Maqam Khatmanabiyeen

Maqam Khatmanabiyeen

مُقَام خَاتَم النّبیّیِن

Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات
فیضان ختم نبوت

یہ کتاب مکرم محترم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری کا علمی شاہکار ہے اور مقام خاتم النبیین کے حقیقی مفہوم کا آئینہ دار ہے جو پہلی دفعہ 1967ء میں ربوہ سے شائع کی گئی تھی ۔ اس کتاب میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے دعاوی کو تفصیل سے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مقام خاتم النبیین کا حقیقی مفہوم قرآن مجید، احادیث نبویہ اور سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ جس سے آنحضور ﷺ کی اعلیٰ اور ارفع شان اور مقام خاتم النبیین کے متعلق جماعت احمدیہ کے مبنی برحق مسلک کے برخلاف عامۃ المسلمین میں پھیلائے جانے والے گمراہ کن اور جھوٹے پروپیگنڈا کا کافی و شافی جواب بھی جمع ہوگیا ہے۔ اس علمی کتاب کے پس منظر کا کھوج لگائیں تو دراصل فاضل مصنف کا لاہور میں ایک معاند مولوی خالدمحمود ایم اے سے پرائیویٹ تبادلہ خیال ہوا تھا، ان مولوی صاحب نے طے شدہ امور سے انحراف کرکے باہمی گفتگو میں سے مخصوص حصے بعد میں اپنی ’’نصرت الاسلام‘‘ نامی کتاب میں طبع کروادیئے۔ محترم قاضی محمد نذیر صاحب اپنی اس کتاب میں مولوی مذکور کی کتاب ’’عقیدۃ الامۃ فی معنی ختم النبوۃ‘‘ کا علمی رد کرتے ہوئے ان کی شائع کردہ ’’نصرت الاسلام‘‘ کی قلعی بھی کھول دی ہے۔ موجودہ ٹائپ شدہ  ایڈیشن قادیان سے نظارت اشاعت نشر و اشاعت نے 2016ء میں شائع کیا ہے۔


Book Content

Page 1

مقام الله السلام خاتم النبین و ا ناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان

Page 2

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ اللَّهِ مقام خاتم النبيين || قاضی محمد نذیر لائلپوری سابق پرنسپل جامعه احمدیه ربوه اشر نظارت نشر و اشاعت قادیان.پنجاب

Page 3

نام کتاب مصنف مقام حاتم النَّبِيِّين : قاضی محمد نذیر لائلپوری صاحب سن اشاعت بار اول قادیان : 1976 حالیہ اشاعت تعداد شائع کردہ مطبع 2016: 1000: : نظارت نشر و اشاعت قادیان فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان ضلع گورداسپور ، پنجاب (143516) انڈیا Name of book Author : Maqam Khataman Nabiyyeen : Qazi Mohammad Nazeer Lailpuri First Edition in Qadian : 1976 Present Edition Quantity Published by Printed at : 2016 : 1000 : Nazarat Nashr-O-Ishaat Qadian :Fazl-e-Umar Printing Press Qadian Dist.Gurdaspur, Punjab, INDIA (143516) ISBN:978-93-83882-53-3

Page 4

عرض ناشر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: " حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفی اسی آیت خاتم النبیین وخیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 ص 170-169) کتاب زیر نظر میں مقام خاتم النبین سیم کا حقیقی مفہوم قرآن مجید، احادیث نبویہ اور سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ آنحضور صلی ایتم کی اعلیٰ و ارفع شان اور ختم نبوت کے متعلق جماعت احمدیہ کے عقیدہ کے برخلاف عامتہ المسلمین میں پھیلائے جانے والے گمراہ کن پروپیگنڈہ کا کافی وشافی جواب دیا گیا ہے.یہ کتاب مکرم و محترم محمد نذیر لائل پوری صاحب سابق پرنسپل جامعہ احمد یہ ربوہ کا علمی شاہکار ہے اور مقام خاتم النبین کے حقیقی مفہوم کی آئینہ دار ہے.یہ کتاب 1967 میں ربوہ میں پہلی بار شائع ہوئی.اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ مصنف کی یہ پیشکش قبول فرمائے اور اُن کو اجر عظیم سے نوازے.سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے نظارت نشر و اشاعت قادیان دور جدید کے تقاضوں اور اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر کتاب مقام خاتم النبین سلام کا پہلی بار کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن ہدیہ قارئین کر رہی ہے.فالحمد للہ علی ذالک اللہ تعالیٰ اس کتاب کی طباعت کے جملہ مراحل میں ممد و معاون تمام کارکنان کو جزائے خیر عطا فرمائے اور اس کتاب کو نافع الناس بنائے.آمین ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 5

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَىٰ رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین کے مقام پر سرفراز فرمایا ہے.اس میں کسی مسلمان کو اختلاف نہیں.جماعت احمدیہ کا امت محمدیہ سے اُصولی اتفاق ہے کہ اس آیت کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شارع اور مستقل نبی نہیں آسکتا.اور مسیح موعود نہ شارع نبی ہوگا نہ مستقل بلکہ وہ ایک پہلو سے نبی ہوگا اور ایک پہلو سے امتی.اس بارہ میں تمام بزرگانِ امت متفق ہیں.کچھ عرصہ ہوا کہ لاہور میں میرا ایک پرائیویٹ تبادلہ خیالات مولوی خالد محمود صاحب ایم.اے سے ہوا جن کی کتاب عقیدۃ الامۃ فی معنی ختم القوة کا جواب آگے دیا جا رہا ہے.تبادلۂ خیالات میں مولوی خالد محمود صاحب نے ہماری سخت حق تلفی کی تھی.کیونکہ باوجود فیصلہ کے ہمارا آخری وقت ہمیں نہیں دیا تھا اور بعد میں مباحثہ کی روئداد بنام نصرت الاسلام میں اپنی آخری ساری تقریر درج کرادی.اس کتاب میں عقیدۃ الامۃ کے جواب کے علاوہ نصرت الاسلام کے جواب کا قرض بھی پکا دیا گیا ہے.ربوه ۶۷-۱-۱۵ محمد نذیر لائل پوری سابق پرنسپل جامعہ احمد سید بود

Page 6

فہرست مضامین كتاب "مقام خاتم النبيين نمبر شمار 1 پیش لفظ مضمون 1 2 3 4 50 6 2 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعوی از روئے الہام الہامات مسیح موعود سے نزولِ ابنِ مریم کی احادیث کا حل.حضرت عیسی کے متعلق وفات کی تاویل زندہ اٹھا لینا کس نے کی.در حقیقت توفی کے معنی قبض روح ہیں 6 امام ابن قیم کے نزدیک حضرت مسیح کے ۳۳ سال کی عمر میں آسمان پر اٹھائے جانے کے متعلق کوئی حدیث موجود نہیں.8 احادیث نبویہ کے رُو سے حضرت عیسی ۱۲۰ سال زندہ رہے.لفظ رفع کا استعمال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے باعزت وفات کے معنوں میں.9 حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر قرآن کریم میں 10 ایڈیٹر المنار علامہ رشید رضا کا اعتراف ہجرت اور اس امر کا اعتراف کہ حیات مسیح کا عقیدہ عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں میں آیا.11 علامہ رشید رضا سابق مفتی مصر کی طرح علامہ محمود شلتوت مفتی مصر کا 7 8 9 10 وفات مسیح کے متعلق فتوی.

Page 7

نمبر شمار مضمون 12 امام مالک وفات مسیح کے قائل تھے.13 حدیث نبوی سے حضرت عیسی علیہ السلام کی ہجرت کا ثبوت.14 حدیثوں میں مسیح کے لئے نزول کا لفظ استعمال کرنے کی وجہ 15 پیشگوئیوں کے معنے کے متعلق اجماع نہیں ہو سکتا.16 حضرت عیسی علیہ السّلام کے اصالتاً نزول پر اجماع نہیں ہوا.17 بعض صوفیاء حضرت عیسی علیہ السّلام کے بروزی نزول کے قائل ہیں.18 نزول مسیح سے مراد کسی اور شخص کا فضل و شرف میں مسیح کے مشابہ ہونا مراد ہے.11 12 12 13 14 14 19 احادیث میں آنے والے مسیح موعود کو نبی اللہ قرار دیا گیا ہے.15 20 بخارتی کی حدیث کہ میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی نبی نہیں.21 علمائے امت کے ایک طبقہ کا عقیدہ کہ احادیث نبویہ کی رُو سے آنے والا مسیح موعود ایک پہلو سے نبی ہوگا اور ایک پہلو سے امتی.16 16 17 18 حديث لا وحی بعدی باطل ہے 23 حديث لا نبی بعدی اتنی نبی کے آنے میں روک نہیں.ii

Page 8

18 19 19 21 21 22 نمبر شمار مضمون بعض کے نزدیک آیت خاتم النبیین کی یہ تاویل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کا نبی آ سکتا ہے.نیا نبی پیدا نہیں ہوسکتا.اس تاویل کی وجہ حیات مسیح کا غلط عقیدہ ہے.25 آیت خاتم النبیین امتی نبی کے آنے میں روک نہیں.امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ کا قول کہ مسیح علیہ السلام کو آمد ثانی کے وقت مسلوب النبوۃ قرار دینا کفر ہے.27 علماء کا قول کہ مسیح علیہ السلام امت محمدیہ کے خلیفہ ہونے کے ساتھ اپنے پہلے حال کے مطابق نبی اور رسول ہوں گے.یہ بات ختم نبوت کے منافی ہے کیونکہ پہلی حالت میں وہ مستقل نبی تھے.اور مستقل نبی کا آنا چونکہ آیت خاتم النبیین کے منافی ہے اس لئے وہ انہیں امتی نبی قرار دیتے ہیں.پس وہ ایک نئی قسم کی نبوت کے حدوث کے قائل ہیں.ایک امتی نبی کے عقیدہ میں علماء امت جماعت احمدیہ سے متفق ہیں، اختلاف صرف مسیح موعود کی شخصیت کی تعیین میں ہے نہ کہ مقام میں.29 آیت استخلاف حضرت عیسی کے اصالتاً آنے میں روک ہے.iii

Page 9

نمبر شمار مضمون صفحه نمه 30 مولوی خالد محمود صاحب کا حضرت امام غزالی پر افتراء کہ وہ آیت خاتم النبیین کی تاویل کرنے والے کو کا فرقرار دیتے ہیں.31 امام غزالی علیہ الرحمۃ کا مذہب بحوالہ الاقتصاد کہ اجماع کے حجت ہونے میں بہت سے شبہات ہیں.24 25 32 امام موصوف نے تکفیر میں توقف نہ کرنے کے رجحان کو ڈور کیا ہے.27 33 مولوی خالد محمود صاحب حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ کے قول کو غلط طور پر سمجھتے ہیں.34 اس قول کا صحیح مفہوم 35 امام غزالی کے نزدیک نص شرعی کو مان کر اس کی تاویل میں غلطی موجب کفر نہیں.36 مولوی خالد محمود صاحب سے دوضروری سوال 37 مولوی خالد محمود صاحب خاتم النبیین کے معنے مطلق آخری نبی تسلیم نہیں کرتے ہیں.38 حضرت عیسی علیہ السّلام کی آمد ثانی کے قائل حدیث لا نبی بعدی میں تخصیص و تاویل کے قائل ہیں 40 احمدی خاتم النبیین کا حقیقی اور اصلی مفہوم خاتمیت مرتبی لیتے ہیں جس میں کسی تاویل کی ضرورت پیش نہیں آتی.29 22 29 31 32 32 33 33 33 34 =4 iv

Page 10

نمبر شمار مضمون 41 آیت خاتم النبیین کے حقیقی بلا تاویل و تخصیص معنے.42 مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے نزدیک خاتم النبیین کے معنے نبیوں کے لئے نبوت پانے میں مؤثر وجود کے ہیں.43 خاتمیت زمانی علی الاطلاق خاتمیت مرتبی کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی.44 مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کا قول کہ بعد زمانہ نبوی کسی نبی کے صفی نمبر 98 36 40 42 پیدا ہونے سے خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آتا کی تشریح.45 اس قول کے متعلق مولوی خالد محمود صاحب کے اعتراض کا جواب.43 46 خاتمیت محمدی خاتمیت مرتبی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے.لہذا خاتمیت زمانی امتی نبی کے لئے مانع نہیں.47 مولوی محمد قاسم صاحب کے نزدیک خاتمیت زمانی سے مُراد آخری شریعت لانے والا نبی ہے.48 امام علی القاری علیہ الرحمۃ کے نزدیک حدیث لا وحی بعد موتی باطل ہے.49 مولوی محمد قاسم صاحب کے نزدیک خاتم النبیین کا مفہوم نبوت کے مرتبہ میں سب سے بڑے نبی ہیں.50 ان کے نزدیک خاتمیت زمانی کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شریعت آخری شریعت ہے.45 46 48 50 50 51 V

Page 11

صفی نمیبه 55 56 56 نمبر شمار مضمون 51 مولوی خالد محمود صاحب کی علماء بریلی سے شکایت کہ وہ خاتمیت مرتبی کوھبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.جماعت احمدیہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت مرتبی اور زمانی دونوں کی قائل ہے.53 خاتم النبیین کے حقیقی معنی خاتمیت مرتبی ہیں.خاتمیت زمانی علی الاطلاق ان معنوں کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی.بلکہ ان معنوں کے ساتھ خاتمیت زمانی بطور لازم المعنی اس مفہوم میں جمع ہوسکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شارع اور آخری مستقل نبی ہیں.مولوی محمد قاسم صاحب کے قول ”ایسے ہی ختم نبوت بمعنی معروض کو تاخیر زمانی لازم ہے.“ پر ایک بریلوی عالم کا اعتراض اور ہماری طرف سے اس اعتراض کا جواب.55 امام علی القاری کے نزدیک خاتمیت زمانی کا مفہوم کہ کوئی ناسخ شریعت نبی پیدا نہیں ہوگا.بریلوی عالم کا دوسرا اعتراض اور اس کا جواب 56 خالد محمود صاحب خاتمیت زمانی علی الاطلاق قرار دے کر اس بریلوی عالم کو کوئی معقول جواب نہیں دے سکے.50 59 61 63 64 vi

Page 12

81 66 69 71 لا لله 73 77 نمبر شمار مضمون 57 بریلوی عالم کا اعتراف حقیقت که تمام انبیاء کو کمالات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے ہی ملے.58 ایک دیو بندی عالم کا بریلوی عالم کو مولوی محمد قاسم پر اعتراض کا جواب 59 ہمارا جواب کہ دیو بندی عالم کے جواب میں خامی ہے.آیات قرآنیہ سے خاتمیت مرتبی اور زمانی کا ثبوت 60 حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سے خاتم النبیین ہیں جبکہ آدم ابھی روح اور جسم کی درمیانی حالت میں تھا.61 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان معنی میں خاتم النبین ہیں کہ آپ ابو الانبیاء ہیں.62 آيت من يطع الله والرسول کے متعلق ہماری تشریح پر مولوی خالد محمود صاحب کا اعتراض اور ہمارا جواب، مولوی خالد محمود صاحب کا مغالطہ کہ حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ مسیح کی نبوت موسی کی پیروی سے ملی تھی.3 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے نزدیک حضرت موسٹی کے بعد بنی اسرائیل میں جس قدر نبی ہوئے انہوں نے مقامِ نبوت براہِ راست حاصل کیا ہے.موسیٰ کی پیروی کا اس میں دخل نہیں تھا.77 78 79 vii

Page 13

صفحه نمه 82 له له 82 83 83 84 - 85 مضمون نمبر شمار آنحضرت کی پیروی کی برکت سے اس اُمت میں ہزار ہا اولیاء ہوئے اور ایک وہ بھی ہوا جو امتی بھی ہے اور نبی بھی.65 حضرت مرزا صاحب حضرت عیسی کو تشریعی نبی نہیں مانتے.66 مولوی خالد محمود صاحب کا ایک مطالبہ کہ نئی اصطلاح نبوت کے متعلق کوئی آیت پیش کریں.اور ہمارا جواب.67 ہمارا مطالبه که مولوی خالد محمود صاحب مسیح کا بحیثیت امتی نبی آنے کے متعلق قرآن مجید کی آیت پیش کریں.68 مولوی محمد قاسم نے تمام انبیاء کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ظل اور عکس قرار دیا ہے.69 آیت يبني ادم اما ياتينكم رسل منكم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے بعد امکانِ نبوت کا ثبوت.70 اس آیت کے متعلق ہماری تشریح پر مولوی خالد محمود صاحب کی جرح.اور ہمارا جواب 71 مولوی خالد محمود صاحب کی دوسری جرح کہ اگر اس آیت سے اجرائے نبوت پر استدلال کیا جائے تو پھر تشریعی اور غیر تشریعی دونوں قسم کی نبوت کا دروازہ کھلا مانا پڑے گا.86 98 89 viii

Page 14

نمبر شمار مضمون 72 اس جرح کے متعلق ہما را جواب مولوی خالد محمود صاحب کا ایک مغالطہ کہ اگر غیر تشریعی نبوت رحمت ہے تو تشریعی نبوت بھی تو کوئی زحمت نہیں اور ہمارا جواب 73 حق بر زبان جاری.مولوی خالد محمود صاحب کا اعتراف حقیقت کہ حضرت مرزا صاحب نے ان لوگوں کی اصطلاح میں نہ تشریعی نبوت کا دعویٰ کیا ہے نہ غیر تشریعی مستقل نبوت کا.74 مولوی خالد محمود صاحب کا حضرت مرزا صاحب پر اپنی شانِ نبوت کے بارہ میں تدریجی انکشاف پر اعتراض اور ہمارا جواب 75 کسی نبی پر اس کی شان نبوت کے متعلق تدریجی انکشاف ہرگز قابل اعتراض نہیں.89 90 93 33 94 95 76 حضرت مجد والف ثانی کے نزدیک حصول نبوت کے دو طریق.95 77 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے مرتبہ کے متعلق تدریجی انکشاف ہوا.78 مولوی خالد محمود صاحب دشمنانِ اسلام کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تدریجی انکشاف پر اعتراض کرنے میں ہمنوا ہیں.79 حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ جو لوگ خدا تعالیٰ سے الہام پاتے ہیں وہ بن بلائے نہیں بولتے اور دن سمجھائے نہیں سمجھتے.96 96 88 98 99 ix

Page 15

نمبر شمار مضمون صفحه نمبر 80 حضرت مرزا صاحب کے عقیدہ نبوت میں تبدیلی صرف ایک تاویل کی تبدیلی ہے دعوی کی کیفیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.102 81 خالد محمود صاحب کا حضرت مسیح موعود کی عبارتوں کے متعلق مغالطات کا جواب.2 تبدیکی عقیدہ کا ثبوت.83 خالد محمود صاحب کا بیجا تعجب 84 حضرت مسیح موعود کی نبوت کے عقیدہ میں صرف ایک تبدیلی ہوئی کہ اس کی تاویل محدث درست نہیں.85 خالد محمود صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود کے بعض اشعار کی ترتیب کو بدل کر دانستہ طور پر غلط نتیجہ نکالا ہے.خالد محمود صاحب کی مفروضہ تیسری تبدیلی مسئلہ کفر و اسلام سے تشریعی نبی کے دعوی کا الزام بزعم خود منطقی طریق پر اور اس کا منطقی رور 86 تشریعی نبی کے دعوی کا الزام بحوالہ اربعین کا رڈ.87 حضرت مرزا صاحب پر جو الہامت قرآنی الفاظ میں بطور تجدید دین اور بیان شریعت کے طور پر نازل ہوئے اُن کی غرض تجدید دین ہے.104 110 113 115 117 119 122 124

Page 16

صفحه نمه 127 128 131 133 134 138 142 146 147 مضمون مبر شمار 88 خالد محمود صاحب کے الزام کارڈ کہ بعض احکام میں اسلامی شریعت کا فتویٰ اور ہے اور مرزائی شریعت اور کہتی ہے.89 امراؤل.مسئلہ جہاد میں اختلاف اور ہمارا جواب.90 امر دوم.مرزا صاحب نے حیات مسیح کے قائلین کو گنہگار قرار دیا ہے اور اس کا جواب.91 امرسوم.مرزا صاحب نے زکوۃ وعشر وغیرہ کے علاوہ ایک ماہواری چندہ بھی فرض قرار دیا ہے اور اس کا جواب.92 مولوی خالد محمود صاحب کا عقیدہ ختم نبوت میں چوتھی تبدیلی کے الزام کارڈ.93 مولوی خالد محمود صاحب کا ایک مطالبہ اور اس کا جواب.94 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے دعوئی مثیل مسیح کے متعلق مولوی خالد محمود صاحب کی بدگمانی اور اس کا جواب.مولوی خالد محمود صاحب کی انقطاع نبوت کے متعلق پیش کردہ احادیث 95 حدیث لا نبی بعدی کا مفہوم اکابرین امت کے نزدیک یہ ہے کہ آپ کے بعد ایسا نبی نہیں آ سکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ xi کرنے والا ہو.

Page 17

نمبر شمار مضمون صفحہ نمبر 96 تمہیں دجالوں والی حدیث کے متعلق مولوی خالد محمود صاحب کی چالا کی کا جواب 148 97 امام علی القاری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امتی نبی کو آیت خاتم النبیین کے معنوں کے منافی قرار نہیں دیا.149 98 ثلاثون دجالون والی حدیث میں تشریعی اور مستقلہ نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کا ذکر ہے.99 انقطاع نبوت کے متعلق خالد محمود صاحب کی پیش کردہ دوسری حدیث اور اس کا جواب.100 حديث اما ترضى ان تكون منّى بمنزلة هارون من موسى کے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ کی تشریح.101 انقطاع نبوت پر مولوی خالد محمود صاحب کی پیش کردہ تیسری حدیث اور اس کا جواب.102 انقطاع نبوت پر مولوی خالد محمود صاحب کی پیش کردہ چوتھی حدیث اور اس کا جواب.103 انقطاع نبوت پر خالد محمود صاحب کی بیان کردہ پانچویں حدیث 150 154 157 159 160 اور اس کا جواب.xii 163

Page 18

نمبر شمار مضمون صفحہ نمبر 104 | حضرت مولوی محمد قاسم صاحب کے نزدیک خاتمیت مرتبی کا مفہوم - 166 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علی الاطلاق تمام تشریعی اور غیر تشریعی 105 انبیاء سے افضل ہیں.167 آیت استخلاف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کے لئے وعدہ.168 106 حضرت شاہ ولی اللہ کے نزدیک خُتِمَ بی النبیون کا مفہوم یہ ہے 107 کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم آخری شارع نبی ہیں.خالد محمود صاحب کی انقطاع نبوت پر چھٹی حدیث لــم يـــق مــن 108 النبوة إلا المبشرات کا مفہوم.خالد محمود صاحب سے ضروری سوال کہ جب بقول ان کے حضرت 109 مسیح نازل ہوں گے تو اُن کی کیا حیثیت ہوگی.فتوحات مکیہ کے ایک قول کے متعلق خالد محمود صاحب کی غلط 110 تو جیہہ اور اس کا اصل مفہوم.خالد محمود صاحب کے امتی نبی.111 حضرت مسیح موعود علیہ السلام مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کی 112 طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت مرتبی اور خاتمیت زمانی دونوں کے قائل ہیں.113 امت میں امکانِ نبوت کے متعلق احادیث نبویہ.169 170 172 174 176 177 181 xiii

Page 19

نمبر شمار مضمون صفحہ نمبر 114 الى حديث : ابو بكر افضل هذه الامة الا ان يكون نبي.- 181 115 دوسری حدیث: ابو بكر و عمر سيدا كهول اهل الجنّة.116 تیسری حدیث: الخلافة فيكم والنبوة 117 چوتھی حديث : "نبيها منها 118 پانچویں حدیث لیس بینی و بینه نبی.119 چھٹی حدیث: ولو عاش لكان صديقًا نبيًّا.181 182 183 186 187 120 حدیث لو عاش ابراهيم پر حضرت علامہ علی القاری کی رائے.190 121 اس حدیث پر ایک سوال اور اس کا جواب.122 صاحبزادہ حضرت ابراہیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بالقوۃ نبی تھے.123 | مولوی خالد محمود صاحب کی ایک غلط بیانی.191 192 192 124 حدیث لانبی بعدی کے متعلق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مذہب اور اس کی تشریح.196 125 حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک آئندہ نبی ہونے کا امکان موجود تھا.200 126 امام الصوفیا ء اشیخ الاکبر حضرت محی الدین ابن العربی علیہ الرحمہ کے اقوال.200 127 خالد محمود صاحب کی حیلہ جوئی.نبوت مطلقہ نبوت کی جز وذاتی ہے.202 128 شیخ اکبر حضرت عیسی علیہ السّلام کے اصالتا نزول کے قائل نہ تھے.206 xiv

Page 20

نمبر شمار مضمون 129 شیخ اکبر علیہ الرحمہ کے نزدیک نبوت عامہ کا امکان موجود ہے.130 حضرت سید عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کا عقیدہ.131 سید عبدالکریم جیلانی علیہ الرحمۃ کا مذہب.132 آپ کے نزدیک آیت خاتم النبیین کے معنے.133 حضرت امام عبدالوہاب شعرانی ” کا عقیدہ اور نبوت کی تقسیم.134 مولوی خالد محمود صاحب سے ہمارا سوال.135 بعض بزرگانِ امت پر آیات قرآنیہ کا نزول.136 حضرت امام علی القاری علیہ الرحمۃ کا عقیدہ.صفحہ نمبر 206 211 212 213 214 220 221 223 137 خالد محمود صاحب کی طرف سے حضرت علی القاری علیہ الرحمۃ کے پیش کردہ بعض اقوال اور ہماری طرف سے ان کی تشریح.138 حضرت شیخ احمد سرہندی مجد دالف ثانی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ.139 حضرت مولانا روم علیہ الرحمۃ کا عقیدہ 140 حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ کا عقیدہ 224 232 237 240 141 نبوت کی جو تعریف مولوی خالد محمود صاحب کے نزدیک ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے آپ کو اس کا مصداق قرار نہیں دیا ہے.242 142 انقطاع نبوت کے لئے مولوی خالد محمود صاحب نے حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کے جس قد راقوال پیش کئے ہیں وہ سب تشریعی XV

Page 21

نمبر شمار مضمون اور مستقلہ نبوت سے تعلق رکھتے ہیں.143 مولوی خالد محمود صاحب سے ایک ضروری سوال.144 خالد محمود صاحب سے ہمارا ایک سوال 145 مولوی عبدالحی صاحب کا عقیدہ 146 حکیم صوفی محمد حسین صاحب کا عقیدہ نبوت کی دو قسمیں منقطع اور صفحہ نمبر 242 244 244 245 247 147 امام راغب علیہ الرحمہ کے نزدیک امت محمدیہ میں نبی کا امکان.247 148 امام راغب علیہ الرحمۃ کی تفسیر 149 ہماری کتاب علمی تبصرہ “ پر مولوی خالد محمود صاحب کا اعتراض اور ہماری طرف سے اس کا جواب.150 خالد محمود صاحب کے اس الزام کا جواب کہ گویا میں نے امام راغب علیہ الرحمۃ اور فاضل اندلسی کی عبارت کو گڈ مڈ کر کے پیش کیا ہے.خالد محمود صاحب کا ہمارے خلاف دوسرا الزام کہ گویا ہم نے امام راغب کی بات کو نقل کرنے کے بعد اُن کی بیان کردہ ترکیب نحوی کو چھوڑ دیا ہے.151 | ہماری طرف سے اس کا جواب 152 امام راغب کی دوسری توجیہہ کی خامی.249 252 254 255 256 xvi

Page 22

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مقام خاتم انا بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اس بات کے مدعی ہیں کہ احادیث نبویہ میں جس مسیح موعود کے امت محمدیہ میں آنے کی پیش گوئی سرور کائنات فخرِ موجودات حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے بیان ہوئی ہے، اس کے مصداق آپ ہیں.اور خدا تعالیٰ نے آپ کو اپنے الہامات کے ذریعہ بطور استعارہ احادیث نبویہ کا موعود مسیح ابن مریم قرار دیا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا:.66 جَعَلْنَاكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ.“ کہ ہم نے تمہیں مسیح ابن مریم بنا دیا ہے.اور بطور تشریح فرمایا:.(ازالہ اوہام صفحه ۶۳۲ و تذکره صفحه ۱۹۱) و مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو گیا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے.وَكَانَ وَعْدُ اللَّهِ مَفْعُولًا.(ازالہ اوہام صفحه ۵۶۱)

Page 23

نیز فرمایا:.مقام خاتم انا أَنْتَ أَشَدُّ مُنَاسَبَةٌ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَاشْبَهُ النَّاسِ بِهِ خُلُقًا وَخَلْقًا وَزَمَانًا ، (ازالہ اوہام صفحه ۱۲۴) یعنی تو عیسی بن مریم سے سب سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور تو خُلق اور خلقت اور زمانہ کے لحاظ سے سب لوگوں سے بڑھ کر اُس کے مشابہ ہے.پس حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السّلام کے ان الہامات نے احادیث نبویہ کی اُس پیشگوئی کو حل کر دیا ہے جو صیح بخاری میں ان الفاظ میں موجود ہے:.كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَانَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ اور جو صحیح مسلم میں ان الفاظ میں مروی ہے:.كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَانَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ فَامَّكُمْ مِنْكُمْ ان احادیث میں مسیح موعود کو مجاز اور استعارہ کے طور پر ابن مریم کا نام دیا گیا ہے.کیونکہ اسے امت محمدیہ کا ایک فرد بیان فرما کر اُمت کا امام قرار دیا گیا ہے.امــامـکـم مـنـكـم اور فامکم منکم کے الفاظ بطور قرینہ لفظیہ لائے گئے تھے.مگر اجتہادی غلطی سے کئی علمائے امت نے ابنِ مریم کے نزول سے مراد اصالتا حضرت عیسی علیہ السلام کا دوبارہ آنا سمجھ لیا.کیونکہ عیسائیوں نے مسلمانوں میں حضرت عیسی کے زندہ آسمان پر اُٹھائے جانے اور ان کے اصالتا دوبارہ نازل ہونے کا عقیدہ پھیلا رکھا تھا.اسی غلطی کی وجہ سے مفسرین نے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے متعلق صریح الدلالت قرآنی الفاظ مُتَوَفِّیک اور تَوَفَّيْتَنِی کی تاویل آسمان پر زندہ معہ روح جسم اُٹھایا

Page 24

(r) مقام خاتم النب جانا کر لی.حالانکہ توفی اور اس کے مشتقات محاورہ زبان عربی میں خدا تعالیٰ کے فاعل اور انسان کے مفعول ہونے کی صورت میں ہمیشہ قبض روح کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں نہ کر قبض الروح مع الجسم کے معنوں میں تفسیر فتح البیان میں مفسرین کی اس تاویل کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے:.إِنَّمَا احْتَاجَ الْمُفَسِّرُوْنَ إِلَى تَأْوِيْلِ الْوَفَاةِ بِمَا ذُكِرَ لَانَّ الصَّحِيحَ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى رَفَعَهُ إِلَى السَّمَاءِ مِنْ غَيْرِ وَفَاةٍ كَمَا رَجَعَهُ كَثِيرٌ مِنَ الْمُفَسِرِيْنَ وَاخْتَارَهُ ابْنُ جَرِيرِ الطَّبْرِيُّ.وَوَجْهُ ذَلِكَ أَنَّهُ قَدْصَيَّ فِي الْأَخْبَارِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ترجمه نُزُوْلُهُ وَقَتْلُهُ الدَّجَّالَ.(فتح البیان جلد ۲ صفحه ۴۹) بے شک مفسرین نے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کی نص کی مذکورہ تاویل اس لئے کی ہے کہ یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمان کی طرف وفات کے بغیر اُٹھالیا.جیسا کہ اکثر مفسرین نے اس بات کو ترجیح دی ہے اور ابن جریر طبری نے اسے اختیار کیا ہے اور وجہ اس کے اختیار کرنے کی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح پیشنگوئیوں میں اس کے نزول اور قتل دجال کا ذکر آیا ہے.پس مسیح کے آسمان پر زندہ اُٹھایا جانے کی تاویل ابن جریرطبری کی ایجاد ہے جومحض ایک مؤرخ اور مفسر ہے.اور اس کی نقل میں باقی علماء نے اس عقیدہ کو بلاسوچے سمجھے اختیار

Page 25

(c) مقام خاتم ا کر لیا.اور اس کو اپنی تفسیروں میں نقل کرنے لگے جس سے یہ عقیدہ شہرت پا گیا.ان علماء نے احادیث نبویہ پر غور نہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نازل ہونے والے ابنِ مریم کو امت محمدیہ میں سے ایک فرد قرار دے کر اُسے امت کا امام ٹھہرایا تھا.اور نہ اس بات کی طرف توجہ کی کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے حق میں تو قرآن مجید میں اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَی کے الفاظ وارد ہیں.جن میں خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السّلام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ یہ یہودی تمہیں قتل نہیں کر سکتے.میں تمہیں طبعی وفات دوں گا.اور اپنی طرف اُٹھاؤں گا.اس سے ظاہر ہے کہ مسیح علیہ السّلام سے خدا کا وعدہ وفات دے کر اپنی طرف ان کے رفع کرنے کا تھا.رفع کا لفظ عربی زبان میں باعزت وفات دینے کے معنوں میں بھی آتا ہے.لیکن چونکہ یہ عقیدہ بن گیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ معہ روح و جسم اُٹھائے گئے اس لئے مفترین توفی کی تاویل پورا پورا لینا کرنے لگے.حالانکہ عربی زبان میں یہ لفظ خدا کے فاعل اور انسان کے مفعول بہ ہونے کی صورت میں ہمیشہ قبض روح کے معنوں میں استعمال ہوتا رہا ہے.چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس سے مُتَوَفِّيْكَ کے معنے مُمِيْتُک تجھے موت دینے والا بیان ہوئے ہیں.اور امام لغت علامہ زمخشری نے اس کے معنی مُمِيْتُكَ حَتْفَ انْفِكَ لَا قَتْلاً بِأَيْدِيْهِمْ لکھے ہیں.( تفسیر کشاف زیر آیت ہذا ) یعنی خدا تعالیٰ نے کہا کہ اے عیسی میں تجھے طبعی وفات دینے والا ہوں تو یہودیوں کے ہاتھ سے قتل نہیں ہوگا.بعض مفسرین نے مُتَوَفِّیک کی اس تاویل پورا لینے کو تو پسند نہ کیا.اس لئے انہوں نے مُتَوَفِّیک کے معنی تو وفات ہی کے کئے مگر انہوں نے اس آیت میں یہ تاویل کر لی کہ رَافِعُكَ اِلَی کا وعدہ خدا نے پہلے پورا کر دیا ہے اور مُتَوَفِّیگ کا وعدہ بعد

Page 26

میں پو را کرے گا.مقام خاتم انا یہ مختلف تاویلیں اس لئے کی گئیں کہ عیسائیوں کے اثر ماتحت یہ عقیدہ بن چکا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ اُٹھائے گئے ہیں.اور وہی اصالتاً دوبارہ نازل ہوں گے.پھر عیسائیوں کی تقلید میں ہی مسلمانوں کا یہ عقیدہ بن گیا کہ وہ ۳۳ سال کی عمر میں زندہ آسمان پر اُٹھائے گئے ہیں.حالانکہ اسلام میں کوئی ایسی حدیث موجود نہیں جو۳۳ سال کی عمر میں یا کسی اور عمر میں اُن کے زندہ معہ روح و جسم آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر کرتی ہو.امام ابن القیم نے زادالمعاد میں لکھا ہے:.ترجمه " أَمَّا مَا يُذْكَرُ عَنِ الْمَسِيحِ أَنَّهُ رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ وَلَهُ ثَلَاثَةٌ وَ ثَلاثُوْنَ سَنَةً فَهَذَا لَا يُعْرَفُ لَهُ اَثَرٌ مُتَّصِلٌ يَجِبُ الْمَصِيرُ إِلَيْهِ.“ 66 (زادالمعادجلد اصفحہ ۱۹ مطبوعہ مطبع نظامی کانپور ) یہ جو بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ۳۳ سال کی عمر میں آسمان پر اٹھائے گئے تو اس کے لئے کوئی ایسی متصل روایت نہیں پائی جاتی جس کی طرف رجوع کرنا واجب (ضروری) ہو.اس بیان پر صاحب فتح البیان لکھتے ہیں:." وَقَالَ الشَّامِيْ هُوَ كَمَا قَالَ فَإِنَّ ذَلِكَ يُرْوَى عَنِ النَّصَارَى وَ الْمُصَرَّحُ بِه فِى الْأَحَادِيثِ النَّبَوِيَّةِ أَنَّهُ رُفِعَ وَهُوَ ابْنُ مِائَةٍ وَعِشْرِيْنَ سَنَةً.“ ( تفسیر فتح البیان جلد ۲ صفحه ۴۹)

Page 27

ترجمه مقام خاتم انا اور شامی نے کہا ہے کہ بات اسی طرح ہے (جیسے امام ابن قیم نے کہی ہے) کیونکہ یہ بات عیسائیوں سے مروی ہے اور احادیث نبویہ میں تصریح سے بیان ہوا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا رفع اُس وقت ہوا جبکہ ان کی عمر ایک سو بیس سال کی تھی.“ شامی نے جن احادیث کا اس جگہ ذکر کیا ہے ان میں اُٹھانے کے معنوں کے لئے تو کوئی لفظ موجود نہیں.بلکہ "عاش کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں زندہ رہا.چنانچہ ایسی احادیث کے الفاظ یہ ہیں :.إِنَّ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَاشَ مَا نَةً وَعِشْرِيْنَ سَنَةً.“ 66 ( کنزل العمال جلد ۴ و مستدرک للحاکم صفحه ۱۴۰) یعنی بے شک عیسی بن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے.پس احادیث نبویہ سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے ایک سو بیس سال کی عمر میں وفات پائی.پس اگر شامی کی مراد رفع سے باعزت وفات ہے جس میں رُوح آسمان کی طرف اُٹھائی جاتی ہے تو ہمیں اعتراض نہیں.ورنہ لفظ عـاش کی تاویل رفع جسمانی کے معنوں میں بالکل غلط تاویل ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منشاء کے صریح خلاف ہے.رفع الی اللہ کا محاورہ عربی زبان میں باعزت وفات کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.چنانچہ حضرت انسؓ سے بحوالہ ابن جریر بن مردویہ بہتی میں ہے أَكْرَمَ اللهُ نَبِيَّةَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرِيَهُ فِي أُمَّتِهِ مَا

Page 28

مقام خاتم انا ترجمه يَكْرَهُ فَرَفَعَهُ إِلَيْهِ وَبَقِيَتِ النَّقْمَةُ.“ 66 خدا نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز کیا ہے کہ آپ کو رویا میں تو اپنی امت میں وقوع میں آنے والی وہ بات دکھا دی جسے آپ نا پسند کرتے تھے.پس اُس نے آپ کو اپنی طرف اُٹھا لیا.( یعنی با عزت وفات دے دی) اور فتنہ وفساد( پیچھے ) باقی رہ گیا.حضرت انس نے اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے رَفَعَهُ إِلَيْهِ خدا نے آپ کو اپنی طرف اُٹھالیا ) کے الفاظ یہ ظاہر کرنے کے لئے استعمال کئے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو باعزت طریق سے وفات دی.کیونکہ امت کا فتنہ وفساد آپ کی زندگی میں وقوع میں نہیں آیا.انہی معنوں میں خدا تعالیٰ نے آیت کریمہ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ میں مُتَوَفِّيْكَ ( تجھے وفات دینے والا ہوں ) کے بعد رافِعُكَ کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو تسلی دی جائے کہ انہیں طبعی وفات دی جائے گی.اور باعزت طریق سے دی جائے گی.یہودی انہیں صلیب پر نہیں مارسکیں گے.اس سے پہلی آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا:.مَكَرُوْا وَمَكَرَ اللَّهُ وَ اللَّهُ خَيْرُ الْمَا كِرِيْنَ یعنی یہودیوں نے مسیح کو صلیب پر مارنے کی تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بچانے کی تدبیر کی.اور خدا تد بیر کرنے والوں میں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے.

Page 29

۴۸ مقام خاتم انبیر اس آیت سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کو صلیبی موت سے تدبیر کے ذریعہ بچایا ہے.آسمان پر زندہ اُٹھا لینا تو معجزہ نمائی ہے.اُسے تدبیر قرار نہیں دیا جا سکتا.تدبیر وہ امر ہوتا ہے جس کا مقابلہ دوسرا شخص تدبیر سے کر سکے.پس اگر یہ کہا جائے کہ یہودیوں کی تدبیر کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اُٹھا لیا تو یہ قدرت نمائی تو کہلا سکتی ہے تدبیر نہیں کہلا سکتی.پس قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیبی موت سے بچا کر انہیں دشمن کے ہاتھوں سے نکال کر ہجرت کرا دی.اور پھر کامیاب زندگی گزارنے کے بعد باعزت طریق سے وفات دی.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:.وَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمَاكِرِيْنَ (انفال - آیت ۳۱) یعنی لوگ آپ کے خلاف قتل کی تدبیر کر رہے ہیں اور اللہ بھی تدبیر کر رہا ہے.اور اللہ تد بیر کرنے والوں میں سے بہتر تد بیر کرنے والا ہے.چنانچہ خدائی تدبیر کے ماتحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن آپ کو قتل کرنے پر قادر نہ ہو سکے.اور خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرادی.حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ کی ہجرت کا ذکر قرآن کریم میں ان الفاظ میں آیا ہے:.جَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمُّهُ آيَةً وَّاوَيْنَهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ (سورۃ مؤمنون آیت ۵۱)

Page 30

مقام خاتم النی یعنی ہم نے ابنِ مریم اور اس کی ماں کو نشان بنایا.اور ان دونوں کو ایک بلند زمین پر پناہ دی جو آرام دہ اور چشموں والی ہے.علامہ رشید رضا سابق مفتی دیار مصریہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحقیق کو مان لیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے کشمیر میں ہجرت کی اور سری نگر میں وفات وو پائی.چنانچہ وہ اِس بارہ میں اپنے رسالہ ” المنار مطبوعہ مصر میں حضرت بانی سلسلہ احمد یہ علیہ السلام کے حضرت عیسی علیہ السلام کی کشمیر کی طرف ہجرت سے متعلق دلائل درج کرنے کے بعد مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں:.فَفَرَارُهُ إِلَى الْهِنْدِ وَمَوْتُهُ فِي ذلِكَ الْبَلَدِ لَيْسَ بِبَعِيْدٍ عَقْلاً وَلَا نَقْلاً (المنار جلد ۵ صفحه ۹۰۱) یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کا ہندوستان کی طرف فرار کر جانا اور شہر ( سرینگر ) میں وفات پا جانا عقل و نقل سے بعید نہیں.پھر آپ تحریر فرماتے ہیں:.هِيَ عَقِيْدَةُ أَكْثَرِ النَّصَارَىٰ وَقَدْ حَاوَلُوْا فِيْ كُلَّ زَمَانٍ مُنْذُ ظُهُورِ الْإِسْلَامِ بَنَّهَا فِي الْمُسْلِمِيْنَ.(الفتاوى) کہ حیات مسیح کا عقیدہ اکثر عیسائیوں کا عقیدہ ہے.اور انہوں نے ظہورِ اسلام سے لے کر ہر زمانہ میں اسے مسلمانوں میں پھلانے کی کوشش کی ہے.

Page 31

(I.) مقام خاتم پس حیات مسیح کا عقیدہ مسلمانوں میں عیسائیوں کے ذریعہ پھیلا ہے اور اب بڑے بڑے علماء مصر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کو پڑھنے کے بعد وفات مسیح علیہ السلام کے قائل ہو چکے ہیں.علامہ رشید رضا کی طرح علامہ محمود شلتوت منتظم اعلی از ہر یونیورسٹی مصر نے بھی وفات مسیح کا فتویٰ دیا ہے.وہ وفات مسیح علیہ السلام کے متعلق مفصل بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں:.” إِنَّهُ لَيْسَ فِي الْقُرْآنِ وَلَا فِي السُّنَّةِ الْمُطَهَّرَةِ مُسْتَنِدٌ يَصْلُحُ لِتَكْوِيْنِ عَقِيْدَةٍ يَطْمَئِنُّ إِلَيْهَا الْقَلْبُ بِأَنَّ عِيْسَى رُفِعَ بِجِسْمِهِ إِلَى السَّمَاءِ وَأَنَّهُ إِلَى الْأَن فِيْهَا وَأَنَّهُ سَيَنْزِلُ مِنْهَا فِي آخِرِ الزَّمَان إِلَى الْأَرْضِ.، ترجمه الرساله مورخها ارمنی ۱۹۴۲ء القاہره والفتاوی مطبوعہ مصر ) قرآن مجید اور سنت مطہرہ ( نبویہ ) میں کوئی ایسی سند موجو د نہیں جس سے اس عقیدہ پر دل مطمئن ہو سکے کہ حضرت عیسی اپنے جسم کے ساتھ آسمان پر اُٹھائے گئے.اور اب تک وہ آسمان پر زندہ ہیں اور یہ کہ وہی آخری زمانہ میں آسمان سے زمین کی طرف نازل ہوں گے.اس سے ظاہر ہے کہ اب علمائے اسلام رفتہ رفتہ اس سچائی کو قبول کرتے جارہے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور وہ دوبارہ نہیں آئیں گے.پرانے بزرگوں میں سے امام مالک کا مذہب یہ لکھا ہے:.

Page 32

وَقَالَ مَالِكٌ مَاتَ مقام خاتم انا ( تکمله مجمع البحار صفحه ۲۸۶) کہ امام مالک نے کہا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پا گئے.اور امام ابنِ حزم کا مذہب بھی یہی لکھا ہے:.تَمَسَّكَ ابْنُ حَزْمٍ بِظَاهِرِ الْآيَةِ وَقَالَ بِمَوْتِهِ (جلالین زیر آیت متوفیک) کہ امام ابن حزم نے آیت کے ظاہری معنوں کو اختیار کیا اور حضرت عیسی علیہ السّلام کی موت کے قائل ہیں.پس چونکہ مسلمانوں میں یہ غلط عقیدہ عیسائیوں نے پھیلا دیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں اور وہی دوبارہ آئیں گے.اس لئے علماء اسلام نے حیات مسیح کے قائل ہو کر جب احادیث نبویہ میں ابن مریم کے نزول کی پیشگوئی ملاحظہ کی تو یہ اجتہاد کر لیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں.اور وہی دوبارہ آئیں گے.اور ان قرآنی آیات کی جن میں صریح طور پر وفات مسیح کا ذکر تھا.تاویلات کرنے لگے.جیسا کہ قبل ازیں مذکور ہوا.حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایک سو بیس برس زندہ رہے ہیں.اور یہ بھی فرما دیا تھا کہ:.وَأَوْحَى اللَّهُ تَعَالَى إِلَى عِيْسَى أَنْ يَا عِيْسَى انْتَقِلْ مِنْ مَكَانِ إِلَى مَكَانِ لِئَلَّا تُعْرَفَ فَتُؤْذِى.(کنز العمال صفحه ۳۴ جلد۴) کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی کو وحی کی کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا

Page 33

(ir) مقام خاتم انا جاتا تو پہچان نہ لیا جائے اور پھر دُکھ نہ دیا جائے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن مریم کی پیشگوئی میں فرما دیا تھا کہ یہ ابنِ مریم تم میں سے تمہارا امام ہوگا تا کہ لوگ اس شبہ میں نہ پڑیں کہ اسرائیلی مسیح کا آنا مراد ہے.لیکن افسوس کہ جس محبہ سے بچانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ اور فَامَّكُمْ مِنْكُمْ کے الفاظ استعمال فرمائے تھے اُمت ان الفاظ کی موجودگی میں عیسائیوں کے پراپیگنڈا سے متاثر ہو کر اُسی شبہ میں گرفتار ہوگئی.(وكان ذلك قدرًا مقدورًا) نزول کے لفظ سے بھی علماء کو غلطی میں نہیں پڑنا چاہیئے تھا کیونکہ نزول کا لفظ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے لئے بھی بطور ا کرام و اعزاز قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:.ترجمه قَدْ أَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًارَّسُوْلاً يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ لِيُخْرِجَ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّوْرِ.( طلاق ع ۲ آیت ۱۲-۱۱) بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف ذکر یعنی رسول کو نازل کیا ہے جو تم پر اللہ کی آیات پڑھتا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر ٹور کی طرف لے آئے.پس جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نزول کا لفظ بطور اعزاز واکرام استعمال ہوا ہے حالانکہ آپ اپنی والدہ محترمہ کے بطن سے پیدا ہوئے.ویسے ہی مسیح موعود کے لئے حدیثوں میں نزول کا لفظ اکراماً استعمال ہوا ہے.

Page 34

پیشگوئیوں میں اجماع نہیں ہوسکتا، مقام خاتم انا پیشگوئی کے ظہور سے پہلے ضروری نہیں کہ اس کے مفہوم کے بارہ میں علماء کی اجتہادی رائے بالکل ہی صحیح ہو.کیونکہ پیشگوئی کی پوری حقیقت دراصل اس کے وقوع پر ہی کھلتی ہے.اسی لئے فقہاء اسلام نے پیشگوئی میں اجماع پایا جانے سے انکار کیا ہے.کیونکہ پیشگوئی کے وقوع سے پہلے اس کے معنی محض ایک رائے کی حیثیت رکھتے ہیں.جس میں غلطی ہو جانے کا بھی احتمال ہوتا ہے.چنانچہ مسلم الثبوت میں لکھا ہے:.أَمَّا فِي المُسْتَقْبِلَاتِ كَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ وَأُمُورِ الْآخِرَةِ فَلَا (اجماع) عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ لِأَنَّ الْغَيْبَ لَا مَدْخَلَ لَهُ فِي الْإِجْتِهَادِ.“ (مسلم الثبوت مع شرح صفحه ۲۴۶) یعنی جو امور زمانہ مستقبل سے تعلق رکھتے ہیں جیسے علامات قیامت اور اُمورِ آخرت ان میں حنفیوں کے نزدیک اجماع نہیں کیونکہ امر غیب میں اجتہاد کا کوئی دخل نہیں.پس اگر اُمت کے سارے علماء بھی اس بات پر اتفاق کر لیتے کہ نزول ابنِ مریم کی پیشگوئی سے مُراد حضرت عیسی علیہ السلام کی اصالتا آمد ہے.تب بھی ان علماء کی یہ رائے اجماع نہ کہلا سکتی.لیکن اب تو اس مسئلہ کا یہ حال ہے کہ گوا کثر علماء حضرت عیسی علیہ السلام کی اصالتاً آمد کے قائل رہے ہیں لیکن ایک گروہ مسلمانوں کا اس بات کا بھی قائل رہا ہے کہ ابنِ مریم کے نزول سے مراد یہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام حضرت عیسی علیہ السلام کا بروز ہوں گے.چنانچہ عبد الکریم صاحب صابری اپنی کتاب ”اقتباس الانوار میں لکھتے ہیں:.

Page 35

مقام خاتم الن رُوحانیت گمل گا ہے برار باب ریاضت چناں تصرف مے نمائد کہ فاعل افعال شاں مے گردو و ایں مرتبه راصو فیاء بروز می گویند بعضے برآئند که روح عیسی در مهدی بروز کند واز نزول عبارت ہمیں بروز است مطابق ایس حدیث کہ لَا الْمَهْدِى إِلَّا عِيْسَى “ (ابن ماجہ ) (اقتباس الانوار صفحه ۵۲) یعنی کاملین کی روحانیت کبھی ارباب ریاضت پر ایسا تصرف کرتی ہے کہ وہ ان مرتاضین کے افعال کا فاعل بن جاتی ہے اور اس مرتبہ کے پانے کو صوفیاء بروز قرار دیتے ہیں.بعض کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی رُوح مہدی میں بروز کرے گی اور نزول عیسی سے مراد یہی بروز ہے مطابق اس حدیث کے کہ عیسی کے سوا کوئی مہدی نہیں.امام سراج الدین ابن الوردی اپنی کتاب خریدة العجائب وفريدة الرغائب کے صفحہ ۲۱۴ میں لکھتے ہیں :.وَقَالَتْ فِرْقَةٌ مِنْ نُزُوْلِ عِيْسَى خُرُوْجُ رَجُلٍ يَشْبَهُ عِيْسَى فِي الْفَضْلِ وَالشَّرْفِ كَمَا يُقَالُ لِلرَّجُلِ الْخَيْرِ مَلَكٌ وَلِلشَّرِيْرِ شَيْطَانٌ تَشْبِيْهَا بِهِمَا وَلَا يُرَادُ الْأَعْيَانُ.یعنی ایک گروہ نے کہا ہے کہ نزول عیسی سے ایک ایسے آدمی کا ظہور مُراد ہے جو فضل و شرف میں حضرت عیسی کے مشابہ ہوگا.جیسے کہ ایک نیک آدمی کو فرشتہ کہہ دیتے ہیں اور شریر آدمی کو شیطان کہہ دیتے ہیں مگر اس سے فرشتہ اور شیطان کی ذات مراد نہیں ہوتی.“

Page 36

(10) گو امام سراج الدین کا اپنا خیال یہی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اصالتا نازل ہوں گے مگر آخر میں وہ واللہ اعلم کہہ کر اصل حقیقت کا علم خدا کے حوالے کرتے ہیں.پس حضرت عیسی علیہ السلام کے اصالتاً نازل ہونے کا عقیدہ اُمت میں متفق علیہ عقیدہ نہیں رہا.اور اب امت محمدیہ میں مسیح موعود کے ظہور نے واقعات کے ذریعہ پیشگوئی کی اصل حقیقت کھول دی ہے.لہذا اب حیات مسیح علیہ السلام اور اُن کی اصالتا آمد کے خیال پر اصرار کسی طرح بھی جائز نہیں.اور پہلے بزرگوں کے اسی عقیدہ سے حجت پکڑنا انہیں ارباب من دون اللہ قراردینے کے مترادف ہے.(اعاذنا اللہ منھا) 00000 احادیث نبویہ میں مسیح موعود کا لحق اللہ ہونا احادیث نبویہ میں امت محمدیہ میں آنے والے مسیح موعود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی اللہ قرار دیا ہے.چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث میں جو نواس بن سمعان سے مروی ہے، چار دفعہ نبی اللہ قرار دیا گیا ہے.اور فرمایا ہے:.وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى.ثُمَّ يَهْبطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيْسَى وَأَصْحَابُهُ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيْسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ.(مشكوة باب العلامات بین یدی الساعة وذکر الدجال ) ایک دوسری حدیث میں جو صحیح بخاری میں مروی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:.

Page 37

إِنَّهُ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ کہ میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی نبی نہیں.مقام خاتم انا (کتاب بدء الخلق ) طبرانی کی ایک روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کو نبی اور رسول قرار دے کر فرمایا ہے:.أَلَا إِنَّهُ خَلِيْفَتِي فِي أُمَّتِي که سُن لووہ میری اُمت میں میرا خلیفہ ہے.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کو ایک پہلو سے اتنی اور ایک پہلو سے نبی قرار دیا ہے.اور اپنا خلیفہ کہہ کر یہ بتا دیا ہے کہ وہ نمئی نائب اور رسُولِ نائب کی حیثیت رکھے گا.علمائے اُمت کا عقیدہ علمائے امت کے ایک طبقہ نے ان احادیث نبویہ سے مسیح کی اصالتاً آمد خیال کر کے مسیح موعود کو احادیث نبویہ کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسا نبی اور رسول قرار دیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے تابع ہوگا.امت کے لے حکم ہوگا.اُمتیوں کی طرح خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے گا.گویا ایک پہلو سے نبی ہوگا اور ایک پہلو سے امتی اور اس طرح اُسے ایک جدید قسم کی نبوت حاصل ہوگی جو پہلے کسی نبی کو حاصل نہیں ہوئی.پس مسیح موعود امتی نبی کی آمد کو ائمہ دین اور علمائے امت نے آیت خاتم النبيين

Page 38

(12) مقام خاتم ا اور لا نبی بعدی وغیرہ انقطاع نبوت پر دلالت کرنے والی احادیث کے منافی نہیں سمجھا.بلکہ ایسی احادیث کی انہوں نے یہی توجیہ کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شریعت جدیدہ لانے والا کوئی نبی نہیں آسکتا.چنانچہ امام علی القاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:.أَمَّا الْحَدِيْتُ لَا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتِيْ با طِلْ وَلَا أَصْلَ لَهُ نَعَمْ وَرَدَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَمَعْنَاهُ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ لَا يَحْدُتُ بَعْدَهُ نَبِيٌّ بِشَرْعِ يَنْسَخُ شَرْعَهُ.(الاشاعة في اشراط الساعة صفحه ۲۴۶) یعنی حديث لا وحي بعد موتی باطل اور بے اصل ہے.ہاں حدیث میں لا نبی بعدی کے الفاظ وارد ہیں.اس کے معنی علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی پیدا نہیں ہوگا جو ایسی شریعت لے کر آئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرتی ہو.اسی طرح اقتراب الساعۃ میں لکھا ہے:.حديث لَا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتِى بے اصل ہے.البتہ لَا نَبِيَّ بَعْدِی آیا ہے جس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ کوئی نبی شرع ناسخ نہیں لائے گا.“ ( اقتراب الساعۃ صفحه ۱۶۲) پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسے نبی کا ظہور آیت خاتم النبيين

Page 39

۱۸ مقام خاتم النی نتبيين اور حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِی کے منافی نہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع اور آپ کا امتی ہو.اور شریعت محمدیہ کے کسی حکم کو منسوخ نہ کرتا ہو بلکہ پورے طور پر شریعت محمدیہ پر چلنے والا ہو.بعض علماء نے آیت خاتم النبیین کی یہ تاویل بھی کی ہے کہ کوئی پہلا نبی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آسکتا ہے لیکن نیا نبی پیدا نہیں ہوسکتا.ان لوگوں کی اس تاویل کا باعث صرف یہ امر تھا کہ یہ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کی اصالتا آمد کے قائل تھے اور نہیں جانتے تھے کہ مسیح موعود تو امت محمدیہ میں سے ہی پیدا ہونے والا تھا.اگر ان لوگوں پر یہ انکشاف ہو چکا ہوتا کہ احادیث میں ابنِ مریم کے نزول سے مراد حضرت عیسی علیہ السلام کا اصالتا آنانہیں بلکہ یہ ابن مریم امت محمدیہ کا ہی ایک فرد ہے جسے حضرت عیسی علیہ السلام کا مثیل ہونے کی وجہ سے احادیث نبویہ میں استعارہ کے طور پر ابن مریم یا عیسی کا نام دیا گیا ہے تو وہ کبھی ” خاتم النبيين “ کی یہ تاویل نہ کرتے کہ کوئی ایسا نبی جو ایک پہلو سے نبی ہو اور ایک پہلو سے امتی ہو آئندہ پیدا نہیں ہوسکتا بلکہ حضرت عیسی علیہ السلام ہی جو مستقل نبی تھے، وہی اب امتی نبی کی حیثیت میں آئیں گے.کیونکہ کوئی مستقل نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا.ہمیں اُن کا یہ بیان تو مسلّم ہے کہ کوئی مستقل نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے بعد نہیں آسکتا.لیکن ایک مستقل نبی کا امتی نبی کی حیثیت میں آنا ان کی مستقلہ نبوت میں ایک تغیر پیدا ہونے کی وجہ سے ایک نئی قسم کی نبوت کے حدوث ( وجود میں آنے ) کومستلزم ہے.کیونکہ ہر تغیر حدوث پر دلالت کرتا ہے.اسی طرح اُصولاً انہوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ ایک نئی قسم کی نبوت کا حامل جو ایک پہلو سے نبی ہو اور ایک پہلو سے امتی ہو آنحضرت صلی

Page 40

(19) مقام خاتم است اللہ علیہ وسلم کے بعد آسکتا ہے اور اس کا آنا نہ آیت خاتم النبیین کے منافی ہے اور نہ ان احادیث کے منافی ہے جو انقطاع نبوت پر دلالت کرتی ہیں.پس حضرت عیسی علیہ السلام اصالتا امتی نبی کی حیثیت میں آئیں یا امت محمدیہ کا کوئی فرد امتی نبی کا مقام حاصل کرے، اُصولی طور پر ایک نئی قسم کی نبوت کے حدوث پر روشن دلیل ہے.جب ان علماء نے حضرت عیسی علیہ السّلام کے وجود میں ایک نئی قسم کی نبوت کا حدوث مان لیا تو اس نئی قسم کے نبی کا پیدا ہو جانا بھی ممکن ثابت ہو گیا.کیونکہ اس طرح آیت خـــاتــم النبيين اور لَا نَبِيَّ بَعْدِی کی قسم کی احادیث جو انقطاع نبوت پر دال ہیں کے منافی صرف تشریعی یا مستقلہ نبوت قرار پائی نہ کہ ایسی نبوت جس کا حامل ایک پہلو سے نبی ہو اور ایک پہلو سے امتی.ہاں اُنہوں نے غور نہیں کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی مستقلہ نبوت کے زوال پر اتی نبی بنایا جانا اول تو ان کی نبوت مستقلہ کے سلب کو ستلزم ہے جو ایک امر محال ہے.دوم وفات مسیح علیہ السلام جو بنصوص صریحہ قرآنیہ حدیثیہ ثابت ہے، حضرت عیسی علیہ السلام کی اصالتا دوسری آمد میں روک ہے لہذا احادیث میں موعود عیسی کوئی امتی فرد ہی ہو سکتا ہے جسے مجاز اور استعارہ کے طور پر احادیث میں ابنِ مریم یا عیسی کا نام دیا گیا ہے.اگر چہ نواب صدیق حسن خان صاحب بحوالہ امام جلال الدین سیوطی یہ لکھتے ہیں :.مَنْ قَالَ بِسَلْبِ نُبُوَّتِهِ فَقَدْ كَفَرَ حَقًّا كَمَا صَرَّحَ بِهِ السُّيُوطِيُّ.(حُجَجُ الْكَرَامَة صفحه ۴۳۱) کہ جو شخص یہ کہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام مسلوب النبوۃ ہو کر آئیں گے وہ کافر ہے جیسا کہ امام سیوطی علیہ الرحمہ نے اس کی تصریح کی ہے.چنانچہ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ:.

Page 41

(r.) مقام خاتم النی فَهُوَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَإِنْ كَانَ خَلِيفَةً فِي الْأُمَّةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ فَهُوَ رَسُوْلٌ وَنَبِيٌّ كَرِيْمٌ عَلَىٰ حَالِهِ حج الكرامه صفحه ۴۲۶) یعنی حضرت عیسی علیہ السّلام اگر چہ امت محمدیہ میں خلیفہ ہیں مگر وہ اپنے پہلے حال کے مطابق نبی اور رسول بھی ہیں.لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام اصالتا آئیں تو وہ علی حالہ نبی نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ تو مستقل نبی تھے اور مستقل نبی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنا آیت خاتم النبیین کے منافی ہے.لہذا جب یہ لوگ مانتے ہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور امتی ہوں گے تو اُن کی پہلی نبوت مستقلہ میں انقلاب آجانے کی وجہ سے وہ علیٰ حالہ نبی تو نہ ہوئے.کیونکہ جب استقلال جاتا رہا جو اُن کی نبوت کو لازم تھا تو اس سے اُن کی نبوت میں تغییر لازم آیا.اور تغیر حدوث کو چاہتا ہے.لہذا نئی قسم کی نبوت کا امکان لازم آیا.جس کا حامل ایک پہلو سے امتی ہو اور ایک پہلو سے نبی.خلاصہ کلام یہ ہے کہ علمائے امت محمدیہ جو حضرت عیسی علیہ السلام کی اصالتا آمد کے قائل ہیں.نادانستہ دراصل وہ مسیح موعود کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک نئی قسم کی نبوت ( یعنی امتی نبوت) کے حدوث ہی کے قائل ہیں.لیکن بعض کا یہ کہنا کہ حضرت عیسی علیہ السلام علی حالہ نبی ہوں گے اور اُن کی نبوت مسلوب نہ ہوگی اسی صورت میں درست ہو سکتا ہے کہ وہ مستقل نبی کی حیثیت ہی میں آئیں اور یہ امرتو آیت خاتم النبيين اور حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِی وغیرہ کے صریح منافی ہونے کی وجہ سے محال ہے.پس جب علماء بھی دراصل حضرت عیسی علیہ السلام کو اُن کی آمد ثانی میں مستقل نبی قرار نہیں دیتے تو صاف ظاہر ہے کہ اُن کے امتی نبی کی حیثیت میں آنے کے ہی قائل ہیں.

