤں اور مناجات کی طرف توجہ ہوتی.ایک رات کچھ ایسے ہی لمحات میں گزر ہوئی اور جبکہ طلوع فجر کا عمل تھا کہ ایک نظارہ دیکھا جس میں آپ کو روضہ اقدس حضرت رسول کریم ﷺ پر پانچ منور چراغ دکھائے گئے.پھر وہی پانچ منور چراغ بارہ چراغوں کی صورت میں نور افشاں کرتے ہوئے دکھائی دیئے.پھر ایک اور چراغ ان سب کے سوا دکھائی دیا جو شعلہ پکڑنے سے پہلے پھڑ پھڑا رہا تھا اور پھر وہ چراغ ایک شان سے بقعہ نور ہو گیا.یہ نظارہ دیکھنے کے بعد یہی خیال آتا رہا کہ بارہ اماموں کا نورانی زمانہ تو گزر چکا ہے اس لئے آخری امام الزمان کے نور کے ظہور کا وقت قریب ہے.یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا ظہور ہو چکا ہو.اسکی تلاش کرنی چاہئے.ایسے میں بالآ خر خدا کے فضل نے آپ کی دستگیری فرمائی اور بحمد اللہ بالیقین آپ پر یہ منکشف ہو گیا کہ اس وقت کے ہادی اور امام جس کے ہم صلى الله
مصالح العرب.....جلد اول منتظر تھے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام ہی ہیں.صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان اور بیعت 54 یوں بفضلہ تعالیٰ آپ خدا تعالیٰ کی براہِ راست را ہنمائی کے نتیجہ میں 1905 میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی صداقت پر صدق دل سے ایمان لے آئے تھے ، مگر بیعت اس وجہ سے نہ کر سکے کہ آپ کو علم نہ تھا کہ خط کے ذریعہ بھی بیعت کی جاسکتی ہے.چنانچہ اسی انتظار میں رہے کہ کب قادیان حاضرِ خدمت ہو کر دستی بیعت کا شرف حاصل کریں.مگر 1907 میں جیسے ہی حضرت سیٹھ ابراہیم سے معلوم ہوا کہ عریضہ کے ذریعہ بھی بیعت پیش کی جاسکتی ہے تو آپ نے بلا توقف مکرمی زین الدین محمد ابراہیم کے گھر سے ہی بیعت کا خط تحریر کر دیا اور بیعت کی تحریری منظوری کی اطلاع حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کے دستخطوں سے جولائی 1907 کے ایک مکتوب گرامی سے ملی.دستی بیعت کے لئے قادیان میں ورود تحریری بیعت کے چند ماہ بعد 15 ستمبر 1907 بروز اتوار ظہر کی نماز سے قبل آپ قادیان دارالامان حاضر ہوئے اور ظہر کی نماز مسجد مبارک میں حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کی امامت میں ادا کی.نماز کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام مسجد مبارک میں ہی قعدہ کی صورت میں تشریف فرما ہوئے.اور جب آپ کو حضور اقدس کی خدمت میں بالمشافہ حاضری کا شرف حاصل ہوا تو حضور اقدس نے دریافت فرمایا : آپ ہمیں کیسے جانتے ہیں؟ اسی دوران گھر سے پیغام آیا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی علالت شدت پکڑ گئی ہے، چنانچہ حضور اقدس گھر تشریف لے گئے.16 ستمبر 1907 کو پیشگوئی کے عین مطابق حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کی وفات حسرت آیات کا افسوسناک سانحہ وقوع میں آیا.آپ کو نماز جنازہ میں شمولیت کا موقعہ ملا.وفات کے دوسرے یا تیسرے روز سید نا حضرت اقدس سیر کے لئے تشریف لے
مصالح العرب.....جلد اول گئے جس میں آپ کو بھی معیت کی سعادت نصیب ہوئی.18 ستمبر 1907 کی نماز جمعہ بھی مسجد مبارک میں ہوئی.خطبہ جمعہ حضرت مولانا سید محمد احسن صاحب امروہی نے پڑھایا.حضور اقدس امروہی صاحب کے قریب ہی تشریف فرما تھے.18 ستمبر 1907 بروز جمعہ کی شام کو آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں تحریرا مراجعت کے لئے اجازت کی درخواست پیش کی.اسی خط پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے تحریرا اجازت مرحمت فرمائی چنانچہ آپ 19 ستمبر کی صبح کو قادیان سے عازم جد ہ ہوئے.روانگی کے وقت حضور اقدس علیہ السلام نے اپنی عربی تصنیف ”الاستفتاء “ اور عربی تفسیر سورۃ الفاتحہ ( غالباً کرامات الصادقین یا اعجاز (مسیح) کے دس دس نسخے جدہ اور مکہ میں تقسیم کے لئے مرحمت فرمائے.اس پانچ روزہ مقدس صحبت یار کا عرصہ حیات ، ایک عظیم لیلۃ القدر کے گراں قدر لمحات کی طرح سابقہ اور بقیہ پوری 80 یا 90 سالہ طویل زندگی سے اپنی برکات میں کہیں زیادہ بار آور تھا.نظام وصیت میں شمولیت 25 محرم 1326 یعنی 1908 میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی آپ کو نظام وصیت میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی.آپ 1/3 کے موصی تھے اور آپ کا وصیت نمبر 040411/ 290 ہے اور تاریخ احمدیت کے مطابق آپ کو پہلے عرب موصی ہونے کا شرف حاصل ہوا.وصیت کے وقت پیٹن، جدہ اور مکہ میں سکنی جائیداد کے علاوہ جدہ میں تجارتی راس المال کا اندازہ پچاس ہزار ریال تھا.بفضلہ تعالیٰ یہ راس المال 1908 میں اگر ہندوستانی کرنسی میں لاکھوں میں تھا تو تجارتی ساکھ اس سے کہیں بڑھ کر تھی.الحمد للہ علی ذلک.وفات مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت سے تعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر آپ کو سخت صدمہ ہوا اس پر مزید 55
مصالح العرب.....جلد اول 56 صدمہ یہ ہوا کہ آپ کے قبیلہ کے لوگ حضور اقدس علیہ السلام کی زندگی میں قبول احمدیت کی سے محروم رہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد حضرت مفتی محمد صادق رضی اللہ عنہ کے ایک مکتوب گرامی محررہ 13 اگست 1913 سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ ابیح الاول رضی اللہ عنہ کی ذات والا صفات سے بھی آپ کا خادمانہ ومخلصانہ وفا کا گہرا تعلق استوار رہا.حضرت خلیفہ اسبح الأول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آپ کے عریضہ کے جواب میں حضرت مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں: ”آپ کا خط ملا.حضرت خلیفہ اسیح آپ کے واسطے بہت دعا کرتے ہیں اور فرماتے ہیں ہم آپ کے واسطے رمضان میں بہت دعا کریں گے.آپ بڑے مخلص ہیں.“ 66 احمدی حجاج کرام کی خدمت کی سعادت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ، حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب اور حضرت عبد الحمی عرب رضی اللہ عنہم حج کی نیت سے یکم اکتوبر 1912 کو جدہ پہنچے تو چھ روز تک حضرت ابو بکر یوسف رضی اللہ عنہ کے غریب خانہ کو قیام کی سعادت بخشی.آپ نے ایک حج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نیت سے اور ایک حج حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی نیت سے بھی کیا تھا.جدہ میں جب تک آپ کا قیام رہا اکثر احمدی حجاج آپ ہی کے غریب خانہ میں قیام فرماتے رہے.1924 میں مکرمی محمود مجیب اصغر صاحب کی روایت کے مطابق ان کے دادا جان مکرم میاں عبد الرحمن بھیروی صاحب نے بھی وہاں قیام فرمایا.1927 میں حضرت عبد الرحیم صاحب نیر قادیان سے اور حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب لندن سے، نیز ڈاکٹر عبد العزیز سندھی اور انکی اہلیہ حفیظہ صاحبہ عدن سے، ڈاکٹر یوسف زئی صاحب اور ان کی اہلیہ ( جو محترم مرزا مہتاب بیگ صاحب ٹیلر ماسٹر کی عزیزہ زئی اور اہلیہ( جو ٹیلر تھیں) اور انکے بیٹے بیٹی خان صاحب کے علاوہ سات اور احباب کے قافلہ نے حج کی سعادت پائی اور جدہ میں آپ ہی کے ہاں قیام کیا.ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب نے آپ کو اپنی کتاب میں امیر الحجاج کے لقب سے خطا
مصالح العرب.....جلد اول 57 کیا ہے.بہر حال کثرت سے آپ کے غریب خانہ پر احمدی حجاج قیام فرمایا کرتے تھے.این سعادت بزور بازو نیست جہاں آپ کے خاندانِ حضرت مسیح پاک اور آپ کے کبار صحابہ اور مخلص احباب جماعت حجاج کی خدمت گزاری کی سعادت حاصل ہوئی وہاں آپ کی انتہائی خوش نصیبی کی بات یہ ہے کہ یکم فروری 1926 کو آپ کی بیٹی الحاجہ سیدہ عزیزہ بیگم المعروف به ام وسیم صاحبہ کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے عقد زوجیت میں قبول فرمایا اور اس طرح آپ کی بیٹی بطور حرم خامس حضرت مصلح موعود کی طرف منسوب ہو کر خواتین مبارکہ کے مقدس زمرہ میں شامل ہوئیں اور امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخت وجود کی سرسبز شاخ بننے کی سعادت دارین پائی.این سعادت بزور بازو نیست گر نہ بخشد خدائے بخشندہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مقدس جوڑے کی مبارک نسل سے صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم و مغفور در ولیش قادیان و امیر جماعت قادیان و ناظر اعلیٰ صدر انجمن بھارت اور صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب مرحوم و مغفور افسر امانت تحریک جدید پاکستان پیدا ہوئے.حضرت سیٹھ ابوبکر یوسف صاحب کی ایک بیٹی الحاجہ حلیمہ یوسفیہ مکرمی شیخ بشیر احمد صاحب مرحوم و مغفور ایڈووکیٹ ، امیر جماعت احمد یہ لاہور سے بیاہی گئیں.اور آپ کے ایک بیٹے (سید کمال یوسف صاحب کے والد ماجد ) مکرمی محمد سعید یوسف صاحب مرحوم و مغفور کی شادی حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ مفتی سلسلہ عالیہ احمد و پرنسپل جامعہ احمدیہ کی بیٹی الحاجہ سیدہ حلیمہ بیگم صاحبہ سے ہوئی.مکرمی و محترم چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ فلسطین و گیمبیا کی روایت کے مطابق فلسطین جماعت کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کشتی نوح کا عربی ترجمہ جب پہلی بار فلسطین سے شائع ہوا تو اس کی اشاعت کے اخراجات محمد سعید یوسف صاحب مرحوم نے پیش کئے تھے.ابو بکر یوسف صاحب کی بہوا اور محمد سعید یوسف صاحب کی اہلیہ مبلغ سلسلہ مکرم سید
مصالح العرب.....جلد اول کمال یوسف صاحب کی والدہ ماجدہ تھیں.ان کا ایک رضاعی تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس خاندان سے یوں بھی تھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے پہلو ٹھے فرزند صاحبزادہ مرزا نصیر احمد صاحب مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک پر حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ( نانی جان سید کمال یوسف صاحب) نے دودھ پلایا تھا اور اس طرح والدہ صاحبہ سید کمال یوسف صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا نصیر احمد صاحب مرحوم کی رضاعی بہن تھیں.قادیان میں مستقل سکونت اگر چہ جدہ میں اس وقت کے شریف مکہ سے حضرت ابو بکر یوسف صاحب کے گہرے روابط تھے اور شاہی خاندان میں اٹھنا بیٹھنا تھا مگر پھر کسی وقت حالات میں تغیر آیا اور آپ قبول احمدیت کی وجہ سے جدہ سے ملک بدر کر دیئے گئے.اور ایسے ہی احمدیت کی مخالفت میں پیٹن کے ہم قبیلہ احباب نے بھی آپ کا معاشرتی اور اقتصادی مقاطعہ کر دیا تھا.جدہ اور پیٹن چھوڑ کر خلافت ثانیہ کے عہد میں ہجرت کر کے ہمیشہ کے لئے قادیان آگئے.جب آپ قادیان آئے تو بروایت صاحبزادی بی بی امۃ الرشید صاحبہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے از راہ ذرہ نوازی اور شفقت کے اپنے تمام خاندان کو آپ کے استقبال کے لئے قادیان کے ریلوے سٹیشن بھجوایا.آ.صاحبزادی بی بی امتہ الرشید صاحبہ فرماتی ہیں کہ ریلوے سٹیشن پر آپ اور آپ کے اہل وعیال کے رئیسانہ رکھ رکھاؤ اس وقت ایسا منظر پیش کر رہے تھے کہ ہم بچوں کا یہ تاثر تھ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے آپ کی ذات میں پورا ہوتا نظر آ رہا تھا.باوجود اسکے آپ کی تجارت اقتصادی مقاطعہ کی بدولت کساد بازاری کا شکار ہو چکی تھی قیام قادیان میں پاکستان ہجرت کرنے تک آپ بڑی حد تک آسودہ حال رہے.ایک دفعہ از راہ ذرہ نوازی اور شفقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ نے ایک وقت اس قدر نقد چندہ دینے کی توفیق پائی جو ساری جماعت کے مجموعی چندہ سے زیادہ تھا.58
مصالح العرب.....جلد اول 59 قادیان میں آپ کا مختلف جگہوں میں قیام رہا.آپ کی آخری قیام گاہ حلقہ مسجد مبارک فخر الدین ملتانی کی حویلی سے ملحقہ ایک پختہ مکان تھا جس میں چار فیملی یونٹس تھے.آپ بالا خانہ میں رہتے تھے.اور حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جٹ رضی اللہ عنہ امیر جماعت قادیان کی ہمسائیگی میں تھے.آپ نے مسجد مبارک سے ملحقہ کچھ دکانیں بھی خرید لی تھیں جن کا کرایہ آتا تھا.ضرورت کے وقت اپنے ہیروں کے اندوختہ میں سے کوئی ہیرا بیچ کر گزر بسر کر لیتے اور جس دن ہیرا بکتا اہل قادیان کی دعوت کرتے اور جس جس گھر ضیافت بھجواتے تو تو شہ برتن واپس نہیں لیتے تھے.قادیان سے جب ربوہ ہجرت کی تو انجمن کے دو کمروں کے جونیئر کوارٹر میں سولہ افراد خانہ کے ساتھ وفات تک قیام کیا.ایک لمبا عرصہ خوشحال اور آسودگی کی زندگی گزارنے کے بعد سخت عسر اور شدید مالی تنگی کے کڑے اور تلخ دن بھی دیکھے مگر تقویٰ کی زاد راہ سے مالا مال اور ایمان کی متاع سے شاد کام رہے.الحمد للہ ثم الحمد للہ وفات اور آخری آرام گاہ آپ 10 جنوری 1955 کو 90 سال کی عمر پا کر بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ نمبر B10/4 میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ، حضرت خلیفہ ثالث رحمہ اللہ ، حضرت ام المؤمنین نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا اور آپ کی بیٹی حضرت ام وسیم صاحبہ قطعہ خاص الخاص کی چار دیواری کے سایہ اور صحابہ کبار کے مدفنوں کی معیت میں آسودہ خاک ہیں.0000
مصالح العرب.....جلد اول حضرت احمد رشید نواب مکہ مکرمہ سے تعلق رکھنے والے ایک عرب حضرت احمد رشید نواب صاحب ایک عرصہ سے ہندوستان میں مقیم تھے.1324 ہجری یعنی 1906 کے شروع میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت اور بیعت کا شرف حاصل ہوا.جس کے بعد آپ نے 4 ربیع الاول 1324 ہجری کو احمدیت کی طرف اپنے سفر کی داستان تحریر فرمائی جو 17 مئی 1906 کے اخبار بدر کے صفحہ 8 تا 10 پر شائع ہوئی ہے.چونکہ طرز تحریر پر قدیم اردو اور عربی کا ملا جلا رنگ غالب ہے، خاکسار نے سہولت کے لئے ہر حصہ کا علیحدہ ذیلی عنوان لا دیا ہے.ابتدائی حالات اور احمدیت سے تعارف حضرت احمد رشید نواب صاحب بیان کرتے ہیں کہ : اما بعد عرض کرتا ہے امیدوار رحمت تو اب احمد رشید نواب، مجھ کو ایک زمانہ ہوا کہ ہندوستان میں وارد ہوں.ہر قسم کے لوگوں سے ملنے کا اتفاق رہا.ازاں جملہ حضرت اقدس امام الزمان مسیح موعود و مهدی مسعود جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کے متعلق بہت کچھ مختلف باتیں سنتا رہا ، موافق بھی مخالف بھی.مگر بکثرت ان کے مخالف ہی را ئیں سنتا رہا.چونکہ ان کی کوئی تصنیف و تالیف کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا اور زیادہ تر مخالفوں سے ہی ملنا جلنا رہتا تھا.اس لئے میں بھی انکار و مخالفت پر تلا ہوا تھا مگر زبانی جمع خرچ تھا یعنی کبھی قلم نہیں اٹھایا.اور الحمد للہ زبان سے بھی کبھی کوئی سخت کلمہ شاید نہ نکلا ہوگا.مگر پھر مخالفت مخالفت ہے.“ 60 60
مصالح العرب.....جلد اول رویا اور اس کے پورا ہونے کا انتظار مجھے کو بارہ تیرہ سال کا عرصہ ہوا جبکہ میں نے مکہ معظمہ میں ایک خواب دیکھا تھا جس میں میں نے امام مہدی علیہ السلام کی بیعت کی تھی.اور اس خواب کے ظہور کا ہمیشہ منتظر رہتا تھا.اس کے بعد میں نے متعدد مقامات ومختلف اوقات میں کچھ آوازیں سنیں کچھ خواب دیکھے مگر حضرت اقدس کی خبر بھی جب تک میرے کان میں نہیں پہنچی تھی.رفتہ رفتہ جب ہندوستان میں آنے کا اتفاق ہوا تو میں نے یہ سنا کہ ایک شخص مرزا غلام احمد صاحب قادیان میں ہیں جنہوں نے دعویٰ مسیحیت و مہدویت کیا ہے تو یہ بات کچھ ایسی بھیانک اور غیر مانوس معلوم ہوتی ہے کہ اندازہ سے باہر اور خاص کر مخالفین کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوا.مگر إِذَا أَرَادَ اللهُ أَمْرًا هَيَّاً أَسْبَابَهُ ( یعنی جس چیز کا اللہ ارادہ فرمائے اسکے اسباب بھی بہم پہنچا دیتا ہے.ناقل ) کے موافق حق کی روشنی مجھ پر ظاہر ہوئی.جب میں پنجاب میں پہنچا تو قریب تین ماہ کے امرتسر میں رہنے کا اتفاق ہوا.وہاں بھی حضرت اقدس کے مخالفین ہی سے زیادہ تر ملنے کا اتفاق رہا جن سے بجز مخالفت کے دوسری بات ہی نہ سنتا تھا.الغرض ایسی حالت میں جماعت احمدیہ میں سے دو ایک شخصوں سے حیات و وفات مسیح کے متعلق کچھ نیم گفتگوی ہو کر رہ گئی.بحث نا تمام رہی ، دوسرے روز پر ملتوی ہوئی ، دوسرے روز بھی کسی وجہ سے ملتوی ہوگئی.“ سفر قادیان اور حیرت انگیز تبدیلی 61 شب کو میں نے حضرت اقدس کو خواب میں دیکھا اور جن لوگوں میں مباحثہ ٹھہرا تھا بلا تامل یہ کہہ دیا کہ اس کا فیصلہ خاص دن میں جا کر جناب مرزا صاحب سے ہی ہوگا.جیسے میرے دل میں اس جوش کے ساتھ یہ ارادہ ہوا کہ جس قدر جلدی ہو سکے قادیان پہنچوں یہاں تک کہ میں قادیان پہنچا.راہ میں بلکہ پہنچکر بھی بہت سی باتیں میرے دل میں تھیں مگر پہنچتے ہی وہ باتیں خود بخود دل سے نکلنی شروع ہوگئیں.میں اس کو بجز کرامت یا اعجاز کے کیا کہہ سکتا ہوں.قادیان دار الامان میں پہنچ کر دوسرے روز حضرت اقدس ( روحی فراہ) کی قدم بوسی سے مشرف ہوا جو کیفیت مجھ کو حاصل ہوئی اس کو مخالفین کے لئے میں ان کی
مصالح العرب.....جلد اول لفظوں میں ادا کرتا ہوں...کسی کا شعر ہے: لطف مئے تجھ سے کیا کہوں زاہد ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں وو ”بدر‘ کی پیشانی پر جو شعر لکھا ہوا ہے : چہ گوئم با تو گر آئی چها در قادیان بینی دوا بینی ، شفابینی ، غرض دار الامان بینی بالکل سچ ہے.میری زبان پر یہ شعر ہر وقت جاری رہتا ہے.“ بیعت اور رویا 62 دوسری بار جو حضرت اقدس سے نیاز حاصل ہوا تو مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے بیعت کر ہی لی.اس وقت میری زبان پر یہ کلمات جاری ہوئے کہ جو حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (هَذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقَّاً ) اس کے بعد میں موافق عادت کے دو پہر کو سو گیا تو دیکھتا کیا ہوں کہ آپ فرماتے ہیں ہماری رائے تجھ کو ابھی بیعت کرنے کی نہیں تھی ، ہم چاہتے تھے کہ اپنے شکوک پورے طور پر رفع کر لیتا تو بہتر تھا.میں نے عرض کیا کہ میرے دل میں ایسے شکوک ہی نہیں رہے کہ جن کے ازالہ کی ضرورت ہو.دوسرے روز میں نے یہ خواب آپ سے عرض کیا کہ واقعی ہمارے دل میں یہی بات تھی کہ جو تو نے دیکھی اس کے بعد آپ نے مہتم کتب خانہ کو حکم فرمایا کہ جو تصنیف میں مانگوں مجھ کو دی جاوے.چنانچہ آٹھ دس تصنیف میں نے لیں.ازاں جملہ حمامۃ البشریٰ جس کو میرے ساتھ خاص تعلق ہے.اس کی تعریف سے تو میری زبان قاصر ہے...واقعی یہ تقریر اور یہ تحریر خارق عادت سوائے معجزہ کے اور کیا ہوسکتی ہے.مگر افسوس ہے کہ مخالفین کو نظر نہیں آتا.بجز اس کے کیا کہا جا سکتا ہے : ( وَمَن لَّمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُوراً فَمَا لَهُ مِن نُورٍ ).تفہیمات ربانیہ یہاں پہنچ کر جو کیفیتیں مجھ پر وارد ہوئیں ان کا بیان نہیں کر سکتا.وفات مسیح جس کا میں سخت مخالف تھا.اس کے متعلق مجھ کو عجیب عجیب مضامین سوجھنے لگے اور مجھ کو خود یہ امر
مصالح العرب.....جلد اول محسوس ہوتا ہے کہ ایک چشمہ فیض ہے جو میرے دل پر گر رہا ہے.چنانچہ ” مشتے نمونہ از خروارے پیش کش ناظرین ہے.63 63 میں دو پہر کو ایک روز حسب عادت سو کر جو اٹھا تو یہ مضمون میرے دل میں جوش مار رہا تھا اور یہ ساری عمر میں پہلا اتفاق تھا.“ حضرت مسیح کی آمد ثانی کی غرض یکا یک میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ تشریف لانے کی کیا ضرورت ہے تو میرے خیال میں مندرجہ ذیل ضرورتیں معلوم ہوئیں.ایک تو یہ کہ آپ اپنے پیرؤوں کو کافروں پر غلبہ بخشیں.دوم یہ کہ اپنی شریعت کو دوبارہ قائم کریں.سوم یہ کہ تثلیث کا ابطال کریں.اب اس کی تفصیل سنئے.پہلی شق تو اس وجہ سے باطل ہے کہ تحصیل حاصل ہے.ایک تو اللہ تعالی نے ویسے ہی وعدہ فرمایا ہے.دوسری صورت کا بطلان مین ہے کہ اب کوئی دوسری شریعت قائم کرنے والا نہیں آوے گا.رہا یہ کہ وہ شریعت محمدیہ ہی کو آ کر مستحکم کریں گے.تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب کام کو اللہ تعالیٰ ایک مجدد سے بخوبی نکال سکتا ہے.چنانچہ نکالتا چلا آیا ہے.تیرہ سو برس سے اس کام کے لئے ایک جلیل القدر پیغمبر کو دو ہزار سال تک آسمان پر بیٹھا رکھے اور اب اس کو نازل کرے....کیونکہ نہ تو وہ دشمن جن کے ہاتھوں سے ان کو تکلیفیں پہنچیں موجود ہیں کہ ان سے اگر بدلہ لیں گے نہ کوئی دوسری وجہ ہماری سمجھ میں نہیں آتی ہے.رہی تیسری صورت تو اس میں ان کو کوئی خصوصیت نہیں جس عالم یا مجدد کو خدا کھڑا کر دیوے وہ اسکی بیخ کنی باحسن الوجوہ کرسکتا ہے.چنانچہ مشاہد ہے تو یہ بھی کوئی ایسی ضرورت نہیں ہے جو ان کے دو ہزار سال بعد آسمان سے تشریف آوری مقتضی ہو.اب اگر کوئی یہ کہے کہ ان کا ابطال تثلیث کرنا ایک خاص اثر رکھے گا.اس وجہ سے کہ ان کو ہی خدا کا بیٹا کہا جاتا ہے.تو جب وہ خود ان کے عقیدہ کا بطلان ظاہر کریں گے تو بہت کچھ اثر مترتب ہو گا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے نزدیک اس بات پر دلیل کیا ہوگی.کہ یہ وہ ہی عیسی بن مریم سلام اللہ علیہ ہیں جن کو ہم خدا کا بیٹا سمجھتے تھے.کیوں کہ ان
مصالح العرب.....جلد اول کے نزول آسمانی کو اگر مان لیا جاوے تو اس وقت تمام دنیا تو موجود ہو گی نہیں اگر ہو گی بھی تو بالفرض متعدد اشخاص ہی ہو دیں گے تو ان کی تصدیق کون کرے گا.نہ ماننے والے جب نہ مانیں گے پھر ایک فضول بات ٹھہری.اور ان کا دوبارہ آنا لغو سا ہو گیا.اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کیا یہ امر ممکن نہیں تو اسکا جواب ہم یہ دیں گے کہ امکان مستلزم وقوع کب ہے.جو ہم خواہ خواہ تسلیم کر لیں.اور جب امکان ہی پر آئے تو کیا یہ مکن نہیں ہے کہ ہم میں سے کسی کو خدا یہ شرف بخشے اور مسیح ابن مریم بنائے.جب یہ بھی ممکن ہے اور وہ بھی تو جو عقل سے زیادہ اقرب ہوگا ہم تو اس کو ہی پسند کریں گے.“ ایمان اچھایا تکذیب 64 اب ہم حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں.ہم سب سے اول یہ بات دریافت کرتے ہیں حضرات مکفرین سے کہ حضرت اقدس نے ارکان دین میں سے کسی رکن کا نعوذ باللہ انکار کیا ہے؟ ہرگز نہیں.حاشا عن ذلک.اچھا اصول دین میں سے کسی اصل کے ساتھ مخالفت کی ہے ؟ ہر گز نہیں.بلکہ پانچوں ارکان اسلام کو وہ مانتے ہیں...اگر ان کی اور حضرات مکفرین کی مخالفت ہے تو صرف ایک مسئلہ حیات وفات مسیح میں ہے تو کیا کوئی شخص ہم کو یہ بتا سکتا ہے کہ حیات مسیح علیہ السلام کا اقرار کرنا ارکان اسلام میں سے ہے یا اصول دین میں سے ہے؟ ہرگز نہیں.پھر اس کے انکار سے انسان کافر کیونکر ہوسکتا ہے.اگر کوئی اور وجہ اس کے علاوہ ہو تو کوئی صاحب ہم کو سمجھا دیں کیونکہ اصول و فروع میں حضرت مرزا صاحب کا وہی طرز عمل ہے جو سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصحابہ کرام و تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین کا تھا.وہ مدعی نبوت تشریعی نہیں.سرور کائنات کے ختم نبوت سے انکاری نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے اتباع کو اپنا فخر سمجھتے ہیں اور انہی کی غلامی کا دم بھرتے ہیں پھر یہ کفر کہاں سے آ گیا.کوئی صاحب یہ معمہ حل کر دیوے تو بڑی ہی مہربانی ہو.افسوس دنیا میں انصاف نہیں ہے.مگر میں اوروں کو تو بعد میں کہوں گا پہلے میں خود ایسا تھا.مگراللہ الحمد مجھ میں اللہ تعالیٰ نے تحقیق کا مادہ ایسا رکھا ہے کہ جب تک خوب چھان بین نہیں کر لیتا یکا یک کوئی حکم قائم نہیں کرتا.اگر چہ میں مخالف ضرور رہتا مگر نہ ایسا کہ خواہ مخواہ کوئی حکم لگاتا.چنانچہ اس کا انجام یہ ہوا کہ آج سے چوبیں
65 مصالح العرب.....جلد اول چھپیس روز پہلے میں مخالفین کے گروہ میں تھا اور آج اپنے آپ کو ایک جانثار غلام و خادم سمجھتا ہے ہوں.اور اس پر مجھ کو فخر اور ناز ہے.یہ کس چیز کی برکت ہے؟ تحقیق کی فقط.میں آج ہیں روز سے حضرت اقدس علیہ السلام کی تصانیف لطیفہ کا مطالعہ کر رہا ہوں اور بڑی کوشش 1 جانفشانی سے دیکھتا ہوں اور شب و روز اسی میں مستغرق رہتا ہوں کہ کوئی بات تو ایسی نظر پڑے جس سے شبہ ہی کسی قسم کا وارد ہو سکے مگر اس وقت تک ایسی کوئی بات نظر نہ آئی.آخر کو میں نے یہ سمجھ لیا کہ یا تو مخالفین کو خدا نے عقل سے بے بہرہ کیا ہے اور یا مجھے وہ باتیں نظر نہیں آئیں جن کی وجہ سے تکفیر کی جاتی ہے...اے لوگو خدا سے ڈرو قیامت آنے والی ہے خدا کو کیا جواب دو گے.کیونکہ دیکھو کہ اگر بالفرض حضرت اقدس نے جو دعویٰ کیا ہے وہ غلط ہی ہے تو ہم کو یہ بتاؤ کہ ان سے بیعت کرنے کا قیامت میں ہم پر کیا وبال پڑے گا.کیونکہ وہ شرک کی تعلیم نہیں کرتے خدا نخواستہ راہ ملال نہیں بتاتے.پر ہمارا کیا نقصان ہوا ان کو ماننے سے.اور اگر وہ اپنے دعوے میں سچے نکلے تو بتاؤ قیامت میں دست حسرت کون ملے گا.بہر حال در صورت صدق دعوی ہمارے پانچوں بلکہ دسوں گھی شکر میں ، و در صورت کذب ہمارا گرہ سے کیا خرچ ہوا؟ کچھ بھی نہیں....اب بتاؤ کون اچھا؟ ہم یا تم ؟ انصاف سے کام لینا چاہئے.دیکھو اللہ تعالیٰ جو کچھ فرماتا ہے اپنے پاک کلام میں وہ فرمان مثال ونظیر ہمارے لئے ہوتا ہے.دیکھو مؤمن آل فرعون کا قصہ خدا نے بیان فرمایا، وہ کیوں؟ ہمارے لئے دیکھو کیا فرماتا ہے؟ (وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيْمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلاً أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاء كُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ وَإِن يَكُ كَاذِباً فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِن يَكُ صَادِقاً يُصِبُكُم بَعْضُ الَّذِى يَعِدُكُمُ ( ي تعليم خدا وندى ہے.کیوں نہ ہم بھی ایسا کہیں اور کریں.اگر اس میں کوئی نقص ہو تو ہم کو بتا ؤ ورنہ تم ہمارا کہا مان جاؤ.حیات مسیح کا رڈ و, اب ہم ایک معیار اور بتاتے ہیں.دیکھو ان کی تعلیم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے ملا کر دیکھو اگر ایک ہے تو پھر ماننے میں کیا عذر ہے.اگر اس کے خلاف ہے تو بے شک پھینک دو.بلکہ ہم کو بھی وہ مخالفت بتا دو تو ہم بھی سے اس سے رجوع کریں.مجھے
66 مصالح العرب.....جلد اول ایک زمانہ تک حیات وفات مسیح کے متعلق بڑا اشتباہ رہا مگر غور کیا تو معلوم ہوا کہ کچھ بھی نہیں.اور واقعی قرآن شریف میں کوئی آیت ایسی نہیں جس سے حیات مسیح علیہ السلام ثابت ہو سکے.جس قدر آیتیں ہیں ان سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہود کا جو دعویٰ ہے کہ ان کو صلیب دی گئی تھی غلط ہے.بلکہ اپنی طبعی موت سے مرے.مثلا آیت کریمہ (إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ) اس میں ایک تو توفی ہے ایک رفع الی اللہ ہے ایک تظہیر ہے ایک متبعین کو مخالفین پر غالب کرنا ہے.ہر ایک ان میں سے واقع ہو گیا اور جس ترتیب.یکے بعد دیگرے لفظاً واقع ہیں اس طرح سے یکے بعد دیگرے ظہور میں آئے.پہلے توفی ہوئے پھر رفع ہوا پھر تطہیر ہوئی اور پھر آپ کے متبعین کو بھی غلبہ ہو گیا.اب بتائیے کہ وہ تشریف لاویں گے کیوں ، اور کیا ضرورت باقی رہی ہے؟ دوسری آیت ( فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمُ ) یہ صاف ظاہر ہے کہ قیامت سے تعلق رکھتی اور یہاں وفات کے معنے موت ہی کے ہیں.پر دوسری آیت میں توفی بمعنی رفع مع الجسم العنصری کیسے ہو جاوے گا.الْقِيَامَةِ تیسری آیت وَمَا قَتَلُوهُ يَقِيناً - بَل رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ ہے.اس میں صاف ظاہر ہے کہ موت کی نفی نہیں کی گئی ہے بلکہ اس بات کی نفی کی گئی ہے کہ وہ قتل نہیں کئے گئے.رہی آیت ( وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا) اس آیت میں ضمیر حضرت مسیح کی طرف عائد ہونے میں کلام ہے.کسی نے قرآن کی طرف راجع کیا ہے، کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ، کسی نے حضرت مسیح کی طرف.اکثر مفسرین نے اسی ضمیر کے مرجع میں اختلاف کیا ہے.پھر ہم کیونکر خواہ مخواہ حضرت مسیح کو ہی مرجع ضمیر ٹھہرا لیویں.اور کم از کم جب مفسرین کا اختلاف ہو گیا تو کسی صورت سے صحیح نہیں رہا.کیونکہ إِذَا جَاءَ الاِحْتِمَالُ بَطَلَ الاستدلال.اور پھر مہربانی فرما کر کوئی شخص ہم کو اس آیت کے معنے ہی ذرا سمجھا دیویں کہ ( وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتاب ) سے کیا مراد ہے؟ آیا کہ دنیا میں جب سے اہل کتاب کا وجود آیا ہے قیامت تک جس قدر ہوئے اور ہو دیں گے ان کی موت سے قبل تو یہ یقیناً باطل ہے.کیونکہ کروڑوں اہل کتاب مرگئے بے ایمان لائے ہوئے ، اور مرتے چلے جاتے ہیں.اب کی
مصالح العرب.....جلد اول 67 یہ کہو کہ انکے نزول من السماء کے وقت جس قدر اہل کتاب روئے زمیں پر موجود ہوویں گے سب آپ پر ایمان لاویں گے.تو یہی محال ہے کیونکہ تمام روئے زمین کے اہل کتاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر تو ایمان لائے نہیں حضرت مسیح پر کیسے ایمان لے آویں گے.نیز خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ( فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ) صاف بتلا رہا ہے کہ کافروں کے فرقے قیامت تک رہیں گے.اگر آیت مدوحہ بالا کے یہ معنے کئے جاویں کہ سب حضرت عیسی پر ایمان لے آویں کے تو اس سے قرآن شریف کے بیان میں اختلاف لازم آتا ہے.گویا وہ کسی جگہ کچھ کہتا ہے اور دوسری جگہ اس کے مخالف بیان فرما تا ہے......ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ یہود نے ٹھو کر کھائی.اور انکی کتاب میں جبکہ یہ لکھا ہے کہ مسیح اس وقت آوے گا جب ایلیا آسمان سے دوبارہ آئیگا.ایلیا نہیں آیا لہذا وہ مسیح کو بھی نہیں مانتے کیونکہ وہاں تو ایلیا کا مثیل آیا.اور کتاب میں نفس ایلیا لکھا تھا.تو ہم کہتے ہیں جب ہمارے پاس ایک یہ نظیر بھی موجود ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم ان کی طرح مسیح کے آسمان سے نازل ہونے کے منتظر رہیں.اور وقت ہاتھ سے جاتا رہے، کفِ افسوس ملنے کے سوا اور کچھ بھی نہ آوے.ہماری سمجھ میں تو یہ آتا ہے.اور بنظر خیر خواہی ہم لوگوں کے لئے یہ لکھتے ہیں کہ: فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُر.مجھے تو امید ہے کہ جو شخص میری اس تحریر کو بنظر انصاف دیکھے گا وہ ضرور انشاء اللہ اس سے فائدہ اٹھاوے گا.ویسے رہی ہٹ دھرمی اور ضد تو اسکا علاج کوئی نہیں.اسکا علاج خدا کرے.اور جب یہ شخص کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں ، کھلے نشان اپنے ساتھ رکھتا ہوں چنانچہ کسوف و خسوف جس کو تمام دنیا نے دیکھا اور جس کا منتظر ایک جہان تھا وہ بھی وقوع میں آ گیا ، پھر اس کے ماننے میں کیا تا مل ہوسکتا ہے.“ نشان مانگنا صدیقیت کے خلاف ہے اور ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ہم کو نشانوں کی حاجت کیا ہے.حضرت صدیق اکبر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کونسا نشان طلب کیا تھا.اور واقعی صدیقیت اسی سے تو عبارت ہے کہ بے کسی نشان و معجزہ کے دیکھے ایمان لے آئے ورنہ ان میں اور دوسروں میں جو نشان یا معجزہ دیکھ کر ایمان لائے فرق ہی کیا رہتا.ہمارا تو یہ خیال ہے کہ ہم نے خدا کی
مصالح العرب.....جلد اول 80 68 کے اس ماً مور کو بدوں کسی نشان طلب کرنے اور دیکھنے کے مانا اور قبول کیا اور ہم امید کی کرتے ہیں کہ ہم کو خدا بھی قبول کرے گا اور ضرور کرے گا.انشاء اللہ تعالیٰ اور واقعی نشان طلب کرنا تو میرے خیال میں ضعف یقین کی دلیل ہے کیونکہ حق تو اپنے ساتھ ایک ایسی روشنی رکھتا ہے جس کا اثر فورا قلب پر پڑتا ہے بشرطیکہ ذراسی بھی صلاحیت و قابلیت ہوورنہ وه فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضاً والا مضمون ہو جاتا ہے.نہ کوئی نشان فائدہ دیتا ہے نہ کوئی معجزہ.جیسا کہ ابو جہل وغیرہ میں مشاہد ہے.وقس على هذا ـ اللهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اِتِّبَاعَهُ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَارْزُقْنَا اِحْتَنَابَہ.اور ہم کو تو زیادہ اس بات کا خیال ہے کہ...يَا حَسْرَةً عَلَى مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللهِ نہ کہنا پڑے.ہائے افسوس وہ پیر جو اپنے مریدوں کو سوائے شرک کے اور کچھ تعلیم نہ دیں ، دنیا کے کئی قبر پرست گدا یا غوث یا قطب یا اللہ کے بدلے پکارنے والے حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دینے والے تو لوگوں سے بیعت لیویں اور لوگوں کو بھی ان سے بیعت کرنے میں کوئی تامل نہ ہو.اور ایک ایسا شخص جو اپنے آپ کو مامور من اللہ بھی کہتا ہے اور تعلیم بھی وہی دیتا ہے جو محمد رسول اللہ لہ دیتے تھے اس سے انکار ہو.اور اس پر کفر کے فتوے دیئے جائیں.لا حول ولا قوة إلا بالله العلی العظیم.اب میں اس رسالہ کو اس آیت پر ختم کرتا ہوں ، شاید اس سے کسی کو کوئی فائدہ پہنچ جاوے.اعوذ بالله من الشيطان الرجيم فَسَتَذْكُرُونَ مَا أَقُولُ لَكُمْ وَأُفَوِّضُ أَمْرِى إِلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ - قريب ہے کہ تم میرا کہا یاد کرو گے اور میں اپنے کام خدا کے سپر د کرتا ہوں وہ سب کے حال سے خوب آگاہ ہے.سُبحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ.والسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين حرّره الراجى عفو التوّاب أحمد رشيد نواب الأحمدى كان الله له ـ وذلك فى 4 من شهر ربيع الأول 1324 من هجرة من له العز والشرف صلى الله بقرية قاديان من أقطار پنجاب ضلع گورداسپور.فقط “ 0000
69 69 حضرت احمد زہری بدر الدین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جنوری 1907 ء میں مصر کے شہر اسکندریہ سے ایک شخص احمد زہری بدر الدین صاحب کا 19 دسمبر 1907 کا تحریر کردہ خط ملا جسمیں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت کا اظہار کیا.حضور انور نے ان کے خط کا ذکر اپنی عربی کتاب الاستفتاء میں فرمایا ہے.(ماخوذ از الاستفتاء ضمیمه حقیقۃ الوحی جلد ۲۲ ص ۶۵۳ XXXXXXXXXXXX مصالح العرب.....جلد اول
مصالح العرب.....جلد اول 70 حضرت ابوسعید عرب التبلیغ نے ان کا دل موہ لیا (سیرت المہدی کی ایک روایت کے مطابق ان کا تعلق عرب قوم سے نہ تھا لیکن کثرت سے عرب ممالک میں سفر کرنے اور عربی بولنے کی وجہ سے عرب کہلائے.ان کے ایک خط کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک عربی جملہ میں دیا تھا.کثرت سے عرب ممالک میں آنے جانے اور عربی زبان بولنے کی وجہ سے ان کا ذکر عرب اصحاب کے زمرہ میں کیا جا رہا ہے.مرتب) حضرت ابوسعید عرب صاحب بہت بڑے تاجر تھے اور رنگون برما کے علاقہ میں بغرض تجارت رہائش پذیر تھے.بڑے آزاد مشرب اور نیچریت کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے.خدا کے وجود پر بھی ایمان نہ تھا.بس یہی خیال تھا کہ کھانا ہے اور کمانا ہے.عرب صاحب 1894ء میں لاہور آئے.خواجہ کمال الدین صاحب نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ”آئینہ کمالات اسلام دی جبکہ ایک مولوی نے آپ کے خلاف لکھی ہوئی ایک کتاب انہیں دی.مگر یہ دونوں کتابیں وہیں کسی کو دے کر چل دیئے اور پرواہ نہ کی.انہیں کہا گیا کہ قادیان آئیں مگر یہ نہ آئے.لیکن خدا کی قدرت دیکھیں کہ پھر وہی کتاب آئینہ کمالات اسلام ان کی نظر سے گزری تو اس کے پڑھنے سے حقیقت اسلام ان پر منکشف ہوگئی.پھر کیا تھا کہ آپ اس قدر فاصلہ طے کر کے رنگون سے تشریف لائے اور دسمبر 1902 میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.جب آپ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت مولوی عبد الکریم صاحبہ نے ان کے حالات حضور کی خدمت میں سنائے.پھر حضور نے خود ان سے ان کے حالات
مصالح العرب.....جلد اول ہے.دریافت فرمائے اور پوچھا کہ آپ کتنے دن تک رہ سکتے ہیں.عرب صاحب نے بیان کیا کہ میں نے کلکتہ سے سیکنڈ کلاس کا واپسی کا ٹکٹ لیا ہے جس کی میعاد جنوری 1903 ء تک حضرت اقدس نے فرمایا کہ: میری بڑی خوشی ہے کہ آپ اس دن تک ٹھہریں جب تک کہ ٹکٹ اجازت دیتا ہے.اس پر عرب صاحب نے نیاز مندی سے عرض کی کہ کرایہ کی فکر نہیں، ہمیں زیادہ بھی ٹھہر سکتا ہوں.انہوں نے خود اپنے حالات جب حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کئے اور کہا کہ آئینہ کمالات اسلام نے آخر اس غلطی سے نجات دے کر حضور کی محبت کا تختم دل میں جمایا.اس پر حضرت اقدس نے جو نصیحت فرمائی اس کے پہلے جملے یہ ہیں : خدا ہی کی تلاش کرو.حقیقی لذت خدا ہی میں ہے.شخص کبھی جھوٹ بولنے والا نہیں ہے عرب صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک چینی آدمی کے روبرو میں نے آپ کی تصویر کو پیش کیا.وہ بہت دیر تک دیکھتا رہا ، آخر بولا کہ یہ شخص کبھی جھوٹ بولنے والا نہیں ہے.پھر میں نے اور تصاویر بعض سلاطین کی پیش کیں مگر ان کی نسبت اس نے کوئی مدح کا کلمہ نہ نکالا اور بار بار آپ کی تصویر کو دیکھ کر کہتا رہا کہ یہ شخص ہرگز جھوٹ بولنے والا نہیں.سارا قرآن ہمارے ذکر سے بھرا ہوا ہے 18 دسمبر 1902ء کو آپ نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ: ایک صاحب برما میں کہتے تھے کہ اگر میرزا صاحب صرف قرآن کی تفسیر لکھیں اور اپنے دعاوی کا ذکر اس میں ہرگز نہ کریں تو میں بہت سا روپیہ صرف کر کے اسے طبع کروا سکتا ہوں.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا: اگر کوئی ہم سے سیکھے تو سارا قرآن ہمارے ذکر سے بھرا ہے.ابتداء ہی میں ہے : صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَ لا الضَّالِّينَ (الفاتحہ (7) اب ان سے کوئی پوچھے کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ کونسا فرقہ تھا ؟ تمام فرقے اسلام کے اس پر متفق ہیں کہ وہ یہودی تھے اور ادھر حدیث شریف میں ہے کہ میری امت یہودی ہو جائے گی، تو پھر بتلاؤ کہ اگر مسیح نہ ہوگا تو وہ یہودی کیسے بنیں گے؟ ہوا 71
مصالح العرب.....جلد اول 72 اسی طرح انہوں نے مختلف ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت سے سوال کئے جن کے جوابات ملفوظات جلد 4 میں موجود ہیں.انہوں نے ایک سوال یہ کیا کہ ایک شخص نے کہا کہ لیکھرام کو خود اپنے کسی جماعت کے آدمی کے ذریعہ سے مروا ڈالا؟ حضور نے اس بات کا نہایت عارفانہ جواب عطا فرمایا جس کو یہاں درج کئے بغیر رہ نہیں سکتا.حضور نے فرمایا: ”ہمارے ساتھ ہزار ہا جماعت ہے، اگر ان میں سے کسی کو کہوں کہ تم جا کر مار آؤ تو یہ میری پیروی اور بیعت کا سلسلہ کب چل سکتا ہے؟ یہ تو جب ہی چل سکتا ہے کہ صفائی ہو اور پیرؤوں کو معلوم ہو کہ پاک باطنی کی تعلیم دی جاتی ہے.اور جب ہم خود ہی قتل کے منصوبے لوگوں کو سمجھا ئیں تو یہ کاروبار کیسے چل سکتا ہے؟ اب یہ اس قدر گروہ ہے، کوئی ان میں سے بولے کہ ہم نے کس کو اور کب کہا تھا کہ جا کر اس کو مار ڈالے“.اسی طرح 23 دسمبر 1902ء کو حضور نے دریافت فرمایا: چین میں اہل اسلام عربی زبان سے واقف ہیں کہ نہیں اور وہاں عربی کتب روانہ کرنے کے متعلق حضرت اقدس ابو سعید عرب صاحب سے گفتگو فرماتے رہے.28 دسمبر 1902ء کو حضرت اقدس علیہ السلام کے حضور جناب ابوسعید عرب صاحب نے اپنے بعض احباب کا تذکرہ کیا اور گونہ افسوس ظاہر کیا کہ ان کو اس سلسلہ کی آگاہی اور اطلاع نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تحریک پر ایک مختصری تقریر فرمائی.عرب صاحب نے سوال کیا کہ میں نماز پڑھتا ہوں مگر دل نہیں ہوتا.حضور نے اس کا مفصل علاج عطا فر مایا.اس کا پہلا جملہ گویا مضمون کا خلاصہ ہے فرمایا: ” جب خدا کو پہچان لو گے تو پھر نماز ہی نماز میں رہو گے.اب تو بالکل جانے کو دل نہیں چاہتا ابوسعید عرب صاحب کو کمال شوق دتی کے جلسہ کا تھا کہ وہاں کی رونق دیکھیں.چنانچہ انہوں نے اجازت بھی چاہی تھی اور حضرت اقدس نے اجازت دے بھی دی تھی مگر یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ دعائے استخارہ کر لو.چنانچہ دعا سے پھر ایسے اسباب پیدا ہوئے کہ
0000 مصالح العرب.....جلد اول عرب صاحب دتی جانے سے رک گئے.اس پر حضرت اقدس نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ: فرمائیے ، اب دتی جانے کا خیال ہے یا نہیں؟ عرب صاحب نے جواب میں عرض کیا کہ حضور اب تو بالکل جانے کو دل نہیں چاہتا.حضور نے فرمایا کہ اب دوسری سیروں کو چھوڑ کر روحانی سیروں کی طرف متوجہ ہو جاویں.یہ آپ کی سعادت کی علامت ہے کہ اتنی دور سے اس جلسہ کے واسطے آئے اور یہاں ٹھہر گئے اور اس قدر مقابلہ نفس کا کیا.ہر ایک کو یہ طاقت نہیں ہوتی کہ جذب نفس کے ساتھ کشتی کریں.آپ کی ایک خواب اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعبیر 73 73 3 جنوری 1903ء کو ابوسعید عرب صاحب نے اپنی رؤیا بیان کی کہ ایک کتا پیار سے کاٹتا ہے اور پھر اس نے انڈا دیا جس کو انہوں نے توڑ ڈالا اور وہ بھاگ گیا.فرمایا: کتا ایک برزخ ہے درندگی اور چرندگی میں.جب وہ محبت سے کاٹے تو محبت ہے.اور کتے سے مراد خفیف سا دشمن ہوتا ہے.اس کے انڈے سے مراد اس کی ذریت ہے.جب اس کو توڑ دیا تو گویا خفیف اور کمزور دشمن کی ذریت کو تلف کر دیا.عرب صاحب نے پوچھا جو لوگ حضور کو برا نہیں کہتے اور آپ کی دعوت کو نہیں سنا وہ ہے طاعون سے محفوظ رہ سکتے ہیں یا نہیں؟ فرمایا: میری دعوت کو نہیں سنا تو خدا کی دعوت تو سنی ہے کہ تقوی اختیار کریں.پس جو تقویٰ اختیار کرتا ہے وہ ہمارے ساتھ ہی ہے خواہ اس نے ہماری دعوت سنی ہو یا نہ سنی ہو کیونکہ یہی غرض ہے ہماری بعثت کی.عرب صاحب نے ادھر ادھر غیر آبادی کو دیکھ کر عرض کی کہ یہ صرف حضور ہی کا دم ہے کہ جس کی خاطر اس قدرا نبوہ ہے ورنہ اس غیر آباد جگہ میں کون اور کب آتا ہے.فرمایا کہ اس کی مثال مکہ کی ہے کہ وہاں بھی عرب لوگ دور دراز جگہوں سے جا کر مال وغیرہ لاتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر کھاتے ہیں.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 276 تا 411)
مصالح العرب.....جلد اول 74 حَمَامَةُ الْبُشْرَى قبل ازیں ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت محمد بن احمد مکی صاحب جب بیعت کے بعد مکہ شریف گئے تو وہاں تبلیغ کا کام شروع کر دیا اور اپنے ایک دوست علی طالع صاحب کے حوالے سے حضور کی خدمت میں لکھا کہ حضور انہیں اپنی کتب بھجوائیں تو وہ انہیں شرفاء وعلماء مکہ مکرمہ میں تقسیم کریں گے.اس خط کے ملنے پر حضور نے اسے تبلیغ حق کا ایک غیبی سامان سمجھتے ہوئے حمامۃ البشری عربی زبان میں تصنیف فرمائی جس میں حضور نے دعوی مسیحیت ، دلائل وفات مسیح اور نزول مسیح اور خروج دجال کا مفصل بیان اور مکفرین علماء کی طرف سے آپ کے عقائد اور دعوی پر اعتراضات کا جواب دیا ہے.یہ کتاب حضور نے 1893 ء میں ہی تصنیف فرما دی تھی تا ہم اس کی اشاعت فروری 1894ء میں ہوئی.اس میں حضور علیہ السلام نے حضرت محمد بن احمد مکی صاحب کا خط بھی درج فرمایا ہے.اس کتاب کے ٹائیٹل پیج پر حضور علیہ السلام نے دوشعر درج فرمائے ہیں جو نہایت ہی لطیف ہیں اور ذیل میں درج کئے جاتے ہیں حَمَامَتُنَا وَفِي تَطِيرُ بريش مِنْقَارِهَا شَوْقٍ تُحفُ السَّلَامِ إِلَى وَطنِ النَّبِيِّ وَسَيّدِ رسله ربی الْأَنَامِ یعنی ہماری کبوتری اپنی چونچ میں سلامتی کے تحفے لئے ہوئے شوق کے پروں کے ساتھ میرے رب کے محبوب اور نبیوں کے سردار ، سرور کائنات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وطن کی طرف محو پرواز ہے.
75 مصالح العرب.....جلد اول چونکہ یہ کتاب لکھی ہی اہل مکہ وحجاز اور دیگر بلاد عر بیہ کے باسیوں کے لئے گئی تھی اس کی لئے اس میں حضور نے عربوں کو بڑے پُر تاثیر الفاظ میں مخاطب فرمایا اور اپنی جماعت میں شمولیت کی دعوت دی.مشتے از خروارے کے طور پر ایک اقتباس کا ترجمہ پیش خدمت ہے: ”اے عرب کے شریف النفس اور عالی نسب لوگو! میں قلب و روح سے آپ کے ساتھ ہوں.مجھے میرے رب نے عربوں کے بارہ میں بشارت دی ہے اور الہاما فرمایا ہے کہ میں اُن کی مددکروں اور انہیں اُن کا سیدھا راستہ دکھلاؤں، اور ان کے معاملات کی اصلاح کروں، اور اس کام کی انجام دہی میں مجھے آپ لوگ انشاء اللہ تعالیٰ کا میاب و کامران پائیں گے.اے عزیز و! اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام کی تائید اور اس کی تجدید کے لئے مجھ پر اپنی خاص تجلیات فرمائی ہیں اور مجھ پر اپنی برکات کی بارش برسائی ہے.اور مجھ پر قسم قسم کے انعامات کئے ہیں، اور مجھے اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی بدحالی کے وقت میں اپنے خاص فضلوں اور فتوحات اور تائیدات کی بشارت دی ہے.پس اے قوم عرب ! میں نے چاہا کہ تم لوگوں کو بھی ان نعمتوں میں شامل کروں.میں اس دن کا شدت سے منتظر تھا ، پس کیا تم خدائے رب العالمین کی خاطر میرا ساتھ دینے کے لئے تیار ہو؟ حمامة البشری، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 182-183
مصالح العرب.....جلد اول 76 عربی زبان تمام زبانوں کی ماں ہے احمدیت کی تاریخ کے مضمون میں جہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عربی زبان کی چالیس ہزار لغات کا علم عطا فرمایا وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی زبان کے بارہ میں عظیم انکشاف کا ذکر بھی از بس ضروری ہے جس کا اعلان حضور نے 1895ء میں فرمایا.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: علماء اسلام کو غفلت میں سوئے ہوئے اور ان کی ہمدردی دین اور اس کی خدمت سے عدم تو جہی اور دنیا طلبی اور مخالفین کی دین اسلام کے مٹانے کے لئے مساعی اور ان کے حملوں کو دیکھ کر میرا دل بیقرار ہوا اور قریب تھا کہ جان نکل جاتی.تب میں نے اللہ تعالی اسے نہایت عاجزی اور تضرع سے دعا کی کہ وہ میری نصرت فرمائے.اللہ تعالی نے میری دعا کو قبول فرمایا.سو ایک دن جبکہ میں نہایت بیقراری کی حالت میں قرآن مجید کی آیات نہایت تدبر اور فکر اور غور سے پڑھ رہا تھا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا تھا کہ مجھے معرفت کی راہ دکھاوے اور ظالموں پر میری حجت پوری کرے تو قرآن شریف کی ایک آیت میری آنکھوں کے سامنے چمکی اور غور کے بعد میں نے اسے علوم کا خزانہ اور اسرار کا دفینہ پایا.میں خوش ہوا اور الحمد للہ کہا اور اللہ تعالیٰ کا شکر یہ ادا کیا.اور وہ آیت یہ تھی.وَكَذلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِتُنْذِرَامُ القُرى وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنْذِرَ يَوْمَ الْحَمْعِ لَا رَيْبَ فِيْهِ - فَرِيْقٌ فِى الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ (الشورى: 8) اس آیت کے متعلق مجھ پر کھولا گیا کہ یہ آیت عربی زبان کے فضائل پر دلالت کرتی ہے اور اشارہ کرتی ہے کہ عربی زبان تمام زبانوں کی اور قرآن مجید تمام پہلی کتابوں کی ماں ہے اور یہ کہ مکہ مکرمہ اُمُّ الأرضين ملخص از من الرحمن جلد 9 صفحه 180 تا 184)
مصالح العرب.....جلد اول اس کے بعد آپ نے اس تحقیق پر مشتمل اپنی کتاب ” من الرحمن ، لکھی اور یہ چیلنج دیا کہ اگر کوئی شخص دوسری کسی زبان کے یہ کمالات ثابت کر دے تو پانچ ہزار روپیہ کا انعام پائے گا.اس تحقیق سے کہ عربی اتم الالسنہ ہے آپ نے اسلام کی عالمگیر فتح کی بنیاد رکھ دی.کیونکہ عربی زبان کے امّم الألسنہ اور الہامی زبان ثابت ہونے سے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ تمام کتابوں میں سے جو مختلف زبانوں میں مخصوص قوموں کی اصلاح کے لئے انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئیں ، سب سے اعلی اور ارفع ، اتم اور اکمل اور خاتم الکتب اور ام الکتب قرآن مجید ہے اور رسولوں میں سے خاتم النبیین اور خاتم الرسل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن پر یہ عظیم کتاب نازل ہوئی.عربی زبان سیکھنے کی نصیحت (روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 6-7 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے 21 راپریل 1899ء یوم عید اضحی کو فرمایا: میں یہ بھی اپنی جماعت کو نصیحت کرنی چاہتا ہوں کہ وہ عربی سیکھیں کیونکہ عربی کی تعلیم کے بڑوں قرآن کریم کا مزا نہیں آتا.پس ترجمہ پڑھنے کے لئے ضروری اور مناسب ہے کہ تھوڑا تھوڑا عربی زبان کو سیکھنے کی کوشش کریں.آج کل تو آسان آسان طریق عربی پڑھنے کے نکل آئے ہیں.قرآن شریف کا پڑھنا جبکہ ہر مسلمان کا فرض ہے تو کیا اس کے معنے یہ ہیں کہ عربی زبان سیکھنے کی کوشش نہ کی جاوے، اور ساری عمر انگریزی اور دوسری زبانوں کے حاصل کرنے میں کھودی جاوے؟“.عربی کی اشاعت و ترویج کے لئے عملی مہم 77 ( ملفوظات جلد اول صفحه 297) اس بارہ میں قبل ازیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے عربی کی اشاعت و ترویج کے لئے ایک عملی مہم بھی شروع کی.یعنی اپنی جماعت کے دوستوں کو تحریک فرمائی کہ وہ عربی زبان سیکھیں اور اسے اپنی روز مرہ کی گفتگو میں اظہار خیال کا ذریعہ بنائیں.آپ کے نزدیک کسی زبان کے سیکھنے کی صورت یہ نہیں تھی کہ پہلے صرف و نحو پڑھی جائے ، بلکہ بہتر طریقہ یہ تھا
مصالح العرب.....جلد اول کہ اسے بولا جائے.بولنے سے ضروری صرف و نحو خود بخود آ جاتی ہے.چنانچہ اسی لئے حضرت اقدس نے 1895ء میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کو (جو اس وقت 14 برس کے تھے عربی کا قریبا ایک ہزار فقرہ ترجمہ سے لکھوایا.حضور روزانہ پندرہ بیس کے قریب فقرے لکھوا دیتے اور دوسرے دن سبق سن کر اور لکھوا دیتے.پیر سراج الحق صاحب نعمانی بھی حضرت میر صاحب کے ہم سبق تھے.تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 522 78 سیرت المہدی کی مندرجہ ذیل روایت سے بھی اس مہم کے بارہ میں معلومات ملتی ہیں : ”میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام کو اس طرف توجہ تھی کہ جماعت میں عربی بول چال کا رواج ہو.چنانچہ ابتدا میں ہم لوگوں کو عربی فقرات لکھ کر دیئے گئے تھے جو خاص حد تک یاد کئے گئے تھے بلکہ اپنے چھوٹے بچوں کو بھی یاد کراتے تھے.میرا لڑکا ( مولوی قمر الدین فاضل ) اس وقت چار پانچ سال کا تھا جب میں اسے کہتا.ابریق " تو فوراً لوٹا پکڑ لاتا.( قمر الدین کی پیدائش بفضل خدامئی 1900 کی ہے) مگر کچھ عرصہ یہ تحریک جاری رہی بعد میں حالات بدل گئے اور تحریک معرض التوا میں آگئی.(سیرت المہدی روایت نمبر 1370
79 مصالح العرب.....جلد اول نصيبين جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب ( مسیح ہندوستان میں ) تالیف فرما رہے تھے.انہی ایام میں معلوم ہوا تھا کہ نصیبین میں حضرت مسیح ناصرتی کے بعض آثار موجود ہیں جن سے ان کے اس سفر کا پتہ ملتا ہے اور تصدیق ہوتی ہے کہ وہ کشمیر میں آکر رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرین مصلحت سمجھا تھا کہ ایک وفد بھیجا جائے جو ان آثار و حالات کی خود تحقیق کرے اور پھر اسی راستہ سے جو حضرت مسیح نے کشمیر آنے کے لئے تجویز کیا تھا واپس ہوتے ہوئے قادیان پہنچ جائے.تین رکنی اس وفد کے بارہ میں حضور نے فرمایا کہ: ان کے لئے ایک عربی تصنیف بھی میں کرنی چاہتا ہوں جو بطور تبلیغ کے ہو.اور جہاں جہاں وہ جائیں اسکو تقسیم کرتے رہیں.اس طرح پر اس سفر سے یہ بھی فائدہ ہوگا کہ ہمارے سلسلہ کی اشاعت بھی ہوتی جائے گی.اس وفد کو الوداع کرنے کے لئے جلسہ 12 تا 14 نومبر 1899 میں منعقد ہوا جسے جلسہ الوداع کہا گیا.لیکن بعض پیش آمدہ امور ضروریہ کی وجہ سے یہ وفد نصیبین کے لئے روانہ نہ ہو سکا.تفصیل کے لئے دیکھیں ملفوظات جلد 1 صفحہ 331 تا 336 ) 0000
81 00000 دوسرا دور $1908 1900 00000 مصالح العرب.....جلد اول XXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.....جلد اول 88 83 اعجازُ الْمَسِيح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو اپنے بالمقابل فصیح و بلیغ عربی میں قرآن کریم کی سورۃ الفاتحہ کی تفسیر کا چیلنج دیا اور یہ فرمایا کہ: انہیں اجازت ہے کہ وہ اس تفسیر میں دنیا کے علماء سے مدد لیں ، عرب کے بلغاء فصحاء بلا لیں ، لاہور اور دیگر بلاد کے عربی دان پروفیسروں کو بھی مدد کے لئے طلب کریں.اس مقابلہ کے لئے آپ نے 70 دن کا وقت مقرر کیا اور فرمایا کہ اگر پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی تفسیر بہتر ثابت ہوئی تو میں ان کو 500 روپیہ انعام دوں گا اور اپنی کتابیں جلا دوں گا.لیکن اگر وہ 70 دن میں تفسیر سورۃ فاتحہ نہ لکھ سکے تو مجھے ایسے لوگوں سے بیعت لینے کی بھی ضرورت نہیں اور نہ روپیہ کی خواہش ہے.صرف یہی دکھلاؤں گا کہ کیسے انہوں نے پیر کہلا کر قابل شرم (ماخوذ از اعجاز مسیح روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 449-450) اس اعلان کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی خاص تائید سے حضرت اقدس علیہ السلام نے مدت معینہ کے اندر 23 فروری 1901ء کو اعجاز اسیح کے نام سے فصیح و بلیغ عربی زبان میں سورہ فاتحہ کی تفسیر شائع کر دی.اور باعلام الہی اپنی اس تفسیر کے متعلق لکھا کہ اگر ان ان کے علماء اور حکماء اور فقہاء اور ان کے باپ اور بیٹے متفق اور ایک دوسرے کے معاون ہو کر اتنی قلیل مدت میں اس تفسیر کی مثل لانا چاہیں تو ہرگز نہیں لاسکیں گے.چنانچہ نہ پیر گولڑوی کو اور نہ جھوٹ بولا.عرب و عجم کے کسی ادیب فاضل کو اس کی مثل لکھنے کی جرات ہوئی.جب اس کتاب کے جواب سے ہندوستان کے تمام علماء عاجز آ گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے بلاد عرب یعنی حرمین اور شام اور مصر وغیرہ بھجوانا مناسب خیال فرمایا.چنانچہ مصر میں کئی جگہ یہ کتاب بھجوائی گئی اور ایک نسخہ اخبار "المنار کے ایڈیٹر کو بھی ارسال
84 مصالح العرب.....جلد اول کیا گیا.چونکہ اس کتاب میں مسئلہ جہاد کے غلط تصور کا رڈ تھا اس لئے اصل مقصد اس کے بھیجوانے سے ان لوگوں کے غلط تصور جہاد کی اصلاح کرنا تھا.اس لئے جب ایڈیٹر المنار نے جہاد کے متعلق حضور کی تحریر پڑھی تو اپنے تعصب کی وجہ سے جل گیا اور اس نے آنکھیں بند کرلیں، اور سخت گوئی اور گالیوں پر آ گیا، اور المنار میں بہت تحقیر اور توہین سے حضرت مسیح موعودؓ کو یاد کیا.یہ پرچہ کسی طرح پنجاب میں پہنچ گیا اور بعض متعصب ملاؤں کے ہاتھ لگ گیا جنہوں نے اس کا ترجمہ کر کے اور مزید بڑھا چڑھا کر ایک اخبار میں شائع کر وا دیا اور جا بجا بغلیں بجانے لگے کہ دیکھو اہل زبان ادیب نے مرزا صاحب کی کیسے خبر لی ہے.حالانکہ مدیر المنار کا اکثر غصہ جہاد کے بارہ میں حضور کے مضمون پر تھا.ورنہ قاہرہ کے ہی اخبار المناظر کے ایڈیٹر نے ، جو ایک نامی ایڈیٹر تھا جس کی تعریف ایڈیٹر المنا بھی کرتا تھا، اپنے اخبار میں صاف طور پر اقرار کر دیا کہ کتاب اعجاز اسیح در حقیقت فصاحت و بلاغت میں بے مثال کتاب ہے اور صاف گواہی دی کہ اس کی مثل بنانے پر دوسرے مولوی ہرگز قادر نہ ہوں گے.نیز کہا کہ اعجاز اسیح کی فصاحت و بلاغت در حقیقت معجزہ کی حد تک پہنچ گئی ہے.اسی طرح قاہرہ ہی سے نکلنے والے عیسائی اخبار الہلال کے ایڈیٹر نے بھی اعجاز اسیح کی فصاحت و بلاغت کی تعریف کی.(ماخوذ از اشتہار حضرت مسیح موعود مؤرخہ 18 نومبر 1901ء، مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 442 تا 447) انجاز مسیح کا چیلنج اور مخالفین کی بیچارگی.ایک جائزہ کتاب اعجاز اسیح کے جواب سے صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے ہندوستان یا مصر ہی کے علماء عاجز نہیں آئے تھے بلکہ آج تک یہ معجزہ قائم ہے اور کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ اس عظیم کتاب کا جواب لکھنے کی کوشش بھی کر سکے.ہاں ایک شخص نے کوشش کی لیکن چند ہی دنوں میں راہی ملک عدم ہو گیا.مولوی محمد حسن فیضی ساکن موضع بھیں مدرس مدرسہ نعمانیہ واقع شاہی مسجد لاہور نے عوام میں شائع کیا کہ میں اعجاز مسیح کا جواب لکھتا ہوں.ابھی اس نے جواب کے لئے کتاب اعجاز اسیح پر نوٹ ہی لکھے تھے اور ایک جگہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الكَاذِ بین بھی لکھ دیا تو اس کے بعد ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ وہ جلد ہلاک ہو گیا.(روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 3 تا 5)
مصالح العرب.....جلد اول 85 ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ سے الہام پا کر اس کتاب میں کی لکھ چکے تھے کہ: میں نے اس کتاب کے لئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اسے علماء کے لئے معجزہ بنائے اور کوئی ادیب اس کی نظیر لانے پر قادر نہ ہو.اور ان کو لکھنے کی توفیق نہ ملے.اور میری یہ دعا قبول ہوگئی.اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی اور کہا : مَنَعَهُ مَانِعٌ مِنَ السَّمَاءِ کہ آسمان سے ہم اسے روک دیں گے.اور میں سمجھا کہ اس میں اشارہ ہے کہ دشمن اس کی مثل لانے پر قادر نہیں ہوں گے.( خلاصه عربی عبارت اعجاز اسیح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 68-69) اسی طرح اس کتاب کے سرورق پر آپ نے بطور تحدی فرمایا کہ: فَإِنَّهُ كِتَابٌ لَيْسَ لَهُ جَوَابٌ وَمَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَتَنَمَّرَ فَسَوْفَ يَرَى أَنَّهُ تَنَدَّمَ وَتَذَمَّرُ یعنی یہ ایک ایسی کتاب ہے جسکا کوئی جواب نہیں ہے اور جو شخص بھی غصہ میں آکر اس کتاب کا جواب لکھنے کے لئے تیار ہو گا وہ ندامت وحسرت کا شکار ہو کر رہ جائیگا.اسی طرح فرمایا: میرا یہ رسالہ خدا تعالیٰ کے نشانات میں سے ایک نشان ہے....اور یہ میرے رب کی طرف سے حجت قاطعہ اور برہان مبین ہے تا کہ جھوٹ بولنے والوں کو ان کے گناہ کا کسی قدر بدلہ دے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ان هذا الكلام كأنه حسام) یہ کلام ایسے ہے جیسے کہ نشانے پر لگنے والا تیر.اس نے تمام جھگڑوں کا خاتمہ کر دیا ہے اور اس کے بعد کوئی نزاع نہیں رہا.اور جو کہتا ہے کہ وہ فصیح ہے اور اس کا کلام مثل بدر تام ہے تو اسے چاہئے کہ اس کتاب کی نظیر لکھ لائے اور ہرگز خاموش نہ بیٹھا رہے کیونکہ اس معاملہ میں خاموشی حرام ہے.لیکن اگر تمہارے آباء واجداد اور تمہارے بیٹے اور تمہارے ساتھی اور تمہارے علماء وحكماء وفقہاء سب مل کر بھی اس جیسی تفسیر مقررہ مختصر مدت میں لانے کے لئے جمع ہو جائیں تب بھی وہ اس کی نظیر نہیں لاسکیں گے چاہے جس قدر بھی وہ ایک دوسرے کی مددومعاونت کر لیں.کیونکہ میں نے اس امر کے لئے دعا کی تھی اور میری دعا قبول ہوگئی ، لہذا اب اس کا جواب نہ تو کا تب یا ادیب لکھ سکے گا نہ کوئی بوڑھا نہ جوان.(ترجمه عربی عبارت اعجاز لمسیح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 56-57)
مصالح العرب.....جلد اول 86 ایک ایسی کتاب جس کے بارہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اس قدر بشارتیں ملی ہوں کیسے ممکن ہے کہ کسی کو اس کا جواب لکھنے کی توفیق نصیب ہو.لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ اس میں وجہ اعجاز کیا تھا.وجہ اعجاز اعجاز اسیح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا کی تائید سے سورہ فاتحہ کی تفسیر عربی زبان میں تحریر فرمائی.اور اس کے بالمقابل کتاب لکھنے کی مدت مقرر کی اور اس عرصہ میں اس کا جواب لکھنے والوں کو انعام واکرام کا وعدہ بھی کیا.اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ حضور علیہ السلام نے یہ کتاب اس وقت لکھی جبکہ باوجود التبلیغ اور حمامۃ البشری جیسی اعجازی تصانیف کے بھی آپ کو اس بات کے طعنے دیئے گئے کہ آپ تو قرآن کی زبان سے ہی نابلد ہیں اور محض جھوٹے اور مفتری ہیں.اس سارے پس منظر میں اگر کوئی شخص کتاب لکھے اور پہلے سے ہی اسی کتاب میں ہی اعلان کر دے کہ اگر تمہارے بڑے چھوٹے عالم وادیب، عربی و غیر عربی ، سب جمع ہو جا ئیں اور اس جیسی کتاب لکھنے کی کوشش کریں تب بھی کامیاب نہیں ہوں گے ، اور پھر ایسا ہی ہو جائے اور کوئی اس کا جواب نہ لکھ سکے تو پھر ہر ذی عقل کو یہ بات ماننی پڑتی ہے کہ واقعی یہ ایک معجزہ ہے اور وہ ہاتھ جس نے حق کے دشمنوں کو اس کا جواب لکھنے سے روکے رکھا ضرور اُسی خدا کا ہاتھ تھا جس نے مسیح موعود علیہ السلام کو یہ بشارت دی تھی کہ یہ لا جواب کتاب ہے اور کوئی اسکا جواب لکھنے کی سکت نہ پائے گا.امام غزالی اپنی کتاب "الاقتصاد فی الاعتقاد میں لکھتے ہیں کہ : اگر کوئی نبی یہ کہے کہ میری سچائی کا نشان یہ ہے کہ آج میں اپنی اس انگلی کو حرکت دوں گا اور اس کے بعد کوئی میری مخالفت کی جرات نہیں کرے گا.پھر اگر اس دن کوئی اس کی مخالفت نہ کرے تو اس نبی کی سچائی ثابت ہو گئی.اعتراضات منکرین شاید کہ قارئین کرام یہ جاننا چاہیں گے کہ جن مخالفین نے اعجاز مسیح کے معجزے کو نہ مانا انہوں نے کیا دلیلیں پیش کیں.ہم ذیل میں صرف عرب مخالفین کے کلام کے حوالے سے
مصالح العرب.....جلد اول بات کریں گے.شیخ رشید رضا ایڈیٹر رسالہ المنار نے کہا: 87 اہل علم کی ایک بڑی تعداد اس کتاب سے بہت بہتر کتاب ستر کی بجائے سات دن میں لکھ سکتے ہیں.(المنار المجلد الرابع ) شاید شیخ رشید رضا صاحب کو علم نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں.شاید وہ بھول گئے کہ انبیاء پر ہونے والے اعتراضات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اور انبیاء کے مخالف ہمیشہ ایک سا ہی جواب دیتے چلے آئے ہیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر اعتراض کرنے والوں نے کہا تھا کہ: لَوْ نَشَاء لَقُلْنَا مِثْلَ هَذَا إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ (الانفال:32) یعنی اگر ہم چاہیں تو اس جیسا کلام کہہ سکتے ہیں.کل انہوں نے یہ کہا تھا اور آج شیخ رشید رضا نے کہا کہ اس جیسی کتاب تو بہت سے لوگ لکھ سکتے ہیں.لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کفار مکہ قرآن جیسی کتاب لکھنے میں کامیاب ہو گئے ؟ ہرگز نہیں.اور یہی ان کے جھوٹا ہونے اور عاجز آ جانے کی واضح دلیل ہے.اسی طرح شیخ رشید رضا اس چیلنج کے بعد ثلث صدی تک زندہ رہے.لیکن کیا وہ اس جیسی یا اس سے بہتر کتاب لکھنے میں کامیاب ہو گئے؟ ہر گز نہیں.لہذا یہ شیخ رشید رضا کی کذب بیانی اور افتراء اور عاجز آ جانے کی واضح دلیل ٹھہری.اسی طرح ایک مصری اخبار الفتح نے لکھا کہ: مرزا غلام احمد جھوٹ بولتا تھا کیونکہ اس نے اپنی بے سرو پا کتب لکھنے کے لئے ایک شامی کو تنخواہ پر رکھا ہوا تھا.انہوں نے بھی اپنے اس قول میں اپنے سے قبل انبیاء کے مخالفین کا قول ہی دہرایا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار نے اس بات کا طعنہ دیا تھا اور کہا تھا کہ: إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ (النحل: 104) یعنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی اور آدمی آ کر تعلیم دیتا اور سکھاتا ہے.نادان سمجھ نہیں سکتے کہ اگر کوئی شامی حضور علیہ السلام کی کتابیں لکھتا تھا تو وہ یا مؤمن ہے پا منافق.اس کے علاوہ تیسری کوئی صورت نہیں ہو سکتی.اگر منافق ہے تو نہایت خسیس ہے وہ نص جس نے چند کوڑیوں کے بدلے خدا پر جھوٹ باندھا.اور اگر مخلص مومن تھا تو کتنی عجیب بات ہے کہ باوجود اس کے کہ جانتا تھا جس پر ایمان لایا ہے وہ بے علم ہے بلکہ خود اس سے سیکھتا
مصالح العرب.....جلد اول ہے، پھر بھی اس پر مخلصانہ ایمان رکھتا رہا.اس پر مستزاد یہ کہ ایسے منافق پر الٹمی معارف کی بارش بھی ہوتی رہی ، اور اگر چند کوڑیوں کا بھوکا تھا تو ان کے بدلے حضو علیہ السلام کے مخالفوں کی بھی مدد کر دیتا تا کہ وہ حضور علیہ السلام کا چیلنج قبول کرتے اور اس کا جواب دے سکتے.ایسے ہی انبیاء کے مخالف لوگوں کی عقلیں ماری جاتی ہیں.کیونکہ ان کے اقوال ہمیشہ متضاد ہوا کرتے ہیں.اس کی ایک اور مثال سنیں : اخبار الفتح نے لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ایک شامی عربی نے لکھی ہیں.جبکہ اخبار المنار کے ایڈیٹر شیخ رشید رضا نے لکھا کہ : حضور کی تحریر میں عجمیوں کی سی رکاکت پائی جاتی ہے.اب کوئی بھی عقلمند ان دونوں باتوں کا تضاد حل کر کے نہیں دکھا سکتا.ایک کہتا ہے کہ اتنی اچھی عربی ہے کہ عجمی لکھ ہی نہیں سکتا بلکہ ایک شامی عربی نے لکھی ہے.دوسرا کہتا ہے اتنی پھپھی تحریر ہے کہ صاف پتہ چلتا ہے کسی عجمی نے لکھی ہے.حضرت مسیح موعو علیہ السلام نے اس کا کیا ہی پیارا جواب دیا.آ ب عربی قصیدہ میں 88 فرماتے ہیں: انظُرْ إلى أقوالهم وتَناقُضِ سَلَبَ العناد إصابة الآراء طورًا إلى عرب عَزَوهُ وَتارةً قالوا كلام فاسد الإملاء هَذا من الرحمن يا حزب العدا لا فِعل شامی ولا رُفَقائِی ترجمہ: تو ان کی باتوں اور ان میں موجود تضاد کو دیکھ کہ کس طرح دشمنی نے ان سے درست بات کہنے کی طاقت بھی سلب کر لی ہے.کبھی تو میرے کلام کو کسی عرب کی طرف منسوب کرتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ اس کی تو املاء ہی فاسد ہے.اے گروہ دشمناں! یہ تو خدائے رحمان کی طرف سے ہے.نہ کسی شامی کا کام ہے نہ ہی میرے رفقاء کا.
مصالح العرب.....جلد اول 89 کے حضور علیہ السلام کے اس جواب کے بعد کسی اور جواب کی ضرورت نہیں رہتی.(اعجاز امسیح نزول المسح الهدى والتبصرة لمن يرى، رساله البشری نومبر دسمبر 1935ء) ایک اور چیلنج حضرت مسیح موعو علیہ السلام کو جب شیخ رشید رضا کی بدزبانی اور تمسخر کی خبر ملی تو حضور نے ایک اشتہار شائع فرمایا جس کا کسی قدر بیان ہو چکا ہے.اس اشتہار میں حضور علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ میں ایک اور کتاب لکھتا ہوں جسے ایڈیٹر المنار کو بھجوایا جائے گا اور بڑے اصرار کے ساتھ اس سے اس کتاب کی نظیر طلب کی جائے گی.(اشتہار بتاریخ 18 نومبر 1901ء) چنانچہ حضور علیہ السلام نے بہت تضرع اور خشوع وخضوع سے دعا کی یہاں تک کہ قبولیت دعا کے آثار ظاہر ہو گئے.چنانچہ آپ نے لکھا ( ترجمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے ): اور مجھے اس کتاب کی تالیف کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق بخشی گئی.سو میں تکمیل ابواب اور اس کی طبع کے بعد اسے اس کی طرف بھیجوں گا.اگر مدیر المنار نے اس کا اچھا اور عمدہ رڈ لکھا تو میں اپنی کتابیں جلا دوں گا اور اس کی قدم بوسی کروں گا، اور اس کے دامن سے وابستہ ہو جاؤں گا اور پھر دوسرے لوگوں کی قدر و قیمت اس کے پیمانہ سے لگاؤں گا.سوئیں پروردگارِ جہان کی قسم کھاتا ہوں اور اس قسم سے عہد کو پختہ کرتا ہوں.الهدى والتبصرة لمن مری، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 264) اس کے ساتھ ساتھ حضور علیہ السلام نے خدا سے علم پا کر یہ پیشگوئی بھی فرما دی: "أم له في البراعة يد طولى ؟ سيهزم فلا يُرى، نبأ من الله الذى يعلم السر وأخفى ـ “ 66 یعنی کیا مدیر المنار کو فصاحت اور بلاغت میں بڑا کمال حاصل ہے؟ وہ یقیناً شکست کھائے گا اور میدان مقابلہ میں نہ آئے گا.یہ پیشگوئی اس خدا کی طرف سے ہے جو نہاں در نہاں باتوں کا علم رکھتا ہے.الهدى والتبصرة لمن يرى ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 254) اسی طرح دوسرے ادیبوں اور علماء کے متعلق فرمایا:
مصالح العرب.....جلد اول أم يزعمون أنهم من أهل اللسان ؟ سيهزمون ويولون الدبر یعنی: کیا وہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ اہل زبان ہیں؟ وہ عنقریب شکست کھائیں گے اور میدان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے.90 الهدى والتبصرة لمن يری ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 268 ) چنانچہ حضور علیہ السلام نے لکھ کر 12 جون 1902ء کو کتاب الهدى والتبصرة لمن يرى“ چھاپ دی اور اس کا ایک نسخہ شیخ رشید رضا کو بھی بھجوایا گیا لیکن انہیں یہ توفیق نہ ملی کہ اس کے جواب میں ایسی فصیح و بلیغ کتاب لکھ کر آپ کی پیشگوئی کو باطل ثابت کرتے.سَيُهْزَم فَلا يُرى (ماخوذ از روحانی خزائن جلد 18 ، صفحہ 12) 12 ستمبر 1933 ء کو شام کے مخلص احمدی مکرم منیر الحصنی صاحب نے ایک مضمون لکھ کر مصر کے ایک اخبار الاهرام میں چھپوایا جس میں انہوں نے لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سب سے زیادہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والے تھے جبکہ ایسے عظیم شخص کو شیخ رشید رضانے ایسے مسلمان کا فر کہا اور احمدیوں کو اسلام سے خارج قرار دیا.اس پر 27 ستمبر کے الاحرام کے پرچے میں شیخ رشید رضا نے مکرم منیر الحصنی صاحب کو تلبیس و کذب و تحریف کا مرتکب لکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی اہانت، انگریزوں کے ساتھ منافقانہ طرز عمل اور جہاد منسوخ کرنے کا ملزم ٹھہرایا.مکرم منیر الحصنی صاحب نے شیخ رشید رضا کے جملہ اعتراضات کا کافی وشافی جواب تو دیا اور ساتھ ایک بہت دلچسپ فتوے کی طرف بھی توجہ دلائی جو اسی دن وہاں کے اخبار " السیاسۃ" میں شائع ہوا جس دن شیخ رشید رضا کا مذکورہ بالا مضمون ” الاحرام میں چھپا تھا.یہ فتوی مصر کے شیخ الد جوی صاحب کا تھا جنہوں نے رشید رضا صاحب کو مخاطب کر کے لکھا: "إنك أحد الرجلين ، رجلٌ يلبس على الناس ، أو رجلٌ لا يفهم ما يقول “ یعنی: اے شیخ رشید رضا ، یا تو تم ایسے آدمی ہو جو لوگوں سے دھوکا دہی سے کام لیتا ہے، یا ایسے آدمی ہو جسے پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے.
مصالح العرب.....جلد اول اخبار السیاسیة میں مکرم منیر اکھنی صاحب کا شیخ رشید رضا کے ساتھ یہ مناظرہ چلتا رہا.بالآ خر 5 اکتوبر 1933ء کو شیخ رشید رضا نے اس اخبار کو ایک نوٹ ارسال کیا جس میں لکھا کہ اس طرح کی مباحث اخباروں میں نشر کرنے کو اسلام جائز قرار نہیں دیتا.پھر اخبار السیاسیة کو ملامت کی کہ چونکہ یہ ایک اسلامی اخبار ہے اس لئے اسلام اس کو ایسے آرٹیکلز چھاپنے کی اجازت نہیں دیتا جن کا مقصد اسلام پر کاری ضرب لگانا ہو.وغیرہ وغیرہ.کواس آخر میں انہوں نے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے لکھا کہ میں یہ خط اخبار السیاسیة لئے لکھ رہا ہوں تا ان کو بتاؤں کہ میں ان قادیانی عیسائیوں (ان کی مراد احمدی ہیں) کی باتوں کارڈ نہیں لکھوں گا کیونکہ مجھے علم ہے کہ میرا جواب انہیں ان کی گمراہی سے نہیں موڑ سکے گا بلکہ اس اخبار کے بعض جاہل قارئین کو نقصان پہنچائے گا اس لئے کاش کہ اسلامی اخبارات ان کے متعلق کچھ نہ چھا ہیں.اس پر اخبار السیاسی' کے مدیر نے لکھا کہ ہمارے اخبار کے جس کارنر میں منیر الحصنی صاحب کا مضمون چھپا ہے اس کا نام ہے آراء 7 ، یعنی آزاد آراء.اور ان کا مدیر یا اخبار کے ساتھ اتفاق ضروری نہیں.لیکن اس کے ساتھ یہ بھی وضاحت کر دیں کہ اسلام تو احسن طریق پر مجادلہ کی دعوت دیتا ہے ، اور ایسا دین ہے جو دلیل کے ساتھ بات کرنے کو پسند کرتا ہے.ایسا دین نہیں ہے کہ جو اپنے اتباع کو حکم دے کہ اسلام مخالف بات سننے سے پہلے اپنے (ماخوذ از البشری نومبر دسمبر 1937 ءصفحہ 29 تا43) 91 کان بند کرلو.وغیرہ.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس لکھتے ہیں کہ جب میں حیفا میں تھا اس وقت شیخ رشید رضا نے اپنے رسالہ المنار میں یہ ذکر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سيهزم فلا یری “ میں اس کی موت کی پیشگوئی کی تھی جو غلط نکلی.اس پر میں نے ان کو تفصیلی جواب دیا تھا کہ اس میں کوئی موت کی پیش گوئی نہ تھی بلکہ یہ پیشگوئی تھی کہ ایڈیٹر المنار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب الہدی“ جیسی فصیح و بلیغ کتاب لکھنے کی توفیق نہیں پائے گا.اور باوجود اس کے کہ ایڈیٹر المنار اس پیشگوئی کے بعد میں سال سے زائد عرصہ تک زندہ رہا لیکن اسے یہ توفیق نہ ملی کہ اس کتاب کے جواب میں کوئی کتاب لکھتا.اور اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی کمال آب و تاب سے پوری ہوئی.(روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 12
مصالح العرب.....جلد اول ایک اعتراف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہجرت میخ کا عظیم انکشاف جب عرب ممالک میں پہنچا تو مدیر المنار شیخ رشید رضا نے لکھا: ففراره إلى الهند وموته فى ذلك البلد ليس ببعيد عقلا ونقلا“ 92 یعنی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا ہندوستان کی طرف ہجرت کرنا اور اس ملک میں جا کر وفات پانا عقلی ونقلی اعتبار سے بعید از قیاس نہیں ہے.( تفسیر المنارجلد ۶ ص۳۶) شیخ رشید رضا کے اس قول کی وجہ سے ہمارے مخلص عرب احمدی مکرم ہانی طاہر صاحب کے دل میں احمدیت کی صداقت جاگزیں ہوگئی اور بالآخر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لے آئے.انکے اس سفر کا تفصیلی حال 90ء کی دہائی کے بعض صلحاء العرب و ابدال الشام کے ذکر میں کیا جائے گا.اسی طرح ایک اور نامور عالم اور ادیب محمود عباس عقاد اپنی کتاب ”حیاة السیح وشوف العصر الحدیث میں قبر مسیح کے متعلق حضور کے انکشاف کا ذکر کر کے لکھتے ہیں کہ اسے کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 530) 92
مصالح العرب.....جلد اول 93 فونوگراف کے ذریعہ عربی زبان میں تقریر ریکارڈ کرنے کی تجویز 31 اکتوبر 1910 ء کی ملفوظات کی ڈائری میں لکھا ہے: حضرت اقدس حسب معمول سیر کو تشریف لے گئے راستہ میں فونوگراف کی ایجاد اور اس سے اپنی تقریر کو مختلف مقامات پر پہنچانے کا تذکرہ ہوتا رہا.چنانچہ یہ تجویز کی گئی کہ اس میں حضرت اقدس کی ایک تقریر عربی زبان میں بند ہو جو چار گھنٹہ تک جاری رہے.اس تقریر سے پہلے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی تقریر ایک انٹروڈ کٹری نوٹ کے طور پر جس کا مضمون اس قسم کا ہو کہ انیسویں صدی مسیح کے سب سے بڑے انسان کی تقریر آپ کو سنائی جاتی ہے جس نے خدا کی طرف سے مامور ہونے کا دعوی کیا ہے اور جو مسیح موعود اور مہدی موعود کے نام سے دنیا میں آیا ہے اور جس نے ارض ہند میں ہزاروں لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور جس کے ہاتھ پر ہزاروں تائیدی نشان ظاہر ہوئے ، خدا تعالیٰ نے جس کی ہر میدان میں نصرت کی وہ لو اپنی دعوت بلا داسلامیہ میں کرتا ہے سامعین خود اسے اس کے منہ سے سن لیں کہ اس کا کیا دعوی ہے اور اسکے دلائل اسکے پاس کیا ہیں.اس قسم کی ایک تقریر کے بعد پھر حضرت اقدس کی تقریر ہوگی اور جہاں جہاں یہ لوگ جائیں اسے کھول کر سناتے پھریں.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 378) لیکن بعد میں حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کی آواز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دو نظمیں اس میں ریکارڈ کی گئیں جو حضور نے انہی ایام میں محض تبلیغ کی غرض سے لکھی تھیں.اور ایک سال بعد حضرت مولوی نور الدین صاحب کی آواز میں ایک وعظ بھی ریکارڈ کرایا گیا.
مصالح العرب.....جلد اول 94 ایک پرانا الہام اس عنوان کے تحت ملفوظات جلد 3 میں ایک عرب کے بارہ میں حضور علیہ السلام کے الہامات اور ان کے قبول صدق کے بارہ میں بیان ملتا ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ خوش نصیب کون تھے.ذیل میں ملفوظات کی عبارت نقل کی جاتی ہے.ابتدائے جنوری 1902 ء کو ایک عرب صاحب آئے ہوئے تھے بعض لوگ ان کے متعلق مختلف رائے رکھتے تھے.حضرت اقدس امام علیہ الصلاۃ والسلام کو 9 جنوری کی شب کو اس کے متعلق الہام ہوا : قد جرت عادة الله أنه لا ينفع الأموات إلا الدعاء اس وقت رات کے تین بجے ہوں گے، حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ اس وقت پر میں نے دعا کی تو یہ الہام ہوا: وكلَّمه من كلّ بابٍ ولن ينفعه إلا هذا الدواء (أى الدعاء) اور پھر ایک اور الہام اسی عرب کے متعلق ہوا کہ: فيتبع القرآن، إن القرآن كتاب الله ، كتاب الصادق چنانچہ 9 جنوری 1902ء کی صبح کو جب آپ سیر کو نکلے تو حضرت اقدس نے عربی زبان کی میں ایک تقریر فرمائی جس میں سلسلہ محمدیہ اور موسویہ کی مشابہت کو بتایا.اور پھر سورۃ النور کی آیت استخلاف اور سورۃ التحریم سے اپنے دعاوی پر دلائل پیش کئے.اور قرآن شریف اور احادیث کے مراتب بتائے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عرب صاحب جو پہلے بڑے جوش سے بولتے تھے بالکل صاف ہو گئے.انہوں نے صدق دل سے بیعت کی اور ایک اشتہار بھی شائع کیا اور بڑے جوش کے ساتھ اپنے ملک کی طرف بغرض تبلیغ چلے گئے“.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 210
مصالح العرب.....جلد اول 95 مصر میں تبلیغ ملفوظات میں 29 دسمبر 1902 ء کی ڈائری کے ذیل میں لکھا ہے کہ: ایک احمدی حج کو جاتے ہوئے کچھ عرصہ مصر میں مقیم رہے اور ابھی تک وہیں ہیں.اور حضرت اقدس کی کتب کی اشاعت کر رہے ہیں.انہوں نے لکھا تھا کہ اگر حکم ہو تو میں اس سال حج ملتوی رکھوں اور مجھے اور کتب ارسال ہوں تو ان کی اشاعت کروں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ : ان کو لکھ دیا جاوے کہ کتابیں روانہ ہوں گی.ان کی اشاعت کے لئے مصر میں قیام کریں.اور حج انشاء اللہ پھر اگلے سال کریں."من أطاع الرسول فقد أطاع الله“.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 323-324) مصر میں تبلیغ کے ضمن میں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جنوری 1907ء میں مصر کے شہر اسکندریہ سے ایک شخص احمد زہری بدر الدین صاحب کا 19 دسمبر 1906ء کا تحریر کردہ خط ملا جس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت کا اظہار کیا ہے.(ماخوذ از الاستفتاء ضمیمه هققه الومی جلد 22 صفحہ 653)
مصالح العرب.....جلد اول 96 مواهب الرّحمن مصری جریدہ ”اللواء“ کے ایڈیٹر مصطفی کمال پاشا کو انگریزی زبان میں ایک اشتہار ملا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی اور آپ کے اور آپ کے کامل متبعین کے طاعون سے حفاظت سے متعلق وعدہ الہی کا ذکر تھا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ حفاظت کی بناء پر آپ نے فرمایا کہ مجھے اور میرے الہار میں رہنے والوں کو طاعون کے ٹیکا کے لگوانے کی ضرورت نہیں.اس پر اس مصری اخبار کے ایڈیٹر نے یہ اعتراض کیا کہ آپ نے ٹیکا کی ممانعت کر کے ترک اسباب کیا ہے اور دوا نہ کرنے کو مدار تو کل قرار دیا ہے اور یہ امر قرآن مجید کی مخالف اور آیت وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقره: 196) کے منافی ہے، اور توکل کے بھی خلاف ہے.اس اعتراض کے جواب میں حضرت اقدس علیہ السلام نے عربی میں مواہب الرحمن کے نام سے کتاب تصنیف فرمائی جو جنوری 1903 ء میں شائع ہوئی.اس کتاب میں حضور نے ایڈیٹر موصوف کے اعتراضات کا مفصل جواب عطا فرمایا.نیز اپنے عقائد اور جماعت کی تعلیم اور نشانات کا ذکر فر مایا ہے.یہ معجزہ کی طرح پھرے گی اس کتاب کے بارہ میں حضور نے فرمایا: (ماخوذ از روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 16-17 ) امید ہے کہ یہ معجزہ کی طرح پھرے گی اور دلوں میں داخل ہو گی.اول و آخر کے سب مسائل اس میں آگئے ہیں.خدا کی قدرت ہے.دیر کا باعث ایک یہ ہو جاتا ہے کہ لغات جو کی
97 مصالح العرب.....جلد اول دل میں آتے ہیں پھر ان کو کتب لغت میں دیکھنا پڑتا ہے.میرا دل اس وقت گواہی دیتا ہے کہ اندر فرشتہ بول رہا ہے.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 413) کتاب کی اشاعت اور سعید روحوں کے استفادہ کے متعلق امید اس کتاب کی اشاعت کے بارہ میں حضور نے فرمایا: مسر دست ہیں جلد مواہب الرحمن کی مجلد کروا کر مصر کے اخبار نویسوں کو بھیجی جاویں.اور اگر میری مقدرت میں ہوتا تو میں کئی ہزار مجلد کروا کر بھیجتا.فرمایا: ” یہاں کے لوگوں کا تو یہ حال ہے.شاید مصر کے لوگ ہی فائدہ اٹھا لیں.جس قد رسعید روحیں خدا کے علم میں ہیں وہ ان کو بھینچ رہا ہے“.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 67) اس کتاب کی فصاحت و بلاغت اور سحر کے بارہ میں ملفوظات میں سے ایک اقتباس پیش ہے جس میں ذکر ہے کہ مولوی عبد الکریم اور مولوی حکیم نورالدین صاحبان اس کتاب کی فصاحت و بلاغت کے بارہ میں کلام کرتے رہے کہ: انشاء اللہ بہت ہی سعید روحیں عرب میں ہوں گی جو اسے دیکھ کر عاشق زار ہو جائیں گی.حکیم صاحب بیان کرتے تھے کہ میں حیران ہو ہو جاتا تھا اور جی چاہتا تھا کہ سجدہ کروں پھر حیران ہوتا کہ کون کون سے لفظ پر سجدہ کروں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ: ”ہمارا مطلب یہی ہے کہ چونکہ ہر وقت موقعہ نہیں ہوتا.اکثر کام اردو زبان میں ہوتا ہے اس لئے دو ہزار چھپوا لیا جاوے.جہاں کہیں عرب میں بھیجنے کی ضرورت ہوئی بھیج دیا.مخالفت میں بھی ہمارے لئے برکت ہوتی ہے اور جو لکھتا ہے ہماری خیر کے لئے لکھتا ہے.ورنہ پھر تحریک کیسے ہو“.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 304) 00000
مصالح العرب.....جلد اول 98 98 ایک بغدادی الاصل ڈاکٹر صاحب کی قادیان آمد 13 فروری 1903ء کو لکھنو سے ایک ڈاکٹر صاحب تشریف لائے جن کا نام البدر میں محمد یوسف درج ہے.بقول ان کے وہ بغدادی الاصل تھے اور عرصہ سے لکھنو میں مقیم تھے.ان کے چند احباب نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جاننے کے لئے بھیجا.چنانچہ وہ بعد از مغرب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شرف ملاقات حاصل کیا.پھر ان کی حضور سے گفتگو ہوئی.ذیل میں اس کے چند حصے درج کئے جاتے ہیں: حضرت اقدس: آپ کہاں سے آئے ہیں؟ نو وارد: میں اصل رہنے والا بغداد کا ہوں مگر اب عرصہ سے لکھنو میں رہتا ہوں.وہاں کے چند آدمیوں نے مجھے مستعد کیا کہ قادیان جا کر کچھ حالات دیکھ آئیں.حضرت اقدس: کیا آپ یہاں کچھ عرصہ ٹھہریں گے؟ نو وارد کل جاؤں گا.حضرت اقدس: آپ دریافت حالات کے لئے آئے اور کل جائیں گے.اس سے کیا فائدہ ہوا ؟ یہ تو صرف آپ کو تکلیف ہوئی.دین کے کام میں آہستگی سے دریافت کرنا چاہئے تات کہ وقتاً فوقتاً بہت سی معلومات ہو جائیں.جب آپ کے دوستوں نے آپ کو منتخب کیا تھا تو آپ کو یہاں فیصلہ کرنا چاہئے.جب آپ ایک ہی رات کے بعد چلے جائیں گے تو آپ کیا رائے قائم کر سکیں گے؟ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے : كونوا مع الصادقین کہ صادقوں کے ساتھ رہو یہ معیت چاہتی ہے کہ کسی وقت تک صحبت میں رہے.کیونکہ جب تک ایک حد تک صحبت میں نہ رہے وہ اسرار اور حقائق کھل نہیں سکتے.وہ اجنبی کا اجنبی اور بیگا نہ ہی رہتا ہے اور کوئی رائے قائم نہیں کرسکتا.
مصالح العرب.....جلد اول 99 نووارد: میں جو کچھ پوچھوں آپ اس کا جواب دیں.اس سے ایک رائے قائم ہو سکتی ہے.اگر چہ وہ لوگ جن کی طرف سے میں آیا ہوں آپ کا ذکر ہنسی اور تمسخر سے کرتے ہیں مگر میرا یہ خیال نہیں ہے.آپ چونکہ ہمارے مذہب میں ہیں اور آپ نے ایک دعوی کیا ہے اس کا دریافت کرنا ہم پر فرض ہے.حضرت اقدس : بات یہ ہے کہ مذاق ، تمسخر صحت نیت میں فرق ڈالتا ہے اور ماموروں کے لئے تو یہ سنت چلی آئی ہے کہ لوگ ان پر جنسی اور ٹھٹھا کرتے ہیں.مگر حسرت جنسی کرنے والوں ہی پر رہ جاتی ہے.چنانچہ قرآن شریف میں فرمایا ہے: الوريَا حَسُرَةٌ عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُون ﴾ (سورة يس: 31) اس کے بعد حضور نے اپنے دعوی کی صداقت میں دلائل پیش فرمائے اور صادق کی شناخت کے تین معیار بیان فرمائے جو یہ ہیں : اول : نصوص کو دیکھو.پھر عقل کو دیکھو کہ کیا حالات موجودہ کے موافق کسی صادق کو آنا چاہئے یا نہیں.تیسرا کیا اس کی تائید میں کوئی معجزہ اور خوارق بھی ہیں؟ پھر فرمایا: اب اگر کوئی سچے دل سے طالب حق ہو تو اس کو یہی باتیں یہاں دیکھنی چاہئیں اور اسکے موافق ثبوت لے.اگر نہ پائے تو تکذیب کا حق اسے حاصل ہے.اور اگر ثابت ہو جائیں اور وہ پھر بھی تکذیب کرے تو میری نہیں گل انبیاء کی تکذیب کرے گا.نو وارد: اگر ان ضروریات موجودہ کی بناء پر کوئی اور دعوی کرے کہ میں عیسی ہوں تو کیا فرق ہوگا ؟ حضرت اقدس: اگر آپ کا یہ اعتراض صحیح ہوسکتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت بھی تو بعض جھوٹے نبی موجود تھے جیسے مسیلمہ کذاب، اسود عنسی.اگر انجیل اور توریت میں جو بشارات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود ہیں اس کے موافق یہ کہتے کہ یہ بشارات میرے حق میں ہیں تو کیا جواب ہو سکتا تھا؟ نو وارد: میں اس کو تسلیم کرتا ہوں.حضرت اقدس یہ سوال اس وقت ہو سکتا تھا جب ایک ہی خبر پیش کرتا مگر میں تو کہتا ت ہوں کہ میری تصدیق میں دلائل کا ایک مجموعہ میرے ساتھ ہے.نصوص قرآنیہ حدیثیہ میری
100 مصالح العرب.....جلد اول تصدیق کرتے ہیں.ضرورت موجودہ میرے وجود کی داعی اور وہ نشان جو میرے ہاتھ پر پورے ہوئے وہ الگ میرے مصدق ہیں.ہر ایک نبی ان امور ثلاثہ کو پیش کرتا رہا اور میں بھی یہی پیش کرتا ہوں.پھر کس کو انکار کی گنجائش ہے.اگر کوئی کہتا ہے کہ میرے لئے ہے تو اسے میرے مقابلہ میں پیش کرو.ان فقرات کو حضرت اقدس علیہ الصلاۃ والسلام نے ایسے جوش سے بیان کیا کہ وہ الفاظ میں ادا ہی نہیں ہو سکتا.نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں نو وارد صاحب بالکل خاموش ہو گئے اور پھر چند منٹ کے بعد انہوں نے اپنا سلسلہ کلام یوں شروع کیا: نو وارد عیسی علیہ السلام کے لئے جو آیا ہے کہ وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے کیا یہ صحیح ہے؟ حضرت اقدس: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو آیا ہے کہ آپ مثیل موسیٰ تھے کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ نے عصا کا سانپ بنایا ہو.اور کونسے دریائے نیل پر آپ کا گزر ہوا؟ اور کب اور کس قدر جوئیں مینڈ کیں اور خون آپ کے زمانہ میں برسا؟ کافر یہی اعتراض کرتے رہے: فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرسِلَ الأَوَّلُونَ (الانبیاء:6).معجزہ ہمیشہ حالت موجودہ کے موافق ہوتا ہے.پہلے نشانات کافی نہیں ہو سکتے اور نہ ہر زمانہ میں ایک ہی قسم کے نشان کافی ہو سکتے ہیں.نو دارد: عربی میں آپ کا دعوی ہے کہ مجھ سے زیادہ فصیح کوئی نہیں لکھ سکتا.بے ادبی معاف آپکی زبان سے قاف ادا نہیں ہوسکتا.حضرت اقدس میں لکھنؤ کا رہنے والا تو نہیں ہوں کہ میرا لہجہ لکھنوی ہو.میں تو پنجابی ہوں.حضرت موسیٰ پر بھی یہ اعتراض ہوا کہ لَا يَكَادُ يُبین اور احادیث میں مہدی کی نسبت بھی آیا ہے کہ اس کی زبان میں لکنت ہوگی.اس مقام پر ایک مخلص مخدوم کو یہ اعتراض حسن ارادت اور غیرت عقیدہ کے سبب سے ناگوار گزرا.اور وہ سوء ادبی کو برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے کہا کہ یہ حضرت اقدس ہی کا حوصلہ ہے.اس پر نو وارد صاحب کو بھی طیش سا آ گیا اور انہوں نے بخیال خویش یہ سمجھا کہ انہوں نے غصہ سے کہا ہے اور کہا کہ میں اعتقاد نہیں رکھتا اور حضرت اقدس سے مخاطب ہو کر کہا کہ استہزاء اور گالیاں سننا انبیاء کا ورثہ ہے.حضرت اقدس : ہم ناراض نہیں ہوتے یہاں تو خاکساری ہے.
101 مصالح العرب.....جلد اول ازاں بعد حضور نے نووارد کی اطمینان قلب کے لئے اسکے سوال کا مزید تفصیل.جواب عطا فرمایا اور احباب کو نرم کلامی کو اپنانے کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا اگر مہمان کو ذرہ بھی رنج پہنچے تو ہم اسے معصیت میں سے خیال کرتے ہیں.علاوہ ازیں اس نو وارد نے کئی اور بھی سوالات کئے اور بالآخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صبر ، اخلاق اور صداقت کے دلائل سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں اپنے لئے دعا کی درخواست کی پھر یوں گویا ہوا: میں سچ عرض کرتا ہوں کہ میں بہت بُرا ارادہ کر کے آیا تھا کہ میں آپ سے استہزاء کروں.مگر خدا نے میرے ارادوں کو رڈ کر دیا.اب میں زور دے کر نہیں کہہ سکتا کہ آپ مسیح موعود نہیں ہیں.بلکہ مسیح موعود ہونے کا پہلو زیادہ زور آور ہے.اور میں کسی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ آپ مسیح موعود ہیں.جہانتک میری عقل اور سمجھ تھی میں نے آپ سے فیض حاصل کیا ہے اور جو کچھ میں نے سمجھا ہے میں ان لوگوں پر ظاہر کروں گا جنہوں نے مجھے منتخب کر کے بھیجا ہے.کل میری اور رائے تھی اور آج اور ہے.آپ جانتے ہیں کہ ایک پہلوان بغیر لڑنے کے زیر ہو جائے تو وہ نامرد کہلائے گا.اس لئے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ بدوں اعتراض کئے تسلیم کر لیتا.چونکہ میں معتمد ان لوگوں کا ہوں جنہوں نے مجھے بھیجا ہے اس لئے میں نے ہر ایک بات کو بغیر دریافت کئے مانا نہیں چاہا.(ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ 82 تا 110) 00000
مصالح العرب.....جلد اول 102 مجمع الاحباب والا خوان کا قیام مارچ 1908ء کے دوسرے ہفتہ میں حضرت مولانا نور الدین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اجازت لے کر احباب جماعت کے سامنے ایک اہم دینی تحریک رکھی جس میں عربی زبان سیکھنے اور عربی تعلیم کے لئے عرب ممالک میں بعض لوگوں سے مراسلات کا بھی ذکر ہے.لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے بھی یہاں درج کر دیا جائے.اس تحریک کا ماحصل یہ تھا کہ کوئی ایسا امتیازی نشان مقرر کیا جائے کہ: ہوں.1 - سب تَعَاوَنُوا عَلَى البِر کا مصداق بن کر خدائی فضلوں کے جذب ونزول کا موجب 2.کوئی ایسی تدبیر نکل آوے کہ عربی زبان احمدیوں میں خصوصاً اور مسلمانوں میں عموماً رائج ہو جاوے کہ یہی ذریعہ مسلمانان عالم کے عالمگیر اتحاد کا ہے.اور اسی پر قرآن وحدیث کا فہم وادراک منحصر ہے.3.جہاں جہاں احباب میں باہمی رنجش و کدورت دیکھیں وہاں یہ اصحاب صلح کرا دیں.4.ہر عُسر ویسر میں باہمی مشوروں اور دعاؤں سے کام لیں.5.تائید اسلام میں چھوٹے چھوٹے پمفلٹوں کا سلسلہ جاری کیا جائے.آپ نے اس سلسلہ میں اسکندریہ اور مصر تک خطوط لکھے کہ کس طرح عربی تعلیم اور تقریر و تحریر میں ترقی ہو سکتی ہے.یہ تحریک مجمع الاخوان کی شکل میں قائم ہوئی.تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 175) حضرت مولانا نور الدین نے اس تحریک میں شامل ہونے والوں کے لئے 1400 کارڈز بھی چھپوائے.
103 مصالح العرب.....جلد اول حضرت خلیفۃ اسیح الاول فرماتے ہیں: ”میرا خیال تھا کہ اتنے احباب میرے ہو گئے تو میں حضرت صاحب سے دعا کراؤں گا کہ ہم پر وہ فیضان ہو جو اجتماع پر موقوف ہے.مگر میرے مولیٰ کو میرے دل کی تڑپ کا حال معلوم تھا.میں چودہ سو چاہتا تھا مگر خدا نے مجھے کئی چودہ سو مخلص احباب دیئے اور میری وہ حالت ہوگئی جو تم دیکھتے ہو.(حیات نور صفحہ 320 ) XXXXXXXXXXXX
105 مصالح العرب.....جلد اول حضرت خلیفة المسیح الأول رضی اللہ عنہ ت کے عہد مبارک میں عربوں میں تبلیغ 00000
حضرت حکیم مولوی نورالدین خلیفہ ایسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ
مصالح العرب.....جلد اول 107 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور مبارک میں حضرت ابوسعید عرب صاحب کی بیعت اور ان کے سوالات کا تذکرہ ہوا تھا اس کے بعد کے بعض واقعات سے ایسے لگتا ہے کہ عرب صاحب نے کچھ عرصہ قادیان میں ہی قیام کیا تھا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں حیدر آباد دکن میں شدید طوفان آیا جس سے بہت زیادہ تباہی ہوئی مکانات گر گئے اور کئی لوگ مارے گئے.حضرت خلیفہ اسیح الاول نے وہاں جماعت کے افراد کے حالات دریافت کرنے کے لئے متعدد رجسٹرڈ خطوط اور تار ارسال فرمائے لیکن افراتفری کے عالم میں جماعت کو نہ مل سکے.اس پر آپ نے گھبرا کر حضرت ابوسعید عرب صاحب کو جماعت کی خبر گیری کے لئے روانہ فرمایا، جنہوں نے افراد جماعت کے ساتھ نہایت ہمدردی کی.اس کا بیان جماعت احمدیہ حیدر آباد دکن نے حضرت خلیفہ اُسی الاول کے نام اپنے شکریہ کے خط میں یوں کیا: امیر المؤمنین کی خاص شفقت قلبی و ہمدردی آخر کار یہ کئے بغیر نہ رہ سکی کہ اپنے ایک مخلص محب جناب حافظ ابوسعید صاحب کو اس قدر دور دراز مسافت سے اور خاص اپنے ذاتی مصارف سے ہم دور افتادوں اور مصیبت زدوں کی خبر گیری کے لئے روانہ فرمایا.جناب عرب حب موصوف نے یہاں تشریف لا کر با وجود اپنی علالت کے فرائض مفوضہ کو بخوبی ادا کیا اور ہر احمدی بھائی کو تسلی اور تشفی دینے سے احمدی اخلاق کے اعلیٰ نمونہ کا کامل ثبوت دیا.(ماخوذ از حیات نور صفحہ 420-421
مصالح العرب.....جلد اول 108 انجمن تشخید حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے ایک انجمن تشخیز الاذہان تشکیل دی تھی جس کے بنیادی مقاصد میں سے ایک نوجوانوں کے علمی معیار کو بلند کرنا بھی تھا.مئی 1910ء میں اس انجمن کے بارہ میں اخبار بدر میں لکھا گیا: انجمن تفخیذ خوب ترقی کر رہی ہے لائبریری کا انتظام اعلیٰ پایہ پر زیر غور ہے.ساڑھے دس ماہ سے جو فہرست کتب تیار ہو رہی ہے انشاء اللہ اب جلد مکمل ہونے والی ہے.امید ہے کہ عنقریب ہم ہندوستان اور مصر کے اردو اور عربی چیدہ اخبارات اس کی میز پر دیکھیں گے.نیز لکھا کہ ” صاحبزادہ مرزا محمود احمد کو نو جوانوں کی سدھار کا خاص خیال رہتا ہے.آپ نے ان کالجیٹیوں یا طالب علموں کے لئے جو بعد از امتحان یا گرمیوں کی چھٹیوں میں قادیان آتے ہیں کے لئے ایک تعلیمی نصاب تیار کیا ہوا ہے جس میں قرآن وحدیث کے علاوہ قصیدہ بانت سعاد وغیرہ شامل ہیں.آپ بڑی محنت سے ان کو پڑھاتے ہیں اور عربی سے اور دین سے عمدہ واقفیت کرا دیتے ہیں“.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے عربی زبان کے سیکھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے کی طرف نوجوانوں کو خصوصی طور پر راغب کیا اور خود کوشش کر کے اس کام کو عملی جامہ پہنایا.1912ء میں جب آپ صدر انجمن احمدیہ کے پریذیڈنٹ تھے اور مدرسہ احمدیہ کے بھی انچارج تھے اس کے باوجود آپ خصوصی طور پر اس کام کے لئے وقت نکالتے تھے.آپ نے عربی زبان کو ترویج دینے کے لئے ایک ایسی انجمن بنائی ہوئی تھی جس کے تمام ممبر عربی زبان میں تقریر کرنے کی مشق کرتے رہتے تھے اور جب کوئی عرب قادیان میں آتا تھا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا کہ یہاں کے اکثر نوجوان بڑی سلاست کے ساتھ عربی بول اور لکھ سکتے ہیں.(ماخوذ از حیات نور صفحہ 452-453)
مصالح العرب.....جلد اول 109 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا سفر حج 1912ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے حضرت عبد الحی عرب کے ساتھ ترقی معلومات و علوم عربیہ کی خاطر مصر جانے کا ارادہ فرمایا.اس مبارک سفر کی غرض وغایت کے بارہ میں آپ نے خود فرمایا: 'میرا جانا گو بہت حد تک اپنی صحت کی درستی اور عربی کی تحقیق کے لئے ہے.لیکن اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ وہ تبلیغ کے لئے بھی کوئی نہ کوئی راہ کھول دے گا.(حیات نور صفحہ 581-582) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا یہ سفر گو کہ ابتدائی طور پر محض مصر میں علوم عربیہ کے حصول وغیرہ کے لئے تھا اور مصر سے واپسی پر حج کرنے کا پروگرام تھا.لیکن بعد کے واقعات اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں خدائی حکمتیں مضمر تھیں جن کے تحت آپ کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی تھی اور مصر کا سفر محض اسکے لئے ایک تدبیر تھی.یوں یہ سفر مکہ معظمہ، مدینہ منورہ ، اور مصر وغیرہ پر مشتمل ر جلسہ الوداع اور محترم صاحبزادہ صاحب کی ایک دعا رہا.آپ 26 ستمبر 1912ء کو روانہ ہونے والے تھے اس سے ایک روز قبل 25 ستمبر کو آپ کو الوداع کرنے کے لئے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا.جس میں آپ نے تقریر فرماتے ہوئے اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا: ”میرے دل میں مدت سے خواہش تھی کہ میں مکہ معظمہ جو خدا کے پیاروں کی جگہ ہے وہاں جا کر دعائیں کروں کہ مسلمان اس وقت بہت ذلیل ہورہے ہیں.اے خدا قوم نے تجھ کو
مصالح العرب.....جلد اول 110 چھوڑا، نہ دین رہا نہ دنیا رہی، کوئی تدبیر ان کی اصلاح کی کارگر نہیں ہوتی.اس جگہ تو نے ابراہیم کو وعدہ دیا تھا اور اس کی دعا کو قبولیت کا شرف بخشا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کو قبول کیا تھا.آج پھر وہی دعائیں ہمارے لئے قبول فرما اور اہل اسلام کو عزت اور ترقی عطا کر.دشمن بڑا زبردست ہے اور ہم کمزور ،مگر ہمارا محافظ بھی بڑا از بردست ہے“.اس دعا میں ہم سب کے لئے راہنمائی اور نصیحت کا سامان بھی ہے کہ جس کو اس مبارک سرزمین کی زیارت نصیب ہو تو اسلام اور اہل اسلام کے لئے اس طرح کے پر درد اور رقت آمیز الفاظ میں دعا کرے.سفر پر روانگی 66 26/ستمبر بروز جمعرات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب معه محترم عبد الحجمی عرب صاحب عازم سفر ہوئے.اس سال حضرت میر ناصر نواب صاحب حج کے لئے تشریف لے گئے.لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب کا ارادہ چونکہ پہلے مصر جانے کا تھا اس لئے جدہ میں دونوں بزرگ اکٹھے ہو گئے.عدن میں ورود 21 / اکتوبر کو حضرت صاحبزادہ صاحب عدن پہنچے جہاں مختصر قیام کے دوران آپ نے عدن کی سیر کی.یوں اس سرزمین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذریت طیبہ میں سے سے پہلے حضرت صاحبزادہ صاحب کے قدم مبارک پڑے.مصر میں آمد تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 410) 26 اکتو بر کو آپ عبد الحمی عرب صاحب کے ساتھ پورٹ سعید پہنچ گئے.آپ نے شہر کی مذہبی اور تمدنی حالت کا مختصر جائزہ لیا.ایک قہوہ خانہ میں وہاں کے شیخ الاسلام سے بھی ملنے کا موقعہ ملا.عبدالحی عرب صاحب نے ان سے وفات مسیح کے مسئلہ پر گفتگو کی جس سے وہاں پر موجود لوگ محظوظ ہوئے.تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 411)
مصالح العرب.....جلد اول 111 پورٹ سعید سے آپ کا ارادہ قاہرہ میں جا کر مدارس اور لائبریریاں دیکھنے اور شہر کی معزز شخصیات سے ملاقات کرنے کا تھا.مگر یہاں آپ کو خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ حج کو چلے جاؤ ورنہ پھر جگہ نہ ملے گی.چنانچہ آپ نے وہاں سے مصر کی سیر کئے بغیر مکہ المکرمہ کا سفر اختیار فرمایا.پورٹ سعید سے سویز آتے ہوئے سیکنڈ کلاس میں پانچ آدمی آپ کے ساتھ اور سوار تھے ایک یورپین اور چار مسلمان، جن میں سے دو بدوی رؤساء اور ایک محکمہ تار کا افسر اور ایک ریلوے انسپکٹر تھا.آپ نے ان مسلمانوں کے سامنے اسلام کی حالت زار کا نقشہ کھینچنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی پر روشنی ڈالی.محکمہ تار کا افسر جو عربی کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی اور اٹلی زبان بھی جانتا تھا آپ کی گفتگو سے بہت متاثر ہوا.اور آپ کا پتہ لے کر نوٹ کر لیا اور آئندہ خط و کتابت رکھنے کا وعدہ کیا.اور دوران سفر آپ کو آرام پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی.(ماخذ حیات نور صفحہ 592-594 - تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 416) جدہ اور مکہ سے حضرت صاحبزادہ صاحب کے خطوط مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے جدہ اور مکہ سے مرسلہ خطوط کے بعض اقتباسات بھی نقل کر دئے جائیں تا قارئین کرام کو پتہ چل سکے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اسلام اور جماعت احمدیہ کی ترقی کے لئے کس قدر دعائیں کی ہیں.پہلے خط میں آپ لکھتے ہیں: خدا کے فضل سے مصر سے ہو کر احرام کی حالت جدہ پہنچ گئے ہیں.اللہ اللہ کیا پاک ملک ہے.ہر چیز کو دیکھ کر دعا کی توفیق ملتی ہے.خدا کی رحمتیں اس زمین پر بے شمار ہی معلوم ہوتی ہیں.احباب قادیان کے لئے ، احمدی جماعت کے لئے اور حالت اسلام کے لئے اس قدر دعاؤں کی توفیق ملی ہے کہ بیان نہیں ہوسکتی.میں نے احمدی جماعت کے لئے اور حالت اسلام کے لئے اس سفر میں اس قدر دعائیں کی ہیں کہ اگر وہ ان کا اندازہ لگا سکیں تو انکے دل محبت سے پگھل جائیں.لیکن لَا يَعْلَمُ اَسْرَارَ القُلُوبِ إِلَّا الله تبلیغ کے وقت بھی بڑی کامیابی معلوم ہوتی ہے.لوگ بڑے شوق سے باتیں سنتے ہیں کئی لوگوں نے اقرار کیا ہے کہ وہ غور کی
مصالح العرب.....جلد اول 112 کریں گے اور مجھ سے خط و کتابت کریں گے.اگر کوئی ان بلاد میں آکر رہے تو انشاء اللہ بہت کامیابی ہوگی کیونکہ تعصب اور حسد سے خالی ہیں“.ایک اور خط جو آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ارسال کیا.اس خط میں آپ نے تحریر فرمایا: سیدی و امامی واستاذی.السلام علیکم اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور عنایت سے بخیر وخوبی کل بتاریخ 7 اکتوبر کومکہ مکرمہ پہنچ گئے.خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر اور عنایت ہے کہ اس نے اپنے فضل سے اپنے پاک اور مقدس مقام کی زیارت کا موقعہ دیا.کل جب مکہ کی طرف اونٹ آ رہے تھے دل کی عجیب کیفیت تھی کہ بیان نہیں ہو سکتی.محبت کا ایک جوش دل میں پیدا ہو رہا تھا اور جوں جوں قریب آتے تھے دل کا شوق بڑھتا جاتا تھا.میں حیران ہوں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنی حکمت اور ارادہ کے ماتحت کہاں سے کہاں کھینچ لایا.پہلے مصر کا خیال پیدا ہوا، پھر یہ خیال آیا کہ راستہ میں مکہ ہے اسکی زیارت بھی کر لیں.پھر خیال ہوا حج کے دن ہیں ان سے بھی فائدہ اٹھایا جائے.غرض کہ ارادہ مصر سے مکہ اور حج کا ہوا اور آخر اللہ تعالیٰ نے وہاں پہنچا دیا.مجھے مدت سے حج کی خواہش تھی اور اس کے لئے دعائیں بھی کی تھیں لیکن بظاہر کوئی صورت نظر نہ آتی تھی.کیونکہ وہاں کے رستہ کی مشکلات سے طبیعت گھبراتی تھی اور یہ بھی خیال تھا کہ مخالفین کوئی شرارت نہ کریں.لیکن مصر کے ارادہ سے یہ خیال ہوا کہ مصر جانا اور راستے میں مکہ کو ترک کر دینا ایک بے حیائی ہے.اس میں تو کچھ شک نہیں کہ جدہ سے مکہ کا سفر نہایت کٹھن ہے.اور میر صاحب تو قریباً بیمار ہو گئے اور مجھے بھی سخت تکلیف ہوئی اور تمام بدن کے جوڑ جوڑ ہل گئے.لیکن بڑی نعمتیں بڑی قربانیاں بھی چاہتی ہیں.اس بڑی نعمت کے لئے یہ تکلیف کیا چیز ہے.مدینہ کا راستہ اور بھی طویل اور کٹھن ہے.لیکن چند دن کی تکلیف ان پاک مقامات کو دیکھنے کیلئے کہ جہاں رسول کریم فداہ ابی واقعی نے اپنی بعثت نبوت کا ایک روشن زمانہ گزارا کیا چیز ہے؟ میرا دل تو اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر قربان ہوا جارہا ہے کہ وہ کس حکمت کے ساتھ مجھے اس جگہ لے آیا.ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاء
مصالح العرب.....جلد اول 113 اللہ تعالیٰ کی حکمت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ اول تو اس جہاز سے جو مصر جاتا تھا رہے گئے.لیکن بعد میں جب اصرار کر کے دوسرے جہاز میں سوار ہوئے تو مصر پہنچتے ہی خواب آیا کی کہ حضرت صاحب یا آپ فرماتے ہیں کہ فورا مکہ چلے جاؤ پھر شاید موقع ملے نہ ملے.چنانچہ دو جہاز چلے گئے اور ہم ان میں سوار نہ ہو سکے جس سے خواب کی تصدیق ہو گئی.اس طرح مصر کی سیر بھی نہ کر سکے اور جب مکہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ اب مصر نہیں جاسکتے.کیونکہ گورنمنٹ مصر کا قاعدہ ہے کہ سوائے ان لوگوں کے جو مصر کے باشندہ ہوں حج کے بعد چار مہینہ تک کوئی شخص حجاز و شام سے مصر تک نہیں جا سکتا.میں نے تو ان سب واقعات کو ملا کر یہی نتیجہ نکالا ہے کہ منشائے الہی مجھے حج کروانے کا تھا اور مصر کا خیال ایک تدبیر تھی“.ماخذ حیات نور صفحہ 592-594 ، تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 417-418) ایک اعتراض اور اس کا جواب قدیم سے جماعت احمدیہ پر ایک اعتراض کیا جا رہا ہے کہ ان کا قبلہ دیگر مسلمانوں کے قبلہ سے مختلف ہے اور ان کا حج قادیان میں ہوتا ہے.اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود مرزا بشیر الدین محمود احمد کا ایک اقتباس بھی توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے.گو کہ میڈیا کی ترقی سے جماعت احمدیہ کی آواز کے انتشار میں حائل بے شمار رکاوٹیں بے معنی ہو گئی ہیں اور لوگ بہت حد تک حقیقت کو دیکھنے اور سمجھنے لگ گئے ہیں اس کے باوجود آج کل بھی خصوصا عرب دنیا سے یہ اعتراض بار بار کیا جارہا ہے.اس لئے شاید مناسب ہو کہ یہاں پر آ کر حضرت صاحبزادہ صاحب کے اس سفر کی داستان کے بعض نکات ہی ذکر کر دیے جائیں تو اس اعتراض کا شافی جواب آ جائے گا.مثلاً روانگی سے قبل فرمایا: میرے دل میں مدت سے خواہش تھی کہ مکہ معظمہ جو خدا کے پیاروں کی جگہ ہے وہاں جا کر دعائیں کروں کہ مسلمان اس وقت بہت ذلیل ہو رہے ہیں.اے خدا قوم نے تجھ کو چھوڑا ، نہ دین رہا نہ دنیا ر ہی، کوئی تدبیر ان کی اصلاح کی کارگر نہیں ہوتی.اس جگہ تو نے ابراہیم کو وعدہ دیا تھا اور اس کی دعا کو قبولیت کا شرف بخشا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کو قبول کیا تھا.آج پھر وہی دعا ئیں ہمارے لئے قبول فرما اور اہل اسلام کو عزت
مصالح العرب.....جلد اول اور ترقی عطا کر.114 سرزمین مکہ سے اپنے ایک مکتوب میں فرمایا: اللہ اللہ کیا پاک ملک ہے.ہر چیز کو دیکھ کر دعا کی توفیق ملتی ہے.خدا کی رحمتیں اس زمین پر بے شمار ہی معلوم ہوتی ہیں.مکہ مکرمہ کے بارہ میں ایک خط میں لکھا: 'خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر اور عنایت ہے کہ اس نے اپنے فضل سے اپنے پاک اور مقدس مقام کی زیارت کا موقعہ دیا.کل جب مکہ کی طرف اونٹ آرہے تھے دل کی عجیب کیفیت تھی کہ بیان نہیں ہو سکتی.محبت کا ایک جوش دل میں پیدا ہورہا تھا اور جوں جوں قریب آتے تھے دل کا شوق بڑھتا جاتا تھا.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے نام اپنے ایک خط میں آپ نے لکھا: سرزمین مکہ کی ہر ایک اینٹ اور ہر ایک مکان اور ہر ایک آدمی اور ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ایک ثبوت ہے.اس وادی غیر ذی زرع میں کیا کچھ سامان لا کر اکٹھا کر دیا.کعبہ کو بھی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہر وقت سینکڑوں آدمی گھوم رہے ہیں اور عملی طور پر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے احکام پر قربان کرنے کا اشارہ کر رہے ہیں.پھر اس سرزمین سے کیسا پاک انسان خاتم الرسل پیدا ہوا.ایک اور خط میں آپ نے تحریر فرمایا: دعاؤں سے رغبت اور دعاؤں کا القاء اور رحمت الہی کے آثار جو میں نے اس سفر میں اور خصوصا مکہ مکرمہ اور ایام حج میں دیکھے ہیں وہ میرے لئے بالکل ایک نیا تجربہ ہے.اور میرے دل میں ایک جوش پیدا ہوا ہے کہ اگر انسان کو توفیق ہو تو وہ بار بار حج کرے.کیونکہ بہت سی برکات کا موجب ہے.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 421 ، حیات نور باب ہفتم) کیا کوئی منصف مزاج ان تحریرات کو پڑھ کر مذکورہ بالا اعتراض کو درست تسلیم کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، کیونکہ یہ کلمات بیت اللہ ، اُم القری ، اور دیار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبریز اور ان کے عشق کے عطر سے ممسوح ہیں.
مصالح العرب.....جلد اول مکہ مکرمہ میں تبلیغ اور آپ کے قتل کی سازش آپ نے اپنے ایک خط میں لکھا: ، 115 اس سفر میں بہت سے تبلیغ کے موقعے بھی ملتے رہے ہیں ، اور بہت سے نئے تجربات بھی ہوئے ہیں.شریف مکہ سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا.ایک اور خط میں فرمایا: معلوم نہیں کہ کس طرح مکہ میں ہماری آمد کی اطلاع ہو گئی اور اکثر ہندوستانی اس بات کو جانتے ہیں.مکہ میں میں کچھ ایسا مشہور ہوا کہ بازار میں لوگ بعض دفعہ اشارہ کر کے ایک دوسرے کو بتاتے تھے کہ ابنِ قادیانی اللہ اللہ قادیان حضرت صاحب کی وجہ سے کیسا مشہور ہوا.( حیات نور صفحہ 595 ) وہاں پر لوگوں میں علماء نے بہت غلط باتیں مشہور کر رکھی تھیں مثلاً یہ کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نعوذ باللہ شرعی نبوت کے مدعی ہیں نیز آپ نے جہاد کو قطعی حرام قرار دے دیا ہے.ایک شخص نے جو رشتہ میں آپ کے ماموں تھے اور بھوپال کے رہنے والے تھے ، بھوپال کے ایک رئیس ( خالد نامی) کے ساتھ مل کر آپ کے خلاف سخت شورش بھی شروع کر دی.اور لوگوں کو یہ کہہ کر بھڑ کانے لگے کہ یہ قادیانی کفر پھیلاتے ہیں.اور ساتھ ہی اہل حدیث مولوی ابراہیم سیالکوٹی کو ( جو اس سال حج کو گئے تھے ) مباحثہ کے لئے آمادہ کر لیا.مقصد یہ تھا کہ مکہ میں باقاعدہ حکومت کوئی نہیں اگر مباحثہ ہوا تو لوگ جوش میں آ کر انہیں قتل کر دیں گے.اس شخص نے یا اس کے ساتھیوں نے گورنمنٹ حجاز کو بھی توجہ دلائی کہ آپ کے خلاف فوری کاروائی کرے اور اس فتنہ کو بڑھنے سے روکے.عبدالحی عرب صاحب کے پاس جب مولوی ابراہیم صاحب کی دعوت مباحثہ پہنچی تو عرب صاحب نے پیغام لانے والے کو جواب دیا کہ ہم یہاں مباحثات کے لئے نہیں آئے ، حج کی غرض سے آئے ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب کو اس اشتعال انگیزی کا ابھی تک کوئی علم نہ تھا.ایک دن آپ ایک عرب عالم مولانا عبد الستار قبطی کو جو شریف مکہ کے بچوں کے استاد تھے تبلیغ کے لئے گئے.وہ عقیدہ کے لحاظ سے اہل حدیث تھے مگر چونکہ ان دنوں اہل حدیثوں کو سخت نفرت وحقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اس لئے وہ اپنے تئیں حنبلی ظاہر کرتے تھے.آپ کافی دیر
مصالح العرب.....جلد اول 116 تک ان کو تبلیغ کرتے رہے.آخر وہ کہنے لگے: آپ نے مجھے تو تبلیغ کر لی ہے اور آپ کی باتیں بھی معقول ہیں.لیکن میرے سوا کسی اور کو تبلیغ نہ کریں ورنہ آپ کی جان کی خیر نہیں.اور خطرہ ہے کہ کوئی شخص آپ پر حملہ نہ کر بیٹھے.یا حکومت ہی آپ کو قید نہ کر دے.پھر اس نے آپ کے غیر احمدی ماموں کا نام لیا کہ اس نے آپ کے خلاف اشتہار دیا یا دلوایا ہے.اور لکھا کہ اگر انہیں اپنے دعاوی کی صداقت پر یقین ہے تو مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی سے مباحثہ کر لیں.مولا نا عبد الستار صاحب فرمانے لگے : میں نے مولوی سیالکوٹی صاحب سے کہا ہے کہ کہیں جوش میں آکر مباحثہ نہ کر بیٹھنا.کیونکہ یہاں احمدیوں سے زیادہ اہلحدیثوں کی مخالفت ہے.احمدیوں کے خلاف کسی کو اشتعال آیا یا نہ آیا تمہارے خلاف ضرور لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان سے پوچھا کہ آپ کس طرف سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں؟ انہوں نے ایک عالم کا نام لیا کہ اسے تو بالکل تبلیغ نہ کرنا.اس پر حضور نے ان کو بتایا کہ میں اسے ایک گھنٹہ تبلیغ کر کے آ رہا ہوں.وہ حیران ہو کر بولے پھر کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا: تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ غصہ اور جوش کی حالت میں کہہ دیتے تھے کہ: نہ ہوئی تلوار ہمارے قبضہ میں ورنہ تمہارا سر قلم کر دیتا.غرض مکہ میں مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں اور وعدوں کے مطابق آپ کے غلام کی آواز پوری قوت وشوکت سے آخر دم تک پہنچاتے رہے.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 3 صفحه (420) مکہ معظمہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب کا ایک مبارک رؤیا مکہ معظمہ سے ایک خط میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنا ایک مبشر خواب بھی درج فرمایا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ سے اسلام اور احمدیت کو بہت ترقی دینے والا تھا.آپ فرماتے ہیں: دمیں نے رویا میں دیکھا کہ ایک جگہ ہوں اور میر صاحب اور والدہ ساتھ ہیں.آسمان سے سخت گرج کی آواز آرہی ہے اور ایسا شور ہے جیسے تو پوں کے متواتر چلنے سے پیدا ہوتا ہے اور سخت تاریکی چھائی ہوئی ہے.ہاں کچھ کچھ دیر کے بعد آسمان پر روشنی ہو جاتی ہے.اتنے میں
مصالح العرب.....جلد اول 117 اس دہشت ناک حالت کے بعد آسمان پر ایک روشنی پیدا ہوئی اور نہایت موٹے اور نورانی الفاظ میں آسمان پر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ الله لکھا گیا.میں نے میر صاحب سے پوچھا : آپ نے یہ عبارت نہیں دیکھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں.میں نے کہا کہ ابھی آسمان پر یہ عبارت لکھی گئی ہے.اس کے بعد کسی نے بآواز بلند کچھ کہا جس کا مطلب یا د رہا کہ آسمان پر بڑے بڑے تغیرات ہو رہے ہیں جس کا نتیجہ تمہارے لئے اچھا ہوگا.اس کے بعد اس نظارہ اور تاریکی اور شور کی دہشت سے آنکھ کھل گئی.واللہ اعلم بالصواب.حج کے بعد مکہ معظمہ سے قادیان واپسی اور بعض مخالفین کا انجام حج میں آپ نے اسلام احمدیت اور اہل قادیان کے لئے بیشمار دعائیں کیں.حج کے بعد آپ کا ارادہ کچھ عرصہ اور اس مقدس سرزمین پر قیام کرنے کا تھا مگر ایک تو آپ بیمار ہو گئے دوسرے حج ختم ہوتے ہی مکہ میں ہیضہ پھوٹ پڑا.جو اتنا شدید تھا کہ لوگ گلیوں میں مُردوں کو پھینک دیتے تھے اور دفن کرنے کا موقعہ ہی نہیں ملتا تھا.یہ دیکھ کر حضرت نانا جان گھبرا گئے.اور انہوں نے کہا ہمیں جلدی واپس چلنا چاہئے.چنانچہ آپ نے واپسی کی تیاری شروع کر دی.آخری ملاقات کے لئے جب اس غیر احمدی ماموں کی طرف گئے تو معلوم ہوا کہ منی سے واپسی پر وہ ہیضہ کے حملہ کی تاب نہ لا کر تھوڑی دیر میں ہی فوت ہو گئے ہیں.جب آپ جدہ پہنچے تو جدہ کے انگریزی قونصل خانہ میں بھی آپ کے ننھیال کے ایک رشتہ دار تھے.آپ ٹکٹ کے لئے ان کے ہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آپ کو کمپنی کا ملازم سمجھ کر بڑی لجاجت سے کہا کہ ہمارا قافلہ تمیں بہتیں عورتوں اور مردوں پر مش اور اس وقت سخت مصیبت کا سامنا ہے.مگر ہمیں سب سے زیادہ فکر عورتوں کا ہے.ہیضہ کی وجہ سے عورتیں تو پاگل ہورہی ہیں.اگر آپ دس بارہ ٹکٹ خرید دیں تو ہم عورتوں کو یہاں سے رخصت کر دیں.آپ نے فرمایا: عورتیں اکیلی کس طرح جائیں گی ؟ اس پر اس نے کہا : آپ دو چار اور ٹکٹ لے دیں تو کچھ مرد بھی ان کے ساتھ جاسکیں گے.اور ساتھ ہی ہے
00000 مصالح العرب.العرب......جلد اوّل 118 روپوں کی ایک تحصیلی آپ کو پکڑا دی.چنانچہ آپ نے اپنے رشتہ دار سے کہا کہ ان لوگوں کی حالت بہت قابل رحم ہے آپ ان کو بھی ٹکٹ لا دیں.وہ اس وقت کسی بات پر چڑے ہوئے تھے کہنے لگے : کیا میں کوئی ایجنٹ ہوں کہ ٹکٹ لاتا پھروں.مگر آپ نے دوبارہ کہا کہ یہ رحم کا معاملہ ہے آپ ضرور کوشش کریں.اور اگر ان کے لئے نہیں تو کم از کم میری خاطر ہی ٹکٹ لا دیں.وہ واپس گئے اور تھوڑی ہی دیر میں غالبا سترہ ٹکٹ لے کر واپس آئے.آپ نے وہ ٹکٹ اور باقی رو پے کھڑکی میں سے اس شخص کو پکڑا دیئے.شاید دوسرے ہی دن جب آپ اپنے نانا جان کے ساتھ (منصورہ نامی ) جہاز پر سوار ہونے کے لئے گئے ، اور جبکہ جہاز چلنے ہی والا تھا وہ نوجوان جہاز کے دروازہ پر ہی آپ کو ملا اور کہنے لگا: آپ نے اتنی دیر لگا دی جہاز تو چلنے والا ہے.چنانچہ انہوں نے خود ہی مزدوروں پر زور دے کر جلد جلد آپ کا اسباب جہاز میں رکھوایا اور پھر بڑی ممنونیت کا اظہار کیا کہ آپ نے بڑا احسان کیا جو ہمیں ٹکٹ لے کر دیئے ورنہ ہمارا اس جہاز پر سوار ہونا بالکل ناممکن تھا.آپ نے اس کا نام پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ وہی (خالد) ہے جو مکہ میں بحث مباحثہ کرا کے آپ کو مار دینے کی سازش میں شریک تھا.یہ 25 / دسمبر کا واقعہ ہے.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 8 صفحه 452 تا 454 )
مصالح العرب.....جلد اول 119 عربی زبان میں ایک چار صفحہ کا ٹریکٹ شائع کرنے کی تجویز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے سفر حج سے واپس تشریف لانے کے بعد غالبا فروری 1913ء میں عرب ممالک کے لوگوں تک پیغام حق پہنچانے کے لئے ایک چہار صفحات کا ضمیمہ بزبان عربی اور ساتھ ہی اردو ترجمہ بھی شائع ہونا تجویز کیا گیا.اس کی ادارت کے لئے جناب سید عبدالحی عرب صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں.مصر، حجاز، بغداد اور عربستان، علاقہ ایران وغیرہ سے معززین کے پتے بھی حاصل کر لئے گئے.اور دوستوں میں تحریک کی گئی کہ اگر اس ٹریکٹ کے ایک ہزار خریداروں کی طرف سے سالانہ چندہ دو روپے کی ادائیگی کا وعدہ آجائے تو ٹریکٹ جاری کر دیا جائے گا اور پہلا پر چہ سب صاحبان کے نام وی پی کیا جائے گا.اور عربی ضمیمہ ان کی طرف سے ان ملکوں میں روانہ کیا جائیگا.یا وہ چاہیں تو خود منگوا کر اور پڑھ کر کسی ملک کو روانہ کر دیں.(ماخوذ از حیات نور صفحه 599-600 ) بعد ازاں غالباً مئی 1913ء میں یہ قرار پایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام مصالح العرب کے پورا کرنے کے واسطے اخبار بدر کے ساتھ ایک چار صفحات کا ضمیمہ عربی زبان میں معہ ترجمہ اردو شائع کیا جایا کرے اور عربی ممالک میں معززین کے نام بھیجا جایا کرے.غالباً اسی تجویز کا بعد ازاں نئے پیرایہ میں یوں فیصلہ ہوا کہ اخبار ہذا کا ایک ماہوار ایڈیشن عربی زبان میں نکالا جائے جس کی ادارت کے فرائض سید عبد الحی عرب صاحب ادا کریں.اس تجویز کو دوستوں نے بہت پسند کیا اور بعض احباب نے پیشگی چندہ بھی جمع کروا دیا.(ماخوذ از حیات نور صفحہ 619-620 )
120 حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی مصر روانگی مدرسہ احمدیہ کو عربی علوم کے چوٹی کے اساتذہ کی ضرورت تھی یہ خلا پُر کرنے کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے جولائی 1913ء کے آخری ہفتہ میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور شیخ عبد الرحمن صاحب لاہوری کو عربی تعلیم کے حصول کے لئے مصر روانہ فرمایا.لیکن اس فیصلہ تک پہنچنے سے پہلے کے مراحل کا حال حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی زبانی ذیل میں درج کیا جاتا ہے جو مکرم احمد طاہر مرزا صاحب کی تالیف حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب سے ماخوذ ہے.آپ فرماتے ہیں: میں نے رویا میں دیکھا کہ میں بلاد عر بیہ میں تبلیغ کے لئے گیا ہوں اور مجھے وہاں کامیابی ہوئی ہے...حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کے مکتب میں حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ سے میں نے دو تین سال پڑھا.اس دوران میں حضور کی عیادت کا بھی مجھے موقع ملا.جب حضور گھوڑے سے گر کر زخمی ہوئے ہیں انہی دنوں کی بات ہے.شیخ تیمور احمد صاحب جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے سے آپ نے فرمایا کہ ولی اللہ شاہ کو وقف کی تحریک کی جائے اور ان سے میرے متعلق اچھی امید کا اظہار فرمایا.چنانچہ شیخ تیمور احمد صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ میں مخلص ہو کر دینی تعلیم
مصالح العرب.....جلد اول 121 حاصل کروں اور کالج کی تعلیم کا خیال چھوڑ دوں اور جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ، حضرت حافظ روشن علی صاحب اور شیخ تیمور کو مفتاح العلوم کا سبق پڑھانے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے مجھ سے بھی فرمایا کہ میں بھی شریک ہو جاؤں.مجھے عربی کا بہت معمولی علم تھا بلکہ نہ ہونے کے برابر.میں حیران ہوا بلکہ میرے ساتھی بھی حیران ہوئے لیکن حکم کی تعمیل میں دو تین سبقوں میں شریک ہوا.مجھے اپنی کمزوری کا نہایت درجہ احساس ہوا.حضرت حافظ صاحب سے سبق پڑھنے کیلئے جد و جہد کی.میرے دوست مرزا برکت علی صاحب بھی میرے ساتھ وہی سبق پڑھتے تھے جو میں پڑھتا تھا.مسجد مبارک میں ہمیں حافظ صاحب پڑھا رہے تھے ایک دن مجھ سے کہنے لگے.تہانوں نہیں عربی اونی میں نے ہنستے ہوئے کہا میرا بھی یہی خیال ہے.کون زیر زبر پیش کے ساتھ ساتھ ہر دفعہ آنکھیں اُونچی نیچی کرے.اگر یہ زیر زبر پیش نہ ہو تو پڑھنا ناممکن ہے.اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ پڑھائی جاری رکھوں یا نہ رکھوں.ایک جمعہ کے دن مسجد مبارک کے اُس حجرہ میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سرخی والا نشان دکھایا گیا تھا بیٹھا پڑھ رہا تھا.اسی کمرہ میں میری رہائش تھی حضرت خلیفہ اسیح الثانی میرے پاس تشریف لائے اور ادھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں.دورانِ گفتگو میں مجھ سے فرمایا.کیا خیال ہے اگر آپ کو مصر بھیج دیا جائے تو آ وہاں عربی پڑھیں.مدرسہ احمدیہ کے لئے بھی ہمیں ضرورت ہے.میں یہ بات مذاق سمجھا لیکن بار بار فرمایا.مذاق نہیں یہ اقرار کریں تو ابھی انتظام کیا جا سکتا ہے.آپ اُٹھے نہیں جب تک کہ مجھ سے پختہ اقرار نہیں لے لیا اور چند دنوں میں میری اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے سفر کی تیاری ہو گئی اور حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے دعا کے ساتھ ہمیں الوداع کیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خوش خوش با ہر شہر سے جا کر ہمیں یکے پر بٹھا کر رخصت کیا.یہ واقعہ 1913ء کا ہے.حضرت خلیفہ اول کی بیش قیمت نصائح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور شیخ عبد الرحمن صاحب لاہوری کی روانگی سے قبل مورخہ 5 جون 1913ء کو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے انہیں دو خطوط لکھ
122 مصالح العرب.....جلد اول کر دیئے تھے جو بیش قیمت نصائح اور ہدایات پر مشتمل ہیں.ہم ذیل میں مبلغین اور طالبعلموں کے فائدہ کے لئے خصوصاً اور افراد جماعت کے لئے عموماً ان میں سے چند نصائح درج کرتے ہیں جو آج بھی مشعل راہ ہیں اور ان پر عمل کرنا بیش بہا برکتوں کا موجب ہوگا.ان نصائح میں آپ نے علم کی فضیلت اہمیت اور مختصر فہرست علوم و کتب بھی درج فرمائی نیز فرمایا کہ: طالبعلم کو چاہئے کہ علم محض اللہ سیکھے ، اور اللہ کی مدد لے کر اور اللہ تعالیٰ میں ہو کر سیکھے.شریعت کے احکام کا عالم بنے اور فخر کرنے والا نہ ہو، نہ ہی بڑائی جتانے والا ہو.دوسروں سے علمی باتیں کر کے اپنا علم پکا کرتا رہے اور بار بار پڑھتا اور یاد کرتا رہے ، اور ایک دن کا کام دوسرے دن پر نہ ڈالے“.زبان بولنے سے اور سننے سے آتی ہے.صرف و نحو کے پڑھنے سے ہرگز نہیں آتی.کیا ہم نے پنجابی صرف و نحو پڑھ کر سیکھی ہے؟ کبھی صرف ونحو پر وقت ضائع نہ کرو.گاہے گا ہے توفیق ملے تو مکہ معظمہ ، بیت المقدس ، اور دمشق ، شام چلے گئے.ہر ہفتہ لکھ دیا کرو.کوئی عجیب بات اس سے عمدہ نہیں کہ دعائیں مانگو.اللہ تعالیٰ کو مددگار بناؤ، اسی سے یار و مددگار طلب کرو.میرے لئے صرف دعا‘“.جدیدہ مطبوعات سے آگاہی ، مفید کتاب کی نقل جوطبع ہونے والی نہ ہو.قیمت میں وو حیات نور صفحہ 631-632) روانہ کروں گا“.یہ تمام نصائح ہی بیش قیمت اور سنہری حروف سے لکھنے والی ہیں.لیکن خدا تعالیٰ سے دعا، اسی کی خاطر علم کا حصول اور خلیفہ وقت کے لئے دعا اور ہر نئی علمی اور تحقیقی خبروں سے اسے باخبر رکھنا اور خلیفہ وقت کی خدمت میں ایسے امور کے ساتھ دعا کی غرض سے خطوط لکھتے رہنا ایسے بنیادی زریں اصول ہیں کہ جنہیں ایک احمدی کو حرز جان بنا لینا چاہئے.حضور کے دوسرے خط سے پتہ چلتا ہے کہ ابو سعید عرب صاحب ان دنوں وہاں بلاد عربیہ میں مقیم تھے کیونکہ حضور نے حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب لاہوری کو اس خط میں لکھا کہ ابوسعید عربی صاحب سے مل کر طریق تعلیم کے بارہ میں راہنمائی حاصل کریں.(حیات نور صفحہ 633)
مصالح العرب.....جلد اول 123 بلا د عربیہ میں قیام کے دوران کے بعض امور کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب لکھتے ہیں: قاہرہ اور بیروت میں تعلیم قاہرہ میں قدیم طریقہ تعلیم سے میرا دل اچاٹ ہو گیا.ابھی چار ماہ گذرے تھے کہ اس تصرف سے بیروت دیکھنے کا مجھے موقع ملا اور میں نے شیخ عبد الرحمن مصری صاحب کو قاہرہ چھوڑ کر بیروت میں پڑھائی شروع کر دی.اتنے میں جنگِ عظیم اوّل شروع ہوگئی اور بیروت خطرہ میں تھا.میرے اساتذہ نے مجھے مشورہ دیا کہ میں حلب چلا جاؤں.چنانچہ میں حلب آیا اور یہاں اعلیٰ پایہ کے اساتذہ سے تعلیم حاصل کی.اسی اثنا میں مجھے سات ماہ ایک ترکی رسالہ میں بھی خدمت کا موقع ملا اور میری اس خدمت کے صلہ میں سفارش کی گئی کہ ترکی کے امتحان کی شرط سے مجھے مستثنیٰ کیا جائے.صلاح الدین ایوبیہ کالج بیت المقدس بیت المقدس میں میں نے امتحان دیا اور اچھے نمبروں پر پاس ہوا.اور صلاح الدین ایوبیہ کالج بیت المقدس میں بطور استاد متعین ہو گیا اور یہاں عربی میں پڑھانے اور تعلیم جاری رکھنے کا سنہری موقع ملا.فنِ تعلیم و تدریس میں مقابلہ کے ایک امتحان کا اعلان ہوا جس میں کئی اساتذہ شریک ہوئے.میں اس امتحان میں اول رہا اور مجھے تمغہ اور پچاس اشرفیاں انعام ملیں اور شام کی یونیورسٹی سے جو سند بہ دستخط وزیر تعلیم اور کونسل جاری کی گئی وہ بھی تعلیمی لحاظ سے میرے لئے بہت خوش کن تھی.اس میں اس بات کا ذکر تھا کہ ایک قلیل عرصہ میں علوم آداب عربیہ کی ایسی قابلیت حاصل کر لینا ایک نادر بات ہے.(الحمد لله على ذلك) یہ میری تعلیمی جدوجہد کی مختصر سر گذشت ہے.( مشار الیہ سند مع قیمتی لائبریری ۱۹۴۷ء میں بوقت تقسیم لوٹ میں ضائع ہوگئی) صلاح الدین ایوبیہ کالج میں مجھے تاریخ ادیان، انگریزی اور اُردو پڑھانے کا موقع ملا اور شام میں انگریزوں اور امیر فیصل کی افواج کے داخل ہونے کے بعد مجھے سلطانیہ کالج کا وائس پرنسپل منتخب کیا گیا اور یہاں علم النفس (Psychology) اور علم الاخلاق (Ethics) کے مضامین دیئے گئے.
مصالح العرب.....جلد اول اسیری اور رہائی 124 اکتوبر 1918ء کے آخر میں جنرل ایلیٹ کے حکم سے جوڈیشل ملٹری نے مجھے حراست میں لیا اور بطور اسیر جنگی اور اسیر سیاسی قاہرہ لے گئے اور جنگ ختم ہونے کے بعد مئی 1919 ء کے اواخر میں لاہور لایا گیا.بظاہر میں حکومت برطانیہ کا شاہی قیدی تھا لیکن حقیقت میں آسمانی اسیر تھا جس سے سلسلہ کے لئے کئی ایک خدمات لینا منشائے الہی تھا.یہاں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجھے آزاد کروایا.ان دنوں پنجاب کے گورنر ریڈوائر (Redwire) تھے.حضرت مولوی شیر علی صاحب، چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب وغیرہ ان کے پاس لاہور بھیجے گئے.اس تحریری ہدایت کے ساتھ کہ اگر پچاس ہزار روپیہ کی ضمانت بھی دینی پڑے دی جائے.غرض مجھے قادیان جانے کی اجازت دی گئی.اس پابندی کے ساتھ کہ اگر باہر کسی جگہ جانا ہو تو گورنمنٹ کو اطلاع دینا ضروری ہوگا اور یہ نگرانی دیر تک رہی.(ماخوذ از کتاب حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب تالیف احمد طاہر مرزا) دوعربوں کا قادیان میں ورود ستمبر 1913ء میں دو عرب قادیان میں تشریف لائے.ایک نے خوش الحانی سے حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل کو قرآن شریف سنایا جس سے حضور خوش ہوئے اور اسے نصیحت کی کہ ایک جگہ قیام کرنا چاہئے شہر شہر پھرنے سے کوئی فائدہ نہیں.(حیات نور صفحہ 639) یہاں قارئین کرام کی یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ یہ اس وقت کی باتیں ہیں جب عرب ملکوں سے تیل کی دولت ابھی نہیں نکلی تھی اور ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت ہونے کی وجہ سے تجارتی اور مادی احوال بہتر تھے اس لئے کئی عرب ہندوستان میں تجارت کی غرض سے آتے تھے اور بعض عرصہ دراز تک ادھر ہی رہائش اختیار کئے رکھتے تھے.نیز بعض سیاحت اور عربی زبان اور دینی علوم سکھانے وغیرہ کو بھی پیشہ بنا کر اس ملک میں قیام کرتے تھے.
125 مصالح العرب.....جلد اول XXXXXXXXXXXX حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں عربوں میں تبلیغ 00000
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
مصالح العرب.....جلد اول 127 بلاد اسلامیہ کے لئے عربی ٹریکٹ حضرت اقدس سیدنا مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کو ایک عربی الہام میں خبر دی گئی تھی کہ رومی سلطنت کسی وقت بیرونی دشمنوں سے مغلوب ہو جائے گی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر غلبہ پائے گی.( تذکره طبع دوم صفحه 509) حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے اپنی خلافت کے پہلے سال بلا د اسلامیہ میں اس کی اشاعت کرنے کے لئے الدِّيْنُ الحَی (زندہ مذہب کے نام سے عربی زبان میں ایک ٹریکٹ لکھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کے ظہور پر روشنی ڈالی اور تمام عالم اسلام کو حضور علیہ السلام کے دعوے پر ایمان لانے کی پر زور دعوت دی اور اعلان فرمایا کہ جو اصحاب مامور وقت کی صداقت کے متعلق تحقیق کرنا چاہیں وہ خط و کتابت کے ذریعہ بھی کر سکتے ہیں.از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 153 )
مصالح العرب.....جلد اول 128 حضرت ولی اللہ شاہ صاحب کا اعزاز حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے 1914ء میں بیروت میں عربی زبان کے ماہر اساتذہ سے تعلیم حاصل کی جن میں سے ایک مشہور استاد الشیخ صلاح الدین الرافعی تھے.ان سے تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں احمدیت کی تبلیغ بھی کی.الشیخ } صلاح الدین الرافعی آپ کے اخلاق اور شخصیت سے بہت متاثر ہوئے اور دعوت احمدیت قبول کرنے کی سعادت پائی.چنانچہ اس مناسبت سے انہوں نے ایک دعوت کا اہتمام کیا جس میں حضرت شاہ صاحب کے علاوہ بیروت سے معززین کی ایک جماعت کو بھی مدعو کیا اور ان کے سامنے اپنے احمدیت میں داخل ہونے کا اعلان کیا.اس کے بعد پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی.پہلی جنگ عظیم سے قبل عثمانیوں نے اسلامی ممالک میں عیسائیت کی یلغار اور اس کے بالمقابل کسی بھی اسلامی ملک کی اسلام کے دفاع کے کام میں ست روی اور کسی دینی جماعت کے اس مقصد کے لئے کھڑے نہ ہونے کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا.جب ترکی اس عالمی جنگ میں شامل ہوا تو بلا دشام کی قیادت جمال پاشا نامی قائد کو سونپی گئی جس نے قدس شریف میں ایک دینی کالج قائم کیا جس کا نام ” کلیۃ صلاح الدین الایوبی“ رکھا جو کہ ” الکلیۃ الصلاحیۃ“ کے نام سے مشہور ہوا.اس کالج کے قیام کا بنیادی مقصد دین اسلام کی تبلیغ کے لئے لوگ تیار کرنا تھا.چنانچہ اس کالج کے لئے جمال پاشا نے اس وقت کے بڑے بڑے علماء کو استاد کے طور پر رکھا جیسے الشیخ ہاشم الشریف الخلیل البیروتی، علامہ الشیخ بشیر الغربی الحکمی ترکی پارلیمنٹ کے ممبر، الشیخ صالح الرافعی ، عبد العزیز جاولیش ، رستم حیدر، عبد القادر المغربی ، جودت الہاشمی وغیرہ.اور اس کالج میں تاریخ ادیان
مصالح العرب.....جلد اول 129 پڑھانے کے لئے حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کا انتخاب کیا گیا.آپ کے شاگردوں میں سے ایک با سعادت شاگر د مکرم منیر اکھنی صاحب آف شام بھی تھے.جب جنگ ختم ہوئی اور عرب فوجیں اپنے حلیفوں کے ساتھ دمشق میں داخل ہوئیں تو آپ کو سلطانیہ کالج کا وائس پرنسپل مقرر کیا گیا.لیکن انگریزوں نے آپ کو اسیر بنالیا.چنانچہ ایک لمبے عرصہ تک آپ کے متعلق کسی کو کچھ پتہ نہ چل سکا.حتی کہ آپ اسیری میں لاہور لائے گئے جہاں سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آپ کو آزاد کروایا.(ماخوذ از مجلۃ البشری جنوری، فروری 1937 ء صفحہ 45 تا 49 ) یہاں پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شاہ صاحب کے اس عرصہ کے بعض واقعات کا بھی تذکرہ کر دیا جائے جو مکرم شیخ نوراحمد منیر صاحب نے تحریر فرمائے ہیں ، وہ لکھتے ہیں: حضرت شاہ صاحب اپنے اساتذہ کے محبوب ترین شاگردوں میں سے تھے اور آپ کو بھی اپنے اساتذہ کا از حد احترام تھا.آپ اپنے اساتذہ کے بارہ میں لکھتے ہیں: د میں اس گھڑی کو ہر وقت یاد کرتا ہوں کہ جب میرے یہ استاد مجھے پڑھایا کرتے تھے.تاریک رات ، موسلا دھار بارش، غضب کی ٹھنڈک اور سردی، اور نیند کا شدید غلبہ، بعض اوقات رات کے بارہ بج جاتے ، مگر یہ اساتذہ مجھے پڑھانے کی انتہائی خواہش رکھتے تا کہ میں اپنی تعلیم کی جلدی سے تکمیل کر سکوں اور یہ کام محض بغیر اجر وخواہش کے کیا کرتے تھے کیونکہ ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ مجھ میں خیر و برکت کو دیکھتے ہیں.تِلْمِيذُ مِنْ تَلَامِيذِ المَهْدِى“ الشیخ صالح الرافعی آپ سے بہت ہی محبت و عقیدت رکھتے تھے اور وہ آپ کی ( دعوت الی اللہ ) سے بیعت بھی کر چکے تھے چنانچہ اس ضمن میں ایک تاریخی مگر نا قابل فراموش واقعہ بیان کرتا ہوں.میرے قیام بیروت میں ایک مرتبہ بیروت کی میونسپلٹی کے ایک کارکن ٹیکس وصولی کیلئے آئے.عاجز نے ان کو بٹھایا اور ان کی تواضع کی.اس دوران میں کئی امور پر باہمی تبادلہ خیالات ہوا.وہ کہنے لگے کہ میرے والد صاحب مرحوم بھی اس عقیدہ کے تھے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کا ظہور ہو چکا ہے اور میں نے ان کو قبول کر لیا ہے.میں ابھی اس وقت چھوٹی عمر کا تھا.جب میں نے ان کے والد کا نام پوچھا تو انہوں نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا.الشیخ
مصالح العرب.....جلد اول 130 صالح الرافعي الطرابلسی.ان صاحب کا کہنا تھا کہ استاذ زین العابدین ہمارے گھر روزانہ عربی پڑھنے کیلئے آیا کرتے تھے اور میں دروازہ کھولا کرتا تھا.ان کے گھر ایک فوٹو بھی حضرت شاہ صاحب کا ہے.جس پر الشیخ صالح الرافعی کی یہ عبارت درج ہے.تِلْمِيذُ مِنْ تَلَامِيذِ المَهْدِى عَلَيْهِ السَّلَام جَاء مِنَ الْهِنْدِ لِتَلَقَّى الْعُلُومِ الْعَرَبِيَّةِ یعنی حضرت مهدی علیہ السلام کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد جو ہندوستان سے عربی کی تعلیم کیلئے آئے.الشیخ صالح الرافعی سے بیرونی ملک کے کئی طلباء مفت تعلیم حاصل کیا کرتے تھے اور وہ بڑے اخلاص سے ہے کام کیا کرتے.السید منیر الحصنی صاحب امیر جماعت احمدیہ دمشق بھی شاہ صاحب کے شاگردوں میں سے تھے.شاہ صاحب کے شاگردوں میں معزز عرب خاندانوں کے کئی صاحبزادگان تھے.اس کالج میں پروفیسر کی حیثیت سے شاہ صاحب کو اعلیٰ علمی سوسائٹی سے رابطہ پیدا کرنے کا موقع مل گیا چنانچہ ان معزز اکابرین میں الاستاذ کر دعلی وزیر تعلیم حکومت شام، الاستاذ خلیل بک مرحوم وزیر خارجہ حکومت شام.السید جمیل بک مرحوم وزیر اعظم شام اور الشیخ عبدالقادر المغربی پریذیڈنٹ پوپ اکیڈمی بھی تھے.خاکسار کو قیام دمشق میں ان سے ملاقات کے کئی مواقع میسر آئے.علاوہ ازیں مفتی اعظم فلسطین الحاج امین الحسینی اور السید صالح الخالدی پرنسپل عرب کالج بیت المقدس وغیر ہم سے بھی آپ کے گہرے تعلقات تھے.الحاج امین الحسینی مفتی اعظم فلسطین جب بھی پاکستان آتے تو مکرم شاہ صاحب حضرت خلیفہ اسیح الثانی (نور اللہ مرقدہ) کی زیر ہدایت ملاقات کیلئے جایا کرتے تھے اور مفتی فلسطین بھی ان سے محبت سے پیش آیا کرتے تھے اور ان کی عزت کیا کرتے تھے.حضرت شاہ صاحب نے قرآن کریم کی تفسیر اور اس کے حقائق حضرت خلیفہ اوّل (نوراللہ مرقدہ) سے پڑھے ہوئے تھے اور آپ کے درس سے استفادہ کیا ہوا تھا.چنانچہ آپ قرآن شریف کے بعض مشکل مقامات کی تفسیر بیان کیا کرتے تو آپ کے کئی عرب ساتھی و اساتذہ دریافت کیا کرتے يَا اُسْتَاذُ مِنْ اَيْنَ تَعَلَّمُتَ هَذَا التَّفْسِير ؟ (یعنی آپ نے یہ تفسیر کہاں سے سیکھی ہے؟) شاہ صاحب جوابا کہتے تَعَلَّمُتُ مِنَ المفضال الشيخ نُورِ الدِّين - یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحب سے میں نے یہ تفسیر سیکھی ہے یہ واقعہ مجھے اشیخ عبد القادر المغر بی رئیس الجمع
00000 مصالح العرب.....جلد اول اعلمی العربی نے بیان کیا تھا.131 مکرم شاہ صاحب عرب ممالک میں تین دفعہ تشریف لے گئے.پہلے آپ 1913 ء میں گئے تھے.بعد ازاں 1925ء میں مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس کے ساتھ دمشق تشریف لے گئے.تقریباً چھ ماہ تک آپ نے دمشق میں قیام کیا.وہاں آپ نے شادی بھی نت کی.آپ کے برادر نسبتی السید احمد فائق الساعاتی تھے جو محکمہ پولیس کی ایک کلیدی آسامی پر کام کرتے تھے.تیسری مرتبہ آپ 1956ء میں تشریف لے گئے اور تقریباً دو ماہ قیام کیا.اس عرصہ میں آپ بیروت بھی تشریف لائے تھے.( روزنامه الفضل ربوہ 19 مئی 1967ء، بحوالہ سیرۃ حضرت ام طاہر از ملک صلاح الدین صاحب ایم اے ص 45 تا 48 )
مصالح العرب.....جلد اول 132 دار التبلیغ مصر کا قیام 1922ء کے آغاز میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی طرف سے شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کو مصر جانے کا حکم ہوا.ان کو روانہ کرتے ہوئے حضور نے جو قیمتی نصائح فرما ئیں ان میں اور باتوں کے علاوہ زبان سیکھنے کے اصول بھی بیان ہوئے ہیں.احباب کے فائدہ کے لئے یہ نصائح ذیل میں درج کی جاتی ہیں.فرمایا: آپ مصر جاتے ہیں ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ سر زمین دنیا کی تباہی اور ترقی کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتی ہے.اس سرزمین سے اسلام کو بہت سا نقصان بھی پہنچا ہے اور فائدہ بھی.اور آئندہ اور بھی حوادث ہیں جو اس سے تعلق رکھتے ہیں.اور ہم امید کرتے ہیں کہ انجام کار وہ اسلام کے لئے مفید ہوں گے.پس اس سرزمین میں بہت ہی ڈرتے ڈرتے قدم رکھیں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں کہ وہ آپ کا قدم ادھر ادھر پڑنے سے آپ کو محفوظ رکھے.آپ کا اوّل کام عربی زبان کا سیکھنا ہے اس لئے ہندوستانیوں سے رابطہ پیدا نہ کریں کیونکہ انسان غیر ملک میں اپنے اہل ملک سے جب ملتا ہے ، ان کی طرف بہت کھینچ لی جاتا ہے.پس جہاں تک ہو سکے عربوں سے ہی میل ملاقات رکھیں تا کہ زبان صاف ہونے کا موقعہ ملے.اور یہ بھی احتیاط رہے کہ تعلیم یافتہ لوگوں سے تعلق ہو کیونکہ جہال کی زبان بہت خراب ہوتی ہے.سیاسیات میں نہ پڑیں اور نہ سیاسی لوگوں سے تعلق رکھیں.کیونکہ سیاسی لوگوں میں اگر تبلیغ ہوئی بھی تو ان کو اپنے راستہ سے ہٹا کر دین کی طرف لانا دگنی محنت چاہتا ہے.اور اس قدر کام آپ موجودہ اغراض کو پورا کرتے ہوئے نہیں کر سکتے.
