Masala Khatme Nabuwat Aur Jamaat Ahmadiyya

Masala Khatme Nabuwat Aur Jamaat Ahmadiyya

مسئلہ ختم نبوت اور جماعت احمدیہ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات
فیضان ختم نبوت

نظارت نشر و اشاعت قادیان کی شائع کردہ اس مختصر کتاب میں ختم نبوت کے موضوع پر جماعت احمدیہ کا موقف پیش کیا گیا ہے، کیونکہ مخالفین احمدیت مسئلہ وفات مسیح میں اپنی واضح شکست کے بعد اب ختم نبوت کے نام پر جھوٹ اور اشتعال پھیلاکر سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ دراصل احمدیوں کے مقابل پر جھوٹ اور دھوکے کا سہارا لینا ہی بتاتا ہے کہ  مخالفین کا عقیدہ بابت ختم نبوت خود ساختہ ہے اور جماعت احمدیہ کا مسلک ہی قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور تیرہ صدیوں کے صالح بزرگان امت کے مسلک کے عین مطابق ہے۔ فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان سے سال 2011ء میں کمپیوٹر ٹائپ میں طبع کردہ اس مختصر کتاب کی زبان سادہ اور دلائل عام فہم ہیں، جو براہ راست قرآن کریم اور انسانی عقل و فہم سے ماخوذ ہیں۔


Book Content

Page 1

DOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOc ཤ|ཧཊ། 165 ཡི DOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOOI DOOOOOOooC

Page 2

نام کتاب مسئلہ ختم نبوت اور جماعت احمدیہ سن اشاعت تعداد مطبع : 2011 10000 فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت ، قادیان، 143516 ضلع گورداسپور، پنجاب (بھارت) مزید معلومات کے لئے رابطہ کریں آفس نظارت دعوت الی اللہ محله احمد یہ قادیان آفس نظارت اصلاح وارشاد محله احمد یہ قادیان ضلع گورداسپور ، پنجاب،انڈ 143516 ضلع گورداسپور ، پنجاب، انڈیا 14351 فون نمبر 01872-220757 :: ٹول فری نمبر وقت :: :: فون نمبر : 01872-222763 :: 1800-180-2131 صبح دس بجے سے رات دس بجے تک

Page 3

1 مسئلہ ختم نبوت اور جماعت احمدیہ ایک زمانہ وہ تھا جب غیر احمدی علماء جماعت احمدیہ سے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی وفات کے موضوع پر مباحثات و مناظرات کرتے تھے اور اسی پر احمدیت کی صداقت وعدم صداقت کا انحصار سمجھا جاتا تھا کہ قرآن مجید و احادیث سے وفات مسیح علیہ السلام کا مسئلہ ثابت ہوتا ہے یا نہیں.مگر اب یہ مسئلہ اتنا صاف ہو چکا ہے کہ بڑے بڑے علماء نے بھی جماعت احمدیہ کے مسلک کی صحت کو تسلیم کر لیا ہے اور وہ قرآن مجید کی روشنی میں وفات مسیح کے قائل ہو گئے ہیں.مثال کے طور پر علماء از ہر کی مجلس افتاء کے بہت بڑے رُکن علامہ محمود شلتوت کے فتویٰ کا ذکر کافی ہے جس میں انہوں نے صاف اور واضح الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ دلائل وفات مسیح علیہ السلام کی حرف بحرف تائید کی ہے.ہندوستان کے علماء کا عام رویہ بھی اب یہی ہے کہ وہ اس موضوع پر جماعت احمدیہ سے گفتگو کرنے سے حتی الوسع پہلو تہی کرتے ہیں.گو وہ اپنے وقار کی خاطر نیز اس خیال سے کہ عوام کا رجحان جماعت احمدیہ کی طرف نہ ہو جائے کھلے لفظوں میں وفات مسیح کے اقرار کی جرات نہ کریں مگر ان کا عام طور سے اس مسئلہ پر بحث کرنے سے یہ کہہ کر گریز کرنا کہ اس کا مرزا صاحب کی صداقت سے کوئی تعلق نہیں ظاہر کرتا ہے کہ اب ان میں اس موضوع پر گفتگو کرنے کی