Page 42

مقام خاتم النی اور اس طرح یہ سب علماء جماعت احمدیہ سے متفق ہیں کہ مسیح موعود امتی نبی ہوگا اور امتی نبی کا آنا خاتم النبیین اور انقطاع نبوت پر دلالت کرنے والی احادیث کے خلاف نہیں.اب ہر سلیم الفطرت یہ امر آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ جماعت احمدیہ اور علمائے امت میں مسیح موعود کی نبوت کی قسم کے بارے میں اُصولی اتفاق ہے کہ وہ اتنی بھی ہوں گے اور نبی بھی.اور کہ اس قسم کے نبی کا آنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے منافی نہیں.پس جماعتِ احمدیہ اور ان علماء میں صرف مسیح موعود کی شخصیت کی تعیین میں اختلاف ہے.نہ که مسیح موعود کی قسم نبوت میں.یہ علمائے امت حضرت مسیح اسرائیلی کو امت محمدیہ کا مسیح موعود قرار دیتے ہیں.اور جماعت احمد یہ احادیث نبویہ کے الفاظ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ اور فَامَّكُمْ مِنكُمْ کے مطابق مسیح موعود کا اُمت محمدیہ میں سے پیدا ہونا یقین کرتی ہے.آیت خاتم النبیین میں ایک پیشگوئی دراصل آیت خاتم النبیین ایک پیشگوئی پر مشتمل ہے.اور علمائے امت کو اُصولی طور پر اس کا یہ مفہوم مسلّم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تشریعی نبی یا مستقل نبی کا آنا تو آیت خاتم النبیین کے منافی ہے.لیکن ہمتی نبی کا آنا آیت خاتم النبيين کے منافی نہیں البتہ وہ امتی نبی کے ظہور کو حضرت عیسی کے وجود میں منحصر سمجھتے ہیں.لیکن امتی نبی کے ظہور کی پیشگوئی جو آیت خاتم النبیین میں مضمر ہے اس کی پوری حقیقت مسیح موعود کے ظہور پر ہی کھل سکتی تھی.کیونکہ پیشگوئی کی اصل اور پوری حقیقت پیشگوئی کے وقوع پر ہی کھلتی ہے اور پیشگوئی کے ظہور سے پہلے علماء کی رائے اس بارہ میں حجت شرعی قرار نہیں دی جاسکتی کیونکہ اُمور مستقبلہ میں اجتہاد کا کوئی دخل نہیں.

Page 43

۲۲ مقام خاتم النی نتبيين پس خدا تعالیٰ کے پیشگوئی پر مشتمل قول کا وہی مفہوم درست قرارد یا جاسکتا ہے جس کی اس کا فعل تائید کرے یا قبل از ظہور نصوص صریحہ کے قطعیہ اس کی تائید میں ہوں حضرت عیسی علیہ السلام کا اصالتا دوبارہ آنا قرآن مجید کی نصوص صریحہ کے خلاف ہے اور اُن کی وفات قرآنی آیات سے روز روشن کی طرح ثابت ہے.اور اگر بالفرض وہ زندہ بھی ہوں تو اُن کا مستقلہ نبوت کے ساتھ آنا کسی عالم دین کو بھی مسلم نہیں.کیونکہ مستقلہ نبوت ختم نبوت کے منافی ہے.اور حضرت عیسی علیہ اسلام کا امتی نبی کی حیثیت میں آنا اُن کی پہلی نبوت میں تغیر ہونے کوستلزم ہے.اور نئی قسم کی نبوت کے حدوث پر روشن دلیل ہے.اور یہ امر پہلی نبوت کے سلب کو مستلزم ہے جو محال ہے.لہذا حضرت عیسی علیہ السلام کا رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد اصالتا آناکسی طرح بھی جائز نہیں بلکہ ستلزم محال ہونے کی وجہ سے محال ہے.آیت استخلاف حضرت عیسی علیہ السلام کے اصالتا آنے میں روک ہے احادیث نبویہ مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی اور آپ کا خلیفہ قرار دیتی ہیں.اور قرآن مجید کا فیصلہ ہے کہ کوئی پہلا نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت استخلاف میں فرمایا ہے:.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ (سُوره نورع ۷ آیت ۵۶)

Page 44

ترجمه مقام خاتم انا اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایمان لا کر اعمالِ صالحہ بجالانے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُن لوگوں کو خلیفہ بنایا جواُن سے پہلے گزر چکے ہیں.اس آیت سے دو باتیں ثابت ہیں:.اوّل یہ کہ آئندہ خُلفاء اُن لوگوں میں سے ہوں گے جو پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اعمالِ صالحہ بجالائیں.یعنی صرف اُمت محمدیہ کے افراد ہی کو خدا تعالیٰ کی طرف سے خلافت ملنے کا وعدہ ہے دوم یہ کہ ایسے خلفاء کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی نہ کسی پہلے خلیفہ کا مثیل ہوں.پس ان دونوں باتوں کی وجہ سے امت محمدیہ کا کوئی فرد تو حضرت عیسی کے مشابہ اور ان کا مثیل ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کا خلیفہ ہو سکتا ہے.لیکن پہلے گزرے ہوئے خلفاء میں سے حضرت عیسی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ نہیں ہو سکتے.کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام خود ہی مشتبہ ہوں اور خود ہی مُشتبہ یہ.اس کے تو یہ معنی ہوئے کہ حضرت عیسی علیہ السلام حضرت عیسی علیہ السلام کے مشابہ ہوں گے.اب دیکھئے یہ امر کیسا مضحکہ خیز ہے.مگر مولوی خالد محمود صاحب یہی کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السّلام خود ہی مُشتبہ ہوں گے اور خود ہی مشتبہ بہ.حالانکہ مشتبہ ہمیشہ مشتبہ یہ کا غیر ہوتا ہے.جب یہ آیت بتا رہی ہے کہ مشبہ خلفاء امت محمدیہ کے افراد ہیں جو ایمان لا کر اعمالِ صالحہ بجالائیں گے.اور مشتبہ یہ امت محمدیہ سے پہلے گزرے ہوئے خلفاء ہیں تو پھر

Page 45

۲۴ مقام خاتم الن نتين حضرت عیسی علیہ السلام کو ہی الگ الگ جہتوں سے مشتبہ اور مشتبہ یہ قرار دینے کی کوشش میشود ہے.یہ بات مولوی خالد محمود صاحب کی درست نہیں ہو سکتی کہ حضرت عیسی علیہ السلام الگ الگ جہتوں سے مشتبہ اور مشتبہ یہ ہوں گے.کیونکہ یہ امر منطوق آیت کے صریح خلاف ہے آیت میں تو مشتبہ اور مشتبہ یہ خلفاء کو الگ الگ شخص قرار دیا گیا ہے.یہ تو نہیں کہا گیا کہ ایک شخص ایک جہت سے مشتبہ ہوگا اور دوسری جہت سے مشتبہ یہ کیونکہ ایمان لا کر اعمال صالحہ بجا لانے والوں کو مشتبہ قرار دیا گیا ہے اور امت محمدیہ سے پہلے گزرے ہوئے خلفاء کو مشبہ بہ.مولوی خالد محمود صاحب کا حضرت امام غزائی پر افتراء حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ اپنی کتاب الاقتصاد فی الاعتقاد میں لکھتے ہیں:.مَنْ أَنْكَرَوُجُوْدَ أَبِي بَكْرٍ وَخِلَافَتِهِ لَمْ يَلْزِمْ تَكْفِيْرُهُ لِأَنَّهُ لَيْسَ تَكْذِيْبًا فِي أَصْلٍ مِنْ أُصُولِ الدِّيْنِ مِمَّا يَجِبُ التَّصْدِيقُ بِهِ بِخِلَافِ الْحَجِّ وَالصَّلوةِ وَاَرْكَانِ الْإِسْلَامِ وَلَسْنَا نُكَفِّرُهُ لِمُخَالَفَةِ الْإِجْمَاعِ فَإِنَّ لَنَانَظُرًا فِي تَكْفِيْرِ النَّظَامِ الْمُنْكَرِ لِاصْلِ الْإِجْمَاعِ لِاَنَّ الشَّبْهَةَ كَثِيرَةٌ فِي كَوْنِ الْإِجْمَاعِ حُجَّةً قاطِعَة (الاقتصاد صفحه ۱۱۲ ۱۱۳) یعنی جو شخص ابوبکر کے وجود اور اُن کی خلافت کا انکار کرے اس کی تکفیر لازم نہیں ہوگی.کیونکہ یہ امر اُصولِ دین میں سے کوئی اصل نہیں ہے جن کی تصدیق واجب ہے بخلاف حج ، نماز اور ارکانِ اسلام کے اور ہم ایسے شخص کی تکفیر اجماع کا مخالف ہونے کی بناء پر بھی نہیں کریں گے کیونکہ ہمیں

Page 46

۲۵ مقام خاتم النت نظام کو کا فرٹھہرانے میں بھی اعتراض ہے جو سرے سے اجماع کے وجود کا ہی منکر ہے.کیونکہ اجماع کے قطعی حجت ہونے میں بہت سے شبہات ہیں.مگر اس کے برخلاف مولوی خالد محمود صاحب امام غزالی علیہ الرحمہ پر یہ افتراء کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حجة الاسلام امام غزالی لفظ خاتم النبیین کے متعلق الاقتصاد میں ارشاد فرماتے ہیں إِنَّ الْأُمَّةَ فَهِمَتْ بِالْإِجْمَاعِ مِنْ هَذِهِ وَمِنْ قَرَائِنِ أَحْوَالِهِ أَنَّهُ أَفْهَمَ عَدْمَ نَبِيِّ بَعْدَهُ أَبَدًا وَعَدْمَ رَسُوْلٍ بَعْدَهُ أَبَدًا وَأَنَّهُ لَيْسَ فِيْهِ تَأْوِيْلٌ وَتَخْصِيص (الاقتصاد صفحه ۱۴۶) مولوی خالد محمود صاحب نے اس عبارت کو غلط طور پر امام غزالی علیہ الرحمۃ کا قول قرار دیتے ہوئے اس عبارت کا ترجمہ یہ لکھا ہے:.امت نے اس لفظ خاتم النبیین اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال و قرائن سے اجماعی طور پر یہی سمجھا ہے کہ حضور نے یہی سمجھایا ہے کہ آپ کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ کوئی رسُول.اس مسئلہ ختم نبوت میں نہ کسی تاویل کی گنجائش ہے نہ کسی قسم کی کوئی تخصیص ہے.“ ( عقيدة الامة صفحه ۱۵،۱۴) یہ قول امام غزالی علیہ الرحمۃ کا ارشاد قرار دے کر مولوی خالد محمود صاحب یہ تا قمر دینا چاہتے ہیں کہ امام غزالی اپنی طرف سے یہ کہ رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی اور رسول کی آمد کا عقیدہ چونکہ اجماع امت کے خلاف ہے اس لئے کفر ہے.حالانکہ یہ قول

Page 47

مقام خاتم التنين امام غزالی علیہ الرحمتہ دوسروں کا نقل کر رہے ہیں اور خود اس جگہ اس عبارت سے پہلے یہ لکھ رہے ہیں کہ نبی اور رسول کا آنا چونکہ عقلاً محال نہیں اے اور آیت خاتم النبیین اور حدیث لا نبی بعدی کی تاویل سے نبی اور رسول کی آمد کا قائل عاجز نہیں ہے.ہوگالہذا ایسے شخص کی تردید میں صرف یہ بات رہ گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھایا ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں اور اس میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں ہوسکتی.اور زیادہ سے زیادہ اُسے اجماع کا منکر کہا جا سکتا ہے.یعنی نص خاتم النبیین کا منکر نہیں قرار دیا جاسکتا.کیونکہ امام غزالی اس پہلے لکھ چکے ہیں کہ اُن کے نزدیک اجماع حجت قاطعہ ہی نہیں.ان کے نزدیک اجماع کے حجت ہونے میں بہت سے شبہات ہیں.اور وہ نظام معتزلی کو بھی جو سرے سے اجماع کے وجود کا منکر ہے کا فرنہیں سمجھتے.پس امام موصوف اس مقام پر تکفیر میں توقف نہ کرنے اور فور اما ول کو کا فرقراردے دینے کے رجحان کو دُور کرنا چاہتے ہیں.اور ایسے لوگوں کو جو لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کے قائل ہوں، کا فر قرار دینے کا رجحان مٹانا چاہتے ہیں.چنانچہ آپ مسلمانوں کے فرقوں معتزلہ اور مشتبہ کو تاویل کی وجہ سے کافر نہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:.وَدَلِيْلُ الْمَنْعِ مِنْ تَكْفِيْرِهِمْ أَنَّ الثَّابِتَ عِنْدَنَا بِالنَّصِ تَكْفِيْرُ الْمُكَذِبِ لِلرَّسُوْلِ وَهَؤُلَاءِ لَيْسُوْا مُكَذِّبِيْنَ أَصْلًا وَلَمْ يُثْبِتْ لَنَا حاشیہ : فَإِنَّ الْعَقْلَ لَا يُحِيْلُهُ (اقتصاد صفحه ۱۱۳) حاشیہ : فلا يعجز هذا القائل عن تاويله خاتم النبيين (الاقتصاد صفحه ۱۱۳)

Page 48

أَنَّ الْخَطَاءَ فِي التَّاوِيْلِ مُوْجِبٌ لِلتَّكْفِيْرِ فَلَا بُدَّ مِنْ دَلِيْلٍ عَلَيْهِ وَثَبَتَ أَنَّ الْعَصْمَةَ مُسْتَفَادَةٌ مِنْ قَوْلِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ قَطْعًا فَلَا يُدْفَعُ ذَلِكَ إِلَّا بِقَاطِع وَهذَا الْقَدْرُ كَافٍ فِي التَّنْبِيْهِ عَلَى أَنَّ إِسْرَافَ مَنْ بَالَغَ فِي التَّكْفِيْرِ لَيْسَ عَنْ بُرْهَانِ فَإِنَّ الْبُرْهَانَ إِمَّا أَصْلٌ أَوْقَيَاسٌ عَلَى الْأَصْلِ وَالْأَصْلُ هُوَ التَّكْذِيْبُ الصَّرِيْحُ وَمَنْ لَيْسَ بِمُكَذِبِ فَلَيْسَ فِي مَعْنَى الْمُكَذِّبِ أَصْلًا فَيَبْقَى تَحْتَ عُمُوْمِ الْعَصْمَةِ بِكَلِمَة الشَّهَادَةِ الاقتصاد صفحه ۱۱۲) یعنی اس امر کی دلیل کہ انہیں کا فرنہیں کہنا چاہیئے یہ ہے کہ ہمارے نزدیک نص (شرعی) سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے والا ہو وہ کافر ہوتا ہے.اور یہ فرقے ( معتزلہ دمشھہ ) ہرگز رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکذب نہیں.اور ہمارے نزدیک یہ ثابت نہیں کہ تاویل میں غلطی کھانا موجب تکفیر ہے.اور یہ امر ثابت شدہ ہے کہ کلمہ طیبہ لَا إِلَهَ إِلَّا الله کہنے سے انسان کو جان و مال کی حفاظت حاصل ہو جاتی ہے.اور جب تک اس کے خلاف کوئی یقینی دلیل نہ ہو یہ حفاظت قائم رہے گی.اور ہمارا اس قدر کہنا یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ تکفیر میں حد سے تجاوز کرنے والے کا فعل کسی دلیل پر بنی نہیں کیونکہ دلیل یا اصلی ہوگی یا کسی اصل پر قیاس ہوگی.اور اصل اس بارہ میں صریح تکذیب (رسول) ہے.اور جو مکذب نہ ہو وہ مکذب کے معنوں (حکم)

Page 49

(MA) مقام خاتم انا میں قرار نہیں دیا جا سکتا.لہذا کلمہ شہادت کی وجہ سے ایسے شخص کو عام عصمت حاصل ہوگی یعنی اُسے کا فرقرار دینا جائز نہ ہوگا.اس کے بعد اُنہوں نے خاتم النبیین کی نص کی بعض رکیک تاویلات کرنے والے کا ذکر کیا ہے.اور آگے چل کر اس کے بارہ میں لکھا ہے کہ عقلاً نبی کا آنا محال نہیں اور آیت خاتم النبیین کی تاویل سے یہ شخص عاجز نہ ہوگا.اس لئے فرماتے ہیں:." لَا يُمْكِنُ أَنْ نَدَّعِيَ اِسْتِحَالَتَهُ مِنْ حَيْثُ مُجَرَّدِ اللَّفْظِ فَإِنَّا فِي تَاوِيْلِ ظَوَاهِرِ التَّشْبِيْهِ قَضَيْنَا بِإِحْتِمَالَاتِ أَبْعَدَ مِنْ هَذِهِ وَلَمْ يَكُنْ ذَلِكَ مُبْطِلاً لِلنُّصُوْصِ“ (الاقتصاد صفحه ۱۱۳) یعنی ہم خاتم النبيين اور لَا نَبِيَّ بَعْدِی کے الفاظ کی ایسی تاویلات کے محال ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے کیونکہ ہم نے ظواہر تشبیہہ ( متشابہات ) میں اس شخص کے احتمالات ( تاویلات) سے بھی بہت دُور کے احتمالات سے فیصلہ دیا ہے اور ایسا شخص نصوص کو باطل کرنے والا قرار نہیں دیا.اس سے ظاہر ہے کہ امام موصوف خَاتَمُ النَّبِيِّين اور لَا نَبِيَّ بَعْدِی کی بعض رکیک تاویلات کرنے والے کی تکفیر میں بھی توقف کو ضروری قرار دینا چاہتے ہیں.اور ایسے شخص کی تکفیر میں وہ عدم توقف کو جائز نہیں رکھتے مگر مولوی خالد محمود صاحب امام غزالی کی اس سے پہلی عبارت کو سیاق کے خلاف اپنے من گھڑت معنی دے کر امام غزالی کی طرف یہ منسوب کرنا چاہتے ہیں کہ وہ خاتم النبیین اور لانی بعدی کی تاویل کرنے والے کو بلا توقف کافر قرار دیتے ہیں حالانکہ وہ اس سے پہلی عبارت میں تکفیر میں جلد بازی سے منع فرمار ہے

Page 50

۲۹ مقام خاتم انا ہیں.وہ عبارت یہ ہے:.لَوْفُتِحَ هذَا الْبَابُ لَحَرِّ إِلى أُمُوْرٍ شَنِيْعَةٍ وَهُوَ أَنَّ قَائِلًا لَوْ قَالَ يَجُوزُ أَن يُبْعَثَ رَسُوْلٌ بَعْدَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُبْعَدُ التَّوَقُفُ فِي تَكْفِيرِه صحیح مفہوم اس عبارت کا سیاق کلام کے مطابق یہ ہے کہ: (الاقتصاد صفحه ۱۱۳) اگر ہم تکفیر کا دروازہ ( لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ کہنے والے کے لئے بھی اجماع کا منکر ہونے کی نباء پر ) کھول دیں تو اس سے کئی امور شنیعہ پیدا ہوں گے.مثلاً ایک شخص کے یہ کہنے پر کہ یہ امر جائز ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی رسول ہو سکتا ہے اس کو کافر کہنے میں توقف نہ ہوگا.( یعنی وہ فورا کا فرقرار دے دیا جائے گا) حالانکہ امام موصوف تکفیر میں جلد بازی کے رجحان کو اس سے پہلی عبارت کے ذریعہ مٹانا چاہتے ہیں اور اجماع کو بھی حجت قاطعہ نہیں سمجھتے.اور اس سے انکار کو تکفیر کا موجب نہیں جانتے.مولوی خالد محمود صاحب نے اس عبارت کا ترجمہ منشائے متکلم کے بالکل الٹ یہ کر دیا ہے:.اگر محض اقرار کلمہ اسلام کی بناء پر تکفیر کو روک لیا جائے تو اس سے بہت سے اُمور شنیعہ کا دروازہ کھل جائے گا.مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی کسی شخص کو نبوت مل سکتی ہے تو اُس کی تکفیر میں تو قیف کرنا تو ہرگز جائز نہ ہوگا.

Page 51

مقام خاتم انبیر جن الفاظ کو ہم نے جلی لکھا ہے وہ ہر گز مندرجہ بالا عربی عبارت کا صحیح ترجمہ نہیں.خالد محمود صاحب کا یہ ترجمہ تو امام موصوف کے سارے پچھلے بیان کے صریح بر عکس ہے.اور سیاق کلام سے اس کا کوئی علاقہ نہیں.کیونکہ امام موصوف تو تکفیر کا رجحان مٹانا چاہتے ہیں.مگر اپنے ترجمہ سے مولوی خالد محمود صاحب نے امام موصوف کے اس مضمون کی رُوح کو ہی کچل کر رکھ دیا ہے.امام موصوف تو تکفیر کے رُجحان کو دُور کرنے کے لئے نص کو مان کر اس کی تاویل کرنے والوں کی تکفیر میں توقف کا سبق دے رہے ہیں.اور مولوی خالد محمود صاحب اس کے برعکس امام صاحب کی طرف یہ امر منسوب کر رہے ہیں کہ نص خــــاتـــم النبیین اور لَا نَبِيَّ بَعْدِی کو مان کر اُس کی تاویل کرنے والوں کو امام موصوف نے اس عبارت میں بلا تاخیر و توقف کا فرقرار دے دیا ہے.حالانکہ امام موصوف تو یہ بتا رہے ہیں کهہ کلمہ شہادت تکفیر میں توقف کا قطعی موجب ہے.اور تاویل کرنے والوں کو کافر نہ قرار دینے کے متعلق ایک روشن دلیل ہے.اور اجماع حجت قاطعہ نہیں.مگر مولوی خالد محمودصاحب، امام موصوف کی طرف یہ منسوب کر رہے ہیں کہ گویا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر کلمہ شہادت کہنے والے کو کفر کے فتویٰ سے محفوظ قرار دے دیا جائے تو اس سے بہت سے اُمور شنیعہ پیدا ہوتے ہیں حالانکہ امام موصوف کی مراد اس سے بالکل برعکس ہے.وہ کلمہ شہادت کو کافر نہ قرار دینے کی دلیل بیان کرنے کے بعد یہ فرماتے ہیں کہ اگر تکفیر کا دروازہ کھول دیا جائے اور لا الہ الا اللہ کے ذریعہ اقرار اسلام کو تکفیر میں توقف کی دلیل نہ سمجھا جائے اور اجماع کو حجت قاطعہ سمجھا جائے تو اس سے بہت سے امور شنیعہ یعنی مفاسد پیدا ہونے کا احتمال ہے.چنانچہ اگر تکفیر کا دروازہ کھول دیا جائے تو پھر تو خاتم النبيين اور لا نبی بعدی کی تاویل کرنے والے کی تکفیر میں توقف نہ کیا جائے گا.حالانکہ صحیح مذہب یہ

Page 52

۳۱ مقام خاتم است ہے کہ تاویل کرنے والے کو کا فرقرار نہیں دینا چاہئیے.کیونکہ وہ صاف لکھ چکے ہیں:.لَمْ يَثْبُتْ لَنَا أَنَّ الْخَطَاً فِي التَّاوِيْلِ مُوْجِبٌ لِلتَّكْفِيرِ ( الاقتصاد صفحه ۱۱۲) کہ یہ بات ہم پر ثابت نہیں ہوئی کہ تاویل میں غلطی کرنا تکفیر کا موجب ہے.اور اجتماع کے متعلق بھی وہ صاف لکھ چکے ہیں:.لَانَّ الشُّبْهَةَ كَثِيرَةٌ فِي كَوْنِ الْإِجْمَاعِ حُجَّةً قَاطِعَةً.( الاقتصاد صفحه ۱۱۳) یعنی اجماع کے قطعی مُحبت ہونے میں بہت سے شبہات ہیں.اسی لئے وہ نظام معتزلی کو جو سرے سے اجماع کے وجود ہی کا منکر ہے کا فرقرار نہیں دیتے.مولوی خالد محمود صاحب تو امام غزالی کی زیر بحث عبارت کا مطلب ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ امام غزالی آیت خاتم النبيين اور حدیث لا نبی بعدی کی تاویل کرنے والے کو بلا توقف کا فر قرار دیتے ہیں.اور ہم نے یہ بتایا ہے کہ مولوی خالد محمود صاحب اُن کی عبارت کے ترجمہ کو بگاڑ کر اُن کے مقصد کے صریح خلاف یہ غلط بات منسوب کر رہے ہیں کہ امام موصوف خاتم النبیین اور لا نبی بعدی کی تاویل کرنے والے کی تکفیر کے حامی ہیں.دیکھئے علامہ قرطبی نے بھی جو تکفیر میں متشدد ہیں امام غزالی کے کلام سے یہی سمجھا ہے جو ہم نے بیان کیا ہے.اسی لئے وہ خاتم النبیین کی تاویل کرنے والے کو کا فرقرار نہ دینے پر ختم نبوت کے عقیدہ کو مشوش کرنے کی راہ نکالنے والا قرار دے رہے ہیں.چنانچہ وہ امام غزالی کی اس تحریر کے متعلق لکھتے ہیں:.

Page 53

۳۲ مقام خاتم الن " وَمَا ذَكَرَهُ الْغَزَالِيُّ فِي هَذِهِ الْآيَةِ وَهَذَا الْمَعْنَى فِي كِتَابِهِ الَّذِى سَمَّاهُ بِالْإِقْتِصَادِ الْحَادٌ عِنْدِي وَتَطَرَقَ خَبِيْتُ إِلَى تَشْوِيْشِ عَقِيْدَةِ الْمُسْلِمِيْنَ فِي خَتْمٍ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلنُّبُوَّةِ فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ مِنْهُ.66 (تفسیر قرطبی جزوم اصفحہ ۱۹۶ ۱۹۷) یعنی آیت خاتم النبیین کے متعلق جو معنی غزالی نے اپنی کتاب الاقتصاد میں بیان کئے ہیں وہ میرے نزدیک الحاد ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے بارہ میں مسلمانوں کے عقیدہ کومشوش کرنے کے لئے ایک خبیث راہ نکال رہے ہیں.اس سے بچ کر رہنا چاہئیے.اب مولوی خالد محمود صاحب بتائیں کہ امام غزالی کی ختم نبوت کی تاویل کے متعلق زیر بحث عبارت کو آپ صحیح سمجھے ہیں یا امام قرطبی جو اس عبارت کی وجہ سے امام غزالی کو الحاد کا الزام دے رہے ہیں.اور اس کا مفہوم مولوی خالد محمود صاحب کے بیان کردہ مفہوم کے خلاف جانتے ہیں.مولوی خالد محمود صاحب سے دو ضروری سوال (۱) مولوی خالد محمود صاحب ! جب آپ اور دیگر علمائے ملت حضرت عیسی علیہ السلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امتی نبی کی حیثیت میں آنا تسلیم کرتے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ آپ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بمعنی مطلق آخری نبی تسلیم نہیں کرتے.کیونکہ آپ کے عقیدے کے رُو سے تو آخری نبی ایک لحاظ سے حضرت

Page 54

۳۳ مقام خاتم النی عیسی علیہ السلام قرار پاتے ہیں.پس جب آپ لوگ اُن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنا مانتے ہیں تو اس لحاظ سے آپ لوگ کس طرح آیت خاتم النبیین کے معنی آخری نبی میں تاویل وتخصیص کے قائل نہیں.جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ لوگ ایک خاص قسم کا آخری نبی قرار دے رہے ہیں نہ علی الاطلاق ہر لحاظ سے آخری نبی؟ آپ کے اس عقیدہ سے تو ظاہر ہے کہ آپ لوگ خاتم النبیین کے معنی مطلق آخری نبی تسلیم نہیں کرتے.بلکہ پیدا ہونے میں آخری نبی قرار دے کر تاویل و تخصیص کے قائل ہیں.(۲) پھر آپ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امتی نبی کی حیثیت میں آنا مان کر حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِى اور حديث إِنِّي أَخِرُ الْأَنْبِيَاءِ کی تاویل بھی کر رہے ہیں اور تخصیص بھی کیونکہ آپ ان حدیثوں کو مخصوص بالبعض قرار دے رہے ہیں نہ کہ اپنے مفہوم میں عام.حالانکہ ان حدیثوں میں بظاہر عموم ہے.اور ان میں بظاہر مطلق نبی کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے کی نفی ہے.جب ان حدیثوں کی موجودگی میں آپ حضرت عیسی علیہ السلام کے نبی کی حیثیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے کا بدیں وجہ جواز نکال رہے ہیں کہ وہ آمد خانی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے ماتحت امتی نبی کی حیثیت میں ہوں گے تو پھر آپ لوگوں کو اپنے اس مخصوص عقیدہ کی موجودگی میں یہ کہنے کا حق کیسے حاصل ہے کہ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.اور آیت خاتم النبیین اور حدیث لا نبی بعدی میں کوئی تاویل اور تخصیص نہیں بلکہ یہ اپنے مفہوم میں عام ہیں؟

Page 55

۳۴ مقام خاتم الن ہاں ہم احمدی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم آیت خاتم النبیین میں کسی تاویل و تخصیص کے قائل نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک آیت خاتم النبیین کا اصل اور حقیقی مفہوم خاتمیت مرتبی ہے.جس سے یہ مراد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت میں انتہائی کمال پر پہنچے ہوئے ہیں.اور حضور صلے اللہ علیہ وسلم کے افاضہ رُوحانیہ سے مقام نبوت بھی مل سکتا ہے.اور خاتمیت مرتبی کے مقام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری تشریعی اور آخری مستقل نبی ہونا لازم ہے.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بعد کوئی شارع اور مستقل نبی نہیں آسکتا.ہاں آپ کے فیض سے آپ کا امتی مقام نبوت پاسکتا ہے.اور وہ ایک پہلو سے امتی ہوگا، اور ایک پہلو سے نبی.اور اس کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار نبوت کی ایک تجاتی ہوگی.اور وہ آپ کا کامل ظل ہوگا.اور وہ مستقل نبی نہیں ہوگا.بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی ہوگا.دیکھ لیجئے خاتم النبیین کے ان حقیقی لغوی معنی کے رُو سے ہم آیت خاتم النبیین میں کسی تاویل اور تخصیص کے قائل نہیں.البتہ حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِى اور حديث إِنِّي أَخِرُ الْأَنْبِيَاءِ میں تاویل و تخصیص کے مولوی خالد محمود صاحب اور اُن کے ہم خیال بھی قائل ہیں اور ہم بھی قائل ہیں.پس مولوی خالد محمود صاحب کی یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ وہ ہمارے خاتم النبیین کے معنوں میں تاویل تخصیص کے قائل نہ ہونے کے باوجود ہم پر تو کفر والحاد کا فتویٰ لگارہے ہیں اور خود آیت خاتم النبیین کے یہ معنی لے کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہونے کے لحاظ سے آخری نبی ہیں.آیت خاتم النبیین کی تاویل بھی کرتے ہیں اور اس کے معنوں میں تخصیص کے بھی قائل ہیں اور تاویل وتخصیص کی وجہ سے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امتی نبی کی حیثیت میں آنا مانتے ہیں، وہ پکے مسلمان ہیں.

Page 56

(۳۵) مقام خاتم السنة نتبيين امام غزالی کے بعد مولوی خالد محمود صاحب نے علامہ قاضی عیاز کا یہ قول ”شفاء سے نقل کیا ہے:.لَأَنَّهُ أَخْبَرَ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلَا نَبِيَّ بَعْدَهُ وَأَخْبَرَ عَنِ اللهِ تَعَالَى أَنَّهُ خَاتَمُ النَّبِييْنَ وَاجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى حَمْلِ هَذَا الْكَلَامِ عَلَى ظَاهِرِهِ وَأَنَّ مَفْهُوْمَهُ الْمُرَادَبِهِ دُوْنَ تَأْوِيْلٍ وَ تَخْصِيْصِ فَلَا شَكٍّ فِيْ كُفْرٍ هَؤُلَاءِ الطَّوَائِفِ كُلِّهَا قَطْعًا أَجْمَاعًا سَمْعًا.“ اور ترجمہ اس قول کا یہ کیا ہے:.(شفاء صفحه ۳۶۲.عقیدۃ الامۃ صفحہ ۱۶) اس لئے کہ حضور نے فرمایا ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں اور یہ کہ آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا.( پیدا نہیں ہوگا کا لفظ مولوی خالد محمود صاحب نے لَا نَبِيَّ بَعْدَہ کے الفاظ کی تاویل میں اپنی طرف سے بڑھایا ہے.ناقل ) اور خدا کی طرف سے بھی حضور نے یہی بتلایا ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں.اور امت کا اتفاق ہے کہ یہ آیت اپنے ظاہری معنوں پر محمول ہے اور جو اس کا مفہوم ظاہری لفظوں سے سمجھ میں آ رہا ہے وہی اس میں بغیر کسی تاویل و تخصیص کے مُراد ہے.پس ان لوگوں کے گفر میں قطعا کوئی شک نہیں جو اس معنی کا انکار کریں.(عقیدۃ الامۃ صفحہ ۱۶.۱۷) قاضی عیاض صاحب تو زندہ موجود نہیں ورنہ ہم اُن سے دریافت کرتے کہ اُن کے

Page 57

مقام خاتم النی نتين نزدیک خاتم النبیین کے ظاہری معنی کیا ہیں.اور ان معنوں کی موجودگی میں وہ حضرت عیسی علیہ السّلام کی آمد ثانی کو تسلیم کرتے ہوئے خاتم النبیین کے ظاہری معنوں میں کس طرح تاویل و تخصیص کے قائل نہیں.اب تو مولوی خالد محمود صاحب ہی اُن کی طرف سے وکیل ہیں.لہذاوہی ہمارے سوال کا جواب دیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد ثانی کے قائل ہونے کی صورت میں وہ کس طرح آیت خاتم النبیین میں تاویل و تخصیص کے قائل نہیں؟ جبکہ مولوی خالد محمود صاحب ان کی طرف خاتم النبیین کے یہ معنی منسوب کر رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہونے کے لحاظ سے آخری نبی ہیں.اور آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا.ان معنوں کے رُو سے تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم مطلق آخری نبی ثابت نہیں ہوتے.کیونکہ پیدائش کے لحاظ سے آخری نبی تو آخری نبی کی ایک مقید اور مخصوص صورت قرار پاتی ہے.اور اس طرح مطلق آخری نبی معنی کر کے ان میں تاویل و تخصیص کا قائل ہونا ہے.آیت خاتم النبیین کے حقیقی بلا تاویل و تخصیص معنی میں بتا چکا ہوں کہ آیت خاتم النبیین کے معنی مطلق آخری نبی نہ ہم مانتے ہیں نہ خالد محمود صاحب اور نہ دوسرے علمائے امت.کیونکہ ہم اور دوسرے علمائے امت سب مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امتی نبی کی حیثیت میں مانتے ہیں.اور ہم میں اور اُن میں اختلاف ہے تو صرف مسیح موعود کی شخصیت کی تعیین میں ہے نہ کہ اس کے امتی نبی ہونے کی حیثیت میں.اگر خاتم النبیین کے معنی مطلق آخری نبی کئے جائیں تو پھر ان علماء کو مسیح موعود کو انتی نبی ماننے کی صورت میں بلا شبہ خاتم النبیین کے معنوں میں تاویل و

Page 58

مقام خاتم انا تخصیص کا قائل ہونا پڑے گا.علاوہ ازیں خاتم النبیین کے معنی مطلق آخری نبی بھی دراصل حقیقی معنی نہیں ہو سکتے بلکہ یہ مجازی معنی ہوں گے اور مجازی معنی حقیقی معنوں کے مقابل تاویلی معنی ہی ہوتے ہیں.خاتم النبیین کے حقیقی معنی تو نبوت میں مؤثر وجود کے ہیں.خاتم النبیین کے یہی حقیقی معنی حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی علیہ الرحمہ نے تحریر فرمائے ہیں.چنانچہ آپ لکھتے ہیں:.جیسے خاتم بفتح تاء کا اثر مختوم علیہ میں ہوتا ہے.ایسے موصوف بالذات ( یعنی خاتم النبیین ) کا اثر موصوف بالعرض ( دوسرے انبیاء.ناقل ) میں ہوگا.حاصل مطلب آیت کریمہ (ولكن رسول الله و خاتم النبيين.ناقل ) اس صورت میں یہ ہوگا کہ ابقت معروفہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابقت معنوی امتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے.انبیاء کی نسبت تو فقط آیت خاتم النبیین شاہد ہے کیونکہ اوصاف معروض اور موصوف بالعرض موصوف بالذات کی فرع ہوتے ہیں.اور موصوف بالذات اوصاف عرضیہ کا اصل ہوتا ہے.اور وہ اس کی نسل اور امتیوں کی نسبت لفظ رسول الله میں غور کیجئے.“ ( تحذیر الناس صفحہ ۱۰) پس مولانا موصوف کے نزدیک خاتم النبیین کے معنی نبیوں کے لئے نبوت

Page 59

٣٨ پانے میں مؤثر وجود کے ہیں.اور یہی خاتم النبیین کے حقیقی معنی ہیں.جو اے مولوی خالد محمود صاحب آپ کو بھی مسلّم ہیں.اور آپ ان معنوں کو خاتمیت مرتبی کہہ کر اسلامی عقیدہ قرار دے رہے ہیں.چنانچہ آپ لکھتے ہیں:.اسلامی عقیدہ ختم نبوت ہر دوصورتوں کا مطالبہ کرتا تھا کہ ختم نبوت زمانی پر بھی ایمان ہواور ختم نبوت مرتبی کو بھی اپنی جگہ تسلیم کیا جائے.“ ( عقيدة الامة صفحه ۵۸) یہ ظاہر ہے کہ خاتمیت مرتبی کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جسمانی ولادت سے پہلے بھی حاصل تھا جس کی تاثیر سے بقول مولانامحمد قاسم صاحب تمام انبیائے سابقین کا ظہور ہوا.اور خاتمیت زمانی خاتمیت مرتبی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی ظہور پر لازم اور لاحق ہوئی.وہ بھی اس مفہوم میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری اور اتم و اکمل شریعت لانے کی وجہ سے آخری شارع نبی ہیں اور آپ کے بعد امتی نبی کے ظہور میں آپ کی خاتمیت زمانی روک نہیں.کیونکہ خاتمیت مرتبی کے اثر سے آپ کے بعد آئندہ امتی نبی پیدا ہوسکتا ہے.اور اگر آپ کی خاتمیت زمانی کا یہ مفہوم لیا جائے کہ اس کے اثر سے آئندہ نبی پیدا نہیں ہوسکتا تو خاتمیت زمانی کا خاتمیت مرتبی سے تضاد پیدا ہو جائے گا.اور مولوی محمد قاسم صاحب علیہ الرحمۃ جیسا جید عالم دو متضاد اور متناقض معنے خاتم النبیین کے قرار دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود مبارک میں اجتماع التقیضین پایا جانے کا قائل نہیں ہو سکتا.کیونکہ اجتماع نقیضین محال ہے.اور مولانا محمد قاسم صاحب نے خاتمیت مرتبی سے خاتمیت زمانی کا لزوم قرار دیا ہے.اور دو متناقض اور متضاد معنوں میں لزوم پایانہیں جاسکتا.حالانکہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب علیہ الرحمۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں خاتمیت

Page 60

مقام خاتم ان مرتبی سے خاتمیت زمانی کے لزوم کے قائل ہیں.چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:.ایسے ہی ختم نبوت بمعنی معروض ( خاتمیت مرتبی.ناقل ) کو تاخر زمانی (خاتمیت زمانی.ناقل ) لازم ہے.“ پس چونکہ دو متضاد یا متناقض امور میں لڑ وم نہیں ہوسکتا.لہذا خاتمیت زمانی علی الاطلاق خاتمیت مرتبی کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی.کیونکہ خاتمیت مرتبی آئیندہ نبی پیدا ہو سکنے کو چاہتی ہے اور خاتمیت زمانی علی الاطلاق آئیندہ نبی پیدا نہ ہو سکنے کو چاہتی ہے.پس مولانا صاحب کے مد نظر خاتمیت زمانی کا یہی مفہوم ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ظہور پر آخری شارع نبی ہیں.خاتمیت زمانی کا یہی مفہوم لینے سے مسیح موعود کو ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اتنی قرار دیا جاسکتا ہے.خاتمیت زمانی کا یہی مفہوم خاتمیت مرتبی کے ساتھ بطور لازم المعنی کے جمع ہوسکتا ہے کیونکہ اس صورت میں خاتمیت مرتبی کی تاثیر افاضہ نبوت بھی قائم رہتی ہے.اور خاتمیت زمانی کے انقطاع کی تاثیر بھی ان معنوں کے ساتھ قائم رہتی ہے اور جمع ہو سکتی ہے.اور خاتمیت مرتبی سے خاتمیت زمانی کا لزوم متصور ہوسکتا ہے.اگر خاتمیت زمانی کا یہ مفہوم لیا جائے کہ آئیندہ کسی قسم کا کوئی نبی حتی کہ امتی نبی بھی پیدا نہیں ہوسکتا تو یہ مفہوم خاتمیت مرتبی کی تاثیر کو منقطع قرار دیتا ہے اور اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتمیت مرتبی کے لحاظ سے دائی خاتم النبیین نہیں رہتے.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دائی خاتم النبيين ہیں اور خاتمیت مرتبی خاتم النبیین کے اصل حقیقی اور مقدم معنے ہیں.کیونکہ ان معنوں کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم اپنے جسمانی ظہور سے پہلے مؤثر چلے آئے ہیں.لہذا ان معنوں کے ساتھ خاتمیت زمانی

Page 61

(m.) مقام خاتم السنة کے بعد میں لاحق ہونے کی تاثیر ایسی قرار نہیں دی جاسکتی جس سے خاتمیت مرتبی کی تاثیر کا جو خاتم النبین کے اصل اور حقیقی اور مقدم معنی ہیں آئیندہ کے لئے منقطع ہو جانا لازم آئے.کیونکہ اگر اصل وصف قائم نہ رہے تو اس سے لازم المعنی کا لزوم کیسے ہوسکتا ہے.ملزوم کے منفی ہو جانے سے تو لازم کا انتفاء لازم آتا ہے.اسی لئے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب علیہ الرحمۃ نے تحریر فرمایا ہے:.”ہاں اگر خاتمیت بمعنی اتصاف ذاتی بوصف نبوت لیجئے جیسا کہ اس ہیچمدان نے عرض کیا ہے تو پھر سوائے رسُول اللہ صلی علیہ وسلم کے اور کسی کو افراد مقصود بالخلق میں مماثل نبوی نہیں کہہ سکتے بلکہ اس صورت میں انبیاء کے افراد خارجی ( انبیائے سابقین.ناقل ) ہی پر آپ کی افضلیت ثابت نہ ہوگی افراد مقدرہ (جن کا آئیندہ آنا تجویز کیا جائے.ناقل ) پر بھی آپ کی افضلیت ثابت ہو جائے گی.بلکہ بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا.“ مولانا موصوف کی اس عبارت سے ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی کے پیدا ہونے سے خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آتا.واضح رہے کہ ” خاتمیت محمدی ” خاتمیت مرتبی“ اور ” خاتمیت زمانی “ دونوں پر مشتمل اور ان کی جامعہ ہے.اور خاتمیت مرتبی بقول مولانا محمد قاسم صاحب علیہ الرحمہ خاتمیت زمانی کا ملزوم ہے.اور چونکہ خاتمیت زمانی خاتمیت مرتبی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی ظہور پر لاحق ہو کر لازم ہوئی ہے.لہذا خاتمیت زمانی، خاتمیت مرتبی کی آئیندہ افاضہ نبوت ( تحذیر الناس صفحہ ۲۸)

Page 62

لدا مقام خاتم النی کی تاثیر ظاہر ہونے میں علی الاطلاق مانع نہیں ہو سکتی بلکہ بعض قیود کے ساتھ ہی مانع ہو سکتی ہے.ورنہ دونوں قسم کی خاتمیت میں تناقض تسلیم کرنا پڑے گا.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریعی نبی ہیں اس لئے خاتمیت زمانی کا یہی مفہوم خاتمیت مرتبی کو لازم ہوگا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم آخری شارع نبی ہیں.کیونکہ خاتمیت زمانی اسی مفہوم میں خاتمیت مرتبی کے ساتھ جمع ہوسکتی ہے.خاتمیت مرتبی کا مفہوم ہی افضلیت کو چاہتا ہے اور خاتمیت زمانی مولانا محمد قاسم صاحب کے نزدیک افضلیت کو نہیں چاہتی.چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:.عوام کے خیال میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں.مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم اور تاخیر زمانی میں ( یعنی اول ہونے یا آخر ہونے میں.ناقل ) بلذات کچھ فضیلت نہیں.پھر مقامِ مدح میں ولكن رسول الله و خاتم النبيين فرمانا کیونکر صحیح ہوسکتا.اور مناظرہ عجیبہ میں تحریر فرماتے ہیں:.وو ( تحذیر الناس صفحہ ۳ ) تاتر زمانی افضلیت کے لئے موضوع نہیں.افضلیت کو ستلزم نہیں افضلیت سے اس کو بالذات کچھ علاقہ نہیں ( مناظره عجیبه صفحه ۴۹) نیز تحریر فرماتے ہیں:.دو سوخاتمیت زمانی یا اولیت زمانی میں کچھ کمال نہیں.ورنہ زمانہ سے

Page 63

افضلیت کا استفاضہ ماننا پڑے گا.ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ زمین و زمان کون و مکان تو آپ سے مشرف ہے.آپ کو ان سے شرف نہیں“ ( مناظره عجیبه صفحه ۹۸) پس جب تک خاتمیت زمانی کے ساتھ اُس کے ملزوم خاتمیت مرتبی کی تاثیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امتی نبی کے پیدا ہونے میں مؤثر قرار نہ دی جائے نہ آپ خاتمیت مرتبی کے لحاظ سے دائمی خاتم النبیین رہتے ہیں نہ آپ کا دائمی طور پر بالذات افضل الانبیاء ہونا قائم رہتا ہے.مولوی خالد محمود صاحب کا اعتراض مولانا محمد قاسم علیہ الرحمۃ خاتمیت زمانی کو خاتمیت مرتبی کا لازم قرار دیتے ہیں اور مولوی خالد محمود صاحب مولانا موصوف کی عبارت "بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا سے پہلی عبارت پیش کرنے کے بعد معترض ہیں کہ اس کے بعد وہ عبارت ہے جو مرزائی حضرات پیش کرتے ہیں اور اسے ختم نبوت زمانی کا بیان ظاہر کر کے عوام کو مغالطہ دیتے ہیں.حالانکہ ختم نبوت زمانی اپنی جگہ مستقل حقیقت ہے جس پر ایمان لائے بغیر فقط ختم نبوت مرتبی پر ایمان لا نا ہرگز کافی نہیں.“ ( عقيدة الامه )

Page 64

۴۳ مقام خاتم النی نتين واب:.مولوی خالد محمود صاحب کا یہ اعتراض درست نہیں.ہم لوگ اس عبارت کے الفاظ ” خاتمیت محمدی کو خاتمیت زمانی پر بھی مشتمل جانتے ہیں.اور خاتمیت مرتبی پر بھی.کیونکہ خاتمیت محمدی دونوں قسم کی خاتمیت کی جامع ہے.ہم خاتمیت محمدی کے الفاظ سے صرف خاتمیت زمانی ہی مراد نہیں لیتے.بیشک آئیندہ نبی تو خاتمیت مرتبی کے فیض سے ہی پیدا ہو سکتا ہے.لیکن مولانا محمد قاسم صاحب کے نزدیک آئیندہ خاتمیت مرتبی کی تاثیر میں خاتمیت زمانی علی الاطلاق مانع نہیں تبھی تو آپ نے یہ فرمایا ہے کہ بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا مولوی خالد محمود صاحب! خاتمیت محمدی صرف خاتمیت مرتبی ہی کا نام نہیں بلکہ خاتمیت محمدی خاتمیت مرتبی اور خاتمیت زمانی دونوں پر مشتمل ہے.کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں دونوں قسم کی خاتمیت پائی جاتی ہے.پس خاتمیت زمانی خاتمیت مرتبی کی تاثیر میں علی الاطلاق مانع نہیں ہو سکتی.صرف بعض قیود کے ساتھ ہی مانع ہوسکتی ہے.پس خاتمیت زمانی سے انقطاع کی تاثیر ایسی ہی ماننی پڑے گی جو خاتمیت مرتبی کی تاثیر میں مانع نہ ہو.اور خاتمیت مرتبی اور خاتمیت زمانی میں تضاد و تناقض پیدا نہ ہو.ورنہ خاتم النبیین کے دو متضاد اور متناقض معنوں کا بیک وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں جمع ہونا لازم آئے گا.اور اجتماع نقیضین اور اجتماع الصدّین تو ایک محال امر ہے.اور یہ آپ کہ نہیں سکتے کہ اب خاتمیت مرتبی قائم نہیں رہی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جسمانی ظہور پر محض خاتمیت زمانی ہی سے متصف ہیں.کیونکہ خاتمیت زمانی مولانا موصوف کے نزدیک خاتمیت مرتبی کو لازم ہے.اور ملزوم وصف اگر قائم نہ رہے تو

Page 65

۴۴ مقام خاتم السنة نتين لازم کیسے قائم رہ سکتا ہے.پس اس صورت میں تو خاتمیت مرتبی کے انتفاء کو خاتمیت زمانی کا انتفاء لا زم آئے گا.اور نہ خاتمیت مرتبی کا وصف قائم رہے گا نہ خاتمیت زمانی کا وصف.فتدبّر.مولوی خالد محمود صاحب نے خاتمیت مرتبی کے ساتھ خاتمیت زمانی کا لزوم مولوی محمد قاسم صاحب علیہ الرحمۃ کی طرف سے مسلم دکھانے کے متعلق اُن کی جو عبارت خود مختصر کر کے عقیدۃ الامۃ صفحہ ۶۱ پر پیش کی ہے.اس کا یہ مفہوم ہر گز نہیں ہوسکتا کہ مولا نا محمد قاسم صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تاخیر زمانی کو ایسے معنوں میں تسلیم کرتے ہیں کہ اُن کا خاتمیت مرتبی کے معنوں سے تضاد پایا جائے.چونکہ اس سے التقیضین اور اجتماع الضر من لازم آتا ہے اس لئے خاتم النبیین کے دو متضاد اور متناقض معنی کومولانامحمد قاسم صاحب علیہ الرحمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں جمع قرار نہیں دے سکتے.لہذا حضرت مولانا موصوف کی مراد اس عبارت میں یہی ہو سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری تشریعی نبی ہیں.پس خاتمیت مرتبی کے فیض سے آئیندہ امتی نبی کا پیدا ہونا نہ خاتمیت مرتبی کے منافی ہے نہ خاتمیت زمانی کے.اس طرح خاتمیت مرتبی اور خاتمیت زمانی میں کوئی تضاد و تناقض پیدا نہیں ہوتا.خاتمیت مرتبی امتی نبی کے ظہور میں مؤثر رہتی ہے اور خاتمیت زمانی تشریعی نبی کے آنے میں مانع رہتی ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں معنوں میں خاتم النبیین رہتے ہیں.مولوی خالد محمود صاحب نے مولانا محمد قاسم صاحب علیہ الرحمتہ کی تحذیر الناس صفحہ ۸ کی جو عبارت تاخیر زمانی کے لزوم کے ثبوت میں مختصر کر کے پیش کی ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تاخیر زمانی کو آخری تشریعی نبی کے معنوں میں ہی قرار دیا گیا ہے.اس

Page 66

۴۵ مقام خاتم انا عبارت کے الفاظ یہ ہیں:.بالجملہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وصف نبوت میں موصوف بالذات ہیں اور سوا آپ کے اور انبیاء موصوف بالعرض.اس صورت میں اگر رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلّم کو اوّل یا اوسط میں رکھتے تو انبیائے متاثرین کا دین اگر مخالف دین محمدی ہوتا تو اعلیٰ کا ادنیٰ سے منسوخ ہونا لازم آتا.اور انبیائے متاثرین کا دین اگر مخالف نہ ہوتا تو یہ بات ضرور ہے کہ انبیائے متاثرین پر وحی آتی اور افاضہ علوم کیا جاتا ورنہ نبوت کا پھر کیا معنی.سواس صورت میں اگر وہی علوم محمدی ہوتے تو بعد وعدہ محکم إِنَّا لَهُ لحافظون ان کی کیا ضرورت تھی.اگر علوم انبیائے متاخرین علوم محمدی کے علاوہ ہوتے تو اس کتاب کا تبياناً لكلّ شئ ہونا غلط ہو جاتا.ایسے ہی ختم نبوت بمعنی معروض کو تاخیر زمانی لازم ہے.“ ( عقيدة الامته صفحه ۶۱ ) اس عبارت میں مولانا محمد قاسم علیہ الرحمتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو تشریعی نبی ہیں یہ بتا رہے ہیں کہ آپ اول یا اوسط میں کیوں نہیں رکھے گئے اور آخر میں کیوں رکھے گئے؟ مولا نا موصوف لکھتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اول یا اوسط میں رکھے جاتے تو آپ کے بعد آنے والے انبیاء کا دین اگر ناسخ دینِ محمدی ہوتا ، تو اس سے ادنی دین سے جو وہ نبی لاتا اعلیٰ دین کا جو دین محمدی ہوتا منسوخ ہونا لازم آتا.اُن کے بیان کے اس حصہ سے ظاہر ہے کہ مولانا موصوف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تاخر زمانی یا بالفاظ دیگر خاتمیت زمانی کو اس مفہوم میں لے رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ

Page 67

مقام خاتم است وسلم کے بعد کوئی نیا دین لانے والا نبی یعنی تشریعی نبی نہیں آسکتا.پھر مولا نا موصوف آگے لکھتے ہیں کہ اگر بالفرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے انبیاء کا دین جو وہ لاتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے مخالف نہ ہوتا تو اس صورت میں ان کا وہ دین جو وہ لاتے علوم محمدی پر ہی مشتمل ہوتا تو شریعت محمدیہ کے متعلق آیت کریمہ إِنَّا لَهُ لَحَافِظُوْنَ کے مطابق ان تشریعی انبیاء کی کیا ضرورت تھی.یعنی کوئی ضروت نہ تھی.اور بلا ضروت خدا تعالیٰ کسی شریعت کو بھیجتا نہیں.لہذا ایسا تشریعی نبی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا.پھر فرماتے ہیں کہ اگر بعد آنے والے انبیاء کے علوم علوم محمدی سے علاوہ ہوتے تو اس سے قرآن شریف کا تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ ہونا باطل ہو جاتا.اور یہ محال ہے.لہذا ایسا تشریعی نبی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا تھا.پس اس مضمون کے خاتمہ پر مولانا موصوف کا یہ فرمانا ایسے ہی ختم نبوت بمعنی معروض کو تا فخر زمانی لازم ہے.“ صرف یہی مفہوم رکھتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تشریعی نبی کی آمد کے محال ہونے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت مرتبی وذاتی کو جو خاتمیت زمانی کا معروض یعنی ملزوم ہے تاخر زمانی لازم ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے شریعت کا ملہ تامہ لانے کی وجہ سے نہ شریعت محمدیہ کے مخالف کوئی نئی شریعت آسکتی ہے اور نہ اس کے موافق کوئی نئی شریعت آسکتی ہے.پس تاخر زمانی لازم آنے سے صرف یہ مُراد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں آسکتا.نہ شریعت محمدیہ کے مخالف نئی شریعت والا نہ شریعت محمدیہ کے موافق نئی

Page 68

شریعت لانے والا.مقام خاتم انا اس عبارت کے درمیان کے اس فقرہ انبیائے متاثرین پر وحی آتی.اور افاضہ علوم کیا جا تاور نہ نبوت کے پھر کیا معنی میں بلحاظ سیاق عبارت تشریعی انبیاء اور تشریعی وحی اور تشریعی علوم ہی مراد ہیں اور نبوت سے مراد بھی اس جگہ تشریعی نبوت ہی ہے.کیونکہ پچھلی اور انگلی عبارت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تاتر زمانی تشریعی انبیاء کے لحاظ سے ہی بیان کیا گیا ہے.ورنہ مولانا موصوف کا امتی نبی کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے سے انکار بیان کرنا مقصود نہیں.اور نہ اس پروحی نازل ہونے سے انکار بیان کرنا مقصود ہے کیونکہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے امتی نبی کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے کے بھی قائل ہیں.اور چونکہ حدیث نبوی مندرجہ صحیح مسلم میں مسیح موعود پر وحی نازل ہونے کا بھی ذکر ہے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے مسیح موعود امتی نبی پر وحی نازل ہونے سے بھی وہ انکار نہیں کر سکتے.اسی حدیث کی بناء پر علماء امت نے مسیح موعود پر وی حقیقی کا نازل ہونا تسلیم کیا ہے.چناچہ غیر روح المعانی میں امام ابن حجر ہیٹی کا یہ قول ان کی کتاب الفتاوی الحدیثیہ سے اخذ کر کے منقول ہے:.نَعَمْ يُوْحَىٰ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَحْيٌ حَقِيقِيٌّ كَمَا فِي حَدِيْثِ مُسْلِمٍ.(روح المعانی جلدے صفحہ ۶۵)

Page 69

مقام خاتم است کہ اس مسیح موعود پر وحی حقیقی نازل ہوگی جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں آیا ہے.آگے لکھتے ہیں :.حَدِيْثُ لَا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتِي بَاطِلٌ وَمَا اشْتَهَرَانَّ جِبْرِيلَ لَا يَنْزِلُ إِلَى الْأَرْضِ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهُوَ لَا أَصْلَ لَهُ.“ ( روح المعانی جلدے صفحہ ۶۵) یعنی حديث لَا وَحْـيَ بَعْدَ مَوْتِی باطل ہے اور جو یہ مشہور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جبریل زمین کی طرف نازل نہیں ہوں گے ایک بے اصل بات ہے.حضرت امام علی القاری علیہ الرحمتہ جو فقہ حنفیہ کے جلیل القدر امام اور ایک مسلم محدث ہیں فرماتے ہیں:.” أَمَّا الْحَدِيْتُ لَا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتِيْ بَاطِلٌ وَلَا أَصْلَ لَهُ نَعَمُ وَرَدَ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ وَمَعْنَاهُ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ لَا يَحْدُثُ بَعْدَهُ نَبِيٌّ بِشَرْعٍ يَنْسَخُ شَرْعَهُ الاشاعة في اشراط الساعة صفحه ۲۲۶) یعنی حدیث لَا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتِى باطل اور بے اصل ہے.ہاں حدیث میں لَا نَبِيَّ بَعْدِى وارد ہے اور اس کے معنی علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ آئندہ کوئی ایسا نبی پیدا نہ ہوگا جو ایسی شریعت لے کر آئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرے.پس جس طرح امام علی القاری علیہ الرحمۃ کے نزدیک خاتمیت زمانی کو

Page 70

۴۹ مقام خاتم النی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی تشریعی نبی پیدا نہیں ہوسکتا اسی طرح حضرت مولانامحمد قاسم صاحب علیہ الرحمۃ بھی خاتمیت مرتبی کے ساتھ تاخر زمانی کا لزوم انہی معنوں میں قرار دے رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کوئی تشریعی نبی نہیں آسکتا.لہذا خاتمیت مرتبی کے فیض سے ایسا نبی پیدا ہوسکتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع اور آپ کا امتی ہو.اگر تاثیر زمانی علی الاطلاق قرار دیا جائے تو پھر خاتمیت مرتبی اور خاتمیت زمانی میں تناقض پیدا ہو جاتا ہے اور اجتماع النقیضین لازم آتا ہے جوامر محال ہے.پس تاثر زمانی علی الاطلاق چونکہ مستلزم محال ہے اس لئے باطل ہے.اور تاخر زمانی بلحاظ تشریعی و مستقل نبی کے خاتمیت مرتبی سے تناقض نہیں رکھتا اس لئے تاخر زمانی سے یہی مُراد ہو سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری تشریعی اور مستقل نبی ہیں.یہی معنے خاتمیت مرتبی کے ساتھ جمع ہو سکتے ہیں.اور انہی معنی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دائمی طور پر خاتم النبیین بمعنی خاتمیت مرتبی قرار پاتے ہیں.مولا نا محمد قاسم صاحب نانوتوی علیہ الرحمہ کی مندرجہ ذیل تحریرات بھی اس بات پر روشن دلیل ہیں کہ آپ کے نزدیک خاتمیت زمانی سے مراد یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری تشریعی نبی ہیں.آپ تحریر فرماتے ہیں:.(۱) جیسے عہدہ ہائے ماتحت میں سب میں او پر عہدہ گورنری یا وزارت ہے اور سوا اس کے اور سب عہدے اس کے ماتحت ہوتے ہیں.اوروں کے احکام کو ( وہ گورنر یا وزیر.ناقل ) تو ڑسکتا ہے اس کے احکام کو اور کوئی نہیں تو ڑ سکتا.وجہ اس کی یہی ہوتی ہے کہ اس پر ( سب سے اعلیٰ عہدہ.ناقل پر مراتب عہدہ جات ختم ہو جاتے ہیں.ایسے ہی خاتم مراتب نبوت کے

Page 71

۵۰ مقام خاتم السنة او پر اور کوئی عہد و یا مرتبہ ہوتا ہی نہیں.جو ہوتا ہے اس کے ماتحت ہوتا ہے اس لئے اس کے احکام اوروں کے احکام کے ناسخ ہوں گے.اوروں کے احکام اس کے احکام کے ناسخ نہ ہوں گے.اس لئے یہ ضرور ہے کہ وہ خاتم زمانی بھی ہو کیونکہ اوپر کے حاکم تک نوبت سب حکام ماتحت کے بعد آتی ہے اس لئے اس کا حکم آخر حکم ہوتا ہے.چنانچہ ظاہر ہے کہ پارلیمنٹ تک مرافعہ کی نوبت سبھی کے بعد آتی ہے.یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ کسی اور نبی نے دعویٰ خاتمیت نہ کیا.کیا تو حضرت محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے کیا.چنانچہ قرآن وحدیث میں یہ مضمون بتصریح موجود ہے.“ ( مباحثہ شاہجہان پور صفحه ۲۴-۲۵) جلی عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ مولانا موصوف کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے مرتبہ میں سب سے بڑے اور اعلیٰ عہدہ دار ہیں.اور اس کے ساتھ ہی خاتمیت زمانی کا مفہوم صرف یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اور انبیاء کے حکم کو منسوخ کر سکتے ہیں پر آپ کا حکم کوئی نبی منسوخ نہیں کر سکتا کیونکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا حکم یعنی شریعت آخری ہے.لہذا احکام الہی پہنچانے میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم آخری سند ہیں.یہ ہے مفہوم خاتمیت زمانی کا مولا نا موصوف کے نزدیک.لہذا ماتحت نبی کا آپ کے بعد آنا جو آپ کے حکم کو منسوخ نہ کر سکتا ہو.بلکہ آپ کے دین اور شریعت کے احکام کو آخری سند سمجھتا ہو ، خاتمیت زمانی کے خلاف نہیں.(۲) الف ” جو نبی مرتبہ میں سب سے اول ہوگا اس کا دین یعنی

Page 72

(۵۱) مقام خاتم السنة اس کے احکام باعتبار زمانہ سب میں آخر ر ہیں گے.کیونکہ ہنگام مرافعہ جو بموقع لنسخ حکم حاکم ماتحت ہوتا ہے حاکم بالا دست کی نوبت آخر میں آتی ہے“ (قبله نما صفحه ۶۲) ب تو لا جرم دین خاتم الانبیاء ناسخ ادیان باقیہ اور خود خاتم الانبیاء سردار انبیاء اور افضل الانبیاء ہوگا.“ ( قبله نما صفحه ۶۳) (۳) غرض خاتمیت زمانی سے یہ ہے کہ دین محمدی بعد ظہور منسوخ نہ ہو اور علوم نبوت اپنی انتہاء کو پہنچ جائیں.کسی اور نبی کے دین یا علم کی طرف بنی آدم کو احتیاج نہ رہے.( مناظرہ عجیبہ صفحہ ۴۰-۴۱) پس خاتمیت زمانی سے مُراد صرف یہ ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا دین لانے والا نبی نہیں آسکتا.لہذا شریعت محمدیہ کے ماتحت امتی نبی کے آنے میں خاتمیت زمانی مانع نہیں کیونکہ سردار انبیاء ، افضل الانبیاء اور خاتم الانبیاء تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی رہتے ہیں.پھر تحریر فرماتے ہیں:.(۴) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام مراتب کمال اسی طرح ختم ہو گئے جیسے بادشاہ پر مراتب حکومت ختم ہو جاتے ہیں.اس لئے بادشاہ کو خاتم الحکام کہہ سکتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الکاملین و خاتم

Page 73

النبیین کہہ سکتے ہیں“ (or) مقام خاتم انا (حجۃ الاسلام صفحه ۳۴- ۳۵) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ جس طرح خاتم الکاملین کے ماتحت کاملین آسکتے ہیں اور ان کا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الکاملین ہونے کے منافی نہیں.اسی طرح خاتم النبیین کے ماتحت امتی نبی کا آنا آیت خاتم النبیین کے منافی نہیں.پس مولانا موصوف نے ٹھیک لکھا ہے کہ "بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا.“ پھر تحریر فرماتے ہیں:.( تحذیر الناس صفحہ ۲۸) (۵) ” بعد نزول حضرت عیسی کا آپ کی شریعت پر عمل کرنا اسی بات پر مبنی ہے.ادھر رسول اللہ کا ارشاد عُلِّمْتُ عِلْمَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِيْنَ بشرط انهم اسی جانب مشیر ہے“ ( تحذیر الناس صفحه ۴ ) یعنی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پہلے نبیوں کا علم اور بعد میں آنے والے نبی کا علم بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے.پس حضرت عیسی علیہ السلام نبی اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا دین اور نیا علم نہیں لائیں گے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت اہمتی نبی ہوں گے.

