Language: UR
اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی قربانیوں اور صبر و استقامت کے واقعات کاانتخاب پیش کیا گیا ہے۔ جس کا مطالعہ قارئین کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی عظیم الشان قوت قدسی، آپ کی صداقت کے دلائل کے اثرات اور گہرائی کا اندازہ کرنے میں مدد دینے والا ہے۔
مردان خدا مردان خدا *
مردان خدا نام کتاب مردان خدا طبع: تعداد پہلا ایڈیشن ایک ہزار
مردان خدا دیباچہ دیباچه تاریخ مذاہب اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کے مامورین دنیا کی ہدایت کیلئے آئے اندھیروں کے پجاری ہمیشہ اُن کے خلاف ہو گئے.شیطان اپنے لاؤلشکر سمیت اُن پر حملہ آور ہوا.اُن کے ایمان کو آزمایا جاتا رہا اور اس طرح جہاں ایک طرف چشمِ فلک نے ظلم و ستم کے دردناک نظارے دیکھے وہاں اہل ایمان ہر قسم کے مظالم کوخدا کی خاطر برداشت کر کے حتی کہ اپنے خون اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے اطاعت و وفا کی لازوال داستانیں رقم کرتے رہے اور اپنے رب کی رضا پر راضی رہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق یہی تاریخ اُمت محمدیہ کے اس آخری دور میں دہرائی جانے والی تھی.زیر نظر کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقا کی قربانیوں اور صبر و استقامت کے واقعات کو پیش کیا گیا ہے.فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء
مردان خدا پیش لفظ بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ روز اول سے حق و باطل کے درمیان معرکہ آرائی جاری ہے.جب بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی تو حید کا درس دے کر اس دنیا میں بھجواتا ہے تو دنیا میں اُن کی مخالفت کا طوفان کھڑا ہو جاتا ہے.اس سے ایک طرف تو اہل ایمان کے ایمان کو ان ابتلاؤں کے ذریعہ آزمایا جاتا ہے تو دوسری طرف ان کے مخالفین کے اخلاق کی کمزوری، روحانی دلوالیہ پن ظلم و جبر اور ان کے روشنی سے دور ہونے اور تاریکیوں میں بھٹکنے کا اظہار ہوتا ہے.جب بھی اللہ تعالیٰ کے مامورین دنیا میں آئے تو ان کے ماننے والوں کو ہر قسم کی قربانیاں دینا پڑیں ان کی عزتوں سے کھیلا گیا، ان کے اموال کو برباد کیا گیا ، ان کے خون کی ہولی کھیلی گئی غرض کوئی ایسا پہلو نہیں ہوتا جس کی قربانی من حیث الجماعت نہ لی گئی ہو.ان میں سے بعض ایسے بزرگ بھی ہوتے ہیں کہ وہ اکیلے ہی محض اللہ کی رضا کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں دے جاتے ہیں اور اہل دنیا کو یہ پیغام دے جاتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے، عارضی ہے.اصل دنیا اس کے بعد کی ہے اور اس کی حفاظت ضروری ہے کیونکہ وہ دائمی ہے.جاودانی زندگی ہے موت کے اندر نہاں گلشن دلبر کی رہ ہے وادی غربت کے خار زیر نظر کتاب میں چند ایسے ہی خوش نصیبوں کا ذکر ہے جنہوں نے اس زمانے کے مامور من اللہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو قبول کیا اور اس اخلاص اور بصیرت کے ساتھ قبول کیا کہ پھر اس راستہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو عبور کر گئے.اس راہ میں انہوں نے اپنے گھروں کو خیر باد کہا، اپنے اموال سے دست بردار ہوئے ، اپنی عزتوں کی پرواہ نہ کی حتی کہ اپنی
مردان خدا پیش لفظ جانوں کا بھی نذرانہ پیش کردیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ رفقاء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نمونہ کو اختیار کرنے کی طرف جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں.یہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لائے ان کو خدا نے آخری زمانہ کے مامور اور مرسل کا (رفیق) پھر ابتدائی (رفیق) بننے کی توفیق عطا فرمائی اور ان کی والہانہ محبت کے نظارے ایسے ہیں کہ دنیا ایسے نظارے صدیوں میں دکھانے سے قاصر رہے گی پس یہ وہ لوگ ہیں جن کے نقش قدم پر جماعت کے دوستوں کو چلنے کی کوشش کرنی چاہئے“.(الفضل: جلد ۲۹: نمبر ۱۹۶) پس یہ مردانِ خدا، محبوبان بارگاہ الہی ہمارے لئے ایک نمونہ ہیں.ان کے راستوں پر قدم مارنا ہی ہمارے لئے راہ فلاح ہے.مولا کریم ان تمام قربانیوں کے تحائف پیش کرنے والوں کو کروٹ کروٹ رحمت نصیب کرے اور ہمیشہ ایسے لوگ پیدا کرتا ر ہے جو ان نمونوں پر عمل کریں، سب کچھ قربان کریں مگر اپنے ایمان کی کشتی کو پار لے جائیں.آمین الھم آمین.امید ہے ہمارے خدام اور اطفال ان واقعات سے بھر پور استفادہ کریں گے.
مردان خدا نمبر شمار ☑ と 3 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ابتدائیہ بسم الله الرحمن الرحيم انڈیکس ابتدائیہ حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی حضرت نواب محمد علی خان صاحب حضرت مولانا شیر علی صاحب حضرت منشی ظفر احمد صاحب حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی حضرت شیخ عبدالرحیم صاحب شر ما حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری حضرت قاضی ضیاءالدین صاحب حضرت مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی حضرت چوہدری برکت علی صاحب گڑھ شنکری حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب یادگیری حرف آخر صفحہ نمبر 1 11 ۱۲ ۲۱ ۲۵ ۲۹ ۳۲ ۳۴ } ۶۲ ۷۵ ZA ۸۲ ۸۴ ۸۶ ٨٨ ۹۱ انڈیکس
مردان خدا حضرت سید عبد اللطیف صاحب (۱) حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب شہید نام: حضرت سید عبداللطیف صاحب قبول احمدیت: آپ ۱۸ نومبر ۱۹۰۲ کو پہلی مرتبہ قادیان تشریف لائے ، بیعت کی اور ۱۹۰۳ء میں واپس روانہ ہوئے.شہادت: آپ کو ۱۴ جولائی ۱۹۰۳ء کو کابل میں سنگسار کر کے شہید کیا گیا.اولاد: آپ کے پانچ صاحبزادے تھے.ا.صاحبزادہ سید محمد سعید جان صاحب.افغانستان میں ہی حکومت وقت کے مظالم کے نتیجہ میں شہید ہوئے.۲.صاحبزادہ سید عبدالسلام صاحب ۳.صاحبزادہ سیدابوالحسن قدی صاحب ۴.صاحبزادہ سید محمد عمر جان صاحب.افغانستان میں ہی حکومت وقت کے مظالم کے نتیجہ میں شہید ہو گئے.۵.صاحبزادہ سید محمد طیب صاحب قربانیوں کا تذکرہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے رفقاء میں سے حضرت صاحبزادہ شہزادہ عبداللطیف صاحب بھی وہ مبارک وجود تھے جنہوں نے مال کی ، عزت کی، جائیداد کی ، جاہ و منصب کی حتی کہ جان تک کی قربانی اللہ کی راہ میں پیش کر دی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کے متعلق فرمایا: شہید مرحوم نے میری جماعت کو ایک نمونہ دیا“ حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب افغانستان کے صوبہ خوست میں سید گاہ گاؤں میں
مردان خدا حضرت سید عبد اللطیف صاحب پیدا ہوئے.آپ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کی اولاد میں سے تھے.آپ کے بزرگ ہندوستان سے ہجرت کر کے افغانستان جا کر آباد ہوئے تھے.آپ کا خاندان بہت بڑی جائیداد کا مالک تھا جو کہ قریباً تمیں ہزار ایکڑ تھی.آپ کا گھرانہ دینی گھرانہ تھا اور سارے علاقے میں ان کے علم دین کی شہرت تھی.حضرت صاحبزادہ صاحب نے حصول علم کے لئے ہندوستان کا سفر اختیار کیا.کئی سال مختلف علماء سے کسب علوم کیا اور پھر واپس جا کر اپنے گاؤں میں قرآن اور حدیث کا درس شروع کیا.آپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی.آپ نے اپنے طالب علموں کے لئے رہائش اور کھانے کا باقاعدہ بندوبست کیا ہوا تھا.آپ بہت بڑے عالم تھے.آپ کی اپنی لائبریری تھی جس میں دینی علوم پر مشتمل ہر قسم کی ضروری کتب موجود تھیں.امیر عبدالرحمن جب افغانستان کا بادشاہ تھا تو اس نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی علمی شہرت سن کر آپ کو ملاقات کیلئے کا بل بلوایا.جب آپ سے ملاقات ہوئی تو وہ آپ کے علمی مقام اور آپ کے وقار سے اس قدر متاثر ہوا کہ اپنے ملک میں مذہبی مشوروں کیلئے آپ کو مشیر اور اپنے بیٹے حبیب اللہ خان کا استاد مقرر کیا.بعد میں بادشاہ کے کہنے پر آپ نے اپنے بیوی بچے بھی خوست سے کابل بلوا لئے اور یہیں رہنے لگے.جب افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمن فوت ہوئے تو حضرت صاحبزادہ صاحب کے مشورے پر ہی امیر حبیب اللہ خان کو تخت پر بٹھانے کا فیصلہ ہوا تھا اور ۳.اکتو بر ۱۹۰۲ کو امیر حبیب اللہ خان کی رسم تاجپوشی آپ ہی کے ہاتھوں انجام پائی تھی.اس سے حضرت صاحبزادہ صاحب کے علمی اور ظاہری مقام کا اندازہ ہوتا ہے کہ کس اعلیٰ مقام پر آپ فائز تھے اور آپ کی کیا شان تھی.واعظ و ملا و صوفى و فقي لیک خونش ریخت یک قوم سفیه ۱۸۹۴ ء کی بات ہے کہ افغانستان اور ہندوستان کی سرحدوں کی تعیین کے سلسلہ میں ایک وفد افغانستان سے پشاور آیا تو اس وفد میں حضرت صاحبزادہ صاحب بھی شامل تھے.اسی
مردان خدا حضرت سید عبد اللطیف صاحب عرصہ میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق خبر ملی تو آپ نے حضور کی کتاب آئینہ کمالات اسلام کے مطالعہ سے یہ جان لیا کہ آپ ہی نیچے موعود ہیں.شہادت حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب اب شہزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت کی داستان کچھ اس طرح آگے بڑھتی ہے کہ امیر عبدالرحمن کے بعد اس کا بیٹا حبیب اللہ خان امیر بنا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے امیر سے حج پر جانے کی اجازت مانگی.امیر نے بخوشی اجازت دی.آپ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ کابل سے روانہ ہو کر بنوں کے راستے ہندوستان آئے.اٹک کے قریب حضرت شہزادہ صاحب کی ملاقات ایک احمدی سے ہوئی.آپ اسے مل کر اس قدر خوش ہوئے کہ اُسے ایک گھوڑ ابطور انعام دے دیا.جب آپ لاہور پہنچے تو پتہ چلا کہ طاعون کی بیماری پھیلنے کی وجہ سے اس سال حج پر جانے میں روک پیدا ہو گئی ہے.قادیان آمد اور اپنے امام سے پہلی ملاقات آپ کی قادیان میں آمد ۱۹۰۲ء کے اواخر میں ہوئی.شہزادہ صاحب لاہور سے بٹالہ اور بٹالہ سے پیدل چل کر قادیان پہنچے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.” جب مجھ سے ان کی ملاقات ہوئی تو قسم اس خدا کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ان کو اپنی پیروی اور اپنے دعویٰ کی تصدیق میں ایسا فنا شدہ پایا جس سے بڑھ کر انسان کیلئے ممکن نہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب قریباً ساڑھے تین ماہ تک قادیان میں رہے.
مردان خدا حضرت سید عبد اللطیف صاحب قادیان سے روانگی.آخری ملاقات ۱۹۰۳ء کے شروع میں جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اجازت لے کر قادیان سے روانہ ہونے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور کچھ اور لوگ بٹالہ کی نہر تک جو کہ قادیان سے قریباً ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر ہے شہزادہ صاحب کو الوداع کہنے تشریف لائے.جب شہزادہ صاحب کے رخصت ہونے کا وقت آیا تو آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں گر پڑے اور دونوں ہاتھوں سے حضور کے پاؤں پکڑ لئے اور عرض کیا میرے لئے دعا کریں.آپ نے فرمایا اچھا دعا کرتا ہوں میرے پاؤں چھوڑ دیں.معلوم یہ ہوتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ یہ آپ کی آخری ملاقات ہے.بہر حال آپ قادیان سے روانہ ہو کر لاہور اور لاہور سے بنوں اور بنوں سے خوست اپنے گاؤں سید گاہ پہنچے.کابل جانے سے پہلے آپ نے اپنے شاگر دمحمد حسین کو جو اُس وقت افغانستان کی فوجوں کا سب سے بڑا افسر تھا خط لکھا کہ آپ بادشاہ سے میرے کابل آنے کی اجازت لیکر مجھے لکھیں.یہ خط آپ کے ایک دشمن نصر اللہ خان جو کہ نائب امیر اور امیر کا بھائی بھی تھا اس کے ہاتھ لگا اس نے یہ خط لیکر بادشاہ کے پاس شکایت کر دی.علاوہ ازیں شہزادہ صاحب نے دیگر اعلیٰ سرکاری عہدیداران کو بھی خطوط لکھے تھے وہ خطوط بھی امیر کے پاس بھجوا دئیے گئے.بادشاہ نے بڑے بڑے مولویوں کو بلایا اور ان سے رائے لی تو انہوں نے کہا کہ جس شخص کی اس نے بیعت کی ہے وہ تو کافر اور مرتد ہے تب بادشاہ کی طرف سے خوست کے گورنر کو حکم بھجوایا گیا کہ شہزادہ صاحب کو گرفتار کر کے پچاس سواروں کے ساتھ یہاں بھیج دو.گرفتاری اور قید و بند اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے عجیب معاملہ ہوتا ہے.ان سرکاری کارندوں کے پہنچنے.
مردان خدا حضرت سید عبد اللطیف صاحب قبل ہی آپ نے اپنے ساتھیوں کو بتادیا تھا کہ مجھے گرفتار کر لیا جائے گا اور اپنے ایک شاگر داحمد نور کابلی صاحب کو فرمایا کہ میری شہادت کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دے دینا.عصر کا وقت تھا جب حاکم خوست کی طرف سے پچاس سپاہی آپ کی گرفتاری کیلئے آئے.حاکم خوست آپ کی بہت عزت کرتا تھا اس نے پیغام بھجوایا تھا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں آپ خود آئیں گے یا میں حاضر ہو جاؤں.آپ نے فرمایا کہ وہ ہمارے سردار ہیں میں خود چلتا ہوں.گھر سے روانہ ہونے سے قبل آپ نے اپنے گھر والوں کو نصیحت فرمائی کہ میں اب جا رہا ہوں.دیکھو ایسا نہ ہو کہ میرے بعد تم کوئی اور راستہ اختیار کرو.جس ایمان اور عقیدہ پر میں ہوں وہی تمہارا مذہب ہونا چاہئے.جب آپ خوست چھاؤنی پہنچے تو حاکم نے ایک کوٹھی میں آپ کو نظر بند کر دیا مگر اتنی رعایت رکھی کہ آپ کے عزیز آپ سے ملتے رہیں.کچھ دنوں کے بعد حاکم خوست نے آٹھ گھوڑ سواروں کے ساتھ آپ کو کابل بھجوا دیا.کابل در بارشاہی میں بادشاہ کو آپ کے خلاف بہت بھڑ کا یا گیا تھا.جب آپ کو دربار میں پیش کیا گیا تو بادشاہ بڑی سختی سے پیش آیا اور حکم دیا کہ ان کو ارک کے قلعہ میں قید کر دو.یہ وہ قلعہ تھا جس کے ایک حصہ میں خود بادشاہ رہتا تھا.بادشاہ کے حکم پر آپ کو اس قلعہ میں قید کر دیا گیا اور غراغراب نامی زنجیر جس کا وزن ایک من چوبیں سیر تھا آپ کو پہنا دی گئی.اس میں ہتھکڑی بھی شامل تھی.آپ کے جسم کا کمر تک کا حصہ مکمل طور پر اس نے گھیر لیا.آپ کے پاؤں میں آٹھ سیروزنی بیڑی لگا دی گئی.یہ قید بامشقت ایک عادی مجرم پر وارد نہ کی گئی تھی بلکہ اس وجود پر یہ مسلط کی گئی جو بچپن سے ہی ناز و نعم میں پلا تھا.اپنے علاقہ کا معروف بزرگ اور عالم متبحر اور بہت بڑی جائیداد کا مالک تھا.آپ نے محض اللہ کے نام پر، اُس کی خاطر ، اُس کے دین کی خاطر یہ قید با مشقت چار ماہ تک بڑے ہی صبر اور حوصلہ کے ساتھ پوری کی.اپنا سارا وقت ذکر الہی اور
مردان خدا حضرت سید عبد اللطیف صاحب تلاوت قرآن کریم میں گزارا.قید کے دوران بادشاہ نے کئی مرتبہ شہزادہ صاحب کو یہ کہا کہ آپ مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کر دیں تو بچ سکتے ہیں مگر آپ نے ہر مرتبہ یہی کہا کہ میں صداقت کو کیسے چھوڑ دوں؟ اس پر میری ہر چیز قربان ہوسکتی ہے مگر مجھ سے اس صداقت کا انکار نہیں ہوسکتا.کچھ ایسے مست ہیں وہ رخ خوب یار سے ڈرتے کبھی نہیں ہیں وہ دشمن کے وار سے راہ مولیٰ میں شہادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام شہزادہ صاحب کی شہادت کے واقعات کے تذکرہ میں فرماتے ہیں.” جب چار مہینے قید کے گزر گئے تب امیر نے اپنے رو برو شہید مرحوم کو بلا کر پھر اپنی عام کچہری میں تو بہ کیلئے فہمائش کی اور بڑے زور سے رغبت دی کہ اگر تم اب بھی قادیانی کی تصدیق اور اُس کے اصولوں کی تصدیق سے میرے رو بروانکار کر و تو تمہاری جان بخشی کی جائے گی اور تم عزت کے ساتھ چھوڑے جاؤ گے.شہید مرحوم نے جواب دیا کہ یہ تو غیر ممکن ہے کہ میں سچائی سے تو بہ کروں.اس دنیا کے حکام کا عذاب تو موت تک ختم ہو جاتا ہے لیکن میں اُس سے ڈرتا ہوں جس کا عذاب کبھی ختم نہیں ہوسکتا.ہاں چونکہ میں سچ پر ہوں اس لئے چاہتا ہوں کہ ان مولویوں سے جو میرے عقیدے کے مخالف ہیں میری بحث کرائی جائے اگر میں دلائل کے رو سے جھوٹا نکلا تو مجھے سزا دی جائے.راوی اس قصہ کے کہتے ہیں کہ ہم اس گفتگو کے وقت موجود تھے.امیر نے اس بات کو پسند کیا اور مسجد شاہی میں خان ملا خاں اور آٹھ مفتی بحث کیلئے منتخب کئے گئے اور ایک لاہوری ڈاکٹر جو خود پنجابی
مردان خدا حضرت سید عبد اللطیف صاحب ہونے کی وجہ سے سخت مخالف تھا بطور ثالث کے مقرر کر کے بھیجا گیا...مباحثہ تحریری تھا.صرف تحریر ہوتی تھی اور کوئی بات حاضرین کو سنائی نہیں جاتی تھی اس لئے اس مباحثہ کا کچھ حال معلوم نہیں ہوا.سات بجے صبح سے تین بجے سہ پہر تک مباحثہ جاری رہا.پھر جب عصر کا آخری وقت ہوا تو کفر کا فتویٰ لگایا گیا.پھر بعد اس کے اخوندزادہ حضرت شہید مرحوم اسی طرح پابز نجیر ہونیکی حالت میں قید خانہ میں بھیجے گئے اور اس جگہ یہ بات بیان کرنے سے رہ گئی ہے کہ جب شاہزادہ مرحوم کی اُن بدقسمت مولویوں سے بحث ہورہی تھی تب آٹھ آدمی بر ہنہ تلوار میں لے کر شہید مرحوم کے سر پر کھڑے تھے.پھر بعد اس کے وہ فتویٰ کفر رات کے وقت امیر صاحب کی خدمت میں بھیجا گیا اور یہ چالا کی کی گئی کہ مباحثہ کے کاغذات ان کی خدمت میں عمداً نہ بھیجے گئے اور نہ عوام پر ان کا مضمون ظاہر کیا گیا.یہ صاف اس بات کی دلیل تھی کہ مخالف مولوی شہید مرحوم کے ثبوت پیش کردہ کا کوئی رڈ نہ کر سکے مگر افسوس امیر پر کہ اس نے کفر کے فتویٰ پر ہی حکم لگا دیا اور مباحثہ کے کاغذات طلب نہ کئے...بعد اس کے کہ فتویٰ کفر لگا کر شہید مرحوم قید خانہ میں بھیجا گیا صبح روز دوشنبہ کو شہید موصوف کو سلام خانه یعنی خاص مکان در بار امیر صاحب میں بلایا گیا.اس وقت بھی بڑا مجمع تھا.پھر امیر صاحب جب اپنے اجلاس پر آئے تو اجلاس میں بیٹھتے ہی پہلے اخوند زادہ صاحب مرحوم کو بلایا اور کہا کہ آپ پر کفر کا فتویٰ لگ گیا ہے.اب کہو کہ کیا تو بہ کرو گے یا سزا پاؤ گے تو انہوں نے صاف لفظوں میں انکار کیا اور کہا کہ میں حق سے تو یہ نہیں کر سکتا.کیا میں جان کے خوف سے باطل کو مان لوں.یہ مجھ سے نہیں ہوگا.تب امیر نے دوبارہ تو بہ کیلئے کہا اور توبہ کی حالت میں بہت امید دی اور وعدہ معافی دیا.مگر شہید موصوف نے بڑے زور سے انکار کیا اور کہا کہ مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں سچائی سے تو بہ کروں.....جب شہید مرحوم
مردان خدا حضرت سید عبد اللطیف صاحب نے ہر ایک مرتبہ تو بہ کرنے کی فہمائش پر تو بہ کرنے سے انکار کیا تو امیر نے ان سے مایوس ہو کر اپنے ہاتھ سے ایک لمبا چوڑا کاغذ لکھا اور اس میں مولویوں کا فتویٰ درج کیا اور اس میں یہ لکھا کہ ایسے کافر کی سنگسار کرنا سزا ہے.تب وہ فتویٰ اخوند زادہ مرحوم کے گلے میں لٹکا دیا گیا اور پھر امیر نے حکم دیا کہ شہید مرحوم کے ناک میں چھید کر کے اس میں رسی ڈال دی جائے اور اُس رسی سے شہید مرحوم کو کھینچ کر مقتل یعنی سنگسار کرنے کی جگہ تک پہنچایا جائے.چنانچہ اس ظالم امیر کے حکم سے ایسا ہی کیا گیا اور ناک کو چھید کر سخت عذاب کے ساتھ اُس میں رسی ڈالی گئی.تب اُس رہی کے ذریعہ سے شہید مرحوم کو نہایت ٹھٹھے ہنسی اور گالیوں اور لعنت کے ساتھ مقتل تک لے گئے اور امیر اپنے تمام مصاحبوں کے ساتھ اور مع قاضیوں، مفتیوں اور دیگر اہلکاروں کے یہ دردناک نظارہ دیکھتا ہوا مقتل تک پہنچا اور شہر کی ہزار ہامخلوق جن کا شمار کرنا مشکل ہے اس تماشا کے دیکھنے کیلئے گئی.جب مقتل پر پہنچے تو شاہزادہ مرحوم کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا اور پھر اُس حالت میں جب کہ وہ کمر تک زمین میں گاڑ دیئے گئے تھے امیران کے پاس گیا اور کہا کہ اگر تو قادیانی سے جو مسیح موعود ہونے کا دعوی کرتا ہے انکار کرے تو اب بھی میں تجھے بچالیتا ہوں.اب تیرا آخری وقت ہے اور یہ آخری موقعہ ہے جو تجھے دیا جاتا ہے اور اپنی جان اور اپنے عیال پر رحم کر.تب شہید مرحوم نے جواب دیا کہ نعوذ باللہ سچائی سے کیونکر انکار ہوسکتا ہے اور جان کی کیا حقیقت ہے اور عیال و اطفال کیا چیز ہیں جن کے لئے میں ایمان کو چھوڑ دوں.مجھ سے ایسا ہر گز نہیں ہوگا اور میں حق کے لئے مروں گا“.دے چکے دل اب تن خاکی رہا ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا
مردان خدا حضرت سید عبداللطیف صاحب ' تب قاضیوں اور فقیہوں نے شور مچایا کہ کافر ہے.کافر ہے.اس کو جلد سنگسار کرو.اُس وقت امیر اور اس کا بھائی نصر اللہ خاں اور قاضی اور عبدالاحد کمیدان یہ لوگ سوار تھے اور باقی تمام لوگ پیادہ تھے.جب ایسی نازک حالت میں شہید مرحوم نے بار بار کہہ دیا کہ میں ایمان کو جان پر مقدم رکھتا ہوں.تب امیر نے اپنے قاضی کو حکم دیا کہ پہلا پتھر تم چلاؤ کہ تم نے کفر کا فتویٰ لگایا ہے.قاضی نے کہا کہ آپ بادشاہ وقت ہیں آپ چلا دیں.تب امیر نے جواب دیا کہ شریعت کے تم ہی بادشاہ ہو اور تمہارا ہی فتویٰ ہے.اس میں میرا کوئی دخل نہیں.تب قاضی نے گھوڑے سے اتر کر ایک پتھر چلایا.جس پتھر سے شہید مرحوم کو زخم کاری لگا اور گردن جھک گئی پھر بعد اس کے بدقسمت امیر نے اپنے ہاتھ سے پتھر چلایا.پھر کیا تھا اس کی پیروی سے ہزاروں پتھر اس شہید پر پڑنے لگے اور کوئی حاضرین میں سے ایسا نہ تھا جس نے اس شہید مرحوم کی طرف پتھر نہ پھینکا ہو.یہاں تک کہ کثرت پتھروں سے شہید مرحوم کے سر پر ایک کوٹھہ پتھروں کا جمع ہو گیا.بیان کیا گیا ہے کہ یظلم یعنی سنگسار کرنا ۱۴ جولائی ۱۹۰۳ء کو وقوع میں آیا“.(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰: صفحه : ۵۴تا۵۹) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس واقعہ کا فارسی نظم میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آں جواں مرد و حبیب جو ہر خود کرد آخر کردگار آشکار ہیں کہ ایس عبداللطیف پاک مرد چوں پئے حق خویشتن برباد کرد جاں بصدق آں دلستان را داده است تا کنوں در سنگها افتاده است
مردان خدا حضرت سید عبداللطیف صاحب این بود رسم ره صدق و وفا و این بود مردان حق را انتہا یعنی وہ جواں مرد اور رب کریم کا محبوب تھا.اس نے اپنے پوشیدہ خدا داد جو ہر کو خوب ظاہر کر دیا.دیکھو دیکھو اس پاک وجود عبداللطیف نے اپنے مولا اور حق و صداقت کی خاطر قربانی دے دی اور اُس وجود نے صدق اور سچائی کے ساتھ اپنی جان جان آفریں کے سپر د کر دی تبھی تو اس نے اپنے آپ کو اس طرح پر سنگساری کے پتھروں کے سپر دکر دیا.یہی صدق و وفا کے راستہ کی رسم ہے اور مردان حق کا انتہائی مقام یہی ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے متعلق فرمایا :.”اے عبداللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا.اللہ تعالیٰ حضرت صاحبزادہ صاحب کو اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے.ان کی برکات ان کے پس ماندگان میں جاری وساری رکھے اور ہر آن اور ہر لحظہ سب کا حامی و ناصر ہو.آمین خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را