مصالح العرب.....جلد اول 133 اپنے اخلاق کا نمونہ دکھانے کی کوشش کریں کیونکہ غیر جگہ انسان جاتا ہے تو لوگ اس کی حرکات وسکنات کی طرف زیادہ توجہ کرتے ہیں.ہر ایک بات پر اپنی رائے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.جب کوئی ایسی بات پیش کرے جس پر رائے کا اظہار نا مناسب ہے یا ایسی بحثوں کی طرف لے جائے جو سفر کے مقصد کے خلاف ہے تو بہتر ہے کہ کہہ دیں کہ مجھے اس امر سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس لئے نہ میں نے اس پر کافی غور کیا ہے اور نہ اس پر میں اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہوں.ہر قوم میں کچھ عیوب ہوتے ہیں، کچھ خوبیاں.پس مصریوں کی خوبیاں سیکھنے کی کوشش کریں.مگر ان کے عیوب سیکھنے کی کوشش نہ کریں.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب انسان اپنے گرد و پیش ایک قسم کے حالات دیکھتا ہے تو بری باتیں بھی اسے اچھی نظر آنے لگتی ہیں.اور وہ اسے بطور فیشن اختیار کر لیتا ہے.مومن کو اس سے ہوشیار رہنا چاہئے“.شیخ محمود احمد صاحب 18 فروری 1922ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور اسکندر آباد سے ہوتے ہوئے بمبئی پہنچے جہاں سے بذریعہ جہاز قاہرہ (مصر) میں وارد ہوئے.آپ نے حضور کی ہدایات کی روشنی میں وہاں اس رنگ سے تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا کہ خدا کے فضل سے پہلے سال ہی ایک جماعت پیدا کر لی.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے سالانہ جلسہ 1922ء پر.اس کا ذکر فرمایا: ” اس سال بیرونی ممالک میں تبلیغ کے سلسلہ میں ایک نیا مشن مصر میں جاری کیا گیا ہے جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک طالبعلم کے ذریعہ جماعت پیدا کر دی ہے.دسمبر 1923ء سے آپ کی ادارت میں ” قصر النیل“ کے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار جاری ہوا.عرفانی صاحب نے 1926ء تک مصر میں کام کیا اور اعلیٰ طبقہ کے سرکاری ملازمین آپ کے ذریعہ داخل جماعت ہوئے جن میں سے الأستاذ احمد حلمی آفندی خاص طور پر قابل ذکر ہیں.ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 286 287) شیخ محمود احمد عرفانی صاحب نے ان سالوں کی بعض یادوں کو ایک مضمون بعنوان: ”عالم اسلامی میں میرے آقا کے تذکرے میں قلم بند فرمایا تھا.قارئین کی دلچسپی کے لئے ان میں سے بعض حصے یہاں نقل کئے جاتے ہیں.
مصالح العرب.....جلد اول نیل کے کنارے 134...ایک دن شام کا وقت تھا.علامہ احمد ذکی پاشا کے محل کے سامنے ایک چھوٹا سا باغیچہ ہے جن میں آم کے درختوں کو خاص امتیاز ہے.باغیچہ میں تر و تازگی تھی.چھڑ کا وہوا ہوا تھا اور پاشا موصوف اپنے دوستوں کے جمگھٹے میں بے تکلف بیٹھے ہوئے تھے.مصر کے پاشا عام طور پر انگلستان کے لارڈوں سے کم نہیں ہوتے.اس لئے بالعموم ان میں ایک قسم کا تکبر پیدا ہو جاتا ہے.ان کے محلات میں ملنا بھی آسان نہیں ہوتا مگرز کی پاشا کے محل میں یہ باتیں مفقود تھیں.وہ عرب ہیں.عربوں کے لئے خاص جذبات رکھتے ہیں.اپنے آپ کو شیخ العروبہ کہتے ہیں اور قصر کے دروازے پر دارالعروبہ لکھا ہوا ہے.احمد ذکی پاشا اسلام کے زبر دست مؤرخ ہیں.مجلس وزراء کے سیکرٹری تھے.اس وقت عالم عربی میں بہت محبوب ہیں.ان کے قصر کے سامنے نیل کا دریا بڑی شان سے بہہ رہا تھا.سامنے کے کنارے پر رنکین بڑے بڑے ہاؤس بوٹ ان کے اوپر سر بفلک عمارتیں ان کے اوپر کو منقطم کی چوٹیاں اور کھجور کے درخت دل میں ایک زندہ دلی پیدا کر رہے تھے.ایسے سہانے وقت میں روزانہ ذکی پاشا اپنی مجلس لگاتے ہیں.کوٹ پتلون اتار کر ایک لمبا عربی گرتا پہن کر اور سر پر ایک ایسی ٹوپی جیسے دلّی والے پہنتے ہیں پہن کر بیٹھتے ہیں.شطرنج اور اسی قسم کی اور کھیلیں بھی کھیلی جاتی ہیں.باتیں بھی ہوتی ہیں.خوش گپیاں.علمی تذکرے.تاریخی بخشیں سب کچھ اسی مجلس میں ہو جاتا ہے.میں بھی گاہ گاہ اس مجلس میں پاشا کو ملنے جایا کرتا تھا.مجھے دیکھتے ہی پاشا نے اپنی عادت کے مطابق مسکراتے ہوئے کہا.وہ آئے.اپنے دوستوں سے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ یہ مرزا احمد قادیانی کے مذہب کے یہاں مبشر ہیں.یہ کہنے پر میری طرف گرد نہیں اٹھیں اور بعض استہزاء سے اور بعض محبت سے ملنے لگے.پاشا نے پھر کہا:.یہ لوگ بڑے باہمت ہیں.دنیا میں انہوں نے اسلام کی اشاعت کا وہ کام کیا ہے جس کی مثال صحابہ کے زمانہ کے سوا کہیں نہیں ملتی.یورپ میں امریکہ میں ان کی مساعی سے اب سینکڑوں مسلمان پیدا ہو گئے ہیں.میں نے کہا کہ ساری خوبی میرے سید و مولی ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کی.
مصالح العرب.....جلد اول 135 جس نے ایسی جماعت پیدا کی.تو پاشا نے کہا کہ ”بے شک بے شک یہ سب انہیں کی برکت } ہے.وہ اسلام کا مایہ ناز فرزند تھا.لوگ سمجھتے نہیں.خدیو مصر کی والدہ کے محل میں قاہرہ کے بہترین حصے میں ایک قصر الدوبارہ ہے جہاں خدیو عباس حلمی سابق فرمانروائے مصر کی والدہ کا محل ہے.یہ حل بڑا شاندار محل ہے.اس محل کی مصر میں بڑی شہرت تھی اس لئے کہ خدیو کی ماں جو ام الحسنین کہلاتی تھی اس جگہ رہتی تھیں.سینکڑوں آدمیوں کا جمگھٹا رہتا تھا محل میں بڑی چہل پہل تھی.میں خدیو مصر کے چھوٹے بھائی ہز ہائینس محمد علی پاشا سے ملنے گیا.محل میں اس رات بے شمار ملاقاتی جمع تھے.خاکسار نے شاہی رجسٹر میں اپنا نام احمد یہ مشنری کے مبارک الفاظ کے ساتھ درج کر دیا.قصر بقعہ نور بن رہا تھا.مجھے میری باری پر اندر بلایا گیا.محمد علی پاشا ایک شکیل ووجیہ نوجوان ہیں.دروازے پر آپ کھڑے تھے.میں آپ کو پہچان نہ سکا.میں نے ان کو باڈی گارڈ کا افسر خیال کیا.میں آگے آگے تھا اور ہز ہائینس میرے پیچھے.میں جب ایک کمرے سے گزر گیا.دوسرے میں قدم رکھا تو میں نے ادھر اُدھر دیکھا.مگر مجھے کوئی نظر نہ آیا.تیسرے کمرے میں جا کر میں نے پوچھا ہز ہائینس کہاں ہیں ؟ ہز ہائینس مسکرائے اور کہا کہ میں ہوں.میں شرمندہ ہوا.کمرے میں میرے ساتھ ابراہیم حسن انصاری بھی تھے.میں نے پاشا کو سلسلہ کا پیغام دیا.کتابیں پیش کیں.پاشا نے سن کر کہا کہ میں آج سے پہلے احمدیت کو تفصیل سے نہیں جانتا تھا.مگر میں نے ذکر سنا تھا.اور امریکہ میں سنا تھا کہ لوگ احمدی ہو رہے ہیں“.پھر کہا کہ : میں آپ سے مل کر بہت خوش ہوا.میرے دل میں سید احمد ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کی بڑی عزت ہے.میں اس فرزند مشرق کی عزت کرتا ہوں جس کے سامنے یورپ و امریکہ جھکے.اور میں چاہتا ہوں کہ مشرق کا ہر فرزند اپنے ایسے فرزندوں کی عزت کرے خواہ ان کے عقائد کچھ ہی کیوں نہ ہوں“.ایک دشمن کی مجلس میں جہاں سینکڑوں مداح دیکھے.وہاں سینکڑوں دشمن بھی دیکھے دشمنوں کے گھروں
136 مصالح العرب.....جلد اوّل میں بھی میرے آقا کا ذکر ہوتا ہے.اس میں بھی آپ کی ایک عظمت اور شان معلوم ہوتی ہے.محب الدین خطیب ہمارے سلسلہ کے ایک بڑے نامی گرامی دشمن ہیں.ان سے ملنے کے لئے ہم چند دوست گئے.وہ اپنے دفتر اور کتب خانہ میں موجود تھے.آپ اخبار کے ایڈیٹر ہیں اور ہماری دشمنی میں خاص جوش رکھتے ہیں.سلسلہ کا ذکر سن کر بولے:.”میرا بس چلے تو میں تو پوں اور مشین گنوں کو لے کر جاؤں اور احمدیوں کے مکانوں کو تباہ کر دوں، ان کا قتل عام کر دوں.مرزا نے دنیا میں ایک ایسا فتنہ پیدا کیا جس کی مثال نہیں ملتی.مسلمانوں کو دو حصوں میں اس شخص نے تقسیم کر دیا.آپ لوگوں کی مساعی حیرت انگیز ہیں.کاش یہ کسی نیک کام کے لئے ہوتیں“.اگر چہ بظاہر یہ الفاظ مذمت سے پُر ہیں.لیکن اس سے بڑھ کر کوئی دشمن کیا مدح کرے گا.اور میرے آقا کی عظمت کا کیا اعتراف کرے گا.الحکم قادیان کا خاص نمبر.مؤرخہ 28-21 مئی 1934 ء جلد 37 نمبر 19, 18 صفحہ 5-4) 00000
مصالح العرب.....جلد اول 137 حضرت خلیفہ امسیح الثانی کاسفر یورپ اور بلا د عربیہ میں نزول 1924ء میں انگلستان کی مشہور ویمبلے نمائش کے سلسلہ میں بعض انگریز معززین نے یہ تجویز کی کہ اس موقعہ پر لندن میں ایک مذاہب کی کانفرنس بھی منعقد کی جاوے جس میں برٹش ایمپائر کے مختلف مذاہب کے نمائندوں کو دعوت دی جاوے کہ وہ کانفرنس میں شریک ہو کر اپنے اپنے مذہب کے اصولوں پر روشنی ڈالیں.یہ دعوت حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی خدمت میں بھی پہنچی اور کانفرنس کے منتظمین نے آپ سے استدعا کی کہ آپ خود تکلیف فرما کر کانفرنس میں شمولیت فرمائیں.چنانچہ آپ جماعت کے مشورہ کے بعد 2 1 جولائی 1924ء کو بمبئی سے روانہ ہوئے.اس سفر میں جہاں لندن میں حضور نے اپنا معرکۃ الآراء خطاب احمدیت یعنی حقیقی اسلام ارشاد فرمایا ، وہاں 19 اکتوبر 1924ء کو مسجد فضل کا بھی سنگ بنیا د رکھا.فتح مصر کی بنیاد (ماخوذ از سلسلہ احمدیہ صفحہ 374 تا 379) اس سفر کے سلسلہ میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے مناسب خیال فرمایا کہ رستہ میں مصر اور شام اور فلسطین میں بھی ہوتے جائیں.چنانچہ آپ نے ان ملکوں میں بھی تھوڑا تھوڑا قیام فرمایا اور وہاں کے عرب احمدیوں اور مختلف مشائخ اور لیڈروں کو شرف ملاقات بخشا.حضور یہ سفر عربوں میں احمدیت کی تبلیغی مساعی کا ایک سنہری باب ہے لہذا یہاں پر اس سفر کے بلاد
138 مصالح العرب.....جلد اول عربیہ سے متعلقہ مختصر حالات درج کئے جاتے ہیں.اس سفر کے بیشتر حالات حضرت بھائی عبد الرحمن قادیانی کی ڈائری سے ماخوذ ہے جواب ” حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا سفر یورپ کے عنوان سے چھپ چکی ہے.2 جولائی 1924ء کو حضور کا جہاز عدن سے گزرتا ہوا پورٹ سعید کی طرف چلا.24 جولائی 1924ء کو حضور نے شام و مصر میں تبلیغ سلسلہ پر کئی گھنٹے دوستوں سے مشورہ لیا اور ایک سکیم تجویز فرمائی اور دوستوں کو تاکید فرمائی کہ سفر کی اہمیت ، مقصد کی عظمت اور مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام وقت اس کی تیاری میں صرف ہونا چاہئے اور اس کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے.25 / جولائی کو گیارہ اور بارہ بجے کے درمیان جہاز جدہ اور مکہ شریف کے سامنے سے گزرنے والا تھا.حضور نے ارادہ فرمایا کہ خاص طور پر دعا کی جائے.چنانچہ حضور نے دورکعت نماز باجماعت پڑھائی جس میں بہت رقت انگیز دعائیں کیں.مصر کے بارہ میں حضور کی پیشگوئی پورٹ سعید پر اترنے کے بعد حضور مع خدام قاہرہ تشریف لے گئے اور شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کے مکان پر فروکش ہوئے.حضور قیام مصر کی نسبت اپنے تاثرات و حالات خود بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” ہم قاہرہ میں صرف دو دن ٹھہرے...میرے نزدیک مصر مسلمانوں کا بچہ ہے جسے یورپ نے اپنے گھر میں پالا ہے تا کہ اس کے ذریعہ سے بلاد اسلامیہ کے اخلاق کو خراب کرے.مگر میرا دل کہتا ہے اور جب سے میں نے قرآن کریم کو سمجھا ہے میں برابر اس کی بعض سورتوں سے استدلال کرتا ہوں اور اپنے شاگردوں کو کہتا چلا آیا ہوں کہ یورپین فوقیت کی تباہی مصر سے وابستہ ہے اور اب میں اس بناء پر کہتا ہوں..مصر جب خدا تعالیٰ کی تربیت میں آجائے گا تو وہ اسی طرح یورپین تہذیب کے مخرب اخلاق حصوں کو توڑنے میں کامیاب ہوگا جس طرح حضرت موسیٰ فرعون کی تباہی میں.بے شک اس وقت یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہی ہے مگر جو زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے.میں نے قاہرہ پہنچتے ہی اس بات کا اندازہ لگا کر کہ وقت کم ہے اور کام زیادہ ساتھیوں کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا.ایک حصہ اخبارات و جرائد
مصالح العرب.....جلد اول 139 کے مدیروں کے ملنے میں مشغول ہوا، اور دوسرا پاسپورٹوں اور ڈاک کے متعلق کام میں لگ گیا، تیسرا سفر کی بعض ضرورتوں کو مہیا کرنے میں...یہ علاقے تبلیغ کے لئے روپیہ چاہتے ہیں مگر اسی طرح جب ان میں تبلیغ کامیاب ہو جائے تو اشاعت اسلام کے لئے ان سے مدد بھی کچھ مل سکتی ہے.میں لکھ چکا ہوں کہ میں نے بعض دوستوں کو اخبارات کے ایڈیٹروں کے پاس ملنے کے لئے بھیجا تھا.جن اخبار نویسوں سے ہمارے دوست ملے انہوں نے آئندہ ہر طرح مدد دینے کا وعدہ کیا“.الا زہر کی خلافت کمیٹی سے ملاقات حضور فرماتے ہیں: ”جامعہ الازہر کے ماتحت جو خلافت کمیٹی بنی ہے اور جس کا منشاء یہ ہے کہ آئندہ سال مارچ میں ایک عظیم الشان جلسہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا کر کے اس میں یہ فیصلہ کرے کہ کون شخص خلیفہ ہونا چاہئے ، اس انجمن کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اور بعض اور دوسرے لوگ ملنے کے لئے آئے اور خلافت کے متعلق تذکرہ کرتے رہے.مصر کے ایک مشہور صوفی اس کے بعد مصر کے ایک مشہور صوفی سید ابو العزائم صاحب ملنے کے لئے آئے.یہ صاحب بہت بڑے پیر ہیں.کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ ان کے مرید ہیں.علاوہ ان لوگوں کے دو اور معزز آدمی بھی ملنے کے لئے آئے لیکن افسوس کہ بوجہ باہر ہونے کے مجھے ان سے ملنے کا موقعہ نہ ملا.ان میں سے ایک تو ترکی رئیس تھے دوسرے صاحب ایک وکیل تھے.ان کے گھر پر بھی میں نے اپنے بعض ساتھیوں کو بھیجا.انہوں نے مصریوں کی حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی خواہش کی کہ مصر میں احمدیہ مشن کو مضبوط کیا جائے اور یورپ کو مسلمان بنانے کی بجائے مصر کو یورپ کے پیچھے جانے سے بچانے کی کوشش پر زور دیا جائے.انہوں نے وعدہ کیا کہ اگر واپسی پر مصر میں قیام کا موقع ملے تو میں اپنے دوستوں کو جمع کر کے آپ کے امام کو دعوت دوں گا اور ہم لوگ مل کر اسلامی روح کی مصر میں اشاعت کی کوشش کریں گے.اور یہ بھی کہا کہ میں احمدیت کے مسائل سے بہت
مصالح العرب.....جلد اول 140 متفق ہو چکا ہوں.غالبا آپ لوگوں کی ولایت سے واپسی تک میں بیعت میں شامل ہو جاؤں گا.چونکہ گرمی کا موسم ہے ، تمام عمائد اور علماء ملک کے ٹھنڈے علاقوں کی طرف چلے گئے ہیں.اس لئے اور زیادہ لوگوں سے ملنے کا موقعہ نہیں مل سکتا تھا.مصر کے احمدی مجھے جو مصر میں سب سے زیادہ خوشی ہوئی وہ وہاں کے احمدیوں کی ملاقات کے نتیجہ میں تھی.تین مصری احمدی مجھے ملے اور تینوں نہایت ہی مخلص تھے.دواز ہر کے تعلیم یافتہ اور ایک علوم جدیدہ کی تعلیم کی تحصیل کرنے والے دوست.تینوں نہایت ہی مخلص اور جوشیلے تھے.اور ان کے اخلاص اور جوش کی کیفیت کو دیکھ کر دل رقت سے بھر جاتا تھا.تینوں نے نهایت درد دل سے اس بات کی خواہش کی کہ مصر کے کام کو مضبوط کیا جائے“.ایک مصلح کے امیدوار بدوی ایک بات عجیب طور پر وہاں معلوم ہوئی اور وہ یہ کہ قاہرہ کے اردگرد کے بدوی علاقے نہایت ہی تڑپ کے ساتھ ایک مصلح کے امیدوار ہیں.بعض لوگوں نے جب سلسلہ کے حالات سنے تو خواہش کی کہ اگر ہمارے علاقہ میں کوئی آدمی پندرہ بیس روز بھی آکر رہے تو ہزاروں آدمی سلسلہ میں داخل ہونے کو تیار ہیں.حضور کی ایک اور پیشگوئی اور اس کا پورا ہونا قاہرہ میں دو دن کے قیام کے بعد حضور بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئے جہاں حضور نے دو روز تک قیام فرمایا جس میں وہاں پر موجود حضرت ابوالانبیاء حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق ، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام کی قبور اور بعض دیگر مقامات کی زیارت کی.القدس کے مفتی نے حضور کے اعزاز میں چائے کی دعوت دی جس میں قاضی شہر اور معززین نے بھی شرکت کی.اس مجلس میں تمام باتیں فصیح عربی زبان میں ہوئیں.مفتی صاحب نے حیران ہو کر حضور سے دریافت کیا کہ آپ نے عربی زبان کہاں سے سیکھی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہمارے امام بانی سلسلہ احمدیہ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہم قرآن کی زبان کی
مصالح العرب.....جلد اول 141 کو زندہ رکھیں اور اسے اپنی دوسری زبان بنالیں کیونکہ اس میں امت مسلمہ کے اتحاد کا راز پنہاں ہے.قادیان میں ایک مدرسہ علوم عربیہ کی ترویج کے لئے قائم ہے.پھر حضور نے عربی زبان کی اعلیٰ تعلیم کے لئے مصر آنے اور حج کے مختلف حالات بیان فرمائے.حضور کے اس دورہ کو یہاں کے لوکل اخبارات نے بھر پور کوریج دی.یہاں حضور سے بعض بڑے بڑے مسلمان لیڈروں نے بھی ملاقات کی ، اس کے بارہ میں حضور فرماتے ہیں: ”وہاں کے بڑے بڑے مسلمانوں سے میں ملا ہوں میں نے دیکھا کہ وہ مطمئن ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہودیوں کے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے.مگر میرے نزدیک ان کی رائے غلط ہے.یہودی قوم اپنے آبائی ملک پر قبضہ کرنے پر تلی ہوئی ہے.قرآن شریف کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعود کے بعض الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ضرور اس ملک میں آباد ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے.پس میرے نزدیک مسلمان رؤساء کا یہ اطمینان بالآخر ان کی تباہی کا موجب ہوگا“.تاریخ احمدیت ج ۴ ص ۴۳۷ تا ۴۴۸.انوار العلوم ج ۸ دورہ یورپ ) قارئین کرام ! ان الفاظ کی شوکت پر غور کیجئے.قریباً بیس سال بعد اسرائیل کی حکومت کا قیام عمل میں آیا اور اس کے بعد حقیقتاً مسلما دنیا کا اطمینان وسکون تباہ ہو گیا اور خطرات نے آج تک ان کو گھیرا ہوا ہے.ایک پیاسی اور مستعد روح چند سطور قبل حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی زبانی ایک صوفی بزرگ ابوالعزائم کا ذکر گز را ہے.وہ جب حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقات کی غرض سے حاضر ہوئے تو آپ کہیں باہر گئے ہوئے تھے اس لئے ملاقات نہ ہو سکی.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ تشریف لائے اور انکی حضور سے ملاقات ہوئی جس کا حال حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی یوں بیان کرتے ہیں کہ: سید ابو العزائم کی ملاقات اور اس کا حضور کے کلام سے وجد میں آجانا اور یا سیدی اور امامنا اور صدقت و آمنت کر کے اظہار اخلاص کرنا کوئی معمولی بات نہیں.وہ بہت بڑا صاحب اثر عالم باعمل مانا گیا ہے حتی کہ بادشاہ وقت تک کے مقابلہ میں کھڑا ہوا ہے.
142 مصالح العرب.....جلد اول پھر صرف تنہائی اور علیحدگی میں اگر وہ ایسا اظہار کرتا تو بھی کچھ شبہ اور شک کی بات باقی تھی مگر اس نے تو علی رؤس الا شہاد اپنے خاص شاگردوں اور مریدوں میں جن کی تعدا د ٹھیک 9 کس تھی اور واقع میں وہ بڑے علماء بھی تھے.بعض انگریزی خوان تھے کیونکہ ان میں سے ایک نے خان صاحب سے انگریزی میں باتیں کر کے ان کا ترجمہ اس کا سنایا.ان سب کے سامنے اس نے ایمان لانے کا اظہار کیا اور کہا کہ میں حضرت امامنا پر ایمان لاتا ہوں تم گواہ رہو.تم اگر ڈرو اور نہ مانو تو تمہاری مرضی ورنہ میں نے مانا اور قبول کیا کہ یہ سب کلام حق ہے.اس کلام میں کھول کر سنا دیا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود کا مذہب ہے کہ مسیح ناصری وفات پاچکے ہیں وغیرہ وغیرہ اور دوسرے تمام خصوصی عقائد بھی پہونچا دیئے تھے.دو (از دورہ یورپ ) وضاحت کے لئے عرض ہے کہ انکا پورا نام محمد ماضی ابو العزائم ہے.آپ کا نسب حضرت عبد القادر جیلانی اور آخر میں حضرت امام حسن بن علی بن ابی طالب سے ملتا ہے.آپ مصر کے شہر رشید میں 1869 میں پیدا ہوئے.قرآن کریم حفظ کیا اور علوم حدیث و فلسفہ اور تصوف میں گہرا مطالعہ کیا اور ملکہ حاصل کیا.خرطوم یونیورسٹی کے شریعت کالج میں بطور استاد بھی کام کیا.آپ نے متعدد کتب بھی تصنیف کیں جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں: معارج المقربين، هداية السالك إلى علم المناسك الفرقة الناجية، السراج الوهاج في الإسراء والمعراج، وسائل إظهار الحق، المفاهيم في الميزان وغیرہ.آپ نے 1937 میں 68 سال کی عمر میں وفات پائی.آپ صوفیوں کے سلسلہ کے امام سمجھے جاتے ہیں بلکہ آپ کے اتباع آج آپ کو مجدد اور امام حق و غیرہ کے القاب سے یاد کرتے ہیں.آپ کی زندگی اور افکار وغیرہ پر فلم بھی بنائی گئی ہے نیز کئی ویب سائٹس پر آپ کی کتب اور آپ کی سیرت و نظریات وخیالات کو نشر کیا گیا ہے.اس صوفی بزرگ نے صرف حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے سامنے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کا اقرار نہیں کیا تھا بلکہ جب مکرم محمود عرفانی صاحب مصر میں اپنے قیام کے دوران ان سے ملنے گئے تو ان سے ملاقات کا حال ان الفاظ میں لکھا: " قاہرہ کے پرانے حصہ میں پیچ در پیچ گلیوں میں ایک بڑا مکان ہے جو کسی زمانے میں بہت بڑا محل ہوگا.اس محل میں ایک بہت بڑا صوفی (جس کے ہزار ہا مرید ہیں اور مرید اپنے
مصالح العرب.....جلد اول 143 پیر کے پروانے ہیں) رہتا ہے.آپ کا نام صوفی سید محمد ماضی ابوالعزائم ہے.عالم اسلامی میں کی آپ کو ایک خاص شہرت حاصل ہے.ایک رات کا واقعہ ہے کہ میں ان اندھیری گلیوں میں گزرتے ہوئے اس بڑے مکان میں داخل ہوا اور مکان کے اونچے نیچے صحن سے گزر کر ایک بڑے ہال میں پہنچا جہاں اس کے مرید ذکر کی محفل گرم کئے ہوئے تھے.میں نے صوفی صاحب کے متعلق دریافت کیا.معلوم ہوا کہ اندر کے کمرے میں بیٹھے ہیں.آپ ایک بڑی آرام دہ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے.مریدوں کا حلقہ گر د تھا.روشنی دھیمی تھی.کوئی ان کے برابر نہیں بیٹھ سکتا تھا.مگر مجھے آپ نے ہمیشہ اپنے قرب میں اور ساتھ بیٹھنے کا شرف دیا.مجھے دیکھ کر آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور میرے ہاتھ کو بوسہ دیا اور کہا کہ: اسلام میں سخت قحط الرجال ہے.آج اگر سید احمد ( یعنی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ہوتے تو میں ان کے جوتے کو اپنے سر پر رکھ لیتا.لوگوں نے ان کی حقیقت کو نہیں 66 جانا اور بڑا ظلم کیا ہے“.بیت المقدس میں الحکم قادیان کا خاص نمبر.مورخہ 12 مئی 1934 ء جلد 37 نمبر 18,19 حضرت مصلح موعودؓ اپنے وفد کے ساتھ مصر سے بذریعہ ریل یکم اگست 1924 کو بیت المقدس سٹیشن پر پہنچے جہاں ایک مجاور خوش وضع مولوی قطع جبہ پوش جس کو کسی طرح سے حضور کا نام پہنچ گیا تھا ( حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ) ایک کاغذ پر لکھا ہوا لئے پوچھتا پھرتا تھا.آخر تلاش کر کے ملا اور عرض معروض کرتا رہا کہ حضور میرے غریب خانہ پر ٹھہریں میں خدمت کرنا چاہتا ہوں وغیرہ وغیرہ.مگر حضور یروشلم کے نیو گرانڈ ہوٹل میں فروکش ہوئے.کھانے اور نمازوں سے فارغ ہو کر حضور موٹر کے ذریعہ ابوالانبیاء حضرت ابراہیم کی قبر پر تشریف لے گئے جو اس جگہ سے 25 میل کے فاصلہ پر واقع ہے جہاں حضرت اسحاق ، حضرت سارہ، حضرت اسحاق کی بیویوں کی اور حضرت یعقوب ، حضرت یوسف کی قبور ہیں اور وہاں مسجد بھی ہے.حضور نے حضرت ابراہیم کے مقبرہ پر لمبی دعائیں کیں.حضور شام کی نماز کے بعد یہاں سے واپس تشریف لائے.
مصالح العرب.....جلد اول القدس کی زیارت 144 بیت المقدس کو یروشلم ، القدس، یا صرف قدس بھی کہا جاتا ہے اور مقامی طور پر اس مقام کو حرم شریف کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے.حرم شریف کے اندر مختلف مقامات حضور کو دکھائے گئے.وہ صحرہ ( پتھر) بھی دیکھا جس پر ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اور دوسرے تمام انبیاء نے قربانیاں کیں نیز وہ تمام باتیں حضور کو بتائی گئیں جو بطور روایات اس مقام سے متعلق چلی آ رہی ہیں.حضور نے حنفی مصلی پر دو رکعت نماز ادا کر کے لمبی دعائیں کیں.مفتی بیت المقدس کی حضور سے ملاقات 2 اگست کو مفتی بیت المقدس کے مکان پر حضور کی چائے کے لئے دعوت تھی جو یہاں کی سپریم کونسل کا صدر ہے.چائے پر بڑے بڑے آدمی مدعو تھے چائے پر مذہبی گفتگو اور سلسلہ کے حالات پر بھی بحث رہی.عیسی علیہ السلام کی یادگاریں القدس میں قیام کے دوران حضور انور اس مقام کو دیکھنے کے لئے بھی تشریف لے گئے جہاں حضرت عیسی علیہ السلام کو بطور ملزم پیش کیا گیا تھا اور جہاں ان پر فردِ جرم لگایا گیا اور جہاں ان کو فیصلہ سنایا گیا تھا اور جہاں پیلاطوس نے ان کے خون سے بریت کے اظہار کے لئے ہاتھ دھوئے تھے.علاوہ ازیں حضور نے اس مقام کو بھی دیکھا جہاں حضرت عیسی نے اپنی صلیب آپ اُٹھائی تھی اور چودہ مقامات پر بے ہوش ہو ہو کر کھڑے ہوتے تھے اور پھر گر جاتے تھے اور جہاں ان کی ماں ان کو ملنے آئی اور جہاں آخر ان کو صلیب دیا گیا تھا ان کا لاشہ رکھ کر معطر کیا گیا تھا نیز وہ قبر بھی دیکھی جس میں تین دن رہے تھے اور وہ پتھر بھی دیکھا جو قبر کے دروازہ سے ہٹایا گیا تھا.وہ ابھی تک وہاں کھڑا کیا ہوا ہے.حیفا میں ورود 4 اگست کو حضور انور معہ وفد حیفا کے سٹیشن پر پہنچے.حضور گرانڈ ہوٹل نصار میں تشریف
مصالح العرب.....جلد اول لے گئے جو سمندر کے کنارے بہت ہی خوبصورت مقام پر واقع تھا.145 صبح ناشتہ وغیرہ کے بعد گھوڑا گاڑیوں پر بیٹھ کر شہر کی سیر کو نکلے.حضور کی گاڑی کا ڈرائیور پڑھا لکھا بلکہ مولوی آدمی تھا.حضور نے اس کو تبلیغ شروع کر دی اور وہ خاصے سوال و جواب کرتا رہا.تھوڑی دور جا کر حیفا کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی کوٹھی آگئی حضرت صاحب نے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو اس سے ملاقات کرنے کو بھیجا.ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اچھا خلیق آدمی تھا.محبت اور اخلاق سے پیش آیا اور حضرت کا نام سن کر کہا کہ سفر لمبا ہے راستہ میں شاید کوئی سامان نہ ملے لہذا میں کچھ فروٹ منگا تا ہوں آپ میری طرف سے ہز ہولی نس His) (Holiness کے پیش کر دیں سفر میں آرام ہو گا مگر مولوی صاحب نے شکریہ کے ساتھ معذرت کی.ایک مقام پر ایک مکان کے اوپر لکھا ہوا تھا عبدالبهاء عباس.حضرت اقدس کو چونکہ رات ہی رپورٹ پہنچ چکی تھی کہ حیفا میں بہائی لوگ موجود ہیں اور یہ کہ شوقی آفندی جو اس وقت بہائیوں کے ایک حصہ کا خلیفہ مانا جاتا ہے وہ علہ سے نکل کر حیفا میں آ گیا ہے اس لئے حضرت کے حکم سے مولوی عبدالرحیم صاحب درد، صاحبزادہ حضرت میاں صاحب سلمہ رتبه اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب شوقی کے مکان پر گئے.ان کے نوکر سے معلوم کیا.نوکر نے بتایا کہ شوقی آفندی یہاں موجود نہیں سوئیٹرز رلینڈ میں گیا ہوا ہے اور کہ اس کا باپ یہاں موجود ہے اس کو اطلاع کئے دیتا ہوں.اتنے میں دو چار چھوٹے چھوٹے بچے اور ایک لڑکی پندرہ سولہ برس کی آگئے اور محبت سے ملنے لگے.ان میں ایک لڑکا شوقی صاحب کا بھائی اور دوسرا سالا تھا.جب شوقی آفندی کا والد کچھ انتظار کے بعد باہر نہ آیا تو احباب واپس آگئے.لیکن بعد میں شاید جب شوقی صاحب کے والد کو علم ہوا کہ یہ کون لوگ تھے تو وہ جلدی جلدی ملاقات کرنے کو تی سٹیشن پر آیا مگر حضرت اقدس چونکہ پہلے ہوٹل کو گئے ہوئے تھے جہاں سے سامان لیا اور پھر سٹیشن پر تشریف لائے لہذا شوقی صاحب کے والد صاحب مولوی عبدالرحیم صاحب درد سے پر ملے اور پوچھا کہ کیا آپ ہمارے مکان پر گئے تھے؟ مولوی صاحب نے کہا ہاں مگر کوئی بات نہ ہوسکی کیونکہ گاڑی چلنے میں بہت تھوڑا وقت تھا بمشکل سامان پہنچا کر ٹکٹ لیا گیا.اور وفد گاڑی پر سوار ہو کر جلدی حیفا سے رخصت ہو گیا.
مصالح العرب.....جلد اول بیت المقدس سے دمشق تک 146 5 /اگست 1924ء کی شام حضور انور کا اپنے قافلہ کے ساتھ دمشق میں ورود مسعود ہوا.اگلی صبح حضور انور نے اہل دمشق کے نام ایک پیغام لکھنا شروع کیا جو حضور کی تحریر کے مطابق فل سکیپ کاغذ کے 16 کالموں پر حضور نے ختم فرمایا.فارم بیعت بھی ساتھ لگایا اور شیخ صاحب مصری کو ترجمہ کرنے کی غرض سے دیا.یہ پیغام کمپوز ہو کر چھپنے کے لئے پریس میں ارسال کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے طبع کروانے کیلئے پہلے پریس برانچ کے افسروں سے اجازت لینی لازمی ہے.حضور نے دمشق کے گورنر حقی بیگ کے پاس جا کر معاملہ عرض کرنے کا حکم دیا.حقی بیگ نے کہا کہ مفتی صاحب اجازت دیں گے تب شائع ہو سکے گا.مفتی صاحب نے دیکھ کر کہا مضمون مذہبی ہے مگر میں اس کو دو تین دن میں پڑھ سکوں گا اور پڑھنے کے بعد فیصلہ دوں گا.بہر حال اسے پڑھ کر مفتی نے کہا کہ یہ ہمارے مسلمہ عقائد کے خلاف ہے لہذا اس کی اشاعت کی میں اجازت نہیں دوں گا.گورنر حقی بیگ (پاشا) نے بھی آخر کہہ دیا کہ میں کیا کر سکتا ہوں جب مفتی جو اس صیغہ کا افسر ہے اس کی اشاعت کی اجازت نہیں دیتا کچھ ہو نہیں سکتا حتی کہ یہ بھی کہہ دیا کہ اس صورت میں اخبارات میں بھی اس مضمون کی اشاعت ناممکن ہے.یوں یہ پیغام چھپ کر تقسیم نہ ہوسکا.ہم حق کو لے کر دنیا میں نکلے ہیں 6 اگست 1924ء کو شیخ عبد القادر جیلانی کی اولاد کے ایک بزرگ حضور کی ملاقات کی غرض سے حاضر ہوئے.ان کے ساتھ دمشق کے افسر خزانہ اور دو ایک اور سرکاری عہدے دار بھی حاضر تھے.حضور نے ملاقات سنترال ہوٹل کے بالائی منزل کے ڈرائینگ روم کے جنوبی کو حصہ میں سیڑھیوں سے جانب غرب بیٹھ کر کی.ان لوگوں نے بہت ہی شریفانہ طریق سے سوالات کئے اور جواب پا کر ادب اور احترام سے قبول کرتے رہے.سلسلہ گفتگو قریب نصف گھنٹہ جاری رہا.انہوں نے پھر پوچھا اور عرض کیا کہ کہ آپ نے ہمارے ممالک عربیہ میں کیوں مبشر نہیں بھیجے اور کیوں جرائد اور مجلات جاری نہیں کئے.حضور نے فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ جلدی ہی یہاں مبشر بھیج دوں اور مبشرین کے آنے پر انشاء اللہ جرائد اور مجلات بھی
مصالح العرب.....جلد اول 147 جاری کر دیئے جائیں گے اور ہمیں اللہ کے فضل سے یقین اور امید قوی ہے کہ جلد تر ان علاقہ جات میں جماعتیں ہمارے ساتھ مل جائیں گی کیونکہ حق ہمارے ساتھ ہے اور ہم حق کو لے کر دنیا میں نکلے ہیں وغیرہ.اس پر ان لوگوں نے عرض کیا کہ آپ جلدی یہاں مبشر بھیجیں.ہم لوگوں میں ایک بڑی جماعت ہے جو آپ کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے تیار و آمادہ ہے جو حق کی پیاسی اور صداقت کی بھوکی ہے.یہ بات ایسی سنجیدگی اور متانت سے ان لوگوں نے کہی کہ اس میں شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ انہوں نے مذاق کیا ہو یا مبالغہ آمیز بات کی ہو.مولوی عبد القادر المغربي تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 417-418) شیخ عبد القادر المغر بی چوٹی کے ادباء میں سے تھے.حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے علامہ شیخ المغربی سے ان کے علمی، ادبی اور دینی مزاج کی مناسبت سے گہرے دوستانہ مراسم تھے.آپ کی ان سے پہلی ملاقات 1916 میں ہوئی.ایک دفعہ علامہ المغر بی نے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب سے کہا کہ آئیے ہم دونوں تصویر بنوائیں اور دوستی کا اقرار قرآن مجید پر ہاتھ رکھتے ہوئے کیا.اسی دوستی کی وجہ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی دمشق آمد پر مولوی عبدالقادر صاحب بھی آپ سے ملنے آگئے جو نہایت ہی جو شیلے اور نیچری خیالات کے آدمی تھے.ان کے آتے ہی پہلی پارٹی اُٹھ کر چلی گئی صرف سید عبدالقادر جیلانی کی اولاد کے بزرگ صاحب بیٹھے رہے جو معلوم ہوتا ہے کہ سنجیدہ اور صاحب رسوخ آدمی تھے کیونکہ جو بھی آتا تھا ان کو ادب اور احترام سے سلام کرتا تھا.یہ صاحب اول سے آخر تک جماعتی خیالات کی بہت ہی تائید کرتے رہے اور سمجھدار آدمی تھے.مولوی عبدالقادر صاحب کی باتوں کا طرز جوشیلہ اور بحث کا رنگ لئے ہوئے تھا.بہت سے سوالات کے جواب پاکر اس نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہم لوگ عرب ہیں.اہل زبان ہیں.قرآن کو خوب سمجھتے ہیں ہم سے بڑھ کر کون قرآن کو سمجھے گا وغیرہ.اس پر حضور نے اس کو کسی قد رسختی سے جواب دیا اور فرمایا کہ تم کون ہو.تم شامی لوگ لغت قرآن کو بالکل نہیں جانتے.تمہاری زبان قرآن کی زبان نہیں.تم لوگ بھی اسی طرح سے لغت کے محتاج ہو جس طرح سے ہم ہیں.قرآن خدا نے ہمیں سکھایا ہے اور سمجھایا ہے.ہماری زبان باوجود یکہ ہم لوگ اردو کی
مصالح العرب.....جلد اول 148 میں گفتگو کرنے کا محاورہ رکھتے ہیں اور عربی میں بولنے کا ہمیں موقع نہیں ملتا تم سے زیادہ صحیح اور بلیغ ہے وغیرہ وغیرہ.حضور نے بڑے جوش سے عربی میں ایسی فصیح گفتگو فرمائی کہ وہ سید صاحب بھی مولوی عبد القادر کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے کہ واقع میں ان کی زبان ہم لوگوں سے زیادہ فصیح ہے.اس پر مولوی عبد القادر نے کچھ نرمی اختیار کی اور پھر ادب سے گفتگو کرنے لگا.حضرت صاحب نے ان کو بتایا کہ ہم لوگ تو قادیان میں اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی عربی زبان سکھاتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ عربی زبان ہماری ثانوی زبان ہو جائے چنانچہ اس غرض کے لئے اب حضور نے یہ ارادہ فرمالیا ہے کہ ان عربوں اور شامیوں اور مصریوں کے اس گھمنڈ کو توڑ دیا جائے کہ جب کبھی کوئی عرب، شامی، مصری قادیان جاوے تو ہمارے سقے اور دھوبی تک ان سے پوچھا کریں کہ کیا تم کو عربی بولنی آتی ہے؟ اور فرمایا کہ ہمارے دوستوں کو چاہئیے عربی عورتوں سے شادی کریں اور عربی زبان کی ترویج کریں.مولوی عبد القادر صاحب سے ختم نبوت اور نبوت حضرت مسیح موعود پر بھی گفتگو رہی اور حضور نے جب قرآن نکال کر بعض آیات پیش کیں تو کہہ اُٹھا کہ قرآن ہاتھ میں لے کر بات کر دینے سے بھی کوئی مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟ کوئی تفسیر ہو ( غالباً معالم التنزیل کا نام لیا تھا) جب اس نے تفسیر کا نام لیا تو حضرت صاحب نے اس کو بہت جھنجھوڑا اور فرمایا کہ تم لوگ اس علم پر گھمنڈ رکھتے ہوا ور اتنے بڑے دعوے کرتے ہو کہ تم عرب اور اہلِ زبان ہو تفاسیر کیا حقیقت رکھتی ہیں.کیا ہم قرآن سمجھنے کے لئے ان تفاسیر کے محتاج ہیں؟ وغیرہ وغیرہ.اس کو اپنی فصاحت بھی بھول گئی اور دوسرے لوگوں کو مخاطب کر کے بولا شف یہ کیا کہتے ہیں.ایسی بے چارگی اور حیرت سے اس نے شف کا لفظ بولا کہ اس پر رحم آتا تھا.آخر بالکل ٹھنڈا ہو گیا.سر سے پگڑی تین مرتبہ اس نے اُتاری اور پسینہ سکھانے کی کوشش کی.اس نے یہ بھی کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود کی کتابوں میں زبان کی غلطیاں ہیں.اس کا بھی جواب حضور نے خوب دیا اور فرمایا کہ تم میں اگر کچھ طاقت ہے تو اب بھی ان اغلاط کا اعلان کر دو یا ان کتب کا جواب لکھ کر شائع کر دو مگر یاد رکھو کہ تم ہر گز نہ کر سکو گے اگر قلم اٹھاؤ گے تو تمہاری طاقت تحریر سلب کر لی جاوے گی.تجربہ کر کے دیکھ لو وغیرہ وغیرہ.ان باتوں پر اب اس نے منت سماجت شروع کی کہ آپ ان دعووں کو عرب، مصر اور شام میں نہ پھیلائیں اس سے اختلاف بڑھتا ہے اور اختلاف اس وقت ہمارے لئے سخت نقصان دہ
مصالح العرب.....جلد اول 149 ہے.وہابیوں نے پہلے ہی سخت صدمہ پہنچایا ہے.آپ بلا د یورپ، امریکہ اور افریقہ کے کفار اور نصاریٰ میں تبلیغ کریں ،مبشر بھیجیں لیکن یہاں ہرگز ان عقائد کا نام نہ لیں خدا کے واسطے اَنَا اَرْجُوكُم یا سیدی.کبھی بوسہ دے کر کبھی ہاتھوں کو لپیٹ کر غرض ہر رنگ میں بار بارمنت کرتا تھا کہ خدا کے واسطے ان علاقہ جات میں سیدنا احمد کی تعلیمات کا اعلان نہ کریں اور نہ مبشر بھیجیں وغیرہ وغیرہ.ہم جانتے ہیں کہ وہ اچھے آدمی تھے.اسلام کے لئے غیور تھے مگر ان کی نبوت اور رسالت کو ہم تسلیم نہیں کر سکتے صرف لا الہ الا اللہ پر لوگوں کو جمع کریں.حضرت نے ان باتوں کا جواب بلند آواز اور پُر شوکت لہجہ میں دیا کہ اگر یہ منصوبہ ہمارا ہوتا تو ہم چھوڑ دیتے مگر یہ خدا کا حکم ہے اس میں ہمارا اور سید نا احمد رسول اللہ کا کوئی دخل نہیں.خدا کا یہ حکم ہے ہم پہنچائیں گے اور ضرور پہنچا ئیں گے.لَنْ نَبْرَحَ الْأَرْضِ کا قول ہمارا بھی قول ہے.آپ مشکلات اور مصائب سے ہمیں ڈراتے ہیں.مخالفت کا خوف دلاتے ہیں ہم ہر گز پرواہ نہیں کرتے خواہ ساری دنیا مخالفت پر کھڑی ہو جائے.ایشیا، یورپ ، امریکہ اور افریقہ سب مخالف ہوں تب بھی ہم حق پہنچا ئیں گے خواہ قتل بھی کئے جائیں.کابل نے آخر ہمارے آدمی قتل کئے مگر ہم نے تبلیغ نہیں چھوڑی اور نہ چھوڑیں گے.تم زیادہ جانتے ہو یا خدا زیادہ جانتا ہے کہ مسلمانوں کے مفادات کس بات میں ہیں.خدا نے مسلمانوں کی بہتری اور اصلاح کی غرض سے جو راہ اختیار کیا ہے بہر حال وہی درست ہے.تم مانو تو بھلا ہو گا ، نہ مانو گے تو ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا.تم نہ مانو گے تو دیکھ لینا تمہاری آنکھوں کے سامنے ہزاروں کی تعداد میں اللہ تعالیٰ اس ملک میں جماعت دے گا اور ضرور دے گا.تم لوگوں کی مخالفت اور دشمنی حقیقت ہی کیا رکھتی ہے وغیرہ.الغرض بڑے ہی جوش کی تقریر تھی.اس تقریر پر وہ مولوی عبد القادر بہت ٹھنڈا ہوا اور کہا کہ آپ کے استقلال اور اولوالعزمی کا میں اعتراف کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ مبارک کرے مگر ان خیالات کو ہمارے ملک میں نہ پھیلائیں اور نہ ذکر کریں.آخر اُٹھ کر چلا گیا اور ایک کو نہ میں دوسرے لوگوں سے باتیں کرنے لگا.باوجود اس بحث اور جھگڑے کے طریق ادب کو اس نے نہ چھوڑا اور یاسیدی اور سیدنا حضرت احمد قادیانی کے الفاظ سے ہی بولتا اور کلام کرتا رہا.اس کا لہجہ سخت تھا مگر با ادب - آخر اس نے درخواست کی کہ جامع امویہ حضور ضرور دیکھیں.
مصالح العرب.....جلد اول مشق کی فتح کا مصمم ارادہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: 150 ”جب میں دمشق گیا تو عبد القادر مغربی جو اس علاقہ کی اسلامی تحریکات کی مجلس کے تھے مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے ہندوستانی لوگ جاہل ہیں وہ اسلام اور قرآن سے ناواقف ہیں.اور اس ناواقفیت سے فائدہ اٹھا کر آپ نے ان لوگوں میں اپنے سلسلہ کو پھیلا لیا.عرب لوگ قرآن کی بولی جانتے ہیں.وہ خوب سمجھتے ہیں کہ اسلام اور قرآن کیا کہتا ہے.اس لئے یہاں ان عقائد کا ہرگز نام نہ لیں اور یاد رکھیں کہ ایک عرب بھی آپ کے سلسلہ کو قبول نہیں کرسکتا.میں نے ان سے کہا آپ کہتے ہیں کہ ہندوستانی لوگ کیونکہ جاہل ہیں اس لئے ان میں ہمارا سلسلہ پھیل گیا.عرب کا کوئی آدمی ہمارے سلسلہ کو قبول نہیں کر سکتا.میں یہاں سے جاتے ہی اپنا مشن بھیجوں گا اور اسوقت تک اس علاقے کو نہیں چھوڑوں گا جب تک عربوں میں سے کئی لوگوں کو احمدی نہ بنالوں.چنانچہ میں نے آتے ہی اپنے مبلغین کو اس علاقہ میں بھجوا دیا اور اب بڑے بڑے ڈاکٹر ، بیرسٹر اور تعلیم یافتہ اشخاص ہمارے سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں.اور ہزاروں روپیہ وہ اسلام اور احمدیت کے لئے خرچ کر رہے ہیں.پس یہ ہو نہیں سکتا کہ دنیا انکار کرے اور انکار کرتی چلی جائے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جسے خدا نے بھیجا ہے اس پر لوگ ایمان نہ لائیں.مگر مبارک ہیں وہ جواب ایمان لاتے ہیں.مبارک ہیں وہ جو خدا کی آواز کو سنتے اور اس پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کیونکہ جو شخص خدا کے مامور کی آواز کو سنتا ہے وہ درحقیقت خدا کی آواز کوسنتا ہے.اور جو شخص خدا تعالیٰ کے مامور کی آواز کورڈ کرتا ہے وہ در حقیقت خدا تعالی کی آواز کورڈ کرتا ہے“.(انوار العلوم جلد 17 صفحہ 175) جامع اموی دمشق میں قیام کے دوران حضور انور جامع اموی کی زیارت کو تشریف لے گئے.بازاروں میں کثرت ہجوم میں سے حضور کا گزرنا تمام لوگوں کی توجہ کو کھینچتا تھا اور اکثر لوگ تعارف چاہتے تھے.جمعہ کا دن تھا نماز جمعہ کے واسطے دیہاتی لوگ اور ثواب کے
151 مصالح العرب.....جلد اول خواہشمند نماز جمعہ کے انتظار کیلئے مسجد میں جمع تھے.مسجد کے وسط میں ایک حجرہ کے اندر ایک قبر کی طرف اشارہ کر کے ایک شخص نے عرض کیا کہ حضرت بیچی نبی کی قبر ہے حضور زیارت کریں گے؟ حضور نے فرمایا کہ ہم اس بات کا اعتقاد نہیں رکھتے.یہ بات صحیح نہیں کہ یہاں حضرت بیٹی نبی کی قبر ہے وہ تو القدس میں فوت ہوئے اور وہیں ان کی قبر ہے.بعض لوگوں نے اور ایسی ہی روایات کی طرف حضور کو متوجہ کرنا چاہا مگر حضور نے پسند نہ فرمایا اور مسجد کے اندر کے حصہ میں سے گزرتے ہوئے مغرب سے مشرق کی جانب تشریف لے گئے اور وسعت کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ وہ مسجد ہے جہاں یقیناً صحابہ نے نمازیں پڑھیں ہیں.مسجد کی عمارت اور وسعت سے پتہ لگ سکتا ہے کہ اس زمانہ میں کس قدر لوگ نماز کے پابند تھے.حضور نے اندازہ کرایا تو معلوم ہوا کم از کم تین سو آدمی ایک صف میں کھڑا ہو سکتا ہے اور بیس سے زیادہ صفوف مسجد کے متینوں حصوں میں کھڑی ہو سکتی ہیں یعنی چھ یا سات ہزار آدمی مسجد کے اندر نماز ادا کر سکتا ہے اور اسی قدرصحن میں گویا قریباً پندرہ ہزار آدمی ایک وقت میں نماز ادا کر سکتا ہے.مسجد کے دو مینا ر تھے، شمالی مینار پر اذان کہی جاتی ہے اور دوسرا جو مشرقی جانب تھا بالکل بند پڑا تھا اس پر چڑھنے کی کسی کو اجازت نہیں تھی.لوگوں نے بتایا کہ اس کو حضرت مسیح کے نازل ہونے کے واسطے ریز رو رکھا ہوا ہے.تاہم مسجد کا کوئی مینار سفید نہ تھا بلکہ دونوں ہی رنگ دار اور سرخی مائل تھے.منارة بيضاء دمشق پہنچنے پر حضور کا منشا تھا کہ کسی معزز اور آبا دحصہ شہر میں بہت شریفانہ مقام پر کوئی جائے قیام مل جائے اور اس منشا کے ادا کرنے کی غرض سے شہر کے قریباً تمام مقامات پر کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہ ہوئی.خدیو یہ ہوٹل میں جگہ نہ تھی.سنترال ہوٹل حضور کے مناسب حال نہ تھا.علیحدگی نہ تھی.آخر جب کوئی صورت نہ بنی تو اس خیال سے کہ صرف ایک دن گزارنے کے لئے یہاں ٹھہر جائیں حضور ٹھہر گئے.اُمید یہ تھی کہ خدیو یہ ہوٹل جو نسبتاً زیادہ صاف ہے اس میں جگہ مل جاوے گی جیسا کہ اس کے مینجر نے وعدہ بھی کیا تھا مگر کوئی جگہ خالی نہ ہو سکی اور معلوم ہوا کہ تمام ہوٹل بھر پور ہیں اور مسافر زیادہ آ رہے ہیں.
152 مصالح العرب.....جلد اول آخر مجبوراً اسی سنتر ال ہوٹل کو ہی اختیار کرنا پڑا جس میں آخر فصل کی کوشش سے ایک الگ کمرہ حضرت اقدس کے واسطے بھی مل گیا.ایک حصہ قافلہ کا اسی میں اور دوسرا حصہ دار السرور ہوٹل میں ٹھہرا.جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحت تامہ اور حکمت کاملہ کے ماتحت سید نا حضرت خلیفۃ المہدی واسیح کو ان دنوں جہاں ٹھہرایا وہ ہوٹل سنترال تھا جس کے بالکل ملحق جانب غربی ایک مسجد کا مینار ہے اور وہ سفید ہے.6 / اگست 1924 کی صبح کو حضور نے نماز صبح اسی ہوٹل میں اپنے دو خدام کے ساتھ پڑھی.سلام پھیرا تو منارہ مسجد کی طرف نظر پڑی جو بیضاء تھا.معا اللہ تعالیٰ نے دل میں ڈالا کہ یہی وہ منارۃ بیضاء ہے جس کے متعلق وارد ہے که مسیح عند المنارة البيضاء نازل ہوگا سو حضرت مسیح موعود کے خلیفہ، حضور کے لختِ جگر اور حسن و احسان میں حضرت مسیح موعود کے نظیر کا اس مقام پر نزول گویا خود حضرت مسیح موعود ہی کا نزول تھا اور یہی اس حدیث کے معنے ہیں جو واقعات کے مطابق ہوئے اور یوں وہ حدیث نبوی پوری ہوئی.طرفہ یہ کہ اس نماز میں حضرت اقدس کے ساتھ دوہی خادم شریک تھے یعنی مکرمی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور خان صاحب ذوالفقار علی صاحب.سید نا حضرت اقدس نے ملاقات کے لئے آنے والے بعض لوگوں سے پوچھا کہ جامع اموی میں کون سا منارہ ایسا ہے جو منارہ بیضاء کہلا سکتا ہے؟ تو انہیں اقرار کرنا پڑا کہ وہاں پر کوئی منارہ منارہ بیضاء کہلانے والا موجود نہیں ہے چنانچہ ایک دن کی بحث کے بعد حضرت صاحب نے ایک مولوی صاحب کو بطور حجت ملزمہ کہا بھی کہ لاؤ وہ منارہ بیضاء ہے کہاں؟ خاکسار ( محمد طاہر ندیم ) عرض کرتا ہے کہ سنترال ہوٹل تو وہاں پر موجود نہیں ہے تاہم یہ مسجد آج بھی موجود ہے جس کا نام جامع سنحقدار ہے اور اسکا یہ مذکورہ منارہ اُس وقت پرانے دمشق کے مشرقی جانب واحد سفید منارہ تھا.اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے بارہ میں حضور خود فرماتے ہیں: پھر منارۃ البیضاء کا بھی عجیب معاملہ ہوا.ایک مولوی عبد القادر صاحب (المغر بی.ناقل ) حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے دوست تھے.ان سے میں نے پوچھا کہ وہ منارہ کہاں ہے جس پر تمہارے نزدیک حضرت عیسی نے اترنا ہے.کہنے لگے مسجد امویہ کا ہے.لیکن ایک اور مولوی صاحب نے کہا کہ عیسائیوں کے محلہ میں ہے.ایک اور نے کہا : حضرت عیسی کی
153 مصالح العرب.....جلد اول آ کر خود بنائیں گے.اب ہمیں حیرت تھی کہ وہ کونسا منارہ ہے دیکھ تو چلیں.صبح کو میں نے ہوٹل میں نماز پڑھائی اس وقت میں اور ذوالفقار علی خان صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے.یعنی میرے پیچھے دو مقتدی تھے.جب میں نے سلام پھیرا تو دیکھا سامنے منار ہے اور ہمارے اور اسکے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے.میں نے کہا یہی وہ منار ہے اور ہم اسکے مشرق میں تھے.یہی وہ سفید منارہ تھا اور کوئی نہ تھا.مسجد امویہ والے منار نیلے سے رنگ کے تھے.جب میں نے اس سفید منارہ کو دیکھا اور پیچھے دو ہی مقتدی تھے تو میں نے کہا کہ وہ حدیث بھی پوری ہوگئی.(ماخوذ از انوار العلوم جلد 8 دورہ یورپ.تاریخ احمدیت جلد 4۴ صفحہ 438 تا 443) یہاں قارئین کرام کی یادہانی کے لئے عرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب حمامۃ البشری میں مسیح کے منارہ بیضاء پر نزول والی حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے: "ثم يسافر المسيح الموعود أو خليفة من خلفائه إلى أرض دمشق، فهذا معنى القول الذى جاء في حديث مسلم أن عيسى ينزل عند منارة دمشق فإن النزيل هو المسافر الوارد من ملك آخر وفي الحديث - - یعنی لفظ المشرق - إشارة إلى أنه يسير.إلى مدينة دمشق من بعض البلاد المشرقية وهو ملك الهند“.( حمامة البشری، روحانی خزائن جلد 7 صفحه 225 ) یعنی پھر مسیح موعود یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ سرزمین دمشق کا سفر اختیار کرے گا.یہ ہے مسلم شریف کی اس حدیث کا معنی جس میں آیا ہے کہ عیسی دمشق کے منارہ کے قریب نازل ہوگا کیونکہ نزیل ایسے مسافر کو کہتے ہیں جو کسی دوسرے ملک سے آیا ہو.اور حدیث شریف میں مشرق کے الفاظ سے اسی طرف اشارہ ہے کہ وہ بعض مشرقی ممالک سے دمشق شہر کی طرف آئے گا اور یہ مشرقی ملک ہندوستان ہے.وو وہ حسن واحسان میں تیرا نظیر ہوگا“ کا عظیم الشان جلوہ اس سفر میں متعدد امور میں حضور کی مسیح اول اور مسیح ثانی سے مشابہت کے واقعات پیش
مصالح العرب.....جلد اول 154 آئے.منارہ بیضاء کے پاس نزول کے معاملہ میں تو آپ نے خود فرمایا کہ میرے یہاں آنے سے یہ پیشگوئی پوری ہوگئی کیونکہ بعض اوقات باپ سے متعلقہ پیشگوئیاں بیٹے یا خلیفہ کے ذریعہ بھی پوری ہوتی ہیں.علاوہ ازیں ایک امر کا ذکر خود حضور نے یوں فرمایا: غرض عجیب رنگ تھا.کالجوں کے لڑکے اور پروفیسر آتے ، کا پیاں ساتھ لاتے اور جو میں بولتا لکھتے جاتے.اگر کوئی لفظ رہ جاتا تو کہتے یا استاذ ذرا ٹھہرئیے یہ لفظ رہ گیا ہے.گویا انجیل کا وہ نظارہ تھا جہاں اسے استاذ کر کے حضرت مسیح کو مخاطب کرنے کا ذکر ہے.اس سفر کے واقعات پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ صرف حضورڑ کا ہی شعور نہیں تھا کہ لوگوں کے يَا أَستاذ ، یا اُستاذ کے الفاظ سے حضرت مسیح اور آپ کے حواریوں کی مجلس کا گمان ہوتا ہ تھا، بلکہ حضور کے اس سفر یورپ کے آغاز میں ہی 20 / جولائی 1944 ء کو جب حضور نے اپنے رفقاء کے ساتھ نماز عصر پڑھائی اور حضور انور ابھی مصلے پر ہی تشریف فرما تھے کہ جہاز کے ڈاکٹر نے (جس کا نام میںگلی تھا اور وہ اٹلی کا باشندہ تھا) حضور کی طرف اشارہ کر کے آہستہ سے کہا: Jesus Christ and twelve Disciples یعنی یسوع مسیح اور بارہ حواری.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کہتے ہیں کہ یہ سن کر میری حیرت کی کچھ حد نہ رہی کہ خدا تعالیٰ کیسا قادر ہے کہ پوپ کی بستی کا رہنے والا ایک نہایت سچی اور عارفانہ بات کہہ رہا ہے.اسی طرح جب حضور اس سفر کے آخری مقام یعنی لندن پہنچے تو وہاں بھی ایک انگریز شخص نے بتایا کہ میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ مسیح اپنے تیرہ حواریوں کے ساتھ تشریف لائے ہیں اور آج آپ کو دیکھ کر میں سمجھتا ہوں کہ میرا خواب پورا ہو گیا ہے.تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 437 تا 448.انوار العلوم جلد 8 دورہ یورپ ) گورنر شام سے مبلغین احمدیت بھجوانے کا ذکر حضور انور بذریعہ موٹر شام کے گورنر کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے ان کا نام صحی بیگ تھا.حضرت اقدس نے ان سے سلسلہ کا ذکر فرمایا اور یہ کہ ہم لوگ یہاں مبشرین بھیجنا چاہتے ہیں آپ کو ان کے متعلق کوئی اعتراض تو نہیں یا قانونا کوئی روک تو نہیں؟ اور اگر کوئی روک نہیں تو کیا آپ ہماری کچھ مدد کر سکیں گے،صرف اخلاقی مدد.
مصالح العرب.....جلد اول 155 حضور کے تشریف لے جانے کے وقت اس کے پاس چند علماء اور رؤسا بھی موجود تھے.بعض نے ہماری مخالفت کی اور کہا کہ ان لوگوں کو یہاں داخل نہ ہونے دینا چاہئیے اور بہت کچھ شور مچایا مگر ایک صاحب جو شاید کوئی بڑے جلیل القدر عہدے پر مامور تھے، آستینیں چڑھا کر کھڑے ہو گئے اور علماء مخالف کو مخاطب کر کے بڑے جوش سے بولے کہ تم لوگ عیسائیوں اور با بیوں کو تو آنے دو اور ان کا زہر تو ملک میں پھیلنے دو مگر نہ آنے دو تو ایک ایسی جماعت کو جو جان اور مال سے خدمت اسلام کی غرض سے گھروں سے نکلی ہے اور کسی سے کچھ نہیں مانگتی اور مفت خدمت دینِ اسلام کرتی پھرتی ہے وغیرہ وغیرہ.اس بزرگ کی تقریر ایسی جوشیلی اور پُر زور تھی کہ سب مخالفت دب گئے اور کوئی جواب نہ دے سکے.آخر گورنر نے بھی اس کی تائید کی اور کہا کہ اچھا آپ لوگ بتائیں کہ اگر یہ لوگ (احمدی) یہاں آ کر اپنا مدرسہ جاری کر کے اپنے خیالات کی تشہیر کریں تو تم روک سکتے ہو؟ نصرانی مدارس اور اخبارات کے ذریعہ سے اپنے خیالات پھیلا جائیں تو پرواہ نہ کرو مگر روک پیدا کر و تو ایسے لوگوں کے لئے جو خادم دین ہیں.الغرض گورنر نے حضرت سے عرض کیا کہ آپ بے شک مبلغین اور مبشرین اسلام یہاں بھیجیں ہم ان کی حتی المقدر مدد کریں گے اور اگر لوگ ان پر حملہ بھی کریں گے تو ہم ان کی حفاظت اور مدد کریں گے البتہ اگر لوگوں کا زور اور غلبہ و فتنہ اتنا بڑھ جائے کہ ہماری طاقت سے اس کا دبنا اور رکنا ممکن نہ ہو تو پھر ہم آپ سے کہہ دیں گے کہ آپ اپنا انتظام آپ کر لیں ور نہ ہم ہر طرح سے مدد کے لئے حاضر ہیں وغیرہ وغیرہ.مخالف مولوی نے تشہیر کر دی حضرت اقدس کی تشریف آوری کا اعلان اخبارات میں ہو چکا تھا.بعض مولوی صاحبان حضور سے مل کر سلسلہ کے حالات سے آگاہ ہو چکے تھے.بعض ایڈیٹروں اور علماء کو حضور کے خدام گھروں پر جا کر سلسلہ کی تبلیغ کر آئے تھے.جامع اموی کے خطیب نے اور بھی شہرت اسطرح کر دی کہ اپنے خطبہ جمعہ میں حضور انور اور آپکے وفد کی مخالفت کی ہے اور سخت سست الفاظ استعمال کئے اور یوں گویا ایک اشتہار دے دیا ہے.کئی مولوی محض خطبہ میں حضور کا ذکر سن کر دیکھنے کو چلے آئے اور اس قدر لوگ آئے کہ ہوٹل میں کوئی کرسی باقی نہ رہی بلکہ اکثر لوگ گفتگو کھڑے ہو کر سن رہے تھے.
مصالح العرب.....جلد اول حمص کا ایک بزرگ 156 "حمص" کا ایک بزرگ حضرت کی تقاریر اور مباحثات اور مولویوں کی بدعنوانیاں اور چاروں طرف سے حملے واعتراضات کی بوچھاڑ کو اور دوسری طرف حضور کا سب کو حوصلہ متحمل اور بہادری سے جواب دینا اور نہ گھبرانا دیکھ کر عاشق ہو رہا تھا اور عش عش کر کے بعض اوقات لوگوں سے لڑنے لگتا تھا کہ یہ کیا تہذیب ہے کہ ایک شخص سے ایک آدمی بات نہیں کرتا چاروں طرف سے بولنے لگتے ہو مگر وہ تنہا سب کو مسکت جواب دیتا جا رہا ہے.یہ بزرگ بھی اپنے علاقہ میں بہت بڑا آدمی تھا اور کہتا تھا کہ قریباً ایک ہزار آدمی میرے زیر اثر ہے میں چاہتا ہوں کہ احمدی ہو جاؤں انشاء اللہ میرے ساتھی بھی جماعت میں شامل ہو جائیں گے.پہاڑ سے ٹکر شیعہ فرقہ کا بڑا مفتی اور کئی بڑے بڑے علماء بھی ملنے آئے.ہر ایک مولوی محض یہ نیت لے کر آتا تھا کہ کسی رنگ میں حضرت اقدس کو یا حضور کے غلاموں کو بحث میں شکست دیں.کوئی لغت کا زور لے کر آتا.کوئی حدیث دانی کے گھمنڈ پر آتا.کوئی فلاسفی کوئی منطق کوئی صرف و نحو کے زعم پر آتا تھا مگر ان کو معلوم نہ تھا کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے علوم کو ایسا غلام کر رکھا ہے کہ کسی کو حضرت اقدس تو کیا حضرت کے غلاموں سے بھی بازی لے جاسکنے کی توفیق نہ ملتی.جو آتا پہاڑ سے ٹکر کھا کر واپس لوٹ جاتا.پھوڑتا تو اپنا ہی سر پھوڑتا.علماء کی اس بے بسی اور بدتہذیبی کی وجہ سے ہی 8 اگست 1924 کے اخبار الف باء نے نوٹ لکھتے ہوئے لکھا کہ میدان میں ایک کامیاب جرنیل یا شیر بہادر کی طرح سے چاروں طرف کے حملوں کا جواب دیتا تھا.ایک سعید فطرت 19 اگست 1924ء کو حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے دوست عبدالرحیم آفندی بیروتی پوسٹ ماسٹر دمشق نے بعد نماز ظہر ساڑھے تین بجے حاضر ہو کر ملاقات کرنے کی خواہش کی اور کہا کہ میں آپ کے عقائد کو ماننے کے لئے تیار ہوں.
مصالح العرب.....جلد اول لوگوں کا جم غفیر 157 اس قدر لوگ ہوٹل میں آئے کہ ہوٹل کا مالک چیخ اٹھا کہ وہ اس قدر لوگوں کو برداشت نہیں کر سکتا.دروازہ ہوٹل کا آخر تنگ آکر بند کر دیا گیا.لوگ دروازے پر اس کثرت سے جمع تھے کہ دروازہ ٹوٹنے کا بھی اندیشہ تھا.چند آدمی دروازہ پر متعین کر دیئے گئے.بعض علماء کہتے تھے کہ عوام کو چھوڑ دیا جاوے اور ہم سے بات کی جاوے.صرف دس ہی منٹ دے دیئے جاویں.زیارت ہی کرا دی جاوے.حضرت صاحب باہر تشریف لائے اور بالائی ڈرائینگ روم میں علماء اور اس مفتی کے بیٹے سے جس نے اشتہار کی اشاعت روک دی ہے مختلف مسائل پر گفتگو فرمانے لگے جن میں سے کسر صلیب اور قتل خنزیر اور جزیہ اُٹھا دینے کے معانی و مطالب شامل ہیں.خلق خدا کا انبوہ واثر دہام نیچے بے قرار کھڑا انتظار کر رہا تھا.یہ حالت دیکھ کر پولیس ہوٹل میں پہنچ گئی اور لوگوں کو داخلہ سے روک دیا.لوگوں کے ہجوم اور غیر معمولی دلچسپی لینے کے بارہ میں خود حضور انور فر ماتے ہیں: جب ہم دمشق میں گئے تو اول تو ٹھہرنے کی جگہ ہی نہ ملتی تھی.مشکل سے انتظام ہوا مگر دو دن تک کسی نے کوئی توجہ نہ کی.میں بہت گھبرایا اور دعا کی اے اللہ پیش گوئی جو دمشق کے متعلق ہے کس طرح پوری ہوگی.اس کا یہ مطلب تو ہو نہیں سکتا کہ ہم ہاتھ لگا کر واپس چلے جائیں.تو اپنے فضل سے کامیابی عطا فرما.جب میں دعا کر کے سویا تو رات کو یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہو گئے.عَبْدٌ مُكَرَّم یعنی ہمارا بندہ جس کو عزت دی گئی.چنانچہ دوسرے ہی دن جب اٹھے تو لوگ آنے لگے.یہاں تک کہ صبح سے رات کے بارہ بجے تک دوسو سے لے کر بارہ سو تک لوگ ہوٹل کے سامنے کھڑے رہتے.اس سے ہوٹل والا ڈر گیا کہ فساد نہ ہو جائے.پولیس بھی آگئی اور پولیس افسر کہنے لگا : فساد کا خطرہ ہے.میں نے یہ دکھانے کے لئے کہ لوگ فساد کی نیت سے نہیں آئے مجمع کے سامنے کھڑا ہو گیا.چند ایک نے گالیاں بھی دیں.لیکن اکثر نہایت محبت کا اظہار کرتے.اور هذا ابن المهدی کہتے اور سلام کرتے.مگر باوجود اس کے پولیس والوں نے کہا کہ اندر بیٹھیں، ہماری ذمہ داری ہے.اور اس طرح ہمیں اندر بند کر دیا گیا.اس پر ہم نے برٹش کونسل کو فون کیا.اس پر ایسا انتظام کر دیا گیا کہ لوگ اجازت لے کر اندر آتے رہے.تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 437 تا 448.انوار العلوم جلد 8 دورہ یورپ) 66
مصالح العرب.....جلد اول دمشق اور بیروت میں قیام کے بعض مزید قابل ذکر امور 158 متعدد اخبارات نے حضور انور اور جماعت کے بارہ میں آرٹیکل شائع کئے ان میں اخبا رفتی العرب، اخبار المقسم ، الف باء وغیرہ قابل ذکر ہیں.متعد داخباروں کے ایڈیٹروں نے حضور انور سے انٹرویوز بھی لئے اور سوالات کر کے جوابات حاصل کئے.10 اگست 1924 کو حضور انور اپنے وفد کے ہمراہ دمشق سے روانہ ہو کر بیروت میں کچھ توقف کے بعد حیفا پہنچ گئے.دمشق کے سنترال ہوٹل میں حضور کی خواب گاہ کمرہ نمبر 25 میں تھی ، نشست گاہ حضور کی اکثر بلکہ عموماً کمرہ نمبر 32 میں تھی.نماز، کھانا اور ملاقاتیں اسی میں ہوتی تھیں اور یہی وہ کمرہ ہے جو منارہ بیضاء کے جانب شرق واقع تھا.ہوٹل سنترل بیروت میں حضور کمرہ نمبر 29 کمرہ میں تشریف فرما ہوئے.بیروت سے حیفا کے سفر کے قابل ذکر امور بیروت سے حیفا کو آتے ہوئے حضور انور نے فیصلہ کیا ہے کہ قادیان واپس جا کر انشاء اللہ اپنی دفتری زبان عربی کر دی جائے گی.دمشق میں حضرت اقدس نے حضرت مسیح موعود کے رویا متعلقہ دمشق کی یہ تاویل فرمائی کہ سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کا دمشق میں آنا گویا خود حضرت مسیح موعود کا آنا ہے.....حضور نے یہ بھی فیصلہ فرمایا ہے کہ ایک عربی رسالہ ضرور جاری کر دینا چاہئیے جس کا اسٹاف قادیان میں ہو، اشاعت مصر سے ہوا کرے اور بلا دعرب و شام، فلسطین وغیرہ میں اس کو شائع کیا جاوے.دمشق سے پورٹ سعید تک حضور 10 اگست 1924 ء کو دمشق سے روانہ ہو کر بیروت سے ہوتے ہوئے حیفا پہنچے.اور حیفا سے پورٹ سعید کی طرف روانہ ہوئے جہاں سے 13 راگست 1924ء کو آ.کا جہاز اٹلی کی بندرگاہ برنڈ زی کی طرف روانہ ہونا تھا.( تاریخ احمدیت 4 صفحہ 442 تا445)
MAKHZAN TAKAWIER 2006 دورہ یورپ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ جانے والے وفد کی تصاویر MAKHZAN-E- TASAWIRO 2006
WAY IN BOOKING OFFICE 1- CLASS BILLETS 1 CLASSE مخلص تذاكر الرحمة الاولي دورہ یورپ کے دوران مصر کے ایک ریلوے سٹیشن پر تصویر MAKHZAN-I-TASAWEER© 2009 دورہ یورپ کے دوران القدس الشریف کی زیارت کے موقعہ پر لی گئی ایک تصویر
مسجد سنجقدار جس کا یہ منارہ بیضاء پرانے دمشق کے مشرقی جانب واقع ہے اور اسی منارہ بیضاء کے جوار میں ایک ہوٹل میں حضرت مصلح موعودؓ نے قیام فرمایا.جامع اموی کا ایک منظر
مصر کے مشہور صوفی بزرگ محمد ماضی ابوالعزائم
مصالح العرب.....جلد اول 159 حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کا مصر میں قیام حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ دورہ یورپ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے.حضور انور اپنے وفد کے ہمراہ لندن سے قادیان کے لئے 25 اکتوبر 1924 کو روانہ ہوئے تو راستے میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کو آپ نے عربی زبان میں مہارت حاصل کرنے کیلئے مصر ٹھہرنے کا ارشاد فرمایا.لہذا آپ مصر میں دوماہ سے زائد عرصہ تک قیام فرمانے کے بعد 19 جنوری 1925 ء کو واپس قادیان تشریف لے آئے.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد چہارم ص 550)
مصالح العرب.....جلد اول 160 دار التبلیغ شام وفلسطین حضرت خلیفہ لمسیح الثانی نے اپنے سفر یورپ سے واپسی کے بعد 1925ء میں شام میں نیا دار التبلیغ کھولنے کے لئے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کو روانہ فرمایا.چنانچہ یہ دونوں بزرگ 27 /جون 1925ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور 17 / جولائی 1925ء کو دمشق پہنچے.مبلغین کے لئے اہم نصائح ان دونوں بزرگوں کو الوداع کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جو نصائح فرمائیں وہ مبلغین کے لئے خصوصاً اور افراد جماعت کے لئے عموماً مشعل راہ ہیں.حضور نے فرمایا: اہل عرب کے ہم پر بہت بڑے احسان ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ ہم تک اسلام پہنچا.ہمارا رونگٹا رونگٹا ان کے احسان کے نیچے دبا ہوا ہے.ان کا بدلہ دینے کے لئے ہمارے یہ مبلغ وہاں جارہے ہیں.ان میں سے سید ولی اللہ شاہ صاحب پر دوہری ذمہ داری ہے.کیونکہ انہوں نے علم بھی اس ملک سے حاصل کیا ہے.اب ان کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ان لوگوں کو روحانی علم دیں.مگر ساتھ یہ خیال رکھنا چاہئے کہ وہ مبلغ کی حیثیت سے نہیں جار ہے بلکہ مدبر کی حیثیت سے جارہے ہیں.ان کا کام یہ دیکھنا ہے کہ اس ملک میں کس طرح تبلیغ کرنی چاہئے.مبلغ کی حیثیت سے مولوی جلال الدین صاحب جا رہے ہیں.ان کو اسی مقصد کے لئے اپنا وقت صرف کرنا چاہئے تا کہ ان کے جانے کا مقصد فوت نہ ہو جائے.ان کا یہ کام ہے کہ ان کے ذریعہ جو جماعت خدا تعالیٰ پیدا کرے اس کا تعلق مرکز سے اس طرح قائم کریں جس طرح
......161 مصالح العرب.....جلد اول عضو کا تعلق جسم سے ہوتا ہے.کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری ترقی ہی موجب تیل ہوگی....پس مبلغین کا سب سے مقدم فرض یہ ہے کہ احمدیت میں داخل ہونے والوں کا آپس میں ایسا رشتہ اور محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں جس کی وجہ سے ساری جماعت اس طرح متحد ہو کہ کوئی چیز اسے جدا نہ کر سکے.اگر شامی احمدی ہوں تو انہیں یہ خیال نہ پیدا ہونے دیں کہ ہم شامی احمدی ہیں ، اسی طرح جو مصری احمدی ہوں ان کے دل میں یہ خیال نہ ہونا چاہئے کہ ہم مصری احمدی ہیں کیونکہ مذہب اسلام وطنیت کو مٹانے کے لئے آیا ہے.اس لئے نہیں کہ حب وطن مٹانا چاہتا ہے.اسلام تو خود کہتا ہے حب الوطن ایمان کی علامت ہے.مگر وہ وطن کو ادنیٰ قرار دیتا ہے اور اس سے اعلیٰ یہ خیال پیش کرتا ہے کہ ساری دنیا کو اپنا وطن سمجھو.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ انسانیت کو وطن سمجھو.دنیا سے مراد تو وہ انسان ہوتے ہیں جو زندہ ہوتے ہیں مگر انسانیت سے مراد وہ تمام انسان ہیں جو پہلے گزر چکے اور آئندہ آئیں گے.ایک مسلمان کا کام جہاں پہلوں کی نیکیوں کو قائم کرنا اور ان کے الزامات کو مٹانا ہوتا ہے وہاں آئندہ نسلوں کے لئے سامان رشد پیدا کرنا بھی ہوتا ہے.اس کے لئے انسانیت ہی سمح نظر ہو سکتی ہے.پس ہمارے مبلغوں کو یہ مقصد مد نظر رکھ کر کھڑا ہونا چاہئے اور 66 ہمیشہ اسی کو مدنظر رکھنا چاہئے.“ حضرت حافظ روشن علی صاحب کی نصیحت تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 522-523) اس موقعہ پر مولانا شمس صاحب کو آپ کے استاد حضرت حافظ روشن علی صاحب نے بھی چند نصائح فرما ئیں جن میں سے ایک یہ تھی: " قائم مقام پیدا کرنے کی ہر وقت کوشش کرنا.اس کے واسطے کسی اچھے شخص کو منتخب کر کے اس سے خاص دوستی کرنا کہ اگر تمہارے جسم کو روح سے علیحدہ کیا جائے تو فوراً وہ روح دوسرے جسم کے ساتھ کام کرنے لگ جائے.“ حضرت مولانا شمس صاحب فرماتے ہیں: میں نے حتی الامکان اپنے استاد مرحوم کی ان ہدایات کو مدنظر رکھا اور شام کے علاقہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک ایسا دوست عطا کر دیا ( یعنی سید منیر الکھنی صاحب) جن کو میں نے اپنے استاد مرحوم کی ہدایت کے مطابق تیار کیا.اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل.
مصالح العرب.....جلد اول 162 اس کے اہل بھی ثابت ہوئے.جب مجھے اچانک دمشق چھوڑ کر حیفا جانا پڑا تو انہوں نے دمشق میں لوائے احمدیت کو قائم رکھا اور سلسلہ کی تبلیغ کے لئے انہوں نے اپنی زندگی وقف کردی.“ سفر دمشق کا ایک واقعہ (رساله الفرقان دسمبر 1960 ، صفحہ 18 حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس اپنے اس سفر کے بارہ میں لکھتے ہیں: یکم جولائی کو بمبئی سے ہمارا جہاز روانہ ہوا اور 11 جولائی کو سویز پہنچا.جہاز میں بھی چند اصحاب سے حضرت مسیح موعود کے متعلق گفتگو ہوئی جن میں سے تین عرب مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے.جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے بھی انہیں بعض مسائل کے متعلق سمجھایا، اور میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی کتاب الاستفتاء “ اور ”مواہب الرحمن سے ایک حصہ سنایا.ان میں سے ایک عالم تھا وہ کہنے لگا : بہت عرصہ ہوا ہے احمد رضا خان بریلوی نے اس مدعی کے متعلق علماء مدینہ سے کفر کا فتویٰ طلب کیا تھا.جو کچھ اس نے لکھا تھا اس بناء پر انہوں نے کفر کا فتویٰ دے دیا.مگر اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے خود مدعی کی کتب کا مطالعہ نہیں کیا.آپ کو یہ کتا بیں ضرور وہاں بھیجنی چاہئیں.انہوں نے بہت اصرار کیا کہ یہ کتاب ضرور مجھے دے دیں مگر ہمارے پاس اس کا کوئی اور نسخہ نہیں تھا.آخر اسلامی اصول کی فلاسفی کے عربی ترجمہ کی ایک کاپی دی گئی.انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھ سے ضرور خط و کتابت جاری رکھیں.(الفضل 18 راگست 1925ء صفحہ 2 بحوالہ خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے حالات زندگی جلد اوّل صفحہ 151-152 ) اس عرب عالم کا مخالفین احمدیت کے حوالہ سے یہ جملہ کہ انہوں نے خود مدعی کی کتب کا مطالعہ نہیں کیا، بہت اہم ہے.بلاد عربیہ میں خصوصا اور باقی دنیا میں عموما لوگوں کے پاس احمدیت کے بارہ میں معلومات کا مصدر جماعت کے مخالفین کی کتب ہیں جنہوں نے ایک دفعہ جھوٹ اور افتراء کی راہ سے غلط اور من گھڑت باتیں شائع کر دیں اس کے بعد انہی کتب سے لوگ نقل کرنے لگے اور کسی نے نہ تو اخلاقیات اور صحافتی اقدار کی پاسداری کی ، نہ ہی تحقیق کے دیانتدارانہ طریق کو اپناتے ہوئے اس جماعت کی اصل کتب اور لٹریچر کے مطالعہ سے یا افرادی
مصالح العرب.....جلد اول 163 جماعت سے رابطہ کر کے حق جاننے کی کوشش کی.اس میں بھی کئی فوائد مضمر تھے.اول تو یہ کہ جب بظاہر بڑے بڑے علماء یوں نقل در نقل کے مرتکب ہوئے تو حقیقت معلوم ہونے پر ان کے علم کی قلعی بھی کھل گئی.اور ان کی دیانتداری بھی لوگوں پر آشکار ہوگئی کہ ایک ایسا معاملہ جس میں ایک مدعی کی صداقت یا افتراء کا فیصلہ کرنا مقصود تھا اس میں انہوں نے متعصب لوگوں کی رائے کو بلا تحقیق اپنا لیا اور اس صادق اور معصوم کے کفر کے مرتکب ہوئے.دوسرا یہ کہ جب ایسے افراد جنہوں نے ان نام نہاد علماء کی زبانی احمدیت سے منسوب عجیب وغریب خرافات اور نہایت غلط خبرمیں سن رکھی تھیں جب خود انہیں سلسلہ کی کتب پڑھنے کا اتفاق ہوا تو یکدم انکی کا یا پلٹ گئی اور وہ احمدیت کی گود میں آگئے.لہذا ہمیں تبلیغ کے سلسلہ میں اس امر کو بطور خاص یا د رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور آپ کے کلام میں جو تاثیر ہے وہ ہماری کسی دلیل میں نہیں ہوسکتی.اس لئے کوشش یہ ہونی چاہئے کہ لوگوں کو امام الزمان کا کلام پڑھنے کو دیں کیونکہ یہ کلام بذات خود ایک معجزہ ہے.آج اللہ کے فضل سے خلفائے احمدیت کی رہنمائی میں عربی زبان میں بہت مفید لٹریچر شائع ہو چکا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود کی کتب بھی شائع ہو رہی ہیں.اور انٹرنیٹ پر بھی یہ سارا مواد دستیاب ہے.احباب کو چاہئے کہ یہ کتب خرید میں اور عربوں میں تبلیغ کے لئے انہیں استعمال کریں.دمشق کا پہلا احمدی حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور حضرت مولا نا جلال الدین صاحب شمس نے دمشق پہنچتے ہی تبلیغی مہمات شروع کر دیں اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان کوششوں کو پھل لگنے شروع ہوئے.ابدال الشام میں سے سب سے پہلے حضرت السید محمد سعید الشامی الطرابلسی صاحب (جو) کہ بیروت کے علاقہ سے تھے) کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہونے کے واقعہ کی طرح شام کے علاقہ دمشق کے پہلے احمدی کا واقعہ بھی نہایت ایمان افروز ہے.
مصالح العرب.....جلد اول 164 دمشق کے پہلے احمدی مکرم مصطفیٰ نو یلاتی صاحب تھے.آپ علوی شیعہ تھے.آپ کے والد صاحب ایک عارف باللہ انسان تھے.ان کا اندازہ تھا کہ امام مہدی کا ظہور کسی مشرقی ملکی میں ہو چکا ہے.چنانچہ وہ اپنے بعض ہم خیال دوستوں کے ساتھ امام مہدی کی تلاش میں ایران ، عراق اور افغانستان کے علاقوں تک بھی گئے لیکن انہیں امام مہدی کے بارہ میں کوئی خبر نہ مل سکی.مصطفیٰ نو یلاتی صاحب کے والد صاحب کی امام مہدی سے ملاقات کی امید جب دم توڑنے لگی اور موت کا احساس دامنگیر ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے مصطفیٰ نو ملاتی صاحب کو بلایا ت اور انہیں چند سونے کی اشرفیاں دیں اور کہا کہ جب تم امام مہدی سے ملو تو انہیں میری طرف سے یہ اشرفیاں بطور چندہ دینا.جب حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس دمشق تشریف لائے تو مصطفی نو یلاتی صاحب وہ پہلے شخص تھے جو بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے اپنے والد کی دی ہوئی اشرفیاں مولانا جلال الدین صاحب شمس کے حوالے کر دیں.تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 252.سلسلہ احمدیہ صفحہ 378-379 - مقالات وردود احمدیه از نذیر مرادنی صفحه 26-25 - مکرم طلا قزق صاحب آف اردن کی بلا د شام میں احمدیت کے بارہ میں غیر مطبوعہ یادداشتیں) دمشق پر اتمام حجت اور مبلغین کرام کی قابل ستائش مساعی 1925ء میں سیر یا پر فرانس کا قبضہ تھا.ان دنوں میں جبل دروز سے سلطان باشا الأطرش کی سربراہی میں تحریک انقلاب اٹھی جو دیکھتے ہی دیکھتے پورے شام میں پھیل گئی.اس کے نتیجہ میں ملک میں جنگ کے حالات پیدا ہو گئے اور شام کی فرانسیسی حکومت نے دمشق پر مسلسل بمباری کر کے تباہی مچادی.مگر ان ناموافق حالات میں بھی یہ دونوں مجاہد پیغام حق پہنچاتے رہے اور یکم اپریل 1926 ء تک دمشق میں ایک جماعت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے...از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 522-523) حضرت خلیفہ اسی الثانی رضی اللہ عنہ نے اس بارہ میں فرمایا: شاہ صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب کے جانے کے بعد دمشق پر جو عذاب آیا وہ بتاتا ہے کہ ہم نے جو دمشق کے متعلق سمجھا تھا کہ اس کے لئے انذار اور تبشیر کا وقت آ گیا ہے وہ درست تھا.ادھر میں وہاں گیا، پھر یہ مبلغ بھیجے گئے.اس کے بعد وہاں ایسا عذاب آیا
مصالح العرب.....جلد اول 165 کہ دشمن بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی.یہ عذاب استثنائی صورت رکھتا ہے اور بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک دمشق مخاطب ہو گیا ہے.ان مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے شام کے مبلغین نے جو کام کیا وہ اس حد تک ہے کہ انہوں نے تبلیغ کو جاری رکھا اور وقت کو خطرات کی وجہ سے ضائع نہیں کیا.پہلی خوبی تو ان کی یہ ہے کہ انہوں نے حالات کے اس قدر خطر ناک ہو جانے پر یہ نہ کہا کہ ہمیں تبلیغ کے لئے بھیجا گیا تھا نہ کہ میدان جنگ میں رہنے کے لئے اس لئے ہمیں واپس بلا لیا جائے.یہی ان کی خوبی دین اور سلسلہ سے محبت کی دلیل ہے.اور کئی ایک ایسے ہوتے ہیں جو کہہ اٹھتے ہیں کہ ہمیں جان کا خطرہ ہے ہمیں واپس بلا لو.بہر حال ہمارے مبلغین نے جو کچھ ہو سکتا تھا کیا.اور اب مولوی جلال الدین صاحب جس خطرہ میں کام کر رہے ہیں اس کی وجہ سے جماعت کو ان کی قدر کرنی چاہئے.میرے نزدیک علاوہ اس اخلاص کے اظہار کے جوشام کے مبلغین نے کیا اور عین گولہ باری کے نیچے تبلیغ کی ، اس پر ہمارے دشمن بھی حیران ہیں.اس بارہ میں بعض غیر احمدیوں سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے ہمارے مبلغین کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور کہا آپ ہی کے مبلغ کام کرنے والے لوگ ہیں جو کسی خطرہ کی پرواہ نہیں کرتے.مجھے تعجب ہوگا اگر غیر احمدی تو ہمارے مبلغین کی قدر کریں مگر احمدی نہ کریں.(الفضل 18 / جون 1926ء صفحہ 4 تا 7 بحوالہ خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے حالات زندگی جلد اول صفحہ 168 تا 170 ) علامہ المغربی کی عربی دانی حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب فرماتے ہیں: ایک دن میں اور حضرت مولانا شمس صاحب دارالدعوۃ میں بعض دوستوں سے احمدیت کے بارہ میں باتیں کر رہے تھے کہ شیخ عبد القادر المغر بی مرحوم تشریف لائے اور بیٹھ کر ہماری باتیں سنیں.اثنائے گفتگو میں استخفاف سے اپنی سابقہ ملاقات کا ذکر کیا اور جو مشورہ حضور کو دیا تھا اسے دہرایا اور مذاقاً کہا کہ الہامات کی عربی عبارت بھی درست نہیں.میں نے خطبہ الہامیہ ان کے ہاتھ میں دیا اور کہا کہ پڑھیں کہاں عربی غلط ہے.انہوں نے اونچی آواز سے پڑھنا شروع کیا اور ایک دو لفظوں سے متعلق کہا کہ یہ عربی..
166 مصالح العرب.....جلد اول لفظ ہی نہیں....مولانا شمس صاحب نے تاج العروس ( عربی لغت کی کتاب) الماری سے نکالی اور وہ لفظ نکال کر دکھائے.سامعین کو حیرت ہوئی اور میں نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے کہا: " کہلاتے تو آپ ادیب ہیں لیکن آپ کو اتنی عربی بھی نہیں آتی جتنی میرے شاگرد کو.شمس صاحب ان دنوں مجھ سے انگریزی پڑھتے تھے ) اس پر انہیں بڑا غصہ آیا اور یہ کہتے ہوئے اٹھے اور کمرے سے باہر چلے گئے أريك غدا نجوم الظهر كل میں تمہیں ظہر کے تارے دکھاؤں گا ( یہ عربی زبان کا محاورہ ہے.اُردو زبان میں اس کے بالمقابل کہتے ہیں: دن میں تارے دکھانا.ناقل ).میں نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ سامعین میں سے کچھ متاثر ہیں ان سے کہا: یہ میرے پرانے دوست ہیں.صلاح الدین ایوبیہ کالج میں علم ادب پڑھایا کرتے تھے اور سامعین کو علم تھا کہ میں بھی وہاں پڑھایا کرتا تھا.میں نے کہا انہیں خطبہ الہامیہ پڑھ کر ایسی رائے کا اظہار نہ کرنا چاہئے تھا.بجائے ناواقف ہونے کے انہیں حق بات مان لینی چاہئے تھی.جب دوست چلے گئے اور شام ہو گئی تو شمس صاحب نے مجھ سے کہا: حضرت خلیفہ انی نے الوداع کرتے وقت آپ کو یہ نصیحت کی تھی کہ شیخ عبد القادر المغربی سے نہیں بگاڑنا.وہ آپ کے دوست ہیں اور ان کا شہر میں بڑا اثر ہے.میں نے شمس صاحب سے کہا: فکر نہ کریں، وہ میرے دوست ہیں ، میں انہیں ٹھیک کرلوں گا.کل صبح ہم دونوں ان کے پاس جائیں گے.دوسرے دن صبح سویرے ہم دونوں ان کے مکان پر گئے.دستک دی تو مغربی صاحب تشریف لے آئے اور آتے ہی مجھ سے بغلگیر ہوئے اور مجھے بوسہ دیا اور کہا کہ آپ سے معافی مانگتا ہوں.میں آپ کی طرف آنا ہی چاہتا تھا.اند رتشریف لے آئیں، قہوہ پئیں اور میں آپ کو دکھاؤں کہ میری رات کیسے گزری.ہم اندر گئے تو انہوں نے رسالہ الحقائق عن الأحمدية کی طرف اشارہ کیا اور کہا : یہ رسالہ میرے ہاتھ میں تھا اور غصہ میں باہر آیا اور پختہ ارادہ کیا کہ اس رسالہ کا رڈ شائع کروں.میں نے حدیث اور تفاسیر کی کتب جو میرے پاس تھیں وہ میز پر رکھ لیں اور عشاء کی نماز پڑھ کر رد لکھنا شروع کر دیا.ادھر سے رسالہ پڑھتا اور رڈ لکھنے کے لئے کتابیں دیکھتا.ایک رڈ لکھتا اس میں تکلف معلوم ہوتا، اسے پھاڑا ، ایک اور رڈلکھتا اسے بھی پھاڑا اور اسی طرح رات بہت گزر گئی.بیوی نے کہا: رات بہت گزرگئی آرام کرلیں.میں نے کہا سید زین العابدین نے مجھے بہت ذلیل کیا ہے اور میں یہ رڈ لکھ کر سوؤں گا.چنانچہ صبح کی اذان ہوئی اور میں رڈ لکھنے کے بعد اس طرح کاغذ
167 مصالح العرب.....جلد اول پھاڑتا جاتا اور چمنی کی طرف اشارہ کیا کہ وہ دیکھو ڈھیر.جب اللہ اکبر کی آواز میرے کان میں پڑی تو میرے نفس نے مجھے کہا: صداقت بہت بڑی شئے ہے اور تمہارا اس طرح بناوٹ سے رڈ کرنا درست نہیں.میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں اب ایک کلمہ مخالفت کا مجھ سے نہیں سنیں گے.آپ کے خیالات سراسر اسلامی ہیں اور آپ آزادی سے تبلیغ کریں اور پوچھنے والوں سے میں آپ کے حق میں اچھی بات ہی کہوں گا.لیکن میں آپ کے فرقہ میں داخل نہیں ہوں گا کیونکہ فرقہ بندی سے مجھے نفرت ہے....اور مرحوم آخری دم تک جماعت کی تعریف ہی کرتے رہے.گرانقدر مساعی ( حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب، تالیف احمد طاہر مرزا صفحہ 27 تا 29 ) حضرت شاہ صاحب نے دمشق میں اپنے مختصر قیام کے دوران عربی زبان میں ترجمہ و تالیف کا عظیم الشان کام سر انجام دیا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب "کشتی نوح کا عربی میں ترجمہ کیا.ایک ٹریکٹ الحقائق عن الأحمدية‘ چھپوایا اور ایک مبسوط كتاب "حياة المسيح ووفاته “ کے نام سے شائع کی جس کا عیسائیوں کے علاوہ بڑے بڑے مسلمان علماء اور فلاسفروں پر بھی بہت گہرا اثر پڑا.چنانچہ مصر کے مشہور مفکر احمد زکی پاشا نے تسلیم کیا کہ وفات مسیح کے متعلق جو تحقیق احمدیوں نے کی ہے اس سے اسلام کی برتری ثابت ہوتی ہے اور عیسائیت پر کاری ضرب لگتی ہے.نیز انہوں نے کہا کہ اگر احمدیت وفات مسیح سے متعلق اس تحقیق کے سوا اور کچھ نہ بھی پیش کرتی تب بھی یہ بات ان کے لئے تمام مسلمان فرقوں پر فخر اور برتری کے لئے کافی ہوتا.ان کے علاوہ محسن البرازی بیک نے ( جو حکومت شام کے سابق وزیر تھے ) کہا کہ افسوس اگر میرے دنیوی مشاغل مانع نہ ہوتے تو سب سے بہترین کام جس کے اختیار کرنے میں فخر کرتا وہ تبلیغ اسلام تھا جسے احمدی انجام دے رہے ہیں.دمشق سے واپسی ان دنوں عراق میں امیر فیصل اول کی حکومت تھی.وہاں پر جماعت کا کوئی مرکزی مبلغ
168 مصالح العرب.....جلد اول موجود نہ تھا.ہندوستانی احمدی انفرادی طور پر تبلیغ میں مصروف رہتے تھے.لیکن حکومت عراق نے وہاں تبلیغ احمدیت کی ممانعت کر دی اور ان کے پرائیویٹ اجتماعات پر بھی پابندی لگا دی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو ہدایت فرمائی کہ وہ ہندوستان واپس آتے ہوئے عراق کے راستہ سے آئیں اور ان ناروا پابندیوں کے اٹھائے جانے کے لئے کوشش کریں.چنانچہ حضرت شاہ صاحب اوائل 1926ء میں بغداد پہنچے، اس سفر کی ابتداء میں آپ شام کے شہر حمص تشریف لے گئے جہاں عیسائیت کے بڑے بڑے علماء اور عربی زبان کے ادباء میں بڑے مؤثر انداز میں تبلیغ کی.آپ کی اس مساعی کا ذیل میں مختصر ا تذکرہ کیا جاتا ہے.يَا قَلْبِي اذْكُرُ أَحْمَدَا حمص میں آپ نے مرحوم عیسی خوری کے ہاں جو بہت بڑے ادیب اور مؤرخ تھے قیام کیا.آپ فرماتے ہیں: یہ سب سے بڑے گرجے کے نگران قسیس تھے.خوری صاحب اس سے قبل بمعہ تین عیسائی ادباء کے مجھ سے دمشق ملنے آئے تھے، کہا کہ وہ تحقیق کی غرض سے آئے ہیں.اخباروں میں میرے بعض مقالات پڑھے ہیں.دوران گفتگو عیسی خوری نے بتایا کہ مصر کے کسی رسالہ یا اخبار میں دیر ہوئی انہوں نے پڑھا تھا کہ اصل میں عالم تو نور الدین (حضرت خلیفہ اسیح الأول رضی اللہ عنہ ) ہیں جنہوں نے حجاز میں تعلیم حاصل کی اور خود بانی سلسلہ احمدیہ کی تعلیم معمولی ہے.یہ کہہ کر انہوں نے ہم سے پوچھا کہ ان دونوں کا کوئی کلام عربی میں ہے جسے دیکھ کر وہ اندازہ کر سکیں؟ شمس صاحب نے قصیدہ خلیفہ اول جو براہین احمدیہ کی تعریف میں ہے انہیں دیا.چند شعر پڑھ کر انہوں نے کہا اس میں وزن کے لحاظ سے فلاں فلاں نقص ہے.میں ن يَا قَلْبِيَ اذْكُر أَحْمَدَا کا قصیدہ ان کے سامنے رکھا اور بتایا کہ یہ قصیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے.انہوں نے شعر پڑھنے شروع کئے اور پڑھتے چلے گئے.حتی کہ وجد میں آگئے.بے اختیار کہنے لگے: یہ تو اعلیٰ درجہ کی عربی ہے.ملاقات کے آخر میں عیسی خوری صاحب اور ان کے ساتھیوں نے باصرار دعوت دی کہ میں حمص آؤں.عیسی خوری صاحب نے کہا میں ان کا مہمان ہوں گا.
169 مصالح العرب.....جلد اول چنانچہ انہوں نے پانچ دن ٹھہرایا.کثرت سے عیسائی مرد اور عورتیں ملاقات کے لئے آتے.دلچسپی سے میری باتیں سنتے عیسی خوری صاحب میری شائع شدہ کتابیں: 1) الخطاب الجليل (2) التعليم، کشتی نوح کا ترجمہ) ،3) كتاب حياة المسيح ووفاته، اور 4) الحقائق عن الأحمدية اپنے ساتھ لے گئے تھے.ہفتہ کی شام کو میں حمص پہنچا تھا اگلی صبح وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے گرجے میں لے گئے جو فتح حمص سے قبل عیسائیوں کے قبضہ ہی میں رہا.ان کی عورتیں بھی ساتھ تھیں جنہوں نے اسلامی طرز کا پردہ کیا ہوا تھا.عیسی خوری صاحب عبادت کے بعد مراقبہ کے لئے ایک الگ حجرہ میں گئے.میں ایک طرف کھڑا تھا کہ عربی طرز کے لباس میں خوش پوش خوش شکل چند نوجوان میرے پاس آئے.اور مجھ سے پوچھا: حضرتك أيضا من أتباع المسيح؟ کیا آپ بھی مسیح کے ماننے والے ہیں؟ ).میں نے کہا: أى نعم، آمنتُ بالمسي الأول والمسيح الثانی.جی ہاں، میں مسیح اول اور مسیح ثانی دونوں پر ایمان لاتا ہوں) تو ان میں سے ایک نے کہا: وحضرتك من الأحمديين؟ ( كيا آ.آپ احمدی ہیں؟ میں نے کہا: أنا أحمدی ( میں احمدی ہوں ) اور ان سے پوچھا آپ جانتے ہیں کہ احمدی کون ہیں؟ کہنے لگے ہاں ان کے دو مربی دمشق میں آئے ہوئے ہیں اور ہمارے عیسی خوری صاحب ان سے مل کے آئے ہیں.اور ان کی کتابیں بھی لائے ہیں.اور وہ کتابیں درسا پڑھ کے سنائی ہیں.میں نے پوچھا ان کتابوں کے متعلق ان کی کیا رائے ہے؟ وہ کہنے لگے بخدا باتیں تو بالکل سچی ہیں اور ان میں ہماری کتابوں ہی کے حوالے ہیں یعنی انجیل وغیرہ کے.اور عیسی خوری صاحب احمدیوں کے خیالات کی تعریف کرتے ہیں.ان کی میں سے ایک نوجوان نے کہا : کیا آپ سید زین العابدین کو جانتے ہیں؟ میں نے کہا کہ میں اسے جانتا تو ہوں.جب پانچویں دن عیسائیوں کے ایک مدرسہ میں میری تقریر کا انتظام ہوا تو وہ نوجوان بھی مجھے ملے اور ہنس کر کہا : جواب تو آپ نے ٹھیک دیا تھا کہ آپ سید زین العابدین کو جانتے ہیں.آمنتُ بالمسيح الثاني اس سے گزشتہ رات عیسی خوری صاحب کے ہال میں جو بہت وسیع کمرہ تھا عیسائی
170 مصالح العرب.....جلد اول عورتیں اور مرد جمع ہوئے اور اتفاق سے اس رات ایک بجے تک بارش ہوتی رہی.اس لئے گفتگو کرنے کا بڑا موقع ملا.سب نے اطمینان سے سوالات کئے ، اور اطمینان سے جوابات سنے.ان کا آخری سوال الہام اور وحی سے متعلق تھا.اور دوران گفتگو میں ان میں سے ایک نے پوچھا کہ وہ کلمات الہام جو حضرت احمد پر نازل ہوئے تھے وہ سنائیں.مجھے کافی یاد تھے میں نے سنانے شروع کئے.سامعین میں میرے قریب ہی ایک بہت ہی بوڑھے قسیس سفید ریش بیٹھے تھے ، کمر کمان کی طرح، پادریوں میں ان کا منصب بہت بڑا تھا، جیسا کہ ان کے عصا اور کمر کی ڈوری اور نشانات سے ظاہر تھا.ان کے ابرو جھکے ہوئے ، شکل متبرک انسان کی سی.وہ اپنے عصا کا سہارا لیتے ہوئے اٹھے.اور دائیں بائیں سامعین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے: هؤلاء بناتي وأبنائى يعلمون جيدا أني لم أداهن في حياتي قط فها إني أشهد هؤلاء فإني آمنت بالمسيح الثاني كما آمنت بالمسيح الأول ( یہ میرے بیٹے اور بیٹیاں ہیں جو بخوبی جانتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی مداہنت نہیں کی.پس میں آج ان تمام لوگوں کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ جس طرح میں مسیح اول پر ایمان لاتا ہوں ایسا ہی مسیح ثانی پر ایمان لاتا ہوں.ناقل ) اور یہ کہہ کر بڑے وقار اور خاموشی سے بیٹھ گئے اور ہال میں سناٹا چھا گیا.ایک صوفی منش بزرگ بارش مدہم ہو چکی تھی اور ایک کونے میں ایک صوفی منش بزرگ ہماری باتیں سن رہے تھے.عیسی خوری صاحب نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ یہ عالم اور صوفی ہیں اور ان کے بچپن کے دوست اور کہا : آپ کی کتابیں میں نے ان کو پڑھا دی ہیں.یہ آپ کے خیالات سے متفق ہیں اور آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی جماعت میں داخل ہونے کی کیا شرائط ہیں؟ میں نے مکرم شمس صاحب کا پتہ دیا اور آخران کے ذریعہ وہ جماعت میں داخل ہو گئے.( حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب، تالیف احمد طاہر مرزا صفحہ 33 تا 36 ) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں: دوسرے دن ہم تقریر کرنے کے بعد معہ اہلیہ اور برادر نسبتی بغداد کی طرف روانہ ہوئے.
مصالح العرب.....جلد اوّل 171 راستے میں آسوری قبائل میں گذر ہوا.انہیں پیغام احمدیت پہنچاتے ہوئے تربیتی رسالہ الحقائق عن الاحمدیہ تقسیم کرتے ہوئے دسویں دن ہم بغداد پہنچے.بغداد میں میرے قدیم دوست اور نہایت ہی محبّ دوست مرحوم رستم حیدر تھے جو صلاح الدین ایوبیہ کالج میں ناظم الدروس تھے اور تاریخ عام کے پروفیسر تھے.یہ سور بون یو نیورسٹی (فرانس) کے تعلیم یافتہ اور بہت قابل تھے.زبان عربی کے بھی ادیب تھے.اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل میں میری بہت ہی محبت اور عزت ڈال دی.انہیں بغداد میں میری آمد پر بڑی خوشی ہوئی.کئی دعوتیں انہوں نے کیں جن میں شہر کے معزز دوست مدعو کئے جاتے رہے.وہ وہاں وزیر دیوان تھے.وزراء حکام اور علماء سے تعارف ہوا.ملک فیصل مرحوم کے سوالات یہاں تک کہ ملک فیصل نے بھی مجھے دعوت دی اور اس دعوت میں بھی چیدہ لوگ مدعو تھے.دوران طعام رستم حیدر نے احمدیت کا ذکر تعریفی رنگ میں کیا اور احمدیت کے متعلق ملک فیصل مرحوم نے سوالات کئے.جنگ عظیم کے دوران بھی ان کا تعارف مجھ سے ہو چکا تھا.جب دجال سے متعلق تفصیلی گفتگو ہوئی تو انہوں نے مجھ سے آیت لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ ( سورۃ انعام : 104 ) کا مفہوم دریافت کیا.میرے جواب دینے سے پہلے وہ اپنے بھائی علی سے مخاطب ہوئے اور کہا بھائی آپ بڑے عالم ہیں.آپ اس آیت سے کیا سمجھتے ہیں؟ تفاسیر میں جو انہوں نے پڑھا تھا وہ بیان کیا پھر ملک صاحب مرحوم مجھ سے مخاطب ہوئے کہ میں اس سے کیا سمجھتا ہوں.میں نے مفصل جواب دیا جس پر وہ اتنے خوش ہوئے کہ بے اختیار کہنے لگے کہ اگر اسلام کے لئے دوبارہ زندگی مقدر ہے تو وہ ان خیالات کے ذریعہ ہے جن کا میں نے اظہار کیا ہے.کھا ناختم ہوا میں نے فورا شکر یہ ادا کرتے ہوئے کہا:.آپ کی مملکت میں ہر مذہب کو تبلیغ کی آزادی ہے حتی کہ آریہ جیسے شدید دشمن اسلام کے لئے بھی اور اگر آزادی نہیں تو اس جماعت کیلئے نہیں جس کے خیالات کے متعلق بادشاہ کی ،، نے یہ داد دی ہے.میز سے اٹھتے ہوئے فرمایا آپ کو ان سے بڑھ کر آزادی ہوگی اس کے بعد جب رستم حیدر مجھے اپنے مکان پر لائے تو اپنے سیکرٹری سے ایک درخواست عربی میں ٹائپ کروائی جس
172 مصالح العرب.....جلد اول پر میں نے دستخط کئے اور وہ درخواست بادشاہ کے سامنے پیش ہوئی جس پر انہوں نے مجلس کو غور کرنے کا حکم دیا اور اس طرح یہ درخواست تین ماہ تک دفتروں میں چکر لگاتی رہی اور کئی مایوسیوں کے بعد ایک شام مغرب کی نماز سے ہم دوست فارغ ہوئے تھے کہ سرکاری اردلی پیغامبر نے آکر جعفر صادق مرحوم امیر جماعت احمد یہ بغداد کو ایک لفافہ دیا.وہ کھولا گیا.اس میں بادشاہ کی مہر کے ساتھ وزارت داخلہ کی طرف سے یہ اطلاع تھی کہ بادشاہ کی طرف سے ان کا سابقہ حکم منسوخ کر دیا گیا ہے اور جماعت احمدیہ کو مکمل ( مذہبی ) آزادی دی جاتی ہے.یہ الفاظ پڑھ کر جو دوست نماز مغرب میں حاضر تھے بے اختیار سر بسجو د ہو گئے کیونکہ ان کی مایوسی کی حالت آخری نقطہ یاس تک پہنچ چکی تھی.شاہ صاحب کی سفارتی کوششوں کو سراہتے ہوئے حضرت خلیفہ لمسیح الثانی نے فرمایا: ” میرے نزدیک شاہ صاحب نے اس سفر میں ایک بڑا کام کیا ہے...وہ عراق کے متعلق ہے.سیاستا یہ ایک ایسا کام ہے کہ جو دور تک اثر رکھتا ہے.ہم گورنمنٹ آف انڈیا کے ذریعہ کوشش کر چکے تھے مگر پھر بھی اجازت نہ حاصل ہوئی تھی.وہاں سے ہمارے کئی آدمی اس لئے نکالے جاچکے تھے کہ وہ تبلیغ کرتے تھے.اپنے گھر میں جلسہ کرنا بھی منع تھا.ان حالات میں کوشش کر کے کلی طور پر روک اٹھا دینا بلکہ وہاں ایسے خیالات پیدا ہو جانا جو ان کے دل میں ہمدردی اور محبت ثابت کرتے ہیں بہت بڑا کام ہے.یہ کام اس قسم کا ہے کہ سیاسی طور پر اس کے کئی اثرات ہیں.اس سے سمجھا جائے گا کہ احمدی قوم حکومتوں کی رائے بدلنے کی قابلیت رکھتی ہے.پس شاہ صاحب نے یہ بہت بڑی خدمت کی ہے.“ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 523-524 - مجلۃ البشری جنوری، فروری 1937 ء صفحہ 50 تا 52) ایک وضاحت سلسلہ کے لٹریچر میں یہ بھی لکھا ہوا موجود ہے کہ حضرت ولی اللہ شاہ صاحب نے اس سفر بطرف دمشق اور عراق میں اس تاریخی تبلیغی مساعی کے لئے دو سال قیام کیا.لیکن تاریخی واقعات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مولا نا جلال الدین صاحب شمس کے ہمراہ 27 جون 1925ء کو روانہ ہو کر 17 جولائی 1925ء کو دمشق پہنچے.اور وہاں سے 1926ء کے شروع میں بغداد چلے گئے.وہاں پر اپنے مفوضہ کام نپٹانے کے بعد 10 مئی 1926ء کو
مصالح العرب.....جلد اول 173 واپس قادیان تشریف لے گئے.یوں یہ کل عرصہ تقریبا ساڑھے دس ماہ کا بنتا ہے.واللہ اعلم بالصواب.جماعت دمشق کے پہلے چندہ جلسہ سالانہ کی ادائیگی کا اچھوتا انداز 1926ء کے جلسہ سالانہ کے لئے دمشق کی جماعت سے پہلی دفعہ چندہ جلسہ سالانہ ارسال کیا گیا.لیکن اس کے ادا کرنے کا انداز نرالا اور دلنشین ہے.اس کا ذکر مولانا جلال الدین صاحب شمس نے حضرت میر محمد اسحاق صاحب ناظر ضیافت قادیان کے نام اپنے ایک خط میں کیا جسے خلاصیۂ نقل کیا جاتا ہے.لکھتے ہیں: ارادہ تھا کہ جماعت احمد یہ دمشق بھی جلسہ سالانہ میں حصہ لیوے.اس بناء پر گزشتہ سال جو حضور نے فہرست اشیاء معہ قیمت اخبار الفضل میں شائع کی تھی مطالعہ کی.اس میں سے موم بتیوں کو انتخاب کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں: اختار ذكر لفظ المنارة إشارةً إلى أن أرض دمشق تنير وتشرق بدعوات المسيح الموعود.(یعنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح کے سفید منارہ پر نزول والی حدیث میں لفظ منارہ کا اس لئے استعمال کیا کیونکہ سرزمین دمشق مسیح موعود کی دعاؤں کے نور سے منور اور روشن ہو جائے گی.) اس لئے نورانی چیز کا انتخاب کیا.(ماخوذ از الفضل 26 /نومبر 1926ء صفحہ 2 بحوالہ خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے حالات زندگی جلد اول صفحہ 236-237) مکرم منیر الحصنی صاحب کا قبول احمدیت حضرت ولی اللہ شاہ صاحب نے دمشق میں چھ ماہ کے قریب عرصہ قیام فرمایا.آپ چونکہ قبل از میں بیت المقدس میں کلیتہ صلاح الدین الایوبی میں تدریس کے فرائض سر انجام دے چکے تھے اور کئی سال اس سرزمین پر قیام فرما چکے تھے اس لئے آپ کے دوستوں، شاگردوں اور واقف کاروں کا حلقہ بیت المقدس اور شام میں وسیع تھا جن سے آپ نے مولانا جلال الدین صاحب شمس کا تعارف کر وا دیا.ان میں سے ایک بزرگ شخصیت جناب منیر احصنی صاحب کی تھی.آپ خود لکھتے ہیں کہ :
مصالح العرب.....جلد اوّل 174 میری خوش قسمتی تھی کہ میرا تعارف حضرت ولی اللہ شاہ صاحب کے ذریعہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس سے ہو گیا.چنانچہ میں اکثر اوقات ان کے پاس آتا جاتا رہتا تھا اور کئی ان امور دینیہ میں آپ کے ساتھ بات کرتا جن کا حل وہاں کے مولویوں کے پاس نہ تھا.اور نتیجہ یہ ہوا تھا کہ ایسے امور نے نئی نسل کو فتنہ میں ڈال دیا تھا.چنانچہ ان کے دلوں میں اسلام کے بارہ میں شکوک اور شبہات پیدا ہو گئے تھے.لیکن میں ہر دفعہ مولا نائٹس صاحب نهایت تسلی بخش جواب پاتا تھا اور اسلام پر ہر اعتراض کا کافی وشافی رد ملتا تھا.میں اکثر آپ کی اسلام کے دفاع میں گفتگو کے دوران محسوس کرتا تھا کہ جیسے قرآن کریم دوبارہ اس زمین پر (البشری مارچ 1936ء) نازل ہوا ہے“.گو کہ مکرم منیر احصنی صاحب حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب سے شروع میں ہی متعارف ہو کر ان کے گہرے دوست بن گئے تھے ، اور بڑی کثرت سے آپ کے پاس آتے ہی جاتے تھے.آپ کی زبان سے مسیح موعود علیہ السلام کے لائے ہوئے علم کلام کی قوت کا بھی اعتراف تھا ، پھر بھی احمدیت میں داخل ہونے کے لئے مزید تسلی چاہتے تھے.اور یہ تسلی 1927ء میں اس وقت ہوئی جب مولانا جلال الدین صاحب شمس نے دمشق میں ایک تحریری مناظرہ ڈنمارک کے ایک مشہور پادری الفریڈ نلسن سے کیا جو بیس سال سے شام کے علاقہ میں عیسائیت کا کام کر رہے تھے اور شام کے عیسائی مشنوں کے انچارج تھے.موضوع مناظرہ ما کہ کیا حضرت مسیح ناصری فی الواقعہ صلیب پر فوت ہوئے؟ اس مناظرہ میں حضرت مولانا شمس صاحب کے دلائل سن کر مکرم منیر احصنی صاحب احمدیت میں شامل ہو گئے.چنانچہ آپ خود لکھتے ہیں: ” میرے قبول احمدیت کا سب سے بڑا سبب یہی مناظرہ تھا.کیونکہ میں نے دیکھا کہ احمدی مبلغ کے دلائل و براہین لا جواب تھے.مسیحی مناظر سے ان کا کوئی جواب نہ بن پڑا اور عزت وغلبہ اسلام نصف النہار کی طرح ظاہر ہو گیا.عیسائی پادری اور مولانا شمس صاحب میں مناظرہ سے پہلے یہ معاہدہ ہوا تھا کہ اختتام مناظرہ پر پوری روئداد مناظرہ فریقین کے خرچ پر طبع کرائی جائے گی.لیکن جب مناظرہ ہو چکا تو وہ اپنے عہد سے پھر گیا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ قبول حق کے لئے کھول دیا اور مجھے مسیح موعود کی جماعت میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 525)
مصالح العرب.....جلد اول مسیح موسوی کے پیرو اور مسیح محمدی کے غلام 175 مکرم منیر احصنی صاحب کا ذکر خیر ہورہا ہے تو اس سیاق میں ان کا ایک بہت ہی اچھوتا واقعہ ہدیہ قارئین کرنا از دیا دایمان کا باعث ہوگا.ایک دفعہ مکرم منیر احصنی صاحب کے چھوٹے بھائی کو جب ایک عیسائی زرگر کی خیانت کا علم ہوا تو وہ اس کی دکان پر جا کر اس سے جھگڑنے لگے.اتنے میں زرگر کے بھائی نے پیچھے سے آکر انہیں گردن پر مکا مارا اور بھاگ گیا.مکرم منیر الحصنی صاحب کے بھائی نے پولیس میں یراتھنی رپورٹ درج کرا دی.اب اس مسیحی کے رشتہ دار مکرم منیر احصنی صاحب کے ایک اور بھائی کے پاس گئے تا وہ اپنے چھوٹے بھائی کو سمجھائیں اور معاملہ رفع دفع ہو جائے.لیکن انہوں نے ان عیسائیوں کو اور بھی ڈرایا دھمکایا.آخر وہ مکرم منیر احصنی صاحب کے پاس آئے.آپ نے کہا کہ یا تو اسی دکان پر مکا مارنے والے کو سب کے سامنے مکا مار کر بدلہ لیا جائے یا حکومتی فیصلہ کا انتظار کیا جائے.انہوں نے کہا کہ آپ جو فیصلہ کر یں گے ہمیں قبول ہے.آپ نے دونوں طرف سے اقرار لے لیا.پھر زرگروں کے بازار میں گئے.وہاں ایک دکان پر کھڑے ہو کر سب کو خاموش کرایا.پھر تقریباً آدھ گھنٹہ تک لیکچر دیا جس میں بتایا کہ دیکھو خدا تعالیٰ نے ان اپنی دی ہوئی نعمتوں میں سب انسانوں کو مساوی قرار دیا ہے.سورج جیسے مسلم کو روشنی پہنچاتا ہے ویسے ہی مسیحی کو.اور جیسے ایک مسلم اپنے ناک کے ذریعہ نہایت آزادی سے ہوا سونگھتا ہے ویسے ہی ایک مسیحی.پس کیا خدا تعالیٰ کا یکساں معاملہ ہمیں یہ نہیں سکھاتا کہ ہم بھی ہر ایک انسان کو انسان سمجھ کر اس سے انسانیت کا معاملہ کریں؟ اور ایک دوسرے کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں.مگر اصل بات یہ ہے کہ نہ تو عام طور پر مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ہے عمل کرتے ہیں نہ مسیحی حضرت مسیح علیہ السلام کے ارشادات بجالاتے ہیں.مثلا مسیح نے کہا ہے کہ اگر کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے.مگر کون مسیحی اس پر عمل کرتا ہے؟ یا اس کا صحیح مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا ہے؟ مگر میں ایک مسلم ہو کر اس کے معانی سمجھتا ہوں.بات یہ ہے کہ جو شخص امن اور سلامتی کی راہ چھوڑتا ہے وہ انسانیت کے درجہ سے گر کر وحشی جانوروں کی سیرت اختیار کرتا ہے.پس ایسے شخص کی تربیت اور اصلاح کے لئے بعض وقت سزا دینا ضروری ہوتا ہے.لیکن چونکہ میں مکا مارنے والے بھائی کے متعلق
176 مصالح العرب.....جلد اول یقین رکھتا ہوں کہ وہ سعید الفطرت ہے اور وہ بدلہ دینے کے لئے بھی تیار ہے اس لئے اس کو ی معاف کرتا ہوں اور حضرت مسیح علیہ السلام کے مذکورہ بالا قول کی تفسیر عملی طور پر دیتا ہوں.دیکھو جس نے میرے بھائی کو مارا میں اس کے سامنے اپنا گال پیش کرتا ہوں ، اگر چاہے تو اس پر بھی تھپڑ مارے.اس پر انہوں نے ضارب کے قریب اپنا گال کیا تو اس نے اس پر تھپڑ مارنے کی بجائے بوسہ دے دیا.یہ ایک ایسا منظر تھا کہ تمام حاضرین کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے.(ماخوذ از الفضل یکم اکتوبر 1929 ء صفحہ 1-2 بحوالہ خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے حالات زندگی جلد اوّل صفحہ 240-242 مولا ناشس صاحب پر قاتلانہ حملہ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے عیسائیت کے خلاف محاذ پر کامیاب تبلیغی جہاد کرنے کے علاوہ علماء ومشائخ کا بھی مقابلہ کیا.وہاں کے علماء کا طبقہ ملک میں احمدیت کے پاؤں جمتے دیکھ کر سخت برافروختہ ہو گیا.چنانچہ انہوں نے آپ کے دلائل و براہین کا بھی وہی جواب دیا جو ہمیشہ حق کے مخالفین دیا کرتے ہیں.یعنی دسمبر 1927ء میں آپ پر خنجر سے قاتلانہ حملہ کرایا گیا.حضرت مولانا شمس صاحب خود اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہیں کہ : تفصیل حادثہ یہ ہے کہ پہلے تو مجھے مدت سے خطوط میں قتل کی دھمکیاں دی جاتی تھیں.چنانچہ ٹریکٹ الجہاد الا سلامی (جس میں میں نے ثابت کیا تھا کہ اس وقت دین کے لئے قتال جائز نہیں بلکہ یہ زمانہ تبلیغ کا زمانہ ہے) کے بعد مشائخ کی طرف سے یہ خط آیا کہ چونکہ تم جہاد دینی اور دین کے لئے قتال کو حرام قرار دیتے ہو اس لئے ہم پر تمہارا خون گرانا واجب ہے.پھر دو ماہ سے جب میں نے ان کے پینج مباحثہ کا جواب دیتے ہوئے شرائط مناظرہ شائع کیں اور لکھا کہ مناظرہ تحریری ہونا چاہئے اور فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کے موت کے سوا آسمان پر اٹھا لینے کے معنی ثابت کرنے پر تین ہزار قرش انعام مقرر کر دیا، اور علاوہ ازیں پانچ چھ اشخاص بھی سلسلہ میں داخل ہو گئے تو پھر انہوں نے منبروں پر مساجد میں لوگوں کو اکسانا شروع کیا اور کہا کہ تم اس ہندی سے ملو نہ اس کی کتابیں پڑھو.اور مزید برآں انہوں نے مخفی کمیٹیاں بھی کیں جن میں قتل وغیرہ کے مشورے کرتے رہے.جب سے یہاں جنگ شروع ہوئی ہے
مصالح العرب.....جلد اول 177 ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں.اس لئے ان کو دیکھتے ہوئے میں مستبعد نہیں سمجھتا تھا کہ میرے ساتھ بھی ایسا ہو مگر صدق اور حق کی قوت تھی جو میرے دل کو کبھی خوفزدہ نہ ہونے دیتی تھی! جب کبھی ایسا خیال آتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ شعر زبان پر آ جاتا تھا: وَلَسْتُ أَخَافُ مِنْ مَوتِي وَقَتْلِي إِذَا مَا اور كَانَ مَوْتِي فِي الْجِهَادِ ( یعنی میں اپنے قتل اور موت سے ہرگز نہیں ڈرتا اگر وہ مجھے خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے آئے.ناقل ) دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی کتاب تذکرۃ الشہادتین میں ایک عبارت ہے جو ہمیشہ میری آنکھوں کے سامنے رہتی ہے.مجھے خوب یاد ہے جب میں نے اسے پہلی بار پڑھا تو اس نے میرے جسم میں ایک بجلی کی سی تاثیر کی تھی.اس وقت میں ردیا تھا.اور اسی وقت خدا تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اے خدا ہمیں بھی سید عبد اللطیف شہید سا صدق و استقامت عطا فرما.اس عبارت کے الفاظ تقریبا یہ ہیں: اے عبد اللطیف تیرے پر خدا تعالیٰ کی ہزاروں رحمتیں ہوں کہ تو نے میری زندگی میں صدق وصفا واستقامت کا نمونہ دکھایا.جو میرے بعد آئیں گے میں نہیں جانتا کہ وہ کیسا نمونہ دکھائیں گے.اس طرح میرے ایک معزز دوست نے قادیان سے لکھا کہ اگر دمشق کی بجائے جدہ میں آپ جا کر تبلیغ کریں تو وہاں سے سب ممالک میں تبلیغ کر سکیں گے.تو میں نے انہیں یہی جواب دیا تھا کہ میں تو حکم کا بندہ ہوں جیسا حضرت صاحب ارشاد فرمائیں گے بجالاؤں گا.لیکن اگر مجھ پر چھوڑا جائے تو میں اس بات کو ترجیح دوں گا کہ یا تو تبلیغ کرتے کرتے یہاں کی فوت ہو جاؤں یا اللہ تعالیٰ مجھے ایک مستقل مخلص جماعت عطا فرمائے.22 دسمبر 1927ء کو مغرب کی نماز پڑھ کر اپنے گھر سے نکلا تا کوئی کھانے کی چیز خریدوں.چونکہ دن جمعرات تھا اور اس دن رات کو سب احمدی میرے مکان پر جمع ہوتے ہیں.بازار دور ہونے کی وجہ سے وہاں جانا نہ چاہا.میرے مکان کی گلی سے باہر نکلتے ہی ایک دکان ہے وہاں سے چنے خرید کر واپس اپنے گھر چلا.مکان سے چھ سات قدم کے فاصلہ پر ایک چھوٹا سا موڑ ہے جہاں مغرب ہوتے ہی اندھیرا چھا جاتا ہے.جب وہاں پہنچا تو میں نے ی
178 مصالح العرب.....جلد اول یہ محسوس کیا کہ مجھے کوئی پیچھے سے پکڑنا چاہتا ہے.جب میں نے اس سے بھاگنے کی کوشش کی تو می اس نے زور سے خنجر میری کمر میں مارا.اس ضرب کو میں نے محسوس کیا.میرے ہمسایہ کا دروازہ کھلا تھا اس میں جلدی سے داخل ہو گیا اور انہیں کہا: دیکھو مجھے کسی نے خنجر سے مارا ہے.آخر وہ اترے اس وقت خون زور سے یہ رہا تھا.میں اپنے مکان کے دروازے میں بے ہوش ہو کر گر پڑا.پولیس پہنچ گئی اور آدھ گھنٹہ تقریبا اپنے کاغذات وغیرہ پر کر کے مجھے ہسپتال میں لائے“.الفضل 7 فروری 1928ء صفحہ 7-8 بحوالہ خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے حالات زندگی جلد اوّل صفحہ 183 تا 186 ) شدید سردی کا موسم ہونے کی وجہ سے شمس صاحب نے ایک موٹا کوٹ پہن ہوا تھا جس کی وجہ سے خنجر کا زخم گہرا تو رہا لیکن دل تک نہ پہنچ سکا.آپ زمین پر گر گئے ، ہمسایوں نے آ کر آپ کو ہسپتال منتقل کیا.جب مکرم منیر الحصنی صاحب کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ فورا ہسپتال پہنچے اور بمشکل اجازت لے کر جب اس کمرے میں داخل ہوئے جس میں مولانا شمس صاحب زیر علاج تھے تو آپ کو مولا نائمس صاحب نے فرمایا: میرے کمرے میں جاؤ، اس میں فلاں جگہ پر سونے کی اشرفیاں پڑی ہوئی ہیں وہ لے جاؤ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو قادیان میں دعا کے لئے تار بھیج دو.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور مکرم مصطفیٰ نویلاتی صاحب کے والد صاحب کی طرف سے امام مہدی علیہ السلام کو بطور ہدیہ دی گئی ان اشرفیوں سے حضور کی خدمت میں دعا کی تار ارسال کی.اور اللہ تعالیٰ نے مولانا شمس صاحب کو معجزانہ طور پر شفا عطا فرمائی.( مقالات وردود احمدیت از نذیر مرادنی صفحه 25-26 - مکرم طه قزق صاحب آف اردن کی بلا د شام میں احمدیت کے بارہ میں غیر مطبوعہ یادداشتیں)....اور خطرہ ٹل گیا خاکسار عرض کرتا ہے کہ دمشق میں بغرض تعلیم قیام کے دوران خاکسار نے یہ واقعہ مکرم ابوالفرج الحصنی صاحب ( جو مکرم منیر اٹھنی صاحب کے بھتیجے ہیں ) سے تفصیلاً سنا تھا.آخری حصہ کے بارہ میں انہوں نے بتایا کہ مکرم منیر احصنی صاحب کا بیان ہے کہ:
179 مصالح العرب.....جلد اول جس ڈاکٹر نے مکرم شمس صاحب کا علاج کیا وہ عیسائی تھا.اور عیسائیوں کے ساتھ مناظروں کی وجہ سے یہ عیسائی ڈاکٹر خاص طور پر مکرم شمس صاحب کی حالت پر نظر رکھے ہوئے تھا.ابتدا میں حالت بہت خطرناک تھی اور ڈاکٹر نے ایک رات کہا کہ اگر آج کی رات خیر وعافیت سے گزر گئی تو پھر خطرہ ٹل جائے گا.منیر الھنی صاحب کہتے ہیں کہ اگلے دن جب میں ہسپتال گیا تو اس عیسائی ڈاکٹر نے حیرت زدہ ہو کر کہا کہ آج کی رات معجزہ کیونکہ شمس صاحب کی حالت یکدم بہت بہتری کی طرف مائل ہو گئی ہے اور اب ان ہوا ہے.کو کوئی خطرہ نہیں ہے.جب ہم سلسلہ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان معجزات کے پیچھے خلیفہ وقت اور افراد جماعت کی عاجزانہ اور متضرعانہ دعاؤں کا آسمانی حربہ کار فرما ملتا ہے.آئیے دیکھیں ان دنوں میں قادیان میں کیا ہوا.22 دسمبر 1927 کو مولانا شمس صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا اور 24 /دسمبر کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں دو تار موصول ہوئے.ایک دمشق سے مولانا جلال الدین صاحب شمس پر قاتلانہ حملہ میں زخمی ہونے کے بارہ میں تھا جبکہ دوسر اسماٹرا کے مبلغ مولوی رحمت علی صاحب کی طرف سے تھا جس میں انہوں نے مخالفین جماعت کے ساتھ مباحثہ میں کامیاب ہونے کے لئے دعا کی درخواست کی تھی.حضور کے ارشاد کے ماتحت اس تار کا اعلان اسی وقت بورڈ پر لگا دیا گیا جس میں مولانا جلال الدین شمس صاحب کی صحت کے لئے دعا کی تحریک کی گئی تھی.پھر حضور نے اعلان کرا دیا کہ احباب بارہ بجے مسجد اقصیٰ میں جمع ہوں جہاں مل کر دعا کی جائے گی.دسمبر کے ایام ہونے کی وجہ سے ایک خاصی تعداد جلسہ میں شمولیت کی غرض سے آنے والے احمدی احباب کی بھی تھی جو سب مسجد میں جمع ہو گئے.حضور نے تشریف لا کر مختصرسی تقریر فرمائی.جس میں فرمایا: آج دو تاریں دو مختلف علاقوں کے مبلغوں کی طرف سے آئی ہیں.چونکہ یہ ایک رنگ میں قومی اہمیت رکھتی ہیں اس لئے میں نے دوستوں کو اس جگہ جمع کیا ہے تا کہ انہیں سنائی جائیں اور احباب مل کر دعا کریں.“ اس کے بعد حضور نے دمشق کے بعض حالات بیان فرمائے.اس کے بعد فرمایا: غرض مولوی جلال الدین صاحب کی پچھلی رپورٹوں سے معلوم ہورہا تھا کہ مولویوں کی
180 مصالح العرب.....جلد اول طرف سے ان پر قاتلانہ حملہ کی تجویز ہو رہی ہے.ان دونوں باتوں کے لئے احباب دعا کریں.ایک یہ کہ خدا تعالیٰ مولوی جلال الدین صاحب کو شفا دے اور آئندہ محفوظ رکھے.دوسرے مولوی رحمت علی صاحب سے جو مباحثہ ہونے والا ہے اس میں خدا غلبہ عطا کرے.“ اس کے بعد حضور مسجد کی محراب میں قبلہ رو ہو کر بیٹھ گئے اور تمام مجمع قبلہ رو ہو گیا اور دعا کی گئی جو پندرہ منٹ تک جاری رہی.(ماخوذ از الفضل 3 جنوری 1928ء صفحہ 5-6 بحوالہ خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے حالات زندگی جلد اوّل صفحہ 177-178 ) چنانچہ مولانا شمس صاحب کی یہ معجزانہ شفاء حضرت امام جماعت احمد یہ اور افراد جماعت کی دعاؤں کا نتیجہ تھی.عربی اخبارات میں اس واقعہ کا ذکر مولا نائٹس صاحب پر قاتلانہ حملہ کی خبریں عربی اخبارات میں شائع ہوئیں اور انہوں نے اس واقعہ کی مذمت کی اور آرٹیکل چھاپے.چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے.اخبار الف باء نے حادثہ کے دوسرے دن المبشر الإسلامی“ کے عنوان کے تحت لکھا: پولیس کی طرف سے ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ السید جلال الدین شمس ابن امام الدین احمدی جبکہ مغرب کے بعد اپنے گھر جارہے تھے تو بعض اشخاص نے انہیں خنجر سے خطر ناک طور پر زخمی کر دیا.دو شخصوں کو اس جرم میں پکڑا گیا ہے اور تحقیق کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشخاص بعض علماء کی طرف سے اس کام کے لئے بھیجے گئے تھے.اس خبر کو بیروت کے اخبارات البلاغ اور المشرق نے بھی نقل کیا ہے.اخبار الصفاء کے دمشقی مراسل نے یہ لکھا ہے کہ: یہی بات ارج معلوم ہوتی ہے کہ وہ مشائخ کی طرف سے خصوصاً شیخ ہاشم الخطیب کی طرف سے بھیجے گئے تھے.اخبار الرأى العام نے لکھا: ہم اپنی رائے اس بارہ میں محفوظ رکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس وقت تک جو کچھ معلوم ہوا
181 مصالح العرب.....جلد اول اور لوگوں کی زبانوں پر جاری ہے وہ یہی ہے کہ یہ اشخاص شیخ هاشم الخطيب اور شیخ على الدقر کی طرف سے بھیجے گئے تھے.اگر یہ بات صحیح ہو تو انہیں سخت سزا دینی چاہئے.اخبار المقتبس نے مندرجہ ذیل چار عنوان دیئے: حرية الفكر والعقيدة (آزادئ فكر وعقيده) تعالى الله عما يعملون ( اللہ تعالیٰ اس سے بہت بلند ہے جو کسب وہ کرتے ہیں).....الإسلام دین تسامح و هداية (اسلام رواداری اور رشد و ہدایت کا مذہب ہے ).....الاعتداء السافل على المبشر الأحمدى (احمدی مبلغ پر بزدلانہ حملہ ) ان عنوانات کے ماتحت لکھا ہے: گزشتہ ہفتہ کی خبروں میں سے ایک خبر یہ تھی کہ چند اشخاص نے شیخ جلال الدین شمس المبشر الأحمدی الھندی کو جبکہ وہ اپنے گھر میں داخل ہونے لگے تھے چھری سے چند زخم لگائے اور اسے حیات اور موت کے درمیان زخمی چھوڑ کر بھاگ گئے....پھر لکھا ہے: اسلام جہلاء کے ایسے برے افعال سے پاک ہے.وہ ایک سیدھا راستہ ہے جو بھلائی کا حکم دیتا اور بھلائی سے منع کرتا اور کسی نفس کا بدون حق کے قتل حرام قرار دیتا ہے.کہتے ہیں کہ اس جرم کے ارتکاب کا باعث ایک پر جوش مباحثہ تھا جو استاد مبشر اور بعض جہلاء مسلمین کے درمیان ہوا.اس وقت بعض نے ان کو دفتر میں ہی مارنے کا ارادہ کیا.لیکن ان کے اور ان کے بد ارادہ کے پورا ہونے کے درمیان مسلمانوں کا ایک سنجیدہ گروہ حائل ہو گیا.اور مجمع کسی ناخوشگوار واقعہ کے بغیر ہی منتشر ہو گیا.لیکن ان کے کینہ اور غصہ سے بھرے ہوئے دل استاد مبشر پر غیظ و غضب سے بھر گئے اور گردشوں کا انتظار کرنے لگے.رستوں کے موڑوں پر اس کو اچانک قتل کرنے کے قصد سے چھپ کر گھا تیں لگانے لگے.اس کی نسبت جھوٹی افواہیں اڑانے لگے.اسے برطانوی استعمار کی تائید کی تہمتیں لگانے لگے.اور یہ کہنے لگے کہ مذہب احمدی کا بانی یہ کہتا ہے کہ اسلام کی نجات اسی میں ہے کہ وہ دولت برطانیہ کے حکم کے سامنے جھک جائے.وقوع جرم اور حدوث خیانت سے پہلے یہ حالت تھی اور لوگوں کا یہی خیال ہے کہ اسی سبب سے مجرموں نے اس بد جرم کا ارتکاب کیا ہے.
مصالح العرب.....جلد اول پھر لکھا ہے: 182 ہمار یہ اعتقاد ہے کہ علماء اور شیوخ اس جرم کو نہایت برا خیال کرتے ہیں.یہ فعل جہلاء کا ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کیا ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ اور اسلام ان کے اس فعل سے بلند اور پاک ہیں.(ماخوذ از الفضل 14 فروری 1928ء صفحہ 6 بحوالہ خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے حالات زندگی جلد اوّل صفحہ 189 تا 192 ) مولا نائٹس صاحب کو دمشق چھوڑنے کا حکم مولا نائٹس صاحب کچھ عرصہ زیر علاج رہ کر مؤرخہ 18 جنوری 1928ء کو ہسپتال سے ڈسچارج ہو گئے، لیکن اس کے بعد علماء کی شورش کی وجہ سے شام کی فرانسیسی حکومت نے آپ کو دمشق میں مزید ٹھہرنے کی اجازت نہ دی.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حکم سے آپ نے منیر اکھنی صاحب کو دمشق میں اپنا قائمقام امیر مقرر کر دیا اور 17 / مارچ 1928 کو دمشق.نکل کر فلسطین میں آگئے ، اور حیفا میں اپنا مرکز قائم کر لیا.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 525 - سلسلہ احمدیہ صفحہ 378-379) حضرت مولا نائٹس صاحب حیفا میں مکرم طه قزق صاحب مرحوم سابق صدر جماعت ار دن لکھتے ہیں: مولا نا جلال الدین صاحب شمس جب حیفا تشریف لائے اور شارع الناصرہ پر ریلوے سٹیشن کے قریب کرائے کے گھر میں رہنے لگے.میرے والد میرے چچا اور ایک دوست مکرم رشدی بسطی صاحب بھی ان دنوں ریل کے محکمے میں کام کرتے تھے.انہی دنوں اخباروں نے لکھنا شروع کیا کہ حیفا میں ایک مبلغ آئے ہیں اور ایسے عقائد کی طرف بلاتے ہیں جن کو لوگ نہیں جانتے.رشدی بسطی صاحب مولانا جلال الدین صاحب شمس سے ملنے گئے اور متعدد ملاقاتوں کے بعد بیعت کر لی.اس کے بعد میرے والد صاحب بھی ان سے ملنے گئے اور جب واپس آئے اور سوئے تو
مصالح العرب.....جلد اوّل 183 خواب میں ان کو آواز سنائی دی کہ جلدی کرو، احمدی تو اب مدینہ منورہ کے بھی متولی بن گئے ہیں.چنانچہ وہ اگلے دن ہی گئے اور بیعت کر لی.میرے والد صاحب دیسی جڑی بوٹیوں سے علاج و معالجہ کیا کرتے تھے اور اس میں بڑے حاذق طبیب تھے.آپ کو مطالعہ کا بہت شوق تھا خصوصا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بڑی کثرت سے پڑھا کرتے تھے اور اکثر حضور علیہ السلام کے عربی قصائد کے اشعار گنگناتے رہتے تھے.میرے والد صاحب کے بعد میرے چچا نے بیعت کی.وہ میرے والد صاحب کے ساتھ ہی ایک گھر میں رہتے تھے اور ایک بزرگ انسان تھے.انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ان کے گھر جلال الدین نامی شخص آیا ہے اور انہوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی.چنانچہ جب میرے والد صاحب نے مولانا جلال الدین صاحب کو بیعت کے بعد اپنے گھر مدعو کیا تو میرے چچا نے بھی بیعت کر لی.ان کے بعد اہل کہا بیر میں سے کافی احباب نے جماعت میں شمولیت اختیار کی.اس سے قبل وہ شاذلی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے.میرے والد صاحب الحاج محمد القزق صاحب کے دو چیرے بھائی تھے ان میں سے ایک نہایت مخالف بن گیا چنانچہ وہ بعض بد بختوں کو بھیج کر میرے والد صاحب پر گندے ٹماٹر اور مالٹے پھینکوایا کرتا تھا.جبکہ دوسرا آبادی سے دور پہاڑی علاقے میں رہتا تھا اور نہایت بہادر اور اثر و رسوخ والا آدمی تھا.ان دنوں وہاں پر ایک مولوی نے جوش میں آ کر یہ اعلان کیا کہ احمدی کافر ہیں اور ان کا قتل جائز ہے.جب اس شخص نے مولوی کی یہ بات سنی تو فورا کہا : احمدیوں کی طرف بڑھنے والا ہاتھ ان تک پہنچنے سے قبل کاٹ دیا جائے گا.میں احمدی نہیں ہوں لیکن ابھی جا کر اپنے احمدی ہونے کا اعلان کرتا ہوں، اور جس میں ہمت ہے وہ میرے سامنے آکے دکھائے.چنانچہ یہ اسی وقت ہمارے گھر آئے اور ہمیں ساری کہانی سنائی.مولوی بعد میں انگریزوں کے خلاف بغاوت میں شریک ہوا اور اسی میں مارا گیا.مولانا جلال الدین صاحب شمس کا حیفا میں پہلا مناظرہ شیخ کامل القصاب کے ساتھ ہوا جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی.یہ شیخ شام سے بھاگ کر آیا تھا اور فرانسیسی قابضوں کے خلاف جدو جہد میں مصروف تھا.اس وقت فرانسیسیوں اور انگریزوں کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار تھے.اور فرانسیسیوں کے شام پر قبضہ کی وجہ سے کئی جنگجو بھاگ کر فلسطین
مصالح العرب.....جلد اول 184 آگئے تھے.انہوں نے فلسطین میں ایک مدرسہ کھولا تھا جس پر اسلامی طرز عمل کی چھاپ تھی.میں بھی اسی مدرسہ میں پڑھتا تھا.اس میں نظم ونسق بہت اعلیٰ درجہ کا تھا اور سختی بہت ہوا کرتی تھی.سکول ٹائم کے بعد بھی طلباء کے کئی دستے بازاروں میں راؤنڈ پر رہتے تھے اور اگر کسی طالبعلم کو خلاف ادب اور خلاف اخلاق حرکت کرتے ہوئے دیکھتے تو اگلے دن سکول میں اس کو سب کے سامنے بلایا جاتا تھا اور بعض اوقات ڈنڈے مارے جاتے تھے.مدرسہ سے چھٹی کے بعد لڑ کے قطار میں نکلتے تھے اور جس کا گھر آ جاتا تھا وہ قطار سے نکل کر گھر میں داخل ہو جاتا تھا.ایک دن ہم قطار میں جا رہے تھے کہ سامنے سے مولانا جلال الدین صاحب سمس آ گئے.میرے ساتھ کے لڑکے نے انکو دیکھ کر گالی دی.میں خاموش رہا.جب میرا گھر آیا تو میں گھر میں داخل ہوتے وقت اس لڑکے کو بھی گھسیٹ کر اندر لے آیا اور اسے کہا کہ میں تمہیں جان سے ماردوں گا.وہ مجھ سے معافیاں مانگنے لگ گیا.چنانچہ میں نے اسے ایک ہلکا و ساطمانچہ مار کر چھوڑ دیا.اس لڑکے نے میری شکایت شیخ کامل القصاب کے بیٹے سے کی جو کہ نہایت کرخت اور بہت سخت آدمی تھا.اس نے مجھے بلایا اور جب میں پہنچا تو ناشتہ کر رہا تھا.ناشتے سے فارغ ہو کر اس نے مجھ سے پوچھا کہ اس لڑکے کو کیوں مارا تھا ؟ میں نے کہا کہ اس نے میرے والد صاحب کے دوست کو گالی دی تھی.اس نے پوچھا کہ کون ہے تمہارے والد کا دوست؟ میں نے کہا کہ احمدی مبلغ مولانا جلال الدین صاحب شمس.اس پر اس نے میری توقع کے بالکل برعکس صرف اتنا کہا کہ ایسا دوبارہ نہیں کرنا اور جانے دیا.مولا نا جلال الدین صاحب شمس کی دو باتیں خاص طور پر مشہور تھیں.ایک یہ کہ انہیں جب بھی کسی قرآنی آیت کا حوالہ مطلوب ہوتا تھا تو وہ اکثر اسی جگہ پر مل جاتا تھا جہاں سے وہ قرآن کریم کھولتے تھے یا اس کے ایک دو صفحات اِدھر یا اُدھر.دوسری بات یہ کہ وہ غیر معمولی حاضر جواب تھے.بسا اوقات لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں پوچھے جانے والے سوال کا پہلے علم تھا اس لئے تو اتنا مناسب اور جلدی جواب دے دیا ہے.ایک دفعہ مولانا جلال الدین صاحب شمس ہمارے گھر تشریف لائے.ان کے ہاتھ میں چند خطوط اور اخبار تھا.میں نے انہیں ایک کمرے میں بٹھا دیا.انہوں نے خط پڑھا اور و ہیں تخت پر ہی لیٹ گئے اور اخبار منہ پر رکھ لیا.میں سمجھا کہ شاید آرام فرما ر ہے ہیں.اس
مصالح العرب.....جلد اول 185 لئے میں کمرے سے نکل گیا.جب کچھ دیر کے بعد میرے والد صاحب اور چچا جان تشریف لائے اور کمرے میں گئے تو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مولانا جلال الدین صاحب ستم ہیں.پوچھنے پر بتایا کہ اس خط میں ان کے بھائی کی وفات کی خبر تھی.حضرت مولا نا ئٹس صاحب کے حیفا میں مناظرے ہے حیفا میں مولا نائٹس صاحب کے شیخ کامل القصاب کے ساتھ مناظرے کا تو ذکر ہو چکا ہے یہ مباحثہ دو دن جاری رہا اور جب شیخ مذکور نے اپنی شکست محسوس کی تو عوام کو آپ کے خلاف بھڑ کا یا.ان مخدوش حالات کے باوجود آپ برابر تبلیغی کوششوں میں مصروف رہے.چنانچہ اپریل 1928 ء سے فروری 1929 ء تک آپ کے آٹھ پرائیویٹ مناظرے علماء سے، دو بہائیوں اور سات عیسائیوں سے ہوئے.عیسائیوں کے ساتھ جو مناظرے ہوئے ان کا اثر مسلمانوں پر بہت اچھا ہوا.اور مشائخ کے ساتھ جو مناظرے ہوئے ان میں سے پہلے مناظرہ میں مد مقابل عالم نے اپنی شکست محسوس کر لی.اس لئے دوسرے مناظرہ میں شرائط مناظرہ کی خلاف ورزی کی جس کا نتیجہ فوری طور پر یہ ہوا کہ جو صاحب محرک مناظرہ تھے وہ احمدی ہو گئے.ان کی بیعت پر مشائخ اور بھی زیادہ مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے.اور تمام مساجد میں جمعہ کے دن جبکہ دیہات سے بھی سینکڑوں لوگ حیفا میں آئے ہوئے تھے سلسلہ احمدیہ اور آپ کے خلاف تقریریں کیں.اس کا رد عمل یہ ہوا کہ سلسلہ سے ناواقف لوگ واقف ہو گئے.اور جو واقف تھے وہ قریب تر ہو کر سلسلہ کے حالات کا مزید مطالعہ کرنے لگے.فلسطین میں شمس صاحب کی مخالفت وسط 1929ء میں غیر احمدی علماء نے جماعت احمدیہ کی بڑھتی ہوئی ترقی دیکھ کر مخالفت تیز کر دی.چنانچہ انہوں نے فلسطین کی المجلس الإسلامي الأعلیٰ سے ایک مبلغ شمس صاحب کے مقابلہ کے لئے بلوایا جس نے جمعية الشبان المسلمین اور دوسرے مقامی علماء کے ساتھ مل کر احمد یوں پر جبر و تشدد کرنا شروع کیا.اس شور وشر کے تھوڑے عرصہ کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں میں جھگڑا شروع ہو گیا اور ایک دوسرے کے خلاف مظاہرات کرنے لگے اور قتل کی وارداتیں شروع ہو گئیں.اور معلوم ہو گیا کہ فسادی عصر آپ کے مکان پر حملہ
مصالح العرب.....جلد اول 186 کرنا چاہتا ہے.چنانچہ آپ کو فساد کے اندیشہ سے مجبورا دوسرے مکان میں منتقل ہونا پڑا.فلسطین میں تبلیغ میں مشکلات فلسطین میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی مخالفت کی وجہ سے تبلیغ کی راہ میں حائل ہونے والی مشکلات کے علاوہ اس زمانہ میں وہاں کے عرب اخلاقی اور دینی اعتبار سے زبوں حالی کا شکار تھے اور ایسے حالات میں تبلیغ کے کام میں کامیابی کا حصول بہت مشکل امر تھا.اس حالت کا نقشہ اس زمانے کی ایک رپورٹ میں بڑے سادہ انداز میں کی ہے جسے نذر قارئین کیا جاتا ہے.د فلسطین میں اکثر آبادی مسلمانوں کی ہے اور ان کے دو طبقے ہیں ، قدامت پسند اور تعلیم یافتہ.اوّل الذکر فریق مشائخ کے زیر اثر ہے اور پرانے خیالات کی کورانہ تقلید کر رہا ہے.اور مؤخر الذکر گروہ دہریت، الحاد اور مغرب پرستی میں غرق ہونے کے علاوہ علم دین سے ہی بیزار ہے.مزید برآں یہ ہے کہ ہر دو فریق عربی النسل ہونے کے باعث باوجود اپنی جہالت کے عجم سے گو نہ نفرت رکھتے ہیں.گویا عربیت جاتی رہی ہے.نہ دین ہے نہ اخلاق ہیں.نہ زبان صحیح ہے مگر غرور ، نخوت ، اور تکبر بے انداز.عیسائی آبادی کے لحاظ سے دوسرے درجہ پر ہیں.مگر دہریت اور اسلام دشمنی میں اوّل نمبر پر.اور طرفہ یہ کہ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے دوست ہیں.یہودی بالکل جمود کی حالت میں ہیں.نو جوانوں میں حرکت ہے مگر دہریت اور شیوعیت کی طرف.“ ( رپورٹ سالانہ 32-1931ء صفحہ 8 بحوالہ خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے حالات زندگی جلد اول صفحہ 210-211 ) ان حالات میں سعید روحیں جب حضرت مولوی صاحب کی طرف مائل ہونا شروع کی ہوئیں اور پاک طینت وجود احمدیت کو بنظر استحسان دیکھنے لگے تو ملاؤں نے مخالفت شروع کر دی.اور مختلف مناظرات میں اپنی شکست کو محسوس کر کے لوگوں کو مولوی صاحب کے خلاف بھڑ کا نا شروع کر دیا، اور سلسلہ احمدیہ کی طرف بے سروپا باتیں منسوب کر کے لوگوں کو اس سے بدظن کرنا شروع کر دیا.اس بارہ میں حضرت مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ: ” مشائخ کی شرارتوں اور فتنہ انگیزیوں سے لوگ اس درجہ مشتعل ہو چکے تھے کہ دو تین ماہ
187 مصالح العرب.....جلد اول تک مجھے شہر میں اکیلے چلنا پھرنا مشکل ہو گیا تھا.اور ان لوگوں نے فتویٰ دے دیا کہ اس ہندی سے ملنا، بات کرنا، اس کی کتابیں پڑھنا حرام ہے اور اس کا قتل جائز ہے.جس ہوٹل میں میں رہتا تھا اس کے سامنے پہرہ لگا دیا گیا تا کوئی میرے پاس نہ آئے.جو آنے کی کوشش کرتا اسے بزور روک دیا جاتا لیکن باوجود ان روکوں کے جنہیں اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہتا تھا.ان کے سینوں کو کھول کر میرے پاس لے آتا تھا.(رپورٹ مجلس مشاورت 1929ء صفحہ 176 بحوالہ خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے حالات زندگی جلد اوّل صفحہ 212-213) ان ناخوشگوار حالات اور مشکلات میں حیفا کے مکینوں میں سے صرف ایک محترم دوست محمد نوام ابو فوزی تھے جو اس مخالفت کے تند سیلاب میں بلا ناغہ مولوی صاحب کے پاس آتے رہے اور تمام مخالفتوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے.محترم خلیل محمد نوام ابو فوزی صاحب دمشق کے پہلے احمدی مصطفی نو یلاتی صاحب کے غیر احمدی دوست تھے جو فلسطین میں رہتے تھے.جب حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس فلسطین تشریف لائے تو اس سے قبل ہی مصطفی نو یلاتی صاحب نے ابو فوزی صاحب کو خط لکھ دیا تھا اور مولانا شمس صاحب کے آنے کی اطلاع دے دی تھی.چنانچہ فلسطین پہنچنے پر یہ دوست مولانا شمس صاحب کو باصرارا اپنے گھر لے گئے اور اپنے ہاں مہمان ٹھہرایا.چند دن کے بعد یہ دوست سلسلہ میں داخل ہو گئے.اس کے بعد دو اور اشخاص جو ان کے دوستوں میں سے تھے ، بھی احمدیت میں داخل ہو گئے.(ماخوذ از مرجع سابق) یمن کے ایک ابتدائی احمدی الحاج محمد بن محمد المغر بی سے ملاقات آپ کا اصل نام الحاج محمد بن محمد منصور ریاقات المغر بی تھا.آپ مراکش ( جسے عربی میں المغرب کہتے ہیں اور اسی کی نسبت سے آپ المغر بی کہلائے ) میں ” مکناس نامی ایک جگہ کے رہائشی تھے.مکرم مولا نا چوہدری محمد شریف صاحب سابق مبلغ بلا دعر بیہ ان کے بارہ میں لکھتے ہیں: آپ نے حج کے لئے جانے والے قافلہ کے ہمراہ بیت اللہ الحرام کا قصد کیا اور تمام سفر کبھی اونٹ پر سواری کرتے ہوئے اور کبھی پیدل طے کیا.آپ نے کل 17 مرتبہ حج کیا.ملکہ
مصالح العرب.....جلد اول 188 مکرمہ میں آپ دن کا کچھ وقت کام کرتے تھے تا کہ کھانے کیلئے کچھ خرید سکیں جبکہ باقی تمام وقت عبادت اور ذکر الہی میں گزارتے تھے.مکہ سے آپ یمن چلے گئے جہاں آپ سیدی محمد بن اور میں کی شاگردی اختیار کی جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل میں سے تھے.سید محمد بن ادریس کی وفات کے بعد آپ نے وطن واپس جانا چاہا لیکن حالات کی خرابی کے باعث حیفا آگئے جہاں طیرہ نامی ایک علاقے میں ایک مسجد جامع الجرینۃ میں قیام فرمایا اور بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم کا کام شروع کر دیا.3 جون 1928 ء کو مولانا شمس صاحب بعض دوستوں کے ہمراہ سیر کرتے ہوئے ( کہا بیر کے نیچے واقعہ ) وادی السیاح میں پہنچے جہاں ان کی ملاقات ایک شخص سے ہوئی جس کا نام الحاج محمد المغربی الطرابلسی تھا.معلوم ہوا کہ یہ بزرگ 23 سال سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لا چکے ہیں.حضرت مولانا شمس صاحب ان کے بارہ میں بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بتایا: میں یمن میں امام محمد بن اور لیس امام یمن کے پاس تھا جو کابل سے امام محمد بن ادریس کے پاس چند کتابیں اس مدعی کی پہنچیں.آپ نے دو کتابیں پڑھ کے علماء کے سپرد کر دیں اور کہا کہ یہ کام آپ کا ہے اس کے بارہ میں رائے ظاہر کریں، اور آپ نے خود اس کے متعلق کچھ نہ کہا.پھر علماء میں اس کے متعلق اختلاف ہوا.بعض کہیں کہ جو کچھ اس نے لکھا سچ ہے.بعض کہیں کہ ایسی باتیں کہنے والا کافر ہے.مگر میں استخارہ کر کے اور بعض خواہیں دیکھ کر آپ پر ایمان لے آیا.چنانچہ میں اس وقت سے آپ کو امام الوقت مسیح موعود مانتا ہوں.میں نے چھا کون سی کتابیں وہاں پہنچی تھیں ؟ انہوں نے کہا : ہم نے اس وقت چند عبارات حفظ کی تھیں.جب انہوں نے عبارات سنائیں تو وہ الاستفتاء کی تھیں.پھر انہوں نے قصیدہ اعجاز یہ کے شعر سنائے...13 جولائی کو وہ میرے مکان پر جمعہ کی نماز کے لئے تشریف لائے تو نماز ادا کرنے کے بعد کہنے لگے: اگر چہ میں پہلے سے ایمان لایا ہوا ہوں مگر پھر آپ کے ہاتھ پر تجدید عہد کرتا ہوں.تب وہ اور دو شخص اور ان کے ساتھ سلسلہ میں داخل ہوئے.“ 1930ء میں جبکہ کہا بیر میں الحاج صالح عبد القادر عودہ نے اپنے خاندان سمیت احمدیت قبول کر لی تو الحاج المغربی بھی کہا بیر میں آگئے اور کہا بیر کے بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا.اور مدرسہ کہا بیر قائم ہونے تک با قاعدہ یہ خدمت بجالاتے رہے.