Page 74

(۵۳ مقام خاتم النی پھر حضرت مولانا موصوف مولوی عبدالعزیز صاحب امروہی کو بحث میں مخاطب کر کے لکھتے ہیں:.(1) " آپ خاتمیت مرتبی مانتے نہیں.خاتمیت زمانی کو ہی آپ تسلیم کرتے ہیں.خیر اگر چہ اس میں در پردہ انکار افضلیت تامہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم لازم آتا ہے لیکن خاتمیت زمانی کو آپ اتنا عام نہیں کر سکتے جتنا ہم نے خاتمیت مرتبی کو عام کر دیا تھا.“ ( مناظره عجیبه صفحه ۴۰) اس سے ظاہر ہے کہ خاتمیت زمانی مولانا موصوف کے نزدیک خاتمیت مرتبی کے مقابلہ میں ایک محدودصورت رکھتی ہے.اسی لئے تو علماء خاتمیت زمانی کے ماننے کے ساتھ ہی مسیح نبی اللہ کے امت محمدیہ میں آنے کے قائل ہیں اور ان کی بعد نزول امتی نبی کی حیثیت ہی قرار دیتے ہیں.پس ہمارے اور ان علماء کے درمیان صرف مسیح موعود کی شخصیت کی تعیین میں اختلاف ہے.اس کے امتی نبی کی حیثیت میں آنے میں کوئی اختلاف نہیں.حضرت عیسی علیہ السلام کا مستقلہ نبوت کے ساتھ آنا تو علمائے امت مانتے ہی نہیں کیونکہ مستقل نبی کی حیثیت میں کسی نبی کا آنا آیت خاتم النبیین کے صریح خلاف ہے، اور اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی معاذ اللہ کلیہ باطل ہو جاتی ہے.وهـــــــذا محال.مناظرہ عجیبہ میں ہی مولانا موصوف مولوی عبد العزیز کو یہ بھی لکھتے ہیں :.”مولانا خاتمیت زمانی کی تو میں نے توجیہ اور تائید کی ہے تغلیط نہیں کی مگر آپ گوشیہ عنایت و توجہ سے دیکھتے ہی نہیں تو میں کیا کروں.اخبار بالعلۃ

Page 75

۵۴ مقام خاتم است مکذب اخبار بالمعلول نہیں ہونا بلکہ اس کا مصد ق اور موید ہوتا ہے.اوروں نے فقط خاتمیت زمانی اگر بیان کی تھی تو میں نے اس کی علت یعنی خاتمیت مرتبی کا بہ نسبت خاتمیت زمانی ذکر کر دیا.“ ( مناظره عجیبه صفحه ۳۲) ظاہر ہے کہ خاتمیت مرتبی جب علت اور خاتمیت زمانی اس کا معلول ہے تو یہ دونوں وصف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور پر باہم ایک دوسرے کے نقیض نہیں ہو سکتے.خاتمیت مرتبی کی تاثیر یہ ہے کہ اس کے فیض سے نبی پیدا ہوسکتا ہے.اگر خاتمیت زمانی کی تاثیر یہ قرار دی جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور پر اب آئیندہ آپ کے فیض سے کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا تو خاتمیت مرتبی جو علت ہے خاتمیت زمانی کی وہ تو منقطع ہو جائے گی.اور اس کے انتفاء اور انقطاع کے ساتھ اس کا معلول بھی منتفی ہو جائے گا.کیونکہ جب وہ وصف جو علت ہے آئیندہ کے لئے موجود نہ رہا تو اس کا معلول کیسے پایا جا سکتا ہے.پس دونوں میں علت و معلول کا تعلق یہ چاہتا ہے کہ خاتمیت زمانی کی تاثیر اور خاتمیت مرتبی کی تاثیر ایک دوسری کی نقیض نہ ہو.بلکہ یہ دونوں وصف بیک وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں جمع ہوں.یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ خاتمیت زمانی سے یہ مراد ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شارع اور آخری مستقل نبی ہیں اور اس کے ساتھ خاتمیت مرتبی کی یہ تاثیر ہو کہ آپ کے فیض سے امتی نبی پیدا ہو سکے.خاتمیت زمانی کے اس مفہوم کے پیشِ نظر مولا نا محمد قاسم صاحب علیہ الرحمۃ نے مناظرہ عجیبہ کے صفحہ ۳۹ پر لکھا ہے:.خاتمیت زمانیہ اپنا دین وایمان ہے.66

Page 76

۵۵ مقام خاتم النی اور پھر مناظرہ عجیبہ کے صفحہ ۱۳ اپر خاتمیت زمانیہ کے اسی مفہوم کے پیش نظر لکھا ہے کہ:.امتناع بالغیر میں کسے کلام ہے.اپنا دین وایمان ہے کہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں جو اس میں تامل کرے اس کو کافر سمجھتا ہوں.“ کسی اور نبی کا ہونے سے مُراد ان کی تشریعی نبی ہے.کیونکہ غرض خاتمیت زمانی کی وہ یہ بتاتے ہیں کہ دینِ محمدی منسوخ نہ ہو.اس غرض کے پیش نظر صرف تشریعی اور مستقل نبی ہی نہیں آسکتا.اور اسی لئے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے امتی نبی کی حیثیت میں آنے کا اعتقادر کھتے تھے نہ کہ مستقل اور تشریعی نبی کی حیثیت میں.فتدبروا یا اولی الالباب.مولوی خالدمحمودصاحب کی علماء بریلی کے متعلق شکایت مولوی خالد محمود صاحب مولا نا محمد قاسم علیہ الرحمتہ سے مسئلہ ختم نبوت میں مخالفت کرنے والے علماء کے متعلق بے انصافی کے شاکی ہیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں:.نہایت افسوس کا مقام ہے کہ حضرت مولانامحمد قاسم صاحب نانوتوی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ خاتمیت کی جو تفصیل فرمائی ہے اس سے انصاف نہیں کیا گیا.اور اس کو اس کی پوری علمی شان کے ساتھ سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی.مسلم عوام کا ایک طبقہ ختم نبوت زمانی پر اکتفاء کا دم بھر نے لگا.اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت مرتبی اور آپ کے نبوت سے اتصاف ذاتی کو شہبے کی نگاہ سے دیکھا اور مرزائی حضرات

Page 77

مقام خاتم النی ختم نبوت زمانی کو یکسر چھوڑ کر ختم نبوت مرتبی کے گن گانے لگے حالانکہ اسلامی عقیدہ ختم نبوت ہر دو صورتوں کا مطالبہ کرتا تھا کہ ختم نبوت زمانی پر بھی ایمان ہو اور ختم نبوت مرتبی کو اپنی جگہ تسلیم کیا جائے.“ عقیدۃ الامته صفحه ۵۷-۵۸) مولوی خالد محمود صاحب پر واضع ہو کہ ہم احمدی صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت مرتبی ہی کے گن نہیں گاتے بلکہ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی کے بھی ان معنوں میں قائل ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شارع اور آخری مستقل نبی ہیں.اور کوئی تشریعی اور مستقل نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا.آپ بھی خاتمیت زمانی ہی کے لحاظ سے تسلیم کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی تشریعی نبی آسکتا ہے نہ مستقل نبی.تبھی تو آپ حضرت عیسی علیہ السلام کے امتی نبی کی حیثیت میں آنے کے قائل ہیں.پس ہم احمد یوں پر خاتمیت زمانی کے عقیدہ کو یکسر چھوڑنے کا الزام ایک بہتانِ عظیم ہے.مولوی خالد محمود صاحب ! گو عوام نے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب علیہ الرحمتہ سے انصاف نہیں کیا مگر آپ بھی تو ان سے انصاف نہیں کر رہے.کیونکہ آپ اُن کی طرف تاخیر زمانی یا بالفاظ دیگر خاتمیت زمانی کا ایسا مفہوم منسوب کرنا چاہتے ہیں جس سے خاتم التبين صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت مرتبی کی تاثیر کا آئیندہ کے لئے انقطاع لازم آئے اور خاتمیت مرتبی اور خاتمیت زمانی کے مفہوم میں تضاد اور تناقض پایا جائے.اور مولانا موصوف کا اجتماع نقیضین کو تسلیم کرنا لازم آئے.یہ امر تو حضرت مولانا موصوف کی عالمانہ شان کے منافی ہے.اگر خاتمیت زمانی کے معنی علی الاطلاق آخری نبی قرار دیئے جائیں تو

Page 78

مقام خاتم انا پھر تو مولا ناموصوف کا یہ قول کا ذب ٹھہرتا ہے کہ وو بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا.( تحذیر الناس صفحہ ۲۸) کیونکہ اگر خاتمیت زمانی کا یہ مفہوم مراد ہو کہ کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا تو اس قول کا صریح طور پر کا ذب ہونا لازم آئے گا کہ اگر کوئی نبی پیدا ہو تو خاتمیت محمدی میں کوئی فرق نہیں آئے گا.فرق کیوں نہیں آئے گا.خاتمیت زمانی علی الاطلاق پھر قائم نہ رہے گی.پس خاتمیت زمانی کا یہی مفہوم قرار دینے سے اُن کا قول سچا ٹھہرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے بعد کوئی شارع اور مستقل نبی نہیں آسکتا.خاتم النبیین کے حقیقی لغوی معنی ہم حیران ہیں کہ کوئی عالم دین خاتمیت مرتبی کو کس طرح خطبہ کی نگاہ سے دیکھ سکتا ہے جبکہ خاتمیت مرتبی خاتم النبیین کے حقیقی لغوی معنے ہیں.چنانچہ مفردات راغب میں جو قرآن مجید کی مستند لغت کی کتاب ہے.ختم اور طبع کو دو ہم معنی مصدر قرار دے کران کے معنوں کے متعلق صاف لکھا ہے:.الْخَتْمُ وَالطَّبْعُ يُقَالُ عَلَى وَجْهَيْنِ مَصْدَرُ خَتَمْتُ وَطَبَعْتُ وَهُوَ تَاثِيرُ الشَّيْءِ كَنَفْشِ الْخَاتَمِ وَالطَّابِعِ الثَّانِي الْأَثَرُ الْحَاصِلُ مِنَ النَّقْشِ وَيُتَجَوَّزُ بِذلِكَ تَارَةً فِي الْإِسْتِشَاقِ مِنَ الشَّيْءِ وَالْمَنْعِ مِنْهُ اِعْتِبَارًا لِمَا يَحْصُلُ مِنَ الْمَنْعِ بِالْخَيْمِ عَلَى الْكُتُبِ وَالْأَبْوَابِ نَحْوَ خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوْبِهِمْ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ

Page 79

۵۸ وَتَارَةً فِي تَحْصِيْلِ أَثْرٍ عَنْ شَيْءٍ اِعْتِبَارًا بِالنَّقْشِ الْحَاصِلِ وَتَارَةً يُعْتَبَرُ مِنْهُ بُلُوْعُ الْآخِرِ مِنْهُ خَتَمْتُ الْقُرْآنَ أَي انْتَهَيْتُ إِلَى اخره.(مفردات القرآن للامام الراغب زير لفظ ختم) یعنی ختم اور بطع کی دو صورتیں ہیں.( پہلی صورت جو حقیقی لغوی معنی کی صورت ہے یہ ہے کہ یہ حسمْتُ اور طَبَعْت کا مصدر ہیں.جس کے معنی تاثیر الشئ ( یعنی دوسری شئے میں اثرات پیدا کرنا ) ہیں جیسا کہ خاتم (مہبر ) کا نقش دوسری چیز میں اپنے نقش و اثرات پیدا کرتا ہے.اور دوسری صورت ( جو مجازی معنی ہیں ) اس نقش کی تاثیر کا اثر حاصل ہے.اور یہ لفظ مجاز اکبھی تو ختم على الكتب والابواب ( کتابوں اور بابوں پر مُہر لگنے ) کے لحاظ سے شی ء کی بندش اور روک کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسے خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَخَتَمَ عَلَىٰ قَلْبِهِ وَسَمْعِهِ ( میں اس کا استعمال مجازی معنوں میں ہوا ہے ) اور کبھی اس کے مجازی معنی نقش حاصل کے لحاظ سے کسی شئے سے تحصیل اثر ہوتے ہیں.اور کبھی اس کے مجازی معنی آخر کو پہنچنا ہوتے ہیں اور انہی معنوں میں ختمت القرآن کہا گیا ہے کہ تلاوت قرآن میں اس کے آخر تک پہنچ گیا.لغت کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ ختم اور طبع کے حقیقی لغوی معنی مُہر کے نقش کرنے کی طرح تاثیر الشی ہیں.انہیں حقیقی لغوی معنی کے لحاظ سے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب علیہ الرحمہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بمعنی نبیوں کے لئے نبوت

Page 80

۵۹ مقام خاتم میں مؤثر وجود قرار دیا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کے وصف سے بالذات موصوف قرار دیا ہے.اور سوا آپ کے اور تمام نبیوں کو موصوف بوصف نبوت بالغرض لکھا ہے یعنی اور سب انبیاء کی نبوت کو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا فیض قرار دیا ہے اور آپ کی نبوت کو کسی اور نبی کا فیض قرار نہیں دیا.مفردات کے بیان سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اثر حاصل اور منع اور بندش اور آخر کو پہنچنا ختم کے مجازی معنی ہیں جس پر مفردات کے الفاظ یتجوز بذلک تارةً روشن دلیل ہیں.تفسیر بیضادی کے حاشیہ پر بھی لکھا ہے:.فَإِطْلَاقُ الْخَيْمِ عَلَى الْبُلُوْعَ وَالْإِسْتِيْثَاقِ مَعْنَى مَجَازِيٌّ یعنی لفظ ختم کا آخر کو پہنچنے اور بند کرنے کے معنوں میں استعمال مجازی معنی ہیں.پس مطلق آخری نبی خاتم النبیین کے حقیقی معنی نہیں.حقیقی معنی اس کے تو خاتمیت مرتبی ہی ہیں.یعنی ایسا نبی جو تمام انبیاء کے نبوت پانے میں مؤثر وجود ہے خاتمیت مرتبی خاتم النبیین کے حقیقی اور مقدم معنی ہیں جو آئیندہ نبی پیدا ہو سکنے پر دلالت کرتے ہیں.اور خاتمیت زمانی علی الاطلاق (یعنی مطلق آخری نبی ہونا) ان حقیقی معنوں کے ساتھ مجازی معنی ہونے اور تناقض رکھنے کی وجہ سے جمع نہیں ہوسکتی.کیونکہ ان معنوں سے آئیندہ خاتمیت مرتبی کے وصف کا انقطاع لازم آتا ہے.پس خاتمیت زمانی صرف ان معنوں میں خاتمیت مرتبی کے ساتھ بطور لازم المعنی جمع ہوسکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شارع اور آخری مستقل نبی ہیں اور آپ کے بعد آپ کی خاتمیت مرتبی کے فیض سے آئیندہ اتی نبی پیدا ہوسکتا ہے.پس مولوی خالد محمود صاحب! آپ ضد کو چھوڑ کر خدارا غور کریں.

Page 81

مقام خاتم النت اور احمدیت کی اندھی مخالفت میں مولانا محمد قاسم صاحب علیہ الرحمۃ کی طرف خاتم النبیین کے معنوں میں متناقض باتوں کا قائل ہونا منسوب کر کے ان کی علمی شان پر دھبہ نہ لگائیں اور انہیں اجتماع النقیضین کا قائل قرار نہ دیں.خاتمیت مرتبی کو ان کے نزدیک خاتمیت زمانی لازم ہے اور خاتمیت مرتبی خاتمیت زمانی کا ملزوم ہے اور ملزوم اور لازم ایک دوسرے سے تناقض اور تضاد نہیں رکھتے.مگر خاتمیت مرتبی اور خاتمیت زمانی علی الاطلاق میں تناقض ہے لہذا وہ خاتمیت مرتبی کے ساتھ خاتمیت زمانی علی الاطلاق ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مطلق آخری نبی ہونے) کے قائل نہیں ہو سکتے.کیونکہ خاتمیت زمانی علی الاطلاق ماننے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آئیندہ کے لئے خاتمیت مرتبی کے فیض سے انکار لازم آتا ہے اور خاتمیت مرتبی تو خاتم النبیین کے اصلی حقیقی اور مقدّم بالذات معنی ہیں.یہ وصف آپ کی ذات سے الگ نہیں ہوسکتا اور اس کا انقطاع تسلیم کرنا امر محال ہے کیونکہ خاتمیت مرتبی اور خاتمیت زمانی میں ملزوم ولازم اور علت و معلول کا علاقہ ہے.مولانا محمد قاسم صاحب فرماتے ہیں کہ آئیندہ نبی پیدا ہونے سے خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا.اور خاتمیت محمدی چونکہ خاتمیت مرتبی اور خاتمیت زمانی کی جامعہ ہے لہذا مولانا موصوف علیہ الرحمۃ آئیندہ خاتمیت مرتبی کے فیض و تاثیر کو منقطع قرار نہیں دیتے.پس خاتمیت زمانی سے اُن کی مراد یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی تشریعی اور مستقل نبی نہیں آسکتا.اور غیر تشریعی امتی نبی کے آئیندہ خاتمیت مرتبی کے فیض سے پیدا ہونے میں تو خاتمیت محمدی میں کوئی فرق نہیں آتا.نبوت کا گلی انقطاع ماننے کی صورت میں ضرور فرق آجاتا ہے اور مولانا موصوف کا بیان جھوٹ قرار پاتا ہے.

Page 82

مقام خاتم النی مولوی خالد محمود صاحب ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ یہ نبی پیدا ہونے کا امکان مولا نا محمد قاسم صاحب نے صرف خاتمیت مرتبی کے لحاظ سے بیان کیا ہے نہ کہ خاتمیت زمانی کے لحاظ سے.لیکن چونکہ وہ خاتمیت زمانی کے بھی قائل ہیں لہذا نبی کا پیدا ہونا اُن کے نزدیک ممکن نہیں.گویا وہ یہ بتاتے ہیں کہ مولانا موصوف علیہ الرحمۃ کے نزدیک خاتمیت مرتبی کے لحاظ سے تو آئیندہ نبی پید اہو سکتا ہے اور خاتمیت زمانی کے لحاظ سے آئیندہ نبی پیدا نہیں ہو سکتا.یعنی اگر آئیندہ نبی پیدا ہو جائے تو خاتمیت مرتبی میں فرق نہیں آتا البتہ خاتمیت زمانی میں ضرور فرق آتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ خاتمیت زمانی کا جو مفهوم مولوی محمد قاسم صاحب کی طرف منسوب کر رہے ہیں وہ خاتمیت مرتبی سے تناقض رکھتا ہے.کیونکہ اگر آئیندہ نبی پیدا ہو جائے تو خاتمیت زمانی باطل ہو جاتی ہے.لہذا خاتمیت زمانی کے ہوتے ہوئے آئیندہ نبی پیدا نہیں ہوسکتا.اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ اس طرح آئیندہ کے لئے خاتمیت مرتبی کے وصف کا انتفاء لا زم آیا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتمیت مرتبی کے لحاظ سے جو خاتم النبیین کے اصلی اور حقیقی اور مقدم معنی ہیں، اپنے جسمانی ظہور پر خاتم النبیین نہیں رہے.کیونکہ یہ عقیدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائمی طور پر حقیقی معنی میں خاتم النبیین نہ رہنے کو تلزم ہے.اعاذنا الله عن هذه العقيدة الفاسدة.ایک بریلوی عالم کا اعتراض اب ایک بریلوی عالم کا اعتراض سنیں جو مولا نا محمد قاسم صاحب علیہ الرحمۃ سے اختلاف رکھتے ہیں.یہ عالم مولانا موصوف کی عبارت مندرجہ تحذیر الناس صفحہ ۸ کے فقرہ

Page 83

مقام خاتم است 66 ایسے ہی ختم نبوت بمعنی معروض کو تاخر زمانی لازم ہے.“ کے متعلق لکھتے ہیں :.” جب یہ کہا جائے کہ بالفرض حضور کے بعد بھی کوئی نبی پیدا ہو تو خاتمیت محمد یہ میں فرق نہ آئے گا.یہ عبارت اس لئے قابلِ اعتراض ہے کہ اس سے خاتمیت زمانی تو یقیناً باطل ہو جاتی ہے.کیونکہ اگر بالفرض حضور کے بعد کوئی نبی پیدا ہوتو یقیناً حضور کی خاتمیت میں فرق آتا ہے اور مولوی قاسم کہتے ہیں کہ فرق نہیں آتا تو اس سے خاتمیت زمانی تو باطل ہوگئی.اور خاتمیت مرتبی کو خاتمیت زمانی لازم تھی.جب لا زم باطل ہو ا تو ملزوم بھی باطل ہو گیا.اور اس طرح اس عبارت سے ختم زمانی اور ختم ذاتی دونوں کا خاتمہ ہو گیا.“ (رساله رضوان یکم فروری ۱۹۵۷ء صفحه ۱۲ کالم اول) اس اعتراض کا معقول جواب یہی دیا جا سکتا ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ مولانا محمد قاسم صاحب کے نزدیک تاخیر زمانی خاتمیت مرتبی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری تشریعی اور مستقل نبی ہونے کے معنوں میں لازم ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریعی نبی ہیں نہ کہ غیر تشریعی نبی.پس خاتمیت زمانی کے خاتمیت مرتبی کو لازم ہونے کی صورت میں غیر تشریعی امتی نبی کے پیدا ہو سکتے میں خاتمیت زمانی روک نہیں.اس صورت میں خاتمیت زمانی خاتمیت مرتبی کو لازم بھی ہے اور خاتمیت مرتبی کی آئیندہ تاثیر میں کلیہ روک بھی نہیں.تاخیر زمانی علی الاطلاق قرار دینے میں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلق آخری نبی قرار دینے کی صورت میں خاتمیت مرتبی تو منتفی ہو جاتی ہے.اور اس کے منفی

Page 84

۶۳ مقام خاتم السنة ہونے کے ساتھ ہی اس کا لازم خاتمیت زمانی بھی منتفی ہو جاتا ہے کیونکہ جب ملزوم نہ رہا تو لازم کا وجود کیسے پایا جا سکتا ہے.پس خاتمیت زمانی علی الاطلاق ماننے کی صورت میں خاتمیت محمدی میں ضرور فرق آجاتا ہے.اور مولانا محمد قاسم صاحب کا یہ قول کاذب قرار پاتا ہے کہ آئندہ کسی نبی کے پیدا ہونے سے خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آتا.چونکہ اُن کا یه قول درست ہے اس لئے حقیقت یہی ہے کہ خاتمیت زمانی سے مُراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شارع نبی ہیں.نہ یہ کہ مطلق آخری نبی.خود مولوی خالد محمود صاحب کا حضرت عیسی علیہ السّلام کے اصالتنا نزول کا عقیدہ بھی خاتمیت علی الاطلاق کے خلاف ہے.محقق علماء کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت زمانی سے یہی مراد ہے کہ آپ کے بعد کوئی تشریعی نبی پیدا نہیں ہوسکتا.جیسا کہ امام علی القاری علیہ الرحمة حديث لا نَبِيَّ بَعْدِی کی تشریح میں فرماتے ہیں:.” مَعْنَاهُ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ لَا يَحْدُثُ بَعْدَهُ نَبِيٌّ بِشَرْعِ يَنْسَخُ شَرْعَة.“ ( الاشاعۃ فی اشراط الساعۃ صفحہ ۲۲۶) یعنی علماء کے نزدیک لا نبی بعدی کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی پیدانہ ہوگا جو شریعت محمدیہ کو منسوخ کرے.بریلوی عالم کا دوسرا اعتراض مولا نا محمد قاسم صاحب علیہ الرحمۃ کے حامی مصنف ”چراغ سنت“ نے لکھا تھا کہ مولانامحمد قاسم صاحب نے بطور فرض کے یہ بات لکھی ہے.اس پر معترض خاتمیت زمانی علی

Page 85

مقام خاتم انا الاطلاق مراد لے کر لکھتا ہے:.”مولوی محمد قاسم کی عبارت یہ ہے:.بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا ؟ غور کیجئے.بالفرض اگر نبی پیدا ہو تو حضور کی خاتمیت میں فرق آئے گا یا نہیں.اگر آپ کہیں نہیں آئے گا تو غلط ہے.کیوں اس لئے کہ:.(۱) اگر بالفرض اگر ( کسی صاحب !) کی دونوں آنکھیں نکال دی جائیں تو پھر بھی ان کی بینائی میں کچھ فرق نہیں آئے گا؟ (۲) بالفرض اگر ( کسی صاحب) کے سر کو جسم سے جدا کر دیا جائے تو پھر بھی اُن کے زندہ رہنے میں کچھ فرق نہیں آئے گا ؟ (۳) بالفرض اگر ( کوئی صاحب) اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو پھر بھی اُن کے نکاح میں کچھ فرق نہیں آئے گا ؟ (۴) بالفرض اگر ( کوئی صاحب ) زنا کرلیں تو پھر بھی اُن کی پاک دامنی میں کچھ فرق نہ آئے گا ؟ تو جناب فرمائیے.فرق آئے گا یا نہیں.تو اعتراض ان لفظوں پر ہے کہ فرق نہیں آئے گا.اور یہ ہی مولوی قاسم کہتے ہیں.حاشیہ 1: ذیل کے چاروں نمبروں کی عبارتوں میں کسی صاحب“ اور ”کوئی صاحب“ کے الفاظ جو انڈر بریکٹ ہیں وہ ہمارے ہیں.معترض صاحب نے ان کی بجائے ”مصنف چراغ سنت“ کے الفاظ لکھے ہیں.ہم نے اُن کا لکھنا پسند نہیں کیا.

Page 86

۶۵ مقام خاتم النی بالفرض حضور کے بعد بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمد یہ میں کچھ فرق نہیں آئے گا.تو فرض کا لفظ ان تمام مثالوں میں موجود ہے جو قابلِ اعتراض نہیں ہے.قابل اعتراض لفظ یہ ہیں کچھ فرق نہیں آئے گا ہم کہتے ہیں اور ساری دُنیا کے انسان کہتے ہیں کہ بالفرض حضور کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو خاتمیت محمدیہ میں ضرور فرق آئے گا.کیونکہ اس صورت میں حضور آخری نبی نہیں رہیں گے اور مولوی قاسم کہتے ہیں بالفرض حضور کے بعد نبی پیدا ہوتو پھر بھی خاتمیت محمد یہ میں کچھ فرق نہیں آئے گا.صاف ظاہر ہے کہ مولوی خالد محمود صاحب خاتمیت زمانی کے معنی مطلق آخری نبی قرار دے کر اس سوال کا بھی کوئی معقول جواب نہیں دے سکتے.البتہ ہم مولانا محمد قاسم صاحب کی طرف سے یہ جواب دے سکتے ہیں کہ اُن کے نزدیک خاتمیت زمانی سے مراد امام علی القاری علیہ الرحمۃ کی طرح یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی تشریعی نبی نہیں آسکتا.لہذا ابعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم غیر تشریعی امتی نبی کے پیدا ہو جانے سے مولوی محمد قاسم صاحب کے نزدیک واقعی خاتمیت محمدیہ میں کچھ فرق نہیں آئے گا.نہ خاتمیت مرتبی میں اور نہ ہی خاتمیت زمانی میں.اور خاتمیت مرتبی خاتمیت زمانی کے ساتھ امتی نبی کے پیدا ہونے کی صورت میں جمع رہے گی.اگر مولوی خالد محمود صاحب مولانا محمد قاسم صاحب ข

Page 87

(YY) مقام خا کی طرف خاتمیت زمانی بمعنی مطلق آخری نبی ہی منسوب کرنے پر مصر ہیں تو پھر وہ اس بریلوی عالم کے مذکورہ اعتراض کا ہرگز کوئی معقول جواب نہیں دے سکتے.اگر اُن کے پاس کوئی جواب ہے تو وہ پیش کریں.بریلوی عالم کا اعتراف حقیقت رسالہ رضوان کا مضمون نگار بریلوی عالم مولا نا محمد قاسم صاحب کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بالذات اور سوا آپ کے اور نبیوں کی نبوت کو بالعرض قرار دینے پر محض متعصبانہ نگاہ سے مولانا موصوف سے بے انصافی کرتے ہوئے بالعرض کے معنی عارضی قرار دیکر معترض ہے کہ مولانا موصوف نے تمام انبیاء کی نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بالمقابل عارضی قرار دے دیا ہے.حالانکہ بالعرض سے حضرت مولا نا موصوف کی مراد عارضی نہیں.بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ تمام انبیاء کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کے واسطہ سے ہے اور یہ بریلوی عالم خود بھی تمام انبیاء کی نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے مانتا ہے.چنانچہ یہ لکھتا ہے:.یہ بات بھی حق ہے کہ ابتدا سے لے کر تا ابد تک اے جس کو نعمت ملی ہے اس کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور قاسم ( تقسیم کرنے والے.ناقل ) حضور اکرم ہیں.جس کو جو نعمت ملی وہ حضور کے وسیلہ اور واسطہ سے ملی ہے تو اس اصول کے لحاظ سے یہ کہنا حق ہے کہ انبیاء کی نبوت بھی حضور کے صدقہ اور وسیلہ سے ملی ہے.“ (رضوان یکم فروری ۵ صفحه ۸ کالم ۴) حاشیہ انقل مطابق اصل ہے.ویسے تا اور تک دونوں کا اکٹھا استعمال غلط ہے.(مؤلف)

Page 88

(12) مقام خاتم انا پھر یہ عالم لکھتا ہے:.بعض علماء اور اولیاء عظام نے حضور کو سُورج اور باقی انبیاء کو تاروں سے تشبیہہ دی ہے اور یہ لکھا ہے کہ حضور فضل و شرف کے سُورج ہیں.اس سُورج سے تمام تارے ( انبیاء کرام ) فیض پاتے ہیں.تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضور اصلی نبی ہیں اور باقی انبیاء عارضی طور پر نبی ہیں.بلکہ مطلب صرف اس قدر ہے کہ تمام انبیاء کرام کو جو فضائل و کمال و معجزات حاصل ہوئے وہ سب حضور کے صدقہ اور وسیلہ سے اُن کو ملے ہیں یعنی نبوت اور کمالات کا حضور کے صدقہ اور وسیلہ سے ملنا اور بات ہے.اور صف نبوت سے دیگر انبیاء کا عارضی طور پر موصوف ہونا اور بات ہے.“ (رضوان یکم فروری کے صفحہ ۹ کالم اول) اس سے ظاہر ہے کہ مولا نا محمد قاسم صاحب سے بریلوی علماء کی محض نزاع لفظی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بالذات ہونے اور دوسرے انبیاء کی نبوت کے بالعرض ہونے سے مولانامحمد قاسم صاحب کی مراد بھی یہی ہے کہ تمام انبیاء کو نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے ملی ہے.ان کی مراد بالعرض سے بالواسطہ ہی ہے نہ کہ عارضی.معترض کا بالعرض کی فلسفیانہ اصطلاح کو عارضی کے معنوں میں لینا محض اس بغض و تعصب کا کرشمہ ہے جو وہ مولانا محمد قاسم صاحب سے رکھتا ہے.چنانچہ مولانا محمد قاسم علیہ الرحمۃ تحذیر الناس صفحہ ۴ پر بالذات اور بالعرض کی تشریح میں لکھتے ہیں:.سو اسی طور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت کو تصوّر فرمائیے.یعنی وو

Page 89

مقام خاتم النی آپ موصوف بوصف نبوت بالذات ہیں اور سوا آپ کے اور نبی موصوف بوصف ثبوت بالعرض ہیں.اوروں کی نبوت آپ کا فیض ہے پر آپ 66 کی نبوت کسی اور کا فیض نہیں.“ ( تحذیر الناس صفحه ۴ ) پس در حقیقت علماء بریلی بھی مولانامحمد قاسم کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت مرتبی کو مانتے ہیں.لیکن اس امر کی ہم پیچھے وضاحت کر چکے ہیں کہ خاتمیت مرتبی کے ساتھ خاتمیت زمانی مطلق آخری نبی کے معنوں میں تو جمع نہیں ہوسکتی ہے بلکہ خاتمیت زمانی خاتمیت مرتبی کے ساتھ انہی معنوں میں جمع ہوسکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری تشریعی اور مستقل نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی تشریعی اور مستقل نبی نہیں آسکتا.جب یہ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے کے قائل ہیں اور حدیث نبوی مسیح موعود کو نبی اللہ قرار دیتی ہے تو پھر یہ لوگ خاتمیت زمانی کو انہی معنوں میں تسلیم کر سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شارع نبی ہیں اور اس طرح خاتمیت زمانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امتی نبی کے آنے میں مانع نہیں رہتی.اور خاتمیت مرتبی بھی آئیندہ نبی پیدا ہونے میں مؤثر رہتی ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں معنوں میں خاتم النبیین رہتے ہیں.مولوی خالد محمود صاحب اور تمام علمائے بریلی ودیو بند حضرت عیسی علیہ السلام کا جو مستقل نبی تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امتی نبی کی صورت میں آنا مانتے ہیں.لہذا وہ حضرت عیسی علیہ السّلام کے وجود میں ایک نئی قسم کی نبوت کے حدوث کے قائل ہیں جس قسم کا کوئی نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے ظاہر نہیں ہوا.پس ہمارے

Page 90

19 مقام خاتم ان عقیدہ اور ان سب علماء کے عقیدہ میں ختم نبوت کے معنوں میں اصولی لحاظ سے کوئی فرق نہیں.ہم بھی مسیح موعود کو امتی نبی کی حیثیت میں مانتے ہیں اور یہ سب علماء بھی مسیح موعود کو امتی نبی ہی قرار دیتے ہیں.ہمارے درمیان صرف مسیح موعود کی شخصیت کی تعیین میں اختلاف ہے.اس کے درجہ اور مرتبہ کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں.اب مولوی خالد محمود صاحب وغیرہ خاتم النبیین کے معنی کی یہ تاویل نہیں کر سکتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم پیدا ہونے کے لحاظ سے آخری نبی ہیں.کیونکہ اول تو یہ خاتم النبیین کے معنوں کی تاویل و تخصیص ہے.اور تاویل و تخصیص مولوی خالد محمود صاحب کے نزدیک بقول قاضی عیاض جائز نہیں.دوم وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے وجود میں بعد از نزول ان کی پہلی نبوت میں ایک تغیر عظیم مان کر ایک نئی قسم کی نبوت کے حادث ہونے کے قائل ہیں.پس یہ نئی قسم کی بہوت کا حدوث خاتمیت مرتبی کے واسطہ اور فیض سے ہی ہوسکتا ہے.پس خاتمیت مرتبی کے فیض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بعد ایک نئی قسم کی نبوت کا حدوث ممکن ثابت ہوا.اور خاتمیت زمانی بھی اس میں مانع نہ ہوئی.کیونکہ مسیح موعود نبی اللہ کا بموجب احادیث نبویہ امتی نبی کی حیثیت میں آنا مسلم ہے.پس خاتمیت زمانی کا یہی مفہوم متعین ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری تشریعی نبی ہیں.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریعی نبی ہیں تو پھر انہیں آخری تشریعی نبی ہی قرار دیا جاسکتا ہے نہ کہ مطلق آخری نبی.کیونکہ مسیح موعود امت محمدیہ میں نبی اللہ بھی ہے اور امتی بھی.ایک دیوبندی عالم کا جواب علمائے بریلوی کو ایک دیو بندی مولوی ابو الزاہد سرفراز صاحب مولوی محمد قاسم صاحب کی مندرجہ

Page 91

(4.) مقام خاتم انا ذیل دو عبارتوں کو پیش کرتے ہیں:.(۱) ''بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا.“ (۲) اس طرح فرض کیجئے آپ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.ناقل ) کے زمانہ میں بھی اس زمین میں یا کسی اور زمین میں یا آسمان میں کوئی نبی ہو تو وہ بھی اس وصف نبوت میں آپ کا محتاج ہوگا.اور اس کا سلسلہ بہر طور آپ پر مختم ہوگا.“ مولوی ابو الزاہد صاحب مولانا محمد قاسم صاحب کی ان دونوں عبارتوں میں بالفرض “ اور ”فرض کیجئے“ کے الفاظ استعمال ہونے کی وجہ سے علمائے بریلی کے خلاف لکھتے ہیں:.رہا یہ سوال کہ حضرت نانوتوی کے نزدیک آپ کے بعد کوئی اور نبی آسکتا ہے یا کسی کو ثبوت مل سکتی ہے یا اس کا امکان شرعی پیدا ہوسکتا ہے تو قضیہ شرطیہ اور فرضیہ سے اس کا ثبوت کیونکر ہوا.خود قرآن کریم میں اس کی متعد دمثالیں موجود ہیں.“ اس کے بعد یہ دیوبندی عالم پانچ آیات قرآنیہ پیش کرتے ہیں:.ا إِنْ كَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعَابِدِينَ (الزخرف ۸۲) ۲.لَوْ كَانَ فِيْهِمَا الِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا (الانبیا ء ۲۳) ٣ - وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ (الانعام (۸۹) لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ (الرزم (۶۶)

Page 92

(41) مقام خاتم ۵- وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ (بنی اسرائیل ۸۷) کتاب بانی دارالعلوم دیو بند مصنفہ ابوالزاہد سرفراز مکتبہ اشاعت اسلام گنج مغلپورہ لاہور ) الجواب مولوی ابو الزاہد سرفراز صاحب! مولانا محمد قاسم صاحب کی مندرجہ بالا دونوں عبارتوں میں ”بالفرض “ اور ”فرض کیجئے“ کے شرطیہ جملوں کو مندرجہ بالا آیات قرآنیہ پر قیاس نہیں کر سکتے.کیونکہ ان سب آیات میں شرط محال ہے اور شرط کے محال ہونے کی بناء پر جزا محال ہے.کیونکہ رحمن کا بیٹا ہونا بھی ہمیشہ محال ہے.اور ایک سے زیادہ خُداؤں کا ہونا بھی ہمیشہ محال ہے.اور انبیاء سے شرک کا صدور بھی محال ہے.اور قرآنی وحی کا نسخ بھی محال ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ اس کی حفاظت کا وعدہ کر چکا ہؤا ہے.لیکن خاتمیت مرتبی کے فیض سے نبی کا ظہور ہمیشہ ممکن رہا ہے.لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور پر بھی ممکن ہے.کیونکہ خاتمیت مرتبی خاتم النبیین کے اصل اور مقدم معنی ہیں.اور یہ وصف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی ہونے کی وجہ سے دائمی طور پر آپ کو حاصل ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.يُبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ آيَاتِيْ فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ.(الاعراف آیت ۳۶) کہ اے بنی آدم اگر آئیندہ تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں جو میری

Page 93

(۷۲) مقام خاتم الله آیات تم پر بیان کریں تو جولوگ تقویٰ اختیار کریں گے اور اپنی اصلاح کر لیں گے اُن پر کوئی خوف نہیں اور وہ غمگین نہیں ہوں گے.دیکھئے یہ آیت بھی جملہ شرطیہ ہے.اور اس کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بنی آدم میں نبی کا آنا جائز قرار دیا گیا ہے.چنانچہ علامہ بیضاوی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں اِثْيَانُ الرُّسُلِ جَائِزٌ غَيْرُ وَاجِبِ.کہ رسولوں کا آنا جائز ہے.واجب نہیں.(خدا تعالیٰ پر تو کوئی بات واجب نہیں) قرآن کریم میں کئی ایسی آیات موجود ہیں جو ایسے جملات شرطیہ پر مشتمل ہیں جن میں شرط محال نہیں.بلکہ ممکن امر کو شرط قرار دیا گیا ہے جیسے:.إِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ (البقره آیت ۲۸۱) کہ اگر قرضدار تنگدست ہو تو اُسے آسانی پانے تک مہلت دینی چاہئیے.دیکھئے اس جملہ شرطیہ میں قرضدار کا تنگدست ہونا ایک ممکن امر ہے جسے فرض کیا گیا ہے.اسی طرح آیت کریمہ فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ فَاعْلَمُوْا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلْمِ اللهِ ( سورة هود آیت (۱۵) یعنی اگر وہ قرآن کے معاملہ میں اس کا جواب نہ لا ئیں تو جان لو کہ یہ اللہ کے علم کے ساتھ نازل ہوا ہے.اب دیکھئے.قرآن کریم کے مقابلہ میں کوئی آیت نہ بنا سکنا محال نہیں بلکہ اس کے برعکس ان کا کوئی آیت بنا کر لانا محال ہے.اس آیت میں بھی شرط محال نہیں.نبی کا آنا چونکہ مکن امر تھا اس لئے مولوی محمد قاسم صاحب نے ان عبارتوں میں محال امر کو فرض نہیں کیا.جب مولوی محمد قاسم صاحب اور تمام علماء دیوبند و بریلی بلکہ تمام ائمہ دین

Page 94

(۷۳) مقام خاتم النی بموجب احادیث نبویہ امت محمدیہ میں مسیح موعود کا امتی اور نبی ہونا تسلیم کرتے ہیں تو امتی موت کا حدوث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُن کے عقیدہ کی رُو سے ممکن بلکہ ضروری ہوا.فتدبّروا يا اولى الالباب.آیات قرآنیہ سے خاتمیت مرتبی اور زمائی کا ثبوت الْقُرْآنُ يُفَسِرُ بَعْضُهُ بَعضًا کے مطابق قرآن مجید کی ایک آیت کی تفسیر دوسری آیات کر دیتی ہیں.آپ معلوم کر چکے ہیں.آیت خاتم النبیین کے رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دو قسم کی خاتمیت کا مقام حاصل ہے.اول خاتمیت مرتبی جو خاتم النبیین کے مثبت حقیقی اور مقدم معنی ہیں.دوم خاتمیت زمانی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی ظہور پر خاتمیت مرتبی کولا زم ہوئی ہے.خاتمیت زمانی کا ثبوت آیت کریمہ اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المائده) اور آیت کریمہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُوْنَ ( الحجر ۱۰) سے ملتا ہے.پہلی آیت بتاتی ہے کہ قرآن مجید کے ذریعہ شریعت اپنے کمال کو پہنچ گئی ہے اور دوسری آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شریعت کی حفاظت کا خُدا تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے.لہذا قیامت تک اب کسی تشریعی نبی کی ضرورت نہیں.اور یہی مفہوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی کا ہے.کہ آپ آخری تشریعی نبی ہیں جو خاتمیت مرتبی کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے.اب آئیندہ کے لئے خاتمیت مرتبی کی تاثیر کے متعلق آیات قرآنیہ ملاحظہ ہوں

Page 95

(<) آیت اولی.اللہ تعالیٰ سُورہ نساء میں فرماتا ہے:.مقام خاتم انا وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ وَحَسُنَ أُولئِكَ رَفِيقًا.(سوره نساء آیت ۷۰) ترجمہ: جولوگ اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کریں گے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے درجہ پانے میں انعام یافتہ لوگوں یعنی نبیوں صدیقوں شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہیں.اور یہ اطاعت کرنے والے اُن کے اچھے ساتھی ہیں ( یعنی درجہ پانے میں ساتھی ہیں) آیت ہذا میں مع کا لفظ استعمال ہوا ہے.فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ چونکہ جملہ اسمیہ ہے جو استمرار پر دلالت کرتا ہے.لہذا اس دُنیا میں اللہ تعالے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والوں کی پہلے انعام یافتہ لوگوں سے درجہ میں معیت ضروری ہے.کیونکہ اس دُنیا میں ظاہری معنیت جو زمانی اور مکانی ہوتی ہے.اُن لوگوں کو پہلے انعام یافتہ لوگوں سے حاصل نہیں ہو سکتی.اس لئے اس آیت میں معنوی معیت ہی مُراد ہو سکتی ہے جو درجہ اور مرتبہ کے لحاظ سے ہوتی ہے.جیسے کہ ذیل کی آیت میں معیت درجہ میں ہی مراد ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّ الْمُنَافِقِيْنَ فِى القِرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا إِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَأَصْلَحُوْا وَاعْتَصِمُوْا بِاللَّهِ وَ اَحْلَصُوْا دِيْنَهُمْ لِلَّهِ فَأُولئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ.(سورہ نساء آیت ۱۴۶ - ۱۴۷)

Page 96

(۷۵) مقام خاتم الن ترجمہ: منافق آگ کے سب سے نچلے طبقے میں ہونگے اور تُو اُن کا کوئی مددگار نہیں پائے گا مگر جن لوگوں نے تو بہ کر لی اور اصلاح کر لی اور اللہ تعالی کے ذریعہ اپنی حفاظت چاہی اور اپنی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کر لیا.وہ مومنین کے ساتھ ہیں.( یعنی مومنوں میں سے ہیں) فَأُولئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ جملہ اسمیہ ہے.اور اس سے مراد یہ ہے کہ تو بہ کرنے والے اور خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق پیدا کر لینے والے اور اطاعت کو خدا تعالیٰ کے لئے خالص کر لینے والے مومنوں کے ساتھ ان معنوں میں ہیں کہ وہ اسی دنیا میں مومنوں کے گروہ کا فرد بن کر مومنوں کا درجہ پانے والے ہیں.اسی طرح فاولئک مع الذین انعم الله عليهم من النبيين الآیۃ بھی جملہ اسمیہ ہے اور مُراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے اسی دُنیا میں نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحین کے چار گروہوں میں سے کسی نہ کسی گروہ کے زمرہ میں ضرور داخل ہو جاتے ہیں.پس اس آیت سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی امتی کو نبوت کا درجہ بھی مل سکتا ہے.اور وہ نبیوں کے گروہ میں داخل ہو سکتا ہے.جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے صدیقوں، شہداء یا صالحین کا درجہ پا کر اُن کے گروہوں میں داخل ہو سکتے ہیں.پس اس آیت کریمہ میں خاتم النبیین کی خاتمیت مرتبی ہی کی آئیندہ کے لئے تاثیر بیان ہوئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ خاتمیت مرتبی کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف خاتم النبیین ہی نہیں بلکہ خاتم الصدقین اور خاتم الشہداء اور خاتم الصالحین بھی ہیں.گویا خاتم الکاملین بھی ہیں.اور اب آئیندہ کمال نبوت کمال صدیقیت ، کمال شہادت

Page 97

(LY) مقام خاتم السنة نتين اور کمال صالحیت صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے ہی حاصل ہوسکتا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ترک کر کے ان کمالات میں سے کوئی کمال کسی شخص کو حاصل نہیں ہوسکتا.گویا یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے الگ رہنے والی قوموں کو ان چاروں مدارج سے محروم قرار دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ امت محمدیہ سے جو قو میں باہر ہیں ان میں سے نہ صرف یہ کہ کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا بلکہ ان میں در حقیقت کوئی شخص نہ صدّیق کا درجہ پاسکتا ہے نہ شہید کا اور نہ ہی صالح کا.اب ان انعامات کے پانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت شرط ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا بالذات ہونا اور باقی انبیاء کی نبوت کا بالعرض ہونا حدیث نبوی صلے اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے.قَالُوْا يَا رَسُوْلَ اللهِ مَتى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ قَالَ وَادَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ (رواه الترمذي) یعنی صحابہ نے رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ کیلئے نبوت کب واجب ہوئی.اس پر آپ نے فرمایا اس وقت آدم ابھی روح و جسم کی درمیانی حالت میں تھا.ایک دوسری حدیث میں وارد ہے:.كُنتُ نَبِيًّا وَادَمُ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّيْنِ کہ میں اُس وقت بھی نبی تھا جبکہ آدم ابھی پانی اور مٹی کی درمیانی حالت میں تھا.

Page 98

ایک حدیث نبوی میں وارد ہے:.مقام خاتم انا كُنْتُ مَكْتُوبًا عِنْدَ اللهِ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَأَنَّ ادَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طينه (کنز العمال جلد ۶ صفحه ۱۱۲) یعنی میں اللہ تعالیٰ کے حضور خاتم النبیین قرار دے دیا گیا تھا حالانکہ آدم ابھی گیلی مٹی میں ہی کت پست تھا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء سے پہلے نبی اور خاتم النبیین قرار دیئے گئے.لہذا آپ کی نبوت بالذات ہے اور سوا آپ کے اور نبیوں کی نبوت بالعرض ہے.علت غائیہ ہر ایک نبی کی نبوت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.اور آپ کا خاتم النبیین ہونا تمام انبیاء کے ظہور میں بطور علت غائیہ کے مؤثر رہا ہے.بلکہ تمام کائنات کے ظہور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بطور علت غائیہ کے مؤثر ہیں.پس اس لحاظ سے آپ ابوالانبیاء ہیں.سیاق آیت کریمہ خاتم النبیین سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوالا نبیاء ہونا ظاہر ہے کیونکہ آیت کریمہ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبيِّينَ (الاحزاب (۴) کے الفاظ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالغ نرینہ اولاد کا باپ ہونے کی نفی کر کے حرف لکن لا کر استدراک کرتے ہوئے رَسُوْلَ اللهِ اور خَاتَمَ النَّبِيِّينَ ہونے کے لحاظ سے آپ کو اپنے ائتنتوں اور تمام نبیوں کا معنوی باپ قرار دیا گیا ہے.جیسا کہ مولانا محمد قاسم صاحب کی آیت ہذا کے متعلق تفسیر سے ظاہر ہے جو قبل از میں تحذیر الناس سے درج کی جاچکی ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان معنی میں خاتم النبیین ہیں کہ آپ ابو الانبیاء

Page 99

(<A) ہیں.اور تمام انبیاء آپ کی معنوی نسل ہیں.کیونکہ علتِ غائیہ بمنزلہ آباء ہوتی ہے.ہاں جسمانی ظہور پر اب خاتمیت مرتبی کی تاثیر کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا واسطه آیت مَنْ يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ ( نساء ۷۰) میں شرط قرار دے دیا گیا ہے.مولوی خالد محمود صاحب کا اعتراض مولوی خالد محمود صاحب آیت مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ کے متعلق لکھتے ہیں:.آيت من يطع الله والرسول سے ماتحت اور غیر تشریعی نبوت کا استدلال بھی غلط ہے کیونکہ دوسرے پیغمبر کی اطاعت اور پیروی سے جو نبوت ملے ضروری نہیں کہ وہ غیر تشریعی ہی ہو.مرزا صاحب کے قول کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کو نبوت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی کے واسطہ سے ملی تھی حالانکہ حضرت عیسی علیہ السّلام تشریعی پیغمبر تھے.اور وہ صاحب کتاب بھی تھے.“ ( عقيدة الامة صفحه ۱۰) الجواب (۱) قرآن مجید کی آیت اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المائدہ ۴) نے بتا دیا ہے کہ شریعت محمد یہ ایک کامل شریعت ہے اور خدا تعالیٰ نے آیت کریمہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُوْنَ کے ذریعہ اس کی حفاظت کا وعدہ بھی فرما دیا ہوا ہے.تو یہ دونوں

Page 100

(29) مقام خاتم السنة نتين آیتیں بتاتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کسی تشریعی نبی کی ضرورت نہیں.اس لئے آیت وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ کے ان آیات کی موجودگی میں صرف یہی معنی ہو سکتے ہیں کہ اب صرف امتی نبی ہی خاتمیت مرتبی کے فیض سے آ سکتا ہے.کوئی تشریعی اور مستقل نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا.کیونکہ آپ کی شریعت کے آنے پر دائما اس کی اطاعت شرط ہے.اور شریعت محمدیہ کی اطاعت ہی خدائے تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے.(ب) مولوی خالد محمود صاحب نے یہ غلط لکھا ہے کہ مرزا صاحب کے قول کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کو نبوت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی کے واسطہ سے ملی تھی.اس امر کو حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا قول قرار دینے کیلئے خالد محمود صاحب چشمہ مسیحی کی عبارت پیش کرتے ہیں کہ :.ایک بندہ خدا کا عیسی نام جس کو عبرانی میں یسوع کہتے ہیں تمہیں برس تک موسیٰ علیہ السلام کی پیروی کر کے خدا کا مقرب بنا اور مرتبہ نبوت پایا.“ مولوی خالد محمود صاحب نے اس قول کے لئے چشمہ مسیحی صفحہ ۲۴ کا حوالہ دیا ہے مگر یہ ادھوری عبارت جو انہوں نے پیش کی ہے یہ صفحہ ۶۷ کی ہے اور اس سے پہلے لکھا ہے:.” یہ لوگ جو مولوی کہلاتے ہیں ہمارے سید ومولے خیر الرسل وافضل الانبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں.جبکہ کہتے ہیں اس اُمت میں عیسی ابن مریم کا مثیل کوئی نہیں آسکتا تھا اس لئے ختم نبوت کی مُہر تو ڑ کر اُسی اسرائیلی عیسی کو کسی وقت خُدا تعالئے دوبارہ دُنیا میں لائے گا.اس اعتقاد سے صرف ایک گناہ نہیں بلکہ دو گناہ کے مرتکب ہوتے

Page 101

(A+) مقام خاتم انا ہیں.اوّل یہ کہ اُن کو اعتقاد رکھنا پڑتا ہے کہ جیسا کہ اس کے بعد وہ عبارت ہے جو مولوی خالد محمود صاحب نے ذیل کے الفاظ میں پیش کی ہے:.ایک بندہ خدا کا عیسی نام جس کو عبرانی میں یسوع کہتے ہیں، تمیں برس تک موسیٰ رسول اللہ کی شریعت کی پیروی کر کے خدا کا مقرب بنا اور مرتبہ نبوت پایا.اس کے بعد کی عبارت ہے:.اس کے مقابل پر اگر کوئی شخص بجائے تمہیں برس کے پچاس برس بھی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے تب بھی وہ مرتبہ نہیں پاسکتا.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کوئی کمال نہیں بخش سکتی.“ اس پوری عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت مرزا صاحب اس جگہ حضرت عیسی علیہ السّلام کے مرتبہ نبوت پانے کے متعلق اپنا کوئی عقیدہ بیان نہیں فرما رہے ہیں بلکہ بعض غیر احمدی علماء کا عقیدہ بیان کر رہے ہیں جس پر اول یہ کہ اُن کو یہ اعتقاد رکھنا پڑتا ہے“ کے الفاظ شاہد ہیں.مگر مولوی خالد محمود صاحب اس بات کو حضرت مرزا صاحب کا عقیدہ قرار دینا چاہتے ہیں.حضرت اقدس اسی مضمون کو آگے ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:.مسلمانوں میں سے سخت نادان اور بدقسمت وہ لوگ ہیں جو اس کے کمال حسن و احسان کے انکاری ہیں.ایک طرف تو اس کی مخلوق کو اس کی

Page 102

مقام خاتم النی صفات خاصہ میں حصہ دار ٹھہرا کر تو حید باری پر دھبہ لگاتے اور اس کے حُسنِ وحدانیت کی چمک کو شراکت غیر سے تاریکی کے ساتھ بدلتے ہیں اور پھر دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ابدی فیض سے ایسا محروم جانتے ہیں کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ چراغ نہیں بلکہ مُردہ چراغ ہیں.جن کے ذریعہ سے دوسرا چراغ روشن نہیں ہوسکتا.وہ اقرار رکھتے ہیں کہ موسیٰ نبی زندہ چراغ تھا جس کی پیروی سے صدہا نبی چراغ ہو گئے اور مسیح اسی کی پیروی تمہیں برس تک کر کے اور توریت کے احکام کو بجالا کر اور موسیٰ کی شریعت کا جوا اپنی گردن پر لے کر نبوت کے انعام سے مشرف ہوا.مگر ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی پیروی کسی کو کوئی رُوحانی انعام عطانہ کر سکی.“ اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت اقدس اس جگہ اپنا یہ عقیدہ بیان نہیں کر رہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام موسیٰ علیہ السّلام کی پیروی سے نبوت کے انعام سے مشرف ہوئے بلکہ اسے بعض غیر احمدی علماء کا اقرار قرار دے رہے ہیں.آپ کا اپنا عقیدہ اس بارہ میں یہ ہے کہ:.اس جگہ طبعا یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ کی اُمت میں بہت سے نبی گزرے ہیں.پس اس حالت میں موسیٰ کا افضل ہونالازم آتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ جس قدر نبی گزرے ہیں اُن سب کو خدا نے براہِ راست چن لیا تھا حضرت موسیٰ کا اس میں کچھ دخل نہیں تھا.لیکن اس امت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزار ہا اولیاء

Page 103

مقام خاتم است ہوئے اور ایک وہ بھی ہوا جو انتی بھی ہے اور نبی بھی.اس کثرت فیضان کی کسی نبی میں نظیر نہیں مل سکتی.اسرائیلی نبیوں کو الگ کر کے باقی تمام لوگ اکثر موسوی امت میں ناقص پائے جاتے ہیں.رہے انبیاء سو ہم بیان کر چکے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت موسیٰ سے کچھ نہیں پایا بلکہ وہ براہِ راست نبی کئے گئے.مگر اُمت محمدیہ میں سے ہزار ہا لوگ محض پیروی کی 66 وجہ سے ولی کئے گئے.“ (حقیقۃ الوحی حاشیه صفحه ۳۸) (ج) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت عیسی علیہ السلام کو تشریعی نبی بھی نہیں مانتے.چنانچہ آپ تو رات کی مثیل موسیٰ کی پیشگوئی کو عیسائیوں کے حضرت عیسی پر چسپاں کرنے کی تردید میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پیشگوئی کا مصداق ثابت کرنے کے لئے لکھتے ہیں:." حضرت عیسی علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک ذرہ مناسبت نہیں.نہ وہ پیدا ہو کر یہودیوں کے دشمنوں کو ہلاک کر سکے نہ وہ اُن کے لئے کوئی نئی شریعت لائے.نہ انہوں نے بنی اسرائیل کے بھائیوں کو بادشاہت بخشی.انجیل کیا تھی وہ صرف توریت کے چند احکام کا خلاصہ ہے جس سے پہلے یہود بے خبر نہیں تھے گو اس پر کار بند نہیں تھے.“ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحه ۱۹۹) پس حضرت مرزا صاحب کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام تشریعی نبی نہیں تھے.اور انجیل صرف توریت کے احکام کا خلاصہ تھی نہ کہ کوئی جدید شریعت.

Page 104

مولوی خالد محمود صاحب کے ایک مطالبہ کا جواب مولوی خالد محمود صاحب لکھتے ہیں کہ :.مقام خاتم انا اس معنی اور مفہوم کو جب مرزا غلام احمد بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم سمجھتے ہیں اور اپنی نبوت کو ایک نئی اصطلاح قرار دیتے تھے تو مرزائی مبلغین پر لازم تھا کہ مرزا صاحب کے دعوی کے مطابق اس نئی قسم کی نبوت پر کوئی ایک آیت پیش کرتے “ ( عقيدة الامة صفحه ) مولوی خالد محمود صاحب! ہم نے تو نئی قسم کی نبوت یعنی امتی نبوت کے ثبوت میں آیت مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ پیش کر دی ہے.آپ بھی تو حضرت عیسی علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امتی نبی ہی مانتے ہیں.اس لئے ہمارا اب آپ سے یہ مطالبہ ہے کہ آپ کسی آیت سے حضرت عیسی علیہ السلام کے امت محمدیہ میں اتنی نبی کی حیثیت میں آنے کا بالتصریح ثبوت پیش کریں.ہم نے جو آیت پیش کی ہے اس سے یہ بھی ثابت ہے کہ اس آیت کریمہ میں ایک نئی قسم کے نبی کے پیدا ہونے یا مبعوث ہو سکنے کی اُمید دلائی گئی ہے.کیونکہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والوں کو ہی نبوت ملنے کا ذکر ہے.اس آیت میں تشریعی نبوت کے اجراء کا بھی کوئی احتمال نہیں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت جب اس کے لئے شرط ہے تو ایسا شخص تشریعی نبی تو ہو ہی نہیں سکتا.