مردان خدا حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب (۲) حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب نام: حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب قادیان آمد: آپ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کے لائق شاگرد تھے اور ان تین خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جنہیں حضرت صاحبزادہ صاحب نے ۱۸۹۴ ء یا ۱۸۹۵ ء سے گاہے بگا ہے حضور علیہ السلام کی خدمت میں قادیان بھجوا نا شروع کر دیا تھا.شہادت: ۱۹۰۱ء حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید نے ہندوستان اور افغانستان کی سرحدات کی تعیین کے کام سے واپس افغانستان جا کر اپنے ایک خاص اور لائق شاگرد حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب کو قادیان بھیجا اور پھر متعدد مرتبہ بھجواتے رہے.دسمبر ۱۹۰۰ء میں آخری مرتبہ جب حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب قادیان سے واپس کا بل گئے تو علماء کے شکایت لگانے پر آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور پھر علماء کے فتوی کے مطابق آپ کو قید میں ڈال دیا گیا اور اس قید کے دوران ہی آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر آپ کے سانس کو بند کر کے آپ کو شہید کر دیا گیا.سید ۱۹۰ء کا واقعہ ہے.یہ افغانستان میں کسی احمدی کی محض اللہ کے نام پر پہلی قربانی تھی.اللہ تعالیٰ ہزاروں ہزار رحمتیں اس وجود پر فرمائے جس نے قید و بند کی صعوبتوں کو تو برداشت کر لیا مگر اپنے ایمان کو سلامت رکھا.آپ نے موت کو تو گلے لگا لیا مگر دین سے انحراف نہ کیا.آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس دنیا کی زندگی تو عارضی ہے دائی زندگی اس کے بعد کی ہے.اس لئے آپ نے اس عارضی حیات کو الوداع کہہ کر ہمیشہ کی زندگی کو اختیار کر لیا.( تذکرۃ الشہادتین، شهداء الحق مرتبہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی فصل پنجم) جو مر گئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات اس رہ میں زندگی نہیں ملتی بجز ممات
مردان خدا حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی (۳) حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیلی نام: حضرت مولانا غلام رسول صاحب ولدیت: حضرت میاں کرم دین صاحب پیدائش: ۱۸۷۷ ء اور ۱۸۷۹ء کے درمیان بمقام را جیکی ضلع گجرات بیعت: ۱۸۹۷ء کو بذریہ خط اور ۱۸۹۹ء کو دستی بیعت تصانیف: حیات قدسی ( پانچ جلدیں) ہستی باری تعالی.کشف الحقائق، كلمة الفصل (عربی) وفات: ۱۶،۱۵ دسمبر ۱۹۶۳ء اتوار اور سوموار کی درمیانی رات سات بجے بعمر ۸۵ سال اولاد: آپ کے چھ بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں.ایک بیٹا تو بچپن میں فوت ہو گیا تھا.بقیہ پانچ بچوں کے نام یہ ہیں.مکرم مصلح الدین صاحب را جیکی ۲- مکرم برکات احمد صاحب را جیکی مکرم اقبال احمد صاحب را جیکی ۴ مکرم مبشر احمد صاحب را جیکی ۵- مکرم عزیز احمد صاحب را جیکی قبول صداقت اور قربانیاں حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی بزرگوں کی اولاد اور اپنے علاقہ کے معزز خاندان سے تھے.آپ صاحب کشف والہام بزرگ تھے.آپ کی دعاؤں کی قبولیت کے واقعات جماعت میں بہت معروف ہیں.عربی زبان کے بہت بڑے عالم تھے آپ کے عربی قصائد منقوطہ وغیر منقوطہ نے اپنوں اور غیروں سب سے آپ کی عربی دانی کا لوہا منوایا.آپ عربی ، فارسی، اردو، پنجابی کے قادر الکلام شاعر تھیآپ کی پنجابی نظمیں اور سی حرفیاں
مردان خدا حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی بہت مقبول ہیں.خاص طور پر جھوک مہدی والی تو دیہاتی جماعتوں میں زبان زدعام ہے.آپ کو جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت قبول کرنے کی توفیق نصیب ہوئی تو سنت اللہ کے مطابق آپ پر بہت ابتلا آئے مگر ہر موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی دستگیری فرمائی اور آپ اخلاص میں ترقی پر ترقی کرتے چلے گئے.یہاں چند واقعات جو کہ آپ نے خود ہی تحریر فرمائے ہیں احباب کے ازدیاد ایمان کی خاطر پیش کئے جاتے ہیں.آپ فرماتے ہیں:.فتویٰ تکفیر اور مقاطعہ "وطن مالوف موضع را جیکی پہنچتے ہی خداوند کریم کی نوازش ازلی نے میرے اندر ( دعوت احمدیت ) کا ایسا بے پناہ جوش بھر دیا کہ میں شب و روز دیوانہ وار اپنوں اور بیگانوں کی محفل میں جاتا اور سلام و تسلیم کے بعد امام الزمان علیہ السلام کے آنے کی مبارکباد عرض کرتے ہوئے ( دعوت احمدیت ) شروع کر دیتا.جب گردو نواح کے دیہات میں میری ( دعوت الی اللہ ) اور احمدی ہونے کا چرچا ہوا تو اکثر لوگ جو ہمارے خاندان کو پشتہا پشت سے ولیوں کا خاندان سمجھتے تھے مجھے اپنے خاندان کے لئے باعث ننگ خیال کرنے لگے اور میرے والد صاحب محترم اور میرے چچاؤں کی خدمت میں حاضر ہو کر میرے متعلق طعن و تشنیع شروع کر دی.میرے خاندان کے بزرگوں نے جب ان لوگوں کی باتوں کو سنا اور میرے عقائد کو اپنی آبائی وجاہت اور دنیوی عزت کے منافی پایا تو مجھے خلوت و جلوت میں کوسنا شروع کر دیا آخر ہمارے ان بزرگوں اور دوسرے لوگوں کا یہ جذبہ تنافر یہاں تک پہنچا کہ ایک روز لوگ مولوی شیخ احمد ساکن دھر یکاں تحصیل پھالیہ اور بعض دیگر علماء کو ہمارے گاؤں میں لے آئے.یہاں پہنچتے ہی ان علماء نے مجھے سینکڑوں آدمیوں کے مجمع میں بلایا اور احمدیت سے تو بہ کرنے کیلئے کہا میری عمر اگر چہ اس وقت کوئی اٹھارہ انیس سال کے قریب ہوگی مگر اس روحانی جرات کی وجہ سے جو
مردان خدا ۱۴ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی محبوب ایزدی نے مجھے مرحمت فرمائی تھی میں نے ان مولویوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور اس بھرے مجمع میں جہاں ہمارے علاقہ کے زمیندار اور نمبر دار اور ذیلدار وغیرہ جمع تھے ان لوگوں کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے دلائل سنانے کی کوشش کی لیکن مولوی شیخ احمد اور ان کے ہمراہیوں نے میرے دلائل کو سننے کے بغیر ہی مجھے کافر ٹھہرا دیا اور یہ کہتے ہوئے کہ اس لڑکے نے ایک ایسے خاندان کو بٹہ لگایا ہے جس میں پشتہا پشت سے ولی پیدا ہوتے رہے ہیں اور جس کی بعض خواتین بھی صاحب کرامات و کشوف گذری ہیں.تمام لوگوں کا میرے ساتھ مقاطعہ کرا دیا اس موقع پر میرے بڑے چچا حافظ برخوردار صاحب کے لڑکے حافظ غلام حسین جو بڑے دبدبہ کے آدمی تھے کھڑے ہوئے اور میری حمایت کرتے ہوئے ان مولویوں اور ذیلداروں کو خوب ڈانٹا لوگوں نے جب اُن کی خاندانی عصبیت کو دیکھا تو خیال کیا کہ اب یہاں ضرور کوئی فساد ہو جائے گا اس لئے منتشر ہو کر ہمارے گاؤں سے چلے گئے.اس فتوی تکفیر کے بعد مجھے لا اله الا اللہ کی خالص توحید کا وہ سبق جو ہزار ہا مجاہدات اور ریاضتوں سے حاصل نہیں ہوسکتا تھا ان علماء کی آشوب کاری اور رشتہ داروں کی بے اعتنائی نے پڑھا دیا اور وہ خدا جو صدیوں سے عنقا اور ہما کی طرح لوگوں کے وہم و گمان میں تھا سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کے توسط سے اپنی یقینی تجلیات کے ساتھ مجھے ذرہ..........حقیر پر ظا ہر ہوا.چنانچہ اس ابتدائی زمانہ میں جب کہ یہ علماء سوء گاؤں گاؤں میری کم علمی اور کفر کا چرچا کر رہے تھے مجھے میرے خدا نے الہام کے ذریعہ سے یہ بشارت دی.”مولوی غلام رسول جوان صالح کراماتی چنانچہ اس الہام الہی کے بعد جہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے بڑے بڑے مولویوں کے ساتھ مباحثات کرنے میں نمایاں فتح دی ہے وہاں میرے ذریعہ سیدنا حضرت امام الزمان علیہ السلام کی برکت سے انداری اور تبشیری کرامتوں کا اظہار بھی فرمایا ہے جن کا ایک زمانہ گواہ ہے.( حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی: حیات قدی: حصہ اول: صفحہ ۲۱۰ تا۲۳: ۲۰ جنوری ۱۹۵۱ء: حیدر آباد دکن)
مردان خدا ۱۵ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی قتل کی کوشش حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں:.انہی ایام کا ذکر ہے کہ میں ایک مرتبہ موضع گڈ ہو جو ہمارے گاؤں سے قریب ڈیڑھ کوس کے فاصلہ پر واقع ہے گیا چونکہ اس گاؤں کے اکثر لوگ ہمارے خاندان کے حلقہ ارادت میں داخل تھے اس لئے میں نے یہاں کے بعض آدمیوں کو احمدیت کی ( دعوت ) کی اور واپسی پر اس موضع کی ایک مسجد کے برآمدہ میں اپنی ایک پنجابی نظم کے کچھ اشعار جو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد سے متعلق تھے لکھ دیئے.اتفاق کی بات ہے کہ اس موضع کا نمبر دار | چوہدری اللہ بخش اس وقت کہیں مسجد میں طہارت کر رہا تھا اُس نے مجھے مسجد سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ لیا.ادھر راستہ میں یہاں کے امام مسجد مولوی کلیم اللہ نے بھی مجھے دیکھا.جب یہ دونوں آپس میں ملے تو انہوں نے میرے جنون احمدیت کا تذکرہ کرتے ہوئے مسجد کے برآمدہ میں ان اشعار کو پڑھا اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ اب ہماری مسجد اس مرزائی نے پلید کر دی ہے یہ تجویز کیا کہ سات مضبوط جوانوں کو میرے پیچھے دوڑایا جائے جو میری مشکیں باندھ کر مجھے ان کے پاس لے آئیں اور پھر میرے ہاتھوں سے ہی میرے لکھے ہوئے اشعار کو مٹوا کر مجھے قتل کر دیا جائے.چنانچہ انہوں نے اس منصو بہ کوعملی جامہ پہنانے کیلئے سات جوانوں کو میرے پیچھے دوڑا دیا.مگر اس زمانہ میں میں بہت تیز چلنے والا تھا اس لئے میں ان جوانوں کے پہنچنے سے پہلے ہی اپنے گاؤں آگیا اور وہ خائب و خاسر واپس لوٹ گئے.دوسرے دن اسی گاؤں کا ایک باشندہ جو والد صاحب کا مرید تھا اور ان لوگوں کے بد ارادوں سے واقف تھا صبح ہوتے ہی ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا ماجرا کہہ سنایا.والد صاحب نے اس کی باتیں سنتے ہی مجھے فرمایا کہ جب ان لوگوں کے تیرے متعلق ایسے ارادے ہیں تو احتیاط کرنی چاہئے میں نے جب یہ واقعہ اور محترم والد صاحب کا فرمان سنا تو وضو کر کے نماز شروع کر دی اور اپنے
مردان خدا ۱۶ حضرت مولا نا غلام رسول صاحب را جیکی مولا کریم کے حضور عرض کیا کہ اے میرے مولا کریم کیا یہ لوگ مجھے تیرے پیارے مسیح کی ( دعوت ) سے روک دیں گے اور کیا میں اس طرح ( دعوت ) کرنے سے محروم رہوں گا.یہ دعا میں بڑے اضطراب اور قلق سے مانگ رہا تھا کہ مجھے جائے نماز پر ہی غنودگی سی محسوس ہوئی اور میں سو گیا.سونے کے ساتھ ہی میرا غریب نواز خدا مجھ سے ہمکلام ہوا اور نہایت رافت و رحمت سے فرمانے لگا.” وہ کون ہے جو تجھے (دعوت) سے روکنے والا ہے الہ بخش نمبر دار کو میں آج سے گیارہویں دن قبر میں ڈال دونگا“.سچ ہے.وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار حضرت مولوی صاحب آگے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.در صبح میں ناشتہ کرتے ہی موضع گڈ ہو پہنچا اور جاتے ہی الہ بخش نمبر دار کا پتہ پوچھا.لوگوں نے کہا کہ کیا بات ہے.میں نے کہا اس کے لئے میں ایک الہی پیغام لایا ہوں اور وہ یہ ہے کہ الہ بخش آج سے گیارہویں دن قبر میں ڈالا جائے گا.کہنے لگے وہ تو موضع لالہ چک جو گجرات سے مشرق کی طرف چند کوس کے فاصلہ پر ایک گاؤں ہے وہاں چلا گیا ہے.میں نے کہا کہ پھر تم لوگ گواہ رہنا کہ وہ گیارہویں دن قبر میں ڈال دیا جائے گا.اور کوئی نہیں جو اس خدائی تقدیر کو ٹال سکے.میرا یہ پیغام سنتے ہی اہل محفل پر ایک سناٹا سا چھا گیا.اب وہ تقدیر مبرم اس طرح ظہور میں آئی کہ چوہدری الہ بخش ذات الجنب اور خونی اسہالوں سے لالہ چک میں بیمار ہو گیا.مرض چند دنوں میں ہی اتنا بڑھا کہ اس کے رشتہ دار سے لالہ چک سے اٹھا کر گجرات کے ہسپتال میں لے گئے اور وہاں وہ ٹھیک گیارہویں دن اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا اور اُسے اپنے وطن موضع گڈ ہو کا قبرستان بھی نصیب نہ ہوا.فاعتبروا یا اولی الابصار.اس پیشگوئی کی اطلاع چونکہ موضع گڈ ہو، موضع سعد اللہ پور اور بعض دیگر دیہات کے آدمیوں کو پہلے سے پہنچا دی گئی تھی اس کے عین وقت پر پورا ہونے سے اکثر لوگوں پر
مردان خدا حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی دہشت سی طاری ہو گئی“.( حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی: حیات قدی : حصہ اوّل: ص: ۲۳ تا ۲۴: ۲۰ جنوری ۱۹۵۱ء: حیدر آباد دکن ) آپ فرماتے ہیں:.اللہ کی راہ میں گالیاں کھانا موضع سعد اللہ پور جو ہمارے گاؤں سے جانب جنوب کوئی تین کوس کے فاصلہ پر واقع ہے.یہاں کے اکثر حنفی لوگ بھی ہمارے بزرگوں کے ارادتمند تھے.اس لئے میں کبھی کبھار اس موضع میں (دعوت الی اللہ ) کی غرض سے جایا کرتا تھا اور ان لوگوں کو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت سمجھانے کی کوشش کرتا رہتا تھا.اس موضع میں مولوی غوث محمد صاحب ایک اہل حدیث عالم تھے اور امرتسر کے غزنوی خاندان سے نسبت تلمذ رکھنے کی وجہ سے احمدیت کے سخت معاند اور مخالف تھے.میں نے ایک روز ان کی موجودگی میں ظہر کے وقت مسجد میں لوگوں کو احمدیت کی (دعوت) کی اور انہیں بھی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کچھ کتا بیں اور رسالے مطالعہ کیلئے دیئے.جب انہیں اس ( دعوت ) اور حضور اقدس کی کتابوں سے یہ علم ہوا کہ میں حضرت مرزا صاحب کو مسیح موعود اور امام مہدی تسلیم کرتا ہوں تو انہوں نے میرے حق میں بے تحاشا نحش گوئی شروع کر دی اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات والا صفات کے متعلق بھی بہت گند اچھالا.میں نے انہیں بہتیر سمجھایا کہ آپ جتنی گالیاں چاہیں مجھے دے لیں لیکن حضرت اقدس علیہ السلام کی توہین نہ کریں مگر وہ اس سے باز نہ آئے.آخر چاروناچار میں تخلیہ میں جا کر سجدہ میں گر پڑا اور روروکر بارگاہ ایزدی میں دعا مانگی اور رات کو بغیر کھانا کھائے ہی مسجد میں آکے سو گیا.جب سحری کے قریب وقت ہوا تو مولوی غوث محمد صاحب مسجد میں میرے پاس پہنچے اور معافی مانگتے ہوئے مجھے کہنے لگے.خدا کے لئے
مردان خدا ۱۸ حضرت مولا نا غلام رسول صاحب را جیکی ابھی حضرت مرزا صاحب کو میری بیعت کا خط لکھو ورنہ میں ابھی مرجاؤں گا اور دوزخ میں ڈالا جاؤں گا.میں نے جب ان کا احمدیت کی طرف رجوع دیکھا تو حیران ہو کر اس کی وجہ دریافت کی.مولوی صاحب نے بتایا کہ رات میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ قیامت کا دن ہے اور مجھے دوزخ میں ڈالے جانے کا حکم صادر ہوا ہے اور اس کی تعمیل کرانے کیلئے میرے پاس بڑی بھیانک شکل کے فرشتے آئے ہیں اور ان کے پاس آگ کی بنی ہوئی اتنی بڑی بڑی گرزیں ہیں جو بلندی میں آسمان تک پہنچتی ہیں.انہوں نے مجھے پکڑا ہے اور کہتے ہیں کہ تم نے مسیح موعود اور امام زمانہ کی شان میں گستاخی کی ہے اس لئے اب دوزخ کی طرف چلو اور اس کی سزا بھگتو.میں نے ڈرتے ہوئے اُن کی خدمت میں عرض کیا کہ میں تو بہ کرتا ہوں آپ مجھے چھوڑ دیجئے.انہوں نے کہا اب تو بہ کرتا ہے اور مجھے مارنے کیلئے اپنا گر ز اٹھایا جس کی دہشت سے میں بیدار ہو گیا اور اب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ خدا کے لئے آپ میرا قصور معاف فرمائیں اور حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں میری بیعت کا خط لکھ دیں.چنانچہ اس خواب کی بناء پر آپ احمدی ہو گئے اور اس کے بعد ہم دونوں کی ( دعوت الی اللہ ) سے اس گاؤں کے بیسیوں مرد اور عورتیں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.فالحمد للہ علی ذالک“ آپ فرماتے ہیں:.راہ خدا میں عزت کی قربانی موضع پادشہانی ضلع جہلم کا مولوی احمد دین جو احمدیوں کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلانے میں حد درجہ زبان شر رکھتا تھا موضع خوجیا نوالی جو ہمارے گاؤں سے تقریباً چار کوس کے فاصلہ پر واقع ہے آیا اور آتے ہی اس نے اپنی تقریر میں کہا کہ جن دیہات میں مرزائی پائے جاتے ہیں وہ اس کنویں کی طرح ہیں جس میں خنزیر پڑا ہوا ہو.پس اگر گاؤں والے گاؤں کو اور اپنے آپ کو پاک رکھنا چاہتے ہیں تو ان مرزائیوں کو باہر نکال دیں.اس قسم کی تقریروں کا
مردان خدا ۱۹ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی سلسلہ جب کچھ روز جاری رہا تو لوگوں میں ہر طرف ہماری عداوت کے شعلے بھڑک اُٹھے اور ایک جمعہ کے دن جب کہ لوگ جمعہ پڑھنے کیلئے باہر سے بھی آئے ہوئے تھے اور اس طرح سے موضع خوجیا نوالی میں گردو نواح کے ہزار ہالوگوں کا اجتماع ہو گیا تھا.اس مولوی نے لوگوں کو احمدیوں کے خلاف بہت اشتعال دلایا.میں ان دنوں چونکہ ( دعوت الی اللہ ) کی غرض سے موضع رجوعہ اور موضع ہیلاں تحصیل پھالیہ گیا ہوا تھا.اس لئے میرے بعد احمدی احباب اس مولوی کی فتنہ پردازیوں سے سخت خائف ہو گئے.آخر بعض مولویوں کے یقین دلانے پر کہ مرزائیوں میں سے کوئی بھی مجمع میں تقریر کرنے کی جرات نہیں رکھتا.جب مولوی احمد دین نے ہمارے احمدیوں کو مقابلہ کا چیلنج دیا تو اس علاقہ کے احمدیوں میں سے مولوی امام الدین صاحب اور مولوی غوث محمد صاحب وغیر ہما نے ہمارے چوہدری مولا داد وڑائچ احمدی ساکن لنگہ کو میرے بلانے کے لئے موضع ہیلاں بھیجا.چنانچہ میں اطلاع پاتے ہی گھوڑی پر سوار ہو کر موضع خوجیانوالی پہنچ گیا اور آتے ہی ایک عربی خط لکھ کر مولوی احمد دین کے پاس بھیجا.جسے وہ اپنی کم علمی کی وجہ سے پڑھنے سے قاصر رہا اور جیب میں ڈالتے ہوئے میری طرف پیغام بھیجا کہ آپ یہاں آ کر منبر پر چڑھ کر تقریر کریں.چنانچہ میں بمع احباب وہاں پہنچتے ہی منبر کے قریب گیا اور اسے کہا کہ آپ منبر سے نیچے اُتریں میں تقریر کرتا ہوں تو اس نے انکار کیا اور کہا کہ رسول کی منبر پر میں کا فر کو تقریر نہیں کرنے دوں گا.اور اس طرح اس نے مجھے تقریر کرنے سے روک دیا اور حضور اقدس علیہ السلام کی کتاب ”ازالہ اوہام نکال کر....الہام پر اعتراضات شروع کر دیئے اور اس کی جہالت کا نمونہ یہ تھا کہ لفظ دائیں کو دائین بنون موقوف پڑھا.جب میں نے جوابات دے کر لوگوں پر اس کی بے علمی کو واضح کیا تو اس نے اپنی خفت مٹانے کیلئے مجھے ایک تھپڑ مارا جو میرے منہ کی بجائے میرے عمامہ پر لگا اور وہ میرے سر سے کچھ سرک گیا.اس بدتمیزی کو دیکھ کر حاضرین میں سے چوہدری جان محمد نمبر دار وڑائچ اور چوہدری ہست خاں مانگٹ اُٹھے اور اس مولوی کو بہت ہی ڈانٹا اور ملامت کی اور جتنا مجمع تھا منتشر ہو گیا.اس موقع
مردان خدا حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی پر خدا تعالیٰ کے فضل سے چند منٹوں میں ہی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام اور دعویٰ کا اعلان ہزار ہا لوگوں تک پہنچ گیا اور اس مولوی کی بے علمی اور بدتمیزی واضح ہوگئی.دوسرے دن جب مجھے معلوم ہوا کہ مولوی احمد دین ابھی اسی گاؤں کی ایک مسجد میں ہے تو میں نے یہاں کے نمبردار چوہدری جان محمد کو کہا کہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کو قرآن مجید اور احادیث اور اسلام کی رُو سے تسلیم کر کے اپنی ساری قوم اور آپ لوگوں سے مذہب کی بناء پر علیحدہ ہوا ہوں.اس لئے بہتر ہے کہ آپ لوگ مولوی احمد دین کو بلا کر میرے ساتھ گفتگو کرائیں تا کہ جس شخص کے پاس بھی سچائی ہے لوگوں کو معلوم ہو جائے.چوہدری جان محمد نے کہا بات تو معقول ہے.ہم ابھی مولوی احمد دین کو کہتے ہیں.چنانچہ انہوں نے جب مولوی احمد دین کو میرا یہ پیغام سنایا تو وہ کہنے لگا مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس موضع کے تمام زمیندار مولوی غلام رسول را جیکی کی قوم کے لوگ ہیں اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ یہاں کوئی فساد نہ ہو جائے.میں نے کہلا بھیجا کہ مولوی احمد دین جیسا بھی چاہیں اپنے امن و تحفظ کے متعلق تسلی کر لیں مگر میرے ساتھ گفتگو ضرور کریں.اس کے بعد مولوی احمد دین نے گھوڑی منگائی اور موضع گڈ ہو بھاگ گیا.جہاں چند روز قیام کے بعد لوگوں کو معلوم ہوا کہ اُسے آ تشک ہوگئی ہے.پھر وہاں سے وہ اپنے وطن ضلع جہلم چلا گیا اور دوبارہ ہمارے علاقہ میں آنے کی اسے جرات نہ ہو سکی اور سنا کہ وہ وہاں وطن میں جلد ہی مر گیا اور دنیا میں اُسے رہنے کیلئے زیادہ مہلت نہ مل سکی.( حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی: حیات قدسی: حصہ اوّل: صفحه: ۳۰ تا ۳۳: ۲۰ جنوری ۱۹۵۱ء : حیدر آباد دکن)
مردان خدا ۲۱ حضرت نواب محمد علی خان صاحب حضرت نواب محمد علی خان صاحب نام : نواب محمد علی خان صاحب والد کا نام : غلام محمد خان صاحب خاندان: غوری پیدائش: یکم جنوری ۱۸۷۰ء آپ کی عمر ساڑھے سات سال کی تھی کہ آپ کے والد نے وفات پائی.احاطہ خاص میں تدفین ہوئی.وفات: آپ اگست ۱۹۴۴ء میں پیشاب میں خون آنے کی تکلیف میں مبتلا ہوئے اس کی وجہ سے بہت کمزور ہو گئے اور ۱۰ فروری ۱۹۴۵ء کو وفات پائی.اہم امور ۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے اس جلسہ کے شاملین میں سے جن ۳۲۷ مخلصین کے نام حضور نے آئینہ کمالات اسلام میں درج فرمائے.آگئے.حضور کی تحریک پر مالیر کوٹلہ کی شاہانہ زندگی ترک کر کے قادیان ہجرت کر کے چودہ سال کی عمر میں آپ کا نکاح اپنی خالہ زاد مہر النساء بیگم صاحبہ کے ساتھ ہوا اور اکیس سال کی عمر میں تقریب رخصتا نہ ہوئی.آپ کی اہلیہ محترمہ مہر النساء بیگم صاحبہ کی وفات ۱۸۹۸ ء میں زچگی کے دوران ہوئی ان کے بطن سے آپ کے ہاں چار (۴) بیٹے اور دو (۲) بیٹیاں ہوئیں.ایک بیٹا اور ایک بیٹی جلد ہی فوت ہو گئے تھے.دوسری شادی آپ نے اپنی مرحومہ اہلیہ کی چھوٹی بہن محترمہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ (جن کا اصلی نام حمید النساء تھا) کے ساتھ کی.حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب الله آر
مردان خدا ۲۲ حضرت نواب محمد علی خان صاحب راضی ہو ) نے نکاح پڑھایا اور ان کی وفات ۱۹۰۶ ء میں ہوگئی.اس کے بعد آپ کا نکاح مورخه ۱۷ فروری ۱۹۰۸ ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے ساتھ ہوا.حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو) نے نکاح پڑھا.رخصتی ۱۴ مارچ ۱۹۰۹ ء کو ہوئی.حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے ساتھ آپ کی بیٹی صاحبزادی زینب بیگم بیاہی آپ کے بیٹے نواب محمدعبداللہ خان صاحب کا نکاح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دخت کرام حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے ساتھ ۷ جون ۱۹۱۵ء بروز دوشنبہ کو بیت اقصی قادیان میں حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نے پڑھا.حضرت صاحبزادی صاحبہ کی رخصتی مورخ ۲۲ فروری ۱۹۱۷ ء کو ہوئی.حضرت نواب محمد علی خان صاحب ایثار و قربانی کے پیکر، شریعت کے پابند ، عاشق خدا، عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عاشق مسیح موعود علیہ السلام تھے.بہت مخلص، غریب پرور، نرم خو، ہر ایک کیلئے ہمدرد، دعا گو، صاحب کشف والہام بزرگ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کا لقب ”حجتہ اللہ بتایا گیا.سلسلہ احمدیہ کے پہلے باتنخواہ مبلغ شیخ غلام احمد صاحب تھے جن کا مکمل خرچ حضرت نواب صاحب نے برداشت کیا.یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ انجمن کی مالی حالت بہت کمزور تھی اور وہ اتنخواہ مبلغ نہ رکھ سکتی تھی.ارتداد ملکانہ کے ایام میں آپ اس علاقہ میں پیرانہ سالی کے باوجود تشریف لے گئے اور تحریک شدھی کے خاتمے کے سلسلہ میں خوب محنت کی اور سارا خرچ نہ صرف اپنا بلکہ اپنے ساتھیوں کا بھی آپ ہی برداشت کرتے تھے.مالی قربانیوں میں آپ کا مقام بہت بلند تھا.ہر موقع پر آپ نے مالی قربانی پیش کی.