Page 4

2 ہمت نہیں رہی.ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت سے اس مسئلہ کا جس قدر تعلق ہے وہ تو پہلے بھی اتنا ہی تھا جتنا اب ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ پہلے تو اس موضوع پر بڑے زور شور سے مباحثات ہوتے تھے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے علماء کے ابتدائی مباحثات جولدھیانہ اور دہلی میں علی الترتیب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالی کے ساتھ ہوئے اُن کا موضوع یہی مسئلہ وفات مسیح تھا جس سے جماعت احمدیہ کے ساتھ اس مسئلہ کے تعلق کی اہمیت ظاہر ہے.مگر اب اس سے پیچھا چھڑانے کیلئے حیلوں بہانوں سے کام لیا جاتا ہے.پس حقیقت یہ ہے کہ علماء اس مسئلہ میں جماعت احمدیہ کے دلائل کے سامنے عاجز آ کر اپنے موقف کو چھوڑ بیٹھے ہیں.اور یہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبردست فتح ہے.حضور کا ایک الہام ہے میری فتح ہوئی میرا غلبہ ہوا.یہ الہام اور بھی کئی رنگ میں پورا ہو کر اپنی صداقت ظاہر کر چکا ہے مگر مسئلہ وفات مسیح" میں اس کا ظہور جس صاف اور کھلے کھلے طور پر ہوا ہے وہ ایک عام اور معمولی سمجھ بوجھ کے انسان کے لئے بھی عبرت و بصیرت کا موجب ہے.وفات مسیح کے محاذ سے پسپا ہو کر اب علماء نے جماعت احمدیہ کے خلاف اپنا سب سے مضبوط مورچہ مسئلہ ختم نبوت کو قرار دے رکھا ہے.لیکن وہ دن دور نہیں جب یہاں سے بھی ان کو بھا گنا پڑے گا.کیونکہ وہ اس مسئلہ پر بحث کے زوران میں اکثر ایسی غلط باتیں جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کرتے ہیں جو

Page 5

3 س کے عقائد میں سے نہیں ہیں.اور ظاہر ہے کہ کسی جماعت کی طرف غلط عقائد منسوب کر کے زیادہ دیر تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.ذیل میں ہم مسئلہ ختم نبوت کے بارے میں جماعت احمدیہ کے نقطہ نگاہ کے متعلق چند اشارات درج کرتے ہیں.مقصود یہ دکھانا ہے کہ جماعت احمدیہ کا مسلک ہی وہ مسلک ہے جو معقول اور صحیح قرار پاسکتا ہے اور یہ کہ گزشتہ چودہ سو برس میں امت محمدیہ میں جو بڑے بڑے بزرگ گزرے ہیں وہ بھی اسی مسلک کے قائل رہے ہیں.سب سے پہلے یہ جانا چاہئے کہ اسلامی اصطلاح کی رُو سے نبی وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بکثرت شرف مکالمہ و مخاطبہ پانے والا ہو.اور قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کی تین قسمیں ہیں.اوّل تشریعی یعنی جس کے ساتھ نئی شریعت اور نئے احکام ہوں.دوم غیر تشریعی یعنی جس کے ساتھ نئی شریعت اور نئے احکام نہ ہوں.غیر تشریعی نبی اُس شریعت کے تابع اور خادم ہوا کرتے تھے جو اُن سے پہلے کسی تشریعی نبی پر نازل شدہ ہوتی تھی.اور اُسی کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے.إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَةَ فِيْهَا هُدًى وَ نُوْرٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ أَسْلَمُوا - (المائده : ۴۵) یعنی ہم نے ( موسٹی پر ) توریت اُتاری اس میں ہدایت اور نو ر تھا اُسی کے مطابق وہ نبی فیصلہ کرتے تھے جو فرمانبردار ہوئے ہیں.آیت سے ظاہر ہے کہ کئی نبی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ہوئے کوئی نئی

Page 6

4 شریعت نہیں لائے تھے بلکہ موسوی شریعت یعنی توریت کے مطابق فیصلہ کرتے یہ دونوں قسم کی نبوتیں (یعنی خواہ تشریعی ہو یا غیر تشریعی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے خدا تعالیٰ کی طرف سے براہ راست بغیر کسی گزشتہ نبی کے واسطہ اور طفیل کی شرط کے ملا کرتی تھیں.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کی وجہ سے ان دونوں قسموں کی نبوت کا دروازہ بند ہو گیا.اور ایک تیسری قسم کی نبوت کا دروازہ کھولا گیا.جو غیر تشریعی ظلی نبوت ہے.یعنی ایسی نبوت جو نہ تو شریعت والی ہے اور نہ براہِ راست ملنے والی.بلکہ غیر تشریعی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ طفیل اور فیضان سے ملنے والی نبوت ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّنَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِيْنَ وَ حَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًاه ( سورة نساء ع ۹ ) یعنی جو اطاعت کریں گے اللہ اور اس رسول ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تو یہ لوگ ان میں سے ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا یعنی نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین میں سے اور اچھے ہیں یہ لوگ رفیق.اس آیت کریمہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف ایسی بات کے جاری ہونے کا ذکر ہے جو حضور کی پیروی واطاعت میں حضور کے وسیلہ طفیل سے ملنے والی ہے.نئی شریعت والی نبوت تو اس لئے بند ہے کہ اللہ تعالیٰ نے