Page 105

۴۸۴ مقام خاتم است ماسوا اس کے کہ تشریعی نبوت کے انقطاع کے متعلق واضح آیات موجود ہیں جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے.پس اس آیت میں غیر تشریعی ، خلی اور انعکاسی نبوت کا ہی بیان ہے.کیونکہ امتی کو جو بھی کمالات ملتے ہیں وہ ظلمی اور انعکاسی طور پر ہی ملتے ہیں.لہذا اس آیت میں مولوی خالد محمود صاحب کی تینوں مطلوبہ شرائط مندرجہ عقیدۃ الامۃ صفحہ 1 کے ساتھ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی نئی مصطلحہ نبوت کے باقی ہونے کا واضح ثبوت موجو د ہے.گو اس آیت میں ظلی اور انعکاسی کا لفظ تو موجود نہیں مگر ظلیت اور انعکاس مَنْ يُطِعِ الله وَالرَّسُولَ کے الفاظ سے مستنبط ضرور ہے.مولانا محمد قاسم صاحب نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ تمام انبیائے کرام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل اور عکس ہی قرار دیا ہے حالانکہ قرآن مجید میں ان کے لئے کہیں ظل و انعکاس کا تصریحا ذکر موجود نہیں.چنانچہ مولانا موصوف تحریر فرماتے ہیں:.انبیاء میں جو کچھ ہے وہ ظلت اور عکس محمدی ہے.کوئی ذاتی کمال نہیں پر کسی نبی میں وہ عکس اسی تناسب پر ہے جو جمال کمال محمدی میں تھا.اور رکسی میں بوجہ معلوم وہ تناسب نہ رہا ہو.“ تحذیر الناس صفحہ ۲۹ یا ۳۰ بلحاظ ایڈیشن مختلفه ) ظلیت اور انعکاس کا یہ استنباط مولانا نے خاتم النبیین کے معنی خاتمیت مرتبی ہی سے کیا ہے.اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں:.کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت وقرب کا بجز سچی اور کامل

Page 106

(AO) مقام خاتم انت متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے.ہمیں جو کچھ ملتا ہے ظلی اور طفیلی طور پر ملتا ہے.“ (ازالہ اوہام صفحہ ۱۳۸) پس جب بقول مولانا محمد قاسم صاحب تمام انبیاء کی نبوت ظل و عکس محمدی ہی ہے حالانکہ وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے حقیقت میں اتنی نہ تھے.تو جو کامل امتی ہو.اس کی نبوت اور اس کے کمالات تو بدرجہ اولی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا ظل و عکس ہوں گے.دوسری آیت سُورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے:.يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيْيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.(الاعراف ۴۶ آیت ۳۶) ترجمہ: اے بنی آدم اگر آئندہ تم میں سے تمہارے پاس رسول آئیں جو تم پر میری آیات بیان کریں تو جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے اور اپنی اصلاح کرلیں گے ان پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے.اس آیت سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ بنی آدم کو آئیندہ کے لئے قرآن شریف کی اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے کہ جب آئیند ہ اُن کے پاس رسول آئیں تو اُن کا فرض ہے کہ وہ انہیں قبول کریں.ورنہ نجات سے محروم رہیں گے.پس اگر

Page 107

(AY) مقام خاتم النی نتين خاتم النبیین کی آیت کی رُو سے رسولوں کا آنا گلیہ منقطع ہو چکا ہوتا تو اللہ تعالے قرآن مجید میں ایسی ہدایت نہ دیتا کہ اگر آئیند ہ رسول آئیں تو اُن کو قبول کرنا چاہیئے.آیت مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ الخ سے ظاہر ہے کہ آئیند ہ نبوت پانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت شرط ہے.پس یہ رسول جن کے آئیند ہ آنے کا زیر تفسیر آیت میں ذکر ہے اُن کے لئے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مطیع اور اقتی ہونا پہلی آیت کی رُو سے ضروری ہے.مولوی خالد محمود صاحب کی جرح کا امراوّل مولوی خالد محمود صاحب نے اس آیت کے متعلق پہلی جرح یہ کی ہے کہ یہ ا.ایک عالم ارواح سے خطاب ہے.“ ۲.قادیانی حضرات کی انتہائی بے بسی اور بے چارگی ہے کہ مسئلہ ختم نبوت زیر بحث آنے پر وہ انہی آیات کا سہارا لیتے ہیں جن میں کسی سابقہ وقت کے پچھلے نبیوں کے آنے کی خبر قرآن کریم میں حکایت کی گئی ہے.“ (عقیدۃ الامۃ صفحہ ۱۰ و ۱۱) الجواب مولوی خالد محمود صاحب کا بیان درست نہیں کہ اس آیت میں عالم ارواح سے خطاب بطور حکایت کیا گیا ہے.چنانچہ زیر بحث آیت يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيْنَكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ سے پہلے ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا

Page 108

مقام خاتم ان ہے يبَنِي آدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف ۳۲) یعنی اے بنی آدم ہر مسجد کے پاس یا عبادت کے وقت لباس کے ذریعہ زینت اختیار کر لیا کرو.اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ اہلِ عرب خانہ کعبہ کا تو اف ننگے بدن کیا کرتے تھے.اس لئے انہیں یہ حکم دیا گیا کہ اس وقت لباس پہن لیا کرو.امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ تفسیر اتقان میں اسی آیت کے متعلق فرماتے ہیں:.خِطَابٌ لِاهْلِ ذَلِكَ الزَّمَانِ وَلِكُلِّ مَنْ بَعْدَ هُمْ یعنی یہ آیت اس زمانہ کے لوگوں اور تمام بعد میں آنے والے لوگوں کو خطاب ہے.پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے:.كُلُوا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ.(الاعراف ۳۲) یعنی تم کھاؤ اور پیو اور فضول خرچی نہ کرو بیشک اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے چند آیات میں فرمایا ہے جن کا ترجمہ یہ ہے کہ ” (اے نبی ) کہد واللہ کی زینت اور پاک رزق جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے کس نے حرام کیا ہے.کہدو یہ دنیا کی زندگی میں مومنوں کے لئے ہے اور قیامت کے دن صرف انہی لوگوں کے لئے ہے.اس طرح ہم اپنی آیات اُن لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں کھول کر بیان کرتے ہیں.تو کہہ دے میرے ربّ نے بُرے اعمال کو خواہ ظاہر

Page 109

مقام خاتم است ہوں یا چھپے ہوئے اور گناہ کو اور ناحق بغاوت کو حرام کیا ہے.اور اس بات کو (بھی) کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دو.اور اس بات کو بھی ( حرام کیا ہے ) کہ تم اللہ پر ایسے جھوٹے الزام لگاؤ جن کو تم نہیں جانتے.ہر قوم کے لئے ایک ( خاتمہ ) کا وقت مقرر ہے.پس جب وہ وقت مقررہ آجاتا ہے تو نہ اس سے ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں نہ آگے بڑھ سکتے ہیں.“ اس کے بعد زیر بحث آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ”اے بنی آدم اگر آئیندہ تم میں سے تمہارے پاس رسول آئیں جو تم پر میری آیات بیان کریں تو جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے اور اصلاح کر لیں گے انہیں نہ ( آئیندہ کے متعلق) کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ (ماضی کے متعلق ) غمگین ہوں گے.“ پس زیر بحث آیت کا سیاق اس بات پر روشن دلیل ہے کہ یہ خطاب عالم ارواح سے نہیں کہ عالم ارواح کے واقعہ کی اس جگہ حکایت کی گئی ہو.بلکہ جس طرح اس سے پہلی آیات میں بنی آدم کو اس دُنیا کے عالم میں خطاب کیا گیا ہے.اسی طرح زیر بحث آیت کا خطاب بھی اہلِ دُنیا سے ہے نہ کہ عالم ارواح سے.اب دیکھ لیجئے کہ احمدی اس آیت سے نبوت کے جاری ہونے کے متعلق ناجائز سہارا لے رہے ہیں یا خود مولوی خالد محمود صاحب بے بسی کے عالم میں یہ کہہ کر ہمارے استدلال کو ٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں.کہ اس آیت میں خطاب عالم ارواح سے ہے اور یہ کہ اس میں پچھلے نبیوں کا قصہ بیان کیا گیا ہے.ہم اس امر کا فیصلہ قارئین کرام پر ہی

Page 110

(19 مقام خاتم انا چھوڑتے ہیں.انصاف ! انصاف !! انصاف !!! مولوی خالد محمود صاحب کی جرح کا امر ثانی، دوسری بات جو مولوی خالد محمود صاحب نے ہمارے استدلال پر تنقید کی صورت میں لکھی ہے یہ ہے کہ اگر اس ( آیت ناقل) سے مرزائی حضرات اجرائے نبوت پر استدلال کریں گے تو کیا اس سے تشریعی نبوت اور مستقل غیر تشریعی نبوت ہر دو کے دروازے بھی گھلے نظر نہ آئیں گے؟ اور ظاہر ہے کہ مرزائی حضرات کے قول کے مطابق مرزا صاحب خود بھی ایسی ہر نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم مانتے ہیں.“ الجواب بیشک حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریعی نبوت اور مستقل غیر تشریعی نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے بعد بالکل منقطع جانتے ہیں.مگر اس آیت میں رُسُل کا لفظ ” عام مخصوص بالبعض“ ہے.یعنی اس کے عموم کی تخصیص دوسری آیات کر رہی ہیں.چنانچہ آیت مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ سُوره نساء آیت۷۰) سے ظاہر ہے کہ آئیندہ نبی وہی ہوسکتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مطیع ہو.یعنی شریعت محمدیہ پر قائم ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہو.اور آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ سُوره مائده آیت ۴) سے ظاہر ہے کہ شریعت محمد یہ ایک کامل شریعت ہے.اور آیت إِنَّا نَحْنُ

Page 111

(9.) مقام خاتم النی نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُوْنَ ( حجر ع (۱) سے ظاہر ہے کہ شریعت محمد یہ آئیند ہ محفوظ رہے گی.لہذا ان دونوں آیتوں سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی تشریعی نبی کی ضرورت نہیں.پس ان آیات سے ظاہر ہے کہ آئیندہ نہ تشریعی نبی آسکتا ہے اور نہ ہی مستقل غیر تشریعی نبی آسکتا ہے.بلکہ صرف امتی نبی ہی آ سکتا ہے.اسی لئے تو اے خالد محمود صاحب ! آپ حضرت عیسی علیہ السلام کو جو آپ کے نزدیک تشریعی نبی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امتی نبی کی حیثیت میں آنے والا مانتے ہیں.اُصولِ فقہ میں یہ مسلم ہے کہ کسی نص کا اگر بظاہر حکم عام ہو، اور ایک دوسری نصت اس حکم کی تخصیص کر رہی ہو تو وہ نص عام مخصوص بالبعض“ ہو جائے گی لہذا اُصولِ فقہ کی رُو سے اس آیت سے تشریعی رسُول یا غیر تشریعی مستقل رسُول کی آمد کا امکان پیدا ہی نہیں ہوتا.بلکہ صرف اتنی نبوت کا اجراء ہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ دوسری آیات اس کے عموم کی تخصیص ہیں.مولوی خالد محمود صاحب کا ایک مغالطہ مولوی خالد محمود صاحب لکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے عوام کو مغالطہ دینے کے لئے یہ عجیب انداز کر رکھا ہے کہ جب نبوت خدائی رحمت ہے تو یہ بند کیوں ہو گئی.ہم کہتے ہیں اگر غیر تشریعی نبوت خدا کی رحمت ہے تو تشریعی نبوت بھی کوئی زحمت نہیں آخر وہ کیوں بند ہو گئی.حالانکہ اس رحمت کے بند ہونے کے تم خود بھی قائل ہو.66 ( عقيدة الامة صفحه ۱۲)

Page 112

الجواب مقام خاتم انا مولوی خالد محمود صاحب ! سنیئے ! جب حضرت عیسی علیہ السلام کے بصورت غیر تشریعی امتی نبی کے آنے کے خود آپ بھی قائل ہیں.تو امت محمدیہ میں ایک نبی کی ضرورت کو آپ خود بھی تسلیم کرتے ہیں.اب بتائیے حضرت عیسی کی آمد ثانی آپ کے نزد یک رحمت ہے یا نہیں ؟ اگر رحمت ہے تو آپ انہیں ان کی پہلی آمد میں تو تشریعی مانتے ہیں.اب بتائیے اس پہلی حیثیت میں ہی آپ حضرت عیسی علیہ السلام کا آنا کیوں نہیں مانتے؟ آخر آپ تشریعی نبی کی حیثیت میں اُن کا آنا اسی لئے تو نہیں مانتے کہ قرآن مجید کی مکمل شریعت کے بصورت رحمت موجود ہونے کی صورت میں کسی تشریعی نبی کی ضرورت نہیں.اور خدا تعالیٰ دُنیا کو ضرورت کے بغیر کوئی نئی شریعت نہیں دیتا.مولوی خالد محمود صاحب ! کیا آپ یہ بات نہیں جانتے کہ نئی شریعت تب ہی آتی ہے جب پہلی شریعت دُنیا کے لئے کافی نہ رہے.یا اس میں تحریف ہو چکی ہو.اور نبی غیر تشریعی صرف پہلی شریعت کی تجدید کے لئے آتا ہے.نیز اس وقت آتا ہے جب کہ قوم کی اصلاح ایک غیر تشریعی نبی کے بغیر محض علمائے اُمت کے ذریعہ نہ ہو سکتی ہو.قرآن مجید کی شریعت چونکہ کامل شریعت ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وعدہ بھی کر رکھا ہے.اس لئے شریعت کی صورت میں رحمت تو دُنیا کے پاس پہلے ہی سے موجود ہے اس لئے کسی نئی شریعت کا بھیجا تحصیل حاصل ہے.ہاں قوم کے بگاڑ کی خبر احادیث نبویہ میں واضح طور سے موجود ہے چنانچہ ایک حدیث نبوى لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ میں بتایا گیا ہے کہ مسلمان ایک

Page 113

حاله مقام خاتم انبیر وقت پہلی قوموں کی پیروی کرنے والے ہو جائیں گے.اور یہ بھی حدیث نبوی میں وارد ہے:.يَأْتِيْ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا إِسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ - ( مشکوۃ کتاب العلم) یعنی لوگوں (مسلمانوں) پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن مجید کی تحریر باقی رہ جائے گی.پس جب اُمت میں ایسی خرابیوں کی خبر دی گئی ہے تو غیر تشریعی نبی کی ضرورت تو باقی ہوئی.اسی لئے تو مولوی خالد محمود صاحب ! آپ بھی حضرت عیسی نبی اللہ کے امتی بنی کی حیثیت میں آمد کے قائل ہیں.پس جس امر کو آپ ہمارا مغالطہ قرار دیتے ہیں وہ مغالطہ تو آپ کا ہی ثابت ہوا.کہ آپ غیر تشریعی نبی کی آمد کے خود بھی قائل ہیں اور اسے رحمت ہی سمجھتے ہیں.لیکن ہم احمدی اگر اُسے رحمت قرار دے کر اس کی ضرورت ثابت کریں تو آپ اسے ہمارا مغالطہ قرار دیتے ہیں ایں چہ بوالجی است.پس جب خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رَحْمَةٌ لِلعَلَمِيْنَ قرار دیا ہے تو جس رحمت کی امت کو ضرورت ہو اُس کا دروازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسدود قرار نہیں دیا جا سکتا.بلکہ اس رحمت کا دروازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمہ اللعلمین کے طفیل گھلا ہے.اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

Page 114

۹۳ مقام خاتم انا حق بر زبان جاری مولوی خالد محمود صاحب لکھتے ہیں:.دو جس معنی میں پچھلے نبیوں کی نبوت تھی خواہ تشریعی ہو خواہ غیر تشریعی اس معنی اور مفہوم کو جب مرزا غلام احمد بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم سمجھتے تھے اور اپنی نبوت کونئی اصطلاح قرار دیتے تھے تو مرزائی مبلغین پر لازم تھا کہ مرزا صاحب کے دعویٰ کے مطابق اس نئی قسم نبوت کی کوئی ایک آیت پیش کرتے.“ (عقیدۃ الامۃ صفحہ اا ) الجواب شکر ہے کہ مولوی خالد محمود صاحب نے تسلیم کر لیا ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کو ان لوگوں کی اصطلاح میں نہ تشریعی نبوت کا دعوی ہے نہ غیر تشریعی مستقل نبوت کا.اور جس جدید اصطلاح میں حضرت مرزا صاحب اپنے آپ کو نبی قرار دیتے ہیں وہ امتی نبی کی اصطلاح ہے اور مولوی خالد محمود صاحب بھی حضرت عیسی علیہ السلام کو آمید ثانی پر انتی نبی ہی مانتے ہیں.نہ کہ تشریعی نبی یا مستقل غیر تشریعی نبی.پس ہمارے اور اُن کے عقیدہ میں جب مسیح موعود کی نبوت ایک جدید قسم کی نبوت ہے تو پھر وہ بتائیں کہ وہ کس آیت کی رُو سے حضرت عیسی علیہ السلام کو آمد ثانی میں اتنی نبی مانتے ہیں.جو آیت وہ اس بارہ میں پیش کریں وہی اپنے مطالبہ کے جواب میں ہماری طرف سے سمجھ لیں.

Page 115

تدریجی انکشاف ۹۴ مقام خاتم انا چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اپنی شانِ نبوت کے بارہ میں تدریجی انکشاف ہوا.مولوی خالد محمود صاحب نے گندہ دہنی سے کام لیتے ہوئے اُسے قلابازیوں اور کروٹوں سے تعبیر کیا ہے اور اس بارہ میں حضرت اقدس کی بعض ایسی عبارتیں پیش کی ہیں جن میں سے بعض میں اپنے نبی ہونے سے انکار مذکور ہے.اور بعض میں اقرار.حلانکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت اقدس نے اس امر کو خود واضح فرما دیا ہے کہ جس جس جگہ آپ نے نبوت سے انکار کیا ہے اس جگہ تشریعی نبوت اور مستقلہ نبوت سے انکار ہے.لیکن ان معنوں سے کہ آپ نے اپنے آقا و مولیٰ سید الانبیاء حضرت محمد مصطفے صلے اللہ علیہ وسلم کے باطنی فیوض سے امور غیبیہ پر اطلاع پائی ہے.ان معنوں سے آپ نے نبی ہونے سے کبھی انکار نہیں کیا.ہاں اس بارہ میں آپ کے عقیدہ میں ضرور تبدیلی ہوئی ہے.کہ پہلے آپ خدا کی طرف سے کامل انکشاف نہ ہونے کی وجہ سے اپنے متعلق نبی کے لفظ کی تاویل محدث کے لفظ سے فرماتے رہے کیونکہ محدث میں بھی ایک حد تک شانِ نبوت پائی جاتی ہے لیکن بعد میں آپ پر انکشاف ہو گیا کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے صریح طور پر نبی کا خطاب دیا گیا ہے اس لئے آپ نے اپنے متعلق لفظ نبی کی تاویل محدث کرنا ترک کر دی.صرف یہی ایک تبدیلی آپ کے عقیدہ نبوت میں ہوئی ہے.مگر اس تبدیلی کے باوجو دتشریعی نبوت اور مستقلہ نبوت کا دعویٰ آپ نے کبھی نہیں کیا.بلکہ اپنے آپ کو ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی ہی قرار دیتے رہے ہیں یا اپنی نبوت کو ظلی نبوت کے نام سے موسوم فرماتے رہے ہیں.

Page 116

۹۵ مقام خاتم النت یادر ہے کہ کسی نبی پر اس کی شانِ نبوت کے متعلق تدریجی انکشاف ہرگز قابلِ اعتراض نہیں بلکہ درجہ میں تدریجی ترقی بھی قابلِ اعتراض نہیں.چنانچہ امام ربانی حضرت مجد دالف ثانی علیہ الرحمتہ اپنے مکتوبات میں نبوت کے حصول کے دو طریق بیان کرتے ہوئے دوسری راہ یہ بیان فرماتے ہیں:.راه دیگر آنست که بتوسط حصول ایں کمالات ولایت حصول به کمالاتِ نبوت میتر گردد.راه دوم شاهراه است و اقرب است بوصول که بکمالات نبوت رسد این راه رفته است از انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام و اصحاب ایشان به تبعیت دوراثت مکتوبات حضرت مجد دالف ثانی جلد ا مکتوب ۳۰۱ صفحه ۴۳۲) ترجمہ: دوسری راہ یہ ہے کہ کمالات ولایت حاصل کرنے کے واسطہ سے کمالات نبوت کا حاصل کرنا میتر ہو.یہ دوسری راہ شاہراہ ہے اور کمالات نبوت تک پہنچنے میں قریب ترین راہ ہے.الا ماشاء اللہ اسی راہ پر بہت سے انبیاء اور اُن کے اصحاب ان کی پیروی اور وراثت سے چلے ہیں.پس جب اکثر انبیاء کو نبوت ولایت کے مقام سے ترقی کر کے تدریجا حاصل ہوئی تو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر اپنی نبوت کے متعلق تدرجی انکشاف کس طرح قابل اعتراض ہو سکتا ہے.اسے مولوی خالد محمود صاحب کا قلابازیاں اور کروٹیں قرار دینا اس حقیقت سے ناواقفی کا ثبوت ہے جو حضرت مجد دالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے اُوپر کے اقتباس میں بیان فرمائی ہے.

Page 117

مقام خاتم ان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے مرتبہ کے متعلق تدریجی انکشاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث نبویہ میں مروی ہے کہ جب آپ کو پہلی بار وحی ہوئی اور فرشتہ نظر آیا تو آپ اقتضائے بشریت سے خائف ہو گئے.اور کانپتے ہوئے گھر آئے اور گھر والوں سے کہا زَمِلُونِي زَمِلُونِي فَإِنِّي خَشِيْتُ عَلَىٰ نَفْسِي که مجھے کپڑا اوڑھا دو مجھے کپڑا اوڑھا دو.کیونکہ میں اپنے بارہ میں ڈرتا ہوں اس پر حضرت اُتم المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلی دی اور پھر اپنے رشتہ دار ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں.ورقہ نے آپ کو تسلی دی اور بتایا کہ یہ وہی وہی ہے جو موٹی پر نازل ہوئی تھی.محدث ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:.فَلَمَّا سَمِعَ كَلَامَهُ أَيْقَنَ بِالْحَقِّ وَاعْتَرَفَ بِهِ یعنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ورقہ بن نوفل کا کلام سنا تو آپ کو حق کا یقین ہو گیا اور آپ نے اس کا اعتراف کیا.اس تسکین و یقین کے بعد بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مخلوق میں اپنے پر اس نزول وحی کے دعوئی کا اعلان کرنے میں احتیاط برتی اور اس کی تبلیغ صرف اپنے دوستوں تک ہی محدود رکھی.وَانْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ کی آیت کا نزول ہوا تو آپ نے نزدیک کے خاندانوں میں دعوت پھیلا دی.علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:.دو تین برس تک نہایت راز داری کے ساتھ فرض تبلیغ ادا کیا.لیکن اب آفتاب رسالت بلند ہو چکا تھا.صاف حکم آیا فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ تجھ کو جو حکم دیا ہے واشگاف کر دے.“ (سیرة النمی جلد اول صفحہ ۱۴۸)

Page 118

مقام خاتم السنة نتين پھر لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا کی آیت نازل ہوئی تو آپ نے مکہ اور اس کے ارد گرد کے لوگوں میں دعوت عام کر دی تو پھر اِنَّا اَرْسَلْنَاكَ كَافَّةً لِلنَّاسِ اور آیت يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا نازل ہوئی تو آپ نے اپنے اس بلند مقام کو سمجھ لیا کہ میں ساری دُنیا کو دعوت حق دینے کیلئے مامور ہوں.اسی طرح پہلے آپ نے فرمایا.لَا تُفَضِّلُوْنِيْ عَلَى موسى ( صحیح بخاری) کریم مجھے موسیٰ سے افضل نہ کہو.اور جب کسی نے آپ کو خَيْرُ النَّاسِ کہا کہ آپ سب لوگوں سے افضل ہیں تو آپ نے فرمایاذَاكَ إِبْرَاهِيمُ ( صحیح مسلم ) کہ یہ مقام تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے.لیکن جب آپ پر آیت خَاتَمُ النَّبِيِّينَ نازل ہوئی تو آپ پر اپنی شان کے متعلق پورا انکشاف ہو گیا.اور اس پر آپ نے فرمایا فـضـلـتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍ (مشکوۃ المصابح بحوالہ صحیح مسلم ) کہ میں چھ باتوں میں تمام نبیوں پر فضیلت دیا گیا ہوں.ان میں سے ایک وجہ فضیلت اپنا تمام دنیا کی طرف مبعوث کیا جانا اور دوسری وجہ فضیلت خاتم النبیین قرار دیا جانا بیان فرمائی.آیت خاتم النبیین آپ کے دعویٰ رسالت کے اٹھارہ سال بعد شہ ہجری میں نازل ہوئی تھی.جس سے آپ انبیاء میں اپنی پوری شان اور مرتبہ سمجھ گئے.بلکہ آپ نے اس کا اعلان بھی کر دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات علمیہ کے ظاہر ہونے سے پہلے اگر آپ پر موسیٰ علیہ السلام یا تمام انبیاءعلیہم السلام سے افضل ہونے کا انکشاف کر دیا جا تا تو قوم پر اس کی قبولیت گراں گزرتی.اس لئے قوم کی ہدایت کے مصالح کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے آپ پر آپ کی اصل شان اور مرتبہ آپ پر تدریجا ظاہر فرمایا.دشمنانِ اسلام نے جو مولوی خالد محمود صاحب کی طرح بدظنی کا مادہ رکھتے ہیں.

Page 119

(۹۸) مقام خاتم الن نتين آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور مرتبہ کے بارہ میں اس تدریجی انکشاف پر یہ نکتہ چینی کی ہے کہ جب تک آپ مکہ میں رہے اپنے آپ کو رسُول کہلاتے رہے کیونکہ عرب ایک رسول کی آمد کے منتظر تھے.اور حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دُعا میں بھی رَبَّنَا وَابْعَتْ فِيْهِمْ رَسُوْلا مِنهُم..الخ میں ایک رسول ہی کی آمد کی دُعا تھی.دلیل ان نکتہ چینوں کی یہ ہے کہ مکی سورتوں میں آپ کو لفظ رسول سے خطاب کیا گیا ہے.نبی کے لفظ سے خطاب نہیں کیا گیا اور جب آپ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے اور وہاں یہو د رہتے تھے جو مطابق پیشگوئی تو رات موسیٰ کی مانند ایک نبی کی آمد کے منتظر تھے.اس لئے آپ نے وہاں نبی کہلا نا شروع کیا چنانچہ مدنی سورتوں میں ہی آپ کو يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ کہہ کر خطاب کیا گیا.وہ یہی اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ یہ سب کچھ سوچی سمجھی ہوئی سکیم کے ماتحت تھا.حالانکہ اُن کا یہ اعتراض سراسر بدظنی پر مبنی ہے کیونکہ قرآن مجید کی سورۃ اعراف میں جو مکی سورۃ ہے آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیتِ کریمہ الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاتِ وَالْإِنْجِيْلِ مَیں «الرَّسُول“ کے علاوہ تورات وانجیل میں موعود النبی کی پیشگوئی کا مصداق بھی قرار دے دیا گیا تھا.البتہ خاتم النبیین ہونے کا انکشاف آپ پر ضرور دعوی رسالت کے اٹھارہ سال بعد ہو ا تھا.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر احکام بھی تدریجا نازل فرمائے ہیں.تا کہ تمام اوامر و نواہی کا قوم پر یکدم بوجھ نہ پڑ جائے.اور اس پر ان کی تعمیل شاق اور گراں نہ ہو.مگر اوامر و نواہی کے تدریجا نزول کی اس حکمت کو نہ سمجھتے ہوئے کج طبع اور بدظنی کا مادہ

Page 120

۹۹ مقام خاتم السنة رکھنے والوں نے اعتراض کر دیا کہ قرآن مجید سارے کا سارا یکدم کیوں نازل نہیں ہوا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے اس اعتراض کا خود ان الفاظ میں ذکر کر کے اس کا جواب بھی دیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَكَذلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِي عَدُوًّا مِنَ الْمُجْرِمِيْنَ وَكَفَى برَبِّكَ هَادِيًا وَّ نَصِيرًا.وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلاً.(الفرقان آیت ۳۲ ۳۳ ۳۴) ترجمہ: اور ہم نے اسی طرح مجرموں میں سے سب نبیوں کے دشمن بنائے ہیں اور تیرا رب ہدایت دینے اور مدد کرنے کے لحاظ سے کافی ہے اور کافروں نے کہا کیوں نہ قرآن اس (نبی) پر ایک ہی دفعہ نازل کر دیا گیا.بات اسی طرح ہے کہ یکدم نازل نہیں کیا گیا ) وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم ( تدریجا نازل کرنے سے ) اس کے ذریعہ تیرے دل کو مضبوط کرتے رہیں اور ہم نے اس کو نہایت عمدہ بنایا ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.” جو لوگ خدا تعالیٰ سے الہام پاتے ہیں وہ بغیر بلائے نہیں بولتے اور بغیر سمجھائے نہیں سمجھتے اور بغیر فرمائے کوئی دعویٰ نہیں کرتے اور اپنی طرف سے کوئی دلیری نہیں کر سکتے.اسی طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے بعض عبادات کے ادا کرنے کے بارہ

Page 121

(I.) مقام خاتم ان میں وحی نازل نہ ہوتی تھی تب تک اہلِ کتاب کی سنن دینیہ پر قدم مارنا بہتر جانتے تھے.اور بر وقت نزول وحی اور دریافت اصل حقیقت کے اس کو چھوڑ دیتے تھے.“ روحانی خزائن جلد ص ۱۹۷، ازالہ اوہام حصہ اول ) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو اپنے دعویٰ نبوت کے متعلق یہی صورت پیش آئی ہے.علماء اسلام کے نزدیک اسلام میں (معروف) تعریف نبوت دی تھی :.اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں یا نبی سابق کی اُمت نہیں کہلاتے.اور براہ راست بغیر استفاضہ کسی نبی کے خُدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں.“ ( الحكم جلد نمبر ۲۹ ۱۸۹۹ء) اِس لئے گو خدا تعالیٰ نے آپ کو الہامات میں نبی اور رسول کہا تھا.مگر آپ نبوت کی اس تعریف کو جامع مانع سمجھتے ہوئے نبوت کا دعوی نہیں کر سکتے تھے.چنانچہ یہ تعریف نبوت تحریر کر کے آپ نے صاف لکھ دیا:.وو ہوشیار رہنا چاہیئے کہ اس جگہ بھی یہی معنی نہ سمجھ لیں کیونکہ ہماری کتاب بجز قرآن کریم کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی رسُول بجز محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہے اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں.اور قرآن کریم خاتم الکتب ہے.“ (الحكم جلد ۳ نمبر ۲۹ ۱۸۹۹ء)

Page 122

(II) مقام خاتم ان اس سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کو اپنے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی اور رسُول قرار دیا جانے سے انکار نہیں تھا.البتہ آپ نے اس معروف تعریف کے ماتحت نبی اور رسول ہونے سے انکار کیا اور اپنے تئیں جو ئی نبی بمعنی محدث قرار دیا کیونکہ محدثیت نبوت سے شدید مشابہت رکھتی ہے.لیکن 1901ء میں آپ پر انکشاف ہو گیا کہ آپ صریح طور پر نبی ہیں تو آپ نے اپنی نبوت کی تاویل محدث اور جو ئی نبی کے لفظ سے کرنا ترک فرما دی.کیونکہ آپ پر منکشف ہو گیا تھا کہ تمام انبیاء رسُولوں کو نبی کا نام صرف مصفی غیب پر خدا تعالیٰ کی طرف سے بکثرت اطلاع دی جانے کی وجہ سے دیا گیا تھا.اور نبی کے لئے یہ شرط نہیں کہ شریعت یا احکامِ جدیدہ لائے یا کسی دوسرے نبی کا امتی نہ ہو.بلکہ ایک اتنی بھی مکالمه مخاطبہ الہیہ مشتمل بر امور غیبیہ کثیرہ کی وجہ سے نبی ہوسکتا ہے.ہاں خــــتـــم اء کے ظہور کے بعد اب اس نعمت کے پانے کے لئے آپ کی پیر وی شرط ہے.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:.” اور وہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.ناقل ) خاتم الانبیاء بنے مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئیندہ اُن سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے بجز اس کی مُہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا.اور اُس کی اُمت کے لئے قیامت تک مکالمہ مخاطبہ الہیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہو گا.اور بجز اس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں.ایک وہی ہے، جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی 66 ہونا لازمی ہے." (حقیقۃ الوحی صفحه ۲۸،۲۷)

Page 123

١٠٢ مقام خاتم الني نتين پس حضرت اقدس کے عقیدہ نبوت میں تبدیلی صرف ایک تاویل کی تبدیلی ہے ۱۹۰۱ء سے پہلے آپ اپنے آپ کو محدّث کی تاویل کے ساتھ انتی نبی کہتے تھے.اور بعد میں آپ نے محدث کی تاویل کے ساتھ اپنے آپ کو امتی نبی نہیں کہا بلکہ امتی نبی ہونے میں اپنی شان اور مقام محدثین آمت سے بالا قرار دی.اور آپ کو محض محدث قرار دینا درست نہیں سمجھا.چنانچہ ایک غلطی کا ازالہ میں تحریر فرماتے ہیں:.اگر بروزی معنوں کے رُو سے بھی کوئی شخص نبی اور رسول نہیں ہو سکتا تو پھر اس کے کیا معنی ہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - سویا درکھنا چاہیے کہ ان معنوں کے رُو سے مجھے نبوت اور رسالت سے انکار نہیں ہے.اسی لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نبی رکھا گیا.اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اُس کو پکارا جائے.اگر کہو اس کا نام محدّث رکھنا چاہئیے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہار امرغیب نہیں ہے مگر نبوت کے معنے اظہار ا مرغیب ہے.“ اس تاویل کی تبدیلی کے باوجو د چونکہ آپ کی نبوت کی کیفیت شروع دعویٰ سے یہ تھی کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے اہم امور غیبیہ پر بکثرت اطلاع دیا جانے کی وجہ سے نہسی کا نام دیا ہے اور مامور ہونے کی وجہ سے رسُول قرار دیا ہے مگر بغیر شریعت جدیدہ کے، اس لئے کیفیت کے لحاظ سے آپ کے دعوئی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.اسی لئے ایک غلطی کا ازالہ “ میں آپ نے لکھا:.و جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان

Page 124

(1+r) مقام خاتم است معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں.اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں.مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسُول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے.سواب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا.“ اس عبارت سے ظاہر ہے کہ معنوی طور پر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے امتی نبی ہونے سے کبھی انکار نہیں کیا.اگر آپ نے نبوت سے انکار کیا ہے تو مستقل شریعت لانے والا یا مستقل ( یعنی براہِ راست بغیر پیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ) نبی ہونے سے انکار کیا ہے.پس جس نبوت کا آپ انکار کرتے ہیں اور جسے خاتم الانبیاء کی ختم نبوت کے منافی یقین کرتے رہے ہیں، وہ صرف تشریعی نبوت اور مستقلہ نبوت ہے.غیر تشریعی امتی نبی ہونے سے معنوی طور پر آپ نے کبھی انکار نہیں کیا.لہذا جو تبدیلی انکشاف جدید سے واقع ہوئی، وہ نبوت کی اس تاویل میں ہے کہ آپ اتنی نبی بمعنی محدث ہیں.اس تبدیلی کی فرع یہ ہے کہ جب تک حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام اپنے آپ کو امتی نبی بمعنی مُحدَّث قرار دیتے رہے اُس وقت اگر آپ پر حضرت عیسی علیہ السّلام سے آپ کے افضل ہونے کا کوئی الہام نازل ہوتا تو آپ اس کی تاویل جو کی فضیلت قرار دیتے رہے.لیکن جب آپ کو صریح طور پر نبی کہلانے کا مستحق ہونے کا انکشاف ہو گیا تو اس وقت آپ پر

Page 125

۱۰۴ مقام خاتم النی نتبيين جب یہ الہام ہوا کہ مسیح محمدی مسیح موسوی سے افضل ہے تو آپ نے اس کی تاویل مجوئی فضیلت نہیں کی بلکہ یہ تحریر فرمایا کہ ” خدا نے اِس اُمت میں مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے.“ (کشتی نوح.دافع البلاء.ریویو جلد اوّل) پس حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السّلام کے عقید ہ نبوت میں یہی ایک تبدیلی اپنی نبوت کے مرتبہ اور شان کے متعلق ہوئی ہے.اور مولوی خالد محمود صاحب کا آپ کے عقیدہ نبوت میں پانچ تبدیلیاں قرار دینا سراسر باطل ہے.خالد محمود صاحب کے حضرت مسیح موعود کی عبارتوں کے متعلق مغالطات کا جواب خالد محمود صاحب نے اپنی کتاب عقیدۃ الامۃ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض عبارات پیش کر کے یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ آپ نے اپنی نبوت کے متعلق پانچ تبدیلیاں کی ہیں.چنانچہ وہ عقیدۃ الامۃ صفحہ۲۰،۱۹ پر ازالہ اوہام کی دو عبارتیں پیش کرتے ہیں.پہلی عبارت یہ ہے کہ قرآن کریم بعد خاتم النبیین کے کسی رسُول کا آنا جائز قرار نہیں دیتا خواہ وہ رسُول نیا ہو یا پرانا.کیونکہ رسول کو علم دین بتوسط جبریل ملتا ہے اور باب نزول به پیرایه وحی رسالت مسدود ہے.“ (ازالہ اوہام صفحہ ۳۸۱)

Page 126

(۱۰۵) مقام خاتم النی اس عبارت میں علم دین سے مُراد شریعت کے وہ اوامر ونواہی ہیں جو بتوسط جبریل ایک مستقل تشریعی نبی پر نازل ہوں.ایسی وحی رسالت کا دروازہ ہی آپ نے مسدود قرار دیا ہے.مولوی خالد محمود صاحب نے اس عبارت پر جو تشریحی نوٹ لکھا ہے اس میں انہیں مسلّم ہے کہ:.”مرزا صاحب کی یہ عبارت اس سیاق و سباق میں ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور اُن کا قرب قیامت میں نزول فرمانا عقیدہ ختم نبوت کے خلاف ہے.66 ( عقيدة الامۃ صفحہ ۱۹) مولوی خالد محمود صاحب کا یہ بیان درست ہے.چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام مسلمانوں کے نزدیک بالعموم تشریعی نبی خیال کئے جاتے ہیں جیسا کہ خود خالد محمود صاحب کا بھی یہی خیال ہے کیونکہ وہ انجیل کو شریعت کی کتاب سمجھتے ہیں.اس لئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اُن کی آمد ثانی کو آیت خاتم النبیین کے رُو سے جائز قرار نہیں دیا.اسی طرح کسی نئے مستقل یا تشریعی نبی کا آنا بھی آپ نے ہمیشہ آیت خاتم النبیین کے منافی قرار دیا ہے.ورنہ اس عبارت کے یہ معنی نہیں کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کسی رنگ میں بھی اس وقت اپنے آپ کو نبی قرار نہیں دیتے تھے.مولوی خالد محمود صاحب نے اس عبارت پر جو حاشیہ لکھا ہے اس میں انہیں صاف مسلّم ہے کہ ”مرزا صاحب نے جب ازالہ اوہام لکھی تو اس وقت بھی وہ اپنے دعوئی میں مرسل یزدانی اور مامور رحمانی تھے.چنانچہ ازالہ اوہام کے سرورق پر یہ

Page 127

(1+1) مقام خاتم السنة الفاظ اب بھی لکھے ہوئے ہیں اور صفحہ ۴۷۸ پر مسیح الزمان وغیرہ کے الفاظ بھی ملتے ہیں.یہ کتاب ۱۸۹۱ء کی تصنیف ہے.“ ( عقيدة الامة حاشیہ صفحہ ۱۹) ان کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت مرزا صاحب اس زمانہ میں بھی اپنے آپ کو مرسلین میں شمار کرتے تھے.پس خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ نے ایسے مرسل ہی کا آنا نا جائز قرار دیا ہے جو تشریعی رسالت کا مدعی ہو.جز ئی نبی یا رسول کا آنا اس وقت آپ نے ممتنع قرار نہیں دیا.بلکہ ازالہ اوہام میں صاف لکھا ہے:.اس جگہ بڑے شبہات یہ پیش آتے ہیں کہ جس حالت میں مسیح ابنِ مریم اپنے نزول کے وقت کامل طور پر امتی ہوگا تو پھر وہ با وجود امتی ہونے کے کسی طرح رسُول نہیں ہوسکتا.کیونکہ رسُول اور اُمتی کا مفہوم متبائن ہے اور نیز خاتم النبیین ہونا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی دوسرے نبی کے آنے سے مانع ہے.ہاں ایسا نبی جو مشکوۃ نبوت محمد یہ سے نور حاصل کرتا ہے.اور نبوت تامہ نہیں رکھتا جس کو دوسرے لفظوں میں محدث بھی کہتے ہیں وہ اس تحدید سے باہر ہے.کیونکہ وہ باعث اتباع اور فنا فی الرسول ہونے کے جناب ختم المرسلین کے وجود میں ہی داخل ہے جیسے جو گل میں داخل میں ہوتی ہے.لیکن مسیح ابن مریم جس پر انجیل نازل ہوئی جس پر جبریل کا بھی نازل ہونا ایک لازمی امر سمجھا گیا ہے کسی طرح اُمتی نہیں بن سکتا.کیونکہ اس پر وحی کا اتباع فرض ہوگا جو وقتا فوقتنا اس پر نازل

Page 128

ہوگی.“ (1.2) مقام خاتم انا (ازالہ اوہام صفحہ ۵۵۷) ہاں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی ۱۹۰۱ء سے پہلے کی تحریرات سے ظاہر ہے کہ ان تحریرات میں آپ اپنے آپ کو ایک بجزوی نبی قرار دیتے رہے ہیں مگر محدث کے معنوں میں جو کامل امتی ہوتا ہے اور ایک حد تک شان نبوت بھی رکھتا ہے.لیکن ۱۹۰ ء کے بعد آپ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ انکشاف ہو گیا کہ آپ ہیں تو امتی نبی مگر آپ کا مقام نبوت میں محدث سے بالا تر ہے.یہ تبدیلی حضرت مرزا صاحب کے عقیدہ نبوت میں ہمارے نزدیک بھی ثابت ہے.اور مولوی خالد محمود صاحب کے نزدیک بھی.مگر اس تبدیلی وو کے بعد بھی آپ نے تادم آخر کبھی مستقل یا تشریعی نبی ہونے کا ہرگز دعوی نہیں کیا.مولوی خالد محمود صاحب نے دوسری عبارت ازالہ اوہام سے یہ پیش کی ہے کہ یہ بات مستلزم محال ہے کہ خاتم النبیین کے بعد پھر جبریل علیہ السلام کی وحی رسالت کے ساتھ آمد ورفت شروع ہو جائے اور ایک نئی کتاب اللہ گو مضمون میں قرآن شریف سے توار درکھتی ہو پیدا ہو جائے.جو امر مستلزم محال ہو وہ محال ہوتا ہے.“ (ازالہ اوہام صفحه ۲۹۲) مولوی خالد محمود صاحب اس عبارت کا مفہوم یہ بتاتے ہیں:.ور کسی غیر تشریعی نبوت کا دروازہ بھی ہر گز گھلا ہو انہیں.“ ( عقيدة الامة صفحه ۲۰) واضح ہو کہ اس عبارت کا یہ مفہوم درست نہیں بلکہ یہ عبارت بھی حضرت عیسی علیہ

Page 129

(IA) مقام خاتم السنة السلام کی دوبارہ آمد کو محال ثابت کرنے کے لئے تحریر کی گئی ہے.چونکہ مسلمانوں کے نزدیک وہ تشریعی نبی ہیں لہذا اگر وہ دوبارہ آئیں اور اُن پر گو قرآن مجید کا ہی دوبارہ نزول ہو تو اس سے ایک نئی کتاب اللہ ( نئی کتاب شریعت ) کا آنا لازم آئے گا.کیونکہ مستقل نبی پر جو اوامر و نواہی نازل ہوں گے وہ بھی مستقل شریعت کا حکم رکھیں گے جیسے که قرآن مجید میں نازل شدہ سابقہ شریعتوں کے احکام جو قرآن مجید میں قائم رکھے گئے ہیں مستقل وحی نبوت کی حیثیت ہی رکھتے ہیں.پس حضرت عیسی علیہ السلام کا جنہیں مسلمان مستقل تشریعی نبی تسلیم کرتے ہیں اس حیثیت میں آنا ستلزم محال ہے کہ اُن پر قرآن مجید کے اوامر و نواہی نازل ہوں.کیونکہ یہ امر ایک نئی کتاب اللہ نازل ہونے کے مترادف ہوگا.اور تشریعی نبی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنا آیت خاتم النبیین کی موجودگی میں جائز نہیں.ہاں امتی نبی پر اگر کوئی قرآنی حکم یا نہی دوبارہ نازل ہو تو اس کا تشریعی نبی ہونالازم نہیں آئے گا.کیونکہ وہ مستقل نبی نہیں بلکہ ان اوامر ونواہی کا نزول بطور تجدید دین کے ہوگا کیونکہ اُمتی نبی تشریعی نبی اور مستقل نبی ہو ہی نہیں سکتا.بلکہ تجدید دین کے لئے ہی مامور ہوسکتا ہے.کی ہے کہ اس کے بعد مولوی خالد محمود صاحب نے رسالہ دافع البلاء صفحہ ۱۹ کی یہ عبارت پیش و ختمیت نبوت یعنی یہ کہ سلسلہ خلافت محمد یہ میں اب کوئی بھی نیا یا پرانا زندہ موجود نہیں.اور تمام سلاسل نبوتوں بنی اسرائیل کے ہمارے حضرت پر ختم ہو چکے ہیں.اب کوئی نبی نیا یا پر انا بطور خلافت کے بھی نہیں آسکتا.“ دافع البلاء صفحہ ۱۹ کی اس عبارت میں بھی حضرت مرزا صاحب نے نئے یا پرانے

Page 130

(1+9) مقام خاتم ان تشریعی نبی یا مستقل نبی کے لئے ہی سلسلہ خلافت محمدیہ میں آنا ممتنع قرار دیا ہے کیونکہ اسی کتاب کے صفحہ 9 پر آپ اپنے آپ کو خدا کا رسُول قرار دیتے ہیں.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:.” خدا تعالی بہر حال جب تک طاعون دُنیا میں رہے گوستر برس تک رہے قادیان کو اس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا کیونکہ یہ اس کے رسُول کا تخت گاہ ہے.اور تمام امتوں کے لئے نشان ہے.“ اور صفحہ ۱۰ پر تحریر فرماتے ہیں:.66 سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا.“ ( دافع البلاء صفحہ ۱۰) تعجب ہے کہ مولوی خالد محمود صاحب نے دافع البلاء صفحہ ۱۹ کی عبارت تو اس بات کے ثبوت میں پیش کی ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ کسی نئے یا پرانے نبی کا آناجائز نہیں سمجھتے مگر آگے چل کر عقیدۃ الامۃ صفحہ ۲۴، ۲۵ پر انہوں نے دافع البلاء کے صفحہ ۹ اسے پہلے صفحہ ۱۰٫۹ کی یہ مذکورہ بالا عبارتیں آپ کے عقیدہ میں پہلی تبدیلی کے ثبوت میں پیش کر دی ہیں.چه دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد قارئین کرام خود غور فرمالیں کہ کیا مولوی خالد محود صاحب نے ایسا کرنے میں تقویٰ اور دیانت داری کو پیش نظر رکھا ہے.حضرت مرزا صاحب جب اسی کتاب کے صفحہ ۹، ۱۰ پر اپنے آپ کو خدا کا رسول قرار دے رہے ہیں تو صفحہ 19 کی عبارت کا پھر یہ مفہوم کیسے لیا جاسکتا ہے کہ ہر پہلو سے نبی کے آنے کو سلسلہ خلافت محمدیہ میں ممتنع قرار دیا گیا ہے.پس صاف ظاہر ہے کہ صفحہ ۱۹ کی عبارت میں تشریعی اور مستقل نبی اور رسول کے آنے کو ہی سلسلہ

Page 131

(۱۱۰) خلافت محمدیہ میں ممتنع قرار دیا گیا ہے نہ کہ امتی رسول کے آنے کو.مقام خاتم است یہی حال اُن کی باقی پیش کردہ عبارتوں کا ہے ان میں بھی تشریعی اور مستقلہ نبوت کو ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم قرار دیا گیا ہے اور خود ایسی ہی نبوت کے دعویٰ سے انکار کیا ہے.ان عبارتوں میں بھی اور اس کے بعد کی تمام تحریروں میں بھی جو تا دم واپسیں آپ نے تحریر فرمائیں.ان میں کسی تحریر میں بھی مستقل یا تشریعی نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ایک پلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی ہی قرار دیا ہے اور مولوی خالد محمود صاحب کو یہ مسلم ہے کہ یہ ایک جدید قسم کی نبوت ہے جس کے حامل ان کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام اپنی آمد ثانی میں ہوں گے.تبد یلی عقیدہ کا ثبوت یہ ہیں:.مولوی خالد محمود صاحب نے عقیدۃ الامۃ صفحہ ۲۲ تا ۲۴ پر جو عبارتیں درج کی ہیں وہ ہے.میں مسیح موعود ہوں اور وہی ہوں جس کا نام سرور انبیاء نے نبی رکھا ( نزول اسیح صفحهم ) میں رسُول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیت کاملہ کے.وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے.“ ( حاشیہ نزول مسیح علیم) اس کا پہلاحصہ جو مولوی خالد محمود صاحب نے حذف کر دیا ہے یہ ہے کہ " میں نبی اور رسول نہیں ہوں باعتبار نئی شریعت اور نئے دعوئی اور

Page 132

مقام خاتم انا 66 نئے نام سے.“ ۲.اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں.شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے آسکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو.“ (تجلیات الهیه صفحه ۲۵) ”میرے نزدیک نبی اُسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی قطعی و بکثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو اس لئے خدا نے میرا نام نبی رکھا مگر بغیر شریعت کے.“ (تجلیات الہیہ صفحه ۲۶) ۳.” اس اُمت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزار ہا اولیاء ہوئے اور ایک وہ بھی جو اُمتی بھی نبی بھی.“ ( حاشیہ حقیقته الوحی صفحه ۲۸) ” خدا کی مہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے 66 والا اس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ امتی ہے اور ایک پہلو سے نبی.“ ( حاشیہ حقیقته الوحی صفحه ۹۶) -۴- ” ہمارا نبی ( صلے اللہ علیہ وسلم ) اس درجہ کا نبی ہے کہ اس کی اُمت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے اور عیسی کہلاسکتا ہے حالانکہ وہ امتی ہے.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۸۹) ی ظاہر کیا ہے کہ میں اتنی بھی ہوں اور نبی بھی (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۸۹)

Page 133

۱۱۲ مقام خاتم ان ۵.اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزوی فضیلت قرار دیتا تھا مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا.مگر اس طرح کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اتنی.“ (حقیقته الوحی صفحه ۱۵۰) میں صرف نبی نہیں بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی بھی.“ (حقیقته الوحی صفحه ۱۵۵) ان حوالہ جات میں بیشک آپ کے عقیدہ نبوت میں ایک تبدیلی کا ذکر ہے.اور وہ صرف یہ ہے کہ آپ نے اپنے متعلق اپنی وحی میں وار دلفظ نبی اور رسول کی تاویل اس زمانہ میں محدث کے لفظ سے کرنا خدا کی وحی کے ماتحت ترک کر دی.اور یہ ہم بتا چکے ہیں کہ کسی مامور من اللہ پر اپنی شان کے متعلق تدریجی انکشاف ہرگز قابلِ اعتراض امر نہیں.کیونکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اپنی شان کے متعلق تدریجی انکشاف ہوا ہے.اور پھر کئی انبیاء پر پہلے ولایت کا مقام حاصل کرنے کے بعد اپنے نبی ہونے کا انکشاف ہوا ہے.اس کے ثبوت میں ہم مجدد الف ثانی علیہ الرحمتہ کی عبارت پہلے پیش کر چکے ہیں.

Page 134

(II) مقام خاتم انا مولوی خالد محمو د صاحب کا بیجا تعجب مولوی خالد محمود صاحب اپنے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.تعجب اور بہت زیادہ تعجب ہے کہ تبدیلی عقیدہ کے اس صریح اقرار کے بعد مرزا صاحب کو یہ کہنے کی کس طرح جرات ہوئی.رسول اور نبی ہوں مگر بغیر شریعت کے...اس طرح کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا.میر یہ قول که من نیستم رسول دنیا وردہ ام کتاب اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں.“ تبلیغ رسالت جلده اصفحه (۱۸) افسوس ہے کہ مولوی خالد محمود صاحب نے اس مقام کی پوری عبارت کو نقل نہیں کیا ورنہ اُن کے تعجب کے بیجا ہونے کی حقیقت خود بخود واضح ہو جاتی.یہ عبارت رسالہ ”ایک غلطی کا ازالہ کی ہے.یہ پوری عبارت یوں ہے:." جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسُولِ مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا.بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے.سواب

Page 135

بھی ان معنوں سے میں نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا.“ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام اس عبارت میں یہ بیان فرما رہے ہیں کہ آپ کا یہ دعویٰ کہ آپ نے اپنے رسول مقتداء حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے علم غیب پایا ہے معنوی طور پر امتی نبی ہونے کا ہی دعویٰ ہے.دعویٰ کی اس کیفیت اور اس کی بناء پر خدا کی طرف سے نبی اور رسول کا نام دیا جانے سے آپ نے کبھی انکار نہیں کیا.چنانچہ اس رسالہ ایک غلطی کا ازالہ کے آغاز ہی میں براہین احمدیہ میں جسے شائع ہوئے 1991ء سے پہلے کافی عرصہ گزر چکا تھا، ایسے الہامات موجود ہونے کا ذکر کیا گیا ہے جن میں آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی اور رسول کہا گیا تھا.ہاں ۱۹۰۱ء سے پہلے زمانہ میں آپ اس نبی اور رسُول کی تاویل محدث کیا کرتے تھے.لیکن رسالہ ایک غلطی کا ازالہ کے زمانہ ( ۱۹۰۱ء) سے آپ نے اس تاویل کو ترک کر دیا تھا.چنانچہ آپ اس رسالہ میں تحریر فرماتے ہیں:.اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے.اگر کہو اس کا نام محدث رکھنا چاہیئے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے.مگر نبوت کے معنی اظہار ا مر غیب ہے.اور نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں.یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں.ں میں اپنے متعلق نبی اور رسول ہونے سے کیونکر انکار کرسکتا ہوں.اور جبکہ خود خدا تعالیٰ نے میرے یہ نام رکھے ہیں تو میں کیونکر رد کر دوں.“ ایک غلطی کا ازالہ مندرجه تبلیغ رسالت جلده اصفحه ۱۸،۱۷) ایک غلطی کا ازالہ کی یہ عبارت مولوی خالد محمود صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ ۲۶ پر االه

Page 136

۱۱۵) مقام خاتم النية نتين خود پیش کی ہے.پس حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے عقیدہ دربارہ نبوت میں صرف یہی ایک تبدیلی ہوئی ہے کہ پہلے آپ معروف اصطلاح ثبوت کے مطابق نبی کے لئے اتنی نہ ہونا ضروری سمجھتے تھے.لیکن بعد میں جب آپ پر انکشاف ہوگیا کہ نبی کیلئے امتی نہ ہونا ضروری شرط نہیں بلکہ ایک امتی بھی نبی ہو سکتا ہے تو اس وقت آپ نے اپنے متعلق نبی اور رسول کی یہ تاویل کرنا ترک فرما دی کہ آپ ایک مُحدث ہیں جو کامل اتنی ہوتا ہے اور مجزوی طور پر نبی بھی.عجیب بات ہے کہ مولوی خالد محمود صاحب نے اس عبارت کو ختم نبوت میں دوسرا انحراف قرار دیا ہے.حالانکہ یہ عبارت اسی اشتہار کی ہے جس میں آپ نے نبی بمعنی محدث کہلانے سے انکار کیا ہے.جس کا ذکر عقیدۃ الامتہ کے صفحہ ۲۲ سے ۲۴ تک کی عبارتوں میں ہے جو ہم قبل ازیں عقیدۃ الامتہ سے تمام و کمال نقل کر چکے ہیں.پس یہ کیسی دیانتداری ہے که مولوی خالد محمود صاحب اس عبارت کو ایک دوسری مزعوم تبدیلی کے ذکر میں پیش کر رہے ہیں.حالانکہ حضرت بانئی سلسلہ احمدیہ کے عقیدہ نبوت میں صرف ایک ہی تبدیلی ہوئی ہے نہ کہ بقول مولوی صاحب موصوف پانچ تبدیلیاں جنہیں وہ پانچ کروٹیں قرار دیتے ہیں.آپ کے عقیدہ نبوت میں دوسری تبدیلی قرار دینے کے لئے مولوی خالد محمود صاحب نے اُوپر کی عبارت کے علاوہ حضرت بانئی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی ذیل کی عبارتیں پیش کی ہیں:.ا.سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا.“ ( دافع البلاء صفحہ ۱۰) ۲.خدا تعالی بہر حال جب تک طاعون دُنیا میں رہے گوستر برس تک رہے.قادیان کو اس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا کیونکہ یہ اس کے

Page 137

(117) رسُول کا تخت گاہ ہے اور تمام امتوں کے لئے نشان ہے.“ مقام خاتم است ( دافع البلاء صفحہ ۹) ۳.” اور میں اُس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے مجھے بھیجا ہے اور اس نے میرا نام نبی رکھا ہے.اور اُس نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے.“ ( تتمہ حقیقته الوحی صفحه ۶۸) ۴.” یہ خدا کا کلام جو میرے پر نازل ہوا.اور یہ دعویٰ اُمتِ محمدیہ میں سے آج تک کسی اور نے ہر گز نہیں کیا کہ خدا تعالیٰ نے میرا یہ نام رکھا ہے اور خدا تعالیٰ کی وحی سے صرف میں اس نام کا مستحق ہوں.“ (تتمہ حقیقته الوحی صفحه ۶۸) ۵.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا.“ (حقیقته الوحی صفحه ۳۹۱) ۶.اس نمبر میں خالد محمود صاحب نے تین شعر نزول امسیح سے رد و بدل کے ساتھ پیش کر کے غلط تاثر دینے کی کوشش کی ہے.ان کے پیش کردہ شعر یہ ہیں:.انبیاء گرچه بوده اند بسے من بعرفاں نہ کمترم زکسے کم نیم زاں ہمہ بروئے یقیں ہر کہ گوید دروغ ہست لعیں آنچه دادست ہر نبی راجام داد آن جام را مرا بتمام اس ترتیب میں دوسرا شعر یہ تاثر پیدا کر رہا ہے کہ حضرت مرزا صاحب اپنے آپ کو کسی نبی سے بھی کم درجہ کا نہیں سمجھتے.لیکن نظم کی اصل ترتیب

Page 138

(112) مقام خاتم است میں دوسر اشعر اس محل پر موجود نہیں.بلکہ ترتیب یوں ہے:.آنچه دادست ہر نبی راجام داد آن جام را مرا بتمام انبیاء کرچه بوده اند بسے من بعرفاں نہ کمترم زکسے آں یقینے کہ خُود عیسی را بر کلام که شد برو القاء واں یقین کلیم بر تورات واں یقینہائے سید السادات کم نیم زاں ہمہ بروئے یقیں ہر کہ گوید دروغ ہست لعیں اس ترتیب میں آخری شعر میں یہ بتا رہے ہیں کہ مجھے اپنی وحی کے خدا کی طرف سے ہونے پر ایسا ہی یقین حاصل ہے جیسا کہ تمام انبیاء کو.لیکن خالد محمود صاحب نے ترتیب بدل کر خطر ناک تحریف سے کام لیتے ہوئے حضرت مرزا صاحب کے خلاف یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ آپ اپنے آپ کو سب نبیوں سے درجہ میں برابر قرار دیتے ہیں.حالانکہ آپ نے صرف یہ کہا ہے کہ آپ عرفانِ الہی اور اپنی وحی پر یقین رکھنے میں کسی دوسرے نبی سے کم نہیں.ے.انہیں اُمور کی کثرت کی وجہ سے اس نے میرا نام نبی رکھا ہے.سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں.اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا نے میرا نام نبی رکھا ہے تو میں کیونکر 66 اس سے انکار کر سکتا ہوں.“ تنلیغ رسالت جلده اصفحه ۱۳۳) ” ضرور ہوا کہ تمہیں یقین اور محبت کے مرتبہ پر پہنچانے کے لئے خدا کے انبیاء وقتا بعد وقت آتے رہیں جن سے تم وہ نعمتیں پاؤ گے.اب کیا تم

Page 139

(۱۱۸ خدا تعالیٰ کا مقابلہ کرو گے اور اس کے قدیم قانون کو توڑ دو گے.“ (لیکچر سیالکوٹ صفحه ۳۲) مندرجہ بالا تمام حوالہ جات میں کسی دوسری تبدیلی کا ذکر نہیں بلکہ یہ صرف پہلی تبدیلی کا ہی ثبوت ہیں.چنانچہ ان عبارتوں میں حضرت مرزا صاحب نے اپنے آپ کو کسی جگہ بھی تشریعی یا مستقل نبی قرار نہیں دیا.بلکہ ان سب کتابوں میں جن کے حوالہ جات مولوی خالد محمود صاحب نے دیئے ہیں آپ نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بھی قرار دیا ہے.چنانچہ حقیقۃ الوحی ہی کی عبارت خود خالد محمود صاحب قبل از میں پیش کر چکے ہیں.اس میں صاف مذکور ہے کہ :.اس امت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزار ہا اولیاء ہوئے اور ایک وہ بھی ہو ا جو امتی بھی ہے اور نبی بھی.“ ( حاشیہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۸.عقیدۃ الامۃ صفحه ۲۳) پس اوپر کی عبارتوں کو کسی دوسری تبدیلی پر محمول کرنا محض غلط بیانی اور مغالطہ دہی ہے.پھر مولوی خالد محمود صاحب نے بزعم خود تیسری تبدیلی کے ثبوت میں ذیل کی عبارتیں پیش کی ہیں.چنانچہ وہ صاحب الشریعت ہونے کے دعوئی کے عنوان کے تحت پہلے تریاق القلوب کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں:.یہ نکتہ یادر کھنے کے قابل ہے کہ اپنے دعوی کے انکار کرنے والے کو کافر کہنا یہ صرف اُن نبیوں کی شان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکامِ جدیدہ لاتے ہیں.لیکن صاحب شریعت ہونے کے ماسوا جس قدر اہم اور محدث ہیں

Page 140

119 مقام خاتم گو وہ کیسی ہی جناب الہی میں اعلیٰ شان رکھتے ہوں اور خلعت مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے سرفراز ہوں اُن کے انکار سے کوئی کا فرنہیں بن جاتا.“ ( تریاق القلوب صفحه ۱۳۰ حاشیه ) اس عبارت کو مولوی خالد محمود صاحب منطقی لحاظ سے گبری قرار دیتے ہیں.اور اس کے بعد ذیل کی عبارتوں کو صغری قرار دیتے ہیں:.ا.ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے.“ اس عبارت میں کامل مسلمان ہونے کی نفی کی گئی ہے نہ کہ علی الاطلاق مسلمان ہونے کی.۲- ان الہامات میں میری نسبت بار بار بیان کیا گیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ خدا کا مامور اور خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے.جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لا ؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے.“ (انجام آنقم صفحه ۶۲) دشمن کو جہنمی قرار دیا ہے نہ کہ محض اختلاف عقید ور کھنے والے شخص کو جس پر خدا کے نزدیک اتمام حجت نہ ہوا ہو.."گفر دوستم پر ہے.ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخدا کا رسول نہیں مانتا ( یعنی تشریعی نبی اور اس کی شریعت کا منکر ہے.ناقل ) اور دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح 66 موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے.“

Page 141

(ir.) مقام خاتم النی اس کے آگے کی ایک ضروری عبارت چھوڑ کر خالد محمود صاحب یہ فقرہ نقل کرتے ہیں:.دم اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں.66 (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۷۹) ان عبارتوں کو صغری قرار دے کر خالد محمود نتیجہ نکالتے ہوئے لکھتے ہیں:.ان تصریحات سے وا ت سے واضح ہوا کہ مرزا غلام احمد نے اپنے نہ ماننے والوں کو کافر کہہ کر اپنے تریاق القلوب والے قول کے مطابق خود صاحب شریعت ہونے کا دعویٰ کیا تھا.“ ( عقيدة الامة صفحه ۲۷) یہ نتیجہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے.کیونکہ نہ ہی تریاق القلوب میں کسی جگہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے تشریعی نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور نہ ہی انجام آتھم اور حقیقۃ الوحی کی کسی عبارت میں تشریعی نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے.اگر مولوی خالد محمود صاحب یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہیں تو تریاق القلوب یا انجام آتھم یا حقیقۃ الوحی سے کوئی عبارت اس تصریح کے ساتھ پیش کریں کہ میں تشریعی نبی ہوں.انجام آتھم میں تو آپ صاف لکھتے ہیں:.الہامات میں جو لفظ مرسل یا رسول یا نبی کا میری نسبت آیا ہے وہ اپنے حقیقی معنوں پر مستعمل نہیں ہے.“ (انجام آتھم حاشیه صفحه ۲۶)

Page 142

۱۲۱ مقام خاتم است اور حقیقۃ الوحی میں بار بارتحریر فرماتے ہیں کہ آپ ایک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے امتی.تریاق القلوب میں آپ نے سچ فرمایا ہے:.اپنے دعوئی کا انکار کرنے والوں کو کا فرقرار دینا صرف ان نبیوں کی شان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکام جدیدہ لاتے ہیں.“ گویا تشریعی نبی ہوتے ہیں.اور حقیقتہ الوحی کی عبارت میں تشریعی نبوت کے انکار کو گفر کی قسم اول قرار دیا ہے اور اپنے انکار کو تم دوم.پس آپ کا انکار تشریعی نبی کے انکار کی طرح گفر قسم اول نہ ہوا.جب ایک امر کی دو قسمیں قرار دی جائیں تو وہ دونوں قسمیں حقیقت میں ایک قسم نہیں ہوتیں.ان کو ایک قسم کسی اور جہت سے ہی قرار دیا جاسکتا ہے.کیونکہ ایک شئی کی دو قسمیں ہمیشہ ایک دوسرے سے تبائین اور اختلاف رکھتی ہیں.وہ ایک صرف اس لحاظ سے تو قرار دی جاسکتی ہیں کہ دونوں کی جنس ایک ہے لیکن نوع میں وہ ایک ہی قرار نہیں دی جاسکتیں.پس ان دونوں کو ایک قسم اس جہت سے تو قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ دونوں گفر مطلق کو اپنے ساتھ جمع رکھتی ہیں.لیکن حقیقت میں وہ ایک دوسری سے الگ الگ ہیں.ایک قسم نہیں.پس مولوی خالد محمود صاحب کے گبری کا مفہوم حقیقتہ الوحی کی عبارت کے پیش نظریہ ہے کہ تشریعی نبی کے انکار سے جو کفر پیدا ہوتا ہے وہ قسم اوّل ہے اور صغریٰ کے تحت درج کی جانے والی حقیقتہ الوحی کی عبارت چونکہ مسیح موعود کے انکار و تکذیب کو دوسری قسم کا کفر قرار دیتی ہے.اس لئے یہ نتیجہ صریحا باطل اور مغالطہ ہے کہ مسیح موعود کا گفر حقیقت میں کفر قسم اول میں داخل ہے.اس لئے آپ تشریعی نبی ہونے کے مدعی ہیں.مسیح موعود کا انکار تو گفر قسم دوم ہی ہے نہ کہ گرفتم اول.جو تشریعی نبی کے انکار کو

Page 143

لازم ہوتا ہے.پس در اصل صغری بنے گا تشریعی نبی کا انکار کفر فتم اول ہے“ اور کبری بنے گا مسیح موعود کا انکار کفر فتم اول نہیں“ اور نتیجہ نکلے گا مقام خاتم انا مسیح موعود تشریعی نبی نہیں فتدبّروا يَا أُولى الالباب حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے جو حوالجات منکرین مسیح موعود کے کفر کے متعلق مولوی خالد محمود صاحب نے عقیدۃ الامتہ صفحہ ۲۷، ۲۸ پر نقل کئے ہیں اُن کی تشریح دوسری جگہ آپ کے اپنے بیانات میں موجود ہے کہ آپ کسی مسلمان کو بھی جو مسیح موعود کا منکر ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کا منکر قرار نہیں دیتے اور دائرہ اسلام سے خارج کے الفاظ کی تحقیقاتی کمیشن کے سامنے خود یہ تشریح فرمائی کہ آپ کا مذہب ” مفردات راغب کے مطابق ہے جس میں اسلام کی دو صورتیں بیان ہوئی ہیں.ایک دون الا یمان ایک فوق الایمان.اور نیز اس حدیث نبوی کے مطابق ہے کہ مَنْ مَشَى مَعَ ظَالِم لِيُقَوِّيْهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ ظَالِمٌ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَام (مشکوۃ) کہ جو شخص ظالم کے ساتھ چلا کہ اُسے قوت دے اور وہ جانتا ہو کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے نکل گیا.جس طرح یہ قول تغلیظا ہے کیونکہ بظاہر ایسا شخص مسلمان ہی رہتا ہے ویسے ہی مسیح موعود کے منکر مسلمان آپ کے نزدیک ملتِ اسلام سے خارج نہیں.