مردان خدا ۲۳ حضرت نواب محمد علی خان صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر نواب صاحب فونوگراف قادیان لائے اور ۱۵ نومبر ۱۹۰۱ ء کو نماز عصر کے بعد فونوگراف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو سنائے اور دو سلنڈر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے بھرے.۲۰ نومبر کو لالہ شرمیت آریہ کی درخواست پر غیر مسلموں کو بھی فونوگراف کے ذریعہ نظمیں سنائی گئیں.اس موقع پر خاص طور پر حضور نے نظم ”آواز آرہی ہے یہ فونوگراف سے تحریر فرمائی تھی.حضرت نواب صاحب کو ۱۹۰۰ء سے ۱۹۱۸ء تک مختلف عہدوں پر خدمات سلسلہ کا موقع ملا.۱۹۰۶ء میں صدرانجمن احمدیہ کا قیام ہوا.اس کے آپ بھی ممبر تھے.آپ کے بیٹے نواب عبدالرحیم خان صاحب سخت بیمار ہوئے تو حضرت اقدس علیہ السلام کی دعائے خاص سے شفا ملی.کڑا امتحان.اعلیٰ درجہ کا ایمان حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے ساتھ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی صاحبزادی محترمہ زینب بیگم صاحبہ کے نکاح کی تجویز قرار پائی تو یہ موقع نواب صاحب کیلئے بڑے کڑے امتحان کا تھا.آپ کے تمام عزیز رشتہ دار اس رشتہ کے مخالف تھے.انہوں نے قادیان آ کر نواب صاحب کو اس کام سے روکا کیونکہ وہ یہ خیال کرتے تھے کہ اول تو ظاہری دنیوی مال و دولت کے اعتبار سے یہ امر مشکل ہے اور دوسرے یہ کہ اس طرح سے مالیر کوٹلہ کی جائیداد سے کچھ حصہ دینا پڑیگا.مگر نواب صاحب نے اس موقع پر نہایت اعلیٰ ایمان کا مظاہرہ کیا.آپ نے انہیں کہا کہ جب میں ایک شخص کو مسیح موعود مان چکا ہوں تو میں ان کو رشتہ دینے سے کیونکر انکار کر سکتا ہوں.گویا اس وقت آپ بزبان حال اس شعر کے مصداق ہو گئے.جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہو گیا آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا
مردان خدا آپ نے فرمایا: ۲۴ حضرت نواب محمد علی خان صاحب ” جو میں نے دیکھا ہے وہ آپ کو نظر نہیں آسکتا.اتنا آپ سن لیں کہ اگر شریف احمد ٹھیکرا لے کر گلیوں میں بھیک مانگ رہا ہو تا تب بھی شریف احمد کو ہی بیٹی دیتا“.( رفقاء احمد : جلد دوم: صفحه ۲۵۶) اس پر آپ کے بھائی ناراض ہو کر چلے گئے.یہ نکاح نومبر ۱۹۰۶ء میں ہوا.رخصتی و مئی ۱۹۰۹ ء کو ہوئی.حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی قربانی کا ایک موقع اس وقت پیدا ہوا جب کہ آپ کے بچوں کے رشتوں کا مرحلہ آیا.نواب موسیٰ خاں صاحب جو کہ نواب مزمل اللہ خان صاحب سابق وائس چانسلر علی گڑھ یونیورسٹی کے رشتہ داروں میں سے تھے اور شیروانی خاندان میں سے ہی تھے اور علی گڑھ جا کر آباد ہو گئے تھے.انہوں نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے بچوں میاں عبدالرحمن خان صاحب اور میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کے رشتوں کیلئے خواہش کا اظہار کیا.یہ احمدی نہ تھے.نواب محمد علی خان صاحب نے محض احمدیت کی وجہ سے ان رشتوں سے انکار کر دیا.دیوانگی عشق کا ہے ( رفقاء احمد : جلد دوم: صفحه ۲۷ ) نشاں سمجھے کوئی اس کو جز عاشقاں
مردان خدا ۲۵ حضرت مولانا شیر علی صاحب نام: حضرت مولانا شیر علی صاحب ولدیت: مولوی نظام الدین صاحب حضرت مولانا شیر علی صاحب پیدائش: ۲۴ نومبر ۱۸۷۵ء بمقام ادرحمه تحصیل بھلوال ضلع سرگودھا قوم: رانجھا تعلیم بھیرہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی.۱۸۹۵ء میں انٹرنس میں کامیاب ہوئے اور پھر ایف سی کالج لاہور سے بی.اے کیا.بیعت : ۱۸۹۷ء وفات : ۱۳ نومبر ۱۹۴۷ء اہم امور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقاء میں شامل ہوئے.صاحب کشف والہام اور مقام دعا پر فائز وجود تھے.نہایت اعلیٰ درجہ کی تعلیم کے حامل تھے.دنیوی چمک دمک کو چھوڑ کر خدمت دین کو اپنا لیا اور قادیان کے ہی ہور ہے.اعلیٰ درجہ کی علمی اور انتظامی خدمات کی تو فیق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو کشف میں ایک فرشتہ نما شخص دکھایا گیا جس کا نام شیر علی بتایا گیا.( تذکرہ: صفحہ ۱۸ ) اور آپ اس کے مصداق بنے.آپ کی قلمی زندگی کا آغاز ۱۹۰۱ء سے ہوا.ریویو میں آپ کے نہایت اعلیٰ درجہ کے مضامین نے ہر طرف سے خراج تحسین حاصل کیا.اشاعت اسلام، بینابیع المودۃ پر ریویو، برمسیح اور اس قسم کے بیسیوں مضامین آپ کی اعلیٰ درجہ کی تحقیق اور وسعت علمی کا منہ بولتا ثبوت ہیں.آپ کا ایک اہم علمی کارنامہ اگست ۱۹۲۴ء میں حضرت نعمت اللہ خان صاحب کی
مردان خدا ۲۶ حضرت مولانا شیر علی صاحب افغانستان میں شہادت پر قتل مرتد اور اسلام کے نام سے ایک نہایت عمدہ علمی کتاب کا تحریر کرنا ہے.آپ کا ایک ہمیشہ یاد رکھا جانے والا علمی کارنامہ قرآن مجید کا اعلیٰ پایہ کا انگریزی ترجمہ ہے جو کہ آج بھی مقبول ہے اور اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کہ قرآن کا ترجمہ انگریزی میں کر کے یورپ اور امریکہ بھجوانا چاہئے پوری ہوئی.اللہ کی راہ میں قربانی.عہدہ منصفی کو خیر باد آپ نے اُس زمانہ میں پنجاب یونیورسٹی سے بی.اے کیا جب کہ پنجاب یونیورسٹی کے گریجویٹس خال خال نظر آتے تھے اور ایوان حکومت میں اعزاز کی کرسیاں ایسے لوگوں کیلئے چشم براہ تھیں.اس دور میں جب کہ آپ بی.اے کے بعد قادیان میں تھے آپ کو آپ کی غیر معمولی صلاحیتوں کی بناء پر حج کے عہدہ کی پیش کش ہوئی.آپ نے اس چٹھی کو اپنے والد صاحب کو اطلاع دیئے بغیر ہی پھاڑ کر پھینک دیا تا کہ والد صاحب وہاں جانے پر مجبور نہ کریں اور قادیان کا روحانی ماحول آپ کو ترک نہ کرنا پڑے.غرض آپ نے اللہ کی رضا کی خاطر یہ قربانی جو در اصل بہت ہی بڑی قربانی تھی وہ خا کے حضور پیش کر دی اور ہمیشہ کیلئے قادیان کے ہو رہے اور جماعت کی خدمت میں ساری عمر گزار دی.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے آپ کی ان قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا.پھر مولوی شیر علی صاحب ہیں.ان کو اب دو سو روپے ملتے ہیں.ایک تو ان کی انگریزی کی قابلیت وہ چیز ہے جو اوروں میں نہیں اس کے علاوہ یہ قابلیت ان میں ہے کہ وہ مضمون پر حاوی ہو جاتے ہیں.ان کے مضمون پڑھنے والے دوستوں نے دیکھا ہوگا کہ وہ کس طرح مضمون کی باریکیوں تک جا پہنچتے ہیں اور کوئی پہلو اس
مردان خدا حضرت مولانا شیر علی صاحب کا باقی نہیں چھوڑتے.پھر جب وہ یہاں ملازم ہوئے ہیں ان کا نام منصفی میں جاچکا تھا“.(الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۲۷ء) دنیا سے بے نیاز ولی اللہ آپ کی فقیرانہ زندگی اور محض اللہ ہر قسم کی دنیوی چمک دمک کی قربانی پر روشنی ڈالنے والا ایک واقعہ محترم جناب ملک غلام فرید صاحب اس طرح بیان کرتے ہیں.کئی سال ہوئے میاں محمد شفیع صاحب جو ہمیش“ کے نام سے اخبارات میں مضمون لکھتے ہیں ہمارے سالانہ جلسہ کی رپورٹ لینے کیلئے قادیان گئے اور میرے پاس ٹھہرے.جب ہم جلسہ گاہ میں آئے تو میاں صاحب موصوف مجھ سے کہنے لگے ملک صاحب! کوئی ولی اللہ دکھلائیں.میں نے کہا ہمارے نزدیک سب سے بڑے ولی اللہ تو ہمارے امام ہی ہیں.ان کو آپ نے دیکھ ہی لیا ہے کہنے لگے کہ ہاں وہ تو ہوئے لیکن پھر بھی میں کسی فقیر ولی اللہ کو دیکھنا چاہتا ہوں میں اُن کے مطلب کو سمجھ گیا وہ اتنا کہنے ہی پائے تھے کہ حضرت مولوی شیر علی صاحب ہمارے پاس سے گزرے آپ اُس وقت اپنے کندھے پر ایک موٹا کھر درا بھورے رنگ کا کمبل ڈالے ہوئے تھے.میں نے کہا یہ ہمارے مولوی شیر علی صاحب ہیں.۱۹۰۲ء میں گریجویٹ ہوئے یورپ میں تین سال رہ آئے ہیں.انگریزی زبان کے بڑے ماہر ہیں برسوں رسالہ ریویو انگریزی کے ایڈیٹر رہے ہیں اور اب قرآن کریم کا انگریزی میں ترجمہ کر رہے ہیں.میاں صاحب موصوف کہنے لگے میں ایسے ہی فقیر کو دیکھنا چاہتا تھا.جب تک مولوی صاحب ہماری نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئے ان کی نظر مولوی صاحب کا تعاقب کرتی رہی.ملک نذیر احمد ریاض: سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحب: ص: ۵۷،۵۶) آپ کی منکسر المزاجی اور بے نفس خدمت کا ایک واقعہ مکرم ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب قلعہ
مردان خدا ۲۸ حضرت مولانا شیر علی صاحب صوبہ سنگھ اس طرح بیان کرتے ہیں.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے زمانہ کا ذکر ہے جب حضرت مولوی شیر علی صاحب ریویو آف ریلیجنز کی ادارت کے فرائض انجام دیتے تھے ایک مرتبہ دو انگریز افسر قادیان آئے.جب وہ نواب صاحب کی کوٹھی کے شمالی جانب سے گزرے تو قریب ہی حضرت مولوی شیر علی صاحب اپنی بھینس چرا رہے تھے آپ کا گریبان کھلا ہوا تھا اور نہایت سادہ لباس میں ملبوس تھے.ان انگریز افسروں میں سے ایک نے حضرت مولوی صاحب سے پوچھا کہ ہمیں ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر سے ملنا ہے وہ کس جگہ ملیں گے تو حضرت مولوی صاحب نے فرمایا چلئے میں آپ کو ان کے مکان پر لے چلتا ہوں اور اپنے ہمراہ لا کر اپنی بیٹھک میں بٹھا کر فرمایا آپ تشریف رکھیں میں انہیں بلا لاتا ہوں.حضرت مولوی صاحب کا مقصد یہ تھا کہ چائے وغیرہ تیار کریں باتوں باتوں میں تعارف بھی ہو جائے گالیکن انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کے گھر پر ہی لے چلیں.راستہ میں مل لیں گے.اس پر حضرت مولوی صاحب نے فرمایا " ریویو ایڈیٹر تو میں ہی ہوں وہ دونوں افسر یہ سن کر بے حد حیران ہوئے اور بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ اس رسالہ کا ایڈیٹر کوئی انگریز ہو گا.ملک نذیر احمد ریاض: سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحب: ص: ۱۸۹ ۱۹۰ء)
مردان خدا ۲۹ حضرت منشی ظفر احمد صاحب نام: تاریخی نام’انظار حسین تھا حضرت منشی ظفر احمد صاحب ولدیت: مشتاق احمد عرف محمد ابراہیم صاحب پیدائش : ۱۲۸۰ھ بمقام باغپت ضلع میرٹھ.اصلی علاقہ ضلع مظفر نگر یو پی ہے.بیعت : ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء شادی: آپ نے دوشادیاں کیں.اولاد: آپ کے آٹھ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں.وفات : ۱۳۶۰ھ بمطابق ۲۰ اگست ۱۹۴۱ء بعمر ۷۹ سال اہم امور آپ ۳۱۳ رفقاء میں سے تھے.آپ کا نام حضور نے مہدی کے بارہ میں ۳۱۳ رفقاء والی پیشگوئی کے پورا ہونے کے سلسلہ میں آئینہ کمالات اسلام اور انجام آتھم میں درج فرمایا ہے.۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ میں شریک ہوئے.سفر و حضر میں حضور کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا.کئی نشانات کے گواہ کے طور پر حضور نے آپ کا ذکر فرمایا ہے.صرف "نزول المسح ،، میں ہی چھ پیشگوئیوں میں بطور گواہ آپ کا نام درج ہے.مختلف مواقع پر آپ کو متعدد مضامین و کتب حضور کی خدمت میں پڑھ کر سنانے کی توفیق ملی.ید پہلی شوری منعقده ۱۵ ، ۱۶ اپریل ۱۹۲۲ء میں شرکت کی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے بارے میں تحریر فرمایا:.
مردان خدا حضرت منشی ظفر احمد صاحب جبی فی اللہ منشی ظفر احمد صاحب یہ جوان صالح کم گو اور خلوص سے بھراد قیق فہم آدمی ہے.استقامت کے آثار و انوار اس میں ظاہر ہیں وفاداری کی علامات و امارات اس میں پیدا ہیں.ثابت شدہ صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے اور ان سے لذت اٹھاتا ہے.اللہ اور رسول سے سچی محبت رکھتا ہے اور ادب جس پر تمام مدار حصول فیض کا ہے اور حسن ظن جو اس راہ کا مرکب ہے دونوں سیر تیں ان میں پائی جاتی ہیں.جزا ہم اللہ خیر الجزاء (ازالہ اوہام صفحه ۴۳۳،۴۳۲۰ : روحانی خزائن: جلد نمبر ۳: صفحه۵۳۳٬۵۳۲) اللہ کی راہ میں جماعت کپورتھلہ کی قربانی حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کپورتھلہ کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کپورتھلہ کی قربانیوں کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں.”جب ( بیت الذکر ) احمدیہ پر مخالفین نے قبضہ کر لیا اور احمد یوں کو عدالت میں دعویٰ کرنا پڑا تو شہر کے عمائد اور رؤساء مدعا علیہ تھے.احمدی چند احباب تھے جو انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے.ان کا رسوخ واثر کوئی نہ تھا.مقدمے میں کفر و اسلام کی بحثیں ہوتی تھیں.مولویوں کی نئی نئی مخالفت تھی والد صاحب کی پُر زور تحریری بحثیں مسل سے منسلک میں نے دیکھی ہیں.فریق مخالف بھی تحریری بخشیں داخل کرتا تھا.جماعت کپورتھلہ (بیت الذکر ) چھن جانے کے لحاظ سے بے کس اور مظلوم تھی لیکن حالات تمام غیر موافق تھے.مخالفین کو یقین کامل تھا کہ عدالت ان کے حق میں فیصلہ کرے گی.میں نے بچپن میں ان مخالفین کے یہ تیور خود دیکھے ہیں.احمدیوں کے راستے تک بند تھے منشی عبدالرحمن صاحب چکر کاٹ کر گھر کو جاتے.حافظ امام دین صاحب امام (بیت الذکر ) احمدیہ کو پیٹا گیا اور گھسیٹا گیا.ان کی پگڑی میں آگ پھینکی گئی.گالی گلوچ ایک عام بات تھی.بعض آوارہ طبع لوگ راستہ روکے رہتے تھے اور احمدیوں کو ستانا اور ان کو گالی دینا ان کا ایک محبوب اور موجب ثواب مشغلہ تھا.سات سال تک یہ مقدمہ جاری رہا.حضرت منشی فیاض
مردان خدا ۳۱ حضرت منشی ظفر احمد صاحب علی صاحب نے لدھیانہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر بڑے الحاح سے دعا کی درخواست کی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے جلال سے فرمایا.اگر میں سچا ہوں اور میر اسلسلہ سچا ہے تو ( بیت الذکر ) تمہیں ضرور ملے گی“ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اس کے عین مطابق با وجود شدید مخالفانہ حالات کے یہ بیت الذکر وہاں کی جماعت کوٹل گئی“.( رفقاء احمد : جلد : ۴: صفحہ ۱۳۰) خدا کی راہ میں گالیاں برداشت کرنا دہلی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ایک مباحثہ مولوی محمد بشیر صاحب بھو پالوی کے ساتھ ہوا تھا.اس موقع پر وہاں کے لوگوں نے بہت بدتمیزی کی.گالیاں دیں.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کتب کے حصول کے لئے مولوی محمد حسین صاحب فقیر جو شریف آدمی تھے ان کے پاس گئے.مگر وہ گھر نہ ملے تو ان کے بچوں نے اس بندہ خدا کو گالیاں دینی شروع کر دیں.حضرت منشی صاحب جب واپس آرہے تھے تو مولوی صاحب نے ان کو دیکھ کر اپنے پاس اشارے سے بلایا اور کہا.اگر آپ کسی سے ذکر نہ کریں تو جس قدر کتا بیں مطلوب ہوں میں دے سکتا ہوں میں نے کہا آپ اتنا احسان فرما ئیں تو میں کیوں ذکر کرنے لگا.کہنے لگے جب مرزا صاحب مولوی نذیر حسین سے قسم لینے کیلئے جامع مسجد میں بیچ کے دروازے میں بیٹھے ہوئے تھے اس وقت میں دیکھتا تھا کہ انوار الہی آپ پر نازل ہوتے ہیں اور ان کی پیشانی سے شان نبوت عیاں تھی مگر میں اپنی اس عقیدت کو ظاہر نہیں کر سکتا“.( رفقاء احمد : جلد : ۴: ص: ۱۲۳: روایت: ۸۹)
مردان خدا ۳۲ حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقایوری حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نام: حضرت مولا نا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری ولدیت: چوہدری صدرالدین صاحب قوم جالب کھوکھر پیدائش: ۱۸۷۵ء بمقام چک چٹھہ ضلع گوجرانوالہ تعلیم : نیلہ گنبدلا ہور کے مدرسہ رحیمیہ سے فارغ التحصیل ہوئے.بیعت : ۱۹۰۵ء اولاد: آپ کی دو شادیاں ہوئیں.آپ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں.وفات: ۱۷ مارچ ۱۹۶۴ء اہم امور آپ نے ۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفہ المسح الثائی کی تحریک وارشاد پر زندگی وقف کر کے دعوت الی اللہ کا کام باقاعدہ مرکزی ہدایت کے تابع شروع فرمایا.اور اس میدان میں آپ کے واقعات لائق مطالعہ ہیں.آپ دعا گو بزرگ تھے.آپ کی دعائیں بکثرت قبول ہوئیں اور بہت سے لوگ ان کے گواہ ہیں.اللہ کی راہ میں مخالفت اور صبر آپ کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے سوانح نگار تحریر فرماتے ہیں.آپ نے قصبہ مرالی میں پہنچ کر اپنی بیعت کا اعلان کر دیا.اس پر قصبہ میں شور برپا ہوا اور شدید مخالفت کا آغاز ہو گیا.اہلحدیث مولویوں کی طرف سے مقاطعہ کرا دیا
مردان خدا ۳۳ حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری گیا.لوگ آپ کو کھلے بندوں گالی گلوچ دیتے.ایسے کٹھن مرحلہ پر مولانا صاحب آستانہ الہی پر جھکنے اور تہجد میں گریہ وزاری میں مصروف ہونے لگے اور خدا تعالیٰ نے آپ پر رؤیا و کشوف کا دروازہ کھول دیا.اور یہ امر آپ کے لئے بالکل نیا تھا.اس طرح آپ کے لئے تسلی کے سامان ہونے لگے..سواب آپ کے ایمان و عرفان میں ترقی ہونے لگی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عشق و وفا بھی بڑھنے لگا اور آپ دیوانہ وار ( دعوت الی اللہ ) میں لگ گئے.جس پر آپ کے ماموں نے جو خسر بھی تھے.آپ کو گھر سے نکل جانے پر مجبور کیا اور پولیس سے اس بارہ میں استمداد کی بھی دھمکی دی.اس لئے آپ موضع بقا پور چلے آئے.یہاں اپنی زمینداری کے باعث مقاطعہ تو نہ ہوا لیکن مخالفت پورے زور سے رہی عوام کے علاوہ آپ کے والدین اور چھوٹا بھائی بھی زمرہ مخالفین میں شامل تھے.البتہ بڑے بھائی مخالف نہ ہوئے.ایک روز آپ کی والدہ نے آپ کے والد سے کہا کہ آپ میرے بیٹے کو کیوں برا کہتے ہیں؟ وہ پہلے سے زیادہ نمازی ہے.والد صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب کو جن کا دعویٰ مہدی ہونے کا ہے مان لیا ہے.والدہ صاحبہ نے کہا کہ امام مہدی کے معنی ہدایت یافتہ لوگوں کے امام کے ہیں.ان کے ماننے سے میرے بیٹے کو زیادہ ہدایت نصیب ہو گئی ہے جس کا ثبوت اس کے عمل سے ظاہر ہے اور مولوی صاحب کو اپنی بیعت کا خط لکھنے کو کہا.آپ (دعوت الی اللہ ) میں مصروف رہے اور ایک سال کے اندر والد صاحب، چھوٹا بھائی اور دونوں بھاوجوں نے بھی بیعت کر لی اور بڑے بھائی صاحب نے خلافت احمدیہ اولی میں بیعت کر لی.۱۹۰۵ ء تا ۱۹۰۸ء تین سال بقا پور میں ہر طرح کے مالی اور بدنی ابتلاؤں کے گزرے کئی کئی دن فاقہ کشی تک نوبت پہنچی.( رفقاء احمد : جلده ا: ص: ۲۱۵)
مردان خدا ۳۴ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی نام: آپ کا پہلا نام ہریش چندر موہیاں تھا.سلسلہ میں داخل ہونے کے بعد آپ کا نام عبدالرحمن رکھا گیا.ولدیت: مهته گوراند ته پل صاحب پیدائش: یکم جنوری ۱۸۷۹ء بمقام کنجرور دتا تحصیل شکرگڑھ ضلع گورداسپور قوم آپ موہیال قوم کی موہن شاخ سے ہیں.قبول احمدبیت: ۱۸۹۵ء وفات: ۱۵ اور ۶ جنوری ۱۹۶۰ء کی درمیانی شب اولاد: آپ کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائی.اللہ کی راہ میں قربانیوں کا سفر آپ کے زمانہ میں پرائمری سکول میں ایک کتاب ”رسوم ہند نصاب میں شامل تھی.اس کو پڑھ کو آپ پر دین حق کی صداقت کافی حد تک آشکارا ہوگئی.اور آپ کو بت پرستی سے نفرت ہوگئی.عاشق ہے کہ جس کو حسب تقدیر وہ محبت کی کماں سے آ لگا تیر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ آپ کی دستگیری فرمائی اور آپ نے دو بچے خواب دیکھے جس سے آپ کی مزید تسلی ہو گئی اور آپ کا تعلق مسلمان ہم جماعتوں کے ساتھ بڑھ گیا نماز با جماعت اور جمعہ اور عیدین کی نمازوں کا نظارہ آپ کے دل میں گھر کر گیا اور خدا کے سامنے عجز وانکسار کے یہ اسلوب آپ کو بہت اچھے لگے.اذان سے آپ کو گو یا نشہ آنے لگتا تھا.اسی عرصہ میں ۱۸۹۴ء میں سورج چاند گرہن کا نشان پورا ہوا تو ایک روز آپ کے ایک استاد ہیڈ ماسٹر مولوی جمال الدین صاحب نے کہا کہ مہدی آخرالزمان کی اب تلاش کرنی
مردان خدا ۳۵ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی چاہیے.کیونکہ ان کے ظہور کی بڑی علامت آج پوری ہو چکی ہے اُس وقت آپ مڈل میں تعلیم پا رہے تھے.اس پر آپ کے دل میں شدید تڑپ پیدا ہوئی.آپ نے دعائیں کرنی شروع کر دیں.آپ کی خوش قسمتی کہ آپ کے سکول واقع چونیاں ضلع لاہور (حال قصور ) میں حضرت بیر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی کے ایک رشتہ دار سید منیر حیدر صاحب جو کہ ڈاکٹر تھے چونیاں تبادلہ ہو کر آگئے اور آپ کے ایک بیٹے سید بشیر حید ر آپ کے کلاس فیلو بنے اور اس طرح اس گھرانے سے آپ کے تعلقات شروع ہوئے اور آپ نے ان کے ساتھ عبادات بجا لانا شروع کر دیں.اس کی اطلاع جب آپ کے چھوٹے بھائی کے ذریعہ آپ کے گھر والوں کو ہوئی تو انہوں نے چونیاں سے آپ کو ایک عزیز کے پاس پکے ماڑی ضلع لائل پور (فیصل آباد ) بھجوا دیا آپ کے چونیاں کے مخلص دوست آپ کو دعوت الی اللہ پرمشتمل خطوط لکھتے رہے مگر والد صاحب کو یہ بھی ناگوار ہوا اور انہوں نے آپ کو آپ کے چچا چوہدری جیون مل کے پاس بھیج دیا کہ جہاں قریب قریب آبادی کا کوئی نام ونشان نہ تھا وہاں آپ جنگل میں نکل جاتے اور خدا کے حضور خوب دعائیں کرتے.پھر آپ کے والد صاحب کا تبادلہ پکے ماڑی سے ۶۲ چک ہو گیا اور آپ کو واپس بلوالیا گیا.والد صاحب نے سختی سے حکم دیا کہ دوستوں کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ بند کر دو.آپ پر یہ بڑا بھاری صدمہ تھا.وہاں پر آپ کو سید بشیر حیدر صاحب کا ایک خط ملا جو کہ آخری پیغام دعوت الی اللہ کا ثابت ہوا.اپنے حالات کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.میں نے غیر مشروط الفاظ میں مکرم سید بشیر حیدر صاحب کی خدمت میں ان کے خط کے جواب میں لکھ دیا کہ:.میں پندرہ روز کے اندر آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا اس میں تخلف ہرگز نہ ہوگا اور اگر میں اس عرصہ میں نہ پہنچوں تو آپ یقین کر لینا کہ ہر لیش چندر دنیا کے پردے پر زندہ موجود نہیں“.بس والسلام
مردان خدا ۳۶ حضرت بھائی جی عبد الرحمن صاحب قادیانی خط لکھا بھی گیا اور چلا بھی گیا.مگر اس میں مندرجہ وعدہ کے ایفا کا کوئی سامان محض ایک وہم اور جنون تھا.نہ صرف یہی تھا کہ سامان کوئی نہ تھا بلکہ اس کی مخالفت خود میرے والدین فرما رہے تھے اور اپنی ساری توجہ اور پورا زور اس بات پر خرچ کر رہے تھے کہ کسی طرح میرے دل سے باہر جانے کے خیال کو بالکل ہی نکال دیں.چنانچہ کبھی کبھی میں نے بیکاری کا شکوہ کر کے عرض کی تو مجھے کبھی محبت اور نرمی سے اور کبھی ناراضگی اور خفگی سے یہی جواب ملا کہ یہ خیال دل سے نکال دو.ہمیں نوکری کی ضرورت نہیں گھر میں پر ماتما نے بہت کچھ دے رکھا ہے اس کو سنبھالو اور بھائی بہنوں کے ساتھ مل کر خوشی سے کھاؤ پیو اور اگر کام کا بہت ہی شوق ہے تو ہمارے کام میں ہماری مدد کر و.وغیرہ.دن ایک ایک کر کے گزرنا شروع ہوئے اور جوں جوں وہ گزرتے جاتے میری بے قراری اور اضطراب بڑھتا جاتا.آنے والی خیالی مصیبت کے خیال کا دل پر گہرا اثر تھا جس کی وجہ سے خوشی آہستہ آہستہ دل سے نکلتی جارہی تھی اور اس کی بجائے غم والم اور اداسی و افسردگی جگہ لے رہے تھے کھانے سے رغبت رہی نہ پینے کا شوق باقی رہا.گھر میں دودھ دہی کی افراط تھی جس کا میں بچپن سے شوقین تھا.مگر اب با وجود والدہ صاحبہ کے تقاضا کے میں نہ پیا.مرغ میں نے بکثرت پال رکھے تھے ان کی داشت سنبھال کا بھی قصہ چک گیا اور کتے بلی کا وہ شکار ہونے لگے.رات چین نہ آتا اور کروٹ لیتے یا ستارے گنتے کٹنے لگی اور ان باتوں کا اثر میری جسمانی صحت پر پڑنے لگا اور میرے دلی درد کی ترجمانی میرا چہرہ اور باقی اعضاء کرنے لگ گئے.والدہ محترمہ گھر میں ہوتیں میری حرکات اور بے قراری و بے تابی کا معائنہ فرمایا کر تیں اور چونکہ وہ عورت ذات تھیں ان کا دل فطر نا نرم تھا میرے ان حالات کا ان کے دل پر اثر ہوتا اور کبھی کبھی والد صاحب کو میرے متعلق فرمایا کرتیں.اسے کیا ہو گیا ہے یہ تو دن بدن کمزور ہوتا جاتا ہے کھاتا ہے نہ پیتا ہے بلکہ دن رات رورو کر کچھ پڑھتارہتا ہے اسے جہاں کہتا ہے کیوں نہ بھیج دیں“.