مصالح العرب.....جلد اول 189 جب خدا تعالیٰ کے فضل سے کہا بیر میں احمدی پریس کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت بجلی کی تی سہولت تو میسر نہ تھی تمام کام ہاتھ سے ہی سرانجام دیئے جاتے تھے.اس سلسلہ میں مکرم الحاج المغر بی صاحب نے اپنی خدمات پیش کیں اور 1935 سے لیکر 1953 تک مسلسل 18 سال تک یہ کام کرتے رہے.آپ صوم وصلاۃ کے پابند تھے روزانہ دو بجے رات کو جاگ جاتے تھے اور تہجد ادا کیا کرتے تھے.اور باوجود مالی حالات کی خرابی کے مکمل پابندی کے ساتھ چندہ ادا کرتے تھے.18 دسمبر 1960ء کی رات آپ نے تہجد کی نماز ادا کی اور نماز فجر کا انتظار فرما رہے تھے کہ آپ کی وفات ہو گئی.یوں آپ پر بوقت وفات بھی اس مؤمن کی مثال صادق آئی کہ جس کا دل مسجد میں اٹکا رہتا ہے.(ماخذ تاریخ احمدیت ج 4 ص 526 مجلۃ البشری جنوری، فروری 1937 ء ص 52 تا 53 ، الفضل ۱۳، اگست 1928 ء ص 7 بحوالہ خالد احمدیت جلد اول ص 204 تا 205 ، تابعین اصحاب احمد جلد اول صفحہ 80 تا 93) شیخ سلیم بن محمد الربانی، پاک تبدیلی کا شاندار نمونہ آپ ایک ایسے گاؤں کے باشندہ تھے جو ایام جاہلیت کا نمونہ تھا اور تمام فلسطین میں بلحاظ چوری ڈکیتی اور آپس میں لڑائیوں جھگڑوں کے لئے بدنام تھا.احمدیت قبول کرنے کے بعد جب بستی کے لوگوں نے شیخ ممدوح کی سخت مخالفت کی تو انہوں نے نہایت صبر و استقلال سے ان کی مخالفت کا مقابلہ کیا اور دیوانہ وار تبلیغ میں مصروف رہے.اعلانیہ طور پر مساجد میں جا جا کر علیحدہ نمازیں پڑھتے رہے.کوئی اعتراض کرتا تو نہایت نرمی سے کہتے کہ مسیح موعود دوسرے لوگوں کی اقتداء کرنے کے لئے نہیں آئے بلکہ وہ اس لئے آئے ہیں تا دنیا کے لوگ ان کی اقتداء کریں.ان کے وہاں کئی مباحثے ہوئے ایک مباحثہ میں تقریبا تین سو کی حاضری تھی اور بالمقابل از ہر کا تعلیم یافتہ شیخ تھا.دوران مناظرہ ایک شخص نے آپ کی گردن پر چپت لگائی.ان کے رشتہ داروں نے فورا اس مارنے والے سے بدلہ لینا چاہا لیکن آپ نے روک دیا اور کہا کہ مجھ سے زیادہ کون شقی تھا ؟ میں چاہوں تو اس سے خود بدلہ لے سکتا ہوں.مگر اس وقت صرف یہی کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائے.(ماخوذ از رپورٹ مجلس مشاورت 1929 ، صفحہ 179 بحوالہ خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے حالات زندگی جلد اوّل صفحہ 238-239)
190 مصالح العرب.....جلد اول شیخ سلیم الربانی صاحب نے مچھلیوں کا شکار سیکھنا شروع کیا.اس دوران انہوں نے وہاں کے مچھیروں کو بھی تبلیغ کرنی شروع کر دی.ابھی ان کو اس کام میں ایک ماہ ہی ہوا تھا کہ ایک روز چند شکاریوں نے جنہیں وہ تبلیغ کیا کرتے تھے ان سے کہا: اگر تم واقعی حق پر ہو تو فلاں شکاری سے مقابلہ کے لئے نکلو پھر جس کے جال میں پہلے مچھلی آئے گی وہ حق پر ہوگا.وہ شکاری دس جالوں سے شکار کرتا تھا اور نہایت ماہر مچھیرا مانا جاتا تھا.شیخ صاحب نے کہا کہ میں اس مقابلہ کو اس شرط کے ساتھ قبول کرتا ہوں کہ پہلے سمندر کے کنارے وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ حق ظاہر کر دے پھر جال پھینکیں گے.انہوں نے یہ شرط مان لی.کیونکہ وہ یہ خیال کر رہے تھے کہ یہ تو ابھی سیکھتا ہے کیا مقابلہ کر سکے گا.چنانچہ دو رکعت نماز کے بعد دونوں نے متعدد بار جال پھینکے.آخر پہلے مچھلی شیخ سلیم صاحب کے جال میں آئی.انہوں نے فوراً خدا تعالی کے آگے سجدہ شکر ادا کیا.اس کی موقعہ پر دو مچھیروں نے تصدیق کی اور جماعت میں شامل ہو گئے اور یہ بات پورے گاؤں میں مشہور ہوگئی.(ماخوذ از الفضل 26 / مارچ 1929 ، صفحہ 2 بحوالہ خالد احمدیت جلد اوّل صفحہ (251) 00000 XXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.....جلد اول 191 فلسطین کے کچھ ایمان افروز واقعات میری بیعت لیجئے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس لکھتے ہیں: عید الفطر پر ایک دمشقی عالم شیخ ابراہیم طیب المغر بی شاذلی طریقہ (صوفیوں کا ایک فرقہ ) کے اپنے شاذلی دوستوں کو ملنے کے لئے حیفا تشریف لائے.عید کے تیسرے روز ایک مشہور شاذلی شاعر نے مجھے اپنے مکان پر دعوت دی اور شیخ ابراہیم طیب بھی مدعو تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ حیات اور آپ کے دعاوی کے متعلق تقریبا پانچ گھنٹہ تک گفتگو ہوئی.اختتام مجلس پر انہوں نے کہا کہ یہ اجتماع ہمارے لئے لیلتہ القدر کی طرح ہے.اس کے دو دن بعد شیخ ابراہیم طیب میری ملاقات کے لئے آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے الفاظ سننے کا شوق ظاہر کیا.میں نے خطبہ الہامیہ کے تقریبا ساٹھ صفحے سنائے.پھر انہوں نے جماعت میں داخلہ کی شرائط دریافت کیں.پھر کہا کہ ہاتھ بڑھائیے اور میری بیعت لیجئے.پھر دورکعت نماز پڑھ کر انہوں نے بیعت کی.ان کا شاذلیوں پر اچھا اثر ہے.الفضل 17 مئی 1929 ء صفحہ 7.بحوالہ خالد احمدیت جلد اوّل صفحہ 254) احمدیت.مسیحیت کے لئے کاری ضرب حیفا میں عید کے دوسرے روز چند غیر احمدی ایک مسیحی کو میرے پاس لے آئے اس نے انہیں ایک کتاب مطالعہ کے لئے دی تھی...جب ایک ہفتہ بعد ان سے دریافت کرنے کے لئے آیا تو انہوں نے کہا کہ ہم تو ان باتوں کا جواب نہیں دے سکتے.چلو احمدی شیخ کے پاس چلتے ہیں.وہ اسے لے آئے.ظہر سے عصر تک گفتگو ہوتی رہی.آخر اس مسیحی نے میری تمام باتوں کو
192 مصالح العرب.....جلد اول مان لیا اور قسم کھا کر کہا کہ یہاں کے مشائخ قطعاً ان باتوں کا جواب نہیں دے سکتے.غیر احمد یوں نے بھی احمدیوں سے کہا کہ در حقیقت احمدیت مسیحیت کے لئے ایک کاری ضرب ہے.الفضل 7 مئی 1931ء صفحہ 2.بحوالہ خالد احمدیت جلد اوّل صفحہ 255) احمدیوں کی تفسیر بہت پسند ہے ایک دوست لکھتے ہیں: قدس میں جب ہم احمد ز کی پاشا سے ملنے کے لئے گئے تو وہاں مختلف ممالک کے نمائندے موجود تھے.احمد زکی پاشا نے ہمارا تعارف ہر ایک وفد کے نمائندوں سے کرایا.اور شرق الاردن کے مفتی صاحب کو مخاطب کر کے کہا: احمدیوں کی تفسیر بہت پسند ہے کیونکہ یہ جو تفسیر کرتے ہیں اس میں خرافات اور خلاف عقل باتیں نہیں ہوتیں.اور میرا تو جی چاہتا ہے ان تفسیروں کو ضائع کر دیا جائے جن میں دور از قیاس اور خلاف عقل باتیں پائی جاتی ہیں.مثال کے طور پر سورہ یوسف کی تفسیر پر ذکر چھیڑ دیا.جس پر مفتی صاحب اور دوسرے علماء بول اٹھے کہ فلاں مفسر نے یوں لکھا ہے.اس وقت احمد ز کی پاشا نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ اس کے متعلق بیان فرما ئیں.مولوی صاحب نے نہایت فصاحت کے ساتھ تقریر کی.مفتی صاحب يا کسی اور کو جرات نہ ہوئی کہ کسی قسم کا اعتراض کریں.کیونکہ مولوی صاحب کی تقریر نہایت مدلل تھی.الفضل 11 / دسمبر 1930 ءصفحہ 2 ) 00000
مصالح العرب.....جلد اول 193 مولا نا جلال الدین شمس صاحب کی مصر میں مساعی فلسطین میں رہائش کے دوران آپ نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے حکم سے اپنے دائرہ تبلیغ میں مصر کو بھی شامل کر لیا اور اپنے وقت کو تقسیم کر کے دونوں ملکوں میں تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا.آپ دودفعہ چھ چھ ماہ کے لئے مصر تشریف لے گئے.پہلی دفعہ دسمبر 1929ء میں اور دوسری دفعہ اگست 1930 ء میں.مناظره بر وفات مسیح مولانا جلال الدین صاحب شمس 7 / دسمبر 1929ء کو حیفا سے مصر کو روانہ ہوئے.ان کے ہمراہ مکرم منیر اکھنی صاحب بھی تھے.یہاں پر آ کر بعض امراء سے ملاقاتوں اور وفات مسیح پر جامعہ ازہر کے تعلیم یافتہ ایک شیخ سے مناظرہ ہوا جس میں شیخ موصوف کو شدید ہزیمت اٹھانی پڑی.بعض حاضرین نے تو شیخ صاحب کو منہ پر کہہ دیا کہ آپ نہ تو اپنی کسی دلیل کو ثابت کر سکے اور نہ ہی وفات مسیح پر پیش کردہ دلائل کو ر ڈ کر سکے.پہلے تو یہ شیخ کہتا تھا کہ میں ہر روز آپ سے گفتگو کے لئے وقت نکال سکتا ہوں.لیکن اب اس ہزیمت کے بعد اس نے گفتگو کرنے کا نام تک نہ لیا..مصر میں عیسائیت کی یلغار کا ایک جائزہ ازاں بعد مکرم مولا نا جلال الدین صاحب شمس اور مکرم منیر الحصنی صاحب ان دونوں بزرگوں نے وہاں کے عیسائی مشنوں کے بارہ میں معلومات حاصل کیں جس کا خلاصہ کچھ یوں نی تھا کہ اس وقت وہاں پانچ چھ عیسائی مشن کام کر رہے تھے.جن کی نہایت عالیشان عمارتیں تھیں
194 مصالح العرب.....جلد اول جن میں سکول بھی تھے.مسلمانوں کی اولاد کو مسیحی مدارس کے قوانین کے مطابق گر جاؤں میں نماز کے لئے مجبور کیا جاتا تھا.اور ہزاروں پونڈ ز ہر ماہ عیسائیت کی تبلیغ کے لئے خرچ کئے جاتے تھے.اس سلسلہ میں تقریبا چار یا پانچ رسالے نکالے جاتے تھے.عیسائیت کی اس پر زور رو کے بالمقابل مسلمانوں کی کوشش صفر تھی.بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ عام مسلمانوں کی حیثیت ایک خاموش تماشائی سے زیادہ نہ تھی.اور جہاں تک علماء کا تعلق ہے تو ازہر کے بعض تعلیم یافتہ شیخ عیسائی ہو چکے تھے اور اعلانیہ عیسائیت کا پرچار کرنے لگے تھے.دیہات میں عیسائی بنانے کی تحریک زوروں پر تھی.ان حالات کے پیش نظر ان دونوں مجاہدوں نے مسیحیوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور ان کے مشنوں اور گرجوں میں جا کر مناظرے کئے.(ماخوذ از الفضل 7 فروری 1930 ، صفحہ 2 ، رپورٹ مجلس مشاورت 1930 ء صفحہ 159-60.بحوالہ خالد احمد بیت جلد اوّل صفحہ 223 224 ، 228، سلسلہ احمدیہ صفحہ 379 مجلة البشری مارچ 1936 صفحہ 13 کاش تم مسیحی مشنری ہوتے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس اور منیر الحھنی صاحب کی مصر میں تبلیغی مساعی کے بارہ میں مکرم محمود احمد عرفانی صاحب اپنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں: یہاں جس قدر مسیحی جماعتیں ہیں ان کے کیمپ پر جا کر منیر اور شمس نے ہجوم کیا.اور ان کی زبانیں جو اس سے پیشتر اسلام کے خلاف چلتی تھی بند کر دیں.مسیحی متاد جو روزانہ یہاں کے علماء کو تنگ کرتے تھے ، احمدی مبلغین کے دلائل سن کر دنگ رہ گئے اور بول اٹھے کہ ہم احمدیوں سے بحث نہیں کرتے.ان مباحثات کا یہ اثر ہوا کہ نو جوانوں کی ایک جماعت مولوی جلال الدین صاحب کی طرف مائل ہو گئی اور اسلام کی تعلیم سننے لگی.ان میں سے ایک مسیحی ہو چکا تھا اس نے مسیحیت کے طوق کو اپنے گلے سے اتارا اور اسلام قبول کر کے احمدیت میں داخل ہو گیا.دو اور نو جوان اس کے ساتھ سلسلہ میں داخل ہوئے.اس طرح ان مباحثات کے نتیجے میں تین نوجوان ہمیں ملے.باقی نوجوانوں پر بھی گہرا اثر ہے اور وہ احمدیت کے اثر کو قبول کرنے لگ گئے ہیں.عیسائی حلقوں میں بہت شور پڑ گیا اور ان کو سخت پریشانی ہوئی.احمدی مبلغ کے دلائل کی
195 مصالح العرب.....جلد اول طاقت دیکھ کر ایک دن ایک عیسائی پطرس نامی نے کہا: کاش تم مسیحی مشنری ہوتے.عیسائیت کے لئے تمہارا وجود خسارہ ہے.احمدی مبلغ نے کنیسہ امریکان میں شیخ کامل منصور سے، ڈاکٹر فلپس امریکان سے اور کو بری سیمون پر انجمن تبشیر مسیحی کے انچارج سے ، جمعیتہ شرف میں پادری پطرس اور وہاں کے سیکرٹری سے اور ایک انجمن إنجيل للجميع میں مباحثات کئے اور خدا تعالیٰ نے کامیابی دی.اب جب عیسائیوں نے مباحثات سے انکار کر دیا ہے احمدی مشنری نے دوسرا حملہ ایک ٹریکٹ کے ذریعہ سے ان پر کیا ہے جو دو ہزار شائع کیا گیا ہے.اس ٹریکٹ کا نام تحقیق الفضل 11 / مارچ 1930ء صفحہ 2-3 بحوالہ خالد احمدیت جلد اوّل صفحہ 226-227) الادیان ہے.آخرین کے ابن عباس حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے مصر پہنچنے پر مشورہ سے طے پایا کہ وہاں ایک پبلک لیکچر ہو.لیکچر کے لئے عصمت انبیاء کا موضوع تجویز ہوا.مکارم اخلاق سوسائٹی کے تحت ہونے والے اس لیکچر کا اعلان کر دیا گیا اور لوگوں کو شمولیت کی دعوت دی گئی.اس موضوع پر مولانا شمس صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی روشنی میں اس خوبی سے لیکچر دیا کہ اپنے اور بیگانے سب متاثر ہوئے.جماعت کے سیکرٹری عبد الحمید آفندی نے قادیان آ کر بیان کیا کہ لیکچر سننے کے بعد ہم سب احمدیوں نے خوشی سے محترم مشمس صاحب کو کندھوں پر بٹھا لیا اور دور تک اٹھا کر لے گئے.جلسہ کے اختتام پر ایک بڑے ادیب نے سب دوستوں کو ٹھہرا لیا اور آدھ گھنٹہ کے قریب مولا نا شمس صاحب کی مدح اور تعریف کرتا رہا.اس نے بیان کیا کہ ایسا لیکچر آج تک ہم نے کبھی نہیں سنا تھا.ایک فقرہ جو آپ کی تعریف میں کہا گیا وہ یہ تھا.وَاللَّهِ إِنَّهُ لَابْنُ عَبَّاسِ فِيْنَا، یعنی واللہ یہ شخص ہم میں حضرت ابن عباس کے مقام پر ہے.الفضل 20 /اکتوبر 1966 ، صفحہ 3 بحوالہ خالد احمدیت جلد اول صفحہ 228-229 ایک پادری سے مناظرہ اور مصر کا پہلا احمدی مکرم منیر الحصنی صاحب اس مناظرہ کی روداد تحریر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
196 مصالح العرب.....جلد اول میں موسمی تعطیلات گزارنے کے لئے دمشق سے کچھ فاصلہ پر بلودان نامی ایک پہاڑی گاؤں میں گیا.وہاں کے پادری ملحم الذهبيه نامی سے ملنے کا اتفاق ہوا.وہاں قیام کے دوران اس پادری سے کئی مباحثات ہوئے جن کے نتیجہ میں آخر کار اسے راہ فرار اختیار کرنا پڑی اور اس نے یہ کہہ کر مجھ سے اپنا پیچھا چھڑایا کہ گو میں آپ کے دلائل و براہین کا جواب نہیں دے سکتا لیکن مصر میں ایک بڑے پادری صاحب ہیں وہ آپ کے تمام اعتراضات کا جواب دیں گے.میں نے مولانا شمس صاحب کو جو ان دنوں مصر میں تھے لکھا کہ وہ اس پادری سے مل کر تبادلہ خیالات فرما ئیں لیکن مصر کے تمام پادریوں نے الوہیت مسیح" وغیرہ میں سے کسی موضوع پر بھی شمس صاحب سے مناظرہ نہ کیا اور کوئی بھی مقابلہ پر نہ آیا.شمس صاحب نے بڑی تحدیان سے ایک رساله البرهان الصريح فى إبطال ألوهية المسيح لکھ کر تمام پادریوں کو چیلنج کیا کہ اس کا رد لکھیں.مگر کسی کو اس کا جواب دینے اور چیلنج قبول کرنے کی ہمت نہ ہوئی...کچھ عرصہ بعد بحیثیت مبلغ آپ دوبارہ مصر تشریف لے گئے.مجھے بھی آپ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا.مصر پہنچنے پر ہم نے دیکھا کہ بعض امریکی مشن بعض خاص دنوں میں علی الاعلان مسیحیت کی تبلیغ کرتے ہیں اور مصر کے علماء باوجود کثرت کے کوئی بھی ان کی تردید کے لئے نہیں آتا.اور وہ لگا تار اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مسلمان نو جوانوں میں زہر پھیلا رہے ہیں.اس پر خاکسار اور شمس صاحب ایک مشن ہاؤس میں گئے.وہاں ہم نے دیکھا کہ ایک مسیحی عرب شیخ کامل منصور نامی صداقت انا جیل پر لیکچر دے رہا ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ دیکھوانا جیل کی اشاعت کسی جنگ و جدال کی مرہون منت نہیں بلکہ وہ اپنی روحانی قوت سے اکناف عالم میں پھلیں.لیکچر کے اختتام پر میں نے اس سے کہا: صداقت انا جیل پر شمس صاحب سے پبلک مناظرہ کر لوتا لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ واقعہ موجودہ اناجیل الہامی اور خدا کی طرف سے ہیں.اس پر اس نے فوراً میری دعوت قبول کر لی.اور خیال کیا کہ خوب شکار ہاتھ آیا ہے.اس نے ہماری دعوت پر بہت خوشی کا اظہار کیا کیونکہ اسے خیال تھا کہ اس کے دلائل لا جواب ہیں.لیکن مناظرہ شروع ہونے پر جب اسے اپنے دلائل کا بودا پن معلوم ہوا اور لوگوں پر اس کے خلاف برا اثر پڑنے لگا تو اس نے ہم سے درخواست کی کہ بقیہ بحث کسی آئنده روز پر ملتوی کر دی جائے.لیکن جب دوسری مرتبہ مناظرہ شروع ہوا تو پہلی دفعہ سے بھی
197 مصالح العرب.....جلد اول زیادہ اس کی سبکی ہوئی اور دلائل و براہین اسلامی نے اس کے چھکے چھڑا دئیے.اور اسے ایسا مبہوت کیا کہ اس نے دوبارہ درخواست کی کہ بقیہ مناظرہ آئندہ پر ملتوی کیا جائے.ہم نے یہ درخواست منظور کر لی.لیکن تیسری مرتبہ جب ہم آئے تو بجائے مناظرہ کرنے کے اس نے کہا که شمس صاحب احمدی مناظر ہیں اور مسلمان احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے اس لئے میں احمدی مناظر سے بحث کرنے کے لئے تیار نہیں.مولانا جلال الدین شمس صاحب نے فرمایا: تم عیسائیت کے وکیل ہو اور میں اسلام کی طرف سے مدافعت کرتا ہوں.جب میں نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ تمہیں باقی عیسائی فرقے عیسائی قرار دیتے ہیں یا نہیں، تو پھر تمہیں کہاں سے یہ حق پہنچتا ہے کہ مجھ پر یہ اعتراض کرو.اس کا سوائے اس کے اور کوئی مطلب نہیں کہ تم مناظرہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے اور اسلامی دلائل سے عاجز آ کر اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہو.لیکن اس طرح غیرت دلانے کے باوجود بھی اسے مناظرہ جاری رکھنے کی ہمت نہ ہوئی.مسلمان حاضرین نے پر جوش تالیوں سے عیسائی پادری کی شکست اور اسلامی مبلغ کی فتح کا اعلان کیا.اور کئی منٹ تک اپنی تالیوں سے میدان مناظرہ کو گرمائے رکھا.اس کے بعد شمس صاحب نے اس موضوع پر ایک پمفلٹ بنام تحقیق الادیان‘ رمضان 1348ھ بمطابق فروری 1930ء میں شائع کیا گیا.مباحثہ کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ بہت سے مصری نوجوان جو عیسائیت کے اوہام کے شکار ہو رہے تھے پھر سے اسلام پر پختہ وگئے.انہی نوجوانوں میں عبد الحمید خورشید آفندی بھی تھے جو مصر کے پہلے احمدی بنے جو اس مباحثہ میں آپ کے دلائل و براہین سے اتنے متاثر ہوئے کہ احمدی ہو کر عیسائیوں کا مقابلہ کرنے لگے.ازاں بعد احمد حلمی صاحب احمدی ہوئے.مآخذ ر یویو آف ریجنز اردو جنوری 1947ء مکرم طه قزق صاحب کی یادیں، کہا بیر، بلادی از عبد الله اسعد صاحب، تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ (527) ہو.مجھے کچھ نہیں آتا مصر میں قیام کے دوران کی مساعی کے بارہ میں حضرت مولانا جلال الدین شمس فرماتے ہیں:
مصالح العرب.....جلد اول 198 اخبار الاہرام میں ہم نے اعلان پڑھا کہ باب الحدید کے پاس دارا تبشیر میں لیکچر ہو گی گا.ہم سننے کے لئے گئے.اختتام لیکچر پر کسی کو سوالات کی اجازت نہ دی گئی.مگر انچارج پادری نے ہم سے کہا کہ آپ اگر کوئی سوال دریافت کرنا چاہیں تو دو دن کے بعد انجیل کا درس ہو گا آپ تشریف لائیں اور جو سوال کرنا چاہتے ہیں کر سکتے ہیں.چنانچہ میں اور برادرم منیر الکھنی اور شیخ محمود احمد صاحب وقت مقررہ پر وہاں پہنچ گئے.اس سے چند ہی باتیں ہوئی تھیں کہ وہ کہ اٹھا: میں آپ کو جواب نہیں دے سکتا.آپ کتاب مقدس کا مطالعہ کریں.ہم نے کہا: آپ ہمیں سمجھا ئیں.کتاب مقدس پر ہی تو اعتراض ہے.وہ اتنا گھبرا گیا کہ اس نے صاف طور پر کہہ دیا: افرضوا أننى حمار ، آپ فرض کر لیں کہ میں گدھا ہوں اور مجھے کچھ نہیں آتا.قوت دلائل و سحر کلام (ماخوذ از الفضل یکم اپریل 1930 ء ) مصر میں حضرت مولوی صاحب کو اپنے چند احمدی ساتھیوں کے ساتھ بذریعہ ٹرین کسی دوسرے مقام پر جانا تھا.گاڑی چلنے میں ابھی آدھ گھنٹے کی دیر تھی کہ ایک از ہری مولوی سٹیشن پر آئے.مکرم محمود آفندی خورشید نے انہیں شمس صاحب سے انٹروڈیوس کرایا اور ساتھ ہی اختلافی مسائل کا بھی ذکر کر دیا.اس پر سلسلہ گفتگو چل پڑا اور مولوی صاحب تعلیم یافتہ مسافروں کے انبوہ میں گھر گئے.آپ نے نہایت فصیح و بلیغ عربی میں تقریر کی.ازہر کے شیخ کو آپ کے دلائل کے سامنے سر جھکانا پڑا.یہ سلسلہ اتنا لمبا ہو کہ سامعین نے ایک مولوی صاحب کو ایک ٹرین مس کرنے پر مجبور کر دیا.بہت سے لوگوں نے مولوی صاحب کا پتہ نور کیا.اور دوبارہ ملاقات کا وعدہ کیا.ہم آپ سے یہیں جہاد کریں گے قاہرہ سے واپسی پر عیسائیوں کے ایک تبشیری ہال میں پادری مریان پطرس کا ایک لیکچر تھا اس دن ہم سب وقت مقررہ پر پہنچ گئے.پادری صاحب ہال میں ٹہل رہے تھے.مولوی صاحب کو داخل ہوتے دیکھ کر کہنے لگے: آپ ابھی تک یہیں ہیں؟ آپ کیوں ہمیں تنگ کر رہے ہیں اور ہمیں کام نہیں کرنے دیتے.بہتر ہے کہ آپ ہندوستان چلے جائیں اور اپنے ملک
مصالح العرب.....جلد اول 199 کی خدمت کریں.مولوی صاحب نے فرمایا : کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم یہاں نہ آئیں.ہم ہے آپ سے یہیں جہاد کریں گے.اس جواب پر پادری صاحب خاموش ہو گئے اور جب لیکچر کے کھڑے ہوئے تو انہوں نے اپنا موضوع چھوڑ کر انجیل کی تقریر شروع کر دی اور کسی کو گفتگو کا (الفضل 2 / دسمبر 1930 ءصفحہ 7-8 ) موقع نہ دیا.سوڈان میں تبلیغ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کے قیام مصر کے دوران ہی سوڈان کے ایک تعلیم یافتہ دوست جو تبدیلی آب و ہوا کے لئے مصر آئے ہوئے تھے احمدیت میں داخل ہو گئے.یوں سوڈان میں بھی احمدیت کا پودا لگ گیا.وطن واپس جاتے ہوئے وہ سلسلہ کا کچھ لٹریچر ساتھ لے گئے.پھر انہوں نے مولانا جلال الدین صاحب کو اطلاع دی کہ تعلیم یافتہ طبقہ احمدیت کو دل میں قبول کر رہا ہے لیکن مشائخ سے مرعوب ہیں.(ماخوذ از رپورٹ سالانہ 31-1930 ، صفحہ 5 مصر کے ایک عربی مجلہ میں حضرت مولانا شمس صاحب کا ذکر مصر الحديثة المصورة ني رسول أحمد المسیح کے عنوان سے ایک مصری صحافی کا مولانا شمس صاحب کے متعلق اپنی 19 فروری 1930 ء کی اشاعت میں ایک مضموا شائع کیا.جس کا اردو ترجمہ الفضل سے ذیل میں درج کیا جاتا ہے.اخلاقی لیکچر سننے کے لئے میں ایک ادبی مجلس میں حاضر ہوا جس میں مختلف بلاد کے ہر قسم کے لوگ شریک تھے.جلسہ کے بعد جب حاضرین مجلس نے ایک دوسرے سے تعارف کیا تو امریکن لیڈی نے قریب ہو کر سلام کرتے ہوئے ایک رجل ہندی پنجابی کی طرف مصافحہ کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا.اس نے سلام کا جواب تو نہایت اچھے الفاظ میں دیا لیکن اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور اس لیڈی کے ساتھ مصافحہ کرنے سے قطعاً انکار کیا.ہماری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جب ہم نے ایک مشرقی کو دیکھا کہ وہ ایک امریکن خاتون سے مصافحہ کرنے سے انکار کرتا ہے کیونکہ ہم نے یہ واقعہ مصر جیسے متمدن ملک میں اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا.زیادہ حیرانی اس بات سے ہوئی کہ یہ پنجابی نوجوان نہ تو متعصب ہے، نہ علوم مروجہ سے نا آشنا.بلکہ ایک
200 مصالح العرب.....جلد اول مہذب، کریم الاخلاق ، شریف ،مزاج ، نیک طبیعت ، خندہ رو، اور متواضع انسان ہے.پھر کیوں اس نے امریکن خاتون سے مصافحہ کرنے سے انکار کیا؟ جب ہم نے بصورت استفہام یہ سوال اس کے سامنے پیش کیا تو اس نے جواب دیتے ہوئے کہا: میرے مذہب میں جائز نہیں کہ میں کسی عورت سے مصافحہ کروں.اس کے جواب نے ہمیں اور زیادہ تعجب میں ڈالا.ہم نے اس سے دریافت کیا کہ: آپ کا کیا مذہب ہے؟ اس نے کہا: میں احمدی ہوں.ہم نے پوچھا: کیا آپ مسلمان نہیں؟ اس نے کہا : ہاں الحمد للہ.( یعنی ہاں الحمد للہ میں مسلمان ہوں ) ہم نے کہا کہ مسلمان تو عورتوں سے مصافحہ کرتے اور ان کا احترام کرتے ہیں.اس نے جواب دیا: میں بھی ان کا احترام کرتا ہوں لیکن ان سے مصافحہ کرنا میرے مذہب میں جائز نہیں.ہم نے پھر کہا: آپ کس مذہب کے آدمی ہیں؟ اس نے کہا: میں احمدی ہوں.میں نے اس کے جواب سے یقین کر لیا کہ وہ سر آغا خان کا مرید اسماعیلی فرقہ سے ہے.اس لئے میں نے پوچھا کہ آپ اسماعیلی ہیں؟ اس نے مسکراتے ہوئے کہا: ہرگز نہیں.میں تو مسلمان ہوں.میں نے کہا پھر کیوں کہتے ہیں : میں احمدی ہوں.اس نے کہا: میں فرقہ احمدیہ سے ہوں.ہم نے کہا: فرقمر احمد یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: احمد ایچ کے تابعین.ہمیں اس لفظ (احمد السیح) نے زیادہ حیرانی میں ڈالا.اور ہم اسے سن کر بہت ہے کہ ایک شخص احمد اور مسیح دونوں لفظوں کا مصداق کس طرح ہو سکتا ہے.ہم نے پوچھا: کیا احمد اصیح کوئی تاریخی انسان ہے؟ اس نے کہا: ہاں وہ تاریخی انسان ہے.ہم نے کہا : وہ کہاں پیدا ہوا اور کب؟ اس نے کہا: وہ پنجاب میں 1836ء میں پیدا ہوا.
مصالح العرب.....جلد اول ہم نے کہا: کیا وہ خدا ہے.اس نے کہا: ہر گز نہیں.وہ صرف ایک انسان ہے.ہم نے کہا: پھر آپ کس طرح کہتے ہیں کہ وہ اسیح ہے؟ 201 اس نے کہا: وہ اسیح المنتظر ہے.اور وہ وہی ہے جسے لوگ مہدی موعود کہتے ہیں.اور جو آخر زمانہ میں ظاہر ہو کر دین کی اصلاح کرے گا.عدل پھیلائے گا اور لوگوں کو ان کے صحیح راستے پر واپس لائے گا.یہ عجیب و غریب خبر سن کر میں حیران ہوا اور میں نے آگاہی حاصل کرنے کے لئے مزید رغبت کا اظہار کیا.اور اس کے لئے ہم نے ایک دوسرے سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا.دوسرے دن جب ہم ایک ہوٹل میں جمع ہوئے تو وہ پنجابی نوجوان مرزا احمد امسیح کی ولادت کے متعلق حیران کن باتیں کرنے لگا کہ کس طرح اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کس طرح لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے.اور کس طرح اس نے فرقہ احمدیہ کی تنظیم کی.اس نوجوان نے مجھے سلسلہ احمدیہ کی کتب دکھا ئیں اور اس کے بعض اصول بیان کئے.شام کے وقت معبد الأزبكيه میں ہم حاضر ہوئے تو دیکھا کہ وہی پنجابی عیسائیت کے رڈ میں لیکچر دے رہا ہے.اور ایک جوش مارنے والے سیلاب کی طرح کتب مقدسہ ( عہد جدید وعتیق) کی آیات بغیر کسی رکاوٹ اور زبان کی لکنت کے پڑھ رہا ہے.اور انہیں ایک دوسری سے ربط دے کر اپنی تائید میں پیش کر رہا ہے.اس نے بہت طویل لیکچر دیا اور بعض آیات قرآن مجید اپنی تائید میں لا کر ان کی ایسی اعلی تفسیر کی جو میں نے اپنی زندگی میں اس سے پہلے نہیں سنی.گو وہ تمام باتیں جو اس نے بیان کیں میرے لئے عجائبات سے تھیں مگر ان سب سے عجیب بات یہ تھی جو اس نے بیان کی کہ اگر انہیں (احمدیوں کو ) کوئی لیکچر دینے کے لئے مدعو کرے تو وہ اس کے لئے اُجرت نہیں مانگتے.وہ باوجود مخالف اسباب کے وحدت اسلامیہ کی محافظت کرتے ہیں.جہاں تک ممکن ہو عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتے.وہ عورتوں کو باہر مجالس میں نہیں جانے دیتے.وہ نبوت (غیر تشریعی ) کو ہمیشہ جاری مانتے ہیں اور یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کی تبلیغ ساری دنیا میں پھیل جائے گی.میں نے پوچھا: کس قسم کے ممالک میں آپ تبلیغ کرتے ہیں؟ اس نے کہا: تمام دنیا کے ممالک میں.
مصالح العرب.....جلد اول میں نے کہا: کیا آپ کے مبلغ اور مشنری لندن میں ہیں؟ اس نے کہا: سب سے پہلے وہاں ضرورت تھی.میں نے کہا : کیا اس تبلیغ کا کچھ فائدہ بھی ہوا؟ 202 اس نے کہا: کیوں فائدہ نہ ہوتا.سب سے پہلی مسجد انگلستان کے دارالحکومت میں ہم نے ہی تعمیر کرائی ہے.میں نے کہا : کیا تم وہ لوگ ہو جنہوں نے وہاں مسجد بنائی یا مسلمان؟ اس نے کہا: ہم ہی وہ مسلمان ہیں.پھر اس نے اس مسجد کے متعلق سارا واقعہ سنایا کہ وہ مسجد اس چندہ سے بنائی گئی ہے جو احمدی خواتین نے جمع کیا تھا.اور جب المعبد الاحمدی مسجد بن کر تیار ہوگئی تو اس کے افتتاح کے لئے ایک شاندار اجتماع منعقد کیا گیا اور بادشاہ حجاز ابن سعود کے شہزادہ کو افتتاحی رسم ادا کرنے کے لئے مدعو کیا گیا.تو اس کا باپ اس بات سے بہت خوش ہوا.لیکن ہمارے مخالف لوگوں نے شہزادہ کو اس بات سے روکا اور کہا کہ وہ افتتاحی رسم ادا نہ کریں کیونکہ وہ ایک امر منکر ہے.شہزادہ نے اپنے باپ کو لکھا کہ وہ اسے اس بات سے روک دے.کیونکہ یہ معبد دے.کیونکہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ ایک عام عبادتگاہ ہے جس میں غیر مسلم جمع ہوا کریں گے.اس پر ہم نے شہزداہ کو بتایا کہ یہ اس کا خیال غلط ہے.یہ معبد تو اہل نجد کے طریق پر تعمیر کیا گیا ہے.اور ہر اس شخص کے لئے کھلا ہے جو ایک اللہ کی عبادت کرے.اس کلمہ نے شاہ حجاز کی طبیعت کو نرم کر دیا.اوراس نے اپنے بیٹے کو اس مسجد کا افتتاح کرنے سے جو ایک اللہ کی عبادت کرنے کے لئے بنائی گئی ہے روکنا مناسب نہ سمجھا.اور اس نے لکھا: وہ جب چاہے وہاں جا کر خطبہ پڑھے.لیکن شہزادہ کو جرات نہ ہوئی اور علماء سے ڈر گیا.پھرمیں نے اس سے اس کا نام دریافت کیا تو اس نے بتایا : اس کا نام جلال الدین شمس ہے.اور اس کی عمر 29 سال ہے.اس نے احمدیت اپنے والد سے ورثہ میں پائی ہے.اور وہ پیدائشی احمدی ہے.اس نے کہا جب 25 سال کی عمر میں وہ مبلغ ہو کر شام میں آیا تو وہاں کے علماء اور امراء اس کی مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوئے.اور انہوں نے کوشش کی کہ اسے شام سے جلا وطن کیا جائے.لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے.اور وہ وہاں دو سال رہا.اور 50 کے قریب احمدی بنائے جو تمام کے تمام احمد اسیح کی نبوت پر کامل ایمان رکھتے ہیں.
مصالح العرب.....جلد اول 203 پھر اس نے کہا وہ حیفا میں آیا اور ایک سال سے زیادہ وہاں ٹھہرا.اور وہاں بھی 50 کے قریب احمدی ہوئے اور اب مصر میں وہ اسی غرض سے آیا ہے.میں نے اس سے پوچھا: کیا تمہیں یقین ہے کہ تمام لوگ احمدی ہو جائیں گے.اس نے کہا: ضرور، ہماری تبلیغ اور دعوت روئے زمین پر پھیل جائے گی.میں نے کہا: اس بات کے لئے تمہارے پاس کیا دلیل ہے؟ اس نے جھٹ ایک الہام جو پیشگوئی پر مشتمل ہے جومرزا احمد امیج پر نازل کیا گیا ہے سنایا جس میں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ عنقریب وہ تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائے گا.میں نے کہا: کیا تم اس پیشگوئی پر کامل یقین رکھتے ہو؟ اس نے کہا: بے شک.احمد امسیح کی کوئی ایسی پیشگوئی نہیں جو پوری نہ ہو.کیونکہ جو کچھ اس نے کہا اور جس کا دعویٰ کیا ہے ہم اس پر صدق دل سے ایمان رکھتے ہیں کہ یہ پیشگوئی عنقریب پوری ہوگی اور تمام لوگ اپنے رب اور اس دین حق کو پہچان لیں گے جسے حضرت عیسی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے.اور جس کی احمد امسیح نے اشاعت کی.اس مذہب ( فرقہ احمدیہ ) نے آج کل تمام دنیا سے مذہبی جنگ چھیٹر رکھی ہے اور یہ لوگ انگلستان فرانس، امریکا، ایشیا اور افریقہ کے بہت سارے ممالک میں پائے جاتے ہیں.یہ لوگ مسلمانوں اور عیسائیوں کو اپنا مذہب قبول کراتے رہتے ہیں.ان کی ایک منظم اور ترقی کرنے والی جماعت ہے اور یہ جماعت امید رکھتی ہے کہ وہ لوگوں میں سے تعلیم یافتہ طبقوں اور اکثر متمدن ممالک کو اپنی طرف کھینچ لے گی.الفضل 4 را پریل 1930 ء صفحہ 9-10 بحوالہ خالد احمدیت جلد اوّل صفحہ 215 تا 221 ) بلاد عربیہ میں مدرسہ احمدیہ کا قیام حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے 1930ء میں حیفا میں مدرسہ احمدیہ کے نام سے ایک مکتب جاری کیا.جس کی ابتداء میں الشیخ المغر بی صاحب (جن کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے) نے لڑکوں اور لڑکیوں کو قرآن کریم پڑھانا شروع کیا.جس کا باقاعدہ افتتاح مولانا ابو العطاء صاحب نے یکم جنوری 1934ء کو کیا.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 501
مصالح العرب.....جلد اول بلا دعر بیہ میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد 204 3 اپریل 1931ء میں مولانا شمس صاحب نے کبابیر میں ” جامع سیدنا محمود کی بنیاد رکھی جو بلاد عربیہ میں پہلی احمد یہ مسجد ہے.مسجد کی چھت ڈالنا باقی رہ گئی تھی کہ آپ واپسی کے لئے مصر روانہ ہو گئے.اس مسجد کی تعمیر میں کہا بیر کے سب احمدی مردوں عورتوں اور بچوں نے حصہ لیا.اس کے بارہ میں حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں : میں نے 14 شوال کو ایک مسجد بنانے کے لئے تحریک کی جسے دوستوں نے قبولیت بخشا.اسی وقت مشتر کہ زمین میں سے مسجد کے لئے قطعہ تجویز کیا گیا.مسجد کی عمارت کے لئے تین ہزار پتھروں کا اندازہ لگایا گیا جو اسی وقت دوستوں نے حصہ رسدی سے پیش کرنے کا وعدہ کی کیا.چنانچہ بہت سے پتھر تیار ہو چکے ہیں.معمار بھی انہی میں سے ہیں جو مفت تعمیر کا کام کریں گے.سیمنٹ اور لو ہے اور دروازوں وغیرہ کے لئے ستر پونڈز کا تخمینہ لگایا گیا جس کے لئے میں نے شام و حمص وغیرہ میں بعض دوستوں کو بذریعہ خطوط چندہ کے لئے تحریک کی...چنانچہ انہوں نے نہایت اخلاص و قربانی کا نمونہ دکھایا اور باوجود غریب ہونے کے اپنی استطاعت سے بڑھ کر چندہ دیا.بلا د عربیہ میں احمدی جماعت کی یہ پہلی مسجد ہوگی.اللہ تعالٰی اسے باعث نشر ہدایت بنائے.اور جیسا کہ یہ مسجد بلند جگہ پہاڑی پر ہوگی ویسے ہی اسے احمدیت کی اشاعت کے لئے ایک مضبوط چٹان کی طرح قرار دے.یہ مسجد 36 فٹ لمبی اور 30 فٹ چوڑی ہوگی.اور اس کے آگے صحن ہو گا.ایک برساتی کنواں بھی تیار کیا جائے گا.نیز احمدی مہمانوں کے لئے اس کے قریب ایک کمرہ بنانے کی بھی تجویز ہے.جس کمرہ میں پہلے نمازیں پڑھتے ہیں اس میں احمدی بچے تعلیم پائیں گے.(الفضل 3 2 اپریل 1931 ء صفحہ 2) کہا بیر میں ایک معمر معمر شخص الحاج عبد القادر نہایت مخلص احمدی ہیں باوجود یکہ ان کی عمر 100 برس کے قریب ہے وہ تمام نمازیں باجماعت ادا کرتے ہیں.چند روز ہوئے مستری نے انہیں بقیہ قیمت 20 پونڈ دے دی تو وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے : ہم تو اب دنیا میں ایک دو روز کے مہمان ہیں اس لئے میری خواہش ہے کہ یہ روپیہ مسجد کی تعمیر میں خرچ کر دیا جائے.اور ہو سکے تو برساتی کنواں مسجد کے ساتھ تیار کیا جائے گا وہ میرے خرچ سے ہو.اس
205 مصالح العرب.....جلد اول کے لئے 13 پونڈز کا اندازہ لگایا گیا.انہوں نے 13 پونڈ ز نقد دے دیئے.ان کی بیوی جو ایک صالح عورت اور مخلص احمدی ہیں ان سے کہنے لگیں : میرا بھی ایک حصہ ہونا چاہئے.آخر یہ قرار پایا کہ 3 پونڈ زان کی طرف سے ہوں اور 10 پونڈ ز الحاج عبد القادر کی طرف سے.جماعت احمد یہ کبابیر الفضل 0 3 جولائی 1931 ء صفحہ 2) محترم نواز خان صاحب جو اس عرصہ میں قاہرہ میں مقیم تھے انہوں نے اپنے ایک نوٹ میں جماعت کہا بیر کے بارہ میں لکھا: مولوی صاحب مجھے جماعت کہا بیر سے ملانے کے لئے لے گئے.جب ہم گاؤں کے قریب پہنچے تو بعض لڑکوں نے مولوی صاحب کو پہچان لیا اور دوڑ کر گاؤں کے لوگوں کو خبر کر دی، جس سے احمدی احباب ہمارے استقبال کے لئے گاؤں سے باہر آگئے.یہ لوگ اس قدر جوش مسرت سے ملتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا مدت سے بچھڑے ہوئے عزیزوں سے مل رہے ہیں.ان میں سے بعض سو سو سال کے بوڑھے بھی تھے.انہیں میں نے دیکھا جب وہ معانقہ کرتے تھے تو فرط محبت سے زار زار روتے تھے.ان کے اس عاشقانہ جوش و اخلاص نے ہمیں بھی رُلا دیا.فی الحقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ایک زبر دست معجزہ تھا کہ اس قدر دور کے ملک میں پہاڑ کی چوٹی پر بسنے والی قوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لاتی ہے اور اخلاص و محبت میں اس قدر ترقی کر جاتی ہے کہ دیار محبوب کے رہنے والے ایک احمدی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتی ہے.اس وقت کا یہ نظارہ اس قدر دلکش تھا جو مجھے ساری عمر نہیں بھولے گا.اس گاؤں کے احمدیوں کی مجموعی تعداد سو سے زائد ہے جن میں بعض عالم اور بعض شاعر بھی ہیں.ہر وقت ہمارے پاس احباب بیٹھے رہتے ہیں.نماز کے وقت بہت سے احباب اپنا کام چھوڑ کر آ جاتے اور چھوٹی سی مسجد بھر جاتی تھی.الفضل 11 دسمبر 1930 ، صفحہ 6) حضرت شمس صاحب کی بلاد عر بیہ سے کامیاب واپسی 13 /اگست 1931ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حکم سے مولانا ابو العطاء صاحب
مصالح العرب.....جلد اول 206 قادیان سے روانہ ہو کر 4 ستمبر 1931ء کو حیفا پہنچے.مولانا شمس صاحب نے آپ کو مشن کا چارج دیا اور 30 ستمبر 1931ء کو صبح آٹھ بجے مولوی صاحب حیفا سے مصر کے لئے روانہ ہوئے اور 20 دسمبر 1931ء کو قادیان مراجعت پذیر ہوئے.جہاں حضرت خلیفہ اسیح الثانی بنفس نفیس اپنے خادم کی عزت افزائی کے لئے ریلوے سٹیشن پر تشریف لے گئے.یوں ایک ہت مختصر لیکن تاریخ احمدیت کا ایک نہایت بھر پور اور نا قابل فراموش باب ختم ہوا.آپ کے زمانہ قیام میں حیفا اور طیرہ میں دو مستقل جماعتیں قائم ہوئیں اور بلاد عر بیہ کے اہم مقامات مثلاً بغداد، موصل، بیروت، حمص حماه، لاذقیہ اور عمان وغیرہ میں تبلیغی خطوط کے ذریعہ پیغام احمدیت پہنچا.شام و فلسطین میں آپ کی مندرجہ ذیل کتابیں شائع ہوئیں:.أعجب الأعاجيب فى نفى الأناجيل لموت المسيح على الصليبـ البرهان الصريح فى إبطال ألوهية المسيح - الهدية السنيّة لفئة المبشرة المسيحية حكمة الصيام ميزان الأقوال توضيح المرام في الرد على علماء حمص و طرابلس الشام - دليل المسلمين فى الرد على فتاوى المفتين مجلة البشری مارچ 1936 ء صفحہ 3 1 ، تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 526-527) مولانا جلال الدین صاحب شمس اس وقت کہا بیر سے گئے جب کہ آپ نے شام فلسطین اور مصر میں جماعت قائم کر لی تھی.اور متعدد قیمتی کتب تصنیف فرما ئیں.پھر دوسری دفعہ آپ حیفا اس وقت تشریف لائے جب آپ برطانیہ سے کامیابی کے ساتھ اپنا کام مکمل کر کے واپس قادیان جارہے تھے تو راستہ میں دمشق اور فلسطین سے ہو کر گئے.اس وقت آپ دمشق سے منیر اکھنی صاحب کو بھی ساتھ لے آئے تھے اور پھر ان کو قادیان بھی ساتھ ہی لے کر گئے.آپ نے حیفا میں وہ مسجد دیکھی جس کا سنگ بنیاد آپ نے خود رکھا تھا اور آپ کے اعزاز میں کئی پارٹیاں ہوئیں اور نظم و نثر میں آپ کی تعریف میں بہت کچھ کہا گیا.حضرت مولانا شمس صاحب کی مساعی ایک جائزہ حضرت مولانا شمس صاحب لکھتے ہیں:
مصالح العرب.....جلد اول 207 حتی المقدور جماعت کو احمدیت کے رنگ میں رنگین کرنے کے لئے پوری کوشش کی جاتی ہے اور خصوصیات جماعت سے آگاہ کیا جاتا ہے.“ مولانا جلال الدین شمس صاحب کے بلاد عربیہ میں قیام اور آپ کے عظیم الشان کاموں کے تذکرہ پر اطلاع پانے سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مولانا صاحب نے کئی اصولوں کو سامنے رکھ کر کام کیا.چند ایک خلاصہ یہاں ذکر کئے جاتے ہیں جو کہ مبلغین کرام کے لئے مشعل راہ ہیں.1 مخلص اور با اثر لیکن نیک وصالح افراد کو چن کر تبلیغ کرنا اور بالآخر خدا داد علم ، اعلیٰ خلاق اور بہترین نمونہ سے انہیں گرویدہ کر لینا.2.ہر جگہ جماعت قادیان کا رنگ پیدا کرنے کی کوشش کرنا.کیونکہ جماعت کا وہی اصل مزاج ہے جس کو ہر جگہ رائج کرنے کی ضرورت ہے.جس میں درس و تدریس کا سلسلہ، جماعتی انتظامی ڈھانچہ کا فوری قیام وغیرہ شامل ہیں.3.شروع سے ہی جماعت کے افراد میں چندہ دینے کی عادت پیدا کر دینا.4.مسجد بنانے کی کوشش.انہوں نے بلا د عربیہ میں جو مسجد بنائی وہ آج تک بلاد عربیہ میں اکیلی مسجد ہے.5.قادیان کی طرح ہر جگہ مدرسہ احمدیہ کی طرز پر مدرسہ کا اجراء کرنا جس میں دینی تعلیم دی جائے.6.اپنی مساعی کی باقاعدہ رپورٹ نہ صرف خلیفہ وقت کی خدمت میں لکھتے رہنا بلکہ اس کو جماعت کے جرائد ومجلات میں چھپواتے بھی رہنا تا کہ تاریخ میں محفوظ ہو جائے اور آئندہ نسلیں استفادہ کر سکیں.7.علاقے کی بڑی معروف اور معزز شخصیات تک رسائی اور ان کو تبلیغ کرنا اور انہیں تقاریب میں بلا کر جماعت کی تعلیم سے آگاہ کرنا.8.اور سب سے بڑی اور اہم بات یہ کہ ہر احمدی کا مرکز کے ساتھ رابطہ اور مضبوط رشتہ بنادینا تا کہ ہر فر د جماعت عالمی مرکزیت کا حصہ بن سکے.
مصالح العرب.....جلد اول 208 شاہزادہ فیصل کو مسجد فضل لندن کے افتتاح کی دعوت چند صفحات قبل مولانا شمس صاحب کے مصری جریدہ میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں مسجد فضل لندن کی افتتاحی تقریب میں شاہزادہ فیصل کی شرکت کے بارہ میں کچھ وضاحت آئی تھی.قارئین کرام کو اشتیاق ہوگا کہ اس پورے قصہ کی تفاصیل سے آگاہی حاصل کریں.گو کہ اس کے بعض حصے 1939 ء کے ہیں لیکن چونکہ تمام واقعات کا مسجد فضل لندن اور مولانا شمس صاحب سے براہ راست تعلق ہے اس لئے ہم قارئین کرام کے لئے انہیں یہیں پر ہی یکجائی صورت میں درج کر دیتے ہیں.جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے 1924 ء میں اپنے سفر ولایت کے دوران مسجد فضل لندن کی بنیاد رکھی مگر چونکہ اس وقت بعض ضروری سامان مہیا نہیں ہو سکے تھے اس لئے مسجد کی بقیہ تعمیر کچھ عرصہ تک ملتوی رہی.بالآ خر 1925ء میں اس کا کام شروع کیا گیا اور 1926ء میں یہ خدا کا گھر اپنی تکمیل کو پہنچا.اس وقت حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم اے لندن کے دار التبلیغ کے انچارج تھے.درد صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ہدایت کے ماتحت عراق کے بادشاہ فیصل سے درخواست کی کہ وہ اپنے لڑکے زید کو اجازت دیں کہ وہ ہماری مسجد کا افتتاح کریں اور جب اس کے جلد بعد شاہ عراق خود یورپ گئے تو ان سے تحریک کی گئی کہ اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ خود مسجد کے افتتاح کے لئے تشریف لائیں.مگر انہوں نے اس درخواست کو ٹال دیا.اس کے بعد سلطان ابن سعود بادشاہ حجاز کی خدمت میں تار دی گئی کہ وہ اپنے کسی صاحبزادہ کو اس کام کے لئے مقرر فرمائیں اور انہوں نے
209 مصالح العرب.....جلد اول تار کے ذریعہ اس درخواست کو منظور کیا اور اپنے ایک فرزند شاہزادہ فیصل کو اس غرض کے لئے ولایت روانہ کر دیا.جب شاہزادہ موصوف لندن پہنچے تو درد صاحب کے انتظام کے ماتحت ان کا نہایت شاندار استقبال کیا گیا.اور اخباروں میں دھوم مچ گئی کہ وہ مسجد فضل لندن کے افتتاح کے لئے تشریف لائے ہیں.مگر اس کے بعد ایسے پُر اسرار حالات پیدا ہونے لگے کہ شاہزادہ فیصل بر ملا انکار کرنے کے بغیر پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے اور گو آخر وقت تک انہوں نے انکار نہیں کیا مگر عملاً تشریف بھی نہیں لائے.ان کے تامل کو دیکھ کر درد صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے بذریعہ تارا جازت لے لی کہ اگر شہزداہ فیصل نہ آئیں تو خان بہادر شیخ عبد القادر صاحب مسجد کا افتتاح کردیں.چنانچہ جب فیصل صاحب نہ پہنچے تو درد صاحب نے مسجد کا افتتاح خان بہادر سر عبد القادر صاحب کے ذریعہ کروا لیا جو ان دنوں لیگ آف نیشنز کے اجلاس میں شرکت کے لئے ہندوستان کے نمائندہ کی حیثیت سے ولایت آئے ہوئے تھے.مگر شاہزادہ فیصل کی آمد آمد کا ولایت کے اخباروں میں اس قدر کثرت کے ساتھ چرچا ہو چکا تھا کہ لوگوں نے ان کے نہ آنے کو بہت اچنبھا سمجھا اور واقف کار لوگ تاڑ گئے کہ اس عملی انکار کے پیچھے اصل راز کیا مخفی ہے.وہ راز یہ تھا کہ بعض مسلم اور غیر مسلم حلقوں نے اس بات کو دیکھ کر کہ جماعت احمد یہ زیادہ اہمیت اختیار کر رہی ہے سلطان ابن سعود کو بہکا دیا تھا کہ ان کے صاحبزادہ صاحب مسجد احمدیہ کی افتتاحی رسم سے مجتنب رہیں.اور ان کے دل میں یہ خیال بھی پیدا کر دیا گیا کی تھا کہ چونکہ مسلمان علماء کا ایک معتد بہ حصہ جماعت احمدیہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتا ہے اس لئے مسجد احمدیہ کے افتتاح میں شاہزادہ فیصل کی شرکت سے اسلامی ممالک میں سلطان کے متعلق بُرا اثر پیدا ہوگا.بہر حال خواہ اصل وجہ کچھ بھی ہو شاہزادہ فیصل کی شرکت سے جو فائدہ جماعت احمدیہ کو حاصل ہو سکتا تھا وہ پھر بھی ہو گیا.اور وہ یہ کہ ولایت کے اخباروں میں نہایت کثرت کے ساتھ مسجد احمد یہ اور جماعت احمدیہ کی شہرت ہو گئی.بلکہ ابتدائی اقرار اور بعد کے انکار نے اس شہرت کو اور بھی نمایاں کر دیا.مگر خود شاہزادہ موصوف کی یہ بدقسمتی ضرور ہے کہ انہوں نے ایک اہم دینی خدمت سے جس کی یاد دنیا میں قیامت تک رہنے والی تھی اپنے آپ کو محروم کر دیا.(ماخوذ از سلسلہ احمدیہ صفحہ 380-382)
مصالح العرب.....جلد اول 210 افتتاح مسجد کی اہمیت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مسجد فضل کے افتتاح اور شاہزادہ فیصل کے اس میں شرکت نہ کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: افتتاح مسجد کا واقعہ اپنے اندر اس قدر اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اب دنیا کی کوئی تاریخ اس کو نہیں مٹا سکتی.اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ مقدر ہو چکا ہے کہ یہ مسجد ہمیشہ قائم رہے.اللہ تعالیٰ نے اس کی تعمیر کے لئے اور اس کی شہرت کے لئے ایسے سامان کر دیئے کہ جن سے اس کی اہمیت اس قدر بڑھ رہی ہے کہ حیرانی ہی ہوتی ہے.پہلے اللہ تعالیٰ نے اسے میرے ولایت جانے تک روکے رکھا.میرے وہاں جانے سے سلسلہ کی یکدم حیرت انگیز شہرت ہوگئی.کیونکہ ولایت کے لئے یہ عجیب بات تھی کہ ایک نبی کا خلیفہ وہاں پہنچتا ہے.اس لئے ہر اخبار میں ہمارا تذکرہ متواتر ہوتا رہا اور کثرت کے ساتھ فوٹو چھپتے رہے حتی کہ ایک جرمن اخبار کے پورے صفحہ میں میرا فوٹو شائع ہوا.اسی طرح امریکہ میں بھی ہمارے متعلق خبریں شائع ہوئیں.چونکہ میرے وہاں جانے پر میرے ہاتھ سے مسجد کی بنیاد رکھی گئی تھی اس لئے پہلے بنیاد کے موقع پر بڑے بڑے وزیر ولا رڈ آئے.ان وجوہات کے باعث اب لوگوں کو یہ انتظار لگی ہوئی تھی کہ کب یہ مسجد مکمل ہو تو ہم دیکھیں.اور جب مکمل ہونے لگی تو شہرت کے اور کئی ایک قدرتی سامان پیدا ہونے شروع ہو گئے.مثلا ایک یہ بات شہرت کا باعث بن گئی کہ یہ تحریک کی کئی کہ ابن سعود کے لڑکے کو بلایا جائے.چنانچہ ابن سعود نے بھی اس تحریک کو پسند کیا اور اپنے لڑکے امیر فیصل کو جو مکہ کا گورنر ہے کو بھیجنے کا وعدہ کیا.اب امیر فیصل کے خاص افتتاح مسجد کے لئے آنے کی خبر سے اور بھی شہرت ہونے لگی.جب امیر فیصل ولایت پہنچا تو بیان کیا جاتا ہے کہ ہندوستان سے مولویوں نے تاریں دیں کہ یہ کیا کام کرنے لگے ہو؟ ہماری کیوں ناک کاٹنے لگے ہو؟ تمہاری اس حرکت سے ہماری ناکیں کٹ جائیں گی.اسی طرح مصر سے بھی ہمارے خلاف آوازیں اٹھیں.یہ تاریں دی گئیں اور اسے روک دیا گیا.اب اس کے روکنے پر سارے برطانیہ میں اور بھی شور پڑ گیا کہ روکنے کی کیا وجہ ہوئی.یہ کیا بات ہے کہ امیر فیصل مکہ سے چل کر جس کام کے لئے ولایت پہنچتا ہے اس کام سے اسے روکا جاتا ہے؟ کوئی خاص راز ہو گا ؟....مضمون پر مضمون نکلنے لگے کہ اس
211 مصالح العرب.....جلد اول میں راز کیا ہے.ان مضامین کا ہیڈنگ ہی یہ ہوتا تھا کہ راز کیا ہے.جب کئی روز تک کی بڑے زور سے آرٹیکل پر آرٹیکل نکلے کہ کیا بات ہے جس کی وجہ سے امیر فیصل یہاں پہنچ کر افتتاح مسجد سے رک گیا ہے تو وہاں لوگوں میں اور بھی ہیجان پیدا ہوا کہ چلو اس مسجد کو تو چل کر دیکھیں کہ جس کے افتتاح کے لئے امیر فیصل مکہ سے یہاں پہنچا اور یہاں آ کر اس کے افتتاح سے رک گیا.دراصل یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی اس منشاء کے ماتحت ہوا کہ ہمارے سلسلہ کی شہرت بھی ہو جائے اور پھر احسان بھی کسی کا نہ ہو.“ (انوار العلوم جلد 9 ص 415 تا 416 ) نیز فرمایا: آج مسجد لندن کے متعلق ایک اور شہادت ملی ہے کہ ولایت کے ایک بڑے آدمی نے لکھا ہے کہ ابن سعود نے ایک نادر موقع ہاتھ سے کھو دیا.اس کے لئے موقع تھا کہ وہ یہ دکھا تا کہ اس کا تعلق اس جماعت سے ہے جو اسلام کو خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتی ہے.“ (انوار العلوم جلد 9 ص 444 ).شاہزادہ فیصل کی مسجد فضل لندن میں آمد ماہ فروری 1939 ء میں برطانوی حکومت نے قضیہ فلسطین کے کسی مناسب حل کی تلاش کے لئے لندن میں عرب ممالک کی ایک کا نفرنس منعقد کی جس میں فلسطین ، عراق ، یمن ، سعودی عرب، مصر، شام، اردن وغیرہ کے نمائندوں نے شرکت کی.جماعت احمد یہ یہودیوں کے مقابل پر ہمیشہ عربوں کا ساتھ دیتی رہی ہے.چنانچہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس جو ان دنوں میں مبلغ سلسلہ احمدیہ انگلستان کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے تھے ) نے اس موقعہ پر مسجد فضل لندن میں عرب ممالک کے تمام نمائندوں کے اعزاز میں ایک پارٹی دی جس میں ولی عہد امیر فیصل، حکومت سعودی عرب کے نمائندہ الشیخ ابراہیم سلیمان رئیس النيابة العامۃ اور الشیخ الحافظ وھبہ سفیر سعودی اور فلسطین کے نمائندگان عون بک الہادی ، القاضی علی العمری ، اور القاضی محمد الشامی وغیرہ مندوبین کے علاوہ مختلف ممالک کے سفراء ، لندن شہر کے اکابر ، ممبران پالیمنٹ اور کئی ایک جرنیل اور دوصد کے قریب دیگر بڑے اہل منصب انگریز شامل ہوئے.
مصالح العرب.....جلد اول 212 اس دعوت کے حالات کا بیان مکرم مولا نا محمد صدیق صاحب امرتسری ” مؤلف روح پرور یادیں کی زبانی ذیل میں درج کیا جاتا ہے.خاکسار اس زمانہ میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے ساتھ بطور نائب امام مسجد متعین تھا.اس تقریب کے موقعہ پر محترم کرنل عطاء اللہ صاحب مرحوم آف لاہور، محترم میر عبد السلام صاحب مرحوم آف سیالکوٹ اور خاکسار احمد یہ دار التبلیغ سے باہر گیٹ پر معزز مہمانوں کے استقبال کے لئے مامور تھے.شاہ فیصل اور ان کے ساتھیوں کی آمد پر مولا نائٹس صاحب خود بھی ان کے خیر مقدم کے لئے آگئے.اور دیگر مہمانوں کے تشریف لے آنے تک انہیں کچھ دیر کے لئے احمد یہ دار التبلیغ کے ڈرائنگ روم میں ہی بٹھایا گیا.چونکہ مولانا شمس صاحب اور خاکسار کے علاوہ ان کے ساتھ عربی میں گفتگو کرنے والا اس وقت وہاں اور کوئی موجود نہیں تھا اسلئے دوران کا نفرنس خاکساران کے ساتھ رہا اور حضرت مولانا صاحب دیگر امور میں مصروف رہے.کانفرنس کے افتتاح سے پہلے حضرت شمس صاحب نے انہیں مسجد دیکھنے کی دعوت دی.چنانچہ مع تمام مہمانان شاہ فیصل نے مسجد فضل دیکھی اور اندر محراب کے قریب چند منٹ کھڑے رہ کر حضرت شمس صاحب سے مسجد کے حالات سنتے رہے اور کہنے لگے.میں تو سمجھ رہا تھا کہ چھوٹی سی مسجد ہوگی.یہ تو خاصی بڑی مسجد ہے.غالباً آپ نے بعد میں اس کی توسیع کی ہے.مولانا شمس صاحب نے بتایا کہ نہیں یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابتدا ہی سے بڑی بنائی گئی ہے.دیگر نمائندگان اور مہمان بھی مسجد اور دار التبلیغ دیکھ کر بہت خوش ہوئے.اس موقع پر حضرت مولانا شمس صاحب نے شاہ فیصل کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت مطلع کرتے ہوئے حضور کی کتاب من الرحمن اور التبلیغ اور بعض دیگر عربی کتب خوبصورت جلدوں میں بطور ہد یہ پیش کیں اور فرمایا: بارك الله في مساعيكم کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر دو انگریز نو مسلموں مسٹر بلال محل اور عبد الرحمن ہارڈی نے تلاوت کی جس کے بعد حضرت مولانا صاحب نے عربی میں خیر مقدم ایڈریس پیش کیا.ایڈریس کے آغاز میں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا عرب مندوبین کے نام مندرجہ ذیل پیغام پڑھ کر سنایا گیا: میری طرف سے ہر رائل ہائینیس امیر فیصل اور فلسطین کانفرنس کے دیگر نمائندگان کو خوش
66 213 مصالح العرب.....جلد اول آمدید کہیں اور یقین دلائیں کہ جماعت احمد یہ پوری طرح ان کے ساتھ ہے اور دعا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کامیابی عطا کرے اور تمام عرب ممالک کو کامیابی کی راہ پر چلائے اور ان کو عالم اسلامی کی لیڈرشپ عطا کرے، وہ لیڈرشپ جو ان کو اسلام کی پہلی صدیوں میں حاصل تھی.“ اس کے علاوہ حضرت مولانا شمس صاحب نے جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے برطانوی مد برین کو کھلے الفاظ میں بتایا کہ عربوں کے مطالبات پورے کئے جائیں.نیز آپ نے عربوں کی کامیابی اور امت مسلمہ کی بہتری اور بہبودی کے لئے مزید دعائیں کیں اور عربوں کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا.اس کے بعد سعودی عرب کے حافظ وھبہ نے شاہ فیصل کی طرف سے جوابی تقریر کی جس میں شکریہ کے علاوہ پورے عالم اسلامی کی یگانگت اور اتحاد پر زور دیا.رخصت ہونے سے پہلے شاہ فیصل اور دیگر عرب نمائندگان سے تمام انگریز نو مسلموں کا تعارف کرایا گیا اور ایک نومسلم مسٹر عبد الرحمن ہارڈی کی ساڑھے تین سالہ بچی نے انہیں کلمہ شریف لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ اپنے مخصوص اور معصومانہ لہجہ میں کئی بار سنایا اور بعض مہمانوں سے انعام حاصل کیا.شاہ فیصل نے روانگی سے قبل احمد یہ دار التبلیغ کی وزیٹنگ بک پر جواب تک لندن مشن میں موجود ہے اپنے قلم سے ذیل کے الفاظ لکھے: لإثبات عنديتى وشكرى لحضرة الإمام وإعجابي بذكائه اپنے مؤقف کے اثبات کے لئے اور محترم امام صاحب کے شکریہ نیز امام صاحب کی فہم 66 وذکاء پر خوشی کے اظہار کے لئے.“ ( روح پرور یادیں صفحہ 188 تا 191.لاہور 1980ء ، مجلۃ البشری شماره صفر 1385 ھ صفحہ 27 تا 34 ) 1944ء میں شاہ فیصل اور شاہ خالد برطانیہ تشریف لائے اور ایک ہوٹل میں ریسیپشن دی جس میں مولوی صاحب بھی شریک ہوئے اور یوں ان سے ایک دفعہ پھر ملاقات ہوئی.ملخص از الفضل 4/فروری 1944ء) 00000
مکرم منیر الحصنی صاحب اور مولانا جلال الدین شمس صاحب دمشق اور حمص کے بعض افراد جماعت کی مکرم منیر الحصنی صاحب اور مولانا جلال الدین شمس صاحب کے ساتھ ایک یادگار تصویر
MASHZAN -- TAGAWTER 2007 مولا نا عبد الرحیم در د صاحب شہزادہ فیصل اور انکے وفد کا پیڈنگٹن ریلوے سٹیشن (لندن) پر 1924 میں استقبال کرتے ہوئے......MAKHZAN-E- TASAWEER©2009 مولانا جلال الدین شمس صاحب 1939 میں شہزادہ فیصل کو مسجد فضل لندن خوش آمدید کہتے ہوئے
شہزادہ فیصل مسجد فضل لندن میں MAKHZANE TASAWEER©2007
انگریزی اخبار کا تراشه جس میں 1924 میں شہزادہ فیصل کی مسجد فضل کے افتتاح کے لئے آمد کی خبر نشر ہوئی.London's First Moslem Mosque THE VICEROY OF MECCA COMES TO TOWN PRINCI ADAL, O is NO IS LONDOR of the K Huber and Shed of the Helps Satta of N Ha Kant a team اول جامع اسلامی ق لمن وذلك ينتم با بدنه ساین ورى الى E THE FRO MINNIN LAMAN طائف الصورة في ١٨ أكتوبر سنة ١٩٢٦ - المين الشيخ امام الجامعي أما الجامع من بجوار عطلة سوانيلي في ضواحي التمن وقه في بأموال السلامية صرفة، وحضر الاحتفال به مراجه ردوان الهندي وذل من خطبة انه وان لم يكن مسلماً شعر بأن حضور افتتاح الجامع واجب عليه وا راز له هذا الجامع الذي ترى صورة إلى اليسار أول جامع إني في لندن المسلمين وتاني بالع في انجلترا، والأول جامع رو کنج الى منذ بضع سنين في ووكنج على أميال قليلة من لندن وقد انشأ عدا الجامع المقشر طوب الأباير و فرد هم من ذلك ايجاد مركز الاسلام في الامبراطورية البريطانية وندر بيد المسلمين في انجلترا بنحو la خص من الانجليز الدين الحلوا يام الطريقة الحمية المالية الملتح في التمان يوم ١٣ آثاريد احتمال حامل مراد الله كلمات القيادة فوق الباب کے ة الاسكندرة في الاسرع كي وقد فين بشان المصابيح الاسلام و من المسلمين الذين لم شمال في انجلترا.والذين بنوا جامع سويلم يقتمون على البطريقة الاحمدية النسبة إلى احد المسلم البنجابي اعلام العربية والبرمجية لها الف جلالة الملك في أدمى منذ ٣٠ سنة نزول الالمام عليه، واعتقد هذه العائلة أن أرواح السيح ومحمد وبرنا وكريشنا حلت في الرميم احد.وقدرات ملائمة في المدن ان ليس فيها من ثم يناسب شأن المسلمين في العالم اجمعت قبل الحرب والأمن عظماء السفين البناء جامع كي واستأنفت - ا الآن وتشرع بعد سنوات في بناء جامع يكون غاية في الابية اخبار الطائف المصورة“ کا تراشہ جس میں ذکر ہے کہ مسجد فضل لندن کا افتتاح ہندوستان کے ایک وزیر شیخ عبد القادر صاحب نے کیا.
مصالح العرب.....جلد اول 214 مقامات مقدسہ پر گولہ باری اور جماعت احمدیہ کا کلمہ حق ہندوستان میں یہ دلخراش خبر پہنچی کہ محمد بن عبد الوہاب کے معتقدین کی گولہ باری سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کے گنبد کو نقصان پہنچا جس سے گنبد میں دراڑیں پڑ گئی ہیں.مسلم کونسل کے صدر اعلیٰ کی طرف سے تار آیا کہ صحیح خبر یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر پر گولہ باری نہیں کی گئی البتہ اس کے گنبد پر گولیاں لگی ہیں.اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے 4 ستمبر 1925 ء کو رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ”یہ تو مانا نہیں جا سکتا کہ نجدیوں نے جان بوجھ کر روضہ مبارک ، مسجد نبوی اور دیگر مقامات مقدسہ پر گولے مارے ہوں گے، کیونکہ آخر وہ بھی مسلمان کہلاتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں، اور آپ کی عزت و توقیر کا بھی دم بھرتے ہیں.لیکن باوجود ان سب باتوں کے جو کچھ ہوا ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ گو انہوں نے دیدہ دانستہ مقامات مقدسہ کو نقصان نہ پہنچایا ہومگر ان کی بے احتیاطی سے نقصان ضرور پہنچا گومیں سمجھتا ہوں کہ قبے بنانے ناجائز ہیں مگر ہر جگہ نہیں بلکہ ضرورت کے وقت جائز ہیں.اگر ان سے مراد قبر کی حفاظت نہیں تو نا جائز ہیں مگر خواہ کچھ ہی ہو ان کا یہ کام نہیں کہ ان کو توڑیں.اس معاملہ میں ہم نجدیوں کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں کہ قبے بلا ضرورت بنانے ناجائز ہیں اور شرک میں داخل ہیں.لیکن اس معاملہ میں ہم ان کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے کہ ان کو توڑنا اور گرانا بھی د درست ہے...ہماری ان باتوں کو دیکھ کر
مصالح العرب.....جلد اول......215 نجدیوں کے حامی کہیں گے یہ بھی شریف علی کے آدمی ہیں.لیکن اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر کے متعلق آواز اٹھاتے ہوئے شریف کا آدمی چھوڑ کر شیطان کا آدمی بھی کہہ دیں تو کوئی حرج نہیں.ہم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر سب سے محبت رکھتے ہیں.یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام سے بھی اگر کوئی محبت رکھتے ہیں تو صرف اس لئے ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے.اور آپ کو جو کچھ حاصل ہوا اس غلامی کی وجہ سے حاصل ہوا.بے شک ہم قبوں کی یہ حالت دیکھ کر خاموش رہتے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عزت کی خاطر ہم آواز بلند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں.ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں جس سے ہم نجدیوں کے ہاتھ روک سکیں.ہاں ہمارے پاس سہام اللیل ہیں.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار مقدس اور مسجد نبوی کے دوسرے مقامات کو اس ہتھیار سے بچائیں.ہماری جماعت کے لوگ راتوں کو اٹھیں اور اس بادشاہوں کے بادشاہ کے آگے سر کو خاک پر رکھیں جو ہر قسم کی طاقتیں رکھتا ہے، اور عرض کریں کہ وہ ان مقامات کو اپنے فضل کے ساتھ بچائے.عمارتیں گرتی ہیں اور ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا ، لیکن ان عمارتوں کے ساتھ اسلام کی روایات وابستہ ہیں.پس ہمیں دن کو بھی رات کو بھی، سوتے بھی اور جاگتے بھی دعائیں کرنی چاہئیں کہ خدا تعالیٰ اپنی طاقتوں سے اور اپنی صفات کے ذریعہ سے ان کو محفوظ رکھے اور ہر قسم کے نقصان سے بچائے.“ ( خطبات محمود جلد 9 صفحہ 246 تا 258 - تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 545 تا 546) معاملات حجاز میں جماعت احمدیہ کا موقف مقامات مقدسہ کی بے حرمتی پر احتجاج کے کچھ عرصہ بعد ایک احمدی دوست نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں لکھا کہ بعض اہل حدیث اصحاب نے شکایت کی کہ توحید کے مسئلہ میں ہمارے عقائد ایک دوسرے سے ملتے ہیں.مگر ابن سعود کے معاملہ میں تم لوگ ہماری مخالفت اور حنفیوں کی تائید کرتے ہو.نیز دھمکی دی کہ آپ لوگ اپنا رویہ نہیں بدلیں گے تو خلافت کمیٹیاں جو اس وقت تک حضور کے لیکچروں کی مؤید ہورہی ہیں تائید کرنا چھوڑ دیں گی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس پر 27 نومبر 1925ء کو ایک مفصل خطبہ دیا جس میں معاملہ حجاز کی نسبت جماعت احمدیہ کے موقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
مصالح العرب.....جلد اول 216 ”میرے نزدیک کسی حکومت کے لئے جائز نہیں کہ وہ مذہبی معاملات میں زبر دستی کرے یا ز بر دستی کسی قوم کے قابل احترام مقامات کو گرائے یا ان پر قبضہ کرے.پس ہر ایک اسلامی حکومت کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ اپنے علاقہ کے مسلمانوں کی عبادت گاہوں یا قابل احترام مقامات کو گرا کر ملک میں فتنہ پیدا کرے.لیکن ہاں میرے نزدیک دو مقام ایسے ہیں جن میں اگر کوئی مشرکانہ فعل ہوتا ہے تو اسلامی حکومت کے لئے جائز ہے کہ جبر ا اس میں دست اندازی کرے اور ان مقامات کو اپنی حفاظت و نگرانی میں رکھے.ان مقامات مقدسہ میں سے ایک تو خانہ کعبہ ہے اور دوسرا مسجد نبوی...ایک اسلامی حکومت کا حق ہے کہ ان پر اپنا قبضہ رکھے..اور اس قبضہ کی غرض صرف حفاظت ہونی چاہئے نہ کہ ان کے استعمال میں کسی قسم کی مشکل پیدا کرنا.پس ان دونوں مقامات پر اسلامی حکومت کا قبضہ رہنا چاہئے جو یہ دیکھتی رہے کہ ان کی حفاظت کما حقہ ہو رہی ہے یا نہیں.اور ان میں کوئی فعل شریعت کے خلاف تو نہیں کیا جاتا.اگر کیا جاتا ہو تو اسے جبرا روک دے.مثلاً اگر خانہ کعبہ میں بت پرستی ہو یا قبریں پوجی جاتی ہوں اور اسی طرح مسجد نبوی میں کوئی مشرکانہ فعل ہوتا ہو، تو میں کہوں گا کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے.اور اس حکومت کا کہ جس کے قبضہ میں یہ دونوں مقام ہوں حق ہے کہ وہ لوگوں کو وہاں ایسا کرنے سے جبر ا روک دے.“ اس اصولی بات کے بعد حضور نے روضہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا کہ: پس میں پھر کہتا ہوں کہ کسی اعزاز کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر گنبد نہیں بنایا گیا بلکہ اس کی حفاظت کے لئے بنایا گیا ہے.اور اس غرض کے لئے بنایا گیا کہ تانی آپ کی قبر چھپی رہے.کسی اعزاز کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر گنبد کی محتاج نہیں.اعزاز اگر ہو سکتا ہے تو وہ بجائے خود ہے اور بیرونی کوشش سے نہیں ہوسکتا.پس اس کی کے لئے کسی گنبد کی یا کسی اور شئے کی ضرورت نہ تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب زندہ تھے اس وقت صحابہ آپ کی حفاظت کرتے تھے.پھر کوئی وجہ نہیں کہ آپ کی وفات کے بعد دشمنوں سے بچانے کے لئے آپ کے جسم مبارک کی حفاظت مسلمان نہ کریں.یہاں تو ایک گنبد کے لئے شور برپا ہے مگر میں کہتا ہوں حفاظت کے لئے اگر ایک سے زائد گنبد بھی بنانے پڑیں تو بنانے چاہئیں.آج کل ہوائی جہازوں اور توپ کے گولوں اور دیگر اسی قسم کی ایجادوں سے پل بھر میں ایک عالم کو تباہ کر دیا جا سکتا ہے.اس لئے آپ کی قبر کی حفاظت کا
217 مصالح العرب.....جلد اول سوال اور بھی اہم ہو گیا ہے.“ خطبہ کے آخر میں حضور نے اہلحدیث کو قیام توحید و استیصال شرک کے تعلق میں پورے پورے تعاون کا یقین دلاتے ہوئے اعلان فرمایا کہ: میں کہتا ہوں کہ شرک کو مٹاؤ.لیکن شرک کو مٹاتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات اور شعائر اللہ کونہ گراؤ.اور ان مقامات کو ملیا میٹ نہ کرو جن کو دیکھ کر ایک شخص کے دل میں تو حید کی لہر پیدا ہوتی ہے.پس وہ قوم جو اہلحدیث کہلاتی ہے اور جس کا بڑا دعویٰ شرک کی بیخ کنی ہے وہ بالضرور شرک کے مٹانے میں کوشش کرے، ہم اس کوشش میں اس کے ساتھ ہیں.لیکن ایسا کرتے ہوئے یہ نہ کرے کہ شعائر اللہ پر ہی کلہاڑا رکھ دے، یا ان مقامات کی بنیادوں میں ہی پانی پھیر دے جن سے روایات اسلامی وابستہ ہیں.“ خطبات محمود جلد 9 صفحہ 352 تا 371 ، تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 546 تا 548) XXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.....جلد اول 218 حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب کا حج حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ نے 1927ء میں لندن سے واپسی پر حج کی سعادت پائی اور یہ سال سلطان ابن سعود کی حکومت کا پہلا سال بھی تھا.حج کی سعادت کے بعد آپ نے نہایت دلچسپ داستان حج تحریر فرمائی جو کتاب الج“ کے نام سے شائع ہو چکی ہے.حضرت شیخ صاحب موصوف کا انداز تحریر سحر انگیز اور دل موہ لینے والا ہے.اور جب ان کی تحریر عشق و محبت کے عطر سے ممسوح ہو اور پھر وہ عشق و محبت سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کی ہو تو اس تحریر کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے.لہذا قارئین کرام کے ذوق طبع کے لئے اس کتاب سے چند اقتباسات یہاں نقل کئے جاتے ہیں جو عربوں میں تبلیغ احمدیت کا حصہ ہیں.حضرت خدیجہ کے مکان اور قبر کی بابت مشورہ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مکان اور آپ کی قبر کی شکستگی اور خستہ حالی کو دیکھ کر آپ کے منہ سے بے اختیار نکلا: اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل اور کرم ہوں تجھ پر اے ام المؤمنین خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا.ام المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے اس مکان کے سامنے کھڑے ہوئے میرے دماغ اور قلب میں ارتعاش تھا.میرے دل میں ایک تلاطم پیدا ہوا.میں نے کہا کہ کاش میں سلطان ابن سعود کی جگہ ہوتا تو اس مکان اور مزار پر ایک شاندار کتبہ نصب کرتا جس پر دنیا کی اس عظیم الشان خاتون ام المؤمنین کے کارناموں کا ایک مرقع ہوتا اور انکی قربانیوں کی تفصیل، تا کہ آنے والی نسلیں صرف احادیث اور تاریخ ہی سے اس کا علم نہ حاصل کرتیں بلکہ ہر آنے
مصالح العرب.....جلد اوّل 219 جانے والا پڑھ کر اپنا ایمان تازہ کرتا.کچھ شک نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پرستی سے اپنی امت کو ڈرایا تھا اور آخری وقت میں بھی آپ کو یہ خیال تھا.لیکن محض اس خوف سے ان مقدس ہستیوں کے نشانات گور تک مٹادینا میرے نقطۂ نظر سے نہایت ہی زبوں امر ہے.میں نے محسوس کیا کہ ان مزاروں پر انسان تعلق ا کے قلب میں ایک نور سکینت نازل ہوتی ہے.اللہ تعالی کے ملائکہ کا ان مقامات سے ایک تو ہوتا ہے اور انسان جب ان کے کارناموں پر ( جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں انہوں نے سرانجام دیئے ) غور کرتا ہے تو انسانی قوت عمل میں ایک تحریک ہوتی ہے اور وہ تحریک نیکی اور سعادت کی تحریک ہوتی ہے.یہی ثبوت ہے اس امر کا کہ ان مقامات سے ملائکہ کا تعلق ہوتا ہے.اب بھی ضرورت ہے کہ ان تمام قبور پر کتبے لگا دیئے جاویں.میں نہیں کہتا کہ ان پر قبے بنادیئے جائیں یا عظیم الشان عمارتیں تعمیر ہوں.اس خصوص میں میرا اپنا نقطہ نظر دوسرا ہے.اور میں مناسب احاطوں اور سامان حفاظت کو ضروری سمجھتا ہوں.لیکن اگر حکومت سعودی کا مذہبی تخیل اور ہو تو کم از کم ان قبور کے نشان قائم کر کے ان پر کتے لگوا دینے چاہئیں.مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی جائے پیدائش سرور دو عالم ) پر میں ایک روز اس مقام پر گیا جس کو لوگ کہتے ہیں کہ یہ مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اس جگہ کو بھی اس وقت (1927ء) میں ویران کر دیا گیا تھا پہلے جو عمارت تھی وہ گرادی گئی تھی.میں نے دیکھا کہ وہاں اونٹوں اور گدھوں کا اڈا ہے.اور اس مقام کی صفائی کا بھی چنداں خیال نہیں.ایک درخت تھا جو بہت ہی قریب زمانہ کا تھا.مگر میں نے دیکھا کہ بعض لوگ اس کی درخت کے ساتھ لپٹتے اور اظہار محبت اس تصور کے ساتھ کرتے کہ یہ اس مقام پر ہے جس کو ہمارے آقا اور محسن کی ولادت کا شرف حاصل ہے.میں نے حسرت کے ساتھ اس نظارہ کو دیکھا اور میں نے عزم کر لیا کہ سعودی حکومت سے اس کے متعلق گفتگو کروں گا.امیر فیصل سے ملاقات دوسرے دن میں اس وقت کے وزیر خارجہ ڈاکٹر عبد اللہ والوقی ( جن سے لندن میں میری ملاقات ہوئی تھی ملنے کے لئے گیا اور اس روحانی اذیت کا تذکرہ کیا.انہوں نے مجھ
مصالح العرب.....جلد اول 220 سے کہا کہ آپ امیر فیصل گورنر مکہ سے (جو سلطان ابن سعود کا صاحبزادہ ہے مل کر گفتگو کریں.امیر فیصل سے بھی مجھے لندن میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا ، اور وہاں ہی ان کا دفتر تھا چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے ملاقات کا انتظام کر دیا.اور اس میں ذرا بھی دیر نہ لگی.مجھے یہ بات حکومت سعودی کی بہت پسند آئی کہ وہاں ارکان دولت نہایت بے تکلفی اور سادگی.ملتے ہیں.ނ امیر فیصل نہایت اخلاق سے پیش آئے.اور انہوں نے قہوہ پیش کیا.رسمی گفتگو کے بعد اصل موضوع پر سلسلہ کلام شروع ہوا.میں نے ان کو جذباتی رنگ میں اپیل کی اور کہا کہ مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت رکھتے ہیں اس محبت کا تقاضا ہے کہ جن مقامات کو حضور کے نام سے نسبت ہے ان کی خرابی وہ برداشت نہیں کر سکتے.امیر فیصل نے مجھ سے یہ کہا کہ ان مقامات کو اس لئے پیوند زمین کر دیا گیا ہے کہ لوگ یہاں مشرکانہ حرکتیں کرتے تھے.میں نے کہا ان کا انسداد ان مقامات کے بقاء کے ساتھ دوسرے رنگ میں بھی ہوسکتا تھا.آخر آپ کے ہاں دوسرے اعمال غیر مشروع یا معصیت کے لئے سزائیں مقرر ہیں.میرے سلسلہ دلائل میں انہیں قوت معلوم ہوئی تو بالآخر انہوں نے کہا کہ دراصل یہ امر مشتبہ ہے کہ یہ مقام فی الواقعہ مولد النبی ہے بھی یا نہیں.اس پر میں نے کہا کہ : اس مقام کو زمانہ دراز سے مولد النبی قرار دیا گیا، اور صدیوں پیشتر سے لوگ اسے مولد النبی کہتے ہیں تو پھر یہ مشکوک کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ اگر یہ فرض کر لیا جاوے کہ مشکوک ہے تو آپ کا پہلا فرض یہ تھا کہ ایک کمیٹی تاریخ دان علماء کی مقرر کرتے اور وہ اصل مقام کی تحقیقات کرتی اور اسے محفوظ قرار دیتی.آج تو لوگ معمولی آثار قدیمہ کی تحقیقات میں بڑا وقت اور روپیہ صرف کرتے ہیں، اس مقام کے ساتھ تو ساری دنیا کے مسلمانوں کی کو عقیدت وابستہ ہے، گرانے میں جلدی کی گئی.امیر فیصل نے کہا: اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا.میں نے کہا : یہ عذر صحیح نہیں ہے.اس کا چارہ کار یہ تھا کہ حکومت اس مقام پر ایک شاندار عمارت تعمیر کرتی.اور روئے زمین کے مسلمان اس میں حصہ لیتے اور اس میں سیرۃ النبی کا ایک دفتر قائم کیا جاتا.دنیا کے تمام زبانوں میں سیرۃ النبی پر جو کتا ہیں لکھی گئی ہیں ان کی
221 مصالح العرب.....جلد اول متعدد جلدیں رکھی جاتیں.اور یہ مقام دار الحدیث ہوتا جہاں ہر وقت حدیث کا درس جاری رہتا.اس طرح پر جن بدعات یا مشرکانہ حرکات کا آپ کو خطرہ تھا وہ بھی باقی نہ رہتا.ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا جاتا اور لوگ حدیث سنا کرتے یا سیرت کی کتابیں پڑھتے.میری اس تجویز پر ان کے چہرہ پر مسرت کی ایک لہر آئی اور انہوں نے اسے بہت پسند کیا.اور کہا کہ میں حضرت امام سے ذکر کروں گا.( یہ لوگ ابن سعود کا جب ذکر کرتے ہیں تو حضرت امام سے کرتے ہیں.اس پر یہ انٹرویو ختم ہو گیا.سلطان ابن سعود کو احمدیت کی تبلیغ جلالۃ الملک سلطان ابن سعود سے مجھے تین مرتبہ ملنے کا موقع ملا.دو مرتبہ تو میرے ساتھ حضرت الحاج غیر صاحب مبلغ اسلام ( لندن و افریقہ تھے ) اور تیسری مرتبہ مجھے تنہا ان سے ملنے کا اتفاق ہوا اور یہ ملاقات بہت اہم تھی.مکہ معظمہ میں سلطان ابن سعود کے داخلہ کا پہلا سال تھا اور اہل حدیث کے بہت سے لوگ وہاں گئے ہوئے تھے.ان میں مولوی محمد اسماعیل سورتی صاحب تھے.میں ان سے قیام بمبئی کے ایام میں واقف اور بے تکلف تھا اور وہ مذہبا اہل حدیث تھے...مولوی اسماعیل صاحب کو مولوی اسماعیل غزنوی (جو سلطان کے خاص مقربین سے ہیں...سے نہیں معلوم کیوں کچھ رنجش تھی وہ ان کے اقتدار اور قرب کو دیکھ نہ سکتے تھے.غزنوی صاحب کے ننھیال سے خاکسار عرفانی کو ارادت وعقیدت تھی اس لئے وہ مجھ سے بھی محبت رکھتے تھے.سورتی صاحب کو یہ اچھا موقع ملا کہ میرے متعلق انہوں نے غزنوی صاحب کو الزام کے لئے ایک حیلہ پیدا کیا اور شکایت کی کہ غزنوی صاحب ان کو سلطان کے پاس لے گئے اور ان کی وجہ سے یہاں ایک فتنہ پیدا ہو جائے گا اور یہ ہو گا اور وہ ہوگا.سلطان میرے عقائد سے واقف تھے اور انہوں نے شیخ الاسلام عبد اللہ بن بالہید.استصواب کیا تھا کہ کیا میں ان سے ملوں ؟ یہ لوگ تو مبلغ ہوتے ہیں.شیخ الاسلام نے (خدا ان پر رحم کرے) نہایت صحیح مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے سلطان کو ضرور ملاقات کرنی چاہئے ، اور جو کچھ وہ کہیں سننا چاہئے.چنانچہ ہم کو موقع ملا اور ہم نے واضح الفاظ میں اپنے عقائد کو پیش کر دیا تھا.
مصالح العرب.....جلد اول سلطان ابن سعود سے ایک اور ملاقات اور اتمام حجت 222 میں نے سلطان سے ملاقات کا انتظام کیا.میں حاضر ہوا تو مندرجہ ذیل گفتگو سلطان سے ہوئی.عرفانی: جلالتہ الملک، آپ جانتے ہیں حرمین شریفین کی خدمت کا شرف آپ کو کیوں ملا؟ سلطان: ذلكَ فَضْل اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاء عرفانی: بے شک یہ فضل تو ہے ، مگر اللہ تعالیٰ کے فضل کے کچھ اسباب ہوتے ہیں.سلطان: میں کچھ نہیں جانتا.آپ کیا سمجھتے ہیں؟ عرفانی: شریف عون کے زمانہ میں آپ کے جد حج کے لئے آئے تھے مگر شریف عون نے اختلاف عقیدہ کی وجہ سے ان کو روک دیا تھا.اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی اس لئے شریف کے خاندان سے یہ شرف نکل گیا.اور آپ آل سعود کو دیا گیا.سلطان: مرحبا.عرفانی: میں نے یہ واقعہ آپ کو اس لئے یاد دلایا ہے کہ مکہ معظمہ روئے زمین کے مسلمانوں کا مرکز ہے.یہاں مختلف عقائد کے لوگ آئیں گے.اور آپ کے ساتھ بھی بعض کا اختلاف ہوگا.اگر محض عقائد کے اختلاف کی وجہ سے آپ کسی سے تعرض کریں گے تو یاد رکھیئے کہ خدا تعالیٰ آپ سے یہ خدمت چھین لے گا اور اس کو دے گا جو اختلاف عقائد کی وجہ سے کسی سے تعرض نہ کرے گا.میرے بیان کا ترجمہ توفیق شریف صاحب جو ان دنوں وزیر معارف تھے کرتے تھے.اور کچھ نہ کچھ میں خود بھی اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں بولتا تھا.سلطان یہ سن کر استغفار کرتے ہوئے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ میں انشاء اللہ کبھی ایسا نہیں کروں گا.اور ساتھ ہی کہا کہ آپ خود موجود ہیں آپ سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا.آپ کی شکایت ہوئی اس پر بھی ہم نے توجہ نہیں کی.اس پر میں نے کہا کہ اسی بات نے مجھے تحریک کی کہ میں یہ حق آپ کو پہنچا دوں.الحمد للہ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا.از کتاب الحج تالیف مولانا یعقوب علی عرفانی صفحہ 255 تا 278)
مصالح العرب.....جلد اول 223 شام کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ جنگ عظیم اول کے بعد شام پر فرانس نے قبضہ کر لیا.شامیوں نے یہ قبضہ ختم کرنے کا تہیہ کر لیا.چنانچہ 1925ء کے آخر میں لبنان کی ایک جنگ جو مسلمان پہاڑی قوم نے تحریک آزادی کا علم بلند کر دیا.شام کی فرانسیسی حکومت نے 57 گھنٹے تک اور بعض خبروں کے مطابق اس سے بھی زیادہ عرصہ تک دمشق پر گولہ باری کی جس سے یہ با رونق شہر تباہ و ویران ہو گیا اور ایسی تباہی آئی کہ تین ہزار سال سے ایسی تباہی اس شہر میں نہیں آئی تھی.ایسی تباہی کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ” بلائے دمشق میں بھی دی گئی تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے 13 نومبر 1925ء کو دمشق کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام اور اس عملی ظہور کی درد ناک تفصیلات سنانے کے بعد اہل شام کی تحریک آزادی کی تائید کرتے ہوئے فرمایا: دمیں اس اظہار سے بھی نہیں رک سکتا کہ دمشق میں ان لوگوں پر جو پہلے ہی بے کس اور بے بس تھے یہ بھاری ظلم کیا گیا ہے.ان لوگوں کی بے بسی اور بے بسی کا یہ حال ہے کہ باوجود اپنے ملک کے آپ مالک ہونے کے دوسروں کے محتاج بلکہ دست نگر ہے.میرے نزدیک شامیوں کا حق ہے کہ وہ آزادی حاصل کریں.ملک ان کا ہے حکمران بھی وہی ہونے چاہئیں.ان پر کسی اور کی حکومت نہیں ہونی چاہئے.کیا ان کی یہی حالت ہونی چاہئے کہ انہیں بالکل غلام بلکہ غلاموں سے بھی بدتر بنانے کی کوشش کی جائے.پس نہ انگریزوں کا اور نہ کسی اور سلطنت کا حق ہے کہ وہ شامیوں کے ملک پر حکومت کریں ، اور نہ ہی فرانسیسیوں کا حق ہے کہ وہ ملک پر جبڑا اقبضہ رکھیں.شامیوں نے اتحادیوں کی مدد کی اور انہیں فتح دلائی جس کا بدلہ یہ ملا کہ فرانسیسیوں نے ان کے ملک کو تباہ اور ان کے گھروں کو ویران کر دیا.اس سے زیادہ غداری کیا ت
مصالح العرب.....جلد اول 224 ہوسکتی ہے کہ جس نے ان کو فتح دلائی اسے ہی غلامی کا حلقہ پہنایا جاتا ہے....بجائے حسن سلوک کے ان پر ظلم کیا گیا.ان کی جانیں تباہ کی گئیں ، ان کا ملک ویران کیا گیا.ان کے مال برباد کئے گئے.پس وہ مظلوم ہیں.میں ان مظلوموں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہوں.میں ان لوگوں کے لئے بھی دعا کرتا ہوں جنہوں نے قوم کی حریت اور آزادی کے لئے کوشش کی اور اس کے لئے مارے گئے.پھر میں ان لوگوں کے لئے بھی دعا کرتا ہوں جو زندہ ہیں، اور اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ تباہی سے بچیں اور کامیاب ہوں.“ الحمد للہ کہ حضور کی یہ دعا جناب الہی میں قبول ہوئی اور بالآ خر فرانسیسی تسلط ختم ہوا اور ایک طویل جد و جہد کے بعد 16 ستمبر 1941ء کو شام میں مسلمانوں کی آزاد حکومت قائم ہوئی.( خطبات محمود جلد 9 صفحہ 324 تا 339 تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 548-549) حضرت مسیح ناصرتی کی ایک پیشگوئی کا پورا ہونا قادیان میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے زیر انتظام 29 / جنوری 1926 ء کو ایک منفرد جلسہ ہوا جس میں دنیا کی چوبیس زبانوں میں صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر تقریریں ہوئیں.اس میں عربی زبان میں تقریر حضرت شیخ محمود احمد عرفانی صاحب نے کی.ان تمام تقاریر کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تقریر فرمائی کہ حضرت مسیح ناصری کے متعلق آتا ہے کہ ان کے حواریوں کے متعلق پیشگوئی تھی کہ وہ غیر زبانوں میں تقریریں کریں گے.چنانچہ انہوں نے یہودیوں کے مختلف قبیلوں کی زبانوں میں ان کو تبلیغ کی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو یہ فضیلت حاصل ہوئی کہ اس میں غیر زبانیں بولنے والے پیدا ہو گئے.بے شک اب عیسائیت میں مختلف ممالک کے لوگ داخل ہیں مگر حضرت مسیح کے زمانہ میں اور پھر ان کے بعد تین سو سال تک تین چار ممالک میں ہی عیسائیت پھیلی تھی.پس یہ سب تقریریں اپنی ذات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی مستقل دلیل ہیں.ملخص از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 553-554)
مصالح العرب.....جلد اول 225 عراق ومصر میں تبلیغ اور شیخ محمود احمد عرفانی صاحب کی بعض یا دیں مکرم شیخ محمود احمد عرفانی صاحب نے اپنے ایک مضمون بعنوان "عالم اسلامی میں میرے آقا کے تذکرے" میں اپنی بعض یادداشتیں درج کی ہیں اس کا ایک حصہ ہم ذیل میں انہی کے قلم سے نقل کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ادنیٰ خادم شاہی دربار میں دسمبر 1929 ء میں میں بغداد میں تھا.اس وقت عراق کے تخت پر عالم اسلام کا مشہور مد بر اور بہادر بادشاہ فیصل حکمران تھا.فیصل کی زندگی اور اس کی تاریخ انقلابات کے صفحات سے پر ہے.وہ پتلا دبلا نحیف الجثہ انسان تھا.مگر اس کی نظر دور بین تھی.اور اس کا فکر نکتہ رس تھا.اس نے نہ صرف اپنی ذات میں انقلاب پیدا کیا.بلکہ عالم اسلامی میں وہ انقلاب پیدا کیا جس کی یاداب تاریخ سے مٹ نہیں سکتی وہ ایسا انسان تھا جس نے آن واحد میں شام کی سلطنت کھو کر عراق کی سلطنت حاصل کر لی اور اپنے تدبر سے ایک مردہ قوم کو زندہ قوموں کی صف میں لا کھڑا کردا.جنوری کا مہینہ تھا بغداد میں سخت سردی پڑ رہی تھی ہاتھ ٹھٹھر رہے تھے اور بارشیں بھی ہو رہی تھیں.بادشاہ نے مجھے باریابی کا موقع دیا.بادشاہ کا دیوان قصر سے دور تھا.اس دن سردی اور بارش اتنی تیز تھی کہ میں یقین کرتا تھا کہ آج بادشاہ اپنے ایوان میں نہیں آئیں گے 9 بجے میں دیوان پہنچا.معلوم کرنے سے معلوم ہوا کہ شاہ آٹھ بجے سے بھی پہلے آگئے تھے.مجھے
مصالح العرب.....جلد اول 226 حیرت ہوئی.نو بج کر چند منٹ پر مجھے طلب کر لیا گیا.شاہ کا کمرہ ایک بہت بڑا ہال تھا.جو ایرانی قالینوں سے مفروش تھا.شاہ دروازہ کے قریب چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر چہل رہے تھے.جونہی میرا سامنا ہوا بادشاہ کھڑے ہو گئے.میں نے سلام کیا.شاہ نے ہاتھ بڑھایا.میں نے مصافحہ کیا اور اس کے بعد مجھے ساتھ لے کر ہال کے صدر میں گئے اور مجھے بیٹھنے کا ارشاد فرمایا اور بیٹھ گئے.میں نے شاہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا:.میں مذہباً احمدی جماعت کا فرد ہوں جن کا اعتقاد ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام قادیانی اس زمانے میں مسیح موعود اور مہدی تھے.ہماری جماعت اس وقت دس لاکھ سے کچھ اوپر ہے.ہمارے افراد تمام دنیا میں پھیل گئے ہیں.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند اکبر حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ ثانی ہیں.ان کے زمانہ میں ہماری جماعت کو بڑی ترقی ہوئی.انہوں نے یورپ اور امریکہ کے سوا مشرق کے مختلف ملکوں میں سلسلہ کے مشن کھولے اور آپ نے جماعت کو پورے طور پر منظم کیا.حجاز کا انقلاب جب ہوا ہندوستان میں ایک زلزلہ رونما ہوا.سب مسلمان مخالفت کر رہے تھے.اس وقت صرف حضرت خلیفہ مسیح نے آواز اٹھائی کہ جیسے دیگر اقوام کو آزادی کا حق ہے ایسے ہی عربوں کو بھی حق ہے.عرب وہ ہیں جنہوں نے ساری دنیا کو تمدن اور علوم سکھلائے اور اسلام جیسا پاکیزہ مذہب بھی ہم کو ایک عرب ہی کے طفیل ملا.66 یہ سن کر بادشاہ مجھ سے یوں مخاطب ہوئے:.مجھے احمدی جماعت کا اچھی طرح علم ہے.میں مرزا احمد قادیانی کو دنیا کا بہت بڑا انسان سمجھتا ہوں.میں ان کی جماعت کے کام سے جو یورپ امریکہ میں ہورہا ہے واقف ہوں.اور میرے دل میں اس جماعت اور اس کے بانی کا بڑا احترام ہے اور عربی قضیہ میں جو امام جماعت احمدیہ قادیان نے کہا اس کے لئے میں اپنے اندر جذبہ امتنان پاتا ہوں“.دجلہ کے کنارے شیخ محمود احمد عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ : دجلہ کا کنارہ تھا.شاہ علی بن حسین جو حجاز کے بادشاہ تھے اپنے محل کے شہ نشین پر جو بالکل دجلہ کے پانی پر واقع تھا آرام کرسی پر تنہا بیٹھے ہوئے تھے اور دجلہ میں کشتیوں کی سیر دیکھ رہے
مصالح العرب.....جلد اول 227 تھے.صبح کا وقت تھا.سورج کی کرنیں دجلہ کے پانی میں پڑ کر عجیب سیمابی منظر پیدا کر رہی تھیں.ہوا میں ایسی خنکی تھی جو تازگی لئے ہوئے تھی.دجلہ کے کنارے اس وقت خاص رونق تھی.ملک علی اس پر لطف منظر کی سیر کر رہے تھے کہ خاکسار کو باریابی کا موقعہ ملا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر آیا.بادشاہ بغور سنتے رہے اور پھر کہا:.میں نے مرزا قادیانی کا ذکر پہلے بھی سنا ہے.میں ان کو اسلام کا بڑا خدمت گزار جانتاہوں.میرے خیال میں دعوے میں ان کو غلطی لگی ہے“.الحكم قادیان کا خاص نمبر.مورخہ 28-21 مئی 34 جلد 37 نمبر 19 18 صفحہ 4 قاہرہ سے اخبار ” اسلامی دنیا کا اجراء 1930 میں جناب شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے قاہرہ میں آنریری مبلغ کے فرائض انجام دینے کے علاوہ اسلامی دنیا کے نام سے ایک اخبار جاری کیا مسلمانوں کا باہمی تعارف اور انہیں ان کے مصائب ملی سے آگاہ کر کے اتحاد کی دعوت اس اخبار کی پالیسی تھی.اس کے دو ایڈیشن نکلتے تھے ایک اردو میں دوسرا عربی میں.یہ اخبار مصور تھا اور اردو دنیا میں اسلامی دنیا کی خبریں نہایت شرح وبسط سے شائع ہوتی تھیں.افسوس ہے کہ بعض ناگزیر مجبوریوں نے یہ اخبار زیادہ عرصہ تک جاری نہ رہنے دیا.اور اس کی اشاعت بند ہوگئی اور جناب عرفانی صاحب قاہرہ سے قادیان آگئے.احمد یہ مشن ایک سیاح کی نظر میں تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 242) مرزا اسلم بیگ صاحب سیاح بلاد اسلامیہ حیدر آباد دکن اس زمانہ میں سیاحت کر رہے تھے.مرزا صاحب کو مصر اور دوسرے احمدی مشنوں کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا.چنانچہ وہ لکھتے ہیں: دوسری مرتبہ 1930ء میں قاہرہ جانے کا اتفاق ہوا اور یہ میری خوش نصیبی تھی کہ عرفانی صاحب موجود تھے.اور ان کا مشن نہایت کامیابی سے اپنے کام میں لگا ہوا تھا.اور مجھے مشن کی کارگزاری پر مشن کے رسوخ پر، مبلغ کے خلوص پر غور کرنے کا بہت زیادہ موقع ملا.میں ان تاثرات کو لئے ہوئے فلسطین ، شام ، استنبول ، اور برلن وغیرہ گیا جہاں مجھے جماعت احمدیہ کی
228 مصالح العرب.....جلد اول تنظیم اور کوششوں کا ثبوت ملتا گیا.مجھے حقیقتاً نہایت صدق دل سے اس کا اعتراف ہے کہ میں نے ہر جگہ جماعت احمدیہ کے مبلغوں کی کوششوں کے نقوش دیکھے، ہر جگہ اسلامی روایات کے ساتھ تنظیم دیکھی ، ہر جگہ اس جماعت میں خلوص اور نیک نیتی پائی.جماعت احمدیہ میں سب سے بڑی خوبی اتحاد عمل اور امام جماعت احمدیہ کے احکام کی پابندی ہے.اس کے اراکین کہیں اور کسی حال میں شعار اسلام اور احکام اسلام کو نظر انداز نہیں کرتے.اور نہ اپنی اصل غرض.اور فرض سے انجان ہوتے ہیں.تقریروں، تحریروں یا ملاقاتوں میں ان کا نقطہ نظر ہوتا ہے.اور ނ وہ اشارہ کنایہ اپنا کام کئے جاتے ہیں.محنت برداشت کرتے ہیں.غیر مانوس اور غیر مشرب لوگوں میں رسوخ پیدا کر کے اپنے فرائض کی تعمیل کرتے ہیں.( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 242 ایک مصری عرب کے قبول احمدیت کی دلچسپ داستان غالبا اسی عرصہ کی بات ہے کہ ایک دوست مکرم حاجی عبد الکریم صاحب فوجی ملازمت کے سلسلہ میں مصر گئے.وہاں انہوں نے تبلیغ کا کام بھی جاری رکھا اور ایک دوست علی حسن صاحب احمدی ہو گئے.ان کو لے کر حاجی صاحب مختلف مصری عرب احباب کے پاس جاتے اور تبلیغ کرتے تھے.ان میں سے ایک دوست محکمہ تار میں کلرک تھے.کئی روز ان سے تبادلہ ہوتا رہا ، وہ تمام مسائل میں ان کے ساتھ متفق ہو گئے مگر امتی نبی ماننے پر تیار نہ تھے.انہوں نے اس کو الخطبة الإلهامية دیا اور پھر کئی دن اس کے پاس نہ گئے.ایک دن اس مصری دوست کا خط آیا جس میں اس نے حاجی صاحب کو کھانے پر بلایا تھا.وہاں پہنچنے پر اس نے کہا آپ میری بیعت کا خط لکھ دیں.حاجی صاحب نے پوچھا کہ کیا ختم نبوت کا مسئلہ حل ہو گیا ہے؟ اس پر اس دوست نے کہا کہ میں نے الازھر یونیورسٹی کے ایک بڑے عالم کو رات کے کھانے پر بلا یا تھا اور اسے بتایا کہ اس طرح مجھے بعض ہندوستانیوں نے تبلیغ کی ہے اور کہا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور آنے والا عیسی امت محمدیہ کا ہی ایک فرد ہے جو مسیح و مہدی ہو کر آئے گا.چنانچہ اس کے دعویدار حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہیں.مجھے ان لوگوں کے تمام دلائل سے اتفاق ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب امتی نبی ہیں اور یہ وہ بات ہے جس کو میں ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں.چونکہ آپ عالم دین ہیں آپ مجھے بتائیں کہ کیا میرا کی
مصالح العرب.....جلد اول موقف درست ہے یا نہیں؟ اس از ہری عالم نے جواب دیا: 229 میں نے مرزا صاحب کا لٹریچر پڑھا ہے اور بعض احمدیوں سے بھی ملا ہوں اور تبادلہ خیالات کیا ہے.جس قسم کی نبوت کا مرزا صاحب نے دعوی کیا ہے اگر اس قسم کے ہزار بھی نبی آجا ئیں تو ختم نبوت نہیں ٹوٹتی.اس پر میں نے کہا کہ دیکھو اب میں احمد یہ جماعت میں داخل ہو جاؤں گا اور قیامت والے دن تم اس کے ذمہ وار ہو گے.ازہری عالم کہنے لگے کہ میرا یہ جواب صرف یہاں ہی ہے.لیکن اگر پبلک میں سوال کرو گے تو میں یہی کہوں گا کہ امتی نبی بھی نہیں آ سکتا.ہاں اگر آپ جماعت احمدیہ میں شامل ہونا چاہیں تو بے شک میری ذمہ داری پر داخل ہو جائیں.جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے لئے بعض روکیں ہیں جن میں سے سب سے بڑی یہ ہے کہ اگر میں احمدی ہو جاؤں تو مجھے ملا زمت سے نکال دیا جائے گا.یہ مصری دوست کہتے ہیں کہ جب میں نے ازہری عالم سے یہ بات سنی تو فورا جماعت میں داخل ہونے کا مصمم ارداہ کر لیا، اور خطبہ الہامیہ پڑھنا شروع کر دیا اور ختم کر کے سویا.رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت سیدنا احمد اسیح علیہ السلام ایک کثیر جماعت کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے ہیں.میں نے دریافت کیا کہ حضور یہ کون لوگ ہیں اور انہیں آپ کہاں لے کے جار ہے ہیں.آپ نے فرمایا: یہ اولیاء اللہ ہیں جو امت محمدیہ میں مجھ سے پہلے ہوئے ہیں اور میں ان کو دربار رسول میں زیارت کے لئے لے کے جا رہا ہوں.میں خاتم الاولیاء ہوں میرے بعد کوئی ولی نہیں مگر میری جماعت میں سے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں مگر وہی جو امتی نبی ہو جیسے میں ہوں.جب میں بیدار ہوا تو میرے لئے مسئلہ ختم نبوت حل ہو چکا تھا اور میں بہت خوش تھا.حاجی عبد الکریم صاحب کہتے ہیں کہ میں نے ان کا یہ واقعہ اور بیعت فارم پر کروا کے قادیان روانہ کر دیا.(ماخوذ از برہان صداقت از مولانا عبد الرحمن مبشر صاحب صفحہ 9 تا 11 )
مصالح العرب.....جلد اول 230 حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی بلا دعر بیہ میں آمد ذیل میں مذکور اس دور کے بیشتر واقعات و تاریخی حالات حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی سوانح حیات حیات خالد" سے ماخوذ ہیں) حضرت مولانا ابو العطاء جالندھری صاحب 13 / اگست 1931ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور 4 ستمبر 1931ء کو حیفا ( فلسطین) پہنچے.آپ کی عمر اس وقت 27 سال تھی.ایک کامیاب مبلغ اور ہمہ جہتی مفکر کے طور پر آپ نے اس سفر کی تیاری میں سب سے پہلے سفر کے اہداف و مقاصد متعین فرمائے جو یہ تھے: (1) تبلیغ احمدیت واسلام.(2) عربی زبان کا سیکھنا.(3) نفس کی اصلاح اور مقام ولایت.(4) ملکی و تاریخی حالات کا مطالعہ.(5) حج کرنا.(6) حفظ قرآن پاک.اسی طرح اس زمانے میں ایک روایت یہ بھی تھی کہ جو مبلغ بیرون ممالک میں تبلیغ کی غرض سے بھیجے جاتے تھے ان کی اپنی خواہش و کوشش بھی ہوتی تھی اور سلسلہ کی طرف سے ہدایت بھی کہ وہ پرانے بزرگوں سے مل کر رہنمائی ،مشورے، اور دعائیں حاصل کریں.چنانچہ مولانا ابو العطاء صاحب نے بھی اپنے بعض بزرگوں سے ہدایات لیں.ان میں سے حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب نے عربی زبان میں نصائح لکھ کر دیں، جن میں سے ایک نصیحت یہاں فائدہ عام کے لئے لکھی جاتی ہے فرمایا: اس بات سے بچتے رہنا کہ تیرا نفس تجھے کہے کہ تو نے خوب کام کیا ، حالانکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا اور اسے بھی جو تم عمل کرتے ہو.پس یقینا جانو کہ یہ بات تمہارے
مصالح العرب.....جلد اول اعمال کی کھیتی کے لئے بگولا اور آگ ہے.قادیان سے حیفا تک 231 حضرت مولانا ابو العطاء صاحب اپنے ایک مضمون میں اپنے سفر کے بعض حالات کا تذکرہ فرمایا ہے اس کے ایک حصہ کا خلاصہ یہاں درج کیا جاتا ہے.فرماتے ہیں کہ: جہاز بصرہ جارہا تھا.قریبا چھ روز مختلف بندر گاہوں پر ٹھہرتا ہوا یہ جہاز بصرہ کی بندرگاہ پر پہنچا.وہاں بھی احمدی دوست موجود تھے وہاں سے بغداد کے لئے روانگی ہوئی جہاں محترم الحاج عبداللطیف صاحب مرحوم مشہور احمدی تاجر کے ہاں چند روز قیام رہا احباب جماعت اور دوسرے دوستوں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں.بغداد سے بذریعہ موٹر کار دمشق کے لئے روانہ ہوا.وہاں سے احباب کی ملاقات کے بعد بیروت پہنچا.وہاں سے حیفا پہنچا.آخر دس دن کے اس سفر کا خاتمہ بہت ہی خوش گوار صورت میں ہوا اور میں احمدیہ دار البلیغ بلا د عربیہ میں بخیریت پہنچ گیا.حضرت مولانا شمس صاحب کے ذریعہ کام کی نوعیت اور تفصیلات کا تعارف ہوا.آخر اگست 1931ء کو دار التبلیغ کا چارج لیا.اس پر محترم مولانا شمس صاحب مرحوم مصر سے ہوتے ہوئے قادیان کے لئے روانہ ہوئے.اس وقت بھی جذبات کا ایک خاص تلاطم تھا.فلسطین کے احمدی احباب نے بے مثال محبت سے تعاون فرمایا.امید افزا حالات مختلف مقامات پر حضرت مولانا کے قیام فلسطین ومصر وغیرہ کی کچھ شائع شدہ رپورٹیں ذیل میں پیش ہیں جو از یکم اپریل 1932 تا 31 مارچ 1933 کی ہیں.سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ -32-1933 صفحہ 151 تا 155 پر ذیل کی رپورٹ درج ہے: اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس سال بلا د عربیہ میں سلسلہ کے لئے نہایت امید افزا حالات پیدا ہوئے ہیں اور تبلیغ کے بہت سے نئے دروازے کھل گئے ہیں.اخبارات کی مخالفت یا تعریف سے ظاہر ہے کہ سلسلہ کی اہمیت کو محسوس کیا جارہا ہے.ہر طبقہ کے لوگوں میں
مصالح العرب.....جلد اول 232 سلسلہ احمدیہ کی خدمات کا اعتراف ہونا شروع ہو گیا ہے.شیخ العروبہ احمد ز کی باشا نے مولوی کی اللہ دتہ صاحب ( ابو العطاء) سے کہا کہ درحقیقت عیسائیت کی بڑھتی ہوئی رو کا مقابلہ صرف آپ کی جماعت ہی کر سکتی ہے.ایک غیر احمدی دوست نے کہا کہ آپ لوگوں کی بہترین تنظیم اور غیر معمولی جدو جہد کے پیش نظر میرا تو یہ خیال ہے کہ عنقریب دنیا کی حکومت احمدیوں کے قبضہ میں ہوگی.حالات کے امید افزا ہونے کا اس سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ علماء اور مشائخ کے طبقہ میں غیر معمولی ہیجان پایا جاتا ہے.مخالفانہ مضامین کے علاوہ قتل کے فتوے اور احمدیوں کو دکھ دینے کے منصوبے کئے جارہے ہیں.حکومتوں کو انکے خلاف بھڑکا یا جارہا ہے.یہ سب کچھ ہورہا ہے اور اس سے واضح ہے کہ دشمن احمدیت کی طاقت سے خوف کھا رہا ہے.نومبائعين اس سال 33 اشخاص داخل سلسلہ ہوئے ہیں (گزشتہ سال تعداد نو مبایعین 25 تھی ) ان نو مبایعین میں سے ایک بزرگ عالم ہیں جو اپنے سلسلہ میں پیشوا مانے جاتے تھے.ایک اخبار نویس ہیں.ایک دوست متعدد رسالوں کے مصنف ہیں.ایک کالج کے طالبعلم ہیں.بعض تاجر اور بعض زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں.دو مدرس اور ایک سرکاری ملازم ہیں.نئی جماعتیں 1- موضع ام الفحم میں نئی جماعت قائم ہوئی ہے.اس جماعت میں ایک اچھے مالدار دوست بھی شامل ہیں.2.اسی طرح موضع عارہ میں بھی نئی جماعت قائم ہوئی ہے اس جگہ کے مشہور عالم الشیخ محمد اللبدی داخل سلسلہ ہوئے ہیں.انفرادی تبلیغ اندازہ کیا گیا ہے کہ افراد جماعت اور دار التبلیغ کے ذریعہ دوران سال ڈیڑھ ہزار اشخاص کو فردا فردا تبلیغ کی گئی ہے.بعض معززین کے گھروں پر جا کر تبلیغ کی گئی.جناب علی
233 مصالح العرب.....جلد اول فاضل باشا مصری نے جو سوڈان میں فوج کے افسر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور علم دوست شخص ہیں ایک گھنٹہ کی گفتگو کے بعد کہا کہ مولوی صاحب نے مجھ کو نصف احمدی تو بنالیا ہے.اس سلسلہ میں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ امسال سلسلہ احمدیہ کے بدترین دشمنوں کو بھی ان کے گھروں پر جا کر پیغام حق پہنچایا گیا.جن میں سے شیخ رشید رضا ایڈیٹر المنار اور محب الدین الخطیب ایڈیٹر افتح خاص طور پر قابل ذکر ہیں.مصری پارلیمنٹ کے ایک ممبر کو تبلیغ کرنے کا بہترین موقع ملا اور وہ بہت اچھا اثر لے کر گئے.مناظرات دوران سال تقریبا 18 باقاعدہ مناظرات ہوئے ہیں.12 مسلمان علماء سے اور 6 پادریوں سے.علماء کے ساتھ وفات مسیح، نسخ فی القرآن، ختم نبوت اور صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر گفتگو ہوئی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر موقع پر کامیابی حاصل ہوئی.علمائے ازہر کے ایک گروہ سے ختم نبوت پر مباحثہ ہوا.ایک کے بعد دوسرا مناظر بدلا گیا مگر آخر انہیں اپنی عاجزی کا قولاً وفعلاً اعتراف کرنا پڑا اور غیر احمدی سامعین پر بھی بہت اچھا اثر ہوا.پادریوں سے فادر انستاس الکر ملی سے حیفا میں خاص طور پر قابل ذکر گفتگو ہوئی اور قاہرہ میں امریکن مشن کے انچارچ اور ڈاکٹر زویمر کے قائمقام ڈاکٹر فلپس (Philips) سے کفارہ کے موضوع پر چار ہفتے مناظرات ہوئے.ہر مناظرہ میں بفضل تعالیٰ خاص کامیابی حاصل ہوئی.مگر آخری مناظرہ بعنوان کیا یسوع مسیح صلیب پر نہیں مرا نہایت شاندار رہا.اللہ تعالیٰ نے مختصر وقت میں غیر معمولی تاثیر عطا فرمائی اس روز 70 اشخاص موجود تھے جن میں وکیل ، علماء اور نو تعلیم یافتہ اور کالجوں کے طلباء بھی تھے.عیسائیوں کی طرف سے پادری کامل منصور ، پادری فلپس اور پادری ایلڈر باری باری پیش ہوئے اور ہر ایک عاجز آ کر خاموش ہو جاتا رہا.دو گھنٹہ تک با قاعدہ مناظرہ ہوا اور دوست و دشمن نے محسوس کر لیا کہ فی الواقع حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسر صلیب کا جو طریقہ بیان فرمایا ہے وہ بالکل اچھوتا اور بے حد کامیاب ہے.اخیر پر ایک معزز غیر احمدی نے جو شیخ الازہر کا رشتہ دار ہے شاندار الفاظ میں احمدی مناظر کا شکر یہ ادا کیا اور ایک از ہری طالبعلم نے کہا: بخدا اگر سارے علمائے از ہر مل کر بھی ایسا مناظرہ کرنا چاہیں تو نہ کر سکیں.پادری کامل منصور نے جاتے وقت کہا کہ فی الواقع آپ نے عیسائیت کا ہم سے بھی -
مصالح العرب.....جلد اول بڑھ کر مطالعہ کیا ہے.234 اس مباحثہ کی پوری روداد فلسطین کے عربی رسالہ البشارۃ الاسلامیۃ الاحمدیہ میں مولانا ابو العطاء جالندھری صاحب نے شائع کی.عیسائی مشنری کر ملی سے گفتگو فلسطین کے ایک مشہور عیسائی مشنری کر ملی جو لغت عرب کے بڑے ماہر سمجھے جاتے اور علامہ کہلاتے ہیں ان کی حیفا میں مبلغ احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالند ہری سے چند نو جوانوں کی موجودگی میں ملاقات ہوئی.مولانا موصوف نے بعض مذہبی ولغوی امور پر ان سے تبادلہ خیالات کیا.چونکہ یہ گفتگو بہت دلچسپ ہونے کے علاوہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ احمدی مبلغ کے دلائل قویہ کے سامنے ایک مشہور عربی دان عیسائی مشنری کے لئے بالکل دم بخود ہو جانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا.اس لئے اس کے کچھ حصے ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں.مسیحی: حضرت مسیح کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ احمدی: یہی کہ وہ دیگر انبیاء کی طرح ایک معصوم نبی تھے.خدا یا ابن اللہ نہیں تھے.ان کے ذریعہ خدا نے یہود کو ہمارے سید و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی ایک عظیم الشان بشارت دی تھی.پھر وہ دیگر انبیاء کی طرح فوت ہو گئے.انکا مقام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں ایک شاگرد کی حیثیت رکھتا ہے.چنانچہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ لو کان موسى وعيسى حيَّين لَمَا وَسَعَهُما إلا اتَّبَاعِی اور اس زمانہ میں بھی خدا نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے بانی جماعت احمدیہ کو حضرت مسیح علیہ السلام سے تمام شان میں افضل پیدا کر کے بتا دیا کہ واقعی رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں.مسیحی مسیح کی موت کا اعتقاد رکھنے میں تو آپ نے ہماری موافقت ظاہر کی.احمدی حاشا وکلا، ہمارے اور آپ کے عقیدہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے.آپ مانتے ہیں کہ 33 سال کی عمر میں حضرت مسیح صلیب پر مر گئے مگر ہم اس کی بڑے زور سے تردید کرتے ہیں اور اس کے برخلاف یہ مانے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام 120 سال عمر پا کر فوت ہوئے.
مصالح العرب.....جلد اول 235 سیحی: پھر تو آپ اس عقیدہ میں یہود نصاریٰ اور مسلمان تینوں قوموں کے مخالف ٹھہرے، اور یہ ایک شدید اختلاف ہے.احمدی: ہمارا اختلاف حق پر مبنی ہے.لیکن کیا ہم سے پہلے ان تینوں اقوام کا عقیدہ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق واحد ہے.سچ تو یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ذات پیدائش سے لے کر یوم وصال تک گہوارہ اختلافات بنی ہوئی ہے.یہود، مسلمانوں اور عیسائیوں میں سے ہر ایک کی الگ رائے اور الگ عقیدہ ہے.پس ان اختلافات کے ہوتے ہوئے اگر ہم نئی تحقیق پیش کریں تو یہ عجیب بات نہیں.عقلمند اختلاف کے لفظ سے نہیں ڈرتا بلکہ اس کی اصلیت پر غور کرتا ہے.اور اگر اس کے دلائل اس کو قوی معلوم ہوں تو قبول کر لیتا ہے.مسیحی: یہ آپ نے بالکل صحیح اور درست فرمایا.لیکن آپ تو اب آئے اور مسیحی اور یہود قدیم سے مسیح کی صلیبی موت کے قائل ہیں.احمدی: تقدم زمانی کسی قوم کے حق پر ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی.ورنہ کیا آپ ولادت مسیح کے متعلق یہود کے اس قول کو صحیح تسلیم کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ ولد الزنا تھے.کیونکہ عیسائیت کا اس وقت وجود بھی نہیں تھا اور یہود موجود تھے.مسیحی ، نہیں ہرگز نہیں.وہ تو بالکل جھوٹ سکتے ہیں.احمدی: پس معلوم ہوا کہ تقدم زمانی انسان کو حقائق تک نہیں پہنچا سکتا.خصوصا جبکہ یہود اور نصاریٰ میں سے حضرت مسیح کی صلیبی موت کا عینی شاہد کوئی بھی موجود نہیں.اور ہمارے پاس توریت، انجیل ، قرآن کریم اور تواریخ سے متعدد دلائل اور براہین موجود ہیں جن سے روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر نہیں فوت ہوئے.مسیحی: انجیل سے آپ کے پاس کونسی دلیل ہے؟ احمدی: دلائل تو بے شمار ہیں.لیکن میں اس وقت صرف دو پیش کرتا ہوں.1 مسیح نے کہا : اس زمانہ کے برے اور زنا کار لوگ نشان طلب کرتے ہیں.مگر یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا.کیونکہ جیسے یونس تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین دن رات زمین کے اندر رہے گا.(متی 12:39) یہ مشابہت صرف اسی صورت میں متحقق ہو سکتی ہے.جب کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ حضرت مسیح بب پر نہیں مرے بلکہ زندہ قبر میں داخل ہوئے اور زندہ ہی نکلے.
مصالح العرب.....جلد اول 236 2.عبرانیوں میں آتا ہے کہ یسوع مسیح نے موت سے رہائی کے لئے دعا مانگی اور خدا نے ان کے تقویٰ کے باعث سنی.(5:7) پس اگر صلیب پر مر جاتے تو یہ دعا رائیگاں جاتی.مسیحی مشابہت صرف دنوں اور راتوں کی جہت سے ہے نہ کہ موت اور حیات کے لحاظ سے.احمدی: تین دن رات تو ہو ہی نہیں سکتے.کیونکہ جمعہ کی شام کو قبر میں ڈالے گئے اور اتوار کے دن طلوع آفتاب سے پہلے دیکھا گیا تو وہاں نہیں تھے.مسیحی: یہ درست ہے.لیکن ہم یہود کے طریق شمار کے مطابق جمعہ کی شام کو ایک کامل دن شمار کرتے ہیں.احمدی: اگر ہم جمعہ کو ایک دن بھی شمار کر لیں تو جمعہ اور ہفتہ دو دن ہوئے ، تیسرا دن کہاں ہے.پھر راتیں بھی تین نہیں بنتی.کیونکہ آپ صرف دورا تیں جمعہ اور ہفتہ کی قبر میں رہے.اس مرحلہ پر پہنچ کر مشنری صاحب کچھ ملول سے ہو گئے اور کہنے لگے : میں آپ کو مطمئن نہیں کر سکتا.میں نے (ابوالعطاء صاحب ) گفتگو کا رخ بدل کر کہا: احمدی: حضرت مسیح ابن مریم کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ مسیحی: ہم ان کی الوہیت کے قائل ہیں.احمدی: میں چاہتا ہوں کہ آپ ان کی الوہیت کی کوئی واضح دلیل بیان فرمائیں.مسیحی: مردوں میں سے جی اٹھنا ان کی الوہیت پر ایک زبر دست دلیل ہے.احمدی لیکن ان کا پہلے مردوں میں داخل ہونا ان کی عدم الوہیت پر زیادہ واضح دلیل ہے.امریکن مشن قاہرہ کے انچارج سے مناظرے مصر میں جہاں علماء نے پادریوں کے اعتراضات سے تنگ آ کر حکومت سے درخواست کی تھی کہ پادریوں کو ملک سے نکال دیا جائے وہاں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندہری خدا تعالیٰ کے فضل سے جس کامیابی کے ساتھ تن تنہا پادریوں کا مقابلہ کر کے ان کو شکست دے رہے تھے اس کا کسی قدر پتہ حضرت مولانا کے ذیل کے مضمون سے لگ سکتا ہے.ڈاکٹر فلپس انچارج امریکن مشن سے دوسرا مناظرہ الوہیت مسیح پر ہوا.جس میں متعدد دلائل سے اس باطل عقیدہ کا رد کیا گیا.متعدد غیر احمدی بھی حاضر تھے.دو تعلیم یافتہ غیر احمدیوں نے اخیر پر ہمیں کی
مصالح العرب.....جلد اول 237 مبارک باد دی.اور پادری صاحب نے ہمارے چلے آنے کے بعد ایک شخص سے کہا کہ در حقیقت قَدْ فَشِلْتُ الْيَوْمَ آج میں ہار گیا.تیسرا مناظرہ حسب خواہش پادری مذکور دوبارہ معصومیت انبیاء ومسیح از روئے بائبل پر ہوا.اس دن مجمع میں ہیں کے قریب غیر احمدی تھے.دو گھنٹے تک مناظرہ ہوا.آخر پادری مذکور کو ایک تحریر دینی پڑی کہ فلاں فلاں نبی کا کوئی گناہ از روئے بائبل ثابت نہیں.یہ مناظرہ بھی کامیابی سے ختم ہوا.چوتھا مناظرہ اس موضوع پر ہوا کہ کیا یسوع مسیح صلیب پر فوت ہوئے؟ یہ مناظرہ احمدیہ دار التبلیغ کے وسیع کمرہ میں ہوا جس میں 70 سے زائد اشخاص موجود تھے.ازہر کے تعلیم یافتہ وکیل تاجر اور سرکاری ملازم بھی شریک ہوئے.ڈاکٹر فلپس اس دن اپنے ہمراہ دو اور پادریوں کو مدد کے لئے لائے تھے.حسب قرارداد پہلے میں نے نصف گھنٹہ از روئے بائبل ثابت کیا کہ یسوع مسیح صلیب پر ہر گز فوت نہیں ہوئے.اور انجیل نویسوں کے بیانات میں بکثرت اختلافات ہیں.اس کے جواب کے لئے پادری کامل منصور کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ مسلمان تو کہتے ہیں مسیح صلیب پر لٹکائے ہی نہیں گئے.لیکن احمدی ان کے خلاف یہ مانتے ہیں کہ مسیح کو صلیب پر لٹکایا گیا مگر مرا نہیں.اور پھر کہا: دراصل میں اس مضمون کے لئے تیار ہو کر نہیں آیا.غرض بغیر اس کے کہ ایک دلیل کو بھی چھوتا لوگوں کو ابھارنا چاہا.اور وقت ختم ہونے سے پہلے ہی بیٹھ گیا.میں نے جوابا کہا: غالبا پادری صاحب مسلمانوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں.مگر یہ ان کی نافہمی ہے.کیا یہ لوگ احمدیوں کا عقیدہ نہیں جانتے؟ تمہیں اس سے کیا کہ ہمارا اور مسلمانوں کا اختلاف ہے؟ تم مسیح کی صلیبی موت کا ثبوت دو.کیونکہ بحث از روئے بائبل ہے اس لئے مسلمانوں کے باہمی اختلاف کا اس میں کیا دخل ہے.میری تقریر کے بعد پادری کامل منصور صاحب تو مبہوت ہو گئے.پھر پادری فلپس کھڑے ہوئے مگر بجز پولوس کے بعض اقوال پڑھنے کے کچھ نہ کر سکے.آخر پر پادری ایلڈ راٹھے اور غضبناک ہو کر کہنے لگے کہ ہم سینکڑوں سالوں سے مانتے چلے آئے ہیں کہ یسوع صلیب پر مر گیا اب یہ نیا مذہب پیدا ہو گیا ہے.نہایت محبت سے جواب دیا گیا کہ ناراضگی سے تو کچھ بنتا نہیں.اور عقیدہ خواہ کروڑوں سال سے ہو جب غلط ثابت ہو جائے تو اس کا چھوڑ نا ضروری ہے.غرض یہ مناظرہ بھی نہایت کامیاب ہوا.اللہ تعالیٰ نے خاص نصرت فرمائی.اختتام پر ایک شدید مخالف نے شکریہ ادا کیا.
مصالح العرب.....جلد اول 238 ایک ازہری نے کہا کہ بخدا اگر تمام علماء از ہر مل کر بھی ایسا مناظرہ کرنا چاہیں تو نہ کرسکیں.پادری کامل منصور نے مجھ سے جاتے وقت کہا کہ آپ نے تو مسیحیت کا ہم سے بھی زیادہ مطالعہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس مناظرہ کا چرچا عام ہوا اور دور دور تک اس کا ذکر پہنچا.الحمدللہ.مسجد سید نا محمود کبابیر حضرت مولانا نے اپنی ایک رپورٹ مطبوعہ الفضل میں تحریر فرمایا: فلسطین میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد ارض مقدسہ میں کوہ کر مل کو ایک خاص حیثیت حاصل ہے.الیاس نبی علیہ السلام کا مقام اسی پہاڑ پر ہے.خضر کے نام پر بھی ایک مقام اس جگہ موجود ہے.غرض یہود ونصاری اور مسلمانوں کا کسی نہ کسی رنگ میں اس پہاڑ سے خاص تعلق ہے.اس پہاڑ پر کہا بیر کی بستی آباد ہے.اس بستی کے باشندوں کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ بلاد عربیہ میں سب سے پہلے بحیثیت مجموعی قریبا سارا گاؤں احمدیت میں داخل ہوا ہے.یہ جگہ ایک خوشنما محل وقوع اور سرسبز جگہ پر واقع - مسجد بنانے کا عزم ہے.کوه کرمل پر عیسائیوں کے گرجے ہیں.یہودیوں کی عبادت گاہیں ہیں.لیکن مسلمانوں کی کوئی مسجد نہ تھی.آج سے تین برس پیشتر جماعت احمد یہ کہا بیر اور حیفا نے ایک نہایت موزوں محل پر مسجد بنانے کا عزم کیا.اس ملک کے اخراجات کے پیش نظر اس جگہ مسجد بنانا قریباً طاقت سے بڑھ کر بوجھ تھا کیونکہ ان علاقوں میں جماعتیں ابھی ابتدائی حالت میں ہیں.اور مالی حالت بھی اچھی نہیں ہے.لیک اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے جس نے محض اپنے فضل سے غریب جماعت کو عظیم الشان مسجد قائم کرنے کی توفیق بخشی.مسجد کا افتتاح مؤرخہ 13 اپریل 1931ء بروز جمعہ جناب مولوی جلال الدین صاحب شمس مولوی
239 مصالح العرب.....جلد اول فاضل احمدی مبلغ نے تمام احباب جماعت کی موجودگی میں اس مسجد کا بنیادی پتھر رکھا اور اخلاص بھرے دلوں کے ساتھ احباب مسجد بنانے میں مصروف ہو گئے.ماہ ستمبر 1931 ء میں خاکسار یہاں آیا اور مولوی صاحب موصوف ہندوستان تشریف لے گئے.مسجد کی تعمیل کا کام آہستہ آہستہ جاری رہا.حتی کہ دسمبر 1933 ء میں مسجد بالکل مکمل ہوگئی اور 13 دسمبر 1933 ء کو اس عاجز نے مسجد کا باقاعدہ افتتاح کیا.اور تمام دوستوں سمیت دعا ئیں کی گئیں کہ اللہ تعالیٰ اس مسجد کو ہمیشہ آباد ر کھے اور عبادت و ذکر الہی کرنے والے انسان تا قیامت اس جگہ موجود رہیں.رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمٌ - آمين اس کی تکمیل کی تاریخ کا کتبہ یوں ہے: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله جامع سید نا محمود شعبان 1352ھ ابو العطا الجالندھری یہ کتبہ بڑے شمالی دروازے کے اوپر لگایا گیا ہے.اس کے افتتاح کی تقریب کا ذکر حضرت مولانا نے یوں فرمایا: اس مبارک مسجد کا افتتاحی جلسہ 3 دسمبر 1933ء مطابق 10 شعبان 1352ھ کو ہوا.جس میں 16 احمدیوں نے لیکچر دئیے جس میں سے الشیخ علی الفرق الشیخ احمدی المصری، الشیخ سلیم الربانی، الشیخ عبد الرحمن البرجاوی، الشیخ صالح العودی، الشیخ احمد الکبابیری، اور السید خضر آفندی القزق خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اخیر پر خاکسار نے ایک مفصل لیکچر دیا جس میں مسجد کی اغراض اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.اور بعد ازاں ایک لمبی دعا کے بعد جلسہ برخاست ہوا.فالحمد لله أولا وآخرا.جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کا اعتراف الفضل مؤرخہ 8 مارچ 1934 ، صفحہ 5) حضرت مولانا کے قیام بلاد عربیہ کے دوران ایک قابلِ ذکر واقعہ عالم عرب کی ایک ممتاز دانشور ماہر تعلیم اور مشہور زمانہ الازہر یونیورسٹی کے سابق سربراہ الشیخ مصطفیٰ المراغی کا بیان ہے
240 مصالح العرب.....جلد اول جس میں انہوں نے جماعت احمدیہ کی عالمگیر خدمات اسلام کا اعتراف کیا ہے.ان کا یہ بیان یافا (فلسطین) کے اخبار الجامعۃ الاسلامیۃ نے اپنی اشاعت 14 نومبر 1933ء میں شائع کیا.علامہ مراغی نے عالم اسلام کے دینی تربیت کا محتاج ہونے تبلیغ اسلام کی ضرورت اور زمانے کے تقاضوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھا: ہندوستانی مسلمانوں کی جماعت احمدیہ کے افراد نے ہندوستان اور انگلینڈ میں تبلیغ اسلام شروع کر رکھی ہے اور انہیں اس میں ایک حد تک کامیابی بھی ہوئی ہے.جیسا کہ وہ افراد بھی کامیاب ہوئے ہیں جو کہ امریکہ میں تبلیغ اسلام کر رہے ہیں.اس مضمون کے آخر میں حضرت مولا نا کا نام درج ہے.الفضل 11 / مارچ 1934 ء صفحہ 7) بلاد عربیہ میں احمدی پریس کا قیام اور ماہوار عربی رسالہ کا اجراء حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی الفضل میں مطبوعہ ایک رپورٹ.احباب جماعت یہ پڑھ کر خوش ہوں گے کہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے جماعتہائے بلا دعر بیہ کو جبل کرمل پر احمد یہ پریس قائم کرنے کی توفیق ملی ہے.مسجد سید نا محمود اور مدرسہ احمدیہ کے افتتاح کے بعد احمد یہ لائبریری اور بلڈ پوکا قیام نیز مرکز تبلیغ کا بننا مسرت انگیز امور ہیں.لیکن احمد یہ پریس کا قیام بھی از بس ضروری تھا.ہماری جماعت کی تعداد بھی تھوڑی ہے ،لیکن احمدیہ بھی از اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخالفین پر ایک رعب ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ مصر فلسطین شام اور عراق کے اخبارات ہماری مخالفت کرنا اور احمدیت سے لوگوں کو نفرت دلانا اپنا اہم ترین کارنامہ شمار کرتے ہیں.ان اخبارات کے اعتراضات کے جوابات ، نیز سلسلہ تبلیغ کو باقاعدہ اور محکم کرنے کے لئے احمدیہ پریس کا ہونا بہت ضروری امر تھا.پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی عربی کتب کی اشاعت تبلیغ کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا حکم رکھتی ہے.اکثر اصحاب ہم سے حضور کی کتب کا مطالبہ کرتے ہیں.لیکن جب دیکھتے ہیں کہ لیتھو پریس پر ہندی حروف میں وہ کتب طبع شدہ ہیں تو عادتاً ایسی کتابوں کا مطالعہ عام طور پر ان ملکوں کے باشندوں بالخصوص نئے فیشن کے تعلیم یافتہ طبقہ کے لئے مشکل ہوتا ہے.پس یہ ایک نہایت اہم اور قومی ضرورت ہے کہ جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب عمدہ طور پر طباعت کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرے.ان دوضرورتوں کے پیش نظر عربی
مصالح العرب.....جلد اول 241 مطبع کا قائم کرنا ہمارا فرض تھا.ایک ضرورت تو ساری جماعت احمدیہ سے متعلق ہے اور دوسری ضرورت ایک معنی سے مقامی ضرورت ہے.سو الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس فرض کو ادا کرنے کی ایک حد تک توفیق بخشی ہے.اواخر اگست 1934ء میں میں نے احباب کو پر لیس خریدنے کے لئے چندہ جمع کرنے کی تحریک کی.اس وقت تک جب کہ میں یہ سطور لکھ رہا ہوں 50 پونڈز سے کچھ زائد چندہ جمع ہو چکا ہے.چندہ دہندگان کی فہرست عنقریب شائع کر دی جائے گی.ایک سیکنڈ ہینڈ مشین قاہرہ سے خرید لی گئی ہے.حروف بالکل نئے خریدے گئے ہیں.سامان اس جگہ پہنچ چکا ہے.پریس قائم کرنے کے لئے زمین جماعت احمد یہ کہا بیر نے پیش کی ہے.جس پر فی الحال گزارہ کے موافق مکان بنانا شروع کر دیا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ ان سطور کے شائع ہونے تک پریس کام کرنے کے قابل ہو جائے گا.حکومت فلسطین کی طرف سے پریس قائم کرنے کی اجازت مل چکی ہے.پریس کی مشین ، حروف اور دیگر اشیاء پر اس وقت تک 70 پونڈ ز خرچ ہو چکے ہیں.مکان کے بنانے اور پریس کے درست کرنے کے اخراجات کا اندازہ 25، 30 پونڈز ہے ، گویا کل لاگت 100 پونڈ ز ہو گی.اس جگہ کے احباب کے وعدوں کو ملا کر کل رقم چندہ 70 پونڈ ز ہو جائے گی.انشاء اللہ.باقی رقم کے لئے اگر بعض دوسرے احباب اس کارخیر میں شرکت فرما ئیں تو ان کے لئے دائگی اجر کا موجب ہوگا.میں اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتا ہوں.اسی ضمن میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خاکسار نے فلسطین گورنمنٹ سے با قاعدہ رسالہ جاری کرنے کے لئے اجازت حاصل کر لی ہے.اور جماعتہائے بلاد عربیہ کے مشورہ کے مطابق اب یہ رسالہ ہر قمری مہینہ کی پہلی تاریخ کو ماہوار شائع ہوا کرے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.اور پہلا نمبر اس پروگرام کے مطابق یکم شوال 1353ھ یعنی اوائل جنوری 1935ء میں شائع ہو گا.ان شاء اللہ.رسالہ کا سالانہ چندہ فلسطین میں چار شلنگ اور دیگر ممالک کے لئے پانچ شلنگ ہوگا.ہندوستان میں صرف تین روپیہ سالانہ چندہ ہو گا.لمبے نام البشارة الإسلامية الأحمدية کی بجائے اب آئندہ سے رسالہ کا نام البشریٰ ہوگا.الفضل (13 نومبر 1934 صفحه 8 رسالہ البشری کے بارہ میں حضرت مولانا حیاۃ ابی العطاء کے تحت الفرقان میں بھی درج فرمایا.آپ فرماتے ہیں:
مصالح العرب.....جلد اول 242 1931ء میں جب خاکسار بلاد عربیہ کے لئے بطور مبلغ روانہ ہوا تو دل میں ایک عزم یہ تانی بھی تھا کہ وہاں سے باقاعدہ عربی رسالہ جاری کیا جائے.اس وقت تک حضرت مولانا شمس صاحب مرحوم وہاں پر ہنگامی حالات کے مطابق مختلف مفید کتب اور ٹریکٹ شائع فرماتے رہے تھے.میں نے چارج لینے کے بعد ان سے اس عزم کا اظہار کیا.انہوں نے فرمایا کہ اخراجات کے لحاظ سے مشکل ہوگا.جب مولانا کی روانگی کے بعد میں نے احباب جماعت سے مشورہ کیا تو وہ سب اس پر تیار تھے.اور مالی بوجھ اٹھانے کے لئے آمادہ.اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے پہلے سہ ماہی رسالہ البشارة الإسلامیۃ الأحمد یہ جاری کیا جو تھوڑے ہی عرصہ بعد البشری کے نام سے ماہوار مجلہ کی صورت میں شائع ہونے لگا.الحمد للہ.یہ البشریٰ آج تک جاری ہے.ہم یہ رسالہ بعض یہودی اور عیسائی پریس میں طبع کراتے تھے.کیونکہ وہاں پر اس وقت مسلمانوں کا پر لیس نہ تھا.دل میں بار بار خیال آیا کہ ہمارا اپنا پریس ہونا چاہئے.اخویم محترم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم سے مشورہ کے بعد قاہرہ سے ایک سیکنڈ ہینڈ پریس خریدنے کی تجویز ہوئی.اب اس کے لئے رقم کا سوال در پیش تھا.غالباً 1934 ء میں جبکہ میں مصر میں تھا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحب مرحوم پہلی مرتبہ بسلسلہ حصول تعلیم ولایت جارہے تھے.وہ چند گھنٹوں کے لئے قاہرہ میں بھی تشریف لائے تھے.مجھے خیال پیدا ہوا کہ اس موقعہ پر احمد یہ پریس کے لئے تحریک کا آغاز کر دینا چاہئے.چنانچہ میں نے ان دونوں سے اس تجویز کا ذکر کیا.انہوں نے غالباً دو دو پونڈ ز اس فنڈ میں دیئے.میں نے اس کا ذکر کرتے ہوئے احباب جماعت میں تحریک کی.چنانچہ ابتدائی فوری ضرورت کے مطابق چندہ اسی موقعہ پر جمع ہو گیا..ایک لطیفہ اخویم استاذ منیر آفندی الحصنی پہلے سے احمدی تھے.ان کے بڑے بھائی السید محی الدین احصنی المرحوم جو قاہرہ کے بڑے تاجر تھے میرے وقت میں سلسلہ میں داخل ہوئے تھے.اور بہت زندہ دل تھے.وہ بھی اس مجلس میں موجود تھے.میں نے چندہ کی تحریک کی اور احباب نے چندے لکھوائے اور ادا کرنے شروع کئے تو انہوں نے بھی خاصی رقم چندہ کی دی مگر ظرافت طبع کے طور پر کہنے لگے.يا أستاذ إنك أبو العطاء ولكنك دائما تحرضنا على
مصالح العرب.....جلد اول 243 التبرعات فلم لا تسمى اسمك أبا الأخذ؟ کہ اے استاذ ، آپ کا ناام ابو العطاء ( عطا کرنے والا) ہے مگر آپ ہمیشہ چندوں کی تحریک کرتے رہتے ہیں.آپ اپنا نام ابوالاً خذ ( یعنی لینے والا ) کیوں نہیں رکھتے لیتے ؟ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے کی تحریک کرنا بھی ایک عطا ہے اس لئے میرا نام ابو العطاء ہی رہنے دیں.مجلس میں اس سے خوش طبعی کی لہر پیدا ہوگئی.مرحوم محی الدین اکھنی بہت خوبیوں کے مالک تھے.رحمہ اللہ.الحركة الأحمدية في البلاد العربية (الفرقان ربوہ، جون 1971 ء صفحہ 25 تا 26 10 ستمبر 1934ء کو حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری نے ایک مضمون تحریر فرمایا جس کا عنوان ادارہ الفضل نے ” حفاظت واشاعت اسلام کے متعلق ایک احمدی مبلغ کی کامیاب جد و جہد“ قائم کر کے درج ذیل کامیاب مساعی کا ذکر کیا: ایک انگریز خاتون کا قبول اسلام وہ ہمارے نئے احمدی بھائی السید احمد آفندی ذہنی کی بیوی ایک انگریز لیڈی.متعصب مسیحی خاتون تھیں.انجیل خوب جانتی ہیں.میں جب قاہرہ آیا تو انو تبلیغ اسلام کی گئی.چونکہ وہ عربی اچھی طرح نہیں جانتی اس لئے میرے بیان کو انگریزی میں بیان کرنے کے لئے ذهنی آفندی ترجمان ہوتے.متعدد مرتبہ گفتگو ہوئی ، ہر سوال کا کافی و وافی جواب دیا گیا.تین چار مرتبه با قاعدہ طور پر اسلام اور عیسائیت کے موازنہ پر لمبی بحث ہوتی رہی.انداز بحث آزادانہ اور علمی ہوتا تھا.آخر محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے 18 اگست کو اس نے میرے ذریعہ قبول اسلام کر لیا.اور اس کی درخواست بیعت سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حضور ارسال کر دی گئی.ایک یہودی سے گفتگو ایک یہودی مکان پر آئے انہوں نے میرا عبرانی اشتہار پڑھا تھا.قریبا دو گھنٹہ تک ان
مصالح العرب.....جلد اول 244 سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تو رات کی پیشگوئیوں پر گفتگو ہوئی.بعض غیر احمدی اصحاب بھی اس موقعہ پر حاضر تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب پر اچھا اثر ہوا.عیسائیوں کا مباحثہ سے فرار مصر کے سب سے بڑے دشمن اسلام پادری سرجیوس کے گرجا میں گیا.وہ وعدہ کے باوجود مجھے سوالات تک کرنے کی اجازت نہ دے سکے.جب میں نے دیکھا کہ زبانی گفتگو کی کوئی صورت نہیں ہے تو میں نے کھلی چٹھی برائے تحریری مناظرہ شائع کر دی.یہ ٹریکٹ بکثرت شائع کیا گیا.خاص طور پر پادری صاحب مذکور کے گر جا کے پاس زیادہ تقسیم کیا گیا.قاہرہ کے روزانہ اخبار الکشکول نامی نے بھی ہماری اس کھلی چٹھی کو شائع کیا.اس پر پادری سر جیوس نے اپنے ہفتہ واری رسالہ المنارۃ المصریۃ میں طویل مضمون لکھا جس میں گالیوں کے علاوہ سیاسی مسائل کا جھگڑا ، مسلمانوں کی اکثریت اور عیسائیوں کی اقلیت کا رونا رونا شروع کر دیا.آخر ہماری کھلی چٹھی کے ایک حصہ کو نقل کر کے مناظرہ سے صاف انکار کر دیا.جس سے عیسائیوں کے سمجھ دار طبقہ میں حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے.کئی مسیحی دوستوں نے پادری صاحب کے رویہ پر نفرت کا اظہار کیا.اور انہیں مناظرہ پر تیار کرنے کے لئے آمادگی ظاہر کی.میں نے پادری صاحب کے اس مضمون کا جواب روز نامہ الکشکول کی اشاعت 2 ستمبر میں مفصل شائع کیا ہے.نہایت نرم لہجہ میں دوبارہ فیصلہ کن تحریری مناظرہ کے لئے بلایا ہے.میرے مضمون کو ایڈیٹر صاحب الکشکول نے بہت پسند کیا.امید نہیں کہ پادری صاحب مذکور مناظرہ کے لئے تیار ہوں.بہر حال جماعت احمدیہ مصر نے فیصلہ کیا کہ پادری صاحبان کو گھر تک پہنچانے کے لئے پورے طور پر ان پر اتمام حجت کی جائے.اگر پادری سرجیوس نہیں تو کوئی اور ہی اس تی میدان میں نکلے.علمی مکالمه ڈاکٹرز کی مبارک مصر کے مشہور ترین ادباء میں سے ہیں.میں نے ان سے ملاقات کے لئے وقت مقرر کیا.مقررہ وقت پر ان کے پاس ایک بڑا از ہری عالم بھی موجود تھا.میرے ساتھ برادرم منیر افندی اکھنی بھی تھے.ڈاکٹر موصوف خوش اخلاقی سے پیش آئے.قریبا ایک
245 مصالح العرب.....جلد اول گھنٹہ تک قرآن مجید کے بعض لغوی معضلات کے متعلق تبادلہ خیالات ہوتا رہا.مستشرقین اور اسلامی نقطہ نگاہ سے عربی زبان کے اشتقاقات اور دوسری زبانوں سے نسبت پر علمی محادثه جاری رہا.ڈاکٹر صاحب اور انکے از ہری ساتھی نے ہماری گفتگو کو بہت پسند کیا اور بعض باتوں کو بالکل اچھوتا قرار دے کر تسلیم کیا اور بعض نظریوں کی تحقیقات کا وعدہ کیا.معجزانہ حفاظت کا واقعہ الفضل قادیان 9 را کتوبر 1934 ءصفحہ 6-7 ) حضرت مولانا کے قیام فلسطین کے دوران ایک بار آپ پر مخالفین نے بندوق سے فائرنگ کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو معجزانہ طور پر محفوظ رکھا.حیفا کے بعض شریروں نے یہ منصوبہ بنایا اور ایک رات مسلح ہو کر گھات لگا کر بیٹھے کہ جب حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کہا بیر سے واپس تشریف لائیں تو انہیں قتل کر دیں.لیکن خدائے قادر کی قدرت سے اس وقت انکی بندوقیں نہ چل سکیں اور وہ آپ پر ایک گولی بھی چلانے میں کامیاب نہ ہو سکے.اس بات کا اعتراف اس سازش میں شریک ایک شخص نے بعد میں اہل کہا بیر کے سامنے کیا.دوسری طرف حضرت مولانا صاحب نے خود بھی اس گھات کی جگہ سے گزرتے ہوئے ایسا خوف محسوس کیا تھا جس کا ذکر انہوں نے وہاں پہنچتے ہی احباب جماعت کے سامنے کیا تھا.ایک اہم تبصرہ (الكبابیر..بلدی از عبد الله اسعد) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مولانا موصوف کی مساعی کے بارہ میں جلسہ سالانہ 1933ء کے موقعہ پر اپنی تقریر میں فرمایا: مولوی اللہ دتا صاحب (ابو العطاء صاحب) شام اور مصر میں اچھا کام کر رہے ہیں.حیفا میں ایک بڑی جماعت قائم ہے جس کے افراد مولوی جلال الدین صاحب شمس کے وقت کے ہیں مگر مولوی اللہ دتا صاحب کام کو خوب پھیلا رہے ہیں.الفضل 7 جنوری 1934 ء ، تاریخ احمدیت جلد 7)
مصالح العرب.....جلد اول بعض تاثرات اور دلچسپ واقعات مولانا محمدحمید کوثر صاحب اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: 246 جب مولانا ابو العطاء صاحب حیفا پہنچے تو مولانا جلال الدین شمس صاحب کے ساتھ حیفا کے علاقہ (برج) شارع سنتو پر واقع ایک کرایہ کے مکان میں رہا کرتے تھے.مکرم عبد المالک کی محمد عوده ساکن کبابیر بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں انکی ملاقات کے لئے گیا.مولانا شمس صاحب نے کھانا تیار کیا اور ہم سب نے تناول کیا.تھوڑی دیر کے بعد جب مولانا ابو العطاء صاحب ہاتھ دھونے کے لئے غسل خانے میں گئے تو ہم میں سے کسی نے مولانا شمس صاحب سے کہا کہ نئے مبلغ تو کمزور سے معلوم ہوتے ہیں.اس پر مولانا شمس صاحب نے فرمایا کہ ابھی آپ ان کی خداداد صلاحیتوں سے واقف نہیں ہیں.وہ بہت بڑے عالم دین اور کامیاب مناظر ہیں اور آپ کو مستقبل قریب میں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کتنے بڑے عالم دین ہیں.سامعین اس جواب پر خاموش ہو گئے اور مستقبل نے روز روشن کی طرح ثابت کر دیا کہ جو کچھ حضرت مولانا شمس صاحب نے فرمایا تھاوہ بالکل درست تھا.مکرم عبد المالک محمد عودہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مولانا ابوالعطاء صاحب جب شروع میں فلسطین تشریف لائے تو اپنا زیادہ وقت مطالعہ میں گزارتے تھے.صرف دروس اور بحث مباحثہ کے وقت ہی احباب کے ساتھ بیٹھتے تھے.آپ کا طریق یہ تھا کہ حسب ضرورت چند کتابیں لے کر باہر کھیتوں یا پہاڑیوں کی طرف چلے جاتے تھے جہاں اکثر وقت دعاؤں اور مطالعہ میں گزارتے.عربی اخبارات کا روزانہ با قاعدگی سے مطالعہ فرماتے تھے.روز روز نہیں بلکہ کبھی کبھی مکرم حامد صالح عودہ ساکن کہا بیر بیان کرتے ہیں کہ مولانا ابوالعطاء صاحب جب کبابیر میں سکونت پذیر ہوئے تو ہم مولانا کے کمرہ میں جمع ہو جاتے اورمولا نا ہمیں دودھ والی انڈین چائے بنا کر پلایا کرتے تھے.ہم مولانا کو کہتے کہ یہ چائے بہت مزیدار ہے.ہم روزانہ یہاں آپ کے پاس چائے پینے کے لئے آیا کریں گے.اس پر مولانا بڑی بے تکلفی کے انداز میں فرمایا کرتے تھے کہ ہر روز نہیں بلکہ کبھی کبھی.
مصالح العرب.....جلد اول زبر دست قوت بیان 247 عبد المالک محمد عودہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مکرم منیر الحصنی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مولانا ابو العطاء صاحب کو زبر دست قوت بیان عطا فرمائی ہے اور مزاحاً فرمایا کرتے تھے کہ اگر ایک کمرہ خالی ہو اور مولانا ابو العطاء صاحب یہ ثابت کرنا چاہیں کہ یہ کمرہ سونے چاندی سے بھرا ہوا ہے تو شاید بڑی ہی آسانی اور ٹھوس دلائل سے ثابت کر دیں گے کہ ہاں یہ کمرہ سونے چاندی سے بھرا ہوا ہے.کیا عجمی مسلمانوں کی نماز اللہ کے نزدیک مقبول نہیں؟ مکرم عبد المالک محمد عودہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ تین علماء مولانا ابو العطاء صاحب کے پاس آئے ، ایک کا نام شیخ حسن ، دوسرے کا شیخ توفیق اور تیسرے کا نام یاد نہیں رہا.انہوں نے مغرب کی نماز مولانا کی اقتداء میں پڑھی.اس کے بعد مسئلہ ختم نبوت پر بحث ہوتی رہی یہاں تک کہ جب عشاء کی نماز کا وقت ہو گیا تو ان تینوں علماء نے مولانا ابو العطاء صاحب کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے گریز کیا.بعد از نماز مولانا صاحب کے دریافت کرنے پر انہوں نے کہا کہ جو شخص سورہ فاتحہ صحیح عربی تلفظ کے ساتھ نہیں پڑھتا ہم ایسے عجمی کے پیچھے نماز ادا نہیں کرتے.مولانا نے فرمایا کہ عجمی مسلمانوں کی تعداد تو عرب مسلمانوں سے زیادہ ہے اور انکا تلفظ بھی عربی نہیں.کیا انکی نماز اللہ کے نزدیک مقبول نہیں ؟ اگر آپ کو اپنی زبان دانی پر اتنا ہی فخر ہے تو آئیں اور میرے ساتھ قرآن مجید کی تفسیر لکھنے کا مقابلہ کر لیں.انہوں نے مولانا صاحب کے اس چیلنج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ اسکے لئے تو ہم تیار نہیں ہیں.آپ کی اور ہماری ملاقات نہیں ہو سکے گی مکرم عبد المالک صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ (حمادی) خاندان کے چند نوجوان مولا نا ابو العطاء صاحب کے پاس آئے اور ختم نبوت کے موضوع پر بحث ہوئی.بحث کے آخر پر نوجوان کہنے لگے ہم دوبارہ آئیں گے اور اس موضوع پر پھر بات ہوگی.چنانچہ تین
مصالح العرب.....جلد اول 248 ماہ بعد یہ لوگ دوبارہ آئے اور اس موضوع پر بات ہوئی.بحث کے اختتام پر مولانا نے ان سے پوچھا کہ اب کب ہماری آپ سے ملاقات ہوگی.انہوں نے جواباً کہا کہ: قیامت کے دن.مولانا نے فرمایا کہ وہاں ہماری آپ سے ملاقات نہیں ہو سکے گی.اگر آپ بھی حضرت امام مہدی علیہ السلام پر ایمان لے آئے تو ملاقات کی توقع کی جاسکتی ہے.لیکن اگر آپ نے ان کا انکار کر دیا اور ہمیں کافر کہنے والوں کی صف میں شامل ہو گئے تو پھر آپ کی اور ہماری ملاقات نہیں ہو سکے گی.کیونکہ ایسی صورتحال میں تو وہاں آپ قرآن مجید کے مندرجہ ذیل الفاظ کہہ رہے ہوں گے: وَقَالُوا مَالَنَا لَا نَرَى رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِنَ الْأَشْرَار اتَّخَذْنَاهُم سِحْرِيًّا أم زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ.(سورہ ص 63-64) یعنی اور اس وقت دوزخی کہیں گے کہ ہمیں کیا ہوا کہ آج ہم ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جن کو ہم برا قرار دیا کرتے تھے.کیا ہم انکو یونہی اپنے دلی خیال کی وجہ سے ) حقیر سمجھتے تھے یا اس وقت ہماری آنکھیں سمج ہو گئی تھیں.مولانا نے فرمایا کہ آپ حضرت امام مہدی کے دعوئی پر غور کریں اور ان پر ایمان لائیں کیونکہ اسی میں آپ کے لئے خیر ہے.شکست کی وجہ علم لاہوت سے ناواقفیت مسلمانوں کے ایک عالم شیخ محمد قدسی عیسائی ہو کر شیخ برنا بہ بن گئے اور عیسائیت کی تبلیغ شروع کر دی.ایک دفعہ جماعت احمد یہ حیفا کے چند افراد نے ان سے ملاقات کر کے انہیں احمدی مبلغ مولانا ابو العطاء صاحب کے ساتھ مناظرہ پر راضی کر لیا.مناظرہ کی تاریخ مقرر ہوئی اور جب مناظرہ شروع ہونے لگا تو مولانا صاحب نے قبلہ رو ہو کر دعا کی.احباب جماعت نے مولانا سے پوچھا کہ آپ نے کیا دعا کی؟ تو انہوں نے بتایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا رب اس مناظرہ کا نیک اثر سامعین پر قائم ہو.اس عیسائی کی لفاظی اور ملمع سازی سے عوام الناس متاثر نہ ہوں بلکہ جو حقیقت اور حق میں بیان کروں اس سے یہ متاثر ہوں.الحمد للہ ایسا ہی ہوا.مولانا نے ٹھوس دلائل سے مسیحیت کا بطلان اور اسلام کی حقانیت ثابت کر دی.جب عیسائی صاحبان نے اپنے پادری کی شکست کو محسوس کیا تو انہوں نے مولانا کو کہا کہ شیخ برنا به عیسائیت میں نیا نیا داخل ہوا ہے.وہ علم لاہوت نہیں جانتا.ہم ایک دوسرے عیسائی
مصالح العرب.....جلد اول 249 پادری سے بات کریں گے کہ وہ آپ سے مناظرہ کرے.کیونکہ وہ علم لاہوت کا عالم ہے.مگر کی کوئی دوسرا پادری مولانا سے مناظرہ کے لئے تیار نہ ہوا.مولانا موصوف نے ایک مقالہ بعنوان عشرون دليلا على بطلان لاهوت المسيح پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا اور اسے خوب تقسیم کیا گیا.اس مضمون کو پڑھنے کے بعد ایک عیسائی خاتون دمشق سے حیفا آئیں اور مولانا سے ان دلائل کے متعلق مزید بحث کرنا چاہی.مولانا نے انکو اپنے پیش کردہ دلائل کی حقانیت سمجھائی.نیز کہا کہ یسوع مسیح پر ایمان لانا کسی طرح بھی نجات کا موجب نہیں ہو سکتا.جب اس نے مولانا کے ٹھوس دلائل کو سنا اور انکا کوئی جواب نہ دے سکی تو کہنے لگی کہ میں تو علم لاہوت سے زیادہ واقف نہیں ہوں.میں کسی بڑے پادری سے بات کروں گی کہ وہ آپ سے بات کریں.اس طرح وہ چلی گئیں اور بعد میں اسکی طرف سے کسی طرح کی کوئی اطلاع مناظرہ کے لئے نہ ملی.مولانا ابو العطاء صاحب کی جرات اور حکمت عملی مکرم عبد المالک محمد عودہ صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ ایک پولیس افسر جس کا نام محمد یا فیصل تھا اور حیفا کے حسینی خاندان سے اس کا تعلق تھا ، رات کو تقریبا گیارہ بجے احمد یہ مسجد کہا بیر چند سپاہیوں کے ساتھ آیا.اور مولانا موصوف کے کمرے کا دروازہ دھکا دے کر کھول دیا اور اندر داخل ہو گیا.اس پر مولانا نے اسے فوراً کمرہ سے باہر جانے کے لئے کہا.اس نے انکار کیا.مولانا نے اسے زبر دستی کمرہ سے باہر دھکیل دیا اور دروازہ بند کر دیا.تھوڑی دیر کے بعد آپ کمرہ سے باہر تشریف لائے اور پوچھا کیا بات ہے؟ پولیس افسر نے کہا کہ آپ میرے ساتھ تھا نہ چلیں.مولانا نے فرمایا: میں پولیس چوکی جانے کے لئے تیار ہوں.لیکن یہ بات یا درکھیں کہ اگر میں تھا نہ گیا اور وہاں افسران بالا کے سامنے حقیقت بیان کی تو آپ کو نوکری اور وردی سے دست بردار ہونا پڑے گا.مولانا نے مزید فرمایا کہ پولیس کا کام امن کی حفاظت کرنا ہوتا ہے، اگر پولیس ہی عوام الناس کے امن کو خراب کرنے کا باعث بن جائے تو چور اور سپاہی میں کیا فرق رہا.اور خاص طور پر ایک پولیس افسر رات کے اندھیرے میں کسی کا دروازہ تو ڑ کر گھر میں داخل ہو جائے تو اسے منصب پر رہنے کا کوئی حق نہیں.مولانا نے اسے سمجھایا کہ اگر آپ کو مجھ سے کوئی کام تھا تو آپ کو پہلے دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے تھا.اگر میں نہ کھولتا تو آپ کا
250 مصالح العرب.....جلد اول حق تھا کہ دروازہ توڑ دیتے مگر رات کے اندھیرے میں بغیر کسی اطلاع کے اچانک دروازہ توڑ کر کسی کے گھر داخل ہونا بدترین جرم ہے.سپاہیوں نے اپنے افسر کی غلطی کو محسوس کیا اور بتایا کہ پولیس افسر نے شراب پی ہوئی ہے نشے کی حالت میں اس نے ایسا کیا ہے.ہم آپ سے معذرت چاہتے ہیں.مولانا معاملہ کو طول دینا نہ چاہتے تھے اس لئے بات کو وہاں ہی ختم کر دیا.حسن تدبیر حضرت مولانا ابو العطاء بیان فرماتے ہیں کہ : جماعت احمدیہ کے عقائد کے بارہ میں ایک دفعہ ایک ٹریکٹ شائع کیا گیا.مجھے خدشہ تھا که مخالف مسلمان حکومت کے ذریعہ اس کی ضبطی کی کوشش کریں گے.اس کا حل آپ نے یہ نکالا کہ اس کے شائع ہوتے ہی جلد از جلد اسے ڈاک کے ذریعہ بھجوا کر اس کی اشاعت ہر طرف کر دی.آپ کا خدشہ درست ثابت ہوا.حکومت کی مشینری حرکت میں لائی گئی اور ایک سرکاری افسر آیا.اس کے استفسار پر اسے بتایا گیا کہ سارے ٹریکٹ تقسیم کئے جاچکے ہیں.جو چند باقی تھے وہ اس افسر نے اپنے قبضہ میں کرلئے ، اور بس.آپ کی دانشمندی اور پر حکمت کاروائی سے صرف شدہ روپیہ اور محنت ضائع ہونے سے بچ گئی.قمر مسیح قمر نوح کے پاس ہے؟! حضرت مولانا صاحب اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: جب میں فلسطین میں تھا ( 1931 ء.1936 ء ) ایک دن ایک عالم الشیخ عبد اللطیف العوشی اپنے چند شاگردوں کو لے کر میرے پاس دار التبلیغ (حيفا) میں تشریف لائے اور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا، میں نے جونہی دروازہ کھولا تو اپنے تلامذہ کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے کہ میں ان کو لایا ہوں تا ان کے سامنے آپ کو لاجواب کر دوں.میں نے کہا جناب پہلے اندر تشریف لائیے ، قہوہ نوش فرمائیے پھر ہم آپ کے سوالات پر بھی غور کریں گے.چنانچہ وہ اندر آگئے.میں نے فورا سٹوو پر قہوہ تیار کر کے ان سب کے سامنے رکھا اور اپنی کرسی پر بیٹھ کر ان سے کہا کہ اب آپ فرما ئیں کیا سوال ہے.شیخ عبد اللطیف صاحب نے فرمایا کہ آپ کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاگئے ہیں.آپ بتائیں کہ حضرت عیسی کی قبر کہاں
مصالح العرب.....جلد اول 251 ہے؟ میں نے کہا کہ ہمارا اعتقاد از روئے قرآن مجید یہی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی باقی انبیاء کی طرح وفات پاگئے ہیں مگر ہمیں ان کی قبر سے کیا سروکار ؟ وہ قبر کہیں بھی ہو ہم نے کوئی اس قبر کی پرستش کرنی ہے.قابل غور صرف یہ بات ہے کہ آیا قرآن مجید حضرت عیسی کی وفات کا اعلان کرتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر قبر کے بارے میں سوال کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی.میرے اس جواب پر شیخ مذکور نے اپنے شاگردوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ کیا میں نے تم کو نہ کہا تھا کہ آج اس قادیانی سے وہ سوال کروں گا جس کا اس کو جواب نہ آئے.پھر ان سے پوچھنے لگا کہ کیا تم لوگوں نے الخلیل (حضرت ابراہیم کے نام پر فلسطین کا ایک شہر ہے جہاں پر حضرت ابراہیم کے نام پر فلسطین کا ایک شہر ہے جہاں پر حضرت ابراہیم اور بعض انبیاء کی قبریں ہیں ، یہودی اس شہر کو حبرون کہتے ہیں) دیکھا ہے؟ اور کیا اس جگہ نبیوں کی قبریں بھی دیکھی ہیں؟ طلباء نے کہا جی ہاں دیکھا ہے وہاں پر انبیاء کی قبریں بھی دیکھی ہیں.اس پر الشیخ العبوشی نے دریافت کیا کہ کیا ان قبروں میں حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر بھی ہے ؟ طلبہ نے نفی میں جواب دیا.استاد نے فرمایا کہ بس معلوم ہو گیا کہ چونکہ حضرت عیسی کی قبر وہاں موجود نہیں اس لئے وہ آسمانوں پر زندہ ہیں.پھر استاد صاحب فاتحانہ انداز میں مجھ سے کہنے لگے کہ آج تو آپ کو حضرت عیسی کی قبر کی نشاندہی کرنی پڑے گی ورنہ انہیں زندہ ماننا پڑے گا.میں آپ کو لاجواب کر کے جاؤں گا.میں نے مزید نرم لہجہ میں شیخ صاحب سے عرض کیا کہ حضرت اس سوال کو چھوڑیے یہ عقیدہ وفات مسیح سے براہ راست متعلق نہیں ، ہمیں ان کی قبر سے کیا واسطہ.ہم کوئی ان کو خدا یا خدا کا بیٹا مانتے ہیں کہ ان کی قبر تلاش کر کے اس کی پرستش شروع کر دیں؟ میری اس مناظرانہ حکمت عملی کو نہ سمجھتے ہوئے شیخ مذکور اور زیادہ اصرار کرنے لگے.گویا ان کا سوال وہ پتھر ہے جو اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا.اس دوران گاہے گاہے آپ اپنے طلباء سے داد خواہ بھی ہوتے تھے.میں نے کہا: دیکھئے جناب قبر کا اتا پتا بتانے سے یہ معاملہ ختم نہ ہو گا.آپ پھر دوسرے لامتناہی سوالات کا سلسلہ شروع کر دیں گے.مثلاً یہ کہ وہ کس بیماری سے فوت ہوئے تھے؟ کس وقت فوت ہوئے تھے؟ کس تاریخ کو اور کس موسم میں فوت ہوئے تھے؟ ان کا علاج کون کرتا تھا ؟ ان کو کیا کیا دوا دی گئی تھی ؟ وغیرہ.بات کو مختصر کرتے ہوئے صرف یہ دیکھ لیں کہ قرآن مجید ان کو وفات یافتہ قرار دیتا ہے یا نہیں؟ اگر قرآن مجید سے ان کی وفات ثابت }
مصالح العرب.....جلد اول 252 ہو جائے تو ہمیں عقیدہ کی جزوی باتوں میں پڑنے کی ضرورت نہ ہوگی.تاریخی تحقیقات کا مسئلہ الگ ہے.میری اس تشریح کو انہوں نے پھر جواب سے گریز قرار دے کر طلبہ کو اپنی نمایاں فتح کی طرف توجہ دلائی اور مجھے کہنے لگے کہ آج تو ہم آپ کو ادھر ادھر جانے نہ دیں گے...میں نے دیکھا کہ سادہ فطرت نوجوان طلبہ کے چہروں سے بھی کچھ حیرت کا اظہار ہونے لگا ہے تب میں نے پہلو بدلتے ہوئے شیخ صاحب سے کہا کہ گویا آپ حضرت مسیح کی قبر کی نشاندہی کے بغیر کسی اور بات پر راضی نہ ہوں گے؟ انہوں نے سر ہلاتے ہوئے اس کی تصدیق کی.میں نے کہا کہ لیجئے پھر میں آپ کو حضرت مسیح کی قبر کا پتہ بھی بتائے دیتا ہوں.اس پر استاد بھی چونکا اور طلبہ بھی ہمہ تن متوجہ ہو گئے.میں نے پوری ثقاہت سے آہستہ سے یہ فقرہ کہا: إِنَّ قَبْرَ عيسي في جنب قبر نوح عليهما السلام که حضرت عیسی کی قبر حضرت نوع کی قبر کے پہلو میں ہے.میرا یہ کہنا تھا کہ استاد پر سکتہ طاری ہو گیا.اور طلبہ بھی حیرت زدہ ہو گئے.تھوڑے سے وقفہ کے بعد الشیخ العبوشی فرمانے لگے: فأين قبر نوح؟ لا ندری قبرہ کہ نوح کی قبر کہاں ہے ہمیں تو اس کا پتہ نہیں.میں نے بطور لطیفہ کہا: جناب ، حضرت نوح کی قبر حضرت عیسی کی قبر کے بائیں جانب ہے اور حضرت عیسی کی اس کے دائیں طرف.آپ حضرت نوح کی قبر بتادیں میں حضرت عیسی کی قبر دکھا دوں گا.میں نے استاد کی حیرانی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طلبہ کو مخاطب کر کر کے کہا کہ کیا تم نے الخلیل میں حضرت نوح کی قبر دیکھی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں میں نے کہا: کیا پھر وہ آسمانوں پر زندہ ہیں؟ کہنے لگے کہ حضرت نوح زندہ تو نہیں ہیں.میں نے کہا کہ پھر قبر کے معلوم نہ ہونے کو آسمانوں پر زندہ ہونے کی دلیل کیونکر ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ کہنے لگے کہ آپ ہمیں بتائیں کہ تاریخی طور پر آپ کیا مانتے ہیں؟ اب فضا صاف تھی اور ذہن اطمینان سے غور کرنے کے لئے تیار تھے.میں نے اس بارے میں انہیں پوری تفصیل بتائی جسے وہ ہمہ تن گوش ہو کر سنتے رہے.(الفرقان نومبر 1985 صفحہ 4، 8،5) کشمیر دُور ہے یا آسمان؟ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ نابلس شہر کے چند سکول ماسٹر ملنے کیلئے میرے پاس کہا بیر میں تشریف لائے.اس وقت چند احمدی احباب بھی موجود تھے جن میں الشیخ علی القرق بھی
مصالح العرب.....جلد اول 253 تھے.نابلسی اساتذہ میں سے ایک نے کہا کہ کیا آپ حضرت مسیح کو وفات یافتہ مانتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں قرآن مجید سے یہی ثابت ہوتا ہے.اس پر انہوں نے سادا طریق پر پوچھا کہ پھر ان کی قبر کہاں ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ان کی قبر کشمیر ہندوستان میں ہے.اس نے جھٹ سوال کر دیا کہ حضرت مسیح تو فلسطین میں تھے پھر کشمیر میں اتنی دور وہ کس طرح چلے گئے؟ اس سوال کا میں ابھی جواب دینے نہ پایا تھا کہ الشیخ علی القرق نے جھٹ پٹ کہہ دیا کہ: يا أستاذ، هل كانت بلاد الكشامرة أبعد من السماء؟ اے استاد، کیا کشمیر کا ملک آسمان سے بھی دور ہے؟ اس کا جواب سنا تھا کہ تمام اساتذہ عش عش کر اٹھے اور کہنے لگے کہ بہت عمدہ جواب ہے.تثلیث اور توحید کے حامی قیام مصر کے زمانہ میں ایک دفعہ عیسائی مبلغین سے حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کے بارہ میں مناظرہ مقرر ہو گیا.فریق مخالف میں دو امریکن پادری اور ایک مصری پادری تھے.اس مباحثہ میں الازہر کے بعض مشائخ اور دوسرے تعلیم یافتہ لوگ بھی سامعین میں شامل تھے.خوب دھوم دھام سے مباحثہ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کا غلبہ ظاہر ہوا.ایک عجیب اتفاق اس موقعہ پر یہ ہوا کہ عیسائی صاحبان کی طرف سے پہلے مصری پادری صاحب نے جواب دیئے.امریکن انچارج پادری نے اس کی کمزوری کو محسوس کر کے دوسرے موقعہ پر خود کھڑا ہونا ضروری سمجھا اور جواب دینے کی کوشش کی.دو مرتبہ کے بعد وہ خود بخود بیٹھ گیا اور تیسرے پادری کو کھڑا کر دیا.اس بے چارے نے بھی ہاتھ پاؤں مارے مگر ان سب سے بات نہ بن سکی.معاملہ یہ پیش تھا کہ خود انجیل سے ہی ایسے دو مومن گواہ پیش کر دئیے جائیں جو یہ گواہی دیں کہ ہم نے بچشم خود حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر جان دیتے ہوئے دیکھا ہے.اس مطالبہ کو ان پادری صاحبان میں سے کوئی پورا نہ کر سکا.اس پر ایک صاحب نے کہا کہ کیا بات ہے کہ ادھر تین پادری باری باری بولتے ہیں اور ادھر آپ اکیلے ہی ان سب کو جواب دیتے ہیں.میں نے بطور لطیفہ کہا کہ میں توحید کا حامی ہوں اس لئے اکیلا ہوں اور وہ تثلیث کے قائل ہیں اس لئے تین ہیں.اس پر پادری صاحبان بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکے.ملخص از ماہنامہ الفرقان دسمبر 1985 ء صفحہ 7-8)
مصالح العرب.....جلد اول قاہرہ کا ایک واقعہ شیخ محمود احمد عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ : 254 عبد الحمید خورشید مولانا جلال الدین صاحب شمس کے ہاتھ پر احمدی ہوا تھا اسے تبلیغ کا بے حد شوق تھا اور اس جوش کی وجہ سے وہ اپنے حلقہ احباب میں سخت معتوب ہو گیا تھا.اکثر لوگ اس کے دشمن ہو گئے تھے اور اس کو نقصان پہنچانے کی فکر میں لگے رہتے تھے.ایک دفعہ مولا نا ابو العطاء کے زمانہ قیام میں وہ جب کہ ایک نمبر ”البشری کا تقسیم کر رہا تھا تو اس کے خلاف بیحد جوش پھیل گیا.البشریٰ کا یہ نمبر علمائے ازھر کے جواب میں شائع کیا گیا تھا.علمائے ازھر نے اپنے رسالہ انوار الاسلام میں ایک لمبا چوڑا مضمون احمدیت کے خلاف شائع کیا تھا.اس مضمون کو مصر میں ہی نہیں بلکہ تمام عالم اسلامی میں بڑی اہمیت دی گئی.فلسطین ، شام ، عراق، عدن ، کویت، سنگاپور اور مراکش کے اخباروں میں میں نے خود اسے چھپا دیکھا تھا.البشری میں مولانا ابو العطاء نے اس رسالہ کا جواب لکھا.اس جواب کی اشاعت نہایت ضروری تھی اور ضرورت تھی کہ علماء کے گڑھ یعنی ازھر اور اس کے گرد و پیش میں اسے بکثرت تقسیم کیا جائے.تمام احمدیوں نے اپنے آپ کو پیش کیا.عبد الحمید آفندی خورشید نے اسے شارع ازھر میں تقسیم کرنا شروع کیا.ایک قہوہ خانہ میں ازھری طالبعلم جمع تھے انہوں نے عبد الحمید کو گھیر لیا.پہلے تو اس سے بحث مباحثہ کرتے رہے، پھر لڑائی کی صورت بنا لی اور انہوں نے ارادہ کیا کہ اسے مار ڈالیں.مگر گشت پر گزرنے والے سپاہی نے اس کی جان بچائی.عبد الحمید جب ان بھیڑیوں میں سے نکل کر چل پڑا تو بعض شریر بھی اس کے پیچھے چل پڑے مگر عبد الحمید ایک گلی میں گھس گیا اور گھوم کر اپنے ایک واقف کار کے مکان میں داخل ہو گیا.جہاں ساری رات اس کے نکلنے کا انتظار کیا گیا اور فجر کی نماز کے وقت وہ دشمن اس جگہ کو چھوڑ کر چلے گئے.مدرسہ احمدیہ جدید خطوط پر شیخ محمود احمد عرفانی صاحب فرماتے ہیں: ایک مفید اور عظیم الشان کام کی داغ بیل مولانا ابو العطاء کے ہاتھوں ڈالی گئی اور وہ
مصالح العرب.....جلد اول 255 مدرسہ احمدیہ کا قیام تھا.مولانا جلال الدین صاحب شمس کے زمانہ میں وہاں ایک پرانی طرز کا کی مدرسہ تھا جس میں شیخ عبد القادر صاحب مغربی بچوں کو قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے لیکن بڑھنے والی قوم کا قدم آگے ہی آگے پڑتا ہے.ہمارے بچے اگر غیروں کے مدرسوں میں جائیں تو یہ اندیشہ شدید تھا کہ مخالف اساتذہ ان کو اپنے خیالات سے مسموم نہ کریں.اس لئے یہ شدید ضرورت تھی کہ وہاں جدید نظام پر ایک مدرسہ قائم کردیا جائے.اس کے لئے سخت مشکلات تھیں.کہا بیر میں کوئی مدرس نہیں مل سکتا تھا.غیر احمدی مدرس کو اپنے مدرسہ میں رکھنے سے ہماری غرض مفقود ہو جاتی تھی.اس لئے بہت سی پریشانیوں میں سے گزرنا پڑا.آخر تجویز ہوئی کہ مصر سے ایک نوجوان احمدی فلسطین بھیج دیا جائے.کچھ وہ اور کچھ شیخ عبد القادر مغربی اور کچھ مشنری خود پڑھائے اور اس طرح مل ملا کر مدرسہ کو چلایا جائے.اس غرض کے لئے محمد سعید بخت ولی نامی نوجوان کو منتخب کیا گیا.محمد سعید ازھر میں ایک طالبعلم تھا.اس کا والد افغانی رواق کا شیخ تھا.محمد سعید احمدی ہو کر سلسلہ میں داخل ہوا.علماء ازھر نے تحقیقات کر کے اس کو ازھر سے خارج کر دیا.وظیفہ بند کر دیا.مگر وہ اس تکلیف میں بھی ثابت قدم رہا.اس لئے تجویز ہوئی کہ اسے مدرسہ کے لئے فلسطین بھیج دیا جائے.مگر حکومت فلسطین نے اسے فلسطین میں جانے کی اجازت نہ دی.ایک لمبی جدو جہد کے بعد مولانا اس کے فلسطین لے جانے میں کامیاب ہو گئے اور مدرسہ کی شکل کو تبدیل کر کے جدید نظام مدارس کی طرز پر مدرسہ کا افتتاح کر دیا.ایک لطیف اور تاریخی بات حیفا ، ناصرہ کے قریب ہی ہے.ناصرہ سے حیفا کو سیدھا راستہ جاتا ہے.ناصرہ میں حضرت مسیح علیہ السلام پیدا ہوئے جس کی وجہ سے وہ ناصری کہلائے.ناصرہ کے رہنے والے مسیح نے بیت المقدس آكر مَنْ أَنْصَارِى إِلَى الله کا مطالبہ کیا.زمینوں کے اور پہاڑوں کے دامن میں رہنے والے ماہی گیروں نے اس آواز پر لبیک کہی.انیس سو سال کے بعد جبل کرمل پر پھر ایک دفعہ مَنْ أَنْصَارِی إِلَى الله کی آواز گونجی.جس کا جواب کہا بیر اور اس کے گرد ونواح کے عرب سنگ تراشوں اور مزدوروں نے نَحْنُ انصار الله کے پُر کیف و پر وجد نغمہ میں دیا.یہاں اور وہاں فرق اس قدر تھا کہ وہاں مسیح خود
مصالح العرب.....جلد اول بول رہا تھا اور یہاں مسیح کا ایک خادم آواز دے رہا تھا.عبرانی کی تعلیم 256 فلسطین میں یہودی اور عیسائی بکثرت پائے جاتے ہیں.سومولانا نے انہیں تبلیغ کے نقطہء خیال سے یہ ضروری خیال کیا کہ اس زبان کی تکمیل و تحصیل کی جائے جو مسیح کی اپنی زبان تھی تا کہ پرانے نوشتوں کو ان کی اصلی زبان میں پڑھا جاسکے اور یہودی قوم کو ان کی زبان میں پیغام دعوت دیا جا سکے.الغرض اس کے لئے بعض یہودی معلموں کو تنخواہ دے کر مولانا نے عبرانی زبان سیکھی اور اس پر کافی عبور حاصل کیا.عظیم الشان کام فلسطین کی جماعت کی مرکز سے ہمیشہ وابستگی کے لئے ہمارے مبلغ نے ایک شاندار کام یہ کیا کہ ایک بہت بڑا قطعہ زمین وہاں کی جماعت سے لے کر صدر انجمن احمدیہ کے نام وقف کرا دیا.آج اس کام کی قیمت ممکن ہے کہ اتنی نہ سمجھی جائے لیکن وقت آئے گا کہ یہ عظیم الشان کام اپنی اہمیت کو خود ظاہر کر دے گا.اس کام کی وجہ سے وہاں کی جماعتوں کو مرکز سلسلہ کے ساتھ شدید وابستگی رہے گی.جماعت کو رجسٹر ڈ کرانے کی مساعی ہمارے مبلغ نے اس عرصہ میں یہ بھی سعی کی کہ ہماری جماعت احمد یہ فلسطین کو سرکاری کا غذات میں رجسٹرڈ کرا کر ایک مسلمہ حیثیت دے لیں.اس کام میں بہت سی مشکلات تھیں مگر اللہ تعالیٰ کا فضل ان کے شامل حال رہا ہے اور جماعت کو سرکاری حلقوں میں ایک مسلمہ جماعت تسلیم کر لیا گیا ہے.اس طرح سے ایک نہایت ہی ٹھوس کام کو گزشتہ ساڑھے چارسال کے عرصہ میں سرانجام دیا گیا.جماعت کا بیج فلسطین، شام، عراق، شرق اردن ،مصر، اور سوڈان تک پھیل گیا ہے اور پھیل رہا ہے.اور یہ چھوٹے چھوٹے پودے بڑھ رہے ہیں اور ترقی حاصل کر رہے ہیں.وقت آنے پر وہ بہت بڑے تن آور درخت بن جائیں گے.مشخص از الحکم 14 اور 28 / مارچ و 7 /اپریل 1936 ء محمود احمد عرفانی صاحب کا مضمون)
مصالح العرب.....جلد اول مولانا ابوالعطاء صاحب کی حیفا سے واپسی 257 حضرت مولانا ابو العطاء صاحب خدمت سلسلہ سے بھر پورساڑھے چار سال گزارنے کے بعد 10 فروری 1936 ء کو حیفا سے واپس قادیان جانے کے لئے روانہ ہوئے اور 23 / فروری 1936ء کو خیریت سے قادیان دار الامان پہنچ گئے جہاں آپ کا والہانہ استقبال کیا گیا اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی از راه شفقت بنفس نفیس ریلوے سٹیشن پر تشریف لائے اور شرف مصافحہ و معانقہ کے بعد اپنی موٹر کار میں بٹھا کر شہر میں لے آئے.(ماخوذ از الحکم قادیان 28 فروری و 7 / مارچ 1936 ) XXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.....جلد اول 258 البشری، کبابیر، فلسطین البشریٰ کا اجراء حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کا ایک عظیم کارنامہ ہے، جس کی طرف مولانا ابو العطاء صاحب کی مساعی کے تذکرہ میں اشارہ ہو چکا ہے.ذیل میں اس کے بارہ میں مفصل معلومات درج کی جاتی ہیں.کبابیر، فلسطین سے شائع ہونے والے اس عربی مجلہ کے بانی ، دیار عربیہ میں خدمات بجا لانے والے دوسرے مبلغ ، خالد احمدیت ، حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری مرحوم تھے.اس رسالہ کو آپ نے شوال 1350 ھجری بمطابق مارچ 1932ء میں جاری فرمایا.شروع میں اس کا نام ”البشارة الإسلامية الأحمدية“ تھا مگر جنوری 1935ء میں البشری“ کے نام سے شائع ہونے لگا.عام طور پر یہ رسالہ عربی زبان میں ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی انگریزی زبان میں بھی مضامین شائع ہوتے رہے ہیں.یہ رسالہ زیادہ تر ان ممالک میں جاتا رہا ہے جہاں عربی بولی اور سمجھی جاتی ہے.تاہم اب عمومی طور پر مقامی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور بعض ہمسایہ ممالک میں بھی ارسال کیا جاتا ہے.دیار عربیہ میں جماعت کا یہ ترجمان مجلہ خدا کے فضل سے قریب 80 سال سے خدمت اسلام کی توفیق پا رہا ہے.چنانچہ کبھی تو یہ یہود کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک پر چلائے گئے زہر ناک تیروں کے سامنے سینہ سپر رہا.کبھی بڑے بڑے پادریوں کے ساتھ ہونے والے تحریری مناظرات کے لئے میدان کارزار بنارہا.کبھی بہائیوں کی خلاف اسلام سازشوں کو بے نقاب کرتا رہا.اور کبھی حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے دفاع میں غیر احمدی علماء کے ساتھ نبرد آزما رہا.اسلام کی وہ اصل اور حسین شکل جو مسیح محمدی نے اس دور میں دوبارہ پیش
مصالح العرب.....جلد اول 259 کی ہے اسے اس مجلہ نے عربوں کے سامنے کچھ ایسے دلر با انداز میں پیش کیا کہ وہ انگشتی بدنداں رہ گئے اور کئی صلحاء العرب و ابدال الشام آپ اور آپ کے آقا پر درودوسلام بھیجنے لگے.وو مدیران الْبُشْرى“ جن احباب کو اب تک ”البشری“ کی ادارت کی سعادت ملی ہے ان کے اسماء گرامی مع عرصہ ادارت درج ذیل ہیں.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مرحوم (1932ء-1937) اس دوران حضرت منیر احصنی الشامی صاحب مرحوم آپ کی معاونت فرماتے رہے) مولانا محمد سلیم صاحب مرحوم ( 1937 - 1938 ء ) مولا نا چوہدری محمد شریف صاحب مرحوم ( 1938ء.1955ء ) مولانا جلال الدین صاحب قمر (1956ء.1965ء) مولا نا فضل الهی صاحب بشیر ( 1966ء.1967ء) مولانا بشیر الدین عبید اللہ صاحب مرحوم ( 1968ء.1971ء) مولانا محمد منور صاحب مرحوم ( 1972ء.1973ء ) مولانا جلال الدین صاحب قمر (1973ء.1977ء) مولا نا فضل الہی صاحب بشیر (1977 ء.1981ء) مکرم فلاح الدین عودہ صاحب (1981ء.1991ء) مولا نا محمد حمید کوثر صاحب ( 1991ء.1998ء) مکرم عکرمہ عجمی صاحب (1998ء) مکرم موسیٰ اسعد عودہ صاحب(1999ء.2000ء) مکرم فلاح الدین عودہ صاحب (2000ء.2001ء) مکرم ڈاکٹر ایمن فضل عوده صاحب (2002ء تا 2004 ) مکرم شمس الدین مالا باری صاحب (2005ء) مکرم عکرمہ نجمی صاحب (2006ء) مكرم فضل یونس عوده صاحب (2007ء تا حال)
مصالح العرب.....جلد اول اثر ونفوذ 260 ذیل میں بعض غیر از جماعت عرب شخصیات کی چند شہادتیں درج کی جاتی ہیں جن.بخوبی پتہ لگتا ہے کہ یہ رسالہ عالم عرب میں کس قدر مقبول تھا اور اس نے خدا کے فضل سے کس قد رشاندار خدمت اسلام کی ہے.شرعی عدالت کے وکیل کا تبصرہ یافا ، فلسطین کے اخبار الصراط المستقیم کے مالک اور ایڈیٹر شیخ عبد اللہ افندی القلقیلی نے رسالہ البشری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: البشری کا دوسرا شمارہ ایک نئی رائے لئے ہوئے سامنے آیا ہے کہ حقیقی عہد نامہ جدید تو قرآن کریم ہے نہ کہ انجیل جیسا کہ عیسائی خیال کرتے ہیں.نیز یہ کہ یوحنا نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی پیشگوئی کی تھی قوم نصاری کے رڈ میں جناب جالندھری صاحب نے جو کچھ تحریر کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ تو ریت، انجیل اور دیگر صحف انبیاء کا بڑا گہرا علم رکھتے ہیں کیونکہ موصوف اپنے ہر دعوے کو اہل کتاب کی کتب سے ثابت کر کے دکھاتے ہیں.آپ کے دلائل نہایت پختہ اور واضح ہیں.یوں لگتا ہے کہ موصوف کو خود خدا تعالیٰ نے عیسائی پادریوں کے مقابلے اور ان کے جھوٹ کا پول کھولنے کے لئے مقرر فرمایا ہے.اگر آپ کو کچھ عرصہ مہلت ملی تو آپ لا زما ان لوگوں کو شکست سے دو چار کر دیں گے اور لازما نصاری میں سے بہتوں کو اسلام کی طرف ہدایت دینے میں کامیاب ہو جائیں گے.انشاء اللہ.اخبار الصراط المستقیم 26 / ربيع الأول 1354ھ شماره 847 - بحوالہ " البشری " فلسطین جون 1935 جلد اول شماره 6 روح القدس سے تائید یافتہ شرق اردن سے جماعت اخوان المسلمین کے ایک ممبر نے ایڈیٹر البشری کے نام اپنے 18 دسمبر 1936 کے خط میں لکھا: آپ کا موقر رسالہ اتفاقاً میرے ہاتھ لگا اور میں نے فورا ہی اس کے سارے مضامین پڑھ
مصالح العرب.....جلد اوّل 261 ڈالے.اس میں شائع ہونے والی یہ تحقیقات آپ کی وسیع معلومات ، پختہ ایمان اور مضبوط عقیدہ پر گواہ ہیں.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس مجلہ کے شائع کرنے کے پیچھے ، خدا تعالیٰ سے گہرا اخلاص، نیک نیتی اور سچائی سے گہرا پیار کار فرما ہے.یوں لگتا ہے کہ وہ قلم جو اس مجلہ کو تحریر کرتا ہے اور اس جماعت کے منکرین کے جواب دیتا ہے وہ روح القدس سے تائید یافتہ ہے.(البشری، فلسطین دسمبر 1936 ء جلد دوم شماره 12 ) کامیاب دفاع رسول پر مبارکباد 1970ء میں ایک یہودی اخبار میں ہمارے سید و مولی ،سید المرسلین ، خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک مضمون نشر ہوا.”البشری نے فوراً اس کا ایسا دندان شکن جواب دیا کہ غیر از جماعت احباب نے بھی دلی مبارکباد دی.اس ضمن میں موصول ہونے والے پیغامات میں سے دو درج ذیل کئے جاتے ہیں: پیغام نمبر :1: یہ خط عکا شہر کی مجلس اوقاف اسلامیہ کے سیکرٹری مکرم محمد حبیشی صاحب کی طرف سے تھا.انہوں نے لکھا کہ ہم آپ کے شکر گزار ہیں اور آپ کی پر زور تائید کرتے ہیں کہ آپ لوگ آگے بڑھے اور رسولِ انسانیت اور امن وسلامتی کے پیکر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کا جھنڈا تھام لیا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہدایت اور دین حق لے کر آئے تھے تا کہ اسے سب ادیان پر غالب کر دیں خواہ کا فرا سے ناپسند ہی کیوں نہ کریں.ہم آپ کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے ہیں کہ 24 اپریل 1970ء کو اخبار یدیعوت احرونوت میں حضرت خاتم النبین والمرسلین کے خلاف چھپنے والے افتراء کا آپ نے خوب رد فرمایا.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و مدد گار رہو.آمین.پیغام نمبر 2: دوسرا خط کابل سے مکرم محمد علی ریان صاحب کا تھا.انہوں نے تحریر فرمایا : میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے اخبار یدیعوت احرونوت" میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف چھپنے والے مقالہ پر خوب احتجاج کیا اور نہایت کامیاب دفاع کیا.اس مقالے کے خلاف یہی ایک احتجاجی جواب ہے جو میری نظر سے گزرا ہے حالانکہ ان ممالک میں بے شمار اسلامی تنظیمات ہیں.البشری، فلسطین جلد 30 شماره 6-7
مصالح العرب.....جلد اول رسالة البشرى 262 چین میں تعلیم حاصل کرنے والے مبلغ سلسلہ مکرم محمود احمد انیس صاحب لکھتے ہیں کہ : چین کے جنوب کے ایک صوبہ Yun Nan کے شہروں اور دیہاتوں میں کثیر تعداد میں مسلمان آباد ہیں.لوگ بہت اچھے اور مہمان نواز ہیں.اسی صوبہ کی ایک جگہ کا نام Wei Shan ہے.یہ ایک قصبہ سا ہے جہاں کے لوگوں کا مذہب سے کافی لگاؤ ہے.اس میں مسلمانوں کی 35 کے قریب مساجد اور مردوں اور عورتوں کے بہت سے دینی مدارس ہیں.غالباً دسمبر 1997 ء کی بات ہے ، ایک دن صبح کے وقت Wei Shan کے ایک دینی مدرسہ کے پاس سے گزر رہا تھا اور اتفاق سے اس وقت میرے ہاتھ میں چینی زبان میں مطبوعہ کچھ کتا بیں بھی تھیں.میں اس مدرسہ میں چلا گیا جہاں اسکے پرنسپل اور کچھ اور اساتذہ سے مختلف موضوعات پر بات ہوتی رہی.اس دوران ایک بزرگ عمر کے عالم دین بھی آگئے جن کی عمر اس وقت اسی سال کے لگ بھگ ہوگی.مجھے بتایا گیا کہ یہ اس علاقہ کے مفتی ہیں.سلام دعا کے بعد وہ اسلامی اصول کی فلاسفی کے چینی ترجمہ کو دیکھ کر کہنے لگے کہ میں اسکے مترجم کو جانتا ہوں، یہ کتاب تو جماعت احمدیہ کی ہے.پھر خود ہی کہنے لگے کہ اس جماعت کے ایک رسالہ ” البشر می کی بہت سی کا پیاں ہمارے گھر میں تھیں.پھر اس رسالہ کے متعلق کچھ تعریفی بات بھی کی.میں نے پوچھا کہ وہ رسالے آپ نے کہاں سے لیے اور کہاں ہیں ؟ تو وہ کہنے لگے میرے والد ہندوستان جاتے تھے اور وہاں سے لائے تھے لیکن بعد میں ملکی حالات کے پیش نظر ہماری بہت سی کتب کے ساتھ ان رسالوں کو بھی جلا دیا گیا.مجھے ان کی یہ بات سن کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ کیسے خدا تعالیٰ نے جماعت کے پیغام کو چین کے ایک انتہائی دور دراز علاقے میں ایک لمبا عرصہ پہلے پہنچانے کے سامان فرمائے جس کی گواہی آج مجھے بھی مل گئی.الْبُشْری“ ، جامعہ احمد یہ ربوہ " شاید یہاں پر یہ بتانا مفید ہو کہ البشری ہی کے نام سے پاکستان سے بھی عربی زبان میں ایک رسالہ نکلتا رہا ہے.یہ سہ ماہی رسالہ 1958ء سے شروع ہو کر 1973 تک جاری رہا.اس کا پہلا شمارہ جولائی 1958ء میں نکلا.اس کے بھی بانی اور سب سے پہلے رئیس التحریر حضرت
مصالح العرب.....جلد اول 263 مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مرحوم تھے.مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری نے جنوری 1935ء میں حیفا (فلسطین) سے ماہنامہ البشری جاری فرمایا تھا.آپ نے اکتوبر 1957 ء سے ربوہ میں بھی اسی نام سے ایک عربی رسالہ کا آغاز فرمایا اور پرنسپل جامعہ احمد یہ جناب سید داؤد احمد صاحب کو پیشکش کی کہ اگر البشریٰ پسند ہو تو جامعہ احمدیہ اسے بخوبی اپنا سکتا ہے.آخر جامعہ ہمارا جامعہ ہے اور ہم جامعہ کے.سید نا حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت اقدس میں جب یہ تجویز پیش ہوئی تو حضور نے اس امر کی بخوشی اجازت مرحمت فرما دی اور یہ رسالہ وسط جنوری 1959ء سے پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ کی نگرانی میں آگیا اور ملک مبارک احمد صاحب استاذ الجامعہ اس کے مدیر مقرر ہوئے.مئی 1959 ء میں اس کا پہلا شمارہ نئے انتظام کے تحت منصہ شہود پر آیا جو ظاہری اور باطنی خوبیوں کا مرقع تھا.اس کے معیاری اور بلند پایہ مضامین اور نفیس طباعت اور بہترین دبیزی کاغذ کو دیکھ کر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے غایت درجہ خوشنودی کا اظہار فرمایا.رسالہ "البشری مرکز احمدیت کا واحد عربی رسالہ تھا.اور اس نے سید میر داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ کی خصوصی سر پرستی اور ملک مبارک احمد صاحب کی مثالی ادارت میں شاندار اور نا قابل فراموش علمی خدمت سرانجام دی اور حضرت مسیح موعود اور حضرت مصلح موعودؓ کی متعدد مقدس تحریرات کو نہایت فصیح و بلیغ اور بامحاورہ عربی میں منتقل کر کے انہیں عرب ممالک کے بلند پایہ علمی حلقوں تک پہنچایا.چنانچہ ”البشری میں کشتی نوح “ اور ”الوصیت کے اقتباسات کے علاوہ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ کا مکمل عربی ترجمہ اشاعت پذیر ہوا اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ کی تصنیف تفسیر کبیر اور دعوت الا میر کے بعض الامیر حصوں کا نیز دعوت اتحاد اور رحمتہ للعالمین کا مکمل عربی ترجمہ اس میں چھپا.علاوہ ازیں مندرجہ اہل قلم بزرگوں اور نو جوانوں کے بلند پایہ مضامین بھی اس میں اشاعت پذیر حضرت مرزا بشیر احمد حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب، مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری، شیخ نور احمد صاحب منیر، شیخ عبد القادر صاحب محقق عیسائیت، مولوی بشارت احمد صاحب بشیر، سید عبدالحی شاہ صاحب شیخ ناصر احمد صاحب مبلغ سوئٹزر لینڈ، صوفی محمد اسحاق صاحب سابق مبلغ لائبیریا.قاضی محمد اسلم صاحب صدر شعبہ نفسیات کراچی یونیورسٹی.مولوی جمیل الرحمن صا
264 مصالح العرب.....جلد اول مولوی محمد یعقوب صاحب امجد.بیرونی ممالک کے احمدیوں میں سے خالد و تلف (جرمنی) عبد السلام میڈیسن (ڈنمارک) الأستاذ رشدی با کیر البسطی (سابق صدر جماعت حیفا) اور السید عبد الحمید خورشید (مصر) کی نگارشات بھی رسالہ کی زینت بنیں.تاریخ احمدیت جلد 18 صفحہ 736-737) مارچ1959ء کے شمارہ سے اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ یہ رسالہ جامعہ احمد یہ ربوہ کے زیر انتظام شائع ہونا شروع ہوا اور مکرم و محترم ملک مبارک احمد صاحب مرحوم استاذ الجامعہ اس کے رئیس التحریر مقرر ہوئے.1973ء میں حضرت سید میر داؤ داحمد صاحب کی وفات کے ساتھ ہی علم و تحقیق کا یہ عظیم عربی مجلہ بھی اخبارات و رسائل کے افق سے غائب ہو گیا.(ماخوذ از مضمون مکرم عبد المؤمن طاہر صاحب مطبوعہ اخبار بدر قادیان 25 دسمبر 2002 ء ) 00000
مولا نا ابو العطاء صاحب اور مکرم منیر الھنی صاحب
MAKHIAN TASAWEER 2009 افراد جماعت کبابیر کی مولانا جلال الدین شمس صاحب اور مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب الو کے ساتھ 1931 میں لی گئی ایک تصویر C مدرسہ احمدیہ کہا بیر کے طلباء اور احباب جماعت کہا بیر کی مکرم مولانا ابو العطاء صاحب ، مکرم منیر اکھنی صاحب، اور مکرم مولا نا محمد سلیم صاحب کے ساتھ 1936 کی ایک تصویر
مصالح العرب.....جلد اول 265 عربی پریس میں جماعت احمدیہ کی خدمات کی بازگشت حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کی بلاد عربیہ میں تبلیغی مساعی کے آخر پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس عرصہ کے عربی اخبارات میں جماعت کی تبلیغ اسلام کی کوششوں کا جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز کامیابی اور قابل تقلید اسلامی خدمات کا جو کھلا کھلا اقرار کیا گیا اس کا کچھ ذکر کیا جاتا ہے.چنانچہ قاہرہ کے اخبار (الفتح) 20 / جمادی الآخر 1351ھ مطابق 22 اکتوبر 1932 ء نے جماعت احمدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: نظرت فإذا حركتهم امر مدهش فإنهم رفعوا أصواتهم وأجروا أقلامهم باللغات المختلفة وأيدوا دعوتهم ببذل المال في المشرقين والمغربين فى مختلف الأقطار والشعوب ونظموا جمعياتهم وصدقوا الحملة حتى استفحل امرهم وصارت لهم مراكز دعاية في آسيا وأوروبا وأمريكا وأفريقيا تساوى علمًا وعملاً جمعيات النصارى وأما في التأثير والنجاح فلا مناسبة بينهم وبين النصارى فالقاديانيون أعظم نجاحا لما حقائق الإسلام وحكمه “ معهم من میں نے دیکھا ہے کہ قادیانی تحریک ایسی حیرت انگیز چیز ہے.قادیانیوں نے تقریری اور تحریری طور پر مختلف زبانوں میں اپنی آواز بلند کی ہے نئی اور پرانی دنیا کے مشرق و مغرب میں
266 مصالح العرب.....جلد اول مختلف ملکوں اور قوموں میں بذل مال کے ذریعہ اپنی تبلیغ کو تقویت پہنچائی ہے.انجمنیں اور کی جمعیتیں مرتب کر کے زبر دست حملہ کیا ہے یہاں تک کہ ان کا معاملہ عظیم الشان ہو گیا.اور ایشیا، یورپ، امریکا اور افریقہ میں ان کے تبلیغی مرکز قائم ہو گئے جو ہر طرح سے علمی اور عملی طور پر عیسائیوں کے مشنوں کے ہم پلہ لیکن تاثیر و کامیابی کی رو سے ان میں اور مسیحیوں میں کچھ نسبت نہیں، کیونکہ قادیانی اسلامی حقائق اور حکمتوں کی وجہ سے عیسائیوں سے بدرجہا زیادہ کامیاب ہیں....پھر لکھا : "ولا ينقضى عجبى من هؤلاء الرجال الذين بلغوا في علو الهمم والعلوم الكونية مبلغا مالم تبلغه حتى الآن أية فرقة إسلامية كيف انخدعوا بما اخترعه غلام أحمد القادياني من الحيل والمخارق.“ یعنی میرے تعجب کی کوئی انتہاء نہیں رہتی جبکہ میں ان لوگوں ( جماعت احمدیہ کے افراد ) کو جو علو ہمت اور علوم جدید میں اس درجہ ترقی کر گئے ہیں کہ آج تک کوئی اسلامی فرقہ وہاں تک نہیں پہنچا دیکھتا ہوں ، کہ یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کے ایجاد کردہ حیلہ وفریب سے کس طرح دھو کہ کھا گئے ہیں.لکھا ہے: ” والذي يرى أعمالهم المدهشة ويقدر الأمور حق قدرها لا يملك نفسه من الدهشة والإعجاب بجهاد هذه الفرقة القليلة التي عملت ما لم تستطعه مئات الملالين من المسلمين وقد جعلوا جهادهم هذا ونجاحهم أكبر معجزة تدل على صدق ما يز عمود ون 66 جو شخص معاملہ فہم ہو اور ان لوگوں کے حیرت انگیز کا ناموں کو دیکھے وہ یقینا اس چھوٹی سی جماعت کے جہاد کو دیکھ کر حیران اور انگشت بدنداں رہ جائے گا.اس جماعت نے وہ کام کیا ہے جس کو کروڑوں مسلمان نہ کر سکے.ان لوگوں نے اپنے جہاد اور کامیابی کو اپنے دعوی کی صداقت پر سب سے بڑا معجزہ قرار دیا ہے.
مصالح العرب...جلد اوّل 267 آخر میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ احمدیت کے بیرونی مشنوں اور ریویو آف ریلیجنز انگریزی واُردو کے ذکر کے بعد لکھا: "أفلا يجب على المسلمين والحال هذه أن يزيلوا عن أذهان أهل أوروبا وأمريكا تلك العقائد الفاسدة التي يعتقدونها في دينهم ونبيهم هذا فرض على أمراء المسلمين وعلمائهم وأغنيائهم وفقرائهم أيضا فمن ذا الذى يقوم اليوم بتبديد تلك الأوهام؟ لا أحد إلا القاديانيون وحدهم ، هم الذين يبذلون في ذلك الأموال والأنفس ولو قام المصلحون يصيحون حتى تبح أصواتهم ويكتبون حتى تنكسر أقلامهم ما جمعوا من الأموال والرجال في جميع الأقطار الإسلامية عشر ما تبذلها هذه الشرذمة القليلة “ کیا ان حالات میں مسلمانوں پر واجب نہیں کہ اہل یورپ و امریکہ کے ذہنوں سے وہ فاسد خیالات دور کریں جو وہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق رکھتے ہیں.یقیناً واجب ہے اور یہ مسلمانوں کے سلاطین، علماء، اغنیاء اور فقراء کا فرض ہے.مگر کون ہے جو ان اوہام کو دور کرنے کے لئے جدو جہد کر رہا ہو؟ ہر گز کوئی نہیں.صرف اکیلے احمدی ہیں جو اپنے اموال اور جانوں کو اس راہ میں خرچ کر رہے ہیں.ہاں اگر مسلمانوں کے زعماء اور مصلحین کھڑے بھی ہوں اور چلاتے چلاتے ان کی آواز بیٹھ جائے اور لکھتے لکھتے انکے قلم ٹوٹ جائیں تب بھی وہ تمام اسلامی دنیا سے مال اور مردانہ وار کارناموں کے لحاظ سے اس کا دسواں حصہ بھی جمع نہیں کر سکتے جس قدر یہ چھوٹی سی جماعت خرچ کر رہی ہے.( اخبار الفتح 20 جمادی الآخر 1351ھ مطابق 22 اکتوبر 1932ء ،الفضل 25 دسمبر 1932 صفحہ 5-6، بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 6 صفحہ 4 تا 6 ) اسی طرح جامعہ ازہر کے ماہوار رسالہ ” نور الا سلام“ نے بھی انہی دنوں لکھا کہ : للقاديانية حركة نشيطة فى الدعوة إلى نحلتهم ولما كانوا يقيمون هذه النحلة على شيء من تعاليم الإسلام أمكنهم أن يدعوا أنهم دعاة الإسلام ---- بعثوا بدعاتهم إلى سورية وفلسطين ومصر وجدة والعراق وغيرها من الإسلامية --- كثيرا
00000 مصالح العرب.....جلد اول ما وردتنا رسائل من البلاد العربية وغيرها كأمريكا يسأل 268 محرروها عن أهل هذه النحلة ومبلغ صلتها بالإسلام“ قادیانی لوگ اپنے مذہب کی طرف دعوت دینے میں مستعدی اور نشاط سے کام کر رہے ہیں.اور چونکہ وہ اپنے دین کی بنیاد بعض اسلامی تعلیمات پر رکھتے ہیں اس لئے ان کو موقعہ مل گیا کہ اسلام کے مبلغ ہونے کا دعوی کریں.انہوں نے اپنے مبلغ شام ، فلسطین، مصر، جدہ، عراق اور دوسرے بلاد اسلامیہ کی طرف بھیجے ہیں.کئی مرتبہ ہمارے پاس بلا دعر بیہ اور امریکہ سے خطوط آتے ہیں جن کے لکھنے والوں نے دریافت کیا ہے کہ اس جماعت اور دین کی حقیقت کیا ہے.اور ان کا اسلام سے کس قدر تعلق ہے.( نور الا سلام رجب 1351ھ جلد 2 نمبر 7.اکتوبر نومبر 1932 ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 6 ص 6-7
269 مصالح العرب.....جلد اول عراق میں شیخ احمد فرقانی کی شہادت جنوری 1935ء کے وسط میں عراق کے ایک نہایت مخلص احمدی حضرت شیخ احمد فرقانی کا سانحہ شہادت پیش آیا جس کی اطلاع ایک احمدی عرب نوجوان الحاج عبد اللہ صاحب (جو کہ لمبا عرصہ قادیان میں علم دین سیکھنے کے بعد ان دنوں اپنے وطن میں مصروف تبلیغ تھے ) کی طرف سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں پہنچی.چنانچہ انہوں نے 16 / جنوری 1935ء کو عریضہ لکھا کہ آج بغداد سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں لکھا ہے کہ شیخ احمد فرقانی جو عرصہ دس سال سے احمدیت کی وجہ سے مخالفین کے ظلم و ستم برداشت کرتے آرہے تھے اور جن کا عراقیوں نے بائیکاٹ کر رکھا تھا، شہید کر دیئے ہیں.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.آپ بغداد سے قریباً دوسو میل کے فاصلہ پر لواء کرکوک گاؤں میں بودو باش رکھتے تھے.جب میں بغداد میں تھا تو وہ کئی ہفتے میرے پاس آ کر رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیحد محبت اور اخلاص رکھتے تھے.حضور کے فارسی و عربی اشعار سن کر وجد میں آ جاتے اور زار و قطار رونے لگتے تھے.ملخص از تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 156-157) شیخ احمد فرقانی صاحب نے مصائب الأنبياء والأبرار على أيدي السفلة والأشرار کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی تھی جو چھپ نہ سکی.اس کتاب کا ایک قیمتی اقتباس مولانا ابو العطاء صاحب نے رسالہ البشری میں شائع کر دیا تھا.مجلة البشرى جولائی 1935 ء صفحہ 26-27) 00000
مصالح العرب.....جلد اول 270 سعودی حکومت اور جماعت احمدیہ کا موقف سلطان عبد العزیز ابن سعود پر قاتلانہ حملہ ہم سعودی حکومت اور سلطان ابن سعود کے خاندان کے ساتھ مبلغین کرام اور جماعت احمدیہ کے بعض دیگر افراد کے تعلقات اور تبلیغ احمدیت اور نصائح وغیرہ پر بنی واقعات مفصل طور پر لکھ آئے ہیں.تاریخی اعتبار سے بعض کا تذکرہ یہاں ہوگا.لیکن ان واقعات پر اجمالی نظر ڈالنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس وقت سعودی حکومت کی سب سے زیادہ خیر خواہ جماعت احمدیہ تھی اور مختلف حساس امور کے بارہ میں جماعت احمدیہ کے امام کا بیان فرمودہ موقف سب سے باوقار اور جرات مندانہ اور حق پر مبنی موقف تھا.مولوی حضرات کے اکثر فرقے حاکم خاندان کی حکومت کے مخالف تھے اور اس کے خلاف پروپیگنڈے کر رہے تھے ایسے میں اگر حق کی آواز بلند ہوئی تو صرف قادیان سے ہوئی تھی.اور اس وقت کے سلطان عبد العزیز ابن سعود کو بھی ان نیک جذبات اور مخلصانہ نصائح کی قدر تھی لہذا انہوں نے بھی کئی مرتبہ مولویوں کی مخالفت کو بالائے طاق رکھ کر احمدیت کے حق میں فیصلے کئے.لیکن افسوس کے ان کے جانشین اس روایت کو نبھانے میں کامیاب نہ ہو سکے.اس مذکورہ حقیقت کی ایک جھلک یہاں بھی ملاحظہ ہو.15 مارچ 1935 ء کو جلالة الملک سلطان عبد العزیز ابن سعود اور ان کے ولی عہد پر طواف کعبہ کے دوران بعض یمنی عربوں نے قاتلانہ حملہ کر دیا جس پر شاہ کے حفاظتی دستہ نے حملہ آوروں کو گولیوں سے ہلاک کر دیا.اس پر بعض مسلمان اخباروں نے حرم پاک میں عربوں کے قتل پر سخت احتجاج کیا اسے سر زمین حجاز میں یزیدیت سے تعبیر کیا.
مصالح العرب.....جلد اول جماعت احمد یہ لندن کی طرف سے تار 271 سلطان ابن سعود پر قاتلانہ حملہ کو جماعت احمد یہ نے گری ہوئی حرکت اور بزدلانہ فعل قرار دیا.چنانچہ اخبار (الجامعة الإسلامية) نے اپنی 15 / ذوالحجۃ 1353ھ کی اشاعت میں لکھا کہ: کل لندن سے خبر آئی ہے کہ وہاں جماعت احمدیہ کی مسجد میں ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں نے عید الاضحیٰ ادا کی جہاں پر انہوں نے جلالۃ الملک ابن سعود پر کعبہ شریف میں قاتلانہ حملہ کے خلاف سخت غم و غصہ کا اظہار کیا.اور امام مسجد لندن نے اس حملہ کو گری ہوئی حرکت اور بزدلانہ فعل اور خدا تعالیٰ کے کفر سے تعبیر کیا“.مسجد میں جمع ہونے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے جلالۃ الملک ابن سعود کو اس حملہ سے بیچ جانے پر مبارکباد کا تار ارسال کیا.(بحوالہ مجلة البشر کی مئی 1935 صفحہ 37) سعودی حکومت کے غیر مسلم کمپنی سے معاہدہ پر جماعتی موقف سلطان ابن سعود کے محافظوں کی طرف سے حرم کعبہ میں قاتل حملہ آوروں کے قتل کی مخالفت پورے زوروں پر تھی کہ خبر آئی کہ جلالتہ الملک نے ایک غیر مسلم کمپنی کو پیٹرول وغیرہ کا ٹھیکہ دینے کے لئے ایک معاہدہ طے کر لیا ہے.اگر چہ یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا معاہدہ نہیں تھا مگر خصوصاً مجلس احرار نے سلطان المعظم اور ان کی حکومت کے خلاف مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے جلسے کئے اور اخباروں میں بد گوئی سے کام لیتے ہوئے سخت زہریلا پروپیگنڈہ کیا.اور بالآ خر اسے ایک خالص مذہبی مسئلہ قرار دے کر مخالفت کا ایک وسیع محاذ کھول دیا.جس کی اصل وجہ یہ تھی کہ احرار لیڈر شریف حسین والٹی مکہ کی شکست کھا جانے کے بعد سعودی حکومت کے بھی مخالف تھے اور ابن سعود کو سرمایہ دارانہ ماحول کا پرورش یافتہ بتا کر بدنام کرتے رہتے تھے.ان کی بعض آراء کی ایک جھلک ملاحظہ ہو: چو ہدری افضل حق تحریک احرار صفحہ 22 تا 24 “ میں لکھتے ہیں: م بن سعود کا سارے عرب میں طوطی بولنے لگا.خشک قسم کا وہابی تھا.مدینے میں قدم رکھا
272 مصالح العرب.....جلد اول تو بھونچال لے آیا.قبوں کو گرا کر ہموار کر دیا.ہم شریف حسین کے دین بدر ہونے پر خوشی تھے کہ غدار اپنے انجام کو پہنچا مگر بے گرانے کے متعلق متذبذب تھے.یہ سب تھے اور مقبرے سرمایہ داروں کی سنگ دلی کا نتیجہ ہیں.اگر نبی کریم کی قبر اصل حال میں ہوتی تو اس زیارت سے سرمایہ داروں کے خلاف مسلمانوں کی نفرت قائم رہتی.اب جبکہ مسلمان عوام کی دل و دماغ کی ساخت سرمایہ داری مشین میں تیرہ سو سال ڈھل کر بدل گئی تو ابن سعود کا ظہور ہوا....بیچارہ ابن سعود بھی سرمایہ دارانہ ماحول کا پروش یافتہ تھا اسے خود اسلام کا منشاء معلوم نہ تھا.اس نے چند قبے گرائے مگر خودشاہانہ بسر اوقات کرنے لگا “.مجلس احرار کے آرگن ”مجاہد نے اپنے افتتاحیہ میں لکھا کہ " مجلس احرار اب تک جزیرۃ العرب کی حقیقی صورتحال سے واقف نہ تھی لیکن اب اسے یقین سے معلوم ہو گیا ہے کہ شاہ ابن سعود انگریزوں کے زیر اثر ہیں اور یہ کہ عرب کے خارجی معاملات پر برطانیہ کا قبضہ ہے اور انگریز مد بر سلطان کو معاہدوں کے جال میں پھنسا کر داخلی مسائل پر قابض ہورہے ہیں وغیرہ وغیرہ.مخالف پروپیگنڈہ کا اصل سبب سعودی حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں کا مقصد کیا تھا؟ اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اخبار ” اہل حدیث“ میں لکھا: رنج اس لئے ہے کہ عرب کے پہاڑوں سے اگر یہ چیزیں مل گئیں تو حکومت نجد یہ کو بڑی قوت حاصل ہوگی جوان برادران اسلام کو نا گوار ہے.“ امام جماعت احمدیہ کا بصیرت افروز بیان 66 اہلحدیث امرتسر 2 راگست 1935 ، صفحه 15 مرکز اسلام کے سر براہ کی نسبت اشتعال انگیزیوں کا یہ افسوسناک طریق دیکھ کر سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کو شدید صدمہ پہنچا اور حضور نے 30 راگست 1935ء کے خطبہ جمعہ میں سلطان ابن سعود کے معاہدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ارشادفرمایا: ہم ہمیشہ عرب کے معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں.جب ترک عرب پر حاکم تھے تو اس وقت ہم نے ترکوں کا ساتھ دیا.جب شریف حسین حاکم ہوا تو لوگوں نے اس کی سخت مخالفت
273 مصالح العرب.....جلد اول کی مگر ہم نے کہا فتنہ فساد کو پھیلا نا مناسب نہیں.جس شخص کو خدا نے حاکم بنا دیا ہے اس کی حکومت کو تسلیم کر لینا چاہئے تا کہ عرب میں نت نئے فسادات کا رونما ہونا بند ہو جائے.اس کے بعد نجدیوں نے حکومت لے لی تو باوجود اس کے کہ لوگوں نے شور مچایا کہ انہوں نے قبے گرا دیئے اور شعائر کی ہتک کی ہے اور باوجود اس کے کہ ہمارے سب سے بڑے دشمن اہلحدیث ہی ہیں ، ہم نے سلطان ابن سعود کی تائید کی ، صرف اس لئے کہ مکہ مکرمہ میں روز روز کی لڑائیاں پسندیدہ نہیں.حالانکہ وہاں ہمارے آدمیوں کو دکھ دیا گیا.حج کے لئے احمدی گئے تو انہیں مارا پیٹا گیا.مگر ہم نے اپنے حقوق کے لئے بھی اس لئے صدائے احتجاج کبھی بلند نہیں کی کہ ہم نہیں چاہتے ان علاقوں میں فساد ہو.مجھے یاد ہے مولانا محمد علی جوہر، جب مکہ مکرمہ کی مؤتمر سے واپس آئے تو وہ ابن سعود سے سخت نالاں تھے.شملہ میں ایک دعوت کے موقعہ پر ہم سب اکٹھے ہوئے تو انہوں نے تین گھنٹے اس امر پر بحث جاری رکھی.وہ بار بار میری طرف متوجہ ہوتے اور میں انہیں کہتا کہ مولانا آپ کتنے ہی ان کے ظلم بیان کریں جب ایک شخص کو خدا تعالیٰ نے حجاز کا بادشاہ بنادیا ہے تو میں تو یہی کہوں گا کہ ہماری کوششیں اب اس امر پر صرف ہونی چاہئیں کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی گلیوں میں فساد اور لڑائی نہ ہو.اور جو شورش اس وقت جاری ہے وہ دب جائے اور امن قائم ہو جائے تا کہ ان مقدس مقامات کے امن میں خلل واقع نہ ہو.ابھی ایک عہد نامہ ایک انگریز کمپنی اور ابن سعود کے درمیان ہوا ہے.سلطان ابن سعود ایک سمجھ دار بادشاہ ہے مگر بوجہ اس کے کہ وہ یورپین طریق سے اتنی واقفیت نہیں رکھتے ، وہ یورپین اصطلاحات کو صحیح طور پر نہیں سمجھتے ، ایک دفعہ پہلے جب وہ اٹلی سے معاہدہ کرنے لگے تو ایک شخص کو جو ان کے ملنے والوں میں سے تھے میں نے کہا کہ تم سے اگر ہو سکے تو میری طرف سے سلطان ابن سعود کو یہ پیغام پہنچا دینا کہ معاہدہ کرتے وقت بہت احتیاط سے کام لیں.یورپین قوموں کی عادت ہے کہ وہ الفاظ نہایت نرم اختیار کرتی ہیں مگر ان کے مطالب نہایت سخت ہوتے ہیں.اب وہ معاہدہ جو انگریزوں سے ہوا ، شائع ہوا ہے.اور اس کے خلاف بعض ہندوستانی اخبارات مضامین لکھ رہے ہیں.میں نے وہ معاہدہ پڑھا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بعض غلطیاں ہو گئی ہیں.اس معاہدہ کی شرائط کی رو سے بعض موقعہ پر بعض بیرونی حکومتیں یقیناً عرب میں دخل دے سکتی ہیں.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کو پڑھ کر میرے دل کو سخت رنج پہنچا.انگریز ہوں یا کوئی اور حکومت ، عرب کے معاملہ میں ہم کسی کا لحاظ
274 مصالح العرب.....جلد اول نہیں کر سکتے.اس معاہدہ میں ایسی احتیاطیں کی جاسکتی تھیں کہ جن کے بعد عرب کے لئے کسی قسم کا خطرہ باقی نہ رہتا.مگر بوجہ اس کے کہ سلطان ابن سعود یورپین اصطلاحات اور بین الاقوامی معاملات سے پوری واقفیت نہیں رکھتے ، انہوں نے الفاظ میں احتیاط سے کام نہیں لیا اور اس میں انہوں نے عام مسلمانوں کا طریق اختیار کیا ہے.مسلمان ہمیشہ دوسروں پر اعتبار کرنے کا عادی ہے حالانکہ معاہدات میں کبھی اعتبار سے کام نہیں لینا چاہئے.بلکہ سوچ سمجھ کر اور کامل غور و فکر کے بعد الفاظ تجویز کرنے چاہئیں.گو میں سمجھتا ہوں یہ معاہدہ بعض انگریزی فرموں سے ہے حکومت سے نہیں.اور ممکن ہے جس فرم نے یہ معاہدہ کیا ہے اس کے دل میں بھی دھوکہ بازی یا غداری کا کوئی خیال نہ ہو مگر الفاظ ایسے ہیں کہ اگر اس فرم کی کسی وقت نیست بدل جائے تو سلطان ابن سعود کو مشکلات میں ڈال سکتی ہے.مگر یہ سمجھنے کے باوجود ہم نے اس پر شور مچانا مناسب نہیں سمجھا.کیونکہ ہم نے خیال کیا کہ اب سلطان کو بدنام کرنے سے کیا فائدہ.اس سے سلطان ابن سعود کی طاقت کمزور ہوگی.اور جب ان کی طاقت کمزور ہو گی تو عرب کی طاقت بھی کمزور ہو جائے گی.اب ہمارا کام یہ ہے کہ دعاؤں کے ذریعہ سے سلطان کی مدد کریں اور اسلامی رائے کو ایسا منظم کریں کہ کوئی طاقت سلطان کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی جرات نہ کر سکے.“ 66 ( خطبات محمود جلد 16 صفحہ 549 تا 551 ، خطبہ جمعہ فرمودہ 30 /اگست 1935 ء) مقبولین الہی کی دل سے نکلی ہوئی دعائیں اور آہیں عرش کو ہلا دیتی ہیں اور خطرات کے منڈلاتے ہوئے سیاہ بادل چھٹ جاتے ہیں اور مطلع صاف ہو جاتا ہے.یہی صورت یہاں ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے سرزمین عرب کو نہ صرف اس معاہدہ کے بداثرات سے بچا لیا بلکہ ملک عرب کی کانوں سے اس کثرت کے ساتھ معد نیات برآمد ہوئیں کہ ملک مالا مال ہو گیا.یہ عبد العزیز کے باپ کا گھر نہیں (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 228 تا 234) سلطان عبد العزیز ابن سعود کے ذکر کے ذیل میں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ایک بار اخبار الفضل کے ایک سیاسی نامہ نگار نے جلالتہ الملک ابن سعود سے مکہ معظمہ میں ملاقات
مصالح العرب.....جلد اوّل 275 کی تو انہوں نے جماعت احمدیہ کی نسبت فرمایا کہ تبلیغ اسلام میں مدد دینا ہمارا کام ہے.سلطان نے سورت کے ایک اہلحدیث کی شکایت پر ( کہ احمدی ایک اور نبی کو ماننے والے ہیں ) صاف جواب دیا کہ یہ شرک فی النبوۃ کرتے ہوں گے مگر یہاں تو شرک فی التوحید کرنے والے بھی آتے ہیں.پھر احمدیوں کو مکہ سے نکالنے کی تجویز پر کہا کہ : کیا یہ عبدالعزیز کے باپ کا گھر ہے جس سے میں نکال دوں؟ یہ خدا کا گھر ہے.الفضل 24 جولائی 1935 ء صفحہ 5، بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ (228)
مصالح العرب.....جلد اول 276 حبشہ میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کی تبلیغی خدمات حبشہ کا ملک جسے انگریزی میں ایتھو پیایا ابی سینیا کہتے ہیں براعظم افریقہ کے شمال مشرق میں واقع ہے.جس کی تقریبا نصف آبادی مسلم ہے اور قدیم سے عربوں کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے عربی زبان وہاں پر بولی اور سمجھی جاتی تھی.آج کل بھی سوڈان کی سرحدوں کے قریبی علاقے میں عربی زبان ہی بولی جاتی ہے اور پورے ملک میں کئی ایک عربی اخبارات ورسائل شائع ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حبشہ میں مضبوط عیسائی حکومت قائم تھی.جب کفار مکہ کی طرف سے مظالم کی انتہا ہوگئی تو آپ نے مسلمانوں کو ارشاد فرمایا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں جس کے بادشاہ کے متعلق آپ نے فرمایا کہ حبشہ کا بادشاہ عادل ومنصف ہے اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا.حبشہ کی حکومت نے مسلمان مہاجرین کو پورا پورا امن دیا اور ان کی تبلیغ سے نہ صرف نجاشی مسلمان ہو گیا بلکہ عمائد مملکت بھی اسلام لے آئے.حکومت حبشہ کا یہ ایسا عظیم الشان احسان ہے کہ ملت اسلامیہ اسے قیامت تک فراموش نہیں کر سکتی.سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اسی جذ بہ تشکر سے لبریز ہو کر اگست 1935 ء میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب ( ابن حضرت ماسٹر عبد الرحمن صاحب سابق مہر سنگھ ) کو حبشہ جانے اور اہل حبشہ کی خدمت کرنے کا ارشاد فرمایا.یہ وہ ایام تھے جب اٹلی اور حبشہ کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی تھی.اہل حبشہ بری طرح پسپا ہو رہے تھے اور ان کو جنگی امداد کے علاوہ طبی امداد کی بھی بہت ضرورت تھی.ڈاکٹر نذیر احمد صاحب اپنے آقا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے خرچ پر ابی سینیا گئے.اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر انسانی ہمدردی اور خدمت خلق کا
مصالح العرب.....جلد اول 277 بہترین ثبوت دیا.ذیل میں محترم ڈاکٹر صاحب کی زبانی وہاں کے حالات و تبلیغی واقعات کی تفاصیل درج کی جاتی ہیں.آپ تحریر فرماتے ہیں: حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو تحریک جدید کے ماتحت وقف کرنے پر علی گڑھ خط لکھا کہ ابی سینیا ( حبشہ ) میں جا کر طبی خدمات سرانجام دینے اور تبلیغ کرنے کے لئے روانہ ہو جائیں.اگست 1935ء میں خاکسار قادیان پہنچ کر حضور سے فیضیاب ملاقات ہوا.حضرت خلیفہ اسیح کی بیش قیمت نصیحت حضور کے ضروری ارشاد گرامی یہ تھے.ریڈ کر اس ہسپتالوں میں جو جنگ کے میدان میں ابی سینیا میں کام کر رہے ہیں اپنے آپ کو پیش کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کرام کی ہجرت بھی ایسے سینیا کے ملک میں ہوئی تھی.اہل حبشہ کے آباؤ اجداد کے اس نیک سلوک کی وجہ سے عالم اسلامی ان کا ممنون ہے اس کے عوض ہمیں اس مصیبت کے وقت ان کے بیمار اور زخمیوں کی مدد کرنی چاہئے.مخدوش حالات اور خدمت کی توفیق (1).خاکسار عدلیں ابابا اپنے خرچ پر پہنچا.اٹلی کے فوجیوں کے ہوائی حملوں سے بے اندازہ نقصان جانی و مالی ہوا.گولہ باری کے ذریعہ بیدردی سے جانیں تلف کی گئیں.خاکسار عین میدان شمالی محاذ پر متعین تھا.روزانہ کئی سو زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا پڑتی تھی.دیکھتے دیکھتے جانیں تلف ہوتی تھیں.قیامت کا منظر سامنے تھا.قرآن کریم کی پیشگوئیاں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں فوج میں بیان کر کے واضح کیا جاتا رہا کہ مسیح موعود کا ظہور ہو چکا اور سچائی ثابت ہو چکی ہے.لوگوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے....ہندوستان کی طرف سے خاکسار ہی ایک ڈاکٹر تھا جو ملک حبشہ میں جنگ کے دوران کام کے لئے بھیجا گیا.با شمر تبلیغی مهمات اپنے سینیا کا بادشاہ ہیلی سلاسی یکم مئی 1936 ء کو فرار ہو کر انگلستان چلا گیا.اٹلی کے ملک
مصالح العرب.....جلد اول 278 حبشہ پر قبضہ کرنے پر مزید چھ ماہ خاکسار وہاں مقیم رہ کر عدیس ابابا کی مساجد میں تبلیغ کرتا رہا.مساجد میں جمعہ کے روز خاکسار لیکچر کرتا اور پیغام احمدیت واسلام عربی زبان میں پہنچا تا.بسا اوقات خاکسار کو مساجد ہی سے بزور نکال باہر کیا جاتا رہا.ایک فاضل رکن جامعہ الأزهر شیخ محمد بدیوی مصری جو حکومت کی طرف سے عدلیس ابابا جامعہ میں مقرر تھا چند روز کے بحث مباحثہ کے بعد اور میرے کہنے پر استخارہ کرنے کے بعد حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کی بیعت تحریری سے مشرف ہوا.اس نے خواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم و مسیح موعود علیہ السلام کو دو کرسیوں پر بیٹھے دیکھا اور رسول کریم کو اپنی طرف مخاطب ہو کر سنا کہ مسیح موعود کو قبول کرلو.اس دوران میں السید عبد الحمید ابراہیم مصری ( جو جامعہ الازہر کے فارغ التحصیل ہیں) کے ساتھ مقابلہ ہوتا تو شیخ محمد بدیوی صاحب مجھے بلا لیا کرتے تھے.خطبہ الہامیہ میری طرف سے دئے جانے پر انہوں نے بھی دعویٰ مسیح موعود کو قبول کر لیا.1936ء کے بعد 1937 ء میں مصر جا کر بیعت کا خط مولوی محمد سلیم صاحب کو لکھ دیا اور داخل جماعت احمد یہ ہو گئے.نیز السید عبدالحمید بعد میں قادیان اور ربوہ آ کر حضرت صاحب کی ملاقات سے مشرف ہوئے.مکرم مولوی محمد سلیم صاحب اس وقت مولانا ابو العطاء صاحب کے بعد بلاد عربیہ میں بطور مبلغ کام کر رہے تھے.) (2) ستمبر 1936ء میں خاکسار ا ہی سینیا سے چلا گیا اور فلسطین اور مصر و شام کے ممالک میں تبلیغ اور سیاحت اور پریکٹس کے لئے چلا گیا.چند ماہ رہ کر پھر 1937ء میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کینیا جانے کیلئے ارشاد فرمایا کہ وہاں جا کر میڈیکل سروس میں داخل ہو جاؤں.سو 1939 تک خاکسار وہاں رہا.1940ء میں خاکسار کو حاجیوں کے جہاز ایس ایس رحمانی میں میڈیکل آفیسر مقرر کیا گیا.بمبئی ، جدہ، کراچی وغیرہ کئی دفعہ آنا جانا پڑا.حج کرنے کا بھی موقعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عنایت کیا.عربی میں مہارت کافی ہوگئی.مکہ معظمہ میں اور عرفات منی، مزدلفہ، مکہ معظمہ ، جدہ ، غرضیکہ ہر جگہ عربوں اور دیگر علماء کو تبلیغ کرنے کا موقعہ بکثرت ملتا رہا اور علاج معالجہ کا موقعہ ملتا رہا.خاکسار کا طریق اکثر یہی رہا کہ قرآن کریم کی آیات ہر مسئلہ پر اور کتب عربی حضرت مسیح موعود کی تشریحات اکثر بیان کرنے پر مداومت اختیار کرتا تھا جس کا بہت جلد اثر دیکھا جاتا رہا.
279 مصالح العرب.....جلد اول (3) ڈلہوزی میں 42-1941 ء سے 1943 ء تک خاکسار پریکٹس کرتا رہا.جہاں حضور نے ایک روز سیر پر جاتے ہوئے فرمایا: ایسے سینیا کے بادشاہ کو لکھو کہ میں نے دوران جنگ ایسے سینیا میں کام کیا ہے اس لئے تم مجھے کوئی عہدہ دو تا کہ میں دوبارہ مریضوں کو ایسے سینیا کے ہسپتالوں میں مقرر ہونے پر خدمت کر سکوں.سو خاکسار حضور سے بشارات لے کر دوبارہ عدن اور حبشہ چلا گیا.(4) عدن میں 44-1943 ء میں سرکاری ملازمت سول ہسپتال میں کرتا رہا.وہاں بھی مساجد میں جب عرب علماء کا درس ہوتا تھا خاکسار وہاں جا کر بیٹھ جاتا اور سوال وجواب کا سلسلہ جاری کردیتا.کئی موقعہ پر کافر ملعون، قادیانی، کذاب کے خطاب سے یاد کیا جاتا.اور کئی دفعہ وہاں کی مساجد سے نکالا جاتا.ایک دن کثرت سے عربوں اور صومالیوں نے مسجد کو گھیرے میں لے لیا تا کہ خاکسار کو کالعدم کر دیا جائے.اسی اثناء میں سی آئی ڈی کا آدمی میرے پاس آکر کھڑا ہو گیا اور انگریزی میں کہنے لگا کہ ہم کو حکم ہوا ہے کہ آپ کو اپنے گھر سلامتی کے ساتھ پہرے کے اندر پہنچا دیں کیونکہ پبلک مسجد کے اندر اور باہر ڈنڈے اور چاقو لے کر کھڑی ہے، ان کی نیت آج آپ کے متعلق خطر ناک ہے...سو وہ مجھے پہرے کے اندر میرے گھر لے آئے.نو آبادیات محمیات عدن میں دورہ کرنے کے لئے مجھے بھیجا گیا جہاں بیماریاں اور موتیں بکثرت ہو رہی تھیں.وہاں جا کر گاؤں گاؤں میں ظہور مسیح موعود پر عربی زبان میں تقریر میں کرتا رہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی خبر بکثرت مشہور ہو گئی.حسب معمول تصنیفات حضرت مسیح موعود بکثرت تقسیم کرتا رہا جس پر مخالفت کا بازار گرم ہو گیا.جس پر علماء عدن نے ایک میمورنڈم لکھ کر گورنر عدن کو بھیجا کہ ڈاکٹر نذیر احمد کو میڈیکل سروس سے نکال دیا جائے ، نوجوانوں پر قادیانیت کا اثر ہو رہا ہے.سلطان شبوطی میرا ڈسپنسر تھا وہ احمدیت کی طرف مائل ہو گیا.بعد میں مولوی غلام احمد مبشر کے آنے پر سلطان شبوطی اور عبد اللہ محمد شبوطی دونوں احمدی ہو گئے.فالحمد للہ علی ذلک...عدن میں مجھے ملازمت سے علیحدہ کر دیا گیا تو خواب دیکھا کہ میں حضرت صاحب کے ارشاد پر ایسے سینیا ( جو قریب ہی ایک روز کے راستہ پر تھا ) جارہا ہوں.حضور نے میری خواب
مصالح العرب.....جلد اول 280 پڑھ کر ارشاد فرمایا کہ ہاں جلدی ایسے سینیا چلے جائیں.چنانچہ خاکسار 1944 ء میں دوبارہ ایسے سینیا چلا گیا اور حضرت صاحب کی بات پوری ہوئی کہ خاکسار کو ایکٹنگ سول سرجن کے عہدہ پر کئی سال متعین کیا گیا.وہاں پہنچنے پر ہیلی سلاسی شاہ حبشہ سے کئی بار ملاقات ہوئی.اس کے محل میں اس کو کتب دے کر تبلیغ اسلام انگریزی زبان میں کی گئی.اور پرانا تعلق ہجرت اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان یاد دلایا گیا.(5) 1944 ء سے 1953 ء تک 9 سال برابر سینکٹروں مباحثات کئے اور دس ہزار کے قریب اشتہار کتب رسائل، کتب مسیح موعود عربی ( مثلا اعجاز اسبح لجة النور، حمامة البشرى تحفہ بغداد، التبلیغ دیباچہ قرآن انگریزی اور قرآن کریم کی تفسیر انگریزی بڑے سائز کی تقسیم کی گئی.اکثر مفت دی گئیں.سکولوں اور کالجوں میں جا کر تبلیغ کی گئی.اور سکوں کے لڑکوں نے میرے ہاں برابر ہسپتال میں آنا شروع کیا.چالیس آدمیوں نے جو مختلف گاؤں کے رہنے والے تھے ایک دن بیعت کی اور سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے.آپ کے پیچھے نماز جائز نہیں ،، بیعت کرنے والوں میں ہر شہر کے تین دوست بھی تھے جو جنوری 1947 ء میں داخل سلسلہ ہوئے.ڈاکٹر نذیر احمد صاحب نے ان اصحاب کی بیعت کی مرکز میں اطلاع دیتے ہوئے یہ رپورٹ بھی بھجوائی کہ چند روز کا واقعہ ہے کہ ہمارے مذکورہ بالا تین نو مبایعین سے غیر احمدی لوگوں کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے چلے گئے.میں نے انہیں پیغام بھیجا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز نہیں.وہ سنتے ہی میرے پاس چلے آئے.اس سے ہمارے مخالفین میں اشتعال پیدا ہو گیا.اور مجھ پر محکمہ قضا میں یہ مقدمہ دائر کیا گیا کہ میں نے ان کے دو ہرری مسلمان چرا لئے ہیں اور یہ کہ ان کی نماز کی ہتک کی ہے.آخر مجھے بلایا گیا اور لوگوں کے سامنے تحقیقات شروع ہوئی.جب ہمارے خلاف مبالغہ آمیز اور جھوٹی شہادتیں ہوئیں تو حاضرین میں سے ہی دو عرب بول اٹھے اور قاضی اور حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگ عیسی کو آسمان پر زندہ مانتے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے.واقعی آپ لوگوں کے پیچھے نماز جائز نہیں.اوائل 1952ء کا واقعہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ذریعہ سے قید خانہ میں دس آدمی بیعت
مصالح العرب.....جلد اول 281 کر کے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے جو بیعت کے دوسرے روز ہی رہا ہو گئے.ڈاکٹر نذیر احمد صاحب نے عید الفطر کے موقعہ پر مسلمانان حبشہ کے سامنے حضرت مسیح موعود کی آمد اور حضور کے نشانات پر لیکچر دیا، نیز بتایا کہ اس علاقہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا نشان ظاہر کیا ہے.پانچ آدمیوں کو جن میں عرب اور حبشی مسلمان شامل ہیں خوابوں میں دکھایا که مسیح و مہدی ہندوستان کی زمین میں ظاہر ہو گیا ہے.ان لوگوں کے نام جنہیں خوا ہیں آئی ہیں یہ ہیں: (1) الشیخ عمر حسین سوڈانی حبشی عربی کے اچھے عالم ہیں.(2) علی حکیم عبدہ نو جوان حبشی مسلمان نہایت مخلص عربی کے عالم اور تاجر ہیں.(3) السید حسین الحراضی عرب تاجر ہیں.(4) السعید اسماعیل موٹر ڈرائیور.(5) سراج عبد اللہ.خواہیں مختلف اوقات میں مختلف رنگوں میں آئیں.مثلاً کثرت سے لوگ خوشیاں منارہے ہیں.باغ اور وسیع زرخیز زمین ہے.عیسائی اور مسلمان ہر دو کہہ رہے ہیں کہ الحمد للہ ہماری زندگی میں مسیح و مہدی ظاہر ہو گیا.ایک نے دیکھا کہ بادشاہ سلامت ہیلی سلاسی کا دربار ہے اور وسیع میدان میں کثرت سے لوگ جمع ہیں.میں دوسفید گھوڑوں کی گاڑی پر سوار ہوں اور کہہ رہا ہوں: ظَهَرَ الْمَهْدِي ، ظَهَرَ الْمَهْدِى، مَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُر حبشہ میں ڈبرا بر ہان کے شہر کے ایک لڑکے رضوان عبد اللہ احمدی کو میں نے واقف زندگی کے طور پر ربوہ تعلیم کے لئے ہوائی جہاز پر بھیجا جو ربوہ میں تعلیمی اور عربی دینی ماحول میں بہت مقبول ہو گئے.لیکن بدقسمتی سے دو تین سال تعلیم جامعہ احمدیہ میں حاصل کرتے ہوئے دریائے چناب میں لڑکوں کے ساتھ وضو کرتے ہوئے پاؤں پھسل جانے سے غرق آب ہو کر شہید ہوئے.مقبرہ بہشتی ربوہ میں ان کی قبر موجود ہے." ایک رمضان میں ڈبرا بر ہان شہر کی جامع مسجد میں جاکر میں نے تبلیغ شروع کر دی.سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا.ساری مسجد بھر گئی.وہاں کے عربی ملاں نے لوگوں کو اکسایا اور خاکسار پر حملہ کیا گیا اور یکدم دو گروہ بن گئے.ایک گروہ میری تائید میں اور دوسرا میرے بالمقابل.آخر مجھے مسجد میں سے نکلنا پڑا.قتل قتل کے نعرے لگے.بازار تک مجھے دھکیلتے ہوئے لے گئے.عربی میں آوازے کستے رہے کہ آج اس ہندی قادیانی کا خاتمہ اور خون بہا دیا
مصالح العرب.....جلد اول ،، 282 جائے گا.ساری رات میرے ایک دوست کے مکان میں مجھے پناہ لینے پر مجبور کیا گیا تھا، گھیرے میں رکھا گیا.دوسرے روز میں مصلحۂ لباس بدل کر واپس سٹیشن پر پہنچا اور ٹکٹ لے کر واپس اپنی ڈیوٹی پر ڈ برا بر ہان پہنچ گیا.میں اپنے گھر بتا کر گیا تھا کہ چند روز موجب ارشاد حضرت صاحب تبلیغ کے لئے بیرونی مقام پر جاتا ہوں جو مخالفت کا گڑھ ہے وہاں قتل بھی کر دیا کرتے ہیں.اگر میں وہاں خدانخواستہ قتل بھی ہو گیا تو تم کو اللہ تعالیٰ ہاجرہ جیسی عزت قرب الہی میں بخشے گا.گھبرانے کی کوئی بات نہیں.( ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ بھی اس وقت ان کے ساتھ اسی علاقے میں مقیم تھیں.) 9 سال بعد حضرت امیر المؤمنین خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے کارڈ لکھا کہ صرف ایک ماہ کیلئے پاکستان چھٹی پر تم کو آنے کی اجازت ہے.سوفروری 1953ء میں خاکسار پہلی بار ربوہ آیا.حضور نے فرمایا واپس ایسے سینیا جاؤ.شاہ حبشہ کو ہمارا لٹریچر پہنچے گا ، تم اسے پہنچانے کا بندو بست کرنا.جولائی میں وہاں کے پادریوں نے شکایات کیں کہ احمدیت کا نفوذ بڑھ رہا ہے، اس ڈاکٹر کو ملک سے باہر نکال دیا جائے.سو مجھے حضرت امیر المؤمنین نے تار دی کہ نیروبی چلے جاؤ.خاکسار 1953ء میں نیروبی پہنچا اور 1960ء میں وہاں سے ولایت مزید تعلیم کے لئے چلا گیا جس کے حصول کے بعد کامیاب ہو کر جلسہ سالانہ قادیان و ربوہ 1962ء میں پہنچا.(ماخوذ از الفضل 9 اکتوبر 1935ء، 12 جنوری 1946ء ، 6 مئی 1953 ء جہاز واپس آ گیا بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 261 تا 267 ) ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب کی زبانی انکے عدن کے علاقے میں تبلیغ کے لئے جانے کا بھی ذکر ہوا ہے.اس حوالے سے انکا ایک نہایت ہی مؤثر اور ایمان افروز واقعہ یہاں درج کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا.آپ کی زبانی یہ واقعہ آپ کے بیٹے مکرم ڈاکٹر سردار حمید احمد صاحب آف انگلستان نے روایت کیا ہے.ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب فرماتے ہیں: میں حاجیوں کے ایک جہاز پر بطور ڈاکٹر ملازم تھا.واپسی سفر پر جب جہاز عدن پہنچا تو میں جہاز سے اتر کر تبلیغ کے شوق میں ادھر اُدھر نکل گیا.اور پھر تبلیغ میں ایسا محو ہوا کہ جہاز کی
مصالح العرب.....جلد اول 283 روانگی کے وقت کا خیال ہی نہ رہا.جب تبلیغ سے فارغ ہو کر واپس بندرگاہ پر آیا تو دیکھا کہ جہاز روانہ ہو چکا ہے.یہ دیکھ کر میں سخت گھبرا گیا.حالت یہ تھی کہ ایک رنگ آتا تھا اور ایک رنگ جاتا تھا.دل میں سوچنے لگا کہ جہاز والے کیا کہیں گے اور پھر اگر کوئی مسافر بیمار ہو گیا یا مرگیا تو مجھ پر قانونی گرفت بھی ہو سکتی ہے“ فرماتے ہیں، اسی پریشانی کے عالم میں میری ساری رات دعاؤں میں گزری اور میں نے خدا کی غیرت کو ابھارنے کے لئے یوں دعا کی کہ ” خدایا! میں تیرا ہی کام کر رہا تھا، عربوں کو تیرے مسیح کی آمد کا پیغام پہنچا رہا تھا.یہ میرا کوئی ذاتی کام تو تھا نہیں.اب جہاز نکل گیا ہے.میں اور کچھ نہیں جانتا.بس تو ہی میرا جہاز واپس لا کر دے.یہ دعا کرتے کرتے میں سو گیا فرماتے ہیں، رات خواب میں دیکھا کہ جہاز واپس آ گیا ہے.اب جن عربوں کو میں شام تک تبلیغ کرتا رہا تھا، وہ پہلے ہی مجھ پر ہنس رہے اور میرا مذاق اڑا رہے تھے کہ اس کا جہاز نکل گیا ہے اور یہ مصیبت میں پھنس گیا ہے.چنانچہ صبح جب میں نے ان لوگوں کو اپنی خواب سنائی اور بتایا کہ میرا جہاز واپس آ رہا ہے تو وہ اور بھی ہنسے اور کہنے لگے، کیسا مجنون آدمی ہے.کیا بحری جہاز ایک بارچل چکنے کے بعد پھر کبھی واپس بھی آیا کرتے ہیں.مگر فرماتے ہیں: ا بھی وہ لوگ میرا مذاق اڑا ہی رہے تھے کہ ایک آدمی بھاگا بھاگا آیا اور کہنے لگا، جہاز بندرگاہ پر واپس پہنچ گیا ہے.میں خدا تعالیٰ کے اس احسان پر سجدات شکر بجالایا اور فوراً جہاز کے اندر جا کر اپنا کام کرنے لگا.کسی کو معلوم ہی نہ ہوا کہ کیا ہوا ہے“ جہاز کی واپسی کا اصل سبب تو اللہ تعالیٰ کا اپنے ایک عاجز بندے کی نصرت اور پردہ پوشی کرنا تھا مگر فرماتے ہیں کہ اس کا ظاہری سبب یہ بنا کہ وہ جنگ کا زمانہ تھا اور دشمن کی آبدوزوں کے حملے کا ہر وقت خطرہ تھا.ہمارے اس جہاز پر امن کا جھنڈا نصب نہیں تھا.چنانچہ یہ جھنڈا لینے کے لئے جہاز کو واپس بندرگاہ پر آنا پڑا اور یوں اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کے ایک غلام کو ہر قسم کی ممکنہ پریشانی سے بچا کر اپنی ہستی اور اپنے قادر مطلق ہونے کا ثبوت بہم پہنچایا.فالحمد للہ علی ذلک.تبلیغی میدان میں تائید الہی کے ایمان افروز واقعات تالیف عطاء المحجیب را شد صاحب صفحه ۵۱ تا ۶۱ ) 00000
مصالح العرب.....جلد اول 284 مکرم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کی تقریباً 17 سال پر محیط عرب علاقوں میں خدمات کے مختصر بیان کے بعد ہم اس عرصہ میں عربوں میں دیگر مقامات پر رونما ہونے والے جماعت کی تبلیغ اور تعلقات کے واقعات کی طرف لوٹتے ہیں.ذیل میں دو ایسے ایمان افروز واقعات درج کئے جاتے ہیں جن کی تاریخ اور سال کی تعیین نہیں ہوسکی تاہم اندازہ ہے کہ قریباً اسی عرصہ میں رونما ہوئے ہوں گے جس کے حالات کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں.عرب صاحب پر گھڑوں پانی پڑ گیا محترم میاں محمد صدیق بانی صاحب وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے مسجد اقصیٰ ربوہ کی تعمیر کے جملہ اخراجات ادا کرنے کا وعدہ کیا جن کا تخمینہ اس وقت تین لاکھ لگایا گیا لیکن مسجد کی تعمیر تک یہ تخمینہ پندرہ لاکھ ہو چکا تھا تاہم آپ نے یہ خرچ پوری بشاشت قلبی کے ساتھ ادا کیا.آپ نے 19، 20 سال کی عمر میں بیعت کی تو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا.آپ کے والدین آپ کو پہلے مولوی ابراہیم سیالکوٹی اور پھر مولوی ثناء اللہ امرتسری جیسے اشد مخالفین کے پاس بھی لے گئے مگر باوجود کم سنی کے آپ نے ان کے دانت کھٹے کر دیئے.تب آپ کی والدہ نے آپ کو چنیوٹ میں مقیم ایک عرب عالم دین کے پاس لے جانے کا ارادہ کیا.اس کا حال میاں محمد صدیق صاحب خود بیان فرماتے ہیں: ایک رات بعد نماز تراویح ان کے ہاں جانے کا پروگرام بنا اور میری رضاعی والدہ نے عرب صاحب کو اس سے اطلاع دی.والدہ صاحبہ کی خواہش کے مطابق میں وہاں گیا.والدہ صاحبہ اور تقریباً میں قریبی مستورات ہمراہ تھیں.عرب صاحب کے مکان کے قریب پہنچنے پر یہ دیکھ کر میری حیرانی کی حد نہ رہی کہ ان کے مکان کے عین سامنے وسیع میدان میں دریاں بچھی ہوئی ہیں گیس کے لیمپ روشن ہیں.درمیان میں ایک میز اور دو کرسیاں رکھی ہوئی
285 مصالح العرب.....جلد اول ہیں.گویا عرب صاحب نے ایک عظیم الشان جلسہ کا اہتمام کر رکھا ہے.پہلے تو میں گھبرا سا گیا مگر پھر دل قومی کر کے آگے بڑھا.مستورات مکان کی چھت پر اور میں عرب صاحب کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا.دریوں پر کوئی دوصد افراد براجمان تھے جن میں سے اکثر اسی محلہ کے اور عرب صاحب کے عقیدتمند تھے.“ عرب صاحب نے جو اُردو روانی سے بول سکتے تھے آپ سے دریافت کیا کہ آپ کیوں احمدی ہوئے ہیں؟ آپ نے کہا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آٹھویں پارے میں بنی آدم کو مطلع کیا گیا ہے کہ تمہارے اندر ضرور تم میں سے رسول آئیں گے جو میری آیات تمہارے پاس بیان کریں گے.جو شخص تقویٰ سے کام لیتا ہوا اپنی اصلاح کرے گا اسے کوئی خوف اور غم نہ ہو گا.اس حکم کی تعمیل میں میں نے اس زمانہ کے مامور کی بیعت کی ہے.عرب صاحب نے جواب میں کہا: ابتداء میں بنی آدم کو اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا تھا یہاں اسے بیان کیا گیا ہے.آپ نے عرض کیا کہ یہاں کئی بار لفظ ”قل دہرایا گیا ہے جس کا مطلب صاف ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانہ کے اور بعد کے بنی آدم سے یہ بات کہہ دیں.عرب صاحب نے کہا کہ اس مقام پر قل“ کا لفظ نہیں ہے.اس پر آپ نے مجمع کو مخاطب کر کے کہا اگر یہاں کوئی حافظ ہوں تو کھڑے ہو کر اس مقام کو تلاوت کریں.فی الفور دو تین حافظ کھڑے ہو گئے.ان میں سے ایک کو جو حافظ ”جھا“ کے نام سے معروف تھے موقعہ دیا گیا.ان آیات میں پانچ بار قل“ کا لفظ آیا ہے انہوں نے آیات پڑھنی شروع کیں.سوجتنی بار قل کا لفظ آیا آپ گنواتے چلے گئے.ایک.دو تین چار پانچ.تو عرب پر گویا گھڑوں پانی پڑ گیا.اور ان کے معتقدین نے بہت شرمندگی محسوس کی.اس کے بعد اس مجمع کا کیا حشر ہوا یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے.آپ فرماتے ہیں: ایک کونے سے کسی شریر نے عرب صاحب پر آوازے کسے اور کہا کہ میرزائی لڑکے نے ہم سب کو شرمندہ کر دیا ہے.وغیرہ وغیرہ.اس پر عرب صاحب تو اپنے گھر کے اندر چلے گئے اور ان کے مرید جوش میں آگئے اور اس شریر اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ تو تکار اور دنگہ فساد ہونے گا.یہ دیکھ کر میں اپنے ساتھ کی مستورات سمیت وہاں سے چلا آیا.بفضلہ تعالیٰ مجھے کامیابی بھی حاصل ہوئی اور میں کسی نقصان سے بھی محفوظ رہا.“ مشخص از تابعین اصحاب احمد جلد دہم صفحہ 38-39)
مصالح العرب.....جلد اول قادر خدا کی قدرتوں کے نظارے 286 الحاج عبد الکریم صاحب احمدی (اے.کے.احمدی) برٹش آرمی میں ملازم تھے اور اسی ملازمت کے سلسلہ میں ان کی تقرری مصر میں ہوئی.جہاں انہوں نے تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا اور کئی مصری احمدیت میں داخل ہو گئے جن میں ایک مشہور مصری احمدی السید علی حسن صاحب بھی ہیں.یہ وہ زمانہ تھا جب عیسائی مشنری برٹش گورنمنٹ کے بعض عناصر کی سر پرستی اور حمایت حاصل کر کے اسلام کے خلاف برسر پیکار تھے اور کئی سادہ لوح مسلمانوں کو عیسائیت کی زد میں لانے میں کامیاب ہورہے تھے.پہلے مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولانا ابو العطاء کی مساعی کے ضمن میں مصر میں کئی امریکن مشن کے پادریوں کے ساتھ مناظروں کا تذکرہ ہوا ہے جو لمبے عرصہ سے مصر میں مقیم ہونے کی وجہ سے روانی سے عربی زبان بولتے تھے اور عیسائیت کی تبلیغ کا کام زور شور سے چلا رہے تھے.ایسے ہی امریکن مشن کے ایک 75 سالہ بوڑھے پادری کی کوششوں کی وجہ سے پندرہ ہیں قبطی مسلمان عیسائیت قبول کرنے کے لئے تیار ہوگئے اور بپتسمہ لینے ہی والے تھے کہ الحاج عبد الکریم صاحب احمدی کی اس پادری کے ساتھ مختلف امور پر گفتگو ہو گئی.اس گفتگو میں ان کی کامیابی کی وجہ سے یہ پندرہ ہیں قبطی مصری مسلمان عیسائی ہونے سے بچ گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس غلام کی کوشش نے ان مسلمانوں کو واپس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں ڈال دیا.اپنی اس نا کامی کا بدلہ لینے کے لئے اس عیسائی پادری نے اے کے احمدی صاحب کا پیچھا کیا اور جس سیکشن میں یہ بطور ہیڈ کلرک کام کرتے تھے اس کے افسر انچارج کپتان رائٹ سے مل کر اسے اکسایا اور اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ احمدی صاحب کو سزا دلوا کر ہندوستان بھیجوا دے کیونکہ یہاں مصر میں وہ ان کی تبلیغ میں روک بن رہا ہے.اس کپتان نے پادری کی بات پر یوں عمل کیا کہ آپ فرماتے ہیں: کپتان رائٹ نے مجھے بلانے کے لئے گھنٹی بجائی ، میرا کمرہ ان کے کمرے سے کچھ فاصلے پر تھا.میں ابھی اپنے کاغذات تیار کر کے چپڑاسی کو دے ہی رہا تھا کہ کپتان نے گھنٹی بجا کر ایک دوسرے ہیڈ کلرک کو بلا لیا جس کا کمرہ اس کے کمرہ کے بالکل قریب تھا.چنانچہ میں راستے سے ہی واپس چلا گیا.اس پر کپتان موصوف نے میرے خلاف شکایت کر دی اور مجھے وارننگ دے دی گئی.اس طرح اوپر نیچے تین دفعہ شکایت کر کے کپتان نے مجھے تنبیہ دلوائی
مصالح العرب.....جلد اول......287 اور پھر ایک دن سفارش کی کہ میرا کورٹ مارشل کیا جائے.جس پر مجھے نظر بند کر دیا گیا.جو چارج شیٹ مجھے دی گئی اس میں یہ درج تھا کہ میں نے کپتان رائٹ کی چار دفعہ حکم عدولی کی ہے اور یہ کہ میں فلاں تاریخ کو حاضر ہو کر اپنی صفائی پیش کروں.جس روز فیصلہ ہونا تھا اس سے ایک دن قبل کپتان رائٹ نے دفتر میں اعلان کر دیا کہ کل مسٹر احمدی کو چھ ماہ کی سزا ہو جائے گی.بلکہ ایک مصری احمدی دوست السید علی حسن جب میں ( Mess) میں کھانا کھانے گئے تو بعض مخالف ہیڈ کلرکوں نے انہیں یہاں تک طعنہ دیا کہ کل تمہارے مولوی کو آئی ایم ایس ایم India Meritorious service Medal تمغہ ملے گا.( یہ تمغہ حسن کارکردگی کی بناء پر ملتا تھا).السید علی حسن اسی وقت اٹھ کر میرے پاس پہنچے اور بتانے لگے کہ مخالفین یوں طنز میں کر رہے ہیں.میں نے ان سے اسی وقت کہہ دیا کہ آپ میس میں جا کر اعلان کر دیں کہ میرا خدا قادر ہے کہ مجھے ان مخالف حالات کے باوجود آئی ایم ایس ایم کا تمغہ دلا دے.“ جب السید علی حسن نے وہاں جا کر یہ اعلان کیا تو مخالفین قہقہہ مار کر ہنسے اور کہنے لگے کہ یہ تو جیل میں جارہا ہے اور خوا میں تمغے کی دیکھ رہا ہے.احمدی صاحب فرماتے ہیں کہ: وہ ساری رات میں نے جاگ کر دعاؤں اور نوافل میں گزاری.اگلے دن فوجی عدالت میں میری پیشی تھی.کپتان رائٹ بھی مدعی کی حیثیت سے کمرہ عدالت میں موجود تھا.جب عدالت کے جج نے مجھے بلا کر اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے کہا تو میں نے وہ سارا قصہ جو اصل حقیقت تھا بیان کر دیا.جج نے گواہ پیش کرنے کے لئے کہا تو میں نے عرض کیا کہ افسر انچارج کے خلاف کون گواہی دے گا.اس پر حج کہنے لگا: تو پھر میں تجھے مجرم قرار دیتا ہوں.ابھی وہ اس سے آگے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ جنرل شوٹ ( جو ہماری کمپنی کے کمانڈر تھے ) کا فون آگیا.اس نے حج سے دریافت کیا کیا کوئی مقدمہ مسٹر احمدی کے خلاف چل رہا ہے؟ حج نے جواب دیا: ہاں حضور، اور میں ابھی اس کا فیصلہ سنانے والا ہوں.اس پر جنرل شوٹ نے کہا : تم فیصلہ مت سناؤ بلکہ مقدمہ کے جملہ کاغذات لے کر میرے پاس آ جاؤ.یہ سن کر جج نے اسی وقت کا غذات لئے اور جنرل شوٹ کے پاس چلا گیا.“ ادھر خدا نے تو جج کو فیصلہ سنانے سے روک دیا مگر کپتان رائٹ اپنی ناپاک سازش کی کامیابی پر ابھی تک ایسا مطمئن تھا کہ احمدی صاحب کو کہنے لگا : مسٹر احمدی ہمارا اچھا وقت گزرا
مصالح العرب.....جلد اول 288 ہے.افسوس ہے کہ اب تم جیل جارہے ہو.اس کی یہ بات سن کر احمدی صاحب کے منہ سے آنا فانا یہ الفاظ نکلے : Mr.Wright, you are wrong! you are nothing but a dead worm on the face of the earth.I trust my God who is the living God.He shall elevate me and degrade you.یعنی مسٹر رائٹ تم غلط سمجھے ہو.تمہاری حیثیت زمین کے اوپر ایک مرے ہوئے کیڑے سے زیادہ نہیں ہے.جہاں تک میرا سوال ہے تو میرا بھروسہ اپنے خدا پر ہے جو زندہ خدا ہے وہ مجھے ترقی بخشے گا اور تمہیں تنزل کا نشانہ بنائے گا.بھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ حج کا غذات سمیت واپس پہنچ گیا اور ہمیں مخاطب ہو کر بولا تم دونوں کو جنرل صاحب بلا رہے ہیں.جب ہم جنرل شوٹ کے دفتر میں پہنچے تو پہلے انہوں نے مجھے بلایا ، عزت سے کرسی پر بٹھایا اور کہنے لگے: کیا تم بریگیڈیئر کڈ کو جانتے ہو؟ میں نے کہا جناب میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں.وہ بولے: ان کا تار آیا ہے وہ آپ کو اپنے بریگیڈ میں چیف کلرک کی آسامی پر رکھنے کے لئے طلب کر رہے ہیں.ایک سو روپیہ ماہوار بطور الا ونس زیادہ ملے گا.کیا آپ جانے کیلئے تیار ہیں؟ میں نے جواب دیا : جی ہاں کیوں نہیں میں بالکل تیار ہوں.“ اب سنئے کہ کپتان رائٹ کے ساتھ کیا ہوا.جنرل شوٹ ان سے اس طرح مخاطب ہوئے: جنرل : تم کون ہو؟ رائٹ : رائٹ سر.جنرل : تم رائٹ (یعنی درست) نہیں ہو.تم نے پادریوں کے کہنے پر مسٹر احمدی کے خلاف جھوٹا مقدمہ کھڑا کیا ہے اور حج سے کہا ہے کہ اسے چھ ماہ کی قید ضرور دے دو.کیا تم نے سٹاف کا امتحان پاس کیا ہے؟ رائٹ : جی ہاں.جنرل میں تمہارے اس امتحان کو منسوخ کرتا ہوں اور تمہارا ماہوار الاؤنس بند کرتا ہوں اور تمہیں دفتر کی بجائے محاذ پر بھیجتا ہوں.
مصالح العرب.....جلد اول و 289 ادھر جب میں اپنی ترقی کا پروانہ لے کر اور کپتان رائٹ اپنی تنزلی کے آرڈر لے کر دونوں باہر نکلے تو دفتر کے ملازمین ہماری طرف دوڑے اور پوچھنے لگے کہ کیا فیصلہ ہوا ہے.میرے بتانے پر کہ میں ہیڈ کلرک سے چیف کلرک بن گیا ہوں اور مجھے سورو پیہ الاؤنس بھی زیادہ ملے گا وہ بڑے حیران ہوئے اور خیال کرنے لگے کہ میرا دماغی توازن بگڑ گیا ہے.کیونکہ وہ تو میرے منہ سے چھ ماہ کی قید کی خبر سننے کے منتظر تھے.دوسری طرف کپتان رائٹ اور تو کچھ نہ کر سکا اس نے اپنا غصہ نکالنے اور مجھے نقصان پہنچانے کی نیت سے یہ کیا کہ جہاں میں جا رہا تھا وہاں کے بریگیڈ میجر کولکھ دیا کہ مسٹر احمدی عیسائیت کا دشمن ہے اور میری تنزلی کا باعث ہوا ہے اسے ہرگز چیف کلرک کی آسامی پر نہ رکھا جائے.بریگیڈ میٹر موصوف نے وہ خط پڑھتے ہی یہ کہہ کر پھاڑ دیا کہ میں مسٹر احمدی کو جانتا ہوں اور پھر مجھے چیف کلر کی کے عہدے کا چارج دے دیا.میں نے جب انہیں اپنے مقدمہ کا حال سنایا اور بتایا کہ کس طرح عین وقت پر ان کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے مجھے نہ صرف ذلت سے بچا لیا بلکہ سروس میں بھی ترقی بخشی تو وہ بہت خوش ہوئے.میں نے انہیں مزید کہا چونکہ آپ اس اعتبار سے خدا تعالیٰ کے اس نشان کا حصہ ہیں اس لئے میں تہجد کی نماز میں چالیس روز تک آپ کی ترقی کے لئے دعا کروں گا....خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میرے اس چالیس روزہ دعا کے اختتام پر ابھی پانچ دن اوپر ہوئے تھے کہ آرمی گزٹ میں یہ اعلان ہوا کہ بریگیڈیئر کنڈ کو D.S.O یعنی Distinguished) (Order Service کا اعزاز دیا گیا ہے.جب میں انہیں اس اعزاز پر مبارک باد دینے گیا تو وہ کہنے لگے: "مسٹر احمدی یہ تمہاری چالیس روزہ دعا کا نتیجہ ہے.دوسرا خدا تعالیٰ کا فضل بلکہ اس کا معجزانہ تصرف یہ ہوا کہ اس واقعہ پر چند روز ہی گزرے تھے کہ ایک اور گزٹ خود آپ کے متعلق شائع ہوا جو یہ تھا کہ: ”مسٹر احمدی کو کمانڈر انچیف کی طرف سے آئی ایم ایس ایم کا تمغہ عطا کیا گیا ہے.“ آپ کو بعد میں پتہ چلا کہ برگیڈیئر کڈ نے اپنی طرف سے اور یقیناً خدائی تصرف کے ماتحت آپ کے بارہ میں حسن کارکردگی کی رپورٹ کرتے ہوئے اس تمغہ کے لئے سفارش کی تھی.الحاج احمدی صاحب کہتے ہیں کہ : " تحدیث نعمت کے طور پر مخالفین کو خدا تعالیٰ کی قدرت اور غیرت کا تماشا دکھانے کے لئے میں تمغہ ملنے کے بعد چند روز کی رخصت لے کر اپنے پہلے دفتر میں گیا اور اپنے احمدی دوست السید علی حسن کے ساتھ تھوڑی دیر کے لئے ان مخالف کلرکوں کی
مصالح العرب.....جلد اول 290 کے دفتروں میں گھوما تا کہ وہ خدا تعالیٰ کے اس نشان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں.“ (ملخص از برہان ہدایت تالیف مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بحوالہ درویشان احمدیت جلد 2 صفحہ 172 تا 179 ) اس واقعہ کو پڑھ کر دل خدا کی حمد کے جذبات سے معمور ہو جاتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح پاک کے منہ سے نکلے ہوئے مندرجہ ذیل کلمات آپ کے خادموں کے حق میں بھی حرف بحرف پورے فرمائے ، آپ نے خدائی وعدوں کی بناء پر فرمایا تھا: خدا رسوا کرے گا تم کو میں اعزاز پاؤں گا سنو اے منکرو اب یہ کرامت آنے والی ہے سر کو چیٹو آسماں سے اب کوئی آتا نہیں مصر کے مجلہ الاسلام نے 3 / جمادی الثانی 1354ھ کو زمانے کی بگڑی ہوئی حالت اور ان کے خیال میں مصلح کے ظاہر نہ ہونے پر بڑی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے جو لکھا وہ جماعتی تاریخ میں ریکارڈ کے لئے یہاں درج کیا جاتا ہے.مجلہ لکھتا ہے: مسلمانوں نے قرآن کریم پر عمل چھوڑ دیا ہے، اور دین اسلام سے نہ صرف دور ہو گئے ہیں بلکہ اس سے قطع تعلقی کر بیٹھے ہیں، اور مفاسد کے اپنانے میں اہل نار کے پیچھے چل نکلے ہیں ، اور مساجد اور عبادتگاہوں کو خیر باد کہہ دیا ہے.“ اس پر جماعت کے مجلہ البشر می نے لکھا کہ: پھر مصلح کہاں ہے؟ اور کہاں ہے وہ جس کی طرف وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ (هود: 8 (1) میں اشارہ کیا گیا ہے؟ اب جبکہ قرآنی پیشگوئی وَقَالَ الرَّسُوْلُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان : 31) پوری ہو چکی ہے تو ضروری ہے کہ وہ موعود فارسی شخص آئے تا کہ ایمان کو ثریا سے واپس لائے اور دین کو قائم کرے اور اسلام کو پھر سے زندہ کرے.مجله البشري جمادى الأولى والثانیة 1354 ھ صفحہ 17 مجدد کی تلاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ کا اس امت پر یہ احسان - ، ہے
مصالح العرب.....جلد اول 291 کہ اس نے ہر صدی کے سر پر ایک مجدد کھڑا کیا جس نے دین اسلام کی تجدید کا کام کیا.اسی وعدہ کے موافق چودھویں صدی کے سر پر مجدد اعظم، امام مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے.چنانچہ جنہوں نے آپ کو مان لیا ان کے نزدیک دین کی تجدید کا کام پوری آب و تاب سے شروع ہو گیا اور اس کے عالمی اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے.لیکن جو اس سے محروم رہے انہیں ہر طرف ضلالت وگمراہی اور شر ہی نظر آیا.جس کا اظہار ہر علاقہ میں مسلمانوں نے کیا.مختلف عرب علماء نے بھی اس طرح کی بے چینی کا اظہار کیا گیا.حتی کہ اخبار الفتح “ نے اپنے شمارہ نمبر 263 میں لکھا: جس مشکل دور سے امت اسلامیہ آج گزر رہی ہے وہ اسلام کی تاریخ میں ابتداء سے 66 لے کر آج تک بدترین دور ہے." ایسے پر آشوب دور میں مجدد کی ضرورت و تلاش کے موضوع پر اس وقت کے مشہور عالم الشيخ مصطفى الرفاعى اللبان صاحب نے ایک مضمون لکھا جسے قاہرہ سے نشر ہونے والے ایک مجلہ الاسلام نے شائع کیا جس کے بعض اہم حصوں کا ترجمہ تاریخی ریکار ڈ اور قارئین کرام کی دلچپسی کیلئے پیش ہے تا کہ وہ جان سکیں کہ عرب علاقے میں بھی کسی مصلح اور مجدد کی ضرورت کو کس شدت کے ساتھ محسوس کیا جار ہا تھا.الشیخ اللبان صاحب کہتے ہیں: 2266 ہمیں آنا فانا ایسی پرشور اور غضبناک آوازیں سنائی دیتی ہیں جیسے تلواروں کے آپس میں ٹکرانے کی یا گھوڑوں کی اپنی لگا میں چبانے کی یا جنوں کے شور مچانے کی آواز میں ہوں یا جیسے جہازوں کی گھن گرج کی آواز ہوتی ہے.ان آوازوں نے التجديد التحدید “ کی رٹ لگائی ہوئی ہے اور یہ کہ ہمیں قدیم اور پرانے کو چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ وہ اس زمانہ کے قابل نہیں رہا.لیکن اگر ہم ان آوازوں سے پوچھیں کہ اس مزعومہ " تجدید سے آپ کی کیا مراد ہے تو بلا تر دود کہتی ہیں کہ اس کا مطلب یورپ کی اندھی تقلید اور اس کے طور طریقوں کو اپنانا ہے.اور تعجب انگیز بات یہ ہے کہ یہ آوازیں ایسی قوم کے مونہوں سے نکل رہی ہیں جو دین اسلام کو ماننے والی ہے جو کہ دینِ تجدید ہے، جس پر عمل کر کے دنیا ترقی کر سکتی ہے اور بلند ترین انسانی اقدار حاصل کر سکتی ہے...اہل کتاب نے جب دعوت اسلام سے یہ کہتے ہوئے اعراض کیا کہ ان کے پاس تو رات اور انجیل موجود ہے جو ان کی غلطی پر انہیں تنبیہ کرنے کے
مصالح العرب.....جلد اول 292 لئے کافی ہے، تو کیا اسلام نے اس بات پر ان کی توبیخ نہیں کی؟ کیونکہ دین میں تجدید انبیاء اور مرسلین کی بعثت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.پس ہر رسول اپنے سے پہلے رسولوں کا مجدد ہوتا ہے جو ایسی شریعت لے کے آتا ہے جو اس زمان و مکان کے ساتھ مکمل ہم آہنگی رکھتی ہے جس کی طرف وہ بھیجا گیا ہوتا ہے.اسلام چونکہ دنیا کی ترقی اور دین کے اعلیٰ ترین مبادی لے کر آیا اور انسانیت کو اس کی مطلوبہ خوشی اور خوش بختی اور علو اور کمال عطا کیا اس لئے اسلام میں اس طرح کی دینی تجدید تو ختم ہو گئی.تاہم ایسی تجدید اسلام میں زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتی رہی ہے جو کہ در حقیقت قرآن کریم کی تعلیمات اور سنت نبوی کی طرف رجوع کرنے کا دوسرا نام ہے.اسی تجدید کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے: ” إن الله يبعث على رأس كل مائة سنة من يجدد لهذه الأمة أمر دينها “ یعنی اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر کسی کو کھڑا کر دے گا جو اس امت کے دینی امور کی تجدید کا کام کرے گا.چنانچہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدہ کے موافق ہر صدی کے سر پر مجدد ظاہر ہوتے آئے ہیں جن میں حضرت عمر بن عبد العزیز اور امام نووی رحمہما اللہ وغیرہ شامل ہیں.آج کے زمانے میں جبکہ صحیح اسلام کی زندگی پر جمود طاری ہے اور مادیت اور معصیت کے پیچھے دوڑ لگی ہوئی ہے ان حالات میں ہمیں خالص اسلامی تجدید کی ضرورت ہے نہ کہ اس جھوٹی تجدید کی جس کی طرف بعض ایسے مسلمان بلا رہے ہیں جن کی آنکھیں یورپی تہذیب اور اس کی جھوٹی چمک دمک سے چندھیا گئی ہیں اور جس سے ہمیں ایسے خطر ناک نقصان کا اندیشہ ہے جس کے برے اثرات سے ہم ابھی سے نبرد آزما ہیں.ہمیں تو ایک گروہ مجددین کی ضرورت ہے جو ہمارے دلوں اور عقلوں اور ہمارے نفوس میں اسلام کی مفید اور حقیقی روح پھونک دیں.کیونکہ اسلام ہی ہماری بیماریوں کا علاج اور ہمارے درد کی مداوا ہے.ہمیں ایسے گروہ مجددین کی ضرورت ہے جو ہمارے اخلاق کی تجدید کریں جو کہ اتنے بگڑ گئے ہیں کہ جن کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں رہا.ایسے گروہ مجددین کی ضرورت ہے جو ہماری ہمت اور شجاعت کی تجدید کریں.ایسے گروہ مجددین جو ہماری پر فخر و پر عظمت اعمال سے معمور تاریخ کی تجدید کریں جس
مصالح العرب.....جلد اول کی ایک مکار قوم کے ہاتھوں تحریف ہو چکی ہے.293 جو ہمارے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی تجدید کریں جس کو ہم چھوڑ بیٹھے ہیں اور اس کی جگہ ایسی روایات کو اپنالیا ہے جن کا نتیجہ صرف اور صرف رنج والم ہے.جو ہمارے لئے جہاد فی سبیل اللہ کی تجدید کریں جسے ہم نے بھلا دیا ہے اور قوت وحزم واقدام جیسے خلق کو چھوڑ بیٹھے ہیں.جو ہمارے لئے نیکی اور تقویٰ میں تعاون کے اصول کی تجدید کریں کیونکہ ہمارے آپس میں گناہ اور زیادتی کے معاملہ میں تعاون کی وجہ سے دشمن نے ہمیں گزند پہنچانے کے معاملہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر لیا ہے جس کے سبب سے ہم مغلوب ہو کر رہ گئے ہیں.وہ ہمارے لئے اس خیر کی تجدید کریں جسے ہم نے اپنے دین کی تعالیم کو خیر باد کہنے کے نتیجہ میں کھو دیا ہے.جو ہمارے لئے آزادی، عزت ، وقار ، استغنا ، اور امن و آشتی کے مفاہیم کی تجدید کریں.جو سلف صالحین کی عظمت رفتہ اور ہمارے آباؤ اجداد کے غلبہ کی تجدید کا کام کریں.یہ ہے وہ تجدید جس کی ہمیں ضرورت ہے.اگر اس جیسی تجدید کوئی لے کر آئے تو ہم اس کو خوش آمدید کہیں گے اور اسے کہیں گے کہ تم نے اعلیٰ درجہ کی نیکی اور عظیم کام کیا ہے.اے اللہ! اے حلیم و کریم خدا تو اپنے فضل سے ہمیں صحیح اسلامی تجدید سے متمتع فرما.مجلہ الا سلام شمارہ نمبر 42 بحوالہ البشری جنوری 1935 ء صفحہ 29 تا 33) مضمون نگار کے بار بار گروہ مجددین کے الفاظ سے ایک منصف مسلمان کا ذہن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی طرف مبذول ہو جاتا ہے جس میں آپ نے فرمايا: لو كان الإيمان عند الثريا لناله رجال من هؤلاء یعنی اگر ایمان ثریا ستارہ پر بھی پہنچ چکا ہوگا تو اہل فارس میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو اسے وہاں سے اس زمین میں دوبارہ لے آئیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب الاستفتاء میں کیا خوب فرمایا تھا کہ: " وإنه جاء في وقت الضرورة، وعند مصيبة صُبت على الإسلام من أيدى الكفرة......واقتضى الزمان أن يحى، ويبكت الكفار
294 " مصالح العرب.....جلد اول ويهدم ما عمروه، فهو يدعو الزمان والزمان يدعوه یعنی یہ مسیح موعود عین ضرورت کے وقت ظاہر ہوا ہے اور عین اس مصیبت کے وقت آیا ہے جو کافروں کے ہاتھوں اسلام پر توڑی گئی ہے.چنانچہ زمانے نے تقاضا کیا کہ وہ مبعوث ظاہر ہو اور کافروں کا منہ بند کرے اور جو کچھ انہوں نے بنایا اور تعمیر کیا ہے اسے منہدم کر کے رکھ دے.پس وہ زمانے کو بلا رہا ہے اور زمانہ اس کو ندا ئیں دے رہا ہے.نیز اپنے اُردو کلام میں فرمایا کہ: وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا 00000
مصالح العرب.....جلد اول 295 مولانا محمد سلیم صاحب کی حیفا آمد مولا نا ابو العطاء صاحب کی واپسی کے بعد الحاج مولا نا محمد سلیم صاحب فلسطین میں بطور مبلغ تشریف لائے.آپ جنوری 1936 ء سے مارچ 1938 ء تک یہاں رہے.آپ کے چارج لینے کے چند ہفتے بعد فلسطین بھر میں عربوں اور یہودیوں کی باہمی کشمکش کی وجہ سے عام ہڑتال شروع ہو گئی جو چھ ماہ تک جاری رہی جس نے جلدی شورش کی شکل اختیار کر لی.تاہم آپ نے دار التبلیغ کے مرکز کہا بیر میں درس و تدریس کا سلسلہ با قاعدہ جاری رکھا.اس دوران آپ تبلیغ کی غرض سے مصر بھی تشریف لے گئے اور مصر، فلسطین ، شرق اردن میں مسلمان علماء اور عیسائی پادریوں سے مناظرے کئے جن میں سچائی کو فتح نصیب ہوئی.البشری میں نشر ہونے والی بعض رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں آپ کی مساعی سے متعدد افراد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.علاوہ ازیں آپ نے مجلہ البشری کی ادارت ، اس میں مختلف موضوعات پر مضامین لکھنے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے خطبات کے تراجم نشر کرنے کا بھی گرانقدر کام کیا.آپ نے اپنے زمانہ قیام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مشہور کتاب الاستفتاء شائع کی نیز رسالہ أسئلة وأجوبة (پہلا حصہ ) بھی لکھا.نمائندہ سلطان مسقط قادیان میں شاید تاریخی اہمیت کے اعتبار سے یہ ذکر کرنا ضروری ہو کہ بعض عرب حکومتوں کے نمائندے اور سفراء وغیرہ بھی اس زمانہ میں جماعت کے بارہ میں اپنی معلومات میں اضافہ کرنے اور جماعت کے دینی ماحول کا جائزہ لینے کے لئے قادیان آیا کرتے تھے.اسی سلسلہ میں مسٹر عبدا منعم نمائندہ سلطان مسقط 5 / جنوری 1937 ء کو قادیان تشریف لائے.تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 437)
مصالح العرب.....جلد اول 296 صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا سفر مصر حضرت خلیفہ لمسیح الثانی نے 29 جون 1938ء کو اپنے لخت جگر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو عربی اور زرعی تعلیم میں ترقی کے لئے مصر روانہ فرمایا.اس سفر کی غرض وغایت کے بارہ میں حضور فر ماتے ہیں: عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ چونکہ انگریزی تعلیم میں لگ گئے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اب پھر عربی کا میلان تازہ ہو جائے.میاں ناصر بھی جو اپنی عربی کی تعلیم کے بعد انگریزی تعلیم کی تکمیل کے لئے انگلستان گئے تھے واپس آ رہے ہیں اور وہ بھی عربی کے ساتھ دوبارہ مس پیدا کرنے کے لئے مصر میں ٹھہریں گے اور میاں مبارک احمد صاحب بھی وہاں جارہے ہیں.دونوں بھائی وہاں آپس میں بھی عربی میں بات چیت کریں گے، وہاں کے علمی مذاق کے لوگوں سے بھی ملیں گے ، لائبریریوں کو دیکھنے کا موقعہ بھی ان کو ملے گا.اور اس طرح زبان عربی کے ساتھ مکس اور ذوق پھر تازہ ہو جائے گا.اس کے علاوہ مصر میں کاٹن انڈسٹری کے ماہرین موجود ہیں اور وہاں کپاس خاص طور پر کاشت کی جاتی ہے.میں چاہتا ہوں کہ اس کا بھی مطالعہ کریں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی زریں نصائح حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے صاحبزادہ صاحب کو اپنے قلم مبارک سے جو قیمتی نصائح لکھ کر دیں وہ آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں.یہ نصائح زبانوں کی تعلیم حاصل کرنے والوں ، مبلغین کرام ، اور وقف نو کے بچوں کی تربیت کرنے والوں کے لئے نہایت مفید ہیں اور ایسے تربیتی تعلیمی، اور تاریخی امور پر مشتمل ہیں کہ جن کو پڑھنے کے بعد ہی ان کی اہمیت کی
مصالح العرب.....جلد اول 297 اور بیش قیمت ہونے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے.لہذا عمومی فائدہ کے لئے یہ تمام نصائح یہاں پر درج کی جاتی ہیں.حضور نے تحریر فرمایا: عزیزم مبارک احمد سلمک اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاته پر اللہ تعالیٰ خیریت سے لے جائے اور خیریت سے لائے اور اپنی رضا مندی کی راہ پر چلنے کی توفیق دے.تمہارا سفر تو عربی اور زراعت کی تعلیم اور ترقی کے لئے ہے.لیکن چھوٹے سفر میں اس بڑے سفر کو نہیں بھولنا چاہئے جو ہر انسان کو درپیش ہے.جرنیل جرنیلوں کے ، مدبّر مدبروں کے، بادشاہ بادشاہوں کے حالات پڑھتے رہتے ہیں تا کہ اپنے پیشروؤں کے حالات سے فائدہ اٹھا ئیں.اگر تم لوگ اہل بیت نبوی کے حالات کا مطالعہ رکھو تو بہت سی ٹھوکروں سے محفوظ ہو جاؤ.انسان کا بدلہ اس کی قربانیوں کے مطابق ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: یہ نہ ہوگا کہ لوگ تو قیامت کے دن اپنے عمل لے کر آئیں اور تم وہ غنیمت کا مال جو تم نے دنیا کا حاصل کیا ہے.اے میرے صحابہ تم کو بھی اپنے اعمال ہی لا کر خدا کے سامنے پیش کرنے ہوں گے.اہل بیت نبوی کو جو عزت آج حاصل ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولا د ہونے کے سبب سے نہیں بلکہ اپنی ذمہ داری کو سمجھ کر جو قربانیاں کی ہیں ان کی وجہ سے ہے.1.تم اب بالغ جوان مرد ہو.میرا یہ کہنا کہ نماز میں با قاعدگی چاہئے ایک فضول سی بات ہوگی.جو خدا تعالیٰ کی نہیں مانتا وہ بندہ کی کب سنتا ہے.پس اگر تم میں پہلے سے باقاعدگی ہے تو میری نصیحت صرف ایک زائد ثواب کا رنگ رکھے گی اور اگر نہیں تو وہ ایک صدا بصحرا ہے.مگر پھر بھی میں کہنے سے رک نہیں سکتا کہ نماز دین کا ستون ہے.جو ایک وقت بھی نماز کو قضا کرتا ہے وہ دین کو کھو دیتا ہے.اور نماز پڑھنے کے یہ معنے ہیں کہ باجماعت ادا کی جائے.اچھی طرح وضو کر کے ادا کی جائے.ٹھہر کر، سوچ کر اور معنوں پرغور کرتے ہوئے ادا کی جائے.اور اس طرح ادا کی جائے کہ توجہ تھی طور پر نماز میں ہو اور یوں معلوم ہو کہ بندہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا کم از کم خدا اسے دیکھ رہا ہے.جہاں دو مسلمان بھی ہوں ان کا فرض ہے کہ باجماعت نماز ادا کریں بلکہ جمعہ بھی ادا کریں.اور نماز سے قبل اور بعد ذکر کرنا نماز کا حصہ ہے جو اس کا تارک ہو وہ نماز کو اچھی طرح پکڑ نہیں سکتا اور اس کا دل نماز میں نہیں لگ سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مصالح العرب.....جلد اول 298 نمازوں کے بعد تینتیس تینتیس دفعہ سبحان اللہ اور الحمد للہ پڑھا جائے اور چونتیس دفعہ اللہ اکبر.یہ سو دفعہ ہوا.اگر تم کو بعض دفعہ اپنے بڑے نماز کے بعد اٹھ کر جاتے نظر آئیں تو اس کے یہ معنی نہیں بلکہ وہ ضرور تا اٹھتے ہیں اور ذکر دل میں کرتے جاتے ہیں.الا ماشاء اللہ.تہجد غیر ضروری نماز نہیں.نہایت ضروری نماز ہے.جب میری صحت اچھی تھی اور جس عمر کے تم اب ہو اس سے کئی سال پہلے خدا تعالیٰ کے فضل سے گھنٹوں تہجد ادا کرتا تھا.تین تین چار چار گھنٹہ تک.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو اکثر مد نظر رکھتا تھا کہ آپ کے پاؤں کھڑے کھڑے سوج جاتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مسجد میں انتظار کرتا رہا اور ذکر الہی میں وقت گزارتا ہے وہ ایسا ہے جیسے جہاد کی تیاری کرنے والا.2.اللہ تعالیٰ کسی کا رشتہ دار نہیں.وہ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ہے.اس کا تعلق ہر ایک سے اس احساس کے مطابق ہوتا ہے.جو اس کے بندے کو اس کے متعلق ہو.جو اس سے سچی محبت رکھتا ہے وہ اس کے لئے اپنے نشانات دکھاتا ہے اور اپنی قدرت ظاہر کرتا ہے.دنیا کا کوئی قلعہ، کوئی فوج انسان کو ایسا محفوظ نہیں کر سکتا جس قدر کہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی امداد کوئی سامان ہر وقت میسر نہیں آسکتا لیکن اللہ تعالیٰ کی حفاظت ہر وقت میسر آتی ہے.پس اس کی جستجو انسان کو ہونی چاہئے.جسے وہ مل گئی اسے سب کچھ مل گیا.جسے وہ نہ ملی اسے کچھ بھی نہ ملا.3.زیادہ گفتگو دل پر زنگ لگا دیتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مجلس میں بیٹھتے ستر دفعہ استغفار پڑھتے.اسی وجہ سے کہ مجلس میں لغو باتیں بھی ہو جاتی ہیں.اور یہ آپ کا فعل امت کی ہدایت کے لئے تھا نہ کہ اپنی ضرورت کے لئے.جب آپ اس قدر احتیاط اس مجلس کے متعلق کرتے تھے جو اکثر ذکر الہی پر مشتمل ہوتی تھی تو اس مجلس کا کیا حال ہوگا جس میں اکثر فضول باتیں ہوتی ہوں.یہ امور عادت سے تعلق رکھتے ہیں.میں دیکھتا ہوں ہمارے بچے جب بیٹھتے ہیں لغو اور فضول باتیں کرتے ہیں.ہم لوگ اکثر سلسلہ کے مسائل پر گفتگو کیا کرتے تھے اس وجہ سے بغیر پڑھے ہمیں سب کچھ آتا تھا.انسان کی مجلس ایسی ہونی چاہئے کہ اس میں شامل ہونے والا جب وہاں سے اٹھے تو اس کا علم پہلے سے زیادہ ہو، نہ یہ کہ جو علم وہ لے کر آیا ہوا سے بھی کھو کر چلا جائے.4.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی یا اسلام کی تبلیغ کرنا دوسروں کا ہی کام نہیں ہمارا بھی کام ہے اور دوسروں سے بڑھ کر کام ہے.پس سفر میں حضر میں تبلیغ سے غافل نہ ہوں.
299 مصالح العرب.....جلد اول رسول کریم فداه جسمی و روحی فرماتے ہیں: تیرے ذریعہ سے ایک آدمی کو ہدایت کا ملنا اس سے بڑھ کر ہے کہ ایک وادی کے برابر تجھ کو مال مل جائے.5.بنیادی نیکیوں میں سے سچائی ہے.جس کو سچ کومل گیا اسے سب کچھ مل گیا.جسے بچ نہ ملا اس کے ہاتھوں سے سب نیکیاں کھوئی جاتی ہیں.انسان کی عزت اس کے واقفوں میں اس کی کے بیچ کی عادت کے برابر ہوتی ہے.ورنہ جو لوگ سامنے تعریف کرتے ہیں پس بشت گالیاں دیتے ہیں اور جس وقت وہ بات کر رہا ہوتا ہے لوگوں کے منہ اس کی تصدیق کرتے ہیں لیکن دل تکذیب کر رہے ہوتے ہیں.اور اس سے زیادہ برا حال کس کا ہوگا کہ اس کا دشمن تو اس کی بات کورڈ کرتا ہی ہے مگر اس کا دوست بھی اس کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا.اس سے زیادہ قابل رحم حالت کس کی ہوگی.اس کے برخلاف بچے آدمی کا یہ حال ہوتا ہے کہ اس کے دوست اس کی بات مانتے ہیں اور اس کے دشمن خواہ منہ سے تکذیب کریں لیکن ان کے دل تصدیق کر رہے ہوتے ہیں.6.انسانی شرافت کا معیار اس کے استغناء کا معیار ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا تَمُدَّدَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ (الحجر: 89) کبھی دوسرے کی دولت پر نگہ نہ رکھے اور کبھی کسی کا حسد نہ کرے.جو ایک دفعہ اپنے درجہ سے اوپر نگہ اٹھا تا ہے اس کا قدم کہیں نہیں ٹکتا.اگلے جہان میں تو اسے جہنم ملے گی ہی وہ اس جہان میں بھی جہنم میں رہتا ہے.یعنی حسد کی آگ میں جلتا ہے یا سوال کی غلاظت میں لوٹتا ہے.کیسا ذلیل وجود ہے کہ وہ اکیلا ہوتا ہے تو حسد اس کے دل کو جلاتا ہے اور لوگوں میں جاتا ہے تو سوال اس کا منہ کالا کرتا ہے.انسان اپنے نچلوں کو دیکھے کہ وہ کس طرح اس سے تھوڑا رکھ کر قناعت سے گزارہ کر رہے ہیں اور اس پر شکر کرے جو اللہ تعالیٰ نے اسے دیا ہے اور اس کی خواہش نہ کرے جو اسے نہیں ملا.اسکے شکر کرنے سے اس کا مال ضائع تو نہیں ہوتا.ہاں اسے دل کا سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے.اور طمع کرنے سے دوسرے کا مال اسے نہیں مل جاتا صرف اس کا دل جلتا اور عذاب پاتا ہے.جس طرح بچہ بڑوں کی طرح چلے تو گرتا اور زخمی ہوتا ہے.اسی طرح جو شخص اپنے سے زیادہ سامان رکھنے والوں کی نقل کرتا ہے وہ گرتا اور زخمی ہوتا ہے.اور چند دن کے جھوٹے دوستوں کی واہ واہ کے بعد ساری عمر کی ملامت اس کے حصہ میں آتی ہے.اور انسان کو ہمیشہ اپنے ذرائع سے کم خرچ کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے کیونکہ اس کے ذمہ دوسرے بنی
مصالح العرب.....جلد اول 300 نوع انسان کی ہمدردی اور امداد بھی ہے.ان کا حصہ خرچ کرنے کا اسے کوئی اختیار نہیں اور پھر کون کہہ سکتا ہے کہ کل کو اس کا حال کیا ہوگا ؟ 7.جفاکشی اور محنت ایسے جو ہر ہیں کہ ان کے بغیر انسان کی اندرونی خوبیاں ظاہر نہیں ہوتیں.اور جو شخص اس دنیا میں آئے اور اپنا خزانہ مدفون کا مدفون چھوڑ کر چلا جائے اس سے زیادہ بدقسمت کون ہوگا ؟ 8.ہر شخص جو باہر جاتا ہے اس کے ملک اور اس کے مذہب کی عزت اس کے پاس امانت ہوتی ہے.اگر وہ اچھی طرح معاملہ نہ کرے تو اس کی عزت نہیں بلکہ اس کے ملک اور مذہب کی عزت برباد ہوتی ہے.لوگ اسے بھول جاتے ہیں لیکن عرصہ دراز تک وہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ ہم نے ہندوستانی دیکھے ہوئے ہیں وہ ایسے خراب ہوتے ہیں.ہم نے احمدی دیکھے ہوئے ہیں.وہ ایسے خراب ہوتے ہیں.9.مسافر کو جھگڑے سے بہت بچنا چاہئے.اس سے زیادہ حماقت کیا ہوگی کہ دوسرا شخص تو جھگڑا کر کے اپنے گھر چلا جاتا ہے اور یہ ہوٹلوں میں جھگڑے کے تصفیہ کا انتظار کرتا ہے.مسافر تو اگر جیتا تب بھی ہارا اور اگر ہارا تب بھی ہارا.10.غیر ملکوں کے احمدی ہزاروں بار دل میں خواہش کرتے ہیں کہ کاش ہمیں بھی قادیان جانے کی توفیق ملے کہ وہاں کے بزرگوں کے تقویٰ اور اچھے نمونہ سے فائدہ اٹھا ئیں.اور خصوصا اہل بیت کے ساتھ ان کی بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں.وہ اپنے روں کو ایمان کے حصول کے لئے چھوڑ نا چاہتے ہیں.اور ہمارے پاس آنا چاہتے ہیں.سخت ظلم ہوگا اگر ہم ان کے پاس جا کر ان کے ایمانوں کو ضائع کریں اور ان کی امیدوں کو سراب ثابت کریں.ہمارا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ وہ سمجھیں کہ ہماری امید سے بڑھ کے ہمیں ملا، نہ یہ کہ ہماری امید ضائع ہوگئی.11.ہر جماعت میں کچھ کمزور لوگ ہوتے ہیں.وہ ایک دوسرے کی چغلیاں کرتے ہیں.مومن کو چغلی سننے سے پر ہیز چاہیئے اور سن کر یقین کرنے سے تو کلی اجتناب واجب ہے.جو دوسرے کی نسبت عیب بغیر ثبوت کے تسلیم کر لیتا ہے خدا تعالیٰ اس پر ایسے لوگ مسلط کرتا ہے جو اس کی خوبیوں کو بھی عیب بتاتے ہیں.مگر چاہئے کہ چغلی کرنے والے کو بھی ڈانٹے نہیں بلکہ محبت سے نصیحت کرے کہ اگر آپ کا خیال غلط ہے تو بدظنی کے گناہ سے آپ کو بچنا
مصالح العرب.....جلد اول 301 چاہئے.اور اگر درست ہے تو اپنے دوست کے لئے دعا کریں تا اسے بھی فائدہ ہو اور آپ کو نی بھی اور عفو سے کام لو کہ خدا تمہارے گناہ بھی معاف کرے.12.تم کو مصر، فلسطین اور شام کے احمدیوں سے ملنا ہوگا.ان علاقوں میں احمدیت ابھی کمزور ہے.کوشش کرو کہ جب تم ان ممالک کو چھوڑ و تو احمدی بلحاظ تعداد کے زیادہ اور بلحاظ نظام کے پہلے سے بہتر ہوں.اور تم لوگوں کا نام ہمیشہ دعا کے ساتھ لیں.اور کہیں کہ ہم کمزور تھے اور کم تھے فلاں لوگ آئے اور ہم طاقتور بھی ہو گئے اور زیادہ بھی ہو گئے.اور ( اللہ ) ان پر رحم کرے اور انہیں جزائے خیر دے.مؤمن کی مخلصانہ دعا ہزاروں خزانوں سے قیمتی ہوتی ہے.13.جمعہ کی پابندی جماعت کے ساتھ خواہ کس قدر ہی تکلیف کیوں نہ ہو ادا کرنے کی اور دن میں کم سے کم ایک نماز اجتماعی جگہ پر پڑھنے کی ، اگر وہ دور ہو ، ورنہ جس قدر توفیق مل سکے کوشش کرنی چاہئے اور جماعتوں میں جمعہ کی اور ہفتہ واری اجلاسوں اور نماز باجماعت کی خاص تلقین کرنی چاہیئے.14 - رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر اجتماع کے موقع پر دعا فرماتے تھے: اللهم رب السماوات السبع وما أظللن، ورب الأرضين السبع وما أقللن، ورب الشياطين وما أضللن، ورب الرياح وما هذه القرية وخير أهلها وخير ما فيها، ذرين، فإنا نسألك خير ونعوذ بك من شر هذه القرية وشر أهلها وشر ما فيهاـ اللهم بارك لنا فيها وارزقنا ،جناها، وحببنا إلى أهلها وحبب صالحي أهلها إلينا.“ یعنی اے ساتوں آسمانوں کے رب اور جن چیزوں پر آسمانوں نے سایہ کیا ہوا ہے، اور اسے ساتوں زمینوں کے رب اور جن کو انہوں نے اٹھایا ہوا ہے، اور اے شیطانوں کے رب اور جن کو وہ گمراہ کرتے ہیں ، اور ہواؤں کے ربّ اور جن چیزوں کو وہ کہیں سے کہیں اڑا کر لے جاتی ہیں، ہم تجھ سے اس بستی کی اچھی چیزوں اور اس کے بسنے والوں کے حسن سلوک اور جو چیز بھی اس میں ہے اس کے فوائد طلب کرتے ہیں.اور اس بستی کی بدیوں اور اس کے رہنے والوں کی بدسلوکیوں اور اس میں جو کچھ بھی ہے اس کے نقصانات سے پناہ طلب کرتے ہیں.اے اللہ ہمارے لئے اس بستی کی رہائش کو بابرکت کر دے اور اس کی خوشحالی سے ہمیں
302 مصالح العرب.....جلد اول حصہ دے اور اس کے باشندوں کے دل میں ہماری محبت پیدا کر اور ہمارے دل میں اس کے نیک بندوں کی محبت پیدا کر.آمین.یہ دعا نہایت جامع اور ضروری ہے.ریل میں داخل ہوتے وقت، کسی شہر میں داخل ہوتے وقت، جہاز میں بیٹھتے اور اس سے اترتے وقت خلوص دل سے یہ دعا کر لینی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر شرارت سے حفاظت کا موجب ہوتی ہے.15.مصر میں انگریزی اور فرانسیسی کا عام رواج ہے.مگر تم عربی سیکھنے جارہے ہو.پورا عہد کرو کہ عرب سے سوائے عربی کے اور کچھ نہیں بولنا خواہ کچھ ہی تکلیف کیوں نہ ہو.ورنہ سفر بیکار جائیگا.ہاں وہاں کی خراب عربی سیکھنے کی ضرورت نہیں.اگر غیر تعلیمافتہ طبقہ.زراعت کی اغراض یا اور کسی غرض سے گفتگو کی ضرورت ہو تو خود بولنے کی ضرورت نہیں، ساتھ ނ ترجمان رکھ لیا.عربی پڑھ تو چکے ہی ہو.تھوڑی سی محنت سے زبان تازہ ہو جائے گی.16.اپنے ساتھ قرآن کریم ، اس کے نوٹ ، جو درس تم نے لکھے ہیں اور میری شائع شدہ تفسیر رکھ لو کام آئے گی.یہ علوم دنیا میں اور کہیں نہیں ملتے.بڑے سے بڑا عالم ان کی برتری کو تسلیم کرے گا اور انشاء اللہ احمدیت کے علوم کا مصدق ہوگا.17.ایک منجد، کتاب الصرف، اور کتاب النحو ساتھ رکھو اور جہاز میں مطالعہ کرتے جاؤ کیونکہ لمبے عرصہ تک مطالعہ نہ رکھنے کی وجہ سے زبان میں بہت نقص آ جاتا ہے.18.شریعت کا حکم ہے جہاں بھی ایک سے زیادہ آدمی رہیں اپنے میں سے ایک کو امیر مقرر کریں تا فتنہ کا سد باب ہو.أستودعك الله وكان الله معك أينما كنت والسلام خاکسار مرزا محمود احمد.از تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 484 تا 490) 00000
مصالح العرب.....جلد اول 303 حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی مصر میں آمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ان دنوں لندن سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہندوستان واپس آنے والے تھے.حضرت خلیفہ ثانی نے آپ کے بارہ میں بھی ارشاد فرمایا کہ میاں ناصر بھی جو اپنی عربی کی تعلیم کے بعد انگریزی تعلیم کی تکمیل کے لئے انگلستان گئے تھے واپس آرہے ہیں اور وہ بھی عربی کے ساتھ دوبارہ مس پیدا کرنے کے لئے مصر میں ٹھہریں گے.چنانچہ آپ لندن سے 28 جولائی 1938ء کو قاہرہ تشریف لائے.جماعت احمد یہ مصر کی طرف سے آپ کا اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا قاہرہ اسٹیشن پر شاندار استقبال کیا گیا.بلکہ السید احمد علی اور السید محی الدین احصنی اور بعض دوسرے مخلصین تو پورٹ سعید میں جہاز پر بھی تشریف لے گئے.ہندوستانی لیڈرز معزز صاحبزادگان کرام نے اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ مختلف درسگاہوں اور انسٹیٹیوٹس کے دورہ جات بھی کرنے شروع کئے.اس سلسلہ میں قاہرہ مصر کے ایک اخبار الجہاد نے اپنے شماره 10 / رجب 1357ھ بمطابق 5 رستمبر 1938ء کو ہندوستانی لیڈر ز دینی انسٹیٹیوٹس کے صدر دفتر میں “ کے عنوان سے جو خبر شائع کی اس کا ترجمہ اس طرح ہے کہ: دو حضرت السید مرزا ناصر احمد اور السید مرزا مبارک احمد صاحب ، جو کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے بڑے بڑے لیڈروں میں سے ہیں ، نے کل دینی انسٹیٹیوٹس کے صدر دفتر کا
مصالح العرب.....جلد اول 304 دورہ کیا.اس دورہ کے دوران انکے ساتھ مکرم منیر اکھنی صاحب بھی تھے ، وہاں جامعہ ازہر کے علوم ریاضیات کے انچارج الاستاذ خالد بک حسنین نے ان سے ملاقات کی اور جامعہ الازہر کی عالم اسلامی میں اہمیت پر روشنی ڈالی.بعد میں انہوں نے جامعہ الازہر میں رائج تعلیمی نظام اور ا سکے خدوخال کے بارہ میں بھی بتایا.شیخ الازہر پر اتمام حجت ( بحوالہ البشرکی اگست ستمبر 1938 ءصفحہ 60) صاحبزادگان نے اقامت مصر کے دوران جماعت احمدیہ کی تربیت اور زیر تبلیغ دوستوں تک پیغام حق پہنچانے کے علاوہ بعض مشہور مصری علماء سے بھی ملاقاتیں کیں.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے شیخ الازہر مصطفیٰ المراغی سے ملاقات کی اور ان کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت کا ذکر کر کے ایمان لانے کی ترغیب دی.اور حضور کے صدق پر قرآن مجید سے واضح دلائل و براہین دیئے لیکن افسوس شیخ صاحب نے بجائے علمی رنگ میں جواب دینے کے یہ کہہ کر پیچھا چھڑایا کہ آپ جمی ہیں اور ہم صواحب لغة القرآن ہیں.قرآن ہماری زبان میں اترا ہے اس لئے ہم اس کے معنے بہتر سمجھتے ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی ملاقات میں جماعت احمدیہ کی عالمگیر تبلیغی مساعی اور ان کے شاندار نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ: " آج اسلام اگر ترقی کر سکتا ہے تو اس کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ دنیا کو اسلام کے جھنڈ.تلے لانے کی کوشش کرے.اس کے بعد ان سے پوچھا کہ آپ نے غیر مسلموں میں تبلیغ کا کیا پروگرام بنایا ہے؟ میں وہ جواباً کہنے لگے کہ سید جمال الدین افغانی مرحوم سے کسی نے سوال کیا کہ تم چین و جاپان کے لوگوں کو جن کی تعداد دنیا کے اکثر حصوں سے زیادہ ہے، کیوں جا کر تبلیغ نہیں کرتے اور کیوں انہیں مسلمان نہیں بنا لیتے ؟ تو سید جمال الدین صاحب نے جواب دیا کہ میں ان میں جا کر انہیں کیا کہوں؟ کس چیز کی طمع دلاؤں جو ان کے پاس نہیں ہے؟ اور اسلام قبول کرنے سے انہیں کیا مل جائے گا ؟ اگر انہیں یہ کہوں کہ اسلام قبول کرو تم تعداد میں ترقی کرو گے یا سیاست میں ترقی کرو گے، یا تم ایک آزاد مستقل امت ہونے کا انعام پاؤ گے، یا تمہارا
305 مصالح العرب.....جلد اول علم زیادہ ہوگا اور عقل تیز ہوگی تو چونکہ یہ سب چیزیں ان کو اب بھی حاصل ہیں.اس لئے وہ ای مجھے جواب دے سکتے ہیں کہ جن چیزوں کی خاطر تم ہمیں اسلام کی دعوت دیتے ہو وہ ہمارے پاس پہلے سے ہی موجود ہیں.ہمیں ان کی ضرورت نہیں.لہذا اگر میں جاپان و چین میں جا کر تبلیغ کروں تو کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا.بلکہ وہ بالعکس کہہ سکتے ہیں اگر اسلام امتوں کو آزاد کرا تاج ہے اور ترقی و علم و برتری عطا کرتا ہے تو کیوں تم مسلمان اس طرح ذلیل حالت میں ہوتے.اس کے بعد کہنے لگے : یہی جواب ہمارا آج ہے.اگر ہم یورپ میں جا کر تبلیغ کریں تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ بجد اللہ بغیر اسلام حاصل ہے ہمیں اسلام کی ضرورت نہیں ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے جوا با فرمایا: اسلام کا مقصد صرف یہ عارضی ترقی نہیں بلکہ اسلام تو ابدی زندگی پیش کرتا ہے جو دنیا میں بھی ابدی ہے اور عالم ثانی میں بھی ابدی.جن ترقیات روحانی کو اسلام پیش کرتا ہے یہ دنیاوی معمولی ترقیات ان کے عشر عشیر بھی نہیں ہیں.پھر نہایت واضح صورت میں اسلامی انعامات بیان کرنے کے بعد فرمایا: اگر آپ کا یہ نظریہ تسلیم بھی کر لیا جائے تو اسلامی تاریخ اس سے موافقت نہیں کرتی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے زمانے میں بھی مثلاً روم اور عجم کی قومیں بہت ترقی یافتہ اور مستقل آزاد حکومتیں تھیں پھر ان کو کیوں صحابہ کرام نے اسلام کا پیغام پہنچایا ؟ اس ملاقات کا ذکر مصر کے تقریبا تمام بڑے بڑے روز ناموں نے کیا.سچ کی جیت الفضل 7 اکتوبر 1938 ء ص 5-6 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 493 تا 495) حق بالآ خر غالب آ کر رہتا ہے اور باطل کے خواہ کتنے ہی کثیف بادل کیوں نہ ہوں سچائی کا سورج طلوع ہو کے ہی رہتا ہے.یہی شیخ الازہر مصطفیٰ المراغی تھے جنہوں نے 1938ء میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو کہا تھا کہ : ”آپ عجمی ہیں اور ہم صواحب لغۃ القرآن ہیں.قرآن ہماری زبان میں اترا ہے اس لئے ہم اس کے معنے بہتر سمجھتے ہیں.“ پھر یہی مصطفیٰ المرافی تھے، جو 1945ء تک شیخ الازہر رہے ،اور 1945ء میں ہی انہوں نے تمہیں جلدوں پر مشتمل ایک تفسیر تفسیر المراغی شائع کی.جس میں انہیں وفات مسیح کا قائل ہونا پڑا اور لفظ توفی کے وہ معنے کئے جو جماعت احمدیہ کرتی ہے.آئیے دیکھتے ہیں کہ اہل
مصالح العرب.....جلد اوّل 306 زبان ہونے کے دعوے کے بعد انہوں نے اس بارہ میں کیا لکھا: آیت کریمہ يعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ( آل عمران : 56 ) کی تفسیر میں محض دوسطروں میں ان لوگوں کی رائے درج کی جو اس آیت میں تقدیم و تاخیر کے قائل ہیں یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ اس آیت کا معنی اس کے الفاظ کی موجودہ ترتیب کے لحاظ سے نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ رفع پہلے ہے اور توفی بعد میں.اس کے بعد لکھتے ہیں کہ دوسری رائے یہ ہے: " أن الآية على ظاهرها وأن التوفى هو الإماتة العادية، وأن الرفع بعده للروح، ولا غرابة فى خطاب الشخص وإرادة روحه، حقيقة الإنسان، والجسد كالثوب هی فالروح المستعار........والمعنى إنى مميتك وجاعلك بعد الموت في مكان رفيع عندى، كما قال في إدريس عليه السلام ورفعناه مكانا عليا“.یعنی دوسری رائے یہ ہے کہ اس آیت کو اس کی موجودہ ظاہری ترتیب کے اعتبار سے ہی سمجھنا چاہئے لہذا اس میں وارد لفظ تو فی کا مراد طبعی موت ہے اور طبعی موت کے بعد جو رفع ہوتا ہے وہ روح کا ہوتا ہے.اور اس میں کوئی اچنبھے والی بات نہیں ہے کہ کسی شخص کو مخاطب کر کے کچھ کہا جائے جبکہ مراد اس کی روح ہو، کیونکہ انسان کی اصل حقیقت تو اس کی روح ہی ہے جبکہ جسم کی حقیقت ایک مستعار لئے ہوئے کپڑے سے زیادہ نہیں ہے.چنانچہ آیت کا مطلب یوں ہوگا کہ: میں تجھے موت دوں گا اور موت کے بعد تجھے اپنے حضور ایک بلند مرتبت مقام پر فائز کروں گا.انہی معنوں میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام کے بارہ میں فرمایا: ورَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا“."وحديث الرفع والنزول آخر الزمان حديث آحاد يتعلق بأمر اعتقادي ، والأمور الاعتقادية لا يؤخذ فيها إلا بالدليل القاطع من قرآن وحديث متواتر، ولا يوجد هنا واحد منهما وأن المراد بنزوله وحكمه فى الأرض غلبة روحه وسرّ رسالته على الناس بالأخذ بمقاصد الشريعة دون الوقوف عند ظواهرها والتمسك بقشورها دون لبابها ذاك أن المسيح عليه السلام
مصالح العرب.....جلد اول لم يأت لليهود بشريعة جديدة، ولكن جاء بما يزحزحهم عن الجمود على ظواهر ألفاظها فكان لا بد لهم من إصلاح 66 307 عيسوى يبين لهم أسرار الشريعة وروح الدين وكل ذلك في القرآن الكريم الذى حجبوا عنه بالتقليد “ اور حدیث رفع و نزول عیسی علیہ السلام در آخر زمان آحاد احادیث میں سے ہے لیکن اس کا تعلق ایک ایسے مسئلہ سے ہے جو اعتقادی مسئلہ ہے اور اعتقادی مسائل کی بناء صرف اور صرف قرآن کریم یا احادیث متواترہ کی قاطع دلیل پر ہوسکتی ہے جبکہ اس مسئلہ میں ان دونوں میں سے ایک بھی موجود نہیں ہے.( یعنی عیسی کے رفع یا نزول کے اعتقادی مسئلہ کی بناء نہ تو کسی قاطع قرآنی آیت پر ہے نہ ہی کسی متواتر حدیث پر ).اور یہ کہ حضرت عیسی کے نزول اور زمین میں حکومت کرنے سے مراد ان کا لوگوں پر روحانی غلبہ اور مقاصد شریعت کو اپنانا اور محض ظاہر اور چھلکے کو پکڑ کر بیٹھنے کی بجائے مغز کو سمجھنا ہے.کیونکہ مسیح علیہ السلام یہود کے پاس کوئی نئی شریعت نہیں لائے تھے بلکہ جو تعلیم لے کر آئے تھے وہ یہود کے ظاہری الفاظ پر تکیہ کرنے کے عقیدہ کو ہلا کر رکھ دینے والی تھی.چنانچہ ان کے لئے عیسوی اصلاح کا ماننا از بس ضروری ہو گیا تھا جو انہیں شریعت کے اسرار و دقائق پر اطلاع دینے والی اور دین کی روح کا فہم و ادراک عطا کرنے والی تھی.اور یہ سب کچھ قرآن کریم میں موجود ہے جس سے انہوں نے اپنے پرانے طریقہ کار پر چلتے ہوئے منہ موڑ رکھا ہے.فزمان عيسى هو الزمان الذى يأخذ الناس فيه بروح الدين والشريعة الإسلامية لإصلاح السرائر من غير تقيد بالرسوم والظواهر 66 پس عیسی کا زمانہ وہ زمانہ ہے جس میں لوگ رسوم اور ظاہر پر تکیہ کرنے کی بجائے اندرونی اصلاح کے لئے دین اور شریعت اسلامیہ کی روح کو سمجھیں گے اور اس پر عمل کریں گے.پھر دجال کے بارہ میں لکھتے ہیں: "وأما الدجال فهو رمز الخرافات والدجل والقبائح التي تزول بتقرير الشريعة على وجهها والأخذ بأسرارها وحكمها والقرآن أعظم هاد إلى الحكم والأسرار وسنة الرسول ع ل ل ا ل ليلة مبينة لذلك “ 66 یعنی اور جہاں تک دجال کی حقیقت کا تعلق ہے تو وہ خرافات اور دجل اور قباحات کے مجموعہ کا
مصالح العرب.....جلد اول 308 نام ہے جن کا تدارک درست صورت میں شریعت کو قائم کرنے اور اسکے اسرار و احکام پر عمل کرنے سے ممکن ہے.اور قرآن کریم ان حکمتوں اور اسرار کی طرف راہنمائی کرنے کیلئے سب سے عظم راہنما ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ان امور کی وضاحت کرنے والی ہے.( تفسیر المراغی زیر سورۃ آل عمران آیت 55) حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی آمد اور قاہرہ میں اقامت کے دوران مصری احمدیوں نے انتہائی اخلاص ، محبت اور خوشی کا ایمان افروز مظاہرہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے پوتوں کی بابرکت موجودگی.فائدہ اٹھانے کے لئے ہر ممکن جد و جہد کی.ނ صاحبزادگان قریباً تین ماہ تک مصر میں قیام فرما رہے اور جماعت قاہرہ کو سیدنا حضرت مسیح موعود کی ذریت مقدسہ اور سید نا خلیفہ اسیح الثانی کے جلیل القدر فرزندوں کو براہ راست قریب سے دیکھنے کی سعادت میسر آئی جس سے ان کے اندر نہایت اعلیٰ تبدیلی پیدا ہوئی اور سلسلہ سے اخلاص و محبت میں اور بھی ترقی کر گئے.اگر چہ اہل فلسطین کی بھی دلی خواہش تھی کہ وہ ان بزرگ وجودوں کی زیارت کرسکیں مگر نامساعد حالات کے باعث وہ محروم رہے.ہندوستان واپسی رپورٹ سالانہ صیغہ جات صد را انجمن احمد یہ یکم مئی 1938ء لغایت 30 اپریل 1939ء صفحہ 76 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 495) مصر میں تین ماہ تک مقیم رہنے اور بلاد اسلامیہ کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب اور مرزا مبارک احمد صاحب 9 نومبر 1938ء کو واپس قادیان تشریف لے آئے.00000
صاحبزادگانِ حضرت مصلح موعود حضرت مرزا ناصر احمد صاحب اور حضرت مرزا مبارک احمد صاحب کے 1938 میں مصر میں قیام کے دوران لی گئی ایک تصویر از رساله البشری جولائی اگست 1938)
مولانا ابوالعطاء صاحب کے دائیں جانب صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب با میں جانب مرز ا سعید احمد ابن مرزا عزیز احمد صاحب انکے ساتھ محی الدین الحصنی صاحب اور انکے ساتھ محی الدین رضا مدیر اخبار المقطم ، بیٹھے ہیں جنہوں نے یہ تصویر اپنے اخبار میں 22 اکتوبر 1934 کو شائع کی.MAKHZAN-E- TASAWEER© 2009 حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے 1934 میں اپنے سفر برطانیہ کے دوران مصر میں قیام فرمایا.اس موقعہ پر مکرم محی الدین الحصنی صاحب کے گھر میں لی گی یہ یاد گار تصویر
مصالح العرب.....جلد اول 309 مولا نا محمد شریف صاحب کی فلسطین میں آمد مولانا محمد سلیم صاحب قریبا دو سال فلسطین میں رہے ان کے بعد مولانا محمد شریف صاحب حیفا تشریف لائے.آپ 7 ستمبر 1938ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور 24 /ستمبر 1938 ء کو حیفا پہنچے.آپ بلاد عربیہ میں قریباً 18 سال تک تبلیغ احمدیت میں مصروف رہنے کے بعد 15 دسمبر 1955 ء کور بوہ میں واپس آگئے.ہم ذیل میں آپ کے دور میں تبلیغ احمدیت کے تاریخی حالات اور ایمان افروز واقعات کے تذکرہ کریں گے.مضمون کے تسلسل اور قارئین کرام کی دلچسپی کی خاطر اس عرصہ میں دیگر مقامات پر عربوں میں تبلیغ کے تاریخی حالات و واقعات کا بیان مولا نا محمد شریف صاحب کے دور کے بعد کیا جائے گا.اس دور کے بیشتر تاریخی حالات و واقعات حضرت چوہدری محمد شریف صاحب کی سیرت و سوانح کے بارہ میں ایک غیر مطبوعہ تالیف سے ماخوذ ہیں جسے مکرم محمود منیر صاحب نے تیار کیا ہے.39_1938ء میں فلسطین کے حالات جب چوہدری محمد شریف صاحب بلا د عربیہ اور فلسطین میں تبلیغ اسلام کے لئے گئے.تو وہاں پر جو تبلیغی اور دوسری مشکلات تھیں ان کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا.د فلسطین (جہاں ہمارے مشن کا مرکز ہے) کے حالات سے آپ اچھی طرح واقف ہیں کہ آج کل یہ ملک کن کن مشکلات اور مصائب میں سے گزر رہا ہے.ہر روز بیسیوں آدمی قتل ہوتے ہیں اور سینکڑوں قید خانوں میں ٹھونسے جاتے ہیں.اور روزانہ کم و بیش دو تین تختہ
مصالح العرب.....جلد اول 310 دار پر لٹکائے جاتے ہیں.ہزاروں تک یتیموں کی تعداد پہنچ چکی ہے اور اقتصادی لحاظ سے نہ صرف اہل فلسطین ہی حیران ہیں بلکہ حکومت برطانیہ بھی تنگ آچکی ہے.اس لئے آئے دن کی کوئی نہ کوئی کمیشن مقرر کرتی رہتی ہے تا کسی نہ کسی طرح اس مصیبت سے نجات حاصل کرے.چنانچہ گزشتہ ایام میں ایک خاص کا نفرنس بھی لندن میں منعقد کر کے اس قضیہ کی اہمیت واضح کر چکی ہے اور جہاں اس نے اس قضیہ کو ختم کرنے کے لئے یہ کام کئے ہیں وہاں سارے فلسطین میں آمدورفت کا سلسلہ بھی بند کر رکھا ہے.اگر کوئی شخص قلیل وقت کے لئے بھی کسی گاؤں یا شہر میں جانا چاہے تو اب ( کیونکہ اس سے قبل عربوں کی طرف سے ایسا کرنے کی اجازت نہ تھی اور اگر کوئی شخص اس کی خلاف ورزی کرتا تھا تو عرب اسے گولی کا نشانہ بنا دیتے کہ یہ قوم کا دشمن ہے.کمانڈر انچیف افواج برطانیہ متعینہ فلسطین سے ٹیفکیٹ حاصل کرنے پر جا سکتا ہے اور پھر اگر ٹیفکیٹ حاصل بھی کرلے تو ایک مسلم کے لئے سفر کرنا مشکل ہے.کیونکہ عربوں کی کاریں اور بسیں بوجہ احکام امتناعی بند ہیں اور یہود کی لاریوں میں سفر کرنا اس کے لئے اتنا ہی ممنوع ہے جتنا کہ حکومت کے نزدیک عربوں کی لاریوں کا سفر.اس سے ظاہر ہے کہ یہاں اس وقت تبلیغ کے راستے میں کس قدر مشکلات ہیں.(سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ 39-1938ء) صبر آزما حالات آپ کا دور تبلیغ بڑے صبر آزما حالات میں گزرا.عربوں اور یہودیوں کی کشمکش پہلے سے زیادہ نازک حالت اختیار کر گئی.اسی دوران آپ کے قتل کا منصوبہ کیا گیا جو ناکام ہو گیا.فلسطین میں عربوں اور یہودیوں کی خانہ جنگی جب انتہاء کو پہنچ گئی تو نومبر 1947 میں اقوام متحدہ کی طرف سے تقسیم فلسطین کے فیصلے کا اعلان ہوا اور پندرہ مئی 1948 ء کو اسرائیل حکومت قائم ہوگئی اور ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا.جہاں ہزاروں بے گناہ عرب مارے گئے اور لاکھوں بے خانماں ہوئے.حیفا اور کہا بیر باقی ملک سے کٹ گیا اور متعد د احمدی جماعتیں ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئیں.وسائل کی کمی تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 405-404) حالات کی خرابی کی وجہ سے تبلیغی سرگرمیاں مجلہ البشری اور دیگر لٹریچر کی اشاعت تک ہی
311 مصالح العرب.....جلد اول محدود ہو کر رہ گئی تھیں.احمد یہ مشن کے کاموں کو چلانے کے لئے آب بڑی محنت شاقہ آپ کام کرتے رہے.وسائل کی کمی کے باعث بہت سے ایسے کام جن کے لئے علیحدہ ملازم رکھنے کی ضرورت تھی.چوہدری صاحب بذات خود انہیں انجام دیتے تھے.ایک طرف ماہوار رسالہ البشریٰ کی ادارت کا کام اور دوسری طرف دیگر کتب وٹریکٹس اور اشتہارات کی احمدیہ پریس کہا بیر میں روز افزوں طباعت کا کام کرتے ہوئے بسا اوقات ایک بچی کو انہوں نے پہلو میں اٹھایا ہوتا اور ایک ہاتھ سے کاغذ وغیرہ پریس میں رکھتے.جبکہ ایک چمڑے کے پٹہ کے ذریعہ پریس کو چلانے میں اپنے پاؤں سے مدد لیتے اور بسا اوقات بعض بچوں کو بھی ساتھ پڑھا رہے ہوتے تھے اور پریس کے چلانے کے دوران تھوڑا تھوڑا وقت نکال کر ان کو روزمرہ کا سبق بھی پڑھا رہے ہوتے تھے.قابل تحسین قربانی پریس کا کام خاصا مشقت طلب تھا اور خاصا وقت اس پر ہی صرف ہو جاتا تھا اور آ اسوقت بالکل اکیلے تھے.آپ کے ساتھ کوئی مددگار نہیں تھا اور گزارہ الاؤنس جو آپ کو ملتا تھا وہ غالبا پانچ پاؤنڈ تھا.اس لئے آپ نے وہاں کے صدر جماعت جو بہت پرانے غالبا پہلے احمدی تھے ان کا نام محمد صالح تھا.ان کے بھائی احمد صالح کو اپنے ساتھ کام کرنے کے لئے رکھ لیا اور اپنے گزارہ الاؤنس میں سے ڈیڑھ پاؤنڈ اسٹرلنگ ان کو ادا کیا کرتے تھے اور مرکز پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ڈالا بلکہ اپنے الاؤنس سے ان کو بھی دیتے تھے اور خود بھی گزارہ کرتے تھے.احمد یہ پریس اور مجلۃ البشریٰ اس وقت پہلا ہی پرانا اور مختصر سا پریس موجود تھا جو محترم حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری سابق مبلغ بلاد عربیہ نے کہا بیر میں اپنے وقت میں (1932ء.1936ء) میں قائم کیا تھا لیکن وہ بھی متروک الاستعمال اور مقفل ہو چکا تھا آپ نے نومبر 1938 ء میں درست کرا کے اسی سے مجلۃ البشریٰ شائع کرنا شروع کیا.جو آپ کے زمانہ قیام تک باقاعدگی سے آپ کی ادارت میں نکلتا رہا.از تاریخ احمدیت جلد 6 صفحہ 506)
مصالح العرب.....جلد اول 312 آپ کے دور میں یہ رسالہ بلاد عر بیہ فلسطین ، شرق الاردن، سوریا، لبنان ، عراق ، حجاز، مالی مصر، جزیره العرب خصوصاً اور دیگر ممالک مثلاً البانیہ، ارجنٹائن ، شمالی امریکہ، اور مشرقی و مغربی افریقہ میں بھی جہاں جہاں عربی سمجھی جاتی تھی بھیجا جاتا تھا.علاوہ ازیں کوشش کی گئی کہ کسی نہ کسی طرح ان ممالک کی مشہور لائبریریوں اور مشہور جرائد اور چیدہ چیدہ لوگوں تک بھی پہنچ جائے تاکہ کوئی سعید روح شاید اس طرح ہدایت پا جائے.(ماخوذ از سالانہ رپورٹ (1938-39 چوہدری محمد شریف صاحب کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے رسالہ البشری شائع کر کے تبلیغ احمدیت کو وسیع تر کر دیا خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کا نہایت اعلیٰ اثر قلوب پر پڑا.چنانچہ ہر ماہ ایسے خطوط کافی تعداد میں موصول ہوتے تھے جن میں اس نیک مساعی کا نہایت اعلیٰ الفاظ میں شکریہ ادا کیا جاتا تھا.ایک دوست کا عراق سے خط موصول ہوا جس میں انہوں نے رسالہ کی شاندار خدمت اسلام کو خراج تحسین پیش کیا اور ایک دینار محض اس کی امداد کے لئے ارسال کیا.(ماخوذ از سالانہ رپورٹ 39-1938 ء صدرانجمن ) ایک معزز عرب السید عبدالرشید نے کویت سے مولا نا چوہدری محمد شریف صاحب کے نام رسالہ البشر کی پڑھنے کے بعد لکھا:."......قرأناها بأجمعها وفهمنا ماحوته من حسن النظام ولذيذ الكلام والصواب، فلقد فتحت بأنفسنا مجالا لتقويم الدين الاسلامي ولقد صدق ظننا بكم وبحسن أعمالكم وبمعجزاته المسيح الموعود عليه السلام.....اني سارسل الى خليفة الإسلام الثانى معاهدتي........وأسأل الله التوفيق، فالحمد لله على ذلك الفضل 17 فروری 1944 ، صفحہ 4) ان کے خط کا خلاصہ یہ ہے کہ رسالہ البشرکی ہم نے سارے کا سارا پڑھ لیا ہے اور اس کے جملہ مواد یعنی عمدہ ترتیب اور دلچسپ مضامین اور حقیقت پر مبنی امور کو سمجھ لیا ہے.اس نے تو ہمارے لئے دین اسلام میں راہ پاجانے والی خرابیوں کو درست کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے.آپ کے اور آپ کے نیک کاموں کے متعلق ہمارا حسن ظن درست ثابت ہوا ہے نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات پر بھی یقین قائم ہو گیا ہے.لہذا میں حضرت خلیفہ
مصالح العرب.....جلد اول المسیح الثانی کی خدمت میں بیعت ارسال کر رہا ہوں.تعلیم و تربیت کی ایک جھلک 313 مولانا محمد شریف صاحب تعلیم و تربیت کے ذریعہ بھی کئی وجودوں کی اصلاح کا ذریعہ بنے.حیفا و کبابیر میں با قاعدہ ہفتہ واری اجلاس، کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور تفسیر کبیر کے درس کا سلسلہ جاری رہتا تھا.حضرت خلیفہ اُسیح الثانی کا خطبہ جو ( The way to victory) کے نام سے موسوم ہوا.جس میں حضور نے اپنار و یا لیبیا اور مصر کے متعلق بیان فرمایا اور مقامات مقدسہ کے محفوظ و مامون رہنے کے متعلق دعائیں کرنے کا ارشاد فرمایا.وہ حیفا پہنچا تو انہی دنوں میں ترجمہ کر کے احباب کو سنایا گیا.ان دنوں محوری اسکندریہ کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے.مگر حضور کی دعا کے بعد حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ محور یوں کو پسپا ہو کر مصر سے نکلنا پڑا جس پر مخلصین - سلسلہ کے ایمان میں بے انتہا ترقی اور اضافہ ہوا.اشاعت لٹریچر (ماخوذ از الفضل 19 دسمبر 1942 صفحہ 6 مولانا محمد شریف صاحب نے بہت سا لٹریچر اور کتا بیں شائع کیں اور انہیں مختلف عرب ممالک میں ارسال کیا.اس کام سے احمدیت کی طرف بہت زیادہ رجوع پیدا ہوا.حضرت مولانا صاحب نے اپنے دور تبلیغ میں حضور علیہ السلام کی مندرجہ ذیل کتابیں شائع کیں.عربی کتب مسیح موعود علیہ السلام میں سے "تحفة بغداد، حمامة البشرى، نجم الهدى، لجة النور، حقيقة المهدى مكتوب أحمد الى علماء الهند وغيرها من البلاد الإسلاميه ( عربی حصہ انجام آتھم) الهدى والتبصرة لمن يرى“.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ ذیل کتب کے تراجم شائع کئے ججلیات الہیہ، لیکچر سیالکوٹ ، الوصیت.علاوہ ازیں حضرت خلیفہ ثانی کی مندرجہ ذیل کتب کے تراجم شائع کئے : تحفہ شہزادہ ویلز ، نظام نو، اسلام اور دیگر مذاہب ، ( مؤخر الذکر دو کتابوں کے مترجم جماعت احمد یہ مصر کے پریذیڈنٹ الاستاذ محمد بسیونی ہیں).