Page 144

۱۲۳ مقام خاتم السنة مولوی خالد محمود صاحب نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو تشریعی نبی“ دکھانے کے لئے تیسری تبدیلی کے ذیل میں ہی آپ کی یہ عبارت پیش کی ہے کہ اگر کہو کہ صاحب شریعت افتراء کر کے ہلاک ہوتا ہے نہ کہ ہر ایک مفتری تو اول تو دعوی بلا دلیل ہے.خدا نے افتراء کے ساتھ شریعت کی کوئی قید نہیں لگائی.ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے قانون مقرر کیا.وہی صاحب شریعت ہو گیا.پس اس تعریف کی وجہ سے بھی 66 ہمارے مخالف ملزم ہیں.کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی.“ (اربعین نمبر ۴ صفحه ۶ ) واضح ہو کہ اربعین ۱۹۰۰ ء کی کتاب ہے جبکہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اپنے آپ کو امتی نبی بمعنی محدث قرار دیتے تھے.اور ابھی اپنے عقید ہ نبوت میں آپ نے کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی تھی.اور نبی اور رسول کے اصطلاحی معنے یہ قرار دیتے تھے کہ وہ کامل شریعت یا احکامِ جدیدہ لاتے ہیں.یا کسی دوسرے نبی کے امتی نہیں کہلاتے اور بلا استفادہ کسی نبی کے خدا تعالے سے تعلق رکھتے ہیں.(ملاحظہ ہو مکتوب ۷/ اگست ۱۸۹۹ء) اور یہ تعریف لکھنے کے بعد لوگوں کو اس غلط فہمی سے بچانے کے لئے کہ آپ اس معروف اصطلاح میں اسی نبوت کے مدعی ہیں.آگے لکھا ہے:.ہوشیار رہنا چاہئیے کہ اس جگہ یہی معنے نہ سمجھ لیں کیونکہ ہماری کتاب بجز قرآن کریم کے نہیں ہے اور کوئی دین بجز اسلام کے نہیں.اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور

Page 145

۱۲۴ مقام خاتم انا 66 قرآن مجید خاتم الكتب.“ اربعین کی عبارت مخالفین کے سامنے بطور تحجبت ملزمہ کے پیش کی گئی ہے اور اس اعتراض کے جواب میں ہے کہ آیت لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ لَا خَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ.(الحاقہ آیت ۴۷ - ۴۵) صرف صاحب شریعت مدعی کے لئے معیار ہو سکتا ہے.وہ جھوٹا دعوی کر کے تیئیس ۲۳ سال مہلت نہیں پاتا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ تمہارا یہ دعویٰ باطل ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے افتراء کے ساتھ شریعت کی قید نہیں لگائی.پھر الزامی رنگ میں فرمایا ہے کہ جس امر کو تم شریعت کہتے ہو وہ اوامر و نواہی ہی ہوتے ہیں.اور میرے الہامات میں امر بھی ہے اور نہی بھی.لہذا تم لوگوں پر میرا مانا اس معیار کی رُو سے اپنے تسلیم کردہ قاعدہ کے مطابق بھی حجت ہوا.مگر اربعین میں ہی حضور نے یہ وضاحت فرما دی ہے کہ آپ پر جو الہامات قرآنی الفاظ میں بطور امر و نہی نازل ہوئے ہیں وہ صرف تجدید دین اور بیانِ شریعت کے طور پر نازل ہوئے ہیں.چنانچہ اسی مضمون میں اربعین نمبر ۴ صفحہ ۸ پر تحریر فرماتے ہیں:.”ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے.تا ہم خدا تعالیٰ نے اپنے نفس پر حرام نہیں کیا کہ تجدید دین کے طور پر کسی اور مامور کے ذریعہ یہ احکام صادر کرے کہ جُھوٹ نہ بولو.چھوٹی گواہی نہ دو.زنانہ کرو.خون نہ کرو اور ظاہر ہے کہ ایسا بیان کرنا بیان شریعت ہے جو مسیح موعود کا بھی کام ہے.“ پس آپ کی وحی میں جو امر و نہی نازل ہوئے ان کی حیثیت کسی الگ شریعت جدیدہ کی نہیں بلکہ ان کی حیثیت بیانِ شریعت کی ہے.شریعت جدیدہ آپ کے نزدیک قرآن مجید

Page 146

(iro) ۱۲۵ مقام خاتم انا ہی ہے.جو ربانی کتابوں کا خاتم ہے.پس بیانِ شریعت کے طور پر پہلی شریعت کے اوامر ونواہی کا کسی مجد داسلام پر نازل ہونا گو وہ امتی نبی ہو صرف تجدید دین کی حیثیت رکھتا ہے.آپ نے اربعین میں ہی صاف لکھ دیا ہے:.” میری تعلیم میں امر بھی ہے اور نہی بھی.اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید ہے.“ پس اسلام کی تجدید کرنے والا اس طرح تو صاحب شریعت ہوتا ہے کہ اس پر پہلی شریعت کے بعض ضروری احکام بطور تجدید دین کے نازل ہوں.لیکن صاحب شریعت مستقل نبی یا تشریعی نبی یا مستقله شریعت رکھنے والا نبی قرار نہیں دیا جا سکتا.کیونکہ وہ قرآن مجید کے واسطہ سے صاحب شریعت ہوتا ہے اور اگر وہ نبی بھی ہو تو ایک پہلو سے ضرور اُمتی بھی ہوتا ہے.پس امتی نبی پر قرآن مجید کی پیروی اور اتباع کے واسطہ سے بعض قرآنی اوامر نواہی کا نزول جن پر عمل اس کے زمانہ میں از بس ضروری ہو اُ سے تشریعی نبی نہیں بنا دیتا.تشریعی نبی کے لئے حضرت بانٹی سلسلہ احمد یہ الگ کتاب شریعت اور احکام جدیدہ کا لانا ضروری سمجھتے ہیں چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:.”خوب یادرکھنا چاہئیے کہ نبوت تشریعی کا دروازہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بالکل مسدود ہے.اور قرآن مجید کے بعد اور کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے یا اس کی پیروی معطل کرے بلکہ اس کا عمل قیامت تک ہے.“ (الوصیت صفحه ۱۲)

Page 147

اله پھر چشمہ معرفت میں تحریر فرماتے ہیں:.مقام خاتم انا ہم بار بارلکھ چکے ہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر تو یہ امر ہے کہ ہمارے سیدو مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوت نہیں اور نہ کوئی شریعت ہے.اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو بلاشبہ وہ بے دین اور مردود ہے.66 پس حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو تشریعی نبی ہونے کے دعویٰ سے بھی انکار ہے اور مستقل نبی ہونے کے دعوی سے بھی انکار ہے.لہذا آپ صاحب شریعت ایک تشریعی اور مستقل نبی کی طرح نہیں.پھر آپ تحریر فرماتے ہیں:.”نبی کے لفظ سے اس زمانہ کے لئے صرف خدا تعالیٰ کی یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کامل طور پر شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ حاصل کرے اور تجدید دین کے لئے مامور ہو یہ نہیں کہ وہ کوئی دوسری شریعت لاوے.کیونکہ شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں.جب تک اس کو ہتتی بھی نہ کہا جائے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی سے پایا نہ براہ راست.“ (تجلیات الهیه صفحه ۹) یہ سب حوالہ جات اربعین کے بعد کی کتابوں کے ہیں جوار بعین کی اس تشریح کے مطابق ہیں کہ آپ صرف تجدید کے لئے مامور ہیں.پس آپ کی وحی میں امر و نہی تجدید

Page 148

مقام خاتم النيبير دین کے طور پر نازل ہوا ہے نہ کہ مستقلہ شریعت کے طور پر.آپ کو ان عبارتوں میں تشریعی نبی ہونے سے صاف انکار ہے.تشریعی نبی آپ کے نزدیک وہی ہوتا ہے جو مستقل کامل شریعت لائے یا جو پہلی شریعت کے کسی حکم کو منسوخ کرے اور اس کی پیر وی معطل کرے.آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ آپ نبی بھی ہیں اور اتنی بھی اور اس امت کے لئے مسیح موعود ہیں.مسیح موعود پر شریعت محمدیہ کا الہام نازل ہونا پہلے علماء کو بھی مسلم ہے.چنانچہ حضرت امام عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمہ مسیح موعود کے متعلق لکھتے ہیں:.” يُلْهَمُ بِشَرْعِ مُحَمَّدٍ وَيَفْهَمُهُ عَلَى وَجْهِهِ“ الیواقیت والجواہر جلد ۲ بحث ۴۷ صفحه ۸۹) یعنی اس پر شریعت محمدیہ الہاما نازل ہوگی اور وہ اُسے ٹھیک ٹھیک سمجھے گا پس حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا مذہب یہ ہے جس کی آپ نے اپنی جماعت کو تلقین فرمائی ہے کہ تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے کوئی اور کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے.“ (کشتی نوح صفحه ۲۴) مندرجہ بالا واضح عبارتوں کی موجودگی میں مولوی خالد محمود صاحب کا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی طرف تشریعی نبی کا دعویٰ منسوب کرنا محض بہتان اور افتراء ہے.خالد محمود صاحب یہ جانتے تھے کہ اربعین کی زیر بحث عبارت میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے آپ کو صاحب شریعت جدیدہ قرار نہیں دیا.بلکہ اپنے اوپر نازل

Page 149

١٢٨ ر خاتم است نتبيين ہونے والے اوامر و نواہی کو تجدید دین کے لئے بیانِ شریعت ہی قرار دیا ہے.اس لئے وہ آپ پر تشریعی نبوت جدیدہ رکھنے کا الزام قائم کرنے کے لئے لکھتے ہیں:.”اب چند وہ احکام بیان کئے جاتے ہیں جن میں اسلامی شریعت کا فتویٰ اور ہے اور مرزائی شریعت کچھ اور کہتی ہے.“ (۱).اسلامی شریعت میں جہاد افضل العبادات ماض الی یوم القیامۃ اور عمل حیات جاوید ہے.مگر مرزائی قانون میں اس فرقہ میں تلوار کا جہاد بالکل نہیں اور نہ اس کی انتظار ہے بلکہ یہ مبارک فرقہ نہ ظاہر طور پر اور نہ پوشیدہ طور پر جہاد کی تعلیم کو ہرگز ہرگز جائز نہیں سمجھتا.اور قطعا اس بات کو حرام جانتا ہے کہ دین کی اشاعت کے لئے لڑائیاں کی جائیں ( تریاق القلوب صفحه ۲۳۲) یاد رکھو کہ اسلام میں جو جہاد کا مسئلہ ہے اس سے بدتر اسلام کو بد نام کرنے والا کوئی مسئلہ نہیں 6 تبلیغ رسالت جلده اصفحه ۱۲۴) پہلی عبارت میں مخالفین اسلام کو تلوار کے ذریعہ زبر دستی مسلمان بنانے کو حرام قرار دیا گیا ہے.بعض علماء اسے اسلامی جہاد قرار دیتے ہیں.ضرورت پر دفاعی جنگ کو جائز قرار دیا گیا ہے.صرف مذہب بدلانے کے لئے کسی کو قتل کرنا حرام قرار دیا ہے.یہ تعلیم قرآن و حدیث میں ہرگز موجود نہیں کہ دین کی اشاعت کے لئے لڑائیاں کی جائیں.دوسری عبارت میں جہاد کا مسئلہ اس مفہوم میں اسلام کو بدنام کرنے والا قرار دیا ہے

Page 150

(ira) مقام خاتم السنة نتين جو بعض علماء اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ کافروں سے کفر چھڑانے کے لئے جنگ کرنا جہاد ہے یا جیسے سرحدی پٹھان لوٹ مار کو جہاد اسلام کا نام دیتے تھے یا جیسے لوگ خونی مہدی کے آنے کے منتظر ہیں کہ وہ آکر تلوار کے ذریعہ لوگوں کو مسلمان بنائے گا.ایسی باتوں کو جہاد اسلام قرار دینا قرآنی تعلیم لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ (دین میں جبر جائز نہیں) کے صریح خلاف ہے.ایک مومن کبھی ایسی لڑائی کا انتظار نہیں کر سکتا کیونکہ قرآنی تعلیم کی رُو سے یہ جائز ہی نہیں.تلوار کی لڑائی ( جہاد اسلامی ) اسلام میں صرف دفاعی حیثیت رکھتی ہے اور یہ اس وقت جائز ہوتی ہے جب دشمن پہلے تلوار سے مسلمانوں پر حملہ آور ہو.ورنہ مسلمانوں کو از روئے تعلیم قرآن لڑائی کی ابتداء کرنے کی اجازت نہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جس آیت میں تلوار کے جہاد کا پہلے حکم دیا اس میں فرماتا ہے:.أذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقَاتَلُوْنَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا (الحج ع ) یعنی مسلمانوں کو مظلوم ہو جانے پر کافروں سے جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ دشمن ان سے لڑائی کر رہا ہے.پھر فرماتا ہے:.قَاتِلُوْا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا (بقره ع ۲۴) کہ اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرنا ( یعنی تمہاری طرف سے جنگ کی ابتداء نہیں ہونی چاہیے )

Page 151

(۱۳۰ مقام خاتم انا پھر فرمایا:.هُمْ بَدَوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ یعنی ان کافروں نے تم سے جنگ میں ابتداء کی ہے.اُن کافروں کے متعلق یہ بھی فرمایا:.إِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا (انفال ع ٨) کہ اگر یہ صلح کی طرف مائل ہوں تو اے نبی تو بھی صلح کی طرف مائل ہو جا.پس جہاد بالسیف کے لئے قرآن مجید کے قانون کی یہ شرائط ہیں.ایسی جنگ واقعی حرام ہے جس کی ابتداء اشاعتِ دین کے لئے کی جائے.قرآن کریم کی رُو سے ایسی لڑائی قطعا حرام ہے.پس حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی عبارت میں جو قانون بیان ہو ا ہے وہ عین اسلامی قانون ہے.صحیح بخاری کی حدیث میں مسیح موعود کے حق میں يَضَعُ الْحَرْبَ کے الفاظ بھی وارد ہیں کہ وہ لڑائی کو روک دے گا.پس مسیح موعود کا یہ فتویٰ کہ دین کی اشاعت کے لئے لڑائی نہ کی جائے.اسلامی شریعت ہی کا فتویٰ ہے.تلوار کا جہاد صرف مخصوص حالات میں ہی جائز ہے.یعنی اس وقت جائز ہے بلکہ واجب ہے جب اس کی شرائط پائی جائیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:.إِنَّ وُجُوْهَ الْجِهَادِ مَعْدُوْمَةً فِي هَذَا الْمُلْكِ وَهَذَا الزَّمَانِ کہ جہاد کی شرائط اس ملک اور اس زمانہ میں موجود نہیں.(ضمیمہ تحفہ گولڑ و یه صفحه ۳۰)

Page 152

(IM) مقام خاتم است نتين ہاں جب بھی ایسی شرائط پائی جائیں تو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے نزدیک بھی تلوار کا جہاد فرض ہوگا.چنانچہ آپ حضرت میر ناصر نواب صاحب کو ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:.اس زمانہ میں جہادرُوحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے.اور اس زمانہ کا جہاد یہی ہے کہ اعلائے کلمہ اسلام میں کوشش کریں.مخالفوں کے اعتراضات کا جواب دیں.دینِ اسلام کی خُو بیاں دُنیا میں پھیلا ئیں.یہی جہاد ہے جب تک کہ خدا تعالیٰ کوئی دوسری صُورت دُنیا 66 میں ظاہر کر دے.“ ) مکتوب مندرجہ درود شریف مؤلف مولانا محمد اسمعیل صاحب فاضل) پس دوسری صورت پیدا ہونے پر آپ کے نزدیک تلوار کا جہاد ضروری ہے ہاں اس کا انتظار کرنا درست نہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِ کہ دشمن سے جنگ کی کبھی تمنا نہ کرو اور یہ انتظار جو درست نہیں ایک گونہ جنگ کی تمنا ہی ہے.۲.دوسرا نیا قانون اور نیا حکم خالد محمود صاحب یہ پیش کرتے ہیں:.کہ مرزا غلام احمد صاحب سے پہلے جو مسلمان حیات مسیح کے قائل تھے وہ از روئے شریعت گنہ گار نہیں اور جو مرزا صاحب کے آنے کے بعد اس عقیدہ پر قائم رہیں وہ گمراہ اور بیدین ہیں.(الف) إِنَّ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِي لَا إِثْمَ عَلَيْهِمْ وَهُمْ مُبَرَّونَ استفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی صفحه ۴۲)

Page 153

इतलाले مقام خاتم است ( ترجمہ ) تحقیق جو لوگ مجھ سے پہلے ہو چکے ہیں ان پر اس عقیدہ کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں.اور وہ بالکل بری ہیں.(ب) لَا شَكٍّ أَنَّ حَيَاتَ عِيْسَى وَ عَقِيْدَةَ نُزُوْلِهِ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْإِضْلالِ وَلَا يُتَوَقَّعُ مِنْهُ إِلَّا أَنْوَاعُ الْوَبَالِ (استفتاء صفحه ۴۶) ( ترجمہ ) اور اب اس میں شک نہیں کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی حیات اور نزول کا عقیدہ گمراہی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اور اس سے طرح طرح کے عذاب ( اصل لفظ وبال ہے نہ کہ عذاب ناقل ) کے 66 سوا کسی اور چیز کی توقع نہیں کی جاسکتی.“ ( عقیدۃ الامۃ صفحہ ۲۹) واضح ہو کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی ان دونوں تحریروں میں جو ایک ہی جگہ سے ماخوذ ہیں کوئی امر اسلامی قانون شریعت کے خلاف نہیں.مسیح موعود کے آنے سے پہلے حیات مسیح کا عقیدہ ایک اجتہادی حیثیت رکھتا ہے اور پہلوں کا یہ اجتہادی عقیدہ از روئے شریعت اسلامی گناہ نہیں.ہاں جب مسیح موعود آ گیا جسے حدیث نبوی میں حکم عدل قرار دیا گیا ہے اور اس نے قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے ثابت کر دیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام دوسرے انبیاء کی طرح وفات پاچکے ہیں تو اب حیات مسیح پر اصرار کر کے خدا کے مقرر کردہ حکم کے فیصلہ کو ٹالنا اور علماء کا اس پر اصرار کرنا واقعی اضلال ہے اور اس سے کئی قسم کے مفاسد پیدا ہوتے ہیں کیونکہ مسلمانوں میں کئی نادانوں کو اسی عقیدہ کی وجہ سے عیسائیوں نے گمراہ کرلیا ہے.

Page 154

(۱۳۳ ۳.تیسرا نیا قانون بزعم خود خالد محمود صاحب یہ پیش کرتے ہیں کہ اسلامی شریعت میں فرضی صدقات زکوة و عشر وغیرہ تھے.مگر مرزائی شریعت میں ایک ماہواری چندہ بھی فرض ہے.“ ( عقيدة الامة صفحه ۲۹) اس چندہ کو فرض ثابت کرنے کے لئے خالد محمود صاحب لوح الہدیٰ صفحہ ا کی مندرجہ ذیل عبارت پیش کرتے ہیں :.ہر شخص کو چاہیے کہ اس نئے نظام کے بعد نئے سرے سے عہد کر کے اپنی خاص تحریر سے اطلاع دے کہ وہ ایک فرض حتمی کے طور پر اس قدر چندہ ماہواری بھیج سکتا ہے مگر چاہئیے کہ فضول گوئی اور دروغ کا برتاؤ نہ کرے.ہر ایک جو مرید ہے اُس کو چاہیے کہ اپنے نفس پر کچھ ماہواری رقم مقرر کر دے خواہ ایک پیسہ ہو خواہ ایک دھیلہ اور جو شخص کچھ بھی مقرر نہیں کرتا اور نہ جسمانی طور پر اس سلسلہ کے لئے کچھ بھی امداد دے سکتا ہے وہ منافق ہے.اب اس کے بعد وہ سلسلہ میں نہیں رہ سکے گا.“ اشتهر مرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیان) لوح الہدی صفحه ا اس عبارت کے جلی الفاظ سے ہر سلیم الفطرت انسان فور اسمجھ سکتا ہے کہ یہ چندہ زکوۃ اور عشر کی طرح خدا کی طرف سے مقرر کردہ فرض حتمی قرار نہیں دیا گیا بلکہ مُریدوں سے یہ خواہش کی گئی ہے کہ وہ کچھ رقم بطور ماہواری چندہ کے اپنے نفس پر خود مقرر کریں.خواہ ایک پیسہ بلکہ ایک دھیلہ ہی ہو.اسلام میں جو ز کوۃ اور محشر فرض ہے اس کی مقدار واجب تو

Page 155

(ir) مقام خاتم السنة نتبيين خود شریعت نے مقرر کر دی ہے نہ کہ انسان خود اپنے اوپر حتمی فرض کرتا ہے کہ میں زکوۃ یا عشر کے طور پر کچھ رقم جسے میں خود مقرر کرتا ہوں سال کے بعد دیا کروں گا.جو چندہ کہ سلسلہ احمدیہ میں کوئی اپنے نفس پر خود واجب کرے وہ تو صرف نذر کی رقم کی طرح فرض حتمی ہوگا نہ کہ خدا کی طرف سے مقر کردہ زکوۃ و عشر کی طرح.یہ فرض حتمی جو انسان خود مقرر کرتا ہے یہ تو ایک وعدہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ میں زکوۃ و عشر کے علاوہ جو خدا کی طرف سے فرض ہے اپنی طرف سے خود ایک رقم مقرر کرتا ہوں جو خدمت اسلام میں صرف ہوگی.مسلمانوں کی ساری انجمنیں اپنے ممبروں پر ایک ضروری چندہ لگا دیتی ہیں جس کی ادئیگی کے بغیر کوئی ان کا ممبر نہیں رہ سکتا.مگر اس امر کو تو کوئی شخص نئی شریعت قرار نہیں دیتا.مگر خالد محمود صاحب ہیں کہ سلسلہ احمدیہ کے افراد کے اپنی طرف سے کسی چندہ کی رقم مقرر کر لینے کو ایک نئی شریعت کا حکم قرار دے کر بانٹی سلسلہ احمدیہ کو تشریعی نبوت کا مدعی ثابت کرنا چاہتے ہیں.مولوی خالد محمود صاحب کی ایسی کچی باتیں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کی مصداق ہیں.۵ - مولوی خالد محمود صاحب حضرت مرزا صاحب کے عقیدہ میں چوتھی تبدیلی ثابت کرنے کے لئے رسالہ ایک غلطی کا ازالہ کی ذیل کی عبارت پیش کی ہے:.خاتم النبیین کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پردہ مغائرت کا باقی ہے اس وقت تک اگر کوئی نبی کہلائے گا تو گویا اس مُہر کا توڑنے والا ہوگا جو خاتم النبیین پر ہے.لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبیین میں ایسا گم ہو کہ باعث نہایت اتحاد اور نکلی غیریت کے اس کا نام پالیا اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا تو وہ

Page 156

(iro) مقام خاتم انا بغیر مُہر توڑنے کے نبی کہلائے گا.“ (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۶) پس اس طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظلق اپنے اصل سے علیحد ہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلمی طور پر محمد ہوں ( صلے اللہ علیہ وسلم ) پس اس طور سے خاتم النبیین کی مہر نہیں ٹوٹی کیونکہ محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی نبوت محمد تک ہی محدود رہی یعنی بہر حال محمد صلے اللہ علیہ وسلم ہی نبی رہا.“ ایک غلطی کا ازالہ بحوالہ تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحه ۲۲) خالد محمود صاحب ان حوالہ جات کی بناء پر لکھتے ہیں:.پھر مرزا صاحب نے عقیدہ ختم نبوت میں چوتھی کروٹ لی اور آیت خاتم النبیین کو اپنے اصل اسلامی معنی پر رکھتے ہوئے کہ واقعی حضور ختمی مرتبت کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اُسے اپنے صاحب شریعت نبی اور رسول کے ساتھ یوں تطبیق دی کہ خود عین محمد اور احمد ہونے کا دعویٰ کر دیا اور مغائرت کے سارے پردے اُٹھا دیئے.“ ( عقيدة الامته صفحه ۳۱) واضح ہو کہ ان عبارتوں میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو اصل اور اپنے آپ کو ظل قرار دیا ہے.پس یہ یفی غیریت اور اتحاد ظلتی ہوا.اور اس سے یہ مراد ہے کہ آپ فنافی الرسول کے اتم درجہ پر پہنچ کر خدا کی طرف سے نبی کہلانے کے مستحق ہوئے.اور یہ کہ آپ مستقل نبی نہیں بلکہ مستقل نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو

Page 157

١٣٦ مقام خاتم ا نبوت میں اصل ہیں.اس اشتہار میں آپ نے واضح طور پر مستقل تشریعی نبی یا مستقل نبی ہونے سے صاف انکار کیا ہے اور لکھا ہے:." جس جس جگہ میں نے نبوت اور رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں.اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں.“ آگے چل کر فرماتے ہیں:.” میرا یہ قول که من نیستم رسُول و نیا وردہ ام کتاب“ اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں“ پس حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ایک غلطی کا ازالہ میں تشریعی نبی یا مستقل نبی ہونے کا دعوی نہیں کیا بلکہ آپ نے ظلمی طور پر ہی محمد واحد یعنی فنافی الرسول قرار دے کر ہی اپنے آپ کو خدا سے نبی کا لقب پانے کا مستحق قرار دیا ہے.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی علیہ الرحمتہ جواپنے زمانہ کے مجد دتھے مسیح موعود کی شان میں لکھتے ہیں:." يَزْعَمُ الْعَامَّةُ إِنَّهُ إِذَا نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ كَانَ وَاحِدًا مِنَ الْأُمَّةِ.كَلَّا بَلْ هُوَ شَرْحٌ لِلْاِسْمِ الْجَامِعِ الْمُحَمَّدِى وَنُسْخَةٌ مُنْشَخَةٌ مِنْهُ فَشَتَّانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحَدٍ مِنَ الْأُمَّةِ.“ (الخير الكثير صفحه ۲ طبع بجنور مدینہ پریس) یعنی عوام یہ گمان کرتے ہیں کہ مسیح موعود جب زمین کی طرف نازل ہوگا تو اس کی حیثیت محض ایک امتی کی ہوگی.ایسا ہر گز نہیں بلکہ وہ تو اسم جامع

Page 158

(irz) مقام خاتم النی محمدی کی پوری تشریح اور دوسرا نسخہ ہوگا.کہاں اس کا مقام اور کہاں محض امتی کا مقام.دونوں میں عظیم الشان فرق ہے.نتين اس عبارت میں حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمتہ نے مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے اسم جامع محمدی کی شرح اور آپ کا ہی نسخہ منفتحہ یعنی کامل بروز وظل قرار دیا ہے..اپنا یہی ظلی اور بروزی مقام حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے زیر بحث عبارتوں میں بیان فرمایا ہے ورنہ نہ حضرت شاہ صاحب کا یہ مقصد ہے کہ امت محمدیہ کا مسیح موعود تشریعی نبی ہے اور نہ حضرت بانئی سلسلہ احمدیہ یہ بتا رہے ہیں کہ آپ مسند شریعت نبی ہیں.حضرت مولا نا محمد قاسم صاحب علیہ الرحمتہ تو یہانتک لکھتے ہیں کہ "اگر ظن اور اصل میں تساوی بھی ہو تو کچھ حرج نہیں کیونکہ افضلیت بوجہ اصلیت پھر بھی ادھر (اصل خاتم النبیین کی طرف ) ہی رہے گی.“ ( تحذیر الناس صفحہ ۳۰) ظلت کے کمالات تو اصل کی طرف ہی منسوب ہوتے ہیں.چنانچہ حضرت مولانا موصوف تحریر فرماتے ہیں:.جیسے آئینہ میں عکس زمین کی دُھوپ کا عکس آفتاب کا طفیلی ہے اور اس وجہ 66 سے آفتاب کی طرف منسوب ہونا چاہئیے.“ ( تحذیر الناس صفحہ ۳۰) حضرت مجد دالف ثانی علیہ الرحمۃ فنافی الرسول کی کیفیت میں لکھتے ہیں:.کمل تابعان انبیاء بجہت کمال متابعت و فرط محبت بلکه بمحض عنایت و

Page 159

(IPA) مقام خاتم النی موہبت جمیع کمالات انبیائے متبوعہ خود را جذب می نمایند و بکلیت برنگ ایشاں منصبغ مے گردند حتی کہ فرق نمے ماند در میان متبوعان و تابعان الا بالا صالة والتبعية والاولية والآخرية ( مکتوبات جلد مکتوب نمبر ۲۴۸) یعنی انبیاء کے کامل تابعین ان کی کمال فرمانبرداری اور ان سے انتہائی محبت کی وجہ سے بلکہ محض خدا تعالیٰ کی عنایت اور موہبت سے اپنے متبوع انبیاء کے تمام کمالات کو جذب کر لیتے ہیں اور پورے طور پران کے رنگ میں رنگین ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ متبوع انبیاء اور اُن کے کامل تابعین میں سوائے اصل اور تبعیت اور اولیت اور آخریت کے کوئی فرق نہیں رہتا.پس فنافی الرسول ہو کر تابع کا متبوع نبی کے رنگ میں اصل وظل کے فرق کے ساتھ پورے طور پر رنگین ہونے کا مضمون ہی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ایک غلطی کا ازالہ کی محولہ عبارتوں میں بیان کیا ہے.ان عبارتوں سے آپ کے تشریعی نبی ہونے کا دعوی نکالنا محض افتراء اور بہتان ہے.مولوی خالد محمو د صاحب کا ایک مطالبہ مولوی صاحب اپنی کتاب کے صفحہ ۳۵ پر لکھتے ہیں :.اب جبکہ مرزا صاحب اپنی خاص وحی سے پہلے قرآن وسنت کی آیات باہرات کو انہی معنوں میں لیتے اور سمجھتے رہے جنہیں اُمتِ محمد یہ چودہ سو

Page 160

(ira) سال قرآن و سنت کی مراد قرار دیتی چلی آرہی ہے تو اب قرآن و حدیث کی نئی تعبیرات و تشریحات کی بناء خود قرآن وحدیث نہ ہوں گے بلکہ اُن نئی مُرادات کی تمام تر ذمہ داری مرزا صاحب کی اپنی وحی پر ہوگی.ہے کوئی انصاف پسند مرزائی جو اپنے اس موقف کا صاف اقرار کرے“ الجواب امت چودہ سو سال میں قرآن وسنت کی بناء پر مسیح موعود کو اتنی نبی مانتی چلی آئی ہے.اور محدث کے معنوں میں نہیں بلکہ بلاشک نبی کے معنوں میں اور دوسری طرف امت اس اُلجھن میں بھی مبتلا رہی ہے کہ کوئی نبی نہیں آسکتا.ان رسمی عقائد کا تضاد حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے خیالات پر بھی اثر انداز تھا.آپ نے یہ تو دیکھا کہ نبوت تشریعی اور مستقلہ کا دروازہ قرآنی آیات سے قطعی طور پر بند ہے اور امتی کے لئے مقام نبوت کے پانے کا دروازہ کھلا ہے تو اپنے اجتہاد سے آپ نے ان عقائد کی یوں تعبیر کی کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی تشریعی اور مستقل نبی ہرگز نہیں آسکتا کیونکہ آپ خاتم النبیین ہیں.البتہ آپ کی مشکوۃ رسالت سے ایک امتی نور نبوت اور کمالات نبوت حاصل کر سکتا ہے.چونکہ آپ کو الہامات میں خدا نے نبی اور رسول قرار دیا تھا اور رسمی عقیدہ کے لحاظ سے امتی کے لئے نور نبوت کا حاصل کرنا عموما صرف محد ثیت کے مقام تک محدود سمجھا جاتا تھا جسے صوفیاء نبی الاولیاء بھی قرار دیتے تھے.جس کا مفہوم یہ تھا کہ محدّث خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہوتا ہے جس طرح انبیاء مشرف ہوتے ہیں اور وہ شریعت جدیدہ کا حامل نہیں ہوتا.البتہ مغز شریعت اس پر کھولا جاتا ہے اور بجز کی طور پر اس میں نبوت پائی جاتی ہے اس

Page 161

الده مقام خاتم است نتين لئے آپ نے اپنے الہامات میں نبی اور رسول کے نام کی یہ تاویل کی کہ آپ محدث ہیں اور محدث من وجہ نبی ہوتا ہے اور من وجہ انتی.یہ بات ازالہ اوہام میں لکھی ہوئی موجود ہے جو تبدیلی تحقیدہ سے پہلے کی کتاب ہے.خدا تعالیٰ کی وحی کی روشنی سے عقیدہ میں تبدیلی صرف اس امر میں ہوئی ہے کہ جس مقام نبوت کو آپ محض محدثیت سے تعبیر کرتے تھے وہ تعبیر آپ نے چھوڑ دی اور نبی کا لفظ اپنے متعلق صریح قرار دیا نہ کہ تاویل طلب اور ساتھ ہی اپنے آپ کو ایک پہلو سے امتی بھی قرار دیا.پس معنوی طور پر کیفیت دعوی کے لحاظ سے آپ کے عقیدہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.کسی کا ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی ہونا پہلے بھی آپ قرآن وسنت کے مطابق جائز سمجھتے تھے.پس آپ کا کوئی عقیدہ اس تبدیلی کے بعد بھی قرآن وسنت کے خلاف نہیں.مسیح موعود کو ساری امت اتنی نبی مانتی ہے نہ کہ محض محدث اور حضرت بانی سلسلہ احمد یہ بھی تبدیلی عقیدہ کے بعد اپنے آپ کو اسی مقام پر قرار دیتے ہیں.اگر مسیح موعود کو امتی نبی ماننے کا عقیدہ قرآن وسنت کے خلاف نہیں اور مولوی خالد محمود صاحب بھی اسے قرآن وسنت کے خلاف نہیں سمجھتے تو حضرت بانٹے سلسلہ احمدیہ پران کا اعتراض کیا رہا.حضرت مرزا صاحب نے جو بات اپنی وحی کی روشنی میں قرار دی اُسے آپ لوگ قرآن و سنت کی بناء پر مان رہے ہیں.آپ میں اور ہم میں صرف مسیح موعود کی شخصیت میں اختلاف ہے.ور نہ نوعیت کے لحاظ سے آپ بھی مسیح موعود کو امتی نبی سمجھتے ہیں اور ہم بھی.نہ آپ انہیں تشریعی اور مستقل نبی مانتے ہیں نہ ہم.ہمیں اس بات کا صاف اقرار ہے اور ہمارا یہ موقف قرآن وسنت کے عین مطابق ہے.

Page 162

(IM) مقام خاتم النی نتين مولوی خالد محمود صاحب ”ایک غلطی کا ازلہ سے ذیل کی عبارت نقل کرتے ہیں:.خاتم النبیین کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پردہ مغائرت کا باقی ہے اس وقت تک اگر کوئی نبی کہلائے گا تو گویا اس مہر کا توڑنے والا ہوگا جو خاتم النبیین پر ہے.لیکن اگر کوئی شخص اس خاتم النبیین میں ایسا گم ہو که باعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اس کا نام پالیا اور صاف آئینہ کی طرح اس میں محمدی چہرہ کا انعکاس ہو گیا تو وہ بغیر مُہر توڑنے کے نبی کہلائے گا.کیونکہ وہ محمد ہے گو ظلمی طور پر.“ مولوی خالد محمود صاحب عقیدۃ الامۃ صفحہ ۳۱ پر اس عبارت پر درج ذیل نوٹ دیتے ہیں :." مرزائی حضرات اس تقاضے پر غور کریں کہ کیا اس سے وہ تمام تاویلات جو ” مُہر “ بمعنی دوسروں کی نبوت کی منظوری دینا یا غیر تشریعی نبوت کو اس مُہر لگنے سے خارج رکھنا یا اطاعت سے نبوت ملنا وغیرہ کیا یہ سب غلط انداز 66 فکر اس ایک ہی تقاضے سے جسم نہیں ہو جاتے.فافہم.“ افسوس ہے کہ خالد محمود صاحب اس عبارت کو سمجھ نہیں سکے یا وہ تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں.خاتم النبیین کا بیشک یہ تقاضا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مستقل یا تشریعی نبی کا آنا اس مُہر کو توڑنے کے مترادف ہے جو خود خاتم العین پر ہے.لیکن اس کا دوسرا تقاضا یہ بھی تو بیان ہو رہا ہے کہ خاتم النبيين میں بدرجہ اتم فنا ہونے والا انعکاسی طور پر نبی کہلا سکتا ہے.اور اس سے وہ مہر نہیں ٹوٹتی جو خاتم النبین پر لگی ہوئی ہے.آخر یہ بھی تو خاتم النبیین کا تقاضا ہے کہ امتی کو ظلی طور پر

Page 163

۱۴۲ مقام نبوت مل سکتا ہے.خاتم النبیین کے دو تقاضے تو خود مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی علیہ الرحمۃ کو بھی مسلّم ہیں.اول خاتمیت مرتبی جس کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کے فیض سے نبی پیدا ہوسکتا ہے.دوم خاتمیت زمانی جس کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شارع اور مستقل نبی نہیں آ سکتا.پس ہم احمدی اس عقیدہ کے قائل نہیں جو خالد محمود صاحب نے ہماری طرف منسوب کیا ہے کہ نبوت کی منظوری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دیتے ہیں.ہمارا عقیدہ صرف یہ ہے کہ خاتم النبیین کی پیر وی اور افاضہ رُوحانیہ سے امتی کو مقام نبوت مل سکتا ہے.خالد محمود صاحب کی بدگمانی مولوی خالد محمود صاحب حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی دو عبارتیں پیش کرتے ہیں:.(الف) ” میری دعوت کی مشکلات میں سے ایک رسالت ، ایک وحی اور ایک مسیح موعود کا دعوی تھا.“ (ب) ” قوم پر اس قدر اُمید بھی نہ تھی کہ وہ اس امر کو تسلیم کرسکیں کہ بعد زمانہ نبوت وحی غیر تشریعی کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا.اور قیامت تک باقی ہے.“ (نصرت الحق صفحه ۵۳) یہ عبارات پیش کرنے کے بعد خالد محمود صاحب لکھتے ہیں:.

Page 164

۱۴۳ مقام خاتم النت انہیں مشکلات میں گھرے ہوئے وہ مسیح موعود کا دعویٰ کرنے اور محض مثیل مسیح کے دعوئی سے بچنے کے لئے حکیم نورالدین سے مشورۂ خط و کتابت کر رہے ہیں.ایک خط میں حکیم صاحب کو لکھتے ہیں.جو کچھ آنمخدوم نے تحریر فرمایا ہے اگر دمشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر الگ مثیل مسیح کا دعویٰ ظاہر کیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے در حقیقت اس عاجز کو مثیل مسیح بننے کی حاجت نہیں.( مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحه ۸۵،۸۴) یه اقتباس درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں:.وو (عقیدۃ الامۃ صفحہ ۳۱،۳۰) و بھلا جو افراد کریمہ خدا کے فرستادہ ہوتے ہیں وہ دوسروں سے پوچھ پوچھ کر اپنے مُریدوں سے مشورے لے لے کر اپنے دعووں کی عمارت تعمیر کرتے ہیں.آسمانی دعوے کوئی سازش نہیں ہوتے.جن کے لئے باہمی راز و نیاز کی خط و کتابت ہو رہی ہے.“ (عقیدۃ الامۃ صفحہ ۳۱،۳۰) اس عبارت میں خالد محمود صاحب نے بے پر کی اڑائی ہے.بیشک حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے دعوئی رسالت.وحی اور مسیح موعود میں مشکلات تھیں مگر آپ نے کسی کے مشورے سے یہ دعویٰ نہیں کیا اور نہ مثیل مسیح کے دعوے سے بچنے کے لئے حضرت مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ کو کوئی خط لکھا ہے.مثیل مسیح کے دعوے سے بچنے کی کیا ضرورت تھی.یہ دعوئی تو آپ کا مسیح موعود کے دعوے سے پہلے بھی تھا اور مسیح موعود کے

Page 165

۱۴۴ مقام خاتم است نتين دعوی کا بھی یہی مفہوم ہے کہ آپ مثیل مسیح ہیں.مولوی نور الدین صاحب از خود آپ کو گھبرا کر یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ دمشقی حدیث کے انطباق کو الگ چھوڑ دیا جائے اور اس کے بغیر ہی مثیل مسیح کا دعوئی ظاہر کیا جائے یہ تحریر اس وقت کی ہے جب کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مثیل مسیح اور مسیح موعود کا دعویٰ کر چکے تھے.پس مثیل مسیح کے دعوے سے بچنے کی آپ کو کوئی ضرورت نہ تھی.اس خط میں تو آپ نے اپنی بے نفسی بیان فرمائی ہے کہ آپ کو مثیل مسیح بنے کی کوئی حاجت نہ تھی.گویا خدا تعالیٰ نے خود آپ کو گوشئہ گمنامی سے باہر نکالا اور یہ دعوی کرایا.افسوس کی بات یہ ہے کہ مولوی خالد محمود صاحب نے حقیقت کو چھپانے کے لئے تحریف سے کام لے کر مکتوب کا اگلا حصہ درج نہیں کیا.حالانکہ ( در حقیقت اس عاجز کو مثیل مسیح بننے کی کچھ حاجت نہیں ) کے آگے حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :.یہ بننا چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے عاجز اور مطیع بندوں میں داخل کر دے لیکن ہم ابتلاء سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتے.خدا تعالیٰ نے ترقیات کا ذریعہ صرف ابتلاء کو ہی رکھا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے أَحَسِبَ النَّاسُ 66 أَنْ يُتْرَكُوْا اَنْ يَقُوْلُوْا امَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَتُونَ " اس عبارت سے ظاہر ہے کہ گو حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ایک حدیث کے بارے میں کچھ گھبرا کر یہ مشورہ دیا کہ اسے اپنے دعوے سے متعلق قرار نہ دیا جائے کیونکہ اس میں ان کے نزدیک لوگوں کے لئے ابتلاء کا خطرہ تھا.مگر حضرت سلسلہ احمد یہ ایسے جری تھے کہ انہوں نے اسبارہ میں حضرت مولوی نورالدین

Page 166

(ira) مقام خاتم است صاحب کا مشورہ بالکل قبول نہیں کیا.بلکہ یہ شاندار مومنانہ اور مصلحانہ جواب دیا کہ ہم ابتلاء سے بھاگ نہیں سکتے.اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کو تسلی دی که ابتلاء تو ترقیات کا ذریعہ ہوتا ہے.اور اس امر کو قرآن مجید سے ثابت کیا.واضح رہے کہ یہ مکتوب ۱۸۹۱ء کا ہے.مثیل مسیح کا دعویٰ آپ اس سے بہت پہلے براہین احمدیہ میں کر چکے تھے.۱۸۹۱ء میں آپ پر الہام ہو ا :.مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو گیا ہے.اور اس کے رنگ میں خدا کے وعدہ کے موافق تو آیا ہے.“ (ازالہ اوہام صفحه ۴۰۲) اس الہام سے حضرت اقدس پر یہ انکشاف ہو گیا کہ آپ کو بطور مثیل مسیح امت کا مسیح موعود قرار دیا گیا ہے.جب حضرت مولوی نورالدین صاحب کو اس دعوئی کا علم ہوا تو اس پر آپ نے از خود دمشقی حدیث کو اپنے متعلق قرار نہ دینے کا مشورہ دیا تا لوگ ابتلاء میں نہ پڑیں.پس جب مکتوب کے آخری فقرات سے صاف ظاہر تھا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کا اس بارہ میں کوئی مشورہ قبول نہیں کیا تو خالد محمود صاحب کا یہ تاثر دینا کہ آپ نے مُریدوں سے پوچھ پوچھ کر دعوی کیا تھا اور اس میں کوئی سازش موجود تھی سراسر بے پر کی اُڑانا ہے.مولوی خالد محمود صاحب کو واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ کہ بعض ظن گناہ ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ آپ کو اس عاشق خدا اور رسول ( صلے اللہ علیہ وسلم ) سے متعلق بھٹی سے بچائے.

Page 167

الدا مولوی خالد محمود صاحب کی انقطاع نبوت کے متعلق پیش کردہ احادیث مقام خاتم انا مولوی خالد محمود صاحب نے اپنی کتاب عقیدۃ الامت میں انقطاع بوت کے بارہ میں جو احادیث نبویہ پیش کی ہیں وہ سب ہمیں مسلم ہیں.مگر علمائے امت کے نزدیک وہ احادیث تشریعی اور مستقل نبی کے انقطاع سے تعلق رکھتی ہیں نہ کہ امتی نبی کے انقطاع حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السّلام کا دعویٰ یہ ہے کہ آپ ایک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے امتی.اتنی نبی کی آمد کی نفی کسی حدیث سے نہیں ہوتی.پہلی حدیث : پہلی حدیث خالد محمود صاحب نے یہ پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:.إِنَّهُ سَيَكُوْنُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُوْنَ كَذَّابُوْنَ كُلُّهُمْ يَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي ترجمہ تحقیق میری اُمت میں تمیں کذاب ہوں گے.ہر ایک اُن میں سے نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا اور میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں.فقہ حنفیہ کے جلیل القدر امام علی القاری علیہ الرحمۃ حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِی کی تشریح میں لکھتے ہیں :." وَرَدَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي مَعْنَاهُ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ لَا يَحْدُتُ بَعْدَهُ نَبِيٌّ

Page 168

66 بَشَرْعٍ يَنْسَخُ شَرْعَهُ.“ مقام خاتم انا (الاشاعة في اشراط الساعة صفحه ۲۲۶) یہی مضمون اقتراب الساعة کے صفحہ ۱۶۲ میں یوں مذکور ہے:." لَا نَبِيَّ بَعْدِی آیا ہے جس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ کوئی نبی شرع ناسخ نہیں لائے گا.“ پھر حضرت امام القاری خاتم النبیین کے معنی یہ بیان فرماتے ہیں:." 66 الْمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَأْتِي بَعْدَهُ نَبِيٌّ يَنْسَخُ مِلَّتَهُ وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِهِ.“ (موضوعات کبیر صفحه ۵۸) یعنی خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہو سکتا جو آپ کے دین کو منسوخ کرے اور آپ کی اُمت میں سے نہ ہو.گویا اُمت کے اندر ایسے نبی کا آنا جو ناسخ شرع محمد یہ نہ ہو آیت خاتم النبیین اور حديث لَا نَبِيَّ بَعْدِی کے خلاف نہیں.پس اُمّت میں سے جن کذاب دقبال مدعیان نبوت کا ذکر حدیث بالا میں ہے اُن سے وہی مدعیانِ نبوت مراد ہیں جو تشریعی اور مستقلہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے تھے.اُمتِ محمدیہ کا مسیح موعود تو امتی نبی ہے نہ کہ صرف نبی.وہ تو ان دجالوں میں خالد محمود صاحب کے نزدیک بھی شمار نہیں ہوسکتا.اسی لئے کہ وہ نہ تشریعی نبی ہے نہ مستقل نبی بلکہ امتی نبی ہے.پس مسیح موعود کے لئے امت محمدیہ میں ایک جدید قسم کی نبوت کا وجود میں آنا انہیں مسلّم ہے جو نیا امتی نبی پیدا ہونے کے مترادف ہے.

Page 169

(IMA) مقام خاتم الني نتين بیشک اس حدیث میں خاتم النبیین کے معنے آخری نبی مراد ہیں مگر جیسا کہ امام علی القاری علیہ الرحمۃ نے بیان فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریعی اور مستقل انبیاء میں سے آخری نبی ہیں.غیر تشریعی امتی نبی کا آنا اُن کے نزدیک آیت خاتم النبیین کے منافی نہیں.مولوی خالد محمود صاحب کی چالا کی خالد محمود صاحب لکھتے ہیں:." مرزا صاحب کی اپنی تصریح کے مطابق ضروری ہے کہ دجال کسی نمی برحق کا تابع ہو کر پھر سچ کے ساتھ باطل کو ملا دے.پس جب کہ حضور ایسے تمیں ۳۰ مدعیان نبوت کے غلط دعووں کو اپنی ختم نبوت سے متصادم قرار دے رہے ہیں تو واضح ہو گیا کہ حضور کے خاتم النبیین ہونے کا مطلب یہی ہے کہ آپ کے بعد کوئی تابع شریعت محمدیہ نبی بھی ہرگز پیدا نہ ہو گا.اور جو اس طرح امتی نبی ہونے کا دعوی کرے وہ خبر صادق کی رُو سے دجال اور کذاب قرار دیا جائے گا.“ الجواب (عقیدۃ الامۃ صفحہ ۳۹،۳۸) اس پر ہمارا سوال ہے کہ کیا خالد محمود صاحب ایک بھی مثال ایسی پیش کر سکتے ہیں کہ ان تمہیں جھوٹے مدعیان نبوت میں سے کسی نے امتی نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے؟ ہر گز نہیں.

Page 170

۱۴۹ مقام خاتم النی دوم چونکہ مولوی خالد محمود صاحب خود حضرت عیسی علیہ السلام کے امتی نبی کی صورت میں آنے کے قائل ہیں.پس حضرت عیسی علیہ السّلام کے لئے وہ ایک نئی قسم کی نبوت کے معرض وجود میں آنے کے تو وہ خود قائل ہیں.لہذا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے امتی نبی ہونے کے دعوئی پر انہیں اعتراض کا کوئی حق نہیں.کیونکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح موعود کو نبی بھی قرار دیا ہے اور اتنی بھی.اور حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات قرآن وحدیث سے ثابت ہے.لہذا اس موعود نبی کا امت میں پیدا ہونا ضروری ہوا نہ کہ مسیح موعود علیہ السّلام کو نبی قرار دینے والی حدیثیوں اور آیت خاتم النبیین کے منافی.رہی یہ بات کہ حضرت مرزا صاحب نے دجال کے معنی کسی نبی برحق کے تابع ہو کر پھر سچ کے ساتھ باطل کو ملانے والا قرار دیا ہے اور یہ کہ اسی طرح کرمانی شرح بخاری میں دجالوں کے معنی خَلَّا طُوْنَ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ بیان ہوئے ہیں.عقيدة الامۃ صفحہ ۳۸) سوحق کے ساتھ باطل کو ملا نا تشریعی نبوت کا دعویٰ ہی ہوا.اور سراسر حق کو پیش کرنے والا جو ایک پہلو سے نبی ہواور دوسرے پہلو سے امتی دجال قرار ہی نہیں پاسکتا.امام علی القاری نے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امتی نبی کو خاتم النبیین کے معنوں کے منافی قرار نہیں دیا اور حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِي کے معنی یہ بیان فرمائے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ناسخ شریعت نبی پیدا نہیں ہوگا.پس حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعوی نہ خاتم النبیین کے ان معنی کے منافی ہے اور نہ حدیث لا نَبِيَّ بَعْدِی کے اِن معنی کے منافی.

Page 171

(10.) پس حدیث زیر بحث سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلقُوْنَ كَذَّابُوْنَ دَجَّالُوْنَ كُلُّهُمْ يَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ کا مفہوم یہ ہوا کہ اُمّتِ محمدیہ میں تمیں ۳۰ ایسے کذاب دجال پیدا ہوں گے جو صرف نبی کا دعویٰ کریں گے نہ کہ امتی نبی کا.اور صرف نبی یا تو تشریعی نبی کہلا تا رہا ہے یا مستقل نبی.پس تشریعی اور مستقلہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے کو اس حدیث میں د بال کذاب قرار دیا گیا ہے.اس حدیث کے بالمعنی ایک اور روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:.سَيَكُوْنُ فِي أُمَّتِي ثَلَفُوْنَ كُلُّهُمْ يَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَّهُ لَا نَبِيَّ 66 بَعْدِي إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ، (نبراس شرح الشرح لعقا مدنسفی صفحه ۴۴۵) ترجمہ: ”میری امت میں تھیں ۳۰ آدمی ہوں گے ان میں سے ہر ایک نبوت کا دعوی کرے گا اور تحقیق میرے بعد کوئی نبی نہیں سوائے اس نبی کے جسے اللہ چاہے.“ سید روایت اگر چه هیچ بخاری کے پایہ کی نہیں مگر صاحب نبر اس کہتے ہیں الا کا استثناء تسلیم کرنے کی صورت میں اس کا تعلق مسیح موعود سے ہے.“ پس ہم بھی اس وقت تک مسیح موعود کو ہی نبی اللہ جانتے ہیں.وہ ان تمیں ۳۰ دجالوں میں شامل نہیں ہو سکتا.کیونکہ اُسے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی اللہ بھی قرار دیا ہے اور اپنا امتی بھی.اس حدیث کے معنوں کے متعلق نبر اس کے حاشیہ میں لکھا ہے:.

Page 172

(101) وَالْمَعْنَى لَا نَبِيَّ بِنُبُوَّةِ التَّشْرِيْعِ بَعْدِي إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ انْبِيَاءِ أَوْلِيَاء (نبراس حاشیه صفحه ۴۴۵) یعنی حدیث زیر بحث کے فقرہ لَا نَبِيَّ بَعْدِی کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرے بعد تشریعی نبوت کے ساتھ کوئی نبی نہیں ہوگا.اور الَّا مَا شَاءَ اللہ کے استثناء سے مراد انبیاء الاولیاء ہیں یعنی 66 وہ اولیاء جو امت میں سے مقامِ نبوت پانے والے ہیں.مولوی خالد محمود صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ایام اصلح ، صفحه ۱۴۴ سے ایک ادھورا حوالہ پیش کیا ہے کہ لَا نَبِيَّ بَعْدِي میں نفی عام ہے یہ عبارت دراصل الزامی رنگ میں ہے اور اس میں نبی کی یہ معروف تعریف مد نظر ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جو شریعت لائے یا بلا استفادہ کسی نبی کے خدا سے تعلق رکھے اور کسی دوسرے نبی کا انتی نہ کہلائے.اس معروف تعریف کے مطابق خاتم النبیین صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.مگر دوسرے مسلمان حضرت عیسی کا آنا مانتے ہیں اور انہیں نبی بھی قرار دیتے ہیں.اس لئے حضرت مرزا صاحب بیان فرماتے ہیں:." قرآن شریف میں مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں بھی ذکر نہیں مگر ختم نبوت کا بکمال تصریح ذکر ہے.اور پرانے یا نئے نبی کی تفریق کرنا یہ شرارت ہے.نہ حدیث میں نہ قرآن میں یہ تفریق موجود ہے.اور حديث لَا نَبِيَّ بَعْدِی میں نفی عام ہے.پس یہ کس قدر جرات اور دلیری اور گستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کر کے نصوص صریحہ قرآن کو عمدا

Page 173

(۱۵۲) مقام خاتم النی چھوڑ دیا جائے اور خاتم الانبیاء کے بعد ایک نبی کا آنامان لیا جائے اور بعد اس کے جو وحی نبوت منقطع ہو چکی تھی پھر سلسلہ نبوت کا جاری کر دیا جائے.کیونکہ جس میں شان نبوت باقی ہے اس کی وحی بلا شبہ نبوت کی وحی ہوگی.افسوس یہ لوگ خیال نہیں کرتے کہ مسلم اور بخاری میں فقرہ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ اور اَمَّكُمْ مِنْكُمْ صاف طور پر موجود ہے.یہ جواب سوال مقد رکا ہے.یعنی جبکہ آنحضرت نے فرمایا کہ تم میں مسیح ابن مریم حکم عدل ہو کر آئے گا تو بعض لوگوں کو یہ وسوسہ دامنگیر ہوسکتا تھا کہ پھر ختم نبوت کیونکر رہے گا.اس کے جواب میں ارشاد ہوا کہ وہ تم میں سے ایک امتی ہوگا اور بروز کے طور پر مسیح بھی کہلائے گا.“ اس پر حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں:.( ایام اصلح صفحه ۱۴۶) اگر حدیث میں یہ مقصود ہوتا کہ عیسی باوجود نبی ہونے کے پھر امتی بن جائے گا تو حدیث کے لفظ یوں ہونے چاہئیں 66 ( صفحه ۱۴۷) اِمَامُكُمْ الَّذِي يُصِيْرُ مِنْ أُمَّتِي بَعْدَ نُبُوَّتِهِ “ یعنی تمہارا امام جو نبوت کے بعد میری امت میں سے ہو جائے گا.ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ حضرت عیسی علیہ السلام کا جو مستقل نبی تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنا محال قرار دے رہے ہیں.اور حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِی میں نفی عام قرار دیتے ہوئے یہ فرمارہے ہیں کہ نئے اور پُرانے کی تفریق شرارت ہے.گویانہ کوئی پرانا مستقل نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آسکتا ہے اور نہ

Page 174

(۱۵۳) مقام خاتم ان نتين کوئی نیا مستقل نبی.اس طرح آپ نے اپنے مخالفین کو ان کی مسلمہ تعریف نبوت کے لحاظ تصل سے ملزم ٹھہرایا ہے.اور اپنی اسی کتاب ایام اصلح کے صفحہ ۷۵ پر یہ بھی تحریر فرما دیا ہے:.یہ بھی یادر ہے کہ مسلم میں مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے.اسی وجہ سے براہین احمدیہ میں بھی ایسے الفاظ خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے حق میں ہیں.دیکھو صفحہ ۴۹۸ میں یہ الہام: ” هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدى اس جگہ رسول سے مُراد یہ عاجز ہے.اور پھر دیکھو صفحہ ۵۰۴ براہین احمدیہ میں :.” جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْإِنْبِيَاءِ “ جس کا ترجمہ یہ ہے خدا کا رسول نبیوں کے لباس میں.اس الہام میں میرا نام رسُول بھی رکھا گیا اور نبی بھی.پس جس شخص کے خود خدا نے یہ نام رکھے ہوں اُن کو عوام میں سے سمجھنا کمال درجہ کی شوخی ہے.اور صفحہ ہے میں تحریر فرماتے ہیں:.اسلام میں اس نبوت کا دروازہ تو بند ہے جو اپنا سکہ جماتی ہو.( یعنی مستقلہ نبوت کا دروازہ.ناقل ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ اور حدیث میں لَا نَبِيَّ بَعْدِی اور بائیں ہمہ حضرت مسیح کی وفات نصوص قطعیہ سے ثابت ہو چکی.لہذا ان کے دوبارہ دُنیا میں

Page 175

(۱۵۴ آنے کی امید طمع خام.اور اگر کوئی اور نبی نیا یا پرانا آوے ( یعنی ایسا نبی جو بوجہ مستقلہ نبوت کا مدعی ہونے کے اپنا سکہ جمانا چاہتا ہو.ناقل ) تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیونکر خاتم الانبیاء رہے.“ ان عبارتوں سے صاف ظاہر ہے کہ حدیث لا نَبِيَّ بَعْدِي میں لفظ نبی کو حضرت مرزا صاحب نے مستقل نبی کے مفہوم میں لے کر حدیث میں نبی کی نفی عام قرار دی ہے.لیکن اُمت کے کسی ولی کا نام نبی اور رسُول رکھا جانا آپ کے نزدیک آیت خاتم النبیین اور حديث لَا نَبِيَّ بَعْدِی کے خلاف نہیں.اس جگہ یہ نبوت خاتم النبیین کا فیض ہونے کی وجہ سے معروف تعریف نبوت کے بالمقابل مجاز اور استعارہ قرار دی گئی ہے.ایام الصلح کی یہ عبارتیں تبدیلئی عقیدہ سے پہلے کی ہیں.دوسری حدیث دوسری حدیث خالد محمود صاحب نے انقطاع نبوت کے ثبوت میں وہ پیش کی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوہ تبوک پر جانے کے بعد آپ نے اس وقت بیان فرمائی جب کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے چھوڑا.اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور سے عرض کیا کہ کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ چلے ہیں.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي.( صحیح مسلم جلد ۲ صفحه ۲۷۸)

Page 176

(100) مقام خاتم النی یعنی اے علی کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون علیہ السّلام کو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی.لیکن میرے بعد کوئی نبوت باقی نہیں.إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي ( صحیح بخاری جلد ۲ صفحه ۶۳۲) یہ حدیثیں اور ان کا مندرجہ بالا ترجمہ درج کر کے خالد محمود صاحب لکھتے ہیں :.اب یہ تو ظاہر ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام شریعت جدیدہ والے نبی نہ تھے بلکہ حضرت موسیٰ کی شریعت کے ماتحت تھے.ان کے ذکر کے بعد آپ کا لا نبی بعدی فرمانا اس امر کی بین دلیل ہے کہ حديث لا نبی بعدی کے معنی یہی ہیں کہ میرے بعد کوئی امتی نبی بھی نہیں آئے گا.“ الجواب ( عقیدۃ الامۃ صفحہ ۴۰،۳۹) پُرانے بزرگوں نے تو لَا نَبِيَّ بَعْدِی سے یہی استدلال کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ناسخ شریعت محمد یہ یعنی جدید شریعت لانے والا نبی نہیں آسکتا.لیکن خالد محمود صاحب کا استدلال اگر درست سمجھا جائے کہ اس حدیث کی رُو سے امتی نبی کے آنے کی بھی نفی ہے تو پھر وہ بتائیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام بطور امتی نبی کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس حدیث کی موجودگی میں کیسے آسکتے ہیں؟ حالانکہ یہ ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آنحضرت صلی

Page 177

(107) مقام خاتم النبيين اللہ علیہ وسلّم کے بعد اُمتی بھی ہوں گے اور نبی بھی.چونکہ وہ حضرت عیسی کا آنا بطور امتی نبی کے ممتنع قرار نہیں دیتے.اس لئے ان کا اس حدیث سے یہ استدلال باطل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ میرے بعد امتی نبی بھی نہیں آ سکتا.واضح ہو کہ اس حدیث میں آئیندہ کے لئے تا قیامت امتی نبی کی نفی بیان کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود ہی نہیں بلکہ صرف یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ آپ غزوہ تبوک میں شمولیت کے زمانہ میں آپ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ہارون کی طرح آپ کے خلیفہ تو ہوں گے مگر نبی نہ ہوں گے.نہ تشریعی نبی نہ غیر تشریعی نبی.چنانچہ ایک دوسری روایت میں غَيْرَ اَنَّكَ لَسْتَ نَبِيًّا کے الفاظ وارد ہیں.یعنی اے علی مگر تو نبی نہیں.(طبقات سعد جلد ۵ صفحه ۵ او مسند احمد بن حنبل) پس ان حدیثوں میں یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ غیر تشریعی نبی کی حیثیت بھی نہیں رکھیں گے.ان حدیثوں کا یہ منشاء ہرگز نہیں کہ قیامت تک غیر تشریعی امتی نبی کی آمد کی نفی مقصود ہے.یادر ہے کہ حضرت ہارون غیر تشریعی مستقل نبی تھے.لہذا اگر مولوی خالد محمود صا حب لا نبی بعدی میں قیامت تک کے لئے بعد یت زمانی مراد لیں تو پھر بھی غیر تشریعی مستقل نبی کی نفی مراد ہوگی نہ کہ امتی نبی کی نفی.مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں بعد یت زمانی مراد ہی نہیں بلکہ بعد کا لفظ اس جگہ ”سوا“ کے معنوں میں آیا ہے.