مردان خدا ۳۷ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی گویا اُس وقت آپ کی والدہ کی وہی کیفیت تھی جو کہ حضرت باوانانک کے والد صاحب کی حضور نے ان اشعار میں بیان فرمائی ہے.میں حیراں ہوں تیرا یہ کیا حال ہے وہ غم کیا ہے جس سے تو پامال ہے؟ ہے نہ وہ تیری صورت نہ وہ رنگ کہو کس سبب تیرا دل تنگ ہے؟ مجھے سچ بتا کھول کر اپنا حال کہ کیوں غم میں رہتا ہے اے میرے لال؟ مگر والد صاحب توجہ نہ فرماتے اور بات کو ٹال دیا کرتے.ہوتے ہوتے ایک ہفتہ گزر گیا.آٹھ ، نو، دس، گیارہ، بارہ بلکہ تیرہ دن گزر گئے.مگر میری مشکل کشائی کا کوئی سامان نظر نہ آیا.اور مجھ پر انتہائی اضطراب بے قراری اور بے چینی مسلط ہو گئی اور ایسا ہوا کہ مایوسی کا غلبہ ہو گیا اور میں سرشام ہی چھت پر جا کر لیٹ گیا.مجھے لیٹے ابھی چند ہی منٹ ہوئے ہوں گے کہ میرے کان میں والد صاحب کی آواز پڑی جن کے ساتھ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کوئی اجنبی گھوڑا گھوڑی ہے.والد صاحب نے گھوڑی کو باہر چھوڑا اور خود اندر تشریف لائے.والدہ صاحبہ نے اس گھوڑی کے متعلق پوچھا کس کی ہے اور کیوں آئی ہے؟ میں نے بھی کان لگا کر والدین کی باتوں کو سننے کی کوشش کی اور میری خوشی کی کوئی انتہا باقی نہ رہی جب میرے کان میں یہ آواز پڑی کہ گھوڑی لایا ہوں.تمہارے پلو ٹھے کو نوکری کے واسطے بھیجنے کی غرض سے اور بر والا بھی بلوایا ہے اس کے واسطے روٹی ووٹی پکاؤ تا رات ہی کو بھیج دیں کیونکہ گرمی کا موسم ہے دن بھر سفر نہ ہو سکے گا.راستہ میں پانی وغیرہ بھی نہیں ملتا.وغیرہ.میں یہ خبر سن کر اچھل پڑا.نیچے اتر آیا اور تجاہل عارفانہ کے طریق پر والد صاحب
مردان خدا ۳۸ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی سے گھوڑی کے متعلق پوچھنے لگا.جس کے جواب میں والد صاحب نے مجھے بھی وہی کچھ فرمایا جو والدہ سے کہا تھا.قربان جاؤں میں اپنے قادر مطلق خدا کے میرے وہم میں بھی کوئی بات نہیں آسکتی اور ڈھونڈ کر بھی میں وہ اسباب نہیں معلوم کر سکتا جن کے نتیجہ میں میرے والد صاحب کے دل پر ایسا تصرف ہوا کہ کل تک جس بات سے وہ با وجود درخواستوں کے انکار اور انکار پر اصرار کرتے تھے آج کس وجہ سے خود بخود اس کیلئے سامان کر لائے.کس چیز نے ان کے دل کو پھیر اوہ صرف اور صرف خدائے واحد و یگانہ کی قدرت کا ایک کرشمہ تھا ورنہ اور کوئی سامان اس کے لئے ہرگز ہرگز موجود نہ تھے.والدہ محترمہ نے جلد جلد کچھ میٹھی روٹیاں ، حلوہ اور انڈے تیار کئے اور میں جو پہلے ہی کمر بستہ تھا جلدی جلدی کپڑے سمیٹ بستر باندھ تیار ہو گیا.بر والے کے آنے میں کچھ دیر ہوئی اتنے میں میں اپنے بھائی بہنوں کو ایک ایک کر کے گلے لگا کر پیار کرنے لگا اور ایسا ہوا کہ میرا دل ان خیالات کی وجہ سے جو میرے دل میں موجزن تھے بھر گیا.جدائی بلکہ دائمی جدائی کے خیال سے میں ایسا متاثر ہوا کہ ضبط نہ کر سکا اور باوجود اس خطرہ کے کہ اس وقت کی بے صبری نہ معلوم کیا بنا دے گی پھوٹ پھوٹ کر رویا اور گھر میں ایسا کہرام مچا کہ گاؤں والے گھبرا کر خیریت پوچھنے کو دوڑے.بروالے نے آواز دی اور میں دل کو تھام کر روتے ہوئے بھائی بہنوں اور غمگین ماں باپ کو خدا کے لئے گویا ہمیشہ کے واسطے چھوڑ کر گھر سے نکل کھڑا ہوا.تھوڑی دور تک جا کر والد صاحب اور چھوٹے بھائی نے الوداع کہی وہ واپس لوٹے اور میں جلد جلد اپنا سفر کاٹنے لگا.چلتے چلاتے رات کے بارہ بج چکے ہونگے اور یہ رات پانچ اور چھ جون ۱۸۹۵ ء کی درمیانی رات تھی.جب میں گھر سے خدا کی رضا اور اس کے دین کی تلاش میں نکلا اور سات جون کا دن وہ آخری دن تھا جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے میری قلم سے میرے ایک حقیقی دوست کے نام لکھوایا ہوا تھا....چک نمبر ۶۲ بھاگو وال سے ڈچکوٹ اور وہاں سے گوگیرہ پہنچنا تھا.میلوں کا تو مجھے حساب نہیں مسافت دور کی
مردان خدا ۳۹ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی تھی راستہ خوفناک تھا.چوروں کا خطرہ اور پانی کی قلت تھی.خدا خدا کر کے (اگلے دن ) شام سے پہلے ہی پہلے بلکہ عصر کے وقت ہم لوگ گوگیرہ کی بستی میں پہنچ گئے.جہاں سے یکے پر سوار ہو کر ریلوے اسٹیشن کو روانہ ہو گیا.رات اسٹیشن پر ہی گزار کر ) میں نے چھانگا مانگا کا ٹکٹ خرید لیا اور گاڑی میں سوار ہو کر خدا کی طرف جھک گیا کیونکہ ہر ضرورت اور حاجت میں اسی کو سچا دستگیر اور راہبر یقین کرتا تھا.چھانگا مانگا کا سٹیشن آیا میں گاڑی سے اُترا.ایک یکے میں سوار ہو کر چونیاں کو روانہ ہوا اور چونیاں پہنچ کر چونگی خانہ کے متصل یکہ سے اتر ہی رہا تھا کہ میرے کان میں یہ آواز آئی.بھائی جی خوب آئے.سید بشیر حیدر یہیں ہیں...خدائے بزرگ نے جس طرح خود ہی مجھ سے پندرہ روزہ عہد کرایا تھا ویسے ہی اس پاک ذات نے اس کے ایفا کیلئے بالکل عجیب در عجیب اور خاص الخاص سامان بھی میسر فرمائے...میں سید بشیر حیدر صاحب سے ملا اور دوسرے بچھڑے ہوئے دوستوں سے بھی ملاقات کی.دو یا تین روز کے بعد سید بشیر حیدر صاحب سیالکوٹ چلے گئے اور میں ایک دو روز کیلئے چونیاں ٹھہرا.(حضرت بھائی صاحب کچھ عرصہ مختلف مقامات اور شہروں میں تلاش روزگار کے سلسلہ میں گھومنے پھرنے کے بعد سیالکوٹ پہنچے ) سیالکوٹ پہنچ کر سید بشیر حیدر صاحب کی تلاش کی جو ان دنوں شبہ سکے زیاں کی جمعہ مسجد کے بالمقابل ایک موروثی بالا خانے میں قیام پذیر تھے.میں بالا خانے کی بیٹھک میں ٹھہر گیا جو مردانہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی.غرض اس طرح اس بالا خانے پر مجھے سیدنا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الف الف الصلوۃ والسلام کا نام پہنچ گیا اور حضور کا کلام بھی مجھے میسر آ گیا جس کو میں نے شوق سے پڑھا اور وہ میرے دل و جان میں رچ گیا.سید نا صحیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام معجز بیان پڑھنے کے بعد میرے دل میں ایک نیا نور معرفت اور عرفان پیدا ہو گیا.ابھی تک مجھے نماز نہ آتی تھی مگر اب میں نے سبقاً سبقاً دو تین روز میں نماز یاد کر لی اور با قاعدہ نماز پڑھنا بھی شروع کر دیا.
مردان خدا حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی اب ایمان چھپا ناممکن نہیں چند ہی روز بعد میں نے سید بشیر حیدر صاحب سے کہا کہ اب میں اپنے ان خیالات کو چھپا نہیں سکتا اور چاہتا ہوں کہ اظہار ( دین حق ) کر دوں.یہ سن کر سید صاحب جو دل سے چاہتے تھے مگر مجھے زبانی کبھی کچھ نہ کہتے تھے خوش ہوئے اور فوراً جا کر حضرت سید میر حامد شاہ صاحب کے پاس ماجرا عرض کر دیا.انہوں نے وقت دے کر مجھے بلوایا.میں میر حامد شاہ صاحب کے مکان پر ان کی خدمت میں حاضر ہوا.محبت اور اخلاص سے پیش آئے اور میری زبان سے میری غرض و مقصد سن کر مجھے قریباً ایک گھنٹہ تک نہایت موثر پیرا یہ میں تلقین فرماتے رہے.شاہ صاحب نے مجھے یقین کے ہرسہ مدارج کے متعلق کھول کر سنایا اور میرے علم میں بہت قیمتی معلومات کا اضافہ فرمایا.مگر اظہار ( دین حق ) کے متعلق مجھے یہ مشورہ دیا کہ آپ کے بعض رشتہ دار چونکہ یہاں ہیں (میرے بعض رشتہ دار پولیس اور دوسرے محکمہ جات میں معز ز عہدوں پر تھے ) لہذا اندیشہ ہے کہ وہ لوگ روک ڈالیں گے یا شور و شر کر کے فساد برپا کریں گے.بہتر ہو کہ تم قادیان چلے جاؤ.میں اسی شام کی گاڑی سے تن کے تینوں کپڑے لیکر روانہ قادیان ہو گیا....میری شکل و شباہت ابھی ہند و آنہ تھی لہذا بازار کے لوگ جب میں ان سے مرزا صاحب کے مکان کا پسته در یافت کرتا تعجب کرتے اور مجھے پکڑ کر بٹھا لیتے اور غرض و غایت اور مقصد دریافت کرنے کے درپے ہو جاتے.چنانچہ بڑھے شاہ کی سہ منزلہ دوکانات سے لے کر چوک تک پہنچتے پہنچتے مجھے دس جگہ روکا گیا ہو گا.جہاں سے میں کسی نہ کسی طرح دامن چھڑا کر آگے ہی آگے چلتا گیا.سارے ہند و بازار میں چرچا ہو گیا اور جابجابا تیں ہونے لگیں.لوگوں نے مجھے روکنے میں پورا زور صرف کیا اور بعض تو ہاتھ پکڑ کر بیٹھے رہتے تھے مگر میں
مردان خدا ۴۱ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی جان گیا کہ یہ لوگ روکنا چاہتے ہیں.آخر زور سے پلا چھڑا چھڑا کر خدا خدا کر کے چوک میں پہنچا جہاں میاں علی بخش اور نبی بخش دو بھائیوں کی عطاری کی دوکان تھی ان سے دریافت کیا تو انہوں نے راستہ بتایا ورنہ ہند و کسی ایک نے بھی مرزا صاحب کے مکان کا راستہ نہ بتایا تھا.( حضور سے آپ کی ملاقات ہوئی تو عرض کیا ) حضور میں تو مدت ہوئی دل سے احمدی ہوں.نماز مجھے آتی ہے اور پڑھتا ہوں.حضور کی کتاب انوار الاسلام اور نشان آسمانی میں نے اچھی طرح سمجھ کر پڑھی ہیں.مجھے دین حق کا شوق ہے.میں جوان ہوں نابالغ نہیں.وغیرہ اس پر اللہ تعالیٰ نے میرے آقائے نامدار کو انشراح بخشا اور حضور پر نور نے مجھے قبول فرما کر کلمہ پڑھایا اور داخل سلسلہ کیا.فالحمد لله الحمد لله ( حضرت بھائی جی عبد الرحمن قادیانی - صفحہ ۳۵ تا ۴۸) آزمائش اور ابتلاؤں کا دور اپنے والدین کی طرف سے اب آپ کی مخالفت اور ابتلاؤں کا دور تھا.یہ داستان روح کو لرزا دینے والی ہے.حضرت بھائی جی فرماتے ہیں:.خواب میں مجھے دکھایا گیا کہ ایک بار یک لمبا سانپ میری طرف آ رہا ہے اور جب وہ میرے قریب آیا تو حضرت مولوی نورالدین صاحب نے ایک لاٹھی اس کو ماری مگر وہ لاٹھی کے نیچے سے بالکل صفائی کے ساتھ زندہ نکل کر سیدھا میری طرف بڑھا اور میرے جسم کے گرد لپٹ گیا.“ اس نظارہ اور سانپ کے میرے جسم کے گرد لپٹ جانے کی وجہ سے مجھ پر ایسی گھبراہٹ اور پر یشانی وارد ہوئی کہ میں نیند سے ایسا چونک کر اٹھا کہ مولوی صاحب موصوف نے بھی میری بیداری کو غیر معمولی گھبراہٹ زدہ محسوس کیا.“
مردان خدا ۴۲ حضرت بھائی جی عبد الرحمن صاحب قادیانی والد صاحب کی آمد.واپس لے جانے کا پروگرام اٹھا استغفار کیا اور وضو کر کے دو چار نفل پڑھے ہوں گے کہ صبح کی اذان ہوگئی.صبح کی نماز ادا کی اور واپس آ کر اپنا قرآن شریف جو کہ حضرت اقدس کے کتب خانہ میں پیر جی سراج الحق صاحب کے پاس ( مطب کے شمال مشرقی کونہ کی کوٹھڑی) رکھا تھا لیکر اپنی چٹائی اٹھانے کو تھا تا مطب کے اوپر چھت پر جا کر تلاوت کروں کہ پیر جی سراج الحق صاحب نعمانی مجھ سے فرمانے لگے.”میاں عبدالرحمن ! ہمارا ایک کام تو کر دو اور ساتھ ہی ایک منی آرڈر فارم اور کچھ روپے دیکر فرمایا.یہ منی آرڈر کر آؤ.جب میں ڈاک خانہ پہنچا اور اس کے کھلے دروازہ کے سامنے کھڑا ہوا تو دیکھتا ہوں کہ میرے والد صاحب اس آریہ ماسٹر کے پہلو میں بیٹھے ہیں.میں اس نظارہ سے جو اچانک پیش آیا ایک سکتے کے عالم میں تھا اور طبیعت نے ابھی فیصلہ نہ کیا تھا کہ قدم آگے اٹھاؤں یا پیچھے کہ والد صاحب مجھے دیکھتے ہی کھڑے ہو کر میری طرف بڑھے اور مجھ سے لپٹ گئے.چھاتی سے لگایا اور پیار کیا، دلا سا دیا اور میری تسلی کیلئے فرمانے لگے.”بیٹا تم نے جو کچھ کیا اچھا کیا.جب تمہارے دل کو یہی بات پسند ہے تو کون روک سکتا ہے.خوش رہو اور جہاں چاہو رہو.مگر تم گھر سے آئے پھر اطلاع نہ دی.ہم لوگ تمہاری تلاش میں سرگردان پھرے.سینکڑوں روپیہ برباد ہوا.تمہاری ماں روتے روتے اندھی ہوگئی اور تمہارے عزیز بھائی، بہنیں جدائی کی وجہ سے بیتاب اور نیم جان ہیں.ایک مرتبہ چل کر ماں کومل لوشائد ان کی بینائی بچ جائے اور بھائی بہنوں کو پیار کر لو کہ وہ تمہارے نام کو ترستے ہیں.وغیرہ وغیرہ...میں اچانک والد صاحب کی گرفت میں آجانے کی وجہ سے ابھی پریشان اور بالکل خاموش تھا.چند منٹ بعد سنبھلا تو عرض کیا چلیں‘ ( چنانچہ وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے)
مردان خدا ۴۳ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی والد صاحب کی درخواست اور حضور کا فیصلہ قریباً نصف گھنٹہ تک حضور نے والد صاحب کے معروضات نہایت توجہ سے سنے اور دوران گفتگو میں حضور ٹہلتے رہے.کہیں کہیں ان کی دلجوئی اور تسلی کیلئے بعض ناصحانہ فقرات فرماتے اور بعض غلط خیالات کا ازالہ بھی فرماتے رہے.جب میرے والد صاحب دل کھول کر سب کچھ عرض کر چکے تو سید نا حضرت اقدس نے مجھے الگ لیکر جا کر پوچھا.”میاں عبد الرحمن تمہاری کیا مرضی ؟“ چونکہ والد صاحب کے ساتھ میں بھی حضرت کے ساتھ ساتھ ٹہلتا اور تمام باتیں سنتا رہا اور ان کی غرض و غائت اور مقصود کا مجھے علم ہو چکا تھا.میں نے نہایت ادب سے حضرت کے حضور عرض کیا.حضور میں دل سے (احمدی) ہوں اور حضور کی غلامی کی سعادت اللہ پاک نے مجھے محض اپنے فضل سے بخش دی ہے.بے شک والدین اور بھائی بہنوں کی محبت میرے دل میں بے حد ہے.مگر میں ابھی جانا نہیں چاہتا کیونکہ میں نے (دین) کے متعلق کچھ بھی نہیں سیکھا.“ میری یہ عرض سن کر حضور نے میرے والد صاحب کو بلا کر فرمایا:.ہم ابھی عبدالرحمن کو آپ کے ساتھ نہیں بھیج سکتے.بہتر ہے کہ آپ کو اگر فرصت ہو تو ہفتہ دو ہفتہ ان کے پاس ٹھہریں اور اگر آپ ملازمت کی وجہ سے نہ ٹھہر سکیں تو ان کی والدہ اور بھائی بہنوں کو یہاں بھیج دیں.وہ ان کے پاس جتنا عرصہ چاہیں ٹھہریں ان کی آمد و رفت اور بودوباش کے اخراجات ہمارے ذمہ ہوں گے.“ حضور یہ جواب دیکر اندر تشریف لے گئے.ظہر کی اذان ہو چکی یا ہونے والی تھی
مردان خدا ۴۴ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی میں مطب میں بیٹھا کتاب ست بچن کی مسل برداری کر رہا تھا کہ ایک بچہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے ایک رقعہ لایا اور زبانی یہ پیغام دیا کہ اپنے والد کے دستخطوں سے اس مضمون کی ایک نقل کروا کر ہمیں بھیج دو اور تم اپنے والد صاحب کے ساتھ چلے جاؤ“.بچے کے منہ سے زبانی پیغام کے الفاظ نکلے اور میرے دل و ماغ میں بیٹھے.مگر ان الفاظ کا مطلب نہ سمجھ سکا.دوبارہ اور سہ بارہ پوچھا مگر بچے نے الفاظ ایسے رٹے ہوئے تھے کہ تینوں مرتبہ وہی الفاظ اسی ترتیب سے دہراتا رہا.آخر میں نے حضور کا وہ فرمان کھولا پڑھا اور حقیقت مجھ پر آشکارا ہوئی.فرمان کا خلاصہ مطلب میرے اپنے الفاظ میں حسب ذیل تھا:.میں فلاں ابن فلاں جو کہ میاں عبدالرحمن سابق ہریش چندر کا والد ہوں.باقرار صالح پر میشور کے نام کی قسم اٹھا کر جو کہ میرا پیدا کرنے والا ہے اور جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امر کا پختہ اقرار اور پکا وعدہ کرتا ہوں کہ اپنے لڑکے عبدالرحمن سابق ہریش چندر کو دو ہفتہ کے لئے اپنے ساتھ وطن کو لے جاتا ہوں تا کہ اس کی غمزدہ والدہ اور ننھے ننھے بھائی بہنوں کو جو اس کی جدائی کے صدمہ سے بے قرار اور جان بلب ہیں ملا دوں.میں پر ماتما کے نام سے یہ بھی پیمان کرتا ہوں کہ عزیز کو راستہ میں یا گھر لے جا کر کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچاؤں گا اور دو ہفتہ کے بعد حسب وعدہ صحیح و سلامت قادیان واپس پہنچا دوں گا.‘ ( دستخط ) (مہتہ گوراند تهیل موہن بقلم خود ) میں نے اس مضمون کو پڑھا اور بار بار پڑھا.حضرت اقدس کے پہلے فیصلہ پر میں خوش تھا.مگر اب مجھ پر اداسی اور پژمردگی چھا گئی اور دل میں طرح طرح کے وساوس پیدا ہونے لگے.جی میں آیا کہ قبل اس کے کہ والد صاحب واپس آویں.اور اس فیصلہ کا ان کو
مردان خدا ۴۵ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی علم ہو.میں کسی طرف نکل جاؤں کیونکہ میں جانتا تھا کہ والد صاحب مصلحت وقت کی وجہ سے نرم تھے.ورنہ وہ میرے ( دین ) کی وجہ سے مجھے سخت تکلیف میں ڈالیں گے اور میرا یہ اندیشہ اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ شائد وہ مجھے زندہ ہی نہ چھوڑیں گے اور اس خیال کی تائید میں میرے اپنے گھرانے کے بعض پرانے واقعات میرے سامنے آن موجود ہوئے اور میں نے یقین کر لیا کہ آج ایک بھاری امتحان اور کٹھن گھاٹی میری راہ میں سد سکندری آن بنی ہے.جس سے سلامت نکل جانا میری طاقت سے بالکل باہر ہے.ایسے مشکلات میں مجھے پہلے بھی خدا کی طرف جھکنے کی عادت تھی.مگر قادیان کی زندگی اور سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت کی وجہ سے دعا کی اور زیادہ عادت ہو گئی تھی.آخر میں چند منٹ کیلئے تنہائی میں چلا گیا اور خدا کے حضور جھک کر گڑ گڑایا اور اس سے امداد چاہی.جس کے نتیجہ میں میرا بیٹھتا ہوا دل اور ٹوٹی ہوئی کمر قوی ہو گئے اور خدا تعالیٰ نے مجھے پر ایک سکینت اور اطمینان نازل کر دیا.والد صاحب کا اقرار نامہ ” بہر حال والد صاحب آئے میں نے وہ فرمان ان کو دیدیا جس کو پڑھ کر انہوں نے قلم دوات لی اور قلم برداشتہ ایک بہت مضبوط معاہدہ لکھ کر دے دیا جو سید نا حضرت اقدس کے الفاظ سے بھی کہیں زیادہ قوی اور حلف سے موکد تھا.والد صاحب نے بجائے پر میشور کے نام کی سوگند کے الفاظ لکھنے کے شروع ہی ان الفاظ سے کیا کہ:.میں فلاں ابن فلاں خدائے وحدہ لاشریک کے نام کی قسم اٹھا کر یہ اقرار کرتا ہوں.وغیرہ وغیرہ والد صاحب کی تحریر پختہ تھی کیونکہ وہ خوشنویس اور کے منشی تھے.فارسی زبان میں ان کو خاص مہارت تھی، جس کی وجہ سے مضمون نویسی اور انشا پردازی کا ملکہ ان میں تھا.ان