314 مصالح العرب.....جلد اول مندرجہ ذیل تالیفات کر کے شائع کیں : التَّاوِيلُ الصَحيحُ لِنُزُولِ المَسِيح، أسْتَلَةٌ وأَحْوَبَةٌ، كَشفُ الغطاء عَنْ وَجُهِ شريعة البَهَاءِ، محمّدٌ رَسُولُ اللهِ خَاتم النبيين ومُفتي الديار المصرية، نداءُ المُنَادِى ( چار حصے) ان کے علاوہ بڑی تعداد میں عربی اور عبرانی تبلیغی ٹریکٹ شائع کئے.(الفضل 5 راگست 1942 ء ، تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ 506) جماعت احمد یہ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے حیفا کی اسلامی لاء کورٹ نے احمدیوں کی نکاح خوانی سے انکار کر دیا تھا.انکا اصرار تھا کہ جماعت احمدیہ کو کئی ایک مسلمان علماء اسلام سے خارج جماعت سمجھتے ہیں.مکرم چوہدری شریف صاحب نے یہ معاملہ بیت المقدس میں موجود مجلس الاسلامی الاعلیٰ تک پہنچایا.جس کا فیصلہ آپ کے حق میں ہوا اور اس مجلس نے تمام عدالتوں کو ہدایت جاری کر دی کہ جماعت احمد یہ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے.لہذا آئندہ سے اس فیصلہ کے مطابق عمل کیا جائے.شخص از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحه 531) چوہدری محمد شریف صاحب اس واقعہ کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.”یہاں یہ قانون ہے کہ مسلمانوں کا نکاح عدالت شرعیہ کی اجازت کے بعد رجسٹر ڈ نکاح خواں ہی پڑھ سکتا ہے.گذشتہ پندرہ سال سے احمدیوں کے نکاح بھی اسی طرح پڑھے جاتے تھے.اب کے دسمبر 1942ء میں دو احمدی افریقن کی طرف سے سرکاری شرعی فارم پُر کر کے عدالت شرعیہ حیفا میں اجازت عقد نکاح کے لئے پیش کیا گیا.مگر قاضی عدالت شرعیہ نے اجازت دینے سے انکار کر دیا.اور افریقن کو کہا کہ جب تک تم مسلمان نہ ہو تمہارا نکاح پڑھا نہیں جا سکتا اس پر خاکسار نے ڈسٹرک کمشنر حیفا سے ملاقات کی.مجلس الاسلامی الاعلی سے بھی خط و کتابت کی.آخر آٹھ ماہ کی لمبی چوڑی خط و کتابت اور ڈسٹرکٹ کمشنر سے دو تین ملاقاتوں کے بعد اب مسلم سپریم کونسل نے قاضی شرعی حیفا کے حکم کو غلط قرار دے دیا گیا.اور یہ فیصلہ صادر کیا ہے کہ احمدی مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ ہیں اس لئے حسب دستور سابق احمد یوں کے نکاح پڑھے جایا کریں.چنانچہ وہ نکاح جس کا انعقاد آٹھ ماہ سے رکا ہوا تھا.اب قاضی شرعی حیفا کے بھی حکم سے ہو چکا ہے اور یہ احمدیت کی دوسری فتح ہے“.والحمد للہ علی ذلک.الفضل 26 اکتوبر 1943 ، صفحہ 4
مصالح العرب......جلد اول 315 واقعی یہ چوہدری محمد شریف صاحب کا بہت بڑا کارنامہ ہے جو آپ نے اپنا فرض سمجھتے ہوئے ادا کیا اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بہتر سے بہتر جزا دے.آمین.اور صرف یہی نہیں کہ مولا نا صاحب نے ایک بہت بڑی مشکل کو حل کیا اور یہ اس عرصہ کے جملہ مبلغین کرام کی ایک بے مثال خوبی تھی کہ ان کے اعلیٰ سطح کے افسران اور ذمہ دار افراد کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہوتے تھے.بلکہ جب آپ کمشنر صاحب کے پاس گئے تو اس مشکل کو پیش کرنے کے علاوہ اسلامی لٹریچر بھی پیش کیا اور بعد ازاں کئی کتب بذریعہ ڈاک بھیجی گئیں.دعوت مقابلہ اور مخالفین کا فرار ملخص از الفضل 3 1 / مارچ 1943 ءصفحہ 3) مولا نا محمد شریف صاحب نے جنوری 1947ء میں پیٹری آرک آف انطاکیہ کو خصوصاً اور فلسطین و شام کے پڑی آرکوں اور بشپوں کو عموماً چیلنج دیا کہ وہ بیت المقدس میں اسلام اور عیسائیت کے اختلافی مسائل کی نسبت تقریری اور تحریری مناظرہ کر لیں.یہ چیلنج، عراق، مصر، شام، لبنان وغیرہ کے اخبارات میں شائع ہوا.مگر انہیں میدان مقابلہ میں آنے کی جرات نہ کے اخبارات میں شد ( تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه 507) ہوسکی.جماعت احمدیہ یہ چیلنج قبول کرتی ہے مولا نا محمد شریف صاحب اپنی ایک رپورٹ (بابت جنوری تا اپریل 1947 ء ) میں تحریر فرماتے ہیں:.اس سال کے شروع ہونے پر اللہ تعالیٰ نے احمدیت کا نام تمام بلاد عربیہ میں مشہور کرنے اور اس کی اشاعت کے لئے اپنی طرف سے راستے کھولنے کا سامان فرمایا.جس کے لئے اس کی طرف سے ایک خاص تحریک پیدا ہوئی.جس سے عربی صحافت میں احمدیت کا چرچا لوگوں کے لئے جاذب نظر بنا رہا.یعنی عیسائیت کے رومن کیتھولک کے فرقہ مارونیہ ( جس کی لبنان میں اکثریت ہے ) کے پیٹری آرک (بشپ) مشرق و انطاکیہ نے ایک مجلس میں اعلان کر دیا کہ سب اہل مذاہب کا دعویٰ ہے.کہ انہی کا مذہب سچا ہے اگر وہ اس دعوے میں سچے ہیں تو میرے ساتھ مباحثہ و مناظرہ کریں تا حقیقت آشکارا ہو جائے کہ کیا ان کے مذاہب سچے
مصالح العرب.....جلد اول 316 ہیں یا عیسائیت.یہ اعلان شام کے دو تین اخبارات میں شائع ہوا.مگر کسی شامی یا لبنانی امام و امی عالم نے اس کا جواب نہ دیا.اس پر جماعت احمدیہ کی طرف سے خاکسار نے ایک اشتہار شائع کیا.جس میں پڑی آرک کی دعوت کی منظوری کا اعلان کرتے ہوئے اس کے سامنے تین شرائط مناظرہ پیش کئے.اور بیت المقدس میں مناظرہ کرنے کی دعوت دی.اس اشتہار کو تمام بلا دعر بیہ میں کثرت سے تقسیم کیا گیا.حکومتوں کے پریذیڈنٹوں اور وزراء سے لے کر عوام تک یہ اشتہار پہنچایا گیا.اس اشتہار کے شائع ہونے پر تمام مسلم پبلک نے اسے اپنے لئے باعث فخر سمجھا.اور اس کا نہایت اعلیٰ خیر مقدم کیا.بلاد عر بیہ کے تمام مشہور و معروف اخبارات نے اس پر بہت اچھے رنگ میں ریویو لکھے.چنانچه روزنامه آخر دقيقة“، ”الأخبار“، ”العلم“، ”البلد“، ”المصرى“، ”العرفان“ وغیرہ چھ جرائد نے اس پر نوٹ لکھے اور پٹڑی آرک کو مناظرہ میں نکلنے کی دعوت دی.عراق کے اخبار ” الشرق اور نصیر الحق نے اور مصر کے اخبار ” الا سلام“ نے اسے لفظ بلفظ شائع کیا اور ہر طرف سے جماعت احمدیہ کی دینی غیرت اور خدمات کے اعترافات شائع گئے.اور متعدد مبارکباد دی اور دعاؤں پر مشتمل خطوط خاکسار کو موصول ہوئے اور احمدیت کا نام نہایت شاندار طور پر زبان زدخلائق ہو گیا.فالحمد لله على ذلك.الفضل 8 جولائی 1947 ء صفحہ 4) یہاں پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں رسالہ البشری میں شائع شدہ متعد د عربی اخبارات کی خبروں میں سے دو کے مختصر لیکن مبنی برحق تبصرے یہاں نقل کر دیئے جائیں : شام کے اخبار آخر دقیقہ نے اپنی 18 / ربیع الاول 1366ھ کی اشاعت میں لکھا: "تلقينا من حيفا من الأستاذ محمد شريف المبشر الإسلامي الأحمدى نشرة يشير فيها إلى ما نشرته جريدتى المنار“ و ”آخر دقيقة من تصريحات غبطة البطريرك الماروني وتحديه الأئمة و العلماء لمناقشته في الشؤون الدينية - ويقول الأستاذ محمد شريف أن الجماعة الأحمدية تقبل هذا التحدى ، وهي على استعداد لأن تناقش غبطته في تعاليم
مصالح العرب.....جلد اوّل الديانتين - والمعروف عن الأحمديين أنهم يبشرون بالديانة الإسلامية في جميع أقطار العالم، وهم على استعداد دوماً لمناقشة الأمور الدينية وإقناع المتشككين أو المتحاملين.“ 317 یعنی ہمیں احمدی مسلم مبلغ مولانا محمد شریف صاحب کی طرف سے حیفا سے ایک اشتہار موصول ہوا ہے جس میں مکرم مولانا موصوف اخبار المنار“ اور ”آخر دقیقہ“ میں شائع ہونے والے مارونی پیٹری آرک کے دینی امور میں مناظرہ کے چیلنج کا ذکر کیا ہے.مکرم محمد شریف صاحب کہتے ہیں کہ جماعت احمد یہ اس چیلنج کو قبول کرتی ہے.اور جماعت دونوں مذاہب (اسلام اور عیسائیت ) کی تعالیم کے مابین موازنہ کے موضوع پر مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہے.آگے اخبار اپنی طرف سے لکھتا ہے کہ: احمدیوں کے بارہ میں یہ بات مشہور و معروف ہے کہ وہ پوری دنیا میں دین اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں اور دینی امور کے بارہ میں مباحثہ و مناظرہ کے لئے اور لوگوں کے شکوک وشبہات اور اعتراضات کے ازالہ کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں.شام کے ہی ایک جریدہ الاخبار نے ابتدائی تفصیل لکھنے کے بعد تحریر کیا: ”والذي نعرف أن الجماعة الأحمدية دافعت عن الديانية الإسلامية وبشرت لها في جميع أنحاء العالم 66 الأخبار 9 فروری 1947ء) یعنی جماعت احمدیہ کے بارہ میں جو بات ہم بخوبی جانتے ہیں یہ ہے کہ یہ دین اسلام کے دفاع اور پوری دنیا میں تبلیغ اسلام پر کمر بستہ ہے.عذر گناه بدتر از گناه (ماخوذ از مجله البشری شمارہ ذوالقعدہ ذوالحجہ 1366ھ) مولا نا چوہدری محمد شریف صاحب فرماتے ہیں: ”مارونی پٹڑی آرک پر خدا تعالیٰ نے ایسا احمدیت کا رعب ڈالا کہ اسے سوائے بہانہ
مصالح العرب.....جلد اول 318 سازی کے اور کوئی راہ اپنے بچاؤ کی نظر نہ آئی.چنانچہ اس نے ایک عیسائی اخبار کے ذریعہ اپنے متبعین کی دلی زبان سے یہ اعلان کروا دیا کہ اس چیلنج کے مخاطب دیگر مذاہب کے لوگ نہیں تھے بلکہ صرف عیسائیت کے فرقوں کے پیشوا ہی مراد تھے.مخالفت بھی صداقت کی ایک علامت ہوتی ہے.اس پیٹری آرک کے چیلنج کو ہمارا قبول کر لینا اور اسے بیت المقدس میں مناظرہ کے لئے بلانا ہمارے بعض مخالفوں کے لئے سوہانِ روح بن گیا.چنانچہ انہوں نے اخبار ” المنار کے ذریعہ جو شام کا ایک نوزائیدہ اخبار ہے ہمارے اثر کو زائل کرنے کی کوشش کی.اس نے احمدیت کے خلاف ہرزہ سرائی کی.جس کا جواب ”جریدہ المنار والبطر بیرک المارونی“ کے نام سے برادرم السید رشدی آفندی البسطی پریذیڈنٹ جماعت حیفا کی طرف سے شائع ہوا.اور شام وفلسطین میں شائع کیا گیا.اور اشتہار کا بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے بہت اچھا اثر ہوا.اور مخالفوں کی یہ تدبیر کہ ہم کسی طرح اپنے مسلمان بھائیوں سے ہی الجھ کر رہ جائیں کارگر ثابت نہ ہوئی.فالحمد للہ.الفضل 8 جولائی 1947 ء صفحہ 4) مولانامحمد شریف صاحب اس چیلنج کی تاثیر کی بابت ایک اور رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں:.”خاکسار نے اوائل 1947 ء میں مادر نائٹ پڑی آرک آف انطاکیہ کو خصوصاً اور یہاں کے پڑی آرکوں اور بشپوں کو عموماً چیلنج دیا کہ وہ اسلام اور مسیحیت میں مختلف فیہ مسائل پر بیت المقدس میں پندرہ روز میرے ساتھ تقریری اور تحری مناظرہ کریں.اور یہ چیلنج عراق، مصر، شام و لبنان وغیرہ کے عربی اخبارات میں شائع ہوا.اور تمام پادریوں اور بشپوں کو ارسال کیا گیا.مگر وہ سب ایسے خاموش ہوئے کہ گویا ان میں زندگی کی روح نہیں.وذلك من فضل اللہ.ہماری ان حقیر کوششوں پر اللہ تعالیٰ نے یہ ثمر مرتب فرمایا کہ عیسائیت کی تبلیغ کو یہاں سخت کی دھکا لگا اور عیسائیت کی منادی ان کے خداوند کی زمین میں بھی مسیح محمدی کی برکت سے ختم ہوا گئی.اور اب یہاں غیر احمدی مسلمان علماء عیسائی پادریوں سے یہ مباحثہ کرنے لگے ہیں کہ مسیح صلیب پر نہیں مرے بلکہ اپنی طبعی موت سے واصل بحق ہوئے.چنانچہ فلسطین کے ایک نہایت مشہور و معروف عالم الشیخ عبداللہ نے ڈنمارک کے ایک پادری مقیم بیت المقدس سے اسی موضوع پر تحریری مناظرہ کیا اور اسے اپنے خرچ پر شائع کیا.جس میں انہوں نے ہمارے دلائل پیش کر کے عرب پادریوں کو لا جواب کیا.الفضل 25 دسمبر 1949 ، صفحہ 8)
مصالح العرب.....جلد اول بہائیوں پر کاری ضرب 319 مولانا محمد شریف صاحب نے بہائیوں کے لیڈر شوقی آفندی پر بھی اتمام حجت کیا.( تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه 507) اس حجت کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے مولا نا محمد شریف صاحب فرماتے ہیں:.”بہائیوں پر بھی ہم نے بفضلہ تعالیٰ حجت پوری کی ہے.رڈ بہائیت میں مولوی جلال الدین صاحب شمس نے 1931 ء میں رسالہ تنویر الالباب لکھ کر بہائیوں کی شریعت کو عریاں کیا.اور ساتھ ہی اس کے شروع میں زعیم بہائیت (شوقی آفندی.حیفا) کو دعوت دی کہ ہمارے امام جماعت احمدیہ کے چیلنج کو قبول کریں اور کسی آسمانی نشان سے اپنے نو ساختہ مذہب کی صداقت ثابت کریں.اگر اس سے عاجز ہوں تو اپنا صاف اقرار شائع کریں.اور پھر ہم سے اسلام کی صداقت پر آسمانی نشان دیکھ کر مسلمان ہو جائیں.اس پر وہ ایک سال تک ٹس سے مس نہ ہوئے ایک سال گذرنے پر اب پھر اس سال 1949ء کے شروع میں ان کو پھر چیلنج دے کر اور حیفا کے گلی کوچوں میں شائع کر کے ان پر اتمام حجت کر دی.آج اس دوسرے چیلنج پر بھی سات ماہ گزر گئے ہیں زعیم بہائیت خاموش ہیں.اور اب انشاء اللہ تا ابد خاموش رہیں گے.اور مسیح محمدی کا یہ فرمودہ ہمیشہ صحیح ثابت ہوگا.آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے الفضل 25 دسمبر 1949 ء صفحہ 8) زعیم بہائیت شوقی آفندی کے بھائی سے دلچسپ گفتگو چوہدری محمد شریف صاحب نے بہائیوں کا تعاقب کیا اور یکے بعد دیگرے ان پر حجت تمام کرتے رہے.اس سلسلہ میں ان کی شوقی آفندی کے بھائی سے گفتگو قابل ذکر ہے.آپ اس سلسلہ میں بیان فرماتے ہیں:.گذشتہ ماہ رمضان میں ہم نے ارادہ کیا کہ بہائیت کے مزعومہ شوقی صاحب آفندی سے ان کی تعداد دریافت کی جائے.اس لئے ہم تین اشخاص برادرم چوہدری محمد احسان الہی
مصالح العرب.....جلد اول 320 صاحب جنجوعہ مجاہد سیرالیون ( جو ان دنوں سیرالیون کو جاتے ہوئے ہمارے ہاں مقیم تھے ) اور برادرم نذیر احمد صاحب قریشی حوالدار ( نزیل مشرق اوسط) ساکن ٹھیکر یوالہ متصل قادیان اور خاکسار شوقی صاحب سے ملنے کے لئے ان کے مکان پر گئے شوقی صاحب سے ملاقات تو نہ ہوسکی کیونکہ ان کے متعلق ہمیں ان کے گھر سے بتلایا گیا کہ وہ آج کل یہاں نہیں بلکہ لبنان گئے ہوئے ہیں.اس لئے ان کے بھائی ریاض صاحب سے ملاقات ہوئی.ریاض صاحب پکے رنگ کے درمیانہ قد کے نوجوان ہیں بظاہر نظر ان کی عمر چوبیں چھپیں سال معلوم ہوتی انگریزی لباس پہنے ہوئے تھے اور داڑھی مونچھیں صفا چٹ تھیں.ان سے ابتدائی رسمی گفتگو شروع ہوئی.اتنے میں ان کی طرف سے ہمارے لئے قہوہ ان کے گھر سے آگیا.ہم نے معذرت کر دی اور کہہ دیا کہ رمضان کا مہینہ ہے اور ہم روزہ دار ہیں.بعدہ خاکسار نے ان سے عربی میں گفتگو شروع کی.انہوں نے عربی میں گفتگو کرنے کے متعلق معذرت کا اظہار کیا اور کہا کہ میں اپنا ماحول عربی نہ ہونے کی وجہ سے عربی میں اچھی طرح گفتگو نہیں کر سکتا.اس لئے انگریزی ہی میں بات کر سکوں گا.ہم نے کہا بہت اچھا.آخر گفتگو شروع ہوئی ہم نے ان سے کہا کہ ہمیں آپ کی شریعت کی کتاب ”اقدس کے ایک نسخہ کی ضرورت ہے.اگر آپ مہربانی فرما ئیں تو ایک نسخہ ہمیں دیدیں.جس قدر اس کی قیمت ہو ہم آپ کو ادا کر دیتے ہیں.انہوں نے کہا کہ ابھی تک ہماری طرف سے اقدس طبع نہیں ہوئی اس لئے ہمارے پاس اس کا کوئی نسخہ نہیں.بعدہ میں نے دریافت کیا کہ آپ یہ بتلائیں کہ بہاء اللہ کے خاندان کے افراد کے علاوہ حیفا میں خصوصاً اور فلسطین میں عموماً کتنے بہائی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ موجودہ لڑائی سے پہلے تقریباً تمیں چالیس تھے.میں نے کہا اب موجودہ ایام میں کتنے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ بہاء اللہ کے خاندان کے علاوہ اس وقت یہاں کوئی بہائی نہیں.میں نے دریافت کیا کہ وہ بہائی جولڑائی سے پہلے تھیں چالیس تھے وہ کہاں گئے؟ انہوں نے جواب دیا وہ ایران کے رہنے والے تھے اور یہاں تجارت وغیرہ کرتے تھے.لڑائی شروع ہونے پر اپنے ملک ایران کو چلے گئے.پھر ہم نے دریافت کیا.ہم نے سنا ہے کہ آپ کا فلسطین میں کوئی مدرسہ بھی ہے.
مصالح العرب.....جلد اول وہ کہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ آپ کو کسی نے غلط بتایا ہے.ہمارا یہاں کوئی مدرسہ نہیں.ہم نے کہا کیا کوئی کالج بھی آپ کا یہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں کوئی کالج وغیرہ نہیں.321 اس کے بعد ہم نے ان سے کہا کہ ہم نے سنا ہے.کہ منشیہ میں (جو عکا کے قریب ایک گاؤں ہے.اور یہاں بہاء اللہ کا بڑا بیٹا محمد علی رہتا تھا) وہاں کے سب لوگ بہائی ہیں.اُنہوں نے کہا نہیں وہ عربوں کا گاؤں ہے.وہاں کوئی بہائی نہیں.اس کے بعد ہم نے ان سے دریافت کیا کہ ہمیں بہائیت کے متعلق جو مستند کتابیں ہوں وہ بتلائیں.اس پر وہ ایک کتاب Bahaullah & The New Era بہاء اللہ اور عصر جدید ) اور ایک پمفلٹ The Bahai Faith) لائے (جس پر پبلشر یا مرتب کا نام مذکور نہ تھا ).میں نے انہیں قیمت دینی چاہی لیکن انہوں نے کہا کہ آپ زائر ہیں اس لئے آپ سے قیمت نہیں لیتے.ہم نے کہا بہت اچھا آپ کی مرضی.پھر ہم نے ان سے کہا کہ ہمیں ” عصر جدید عربی میں چاہئے انہوں نے کہا کہ افسوس وہ کتاب ہمارے پاس نہیں.اس کے بعد وہ ہمیں دکھلانے کے لئے ایک کتاب ( The Bahai World) لائے جو امریکہ میں طبع شدہ تھی.اور کافی تعلیم تھی.ہم نے ان سے کہا کہ یہ کتاب ہمیں قیمتاً دیدیں.جس قدر اس کی قیمت ہو وہ ہم آپ کو ابھی دے دیتے ہیں انہوں ن نے کہا افسوس ہے کہ یہ کتاب شوقی صاحب کی لائبریری سے لایا ہوں.اور اس کی ایک ہی کاپی ہمارے پاس موجود ہے.آخر ہم ان سے مندرجہ بالا معلومات لے کر واپس آگئے.مندرجہ بالا مکالمہ سے یہ بات صاف طور پر عیاں ہے.کہ فلسطین میں بہاء اللہ کے خاندان کے علاوہ اور کوئی مقامی آدمی بہائیت کا متبع نہیں.صرف بہاء اللہ کا خاندان ہی بہائی ہے.الفضل 23 مارچ 1945 ، صفحہ 4) شوقی آفندی کا تعاقب مکرم رشید احمد چغتائی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ : ایک دفعہ ہم زعیم بہائیت شوقی آفندی سے ملنے کے لئے اس کی قیام گاہ پر حیفا میں
مصالح العرب.....جلد اول 322 گئے.محترم چوہدری صاحب کے ساتھ خاکسار اور مکرم غلام محمد صاحب کھوکھر بھی تھے.چوہدری صاحب نے اپنا Visiting کارڈ اندر بھجوایا.تھوڑی دیر کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ شوقی آفندی صاحب گھر میں موجود نہیں ہیں.تب ہم نے خیال کیا کہ چلو یہاں آئے ہوئے ہیں ان کی رہائش گاہ کے نیچے موجود ان کی لائبریری دیکھتے چلیں.چنانچہ ہم نے لائبریری میں تھوڑا سا وقت گزارا جب باہر واپسی کے لئے نکلے تو ایک عجیب اور دلچسپ صورتحال سامنے آئی.ہوا یہ کہ ادھر سے ہم لائبریری سے نکل کر گیٹ کے قریب پہنچے اور ادھر اپنی رہائش گاہ سے شوقی آفندی صاحب باہر جانے کے لئے نکلے اور اس طرح ان کا اور ہمارا آمنا سامنا ہو گیا.شوقی آفندی صاحب نے دریافت کیا.Are you Mohammad Sharif چوہدری صاحب نے اس بات کا مثبت میں جواب دیا تو انہوں نے فوراً یہ کہہ کر ( 1 Sorry have no time) کہتے ہوئے اپنی موٹر پر سوار ہو کر باہر چلے گئے.اس مکالمہ کے دوران اس کا سیکرٹری بھی موجود تھا.جس پر اس آمنے سامنے کے دوران گویا ایک رنگ آرہا تھا اور و ایک جا رہا تھا.وہ ہمیں پہلے یہ پیغام دے چکا تھا کہ شوقی آفندی گھر میں موجود نہیں.اور بعد میں ان کے گھر ہی سے برآمد ہونے پر جو خفت اسے ہماری موجودگی میں محسوس ہوئی اس کا تدارک اس رنگ میں شوقی صاحب کے چلے جانے کے بعد کیا کہ آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو شوقی صاحب کا دیدار نصیب ہو گیا ہے ورنہ وہ بہت کم ملتے ہیں.یاد رہے کہ چوہدری صاحب کی تبلیغی جد و جہد بالخصوص رو بہائیت کے ضمن میں آپ کے رسائل ( جو شوقی آفندی زعیم بہائیت کو بھی احمد یہ مشن کہا بیر سے طبع کرا کر بھیجے جاتے تھے ) کی وجہ سے غائبانہ طور پر پہلے ہی متعارف تھے.مدرسہ احمدیہ کبابیر مولا نا چوہدری محمد شریف صاحب نے مدرسہ احمدیہ کبابیر میں بھی کام کیا اور کافی عرصہ تک اس درسگاہ میں پڑھاتے رہے.اور بہت مشکلات کا سامنا کیا لیکن اس کے باوجود بڑے احسن رنگ میں کام کرتے رہے.چنانچہ مدرسہ احمد یہ کہا بیر کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.مدرسہ احمد یہ کہا بیر میں اس وقت 42 لڑکے اور لڑکیاں تعلیم پارہے ہیں.مدرسہ کے د دو
323 مصالح العرب.....جلد اول حصے ہیں.لڑکوں کے لئے اور لڑکیوں کے لئے.جن میں پرائمری تک تعلیم دی جاتی ہے.اس سال سات طلباء فارغ کئے گئے.مدرسہ کی مالی حالت بالکل خراب ہے تعلیم پانے والے اکثر بچے احمدی ہی ہیں.اور ملک میں عام بریکاری کی وجہ سے فیس قریباً کا لعدوم ہے.حکومت نے اس سال گرانٹ نہ دینے کے متعلق لکھا ہے کہ بوجہ خرابی مالی حالت گورنمنٹ اس سال معذوری نان کا اظہار کرتی ہے.( اول سال رواں میں بھی صرف ساڑھے چار پونڈ گرانٹ بھیجی حالانکہ آٹھ کا وعدہ تھا) مدرسہ ہذا میں 1937ء میں تین استاد کام کرتے تھے.گذشتہ سال مبلغ کے یہاں سے چلے جانے کی وجہ سے دورہ گئے.پھر وہ دونوں بھی بعض وجوہات کی بنا پر استعفیٰ دے کر (میرے آنے سے قبل ) ہی چلے گئے اور مکرم منیر احصنی صاحب ہی دو تین ماہ تک تعلیم دیتے رہے.اب جنوری میں وہ بھی چلے گئے.اس لئے اس وقت سے اب مجھے ہی روزانہ 7 گھنٹے متواتر وقت مدرسہ میں صرف کرنا پڑتا ہے.پھر البشری کی ایڈیٹری اور مینیجری اور کلر کی وغیرہ سب ہی کام آمدہ خطوط کے جوابات.آنے والے احمدیوں اور غیر احمدیوں سے ملاقات اور پھر بیوی ساتھ ہونے کی وجہ سے گھر کا بھی انتظام کرنا وغیرہ اس قدر کام ہیں.کہ اگر اللہ اپنے فضل سے ہی مددفرماتا چلا جائے تو یہ کام ہو سکتے ہیں.وهو نعم المولى ونعم النصیر.(سالانہ رپورٹ صدر انجمن 39-1938ء) نو مبایعین کے بارہ میں بعض رپورٹس مولا نا چوہدری محمد شریف صاحب کی تبلیغ نے بہت پھل دیا اور کئی سعید روحیں جماعت احمدیہ میں داخل ہوئیں.نمونہ کے طور پر نو مبایعین کے تذکرہ پر مبنی چند ر پورٹس پیش ہیں جن سے اس عرصہ میں بلا دعر بیہ میں احمدیت کی روز افزوں ترقی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے.چوہدری محمد شریف صاحب بیعت کندگان کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:.سال ہذا میں بفضلہ تعالیٰ 19 اشخاص بیعت کر کے داخلِ سلسلہ ہوئے.اور یہ بلاد عربیہ کے مختلف اقطار مثلاً فلسطین، سوریا، شام، عراق.قاہرہ اور سوڈان کے ہیں.دعا ہے کہ اللہ تعالی ان سب کو استقامت عطا فرمائے.زیادہ حصہ تاجروں کا ہے.اور بعض تو قابل رشک مخلص ہیں چنانچہ ایک دوست محمد ندیم انصاری ہیں.نوجوان ادیب اور دین کے ساتھ گہری محبت رکھنے والے ہیں.حال ہی میں جب تحریک جدید کے لئے تحریک کی گئی تو سب سے پہلے
مصالح العرب.....جلد اول 324 انہوں نے ایک محبت بھرے عریضہ کے ساتھ حسب توفیق پیشگی رقم ارسال کر دی.فجزاهم الله أحسن الجزاء ایک اور رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں:.سالانہ رپورٹ صدرا انجمن احمد یہ 39-1938ء) - ہدایت دینا تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.ہمارا کام کوشش کرنا ہے پھر وہ کوشش بھی ہم سے پوری طرح نہیں ہو سکتی.اس لئے محض اللہ تعالی کے فضل سے اور حضرت خلیفہ ایسیح ایدہ اللہ بنصرہ کی دعاؤں اور توجہات سے اس سال تعداد نو مبایعین 26 ہے.یعنی گذشتہ سال کی نسبت 7 کی زیادتی ہے.فالحمد للہ علی ذلک.ایک اور رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں:.سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ 39-1938 ء ) اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے دو احباب کو بیعت کر کے داخل سلسلہ ہونے کی توفیق عطا فرمائی.الفضل 19 دسمبر 1942 صفحہ 6) ایک اور تبلیغی رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں:.دو تین اصحاب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حضرت امیر المومنین خلیفہ امسح الثانی ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.اللہ ان نئے احباب کو استقامت عطا فرمائے.آمین.الفضل 17 فروری 1944 صفحہ 5) صدرانجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹ میں آپ نے لکھا: '31 عاقل بالغ افراد نے بیعت کی.اللهم زد فزد سال گذشتہ سے 12 کی زیادتی ہے“.ایک اور تبلیغی رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں:.سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ 42-1941 ء ) عرصہ زیر رپورٹ میں اللہ تعالیٰ نے دو نو جوان احباب (1) السید احمد عبد والزوری عکا اور (2) السید وجیہ حسن فطائر نابلس کو بیعت کر کے داخلِ سلسلہ عالیہ احمد یہ ہونے کی توفیق عطا فرمائی.اللہ تعالیٰ ان کو استقامت عطا فرمائے اور احمدیت کے نور سے منور کرے.“ ایک اور تبلیغی رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں:.الفضل 5 اگست 1942 ء )
مصالح العرب.....جلد اول ہوئے فالحمد لله على ذلك 325 اس عرصہ میں خدا کے فضل و رحم سے 24 احباب بیعت کر کے داخل سلسلہ عالیہ احمدیہ کی.66 الفضل 12 جون 1946 ء صفحہ 3) ایک اور تبلیغی رپورٹ میں بیعت کندگان کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:.عرصہ زیر رپورٹ میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے بارہ اشخاص بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمد یہ میں داخل ہوئے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو استقامت عطا فرمائے اور احمدیت کی الفضل 28 /اکتوبر 1949ء) برکات سے متمتع فرمائے.“ غریب الوطنی میں رفیقہ حیات کی وفات جب مولانا محمد شریف صاحب تبلیغ اسلام کی خاطر بلاد عربیہ میں تشریف لے گئے تو آپ کی اہلیہ محترمہ بھی آپ کے ساتھ تھیں.آپ کی اہلیہ جو کہ عظیم خاتون تھیں فلسطین میں انتقال کر گئیں جس سے آپ کو بہت بڑا صدمہ پہنچا.لیکن آپ نے اس صدمہ کو تبلیغ کی راہ میں آڑ نہ بننے دیا.مولانا محمد شریف اپنی اہلیہ مرحومہ کے متعلق فرمایا کرتے تھے.وہ نہایت نیک اور صالح خاتون تھیں.ہمیشہ چوہدری صاحب کے دینی کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتی تھیں.اور کبھی بھی ان کے لئے تکلیف اور دکھ کا باعث نہیں بنیں.مولانا صاحب جب بھی اپنی اہلیہ کا ذکر کرتے تو ساتھ یہ کہتے کہ ”میری پیاری اہلیہ گویا آپ ایک عظیم خاتون تھیں.چنانچہ آپ ایک تبلیغی رپورٹ میں ان کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.بالآخر یہ بھی عرض کر دیتا ہوں کہ حکمت ایزدی کے ماتحت خاکسار کی اہلیہ جو حضرت اقدس کے ارشاد پر بلاد عربیہ میں خاکسار کے ہمراہ آئی تھی اور بہت اچھا نمونہ اور سابقہ بالخیرات تھی.ان ممالک میں تقریباً پونے پانچ سال خدمت سلسلہ کر کے اچانک دو تین روز بیمار رہ کر اور اپنے پیچھے تین خورد سال بچے چھوڑ کر بتاریخ 22 صفر 1363ھ موافق 27 تبلیغ 1332 ھش اپنے مولا حقیقی سے جاملی.إنا لله وإنا إليه راجعون واللهم اغفرلها وارحمها وعافها واعف عنها الفضل 26 اکتوبر 1943 ، صفحہ 4) وأدخلها في جنة النعيم اخبار الفضل نے اہلیہ مولانا محمد شریف صاحب کا ذکر اس انداز میں کیا:.
مصالح العرب.....جلد اول 326 احمدی خواتین کی قربانیوں کی فہرست نہایت طویل ہے.اور خاص کر حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے عہدِ سعادت میں احمدی خواتین نے جو مثالیں قائم کی ہیں.وہ نہایت شاندار ہیں.مثلاً تثلیث کے مرکز لنڈن میں خدا تعالیٰ کا سب پہلا گھر جس میں پانچوں وقت اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی ہے.اور جسے تعمیر کرنے کی آج تک بڑے بڑے بادشاہوں کو توفیق نہ ملی.محض احمدی خواتین کے چندہ سے تعمیر ہوا اور یہ ایک علیحدہ چندہ تھا.جو مستقل چندوں کی ادائیگی کے علاوہ حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایده اللہ بنصرہ العزیز کے حضور احمدی خواتین نے پیش کیا.اور مطالبہ سے بڑھ کر پیش کیا.اس وقت....جنگ سے پیدا شدہ موجودہ نہایت ہی خطر ناک حالات میں احمدی خواتین دین کی خاطر جس ایثار اور قربانی کا ثبوت پیش کر رہی ہیں.اس کی مثال صفحہ عالم پر نہیں مل سکتی.چند ہی روز ہوئے ”الفضل“ میں یہ نہایت ہی افسوسناک خبر شائع ہو چکی ہے کہ ہمارے فلسطین کے مجاہد مولوی محمد شریف صاحب کی اہلیہ صاحبہ حیفا میں اپنے عزیز و اقارب سے دور غریب الوطنی میں وفات پاگئی ہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ“.الفضل 21 مارچ 1943 ء صفحہ (1) اپنی اس مرحومہ بیوی کا ذکر کرتے ہوئے محترم چوہدری صاحب فرماتے ہیں:.گذشتہ ہفتہ بتاریخ 22 صفر 1362 هجری مطابق 27 تبلیغ 1322 هجری شمسی خاکسار کی رفیقہ حیات ام عبدالرشید سات سال کی رفاقت کے بعد دو تین روز بعارضہ بخار وضعف قلب بیمار رہ کر اس دار فانی سے انتقال کر کے اپنے مولی حقیقی سے جاملی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجعون.مرحومہ آج سے ساڑھے چار سال قبل حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے ماتحت خاکسار کے ہمراہ بلاد عر یہ میں خدمت سلسلہ عالیہ کے لئے آئی تھی اور آخر یہاں ہی خدمت کرتے ہوئے فوت ہو کر جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا کی مصداق ہوگئی اور بلدہ احمدیت کہا بیر واقعہ بر جبل الكرمل حیفا کے مقبرہ میں سپر د خدا کر دی گئی اللهم اغفر لها وأدخلها في جنت النعيم.
مصالح العرب.....جلد اول مرحومہ کا تعلیم و تربیت کے کام میں قابل ستائش نمونہ 327 یہاں کی زبان عربی تھی اور مرحومہ اگر چہ مڈل پاس تھی اور قرآن مجید با ترجمہ اور ایک حدیث اور عربی کی دو تین کتابیں پڑھی ہوئی تھی مگر وہ تعلیم یہاں نفی کے برابر تھی اس لئے یہاں آکر مرحومہ پہلے بالکل بے زبان ہوگئی.آخر مرحومہ نے اللہ تعالیٰ سے روروکر دعائیں مانگنا شروع کیں.آخر چند ماہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مرحومہ کی زبان کھول دی اور عربی بولنے لگ گئی تب مرحومہ ڈیڑھ دو سال تک مدرسہ احمد یہ میں لڑکیوں کی تین جماعتوں کو تعلیم دیتی رہی.اور مستورات میں بھی کشتی نوح کا درس دیتی رہی.اور گھر میں تو ہر روز درست و تدریس کا مشغلہ جاری رکھتی تھی.اور اب تو مرحومہ اس قدر عربی سیکھ چکی تھی کہ بلا تکلف سب باتیں اور وعظ ونصیحت وتبلیغ وغیرہ بلا کسی روک کے کر لیتی تھی اور اس پر اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکر یہ ادا کیا کرتی تھی اور کئی نیک ارادے رکھتی تھی.مہمان نوازی مهمان نوازی میں مرحومہ سے کبھی کوتاہی نہ ہوتی تھی.جس قدر مہمان آئیں.خواہ رات کو یا دن کو سب کے لئے کھانا وغیرہ خود ہی تیار کرتی تھی.زائرین دار التبلیغ کے لئے ہر وقت چائے قہوہ وغیرہ تیار کر کے فورا بھیجتی تھی.حتی کہ اپنی وفات سے ایک روز قبل جبکہ بیماری انتہائی زور پر تھی.اور سانس رک رک کر آرہا تھا احمدی بہنوں سے جو خبر گیری کے لئے پاس موجود تھیں کہا کہ آج جمعہ کا دن ہے بہت سے احمدی بھائی حیفا سے جمعہ پڑھنے کے لئے آئیں گے اس لئے ابھی قہوہ تیار کر دیں اور اس طرح ان سے قہوہ تیار کروا کر ان کے لئے بھیجا.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ مہمانوں کی خاطر سب کھانا بتمام و کمال بھیج دیتیں اور اپنے لئے کچھ بھی نہ رکھتیں اور ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة كى مصداق ہو جاتی.اخلاق کے لحاظ کی سے بھی نمونہ بہت اچھار کھتی تھی.نہایت صالحہ اور عفیفہ تھی.رسالہ البشریٰ کی تیاری اور ترسیل میں بھی خاص مدد کرتی رہی.پیکنگ وغیرہ اور ٹکٹیں اور مہریں لگا کر پیکٹ تیار کر کے باہر بھجوادیتی رہی.جزاها الله أحسن الجزاء.یہاں کی سب احمدی اور غیر احمدی خواتین مرحومہ کے ساتھ بہت محبت رکھتی تھیں اور احمدی خواتین کی محبت تو اپنے ایمان اور اخلاص کے
مصالح العرب.....جلد اول 328 سبب ان سب محبتوں سے بالا تھی.فجزاهن الله أحسن الجزاء.....بالآخر درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو ہجرت فی سبیل اللہ کا اجر عطا فرمائے اور اپنی مغفرت کی چادر اس پر اوڑھائے اور مرحومہ کے ہرسہ بچوں کا جن کی عمر اس وقت علی الترتیب چارسال ،دوسال اور ایک ماہ ہے خود حامی و ناصر ہو کفیل ہو اور انہیں احمدیت کا خادم بنائے.ويوفقني للصبر الجميل خاکسار احقر خدام السلسلة الاحمدیۃ.چوہدری محمد شریف مولوی فاضل مبلغ سلسلہ عالیہ احمد یہ نزیل جبل الكرمل حیفا - فلسطین بتاریخ 3 /ربیع الاول 1362 ھجری.الفضل 16 اپریل جمعہ کی نماز کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مرحومہ کا الفضل 1 2 اپریل 1943 ءصفحہ 2) نماز جنازہ پڑھا.بلا دعر بیہ میں آپ کی شادی اہلیہ کی وفات کے بعد آپ کے دو بچوں عزیزہ امتہ الحمید اور عزیز عبد الرشید کی پرورش وغیرہ معاملات بھی درپیش تھے ایسی حالت میں بھی آپ نے پوری کوشش سے اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری میں کوشاں رہے.حضرت سیدنا فضل عمر کی ہدایت کے مطابق آپ کی دوسری شادی کبابیر میں ہی ایک مخلص خاندان میں مکر مہ ومحترمہ حکمتہ صاحبہ بنت شیخ عباس عودہ صاحب سے ہوئی.قتل کے منصوبے اور خدائی حفاظت مکرم چوہدری محمد شریف صاحب نے اپنی تبلیغی زندگی میں الہی حفاظت اور تائید خدا وندی کے بے شمار واقعات مشاہدہ کئے.چنانچہ آپ تائید خداوندی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.” میرے فلسطین پہنچنے سے پہلے ہی علمائے شام کی طرف سے اہل فلسطین کو یہ خطوط پہنچ رہے تھے کہ احمدی مبلغ آرہا ہے اس کو قتل کر دو اور وہ قتل کرنے کی نیت سے آئے بھی.لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی بے نظیر قدرت سے بچا لیا.اس زمانے میں فلسطین میں عملاً کوئی حکومت نہ تھی اور لٹیروں کے کئی گروہ سرگرم عمل تھے.ایک دن انہوں نے عصر کے بعد ہمیں یہ پیغام بھیجا
مصالح العرب.....جلد اول 329 کہ مغرب سے قبل ہمیں 500 پونڈ بھجوا دیں ورنہ ہم آپ کے آدمیوں کو اغوا کرلیں گے.جب کی انہیں مطلوبہ رقم نہ ملی تو انہوں نے احمد یہ مشن کا محاصرہ کر لیا اور دس احمدیوں کو پکڑ کر لے گئے.میں ان کے اندر پھرتا رہا.لیکن خدا کی قدرت کہ وہ مجھے پہچان نہ سکے اور دھکا دے کر دور ہٹا ( تشخیذ الاذہان جنوری 1978ء) دیا.ہیں:.اسی طرح ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے مکرم چوہدری محمد شریف صاحب بیان فرماتے اسی طرح ایک دفعہ میں بینک میں گیا تو وہاں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا.ایک آدمی مجھے قتل کرنے کے لئے میرا نشانہ لے رہا تھا (جس کا مجھے بعد میں پتہ چلا کہ ایک کاراچانک میرے اور اس کے درمیان حائل ہو گئی اور وہ آدمی بھاگ گیا.اس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے بچالیا.تشخید الا ذہان جنوری 1978 ء صفحہ 10) ایسے ہی ایک واقعہ کا ذکر مکرم طا قزق صاحب نے اپنی غیر مطبوعہ یادوں میں یوں بیان کیا ہے:.م فلسطین کے ایام میں کسی کو قتل کردینا بڑی عام سی بات بن گئی تھی اور بدامنی اور لا قانونیت کی وجہ سے روزانہ کئی اشخاص کے نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل کی خبریں معمول بن کے رہ گئی تھیں.ایسی صورت میں احمدیوں کا اور خصوصاً مولا نا محمد شریف صاحب کا قتل بہت ہی معمولی اور آسان کام تھا جس کے لئے مخالفین کوشاں تھے.حتی کہ ایک احمدی مکرم احمد المصری صاحب کو شہید کر دیا گیا، اسی طرح مکرم رشدی بسطی صاحب صدر جماعت حیفا پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں گردن پر گولی لگی لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے بچا لیا.اسی طرح مولانا محمد شریف صاحب کے ہمسائے میں رہنے والے احمدی دوست مکرم محمد صالح عودہ صاحب پر دو قاتلانہ حملے ہوئے.اسی دوران مکرم مولا نا محمد شریف صاحب کے قتل کا منصوبہ بھی کیا گیا جو نا کام ہو گیا.میں مولانا محمد شریف کے ساتھ ساتھ رہتا تھا.ایک دن میں بازار میں مولانا صاحب کے ساتھ تھا.جب واپس گھر آیا تو مجھے بتایا گیا کہ بعض مجرم پیشہ لوگ مولا نا محمد شریف صاحب کے قتل کا منصوبہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے لیکن جب مجھے ان کے ساتھ دیکھا تو اپنے منصوبہ کی تکمیل نہ کر سکے.بعد میں انہوں نے ہمارے خاندان میں یہ پیغام بھیجا کہ میں مولا نا صاحب سے دور ہی رہوں.لیکن چونکہ ہمارا خاصا اثر ورسوخ تھا اور ہمارے خاندان
مصالح العرب.....جلد اول 330 کے بعض لوگ انقلابی تحریک کا حصہ بھی تھے لہذا ہم نے کسی کی دھمکیوں کی کوئی پرواہ نہ کی.چوہدری محمد شریف صاحب دشمن کی سازش اور ایک احمدی کا اخلاص کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کے متعلق نوار کی طرف سے فتوی جاری ہو گیا کہ اس کو کسی رات ڈائنامیٹ سے اڑا دیا جائے.اور ثوار کی طرف اس احمدی بھائی سے کہا گیا کہ یا تو تم اپنے مبلغ کو اپنے مکان سے نکال دو.یا تم خود نکل جاؤ کیونکہ تمہارے مکان کے متعلق یہ حکم ہوا ہے.اس نے جواب دیا کہ مجھے اپنی اور اپنے مکان کی کوئی پرواہ نہیں لیکن میں اپنے سلسلہ کے مبلغ کو نہیں نکال سکتا.اس سے اس بھائی کا اخلاص اور سلسلہ کی محبت ظاہر ہے.فجزاه الله الفضل 28 /اکتوبر 1939 ، صفحہ 6 احسن الجزاء.چوہدری صاحب اس واقعہ کے بعد بیان فرماتے ہیں کہ:.جب دہشت گردوں کا اس سے بھی کام نہ چلا.تو انہوں نے ان کی ساس سے جو غیر احمدی ہے کہا تم اپنی لڑکی کو گھر لے آؤ کیونکہ اس کا خاوند اپنی جماعت کے مبلغ کو وہاں سے نہیں نکالتا.اور اب فتویٰ جاری ہوا ہے کہ دونوں کو مع مکان اڑا دیا جائے.اس پر اگر چہ وہ تھی تو غیر احمدی مگر اس نے جواب دیا کہ جب تم نے اس کے خاوند اور ان کے گھر کواڑا دیا ہے.تو میری لڑکی نے زندہ رہ کر کیا کرنا ہے.پھر اس کے بعد جلد ہی اس فتنہ کا بانی بھی قتل ہو گیا.“ الفضل 28 /اکتوبر 1939 ءصفحہ 6) تائید و نصرت خداوندی کے واقعات 66 تائید خداوندی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے مولا نا محمد شریف صاحب فرماتے ہیں:.ایک دفعہ کمیونسٹوں نے اسلام کے خلاف ایک مضمون لکھا.میں نے اس کا جواب سپرد قلم کیا اور بصورت ٹریکٹ اسے شائع کر کے بڑے بڑے شہروں میں تقسیم کروا دیا.ناصرہ جہاں حضرت عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے تھے ) کی شرعی عدالت کے قاضی طاہر طبری نے وہ کی مضمون پڑھا اور بہت خوش ہوئے.انہوں نے مجھے دعوت دی کہ آپ ناصرہ میں تشریف لائیں اور ہمیں ممنون فرمائیں.چنانچہ میں چند احمدی احباب کے ہمراہ ناصرہ گیا.قاضی صاحب نے وہاں چیدہ چیدہ بیس پچپیں علماء کو بلایا ہوا تھا.شاندار دعوت ہوئی اور تبلیغ کا موقع
مصالح العرب.....جلد اول 331 ملا.ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کے غلاموں کو مسیح ناصری کی بستی میں یہ عزت عطا فرمائی.الحمد للہ.ہیں:.تشحید الا ذہان جنوری 1978 ء صفحہ 10) تائید خداوندی کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے چوہدری محمد شریف صاحب فرماتے ” جب فلسطین میں یہودی حکومت قائم ہوئی تو فلسطین ساری دنیا سے منقطع ہو گیا.اور تمام رابطے ٹوٹ گئے.ہمیں مرکز سلسلہ سے کوئی پیسہ نہیں آ سکتا تھا.انہی دنوں میں ایک دفعہ مغرب کے بعد کسی خاص کام کے لئے جا رہا تھا کہ ایک بزرگ احمدی دوست نے میرے ہاتھ میں ساڑھے سات پونڈ تھما دئے.میں نے پوچھا کہ یہ کس لئے ؟ تو کہنے لگے آپ کے لئے ہیں.میں نے کہا اگر یہ زکوۃ، چندہ عام، تحریک جدید وغیرہ کے ہیں تو میں لے لیتا ہوں ورنہ نہیں.اس پر وہ کہنے لگے کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ آپ کو روپیہ کی ضرورت ہے.اور اگر میں آپ کی مدد نہیں کروں گا تو اللہ تعالیٰ میرے بچوں پر ابتلاء لائے گا.تو میں نے انہیں جمع کیا اور یہ خواب بتائی تو انہوں نے یہ رقم دی ہے.اس لئے یہ میں آپ کے پاس لایا ہوں.اس بزرگ کا نام الحاج احمد عبد القادر تھا اور وہ گزشتہ سال ہی فوت ہوئے ہیں“.(تلمیذ الاذہان جنوری 1978 ، صفحہ 11) تبلیغی دورے مکرم مولانا محمد شریف صاحب نے مختلف تبلیغی دورے بھی کئے اور حتی الوسع پیغام حق پہنچانے کی پوری کوشش کی.اس سلسلہ میں آپ نے مصر کا سفر اختیار کیا اور اس طرح احباب مصر کی ایک دیرینہ خواہش کو پورا فرمایا اور اس زمانہ میں نقل وحرکت پر جو پابندیاں تھیں.ان کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ کو مصر جانے کا موقع بہم پہنچایا.چنانچہ آپ وہاں گئے اور ماہ فروری 1944ء کا معتد بہ حصہ اور سارا مارچ وہیں گزرا.وہاں پہنچ کر آپ نے سب سے پہلے گزشتہ دو سال کے مالی حسابات کی پڑتال کی.اور عہدیداران جماعت کا نیا انتخاب کروا کر احباب جماعت میں کام کرنے کی نئی روح پیدا کی.آپ کی تربیت و تلقین کا یہ اثر ہوا کہ احباب مصر نے نہایت تندہی اور توجہ کے ساتھ تبلیغ سلسلہ کا کام شروع کر دیا.مصر کے حالات کا مطالعہ کرنے والے لوگ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس ملک میں تبلیغ پر ایسی شدید پابندیاں
332 مصالح العرب.....جلد اول ہیں کہ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں پبلک طور پر تبلیغ کرنے کی اجازت ہی نہیں اور اس لئے تبلیغ کا کام انفرادی ملاقاتوں اور پرائیویٹ اجتماعات تک ہی محدود ہے.چنانچہ تربیت جماعت کے ساتھ مکرم مولوی محمد شریف صاحب نے اسی واحد ذریعہ تبلیغ سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے آپ کی مساعی کو بار آور فرمایا اور چار ا حباب داخلِ سلسلہ ہوئے.(ماخوذ از الفضل 19 / دسمبر 1944 ء صفحہ 5 نبی آسکتا ہے! دورانِ قیام مصر میں ایک بلند پایہ از ہری اور حجازی شیخ سے مکرم مولوی صاحب کا ایک پرائیویٹ مناظرہ بھی ہوا جس میں بعض احمدی احباب کے علاوہ چند ایک غیر احمدی بھی موجود تھے.شیخ صاحب نے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ احمد یہ جماعت اور دوسرے اسلامی فرقوں میں بنیادی اختلاف کسی امر میں ہے.مولوی صاحب نے جواب دیا کہ مسئلہ وفات مسیح میں.مگر شیخ صاحب نے کہا کہ نہیں بنیادی اختلاف مسئلہ ختم نبوت میں ہے.مکرم مولوی صاحب نے اسی مسئلہ پر ان سے تبادلہ خیال شروع کیا.اور اپنے عقیدہ کی تائید میں قرآن مجید سے دس آیات پیش کیں.شیخ صاحب نے ان میں سے صرف ایک آیت ﴿إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ منكُمْ (الاعراف : 36) پر جرح کی اور چار گھنٹہ تک اسی پر بحث ہوتی رہی جس میں شیخ صاحب ایسے عاجز آگئے کہ کھلے الفاظ میں اعتراف کر لیا بلکہ لکھ دیا کہ عقلی طور پر اس آیت سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آئندہ بھی نبی آسکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی تائید کا مظاہرہ احباب جماعت کے لئے بہت ایمان افروز تھا.اس کے بعد شیخ صاحب ایک بہانہ تلاش کر کے تشریف لے گئے.ملخص از الفضل 19 / دسمبر 1944 ، صفحہ 5) قاہرہ میں تبلیغ احمدیت مکرم چوہدری محمد شریف صاحب اپنی ایک رپورٹ میں قاہرہ میں تبلیغ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:.وو سال رواں میں قاہرہ میں احمدیت کے خلاف بڑے زور وشور سے اخباروں میں پراپیگنڈہ ہوا.جس کی وجہ یہ تھی کہ لاہور سے دو البانوی ( پیغامی ) طالب علم عربی کی تعلیم حاصل
مصالح العرب.....جلد اول 333 دو کرنے کے لئے جامعہ ازہر میں داخل ہوئے.از ہر والوں کو علم ہو گیا کہ یہ قادیانی ہیں.جس پر ان کو ازہر سے خاص طور پر نکال دیا گیا اور شیخ الازہر نے بعض مشہور متعصب علماء کی ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی کہ احمدیت کا پورے طور پر مطالعہ کر کے رپورٹ کرے کہ کیا یہ طالب علم از ہر میں جو سنیوں کی ایک پرانی طرز کی دینی درسگاہ ہے تعلیم پا سکتے ہیں یا نہیں.جس پر اخباروں نے یہ خبریں بڑے بڑے عنوانوں سے شائع کیں.اخبار الفتح ( قاہرہ ) نے بھی جو ہمارا ایک پرانا دشمن ہے اس موقعہ کو غنیمت سمجھا اور علماء ہندوستان کے بوسیدہ فتاویٰ تکفیر ایک د مرتدوں کی مدد سے شائع کرنے شروع کئے.ہماری طرف سے بھی ان کے جواب مصر کے اخباروں میں شائع کئے گئے.اور البشریٰ میں بھی ان کا جواب دیا گیا.بذریعہ ڈاک بھی خاکسار نے شیخ الازہر اور اس کمیٹی کو رجسٹر ڈ خطوط ارسال کئے.مگر ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا.اکتوبر میں کمیٹی کی رپورٹ نے شائع ہونا تھا.مگر اب تک ان کی طرف سے کوئی رپورٹ شائع نہیں ہوئی.البتہ البشریٰ کے مضمون کے نتیجہ میں "کلیة دار العلوم، مصر کے امتحانوں میں شریک ہونے کے لئے سب طلباء کو اجازت مل گئی.خواہ وہ کسی سالانہ رپورٹ صدر انجمن 40-1939ء) ملک وملت کے ہوں.دمشق میں تبلیغ احمدیت دمشق میں تبلیغ کے متعلق چوہدری محمد شریف صاحب فرماتے ہیں:.دمشق میں بحیثیت جماعت کوئی نظام نہیں.ایک تو وہاں کی سیاسی حالت بہت خراب ہے.دوسرے ملکی قانون نہایت سخت ہیں.تیسرے علماء کی مخالفت بھی نہایت شدو مد سے ہے.پھر کوئی خاص مکان بھی جماعت کے اجتماعات کے لئے نہیں مل سکا.مگر تا ہم منیر آفندی اکھنی اور دوسرے احمدی احباب انفرادی طور پر کام کر رہے ہیں.کچھ نئے احمدی بھی اس سال وہاں ہوئے ہیں اور ماہوار چندے بھی ادا کر رہے ہیں.تحریک جدید میں بھی حصہ لے رہے ہیں.ہفتہ وار درس بھی ہوتا ہے.گزشته ماه فروری میں وہاں کے ایک بہت بڑے بارسوخ عالم نے جو تصوف کا دم بھی بھر تا ہے ہمارے ساتھ مباہلہ و مناظرہ کرنا چاہا.جب ہماری طرف سے اس کی منظوری اور شرائط و طے کرنے کا پیغام پہنچایا گیا.تو سنا ہے کہ) اس کو بعض منذر خوا ہیں آئیں.اور دوسرے
مصالح العرب.....جلد اول 334 لوگوں نے بھی اس کو ڈرایا اور کہا کہ احمدی تو شیطانوں کو مباہلہ کر کے مار لیتے ہیں.تو اس نے انکار کر دیا جس کا ہمارے زیر تبلیغ غیر احمدیوں پر اچھا اثر ہوا.“ بغداد میں تبلیغ احمدیت (سالانہ رپورٹ صدر انجمن 40-1939ء) بغداد میں تبلیغ کے متعلق چوہدری صاحب تحریر فرماتے ہیں:.’جماعت بغداد بھی ابتلا سے گزری اور گزر رہی ہے کیونکہ وہاں کی حکومت نے ارادہ کیا تھا کہ احمدیوں کو عراق سے نکال دیا جائے اور اس کے لئے مختلف تحقیقا تیں بھی شروع ہوئیں تھیں.مگر اللہ تعالیٰ کے قوی ہاتھ نے دو تین فوری نمونے اپنی قدرت کے دکھلائے جس کی وجہ سے کچھ التوا ہو گیا.مگر تاہم حکومت عراق اسی کوشش میں ہے کہ ان کو وہاں سے نکال دیا جائے لیکن باوجود اس کے وہاں کے احباب تبلیغ میں خاص حصہ لے رہے ہیں اور لٹریچر بھی تقسیم کر رہے ہیں اور چندہ میں بھی باقاعدہ ہیں.(سالانہ رپورٹ صدرانجمن 40-1939ء) نئی جماعتیں حضرت چوہدری صاحب نے مصر، شام، اردن، لبنان، اور عراق کے دورے کئے.آپ کے ذریعہ جہاں بلا د عربیہ کی پہلی جماعتوں میں اضافہ ہوا.وہاں سوڈان، حبشہ، عدن، کویت، بحرین اور شمالی افریقہ میں نئی جماعتیں قائم ہوئیں.( تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ 507) ایک اور جگہ نئی جماعتوں کے متعلق حضرت چوہدری محمد شریف صاحب فرماتے ہیں:.اگر چہ نئی جماعت تو کسی جگہ قائم نہیں ہوئی.مگر چار مقامات (صفہ.دامون.طہرہ.مراز علی ) ایسے ہیں جہاں پہلے کوئی احمدی نہ پایا جاتا تھا.مگر اب وہاں سے ایک ایک دو اصحاب بیعت کر کے داخل احمدیت ہوئے.تبلیغی میدان میں قربانیاں فلسطین انقلاب کے خاتمہ کے ساتھ ہی دوسری عالمی جنگ شروع ہوگئی.ان حالات میں جماعت کے افراد مختلف ٹولیوں کی صورت میں تبلیغ کیلئے جاتے تھے اور مختلف پمفلٹس اور عربی
335 مصالح العرب.....جلد اول و عبرانی زبانوں میں تبلیغی لٹریچر تقسیم کیا کرتے تھے.ایک دن دو احمدی نوجوان تبلیغ کی غرض سے بہائیوں کے شہر علہ میں گئے جن میں سے ایک کا نام کامل عودہ تھا.لیکن وہاں جا کر یہ دونوں جدا ہو گئے.چنانچہ کامل عودہ صاحب کو مخالفین نے گھیر لیا اور مار مار کر لہولہان کر دیا.قریب تھا کہ وہ انہیں شہید کر دیتے.لیکن انہوں نے ایک دکان میں پناہ لی اور اندر سے دروازہ بند کر لیا.لوگ دروازہ توڑ کر اندر گھنے کی کوشش میں تھے کہ وہاں پولیس آگئی جس نے لوگوں کو منتشر کیا.آپ کو سوال کی اجازت نہیں ہے! ایک دفعہ دو احمدی نوجوان حیفا میں پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے گرجے میں گئے.جہاں پادری لیکچر دے رہا تھا.لیکچر کے اختتام پر پادری نے کہا کہ اگر حاضرین میں سے کسی نے کوئی سوال پوچھنا ہو تو پوچھ سکتا ہے.اس پر ان دو احمدیوں میں سے ایک نے کھڑے ہو کر کوئی سوال پوچھا جس سے پادری کو پتہ چل گیا کہ یہ احمدی ہے.چنانچہ سوال کا جواب دینے کی بجائے اسے کہا: آپ کو سوال پوچھنے کی اجازت نہیں ہے.احمدی نے کہا کہ آپ نے حاضرین کو سوال پوچھنے کی دعوت دی ہے اور میں حاضرین میں سے ہوں.قصہ مختصر یہ کہ پادری نے سوالات سے عاجز آ کر گرجے کی روشنیاں بجھا کر سب کو اس سے نکل جانے کا کہا اور خود بھی چلتا بنا.واہ رے جوش جہالت...ایک دفعہ دو آدمی جماعت میں داخل ہوئے.ایک کا نام حمدی مقصود اور دوسرے کا نام فوزی تھا.حمدی مقصود تعلیم یافتہ شاعر اور ادیب نوجوان تھا جبکہ فوزی احمدی ہونے سے قبل بے نماز اور شرابی تھا.جب احمدی ہوا تو اس کے محلہ کے مولوی اس کے پیچھے پڑ گئے.فوزی نے انہیں کہا کہ جب میں بے نماز تھا اور شراب پیتا تھا تب تو آپ کو مجھ سے کوئی گلہ نہ تھا نہ میری زندگی پر کوئی اعتراض.اب جبکہ میں نے وہ سب کچھ چھوڑ دیا ہے تو تم میرے پیچھے پڑ گئے ہو.اس پر احمدیت کی اندھا دھند مخالفت کرنے والے ان مولویوں نے جواب دیا کہ قادیانی ہونے سے تو بہتر ہے کہ تم اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ آؤ.چنانچہ یہ بد نصیب احمدیت چھوڑ کر اپنی پہلی ڈگر پر واپس آ گیا، جبکہ حمدی مقصود صاحب قائم رہے اور آپ کے بعض
مصالح العرب.....جلد اول قصائد مجلّہ البشری میں نشر بھی ہوئے.با ادب با نصیب 336 مکرم طلا قزق صاحب صدر جماعت اردن نے شاید چالیس کی دہائی میں بیت المقدس راقصیٰ کی سیر کی.وہاں پیش آنے والے ایک واقعہ کے بارہ میں وہ لکھتے ہیں کہ وہاں ایک شخص سے ملاقات ہوئی جس کا خاندان صدیوں سے مسجد اقصیٰ کا کلید بردار تھا.یہ لوگوں کو مسجد اقصیٰ کی سیر کرواتے تھے اور مختلف مقامات کے بارہ میں بتاتے تھے.باتوں ہاتوں میں پتہ چلا کہ وہ احمدی ہے لیکن اس نے یہ بات چھپائی ہوئی ہے.اس نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی زیارت بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے موقعہ پر پیش آنے والا ایک واقعہ بیان کیا کہ جب حضور تشریف لائے تو مسجد میں کام کرنے والے تمام مشائخ کرام اور دیگر خادم حضرات کے ساتھ مسجد کے مختلف مقامات کی سیر کی.بعد ازاں حضور تو اپنے ہوٹل میں تشریف لے گئے لیکن چونکہ کسی کو کچھ عطا نہ فرمایا جس کی وجہ سے بعض لوگوں نے آپ کے متعلق نا مناسب الفاظ کہے، بعض نے کچھ نہ کہا ، اور بعض نے اس کے باوجود آپ کی تعریف ہی کی.اگلے دن حضور نے ان میں سے ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ لفافوں میں کچھ نقدی بھجوائی اور عجیب بات یہ ہوئی کہ جس نے نامناسب الفاظ کہے تھے اس کو سب سے کم رقم ملی جبکہ جس نے خاموشی اختیار کی اس کو پہلے سے زیادہ اور جس نے حضور کی تعریف کی تھی اس کا حصہ سب سے زیادہ تھا.وہ شخص کہنے لگا کہ میں حضور کی تعریف کرنے والوں میں شامل تھا.استجابت دعا کا حیرت انگیز واقعہ محترم سید عبدالحی صاحب ناظر اشاعت حضرت چوہدری صاحب کی قبولیت دعا کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.ایک دفعہ میں نے چوہدری محمد شریف صاحب سے عرض کیا کہ عام طور پر لوگوں میں یہودیوں کے بارے میں نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں.آپ ان میں موجود رہے ہیں.آپ کا کیا خیال ہے؟ اس پر انہوں نے مجھے ایک واقعہ بتایا کہ ایک دفعہ حیفا میں میں بیمار ہو گیا.ہسپتال میں لے جایا گیا.ہسپتال والوں کا Treatment بہت لمبا تھا اس لئے تجویز
مصالح العرب.....جلد اول 337 ہوا کہ کوئی ڈاکٹر گھر پر ہی علاج کریں.چنانچہ ایک جرمن نژاد یہودی میرے علاج پر مقرر ہوا.اور وہ یہودی ڈاکٹر مسلسل میرے گھر میں آتا رہا.حتی کہ جب برف باری بڑھ گئی تب بھی وہ میرے گھر آتا رہا.اس ڈاکٹر کے ہاں 18 سال قبل ایک بچی ہوئی تھی اور اس کے بعد کوئی اولا دنہ ہوئی.ڈاکٹر نے تو اس بات کا میرے سامنے ذکر نہ کیا.لیکن میرے دل میں اس ہمدرد ڈاکٹر کے لئے خاص رحم دلی پیدا ہوئی اور میں نے اس کے لئے اولاد کی دعا کی.اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ اس کے ہاں بیٹا ہوگا.چنانچہ میں نے ڈاکٹر کو بتایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ تیرے ہاں اس سال میں ایک بیٹا ہوگا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کو 18 سال بعد بیٹا فرمایا.یہودی طریق کے مطابق ساتویں دن بچے کے ختنے اور نام وغیرہ کی رسومات ادا کی جاتی ہیں.اس ڈاکٹر نے اس دن اپنے بہت سے عزیزوں اور دوسرے لوگوں کو جن میں مذہبی علماء بھی تھے بلوایا اور مجھے اس دن خاص طور پر آنے کی دعوت دی.جب میں اس ڈاکٹر کے گھر گیا تو تمام یہودی مجھے دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ مسلمان یہاں کیا لینے آ گیا ہے.کیونکہ یہودی مسلمانوں سے خاصی منافرت رکھتے ہیں اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ یہ کس تعلق میں یہاں کی آئے ہیں.ڈاکٹر صاحب نے سب کچھ بتایا کہ ان کی دعا سے ہی میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے.اس لئے میں ان کو دعوت دے کر سب سے زیادہ خوشی محسوس کر رہا ہوں.اس لئے چوہدری صاحب نے بتایا کہ سارے یہودی ایک جیسے نہیں ہوتے ان میں کچھ شرفاء بھی ہوتے ہیں.اس واقعہ سے بھی چوہدری صاحب کے مستجاب الدعوات ہونے کا ثبوت ملتا ہے.الہی مدد ونصرت جب 1945ء میں اسرائیل قائم کیا گیا تو وہاں پر آپ نے یاکسی اور نے خواب دیکھا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ آسمان پر پرواز کر رہے ہیں اور کہا بیر کے گاؤں کے گردگھوم رہے ہیں اور تسلی دے رہے ہیں کہ گھبراؤ نہیں.اس سے احمدیوں نے یہ یقین کر لیا کہ کبابیر محفوظ رہے گا اور کوئی تکلیف نہیں ہوگی اور احمدی بھی محفوظ رہیں گے.چوہدری صاحب نے بہت کوشش کی کہ کوئی آدمی وہاں سے ہجرت نہ کرے لیکن بعض احمدی نوجوان گھبرا کر وہاں سے چلے گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید و نصرت فرمائی اور کہا بیر میں جتنے بھی
مصالح العرب.....جلد اول 338 احمدی موجود تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر ایک شر سے بچایا.یہ حضرت چوہدری صاحب کی عاجزانہ دعاؤں کا نتیجہ تھا.جب اسرائیل کی حکومت قائم ہوگئی تو حکومت نے عام اعلان کیا کہ تمام لوگ ہر قسم کا اسلحہ حکومت کو جمع کروا دیں اور حکومت گھر گھر جا کر تلاشی بھی لے رہی تھی.اس وقت بعض احمدیوں نے سوچا کہ اسلحہ کے ذریعے ہماری حفاظت ہوگی.چوہدری صاحب نے فرمایا کہ مزید اسلحہ نہ خریدا جائے اور جو ہے اس کو واپس کر دیا جائے.اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کرے گا.اس کے باوجود بعض احمدیوں نے کچھ اسلحہ تہہ خانہ میں دبا دیا.چوہدری صاحب جب فجر کی نماز کے لئے تشریف لائے تو بڑے مسکرا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ دیکھو یہاں تہہ خانے میں آپ لوگوں نے اسلحہ چھپارکھا ہے.سب احمدی حیران ہوئے کہ ان کو کیسے پتہ چل گیا.چنانچہ وہ اسلحہ بھی حکومت کو واپس کر دیا گیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید و نصرت فرما کر تمام احمدی جماعت کو آنے والے شر سے جو خود احمدیوں کے ذریعے ہی پیدا ہونے والا تھا بچالیا.رشدی بسطی صاحب اور ان کا اخلاص رشدی بسطی صاحب اس عرصہ کے نہایت مخلص، عالم اور اچھا لکھنے والے دوست تھے.ان کے کئی مضامین البشری کی زینت بنے.ازاں بعد انہوں نے لمبے عرصہ تک جماعت کے صدر کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں.جب فلسطین کی تقسیم ہو گئی تو کئی احمدی وقتی طور پر ہجرت کر کے شام کے علاقوں میں آگئے تھے.شام کی حکومت کی طرف سے فلسطینی مہاجروں کو ماہوار معمولی رقم ملتی تھی.اس معمولی رقم کے حصول کے لئے بعض اچھے رکھ رکھاؤ والے افراد بھی قطار میں کھڑے نظر آتے تھے.ایسی صورتحال میں اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو قطاروں میں کھڑے ہونے سے اس طرح بچا لیا کہ مکرم رشدی بسطی صاحب کی ایک اہلیہ کا تعلق اس وقت کے شام کے صدر ادیب الشیش کلی کے خاندان سے تھا بلکہ ان کا بھائی اس امدادی رقم کی تقسیم کا نگران تھا.چنانچہ مکرم رشدی بسطی صاحب ہر ماہ تمام احمدیوں کو اپنے گھر پر بلاتے اور چائے پیش فرمانے کے بعد حکومت کی طرف سے امدادی رقم پر مشتمل مہر بند لفافہ ہر ایک کے حوالے کر دیتے.
مصالح العرب.....جلد اول حضرت مصلح موعود کی دعا کا اعجاز 339 مکرم رشدی بسطی صاحب نے دو شادیاں کیں لیکن اولاد کی نعمت سے محروم تھے.چنانچہ اولاد کے حصول کی خواہش میں انہوں نے تیسری شادی کی اور ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کے لئے بھی لکھا.حضور کی دعا کا اعجاز یوں ظاہر ہوا کہ انکی بیوی امید سے ہو گئیں.چنانچہ انہوں نے حضور کی خدمت میں بچہ یا بچی کے نام رکھنے کی درخواست کی.لیکن حضور کی طرف سے صرف لڑکی کا نام ہی آیا.یہ بات سب کے لئے حیران کن تھی لیکن اس وقت سب کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب ان کے ہاں بچی کی ہی ولادت ہوئی.پھر ان کے ہاں دوسرے بچے کی پیدائش متوقع ہوئی تو انہوں نے دوبارہ حضور کی خدمت میں نام عطا فرمانے کے لئے درخواست کی.چنانچہ اس دفعہ بھی ایک ہی نام آیا جو کہ لڑکی کا تھا اور لڑکی ہی پیدا ہوئی.تیسری دفعہ ان کو صرف لڑکے کا نام موصول ہوا اور لڑکے کی ہی پیدائش ہوئی.یوں ان کے ہاں شاید چھ بچوں کی پیدائش ہوئی.چوہدری محمد شریف صاحب کی قابل قدر خدمات خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے عہد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کو ہی اکناف عالم میں نہیں پہنچایا بلکہ نہایت مخلص اور احمدیت کے شیدائی جماعت میں داخل کئے.ذیل میں ڈاکٹر محمد رمضان صاحب کا ایک خط درج کیا جا رہا ہے.جو انہوں نے جنگلی خدمات کے دوران چند دن کی جارہا رخصت لے کر فلسطین جانے کے بعد وہاں کی جماعت احمدیہ کے متعلق لکھا اور جس میں اختصار کے ساتھ نہایت ہی خوشکن اور ایمان افروز حالات درج کئے اور احمدی احباب کے قابل رشک اخلاص و تقویٰ اور مبلغ فلسطین چوہدری محمد شریف صاحب کی قابل قدر خدمات کا ذکر فرمایا.ڈاکٹر صاحب موصوف لکھتے ہیں:.سیدی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاننہ.پچھلے ماہ میں دو ہفتہ کی رخصت پر فلسطین اور شام گیا.اس عرصہ میں میرا زیادہ تر قیام چوہدری محمد شریف صاحب کے پاس رہا.کہا بیر ، حیفا اور دمشق کے احمدی احباب سے مل کر مجھے ان
340 مصالح العرب.....جلد اول کے اخلاص اور تقویٰ کی وجہ سے از حد خوشی حاصل ہوئی.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کرام میں پھر رہا ہوں.کہا بیر میں وہاں اور حیفا کے دوستوں نے اپنے تعلق باللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضور اور احمدی بھائیوں کے ساتھ اپنی والہانہ محبت کے مظاہروں اور دوسروں کی بے غرضانہ خدمت سے جنتی زندگی کا نمونہ بنا رکھا ہے.اس جنتی زندگی کے بنانے میں ہماری وہاں کی احمدی بہنوں اور ان کے بچے بچیوں کا بھی بہت دخل ہے.یہ سب مل کر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں.ہر وقت السلام علیکم.اھلا و سھلا اور احمدی بھائیوں کے ایک دوسرے سے گلنے ملنے کے خوش آئند منظر سے خدا یاد آ جاتا ہے.ہمارے یہ مخلص احمدی بھائی جس طریق سے ہماری آؤ بھگت کرتے ہیں.ضیف کرام کے فرائض سرانجام دیتے ہیں.ہمارے بوجھ اٹھاتے اور بطیب خاطر و اصرار سے ہم پر خرچ کرتے ہیں وہ ایک نہ ٹلنے والا نقش دلوں پوچھوڑ جاتا ہے.چوہدری محمد شریف صاحب جو حضور کے ارشاد کے ماتحت اپنے عملی نمونہ اور شبانہ روز کی شدید محنت سے احقاق حق اور احمدی افراد کی تربیت میں مشغول ہیں نے تو اپنے اخلاص اور محبت کی حد کر دی.چوہدری صاحب جس ایثار قربانی اور جن حالات کے ماتحت سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت کر رہے ہیں وہ بذات خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پر دال ہے.چوہدری محمد شریف صاحب تبلیغ و تربیت کرتے اور کراتے ہیں.خطوط کے جواب دیتے ہیں.مہمانوں کی نہایت خندہ پیشانی اور محبت سے تواضع کرتے ہیں.اور ہر ممکن طریق سے ان کی خدمت بجا لاتے ہیں.پریس میں خود کام کرتے ہیں.میری موجودگی میں انہوں نے یوم التبلیغ کے لئے اشتہارات چھاپنے میں ایک ساری رات خرچ کر دی.سکول میں بھی چھ گھنٹے ان کے روازنہ خرچ ہو جاتے ہیں.علاوہ ازیں اپنی اہلیہ کی وفات کے بعد اکثر خانگی امور انہیں خود سرانجام دینے پڑتے ہیں.ان حالات کے ماتحت میرے خیال میں انہیں ایک معاون کی اشد ضرورت ہے.دمشق میں برادرم منیر اکھنی صاحب بھی اعلیٰ طور پر اپنے آپ کو اعلیٰ صفات کا مصداق ثابت کر رہے ہیں اور سب کچھ فراموش کر رہے.احمدیت کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کا حافظ و ناصر اور ان پر اپنے افضال کی بارش کرے.آمین خاکسار ڈاکٹر محمد رمضان.“ الفضل 25 جون 1944 صفحه 4
مصالح العرب.....جلد اول سب سے زیادہ خدمت مکرم چوہدری محمد شریف صاحب بیان فرماتے ہیں: 341 ”جب مجھے بلا د عر بیہ میں دو تین سال ہو گئے تو میں نے یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے یہاں اس قدر عرصہ خدمت سلسلہ کے لئے عطا فرمائے کہ مجھ سے پہلے کسی مبلغ کو اس قدرعرصہ یہاں نہ ملا ہو.چنانچہ خدائے عظیم و برتر نے میری یہ دعا قبول فرمائی اور مجھے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب رضوان اللہ علیہم کے مجموعی عرصہ سے بھی زیادہ خدمت کی توفیق دی اور مسلسل 18 سال تک فلسطین میں اقامت کا موقع عطا فر مایا.الحمد للہ.(تحمید الا ذہان جنوری 1978ء صفحہ 11) مرکز میں واپسی مکرم چوہدری محمد شریف صاحب دسمبر 1955ء میں بلا د عربیہ سے واپس تشریف لے آئے.آپ بلاد عربیہ میں تقریباً 18 سال سلسلہ کی خدمت کرتے رہے.اور آپ بلاد عر بیہ میں سب سے زیادہ عرصہ کام کرنے والے پہلے مبلغ تھے.آپ کی واپسی پر صدرانجمن قادیان کے ماتحت فلسطین مشن میں مولوی جلال الدین صاحب قمر انچارج مقرر ہوئے.بلا د عر بیہ میں دوبارہ درود یہاں یہ بھی ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ مولانا محمد شریف صاحب کو جب تبلیغ احمدیت کے لئے گیمبیا بھجوایا گیا تو آپ نے اس سفر کے دوران بیروت میں کچھ دنوں کے لئے قیام فرمایا جس میں آپ نے ایک دفعہ پھر بلاد عربیہ کے بعض علاقوں کا دورہ کیا اور پرانے اور نئے احمدی احباب سے ملاقات کی.ان ایام کی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں: لبنان کے احمدیوں کا اخلاص میں نے برادرانِ جماعت احمد یہ لبنان کو ربوہ اور کراچی سے بذریعہ خط اطلاع کر دی تھی
342 مصالح العرب.....جلد اول کہ میں 19 فروری کو پی آئی اے کے جہاز میں ان کے پاس بیروت پہنچوں گا.الحمد للہ کہ میرے خطوط ان کو وقت پر مل گئے اور ہوائی جہاز کے بیروت میں پہنچنے کے وقت پر ہوائی متنعقر میں میرے استقبال کے لئے مخدومی و سمی مرزا جمال احمد صاحب، برادران الشیخ عبدالرحمن السعیفان، ابو توفیق محمد الصفدی، ابوعلی الد الاتی اور محمد الد رخبانی موجود تھے.ہمارا جہاز بوجہ خرابی اصل وقت مقررہ سے چار گھنٹے دیر سے پہنچا لیکن یہ برادران کرام (جوسب سوائے برادرم محمد الدر خبانی کے مجھ سے عمر میں بڑے ہیں ) فرط محبت کی وجہ سے اپنے گھروں کو واپس نہ گئے بلکہ وہاں ہی اس قدر لمبا عرصہ میرے انتظار میں رہے اور بڑی خوشی اور محبت سے مجھے اهلا وسهلا و مرحبا کہا اور بہت عزت افزائی کی.تمنا بر آئی الفضل 25 جولائی 1983 ء صفحہ 3) برادرم الشیخ عبدالرحمن السعیفان نے اپنے قصبہ بر جا میں جو بیروت سے انداز انہیں میں جانب جنوب سمندر کے کنارہ اور پہاڑ کی چوٹی پر کہا بیر فلسطین کی طرح واقع ہے ایک دن پُر تکلف دعوت بھی کی.جس میں بہت سے معززین قصبہ مدعو تھے.برادرم ابو توفیق محمد الصفدی، برادرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی سابق مبلغ لبنان و شام و اردن کو ( ان کے لبنان میں اقامت کے ایام میں ) قسم کھا کر کہا کرتے تھے کہ میں مروں گا نہیں جب تک کہ اپنے مبلغ چوہدری محمد شریف کو دیکھ نہ لوں.آج ان کی یہ تمنا پوری ہو رہی تھی.اور فَالَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا ( آل عمران: 103 ) کی تصدیق ہو رہی تھی اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان بڑھ رہا تھا.الفضل 25 جولائی 1983 صفحہ 3) شام میں لبنان سے شام کو چلا گیا.وہاں برادرم منیر الحصنی صاحب کے مکان پر ٹھہرا.اور ان کے حسن ضیافت اور للہی محبت سے متمتع ہوا.ان کی اہلیہ صاحبہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو جانے کی توفیق عطا فرمائی.سب احباب جماعت شام سے ملاقات ہوئی.انقلاب فلسطین کے بعد میرا دمشق میں پہلی دفعہ جانا ہوا تھا اور ایسا یکدم تھا
343 مصالح العرب.....جلد اول که بعض احباب دریافت کرتے تھے کہ کیا آپ سچ مچ ہمیں اس دنیا میں مل گئے ہیں یا ہم کی عالم خواب میں ہیں ؟ چند دوستوں نے لبنان میں اور چند احباب نے شام میں بھی کہا کہ ہم مرکز کو تار دیتے ہیں کہ آپ یہاں ہمارے ملک میں ہی ٹھہریں.آپ کا افریقہ سے کیا کام؟ میں نے کہا یہ غلطی ہرگز نہ کریں اور مجھے نادانستہ نقصان نہ پہنچا ئیں.سب برکتیں اطاعت میں ہیں اور ہماری جماعت کی کامیابی کا راز اطاعت میں ہے.جہاں اللہ تعالیٰ کی مشیت لے جائے وہی ہمارا اصل مقام ہے اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ انہوں نے اس نکتہ کو فوراً سمجھ لیا اور مجھے ان کے ساتھ زیادہ سر در دی نہ کرنی پڑی.(الفضل 25 جولائی 1983 صفحہ 3) دو مبلغین کی آمد مولا نا محمد شریف صاحب کے بلاد عر بیہ میں قیام کے دوران دو مبلغین کرام مکرم شیخ نوراحمد صاحب منیر اور مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی بلاد عربیہ میں تشریف لائے.جنہوں نے مولانامحمد شریف صاحب کے ساتھ مل کر اور آپ کے زیر نگرانی مختلف بلا دعر بیہ میں گرانقدر خدمات سرانجام دیں.جناب شیخ نور احمد صاحب منیر 3/ ذوالحجہ 1346ھ کو حیفا پہنچے جبکہ مکرم مولوی رشید احمد چغتائی صاحب 28 محرم 1368ھ کو حیفا تشریف لائے.مکرم شیخ نور احمد منیر صاحب چند ماہ فلسطین میں فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد 17 ستمبر 1946ء کو شام میں آگئے اور جماعت احمد یہ شام کو بیدار کرنے کے علاوہ اس ملک کے اونچے طبقہ تک پیغام احمدیت پہنچایا اور ملکی پریس کے ذریعہ عوامی حلقوں کو بھی جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں سے روشناس کرایا.پھر آپ ہی کے قیام شام کے دوران فلسطینی احمدی نہایت بے سروسامانی کی حالت میں دمشق میں پناہ گزیں ہوئے جن کی آباد کاری کا انتظام بھی آپ نے اور مکرم منیر اکھنی صاحب کے ساتھ مل کر کیا.اس سلسہ میں جماعت احمد یہ دمشق نے بہت اخلاص اور ہمدردی کا نمونہ دکھایا اور احمدی مہاجرین کی خصوصا اور دوسرے مہاجرین کی عموما ہر ممکن امداد کی.آپ گرانقدر خدمات کے بعد 17 / دسمبر 1949ء کو مرکز میں واپس آگئے.مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کے فلسطین میں پہنچنے کے ایک سال بعد چونکہ فلسطین کی
مصالح العرب.....جلد اول 344 صورت حال بہت نازک ہو گئی تھی.اس لئے چوہدری محمد شریف صاحب نے انہیں 3 مارچ کی 1948ء کو اردن میں نیا مشن قائم کرنے کے لئے بھجوا دیا.( تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 530) حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ انچارج کے اس بر وقت اقدام کی تعریف اور السید منیر اکھنی اور شیخ نور احمد صاحب منیر کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:.مشرقی پنجاب پر جیسے تباہی آئی ویسے ہی یہودیوں کے حملہ کی وجہ سے فلسطین پر آئی ہے اور خطرناک جگہ وہی تھی جہاں ہماری جماعت تھی.حیفا کی جماعت کا کچھ حصہ فسادات سے پہلے ہی دمشق چلا گیا تھا.باقیوں کے متعلق کوئی اطلاع نہیں آئی.چوہدری محمد شریف صاحب نے جو وہاں کے مشنری انچارج تھے وقت کی نزاکت سمجھتے ہوئے بڑی ہوشیاری سے کام کیا اور اپنا ایک مبلغ شرق اردن بھجوادیا اور اسے ہدایت کی کہ پتہ نہیں ہمارا کیا حال ہو تم وہاں جا کر نیا مرکز بنانے کی کوشش کرو.گویا انہوں نے وہی تدبیر اختیار کی جو ہم نے قادیان سے نکلنے کے وقت اختیار کی تھی اور اپنا ایک ساتھی شرق اردن میں بھجوا دیا شام میں کسی وقت ہمارے مبلغ گئے تھے لیکن کافی عرصہ سے یہ میدان خالی پڑا تھا.تحریک جدید کے ماتحت شیخ نور احمد صاحب کو وہاں بھیجا گیا ان کے ذریعہ جماعت میں ایک خاص بیداری پیدا ہو رہی ہے.وہاں کے دوست منیر احصنی صاحب مقامی احمدی ہیں جو کہ نہایت ہی مخلص اور اچھے تعلیم یافتہ ہیں.انہوں نے یورپ میں فرانس وغیرہ میں تعلیم حاصل کی ہے.وہ آسودہ حال اور تاجر ہیں اور ان کے ایک بھائی کی قاہرہ (مصر) میں ایک بڑی دکان ہے.ان کے خاندان کے سب افراد احمدی ہو گئے ہیں اور بہت مخلص اور قربانی کرنے والے لوگ ہیں.ہمارے مبلغ کے وہاں جانے کی وجہ سے اور برادرم منیر اکھنی صاحب کے قادیان میں رہ جانے کی وجہ سے وہاں کی جماعت میں ایک خاص احساس اور بیداری پیدا ہو چکی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھا اثر پیدا ہوا ہے.الفضل 5 / دسمبر 1948 ء صفحہ 3 ، تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 530-531 مکرم رشید احمد چغتائی صاحب نے اردن میں 17 جولائی 1949 ء تک تبلیغی فرائض ادا کئے.ازاں بعد آپ دمشق میں آگئے.اور کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد لبنان مشن کی بنیاد رکھی اور 22 دسمبر 1951ء کو مرکز (ربوہ) میں پہنچے.ملخص از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحه 530 )
مکرم مولانامحمد شریف صاحب اور مکرم منیر الصنی صاحب مکرم مولا نا محمد شریف صاحب، مکرم طه قزق صاحب اور مکرم عطاء المجیب راشد صاحب
کرسیوں پر : عبدالرؤف الحصنی ،مصطفی نو یلاتی علی پک ارناؤوط، چوہدری محمد شریف، منیر احصنی شفیق شبیب - کھڑے ہوئے: علاء الدین نویلاتی ممدوح الدر کشلی ، محمد الحصنی ، انور ارناؤوط، حمدی زکی ، مسلم السیر ،وان، ابو صلاح نویلاتی، ابن علی ارناؤوط، موفق سلطان، عبد اللطیف الیافی ، طریف شبیب 45 41 38 40 39 37 35 34 31 30 36 33 17 19 20 21 22 18 16 12 11 14 13 15 9 7 25 26 54 62 61 60 59 58 56 53 52 57 55 51 50 49 48 مولانا محمد شریف صاحب کی کہا بیر سے واپسی کے موقعہ احباب جماعت کے ساتھ مسجد سید نامحمود کے سامنے ایک یادگار تصویر
مصالح العرب.....جلد اول 345 عظیم الشان تاریخی اہمیت کے حامل واقعات مکرم مولا نا چوہدری محمد شریف صاحب کے تبلیغی جہاد کے عرصہ میں ہی بعض ایسے واقعات بھی ظہور پذیر ہوئے جن کا جماعتی سطح پر خصوصا اور اسلامی اور عالمی سطح پر رس اثر محسوس ہوا اور ہو رہا ہے.ان میں سے بعض کا تذکرہ کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا.مدیہ رابطہ اسلامیہ کی قادیان تشریف آوری وسط اپریل 1939 ء میں عالم اسلام کے دو مشہور عالم قادیان کی شہرت سن کر مرکز احمدیت میں تشریف لائے.۱.حاجی موسی جار اللہ ۲.الاستاذ عبد العزیز ادیب مدیر ماہنامہ رابطہ اسلامیہ دمشق.ان میں علامہ موسیٰ جار اللہ جو کہ روسی ترک عالم تھے اور عربی زبان پر عبور رکھتے تھے جماعت کے عقائد و تعلیمات سے بہت متاثر ہو کر گئے اور تین سال بعد اپنی کتاب ”اوائل السور میں فیضان نبوت اور معراج کے بارہ میں جماعت احمدیہ کے نظریہ کی تائید کی.نظام نو اور عباس محمود عقاد کی مدح سرائی تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 619) چالیس کی دہائی میں جب دنیا ابھی دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں سے نبرد آزما تھی.ایسے حالات میں 1942 ء کے جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ”نظام نو کے عنوان سے ایک معرکۃ الآراء خطاب فرمایا جس میں مختلف دینی اور سیاسی نظاموں پر مفصل تبصرہ کرتے ہوئے اسلامی نظام کا غربت اور فقر اور مایوسی کی کیفیات
مصالح العرب.....جلد اول 346 سے نکالنے پر قادر ہونا اور جملہ مشکلات کا واحد کارآمد حل ہونا ثابت کیا.بعد میں جب یہ عظیم الشان خطاب انگریزی میں ترجمہ ہو کر دنیا میں نشر ہوا تو اس کی ایک کاپی مصر کے مشہور و معروف ادیب عباس محمود عقاد تک بھی پہنچی جسے پڑھ کر انہوں نے اس پر ریویو لکھا جس میں کتاب کے خلاصہ کے علاوہ مؤلف کے تبحر علمی کا بھی اعتراف کیا.واضح رہے کہ عباس محمود عقا دسو سے زیادہ کتابوں کے مؤلف ، قادر الکلام شاعر ادیب اور عربی ادب کے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں.یہاں پر ان کے ریویو میں سے ایک اقتباس بطور نمونہ پیش ہے، لکھتے ہیں: مطالعة هذا الخطاب أن صاحبه يوجه النظام العالمي إلى حل مشكلة الفقر أو مشكلة الثروة وتوزيعها بين أمم العالم وأفراده وأنه بغير شك على اطلاع واف محيط بالأنظمة الحديثة التي عولجت بها هذه المشكلة يبدو من (مجلة "الرسالة" شمارہ 699 تاریخ اول محرم 1366ھ ) یعنی اس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مؤلف عالمی نظام کو غربت کے مسئلہ کے حل کی طرف راہنمائی کرتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ مؤلف دولت کی اقوام عالم کے مابین تقسیم کے مسئلہ کا حل پیش کرتا ہے اور اس بات میں کچھ شک نہیں ہے کہ مؤلف ان تمام نئے نظاموں سے بخوبی واقفیت رکھتا ہے جن کے ذریعہ اس مشکل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی ہے.
مصالح العرب.....جلد اول 347 سیرالیون میں مقیم لبنانی احمدیوں کا ذکر خیر مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کے حوالے سے لبنانی احمدیوں کا ذکر ہوا تو یہاں پر سیرالیون میں مقیم بعض لبنانی احمدیوں کا بھی ذکر کرتے چلتے ہیں.روح پرور یادیں میں مکرم مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری سابق مبلغ انچارج سیرالیون کی زبانی دو مخلص لبنانی احمدیوں کا ذکر درج ہے جو معمولی تصرف کے ساتھ نظر قارئین کیا جاتا ہے.مکرم سید حسن محمد ابراہیم الحسینی مرحوم مکرم سید حسن محمد ابراہیم احسینی مرحوم سیرالیون کی جماعت کے ایک نہایت مخلص اور عالم دین رکن تھے.حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں مثالی تعلق محبت و عشق تھا.اور سلسلہ احمدیہ سے والہانہ عقیدت رکھنے والے لبنانی عرب دوست تھے.سیرالیون میں جہاں احمدیت کا پیغام پہنچانے میں الحاج مولانا نذیر احمد علی مرحوم کو خاص توفیق ملی وہاں مقامی طور پر احمدیت کی تبلیغ واشاعت کے سلسلہ میں سید حسن مرحوم کی کوششیں بھی نا قابل فراموش ہیں.سید حسن مرحوم 1927 میں لبنان سے سیرالیون جا کر تجارت وغیرہ کرنے لگے.سیرالیون میں احمدیہ مشن کھلنے سے بہت پہلے ہی مرحوم کو بعض عربی اور انگریزی رسائل کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا علم ہو چکا تھا.اور وہ اس کوشش میں تھے کہ کسی ذریعہ سے انہیں اس بارہ میں تفصیلی معلومات حاصل ہوں.چنانچہ 1937 میں جب حضرت مولانا نذیر احمد علی مرحوم سیرالیون میں باقاعدہ احمد یہ مشن کھولنے کیلئے تشریف لے گئے تو اس وقت سید حسن مرحوم سیرالیون کے جنوبی صوبہ کے ایک گاؤں باؤما ہوں میں کاروبار کرتے تھے.
مصالح العرب.....جلد اول 348 گاؤں اس وقت سونے کی کانوں کی وجہ سے تجارت کا مرکز تھا.جب سید حسن صاحب کو الحاج مولا نا علی مرحوم کی آمد کا علم ہوا تو انہوں نے فورا مولانا مرحوم کو دباؤ کا ہوں آنے کی دعوت دی جس پر مولانا مرحوم وہاں تشریف لے گئے اور ان کی تبلیغ سے نہ صرف حسن صاحب نے احمدیت قبول کر لی بلکہ کثیر تعداد میں افریقن لوگ بھی بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہو گئے.قبول احمدیت کے بعد سید حسن مرحوم کی ان کے ہم وطن لبنانی تاجروں کی طرف سے شدید مخالف شروع ہوگئی مگر آپ کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی بلکہ آپ ایمان کی مضبوطی اور اخلاص و قربانی میں ترقی کرتے چلے گئے اور اپنے لبنانی ہموطنوں اور دیگر عرب تاجروں میں شب وروز تبلیغ کرنے لگے جس کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے آپ دو اور لبنانی خاندانوں کو احمدیت کی آغوش میں لانے میں کامیاب ہو گئے.یعنی سید امین خلیل سکیکی مرحوم اور سید محمد حدرج صاحب کے خاندان.مکرم سید محمد حدرج اور انکی اولا د خدا تعالیٰ کے فضل سے اب جماعت احمدیہ سیرالیون کے خاص اور فدائی ممبران میں شمار ہوتے ہیں.مبلغین کرام سے ان کا تعاون اور محبت اور مرکز سے ان کی عقیدت دیکھ کر طبیعت باغ باغ ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں اور انکی اولا دکو صحت و سلامتی سے رکھے اور اخلاص میں ترقی دے.آمین.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کی مدح میں عربی قصیدہ سید حسن ابراہیم مرحوم جب تک زندہ رہے نظام سلسلہ کی پابندی، خلیفہ وقت کی اطاعت اور مبلغین کرام سے تعاون اور ان کی خدمت کرنے کو اپنا فرض سمجھتے رہے.خلیفہ وقت کی زیارت کے لئے مرکز سلسلہ میں آرنے کے لئے بے تاب رہتے تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کی دعائیں سنیں اور سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ 1970 میں مغربی افریقہ کے دورہ پر تشریف لے گئے اس موقعہ پر سید حسن صاحب نے حضور کی مدح میں ایک عربی قصیدہ کہا اور حضور کی موجود میں خود اجلاس عام میں پڑھ کر سنایا.قصیدہ پڑھتے وقت ان پر ایسی رقت کی کیفیت طاری تھی کہ گویا وہ عشق و محبت کی کوئی واردات بیان کر رہے ہیں.جنوری 1971 میں وہ کچھ عرصہ کے لئے لبنان چلے گئے کیونکہ انکے تین بچے وہاں زیر تعلیم تھے.لبنان سے وہ ربوہ (پاکستان) جانے کا ارادہ رکھتے تھے تا کہ اپنی بقیہ زندگی وقف کر کے اپنے آپ کو حضور کی خدمت میں پیش کر دیں مگر زندگی نے وفا نہ کی اور آپ لبنان میں اپنے
349 مصالح العرب.....جلد اول گاؤں میں مختصر علالت کے بعد مارچ 1972 میں وفات پاگئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.اللہ تعالی انکے درجات بلند کرے اور انہیں اپنی رحمتوں بھری جنت نصیب کرے.آمین.مکرم سید امین خلیل سلیکی مرحوم سید امین خلیل سکیکی مرحوم بھی سیرالیون احمد یہ جماعت کے ایک نہایت مخلص فدائی اور جان نثار احمدی تھے.یوں تو مرحوم کو سلسلہ عالیہ احمدیہ سے دیرینہ محبت وعقیدت تھی اور وہ وقتاً فوقتاً احمد یہ مشن کی اعانت فرماتے رہتے تھے مگر سلسلہ میں باقاعدہ طور پر دسمبر 1946ء میں داخل ہوئے.اس کے بعد قربانی ایثار اور اخلاص کا وہ اعلیٰ درجہ کا نمونہ پیش کیا جس کی مثال بہت کم دیکھنے میں آتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ذکر پر فرط محبت سے بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے.آپ فی الواقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام : یصلون عليك أبدال الشام کے مصداق تھے.سیرالیون احمد یہ مشن کے ابتدائی مشکل اوقات میں آپ اکثر مالی امداد فرماتے رہے، مبلغین سے محبت اور خندہ پیشانی سے پیش آنا ان کا خاصہ تھا.جب بھی ان کے ہاں جانا ہوا انہیں یہی کہتے سنا کہ میرا گھر مجاہدین احمدیت کے لئے وقف ہے اور انکی خدمت میرے لئے عین سعادت ہے.انہیں یہ بھی شدید خواہش تھی کہ ان کی اولاد بھی خادم سلسلہ عالیہ احمد یہ ہواور ان کے دلوں میں اسلام اور احمدیت کی محبت گھر کر جائے.چنانچہ انہوں نے اپنے ایک بیٹے عزیز علی امین کو چھوٹی عمر میں ہی تعلیم کی غرض سے ربوہ بھیجوا دیا.بچہ کی معجزانہ شفایابی اور اہلیہ کی بیعت ایک مرتبہ انہوں نے ہمیں بتایا کہ شروع میں جب انہوں نے احمدیت قبول کی تو ان کی اہلیہ احمدی ہونے پر راضی نہ تھیں.ان کے بھائی سخت مخالف تھے.تاہم وہ انہیں متواتر تبلیغ کرتے اور سمجھاتے رہے.اس دوران ان کا بیٹا امین سخت بیمار ہو گیا.اسے علاج کے لئے مگبور کا“ سے تقریبا 51 میل دور ایک شہر مکینی“ لے جایا گیا مگر وہاں اس کی حالت زیادہ خراب ہوگئی اور ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے کر ہسپتال سے رخصت کر دیا.آخر بوقت شب ان کی اہلیہ نے متواتر دعا کی کہ اے شافی مطلق خدا ! اگر سید نا احمد واقعی سچے مہدی اور
مصالح العرب.....جلد اول 350 امام وقت ہیں تو ان کی صداقت کے صدقے میرے اس بچے کو اب تو بغیر دوا کے ہی اپنے فضل سے شفاء عطا فرما دے.رات کو وہ اپنے بچے کے پاس بیٹھی بڑے عجز وانکسار سے یہ دعا کرتی رہیں اور صبح کیا دیکھتی ہیں کہ بچے کی بیماری میں بہت حد تک کمی واقع ہو چکی ہے.چنانچہ وہ اسی حالت میں بچہ کو واپس ”مگبور کا اپنے گھر لے آئیں اور سارا واقعہ اپنے خاوند سید امین صاحب کو کہہ سنایا.الحمد للہ کہ اس کے بعد ایک دو روز میں بچہ کو اللہ تعالیٰ نے کامل صحت عطا فرما دی.اسی قسم کے قبولیت دعا کے ایک دو اور واقعات سنا کر انہوں نے بتایا کہ اس طرح ان کی اہلیہ کو بھی شرح صدر ہو گیا اور انہوں نے بھی بیعت کر لی.جذبہ ، قربانی اور آخری خواہش اپریل 1960 ء میں وہ سخت بیمار ہو گئے اور کچھ عرصہ فری ٹاؤن اور بو کے ہسپتالوں میں زیر علاج رہے جہاں پر بار بار اس امر کا ذکر کیا کہ میں اپنی جائیداد کا تیسرا حصہ خدمت اسلام کے لئے وقف کرنا چاہتا ہوں اور صحت ہونے پر انشاء اللہ وصیت کر دوں گا.جب بھی ہم تیمارداری کے لئے جاتے وہ باوجود شدید نقاہت کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیت کی صداقت کا ذکر شروع کر دیتے..ایک دفعہ کہنے لگے کہ میری یہ شدید خواہش ہے کہ سید نامحمود کی زیارت نصیب ہو مگر صحت اجازت نہیں دیتی، پھر روتے ہوئے کہنے لگے کہ اگر ہو سکے تو اب میری یہ آرزو پوری کردی جائے کہ میری وفات کے بعد میری میت کو میرے خرچ پر قادیان لے جا کر سید نا حضرت احمد علیہ السلام کے قدموں میں دفن کیا جائے.لیکن افسوس ہے کہ ان کے غیر احمدی رشتہ داروں نے ان کی وفات کے بعد انہیں وہیں دفن کر دیا جہاں وہ اور ان کا خاندان کا روبار کرتا تھا.ان کی وفات قصبہ بیلے میں 12 اور 13 ستمبر 1960 کی درمیانی شب کو ہوئی.مکرم مولوی شیخ نصیر الدین صاحب سابق امیر جماعتہائے احمد یہ سیرالیون نے جنازہ پڑھایا جس میں احمدی احباب کے علاوہ شامی، لبنانی اور افریقن دوست بھی کثرت سے شامل ہوئے.إنا لله وإنا إليه راجعون اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے اور جنت میں اعلی علیین میں مقام عطا فرمائے اور اولا دکو اسلام اور احمد بیت پر قائم رکھے.، (ماخوذ از روح پرور یا دیں صفحہ 519 تا 523)
مصالح العرب.....جلد اول 351 مدیر اخبار وفاء العرب‘ (دمشق) سے گفتگو دمشق کے ایک مشہور ادیب محمود خیر الدین مدیر جریدہ ”وفاء العرب‘ ہندوستان آئے تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے ملاقات اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے قادیان بھی تشریف لائے اور تین دن قیام کیا.واپس جا کر انہوں نے اپنے اخبار وفاء العرب میں مورخہ 29 ذی الحج 1339ھ میں ایک مفصل مضمون لکھا جس کا ترجمہ الفضل مؤرخہ 20 اکتوبر 1931 میں شائع ہوا.مدیر موصوف سے گفتگو سوال وجواب کی صورت میں تھی.بیشتر سوالات ہندو مسلم تنازعہ کے متعلق تھے.آخر پر اس مدیر نے آپ سے سوال کیا کہ: ہم آپ کے سلسلہ مؤقرہ کے متعلق اکثر سنا کرتے ہیں لیکن متعدد امور کے متعلق ہمیں کچھ علم نہیں.کیا آپ مجھے ایسے حقائق سے مطلع فرمائیں گے جو میں اہل وطن کو ہدیہ پیش کرسکوں؟ جواب: ہماری جماعت شریعت حقہ قرآن اور احادیث نبویہ پر سختی سے عامل ہے اور ان سے سرِ مو منحرف نہیں.اور سچ تو یہ ہے کہ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور پر دلائل قاطعہ ہیں.آپ ہمارے سامنے ظاہر ہوئے اور حقیقی دین اسلام کی اشاعت فرمائی.الحمد للہ کہ اکثر بلاد عربیہ و غربیہ میں سے عقلمند لوگ و علماء ہمارے مبلغین کے ذریعہ اس سلسلہ حقہ میں داخل ہو چکے ہیں.اور ہمارا مقصد یہی ہے کہ اعدائے اسلام کے شرانگیز پروپیگنڈا کی مدافعت کریں جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت پر تلے ہوئے ہیں اور تمام جہان کو دین واحد پر جمع کریں.ہمارا اور تمام ملت اسلامیہ کا فرض ہے کہ تمام مخالفین اسلام کا مقابلہ کریں.
مصالح العرب.....جلد اوّل سوال: جماعت احمدیہ کی تعداد کتنی ہوگی؟ 352 جواب صحیح اعداد و شمار تو میں بتا نہیں سکتا لیکن یہ کہ سکتا ہوں کہ قریبا سات لاکھ سے زیادہ ہے اور اس وقت بھی تیز رفتاری کے ساتھ ترقی پذیر ہے.اور اکثر افراد جماعت احمد یہ اپنی زندگیاں تبلیغ و تبشیر کے لئے وقف کر چکے ہیں.ہمیں خدا کے فضل سے امید ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ بلا دعر بیہ وغیرہ میں جماعت احمدیہ کی کثیر تعداد پیدا کر سکیں.سوال : آپ کا بلا دشام کے دیکھنے کا بھی کوئی ارادہ ہے؟ جواب : کثرت اشغال اور دیگر امور اس میں مانع ہیں.اگر چہ شامیوں کے حسن اخلاق کا مجھ پر گہرا اثر ہے.XXXXXXXXXXXX (الفضل 20 را کتوبر 1931 ص6.7 ، انوار العلوم جلد 12 ص 330)
مصالح العرب.....جلد اول 353 امام جماعت احمدیہ مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے سینہ سپر رشید عالی الکیلانی عراق کے پہلے وزیر اعظم کے اقرباء میں سے تھا.جس نے عثمانیوں سے عراق کی آزادی کے لئے مختلف خفیہ تنظیموں میں کام کیا.دوسری عالمی جنگ کے خاتمہ کے فوراً بعد مئی 1941 ء میں انہوں نے خفیہ تنظیموں کے بعض فوجی افسران کے ساتھ مل کر اپنی دانست میں عراق کو بچانے اور اس کو برطانوی تسلط سے آزاد کروانے کے لئے ایک تنظیم قائم کی.دوسری طرف اس نے یروشلم کے مفتی الشیخ امین الحسینی کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا اور جرمنی کے ساتھ مل کر برطانوی تسلط کے خلاف تدابیر کرنے لگا.یہ شخص ہٹلر سے بھی ملا اور اس کے تعاون سے جرمنی میں ایک ریڈیو سٹیشن قائم کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا جہاں سے تمام عرب دنیا کو مخاطب کر کے عراق اور عرب ممالک کی آزادی اور برطانوی تسلط کے خلاف ابھارتا تھا.(http://ar.wikipedia.org/wiki) اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف برطانیہ کی طرف سے عراق پر شدید اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں تو دوسری طرف نازی طاقتوں کی طرف سے مسلمانوں کے مقدس مقامات کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا.آج کل شاید اس خطرناک صورت حال کو سمجھنا اتنا آسان نہ ہو کیونکہ آج کل عرب ممالک کی کسی قدر آزادی اور خود مختاری قائم ہے.اسی طرح مالی ، اقتصادی اور امن عامہ کی صورتحال بھی نسبتاً بہتر ہے.عالمی سطح پر ایک ملک کی دوسرے کے خلاف جارحیت کے سد باب کے لئے قوانین ہیں اور اکثر ممالک بڑی بڑی طاقتوں کے ساتھ معاہدات کر کے اپنے آپ کو
354 مصالح العرب.....جلد اول کسی قدر محفوظ خیال کرتے ہیں.لیکن جس وقت کی یہ بات ہورہی ہے اس وقت دوسری عالمی کی جنگ کا ابھی خاتمہ ہوا ہی تھا اور بڑے بڑے ممالک کے خلاف چھوٹے ممالک کی ادنی سی حرکت بھی دوبارہ جنگ کا بازار گرم کر سکتی تھی.اور بلا دعر بیہ کا میدان جنگ بننے کا سب.زیادہ نقصان مسلمانوں اور انکے مقدس مقامات کو ہونا تھا.اس لئے رشید عالی الکیلانی کی اس حرکت کو عالم اسلام میں بڑی نفرت کی نظر سے دیکھا گیا.مختلف اسلامی تنظیمات اور دینی جماعتوں کی طرف سے اس امر کی مذمت کی گئی.کسی نے رشید عالی اور مفتی یروشلم کو گالیاں دیں تو کسی نے ان کو غدار قرار دیا.ایسے میں ہمیشہ کی طرح اگر کوئی جرات مندانہ آواز بلند ہوئی تو جماعت احمدیہ کی طرف سے ہوئی.اور اگر کسی کے منہ سے کلمہ حق انکا تو وہ امام جماعت احمدیہ کی زبان مبارک سے نکلا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ایسے موقعہ پر خاموش رہنا گوارا نہ فرمایا اور 25 مئی 1941ء کو لاہور ریڈیو سٹیشن سے عراق کے حالات پر تبصرہ “ کے عنوان سے ایک اہم تقریر فرمائی جسے دہلی اور لکھنو کے سٹیشنوں نے بھی نشر کیا.حضور نے فرمایا: عراق کی موجودہ شورش دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے بھی اور ہندوستان کے لئے بھی تشویش کا موجب ہو رہی ہے.عراق کا دارالخلافہ بغداد اور اس کی بندرگاہ بصرہ اور اس کے تیل کے چشموں کا مرکز موصل ایسے مقامات ہیں جن کے نام سے ایک مسلمان بچپن ہی سے روشناس ہو جاتا ہے.بنو عباس کی حکومت علوم وفنون کی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے طبعاً مسلمانوں کے لئے ایک خوشکن یادگار ہے.لیکن الف لیلہ جو عربی علوم کی طرف توجہ کرنے والے بچوں کی بہترین دوست ہے.اس میں تو بغداد کے بازار اور بصرہ کی گلیاں اور موصل کی سڑکیں ان کے سامنے اس طرح آکھڑی ہوتی ہیں کہ گویا کہ انہوں نے ساری عمر انہی میں بسر کی ہے.میں اپنی نسبت تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ بچپن میں بغداد اور بصرہ مجھے لنڈن اور پیرس سے کہیں زیادہ دلکش نظر آیا کرتے تھے کیونکہ اول الذکر میرے علم کی دیواروں کے اندر بند تھے اور ثانی الذکر میری قوت واہمہ کے ساتھ تمام عالم میں پرواز کرتے نظر آتے تھے.جب ذرا بڑے ہوئے تو علم حدیث نے امام احمد بن حنبل کو فقہ نے ، امام ابو حنیفہ اور امام یوسف کو تصوف نے ، جنید شبلی اور سید عبد القادر جیلانی کو تاریخ نے ، عبد الرحمن بن قیم کو علم
مصالح العرب.....جلد اول 355 تدریس نے ، نظام الدین طوسی کو ادب نے ، مبرد، سیبویہ، جریر، اور فرزدق کو سیاست نے ، ہارون، مامون اور ملک شاہ جیسے لوگوں کو جو اپنے اپنے دائرہ میں یادگار زمانہ تھے اور ہیں ، ایک ایک کر کے آنکھوں کے سامنے لا کر اس طرح کھڑا کیا کہ اب تک ان کے کمالات کے مشاہدہ سے دل امید سے پر ہیں اور افکار بلند پروازیوں میں مشغول ہیں.ان کمالات کے مظہر اور دلکشیوں کے پیدا کرنے والے عراق میں فتنہ کے ظاہر ہونے پر مسلمانوں کے دل دکھے بغیر کس طرح رہ سکتے ہیں ؟ کیا ان ہزاروں بزرگوں کے مقابر جو دنیوی نہیں روحانی رشتہ سے ہمارے ساتھ منسلک ہیں ان پر بمباری کا خطرہ ہمیں بے فکر رہنے دے سکتا ہے؟ عراق سنی اور شیعہ دونوں کے بزرگوں کے مقدس مقامات کا جامع ہے.آج وہ امن خطرہ میں پڑ رہا ہے اور دنیا کے مسلمان اس پر خاموش نہیں رہ سکتے اور خاموش نہیں ہیں.دنیا کے ہر گوشہ کے مسلمان اس وقت گھبراہٹ ظاہر کر رہے ہیں اور ان کی یہ گھبراہٹ بجا ہے کیونکہ وہ جنگ جس کے تصفیہ کی افریقہ کے صحرا، میڈیٹرینین کے سمندر میں امید کی جاتی تھی اب وہ مسلمانوں کے گھروں میں لڑی جائیگی.اب ہماری مساجد کے صحن اور ہمارے بزرگوں کے مقابر کے احاطے اس کی آماجگاہ بنیں گے.اور یہ سب کو معلوم ہے کہ جرمنوں نے جن ملکوں پر قبضہ جما رکھا ہے ان کی کیا حالت ہو رہی ہے.اگر شیخ رشید علی جیلانی اور ان کے ساتھی جرمنی سے ساز باز نہ کرتے تو اسلامی دنیا کے لئے یہ خطرہ پیدا نہ ہوتا.اس فتنہ کے نتیجہ میں ٹرکی گر گیا ہے.ایران کے دروازہ پر جنگ آ گئی ہے، شام جنگ کا راستہ بن گیا ہے ، عراق جنگ کی آماجگاہ ہو گیا ہے.افغانستان جنگ کے دروازہ پر آ کھڑا ہوا ہے اور سب سے بڑا خطرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ مقامات جو ہمیں ہمارے وطنوں ، ہماری جانوں اور ہماری عزتوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں جنگ ان کی عین سرحد تک آگئی ہے.وہ بے فصیلوں کے مقدس مقامات وہ ظاہری حفاظت کے سامانوں سے خالی جگہیں جن کی دیواروں سے ہمارے دل لٹک رہے ہیں اب بمباروں اور جھپٹانی طیاروں کی زد میں ہیں.اور یہ سب کچھ ہمارے ہی چند بھائیوں کی غلطی سے ہوا ہے.کیونکہ ان کی اس غلطی سے پہلے جنگ ان مقامات مقدسہ سے سینکڑوں میل پرے تھی.ان حالات میں ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس فتنہ کو اس کی ابتداء میں ہی دبا دینے کی کوشش کرے.ابھی وقت ہے کہ جنگ کو پرے دھکیل دیا جائے کیونکہ ابھی تک عراق اور شام
356 مصالح العرب.....جلد اول میں جرمنی اور اٹلی کی فوجیں کسی بڑی تعداد میں داخل نہیں ہوئیں.اگر خدانخواستہ بڑی تعداد میں فوجیں یہاں داخل ہو گئیں تو یہ کام آسان نہ رہے گا.جنگ کی آگ سرعت کے ساتھ عرب کے صحرا میں پھیل جائے گی.اس فتنہ کا مقابلہ شیخ رشید عالی صاحب یا مفتی یوروشلم کو گالیاں دینے سے نہیں کیا سکتا.انہیں غدار کہہ کر ہم اس آگ کو نہیں بجھا سکتے.میں شیخ رشید صاحب کو نہیں جانتا لیکن مفتی صاحب کا ذاتی طور پر واقف ہوں.میرے نزدیک وہ نیک نیت آدمی ہیں.اور انکی مخالفت کی یہ وجہ نہیں کہ ان کو جرمنی والوں نے خرید لیا ہے بلکہ انکی مخالفت کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جنگ عظیم میں جو وعدے اتحادیوں نے عربوں سے کئے تھے وہ پورے نہیں کئے گئے.ان لوگوں کو برا کہنے سے صرف یہ نتیجہ نکلے گا کہ انکے واقف کار دوست اشتعال میں آجائیں گے.پس ان ہزاروں لاکھوں لوگوں کو جو عالم اسلامی میں شیخ رشید اور مفتی یوروشلم سے حسن ظنی رکھتے ہیں ٹھو کر اور ابتلاء سے بچانے کے لئے ہمارا فرض ہے کہ اس نازک موقعہ پر اپنی طبائع کو جوش میں نہ آنے دیں اور جو بات کہیں اس میں صرف اصلاح کا پہلو مدنظر ہو، اظہار غضب مقصود نہ ہوتا کہ فتنہ کم ہو بڑھے نہیں.یادر ہے کہ اس فتنہ کے بارہ میں اس قدر سمجھ لینا کافی ہے کہ شیخ رشید عالی صاحب اور انکے رفقاء کا یہ فعل اسلامی ملکوں اور اسلامی مقدس مقامات کے امن کو خطرہ میں ڈالنے کا موجب ہوا ہے.ہمیں انکی نیتوں پر حملہ کرنے کا نہ حق ہے اور نہ اس سے کچھ فائدہ ہے.اس وقت تو مسلمانوں کو اپنی ساری طاقت اس بات کے لئے خرچ کر دینی چاہئے کہ عراق میں پھر امن ہو جائے.اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ مسلمان جان اور مال سے انگریزوں کی مدد کریں اور اس فتنہ کے پھیلنے اور بڑھنے سے پہلے ہی اسکے دبانے میں انکا ہاتھ بٹائیں.تا کہ جنگ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ سے دور رہے اور ترکی ایران عراق اور شام اور فلسطین اس خطر ناک آگ کی لپٹوں سے محفوظ رہیں.یہ وقت بحثوں کا نہیں کام کا ہے.اس وقت ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے ہمسائیوں کو اس خطرہ سے آگاہ کرے جو عالم اسلام کو پیش آنے والا ہے تا کہ ہر مسلمان اپنا فرض ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائے.اور جو قربانی بھی اس سے ممکن ہوا سے پیش کر دے....شاید شیخ رشید عالی جیلانی کا خیال ہو کہ سابق عالمگیر جنگ میں عربوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ ایک متحد عرب حکومت کے قیام میں انکی مدد کی جائے گی.مگر ہوا یہ کہ عرب جو پہلے ترکوں کے ماتحت کم سے کم ایک قوم تھے اب
مصالح العرب.....جلد اول 357 چار پانچ ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئے ہیں.بے شک انگریزوں نے عراق کو ایک حد تک آزادی مگر عربوں نے بھی سابق جنگ میں کم قربانیاں نہ کی تھیں.اگر اس غلطی کے ازالہ کا عہد کر لیا جائے تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ سب اسلامی دنیا متحد ہو کر اپنے علاقوں کو جنگ سے آزاد رکھنے کی کوشش کرے گی....اس جنگ کے بعد ہالینڈ اور زیکوسلواکیہ کی آزادی ہی کا سوال حل نہیں ہونا چاہئے بلکہ متحدہ عرب کی آزادی کا سوال بھی حل ہو جانا چاہئے شام فلسطین اور عراق کو ایک متحد اور آزاد حکومت کے طور پر ترقی کرنے کا موقعہ ملنا چاہئے.انصاف اس کا (ماخوذ از الفضل 29 مئی 1941 صفحہ 1-2) تقاضا کرتا ہے.“ مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے دعا کی تحریک دوسری جنگ عظیم کے دوران وسط 1321 ہش مطابق 1942ء میں محوری طاقتوں کا دباؤ مشرق وسطی میں زیادہ بڑھ گیا اور جرمن فوجیں جنرل رومیل کی سرکردگی میں جون میں طبروق کی قلعہ بندیوں پر حملہ کر کے برطانوی افواج کو شکست فاش دینے میں کامیاب ہو گئیں جس کے بعد ان کی پیش قدمی پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی.اور یکم جولائی تک مصر کی حدود کے اندر گھس کر العالمین کے مقام تک پہنچ گئیں جو اسکندریہ سے تھوڑی ڈور مغرب کی جانب برطانوی مدافعت کی آخری چوکی تھی.جس سے مصر براہ راست جنگ کی لپیٹ میں آگیا اور مشرق وسطی کے دوسرے اسلامی ممالک خصوصاً حجاز کی ارض مقدس پر محوری طاقتوں کے حملہ کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا.ان پر خطر حالات میں حضرت خلیفہ المسح الثانی نے 26 جون 1942 کے خطبہ جمعہ میں عالم اسلام کی نازک صورت حال کا درد ناک نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا کہ:.اب جنگ ایسے خطر ناک مرحلہ پر پہنچ گئی ہے کہ اسلام کے مقدس مقامات اس کی زد میں آگئے ہیں.مصری لوگوں کے مذہب سے ہمیں کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو وہ اسلام کی جو تو جیہ وتفسیر کرتے ہیں ہم اس کے کتنے ہی خلاف کیوں نہ ہوں مگر اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ ظاہر طور پر وہ ہمارے خدا ، ہمارے رسول اور ہماری کتاب کو ماننے والے ہیں.ان کی اکثریت اسلام کے خدا کے لئے غیرت رکھتی ہے.ان کی اکثریت اسلام کی کتاب کیلئے غیرت رکھتی ہے اور ان کی اکثریت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے غیرت رکھتی ہے.اسلامی لٹریچر
مصالح العرب.....جلد اول 358 شائع کرنے میں اور اسے محفوظ رکھنے میں یہ قوم صف اول میں رہی ہے.آج ہم اپنے مدارس میں بخاری اور مسلم وغیرہ احادیث کی جو کتابیں پڑھاتے ہیں وہ مصر کی چھپی ہوئی ہی ہیں.اسلام کی نادر کتابیں مصر میں ہی چھپتی ہیں اور مصری قوم اسلام کے لئے مفید کام کرتی چلی آئی ہے.اس قوم نے اپنی زبان کو بھلا کر عربی زبان کو اپنا لیا.اپنی نسل کو فراموش کر کے یہ عربوں کا حصہ بن گئی.اور آج دونوں قوموں میں کوئی فرق نہیں.مصر میں عربی زبان ، عربی تمدن اور عربی طریق رائج ہیں.اور محمد عربی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مذہب رائج ہے.پس مصر کی تکلیف اور تباہی ہر مسلمان کے لئے دکھ کا موجب ہونی چاہئے خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھنے والا ہو.اور خواہ مذہبی طور پر اسے مصریوں سے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں.پھر مصر کے ساتھ ہی وہ مقدس سرزمین شروع ہو جاتی ہے جس کا ذرہ ذرہ ہمیں اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے.نہر سویز کے ادھر آتے ہی ( آج کل کے سفر کے سامانوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ) چند روز کی مسافت کے فاصلہ پر ہی وہ مقدس مقام ہے جہاں ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک وجود لیٹا ہے.جس کی گلیوں میں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے مبارک پڑا کرتے تھے.جس کے مقبروں میں آپ کے والا وشیدا خدا تعالیٰ کے فضل کے نیچے میٹھی نیند سو رہے ہیں اس دن کی انتظار میں کہ جب صور پھونکا جائے گا وہ لبیک کہتے ہوئے اپنے رب کے حضور حاضر ہو جائینگے.دو اڑھائی سو میل کے فاصلہ پر ہی وہ وادی ہے جس میں وہ گھر ہے جسے ہم خدا کا گھر کہتے ہیں اور جس کی طرف دن میں کم سے کم پانچ بار منہ کر کے ہم نماز پڑھتے ہیں اور جس کی زیارت اور حج کے لئے جاتے ہیں.جو دین کے ستونوں میں سے ایک بڑا ستون ہے.یہ مقدس مقام صرف چند سومیل کے فاصلہ پر ہے اور آج کل موٹروں اور ٹینکوں کی رفتار کے لحاظ سے چار پانچ دن کی مسافت سے زیادہ فاصلہ پر نہیں اور ان کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں.وہاں جو حکومت ہے اس کے پاس نہ ٹینک ہیں نہ ہوائی جہاز اور نہ ہی حفاظت کا کوئی اور سامان.کھلے دروازوں اسلام کا خزانہ پڑا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دیوار میں بھی نہیں ہیں اور جوں جوں دشمن ان مقامات کے قریب پہنچتا ہے ایک مسلمان کا دل لرز جاتا ہے.“.( الفضل 3 روفا ہش 1321 بمطابق 3 جولائی 1942 ء صفحہ 2-3 ) حضور نے خطبہ کے دوران مقامات مقدسہ کی حفاظت کے خدائی وعدوں کی طرف اشارہ کی
مصالح العرب.....جلد اول 359 " کرتے ہوئے یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ خود بھی ان کی حفاظت فرمائے گا “ لیکن ساتھ ہی مسلمانوں کو ان کی عملی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی اور فرمایا : وو یہ ہمارا یقین ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے نہیں چھڑا سکتا.جس طرح مکہ کے متعلق خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ اس کی حفاظت کرے گا جس طرح اسلام کی حفاظت کے متعلق اللہ تعالی کا وعدہ تھا اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا بھی وعدہ اس نے کیا ہوا تھا.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس (المائده :68) مگر باوجود اس وعدہ کے ایسے ہی مقدس اور یقینی وعدہ کے جیسا کہ مکہ مکرمہ اور خانہ کعبہ کی حفاظت کے متعلق ہے پھر بھی صحابہ کرام اس وعدہ پر کفایت کر کے بے فکر نہیں ہو گئے تھے اور انہوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ خدا تعالیٰ خود آپ کو دشمنوں سے بچائے گا.ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ مدینہ میں آپ کے داخلہ سے لے کر آپ کی وفات تک برابر وہ آپ کے گھر کا پہرہ دیتے رہے.مدینہ کے لوگوں یعنی انصار پر اللہ تعالیٰ بڑی بڑی برکتیں نازل کرے وہ بڑی ہی سمجھدار اور قربانی کرنے والی قوم تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے تو انہوں نے فوراً اس بات کا فیصلہ کیا کہ اب آپ کی ذات کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے اور ہر رات الگ الگ گروہ کی آپ کے مکان پر پہرہ کے لئے آتا تھا.پہلے تو انصار بغیر ہتھیاروں کے پہرہ کے لئے آتے تھے.انہوں نے یہ خیال کیا کہ مدینہ اسلامی شہر ہے یہاں خطرہ کی کوئی بات نہیں ہر قبیلہ باری باری پہرہ کے لئے اپنے آدمی بھیجتا تھا مگر وہ بغیر ہتھیاروں کے ہوتے تھے ایک رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں تھے کہ باہر آپ نے تلواروں اور نیزوں کی جھنکارسنی.آپ باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ انصار کا ایک گروہ سر سے پاؤں تک مسلح آپ کے مکان کے گرد پہرہ کے لئے کھڑا ہے.آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ کیا بات ہے تو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! لوگ تو بغیر ہتھیاروں کے پہرہ کے لئے آیا کرتے تھے مگر ہمارے قبیلہ نے فیصلہ کیا ہے کہ پہرہ کے انتظام کے معنی یہ ہیں کہ خطرہ کا احتمال ہے اور جب خطرہ ہو سکتا ہے تو اسے روکنے کے لئے ہتھیار بھی ضرور ہونے چاہئیں اس لئے ہم مسلح ہو کر پہرہ کے لئے آئے ہیں آپ نے ان لوگوں کے لئے دعا فرمائی اور اندر تشریف لے گئے.اس کے بعد باقی قبائل نے بھی مسلح ہو کر پہرہ دینا شروع کر دیا ایک دفعہ مدینہ میں کچھ شور ہوا اور خیال تھا کہ شائد رومی حملہ کرینگے.اس لئے مسلمان ہتھیار لے کر باہر کی طرف بھاگے مگر چند صحابی دوڑ کر مسجد نبوی
360 مصالح العرب.....جلد اول میں جمع ہو گئے لوگوں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے حملہ کا خوف تو باہر سے تھا آپ لوگ مسجد میں کیوں آبیٹھے انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں تو یہی جگہ حفاظت کئے جانے کے قابل نظر آتی ہے.اس لئے یہیں آگئے یہ قربانیاں کرنے والے جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش سے آپ کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہوا ہے اور فرمایا ہے کہ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ یعنی اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کے حملوں سے بچائے گا.مگر باوجود اس وعدہ کے جو قربانیاں انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کیلئے کیس کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ ان کا ایمان کمزور تھا اور وہ خدا تعالیٰ کو اس وعدہ کے پورا کرنے پر قادر نہ سمجھتے تھے؟ یا کیا وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی وعدہ نہیں فرمایا بلکہ نعوذ باللہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے پاس سے بنالیا ہے؟ ان کی قربانیاں اور ان کا اخلاص دونوں بتاتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بات بھی ان کے وہم یا خیال میں نہ تھی ان کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے عرش سے آپ کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور انہیں یہ بھی یقین تھا کہ وہ آپ کو بچانے کی طاقت رکھتا ہے اور اپنے وعدہ کو پورا کرنے کے لئے سامان مہیا کر سکتا ہے مگر ان کی تمنا ، ان کی آرزو اور ان کی خواہش یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کے لئے جو ہتھیار اپنے ہاتھ میں لے وہ ہم ہوں.وہ چاہتے تھے کہ کاش وہ ذریعہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچانے کا اختیار کرنا ہے وہ ہم بن جائیں اور وہ بن گئے.اور انہوں نے متواتر دس سال تک اپنی جانوں اور عزیز ترین رشتہ داروں کی جانوں کو قربان کر کے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا ہتھیار ثابت کر دیا.وہ مہاجر اور وہ انصار اس وعدہ کو پورا کرنے کا ذریعہ بن گئے جنہوں نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے اور پیچھے ہو کر ہر موقعہ پر جنگ کی.ان کی اول خواہش اور تمنا بھی اور ان کی آخری خواہش اور تمنا بھی یہی تھی کہ کاش وہ فنا ہو جائیں وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی آنچ نہ آئے.یہ وہ قربانیاں تھیں جو باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے وعدہ کے صحابہ نے آپ کی حفاظت کے لئے کیں.پس اس میں شبہ نہیں کہ مکہ اور مدینہ کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں مگر اللہ تعالیٰ حفاظت کے لئے آسمان سے فرشتے نہیں اتارا کرتا.بلکہ بعض بندوں کو ہی فرشتے بنا دیتا ہے.اور ان کے دلوں میں اخلاص پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے ہتھیار بن جائیں.وہ گو انسان نظر آتے ہیں مگر ان کی روحوں کو فرشتہ کر دیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ
361 مصالح العرب.....جلد اول جولوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جاتے ہیں ان کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں.اس کا مطلب یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو کام فرشتوں سے لینا تھا اسے کرنے کے لئے وہ آگے بڑھتے ہیں اس لئے وہ فرشتے بن جاتے ہیں.اور جب وہ فرشتے ہو گئے تو مر کیسے سکتے ہیں.فرشتے نہیں مرا کرتے.اسی لئے اللہ تعالیٰ شہداء کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کے حضور رزق دیئے جاتے ہیں.پس گوان مقامات کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ مسلمان ان کی حفاظت کے فرض سے آزاد ہو گئے ہیں.بلکہ ضروری ہے کہ ہر سچا مسلمان ان کی حفاظت کے لئے اپنی پوری کوشش کرے جو اس کے بس میں ہے.“ الفضل 3 جولائی 1942 ءصفحہ 3-4) خطبہ کے آخر میں حضور نے خاص تحریک فرمائی کہ احمدی ممالک اسلامیہ کی حفاظت کے وو لئے نہایت تضرع اور عاجزی سے دعائیں کریں.چنانچہ حضور نے فرمایا:.یہ مقامات روز بروز جنگ کے قریب آرہے ہیں اور خدا تعالیٰ کی مشیت اور اپنے گناہوں کی شامت کی وجہ سے ہم بالکل بے بس ہیں اور کوئی ذریعہ ان کی حفاظت کا اختیار نہیں کر سکتے ، ادنی ترین بات جو انسان کے اختیار میں ہوتی ہے یہ ہے کہ اس کے آگے پیچھے کھڑے ہو کر جان دیدے مگر ہم تو یہ بھی نہیں کر سکتے اور اس خطرناک وقت میں صرف ایک ہی ذریعہ باقی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں کہ وہ جنگ کو ان مقامات مقدسہ سے زیادہ سے زیادہ دُور لے جائے اور اپنے فضل سے ان کی حفاظت فرمائے.وہ خدا جس نے ابرہہ کی تباہی کیلئے آسمان سے وبا بھیج دی تھی اب بھی طاقت رکھتا ہے کہ ہر ایسے دشمن کو جس کے ہاتھوں سے اس کے مقدس مقامات اور شعائر کو کوئی گزند پہنچ سکے کچل...پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کریں کہ وہ خود ہی ان مقامات کی حفاظت کے سامان پیدا کر دے.اور اس طرح دعائیں کریں جس طرح بچہ بھوک سے تڑپتا ہوا چلاتا ہے.جس طرح ماں سے جدا ہونے والا بچہ یا بچہ سے محروم ہو جانے والی ماں آہ و زاری کرتی ہے اسی طرح اپنے رب کے حضور دعائیں کریں کہ اے اللہ ! تو خود ان مقدس مقامات کی حفاظت فرما.اور ان لوگوں کی اولا دوں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جانیں فدا کر گئے اور ان کے ملک کو ان خطرناک نتائج سے جو دوسرے مقامات پر پیش آرہے ہیں بچا لے.اور اسلام کے نام.
362 مصالح العرب.....جلد اول لیواؤں کو خواہ وہ کیسی ہی گندی حالت میں ہیں اور خواہ ہم سے ان کے کتنے اختلافات ہیں ان کی حفاظت فرما اور اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ رکھ جو کام آج ہم اپنے ہاتھوں سے نہیں کر سکتے وہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ کر دے اور ہمارے دل کا دُکھ ہمارے ہاتھوں کی قربانیوں کا قائم مقام ہو جائے.“ الفضل 3 جولائی 1942 ءصفحہ 4-5) بعض متعصب ہندو ہمیشہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ مسلمانوں کے دلوں میں ہندوستان کی نسبت مکہ اور مدینہ کی محبت بہت زیادہ ہے.اس موقعہ پر حضور نے اس اعتراض کا یہ نہایت لطیف جواب دیا کہ:.وو ” بے شک دین کی محبت ہمارے دلوں میں زیادہ ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ وطن کی محبت نہیں ہے.اگر ہمارا ملک خطرہ میں ہو تو ہم اس کے لئے قربانی کرنے میں کسی ہندو سے پیچھے نہیں رہیں گے.لیکن اگر دونوں خطرہ میں ہوں یعنی ملک اور مقامات مقدسہ تو مؤخر الذکر کی حفاظت چونکہ دین ہے اور زندہ خدا کے شعار کی حفاظت کا سوال ہے اس لئے ہم اسے مقدم کریں گے.بیشک ہم عرب کے پتھروں کو ہندوستان کے پتھروں پر فضیلت نہ دیں لیکن ان پتھروں کو ضرور فضیلت دیں گے جن کو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے فضیلت کا مقام بنایا ہے....ایک مادہ پرست ہندو کیا جانتا ہے کہ وطن اور خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ شعائر میں کیا فرق ہے.وہ عرفان اور نیکی نہ ہونے کی وجہ سے اس فرق کو سمجھ نہیں سکتا....حُبُّ الْوَطن مِنَ الْإِیمَان ہمارے ایمان کا جزو ہے مگر وہ گلیاں جن میں ہمارے پیارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے ہیں.وہ پتھر جنہیں خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے عبادت کا مقام بنایا ہمیں وطن سے زیادہ عزیز ہیں.اس پر کوئی ہندو یا عیسائی حاسد جلتا ہے تو جل مرے ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں.“ الفضل 3 جولائی 1942 ، صفحہ 5) حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی اس تحریک پر قادیان اور بیرونی احمدی جماعتوں میں مقامات مقدسہ کے لئے مسلسل نہایت پُر درد دعاؤں کا سلسلہ جاری ہو گیا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے محبوب خلیفہ اور اپنی پیاری جماعت کی تضرعات کو بہپائیہ قبولیت جگہ دی اور جلد ہی جنگ کا پانسہ پلٹ گیا.چنانچہ 23 اکتوبر 1942ء کو برطانوی فوجوں نے العالمین پر
363 مصالح العرب.....جلد اول جوابی یلغار شروع کی.اُدھر شمالی افریقہ کے مغربی حصے ( یعنی مراکش اور الجزائر ) میں امریکہ نے اپنی فوجیں اتار دیں جو مغرب سے مشرق کو بڑھنے لگیں.13 نومبر 1942ء کو برطانوی فوجوں نے طبروق پر اور 20 نومبر تک بنغازکی پر دوبارہ قبضہ کر لیا." تاریخ اقوام عالم صفحہ 738 ( مؤلفه مرتضی احمد خان ) ناشر مجلس ترقی ادب، نرسنگھ داس گارڈن کلب روڈ لاہور ، سن اشاعت 1958 ء ) حضرت امیر المومنین خلیفہ لمسیح الثانی نے اس مرحلہ پر غیرت اسلامی کا جواظہار فرمایا اسے مخالفین احمدیت نے بھی بہت سراہا.چنانچہ احراری اخبار ” زمزم نے اپنی 19 / جولائی 1942ء کی اشاعت میں لکھا:.موجودہ حالات میں خلیفہ صاحب نے مصر اور حجاز مقدس کے لئے اسلامی غیرت کا جو ثبوت دیا ہے وہ یقیناً قابل قدر ہے.اور انہوں نے اس غیرت کا اظہار کر کے مسلمانوں کے جذبات کی صحیح ترجمانی کی ہے.“ نیز لکھا:.زمزم معترف ہے کہ مقدس مقامات کی طرف سے خلیفہ صاحب کا اندیشہ بالکل حق بجانب ہے.66 الفضل 22 جولائی 1942 ، صفحہ 1 کالم 4، ماخوز از تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 324-331) 00000
مصالح العرب.....جلد اول 364 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی شاندار فتح شیخ الازہر علامہ محمود شلتوت کا فتویٰ وفات مسیح جیسا کہ سلسلہ احمدیہ کی ابتدائی تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی مسیحیت کے بعد دنیائے اسلام کے سامنے جو مخصوص علم کلام پیش فرمایا اس میں نظریہ وفات مسیح کو بنیادی حیثیت حاصل تھی.یہی وجہ ہے کہ 1892ء سے یعنی اس زمانہ سے جبکہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہاماً انکشاف ہوا کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق آپ آئے ہیں، مخالف علماء نے نہ صرف آپ پر فتویٰ کفر لگایا بلکہ بڑے زور و شور سے مسئلہ حیات مسیح کی تائید کے لئے مناظروں کا بازار گرم کر دیا اور اپنے موقف کی تائید میں پے در پے کتابیں اور رسائل شائع کرنے لگے.یہ علمی جنگ پوری شدت سے جاری تھی کہ اس سال مشرق وسطی کے بعض مسلم ممالک سے یکا یک وفات مسیح کے حق میں ایک مفصل فتویٰ شائع ہو گیا جس نے قائلین حیات مسیح کے کیمپ میں زبر دست کھلبلی مچا دی.یہ فتویٰ عالم اسلام کی قدیم ترین یو نیورسٹی جامعہ ازہر کی جماعت کبار العلماء کے رُکن فضیلۃ الاستاذ علامہ محمود شلتوت کا تھا جو قاہرہ کے ہفت روزہ الرسالة“ کی جلد 10 شمارہ 462 مورخہ 11 مئی 1942ء میں رفع عیسی کے عنوان سے شائع ہوا.از تاریخ احمدیت ، جلد 8 صفحہ 296 )
مصالح العرب.....جلد اول علامہ محمود شلتوت کا مختصر تعارف 365 علامہ محمود شلتوت 23 اپریل 1893ء کو عمر مغید بنی منصور ( بحیرہ) میں پیدا ہوئے.1918ء میں عالمیہ نظامیہ کی ڈگری حاصل کی.1927ء میں قاہرہ میں اعلیٰ تعلیم کے استاذ بنے.1928ء میں جب الشیخ مراغی شیخ الازہر مقرر ہوئے تو آپ نے ازہر کی اصلاح و تجدید میں ان کا ہاتھ بٹایا.1935ء میں آپ کو گلیۃ الشریعۃ الاسلامیۃ کی وکالت سپرد ہوئی.1941ء میں آپ علماء کبار کی جماعت کے رکن تجویز کئے گئے.1942ء میں آپ نے وفاتِ مسیح سے متعلق معرکۃ الآراء فتویٰ دیا.1957ء میں آپ موتمر اسلامی کے مشیر مقرر کئے گئے.اور 1 2 /اکتوبر 1958ء کو منصب شیخ الازہر پر فائز کئے گئے اور دسمبر 1963ء میں انتقال فرما گئے.علامہ محمود شلتوت نے نہایت قابل قدرلر پچر اپنے پیچھے علمی یادگار کے طور پر چھوڑا ہے.( مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مجلہ لا زہر جلد 30 شمارہ 4-5 ربیع الآخر و جمادی الاولی 1378 ہجری) فتویٰ کے محرک عبدالکریم خان صاحب یوسف زئی نومبر 1906ء میں بمقام کرلوپ (جموں) پیدا ہوئے اور غالباً 8 جون 1933ء کو تحریری بیعت کر کے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے (الحکم 28 جولائی 1935ء صفحہ 9-10) دوسری جنگ عظیم کے دوران آپ مشرق وسطی میں مقیم تھے.اسی زمانہ میں آپ نے علماء مصر سے تحریری طور پر یہ فتویٰ طلب کیا کہ آیا حضرت عیسی علیہ السلام قرآن وسنت کی رو سے زندہ ہیں یا وفات پاگئے ہیں؟ آپ 1947ء میں پونچھ میں شہید کر دیئے گئے.ملخص از تاریخ احمدیت جلد 8 صفحه 297) علامہ محمود شلتوت کے فتویٰ کا مکمل متن علامہ محمود شلتوت کے اس معرکۃ الاراء فتوی کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے.ورد إلى مشيخة الأزهر الجليلة من حضرة عبدالكريم خان بالقيادة العامة لجيوش الشرق الأوسط سؤال جاء فيه "هل عيسى حى أو ميت في نظر القرآن الكريم والسنة المطهرة؟ وما
366..جلد اوّل مصالح العرب.حكم المسلم الذى ينكر أنه حى؟ و ماحكم من لا يؤمن به إذا فرض أنه عاد إلى الدنيا مرة أخرى؟ وقد حول هذا السوال إلى فضيلة الأستاذ الكبير الشيخ محمود شلتوت عضو جماعة كبار العلماء فكتب ماياتي: أما بعد فإن القرآن الكريم قد عرض لعيسى عليه السلام فيما يتصل بنها ية شأنه مع قومه في ثلاث سور- 1- في سورة ال عمران قوله تعالى فلما أحس عيسى منهم الكفر قال من أنصارى إلى الله - قال الحواريون نحن أنصار الله امنا بالله واشهد بأنا مسلمون ربنا أمنا بما أنزلت و اتبعنا الرسول فاكتبنا مع الشاهدين ومكروا ومكر الله والله خير الماكرين إذ قال الله يا عيسى إنى متوفيك ورافعك إلى ومطهرك من الذين كفروا وجاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفرو إلى يوم القيامة ثم إلى مرجعكم فأحكم بينكم فيما كنتم فيه تختلفون (55-53) 2 وفى سورة النساء قوله تعالى وقولهم إنا قتلنا المسيح عيسى ابن مريم رسول الله وما قتلوه وما صلبوه ولكن شبه لهم وأن الذين اختلفو فيه لفى شك منه مالهم به من علم إلا اتباع الظن وما قتلوه يقينا بل رفعه الله إليه وكان الله عزيزاً حكيما- (158,157) الله 3- و في سورة المآئدة قوله تعالى- وإذ قال الله يا عيسى أأنت قلت للناس اتخذوني و أُمِّيَ الهَين من دون قال سبحنك مايكون لي أن أقول ماليس لي بحق إن كنت قلته ابن مريم فقد علمته تعلم ما فى نفسى ولا أعلم ما في نفسك إنك أنت علام الغيوب ما قلت لهم إلا ما أمرتني به أن اعبدو الله ربی وربكم و كنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم فلما توفيتنى كنت
367 مصالح العرب.....جلد اول أنت الرقيب عليهم و أنت على كل شي شهيد (116-117) هذه هي الآيات التي عرض القرآن فيها لنهاية شأن عيسى مع قومه والآية الاخيرة اية) المائدة تذكر لنا شأنا أخرويا يتعلق بعبادة قومه له ولأمّه فى الدنيا وقد ساله الله عنها وهي تقرر على لسان عيسى عليه السلام أنه لم يقل لهم إلا ما أمره الله به أن اعبدوا الله ربي وربكم وأنه كان شهيدًا عليهم مدة إقامته بينهم وأنه لا يعلم ما حدث منهم بعد أن توفاه الله وكلمة ”توفى“قد وردت في القرآن كثيرا بمعنى الموت حتى صار هذا المعنى هو الغالب عليها المتبادر منها و لم تستعمل في غير هذا المعنى إلا و بجانبها ما يصرفها عن هذا المعنى المتبادر "قل يتوفاكم ملك الموت الذى وكل بكم إن الذين توفهم الملائكة ظالمي أنفسهم ولو ترى إذ يتوفى الذين كفرو الملائكة توفته رسلنا و منكم من يتوفى حتى يتوفا هن الموت توفنى مسلما وألحقني بالصالحين ومن حق كلمة توفيتنى فى الاية أن تحمل على هذا المعنى المتبادر وهو الإماتة العادية التى يعرفها الناس و يدركها من اللفظ ومن السياق الناطقون بالضاد وإذن فالآية لو لم يتصل بها غيرها في تقرير نهاية عيسى مع قومه لما كان هناك مبرر للقول بأن عيسى حى لم يمت.ولا سبيل إلى القول بان الوفاة هنا مراد بها وفاة عيسى بعد نزوله من السماء بناءً على زعم من يرى أنه حي في السماء وأنه سينزل منها اخر الزمان لأن الآية ظاهرة في تجديد علاقته بقومه
مصالح العرب...جلد اوّل هولا بالقوم الذين يكونون اخر الزمان وهم قوم محمد با تفاق لا قوم عيسى أما آية النساء فإنها تقول ”بل رفعه الله إليه وقد فسرها بعض المفسرين بل جمهورهم بالرفع إلى السماء و يقولون إن الله ألقى علی غیره شبهه و رفعه بجسده إلى السماء فهو حى فيها و سينزل منها أخر الزمان فيقتل الخنزير و يكسر الصليب و يعتمدون في ذلك: اولاً على روايات تفيد نزول عيسى بعد الدجال، و هي روايات مضطربة مختلفة فى ألفاظها ومعانيها اختلافا لا مجال معه للجمع بينها ـ وقد نص على ذلك علماء الحديث وهي فوق من رواية و هب بن منبة و كعب الأحبار وهما من أهل الكتب الذين اعتنقو الإسلام و قد عُرفت درجتهما في الحديث عند علماء الجرح و التعديل ذلك الله وثانيا على حديث مروى عن أبى هريرة اقتصر فيه على الأخبار بنزول عيسى وإذا صح هذا الحديث فهو حديث آحاد وقد أجمع العلماء على أن أحاديث الآحادلا تفيد عقيدة ولا يصح الاعتماد عليها في شان المغيبات وثالثا على ماجاء في حديث المعراج من أن محمدا صلى عليه وسلم حينما صعد إلى السماء و أخذ يستفتحها واحدة بعد واحدة فتفتح له ويدخل رأى عيسى عليه السلام هو وابن خالته يحيى في السماء الثانية ويكفينا في توهين هذا المستند ما قرره كثير من شراح الحديث في شأن المعراج وفي شان اجتماع محمد صلى الله عليه وسلم بالأنبياء وأنه كان اجتماعا روحيا لا جسمانيا انظر فتح البارى و زاد المعاد و غير هما ومن الطريف أنهم يستدلون على أن معنى الرفع في الآية هو رفع عيسى بجسده 368
369 مصالح العرب.جلد اوّل إلى السماء بحديث المعراج بينما ترى فريقا منهم يستدل على أن اجتماع محمد بعيسى في المعراج كان اجتماعا جسديا بقوله تعالى (بل رفعه الله إليه و هكذا يتخذون الآية دليلا على ما يفهمونه من الحديث دليلاً على ما يفهمونه من الآية حين يكونون في تفسير الآية الله و نحن إذا رجعنا إلى قوله تعالى إنى متوفيك ورافعك إلى في آيات آل عمران مع قوله ”بل رفعه إليه في آيات النساء وجدنا الثانية إخبارا عن تحقق الوعد الذي تضمنته الأولى و قد كان هذا الوعد بالتوفية و الرفع والتطهير من الذين كفروا فإذا كانت الآية الثانية قد جاءت خالية من التوفية والتطهير واقتصرت فإنه يجب أن يلاحظ فيها ما ذكر في على ذكر الرفع إلى الله الأولى جمعا بين الآيتين والمعنى أن الله توفى عيسى ورفعه إليه و طهرة من الذين كفروا وقد فسر الألوسى قوله تعالى إنى متوفيك) بوجوه منها وهو أظهرها: إنى مستوفى أجلك و مميتك حتف أنفك لا أسلط عليك من يقتلك و هو كناية عن عصمته من الأعداء وما هم بصدده من الفتك به عليه السلام لأنه يلزم من استيفاء الله أجله و موته حتف أنفه ذلك ظاهر أن الرفع الذين يكون بعد التوفية هو رفع المكانة لا رفع الجسد خصوصاً وقد جاء بجانبه قولة (ومطهرك من الذين كفروا مما يدل على أن الأمر أمر تشريف و تكريم وقد جاء الرفع في القرآن كثيرا بهذا المعنى في بيوت أذن الله أن ترفع“ نرفع درجت من نشاء“ ” ورفعنا لك ذكرك“.”ورفعناه مكانا عليا“ ” يرفع الله الذين آمنو.وإذن فالتعبير بقوله " ورافعك إلى وقوله ”بل رفعه 66 الله إليه“.كالتعبير في قولهم الحق فلان بالرفيق الأعلى وفي "إن الله
مصالح العرب...جلد اوّل - و في "عند مليك مقتدر ـ و كلها لا يفهم منها سوى معنى الرعاية والحفظ والدخول فى الكنف المقدس- فمن أين تؤخذ كلمة السماء من كلمة (إليه)؟ اللهم إن هذا لظلم للتعبير القرآني الواضح خضوعاً لقصص وروايات لم يقم على الظن بها فضلا عن اليقين برهان و لاشبه برهان الله وبعد، فما عيسى إلا رسول قد خلت من قبه الرسل، ناصبه قومه العداء وظهرت على وجوههم بوادر الشر بالنسبة إليه فالتجأ إلى الله شأن الأنبياء و المرسلين فأنقذه الله بعزته و حكمته وخيب مكر أعدائه وهذا هو ما تضمنته الآيات "فلما أحس عيسى منهم الكفر قال من أنصارى إلى الله إلى آخرها بين الله فيها دقة مكره بالنسبة إلى مكرهم و أن مكرهم في اغتيال عيسى قد ضاع أمام مكر الله فى حفظه و عصمته إذ قال الله يا عيسى إني متوفيك ورافعك إلى و مطهرك من الذين كفروا فهو يبشره بإنجائه من مكرهم و ردّ كيدهم في نحورهم و أنه سيستوفى أجله حتى يموت حتف أنفه من غير قتل ولا صلب ثم يرفعه إليه و هذا هو ما يفهمه القارئ للآيات الواردة فى شأن نهاية عيسى مع قومه متى وُقِفَ على سنة الله مع انبيائه حين يتألب عليهم خصومهم ومتى خلا ذهنه من تلك الروايات لا ينبغي أن تحكم في القرآن ولست أدرى كيف يكون إنقاذ عيسى بطريق انتزاعه من بينهم ورفعه بجسده إلى السماء مكرا؟ وكيف يوصف بأنه خير من مكرهم مع أنه شئ ليس في استطاعتهم أن يقاوموه شئ ليس في قدرة البشر إلا أنه لا يتحقق مكر فى مقابلة مكر إلا إذا كان جاريًا على أسلوبه غير خارج عن مقتضى العادة فيه وقد جاء مثل هذا في شان محمد صلى الله عليه وسلم "وإذ يمكربك الذين كفروا ليثبتوك أو يقتلوك أو يخرجوك و يمكرون و يمكر الله والله خير 370
مصالح العرب...جلد اوّل 371 الماكرين والخلاصة من هذا البحث: (1) أنه ليس فى القرآن الكريم ولا في السنة المطهرة مستند يصلح لتكوين عقيدة يطمئن إليها القلب بأن عيسى رفع بجسمه إلى السماء وأنه حى إلى الآن فيها وأنه سينزل منها آخر الزمان إلى الأرض - (2) أن كل ما تفيد الآيات الواردة في هذا الشان هو وعد الله عيسى بأنه متوفيه أجله و رافعه إليه وعاصمة من الذين كفروا و أن هذا الوعد قد تحقق فلم يقتله أعداؤه ولم يصلبوه و لكن وفاه الله أجله ورفعه إليه - (3) أن من أنكر أن عيسى قد رفع بجسمه إلى السماء وأنه فيها حى إلى الآن وأنه سينزل منها اخر الزمان فإنه لا يكون بذلك منكرا لما ثبت بدليل قطعى فلا يخرج عن إسلامه وإيمانه و لا ينبغي أن يحكم عليه بالردة، بل هو مسلم مؤمن إذا مات فهو من المؤمنين يُصلّى عليه كما يصلى على المؤمنين و يدفن في مقابر المومنين ولا شبهة في إيمانه عند الله والله بعباده خبير بصير - اما السؤال الأخير فى الاستفتاء و هو (ماحكم من لايومن به إذا فرض أنه عاد مرة أخرى إلى الدنيا فلا محل له بعد الذي قررناه ولا يتجه السؤال عنه والله أعلم (محمود شلتوت) مندرجہ بالا عربی فتویٰ کا ترجمہ حسب ذیل ہے.از هر کی سب سے بڑی مجلس کے پاس جناب عبد الکریم خان صاحب نے جو ان دنوں مشرق وسطی کی فوجوں کی قیادت عامہ میں شامل ہیں، ایک استفسار بھیجا کہ کیا قرآن کریم اور سنت نبویہ سے حضرت عیسی فوت شدہ ثابت ہوتے ہیں یا زندہ؟ نیز اس مسلمان کے متعلق کیا فتوی ہے جو حیات مسیح کا منکر ہے؟ اور اگر حضرت عیسی کا دوبارہ دنیا میں آنا درست ہوتو جو نص اس وقت ان پر ایمان نہ لائے گا اس کا کیا حکم ہے؟ یہ استفسار کے جواب کے لئے جماعت کبار العلماء کے رکن فضیلت الاستاذ علامہ محمود شلتوت کے سپرد کیا گیا.جنہوں نے.
مصالح العرب.....جلد اول 372 حسب ذیل جواب تحریر کیا ہے.اما بعد قرآن کریم نے تین سورتوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کا ایسے طور پر ذکر فرمایا ہے جس سے ان کے ہونے والے انجام کا پتہ لگتا ہے.1.سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فلما أحس عيسى منهم الكفر (الآية) 2.سورۃ النساء میں آتا ہے.وقولهم إنا قتلنا المسيح عيسى ابن مريم رسول الله (الآية) 3 سورۃ المائدہ میں فرمایا.وإذ قال الله يا عيسى ابن مريم (الآية) یہی آیات ہیں جن میں حضرت عیسی علیہ السلام کے انجام کو قرآن پاک نے بیان کیا ہے.آخری آیت ( سورۃ مائدہ والی ) اس معاملہ کا ذکر کرتی ہے جو دنیا میں نصاری کے مسیح اور ان کی والدہ کی عبادت کرنے سے متعلق ہے.اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں حضرت مسیح علیہ السلام سے سوال کیا ہے.آیت مذکورہ حضرت مسیح علیہ السلام کی زبانی بتاتی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو ہمیشہ وہی کہا جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے نیز آیت بتلاتی ہے کہ جب تک حضرت عیسی علیہ السلام ان کے درمیان رہے ان کے نگران تھے اور انہیں اپنی توفی کے بعد اپنی قوم میں پیدا ہونے والے واقعات و حالات کا مطلقاً علم نہیں ہے.لفظ تو فی قرآن مجید میں موت کے معنوں میں بکثرت آیا ہے یہاں تک کہ توفی کے یہ معنی ہی غالب اور متبادر ہو گئے ہیں.اور لفظ تو فی موت کے معنی کے سوا کسی اور معنی میں صرف اسی وقت کا استعمال ہوا ہے جب کہ اس کے ساتھ کوئی ایسا قرینہ پایا جاتا ہو جو اسے اس متبادر إلى الذهن معنی میں استعمال ہونے سے روکتا ہو.آیات ذیل بطور نمونہ یہ ہیں.قل يتوفاكم ملك الموت الذى و كل بكم إن الذين توفتهم الملائكة ظالمى أنفسهم ولو ترى إذ يتوفى الذين كفروا الملائكة توفته رسلنا ومنكم من يتوفى حتى يتوفاهن الموت توفنى مسلما وألحقني بالصالحين اور آیت قرآنی فلما تو فيتنى كنت أنت الرقيب عليهم میں لفظ تو فیتنی کا حق ہے کہ اسے مذکورہ بالا متبادر معنوں پر ہی محمول کیا جائے اور وہ یہ کہ توفی کے معنے موت کے
مصالح العرب.....جلد اول 373 ہیں.اس لفظ کے یہ معنی تمام لوگ جانتے ہیں اور خود لفظ توفی سے نیز آیت کے سیاق سے بھی سب عربی بولنے والے یہی معنے سمجھتے ہیں.اندریں صوررت اگر اس آیت میں کچھ اور نہ ملایا جائے جس سے مسیح علیہ السلام کے انجام کی وضاحت کی جائے تو یہ کہنے کی ہر گز گنجائش نہیں ہے کہ حضرت عیسی فوت نہیں ہوئے یا یہ کہ زندہ ہیں.اس آیت میں اس رکیک تاویل کا بھی موقع نہیں کہ وفات سے مراد اس جگہ وہ وفات ہے جو آسمان سے اترنے کے بعد واقع ہوگی.یہ تاویل وہ لوگ کرتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسی آسمان میں زندہ ہیں اور وہی آخری زمانہ میں آسمان سے اتریں گے کیونکہ زیر نظر آیت واضح طور پر اس تعلق کی حد بندی کر رہی ہے جو ان کا اپنی قوم سے تھا باقی وہ لوگ جو آخری زمانہ میں ہیں وہ تو بالا تفاق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم ہیں نہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی قوم.اس لئے ان سے حضرت عیسی کا کیا تعلق.سورۃ نساء کی آیت میں ”بل رفعه الله إلیہ “ آیا ہے.بعض بلکہ اکثر مفسرین میں اس کی تفسیر آسمان پر اُٹھائے جانے کے ساتھ کی ہے.وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے مسیح کی شکل کسی اور پر ڈال دی اور انہیں جسم سمیت آسمان پر اٹھا لیا.وہ اب آسمان میں زندہ ہیں وہاں سے آخری زمانہ میں اتریں گے.سؤروں کو قتل کریں گے اور صلیوں کو توڑیں گے.مفسرین اپنے اس عقیدہ کی بنیاد اول تو ان روایات پر رکھتے ہیں جو بتاتی ہیں کہ عیسی دجال کے بعد نازل ہوں گے.یہ روایات مضطرب ہیں.ان کے الفاظ اور معنی میں اتنا شدید اختلاف ہے کہ تطبیق ناممکن ہے خود علماء حدیث نے اس کی تصریح کی ہے.علاوہ ازیں یہ وہب بن منبہ اور کعب الاحبار کی روایات ہیں جو اہل کتاب میں سے مسلمان ہوئے تھے.علمائے جرح و تعدیل کے نزدیک ان راویوں کا جو درجہ ہے وہ آپ خود جانتے ہیں دوسری بنیاد مفسرین کے نزدیک حضرت ابو ہریرہ کی وہ روایت ہے جس میں انہوں نے نزول عیسی کی خبر ذکر کرنے پر حصر کیا ہے.یہ حدیث اگر صحیح بھی ہو تو بھی حدیث احاد ہے اور علماء کا اس پر اجماع ہے کہ احادیث احاد کسی عقیدہ کی بنیاد نہیں بن سکتیں اور نہ پیشگوئیوں کے سلسلے میں ان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے.مفسرین کے دعوی کی تیسری بنیاد حدیث معراج ہے جس میں آتا ہے کہ جب آنحضر صلی اللہ علیہ وسلم آسمان پر گئے تو یکے بعد دیگرے آسمان کھلتے جاتے تھے اور حضور ان میں داخل ہوتے جاتے تھے.اسی اثناء میں حضور نے دوسرے آسمان پر حضرت عیسی اور ان کے خالہ زاد بھائی حضرت بیٹی علیہ السلام کو دیکھا.ہمارے نزدیک اس سند سے اس استدلال کی کمزوری
مصالح العرب.....جلد اول 374 ظاہر کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ اکثر شارحین حدیث نے معراج کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نبیوں سے ملنا صرف روحانی قرار دیا ہے اور جسمانی ملاقات کی نفی کی ہے ملاحظہ ہو فتح الباری ، زادالمعاد وغیرہ.کتنی عجیب بات ہے کہ مفسرین بل رفعه الله إلیہ میں رفع کے معنی حضرت عیسی کے آسمان پر چلے جانے کا استدلال حدیث معراج سے کرتے ہیں جبکہ ان میں سے ہی ایک گروہ حدیث معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عیسی علیہ السلام سے ملاقات کو جسمانی قرار دینے کے لئے آیت بل رفعه الله إلیہ سے سند پکڑتا ہے.گویا اس طرح جب وہ حدیث کی شرح کرنے لگتے ہیں تو اپنے مفہوم کے لئے آیت کو دلیل گردانتے ہیں اور جب آیت کی تفسیر کرتے ہیں تو اپنے مفہوم کیلئے آیت پر حدیث کو دلیل بنا لیتے ہیں.ہم جب سورۃ آل عمران كى آيت إنى متوفيك و رافعك إلى كوسورت نساء كى آيت بل رفعہ اللہ الیہ سے ملاتے ہیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ مؤخر الذکر آیت میں پہلی آیت کے وعدہ کے ایفاء کی خبر دی گئی ہے اور یہ وعدہ وفات ، رقع اور کفار کے الزامات سے تطہیر کا تھا.دوسری آیت (بل رفعه الله إليه ) میں اگر چہ وفات اور تطہیر کا ذکر موجود نہیں ، صرف رفع الی اللہ کا بیان ہے لیکن ضروری ہے کہ اس آیت کی تفسیر کے وقت دونوں آیتوں کو اکٹھا کرنے کے لئے پہلی آیت میں مذکور جملہ امور کو ملحوظ رکھا جائے پس معنی یہ ہونگے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی کو وفات دی ان کا رفع فرمایا اور کفار سے انہیں تطہیر بخشی.علامہ الوتی نے إنى متوفيك كى تفسیر میں متعدد معانی ذکر کئے ہیں جن میں سے زیادہ واضح اور موزوں تر یہ ہیں کہ اے عیسی ! میں تیری مدت حیات کو مکمل کر کے تجھے طبعی موت سے وفات دینے والا ہوں ، تجھ پر ان کو مسلط نہ ہونے دوں گا جو تجھے قتل کر دیں.یہ دشمنوں سے محفوظ رکھنے اور ان کے منصوبہ قتل سے بچانے کے لئے کنایہ ہے کیونکہ خدا کے پوری عمر دینے اور طبعی عمر سے وفات دینے سے یہی لازم آتا ہے.ظاہر ہے کہ جو رفع بعد وفات ہوتا ہے وہ مرتبہ کی بزرگی کے معنوں میں ہی ہوتا ہے نہ کہ جسم کا اُٹھانا، بالخصوص جبکہ رافعک کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قول ومطهرك من الذين كفروا بھی موجود ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر صرف حضرت مسیح علیہ السلام سے اعزاز و تکریم کا معاملہ مذکور ہے.لفظ رفع ان معنوں میں قرآن مجید میں بکثرت آیا ہے جیسا کہ آیات ذیل سے ظاہر ہے.
مصالح العرب.....جلد اول 375 في بيوت أذن الله أن ترفع نرفع درجات من نشاء ورفعنا لك ذكرك ـ ورفعناه مكان عليا - يرفع الله الذين آمنوا.(سورة النور: 37) پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد رافعک الی اور بل رفعہ اللہ الیہ میں اسی مطلب کو ظاہر کیا ہے.جو عربوں کے قول لحق فلان بالرفيق الأعلى اور آيت إن الله معنا نيز عند مليك مقتدر میں داخل ہو جانے کے کچھ اور مراد نہیں ہوتا نہ معلوم لفظ إلیہ سے آسمان کا لفظ کیسے نکال لیا گیا ہے.یقیناً یہ قرآن کریم کی واضح عبارت پر ظلم ہے اور محض ان روایات اور قصوں کو ماننے کی بناء پر یہ ظلم کیا گیا ہے جن کی یقینی صحت تو کجا ظنی صحت پر بھی کوئی دلیل یا آدھی دلیل بھی قائم نہیں ہوتی.علاوہ ازیں حضرت عیسی علیہ السلام محض ایک رسول تھے ان سے پہلے رسول گزر چکے ہیں.حضرت عیسی کی قوم نے ان سے دشمنی کی اور ان کے متعلق ان کے بُرے ارادے ظاہر ہو گئے.تب وہ جملہ انبیاء و مرسلین کی سنت کے مطابق ذات باری کی طرف ملتیجی ہوئے.اللہ تعالیٰ نے اپنے غلبہ و حکمت کے مطابق ان کو دشمنوں کے ہاتھوں سے بچایا اور ان کے منصو بہ کو نا کام کر دیا.یہ وہ امر ہے جو آیت قرآنیہ فلما أحس عيسى منهم الكفر قال من أنصارى إلى اللہ میں مذکور ہوا ہے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی تدبیر کی نسبت اپنی تدبیر کے زیادہ مخفی ہونے کا ذکر فرمایا ہے.اور یہ کہ انہوں نے حضرت عیسی کے تباہ کرنے کے لئے جو مکر کیا تھا اس خدائی تجویز کے سامنے جو حضرت عیسی کی حفاظت کے لئے تھی ناکام ہو گیا.فرمایا: إذ قال الله يا عيسى إنى متوفيك و رافعك إلى ومطهرك من الذين کفروا اس میں اللہ تعالیٰ نے مسیح کو بشارت دی ہے کہ وہ دشمنوں کی تدبیر کو نا کام کر دیگا اور مسیح کو ان کے مکر سے بچائے گا.مسیح کو پوری عمر دے گا یہاں تک کہ مسیح" قتل وسلب کے بغیر طبعی موت سے فوت ہوگا پھر خدا اس کا رفع کریگا.یہ وہ مفہوم ہے جو ہر پڑھنے والے کو ان آیات سے سمجھ آتا ہے جن میں حضرت عیسی کے انجام کی خبر دی گئی ہے بشرطیکہ وہ پڑھنے والا خدا تعالیٰ کی اس سنت سے واقف ہو جو وہ نبیوں کے ساتھ اختیار کرتا رہا ہے جبکہ انکے دشمن ان پر حملہ آور ہوتے ہیں نیز اس قاری کا ذہن ان روایات سے بھی خالی ہو جو کسی صورت میں قرآن مجید پر حکم نہیں بن سکتیں.
376 مصالح العرب.....جلد اوّل میری تو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ حضرت عیسی کو یہود کے درمیان سے چھین کر آسمان پر لے جانا مگر کیسے کہلا سکتا ہے؟ اور پھر اسے ان کی تدبیر سے بہتر تدبیر کیسے قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ اس کا مقابلہ کرنا یہود کی اور نہ کسی اور کی طاقت میں ہے.یا درکھیئے کہ لفظ مکر کا اطلاق اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ وہ بات اسی طریق پر ہو اور عادت سے خارج نہ ہو.چنانچہ بالکل اسی طرح کی آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں وارد ہوئی ہے فرمایا: وإذ يمكر بك الذين كفروا ليثبتوك أو يقتلوك أويخرجوك ويمكرون ويمكر الله والله خير الماكرين خلاصه بحث مندرجہ بالا بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ 1.قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں کوئی ایسی سند موجود نہیں ہے جو تسلی بخش طریق پر اس عقیدہ کی بنیاد بن سکے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور وہ اب تک وہاں زندہ ہیں اور وہیں سے کسی وقت زمین پر نازل ہونگے.2.اس بارے میں آیات قرآنیہ صرف یہ ثابت کر رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی سے وعدہ فرمایا کہ ان کی مدت عمر کو پورا کریگا اور پھر اس کا اپنی طرف رفع کریگا اور اسے کافروں سے بچائے گا.اور یہ کہ یہ وعدہ پورا ہو چکا.دشمن حضرت عیسی کو نہ قتل کر سکے نہ صلیب سے مار سکے بلکہ اللہ نے ان کی مدت زندگی کو پورا کر کے ان کو وفات دی اور ان کا رفع کیا.3.یقیناً جو شخص حضرت عیسی کے زندہ جسم سمیت آسمان پر جانے اور آج تک وہاں بیٹھے رہنے اور آخری زمانہ میں اترنے کا منکر ہے وہ کسی ایسی بات کا منکر نہیں جو کسی قطعی دلیل سے ثابت ہو.پس ایسا شخص اپنے اسلام و ایمان سے ہرگز خارج نہیں ہوتا.اور اس کو مرتد قرار دینا ہرگز مناسب نہیں بلکہ وہ پکا مومن مسلم ہے.جب وہ فوت ہوگا تو مومن ہوگا.اس کی نماز جنازہ اسی طرح پڑھی جائیگی جس طرح مومنوں کی پڑھی جاتی ہے اور اسے مومنوں کے قبرستان میں دفن کیا جائیگا.اللہ کے نزدیک ایسے شخص کے ایمان میں کوئی داغ نہیں ہے اللہ اپنے بندوں کو جاننے والا اور دیکھنے والا ہے.رہا استفتاء میں مندرج آخری سوال کہ اگر حضرت عیسی دوبارہ آئیں گے تو ان کے
مصالح العرب.....جلد اول 377 منکر کا کیا حکم ہوگا؟ تو ہمارے مندرجہ بالا بیان کے بعد اس سوال کا کوئی موقع ہی نہیں اور یہ ہے سوال پیدا ہی نہیں ہوتا.واللہ اعلم محمود شلتوت محمود شلتوت کے فتویٰ کا رد عمل اس فتویٰ کا منظر عام پر آنا ہی تھا کہ مصر کے قدامت پرست علماء نے علامہ محمود شلتوت کے خلاف مخالفت کا زبر دست طوفان کھڑا کر دیا اور اخبارات میں سب و شتم اور طعن و تشنیع سے بھرے ہوئے سخت اشتعال انگیز مضامین شائع کئے اور لکھا کہ یہ فتویٰ قادیانیوں کی موافقت میں ہے اور یہی وہ ہتھیار ہے جس سے قادیانی ہمارے ساتھ مباحثات و مناظرات کرتے ہیں اور یہ فتویٰ قادیانیت کی عظیم الشان فتح ہے اس لئے از ہر کو چاہیے کہ اس کو واپس لے لے.علماء مصر از ہر نے اس فتویٰ پر کس قدر گھبراہٹ اور پریشانی کا اظہار کیا ؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے ذیل میں فضیلت الاستاذ الشیخ عبد الله محمد الصدیق الغماری کے ایک مضمون کے بعض اہم اقتباسات.(جناب شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ بلاد عربیہ کے ایک مفصل مضمون ( مطبوعہ الفضل 8/9 وفا ہش 1325 ، 8/9 جولائی 1946 ء سے ماخوذ) کا اردو ترجمہ دیا جاتا ہے.الشیخ محمد الصدیق الغماری نے لکھا.ایک ہندوستانی عبدالکریم نامی نے ایک سوال مشائخ از ہر کے نام ارسال کیا جس میں یہ دریافت کیا گیا کہ آیا حضرت عیسی از روائے قرآن کریم وحدیث زندہ ہیں یا وفات یافتہ.“ یہ اس سوال کا خلاصہ ہے.اگر سائل کا مقصد استفادہ اور استر شاد کا ہوتا تو اس سوال کا جواب ان ہندوستانی علماء کی کتب میں دیکھتا جو اس موضوع میں اردو اور عربی زبان میں تحریر کی گئی ہیں.لیکن یہ ہندوستانی اس سوال سے مستفیض ہونا نہیں چاہتا تھا بلکہ وہ تو اس فتویٰ کو با قاعدہ قانونی طریقہ سے حاصل کر کے اپنے دعاوی کے اثبات میں بطور ایک دلیل اور سہارا بنانا چاہتا تھا.اس کا یہ حیلہ کارگر ہو گیا اور دنیا کے عجائبات میں سے ایک امجو بہ ہو گیا بلکہ یہ حیلہ اپنے نوع کے لحاظ سے اول نمبر پر ہے.یہ وہ انجو بہ ہے جس سے ایک اندھے ہندوستانی نے ایک عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے، چنانچہ الرسالة والرواية کے 462 صفحہ میں ایک فتویٰ شیخ محمود شلتوت کے دستخطوں.شائع ہوا ہے جس کا عنوان ” رفع عیسی ہے اور اس فتویٰ کا مضمون یہ ہے کہ عیسی حقیقی موت
مصالح العرب.....جلد اول 378 سے وفات پاچکے ہیں.اور آپ کا رفع آسمان کی طرف نہیں ہوا.اور نہ ہی وہ آخری زمانہ میں نزول فرمائیں گے اور اس بارہ میں جتنی احادیث وارد ہیں وہ احاد کا درجہ رکھتی ہیں اور عقائد کے بارہ میں احاد کا کوئی درجہ نہیں.نیز یہ روایت وہب بن منبہ اور کعب الاحبار کی ہے اور ان دونوں کا درجہ محدثین کے نزدیک معروف ہے یعنی غیر مقبولین اور غیر تفتین.یہ وہ فتویٰ ہے جس نے امت محمدیہ کے اجماع کو پاش پاش کر دیا ہے اور احادیث متواترہ کے خلاف ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فتویٰ اس وجہ سے ایک بہت بڑی مصیبت اور ایک اہم واقعہ ہے.اس فتویٰ میں پہلی غلطی تو یہ ہے کہ اس کا دینے والا جلد باز معلوم ہوتا ہے.کیونکہ جب قاری اس فتویٰ اور غیر مصر کے علماء کی تحقیق کے درمیان مواز نہ کریگا تو وہ مندرجہ ذیل امور پر پہنچے گا کہ جامعہ از ہر کو علم حدیث سے کوئی تعلق نہیں.یہ نتیجہ اس سے نکلتا ہے کہ مفتی نے دعویٰ کیا ہے کہ نزول عیسی کی حدیث احاد میں سے ہے.دوسرے اسے اس حدیث کی صحت میں شک ہے جو کہ بخاری شریف اور مسلم میں موجود ہے.سوم وہ مفتی کہتا ہے کہ حدیث نزول وہب اور کعب سے مروی ہے.چہارم اس کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ دونوں راوی ضعیف ہیں.حالانکہ ان کی احادیث صحیح ہیں.پنجم یہ کہ احادیث نزول میں اضطراب پایا جاتا ہے.دوم ازہر میں کوئی ایسا فرد نہیں پایا جاتا جو اجماع اور خلاف کے مواقع کو جانتا ہو کیونکہ مفتی نے حضرت عیسی کے رفع اور نزول سے انکار کیا ہے.دوم یہ کہ احاد احادیث عقائد ، اور مغیبات میں عمل نہیں ہوتا.یہ وہ امور ہیں جو قاری کے ذہن میں موازنہ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں اور اس فتویٰ کو ازہر کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ ازہر کے علماء کبار میں سے ایک عالم نے فتویٰ دیا ہے اور لوگ آج کل ظاہری حالات کی طرف دیکھتے ہیں اور وہ جزو کو کل پر محمول کرتے ہیں چاہے وہ صحیح امر کے خلاف ہی ہو.قادیانی جماعت نے اس فتویٰ کو اپنے لئے بطور ایک دلیل اور ہتھیار اختیار کر لیا ہے اور اس فتویٰ کو لے کر وہ مسلمانوں کے پاس جا کر ان کو بیوقوف بناتے اور ان کے خیال کو خطا پر محمول کرتے تھے اور وہ خوش اور مسرور ہیں اور وہ کامیاب اور محمد لہجہ میں کہتے ہیں.ماهو ذا الأزهر يوافقنا ويخا لفكم فليس عيسى بحى ولا هو مرفوع ولا هو نازل كما تزعمون فأين تذهبون یہ ہے جامعہ الازہر جو ہماری تائید کر رہا ہے اور تمہاری مخالفت.پس عیسی نہ تو زندہ ہیں
مصالح العرب.....جلد اول 379 اور نہ ہی ان کو آسمان پر اٹھایا گیا ہے اور نہ ہی وہ تمہارے گمان اور خیال کے مطابق آسمان سے نزول فرما ئیں گے تم کس خیال میں پھر رہے ہو.ہم نے اس فتوئی اور ان حالات کو بچشم دید دیکھا اور حضرت مفتی صاحب سے کہہ دیا جو کچھ اس فتویٰ کے متعلق سنا اور دیکھا اور اس کی وجہ سے جو کچھ ہوا اور جو آئندہ ہوگا اس کا بھی ذکر کیا مگر مفتی صاحب نے اس کا یہ جواب ديا أنا أبديت رأيي ولا يضرنى أن أوافق القاديانية أو غيرهم - یعنی میں نے اپنی درست رائے کا اظہار کر دیا ہے اور مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ میری اس رائے سے قادیانی جماعت یا کسی اور کی تائید ہوتی ہے.اسی سلسلہ میں یہ بھی لکھا :.بعض اوقات مصلحت عامہ اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ بعض آراء کو ظاہر نہ کیا جائے اور ان کو زاویہ خمول اور طاق نسیان میں رکھ دیا جائے.حضرت مفتی صاحب عالم مریخ میں زندگی بسر نہیں کرتے کہ ان کے متعلق یہ خیال کیا جائے کہ ان کو زمانہ کے حالات کا علم نہیں.سرزمین ہند میں ایک گروہ جو قادیانی فرقہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اس کی بحث اور کلام کا نقطۂ مرکزی موت عیسی اور عدم رفع ہے.اس جماعت نے اپنے مبلغین ترکی ، البانیہ، شام، مصر، امریکہ اور انگلستان وغیرہ میں بھیجے ہوئے ہیں.مفتی صاحب پر یہ واجب تھا کہ وہ اس گروہ کی مخالفت کر کے خدا کا قرب حاصل کرتے اور مسلمانوں کی تائید کرتے.اگر وہ اس خیال سے بھی نہ کرتے تو کم از کم ان علماء و کبار کی تائید کرتے جنہوں نے اپنی زندگی ان قادیانیوں کے خلاف جہاد کے لئے وقف کر رکھی ہے.اے مفتی ! تجھے تیرے رب کی ہی قسم ہے دیکھ کہ ہمارے ان ہندوستانی علماء بھائیوں کی کیا حالت ہوگی جنہوں نے کہ نزول عیسی کو ستر احادیث سے اور حیات عیسی و رفع عیسی کو ثابت کر دیا....جب ان کو قادیانی جماعت کے ذریعہ سے یہ اطلاع ہوئی ہوگی کہ از ہر ان کی مخالفت کرتا ہے اور اس کی رائے ہے کہ ان مسائل میں نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ شبہ دلیل.خدا ن کی قسم میں تجھ سے پھر پوچھتا ہوں کہ وہ کیا کہیں گے؟ اور ان کی کیا حالت ہوگی؟ مجھے یقین ہے کہ علمائے ہند دو احتمالوں میں مبتلا ہو جائینگے اور وہ دونوں ہی عار کا باعث ہیں.یا تو وہ یہ کہیں گے کہ از ہر علماء سے خالی ہو چکا ہے.یا وہ کتب ستہ یعنی صحاح ستہ اور کتب تفاسیر اور ان کی احادیث کی کتب سے جو کہ اہل علم کے درمیان متداول ہیں ان سے ناواقف ہیں یا وہ اس امر کا اظہار کرینگے کہ علمائے ازہر میں دینی جرات نہیں ہے جو کہ خصوصاً ایک مومن کے
مصالح العرب.....جلد اول 380 شامل حال ہونی چاہیے، چاہے وہ پہلی رائے کا اظہار کرینگے یا دوسری کا جامعہ از ہر کا رتبہ ان کی آنکھوں سے گر جائے گا اور قلوب سے تعظیم جاتی رہے گی اور علمائے ازہر کے متعلق وہ شاعر کا یہ قول پڑھیں گے وإخوانا حسبتموهم فكانوها، ولكن دروعا للاعادي اور کئی بھائی ہیں جن کو میں نے اپنے لئے زرہ یعنی بچاؤ کا ذریعہ خیال کیا تھا.بیشک وہ آفات ومصائب سے بچانے کے لئے زرہیں تھیں لیکن حقیقت میں دشمنوں نے ان سے فائدہ اٹھایا.(ماخوذ از الفضل 8 وفاہش 1325، 8 جولائی 1946 ءصفحہ 4-5) الشیخ الغماری نے علامہ شلتوت کو وفات مسیح کا صاف صاف اقرار کرنے کی پاداش میں 66 بُرا بھلا کہنے کے علاوہ ان کو نصیحت کرتے ہوئے لکھا.1.استاذ شلتوت نے اپنی رائے کے اظہار میں غلطی کی ہے.مفتی کو چاہیے کہ وہ قواعد افتاء اور اصول سے کما حقہ واقف ہو.انہیں چاہیے تھا کہ وہ از روئے علم غور سے دیکھتے اس معاملہ میں جو ان کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا اور مستفتی (فتوی دریافت کرنے والے ) کے احوال کا خیال رکھتے ہوئے فتویٰ دیتے.نیز یہ خیال کرتے کہ اس سوال کا مقصد کیا تھا کیونکہ بعض اوقات مفتی کے سامنے ایسا واقعہ پیش کرنے سے یہ غرض ہوتی ہے کہ اسے فتنہ برپا کرنے میں بطور جواب استعمال کیا جائے اس لئے مفتی کو چاہیئے کہ وہ بیدار اور روشن بصیرت والا ہو.اور سوال کے مطابق جواب دے.جیسے علماء سابقین کیا کرتے تھے..یہ فتویٰ ہمارے ایک ہندوستانی احمدی بھائی بابو عبدالکریم صاحب یوسف زئی نے دریافت کیا تھا.ان کے متعلق شیخ الغماری نے تحریر کیا.ایک ہندوستانی فوجی جو کہ چوبیس گھنٹے موت کے منہ کے سامنے کھڑا ہے اور وہ لوگوں اور میں سے سب سے زیادہ محتاج ہے کہ وہ احکام تو بہ پر عمل کرے اور مظالم سے خلاصی کا طریقہ معلوم کرے اور حقوق اللہ والعباد کا علم حاصل کرے کیونکہ ان حالات میں اسے ان باتوں کی معرفت زیادہ ضروری ہے.لیکن اسے کیا سوجھتا ہے؟ یہ کہ حضرت عیسی زندہ ہے یا وفات پا چکے ہیں؟ وہ آسمان سے نزول فرما ئیں گے یا نہیں؟ اسے یہ کیا خیال آیا اور ان سوالات سے یا تعلق؟ کیا اس نے تمام عقائد سے واقفیت حاصل کر لی ہے اور اس کے لئے سوائے اس
00000 مصالح العرب.....جلد اول 381 عقیدہ کی تخلیق کے کوئی چیز باقی نہیں رہی؟ کیا اس نے ہر واجب علم حاصل کر لیا ہے؟ کیا احکام } الصلوۃ و الصوم کو اس نے معلوم کر لیا؟ اور سمجھ لیا ہے؟ اگر فاضل استاذ جلدی نہ کرتے اور ان سوالوں پر غور کرتے تو وہ حقیقی راز معلوم کر لیتے جس کی وجہ سے یہ امر دریافت کیا گیا تھا اور پھر اس کو درست جواب دیتے لیکن علامہ شلتوت نے ان امور پر غور نہ کیا اور جلدی سے جواب دے کر ایک بہت بڑی مصیبت خرید لی ہے.الفضل 9 وفا 1325 ہش ، 9 جولائی 1946 ء صفحہ 4 علامہ محمود شلتوت کی طرف سے علماء کو دلیل اور مسکت جواب الغرض الشیخ عبداللہ محمد الصدیق الغماری اور دوسرے مصری علماء نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا کہ علامہ شلتوت فتویٰ وفات مسیح واپس لے لیں مگر علامہ موصوف نے قرآن و حدیث کو چھوڑ کر نام نہاد علماء کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے صاف انکار کر دیا.اور خم ٹھوک کر میدان مقابلہ میں آگئے اور الرسالة والرواية کی پانچ اشاعتوں میں مخالفین کے چھوٹے بڑے سب اعتراضات کے عالمانہ رنگ اور شستہ اور پاکیزہ زبان میں نہایت درجہ مدلل اور مسکت جوابات دیئے.جن سے مسئلہ وفات مسیح کے تمام پہلو بالکل نمایاں ہو کر سامنے آگئے.کتاب الفتاوی میں اشاعت علامہ محمود شلتوت نے ایک عرصہ بعد اپنا یہ مکمل فتویٰ اور اس پر اعتراضات کے جوابات کا شخص اپنی مشہور کتاب الفتاوی میں بھی چھاپ دیا.اس طرح اس فتویٰ کو مصری حکومت کے مفتی اعظم کے سرکاری فتوی کی حیثیت حاصل ہو گئی.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 296 تا 313
مصالح العرب.....جلد اول 382 مولوی رشید احمد چغتائی صاحب کی بلا د عر بیہ میں آمد ہم نے مکرم مولا نا چوہدری محمد شریف صاحب کی خدمات کے تذکرہ میں عرض کیا تھا کہ ان کے دور میں بلا دعربیہ میں دو مبلغین کرام تشریف لائے جن میں سے ایک مولوی رشید احمد چغتائی صاحب تھے.جنہوں نے پہلے اردن میں اور پھر لبنان میں تبلیغ احمدیت کے لئے قابل قدر خدمات سرانجام دیں.ذیل میں اس کا کسی قدر تذکرہ کیا جائے گا.اردن مشن کی بنیاد خلیج فارس سے مراکش تک پھیلی ہوئی عرب دنیا میں شرق اردن (Jordon) ایک نہایت مشہو ر مملکت ہے.اردن کا علاقہ صدیوں تک دمشق ، حمص اور فلسطین کی طرح شام کی اسلامی عملداری میں شامل رہا.مگر پہلی جنگ عظیم کے بعد اسے برطانیہ کے زیر حمایت ایک مستقل ریاست تسلیم کر لیا گیا.یہ ریاست دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر برطانوی انتداب سے آزاد اور خود مختار ہو گئی اور عبداللہ بن الشریف حسین الہاشمی اس کے پہلے آئینی بادشاہ قرار پائے.شاہ عبد اللہ والی اردن کی بادشاہت کے تیسرے سال مولوی رشید احمد صاحب چغتائی واقف زندگی 3 ماه امان/ 1327 ہش بمطابق 3 مارچ 1948 ء کو حیفا سے شرق الاردن کے دار السلطنت عمان پہنچے اور ایک نئے احمدی مشن کی بنیاد ڈالی.یہ مشن 7 ماہ وفا 1328 ہمش بمطابق 7 جولائی 1949 ء تک جاری رہا.اس کے بعد آپ شام و لبنان میں تشریف لے گئے اور دین برحق کی منادی کرنے لگے.
مصالح العرب.....جلد اول حضرت مصلح موعود کی ہدایات 383 سید نا حضرت امیر المومنین المصلح موعودؓ نے مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کو قادیان.تائی کوقادیان سے رخصت کرتے وقت حسب ذیل ہدایات ان کی نوٹ بک میں تحریر فرمائی تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان باتوں سے پر ہیز کرو جن سے تعلق نہ ہو.قرآن کریم فرماتا ہے لغو باتوں سے پر ہیز کروہ تبلیغی ہدایات بہت دی جا چکی ہیں ان کو یاد کریں اور ان پر عمل کریں.کسی نے کہا ہے ایاز قدر خود بشناس اس مقولہ کو یا درکھو، ہم غریب لوگ ہیں.ہم نے اپنے ذرائع سے کام لے کر دنیا فتح کرنی ہے یہ سبق بھولا تو تبلیغ یونہی بر کار ہو جائیگی.باقی فتح دُعاؤں اور نماز اور روزہ سے آئے گی.تبلیغ سے زیادہ عبادت اور دُعا اور روزہ پر زور دو.خاکسار مرزا محمود احمد "(23/10/1946) 66 پھر 3 نبوت 1326 ہش بمطابق 3 نومبر 1947ء کو مولوی صاحب کا ایک خط ملاحظہ کر کے ارشاد فرمایا:.اب وقت کام کا ہے.تبلیغ پر زور دے کر ایک موت وارد کریں تا احمدیت دوبارہ زندہ ہو اور مالی اور روحانی قربانی کی جماعت کو نصیحت کریں.اب ہر ملک کو ایسا منظم ہونا چاہیے کہ ضرورت پڑنے پر وہی تبلیغ اور سلسلہ کا بوجھ اٹھا سکے.پہلے بہت سستی ہو چکی.اب ایک معجزانہ تغیر ہمارے مبلغوں اور جماعت میں پیدا ہونا چاہیے." اُردن مشن کی ابتداء نہایت پریشان کن ماحول اور حوصلہ شکن حالات میں ہوئی.قضیہ فلسطین کے باعث ہر طرف ابتری پھیلی ہوئی تھی اور دوسرے کثیر التعداد مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی طرح حیفا کے متعد د احمدی گھرانوں کو بھی ہجرت کر کے شام و لبنان میں پناہ گزین کی ہونا پڑا تھا.خود مولوی رشید احمد صاحب چغتائی جو حیفا ہی سے اردن میں تشریف لائے تھے محض اجنبی اور غریب الدیار تھے.مولوی صاحب موصوف نے اپنی تبلیغی، علمی اور اصلاحی سرگرمیوں کا آغاز ایک ہوٹل سے کیا جہاں آپ صرف چند ہفتے مقیم رہے مگر پھر جلد ہی اخراجات میں تنگی کی وجہ سے اپنے ایک عرب دوست السيد عبد الكريم المعايطه ابن الحاج محمد ھلال المعایطہ کے ساتھ ایک کمرہ میں رہائش پذیر ہو گئے.چند ماہ بعد جب فلسطین کے ایک مخلص عرب احمدی پناہ گزین السید طه
مصالح العرب.....جلد اول 384 القزق عمان میں آگئے تو مولوی صاحب ان کے پاس ایک مختصر کمرہ میں منتقل ہو گئے.یہ کمر کرایہ پر لیا گیا تھا اور شارع المحطة ( ریلوے روڈ) پر واقع تھا.اُردنی پریس میں احمدی مبلغ اور جماعت احمدیہ کا ذکر مکرم مولوی صاحب نے عمان میں قیام پذیر ہونے کے چند روز بعد نہ صرف انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ پیغام حق پہنچانا شروع کر دیا بلکہ اردن کے صحافیوں سے خصوصی رابطہ قائم کر کے پبلک کو احمدیت اور اس کی اسلامی خدمات سے روشناس کرانے کے بہترین مواقع پیدا کر لئے.نتیجہ یہ ہوا کہ نہایت مختصر وقت کے اندر پورے اُردن پریس میں احمدی مبلغ اور احمدیت کے تذکرے ہونے لگے.چنانچہ الاردن“، ”الجزيرة النسر، وكالة الأنباء العربیہ“ اور ” الدفاع جیسے مقتدر اور بااثر اخباروں نے تعارفی نوٹ شائع کئے یہاں بطور نمونہ صرف دو اقتباس مع ترجمہ درج کئے جاتے ہیں :.1 - الأردن‘ نے حسب ذیل نوٹ درج اشاعت کیا :.زارنا في إدارة هذه الجريدة المبشر الإسلامي الأستاذ رشيد احمد جغتائي الأحمدى الهندى فأنسنا به بعض الوقت و بالنظر لما يربط الدول العربية بدولة الباكستان الجديدة من روابط دينية واجتماعية سألنا حضرته أسئلة كثيرة تتعلق بالهند بمسلميها و هند و کیها- و والأستاذ ينتمى إلى الجماعة الأحمديه التي تبشر بالدين الإسلامي والمنتشرة فى أقطار العالم وهو شاب في نحو الثلاثين ربيعا أوقف حياته في خدمة دين الإسلام و نشرهـ وعلمنا أنه زار عدداً من الشخصيات الدينية والحكومية وسيتشرف بمقابلة جلالة الملك المعظم و حدثنا عن تعلق مسلم الهند بالعرب ومحبتهم لآل البيت.وقد قال إن مسلمى الهند يعتقدون أنهم مدينون دينا عظيما للعرب الذين نشروا بينهم لواء الإسلام فاهتدوا بهديه وأنهم لو
مصالح العرب.....جلد اول فقدوا أعظم ما لديهم في سبيل نصرة العرب لما وفوا جزءاً من فضلهم هذا عليهم ثم قال ردا على سؤالنا إن مسلمى الهند متعلقون بال البيت و محبون لهم أعظم الحب وقد أطلعنا الأستاذ على النشرات الدينية التي تصدر في جميع بلدان العالم لنشر الدين الإسلامي من قبل الجماعة الأحمدية ثم قال إن الجماعة فى أنحاء العالم تنشر الدعاية القوية لفلسطين العربية ومقدساتها الدينية ويقاومون الدعاية الصهيونية وكتب إمام الجماعة حضرت ميرزا بشير الدين محمود أحمد) مؤخراً رسالة فى موضوع فلسطين نشرت باللغة الأردية وترجمت إلى جميع اللغات دفاعا عن فلسطين العربية.385 (جریدہ ” الاردن عمان نمبر 1202 جلد 29.17 جمادی الاول 1367ھ بمطابق 2 اپریل 1948 ء ) مبلغ اسلام مولوی رشید احمد صاحب چغتائی الاحمدی الہندی ہمارے دفتر میں بغرض ملاقات تشریف لائے.ہم نے آپ سے ان دینی اور اجتماعی روابط و تعلقات کی بناء پر جو پاکستان کی نئی مملکت کو عرب حکومتوں سے وابستہ کرتے ہیں، نیز برصغیر کے مسلمانوں اور ہندوؤں کی نسبت متعد دسوالات کئے.جناب مولوی صاحب جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو مذہب اسلام کی تبلیغ و اشاعت کرتی اور اکناف عالم تک پھیلی ہوئی ہے.مولوی صاحب قریباً تمیں سالہ جوان ہیں.و آپ نے خدمت دین اور اشاعت اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے.ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ ملک کے بہت سے مذہبی راہنماؤں اور اعلیٰ سرکاری افسروں سے مل چکے ہیں اور عنقریب جلالۃ الملک شاہ معظم کی ملاقات سے بھی مشرف ہونے والے ہیں.آپ نے برصغیر کے مسلمانوں کے عرب سے تعلق اور اہل بیت نبوی سے عقیدت و محبت کا بھی تذکرہ کیا.انہوں نے فرمایا کہ مسلمانانِ برصغیر کا اعتقاد ہے کہ وہ عربوں کے بیحد مقروض ہیں جنہوں نے ان کے یہاں پر چم اسلامی لہرایا اور جن کی راہ نمائی سے وہ ہدایت یافتہ ہوئے.سو اگر وہ ی عربوں کی اعانت و تائید میں اپنی عزیز ترین متاع بھی خرچ کر دیں تب بھی وہ ان کی مہربانی کا
مصالح العرب.....جلد اول 386 صلہ نہیں دے سکتے.انہوں نے ایک سوال کے جواب میں مزید فرمایا.کہ برصغیر کے مسلمان اهل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے گہری محبت والفت رکھتے ہیں.مولوی صاحب نے وہ مذہبی لٹریچر بھی دکھایا جو احمدی جماعت کی طرف سے دنیا بھر میں دین اسلام کی اشاعت کے لئے شائع ہوتا ہے.پھر بتایا کہ جماعت احمد یہ فلسطین عربیہ اور اس کے مقدس مقامات کی حفاظت و تائید اور صہیونی پراپیگنڈا کے قلع قمع کے لئے سرگرم عمل ہے.چنانچہ حال ہی میں خود امام جماعت احمدیہ (حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ) نے مسئلہ فلسطین کے موضوع پر اردو میں ایک مضمون سپر د قلم فرمایا جوفلسطینی عربوں کے دفاع کی غرض سے دیگر زبانوں میں بھی شائع کیا جا چکا ہے.2.ممتاز جریدہ ”النسر“ نے لکھا:.قدم العاصمة المبشر الإسلامى الهندى ميرزا رشيد أحمد جغتائی الأحمدى ليقوم بجولة في ربوع الأردن وهو من الجماعة الأحمدية إحدى طوائف الإسلام ومركزها في الهند وإمامها الحالى حضرة ميرزا بشير الدين محمود أحمد وهذه الجماعة تعمل على الدعوة إلى الإسلام والتبشير بالدين الحنيف وينتشر أعضاؤها ومبشروها فى جميع أنحاء العالم وقد دخل في الإسلام ألوف من الناس بفضل جهود أفراد هذه الجماعة كما أسست عددا كبيراً من المساجد والجوامع والمراكز التبشيرية في أكثر أرجاء العالم ومنها في إنجلترا وأمريكا وأفريقيا وجزر الهند والصين واليابان وألبانيا وفرنسا وإيطاليا وسويسرا - وقد ترجمت الجماعة القرآن الكريم الى عشر لغات أجنبية ويبلغ عدد الأحمديين في العالم عدة ملايين وتعتقد جماعة الأحمديين بأن مؤسسها الأول حضرة ميرزا أحمد (عليه السلام) المولود سنة 1835ء والمتوفى سنة 1908ء هوا لمهدى المنتظر والمسيح الموعود والمجدد للقرن الرابع عشر الهجرى وقد جاء ليقيم الشريعة المحمدية ويحيى الدين ويخدم الإسلام حتى تكون
مصالح العرب.....جلد اول الغلبه له وقد ألف وكتب 80 كتابا كلها في تائيد الإسلام والدفاع عنه - وبعضها باللغة العربية الفصحى وقد أطلعنا المبشر الضيف على نشرات مختلفة تصدرها الجماعة الأحمدية في الهند وخارجها كما أخبر نا أن أفراد هذه الجماعة قاموا بدعاية واسعة لقضية فلسطين في مختلف مراكزها وخاصة في الهند حيث أصدر ميرزا بشير الدين رسالة باللغة الأردية يشرح فيها قضية فلسطين“.387 (جريده النسر عمان 4 جمادی الثانی 1368ھ بمطابق 13 را پریل 1948 ء نمبر 48 جلداول) ترجمہ: ان دنوں برصغیر سے میرزا رشید احمد چغتائی الاحمدی مملکت شرق الا ردن کے دورہ کی غرض سے دارالسلطنت عمان میں تشریف لائے ہوئے ہیں.آپ کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے جو اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے جس کا مرکز ہندوستان میں ہے اور جس کے موجودہ امام حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد ہیں.یہ جماعت اعلائے کلمہ اسلام میں مصروف ہے اور اس کے افراد اور مبشرین اکناف عالم تک پھیلے ہوئے ہیں.اس جماعت کی شاندار مساعی کے نتیجہ میں جہاں ہزاروں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں وہاں دنیا کے اکثر حصوں میں مسجدیں ، مدر سے اور تبلیغی مشن قائم ہو چکے ہیں جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں.انگلستان، امریکہ، افریقہ، جاوا، سماٹرا وغیرہ ، جزائر ہند ، چین ، جاپان ، البانیہ، فرانس، اٹلی، سوئٹزر لینڈ وغیرہ.یہ جماعت دس غیر ملکی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم بھی کر چکی ہے.دنیا بھر میں احمدیوں کی تعداد چندملین ہے.جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ بانی جماعت احمد یہ حضرت میرزا احمد (علیہ السلام) (جن کی ولات 1835ء میں اور وفات 1908ء میں ہوئی مہدی منتظر، مسیح موعود اور چودہویں صدی کے مجدد ہیں اور آپ کی آمد شریعت محمدیہ کے قیام، احیائے دین اور خدمت اسلام کے لئے ہوئی تھی تا کہ اسے غلبہ نصیب ہو.آپ نے 80 کے قریب کتابیں تالیف فرمائیں جو سب اسلام کے دفاع اور تائید میں تھیں اور جن میں سے بعض فصیح عربی زبان میں ہیں.ہمیں مولوی صاحب نے جماعت احمدیہ کی طرف سے برصغیر اور بیرونی ممالک میں شائع ہونے والا لٹریچر بھی دکھایا.نیز اس جدوجہد سے بھی مطلع کیا جو مسئلہ فلسطین کے بارے میں جماعت احمدیہ کے مختلف مشنوں نے کی ہے.بالخصوص برصغیر میں
مصالح العرب.....جلد اول 388 خود حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد ( امام جماعت احمدیہ ) نے قضیہ فلسطین پر روشنی ڈالنے کے لئے ایک خاص مضمون شائع فرمایا.اردن کی اہم شخصیتوں تک پیغام احمدیت 1- السید عبد الرحمن الخلیفہ رئیس الديوان الملکی ( پرائیویٹ سیکرٹری شاہ اردن) 2.صاحب السعادة سعید پاشا مفتی (وزیر داخله اردن) 3.السید محمد امین الشنقیطی 4.فوزی پاشا ملقی 5- عبدالله النجار 6.شیخ عبد العزيز ( وزیر تعلیم وقاضي قضاة ) (وزیر خارجه اردن) اردن میں لبنانی وزیر مفوض ) اردن میں سعودی وزیر مفوض ) 7 - عبد اللہ بک تک لیفٹنٹ جرنل فلسطینی محاذ کے نامور جرنیل و بیت المقدس کے فوجی گورنر ) 8.بہجت بک تلخونی رئیس محکمہ ہدایت اربد (جو چار دفعہ اردن کے وزیر اعظم بنائے گئے ) 9هزاع المجالى رئيس بلدية العاصمه و مدير التشريفات الملكيه (1) بھی بعد میں وزارت عظمی کے منصب پر پہنچے ) علاوہ ازیں مولوی صاحب موصوف کو اسمبلی کے ممبروں، مختلف مدارس کے ہیڈ ماسٹروں اور سماجی لیڈروں سے بھی ملنے کا موقعہ ملا.جناب بہجت تلحونی سے اردن میں مبشر احمدیت کی پہلی ملاقات ہوئی تو انہوں نے جماعت احمدیہ کی غلبہ اسلام کے لئے بین الاقوامی کوششوں کو بہت سراہا اور اپنے قلم.ذیل نوٹ لکھا:."إنه لَمِمَّا يثلج الصدر ويحيى القلب أن نرى بين ظهرانينا وفى معظم أنحاء العالم مبشرين عالمين مسلمين أمثال الأستاذ السيد رشيد أحمد چغتائى الهندى الباكستاني يعلمون أمور الشرع الإسلامى ويسعون لتعليمه ورفع رأية الإسلام فبارك الله فيهم وكثّر من أمثالهم و نفع البشر من علمهم والسلام على
مصالح العرب.....جلد اول من اتبع الهدى ٤٨/٧/٥ بهجت رئيس محكمة هداية إربد وزارة العدلية المملكة الأردنية الهاشمية 389 ترجمہ: یقیناً یہ امرسینہ میں ٹھنڈک پیدا کرتا اور دل کو شگفتگی ، تازگی اور زندگی بخشتا ہے کہ ہم اپنے درمیان اور دنیا کے بیشتر علاقوں اور طرفوں میں مولوی رشید احمد صاحب چغتائی پاکستان کی مانند تبلیغ کرنے والے مسلم علماء دیکھ رہے ہیں جو شریعت اسلامیہ کے مسائل سکھلانے اور اسلام کی حقیقی تعلیم کو پیش کرنے میں کوشاں ہیں تا علم اسلام کو دنیا میں سر بلند کر سکیں.اللہ تعالیٰ ان میں برکت ڈالے.ایسے مبلغین بکثرت دنیا میں پھیلا دے اور بنی نوع انسان کو ان کے علم سے فائدہ پہنچائے اور ہدایت کی پیروی کرنے والوں پر خدا کی سلامتی ہو.5 جولائی 1948 ء بہجت رئیس محکمہ ہدایہ اربد وزارة العدلية المملكة الاردنية الهاشميه عیسائیوں کے ایک خصوصی اجتماع میں تقریر مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی نے مسلمانوں کے علاوہ عیسائیوں کے گرجوں اور انکی دیگر مجالس میں بھی راہ و رسم پیدا کر کے ہر ممکن طریق سے انہیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے متعارف کروایا.چنانچہ اس ضمن میں ایک موقعہ پر دار الحکومت عمان میں اعلیٰ درجہ کے مشہور کلب’نادی عمان (Amman Club) میں عیسائیوں کے ایک خصوصی اور اہم اجتماع میں محترم مولوی صاحب موصوف کو بھی خطاب کرنے کی دعوت دی گئی جسے آپ نے قبول کیا اور اس میں تقریر فرمائی.اس اجتماع میں بڑے بڑے عیسائی پادریوں کے علاوہ حکومت اُردن کے متعدد وزراء اور بلا د عر بیہ و دیگر ممالک کے سفراء ، پارلیمنٹ کے ایوان بالا اور زیریں کے کئی ایک ممبران و دیگر رؤساء ، سکولوں و کالجوں کے اساتذہ اور وکلاء ، مدیران جرائد وغیرہ غرض ہر مذہب و طبقہ کی چیدہ شخصیات موجود تھیں.اس جلسہ کی مفصل روداد اخبار الاردن“ کے ایک خاص نمبر میں شائع کی گئی.جس میں کیتھولک فرقہ کے فلاڈلفیا اور سارے شرق اردن کے بشپ اور پادریوں وغیرہ مسلم و غیر مسلم جمله مقررین کے شائع شدہ اسماء میں محترم مولوی صاحب موصوف کا نام بھی درج تھا.
مصالح العرب.....جلد اول حضرت مصلح موعود کا پیغام والی اردن شاہ عبداللہ ابن الحسین کے نام اردن مشن کا ایک نہایت اہم واقعہ حضرت مصلح موعود کا والی اردن شاہ عبداللہ ابن قیام 390 احسین کے نام پیغام اور ان سے ملاقات ہے.اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کو اردن میں آنے سے پہلے فلسطین کے دوران 22 نومبر 1947 ء ) شاہ اردن سے مصافحہ کرنے کا موقعہ میسر آیا.جس کی اطلاع مولوی صاحب موصوف نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بھی بھجوائی.نیز لکھا کہ امید ہے کہ میرا یہ مصافحہ مجھے اردن میں پہنچنے اور ان سے دوبارہ ملاقات کا ذریعہ ثابت ہوگا.حضرت مصلح موعود کے حضور 5 نومبر 1947ء کو یہ رپورٹ پیش ہوئی تو حضور نے ارشاد فرمایا:.اگر ملک عبد اللہ سے ملیں تو انہیں میرا سلام کہیں اور کہیں کہ میں ان کے والد مرحوم ( یعنی شریف مکہ) سے 1912ء میں مکہ مکرمہ میں حج کے موقعہ پر مل چکا ہوں.لمبی گفتگو ایک گھنٹہ تک ہوئی تھی.اس وقت میں نوجوان تھا.کوئی تیس سال کی عمر تھی.اسی طرح میرے برادر نسبتی ( حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مراد ہیں.ناقل ) ان کے بھائی امیر فیصل کے دوست تھے.شام میں ان کے تعلقات قائم ہوئے تھے.بعد میں ان کی بادشاہی کے زمانہ میں عراق میں ان سے ملے اور انہوں نے ان کی دعوت بھی کی.“ شاہ اردن سے احمدی مبلغ کی ملاقات جناب مولوی رشید احمد صاحب چغتائی نے حضرت مصلح موعود کا یہ پیغام پہنچانے کے لئے 11 ماہ ہجرت 1327 ہش بمطابق 11 مئی 1948ء کو شاہ اردن سے ان کے شاہی محل (قصر رغدان ) میں ملاقات کی.بادشاہ معظم آپ کے داخل ہونے پر کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اھلا و سهلا و مرحبا کے الفاظ سے خوش آمدید کہا اور مصافحہ کیا جس کے بعد آپ نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے گزشتہ عید الاضحیہ سے دو یوم قبل (22 /اکتوبر 1947ء کو) بادشاہ معظم سے بیت المقدس میں حرم شریف مسجد اقصٰی میں مصافحہ کیا جس کے بعد مولوی صاحب کے دل میں ملاقات کی خواہش پیدا ہوئی اور اس کا اظہار بھی انہوں نے بذریعہ خط
مصالح العرب.....جلد اول 391 حضرت امام جماعت احمدیہ کی خدمت میں کیا.جس پر حضور نے بادشاہ معظم تک اردو میں اپنا ایک پیغام بھجوایا.مبلغ احمدیت نے ان تعارفی الفاظ کے بعد شاہ اردن کی خدمت میں حضور کے پیغام کا عربی ترجمہ پیش کیا.شاہ اردن حضور کے پیغام سے بہت متاثر ہوئے اور آپ نے اس کے جواب میں حسہ ذیل الفاظ لکھوائے اور اس پر سرخ روشنائی سے دستخط ثبت فرما دیئے:.لحضرة إمام الجماعة الأحمدية ميرزا بشير الدين محمود أحمد! قد قرأ على صديقنا الحمل اللطيفة المتعلقة بي وبوالدى المرحوم وبأخى رحمه الله فشكرتكم على تلك الذكرى وأثنيت عليكم ثناء المسلم للمسلم ، جُزيتم خيرا وبورك فيكم وإنا نأمل أن نراكم يوما ما إن شاء الله في أحسن حالة المسلمين أجمعين وإنني هنا سأعمل على مساعدة كل أخ من الهند والباكستان إذا احتاجا إلى تلك المساعدة، والسلام عليكم ورحمة الله ترجمه بحضور حضرت امام جماعت احمدیہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب! آپ کا پیغام ابھی ہمارے دوست ( رشید احمد صاحب احمدی) نے مجھے پڑھ کر سنایا ہے جو آپ کے خوبصورت اور پاکیزہ جملوں پر مشتمل ہے اور جو مجھ سے اور میرے والد مرحوم اور میرے بھائی " سے متعلق ہیں.میں اس یاد فرمائی پر آپ کا شکر گزار ہوں اور آپ کی تعریف کرتا ہوں جیسا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی تعریف کرتا ہے.بارگاہِ الہی میں آپ کو جزائے خیر عطا ہونے اور برکتوں کے حصول کے لئے دعا گو ہوں.ہمیں امید ہے کہ ہم آپ کو کسی وقت تمام مسلمانوں کے لئے ایک عظیم الشان حالت میں پہنچا ہوا دیکھیں گے اور میں یہاں اپنے ہر انڈین و پاکستانی بھائی کی جب بھی ضرورت پڑے مدد کرنے کے لئے تیار ہوں.والسلام علیکم ورحمۃ اللہ.شاہ معظم نے یہ عقیدت مندانہ جواب لکھوانے کے بعد مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کی ذاتی نوٹ بک پر اپنے قلم سے حسب ذیل عبارت تحریر فرمائی:.
مصالح العرب.....جلد اول 392 د بسم الله الرحمن الرحيم أحمده و أصلى على نبيه الكريم وآله وصحبه أجمعين الله و أن محمد إنني أثبت بهذا الدفتر المبارك للمبشر الإسلامي السيد رشيد أحمد جغتائى الأحمدى شهادة أن لا إله إلا رسول الله و أحييه وجميع المسلمين بتحية السلام عبد الله 3 رجب الغراء 1367ه عمان شرق الأردن (مہر) الديوان الھاشمی ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.میں اس عبارت کو شروع کرتا ہوں.میں اللہ کی حمد کرتا ہوں اور اس کے نبی کریم اور آپ کے آل و اصحاب سب پر درود بھیجتا ہوں.میں احمدی مبلغ اسلام مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کی اس بابرکت کاپی میں کلمہ شهادت لا إله إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ تحریر کرتا ہوں اور میں مولوی صاحب کو اور تمام مسلمانوں کو السلام علیکم کا تحفہ دیتا ہوں.والسلام (شاہی دستخط ) عبداللہ 3 رجب الغراء 1367ھ عمان شرق الاردن (مبر) الديوان الھاشمی مولوی رشید احمد صاحب چغتائی نے دوران ملاقات تحریک جدید کے 1939ء میں مطبوعہ البم (Album) سے حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی کی شبیہ مبارک ان کے سامنے رکھی.فوٹو دیکھتے ہی شاہ اردن کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نكلے - "ما أحلى هذه الصورة ! کتنی ہی پیاری یہ تصویر ہے ! مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو ! بھی دکھایا جسے آپ نے گہری نظر سے دیکھا.بعد ازاں مکرم مولوی صاحب نے شاہ معظم کی خدمت میں حضرت مصلح موعودؓ کے مضمون تقسیم فلسطین اور اقوام متحدہ“ (مطبوعہ الفضل 11 / دسمبر 1948 ء.یہ مضمون چودھری محمد شریف صاحب فاضل انچارج احمد یہ مشن بلاد عر بیہ نے انہی دنوں ترجمہ کر کے عربی ممالک
393 مصالح العرب.....جلد اول میں بکثرت شائع کیا تھا ) کا عربی ٹریکٹ پیش کیا جسے شاہ نے بخوشی قبول فرمایا اور پورے ٹریکٹ پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے جب اس میں جنرل سمطس کا نام دیکھا تو فرمایا دوشمن فلسطین، پھر فرمایا کہ میں اسے غور سے پڑھوں گا اور انشاء اللہ فائدہ اٹھاؤں گا.“ آخر میں بادشاہ نے مملکت اردن اور پاکستان کے اسلامی روابط و تعلقات اور اتحاد و اتفاق پر گفتگو فرمائی.شاہی محل قصر رغدان میں ملک معظم سے یہ ملاقات 20 منٹ تک جاری رہی.(ملخص از الفضل یکم ستمبر 1948 ، صفحہ 2) اس ملاقات کی خبر عمان کے اخبار الاردن نے اپنی 29 مئی 1948ء کی اشاعت میں دی.مولوی صاحب موصوف کو اس کے بعد بھی شاہ معظم سے اسی سال دوبارہ ملاقات کا موقعہ ملا.یہ ملاقاتیں حضرت مصلح موعودؓ کے مسئلہ فلسطین سے متعلق مطبوعہ عربی ٹریکٹ پیش کرنے کی غرض سے تھیں.) اردن کے سب سے پہلے احمدی.سلطنت اردن کے قدیم اور تاریخی شہر الکرک کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اردن میں سب سے پہلے وہاں احمدیت کا بیج بویا گیا اور مشہور قبیلہ المعایطہ کے سردار کے بڑے لڑکے السید عبد اللہ الحاج محمد المعایطہ اور ان کے بعض افراد خاندان داخل سلسلہ احمد یہ ہوئے.اردن مشن کی اسلامی خدمات زائرین کی نظر میں اردن مشن اگر چه صرف سوا سال تک قائم رہ سکا تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس نہایت قلیل عرصہ میں اس کو خاصی اہمیت حاصل ہو گئی اور اس کی اسلامی خدمات ملک کے اونچے اور علمی طبقے میں بڑی قدر اور احترام کی نظر سے دیکھی جانے لگیں.اس حقیقت کا اندازہ ان تاثرات سے بخوبی ہو سکتا ہے جو اردن مشن کی اسلامی خدمات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے اور مشن میں آنے والے زائرین نے خود قلمبند کئے اور جو ریکارڈ میں اب تک محفوظ ہیں.جن شخصیات کے تاثرات ہمیں اس ریکارڈ میں ملتے ہیں ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:.السید محمد نزال العرموطي رئيس ديوان قاضي القضاة و رئيس ندوة عربية عمان )
مصالح العرب.....جلد اول 394 السید سلیمان حدیدی (مالک و مدیر مجلہ الیقظه ) محمد تیسیر ظبیان (ہیڈ ماسٹر مدرسہ علوم اسلامیہ مالک و مدیر اخبار الجزیره ) انیس خلیل نصر (مدیر الاردن ) السید محی القطب ( مالک و مدیر جریدہ ”النسر ) الشیخ عبدالله الرباح (شرعی وکیل ) الاستاذ خیری الحماد (اسٹنٹ ڈائریکٹر وكالة الانباء العربیہ.عرب نیوز ایجنسی) السید جودت الخطیب ( آفیسر محکمہ پاسپورٹ اردن) السید عمر خلیل المعانی (ایڈووکیٹ عمان ) السید واصف فخر الدین ( استاذ اسلامیہ کالج عمان ) بعض اہم تاثرات کا عربی متن اردو ترجمہ کے ساتھ ذیل میں سپرد قلم کیا جاتا ہے.-1 صاحب المعالى فوزى باشا ملقى وزير خارجية المملكة الاردنية الهاشميه بسم الله الرحمن الرحيم الأحمدى خير سرني والله لقاء المسلم الغيور رشيد أحمد جغتائى وأكبرت فيه رغبة صادقة في تحقيق مبادئ رفيعة يعتقد أنها ما يقدم للناس فى مشارق الأرض ومغاربها وأن الإخلاص للعقيدة التى تعمر فؤاده بعث به إلى أقطار العالم كله وطناً واحدا والعالمين جميعا - أهلا له وسكانا حفظه الله وأبقاه - 1948/7/31 فوزی ملقی هز ایکسی لنسی فوزی پاشا ملقی وزیر خارجه اردن بسم اللہ الرحمن الرحیم بخدا ایک غیور مسلمان عالم مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی سے ملاقات کر کے مجھے غایت درجہ مسرت حاصل ہوئی ہے.میں ان کی اس بچی تڑپ سے بھی بہت متاثر ہوا ہوں جو وہ اپنے دل میں ان بہترین اور عظیم الشان اصولوں اور تعلیم کولوگوں میں قائم اور راسخ کرنے کے واسطے موجود پاتے ہیں اور جس کے بارہ میں آپ کا اعتقاد ہے کہ یہی وہ بہترین چیز.جسے دنیا کے مشارق و مغارب میں ہر جگہ لوگوں کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے.وہ عقیدہ کہ جس سے ان کا دل معمور ہے اور وہ پیغام جو تمام دنیا جہاں کے جملہ ممالک کو گویا ایک ہی وطن تصور کرتا ہے اس سے والہا نہ اخلاص ہی نے آپ کو اپنے وطن اور اہل و عیال سے دور مختلف ممالک میں پہنچا دیا ہے.آپ کے خیر مقدم اور بہتر قیام کی نیک خواہش کے ساتھ ہی میری دلی دعا ہے
مصالح العرب.....جلد اول کہ اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کو لمبی عمر بخشے.آمین 31 جولائی 1948 ء فوزی ملقی _2 وزیر خارجہ مملکته اردنیہ ہاشمیہ صاحب العمالي سعيد باشا المفتى وزير الداخلية للمملكة الأردنية الهاشمية بارك الله بالسيد رشيد أحمد الجغتائي وبأمثاله الذين يعملون لخير الإسلام والدين الحنيف لهم بذلك أجرهم في الدنيا وفي الآخرة عمان 1949/2/14 سعيد المفتى وزير الدخلية للمملكة الأردنيه الهاشميه هز ایکسی لنسی سعید پاشا المفتی وزیر داخله اردن 395 اللہ تعالیٰ اپنی برکات و افضال محترم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی اور آپ جیسے مبلغین اسلام پر نازل فرمائے کہ جو دین حنیف اسلام کی بھلائی اور بہتری کے واسطے سرگرم عمل ہیں.یقیناً دنیا و آخرت میں انہیں اجر عظیم سے نوازا جائے گا.- 3 عمان سعید المفتى 14 فروری 1949ء وزیر داخلہ مملکت اردنیہ ہا شمیه صاحب السعادة عبدالله النجار القائم بأعمال المفوضية اللبنانية بعمان الناس أعداء ماجهلوا لذلك نرجوا ان يفهم العالم ولا سيما الغربي منه حقيقة الإسلام فيقوى التآخي بين الأقوام على يد المبشرين المخلصين أمسال المبشر الإسلامي السيد رشيد أحمد جغتائى الأحمدى الذى تفضل بزيارتي وحدثني بلسان عربی مبین عبدالله النجار 1948/7/17 القائم بأعمال المفوضية المجهورية اللبنانية عمان
مصالح العرب.....جلد اول 396 عمان میں لبنان کے سفیر هز ایکسی لنسـى عبدالله النجار لوگ جس چیز سے نابلد ہوں عموما اس کے مخالف ہوتے ہیں.سو ہماری تمنا ہے کہ تمام دنیا خصوصا مغربی دنیا اسلام کی حقیقت کو سمجھے، اور مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی جیسے مخلص مبلغین کے ذریعہ قوموں کے درمیان بھائی چارہ کی فضا قائم ہو جائے.مبشر اسلامی رشید چغتائی صاحب نے مجھے ملاقات کا شرف بخشا اور فصیح و بلیغ عربی زبان میں مجھ سے گفتگو کی.عبدالله النجار _4 قائم باعمال المفوضیہ (سفارت خانہ لبنانیہ ) 17 جولائی 1948ء عمان مفتي الديار الأردنية فضيلة الشيخ الأستاذ محمد فال البيضاوي الشنقيطي شاء الحظ أن يصاد فنى بلقاء الأستاد السيد رشيد أحمد جغتائي الأحمدى المبشر بالدين الإسلامي في البلدان الأجنبية فوجد ته مثالا للكمال واللطف والأدب الإسلامي وأبى إلا أن أثبت لتواضعه الرغبة فى أن أدون فى دفترة هذا المبارك اسمى فها أنا أسجله شاكرا له جهده في نشر الإسلام سائلا له التوفيق من الله تعالى والعون على مهمته “ عمان 7 رجب 1367 66 1948/5/15 مفتي الديار الأردنية محمد فال البيضاوي الشنقيطي مفتی اعظم مملکت اردنيه هاشمیه حضرت فضیلت مآب شيخ محمد فال بيضاوى شنقيطى میری خوش نصیبی نے مجھے غیر ممالک میں فریضہ تبلیغ بجالانے والے مبلغ اسلام مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی احمدی سے ملاقات کی سعادت ملی.میں نے آپ کو کمال لطف اور ادب اسلامی میں مثالی شخصیت پایا ہے.آپ کی خواہش کے مطابق میں آپ کے اس رجسٹر میں اپنا نام درج کرتے ہوئے اشاعت اسلام کے لئے آپ کی مساعی کو قدر و شکریہ کی نگاہ
397 مصالح العرب.....جلد اول سے دیکھتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی جدوجہد میں آپ کا معین و مددگار ہو اور بہتر طور پر اس خدمت کو سرانجام دیتے رہنے کی توفیق بخشتا ر ہے.آمین مفتی اردن محمد فال بیضاوی شنقیطی عمان 7 رجب 1367 ہجری مطابق 15 مئی 1948ء (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد نمبر 12 صفحه 1 تا 18 ) 00000 XXXXXXXXXXXX XXXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.....جلد اول 398 احمدی وفد مؤتمر عالم اسلامی کے دوسرے سالانہ اجلاس میں مؤتمر عالم اسلامی ممالک اسلامیہ کی عالمی تنظیم کا نام ہے جس کا قیام فروری 1949ء میں پاکستان کے پہلے دارالسلطنت کراچی میں ہوا.اس موقع پر مسلم نمائندگان نے مؤتمر کا ایک دستور مرتب کیا جس کی بنیاد قرآن عظیم کے ارشادربانی إِنَّمَا الْمُؤْمِنونَ إِخْوَةٌ “ پر رکھی.مؤتمر کا دوسرا سالانہ اجلاس اس سال 9 سے 13 فروری تک کراچی میں منعقد ہوا جس میں 35 اسلامی ملکوں کے مندوبین نے شرکت کی اور دنیائے اسلام کو در پیش مسائل پر اپنے ممالک کی نمائندگی کی اور متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ کشمیر، فلسطین اور دوسرے ان تمام اسلامی ممالک کو آزاد کرانے کی متحدہ کوشش کی جائے.حضرت مصلح موعود کی دیرینہ خواہش تھی کہ عالم اسلامی کے متفرق اجزاء کسی طرح ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اپنی عالمگیر مشکلات حل کرنے کی راہ سوچیں اور ایک دوسرے سے ان کا رابطہ اور تعلق قائم ہو.چنانچہ مئی 1947 ء کے بعد حضور نے لاہور، راولپنڈی، پشاور ، کوئٹہ اور کراچی میں متعدد تقریریں فرمائیں.جن میں اس اہم ضرورت کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلائی.علاوہ ازیں 1950ء میں کراچی کے صحافیوں کی کانفرنس میں مسلمانوں کی تنظیم اور اتحاد پر بہت زور دیا.مؤتمر عالم اسلامی چونکہ وحدت عالم اسلام کے لئے پہلا خوشکن قدم تھا جس کو اٹھانے کی توفیق پاکستان کو میسر آئی تھی.اس لئے حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد مبارک پر مؤتمر کے اس دوسرے اجلاس میں مرکز احمدیت سے ایک احمدی وفد نے خاص طور پر شرکت کی.
399 مصالح العرب.....جلد اول سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ اس وفد کے امیر تھے اور چوہدری کی مشتاق احمد صاحب باجوہ وکیل التبشیر تحریک جدید اور ملک عمر علی صاحب نائب وکیل التبشیر اس کے رکن.احمدی وفد کو مؤتمر کے ہر اجلاس کی کاروائی میں شامل ہونے کا موقع ملا.نمائندگان وفود سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، ان کی تقاریر سنیں اور ان تقاریب میں شریک ہوا جو مؤتمر کے نمائندوں کو سرکاری طور پر دی گئیں.جماعت احمدیہ کراچی نے اس موقع پر حضرت مصلح موعود کی 1950ء کی کراچی پریس کانفرنس کو عربی اور انگریزی زبانوں میں شائع کیا جو بیرونی ممالک کے مندوبین میں سے ایک معتد بہ حصہ کو دیا گیا تا وہ اپنے ملکوں میں واپس جائیں تو حضرت امام جماعت احمدیہ کے قیمتی افکار و خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی تدابیر اختیار کریں.امیر وفد حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنے ایک مفصل بیان میں مؤتمر عالم اسلامی کو عالم اسلامی میں وحدت اور اتحاد پیدا کرنے کی مبارک تحریک قرار دیا اور اپنے ایک مفصل بیان میں اس کی سرگرمیوں کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے بتایا کہ: تمام عرب مندوبین نے اس بات پر زور دیا کہ تمام باہمی فرقہ بندیوں کی حدود سے بالا تر رہ کر اس مؤتمر عالم اسلامی کی بنیاد اٹھانی چاہیے ورنہ یہ سانس لیتے ہی موت کا منہ دیکھے گی.اقوام عالم کے مشترکہ مسیح سے یہ آواز ایک احمدی کے دل میں کس قسم کی خوشی پیدا کر سکتی ہے اس کا اندازہ اس مسلمہ حقیقت سے کیا جاسکتا ہے کہ عرصہ سے ہماری جماعت کے اسٹیج سے یہ آواز بار بار بلند کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی مشتر کہ اغراض کی خاطر ایک سٹیج پر جمع ہو کر روح تعاون کے ساتھ اپنی عالمگیر مشکلات کا حل سوچنا اور اپنی حالت بہتر بنانے کے لئے اکٹھا ہو جانا کی چاہیے اور ہمیں خوشی ہے کہ ہماری آواز بازگشت بے نتیجہ نہیں رہی اور اب ممالک اسلامیہ کے درمیان وحدت پیدا کرنے کی غرض سے مؤتمر عالم اسلامی کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے.“ ان دنوں پاکستان اور بیرونی ممالک کے بعض لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مؤتمر عالم اسلام کا قیام محض ایک سیاسی سٹنٹ ہے جس سے حکومت پاکستان اپنی ہر دلعزیزی اور مقبولیت بڑھانا چاہتی ہے تا کہ ملکی انتخابات کے لئے موافق اور سازگار حالات پیدا ہوں.عرب نمائندگان میں سے بھی ایک نمائندہ نے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ ان وفود کے پاس ان کی حکومتوں کی طرف سے کوئی اختیار نہیں اور نہ حکومتیں ایسا اختیار دے سکتی ہیں بلکہ اگر اختیار دے
مصالح العرب.....جلد اول 400 بھی دیتیں تو اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہماری آواز کے ساتھ اپنی مقررہ اور مستقل پالیسی کو ہم آہنگ کریں گی.امیر وفد حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے اس عرب نمائندے کو بھی جواب دیا اور اپنے بیان میں بھی بتایا کہ مؤتمر عالم اسلامی کے قیام اور بقاء سے کم از کم جو فائدہ ہمیں پہنچ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ باہمی تعارف اور ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت حاصل ہونے کے علاوہ عالم اسلامی کے اتحاد کی ضرورت کا شعور اور احساس پیدا ہو جانا خود ایک بڑی نعمت ہے.تقریباً ہر ایک نمائندے نے بلند آواز اور مؤثر انداز میں بار بار سنایا کہ مسلمان مسلمان نہیں رہے تم مسلمان بنو یہ آواز بھی احساس بیداری پیدا کرنے والی ہے.اور جب قوم میں ایک دفعہ احساس پیدا ہو جائے تو اُمید کی جاتی ہے کہ دوسرا قدم بھی اُٹھایا جائے.پس احساس بیداری سے فائدہ اٹھانا چاہیے نہ کہ مایوسی سے اس کو ضائع کر دینا چاہئے.حضرت شاہ صاحب نے اس بیان میں مزید فرمایا کہ:.میں نے محسوس کیا ہے کہ جمعیت علماء میں بھی قابل قدرا ایسی شخصیتیں موجود ہیں جو بھتی ہیں کہ اسلامی فرقوں کے درمیان جو اختلافات ہیں ان کی نوعیت زیادہ تر تاویلی اور اصطلاحی ہے ہمیں ان اختلافات سے بلند اور بالا رہ کر عالم اسلامی کے لئے تنظیم وحدت کا سٹیج کھڑا کرنا چاہیے.مجھ سے ایک عالم نے کہا کہ نبوت اور ختم نبوت کی تعریف میں جو اختلاف آپ کے اور ہمارے درمیان ہے وہ دراصل اصطلاحی تعریف کا اختلاف ہے ورنہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ اختلاف ایسا نہیں کہ اس پر آپس میں دست وگریبان ہوں.آپ بھی مانتے ہیں کہ اسلام کی شریعت کامل ہے اور اس کے بعد کوئی شریعت نہیں اور نبوت کی تعریف میں صرف یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہونا اور نبی کے لئے ضروری نہیں کہ وہ صاحب شریعت بھی ہو اور ہمارے علماء نبی کے لئے شریعت کا لانا ضروری قرار دیتے ہیں.تو یہ اختلاف تعریف کا ہے.یہ ایسا اختلاف نہیں کہ آپس میں دست و گریبان ہوا جائے علماء کے طبقہ میں اس قسم کی آزاد خیالی کا پیدا ہونا خوش کن ہے.جوں جوں ہمارا نقطۂ نظر وسعت اختیار کرتا جائے گا اور رواداری کی روح ہم میں کارفرما ہوگی ہم ایک دوسرے کے قریب ہوتے چلے جائینگے اور جو ہمارے درمیان خلیج ہے کم سے کم ہوتی چلی جائے گی.اسلئے میں سمجھتا ہوں کہ مؤتمر عالم اسلامی کے ذریعہ سے مسلمانوں کے درمیان وحدت کی صورت پیدا ہونے کے امکانات موجود ہیں.“ الفضل 17 مارچ 1981 ، صفحہ 6 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 13 صفحہ 294-297
مصالح العرب.....جلد اول 401 لبنانی پریس میں امام جماعت احمدیہ کا تذکرہ بیروت کے جریدہ " اخبار الیوم“ نے 22 دسمبر 1949ء کے پرچے میں حضرت امام جماعت احمدیہ کی عظیم شخصیت کے بارے میں مندرجہ ذیل تعارفی نوٹ شائع کیا:."يتمتع الخليفة ميرزا بشير الدين محمود احمد بمكانة دينية كبيرة في باكستان ، و هو من لاهور عاصمة البنجاب، ويبلغ من العمر 60 عاما و يعتبر ثقة في أمور الإسلام و يتولى رئاسة الجماعة الأحمديين، الذين ينتشرون في كل بقعة من بقاع العالم مبشرين بتعاليم الدين الإسلامي الحنيف، ويرجع إليه الفضل الأول في إنشاء مراكز التبشير فى أكثر بلدان العالم، وقد لعب هذا الزعيم الديني المسلم دورًا هاما في كشمير وفي تأسيس دولة باكستان لجماعته نظام خاص من الفقير الى الوزير، وهوأى السيد ميرزا بشير الدين تقى ورع و مستجاب الدعوات، وقد كتب عن حياته السيد محمد ظفر الله خان وزير خارجية باكستان باللغتين الإنكليزية والأردية ولهذا الزعيم الديني الكبير مؤلفات متعددة في الإسلام وفي تفسير تعاليمه باللغتين الأردية والإنكليزية ، وقد سبق له أن تولى رئاسة لجنة كشمير كما مثل مسلمى الهند في مؤتمر الأديان الذى انعقد في عام 1924في لندن......(اخبار اليوم (بیروت )22) کانون الاول بحوالہ البشرى المجلد 16 دسمبر 1950ء صفحہ 237 )
402 مصالح العرب.....جلد اول خلیفہ میرزا بشیر الدین محمود احمد کو پاکستان میں مذہبی اعتبار سے بڑی عظمت و اہمیت حاصل کی ہے آپ کی عمر اس وقت 60 سال ہے اور آپ کا تعلق پنجاب کے دارالحکومت لا ہور (یادر ہے که حضور ان دنوں لاہور میں فروکش تھے ) سے ہے.آپ اسلامی مسائل میں ثقہ سمجھے جاتے ہیں اور جماعت احمدیہ کے امام ہیں جو ا کناف عالم تک پھیلی ہوئی ہے اور اسلامی عقائد کی تبلیغ کر رہی ہے اور دنیا کے اکثر ممالک میں تبلیغی مراکز کے قیام میں اس کا نمایاں دخل ہے.اس مسلمان مذہبی لیڈر نے پاکستان کی تاسیس اور مسئلہ کشمیر میں کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں.جماعت احمدیہ کے افراد فقیر سے لے کر وزیر تک ایک خاص نظام سے وابستہ ہیں.میرزا بشیر الدین متقی، پارسا اور مستجاب الدعوات ہیں.محمد ظفر اللہ خان وزیر خارجہ پاکستان نے انگریزی اور اردو زبانوں میں آپ کی سیرت لکھی ہے.اس عظیم مذہبی لیڈر نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کی تفسیر میں اردو اور انگریزی میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں.آپ کشمیر کمیٹی کے صدر بھی رہے ہیں.اسی طرح آپ نے مسلمانان ہند کی طرف سے مذاہب عالم کا نفرنس میں بھی نمائندگی کی.جو 1924ء میں بمقام لنڈن منعقد ہوئی تھی.تاریخ احمدیت جلد 13 صفحہ 109-110 ) XXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.....جلد اول 403 عربی بول چال کے متعلق رسالہ لکھنے کی تجویز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک مسلمان ممالک کی زبوں حالی اور زوال امت عربی زبان کی ترویج و اشاعت میں کوتاہی کا نتیجہ تھی.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی مشہور کتاب "الهدى و التبصره لمن يرى ““ میں تحریر فرمایا:."وكان من الواجب أن يشاع هذه اللسان في البلاد الإسلاميه فإنه لسان الله ولسان رسوله ولسان الصحف المطهره ولا ننظر بنظر التعظيم إلى قوم لا يكرمون هذا للسان ولا يشيعونها في بلادهم ليرجموا الشيطان وهذا من أول أسباب اختلالهم الهدى والتبصره لمن يری صفحه 65-66 طبع اول) یعنی واجب تھا کہ اسلامی شہروں میں عربی زبان پھیلائی جاتی اس لئے کہ وہ اللہ ، اس کے رسول اور پاک نوشتوں کی زبان ہے اور ہم ان کو تعظیم کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جو اس زبان کی تعظیم نہیں کرتے اور نہ اسے اپنے شہروں میں پھیلاتے ہیں تا شیطان کو پتھراؤ کریں اور یہی ان کی تباہی کا بڑا سبب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چونکہ امت مسلمہ میں زندگی کی روح پھونکنے کیلئے مبعوث ہوئے تھے.اس لئے حضور نے اپنے عہد مقدس میں عربی زبان کی ترویج کی طرف بھی خاص توجہ فرمائی اور گھر میں روز مرہ استعمال میں آنے والے فقرے بچوں کو یاد کرائے جو حضور کی زندگی میں رسالہ تفخیذ الا ذھان“ کی مختلف اشاعتوں میں شائع ہوئے.حضرت خلیفہ ثانی کو بھی عربی کی ترویج و اشاعت کی طرف بہت توجہ تھی اور حضور نے عربی کی اہمیت کی متعلق 19 / احسان رجون کو ایک اہم خطبہ دینے کے علاوہ جماعت میں عربی بولی
مصالح العرب.....جلد اول 404 چال کا رسالہ تصنیف کرانے کا ارادہ فرمایا.چنانچہ حضور نے مجلس عرفان میں ارشاد فرمایا:.عربی زبان کا مردوں اور عورتوں میں شوق پیدا کرنے اور اس زبان میں لوگوں کے اندر گفتگو کا ملکہ پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک عربی بول چال کے متعلق رسالہ لکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی عربی کے بعض فقرے تجویز فرمائے تھے جن کو میں نے رسالہ تفخیذ الاذہان میں شائع کر دیا تھا.ان فقروں کو بھی اپنے سامنے رکھ لیا جائے اور تبرک کے طور پر ان فقرات کو بھی رسالہ میں شامل کر لیا جائے.درحقیقت وہ ایک طریق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے سامنے پیش فرمایا.اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اس راستہ پر چلیں اور اپنی جماعت میں عربی زبان کی ترویج کی کوشش کریں.میرے خیال میں اس میں اس قسم کے فقرات ہونے چاہئیں کہ جب ایک دوست دوسرے دوست سے ملتا ہے تو کیا کہتا ہے اور کس طرح آپس میں باتیں ہوتی ہیں.وہ باتیں ترتیب کے ساتھ لکھی جائیں.پھر مثلاً انسان اپنے گھر جاتا ہے اور کھانے پینے کی اشیاء کے متعلق اپنی ماں سے یا کسی ملازم سے گفتگو کرتا ہے اور کہتا ہے میرے کھانے کے لئے کیا پکا ہے یا کونسی ترکاری تیار ہے؟ اس طرح کی روزمرہ کی باتیں رسالہ کی صورت میں شائع کی جائیں.بعد میں محلوں میں اس رسالہ کو رائج کیا جائے.خصوصاً لڑکوں کے نصاب تعلیم میں اس کو شامل کیا جائے اور تحریک کی جائے کہ طلباء جب بھی ایک دوسرے سے گفتگو کریں عربی زبان میں کریں.اس طرح عربی بول چال کا عام رواج خدا تعالیٰ کے فضل سے پیدا کیا جاسکتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں نے ایک مردہ زبان کو اپنی کوشش سے زندہ کر دیا ہے.عبرانی زبان دنیا میں کہیں بھی رائج نہیں.لیکن لاکھوں کروڑوں یہودی عبرانی زبان بولتے ہیں.اگر یہودی ایک مردہ زبان کو زندہ کر سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عربی زبان جو ایک زندہ زبان ہے اس کا چرچا نہ ہو سکے.پہلے قادیان میں اس طریق کو رائج کیا جائے.پھر بیرونی جماعتوں میں یہ طریق جاری کرنے کی کوشش کی جائیگی.چھوٹے چھوٹے آسان فقرے ہوں جو بچوں کو یاد کرائے جاسکتے ہوں.اس کے بعد لوگوں سے امید کی جائیگی کہ وہ اپنے گھروں میں بھی عربی زبان کو رائج کرنے کی کوشش کریں.اس طرح قرآن کریم سے لوگوں کی دلچسپی بڑھ جائیگی اور اس کی آیات کی سمجھ بھی انہیں زیادہ آنے لگ جائے گی.اب تو میں نے دیکھا دعائیں کرتے ہوئے جب یہ کہا جاتا ہے.رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيْمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَامَنَّا في
405 مصالح العرب.....جلد اول (آل عمران: 194) تو ناواقفیت کی وجہ سے بعض لوگ بلند آواز سے آمین کہہ دیتے ہیں.حالانکہ یہ آمین کہنے کا کوئی موقعہ نہیں ہوتا.یہ عربی زبان سے ناواقفیت کی علامت ہے.اگر عربی بول چال کا لوگوں میں رواج ہو جائے گا تو یہ معمولی باتیں لوگ خود بخود سمجھنے لگ جائیں گے اور انہیں نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی.یہ رسالہ جب شائع ہو جائے تو خدام الاحمدیہ کے سپرد کر دیا جائے تا کہ اس کے تھوڑے تھوڑے حصوں کا وہ اپنے نظام کے ماتحت وقتاً فوقتاً نوجوانوں سے امتحان لیتے رہیں.یہ فقرات بہت سادہ زبان میں ہونے چاہئیں.مصری زبان میں انشاء الادب نام سے کئی رسالے اس قسم کے شائع ہو چکے ہیں مگر وہ زیادہ دقیق ہیں.معلوم نہیں ہمارے سکولوں میں انہیں کیوں جاری نہیں کیا گیا.“ الفضل یکم صلح 1324 ہش بمطابق یکم جنوری 1945، صفحہ 4 کالم 3-4 ).( از تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 187 تا 189) محترم منیر احصنی صاحب کی قادیان آمد مولا نا جلال الدین صاحب شمس مجاہد انگلستان دس سال تک تثلیث کے مرکز میں تبلیغ اسلام کا کامیاب جہاد کرنے کے بعد 15 ماہ اخاء 1325 ہش بمطابق 15 اکتوبر 1946 ء کو السید منیر احصنی صاحب امیر جماعت احمد یہ دمشق کے ساتھ قادیان میں تشریف لائے تو اہل قادیان نے ان کا نہایت پر تپاک اور پُر جوش خیر مقدم کیا.16 ماہ اخاء 1325 ہش بمطابق 16 اکتوبر 1946 کو ان کے اور السید منیر احصنی کے اعزاز میں جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ : کے طلباء نے دعوت عصرانہ دی.جس میں حضرت سیدنا اصلح موعود نے ایک پُر معارف تقریر فرمائی.تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 597-598) 00000
مصالح العرب.....جلد اول 406 مسئلہ فلسطین اور جماعت احمدیہ احمدیت کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی عالم اسلام کو دینی روحانی اور حتی کہ سیاسی اعتبار سے مشکلات پیش آئیں تو انکے دفاع کے لئے اور انکی راہنمائی کے لئے جو پہلی آواز اٹھی وہ یا تو تو امام جماعت احمدیہ کی آواز تھی یا آپ کی ہدایت کے مطابق افراد جماعت کی آواز تھی.اور جب کبھی خطرات لاحق ہوئے تو پہلی آواز جس دردمند دل سے نکلی وہ جماعت احمدیہ کی آواز تھی.جہاں احمدیت نے عرب اور اسلامی ملکوں کی آزادی کے حصول میں گرانقدر اور بے لوث خدمات سرانجام دیں وہاں مسئلہ فلسطین اور اسکے حل میں بھی سب سے زیادہ حصہ ڈالا.بلکہ اسے سیاسی ہی نہیں ایک دینی مسئلہ قرار دے کر اس کے حل کے لئے ایسی سر توڑ کوششیں کیں جیسی کہ جماعت احمد یہ اسلام کے دفاع میں کوششیں کرتی رہی ہے اور جو جماعت احمدیہ کا خاصا رہی ہیں.مسئلہ فلسطین میں جماعتی کوششوں کے تذکرہ سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قارئین کرام کی آگاہی کے لئے اس مسئلہ کا پس منظر بیان کر دیا جائے.مسئلہ فلسطین کا پس منظر فلسطین کو یہودیت کا مرکز بنانے کی تحریک انیسویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی جب عالمی صہیونی انجمن کی بنیاد ڈالی گئی.اور بیل" کے مقام پر طے پایا کہ فلسطین میں یہودیوں کا ایک وطن بنایا جائے.صہیونی تحریک کے لیڈروں نے پہلے تو سلطان ترکی کو اس بات پر آمادہ کرنیکی کوشش کی کہ یہودی وطن کے قیام کی اجازت دی جائے.مگر ترکی حکومت نے انکار کر دیا.1903ء میں حکومت برطانیہ نے تجویز پیش کی کہ یہودی کینیا کو اپنا وطن بنالیں.لیکن یہودی رضا مند نہ ہوئے.1914 ء میں جب پہلی عالمی جنگ چھڑی تو یہودیوں نے جرمنی اور
407 مصالح العرب.....جلد اوّل برطانیہ دونوں سے جوڑ توڑ شروع کر دئیے جنگ عظیم کے دوران حالات نے پلٹا کھایا.ترکی جنگ میں اتحادیوں کے خلاف جرمنی کا ساتھ دے رہے تھے ادھر برطانیہ کو عربوں کی (جو اسوقت ترکی حکومت سے مطمئن نہ تھے ) ضرورت محسوس ہوئی.انگریزوں نے حسین شریف مکہ کو پیغام بھیجا کہ اگر فلسطین کے عربوں نے جنگ میں انکا ساتھ نہ دیا تو ترکوں کے عربی مقبوضات آزاد کر دیئے جائیں گے.ان مقبوضات میں فلسطین بھی شامل تھا.عرب برطانیہ کے داؤ میں آگئے اور انہوں نے اسے منظور کر لیا.اور جنگ میں ترکوں کے خلاف برسر پیکار ہو گئے.کرنل لارنس“ کی زیر ہدایت اور عربوں کی مدد سے جنرل این بی“ نے 1917ء میں ترکوں کو شکست دے کر یروشلم پر قبضہ کر لیا.صہیونی تحریک کے لیڈر بھی خاموش نہیں بیٹھے تھے.فلسطین کو اپنا قومی گھر بنانے کی پرانی خواہش از سر نو تازہ ہو گئی.ادھر جنگ کے مصارف کی وجہ سے انگریزوں کو یہودی سرمایہ کی سخت ضرورت تھی نتیجہ یہ ہوا کہ اسی سال برطانوی وزیر امور خارجہ لارڈ بلفور" اور یہودی لیڈر لارڈ روسچائلڈ کے مابین ایک خفیہ معاہدہ ہوا جس کے ذریعہ طے پایا کہ یہودی جنگ میں برطانیہ کی مدد کریں اسکے عوض برطانیہ اختتام جنگ پر فلسطین کو یہودیوں کا وطن بنادے گا.یہ معاہدہ 1920ء یعنی اختتام جنگ کے ایک سال بعد تک خفیہ رکھا گیا.جنگ کے بعد تھوڑے عرصہ تک سکون رہا.1920ء میں فلسطین کی باگ ڈور مجلس اقوام کی زیر نگرانی برطانیہ کے سپرد ہوئی.عربوں کو کامل یقین تھا کہ عنقریب فلسطین ایک آزاد ملک انکے سپر د کر دیا جائے گا.مگر 1920ء میں پہلی بار محسوس ہوا کہ برطانیہ کسی صورت میں انکو فلسطین کا اقتدار سونپنے کیلئے آمادہ نہیں ہے.اس عرصہ میں یہودی لوگ کافی تعداد میں فلسطین پہنچ چکے تھے.اور اس وقت سے ہی علاقہ میں گڑ بڑ شروع ہو گئی تھی.یہودی اعلانیہ طور پر طین کو اپنا ملک بنانے پر مصر تھے.عرب جو پہلے ہی مضطرب بیٹھے تھے مزید بھڑک اٹھے.یہودیوں کی بڑھتی ہوئی درآمد نے انکی آنکھیں کھول دیں.اور ملک میں فسادات کا دور دورہ شروع ہو گیا.1924ء میں حالات انتہائی نازک حالت تک پہنچ گئے.بغاوت فرو کرنے کے لئے انگریز فوجیں منگائی گئیں اور وقتی طور پر ہنگاموں پر قابو پالیا گیا.مگر 1933ء اور 1936ء میں دوباره شدید فسادات اٹھ کھڑے ہوئے.بہت کچھ مالی و جانی نقصان ہوا.برطانوی مدبرین کا خیال تھا کہ کچھ عرصہ کے بعد عرب اور یہودی شیر و شکر ہو جائیں گے لیکن اختلافات کی خلیج وسیع
مصالح العرب.....جلد اول 408 سے وسیع تر ہوتی گئی.15 سال کے کشت و خون کے بعد جب حالات قابو سے باہر نظر آنے لگے تو برطانیہ نے نومبر 1936ء میں لارڈ پیل“ کی صدارت میں ایک شاہی کمیشن نامزد کر دیا.جس نے حالات کا مطالعہ کر کے جولائی 1937 ء میں اپنی رپورٹ اور اپنی سفارشات پیش کر دیں.پیل کمیشن نے اعتراف کیا کہ عرب اور یہودی دونوں سے وعدہ خلافی اور ناانصافی کی گئی ہے.جس کا حل اس نے یہ پیش کیا کہ ملک کے حصے بخرے کر دیے جائیں.ایک علاقہ جو سب سے زرخیز اور تجارتی مرکز تھا اور جس میں وہاں کی صرف ایک ہی کارآمد بندرگاہ حیفا بھی شامل تھی یہودیوں کے حوالے کر دیا جائے.اور فلسطین کا بیشتر حصہ جو عموما ریتلا ،صحرا اور بنجر ہے عربوں کو دے دیا جائے.نیز سفارش کی کہ باقی مقامات مقدسہ یروشلم اور درمیانی علاقہ پر انگریزی حکومت کی عملداری رہے.عرب اور یہود دونوں نے اس تجویز کی سخت مذمت کی اور فلسطین میں یکا یک فریقین کی طرف سے ملک گیر اور منظم فسادات اٹھ کھڑے ہوئے.عربوں کا نشانہ پہلے تو یہودی ہوا کرتے تھے.مگر پھر انگریزی فوجوں پر یورش شروع کر دی گئی.متعدد برطانوی فوجی بیڑے حیفا اور جانا پہنچ گئے.اور ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا.حریت پسند عرب لیڈر گرفتار کئے گئے.مجلسیں تو ڑ دی گئیں اور عرب دیہات نہ صرف تعزیری چوکیوں سے زیر بار کر دیئے گئے بلکہ ہوائی جہازوں سے ان پر گولہ باری کی گئی.ان حالات نے صورتحال بدل دی، ملک کے حصے بخرے کرنے کی سکیمیں وقتی طور ہے معرض التواء میں پڑ گئیں.اور پیل کمیشن کی رپورٹ پر غور کرنے کیلئے ایک اور کمیشن ووڈ ہڈ" کمیشن مقرر ہوا.مگر عرب نہ مطمئن ہو سکتے تھے نہ ہوئے.666 اب برطانوی حکومت نے مفاہمت کے لئے ایک نئی تجویز سوچی اور وہ یہ کہ لندن میں عربوں اور یہودیوں کی ایک مشترکہ کانفرنس کا فیصلہ کیا گیا.یہ کانفرنس فروری 1939 ء میں بمقام لندن منقعد ہوئی جس میں سعودی عرب، مصر اور عراق کے مندوبین نے شرکت کی.مگر یہ ملخص از تاریخ احمدیت جلدے صفحہ 553 تا 555) بھی ناکام ہوگئی.عرب زعماء مسجد فضل لندن میں فروری 1939ء کی یہی کانفرنس تھی جس میں شریک ہونے والے عرب نمائندگان جن میں مکہ مکرمہ کے وائسرائے اور فلسطین ، عراق اور یمن کے نمائندوں کے اعزاز میں مکرم مولانا
مصالح العرب.....جلد اوّل 409 جلال الدین صاحب شمس مبلغ لندن نے ایک پارٹی دی.جس میں شہزادہ فیصل ، شیخ ابراہیم سلمان رئيس النيابة العامة ، شیخ حافظ و ہبہ، عونی بیک الہادی ، القاضی علی العمری اور القاضی محمد الشامی وغیرہ مندوبین کا نفرنس نے شرکت کی.اس موقعہ پر امیر فیصل اور دوسرے عرب نمائندگان کے نام بذریعہ تار برقی جو پیغام حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ارسال فرمایا وہ اگر چہ پہلے مولانا جلال الدین صاحب شمس کی مساعی کے تذکرہ کے دوران درج ہو چکا ہے تاہم یہاں پر مضمون کے تسلسل اور قارئین کی یاد دہانی کے لئے دوبارہ نقل کیا جاتا ہے.حضور نے فرمایا: ”میری طرف سے ہر رائل نس امیر فیصل اور فلسطین کا نفرنس کے ڈیلیگیوں کو خوش آمدید کہیں.اور ان کو بتا دیں کہ جماعت احمد یہ کامل طور پر ان کے ساتھ ہے.اور دعا کرتی ہے کہ اللہ تعالی انکو کامیابی عطا کرے.اور تمام عرب ممالک کو کامیابی کی راہ پر چلائے.اور ان کو مسلم ورلڈ کی لیڈرشپ عطا کرے.وہ لیڈرشپ جو ان کو اسلام کی پہلی صدیوں میں حاصل تھی.“ از تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 556-557 ) مسئله فلسطین پر چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب کی تقریر یوں تو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب نے مسئلہ فلسطین پر بہت سے انٹرویوز اور لیکچرز دیئے لا تعداد بیانات اور مشورے دیئے لیکن ہم ذیل میں دو تقاریر پر ہی اکتفا کرتے ہیں.چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب حج فیڈرل کورٹ آف انڈیا نے ”مسئلہ فلسطین کے مضمون پر وائی ایم سی اے ہال لاہور میں 27 جنوری 1946ء کو ایک نہایت اہم اور معلومات افزا تقریر فرمائی.جلسہ کا اہتمام نوجوانان احمدیت کی بین الکلیاتی تنظیم احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن نے کیا اور صدارت کے فرائض جناب ڈاکٹر ای.ڈی لوکس وائس پرنسپل ایف سی کالج لاہور نے انجام دیئے.اخبار ”انقلاب (لاہور) نے اس تقریر کا ملخص حسب ذیل الفاظ میں شائع کیا.برطانیہ اور امریکہ یہودی سرمایہ کے اثر کے باعث آزادانہ طور پر کوئی اقدام نہیں کر سکتے.سیاسی حلقہ میں بھی یہودیوں کا اثر کم نہیں ہے.موجودہ پارلیمنٹ کے دارالعوام میں 25 یہودی ممبر ہیں.دو یہودی وزیر اور ایک یہودی سیکرٹری آف سٹیٹ، اسی طرح امریکہ میں کی
مصالح العرب.....جلد اول بھی وہ ملک کی سیاسی مشین پر اثر انداز ہیں.410 یہ سوال کہ کیا فلسطین ان ملکوں میں شامل تھا جن کے بارے میں گزشتہ جنگ کے آغاز میں حکومت برطانیہ نے عربوں کو آزادی کا یقین دلایا تھا، آج تمہیں سال کے بعد بھی حل نہیں ہو سکا.فلسطین میں گزشتہ 21 سال کی بدامنی اور ناخوشگوار حالات کے باوجود حکومت برطانیہ اس مسئلہ کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کر سکی.پہلی عالمگیر جنگ سے موجودہ وقت تک فلسطین کی سیاسیات کا جائزہ لینے کے بعد سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے کہا کہ فلسطین کے عرب حسب ذیل چار وعدوں کی بناء پر جو کہ حکومت برطانیہ نے ان سے کئے تھے.فلسطین میں ایک عرب ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں.اول: پہلی عالمگیر جنگ کے شروع میں برطانیہ نے جن عرب ممالک سے آزادی کا وعدہ کیا تھا فلسطین بھی ان میں شامل تھا.دوئم : حکومت برطانیہ نے اپنے پہلے وعدے کو اس اعلان سے مضبوط کیا کہ جنگ کے بعد عرب ممالک میں وہاں کے لوگوں کے مشورہ کے بغیر کوئی حکومت قائم نہیں کی جائیگی.سوتم : بالفور اعلان کا یہ مفہوم نہیں تھا جو یہودی اخذ کرتے ہیں کہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کی جائے گی.چهارم: عربوں کا مطالبہ ہے کہ 1939ء کا قرطاس ابیض ایک قسم کا آخری فیصلہ تھا اور یہودی اس کی مخالفت میں حق بجانب نہیں ہیں.سر محمد ظفر اللہ خان نے شریف مکہ اور مصر میں برطانوی ہائی کمشنر کے مابین عرب ممالک کی آزادی کے بارے میں خط و کتابت کا بتفصیل ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شریف مکہ نے مطالبہ کیا تھا کہ جنگ کے اختتام پر عرب ممالک کو آزاد کیا جائے اور کہا تھا کہ عربوں کا یہ مطالبہ ان کی زندگی کا جزو اعظم بن چکا ہے.اور اس میں کسی قسم کا رد و بدل نہیں ہوسکتا.حکومت برطانیہ نے ہائی کمشنر کی معرفت اس مطالبہ کو پورا کرنے کا یقین دلایا تھا.آج عرب اسی خط و کتابت کی بناء پر فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ فلسطین بھی ان ممالک میں شامل تھا جن کے بارے میں شریف مکہ نے حکومت برطانیہ سے ضمانت مانگی تھی.فلسطین میں یہودیوں کے قیام کے متعلق دیگر عرب ممالک کے رد عمل کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ عرب یہودیوں کے نام سے متنفر ہیں ان کا خیال ہے کہ اگر فلسطین
مصالح العرب.....جلد اول 411 میں یہودیوں کی ریاست قائم ہوگئی تو پھر وہ ہمسایہ عرب ممالک سے بھی مزید علاقوں کا مطالبہ کرینگے اور نئی مشکلات پیدا ہو جائیں گی.اگر چہ یہودی اس امر کا یقین دلائیں بھی کہ وہ عربوں کے مفاد کی حفاظت کرینگے پھر بھی باہمی فساد کا جذبہ اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ کسی مفاہمت کی کوئی امید نہیں.یہودی اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ اگر ممکن ہو سکے تو طاقت کے استعمال سے یہودی ریاست قائم کریں گے.سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے کہا کہ فلسطین کی 17 لاکھ پچاس ہزار کی کل آبادی میں چھ لاکھ اور پچاس ہزار یہودی ہیں اور وہ ملک کی اقتصادی زندگی پر چھائے ہوئے ہیں اور اگر یہودیوں کا فلسطین میں داخلہ بند بھی کر دیا گیا تو وہ سیاسی اور اقتصادی طور پر عربوں کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ بنا رہے ہیں.ہم صورت حال سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس خطرہ کو مٹانے کا عزم کئے ہوئے ہیں.( بحوالہ الفضل 31 صلح 1325 مش بمطابق 31 جنوری 1946 ، صفحہ 6 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد نمبر 10 صفحه 568 تا570) چوہدری صاحب کی دوسری فاضلانہ تقریر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب 9 دسمبر 1947 ء کو گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک فاضلانہ خطاب فرمایا جس میں مسئلہ تقسیم فلسطین کی سازش پر مفصل روشنی ڈالی.اس تقریر کا ملخص اخبار ” نوائے وقت“ نے درج ذیل الفاظ میں شائع کیا:.لاہور.19 دسمبر.ادارہ اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے قائد چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں نے آج مسئلہ فلسطین کے تمام پہلوؤں پر مفصل روشنی ڈالی.انہوں نے ادارہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقسیم فلسطین کے فیصلہ کو سخت نا منصفانہ قرار دیا.گورنمنٹ کالج لاہور میں تقریر کرتے ہوئے سر ظفر اللہ نے سخت افسوس ظاہر کیا کہ امریکی حکومت نے چھوٹی چھوٹی طاقتوں کے نمائندگان پر ناجائز دباؤ ڈال کر تقسیم فلسطین کے حق میں فیصلہ کرا لیا.سر ظفر اللہ نے کہا کہ امریکہ کی انتخابی سیاسیات نے فلسطین کو ایک مہرہ بنایا.آپ نے فرمایا کہ سرزمین فلسطین کی مجوزہ یہودی ریاست میں نہ صرف ایک مضبوط عرب اقلیت ہمیشہ کے لئے یہودیوں کی غلام بن جائے گی بلکہ ملک کی اقتصادیات پر بین الاقوامی کنٹرول قائم ہو جائے گا جو قطعاً غیر قانونی
مصالح العرب.....جلد اول حرکت ہے.412 چوہدری سر محمد ظفر اللہ نے بتایا کہ کس طرح امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے یہودی اثر کے ماتحت چھوٹی چھوٹی اقوام پر ناجائز دباؤ ڈالا اور دو تین فیصلہ کن ووٹ حاصل کر لئے جس کے مطابق ادارہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی تقسیم کا نامنصفانہ فیصلہ ہوا.ظفر اللہ نے بتایا کہ 26 نومبر کو ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ ہم کامیاب ہو گئے ہیں اور مخالف فریق کو اپنی شکست کا یقین ہو گیا تھا لیکن عین آخری وقت رائے شماری بلا وجہ 28 نومبر پر ملتوی کر دی گئی تاکہ دوسرے ممالک پر دباؤ ڈال کر فلسطین کے متعلق ان کا رویہ تبدیل کیا جا سکے.چنانچہ جب بیٹی کے مندوب نے رائے شماری کے بعد مجھ سے ملاقات کی تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور اس نے افسوس ظاہر کیا کہ اسے آزادی کے ساتھ ووٹ دینے کی اجازت نہیں دی گئی.اکثر ایسے مندوبین نے جنہوں نے تقسیم فلسطین کے حق میں ووٹ ڈالے یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے نہایت مجبوری کے عالم میں تقسیم فلسطین کے حق میں ووٹ ڈالے اور اسی میرٹ میں تقسیم فلسطین کا فیصلہ ہوا.“ ”سر ظفر اللہ نے بتایا کہ جنرل اسمبلی میں کس طرح شروع میں عربوں کو تقسیم فلسطین کی سکیم کے استرداد کا یقین تھا لیکن بعد ازاں زبر دست سازشیں کی گئیں کہ عربوں کی حامی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا.صدر اسمبلی نے رائے شماری کو 26 نومبر سے 28 نومبر پر ملتوی کر دیا.دریں اثناء امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بعض مندوبین پر ان کی حکومتوں کی مدد سے دباؤ ڈالا اور عربوں کے حامی 17 مندوبین میں سے 4 مندوب دوسرے فریق سے جاملے.لائبیریا کے نمائندے نے اعتراف کیا کہ واشنگٹن میں ان کے سفیر نے انہیں تقسیم فلسطین کی حمایت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے.بیٹی کے نمائندے نے ہمیں افسوس کے ساتھ بتایا کہ وہ اپنی حکومت کی تازہ ہدایات کے ماتحت اب تقسیم فلسطین کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور ہو گیا ہے.اس طرح بالآخر تقسیم فلسطین کے حق میں امریکی اور یہودی سازش کامیاب ہو گئی اور فلسطین کا فیصلہ کر دیا گیا.“ (نوائے وقت 11 دسمبر 1947 ء صفحہ 6) اقوام متحدہ میں چوہدری صاحب کا موثر دفاع ان واقعات میں سے ایک اہم اور قابل ذکر واقعہ احمدیت کے مایہ ناز فرزند چوہدری محمد
مصالح العرب.....جلد اول 413 ظفر اللہ خاں صاحب کی اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین سے متعلق وہ پُر شوکت تقریر ہے جو آپ نے پاکستانی وفد کے لیڈر کی حیثیت سے فرمائی.چوہدری صاحب نے فلسطینی مسلمانوں کا مسئلہ کس مؤثر رنگ میں پیش کیا اس کا اندازہ لگانے کے لئے اخبار ” نوائے وقت“ میں شائع شدہ دو خبروں کا مطالعہ کافی ہو گا:.پہلی خبر " سر ظفر اللہ کی تقریر سے اقوام متحدہ کی کمیٹی میں سکتے کا عالم طاری ہو گیا امریکہ، روس اور برطانیہ کی زبانیں گنگ ہو گئیں ایک سس:.10 اکتوبر.رائٹر کا خاص نامہ نگار اطلاع دیتا ہے کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی میں ج فلسطینی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے بیٹھی تھی کل پاکستانی مندوب سر ظفر اللہ کی تقریر کے بعد ایک پریشان کن تعطل پیدا ہو چکا ہے اور جب تک امریکہ اپنی روش کا اعلان نہ کر دے دیگر مندوبین اپنی زبانیں کھولنے کے لئے تیار نہیں.امریکن نمائندہ جو اس دوران میں ایک مرتبہ بھی بحث میں شریک نہیں ہوا اس وقت تک بولنے کے لئے آمادہ نہیں جب تک کہ صدر ٹرومین وزیر خارجہ مسٹر جارج مارشل اور خود وفد ایک مشترکہ اور متفقہ حل تلاش نہ کرلیں.کمیٹی میں کل کی بحث میں کمیٹی کے صدر ڈاکٹر ہر برٹ ایوات (آسٹریلیا) نے بہت پریشانی اور خفت کا اظہار کیا جب بحث مقررہ وقت سے پہلے ہی آخری دموں پر پہنچ گئی اور امریکن مندوب اس طرح خاموش بیٹھا رہا گویا کسی نے زبان سی دی ہو.اقوام متحدہ کے تمام اجلاس میں یہ واقعہ اپنی نظیر آپ ہے.پاکستانی مندوب نے ایک لفظ میں دوسرے مندوبین کے وارداتِ قلب کا اظہار کر دیا جب اس نے اُکتا کر یہ مشورہ دیا کہ چونکہ بعض سرکردہ مند و بین تقریر کرنے سے واضح طور پر ہچکچا رہے ہیں اس لئے فلسطین پر عام بحث فوراً بند کر دی جائے.امریکن وفد دو دن سے اس بحث میں مبتلا ہے کہ اسے کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے لیکن ابھی تک وہ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکا ہے.وفد کے ایک رکن نے دریافت کرنے پر بتانے سے گریز کیا کہ امریکن صدر مقام میں کیا کچھ ہو رہا ہے.مندوبین جس طرح اس مسئلہ پر اب تک اظہار خیال کرتے رہے ہیں اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کافی وجوہات ہیں کہ مندوبین میں نہ صرف عرب اور یہودی مطالبات اور
414 مصالح العرب.....جلد اول دلائل کی صحت اور حقانیت کے بارہ میں ہی عارضی اختلافات ہیں بلکہ بعض مندوبین کو اس امر کا نی بھی احساس ہے کہ روس سے متعلق امریکہ کہ موجودہ حکمت عملی کے لئے عربوں کی حمایت اور ہمدردی انتہائی اور فیصلہ کن اہمیت رکھتی ہے.روس نے بھی ابھی تک اس مسئلہ پر اپنی روش کا اظہار نہیں کیا ہے.امریکہ کی خاموشی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ وہ روس کو اپنی خاموشی سے تھکا کر بولنے پر مجبور کرنا چاہتا ہے اور خودسب سے آخر میں تقریر کرنا چاہتا ہے تاہم معلوم ہوتا ہے کہ فلسطینی مسئلہ اب بری طرح روس اور امریکہ کی باہمی کشمکش میں الجھ جائے گا.(نوائے وقت 12 اکتوبر 1947 ، صفحہ 1 ) دوسری خبر فلسطین کے متعلق سر ظفر اللہ کی تقریر سے دھوم مچ گئی عرب لیڈروں کی طرف سے سر ظفر اللہ خاں کو خراج تحسین نیو یارک.10 اکتوبر مجلس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سر محمد ظفر اللہ خاں رئیس الوفد پاکستان نے جو تقریر کی وہ ہر لحاظ سے افضل و اعلیٰ تھی.آپ تقریباً 115 منٹ بولتے رہے.اس تقریر کا اثر یہ ہوا کہ جب آپ تقریر ختم کر کے بیٹھے تو ایک عرب ترجمان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین پر عربوں کے معاملہ کے متعلق یہ ایک بہترین تقریر تھی.آج تک میں نے ایسی شاندار تقریر نہیں سنی.سرمحمد ظفر اللہ خاں نے اپنی تقریر میں زیادہ زور تقسیم فلسطین کے خلاف دلائل دینے میں صرف کیا.جب آپ تقریر کر رہے تھے تو مسرت و ابتہاج سے عرب نمائندوں کے چہرے تمتما اٹھے.تقریر کے خاتمے پر عرب ممالک کے مندوبین نے آپ سے مصافحہ کیا اور ایسی شاندار تقریر کرنے پر مبارکباد پیش کی.ایک انگریز مندوب نے سر ظفر اللہ کو پیغام بھیجا کہ آپ کی تقریر نہایت شاندار تھی مجھے اس کی نقل بھیجئے میں انہماک سے اس کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں.(نوائے وقت 12 اکتوبر 1947 ، صفحہ 2 کالم 2) چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے اس تاریخی خطاب نے اقوام عالم کے سامنے فلسطینی مسلمانوں کا مسئلہ حقیقی خدو خال کے ساتھ نمایاں کر دیا اور متعدد ممالک نے تقسیم فلسطین کے خلاف رائے دینے کا فیصلہ کر لیا لیکن بعد میں انہوں نے دنیا کی بعض بڑی طاقتوں کی طرف
مصالح العرب.....جلد اول 415 سے دباؤ میں آکر اپنی رائے بدل لی اور 30 نومبر 1947 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عرب اور یہودی دو علاقوں میں تقسیم کرنے کی امریکی روی قرارداد پاس کر دی.چوہدری صاحب کے خطاب کی پذیرائی 66 مسٹر الفرد منتقل “ نے اپنی کتاب "What price Israel‘ میں جو ”ہنری و یگزی کمپنی شکا گونے شائع کی لکھا ہے کہ پاکستان کے مندوب نے تقسیم کی تجویز کے خلاف عربوں کی طرف سے زبردست جنگ لڑی.انہوں نے کہا فلسطین کے بارہ لاکھ عربوں کو اپنی مرضی کی حکومت بنانے کا حق چارٹر میں دیا گیا ہے ادارہ اقوام متحدہ صرف ایسی مؤثر شرائط پیش کر سکتا ہے جس سے فلسطین کی آزاد مملکت میں یہودیوں کو مکمل مذہبی ،لسانی تعلیمی اور معاشرتی آزدی حاصل ہو.اس کے لئے عربوں پر کوئی اور فیصلہ مسلط نہیں ہوسکتا (صفحہ 17) نیز لکھا ” جنرل اسمبلی میں پاکستانی نمائندے کی خطابت جاری رہی مغربی طاقتوں کو یا درکھنا چاہئے کہ کل انہیں مشرق وسطی میں ، دوستوں کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ ان ملکوں میں اپنی عزت اور وقار تباہ نہ کریں.جو لوگ لسانی دوستی کے زبانی دعوے کرتے ہیں ان کا حال یہ ہے کہ اپنے دروازے بے گھر یہودیوں پر بند کئے ہوئے ہیں اور انہیں اصرار ہے کہ عرب فلسطین میں یہودیوں کو نہ صرف پناہ دیں بلکہ ان کی ایک ایسی ریاست بھی بنے دیں جو عربوں پر حکومت کرے“.لمصل ( ص 19-18 ) فلسطین کے متعلق سید نا اصلح موعودؓ کے دو معرکۃ الآراء مضامین اگر کشمیر پاکستان کے لئے رگ جان کی حیثیت رکھتا ہے تو فلسطین پورے عالم اسلام کی زندگی اور موت کا سوال ہے.مسئله فلسطین یکم دسمبر 1947ء کو ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوا جبکہ امریکہ اور روس دونوں لمصد کی متفقہ کوشش سے جنرل اسمبلی نے تقسیم فلسطین کا ظالمانہ فیصلہ کر دیا.سید نا اصلح موعود نے تقسیم فلسطین کے پس منظر کو بے نقاب کرنے کیلئے دو معرکۃ الآراء مضامین لکھے.جن میں سے ایک فیصلہ تقسیم سے قبل 28 نومبر کو شائع ہوا.اور دوسرا دس روز بعد 11 دسمبر کو.حضور نے ان مضامین میں نہایت شرح وبسط و دلائل سے ثابت کیا کہ یہودیوں کی
416 مصالح العرب.....جلد اول کی فلسطین میں آبادی روس، امریکہ اور برطانیہ تینوں کی پرانی سازش کا نتیجہ ہے.گو یہ طاقتیں اپنی سیاسی اغراض کے لئے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار نظر آتی ہیں مگر مسلم دشمنی کے مقصد میں سب مشترک ہیں.عربوں اور مسلمانوں سے کسی کو ہمدردی نہیں ہے.صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے.اور اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی سلمان (ماخوذ از الفضل 28 نبوت 1326 ہش بمطابق 28 نومبر 1947ء صفحہ 4 کالم 3 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 333-334 اس ضمن میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ: در فلسطین کا معاملہ اسلامی دنیا کے لئے ایک نہایت ہی اہم معاملہ ہے ایک ہی وقت میں پاکستان ، انڈونیشیا اور فلسطین کی مصیبتیں مسلمانوں کے لئے نہایت ہی تشویشناک صورت پیدا کر رہی ہیں.ہمیں ان سب مشکلات پر ٹھنڈے دل سے غور کر کے کوئی ایسا راہ نکالنا ہے جو آئندہ اسلام کی تقویت کا موجب ہو اور ہمیں اس وقت اپنے ذہنوں کو دوسری چھوٹی سیاسی باتوں میں پھنسا کر مشوش نہیں کرنا چاہیے.فلسطین کا معاملہ ایک الہی تدبیر کا نتیجہ ہے اور قرآن کریم ، احادیث اور بائبل میں ان تازہ پیدا ہونے والے واقعات کی خبریں پہلے سے موجود ہیں.“ (ماخوذ از الفضل 11 فتح 1326 ہش بمطابق 11 دسمبر 1947ء صفحہ 3 کالم 4 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 333-334 فتنہ صیہونیت کے خلاف زبردست اسلامی تحریک 66 دنیا کی تمام بڑی بڑی اسلام دشمن طاقتیں ایک لمبے عرصے سے فلسطین میں یہودیوں کو وسیع پیمانے پر آباد کرتی رہی تھیں.اس خوفناک سازش کا نتیجہ بالآخر 16 مئی 1948ء کو ظاہر ہو گیا جبکہ برطانیہ کی عمل داری اور انتداب کے خاتمہ پر امریکہ، برطانیہ اور روس کی پشت پناہی میں ایک نام نہاد صیہونی حکومت قائم ہو گئی اور دنیائے اسلام کے سینہ میں گویا ایک زہر آلود منجر پیوست کر دیا گیا.اس نہایت نازک وقت میں جبکہ ملت اسلامیہ زندگی اور موت کی کشکش سے دوچار تھی حضرت امیر المؤمنین المصلح الموعودؓ نے عالم اسلام کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے ایک بار پھر پوری قوت سے جھنجھوڑا.انہیں مغربی طاقتوں اور صیہونی حکومت کے در پردہ تباہ
مصالح العرب.....جلد اول 417 کن عزائم سے قبل از وقت آگاہ فرمایا اور اس فتنہ عظمی کے منظم مقابلہ کے لئے نہایت مفید تجاویز پر مشتمل ایک قابل عمل دفاعی منصوبہ پیش کیا.چنانچہ حضور نے خاص اس مقصد کے لئے "الكُفْرُ مِلَّةٌ وَاحِدَة “ کے نام سے ایک حقیقت افروز مضمون سپرد قلم فرمایا جس میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے فورا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے اور اس کے خلاف سردھڑ کی بازی لگا دینے کی زبر دست تحریک فرمائی.ذیل میں ”الكفر ملة واحدة‘ کا مکمل متن بجنسہ نقل کیا جاتا ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْد خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر الكُفْرُ مِلَّة وَاحِدَة وہ دن جس کی خبر قرآن کریم اور احادیث میں سینکڑوں سال پہلے دی گئی تھی.وہ دن جس کی خبر توریت اور انجیل میں بھی دی گئی تھی.وہ دن جو مسلمانوں کے لئے نہایت ہی تکلیف دہ اور اندیش ناک بتایا جاتا تھا معلوم ہوتا ہے کہ آن پہنچا ہے.فلسطین میں یہودیوں کو پھر بسایا جا رہا ہے.امریکہ اور روس جو ایک دوسرے کا گلا کاٹنے پر آمادہ ہو رہے ہیں اس مسئلہ میں ایک بستر کے دوساتھی نظر آتے ہیں.اور عجیب بات یہ ہے کہ کشمیر کے معاملہ میں بھی یہ دونوں متحد تھے.دونوں ہی انڈین یونین کی تائید میں تھے اور اب دونوں ہی فلسطین کے مسئلہ میں یہودیوں کی تائید میں ہیں.آخر یہ اتحاد کیوں ہے؟ یہ دونوں دشمن مسلمانوں کے خلاف اکٹھے کیوں ہو جاتے ہیں؟ اس کے کئی جواب ہو سکتے ہیں مگر شاید ایک جواب جو ہمارے لئے خوشکن بھی ہے زیادہ صحیح ہو.یعنی دونوں ہی اسلام کی ترقی میں اپنے اداروں کی پامالی دیکھتے ہوں جس طرح شیر کی آمد کی بو پا کر کتے اکٹھے ہو جاتے ہیں شاید یہ دونوں ہی اپنی دور بین نگاہوں سے اسلام کی ترقی کے آثار دیکھ رہے ہیں.شاید اسلام کا شیر جو ابھی ہمیں بھی سوتا نظر آتا ہے بیداری کی طرف مائل ہے.شاید اس کے جسم پر ایک خفیف سی کپکپی وارد ہورہی ہے جو ابھی دوستوں کو تو نظر نہیں آتی مگر دشمن اس کو دیکھ چکا ہے.اگر یہ ہے تو حال کا خطرہ مستقبل کی ترقی
مصالح العرب.....جلد اول 418 پر دلالت کر رہا ہے مگر ساتھ ہی مسلمانوں کی عظیم الشان ذمہ داریاں بھی ان کے سامنے پیش کر رہا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ ایک ہی وقت میں فلسطین اور کشمیر کے جھگڑے شروع ہیں.یہ عجیب ہے کہ کشمیر اور فلسطین ایک ہی قوم سے آباد ہیں اور یہ عجیب تر بات ہے کہ اسی قوم کا ایک مسلمان ہو کر آج کشمیر میں مسلمانوں کی ہمدردی کھینچ رہا ہے اور دوسرا حصہ فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ زندگی اور موت کی جنگ میں ٹکر لے رہا ہے.آدھی قوم اسلام کے لئے قربانیاں پیش کر رہی ہے اور آدھی قوم اسلام کو مٹانے کے لئے قربانیاں پیش کر رہی ہے.کہے کی جنگ میں بھی کا شر یعنی کشمیری کا نام سننے میں آتا ہے اور فلسطین کی جنگ میں بھی کا شر شہر کا ذکر بار بار آرہا ہے.اسی کا شر کے نام پر کشمیر کا نام کا شر رکھا گیا تھا.جواب بگڑ کر کشمیر ہو گیا ہے یا یہ کہ یہ کا شر ہے یعنی سیریا کی طرح.حال ہی میں کشمیر میں ایک آزادی کا دن منایا گیا ہے جن میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کشمیری دل سے ہندوستان کے ساتھ ہیں.اس مظاہرے میں روس کے نمائندہ نے خصوصیت کے ساتھ حصہ لیا اور دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ کشمیر کے معاملہ میں روس ہندوستان کے ساتھ ہے.کیوں ہے؟ یہ تو مستقبل ثابت کرے گا.ہے؟! اسے روس کے نمائندے نے ثابت کر دیا ہے.کشمیر کا معاملہ پاکستان کے لئے نہایت اہم ہے لیکن فلسطین کا معاملہ سارے مسلمانوں کے لئے نہایت اہم ہے.کشمیر کی چوٹ بالواسطہ پڑتی ہے.فلسطین ہمارے آقا و مولیٰ کی آخری آرام گاہ کے قریب ہے جن کی زندگی میں بھی یہودی ہر قسم کے نیک سلوک کے باوجود بڑی بے شرمی اور بے حیائی سے ان کی ہر قسم کی مخالفتیں کرتے رہے تھے.اکثر جنگیں یہود کے اکسانے پر ہوئی تھیں.کسری کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کروانے پر انہوں نے ہی اکسایا تھا.خدا نے ان کا منہ کالا کیا مگر انہوں نے اپنے خبث باطن کا اظہار کر دیا.غزوہ احزاب کی لیڈری یہو دہی کے ہاتھ میں تھی.سارا عرب اس سے پہلے کبھی اکٹھا نہ ہوا تھا مکہ والوں میں ایسی قوت انتظام تھی ہی نہیں یہ مدینہ سے جلاوطن شدہ یہودی قبائل کا کارنامہ تھا کہ انہوں نے سارے عرب کو اکٹھا کر کے مدینہ کے سامنے لا ڈالا.خدا نے ان کا بھی مونہہ کالا کر دیا مگر یہود نے اپنی طرف سے کوئی کسر باقی نہ رکھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل دشمن مکہ والے تھے مگر مکہ والوں نے کبھی دھوکہ سے آپ کی جان لینے کی کوشش نہیں کی.آپ جب
مصالح العرب.....جلد اول 419 طائف گئے اور ملک کے قانون کے مطابق مکہ کے شہری حقوق سے آپ دستبردار ہو گئے مگر پھر آپ کو لوٹ کر مکہ آنا پڑا تو اس وقت مکہ کا ایک شدید دشمن آپ کی امداد کے لئے آگے آیا اور کی مکہ میں اس نے اعلان کر دیا کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہریت کے حقوق دیتا ہوں اپنے پانچوں بیٹوں سمیت آپ کے ساتھ مکہ میں داخل ہوا اور اپنے بیٹوں سے کہا کہ محمد ہمارا دشمن ہی سہی پر آج عرب کی شرافت کا تقاضا ہے کہ جب وہ ہماری امداد سے شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے تو ہم اس کے مطالبہ کو پورا کر دیں ورنہ ہماری عزت باقی نہیں رہے گی.اور اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ اگر کوئی دشمن آپ پر حملہ کرنا چاہے تو تم میں سے ہر ایک کو اس سے پہلے مر جانا چاہئے کہ وہ آپ تک پہنچ سکے.یہ تھا عرب کا شریف دشمن.اس کے مقابلہ میں بدبخت یہودی جس کو قرآن کریم مسلمان کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتا ہے اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر پر بلایا اور صلح کے دھو کہ میں چکی کا پاٹ کو ٹھے پر سے پھینک کر آپ کو مارنا چاہا خدا تعالیٰ نے آپ کو اس کے منصوبہ کی خبر دی اور آپ سلامت وہاں سے نکلی آئے.یہودی قوم کی ایک عورت نے آپ کی دعوت کی اور زہر ملا ہوا کھانا آپ کو کھلایا آپ کو خدا تعالیٰ نے اس موقع پر بھی بچالیا مگر یہودی قوم نے اپنا اندرونہ ظاہر کر دیا.یہی دشمن ایک مقتدر حکومت کی صورت میں مدینہ کے پاس سراٹھانا چاہتا ہے شاید اس نیت سے کہ اپنے قدم مضبوط کر لینے کے بعد وہ مدینہ کی طرف بڑھے.جو مسلمان یہ خیال کرتا ہے کہ اس بات کے امکانات بہت کمزور ہیں اس کا دماغ خود کمزور ہے.عرب اس حقیقت کو سمجھتا ہے.عرب جانتا ہے کہ اب یہودی عرب میں سے عربوں کو نکالنے کی فکر میں ہیں.اس لئے وہ اپنے جھگڑے اور اختلاف کو بھول کر متحدہ طور پر یہودیوں کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو گیا ہے مگر کیا عربوں میں یہ طاقت ہے؟ کیا یہ معاملہ صرف عرب سے تعلق رکھتا ہے.ظاہر ہے کہ نہ عربوں میں اس کے مقابلہ کی طاقت ہے اور نہ یہ معاملہ صرف عربوں سے تعلق رکھتا ہے.سوال فلسطین کا نہیں سوال مدینہ کا ہے.سوال یروشلم کا نہیں سوال خود مکہ مکرمہ کا ہے.سوال زید اور بکر کا نہیں سوال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا ہے.دشمن باوجود اپنی مخالفتوں کے اسلام کے مقابل پر اکٹھا ہو گیا ہے.کیا مسلمان باوجود ہزاروں اتحاد کی وجوہات کے اس موقع پر اکٹھا نہیں ہو گا.امریکہ کا روپیہ اور روس کے منصوبے اور ہتھکنڈے دونوں ہی غریب عربوں کے مقابل پر جمع ہیں.جن طاقتوں کا مقابلہ جرمنی نہیں کر سکا عرب قبائل کیا کر سکتے ہیں.ہمارے
مصالح العرب.....جلد اول 420 لئے یہ سوچنے کا موقع آگیا ہے کہ کیا ہم کو الگ الگ اور باری باری مرنا چاہئے یا اکٹھے ہو کر فتحی کے لئے کافی جد و جہد کرنی چاہئے.میں سمجھتا ہوں کہ وہ وقت آگیا ہے جب مسلمانوں کو یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ یا تو وہ ایک آخری جد و جہد میں فنا ہو جائیں گے یا کلی طور پر اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کا خاتمہ کر دیں گے.مصر، شام اور عراق کا ہوائی بیڑا سو ہوائی جہازوں سے زیادہ نہیں لیکن یہودی اس سے دس گنا بیڑا نہایت آسانی سے جمع کر سکتے ہیں اور شاید روس تو ان کو اپنا بیڑہ نذر کے طور پر پیش بھی کر دے.میں نے متواتر اور بار بار مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے کہ روس مسلمانوں کا شدید دشمن ہے لیکن مسلمانوں نے سمجھا نہیں.جو بھی اٹھتا ہے وہ محبت بھری نگاہوں سے روس کی طرف دیکھنے لگ جاتا ہے اور روس کو اپنی امیدوں کی آماجگاہ بنالیتا ہے حالانکہ حق یہی ہے کہ سب سے بڑا دشمن مسلمانوں کا روس ہے.امریکہ یہودیوں کے ووٹ کی بناء پر یہودیوں کی مدد کر رہا ہے اور روس عرب ملکوں میں اپنا اڈہ جمانے کے لئے یہودیوں کی مدد کر رہا ہے.رویہ ایک ہے مگر بواعث مختلف ہیں اور یقیناً روس کے عمل کا محرک امریکہ کے عمل کے محرک سے زیادہ خطر ناک ہے لیکن چونکہ عمل دونوں کا ایک ہے اس لئے بہر حال عالم اسلامی کو روس اور امریکہ دونوں کا مقابلہ کرنا ہوگا مگر عقل اور تدبیر سے ، اتحاد اور یک جہتی سے.میں سمجھتا ہوں مسلمان اب بھی دنیا میں اتنی تعداد میں موجود ہیں کہ اگر وہ مرنے پر آئیں تو انہیں کوئی مار نہیں سکے گا لیکن میری یہ امید میں کہاں تک پوری ہو سکتی ہیں اللہ ہی اس کو بہتر جانتا ہے.کشمیر کی لڑائی کو آٹھ مہینے ہو چکے ہیں لیکن اب تک مسلمانوں نے اس پہلو کے کانٹے کے متعلق بھی عقل مندی اور ہوشیاری کا ثبوت نہیں دیا.فلسطین کا خطرہ تو دور کا خطرہ ہے خواہ زیادہ اہم ہے وہ انہیں بیدار کرنے میں کہاں کامیاب ہو گا.آج ریزولیوشنوں سے کام نہیں ہوسکتا ، آج قربانیوں سے کام ہو گا.اگر پاکستان کے مسلمان واقعہ میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنی حکومتوں کو توجہ دلائیں کہ ہماری جائیدادوں کا کم سے کم ایک فیصدی حصہ اس وقت لے لے.ایک فیصدی حصہ سے بھی پاکستان کم سے کم ایک ارب روپیہ اس غرض کے لئے جمع کر سکتا ہے اور ایک ارب روپیہ سے اسلام کی موجودہ مشکلات کا بہت کچھ حل ہوسکتا ہے.پاکستان کی قربانی کو دیکھ کر باقی اسلامی ممالک بھی قربانی کریں گے.پس میں مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس نازک وقت کو سمجھیں اور یا درکھیں کہ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ
مصالح العرب.....جلد اول 421 الكُفْرُ مِلَّة وَاحِدَةٌ لفظ بلفظ پورا ہو رہا ہے.یہودی اور عیسائی اور دہریہ مل کر اسلام کی ہی شوکت کو مٹانے کے لئے کھڑے ہو گئے ہیں.پہلے فرداً فرداً یور بین اقوام مسلمانوں پر حملہ کرتی تھیں مگر اب مجموعی صورت میں ساری طاقتیں مل کر حملہ آور ہوئی ہیں.آؤ ہم سب مل کر ان کا مقابلہ کریں کیونکہ اس معاملہ میں ہم میں کوئی اختلاف نہیں.دوسرے اختلافوں کو ان امور میں سامنے لانا جن میں کہ اختلاف نہیں نہایت ہی بیوقوفی اور جہالت کی بات ہے.قرآن کریم تو یہود سے فرماتا ہے:.قُلْ يَا هُلَ الْكِتَبِ تَعَالَوُا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ إِلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ - (آل عمران:65) اتنے اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی قرآن کریم یہود کو دعوت اتحاد دیتا ہے.کیا اس موقع پر جبکہ اسلام کی جڑوں پر تبر رکھ دیا گیا ہے جب مسلمانوں کے مقامات مقدسہ حقیقی طور پر خطرے میں ہیں وقت نہیں آیا کہ آج پاکستانی ، افغانی ، ایرانی ، ملائی، انڈونیشین ، افریقن ، بر بر اور ترکی یہ سب کے سب اکٹھے ہو جائیں اور عربوں کے ساتھ مل کر اس حملہ کا مقابلہ کریں جو مسلمانوں کی قوت کو توڑنے اور اسلام کو ذلیل کرنے کے لئے دشمن نے کیا ہے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم اور حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ایک دفعہ پھر فلسطین میں آباد ہوں گے لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے آباد ہوں گے.فلسطین پر ہمیشہ کی حکومت تو عِباد الله الصالحون کے لئے مقرر کی گئی ہے.پس اگر ہم تقویٰ سے کام لیں تو اللہ تعالیٰ کی پہلی پیشگوئی اس رنگ میں پوری ہو سکتی ہے کہ یہود نے آزاد حکومت کا وہاں اعلان کر دیا ہے لیکن اگر ہم نے تقویٰ سے کام نہ لیا تو پھر وہ پیشگوئی لمبے وقت تک پوری ہوتی چلی جائے گی اور اسلام کے لئے ایک نہایت خطرناک دھکا ثابت ہوگی.پس ہمیں چاہئے اپنے عمل سے، اپنی قربانیوں سے، اپنے اتحاد سے، اپنی دعاؤں سے ، اپنی گریہ وزاری سے اس پیشگوئی کا عرصہ تنگ سے تنگ کر دیں اور فلسطین پر دوبارہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو قریب سے قریب تر کر دیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم ایسا کر دیں تو اسلام کے خلاف جو رو چل رہی ہے وہ الٹ پڑے گی.عیسائیت کمزوری اور انحطاط کی طرف مائل ہو جائے گی اور مسلمان پھر ایک دفعہ بلندی اور رفعت کی طرف قدم اٹھانے لگ جائیں گے.شاید یہ قربانی ہے
422 مصالح العرب.....جلد اوّل مسلمانوں کے دل بھی صاف کر دے اور ان کے دل بھی دین کی طرف مائل ہو جائیں.پھر دنیا می کی محبت ان کے دلوں سے سرد ہو جائے.پھر خدا اور اس کے رسول اور ان کے دین کی عزت و اور احترام پر وہ آمادہ ہو جائیں اور ان کی بے دینی دین سے اور ان کی بے ایمانی ایمان - اور ان کی سستی چستی سے اور ان کی بد عملی سعی پیہم سے بدل جائے.خاکسار مرز امحمود احمد امام جماعت احمدیہ حضرت مصلح موعودؓ کے مضامین نے تہلکہ مچا دیا لمصل الفضل 21 مئی 1948ء صفحہ 4-3) حضرت امیر المؤمنین اصلح الموعودؓ کے اس انقلاب انگیز مضمون نے شام، لبنان ، اردن اور دوسرے عرب ممالک میں زبر دست تہلکہ مچا دیا.شیخ نور احمد منیر مجاہد بلاد عر بیہ نے اس مضمون کی نہایت وسیع پیمانے پر اشاعت کی اور شام و لبنان کی تین سو مشہور اور ممتاز شخصیتوں کو (جن میں بیشتر وزراء، پارلیمنٹ کے ممبر، کالجوں کے پروفیسر، مختلف وکلاء، بیرسٹر اور سیاسی اور مذہبی لیڈر تھے ) خاص طور پر بذریعہ ڈاک بھجوایا اور مجموعی طور پر ہر جگہ اس مضمون کا نہایت ہی اچھا اثر ہوا.الفضل 17 ستمبر 1948 ء صفحہ 2 کالم 1) یہی نہیں شام ریڈیو نے خاص اہتمام سے اس کا خلاصہ نشر کر کے اسے دنیائے عرب کے کونہ کو نہ تک پہنچا دیا.أخبار اليوم“ ،”الف باء، الكفاح“، ”الفيحاء“، ”الأخبار“، «القبس»، «النصر“، ”اليقظه، "صوت الأحرار“، ”النهضة“ اور ”الأردن“ وغیرہ چوٹی کے عربی اخبارات نے جلی عناوین سے اس کے اقتباسات شائع کئے اور متفقہ طور پر حضور کی پیش فرمودہ تجویز کو نہایت درجہ مستحسن قرار دیا اور اعتراف کیا کہ مسئلہ فلسطین کے حق میں یہ نہایت کارگر پرو پیگنڈہ اور پُر اثر آواز ہے جو پاکستان سے امام جماعت احمدیہ کی زبان سے بلند ہوئی ہے.چنانچہ اخبار النهضة “ نے (مورخہ 12 / جولائی 1948ء) زیر عنوان مطبوعات“ لکھا: أهدانا السيد مرزا محمود أحمد كراسة صغيرة تحتوى على
423 مصالح العرب.....جلد اول الخطاب الذي ألقاه في (لاهور) باكستان يدعو فيها المسلمين إلى الاتحاد والعمل الحاسم لإنقاذ فلسطين من الصهاينة المجرمين كما أنه يهيب بأبناء الباكستان البررة أن يبادروا إلى مساعدة عرب فلسطين بالمال ويذكرهم بالرسول الكريم (ص) مستشهدا بآيات شريفة يحض فيها المسلمين أن يقفوا صفا واحدا أمام سيل الصهيونية المجرمة التى تؤيدها كل من أمريكا وروسيا الشيوعية لمصالح وغايات فى نفسهما ويدعوهم أن لا يتوانوا، وأن يضعوا نصب أعينهم ما يمليه عليهم الواجب من الجهاد في سبيل الإسلام والمسلمين وهي خطبة جيدة ودعاية حسنة لفلسطين و المسلمين- ندعو الله أن يحقق آمالنا وأمانيه العَذْبَ في سبيل ديننا القويم والله من وراء القصد “ فلسطینی ترجمہ: ہمیں ایک ٹریکٹ موصول ہوا ہے جو السید مرزا محمود احمد صاحب کے ایک خطبہ پر مشتمل ہے جو انہوں نے لاہور (پاکستان) میں دیا ہے.اس خطبہ میں خطیب نے تمام مسلمانوں کو دعوت اتحاد دی ہے اور صیہونی مجرموں کے چنگل سے فلسطین کو نجات دلانے کے لئے ٹھوس اور مؤثر اقدام کی طرف توجہ دلائی ہے نیز اہل پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عربوں کی فوری اعانت کریں اور مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد دلاتے اور آیات قرآنی سے استشہاد کرتے ہوئے ترغیب دی ہے کہ وہ مجرم صیہونیوں کے سیلاب کا مقابلہ کرنے کے لئے صف بستہ ہو جائیں.اس کی پشت پناہی امریکہ اور اشتراکی روس اپنی مصالح اور خاص اغراض کے ماتحت کر رہے ہیں ، اور مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے کہ وہ ضعف اور اضمحلال کا اظہار نہ کریں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کیلئے جہاد کے سلسلہ میں عائد شدہ ذمہ داری اپنے سامنے رکھیں.یہ ایک نہایت عمدہ خطبہ اور فلسطین اور مسلمانوں کے حق میں نہایت اچھا پروپیگنڈہ ہے.ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہماری ان نیک آرزوؤں اور عمدہ خواہشات کو جو ہمارے دین قویم کے لئے ہمارے دلوں میں موجزن ہیں متحقق فرمائے.آمین.
مصالح العرب.....جلد اول اخبار الف باء (دمشق) نے حسب ذیل نوٹ سپر داشاعت کیا:.فلسطین و کشمير يقطنهما بنو إسرائيل“ "وصلت إلينا نسخة من خطبة ألقاها في لاهور ”باكستان“ السيد مرزا محمود أحمد إمام الجماعة القاديانية بمناسبة تشكيل دولة صيهونية مزيفة في فلسطين قال فيها: ومن الغريب أن قضية كشمير و قضية فلسطين عرضتا للبحث والتنقيب في زمن واحد ومن العجيب أيضا أن كشمير وفلسطين يقطنهما قوم واحد أعنى بني إسرائيل ومن العجب العجاب أن جزءا من هذا القوم الذى كان قد أسلم يجذب اليوم عواطف المسلمين ومؤسساتهم في قضية كشمير وشطر آخر منه القاطن بفلسطين يقاتل المسلمين مقاتلة المستميت، والنصف منهم يقدم الضحايا لإحياء المسلمين والنصف الآخر يبذل مجهوداته لإماتتهم ولقد نسمع فى الأنباء الواردة من الجهة الحربية بكشمير ذکر ”کاشر“(اسم يطلق على كل كشميرى) وكذلك ياتي ذكر بلدة ”كاشر في المنشورات الحربية الفلسطينية غير مرة وعلى هذا الاس كان کشمیر”کاشیر“ثم تبدل الزمان سم سمی بمرور بكشمير، أو أن نقول إن كشمير كان في الاصل "كاشير“ ر“ أى مثل سيريا (الشام).والخطبة مطبوعة فى مطبعة الفيض ببغداد.وقد حمل فيها الخطيب على أمريكا و روسيا وحد هما لمنا صر تهما الصهيونية “ فلسطین اور کشمیر میں بنو اسرائیل آباد ہیں 424 ترجمہ: ہمیں جناب مرزا محمود احمد امام جماعت احمد یہ قادیانیہ کے خطاب کا نسخہ موصول
مصالح العرب.....جلد اول 425 ہوا ہے جو کہ انہوں نے فلسطین میں نام نہاد صیہونی حکومت کے قیام کے سلسلہ میں دیا ہے آپ اس خطبہ میں فرماتے ہیں یہ عجیب بات ہے کہ ایک ہی وقت میں فلسطین اور کشمیر کے جھگڑے فا شروع ہیں.اور یہ بھی عجیب تر بات ہے کہ کشمیر اور فلسطین ایک ہی قوم سے آباد ہیں اور اس قوم کا ایک حصہ مسلمان ہو کر آج کشمیر میں مسلمانوں کی ہمدردی کھینچ رہا ہے اور دوسرا حصہ فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ زندگی اور موت کی جنگ میں ٹکر لے رہا ہے.آدھی قوم اسلام کے لئے قربانیاں پیش کر رہی ہے اور آدھی قوم اسلام کو مٹانے کے لئے کوشاں ہے.کشمیر کی جنگ میں " کا شتر یعنی کشمیر کا نام سننے میں آتا ہے اور فلسطین کی جنگ میں بھی ” کا شہر شہر کا ذکر بار بار آ رہا ہے.اس کا شر کے نام پر کشمیر کا نام ” کا شر“ رکھا گیا تھا جواب بگڑ کر کشمیر ہو گیا ہے یا یہ کہنا بھی درست ہے کہ یہ ” کا شیر ہے یعنی سیریا (شام) کی طرح.“ ی لیکچر بغداد کے مطبعہ الفیض میں طبع ہوا ہے اور اس میں ( فاضل) لیکچرار نے صیہونیت کی پشت پناہی کے باعث امریکہ اور روس دونوں کے خلاف آواز بلند کی ہے.(الف باء دمشق ) اخبار "صوت الاحرار نے اس انقلاب انگیز مضمون پر حسب ذیل تبصرہ شائع کیا:."الكفر ملة واحدة بهذا العنوان ألقى السيد مرزا محمود أحمد إمام الجماعة الأحمدية القاديانية فى لاهور (باكستان) خطبة مطولة حمل فيها بشدة وعنف على الصهيونية الآثمة المحرمة ولم يخف استغرابه العميق من اجتماع المتناقضات واتحاد الأعداء في سبيل إنكار عروبة فلسطين والاعتراف بكيان اليهود الموهوم ويتابع حملته الشديدة ضد السياسة الاستعمارية التي تنشد دوما وأبدا الاستغلال والظلم، ثم يقارن موقف هؤلاء المعتدين من قضية فلسطين بموقفهم من قضية كشمير ويخلص إلى القول أن لا سبيل إلى الاستقلال والخلاص من كل نير أجنبى بغير الاتحاد والتآلف“ ترجمہ: الكفر ملة واحدة مندرجہ بالا عنوان پر السید مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے لاہور (پاکستان) میں
مصالح العرب.....جلد اول 426 ایک طویل لیکچر دیا ہے اس لیکچر میں آپ نے پوری قوت سے ظالم صیہونیت پر حملہ کیا ہے اور متناقضات اور دشمنوں کے اتحاد و اجتماع سے اپنے گہرے تعجب کو پوشیدہ نہیں رہنے دیا مبادا فلسطینی عربوں کے مطالبہ کا انکار اور یہود نا مسعود کے موہوم حقوق کا اعتراف کیا جائے آپ اس استعماری سیاست کے خلاف نبرد آزما ہیں جو ہمیشہ ظلم اور ناجائز فائدہ اٹھانے کا اظہار کر ہے پھر آپ نے ان ظالموں کے موقف کا باہمی مقابلہ مسئلہ فلسطین اور کشمیر سے کیا ہے اس لیکچر کا خلاصہ یہ ہے کہ سامراجی استعمار سے آزادی اور نجات اتحاد اور تعاون کے بغیر ناممکن ہے.اخبار الشوریٰ (بغداد) نے اپنے 18 جون 1948ء کے پرچہ میں ایک عربی نوٹ لکھا جس کا ترجمہ درج ذیل ہے:.حضرت مرزا محمود احمد صاحب کا ایک خطبہ.ہمیں ایک ٹریکٹ ملا ہے جو بغداد میں چھپا ہے جس میں حضرت مرزا محمود احمد امام جماعت احمد یہ قادیان کے ایک پُر جوش خطبہ کا ذکر کیا گیا ہے جوانہوں نے نام نہاد اسرائیل حکومت کی تشکیل کے اعلان کے بعد لاہور (پاکستان) میں پڑھا اس خطبہ کا عنوان ہے "الكفر ملة واحدة “.جن اصحاب نے یہ مفید ٹریکٹ شائع کیا ہے ہم ان کی اسلامی غیرت اور اسلامی مساعی پر شکریہ ادا کرتے ہیں.استعماری طاقتوں کی سازش اور اس کا انکشاف روس اور امریکہ کی استعماری طاقتوں کو مسلمانوں کے اتحاد کی یہ مؤثر ترین تحریک بھلا کب گوارا ہو سکتی تھی ؟ اس لئے جو نہی ان کے کانوں میں یہ آواز پہنچی انہوں نے خود مسلمانوں ہی کے ایک طبقہ کو آلہ کار بنا کر جماعت احمدیہ کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کی مہم شروع کرادی.اس گہری سازش کا سنسنی خیز انکشاف بغداد کے مقتدر جریدہ " الانباء" کے ایک فاضل اور گہنہ مشق ادیب اور نامہ نگار الأستاذ علی الخیاط آفندی نے چھ سال بعد کیا.چنانچہ انہوں نے بغداد کے مشہور اخبار "الأنباء" (مورخہ 21 ستمبر 1954 ء) میں مندرجہ ذیل مقالہ سپر داشاعت کیا.(ترجمہ) غیر ملکی طاقتیں جماعت احمدیہ کی مخالفت کی آگ بھڑ کا رہی ہیں و گزشتہ دنوں بعض اخبارات نے قادیانی جماعت کے خلاف پے در پے ایسی صورت میں نکتہ چینی کی ہے کہ جس کی طرف انسان کو توجہ کرنی پڑتی ہے.قادیانیت کیا ہے؟ اور
مصالح العرب.....جلد اول 427 اخبارات میں اس کے متعلق اس طرح نکتہ چینی کرنے کی کیا وجہ ہے؟ قادیانیوں اور ان کے مخالفین کے درمیان ایک مشکل در پیش ہے.قطع نظر اس امر کے کہ وہ اتہامات جو قادیانیوں پر لگائے گئے ہیں وہ درست ہیں یا غلط ہیں قادیانی لوگ اپنے آپ کو جماعت احمد یہ کہتے ہیں اور وہ میرزا غلام احمد صاحب کے پیرو ہونے کے مدعی ہیں جو ہندوستان میں قادیان کی بستی میں رہتے تھے اور جنہیں ان کے دعووں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھیجا تھا کہ دین اسلام کو مستحکم کریں.قادیانی انہیں وہی مہدی موعود اور مسیح معہود سمجھتے ہیں جن کے آخری زمانہ میں آنے کے متعلق مختلف مذہبی کتابوں میں پیشگوئی پائی جاتی ہے.قادیانی اسلامی احکام پر عمل پیرا ہیں اور اسلام کے لئے غیرت رکھتے ہیں اور وہ حنفی مذہب کی پیروی کرتے ہیں.احمدیوں کے مخالف انہیں قادیانی کے لفظ سے پکارتے ہیں اور ان کے ظاہری طور پر اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا ہونے اور شریعت کے مطابق دینی فرائض ادا کرنے کے باوجود انہیں مرتد قرار دیتے ہیں.احمدیت یا قادیانیت کوئی آج نئی پیدا نہیں ہوئی بلکہ قریباً ستر سال پہلے ہندوستان کے شہر قادیان میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور جو لوگ اس طریقہ کو درست سمجھتے تھے انہوں نے اپنے عقیدہ کے مطابق اس کی پیروی کی.ہمارے نزدیک خواہ یہ طریقہ درست ہو یا باطل ہو، خواہ یہ لوگ مسلمان ہوں یا اسلام سے خارج ہوں بہر حال اخبارات کے لئے کوئی معقول وجہ اس امر کی نہیں ہے کہ وہ اس نازک وقت میں جبکہ مسلمانوں کو چاروں طرف سے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اتحاد اور یک جہتی کی ضرورت ہے اس طرز پر قادیانیت کو اپنی تنقید کا ہدف بنا ئیں.شاید قارئین کو تعجب ہوگا جب انہیں معلوم ہوگا کہ سارے عراق میں اس جماعت کے صرف 18 خاندان بستے ہیں.9 خاندان بغداد میں ، چار بصرہ میں، چار حبانیہ میں اور ایک خاندان خانقین میں.اور یہ سب لوگ ہندوستان سے عراق میں تجارت کی نیت سے آئے تھے.بعض نے ان میں سے عراقی قومیت کے سرٹیفیکیٹ حاصل کر لئے ہیں اور بعض اپنی ہندوستانی قومیت پر قائم رہے جسے انہوں نے ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستانی قومیت میں تبدیل کر لیا.
428 مصالح العرب.....جلد اول عراق میں اتنے عرصہ سے رہنے کے باوجود انہوں نے کسی عراقی شخص کو اپنی جماعت میں داخل نہیں کیا.ان کا کوئی اپنا معبد نہیں ہے اور نہ ہی ان کے کوئی خاص مذہبی اجتماعات ہیں.ان کی ساری جدو جہد بعض اخبارات اور ایسے ٹریکٹ تقسیم کرنے پر منحصر ہے جن میں اسلام کے غلبہ کے متعلق دلائل دیئے گئے ہیں، فلسطین اور بعض اسلامی حکومتوں کے دفاع پر گفتگو کی گئی ہے.اس جگہ پر پڑھنے والے کے دل میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ جب واقعہ یہ ہے تو اخبارات میں قادیانیوں پر اس طرح نکتہ چینی کرنے اور اس حملے کی کیا وجہ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کا صرف ایک سبب ہے اور وہ یہ کہ استعماری طاقتیں مسلمانوں میں تفرقہ اور شقاق پیدا کرنے کے لئے خاص کوشش کر رہی ہیں اور وہ انہیں اپنی انگلیوں پر نچانا چاہتی ہیں کیونکہ مسلمان ابھی تک اس انتظار میں ہیں کہ وہ یوم موعود کب آتا ہے کہ جب وہ دوبارہ بلا دمقدسہ کو یہودیت کی لعنت سے پاک کرنے کے لئے متحد ہو کر قدم اٹھائیں گے اور فلسطین اس کے جائز اور شرعی حقداروں کو مل سکے گا.استعماری طاقتیں ڈرتی ہیں کہ کہیں عربوں کا یہ خواب پورا نہ ہو جائے اور اسرائیل سلطنت صفحہ ہستی سے مٹ نہ جائے جس کے قائم کرنے کی کے لئے انہوں نے بڑی بڑی مشکلات برداشت کی ہیں اس لئے یہ غیر ملکی حکومتیں ہمیشہ کوشش کرتی ہیں کہ مسلمانوں میں مختلف نعرے لگوا کر منافرت پیدا کی جائے اور بعض فرقے احمدیوں کی تکفیر اور ان پر نکتہ چینی کرنے کے لے کھڑے ہو جائیں یہاں تک کہ اس طریق سے حکومت پاکستان اور بعض ان عرب حکومتوں میں بھی اختلاف پیدا ہو جائے جن کے اخبارات پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خاں احمدی کو کافر قرار دیتے ہیں.غالباً بہت سے پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان کی بعض جماعتوں نے اس امر کی کوشش کی تھی کہ مسلمان حکومتوں کا ایک اسلامی بلاک قائم کیا جائے تاکہ ان کی ہستی اور ان کی آزادی قائم رہے اور ان کی بیرونی سیاست ایک نہج پر چلے مگر یہ کوشش بعض دوسری مسلمان جماعتوں کی مخالفت کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکیں.اس تجویز کی ناکامی کے اسباب میں در حقیقت بڑا سبب وہ مسئلہ تکفیر ہے جو بعض انتہاء پسند مولویوں کے ہاتھ میں استعماری طاقتوں نے دیا تھا تا کہ وہ اس تجویز کے محرکین کو قادیانی اور اسلام سے خارج کہہ کر اس کا ناکام بنانے کی کوشش کریں.شاید کسی شخص کو یہ خیال پیدا ہو کہ میرا اس معاملے میں استعماری طاقتوں کو دخل انداز قرار
429 مصالح العرب.....جلد اول دینا صرف ظن اور گمان ہے مگر میں قارئین کرام کو پورے یقین کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے اس امر کی پوری پوری اطلاع ہے کہ در حقیقت یہ سب کا رروائی استعماری طاقتیں کروا رہی ہیں کیونکہ فلسطین کی گزشتہ جنگ کے ایام میں 1948ء میں استعماری طاقتوں نے خود مجھے کو اس معاملے میں آلہ کار بنانے کی کوشش کی تھی.اُن دنوں میں ایک ظرافتی پرچے کا ایڈیٹر تھا اور اس کا انداز حکومت کے خلاف نکتہ چینی پر مبنی تھا.چنانچہ انہی دنوں مجھے ایک غیر ملکی حکومت کے ذمہ دار نمائندہ مقیم بغداد نے ملاقات کے لئے بلایا اور کچھ چاپلوسی اور میرے انداز نکتہ چینی کی تعریف کرنے کے بعد مجھے کہا کہ آ.اپنے اخبار میں قادیانی جماعت کے خلاف زیادہ سے زیادہ دل آزار طریق پر نکتہ چینی جاری کریں کیونکہ یہ جماعت دین سے خارج ہے.میں نے جواب میں عرض کیا کہ مجھے تو اس جماعت اور اس کے عقائد کا کچھ پتہ نہیں میں ان پر کس طرح نکتہ چینی کر سکتا ہوں؟ اس نمائندہ نے مجھے بعض ایسی کتابیں دیں جن میں قادیانی عقائد پر بحث کی گئی تھی اور اس نے مجھے بعض مضامین بھی دیئے تاوہ مجھے اپنے مقالات کے لکھنے میں فائدہ دیں.چنانچہ ان کتابوں کے مطالعہ سے مجھے اس جماعت کے بعض عقائد کا علم ہوا.لیکن میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہ دیکھی جس سے میرے عقیدہ کے مطابق انہیں کا فرقرار دیا جا سکے.اس استعماری نمائندہ سے چند ملاقاتوں کے بعد میں نے اس کام کرنے سے معذرت پیش کر دی اور کہا کہ میرے عقیدہ کے مطابق یہ طریق اس وقت اسلامی فرقوں میں اختلاف و انشقاق بڑھانے والا ہے.اس شخص نے مجھ سے کہا کہ قادیانی تو مسلمان ہی نہیں اور ہندوستان کے تمام فرقوں کے علماء انہیں کافر قرار دے چکے ہیں.میں نے اس سے کہا کہ ہندوستانی علماء کے اقوال قرآن مجید کی اس آیت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا.(النساء: 95) کہ جو شخص تمہیں السلام علیکم کہے اس کو کا فرمت کہو.میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ شخص غضب ناک ہو گیا اور کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے کہ قادیانی پراپیگنڈے نے تمہارے دل پر بھی اثر کر دیا ہے اور تُو قادیانی ہو گیا ہے اور اسلام سے خارج ہو گیا ہے اسی لئے تو انکی طرف سے جواب دے رہا ہے.میں نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ جناب یقین جانیں کہ میں اتنے لمبے عرصہ سے مسلمان کہلانے اور مسلمانوں میں رہنے کے باوجود یہ دعویٰ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا کہ
مصالح العرب.....جلد اول 430 میں صحیح معنوں میں مسلمان ہوں تو کیا قادیانیت کے متعلق چند کتب کا مطالعہ مجھے قادیانی بنائی سکتا ہے؟ میں جن دنوں اس سفارت خانہ میں جایا کرتا تھا مجھے معلوم ہوا کہ میں اکیلا ہی اس کام کے لئے مقرر نہیں کیا جارہا تھا بلکہ کچھ اور لوگوں کو بھی اس میں شریک کیا جا رہا ہے.پھر مجھے یہ بھی پتہ لگا کہ اس کام کے کرنے سے صرف میں نے ہی انکار نہیں کیا بلکہ بعض دوسرے لوگوں نے بھی استعمار کا آلہ کار بننے سے انکار کر دیا تھا.یہ ان دنوں کی بات ہے جب 1948ء میں ارض مقدسہ کا ایک حصہ کاٹ کر صیہونی حکومت کے سپرد کر دیا گیا تھا اور اسرائیلی سلطنت قائم ہوئی تھی.اور میرا خیال ہے مذکورہ بالا سفارت خانہ کا یہ اقدام در حقیقت ان دوٹر یکٹوں کا عملی جواب تھا جو تقسیم فلسطین کے موقع پر اسی سال جماعت احمدیہ نے شائع کئے تھے.ایک ٹریکٹ کا عنوان هئية الأمم المتحدة وقرار تقسیم فلسطین“ تھا جس میں مغربی استعماری طاقتوں اور صیہونیوں کی ان سازش کا انکشاف کیا گیا تھا جن میں فلسطینی بندرگاہوں کے یہودیوں کے سپرد کر دینے کا منصوبہ بنایا گیا تھا.دوسرا ٹریکٹ الكفر ملة واحدة“ کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس میں مسلمانوں کو کامل اتحاد اور اتفاق رکھنے کی ترغیب دی گئی تھی اور صیہونیوں کے مقابلہ اور ارض مقدسہ کو ان سے پاک کرنے کے لئے اموال جمع کرنے کی ترغیب دی گئی تھی.یہ وہ واقعہ ہے جس کا مجھے ان دنوں ذاتی طور پر علم ہوا تھا اور مجھے پورا یقین ہے کہ جب تک احمدی لوگ مسلمانوں کی جماعتوں میں اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور ان جب تک وہ ان ذرائع کو اختیار کرنے کے لئے کوشاں رہیں گے جن سے استعماری طاقتوں کی پیدا کردہ حکومت اسرائیل کو ختم کرنے میں مددمل سکے تب تک استعماری طاقتیں بعض لوگوں اور فرقوں کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں گی کہ وہ احمدیوں کے خلاف اس قسم کی نفرت انگیزی اور نکتہ چینی کرتے رہیں تاکہ مسلمانوں میں اتحاد نہ ہو سکے.“ از تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 398-402) قارئین کرام کو اس مذکورہ بالا اقتباس میں حقیقی ، غیر جانبدارانہ اور پیشہ وارانہ صحافت کی ایک حسین تصویر ملے گی.آج جبکہ اکثر اوقات ملکوں کی صحافت اقتدار اور اثر و رسوخ و طمع کیا بھینٹ چڑھ جاتی ہے ، جبکہ حقیقتیں مسخ ہو جاتی ہیں اور دجل کا جادو سر چڑھ کے بولنے لگتا
مصالح العرب.....جلد اول 431 ہے.آج کی صحافت میں کوئی ایسی سچی بات کہنے سے ہچکچاتا ہے، بلا مفاد و منفعت کے محض حق کو حق کہنے کی خاطر کوئی بھی ایسی جرات نہیں کرتا کہ اس طرح کے کڑوے سچ کو منظر عام پر لا سکے، اور اس طرح کھل کر تجزیہ کر کے اعتراف کرے کہ یہ جماعت احمدیہ ہی تھی جس نے مسلمانوں کو متحد رہنے کے لئے صدا دی.اور یہ جماعت احمد یہ ہی تھی جس نے اس اتحاد کے لئے عملی کوششیں کیں اور بلا داسلامیہ کو اس سلسلہ میں عملی قدم اٹھانے پر اکسایا.ایسی صورتحال میں گو کہ ہمیں علم نہیں ہے کہ الاستاذ علی الخیاط آفندی صاحب اور آپ کے خاندان کے افراد اس وقت کہاں اور کس حال میں ہیں تاہم ان کے اس جرات مندانہ اقدام اور پر شجاعت بیان پر شکر گزار ہیں اور انہیں سلام پیش کرتے ہیں کہ اس زمانہ کی صحافت میں کوئی تو ایسا تھا کہ جس نے حق کو حق کہا اور دشمن کو بے نقاب کرنے کے لئے بے لوث کوشش کی جسے ایک لمبے عرصہ تک حق و انصاف کے پرستار یا د رکھیں گے اور ایک مثال کے طور پر پیش کرتے رہیں گے.مفتی مصر کا فتویٰ تکفیر اور اس کا محرک حضرت چوہدری صاحب تو ملت اسلامیہ کے بطل جلیل کی حیثیت سے عرب ممالک کی بے لوث عالمی خدمات میں سرگرم عمل تھے کہ استعماری طاقتوں کی ان خفیہ اور جارحانہ کوششوں میں یکا یک تیزی پیدا ہوگئی جو ان کی طرف سے الکفر ملة واحدة “ کے مضمون کی اشاعت کے بعد جماعت احمدیہ کے خلاف جاری تھیں.اس ضمن میں الاستاذ علی الخیاط آفندی کا سنسنی خیز انکشاف گزر چکا ہے.علاوہ ازیں یہودی صحافی اور زعماء حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب سے ان کے قضیہ فلسطین کے کامیاب دفاع کی وجہ سے سخت نالاں تھے اور دل میں نہایت درجہ کا بغض رکھتے تھے بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ اس تاک میں تھے کہ کب ان کو موقعہ ملے اور وہ حضرت چوہدری صاحب کے خلاف کوئی کاروائی کرنے میں کامیاب ہو جائیں.اس کی ایک جھلک مندرجہ ذیل اقتباس سے بھی نمایاں ہو جاتی ہے: حمید نظامی کے 1954 ء کے خطوط (مطبوعہ ”نشان منزل ص 49) میں یہ ذکر ملتا ہے کہ وہ وی آنا‘ عالمی کانفرنس میں شرکت کے لئے گئے تو ان کے جہاز میں ایک یہودی عالم اور
مصالح العرب.....جلد اول 432 ایک یہودی ایڈیٹر بھی سوار تھے جو چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی سخت مذمت کرتے اور آپ کو برا بھلا کہ رہے تھے.یہودی حلقے آپ کی شخصیت سے اتنا بغض و عناد کیوں رکھتے ہیں؟ مندرجہ بالا پس منظر کی روشنی میں اس کا سبب بآسانی سمجھ میں آجاتا ہے.چنانچہ دشمنان دیں نے اپنی انتقامی کارروائی کیلئے مصر کی سرزمین کو چنا اور مفتی دیار مصریہ فضیلة الاستاذ الشیخ حسین محمد مخلوف کے ذریعہ حضرت چوہدری صاحب پر احمدی ہونے کی بناء پر فتوی کفر شائع کرا دیا گیا.یہ فتوی 22 جون 1952 کو منظر عام پر آیا جس میں فضیلۃ الاستاذ الشیخ مخلوف نے لکھا کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں وزیر خارجہ پاکستان غیر مسلم بلکہ کافر ہیں کیونکہ پاکستان کے ایسے مخصوص فرقہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کا منکر ہے اور یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اسلام میں سلسلہ انبیاء جاری ہے.اليوم ( یا فا) 21 شوال 1371 ھ بحوالہ البشری محلہ 18 صفحہ 106) جہاں یہ فتویٰ مشرق وسطی کے عرب ممالک نے نمایاں طور پر شائع کیا وہاں مغربی پنجاب کا اخبار ”زمیندار“ ان دنوں احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزی اور فتنہ آرائی میں دوسرے مخالف اخبارات میں پیش پیش تھا.اس اخبار نے اپنی 8 جولائی 1952 کی اشاعت میں اس فتویٰ کو صفحہ اول پر چوکھٹہ کے ساتھ شائع کیا.عنوان یہ تھا.”مرزائی دائرہ اسلام سے خارج ہیں...مفتی اعظم مصر السید محمد حسنين المخلوف کا فتوی فتویٰ تکفیر کا پس منظر مصری عالم الاستاذ احمد بہاء الدین نے اپنی کتاب ”فاروق...ملگا میں اس فتویٰ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت چوہدری صاحب کو زبرست خراج تحسین بھی ادا کیا لیکن ساتھ ہی ایک فرضی واقعہ بھی ان کے قلم سے لکھا گیا ہے.فرماتے ہیں.السيد ظفر الله خان معروف بجرأته وصراحته ، وقد كان مارا بالقاهرة في طريقه إلى بلده وتشرف بمقابله الملك وكان الرجل قد عاش في الخارج زمنا طويلاً، وقرأ من فضائح فاروق
مصالح العرب.....جلد اول ومهازله ما يسئ إليه وإلى مصر وإلى بلاد الشرق كلها وقال الرجل لفاروق بلباقة مؤلمة إن بلاد العالم الإسلامى محط أنظار العالم أجمع وإن أعداء ها الكثيرين يتربصون بها ويحصون عليها الأخطاء وإن هذا لموقف يلزم روساء الدول الإسلامية بأن يرعوا في سلوكهم تقاليد الإسلام وأن يتمسكوا بقواعده، وأن تكون حياتهم المستقيمة قدوة لشعوبهم ودعاية أمام العالم أجمع !! وفهم فاروق المقصود فنهض واقفًا......وأنهى المقابلة...وكتم الملك السابق غيظه ونقمته على الوزير الصريح.......وبات يتربص به ويتربص معه الشيخ مخلوف مفتى الديار المصوية أو بالا خرى مفتى القصور الملكية وانتهز الشيخ مخلوف الفرصة، وأدلى بحديث عجيب قال فيه إن ظفر الله خان من طائفة القاديانية، وهى ملة كافرة ولم يقف عند ذلك حتى يبقى غرض الحديث مستورا، بل استطرد يقول: إن على حكومة الباكستان وهى حكومة إسلامية أن تطرد من وزارة خارجيتها هذا الوزير الكافر لأنه لا يجب أن يبقى على رأس دولة إسلامية وزير كافر وهكذا رد على قول ظفر الله خان إنه لا يجب أن يبقى على رأس دولة إسلامية ملك فاسق !! وثارت الصحف فى مصر والباكستان تحمل على المفتى المدفوع وأقسم الهلالى، وكان رئيسا للوزارة ليعزلنه من منصبه جزاء رعونته ولكن الهلالى لم يلبث أن تبين الأمر وعرف أن الملك لا يقبل أبدا أن تمس شعرة من رأس مخلوف هذه الرأس التي تخرج له الفتاوى والتحليلات!! “ 433 صفحه ۷۱-۷۳)
مصالح العرب.....جلد اول 434 ترجمہ: چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اپنی جرات اور دلیری میں مشہور ہیں.آپ ایک مرتبہ پاکستان واپس جاتے ہوئے قاہرہ سے گزرے تو قاہرہ میں آپ کو شاہ فاروق سے ملنے کا اتفاق ہوا.بیرونی دنیا میں انہوں نے ایک لمبا عرصہ گزارا ہے.چوہدری صاحب کو فاروق کی ایسی رسواگن اور بیہودہ حرکات کے متعلق پڑھنے کا اکثر موقعہ ملا ہے جو فاروق ، ملک مصر اور تمام مشرقی ممالک کی بدنامی اور رسوائیوں کا موجب ہیں.چنانچہ چوہدری صاحب نے نهایت حکمت، دانش مندی اور کمال ملاطفت کے ساتھ شاہِ مصر سے کہا کہ ”ساری دنیا کی نظریں عالم اسلام پر ہیں.اسلامی ملکوں کے دشمن بے شمار ہیں اور ان کی تاک میں ہیں نیز ان کی لغزشوں پر نگاہ رکھتے اور شمار کرتے رہتے ہیں.ان حالات میں مسلمان حکومتوں کے سر برا ہوں اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ اپنی زندگی میں اسلامی طریقوں کو رواج دیں اور اسلامی قوانین کی پابندی کریں تا ان کی راستباز زندگی ان کی قوموں کے لئے نمونہ ہو اور تمام دنیا کے لئے اسلام کی تبلیغ کے پروپیگنڈا کا موجب ہو.شاہ فاروق، چوہدری صاحب کا مقصد بھانپ کر فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور ملاقات ختم کر دی.(1975ء میں اس جلد کے پہلے ایڈیشن میں جب یہ اقتباس شائع ہوا تو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے سختی سے تردید فرمائی اور کئی مجالس میں بتایا کہ یہ قصہ بے بنیاد ہے میری ایسی کوئی ملاقات شاہ فاروق سے نہیں ہوئی.شاہ فاروق نے وزیر خارجہ پاکستان کی اس جرات پر اپنا غیظ و غضب چھپایا اور موقع کی تلاش میں رہے.شیخ مخلوف بھی موقع ڈھونڈتے رہے.مفتی الدیار المصریہ کی بجائے وہ شاہی محلات کے مفتی کہلانے کے زیادہ مستحق تھے.شیخ مخلوف نے بالآخر موقع پاتے ہی اس سے فائدہ اٹھایا اور ایک عجیب بیان شائع کر دیا.جس میں کہا کہ ظفر اللہ خان قادیانی ہے اور یہ لوگ کافر ہیں.شیخ مذکور نے اسی پر بس نہ کی بلکہ اس نے اپنے مقصد کو چھپا نہ رہنے کی خاطر یہ بھی کہہ دیا کہ حکومت پاکستان چونکہ اسلامی سلطنت ہے اس لئے اس کا فرض ہے کہ اس کا فر وزیر کو اپنی وزارت خارجہ سے نکال دے کیونکہ اسلامی سلطنت میں کا فر وزیر کا باقی رہنا مناسب نہیں.گویا اس طرح شیخ مخلوف نے چوہدری ظفر اللہ خاں کے اس قول کا جواب دیا کہ اسلامی سلطنت میں بدکار بادشاہ کی کوئی جگہ نہیں.
مصالح العرب.....جلد اول 435 شیخ مخلوف ( جنہیں آلہ کار بنایا گیا تھا) کے بیان پر مصر اور پاکستان کے اخبارات نے پُر جوش جوابی حملہ کیا اور اس کی تغلیط کی.ہلالی پاشا نے جو ان دنوں مصر کے وزیر اعظم تھے قسم کھائی کہ شیخ مخلوف کی اس حماقت اور رعونت کے باعث انہیں افتاء کے منصب سے معزول کر دوں گا.لیکن انہیں بہت جلد معلوم ہو گیا کہ (سابق ) شاہ مصر تو شیخ مخلوف کے سر کا بال تک بر کا نہیں ہونے دیں گے کیونکہ یہی سر بادشاہ کیلئے حسب منشاء فتویٰ اور جواز پیدا کرتا رہتا ہے.(کتاب فاروق...ملگا، مطبوعہ مصر صفحہ 72-73 بحوالہ رسالہ البشری ( حیفا فلسطین ) مجلد 18 دسمبر 1952ء) الاستاذ احمد بہاء الدین نے شاید یہ بات ہفت روزہ ”الصیاد‘ (7 /اگست 1952ء ) کی مندرجہ ذیل خبر سے اخذ کی ہے.نصحه اشتهر عن الملك السابق فاروق انه كان يكره النصح والإرشاد وخاصة في المسائل السياسية والدينية ويكره الذين يجراؤن على الله إرشاده وحدث حين مرالسيد ظفر و خان، وزیر خارجيه الباكستان بمصر عائدا من هيئة الأمم المتحدة أن استقبله الملك السابق ، فما كان من الوزير الباكستاني الذي يعتبر من كبار رجالات السياسة والإسلام إلا أن وجه للملك بعض النصائح السياسية والدينية فغضب الفاروق واستدعى على إثر المقابلة شيوخ الأزهر وأجبرهم على إصدار فتواى ضد ظفر الله خان بأنه ملحد و خارج على الدين، وصدرت الفتوى و نشرت في الصحف.......وقامت قيامة لباكستان ، وقدم وزيرها في القاهرة احتجاجاً رسميا إلى الحكومة المصرية التي كانت يرأسها أحمد نجيب الهلالى.......فبادر الهلالي إلى وضع المرسوم بدحض الفتواى الجرئية وإلغائها، ثم حمله إلى الملك ليوقعه ولكن فاروق رفض توقيع المرسوم، فأصر الهلالي و هدد بالاستقالة.......وهز الملك السابق كتفيه مستهزأ واستقال.الهلالي.الصياد" 5 اگست 1952ء)
امور پر 436 مصالح العرب.....جلد اول یعنی سابق بادشاہ فاروق کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ ہر قسم کی نصیحت اور راہنمائی کو نا پسند کرتے تھے بالخصوص سیاسی اور مذہبی معاملات میں جو لوگ ان کو نصیحت کرنے کی جرات کرتے وہ انہیں سخت حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے.ایک دفعہ جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں وزیر خارجہ پاکستان مجلس اقوام متحدہ میں شمولیت کے بعد واپسی پر مصر سے گزرے تو سابق شاہ فاروق نے جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کا استقبال کیا.اس موقعہ پر موصوف نے جن کا شمار دنیا کے خاص سیاسی اور اسلامی معزز شخصیتوں میں ہوتا ہے شاہ فاروق کو دوران ملاقات مذہبی مشتمل مشورے دئے.اس پر شاہ فاروق خفا ہو گئے اور اس ملاقات کے بعد علماء از ہر کوی بلا کر مجبور کیا کہ وہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کے ملحد اور خارج از دین ہونے کا فتویٰ دیں.چنانچہ فتویٰ صادر کر دیا گیا اور اخبارات میں اس کی اشاعت بھی ہوئی.اس فتویٰ سے پاکستان میں کہرام مچ گیا.پاکستانی سفیر مقیم قاہرہ نے سرکاری طور پر مصری حکومت کے پاس احتجاج کیا.اس وقت اس حکومت کے وزیر اعظم نجیب الہلالی تھے.وزیر اعظم الہلالی نے اس بیا کا نہ فتویٰ کی تردید اور اور اسے لغو قرار دینے کا معاملہ شاہ فاروق کے سامنے رکھا اور دستخط کے لئے کاغذ پیش کیا لیکن شاہ فاروق نے الہلالی کی تجویز پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا جس پر وزیر اعظم الہلالی نے اصرار کرتے ہوئے استعفیٰ کی دھمکی دی.بایں ہمہ سابق شاہ فاروق نے عواقب سے بے نیاز ہو کر متکبرانہ انداز میں فتویٰ کی منسوخی پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا.چنانچہ وزیر اعظم الہلالی پاشا مستعفی ہو گئے.لمحہ فکریہ.کتنی عجیب بات ہے کہ جس کے کہنے پر یہ فتویٰ جاری ہوا اس کی بداعمالیوں اور سیاہ کاریوں کا آج سارا عالم اسلام اقراری ہے.اور جس شخص نے فتویٰ جاری کیا اس کے بارہ میں اسکے ہم وطنوں کے بقول اتنا کہنا کافی ہے کہ وہ مفتی الديار المصر یہ کم اور مفتی القصور الملکیت زیادہ تھے.جن کے نزدیک کسی کے اسلام اور کفر کا فیصلہ کرنے کا معیار قرآن وحدیث نہیں بلکہ قول شاہ یا اشارہ ملک ہو ا سکے فتویٰ کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے.اس پر مستزاد یہ کہ کفر کا فتویٰ اس وجہ سے صادر کروایا گیا کہ خود انکے بقول چوہدری صاحب نے کہا تھا کہ مسلمان حکومتوں کے سربراہوں اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ اپنی زندگی میں اسلامی طریقوں کو رواج
مصالح العرب.....جلد اول 437 دیں اور اسلامی قوانین کی پابندی کریں تا ان کی راستباز زندگی ان کی قوموں کے لئے نمونہ ہو.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن.چوہدری صاحب کی طرف منسوب یہ بیان اور اس کے ردعمل کے طور پر فتوی کا اجراء تو یہ ثابت کر رہا ہے کہ چوہدری صاحب مسلمان اور فتویٰ لگانے والے انکے برعکس ہیں لیکن افسوس کہ عالم اسلام ان سب باتوں کے اعتراف کے باوجود اتنی جرات سے کام نہ لے سکا کہ ایسے لغوفتوی کو جڑ سے اکھیڑ کر پھینک دیتا، اور صد افسوس کہ بلاد عر بیہ نے اپنے ایک محسن کی بے لوث خدمات کا ایسا تلخ صلہ دیا.جہاں ایک طرف یہ صورتحال تھی وہاں یہ بات بھی درست ہے کہ بعض غیرت مند شخصیتوں نے اس پر سخت احتجاج کیا، بیانات دیئے، ہم ذیل میں احتجاج کی چند آوازوں کو نقل کریں گے جو ان غیرت مند شخصیات کی ہیں جنہوں نے اس طرح بیان دے کر اپنے باضمیر اور باوفا ہونے کا ثبوت دیا اور جو ایسا کر کے کسی قدر اخلاقی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو گئے.لیکن اس سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قارئین کے افادہ کیلئے مفتی صاحب کے لگائے گئے بعض الزامات کا حضرت خلیفہ ثانی کے قلم مبارک سے دیا گیا جواب یہاں نقل کر دیا جائے.سید نا حضرت مصلح موعود کا مکتوب قاہرہ (مصر) کے بااثر و ممتاز اخبار اليوم" کی 26 جون 1952ء کی اشاعت میں الشیخ حسنین محمد مخلوف مفتی دیارِ مصریہ کا تحریک احمدیت کے خلاف ایک مغالطہ آفریں مضمون شائع ہوا جو جھوٹ کا پلندہ تھا.جس پر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اسلامی دنیا کو اصل حقیقت سے باخبر کرنے کے لئے اخبار "الیوم کے نام ایک تبلیغی مکتوب رقم فرمایا جس کا مکمل اُردو متن اخبار الفضل 4 تبوک 1331 ہش بمطابق 4 ستمبر 1952ء کے حوالہ سے درج ذیل کیا جاتا ہے:.حضرت امام جماعت احمدیہ کا مکتوب مصری اخبار الیوم“ کے نام يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَ كُمْ فَاسِقٌ بِنَيَا فَتَبَيَّنُوا أَنْ تَصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَدِمِينَ (الحجرات آیت 7) مکرمی ایڈیٹر صاحب اخبار اليوم“
438 مصالح العرب.....جلد اول السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کے اخبار مورخہ 26 جون 1952ء میں مکرم شیخ حسنین محمد مخلوف دیار مصریہ کا ایک مضمون شائع ہوا ہے.اس میں لکھا ہے کہ احمدیوں میں کچھ کی غالی ہیں اور کچھ معتدل غلو کرنے والے وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے اور انہوں نے کیا ہے کہ شاید ظفر اللہ خاں ان لوگوں میں سے ہیں جو غالی نہیں ہیں.میں بحیثیت امام جماعت احمدیہ کے اور بحیثیت اس کے کہ ظفر اللہ خاں بھی میرے اتباع میں سے ہیں سب سے زیادہ اس بات کا حق رکھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے عقائد کو عمومی طور پر اور ظفر اللہ خاں کے عقائد کو بحیثیت اپنے تلمیذ خصوصی طور پر بیان کروں.پس میں یہ مضمون آپ کی طرف اس درخواست کے ساتھ بھجوا رہا ہوں کہ آپ اس مضمون کو اپنے اخبار میں شائع کر دیں تاکہ لوگوں کو تصویر کا دوسرا رُخ بھی معلوم ہو جائے.چونکہ آپ کا سیاسی اور عام امور کے ساتھ تعلق رکھنے والا اخبار ہے اس لئے میں مذہبی تفاصیل میں نہیں جاؤں گا صرف واقعات اور عقائد کے بیان تک محدود رہوں گا.یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ تاکسی شخص کو یہ شبہ نہ ہو کہ انہوں نے اپنے عقیدے کی دلیل نہیں بیان کی.جس شخص کے دل میں دلیل اور تو جیہہ معلوم کرنے کا شوق ہو وہ براہ راست مجھے خط لکھ کر ان سوالات کا جواب حاصل کر سکتا ہے جو اس کے دل میں پیدا ہوئے ہوں.میں مفتی مصر کی شخصیت کا پورا احترام کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کاش آپ اپنا اعلان شائع کرنے سے پہلے مجھ سے یا ظفر اللہ خاں سے پوچھ لیتے کہ ہمارا عقیدہ کیا ہے؟ عقیدہ کسی شخص کا وہی ہوسکتا ہے جو وہ خود بیان کرتا ہے کسی دوسرے شخص کا حق نہیں کہ وہ کسی شخص کی طرف اپنی طرف سے عقیدہ نکال کر منسوسب کرے.یہ دعویٰ کہ احمدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں سمجھتے یہ محض احمد یوں کے دشمنوں کا پراپیگنڈا ہے.ہم اس عقیدہ کے قائل ہیں رَضِيْتُ بِالله رَبّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَ بِالإِسلام ديناً.ہم قرآن شریف کی سورۃ فاتحہ کی بسم اللہ کی سب سے لیکر سورہ والناس کی آيت مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاس تک تمام صحیح محفوظ اور ابدالاباد تک قابل عمل سمجھتے ہیں.قرآن کریم کی سورۃ احزاب میں صاف طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت آتا ہے وَلكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين (الاحزاب : 41) - قرآن مجید میں نسخ کا قائل تو شاید یہ کہہ دے کہ یہ آیت منسوخ ہے مگر ہم تو قرآن مجید کے بین الدین کے متعلق عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو بھی اس میں ہے وہ قابل عمل ہے اور اس کا کوئی حصہ منسوخ نہیں اور خاتم النبیین تو عقائد میں سے ہے اور
مصالح العرب.....جلد اول 439 عقائد و واقعات کے متعلق تمام آئمہ اہلسنت کا اتفاق ہے کہ ان میں ناسخ و منسوخ کا قاعدہ جاری نہیں.پس کسی صورت میں بھی ممکن نہیں کہ ہم خاتم النبیین کے منصب کے منکر ہوں جو محض اس منصب کا منکر ہوگا اسے لكِن رَّسُولَ اللہ کا بھی انکار کرنا پڑے گا کیونکہ یہ دونوں منصب ایک آیت میں اکٹھے کئے گئے ہیں.یہ وہ عقیدہ ہے جو ہم بیان کرتے ہیں اور یہ وہ عقیدہ ہے جس کو ہم دل میں یقین کرتے ہیں.ہم اسی عقیدہ پر انشاء اللہ زندہ رہیں گے اسی عقیدے پر مریں گے اور اسی پر انشاء اللہ اٹھائے جائیں گئے.اگر میں اپنے اس بیان میں جھوٹ سے ، یا اختفاء سے ، یا تو ریہ سے کام لے رہا ہوں تو میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ لعنة اللہ علی الکاذبین کے وعدے کو میرے حق میں جاری کر دے اور اگر میں اور میری جماعت اس عقیدے کے اظہار میں بیچ سے کام لے رہی ہے تو میں الزام لگانے والے کے لئے بددعا نہیں کرتا، ہمیں خدا تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ سچ اس کی زبانی پر جاری کرے اور بیچ اس کے دل میں قائم کرے اور اسے توفیق بخشے کہ وہ وَكُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِينَ ( التوبة : 119) کے ارشاد پر عمل کرنے والا ہو.اے اہل مصر ! آپ کی تہذیب بہت پرانی ہے.آپ کا تمدن بہت قدیم ہے جس کا کچھ حصہ تاریخی زمانہ سے پہلے کا ہے.میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اتنی پرانی تہذیب اور پرانے تمدن کی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے ایک ایسی قوم پر الزام نہ لگنے دیں جو آپ کے ملک سے سینکڑوں میل دور بیٹھی ہے اور جو ان الزاموں کے دُور کرنے کی طاقت نہیں رکھتی جو اس کے پس پشت اس پر لگائے جاتے ہیں.میں نہیں سمجھتا کہ میرا یہ بیان بھی مصر کے کسی اخبار میں شائع ہو سکے گا یا نہیں.لیکن میں اس یقین کے ساتھ اس بیان کو بھجوا رہا ہوں کہ مصر کی روح انصاف ، مقامی اور ذاتی حد بندیوں سے آزاد ہو کر ضرور اس آواز کو اپنے اہل ملک تک پہنچا دے گی جو صرف ایک تکلیف دہ الزام سے اپنی براءت کرنا چاہتی ہے.مفتی صاحب کے مضمون کے ساتھ بعض اور مضامین بھی مصر کے اخبارات میں شائع ہوئے ہیں جن میں یہ کہانی گیا ہے کہ سلسلہ احمدیہ نے کوئی نیا قبلہ بنایا ہے اور یہ کہ جماعت احمد یہ اپنے آپ کو کسی اور نبی کا امتی قرار دیتی ہے.میں یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ یہ دونوں باتیں بالکل اتہام ہیں.ہم مکہ مکرمہ میں واقع کعبہ کو ہی اپنا قبلہ سمجھتے ہیں.قادیان کے احترام کرنے کے یہ معنی نہیں کہ وہ ہمارا قبلہ ہے.مسلمانوں کے لئے سینکڑوں مقامات قابل احترام ہیں.ہم سب
440 مصالح العرب.....جلد اول لوگ بیت المقدس کو محترم سمجھتے ہیں.کیا بیت المقدس ہمارا قبلہ ہے؟ اہل مصر خصوصاً اور سب مسلمان عموماً از ہر کو علوم اسلامیہ کی تعلیم و تدریس کا ایک بڑا مرکز سمجھتے ہیں اور اس کا بڑا احترام کرتے ہیں.کیا اہل مصر اور ہم لوگ از ہر کو اپنا قبلہ سمجھتے ہیں؟ قبلہ تو وہ ہے جس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جائے اور ہم سب نماز خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہیں اور اسی طرح پڑھتے ہیں جس طرح قرآن ، حدیث اور سنت نے بیان کیا ہے.خانہ کعبہ کا ہم حج کرتے ہیں.میں نے بھی خانہ کعبہ کا حج کیا ہے اور دوسری دفعہ حج کرنے کی خواہش رکھتا ہوں.پس یہ ہرگز درست نہیں کہ ہم خانہ کعبہ کے سوا کسی اور مقام کو قبلہ قرار دیتے ہیں.اسلام کا قبلہ اور ہمارا قبلہ وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن مجید میں بیان فرمایا گیا ہے اور قیامت تک وہی قبلہ رہے گا.اسی طرح یہ امر بھی درست نہیں ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کا امتی اپنے آپ کو سمجھتے ہیں.بانی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں اور اس پر فخر کرتے تھے تو پھر ہم لوگ کس طرح کسی اور کے امتی ہو سکتے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی امتی ہیں اور ہمارے سلسلہ کے بانی بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی تھے اور ان کے دعوئی کے مطابق انہیں جو کچھ ملا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کی وجہ سے ہی ملا.پس ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے پر فخر کرتے ہیں اور اسی مقام پر زندہ رہنا چاہتے ہیں اور اسی مقام میں مرنا چاہتے ہیں اور اسی مقام پر دوبارہ اٹھنا چاہتے ہیں.بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:.وموتى بسبل المصطفى خير ميتة فإن فرتُها فسأحشرن بالمقتدى کرامات الصادقین صفحہ 53 مطبوعہ 1893ء) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں میری موت بہترین موت ہے.اگر میری یہ آرزو پوری ہوئی تو مجھے اپنے پیشوا کے ساتھ ہی اُٹھایا جائے گا.إنا نطيع محمدا نور المهيمن دافع خير الورى الظلماء انجام آتھم صفحہ 268 مطبوعہ جنوری 1897 ء )
مصالح العرب.....جلد اول 441 ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ، جو تمام جہان سے بہتر ہیں فرمانبرداری کرتے ہیں.آپ دنیا کی کی حفاظت کرنے والے خدا کے نور ہیں اور تمام اندھیرے آپ کی بدولت دُور ہوتے ہیں.اور جو کوئی اس کے خلاف ہمارے متعلق کہتا ہے وہ ہم پر ظلم کرتا ہے خدا تعالیٰ اس پر رحم کرے اور خدا تعالیٰ اسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کی فتیح عادت سے بچائے.ہمارے متعلق یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہم جہاد کے منکر ہیں.یہ درست نہیں.جہاد کا حکم قرآن کریم میں ہے اور قرآن کریم ہمارے نزدیک غیر منسوخ ہے پھر ہم جہاد کو کس طرح منسوخ کر سکتے ہیں؟ جہاد کے متعلق ہم نے جو کچھ لکھا ہے وہ بعض ہندوستانی ملاؤں کے عقیدہ کے خلاف لکھا ہے ، جن کے نزدیک اکا دُکا غیر مسلم مل جائے تو اسے قتل کر دینا یا جبرا کسی سے کلمہ پڑھوا لینا یا اپنی ہمسایہ قوموں سے بلا کسی ظہور فساد کے لڑ پڑنا جہاد کہلاتا ہے.اس عقیدہ سے اسلام دنیا میں بدنام ہو رہا ہے اور بدنام ہو چکا ہے.مصر کے تمام بڑے مصنف جہاد کی اس تشریح میں ہم سے متفق ہیں.ہمارے نزدیک جو جہاد قرآن کریم میں پیش کیا گیا ہے اس کے بغیر کوئی آزاد قوم دنیا میں محفوظ نہیں رہ سکتی.مذہبی اور سیاسی طور پر ان شرائط کے ساتھ ظالم سے لڑنا جو قرآن مجید میں بیان کئے ہیں ایک ایسا ضروری امر ہے کہ جس کے بغیر حریت ضمیر اور حریت بلاد قائم ہی نہیں رہ سکتی ہم اس جہاد کے صرف قائل ہی نہیں بلکہ اس پر فخر کرتے ہیں ہم تو بر بریت کے مخالف ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے الإمامُ جُنَّة يقَاتَلُ مِنْ وَرَائه - ( بخاری کتاب الجہاد مسلم کتاب الامارۃ.ابوداؤد کتاب الجہاد.نسائی باب البيعة ) ہماری طرف یہ بھی منسوب کیا گیا ہے کہ ہم تناسخ کو مانتے ہیں اور شاید یہ عقیدہ اس امر سے مستنبط کیا گیا ہے کہ ہم بانی سلسلہ کو مسیح کہتے ہیں یہ الزام بھی غلط فہمی پر مبنی ہے.ہم تناسخ کے منکر ہیں اور خود بانی سلسلہ نے تناسخ کے عقیدہ کا اپنی کتابوں میں رد کیا ہے ہمارا عقیدہ صرف یہ ہے کہ مسیح موعود جس کی آمد کی خبر انجیلوں میں دی گئی ہے یا حدیثوں میں ہے اس سے مراد وہ مسیح ناصری نہیں ہے جس کے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَة ( آل عمران : 56) بلکہ جیسا کہ مسیح علیہ السلام نے خود یوحنا کو ایلیا کا نام دیا ہے اسی طرح ہمارا عقیدہ ہے کہ اس امت میں سے عیسائیت کے غلبہ کے وقت میں ایک ایسا شخص کھڑا ہو گا جو اسلام کی طرف سے عیسائیت کے ساتھ علمی و روحانی جنگ لڑے گا نہ یہ کہ مسیح علیہ السلام کی روح اس میں حلول
مصالح العرب.....جلد اول کر جائے گی.442 ایک بات ہماری طرف یہ بھی منسوب کی گئی ہے کہ ہم ہندوستان کو فتح کر کے ساری دنیا کو فتح کرنا چاہتے ہیں یہ اتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ مجھے تعجب ہے کہ ایک تعلیم یافتہ آدمی کو ہماری طرف یہ بات منسوب کرنے کی جرات کیسے ہوئی؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے ہاں یہ پیشگوئیاں موجود ہیں کہ ہم پھر قادیان میں اکٹھے ہوں گے لیکن یہ بات تبلیغ سے بھی ہوسکتی ہے.اور یہ بات پاکستان اور ہندوستان کے باہمی سمجھوتہ سے بھی ہوسکتی ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالهُدى وَدِينِ الحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله (سورة توبه :33: الفتح : 29 ، الصف : 10) مفسرین ( تفسیر ابن جریر مطبوعہ مصر زیر آیت سورۃ صف - تفسیر حسینی مترجم فارسی صفحہ 884 زیر سورت صف مطبع کریمی بمبئی.تفسیر غرائب القرآن برحاشیہ ابن جریر - بحار الانوار جلد 13 صفحہ 12.غایۃ المقصو دجلد 2 صفحہ 133) کہتے ہیں کہ یہ آخری زمانہ کے متعلق ہے کیونکہ جمیع ادیان پر غلبہ پہلے کسی زمانہ میں نہیں ہوا تو کیا ان آیات کے یہ معنی کئے جائیں کہ مصر، شام یا سعودی عرب یا پاکستان یا کوئی اور اسلامی مملکت یہ ارادہ کر رہی ہے کہ باری باری چین، جاپان ، روس اور جرمنی پر حملہ کر کے اسے فتح کرینگے اور ساری دنیا میں اسلام کو غالب کر دینگے.خدا تعالیٰ نے اسلام کے متعلق ایک خبر دی ہے اور مسلمان اس پر یقین رکھتے ہیں مگر ان میں سے کوئی دوسری اقوام پر حملہ کرنے کا ارادہ نہیں کرتا اور اس خبر کے پورا ہونے کی تفصیلات کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیتا ہے اسی طرح قادیان میں احمدیوں کے لئے آزادی حاصل ہونے کی پیش گوئی موجود ہے.لیکن وہ ہوگی انہیں ذرائع سے جو قرآن مجید کے نزدیک جائز ذرائع ہیں.اور قرآن کریم کسی ایسی قوم کو دوسرے ملک سے لڑنے کی اجازت نہیں دیتا جس کے پاس حکومت نہیں وہ اسے فساد قرار دیتا ہے.پس ہمارا کوئی ایسا ارادہ نہیں.ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے مجا نہیں نہیں جو اس قسم کے خیالات کو اپنے دل میں جگہ دیں ہم یہ جائز نہیں سمجھتے کہ بغیر اس کے کہ غیر قومیں ہم سے لڑیں ہم ان سے خود ہی جنگ شروع کر دیں.یہ مغربی حکومتوں کا حصہ ہے اور انہی کو مبارک رہے.اسلام نے کبھی بھی اپنی حکومت کے زمانہ میں اپنے کمزور ہمسایہ پر دست درازی نہیں کی.وسطی اور جنوبی افریقہ کے وسیع علاقے اس بات کے شاہد ہیں کہ شمالی افریقہ میں با قاعدہ حکومتیں قائم تھیں جو اسلام سے ٹکرائیں اور اسلام ان سے ٹکرایا لیکن اسلام کے لشکر جب ان حدود تک پہنچتے جہاں پر
مصالح العرب.....جلد اول 443 مخاصم حکومتوں کی حدیں ختم ہوتی تھیں اور کمزور قبائل کے علاقے شروع ہوتے تھے وہاں وہ ٹھہر گئے اور انہوں نے جنگ بند کر دی اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آج یورپین لوگوں کے لئے افریقن کالونیز کے بنانے کی گنجائش نہ رہتی.وسطی اور جنوبی افریقہ کی کونسی طاقت تھی کہ جس نے مسلمانوں کے ان لشکروں کو روکا جنہوں نے روسی ، ہسپانوی، فرانسیسی اور اطالوی منظم لشکروں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا.وہ اسلام کی منصفانہ، عادلانہ اور رحیمانہ تعلیم ہی تھی جس نے یہ عظیم الشان معجزہ دنیا کو دکھایا اور جس کی بدولت اب مسلمان ہر سیاسی مجلس میں یورپ اور امریکا کے سیاسی لوگوں کے سامنے اپنا سر اونچا رکھ سکتا ہے.مضمون ختم کرنے سے پہلے میں عرب اور مصر کے پریس کو ایک خاص ذمہ داری کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.آپ لوگ جانتے ہیں کہ ایک لمبے افتراق کے بعد اکثر مسلمانوں میں اتحاد کا جوش پیدا ہو رہا ہے.پاکستان سے عرب ممالک اور مصر نے جس ہمدردی کا سلوک کیا ہے یا عرب اور اسلامی امور سے جس ہمدردی کا ثبوت پاکستان نے دیا ہے وہ اس زمانہ کی خوشگوار ترین باتوں میں سے ہے.مگر مذکورہ بالا امر کی اشاعت نے جماعت احمدیہ ہی نہیں پاکستان کے رستہ میں مشکلات پیدا کر دی ہیں.اس مضمون کی بناء پر جو سرتا پا غلط ہیں ہندوستان پاکستان پر الزام لگا سکتا ہے کہ اس میں رہنے والی بعض جماعتیں ہندوستان پر حملہ کرنے کے خواب دیکھ رہی ہیں.ہم بتا چکے ہیں کہ یہ الزام سو فیصدی غلط ہے مگر ہندوستان کا متعصب عصر اس الزام سے ضرور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریگا اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرے گا.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ الزام ایک جماعت پر ہے نہ کہ پاکستان پر.کیونکہ ہندوستان کا متعصب گروہ کہے گا کہ جس امر کی اطلاع مصر کے ایک نامہ نگار کو مل گئی پاکستان کی حکومت کو اس کی کیوں اطلاع نہ ملی ہوگی.دوسرے وہ کہیں گے کہ جس جماعت پر یہ الزام ہے پاکستان کا وزیر خارجہ اس کا ممبر ہے پس وہ اس سے ناواقف نہیں ہوسکتا.ان حالات میں ایک نامہ نگار کی خواب پریشان پاکستان کیلئے کتنی مشکلات اور بدنامی کی صورت پیدا کرسکتی ہے اور کیا ی ظفر اللہ خاں کی خدمات پاکستان کا اچھا بدلہ ہو گا ؟ ہر گز نہیں.علاوہ اس کے کہ یہ جھوٹ ہے، یہ ایک وفادار دوست پر ناواجب حملہ بھی ہے جسے مصر کا غیور مسلمان یقیناً برداشت نہیں کریگا.اس کوشش کے بعد جو عرب اور مصر نے پاکستان کی مملکت کے استحکام کے لئے کی، ایسی آواز کو اٹھنے دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ
444 مصالح العرب.....جلد اول غَزْلَهَا (النحل: 93) (ترجمہ: اس عورت کی مانند مت بنو جس نے اپنے کاتے ہوئے سوت کو اس کے مضبوط ہو جانے کے بعد کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا ) میں اس دعا پر اپنے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمان ممالک کو اس لمبی نیند سے بیدار ہونے کی توفیق بخشے جس میں وہ مبتلا تھے اور اغیار کے تصرفات سے ان کو آزاد کرے اور مسلمان کی اس شان کو بحال کرے جو اسے گزشتہ زمانہ میں حاصل تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ عزت اسے عطا کرے.اللھم آمین.مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ الفضل 4 تبوک 1331 هش بمطابق 4 /ستمبر 1952ء صفحه 2-3 الخص از تاریخ احمدیت جلد 15 صفحہ 301-336 ) مصری زعماء اور صحافیوں کا زبردست احتجاج مفتی صاحب کے اعتراضات کے شافی جوابات کے بعد اب ہم مفتی مصر کے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پر فتوی کفر اور اس پر مصری اور دیگر غیرت مند اور باوفا اصحاب کے رد عمل کے تذکرہ کی طرف لوٹتے ہیں.اس فتوی کی اشاعت پر مصریوں کو از حد قلق ہوا اور مصری عوام و خواص سرتا پا احتجاج بن گئے.چنانچہ اس موقعہ پر مصری زعماء اور پریس نے جو بیانات دئے وہ ان کی فرض شناسی ، تدبر اور معاملہ فہمی کی بہت عمدہ مثال تھی.ان بیانات کا ترجمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل کا بیان عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبد الرحمن عزام پاشا نے شدید تنقید کی اور الاخبار الجدیدہ (جس میں فتویٰ شائع ہوا تھا) کے نمائندہ خصوصی کو حسب ذیل بیان دیا:.میں حیران ہوں کہ آپ نے قادیانیوں یا چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب وزیر خارجہ پاکستان کے متعلق مفتی کی رائے کو ایک مؤثر مذہبی فتوی خیال کیا ہے.اگر یہ اصول مان لیا جائے تو پھر بنی نوع انسان کے عقائد ، ان کی عزت و وقار اور ان کا سارا مستقبل محض چند علماء کے خیالات و آراء کے رحم و کرم پر آرہے گا.
مصالح العرب.....جلد اول 445 فتوی کسی مخصوص اور غیر مبہم واقعہ سے متعلق ہونا چاہئے اور پھر ایسی صورت میں بھی اس کی حقیقت محض ایک رائے سے زیادہ نہیں ہوسکتی اور نہ ہر شخص کے لئے اس کا تسلیم کرنا واجب اور لازمی قرار دیا جا سکتا ہے.اسلام نے علماء کے ذریعہ کسی کلیسائی نظام کی بنیاد نہیں ڈالی جولوگوں کو خدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم کر سکے.بلاشبہ اس رائے کی حیثیت محض ایک رائے کی ہی ہے نہ کہ دین کے کسی حصہ کی.کسی کی رائے نہ تو کسی کو دین سے خارج کر سکتی ہے اور نہ داخل.ہر وہ شخص جو کلمہ لَااِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کا قائل ہے اور قبلہ کی طرف منہ کرتا ہے وہ یقیناً مسلمان ہے.یہ امر مسلمانوں کے مفاد کے سراسر خلاف ہے کہ کسی ایک فرقہ کو بے دین قرار دیا جائے.اسلام کی بنیادی باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان دوسرے کو کافر قرار دینے سے بچے.ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ظفر اللہ خاں اپنے قول اور اپنے کردار کی رُو سے مسلمان ہیں.روئے زمین کے تمام حصوں میں اسلام کی مدافعت کرنے میں کامیاب رہے اور اسلام کی مدافعت میں جو موقف بھی اختیار کیا گیا اس کی کامیاب حمایت ہمیشہ آپ کا طرہ امتیاز رہا ہے اس لئے آپ کی عزت عوام کے دلوں میں گھر کر گئی اور مسلمانانِ عالم کے قلوب آپ کے لئے احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہو گئے.آپ ان قابل ترین قائدین سے ہیں جنہیں عوامی اور ملی مسائل کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کا ملکہ حاصل ہے.اخبار المصری“ کا بیان البشری دسمبر 1953 ء مجلد 13 صفحہ 115-116 ) مصر کی حکومتی وفد پارٹی کے مشہور اخبار المصری نے 26 جون 1952 ء کے پرچہ میں ایک زور دار مقالہ افتتاحیہ سپر قلم کیا جس میں لکھا:.”اے کافر ، خدا تیرے نام کی عزت بلند کرے“ ہماری مسلمان مملکت پاکستان نے شاہ سوڈان کی حیثیت سے شاہ فاروق کے نئے خطاب کو تسلیم کیا.پاکستان نے یہ لقب برطانوی تاج کے تحت دولت مشترکہ کا رکن ہونے کے باوجود تسلیم
.....446 مصالح العرب.....جلد اول کیا.شاہ فاروق کو سوڈان کا بادشاہ تسلیم کرنا ایک جرات مندانہ اقدام تھا اور اس کے لئے ہم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کی مساعی جمیلہ کے ممنون احسان ہیں.یہ ہم پر ایک نئی کرم فرمائی تھی.یہ ہماری دلجوئی اور ہمارے ساتھ ہمدری کا ایک نیا اظہار تھا.ہمیں احسان مندی کے جذبات کے ساتھ اس کا اعتراف کرنا چاہئے تھا.بالکل خلاف توقع اور اچانک ہمیں معلوم ہوا کہ مفتی مصر نے اسی ظفر اللہ خاں کو ایک بے دین اور ایک غیر مقلد فرقہ کا رُکن قرار دے دیا ہے.ہمیں رحم آیا ہے کہ اس فتویٰ کی موجودگی میں ہمارے سفیر مقیم کراچی عبدالوہاب عزام کی کیا حالت ہوگی جو اس ملک میں شاہ سوڈان کا نمائندہ ہے اور جس ملک نے برطانوی تاج سے وابستہ ہونے کے باوجود ہمارے بادشاہ کا نیا لقب تسلیم بھی کر لیا ہے.ہاں ہاں ! ہمیں ترس آتا ہے اپنے وزیر خارجہ عبدالخالق حسونہ پاشا پر جسے اپنے عہدے کی وجہ سے ہمارے ملک اور ہمارے قومی مطالبات کے بارے میں پاکستان کے موقف کا بخوبی علم ہے اور جسے اچھی طرح معلوم ہے کہ جہاں تک ہماری امنگوں اور ہمارے قومی مطالبات کا تعلق ہے ان کے بارہ میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کے کیا جذبات ہیں.ہمیں ترس آتا ہے اپنے سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد صلاح الدین پاشا پر بھی کہ جنہوں نے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کا اعتماد حاصل کیا اور اقوام متحدہ میں ان کی امداد و حمایت سے فائدہ اٹھایا.اسی طرح ہمیں رحم آتا ہے محمدعلی علویہ پاشا پر نیز احمد خشابہ پاشا اور دیگر سیاستدانوں اور دنیائے عرب و اسلام کے مقتدر مدبرین پر جو چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کو جانتے ہیں اور مصر، فلسطین ، تیونس اور دیگر مسلمان و عرب مملکتوں کے مفاد کی خاطر آپ نے جو دوڑ دھوپ کی ہے وہ اس سے بخوبی واقف ہیں.یہ سب مدبرین کیا سوچتے ہوں گے! ہمیں رحم آتا ہے ان سب پر اور پھر خود مفتی پر بھی کہ اس نے صفائی کا موقعہ دئے بغیر خواہ مخواہ ایک شخص کو مجرم قرار دے دیا اور اس پر بے دینی کا الزام لگا ڈالا.خدا کی پناہ.خدا کی پناہ.ظفر اللہ خاں ہماری ہمدردی کے محتاج نہیں ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ اب بھی اسلامی مفادات کی حفاظت کی خاطر اسی طرح سینہ سپر رہیں گے اور مصر کے ساتھ اپنی دوستی کا دم بھرتے رہیں گے.مفتی نے ظفر اللہ کو کا فرو بے دین قرار دیا ہے.آؤ ہم سب مل کر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں پر سلام بھیجیں.ظفر اللہ خاں ” کا فر“ کے کیا کہنے ان جیسے اور بڑے بڑے
مصالح العرب.....جلد اول 447 بیسوں ” کافروں کی ہمیں ضرورت ہے.بالآخر ہم پوچھتے ہیں کہ حکومت مصر اس بارے میں کیا کرنا چاہتی ہے؟ ایسی حالت میں اس پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ اس سلسلہ میں وہ کیا بیان جاری کرے گی ؟ اور یہ کہ آئندہ اسے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے تا کہ اسے محض چند احمقانہ الفاظ کی وجہ سے جو کوئی سوچے سمجھے بغیر زبان سے نکال دے اپنے معدودے چند دوستوں کی رفاقت سے ہی ہاتھ دھونا پڑے.(المصری 26 جون 1952ء بحوالہ البشری مجلہ 1811 صفحہ 118-119 حیفا فلسطین ) احمد خشابه پاشا کا بیان مصر کی بااثر شخصیت احمد خشابہ پاشا کا حسب ذیل بیان اخبار الزمان (25 جون 1952ء میں شائع ہوا:.خشابہ پاشا نے اعلان کیا ہے کہ ” مجھے اس فتویٰ سے سخت رنج پہنچا ہے کیونکہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں نے اسلام اور عرب دنیا کی بالعموم اور مصر کی بالخصوص بہت خدمت سرانجام دی ہے.عالم اسلام انکی خدمات جلیلہ کے لئے ان کا ممنون احسان ہے خشابہ پاشا نے مصر کے معاملات میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی اس تائید و حمایت کا بھی ذکر کیا ہے جو موصوف نے اقوام متحدہ کے مختلف اجلاسوں میں ہمیشہ روا رکھی اور بالخصوص سلامتی کونسل کی نشست حاصل کرنے میں آپ نے مصر کو بے حد تقویت پہنچائی.خشابہ پاشا نے اپنے بیان کے آخر میں فرمایا: میں اس عظیم شخصیت کا بے حد ممنون احسان ہوں کیونکہ اس نے میرے ملک کی بے حد خدمت سر انجام دی ہے اور مجھے انتہائی افسوس ہے کہ ایسا فتویٰ دیا بھی گیا ہے تو ایسی نمایاں اور (بحوالہ "البشرى المجلد 18 صفحہ 124) بلند ہستی کے خلاف.اخبار النداء“ کا بیان اخبار "النداء ( یکم جولائی 1953 ء) نے لکھا:.( ترجمہ ) نمائندہ النداء کو معلوم ہوا ہے کہ مفتی کی شخصیت بالکل محل بحث نہیں تھی بلکہ ارباب حل و عقد نے مفتی کے منصب کے دائرہ عمل پر غور کیا ہے.اور یہ معاملہ مفتی کے منصب
448 مصالح العرب.....جلد اول کے محدود کرنے والا ہونا چاہئے کہ اس کو کس حد تک اجتہاد کرنا چاہئے.چونکہ مطالبات کی دار الافتاء میں آتے ہیں اس لئے کوئی فتویٰ اس وقت تک صادر نہ کیا جائے جب تک اس کو مجلس افتاء کے سامنے پیش نہ کیا جائے جو مذاہب اربعہ کے آئمہ پر مشتمل ہو.اخبار الْجَمْهُورِ المِصْرِى “ کا بیان اخبار الجمهور المصری ( 21 / جولائی 1952ء) نے ایک شذرہ میں لکھا:.ہم اس امر کی وضاحت کرنا پسند کرتے ہیں کہ ہم ڈاکٹر احمد شبلی پروفیسر فواد الاول یونیورسٹی کی رائے کی تائید کرتے ہیں کہ مفتی مصر کا فتویٰ برطانیہ کی چال ہے اور ان برطانوی اخبارات کی سازش ہے جو عربی زبان میں مصر میں شائع ہوتے ہیں.عوام کے تصور سے یہ مسئلہ کہیں گہرا ہے.دھوکہ کی بنیاد.یہ واضح حقیقت ہے کہ ظفر اللہ خاں نے جو تمام دنیا کے مسلمانوں کے معاملات میں دفاع کیا ہے اس نے انگریزوں کو خوفزدہ کر دیا ہے.اسلام اور مسلمانوں کی خاطر اور اس کی دلیرانہ آواز نے انگریزوں کو پریشان کر دیا ہے اور ان کو اس امر کا خوف ہے کہ پاکستان مضبوط ہاتھ ہو جائے گا جو ہر جگہ مسلمانوں کے معاملات میں ان کو سہارا دے گا.ظفر اللہ خاں نے کہا ہے کہ پاکستان ہرگز اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا چاہے عرب لیگ اس کو تسلیم کرے.اس وجہ سے انگریزوں نے پاکستان کے وزیر خارجہ کے خلاف سازش کی تا کہ وہ مصر اور مشرق کو اس پاکستانی بڑے لیڈر کی تائید سے محروم کر دے.الدكتور اللبان بک کا بیان الدكتور ابراهیم اللبان بک پرنسپل کلیہ دار العلوم المصریہ نے لکھا:.مجھے انتہائی افسوس ہے کہ عرب حکومتوں نے ظفر اللہ خاں وزیر خارجہ پاکستان جیسی شخصیت کو تکلیف دی جس نے عرب حکومتوں کے دفاع میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جس کی وجہ سے اس نابغہ اور مثالی شخصیت کی تائید اور دوستی سے محروم ہو گئے ہیں حالانکہ آج کے عالمی سیاسی تنازعہ اور خطر ناک بحران میں عرب حکومتیں ظفر اللہ خاں کی شجاعت ، بلاغت اور آپ کے دفاع کی بہت ضرورت محسوس کرتی ہیں.المصری 27 /جون 1952ء)
مصالح العرب.....جلد اول الشیخ محمد ابراہیم سالم بک کا بیان 449 الشیخ محمد ابراہیم سالم بک ( سابق چیف جسٹس ہائیکورٹ مصر ) نے ایک بیان میں کہا:.بلاشبہ ہماری طرف سے یہ جلد بازی ہوگی کہ ہم قادیانیوں پر کفر کا فتویٰ لگائیں اور یہ اس لئے کہ ہمیں ابھی تک ایسے وسائل میسر نہیں کہ ہم اس مذہب کے متعلق علم اور اس کے میلانات بذریعہ کتب معلوم کر سکیں.اور جب تک ہمیں اس مذہب کے متعلق معلوم نہ ہو تو یہ جلد بازی اور جسارت ہوگی کہ ہم اس مذہب کے پیرو کاروں پر کفر کا فتویٰ لگا دیں.وہ اس وقت تک مسلمان ہی ہیں جب تک کہ انکے کفر پر دلیل قائم نہیں ہو جاتی.اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ کئی ایسے پہلو ہیں جو فرقہ قادیانی کے مسلمان ہونے کی تائید کرتے ہیں بلکہ ان کے (مسلمان ہونے کی تائید میں یہ پہلو بھی ہے کہ احمدی اسلام اور مسلمانوں کی تائید کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے بلکہ ہر موقعہ سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں.یہ تائید خواہ سرکاری تقریبات کے مواقع پر ہو یا ان کے علاوہ.ان امور کی بناء پر یہ بات بڑی تکلیف دہ ہے کہ جناب ظفر اللہ خاں کی ذات پر کفر کا اتہام لگایا جائے ہم جانتے ہیں کہ وہ شخص اسلامی اخلاق سے آراستہ ہے اور اسلامی روایات اور سنت پر عامل ہے.ظفر اللہ خاں مصر میں کئی مرتبہ آئے ہیں.ہم نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کرتے ہیں اور ان کے معاملات میں ان کی مدد کرتے ہیں.اور آپ ہر ایسے معاملہ میں جس میں اسلام اور مسلمانوں کی شان بلند ہوتی ہو دلیر ہیں.اس بناء پر اس شخص کے مسلمان ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے.الشیخ علام نصار بک کا بیان مصر کے سابق مفتی الشیخ علام نصار بک نے اپنے بیان میں کہا:.( البلاغ 26 جون 1952ء) نہ تو یہ جائز ہے اور نہ آسان کہ مسلمانوں کے فرقوں میں سے کسی فرقہ پر کفر کا فتویٰ لگایا جائے اور نہ ایسے دلائل ہی پائے جاتے ہیں جو اس امر کو جائز قرار دیں کہ قادیانی جماعت پاکستان میں اسلام سے خارج ہے.میں اس امر کو مناسب نہیں سمجھتا کہ ایک عظیم سیاسی آدمی
450 مصالح العرب.....جلد اول پاکستان جو وزیر خارجہ کی پوزیشن پر ہو سے تعرض کیا جائے کہ ان کا دین کا عقیدہ کیا ہے حالانکہ وہ شخص دین اسلام کا علی الاعلان اظہار کرتا ہے.اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے بڑی بڑی مجالس میں دفاع کرتا ہے.اپنے موقف اور بیانات کی تائید میں قرآن کریم اور احادیث محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور دلیل پیش کرتا ہے اور علی الاعلان اس کی اقتداء کا اظہار کرتا ہے.اس لئے دین میں انصاف کی خاطر یہ امر حکمت کے خلاف ہے کہ کوئی ان کو خارج از اسلام قرار دینے کی مصیبت میں مبتلا ہو حالانکہ وہ شخص اپنے اسلام کا کھلم کھلا اظہار کرتا ہے اور اس کو پاکیزہ تعلق یقین کرتا ہے.اسلام اور اقوام اسلامیہ کی خدمت کے لئے قابل قدر جوش سے کام لیتا ہے.ان کے دوست اور جاننے والے اشخاص ( جو مصر میں اکابرین اسلام ہیں ) کی آراء سے یہ واضح تأثر لیا جاتا ہے کہ وہ آپ کو ایک مسلم شخصیت ہی تصور کرتے ہیں جو اسلام کے آداب اور شرائط پر مضبوطی سے عامل ، اسلامی اخلاق وصفات سے مزین اور اسلام کی اتباع اور اسکے اصول کے التزام کی ترغیب دیتے ہیں.مسلمان اس واقعہ سے ناواقف نہیں ہیں جو آنحضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا جبکہ کسی نے ایک آدمی کو جنگ میں قتل کر دیا حالانکہ وہ شہادتین کا اقرار کر چکا تھا کیونکہ قاتل کو یقین تھا کہ اس شخص نے قتل کے ڈر سے کلمہ شہادت پڑھا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس کے اس فعل پر ملامت کی اور اس کے عذر کو قبول نہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو نے اس کے دل کو پھاڑ کر دیکھا تھا؟ (البلاغ 26 جون 1952ء) اخبار الیوم کے نامہ نگار خصوصی مقیم کراچی کا بیان اخبار الیوم ( 26 جولائی 1952 ء) نے اپنے نامہ نگار خصوصی مقیم کراچی کے حوالہ سے لکھا:.أصبح الأبرار كافرين ( نیک لوگ بھی اب کا فر ہو گئے ) شیخ مخلوف نے جس گناہ کا ارتکاب کیا ہے اب اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش عبث اور بے معنی ہے.اس غلطی کا نام وہ فتویٰ رکھیں یا بیان دونوں برابر ہیں.بہر کیف وہ خود ہی اس کا شکار ہو گئے ہیں.حکومت کے لئے اگر اسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے تو اب مفتی صاحب کو ان کے اس منصب سے علیحدہ کرنا ضروری ہو گیا ہے.مفتی صاحب کے فتویٰ جاری ہونے کی
مصالح العرب.....جلد اول 451 کے وقت ہی سے ہم نہ صرف اس کو نا قابل التفات سمجھ رہے تھے بلکہ لوگوں کو اسے طاق نسیان کی میں رکھنے کا کہہ رہے تھے مگر اس کے باوجود مفتی صاحب اپنی اس غلطی کا دفاع کر رہے ہیں اور ایک غلطی کو محو کرنے کے بدلہ میں دوسری کا ارتکاب کر ہے ہیں اور ایک گمراہی کے عوض دوسری میں خود کو ملوث کر رہے ہیں.مفتی صاحب اس بات کو جانتے ہیں کہ قادیانی جماعت میں اعتدال پسند اور صاحب و قارلوگ بھی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ظفر اللہ خاں بھی ان ہی میں سے ایک ہوں.مفتی صاحب یہ سب کچھ بھی جانتے ہیں جیسا کہ الاخبار کو انہوں نے بیان بھی دیا ہے جو جمعرات کو شائع بھی ہو چکا ہے.ان کا فرض تھا کہ کسی کو خدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم کرنے اور اس کے دین سے نکالنے سے پیشتر وہ فقہ اسلامی کے عام اور معمولی قوانین ہی ملاحظہ فرما لیتے جو انہیں اس معاملہ پر تحمل اور بردباری سے غور کرنے کی طرف توجہ دلا رہے تھے اور جلد بازی سے کام نہ لیتے.فاضل مفتی صاحب کو علم ہوگا کہ ایک روز رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ایک گواہ کو فرمایا تھا کہ کیا تو یہ سورج دیکھ رہا ہے اس طرح واضح اور روشن گواہی دے ورنہ رہنے دے.اسی طرح ان کو یہ بھی علم ہوگا کہ علماء اسلام اور آئمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ مسلمان جس کے اسلام کا ایک فیصدی بھی احتمال ہے اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لایا جاسکتا.پس اس شخص کے لئے جو منصب افتاء پر فائز ہو مناسب نہ تھا کہ کسی مسلمان کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کرنے میں جلد بازی سے کام لیتا اور مسلمان بھی اتنی عظمت شان کا مالک کہ صحافت اس کے وجود ہی کو ایک بڑی خبر تصور کرتی ہو.اگر بالفرض ایسی کوئی بات تھی جو مفتی صاحب کو ظفر اللہ خاں کے اسلام سے خارج کرنے ہی پر مجبور کرتی تھی (جس کا ہمیں علم نہیں ) تب بھی انہیں اپنے فتویٰ یا بیان کو بہتر اور مناسب صورت دینا چاہئے تھی اور پاکستان سے وزیر زندیق کی معزولی کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیئے تھا.معلوم ہوتا ہے کہ مفتی صاحب نے اپنی تعیناتی سے متعلق قوانین کا مطالعہ ہی نہیں کیا اور یہ گمان کر لیا کہ وہ مصر اور پاکستان کے مفتی ہیں اور اس طرح اپنے ہم مشرب کے معاملات میں بھی دخل اندازی کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس کے حقوق کا احترام نہیں کیا.مفتی پاکستان اپنے ملک اور اپنے وزیر کے متعلق یقیناً وہ کچھ جانتا ہے جس کا شیخ مخلوف
مصالح العرب.....جلد اول ( مفتی مصر) کو کوئی علم نہیں.452 اس مسئلہ کے اور بھی کئی پہلو ہیں جو زیادہ خطرناک ہیں اور نتائج کے لحاظ سے سنگین بھی.اسلامی اصول ہے کہ جس نے کسی مسلمان کو کافر کہا وہ خود کافر ہو گیا.ظفر اللہ خاں کا کفر جب تک ہم آنکھوں سے مشاہدہ نہ کر لیں اور اس بارہ میں ہمیں یقینی علم نہ حاصل ہو جائے ہمارے نزدیک مسلمان ہیں اور ان کا اسلام کامل ہے.مفتی مصر نے خود اپنے آخری بیان میں اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ظفر اللہ خاں اعتدال پسند اور وقار کے حامل ہوں یہ امر بھی مفتی صاحب کو اس کے خلاف فتویٰ صادر کرنے کا حق نہیں پہنچاتا اور نہ ہی غیض و غضب اور لعنت ملامت کے نشانہ بنانے کا.ہماری رائے ہے کہ مفتی صاحب نے ایک مسلمان کو کا فر ٹھہرایا ہے اور جس کسی نے کسی مسلمان کو کافر ٹھہرایا ہو وہ خود کا فر ہو جاتا ہے.میں قارئین سے اُمید کرتا ہوں کہ وہ مجھے کسی کی تنقیص کا مرتکب نہ تصور کریں گے.میں حقیقت کے اظہار میں سنجیدہ ہوں.اس سلسلہ میں تمام ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار ہوں.جہاں تک ظفر اللہ خاں کا تعلق ہے اس قسم کی کہی گئی باتوں سے اس کا کوئی نقصان نہیں.لیکن یہ واقعہ اس امر کی ضرور یاد دلاتا ہے کہ لوگوں نے رسول عظیم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شان میں بھی کا ہن، ساحر ، صابی اور مجنون کے الفاظ استعمال کئے تھے.وہ شخص جو استعماریت کا بڑی قوت ، بلاغت اور صدق بیانی سے مقابلہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ بھی جس کی زبان اور دل پر حق جاری کرتا ہے وہ بھی اگر کافر قرار دیا جا سکتا ہے تو نیک لوگوں کی اکثریت ایسے کافر بن جانے کی خواہش کرے گی.(خالد محمد خالد ) اخبار المصری“ کا مقالہ خصوصی اخبار المصری نے اپنے مقالہ خصوصی (مورخہ 27 رجون 1952ء) میں بعنوان ظفر اللہ خاں“ لکھا:.المصری کے قارئین اس کالم کے علاوہ کسی دوسری جگہ مصر میں پاکستان کے سفیر کے بیان کا مطالعہ کریں گے جس میں آپ نے مصری صحافت کی عزت افزائی کی ہے اور بالخصوص روز نامہ المصری کی جس نے اپنے اور پاکستان کے دوست مصری لوگوں کے خیالات کی
مصالح العرب.....جلد اول 453 اشاعت اس اتہام کے رد میں کی ہے جسے مصر کے علماء عظام میں سے ایک نے عوام کی خلاف کی توقع مشرق کی عظیم شخصیت محمد ظفر اللہ خاں پر عائد کیا تھا.اس اتہام سے قبل شاید پاکستان اس امر سے واقف نہ تھا کہ مصر پاکستان کے لئے دل کی گہرائیوں سے محبت، خلوص اور ہمدردی کے جذبات رکھتا ہے اور عالمی اخوت کا بھی حامل ہے.دونوں ایک جیسے مقاصد رکھتے ہیں.عربوں میں کیا خوب یہ کہاوت ہے کہ بسا اوقات ضرر رساں اشیاء بھی مفید مطلب ہو جایا کرتی ہے.پاکستان کے مصری دوست ظفر اللہ خاں کے مقام کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے.بین الاقوامی سوسائیٹیوں میں وہ قضیہ مصر کے بلند پایہ ارکان میں سے ہیں اور دنیا کی ان عظیم ترین شخصیتوں سے ایک ہیں جنہوں نے مصر کی خاطر اپنی ذات ، وقت اور وطن تک کو وقف کر رکھا ہے.استعماریت کا مقابلہ کھلم کھلا اور بڑی جرات سے کرتے ہیں.اس شخص کے وجود میں اور بھی کئی خوبیاں موجود ہیں.یہ سب باتیں اس امر کی متقاضی ہیں کہ نہ صرف آپ کے خلاف بات کرنے سے گریز کیا جائے بلکہ آپ کی گرانقدر خدمات کو سراہا جائے اور ان کے بارہ میں انصاف سے کام لیا جائے.محمد ظفر اللہ خاں عصر حاضر میں دولت اسلامیہ کی نہایت درجہ بلند پایہ اور ممتاز شخصیتوں سے ایک ہیں بلکہ سرفہرست ان ہی کا اسم گرامی آتا ہے.آپ ہی وہ شخص ہیں جس نے سیاست کا مطالعہ تو اچھی طرح کیا ہے لیکن نظری سیاست کے اصولوں کو اپنایا نہیں بلکہ سیاسی ثقافت کو قرآنی انداز فکر کے تابع اور ہم آہنگ کر دیا ہے.آپ نے ایسا اسلامی نظریہ اختیار کیا ہے جو عصر حاضر کے افکار کی آراء اور اسلامی نظریات پر مشتمل ہے.ظفر اللہ خاں کو اقتصادیات پر وسیع نظر حاصل ہے.آپ نے اقتصادیات کا نہ صرف مطالعہ کیا ہے بلکہ ایک بڑی قوم کا جس کے اغراض و مقاصد وسیع تر ہیں اور جو ابھی ابھی استعماری اقتصادیات کے بھنورے نکلی ہے بجٹ تیار کیا ہے.اقتصادی نظام میں آپ علم اقتصادیات پر صرف انحصار نہیں کرتے بلکہ اقتصادی ثقافت کو اسلامی تعلیم کے تحت لے آتے ہیں.دولت اسلامیہ کی تعمیر میں آپ کا یہ نظریہ ہے کہ افراد کے فرائض اور حقوق حکومت کے حق میں کیا ہیں اور حکومت کے فرائض اور حقوق افراد کے حق میں کیا ہیں؟ ظفر اللہ خاں وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے حکومت کے جھنڈے کو اٹھایا اور پاکستان کی خارجہ سیاست کو حکومت کے دو بڑے وجودوں محمد علی جناح اور لیاقت علی خاں کی طرف سے
454 مصالح العرب.....جلد اوّل سپرد ہونے پر سنبھالا اور ان کے اسلامی طریق کار کو جاری رکھا.اس طرح اس نوزائیدہ مملکت کو عصر حاضر کی ترقی یافتہ صف میں لاکھڑا کیا.پاکستان کی ہر دو ( مذکورہ بالا ) بڑی شخصیات نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کی اقتداء میں جو روایات قائم کی تھیں ان کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ مزید چار چاند لگا دیئے.امریکہ اور یورپ کے عالمی سیاسیات کی شہرت کے مالک ان کی قدر و منزلت محض نمائش کے طور پر نہیں کرتے بلکہ ان کی ذاتی خوبیوں کے مداح ہونے کی صورت میں نہایت قدر کی نگاہ سے ان کو دیکھتے ہیں.انہیں یہ بھی علم ہے کہ آپ اپنی لیاقت اور قابلیت کی بدولت اطراف عالم میں کس احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں.وہ اس حقیقت سے بھی آشنا ہیں کہ آپ مشرقی محاسن کے آئینہ دار ہیں اور سلامتی کی دعویدار، نئی دنیا میں ، آپ دو متقابل و متحارب بلاکوں میں تیسرے گروپ کی نمائندگی کرتے ہیں.یہ ہیں وہ ظفر اللہ خاں !! جن کو تکفیر کا نشانہ بنایا گیا ہے حالانکہ تنہا آپ ہی ہیں جو اقوام متحدہ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر فریضہ نماز اس کے وقت میں ادا کرتے ہیں اور اس غرض کے لئے اقوام متحدہ کے ہال میں کوئی علیحدہ جگہ تلاش کرتے ہیں تا کہ امت اسلامیہ کی نصرت طلب کرنے کے لئے خدا کی جناب میں سجدہ ریز ہوسکیں.مصری لیڈر السید مصطفی مومن کا بیان مصر کی وفد پارٹی کے ایک راہنما اور شعوب المسلمین کے مندوب السید مصطفی مومن نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ چوہدری ظفر اللہ خاں کی خدمات صرف پاکستان کے وزیر خارجہ کی نہیں ہیں بلکہ آپ مشرق وسطی اور بالخصوص مصر اور عرب دنیا کے بھی وزیر خارجہ ہیں.وہ بہت بڑے مدبر ہیں انہوں نے اقوام متحدہ میں تیونس ، مراکش، ایران اور مصر کی حمایت کر کے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے.چوہدری صاحب پر حملہ پوری اسلامی دنیا پر حملہ ہوگا.روزنامه آفاق (لاہور) 25 مئی 1952 تلخیص از تاریخ احمدیت جلد 15 صفحہ 175-176) بیروت پریس مصر کے علاوہ بیروت کے پریس نے بھی فتویٰ پر تنقید کی چنانچہ بیروت کے کثیر
مصالح العرب.....جلد اوّل 455 الا شاعت روز نامہ بیروت المساء“ نے لکھا:.ہم وزیر خارجہ پاکستان السید محمد ظفر اللہ خاں کو اچھی طرح جانتے ہیں.بیروت میں ان سے کئی مرتبہ ملاقات ہوئی.ہم نے ان کا فصاحت و بلاغت سے پر لیکچر بھی سنا.آپ کا لیکچرسن کر ہمارا متاثر ہونا لازمی تھا جبکہ اقوام متحدہ کی مجالس آپ کی زور دار تقاریر سن کر ورطۂ حیرت میں پڑ چکی تھیں.ہم نے آپ کو قرآن مجید کے علوم بیان کرتے ہوئے سنا جس میں آپ نے شاعر کا یہ قول بھی بیان فرمایا:.وكل العلم في القرآن لكن تقاصر منه أفهام الرجال " تمام علوم قرآن مجید میں موجود ہیں لیکن عام لوگوں کے فہم انہیں سمجھنے سے قاصر ہیں.پھر ہم نے آپ کو پالم تپیش ہوٹل میں نماز تہجد پڑھتے اور عبادت کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے آپ کے پیچھے نماز میں آپ کے ساتھی بھی تھے.پھر ہم نے دیکھا کہ آپ اسلامی حکومتوں کے وزراء اعظم کی ایک کانفرنس منعقد کرنے میں کوشاں ہیں.پھر آپ نے مصر کی امداد اور تائید و حمایت کیلئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے.اسی طرح مسئلہ تیونس کے متعلق اسلامی مفادات کے تحفظ میں آپ جس طرح سینہ سپر ہوئے وہ بھی ہمیں اچھی طرح یاد ہے.یقیناً ظفر اللہ خاں ایک مفکر دماغ کے حامل ہیں اور آپ ترقی پذیر پاکستانی مملکت کے لئے لسان ناطق کا درجہ رکھتے ہیں.اس مملکت کے لئے جس کی مسلم آبادی آٹھ کروڑ نفوس سے بھی متجاوز ہے.جس نے قرآن کریم کو اپنا دستور بنایا ہوا ہے اور جہاں عربی زبان کو ممتاز درجہ بر شمار کیا جاتا ہے.اس ہمسایہ مملکت کو جو ایشیا میں تعمیر و ترقی کا علم بلند کر رہی ہے اور جو عربوں کے تمام مسائل میں خلوص نیت اور صدق دلی سے ان کا ہاتھ بٹا رہی ہے.عرب دنیا کے ایک وسیع حصہ کی طرف سے ایک طعنہ دیا گیا ہے.ہماری مراد اس سے مصر ہے.ہاں مفتی صاحب نے جہالت کا ثبوت دیا ہے.اس کا منصب صرف دینی ہے.اس کا کام لوگوں کو کافر قرار دینا نہیں ہے جس نے مومن کو کا فرکہا وہ خود کافر ہوا.آہ! اس نے یہ فتویٰ دے کر، کہ پاکستان کا وزیر خارجہ کا فر ہے اور یہ کہ پاکستانی حکومت پر واجب ہے کہ وہ ظفر اللہ خاں کو وزارت خارجہ سے الگ کر دے انتہائی غفلت کا ثبوت دیا ہے.
مصالح العرب.....جلد اول 456 مذہبی لوگ خدمت دین کے لئے پیدا کئے گئے ہیں سیاسی امور میں دخل دینا ان کا کام رانی نہیں.اگر ظفر اللہ خاں مختلف اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقے (یعنی جماعت احمدیہ ) کی طرف منسوب ہوتے ہیں تو یہ امران کو کا فرنہیں بناتا.وہ ایمان بالله وملئكته وكتبه ورسله کے قائل ہیں.وہ اسلامی ارکان پر پوری طرح عامل ہیں.کیا مفتی کے لئے جائز ہے کہ وہ ان مسلمانوں پر بھی کفر کا فتویٰ لگائے جو دین اسلام پر عمل پیرا ہوں؟ شیخ مخلوف مسلمانوں کی صفوں میں انتشار برپا کر رہا ہے اور ایسے وقت میں تفرقہ کی اشاعت کر رہا ہے جبکہ انہیں اتحاد کی بے حد ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کافروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے لَكُمْ دِينَكُمْ وَلِيَ دین.مفتی مصر کو کیا ہو گیا کہ وہ احمدی مسلمانوں کو مخاطب کر رہا ہے اور ان پر کفر کا اتہام لگا رہا ہے.جس نے مومن کو کافر کہا وہ خود کافر ہوا.کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اہل مصر بالخصوص اور دیگر مسلمان بالعموم قرونِ وسطی کی جمود انگیز اور غیر ترقی پذیر روش سے خلاصی حاصل کریں.شیخ مخلوف اور ظفر اللہ خاں کے درمیان نمایان فرق ہے.اول الذکر مسلم غیر عامل ہے.اور اگر شیخ مذکور عمل کرتا بھی ہے تو تفرقہ انگیزی کے لئے ، برخلاف اس کے ظفر اللہ خاں مسلم عامل الخیر ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی آیات میں ہمیشہ ایمان اور عمل صالح کا اکٹھا ذکر کیا ہے.آہ ! ایمان اور عمل صالح کے باوجود مسلمانوں کو کافر قرار دینا کتنا ہی دُور از عقل ہے.بیروت المساء بحوالہ روز نامہ الفضل لاہور مورخہ 10 روفا 1331 ء ہش مطابق 10 جولائی 1952 ء صفحہ 8) مفتی مصر کے لقب کی منسوخی کا مطالبہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پر مفتی مصر کے فتویٰ تکفیر پر صرف تنقید ہی نہیں کی گئی بلکہ مشہور و معروف مصری مصنف ڈاکٹر احمد ذکی بک نے مطالبہ کیا کہ مفتی مصر“ کے لقب کو حکومت آئندہ کے لئے منسوخ قرار دیدے.آپ نے کہا.مفتی مصر نے کس حیثیت سے خارجی مسائل اور معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے وزیر خارجہ پاکستان کے متعلق کفر کا فتویٰ صادر کیا ہے ؟ اور اسے حق کیا پہنچتا ہے کہ وہ حکومتِ پاکستان سے موصوف کو اس عہدہ جلیلہ سے برطرف کرنے کا مطالبہ کرے جبکہ
مصالح العرب.....جلد اول 457 پاکستان ایک علیحدہ آزاد خود مختار مملکت ہے؟ اس نے ہزار ہا میل دور بیٹھ کر یہ مطالبہ سننے اور سنانے کے بغیر کیا ہے اور اس طرح مذہب کے نام پر سب سے بڑی اسلامی حکومت کی پوزیشن کو نازک بنایا ہے.میں پوچھتا کی ہوں و من أعطاه حق الإفتاء ؟ کس شخص نے مفتی کو فتویٰ کا حق دیا ہے اور کس شخص نے مفتی کو مذہب کے نام پر تمام دنیا کے متعلق رائے ظاہر کرنے کی اجازت دی ہے.کیا مصر ہی صرف ایک اسلامی حکومت ہے اس کے سوا اور کوئی حکومت اسلامی حکومت نہیں ہے؟ اور کیا صرف مفتی مصر ہی دنیا میں ایک مفتی ہے اور اسکے سوا اور کوئی مفتی نہیں ہے؟ وفى أى رجل أفتى؟ في رجل صنع للإسلام والمسلمين مالم يصنعه المفتى ولن يصنعه ولو عاش مثل عمره الحاضر.اس نے کس عظیم المرتبت شخص کے متعلق یہ فتویٰ دیا ؟ ہاں اس عظیم شخصیت کے متعلق جس نے اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے لئے وہ کام کیا ہے جو نہ مفتی کر سکا ہے اور نہ آئندہ کر سکے گا خواہ وہ اپنی موجودہ عمر کے برابر بھی زندہ رہے.ان تمام وجوہات کی بناء پر ہم مطالبہ کرتے ہیں:.اول : مفتی الدیار“ کے لقب کی منسوخی کا.کیونکہ وہ ایک فرد کی حیثیت سے ڈکٹیٹر شپ کی نمائندگی کرتا ہے جس کی دین میں کوئی سند نہیں ہے.دوم: مجلس افتاء کے توڑنے کا ، ہاں اس مجلس کو مختلف علمی امور کی تحقیقات کے ایسے حلقے میں بدل دیا جائے جس کا فیصلہ نہ تو کسی کو ملزم بنائے اور نہ ہی کسی مسلمان کو کا فرٹھہرائے.سوم : از ہر یونیورسٹی کے ایک سونو جوانوں کو یونیورسٹی سے فراغت کے بعد علوم جدیدہ کی تحصیل کے لئے دنیا کے ترقی یافتہ علاقوں میں بھیجا جائے تا کہ از ہر یونیورسٹی کو جدید لباس پہنایا جا سکے اور اس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیوی علوم کی تدریس کا بھی انتظام ہو سکے.یہ تبدیلی دور رس نتائج کی حامل ہونی چاہئے تا کہ ” الا زہر ، علمی لحاظ سے ایک جدید یونیورسٹی کی شکل اختیار کرے جس میں صحیح خطوط پر آزادانہ بحثیں ہوں اور اس طرح دین قرآن کریم اور احادیث نبوی کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو اور اسے محض علماء کی سند کی بجائے عقل کی تائید بھی حاصل ہو.( اخبار اليوم عدد 299 مورخہ 28 جون 1952 ء بحوالہ روزنامہ ”الفضل“ لاہور 10 جولائی 1952 ء / 10 وفا 1331 ہش صفحہ (1)
مصالح العرب.....جلد اول مفتی مصر کا بیان 458 مفتی سعصر کو مصری پریس اور شخصیتوں کے احتجاج اور مذمت پر اپنے فتویٰ کے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر یہ بیان دینا پڑا:."إن ما نشر ليس بفتوى رسمية و ليس لها رقم في سجل خاص وإنما هي مجرد حديث دار في مجلس خاص يتضمن رأى فضيلته في هذه المسألة “.(أخبار المصری “ 23 جون 1952ء) یعنی شائع شدہ بیان سرکاری فتویٰ نہیں ہے اور نہ اس کا اندراج خاص رجسٹر میں ہوا ہے اس کی حیثیت ایک نجی مجلس کی گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں اور مسئلہ مذکورہ میں محض ایک شخصی رائے ہے.مفتی مصر نے ایک اور بیان میں کہا: إنه فوجئ نشر حديثه محرفا ومنسوبًا اليه بوصفه الرسمي 66 وباعتباره فتوى صدرت عنه (أخبار المصرى“ 28جون 1952ء بحواله البشرى (حيفا ) ذى الحجه 1371 ه صفحه 120) یعنی انہیں یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ ان کی گفتگو محرف و مبدل کر کے اور فتوی ظاہر کر کے شائع کی گئی ہے.مفتی مصر کو پنشن دیدی گئی بالآخر مفتی حسنین محمد مخلوف ریٹائرڈ کر دیئے گئے.اخبار المصور 12 / مارچ 1954ء) نے لکھا:.”في الأسبوع الماضى أحيل فضيلة الأستاذ الشيخ حسنين محمد مخلوف مفتي الديار المصريه إلى المعاش بعد أن أثار أكثر من مشكلة وأكثر من أزمة “ یعنی گزشتہ ہفتہ شیخ حسنین محمد مخلوف کو پنشن دے دی گئی ہے بعد اس کے کہ انہوں نے بہت سی مشکلیں اور مصیبتیں کھڑی کر دی تھیں.نیز بتایا:.
مصالح العرب.....جلد اول ولم تكن فتاوى الأستاذ الشيخ مخلوف عادية يمر عليها الإنسان مر الكرام بل إن كثيرا منها أثار روائح وعواصف وكان موضع القيل والقال وفى مقدمة هذه الفتاوى.......فتواه في شان الطائفة القاديانية“.(بحواله الفضل 11 ظهور 1343هش صفحه 4-5) 459 یعنی الاستاذ الشیخ مخلوف کے فتاویٰ ایسے معمولی حیثیت کے نہ تھے جن کو انسان بآسانی نظر انداز کر دے بلکہ ان کے اکثر فتوے آندھیاں اٹھانے اور طوفان برپا کرنے کا موجب بنے.یہی وجہ ہے کہ ان پر ہر جگہ اعتراضات کی بوچھاڑ کی گئی.ان قابل اعتراض فتاوی میں سرفہرست قادیانی جماعت سے متعلق فتویٰ ہے.مصر کے شاہ فاروق کا عبرتناک انجام الشیخ حسنین محمد مخلوف تو دو سال کے بعد پنشن یاب ہوئے مگر شاہ فاروق کی نسبت خدائے ذوالجلال کا آسمانی فیصلہ اس نام نہاد فتویٰ کے چند دن بعد ہی نافذ ہو گیا یعنی 23-22 جولا ئی تو 1952ء کی شب کو مصری افواج نے لیفٹیننٹ جمال عبد الناصر کی قیادت میں بغاوت کر دی.مصر وسوڈان کے اس مطلق العنان بادشاہ کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور عسکری انقلاب کے بعد جنرل محمد نجیب مصر کے سر براہ مقرر ہوئے.جنرل محمد نجیب نے بادشاہ کو معزول اور ملک بدر کرنے کے لئے حسب ذیل اعلامیہ جاری کیا:.انه نظراً لما لاقته البلاد في العهد الأخير من فوضى شاملة عمت جميع المرافق نتيجة سوء تصرفكم وعبثكم بالدستور وامتهانكم لإرادة الشعب حتى أصبح كل فرد من أفراده لا يطمئن على حياته أو ماله أو كرامته ولقد ساءت سمعة مصر بين شعوب العالم من تماديكم في هذه المسلك حتى أصبح الخونة والمرتشون يجدون في ظلكم الحماية والأمن والثراء الفاحش والإسراف الماجن على حساب الشعب الجائع الفقير، ولقد تجلت أية ذالك في حرب فلسطين وما تبعها من فضائح الأسلحة الفاسدة وما ترتب عليها
مصالح العرب.....جلد اوّل من محاكمات تعرضت لتدخلكم السافر! مما أفسد الحقائق وزعزع الثقة في العدالة وساعد الخونة على ترسم هذه الخطى فأثرى من أثرى فجر من فجر وكيف لا ؟ والناس على دين ملوكهم لذلك قد فوضنى الجيش الممثل لقوة الشعب أن أطلب من جلالتكم التنازل عن العرش لسمو ولي عهدكم الأمير أحمد فؤاد على أن ذلك في موعودغايته الساعة الثانية يتم عشر من ظهر اليوم السبت الوافق ٢٦ يوليو ١٩٥٢ والرابع من ذى القعدة (۱۳۷۱) ومغادرة البلاد قبل الساعة السادسة من مساء اليوم نفسه والجيش يحمل جلالتكم كل ما يترتب على عدم النزول على رغبة الشعب من نتائج فريق أركان حرب محمد نجيب القائد العام للقوات المسلحة الاسكندرية في يوم ٦٢ يوليو سنة ٢٥٩١.“ 460 ترجمہ: ان آخری ایام میں یہ دیکھتے ہوئے کہ ملک میں عام افراتفری پھیل گئی ہے جس نے زندگی کے تمام شعبوں پر اثر ڈالا ہے.یہ سب کچھ آپ کے ناجائز تصرف اور آئین کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں ہے.عوام کی خواہش کو نظر انداز کیا گیا ہے یہاں تک کہ ہر فرد اپنی جان ، مال اور عزت کو بھی محفوظ نہیں سمجھتا.آپ کی بے جا زیادتیوں کی وجہ سے جملہ اقوام عالم میں مصر کے وقار کو نقصان پہنچا ہے.آپ کے زیر سایہ خائن ، رشوت خور اشخاص ناجائز حمایت بے جا اسراف اور ثروت کا ناجائز اور اندھا دھند استعمال کرتے ہیں اور یہ سب کچھ مفلس اور غریب مصری عوام کے خزانہ سے ہو رہا ہے.یہ کوائف جنگ فلسطین میں منصہ شہود پر آچکے ہیں.ناقص اسلحہ کی خرید و فروخت کے رُسوا کن واقعات ، عدالتوں کے فیصلے جن میں آپ کی شرمناک مداخلت سے حقائق پر پردہ پڑتا رہا، اعتماد اور انصاف کی بے حرمتی ہوئی ، مجرموں کے جرائم کے ارتکاب کے لئے حوصلہ افزائی ہوئی، کئی لوگ بے تحاشا دولتمند ہو گئے اور بدکرداری میں حد کر دی.اور ایسے حالات کیوں نہ رونما ہوتے جبکہ عوام اپنے بادشاہوں کی عادات و خصائل کو ہی اختیار کرتے ہیں.ان حالات کی وجہ سے فوج نے جو دراصل عوام کے اقتدار کی نمائندہ ہے مجھے اختیار دیا ہے
461 مصالح العرب.....جلد اول کہ میں جلالتہ الملک سے مطالبہ کروں کہ آپ ہفتہ کے دن 26 / جولائی 1952ء کو بارہ بجے دو پہر ولی عہد شہزادہ احمد فواد کے حق میں دستبردار ہو جائیں اور اسی روز چھ بجے شام سے پہلے اس کی ملک کو چھوڑ دیں ورنہ فوج عوام کی خواہش سے انکار کے جملہ نتائج کا ذمہ وار آپ کو قرار دے گی.( محمد نجیب کمانڈرانچیف مسلح افواج (اسکندریہ 26 جولائی 1952ء) مصری حکومت نے سابق شاہ کی تمام جائیداد و املاک پر قبضہ کر لیا اور فاروق کو نوٹس دے دیا گیا کہ وہ اپنی جائیداد میں کسی قسم کا تصرف نہیں کر سکتے.اور ان کی تمام خواہشات کو رد کر دیا گیا.شاہ کی ذاتی ملکیت مصر میں دو لاکھ ایکڑ سے زیادہ تھی اور اس کے علاوہ وہ دو کروڑ پونڈ کی دولت کے مالک تھے جو امریکہ اور سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں جمع تھی.شاہی محل میں ایک کمرہ جو قیمتی جواہرات سے لبالب تھا، کئی محلات ، قسم قسم کے پھلوں کے باغات، یہ سب کچھ بحق سرکار ضبط کر لئے گئے اور شاہ فاروق نے اپنے ہاتھ سے پروانہ معزولی یوں تحریر کیا:.أمر ملكي رقم ٢٥ لسنة ١٩٥٢ نحن فاروق الأول ملك مصر والسودان لما كنا نتطلب الخير دائمًا لأمتنا، ونبتغى سعادتها ورقيها وكنا نرغب رغبة أكيدة في تجنيب البلاد المصاعب التي تواجهها في هذه الظروف الدقيقة ونزولا على إرادة الشعب قررنا النزول عن العرش لولى عهدنا الأمير أحمد فؤاد وأصدرنا أمرنا بهذا إلى حضرة صاحب المقام الرفيع على ماهر باشا رئيس مجلس الوزراء للعمل بمقتضاه - فاروق صدر بقصر رأس التين فى ٤ من ذي القعدة سنة ١٣٧١- ٢٦ يوليوسنة ١٩٥٢ ( المصور ( اکتوبر 1952ء) بحوالہ البشرى (حيفا) شمارہ نومبر 1952 ، صفحہ 165-166 ) (ترجمہ) شاہی فرمان نمبر 65 1952ء ہم ہیں فاروق الاول شاہ مصر وسوڈان.چونکہ ہم ہمیشہ اپنی رعایا کی بہبود ، خوشحالی اور ترقی کے خواہشمند رہے ہیں اور ہماری یہ انتہائی خواہش رہی ہے کہ ملک کو مشکلات سے ان نازک حالات میں محفوظ رکھا جائے جن.آجکل وہ دو چار ہے.لہذا عوامی خواہش کے مطابق ہم نے تخت شاہی چھوڑنے اور ولی عہد
مصالح العرب.....جلد اول 462 احمد فواد کے حق میں دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے.وزیر اعظم علی ماہر پاشا اس سلسلہ میں ہے کارروائی کریں.فاروق رأس التین کے محل سے یہ پروانہ 26 جولائی 1952ء کو جاری کیا گیا.عجیب اتفاق بعض اخبارات کے بقول محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے خلاف شاہ فاروق نے فتویٰ اس لئے صادر کروایا تھا کیونکہ چوہدری صاحب نے یہ کہا تھا کہ مسلمان حکومتوں کے سر برا ہوں اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ اپنی زندگی میں اسلامی طریقوں کو رواج دیں اور اسلامی قوانین کی پابندی کریں تا ان کی راستباز زندگی ان کی قوموں کے لئے نمونہ ہو.دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ اگر حکمران صحیح اسلامی تعالیم پر کار بند نہیں ہوں گے تو ان کی رعایا بھی ان کے ہمرنگ ہو جائے گی.اب دیکھیں کہ یہ عجیب اتفاق ہے کہ شاہ فاروق کی معزولی کے پروانہ میں جو فرد جرم عائد کی گئی ہے اس میں یہی مذکورہ بالا الفاظ استعمال ہوئے ہیں.پروانہ معزولی میں شاہ فاروق کی سیاہ کاریوں کا ذکر کر کے عوام کی اخلاقی و دینی گراوٹ کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور آخر میں نتیجہ مندرجہ ذیل الفاظ میں نکالا ہے کہ : ایسے حالات کیوں نہ رونما ہوتے جبکہ عوام اپنے بادشاہوں کی عادات و خصائل کو ہی اختیار کرتے ہیں.“ شاید شاہ فاروق کو اس وقت سمجھ آگئی ہو کہ جس عمومی نصیحت سے زچ ہو کر انہوں نے ایک مؤمن کو دائرہ اسلام سے خارج کروانے کی کوشش کی تھی اسی نصیحت کے نہ ماننے کے جرم میں خود انہیں اپنی مملکت کی حدود سے تہی دست ہو کر نکلنا پڑا.جلا وطنی کا دردناک منظر شاید قارئین کرام جانا چاہیں گے کہ شاہ فاروق کا انجام کیا ہوا؟ شاہ فاروق اپنی معزولی پر دستخط کرنے کے بعد بوقت شام سکندریہ سے اپنے بحری جہاز
463 مصالح العرب.....جلد اول میں بیٹھ کر اٹلی روانہ ہو گئے جہاں 13 برس تک گمنام زندگی بسر کرنے کے بعد 18 / مارچ 1965ء کو اگلے جہان سدھار گئے.مصر سے انکی روانگی کا نظارہ نہایت دردانگیز اور عبرتناک تھا.ملک کو الوداع کہتے وقت شاہ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور انہوں نے اپنا چہرہ شرم کے مارے ڈھانپ لیا.شاہ اس وقت حسرت و یاس اور مایوسی کی تصویر بنے ہوئے تھے اور زبانِ حال سے حضرت مہدی موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل حقیقت افروز عربی اشعار کی عملی تصدیق کر رہے تھے کہ یا مکفری إن العواقب فانظر مآل الأمر للتقى كالعقلاء إني أراك تمیس بالخيلاء أنسيت يوم الطعن والاسراء أيها الغالي وتأتى ساعة تعض يمينك الشلاء من الرحمن" تصنیف 1895ء) تمسی ترجمہ: اے میری تکفیر کرنے والے ! عاقبت تو متقی کی ہے پس دانشمندوں کی طرح آخری انجام پر نظر رکھ.میں دیکھتا ہوں کہ تو مٹک کر ناز سے چلتا ہے کیا تو نے گوچ کے دن اور شام کی روانگی کو بھلا رکھا ہے؟ اے حد سے گزرنے والے تو بہ کر !! وہ گھڑی آنے والی ہے کہ تو اپنے شل ہاتھ کو دانتوں سے کاٹے گا.مصریوں کا رد عمل اور تاثرات شاہ فاروق کی دستبرداری کی خبر مصر ریڈیو نے نشر کی تو ملک بھر میں مسرت و شادمانی کی ایک لہر دوڑ گئی (نوائے وقت (لاہور ) 30 جولائی 1952ء صفحہ 3 کالم (5) حتی کہ برطانیہ میں رہنے والے اکثر مصری باشندوں نے بھی شاہ کا تختہ الٹنے پر اظہار مسرت کیا نیز یہ رائے دی کہ شاہ کے خود غرض اور مطلب پرست حواری ہی شاہ سے ناجائز فائدہ اٹھا کر غیر ممالک میں مصر کے وقار کوٹھیس پہنچانے کا موجب بنے ہیں.( زمیندار (لاہور) 3 راگست 1952 ، صفحہ 3 کالم 1 )
مصالح العرب.....جلد اول 464 سابق وزیر اعظم حسین سری پاشا کے داماد ڈاکٹر محمد ہاشم پاشا نے شاہ فاروق کی پرائیویٹ زندگی کی تفاصیل بے نقاب کیں جن میں ان کی عیش پرستی ، رات کی زندگی ، سرکاری کام میں مداخلت اور بددیانت افسروں سے میل ملاپ پر روشنی ڈالی.(نوائے وقت (لا ہور ( 3 جولائی 1952 ، صفحہ 1 - رائل آٹو موبائل کلب کے صدر شہزادہ عباس حلیم ( شاہ کے بھتیجے ) کے حکم سے کلب کے ان کمروں کو بند کر دیا گیا جن میں شاہ مصریوں کے ساتھ ایک رات میں لاکھوں پاؤنڈ کا جوا کھیلتے تھے.( زمیندار ( لاہور 2 راگست 1952 صفحہ (1) وفد پارٹی کے لیڈر مصطفیٰ نحاس پاشا اور سیکرٹری جرنل فواد سراج الدین پاشا نے انکشاف کیا کہ شاہ فاروق وفد پارٹی کو ختم کرنے کیلئے برطانوی استعمار پسندوں کے اشارات پر اخبارات کو مالی امداد دیتے رہے.اخبار المصری نے لکھا کہ شاہ فاروق کی بے پروائی اور ان کا تشد دان کے اس حسرت ( زمیندار (لاہور) 26 اگست 1952 ء صفحه (1) ناک انجام کا باعث بنے ہیں اور ہمارے سینوں سے ایک بھاری بوجھ اتر گیا ہے.الاخبار نے لکھا آج تاریخ کے ظالم اور جابر بادشاہوں کی فہرست میں شاہ فاروق جیسے ظالم اور تنگ دل بادشاہ کا نام بھی شامل ہو گیا ہے.فاروق ایک ایسا بادشاہ تھا جس نے اپنے عوام بے انصافی ، بددیانتی اور تشدد سے حکومت کی جس نے انصاف اور آزادی کو کچلنے کیلئے شہنشاہیت کو تازیانے کے طور پر استعمال کیا اور جس نے مصر پر غلامی اور افلاس کو مسلط کیا.شاہ فاروق کو عوام نے تخت چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ ان کی کرتوتوں اور بدعنوانیوں نے انہیں تخت سے محروم کر دیا.(نوائے وقت (لاہور) 31 جولائی 1952ء صفحہ 1)(اخبار نوائے وقت (لاہور) نے 12 راگست 1952ء کے پرچہ میں شاہ فاروق کی ملت فروشی اور بدعملی پر ایک خیال افروز مقالہ بھی شائع کیا جولائقِ مطالعہ ہے.) حضرت مہدی موعود کی پیشگوئی حضرت مہدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.نادان مخالف خیال کرتا ہے کہ میرے مکروں اور منصوبوں سے یہ بات بگڑ جائے گی اور
465 مصالح العرب.....جلد اول سلسلہ درہم برہم ہو جائے گا مگر یہ نادان نہیں جانتا کہ جو آسمان پر قرار پاچکا ہے زمین کی طاقت نہیں کہ اس کو محو کر سکے...وہ فرعون جو موسیٰ کو ہلاک کرنا چاہتا تھا اب اس کا کچھ پتہ ہے؟؟ پس یقیناً سمجھو صادق ضائع نہیں ہو سکتا.وہ فرشتوں کی فوج کے اندر پھرتا ہے.بدقسمت وہ جو......66 اس کو شناخت نہ کرے.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 128-129 (تصنیف 1905ء) دہم فرعونیاں چوں ید بیضائے موسیٰ زیں نشانها بدرگاں کور صد را ہر زماں صد نشاں و کراند نشاں بینند غافل بگذرند , (تحفه غزنویه ) (ترجمہ) میں ہر زمانہ میں فرعون صفت لوگوں کو ید بیضا جیسے سینکڑوں نشان دکھاتا ہوں مگر بدفطرت لوگ ان نشانوں کی طرف سے اندھے اور بہرے ہیں اور سینکڑوں نشان دیکھ کر بھی غافل رہے ہیں.ظفر اللہ خان قضیہ فلسطین کے ہیرو قضیہ فلسطین اور جماعت احمدیہ کی خدمات کے مضمون کے آخر پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات کے اعتراف ، آپ کے خلاف فتوی پر ریویو اور دیگر تفاصیل پر مبنی ایک مشہور عربی شخصیت عبدالحمید الکاتب کے مضمون کے بعض حصے یہاں نقل کر دیئے جائیں جو رسالہ ” العربی ماہ جون 1983 ء کے شمارہ میں بعنوان ظفر اللہ خان..بطل قضیہ فلسطین“ شائع ہوا.وہ اس میں لکھتے ہیں : كان صوت محمد ظفر الله خان وزیر خارجية باكستان حينذاك، والذى كان علما بارزا في الأمم المتحدة على مدى عشرين سنة، بمواقفه العظيمة فى كل قضية عربية وإسلامية-- قضية فلسطين، وقضية كشمير وقضية ارتيريا، وقضية
466 مصالح العرب.....جلد اول الجزائر - وكل ما قام وثار من قضايا الشعوب المقهورة وقد توافرت فى ظفرالله خان ثلاث صفات جعلته من أبرز الشخصيات فى الأمم المتحدة فكان وراءه تاريخ حافل في سياسة بلاده، كما كان خطيبا قديرا ومحاميا فذا، وكان حجة في القانون من جانبيه الدولي والإسلامي فأما دوره في سياسة بلاده فلعله كان ثالث الثلاثة الذين تزعموا حركة إنشاء دولة باكستان ---- وأما مقدرته القانونية فقد أهلته فيما بعد ليكون قاضيا في محكمة العدل الدولية ثم رئيسا لها لسنوات عديدة ---- لقد كان مسلما متدينا وكان يؤدى الصلاة في وقتها في قاعة صغيرة عند مدخل مبنى الأمم المتحدة وهو قدياني المذهب ولكنني أعتقد أنه كان يدين بالإسلام على وجه صحیح سلیم.أما قدرته في الخطابة فكانت تشد إليه الأسماع والعقول حتى وهو يرتجل على مدى ست ساعات استغرقت جلستين كاملتين في مجلس الأمن خطابا عن قضية كشمير وحق أهلها في تقرير مصيرهم---- أما بطل الدفاع عن مشروع فلسطين الموحدة فكان محمد ظفر الله خان الذي حشد في دفاعه عن الحق العربي في فلسطين كل مواهبه ومقدرته الخطابية والقانونية والسياسية كما كانت خطبه تنبض بروح إسلامية صادقة وبإيمان قوى بأن الشعب الفلسطيني جدير جدارة الشعب الباكستاني وغيره من شعوب العالم بأن يتحرر من الحكم البريطانى، ومن الزحف الصهيوني، على السواء وقد كافأته إحدى الحكومات العربية على هذا الدفاع المجيد عن الحق العربي في فلسطين وعن كل قضية عربية وإسلامية طرحت على الأمم المتحدة فى ذلك الوقت ، بأن ألصق
467 مصالح العرب.....جلد اوّل به مفتي الديار في مصر تهمة الخروج على الإسلام، بل تهمة الكفر، والعياذ بالله، لأنه طالما كان يقول فى أحاديثه ومحاضراته أن تدهور أمور المسلمين يرجع إلى تدهور أولى الأمر فيهم ولم يرض هذا الكلام ملك مصر حينذاك فصدرت عن المفتى فتواه المشينة ولكن الشعب المصرى كان أكثر وفاء وأحسن تقديرا من ملكه ومن مفتيه ووقف ظفر الله خان على منصة الجمعية العامة للأمم المتحدة يلقى خطابا يفيض بالمرارة - ولكنه أيضا ينظر فيه إلى بعيد ويتنبأ بما سوف يترتب على هذا القرار من نتائج وعواقب، لن تنجو منها تلك الدول التى تحمست واندفعت لتقيم الدولة اليهودية فوق أنقاض الوطن الفلسطينى..قال ظفر الله خان فی خطابه المدوى في ذلك اليوم الحزين تقولون إننا لم نفعل أكثر من أن نأخذ جزء من فلسطين ليقيم فيه اليهود لأن هذا أمر تقتضيه "الإنسانية تجاه هؤلاء المضطهدين“..لو كان ما تقولونه صدقا لقبلتم مقترحاتنا بأن تفتح كل دولة أبوابها لتأوى عددا من اليهود الذين لا وطن لهم ولا مأوى ولكنكم جميعا رفضتم.أستراليا قارة بأكملها تقول لا، فإنا بلد صغير المساحة ومزدحمة بالسكان، وكندا تقول ،لا، فأنا أيضا مساحتى صغيرة وأرضى مكتظة بالسكان والولايات المتحدة، بمثلها الإنسانية العظيمة، وبمساحاتها الشاسعة ومواردها الهائلة تقول: لا ليس هذا هو الحل--- أنصحكم أن تتذكروا الآن أنكم سوف تحتاجون غدا إلى أصدقاء، أنصحكم أن تعرفوا أنكم في حاجة إلى أصدقاء في الشرق الأوسط، فلماذا تجعلون من شعوب تلك البلاد أعداء
مصالح العرب.....جلد اول 468 لكم لا تحطموا بأيديكم مصالحكم في تلك البلاد العربي العدد ۲۹۵ یو نیو ۱۹۸۳ ص ۴۵ الی ۴۹) محمد ظفر اللہ خان صاحب ( جو اُس وقت وزیر خارجہ پاکستان تھے اور اقوام متحدہ میں ہیں سال تک ایک مشہور و معروف شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے رہے ) کی آواز ہر عربی اور اسلامی قضیہ میں انکے عظیم الشان مواقف کی وجہ سے نمایاں رہی خواہ وہ فلسطین کا مسئلہ ہو خواہ کشمیر کا ، خواہ اریٹریا کا ہو یا الجزائر کا، یاوہ کسی بھی مصیبت زدہ اور مظلوم اقوام کا مسئلہ ہو.ظفر اللہ خان صاحب میں تین صفات ایسی تھیں کہ جنکی بدولت وہ اقوام متحدہ میں سب سے نمایاں شخصیت کے مالک بن گئے تھے.آپ کی ملکی سیاست میں کام کرنے کی ایک لمبی تاریخ تھی.نیز آپ ایک قادر الکلام خطیب اور بے مثال وکیل تھے، اسی طرح عالمی اور اسلامی قوانین پر دسترس اور عبور رکھنے کی وجہ سے آپ ان دونوں قوانین میں ایک معتبر حوالہ متصور ہوتے تھے.لیکن جہاں تک آپ کے اپنے ملک کی سیاست میں کردار کا تعلق ہے ہے تو شاید آپ ان تین اہم شخصیات میں سے ایک تھے جنہوں نے قیام پاکستان کی تحریک کی قیادت کی....اور جہاں تک آپ کی قانونی مقدرت کا تعلق ہے تو اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسکی وجہ سے بعد میں آپ عالمی عدالت انصاف کے حج اور پھر کئی سالوں تک اس کے صدر بننے کے اہل قرار پائے.آپ ایک متدین مسلمان تھے ، اور اقوام متحدہ کی بلڈنگ کے دروازے کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں وقت کی پابندی کے ساتھ نماز میں ادا کیا کرتے تھے.آپ قادیانی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ حقیقی اور صحیح معنوں میں دین اسلام پر کار بند تھے.جہاں تک آپ کی قوت خطابت کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ چھ گھنٹوں تک مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے موضوع پر مسلسل خطاب فرماتے رہے اور حاضرین پوری توجہ کے ساتھ ہمہ تن گوش رہے، اس خطاب کو سننے کے لئے سلامتی کونسل میں دو نشستیں مخصوص کرنی پڑیں.محمد ظفر اللہ خان ہی وہ شخص ہے کہ جو فلسطین کے حق کے دفاع میں مرد میدان ثابت ہوا.اس نے فلسطین کے بارہ میں عربوں کے حقوق کے دفاع میں خدا کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے
مصالح العرب.....جلد اول 469 خطابی مقدرت اور قانون و سیاست میں مہارت کے ہر جو ہر کو آزمایا.اس سلسلہ میں آپ کے خطابات حقیقی اسلامی روح سے معمور تھے اور اس یقین سے عبارت تھے کہ فلسطینی عوام کو پاکستانی عوام اور دنیا کی دیگر اقوام کی طرح برطانوی اور صہیونی تسلط سے آزادی کا مکمل حق حاصل ہے.فلسطین میں عربوں کے حقوق اور اقوم متحدہ میں پیش ہونے والے ہر عربی اور اسلامی مسئلہ کے اس قابل قدر دفاع پر آپ کو ایک عربی حکومت نے یہ صلہ دیا کہ مصر کے مفتی نے آپ پر اسلام سے خارج ہونے کی تہمت لگادی بلکہ نعوذ باللہ آپ کے کفر کا فتویٰ صادر کر دیا.کیونکہ آپ اپنے اقوال اور خطابات میں اکثر مسلمانوں کی بدحالی کا سبب مسلمان حکمرانوں کی بدحالی کو قرار دیتے تھے.یہ بات شاہ مصر کو پسند نہ آئی چنانچہ اس ملک کے مفتی کی طرف سے وہ شرم ناک فتویٰ صادر ہوا.تاہم مصری عوام اپنے ملک کے بادشاہ اور مفتی سے زیادہ باوفا اور قدردان ثابت ہوئے.اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سٹیج پر ظفر اللہ خان صاحب کھڑے ہوئے اور ایک دکھ بھرا خطاب فرمایا.اسکے ساتھ ساتھ آپکی نظر مستقبل کی صورتحال پر بھی تھی اور اس فیصلہ کے خطرناک نتائج کے بارہ میں پیشگوئی بھی فرما رہے تھے جن کی زد سے یہ حکومتیں بھی محفوظ نہیں رہیں گی جو آج فلسطین کے کھنڈرات پر یہودی حکومت کے قیام کے داعی اور اس کے لئے پر جوش ہیں.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اس یوم حزین کو اپنی پر شوکت اور گرجتی ہوئی آواز میں کہا: تم یہ کہتے ہو کہ ہم اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے کہ فلسطین کا ایک حصہ لے کر اس میں یہودیوں کو بسا دیں کیونکہ انسانیت کا تقاضا ہے کہ ہم ان مظلوموں کے لئے کم از کم ایسا کر دیں.لیکن اگر یہ بات جو تم کہہ رہے ہو درست ہوتی تو تم ہماری تجاویز قبول کر لیتے اور ہر ملک ان بے وطن یہودیوں کے لئے اپنے دروازے کھول دیتا اور متعدد یہودیوں کو پناہ دے دیتا.لیکن آپ سب نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا.آسٹریلیا ایک پورا براعظم ہونے کے باوجود کہتا ہے کہ ہمارا ملک تو بہت چھوٹا ہے اور نہایت گنجان آباد ہے.کینیڈا کہتا ہے کہ ہماری زمین بھی بہت تھوڑی ہے اور ہماری زمین تو آبادی سے معمور ہے.اور امریکہ اپنی عظیم انسانی اقدار اور اپنی وسیع وعریض اراضی اور بے شمار وسائل کے باوجود کہتا ہے کہ نہیں یہ تو کوئی مناسب حل نہیں ہے.میں نصیحت کرتا
470 مصالح العرب.....جلد اول ہوں اور تمہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ کل تمہیں دوستوں کی ضرورت پڑے گی.کل تمہیں مشرق وسطی میں دوستوں کی ضرورت ہوگی.پھر تم خود ہی ان علاقوں کے لوگوں کو اپنا کی دشمن کیوں بنارہے ہو.ان ممالک میں اپنے فوائد کو خود اپنے ہاتھوں سے تباہ نہ کرو.نمائندہ المصور ( قاہرہ) کے احمدیوں کے خلاف تحریک کے بارہ میں تاثرات قاہرہ کے مشہور اخبار ( المصور ) کی نامہ نگار خصوصی السیدہ امینۃ السید ایجی ٹیشن کے زمانہ میں مصر سے خاص طور پر پاکستان آئیں اور کراچی اور راولپنڈی کے حالات اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کئے.ان کے ذاتی تاثرات کا متعلقہ حصہ درج ذیل ہے.” جب ہم نو گھنٹے کی لمبی مسافت کے بعد راولپنڈی پہنچے تو چونکہ وہاں پر مصری صحافی وفد کی آمد کی خبر پہنچ چکی تھی اس لئے لوگ بڑی کثرت کے ساتھ گاڑی پر پہنچ گئے تا کہ قادیانیت یا احمدی مذہب کے بارے میں ہمیں اپنی رائے سے مطلع کریں.ملک میں لاقانونیت کا آغاز اس طرح ہوا کہ پہلے پانچ آدمیوں کی ایک کمیٹی کراچی گئی جس نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ تمام احمدیوں کو جن میں چوہدری ظفر اللہ خاں بھی شامل ہیں تمام حکومتی عہدوں سے علیحدہ کر دیا جائے.نیز انہیں عیسائیوں ، ہندوؤں اور پارسیوں کی طرح ایک علیحدہ اقلیت قرار دیا جائے کیونکہ احمدیوں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں.کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کے منکر ہیں اس کمیٹی نے حکومت کو چند دن کی مہلت دی جب حکومت پاکستان نے یہ مطالبات منظور نہ کئے اور مدت مقررہ گزرگئی تو ملک کے تمام اطراف میں سول نافرمانی کا اعلان کر دیا گیا مظاہرے ہوئے دکانیں بند کی گئیں اور وسائل آمد و رفت میں تعطل پیدا کی ہو گیا.چونکہ حکومت پاکستان فتنہ پرور اصحاب کی حرکات سے پوری طرح آگاہ تھی اس لئے اس نے اس فتنہ کے لیڈروں کو گرفتار کر لیا اور اس طرح وقتی طور پر بغاوت کی آگ فرو ہو گئی.یہ واقعہ ہے کہ جب ہم دار السلطنت پاکستان (کراچی) میں تھے تو اس تحریک کا آغاز ہوا اور ملک کے مختلف اطراف میں ہمارے ساتھ ساتھ یہ تحریک بھی چکر لگاتی رہی.اس تحریک پر مجھے بہت حیرت تھی کیونکہ قادیانی مذہب یا احمد یہ جماعت تو قریباً سو سال سے قائم ہے اور آج تک اس عقیدہ کے لوگ آزادی اور سلامتی سے بستے رہے ہیں اور ان کی حیثیت مسلمانوں کے دوسرے فرقوں سنی، شیعہ اور وہابی و غیر ہم کی طرح ہے.مجھے حیرت تھی کہ خاص
مصالح العرب.....جلد اول 471 طور پر ان دنوں میں احمدیوں کے خلاف طبائع میں کیوں اشتعال پیدا ہو گیا ہے؟ نیز یہ کہ انہیں عہدوں سے معزول کئے جانے اور اقلیت غیر مسلمہ قرار دینے کے مطالبہ کا حقیقی راز کیا ہے؟ اس سلسلہ میں میں نے بہت جستجو کی اور بہت سے سیاسی اور اجتماعی جماعتوں کے لیڈروں سے بات چیت کی.آخر کار مجھ پر واضح ہو گیا کہ موجودہ ایجی ٹیشن خالص سیاسی تحریک ہے اور اس ایجی ٹیشن کے محرک دراصل پاکستان کے دوست نہیں ہیں اور ان کا حقیقی مقصد اس سے بہت مختلف ہے جیسا کہ ظاہر میں نظر آتا ہے اور حکومت کو اس کا پورا پورا علم ہے وہ بخوبی جانتی ہے کہ اندھیرے میں کون سے ہاتھ یہ تاریں ہلا رہے ہیں اس لئے حکومت نے اس فتنہ کے ذمہ داروں پر سختی سے گرفت کرنے میں ذرا غفلت نہیں برتی.اس بارے میں میں نے پاکستان کے ایک بہت بڑے سیاستدان سے گفتگو کی جو اپنی آزادانہ رائے اور ذاتی اغراض سے بالا ہونے میں معروف ہے اس نے یہ کہتے ہوئے کہ میرا نام ظاہر نہ کیا جائے مجھے بتایا کہ ”بے شک تم ایک ایسی چھوٹی سی مسلم جماعت (جس کی تعداد سات آٹھ لاکھ سے زیادہ نہیں ) کے خلاف اس تحریک کو دیکھ کر دہشت زدہ ہوگی خصوصاً اس لئے کہ جب پاکستان میں لاکھوں کروڑوں سنی، شیعہ، آغا خانی اور وہابی موجود ہیں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے سے مختلف آراء رکھتا ہے تو یہ شور وشر اور ہنگامہ صرف احمدیوں کے خلاف ہی کیوں ہے؟ اس لئے میں اس جگہ معاملہ کی پوری وضاحت کے لئے بتا تا ہوں کہ اس کے لئے قادیانیوں کی ان گزشتہ چند سالوں کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے جب قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنانے کی تحریک شروع فرمائی تھی.اس وقت جماعت احمد یہ جان و دل سے قائد اعظم مرحوم کے دوش بدوش کھڑی ہوئی اور اس جہاد میں اس نے قائد اعظم کی پوری پوری تائید کی اور وہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے تک ہر طرح ان کی مددگار رہی.اس زمانہ میں ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک جماعت احرار کے نام سے موجود تھی وہ لوگ تقسیم ہند یعنی پاکستان بننے کے مخالف تھے انہوں نے مسٹر جناح کا مقابلہ کیا اور ان کی دعوت کی پورے زور سے مخالفت کی.لیکن جب ان کی مرضی کے خلاف پاکستان بن گیا تو انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور ہمارے ساتھ شامل ہو گئے.اگر چہ احرار کا لیڈر اب تک بھارت میں ہے تاہم ان کی اکثریت پاکستان میں آگئی.پاکستان بننے کے دن سے لے کر آج تک جماعت احمد یہ اور احراریوں میں شدید دشمنی ہے جو موجودہ فتنہ کے حقیقی محرک ہیں.
مصالح العرب.....جلد اول 472 (مضمون نگار کہتی ہیں کہ ) میں نے دریافت کیا کہ اگر یہ بات ہے تو احرار نے اپنے مخالفوں سے اس سے پہلے کیوں معاملہ نہیں نپٹایا اور خاص طور پر اس وقت اپنے دیرینہ بغض و کینہ کے نکالنے کیلئے سول نافرمانی کو کیوں ذریعہ بنایا ؟ (اس لیڈر نے جواب دیا کہ ) اس سوال کے جواب کے لئے بعض اور امور کا سلسلہ وار بیان کرنا ضروری ہے.یاد رہے کہ ނ پاکستان کا قیام غیر متوقع طور پر ہوا ہے ان حالات کا تقاضا تھا کہ ہم اپنی پوری کوشش.اپنے وطن جدید کی ابتدا مضبوط حالات سے کرتے اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہم نے ذمہ دارانہ عہدے دینے میں سمجھ دار اور تعلیم یافتہ لوگوں کی قابلیت پر دار ومدار رکھا اور چونکہ احمدی بہت زیادہ تعلیم یافتہ اور مہذب تھے اس لئے ان کو بہت سے ذمہ داری کے منصب سپرد کئے گئے اور احراریوں کو ان عہدوں کے حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی.ایک تو اس لئے کہ وہ تعلیم یافتہ نہ تھے اور دوسرے اس لئے کہ وہ ماضی میں پاکستان بنے کی مخالفت کرتے رہے تھے.“ (المصور قاہر 100 را پریل 1953 ء بحوالہ ”الفرقان ( ربوہ ) فروری ، مارچ، اپریل 1953 ، صفحہ 48-50، مشخص از تاریخ احمدیت جلد 15 صفحہ 482-484) 00000 XXXXXXXXXXXX
حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان رضی اللہ عنہ صدر عالمی عدالت انصاف Muhammad Zafrulla Khan Pree, UN General Assembly حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب جنرل اسمبلی کے سترھویں اجلاس کی صدارت
سعودی عرب کے شاہ فیصل کے ساتھ مراکش کے شاہ حسن ثانی کے ساتھ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مصر کے صدر جمال عبد الناصر سے محو گفتگو ہیں
مصالح العرب.....جلد اول 473 نہر سویز کا قضیہ، تیونس اور مراکش کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ کا کردار مسئلہ فلسطین کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی خدمات کا بتفصیل ذکر کرنے کے بعد اب اس عرصہ میں دیگر عرب ممالک کے لئے جماعت احمدیہ کی بعض خدمات کا تذکرہ کیا جاتا ہے.نہر سویز پر برطانوی فوجیں قابض تھیں جن کی وجہ سے حکومت انگلستان اور حکومت مصر کے درمیان تنازع چل رہا تھا اور چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب (وزیر خارجہ پاکستان) مشرق وسطی کے اسلامی ممالک کے دوسرے مسائل کی طرح اس تنازع کو نمٹانے کی بھی جدو جہد فرما رہے تھے.اس سلسلہ میں آپ نے جنوری 1952ء کے اجلاس سے جنرل اسمبلی کے بعد لنڈن میں برطانوی وزیر اعظم مسٹر ایڈن سے بھی بات چیت کی.برطانیہ نے مصر کو مطلع کر دیا کہ وہ ایک معینہ میعاد کے اندر نہر سویز سے اپنی تمام فوجیں ہٹا لے گا.اخبار الاهرام مصر ( 21 فروری 1952ء) نے یہ خبر دیتے ہوئے لکھا کہ اس فیصلہ میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب وزیر خارجہ پاکستان کی مساعی کا بھاری دخل ہے.( بحوالہ الفضل 22 تبلیغ 1331 ہش بمطابق 22 فروری 1952 ء ) اس کامیاب گفت و شنید کے بعد چوہدری صاحب مشرق وسطی کے دورہ کے سلسلہ میں چار روز تک قاہرہ میں ٹھہرے اور اس قضیہ کو نمٹانے کے لئے مصر کے وزیر اعظم علی ماہر پاشا عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عزام پاشا نیز صلاح الدین پاشا، فوزی بیک (اقوام متحدہ میں مصر کے مستقل مندوب ) اور دیگر زعماء سے ملاقاتیں کیں.اخبار ”زمیندار“ لاہور ( 29 فروری 1952 ء) میں یہ خبر شائع ہوئی.قاہرہ 27 فروری.
مصالح العرب.....جلد اول 474 یہ سر محمد ظفر اللہ خاں وزیر خارجہ کی دوسری ملاقات تھی.سر ظفر اللہ خاں حکومت مصر کے مہمان کی حیثیت سے قاہرہ میں مقیم ہیں.آپ خیر سگالی کے دورہ پر آئے ہیں.سلامتی کونسل میں پاکستان کے متبادل نمائندے محمد اسد نے الگ تھیں منٹ تک وزیر اعظم سے ملاقات کی.سر ظفر اللہ خاں نے عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل غازی کی عبدالرحمن عزام پاشا کے ساتھ لنچ کھایا اور بعد دو پہر آپ نے پاکستانیوں کے اجتماع میں شرکت کی.عربی کے بہترین مصنف شیخ محمد ابراہیم نے ایک دستی لکھا ہوا قرآن مجید سرظفر اللہ خاں کو پیش کیا.سر ظفر اللہ خاں جمعرات کو قاہرہ سے بذریعہ طیارہ کراچی روانہ ہو جائیں گے.اخبار المصری ( قاہرہ ) نے 25 فروری 1952ء کی اشاعت میں آپ کی مصر میں تشریف آوری پر ایک مقالہ افتتاحیہ سپرد قلم کیا.اس میں آپ کی اسلامی خدمات کو سراہتے ہوئے اعتراف کیا کہ آپ کی سرگرمیاں اور دینی صلاحیتوں سے اسلامی ممالک کو بہت فائدہ پہنچا ہے.اقوام متحدہ میں اخبار المصری کے نامہ نگار نے اس سے بھی شاندار الفاظ میں آپ کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ پچھلے تین برسوں میں اسلام اسکے فلسفے اور اس کے مقاصد کے متعلق مغربی طاقتوں کے رویہ میں جو تبدیلی ہوئی وہ اکثر و بیشتر چوہدری ( محمد ) ظفر اللہ خاں کی قابلیت اور فہم و تدبر کے رہین منت ہے.(بحوالہ روزنامہ الفضل 27 تبلیغ 1331 ہش بمطابق 27 فروری 1952 ، صفحہ 8) تیونس اور مراکش کی تحریک آزادی کی حمایت اور دعا تیونس اور مراکش کے جانباز مسلمان ایک عرصہ سے فرانس کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے.مؤتمر عالم اسلامی نے فیصلہ کیا کہ 21 نومبر 1952ء کو دنیا بھر کے مسلمان یوم تیونس و مراکش منائیں.اس فیصلہ کے مطابق حضرت مصلح موعود کی ہدایت پر جماعت احمدیہ نے بھی ان مظلوم اسلامی ممالک کے مطالبہ آزادی کی حمایت میں جلسے کئے اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کو کامیابی بخشے.الفضل 21-22 ماہ نبوت 1331 ہش صفحه (2) چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب وزیر خارجہ پاکستان نے اقوام متحدہ میں ان ممالک کے حق میں پُر زور آواز بلند کی جس کی تفصیل آپ کی خود نوشت سوانح " تحدیث نعمت“ (طبع اول 1971ء ) صفحہ 573-569 میں ملتی ہے.1951ء میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران
.475 مصالح العرب.....جلد اول مراکش اور تیونس کے مسئلے کو ایجنڈا میں شامل کرنے کا سوال پیش ہوا تو آپ ہی کی تقریر اس کی موقع پر سب سے نمایاں تھی.تقریر میں آپ نے امریکہ اور دیگر تمام ایسے ممالک کے طرز عمل کی مذمت کی جوان مسائل کو شاملِ ایجنڈا کرنے کے خلاف تھے.آپ نے جب دوران اجلاس فرمایا کہ اگر ان مسائل پر غور کرنے سے انکار کیا گیا تو مراکش میں قتل وخون ہوگا اور اس کی تمام تر ذمہ داری امریکی نمائندہ پر ہوگی تو امریکی مندوب کا رنگ زرد پڑ گیا.(ملت (لاہور 22 جنوری 1954 ء صفحہ 7) اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کی دعاؤں ، چوہدری صاحب کی کوشش اور اہل تیونس و مراکش کی قربانیوں کو شرف قبولیت بخشا اور یہ دونوں ملک 1956ء میں آزاد ہو گئے.از تاریخ احمدیت جلد 15 صفحہ 416 00000 XXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.....جلد اول 476 الجزائری نمائندہ احتفال العلماء کی ربوہ میں آمد کراچی میں احتفال العلماء کا ایک سہ روزہ اجلاس 16-17-18 فروری 1952 ء کو منعقد ہوا جس میں مسلم ممالک کے 43 علماء نے شرکت کی.21 علماء پاکستان کے تھے اور 22 ایران، انڈونیشیا، عراق، افغانستان، مصر، شام، ہندوستان اور الجیریا سے تشریف لائے.اجلاس نے متفقہ قرارداد کے ذریعہ استعماری طاقتوں کو خبر دار کیا کہ وہ کشمیر اور تمام دوسرے اسلامی ممالک کے متعلق اپنی پالیسی فوراً بدل لیں ورنہ امن عالم خطرہ میں پڑ جائے گا.( زمیندار (لاہور) 19 فروری 1952 ، صفحہ 1) اجلاس میں الجزائر کی نمائندگی علامہ محمد بشیر الابرا ہیمی الجزائری نے کی جو اس ملک کے ایک مقتدر عالم اور قریباً 130 سکولوں کے نگران و ناظم تھے.علامہ موصوف اجلاس کے بعد کراچی میں کچھ عرصہ قیام کے بعد 5 / ہجرت 1331 ہش بمطابق 5 مئی 1952ء کو مرکز احمدیت میں تشریف لائے.آپ کے اعزاز میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے ہال میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں ربوہ کے عربی دان بزرگ اور اصحاب خصوصیت سے شامل ہوئے.تلاوت قرآن عظیم کے بعد الجزائری مندوب کے ترجمان محمد عادل قدوسی صاحب نے آپ کا تعارف کرایا.پھر اہل ربوہ کی طرف سے مکرم مولا نا ابو العطاء صاحب جالندھری مبلغ بلاد عربیہ و پرنسپل جامعہ احمدیہ نے خوش آمدید کہا.آپ نے سب سے پہلے معزز مہمان کا شکر یہ ادا کیا کہ وہ گرمی کے موسم میں سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے ربوہ تشریف لائے جہاں نئی بستی ہونے کی وجہ سے نہ اشجار ہیں نہ پانی کی کثرت اور نہ یہ کوئی بڑا شہر ہے گوانشاء اللہ ربوہ ایک بڑا شہر بن جائے گا لیکن فی الحال اس کی حیثیت ایک چھوٹی سی بستی کی ہے جس میں شہروں جیسے آرام و سامان میسر نہیں آسکتے.
مصالح العرب.....جلد اول 477 ازاں بعد آپ نے بتایا کہ جماعت احمدیہ کے تمام ممبر چھوٹے اور بڑے مرد اور عورتیں سب کے دماغ میں صرف ایک ہی بات سمائی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ اسلام کو تمام دنیا میں پھیلانا اور تمام مسلمانوں کو وحدت کے رشتہ میں پرونا ہے.مولانا ابو العطاء صاحب کی تقریر کے بعد جناب علامہ محمد بشیر ابراہیمی نے الجزائری مسلمانوں کی فرانسیسی انقلاب کے خلاف تحریک آزادی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی جد و جہد آزادی پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ کس طرح طویل جدو جہد کے بعد الجزائر کو غلامی سے نجات ملی.تقریر کا دوسرا حصہ تربیتی رنگ کا تھا جس میں آپ نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ مسلمان قوم پر جو آجکل نکبت واد بار کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس قوم کے ساتھ کوئی دشمنی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسلامی تعلیم بھلا دی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان مسلمان نہیں رہے اور آپ لوگوں کا فرض ہے کہ جہاں آپ یورپ میں اسلامی تعلیمات پھیلاتے ہیں وہاں مسلمانوں کی اصلاح کو مقدم کریں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلمان علماء کی حالت خصوصاً اعمال کے لحاظ سے نہایت ناگفتہ بہ ہے.وہی ساری خرابی کے ذمہ دار ہیں.وہ اسلام کی روح کو بھلا بیٹھے ہیں.آپ کو ان کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے.آخر میں آپ نے فرمایا یہاں میں اجنبیت محسوس نہیں کرتا کیونکہ کثرت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو عربی زبان مادری زبان کی طرح بول سکتے ہیں.آپ کی تقریر کے بعد حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے صدارتی خطاب میں جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کا تذکرہ فرمایا اور دعا پر یہ تقریر ختم ہوئی.الفضل 11 مئی 1952 ، صفحہ 5) ( تاریخ احمدیت جلد 15 صفحہ 119-120 00000
مصالح العرب.....جلد اول 478 بعض عربی کتب و اخبارات کے جماعتی مساعی کے حق میں تبصرے یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض عربی اخبارات کے جماعت احمدیہ اور اس کی تبشیری سرگرمیوں اور تراجم قرآن کے بارہ میں تبصرہ جات بھی نقل کر دیئے جائیں جو اس پورے عرصہ میں مختلف اخبارات ورسائل میں چھپے تھے.ایک نادر شہادت محمد المهدی احکیم بن محمد التقی بن جعفر مؤلف کتاب ”مفتاح باب الأبواب‘ نے مختلف فرقوں کی تاریخ اور ان کے بارہ میں حقائق جمع کئے ہیں.اپنی اس کتاب کے مصری طبعہ کے باب نہم میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں بھی چند جملے تحریر کئے ہیں جو مضمون میں اصل مقام پر درج ہونے سے رہ گئے ہیں اور ریکارڈ کی خاطر انہیں یہاں درج کیا جاتا ہے: پہلے مؤلف موصوف اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے سوا مہدویت و مسیحیت کے کسی دعویدار کو کامیابی نصیب نہیں ہوئی.اس کے بعد لکھتے ہیں: "وميرزا غلام أحمد الآن فى ۷۱ من عمره وهو صحيح الجسم واسع الصدر كريم النفس يعرف اللغة الأردية والفارسية والعربية “ یعنی مرزا غلام احمد کی عمر اس وقت 71 سال ہے اور وہ بالکل تندرست ہیں ، کشادہ سینہ
مصالح العرب.....جلد اول ہے اور کریم النفس ہیں.آپ اردو اور فارسی کے علاوہ عربی زبان بھی جانتے ہیں.عیسائیت پر غلبہ کی شہادت.....اخبار الدفاع، شمارہ نمبر 802 فروری 1937ء میں لکھتا ہے: الإسلام مازال يتوسع في الإندونيسيا وإفريقيا وخصوصا على طول ساحل الذهب ونيجيريا الشمالية بل إنه زاد في التوسع حتى دخل إلى جنوب نيجيريا التي تحتلها دولة مسيحية فقد انتشر رجال الطائفة الأحمدية وتمكنوا من بث دينهم هناك وتفوقوا بذلك على رجال التبشير المسيحى 66 479 ابھی تک اسلام انڈونیشیا اور افریقہ اور خصوصاً گولڈ کوسٹ اور شمالی نائیجیریا میں بڑے پیمانے پر پھیل رہا ہے.بلکہ اب تو پہلے کی نسبت اور بھی وسعت اختیار کر گیا ہے حتی کہ جنوبی نائیجیریا کے اس علاقہ میں بھی داخل ہو گیا ہے جہاں پر عیسائی حکومت کا تسلط ہے.اس علاقے میں احمد یہ فرقہ کے لوگ پھیل گئے ہیں اور وہاں وہ اپنا دین اسلام پھیلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں، نیز وہاں پر انہیں عیسائی مبلغین پر واضح برتری حاصل ہوگئی ہے.زندہ اور بیدار فرقہ رسالہ التمدن الا سلامی دمشق نے لکھا: اسلام کی طرف منسوب ہونے والے تمام فرقوں میں سے صرف قادیانی فرقہ ہی زندہ اور بیدار فرقہ ہے اس فرقہ کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ نہیں لیکن اس کے یورپ اور مشرق میں پھیلے ہوئے تبلیغی مشن ، مساجد اور مدارس دیکھنے سے آپ کو یقین ہو جائے گا کہ سچا اور مخلص مومن کون ہے اور کاذب کون؟“ رسالہ ” العرفان نے لکھا: تبلیغ واشاعت اسلام سے متعلق جماعت احمدیہ کی جدو جہد کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ اعلائے کلمہء اسلام کا عظیم الشان کام کر رہی ہے.العرفان ذوالقعدہ ذوالحجہ 1358ھ )
مصالح العرب.....جلد اول احیاء شریعت کے لئے کوشاں بارے میں لکھا:.480 احمد درویش زقزق شام نے 1946ء میں احمدی داعیان کی تبلیغی مساعی کے ” خدا کا ہزار ہزار شکر ہے کہ میں موجودہ زمانہ میں وہ پہلوان پاتا ہوں جو اسلامی شریعت کے احیاء کے لئے کمر بستہ ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی نصرت کر رہے ہیں.الصراط المستقیم (بغداد) نمبر 126 نے 1947ء میں لکھا."لم يستطع المسلمون نشر صحيفة واحدة بلغة أفرنجية تبين حقائق الدين الإسلامى ولم يتمكن المسلمون إلى اليوم من مع تأسيس مسجد أو جمعية في بلد من بلاد أوروبا، القاديانيين الأحمديين أسسوا مساجد كثيرة في كثير من بلاد أوروبا وأمريكا ولهم جمعيات فى تلك البلاد وهم ينشرون صحفا كثيرة باللغة الإنجليزية وغيرها أن «مسلمانان عالم آج تک یورپین زبان میں دین اسلام کے حقائق پر مشتمل ایک اخبار بھی شائع نہیں کر سکے.انہیں آج تک یہ توفیق نہیں ملی کہ وہ یورپ کے کسی شہر میں مسجد یا مشن کی بنیاد رکھیں.لیکن قادیانی احمدیوں نے امریکہ اور یورپ میں بہت سی مساجد تعمیر کی ہیں ان ممالک میں ان کے کئی مشن ہیں.انگریزی اور دیگر کئی زبانوں میں ان کے اخبارات بھی جاری ہیں.اخبار آخر دقیقه دمشق ( بابت 18 / ربیع الاول 1322ھ ) نے لکھا ہے کہ: احمدیوں کی نسبت سب کو معلوم ہے کہ وہ دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کر رہے ہیں.احمدی ہمیشہ مذہبی گفتگو کرنے کے لئے تیار اور مخالفین اسلام کو ساکت کرنے اور ان کے شکوک وشبہات کا ازالہ کرنے کے لئے کمر بستہ رہتے ہیں.“ احمدی مبلغین کو خراج عقیدت محلة الأزهر الشريف نے اپنے شمارہ الجزء الرابع ربیع الثانی 1365ھ میں
مصالح العرب.....جلد اول یورپ میں تبلیغی جہاد کے لئے جانے والے مبلغین کرام کی آمد پر لکھا: " وصل إلى لفربول تسعة من المبشرين المسلمين يلبسون العمامة والملابس الشرقية قادمين من بومباى وقد اعتزموا أن يشتركوا مع فريق آخر من العلماء وصلوا من قبل إلى بريطانيا أن ينشروا الدين الإسلامي فى الجزر البريطانية والقارة الأوروبية وكلهم من طائفة الأحمدية، وسيخصص ثلاثة من هؤلاء العلماء لبريطانيا ومثلهم لألمانيا واثنان لفرنسا وآخران لإسبانيا ومثلهما لإيطاليا.“ 66 481 لیور پول میں نو مسلم مبلغین پہنچے ہیں جنہوں نے پگڑیاں اور مشرقی لباس زیب تن کیا ہوا ہے، اور سب کے سب بمبئی سے تشریف لائے ہیں.یہ نومبلغین قبل از میں تشریف لانے والے دیگر علماء کے ساتھ مل کر جزائر برطانیہ اور یورپ میں دین اسلام کی تبلیغ کے کام کے لئے پر عزم ہیں.سب کے سب مبلغین کا تعلق احمد یہ فرقہ سے ہے.ان میں سے تین علماء برطانیہ میں تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیں گے جبکہ تین جرمنی میں، دو فرانس میں اور دو دو ہی سپین اور اٹلی میں تشریف لے جائیں گے.اس طرح کے ایک تبلیغی وفد کے بارہ میں مصر کے ایک جریدہ ” اخبار اليوم“ نے اپنے شمارہ 68 بتاریخ 26 فروری 1946ء میں لکھا: "وفد على أوروبا ثلاثة عشر مسلمًا هنديا ليبشروا أوروبا بدين الإسلام وليبشروا أهل هذه القارة التى هدمتها وأشقتها المادية العمياء بهذه الديانة الروحية السمحة ويتألف هذا الوفد من جماعة من الشباب المؤمن بدينه المتحمس لنشره وأكبرهم سنا في الرابعة والأربعين وينزل هذا الوفد ضيفا على مولانا شمس إمام مسجد لندن وهو هندى مسلم تبحر في دراسة الإسلام وقام على رعاية شؤون الإسلام في بريطانيا وأمكن أن يحول نفرا من الإنجليز بعضهم من البارزين المثقفين إلى الدين الإسلامي ---- وتبدى الدوائر الدينية فى أوروبا اهتماما خاصا
مصالح العرب.....جلد اول بهذه الحركة التي لم يسبق لها مثيل ويبدو أنهم يخشون أن تنجح في تحويل عدد كبير من أبناء أوروبا إلى الدين الإسلامي في وقت تزعزعت فيه عقيدة كثيرة من الناس حتى اضطرت الكنيسة الإنجليزية أن ترصد مليونا من الجنيهات للتبشير بالمسيحية بين أهل بريطانيا أنفسهم 66 482 تیرہ ہندوستانی مسلمانوں پر مشتمل ایک وفد اہل یورپ میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سر انجام ینے کیلئے پہنچا ہے، تا کہ اس براعظم کو جسے اندھی مادیت نے روحانی طور پر پاش پاش کر دیا ہے اسلام کی دینی روحانی اور تحمل و رواداری پر مشتمل تعالیم کی تبلیغ کریں.یہ وفد نو جوان مبلغین پر مشتمل ہے جو اپنے دین کی تبلیغ کے لئے پر جوش ہیں.ان میں سے سب سے بڑے ممبر کی عمر 44 سال ہے.یہ وفد مولانا شمس صاحب امام مسجد لندن کے ہاں مہمان کے طور پر ٹھہرے گا جنہوں نے اسلامی تعلیمات کا نہایت گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہوا ہے اور برطانیہ میں اسلامی امور کی انجام دہی کے فریضہ پر مامور ہیں.آپ برطانیہ میں انگریزوں کی ایک جماعت کو دین اسلام سے روشناس کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں جن میں سے کئی نامور تعلیم یافتہ شخصیات بھی ہیں.یورپ کے دینی حلقوں میں اس بے نظیر جماعت (احمدیت ) کو بہت اہمیت اور خاص مقام دیا جا رہا ہے.اور ایسے لگتا ہے کہ اہل یورپ اس بات سے خائف ہیں کہ کہیں یہ جماعت بڑی تعداد میں یورپین لوگوں کو دین اسلام میں داخل نہ کر لے، خصوصاً ایسے وقت میں جبکہ اکثر لوگوں کے عقیدہ کو زبردست دھچکا لگا ہوا ہے حتی کہ انگریزی کلیسا کو کئی ملین سٹرلنگ پونڈ اہل برطانیہ میں ہی عیسائیت کی تعلیم وتبلیغ کے لئے مختص کرنے پڑے ہیں....اخبار الجزيرة عمان (اردن) مورخہ 12 / جون 1949 لکھتا ہے: نرى من واجبنا الاعتراف بنشاط دعاة الحركة الأحمدية وما يبذلون من الجهود في سبيل نشر الديانة الإسلامية ولا سيما في مجاهل أفريقيا وأواسطها وفي أمريكا ہم اس بات کا اعتراف کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے مبلغین بڑی ہمت اور تندہی سے اپنا کام کرتے ہیں اور اسلام کے پھیلانے کے لئے بہت جدو جہد کر رہے ہیں.
مصالح العرب.....جلد اول 483 افریقہ کے غیر آباد علاقوں اور وسط افریقہ اور امریکہ میں تو ان کی یہ کوششیں اور بھی زیادہ ہیں.“ * اخبار الفتح، قاہرہ نے اپنے شمارہ بتاریخ 30 / ربیع الثانی 1351ھ میں امیر عادل ارسلان کا مضمون شائع کیا جس میں انہوں نے لکھا: "أما القاديانية فهم كمبشرين البروتستانت والكاثوليك ذوو نشاط وغيرة دينية وقد رأيت بعض دعاتهم في الولايات المتحدة وعلمت أن أتباعهم لا يقلون عن مئتي ألف ولو كان دعاتهم بيض اللون لبلغ أتباعهم الملايين ولكن هنود سود، واللون في أمريكا هو كل شيء“ جہاں تک قادیانی فرقہ کا تعلق ہے تو وہ عیسائی فرقوں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کی طرح بہت فعال اور دینی غیرت رکھنے والے ہیں.میں امریکا میں ان کے بعض مبلغین سے ملا ہوں اور ان سے مجھے معلوم ہوا کہ انکی تعداد دو لاکھ سے کم نہیں ہے.اگر ان کے مبلغین سفید فام ہوتے تو آج ان کے پیروکاروں کی تعداد ملیز تک پہنچ چکی ہوتی.لیکن انڈین تو سیاہی مائل رنگ کے ہوتے ہیں جبکہ امریکا میں تو رنگ ہی سب کچھ ہے.نیو یارک سے عربی زبان میں شائع ہونے والے اخبار ”البیان“ نے اپنی 17 مئی 1932ء کی اشاعت میں صوفی مطیع الرحمن بنگالی صاحب کے بارہ میں لکھا: "إن سماحة المفتى صوفى مطيع الرحمن البنغالي أحد دعاة الأحمدية في شيكاغو قد زار مؤخرا بعض المدن الأمريكية......و ألقى عدة محاضرات على ألوف من الناس في نواديها في موضوع الدين الإسلام وكان الإقبال على سماع محاضراته عظيما وأسفرت نتيجة مساعيه التبشيرية عن نجاح كبير حيث اعتنق الإسلام ثمانية عشر رجلا على يده 66 جناب صوفی مطیع الرحمن بنگالی صاحب جو کہ احمدیت کے مبلغین میں سے ایک ہیں نے پچھلے دنوں امریکہ کے بعض شہروں کا دورہ کیا اور ان شہروں کے مختلف کلبوں اور مجالس میں کئی ہزار افراد کے مجمعوں میں دین اسلام کے موضوع پر کئی لیکچر دیئے.انکے لیکچر سننے کے لئے آنے والوں کا جوش قابل دید تھا.انکی تبلیغی کوششیں بہت بڑی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت
مصالح العرب.....جلد اول 484 ہوئیں چنانچہ اس دورہ کے دوران 18 افراد ان کے ذریعہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے.یزی و جرمن ترجمہ قرآن کریم اور عربی اخبارات کا خراج تحسین مشہور اخبار النصر“ میں لکھا ہے کہ : جماعت احمدیہ نے امریکہ اور یورپ کے براعظموں میں ثقافت اسلامیہ کی اشاعت کا نمایاں کام کیا ہے اور یہ کام لگا تار مبلغین کی روانگی سے ہورہا ہے اور مختلف کتب و اشتہارات کی اشاعت سے بھی جن کے ذریعہ فضائل اسلام اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو بیان کیا جاتا ہے.ہمیں قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ دیکھ کر بہت ہی خوشی ہوئی ہے یہ ترجمہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کی زیر نگرانی کیا گیا ہے.ترجمہ قرآن مجید جاذب نظر اور ان ناظرین کے لئے قرۃ العیون ہے.یہ ترجمہ بلند پایہ خیالات کا حامل ہے.کاغذ نہایت عمدہ ہے قرآنی آیات ایک کالم میں درج ہیں اور دوسرے کالم میں بالمقابل ان کا ترجمہ کر دیا گیا ہے.بعد ازاں مفصل تفسیر کی گئی ہے.مطالعہ کرنے والا ان تفاسیر جدیدہ میں مستشرقین اور یورپین معاندین کے اعتراضات کے مفصل جوابات پاتا ہے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اس ترجمہ کے ساتھ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بھی تحریر فرمائی ہے اور یہ سیرت و تر جمہ بے نظیر ہیں.(روز نامه النصر‘ 16 ستمبر 1948ء)‘ الاخبار (دمشق) نے مندرجہ ذیل عنوان سے خبر شائع کی :.جماعت احمدیہ کی طرف سے قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ اپنی مثال آپ ہے.“ ( الفضل 28 نبوت 1327 ہش بمطابق 28 نومبر صفحہ 5 سے ماخوذ از مضمون شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ بلاد عربیه بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 675-676) 66......اخبار" "وكالة الأنباء العربية “ نے لکھا: " والترجمة الإنكليزية تفوق كل ترجمة سبقتها من حيث الإتقان وجودة الورقة والطبع والانسجام وصدق الترجمة الحرفية وتفسيرها تفسيرا مسهبا بأسلوب جديديدل على علم
مصالح العرب.....جلد اول غزيز وإطلاع واسع على حقائق الدين الإسلامي الحنيف وتعاليمه السامية.والكتاب الثمين في مجموعه دفاع عن الإسلام ورد على خصومه وخاصة المستشرقين، يبطل مزاعمهم بأسلوب علمى رائع...ومما يجدر ذكره بأن المسز زمرمان الكاتبة الهولندية المعروفة قامت بترجمة القرآن المجيد من الإنكليزية إلى الهولندية وما كادت تفرغ من ترجمتها حتى كانت قد اعتنقت الإسلام.“ 485 ( وكالة الأنباء العربية عمان والقاهرة عدد 1/205 تاریخ 6/2/1949) یعنی یہ انگریزی ترجمہ ، ترجمانی کی اعلیٰ درجہ کی مہارت، طباعت کی نفاست اور چھپائی کے لئے استعمال ہونے والے کاغذ کی کوالٹی لفظی ترجمہ کی صحت اور اصل نص کے مفہوم کے ساتھ موافقت، نیز جدید انداز کی مفصل تفسیر کے لحاظ سے گزشتہ تمام تراجم پر سبقت لے گیا ہے.اور یہ سب کچھ مترجم کے گہرے علم اور دین اسلام کے حقائق اور اس کی بلند مرتبت تعلیمات کے بارہ میں وسعت اطلاع پر دلالت کرتا ہے.یہ نہایت قیمتی کتاب مجموعی طور پر اسلام کے دفاع سے عبارت ہے اور دشمنان اسلام اور مستشرقین کے اعتراضات کا اعلی پیرایہ اور علمی انداز میں رڈ اور بطلان ہے.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہالینڈ کی معروف مصنفہ مسز زمرمان جب ڈچ زبان میں اسکا ترجمہ کرنے لگیں تو ترجمہ مکمل کرنے کے ساتھ ہی وہ مسلمان بھی ہو گئیں.اخبار الاردن‘ نے لکھا: "بدأ الناس يعجبون بالرغم من أنهماكهم في أمور دنياهم) بنشاط الحركة الأحمدية وجهادها لنشر الإسلام في القارات الخمس ومن أعظم ما قام به الأحمديون في السنوات التي تلت الحرب ترجمتهم القرآن المجيد للغات الأجنبية الحية كالإنكليزية والألمانية والأفرنسية والروسية والإيطالية والأسبانية وغيرها، تحت إرشاد إمام الجماعة الأحمدية حضرة ميرزا بشير الدين محمود أحمد ---
مصالح العرب.....جلد اول وإن المطالع لهذا التفسير الجديد يرى أن حضرة إمام الجماعة الأحمدية في دفاعه عن الإسلام إنما يدافع عن الدين الحى الذي يجد الناس كافة فيه السبيل القاصد للقاء ربهم وخاصة في الوقت الذى تعددت الطرق على السالكين فابتعدوا بها عنه - - - ولإتمام الفائدة ألحق هذه الترجمة النفيسة بسيرة مسهبة للنبي ل بقلمه، فجاءت هذه السيرة غاية في الإتقان والأسلوب صلى الله والمواضيع“.486 الأردن‘ عمان تاریخ 21/11/1948) لوگ اپنے دنیاوی امور میں مصروف و مشغول ہونے کے باوجود جماعت احمدیہ کی مساعی اور پانچوں براعظموں میں اسلام پھیلانے کے سلسلہ میں اسکے جہاد کو سراہنے لگے ہیں.جنگ عظیم کے بعد جماعت احمدیہ کے بڑے بڑے کاموں میں سے ایک عظیم کام جماعت کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے زیر نگرانی قرآن کریم کا کئی عالمی زبانوں میں ترجمہ وتفسیر ہے.جن میں انگریزی، جرمن، فرانسیسی، روسی ، اطالوی ،سپینش وغیرہ شامل ہیں.اس نئی تفسیر کا مطالعہ کرنے والا ضرور دیکھے گا کہ حضرت امام جماعت احمد یہ اسلام کے دفاع میں درحقیقت اس زندہ دین کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں جو تمام انسانیت کو اپنے رب سے وصال کے طریق بتاتا ہے، خصوصا ایسے وقت میں جبکہ سالکین کے متعدد طریق سامنے آئے ہیں جن پر چل کر وہ در حقیقت زندہ خدا سے قریب ہونے کی بجائے دور ہو گئے ہیں.مترجم نے فائدہ عام کی خاطر اپنے قلم سے اس نفیس ترجمہ کے ساتھ مفصل سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل کر دی ہے.جو مہارت و باریک بینی ، مسحور کن انداز اور ترتیب مواضیع کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ کی سیرت کہلانے کی مستحق ہے.جامعہ الازہر کے زیر نگرانی شائع ہونے والے ”مجلة الازہر“ نے ”نقد الکتب.القرآن المقدس" کے عنوان کے تحت ڈاکٹر محمد عبد اللہ ماضی کا جماعت کے تراجم قرآن کریم پر ریویو شائع کیا ہے جسکا کچھ حصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے، لکھتے ہیں: "هذه الترجمة أو هذا الكتاب يحتوى على مقدمة مفصلة وعلى
487 مصالح العرب.....جلد اول ترجمة معاني القرآن باللغة الألمانية والمقدمة كتبها رئيس الطائفة الأحمدية الحالى حضرة ميرزا بشير الدين محمود أحمد أما الترجمة نفسها فقد اختبرتها فى مواضع مختلفة وفي كثير من الآيات في مختلف السور ، فوجدتها من خير الترجمات التي ظهرت للقرآن الكريم في أسلوب دقيق محتاط، ومحاولة بارعة لأداء المعنى الذى يدل عليه التعبير العربي المنزل لآيات القرآن الكريم وقد نبه المترجم إلى أنه ليس في الاستطاعة نقل ما يؤديه الأسلوب العربي المحكم من الروعة البلاغية وسمات الإعجاز التي هي من خصائص القرآن إلى لغة أخرى، فهى خصائص انفرد بها كتاب الله المنزل فى أسلوبه العربي الذي نزل به من عند الله على نبيه المرسل، والذي لا تبديل فيه ولا تحريف، فهو يمثل كلام الله في معناه وفى مبناهـ ولهذا فمن باب الاحتياط جعل النص العربى بحوار الترجمة الألمانية حتى يستطيع القارئ أن يقارن ويختار بنفسه المعنى الذي تطمئن نفسه إلى صحته وعلى وجه الخصوص اختبرتُ ترجمة الآيات التي تتعلق بالقتال والجهاد في سبيل الله بحثا عما عساه يكون قد ضمن الترجمة مما يتصل بما يراه الأحمديه فى الجهاد ويخالفون به جماعة المسلمين حيث إنهم يقولون: "إن الجهاد يجب ألا يقوم على امتشاق الحسام بل يجب أن يقوم على وسائل سلمية....اختبرت ترجمة هذه الآيات المشار إليها فوجدتها سليمة لا تتضمن أدنى الإشارت إلى هذا الذى كنت أخشى أن تتضمنه وفى المقدمة أورد كاتبها بحوثا إسلامية فلسفية قيمة وقسمها إلى قسمين: تحدث فى القسم الأول منها عن حاجة البشرية التي اقتضت نزول القرآن وبين أن الإسلام كان من تعاليمه
مصالح العرب.....جلد اول وحدة الإله، وكان من عوامل توحيد البشرية فذكر أنه لما ارتقت البشرية وأصبح الناس على اتصال يكونون جماعة واحدة ، أصبحوا في حاجة إلى تعاليم سماوية شاملة، تشمل الناس جميعا، وتصلح لهم في كل زمان ومكان، وتدلّهم على قدرة الله وعظمة رب الناس كافة فكان القرآن هو الذى أدى تلك الرسالة جميعها ---- وفي القسم الثاني من المقدمة كان الحديث عن بناء القرآن فذكر المؤلف ما سبق أن تعرض له من بيان أن القرآن هو الكتاب المقدس الذى يمثل كلام الله المنزل والذي حفظه الله من كل تحريف وتبديل، وتحدث في هذا الصدد عن المحافظة على القرآن بكل الوسائل المختلفة فى عهد الرسول من كتابة عن الوحى وتقييده ومن وعى الحفاظ له وتحدث كذلك ترتيب الآيات والسور مبنيا أن ذلك كان بوحى من الله نزل على نبيه ------ وإذا صرفنا النظر عن بعض التلميحات العامة غير الصريحة المتصلة بمذهب الأحمدية فى الجهاد____فإننا نجد أن المقدمة بقسميها اشتملت في الجملة على بحوث إسلامية رائعة ونقلت صورة من الأفكار والتعاليم الإسلامية المتعلقة 488 بالقرآن في ثوب وإطار إسلامي إلى اللغة الألمانية--- ولكن نعم ولكن ، مع الأسف الشديد ختمت هذه المقدمة بفصل عن المسيح المنتظر (مرزا غلام احمد)...وحبذا لو كان من المستطاع فصل هذا الجزء الأخير عن الترجمة وعن المقدمة، والعمل على نشرهادون هذا الجزء فإنه لو أمكن ذلك لكان فيه خير كثير (مجلة الأزهر الجزء الثامن، المجلد الثلاثون القاهرة فبراير سنة ١٩٥٩ یہ ترجمہ یا یہ کتاب ایک مفصل مقدمہ اور جرمن زبان میں ترجمہ و تفسیر قرآن پر مشتمل
489 مصالح العرب.....جلد اول ہے.یہ مقدمہ جماعت احمدیہ کے موجودہ امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کا رقم فرمودہ ہے.جہاں تک ترجمہ کا تعلق ہے تو میں نے مختلف سورتوں کی بہت سی آیات کے ترجمہ کو مختلف مقامات پر چیک کیا ہے اور اسے قرآن کریم کے منظر عام پر آنے والے جملہ تراجم میں سے بہترین ترجمہ پایا ہے جو نہایت باریک بینی اور احتیاط سے کیا گیا ہے، اور قرآن کریم کی نازل شدہ آیات کے عربی محاورہ کا قریب ترین مفہوم ادا کرنے کی ایک قابل قدر کوشش ہے.مترجم نے اس بات کی طرف خاص طور پر اشارہ کیا ہے کہ عربی زبان کے نہایت محکم اور غایت درجہ کے بلاغت اور اعجاز کی خصوصیات کے حامل محاورہ کا من وعن ترجمہ دوسری زبان میں ادا کرنا تقریبا محال ہے.کیونکہ یہ وہ خصوصیات ہیں جو عربی زبان و اسلوب میں خدا کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے قرآن کریم کا ہی خاصہ ہیں جس میں نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے نہ تحریف، کیونکہ وہ لفظا ومعنی خدا کا کلام ہے.اس بات کے پیش نظر جرمن ترجمہ کے ساتھ قرآن کریم کی عربی نص کو بھی رکھا گیا ہے.تا کہ پڑھنے والا خود ہی موازنہ کر کے وہ معنی اخذ کر لے جس کی صحت کے بارہ میں اسکی طبیعت میں اطمینان پیدا ہوتا ہو.میں نے ان آیات کا ترجمہ بالخصوص چیک کیا جو قتال اور جہاد فی سبیل اللہ سے متعلق ہیں، کہ شاید اس ترجمہ میں ایسے افکار کی آمیزش ہو جو جماعت احمد یہ جہاد کے بارہ میں رکھتی ہے اور جس میں جماعت احمد یہ تمام مسلمانوں سے اختلاف رکھتی ہے.کیونکہ وہ کہتی ہے کہ جہا د تیرو تفنگ سے نہیں بلکہ پر امن وسائل کے ساتھ ہونا چاہئے.چنانچہ میں نے ان مذکورہ بالا آیات کا ترجمہ چیک کیا تو اسے بالکل درست پایا اور اس میں جس بات کا مجھے ڈر تھا اسکا ادنیٰ اشارہ بھی نہ پایا.مقدمہ میں مؤلف نے فلسفیانہ رنگ میں بلند پایہ اسلامی بحوث درج کی ہیں اور اسے دو قسموں میں تقسیم کیا ہے.جن میں سے پہلی قسم میں دنیا کی اس طبعی ضرورت کا بیان کیا ہے جو نزول قرآن کی متقاضی تھی.اور یہ واضح کیا ہے کہ اسلام کی تعالیم کا جزو اعظم خدا تعالیٰ کی وحدانیت ہے جو کہ تمام بنی نوع انسان کی توحید کا ضامن ہے.اور جب انسانی ارتقاء ہوا تو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات استوار کرنے لگے اور ایک جماعت کی تشکیل کے لئے کوشاں ہو گئے.چنانچہ ایسی صورت میں وہ ایک مکمل آسمانی تعلیم کے محتاج تھے جو تمام انسانوں کے لئے ہو اور ہر زمان و مکان کے لئے ہو.اور انہیں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اسکی
مصالح العرب.....جلد اول 490 عظمت پر اطلاع دے.چنانچہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جس نے ان تمام ضرورتوں کو پورا کیا ہے اور یہ کام سرانجام دیا.مقدمہ کی دوسری قسم میں مؤلف نے قرآن کریم کی محکم بناوٹ اور گزشتہ کتب اور انکی حالت کے بارہ میں ذکر کیا ہے.اور یہ کہ قرآن کریم ہی وہ مقدس کتاب ہے جو درحقیقت خدا تعالیٰ کا نازل ہونے والا کلام ہے اور جسے اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی تحریف و تبدیل سے محفوظ رکھا ہے.اس ضمن میں مؤلف نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد باسعادت میں مختلف وسائل سے قرآن کریم کے محفوظ رہنے کا ذکر بھی کیا ہے جن میں کتابت وحی اور مختلف حفاظ کے ذریعہ اسکا محفوظ ہونا شامل ہے.اسی طرح ترتیب آیات و سور کے ضمن میں مؤلف نے لکھا ہے کہ یہ سب کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ وحی کے مطابق تھا.اگر ان بعض خفیف اور غیر واضح قسم کے اشارات سے صرف نظر سے کام لیا جائے جو احمدیت کے تصور جہاد سے متعلق ہیں تو ہمارا خیال ہے کہ یہ مقدمہ اپنی دونوں اقسام کے ساتھ نہایت مفید اور بے مثال اسلامی بحوث پر مشتمل ہے اور جرمن زبان میں قرآن کریم سے متعلق اسلامی تعالیم اور افکار کی ایک حسین صورت پیش کرتا ہے.ہاں مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ مقدمہ آخر پر مسیح منتظر ( مرزا غلام احمد ) کے بارہ میں ایک باب پر ختم ہوتا ہے اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس باب کو اس ترجمہ اور مقدمہ سے الگ کر کے شائع کیا جاتا.کیونکہ اگر ایسا کیا جاتا تو یہ بہت ہی مفید ہوتا.احمدیت اسلام کا روشن مستقبل 66.....رساله "هافوعيل ما تصعير تل ابیب نے 25 / مارچ 1953 ء کو لکھا: "لا شك أن للأحمدية في تاريخ الإسلام فضل یعنی بلا شبہ تحریک احمدیت کو تاریخ اسلام میں خصوصی مقام حاصل ہے.الحاج عبد الوہاب العسکری (بغداد کے صحافی) لکھتے ہیں : جماعت احمدیہ نے دین اسلام کی جو خدمات سرانجام دی ہیں.ان میں تبلیغی لحاظ سے وہ ساری دنیا پر فوقیت حاصل کر چکے ہیں.یہ لوگ اعلائے کلمتہ الدین کے لئے ہر قسم کے ممکن ذرائع اختیار کرتے ہیں اور ان کے بڑے بڑے کارناموں میں سے محکمہ تبشیر ایک بہت
مصالح العرب.....جلد اول 491 بڑا کارنامہ ہے نیز وہ مسجدیں ہیں جو انہوں نے امریکہ ، افریقہ اور یورپ کے مختلف شہروں میں بنائی ہیں اور یہ وہ سنت ناطقہ ہے جس کو لے کر وہ کھڑے ہوئے ہیں اور اسی کے ذریعہ اسلامی خدمات بجالا رہے ہیں.بلا شبہ جماعت احمدیہ کے ہاتھوں اسلام کا مستقبل ا روشن ہو گیا ہے.“ (ماخوذ از مجلۃ البشری مجلد 46 مارچ 1989، تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 532-533) عبدالوہاب العسکری کی ربوہ میں آمد الحاج الدكتور عبد الوہاب العسکری (ایڈیٹر ” السلام البغدادیہ) کا ذکر چلا ہے تو آپ کے ربوہ میں تشریف لانے اور کچھ دیر قیام کرنے کے بارہ میں بھی مختصرا یہیں پہ کچھ درج کرتے جاتے ہیں.آپ عراق کی طرف سے مؤتمر عالم اسلامی کے نمائندہ تھے.1951ء کے شروع میں سلسلہ احمدیہ کے جدید مرکز ربوہ میں تشریف لائے.24 جنوری کو جامعہ المبشرین میں آپ کے اعزاز میں ایک اہم جلسہ منعقد کیا گیا.جس کی صدارت شیخ نور احمد صاحب منیر سابق مبلغ دمشق نے کی.اس جلسہ میں الدکتور عبدالوہاب العسکری نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: و تقسیم ملک کے بعد جو تبا ہی آئی اس سے جس طرح دوسرے مسلمان محفوظ نہیں رہے آپ لوگ بھی اس کی زد سے نہیں بچ سکے.لیکن اتنی بڑی تکالیف کو برداشت کرنے کے بعد اس علاقہ میں آپ جس قسم کی جدو جہد کر رہے ہیں اور اپنی زندگی کا جو ثبوت آپ لوگوں نے پیش کیا ہے وہ ہمارے لئے قابل تقلید ہے اور میں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا ہوں.سبقت کی جو روح آپ لوگوں میں پائی جاتی ہے اور آپ جس تیز رفتاری سے ترقی کر رہے ہیں بلاشک یہ حضرت صاحب المقام الجلیل امام جماعت احمدیہ کی خاص تو جہات کا نتیجہ ہے.“ پھر کہا:.میں نے آپ کی جماعت کو بہترین جماعت پایا ہے جو نیکی کا حکم دیتی ہے نماز قائم کرتی ہے زکوۃ دیتی ہے.خدا تعالیٰ نے جو کچھ انہیں دیا ہے خرچ کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے رستہ میں جہاد کرتی ہے.ان صفات کی مالک جماعت اس لائق ہے کہ اس کا مستقبل شاندار اور روشن ہو کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی ہمیشہ مدد کرتا ہے.“ (الفضل 7 تبلیغ 1330 ش صفحہ 4)
مصالح العرب.....جلد اول 492 وطن جانے کے بعد الدکتور عبدالوہاب العسکری نے اپنی کتاب ” مشاہداتی فی سماء الشرق میں بھی یہی رائے ظاہر کی.ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد نمبر 8 صفحہ 140) کل اور آج میں فرق ایک وقت تھا جب جماعت احمدیہ کا دفاع اور جہاد اور اسلام کی اشاعت کی مساعی کو قابل قدر نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا.اس وقت جماعت احمدیہ کے ان تراجم قرآن کے بارہ میں علماء یہ رائے رکھتے تھے کہ اس سے بہتر ترجمہ پہلے کبھی نہیں ہوا.اور یہ تفسیر در حقیقت اسلام کے حقیقی دفاع سے عبارت ہے.شاید اس وقت انکے پاس اس کے سوا اور کوئی اعتراض نہ تھا کہ ان تراجم و تفاسیر کے ساتھ مسیح موعود علیہ السلام مرزا غلام احمد قادیانی کا ذکر نہ کیا جائے.اب سوچنے کا مقام ہے کہ کیا جماعت احمدیہ نے اپنا طریق تبلیغ بدل لیا ہے ، یا نعوذ باللہ اسلام کی بجائے کسی اور دین کی اشاعت کرنے لگی ہے؟ کیونکہ اگر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تو یہی علماء آج انہی تراجم قرآن کو تحریف ، اسی اشاعت اسلام کو تضلیل ، اور اسی دفاع اسلام کو نئے دین کا پرچار کیوں قرار دے رہے ہیں.جب کوئی منصف حقائق کے آئینے میں ان امور کا تجزیہ کرتا ہے تو وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ محض حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کی عداوت میں ان لوگوں نے حقائق کو مسخ کیا، جنون کو عقل اور عقل کو جنون قرار دیا، اور اسلام کی سرحدوں کے محافظوں کو غدار کہنے کی جسارت کی ہے.ان سے پہلے لوگوں میں کسی قدر حیا اور حقیقت پسندی اور انصاف کا پاس تھا.اس لئے انکے تبصرے کسی قدر حقیقت پر مبنی تھے.بعد میں آنے والوں نے اپنی آنکھوں پر تعصب اور عداوت کے پردے ڈال کر حقائق سے پہلو تہی اختیار کی ہے جس کی وجہ سے صواب رائے سے محروم ہو گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے: أنظر إلى أقوالهم و تناقض سلب العناد إصابة الآراء تو ان کی باتوں اور ان میں موجود تضاد کو دیکھ کہ کس طرح دشمنی نے ان سے درست رائے سلب کر لی ہے.00000
مصالح العرب.....جلد اول 493 قضیہ فلسطین سے متعلق چند اور امور چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات کا ذکر پاکستانی پریس میں مسئلہ فلسطین میں جماعت احمدیہ کی خدمات اور عربی اخبارات میں جماعت احمدیہ کی مساعی کی پذیرائی کے بیان کے بعد اب ہم اس عرصہ اور اس کے بعد کے بعض اور واقعات اور تاریخی حالات کا ذکر کرتے ہیں.حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اس زمانہ میں مسلمانان فلسطین کی حمایت میں جو عظیم الشان کارنامے انجام دیئے ان کی دھوم سارے عالم اسلام میں مچی ہوئی تھی.اس تعلق میں پاکستانی پریس کی چند خبر میں بطور نمونہ یہاں درج کی جاتی ہیں.(1) لندن یکم جون (اسٹار ) لبنانی سفیر ڈاکٹر وکٹر خوری نے لیک سیکس سے واپسی ہے مجلس اقوام میں عرب مقاصد سے پاکستان کی ہم آہنگی پر پسندیدگی کا اظہار کیا.اور کہا: چودھری ظفر اللہ خاں ایک بیش قیمت اور قابل ساتھی ہیں.(انقلاب لاہور 13 جولائی 1949 ء صفحہ 4 (2) پیرس سٹار نیوز ایجنسی ۲۰ ستمبر : پاکستان کے وزیر خارجہ چودھری سر محمد ظفر اللہ خاں کا نام یہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کے لئے بہت زور دار طریقے سے لیا جا رہا ہے.انہوں نے اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں اس قدر شہرت حاصل کی ہے کہ ان کا درجہ دنیا کے بہترین پارلیمنٹری سیاست دانوں میں قائم ہو گیا ہے.لیگ آف نیشن میں ان کے تجربے کا بھی بہت سے لوگوں کو احساس ہے.ان کے سب سے زیادہ حامی عرب اقوام کے وفود ہیں.وہ ان کے لئے اپنے تمام ووٹ
مصالح العرب.....جلد اول 494 دینے کے لئے تیار ہیں.اس کے علاوہ وہ دیگر ممالک کے ووٹ بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے.خاص طور پر لاطینی امریکہ کے ممالک کے ووٹ حاصل کئے جائیں گے.انقلاب لاہور 22 ستمبر 1948ء صفحہ 6 کالم 3 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 121-122 ) حضرت مصلح موعود کا اہم پیغام فلسطینی احمدیوں کا نام حضرت مصلح موعودؓ نے 15 مئی 1948ء کو رتن باغ کے مشاورتی اجلاس میں ارشاد فرمایا شام والوں کو لکھا جائے کہ کسی نہ کسی طرح کہا بیر والوں کو اطلاع دیں کہ تنگی کے دن ہیں صبر سے گزار لیں اور کسی قیمت پر بھی کہا بیر کی زمین یہود کے پاس فروخت نہ کریں.تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 122 ) اسرائیلی تسلط میں جماعت احمد یہ کہا بیر کا مضبوط عزم و ہمت 1948ء کا سال احمدیہ مشن فلسطین کی تاریخ میں انتہائی پرفتن اور پر ابتلاء تھا.ارض مقدس میں بڑی بڑی طاقتوں کی سازش نے مسلمانان فلسطین کے سینے میں اسرائیلی حکومت کا خنجر گھونپ دیا.ایسے حالات میں بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ فلسطین کی توفیق بخشی کہ اس نے نہایت جانبازی اور سرفروشی کا ثبوت دیتے ہوئے اسلام کا جھنڈا اس علاقہ میں بلند رکھا اور اس کے مرکز حیفا کی مسجد میں پنجوقتہ اذانوں کی گونج سنائی دیتی رہیں.مارچ 1948ء سے ستمبر 1948ء تک یہاں قیامت برپا رہی.یہاں کے دس لاکھ مسلمان عربوں میں سے ساڑھے آٹھ لاکھ مسلمان عرب جلا وطن اور بے خانماں ہو کر پڑوس ممالک میں پناہ گزین و خیمہ زن ہو گئے اور عیسائی دنیا کی خیرات اور اسلامی ممالک کے صدقات پر بسر اوقات کرنے لگے.جولائی سے نومبر تک یہودیوں نے جلیل وغیرہ کے علاقوں میں بالائی ہدایتوں کے مطابق جنگ جاری رکھی.اور سابقہ فلسطین کا 2/3 سے زیادہ حصہ یہودیوں کے قبضہ میں چلا گیا.ماہ جون 1948ء میں یہودیوں نے اسرائیل کی پہلی مردم شماری کی.اس وقت ملک اسرائیل میں پچیس ہزار کے قریب غیر یہودی تھے.جن میں سے دس ہزار کے قریب ۶
مصالح العرب.....جلد اول 495 تھے اور باقی دیگر غیر ملکی تھے اور یہ اس علاقہ کا حال تھا جہاں نومبر 1947 ء میں ساڑھے چار لاکھ عرب رہتے تھے !!! گزشتہ حکومت نے مارچ 1948ء میں سلسلہ آمد ورفت ورسل ورسائل بند کر دیا تھا.ریلیں بند کر دی تھیں اور سب لوگوں کو سوائے یہودیوں کے جنہوں نے گزشتہ حکومت میں ایک یہودی حکومت بنارکھی تھی ) اپنے اپنے علاقوں اور گھروں میں محصور کر دیا تھا.15 رمئی سے جب یہودیوں نے حکومت اسرائیل قائم کرنا شروع کردی، غیر یہودیوں کو اپنی اپنے جائے رہائش میں بند رکھا اور ان پر ملٹری رول نافذ کر دیا.اپنے جائے رہائش سے دوسری جگہ جانے کے لئے ملٹری پرمٹ لینے کا حکم دے دیا.پرمٹ دو باتوں کے لئے بعد تحقیقات ملتا تھا.کوئی دوسری جگہ ملازمت یا مزدوری کرتا ہو یا قریب ترین خونی رشتہ دار کی ملاقات کے لئے.23 / اپریل 1948ء کو یہودیوں نے حیفا پر بھی قبضہ کر لیا اور 24 اور 25 / اپریل کو ملحقات حیف پر بھی تسلط قائم کر لیا.چنانچہ جبل کرمل پر واقع عرب آبادی کہا بیر بھی ان کے قبضہ میں آگئی.صبح ہوتے ہی چاروں اطراف سے مسلح فوجوں نے محاصرہ کر لیا اور اہل کہا بیر کے سامنے دوشرطیں پیش ہوئیں.ہجرت کرنا چاہیں تو ہتھیار وغیرہ دے کر ہجرت کر جائیں.یہاں کی رہنا چاہیں تو ہتھیار وغیرہ اور جس قدر سپاہی آپ کے پاس مقیم ہوں وہ ہمارے سپرد کر دیں.اہل کہا بیر نے اپنے گھر بار اور وطن کو چھوڑ کر جانا گوارا نہ کیا بلکہ ارشاد نبوی مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِهِ وَ عَرْضهِ فَهُوَ شَهِيدٌ ( جو اپنے مال اور عزت کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے) پر عمل کرنے کا عزم کر لیا.چونکہ اہل کہا بیر کے پاس کوئی سپاہی پناہ کیلئے آیا نہ تھا لہذا مغرب تک گوشہ گوشہ کی تلاش و تفتیش کر کے کلیئر قرار دیئے گئے.15/ اگست 1948 ء سے جون 1949 ء تک سارے اسرائیل میں صرف ہماری مسجد سید نامحمود سے ہی پانچ وقت اذان بلند ہوتی رہی.باقی سب مساجد مہجور ہوگئیں.1947ء میں جس قدر عربی اخبارات و رسائل اس ملک میں شائع ہوتے تھے اب ان میں سے صرف ہمارا رسالہ (البشری ) ہی تھا جو جاری رہا.اگر چہ پہلے بھی سارے فلسطین میں سے کوئی بھی اسلامی دینی رسالہ شائع نہیں ہوتا تھا مگر اب تو ہر قسم کے رسائل و اخبارات و کتب پر بھی قیامت برپا ہو چکی تھی.(ماخوز از تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 129 تا 131 )
مصالح العرب.....جلد اول خلافت کی اطاعت کی برکات 496 فلسطینیوں کی جد و جہد کو نقصان پہنچانے والے عوامل میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اکثر فلسطینیوں نے اپنے علاقوں سے ہجرت کرنی شروع کر دی.اور جو باقی رہ گئے انہوں نے بھاری رقوم کے بدلے یہودیوں کو اپنی جائیداد میں فروخت کر دیں.مہاجر ہو کر جب یہ مظلوم دیگر ممالک میں گئے تو وہاں ان کو خیمہ بستیوں میں رہنا پڑا اور معمولی ماہانہ وظیفہ گزارا کرنا پڑا.ایسے حالات میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی اہل کہا بیر کو یہ نصیحت کہ تنگی کے دن ہیں صبر سے گزار لیں اور کسی قیمت پر بھی کہا بیر کی زمین یہود کے پاس فروخت نہ کریں نہایت پر حکمت تھی.اس پر عمل کر کے نہ صرف فلسطینی احمدیوں نے اپنی زمین و جائیداد اپنے قبضہ میں رکھی بلکہ در بدر کی ٹھوکروں سے بھی محفوظ رہے.اور اس ملک میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تبلیغ جاری رکھی.اہل کبابیر کی اہل قادیان سے مشابہت مکرم عبد الله اسعد عودہ صاحب جماعت احمد یہ کہا بیر کے قدیم احمدی ہیں وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں ایک خط لکھا جس کے جواب میں حضور نے انہیں فرمایا کہ: "إن أهل الكبابير يتشابهون بأهل قاديان لأن كلا الحزبين مقيم في مركزهم الأول كأنهم نواة خير ينتشر منها ذكر الجماعة في البلاد فلذلك لهم مكانة سامية عند الله، فاحفظوا هذه الدرجة دائمًا كان الله معكم 66 یعنی اہل کبابیر اہل قادیان سے مشابہت رکھتے ہیں کیونکہ دونوں اپنے پہلے مرکز میں مقیم ہیں.اس لحاظ سے دونوں گویا خیر کے بیج کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان سے ارد گرد کے علاقوں میں جماعت کا ذکر پھیل رہا ہے.اس لئے دونوں کا اللہ کے نزدیک بڑا مقام ہے.پس اس مقام و مرتبہ کا ہمیشہ خیال رکھیں، اللہ آپ کے ساتھ ہو.
مصالح العرب.....جلد اول 497 جاہلیت میں اہل عرب کی خوبیاں (ایک علمی لیکچر ) مئی 1947ء میں شام کے مخلص احمدی مکرم منیر الحصنی صاحب قادیان میں تھے.اس موقعہ پر آپ نے 21 رمئی 1947 ء بعد نماز مغرب زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کی خوبیوں کے موضوع پر عربی میں تقریر کی.جس کے بعد پروگرام کے مطابق دوستوں کو سوالات کا موقع دینا تھا لیکن ان کی تقریر کے بعد چونکہ وقت کم رہ گیا تھا اس لئے دوستوں کو سوالات کا موقع نہ مل سکا.تاہم 26 مئی کو نماز مغرب کے بعد مجلس عرفان میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:.السید منیر الحصنی صاحب کا لیکچر تو اُس روز ہو گیا تھا مگر سوالات کا حصہ رہ گیا تھا اس کے متعلق دوستوں کو اب موقع دیا جاتا ہے اگر دوستوں نے کچھ سوالات کرنے ہوں تو وہ کر سکتے ہیں.اس پر تین دوستوں نے سوالات کئے اور معزز لیکچرار نے ان کے جوابات دیئے.اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے نہایت علمی رنگ میں بعض امور بیان فرمائے.چونکہ ان امور کا عرب ممالک کی سیاسی وادبی تاریخ سے بہت گہرا تعلق ہے اور انکے بعض پہلوؤں پر نہایت بصیرت افروز روشنی ڈالی گئی ہے اس لئے ہم ان کو مختصرا یہاں درج کر دیتے ہیں.حضور نے فرمایا: یہ تقریر جو منیر الحصنی صاحب نے کی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ عرب کے لوگوں میں قبل از اسلام بھی بعض خوبیاں پائی جاتی تھیں اور جن دوستوں نے اعتراضات کئے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ آیا یہ خوبیاں اُن عربوں میں عام تھیں یا خاص.اگر یہ خوبیاں ان میں عام پائی جاتی تھیں تو قرآن کریم کی اس آیت کا مفہوم جو ہم لیتے ہیں غلط قرار پاتا ہے کہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي
498 مصالح العرب.....جلد اول الْبَرِّ وَالْبَحْرِ.اور اگر وہ خوبیاں خاص خاص لوگوں میں پائی جاتیں تھیں تو کچھ خوبیاں تو قریباً ہر قوم میں ہی پائی جاتی ہیں اور اس وجہ سے عربوں کی کوئی خصوصیت باقی نہیں رہتی..اصل بات یہ ہے کہ منیر الحصنی صاحب شام سے آئے ہوئے ہیں اور اس وقت شام اور لبنان میں ایک تحریک پیدا ہو رہی ہے جس سے وہ متاثر ہیں اور اسی سے متاثر ہو کر انہوں نے یہ مضمون بیان کیا ہے لیکن اس امر کو میں بعد میں کسی وقت بیان کروں گا پہلے میں پس پردہ والے حصہ کو لیتا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں کہ وہ کیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ عرب میں کچھ عیسائی آباد ہیں اور کچھ مسلمان، عیسائی کم ہیں اور مسلمان زیادہ ہیں.جب عربوں کا ترکوں کے ساتھ اختلاف ہوا اور عربوں نے دیکھا کہ ترک ہمیشہ ہم پر مظالم کرتے آئے ہیں اور انہوں نے ہماری آزادی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی ہیں تو ان کے اندر حریت اور آزادی کی روح بیدار ہوئی.سیاسی طور پر جب کسی ملک میں آزادی کی روح پیدا ہو تو وہ ساری قوموں کے اتحاد کی خواہاں ہوتی ہے.جب عربوں کے اندر آزادی کی روح پیدا ہوئی اور اُنہوں نے بلا لحاظ مذہب و ملت ایک ہونا چاہا تو جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف مستقبل کے حالات پر نظر کر کے قو میں ایک نہیں ہوسکتیں بلکہ اتحاد کے لئے ماضی کی روایات پر بھی حصر کیا جاتا ہے اور پرانی باتوں کو تاریخوں سے نکال نکال کر کہا جاتا ہے کہ ہم ایک ہیں اس لئے ہمیں دشمن کے مقابلہ میں متحد ہو جانا چاہئے...اگر ایک قوم اپنے آپ کو الگ قرار دے دے اور دوسری الگ تو اتحاد کس طرح ہو سکتا ہے.عرب کے متعصب عیسائی پادریوں نے جب دیکھا کہ اتحاد کی کوششیں ہو رہی ہیں تو انہوں نے اس سے ناجائز فائدہ اُٹھانا چاہا اور انہوں نے یہ کوششیں شروع کر دیں کہ عرب چاہے متحد ہو جائے لیکن عیسائیت کو غلبہ حاصل ہو جائے.چنانچہ میں نے اسی قسم کے متعدد پادریوں کی بعض کتابیں پڑھی ہیں جن میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کے کوشش کی ہے کہ عربی زبان اصل میں اریک یعنی آرامی زبان ہے اور اسی زبان کی مدد سے عربی زبان نے ترقی اور ارتقاء حاصل کیا ہے.ان عیسائی مصنفین نے عربی الفاظ اريمك زبان کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کی ہے مثلاً استفعال کا لفظ ہے، انہوں نے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ است ار کمک لفظ ہے اور اسی سے عربوں نے استفعال بنالیا ہے یا ان اريمك لفظ ہے اور اسی سے عربوں نے انفعال بنا لیا ہے حالانکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس موضوع پر بحث فرمائی ہے حقیقت یہ ہے کہ
مصالح العرب.....جلد اول 499 عربی زبان اپنے اندر بہت بڑا فلسفہ رکھتی ہے اور یہ فلسفہ کسی اور زبان میں نہیں پایا جاتا.مثلاً دوسری زبانوں میں الفاظ زبان کی اصل ہیں لیکن عربی زبان میں الفاظ نہیں بلکہ حروف زبان کی کی اصل ہیں.شرب عربی زبان میں پینے کو کہتے ہیں مگر یہ معنی شرب کے نہیں بلکہ ش رب کے ہیں چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ش رب کسی ترتیب سے عربی میں آجاویں ان کے مرکزی معنی قائم رہیں گے خواہش رب ہو، خواہ ش ب رہو، خواہ ربش ہو.غرض ہر حالت میں مرکزی معنی قائم رہیں گے گویا عربی زبان میں حروف، ترتیب حروف اور حرکات حروف کے مجموعہ سے لفظ کے معنی پیدا ہوتے ہیں.اور یہ قاعدہ ایسا ہے کہ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے جب قدیم ترین زبانوں کو دیکھا جائے تو قاعدہ ابدال کے مطابق تغیرات کے ساتھ ہزاروں ایسے الفاظ ان میں پائے جاتے ہیں جو اصل میں عربی ہیں اور چونکہ ان لفظوں کو نکال کر وہ زبانیں بالکل بے کار ہو جاتی ہیں اس لئے مانا پڑتا ہے کہ وہ زبانیں مستقل نہیں بلکہ عربی سے ہی متغیر ہو کر بنی ہیں لیکن انہوں نے اریمک زبان کو عربی زبان پر فضلیت دینے کے لئے یہ کہہ دیا کہ عربی زبان نقل ہے اریمک زبان کی ، جو در حقیقت یہودیوں کی زبان تھی.دوسری تدبیر انہوں نے یہ کی کہ یہ کہنا شروع کر دیا کہ عرب کے مشہور اور اعلیٰ درجہ کے تمام شعراء عیسائی تھے.چنانچہ اس کے ثبوت میں انہوں نے قیس اور اخطل اور دوسرے شعراء کے نام پیش کر دیئے اور کہا کہ عرب کے اعلیٰ درجہ کے شاعر سب عیسائی تھے اور انہوں نے ہی عربی زبان کو معراج کمال تک پہنچایا ہے.گویا اس وجہ سے کہ مسلمان چاہتے تھے ہم ترکوں کے مقابلہ میں متحد ہو جائیں عیسائی پادریوں نے جو سخت متعصب تھے سمجھا کہ اس سے زیادہ اچھا موقع عیسائیت کے غلبہ کا اور کوئی ہاتھ نہ آئے گا اور یہ ایسا وقت ہے کہ ہم جو کچھ بھی کہیں گے مسلمان قبول کرتے جائیں گے اور ہماری کسی بات کی تردید نہیں کریں گے.اُس وقت حالت بالکل ایسی ہی تھی کہ اگر مسلمان عیسائیوں کی ان باتوں کی تردید کرتے اور کہتے کہ شعراء تمہارے نہیں بلکہ ہمارے اچھے ہیں تو آپس میں اُلجھ کر رہ جاتے اس لئے مسلمانوں نے اسی میں اپنی بھلائی سمجھی کہ ان کی کسی بات کی نفی نہ کی جائے تاکہ یہ ہم سے خوش ہو جائیں.پس مسلمانوں کی اس مجبوری سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے متعصب عیسائیوں نے اپنی کتابوں میں بے حد مبالغہ سے کام لیا اور یہ ثابت کرنا چاہا کہ عربی لغت اریمک کی ممنونِ احسان ہے اور عربی زبان میں جس قدر کی ترقی ہوئی ہے وہ عیسائی شعراء کے ذریعہ ہوئی ہے.باقی رہا اصل سوال تو وہ یہ ہے کہ اگر
مصالح العرب.....جلد اول 500 اسلام سے پیشتر بھی عربوں کے اندر خوبیاں پائی جاتی تھیں تو اسلام کی فوقیت اور اُس کا مایہ الا متیاز کرہ کیا ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی قوم کے اندر بعض خوبیاں چاہے وہ قومی ہوں یا انفرادی پایا جانا اور بات ہے اور ایک ایسی خوبی اس کے اندر ہونا جو اُسے تمام دنیا کا اُستاد بنا دے اور بات ہے.اسلام یہ نہیں کہتا کہ عربوں کے اندر پہلے کوئی خوبی نہ تھی اور نہ ہی ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي البَرِّ وَالبَحْر کا یہ مفہوم ہے کہ اسلام سے پہلے عربوں میں کوئی خوبی نہ تھی.اس کے بعد حضور نے مختلف واقعات کی روشنی میں مفصل طور پر اس مضمون پر روشنی ڈالی اور آخر پر فرمایا: عربوں نے اس طرح اسلام کو قبول کیا اور پھر ساری دنیا میں پھیلایا کہ دنیا حیران رہ گئی اور وہ ایک قلیل عرصہ میں دنیا کے معتد بہ حصہ پر اسلام پھیلانے کا موجب ہوئے.پس عربوں کا بالقوہ نیکی کا انکار کوئی اندھا ہی کرے تو کر سکتا ہے لیکن عقل اور دماغ رکھنے والا انسان کبھی اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ عربوں کے اندر جو بالقوہ نیکی موجود تھی وہ اور کسی قوم کے اندر نہ تھی.الفضل 3 ، 5 ،12،9،8،7 ستمبر 1961ء) 00000 XXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.....جلد اول 501 ربوہ کو تر ا مرکز توحید بناکر......( دعوت اتحاد) ربوہ کے افتتاح کے موقعہ پر 20 ستمبر 1948ء کو حضرت مصلح موعود نے ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا جس میں دعاؤں اور دیگر اہم امور کے علاوہ جماعت احمدیہ کو عالمی وحدت کا پلیٹ فارم قرار دیا جس میں عربوں کا خاص طور پر ذکر فرمایا.ذیل میں اس حصہ کو پیش کیا جاتا ہے.”جب تک احمدیت دنیا میں غالب نہیں آ جاتی.اسلام غلبہ نہیں پاسکتا.اور یہ اتنی موٹی بات ہے کہ میں حیران ہوں مسلمان اسے کیوں نہیں سمجھتے اور کیوں وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ باوجود الفت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ دنیا میں کیوں ذلیل ہورہے ہیں.سیدھی بات ہے مسلمان اس وقت پچاس کروڑ ہیں اور احمدی پانچ لاکھ مگر چار پانچ لاکھ احمدی جتنی اسلام کی خدمت کر رہا ہے جس قدر اسلام کی تبلیغ کر رہا ہے اور جس قدر اشاعت اسلام کے لئے قربانیاں پیش کر رہا ہے اتنی پچاس کروڑ مسلمان نہیں کر رہا.اس وقت دنیا کے گوشہ گوشہ میں احمدی مبلغ پھیلے ہوئے ہیں اور وہ عیسائیت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور مقابلہ بھی معمولی نہیں بلکہ بڑی بڑی عیسائی طاقتوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ ان کا مقابلہ مؤثر ہے.یہ طاقت ہم میں کہاں سے آئی ہے؟ اور یہ جوش ہم میں کیوں پیدا ہوا؟ اسی لئے کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم میں ایک آگ پیدا کر دی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ پھر دوبارہ اسلام کو دنیا میں غالب کر دیں.پس مسلمان احمدیت کا جتنا بھی مقابلہ کرتے ہیں وہ اسلام کے غلبہ میں اتنی ہی روکیں پیدا کرتے ہیں اور جتنی جلدی وہ احمدیت میں شامل ہو جائیں گے اتنی جلدی ہی اسلام دنیا میں غالب آ جائے گا.حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جس قدر تحریکیں دنیا میں جاری ہیں وہ ساری کی ساری دنیوی
مصالح العرب.....جلد اول 502 ہیں صرف ایک تحریک مسلمانوں کی مذہبی تحریک ہے اور وہ احمدیت ہے.پاکستان خواہ کتنا بھی مضبوط ہو جائے کیا عراقی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں.کیا شامی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں.کیا لبنانی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں.کیا حجازی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں.شامی تو اس بات کے لئے بھی تیار نہیں کہ وہ لبنانی یا حجازی کہلائیں حالانکہ وہ ان کے ہم قوم ہیں.پھر لبنانی اور حجازی اور عراقی اور شامی پاکستانی کہلا نا کب برداشت کر سکتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ فوراً تو اتحاد کر سکتے ہیں مگر وہ ایک پارٹی اور ایک جماعت نہیں کہلا سکتے.صرف ایک تحریک احمدیت ہی ایسی ہے جس میں سارے کے سارے شامل ہو سکتے ہیں عراقی بھی اس میں شامل ہو کر کہہ سکتا ہے کہ میں احمدی ہوں.عربی بھی اس میں شامل ہو کر کہہ سکتا ہے کہ میں احمدی ہوں.حجازی بھی اس میں شامل ہو کر کہہ سکتا ہے کہ میں احمدی ہوں اور عملاً ایسا ہو رہا ہے.وہ عربی ہونے کے باوجود اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم احمدیت میں شامل ہیں جس کا مرکز پاکستان میں ہے اور اس طرح وہ ایک رنگ میں پاکستان کی ماتحتی قبول کرتے ہیں مگر یہ ماتحتی احمدیت میں شامل ہو کر ہی کی جاسکتی ہے اس کے بغیر نہیں.چنانچہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ عربی جو اس غرور میں رہتا ہے کہ میں اس ملک کا رہنے والا ہوں جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے میرا مقابلہ کوئی اور شخص کہاں کر سکتا ہے وہ احمدیت میں شامل ہو کر بر عظیم ہندو پاکستان کا بھی ادب و احترام کرتا ہے اور یہاں مقدس مقامات کی زیارتوں کے لئے بھی آتا ہے.غرض ایک ہی چیز ہے جس کے ذریعہ دنیائے اسلام پھر متحد ہو سکتی ہے اور جس کے ذریعہ دوسری دنیا پر کامیابی اور حاصل ہوسکتی ہے اور وہ احمدیت ہے.تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 436-437)
مصالح العرب.....جلد اول 503 یمن میں عدن مشن کا قیام جماعت احمد یہ عدن اگر چہ 1936 ء سے قائم ہے مگر اس کے اکثر ممبر بیرونی تھے.با قاعدہ طور پر اس مشن کا قیام ماہ اگست 1946 ء میں ہوا.عدن مشن کے قیام کا پس منظر اس مشن کے قیام کا پس منظر یہ ہے کہ یہاں کچھ عرصہ سے پانچ نہایت مخلص احمدی ڈاکٹر قومی اور ملی خدمات بجالا رہے تھے.جن کے نام یہ ہیں.ڈاکٹر فیروز الدین صاحب، ڈاکٹر محمد احمد صاحب، ڈاکٹر محمد خان صاحب، ڈاکٹر صاحبزادہ محمد ہاشم خان صاحب اور ڈاکٹر عزیز بشیری صاحب.ڈاکٹر فیروز الدین صاحب جو اس زمانے میں جماعت عدن کے پریذیڈنٹ تھے عدن سے قادیان آئے تو انہیں ڈاکٹر محمد احمد صاحب نے اپنے خط مورخہ 23.جنوری 1946ء اور تار مورخہ 23 جنوری 1946 ء میں عدن مشن کھلوانے کی تحریک کی نیز لکھا کہ میں مبلغ کے لئے اپنا مکان چھ ماہ تک دینے کے لئے تیار ہوں.اس عرصہ میں دار التبلیغ کے لئے سو روپیه کسی اور مکان کا انتظام ہو سکے گا.ڈاکٹر محمد احمد صاحب نے اس کے ساتھ ہی پانچ.اخراجات سفر کے لئے بھجوا دئیے اور ڈاکٹر عزیز بشیری صاحب نے اتنی ہی رقم کا وعدہ اخراجات قیام کے طور پر کیا.چنانچہ ڈاکٹر فیروز الدین صاحب جماعت عدن کی نمائندگی میں حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ڈاکٹر محمد احمد صاحب کا خط اور تار پیش کیا.اور درخواست کی کہ کوئی موزوں مبلغ عدن کے لئے تجویز فرمایا جائے.ہم پانچوں ڈاکٹر دار التبلیغ کا بار اٹھانے میں مدد کریں گے.اس پر حضرت مصلح موعود نے جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل نوجوان مولوی غلام احمد صاحب مبشر کو اس خدمت کے لئے نامز دفرمایا.
مصالح العرب.....جلد اول مبشر اسلامی کا عدن میں ورود 504 مولوی غلام احمد صاحب مبشر 4 راگست 1946ء کو قادیان سے روانہ ہو کر تیسرے دن 6 اگست کو بمبئی پہنچے جہاں حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر اور دوسرے احباب جماعت نے ان کا استقبال کیا.بعد ازاں 9 اگست کو جہاز میں سوار ہوئے اور 19 راگست بروز سوموار عدن پہنچے.بندرگاہ پر ڈاکٹر فیروز الدین صاحب اور ڈاکٹر محمد احمد صاحب آپ کو لینے کے لئے پہلے سے موجود تھے.ابتدائی تبلیغی سرگرمیاں اور مولوی غلام احمد صاحب مبشر حسب فیصلہ ڈاکٹر محمد احمد صاحب کے ہاں مقیم ہوئے.اور جلد ہی ڈاکٹر محمد احمد صاحب اور ڈاکٹر فیروز الدین صاحب اور ڈاکٹر عبد اللطیف صاحب کے ساتھ وفد کی صورت میں عدن سے دس میل کے فاصلہ پر واقع شیخ عثمان تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض عربی تصانیف مثلاً الاستفتاء، الخطاب الجليل، التبليغ ) سيرة الابدال وغیرہ مختلف اشخاص کو پڑھنے کے لئے دیں.اور زبانی بھی پیغام حق پہنچایا.علاوہ ازیں عدن میں عربوں ، عیسائیوں اور یہودیوں میں التبليغ ، سیرۃ الا بدال، نظام نو (انگریزی)، اسلام اور دیگر مذاہب ، میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں، وغیرہ کتب اور ٹریکٹ تقسیم کئے.احمدی ڈاکٹروں نے ابتداء ہی سے یہ خاص اہتمام کیا کہ وہ اولین فرصت میں اپنے حلقہ اثر کے دوستوں کو مبشر اسلامی سے متعارف کرائیں.اس غرض کے لئے انہوں نے بعض خاص تقریبات بھی منعقد کیں.جن میں عدن کے باشندوں خصوصا نو جوانوں کو مدعو کیا.خود مولوی صاحب بھی اشاعت حق کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے.اللہ تعالیٰ نے بھی مولوی صاحب کی پُر جوش تبلیغ میں ایسی برکت ڈالی کہ پہلے مہینہ میں ہی ایک دوست احمد علی صاحب جو ہندؤوں سے مسلمان ہوئے تھے اور شیخ عثمان کے نواحی علاقہ کے باشندے اور عدن کے رہنے والے تھے حلقہ بگوش احمدیت ہو گئے.حضرت مصلح موعود نے ان کی بیعت قبول فرمائی اور مولوی غلام احمد صاحب کو ارشاد فرمایا تبلیغ پر خاص زور دیں.اس پر مولوی صاحب نے عدن ، شیخ عثمان اور تواہی میں باقاعدہ پروگرام کے مطابق انفرادی کی
مصالح العرب......جلد اول 505 ملاقاتوں اور تقسیم لٹریچر کے ذریعہ سے زور شور سے تبلیغ شروع کر دی.ان مقامات کا انتخاب اس لئے کیا گیا تھا کہ ان میں احمدی ڈاکٹر قیام پذیر تھے.چنانچہ عدن میں ڈاکٹر فیروز الدین صاحب اور ڈاکٹر محمد احمد صاحب، شیخ عثمان میں ڈاکٹر محمد خان صاحب اور تو اہی میں ڈاکٹر کیپٹن عزیز بشیری صاحب رہتے تھے.مولوی صاحب موصوف ہفتے میں دو دو دن شیخ عثمان اور تو اہی میں اور تین دن عدن میں تبلیغی فرائض سرانجام دیتے تھے اور جمعہ بھی یہیں پڑھاتے تھے.چنانچہ آپ نے عربی کتب میں سے سیرۃ الا بدال ، اعجاز مسیح التبلیغ ، الاستفتاء.اردو میں احمدی اور غیر احمدی میں فرق، پیغام صلح اور انگریزی میں احمد یہ موومنٹ، پیغام صلح، اور تحفہ شہزادہ ویلز.بعض عربوں ، ہندوستانیوں اور انگریزوں کو پڑھنے کے لئے دیں جس سے خصوصاً انگریزوں اور عیسائیوں میں اشتعال پھیل گیا اور انہوں نے حکام بالا تک رپورٹ کر دی.سرکاری مخالفت انسپکٹر سی آئی ڈی نے مولوی غلام احمد صاحب کو بلایا.اور وہ لٹریچر جو آپ نے تقسیم کیا تھا اس کی ایک ایک کاپی ان سے طلب کی نیز حکم دیا کہ آپ اپنا لٹریچر بازاروں میں تقسیم نہ کریں صرف اپنے گھروں میں لوگوں کو بلا کر اور دعوت دے کر لیکچر یا لٹریچر دے سکتے ہیں.یہ واقعہ ماہ اکتوبر 1946 ء میں پیش آیا.جس کے ڈیڑھ مہینہ بعد کیتھولک چرچ کے ایک پادری نے شکایت کر دی کہ مولوی صاحب پبلک لیکچر دیتے اور کیتھولک چرچ میں لٹریچر تقسیم کرتے ہیں.ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس عدن نے مولوی صاحب موصوف کو تنبیہ کی کہ وہ آئندہ نہ کیتھولک چرچ میں کوئی لٹریچر تقسیم کریں، نہ پلک لیکچر دیں ورنہ انہیں گرفتار کر لیا جائے گا.مولوی صاحب نے بتایا کہ پبلک پیچر دینے کا الزام غلط ہے البتہ لٹریچر میں ضرور دیتا ہوں مگر صرف اسی طبقہ کو جو علمی دلچسپی رکھتا ہے.مولوی صاحب نے ان سے کہا کہ عیسائی مشنری تو کھلے بندوں دندناتے پھر رہے ہیں کیا انہیں چھٹی ہے اور صرف مجھ پر پابندی ہے ؟ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس نے جواب دیا کہ یہ پابندی آپ پر ہی عائد کی جارہی ہے عیسائیوں پر اطلاق نہ ہوگا.علماء کی مخالفت عیسائیوں کی انگیخت اور شرارت کے بعد ماہ مئی 1947 ء میں بعض علماء نے بھی مخالفت
506 مصالح العرب.....جلد اول کا کھلم کھلا آغاز کر دیا.بات صرف یہ ہوئی کہ ایک مجلس میلاد میں مولوی غلام احمد صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ پر روشنی ڈالی اور ضمناً آپ کے فرزند جلیل سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی ذکر کیا.جس پر دو علماء اور ان کے دو ساتھیوں نے آپ کو سٹیج سے اتارنے کے لئے ہنگامہ برپا کر دیا.مجلس میں اٹھانوے فیصد شرفاء موجود تھے جو خاموش رہے.اور انہی کے ایماء پر مولانا نے اپنی تقریر ختم کر دی.بعد ازاں شیخ عثمان کے آئمہ مساجد نے روزانہ نمازوں خصوصا عشاء کے بعد لوگوں کو بھڑ کا نا شروع کر دیا کہ وہ احمدی مبلغ کی نہ کتابیں پڑھیں اور نہ باتیں سنیں کیونکہ وہ کافر و ملعون ہے.یہی نہیں انہوں نے پوشیدہ طور پر گورنمنٹ کو بھی احمدی مبلغ کے خلاف اکسانا شروع کر دیا.ایک مرتبہ رستے میں مسجد کے ایک فقیہ نے آپ کو بلند آواز سے پکارا اور آپ سے ایک کتاب یعنی استفتاء عربی مانگی جو آپ نے اسے دے دی.کتاب دینے کے بعد اس نے پہلے سوالات شروع کر دیئے اور پھر اونچی آواز سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان مبارک میں سخت بد زبانی کی.مولوی غلام احمد صاحب نے پورے وقار اور نرم اور دھیمی آواز سے ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا.جب آپ وہاں سے واپس آنے لگے تو اس فقیہ نے آپ کے پیچھے لڑکے لگا دیئے جنہوں نے آپ کو پتھر مارے مگر مولوی صاحب ان کی طرف التفات کئے بغیر سید ھے چلتے گئے.مخالفت کے اس ماحول میں آہستہ آہستہ ایک ایسا طبقہ بھی پیدا ہونے لگا جو مولوی صاحب کی باتوں کو غور سے سنتا تھا.خصوصا عرب نوجوانوں میں حق کی جستجو کے لئے دلچسپی اور شوق بڑھنے لگا مگر چونکہ عرب کا یہ حصہ آزاد منش اور اکثر بدوی لوگوں پر مشتمل ہے اس لئے عام طور پر فضا بہت مخالفانہ رہی.شیخ عثمان میں دار التبلیغ کا قیام اور اس کے عمدہ اثرات اب تک مولوی غلام احمد صاحب مبشر ، ڈاکٹر محمد احمد صاحب کے یہاں مقیم تھے لیکن ماہ اکتوبر 1947ء میں جماعت احمدیہ نے 65 روپے ماہوار کرایہ پر ایک موزوں مکان حاصل کر لیا.مولوی صاحب موصوف نے یہاں دار التبلیغ قائم کر کے اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو پہلے سے زیادہ تیز کر دیا.اور خصوصاً نو جوانوں میں پیغام حق پھیلانے کی طرف خاص توجہ شروع کر دی کیونکہ زیادہ دلچسپی کا اظہار بھی انہی کی طرف سے ہونے لگا تھا.عدن ، شیخ عثمان اور
507 مصالح العرب.....جلد اول تو اہی کے علماء کو تبلیغی خطوط لکھے اور ان تک امام مہدی کے ظہور کی خوشخبری پہنچائی.علاوہ ازیں ایک عیسائی ڈاکٹر کو جو پہلے مسلمان تھا اور پھر مرتد ہو گیا ایک تبلیغی مکتوب کے ذریعہ دعوت اسلام دی یہ مستقل دار التبلیغ کا ایک بھاری فائدہ یہ بھی ہوا کہ عوام سے براہ راست رابطہ اور تعلق پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا اور سعید الفطرت لوگ روزانہ بڑی کثرت سے دار التبلیغ میں جمع ہونے اور پیغام حق سننے لگے.عبد اللہ محمد شبوطی کی قبول احمدیت 17 اکتوبر 1947 ء بروز جمعہ المبارک عدن مشن کی تاریخ میں بہت مبارک دن تھا.جبکہ ایک یمنی عرب عبدالله محمد شبوطی جو ان دنوں شیخ عثمان میں بودو باش رکھتے تھے ساڑھے گیارہ بجے بیعت کا خط لکھ کر داخل احمدیت ہو گئے.اور اپنے علم اور خلوص میں جلد جلد ترقی کر کے تبلیغ احمدیت میں مولوی صاحب کے دست راست ہو گئے.اس کامیابی نے شیخ عثمان کے علماء اور فقہاء کو اور بھی مشتعل کر دیا اور وہ پہلے سے زیادہ مخالفت کی آگ بھڑ کانے لگے مگر مولوی غلام احمد صاحب اور عبداللہ محمد شبوطی صاحب نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور نہایت بے جگری ، جوش اور فداکاری کی روح کے ساتھ ہر مجلس میں اور ہر جگہ دن اور رات زبانی اور تحریری طور پر پیغام احمدیت پہنچاتے چلے گئے.اور امراء، غرباء، علماء اور فقہاء غرض کہ ہر طبقہ کے لوگوں کو ان کے گھروں میں جا کر نہایت خاکساری اور عاجزی سے دعوت حق دینے لگے.نتیجہ یہ ہوا کہ بعض وہ لوگ جو پہلے بات تک سننا گوارا نہ کرتے تھے اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر کو سن کر عش عش کرنے لگے حتی کہ بعض نے یہ اقرار کیا کہ حضرت مرزا صاحب کی بیان فرمودہ تفسیر واقعی الہامی ہے.اور اللہ تعالیٰ نے اپنی جناب سے آپ کو علم لدنی سے نوازا ہے.علماء کی طرف سے کمشنر کو عرضی اور اس کا رد عمل نومبر 1947ء میں علماء نے عدن ، شیخ عثمان اور تو اہی کے مختلف لوگوں سے ایک عرضی دستخط کروا کر کمشنر کو دی کہ ہم اس مبلغ قادیان کا یہاں رہنا پسند نہیں کرتے یہ ہمارے ایمانوں کو
508 مصالح العرب.....جلد اول خراب کر رہا ہے.شیخ عثمان کے بعض نوجوانوں کو اس شکایت کا پتہ چلا تو انہوں نے علماء کے اس رویہ کی جو انہوں نے اپنی کم علمی و بے بضاعتی کو چھپانے اور اپنی شکست خوردہ ذہنیت پر پردہ ڈالنے کے لئے اختیار کیا تھا دل کھول کر مذمت کی اور ان کے خلاف زبردست پراپیگنڈہ کیا.بلکہ قریباً پچاس آدمیوں نے لکھا کہ ہم اس مبشر اسلامی کو دیگر سب علماء سے زیادہ پسند کرتے ہیں ، اور واقعی یہ حقیقی مسلمان ہے اور جیسے حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت کے فقیہوں اور فریسیوں نے حضرت مسیح کی مخالفت کی تھی ویسے ہی یہ لوگ بھی مخالفت کر رہے ہیں.کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ اگر اس شخص کا نفوذ وسیع ہو گیا تو ہماری کوئی وقعت نہ رہے گی.غرضیکہ اس مخالفت کا خدا کے فضل سے اچھا نتیجہ نکلا.ڈاکٹر فیروز الدین صاحب کا انتقال ان دنوں عدن میں یہود اور عرب کی کشمکش بھی یکا یک زور پکڑ گئی جس کا اثر تبلیغی سرگرمیوں پر بھی پڑنا ناگزیر تھا.علاوہ ازیں عدن کی جماعت کے پریذیڈنٹ جناب ڈاکٹر فیروز الدین صاحب عین فسادات کے دوران میں داغ مفارقت دے گئے جس سے مشن کو بہت نقصان پہنچا.مرحوم نہایت مخلص، نہایت پر جوش اور بہت سی صفات حمیدہ کے مالک تھے.تبلیغ کا جوش اور شغف ان میں بے نظیر تھا.اگر کوئی مریض ان کے گھر پر آتا تو وہ اس تک ضرور محبت ، اخلاص اور ہمدردی سے احمدیت کا پیغام پہنچاتے.احمدیت کے مالی جہاد میں بھی آمدنی میں کمی کے باوجود بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.مولوی غلام احمد صاحب مبشر نے اپنی 27 دسمبر 1947ء کی رپورٹ میں ان کے انتقال کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا:.احمدیت کی مالی خدمت کا جو جوش اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر رکھا ہوا تھا اس کی نظیر بھی کم ہی پائی جاتی ہے.ہمارا اندازہ ہے کہ وہ ہر سال ( اپنی آمد کا ) ساٹھ فیصد ہی اشاعت اسلام کے لئے خرچ کر رہے تھے.مساکین، غرباء سے ہمدردی اور خدمت خلق کا جذ بہ تو کوٹ کوٹ کر ان کے دل میں بھرا ہوا تھا.اگر کوئی مسکین بھی ان کے دروازے پر آجاتا اور وہ سوال کرتا تو آپ ضرور اس کی حاجت پوری کر دیتے.بعض اوقات اپنی نئی پہنی ہوئی قمیص و ہیں اتار کر دے دیتے اور یہی باتیں بعض اوقات ان کے گھر میں کشمکش کا باعث ہو جاتیں.غرضیکہ آپ کی زندگی حقیقت میں یہاں کی جماعت کے لئے ایک عمدہ نمونہ تھی“.
مصالح العرب.....جلد اول 509 ڈاکٹر فیروز الدین صاحب کی تدفین "کریتر نامی شہر کے مرکزی قبرستان میں ہوئی اور کی ان کی قبر آج تک وہاں موجود ہے.ایک اور عالم آغوش احمدیت میں اوائل 1948ء میں مولوی غلام احمد صاحب نے مرکز میں لکھا کہ اس علاقہ کے لوگ بالکل ہی اسلام سے بے بہرہ اور بددیانہ زندگی بسر کر رہے ہیں حتی کہ انہیں قرآن شریف الگ رہا نماز تک نہیں آتی.اگر آپ اجازت دیں تو خاکسار درویشانہ فقیرانہ صورت میں اندرونی حصہ عرب میں چلا جائے اور ان لوگوں تک اسلام و احمدیت کا حقیقی پیغام بذریعہ تربیت ہی پہنچائے تو عدن کی نسبت زیادہ کامیابی کی امید ہے.لیکن مرکز نے اس کی اجازت نہ دی.اس تجویز کے ایک ماہ بعد محمد سعید احمد نامی ایک اور عرب عالم سلسلہ احمدیہ میں شامل ہو گئے جس کے بعد جماعت عدن کے بالغ افراد کی تعداد 9 ( عرب 2.ہندی گجراتی 1.پنجابی 6 ) تک پہنچ گئی.اپریل 1948ء میں مولوی غلام احمد صاحب شیخ عثمان (عدن) کے نواح میں ایک گاؤں ”معلا نامی میں تبلیغ کے لئے گئے جو کہ شیخ عثمان سے چھ میل کے فاصلے پر ہے.وہاں ایک فقیہ عالم سے گفتگو کا موقع ملا.مولوی صاحب نے انہیں امام مہدی علیہ السلام کی خوشخبری دی اور احادیث صحیحہ اور قرآن کریم سے آپ کی آمد کی علامات بتا کر صداقت ثابت کی اور آخر میں مسئلہ وفات مسیح پر دلائل دیے.قریباً ایک گھنٹہ گفتگو ہوتی رہی.آخر انہوں نے تمام لوگوں کے سامنے اقرار کیا کہ حضرت مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں اور باقی مسائل پر گفتگو کرنے سے بالکل انکار کر دیا.عیسائی مشنری کا تعاقب نومبر 1948ء کا واقعہ ہے کہ ایک عرب نوجوان جو عیسائی مشنریوں کے زیر اثر ان کے پاس آتا جاتا تھا آپ کو گفتگو کے لئے ایک پادری کے مکان پر لے گیا.وہاں کیا دیکھتے ہیں کہ چار نوجوان عرب بیٹھے انا جیل پڑھ رہے ہیں.گفتگو شروع ہوئی تو مولوی صاحب نے اناجیل ہی کے حوالوں سے ثابت کیا کہ حضرت مسیح میں کوئی خدائی صفات نہ پائی جاتی تھیں.پادری صاحب لا جواب ہو کر کہنے لگے کہ آپ ہماری کتابوں سے کیوں حوالے دیتے ہیں؟ مولوی صاحب نے جواب دیا ایک اس لئے کہ آپ کو وہ مسلم ہیں دوسرے آپ ہمیں انجیلوں کی طرف
مصالح العرب.....جلد اول 510 دعوت دیتے ہیں لہذا تنقید کرنا ہمارا حق ہے.آخر پادری صاحب ناراض ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور مزید گفتگو سے انکار کر کے الگ کمرے میں چلے گئے اس پر سب عرب نوجوانوں نے آپ کا دلی شکریہ ادا کیا کہ آج آپ نے ان کا جھوٹ بالکل واضح کر دیا ہے.مباحثے اور انفرادی ملاقاتیں 1948ء کے وسط آخر میں مولوی صاحب کے عدن کے علماء سے وفات مسیح ، مسئلہ ناسخ و منسوخ ، مسئلہ نبوت اور یا جوج ماجوج کے مضامین پر متعدد کامیاب مباحثے ہوئے.علاوہ ازیں آپ نے عدن کی بعض شخصیتوں مثلاً سید حسن صافی، محمد علی اسودی تک پیغام حق پہنچایا.ماہ دوره ستمبر میں آپ نے عدن سے پچاس میل کے فاصلہ پر ایک مقام جعار اور حج کا تبلیغی کیا.جعار میں حاکم علاقہ علی محمد کو تبلیغ کی اور حج میں بعض امراء مثلاً وزیر معارف سلطان فضل عبدالقوی ، وزیر تموین سلطان فضل بن علی وغیرہ سے ملے اور ان سے نیز مقامی علماء سے تعارف پیدا کیا.بیرونی شخصیتوں تک پیغام حق عدن ایک اہم تجارتی شاہراہ پر واقع ہے جہاں مختلف اطراف سے لوگ بکثرت آتے تھے جن میں گردو نواح کے علاقوں کے شیوخ و حکام بھی ہوتے تھے مولوی غلام احمد صاحب مبشر اور عبد اللہ محمد شبوطی صاحب ہمیشہ بیرونی شخصیتوں تک پیغام حق پہنچاتے رہتے تھے.دسمبر 1948ء میں مولوی غلام احمد صاحب نے عدن کے مشہور سادات میں سے ایک عالم شمس العلماء سید زین العدروس سے ان کے مکان میں ملاقات کی اور ان کے سامنے بڑی تفصیل سے حضرت مسیح موعود کے دعوئی اور اس کے دلائل و براہین بیان کئے.مبلغ عدن کی واپسی مولوی غلام احمد صاحب ایک انتھک اور پر جوش مبشر اسلامی کی حیثیت سے 1949ء کے آخر تک عدن میں اسلام و احمدیت کا نور پھیلاتے رہے اور عدن میں کئی سعید روحوں کو حق و صداقت سے وابستہ کرنے کا موجب بنے مگر آپ کی دیوانہ وار مساعی اور جد وجہد نے صحت پر
مصالح العرب.....جلد اول 511 سخت ناگوار اثر ڈالا اور آپ کو اس تبلیغی جہاد کے دوران 1949ء میں دماغی عارضہ بھی لاحق ہوتی گیا.احمدی ڈاکٹروں نے علاج معالجہ میں دن رات ایک کر دیا جب طبیعت ذرا سنبھل گئی اور آپ سفر کے قابل ہوئے تو آپ عدن سے 22 دسمبر 1949ء کو بذریعہ بحری جہاز روانہ ہوکر 12 جنوری 1950 ء کو ربوہ میں تشریف لے آئے.آپ کے بعد عدن کے مخلص احمد یوں خصوصا عبداللہ محمد شبوطی اور میجر ڈاکٹر محمد خان شیخ عثمان عدن نے اشاعت اسلام و احمدیت کا کام برابر جاری رکھا اور آہستہ آہستہ جماعت میں نئی سعید روحیں داخل ہونے لگیں.مثلاً 1951 ء میں محمد سعید صوفی و ہاشم احمد ورائل حائل نے بیعت کی.وسط 1952ء میں چار نئے احمدی ہوئے.1960ء میں علی سالم بن سالم عدنی داخل احمد بیت ہوئے.ایک عربی مکتوب کی اشاعت وسط 1952ء میں عبداللہ محمد الشیوطی نے ایک عالم الشیخ الفاضل عبد اللہ یوسف ہروی کے نام "مطبعة الكمال عدن سے ایک عربی مکتوب چھپوا کے شائع کیا جس میں حضرت مسیح موعود کی بعثت اور اختلافی مسائل پر نہایت مختصر مگر عمدہ پیرا یہ میں روشنی ڈالی گئی تھی.محمود عبداللہ الشبوطی کا عزم ربوہ چونکہ عدن میں کسی نئے مبشر و مبلغ کی اجازت ملنا ایک مشکل مسئلہ بن کے رہ گیا تھا اس لئے جماعت عدن کے مشورہ سے عبد اللہ محمد الشبوطی نے اپنے ایک فرزند محمود عبد الله الشبوطی کو بتاریخ 19 مئی 1952ء مرکز میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے عدن سے روانہ کیا.محمود عبداللہ الشبوطی 25 مئی کو ربوہ پہنچے اور جامعہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا.پہلا پبلک جلسه 20 نومبر 1954ء کو جماعت احمدیہ عدن کا پہلا پبلک جلسہ سیرۃ النبی منعقد ہوا.جلسہ کا پنڈال دار التبلیغ کے سامنے تھا اور اس میں مائیکروفون کا بھی انتظام کیا گیا تھا.بل ازیں احمدیوں کے جلسے میں محدود اور چار دیواری کے اندر ہوتے تھے مگر اس سال ہے
مصالح العرب.....جلد اول 512 جلسہ عام منانے کا فیصلہ کیا گیا اور علاوہ اخباروں میں اشتہار دینے کے قریب 500 دعوتی کارڈ جاری کئے گئے.ایک روز قبل مخالف علماء نے جمعہ کے خطبوں میں نہایت زہر آلود تقریریں کر کے لوگوں کو جلسہ میں آنے سے منع کیا لیکن ان مخالفانہ کوششوں کے باوجود جلسہ بہت کامیاب رہا.حاضرین کے لئے تین سو کرسیاں بچھائی گئی تھیں جو مقررہ پروگرام سے ہیں منٹ پہلے پر ہو گئیں اس لئے جلسہ کی کارروائی بھی پہلے ہی شروع کر دی گئی.صدر جلسہ عبدہ سعید صوفی تھے جن کے صدارتی خطاب کے بعد بالترتیب منیر محمد خاں (ابن میجر ڈاکٹر محمد خاں ) اور عبداللہ محمد الشبوطی نے مؤثر تقریریں کیں.کرسیوں پر بیٹھنے والوں کے علاوہ جلسہ گاہ کے اردگرد قریباً ایک ہزار نفوس نے پوری خاموشی اور دلچسپی سے تقریر میں سنیں اور نہایت عمدہ اثر لے کر گئے اور بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا.اس کامیاب تجربہ سے عدنی احمدیوں کے حوصلے بلند ہو گئے اور انہوں نے ہر سال جلسہ سیرۃ النبی منعقد کرنے کا فیصلہ کر لیا.میجر ڈاکٹر محمد خاں عبد الله محمد الشبوطی ، عبده سعید صوفی ، احمد محمد الشبوطی ، سیف محمد شبوطی نے اس جلسہ کی کامیابی میں نمایاں حصہ لیا.عبد الله الشبوطی اور سلطان الشبوطی کی ربوہ آمد محمود عبد الله الشبوطی صاحب ابھی ربوہ میں ہی تھے کہ ان کے والد عبداللہ الشبوطی اور چا سلطان محمد الشبوطی ربوہ تشریف لے گئے جہاں انہوں نے اپنے بیٹے کی شادی مکرمہ نسرین صاحبہ بنت بشیر احمد شاہ صاحب دوا خانہ خدمت خلق ربوہ سے کر دی.بعد ازاں انہوں نے قادیان کا سفر بھی اختیار کیا اور جلسہ سالانہ قادیان میں بھی شرکت کی.واپسی سے قبل دونوں بھائی نئی دہلی بھی گئے جہاں ان کا یمنی دوست صالح شبیبی صاحب انڈونیشین ایمبیسی میں ملازم تھا ان کو ملنے کے بعد یہ برادران واپس یمن چلے گئے.حضرت مصلح موعودؓ سے یادگار ملاقات ربوہ میں قیام کے دوران ان دونوں بھائیوں کی حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقات بھی ہوئی جس میں حضور نے سفر یورپ کے دوران یمن سے گزرنے کا ذکر فرمایا اور ان کو اپنا عصا عطا فرمایا جو آج بھی ان کے بیٹے محمود عبد اللہ الشبوطی کے پاس موجود ہے.
افراد جماعت احمد یہ یمن کی ایک پرانی تصویر اس تصویر میں دائیں جانب سلطان محمد الشبوطی اور عبد اللہ احمد الشبوطی ربوہ کی زیارت کے موقع پر بعض احمدی احباب کے ہمراہ کھڑے ہیں
حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب افراد جماعت یمن کے درمیان
مصالح العرب.....جلد اول 513 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی یمن میں آمد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب متعدد دفعہ یمن میں تشریف لاتے رہے آپ پاکستانی احمدی ڈاکٹر محمد احمد صاحب کے گھر کے قریبی ہوٹل میں ٹھہر تے تھے.اور افراد جماعت سے ملتے اور اکثر وقت ان کے ساتھ گزارتے تھے.اور جب عبد اللہ شبوطی اور سلطان شبوطی صاحب ربوہ گئے تو حضرت چوہدری صاحب نے خادموں کو ان کی خدمت سے روک کر بنفس نفیس ان کی ضیافت کی.محمودعبد اللہ الشبوطی کی مراجعت اور تبلیغ حق محمود عبدالله الشبوطی نے جو سالہا سال سے مرکز سلسلہ میں دینی تعلیم حاصل کر رہے تھے مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد 4 فروری 1960ء کو اپنی زندگی خدمت اسلام کے لئے وقف کر دی اور حضرت مصلح موعودؓ نے ان کا وقف قبول فرمالیا اور ساتھ ہی عدن میں مبلغ لگائے جانے کی منظوری بھی دے دی.چنانچہ آپ حضور کے حکم پر 14 اگست 1960 ء کو کراچی سے روانہ ہو کر 15 اگست کو عدن پہنچ گئے.آپ نے اگلے سال عدن سے پہلا احمدی رسالہ ” الاسلام“ جاری کیا اور علمی حلقوں میں اسلام واحمدیت کی آواز بلند کرنے کے علاوہ جماعتی تربیت و تنظیم کے فرائض بھی بجالانے لگے.عدن پر ان دنوں برطانوی راج قائم تھا.مذہبی آزادی تھی لہذا جماعت ترقی کی منزلیں طے کرتی رہی.30 نومبر 1967ء کو عدن برطانوی تسلط سے آزاد ہو گیا.اس آزادی کے ساتھ ہی مذہبی آزادی کا خون ہو گیا اور جماعت کی سرگرمیاں محدود ہوگئیں.عدن مشن تاحال قائم ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے یمن میں احمدیت کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے.ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 243 تا 252، صدر صاحب جماعت احمدیہ یمن مکرم احمدمحمد الشبوطی صاحب کے 11 نومبر 2008ء کو ایک خط میں رقم فرمودہ تاریخی حالات) 00000
مصالح العرب.....جلد اول 514 مسقط مشن کی بنیاد بن عمان جزیرہ عرب کی ایک مسلم ریاست ہے جو قطر اور حضر موت کے درمیان عرب کے مشرقی ساحل پر واقع ہے.مسقط اس ریاست کا دارالسلطنت اور خلیج فارس کی بڑی اہم بندرگاہ ہے.یہاں کے عربوں کی تعلیمی اور مذہبی حالت بہت نا گفتہ بہ تھی اور ان پر ایک جمود طاری تھا مگر عیسائیوں نے جگہ جگہ ہسپتال کھول رکھے تھے جہاں وہ کھلے بندوں صلیبی مذہب کا پرچار کرتے تھے اور سینکڑوں مسلمانوں کو حلقہ بگوش عیسائیت کر چکے تھے.اگر چہ احمدیہ مسلم مشن عدن 1946 ء سے عرب کے مغربی ساحل کو عیسائیوں کی یلغار سے بچانے کے لئے ٹھوس خدمات بجالا رہا تھا مگر مشرقی ساحل میں ان کی سرگرمیوں کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں تھا.اور عربوں کی نئی نسل صلیبی مذہب سے متاثر ہورہی تھی.اور مشکل یہ تھی کہ ان علاقوں میں داخلہ پر سخت پابندیاں تھیں.اتفاق ایسا ہوا کہ ایک احمدی دوست محمد یوسف صاحب بی ایس سی ، جو ان دنوں مسقط حکومت کے فوڈ آفیسر تھے لاہور آئے تو حضرت مصلح موعودؓ کے حکم سے مولوی روشن الدین صاحب فاضل واقف زندگی کو ان کے ساتھ روانہ کر دیا.اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ وہ ریاست میں ذریعہ معاش تلاش کریں.انہیں اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجات خود برداشت کرنا ہوں گے.چنانچہ مولوی صاحب موصوف 2 فروری 1949 ء کو مسقط میں پہنچے اور یوں نہایت بے بضاعتی کے عالم میں مسقط مشن کی بنیاد پڑی.آپ کے تشریف لے جانے سے قبل مسقط میں تین احمدی تھے.مسٹر محمد یوسف بی ایس سی نے ابتدائی خرچ کے طور پر کچھ رقم مولوی صاحب کو پیش کی اور کہا کہ کچھ اور رقم مرکز سے لے کر تجارتی کاروبار شروع کرنا چاہئے نیز حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں بھی لکھ دیا کہ اگر کچھ روپیہ مرکز سے بھی ہمیں مل جائے تو مولوی صاحب کو
515 مصالح العرب.....جلد اول تجارت پر لگا دیں مگر حضور نے ارشاد فرمایا کہ تجارت میں کام زیادہ کرنا پڑتا ہے اور تبلیغ کے لئے وقت نہیں ہوتا ان کو ملازمت کروائیں.چنانچہ کچھ جدوجہد کے بعد مولوی صاحب کو ملا زمت مل گئی لیکن تبلیغ حق کی پاداش میں فارغ کر دئیے گئے.اور یہ صورت کئی بار پیش آئی اور تعصب کی وجہ سے کئی رکاوٹیں پیدا کی گئیں مگر آپ صبر واستقامت کے ساتھ دین کی خدمت میں مصروف رہے.ملازمت کے دوران جب آپ کو معقول مشاہرہ مل جاتا تو آپ مرکز کو اطلاع دے دیتے کہ میں گھر والوں کو یہاں سے خرج روانہ کر دوں گا.مگر جب حالات قابو سے باہر ہو جاتے تو مرکز خود ان کے بال بچوں کی مالی ذمہ داریاں سنبھال لیتا اور ہے صورت آپ کے پورے عرصہ قیام عمان تک قائم رہی.مسقط میں ایک لمبے عرصے تک تربیتی و تبلیغی فرائض انجام دینے کے بعد آپ 15 فروری 1961 ء کو دوبئی منتقل ہو گئے اور جماعتی تربیت کے ساتھ ساتھ پیغام حق پہنچاتے رہے اور بالاخر 9 اگست 1961 ء کو واپس مرکز احمدیت ربوہ میں تشریف لے آئے.ماخوز از تاریخ احمدیت جلد 12 صفحه 169 تا 171) XXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.....جلد اول 516 ڈنڈے کے زور پر صداقت دبا نہیں کرتی وسط 1948ء میں ایک عرب نے جو اہل مدینہ کے نام سے موسوم تھا لیگوس میں احمدیت کے خلاف زہر اگلا اور مبلغ انچارج نائیجیریا مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی کو لکھا اگر تم کسی اسلامی ملک میں ہوتے تو تمہارا سر قلم کر دیا جاتا.جناب سیفی صاحب نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں اس کی اطلاع دی تو حضور نے تحریر فرمایا کہ: اس بات پر زور دیں کہ عرب ممالک کی کوشش تو سر ظفر اللہ احمدی کو خاص طور پر اپنا نمائندہ مقرر کرنے کی ہے اور ابن سعود کے صاحبزادے ان کو دعوتیں دیتے ہیں.شام کی حکومت ان کو سب سے بڑا تمغہ دیتی ہے اور اب بھی ان کو خاص طور پر شام بلوایا گیا ہے اور تم کہتے ہو اسلامی حکومت ہوتی تو تم کو مارا جاتا.لیکن فرض کرو کہ مارا جاتا تو کیا مکہ میں صحابہ کو مارا نہیں جاتا تھا.مارا جانا تو اس امر کی علامت ہے کہ دلائل ختم ہو چکے اب ڈنڈے کے زور سے صداقت کا مقابلہ کیا جائے گا.مگر اس طرح صداقت نہیں دیا کرتی.اہل مدینہ نے جناب نسیم سیفی صاحب کو عربی میں مناظرہ کا چیلنج دیا تھا جو جناب نسیم سیفی صاحب نے منظور بھی کر لیا تھا مگر وہ صاحب پہلو تہی کرتے رہے اور مباحثہ کئے بغیر واپس چل دیئے.تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 134-135 )
مصالح العرب.....جلد اول 517 جماعت احمد یہ شام کے جلسہ سیرت النبی کا اخبارات میں چرچا جماعت احمد یہ دمشق نے 26 نومبر 1950ء کو سیرت النبی کا جلسہ عام منعقد کیا جس میں مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کے علاوہ شام کی بعض اہم شخصیات نے بھی تقریریں کی دمشق کے اخبار الكفاح “ نے 27 / نومبر 1950ء کے شمارے میں لکھا:.الجماعة الأحمدية تحتفل بسيرة النبى ع أقامت الجماعه الأحمديه بدمشق احتفالا عظيما نهار أمس لبيان سيرة الرسول الأعظم محمد عليا وألقيت فيه خطب قيمه من قبل بعض الشخصيات السورية كما وتكلم فيها أيضا الأستاذ الباكستاني میرزا رشید احمد چغتائي الأحمدي الذي ذكر قوه قدسيه النبي الله وتاثيرها فى قلوب أصحابه والآخرين من العرب والعجم وهنا أهل الشام على ما بوركت بلادهم وشرفت أراضيهم بقدوم فخر الكائنات إليها حيث وطأت قدمه عليها وكان لهذه الخطب أثرها العظيم في قلوب الحاضرين الذين أكثروا من الصلوات والسلام على سيدنا محمد أفضل صلى الله الرسل وخاتم النبين عليه أفضل الصلوات وأتم التسليم.
مصالح العرب.....جلد اول 518 ترجمه: جماعت احمدیہ کا جلسہ سیرت النبی اجماعت احمد یہ دمشق نے کل ایک عظیم الشان جلسہ حضرت رسول اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کرنے کے لئے منعقد کیا جس میں بعض شامی اشخاص کی قیمتی تقاریر کے علاوہ میرزا رشید احمد چغتائی پاکستانی احمدی نے بھی تقریر کی جس میں آپ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور حضور کے صحابہ اور عرب و عجم کے دوسرے لوگوں کے دلوں میں اس کی تاثیر کا ذکر کیا.اور آپ نے اہل شام کو اس بات پر مبارکباد دی کہ ان کے ملک کو یہ خاص برکت حاصل ہوئی اور ان کی سرزمین کو حضور فخر کا ئنات اللہ علیہ وسلم نے اپنی تشریف آوری سے مشرف فرمایا.جبکہ حضور کے مبارک قدموں نے اس کو برکت بخشی.ان تقاریر کا بڑا شاندار اثر حاضرین کے قلوب پر ہوا جنہوں نے سیدنا محمد افضل الرسل خاتم النبين عليه افضل الصلوات واتم التسلیم پر بکثرت درود وسلام بھیجا.اخبار القبس نے اپنی 28 نومبر 1950ء کی اشاعت میں لکھا:.66 حفلة سيرة النبي علم أقامت الجماعه الأحمديه أول أمس احتفالا تكلم فيه عدد من الخطباء عن سيرة الرسول الأعظم وتحدثوا عن قدسيه الرساله التي قام بها هذا العربي العظيم الله الله الذى أسس مدنية مازال ترجمه العالم يسير بها حتى اليوم جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پرسوں جماعت احمدیہ نے جلسہ منعقد کیا جس میں بہت سے مقررین نے حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر تقاریر فرمائیں اور رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان قدسیت کو بیان کیا جنہوں نے شہریت کے ایسے اصول وضع فرمائے ہیں جن سے دنیا آج تک راہنمائی حاصل کرتی چلی آرہی ہے.00000 تاریخ احمدیت جلد 13 صفحہ 283-284)
مصالح العرب.....جلد اول 519 لیبیا کی آزادی میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا کردار 1912ء کی جنگ میں اٹلی نے بآسانی ترکی افواج کو شکست دے کر لیبیا پر قبضہ کر لیا تھا.لیکن اس کے بعد عرب آبادی کو زیر اقتدار لانے میں اٹلی کو بہت مشکل کا سامنا ہوا.اس مہم کے سر کرنے کی ذمہ داری مارشل بڈو گلیو پر ڈالی گئی جس نے مزعومہ قیام امن کے لئے نہایت ہولناک طریق اختیار کئے.مثلاً بڑے بڑے قائدین جو اطالوی اقتدار کے سامنے سرخم نہیں کرتے تھے کو جبراً ہوائی جہاز میں کئی ہزار فٹ کی بلندی پر لے جا کر جہاز سے نیچے گرا دیا جاتا.یا اگر کسی بستی یا علاقے کے لوگوں کی طرف سے اٹھ کھڑے ہونے کا خدشہ ہوتا تو اس کا تو پوں اور ٹینکوں سے محاصرہ کر کے اس علاقے کے پانیوں میں زہر ملا دیا جاتا جس سے اکثریت تو زہریلا پانی پینے سے مرجاتی تھی لیکن جو اس علاقے سے باہر بھاگنے کی کوشش کرتا وہ تو پوں اور گولیوں کا نشانہ بنا دیا جاتا.1949ء میں بڑی طاقتوں نے یہ فیصلہ کیا کہ لیبیا کو تین حصوں میں تقسیم کر کے گویا تین ملک بنا دیئے جائیں.چنانچہ طرابلس کو اٹلی کی نگرانی میں ، برقہ کو برطانیہ کی جبکہ فزان فرانس کی نگرانی میں مزید دس سال تک رکھنے کا فیصلہ ہوا ، جس کے بعد لیبیا کے ان تین حصوں کو آزادی دینے کی تجویز تھی.13 رمئی 1949 ء کو یہ قرار داد ووٹنگ کے لئے جنرل اسمبلی میں پیش ہوئی.لیکن یہ تجویز منظور نہ ہوسکی کیونکہ اس کو مطلوبہ ووٹ نہ مل سکے.چنانچہ جنرل اسمبلی کو 21 /نومبر 1949ء کو لیبیا کی آزادی کا فیصلہ کرنا پڑا.اور تقسیم کے بغیر متحدہ لیبیا ایک ملک کی
مصالح العرب.....جلد اول حیثیت سے آزاد ہو گیا.520 یہ وہ تاریخ ہے جو ہر تاریخ کی کتاب میں مل جائے گی لیکن ہم تاریخ کے اس پہلو کو بیان کرتے ہیں جسے بہت کم لوگ جانتے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ لیبیا کی تقسیم کا فیصلہ ہو گیا تھا.تین بڑی طاقتیں اس پر متفق تھیں اور یہ اس زمانے کی بات ہے جس میں یہ بات کافی حد تک نا قابل یقین سمجھی جاتی تھی کہ ایک بات پر یہ تین بڑی طاقتیں متفق ہوں اور پھرایسی بات پر مشتمل قرار داد ناکام رہے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ہی وہ تاریخی شخصیت تھے جو لیبیا کی تقسیم کے سب سے زیادہ خلاف تھے اور آپ ہی تھے جنہوں نے خدا داد قانونی صلاحیتوں اور ذہانت سے اس قرار داد کو نا کام کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا.اسکی تفصیل کا خلاصہ حضرت چوہدری صاحب کی خود نوشت تحدیث نعمت سے پیش ہے: اس وقت اقوام متحدہ کے ممبران ملکوں کی تعداد ساٹھ سے کم تھی اور قواعد کے مطابق کسی بھی قرارداد کی منظوری کے لئے دو تہائی اکثریت کے ووٹ درکار ہوتے تھے جبکہ اس کو ناکام کرنے کے لئے ایک تہائی سے زیادہ ووٹ مطلوب ہوتے تھے.حضرت چوہدری صاحب فرماتے ہیں: مغربی طاقتوں نے تو سمجھا ہو گا کہ جو تجویز وہ کریں گے اسمبلی اس پر مہر تصدیق ثبت کر دے گی.میرا خیال تھا کہ اگر ہم اس تجویز کو رڈ کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو لیبیا کے جلد آزاد ہونے کی صورت پیدا ہو جائے گی اور اگر لیبیا آزاد ہو جائے تو شمال مغربی افریقہ کے تینوں عرب ممالک یعنی تونس ، الجزائر اور مراکش کی آزادی کا راستہ کھل جائے گا.اس لئے میری نگہ میں مجوزہ قرار داد کا رد کیا جانا از بس ضروری تھا.مغربی طاقتوں نے ٹریپولی (طرابلس) کی نگرانی اٹلی کے سپرد کرنے کی تجویز سے لاطینی امریکن ریاستوں کی تائید حاصل کر لی تھی...اپنی طرف سے پوری کوشش کرنے کے بعد بھی ہمیں قرارداد کے خلاف صرف 15 آراء ملنے کا یقین تھا.عرب ریاستیں تو قرارداد کے خلاف تھیں لیکن اس وقت صرف چھ عرب ریاستیں اقوام متحدہ کی رکن تھیں.ان میں سے مصر کے وزیر خارجہ خشا با پاشا بھی پوری جد و جہد کر رہے تھے اور ہم دونوں آپس میں مشورے کرتے رہتے تھے.
مصالح العرب.....جلد اول بحث کا آخری دن اور مضطر بانہ دعا 521 بحث کا آخری دن آپہنچا اور قرارداد کے خلاف 15 آراء سے زیادہ کا امکان نظر نہیں آتا تھا.میری طبیعت میں سخت اضطراب تھا.اسی اضطراب کی حالت میں میں نے نماز ظہر میں نہایت عجز وانکسار سے رب العالمین کی درگاہ میں زاری کی کہ الہ العالمین...تو اپنے فضل ورحم سے ہمیں وہ رستہ دکھا جس پر چل کر ہم تیرے مظلوم بندوں کی رہائی اور مخلصی کی تدبیر کر سکیں.تیسری رکعت کے پہلے سجدے میں جاتے ہوئے دفعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال فضل اور رحم سے ایک ترکیب کی تفہیم فرما دی.فالحمد للہ.مصر کے وزیر خارجہ سے گفتگو جو نہی میں نے نماز ختم کی ٹیلیفون کی گھنٹی بجی.اقوام متحدہ میں مصر کے مستقل نمائندے محمود فوزی صاحب نے فرمایا میرے وزیر خارجہ دریافت کرتے ہیں 'تم کب تک آنے کا ارادہ رکھتے ہو؟ وہ چاہتے ہیں کہ جلد آ جاؤ تو سہ پہر کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے کچھ مزید غور کر لیں.میں وزیر خارجہ کی خدمت میں حاضر ہو گیا.انہوں نے پوچھا، کچھ مزید غور کیا ہے اور کوئی تجویز ذہن میں آئی ہے؟ میں نے کہا ہاں آئی ہے یا یوں کہئے ذہن میں ڈالی گئی ہے.اب تک ہم اس کوشش میں رہے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے پوری قرار داد کے خلاف آراء حاصل کی جائیں.اس کوشش کے نتیجہ میں تو ہمیں صرف 15 مخالف آراء حاصل ہوسکی ہیں جو قرارداد کے رڈ کرنے کے لئے کافی نہیں.اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جو ممالک برطانیہ یا فرانس کی خوشنودی کی خاطر برطانیہ کو Cyrenaica ( برقتہ ) اور فرانس کو فیضان ( فوزان) کی نگرانی سپرد کرنے کے لئے مؤید ہیں ان میں سے تین چار کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ اس قرار داد میں برطانوی اور فرانسیسی نگرانی والی شقوں کی تائید میں رائے دینے کے بعد تیسری شق جس میں ٹریپولی کی نگرانی اٹلی کے سپرد کرنے کی تجویز ہے کے مخالف رائے دیں.خشابا پاشا: اگر ایسا ہو بھی جائے تو کیا حاصل ہوگا ؟ ظفر اللہ خان: حاصل یہ ہوگا کہ تیسری شق قرار داد سے خارج ہو جائے گی.
522 مصالح العرب.....جلد اول خشا با پاشا لیکن ملک تو پھر بھی تقسیم ہو جائے گا.برطانیہ اور فرانس کو مجوزہ علاقوں کی نگرانی سپر د کر دی جائے گی.تم خود اب تک مصر رہے ہو کہ لیبیا کی تقسیم نہیں ہونی چاہئے.اب تم نے یکا یک اپنی رائے کیوں بدل لی ہے؟ ظفر اللہ خان: میں نے رائے نہیں بدلی.میں اب بھی یہی چاہتا ہوں کہ لیبیا کی ہرگز نہیں ہونی چاہئے.اگر میری بیان کردہ ترکیب سے تیسری شق قرارداد سے خارج ہوگئی تو کوئی تقسیم نہیں ہوگی.خشابا پاشا: وہ کیسے؟ ظفر اللہ خان : اگر ٹریپولی کی نگرانی اٹلی کے سپرد نہ ہوئی تو لاطینی امریکن ریاستیں بقیہ قرارداد کو قبول نہیں کریں گی اور تینوں شقوں پر رائے شماری کے بعد جب مجموعی طور پر ساری قرارد پر رائے شماری ہو گی تو لاطینی امریکن ریاستیں اس کے خلاف رائے دیں گی.خشابا پاشا: ( خوشی سے اچھل کر ) خوب تجویز ہے.میرے ذہن میں بالکل نہیں آئی.پھر اب کیسے کیا جائے؟ وقت بہت تھوڑا ہے.آج شام رائے شماری ہو جائے گی.ظفر اللہ خان : لاطینی امریکن ممالک میں ہائیٹی (Haiti) ایک ایسا ملک ہے جس کا اٹلی سے کوئی تعلق نہیں.ایک تو ان کے ساتھ کوشش ہونی چاہئے.انکی زبان فرانسیسی ہے، آپ کے وفد میں سے کوئی صاحب ان کے ساتھ بات چیت کریں.سر بی این راؤ ہندوستانی نمائندے 66 کے ساتھ میں بات کرتا ہوں.“ دونوں ملکوں نے تیسری شق کے خلاف رائے دینا منظور کر لیا.مغربی ریاستیں مطمئن نظر آتی تھیں جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ انہیں قرارداد کے منظور ہونے کا پورا یقین ہے.رائے شماری شروع ہوئی.پہلی شق منظور ہو گئی ، دوسری شق منظور ہو گئی ، تیسری شق پر رائے شماری ہوئی تو حاضر 58، اراکین میں سے 8 نے رائے دینے سے اجتناب کیا، باقی 150 اراکین نے رائے دی.منظوری کے لئے کم از کم 34 آراء کی ضرورت تھی لیکن اسکے حق میں صرف 33 اور اسے خلاف 17 آراء آئیں.کامیابی کے لئے مزید ایک رائے ان کو نہ مل سکی.اور یوں صاحب صدر کو چارو ناچاراس شق کے نامنظور ہونے کے باعث قرار داد سے خارج ہونے کا اعلان کرنا پڑا.
00000 مصالح العرب.....جلد اول مغربی طاقتوں کی چھاتی پیٹ رہا ہوں.“ 523 حضرت چوہدری صاحب فرماتے ہیں: ہماری طرف سے خوشی کا اظہار تو لازم تھا ہی لیکن معلوم ہوتا ہے میرے اعصاب پر پہلے چند دنوں کی پریشانی اور اضطراب کا بوجھ تھا.میری طبیعت قابو میں نہ رہی اور میں جوش سے ا اپنے سامنے کے ڈیسک کو زور زور سے متواتر پیٹنے لگا.کرنل عبد الرحیم (اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے) نے آہستہ سے مجھے کہا: چوہدری صاحب کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: مغربی طاقتوں کی چھاتی پیٹ رہا ہوں.کئی دن تک میرے دونوں ہاتھ اس ڈیسک کو بی کی وجہ سے متورم رہے.اس طرح طرابلس کی نگرانی اٹلی کے سپرد نہ ہو سکنے کی وجہ سے لاطینی امریکن ریاستوں کی طرف سے قرارداد کی بقیہ شقوں کی مخالفت کی وجہ سے یہ ساری قرار دادر ڈ ہو گئی.لیبیا کی آزادی کا پروانہ حضرت چوہدری صاحب تحریر فرماتے ہیں: اجلاس ختم ہونے پر میں کراچی واپس آ گیا.کچھ دنوں بعد اطالوی سفیر متعینہ پاکستان مجھ سے ملنے آئے اور اپنے وزیر خارجہ ( کونٹ سفورزا) کا ایک خصوصی پیغام میرے نام لائے.کونٹ سفورزا نے کہلا بھیجا ہمیں قرار داد کے رڈ ہو جانے پر کوئی رنج نہیں.ہم عرب ممالک کی دوستی اور خوشنودی کے خواہاں ہیں.اور اسمبلی کے آنے والے اجلاس میں لیبیا کی فوری آزادی کی تائید کرنے کے لئے تیار ہیں.چنانچہ 1949 ء کے سالانہ اجلاس اسمبلی میں یہ قرارداد منظور ہو گئی کہ یکم جنوری 1951 ء سے لیبیا آزاد ہوگا.اس قرارداد کے نفاذ کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی گئی جس کے اراکین میں مصر اور پاکستان دونوں شامل تھے.چنانچہ قرار داد کے مطابق یکم جنوری 1951ء کو لیبیا کی آزاد حکومت قائم ہوگئی.فالحمد للہ“ (ماخوذ از تحدیث نعمت صفحه 567 تا 573)
مصالح العرب.....جلد اول 524 حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا دورہ مصر حضرت چوہدری صاحب 1952 ء میں ایک دفعہ مصر گئے تو وہاں کے اخبار ” المصور نے نہ صرف آپ کے بارہ میں آرٹیکل لکھے بلکہ آپ کا انٹرویو بھی کیا اور اسے اپنے تبصروں کے ساتھ شائع کیا.ذیل میں اس کے چند اقتباسات اور ان کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے.الله ظفر خان مجاهد هندی ،قديم يخطب بالإنجليزية، كأعاظم خطباء الإنجليز فى أخطر المجامع وأخطر المسائل، يخطب ارتجالا.وشهد الذين سمعوه يخطب، أنه من أخطب خطباء العالم --- إنه يقدس الصدق، ويحذر دائما أن يزيد شيئا على الحقيقة المجردة من كل مبالغة، ويعرف متى يتحتم الكلام، ومتى يتحتم الصمت - (المصور المصرية ، العدد الصادر في 29 فبراير 1952 م صفحہ 34 ) ظفر اللہ خان صاحب پرانے انڈین مجاہد ہیں، آپ انگریزی زبان میں عظیم انگریز مقرروں کی طرح دنیا کے اعلیٰ ترین اور خطرناک ترین ایوانوں میں اور خطر ناک مسائل کے بارہ میں فی البدیہہ تقریر کا ملکہ رکھتے ہیں جنہوں نے آپ کو تقریر کرتے ہوئے سنا ہے ان کی گواہی ہے کہ آپ دنیا کے عظیم مقررین میں سے ایک ہیں.آپ سچائی کو مقدس سمجھتے ہیں اور ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اصل حقیقت پر کسی قسم کی مبالغہ آمیزی کا اضافہ نہ ہو.آپ بخوبی جانتے ہیں کہ کہاں بولنا ضروری ہے اور کہاں خاموشی اختیار کرنا لازم
مصالح العرب.....جلد اول ہے.الرجل الذى يمسك بيده غصن الزيتون ويطير به بين أطباق السحاب ---- إنه رجل خير، تبرع بأكثر من ثلث دخله الخاص للإنفاق على الجمعيات الخيرية فى الباكستان، وشهد له أعضاء هيئة الأمم بحرصه على أداء فروض الصلاة بانتظام وفى ومواعيدها، حتى لقد حدث أن أزف وقت الصلاة مرة ولم يتمكن من الذهاب إلى منزله لأدائها بسبب استمرار اجتماع الهيئة، فدخل "كشك التليفون“ ووقف يقيم الصلاة __! وقد عُرف ”ظفر الله خان بأنه لا يبارى في عرض الحجج والبراهين وسرد الحقائق، وإذا تكلم أو خطب ارتجالا بلغ الذروة، وقد ضرب الرقم القياسى فى الخطابة بمجلس الأمن إذا استمر يخطب ست ساعات كاملة دون توقف!....525 (المصور المصرية، العدد الصادر في ۲۹ فبراير ١٩٥٢م ص ١٠ نقلا عن مجلة البشرى المجلد ١٨ نيسان أيار ١٩٥٢م ص ٥٦ إلى (٥٩ آپ ہی وہ شخصیت ہیں جو پیام امن لے کر بادلوں کے درمیان اڑتی پھرتی ہے.آپ ایک نیک اور ہمدرد آدمی ہیں ، آپ نے اپنی تنخواہ کا تیسرا حصہ پاکستان میں انسانی بھلائی کی تنظیموں کے لئے وقف کر رکھا ہے.اور اقوام متحدہ کے ممبران اس بات کے گواہ ہیں کہ آپ اپنی فرض نمازیں ان کے اوقات پر ادا کرنے کے پابند ہیں.یہاں تک کہ ایک دفعہ ایک اجلاس کے جاری رہنے کی وجہ سے آپ گھر میں جا کر نماز ادا نہ کر سکے چنانچہ آپ نے قریبی ٹیلیفون کے بوتھ میں داخل ہو کر کھڑے ہو کر ہی نماز ادا کر لی.ظفر اللہ خان کے بارہ میں مشہور ہے کہ دلائل و براہین کے بیان اور حقائق کے تذکرہ میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے.جب بھی آپ بولتے ہیں یا زبانی خطاب فرماتے ہیں تو آپ کی گفتگو نہایت اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے.آپ نے سلامتی کونسل میں چھ گھنٹے مسلسل خطاب کرنے کا ریکارڈ بھی قائم کیا ہے.
مصالح العرب.....جلد اول اقوام متحدہ میں مصری نمائندہ کی شہادت ولعل صاحبنا السيد محمد ظفر الله خان هو الشخص الوحيد من الشخصيات السياسية البارزة فى العالم بالوقت الحاضر الذي لا يفارقه القرآن المجيد أبدا ويصلى خمس صلوات مستقبل اإلى القبلة الشريفة تحت كل سماء وفوق كل أرض وفي جو السماء حين تحمله الطائرات من الشرق إلى الغرب ومن الشمال إلى الجنوب ولا يتأخر عن بيان فضائل الإسلام ومحاسنه بالقلم واللسان والعمل بأحكامه حتى فى قاعات هيئة الأمم المتحدة 526 (جريدة الأخبار عدد ٢٣ يونيو ١٩٥٢م نقلا عن مجلة البشرى المجلد ۱۸ أغسطس ١٩٥٢ م ص (١١٤ شاید ہمارے دوست مکرم محمد ظفر اللہ خان صاحب ہی اس وقت کی مشہور عالمی شخصیات میں سے وہ واحد شخصیت ہیں جو ہر وقت قرآن کریم اپنے پاس رکھتے ہیں.اور ہر آسمان اور ہر زمین حتی کہ آسمان کی فضاؤں میں بھی جبکہ وہ جہازوں میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب کی سمت محو سفر ہوتے ہیں پانچوں نمازیں قبلہ شریف کی طرف منہ کر کے ادا کرتے ہیں، اور قلم و زبان سے اسلام کے فضائل و محاسن کے بیان سے تھکتے نہیں اور اقوام متحدہ میں بھی اسلامی احکام پر عمل کرنے سے پیچھے نہیں رہتے.00000
527 مصالح العرب.....جلد اول اہل قادیان ایک عرب احمدی کی نظر میں 1950ء میں مصر کے ایک مخلص احمدی عبد الحمید افندی صاحب قادیان گئے.وہاں سے انہوں نے اہل قادیان کے بارہ میں جو اپنے تاثرات لکھ کر ارسال کئے وہ یہاں نقل کئے جاتے ہیں.أما قاديان فإن أصفهم على مقدار إدراكي: فهم عبارة عن كتاب مفتوح، نقرأ بين ثناياه آية البراءة ملتهبين بنار الفضيلة لإنقاذ بنى نوع الإنسان من براثن الشيطان وإرشادهم إلى طريق الرحمن، وقد بلغوا من جمال الأخلاق ما جذبوا به ألد أعداء الإسلام إلى محبتهم واحترامهم فهذه هي المزايا والصفات التي رأيتها فيهم (رسالة عبد الحميد أفندى من قاديان ١٤ أغسطس ١٩٥٠ المنشورة في مجلة (البشرى اہل قادیان کے بارہ میں میری رائے یہ ہے کہ وہ ایک ایسی کھلی کتاب کی طرح ہیں جس میں ہم معصومیت کی نشانیوں کا بیان پڑھتے ہیں.انکے دل میں بنی نوع انسان کو شیطان کے چنگل سے چھڑانے اور خدائے رحمن کی طرف لے جانے کے لئے ایک آگ اور تڑپ ہے.اور اخلاقی حسن ان میں اس اعلیٰ درجہ کا ہے کہ جو بڑے سے بڑے اعدائے اسلام کو بھی انکی محبت کا گرویدہ اور ان کا قدردان بنا دے.یہ صفات اور خصائل ہیں جو میں نے ان میں خود دیکھے ہیں.00000
مصالح العرب.....جلد اول 528 اتحاد بین المسلمین کے سلسلہ میں گیارہ ممالک کے اتحاد کی تجویز مارچ 1952ء کے آخر پر حضرت خلیفہ ثانی حیدر آباد میں مقیم تھے.آپ کے یہاں قیام کا اہم ترین واقعہ اتحاد بین المسلمین“ کے موضوع پر عظیم الشان لیکچر ہے جو 25 مارچ 1952 / کو آپ نے ارشاد فرمایا.اس عظیم الشان لیکچر میں حضور نے فرمایا کہ اجتماعیت اور ملت کا جو احساس اسلام نے پیدا کیا ہے وہ کسی اور مذہب نے پیدا نہیں کیا.صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے اپنے ماننے والوں کو اجتماعیت کی طرف توجہ دلائی ہے.پھر حضور نے اسلامی اتحاد کے عناصر کے بیان میں کلمہ طیبہ، قبلہ ، نماز ، حج وغیرہ کا ذکر کیا اور فرمایا کہ چاہے کوئی سنی یا شیعہ یا کسی اور مسلک سے تعلق رکھتا ہو ان عناصر سے انکار نہیں کر سکتا ، اور یہ عناصر سب میں مشترک ہیں.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَاطِيْعُوا اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ (الانفال: 47).اے مسلمانو ، تم آپس میں اختلاف نہ کرو.اگر تم آپس میں اختلاف کرو گے تو کمزور ہو جاؤ گے اور دشمن سے شکست کھا جاؤ گے.تم ہمیشہ اکٹھے رہنا اور ایک دوسرے کے مددگار رہنا.واصبروا اور چونکہ اکٹھے رہنے میں تمہیں کئی مشکلات پیش آئیں گی اس لئے تمہیں صبر سے کام لینا ہوگا.جب تم اجتماعیت کی طرف آؤ گے تو کئی جھگڑے پیدا ہوں گے...پھر تم کیا تھی
مصالح العرب.....جلد اول کرو.فرمایا وَاصْبِرُوا اور مجھ پر امید رکھو میں خود اس کا بدلہ دوں گا.اس کے بعد حضور نے اسلامی اتحاد کے دو اصول بیان فرمائے.پہلا اسلامی اصول اتحاد 529 اگر ہم اکٹھے ہو کر بیٹھ جائیں گے تو آہستہ آہستہ اتحاد کی کئی صورتیں نکل آئیں گی.فلاں مردہ باد، فلاں زندہ باد کے نعروں سے کچھ نہیں بنتا.اگر کوئی نقطہ مرکزی ایسا ہے جس پر اتحاد ہوسکتا ہے تو اس کو لے لو کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ اختلافات قائم رکھو پھر یہ بیوقوفی کی بات ہے کہ ہم ان اختلافات کی وجہ سے اتحاد کو چھوڑ دیں.دوسرا اسلامی اصول اتحاد دوسرا اصول اتحاد کا یہ ہے کہ چھوٹی چیز کو بڑی چیز پر قربان کر دیا جائے.اگر تم دیکھتے ہو کہ ہر بات میں اتحاد نہیں ہو سکتا تو تم چھوٹی باتوں کو چھوڑ دو اور بڑی باتوں کو لے لو.عالم اسلام کو دعوت اتحاد پس ان دونوں باتوں پر عمل کیا جائے تو اتحاد ہو سکتا ہے اس وقت پاکستان، لبنان ،عراق، اردن ، شام، مصر، لیبیا، ایران ، افغانستان ، انڈونیشیا اور سعودی عرب یہ گیارہ مسلم ممالک ہیں جو آزاد ہیں اور ان سب میں اختلاف پائے جاتے ہیں.اگر انہوں نے آپس میں اتحاد کرنا ہے تو پھر اختلافات کو برقرار رکھتے ہوئے ان کا فرض ہے کہ وہ سوچیں اور غور کریں کہ کیا کوئی ایسا پوائنٹ بھی ہے جس پر وہ متحد ہو سکتے ہیں ؟ اور اگر کوئی ایسا پوائنٹ مل جائے تو وہ اس پر ا کٹھے ہو جائیں اور کہیں کہ ہم یہ بات نہیں ہونے دیں گے.مثلاً یہ سب ممالک اس بات پر اتحاد کر لیں کہ ہم کسی مسلم ملک کو غلام نہیں رہنے دیں گے اور بجائے اس کے کہ اس بات کا انتظار کریں کہ پہلے ہمارے آپس کے اختلافات دور ہو جائیں وہ سب مل کر اس بات پر اتحاد کر لیں کہ وہ کسی ملک کو غلام نہیں رہنے دیں گے اور سب مل کر اس کی آزادی کی جد و جہد کریں گے.وہ اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ اختلاف کے باوجود ہم دشمن سے اکٹھے ہو کر لڑیں گے
مصالح العرب.....جلد اول 530 اور ہم بھی اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ باہمی اختلافات کے باوجود ہم ایک دوسرے سے لڑیں گے نہیں.نازک زمانہ کی خبر تاریخ احمدیت جلد 14 صفحہ 63 تا 73) اسلام پر ایک نازک زمانہ آ رہا ہے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی آنکھوں کو کھولیں اور خطرات کو دیکھیں اور کم از کم اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مٹنے نہیں دیں گے.آج بھی عالم اسلام ان نصائح پر عمل کرلے تو اسلامی ممالک ایک ایسی قوت بن کر ابھر سکتے ہیں جس کا مقابلہ کرنے کی کسی کو طاقت نہ ہو گی.آج بھی حضور کے یہ الفاظ دعوت عملی دے رہے ہیں اور آپ کے ارشاد کے مطابق وہ نازک زمانہ آچکا ہے اور اسلامی ممالک کو اتحاد کی جس قدر اس زمانہ میں ضرورت ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی.بعض یورپی ممالک کی طرف سے اسلام دشمن سرگرمیوں کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز کارٹون جاری کئے تو ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی تمام عالم اسلام کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آج عالم اسلام کو متحد ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بلند کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.کاش کہ ان کو سنا نصیب ہو اور عمل کے لئے قدم اٹھنے لگیں.00000
مصالح العرب.....جلد اول 531 1953ء کے فسادات پر مصری پریس مصر کے مشہور صحافی جناب عبد القادر حمزہ نے پاکستان میں مذہب کے عنوان سے اخبار البلاغ، میں ایک خصوصی مقالہ سپر د اشاعت کیا جس کا خلاصہ اخبار مدینہ بجنور 28 / مارچ 1953ء میں حسب ذیل الفاظ میں شائع ہوا :.قاہر 230 / مارچ اخبار البلاغ کے پروپراکٹر عبد القادر حمزہ پچھلے دنوں مصری اخبار نویسوں کے وفد کے رکن کی حیثیت سے پاکستان گئے تھے.آپ نے اپنے اخبار کے صفحہ اول پر ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان میں مذہب کے نام پر ناجائز فائدہ اٹھایا جارہا ہے علماء اور دوسرے لوگ عوام کے کورانہ عقائد سے بے جا استفادہ کر رہے ہیں.آج کل پاکستان اسی لعنت میں مبتلا ہے جس میں مصر مبتلا رہ چکا ہے.یعنی کچھ لوگ سیاسی اثر بڑھانے کے لئے مذہب سے بیجا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں.اور ایسے معاملات سیاسیات میں دخل دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان سے تعلق نہیں رکھتے.محض اس دعوی کی بناء پر کہ ہم علماء ہیں دوسرے لوگ بھی عوام کے مذہب احساسات سے بیجا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہیں.ان لوگوں پر دوسرے ممالک کے مسلمانوں کی نسبت مذہب کا اثر زیادہ غالب ہے.انہوں نے کہا کہ پاکستانی مسلمان قرآن پڑھتا ہی ہے.اور وہ اس کی بعض سورتوں کو ازبر کر لیتا ہے.لیکن وہ نہ قرآن کے معانی و مطالب کو سمجھتا ہے اور نہ اسلام کے متعلق کسی دوسری کتاب کو.نہ عربی زبان جانتا ہے اس لئے خواندہ ہونے کے باوجود ناخواندہ ہوتا ہے.اس لئے یہ کہنا صحیح ہے کہ عام پاکستانی محض مذہبی طور پر مسلمان ہیں اور ان سے مذہب کے نام پر یا اس کے متعلق جو کچھ کہہ دیا جاتا ہے اس پر یقین کر لیتے ہیں.انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے دورہ میں جو فرقہ وارانہ گڑ بڑ دیکھی
XXXXXXXXXXXX 00000 مصالح العرب.....جلد اول 532 اس کا بڑا سبب یہی تھا کہ مسلمان اسلام کی صیح سپرٹ سے نا آشنا ہیں.میرا مقصد نہ احمدیوں کی صفائی پیش کرنا ہے اور نہ ان کے مخالفوں پر نکتہ چینی کرنا.اگر ایسی صورت میں کہ اختلافی بحث بلوے اور آتش زنی کی شکل اختیار کرلے اور بے گناہ لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جانے لگے تو افسوس ہوتا ہے.اگر پاکستانی مسلمان زیادہ ہو جائیں اور تعلیم یافتہ افراد کی تعداد بڑھ جائے تو ایسے قابل اعتراض اعمال کا رونما ہونا ناممکن ہو جائے گا.ضرورت ہے کہ جہاں جدید علوم و فنون حاصل کئے جائیں وہاں قرآن کے معانی و مفہوم سے قریب تر ہونے کی کوشش کی جائے.(بحوالہ بدر قادیان 7 اپریل 1953 ءصفحہ 6) یہ فسادات ابھی تک ہو رہے ہیں.اور نہ جانے ایسے تعلیم یافتہ افراد کی تعدا د کب اتنی ہوگی کہ جس سے پاکستان کے فسادات ختم ہو سکیں.ستم ظریفی یہ ہے کہ اب تک تو ان فسادات کی جڑ کہلانے والے حضرات اپنے آپ کو سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور پڑھا لکھا انسان سمجھتے ہیں.
مصالح العرب.....جلد اول 533 شاہ ابن سعود کی وفات پر حضرت مصلح موعودہؓ کی طرف سے تعزیت فند شاہ عبدالعزیز ابن سعود جو نجد و حجاز مقدس کے بادشاہ اور عالم اسلام کے نہایت جری، ز بر دست مدبر اور مرنجاں اور جدید جنگی فنون کے ماہر اور بین الاقوامی سیاست کے خم و پیچ سے واقف تھے 10 نومبر 1953ء کو انتقال کر گئے.تمام عرب ملکوں نے اپنی سرکاری تقریبات ملتوی کر دیں اور قاہرہ ، دمشق اور عمان کے ریڈیو سٹیشنوں سے عام پروگرام کی بجائے قرآن پاک کی تلاوت شروع کر دی گئی.تمام عرب ملکوں نے اڑتالیس گھنٹوں تک سوگ منایا.نیو یارک میں اقوام متحدہ کا پرچم شاہ ابن سعود کے ماتم میں سرنگوں رہا.( روزنامہ نوائے وقت لاہور 21 نومبر 1953 ء صفحہ 1) صاحب الجلالة شاہ مملکت سعودیہ عبد العزیز ابن سعود جیسے بیدار مغز، نیک دل اور شریف بادشاہ کے عہد حکومت میں اتحاد بین المسلمین کی تحریک کو بہت تقویت حاصل ہوئی.جلالۃ الملک ابن سعود کا یہ کارنامہ ہمیشہ یاد رہے گا کہ انہوں نے حج بیت اللہ کے دروازے ہر کلمہ گو مسلمان کے لئے ہمیشہ کھلے رکھے.ایک بارالفضل کے سیاسی نامہ نگار نے جلالۃ الملک سے مکہ معظمہ میں ملاقات کی تو انہوں نے جماعت احمدیہ کی نسبت فرمایا کہ تبلیغ اسلام میں مدد دینا ہمارا کام ہے اور احمدیوں کی نسبت جب سورت کے ایک اہلحدیث نے شکایت کی کہ یہ ایک اور نبی کے ماننے والے ہیں تو سلطان نے کہا یہ تو شرک فی النبوة کرتے ہوں گے مگر یہاں تو شرک فی التوحید کرنے والے بھی آتے ہیں.پھر احمدیوں کو
534 مصالح العرب.....جلد اول مکہ سے نکالنے کی تجویز پر پوچھا کیا یہ کعبتہ اللہ کو بیت اللہ سمجھ کر حج کے لئے آتے ہیں ؟ جواب میں ”ہاں“ سن کر فرمایا ” تو کیا یہ عبد العزیز کے باپ کا گھر ہے جس سے میں نکال دوں؟ یہ خدا کا گھر.66 (روز نامہ الفضل قادیان 24 جولائی 1935 ء صفحہ 5 کالم 4،3 جمعیت العلمائے ہند سے خصوصی رابطہ رکھنے والے ایک صاحب علم اور صاحب قلم نے فت روزہ ”صدیق جدید لکھنو مورخہ 6 اگست 1965ء صفحہ 8 میں شاہ عبد العزیز ابن سعود کے زمانے کا یہ واقعہ بایں الفاظ لکھا کہ : حجرہ نشین مولویوں نے مرحوم سے کہا کہ چونکہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں اس لئے انہیں حجاز مقدس سے نکال دیا جائے.مرحوم نے مولوی صاحبان سے پوچھا کہ قادیانی حج کو اسلام کا رُکن اور اس کو فرض سمجھتے ہیں یا نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ فرض سمجھتے ہیں.اس پر مرحوم نے فرمایا کہ جو شخص حج کی فرضیت کا قائل ہے اور اسے اسلام کا اہم رکن سمجھتا ہے اسے حج سے روکنے کا مجھے کوئی حق نہیں.یہ واقعہ ہم نے مرحوم کی زندگی میں خود بعض مولویوں کی زبانی سنا تھا.ممکن ہے کہ بعض اخبارات میں بھی شائع ہوا ہو.“ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی اصلح موعودؓ کو دنیائے اسلام کی اس عظیم شخصیت کے المناک انتقال پر بہت صدمہ ہوا اور آپ نے 11 نومبر 1953ء کو اپنی اور جماعت احمدیہ کی طرف سے سعودی عرب کے نئے سلطان ہنر میجسٹی شاہ سعود بن عبدالعزیز کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار فرمایا اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی کرے.اس سلسلہ میں حضور نے شاہ عبد العزیز کے بیٹے کے نام ربوہ سے جو ٹیلی گرام ارسال فرمایا اس کا ترجمہ درج ذیل ہے:.مر میجسٹی شاہ سعودی عرب 66 میں اپنی اور جماعت احمدیہ کی طرف سے آپ کے نامور والد کی وفات پر آپ سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے.ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے محبوب و مقدس ملک عرب کو امن اور ترقی سے نوازے اور تمام امور میں آپ کی رہنمائی فرمائے اور آپ کے کندھوں پر جو بوجھ ڈالا گیا ہے اسے برداشت کرنے
مصالح العرب.....جلد اول میں آپ کی مدد کرے.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو.مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ.ربوہ مورخہ 11 / نومبر 1953ء 535 (روز نامہ الصلح کراچی 18 نومبر 1953 صفحہ 1، مجلہ "البشرى“ دسمبر 1953، صفحہ 179) صاحب الجلالۃ شاہ سعود بن عبد العزیز کی طرف سے حضرت مصلح موعود کو اس تعزیت نامہ کے جواب میں حسب ذیل ٹیلی گرام موصول ہوا:."جدة مرزا بشیر الدین محمود احمد امام الجماعة الاحمدية، ربوة نشكركم وطائفتكم على تعزيتكم ومشاركتكم في مصابنا العظيم- جده سعود بن عبدالعزيز “ 66 (مجله البشری“ نومبر 1954ء ) مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمد یہ ربوہ آپ کی طرف سے تعزیت فرمانے اور ہمارے اس بہت بڑے دکھ میں ہمارا ساتھ دینے پر ہم آپ کے اور آپ کی جماعت کے شکر گزار ہیں.سعود بن عبد العزیز 00000
مصالح العرب.....جلد اول 536 حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات کا اعتراف عراق کے نائب سفیر کا اعتراف عراق کے نائب سفیر متعینہ پاکستان السید عبدالمهدی العشیر نے پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر 14 اگست 1953ء کو ریڈیو پاکستان سے اہل پاکستان کے نام ایک پیغام نشر کرتے ہوئے فرمایا کہ عراق پاکستان کی اس جدو جہد کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا جو اس نے اقوام متحدہ میں متعدد عرب مسائل کی تائید میں کی ہے.موصوف نے کہا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اس سلسلے میں وہ عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ جس نے اہل عراق کے دل موہ لئے ہیں.آپ کی شخصیت میں انہیں ایک سچا اور حقیقی دوست ملا ہے.آپ نے بے مثال جذ بے اور کمال دلیری سے ان کے قومی مفاد کی حفاظت کی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کا نام عراقیوں کی قومی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا.انہوں نے مزید فرمایا کہ پاکستان اور عراق کے درمیان گہرے اور مستحکم تعلقات قائم ہیں.دونوں نے بین الاقوامی حلقوں میں عالمی امن کی سلامتی اور غلام ممالک کے باشندوں کی تحریک آزادی میں ایک دوسرے سے گہرا تعاون کیا ہے.(مارنگ نیوز Morning News کراچی 16 راگست 1953 ء بحوالہ روز نامہ الصلح کرا چی 18 اگست 1953، صفحہ 3) شاہ حسین کی طرف سے حضرت چوہدری صاحب کو دعوت حضرت چوہدری صاحب نے 1953ء میں ایشیا کے بعض ممالک کا دورہ کیا اس دوران
مصالح العرب.....جلد اول 537 اُردن جانے کا بھی اتفاق ہوا اس کے بارہ میں آپ اپنی خود نوشت ” تحدیث نعمت“ میں تحریر فرماتے ہیں: تہران میں اُردن کے سفیر تشریف لائے اور فرمایا میری حکومت کی طرف سے مجھے ہدایت موصول ہوئی ہے کہ میں اس کی طرف سے آپ کو یہاں سے دمشق واپس جانے پر عمان آنے کی دعوت دوں.میں نے عذر کیا کہ مجھے اب جلد کراچی پہنچنا ہے.دوسرے دن وہ پھر تشریف لائے اور فرمایا میں نے تمہارا عذر عمان پہنچا دیا تھا وہاں سے مجھے ہدایت ہوئی ہے کہ میں تمہیں جلالۃ الملک کا ذاتی پیغام پہنچاؤں کہ ان کی خواہش ہے کہ تم اس موقع پر عمان ضرور آؤ.میں نے عرض کیا کہ اب تو سوائے تعمیل ارشاد کے کوئی چارہ نہیں میں ضرور حاضر ہوں گا.“ جلالۃ الملک حسین ابن طلال بن عبد اللہ بڑی محبت اور احترام سے پیش آئے.فرمایا ہم سب تہہ دل سے تمہارے ممنون ہیں کہ تم نے قضیہ فلسطین کی ابتدا سے نہایت جرات اور دانشمندی سے ہمارے حقوق کا دفاع کیا ہے اور جب حال ہی میں اسرائیلیوں نے سخت ظلم اور تعدی سے قبیبہ کا عرب گاؤں ہماری حدود کے اندر بیجا مداخلت کر کے برباد کر دیا تو تم نے خود مجلس امن میں پیش ہو کر اسرائیلیوں کی مکاریوں اور فریب کاریوں کا پردہ فاش کیا.میں نے عرض کیا پاکستان قضیہ فلسطین کو اپنا اور سارے عالم اسلام کا قضیہ سمجھتا ہے.ہمارا فرض ہے کہ جو مدد اور خدمت اس بارے میں ہمارے امکان میں ہو اس سے دریغ نہ کریں.جب قبیہ پر اسرائیلی یورش کا مسئلہ مجلس امن میں زیر بحث آیا تو پاکستان کا فرض تھا کہ حق اور انصاف کی پوری حمایت کرے.بے شک مجلس امن کی روایت ہے کہ عموماً ہر رکن کا مقرر کردہ مستقل نمائندہ ہی اس کی طرف سے مجلس امن میں تقریر کرتا ہے.لیکن امور خارجہ میں ہر ملک کا اصل نمائندہ تو وزیر خارجہ ہی ہے.میں نے قرین مصلحت سمجھا کہ اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر میں خود پاکستان کی طرف سے مجلس میں نمائندگی کروں.جلالۃ الملک سے میری تین ملاقاتیں ہوئیں.ہر دفعہ بڑی محبت سے پیش آئے.ایک ملاقات میں تو صرف میں حاضر خدمت تھا ، بلا تکلف عرب اور عالم اسلام کے اہم مسائل پر گھنٹہ بھر سے زائد گفتگو رہی.دوسرے دن شام کے کھانے پر وزراء اور سفراء اور کثیر تعداد شرفاء کی مدعو تھی.کھانے کے بعد جلالۃ الملک نے کمال شفقت سے ”ستارہ اردن کا سب سے اعلیٰ نشان مجھے مرحمت فرمایا.“ تحدیث نعمت صفحه 610 تا 612)
مصالح العرب.....جلد اول حسن اتفاق سے وہ اردن کے بادشاہ ہیں 538 دوسری مرتبہ جب حضرت چوہدری صاحب اُردن تشریف لے گئے تو شام اور اُردن کی سرحد پر ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا کہ وہاں پر پریس کے لوکل نمائندہ نے چوہدری صاحب سے سوال کیا کہ آپ عمان کس غرض کیلئے جارہے ہیں؟ چوہدری صاحب نے جوا با فرمایا: ایک دوست کی ملاقات کے لئے.اس نے پوچھا: کیا جلالۃ الملک کی خدمت میں بھی حاضری کا موقع ہوگا ؟ چوہدری صاحب نے فرمایا: یہاں جو میرے دوست ہیں ان کا نام حسین بن طلال ہے.حسن اتفاق سے وہ اردن کے بادشاہ بھی ہیں.لیکن میری غرض دوست سے ملاقات ہے.دوست کو بادشاہ پر سبقت ہے.XXXXXXXXXXXX ( تحدیث نعمت صفحه 610 تا 612
اردن کے شاہ حسین حضرت چوہدری صاحب کو تمغہ پہناتے ہوئے شاہ اردن کی طرف سے تمغہ دیئے جانے کے بعد کا ایک منظر
حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب اردن کے شاہ حسین کے ساتھ میٹنگ کے دوران
مصالح العرب.....جلد اول 539 دو لبنانی احمدیوں کا دردانگیز قصیدہ 10 / مارچ 1954ء کو حضرت مصلح موعود پر قاتلانہ حملہ ہوا.اس خبر سے احمدیوں کے قلوب و اذہان پر کیا بیتی؟ یہ ایک عجیب اور طویل داستان ہے.لیکن مشرق وسطی کے مخلص احمدیوں کے دل پر اس واقعہ نے کیا اثر ڈالا ؟ اس سلسلہ میں دو لبنانی احمد یوں ابو صالح السید نجم الدین اور السید توفیق الصفدی کے مندرجہ ذیل درد انگیز قصیدہ سے اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے جو انہوں نے اس حادثہ عظمیٰ سے متاثر ہو کر کہا.اسکے چند شعر یہاں درج کئے جاتے ہیں.أمير المومنين فدتك نفسی وبعد النفس ما كان افتداء علمت بما جری من فعل وغد ابی في دربه الا التواء شفاك الله جرح بقلبي له الم وليس له دواء وعافاك المهيمن من جروح جروحا اودعت في الصدر،داءُ اذا ماكان مولانا بخير فنحن ومالك الدنيا سواء ذكرت بجرحك الفاروق لما رماه الوعد وانقطع الرجاء
540 مصالح العرب.....جلد اول وعثمان النقى قتيل بیت كذاك على اتقى الاتقياء تأسی فيهم ابن المعالي ولا تنس شهید الكربلاء عليك سلام كل حين قط سلام ما به رياء ترجمه اے امیر المومنین ! میری جان آپ پر فدا ہو اور جان سے بڑھ کر کیا فدیہ ہوگا ؟ ایک شریر ، سرکش اور غیر مہذب شخص نے اپنی حرکت سے آپ کو جو نقصان پہنچایا ہے ، مجھے اس کا علم ہوا.اللہ تعالیٰ آپ کو اس زخم سے شفا بخشے جس کی وجہ سے میرے دل میں ایسا درد ہے، جس کا کوئی علاج نہیں.اے امام ! جماعت احمد یہ آپ پر قربان.اسے امیر! میری جان آپ پر شار.اے امام ! اللہ تعالیٰ آپ کو ان زخموں سے جلد شفا بخشے.جنہوں نے میرے سینہ میں مستقل زخم ڈال دیئے ہیں اور مجھے بیمار کر دیا ہے.جب ہمارا آقا خیر و عافیت سے ہو تو ہمیں ساری دنیا کی بادشاہت ملنے کے برابر خوشی ہوتی ہے.اے مثیل عمر! تیرے زخم سے حضرت عمر کی یاد تازہ ہو گئی جب ایک کمینے نے آپ پر وار کیا اور امید حیات جاتی رہی.اور ایسا ہی حضرت عثمان کی یاد تازہ ہو گئی جو بے گناہ تھے اور گھر کے اندر شہید کئے گئے.نیز حضرت علی اتقی الاتقیاء بھی یاد آگئے.اے جلیل القدر امام! ان بزرگوں کے مصائب ہمارے لئے اسوہ ہیں اور اس سلسلہ میں شہید کر بلا حضرت امام حسین کو کون بھلا سکتا ہے.اے سرمایہ حیات ! اور اے ذخیرہ آخرت! تجھ پر ہر گھڑی خدا تعالیٰ کا سلام.تجھ پر ہر گھڑی بنی نوع انسان کا مخلصانہ سلام.از تاریخ احمدیت جلد 16 صفحہ 242-246) 00000
مصالح العرب.....جلد اول 541 جلالة الملک شاہ سعود سے جماعت احمدیہ کراچی کے ایک وفد کی ملاقات جماعت احمدیہ کراچی کے ایک وفد نے 15 اپریل 1954ء کو شاہ سعود ابن عبدالعزیز حکمران سعودی عرب سے ملاقات کر کے جماعت کی طرف سے ان کی آمد پر مبارکباد دی.شاہ سعود نے جماعت کے وفد سے مل کر اظہار خوشنودی فرمایا.وفد مولوی عبدالمالک خانصاحب مبلغ کراچی.جنرل سیکر ٹری صاحب جماعت کراچی.مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ وسیکرٹری تبلیغ کراچی اور مولوی نور الحق صاحب انور سابق نائب وکیل التبشیر پر مشتمل تھا.جب شاہ موصوف کو بتایا گیا کہ مولوی نورالحق صاحب انور فریضہ تبلیغ ادا کرنے کیلئے امریکہ جا رہے ہیں تو شاہ موصوف نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی کامیابی کے لئے دعا کی.جماعت احمدیہ کی طرف سے آپ کی خدمت میں سلسلہ کی کتب کا ایک سیٹ بھی پیش کیا گیا.الفضل 20 را پریل 1954 ، صفحہ 1 وبدر قادیان 7 مئی 1954 صفحہ 38
مصالح العرب.....جلد اول عربوں میں احمدیت کی تبلیغ کے باقی تاریخی حالات و واقعات مصالح العرب“ جلد دوم میں ملاحظہ فرمائیں جو 1955 ء تا 2011 ء کے تاریخی واقعات کا مجموعہ ہے، جس کی ابتداء حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے دوسرے سفر یورپ سے ہوگی.542
1 15 25 31 انڈیکس اسماء مقامات کتابیات جرائد ومجلات
مصالح العرب.....جلد اول 1 انڈیکس آدم ، حضرت 19 آغا خان ، سر 200 ابرا ہیم اللبان ، الدكتور 448 ابراہیم حسن انصاری 135 ابراہیم سلیمان، الشيخ 211، 409 اسماء 477.476.341.311.295.286 ابوالفرج الحصني 178 ابوبکر یوسف سیٹھ 56،52 ابوتو فیق محمد الصفدی 539،342 ابوحنیفہ، امام 354 ابراہیم سیالکوٹی ،مولوی 115 ، 116 اجمل خان دہلوی، حکیم 26 ابراہیم طیب المغربی شاذلی، شیخ 191 احمد الكبابیری، الشیخ 239 ابراہیم ، حضرت ابو الانبیاء ،110 ، 140، احمد بدرالدین زہری 69 ، 95 احمد بن حنبل، امام 354 144.143 ابن عباس ، حضرت 195 احمد بہاء الدین الاستاذ 435،432 ابوالعزائم سید صوفی 139، 142،141 احمد علمی آفندی 133 ابوبکر صدیق حضرت 67 ابو جہل 67 احمد خشابه پاشا 447،446 احمد درویش زقزق 480 ابوسعید عرب 70، 72،71، 107،73، 122 احمد ذکی بک، ڈاکٹر 456 ابوصالح نجم الدین 539 احمد ذکی پاشا، علامہ( شیخ العروبه) 134، ابو على الدالاتي 342 ابو ہریرۃ، حضرت 373،368 232 192.167 احمد رشید نواب 60، 68 ابوالعطاء جالندھری، مولانا (اللہ دتا (203، احمد رضا بریلوی 162 205، 230 231 232 ، 234، 236، احمد شیلی ، ڈاکٹر 448 239، 241 242 243 ، 245 ، 246 | احمد طاہر مرزا 120، 124 257.254.250.249 248.247 احمد عبد والزوری عکا324 258 259، 263 ، 265 ، 269 ، 278 | احمد عبدالقادر، الحاج 331
مصالح العرب.....جلد اول احمد علی السید 303 احمد فائق الساعاتی 131 احمد محمد الشبوطی 513،512 احمد ذکی،ڈاکٹر 456 احمدی مصری، الشیخ 239 2 امۃ الرشید، صاجزادی 58 انستاس الکر ملی 233، 234 انیس خلیل نصر، مدیر الاردن “ 394 اہلیہ سید ولی اللہ شاہ 170 ایڈن ، مسٹر 473 ایڈیٹر اخبار المناظر 84 اخطل 499 اسحاقی ، حضرت 140 ، 143 ایڈیٹر اخبار الہلال 84 اسلم بیگ مرزا 227 امین بی ، جنرل 407 اسماعیل غزنوی ، مولوی 221 ایلیا 67 انڈیکس اسود عنسی 99 افسر خزانہ دمشق 146 الدجوى شيخ 90 السعید اسماعیل ، موٹر ڈرائیور 281 الفر ولنتصل 415 الفریڈ نلسن ، پادری 174 اللبان بک ،الدکتور 448 آلوسی ، علامہ 374 ام الحسنین ( والدہ خدیو ) 135 ام عبدالرشید 326 امام حسین ،حضرت 540 امیر فیصل اول 123 ، 167 ، 171 امین الحسینی الحاج ، مفتی فلسطین 130 امینہ السید 470 امة الحميد 328 ایلیٹ ، جنرل 124 ایمن فضل عودہ ، ڈاکٹر 259 این بی راؤ ، سر 522 بڈوگلیو، مارشل 519 برکت علی مرزا 121 بشیر احمد شاہ 512 بشیر احمد شیخ ، ایڈووکیٹ 57 بشیر احمد مرزا، حضرت 24 بشیر الدین عبید اللہ 259 بشیر الدین محمود احمد ( مصلح موعود ( 5 ، 50 ، 51، 110 109 108.59.58.57.56 117 116114 113 112 111 126 125 124 121 119 118 140 139 137 133.132.129 147 146 145 143 142 141
مصالح العرب.....جلد اول 3 148 149 150 151 152 153 ، توفیق شریف، وزیر معارف 222 154 155 156 157 159 160 ، تیمور احمد شیخ 120 ، 121 161، 164 ، 166، 168 ، 172 ، 178 ، ثناء اللہ امرتسری، مولوی 284،272 179 180 ، 182 ، 193 ، 210 ، 212 ، جارج مارشل، مسٹر 413 3557 390.383.349 339.263 <245 392، 393، 398 399 ، 405 ، 415 ، جعفر صادق امیر جماعت بغداد 172 انڈیکس 422، 437، 474، 494 ، 501 ، 503 ، جلال الدین شمس 91، 131 ، 160 ، 161 ، 533.516.514 513 512.504 539.535.534 بشير الغربي الحلبي، الشيخ 128 بلال محل 212 بلفور 407 بہاء اللہ 321،320 170 166 165 164 163 162 178 177 176 174 173 172 184 183 182 181 180 179 191 189 188 187 186 185 6 $197 196 195 194 193 192 199.198 بهجت بك تلحوني 389،388 پطرس عیسائی 195 جلال الدین قمر، مولوی 259 ، 341 جمال احمد مرزا 342 پوپ 154 پولوس 237 جمال پاشا 128 جمال عبدالناصر 459 پیٹری آرک آف انطاکیہ 315 316 317 ، جمیل بک الاستاذ ، وزیر اعظم شام 130 318 پیر صاحب العلم 38 پیر پگاڑا 38 جنید 354 جودت الخطيب 394 جودت الہاشمی 128 پیلاطوس 144 پیل، لارڈ 408 توفيق الصفدى 539 حسن بن علی بن ابی طالب امام 142 حسن صافی سید 510 حسين الحراضی 281
مصالح العرب.....جلد اول سین بن ابراہیم احسینی 347 حسین بن طلال 537 ، 538 حسین سری پاشا 464 4 خیرى الحماد 394 داؤد احمد میر 264،263 دجال 15 انڈیکس حسین محمد مخلوف ، الشیخ ،432 433 434، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ حیفا 145 435، 437 438 ، 450 451، 456، | ڈی کولس 408 459.458 ذوالفقار علی خان 152 ،153 حشمت اللہ ، ڈاکٹر 154،153،152،145 رحمت علی ، مولوی 179 حفیظہ صاحبہ 56 حقی بیگ، گورنر دمشق 146 حكمة عودة 328 حلیمہ بیگم سیده ، الحاجه 57 حلیمہ یوسفیہ، الحاجہ 57 حمید احمد سردار 282 حمید نظامی 431 خالد بک حسنین 304 خالد محمد خالد 452 خالد ( بھوپالی رئیس )115، 118 خان محمد ، میجر ڈاکٹر 512 خدیجہ، حضرت 218 خضر آفندی القرق 239 خطیب جامع اموی 155 خلیفہ محمد زاہد 52 خلیل بک الاستاذ ، وزیر خارجہ شام 130 خیر الدین سیکھوانی میاں 35، 78 رستم حیدر 128 ، 171 رشدی آفندی بسطی 182، 318 رشید رضا شیخ ، ایڈیٹر اخبار المنار 88،87،83، 233 92 91 90.89 رضوان عبداللہ 281 روسچائلڈ 407 روشن دین ، مولوی 514 روشن علی، حافظ 121 ریاض صاحب 320 ریڈ وائر (Redwire)، جنرل 124 زمرمان، مصنفہ 485 زویمر ، ڈاکٹر 233 زین الدین محمد ابراہیم 54 زین العابدین ولی اللہ شاہ 120، 121، 131 129 128 124 123 122 163 162 161 160 156.147 170 169 168 167 166 165
مصالح العرب.....جلد اول 174 173 172 171 5 شاہ خالد 213 انڈیکس زین العدروس 510 سارہ ، حضرت 143 سراج الحق نعمانی، پیر 78 شاہ فاروق 432، 436،435،434،433، 464.463-462-461.459.445 شبلی 354 سراج عبد اللہ 281 سعید پاشا مفتی 388 شریف احمد مرزا، حضرت 145 ،159 شریف عون 222 سلطان الشبوطی 513،512،279 شریف مصطفیٰ عرب 47 سلطان باشا الأطرش 164 شمس الدین مالا باری 259 عبدالعزیز بن سعود ، سلطان ،202 208 شوقی آفندی 145، 321،319 322 209 210 211، 215 ، 218 ، 220 ، شہزادہ فیصل (امیر فیصل) 208 209، 220 219 213 212 211 210 273 272 271 270 ‹222 <221 225 534.523.516.274 فضل بن علی ،سلطان 510 فضل عبدالقوی، سلطان 510 سلیم الربانی، الشیخ 239 شیخ الاسلام مصر 110 عبدالعزیز شیخ 388 شیر علی،مولوی 124 ، 161 سلیم بن محمد الربانی، شیخ 189، 190 صالح الخالدی 130 سلیمان حدیدی 393 سمطس ، جنرل 393 سیبویہ 355 سیٹھ ابراہیم 54 سید علی 47 سید نورالدین رفاعی 52 سیدی محمد بن اردلیس 188 سيف محمد الشبوطي 512 صالح العودی، الشیخ 239 صالح شبیبی 512 صالح عبدالقادر عوده، الحاج 188 صحبی القطب 394 صحھی بیگ، گورنر شام 154 ، 155 صفاء غانم السامرائی 43 صلاح الدین الرافعی، الشيخ 128 129 130 صلاح الدین ملک ایم اے 131
مصالح العرب.....جلد اول 6 طاہر احمد مرزا، خلیفہ امسیح الرابع 44،43 عبد الخالق حسونہ پاشا 446 طه القرنق 164 ، 178 ، 182 ، 197 ، 329 ، عبدالرحمن السعيفان، الشيخ 342 383.338 ظفر احمد منشی کپور تھلوی 35 عبدالرحمن بر جاوی، الشیخ 239 عبدالرحمن بن قیم 354 ظفر اللہ خان محمد ، سر 124 ، 263 ، 401 ، عبدالرحمن بھائی قادیانی 138 ،141 402، 409 410 411 412 413 ، عبدالرحمن بھیروی ، میاں 56 414، 428، 431، 432، 433، 434، عبدالرحمن جٹ 59 435، 436، 438، 444، 445، 446، عبدالرحمن لا ہوری مصری، 146.122.453.452.451 449.448.447 انڈیکس.121.120 454 455 462،456، 465، 466، عبدالرحمن عزام پاشا 474،473،444 467 468 469 470 473 474 ، عبدالرحمن ماسٹر ( سابق مہر سنگھ (276 493، 513، 516، 519، 520، 521، عبدالرحمن مبشر ، مولوی 49 ،229 536.526.525.524.522 عاصم جمالی 15 ،45،28 عباس حلیم، شہزادہ 464 عباس عوده، شیخ 328 عبدالرحمن ہارڈی 213،212 عبدالرحمن ، سیٹھ مدراسی 45 عبدالرحیم آفندی بیروتی، پوسٹ ماسٹر دمشق 156 عبد الرحمن الخلیفہ، رئیس الدیوان الملکی 388 عبدالرحیم بیگ مرزا 541 عبد اللطيف العبوش الشيخ 250 251 252 عبدالرحیم درد ، مولوی 145 ، 209،208 عبد الله افندی القِلْقِیلی، شیخ 260 عبدالرحیم کرنل 523 عبدالبهاء عباس 145 عبدالحميد الكاتب 465 عبدالرحیم نیر، الحاج 56، 221 عبد الرزاق قادری البغدادی 40 41 42 عبدالحمید خورشید آفندی ،195 ، 197 ، 198 عبدالرشید چغتائی، مولوی 321 ، 342 ، 343، 388 387385.383.382 <344 $395.394.392.391 390.389 527.254 عبدالحی 51
مصالح العرب.....جلد اول 518.517.396 عبدالرشید 328 عبدالستار قبطی ،مولانا 116،115 عبد السلام میر 212 عبدالعزیز جاولیش 128 عبدالعزیز سندھی ، ڈاکٹر 56 7 عبداللہ شیخ 318 انڈیکس عبد الله محمد الشبوطی 279 ، 507، 510 ، 511 ، 513.512 عبد اللہ والوقی ، ڈاکٹر 219 عبداللہ یوسف ہروی 511 عبدالله العرب 38، 39 عبدالقادر المغربي 128 ، 130 ، 147 ، 148 ، | عبدالمالک خانصاحب، مولوی 541 255 166 165.152.150.149 عبد المالک محمد عودة 246 ، 247 ،249 عبد القادر جیلانی 142 ، 146 ، 147 ، 354 عبدالمجی عرب الحويرى 49 50 51، عبد القادر حمزہ 531 119.115.110.109.56 عبدالقادر، خان بہادرسر 209 عبد المهدى العثير 536 عبدالکریم المعايطه 383 عبدالوہاب العسکری 490 494،491 عبدالکریم ، حاجی 228 229 عبدالوہاب پاشا 446 عبدالکریم خان یوسف زئی 380،365 عبدالوہاب قاضی بغدادی 46 عبدالکریم سیالکوٹی 17 ، 25 ، 27 ، 36، 70 ، عبدہ سعید صوفی 512 97.93 عثمان عرب 48 عبداللطیف،الحاج 231 عبداللطیف شہید سید 177 عبداللطیف 38 عبدالله اسعد عودہ 197 ،496 عبد الله الرباح (شرعی وکیل ) 394 عبد اللہ النجار 395،388، 396 عبد اللہ بک تک 388 عبد اللہ بن بلہید 221 عثمان غنی ، حضرت 540 عزیز بشیری، ڈاکٹر 505،503 عزیزہ بیگم الحاجہ، ام وسیم 57، 59 عطاء اللہ، کرنل 212 عطاء المجیب راشد ، مولانا 283 عکرمہ نجمی 259 علام نصار بک، الشيخ 449 علی الخیاط آفندی 431،426
مصالح العرب.....جلد اول على الدقر ، شیخ 181 علی بن حسین شاہ 226 علی حائری،شیعہ 39 علی حسن 228 علی حکیم عبده 281 علی سالم بن سالم عدنی 511 على طالع ، 15 ،74 علی العمری، القاضی 211 على قزق ، الشيخ 239 علی ماہر پاشا 473،462 علی محمد ، حاکم علاقہ جعار 510 علی ، حضرت 11 عمر بن عبد العزيز 292 عمر حسین سوڈانی 281 عمر خلیل المعانی ( ایڈووکیٹ عمان )394 عمر علی ملک 399 عمرؓ، حضرت 540،5 عون بک الہادی 211 8 510.509.508.506.505 انڈیکس غلام احمد مرزا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) 18.17 15 14 13 11 9 8.5.3 6 $28.27.26.24 23 22 21 20 19 39.38 37.36.32.31.30.29 49.48.47 46 44 43 42 41.40 61.60.58.57.56.55.54.53.50 €74.73 72 71 70.69.65.64.62 86.85.84.83.79.78 77 76.75.96 95 94 93 92 91 90.89.88 110 107 103 102 100.99.98 126 121 119 115 113.111 141 140 136 135 134 130 162 153 152 149 148.142 173 170 169 167 167 163 191 188183 178 177.174 203 201-200.195 غلام محمد کھوکھر 322 عیسی ابن مریم " مسیح ناصری ، 11 ، 12 ، 40 ، غلام نبی ہیٹھی ، میاں 25 63، 66، 67، 100،79، 142 ، 144 ، فخر الدین ملتانی 59 175.169.154 153 152 151 عیسی خوری 168 ، 169 ، 170 غزالی، امام 86 فرزدق 355 فرعون 7 ، 65 ، 138 ، 465 فضل الہی انوری 290 غلام احمد مبشر ، مولوی 239 ، 503، 504، فضل الہی بشیر 259
مصالح العرب.....جلد اول فضل یونس عوده 259 فلاح الدین عوده 259 9 مبارک احمد ، صاجزادہ 54 ، 303 مبارکہ بیگم نواب 51 انڈیکس فلپس امریکان، ڈاکٹر 195 ، 233 ، 236، مبرد 355 237 فوادالاول، پروفیسر 448 فواد سراج الدین پاشا 464 فوزی پاشا ملقی 388 فیروز الدین، ڈاکٹر 508 قمر الدین ، مولوی فاضل 78 قیس 499 قیصر 5 محبّ الدين الخطيب 136 ،233 محسن البرازی بیک (وزیر شام )167 محمد ابراہیم سالم ، الشيخ 449 محمد احسان الہی جنجوعہ 319 محمد احسن امروہی سید 55 محمد احمد، ڈاکٹر 503، 504، 505، 506، 513 محمد اسحاق میر 173 کامل القصاب، شیخ 183، 184، 185 محمد اسماعیل سورتی ، مولوی 221 کامل منصور شیخ، پادری 195 ، 196 ، 233، محمد اسماعیل میر ، ڈاکٹر 78،50 238.237 محمد الدر خبانی 342 کرد علی الاستاذ ، وزیر تعلیم شام 130 محمد الصديق الغماری 377، 380 ، 381 کسری 5 كعب الاحبار 378،373،368 کمال الدین خواجہ 70 کمال یوسف سید 57 58 کو بری سیمون 195 کونٹ سفور زا 523 لارنس ، کرنل 407 لیکھرام 72 مامون 355 محمد اللبدى الشيخ 232 محمد المغربي الطرابلسی 188، 189 محمد المهادی الحلیم بن محمد التقی بن جعفر 478 محمد امین الشنقيطي 388 محمد بدیوی مصری، الشیخ 278 محمد بشیر ابراهیمی 477،476 محمد بشیر ابراهیمی 477 محمد بن احمد المکی، الشیخ 11، 12، 13، 14، 74.47.15
مصالح العرب.....جلد اول 10 محمد بن عبدالوہاب 214 ย محمد صادق مفتی 56،54،36 محمد بن محمد منصور رياقات المغربي 187 محمد صدیق امرتسری 212 انڈیکس محمد تیسیر ظبيان 394 محمد جمال یوسف 52 محمد جمیل، حافظ 36 محمد حسن فیضی 84 محمد حمید کوثر ، مولانا 246، 259 محمد صدیق گورداسپوری 347 محمد صدیق بانی ، میاں 284 محمد صلاح الدین پاشا، ڈاکٹر 446 محمد طاہر ندیم 152 ،178 محمد عادل قدوسی 476 محمد خان، میجر ڈاکٹر 512،511،505،503 | محمد عبداللہ ماضی، ڈاکٹر 486 محمد سرور شاہ 57، 58 محمد علی اسودی 510 محمد سعید الشامی الطرابلسی ، 15 ، 16 ، 21، 22، محمد علی پاشا، ہز ہائینس 135 28،27،26، 29، 35،32،30، 37 ، 40 ، محمد علی علویہ پاشا 446 163 محمد سعید بخت ولی 255 محمد سعید، صوفی 511 محمد سعید یوسف 57 محمد سعید 36 ، 37 محمد سعیدی النشار الحمیدی الشامی 34 محمد الشامی، القاضی 211 محمد علی 321 محمد فاضل پاشا 233 محمد فال البيضاوى الشنقيطي 389، 396 397 محمد قزق ، الحاج 183 محمد منور، مولانا 259 محمد نجیب، جنرل461،460،459 محمد شریف چودھری، مولانا 57 ، 187 ، 309 ، محمد ندیم انصاری 323 312 313 314 315 316 317 ، محمد نزال العرموطي 393 318، 319، 322، 323، 325، 326 ، محمد نوام ابو فوزی 187 328 329 330 331 332 333 ، محمد ہاشم پاشا، ڈاکٹر 464 334، 336 339 340 341 342 ، محمد ہاشم خاں صاجزادہ ، ڈاکٹر 503 392 382 347.345.344.343 محمد ہلال المعايطه 383
مصالح العرب.....جلد اول 11 محمد یعقوب ، حافظ 28،26، 29، 37 مرتضی احمد خان 362 محمد یوسف بغدادی 98 ، 100، 101 مریان پطرس، پادری 198 محمد یوسف بی ایس سی 514 الله محمد مصطفى عمل ، 3 ، 5 ، 8 ، 9 ، 11 ، 12 ، 13 ، بنصرہ العزیز) 530،44 انڈیکس مسرور احمد مرزا ( خلیفہ ایسیح الخامس ایدہ اللہ 19، 20، 21، 23، 40،38،35،26، 53، | مسیلمہ کذاب 99 66،65،64، 67، 74، 75، 76، 99،77، مشتاق احمد باجوہ 399 100، 101، 110، 112 113 114 ، مصطفى المراغى، الشیخ 239، 240، 304، 261 234 203 188 175.116 365.305 286، 357، 358، 360، 362 ، 368 ، مصطفی کمال پاشا 96 369، 370 ، 373، 392، 419، 421 | مصطفى مومن 454 440 441، 450، 480، 502، 517 ، مصطفیٰ نحاس پاشا 464 518 محمد علی خان نواب 36 محمود احمد انیس 262 مصطفیٰ نو یلاتی 164 ،178 مطیع الرحمن بنگالی 483 مفتی القدس 140 محمود احمد عرفانی، شیخ 132 ، 133 ، 138 ، مفتی بیت المقدس 144 198.194.142 محمود احمد ناصر میر 51 مفتی دمشق 146 ملحم الذهبيه، پادری 196 محمود شلتوت ،مفتی شیخ الازهر 364 365 ، منیر احمد خاں 512 366، 371، 372، 377، 378 ، 380 ، منیر الحصنی 90، 91، 129، 130، 161، 381 محمود عباس عقاد 92 182.179.178.175 174 173 198.195 194 193 محمود عبد الله الشبوطی 513،512،511 موسی اسعد عوده 259 محمود مجیب اصغر 56 محی الدین احصنی 303 موسیٰ ،حضرت 100،7 ،138 مولا بخش ملک ، پنشنز 49
مصالح العرب.....جلد اول مہتاب بیگ مرزا، ٹیلر ماسٹر 56 مهدی حاجی العربی بغدادی 45 مہر علی شاہ گولڑوی، پیر 83 میںگلی ، ( جہاز کا ڈاکٹر )154 ناصر احمد مرزا، خلیفہ اسیح الثالث 59 12 نور محمد، حافظ 36 انڈیکس نورالدین، حضرت حکیم مولانا (خلیفہ اسیح الاول ) 15 ، 25، 50، 54، 56، 93، 97، 112 111 107 105 103.102 124.122 121 120 114 113 ناصر نواب میر 56 ، 110، 112، 16 1 ، | 130، 167 118 117 نجم الدین ابوصالح 539 نجیب الہلالی پاشا 435، 436 نووی، امام 292 نیاز فتح پوری ، علامہ 22 واصف فخر الدین 394 نذیر احمد، ڈاکٹر ،276، 279 280 281 ، وجیه حسن فطامر نابلس 324 284.282 نذیر احمد علی الحاج 347 نذیر احمد قریشی، حوالدار 320 نذیر مراد نی 164، 178 وسیم احمد مرزا 57 وکٹر خوری، ڈاکٹر 493 ولی اللہ شاہ سید، برادر نسبتی 170 ووڈ ہڈ 408 نسرین صاحبہ 512 نصر اللہ خان ناصر 15 ،45،28 وہب بن منبہ 378،373،368 وهبه الحافظ 213،211 نصرت جہان ، ام المومنین 116،59 ہارون الرشید 355 نصیر احمد مرزا 58 نظام الدین طوسی 355 نعیم احمد مرزا 57 نواز خان 205 ہاشم احمد ورائل ہائل 511 ہاشم الخطيب شيخ 180 ، 181 باشم الشريف الخليل البيروتي ، الشيخ 128 ہانی طاہر 92 نور احمد منیر شیخ 129 ہر برٹ ایوات ، مسٹر 413 نور الحق انور 541 ہیلی سلامی 281،280،277 نور محمد نسیم سیفی 516 هزاع المجالي 388
مصالح العرب.....جلد اول یحیی خان 56 یحی ، حضرت 251 13 یوسف، امام 354 یوسف زئی، ڈاکٹر 56 یعقوب علی عرفانی 56، 124 ،218 یوسف ، حضرت 143،140،62 یعقوب ، حضرت 140 ، 143 ☆ انڈیکس
مصالح العرب.....جلد اول 15 مقامات اٹلی 154 ،158 ، 273، 276 ، 277، 356، افغانستان 164 انڈیکس 386-379-312 521 520 591 <481 ‹463 <387 الجير يا 476 ام الفحم 232 امریکہ 38، 134، 135، 149، 210، +363.321.268 267 240.226 523.522 احد، پہاڑ 35 احمد آباد 52 ارجنٹائن 312 اردن (شرق الأردن، الأردن Jordon) | 379، 387، 409، 411، 412، 413، <420 419 417 416 415.414 $469.461 454 426 425.423 256 211 192.182.178.164 344 336 334.312.295.260 494 491 484 483 480.475.390 389.388.387.384 382 $396.395394.393.392.391 538.537.529.482.422.397 اریٹریا 468 استنبول 227 541 انڈونیشیا 529،479،416،476 انطاکیہ 318،315 انگلستان 135 ، 202 اسرائیل 310،142، 337، 338، 428 | ایران 18 ،164،119 495.494.448.430 اسکندر آباد 133 اسکندریہ 69 ،95، 102 ایف سی کالج لاہور 409 آسٹریلیا 413 باب الحديد، مصر 198 بجنور 531 افریقہ 149 ، 203، 221، 266، 276، 312، 334، 343 ، 348 ، 355 ، 363 ، بحیرہ روم.میڈیٹرینین 355 387، 442، 443، 479، 483، 491، برٹش ایمپائر 137 520 بر جا342
..جلد اوّل مصالح العرب...برقه (Cyrenaica)521،519 برلن 227 16 16 بیل 406 انڈیکس پاکستان 38 ، 58، 130، 262، 282، 393 391 389.388.385.384 415.414.402 401.399.398 <424 423 422 420 418.416 436 435 434 432.428.425 برنڈ زی 158 بڑودہ ریاست 52 بصره 231، 427،354 بعقوبہ 43 <448 446 445 444 443 442 119.98 46 45 43 4240 <454.453.452 451 450.449 +225 206 172 171 170 <168.425.424.354 334 269 +231 490.480.429.427.426 468 466.465.457.456.455 <476 <474 <473 472 <471 <470 531.525.523 بلاسپور ممالک متوسطه (Middle East 46 | 517،502،493، بلودان، شام 196 537.536.532 پالم تپیش ہوٹل 455 بمبئی 133،52، 442،162،137 بن غازی 254 پیٹن 58،55،52 بہشتی مقبره281،59 بھوپال 115 بھیں 84 بیت پٹیالہ ریاست 49 پنجاب 24، 68، 84، 124، 200، 432 402 401.344 المقدس (یروشلم، القدس ، قدس 5 ، پورٹ سعید 303،158،138،111،110 365151 146 144 143 123 122 192.173 پیرس 493،354 بیروت ،5 ، 26 ، 123 ، 128 ، 129 ، 131 ، | ترکی 18 ، 128 ، 139 ، 356، 379، 406، 316 315.314.255.180.158 519.421.407 318، 336، 353 354 ، 388 390 ، | تل ابيب 490 534.533.440-419-408-407 تو اہی 507،506،505
مصالح العرب.....جلد اوّل 17 انڈیکس تونس ( تونس )520،475،474 جموں 12 جاپان 304 305 ، 442،387 چنیوٹ 284 جافا 408 چین 442،387،305،304 حبانیہ 427 جامع اموی 149 ، 150 ، 152، 153 جامع جرینہ 188 جامع سَنجَقْدار، دمشق 152 حبرون 251 حبشہ (ابی سینیا، ایتھوپیا )276، 278،277، حجاز (ارض)113،75،8، 119 جامعہ احمد یہ ربوہ ،51 ، 57 ، 262 263 | 334،282،281،280،279 511.503.476.405.281.264 جامعہ از ہر 193 ، 140 ، 189 ، 193 ، 194 ، | حرمین 83 198، 229، 233، 237 238 239 ، | حضر موت 514 123333332 <304 +267 +245 <244 حماة 206 379.378.377 371 365.364 457.440.436.380 حمص 156، 168، 169، 204، 206، 382 حیدر آباد دکن 40، 107 حیدر آباد 40، 107، 528،227 جامعه المبشر بین 491 جاوا 387 جبل دروز 164 182 162 158 145 14491‹112 111 110‹58.56.55-52 203 193 191 188 185.183 535.278.268.177.138.117 ‹238 ‹234 ‹233 ‹231 230 206 419 ‹407 ‹356 ‹355‹264 $255.250.249 248 246 245 310 309 295.264.263.257 319 318 317 316 314 313 329.328.327 326.321.320 344 343 340 339 336 <335 481.442 الجزائر 363، 466، 468، 476، 477، 520 جعار 510 جلیل 494
مصالح العرب.....جلد اول 18 382 383 ، 408 ،435، 447، 458، ڈنمارک 174 495.494.461 ڈیرہ دون 26 ، 28 ، 37 انڈیکس خانقین 427 خدیو یہ ہوٹل دمشق 151 خرطوم یو نیورسٹی 142 خلیج فارس 514،382 الخليل 252،251 دار السرور ہوٹل دمشق 152 دار العروبه 134 راولپنڈی 398 ، 470 رائل آٹو موبائل کلب 464 رأس التين قصر 462،461 ربوه 15، 28، 59، 131، 243، 262، $284.282.281 278 264 <263 472.349.348 344 341.309 513.512.511 501 491 <476 534.515 دار العوام 409 دامون 334 رشید ( مصر کا ایک شہر (142 دمشق ،5 ، 122 129 130 131 ، 146 ، رنگون بر ما 70، 71 6 157 156 153 151 150 147 158، 160 ، 162، 163، 164، 165، زیکوسلواکیہ 357 387.179 177 174 173 172.169.167 178، 179، 187،182 ، 196 ، 206 ، سنترال ہوٹل دمشق 146، 151 ، 152، 158 340 339.333.249 231 <223 سندھ 38 342 343 344 345، 351، 382، سنگاپور 254 405، 424، 425، 479، 480، 484، سو بورن یونیورسٹی 171 537.533.518.517.491 دواخانہ خدمت خلق ربوه 512 دوبئ 515 دہلی 26 ، 72، 73 ، 134 ڈ برابرہان 281 سوڈان 199 سورت 533 سوئٹزرلینڈ 145 سویز ، نہر 473،358،162،111 سیالکوٹ 27 ،212
..جلد اوّل مصالح العرب...19 انڈیکس العالمين 357 سیرالیون 320 ،350،349،348،347 شارع الناصر 0 182 عدن 56، 138،110، 282،279،254، شام (سیر یا )6، 7 ، 18 ، 21، 26، 30، 32 ، 503، 504 ، 505، 506، 507، 508، 513.511.510.509 123 122 113.90.83.37.36 128 ، 130 ، 137 ، 138 ، 148 ، 154 ، عدیس ابابا 277، 278 ‹167‹164‹79‹49 <4341 173 ‹167 ‹165 ‹164 161 160 $240.225.211 208 172.168 312 269 268 267 +256 +254 353.334.323.318.316.315 $408.390.357 356 355.354 502.491 476 428 427 <420 536.529 " 211 204202.183.182.174 $245.240 227 225 224.223 315 301 278.268.256.254 شاہی مسجد لاہور 84 شعب بنی عامر 15،14،11 شکا کو 483،415 شیخ عثمان 504 صفہ 334 عرب سعودی عربستان ) 4، 6، 7 ، 21، 33، 211 150 148 119.72.39.34 صلاح الدین ایوبیہ کالج بیت المقدس (الکلیہ 213، 272 ، 408، 442، 529، 533، الصلاحية ( 123 ، 128 ،166، 171 ،173 541.534 طائف 48 طبروق 363 طرابلس 21، 26، 32 ، 36 عہ 145 عمان کلب (389Amman Club عمان 206، 382، 384، 385، 387، طرابلس (ٹریپولی ) 21، 26، 32 ، 36، 389 ، 392، 393، 394، 395، 396، 523.522.521.520.519.206 طہر 3340 طيره 188 عاره 232 533.515.514 486 485.482 538.537 عمر مفید بنی منصور ( بحیرہ (365 فارس 6،3
انڈیکس مصالح العرب.....جلد اول 20 20 فرانس 171، 203، 223 ، 344، 387، فیض اللہ چک 36 522 521.519.481.474 فزان (فوزان، فیضان )522،519 فلاڈلفیا 389 قادیان 14، 25، 35، 54،50،49،36، 98.79.68.61.59 58 57 56.55 158.142.124 115 113.108 206 195 177 173 160 159 160 158.137.130.57 $230 229 227 226 224 207 187 186 185 184 183 182 $270.269.264 257 245 <231 212 211.206.193.191 189 308 300 295.282.278 277 240 238 234 231 <230 <227.350.345.344.341.320.309 253.251 250 246.245.241 138 135 133 123.111.84 $224.207.206.198 142.139 245 231 230 229 227 226 <282 <278 <277 270 <269.257 $341.320.309.308.300.295 383 362.351.350.345.344 <442 <439 427 426 405 <404 $263.261 260 256 255.254 308 301 295.278 268 <267 320 318 315.312.310.309 329.328.326.325.323 <321 342 341 339.338.334 <331 +383 382.357.356.344.343 392 390.388.387.386.385 512.507504 503.497 496 409 408 407 406.398.393 541.534.532.527 415 414 413 412 411.410 416، 417، 418، 419، 420، 421، قبیبہ ، عرب گاؤں 537 422 423 424 425 426 428 | قصر الدوبارہ (قاہرہ (135 430 431 ، 435، 446، 447، 459 | قصر رغدان 393 514 469 468 467 466 465 460 537.496 495 494 493.473 فیروز پور 38 کابل 188 کاٹھیاوار 52
مصالح العرب.....جلد اول 21 لجرات 52 کبابیر 183، 188، 189 ، 204، 205، 206، 238 ، 241، 245 246، 249، گرانڈ ہوٹل نصار، حیفا 144 252، 255، 295، 310، 311، 313 ، گرداسپور 68 322، 326، 337 339 340، 342 ، گورنمنٹ کالج لاہور 411.496.495.494 گولڈ کوسٹ 479 کراچی 26، 263، 278، 341، 398، گیمبیا 57 399، 446، 450، 470، 474، 476، | لاذقیہ 206 انڈیکس 541.537.536.535.523.513 لاطینی امریکہ 523،522،520،494 کر بلا 540 کردستان 43 الکرک ( اردن کا تاریخی شہر (393 کرلوپ (جموں )365 کرنال 26 كريتر 509 کشمیر 79 کلکتہ 71 کلیہ دارالعلوم مصر 333 ،448 کلیة الشریعہ الاسلامیة 365 کوئٹہ 398 لائبیریا 263 ، 412 لاہور 129،124،83،57 لبنان 12 3 ، 315، 318، 320، 334، 348 347 344 343 342.341 529.498.422.396.383.382 لحج 510 لدھیانہ 12 ،14 لکھنو 534،354،100،98 کوہ کرمل 238، 240، 255، 326، 328، 495 کوه مقطم ( مصر ) 134 کویت 312،245، 334 کینیڈ 4691 لندن 56، 137 ، 154 ، 202،159، 208، 220 219 218 ‹213 211.209 354.326.310.303 271.221 481.473.409.408.402.401 493.482 لیبیا 313، 529،523،522،520،519 لیک سکس 493،413 لیگوس 516
مصالح العرب.....جلد اول لیور پول 481 مالیر کوٹلہ 37،36 مبعد الازبكية 201 محميات عدن 279 مدراس 45 22 22 انڈیکس مصر 18،7 ، 21، 69، 83، 95،90، 97، 112 111 110 109 108.102 6 137 133 132 120 119 113 148 143 142 141.139.138 195 194 193 167.159.158 <231 228 227 $225 210 <206 253.245.244 242 240 <236 مدرسہ احمدیہ کہا بیر 188 ، 203 ، 255،240، 196 ، 197 ، 198، 199، 203، 204، 327.323.322 مدرسہ احمدیہ 108، 120، 405،121 مدرسه فتح پوری دہلی 26 مدرسه نعمانیه 84 $290.286.278 267 255.254 304 303302.301 298.285 332.331 316 313.308.305 183.162.10952 125 365 363.358.357.346.333.418 362 360.359.356 273 531.516.419 مراز علی 334 مراکش (المغرب ) 187، 254، 363،.520.475.474.473.454.382 مسجد اقصیٰ قادیان 179 410.408 407.379.378.377 436 435 434 433 432 <431 443 442 441 440 439.438 449 448 447 446 445.444.455.454.453 452 451.450 مسجد سید نا محمود ،204 ، 238 ، 239، 240، 456 457 458، 459، 460، 461، 495 سجد فضل 137 ، 208، 209، 210 ، 211، 408.212 مسجد مبارک قادیان 55،54،36 <473 470 469 467 464 <463.523.522.521 520 481.474 531.527.524 مطبعہ الفیض 425 ( نیز مساجد کے لیے دیکھئے زیر لفظ ” جامع مطبعہ الکمال عدن 511 مسقط 515،514،295 المعايطه ، قبيله 393
مصالح العرب.....جلد اول معلا 509 مکناس (مراکش)187 23 23 وی آنا 431 ہالینڈ 357، 485 انڈیکس مکہ 5، 11، 12 ، 15 ، 17 ، 20 ، 55،52 ، | ہندوستان ،6 ، 17، 18، 21، 24، 37، 52، 93.92.84.83.79.61.60.57 109 76 75 74.72.61.60.58 168 153 150 130 124 <108 122 117 115 113 112 111 <221 220 211 210188.138 $239.226.214 210 209.198 $281.277.263.253 241 240 278 276 274 273 <271 <222 354 351.333.308.303 <286 <443-442.427 418 387 <362 476.471 410.407390 360.359.356 533.516.439.419.418 منشية 321 منى 117 ہوٹل سنتر ال بيروت 158 موصل 206 ، 354 بیٹی ( Haiti - ہائیٹی 522412 نابلس 252 ،324 یافا 240، 432،260 ناصره 255، 330 یمن 187، 188 نا پینجیر یا 516،479 نرسنگھ داس گارڈن کلب روڈ 362 تصيبين 79 نیل ، دریا 7 ، 135،100 نیو گرانڈ ہوٹل 143 وادی السیاح 188 واشنگٹن 412 وکٹوریہ ہوٹل دمشق 151 یورپ ، 4، 5، 134 ، 135 ، 137، 138، 208.160.159.154.149.139 443 344 305 291 267 <226 <482 481 480 479 477 <454 541.512.491.484 پہلے ، قصبہ 350 Wei Shan چین 262 Yun Nan چین 262 ☆
مصالح العرب.....جلد اول 25 انڈیکس ابوداؤد 441 احمدی اور غیر احمدی میں فرق 505 احمدیت یعنی حقیقی اسلام 137 کتابیات إيقاظ الناس (عربي)37،32،27 آئینہ کمالات اسلام ،15، 17، 18، 20، 21 ، <21:20 18:17:15-1 70-41.40.29.28.27.26.25 احمدیہ موومنٹ (انگریزی) 505 أعجب الأعاجيب في نفي الأناجيل لموت ازالہ اوہام 8 ، 12 ، 15 المسيح على الصليب 206 295.293 بحار الانوار 442 الاستفتاء 55، 69، 95، 162، 188، بائبل 237 اسلامی اصول کی فلاسفی (چینی ترجمہ )262 البخاري صحیح 358، 378، 441 اسلامی اصول کی فلاسفی 162 براہین احمدیہ 45، 168، 465 أسئلة وأجوبة (رسالہ،حصہ اول)295 برہان صداقت 229 اعجاز ا ح 55 ،280،89،86،85،84 البرهان الصريح في ابطال الوهية المسيح اقدس 320 206.196 الاقتصاد في الاعتقاد 86 برہان ہدایت 290 الف لیلہ 354 پیغام صلح (انگریزی) 505 الانصاف بين الاحباء ( عربی )27 پیغام صلح 505 به تقرر انجام آهم 15 ،440،313،48،45،28 تابعین اصحاب احمد 189، 285 اجیل ،11، 99، 154 ، 169، 198 ، 199 ، | تاج العروس 166 235، 237 ، 243 ، 253 ، 260، 291 ، تاریخ احمدیت حیدر آباد دکن 52 417 انشاء الادب 405 تاریخ احمدیت 14، 15، 21، 22، 23، 50، 113 111 110 102.92.78.55 انوار العلوم 141، 150، 153، 154 ، 157 ، 114 ، 116 ، 126 ، 127، 133 ، 141 ، 352.211 161 159 158.157.154.153
مصالح العرب.....جلد اول 26 انڈیکس 164، 172، 174، 182، 189، 197، التعلیم (کشتی نوح کے ایک حصہ کا عربی ترجمہ ) 169 167 227224 217 215.206 203 245،228، 264، 267 268 269 ، تنویر الالباب 319 305 302 295.282 275.274 توریت 99، 417،291،244،235 308، 363، 364، 365، 381، 397 | توضيح المرام فى الرد على علماء حمص و 400، 402، 405، 408، 409، 477، | طرابلس الشام 206 484، 491، 492، 494، 495 ، 502 ، تین سو تیرہ اصحاب صدق وصفا 15، 45،28، 540.530.518.515.513 46 التبليغ 17، 18، 21، 26، 27، 28، 31، الجہاد الاسلامی ( ٹریکٹ (176 280.70.40 1763128 تبلیغی میدان میں تائید الہی کے ایمان افروز 142 واقعات 283 حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا سفر یورپ 138 ، حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 120 ، 124 الحقائق عن الاحمديه 167، 171،169 تحدیث نعمت 523،520،474، 538،537 | 170167 تحریک احرار 271 تحفہ بغداد 280،43،42،31،17 تحفہ شہزادہ ویلیز (انگریزی)505 تحقيق الادیان (پمفلٹ)197 تذكرة الشهادتين 177 تذكرة 7، 126 تفسیر ابن جریر 442 تفسیر المراغی 308،305 تفسیر المنار 92 تفسیر حسینی 442 تفسیر کبیر 263،118 حقیقہ الوحی 95،69،51،50 حكمة الصيام 206 حمامة البشرئ ،4 ،15، 17، 31، 62،38، 313 180 153.86.75.74 حیات خالد 230 حیات نور 51، 103 ، 107 ، 108، 109 ، 124.122.119 115 114 113111 حياة المسيح وكشوف العصر الحديث 92 حياة المسيح ووفاته 167، 169
مصالح العرب.....جلد اول 27 انڈیکس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب کے حالات زندگی 162، 173،165، 176، 263 178 ، 180 ، 182 ، 186، 187 ، 189 ، | سراج منیر 45 189، 190 ، 191، 192، 194، 195 | السراج الوهاج في الاسراء والمعراج 142 203 سلسلہ احمدیہ 4 2، الخطاب الجلیل (اسلامی اصول کی فلاسفی کا | 194،182،164 ، 209 عربی ترجمه (169 خطبات محمود 215، 274،224،217 خطبه الهاميه 166، 229، 278 درویشان احمدیت 290 دعوت اتحاد 263 دعوة الامير 263 $25 <1 3 7 سیرت المہدی 25 ، 35، 49،36، 50، 70 ، 78 سیرت حضرت ام طاہر 131 سيرة الابدال 504 عالم اسلام میں میرے آقا کے تذکرے 225 عبرانیوں 236 دليل المسلمين فى الرد على فتاوى عشرون دليلا على بطلان لاهوت المسيح المفتين 206 دیباچہ تفسیر القرآن 280 249 غاية المقصود 442 ذکر حبیب 28، 45،36 رپورٹ سالانہ 186، 198 فاروق.......ملكاً 435،432 الفتاوى 381 رپورٹ مجلس مشاورت 187 ، 189 ، 194 الفرقة ناجية 142 رحمۃ للعالمین 263 روح پرور یادیں 212، 213 قرآن ، 11 ، 24، 36، 76 ، 94، 142،99، 248 235 188 148 147 سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ 33-1932 ، 253 ، 260، 277 278، 299، 332، 231 سبيل الرشاد 39 سچائی کا اظہار 12 ، 28، 29، 31، 47 376 375 372 371.360.359 404 398 387.383.381.377 <438 429 421 419 417.416
مصالح العرب.....جلد اول 28 440، 442،441، 450 ، 455 456 | المفاهيم في الميزان 142 474، 476، 484، 509، 526، 531 ، مفتاح العلوم 121 533.532 الكبابير..بلدی 197، 245 مقالات ورود احمديه 164، 178 مکتوبات احمد یہ 7 ، 45 تحفہ غزنویہ 465 انڈیکس کتاب البریہ 46 کتاب الحج 218، 222 كتاب الصرف 302 كتاب النحو 302 مفتاح باب الابواب 478 مشاہداتی فی سماء الشرق 492 مکرم طه قزق آف اردن کی بلا د شام میں احمدیت کرامات الصادقین 17 ،440،55،31 کے بارہ میں غیر مطبوعہ یادداشتیں 164 ، 178 ، کشتی نوح 167،57،39، 327،263،169 197 كشف الضال الظلام عن مرآة كمالات | ملفوظات 4، 72،39، 77،73، 79، 93، الاسلام 41 101.97 95.94 الكفر مله واحده 417، 425، 426، 430، منجد 302 431 لجة النور 280 منن الرحمن 77،76 مواہب الرحمن 96، 97، 162 لجة النور 6 ميزان الاقوال 206 لغات القرآن 51 نزول ایح 89،50 متی کی انجیل 235 نسائی سنن 441 مجموعہ اشتہارات 84 نشان منزل 431 مسلم صحيح 358،153، 378، 441 نظام نو 504 سیح ہندوستان میں 79 نور الحق 37،34،17،6،5 مصائب الأنبياء والأبرار على أيدى السفلة وسائل اظها رالحق 142 والأشرار 269 معارج المقربین 142 الوصیت 263 الهدى والتبصرة لمن يرى 89، 90، 91،
انڈیکس 29 29 321 The Bahai World مصالح العرب.....جلد اول 403.313 هداية السالك الى علم المناسك 142 Bahaullah & The New Era بہاء الهدية السنية لفئة المبشرة المسيحية 206 | اللہ اور عصر جدید (321 هيئه الأمم المتحدة وقرار تقسیم فلسطین ، The Bahai Faith، پمفلٹ 321 (ٹریکٹ)430 415.What Price Israel
مصار ع العرب...جلد اوّل آخر دقيقة (اخبار) 316، 317 آفاق، روز نامہ لاہور 454 الأخبار (اخبار) 422، 316 الأخبار الجديدة 444 أخبار اليوم (اخبار) 422 31 جرائد ومجلات (رساله) 89، 91، 129، 172، 174، 241 213 206 194 189 $261 *260*259.258.254.242 293 290 271-269-263.262 316 312 311 310 304.295 الأردن (اخبار) ،386 385، 389، 393، 317 ، 323 ، 327، 333، 338، 401، 422.394 الإسلام (رساله) 290 291، 293، 461.458 447 445.435.432 535.527.526.525.495.491 513 الإسلام (اخبار) 316 اسلامی دنیا (اخبار)227 البلاغ، بیروتي (اخبار) 180، 449، 531.450 البلد (اخبار )316 الف باء (اخبار) 422،180،158،156 بیروت المساء (اخبار) 456،455 انقلاب (اخبار) 494،493،409 التمدن الاسلامی (رساله) 479 انوار الاسلام (رساله) 254 تفخیذ الاذہان 329، 331، 341، 403، الأنباء (اخبار)426 الاهرام (اخبار )90 اہل حدیث امرتسر (اخبار) 272 404 الجامعه الاسلاميه (اخبار) 240، 271 الجزيرة (اخبار) 384، 394، 482 بدر (اخبار) 5، 60، 62، 98، 108 ، 119 ، | الجمهور المصرى (اخبار) 448 541.532.264 الجهاد (اخبار) 303 البشارة الاسلاميه الاحمديه (رساله) الحکم ( اخبار ) 4، 5، 7، 136 ، 143 ، 227، 234 365-257-256 البشرى البشارة الاسلاميه (الاحمديه الدفاع (اخبار) 384، 479
مصالح العرب.....جلد اوّل الرأى العام (اخبار )180 الرساله والرواية ، ہفت روزہ ، مصر 364، 378 ریویو آف ریلیجنز (اردو)267،197 ریویو آف ریلیجنز (انگریزی )267 زمیندار (اخبار) 432، 463، 464، 473، 476 السلام البغداديه (رساله)491 السياسة (اخبار) 90، 91 الشرق (اخبار ) 316 الشورى (اخبار) 426 صدق جدید ہفت روزہ 534 الصراط المستقيم (اخبار ) 260، 480 الصفاء (اخبار) 180 صور وت الأحرار (اخبار) 422 الصياد، ہفت روزہ 435 العربي (رسالہ) 468،465 العرفان (اخبار) 479،316 32 32 190 189 182 180 178.176.173 199.198.195.194.192.191 240 239 238 206 205 <203 $275 274 267 245 243.241 316 315 314.312.305.282 326 325 324 321 319.318 343 342 340.332.330.328 361 358 357.352.351.344 393 392.381 380 377.362 <437 422 416 411 405 <400 <477.474.473.459.456.444 541.534.533.500.491.484 الفيحاء (اخبار )422 القبس (اخبار (422، 518 قصر النيل (اخبار (133 الكشكول (اخبار) 244 الكفاح (اخبار) 422، 517 العلم (اخبار) 316 اللواء، مصرى (اخبار) 96 الفتح (اخبار) 87، 233، 265، 267 ، المشرق، بيروتي (اخبار) 180 291 فتى العرب (اخبار) 158 المصری (اخبار) 445،316 المصور (اخبار) 524،472،470 الفرقان (رساله) 241،162 ، 243 | المقتبس (اخبار) 181 472.253.252 المقسم (اخبار) 158 الفضل (اخبار) 15 ،28 ، 131 ، 162 ، 165 ، مارننگ نیوز (Morning News) (اخبار)
مصالح العرب.....جلد اول 536 مجاہد ( احراری آرگن ) 272 مدينه (اخبار) 531 مصالح العرب (عربی رسالہ )50 33 ل لاله نوائے وقت (اخبار) 411 412 413، 533 464 463.414 نور الاسلام (رسالہ ) 267 268 وفاء العرب (اخبار) 351 مصر الحديثه المصوره (رساله) 198 وكالة الأنباء العربية (اخبار) 384، 394، المنار (رساله) 233،91 النداء (اخبار) 447 485.484 ها فوعيل ما تصعير (اخبار )490 يديعوت احرونوت (اخبار) 261 النسر (اخبار) 384 النصر (اخبار) 422 نصير الحق (اخبار) 316 النهضه (اخبار) 422 اليقظه (اخبار) 394، 422 اليوم (اخبار) 437،401 ☆☆☆