Page 178

(102) مقام خاتم انا حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ کی تشریح چنانچہ اس حدیث کی تشریح میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی جو اپنے زمانہ کے مجد دتھے، تحریر فرماتے ہیں:.باید دانست که مدلول این حدیث نیست الا استخلاف علی بر مدینه در غزوه تبوک و تشبیه دادن این استخلاف باستخلاف موسیٰ ہارون را در وقت سفر خود بجانب طور و معنی بعدی اینجا غیری است چنانچه در آیت فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللهِ گفته اند نه بعد یت زمانی (قرة العينين في تفصيل الشيخين صفحه ۲۰۶) ترجمہ: جاننا چاہئیے کہ اس حدیث کا مدلول صرف غزوہ تبوک میں حضرت علی کا مدینہ میں نائب یا مقامی امیر بنایا جانا اور حضرت ہارون سے تشبیہ دیا جانا ہے جبکہ موسی نے طور کی جانب سفر کیا اور بغدنی کے معنی اس جگہ غیری (میرے سوا کوئی نبی نہیں ) ہیں.نہ بعد یت زمانی جیسا کہ آیت فَمَنْ يَهْدِيْهِ مِنْ بَعْدِ اللهِ میں کہتے ہیں کہ بعد اللہ کے معنی اللہ کے سوا ہیں.پس معنی یہ ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوہ تبوک میں جانے اور اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کوخلیفہ مقرر کرنے پر میرے سوا کوئی نبی نہیں.پھر بعدیت زمانی مراد نہ ہونے کے متعلق یہ دلیل دیتے ہیں:.زیرا کہ حضرت ہارون بعد حضرت موسیٰ نماندند تا ایشان را بعدیت زمانہ

Page 179

(IDA) مقام خاتم است ثابت بود و از حضرت مرتضی آنرا استثناء کنند.پس حاصل این است که حضرت موسی در ایام غیبت خود حضرت ہارون را خلیفه ساخت و حضرت ہارون از اہل بیت حضرت موسی بودند و جامع بودند در نیابت و اصالت در نبوت و حضرت مرتضی مثل حضرت ہارون است در بودن از اہل بیت پیغمبر 66 و در نیابت نبوت بحسب احکام متعلقہ حکومت مدینہ نہ در اصالت نبوت.“ (قرة العينين في تفصيل الشيخيين صفحه ۲۰۶) ترجمہ: بعدیت زمانی اس لئے مراد نہیں کہ حضرت ہارون حضرت موسی کے بعد زندہ نہیں رہے تھے کہ حضرت علیؓ کے لئے بعد یت زمانی ثابت ہو اور حضرت علیؓ سے اس بعدیت کا استثناء کریں.پس حاصل مطلب یہ ہے کہ حضرت موسی نے طور پر غیر حاضری کے زمانہ میں حضرت ہارون کو اپنا خلیفہ بنایا اور حضرت ہارون موسیٰ کے اہلِ بیت میں سے تھے اور خلافت اور نبوت مستقلہ دونوں کے جامع تھے.اور حضرت علی پیغمبر علیہ الصلواۃ والسّلام کے اہلِ بیت میں سے تھے.اور آپ کی نبوت میں ان احکام میں نائب تھے جو مدینہ منورہ کی حکومت سے متعلق تھے نہ کہ نبوت مستقلہ میں.“ پس اس حدیث میں لا نبی بعدی کے معنی حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے نزدیک یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اے علی تو غزوہ تبوک پر میری غیر حاضری میں مدینہ کی حکومت کے انتظام کے لئے میرا خلیفہ ہے جس طرح حضرت ہارون حضرت موسیٰ کے طور پر جانے کے بعد اُن کے خلیفہ تھے.لیکن اس عرصہ غیر حاضری میں میرے سوا کوئی نبی نہیں.

Page 180

تیسری حدیث (109) مقام خاتم انا تیسری حدیث مولوی خالد محمود صاحب نے انقطاع نبوت کے متعلق یہ پیش کی ہے کہ كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيْلَ تَسُوْسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٍّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُوْنُ خُلَفَاءُ فَيَكْفُرُوْنَ قَالُوْا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوْا بَيْعَةَ الْأَوَّلِ فَالْاَوَّلِ الحديث ترجمہ از خالد محمود صاحب:.( صحیح بخاری جلد اصفحه ۴۹ صحیح مسلم جلد ۲ صفحه ۲۸۶ و مسند احمد جلد ۲ صفحه ۲۹۷) بنی اسرائیل کی سیاست خود اُن کے انبیاء کیا کرتے تھے.جب کسی نبی کی وفات ہو جاتی تو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے نبی کو اس کے بعد بھیج دیتے.لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں.البتہ خلفاء ہوں گے.اور بہت ہوں گے.صحابہ نے عرض کیا کہ آپ ان کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا.خلیفہ اول سے وفا کرو اور یکے بعد دیگرے ہر خلیفہ سے وفا کرنا.( عقيدة الامت صفحه ۴۰ ) اس حدیث کا نتیجہ مولوی خالد محمود صاحب یہ بیان کرتے ہیں:.اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اس اُمت میں ایسے نبی نہیں ہوں گے جیسے بنی اسرائیل کی سیاست کے لئے آتے تھے.“

Page 181

(M.) مقام خاتم النت اس نتیجہ سے ہمیں اتفاق ہے.اس حدیث کے رُو سے امت محمدیہ میں کوئی صاحب سیاست مستقل نبی آنے والا نہیں.اور اس حدیث کی روشنی میں امت محمدیہ کا مسیح موعود بھی جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے نبی اللہ بھی قرار دیا ہے اور امامکم منکم فرما کر امتی بھی قرار دیا ہے.امتی نبی تو ہونے والا تھا مگر صاحب سیاست اور مستقل نبی نہیں.مولوی خالد محمود صاحب کا اس حدیث سے یہ مراد لینا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی امتی نبی بھی نہیں آئے گا.(عقیدۃ الامۃ صفحہ ۴۱ ) ایک خیال باطل ہے.کیونکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کو اپنے بعد نبی بھی قرار دیا ہے اور امتی بھی.پس یہ حدیث حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے خلاف پیش نہیں ہو سکتی جو مسیح موعود ہونے کے مدعی ہیں.مسیح موعود کو تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امتی نبی قرار دیا ہے.چوتھی حدیث چوتھی حدیث مولوی خالد محمود صاحب نے انقطاع نبوت کے ثبوت میں یہ پیش کی ہے:." مَثَلِيْ وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنِي بُنْيَانًا فَأَحْسَنَهُ وَاَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ مِنْ زَوَا يَاهُ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوْفُوْنَ بِهِ وَيُعْجِبُوْنَ مِنْهُ وَيَقُوْلُوْنَ هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَانَا اللَّبنَةُ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ.66 (صحیح مسلم جلد ۲ صفحه ۲۴۸ صحیح بخاری جلد اصفحه ۵۰۱.مسند احمد جلد صفحہ ۴۹۸- جامع ترمذی جلد ۲ صفحه ۵۴۴) ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری اور مجھ سے پہلے انبیاء

Page 182

مقام خاتم السنة کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا اور اس کو بہت آراستہ پیراستہ کیا.مگر اس کے گوشوں میں سے ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی.پس لوگ اُسے دیکھنے آتے اور خوش ہوتے اور کہتے کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی.آپ نے فرمایا.میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں.علامہ ابن حجر اس حدیث کی تشریح میں تحریر فرماتے ہیں:." الْمُرَادُ هِنَا النَّظْرُ إِلَى الْأَكْمَلِ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الشَّرِيعَةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ مَعَ مَا مَضَى مِنَ الشَّرَائِعِ الْكَامِلَةِ یعنی مراد اس تکمیل عمارت سے یہ ہے کہ شریعت محمدیہ سے پہلے گزری ہوئی کامل شریعتوں کی نسبت اکمل شریعت ہے.پس اس لحاظ سے خاتم النبیین کے معنی یہ ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام سابقہ نبیوں کی شریعتوں کے مقابلہ میں اکمل شریعت لانے والے نبی ہیں.علامہ ابن خلدون اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:." فَيُفَسِّرُوْنَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ بِاللَّبِنَةِ حَتَّى اَكْمَلَتِ الْبُنْيَانَ وَمَعْنَاهُ النَّبِيُّ الَّذِي حَصَلَتْ لَهُ النُّبُوَّةُ الْكَامِلَة.“ مقدمه ابن خلدون صفحه ۲۷۱) یعنی مفترین خاتم النبیین کی تفسیر اینٹ سے بیان کرتے ہیں.یہائک کہ اس اینٹ نے عمارت کو مکمل کر دیا.معنی اس کے وہ نبی ہیں جس کو نبوت کا ملہ حاصل ہوئی.

Page 183

مقام خاتم انا مولوی خالد محمود صاحب لکھتے ہیں:.قصر نبوت میں وہ انبیاء بھی شامل ہیں جن پر شرائع کا دارومدار ہے اور وہ بھی (جو.ناقل ) دوسرے انبیاء کی شرائع کی رونق ہیں یعنی امتی نبی کیونکہ حضور نے اُسے جس محل سے تشبیہ دی ہے.اس کی بھی دونوں چیزوں کا ذکر فرمایا.مکان کی بنا ( بنی بنیانًا ) اور اس کی تزئین (فاحسنه واجمله ) اور حضور اس ساری تعمیر کی آخری اینٹ ہیں.اور اس معنے کے لئے آپ نے آخر میں فرمایا میں خاتم النبیین ہوں.“ یہ لکھنے کے بعد نتیجہ نکالتے ہیں کہ حضور کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.نہ شریعت جدیدہ والا نہ امتی نبی.“ یہ نتیجہ اس لئے باطل ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد مسیح موعود کی آمد کی خبر دی ہے.اور اسے اتنی اور نبی قرار دیا ہے.بیشک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہ نبی ہیں جن کی آمد پر پوری طرح شریعت کی تکمیل ہو گئی ہے لیکن اس عمارت کی نگرانی کے لئے آخری زمانہ میں مسیح موعود نبی اللہ کا بھیجا جانا مقدر ہوا.اسی لئے اس حدیث میں تمثیل پہلے نبیوں کے لحاظ سے دی گئی ہے.جس پر مَثَلِيْ وَ مَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِيْ کے الفاظ روشن دلیل ہیں.اور پہلے گزرے ہوئے تشریعی اور مستقل انبیاء کے لحاظ سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بمعنی آخری اینٹ قرار دیا گیا ہے.لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شارع اور مستقل نبی نہیں آسکتا.اسی لئے امام علی القاری علیہ الرحمۃ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم ال کو خاتم النبیین

Page 184

(1) نتبيين مقام خاتم النی السابقین قرار دیا ہے.ملاحظہ ہو مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد ۵ صفحه ۵۶۴ سابق انبیاء یا تشریعی تھے یا غیر تشریعی مستقل نبی.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے خاتم النبیین ہونے کی وجہ سے نہ تو کوئی تشریعی نبی آسکتا.اور نہ غیر تشریعی مستقل نبی کیونکہ خاتم النبیین کے معنی امام ملا علی القاری علیہ الرحمۃ نے یہ بیان فرمائے ہیں:." الْمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَأْتِيْ بَعْدَهُ نَبِيٌّ يَنْسَخُ مِلَّتَهُ وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِهِ.“ ( موضوعات کبیر صفحه ۵۸-۵۹) یعنی خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی ملت کو منسوخ کرے اور آپ کی امت میں سے نہ ہو.پس جب امتی نبی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنا آپ کے خاتم النبیین ہونے کے منافی ہی نہیں تو مولوی خالد محمود صاحب کا امتی نبوت کے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد انقطاع کا اس حدیث سے استدلال درست نہ ہوا.پانچویں حدیث پانچویں حدیث خالد محمود صاحب نے یہ پیش کی ہے کہ ”حضرت ابو ہریرہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نے ارشاد فرمایا.فُضَلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍ أُعْطِيْتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَ أُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطُهُوْرًا وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّوْنَ.66 ( عقيدة الامة صفحه ۴۳)

Page 185

(MC) مقام خاتم النی ترجمہ: مجھے تمام انبیاء پر چھ باتوں میں فضیلت دی گئی.مجھے جوامع الکلم عطا ہوئے.میری مدد مجھے رُعب عطا کر کے کی گئی.مالِ غنیمت میری شریعت میں حلال کیا گیا.میرے لئے ساری زمین مسجد اور سامانِ تیم بنائی گئی.میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا.اور تمام سابقہ انبیاء نے الجواب میرے ذریعہ تصدیق پائی اور ظہور میں آئے.اس کے متعلق مولوی خالد محمود صاحب لکھتے ہیں:.اگر خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ کا یہ معنی کیا جائے کہ مجھ پر شریعت جدیدہ لانے والے نبیوں کا سلسلہ ختم ہو گیا تو حدیث کے پہلے حصہ کے ساتھ یہ کلام بالکل بے معنی ہو جائے گا نہ کوئی ربط رہے گا نہ کوئی مناسبت“ خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ کے لازم المعنی بیشک یہ بھی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شریعت جدیدہ لانے والے نبیوں میں سے آخری ہیں.مگر جیسا کہ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نے بیان فرمایا ہے اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موصوف بوصف نبوت بالذات ہیں اور سوا آپ کے اور نبی موصوف به وصف نبوت بالعرض.اوروں کی نبوت آپ کا فیض ہے مگر آپ کی نبوت کسی اور کا فیض نہیں اس طرح آپ پر سلسلہ نبوت مختم ہو جاتا ہے.غرض جیسے آپ نبی اللہ ہیں ویسے ہی ”نبی الانبیاء بھی.( تحذیر الناس صفحہ ۴۳) اور خاتم النبیین کی تشریح میں فرماتے ہیں:.

Page 186

(۱۲۵) مقام خاتم السنة خاتم بالتاء کا اثر مختوم علیہ پر اس طرح ہوا ہے جس طرح بالذات کا اثر بالعرض پر 66 ان معنوں کو خاتمیت مرتبی قرار دیا گیا ہے.پس خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ کے الفاظ میں خاتمیت مرتبی اور زمانی دونوں مراد ہیں.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شارع نبی تھے.اس لئے آپ کی خاتمیت زمانی بھی شارع نبی کی حیثیت میں ہے.اسی لئے آپ کے بعد مسیح موعود کا امتی نبی کی حیثیت میں آنا مقد رہوا.خاتمیت مرتب سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل قرار پاتے ہیں.اور چونکہ تمام انبیاء سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا افضل ہونا بیان کرنا اس حدیث میں مقصود ہے لہذا خاتمیت مرتبی کے معنوں کو نظر انداز کرنا درست نہیں.اسی لئے حضرت.مولوی محمد قاسم صاحب علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:.دو عوام کے خیال میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم و تأخر زمانی میں بالذات کوئی فضیلت نہیں.پھر مقام مدح میں وَلَكِنْ رَسُوْلُ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنِ فرمانا کیونکر صحیح ہوسکتا ہے.“ نیز تحریر فرماتے ہیں:.وو ( تحذیر الناس صفحه ۳ ) تاخیر زمانی افضلیت کے لئے موضوع نہیں.افضلیت کو مستلزم نہیں.افضلیت کو اس سے بالذات کچھ علاقہ نہیں.( مناظرہ عجیبہ صفحہ ۴۹)

Page 187

(MY) مقام خاتم انا پھر خاتمیت مرتبی کا مفہوم یہ لکھا ہے:.جیسا کہ خاتم بہ فتح تاء کا اثر اور فعل مختوم علیہ پر ہوتا ہے.ایسے ہی موصوف بالذات کا اثر موصوف بالعرض میں ہوگا.“ ( تحذیر الناس صفحہ م ) پس زیر بحث حدیث میں خاتمیت زمانی یا تاخر زمانی علی الاطلاق مراد نہیں لیا جا سکتا.بلکہ اس قسم کا تاخر مراد ہوسکتا ہے جو خاتمیت مرتبی کے معنی کے ساتھ جمع ہو سکے اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بالذات انبیاء سے افضل ہونے پر دلالت میں روک نہ بنے کیونکہ اس حدیث میں خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ کے الفاظ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء علیہم السلام پر اپنے افضل ہونے کا موجب قرار دیا ہے جس طرح پانچ پہلی باتوں کو انبیاء سے اپنے افضل ہونے کا موجب قرار دیا ہے.پس خاتمیت مرتبی ان پہلی باتوں سے پو را ربط اور مناسبت رکھتی ہے اور خاتمیت زمانی آخری شارع نبی کے معنوں میں ان معنی کو لازم ہے.مولوی خالد محمود صاحب کو اس جگہ یہ شبہ پیدا ہوا ہے کہ جب پہلی پانچ باتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے علی الاطلاق افضل ہیں.تو اس چھٹی بات میں بھی علی الاطلاق افضل ہوئے.چنانچہ وہ اپنا یہ ٹبہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:.اب یہ تو ظاہر ہے کہ پچھلی پانچ فضیلتیں جس طرح آپ کو شریعت جدیدہ والے نبیوں پر حاصل ہیں بطریق اولی شریعت سابقہ کے امتی نبیوں پر بھی حاصل ہیں.اور نبی کریم ان فضائل میں افضل علی الاطلاق ہیں جن میں انبیاء کے تشریعی اور غیر تشریعی ہونے میں کوئی

Page 188

مقام خاتم النی تفریق نہیں.پس لازم آیا کہ چھٹی فضیلت بھی ایسی نوع کی ہو.یعنی آپ پر اُن سب انبیاء کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے.“ شبہ کا ازالہ عقیدۃ الامت صفحه ۴۳ ۴۴ ) اس شبہ کے جواب میں عرض ہے کہ بیشک پہلی پانچ صفات میں جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علی الاطلاق تمام انبیاء سے افضل ہیں خواہ تشریعی ہوں یا غیر تشریعی.اسی طرح خاتم النبیین کے مفہوم خاتمیت مرتبی کے لحاظ سے بھی تمام انبیاء سے علی الاطلاق افضل ہیں خواہ وہ پہلے ہوں یا پیچھے آنے والے.خاتمیت زمانی کا تو بقول مولوی محمد قاسم صاحب افضلیت سے کوئی علاقہ ہی نہیں.اور خاتمیت مرتبی ہی خاتم النبیین کے حقیقی اور اصلی معنی ہیں جن کو خاتمیت زمانی اس صورت میں لازم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شارع نبی ہیں.البتہ اس حدیث سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ نہیں آسکتے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علی الاطلاق تمام قوموں کے لئے نبی اور رسول قرار دیا گیا ہے.جیسا کہ پانچویں وصف سے ظاہر ہے.اور حضرت عیسی علیہ السلام تو بقول مولوی خالد محمود صاحب مستقل اور تشریعی نبی تھے جن پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لئے بھی فضیلت دی گئی کہ وہ ایک خاص قوم کی طرف رسول تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ساری دُنیا کے لئے رسول ہیں.اگر حضرت عیسی اپنی نبوت مستقلہ کے ساتھ دوبارہ آئیں تو اس سے ختم نبوت کی مُہر بھی ٹوٹتی ہے جو اُن کی نبوت مستقلہ پر لگی ہوئی ہے اور مستقل

Page 189

(IMA) مقام خاتم النی نبی ہونے کی وجہ سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصف أُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً ( میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں) میں شریک ہو جاتے ہیں.اور اس امر میں کسی مستقل نبی کی شراکت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محال ہے.اگر خالد محمود صاحب یہ کہیں کہ حضرت عیسی امتی نبی کی حیثیت میں آئیں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہوں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہونے کی وجہ سے وہ آپ کی نیابت میں ساری دُنیا کے لئے بھیجے جائیں گے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسی علیہ السلام میں اصل اور خلیفہ کے فرق کی وجہ سے اشتراک لازم نہیں آئے گا.تو گویا انہوں نے تسلیم کر لیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت ان کی سابقہ نبوت سے مختلف قسم کی ہوگی.اور وہ بعد نزول ایک نئی قسم کی نبوت کے حامل ہوں گے.جس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونا ضروری ہے.پس اگر یہ نئی قسم کی بوت کسی پہلے نبی کو مل سکتی ہے تو ایک امتی بدرجہ اولیٰ اس مقام کو حاصل کر سکتا ہے.اور اصل بات تو یہ ہے کہ اتنی ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کا مستحق ہے کیونکہ سُورۃ نُور کی آیت استخلاف میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں سے ہی اس کا وعدہ فرمایا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:." وَعَدَ اللَّهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ.“ ( سورة نور آیت ۵۶) ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ جو لوگ تم میں سے ایمان لا کر اعمال صالحہ بجالائیں.اُن کو زمین میں ضرور خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُن لوگوں کو خلیفہ بنایا جو اُن سے پہلے گزر چکے ہیں.

Page 190

(179) ١٦٩ نتين مقام خاتم انبیر اس آیت کی رُو سے جو امتی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کا خلیفہ ہو اُس کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ کسی پہلے گذرے ہوئے خلیفہ کا مثیل ہو.اور اس کے مشابہ ہو.پس پہلا کوئی خلیفہ یا نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہو کر نہیں آسکتا.بلکہ کسی پہلے کا مثیل ہی آسکتا ہے.پس حضرت عیسی علیہ السلام اس آیت کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہو ہی نہیں سکتے.البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے کوئی شخص آپ کا خلیفہ ہوکر اور حضرت عیسی کا مثیل بن کر مسیح موعود ہوسکتا ہے.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے معنی حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی بھی جو اپنے زمانہ کے مجد دتھے خُتِمَ بِی النَّبِيُّونَ کے معنی آخری شارع نبی ہی قرار دیتے ہیں نہ کہ آخری نبی علی الاطلاق چنا نچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:." خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّوْنَ أَى لَا يُوجَدُ مَنْ يَأْمُرُهُ اللهُ سُبْحَانَهُ بِالتَّشْرِيْعِ عَلَى النَّاسِ.“ (تفہیمات الہیہ صفحه ۷۲ ) یعنی خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ سے یہ مراد ہے کہ آئیندہ کوئی ایسا شخص نہیں پایا جائے گا جس کو خدا شریعت دے کر لوگوں پر مامور کرے.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری تشریعی نبی ہیں.اب ان معنوں کو مولا نا محمد قاسم صاحب نانوتوی کی طرح خاتمیت مرتبی کے ساتھ لازم قرار دیا جائے تو خاتمیت مرتبی کے واسطہ سے آخری شارع نبی کے معنی

Page 191

(۱۷۰) مقام خاتم است بھی پہلی پانچ فضیلتوں سے مربوط ہو جاتے ہیں کیونکہ مرتبہ کے لحاظ سے خاتم وہی نبی ہوسکتا ہے جس کی شریعت بوجہ اکمل ہونے کے آخری ہو.فاندفع الشک.چھٹی حدیث مولوی خالد محمود صاحب نے چھٹی حدیث انقطاع نبوت کے ثبوت میں یہ پیش کی ہے:.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوْا وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ قَالَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ.“ 66 ( صحیح بخاری جلد ۲ صفحه ۱۰۳۵ بحوالہ عقیدۃ الامۃ صفحه ۴۴) یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ نبوت میں سے مبشرات کے سوا کچھ باقی نہیں رہا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے پو چھا.المبشرات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا.رویا صالحہ.مولوی خالد محمود صاحب نے اس کا ترجمہ کیا ہے:.بوت کا کوئی فرد مبشرات کے سوا باقی نہیں.“ اُن کے اس ترجمہ سے ظاہر ہے کہ المبشرات بھی نبوت کا فرد ہیں جو منقطع نہیں.ہاں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مؤمنین کے پیش نظر مبشرات کو رؤیا ء صالحہ قرار دیا ہے.چنانچہ علامہ سندھی، ابن ماجہ کے حواشی میں اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :.

Page 192

(141) مقام خاتم السنة " الْمُرَادُ أَنَّهَا لَمْ تَبْقَ عَلَى الْعُمُوْمِ وَإِلَّا فَالْإِلْهَامُ وَالْكَشْفُ لِلْأَوْلِيَاءِ مَوْجُودٌ.( حاشیہ ابن ماجہ نمبر ۲ صفحه ۲۳۲ مطبوعہ مصر ) یعنی مراد یہ ہے کہ علی العموم نبوت میں سے اچھے خواب باقی رہ گئے ہیں ور نہ اولیاء کے لئے الہام اور کشف کا دروازہ بھی کھلا ہے.امام عبدالوہاب شعرانی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں:.” وَقَدْ يَكُوْنُ وَحْيُ الْبَشَائِرِ أَيْضًا بِوَاسِطَةِ مَلَك.“ یعنی کبھی مبشرات والی وحی بھی فرشتہ کے واسطہ سے ہوتی ہے.حضرت مجد دالف ثانی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں:." إِنَّ كَلَامَ سُبْحَانَهُ تَعَالَى لِلْبَشَرِ قَدْ يَكُوْنَ شَفَاهًا وَذَلِكَ الْأَفْرَادُ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ وَقَدْ يَكُوْنُ لِبَعْضِ الْكُمَّلِ مِنْ مُتَابِعِيْهِمْ وَإِذَا كَثُرَ هَذَا القِسْمُ مَعَ وَاحِدٍ مِنْهُمْ سُمِّيَ مُحَدَّثًا.( مکتوبات جلد ۲ صفحه ۹۹ مکتوب ۵۲) یعنی خدا تعالی کبھی بالمشافہ کلام کرتا ہے اور یہ لوگ انبیاء ہوتے ہیں اور کبھی اُن کے بعض کامل متبعین سے ایسا ہی کلام کرتا ہے.اور جب کسی سے وہ کثرت سے ایسا کلام کرتا ہے تو اس کا نام محدث رکھا گیا ہے.واضح رہے کہ زیر بحث حدیث کی روشنی میں ہی مولوی حکیم محمد حسین صاحب مصنف غایت البرہان“ لکھتے ہیں:.الغرض اصطلاح میں نبوت بہ خصوصیت الہیہ خبر دینے سے عبارت ہے وہ

Page 193

(۱۷۲) مقام خاتم النی دو ۲ قسم پر ہے.ایک نبوّت تشریعی جو ختم ہو گئی.دوسری نبوت بمعنی خبر دادن“ وہ غیر منقطع ہے.پس اس کو مبشرات کہتے ہیں اپنے اقسام کے ساتھ.اس میں رویاء بھی ہیں.“ ایک ضروری سوال ( کوکب الدری صفحہ ۱۴۷ - ۱۴۸) اس موقع پر ہمارا مولوی خالد محمود صاحب سے ایک ضروری سوال ہے جو یہ ہے کہ جب ان کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اقوامِ عالم کی اصلاح کے لئے نازل ہوں گے تو انہیں کس قسم کی نبوت حاصل ہوگی ؟ تشریعی نبوت تو بموجب اس حدیث کے لم یبق“ کے ذیل میں آکر باقی نہیں رہی.اور غیر تشریعی مستقلہ نبوت بھی اسی کے ذیل میں آتی ہے.لہذا حضرت عیسی علیہ السلام کی دوبارہ آمد پر اُن کی نبوت المبشرات والا فر دنبوت ہی ہوسکتی ہے.پس جب مولوی خالد محمود صاحب نے المبشرات کو نبوت کا ایک فرد مان لیا ہے تو یہ حدیث تو ہمارے عقیدہ کی مؤید ہوئی.یہ حدیث یہ تو نہیں بتاتی کہ حضرت عیسی علیہ السلام تو المبشرات والی نبوت کا فرد ہوکر آسکتے ہیں اور امت محمدیہ میں المبشرات والے فرد نبوت کو کوئی اور امتی حاصل نہیں کر سکتا.بلکہ یہ حدیث تو واضح طور پر یہ اعلان کر رہی ہے کہ اس کا دروازہ اُمت کے لئے تا قیامت گھلا ہے.اس جگہ بڑا زور مار کر مولوی خالد محمود صاحب نے حقیقت کو ملتبس کرنے کے لئے لکھا ہے:.

Page 194

الجواب (۱۷۳ مقام خاتم الله جس طرح چینی کو جو کنجبین کا ایک جزو ہے سکنجین نہیں کہا جا سکتا.چینی کی بوریاں جارہی ہوں اور ہم کہیں سلجین جارہی ہے.اور جس طرح محض دانت کو انسان نہیں کہا جا سکتا یا جس طرح ایک اینٹ سے مکان مراد نہیں لیا جا سکتا.فقط آکسیجن کو جو پانی کے اجزاء میں سے ایک اہم جزو ہے ہم پانی نہیں کہہ سکتے اور ایسے تمام اطلاقات به اعتبار حقیقت کے درست نہ ہوں گے تو فقط بچے خوابوں کو نبوت سے تعبیر کرنا بھی قطعا درست نہیں.نبوت یا نبی کے اطلاق صرف وہیں ہوسکیں گے جہاں اُن کا وہ مفہوم پایا جائے جو شریعت نے مرا در کھا ہے.“ ( عقیدۃ الامت صفحه ۴۵ ) مولوی خالد محمود صاحب جب المبشرات کو نبوت کا فرد مان چکے ہیں تو پھر وہ یہ مثالیں کیسے پیش کر سکتے ہیں.جب وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو آمد ثانی میں نبی بھی مانتے ہیں اور اتنی بھی تو وہ بتائیں کہ اس وقت ان پر نبی کا اطلاق اس طرح ہوگا جیسے دانت کو انسان کہہ دیا جائے ، یا اینٹ کو مکان یا آکسیجن کو پانی ؟ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی مسیح موعود کے متعلق لکھتے ہیں:." يَنْزِلُ وَلِيًّا ذَانُبُوَّةٍ مُطْلَقَةٍ وَهُوَ نَبِيٌّ بِلا شَكٌ.کہ مسیح ایسے ولی کی صورت میں نازل ہوگا جو نبوت مطلقہ رکھتا ہوگا اور وہ بلا شبہ نبی ہوگا.

Page 195

(۱۷۴) مقام خاتم ا دیکھئے اس عبارت میں مسیح موعود کو امتی ہونے کے باوجود بلا شبہ نبی قرار دیا گیا ہے.لہذا سنجبین اور آکسیجن کی مثالوں سے اُسے غیر نبی نہیں قرار دیا جاسکتا.پھر حديث لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ کی ترکیب لَمْ يَبْقَ مِنَ الْمَالِ إِلَّا الْفِضَّةُ کی طرح ہے یا لَمْ يَبْقَ مِنَ الشَّرَابِ إِلَّا الْمَاءُ کی طرح ہے کہ مال میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے چاندی کے.یا پینے والی چیزوں میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے پانی کے.چاندی مال کی ہی ایک قسم ہے اور پانی پینے والی چیزوں میں سے ہی ایک چیز ہے.پس حدیث زیر بحث میں استثناء متصل ہے اور اتنی کی نبوت نبوت مطلقہ ہی کی ایک قسم ہے.فتوحات مکیہ کا ایک قول اور خالد محمود صاحب مولوی خالد محمود صاحب نے اس مقام پر فتوحات مگی کا ایک قول پیش کیا ہے جو یہ ہے کہ " لَا يُطْلَقُ اِسْمُ النُّبُوَّةِ وَلَا النَّبِيِّ إِلَّا عَلَى الْمُشَرِّعِ خَاصَّةً فَحُجِدَ هذَا الْاِسْمُ لِحُصُوصِ وَصْفِ مُعَيِّنِ فِي النُّبُوَّةِ.“ فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۳۷۶، ۴۹۵ بحوالہ عقیدة الامته صفحه ۴۵) اور اس کا غلط ترجمہ یہ کیا ہے کہ نیچے خوابوں پر نبوت کا جزو ہونے کے باوجود نبوت کا اطلاق نہیں ہو سکتا.کیونکہ یہ الفاظ تو صرف اُسی پر آسکتے ہیں جسے شریعت نبی قرار دے.پس نبوت میں ایک خاص صفت معین ہونے کی وجہ سے اس

Page 196

۱۷۵) مقام خاتم انا " نام کی بندش کر دی گئی.“ واضع ہو کہ یہ ترجمہ اس لئے غلط ہے کہ شریعت تو غیر تشریعی نبی کو بھی نبی قرار دیتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کو بھی باوجود اس کے امتی ہونے کے نبی قرار دیا ہے.پس حاصلِ مطلب فتوحات مکیہ کے اس قول کا یہ ہے کہ عرف میں نبوت اور نبی کا لفظ صرف تشریعی نبی پر بولا جاتا ہے.نہ کہ شریعت میں.کیونکہ شریعت تو تشریعی اور غیر تشریعی دو قسم کی نبوت قرار دیتی ہے.ہاں جب ایک لفظ ایک معنی میں معروف و مخصوص ہو جائے جیسا کہ نبی اور نبوت کا لفظ عرف میں شارع کے لئے استعمال ہونا شروع ہو گیا تو ایسے لفظ کے استعمال میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ہرمحل پر اس کا استعمال معروف معنوں میں ہی نہ سمجھ لیا جائے.اس لئے امتی نبی کے لئے ہمارے نزدیک بھی القوة يا النہمی کا لفظ خالی کسی قید کے بغیر استعمال کرنا مناسب نہیں تا کہ یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ شخص تشریعی نبوت کا مدعی ہے.پس جس طرح ایک نبی کو غیر تشریعی نبی کہیں تو اس کے شارع نبی ہونے کا بالکل احتمال ہی اُٹھ جاتا ہے.اسی طرح اگر کسی نبی کو امتی نبی کہا جائے تو اُس کے شارع اور مستقل نبی ہونے کا احتمال پیدا ہی نہیں ہو سکتا.پس حضرت محی الدین ابن عربی کے نزدیک صرف بلا قید اس لفظ کا استعمال کسی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ممنوع ہے.حضرت شیخ عبد القادر جیلانی علیہ ارحمتہ مقام نبوت پانے والے ولی یعنی امتی کے متعلق لکھتے ہیں:.” وَيُسَمَّى صَاحِبُ هَذَا الْمَقَامِ مِنْ أَنْبِيَاءِ الْأَوْلِيَاءِ الیواقیت والجواہر ونبر اس صفحہ ۴۴۵ حاشیہ )

Page 197

مقام خاتم انا خالد صاحب کے اتنی نبی اوپر کی بحث میں خالد محمود صاحب نے ان غیر تشریعی انبیاء کو بھی امتی نبی قرار دیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم سے پہلے گزر چکے حالانکہ ان میں سے کسی نے امتی نبی ہونے کا دعویٰ ہی نہیں کیا گو وہ بعد از نبوت بھی شریعت موسوی کے تابع تھے بلکہ وہ سب بالا صالت نبی سمجھے جاتے ہیں.یعنی مستقل نبی.ہم امتی نبی صرف اُسے کہتے ہیں جس نے مقامِ نبوت خاتم النبيين صلے اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بعد آپ کی ختم نبوت کے فیض سے پایا ہو.بنی اسرائیل کے غیر تشریعی انبیاء کو جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ہوئے ہم لوگ اس لئے امتی نبی نہیں کہتے کہ انہوں نے مقامِ نبوت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فیض سے نہیں پایا بلکہ وہ سب براہِ راست نبی بنائے گئے.چنانچہ حضرت بانئی سلسلہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں:.” بنی اسرائیل میں جس قدر نبی گذرے ہیں اُن سب کو خدا نے براہِ راست بچن لیا تھا.حضرت موسیٰ کا اس میں کچھ بھی دخل نہیں تھا.لیکن اس امت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزار ہا اولیاء ہوئے ہیں اور ایک وہ بھی ہوا جو امتی بھی ہے اور نبی بھی.“ (حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ ۲۸) کامل انتی تو وہی کہلاتا ہے جسے ہر کمال اپنے بھئی متبوع کے فیض سے ملا ہو اور پیروی کے بعد ملا ہو.ان معنوں میں حضرت عیسی علیہ السلام امتی نبی نہیں کہلا سکتے کیونکہ وہ بقول خالد محمود صاحب صاحب شریعت جدیدہ نبی تھے لہذا اگر وہ اصالتا نازل ہوں تو ان کی

Page 198

(12) مقام خاتم است نبوت کی نوع ( قسم ) بدل جائے گی.اور وہ تشریعی نبی سے غیر تشریعی امتی نبی ہو جائیں گے.گویا اُن کی پہلی قسم کی نبوت میں تغیر واقع ہو جائے گا.اور وہ ایک نئی قسم کی نبوت کے حامل ہونگے جس کی صورت غیر تشریعی اہمتی نبی کی ہوگی.اس طرح اُن کے وجود میں ایک نئی قسم کی نبوت کا حدوث ہوگا.پس جب اتنی نبی کا حدوث اور امکان ثابت ہے تو کیوں اس ثبوت کے پانے کا حق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے کسی ہمتی کو ہی نہ دیا جائے.خدا تعالیٰ کو حضرت عیسی علیہ السلام کو دوبارہ لانے اور امتی بنانے کا تكلف اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے.امتی کا حق تو فائق ہے کہ اسے اس قسم کی نبوت مل جائے جس سے وہ ایک پہلو سے نبی ہو اور ایک پہلو سے امتی.تشریعی نبی کو غیر تشریعی بنانے میں تو خود اس غیر تشریعی نبی کی ہتک ہے.حضرت مسیح موعود کا مذہب مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کی طرح حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام بھی خاتمیت مرتبی اور خاتمیت زمانی دونوں کے قائل ہیں.خاتمیت مرتبی کے متعلق آپ لکھتے ہیں :.اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مُہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی.اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے.اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے.اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی.(حقیقته الوحی حاشیہ صفحہ ۹۷)

Page 199

(۱۷۸) مقام خاتم الن خاتمیت زمانی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.” خدا تعالیٰ نے اللہ کے نام کی قرآن شریف میں یہ تعریف کی ہے کہ اللہ وہ ذات ہے جو رب العالمین ، یمن اور رحیم ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں بنایا اور آدم کو پیدا کیا اور رسُول بھیجے اور کتابیں بھیجیں اور سب کے آخر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا جو خاتم الانبیاء اور خاتم الرسل ہیں.“ ( حقیقته الوحی صفحه (۱۴۱) پس دونوں قسم کی خاتمیت کا حقیقتہ الوحی میں ذکر موجود ہے.نیز فرماتے ہیں:.دوختم نبوت آپ پر نہ صرف زمانے کے تاثر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت آپ پر ختم ہو گئے ہیں.“ (لیکچر سیالکوٹ صفحہ۵) مولوی خالد محمود صاحب کو مولوی محمد قاسم صاحب علیہ الرحمتہ کے بیان کے مطابق خاتم النبیین کے دونوں معنے خاتمیت مرتبی اور خاتمیت زمانی مسلّم ہیں.اور جو علمائے امت خاتمیت مرتب کو شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں انہیں مولوی خالد محمود صاحب غلطی پر قرار دیتے ہیں.یہ ہم بتا چکے ہیں کہ خاتمیت زمانی سے مراد مولوی محمد قاسم صاحب کے نزدیک صرف یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں آسکتا.خواہ وہ شریعت قرآنی شریعت کے خلاف ہو یا وہ قرآنی شریعت کے موافق ہو یا اس کے کچھ احکام قرآن شریف کے علاوہ ہوں.انہی معنوں میں خاتمیت زمانی خاتمیت مرتبی کے

Page 200

(19) مقام خاتم النبيين: ساتھ جمع ہو سکتی ہے.ورنہ خاتمیت زمانی علی الاطلاق قرار دینے کی صورت میں خاتمیت مرتبی کا اثر آئیندہ کے لئے منقطع قرار دینا پڑتا ہے اور نہ مسیح موعود بحیثیت امتی نبی کے آسکتے ہیں اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح خاتمیت مرتبی کے لحاظ سے دائمی خاتم النبیین رہتے ہیں.خاتمیت زمانی علی الاطلاق اور خاتمیت مرتبی میں تو تناقض ہے.یہ دونوں قسم کی خاتمیت تو اکٹھی پائی نہیں جاسکتی.پس تاخر زمانی به لحاظ تشریعی موت کے خاتمیت مرتبی کے ساتھ جمع ہو سکتا ہے.اسی لئے علماء نے حضرت عیسی کا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد امتی نبی کی حیثیت میں آنا تسلیم کیا ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں:.ا.لعنت ہے اس شخص پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے علیحدہ ہو کر نبوت کا دعویٰ کرے.مگر یہ نبوت ( یعنی مسیح موعود کی نبوت.ناقل ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہے نہ کہ کوئی نئی بوت.اور اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اسلام کی حقانیت دنیا پر ظاہر کی جائے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی دکھلائی جائے.“ (چشمہ معرفت صفحه ۳۲۷) ۲.یہ خوب یاد رکھنا چاہئیے کہ نبوت تشریعی کا دروازہ بعد آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بالکل مسدود ہے.اور قرآن مجید کے بعد اور کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے.یا اس کی پیروی معطل کرے.بلکہ اس کا عمل قیامت تک ہے.“ (الوصیت صفحه ۱۲ حاشیہ)

Page 201

(IA) مقام خاتم ا.” نبی کے لفظ سے اس زمانہ کے لئے صرف خدا تعالیٰ کی یہ مُراد ہے کہ کوئی شخص کامل طور پر شرف مکالمہ و مخاطبہ الہیہ حاصل کرے اور تجدید دین کے لئے مامور ہو.یہ نہیں کہ کوئی دوسری شریعت لاوے.کیونکہ شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم پر ختم ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی پر لفظ نبی کا اطلاق بھی جائز نہیں.جب تک اُس کو امتی بھی نہ کہا جائے.جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا ہے نہ براہِ راست (تجلیات الهیه صفحه ۹) پس خالد محمود صاحب کا یہ کہنا درست نہیں کہ قادیانی مکتب فکر آیت خاتم النبیین میں تفہیم کے لئے کوشاں نہیں.صرف تحریف کے درپے ہے.“ ( عقیدۃ الامت صفحه ۳۴) کیونکہ ہمارے اور دوسرے علماء میں صرف مسیح موعود کی شخصیت کی تعیین میں اختلاف ہے.اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ نبی بھی ہوگا اور امتی بھی.اگر خاتم النبیین کے بعد ہمتی نبی کی ضرورت مسلم نہ ہوتی اور امتی نبی کی نبوت ختم نبوت کے منافی ہوتی اور امت کے مسیح موعود کے لئے امتی نبی اللہ ہونے پر اتفاق نہ ہوتا تو پھر ہمارے عقیدہ پر خالد محمود صاحب اعتراض کر سکتے تھے.خود مسیح موعود کو امتی نبی مانتے ہوئے ان کو کوئی حق نہیں کہ وہ ہم پر تحریف کا الزام لگائیں.

Page 202

(۱۸۱ مقام خاتم انا اُمت میں نبوت کے متعلق احادیث نبویہ علاوہ ازیں امت میں نبوت کے متعلق جب احادیث نبویہ بھی موجود ہیں تو اُن کا ہم پر تحریف کا الزام کسی طرح جائز نہیں.پہلی حدیث چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:." اَبُوْ بَكْرٍ أَفْضَلُ هذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا أَنْ يَكُوْنَ نَبِيٌّ.." (کنوز الحقائق فی حدیث خیر الخلائق) ترجمہ: ابوبکر اس اُمت میں سب سے بڑھ کر ہیں بجز اس کے کہ کوئی نبی ( امت میں ) پیدا ہو.اس کی مؤید طبرانی کی یہ حدیث ہے:.اَبُوْ بَكْرٍ خَيْرُ النَّاسِ إِلَّا أَنْ يَكُوْنَ نَبِيٌّ.66 (جامع الصغير للسيوطى علیه الرحمة ) یعنی ابو بکر سب لوگوں سے بہتر ہیں.( اُمت کے لوگوں سے ) سوائے اس کے کہ کوئی نبی پیدا ہو.دوسری حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.

Page 203

۱۸۲ مقام خاتم است ” اَبُوْ بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُوْلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخِرِيْنَ إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ.“ ( مشکوۃ باب مناقب الصحابه ) ترجمہ: ابوبکر اور عمر دونوں اہل جنت کے ادھیٹر آدمیوں میں سے سب پہلوں اور پچھلوں کے سردار ہیں سوائے نبیوں اور رسولوں کے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افصح العرب تھے.لہذا اگر پچھلوں میں سے نبی اور مرسل کے آنے کا امکان نہ ہوتا تو پھر نہ اوّلین کے لفظ کے استعمال کی ضرورت تھی نہ آخرین کی.پس جب پہلوں میں نبی ہوئے تو پچھلوں میں بھی نبی اور مرسل کے پیدا ہونے کا امکان ثابت ہوا.تیسری حدیث حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ " قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَبَّاسِ فِيْكُمُ النُّبُوَّةُ وَالْمَمْلَكَةُ » 66 ( حج الکرامہ صفحہ ۹۷) ترجمہ: رسول خدا صلے اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس سے کہا کہ تم لوگوں میں نبوت بھی ہوگی اور سلطنت بھی.یہ روایت ابن عسا کرنے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے.اسی کی مؤیدا بن عسا کر کی یہ روایت بھی ہے:

Page 204

(IAM) مقام خاتم انا الْخِلَافَةُ فِيْكُمْ وَالنُّبُوَّةُ “ 66 یعنی تم میں خلافت بھی ہے اور ثبوت بھی.( ابن عساکرعن ابی ہریرۃ بحوالہ کنز العمال) ان دونوں حدیثوں سے اُمت میں سلطنت کے علاوہ نبوت کا امکان بھی ثابت ہے.چوتھی حدیث امام جلال الدین السیوطی علیہ الرحمہ نے جو اپنے زمانہ کے مجدد تھے اپنی کتاب 'خصائص الکبری میں ایک حدیث درج کی ہے جس کا مضمون یہ ہے:.أَخْرَجَ اَبُوْ نَعِيمٍ فِي الْحِلْيَةِ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى نَبِيِّ بَنِي إِسْرَائِيْلَ أَنَّهُ مَنْ لَقِيَنِيْ وَهُوَ جَاهِدٌ بِأَحْمَدَ أَدْخَلْتُهُ النَّارَ قَالَ يَا رَبِّ وَمَنْ أَحْمَدُ قَالَ مَا خَلَقْتُ خَلْقًا اَكْرَمَ عَلَيَّ مِنْهُ كَتَبْتُ اِسْمُهُ مَعَ اسْمِي فِي الْعَرْشِ قَبْلَ أَنْ اَخْلُقَ السَّمَواتِ وَالْأَرْضَ إِنَّ الْجَنَّةَ مُحَرَّمَةٌ عَلَى جَمِيعِ خَلْقِي حَتَّى يَدْخُلُهَا هُوَ وَأُمَّتُهُ.قَالَ وَمَنْ أُمَّتُهُ قَالَ الْحَمَّادُوْنَ يَحْمَدُوْنَ صُعُوْدًا وَ هُبُوْطًا وَعَلَى كُلِّ حَالٍ يَشُدُّوْنَ أَوْسَاطَهُمْ وَ يُطَهِرُوْنَ أَطْرَافَهُمْ صَائِمُوْنَ بِالنَّهَارِ رُهْبَانٌ بَاللَّيْلِ أَقْبَلُ مِنْهُمُ اليَسِيْرَ وَادْخُلُهُمُ الْجَنَّةَ بِشَهَادَةِ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ قَالَ اجْعَلْنِى نَبِيَّ تِلْكَ الْأُمَّةِ قَالَ نَبِيُّهَا مِنْهَا.قَالَ اجْعَلْنِي مِنْ أُمَّةِ ذَلِكَ النَّبِيِّ.قَالَ اسْتَقْدَمْتَ وَاسْتَأْخَرَ

Page 205

(IAC) وَلَكِنَّ سَاجْمَعُ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ فِي دَارِ الْجَلَالِ.مقام خاتم انا كفايت اللبيب فى خصائص الحبيب المعروف بالخصائص الكبرى للامام جلال الدين السيوطی جلد اوّل صفحه ۱۲ مطبوعہ مطبع دائرۃ المعارف حیدرآباد دگن والرحمة المهداة) ترجمہ: ابونعیم نے اپنی کتاب ”حلیہ “ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے نبی موسیٰ کو وحی کی کہ جو شخص مجھ کو ایسی حالت میں ملے گا کہ وہ احمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا منکر ہوگا تو میں اس کو دوزخ میں داخل کروں گا.خواہ کوئی ہو.حضرت موسیٰ نے عرض کیا کہ احمد کون ہے؟ خدا نے فرمایا.میں نے کوئی مخلوق ایسی پیدا نہیں کی جو اس سے زیادہ میرے نزدیک مکرم ہو.میں نے عرش پر اس کا نام اپنے نام کے ساتھ زمین و آسمان کے پیدا کرنے سے بھی پہلے لکھا ہے.بیشک جنت میری تمام مخلوق پر حرام ہے.جب تک وہ نبی اور اس کی اُمّت اس میں داخل نہ ہوں.حضرت موسیٰ نے کہا.آپ کی اُمت کون لوگ ہیں؟ خدا نے فرمایا.وہ بہت حمد کرنے والے ہیں.چڑھائی اور اُترائی میں حمد کریں گے.اپنی کمریں باندھیں گے اور اپنے اطراف (اعضاء) کو پاک رکھیں گے.دن کو روزہ رکھنے والے ہوں گے اور رات کو تارک دنیا.میں اُن کا تھوڑ اعمل بھی قبول کرلوں گا.اور انہیں کلمہ لا إِلهَ إِلَّا اللہ کی شہادت دینے سے جنت میں داخل کروں گا.

Page 206

(۱۸۵) مقام خاتم السنة موسیٰ علیہ السّلام نے عرض کیا کہ مجھ کو اس اُمت کا نبی بنادیجئے.ارشادِ باری ہوا.اس اُمت کا نبی اس اُمت میں سے ہوگا.موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ مجھ کو اُن ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اُمت میں سے بنا دیجئے.ارشاد باری ہوا.تم ( اُن سے) پہلے ہو گئے ہو وہ پیچھے ہوں گے.البتہ تم کو اور اُن کو دارالجلال (جنت ) میں اکٹھا کر دوں گا.نوٹ:.یہ حدیث مولوی اشرف علی صاحب تھانوی نے بھی اپنی کتاب نشر الطیب فی ذکر الحبیب صفحہ ۲۶۲ پر درج کی ہے.اور ” الرحمة المهداة میں بھی یہ حدیث موجود ہے.اور تر جمان السیہ میں مولوی بدر عالم صاحب میرٹھی نے بھی یہ حدیث درج کی ہے اس حدیث سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی اس درخواست کو رڈ کر دیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے نبی بنائے جائیں اور رڈ کرنے کی وجہ یہ بتائی نَبِيُّهَا مِنْهَا کہ اس اُمت کا نبی اس امت میں سے ہوگا.پھر موسیٰ نے امتی بنائے جانے کی درخواست کی تو اُسے بدیں وجہ رد کر دیا گیا کہ چونکہ تم پہلے ہو گئے ہو اور رسُول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پیچھے آنے والے ہیں اس لئے تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنی بھی نہیں ہو سکتے.اس حدیث سے روزِ روشن کی طرح ظاہر ہے کہ امت محمدیہ میں سے نبی تو آ سکتا ہے.لیکن کوئی پہلا نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امتی نبی نہیں بن سکتا.پس خالد محمود صاحب کا یہ خیال کہ حضرت عیسی علیہ السلام اصالتا امتی نبی کی حیثیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آئیں گے.اس حدیث کے سراسر خلاف ہے.حضرت موسیٰ علیہ

Page 207

(IAY) مقام خاتم النی السلام کی طرح وہ بھی اُمت محمدیہ میں امتی نبی نہیں بن سکتے.پس وہ حدیثیں جن میں عیسی نبی اللہ کے نازل ہونے کی خبر دی گئی ہے اور اُسے نبی بھی قرار دیا گیا ہے اور اتنی بھی، وہ سب حدیثیں تاویل طلب ہیں.ان حدیثوں میں یہ تاویل کرنی لازم ہے کہ یہ عیسی امتِ محمدیہ کا ایک فرد ہے نہ کہ مسیح اسرائیلی.پانچویں حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.أَلَا إِنَّ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ لَيْسَ بَيْنِي وَ بَيْنَهُ نَبِيٌّ وَلَا رَسُولٌ أَلَا إِنَّهُ خَلِيْفَتِى فِى أُمَّتِي مِنْ بَعْدِى أَلَا إِنَّهُ يَقْتُلُ الدَّجَّالَ وَيَكْسِرُ الصَّلِيْبَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ وَ تَضَعُ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا أَلَا مَنْ أَدْرَكَهُ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ السَّلَامَ.» (طبرانی الاوسط و الصغير) ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.سنو! بے شک میرے اور عیسی کے درمیان کوئی نبی اور رسول نہیں.سعو ! بے شک وہ میری اُمت میں میرے بعد میرا خلیفہ ہے.سنو ! بے شک وہ دجال کو قتل کرے گا اور صلیب کو توڑے گا.اور جزیہ موقوف کر دے گا اور لڑائی اپنے اوزار رکھ دے گی ( بند ہو جائے گی ) سنو ! جو تم میں سے اُسے پائے اُسے السلام علیکم کہے.

Page 208

(IAZ) مقام خا نتين اس حدیث کے الفاظ أَلَا إِنَّهُ خَلِيْفَتِيْ فِي أُمَّتِی سے ظاہر ہے کہ موعود عیسی بن مریم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے آپ کا خلیفہ ہونے والا ہے.سورۃ نور کی آیت استخلاف سے ظاہر ہے کہ اس امت کے خلفاء وہ ہوں گے جو ایمان لانے کے بعد اعمالِ صالحہ بجالائیں گے.اور یہ خلفاء پہلے خلفاء کے مشابہ ہوں گے.یعنی اُن کے مثیل ہوں گے.پس حضرت عیسی اس اُمت میں اصالتا نہیں آسکتے.بلکہ اُن کا کوئی مثیل ہی آسکتا ہے جو امت محمدیہ کے افراد میں سے ہو.جسے عیسی بن مریم سے مماثلت کی وجہ سے بطور استعارہ حدیث نبوی میں عیسی بن مریم کا نام دیا گیا ہے.تا یہ ظاہر ہو کہ مسیح موعود عیسی بن مریم کے رنگ میں رنگین اور ان کا مثیل ہو گا.- یہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام مستقل نبی تھے اور مولوی خالد محمود صاحب انہیں تشریعی نبی مانتے ہیں.اس لئے ان کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنا آیت خاتم النبیین کے منافی ہے.ہاں اُمت میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی خلیفہ کا کسی پہلے نبی کا مثیل ہونا بموجب آیت استخلاف آیت خاتم النبیین کے منافی نہیں.کیونکہ ایسا شخص مستقل یا تشریعی نبی نہیں ہوگا.بلکہ ایک پہلو سے نبی ہوگا اور ایک پہلو سے امتی بھی.چھٹی حدیث عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ لَهُ مُرْضِعٌ فِي الْجَنَّةِ وَلَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا (ابن ماجہ کتاب الجنائز)

Page 209

(IAA) مقام خاتم النی ترجمہ: حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا فرزند صاحبزادہ ابراہیم وفات پا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا کہ جنت میں اس کے لئے ایک دُودھ پلانے والی مقرر ہے اور فرمایا کہ اگر وہ زندہ رہتا تو ضرور صدیق نبی ہوتا.یہ روایت ابن ماجہ میں ہے جو صحاح ستہ میں سے ہے اور یہ تین مختلف طریقوں (سندوں) سے مروی ہے.بدیں وجہ شہاب علی البیضا وی میں اس حدیث کے متعلق لکھا ہے :." أَمَّا صِحْةُ الْحَدِيثِ فَلَا شُبْهَةٌ فِيْهِ لِأَنَّهُ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةً وَغَيْرَةً یعنی اس حدیث کی صحت کے بارہ میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ اسے ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کیا ہے.حضرت امام علی القاری علیہ الرحمۃ نے جو فقہ حنفیہ کے جلیل القدر امام ہیں.اس حدیث کے خلاف علامہ عبد البر اور امام کو ویٹی کے اس خیال کو کہ یہ حدیث ضعیف ہے یہ کہہ کر رڈ کر دیا ہے کہ لَهُ طُرُق ثَلَاثُ يُقَوَّى بَعْضُهَا بِبَعْضٍ “ ( موضوعات کبیر صفحه ۵۸) کہ یہ حدیث تین سندوں سے ثابت ہے جو آپس میں ایک دوسری کو قوت دیتی ہیں.پھر چوتھی حدیث لَوْ كَانَ مُوسَى حَيًّا لَمَا وَسِعَهُ إِلَّا إِتِّبَاعِيْ (اگر موسی زنده

Page 210

(IAA) ١٨٩ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا چارہ نہ ہوتا ) کے متعلق لکھا ہے:.مقام خاتم است " وَ يُقَوِّيْهِ حَدِيْتُ لَوْ كَانَ مُوسَى حَيًّا لَمَا وَسِعَهُ إِلَّا إِتِّبَاعِي.کہ یہ حدیث اسے تقویت دے رہی ہے.علامہ شوکانی نے بھی تو وہی کے اس خیال کو رڈ کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں اور لکھا ہے:.هُوَ عَجِيْبٌ مِنَ النَّوَوِى مَعَ وُرُودِهِ عَنْ ثَلَاثَةٍ مِنَ " الصَّحَابَةِ وَكَأَنَّهُ لَمْ يَظْهَرْ لَهُ تَاوِيلُهُ “ (الفوائد المجموعة صفحا۱۴) یعنی نووی کا اس حدیث سے انکار قابل تعجب ہے باوجود یکہ اس حدیث کو تین صحابہ نے روایت کیا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نووی پر اس کے صحیح معنی نہیں کھلے.ہمارا استید لال حدیث ہذا کی صحت ثابت کرنے کے بعد اب ہم بتاتے ہیں کہ اس حدیث سے ہمارا استدلال یہ ہے کہ آیت خاتم النبیین شہھ میں نازل ہوئی تھی.اور صاحبزادہ ابراہیم کی شہ ھ میں وفات ہوئی.لہذا آیت خاتم النبیین کے نزول کے قریبا پانچ سال بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور صدیق نبی ہوتا.اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک صاحبزادہ ابراہیم کا بالفعل نبی نہ ہونا اس کے وفات پا جانے کی وجہ سے ہے نہ کہ آیت خاتم النبیین کے

Page 211

(19) مقام خاتم النی نتين نزول کی وجہ سے.کیونکہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آیت خاتم النبیین حضور کے بعد امتی نبی کے پیدا ہونے میں بھی روک ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی یہ نہ فرماتے اگر ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور صدیق نبی ہوتا.بلکہ یہ فرماتے اگر ابراہیم زندہ بھی رہتا تب بھی نبی نہ ہوتا.کیونکہ میں خاتم النبیین ہوں.“ امام علی القاری نے اس حدیث کے مخالف علماء کے خیال کورڈ کرنے اور اس حدیث کو قومی قرار دینے کے بعد لکھا ہے:.لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيْمُ وَصَارَ نَبِيًّا وَكَذَا لَوْ صَارَ عُمَرُ نَبِيًّا لَكَانَا مِنْ اتْبَاعِهِ عَلَيْهَ السَّلَامُ كَعِيْسَى وَخِضَرِ وَ إِلْيَاسِ.66 موضوعات کبیر صفحه ۵۸) یعنی اگر ابراہیم زندہ رہتا اور نبی ہو جاتا اور اسی طرح اگر حضرت عمرؓ نبی ہو جاتے تو یہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں سے ہوتے جیسے عیسی ، خضر اور الیاس کو متبع نبی تسلیم کیا جاتا ہے.پھر یہ بتانے کے لئے کہ ان دونوں کا نبی ہو جانا آیت خاتم النبیین کے خلاف نہ ہوتا، تحریر فرماتے ہیں:." فَلَا يُنَاقِصُ قَوْلُهُ تَعَالَى خَاتَمَ النَّبِيِّينَ إِذِ الْمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَأْتِي بَعْدَهُ نَبِيٌّ يَنْسَحُ مِلْتَهُ وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِهِ ( موضوعات کبیر صفحه ۵۹) ترجمہ: ان دونوں کا نبی ہو جانا آیت خاتم النبیین کے خلاف نہ ہوتا کیونکہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہ ہوگا جو آپ کی

Page 212

191 مقام خاتم انا شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی اُمت میں سے نہ ہو.امام علی القاری علیہ الرحمۃ نے اس عبارت میں آیت خاتم النبیین کی رُو سے دو طرح کے نبیوں کا آنا منقطع قرار دیا ہے:.اوّل یہ کہ ایسا بی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا جو شریعت محمدیہ کو منسوخ کرے یعنی نئی شریعت کے لانے کا مدعی ہو.دوم یہ کہ ایسا نبی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا جو آپ کی امت میں سے نہ ہو.گویا مستقل نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا.اس لئے صاحبزادہ ابرا ہیم زندہ رہنے کی صورت میں امتی نبی ہی ہو سکتے تھے اور اُن کا امتی نبی ہونا آیت خاتم النبیین کے خلاف نہ ہوتا.اور آیت خاتم النبیین اُن کے اتنی نبی ہونے میں روک نہ ہوتی.کیونکہ خاتم النبیین کی آیت صرف تشریعی نبی یا امت محمدیہ سے باہر کسی نبی کے آنے یعنی مستقل نبی کے آنے میں روک ہے.ایک سوال کا جواب اس جگہ ایک سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیسے کہہ دیا کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو صدیق نبی ہوتا.اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم دیا جا چکا تھا کہ آپ کا یہ فرزند ضرور نبی ہے.چنانچہ امام ابن حجر اہیمی اپنی کتاب ”الفتاوى الحديثية “ میں ایک حدیث نبوی درج فرماتے ہیں:.