مردان خدا ۴۶ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا تحریر کردہ معاہدہ سید نا حضرت اقدس کے حضور پہنچا.حضور نے ملاحظہ فرما کر محفوظ کر لیا اور مجھے پھر حکم بھیج دیا کہ ” تم اب اپنے والد صاحب کے ساتھ چلے جاؤ‘ والد صاحب نے وہ معاہدہ سر عام لکھا جس کا علم تمام دوستوں کو ہو گیا اور اب عام چرچہ ہو گیا کہ عبدالرحمن کو اس کے والد صاحب ساتھ لے جائیں گے.حضرت مولانا نورالدین صاحب گھر میں تھے.ان کو بھی اطلاع ہو گئی.حضور کے اس فیصلہ کا اثر ہمارے ڈیرہ میں گونہ غم اور افسردگی کے رنگ میں اور ہندو بازار اور ہندو گھرانوں میں خوشی و شادمانی کی شکل میں ظاہر ہوا.بعض دوستوں نے گھبراہٹ تک کا بھی اظہار کیا اور اس فیصلے کو اپنی شکست سمجھ کر مغموم بھی ہوئے.مگر فیصلہ چونکہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا اس وجہ سے کسی کو مجال سخن نہ ہوئی اور سب نے میرے ساتھ مل کر سر تسلیم خم کیا“.خدا کے جو ہیں وہ یہی کرتے ہیں وو وہ لعنت سے لوگوں کی کب ڈرتے ہیں حضرت بھائی جی فرماتے ہیں:.الغرض میں اپنے آقا ، اپنے ہادی وراہنما، اپنے پیشوا ومقتدا کے حکم کی تعمیل میں اپنے والد صاحب کے ساتھ قادیان کی مقدس بستی سے رخصت ہو رہا ہوں.میرا دل غمگین اور اداس ہے.آنکھیں آنسو نہیں خون ٹپکا رہی ہیں اور سچ سچ میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ گھر کو نہیں ماں اور بھائی بہنوں کی طرف نہیں بلکہ موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہوں.میرے قدم لڑکھڑاتے ہیں اور بجائے آگے اُٹھنے کے پیچھے کو پڑتے ہیں.اس طرح میں اس نہایت ہی پیاری بستی سے بادل ناخواستہ رخصت ہو گیا.آہ!“ والد صاحب کا مصروف کرنا حضرت بھائی جی اپنے والد صاحب کے ہمراہ جب گاؤں پہنچے تو وہاں پر گزرنے والے
مردان خدا ۴۷ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.”میرے والدین دن رات اسی فکر میں غلطان رہتے تھے کہ کسی طرح سے میرے دل سے درختِ ایمان کو کھود باہر پھینکیں اور قادیان والوں کی یاد میرے دل سے محو کر دیں.جس کیلئے وہ نت نئے سامان اور ارادہ سے کھڑے ہوا کرتے تھے اور ایک ہتھیار کو غیر موثر اور بیکار پا کر دوسرے کا استعمال شروع کر دیتے تھے.اب انہوں نے بہت ہی سوچ بچار کے بعد مجھے اپنے کام میں معاون بنا کر بے حد مصروف کر کے میری تو جہات کو دوسری طرف لگا دینے کا فیصلہ کیا اور اپنی کمزوری ، ہم وغم اور کثرت کار کے تذکرے میرے کانوں میں ڈال کر مجھے فرمایا کہ میں ان کے ساتھ کام میں مدد دیا کروں.چنانچہ میں والد صاحب کے ساتھ گشت پر جانے لگا.گرداوری اور پیمائش کے علاوہ اصول وارہ بندی اور زمیندار و حکام سے میل ملاقات کے فرائض کی انجام دہی میں لگا رہا اور تھوڑے ہی دن کے بعد والد صاحب کو میں نے قریباً فارغ کر دیا.تنہا کام چلانے کے قابل ہو گیا اور چونکہ اس میں مجھے گونہ آزادی حاصل تھی.میں اپنے دینی فرائض کی تکمیل کے واسطے کافی موقعہ پاتا تھا.میں نے اس کام میں زیادہ ہوشیاری و محنت اور انہماک و شغف کا ثبوت دیا.جس سے والد صاحب بہت خوش اور متاثر ہوئے اور میری قابلیت و واقفیت کا خود امتحان کرنے کے بعد اپنے ایگزیکٹو انجنیر بہادر کے روبرو پیش کر کے میرا امتحان دلا دیا جس میں میں کامیاب نکلا.و کام میں پڑ جانے اور اس کے ذریعہ سے اصل مقصد کے حصول میں آزادی سہولت میسر آجانے سے میری دلچسپی بڑھنے لگی اور میں اس ذوق سے کام کرنے لگا کہ اس میں رات دن اور گرمی سردی کا احساس بھی مجھے نہ رہتا اور جب کام سے واپس گھر پہنچتا والدین اور بھائی بہن مجھے ہاتھوں ہاتھ لیتے اور آنکھوں پر بٹھاتے اور خلاف معمول میری
مردان خدا ۴۸ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی خاطر مدارات بلکہ عزت و احترام کا سلسلہ جاری ہو گیا اور عجب نہ تھا کہ شیطان اسی راہ سے کامیابی کا منہ دیکھ پاتا اور ہوتے ہوتے اصل مقصد و مدعا میری نظروں سے اوجھل ہو جاتا کیونکہ اس طرح مجھ پر دنیا داری کا ایک رنگ چڑھنے لگا تھا.تعریف و توصیف کی وجہ سے میرے خیالات کسی اور طرف کو بہنے لگے اور اگر چہ میں نے زیادہ دلچسپی وانہماک اس کام میں ابتداء محض فرائض دینی کی ادائیگی میں آزادی وسہولت کے باعث دیا تھا مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ شیطان ایسے باریک در بار یک رنگ اور نہاں درنہاں راہوں سے آ رہا تھا کہ اگر چندے اور یہی حالات رہتے اور اللہ کریم غیب سے ہمیشہ کی طرح میری دستگیری و راہ نمائی کے سامان نہ فرماتے تو میں اس زہر آلود انگیں کو شیریں و شفا بخش ہی یقین کرتے ہوئے نوش کر جاتا اور ہمیشہ کیلئے روحانی موت کی نیند سو جاتا.قریب تھا کہ والد صاحب کی مساعی مجھے کوئی علیحدہ حلقہ دلا کر مستقل ملا زمت دلانے میں کامیاب ہو جاتیں کیونکہ میرے کام میں لگ جانے سے وہ بالکل فارغ اور مطمئن ہو کر افسران متعلقہ تک پہنچ کر کوشش کرنے کیلئے فرصت پاتے تھے اور میرے کام کی عمدگی اور شہرت کا چرچا دوسرے ذرائع سے بھی حکام بالا کے کانوں تک پہنچ چکا تھا.اس لئے ان کی طرف سے والد صاحب کو ایسی امیدیں بھی دلائی جا چکی تھیں.مگر قربان جاؤں اپنے مولا کریم کے جس نے بچپنے ہی سے خود اپنی رحمت کے ہاتھوں میرے دل میں تخم ایمان بو یا.خود ہی اسے پودا بنا کر ہمیشہ اس کی آبیاری فرمائی اور ہر بادصر صر کے تھیٹروں سے اپنا دست رحمت دے کر محفوظ رکھا اور آج بھی اس نے اس سیل ضلالت سے اپنی قدرت نمائی کے ذریعہ بچا کرنجات دی اور یوں ہوا کہ اچانک حکام بالا دست کی طرف سے والد صاحب کے تبادلہ کے احکام پہنچے اور دوسرے حلقہ میں پہنچ کر چارج لینے کیلئے اتنا تھوڑا وقت دیا گیا کہ کسی قسم کی کوشش کا موقعہ ہی نہ تھا.حکم حاکم مرگ مفاجات‘ والی بات.سرکاری ملازمت چوں و چرا کی گنجائش نہ تھی.ناچار بادل ناخواستہ سفر کی تیاری کرنی پڑی.منزل دور تھی اور
مردان خدا ۴۹ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی سامان زیادہ.اس کے باندھتے بندھاتے ہی ایک دوروز لگ گئے.مرکز واپسی کا موقع میسر آنا والدین کس خیال میں تھے مگر میرا خدا کسی اور ہی خیال میں تھا.ان کی تدبیریں کچھ چاہتی تھیں مگر خدا کی تدبیر کچھ اور ہی کرنے والی تھی.گھر کی کسی ضرورت کے ماتحت گھر میں کسی بڑی بوڑھی ہم قوم بلکہ اپنی کسی رشتہ دار کی ضرورت لاحق ہوئی.گھر میں میرے عم زاد بھائی کے علاوہ میرے ایک دور نزدیک کے رشتہ سے چا بھی موجود تھے.ان کو بھیج کر پھوپھی یا دادی صاحبہ ( رشتہ کی دادی نہ کہ حقیقی ) کو منگایا جا سکتا تھا.مگر قربان جاؤں اپنے قا پر جو بیچ بیچ مستبب الاسباب اور مصرف القلوب بھی ہے.نہ معلوم اس نے والدین کے دل میں کیا ڈالا کہ انہوں نے میرے عم زاد بڑے بھائی اور چچا صاحب کو چھوڑ کر پھوپھی یا دادی کو لانے کا قرعہ میرے نام نکلوا دیا.بھائی بہت متعصب تھے انہوں نے روک بھی ڈالی.اگر چہ اپنا نام تو پیش نہ کیا.چا صاحب کو بھیجنے کا مشورہ دیا.مگر در حقیقت ان کی اپنی خواہش تھی کہ وہ جائیں وطن بھی ادھر ہی تھا.گھر والوں سے بچھڑے عرصہ گذرا تھا.ایک پنتھ دو کام، ایک تیر سے دو شکار کرنے کا خیال تھا.مگر خدا تعالیٰ نے والدین کے دل کو نہ پھرنے دیا اور انہوں نے میرے ہی جانے کا فیصلہ کر کے مجھے روانگی کا حکم دے دیا.ضروری ہدایات اور مناسب سامان دے کر رخصت کیا.میں نے سانگلہ ہل ریلوے اسٹیشن سے سوار ہونا تھا اور چونکہ والدین کے اس فیصلہ کے ساتھ ہی میرے دل نے بھی کچھ فیصلہ کر لیا تھا.اپنے ساتھی کو جو گھوڑی لے کر مجھے اسٹیشن تک پہنچانے گیا تھا.اسٹیشن سے ادھر ہی رخصت کر دیا تا کہ اس کو یہ علم نہ ہو سکے کہ میں نے ٹکٹ کہاں کا لیا ہے.گاڑی آنے والی تھی.ٹکٹ بٹ رہے تھے.میں بھی بڑھا اور سیالکوٹ کا ٹکٹ لے کر...سوار ہو گیا.خدا کے فضل سے سیالکوٹ پہنچا.( بیت الذکر ) میں گیا حضرت حامد شاہ صاحب اور
مردان خدا حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی اپنے واقف کاروں دوستوں سے مل کر رات گزاری اور پھر اللہ کے بھروسے پر قادیان دار الامان کا قصد کیا.اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر اور خارق عادت رنگ میں غیب سے میری حفاظت و امداد کے سامان کئے اور یوں پھر کم و بیش 9 ماہ بعد مجھے دارالامان میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدوم میمنت لزوم میں لا ڈالا.این سعادت بزور بازو نیست نہ بخشد خدائے بخشنده جولائی ۱۸۹۶ء کا آخر یا اگست ۱۸۹۶ء کا ابتدائی حصہ ہوگا.جب خدا تعالیٰ نے دوبارہ قدرت نمائی سے مجھے زندہ کیا اور محض اپنے فضل سے دارالامان پہنچایا.میں اسی زمانہ سے اس واقعہ کو اپنی نشاءۃ ثانیہ یقین کرتا ہوں“.میرے واپس لے جانے کے مزید حر بے ادھر چند روز کے انتظار کے بعد جب میری واپسی میں تاخیر ہوگئی تو گھر میں گھبراہٹ شروع ہو گئی اور والدین کو پرانے خدشے تازے ہو کر بے قرار کرنے لگے انہوں نے بذریعہ خطوط ظفر وال سے میرے متعلق دریافت کیا مگر جب وہاں سے جواب نفی میں ملا تو وہ بھانپ گئے کہ ان کا لال پھر ان کے ہاتھ سے نکل کر قادیان ہی کی سلک میں پرو دیا گیا.ادھر قادیان کے بعض وہ لوگ جن کو ( دین حق اور احمد یوں ) سے خدا واسطہ کی عداوت تھی اور وہ ہمیشہ اس تاک میں رہا کرتے تھے کہ کوئی موقع ہاتھ لگے تو ایسا وار کریں جو خالی نہ جائے.اور ایسی کاری ضرب لگائیں جس سے یہ سلسلہ نابود اور پاش پاش ہو جائے اور ایسے ہی لوگوں نے پہلی مرتبہ میرے والد صاحب کی امداد و حوصلہ افزائی کی تھی اور گویا انہی کا یہ کارنامہ تھا کہ وہ مجھے قادیان سے واپس بھجوانے میں کامیاب ہو گئے.اب یوں مجھے واپس آئے دیکھ کر ان پر کیسے گذرتی ہوگی اور ان کے سینوں پر کیونکر سانپ لوٹتے ہونگے جس کے نتیجہ میں وہ خاموش نہ رہ سکے اور فوراً والد صاحب کو
مردان خدا ۵۱ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی میرے پھر قادیان آجانے کی اطلاع کے ساتھ بہت کچھ سخت ست لکھا اور بے حد غیرت دلائی.جس پر والد صاحب نے اب اس معاملہ کو برادری میں پیش کر کے قوم سے مدد مانگی اور پہلے جن امور کو وہ غیرت وحمیت کے خیال سے ظاہر کرنا بھی پسند نہ کرتے تھے اب علی الاعلان کھول کر سنا دینے پر مجبور ہو گئے جس سے برادری کے بعض اکابر نے ان کو امداد دینے کا وعدہ کیا اور والد صاحب کو پھر قادیان پہنچ کر قادیان کے ان خاص لوگوں کو اپنی امداد کیلئے تیار کرنے اور ان سے مشورہ کرنے کو بھیجا.چنانچہ والد صاحب کا یہ سفر نہایت خفیہ اور صیغہ راز میں ہوا اور وہ اپنے خیال میں اس مرتبہ پہلے سے بھی زیادہ مطمئن ، خوش اور اپنی کامیابی کے یقین کے ساتھ لوٹے.قادیان کے ان بامذاق لوگوں نے نہ صرف امکان بھر ان کو مدد دینے کے وعدے کئے بلکہ ان کو ایسے مشورے دئے.ایسے طریق بتائے کہ جن کی بنا پر والد صاحب اپنی واپسی کو کامیاب واپسی یقین کرتے ہوئے خوش و خرم چلے گئے اور اس طرح میرے واسطے تعزیر کے جو خیالات انہوں نے ابھی سے سوچنے شروع فرما دئیے ان کا ذکر گھر میں کبھی والدہ سے بے ساختہ ہو گیا تو والدہ محترمہ مارے مامتا کے اس خیال ہی سے تڑپ اُٹھتیں اور والد صاحب محترم کو ایسے خیالات اور ارادوں سے مقدور بھر روکنے کی کوشش فرما تیں.مگر والد صاحب اپنے ننگ و ناموس کے خیال اور غیرت وحمیت کے جذبہ کے ماتحت اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے پر اصرار فرماتے رہے.چچا کی ناکام کوشش ایک روز خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ شیخ عبدالعزیز صاحب.....اپنا قرآن شریف بغل میں دبائے میرے پاس آئے جہاں میں تلاوت کر رہا تھا اور مجھ سے اصرار کیا اور کہا کہ چلو آج بڑی ( بیت الذکر ) میں چل کر قرآن شریف پڑھیں.میں چونکہ ان کے ساتھ ہی رہتا سہتا تھا.ان کے تقاضا کو رد نہ کر سکا اور ان کے ساتھ ( بیت ) اقصیٰ کو اپنا قرآن
مردان خدا ۵۲ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی شریف لے کر چلا گیا اور محن سے گذر کر درمیانی در اور محراب کے درمیان بیٹھ کر سر سے پگڑی اتاری اور اس پر قرآن شریف رکھ کر اپنی منزل کی جگہ کو تلاش ہی کر رہا تھا کہ اچانک میری نظر باہر صحن کی طرف اٹھی کیا دیکھتا ہوں کہ میرے ایک چچا جن کا نام نامی سردار بساکھ سنگھ یا بوجہ اس کے کہ ان کے کیس نہ تھے بساکھی رام سامنے کھڑے جلدی جلدی جوتا اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کو دیکھتے ہی میرا ماتھا ٹھنکا اور میں بھانپ گیا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے.میں نے فوراً قرآن شریف کو بند کیا پگڑی سر پر رکھی اور جوتا جو میرے پاس ہی رکھا تھا اٹھا کر چا صاحب کی طرف بڑھا.اتنے میں وہ بھی جوتا کھول کر صحن میں داخل ہو چکے تھے.وسط صحن تک بڑھ کر میں نے سلام کیا.انہوں نے چھاتی سے لگا کر پیار کیا اور جب انہوں نے مجھے چھاتی سے جدا کیا میں جلد جلد ( بیت الذکر ) کے صحن سے باہر ہو گیا.انہوں نے بھی جلدی تو بہت کی مگر جوتا پہنے میں لمحہ بھر دیر ہوئی.میں (بیت) اقصیٰ کے دروازہ کی طرف لپکا.جہاں کیا دیکھتا ہوں کہ شیروں کی مانند تین سفید پوش دراز قد جوانمرد کوچہ میں کھڑے ہیں.ان کو میں نے پہچانا اور سیڑھیوں سے اتر کر ان میں سے ایک کے ساتھ مصافحہ کیا.مگر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے محسوس کیا کہ جس شخص کو میں نے...مصافحہ کیلئے ہاتھ دیا تھا.اس کی طرف سے مصافحہ کے جواب میں ایک سخت گرفت نمودار ہوئی.جس کے ساتھ ہی مجھ پر اس سازش کا انکشاف ہو گیا کیونکہ پاس ہی چوک میں ایک یکہ کھڑا دیکھ لیا.اس پر میں نے اس زور سے جھٹکا مارا کہ اس بھاری بھر کم جو ان سورما کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی.میرا ہاتھ چھٹ گیا اور میں وہاں سے بے تحاشہ اپنے ڈیرے کی طرف دوڑنے لگا.شان ایزدی کہ میرے چا صاحب میرے پیچھے تھے اور تین نو جوانوں نے میرا راستہ روک رکھا تھا کہ ایک چوک کی طرف دوسرا ہمارے ڈیرہ کو آنے والی گلی میں اور تیسرا بالکل میرے سامنے تھا گویا میں چاروں طرف سے ایسا گھرا ہوا تھا کہ بیچ نکلنا ناممکن تھا.مگر قربان
مردان خدا ۵۳ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی جاؤں خدائے بلند و برتر پر کہ اس نے ایسے نازک مرحلہ پر غیب سے میری مددفرمائی اور دشمن کے نرغہ سے خارق عادت رنگ میں مجھے رہائی بخشی ورنہ ان کے ارادے ظاہر تھے.یکہ تیار کھڑا تھا.پکڑنے اور اٹھا کر یکہ میں باندھ دینے کیلئے کافی سے زیادہ انتظام تھا.بازار پر دشمن کا قبضہ تھا اور حالات و اسباب کے لحاظ سے حقیقتا دشمن بالکل مکمل ساز و سامان سے آراستہ اور میں کمزور بالکل یک و تنہا بے یارو مدد گار تھا.حتی کہ میری فریاد تک کو میرے ہمدردوں تک پہنچانے والا بھی کوئی نہ تھا.نہ جانے مجھ میں اتنی قوت کہاں سے آگئی کہ دشمن کا مکر اور گرفت میرے مقابلہ میں کمزور و پیچ ہوگئی اور وہ کبھی ایسے مرعوب اور ست ہو گئے کہ میں علی رغم انف ان کے ہاتھوں سے نکل گیا اور وہ کچھ نہ کر سکے.میں دوڑا اور خوب دوڑا.وہ بھی میرے پیچھے بھاگے اور خوب بھاگے.میرے کان آشنا ہیں کہ جب میں ڈپٹی شنکر داس صاحب کی بیٹھک کے برابر بھاگ کر نکلا اور میرے پیچھے تین چار بھاگنے والوں کی دبڑد بڑ کی آواز نے گلی میں ایک شور بپا کر دیا تو اس گھر کے مکینوں نے کھڑکیوں سے سر نکالے اور اس بھا گڑ کو دیکھ کر خوب ہی ہنسی کی اور مذاق اڑایا.میری اللہ تعالیٰ نے مددفرمائی اور میں ان کے ہاتھ نہ آیا اور جب ( بیت) مبارک کی کوچہ بندی کے قریب پہنچا تو چچا صاحب بزرگوار نے میرا نام لے کر پکارا اور فرمایا کہ بات تو سن لو میں نے دوڑتے ہی دوڑتے جواب میں عرض کیا کہ چا ابا چند قدم اور آگے آجائیں.آپ جو کچھ فرمائیں گے میں سننے کو حاضر ہوں“ کیونکہ اس جگہ سے آگے ہماری اپنی آبادی تھی.مگر چچا صاحب محترم نے اس وقت آگے بڑھنا پسند نہ فرمایا اور وہیں سے بے نیل مرام بصد حسرت واپس لوٹ گئے“.آسماں سے فرشتے بھی مدد کرتے ہیں کوئی ہو جائے اگر بندہ فرماں تیرا ظہر کی نمار کے بعد غالباً میرے چا صاحب محترم، میرے چھوٹے بھائی عزیز با بو امر ناتھ کو لے کر آئے.عزیز کو وہ محض اس خیال سے ہمراہ لائے ہوئے تھے کہ اگر اور کوئی
مردان خدا ۵۴ حضرت بھائی جی عبد الرحمن صاحب قادیانی حربہ کارگر نہ ہوا تو اس ذریعہ سے مطلب براری کی کوشش کر سکیں کیونکہ مجھے عزیز سے بہت محبت تھی اور عزیز بھی چونکہ میری گودیوں کا پلا تھا اس کو مجھ سے بے حد انس تھا.چنا نچہ ایسا ہوا کہ جب ان کی پہلی تدبیر بیکار ثابت ہوئی تو عزیز کو ( جسے انہوں نے ابھی میرے سامنے نہ کیا تھا) لے آئے.عزیز میرے پاس آتے ہی زار و قطار رونے لگا اور اس کی بلبلا ہٹ اور چیخ و پکار سے فطرتا میرا دل بھی بھر آیا مگر میں نے دل مضبوط کیا.اپنے حواس کوسنبھالا اور دشمن کی اس چال کے شر سے بچنے کیلئے خدا سے مدد مانگی تھوڑی دیر میں عزیز کی طبیعت بھی سنبھل گئی اور میں نے اس کے بہلانے کیلئے کئی قسم کے سامان مہیا کر لئے اور ہوتے ہوتے آخر عزیز خوش و خرم ہو کر مجھ سے بے تکلف ہو گیا.جسے دیکھ کر چچا صاحب کے دل میں کوئی اور خیال آنے لگا.جس کے مدنظر انہوں نے عزیز کو لے جانے کی خواہش کی اور باوجود میرے اصرار کے انہوں نے عزیز کو میرے پاس زیادہ دیر ٹھہرنے کی اجازت نہ دی اور اسے آخر لے کر چلے گئے.ایک اور کوشش ” میرے والدین اور رشتہ داروں کی ایسی کوششوں کے سلسلہ میں...دوسرا حملہ جو میرے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے اور متاع ( دین ) کو چھین لینے کی غرض سے کیا گیا.وہ میرے ایک محترم بزرگ چوہدری نتھو رام صاحب زمیندار جا پووال متصل گورداسپور کے ذریعہ تھا جو اپنی میٹھی زبان، شیریں کلامی، نرم طبیعت اور پُر حکمت خصلت کے باعث برادری میں معتبر اور معتمد اور مسلم تھے اور خیالات کی پختگی ، مذہبی معلومات کی وسعت کے لحاظ سے بہت ہوشیار و سمجھدار واقعہ ہوئے تھے.اپنی ملازمت سے رخصت حاصل کر کے میرے پاس قادیان پہنچے اور پوری عظمندی، دانائی اور حسن تدبیر سے میری طبیعت کا مطالعہ کر کے مجھ سے دو دن متواتر نہایت محبت و پیار کے رنگ میں ذکر اذکار میں مصروف رہے.میرے دلی حالات کا اندازہ اور قلبی کیفیات کا جائزہ لیا اور اس کے نتیجہ میں ان کا سارا