Page 7

5 قرآن مجید کے ذریعہ شریعت مکمل فرما دی ہے.اور غیر تشریعی نبوت جو براہ راست ملتی تھی اس لئے بند ہے کہ خاتم النبیین کے بعد ایسا نبی کوئی نہیں آسکتا جو بغیر آپ کے وسیلہ وفیل کے ثبوت پانے والا ہو.اور یہی ختم نبوت کا حقیقی مفہوم ہے جس سے تمام انبیاء و مرسلین علیہم السلام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رتبہ عالی کی برتری وفضیلت کا اظہار ہوتا ہے.پہلی قسم کی نبوت یعنی نبوت تشریعی کے متعلق تو ہمارا اور ہمارے غیر احمدی بھائیوں کا اتفاق ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قطعی طور پر بند ہے.لیکن دوسری اور تیسری قسم کی بات کے متعلق اختلاف ہے.اُن کے نزدیک دوسری قسم کی بات جاری ہے.کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ آئندہ کسی وقت حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہونے والے ہیں جو غیر تشریعی نبی ہوں گے.لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ایسی غیر تشریعی نبوت بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ وطفیل سے نہ ملی ہو اُسی طرح بند ہے جیسی کہ تشریعی نبوت.اور جیسا کہ حضور کے بعد کوئی تشریعی نبی نہیں آسکتا اسی طرح ایسا غیر تشریعی نبی بھی نہیں آسکتا جس نے نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ طفیل سے نہیں بلکہ براہ راست پائی ہو.ہاں تیسری قسم کی نبوت جس میں یہ دو شرطیں ہیں کہ (۱) وہ بغیر شریعت کے ہو اور (۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی واطاعت میں آپ کے وسیلہ طفیل سے ملے ، جاری ہے.یہی وجہ ہے کہ ہم حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد کے قائل نہیں.کیونکہ اُن کو نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کے بعد آپ کے

Page 8

6 وسیلہ وھیل سے نہیں ملی بلکہ آپ سے چھ سو برس پہلے ہر اور است مل چکی تھی.اور حدیثوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے جو ایک مسیح کے آنے کی خبر دی ہے اور جسے حضور نے مسلم شریف کی روایت کے مطابق نبی اللہ قرار دیا ہے اس سے حضرت مسیح موسوی مراد نہیں بلکہ اس امت کا ایک فرد کامل مراد ہے.اور اس کی نبوت یہی تیسری قسم کی نبوت ہے.کیا یہ تعجب کا مقام نہیں کہ ایک طرف تو ہمارے غیر احمدی بھائی یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور دوسری طرف ایک مستقل نبی ( حضرت عیسی علیہ السلام ) کی آمد کے قائل ہیں جن کی نبوت حضور کے وسیلہ سے نہیں بلکہ براہ راست تھی.اور باوجود اس کے یہ خیال کرتے ہیں کہ اس عقیدہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت میں کچھ فرق نہیں آتا.لیکن اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر قسم کی نبوت بند ہے سوائے اس کے جو حضور کی کامل متابعت واطاعت میں حضور کے وسیلہ و طفیل سے ملے تو ہمارے متعلق یہ فتویٰ صادر کر دیتے ہیں کہ یہ لوگ نعوذ باللہ حضور علیہ السلام کی ختم نبوت کے منکر ہیں.کاش وہ خداتری کے ساتھ غور کریں کہ فی الحقیقت ختم نبوت کا انکار کس کے عقیدے سے لازم آتا ہے؟ افسوس ہے کہ مخالف حضرات کبھی تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی طرف نبوت غیر تشریعیہ مستقلہ کا دعویٰ منسوب کرتے ہیں اور کبھی بات تشریعہ حقیقیہ کا.بحالیکہ ان دونوں قسموں میں سے کسی قسم کی بات کا بھی

Page 9

7 آپ نے کبھی دعوی نہیں کیا بلکہ آپ کا عقیدہ ہے کہ نبوت کی یہ دونوں قسمیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جاری تھیں حضور کی تشریف آوری سے ختم ہوگئی ہیں اور جو ان قسموں میں سے اب کسی قسم کی بھی نبوت کا دعوی کرے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے.چنانچہ حضرت اقدس فرماتے ہیں:.(۱) ''نبوت گو بغیر شریعت ہو اس طرح پر تو منقطع ہے کہ کوئی شخص براہِ راست مقام نبوت حاصل کر سکے لیکن اس طرح پر ممتنع نہیں کہ وہ نبوت چراغ نبوت محمدیہ سے مکتب و مستفاض ہو، یعنی ایسا صاحب کمال ایک جہت سے تو امتی ہو اور دوسری جہت سے بوجہ اکتساب انوار محمد یہ آیات کے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو.“ (۲) '' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ایک خاص فخر دیا گیا ہے کہ وہ ان معنوں سے خاتم الانبیاء ہیں کہ ایک تو تمام کمالات نبوت اُن پر ختم ہیں، اور دوسرے یہ کہ اُن کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا رسُول نہیں اور نہ کوئی ایسا نبی ہے جو اُن کی اُمت سے باہر ہو.“ (ضمیمه چشمه معرفت صفحه ۹) (۳) یہ الزام جو مجھ پر لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق نہیں رہتا اور جس کے یہ معنے ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ

Page 10

8 قبلہ بناتا ہوں اور شریعتِ اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلعم کی اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں یہ الزام صحیح نہیں ہے، بلکہ ایسا دعویٰ نبوت کا میرے نزدیک کفر ہے.“ حضرت مرزا صاحب کا مکتوب آخری مندرجہ اخبار عام لاہور مورخہ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء) (۴) ”میری مراد نبوت سے یہ نہیں ہے کہ میں نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر کھڑا ہوکر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں.صرف مُراد میری نبوت سے کثرت مکالمت و مخاطبت الہیہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے.“ (تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۶۸) حضرت اقدس کے ان ارشادات سے واضح ہے کہ (۱) آپ کا دعویٰ جیسا کہ مخالف آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں نبوت تشریعیہ یا نبوت غیر تشریعیہ مسئلہ کا نہیں بلکہ بات غیر تشر یعیہ خلیہ کا یا یوں کہنا چاہئے کہ انٹتی نہیں ہونے کا ہے.(۲) اور آپ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ایک تو تمام کمالات نبوت آپ پر ختم ہو گئے ہیں دوسرے آپ کے بعد ایسا نبی جو نئی شریعت لانے اور نیا کلمہ اور نیا قبلہ پیش کرنے یا براہِ راست نبوت پانے کا دعویٰ کرنے والا ہو بے شک نہیں آسکتا.لیکن ایسا نبی جو پہلے آپ کا امتی ہو اور جس نے نبوت آپ کے وسیلہ و فیضان سے پائی ہو آ سکتا ہے.

Page 11

9 قرآن مجید و حدیث کے علاوہ اکابر علماء امت کے اقوال سے بھی حضرت اقدس کے ان ارشادات کی تائید و تصدیق ہوتی ہے.منجملہ ان کے ہم چند اقوال ذیل میں درج کرتے ہیں:.1- حضرت مولانا عبدالحی صاحب فرنگی محلی لکھنوی تحریر فرماتے ہیں:.علماء اہل سنت بھی اس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عصر میں کوئی نبی صاحب شرع جدید نہیں ہوسکتا.اور نبوت آپ کی تمام مکلفین کو شامل ہے.اور جو نبی آپ کے ہم عصر ہوگا وہ متبع شریعت محمدیہ ہو گا.پس بہر تقدیر بعثت محمد یہ عام ہے.“ دافع الوسواس في عصر ابن عباس صفحه ۳ ) اور اسی کتاب کے صفحہ ۱۲ پر تحریر فرماتے ہیں:.کیونکہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا زمانہ میں آنحضرت صلعم کے مجر دکسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرع جدید ہونا البتہ ممتنع ہے." ۲: حضرت مولا نا محمد قاسم نانوتوی بانی مدرسہ دیو بند تحریر فرماتے ہیں:.سوعوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں.مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم و تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں.پھر مقامِ مدح میں وَلكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ

Page 12

10 وَخَالَمَ النَّبِيِّينَ فرمانا کیو نکر صحیح ہو سکتا ہے." ( تحذیر الناس صفحه ۳ ) اور اسی کتاب کے صفحہ ۲۸ پر تحریر فرماتے ہیں:.اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہوتو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا.“ ۳:.حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہید دہلوی فرماتے ہیں:.یچ کمال غیر از نبوت بالا صالت ختم نگردیده در مبدأفیاض بخل و دریغ ممکن نیست (مقامات مظہری صفحه ۸۸) یعنی سوائے نبوت بالاصالت کے کوئی کمال ختم نہیں ہوا اور مبدا فیاض میں بخل و دریغ جائز نہیں.۴.حضرت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں:.”وَخُتِمَ بِهِ النَّبِيُّوْنَ اَيْ لَا يُوْجَدُ مَنْ يَّأْمُرُهُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ بِالتَّشْرِيْعِ عَلَى النَّاسِ.“ (تقسیمات الہی تفهیم نمبر ۵۳) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد ایسا شخص نہیں ہو سکتا ہے خدا تعالیٰ شریعت دے کر لوگوں کیلئے مامور فرمائے.۵.حضرت امام عبد الوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحہ ۴۲

Page 13

11 میں تحریر فرماتے ہیں:.وَقَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا رَسُوْلَ الْمُرَادُ بِهِ لَا مُشَرِّعَ بَعْدِي.“ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں اس سے مُراد یہ ہے کہ حضور کے بعد کوئی شریعت لانے والا نبی نہ ہوگا.- عارف ربانی سید عبدالکریم جیلانی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:.فَانْقَطَعَ حُكْمُ نُبُوَّةِ التَّشْرِيْعِ بَعْدَهُ وَكَانَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمَ النَّبيِّنَ (الانسان الكامل باب (۳۶) یعنی نبوت تشریعی کا حکم بند ہو چکا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں.ے.شیخ محی الدین ابن عربی نے اپنی کتاب فتوحات مکیہ میں مختلف مقامات پر اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی ہے.چنانچہ جلد ۲ صفحہ ۳ے میں تحریر فرماتے ہیں:."إِنَّ النُّبُوَّةَ الَّتِي انْقَطَعَتْ بِوُجُوْدِ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هِيَ نُبُوَّةُ التَّشْرِيْعِ لَا مَقَامُهَا فَلَاشَرْعُ يَكُوْنُ نَاسِخًا لِشرْعِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَزِيدُ فِي شَرْعِهِ حُكْمًا وَهَذَا مَعْنَى قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ أَيْ لَا نَبِيَّ يَكُوْنُ عَلَى شَرْعِ يُخَالِفُ شَرْعِيْ بَلْ إِذَا كَانَ يَكُوْنُ

Page 14

12 تَحْتَ حُكْمِ شَرِيْعَتِيْ وَلَا رَسُوْلَ أَيْ لَاَرَسُوْلَ بَعْدِي إِلَىٰ اَحَدٍ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ بِشَرْعٍ يَدْعُوْ هُمْ إِلَيْهِ فَهَذَا هُوَالَّذِيْ انْقَطَعَ وَسُدَّ بَابُهُ لَا مَقَامُ النُّبُوَّةِ “ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے جو نبوت بند ہوئی ہے وہ تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقامِ نبوت.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرنے والی یا اس میں کسی قسم کی ایزادی کرنے والی کوئی شریعت نہ ہوگی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا بھی کہ میرے بعد نبوت اور رسالت بند ہوگئی اور میرے بعد اب نبی اور رسول نہ ہوگا یہی مطلب ہے یعنی کوئی ایسا نبی نہ ہوگا جو میری شریعت کے مخالف ہو.بلکہ جب ہوگا میری شریعت کے ماتحت ہوگا.اسی طرح کوئی ایسا رسول نہ ہو گا جو نئی شریعت کی طرف لوگوں کو دعوت دے.پس نبوت کے منقطع ہونے اور اس کے دروازے بند ہونے کے یہ معنے ہیں نہ یہ کہ مقام نبوت اب کسی کو مل نہیں سکتا.۸.حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں.قُوْلُوْا إِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُوْلُوْا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ “ (در منثور جلد ۵ صفحه ۲۰۴ و تکمله مجمع البحار صفحه ۸۵) یعنی آنحضرت صلعم کو خاتم الانبیاء تو بیشک کہو لیکن یہ نہ کہو کہ حضور کے بعد نبی ۹ - امام محمد طاہر سندھی اپنی کتاب تعملہ مجمع الجار صفحہ ۸۵ میں حضرت عائشہ کے اس

Page 15

13 قول کو درج کر کے تحریر فرماتے ہیں.هذَا نَاظِرًا إِلَى نُزُوْلِ عِيْسَى وَهَذَا أَيْضًا لَا يُنَافِي حَدِيْتَ 66 لَا نَبِيَّ بَعْدِي لِأَنَّهُ أَرَادَ لَا نَبِيَّ يَنْسِخُ شَرْعَهُ “ یعنی ام المومنین حضرت عائشہ کا یہ قول مسیح موعود نبی اللہ کی آمد کو مد نظر رکھ کر فرمایا گیا ہے.اور حدیث لا نَبِيَّ بَعْدِی کے مخالف نہیں.کیونکہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت کے بعد ایسا نبی نہ ہوگا جو حضور کی شریعت کو منسوخ کردے.۱۰.ابن ماجہ کتاب الجنائز میں جو صحاح ستہ میں حدیث کی بڑی معتبر کتاب ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مندرجہ ذیل روایت آئی ہے.حضور نے اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات پر فرمایا.لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيْمُ) لَكَانَ نَبِيًّا - یعنی اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور نبی ہوتا.اس حدیث کو صحیح ثابت کرنے کے بعد مشہور محدث ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب موضوعات کبیر صفحه ۵۸ وصفحه ۵۹ میں تحریر فرماتے ہیں.قُلْتُ مَعَ هَذَا لَوْعَاشَ إِبْرَاهِيْمُ وَصَارَ نَبِيًّا وَّ كَذَ الَوْ صَارَ عُمَرُ نَبِيًّا لَكَانَ مِنْ أَتْبَاعِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ......فَلَا يُنَاقِضُ قَوْلَهُ خَاتَمَ النَّبِيِّنَ إِذِ الْمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَأْتِي نَبِيٌّ يَنْسِخُ مِلَّتَهُ وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِهِ “ 6 یعنی میں کہتا ہوں اس کے ساتھ اگر ابراہیم زندہ رہتے اور نبی ہو جاتے نیز اگر

Page 16

14 حضرت عمر نبی ہو جاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں ہوتے...پس یہ آیت خاتم النبین کے مخالف نہیں کیونکہ خاتم النبیین کے معنے یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی اُمت سے نہ ہو.ہمارے مخالف علماء کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی بوت کے خلاف عموماً آیت خاتم النبیین اور حدیث لائسی بَعْدِي پیش کی جاتی ہے.مگر مذکورہ بالا حوالہ جات سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ ان سے مراد فقط یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تشریعی نبوت بند ہے اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مذہب ہے.در حقیقت بزرگانِ سلف میں سے کسی ایک مسلم بزرگ کا بھی کوئی ایسا قول پیش نہیں کیا جا سکتا جس میں آنحضرت کے بعد نبوت غیر تشریعی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ملے بند قرار دی گئی ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو یہ فرمایا ہے کہ میرے بعد نبی نہ ہوگا اور دوسری طرف مسیح موعود کی آمد کی بشارت دیتے ہوئے اُسے چار دفعہ نبی اللہ کہہ کر پکارا ( دیکھو مسلم شریف باب نزول عیسی ) ان دونوں قسم کی احادیث کی تطبیق کرتے ہوئے علماء سلف اس نتیجہ پر پہنچے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کے بند ہونے سے مُراد یہ ہے کہ حضور کے بعد تشریعی نبوت بند ہے.اور مسیح موعود چونکہ آپ کی شریعت کا خادم ہوگا اس لئے اس کی نبوت نہ آیت خاتم النبیین کے منافی ہے اور نہ حدیث لا نبي بعدي کے مخالف.پس اگر

Page 17

15 حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اس عقیدہ کی وجہ سے کفر کا فتویٰ لگانا درست ہے تو اس کی زد سے بزرگان سلف بھی بچ نہیں سکتے.لیکن بدقسمتی سے آج کل عوام میں یہ غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے کہ جماعت احمد یہ نعوذ باللہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتی ذیل میں بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چند تحریرات نمونہ درج کی جارہی ہیں جن سے اس ناپاک پراپیگنڈے کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے.طالبان حق غور فرمائیں کہ ختم نبوت کے جو معنی غیر احمدی علماء کرتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان ہیں یا جو معنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کرتی ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگ شان کے لائق ہیں.حضرت بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں:.(۱) ''ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہ نبی دیا جو خاتم المؤمنین خاتم العارفین اور خاتم النبین" ہے.اور اسی طرح وہ کتاب اس پر نازل کی جو جامع الکتب اور خاتم الکتب ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم النبین ہیں.اور آپ پر نبوت ختم ہوگئی تو یہ نبوت اس طرح پرختم نہیں ہوئی جیسے کوئی گلا گھونٹ کر ختم کر دے.ایسا ختم قابل فخر نہیں ہوتا.بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بات ختم ہونے سے یہ مراد ہے کہ طبعی طور پر آپ پر کمالات نبوت ختم ہو گئے.یعنی وہ تمام کمالات متفرقہ جو آدم سے لیکر مسیح ابن مریم تک نبیوں کو دیئے گئے تھے.کسی کو کوئی اور کسی کو کوئی.وہ

Page 18

16 سب کے سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع کر دیئے گئے.اور اس طرح پر آپ طبعا خاتم انہین ٹھہرے.اور ایسا ہی وہ جمیع تعلیمات.وصایا اور معارف جو مختلف کتابوں میں چلے آتے ہیں وہ قرآن شریف پر آکر ختم ہو گئے.اور قرآن شریف خاتم الکتب ٹھہرا.اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا.جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم العین نہیں مانتے یہ ہم پر افتر اعظیم ہے.ہم جس قوت یقین معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی وہ نہیں مانتے ان کا ایسا ظرف ہی نہیں ہے.وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت میں ہے سمجھتے ہی نہیں ہیں.انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سُنا ہوا ہے.اور اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں.وہ نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتا ہے.اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ؟ مگر ہم بصیرت تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں.اور خدا تعالیٰ نے ہم پر ختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذت پاتے ہیں.جس کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا بجز ان لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ہوں.دُنیا کی مثالوں میں سے ہم ختم نبوت کی مثال اس طرح پر دے سکتے ہیں کہ جیسے چاند ہلال سے شروع ہوتا ہے.اور چودھویں تاریخ پر آکر اس کا کمال ہو جاتا ہے جبکہ

Page 19

17 اسے بدر کہا جاتا ہے اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر کمالات نبوت ختم ہو گئے.جو یہ مذہب رکھتے ہیں کہ نبوت زبر دستی ختم ہوگئی...انہوں نے اس حقیقت کو سمجھا ہی نہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور کمالات کا کوئی علم ہی ان کو نہیں ہے.باوجود اس کمزوری فہیم اور کمی علم کے ہم کو کہتے ہیں کہ ہم ختم نبوت کے منکر ہیں.میں ایسے مریضوں کو کیا کہوں اور ان پر کیا افسوس کروں.اگر ان کی یہ حالت نہ ہو گئی ہوتی اور حقیقت اسلام سے بکلی دور نہ جا پڑے ہوتے تو پھر میرے آنے کی ضرورت کیا تھی.“ ( تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ اخبار الحکم مورخه ۷ ار مارچ ۱۹۰۵ء) (۲) جس کامل انسان پر قرآن شریف نازل ہوا....وہ خاتم الانبیاء بنے.مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اُس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا.بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے.بجز اُس کی مُہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا.اور اس کی اُمت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہوگا.اور بجز اس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں ایک وہی ہے جس کی مہر ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہونا لازمی ہے.اور اُس کی ہمت اور ہمدردی نے اُمت کو ناقص حالت پر چھوڑ نانہیں چاہا.اور ان پر وحی کا دروازہ جو حصول معرفت کی اصل جڑھ ہے بند رہنا گوارا نہیں کیا.ہاں اپنی ختم رسالت کا نشان قائم رکھنے کے لئے یہ چاہا کہ فیض وہی آپ کی پیروی کے وسیلہ سے ملے.اور جو شخص اتنی نہ ہو اُس پر وحی الہی کا دروازہ بند ہو.سوخدا نے ان معنوں سے

Page 20

18 آپ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا.لہذا قیامت تک یہ بات قائم ہوئی کہ جو شخص سچی پیروی سے اپنا امتی ہونا ثابت نہ کرے.اور آپ کی متابعت میں اپنا تمام وجود محو نہ کرے ایسا انسان قیامت تک نہ کوئی کامل وحی پا سکتا ہے اور نہ کامل ملہم ہو سکتا ہے.کیونکہ مستقل نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی مگر علی نبوت جس کے معنے ہیں.محض فیض محمدی سے وحی پانا وہ قیامت تک باقی رہے گی.(حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۸٬۲۷) (۳) افسوس کہ حال کے نادان مسلمانوں نے اپنے اس نبی مکرم کا کچھ قدر نہیں کیا اور ہر ایک بات میں ٹھوکر کھائی.وہ ختم نبوت کے ایسے معنی کرتے ہیں جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو نکلتی ہے نہ تعریف.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس پاک میں افاضہ اور تکمیل نفوس کے لئے کوئی قوت نہ تھی اور وہ صرف خشک شریعت کو سکھلانے آئے تھے.حالانکہ اللہ تعالیٰ اس اُمت کو یہ دعا سکھلاتا ہے اهدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عليهم پس اگر یہ امت پہلے نبیوں کی وارث نہیں اور اس انعام میں سے ان کو کچھ حصہ نہیں تو یہ دعا کیوں سکھلائی گئی.“ (حاشیہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۰۱-۱۰۰) (۴) اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبین ٹھہرا.یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے.اور آپ کی توجہ

Page 21

19 روحانی نبی تراش ہے.اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی.“ ( حاشیہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۹۷) (۵) افسوس اُن لوگوں پر جو اس اُمت کو ایک مُردہ اُمت خیال کرتے ہیں.ان کے نزدیک یہ بڑے گناہ کی بات ہے کہ مثلاً کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میرے پر مسیح ابن مریم کی طرح وحی نازل ہوتی ہے.ان کے نزدیک ایسا شخص کافر ہے.کیونکہ قیامت تک خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ کا دروازہ بند ہے تعجب کہ یہ لوگ استقدر تو مانتے ہیں کہ اب بھی خدا تعالیٰ سُنتا ہے جیسا کہ پہلے سنتا تھا مگر یہ نہیں مانتے کہ اب بھی وہ بولتا ہے جیسا کہ پہلے بولتا تھا حالانکہ اگر وہ اس زمانہ میں بولتا نہیں تو پھر سلنے پر بھی کوئی دلیل نہیں.خدا تعالی کی صفات کو معطل کرنے والے سخت بد قسمت لوگ ہیں.اور در حقیقت یہ لوگ اسلام کے دشمن ہیں ختم نبوت کے ایسے معنے کرتے ہیں جس سے نبوت ہی باطل ہوتی ہے کیا ہم ختم نبوت کے یہ معنے کر سکتے ہیں کہ وہ تمام برکات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ملنی چاہئیں تھے وہ سب بند ہو گئے اور اب خدا تعالیٰ کے مکالمہ مخاطبہ کی خواہش کرنا لا حاصل ہے لعنت اللہ علی الکاذبین.کیا یہ لوگ بتلا سکتے ہیں کہ اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا فائدہ کیا ہوا.جن لوگوں کے ہاتھ میں بجز گزشتہ قصوں کے اور کچھ نہیں.ان کا مذہب مردہ ہے اور معرفت الہی کا ان پر دروازہ بند ہے.مگر اسلام مذہب زندہ ہے.اور خدا تعالی قرآن شریف

Page 22

20 میں مسلمانوں کو سورہ فاتحہ میں گزشتہ نبیوں کا وارث ٹھہراتا ہے.اور دُعا سکھلاتا ہے کہ جو پہلے نبیوں کو نعمتیں دی گئی تھیں وہ طلب کریں.مگر جس کے ہاتھ میں صرف قصے ہیں وہ کیونکر وارث کہلا سکتا ہے.افسوس ان لوگوں پر کہ ان لوگوں کے آگے تمام برکات کا چشمہ کھولا گیا.مگر یہ نہیں چاہتے کہ ایک گھونٹ بھی اس میں سے پیئیں.چشمه مسیحی صفحه ۶۷ و ۶۸) (۶) بالآخر پھر میں عامہ ناس پر ظاہر کرتا ہوں کہ مجھے اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ میں کافر نہیں.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ میرا عقیدہ ہے.اور لكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت میرا ایمان ہے میں اپنے اس بیان کی صحت پر اس قدر قسمیں کھاتا ہوں جس قدر خدا تعالی کے پاک نام ہیں اور جس قدر قرآن کریم کے حرف ہیں اور جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تعالیٰ کے نزدیک کمالات ہیں کوئی عقیدہ میرا اللہ اور رسول کے فرمودہ کے برخلاف نہیں.اور جو کوئی ایسا خیال کرتا ہے خود اس کی غلط منہمی ہے اور جو شخص مجھے اب بھی کافر سمجھتا ہے اور تکفیر سے باز نہیں آتا وہ یقیناً یاد رکھے کہ مرنے کے بعد اُس کو پو چھا جائے گا میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا خدا اور رسول پر وہ یقین ہے کہ اگر اس زمانہ کے تمام ایمانوں کو تر از و کے ایک پلہ میں رکھا جائے اور میرا ایمان دوسرے پلّہ میں تو بفضلہ تعالیٰ یہی پلّہ

Page 23

21 بھاری ہوگا.“ (کرامات الصادقین صفحه ۲۵) (۷) میں اُس کے رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں اور جانتا ہوں کہ تمام نبوتیں اس پر ختم ہیں.اور اس کی شریعت خاتم الشرائج ہے.مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں.یعنی وہ نبوت جو اُس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور جو اس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے د وختم نہیں کیونکہ وہ محدی نبوت ہے یعنی اس کا محل ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہے.اور اسی کا مظہر ہے اور اسی سے فیضیاب ہے.خدا اُس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے اور محمدی شریعت کے برخلاف چلتا ہے اور اپنی شریعت چلانا چاہتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہیں کرتا بلکہ آپ کچھ بننا چاہتا ہے مگر خدا اُس شخص سے پیار کرتا ہے جو اس کی کتاب قرآن شریف کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو در حقیقت خاتم الانبیاء سمجھتا ہے اور اُس کے فیض کا اپنے تئیں محتاج جانتا ہے.پس ایسا شخص خدا تعالیٰ کی جناب میں پیارا ہو جاتا ہے.اور خدا کا پیار یہ ہے کہ اُس کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کو اپنے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف کرتا ہے اور اس کی حمایت میں اپنے نشان ظاہر کرتا ہے اور جب اُس کی پیروی کمال کو پہنچتی ہے تو ایک ظلی نبوت اُس کو عطا کرتا ہے جو نبوت محمدیہ کا خلق ہے یہ اس لئے کہ تا اسلام ایسے لوگوں کے وجود سے تازہ رہے اور تا اسلام ہمیشہ مخالفوں پر غالب رہے.نادان آدمی جو در اصل دشمن دین

Page 24

22 ہے اس بات کو نہیں چاہتا کہ اسلام میں سلسلہ مکالمات مخاطبات الہیہ کا جاری رہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اسلام بھی اور مُردہ مذہبوں کی طرح ایک مُردہ مذہب ہو جائے.مگر خدا نہیں چاہتا.“ (چشمہ معرفت صفحه ۳۲۵) پس یہ نہایت اہم اور بنیادی مسئلہ ہے جس کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے مسلمان بھائیوں کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے اور ٹوربصیرت کے ساتھ سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ وارفع وافضل مقام ختم نبوت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.اللهم امين

Page 24