Page 213

احاله مقام خاتم است " عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ لَمَّا تُوُفِّيَ إِبْرَاهِيْمُ أَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلى اُمِّهِ مَارِيَةَ فَجَاءَ تْهُ وَغَسَلَتْهُ وَكَفَّنَتْهُ وَخَرَجَ بِهِ وَخَرَجَ النَّاسُ مَعَهُ فَدَفِنَهُ وَأَدْخَلَ النَّبِيُّ يَدَهُ فِي قَبْرِهِ فَقَالَ أَمَا وَاللَّهِ إِنَّهُ لَنَبِيٌّ إِبْنُ نَبِيِّ.“ رض (الفتاوی الحدیثیہ لا بن حجر ہیثمی صفحہ ۱۲۵) ترجمہ: حضرت علی ابن ابی طالب سے روایت ہے کہ جب ابراہیم ( فرزند رسُول.ناقل ) وفات پا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی والدہ ماریہ کو بلا بھیجا.وہ آئیں اور اُسے غسل دیا اور کفن پہنایا اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اُسے لے کر نکلے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ نکلے تو آپ نے اُسے دفن کیا اور نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس کی قبر میں داخل کیا.پس کہا خدا کی قسم بے شک یہ ضرور نبی ہے نبی کا بیٹا ہے.اس حدیث سے ظاہر ہے کہ صاحبزادہ ابراہیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بالقوۃ نبی ضرور تھے اور یہ امر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا کی طرف سے منکشف ہو چکا تھا اسی لئے تو آپ نے فرمایا کہ اگر وہ زندہ رہتا تو ضر ورصدیق نبی ہوتا.یعنی بالفعل نبی ہوتا.مولوی خالد محمود صاحب کی غلط بیانی مولوی خالد محمود صاحب امام علی القاری علیہ الرحمہ کی توجیہ کو اپنے مقصد کے خلاف پا کر نہایت گھبراہٹ میں امام موصوف کی طرف ایک ایسی بات منسوب کرتے ہیں جس کا انہیں و ہم بھی نہیں ہوسکتا.چنانچہ مولوی خالد محمود صاحب لکھتے ہیں:.

Page 214

(19) مقام خاتم النی ” ملا علی قاری یہاں سمجھا رہے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ حضرت عمر یا حضرت علی یا حضور کے بیٹے حضرت ابراہیم جیسے کسی اور بزرگ کو نبی بناتا تو اُسے بھی حضرت عیسی اور حضرت خضر کی طرح تاجدار نبوت سے پہلے نبی بناتا کیونکہ آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا.اسی فرضی صورت میں یہ ضروری نہیں کہ ان بزرگوں کے تشخصات بھی وہی ہوں جو اب تھے.یعنی حضرت ابراہیم حضور کے بیٹے بھی ہوں.اور پھر آنحضرت سے پہلے کے نبی ہوں.بنا بر فرض نبوت حضرت ابراہیم کا یہ شخص لازم نہیں.یعنی اُن کے فرزند رسول سے صرف نظر کر کے ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر رب العزت انہیں یا حضرت عمرؓ کو نبی بناتے تو یہ بزرگ یقینی طور پر حضرت عیسے ، حضرت خضر اور حضرت الیاس کی طرح حضور سے پہلے کے نبی ہوتے اور حضور کے بعد تک رہنے کی صورت میں حضور کے تابع شریعت ہو کر رہتے.اور اس طرح کا اگر کوئی پچھلا نبی آ جائے تو اس کا آنا خاتم النبیین کے خلاف نہیں ہوگا البتہ اس کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ آپ کی شریعت کے ماتحت رہے اور اس کی اپنی نبوت نافذ نہ ہو جیسے ایک صوبے کا گورنر جب دوسرے گورنر کے صوبہ میں چلا جائے تو وہ گورنر وہاں بھی ہوگا.لیکن 66 اس کی حکومت وہاں نافذ نہ ہوگی.“ ( عقیدۃ الامۃ صفحہ ۷۴ )

Page 215

الجواب (190) مقام خاتم انا خالد محمود صاحب کا شدید اضطراب ان کے اس بیان سے ظاہر ہے وہ ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس حدیث میں یہ فرماتے ہیں کہ اگر ابراہیم میرا بیٹا نہ ہوتا بلکہ حضرت عیسی کی طرح کسی پہلے زمانہ میں پیدا ہو چکا ہوتا اور نبی بن چکا ہوتا اور پھر میرے نبوت کے زمانہ کو پاتا تو پھر وہ نبی تو ہوتا مگر اس کی نبوت نافذ نہ ہوتی.خالد محمود صاحب کا یہ بیان سراسر دروغ بے فروغ ہے.وہ صاحبزادہ ابراہیم سے صرف نظر کرنا بتاتے ہیں.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ملا علی قاری علیہ الرحمۃ صرف نظر نہیں کر رہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو معتین طور پر اپنے وفات پانے والے بیٹے ابراہیم کے متعلق یہ فرمارہے ہیں کہ اگر وہ زندہ رہتا تو ضرور صدیق نبی ہوتا.بلکہ اس کے چھوٹی عمر میں وفات پاجانے یہ کہ کر اسے مشخص فرمارہے ہیں کہ إِنَّ لَهُ مُرْضِعَةٌ فِي الْجَنَّةِ کہ اس کے لئے جنت میں ایک دایہ مقر رہے.اور گزشتہ حدیث کے مطابق اس کے دفن کئے جانے کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی قسم کھا کر فرمایا:.أَمَا وَاللَّهِ إِنَّهُ لَنَبِيٌّ إِبْنُ نَبِيِّ “ " یعنی خدا کی قسم بے شک یہ ضرور نبی ہے اور نبی کا بیٹا ہے.اسی طرح امام علی القاری علیہ الرحمۃ بھی اسی فوت ہو جانے والے ابراہیم مشخص فرزند رسُول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمارہے ہیں کہ اگر وہ زندہ رہتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع نبی ہوتا.اور اس کا اس قسم کا نبی ہونا آیت خاتم النبیین کے خلاف نہ ہوتا.اس جگہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اس کی نبوت نافذ

Page 216

(190) مقام خاتم النيبير نہ ہوتی اور نہ امام علی القاری نے ایسا لکھا ہے.صاحبزادہ ابراہیم کے نبی ہونے کی صورت میں ان کی عیسی ، خضر والیاس سے تشبیہ دینے سے یہ مراد نہیں کہ نبی بننے کی صورت میں وہ عیسی و خضر و الیاس علیہم السلام کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پیدا ہوکر نبی بن چکے ہوتے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پاتے تو وہ نبی تو ہوتے مگر اُن کی نبوت نافذ نہ ہوتی.تشبیہ میں یہ لازم نہیں ہوتا کہ مشبہ کی مشتبہ یہ سے تمام جزئیات میں اس طرح مشابہت ضروری ہو کہ دونوں کا زمانہ بھی ایک ہی ہو.بلکہ اگر زمانہ حال کے کسی شخص کو جیسا کہ صاحبزادہ ابراہیم تھے زمانہ ماضی کے کسی شخص سے تشبیہ دی جائے تو اس تشبیہ سے مشتبہ کے زمانہ سے صرف نظر کر لینا بالکل ایک غیر معقول بات ہوگی.اور امام علی القاری جیسا فاضل فقیہ کبھی ایسی غیر معقول بات نہیں کہہ سکتا.خصوصا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے صاحبزادہ ابراہیم سے صرف نظر کر کے اُسے حضرت عیسی کی طرح اپنے سے کسی پہلے زمانہ کا انسان فرض کر کے یہ بات بیان نہیں فرما رہے بلکہ مقصود آپ کا اپنے اس وفات پانے والے فرزند کی استعداد نبوت کو بیان کرنا تھا جس سے نبوت کے بالفعل نفاذ میں صرف اس کی وفات حائل ہوئی ہے.نہ کہ آیت خاتم النبیین.پس مولوی خالد محمود صاحب اپنے مندرجہ بالا بیان میں محض کھینچ تان سے ایک سیدھی بات کو موڑ تو ڑ کر اپنا مطلب سیدھا کرنا چاہتے ہیں.حالانکہ اس سادہ سی تشبیہ میں امام علی القاری علیہ الرحمۃ کی مُراد صرف یہ ہے کہ جس طرح عیسی ، خضر اور الیاس کا جو پہلے کے نبی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہو جانا ختم نبوت کے منافی نہیں.اسی طرح اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے ہاں پیدا ہونے والا فرزند ابراہیم وفات نہ پا جاتا تو اس

Page 217

(197 مقام خاتم النت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع نبی ہونا آیت خاتم النبیین کے منافی نہ ہوتا کیونکہ آیت خاتم النبیین میں انقطاع نبوت کا وہ صرف یہ مفہوم بیان کر رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آ سکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے.اور آپ کی اُمت میں سے نہ ہو.پس امت میں سے کسی کا نبی بن جانا اُن کے نز دیک آیت خاتم النبیین کے خلاف نہیں.اسی لئے وہ فرماتے ہیں کہ فرزند رسول صاحبزادہ ابراہیم اگر زنده رہتے اور بموجب حدیث نبوی نبی ہو جاتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع یعنی اُمتی ہوتے.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مذہب معلمہ نصف الدین اُم المومنین حضرت عائشۃ الصدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:." قُوْلُوْا خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَلَا تَقُوْلُوْا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ “ 66 ( تفسیر در منثور جلد ۵ صفحه ۲۰۴) ترجمہ: لوگوتم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین تو کہو اور یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے.یہی قول حضرت امام محمد طاہر علیہ الرحمۃ نے تکملہ مجمع البجار میں ان الفاظ میں نقل کیا ہے:.قُوْلُوْا إِنَّهُ خَاتَمُ الَّا نْبِيَاءِ وَلَا تَقُوْلُوْا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ “ (تکمله صفحه ۸۵)

Page 218

(192) مقام خاتم السنة نتين حضرت عائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ کے ان ظاہری معنوں سے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں خاتم النبیین کا مفہوم پورے طور پر ادا نہیں ہوتا بلکہ اس قول کے ظاہری معنوں سے امت محمدیہ غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتی ہے.اس لئے آپ نے اُمت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کہنے کی تو ہدایت فرمائی اور لَا نَبِيَّ بَعْدَہ کہنے سے منع فرما دیا.حضرت اُم المومنين حديث لَا نَبِيَّ بَعْدِی کی منکر نہ تھیں بلکہ وہ اس کے معنی یہ سمجھتی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا یا کوئی مستقل نبی نہیں آسکتا جو آپ کے زمانہ نبوت کو ختم کر دے.دیگر علماء امت نے بھی لَا نَبِيَّ بَعْدِی کے یہی معنی کئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مُراد ان الفاظ سے یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں آ سکتا.افسوس ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ الصدیقہ نے اُمّت کو لَا نَبِيَّ بَعْدَہ کہنے سے روک کر جس غلط فہمی سے بچانا چاہا تھا مولوی خالد محمود صاحب اسی دھو کے میں امت کو مبتلا کرنا چاہتے ہیں.خود امام محمد طاہر نے یہ قول نقل کر کے ایک تو جیہہ اس قول کی یہ بھی بیان کی ہے کہ " هَذَا لَا يُنَافِي حَدِيْتَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي لِأَنَّهُ أَرَادَ لَا نَبِيَّ يَنْسَخُ شَرْعَهُ.“ (تکمله مجمع البحار صفحه ۸۵) یعنی اُم المومنین کا یہ قول حديث لا نَبِيَّ بَعْدِی کے خلاف نہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے یہ مرا تھی کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہ ہو گا جو آپ کی شرع منسوخ کرے.

Page 219

(19A) مقام خاتم ہاں امام محمد طاہر نے اپنے عقیدہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس توجیہہ سے : تو جیہہ بھی کی ہے:." هَذَا نَاظِرٌ إِلَى نُزُوْلِ عِيْسَى“ کہ یہ قول کہ لَا نَبِيَّ بَعْدَہ کہا نہ جائے نزول عیسی کے پیش نظر ہے.مگر یہ صرف امام محمد طاہر علیہ الرحمۃ کا اپنا خیال ہے.اسی لئے میں نے اپنی کتاب علمی تبصرہ میں اختصار کے پیش نظر امام محمد طاہر کی اس تو جیبہ کو پیش نہیں کیا تھا بلکہ اس دوسری تو جیہ کو پیش کیا تھا جس سے ہمارا مقصد وضاحت سے ظاہر ہو جاتا تھا کہ امتی نبی کا آنا آیت خاتم النبیین کے منافی نہیں.چونکہ حضرت اُم المومنین وفات مسیح کی قائل ہونے کی وجہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کے اصالتا نزول کی قائل نہ تھیں لہذاوہ حضرت عیسی علیہ السلام کے اصالتنا نزول کے پیش نظر یہ قول نہیں کہ سکتی تھیں.بلکہ انہوں نے یہ قول اس مسیح موعود کے پیش نظر کہا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ایک پہلو سے امتی اور ایک پہلو سے نبی ہونے والا تھا.اس بات کا ثبوت کہ حضرت اُم المومنین وفات مسیح کی قائل تھیں یہ ہے کہ حاکم نے مستدرک میں آپ کی سند سے یہ حدیث بیان کی ہے:.66 إِنَّ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرِيْنَ وَمِائَةِ سَنَةٍ.“ کر عیسی بن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے.پس علمی تبصرہ میں اختصار کے پیش نظر میرا" هذَا نَاظِرٌ إِلى نُزُولِ عیسی“ کا قول جو امام محمد طاہر کے ذاتی خیال سے متعلق ہے پیش نہ کرنا قابلِ اعتراض امر نہیں.ماسوا اس کے ہم بھی تو اس حدیث کو اس وقت تک نزول عیسی سے ہی متعلق قرار

Page 220

(199) مقام خاتم اتنی دیتے ہیں.یہ الگ بات ہے کہ وہ عیسی اسرائیلی ہو یا محمدی.چونکہ اسرائیلی مسیح علیہ السلام حضرت اُم المومنین کے نزدیک وفات پاچکے ہیں اس لئے اُن کے زیر بحث قول میں وہ تو ہرگز حضرت اُم المومنین کے مد نظر نہیں ہو سکتے.بالآخر عرض ہے کہ اگر اُم المومنین خاتم النبیین کے معنی علی الاطلاق خاتمیت زمانی ہی سمجھتیں تو لا نَبِيَّ بَعْدَہ کہنے سے بھی منع نہ فرماتیں.مگر چونکہ وہ خاتم النبیین کے پورے اسلامی عقیدہ کی قائل تھیں اس لئے انہوں نے لَا نَبِيَّ بَعْـدَه کہنے سے منع فرمایا کیونکہ اس سے خاتم النبیین کے اسلامی عقیدہ کے متعلق پوری تشریح نہیں ہوتی تھی.بلکہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی اور یہ وہم پیدا ہوسکتا تھا کہ خاتمیت زمانی علی الاطلاق پائی جاتی ہے.حالانکہ یہ بات اُن کے نزدیک درست نہ تھی.وہ حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِی کی منکر نہ تھیں.مگر لَا نَبی بَعْدِی کے حقیقی معنوں سے چونکہ عوام ناواقف تھے اس لئے ایسے لوگ خاتم النبیین کے ساتھ لا نَبِيَّ بَعْدَہ کہا جانے سے اس وہم میں مبتلا ہو سکتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امتی نبی بھی نہیں آسکتا.اور نہ ہی مسیح موعود کا بطور امتی نبی کے ظہور ہو سکتا ہے.اس لئے اُم المومنین رضی اللہ عنہا نے اُمت پر شفقت فرماتے ہوئے لَا نَبِيَّ بَعْـدَه کہنے سے روک کر امت کو غلط فہمی سے بچانے کی کوشش کی ہے.لیکن افسوس ہے کہ مولوی خالد محمود صاحب اُن کی راہ نمائی سے مستفیض نہیں ہوئے اور حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے امتی نبی کے دعوے کو آیت خاتم النبیین کے خلاف قرار دے رہے ہیں.اور خاتمیت مرتبی کا اسلامی عقیدہ رکھنے کا دعویٰ کرتے ہوئے پھر خاتمیت زمانی کے ایسے معنی لینا چاہتے ہیں جو خاتمیت مرتبی کے ساتھ بوجہ تناقض جمع نہیں ہو سکتے.

Page 221

(..) مقام خاتم انا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مذہب ثابت نے حضرت انس سے روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:." قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنِّي لَمْ اَرَ زَمَانًا خَيْرَ الْعَامِلِ مِنْ زَمَائِكُمْ هَذَا إِلَّا أَنْ يَكُوْنَ زَمَانٌ مَعَ نَبِيِّ.“ ( مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۲۷) راوی کہتا ہے کہ ”حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں اس زمانہ سے کوئی زمانہ بہتر نہیں پاتا سوائے ایسے زمانہ کے کہ وہ آئندہ نبی کے ساتھ ہو.يَكُونُ مضارع کا صیغہ ہے جو استقبال کا فائدہ دے رہا ہے.پس حضرت علی کے نزد یک آئندہ نبی کے ہونے کا امکان تھا.ورنہ وہ إِلَّا أَنْ يَكُوْنَ زَمَانٌ مَعَ نَبِي کے الفاظ نہ فرماتے.امام الصوفیاء الشیخ الاکبر حضرت محی الدین ابن العربی علیہ الرحمہ کے اقوال امام الصوفیاء الشیخ الاکبر تحریر فرماتے ہیں:.(الف) وَمِنْ جُمْلَةِ مَا فِيْهَا تَنْزِيْلُ الشَّرَائِعِ وَ خَتَمَ اللَّهُ هَذَا التَّنْزِيْلَ بِشَرْع مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ خَاتَمُ النبيين " (فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۵۵-۵۶)

Page 222

٢٠١ مقام خاتم است ترجمہ: آغاز اور انجام والی اشیاء میں سے شریعتوں کا نازل کرنا بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے شریعت کے اُتارنے کو محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی شرع سے ختم کر دیا.پس آپ (اس طرح) خاتم النبیین ہوئے.(ب) فَمَا ارْتَفَعَتِ النُّبُوَّةُ بالكَلِيَّةِ لِهَذَا قُلْنَا إِنَّمَا ارْتَفَعَتْ نُبُوَّةُ التَّشْرِيْعِ فَهَذَا مَعْنَى لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ.“ ( فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۲۴) ترجمہ: نبوت کلّی طور پر نہیں اُٹھی.اس لئے ہم نے کہا ہے کہ صرف تشریعی نبوت اٹھی ہے اور یہی معنی حدیث لا نبی بعدی کے ہیں.(ج) إِنَّ النُّبُوَّةَ الَّتِي انْقَطَعَتْ بِوُجُوْدِ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هِيَ نُبُوَّةُ التَّشْرِيْعِ لَا مَقَامُهَا فَلَا شَرْعَ يَكُوْنُ نَاسِخًا لِشَرْعِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ هَذَا مَعْنَى قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الرّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ أَيْ لَا نَبِيَّ يَكُوْنُ عَلَى شَرْعٍ يُخَالِفُ شَرْعِيْ إِذَا كَانَ يَكُوْنُ تَحْتَ حُكْمِ شَرِيْعَتِي.“ (فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۳) ترجمہ: وہ نبوت جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے منقطع ہوئی ہے وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقام نبوت.پس اب کوئی شرع نہ ہوگی جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شرع کی ناسخ ہو اور نہ آپ کی شرع میں کوئی نیا حکم بڑھانے والی شرع ہوگی اور یہی معنے

Page 223

مقام خاتم انا رسُولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے ہیں کہ رسالت اور نبوت منقطع ہو گئی ہے.پس میرے بعد نہ رسول ہوگا نہ نبی.یعنی مُراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی (اس قول سے.ناقل ) یہ ہے کہ اب ایسا نبی کوئی نہیں ہوگا جو میری شریعت کے مخالف شریعت پر ہو بلکہ جب کبھی کوئی نبی ہوگا تو وہ میری شریعت کے ماتحت ہوگا.مولوی خالد محمود صاحب کی جیلہ جوئی مولوی خالد محمود صاحب نے اپنی کتاب ”عقیدۃ الامۃ میں شیخ اکبر علیہ الرحمۃ کی عبارت (ج) کا آخری حصہ تو درج کیا ہے اور اس کا ترجمہ بھی بگاڑ کر لکھا ہے.اور اس عبارت کے پہلے حصہ کو درج نہیں کیا.جس میں شیخ اکبر نے فرمایا ہے کہ صرف تشریعی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے پر منقطع ہوئی ہے.مقام نبوت منقطع نہیں ہوا.چونکہ خالد محمود صاحب کے دل میں چور تھا.اس لئے انہوں نے پوری عبارت اور اس کا ترجمہ پیش نہیں کیا اور اُس کے آخری حصہ کا ترجمہ توڑ مروڑ کر یہ لکھا ہے:.تحقیق رسالت اور نبوت منقطع ہو چکی ہے.پس میرے بعد کوئی رسُول یعنی کوئی (پرانا نبی بھی ) ایسا نہیں ہوگا جو میری شریعت کے خلاف رہے.بلکہ جب بھی ہوگا امتی نبی ہوکر رہے گا.“ اس ترجمہ میں یعنی کوئی پرانا نبی بھی اصل الفاظ کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ ترجمہ میں خالد محمود صاحب نے اپنی طرف سے بڑھائے ہیں.اس سے پہلی عبارت میں جس کو درج نہیں کیا اس میں بیان کردہ خیال ” مقام نبوت منقطع نہیں ہوا.“ کے

Page 224

(rr) مقام خاتم السنة نتين عام اور اُصولی مفہوم کو خالد محمود صاحب اپنے نوٹ میں گول مول کر گئے ہیں.چنانچہ لکھتے ہیں :.پیش نظر رہے کہ آنحضرت کے بعد مقام نبوت کی نفی نہیں.آخر حضرت عیسی علیہ السلام نے تو آنا ہی ہے.ہاں نبوت ملنے کی نفی ہے.جسے کہ تشریح کہتے ہیں.حاصل اینکہ یہاں انقطاع تشریح ہے یعنی نبوت ملنے کا انقطاع ہے.خود نبوت کا انقطاع نہیں.“ ( عقيدة الامة صفحه ۸۱) واضح ہو کہ تشریعی نبوت کا انقطاع تو ہم احمدی بھی مانتے ہیں.اور شیخ اکبر بھی.مگر وہ تشریعی نبوت کو مقام نبوت پر ا مرزائد جانتے ہیں.انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ثبوت ملنے کا انقطاع ہے خود نبوت کا انقطاع نہیں “ یہ گول مول فقرہ خالد محمود صاحب نے اس لئے لکھا ہے کہ یہ ظاہر کریں کہ گویا شیخ اکبر آئندہ نبی پیدا ہونے کا انقطاع تو قرار دیتے ہیں لیکن نبوت کا انقطاع قرار نہیں دیتے کیونکہ ایک پرانے نبی حضرت عیسی نے آنا جو ہوا.مولوی خالد محمود صاحب! اس ہیرا پھیری سے کیا فائدہ کیونکہ شیخ اکبر علیہ الرحمہ تو نبوت کو قیامت تک جاری قرار دیتے ہیں اور صرف تشریعی نبوت کو منقطع جانتے ہیں.چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:." فَالنُّبُوَّةُ سَارِيَةٌ إلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فِي الْخَلْقِ وَإِنْ كَانَ التَّشْرِيْعُ قَدِ انْقَطَعَ فَالتَّشْرِيْعُ جُزُءٌ مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ.66 (فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحہ ۱۰۰ باب نمبر ۷۳)

Page 225

۲۰۴ مقام خاتم النی ترجمہ: نبوت مخلوق میں قیامت تک جاری ہے اگر چہ تشریعی (نئی شریعت کا لانا.ناقل ) منقطع ہو گیا ہے.پس شریعت کا لا نا نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے.شیخ اکبر کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ اُن کے نزدیک ایک جز و نبوت جو شریعت کا لانا ہے منقطع ہے.اور نبوت منقطع نہیں.بوت کا مفہوم اُن کے نزدیک یہ ہے کہ لَيْسَتِ النُّبُوَّةُ بِاَمْرِ زَائِدِ عَلَى الْإِخْبَارِ الْإِلَهِى.66 فتوحات مکیہ جلد نمبر صفحه ۴۱۴ سوال ۱۸۸) یعنی نبوت خدا تعالیٰ کی طرف سے اُمور غیبیہ ملنے سے زائد کوئی امر ہیں.پھر نبوت کے منقطع ہونے کے متعلق وہ لکھتے ہیں:." فَإِنَّهُ يَسْتَحِيْلُ أَنْ يَنقَطِعَ خَيْرُ اللَّهِ وَ أَخْبَارُهُ مِنَ الْعَالَمِ إِذْ لَوْ انْقَطَعَ لَمْ يَبْقَ لِلْعَالَمِ غَذَاءٌ يَتَغَذَّى بِهِ فِيْ بَقَاءِ وُجُوْدِهِ.“ ( فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحہ ۱۰۰) ترجمہ: یہ محال ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دُنیا کو اخبار غیبیہ کا ملنا منقطع ہو جائے اس لئے اگر یہ منقطع ہو جائے تو دُنیا کے لئے کوئی غذا باقی نہیں رہے گی.جس سے وہ اپنے وجود ( رُوحانی ) کو غذا دے سکے.ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ شیخ اکبر کے نزدیک نبوت مطلقہ تو جاری ہے لیکن تشریعی نبوت منقطع ہو گئی." امت کے خاص مقربوں کا مقام بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:.الْمُقَرَّبُوْنَ مَقَامُهُمْ بَيْنَ الصِّدِيقِيَّةِ وَ النُّبُوَّةِ التَّشْرِيْعِيَّةِ وَهُوَ

Page 226

۲۰۵ مقام خاتم است مَقَامٌ جَلِيْلٌ جَهِلَهُ أَكْثَرُ النَّاسِ مِنْ أَهْلِ طَرِيْقَتِنَا كَابِيْ حَامِدٍ وَ أَمْثَالُهُ لَانَّ ذَوْقَهُ عَزِيزٌ وَهُوَ ،، مَقَامُ النُّبُوَّةِ الْمُطْلَقَةِ » (فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۱۱) ترجمہ: خدا تعالیٰ کے خاص مقربوں کا مقام صدیقیت اور نبوت تشریعیہ کے درمیان واقع ہے.یہ ایک عظیم الشان مقام ہے جس سے ہمارے اہلِ طریقت میں سے اکثر لوگ جیسے ابو حامد (غزالی) وغیرہ نا واقف ہیں.کیونکہ اس کا ذوق کم ہی لوگوں کو حاصل ہے.اور یہ نبوت مطلقہ کا مقام ہے.نبوة مطلقہ نبوت کی مُجد وذاتی ہے یہی نبوة مطلقہ شیخ اکبر کے نزدیک نبوت کی جزو ذاتی ہے.شریعت لانے کو وہ جزو عارض قرار دیتے ہیں.یعنی ایسی جزو جو کسی نبی کو حاصل ہوتی ہے اور کسی کو نہیں.چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:.عَلِمْنَا أَنَّ التَّشْرِيْعَ أَمْرٌ عَارِضٌ بِكَوْنِ عِيْسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ يَنْزِلُ فِيْنَا مِنْ غَيْرِ تَشْرِيْعٍ وَهُوَ نَبِيٌّ بَلَا شَكٍّ ، ،، (فتوحات مکیہ جلد اصفحہ ۵۷) ترجمہ: ہم نے جان لیا ہے کہ شریعت کا لانا ایک امر عارض ہے ( یعنی نبوت کے لئے امر ذاتی نہیں.ناقل ) کیونکہ عیسی علیہ السلام ہم میں

Page 227

بغیر کسی نئی شریعت کے نازل ہوں گے اور وہ بلاشک نبی ہیں.شیخ اکبر کے نزدیک عیسی علیہ السلام کا بروزی نزول مقام خاتم است یا در ہے کہ شیخ اکبر علیہ الرحمہ حضرت عیسی کے اصالتا نازل ہونے کے قائل نہیں بلکہ وہ اُن کے بروزی نزول کے ہی قائل ہیں.چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:.وَجَبَ نُزُوْلُهُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ بِتَعَلُّقِهِ بِبَدَن اخَرَ ، ( تفسیر شیخ اکبر بر حاشیه تفسیر عرائس البیان جلد اول صفحه ۲۶۲) ترجمہ: حضرت عیسی کا نزول آخری زمانہ میں کسی دوسرے بدن کے تعلق سے واجب ہے.شیخ اکبر کے نزدیک ہوت عامہ کا امکان ! شیخ اکبر علیہ الرحمہ تشریعی نبوت کو جو ایک مخصوص قسم کی نبوت ہے منقطع قرار دیتے ہیں اور نبوت مطلقہ کو جاری قرار دیتے ہیں.اس نبوت مطلقہ کو وہ نبوت عامہ بھی قرار دیتے ہیں اور اس نبوت کے پانے والوں کو انبیاء الاولیاء کا نام دیتے ہیں.اور اس کے جاری ہونے کے ثبوت میں قرآن مجید کی آیت إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوْاوَلَا تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوْعَدُوْنَ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:.( حم سجده ع ۴ آیت ۳۱)

Page 228

وو (rz) هذَا التَّنْزِيْلُ هُوَ النُّبُوَّةُ الْعَامَّةُ لَا نُبُوَّةُ التَّشْرِيْعِ.“ مقام خاتم ان فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۲۴۲ باب معرفة الاستقامة ) یعنی ملائکہ کا مومنوں کے استقامت دکھانے پر نازل ہونا نبوت عامہ ہے نہ کہ تشریعی نبوت.خالد محمود صاحب نے حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ کا یہ قول پیش کیا ہے:.إِعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ سَدَّ بَابَ الرِّسَالَةِ عَنْ كُلَّ مَخْلُوْقٍ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.یعنی جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رسالت کا دروازہ بند کر دیا ہے.شیخ اکبر کے اس قول میں ان کے مندرجہ بالا اقوال کی روشنی میں تشریعی رسالت کے دروازے کا بند ہونا ہی مذکور ہے.کیونکہ وہ اس بات کے قائل ہیں :." فَقَطَعْنَا أَنَّ فِيْ هَذِهِ الْأُمَّةِ مَنْ لَحَقَتْ دَرَجَتُهُ دَرَجَةَ الْأَنْبِيَاءِ فِي النُّبُوَّةِ لَا فِي التَّشْرِيْعِ.“ فتوحات مکیہ جلد اصفحه ۵۷۰،۵۶۹) ترجمہ : ہم نے قطعی طور پر جان لیا ہے کہ اس امت میں ایسے شخص بھی ہیں جن کا درجہ نبوت میں انبیاء کے درجہ سے مل گیا ہے نہ کہ نئی شریعت لانے میں.

Page 229

النبی کا نام زائل ہونے کی وجہ شیخ اکبر علیہ الرحمہ کے بعض اقوال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مقام خاتم انا " لَا يُطْلَقُ اِسْمُ النُّبُوَّةِ وَلَا النَّبِيِّ إِلَّا عَلَى الْمُشَرِّعِ خَاصَّةً 66 فَحُجرَ هَذَا الْاِسْمُ لِخُصُوْصِ وَصْفِ مُعَيِّنِ فِى النَّبُوَّةِ.“ ترجمہ: النُّبُوَّةُ اور النَّبِی کا نام خاص طور پر صرف شریعت لانے والے کو دیا جاتا ہے.کونکہ شریعت کالا نا نبوت کا ایک خاص معین وصف ہے.یعنی شریعت غیر نبی کو نہیں ملتی.شیخ اکبر علیہ الرحمہ کے اس کلام سے ظاہر ہے کہ النَّبِی اور النُّبوَّة کا لفظ الف لام تعریف کے ساتھ عرف عام میں تشریعی نبی اور تشریعی نبوت کے لئے معتین ہو گیا ہے.اس لئے غیر تشریعی نبی کو اور اس کی نبوت کو النَّبی اور اَلنُّبُوَّة نہیں کہا جائے گا.اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں:." فَسَدَدْنَا بَابَ إِطْلَاقِ لَفْظِ النُّبُوَّةِ عَلَى هَذَا الْمَقَامِ لِئَلَّا يَتَخَيَّلَ 66 مُتَخَيّلٌ اَنَّ الْمُطْلِقَ لِهَذَا اللَّفْظِ يُرِيْدُ نُبُوَّةَ التَّشْرِيْعِ فَيَغْلُطَ.“ (فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۳) ترجمہ : ہم نے اس مقام نبوت پر النبوة کا لفظ بولنا اس لئے روک دیا ہے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اس لفظ کو بولنے والا تشریعی نبوت مراد لیتا ہے ( اور سُننے والا ) اس سے (ایسی ) غلطی میں نہ پڑ جائے.

Page 230

٢٠٩ مقام خاتم انا انبیاء الاولیاء لیکن کسی کے ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی کہلانے سے ایسی غلطی واقع نہیں ہو سکتی.چنانچہ ایسے نبی کو جو تشریعی نبی نہ ہو.شیخ اکبر علیہ الرحمۃ اللہی کی بجائے نبی الاولیاء قرار دیتے ہیں.چنانچہ وہ نبوت مطلقہ رکھنے والے غیر تشریعی انبیاء اور محد ثین امت میں فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.” إِنْ أَرَادَ أَصْحَابُ النُّبُوَّةِ الْمُطْلَقَةِ فَالْمُحَدَّثُوْنَ أَصْحَابُ جُزْءٍ مِنْهَا فَالنَّبِيُّ الَّذِيْ لَا شَرْعَ لَهُ فِي مَا يُوْحَى إِلَيْهِ بِهِ هُوَ رَأْسُ الْأَوْلِيَاءِ وَ جَامِعُ الْمَقَامَاتِ مَقَامَاتٌ مَا تَقْتَضِيْهِ الْأَسْمَاءُ الْإِلَهِيَّةُ مِمَّا لَا شَرْعَ فِيْهِ مِنْ شَرَائِعِ انْبِيَاءِ التَّشْرِيْعِ وَالْمُحَدَّتُ مَا لَهُ سِوَى التَّحْدِيْثِ وَمَا يُنْتِجُهُ مِنَ الْاُمُوْرِ وَالْأَعْمَالِ وَ الْمَقَامَاتِ.وَكُلُّ نَبِيِّ مُحَدَّتْ وَمَا كُلُّ مُحَدَّثٍ نَبِيٌّ وَهَؤُلَاءِ أَنْبِيَاءُ الْأَوْلِيَاءِ وَأَمَّا الْأَنْبِيَاءُ الَّذِيْنَ لَهُمْ شَرَائِعُ فَلَا بُدَّ مِنْ تَنَزُلِ الْأَرْوَاحِ عَلَى قُلُوبِهِمْ بِالْأَمْرِ وَالنَّهِي.“ فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحہ ۷۹،۷۷ بلحاظ ایڈیشن مختلفہ ) ترجمہ: نبوت مطلقہ رکھنے والے انبیاء ( یعنی غیر تشریعی انبیاء.ناقل ) کے مقابل محدثین جزوی طور پر نبوت مطلقہ رکھتے ہیں.پس وہ نبی جس کی وحی تشریعی نہ ہو وہ راس الاولیاء ہوتا ہے اور ایسے مقامات کا جامع بھی جنہیں اسماء الہیہ چاہتے ہیں.وہ مقامات جن میں تشریعی انبیاء کی طرح کوئی

Page 231

(M.) مقام خاتم است شریعت نہیں ہوتی.اور محدث کو تو صرف تحدیث اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے امور اور مقامات حاصل ہوتے ہیں.پس ہر نبی محدث ہوتا ہے اور ہر محدث نبی نہیں ہوتا.یہ سب لوگ (غیر تشریعی انبیاء اور محدثین.ناقل ) انبیاء الاولیاء ہوتے ہیں لیکن وہ انبیاء جو تشریعی ہوتے ہیں اُن کے دلوں پر ارواح (فرشتے) امر و نہی ( یعنی شریعت) لیکر نازل ہوتے ہیں.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ شیخ اکبر علیہ الرحمۃ نبوت مطلقہ رکھنے والے غیر تشریعی انبیاء کے مقابلہ میں محدثین امت کو نبوت مطلقہ جزوی طور پر رکھنے کی وجہ سے نبی قرار نہیں دیتے.ہاں وہ غیر تشریعی انبیاء کی طرح محد ثین کے لئے انبیا ء الا ولیاء کا اطلاق جائز رکھتے ہیں.ہاں امت محمدیہ کا مسیح موعود اُن کے نزدیک بالاختصاص نبوت مطلقہ رکھنے والا نبی الاولیاء ہے چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:." يَنْزِلُ وَلِيًّا ذَا نُبُوَّةٍ مُطْلَقَةٍ يَشْرَكُهُ فِيْهَا الْأَوْلِيَاءُ الْمُحَمَّدِيُّوْنَ فَهُوَ مِنَّا وَهُوَ سَيِّدُنَا.“ ( فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۴۹) ترجمہ مسیح موعود نبوت مطلقہ رکھتے ہوئے نبی الاولیاء ہوگا اور اس امر میں اولیاء محمدی بھی اس کے شریک ہیں ( مگر صرف جزوی طور پر.ناقل ) مسیح موعود ان محد ثین کے بالمقابل ان کے نزدیک بلا شک نبی ہے.چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:.،، " يَنْزِلُ فِيْنَا حَكَمًا مِنْ غَيْرِ تَشْرِيْعِ وَهُوَ نَبِيٌّ بِلَا شَكٍّ.“ (فتوحات مکیہ جلد اصفحه ۵۷۰)

Page 232

۲۱۱ مقام خاتم انا نتين یہ بات ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ شیخ اکبر علیہ الرحمۃ حضرت عیسی کے اصالتا نزول کے قائل نہیں بلکہ بروزی نزول کے قائل ہیں.مسیح موعود کی احتیاط شیخ اکبر علیہ الرحمۃ نے مسیح موعود کو نبوت مطلقہ رکھنے والا نبی الاولیاء قرار دیا ہے.مگر جیسا کہ آپ معلو کر چکے ہیں وہ انبیا ءالاولیاء کی اصطلاح کو غیر تشریعی مستقل انبیاء کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے اپنے لئے اس اصطلاح کی بجائے زیادہ احتیاط کرتے ہوئے امتی نبی کا اطلاق کیا ہے تا کسی کو یہ ھبہ پیدا ہی نہ ہو سکے کہ آپ مستقلہ نبوت کے دعویدار ہیں.پھر الشیخ الاکبر نے اس بات کی تصریح نہیں کی کہ مسیح موعود کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ خاتم النبیین کا فیض ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ امر تصریح سے بیان فرما دیا ہے کہ آپ ایک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے امتی.گویا مقام نبوت آپ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ اور افاضۂ روحانیہ سے حاصل کیا ہے.کیونکہ امتی کا ہر مقام اُس کے امتی ہونے کی وجہ سے متبوع نبی کا فیض ہی ہوتا ہے.پیران پیر حضرت سید عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ حضرت پیران پیر سید عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:." أُوتِيَ الْأَنْبِيَاءُ إِسْمَ النُّبُوَّةِ وَأُوْتِيْنَا اللَّقَبَ أَيْ حُجِرَ عَلَيْنَا اِسْمُ النُّبُوَّةِ مَعَ أَنَّ الْحَقَّ تَعَالَى يُخْبِرُنَا فِي سَرَائِرِنَا مَعَانِي كَلَامِهِ

Page 233

وَكَلَامِ رَسُوْلِهِ وَصَاحِبُ هَذَا الْمَقَامِ مِنْ اَنْبِيَاءِ الْأَوْلِيَاءِ.“ (اليواقيت والجواهر للامام الشعرانی جلد ۲ صفحه ۲۵ ونبر اس شرح الشرح لعقائد نسفی حاشیہ صفحہ ۴۴۵) ترجمہ: انبیاء کو نبوت کا نام دیا گیا ہے.اور ہم ( اتنی.ناقل ) نبی کا لقب پاتے ہیں.ہم سے نبی کا نام روک دیا گیا ہے (یعنی محض نبی کا نام.ناقل ) باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ ہمیں خلوت میں اپنے کلام اور اپنے رسول کے کلام کے معانی سے آگاہ کرتا ہے اور اس مقام کا رکھنے والا انسان انبیاء الاولیاء میں سے ہوتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ نبوة الولایت کا مقام حضرت پیرانِ پیر علیہ الرحمۃ کے نزدیک منقطع نہیں.سید عبدالکریم جیلانی " کا مذہب عارف ربانی سید عبدالکریم جیلانی اپنی کتاب ”الانسان الکامل“ میں لکھتے ہیں:." إِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْأَنْبِيَاءِ نُبُوَّتُهُ نُبُوَّةُ الْوَلَايَةِ كَالْخِضْرِ فِي بَعْضِ الْأَقْوَالِ وَ كَعِيْسَى إِذَا نَزَلَ إِلَى الدُّنْيَا فَإِنَّهُ لَا يَكُوْنُ لَهُ نُبُوَّةُ التَّشْرِيْعِ وَكَثِيرٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ.“ الانسان الكامل صفر ۸۴) ترجمہ: بہت سے انبیاء کی نبوت نبوہ الولایت ہی ہے.جیسا کہ خضر کی نبوت بعض اقوال کے لحاظ سے اور جیسا کہ عیسی علیہ السلام کی نبوت جب له اله हे

Page 234

۲۱۳ مقام خاتم النی وہ دُنیا کی طرف نازل ہوں گے اور اسی طرح بہت سے بنی اسرائیل کی نبوت کا حال ہے.پس نبوت الولایت ان بزرگوں کے نزدیک بنی اسرائیل کے انبیاء اور امت محمدیہ کے مسیح موعود کے لئے ایک حقیقت مسلمہ ہے.یہ نبوت الولایت محض ولایت نہیں ہے بلکہ ولایت مطلقہ سے ایک بالا مقام ہے.چنانچہ سید موصوف یہ بھی تحریر فرماتے ہیں:."كُلُّ نَبِيّ وَلَايَةٍ أَفْضَلُ مِنَ الْوَلِيِّ مُطْلَقًا وَمِنْ ثَمَّ قِيْلَ بَدَايَةُ النَّبِيِّ نِهَايَةُ الْوَلِيِّ.فَافْهَمْ وَتَأَمَّلْهُ فَإِنَّهُ قَدْ خَفِيَ عَلَى كَثِيرٍ مِنْ أَهْلِ مِلَّتِنَا.،، ( الانسان الکامل صفحه ۸۴) ترجمہ: ہر نئی ولایت مطلق ولی سے افضل ہوتا ہے.اور اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ نبی کا آغاز ولی کی انتہا ہے.پس اس نکتہ کو سمجھ لو اور اس میں غور کرو.کیونکہ یہ ہمارے بہت سے اہلِ ملت پر مخفی رہا ہے.(مولوی خالد محمود صاحب پر یہ نکتہ مخفی ہی رہا ہے.ناقل ) خاتم النبیین کے معنی سید موصوف تحریر فرماتے ہیں:.” فَانْقَطَعَ حُكْمُ نُبُوَّةِ التَّشْرِيْعِ وَكَانَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ لِأَنَّهُ جَاءَ بِالكَمَالِ وَلَمْ يَجِيٌّ أَحَدٌ بذلك 66 الانسان الكامل جلد ا صفحه ۹۸)

Page 235

(۲۱۴ مقام خاتم النيبير ترجمہ: پس تشریعی نبوت کا حکم اُٹھ گیا ہے پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں کیونکہ وہ کمال ( شریعت کاملہ تامہ ) لے کر آئے ہیں.اور کوئی اور نبی ایسے کمال ساتھ نہیں آیا.پھر سید موصوف علیہ الرحمۃ حدیث نبوی " وَاشَوْتَاهُ إِلَى إِخْوَانِيَ الَّذِيْنَ يَأْتُوْنَ بَعْدِی “ کی تشریح میں لکھتے ہیں :." فَهَؤُلَاءِ أَنْبِيَاءُ الْأَوْلِيَاءِ يُرِيْدُ بِذَالِكَ نُبُوَّةَ الْقُرْبِ وَالْإِعْلَامِ وَ الحِكَمِ الْاِلهى لَا نُبُوَّةَ التَّشْرِيْعِ لَانَّ نُبُوَّةَ التَّشْرِيْعِ انْقَطَعَتْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.66 الانسان الكامل جلد ۲ صفحه ۱۰۹) ترجمہ: یہ اخوان جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے ہیں ( جن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار اشتیاق فرمایا ہے ) انبیاء الاولیاء ہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انہیں اپنا اخوان قرار دینے سے مُراد یہ ہے کہ اُن کو قرب والی نبوۃ علم دیا جانے والی نبوت اور الہی حکمتوں پر مشتمل نبوت ملتی ہے نہ کہ تشریعی نبوت.کیونکہ تشریعی ثبوت محمد صلے اللہ علیہ وسلم پر منقطع ہو گئی.حضرت امام عبدالوہاب شعرانی علیہ الرحمہ کا عقیدہ حضرت امام عبدالوہاب شعرانی علیہ الرحمۃ کو مولوی خالد محمود صاحب نے اپنی کتاب عقیدۃ الامت میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کا شاگر د قرار دیا ہے.

Page 236

(۲۱۵) مقام خاتم انا نبوت کی بندش کے متعلق ان کا عقیدہ یہ ہے:." إِعْلَمْ أَنَّ مُطْلَقَ النُّبُوَّةِ لَمْ تَرْتَفِعُ وَإِنَّمَا ارْتَفَعَتْ نُبُوَّةُ التَّشْرِيع.“ الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحه ۳۵ و صفحه ۳۹ بلحاظ ایڈیشن مختلفه ) ترجمہ: جان لو کہ مطلق نبوت بند نہیں ہوئی.صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے.پھر وہ حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِی کی تشریح میں لکھتے ہیں:." وَقَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا رَسُوْلَ أَيْ مَا ثَمَّ مَنْ يُشَرِّعُ بَعْدِي شَرِيْعَةً خَاصَّةً.،، (الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحہ ۳۵) ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول لا نبــی بـعـدى ولا رسول سے مراد یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی شخص شریعت خاصہ کے ساتھ تشریعی نبی نہیں ہوگا.نبوت کی تقسیم امام موصوف نبوت کی دو قسمیں تشریعی اور غیر تشریعی قرار دے کر لکھتے ہیں:.” تَنْقَسِمُ النُّبُوَّةُ الْبَشَرِيَّةُ عَلى قِسْمَيْنِ الْأَوَّلُ مِنَ اللَّهِ إِلَى غَيْرِهِ مِنْ غَيْرِ رُوْحِ مَلَكِي بَيْنَ اللَّهِ وَ بَيْنَ عَبْدِهِ بَلْ أَخْبَارَاتُ الهَيَّةٌ يَجِدُهَا فِيْ نَفْسِهِ مِنَ الْغَيْبِ أَوْ فِي تَجَلِّيَاتٍ وَلَا يَتَعَلَّقُ بِذَلِكَ

Page 237

م خاتم است حُكْمُ تَحْلِيْلٍ أَوْ تَحْرِيْمِ بَلْ تَعْرِيْفٌ بِمَعَانِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ أَوْ بِصِدْقِ حُكْمِ مَشْرُوْعٍ ثَابِتٍ أَنَّهُ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ تَعَالَى أَوْ تَعْرِيْفٌ بِفَسَادِ حُكْمِ قَدْ ثَبَتَ مِنَ النَّقْلِ صِحْتُهُ وَ نَحْوُ ذَلِكَ وَكُلُّ ذَلِكَ تَنْبِيْهُ مِنَ اللهِ تَعَالَى وَشَاهِدٌ عَدْلٌ مِنْ نَفْسِهِ وَلَا سَبِيْلَ لِصَاحِبِ هذَا الْمَقَامِ اَنْ يَكُوْنَ عَلَى شَرْعِ يَخُصُّهُ يُخَالِفُ شَرْعَ رَسُوْلِهِ الَّذِي أُرْسِلَ إِلَيْهِ وَ اُمِرْنَا بِاتِّبَاعِهِ.“ (الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحه ۲۵ و ۲۸) ترجمہ: انسان کو جو نبوت ملتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں.قسم اول کی نبوت خدا تعالے اور اس کے بندے کے درمیان رُوح ملکی کے بغیر ہوتی ہے.( یعنی اس میں فرشتہ شریعت جدیدہ نہیں لاتا ) بلکہ صرف خدا کی طرف سے اخبار غیبیہ ہوتی ہیں جنہیں انسان اپنے نفس میں پاتا ہے یا کچھ تجلیات ہوتی ہیں مگر ان کا تعلق کسی امر کو حلال یا حرام کرنے سے نہیں ہوتا بلکہ ان کا تعلق صرف کتاب اللہ اور سُنّتِ رسُول کے معانی سے ہوتا ہے یا کسی شرعی حکم کی جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ثابت ہو ان تجلیات کے ذریعہ تصدیق مطلوب ہوتی ہے یا کسی حکم کو جو گونقل ( روایت) کے لحاظ سے اس کی صحت ثابت ہوخرابی بتانا مقصود ہوتا ہے وغیرہ.یہ سب امور اللہ تعالیٰ کی طرف سے متنبہ کرنے اور شریعت پر شاہد عدل (مصدق) کی حیثیت رکھتے ہیں.اس مقام والے نبی کی اپنی کوئی خاص شریعت نہیں ہوتی جو اُس کے اُس رسُول کی شریعت کے خلاف ہو جو رسول خود

Page 238

۲۱۷ مقام خاتم است اُس کی طرف بھیجا گیا ہے اور جس کی ہمیشہ کے لئے پیروی کا ہمیں حکم دیا گیا ہے.اس کے بعد وہ دوسری قسم تشریعی نبوت کے متعلق لکھتے ہیں:." هذَا الْمَقَامُ لَمْ يَبْقَ لَهُ أَثَرٌ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ 66 إِلَّا فِي الْائِمَّةِ الْمُجْتَهِدِيْنَ مِنْ أُمَّتِهِ.“ (الیواقیت والجواہر حوالہ مذکور ) ترجمہ: تشریعی نبوت کے مقام کا کوئی اثر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد باقی نہیں رہا سوائے اس اثر کے جو ائمہ مجتہدین میں (اجتہاد کی صورت) میں پایا جاتا ہے.ہم نے قسم اول کے نبی سے متعلقہ عبارت کے فقرہ من غیر روح مـلـکی کی خطوط وحدانیہ میں یہ تشریح کی ہے کہ اس پر فرشتہ شریعت جدیدہ کے ساتھ نازل نہیں ہوگا.اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری جگہ امام موصوف لکھتے ہیں:." وَالْحَقُّ اَنَّ الْكَلَامَ فِي الْفَرْقِ بَيْنَهُمَا إِنَّمَا هُوَ فِي كَيْفِيَّتِهِ مَا يَنْزِلُ بِهِ الْمَلَكُ لَا فِى نُزُولِ الْمَلَكِ ، " (الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحه ۵۹) یعنی سچی بات یہ ہے کہ دونوں قسم کے نبیوں کے درمیان فرق صرف اس وحی کی کیفیت میں ہوتا ہے جسے فرشتہ لیکر نازل ہوتا ہے فرشتہ کے نزول میں کوئی فرق نہیں ہوتا ( یعنی فرشتہ دونوں قسم کے نبیوں پر نازل ہوتا ہے )

Page 239

(MIA) مقام خاتم النت مولوی خالد محمود صاحب نے عقیدۃ الامت میں امام عبد الوہاب شعرانی کی ذیل کی عبارت درج کی ہے:.إِعْلَمْ أَنَّ الْوَحْيَ لَا يَنْزِلُ بِهِ الْمَلَكُ عَلَى غَيْرِ قَلْبِ نَبِيِّ أَصْلًا وَلَا يَأْمُرُ غَيْرُ نَبِيِّ بِأَمْرٍ الْهِيَّةٍ جُمْلَةً وَاحِدَةً فَإِنَّ الشَّرِيْعَةَ قَدِ اسْتَقَرَّتْ وَ بَيْنَ الْفَرْضَ وَالْوَاجِبَ وَالْمَنْدُوْبَ وَالْحَرَامَ وَالْمَكْرُوْه وَالْمُبَاحَ فَانْقَطَعَ الْأَمْرُ الْهِيُّ بِانْقِطَاعِ النُّبُوَّةِ وَالرِّسَالَةِ وَمَا بَقِيَ أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ يَأْمُرُهُ اللَّهُ بِأَمْرِ يَكُوْنُ شَرْعًا يُتَعَبَّدُ بِهِ أَبَدًا.( عقيدة الامة صفحه ۸۶) یعنی جان لو کہ فرشتہ وحی لیکر اس کے دل پر نہیں اُتر تا جو نبی نہیں اور نہ ہی غیر نبی کو کسی امرالہی کا حکم دیتا ہے.کیونکہ شریعت قائم ہو چکی اور فرض واجب مندوب حرام مکر وہ اور مباح سب واضح ہو چکے.پس نبوت اور رسالت ( تشریعی.ناقل ) کے منقطع ہونے کے ساتھ ہی امر الہی بھی منقطع ہو گیا ہے.اور مخلوق میں سے رُوئے زمین پر کوئی باقی نہ رہا جسے اللہ تعالیٰ کبھی کوئی ایسا نیا حکم دے جسے تشریعی صورت میں ماننا ضروری ہو.امام موصوف کی یہ عبارت ہمارے مسلک کے خلاف نہیں کیونکہ اس میں نبوت اور رسالت کے ذکر میں جدید شرعی حکم کے منقطع ہونے کا ذکر کیا گیا ہے.امام موصوف کی یہ عبارت ان کے ان اقوال کی روشنی میں پڑھی جانی چاہئیے جو ہم

Page 240

۲۱۹ مقام خاتم النت پہلے بیان کر چکے ہیں.انہوں نے صرف تشریعی نبوت کو منقطع قرار دیا ہے.نہ کہ غیر تشریعی نبوت کو.اور دونوں قسم کے نبیوں پر فرشتہ کا وحی لے کر آنا تسلیم کیا ہے.لیکن دونوں قسم کے نبیوں پر نازل ہونے والی وحی کی کیفیت میں فرق قرار دیا ہے.جو یہ ہے کہ غیر تشریعی نبی پر احکام شریعت جدیدہ نازل نہیں ہوتے.اسی کے پیش نظر وہ لکھتے ہیں:." هَذَا بَابٌ اُغْلِقَ بَعْدَ مَوْتِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا يُفْتَحُ لِأَحَدٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَلَكِنْ بَقِيَ لِلْأَوْلِيَاءِ وَحْيُ الْهَامِ الَّذِي لَا تَشْرِيْعَ فِيْهِ.“ (الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحہ ۳۶) یعنی یہ وہ دروازہ ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر بند کر دیا گیا ہے.پس یہ قیامت کے دن تک کسی پر نہیں کھولا جائے گا لیکن خدا کے پیاروں کے لئے وحی الہام کا دروازہ کھلا ہے جس میں شریعت جدیدہ نہیں ہوتی.پس ایک قسم کی وحی کا دروازہ امام موصوف کے نزدیک کھلا ہے اور یہ وہ وحی ہے جس میں شریعت جدیدہ کے اوامر و نواہی نہیں ہوتے.ایسے لوگوں کو جن پر وحی غیر تشریعی نازل ہو صوفیاء انبیاء الاولیا ء قرار دیتے ہیں اور اُن کی نبوت کو نبوة الولایت کا نام دیتے ہیں.امام موصوف مسیح موعود کے متعلق اپنے استاد کی طرح لکھتے ہیں:." فَيُرْسَلُ وَلِيًّا ذَا نُبُوَّةٍ مُطْلَقَةٍ وَيُلْهَمُ بِشَرْعِ مُحَمَّدٍصَلَّى اللَّهُ

Page 241

له له عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَفْهَمُهُ عَلَى وَجْهِه.“ مقام خاتم انا الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحه ۸۹ بحث نمبر ۴۷۱) ترجمہ مسیح موعود نبوت مطلقہ رکھنے والے ولی کی صورت میں بھیجا جائے گا اور اس پر شریعت محمدیہ الہاما نازل ہوگی اور وہ اُسے ٹھیک ٹھیک سمجھے گا.خالد محمود صاحب نے امام موصوف کا یہ قول عقیدۃ الامت صفحه ۸۶ پر درج کیا ہے:." مَنْ قَالَ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى اَمَرَهُ بِشَيْءٍ فَلَيْسَ بِذَلِكَ بِصَحِيْحٍ إِنَّمَا ذَلِكَ تَلْبِيْسٌ لِاَنَّ الْأَمْرَ مِنْ قِسْمِ الْكَلَامِ وَصِفَتِهِ وَذَالِكَ بَابٌ مَسْدُوْدٌ دُوْنَ النَّاسِ.“ الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحہ ۳۸ بحوالہ عقیدۃ الامت صفحه ۸۶) یعنی جو شخص یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے کسی بات کا حکم دیا ہے تو یہ میچ نہیں بلکہ شیطانی فریب ہے کیونکہ حکم کلام کی ایک قسم ہے.اور اس کی ایک صفت ہے.اور یہ دروازہ لوگوں کے لئے بند ہو چکا ہے.مولوی خالد محمود صاحب سے ہمارا سوال ! مندرجہ بالا عبارت کی رُو سے جب اُس کو اُس عبارت کے مقابلہ میں رکھا جائے جو مسیح موعود پر قرآن شریف کے بصورت وحی الہاما نازل ہونے کے متعلق ہم او پر درج کر چکے ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خالد صاحب کی پیش کردہ عبارت میں ”امر“ سے ”امر جدید مراد نہ لیا جائے جو شریعتِ جدیدہ کا حامل ہوتا ہے تو پھر

Page 242

۲۲۱ خالد محمود صاحب او پر کی دونوں عبارتوں میں تطبیق دے کر دکھلائیں؟ خالد محمود صاحب پر واضح رہے کہ اگر قرآن کریم کی کسی آیت کا جو کسی امر و نہی پر مشتمل ہو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخص پر نازل ہونا منقطع ہوتا تو ذیل کی آیات بعض بزرگوں پر الہاما نازل نہ ہوتیں.ہوئیں:.(الف) حضرت محی الدین ابن عربی تحریر فرماتے ہیں مجھ پر یہ آیات نازل " قُلْ امَنَّا بِاللهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيْمَ وَإِسْمَعِيْلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوْتِيَ مُوْسَى وَعِيْسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ.66 (فتوحات مکیہ جلد ۳ صفحه ۳۶۷) (ب) حضرت خواجہ میر دردعلیہ الرحمہ پر مندرجہ ذیل قرآنی آیات کا نزول ہوا.(1) وَأَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِيْنَ (۲) لَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُنْ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُوْنَ.(۳) وَمَا أَنْتَ بِهَادِ الْعُمْيِ عَنْ ضَلَالَتِهِمْ ( علم الكتاب صفحه ۶۴) (ج) حضرت مولوی عبداللہ صاحب غزنوی پر مندرجہ ذیل آیات قرآنی امر و نہی پر مشتمل نازل ہوئیں:.(ا) فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أَوْ لُوْ الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ

Page 243

۲۲۲ مقام خاتم السنة (۲) وَاصْبِرْ لِنَفْسِكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُ بِالْغَدَاوَةِ وَالْعَشِيِّ.(۳) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (٢) وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ رسالہ اثبات الالہام والبيعة مؤلفہ مولوی محمد حسن رئیس لدھیانہ و سوانح عمری مولانا عبد اللہ صاحب غزنوی از مولوی عبدالجبار غزنوی و مولوی غلام رسول کتوی صفحه ۲۵ مطبوعه مطبع القرآن والسنه امرتسر ) بالآخر واضح ہو کہ حضرت امام عبدالوہاب الشعرانی علیہ الرحمۃ بحث ۴۵ میں لکھتے ہیں:." فَلا تَخْلُوْا الْأَرْضُ مِنْ رَّسُوْلٍ حَيَّ بِحِسْمِهِ إِذْ هُوَ قُطْبُ الْعَالَمِ الْإِنْسَانِي وَلَوْ كَانُوْا أَلْفَ رَسُوْلٍ فَإِنَّ الْمَقْصُوْدَ مِنْ هؤُلَاءِ هُوَ الْوَاحِدُ “ (الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحہ ۹۰) ترجمہ: زمین کبھی بھی مجسم زندہ رسُول سے خالی نہیں ہوگی خواہ ایسے رسُول شمار میں ہزار ہا ہوں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انسانی دنیا کے قطب ہیں اور ان رسولوں سے مقصود خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی واحد شخصیت ہی ہے ( گویا یہ رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز اور ظل ہوں گے اس لئے کوئی غیر شخص رسُول نہ ہوگا) پھر آگے لکھتے ہیں :.” فَمَا زَالَ الْمُرْسَلُوْنَ وَلَا يَزَالُوْنَ فِي هَذِهِ الدَّارِ لَكِنْ مِنْ

Page 244

۲۲۳ مقام خاتم است بَاطِنِيَّةِ شَرْعِ مُحَمَّدٍصَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ.الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحہ ۹۰ بحث ۴۵) ترجمہ: پہلے بھی مرسلین دنیا میں رہے ہیں اور آئندہ بھی اس دُنیا میں مرسلین ہوں گے لیکن یہ مرسلین اس مرتبہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے فیض باطنی سے پائیں گے.لیکن اکثر لوگ ( جیسا کہ مولوی خالد محمود بھی.ناقل ) اس حقیقت سے نا واقف ہیں.امام علی القاری علیہ الرحمۃ کا عقیدہ فقہ حنفیہ کے جلیل القدر امام اور محدث کا ختم نبوت کے متعلق عقیدہ ہم پہلے یہ بیان کر چکے ہیں کہ اُن کے نزدیک حدیث نبوی لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيْمُ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا کی تشریح کی رُو سے صاحبزادہ ابراہیم کے بالفعل نبی ہونے میں آیت خاتم النبیین روک نہیں ہوئی.بلکہ اُن کی وفات روک ہوئی ہے.اگر وہ زندہ رہتے اور بموجب حدیث نبوی بالفعل نبی بن جاتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے تابع امتی نبی کی حیثیت ہی رکھتے.کیونکہ آیت خاتم النبیین کا مفہوم اُن کے نزدیک یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہو سکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے.اور آپ کی اُمت میں سے نہ ہو.گویا انقطاع نبوت اُن کے نزدیک دو شرطوں سے مشروط ہے:.پہلی شرط یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ناسخ شریعتِ

Page 245

۲۲۴ محمد یہ یعنی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں آسکتا.اور دوسری شرط یہ ہے کہ امت محمدیہ سے باہر کوئی نبی نہیں آسکتا.مقام خاتم انا پس ہندوؤں اور عیسائیوں اور تمام غیر مسلموں میں کوئی نبی نہیں آسکتا.اور امت میں اگر کوئی نبی پیدا ہو اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع اور امتی ہو تو اس کی نبوت آیت خاتم النبیین کے منافی نہ ہوگی.مولوی خالد محمود صاحب نے امام علی القاری علیہ الرحمۃ کے متعلق ختم نبوت کا عقیدہ بیان کرنے کے لئے اُن کے کچھ اقوال درج کئے ہیں جن کی اس جگہ تشریح کرنا ضروری ہے تا کہ کوئی شخص مولوی خالد محمود صاحب کے مغالطہ میں نہ آسکے.پہلا قول " دَعْوَى النُّبُوَّةِ بَعْدَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُفْرٌ بِالْإِجْمَاعِ.ملحقات شرح فقہ اکبر صفحه ۲۵ عقیدۃ الامۃ صفحہ۷۲) ترجمہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا اجماع کے ساتھ کفر ہے.یہ ترجمہ کرنے کے بعد مولوی خالد محمود صاحب لکھتے ہیں:.ظاہر ہے کہ یہ اجماع مسیلمہ کذاب کے بارہ میں حضرت صدیق اکبر کے عہد خلافت میں منعقد ہو ا تھا.حالانکہ مسلیمہ کذاب نے مستقل نبوت کا دعوی نہیں کیا تھا.نمازیں بھی پڑھتا تھا اور اپنی اذان میں حضور کی نبوت

Page 246

۲۲۵ کا برابر اعلان بھی کرتا تھا.“ ( عقیدۃ الامۃ صفحہ ۷۲ ) مولوی خالد محمود صاحب کا یہ بیان تاریخ کی روشنی میں سراسر باطل ہے کہ مسیلمہ کذاب نے مستقل نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا.کیونکہ مسیلمہ کذاب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے بالمقابل تشریعی نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا.چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:.اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل تشریعی نبوت کا دعویٰ کیا اور شراب اور زنا کو حلال قرار دیا.فریضہ نماز کو ساقط کر دیا.قرآن مجید کے مقابلہ میں سُورتیں لکھیں.پس شریر اور مفسد لوگوں کا گروہ اُس کے تابع ہو گیا.“ (حج الکرامه صفحه ۳۳۴ ترجمه از فارسی ) پس حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اگر مسیلمہ کذاب کے دعویٰ نبوت کے کفر پر کوئی اجماع ہوا ہے تو وہ اجماع تشریعی نبوت کے باطل ہونے کے متعلق ہی ہوا ہے ورنہ مسیح موعود کا امتی نبی ہونا تو خود حضرت امام علی القاری علیہ الرحمۃ کومسلم ہے.انہوں نے صاف لکھا ہے:." لَا مُنَافَاةَ بَيْنَ أَنْ يَكُوْنَ نَبِيًّا وَأَنْ يَكُوْنَ مُتَابِعًا لِنَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيَانِ أَحْكَـامِ شَرِيْعَتِهِ وَاتْقَانِ طَرِيْقَتِهِ وَلَوْ بِالْوَحْيِ إِلَيْهِ.“ ( مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد ۵ صفحه ۵۶۴) یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کے نبی ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 247

مقام خاتم است کے تابع ہو کر احکام شریعت کے بیان کرنے اور آپ کے طریق کو پختہ کرنے میں کوئی منافات موجود نہیں.خواہ وہ یہ کام اس وحی سے کریں جو اُن پر نازل ہو.پس مسیح موعود کا امتی نبی ہونے کا دعویٰ اجماع کے خلاف نہیں بلکہ مسیح موعود کی نبوت کو بعد از نزول تمام محققین علمائے امت مانتے چلے آئے ہیں.اور خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے:.أَلَا أَنَّهُ خَلِيْفَتِي فِي أُمَّتِي کہ وہ میری اُمت میں میرا خلیفہ ہے.یہ حدیث طبرانی میں موجود ہے.جس سے مسیح موعود کا امتی نبی ہونا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منصوص اور موعود ہے.کیونکہ اسی حدیث میں آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے:.أَلَا أَنَّهُ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ کہ آگاہ رہو کہ میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی بھی نہیں پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود کے درمیان اگر کوئی شخص دعویٰ نبوت کرے تو بیشک یہ نہ صرف اجماع کے خلاف ہے بلکہ اس نص حدیث کے بھی خلاف ہے.لیکن مسیح موعود کی نبوت نص حدیث سے ثابت ہے جس کے خلاف اجماع ہو ہی نہیں سکتا.دوسرا قول دُوسرا قول یہ پیش کرتے ہیں :.

Page 248

۲۲۷ " وَاَقُوْلُ التَّحَدِيْ فَرْعُ دَعْوَى النُّبُوَّةِ وَ دَعْوَى النُّبُوَّةِ بَعْدَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُفْرٌ بِالْإِجْمَاعِ.“ ( عقيدة الامة صفحه ۷۲ ) یہ قول بھی مسیح موعود کے ظہور سے پہلے زمانہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے کیونکہ مسیح موعود کو تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی قرار دیا ہے.اور اپنا اتنی بھی پس اس کی طرف سے غیر تشریعی نبی کی طرح تحدی ممکن ہوئی.اس عبارت میں دَعْوَى النُّبُوَّةِ سے مُراد تشریعی نبوت ہی کا دعوی ہے.تیسرا قول تیسرا قول یہ پیش کرتے ہیں :.” وَالْمَعْنى أَنَّهُ لَا يَحْدُتُ بَعْدَهُ نَبِيٌّ لِأَنَّهُ خَاتَمُ النَّبِيِّنَ السَّابِقِينَ.“ (مرقاة جلد ۵ صفحه ۵۶۴، عقیدۃ الامۃ صفحه ۷۳) پس معنی یہی ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا کیونکہ آپ پہلے نبیوں کے آخر یعنی خاتم النبیین ہیں.یہ ترجمہ مولوی خالد محمود صاحب کا ہے.اور حقیقت کو چُھپانے کے لئے اس جگہ مولوی خالد محمود صاحب نے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ اس جگہ کس قول کے معنے بیان ہو رہے ہیں.اصل حقیقت یہ ہے کہ اس موقعہ پر امام علی القاری علیہ الرحمۃ حدیث لا نبی بعدی کے یہ معنی بیان کر رہے ہیں کہ آپ کے بعد کوئی

Page 249

٢٢٨ مقام خاتم است شارع اور مستقل غیر تشریعی نبی پیدا نہیں ہوگا.اور دلیل اس کی یہ دی ہے لَانَّهُ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ السَّابِقِيْنَ کہ آپ پچھلے تمام نبیوں کے خاتم ہیں.اور پچھلے نبیوں کے متعلق یہ امر مسلم بین الفریقین ہے کہ وہ یا تشریعی نبی تھے یا غیر تشریعی مستقل نبی.حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِی کی تشریح میں امام علی القاری علیہ الرحمتہ کا ایک اور قول بھی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:.وَرَدَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَمَعْنَاهُ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ لَا يَحْدُتُ بَعْدَهُ نَبِيٌّ بِشَرْعٍ يَنْسَخُ شَرْعَهُ.الاشاعتہ فی اشراط الساعۃ صفحہ ۲۲۶) ترجمہ: حدیث میں لَا نَبِيَّ بَعْدِی آیا ہے جس کے معنے علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ کوئی نبی ایسی شریعت کے ساتھ پیدا نہیں ہوگا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی ناسخ ہو.پس اس قول سے ظاہر ہے کہ اتنی نبی کا پیدا ہون حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِی کے منافی نہیں.چوتھا قول چوتھا قول یہ پیش کرتے ہیں:." قَدْ يَكُوْنُ فِي هَؤُلَاءِ مَنْ يَسْتَحِقُّ الْقَتْلَ كَمَنْ يَّدَّعِي النُّبُوَّةَ بِمِثْلِ هذِهِ الْخُزَعْبِيَّلَاتِ أَوْ يَطْلُبُ تَغَيَّرَ شَيْيءٍ مِنَ الشَّرِيْعَةِ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ.“ ملحقات شرح فقہ اکبر صفحه ۱۸۳ بحوالہ عقیدۃ الامۃ صفحہ ۷۶)

Page 250

مقام خاتم السنة واضح رہے کہ امام علی القاری فضول شعبدہ بازی کے ساتھ نبوت کے دعوی کرنے والے یا شریعت میں تغیر کرنے والے مدعی نبوت مستقلہ تشریعیہ کے متعلق یہ فتوی دے رہے ہیں نہ کہ امتی نبی کا دعویٰ کرنے والے کے متعلق مسیح موعود کو تو وہ خود امتی نبی بموجب احادیث نبویہ تسلیم کرتے ہیں.گو وہ مسیح موعود کی شخصیت کی تعیین کے متعلق ہمارے نزدیک اجتہادی غلطی میں مبتلا ہیں.اور قبل از ظهور پیشگوئی ایسی اجتہادی غلطی کا امکان ہوتا ہے.پانچواں قول پانچواں قول انہوں نے یہ پیش کیا ہے:.إِنَّهُ خَتَمَهُمْ أَيْ جَاءَ اخِرَهُمْ فَلَا نَبِيَّ بَعْدَهُ أَيْ لَا يَتَنَبَّأُ أَحَدٌ بَعْدَهُ فَلَا يُنَا فِي نُزُوْلَ عِيْسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ مُتَابِعًا لِشَرِيْعَتِهِ مُسْتَمِدًا بِالْقُرْآن وَالسُّنَّةِ.جمع الوسائل شرح شمائل جلد اصفحہ ۳۳.عقیدۃ الامۃ صفحہ ۷۶) یہ قول تو سراسر ہمارے عقیدہ کے مطابق ہے کہ ایسے نبی کا آنا جو شریعت محمدیہ کے تابع ہو اور قرآن وسنت سے استمداد چاہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کے منافی نہیں.کیونکہ آپ آخری نبی ان معنی میں ہوئے کہ آپ آخری شریعت لانے والے ہیں اس لئے مسیح موعود آپ کے تابع اور اتنی نبی ہوگا نہ کہ مستقل نبی.پس لَا يَتَنَبا أَحَدٌ بَعْدَہ کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو تشریعی اور مستقلہ نبوت نہیں دی جائے گی.

Page 251

۲۳۰ اسی کے ذیل میں اُنہوں نے یہ قول بھی درج کیا ہے:.مقام خاتم انا ” إِضَافَةُ النُّبُوَّةِ لِاَنَّهُ خَتَمَ بِهِ بَيْتَ النُّبُوَّةِ حَتَّى لَا يَدْخُلَ بَعْدَهُ اَحَدٌ.کہ اس حدیث میں قصر نبوت والی حدیث کے مطابق بیت النبوۃ سے مراد کامل شریعت ہے.اور یہ صیح ہے کہ اب قرآنی شریعت کے بعد کوئی تشریعی نبی نہیں آسکتا.جو شریعت محمدیہ میں مداخلت کرے.چھٹاقول چھٹا قول یہ پیش کیا ہے:." إِنَّهُ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ وَ يَحْكُمُ بِشَرِيْعَتِهِ وَ يُصَلَّى إِلَى قِبْلَتِهِ وَيَكُوْنُ مِنْ جُمْلَةِ أُمَّتِهِ.( شرح شفاء جلد ۴ صفحه ۵۰۹مصر ) 66 я یہ عبارت ناقص ہے کیونکہ ”خکُم“ کا فاعل مذکور نہیں.بہر حال اس عبارت کے آخری حصہ کا تعلق مسیح موعود سے ہے.اور امام علی القاری علیہ الرحمۃ یہ بتارہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں.اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں.اور مسیح موعود نَبِی الله شریعت کے مطابق حکم دے گا اور آپ کے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے گا.اور آپ کا امتی ہوگا.پس یہ قول بھی ہمارے عقیدہ کے مخالف نہیں.ہم بھی مسیح موعود کو انتی نبی ہی مانتے ہیں نہ کہ مستقل نبی.فتد تبر !

Page 252

مقام خاتم انا ساتواں قول سا تو اس قول یہ پیش کیا ہے:." خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّوْنَ (أَى وُجُوْدُهُمْ) فَلَا يَحْدُتُ بَعْدِي نَبِيٌّ وَلَا يُشْكَلُ بِنُزُولِ عِيْسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ تَرْوِيْجِ دِيْنِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى آتَمّ النِّظَامِ وَكَفَى بِهِ شَهِيدًا وَ شَرْفًا.“ ( مرقاة جلد ۵ صفحه ۳۶۱ بحوالہ عقیدۃ الامۃ صفحہ ۷۸) خاتم النبیین کے یہ معنی کرنے کے بعد کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا نزول عیسی کے اشکال کا اس جگہ یہ جواب دیا ہے کہ وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پورے نظام کے ساتھ رواج دیں گے.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمد یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی ترویج کے لئے ہی مامور ہیں.آپ کا دعویٰ مستقل تشریعی نبی کا ہر گز نہیں بلکہ صرف ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی ہونے کا دعویٰ ہے.آٹھواں قول آٹھواں قول امام علی القاری علیہ الرحمہ کی بجائے امام سیوطی علیہ الرحمہ کا درج کر دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر وحی منقطع ہو گئی ہے.مگر اس جگہ وحی سے مراد تشریعی وحی ہے ورنہ خود امام علی القاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:.حديث لَا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتِيْ بَاطِلٌ لَا أَصْلَ لَهُ ( الاشاعۃ فی اشراط الساعۃ صفحہ ۲۲۶)

Page 253

۲۳۲ مقام خاتم النی نتبيين کہ وہ حدیث جس میں یہ آیا ہے کہ میری موت کے بعد کوئی وحی نہ ہوگی یہ ایک قول باطل ہے اس کی کوئی اصلیت نہیں.حضرت شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانی" کا عقیدہ حضرت شیخ احمد سرہندی مجد دالف ثانی علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا ہے:.حصول کمالات نبوت مرتا بعاں را بطریق تبعیت و وراثت بعد از بعثت خاتم الرسل علیہ وعلی جميع الانبياء الصلوات والتحیات منافی خاتمیت او نیست - فَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِين مکتوبات مجد دالف ثانی جلد اول صفحه ۴۳۲ مکتوب نمبر (۳۵) ترجمہ :.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کے لئے کمالات نبوت حاصل کرنا خاتم الرسل کے بعد آپ پر اور تمام انبیاء پر صلوات و تحیات آپ کی خاتمیت کے منافی نہیں.پس اے مخاطب تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو.مولوی خالد محمود صاحب اس کے متعلق لکھتے ہیں:.یہ مقام نبوت کے محض اجزاء اور عکوس و اظلال ہیں.اور ان کمالات سے اصل نبوت کا حصول لازم نہیں آتا.کمالات نبوت تو باقی ہیں لیکن مقام نبوت خواہ تشریعی ہو یا غیر تشریعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ہر اعتبار سے ختم ہو چکا.انبیاء کو یہ کمالات بے توسط ملتے ہیں.یہاں شائبہ ظلیت نہیں اور غیر انبیاء کو یہ

Page 254

۲۳۳ مقام خاتم السنة کمالات انبیاء کے کمال متابعت سے حاصل ہوتے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام کو یہ کمالات نبوت حاصل ہوئے.بایں ہمہ وہ نبی اور رسُول نہیں تھے.“ (عقیدۃ الامۃ صفحہ ۹۸-۹۹) واضح رہے کہ چونکہ خود نبوت بھی نبی میں ایک کمال ہے اس لئے ظلمی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے امتی کو نبوت کا ملنا بھی ختم نبوت کے منافی نہیں.ہاں یہ درست ہے کہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل نبوت کا حصول لازم نہیں آتا.ہم بھی اصل تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کو ہی مانتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کو اس اصل نبوت کا ظلت کامل ہونے کی وجہ سے ظلی نبی ہی یقین کرتے ہیں نہ کہ تشریعی نبی.مولا نا محمد قاسم صاحب کے نزدیک تو تمام انبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اظلال و عکوس ہی ہیں.چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں :.انبیاء میں جو کچھ ہے وہ ظل و عکس محمدی ہے.کوئی ذاتی کمال نہیں.“ ( تحذیر الناس صفحہ ۱۹) اور حضرت مجد دالف ثانی ” نے تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو انبیاء میں ہی شمار کیا ہے.چنانچہ و تحریر فرماتے ہیں:.وو ایس ہر دو بزرگوار از بزرگی و کلانی در انبیاء معدوداند و بکمال ایشاں محفوف 66 مکتوبات جلد اول صفحه ۲۵۱ مکتوب نمبر ۲۷۱)

Page 255

(Fr) مقام خاتم النی یعنی یہ ہر دو بزرگوار اپنی بزرگی اور عظمت کی وجہ سے انبیاء میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے کمالات کے جامع ہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ نے ان کو نبی نہیں کہا.پس چونکہ خود نبوت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک کمال ہے اس لئے مسیح موعود کو جو نبوت حاصل ہونے والی تھی وہ خالی ہی ہے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے نبی بھی کہا ہے اور امتی بھی.حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ محدث دہلوی و مجد دصدی دواز دہم رقمطراز ہیں:.حَقٌّ لَهُ أَنْ يَنْعَكِسَ فِيْهِ أَنْوَارُ سَيِّدِ الْمُرْسَلِيْنَ شَرْحُ لِلْإِسْمِ الْجَامِعِ الْمُحَمَّدِي وَنُسْخَةٌ مُنْتَسِخَةٌ مِنْهُ.66 هُوَ (الخير الكثير صفحہ۹۸-۹۹) کہ مسیح کا حق ہے کہ اس میں سید المرسلین کے انوار منعکس ہوں......وہ تو اسم جامع محمدی کی تشریح اور اس کا ہی ایک دوسرا نسخہ ہے.پس مسیح موعود جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کا جامع اور آپ ہی کی ظلی رنگ میں بعثت ثانیہ ہے تو لا کلام وہ ظلی نبی ہوا.اس کے اس منصب سے مولوی خالد محمود صاحب بھی انکار نہیں کر سکتے.یہ الگ بات ہے کہ وہ حضرت بانٹے سلسلہ احمدیہ کے مسیح موعود کے دعوی کی تکذیب کریں.حضرت مجد دالف ثانی علیہ الرحمہ تو خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد موعود عیسی کو ایک الوالعزم پیغمبر تابع شریعت محمدیہ قرار دیتے ہیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں:.علماء امت را حکم انبیاء داده کار تقویت شریعت و تائید ملت را بایشاں وو

Page 256

(۲۳۵ ر خاتم است تفویض نموده مع ذالک یک پیغمبر اولو العزم را متابع او ساخته ترویج شریعت او نموده است.(مکتوبات جلد اوّل صفحه ۲۱۰ مکتوب نمبر ۲۰۹) کہ علماء امت حکما نبی ہی ہیں.انہیں تقویت شریعت اور تائید ملت کا کام سپرد ہے.اور اس کے ساتھ ہی ایک اولوالعزم پیغمبر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والا اور شریعت محمدیہ کو رواج دینے کے لئے مقرر کیا ہے.ان کا یہ اجتہادی خیال کہ مسیح موعود اصالتا عیسی علیہ السلام میں واقعات کے رُو سے غلط ہے کیونکہ بموجب حدیث نبوی فَــمَّـكُـمْ مِنْكُمْ ( صحیح مسلم) موعود ابن مریم کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلّم نے امت محمدیہ میں سے امت کا امام قرار دیا ہے جو اس امر کا روشن ثبوت ہے کہ مسیح موعود کو ابن مریم کا نام استعارہ کے طور پر دیا گیا ہے جیسا کہ فقہاء نے کہا ہے ابو یوسف ابو حنیفه که امام ابویوسف تو بروزی طور پر ابو حنیفہ ہی ہیں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت مجد دالف ثانی خاتم الانبیاء بمعنی آخری تشریعی و مستقل نبی مانتے ہیں نہ مطلق آخری نبی.اسی لئے وہ مسیح موعود کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلّم کے بعد ایک اولو العزم امتی پیغمبر قرار دیتے ہیں.چنا نچہ حضرت مجد دالف ثانی تحریر فرماتے ہیں:.وو ایس قرب بالاصاله نصیب انبیاء است و این منصب مخصوص بائیں بزرگواران و خاتم ایں منصب سید البشر است علیه و آله الصلوة والسلام 66 مکتوبات جلد اول مکتوب بحوالہ عقیدۃ الامۃ صفحہ ۱۰۱)

Page 257

۲۳۶ مقام خاتم است کہ نبوت بالا صالة (مستقلہ.ناقل ) کا قرب انبیاء کا حصہ ہے اور یہ منصب ان بزرگواروں سے مخصوص ہے اور سید البشر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس منصب ( نبوت بالا صالة ) کے خاتم ہیں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت مستقلہ ختم ہے.لیکن آپ کی ظلیت میں مقام نبوت منقطع نہیں.کیونکہ ظل واصل میں منافات نہیں ہوتی.فرق صرف یہ ہے کہ پہلے انبیاء پر منصب نبوت کی موہبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے واسطہ کے بغیر ہوئی ہے اور مسیح موعود کو موہبت نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور افاضہ روحانیہ کے واسطہ سے ملی ہے.حضرت مجد دالف ثانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:.وو باید دانست که حصول این موهبت درحق انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات بے توسط و در حق اصحاب انبیاء والتحیات که به تبعیت و وراثت بائیں دولت مشرف گشته اند بتوسط انبیاء است علیہم الصلوات والبرکات.بعد از انبیاء واصحاب ایشاں کم کسے بائیں دولت مشترف گشته است.ہر چند جائز است دیگری را به تبعیت و وراثت بایں دولت مهتند ساز د.فیض روح القدس از باز مددفرماند دیگراں ہم بکنند آنچه مسیحا می کرد ( مکتوبات جلد اصفحه ۴۳۴) ہمارے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے رُوح القدس کے فیض سے ہماری مدد فرمائی.اور ایک شخص کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رُوحانی فرزندوں اور خادموں میں سے مسیحا بنا دیا ہے.ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء

Page 258

۲۳۷ مقام خاتم انا حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ کا عقیدہ حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمۃ خاتم النبیین کی تشریح میں لکھتے ہیں:.بہر ایں خاتم شد است او که بجود مثل اونے بود نے خواهند بود چونکه در صنعت برد استاد دست نے تو گوئی ختم صنعت بر تو است ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وجہ سے خاتم ہیں کہ سخاوت (فیض پہنچانے میں نہ آپ جیسا کوئی ہوا ہے نہ ہوگا.جب کوئی کاریگر اپنی کاریگری میں کامل درجہ کی دسترس رکھتا ہو تو اے مخاطب کیا تو یہ نہیں کہتا کہ اس شخص پر کاریگری ختم ہوگئی ہے.اس سے ظاہر ہے کہ مولانائے روم کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوت اس رنگ میں ختم ہوئی ہے جس رنگ میں صنعت میں کامل دسترس رکھنے والے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس پر صنعت ختم ہو گئی ہے.اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اس کے بعد کوئی کاریگر پیدا نہیں ہوگا.بلکہ صرف یہ معنی ہوتے ہیں کہ اس جیسا کوئی کاریگر نہیں.اس تشریح سے ظاہر ہے کہ مولانا روم کے نزدیک بھی خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کے ظہور میں مؤثر وجود ہیں.اور آپ کے فیض سے ولایت سے بڑھ کر مقام نبوت بھی مل سکتا ہے.چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں:.فکر کن در راه نیکو خد متے ! تا نبوت یا بی اندر امتے ترجمہ: اے مخاطب ! نیکی کی راہ میں ایسی خدمت سر انجام دے کہ تجھے اُمت میں نبوت مل جائے.(مثنوی مولانا روم دفتر اول صفحه ۵۳)

Page 259

۲۳۸ اس شعر کے متعلق مولوی خالد محمود صاحب لکھتے ہیں:.مقام خاتم انا ”یہاں منصب نبوت کا حصول نہیں کمالات نبوت کا حصول مراد ہے.“ ( عقیدۃ الامۃ صفحه ۱۱۲) الجواب: مولانا روم تو امت کے اندر نبوت ملنے کا ذکر فرمارہے ہیں.مگر خالد محمود صاحب اس کا نام کمالات نبوت رکھتے ہیں.چونکہ نبوت سے مراد نبوت نہ لینے میں وہ اپنی تشریح کی خامی کو خود محسوس کر رہے تھے.اس خامی کو پورا کرنے کے لئے لکھتے ہیں:.اگر اس میں کچھ اجمال ہے تو اس کی تفصیل مولا نا روم کے مذکورہ بالا عقیدہ ختم نبوت کی روشنی میں کی جائے گی.“ ( عقيدة الامت صفحه ۱۱۲) حالانکہ اس شعر میں کوئی اجمال نہیں بلکہ اس میں صریح طور پر نبوت ملنے کا ذکر ہے اور یہ بات ان کی خاتم النبیین کی اس تشریح کے مطابق ہے جو اُن کے اُوپر کے اشعار میں درج ہے.خالد محمود صاحب نے مولانا روم کا بطور تشریح یہ شعر درج کیا ہے:.یا رسول الله رسالت را تمام تو نمودی ہمچو شمس بے غمام اس کا ترجمہ خود خالد محمود صاحب نے یہ کیا ہے:.”اے اللہ کے رسول آپ نے رسالت کو اس طرح شرف بخشا ہے جیسے بادل کے بغیر سُورج چمک رہا ہو.“ ( عقیدۃ الامۃ صفحه ۱۱۲) یہ ترجمہ درست ہے مگر اس سے تو صرف یہ ثابت ہو رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 260

۲۳۹ مقام خاتم انا نتين وجود میں نبوت اس کامل شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہے جس طرح بادل کے موجود نہ ہونے کے وقت سورج اپنی پوری تحتی دکھاتا ہے.پس یہ شعر تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے نور نبوت کو علی وجہ الکمال پانے اور اس کی کامل جلوہ گری کو ظاہر کرتا ہے.اور اسی جلوہ گری کے فیضان سے اُمت میں نبوت ملتی ہے.مگر مولوی خالد محمود صاحب اس کی حقیقت کو معمولی دکھانے کے لئے لکھتے ہیں:.”مولا نا تو اسی اعتبار سے ہر متبع سنت و پیر ومرشد کو مجاز انبی کہتے ہیں.دست را مسپار حجز در دست پیر پیر حکمت کو علیم است و خبیر اں نمی وقت باشد اے مُرید تا از و نُورِ نبی آید پدید جب پیر حکمت جو علیم وخبیر ہو مولانا روم کے نزدیک بھی وقت ہوتا ہے تو مسیح موعود کو تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی اللہ بھی قرار دیا ہے اور فَامَّكُمْ مِنْكُمْ کا مصداق بھی قرار دیا ہے.پس وہ تو بدرجہ اولیٰ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی ہوا.حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ کا عقیدہ ختم نبوت کے متعلق حضرت ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی مجد دصدی دوازدہم علیہ الرحمۃ کا عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی تشریعی نبی نہیں آسکتا.چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:." خُتِمَ بِهِ النَّبِيُّوْنَ اَيْ لَا يُوْجَدُ مَنْ يَّأْمُرُهُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ بِالتَّشْرِيْع عَلَى النَّاسِ.“ ( تفہیمات الہیہ جلد ۲ صفحہ ۷۳) ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبیوں کے ختم کا یہ مطلب ہے کہ اب

Page 261

۲۴۰ م خاتم است کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوگا جسے خدا تعالیٰ شریعت دے کر لوگوں کی طرف مامور کرے.حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ یہ بھی تحریر فرماتے ہیں:." امْتَنَعَ أَنْ يَكُوْنَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ مُسْتَقِلْ بِالتَّلَقِي.“ (الخير الكثير صفحه ۸۰) ترجمہ: یہ امر متنع ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی مستقل کے بعد با تلقی ہو.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی مستقل نبی نہیں آسکتا.امت محمدیہ میں نازل ہونے والے مسیح موعود کی شان اور مرتبہ وہ یہ بیان فرماتے ہیں:." حَقٌّ لَهُ أَنْ يَنْعَكِسَ فِيْهِ أَنْوَارُ سَيّدِ الْمُرْسَلِيْنَ.“ یعنی مسیح موعود کا حق یہ ہے کہ اس میں سید المرسلین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار منعکس ہوں.گویا مسیح موعود کی نبوت عکسی یعنی ظلتی ہوگی نہ کہ اصالتا.یعنی مسیح موعود مستقل نبی نہ ہوگا.ہاں وہ ہوگا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل ظل و بروز بلکہ آپ ہی کا دوسرا نسخہ.چنانچہ اُوپر کے بیان کے آگے تحریر فرماتے ہیں:.يَزْعَمُ الْعَامَّةُ أَنَّهُ إِذَا نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ كَانَ وَاحِدًا مِّنَ الْأُمَّةِ كَلَّا بَلْ هُوَ شَرْحٌ لِلِاسْمِ الْجَامِعِ الْمُحَمَّدِي وَنُسْخَةٌ مُنتَسِخَةٌ مِنْهُ فَشَتَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ وَاحِدٍ مِنَ الْأُمَّةِ.“ (الخير الكثير صفحه ۷۲ مطبوعہ بجنور مدینہ پریس)

Page 262

۲۴۱ مقام خاتم است ترجمہ:.عوام کا خیال ہے کہ مسیح جب زمین کی طرف نازل ہوگا تو وہ صرف ایک امتی ہوگا.ایسا ہرگز نہیں.بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی پوری تشریح ہو گا.( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل ظلت اور بروز ہوگا ) اور آپ کا ہی دوسرا نسخہ ہوگا.( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی ہی بعثت ثانیہ ہو گا.) حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمتہ یہ بھی تحریر فرماتے ہیں:.” لاَنَّ النُّبُوَّةَ يَتَجَزْى وَجُزْءٌ مِنْهَا بَاقٍ بَعْدَ خَاتَمِ الْأَنْبِيَاءِ المسوی شرح المؤطا جلد ۲ صفحہ ۲۱۶ مطبوعہ دہلی ) یعنی نبوت قابل تقسیم ہے اور اس کی ایک جزء ( یعنی غیر تشریعی نبوت ) خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد باقی ہے.یہ بیان آپ کا حدیث نبوی لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ کے مطابق ہے کہ نبوت کے اجزاء میں سے المبشرات کا حصّہ باقی ہے.نبوت کی جو تعریف خالد محمود صاحب کے نزدیک ہے حضرت بانی سلسلہ احمد یہ تو اپنے آپ کو اس تعریف کا مصداق ہی قرار نہیں دیتے تو پھر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مولوی خالد محمود صاحب کی تعریف میں نبی ہی نہ ہوئے.لہذا ان کا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر ختم نبوت کے منکر ہونے کا الزام دینا ظلم اور تعدی اور تعلم محض نہیں تو اور کیا ہے؟ خلاصہ کلام یہ کہ جس طرح مولوی خالد محمود صاحب حضرت عیسی علیہ السلام کوآمد ثانی میں اُمتی نبی مانتے ہیں نہ کہ مستقل تشریعی نبی.اور اُن کا اُمتی نبی کی

Page 263

له الدله مقام خاتم النی نتبيين حیثیت میں آنا اُن کے نزدیک آیت خاتم النبیین کے منافی نہیں اور وہ اُن کی قوتِ حاکمہ سے بھی انکار نہیں کر سکتے.کیونکہ اُمتِ محمدیہ کے مسیح موعود کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے حکم عدل قرار دیا ہے.لہذا ہم احمدی جب حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو مسیح موعود کی حیثیت میں امتی نبی ہی مانتے ہیں تو پھر آپ کی بوت آیت خاتم النبیین کے منافی نہ ہوئی.آیت خاتم النبیین کے منافی تو وہ نبوت ہوگی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے انبیاء کو بالاستقلال حاصل تھی.اُمتی نبی تو ایک جدید اصطلاح ہے جو صحفِ اولیٰ میں کبھی استعمال نہیں ہوئی.اور اُمتی نبی کا دعویٰ مستقلہ نبوت کا نہیں.پس حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کے جس قدر اقوال مولوی خالد محمود صاحب نے عقیدۃ الامۃ میں انقطاع نبوت کے متعلق پیش کئے ہیں وہ سب تشریعی اور مستقلہ نبوت سے تعلق رکھتے ہیں نہ اُمتی نبی کی آمد کے انقطاع سے.کیونکہ مسیح موعود علیہ السّلام کو تو حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ بھی دیگر علمائے امت کی طرح امتی نبی ہی مانتے ہیں نہ کہ مستقل با تلقی یا شارع نبی.گو آپ نے مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا کامل عکس قرار دیا ہے کہ گویا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا دوسراستہ ہے.پس مسیح موعود کو چونکہ امتی نبی تسلیم کیا جاتا ہے اس لئے جو نبوت باقی نہیں رہی وہ تو اُسے حاصل نہ ہوگی اور یہ تشریعی اور مستقلہ نبوت ہی ہے جو باقی نہیں رہی ہے.جو باقی رہی ہے وہ المبشرات والی جزء نبوت ہی ہے.لہذا اسی جز ء نبوت کو کامل طور پر حاصل کرنے کی وجہ سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کو نبی اور رسُول قرار

Page 264

دیا ہے.۲۴۳ مقام خاتم انا مولوی خالد محمود صاحب نے عقیدۃ الامۃ میں نبوت کے انقطاع کے متعلق جو عبارتیں پیش کی ہیں وہ سب او پر کی عبارت کی روشنی میں پڑھی جانی چاہئیں.مولوی خالد محمود صاحب لکھتے ہیں:.یہ بات تو مسلمہ ہے کہ وحی ہر نبی پر آتی ہے اور اسے اللہ کی طرف سے حکم ملتا ہے.خواہ یہ حکم ہو کہ شریعت سابقہ کی تعلیم دے اور خواہ اُسے احکام جدیدہ دیئے جائیں.اس حکم وحی کو ہی شریعت کہا جاتا ہے صاحب شریعتِ سابقہ کو جب ایسا حکم وحی موصول ہو تو پھر پہلی شریعت اس کی شریعت ہو جاتی ہے.اور وہ خود قوت حاکمہ اور معیار بن جاتا ہے“ ( عقيدة الامة ) اس سے ظاہر ہے کہ خالد محمود صاحب کے نزدیک ہر نبی شریعت لاتا ہے اور کوئی نبی غیر تشریعی ہوا ہی نہیں.ایک ضروری سوال اس پر ایک ضروری سوال پیدا ہوتا ہے.خالد محمود صاحب بتا ئیں.جب اُن کے خیال میں حضرت عیسی علیہ السّلام جو تشریعی نبی تھے نازل ہوں گے تو اس وقت وہ مستقل نبی ہوں گے اور تورات وانجیل کی دعوت دیں گے یا قرآن مجید کی.یہ تو ظاہر ہے مولوی خالد محمود صاحب یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ تورات وانجیل کی دعوت دیں گے.بلکہ وہ علمائے امت کی طرح یہی کہیں گے کہ وہ قرآن مجید کی ہی دعوت دیں گے.اب اگر وہ یہ کام اپنی وحی

Page 265

(re) مقام خاتم انت سے کریں گے تو کیا قرآنی شریعت اس وقت اُن کی شریعت بن جائے گی.اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مستقل تشریعی نبی کی حیثیت رکھیں گے.اگر نہیں بلکہ وہ امتی نبی ہوں گے تو صاف ظاہر ہے کہ مسیح موعود مولوی خالد محمود صاحب کے نزدیک ایک جدید اصطلاح میں نبی ہے.کیونکہ اس قسم کا امتی نبی وہ خود مان چکے ہیں کہ پہلے انبیاء میں سے کوئی نہیں ہوا.بلکہ تمام پہلے انبیاء ان کے نزدیک مستقل تشریعی نبی تھے.اور تشریعی نبی یا مستقل نبی کا آنا آیت خاتم النبیین کے منافی ہے.ایک اور سوال مولوی خالد محمود صاحب کے نزدیک نبی کے لئے شریعت کا لانا ضروری ہے.خواہ پہلی شریعت کو ہی وحی الہی سے اس کی شریعت بنا دیا جائے.یا وہ کوئی جدید شریعت لائے.اس سے ظاہر ہے کہ نبی کی تعریف میں ان کے نزدیک استقلال بالشریعہ شرط ہے تو ان کا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور آپ کی جماعت کو ختم نبوت کا منکر قرار دینا کیسے صحیح ہوا.بانی سلسلہ احمدیہ تو فرماتے ہیں کہ نہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لایا ہوں اور نہ میں مستقل نبی ہوں.بلکہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے باطنی فیوض حاصل کر کے آپ کے واسطہ سے اُمور غیبیہ پر اطلاع دیا جانے کی وجہ سے نبی ہوں.آپ نے یہ بات اپنے اشتہار ”ایک غلطی کا ازالہ میں صاف طور پر بیان فرما دی ہوئی ہے.اور استفتاء ضمیمہ حقیقتہ الوحی میں یہ بھی تحریر فرمایا ہے:." مَانَعْنِي مِنَ النُّبُوَّةِ مَا يُعْنَى فِي الصُّحُفِ الْأَوْلَى بَلْ هِيَ دَرَجَةٌ لَا تُعْطَى إِلَّا مِنْ إِتِّبَاعِ سَيِّدِنَا خَيْرِ الْوَرى.

Page 266

۲۴۵ مقام خاتم کہ میری مُرادنبوت سے وہ نہیں جو صحفِ اولیٰ میں لی جاتی ہے.بلکہ میری نبوت ایک ایسا درجہ ہے جو صرف نبی کریم خیر الوریٰ صلے اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے ہی حاصل ہوسکتا ہے.مولوی عبدالحی صاحب کا عقیدہ مولوی محمد قاسم صاحب کے ہمعصر مولوی عبد الحی صاحب حنفی فرنگی محل تحریر فرماتے ہیں:.بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یا زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مجر دکسی نبی کا آنا محال نہیں بلکہ نئی شریعت والا البتہ منع ہے.“ دافع الوساوس فی اثر ابن عباس ایڈیشن جدید صفحه ۱۶) اس کے بعد انہوں نے اپنی تائید میں ملاعلی قاری علیہ الرحمہ کا یہ قول پیش کیا ہے:.إِذَا الْمَعْنِى أَنَّهُ لَا يَأْتِي بَعْدَهُ نَبِيٌّ يَنْسَخُ مِلَّتَهُ کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کے دین کو منسوخ کرے.گوانہوں نے مُلا علی قاری کا اگلا فقرہ وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِهِ اور وہ آپ کی اُمت میں سے نہ ہو درج نہیں کیا.اسی بات کی تائید میں انہوں نے آگے علامہ سبکی کا قول بھی پیش کیا ہے.علامہ سبکی نے شاید حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصالتاً آمد کا اجتہا در کھنے کی وجہ سے یہ لکھ دیا ہے کہ لَا تَنْشَأُ النُّبُوَّةُ کہ نئی بات پیدا نہیں ہوگی.یا ممکن ہے اُن کا یہ خیال ہو کہ امتی کی

Page 267

(rry) مقام خاتم السنة نبوت در اصل نئی نبوت نہیں ہوتی کیونکہ وہ تو نبوت محمدیہ کا ہی خلق ہوتی ہے.اور ظل اور اصل میں کوئی حقیقی مغائرت نہیں ہوتی.ظل اصل کے ساتھ من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری ! کا مصداق ہوتا ہے.واللہ اعلم بالصواب.اگر انہیں پہلی بات مد نظر ہے تو یہ صرف ان کا اجتہادی خیال ہے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وفات پا جانے کی وجہ سے ہم پر حجت نہیں.پیشگوئیوں میں اجتہادیوں بھی حجت نہیں ہوتا.جب تک پیشگوئی وقوع میں نہ آ جائے اس کی پوری حقیقت نہیں کھلتی.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلّم نے نازل ہونے والے مسیح کو امت محمدیہ کا ہی ایک فرد قرار دیا ہے.اور حضرت عیسی علیہ السّلام کے متعلق یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ ایک سو بیس سال زندہ رہے.اور معراج میں انہیں حضرت سکی" کے ساتھ دیکھنے کا بھی ذکر فرمایا ہے.یہ امر بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد از وفات برزخی زندگی میں ہونے کی روشن دلیل ہے.حکیم صوفی محمد حسین صاحب کا عقیدہ نبوت کی دو قسمیں منقطع اور غیر منقطع مولوی محمد قاسم صاحب کے ایک ہمعصر علامہ حکیم صوفی محمد حسین صاحب م "غاية البرهان، تحریر فرماتے ہیں:.

Page 268

۲۴۷ مقام خاتم ان الغرض اصطلاح میں نبوت بخصوصیت الہیہ خبر دینے سے عبارت ہے وہ دو قسم پر ہے.ایک نبوت تشریعی جو ختم ہو گئی.اور دوسری نبوت بمعنی خبر دادن وہ غیر منقطع ہے.پس اس کو مبشرات کہتے ہیں اپنے اقسام کے ساتھ اس میں رویا بھی ہیں.“ ( کواکب الدریہ صفحہ ۱۴۷ - ۱۴۸) اما راغب علیہ الرحمہ کے نزدیک اُمّتِ محمدیہ میں نبی کا امکان ! مولوی ابو الاعلیٰ صاحب مودودی کے رسالہ ختم نبوت“ کے جواب میں میں نے و علمی تبصرہ ، صفحہ ۸ تا ۱۱ میں لکھا تھا اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.أُوْلَئِكَ رَفِيقًا وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُوْلِئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ وَحَسُنَ (سوره نساء ع ۹ آیت۷۰) ترجمہ: جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ( محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کریں گے پس وہ اُن لوگوں کے ساتھ شامل ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے یعنی بنی صدیق شہید اور صالح اور یہ ان کے اچھے ساتھی ہیں.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ایک انسان صالحیت کے مقام سے ترقی کر کے نبوت کے مقام تک پہنچ سکتا ہے.اگر

Page 269

نتين مقام خاتم النبیر آیت کے یہ معنے کئے جائیں کہ خدا تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے صرف ظاہری طور پر نبیوں کے ساتھ ہوں گے نبی نہیں ہوں گے تو یہی تشریح دوسرے تین مدارج کے بارے میں بھی کرنی پڑے گی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیر وصرف بظاہر صدیقوں.شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہوں گے.خود صدیق.شہید اور صالح نہیں ہوں گے، یہ تشریح صحیح نہیں.کیونکہ یہ معنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شان بزرگ کے صریح منافی ہیں کہ ان کی پیروی سے کوئی شخص صدیق.شہید اور صالح بھی نہیں ہوسکتا.بلکہ صرف ظاہری طور پر ان کے ساتھ ہوگا.حالانکہ اُمت محمدیہ کے اطاعت کرنے والوں کا اس دنیا میں زمانی اور مکانی طور پر پہلے انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ ہونا محال امر ہے.اور آیت فَأُولئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ جملہ اسمیہ ہے جو استمرار پر دلالت کرتا ہے یعنی اس دُنیا میں ان کے ساتھ ہونا بھی ثابت کرتا ہے.پس اس دُنیا میں ساتھ ہونے میں مرتبہ پانا ہی مُراد ہوسکتا ہے.-ي اس کے بعد میں نے لکھا تھا:.راغب علیہ الرحمہ کی تفسیر ہمارے انہیں معنوں کی تائید امام راغب علیہ الرحمہ کی تفسیر سے بھی ہوتی ہے.تفسیر بحر المحیط میں امام راغب کی تفسیر جو ان الفاظ میں پیش کی گئی ہے کہ " وَالظَّاهِرُ أَنَّ قَوْلَهُ مِنَ النَّبِيِّينَ تَفْسِيْرٌ لِلَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَكَأَنَّهُ قِيْلَ مَنْ يُطِعِ اللهَ وَالرَّسُوْلَ مِنْكُمْ الْحَقَهُ اللَّهُ بِالَّذِيْنَ

Page 270

۲۴۹ تَقَدَّمَهُمْ مِمَّنْ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ قَالَ الرَّاغِبُ مِمَّنْ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ الْفِرَقِ الْأَرْبَعِ فِى الْمَنْزِلَةِ وَالثَّوَابِ النَّبِيُّ بِالنَّبِيِّ وَالصِّدِّيْقُ بِالصِّدِّيقِ وَالشَّهِيدُ بِالشَّهِيدِ وَالصَّالِحُ بِالصَّالِح.( بحر المحیط جلد ۲ صفحه ۲۸۷) ترجمہ: یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول مِنَ النَّبِيِّينَ - أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ کی تفسیر ہے.گویا یہ کہا گیا ہے کہ جو تم میں سے اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے انعام یافتہ لوگوں سے ملا دے گا جو اُن سے پہلے گزر چکے ہیں.راغب نے کہا یعنی اُن چار گروہوں کے ساتھ درجہ اور ثواب میں شامل کر دے گا.جن پر اُس نے انعام کیا ہے.اس طرح کہ جو تم میں سے نبی ہوگا اس کو نبی کے ساتھ ملا دے گا.اور جو صدیق ہوگا اُسے صدیق کے ساتھ ملا دے گا.اور شہید کو شہید کے ساتھ ملا دے گا.اور صالح کو صالح کے ساتھ ملا دے گا.یہ ترجمہ درج کر کے میں نے اپنی کتاب علمی تبصرہ میں مولوی ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کے رسالہ ختم نبوت“ کے جواب میں لکھا تھا:.اس عبارت میں امام راغب علیہ الرحمۃ نے النَّبِيُّ بالنَّبي کہہ کر ظاہر کر دیا ہے کہ اس اُمت کا نبی گزشتہ انبیاء کے ساتھ شامل ہو جائے گا جس طرح اس اُمت کا صدیق گزشتہ صدیقوں اور اس اُمت کا شہید گزشتہ شہیدوں اور اس اُمت کا صالح گزشتہ صالحین کے ساتھ شامل ہوگا.گویا اُن کی تفسیر کے مطابق اُمّتِ محمدیہ کے لئے آنحضرت صلی

Page 271

(ro.) مقام خاتم النی است اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں نبوت کا دروازہ کھلا ہے.ورنہ وہ کونسے نبی ہوں گے جو امام راغب کی اس تفسیر کے مطابق انبیاء کی صف میں شامل ہوں گے.مولوی خالد محمود صاحب نے میرے اس مضمون کو پڑھا ہے.جیسا کہ ان کی کتاب عقیدۃ الامۃ کے صفحہ ۱۱۰ کے حاشیہ سے ظاہر ہے.اس کے باوجود وہ یہ لکھتے ہیں کہ قادیانی مبلغ کہتے ہیں کہ نیک لوگوں کا اس منعم علیہ گروہ کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ بھی وہی کچھ ہو جائیں (بیٹے کے باپ کے ساتھ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی باپ ہو گیا...ياللعجب ) یعنی نبیوں کی معیت اور حضوری میں جگہ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی نبی ہو جائیں.پس خُدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے بھی نبی ہو جائیں گے.قادیانی لوگ یہاں مَعَ کو تو مِنْ کے معنوں میں لیتے ہیں لیکن مِنَ النَّبيِّين والصدیقین کو وہ بھی منعم علیہ گروہ کا ہی بیان سمجھتے ہیں.اُن کے نزدیک بھی یہ انعام یافتہ لوگوں کی ہی تفسیر ہے.“ (عقیدۃ الامۃ صفحہ ۱۰۷) مولوی خالد محمود صاحب کی بیٹے کے باپ کے ساتھ رہنے کی مثال اس جگہ منطبق نہیں ہو سکتی.کیونکہ بیٹے کا باپ کے ساتھ رہنا معیت زمانی یا مکانی کو چاہتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والوں کو اس دُنیا میں زمانی اور مکانی طور پر پہلے گزرے ہوئے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی اس طرح کی معیت

Page 272

(۲۵۱) مقام خاتم است نتين محال ہے جیسے بیٹے کو باپ کے ساتھ رہنے میں ہوتی ہے.امام راغب مفردات القرآن میں زیر لفظ مع.معیت کے چار معنے معیت زمانی ، معیت مکانی، معیت متضائفین اور معتيت فى المنز لہ بیان کرتے ہیں.پہلی تین قسم کی معیت اس آیت میں محال ہے.لہذا چوتھی قسم کی معیت یعنی مرتبہ میں معیت ہی مُراد ہو سکتی ہے.لہذا مع اس جگہ مِنْ کا مفہوم دینے کے علاوہ ایک زائد مفہوم بھی دے رہا ہے.جو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے چاروں گروہوں میں سے کسی گروہ میں داخل ہونے کے علاوہ یہ اطاعت کرنے والے جامع کمالات انبیاء یا جامع کمالات صدقین یا جامع کمالاتِ شہداء اور جامع کمالات صالحین بھی ہو سکتے ہیں.خالی من کا لفظ استعمال کرنے سے یہ مفہوم پیدا نہیں ہوسکتا تھا.پس جامع کمالات انبیاء کا اُن کے زمرہ میں داخل ہونا بدرجہ اولیٰ مراد ہوا.امام راغب نے آیت فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِيْنَ کی تفسیر میں لکھا ہے:.أَيْ إِجْعَلْنَا فِي زُمْرَتِهِمْ أَيْ إِشَارَةٌ إِلَىٰ قَوْلِهِ أُولَئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ الآيم (مفردات القرآن) یعنی فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِيْنَ کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں شاہدین کے زمرہ میں داخل کر دے اس میں آیت أُوْلَئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَ الصَّالِحِيْنَ کی طرف اشارہ ہے.پس علامہ راغب کے نزدیک شاہدین کے ساتھ ہونے سے انبیاء یا صد یقوں یا

Page 273

(۲۵۲) مقام خاتم انا شہداء یا صالحین کے زمرہ میں داخل ہو نا مراد ہے.خالد محمود صاحب کا الزام اول مولوی خالد محمود صاحب نے مجھے الزام دیتے ہوئے لکھا ہے:.قاضی محمد نذیر صاحب نے اپنے رسالہ علمی تبصرہ (شائع کردہ نظارت اصلاح و ارشاد صدر انجمن احمد یہ ربوہ) کے صفحہ ۹ پر فاضل اندلسی اور علامہ راغب کی عبارات کو گڈمڈ کر کے پیش کیا ہے.پہلی تین سطر میں فاضل اندلسی کی ہیں جو علامہ راغب کی ترکیب کے خلاف ہیں.اس کے بعد علامہ راغب کی تفسیر ہے.قاضی محمد نزیر صاحب ہر دو عبارات میں فرق نہیں کر سکے اور نہ انہیں یہ پتہ چلا ہے کہ یہ دونوں تعبیر میں ایک دوسرے کے خلاف ہیں.“ الجواب ( عقیدۃ الامۃ صفحہ ۱ حاشیہ) میں نے تفسیر بحرالمحیط سے جو قول علمی تبصرہ میں نقل کیا ہے اس کے ترجمہ سے ظاہر ہے کہ میں نے مفتر بحرالمحیط فاضل اندلسی اور امام راغب کے قول کو ہرگز گڈ مڈ نہیں کیا.چنانچہ فاضل اندلی کی تفسیر پیش کرنے کے بعد میں نے علمی تبصرہ میں لکھا ہے:.راغب نے کہا ہے یعنی ان چار گروہوں کے ساتھ درجہ اور ثواب میں وو شامل کر دے گا.“

Page 274

۲۵۳ مقام خاتم است اس سے ظاہر ہے کہ میرے نزدیک پہلی عبارت امام راغب کی نہیں بلکہ خود فاضل اندلسی کی ہے.جیسا کہ میرے استدلال کے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس عبارت میں امام راغب نے النبي بالنبی کہہ کر ظاہر کر دیا ہے کہ اس اُمت کا نبی گزشتہ انبیاء کے ساتھ شامل ہو جائے گا جس طرح اس اُمت کا صدیق گزشتہ صدیقوں اور اس اُمت کا شہید گزشتہ شہیدوں اور اس اُمت کا صالح گزشتہ صالحین کے ساتھ شامل ہوگا.گویا اُن کی تفسیر کے مطابق امت محمدیہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں نبوت کا دروازہ کھلا ہے.ورنہ کونسے نبی ہوں گے جو امام راغب کی تفسیر کے مطابق نبیوں میں شامل ہوں گے.( علمی تبصره صفحه ۹) (ب) مولوی خالد محمود صاحب کا یہ خیال بالکل باطل ہے کہ فاضل اندلسی کے نزدیک آیت ہذا کی ترکیب امام راغب سے مختلف ہے.حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ فاضل اندلسی نے امام راغب کی پہلی توجیہ کو درست سمجھتے ہوئے اپنی طرف سے اجمالاً معنی بیان کر کے اس کی تفسیر میں امام راغب کا قول پیش کر اپنے مجمل بیان کی تفصیل پیش کی ہے.پس فاضل اندلسی کا قول مجمل ہے اور امام راغب کا مفصل.اور یہ دونوں قول ہرگز ایک دوسرے کے خلاف نہیں.اگر فاضل اندلسی کے نزدیک ان کا یہ قول ان کے اپنے خیال کے مخالف ہوتا تو اس کی وہ ساتھ ہی فورا تردید بھی کر دیتے جیسا کہ امام راغب کے دوسرے قول کی جو اس کی تفسیر میں پیش کیا ہے خود تردید کر دی ہے.

Page 275

(rar) مقام خاتم انا خالد محمود صاحب کا دوسرا الزام مولوی خالد محمود صاحب لکھتے ہیں:.قاضی صاحب نے دوسری بددیانتی یہ کی ہے کہ علامہ راغب کی بات نقل کرتے ہوئے آگے اُن کی ترکیب نحوی کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس ترکیب کے وہ خود بھی خلاف تھے.“ الجواب (عقیدۃ الامۃ صفحہ ۱۱ حاشیہ) اصل حقیقت یہ ہے کہ امام راغب کی طرف سے تفسیر بحرالمحیط میں فاضل اندلسی نے دو تو جیہیں اس آیت کی تفسیر میں نقل کی ہیں.اور پہلی تو جیہ اپنی ترکیب نحوی کے موافق سمجھ کر اپنے قول کے ساتھ بطور تفصیل و تشریح پیش کی ہے اور دوسری تو جیہہ کو جو ایک دوسری ترکیب نحوی کے لحاظ سے ہے درست قرار نہیں دیا.میں نے اپنے استدلال میں پہلی تو جیہ کو ہی علمی تبصرہ میں اختیار کر کے پیش کیا ہے جو فاضل اندلسی کے نزدیک بھی درست ہے.ورنہ وہ اس کی بھی تردید کر دیتے.لہذا امام راغب کی دوسری تو جیہ نقل کرنے کی مجھے ضرورت نہ تھی جس میں خامی پائی جاتی ہے.لہذا اس میں میری بددیانتی کیا ہوئی ؟ خالد محمود صاحب کا تیسرا الزام مولوی خالد محمود صاحب نے تیسر الزام مجھے یوں دیا ہے کہ

Page 276

(roo) مقام خاتم است نتين تیسری بددیانتی قاضی صاحب نے یہ کی ہے کہ فاضل اندلسی نے آگے جو اس کی پُر زور تردید کی ہے اُسے یکسر چھوڑ دیا ہے.“ (عقیدۃ الامۃ صفحہ ۱۱ حاشیه ) الجواب میں نے تو وہ تو جیہہ پیش کی ہے جس پر فاضل اندلسی کو بھی اعتراض نہیں.اور ساتھ ہی وہ میرے مقصد کے بھی موافق ہے.اور دوسری تو جیہہ میں چونکہ فاضل اندلسی کے نزدیک نحوی ترکیب کی خامی بھی موجود تھی اور معنوی طور پر وہ آیت خاتم النبیین کے مطابق نہ ہونے کا احتمال بھی رکھتی تھی.اس لئے مجھے اس کے پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی.لہذا جب میں نے امام راغب کی دوسری تو جیہہ پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی تو مجھے فاضل اندلسی کی تردید کو نقل کرنے کی کیا ضرورت تھی.اس میں کوئی بد دیانتی نہیں.خالد محمود صاحب کو جب خود اعتراف ہے کہ میں محمد نذیر، امام راغب کی دوسری تو جیہہ کے خلاف تھا تو پھر میرا اس تو جیہہ کو پیش نہ کرنا میری دیانت کی دلیل ہوا نہ کسی بد دیانتی کی دلیل.ویسے مولوی خالد محمود صاحب شوق سے جو گالی مجھے چاہیں دے لیں.میں تو اس کے جواب میں صبر سے ہی کام لوں گا.میرا مسلک تو یہ ہے :.گالیاں سُن کے دُعا دو پا کے دُکھ آرام دو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھا ؤانکسار اللہ تعالیٰ آپ کو ہدایت کی راہ دکھائے.اللہم آمین.

Page 277

(roy) مقام خاتم انا امام راغب کی دوسری توجیہہ کی خامی امام راغب کی دوسری توجیہہ میں میرے نزدیک معنوی خامی یہ ہے کہ اس ترکیب کے رُو سے تشریعی نبی یا مستقل نبی کی آمد کا بھی جواز نکلتا ہے.گو مقصو دان کا امتی نبی کی آمد کا ہی جواز ہو.غالباً اسی لئے فاضل اندلسی کے اسی احتمال کے پیش نظر اس تو جیہہ کو آیت خاتم النبیین کے خلاف قرار دیا ہے.کیونکہ یہ آیت اس بات پر نص قطعی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے بعد کوئی تشریعی یا مستقل نبی نہیں آ سکتا.بلکہ صرف ایسا نبی ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آسکتا ہے جو ایک پہلو سے نبی ہواور ایک پہلو سے امتی بھی.امام راغب علیہ الرحمہ کی یہ دوسری توجیہ بحرالمحیط میں ان الفاظ میں پیش کی گئی ہے:.أَجَازَ الرَّاغِبُ أَنْ يَتَعَلَّقَ مِنَ النَّبِيِّنَ لِقَوْلِهِ وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ أَيْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَيَكُوْنُ قَوْلُهُ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ إِشَارَهُ إِلَى الْمَلِدِ الْأَعْلَىٰ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا يُبَيِّنُ ذَلِكَ قَوْلُ النَّبِيِّ حِيْنَ الْمَوْتِ اللَّهُمَّ الْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ الْأَعْلى.وَهَذَا ظَاهِرٌ.(بحر المحيط جلد ۳ صفحه ۲۸۷ ترجمہ: امام راغب نے اس بات کو بھی جائز رکھا ہے کہ مِنَ النَّبِيِّينَ کے الفاظ خدا تعالیٰ کے قول مَنْ يُطِعِ اللَّہ سے متعلق ہیں اور خدا کا قول

Page 278

(۲۵۷) مقام خاتم است فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ کا اشارہ ملاء اعلیٰ کی طرف ہے اور ملاء اعلے والے اچھے رفیق ہیں.اور اس امر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول بیان کرتا ہے جو آپ نے اپنی وفات کے وقت کہا اللھم الْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ الْاعْلیٰ.اور یہ توجیہہ ظاہر ہے.اس توجیہہ کی رُو سے آیت کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جو لوگ نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین میں سے اللہ تعالیٰ اور رسولِ کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں وہ ملاء اعلیٰ کے رہنے والوں سے جا ملتے ہیں.امام راغب کے اس قول سے یہ تو ظاہر ہے کہ امت محمدیہ میں نبی آ سکتا ہے مگر ساتھ ہی چونکہ اس بات کا بھی احتمال ہو سکتا ہے کہ تشریعی اور مستقل نبی بھی آسکتا ہے.اس لئے اس احتمال کے پیش نظر امام راغب کی پہلی تو جیہہ زیادہ درست ہے.کیونکہ اس کے رُو سے تشریعی نبی اور مستقل نبی کے خاتم النبیین کے بعد آنے کا احتمال ہی پیدا نہیں ہوسکتا.بلکہ صرف ایسے نبی کا آنا ہی آیت خاتم النبیین کے رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جائز اور ممکن قرار پاتا ہے.جو نبی بھی ہو اور ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بھی ہو.اور ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی شریعت کے تابع رہے.خالد محمود صاحب اس دوسری توجیہ کی ترکیب نحوی کے متعلق لکھتے ہیں:.یہ ترکیب گو علمی لحاظ سے صحیح نہیں مگر ہمیں ہرگز مضر نہیں.کیونکہ حضرت عیسیٰ اور حضرت خضر علیہ السلام بے شک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والوں میں سے ہیں.اس سے علامہ راغب کو اجرائے

Page 279

(ron) نبوت کا قائل ثابت کرنا فریب اور بد دیانتی ہے.“ مقام خاتم انا (عقیدۃ الامۃ صفحہ ۱۱۱) ہم نے جب علمی تبصرہ میں اس توجیہہ سے استدلال ہی نہیں کیا تو نہ ہم نے کوئی فریب دیا ہے نہ بد دیانتی کی ہے.البتہ یہ بات ہمارے لئے قابل تعجب ہے کہ فاضل اندلسی تو اس تفسیر کو آیت خاتم النبیین کے خلاف قرار دے کر رڈ کرتے ہیں اور مولوی خالد محمود صاحب یہ لکھ رہے ہیں کہ یہ تفسیر اُن کے لئے ہرگز مضر نہیں.مولوی خالد محمود صاحب نے اُمت میں نبی کی آمد کورڈ کرنے کے لئے علامہ راغب کا ایک قول نقل کیا ہے کہ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لِأَنَّهُ خَتَمَ النُّبُوَّةَ أَوْ تَمَّمَهَا بِمَجِيْنِهِ ،، (مفردات القرآن زیر لفظ ختم ) مولوی خالد محمود صاحب پر واضح ہو کہ امام راغب کے اس کلام کا مفہوم اُن کی توجيه النَّبِيُّ بِالنَّبِيِّ، امت محمدیہ کے نبی کو پہلے نبی سے ملا دیگا کے بالمقابل اور ختم کے حقیقی لغوی معنی تاثیر الشیبی کی روشنی میں اور آیت فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِيْنَ کی تفسیر کی روشنی میں یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم خاتم النبیین ہیں.آپ نے النبوة پر مہر لگا دی ہے یعنی اپنی آمد سے اُسے کمال تک پہنچا دیا ہے یعنی نبوت کے کمالات ممکنہ آپ کی ذات میں انتہائی کمال کو پہنچ گئے ہیں.اب آپ کی شان اور مرتبہ کا کوئی نبی آپ کے بعد نہیں آسکتا.ہاں آپ کی مہبر نبوت کی تاثیر اور فیض سے آپ کا ایک امتی اور روحانی فرزند مقام نبوت

Page 280

۲۵۹ مقام خاتم السنة پاسکتا ہے مگر نبی ہونے کے باوجود وہ آپ کا امتی بھی رہتا ہے اور آپ کی شریعت کی پابندی اس کے لئے اسی طرح ضروری رہتی ہے جس طرح کسی عام امتی کے لئے ضروری ہے.وَاخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ قاضی محمد نذسیر لا سکیوری ۱۴ جنوری ۱۹۶۷ء

Page 280