مردان خدا حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی زور اور ساری توجہ اول اول تو اس بات پر مبذول رہی کہ (دینی) احکام اور خداوندی فرمان یاد کرا کر مجھے والدین کے حقوق ، عزیزوں اور رشتہ داروں سے سلوک وغیرہ اخلاق کی پابندی کرنے کی تاکید اور میرے جذبات کو اُبھار ابھار کر اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے اور اس دوران میں ان کا مطالبہ مجھ سے صرف یہی تھا کہ جو بات تمہیں پسند آ گئی ہے اور جس چیز کو تم صداقت یقین کرتے ہوئے ہم سے جدا ہوئے ہو، بے شک اسی پر قائم رہو.ہم اس میں ہرگز ہرگز روک ڈالنا پسند نہیں کرتے مگر خون آخرخون ہے.سوتم خونی تعلقات قطع نہ کرو اور ماں باپ کی فرمانبرداری کر کے ان کو خوش کرو کیونکہ اس کے بغیر تو تمہارا ( دین ) بھی قبول نہیں اور ایسے مشفقانہ اور ناصحانہ رنگ میں میرے دل کو موہ لینے کی راہیں اختیار کرتے رہے کہ خدا کے خاص فضل کے بغیر ان کے اس پوشیدہ اور بار یک جال سے بچ نکلنا مشکل تھا.آخر سارا زور مارنے اور سر پٹک چکنے کے بعد جب انہوں نے دیکھا کہ ان تلوں میں وہ تیل نہیں جس کی ان کو تلاش اور جستجو ہے تو انہوں نے رنگ بدلا اور رخ پلٹ کر وہ ناصحانہ اور مصلحت آمیز لباس اُتار پھینکا اور اپنے اصلی روپ میں مجھ پر ظاہر ہونے لگے.نصیحت و خیر سگالی کا جامہ چاک ہو گیا اور پھر وہ اپنا اندرونہ چھپانے کے قابل نہ رہے.نصیحت کی بجائے بحث مباحثہ کا رنگ اختیار کر لیا.دلائل کے زور سے مجھ کو ملزم کرنے کی کوشش کی اور عیسائی اور آریہ معاندین کے بودے کند اور کمزور ہتھیاروں سے مجھ پر وار کرنے شروع کر دیئے.عبد اللہ آتھم کی پیشگوئی اور لیکھرام کے مباہلہ کو بار بار پیش کر کے مجھ پر غلبہ ورعب جمانے کی کوشش کی مگر چونکہ انہی دنوں ایسے اعتراضات کے دندان شکن جوابات کا ایک خزانہ اور معارف کا ایک دریا سیدنا حضرت اقدس کی پُر نور تصنیفات میں تازہ بتازہ میرے مطالعہ میں آ رہا تھا جس کی طفیل میں بجائے مغلوب ہونے کے غالب اور مفتوح ہونے کے فاتح اور ذلیل ہونے کے سر بلند ہی رہا.جس سے متاثر ہو کر میرے بھائی کو اپنی کم علمی کا اعتراف اور مغلوبیت کا
مردان خدا ۵۶ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی اظہار کئے بغیر چارہ نہ رہا اور آخر فیصلہ پنڈت لیکھرام والی پیشگوئی پر منحصر ٹھہرا جوا بھی تک پیشگوئی کی معیاد کے اندر حالت انتظار میں تھا.چوہدری نتھو رام صاحب نے اس رنگ میں بھی دال گلتی نہ دیکھی تو اپنا آخری اور اوچھا ہتھیار نکالا اور میری غیرت اور حمیت کو چیلنج کیا.جذبات کو اپیل کی اور تانبے پیتل اور کانسی کے برتنوں ، مٹی کے لوٹے ٹھوٹھے اور کنالیوں کے طعن دینے شروع کر دیے.کہیں مسلمانوں کی موجودہ بد عملی ، خستہ حالی اور افلاس وغربت کے تذکرے اور ہند واقوام کی بڑائی و مالی برتری کے افسانے سنا سنا کر مجھے جوش دلانے کی کوشش کی اور کبھی خاندانی شوکت وسطوت اور بڑے بوڑھوں کے کارنامے سنا سنا کر شرم دلانے کی راہ اختیار کی اور انجام کا رجب دیکھا کہ ان کے سارے حیلے بے اثر اور سارے حربے بے کار رہے تو یہ کہتے ہوئے مجھ سے رخصت ہو گئے کہ ہٹیاں با ہیں گل نوں ای آندیاں ہین ، یعنی (احمد یوں ) نے جو سبز باغ تمہیں دکھا کر ورغلایا ہے اور جھوٹے وعدے دے کر اغوا کر لیا ہے چند روز میں ان کی حقیقت تم پر کھل جائے گی.تب تمہاری آنکھیں کھلیں گی.ابھی چونکہ نئے نئے اس جال میں پھنسے ہو.آؤ بھگت ہو رہی ہے.زیادہ عرصہ نہ گذرے گا کہ یہ نشہ اتر جائے گا اور تم سمجھو گے کہ کسی خیر خواہ کی نصیحت کو کس طرح رد کیا اورٹھکرایا تھا.دیکھو پھر کہتا ہوں کہ ڈھلیاں بیراں دا اجے دی کچھ نہیں گیا‘ مان لو بھلا ہوگا ورنہ پچھتاؤ گے.میرے مکرم ایسے ہی الفاظ کہتے ہوئے مجھ سے جدا ہونے کو کھڑے ہو گئے.اگر چہ میرا دل نرم تھا اور ان کے ادب کا بھی مجھے پاس تھا مگر ان کے آخری حملہ کو بے جواب چھوڑنے کو میں نے بے غیرتی اور دون ہمتی یقین کرتے ہوئے خاموش رہنا برداشت نہ کیا اور جاتے جاتے مخاطب کر کے بصد ادب عرض کر ہی دیا کہ:.اگر یہ دل صرف اور صرف خدا کے لئے آپ لوگوں سے جدا ہوا ہے تو یقیناً وہ ان بازوؤں کو نہ ٹوٹنے دے گا بلکہ خود غیب سے ہمیشہ میری دستگیری و امدا د فرمائے
مردان خدا ۵۷ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی گا اور میں اس یقین پر ہوں کہ وہ ذات والا صفات کبھی بھی مجھے ایسے دعوی کرنے اور بڑے بول بولنے والوں کا محتاج نہ ہونے دے گی.آپ کو یقین کامل تھا کہ کوئی ضائع نہیں ہوتا جو تیرا طالب ہے کوئی رسوا نہیں ہوتا جو ہے جو یاں تیرا حضرت بھائی جی فرماتے ہیں:.میں نے یہ الفاظ چلتے چلتے بہت ادب سے ان کے گوش گزار کئے جس کے بعد وہ اپنے گاؤں کو چلے گئے اور مجھے اللہ کریم نے اپنے خاص فضل بے پایاں سے اس مرحلہ پر بھی ثبات و نشاط بخش کر نوازا اور دار الامان ہی میں جگہ عطا فرمائے رکھی.فالحمد للہ عدالت سے سمن اس جد و جہد اور دوڑ دھوپ کے بعد مختلف طریق سے مجھے مرعوب کرنے اور دھمکانے کی غرض سے رنگا رنگ اور گونا گوں خبریں میرے کانوں تک پہنچائی جانے لگیں اور بعض معتبر لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے والدین اور رشتہ دار میرے سسرال کو میرے خلاف کوئی مقدمات دائر کرنے کی کوشش کرا رہے ہیں اور برادری نے ان پر بہت زور اور دباؤ بھی ڈالا.مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے ایسی نجاست پر منہ مارنے سے عذر کر دیا کہ پہلے ہی ” نہ معلوم کس پاپ کی سزا ہمیں بھگتنا پڑی ہے اور اپرادھ کر کے ہمارا کہاں ٹھکانہ ہو گا.مگر میرے والد صاحب اور بعض عیار رشتہ داروں کو نہ معلوم کتنی جلن لگی تھی کہ ان کے غضب کی آگ بجھنے ہی میں نہ آتی تھی اور وہ میرے در پے آزار ہی چلے جارہے تھے.نہ معلوم کتنے منصوبوں اور سازشوں میں ان کو نا کامی و نامرادی کا منہ دیکھنا نصیب ہوا اور آتش انتقام کہاں کہاں ان کو لئے پھرتی رہی.کس قدر مال و منال ایسی حیلہ
مردان خدا ۵۸ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی سازیوں کی نذر کیا اور کس کس کی در پردہ ناصیہ فرسائی کرتے پھرے جس کے نتیجہ میں ایک روز اچانک ایک مذکوریا میرے نام کا ایک سمن لئے میری تلاش میں کو بکو پھرا کیا اور آخر میرے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا جب کہ میں ( بیت ) اقصی سے ڈیرے کو جا رہا تھا.اس نے مجھے سمن دکھا کر دستخط کرنے کا تقاضا کیا.میرے لئے عمر بھر میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ سرکاری کاغذ میرے نام آیا.کچھ گھبراہٹ تھی کچھ عیار مذکورے کا تقاضا.آؤ دیکھا نہ تاؤ قلم دوات مذکورئے چپراسی ساتھ رکھا کرتے تھے نکال کر سامنے کی اور میں نے اطلاع یابی کر دی بلکہ الفاظ بھی وہی لکھے جو مذکورئے نے لکھائے.مجھے یہ بھی تو علم نہ تھا کہ یمن کا شنی مجھے لینا چاہئے جو کچھ ہوا اس میں پہلی بعض افواہوں اور اخبار کا بھی اثر و دخل تھا.سوجھی تو صرف یہ کہ سیدھا اپنے آقائے نامدار سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے در پر جا کر دستک دی.دریافت پر اپنا نام عرض کیا اور حضور پر نور بہ نفس نفیس دروازہ پر تشریف لے آئے.نہایت ہی لطف وکرم سے بات پوچھی جو میں نے لرزتے کانپتے عالم پریشانی ہی میں عرض کر دی.حضور نے توجہ سے سن کر نہایت ہی محبت آمیز لہجہ میں فرمایا ( ایک لمحہ بھر کے وقفہ کے بعد ) ”میاں عبدالرحمن آپ نے سمن کو پڑھا بھی تھا کہ کس مقدمہ میں حاضری مطلوب ہے اور کس تاریخ کو پیشی ہو گی ؟“ حضور نہیں میں نے عرض کیا اور حضور مجھے تو سمن اور مقدمہ کے نام سے ایسی گھبراہٹ ہوئی کچھ سمجھا نہ بوجھا اور جو کچھ اس نے کہا میں نے لکھ کر دے دیا.فرمایا.”میاں عبدالرحمن غلطی ہوئی ہے جلد جاؤ اور اس کو تلاش کر کے تاریخ حاضری تو معلوم کرلو.بہت اچھا حضور عرض کر کے میں گلی بازاروں میں اس چپڑاسی کی تلاش کرنے لگا اور آخر کم و بیش دو گھنٹہ کی تلاش اور سرگردانی کے بعد وہ مجھے مل گیا اور جس طرح حضور نے
مردان خدا ۵۹ حضرت بھائی جی عبد الرحمن صاحب قادیانی ہدایت فرمائی تھی نرمی اور حکمت سے میں نے سمن کا نیا مانگا اور حاضری کی تاریخ پوچھی.مگر میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب مجھے تاریخ حاضری کا علم ہوا.میری جان میں جان آگئی کیونکہ جس تاریخ کے لئے مجھ پر سمن کی تعمیل کرائی گئی تھی وہ تاریخ دو دن ہوئے گذر بھی چکی تھی.میں نے جھٹ اپنے دستخطوں کے نیچے وصولی سمن کی تاریخ درج کر دی اور خود حضرت اقدس کے حضور حاضر ہو کر معاملہ عرض کیا.جس پر حضور تبسم فرماتے اور یہ فرماتے ہوئے اچھا ہوا اور بہت اچھا ہوا اندر تشریف لے گئے اور اس طرح محض حضور کی توجہ کے طفیل سے وہی بات ہوئی کہ :.گیا.رسیده بود بلائے ولے بخیر گذشت پھر نہ کبھی کوئی سمن آیا نہ مجھے کسی نے طلب کیا نہ معلوم کیا تھا اور وہ معاملہ کدھر چلا فیصلہ کن قدم.والدہ کو خط ان آئے دن کے جھگڑے بکھیڑوں ، افراتفری اور کشمکش سے تنگ آ کر آخر میں نے اس قضیہ کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دینے کی تجاویز سوچنا شروع کیں کیونکہ مجھے اپنی ذات میں نت نئے فتنوں کی وجہ سے بے اطمینانی اور تشویش رہا کرتی.والدین کی بربادی اور ان کے مال و منال کے ضیاع کا خیال بھی ستایا کرتا تھا.والدین اور رشتہ داروں کے ایسے حملوں اور کوششوں سے مجھے اپنی کمزوریوں کا بھی احساس ہونے لگا اور خیال پیدا ہوا کہ کوئی نہ کوئی نقص ضرور مجھ میں ہے ورنہ دشمن کو مایوس ہوکر ہمیشہ کے لئے مجھ سے نا امید ہو جانا چاہئے تھا.چنانچہ سوچ بچار اور دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ جب تک شیطان بالکل مایوس اور نا امید نہیں ہو جائے گا میں خطرہ سے باہر نہ نکل سکوں گا اور حقیقی اطمینان اور تسلی میسر نہ آئے گی.لہذا میں نے ایک مفصل خط علیحدہ والدہ صاحبہ
مردان خدا حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی خدمت میں لکھا جس میں اپنے ( دین حق ) لانے کی وجوہات پر خود ان کی اپنی ضمیر کو بطور شاہد و گواہ پیش کرتے ہوئے اپنے حالات و اخلاق کی طرف بھی ان کی توجہ مبذول کرائی اور بالاخر یہ لکھا کہ ان حالات میں خود آپ کا دل جانتا ہے کہ (دین حق ) کے معاملہ میں مجھ پر نہ کسی نے دباؤ ڈالا ہے اور نہ ہی کوئی طمع اور بداخلاقی اس کی محرک ہوئی ہے بلکہ ( دین حق ) کی خوبیوں اور اس کے برکات نے میرے دل بلکہ دل کی گہرائیوں پر اثر کر کے میرے قلب کو فتح کر لیا ہے.اس صورت میں کیونکر ممکن ہے کہ آپ لوگ میرے دل سے اس بات کو نکال سکیں.زیادہ سے زیادہ آپ میرے جسم اور گوشت پر قابو پاسکتے ہیں مگر اس کے یہ معنی نہ ہونگے کہ آپ میرے دل سے ( دین حق ) کو نکال دینے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے.اوّل تو آپ کو اپنا سابقہ تجربہ ہی اس امر کے سمجھ لینے کیلئے کافی معاون تھا کہ آپ لوگ باوجود ہزاروں روپیہ بے دریغ لٹا دینے اور مہینوں نہیں سالوں سرگردانی کے سبب مجھ پر قابو نہیں پاسکے.اس سے سبق حاصل کر کے خدا کی مرضی پر راضی ہو رہتے.مگر بفرض محال اگر مان بھی لیا جائے کہ کبھی آپ مجھے میری مرضی کے خلاف لے جانے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو پھر کیا ہوگا ؟ ( دین حق ) میرے رگ وپے اور خون میں خدا کے فضل سے اس طرح رچ چکا ہے کہ اگر آپ لوگ میرے جسم کے ٹکڑے بھی کر دیں اور ان ٹکڑوں کا قیمہ بھی بنا دیں تب بھی انشاء اللہ ہر ذرہ سے (کلمہ طیبہ ) کی صدا بلند ہوگی.جسم مغلوب ہو سکتے ہیں اور طاقت یا ظلم سے اس پر فتح پائی جاسکتی ہے مگر قلوب کا فتح کرنا صداقت دراستی کے سوا ناممکن ہے وغیرہ وغیرہ والدہ صاحبہ کا رد عمل مصلحت الہی سے میرا یہ خلا والدہ محترمہ کو جب پہنچا والد صاحب گھر پر نہ تھے بلکہ کہیں گئے ہوئے تھے اور طرفہ یہ کہ خط والدہ محترمہ نے پڑھوایا تو کسی مسلمان سے.جس
مردان خدا ۶۱ حضرت بھائی جی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے خط سنانے کا حق ادا بھی کر دیا اور وہ خط ایسا موثر ثابت ہوا کہ والدہ محترمہ زار و قطار رونے لگیں اور اس جگہ عہد کر لیا کہ آئندہ اس طریق کو قطعی طور سے ترک کر دیں گے.چنانچہ مجھے جواب بھی بہت معقول اور تسلی بخش دیا.اچھا بیٹا جیتے رہو.تمہاری طرف سے ٹھنڈی ہوا آتی رہے.ہونا تھا جو ہو چکا اب پرمیشور سے تو لڑ انہیں جاسکتا.یہ خدا کا حض فضل تھا.كُلُّ اَمْرٍ مَرُهُونٌ بِأَوْقَاتِهَا والی بات ہے.خط ٹھکانے لگا اور اس طرف سے قصہ ہمیشہ کیلئے ختم ہی ہو گیا“.( حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی: صفحه ۵۲ تا۱۲۲)
مردان خدا ۶۲ حضرت شیخ عبدالرحیم شر ما صاحب حضرت شیخ عبدالرحیم شر ما صاحب نام: سابق نام کشن لعل تھا.بیعت کے بعد آپ کا نام عبدالرحیم تجویز ہوا.ولادت: ۱۸۸۷ یا ۱۸۸۸ء بمقام بنور ریاست پٹیالہ ولدیت : پنڈت رلیا رام صاحب قوم: برهمن بیعت: آپ ہندو تھے خاندان کا آبائی پیشہ پر دھتی تھا.۱۹۰۴ء میں داخل سلسلہ ہوئے.اولاد: آپ کی پہلی بیوی جو ہندو تھی سے آپ کے دو بیٹے تھے جو بعد میں فوت ہو گئے اور دوسری بیوی سے پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں وفات: ۲۵ اکتوبر ۱۹۶۴ء اللہ کی راہ میں ہر چیز کی قربانی حضرت شیخ عبدالرحیم شر ما صاحب نے اگر چہ بیعت تو ۱۹۰۴ء میں کر لی تھی مگر بعض مصالح کی بناء پر آپ نے اسے اپنے لوگوں پر ظاہر نہ کیا تھا.مگر آپ دل ہی دل میں ایسی صورت حال سے بہت تنگ تھے.چھپ چھپ کر نمازیں پڑھنا اور عبادات بجالانا اب ان کے لئے مشکل ہوتا جار ہا تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہو گیا اور شیخ صاحب نے علی الاعلان ابھی اپنی بیعت کو ظاہر نہ کیا تھا.حضرت خلیفہ امسیح الاول کی خدمت میں آپ نے یہ ساری صورت حال لکھی اور عرض کیا کہ اگر چہ مشکلات اور موانع بہت ہیں مگر اب میں بیعت کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.آپ میری رہنمائی فرمائیں اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت شیخ صاحب تحریر فرماتے ہیں.
مردان خدا ۶۳ حضرت شیخ عبدالرحیم شر ما صاحب حضور نے لکھا کچھ دیر توقف کرو ہند و عورتیں عموماً وفادار ہوتی ہیں اپنی اہلیہ کو دعوت الی اللہ ) کرو اور اس کو بھی اپنے ساتھ لانے کی کوشش کرو.اس ارشاد کی تعمیل میں کچھ عرصہ اور رکا رہا.اپنی بیوی کو ( دین حق ) قبول کرنے کیلئے رضا مند کرنے کی کوشش کرتا رہا.مگر میری والدہ اور خاندان کے دوسرے لوگ اسے ورغلا لیتے اور کہتے کشن لعل محض تمہاری خاطر رُکا ہوا ہے اگر تم نے کمزوری دکھائی اور اس کا ساتھ دیا تو وہ (احمدی) ہو جائے گا.میں نے سوچا اس ماحول میں رہتے ہوئے اس کا (احمدی ) ہونا مشکل ہے کسی طرح اس کو ان سے الگ کرنا چاہئے.چنانچہ میں اس کوشش میں کامیاب ہو گیا اور ایک دوسرے مکان میں اپنی بیوی بچوں کو لیکر الگ ہو گیا.وہاں جا کر وہ (احمدی) ہونے کیلئے آمادہ ہوگئی.چنانچہ ایک تاریخ مقرر کی گئی کہ اس دن چند روز کی رخصت لیکر قادیان جائیں گے اور مشرف بہ ( دین حق ) ہوں گے.لیکن بعد میں نہ معلوم کیا ہوا اس نے پھر کمزوری دکھائی.ادھر مجھ سے قادیان چلنے کا وعدہ کیا دوسری طرف پوشیدہ طور پر اپنے والد کو پیغام بھیجوا دیا کہ فلاں دن کشن لعل (احمدی) ہونے کے لئے قادیان جائے گا اور مجھ کو بھی ہمراہ لے جانا چاہتا ہے.اگر اس کو بچانا ہے تو آ جاؤ.جس صبح ہم نے قادیان کے لئے روانہ ہونا تھا اس سے قبل کی شام کو میرے خسر جو کہ ایک دوسرے قصبہ میں رہتے تھے جو بارہ میل کے فاصلہ پر تھا یہاں آگئے جس وقت وہ ہمارے مکان میں داخل ہوئے میں نے دیکھا کہ وہ ہانپ رہے تھے اور ان کے گھٹنے لرزتے تھے شاید غصہ اور رنج کی وجہ سے ان کی یہ حالت تھی.میں ان کی یہ حالت دیکھ کر سمجھ گیا کہ خیر نہیں.ان کو ضرور کسی نہ کسی طرح ہمارے عندیہ سے آگا ہی ہوگئی ہے.انہوں نے مجھ سے کلام نہیں کی اور سیدھے اندر چلے گئے.تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ انہوں نے میرے لڑکے کو اٹھایا ہوا ہے اور میری بیوی کو ساتھ لیکر جا رہے ہیں.میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہاں چلی ہو؟ اس نے کہا میں مسلمان نہیں ہو سکتی.جس دھرم میں میرے والد صاحب رہیں گے اسی میں
مردان خدا ۶۴ حضرت شیخ عبدالرحیم شر ما صاحب رہوں گی میں اپنے والدین کو نہیں چھوڑ سکتی.یہ کہہ کر وہ چلی گئی.مجھے کو اس کی ایسی حرکت سے بہت صدمہ ہوا.دل میں کہا.اے عورت میں تیری خاطر رُکا ہوا تھا جب تو نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا تو اب مزید توقف کی ضرورت نہیں.میں نے اسی وقت تین چار قلمی اشتہار لکھے ان میں لکھا کہ میں اپنی خوشی سے ( دین حق ) قبول کرتا ہوں.آج سے کوئی شخص مجھے ہندو نہ سمجھے.لیئی بنائی اور رات کو گیارہ بجے کے قریب جبکہ کاروبار بند ہو جاتے ہیں اور بازاروں میں آمد و رفت نہیں رہتی شہر کی مختلف گلیوں پر جا کر اشتہاروں کو چسپاں کر آیا.آپ کے اس حال پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حضرت باوا نانک صاحب کے متعلق فرمائے گئے یہ اشعار خوب صادق آتے ہیں.کوئی دن تو پردہ میں مستور تھا زباں چپ تھی اور سینہ میں نور تھا نہاں دل میں تھا درد و سوز و نیاز شریروں سے چھپ چھپ کے پڑھنا نماز پھر آخر کو مارا صداقت نے جوش تعشق سے سے جاتے رہے اس کے ہوش ہوا پھر تو حق کے چھپانے سے تنگ محبت نے بڑھ بڑھ کے دکھلائے رنگ تو مجھ ہوا اک گناہ کہ پوشیدہ رکھی سچائی کی راہ حضرت شیخ صاحب اس کے بعد کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.صبح ہوئی تو یہ خبر شہر میں آنا فانا پھیل گئی کہ کشن لعل داروغہ (احمدی ) ہو گیا ہے.ہند و مجھ کو تو کچھ نہ کہہ سکے کیونکہ ان دنوں داروغہ چونگی کو بہت کچھ اختیارات ہوتے تھے.
مردان خدا حضرت شیخ عبدالرحیم شر ما صاحب میں چاہتا تو تاجروں کو کافی تنگ کر سکتا تھا.ان دنوں قانون ایسے تھے کہ باجود چونگی میں محصول ادا کر دینے کے دکاندار مال کو اس وقت تک کھول نہیں سکتے تھے جب تک داروغہ چونگی خود یا اس کا کوئی نمائندہ آ کر تصدیق نہ کر دیتا تھا کہ مال کے مطابق محصول ادا کیا گیا ہے اور اگر کوئی دکاندار دروغہ کی تصدیق سے قبل مال کھول دیتا تھا تو وہ مستوجب سزا و جرمانہ ہوتا تھا.اور داروغہ چونگی کو یہ اختیار ہوتا تھا کہ اگر کوئی شخص بغیر محصول چونگی ادا کئے شہر میں داخل ہو جائے تو وہ چہار چند تک محصول چونگی وصول کر لے.ہمارے قصبہ میں اکثر ہندو تاجر پیشہ تھے اس لئے ان کو مجھ سے کچھ دبنا پڑتا تھا.براہ راست تو وہ مجھ کو تکلیف نہیں پہنچا سکتے تھے لیکن میری والدہ صاحبہ اور دوسرے رشتہ داروں کو اسی طرح بعض غریب احمدیوں کو انہوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا.ہماری برادری نے فوراً میری والدہ صاحبہ اور میرے بھائی صاحب کا بائیکاٹ کر دیا کیونکہ میرے خُسر نے برادری کی پنچایت میں میری والدہ صاحبہ پر یہ الزام لگایا کہ ان کے ایماء اور مدد سے کشن لعل میری لڑکی کو (احمدی) کرنے لگا تھا.اگر میری والدہ مخالفت کرتیں اور کشن لعل کو علیحدہ نہ ہونے دیتیں تو وہ (احمدی) نہیں ہوسکتا تھا.غرض ایک عرصہ تک ہماری برادری نے والدہ صاحبہ اور ہمارے خاندان کا بائیکاٹ رکھا.آخر بعض لوگوں کی سفارش سے بڑی مشکل سے ہمارے خاندان کو معافی ملی اور اس شرط پر ان کو برادری میں داخل کیا گیا کہ وہ سب مجھ سے قطع تعلق رکھیں گے میری والدہ کو مجبوراً یہ شرط ماننا پڑی.برادری کے ڈر سے نہ ہی میں والدہ کو مل سکتا تھا اور نہ میری والدہ مجھ سے مل سکتی تھیں.میری والدہ صاحبہ کو مجھ سے بے حد محبت تھی.وہ میری جدائی کو برداشت نہ کر سکتی تھیں اور روتی رہتی تھیں.شام کو دفتر بند کر کے جب میں (احمد یوں) کے ہمراہ احمدیہ ( بيت الذکر ) کو جاتا اور اپنے محلہ کے پاس سے گزرتا.میری والدہ مجھ کو دیکھنے کیلئے بازار کے ایک طرف کھڑی ہو جاتیں.یہ نظارہ بہت تکلیف دہ ہوتا.جب میں ادھر سے گزرتا تو
مردان خدا حضرت شیخ عبدالرحیم شر ما صاحب اپنی والدہ کو روتے ہوئے پاتا.اکثر تو روتے روتے ان کی گھگی بندھ جاتی.اور دور تک ان کے رونے کی آواز سنائی دیتی مجھ کو بہت تکلیف ہوتی مگر برادری کے ڈر سے ہم نہ مل سکتے تھے ایک عرصہ اسی طرح ہوتا رہا.والدہ صاحبہ کی حالت دن بدن خراب ہونے لگی.مجھ سے یہ برداشت نہ ہو سکا میں نے سوچا کہ کسی طرح والدہ صاحبہ سے ملاقات کر کے ان کی دلجوئی کرنی چاہئے.ہمارے پڑوس میں کچھ گھر مسلمان نیل گروں کے تھے.میں نے ایک مسلمان عورت کی وساطت سے والدہ صاحبہ کو کہلا بھیجا کہ میں رات کو فلاں مسلمان کے مکان پر آؤں گا.آپ بھی چھپ کر آجائیں وہاں ہم مل لیں گے.والدہ صاحبہ تو پہلے ہی بے قرار تھیں انہوں نے رضا مندی کا اظہار کر دیا.کافی رات گزرے میں وہاں گیا والدہ صاحبہ بھی چھپ کر آ گئیں.بہت دیر تک باتیں ہوتی رہیں اور اس طرح ہماری ملاقات ہونے لگی.جن دنوں میں نے ( دین حق ) کا اعلان کیا اس وقت مہاراجہ پٹیالہ ابھی کمسن تھے اور کونسل آف ایجنسی کا زمانہ تھا.ریاست میں مذہبی آزادی نہ تھی.اگر کوئی سرکاری ملازم مذہب تبدیل کر کے ( دین حق میں داخل ) ہو جاتا تو اس کو ملازمت سے برطرف کر دیا جاتا تھا.چنانچہ ہندو میری برطرفی کے منتظر تھے.لیکن خدا تعالیٰ کا ایسا تصرف ہوا کہ جب میں نے اس امر کی رپورٹ افسران کو کی کہ میں نے برضاء ورغبت (احمدیت کو ) قبول کر لیا ہے.اس لئے کاغذات سرکاری اور سروس بک میں میرا نام کشن لعل کی بجائے عبدالرحیم درج کر لیا جائے.ان دنوں ہمارے شہر میں ہند و تحصیلدار کی بجائے ایک مسلمان تحصیلدار غلام محی الدین خان تبدیل ہو کر آگئے تھے تبدیل مذہب کے متعلق ایکشن لینا ناظم صاحب دیوان صاحب ( یعنی کمشنر ) کے اختیار میں تھا یعنی ناظم کی سفارش پر دیوان صاحب ملازمت سے برطرف کر سکتے تھے لیکن ہوا یہ کہ جو نبی میری درخواست تحصیلدار صاحب کی طرف سے ناظم صاحب کی خدمت میں بھجوائی گئی انہوں نے دیوان صاحب کی خدمت میں رپورٹ کرنے
مردان خدا ۶۷ حضرت شیخ عبدالرحیم شر ما صاحب کی بجائے میرے نام کی تبدیلی کے لئے براہ راست اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر میں رپورٹ بھیج دی.اکا ؤنٹنٹ جنرل ان دنوں ایک انگریز مسٹر بڈلف صاحب ہوا کرتے تھے ان کو اس بات سے کوئی سروکار نہ تھی کہ کون ہندو ہوتا ہے اور کون مسلمان.انہوں نے کاغذات میں میرا نام تبدیل کر کے عبدالرحیم درج کرا دیا.چنانچہ عبد الرحیم کے نام سے تنخواہ برآمد ہونے لگی اُدھر ناظم صاحب نے اپنے دفتر میں حکم دے دیا کہ سروس بک میں میرا نام درج کر دیا جائے.ہیں.( رفقاء احمد : جلد : ۱۰ صفحه ۶۰ تا ۶۲) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اور امتحان اور کامیابی حضرت شیخ عبدالرحیم صاحب اپنے ایک اور ابتلاء کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے چونگی خانہ کے ایک کمرہ میں میں رہتا تھا.سردیوں کے دن تھے.ایک دفعہ میں سخت بیمار ہو گیا.سخت تیز بخار تھا.میں اکیلا پڑا گھبرا گیا.دل میں شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ (احمدی ) ہو کر تم نے کیا لیا ؟ اب بیمار پڑے ہو پاس پانی دینے والا بھی نہیں.بہن، بھائی، والدہ، بیوی بچے سب ہی ہیں لیکن کوئی تمہارے منہ نہیں لگتا.کیا ہندورہ کر تم خدا کی عبادت نہیں کر سکتے تھے.بت پوجا بے شک نہ کرتے.مگر رام اور رحیم میں تو کوئی فرق نہیں.وہ تو ایک ہی ذات کے دو نام ہیں.ہندورہ کر رام رام جیتے تو کیا تھا.غرض اسی قسم کے خیالات دماغ میں چکر لگانے لگے لیکن میرے رب نے گرتا دیکھ کر پھر مجھ کو سنبھالا اور میرے دل میں یکلخت تحریک پیدا ہوئی کہ یہ سب شیطانی وساوس ہیں تم کو دعا اور استغفار کرنا چاہئے.چنانچہ میں نے لحاف میں ہی تیم کر کے نماز پڑھنی شروع کر دی اور دعا کی.الہی !
مردان خدا ۶۸ حضرت شیخ عبدالرحیم شر ما صاحب اگر چہ میرے عزیز واقارب حتی کہ ماں نے بھی مجھے چھوڑ دیا ہے.لیکن حضور تو ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہمدرد اور خیر خواہ ہیں.تیری موجودگی میں تجھ سے بڑھ کر اور میرا کون ہمدرد ہو سکتا ہے.اگر عزیز واقارب نے چھوڑ دیا ہے تو تو موجود ہے.تو میری دستگیری فرما اور اس دُکھ (سے) جو میری روح کو کھا رہا ہے نجات دے.نماز میں میں خدا تعالیٰ کے حضور خوب رویا.اسی دوران میں مجھے ایسا پسینہ آیا کہ میرا بخار خدا تعالیٰ کے فضل سے اتر گیا اور میرے دل کو غیر معمولی تسکین و راحت ہونی شروع ہو گئی.“ ( رفقاء احمد جلد دہم صفحه ۶۲-۶۳) اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے حضرت شر ما صاحب کو کامیاب فرمایا اور جیسا کہ اُس کا وعدہ ہے کہ جو انسان بھی خدا کیلئے قربانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا اجر عظیم عطا فرما تا ہے اور کئی گنا کر کے لوٹاتا ہے.آپ کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک ہوا.آپ ان فضلوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اس وقت جب میں یہ سوچتا ہوں کہ میں کس طرح (احمدی ) ہو گیا تو سخت حیران ہوتا ہوں.میرے وہ دوست جو مجھ سے واقف ہیں وہ میری حالت کو جانتے ہیں.میری طبیعت میں حجاب زیادہ ہے مجھ میں بھلا یہ طاقت کہاں تھی میں ازخود (احمدی ) ہو جاتا اور پھر سب رکاوٹوں اور مخالفتوں کا مقابلہ کر سکتا.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہی تھا کہ اس نے مجھ کو ( دین حق ) قبول کرنے کی توفیق بخشی اور نہ صرف یہ کہ میں (احمدی) ہو گیا بلکہ یہ سعادت بھی ملی کہ میں نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آپ کے دست مبارک پر بیعت کی..کی...پھر دنیوی لحاظ سے بھی گھاٹے میں نہیں رہا.میں اکیلا قادیان آیا تھا اس وقت میری کیا حالت تھی.ایک جوتی.ایک دو جوڑے کپڑوں کے اور چند
مردان خدا ۶۹ حضرت شیخ عبدالرحیم شر ما صاحب روپے.یہی میرا اثاثہ تھا.لیکن میرے مولیٰ نے مجھ کو ضائع نہیں کیا.میں نے وطن چھوڑا تھا اس سے بہتر وطن مجھ کو ملا.بیوی چھوڑی تھی اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بیوی بھی دی.دو بچوں کو مجھے چھوڑنا پڑا تھا اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پانچ لڑکے اور چار لڑکیاں عنایت کیں.رشتہ داروں اور برادری سے تعلق تو ڑا تھا یہاں آکر ان سے بہتر رشتہ دار اور محبت کرنے والی برادری ملی.رہنے کے لئے مکان دیا.مجھ کو اپنی محسنہ والدہ کو چھوڑنا پڑا تھا جو مجھ کو سب سے زیادہ عزیز تھیں.بظاہر اس کمی کا پورا ہونا مشکل تھا پر میرے رب نے یہ کمی بھی پوری کی اور میری پیاری ماں بھی مجھ کو دی.وہ قادیان آئیں اور مشرف (با حمدیت) ہوئیں.میرے پاس ہی آخر دم تک رہیں اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئیں.میرے رب کے مجھ پر کس قدر فضل ہوئے؟ جب میں سوچتا ہوں تو میری روح سجدہ میں گر جاتی ہے“.سچ ہے.( رفقاء احمد جلد نمبر ، ا صفحه ۶۸) اس جہاں کو چھوڑنا تیرے دیوانوں کا کام نقد پا لیتے ہیں وہ اور دوسرے امید وار
مردان خدا حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری نام: حضرت مولوی حسن علی صاحب ولدیت: محمد علی صاحب ولادت : ۲۲/اکتوبر۱۸۵۲ء بمقام بھاگلپور بیعت : ۱۱ جنوری ۱۸۹۴ء کتب: قوت فیصلہ تحریک سیر نبوی تائید حق، معراج المومنین، نقش طاؤس وفات فروری ۱۸۹۶ء بعمر تقنتالیس سال چھ ماہ اہم امور آپ کا نام ۳۱۳ رفقاء میں شامل ہے.آپ عربی، فارسی، اردو ہندی اور بنگلہ زبانوں کے ماہر تھے.مذہبی رحجان کی وجہ سے ایف اے سے تعلیم ترک کر دی.پٹنہ میں سکول کے ہیڈ ماسٹر رہے.کچھ عرصہ بہار بندھو وغیرہ اخبارات کے ایڈیٹر رہے.آپ ایک شعلہ بیان مقرر تھے.مسلمانوں کا حد درجہ احساس کرنے والے تھے.اسی جذبہ کی وجہ سے آپ نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں ہیڈ ماسٹری وغیرہ دنیوی مشاغل کو ترک کر کے مسلمانوں کی خدمت کو اپنا لیا.آپ کو اللہ کی طرف سے ” خادم المسلمین“ کا خطاب ملا.قوم نے آپ کو شمس الواعظین کا لقب دیا.سینکڑوں غیر مسلم آپ کے ذریعہ تائب ہوئے.آپ نے متعد د مدارس اور یتیم خانے قائم کئے.آپ کے لیکچرز سے متاثر ہو کر بھاگلپور کے نوجوان طلبہ کالج نے ایک انجمن بنام تہذیب الاسلام“ بنائی اور اس کا مقصد نوجوان نسل کو دینی علوم سے واقف کروانا تھا.معروف انجمن حمایت اسلام لاہور کی بناء میں بھی آپ کا ہی ہاتھ تھا.آپ نے بھا گلپور کی فاحشہ عورتوں کے خاندان کی اصلاح کر کے ان سے تو بہ کروائی.آپ نے ایک رسالہ
مردان خدا حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری ماہواری ” نورا سلام “ جاری کیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزی ممالک میں دعوت الی اللہ کے کام کیلئے آپ کا نام تجویز فرمایا آپ نے فرمایا کہ:.وہ اہل ہمت میں سے ہے اور اس امر کے لائق ہیں مزید برآں وہ تقی زکی اور اشاعت ( دین حق ) کیلئے جری ہیں“.( نور الحق.حصہ دوم صفحه۶۲ روحانی خزائن جلد نمبر ۸ صفحه ۲۴۸) راہ مولا میں نوکری قربان کر دی حضرت مولوی حسن علی صاحب کی شادی ۱۸۷۴ء میں ہوئی.اس کے بعد کسب معاش کے سلسلہ میں آپ پٹنہ چلے گئے اور ایک سکول میں ہیڈ ماسٹری کے عہدہ پر کام کرنے لگے.مگر آپ اس زندگی سے مطمئن نہ تھے.اگر چہ دنیوی لحاظ سے یہ اچھی نوکری تھی مگر اللہ تعالی آپ سے کچھ اور کام لینا چاہتا تھا.اور آپ کو اس میدان میں اور قربانیاں کرنا تھیں.آپ فرماتے ہیں.فروری ۱۸۸۶ ء کو مغرب کے وقت یکا یک اللہ جلشانہ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ اب تو اسکول کی ملازمت سے دست بردار ہو جا اور باقی عمر واعظ اسلام کی حیثیت میں بسر کر.پس میں نے اس ہدایت ربانی کے بموجب ہیڈ ماسٹری سے استعفاء پیش کر دیا.اسکول کمیٹی کے سیکرٹری میرے شاگرد دوست تھے مجھ کو بہت سمجھاتے رہے.پٹنہ کے کئی شفیق دوست نہایت محبت سے مجھ کو ہدایت کرتے رہے کہ لگی نوکری کو چھوڑنا نہیں چاہے جو لگی روزی کو لات مارتا ہے وہ غضب الہی میں گرفتار ہوتا ہے لیکن میں ان پیارے دوستوں کو کیا کہتا.حالت یہ تھی کہ خدا ہی کی ہدایت سے خدا کے واسطے نوکری کو چھوڑتا تھا تو میں کیونکر دل میں یہ شک لاتا کہ اللہ میرے رزق کو بند کر دے گا“.(رساله تائید حق : صفحه: ۴۳: رفقاء احمد : جلد : ۱۴: صفحه ۱۱)
مردان خدا حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری چنانچہ آپ نے یہ نوکری محض اللہ چھوڑ کر پورے ہندوستان میں دوروں کا سلسلہ شروع کیا اور اہل ایمان میں بیداری پیدا کی.قربانیوں کی بہار حضرت مولوی صاحب نے جب سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا تو اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.اب بہت بڑا سوال یہ پیش آیا کہ آیا میں ایسے جلیل القدر امام کا متبع ہو جاؤں اور ناحق کی تکفیر اور ملامت کا ٹوکراسر پر اٹھاوں اور جو کچھ عزت میں نے عمدہ واعظ ہونے کی سارے ہند میں پیدا کی ہے اس کو حق پر قربان کر کے بجائے مقبول خلائق کے مردود وملعون خلائق بن جاؤں یا شیعوں کی پالیسی اختیار کر کے حضرت مرزا صاحب کے پاس ان کا موافق اور ان کے مخالفوں کے پاس (معاذ اللہ ) مرزا صاحب کا مخالف بن کر واہ واہ کی صدا سنوں.عجب کشمکش میں کئی دن میرے قادیان شریف میں گزرے.روز رو رو کر جناب باری تعالیٰ میں دعائیں کرتا کہ خداوندا! اگر تیری خوشنودی مرزا صاحب کی تابعداری وفرمانبرداری میں ہے تو مجھ پر بذریعہ خواب کے جیسا کہ تو نے بارہا کیا ہے اصل حال کھول دے لیکن ادھر سے سناٹا تھا.مالک کی یہی مرضی تھی کہ میں خود خدا داد عقل کو استعمال کر کے اپنا نفع و نقصان دیکھ بھال کر کام کروں.پٹنہ سکول کی ہیڈ ماسٹری چھوڑ نے سے اس دفعہ بھاری معاملہ تھا.اس دفعہ ایک بھاری قربانی کا موقعہ آ گیا تھا.بڑے بڑے لوگوں نے اس سے ہزار ہا درجہ بڑھ کر پیاری اور عزیز چیزوں کو حق پر قربان کر دیا ہے.لیکن میں کیا تھا اور میری ہمت ہی کیا تھی.ایک قدم آگے رکھتا.ایک قدم پیچھے رکھتا.شیطان کہتا کہ میاں بربادی اور تباہی اور ذلت و رسوائی سے بچنا ہے تو چپ چاپ قادیان سے نکل چلو.فرشتہ کہتا او کم بخت کیا تو نے حدیث نہیں پڑھی کہ جس نے اپنے امام وقت کو نہ پہچانا وہ.
مردان خدا ۷۳ حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری جاہلیت کی موت پر مرا.پھر جس حالت میں خداداد عقل تجھ کو خود بتا رہی ہے کہ جناب حضرت مرزا صاحب امام زماں ہیں تو ان سے روگردان ہو کر کہاں جائے گا.کیا دنیا کی چند روزہ زندگی کے نام اور جھوٹی عزت پر اپنے ابدالا باد کے نفع کو غارت کر دے گا.اوکوتہ اندیش جس روحانی مرض میں تو مبتلا ہے اس کی دوا تک اللہ نے تجھ کو پہنچایا.جناب مولوی حکیم نورالدین صاحب ایسا بے ریا فاضل اپنا ذاتی تجربہ پیش کر کے اس دوا کا فائدہ مند ہونا بتا تا ہے پھر کیسی کم بختی تجھ کو آئی ہے.اپنی صحت روحانی کا دشمن بن کر اندرونی پلیدی اور منافقانہ زندگی میں ڈوبار ہنا چاہتا ہے.اے حضرات میں نے فرشتہ کی بات سن لی اور تاریخ ۱۱ جنوری ۱۸۹۴ ء شب جمعہ کو حضرت امام الوقت مجدد زماں جناب مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان سے بیعت کر لی اور ان کو اپنا امام قبول کر لیا.فالحمد للہ علی ذالک بیعت کرنے کے بعد تین دن تک قادیان شریف میں رہنے کا موقع ملا.ان اخیر کے تین دن میں جب میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا تھا تو مجھ کو معلوم ہوتا تھا کہ اب میں نماز پڑھتا ہوں یعنی مجھے عجیب حلاوت اور عجیب مزا نماز میں ملتا تھا.۱۳ جنوری ۱۸۹۴ ء میں اپنے امام سے رخصت ہو کر لاہور میں آیا اور ایک بڑی دھوم دھام کا لیکچر انگریزی میں دیا.جس میں حضرت اقدس کے ذریعہ سے جو کچھ روحانی فائدہ ہوا تھا اس کا بیان کیا جب میں اس سفر پنجاب سے ہو کر مدراس پہنچا تو میرے ساتھ وہ معاملات پیش آئے جو صداقت کے عاشقوں کو ہر زمانے و ہر ملک میں اٹھانے پڑے ہیں.مسجد میں وعظ کہنے سے روکا گیا ہر مسجد میں اشتہا ر کیا گیا کہ حسن علی سنت و جماعت سے خارج ہے کوئی اس کا وعظ نہ سنے.پولیس میں اطلاع دی گئی کہ میں فساد پھیلانے والا ہوں.وہ شخص جو چند ہی روز پہلے شمس الواعظین جناب مولا نا مولوی حسن علی صاحب واعظ اسلام کہلا تا تھا صرف حسن علی لیکچرار کے نام سے پکارا جانے لگا.پہلے واعظوں میں ایک ولی سمجھا جاتا تھا اب مجھ سے بڑھ کر شیطان دوسرا نہ تھا.جدھر جاتا انگلیاں اٹھتیں.سلام کرتا جواب نہ ملتا.مجھ سے ملاقات کرنے کو لوگ خوف کرتے.میں ایک خوفناک
مردان خدا ۷۴ حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری جانور بن گیا.جب مدراس میں مسجدیں میرے ہاتھوں سے نکل گئیں تو ہندوؤں سے پچھیا ہال لے کر ایک دن انگریزی میں اور دوسرے دن اُردو میں حضرت اقدس امام زماں کے حال کو بیان کیا جس کا اثر لوگوں پر پڑا.رمضان شریف میں اپنے وطن شہر بھاگلپور میں آیا.میرے دوست و ہم خیال و ہم مشرب مولوی صاحبوں میں سے ایک صاحب نے مجھ کو خط لکھا کہ تم نے بڑی غلطی کی اچھے طور سے مرزا صاحب کے عقائد کی جانچ پڑتال کر کے بیعت کرنی تھی.تمہاری اس عاجلانہ حرکت سے اہل اسلام کو سخت نقصان پہنچا کیونکہ تمہاری کوششوں سے اہل اسلام کو نفع عظیم پہنچ رہا تھا.ایک دوسرے مولوی صاحب جو براہین احمدیہ وغیرہ دیکھے ہوئے تھے اور حضرت اقدس کو مجد د زمان مانتے ہیں یہ لکھا تھا کہ تم نے مصلحت زمانہ کے برخلاف کیا.(مولوی حسن علی بھاگلپوری: تائید حق صفحه ۶۹ تا ۷۱ ) آپ کے متعلق محترم ملک صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں.حضرت مولوی صاحب جو قوم کی نظر میں شمس الواعظین تھے اور حد درجہ معزز و محترم.احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ کا جو حال ہوا اس بارے میں حضرت مولوی احمد علی صاحب بھاگل پوری بیان کرتے ہیں کہ آپ مدراس لوٹے تو سارے علماء مدراس نے آپ کی تکفیر کی اور آپ کو دجال اور کرسٹان (عیسائی) کہنے لگئے“.( رفقاء احمد : جلد : ۱۴: ص: ۵۵) پر ایسے کفر پر تو فدا ہے ہماری جاں وو جس سے ملے خدائے جہان و جہانیاں رسالہ معاصر پٹنہ نے آپ کا ذکر کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے.وہ مرزا صاحب کے حلقہ پیروان میں شامل ہو گئے.قادیانی مذہب قبول کرتے ہی مولوی صاحب کی مقبولیت عامہ کو سخت دھکا لگا.اب وہ صرف مبلغ احمدیت ہو کر رہ گئے.عام مسلمانوں نے ان کا بائیکاٹ کیا اور ان کو مسجدوں میں تقریر کرنے کی اجازت نہ دی.(رسالہ معاصر پٹنہ: حصہ :۲: ص: ۸: بحوالہ رفقاء احمد : جلد : ۱۴ : ص:۳۰)
مردان خدا ۷۵ حضرت قاضی ضیاءالدین صاحب حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب نام حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب ولدیت: قاضی غلام احمد صاحب ولادت: ۱۸۴۳ء بمقام قاضی کوٹ ضلع گوجرانوالہ بیعت: مارچ ۱۸۸۹ء اولاد: آپ کی دوشادیاں ہوئیں.آپ کے ہاں دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں جنہوں نے عمر دراز پائی.وفات: ۱۲مئی ۱۹۰۴ء اہم امور آپ کے شدید مخالفانہ حالات کی وجہ سے حضور نے دسمبر ۱۹۰۰ء میں ہجرت کا ارشاد فرمایا تو آپ ۱۹۰۱ ء کے شروع میں قادیان چلے گئے.ضمیمہ انجام آتھم میں مندرج تین سو تیرہ رفقاء میں آپ کا نام بھی درج ہے.نہ صرف آپ بلکہ آپ کے دوفرزند اور آپ کے ذریعہ احمدی ہونے والے گیارہ احباب کے نام بھی اس میں درج ہوئے.نزول مسیح میں مندرج پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے گواہوں میں کئی پیشگوئیوں میں آپ کا نام درج ہے.آپ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق اور باقاعدہ تہجد گزار تھے.آپ کی وفات سے قبل آپ کے بارہ میں حضور کو الہام ہوا وہ بے چارہ فوت ہو گیا“.صبر و استقامت حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بیان کرتے ہیں.والد ماجد کو اپنے گاؤں کوٹ قاضی محمد جان میں مخالفوں نے قریباً تیرہ برس تک سخت تکالیف پہنچا ئیں.مقاطعہ کئے رکھا.نقب زنی بھی کرا دی گئی مگر آپ نے استقامت سے
مردان خدا حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب مقابلہ کیا اور سب کام کاج چھوڑ کر اپنا سارا وقت ( دعوت الی اللہ ) میں صرف کرنا آپ نے اپنا معمول بنا رکھا تھا.( رفقاء احمد : جلد : ۶: ص:۳۲) بیعت کے ساتھ ہی اللہ کی طرف سے امتحان حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب خود فرماتے ہیں.اس عاجز نے آپ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام.ناقل ) کے دست حق پرست پر بیعت کی تو ایک لمبی دعا کے بعد اسی وقت آپ نے فرمایا تھا کہ قاضی صاحب آپ کو ایک سخت ابتلاء پیش آنے والا ہے چنانچہ اس پیشگوئی کے بعد اس عاجز نے کئی اپنے عزیز دوستوں کو اس سے اطلاع بھی دے دی کہ حضور نے میری نسبت اور میرے حق میں ایک ابتلائی حالت کی خبر دی تھی.اب اس کے بعد جس طرح پر وہ پیشگوئی پوری ہوئی وہ وقوعہ بعینہ عرض کرتا ہوں کہ میں حضرت اقدس سے روانہ ہو کر ابھی راستہ میں ہی تھا کہ مجھے خبر ملی کہ میری اہلیہ بعارضہ درد گردہ و قولنج و قے مفرط سخت بیمار ہے جب میں گھر پہنچا اور دیکھا تو واقع میں ایک نازک حالت طاری تھی اور عجیب تریہ کہ شروع بیماری وہی رات تھی جس کی شام کو حضور نے اس ابتلاء سے خبر دی تھی.شدت درد کا یہ حال تھا کہ جان ہر دم ڈوبتی جاتی تھی اور بے تابی ایسی تھی کہ با وجود کثیر الحیاء ہونے کے مارے درد کے بے اختیار ان کی چھینیں نکلتی تھیں اور گلی کوچے تک آواز پہنچتی تھی اور ایسی نازک اور دردناک حالت تھی کہ اجنبی لوگوں کو بھی وہ حالت دیکھ کر رحم آتا تھا.شدت مرض تخمینا تین ماہ تک رہی.اس قدر مدت میں کھانے کا نام تک نہ تھا صرف پانی پیتیں اور قے کر دیتیں.دن رات میں پچاس ساٹھ مرتبہ متواتر قے ہوتی.پھر درد قدرے کم ہوا مگر نادان طبیبوں کے بار بار فصد لینے سے ہزال مفرط کی مرض مستقل طور پر دامن گیر ہوگئی.ہر وقت جاں بلب رہتیں.دس گیارہ دفعہ تو مرنے تک پہنچ کر بچوں اور عزیز اقرباء کو پورے طور پر الوداعی غم والم سے رولایا.غرض گیارہ مہینے تک طرح طرح کے دکھوں کے تختہ مشق رہ کر آخر کشادہ پیشانی بہوش تمام کلمہ شریف پڑھ کر ۲۸ برس کی عمر میں سفر جاودانی -
مردان خدا 22 حضرت قاضی ضیاءالدین صاحب اختیار کیا اور اس حادثہ جانکاہ کے درمیان ایک شیر خوار بچہ رحمت اللہ نام بھی دودھ نہ ملنے کے سبب سے بھوکا پیاسا راہی ملک بقا ہوا.ابھی یہ زخم تازہ ہی تھا کہ عاجز کے دو بڑے بیٹے عبدالرحیم و فیض رحیم تپ محرقہ سے صاحب فراش ہوئے.فیض رحیم کو تو ابھی گیارہ دن پورے نہ ہونے پائے کہ اس کا پیالہ عمر پورا ہو گیا اور سات سالہ عمر میں ہی داعی اجل کو لبیک کہہ کر جلدی سے اپنی پیاری ماں کو جاملا اور عبدالرحیم تپ محرقہ اور سر سام سے برابر دو ڈھائی مہینے بے ہوش میت کی طرح پڑا رہا.سب طبیب لا علاج سمجھ چکے کوئی نہ کہتا کہ یہ بچے گا لیکن چونکہ زندگی کے دن باقی تھے بوڑھے باپ کی مضطر بانہ دعا ئیں خدا نے سن لیں اور محض اس کے فضل سے صحیح سلامت بیچ نکلا.اگر چہ پٹھوں میں کمزوری اور زبان میں لکنت ابھی باقی ہے.یہ حوادث جانکاہ تو ایک طرف ادھر مخالفوں نے اور بھی شور مچا دیا تھا.آبروریزی اور طرح طرح کے مالی نقصانوں کی کوششوں میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا.غریب خانہ میں نقب زنی کا معاملہ بھی ہوا.اب تمام مصیبتوں میں یکجائی طور پر غور کرنے سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ عاجز راقم کس قدر بلتیہ دل دوز سینہ سوز میں مبتلا رہا اور یہ سب الہی آفات و مصائب کا ظہور ہوا جس کی حضور نے پہلے سے ہی مجمل طور پر خبر کر دی تھی.( رفقاء احمد : جلد ۶ : ص: ۱۲،۱۱) پس جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی روحانی ترقیات کے لئے ابتلاؤں کو بطور زینہ رکھا ہے اس کے عین مطابق حضرت قاضی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ابتلاؤں میں گزار کر آپ کے ایمان کو پختہ بنادیا.اور چونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے قبل از وقت ہی ابتلاؤں کے آنے کی خبر دے دی تھی اس لئے ایک طرف دکھوں کی تکلیف اور دوسری اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی خوشی.ایک عجیب کیفیت تھی جس میں حضرت قاضی صاحب ایک لمبا عرصہ تک صبر وحوصلہ کے ساتھ رہے.
مردان خدا حضرت مولوی عبد الله بو تالوی صاحب حضرت مولوی عبد اللہ بوتالوی صاحب نام: حضرت عبداللہ بوتالوی صاحب والد کا نام مولوی محمد دین صاحب پیدائش : ۲۰ مئی ۱۸۸۱ء.بمقام جھنڈ اسنگھ والا ضلع گوجرانوالہ قوم: ریحان راجپوت بیعت: ۱۷ فروری ۱۹۰۱ء اولاد: ۱.مولوی عبدالرحمن صاحب انور (اسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) ۲.حافظ قدرت اللہ صاحب ( مبلغ لندن.انڈونیشیا و ہالینڈ ) ۳.عنایت اللہ صاحب سلیم (اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ اریگیشن سیکرٹریٹ لاہور ) ۴.امتہ الحمید بیگم صاحبہ اہلیہ خانصاحب قاضی محمد رشید صاحب ( ریٹائرڈ آرڈینینس آفیسر و سابق وکیل المال تحریک جدید ۵.سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری :وفات ۳ مئی ۱۹۵۲ء بروز ہفتہ بعمر اے سال آپ نے ۱۹۱۳ء میں وصیت کی تھی.بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص میں آپ کی پہلی قبر ہے.بائیکاٹ حضرت مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے.البتہ احمدیت سے متاثر ضرور ہو چکے تھے.اس امر کا علم جب گاؤں کے لوگوں کو ہوا تو انہوں نے کوٹ بھوانی داس گاؤں سے اہل حدیث مولوی احمد علی کو بلوایا.میرا ۱۹۰ ء جنوری کا واقعہ ہے.اس کے بعد آپ کو اس صداقت کے پہچان لینے اور اس کی تائید کرنے اور صداقت کے کھلے عام اقرار اور اظہار کرنے کے نتیجہ میں کن حالات سے گزرنا پڑا وہ ان کی اپنی زبانی
مردان خدا و حضرت مولوی عبد اللہ بوتالوی صاحب اس طرح پر ہیں.فرماتے ہیں:.”انہوں نے ایک جمعہ کے دن میری عدم موجودگی میں قریب کے ایک گاؤں کوٹ بھوانی داس سے ایک اہل حدیث مولوی احمد علی کو بلوایا اور گاؤں کے باہر کھلی جگہ میں کئی ایک دیہات کے لوگوں کو اکٹھا کر کے بھاری مجمع کے ساتھ مولوی مذکور سے جمعہ پڑھوایا.اثناء وعظ میں اس مولوی نے لوگوں کو علماء اسلام کا ایک مطبوعہ فتویٰ پڑھ کر سنایا اور اخیر پر مولویوں کی مہریں لگی ہوئی دکھلا کر کہا کہ دیکھو جس شخص پر اس قدر مولویوں نے کفر کا فتویٰ لگایا ہو وہ یا اس کی پیروی کرنے والا کب مسلمان ہوسکتا ہے.یہ کہ کر لوگوں کو پیغام سلام کے ترک کرنے کی تاکید کی اور ہر طرح کے تعلقات قطع کر دینے کا فیصلہ سنا دیا.جب میں شام کو گاؤں میں واپس آیا تو میں نے سب لوگوں کے طور بدلے ہوئے دیکھے اور جن لوگوں کے ساتھ آباء واجداد سے ہمارے گہرے تعلقات رہ چکے تھے ان کی آنکھیں بھری ہوئی ملاحظہ کیں.ہمارا پانی بھرنے والے ماشکیوں کو پانی بھرنے سے روک دیا گیا اور ہر طرح کا بائیکاٹ کر کے تکلیف دینا چاہی.حتی کہ ایک دن جب کہ میں کہیں باہر گیا ہوا تھا گاؤں کے چند معتبر اشخاص کا ایک مجمع ہمارے گھر پر آیا اور ہماری ڈیوڑھی میں بیٹھ کر اندر سے میری والدہ صاحبہ مرحومہ کو بلایا وہ دروازے کے نزدیک آ کر کھڑے ہو گئے.ان میں سے ایک شخص جو ہم پر بہت امید رکھتا تھا یوں گویا ہوا.بے بے جی ! آپ کے خاندان کا ہمیں بہت لحاظ ہے لیکن آپ کے بیٹے نے پرانے طریقے کو چھوڑ کے نیا طریقہ اختیار کر لیا ہے.وہ آپ کی بہت مانتا ہے.اس لئے ہم آپ کو کہتے ہیں کہ آپ اسے سمجھا ئیں اور اسے باز رکھیں.اس پر میری والدہ صاحبہ نے نہایت جرات اور دلیری سے جواب دیا کہ اگر میرا بیٹا کوئی عیب کرے یا اس میں کوئی برائی پیدا ہوگئی ہو تو میں اس کو روک سکتی ہوں.لیکن مجھے اس کے عقیدے اور عمل میں کوئی برائی معلوم نہیں ہوئی.اس لئے میں کیوں اس کو منع کروں.اب تو جدھر اس کا راستہ ہے اُدھر ہی ہمارا راستہ ہے.یہ کھرا کھرا جواب سن -
مردان خدا حضرت مولوی عبد اللہ بوتالوی صاحب کر وہ سب اپنا سا منہ لے کر واپس چلے گئے اور یہ لفظ کہتے ہوئے باہر نکلے کہ مائی تو بڑی پکی ہے.غرضیکہ اس کے بعد لوگوں کے مقاطعہ سے میرے دل کو بہت صدمہ ہوا.گو ظا ہری طور پر تو میرا وہ کوئی نقصان نہ کر سکے اور نہ ہی مجھے کوئی تکلیف دے سکے.لیکن دوستوں اور آشناؤں کا خشک اور روکھا سلوک میرے جذبات کو بہت ہی صدمہ پہنچانے کا موجب ہوا اور میں ہر وقت اسی سوچ بچار میں افسردہ خاطر رہتا تھا کہ الہی یہ کیا ماجرا ہے.کیا تھا اور کیا ہو گیا.چنانچہ اسی افسردگی اور پژمردگی کی حالت میں سخت اداس ہو کر میں نے اپنے بڑے چچا مولوی احمد الدین صاحب کو جو بھیرہ ضلع شاہ پور میں مدرس تھے اور جو میرے خسر بھی تھے ایک خط لکھا اس میں میں نے چند پنجابی اشعار میں اپنے دردِ دل کا حال ظاہر کیا.جان بچاری کرماں ماری دکھاں دے منہ آئی میں غم کھانواں غم مینوں کھاوے فرق نہ اس وچ کائی روز ازل توں اللہ کولوں قسمت ایہو لکھائی حمد یاں نال غماں دی گڑھتی دائی گھول پلائی یارا نے غم خوار تمامی چھوڑ گئے آشنائی جنہوں بلانواں میری طرفوں جاندا کنڈ بھنوائی میں ہرگز نال کسی دے رہا کیتی نہیں برائی پر اینویں جانی دشمن بن گئے رب دی بے پرواہی جد کی تاج مبارک میرے کیتی سروں جدائی تختوں لیہہ کے وختاں اندر عاجز جندڑی آئی ( رفقاء احمد : جلد : ۷ صفحه : ۱۷۶ تا ۱۷۸)
مردان خدا ΔΙ حضرت مولوی عبد اللہ بوتالوی صاحب گاؤں کو خیر باد بوتالہ جو کہ آپ کا گاؤں تھا اس میں مخالفت تیز ہو جانے کی وجہ سے آپ کو اپنے گاؤں کو چھوڑنا پڑا.چنانچہ آپ نے بھیرہ جا کر پٹواری کا امتحان پاس کیا اور وہیں ملازمت اختیار کر لی.( رفقاء احمد : جلد : ۷: ص: ۱۸۳) اس طرح آپ نے اللہ کی راہ میں اپنے وطن، اپنی جائیداد، اپنے دوست ، اپنے عزیز ، اپنے غمخوار سب چھوڑ دیئے مگر اپنے خدا کا دامن ایسا پختہ طور پر پکڑ لیا کہ آخر دم تک نہایت وفاداری کے ساتھ اس سے چمٹے رہے.
مردان خدا ۸۲ حضرت چوہدری برکت علی صاحب گڑھ شنکری حضرت چوہدری برکت علی صاحب گڑھ منکری نام: چوہدری برکت علی صاحب والد کا نام : چوہدری میراں بخش صاحب پیدائش: ۸۷ - ۱۸۸۶ء بمقام گڑھ شنکر ضلع ہوشیار پور قوم: راجپوت بیعت: ۱۹۰۲ء (آپ کا نام الحکم ۲۴ اگست ۱۹۰۲ء میں بیعت کنندگان میں شائع ہوا ) ہجرت : ۱۹۰۴ء میں ہجرت کر کے مستقل طور پر قادیان آگئے.وفات: ۷.اپریل ۱۹۶۰ء بروز جمعرات بعمر ۷۳ سال ہوئی.تدفین قطعہ خاص میں ہوئی.اولاد: آپ کے پانچ بچے بچیاں تھے.مجھے اپنی قوم کی پرواہ نہیں حضرت چوہدری برکت علی صاحب اپنی بیعت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.۱۹۰۲ء میں ایک دن میں نے حضرت ڈاکٹر صاحب مرحوم ( ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب مراد ہیں ) سے عرض کیا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں آپ میری بیعت کا خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھ دیں.ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ تمہاری راجپوتوں کی قوم بہت سخت ہے شاید وہ تمہیں روکیں اور تکالیف دے کر چاہیں کہ تم بیعت چھوڑ دو.میں نے اسی وقت کہا کہ مجھے اپنی قوم کی پرواہ نہیں اور نہ میں ان کی تکلیف دہی سے ڈرتا ہوں.اگر وہ اس راہ میں مجھے جان سے بھی مار دیں تو میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا.اس پر ڈاکٹر صاحب مرحوم نے میری بیعت کا خط لکھ دیا اور حضرت مولوی
مردان خدا ۸۳ حضرت چوہدری برکت علی صاحب گڑھ شنکری عبد الکریم صاحب کے دستخط سے بیعت کی منظوری کی اطلاع ملی.خط ملنے پر میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی.الحمد للہ ثم الحمد للہ ( رفقاء احمد : جلد: ۷: صفحہ: ۲۲۶، ۲۲۷) راہ مولا میں گالیاں سننا حضرت چوہدری برکت علی صاحب بیعت کرنے کے بعد پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت اور دستی بیعت کرنے کیلئے قادیان کی طرف روانہ ہوئے تو بٹالہ کا واقعہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں.” جب بٹالہ سٹیشن سے نکلا تو سڑک پر ایک چھوٹی سی مسجد نظر پڑی.میں نے کہا کہ مسجد میں ہی رات کا بقیہ وقت گزار کر صبح قادیان کی طرف جانا چاہئے.مسجد میں گئے ابھی تھوڑا وقت ہی ہوا تھا کہ ایک صاحب نے آ کر کہا کہ تم کون ہو؟ میں نے کہا میں مسافر ہوں.قادیان جانا ہے.اس نے گالی دیتے ہوئے سختی سے کہا کہ خبیث مرزائی آ کر مسجد کو خراب کر جاتے ہیں صبح مسجد دھونی پڑے گی.تم یہاں سے نکل جاؤ.میں نے کہا میں تو کبھی یہاں آیا نہیں نہ کسی کو جانتا ہوں.خدا کے گھر سے کیوں نکالتے ہو؟ میں یہاں سے نہیں جاؤں گا.اس پر وہ گالیاں دیتا اور سخت سست کہتا بڑبڑاتا ہوا چلا گیا میں صبح فجر کی نماز پہلے وقت پڑھ کر قادیان کے لئے روانہ ہوا اور یہ مسافت پیدل طے کی“.( رفقاء احمد : جلد : ۷ : صفحہ: ۲۲۷) پس آپ کو بھی اللہ کی راہ میں گالیاں سننا پڑیں اس طرح عزت کی قربانی آپ نے بھی خدا کی راہ میں بشاشت سے پیش کی.گویا آپ زبان حال سے یہ شعر پڑھ رہے تھے.گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے
مردان خدا ۸۴ حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نام: حضرت منشی محمداسماعیل صاحب سیالکوٹی پیدائش: ۱۲۸۳ھ بمطابق ۱۸۶۶ء بمقام سیالکوٹ بیعت : ۱۹۰۰ء اولاد: آپ کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں.وفات: ۱۰ جنوری ۱۹۵۰ء اہم امور آپ با قاعدہ تہجد گزار اور باقاعدگی سے پابند نماز و روزہ تھے.صاحب کشف والہام تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بے حد محبت کرتے تھے.صادق وامین تھے.منشی صاحب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے پھوپھی زاد بھائی اور ان کے برادر نسبتی تھے.اظہار حق پر ایذا دہی حضرت منشی صاحب بچپن سے ہی بے باک اور مذہبی غیرت رکھنے والے تھے.اس وجہ سے آپ کو قربانیاں پیش کرنے کی توفیق ملتی رہی.آپ کے بچپن کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ملک صلاح الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں.ناظرہ قرآن مجید پڑھ کر مشن سکول میں داخل ہوئے.چوتھی جماعت میں ایک پادری انجیل پڑھا تا تھا.آپ اس پر اعتراض کرتے جب وہ سوالات سے تنگ آ جاتا تو منشی صاحب کو مارتا...پھر آپ امریکن مشن سکول میں داخل ہو گئے.وہاں چھٹی جماعت میں ایک ہی استاد آدھ گھنٹہ بائبل اور دوگھنٹہ انگریزی پڑھا تا تھا.آپ بائبل پر اعتراض کرتے جس سے انگریزی کا وقت بھی گزر جاتا.آخر پر استاد آپ کو پیٹتا اور کہتا کہ جب تک تم سکول میں ہو کوئی عیسائی نہیں ہوگا اور جب تک تمہیں سکول
مردان خدا ۸۵ حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی سے نکلوانہ دوں گا مجھے چین نہ آئے گا.ایک روز اس نے ایسا مارا کہ آپ کا ہاتھ کا انگوٹھا سوج گیا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو علم ہوا تو آپ نے سکول جانے سے منع کر دیا اور خود گھر پر فارسی پڑھانے لگے“.(رفقاء احمد : جلد: اول: صفحہ: ۱۷۷) علاقہ ملکانہ میں دعوت الی اللہ اور قربانیاں حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب کو ۱۹۲۳ء میں ملکانہ کے علاقہ میں تحریک شدھی کے خطرناک اثرات کو دور کرنے کے سلسلہ میں خدمت کا موقع ملا.یہ عرصہ بہت ہی کٹھن اور مشکل حالات کا تھا.مگر آپ نے راہ خدا میں ہر قسم کی تکالیف کو برداشت کیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ آپ کی مساعی میں بہت برکت ڈالی.رفقاء احمد کے مصنف اختصاراً آپ کی مساعی اور قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.ارتداد ملکانہ کے وقت ۱۹۲۳ء میں آپ کو علاقہ اجمیر میں بھیجا گیا موضع دیوکھیڑہ تحصیل بیاور میں متعین ہوئے لوگ منشی صاحب کے مخالف ہو گئے....پہلے تو آپ کا کھانا پکانے پر کوئی راضی نہ ہوا لیکن پھر ایک مسلمان بڑھئی نے خود بخود ہی منظور کر لیا.پہلے دو تین دن آپ کو پتھریلی زمین پر سونا پڑا لیکن پھر کوئی شخص خود بخود ہی چار پائی دے گیا.ان لوگوں کی حالت کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ ایک گاؤں میں آپ گئے تو السلام علیکم کہا ایک شخص نے گستی ہاتھ میں پکڑ کر کہا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ تیرا سراُتار دوں.آپ اس کے قریب ہو گئے اور کہا کہ بے شک آپ ایسا ہی کر لیں جس سے متحیر ہو کر پیچھے ہو گیا.لیکن آپ کے علاج سے اس کے لڑکے کی آنکھیں شفایاب ہو گئیں وہ بہت معتقد ہو گیا اور اس نے معافی مانگ لی.( رفقاء احمد : جلد اوّل: صفحه : ۱۹۰،۱۸۹) خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے جب آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے
مردان خدا ۸۶ حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب نام: حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب والد کا نام منشی محمد ابو القاسم صاحب قوم کا ئستھ پیدائش: بمقام سرا وہ ضلع میرٹھ یوپی بیعت : ۱۸۹۰ ء یا ۱۸۹۱ء بمقام لدھیانہ وفات: یکم دسمبر ۱۹۳۰ء بروز سوموار بعمر تریسٹھ سال اہم امور آپ کا نام ۳۱۳ رفقاء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے درج فرمایا ہے.بہت سے مواقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت کی توفیق پائی.بہت سے مقدمات اور مباحث میں حضور کے ساتھ رہے.رشتے ختم حضرت منشی صاحب کو سلسلہ حقہ میں داخل ہونے کے بعد بہت سی تکالیف اور مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر الحمد للہ کہ آپ کے پائے استقامت میں ذرہ بھر لغزش نہ آئی.اور مردانہ وار ان کا مقابلہ کیا.اس ضمن میں ایک قربانی آپ کے عزیز واقارب کا آپ سے دُور ہو جانا تھا.آپ کے بچوں کی شادیوں کے سلسلہ میں تکلیف دہ حالات پیدا ہو گئے چنانچہ آپ کی سوانح میں لکھا ہے کہ: مولوی محب الرحمن (جو کہ منشی صاحب کے صاحبزادے ہیں ) کی شادی ان کے ماموں کے ہاں ہوئی تھی یہ سوال اٹھا کہ لڑکا اور اس کے والد احمدی ہونے کی وجہ سے کافر ہیں.اس لئے یہ رشتہ قائم نہیں رہنا چاہئے لیکن لڑکی کے والد نے اس بات کی طرف التفات نہ کیا اور
مردان خدا ۸۷ حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب شادی ہو گئی.مولوی صاحب اور ان کے دو برادران کی شادیوں کے بعد جماعت احمدیہ کے خلاف مولویوں کا شور بڑھ جانے کی وجہ سے بعض دیگر بھائیوں کے جو رشتے برادری میں طے ہو چکے تھے ٹوٹ گئے.برادری نے خود قطع تعلق کیا.ہوگئے ( رفقاء احمد : جلد : دہم : صفحہ: ۲۸۸،۲۸۷) آپ نے ان تمام قسم کے مصائب و تکالیف کو برداشت کیا اور اس شعر کے مصداق سخت جاں ہیں ہم کسی کے بغض کی پروا نہیں دل قوی رکھتے ہیں ہم دردوں کی ہے ہم کو سہار -
مردان خدا حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب یادگیری نام: حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب والد کا نام: شیخ عبداللطیف صاحب پیدائش: ۱۲۵۸ ھ بمطابق ۱۸۴۲ء بمقام یاد گیر ضلع گلبر گه ریاست حیدر آباد دکن بیعت: اندازاً ۱۹۰۰ء اولاد: آپ کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں.وفات: آپ حج پر گئے ہوئے تھے.بیمار ہو گئے اور مدینہ منورہ میں ۱۷ دسمبر ۱۹۴۵ء کو بعمر ایک سوتین (۱۰۳) سال وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے.موصی ہونے کی وجہ سے بہشتی مقبرہ قادیان میں آپ کا کتبہ لگایا گیا ہے.اہم امور آپ صاحب وحی والہام بزرگ تھے.اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت آپ کا نمایاں وصف تھا.غرباء پروری میں بہت شہرت رکھتے تھے.قرآن مجید سے عشق تھا.اپنے علاقہ یاد گیر میں مدرسہ احمدیہ کے ساتھ ایک مدرسہ حفاظ قرآن جاری کیا اس کے جملہ اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے.دعوت الی اللہ ہر سطح کے لوگوں میں آپ نے کی.رفاہ عامہ کے کام کرتے ہی رہتے تھے.یاد گیر میں آپ نے انگریزی اور یونانی ہر دو قسم کے دواخانہ جاری کر رکھے تھے اور جملہ اخراجات آپ خود برداشت کرتے تھے.بہت سی کتب طب، عربی صرف و نحو، دینیات اور عقائد پر تصنیف کروا کر اپنے خرچ پر انہیں شائع کیا ایک مرتبہ گاؤں میں لوگوں کیلئے پانی کی دقت پیدا ہوگئی تو اپنے باغ سے
مردان خدا ۸۹ حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب انجن اکھڑوا کر بستی کے باہر تالاب پر لگوا دیا اور تین ماہ تک اپنے خرچ پر اسے چلاتے رہے اور لوگوں کو پانی مہیا کرتے رہے.سرکاری مدرسہ یاد گیر کو بہت سی زمین عطیہ کے طور پر دی.آپ میں حد درجہ سادگی اور انکساری تھی.آپ نے یاد گیر میں بہت ہی عمدہ قسم کی احمد یہ لائبریری بھی قائم کی تھی.احمد یہ قبرستان کے لئے کئی ایکٹر زمین عطیہ دی.حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی.مصائب کی آندھیاں ملک صلاح الدین صاحب آپ پر احمدی ہونے کی وجہ سے آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.سیٹھ صاحب پر مصائب کی تیز آندھیاں چلیں اور مخالفین مخالفت میں سرگرم رہے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام شرور و آفات سے اپنی حفظ وامان میں رکھا.ان مصائب کی تفصیل کچھ اس طرح پر ہے کہ ( رفقاء احمد : جلد : اوّل : صفحه : ۲۱۲) آپ کا حیدر آباد دکن میں بہت وسیع کاروبار تھا.اس زمانہ میں آپ کی تجارت ہیں بائیں لاکھ تک جا پہنچی تھی.لیکن بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو روحانی ترقیات دینے کیلئے سخت آزمائشوں میں سے گزارتا ہے.آپ کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک ہوا.آپ اپنے کاروبار کے سلسلہ میں رنگون گئے.وہاں کے لئے جو سٹاک آپ ساتھ لے کر گئے وہ وہاں کے مناسب حال نہ تھا اس لئے سارا سرمایہ ڈوب گیا اور شدید نقصان ہوا.مگر آپ نے اس ابتلاء میں شاندار صبر کا نمونہ دکھایا اور آستانہ الہی پر جھکے رہے.ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلاء ہو راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تیری رضا ہو
مردان خدا حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہاما آپ کو بتایا گیا کہ آپ کو برکت دی جائے گی.دوسری طرف سے مخالفین نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ چونکہ سیٹھ حسن نے جھوٹے سلسلہ کی خاطر مال و دولت خرچ کی اس لئے ان کا گھر برباد ہو گیا.شیخ حسن اب ختم ہوا.آپ تک جب یہ باتیں پہنچیں تو ایک روز جمعہ کے بعد آپ نے بیت الذکر یاد گیر میں کہا.میں دوستوں کو کچھ سنانا چاہتا ہوں.لوگ میرے خسارہ کو دیکھ کر ایسی باتیں کرتے ہیں میں.( بیت الذکر ) میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بار بار بتایا ہے کہ میں اس وقت تک نہیں مروں گا جب تک کہ تجارت کی حالت پہلے جیسی نہ ہو جائے“.( رفقاء احمد : جلد اوّل: صفحه: ۲۱۵) وہ تو فرہاد تھا جو تاب ستم لا نہ سکا آؤ اس شہر ستم میں ہمیں زندہ دینا زندہ دیکھو غرض یہ حالت ابتلاء قریب بارہ سال تک جاری رہی.مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس وقت تک وفات نہ دی جب تک کہ آپ کے تمام قرضے اور آپ پر دائر تمام مقدمات ختم نہ ہو گئے.کاروبار کی حالت بھی بہت اچھی ہوگئی اور آپ نے اپنے ورثاء کے لئے کافی جائیداد تر کہ میں چھوڑی.( رفقاء احمد : جلد اوّل: صفحه: ۲۱۴ ۲۱۶) جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
مردان خدا ۹۱ حرف آخر حرف آخر ہر دور میں مامورین من اللہ کے آنے کے ساتھ راہ خدا میں قربانیوں کی نئی تاریخ رقم ہوتی ہے.مولا کریم اس پاک وجود کے ساتھ پاک وجودوں کو اسی طرح جمع کر دیتا ہے جیسا کہ مقناطیس کے گرد لوہے کے ذرات کو اور وہ خدا کے بندے راہ مولا میں ہر قسم کی قربانیاں پیش کرتے ہیں مگر اُس مامور من اللہ کا دامن پکڑے رہتے ہیں.زیر نظر رسالہ میں اُن چند مخلصین مردان خدا کی اُن قربانیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو متاع ایمان کی حفاظت میں انہوں نے پیش کی ہیں.مولا کریم نے اُن کی قربانیوں کو قبول فرمایا اور روحانی اموال سے متمتع کر دیا.دنیا میں انہیں اپنی رضا کی جنتوں سے نواز دیا اور دین ودنیا کی نعماء سے متمتع فرما دیا.مولا کریم ان مردان خدا کی ان قربانیوں کی برکات ان کی نسلوں میں جاری وساری رکھے اور ہمیشہ اس سلسلہ حقہ کو ایسے مخلصین عطا فرما تا ر ہے جو کہ اسلاف کی ان قربانیوں کا زندہ نمونہ بنے رہیں اور ان کے ورد زبان یہ شعر ہو.چکے دل اب تن خاکی رہا ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا