Mali Qurbani Aik Taruf

Mali Qurbani Aik Taruf

مالی قربانی ایک تعارف

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

مالی قربانی ایک تعارف

Page 2

نام کتاب: مالی قربانی ایک تعارف سن اشاعت: 2005 مطبع.رقیم پریس یو کے

Page 3

iii فهرست عناوین عنوان صفحہ نمبر 1 10 5 9 14 14 14 15 16 16 17 18 18 20 21 21 23 28 29 2222 23 24 نمبر شمار 1 ابتدائیہ 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 مالی قربانی کی اہمیت از روئے قرآن حکیم منتخب احادیث نبوی کے بابت مالی قربانی مالی قربانی کے متعلق سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات انفاق سبیل اللہ کی ضرورت اور اہمیت چندہ کی تحریک یہ وقت پھر ہاتھ نہیں آئے گا مال خود بخود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے ملتا ہے نو مبائعین سے چندہ وصول کرنے کے متعلق تاکیدی ارشاد مال خرچ کرنے سے عمریں زیادہ ہوں گی بخل اور ایمان جمع نہیں ہو سکتے خدا تمہیں بلاتا ہے اپنی عزیز اور پیاری چیزوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرو من انصاری الی اللہ آخری فیصلہ 16 ارشادات خلفاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام بابت مالی قربانی 17 18 19 20 فرمودات حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ خلیفتہ فرمودات حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمودات حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرمودات حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

Page 4

iv بر شمار عنوان 21 فرمودات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 22 آمد کی تعریف 23 اصل آمد کے مطابق بجٹ 25 26 27 لازمی چندہ نہ دینے والوں کے متعلق ارشادات نادہندہ کو جماعتی عہدہ نہ دیا جائے ایسے احباب جو انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے اور نہ ہی عہدیدار بن سکتے ہیں.خاص ضرورت کے تحت چندہ وصول کرنے کا طریق 28 التشخیص بحث آمد 29 30 31 چنده مستورات آمد کا تعین تخفیف شرح کیلئے اجازت کا طریق کار 32 ہدایات بابت تیاری بجٹ صفحہ نمبر 36 39 41 42 43 44 45 46 46 46 48 50 50 51 53 56 58 59 60 60 61 62 تشخیص بجٹ آمد بجٹ کی منظوری ترمیم بجٹ 33 34 35 36 بجٹ کے مطابق چندے وصول کرنے کی کوشش کرنا 37 38 39 40 41 42 متفرق امور بابت وصولی وادا ئینگی بجٹ پورا کرنا جماعتوں کی ذمہ داری ہے بقایا دار خدا کے نزدیک جواب دہ ہے نمائندگان مجلس مشاورت کا فرض نادہندگان کی اصلاح نادہندگان کے خلاف کاروائی کا طریق کار

Page 5

عنوان صفحہ نمبر 63 65 65 68 69 71 73 73 73 73 73 74 74 74 74 75 77 84 85 86 86 87 43 ہدایات برائے بجٹ ذیلی تنظیم 44 ماہانہ مالی گوشواره ریگولر انکم وایکسپنڈ بچر کنڈیشنل انکم وایکسپینڈ پچر 45 46 47 48 ڈیویلپمنٹ انکم وایکسپنڈ پچر متفرق امور بابت مالی گوشواره 49 تفصیل چندہ جات 50 51 52 53 54 55 56 لازمی چندہ جات طوعی چندہ جات وامانات وہ اموال جن کا ذاتی خرچ جائز نہیں مرکزی تحریکات مرکزی امانات لوکل امانات لوکل فنڈ 57 سنٹرل ریزرو سنٹرل ریزرو کے بارے میں ہدایات زکوۃ کی ادائیگی سے متعلق بعض بنیادی معلومات ہدایات برائے تقسیم زکوة 58 59 زكوة 60 61 62 فطرانہ 63 فدیه 64 عید فنڈ

Page 6

vi عنوان صفحہ نمبر 88 88 89 90 91 97 97 98 99 100 101 103 106 108 108 108 111 112 114 115 116 116 118 65 وصیت 66 67 68 شرائط وصیت یہ انتظام حسب وحی الہی ہے دنیا کا نیا نظام الوصیت میں موجود ہے 69 چنده شرط اول 70 چنده اعلان وصیت 71 چنده حصه آمد 72 چندہ حصہ جائیداد 73 چندہ عام 74 چندہ جلسہ سالانہ 75 تحریک جدید تحریک جدید کے ادوار ثمرات تحریک جدید مطالبات تحریک جدید ارشادات 76 77 78 79 80 ہدایات بابت چندہ تحریک جدید 81 نصرت جہاں سکیم 82 وقف جدید 83 ہدایات بابت چنده وقف جدید 84 امانت تربیت 85 بيوت الحمد منصوبه 86 کفالت یکصد یتامی ( یتامی فنڈ)

Page 7

87 | تعمیر بيوت الذكر 88 صدقات 89 مریم شادی فنڈ 90 سیدنا بلال فنڈ 91 طاہر فاؤنڈیشن 92 مد اشاعت اسلام 93 مقامی چندہ جات 94 وصولی و ترسیل چندہ جات : vii عنوان 95 96 97 98 99 نیشنل سطح پر رسید بکس سے متعلقہ امور مقامی سطح پر رسید بکس سے متعلقہ امور مقامی سطح پر وصول شدہ چندہ کا حساب رکھنے کا طریق کار مقامی جماعت کی جانب سے نیشنل جماعت کو چندہ جات کی ترسیل تمام وصول شدہ چندہ جات بنک میں جمع کروائے جائیں 100 حسابات و معائنہ 101 فرائض عہد یداران 102 103 104 105 106 107 108 فرائض سیکرٹری مال ایڈیشنل سیکرٹری مال سیکرٹری وصایا سیکرٹری تحریک جدید سیکرٹری وقف جدید ایڈیشنل سیکر ٹری وقف جدید ( برائے نو مبائعین ) سیکرٹری جائیداد صفحہ نمبر 119 120 120 121 122 123 131 133 133 134 135 135 137 138 141 142 143 144 144 146 147 147

Page 8

viii نمبر شمار عنوان 109 محاسب (اکاؤنٹینٹ) 110 امین: (خزانچی) 111 112 آڈیٹر فنانس کمیٹی 113 متعلقہ قواعد 114 | قواعد وصیت 115 انشورنس Annexure I 116 · Annexure II 117 Annexure III 118 Annexure IV 119 Annexure V 120 Annexure VI 121 -Annexure VII 122 وصیت سے متعلق مختلف امور کی وضاحت تفصیل مدات بابت بجٹ و مالی گوشواره چیک لسٹ بابت بجٹ چیک لسٹ بابت مالی گوشواره فارم وصیت - چیک لسٹ بابت فارم وصیت فارم جدول ج صفحہ نمبر 148 148 149 150 152 158 160 163 177 182 184 186 190 192

Page 9

مالی قربانی 1 بسم اللہ الرحمن الرحیم ابتدائیہ ایک تعارف اللہ تعالیٰ جب کسی الہی جماعت کی بنیاد رکھتا ہے تو اس جماعت کے ماننے والوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کیلئے ان سے کچھ قربانیوں کا تقاضا فرماتا ہے، یا یوں سمجھ لیجیئے کہ خدا تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کو پانے کیلئے قربانی ایک لازمی شرط ہے، اور یہ قربانی کیا ہے؟ یہ اپنے اپنے وقت اور زمانے کے حالات پر منحصر ہوا کرتی ہے مثلاً آنحضرت ﷺ کے زمانے میں مال کی قربانی بھی تھی ، لیکن جان کی قربانی زیادہ اہمیت رکھتی تھی کیونکہ کفار کی طرف سے مسلمانوں پر مظالم کا ایک سلسلہ جاری تھا اور انہی مظالم کے تحت مسلمانوں کو جنگ کے میدان میں بھی کھینچا گیا تھا.لیکن اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں مسیح محمدی کے دور کیلئے آنحضرت ﷺ نے " يَضَعُ الْحَرْب " کی نوید سنا کر قرون اولیٰ کی مانند جنگوں اور تلوار کے جہاد کو موقوف فرما دیا اور مسیح محمدی کے فرائض میں قلمی جہاد کو شامل فرما کر مال کی قربانی کو جاری رکھا کیونکہ قلمی جہاد کیلئے مال کا ہونا لازم وملزوم کی حیثیت رکھتا ہے.سید حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:- " کیسا یہ زمانہ برکت کا ہے.کہ کسی سے جانیں مانگی نہیں جاتیں.اور یہ زمانہ جانوں کے دینے کا نہیں بلکہ مالوں کے بشرط استطاعت خرچ کرنے کا ہے." (احکم قادیان ،۱۰ جولائی ۱۹۰۳ء) ۱۸۷۹ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب اپنی معرکۃ الآراء تصنیف براہین احمدیہ شائع کرنا چاہی تو اس وقت آپ کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ ساری کتاب کو بیک وقت شائع فرما سکتے اس مالی پریشانی کی بابت حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:." جب میں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ تصنیف کی جو میری پہلی تصنیف ہے تو مجھے یہ مشکل پیش آئی کہ اس کی چھپوائی کیلئے کچھ روپیہ نہ تھا اور میں ایک گمنام آدمی تھا.مجھے کسی سے تعارف نہ تھا تب میں نے خدا تعالیٰ کی جناب میں دعا کی تو الہام ہوا هُرّ إِلَيْكَ بِجذع النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكَ رُطَبَاً جَنِيًّا

Page 10

مالی قربانی 2 ایک تعارف ( ترجمہ ) کھجور کے تنہ کو ہلا تیرے پر تازہ بتازہ کھجور میں گریں گی.." (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۵۰) چنانچہ اس الہام کے بعد حضور علیہ السلام نے مالی معاونت کی تحریک کی تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان فرمائے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ کتاب شائع ہوئی جس کی اشاعت سے اسلام کی فتح کی بنیاد رکھی گئی اور وہ خوش نصیب لوگ جنہوں نے اس وقت مالی قربانی کی خدا تعالیٰ نے ان کی قربانی کو اس طرح قبول فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان احباب کے نام اپنی کتاب میں درج فرماتے ہوئے ان کا درج ذیل الفاظ میں شکریہ ادا فر مایا : - " میں ان صاحبوں کی اعانتوں سے ایسا ممنون ہوں کہ میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ جن سے میں ان کا شکر ادا کرسکوں." براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۵) حضور علیہ السلام نے ان احباب کے نام لکھنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا: - " تا جب تک صفحہ روزگار میں نقش افادہ اور افاضہ اس کتاب کا باقی رہے ہرایک مستفیض کہ جس کا اس کتاب سے وقت خوش ہو مجھ کو اور میرے معاونین کو دعائے خیر سے یادکرے." (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۵ ) حضور علیہ السلام نے اپنی تصنیف فتح اسلام میں اس الہی کا رخا نہ کو، جس کی آپ کے ذریعہ بنیاد رکھی گئی پانچ شاخوں میں تقسیم فرمایا ہے، ان میں سے ایک تالیف و تصنیف کا سلسلہ ہے جس کیلئے حضور علیہ السلام چندوں کی اہمیت اور اسکی ادائیگی کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.اے ملک ہند کیا تجھ میں کوئی ایسا باہمت امیر نہیں کہ اگر اور نہیں تو فقط اسی شاخ ( تالیف و تصنیف.ناقل ) کے اخراجات کا متحمل ہو سکے.اگر پانچ مومن ذی مقدرت اس وقت کو پہچان لیں تو ان پانچ شاخوں کا اہتمام اپنے اپنے ذمہ لے سکتے ہیں.اے خداوند خدا.تو آپ ان دلوں کو جگا.اسلام پر ابھی ایسی مفلسی طاری نہیں ہوئی تنگدلی ہے.ایسی تنگدستی نہیں.اور وہ لوگ جو کامل استطاعت نہیں رکھتے وہ بھی

Page 11

مالی قربانی 3 ایک تعارف اس طور پر اس کارخانہ کی مدد کر سکتے ہیں جو اپنی اپنی طاقت مالی کے موافق ماہواری امداد کے طور پر عہد پختہ کے ساتھ کچھ کچھ رقوم نذر اس کارخانہ کی کیا کریں.کسل اور سردمہری اور بدظنی سے کبھی دین کو فائدہ نہیں پہنچتا.بدظنی ویران کرنے والی گھروں کی اور تفرقہ میں ڈالنے والی دلوں کی ہے.دیکھو جنہوں نے انبیاء کا وقت پایا انہوں نے دین کی اشاعت کیلئے کیسی کیسی جانفشانیاں کیں.مسلمان بننا آسان نہیں.مومن کا لقب پاناسہل نہیں.سواے لوگو اگر تم میں وہ راستی کی روح ہے جو مومنوں کو دی جاتی ہے تو اس میری دعوت کو سرسری نگاہ سے مت دیکھو نیکی حاصل کرنے کی فکر کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں آسمان پر دیکھ رہا ہے کہ تم اس پیغام کو سن کر کیا جواب دیتے ہو." حضور علیہ السلام مزید فرماتے ہیں :- (فتح اسلام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۰) " میں یقیناً جانتا ہوں کہ خسارہ کی حالت میں وہ لوگ ہیں جو ریا کاری کے موقعوں میں تو صدہا روپیہ خرچ کریں اور خدا کی راہ میں پیش و پس سوچیں.شرم کی بات ہے کہ کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر پھر اپنی خست اور بخل کو نہ چھوڑے.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر ایک اہل اللہ کے گروہ کو اپنی ابتدائی حالت میں چندوں کی ضرورت پڑتی ہے.ہمارے نبی ﷺ نے بھی کئی مرتبہ صحابہ پر چندے لگائے.جن میں حضرت ابوبکر سب سے بڑھ کر رہے.سومردانہ ہمت سے امداد کیلئے بلا توقف قدم اٹھانا چاہیئے.جو ہمیں مدد دیتے ہیں آخر وہ خدا کی مدد دیکھیں گے." ( مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحه ۱۵۶) خدا کے نبی کے ہاتھ سے لکھے ہوئے یہ نام آج بھی زندہ ہیں اور اسکی دی ہوئی دعا قیامت تک کیلئے ان لوگوں کی نسلوں کو بھی فیضیاب کرتی رہے گی.کیونکہ خدا کی راہ میں نیک نیتی سے کی جانے والی قربانی رائیگاں نہیں جاتی.الہی سلسلے اپنے نبی کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہو جایا کرتے بلکہ بی تو تخم ریزی کرتے ہیں اور یہ تم ان کے جانشینوں کے عہدوں میں پھلتا پھولتا اور ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرتا ہے.

Page 12

مالی قربانی 4 ایک تعارف پس خدا کے نبی کی یہ آواز اب بھی اس کے جانشین ،خلیفہ امسیح کی طرف سے دہرائی جارہی ہے کہ آؤ خدا کی راہ میں اپنے اموال پیش کروز کوۃ کی شکل میں، حصہ آمد کی صورت میں ، چندہ عام کی صورت میں، تحریک جدید و وقف جدید کی صورت میں اور صدقات کی صورت میں.پس کیا ہی خوش نصیب ہے وہ شخص جو اپنے مال میں سے ایک حصہ تھوڑا سا حصہ اسکی راہ میں دے اور حیاتِ جاودانی حاصل کرلے.سلسلہ عالیہ احمدیہ اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت کے تحت اشاعت اسلام اور اصلاح خلق اللہ کی خاطر قائم ہوا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے.اس ترقی کے ساتھ ساتھ سلسلہ کے تمام کاموں کیلئے قدم قدم پر اموال کی ضرورت پیش آرہی ہے.ان ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے احباب جماعت کو بڑھ چڑھ کر مالی قربانی کرنے کی ضرورت ہے.ایسے احباب کرام جو خدا تعالیٰ کے فضل سے مسیح زمان علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے اموال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں اور وہ عہد یدار جو مرکز سلسلہ کی طرف سے چندہ جات کے وصول کرنے کیلئے مقرر ہیں یا جو اس اہم کام کی نگرانی کے ذمہ دار ہیں اس رسالہ کی غرض ان کو جماعت احمدیہ کے مالی نظام، اس کی اہمیت ، ضرورت اور طریق کار سے واقفیت دلانا ہے.پس عہدیداران سے درخواست ہے کہ اس رسالہ کا مطالعہ کریں اور اس میں دی گئی ہدایات پر خود بھی عمل کریں اور احباب جماعت کو بھی اس سے مستفید ہونے اور اس سے راہنمائی حاصل کرنے کی تاکید فرمائیں.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب چندہ دہندگان کی مالی قربانی کو قبول فرمائے اور آنحضرت م ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء نے جو دعائیں ایسے احباب کرام کیلئے کی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ان کا وارث بنائے اور تمام کارکنان جو اس خدمت پر مامور ہیں انہیں اجر عظیم عطا فرمائے.آمین !

Page 13

مالی قربانی 5 ایک تعارف مالی قربانی کی اہمیت از روئے قرآن حکیم وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التّهْلُكَةِ وَاَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (البقره.١٩٦ ) ترجمہ: اور اللہ کے راستے میں ( مال و جان ) خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں (اپنے آپ کو ) ہلاکت میں مت ڈالو اور احسان سے کام لو.اللہ احسان کرنے والوں سے یقیناً محبت کرتا ہے.---- مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللَّهُ يَقْبضُ وَيَبْصُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ( البقرة.۲۴۶) ترجمہ:.کیا کوئی ہے جو اللہ کو (اپنے مال کا) ایک اچھا ٹکڑا کاٹ کر دیتا کہ وہ اسے اس کے لئے بہت بہت بڑھائے اور اللہ کی یہ بھی سنت ہے کہ وہ بندہ کا مال لیتا ہے اور بڑھاتا ہے اور ( آخر ) تمہیں اسی کی طرف لوٹا یا جائے گا.--- يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنكُمْ مِّنْ قَبْلِ أَنْ يَّاتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ وَالْكَفِرُونَ هُمُ الظَّلِمُونَ (البقره (۲۵۵) ترجمہ: اے ایمان دارو! جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے اس دن کے آنے سے پہلے کہ جس میں نہ کسی قسم کی (خرید و فروخت نہ دوستی اور نہ شفاعت (کارگر) ہوگی ( خدا کی راہ میں جو کچھ ہو سکے) خرچ

Page 14

مالی قربانی 6 ایک تعارف کرلو.اور (اس حکم کا ) انکار کرنے والے (اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں.مَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِى كُلَّ سُنْبُلَةٍ مَا ئَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (البقره.۲۶۲) ترجمہ :.جولوگ اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے اس فعل ) کی حالت اس دانہ کی حالت کے مشابہ ہے جو سات بالیں اگائے ( اور ) ہر بالی میں سو دانہ ہو.اور اللہ جس کیلئے چاہتا ہے (اس سے بھی) بڑھا ( بڑھا کر دیتا ہے اور اللہ وسعت دینے والا (اور ) بہت جاننے والا ہے.--6☆6-- اَلَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتَّبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنَّا وَّلَا أَذًى لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَرَتِهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ (البقره.۲۶۳) ترجمہ:.جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر خرچ کرنے کے بعد نہ کسی رنگ میں احسان جتاتے ہیں اور نہ کسی قسم کی تکلیف دیتے ہیں ان کے رب کے پاس ان کے اعمال) کا بدلہ ( محفوظ ) ہے.اور نہ تو انہیں کسی قسم کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے.---- وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبُوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَاتَتْ أُكُلَهَا

Page 15

مالی قربانی 7 ایک تعارف ضِعُفَيْنِ فَإِنْ لَّمْ يُصِبُهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ 28 بَصِيرٌ - (البقره.۲۶۶ ) ترجمہ:.اور جو لوگ اپنے مال اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اور اپنے آپ کو مضبوط کرنے کیلئے خرچ کرتے ہیں ان (کے خرچ) کی حالت اس باغ کی حالت کے مشابہ ہے جو اونچی جگہ پر ہو ( اور ) اس پر تیز بارش ہوئی ہو جس کی وجہ ) سے وہ اپنا پھل دو چند لایا ہو.اور (اس کی کیفیت ہو کہ اگر اس پر زور کی بارش نہ پڑے تو تھوڑی سی بارش ہی ( اس کیلئے کافی ہو جائے ) اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے.--6-- الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِالَّيْلِ وَ النَّهَارِسِرًّا وَّ عَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَرَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقره.۲۷۵ ) ترجمہ :.جو لوگ اپنے مال رات اور دن پوشیدہ ( بھی ) اور ظاہر ( بھی ) ( اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے رہتے ہیں ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ( محفوظ) ہے اور نہ ( تو ) انہیں کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ ہم ہوں گے.--6☆-- لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ غمگین فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ (ال عمران۹۳) ترجمہ: تم کامل نیکی کو ہر گز نہیں پاسکتے جب تک کے اپنی پسندیدہ اشیاء میں سے ( خدا کیلئے ) خرچ نہ کرو.اور جو کوئی چیز بھی تم خرچ کرو اللہ اسے یقیناً خوب جانتا ہے.--6☆6--

Page 16

مالی قربانی 8 ایک تعارف وَمَالَكُمْ أَلَّا تُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيَرَاتُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا يَسْتَوِى مِنْكُمْ مَّنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَتَلَ أُولئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللهُ الْحُسْنَىٰ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (الحديد.١١ ) ترجمہ:.اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے راستہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمان اور زمین کی میراث اللہ ہی کی ہے.اے مومنو! فتح سے پہلے جس نے خدا کی راہ میں خرچ کیا اور اس کی راہ میں جنگ کی وہ اس کے برابر نہیں ہوسکتا جس نے فتح کے بعد خرچ کیا اور فتح کے بعد جنگ کی.فتح سے پہلے خرچ کرنے والے اور جنگ کرنے والے درجہ میں بہت زیادہ ہیں اور اللہ نے دونوں قسم کے لوگوں سے نیکی کا وعدہ کیا ہے.اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب اچھی طرح واقف ہے.--6☆6-- مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيمٌ (الحديد.١٢) ترجمہ:.کیا کوئی ہے جو اللہ کو اپنے مال کا ) اچھا ٹکڑا کاٹ کر دے تا کہ وہ اُسے اس کیلئے بڑھائے.اور اس کیلئے ایک معزز بدلہ مقرر ہے.☆

Page 17

مالی قربانی 9 صلى الله منتخب احادیث نبوی منی بابت مالی قربانی عن أبي هُرَيْرَةَ يَبْلُعُ بِهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ اللهُ يَابنَ ادَمَ اَنْفِقُ انْفِقُ عَلَيْكَ.(صحیح مسلم کتاب الزكواة) ایک تعارف ترجمہ :.حضرت ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابن آدم ! تو دل کھول کر خرچ کر اللہ تعالیٰ بھی تجھ پر خرچ کرے گا..--☆-- مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ إِلَّا مَلَكَان يَنْزِلَان فَيَقُولُ اَحَدُهُمَا اللَّهُمَّ اَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَيَقُولُ الْآخَرُ اللَّهُمَّ اَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا.(صحیح بخارى كتاب الزكواة) ترجمہ :.ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں.ان میں سے ایک کہتا ہے.اے اللہ ! خرچ کرنے والے سخی کو اور دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اور پیدا کر.دوسرا کہتا ہے اے اللہ ! روک رکھنے والے کنجوس کو ہلا کت دے اور اس کا مال و متاع بر باد کر.--☆-- مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ كُتِبَ لَهُ سَبْعُما ئَةِ ضِعْفٍ.(ترمذی باب فضل النفقة في سبيل الله) ترجمہ :.جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں کچھ خرچ کرتا ہے.اسے اس کے بدلہ میں سات سو گنا زیادہ ثواب ملتا ہے.----

Page 18

مالی قربانی 10 ایک تعارف السجى قَريبٌ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى قَرِيْبٌ مِنَ النَّاسِ قَرِيبٌ مِنَ الْجَنَّةِ بَعِيدٌ مِنَ النَّارِ وَالْبَخِيلُ بَعِيدٌ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى بَعِيدٌ مِنَ النَّاسِ بَعِيدٌ مِنَ الْجَنَّةِ قَرِيبٌ مِنَ النَّارِ وَالْجَاهِلُ السَّخِيُّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنَ الْعَابِدِ الْبَخِيْلِ.قشيريه.الجود و السخاء ) ترجمہ: یخی اللہ کے قریب ہوتا ہے.لوگوں سے قریب ہوتا ہے اور جنت کے قریب ہوتا ہے اور دوزخ سے دور ہوتا ہے.اس کے برعکس بخیل اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا ہے، لوگوں سے دور ہوتا ہے، جنت سے دور ہوتا ہے لیکن دوزخ کے قریب ہوتا ہے.ان پڑھ بھی بخیل عابد سے اللہ تعالیٰ کوزیادہ محبوب ہے.---- لَا حَسَدَ إِلَّا فِي ثُنَتَيْنِ : رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً فَهُوَ يَقْضِى بِهَا وَيُعَلِّمُهَا." (صحیح بخارى كتاب الزكوة ) ترجمہ:.دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہیئے.ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اسے راہ حق میں خرچ کر دیا.دوسرے وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ، دانائی اور علم و حکمت دی جس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا بھی ہے.--☆-- رض عَنْ رَافِعِ بْنِ حُدَيجُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَامِلُ عَلَى الصَّدَقَةِ بِالْحَقِّ كَا لُغَازِئُ فِي سَبِيلِ اللهِ حَتَّى يَرْجِعَ إِلى بيته.(مشكوة.كتاب الزكوة) بَيْتِ

Page 19

مالی قربانی 11 ایک تعارف ترجمہ: حضرت رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا صدقہ وصول کرنے والا ( محصل ) گھر واپس آنے تک اللہ کی راہ میں غازی کی مثل ہے.--646-- عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا آتَاكُمُ الْمُصَدِّقُ فَلْيَصْدُدُ عَنْكُمْ وَ هُوَ عَنْكُمْ رَاضٍ.( صحیح مسلم كتاب الزكوة) ترجمہ:.حضرت جریر بن عبداللہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تمہارے پاس زکوۃ وصول کرنے والا ( محصل ) آئے تو اسے تمہارے ہاں سے راضی ہو کر لوٹنا چاہئیے.---- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ قَالَ بَيْنَا رَجُلٌ يَمْشِي بِفَلَاةٍ مِّنَ الْأَرْضِ فَسَمِعَ صَوْتًا فِي سَحَابَةٍ اسْقِ حَدِيقَةً فُلَانٍ فَتَنَحَى ذَلِكَ السَّحَابُ فَأَفْرَغَ مَآءَهُ فِي حَرَّةٍ فَإِذَا شَرُجَةٌ مِّنْ تِلْكَ الشَّرَاجِ قَدِ اسْتَوُ عَبَتْ ذَلِكَ الْمَاءَ كُلَّهُ فَتَتْبَعَ الْمَاءَ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي حَدِيقَتِهِ يُحَوِّلُ الْمَاءَ بِمِسْـحَاتِهِ فَقَالَ لَهُ يَا عَبُدَ اللَّهِ مَا اسْمُكَ؟ قَالَ فُلانٌ لِلِاسْمِ الَّذِى سَمِعَ فِي السَّحَابَةِ فَقَالَ لَهُ يَا عَبُدَ اللَّهِ لِمَ تَسْاَ لُنِي عَنِ اسْمِيُّ؟ فَقَالَ إِنِّي سَمِعْتُ صَوْتًا فِي السَّحَابِ الَّذِي هَذَا مَاؤُهُ ، يَقُولُ اسْقِ حَدِيقَةً فُلان لِاسْمِكَ فَمَا تَصْنَعُ فِيهَا ؟ فَقَالَ أَمَّا إِذْ قُلْتَ هَذَا فَإِنِّي

Page 20

مالی قربانی 12 ایک تعارف اَنْظُرُ إِلى مَا يَخْرُجُ مِنْهَا فَاتَصَدَّقُ بِثُلُثِهِ وَاكُلُ اَنَا وَعِيَالِي ثُلُنَّاوَاَرُدُّ فِيهَا ثُلُثَهُ.(صحیح مسلم.كتاب الزهد) ترجمہ:.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے یہ قصہ بیان کیا کہ ایک آدمی بے آب و گیاہ جنگل میں جارہا تھا، بادل گھرے ہوئے تھے.اس نے بادل میں سے آواز سنی کہ اے بادل فلاں انسان کے باغ کو سیراب کر.وہ بادل اس طرف کو ہٹ گیا، پتھریلی سطح مرتفع پر بارش برسی.پانی ایک چھوٹے سے نالے میں بہنے لگا.وہ شخص بھی اس نالے کے کنارے کنارے چل پڑا.کیا دیکھتا ہے کہ یہ نالہ ایک باغ میں جاداخل ہوا ہے اور باغ کا مالک کدال سے پانی ادھر ادھر مختلف کیاریوں میں لگا رہا ہے.اس آدمی نے باغ کے مالک سے پوچھا.اے اللہ کے بندے! تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے وہی نام بتایا جو اس مسافر نے اس بادل میں سے سنا تھا.پھر باغ کے مالک نے اس مسافر سے پوچھا.اے اللہ کے بندے ! تم مجھ سے میرا نام کیوں پوچھتے ہو ؟ اس نے کہا میں نے اس بادل میں سے جس کی بارش کا تم پانی لگا رہے ہو یہ آواز سنی تھی کہ اے بادل فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کر تم نے کون سا ایسا نیک عمل کیا ہے جس کا یہ بدلہ تجھ کو ملا ہے؟ باغ کے مالک نے کہا.اگر آپ پوچھتے ہیں تو سنیں.میرا طریق کار یہ ہے کہ اس باغ سے جو پیداوار ہوتی ہے اس کا ایک تہائی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہوں، ایک تہائی اپنے اور اپنے اہل وعیال کے گزارہ کیلئے رکھتا ہوں اور باقی ایک تہائی دوبارہ ان کھیتوں میں بیج کے طور پر استعمال کرتا ہوں.---- عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهَا جَاءَتْ إِلَى النَّبِيَّ صَلَّ الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللهُ عَلَيْهِ ارْضَحَى مَا اسْتَطَعْتِ.(صحیح بخارى كتاب الزكواة) ترجمہ:.حضرت رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابی بکر کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو.ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دیا کرے گا.اپنے روپیوں کی تھیلی کا

Page 21

مالی قربانی 13 ایک تعارف منہ ( بخل کی راہ سے ) بند کر کے نہ بیٹھ جانا ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا.جتنی طاقت ہے دل کھول کر خرچ کیا کرو.---- أَيُّكُمْ مَالُ وَارِثِهِ اَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ مَّالِهِ؟ قَالُوا يَا رَسُول اللَّهِ، مَامِنَّا اَحَدٌ إِلَّا مَالُهُ اَحَبُّ إِلَيْهِ، قَالَ : فَإِنَّ مَالَهُ مَا قَدَّمَ، وَمَالَ وَارِثِهِ مَا أَخَّرَ.(صحیح بخاری کتاب الرقاق ترجمہ:.ایک دفعہ حضور ﷺ نے صحابہ کی مجلس میں ان سے مخاطب ہو کر فرمایا تم میں کوئی ایسا بھی ہے جسے (اپنے بعد میں ہونے والے ) وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ عزیز اور پیارا ہو.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے اپنا مال زیادہ پیارا نہ ہو.آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر یاد رکھو تمہار اصل مال وہی ہے جو خدا کی راہ میں خرچ کر کے آگے بھیجوا چکے ہو، جو پیچھے باقی رہ گیا وہ وارثوں کا مال ہے.---- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ عالم: لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا يَسُرُّنِي أَنْ لَّا تَمُرَّ عَلَيَّ قُلْتُ لَيَالِ وعِندَى مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا شَيْئاً أَرْصِدُهُ لِدَيْنِ.(صحیح بخاری کتاب الرقاق ترجمہ:.حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر میرے پاس اُحد جتنا سونا ہو میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ مجھ پر تین راتیں نہ گزریں اور میرے پاس اس میں سے کچھ موجود نہ ہومگر وہ تھوڑا بہت جس کو قرض کی ادائیگی کیلئے میں رکھ لوں.

Page 22

مالی قربانی 14 مالی قربانی کے متعلق سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات انفاق سبیل اللہ کی ضرورت اور اہمیت اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تحجبتی موقوف ہے، اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے.اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے.اور ضرور تھا کہ وہ اس مہم عظیم کے روبراہ کرنے کیلئے ایک عظیم الشان کارخانہ جو ہر ایک پہلو سے مئوثر ہو ، اپنی طرف سے قائم کرتا.سواس حکیم وقدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کیلئے بھیج کر ایسا ہی کیا.اور دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کیلئے کئی شاخوں پر امر تائید حق اور اشاعت اسلام کو منقسم کر دیا." چندہ کی تحریک فتح اسلام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۰-۱۲) " سواے اسلام کے ذی مقدرت لوگو ! دیکھو میں یہ پیغام آپ لوگوں تک پہنچادیتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اس اصلاحی کارخانہ کی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نکلا ہے اپنے سارے دل اور ساری توجہ اور سارے اخلاص سے مدد کرنی چاہیے.اور اس کے سارے پہلوؤں کو بہ نظر عزت دیکھ کر بہت جلد حق خدمت ادا کرنا چاہیئے جو شخص اپنی حیثیت کے موافق کچھ ماہواری دینا چاہتا ہے وہ اس کو حق واجب اور دین لازم کی طرح سمجھ کر خود بخود ماہوار اپنی فکر سے ادا کرے اور اس فریضہ کو خالصہ اللہ نذر مقرر کر کے اُس کے ادا میں تخلف یا سہل انگاری کو روا نہ رکھے اور جو شخص یکمشت امداد کے طور پر دینا چاہتا ہے وہ اسی طرح ادا کرے لیکن یادر ہے کہ اصل مدعا جس پر اس سلسلہ کے بلا انقطاع چلنے کی امید ہے وہ یہی انتظام ہے کہ بچے خیر خواہ دین کے اپنی ایک تعارف

Page 23

مالی قربانی 15 بضاعت اور اپنی بساط کے لحاظ سے ایسی سہل رقمیں ماہواری کے طور پر ادا کرنا اپنے نفس پر ایک حتمی وعدہ ٹھہرا لیں جن کو بشرط نہ پیش آنے کسی اتفاقی مانع کے بآسانی ادا کرسکیں.ہاں جس کو اللہ جلشانہ تو فیق اور انشراح صدر بخشے وہ علاوہ اس ماہواری چندہ کے اپنی وسعت ہمت اور اندازہ مقدرت کے موافق یکمشت کے طور پر بھی مدد کر سکتا ہے.اور تم اے میرے عزیز و! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے، میرےسلسلہ بیعت میں داخل ہو.اور اپنی زندگی اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں.تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے.لیکن میں اس خدمت کیلئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا.تا کہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے فتح اسلام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۳-۳۴) ہوں..یہ وقت پھر ہاتھ نہیں آئے گا " ہر ایک شخص جو اپنے تئیں بیعت شدوں میں داخل سمجھتا ہے اس کیلئے اب وقت ہے کہ اپنے مال سے بھی اس سلسلہ کی خدمت کرے.جو شخص ایک پیسہ کی حیثیت رکھتا ہے ، وہ سلسلہ کے مصارف کیلئے ماہ بہ ماہ ایک پیسہ دیوے.اور جو شخص ایک روپیہ ماہوار دے سکتا ہے وہ ایک روپیہ ماہوارا دا کرے ہر ایک بیعت کنندہ کو بقدر وسعت مدددینی چاہیئے.تا خدا تعالیٰ بھی انہیں مدد دے.اگر بے ناغہ ماہ یہ ماہ ان کی مدد پہنچتی رہے گو تھوڑی مدد ہو.تو وہ اس مدد سے بہتر ہے جو مدت تک فراموشی اختیار کر کے پھر کسی وقت اپنے ہی خیال سے کی جاتی ہے.ہر ایک شخص کا صدق اس کی خدمت سے پہچانا جاتا ہے.عزیز و! یہ دین کیلئے اور دین کی اغراض کیلئے خدمت کا وقت ہے اس وقت کو غنیمت سمجھو کہ پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا." کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۸۳) ایک تعارف

Page 24

مالی قربانی 16 مال خود بخود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے ملتا ہے " یہ ظاہر ہے، کہ تم دو چیز سے محبت نہیں کر سکتے اور تمھارے لئے ممکن نہیں.کہ مال سے بھی محبت کرو، اور خدا سے بھی.صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو.پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے.اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا.تو میں یقین رکھتا ہوں، کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی.کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا.بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے.پس جو شخص خدا کیلئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے.وہ ضرور اسے پائے گا.لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجالانی چاہیئے.تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا.یہ مت خیال کرو کہ مال تمھاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجالا کر خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو، بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کیلئے بلاتا ہے." ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه ۴۹۷-۴۹۸) نو مبائعین سے چندہ وصول کرنے کے متعلق تاکیدی ارشاد " آئے دن صد ہا آدمی بیعت کر کے چلے جاتے ہیں.لیکن دریافت کرنے پر بہت ہی کم تعداد ایسے اشخاص کی ہے جو متواتر ماہ بہ ماہ چندہ دیتے ہیں.جو شخص اپنی حیثیت و توفیق کے مطابق اس سلسلہ کی چند پیسوں سے امداد نہیں کرتا اس سے اور کیا توقع ہو سکتی ہے.اور اس سلسلہ کو اس کے وجود سے کیا فائدہ؟ ایک معمولی انسان بھی خواہ کتنی شکستہ حالت کا کیوں نہ ہو.جب بازار جاتا ہے تو اپنی قدر کے موافق اپنے لئے اور اپنے بچوں کیلئے کچھ نہ کچھ لاتا ہے تو پھر کیا یہ سلسلہ جو اتنی عظیم الشان اغراض کیلئے اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے اس لائق بھی نہیں کہ وہ اس کیلئے چند پیسے بھی قربان کر سکے.دنیا میں آج تک کون سا سلسلہ ہوا ہے یا ہے جو خواہ دنیوی حیثیت سے ایک تعارف

Page 25

مالی قربانی 17 ہے یا دینی.بغیر مال چل سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر ایک کام اس لئے کہ عالم اسباب ہے اسباب سے ہی چلایا ہے پھر کس قدر بخیل و ممسک وہ شخص ہے جو ایسے عالی مقصد کی کامیابی کیلئے ادنی چیز مثل چند پیسے خرچ نہیں کر سکتا.ایک وہ زمانہ تھا کہ الہی دین پر لوگ اپنی جانوں کو بھیڑ بکری کی طرح نثار کرتے تھے مالوں کا تو کیا ذکر ؟ حضرت ابوبکر صدیق نے ایک سے زیادہ دفعہ اپنا کل گھر بار نثار کیا.حتی کہ سوئی تک کو بھی گھر میں نہ رکھا اور ایسا ہی حضرت عمرؓ نے اپنی بساط اور شرح کے مطابق اور حضرت عثمان نے اپنی طاقت و حیثیت کے مطابق علی ہذا القیاس علی قدر مراتب تمام صحابہ اپنی جانوں اور مالوں سمیت اس دین الہی پر قربان ہونے کیلئے تیار ہو گئے.ایک وہ ہیں کہ بیعت تو کر جاتے ہیں اور اقرار بھی کر جاتے ہیں کہ ہم دنیا پر دین کو مقدم کریں گے.مگر مرد دوامداد کے موقعہ پر اپنی جیبوں کو دبا کر پکڑ رکھتے ہیں.بھلا ایسی محبت دنیا سے کوئی دینی مقصد پاسکتا ہے؟ اور کیا ایسے لوگوں کا وجود کچھ بھی نفع رساں ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں.ہرگز نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ جب تک تم اپنی عزیز ترین اشیاء اللہ جل شانہ کی راہ میں خرچ نہ کرو.تب تک تم نیکی کو نہیں پا سکتے.پس تم میں سے ہر ایک کو جو حاضر یا غائب ہے تاکید کرتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کو چندہ سے باخبر کرو اور ہر ایک کمزور بھائی کو بھی چندہ میں شامل کرو.یہ موقعہ ہاتھ آنے کا نہیں." مال خرچ کرنے سے عمریں زیادہ ہوں گی " ( ملفوظات جلد سوم صفحه ۳۵۹-۳۶۰.حاشیہ) اگر تم کوئی نیکی کا کام بجالاؤ گے اور اس وقت کوئی خدمت کرو گے.تو اپنی ایمانداری پر مہر لگا دو گے.اور تمہاری عمریں زیادہ ہوں گی.اور تمہارے مالوں میں برکت دی جائے گی." ( تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ ۵۶) ایک تعارف

Page 26

مالی قربانی 18 بخل اور ایمان جمع نہیں ہو سکتے " میں یقینا سمجھتا ہوں کہ بخل اور ایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے.جو شخص سچے دل سے خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے.وہ اپنا مال صرف اس مال کو نہیں سمجھتا کہ اس کے صندوق میں بند ہے.بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے تمام خزائن کو اپنے خزائن سمجھتا ہے اور امساک اس سے اس طرح دور ہو جاتا ہے.جیسا کہ روشنی سے تاریکی دور ہو جاتی ہے.اور یقیناً سمجھو کہ صرف یہی گناہ نہیں کہ میں ایک کام کیلئے کہوں اور کوئی شخص میری جماعت میں سے اس کی طرف کچھ التفات نہ کرے.بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ بھی گناہ ہے کہ کوئی کسی قسم کی خدمت کر کے یہ خیال کرے کہ میں نے کچھ کیا ہے.خدا تمہیں بلاتا ہے " ( تبلیغ رسالت جلد دهم ۵۶-۵۵) " ہم خدا کی حمد کرتے ہیں اور اس کے رسول پر درود بھیجتے ہیں جو کریم اور امین ہے اور اس کے آل پر درود بھیجتے ہیں جو طیب اور طاہر ہیں اور نیز اس کے اصحاب پر جو کامل مکمل ہیں.وہ اصحاب جو خدا تعالیٰ کی راہ میں دوڑے اور دنیا اور مافیہا سے کنارہ کیا اور خدا کی طرف دوسروں سے بکلی توڑ کر جھک گئے.بعد اس کے اے دوستو ! تمہیں معلوم ہو خدا تم پر رحم کرے کہ خدا کی طرف سے ایک بلانے والا تمہارے پاس اپنے وقت پر آیا ہے اور خدا کے رحم نے صدی کے سر پر تمہاری دستگیری کی اور تم پہلے اس بلانے والے کا انتظار پیاسوں کی طرح یا بھوکوں کی طرح کر رہے تھے سو وہ خدا کے فضل سے آ گیا تا ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے تھے اور تا کہ مجرموں کی راہ کھل جائے اور اس کو حکم ہے کہ تم کو صدق اور ایمان کی طرف بلاوے اور معرفت کی راہوں کی طرف تمہیں ہدایت کرے اور ہر ایک امر جو جزا کے دن تمہیں کام آوے سمجھا وے.پس اس نے تمہیں وہ حقائق اور معارف سکھلا دیئے ایک تعارف

Page 27

مالی قربانی 19 کہ تم خود بخود ان کو نہیں جان سکتے تھے اور خدا تعالیٰ کی حجت تم پر پوری کر دے اور تمہیں بینا بنایا اور تم نے وہ دیکھا جو تمہارے پہلے باپ دادوں نے نہیں دیکھا تھا اور وہ نور اور یقین تم کو ملا جو انہیں نہیں ملا تھا.پس خدا کی نعمتوں کو ر ڈ مت کرو اور غافل مت ہو.اور میں تم میں ایسے لوگ بھی دیکھتا ہوں جنہوں نے اپنے خدا کا ایسا قدر نہیں کیا جو کرنا چاہیئے تھا.اور کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ وہ ایمان نہیں لائے.کیا یہ لوگ خدا پر احسان کرتے ہیں اور سب احسان خدا کے ہی ہیں اگر یہ جانتے ہوں.اسی کیلئے عزت اور بزرگی ہے.اگر تم قبول نہیں کرو گے تو وہ تم سے اپنا منہ پھیر لے گا اور ایک اور قوم لائے گا اور تم اس کا کچھ بھی حرج نہیں کر سکو گے اور یہ خدا کے دن ہیں اور اس کی حجتوں کے دن.پس خدا سے اور اس کے دنوں سے ڈرو اگر متقی ہو.اور عنقریب تم خدا کی طرف واپس کئے جاؤ گے اور پوچھے جاؤ گے اور ہم نہیں دیکھتے کہ تمہارے ساتھ تمہارے مال اور املاک جائیں گے پس ہوش میں آجاؤ اور جاہل مت بنو.اور اپنے مالوں کے ساتھ اور جانوں کے ساتھ خدا کی راہ میں کوشش کرو اور اطاعت کرتے ہوئے کھڑے ہو.کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ خدا تم سے راضی ہو جائے گا حالانکہ ابھی تم نے وہ کام نہیں کئے جو صادقوں کے کام ہیں.تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچو گے جب تک کہ وہ چیزیں خرچ نہیں کرو گے جو تمہیں پیاری ہیں.کیا سبب جو تم نہیں سمجھتے.کیا تم ہمیشہ زندہ چھوڑے جاؤ گے اور نہیں مرو گے.مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہیں متنبہ کروں.پس جان لو کہ خدا تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے اور خدا تمہیں بلاتا ہے تا اپنے مالوں اور جانوں کی کوششوں کے ساتھ تم اس کی مددکرو.پس کیا تم فرمانبرداری اختیار کرو گے اور جو تم میں سے خدا کی مدد کرے گا خدا اس کی مدد کرے گا.اور جو کچھ اس نے خدا کو دیا خدا کچھ زیادہ کے ساتھ اس کو واپس دے دے گا اور وہ سب محسنوں سے بہتر محسن ہے.سو اٹھو لو گو اور چاہیئے کہ ایک ایک تعارف

Page 28

مالی قربانی 20 دوسرے پر سبقت لے جائے اور خدا جانتا ہے ان کو جو سبقت لے جائیں گے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور بیعت کے ہاتھ اور اپنے عہد کی رعایت رکھی اور اچھے کام کئے پھر ترقیات کرتے رہے پھر استقامت اختیار کی ان کے لئے مغفرت اور رزق بزرگ اور خدا کی رضا ہے اور وہی سچے مومن ہیں اور وہی ہیں جو خدا کے نیک بندوں میں سے ہیں." ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه ۱۵۱ تا ۱۵۳) اپنی عزیز اور پیاری چیزوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرو " بے کار اور نکھی چیزوں کے خرچ سے کوئی آدمی نیکی کرنے کا دعوی نہیں کرسکتا.نیکی کا دروازہ تنگ ہے.پس یہ امر ذہن نشین کرلو کہ لکھی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہو سکتا.کیونکہ نص صریح ہے.لَنْ تَنَالُو البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّاتُحِبُّونَ جب تک عزیز سے عزیز اور پیاری سے پیاری چیزوں کو خرچ نہ کرو گے اس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا.اگر تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے اور حقیقی نیکی کو اختیار کرنا نہیں چاہتے تو کیونکر کامیاب اور بامراد ہو سکتے ہو؟ کیا صحابہ کرام مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو ان کو حاصل ہوا.دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کیلئے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں تو پھر کہیں جا کر ایک معمولی خطاب جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہو سکتی ملتا ہے.پھر خیال کرو کہ رضی اللہ عنہم کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولا کریم کی رضامندی کا نشان ہے کیا یونہی آسانی سے مل گیا ؟ بات یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی رضامندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے.حاصل نہیں ہوسکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں.خدا ٹھگا نہیں جاتا.مبارک ہیں وہ لوگ ! جو رضائے الہی کے حصول کیلئے تکلیف کی پرواہ نہ کریں.کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کوملتی ہے." ( رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحه ۱۳۱) ایک تعارف

Page 29

مالی قربانی 21 من انصاری الی اللہ آخری فیصلہ ہماری جماعت کے اکثر افراد سقیم الحال اور نادار اور عیالدار ہیں گو خدا کی راہ میں صدق دل سے خدمت کیلئے حاضر ہو جانا ایک ایسا مبارک امر ہے جو در حقیقت اور تمام مشکلات اور آفات کا علاج ہے.پس جس کو یقین ہے کہ خدا برحق ہے اور دین و دنیا میں اس کی عنایات کی حاجت ہے اس کو چاہیئے کہ اس مبارک موقع کو ہاتھ سے نہ دے اور بخل کے دق میں مبتلا ہو کر اس ثواب سے محروم نہ رہے.اس عالی سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے وہی لائق ہے جو ہمت بھی عالی رکھتا ہو اور نیز آئندہ کیلئے ایک تازہ اور سچا عہد خدا تعالیٰ سے کرلے کہ وہ حتی الوسع بلا ناغہ ہر ایک مہینہ میں اپنی مالی امداد سے ان دینی مشکلات کے رفع کرنے کیلئے سعی کرتا رہے گا.یہ منافقانہ کام ہے کہ اگر کوئی مصیبت پیش آوے تب خدا اور اہل خدا یاد آجائیں اور جب آرام اور امن دیکھیں تو لا پرواہ ہو جائیں.خداغنی بے نیاز ہے اس سے ڈرو اور اس کا فضل پانے کیلئے اپنے صدق کو دکھلاؤ.خدا تمہارے ساتھ ہو." ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم ۱۶۵-۱۶۶) " یہ اشتہار کوئی معمولی تحریر نہیں بلکہ ان لوگوں کے ساتھ جو مرید کہلاتے ہیں، یہ آخری فیصلہ کرتا ہوں.مجھے خدا نے بتلایا ہے کہ میرا انہیں سے پیوند ہے یعنی وہی خدا کے دفتر میں مرید ہیں جو اعانت اور نصرت میں مشغول ہیں.مگر بہتیرے ایسے ہیں کہ گویا خدا تعالی کو دھوکا دینا چاہتے ہیں.سو ہر ایک شخص کو چاہیئے کہ اس نئے انتظام کے بعد نئے سرے عہد کر کے اپنی خاص تحریر سے اطلاع دے کہ وہ ایک فرض حتمی کے طور پر اس قدر چندہ ماہواری بھیج سکتا ہے مگر چاہیئے کہ اس میں لاف گزاف نہ ہو.جیسا کہ پہلے بعض سے ظہور میں آیا کہ اپنی زبان پر وہ قائم نہ رہ سکے.سوانہوں نے خدا کا گناہ کیا جو عہد کو توڑا.اب چاہیئے کہ ہر ایک شخص سوچ سمجھ کر اس قدر ماہواری چندہ کا ایک تعارف

Page 30

مالی قربانی 22 اقرار کرے جس کو وہ دے سکتا ہے.گو ایک پیسہ ماہواری ہو.مگر خدا کے ساتھ فضول گوئی اور دروغ گوئی کا برتاؤ نہ کرے.ہر ایک شخص جو مرید ہے اس کو چاہیئے جو اپنے نفس پر کچھ ماہواری مقرر کر دے.خواہ ایک پیسہ ہو اور خواہ ایک دھیلہ اور جو شخص کچھ بھی مقرر نہیں کرتا اور نہ جسمانی طور پر اس سلسلہ کے لئے کچھ بھی مدد دے سکتا ہے وہ منافق ہے اب اس کے بعد وہ سلسلہ میں رہ نہیں سکے گا.اس اشتہار کے شائع ہونے سے تین ماہ تک ہر ایک بیعت کرنے والے کے جواب کا انتظار کیا جائے گا کہ وہ کیا کچھ ماہواری چندہ اس سلسلہ کی مدد کیلئے قبول کرتا ہے.اور اگر تین ماہ تک کسی کا جواب نہ آیا تو سلسلہ بیعت سے اس کا نام کاٹ دیا جائے گا اور مشتہر کر دیا جائے گا.اگر کسی نے ماہواری چندہ کا عہد کر کے تین ماہ تک چندہ کے بھیجنے سے لا پرواہی کی اس کا نام بھی کاٹ دیا جائے گا.اور اس کے بعد کوئی مغرور اور لاپر واہ جو انصار میں داخل نہیں اس سلسلہ میں ہرگز نہیں رہے گا." ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه ۴۶۸-۴۶۹) ایک تعارف

Page 31

مالی قربانی 23 ارشادات خلفاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام بابت مالی قربانی فرمودات حضرت خلیفہ امسیح الا قول رضی اللہ عنہ اپنے مالوں کواللہ کی راہ میں خرچ کرو انعام الہی پانے کے واسطے ضروری ہوتا ہے کہ کچھ خوف بھی ہو.خوف کس کا ؟ خوف اللہ کا خوف دشمن کا خوف بعض نادان ضعیف الایمان لوگوں کے ارتداد کا، مگر وہ بہت تھوڑا ہوگا.یہ ایک پیشگوئی ہے اور اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ خدا فرماتا ہے کہ میری راہ میں کچھ خوف آوے گا، کچھ جوع ہوگی.جوع یا تو روزہ رکھنے سے ہوتی ہے.مطلب یہ ہے کہ کچھ روزے رکھو اور یا اس رنگ میں جوع اپنے اوپر اختیار کرو کہ صدقہ خیرات اس قدر نکالو کہ بعض اوقات خود تم کو فاقہ تک نوبت پہنچ جاوے.اپنے مالوں کو خدا کی راہ میں اتنا خرچ کرو کہ وہ کم ہو جاویں.اور جانوں کو بھی اس کی رہ میں خرچ کرو.علیٰ ہذا پھلوں کو بھی خدا کی راہ میں خرچ اپنے مالوں کو خدا کی ہدایت کے مطابق خرچ کرو " ( خطبه جمعه ۵ /جون ۱۹۰۸ء) انسان کہ عالم صغیر ہے اس کی مملکت کے انتظام کیلئے بھی ایک ملک کی حاجت ہے.پھر انسان اپنی حاجتوں کیلئے کسی حاجت روا کا محتاج ہے.ان تینوں صفتوں کا حقیقی مستحق اللہ ہے.اس کی پناہ میں مومن کو آنا چاہئے تا چھپے چھپے، پیچھے لے جانے والے، مانع ترقی وسوسوں سے امن میں رہے.اسلام کی حالت اس وقت ایک تعارف

Page 32

مالی قربانی 24 بہت ردی ہے.ہر مسلمان میں ایک قسم کی خود پسندی اور خود رائی ہے.وہ اپنے اوقات کو، اپنے مال کو خدا کی ہدایت کے مطابق خرچ نہیں کرتا.اللہ نے انسان کو آزاد بنایا پر کچھ پابندیاں بھی فرما ئیں بالخصوص مال کے معاملہ میں.پس مالوں کے خرچ میں بہت احتیاط کرو.اس زمانہ میں بعض لوگ سود لینا دینا جائز سمجھتے ہیں.یہ بالکل غلط ہے.حدیث میں آیا ہے.سود کا لینے والا ، دینے والا ، بلکہ لکھنے والا اور گواہ ، سب خدا کی لعنت کے نیچے ہیں.میں اپنی طرف سے حق تبلیغ ادا کر کے تم سے سبکدوش ہوتا ہوں.میں تمہاری ایک ذرہ بھی پرواہ نہیں رکھتا.میں تو چاہتا ہوں کہ تم خدا کے ہو جاؤ.تم اپنی حالتوں کو سنوارو.خدا تمہیں عمل کی توفیق دے.آمین." خطبه جمعه ۲۵ / جون ۱۹۰۹ء) فرمودات حضرت خلیفہ المسح الثانی رضی اللہ عنہ مالی قربانیوں کی تکمیل بھی خلفاء کے ذریعہ ہوتی ہے " ہم ہمیشہ اپنی جماعت کے افراد سے یہ مطالبہ کیا کرتے ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی یہ مطالبہ فرمایا کرتے تھے.کہ خدا کیلئے اپنی جانوں اور مالوں کو وقف کرد ولیکن ہر زمانہ میں یہ معیار بدلتا چلا گیا ہے.پہلے دن جب لوگوں نے اس آواز کو سنا تو وہ آگے آئے اور انہوں نے کہا.ہماری جان اور ہمارا مال حاضر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے جواب کو سنا اور فرمایا.تم نمازیں پڑھا کرو.روزے رکھا کرو.اسلام اور احمدیت کو پھیلایا کرو.اور اپنے مالوں میں کچھ نہ کچھ دین کی خدمت کیلئے دے دیا کرو.چاہے روپیہ میں سے دھیلہ ہی کیوں نہ ہو.لوگوں نے یہ سنا تو ان کے دلوں میں حیرت پیدا ہوئی کہ کام تو بہت معمولی تھا.پھر ہمیں یہ کیوں کہا گیا تھا کہ آؤ ! اور اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر دو.کچھ وقت گزرا تو لوگوں کو پھر آواز ایک تعارف

Page 33

مالی قربانی 25 دی گئی کہ جان اور مال کی قربانی کا وقت آ گیا ہے لوگ پھر اپنی جانیں اور اپنے اموال لے کر حاضر ہوئے.تو انہیں کہا گیا.کہ تم روپیہ میں سے ایک پیسہ چندہ دے دیا کرو.اس پر کچھ مدت گزری تو مرکز کی طرف سے پھر آواز بلند ہوئی کہ آؤ اور اپنی جانیں اور اپنے اموال دین کی خدمت کیلئے وقف کر دو.لوگ پھر آگے بڑھے تو انہیں کہا گیا کہ آئندہ پیسہ کی بجائے دو پیسہ روپیہ چندہ دیا کرو یہ حالت اس طرح بڑھتی چلی گئی.دھیلے سے یہ آواز شروع ہوئی تھی پھر پیسہ پر پہنچی پھر دو پیسہ پر پہنچی.پھر کہا گیا کہ دو پیسے کا بھی سوال نہیں تین پیسے دیا کرو.تین پیسے دیتے رہے تو کہا گیا اب چار پیسے دیا کرو.پھر وقت آیا تو کہا گیا کہ اپنی جائیدادوں اور اپنی آمدنیوں کی وصیت کر دو.اور اس وصیت میں بھی کم سے کم دسویں حصہ کا مطالبہ کیا گیا.پھر کہا گیا کہ دسواں حصہ بہت کم ہے تمہیں نواں حصہ دینے کی کوشش کرنی چاہیئے.اور جن کو خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.وہ اس سے بھی بڑھ کر قربانی کریں.وہ لوگ جن کو خدا نے سمجھنے والا دل اور غور کرنے والا دماغ دیا ہے.وہ تو جانتے ہیں.کہ ہم کو قدم بہ قدم اس مقصد کے قریب کیا جا رہا ہے جس کے بغیر تو میں کبھی زندہ نہیں رہ سکتیں.لیکن بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قربانی اور ایثار کے الفاظ جو متواتر استعمال کئے جاتے ہیں.حقیقت سے بالکل خالی ہیں.قربانی اور ایثار کے مالی لحاظ سے صرف اتنے معنے ہیں کہ روپیہ میں سے آنہ دے دیا یا آنہ نہ دیا تو ڈیڑھ آنہ دے دیا.اور وقت کی قربانی کے لحاظ سے اس کے صرف اتنے معنے ہیں کہ چوبیس گھنٹہ میں گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ دے دیا اور ان کی نظروں سے یہ بات بالکل اوجھل ہو جاتی ہے کہ کسی دن سچ مچ ہمیں اپنی جان اور اپنا مال قربان کرنے کیلئے آگے بڑھنا پڑے گا.بالکل ممکن ہے کہ آخر میں جب.حقیقی اور سچی آواز خدا تعالیٰ کے نمائندہ کے منہ سے نکلے.اور خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ فیصلہ ہو جائے کہ وہ آواز جو آج سے ۵۰-۶۰ سال پہلے بلند کی جارہی تھی.اس کا حقیقی ظہور ہو.تو اس غفلت کی بناء پر جو مرور زمانہ کی وجہ سے تم پر ایک تعارف

Page 34

مالی قربانی 26 طاری ہو چکی ہو تم میں سے بہت سے لوگ یہ گمان کرنے لگ جائیں گے.کہ اب بھی جان اور مال کی قربانی کے معنے روپیہ پر ایک آنہ چندہ دینا یا ڈیڑھ آنہ چندہ دینا ہے.اور جان کی قربانی کے معنے ہفتہ یا مہینہ میں سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ وقت دے دینا ہے.حالانکہ وہ وقت ایک آنہ یا ڈیڑھ آنہ چندہ دینے کا نہیں ہوگا.نہ اپنے اوقات میں سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ وقت دینے کا ہوگا.بلکہ سارے کا سارا مال اور ساری کی ساری جان خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دینے کا وقت ہوگا.اس وقت گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ..وقت دینے کا سوال نہیں ہوگا.بلکہ اپنی جان کو قربان کرنے کا سوال ہوگا.اور اس وقت صرف آنہ ڈیڑھ آنہ چندہ دینے کا سوال نہیں ہوگا.بلکہ اپنے سارے مال اور ساری جائیداد سے ایک لمحہ کے اندر دست بردار ہونے کا سوال ہوگا." (الفضل ربوه ،۱۰ را پریل ۱۹۶۲ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد چندوں میں ایزادی بعض لوگ کہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے تین مہینے میں اگر کوئی ایک پیسہ بھی چندہ دیتا ہے تو وہ احمدی ہے.مگر اب ایک آنہ فی روپیہ ماہوار چندہ ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ قرآن کریم نے بتایا ہے کہ حضرت مسیح کی جماعت پہلے کو نیپل ہوگی.اور پھر ترقی کرتی جائے گی گویا وہ قربانیوں میں بڑھ جائے گی.اور مضبوط ہو جائے گی یہ نہیں کہ حضرت مسیح کی جماعت پہلے زیادہ ہوگی اور بعد میں کم ہو جائے گی بلکہ یہ جو فرمایا ہے کہ پہلے کمزور ہوگی.بعد میں مضبوط ہو جائے گی.اس سے ایمانی کمزوری مراد ہے.کوئی کہے پہلے مخلصین کی اس میں ہتک تو نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت تھے؟ مگر نہیں یہ تو ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بعض میں جو اخلاص تھا.وہ بعد میں آنے والوں میں پیدا نہ ہو.جیسا کہ فرمایا " چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نورد میں بودے" ممکن ہے ایسے اخلاص والے نہ ہوں لیکن وہ ممتاز ہستیاں جو ایک تعارف

Page 35

مالی قربانی 27 جماعت کیلئے عمود و ستون تھیں وہ چند ہی تھیں ممکن ہے ان کی مثال زمانہ پیدا کرنے سے قاصر رہے.مگر یوں جماعت اخلاص اور قربانی میں ترقی کر رہی ہے.گومنافق بھی بڑھ رہے ہیں اور منافق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت بھی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا ذکر کیا ہے.مگر اس وقت وہ نمایاں نہ تھے کیونکہ قربانی اس وقت ایسی معمولی تھی کہ جو مخلص کرتا تھا وہ منافق بھی کر دیتا تھا.اب جو زیادہ قربانی کا وقت آیا تو منافق گرنے لگے اور مخلص قربانی اور ایثار میں بڑھتے گئے.یہ امتیاز جو اب نظر آرہا ہے اس لئے نہیں کہ پہلے منافق نہ تھے اور اب ہو گئے ہیں.بلکہ اس لئے ہے کہ پہلے منافقوں اور مومنوں کا ایسا طریق نہ تھا." کارکنان مال بھی مجاہد فی سبیل اللہ ہیں (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء) "آپ جب تاریخ میں حضرت خالد اور سعد اور عمرو بن معدی کرب اور جرار کے حالات پڑھتے ہوں گے تو آپ کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہوگی کہ کاش ہم اس زمانہ میں ہوتے اور خدمت کرتے.مگر اس وقت آپ کو یہ بھول جاتا ہے کہ ہرسخن وقتے و ہر نکتہ مقامے دارد، اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاد بالسیف کی جگہ جہاد تبلیغ اور جہاد بالنفس کا دروازہ کھولا ہے اور تبلیغ ہونہیں سکتی جب تک روپیہ نہ ہو.کیونکہ تبلیغ بغیر روپیہ کے ہو نہیں سکتی.پس آپ لوگ اس زمانہ کے مجاہد ہیں.اور وہی ثواب جو پہلوں کو ملا آپ کو مل سکتا ہے اور مل رہا ہے.پس اپنے کام کو خوش اسلوبی سے کریں اور دوسروں کو سمجھائیں تا کہ آپ سب لوگ مجاہد فی سبیل اللہ ہو جائیں.آمین." پیغام حضرت خلیفتہ اسیح الثانی بنام کارکنان مال کراچی.مورخہ ۳ مارچ ۱۹۵۷) ایک تعارف

Page 36

مالی قربانی ہمارا فرض 28 فرمودات حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی " ہمیں خدا نے غلبہ اسلام کیلئے پیدا کیا ہے.تو پھر ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی طاقت کے مطابق اس بارہ میں ہر ممکن کوشش کریں.اور قربانی کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں.ضرورت کے لحاظ سے ہماری کوشش میں جو کمی رہ جائے گی وہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خود پوری کر دے گا.ہماری روحانی آنکھ حالات کے افق پر غلبہ اسلام کے پر آثار دیکھ رہی ہے.لیکن اس کیلئے ہمیں بہر حال قربانیاں دینی ہوں گی.اپنے اموال اور اوقات کو قربان کرنا ہوگا." نظام وصیت ایک عظیم نظام ہے پیغام جلسہ سالانہ قادیان (۱۹۷۸ء) " اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ میں نظام وصیت قائم کیا.نظام وصیت ایک عظیم نظام ہے.ہر پہلو کے لحاظ سے.نظام وصیت کے ذریعہ یہ کوشش کی گئی ہے کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے جو ممبر ہیں یا داخل ہیں سلسلہ عالیہ احمدیہ میں ان میں سے ایک گروہ ایسا ہو جو اسلامی تعلیم کی روح سے ذمہ داریوں کو اس قدر توجہ اور قربانی سے ادا کرنے والا ہو کہ ان میں اور دوسرے گروہ میں ایک مابہ الامتیاز پیدا ہو جائے.نظام وصیت صرف 1/10 مالی قربانی کا نام نہیں ہے.یہ نظام ہے زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمانی رفعتوں تک پہنچانے کا." ( خطبه جمعه ۳۰ /اپریل ۱۹۸۲ء) ایک تعارف

Page 37

مالی قربانی موصی کا معیار 29 فرمودات حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمه لله تعالی " وصیت کا نظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری کردہ ہے.اس کی شرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقرر کردہ ہے.کوئی خلیفہ اس کو بدل نہیں سکتا.1/10 کی شرح 1/10 ہی رہے گی.اس لئے جو شخص وصیت کر کے 1/10 کا وعدہ کرتا ہے اور دیتا اس سے بہت کم وہ موصی نہیں رہتا.موصی وہ ہوتا ہے جو اخلاص میں دیانت داری، تقویٰ اور طہارت، اخلاق اور تمام دوسرے معاملات میں صف اول میں ہو.اسی طرح اس کا مالی قربانی میں بھی صف اول میں ہونا ضروری ہے.اگر کوئی موصی اس معیار پر پورا نہیں اترتا اسے از راہ احسان موصیوں کی فہرست سے خارج کردینا چاہیئے.اس کیلئے یہی بہتر ہے ورنہ اس کی موت اس حال میں ہوگی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بدعہدی کا مرتکب ہو رہا ہوگا.ایک موصی اپنی آمدنی جو بتا تا ہے چھان بین کئے بغیر اسے درست مان لیں اور شرح کے مطابق اس آمدنی پر اس سے چندہ لیں لیکن اگر اس امر کا قطعی اور حتمی ثبوت موجود ہو کہ وہ اصل آمدنی سے کم آمدنی بتا رہا ہے تو اسے تسلیم نہ کریں.کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ عملاً جھوٹ کا مرتکب ہو رہا ہے.جھوٹ بولنے والا موصی کیسے ہو سکتا ہے؟ اپنے اس فعل سے وہ اپنے آپ کو موصوں کے زمرے سے خارج کرلیتا ہے.اللہ تعالیٰ کے ساتھ صدق وسداد کا معاملہ کرو هفت روزه بدر قادیان ۴ /نومبر ۱۹۸۲ء) لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بھی صاحب فراست بندے ہیں.نہ تو تم مجھے دھوکا دے سکتے ہو، نہ ان بندوں کو دھوکا دے سکتے ہو.تمہارا رہن سہن، ایک تعارف

Page 38

مالی قربانی 30 تمہارا معاشرہ تمہاری زندگی کی اقدار ساری کی ساری یہ بتا رہی ہیں کہ تمہارے اموال کتنے ہیں.مگر چونکہ یہ ایک ٹیکس کا نظام نہیں اس لئے اخلاقاً بھی ، تہذیباً بھی اور نظام سلسلہ کی پیروی میں بھی جملہ کارکنان سلسلہ جو منہ سے کوئی کہتا ہے وہ اسے قبول کر لیتے ہیں.یہ جانتے ہوئے بھی قبول کر لیتے ہیں کہ یہ شخص کہنے والا اپنے قول میں سچا نہیں ہے لیکن واقعات جو گزر جاتے ہیں وہ ایسے تمام دھو کے دینے والوں کیلئے انتہائی خطرہ کا موجب بن جاتے ہیں ان کی ساری عمر کی قربانیاں رائیگاں جاتی ہیں.ان کے اموال سے برکت چھین لی جاتی ہے.وہ طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.ان کو چٹیاں پڑتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ جو جانتا ہے.اس کے عطا کے رستے بھی بہت ہیں اور واپس لینے کے رستے بھی بہت ہیں.رزق سے جو برکتیں ملا کرتی ہیں چین اور تسکین اور آرام جان کی برکتیں ، وہ برکتیں بھی ان سے چھین لی جاتی ہیں.بسا اوقات ایسے خاندانوں کے اموال ان کی آنکھوں کے سامنے ضائع ہور ہے ہوتے ہیں وہ کچھ نہیں کر سکتے......پس اللہ تعالیٰ جو دینے والا ہے جو رازق ہے اس کے ساتھ صدق وسداد کا معاملہ کرو.تمہاری قربانیاں بھی کام آئیں گی اور ان قربانیوں کے نتیجہ میں تم مزید فضلوں کے وارث بنائے جاؤ گے.خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے تم کیوں خوف کھاتے ہو.یہی تو وہ خرچ ہے جو تمہاری آمد کا ذریعہ ہے اور یہی تو وہ خرچ ہے جو برکتوں کا موجب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں آپ کے صحابہ میں سے جنہوں نے تھوڑے تھوڑے مال بھی آپ کے حضور پیش کئے بعض نے بڑی بڑی قربانیاں بھی کیں.لیکن ان سب کے خاندان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دنیوی لحاظ سے بھی ایسے وارث بنے کہ وہ پہچانے نہیں جاتے اور حیرت انگیز طور پر ان کے اموال میں برکت دی گئی.ایک تعارف

Page 39

مالی قربانی 31 وَمِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ اور ان کے انفاق فی سبیل اللہ کا ایک سلسلہ جاری ہے.ہم دیتے چلے جاتے ہیں اور یہ خرچ کرتے چلے جاتے ہیں.یہ ہے وہ کوثر جو حضرت محمد ﷺ نے بہائی اور اس کوثر کی زندگی کی ضمانت کے طور پر ہم پیدا کئے گئے ہیں.ہم جن کے سپرد اللہ تعالیٰ نے اس کوثر سے جام بھر بھر کے ساری دنیا کے پلانے کا کام کیا ہے.اس کوثر کو اپنی قربانیوں سے بھر دیں لیکن یا درکھیں کہ یہ کوثر ایک سب سے پاک رسول کی قربانیوں کا ایک تالاب ہے اس میں گندہ قطرہ نہیں جائے گا.نفس کی ملونی کا ایک ذرہ بھی اس میں داخل نہ کیا جائے گا.ورنہ آپ قربانی کرنے والے گروہ میں نہیں رکھے جائیں گے.اس خوف کے ساتھ اپنے نفوس کا محاسبہ کرتے رہیں اور دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اس مالی نظام کو ہر پہلو سے پاک وصاف رکھے اور ہمارے نفس کی ملونیوں سے اسے بچائے.حقیقت یہ ہے کہ اگر جماعت کا ایک طبقہ اس معاملہ میں تقوی شعاری اختیار کرے اور غیر اللہ کا خوف نہ کھائے شرک نہ کرے اور اس بات پر قائم ہو جائے کہ خدا کی راہ میں میں جو بھی دوں گا سچائی کے ساتھ دوں گا تو آج شرح بڑھائے بغیر بھی ہما را چندہ دو گنا ہوسکتا ہے." خدا کی راہ میں قربانی " ( خطبہ جمعہ ۲۳ / جولائی ۱۹۸۲ء) کیسے تعجب کی بات ہے کہ احمدی کہلا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر تجدید بیعت کر کے یہ دعوے کر کے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.یہ عہد و پیمان باندھ کر کہ ہم دوبارہ اسلام کی کشتی کو پارلگانے کے لئے اپنے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے اپنے جسموں کو بھی غرق کرنا پڑا اس راہ میں تو غرق کر دیں گے تاکہ ایک تعارف

Page 40

مالی قربانی 32 اسلام کی کشتی کامیابی اور کامرانی کی ساتھ پار ہو سکے.اس کے باوجود دیکھتے ہیں کہ جماعت کے چند آدمی اس بوجھ کو اٹھارہے ہیں جو لکھوکھہا کیا کروڑوں کا کام ہے کہ وہ اٹھا ئیں اور صرف چندہ آدمی ہیں جو اس بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہیں اور کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا.کوئی تکلیف نہیں ہوتی.کوئی انسانی ہمدردی کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا.کوئی احساس ندامت دل میں پیدا نہیں ہوتا کہ ہم بھی تو اسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں.ہم نے بھی تو وہی وعدے کئے تھے.ہم پر بھی تو احسان ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کہ دوبارہ اسلام کی حقیقی لذتوں سے آشنا کیا اور بڑے آرام سے کھڑے اس طرح نظارے کر رہے ہیں جیسے ڈوبتی کشتی کا کوئی ساحل سے نظارہ کر رہا ہو اور کوئی اس کے دل میں جس پیدا نہ ہو..اس لئے انسانی ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ ان کو ساتھ شامل کیا جائے.اس لئے وہ سارے جو آج اس خطبے میں شامل ہیں وہ اپنے اپنے ماحول میں جا کر اس بات کے مبلغ بنیں کہ پہلے جو کمزور ہیں، جو خدا کی راہ میں خرچ سے ڈر رہے ہیں ان کو بتایا جائے کہ تم تو محروم ہور ہے ہو.نیکیوں سے بھی محروم ہور ہے ہو اور خدا کے فضلوں سے بھی محروم ہورہے ہو.اس دنیا سے بھی محروم ہورہے ہو جس کے پیچھے تم پڑے ہوئے ہو.تمہارے روپوں میں برکت نہیں رہے گی تم اپنی اولادوں کی خوشیوں کو نہیں دیکھ سکو گے.ان سے محروم کئے جاؤ گے.تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہاری لذتیں نکل جائیں گی تمہارے دلوں سے اور ان کی جگہ غم اور فکر لے لیں گے.یہ تقدیر ہے ان احمدیوں کیلئے جو احمدیت کو چھوڑ کر دور جار ہے ہیں.یہی ہم نے دیکھا ہے ہمیشہ.اور جو خدا کی راہ میں قربانی کرتے ہیں اللہ ان کی قربانی رکھا نہیں کرتا.کون سا قربانی کرنے والا آپ نے دیکھا ہے جس کی اولا دفاقے کر رہی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خاندان دیکھیں خدا نے فضل کئے ہیں.مگر اس وقت تک یہ فضل ہیں جب تک کوئی سمجھے کہ کس کی بناء پر ہیں.اگر کسی دماغ میں یہ کیڑا ایک تعارف

Page 41

مالی قربانی 33 پڑ جائے کہ میری کوشش ہے.میری چالا کی ہے.میرے ہاتھ کا کرتب ہے تو بڑا بیوقوف ہوگا.یہ ان چند روٹیوں کے طفیل مل رہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا کی راہ میں قربان کی تھیں.ابھی نبوت بھی عطا نہیں ہوئی تھی کہ جو کچھ تھا خدا کو پیش کر بیٹھے.یہ اسی کا صدقہ ہے جو کھایا جارہا ہے.صرف وہی نہیں ، سینکڑوں احمدی خاندان ہیں جو اسی قسم کی قربانیوں کا پھل کھا رہے ہیں.شرح میں کمی کی اجازت (خطبہ جمعہ استمبر ۱۹۸۲.سپین ) " میں نے تو بارہا یہ اعلان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اتنا نہیں دے سکتا جو شرح کے مطابق ضروری ہے تو صاف کہے، اپنے حالات پیش کرے.چندہ عام ہے وہ خلیفہ وقت معاف کر سکتا ہے.اور میں کھلا وعدہ کرتا ہوں کہ جو دیانتداری سے سمجھتا ہے کہ میں نہیں پورا اُتر سکتا میری شرح کم کر دی جائے اس کی شرح کم کر دی جائے گی.لیکن جھوٹ نہ بولیں خدا سے.یہ نہ ہو کہ خدا کروڑ دے رہا ہو اور آپ لاکھ کے اوپر چندہ دے رہے ہوں اور بتا یہ رہے ہوں کہ دیا ہی خدا نے لاکھ ہے.اللہ کوئی بھول جاتا ہے.(نعوذ باللہ من ذالک) کہ میں نے اس کو کیا دیا تھا اور اب یہ مجھے کیا واپس کر رہا ہے.جس نے دیا ہے وہ تو دلوں کے بھیدوں سے آشنا ہے، وہ مخفی ارادوں سے آشنا ہے.وہ ان بنک بیلنسز سے آگاہ ہے جن میں روپے جاتے ہیں.اور غائب ہو جاتے ہیں اور تسلی نہیں پاتا انسان، اور بڑھانا چاہتا ہے.تو جوضرورت مند ہے اس کی ضرورتوں کی فکر کی جائے گی.اس کی ضرورت کا لحاظ کیا جائے گا.اس کو خوشی سے اجازت دی جائے گی بلکہ ایسا ضروت مند احمدی جو چندہ نہیں دے سکتا امداد کا مستحق ہے جماعت کا کام ہے جہاں تک ممکن ہو اس کی امداد کرے.لیکن خدا سے جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.اس لئے ایک مہلت میں دیتا ہوں اس خیال سے کہ ہمارے بھائی ضائع نہ ہوں.مجھے اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ خدا کے کام کیسے ایک تعارف

Page 42

مالی قربانی 34 پورے ہونگے.اگر میں یہ فکر کروں تو مشرک بن جاؤں گا.مجھے اس بات کی ہرگز فکر نہیں ہے کہ اگر کوئی احمدی ضائع ہو گئے تو ان کی جگہ اور کیسے ملیں گے.ایک جائے گا تو خدا ہزاروں لاکھوں دے سکتا ہے اس کے بدلے، اور دے گا.مجھے فکر یہ ہے کہ ایک بھی احمدی ضائع کیوں ہو.کیوں ہمارا بھائی ایک اچھے رستہ پر چل کر بھٹک جائے اور ہم سے ضائع ہو جائے.تو مجھے ان کی ذات کا غم ہے.اپنی جماعت کا غم تو کوئی نہیں.جماعت کا غم تو میرا خدا کرے گا اور وہی ہمیشہ کرتا چلا آیا ہے.جماعت کی ضرورتیں وہی پوری کرتا ہے اور وہی پوری کرے گا.اس لئے جب تک ایک موقعہ دے کر ہم اپنے بھائیوں کو ساتھ نہ ملا لیں ایک آرڈر نہ پیدا ہو جائے نظام کے اندر سارے دوست دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ مالی قربانیوں کے کم سے کم معیار پر پورے نہ اتر آئیں اگر ہم آگے بڑھیں گے تو وہی چندلوگ جو الـســــــابــــــون الاولون ہیں وہی قربانیوں کا بوجھ اٹھاتے چلے جائیں گے.اور لوگوں کو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ یہ چند آدمی ہیں ،صرف ،ساری جماعت نہیں ہے.تو یہ دعا بھی کرنی چاہئے اپنے ان بھائیوں کے لئے اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ دے عقل دے.قربانیوں کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے.یاد دہانی ضروری ہے (خطبه جمعه ۰ ۱ ستمبر ۱۹۸۲ - چین) " امر واقعہ یہ ہے کہ مالی قربانی کا حکم قرآن کریم میں جو بار بار دیا گیا ہے.یہ اس ضرورت کے پیش نظر ہے کہ مالی قربانی سے لوگوں کا تزکیہ ہوتا ہے.لوگوں کے اندر پاکیزگی پیدا ہوتی ہے.مومن کو مزید تقویٰ نصیب ہوتا ہے اور قوم کی اصلاح ہوتی ہے اور قوم میں ایک نئی زندگی پیدا ہوتی ہے اور بہت سی دوسری بدیوں سے چھٹکارے کی توفیق ملتی ہے.اگر مجھے یاددہانی کا خیال نہ بھی آئے تو اصل قربانی کا جو فلسفہ ہے ، جو ایک تعارف

Page 43

مالی قربانی 35 قربانی کی اصل روح ہے ، اس کے پیش نظر لازماً مجھے بار بار جماعت کو یاددہانی کروانی چاہیئے کہ خدا کی راہ میں تم فقیر ہو.اگر تم مالی قربانی نہیں کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے اور قرآن کریم نے ہمیں یہ نکتہ سکھایا ہے کہ جو خدا کی راہ میں مالی قربانی کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے اموال میں بے انتہا برکتیں بخشا ایک پہلو جو قرآن کریم ہمارے سامنے رکھتا ہے کہ خدا کی راہ میں ادا کرنے سے یا قربانیاں کرنے سے تم امیر ہو گے.کیونکہ تمہارا غنی سے تعلق جڑے گا اور اگر اس تعلق کو کاٹو گے تو تم فقراء ہو جاؤ گے.پس مذہبی قو میں اگر مالی قربانی کو بھلا دیں تو پھر ان پر غربت کی مار پڑا کرتی ہے.اگر وہ مالی قربانی میں پیش پیش ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کو بے انتہا نعمتیں عطا کرتا ہے.یہ وہ راز ہے جسے ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے اور قومی اقتصادی تعمیر کے سلسلے میں بھی اسے استعمال کرنا چاہیئے " ( خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۹۰ء) با قاعدگی کا اصول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے " اب یہ جو با قاعدگی کا اصول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے اول تو یہ کہ روز مرہ کی زندگی میں جو کم کھانے والے ہیں وہ بھی باقاعدہ تو کھاتے ہیں یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ دو مہینے ناغہ کرلیا اور پھر شروع کر دیا کھانا، روز مرہ کے دستور کے لحاظ سے کچھ باقاعدگی لازم ہے.اور جس کو توفیق ہے وہ ضرور اختیار کرتا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑی سنجیدگی سے اس مسئلے کو انسانی روحانی بقاء کا ذریعہ سمجھتے ہیں.اور پیسہ بھی قبول فرما ر ہے ہیں خدا کی راہ میں ،مگر تاکید کے ساتھ کہ دیکھو ہمیں فرق نہیں پڑے گا تمہیں فرق پڑے گا.لیکن مقرر کرو تو پوری وفا کے ساتھ عہد پر قائم رہتے ہوئے اسے ہمیشہ اسی طرح دیتے چلے جاؤ.اور یہ جو قانون ہے کہ حسب توفیق دو اور پھر با قاعدہ دو یہ ایسا قانون جو نشو ونما پاتا ہے.اس کے اندر ہی خدا تعالیٰ نے نشو ونما کی گل رکھ دی ہے.اور ایسا ایک تعارف

Page 44

مالی قربانی 36 شخص جو باقاعدگی سے تھوڑا دینا شروع کرتا ہے لازماً بڑھاتا ہے.اس کا دل بھی کھلتا ہے اس کی توفیق بھی بڑھتی چلی جاتی ہے اور جو پیسہ وہ آنوں میں، آنے روپوؤں میں یعنی جو بھی دنیا میں مختلف currencies ہیں ایک درجے کا جو سکہ ہے دوسرے درجوں میں تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ہزاروں دینے والے لاکھوں میں چلے جاتے ہیں لاکھوں والے کروڑوں میں داخل ہو جاتے ہیں.اور جماعت کی تاریخ من حیث الجماعت یہی منظر دکھا رہی ہے.وہ جو پیسے دینے والی جماعت تھی لیکن اخلاص سے، باقاعدگی سے دیئے اللہ نے اسے ہزاروں دینے والی بنا دیا.پھر لاکھوں دینے والی بنادیا تو لاکھوں کے بطن سے وہ پیدا ہوئے جنہوں نے کروڑوں دیئے اور اب تو اربوں کا وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے." (خطبہ جمعہ ا ار نومبر ۱۹۹۴ء) فرمودات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خدا تعالیٰ کے ساتھ معاملہ صاف رکھیں اگر شروع میں بجٹ جو بھی بنا اس کے بعد اگر حالات بہتر ہوئے تو بجائے اس کے کہ پھر بجٹ کے مطابق ادا ئیگی ہو جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوئے ان کے مطابق اپنی ادائیگی کرنے کی طرف توجہ کریں.کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ہمارےسودے صاف ہوں گے تو وہ سمیع و علیم خدا ہے.ہمارے حالات سے باخبر ہے ہماری نیک نیتی کو دیکھتے ہوئے ہماری دعاؤں کو زیادہ سنے گا.اور سب سے زیادہ اگر ہمیں کسی چیز کی ضرورت ہے اس وقت اس زمانہ میں اور اپنی ذات کے لئے بھی تو وہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے.اور اس کے حضور عاجزانہ دعائیں ہیں جن کو وہ قبولیت کا شرف پائیں گے تو میری یہ درخواست ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کیلئے بھی یہ بہت ایک تعارف

Page 45

مالی قربانی 37 ضروری ہے کہ اپنے ہر قسم کے معاملات خدا تعالیٰ کے ساتھ صاف ہوں." اللہ کی راہ میں اپنے پاک مالوں سے خرچ کریں (خطبه جمعه ۶ / جون ۲۰۰۳ء) " حضرت عقبہ بن عامرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن حساب کتاب ختم ہونے تک انفاق سبیل اللہ کرنے والا اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے اپنے مال کے سایہ میں رہے گا.(مسند احمد بن حنبل ) لیکن شرط یہ ہے کہ یہ خرچ کیا ہوا مال پاک ہو، پاک کمائی میں سے ہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اتنے اجرا گر لینے ہیں اور اپنے مال کے سائے میں رہنا ہے تو گند سے تو اللہ تعالیٰ ایسے اعلیٰ اجر نہیں دیا کرتا.اور جن کا مال گندہ ہوا ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے نہیں ہوتے اور اگر کہیں خرچ کر بھی دیں اگر لاکھ روپیہ جیب میں ہے اور ایک روپیہ نکال کر بھی دیں گے تو سو آدمیوں کو بتا ئیں گے کہ میں نے نیکی کی ہے.لیکن نیک لوگ، دین کا دردر کھنے والے لوگ ، جن کی کمائی پاک ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہواور اللہ تعالیٰ بھی ان کی بڑی قدر کرتا ہے." خطبه جمعه ۹ / جنوری ۲۰۰۴ء) نو مبائعین کو چندہ میں شامل کریں " انکو بھی اگر شروع میں یہ عادت ڈال دی جائے کہ چندہ دینا ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اسکے دین کی خاطر قربانی دی جائے اور پھر اس سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے تو ان کو بھی عادت پڑ جاتی ہے.بہت سے نو مبائعین کو بتایا ہی نہیں جاتا کہ انہوں نے کوئی مالی قربانی بھی کرنی ہے.یہ بات بتانا بھی انتہائی ضروری ہے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے جو لوگ مالی قربانیاں نہیں کرتے ان کا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے.اب اگر ہندوستان ( انڈیا ) اور افریقن ممالک میں یہ عادت ڈالی ایک تعارف

Page 46

مالی قربانی 38 جاتی تو چندے بھی کہیں کے کہیں پہنچ جاتے اور تعداد بھی کئی گنا زیادہ ہوسکتی تھی...پس میں جماعتوں کو آج پھر دوبارہ توجہ دلاتا ہوں کہ ان رابطوں کو قائم کریں اور وسیع کریں اور تربیت کی طرف توجہ کریں.اپنی مستیاں دور کریں اور ان نئے لوگوں کو بھی مالی قربانیوں میں شامل کریں.چاہے وہ لوگ ٹوکن کے طور پر ہی کچھ نہ کچھ دے رہے ہوں.اس طرح، جیسا کہ میں نے کہا ہے ماں باپ نئے بچوں کو بھی اس مالی قربانی میں شامل کرنے کی کوشش کریں خاص طور پر واقفین نو بچوں میں سے تو ضرور ہر پیدا ہونے والا بچہ اس میں شامل ہونا چاہیے.“ خطبه جمعه فرموده ۵ نومبر ۲۰۰۴ء) ☆ ایک تعارف

Page 47

مالی قربانی 39 آمد کی تعریف ایک تعارف ()).1 مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی مجموعی آمد کو آمد شمار کیا جائے گا.ہر چندہ دہندہ شرط تقویٰ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے اخلاص اور ضمیر کی کسوٹی پر با شرح چندہ ادا کرے گا.مکان وغیرہ کے کرائے اور اس قسم کی متفرق چیزیں وضع کرنا جائز نہیں ہوگا.البتہ پیشہ وارانہ فرائض منصبی کی ادائیگی کے ضمن میں سفروں کے دوران ملنے والے زاد راہ کو آمد سے مستی شمار کیا جائے گا.سوائے اس کے کہ اس میں سے بچت پر اگر کوئی از خود چندہ ادا کرے تو مستحسن ہے.(ب) اگر کوئی دوست چندہ کی ادائیگی یا شرح کے مطابق ادائیگی میں تنگی محسوس کریں تو وہ معین وجہ بیان کر کے امیر جماعت کے توسط سے خلیفہ وقت سے جزوی یا کلی معافی حاصل کر سکتے ہیں.اجازت لے کر شرح سے کم چندہ دینے والے ووٹ دینے کے تو حقدار ر ہیں گے لیکن ذمہ دار عہدوں پر ان کی تقرری یا انتخاب سے پہلے مرکز سے اجازت لینی ضروری ہوگی.یہ اس لئے کہ مبادا مالی کمزوری میں پیچھے رہنے والا عہد یدار دوسروں کے لئے غلط نمونہ نہ بن جائے.نوٹ: اس معافی کا اطلاق چندہ وصیت پر نہیں ہوتا.ایسی صورت میں کہ موصی شرح کے مطابق وصیت ادا نہ کر سکے اسے باامر مجبوری وصیت منسوخ کرالینی چاہئیے.(ج) اگر جماعت کے علم میں کسی موصی کے متعلق کوئی ایسے قطعی شواہد آئیں جن سے غالب گمان ہو کہ چندہ دہندہ کا اپنے متعلق آمد کا فیصلہ غلط ہے اور بحیثیت موصی اس کا یہ فعل قابل گرفت ہے تو ایسے شخص کا معاملہ متعلقہ شواہد کے ساتھ مجلس کار پرداز میں برائے غور پیش کیا جائے نوٹ: - کم از کم آمد وصایا کی چھان بین تقاضہ کرتی ہے کہ ہر ملک کیلئے اس کم از کم آمدنی کی تعیین کی جائے جس پر اس ملک میں گزارہ ممکن ہے.اس لئے وصایا کو منظوری کے لئے بھجواتے وقت اس کم از کم آمدنی کو مد نظر رکھا جائے.(3) ایک خاندان کو حاصل ہونے والی آمد تنخواہ یا الا ونس اگر افراد خانہ کی تعداد پر منحصر ہوتی ہو یا سر براہ ، بیوی اور بچوں پر مشتمل ایک مقرر کردہ شرح یا فارمولا کے مطابق ادا کی جاتی ہو مثال کے

Page 48

مالی قربانی 40 ایک تعارف طور پر حکومت کی طرف سے ملنے والا سوشل الاؤنس اور جماعت کی طرف سے مبلغ کو دیے جانے والا الاؤنس وغیرہ تو اس تنخواہ یا الاؤنس کی پوری رقم اس خاندان کے سربراہ کی اپنی آمد شمار ہوگی جس پر وہ پوری شرح سے اپنا چندہ ادا کرے گا.تا ہم ہر وہ الاؤنس جو حکومت خالصہ کسی بچے کو کسی خاص مقصد کیلئے دیتی ہے اور ماں باپ وہ الاؤنس لینے یا رکھنے میں محض امین کے طور پر ہوں.اور یہ اسی مقصد پر خرچ ہوتا ہو، جس مقصد کے لئے الاؤنس ملتا ہے.ایسے الاؤنس پر ماں یا باپ کیلئے چندہ واجب الاداء نہیں.(ع) پیشہ ور لوگ اور تاجر حضرات کو اپنی کل آمد (Gross income) میں سے ایسے اخراجات وضع کر کے جو کہ آمد پیدا کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں باقی مجموعی اصل آمد پر چندہ ادا کرنا ہوگا محض اپنے ماہانہ اخراجات کے لئے تجارت (Business) سے وصول کردہ رقم (Drawings ) پر چندہ ادا کرنا درست نہیں.(ف) طالب علمی وظیفوں پر شرح کا اطلاق نہیں ہو گا.طلباء سے توقع رکھی جائے گی کہ وہ حسب حیثیت خود کچھ رقم معین کر کے جماعت سے افہام و تفہیم کے ذریعہ اس کے مطابق با قاعدہ چندہ ادا کریں..2 (0) قرض پر چندہ اگر کوئی فرد اپنے مستقل گزارہ کے لئے قرض پر انحصار کر رہا ہے تو وہ اس قرض پر بھی واجب چندہ جات ادا کرے گا.ہاں جب اس قرض کی رقم واپس کرے گا تو اس وقت اس قرض کی رقم کو اپنی آمد میں سے منہا کر دے گا.(ب) مارتیج الیز اگر کوئی چندہ دہندہ مارکیج یا لیز پر کوئی جائیداد خریدے تو مار گیج رلیز کی واپسی کی رقم اپنی آمد سے منہا نہیں کرے گا بلکہ پوری آمد پر چندہ ادا کرے گا.ایسی خواتین جن کا اپنا کوئی ذریعہ آمد نہ ہو (0).3 عام طور پر بیوی کیلئے چندہ وصیت کی ادائیگی کا طریق یہی ہے کہ اگر اسکی آمدنی کوئی نہ

Page 49

مالی قربانی 41 ایک تعارف ہو تو اس کا خاوند مناسب جیب خرچ مقرر کرے اور وہ اسکی بیوی کی آمد متصور ہو اور اسطرح مالی قربانی کے تسلسل کو قائم رکھنے کی خاطر اس جیب خرچ پر چندہ وصیت ادا کرے." (ب) عورتوں کو حسب توفیق رہن سہن کے معیار کے لحاظ سے قربانی کرنی چاہیئے اس لئے عام چندہ دینے والے اور وصیت کے قربانی کے معیار میں جو فرق ہے اس کو بھی زیر غور لانا چاہیئے.".4 مستثنيات آمد میں چندہ دہند کی ہر قسم کی آمد شامل ہے.البتہ صرف وہ الاؤنس جس کا خرچ کرنا ملا زم چندہ دہند کے تابع مرضی نہ ہو وہ آمد سے مستثنیٰ ہوگا.اسی طرح گورنمنٹ ڈیوز از قسم ٹیکس ریونیو، مالیہ، لوکل رئیس، لازمی انشورنس وغیرہ جو گورنمنٹ کے حکم سے عائد کئے گئے ہوں نیز وردی الاؤنس اور بچوں کی تعلیم کے لئے ملنے والا لا ونس آمد سے منہا کئے جاسکتے ہیں.نوٹ.مکان وغیرہ کے کرائے اور اس قسم کی متفرق چیزیں آمد سے وضع کرنا جائز نہ ہوں گی.--☆-- اصل آمد کے مطابق بجٹ ایک دوست نے یہ ذکر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حکم ہے کہ کوئی جتنا چندہ دے سکتا ہے اتنا لکھوادے مثلاً سالانہ آمد ایک لاکھ ہے اور بجٹ لکھوا دیتے ہیں ایک ہزار پر، اس وجہ سے چندہ میں کمی پیدا ہو جاتی ہے.اس بارہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا:.اس کے آپ خود ذمہ دار ہیں.آپ اس کی اصل آمد کے مطابق بجٹ بنائیں.جہلم میں ایک شخص نے یہی کہا تو میں نے کہا کہ اس سے چندہ وصول نہیں کیا جائے گا.چنانچہ سات سال سے وہ اپنی اسی بات پر قائم ہے کہ میری جتنی مرضی ہوگی اتنا چندہ دوں گا لیکن ہم نے کہا کہ اس سے چندہ نہیں لینا.اس لئے جہاں سستی ہوئی ہے وہاں مرکز کی ہدایت میں کوئی خامی نہیں ہے بلکہ مقامی جماعت کے عہد یداروں کے عمل میں ہے." (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۴ء) ----

Page 50

مالی قربانی 42 لازمی چندہ نہ دینے والوں کے متعلق ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الرابع خطبہ جمعہ ارنومبر ۱۹۹۴ء میں فرماتے ہیں:."سوال یہ کہ اگر جماعت کے چندہ کی ادائیگی نہیں کی جاتی تو ایسے دوستوں سے ذیلی ٹیم کا چندہ لیا جائے یا نہ لیا جائے؟ میں نے جہاں تحریک جدید کا ذکر کیا ہے وہاں اس سے پہلے لازمی روز مرہ کے چندہ جات میں ان کو شامل کرنے کی تلقین کی.کیونکہ بنیادی اصول یہی ہے کہ وہ شخص جو دائمی لازمی قربانی میں شریک نہیں ہوتا اس سے نوافل قبول نہیں کئے جاتے آنے والوں کو مستقل لازمی قربانی کے نظام میں شامل کرنا ہمارا اولین فرض ہے لیکن اگر وہ طوعی طور پر تحریک میں ہی شامل ہو جائیں تو اس سے بھی ان کو مستقل مالی نظام کا حصہ بنے میں مدد ملے گی اور طاقت نصیب ہوگی.اس لئے یہاں اتنی زیادہ technicalities میں اور قانونی ابیچ بیچ میں مبتلا نہ ہوں بلکہ چندے کی روح کو پیش نظر رکھتے ہوئے اعلیٰ مقاصد کی خاطر ان کی زندگی کی حفاظت کے لئے ان سے تالیف قلب کا سلوک کریں اور قرآن کریم نے جہاں مئولفتہ القلوب کی بات فرمائی ہے وہاں عام لوگوں سے ہٹ کر وقتی طور پر کچھ عرصہ کیلئے ایک نرم سلوک کا اشارہ نہیں بلکہ واضح ہدایت ملتی ہے اور اس کا تعلق اس نظام سے بھی ہے.ر پس نئے آنے والوں کے تعلق میں میرا جواب یہ ہے کہ خواہ لازمی چندہ ابھی شروع نہ بھی کیا ہو وہ طوعی چندے میں اگر شوق سے حصہ لینا چاہیں تو یہ کہہ کر آپ نے انکار نہیں کرنا کہ آپ نے لازمی چندے میں حصہ نہیں لیا.چھ مہینے.نو مہینے.سال کچھ عرصہ تربیت کے گزاریں پھر بعد میں انفرادی حالات دیکھ کر فیصلے ہوں گے.اور جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو مؤلفۃ القلوب کے دائرے سے باہر آچکے ہیں ایک دائی مستقل ٹھوس حصہ بن چکے ہیں نظام کا ان کیلئے یہی ہدایت ایک تعارف

Page 51

مالی قربانی 43 ایک تعارف ہے کہ یہی جاری رہے اور یہی جاری رہے گی کہ اگر وہ چندہ عام نہیں دیتے اور یا چندہ وصیت وعدہ کر کے ادا نہیں کرتے تو ان سے دوسرے طوعی چندے وصول نہ کئے جائیں گے." اسی طرح حضرت خلیفتہ اسی الخامس ایدہ اللہ تعالی و مانعین کے بارے میں فرماتے ہیں:.اب یہ بات پہلے دن سے ہی نو مبائعین کو سمجھا دینی چاہیئے.شروع میں اگر وہ باشرح چندہ عام وغیرہ نہیں دیتے یا نہیں دے سکتے ، اتنی تربیت نہیں ہوتی تو کسی تحریک میں مثلاً وقف جدید میں یا تحریک جدید میں چندہ لیں.آہستہ آہستہ ان کو عادت پڑ جائے گی اور پھر ان کو بھی چندوں کی ادائیگی میں مزہ آنے لگے گا اور ایک فکر پیدا ہوگی تو جیسے کہ ہم میں سے بہت سارے ہیں جن کو فکر ہوتی ہے بہت سارے لوگ خطوں میں لکھتے ہیں کہ بڑی فکر ہے ہم نے اتنا وعدہ کیا ہوا ہے وقف جدید کے چندے کا یا تحریک جدید کے چندے کا.اور پورا کرنا ہے، وقت گزر رہا ہے، دعا کریں جلدی وعدہ ( پورا) ہو جائے تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے، یہ ہمدردی ہمیں نو مبائعین سے بھی ہونی چاہیئے اور ان کو بھی چندوں کی عادت ڈالنی چاہیئے.نومبائعین کو وقف جدید اور تحریک جدید میں ضرور شامل کیا جائے." خطبه جمعه ۹/جنوری ۲۰۰۴) نادہندہ کو جماعتی عہدہ نہ دیا جائے ---- نادہندہ کو جماعتی عہدہ نہ دیے جانے کے بارہ میں حضرت خلیفتہ اسیح الرابع نے فرمایا.اس بارہ میں پہلے بھی فیصلہ دیا ہوا ہے کہ جو اس طرح چندے معاف کرواتے ہیں اگر جماعت کو ضرورت ہو تو ان کو استثنائی طور پر عہدہ دیا جاسکتا ہے.مگر جو نا دہند ہیں ان کو عہدہ نہیں دیا جاسکتا." بجواب خط از ایڈیشنل وکیل المال لندن، ۲۶ جولائی ۱۹۹۲) ----

Page 52

مالی قربانی 44 یسے احباب جو انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے اور نہ ہی عہد یدار بن سکتے ہیں.درج ذیل احباب کسی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے :- ا لازمی چندہ جات نہ دینے والے.۲.اٹھارہ سال سے کم عمر افراد.ایسے احباب جو جماعت کی طرف سے زیر تعزیر ہوں.جو زیر ایک تعارف ایسے عہد یدار جنہیں نظام جماعت نے معطل کر رکھا ہو ( معطل ہونے کے عرصہ کے دوران ) ایسے نادہندگان جو تاریخ انتخاب کے اعلان کے بعد محض اس لئے چندہ ادا کریں کہ وہ انتخاب میں حصہ لے سکیں ، اس عمل کو سختی سے رڈ کیا جائے.ج.نومبائعین بیعت کرنے کے ایک سال بعد انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں بشرطیکہ وہ دیگر قواعد پر پورا اترتے ہوں.نوٹ:.چندہ دہند وہ ہے جس کے ذمہ لازمی چندہ جات کا چھ ماہ سے زائد بقایا نہ ہو.اس امر کا اطلاق ایسے احباب پر نہ ہو گا جو مرکز سے اقساط میں بقایا ادا کرنے کی اجازت حاصل کر چکے ہوں یا رعایتی شرح پر ادائیگی کرنے کی اجازت حاصل کر چکے ہوں.تاہم ایسے احباب کا کسی عہدے کیلئے یا مجلس انتخاب کے ممبر کے طور پر چناؤ نہیں ہو سکتا سوائے اس کے کہ مرکز سے اس کی پیشگی اجازت لی جائے.( قواعد وضوابط تحریک جدید ۱۸) مندرجہ ذیل احباب نظام جماعت میں عہدیدار نہیں بن سکتے :.ا.ایسے احباب جو مندرجہ بالا قاعدہ کے مطابق کسی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے.۲- ایسا موصی جس کی وصیت صدرانجمن احمد یہ منسوخ کر چکی ہو.۳- ایسا موصی جس کی وصیت انضباطی کارروائی کی وجہ سے منسوخ ہو چکی ہو.۴.ایسا شخص جو جماعتی چندہ جات یاذیلی تنظیموں کے چندہ جات کو ذاتی استعمال میں لایا ہو، وہ استعمال شدہ رقوم کی واپسی اور حضرت خلیفتہ امسیح کی طرف سے معافی ملنے کے تین سال بعد تک نہ تو عہد یدار چنا جا سکتا ہے اور نہ ہی عہدیدار نا مزد کیا جا سکتا ہے.اگر ایسا شخص دوبارہ کوئی غلطی کرے تو وہ ہمیشہ کیلئے کسی بھی عہدے کے اہل نہیں رہے گا.اس سلسلہ میں امیر اصدریا

Page 53

مالی قربانی 45 ایک تعارف آڈیٹر اپنی ذمہ داری سے کوتاہی کے مرتکب پائے گئے تو وہ بھی جماعت کے اس نقصان کو پورا کرنے کے ذمہ دار ہوں گے.نوٹ :.اگر کسی موصی کی وصیت او پر دی گئی وجو ہات ۲ اور ۳ کے علاوہ کسی وجہ سے منسوخ ہوئی ہو اور وہ اپنے لازمی چندوں کی ادائیگی باقاعدگی کے ساتھ کر رہا ہو اور اس کے ذمہ چھ ماہ سے زائد کا بقایا نہ ہوتو اس کے بطور عہد یدار منتخب ہونے میں کوئی روک نہیں ہے.اگر کوئی شخص اپنے عہدے سے انضباطی کاروائی کی وجہ سے دوسری بار ہٹایا گیا ہو تو وہ دوبارہ کبھی بھی کسی جماعتی عہدے کا اہل نہیں رہے گا.قواعد وضوابط تحریک جدید نمبر ۲۰۹، ۲۳۵) خاص ضرورت کے تحت چندہ وصول کرنے کا طریق لازمی چندہ جات اور مرکزی تحریکات کے علاوہ کسی بھی قسم کا چندہ اکٹھا کرنے کیلئے مرکز کی اجازت ضروری ہوگی.ار ملکی یا مقامی سطح پرکسی خاص ضرورت کے ماتحت یا ہنگامی ضروریات کیلئے کسی نئے چندہ کی ضرورت پیدا ہوتی ہے تو وکالت مال لندن کی وساطت سے حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے منظوری حاصل کرنالازمی ہوگی.ایسے چندہ کی وصولی کی اجازت منظوری کے موصول ہونے کے بعد ہوگی.☆

Page 54

مالی قربانی 46 ایک تعارف تشخیص بحث آمد تشخیص بجٹ کا کام نہایت اہم اور ضروری ہے.چندوں کی وصولی میں استحکام اور خاطر خواہ ترقی کیلئے تشخیص بجٹ بنیادی حیثیت رکھتا ہے.ہر سال ہر جماعت کو یہ علم ہونا ضروری ہے کہ اس جماعت کی چندہ کی اصل استعداد کیا ہے، کون کون چندوں کے نظام میں شامل ہے اور کمانے والوں میں سے کون ابھی شامل نہیں ، کون اپنی پوری آمد کے حساب سے چندہ دے رہا ہے اور کس کی طرف ابھی توجہ اور اصلاح کی ضرورت ہے.جماعتوں کو بعض اوقات یہ غلط نہی ہوتی ہے کہ اس طرح بجٹ بنانے سے پوری وصولی نہ ہو سکے گی اور مرکز کے سامنے شرمندگی سے بچنے کیلئے افراد کی استعداد کی بجائے ان کی ادائیگی کو مد نظر رکھ کر بجٹ بنایا جاتا ہے ، جو درست طریق نہیں.اس سے وہ مرکز کو غلط فہمی میں ڈالتے ہیں.درست طریق یہی ہے کہ سب کمانے والے احباب کو ان کی پوری آمد کے مطابق بجٹ میں شامل کیا جائے.چنده مستورات آمد کا تعین ارشاد حضرت خلیفۃالمسیح الثانی برموقع مجلس مشاورت ۱۹۳۷، فرمایا:- آئندہ مردوں کے علاوہ ایسی مستورات سے بھی پوری شرح سے چندہ وصول کیا جائے جنہیں کوئی آمدنی ہوتی ہو.خواہ خاوند کی طرف سے ان کے جیب خرچ کی صورت میں ہو.یا کسی اور ذریعہ سے.ان کے علاوہ دوسری مستورات کے متعلق کوئی شرح مقرر نہ ہوگی بلکہ عام طور پر تحریک کی جائیگی.کہ وہ حسب حالات اور حسب حیثیت چندہ میں حصہ لیں." آمد کے تعین کے بارہ میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے درج ذیل ارشادات کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے." حضور نے ایک استفسار کے جواب میں فرمایا.عام حالات میں حکومت کی طرف سے ایک خاندان کو ( بیوی بچوں کا ) جو سوشل الاؤنس ملتا ہے.وہ دراصل اس خاندان کے سر براہ کی اپنی آمد ہوتی ہے جسے وہ اپنی مرضی سے خرچ کرتا ہے.اس لیئے تقویٰ کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اپنی اس پوری آمد پر

Page 55

مالی قربانی 47 چندہ ادا کرے.تاہم ایسا الاؤنس جو حکومت مخصوص حالات میں کسی بچے کو خاص مقصد ( مثلاً بیماری وغیرہ) کے لئے دے اور وہ اسی مقصد پر خرچ ہوتو اس پر والدین کے لئے چندہ ادا کرنا واجب نہیں ہے.کیونکہ ایسے الاؤنس کے، والدین امین کے طور پر ہیں.ہمارے جماعتی نظام میں بھی جب کسی مبلغ کا الاؤنس مقرر کیا جاتا ہے تو فارمولہ کے طور پر یہی طریق اختیار کرتے ہیں کہ مبلغ کا بنیادی الاؤنس اتنا.بیوی کے لئے اتنا اور بچوں کے لئے اتنا اور اس طرح ملا کر مبلغ کا گل الاؤنس اتنا.لیکن اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہوتی کہ جس شرح (فارمولہ ) سے الاؤنس مقرر کیا گیا ہے اسی شرح سے مبلغ کے بیوی بچوں میں وہ الاؤنس تقسیم ہو.بلکہ یہ پورا الا ونس اس مبلغ کی اپنی آمد ہوتی ہے جس پر وہ پوری شرح سے اپنا چندہ ادا کرتا ہے..اس کے باوجوداگر کوئی دوست سوشل الاؤنس میں ملنے والے بچوں کے الاؤنس کی تشریح اپنی مرضی سے کر کے اپنے چندہ میں چھوٹ لینا چاہتا ہے تو ایسا کیس انفرادی طور پر مجھے بھجوا دیں تو پھر اس پر میں غور کرونگا." مکتوب بنام مکرم امیر صاحب ناروے محرره ۱۳ اگست ۱۹۹۳ء) پھر ٹیم کے ایک دوست کے استفسار پر حضور فرماتے ہیں جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آپ اپنے ملنے والے سوشل الاؤنس میں سے بچوں کا الاؤنس نکال کر چندہ وصیت ادا کر رہے ہیں تو یہ تقویٰ کے خلاف بات ہے جسکا ایک ثبوت آپ کا اپنا یہ فقرہ ہے" یہ بات گزشتہ کچھ عرصہ سے ہمارے لئے اُلجھن کا باعث ہے اسی وجہ سے ہم بشاشت کے ساتھ حصہ آمد ادا کرنے کا لطف نہیں اُٹھا پار ہے." "حقیقت یہی ہے کہ عام حالات میں حکومت کی طرف سے ایک خاندان کو ( بیوی بچوں کا ) جو سوشل الاؤنس ملتا ہے وہ دراصل اس خاندان کے سربراہ کی اپنی آمدنی ایک تعارف

Page 56

مالی قربانی 48 ہوتی ہے جسے وہ اپنی مرضی سے خرچ کرتا ہے.اس لئے تقویٰ کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ اس پوری آمد پر چندہ ادا کرے.تاہم ایسا الاؤنس جو حکومت مخصوص حالات میں کسی بچے کو خاص مقصد ( مثلاً بیماری وغیرہ) کے لئے دے اور وہ اسی مقصد پر خرچ ہو تو اس پر والدین کے لئے چندہ ادا کرنا واجب نہیں کیونکہ ایسے الاؤنس کے، والدین امین کے طور پر ہیں.(اسی طرح ) عام طور پر بیوی کے لئے چندہ وصیت کی ادائیگی کا طریق یہی ہے کہ اگر اس کی اپنی آمدنی کوئی نہ ہو تو اسکا خاوند مناسب جیب خرچ مقرر کرے اور وہ اسکی بیوی کی آمد متصور ہو اور اسطرح مالی قربانی کے تسلسل کو قائم رکھنے کی خاطر اس جیب خرچ پر چندہ وصیت ادا کرے.میری اس وضاحت سے امید ہے آپ کی اُلجھن دور ہو جائے گی." تخفیف شرح کیلئے اجازت کا طریق کار تشخیص بجٹ کے بارہ میں ایک اور جگہ حضرت خلیفتہ اسی الثانی نے فرمایا:." بیت المال کو ایک غلطی لگی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ایسا بجٹ وصول نہ ہوگا میں کہتا ہوں نہ وصول ہومگر جماعت کو احساس تو ہوگا کہ اتنا بجٹ پورا کرنا ہے جو جماعت ایسا بجٹ پورا کرے گی وہ تعریف کے قابل ہوگی اور جو نہ پورا کرے گی اسے توجہ دلائی جائے گی.اب دھو کہ کے طور پر کام ہورہا ہے.جو جماعت بجٹ تو پورا کر دیتی ہے لیکن جماعت کے سب افراد سے چندہ نہیں لیتی وہ قابل تعریف قرار دی جاتی ہے اور دعاؤں کی مستحق سمجھی جاتی ہے.لیکن جو جماعت کام کرتی ہے اور سب سے وصول کرتی ہے مگر بجٹ پورا نہیں کر سکتی اس کی دل شکنی کی جاتی ہے.یہ درست نہیں کہ جو شخص ایک آنہ فی روپیہ سے کم چندہ دے اس سے نہ لیا جائے میرا حکم یہ ہے کہ جو اس شرح سے کم دے وہ لکھائے کہ میرے لئے یہ مجبوریاں ہیں اس لئے میں دو پیسے یا ایک پیسہ فی روپیہ کے حساب سے چندہ دیتا ایک تعارف

Page 57

مالی قربانی 49 ایک تعارف ہوں پس یہ نہیں کہ ایک آنہ فی روپیہ سے کم کوئی نہیں دے سکتا بلکہ یہ کہ بلا اجازت نہیں دے سکتا.اجازت لینے کی اس لئے ضرورت ہے کہ یہاں اس کے متعلق ریکارڈ رہے اور اسے مقررہ چندہ دینے کا خیال رہے.پس یہ روک درمیان میں نہیں کہ جو مقررہ شرح سے چندہ نہ دے وہ چندہ دینے میں شامل نہیں ہو سکے گا.بجٹ ہر جماعت کا ایک آنہ فی روپیہ کے لحاظ سے ہو اور سارے کے سارے افراد کے لحاظ سے خواہ دہندہ ہوں یا نا دہند ہوں، اس طرح آمد کا بجٹ بہت بڑھ سکتا ہے.خواہ پہلے سال سارا بجٹ وصول نہ ہومگر جو جماعتیں کم بجٹ بناتی ہیں ان کی اصلاح ہو جائیگی." ( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء) حضور کے اس ارشاد سے مندرجہ ذیل تین بنیادی اصول مستنبط ہوتے ہیں:.اڈل.ہر احمدی مردوزن کا نام جو کوئی نہ کوئی آمد کی صورت رکھتا ہے بجٹ میں شامل کیا جائے.دوم.بجٹ میں ہر احمدی کی پوری اور صحیح آمد درج کی جائے.سوم.چندہ پوری شرح کے ساتھ درج کیا جائے سوائے ان احباب کے جنہوں نے رعایت شرح حاصل کی ہو.رعایت شرح والے احباب کی آمد صحیح لکھی جائے.چندہ منظور کردہ رعایتی شرح کے مطابق درج کیا جائے.نوٹ:.ا رعایت شرح کیلئے درخواست حضرت خلیفہ مسیح ایدہ اللہ تعالی کے نام نیشنل مجلس عاملہ کی سفارش کے ساتھ وکالت مال لندن میں بھجوائی جائے.۲- رعایت شرح ایک سال کیلئے ہوتی ہے.ہر سال الگ درخواست دی جائے..رعایت شرح حاصل کرنے والے دوست صرف ووٹ دے سکیں گے عہد یدار منتخب نہیں ہوسکیں گے.ا بجٹ فارم پرنیشنل امیر اصدر جماعت اور نیشنل سیکرٹری مال کے تصدیقی دستخط ضرور ہوں.

Page 58

مالی قربانی 50 ہدایات بابت تیاری بجٹ سالانہ بجٹ تیار کرتے وقت درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے:.تشخیص بجٹ آمد تشخیص بجٹ کا کام بنیادی حیثیت کا حامل ہے..یہ بہت ضروری اور اہم امر ہے کہ تمام جماعتیں فرد افردا تشخیص کر کے بجٹ بنائیں.ایک تعارف.جماعت کو علم ہونا چاہئے کہ ہر فرد کی اصل استعداد چندہ کی کیا ہے.کون کون سے افراد چندہ میں شامل ہیں اور کون کون سے ابھی شامل نہیں ہوئے.۴.ہر کمانے والے فرد جماعت مرد اور عورت کو ان کی پوری آمد کے مطابق بجٹ میں شامل کیا جائے سوائے ان احباب کے جنھوں نے رعایت شرح کی حضور انور سے منظوری حاصل کی ہو.رعایت شرح حاصل کرنے والے احباب کی آمد مسیح لکھی جائے لیکن چندہ منظور کردہ رعایتی شرح کے مطابق درج کیا جائے.۶- رعایت شرح کا اطلاق چندہ حصہ آمد ( چندہ وصیت ) پر نہیں ہوگا.ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ بجٹ میں نام تو تمام کمانے والے افراد کے درج کر دئے جائیں لیکن انکی آمدنی کم لکھی جائے.حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ 09 /جنوری 2004 ء کے مطابق نو مبائعین کو بھی مختلف تحریکات میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے:." اب یہ بات پہلے دن سے ہی نو مبائعین کو سمجھا دینی چاہیئے.شروع میں اگر وہ با شرح چندہ عام وغیر ہ نہیں دیتے یا نہیں دے سکتے ، اتنی تربیت نہیں ہوتی تو کسی تحریک میں مثلاً وقف جدید میں یا تحریک جدید میں چندہ لیں.آہستہ آہستہ ان کو عادت پڑ جائے گی اور پھر ان کو بھی چندوں کی ادائیگی میں مزہ آنے لگے گا اور ایک فکر پیدا ہوگی تو جیسے کہ ہم میں سے بہت سارے ہیں جن کو فکر ہوتی ہے بہت سارے لوگ خطوں میں لکھتے ہیں کہ بڑی فکر ہے ہم

Page 59

مالی قربانی 51 ایک تعارف نے اتنا وعدہ کیا ہوا ہے وقف جدید کے چندے کا یا تحریک جدید کے چندے کا.اور پورا کرنا ہے ، وقت گزر رہا ہے، دعا کریں جلدی وعدہ ہو جائے تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ، یہ ہمدردی ہمیں نو مبائعین سے بھی ہونی چاہیئے اور ان کو بھی چندوں کی عادت ڈالنی چاہیئے." مقامی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے جولوکل فنڈ قائم کیا جائے ، اسے نیشنل بجٹ میں شامل نہ کیا جائے.یہ لوکل امانت ہے جو مقامی طور پر خرچ کی جاتی ہے، اسے لوکل امانات میں ہی درج کیا جائے.۱۰.انصار، خدام اور لجنہ کے چندہ جات بھی لوکل امانات ہیں، انہیں بھی نیشنل بجٹ میں شامل نہ کیا جائے بلکہ لوکل امانات میں درج کیا جائے اور وہیں پر ان کی آمد و خرچ کو ظاہر کیا جائے جس کا ماہانہ مالی گوشوارہ میں الگ سے فارم بنایا گیا ہے.بجٹ کی منظوری ا.یہ بجٹ جماعت کے ممبران کی طرف سے چندوں کی متوقع ادائیگی پر مشتمل ہوگا.۲.تمام برانچوں کی طرف سے آمدہ متوقع انفرادی تشخیص بجٹ اکٹھا ہو کر نیشنل بجٹ آمد تجویز ہوگا.۳.جماعتیں ہر سال ۳۰ ستمبر تک اپنا انفرادی تشخیص بجٹ تیار کریں گی.۴.گذشتہ چار سال کے اصل اخراجات اور آئندہ ضروریات کو مہِ نظر رکھتے ہوئے متوقع آمد کی روشنی میں اخراجات کا مجوزہ بجٹ تیار کیا جائے گا.۵.سیکرٹری مال بجٹ تیار کر کے فنانس کمیٹی میں پیش کرے گا جو پانچ افراد پرمشتمل ہوگی.1.امیر (چیئرمین) 2 سیکرٹری مال (سیکرٹری کمیٹی ) 3.جنرل سیکرٹری (ممبر) باقی دو ممبران کی منظوری مجلس عاملہ کی سفارش کے بعد مکرم وکیل اعلیٰ تحریک جدید دیں گے.(اگر فنانس کمیٹی کی منظوری حاصل نہ کی گئی ہو تو فوری اس کی منظوری حاصل کی جائے.یہ فنانس کمیٹی تین سال کیلئے ہوگی.)

Page 60

مالی قربانی 52 ایک تعارف فنانس کمیٹی بجٹ کا جائزہ لے کر مجلس عاملہ میں پیش کرے گی.جو بعد از جائزہ بجٹ کو نیشنل مجلس شوری میں پیش کرے گی.نیشنل مجلس شوری اپنی تجاویز اور سفارشات کے ساتھ وکالت مال لندن کے توسط سے اسے منظوری کیلئے حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کرے گی.ے.مجوزہ بجٹ کو مرکز بھجواتے وقت مندرجہ ذیل تفصیلات ساتھ منسلک کریں:..جماعت میں برسر روزگار افراد کی کل تعداد ii.چندہ دہندگان کی کل تعداد _iii E کے متوقع اخراجات کی تفصیل Rent / Rate / Taxes -iv کے متوقع خرچ کی تفصیل - Contingency Reserve کی تفصیل (اگر کوئی ہو ) Repayment of Loan - vi کی تفصیل (اگر کوئی ہو ) Grant to Branches-vii کی تفصیل _viii Development E کی تفصیل stablishment xpenditure Development E کے تحت بجٹ پیش کرتے Letian دینگے پورے سال کا منصوبہ منسلک کریں کہ اتنی بلڈنگز / مساجد بنانے کا منصوبہ ہے اور ان پر اتنے اخراجات کا تخمینہ ہے، اس تخمینہ کو بجٹ میں شامل کیا جائے اور اس کی منظوری مرکز سے حاصل کی جائے.اسی طرح ڈیویلپمنٹ کی تمام مدات کی تفصیل کہ ان میں کیا کیا اخراجات ہونے ہیں مثلاً کونسا فرنیچر خریدنا ہے، دوران سال اگر کوئی گاڑی خریدنی ہو ، یا دفتر کے لیے کوئی کمپیوٹر، فیکس مشین پرنٹر وغیرہ یاٹی وی ، وی سی ارخرید نا ہو تو اس کی بھی مکمل تفصیل بجٹ کے ساتھ ہی بھجوانی چاہیئے.گویا آئندہ سال کے ڈویلپمنٹ کے اخراجات کے مکمل پلان کی تفصیل بجٹ کے ساتھ ہی بھجوائی جائے.بجٹ اگر خسارے کا پیش کیا جارہا ہے تو وضاحت کی جائے کہ اس کمی کو کس طرح پورا کیا جائے گا.سنٹرل ریزرو سے یا مرکزی گرانٹ وغیرہ سے )

Page 61

مالی قربانی 53 ایک تعارف بجٹ اگر بچت کا پیش کیا جا رہا ہے تو دوران سال ہونے والی تمام بچت سنٹرل ریزرو میں جمع ہوگی.( واضح رہے کہ یہ بچت دوران سال، ماہ بہ ماہ ، حاصل ہونے والے چندہ جات پر شرح کے مطابق الگ کیئے جانے والے حصہ مرکز کے سنٹرل ریزرو میں منتقل کئے جانے کے بعد ہوگی) اسی طرح سال کے آخر پر یعنی 30 جون کو جور تم بچ جائے گی وہ بھی سنٹرل ریزرو میں جمع ہوگی.اسی طرح دوران سال اگر کسی هنگامی ضرورت کے پیش نظر کسی رقم کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس کے لئے سنٹرل ریز رو سے مرکز کی منظوری سے رقم حاصل کی جاسکتی ہے.۱۰.آمد و خرج کا یہ بجٹ مئی کے وسط تک وکالت مال لندن پہنچ جانا چاہیئے.ا.مجوزہ بجٹ مرکز کے منظور شدہ فارمز پر ہی بھجوایا جائے.نوٹ :.منظوری کیلئے بجٹ وکالت مال لندن کو بھجوانے سے پہلے Annexure III صفحہ 182 پر درج چیک لسٹ کے ساتھ موازنہ کر کے بھجوایا جائے.ترمیم بجٹ مرکز سے بجٹ منظور ہونے کے بعد اس میں کسی قسم کی تبدیلی مرکز کی منظوری کے بغیر نہیں ہو سکتی.اگر دوران سال تشخیص شدہ بجٹ میں کسی فرد جماعت کے نقل مکانی کرنے ، مرتد ہونے ،فوت ہونے پانے دوستوں کے جماعت میں شامل ہونے سے قابل ذکر کمی یا بیشی کی وجہ پیدا ہو جائے تو بجٹ میں مناسب ترمیم صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ ان تمام تبدیلیوں سے فوری طور پر مرکز کو آگاہ کر کے بجٹ میں ترمیم کی منظوری حاصل کی جائے.دوران سال اگر کسی خاص مد میں تدریجی معیار (Pro-rata) سے زائد خرچ ہو رہا ہوا اور اس بات کا امکان ہو، کہ خرچ منظور شدہ بجٹ سے زائد ہو جائے گا، قبل اس کے کہ منظور شدہ بجٹ ختم ہو ، ان زائد اخراجات کی تفصیل / وجوہات، نیز یہ کہ یہ فاضلہ رقم کہاں سے حاصل کی جاسکتی ہے.کی مکمل تفصیل لکھ کر مرکز سے منظوری حاصل کی جائے.یعنی یہ رقم کسی دوسری مدامدات میں سے بجٹ کے اندر رہتے ہوئے اس مد میں منتقل کی جاسکتی ہے.یا اس کے لئے مجموعی بجٹ میں اضافہ کرنا ضروری ہوگا)

Page 62

مالی قربانی 54 ایک تعارف مجلس عاملہ کو اختیار ہے ( کسی عہدیدار کو انفرادی طور پر نہیں ) کہ بجٹ کے اندر رہتے ہوئے ایک مد سے دوسری مد میں رو پی منتقل کرے.مجلس عاملہ کو اختیار نہیں کہ ایک مد کا خرچ بغیر مرکز کو بتائے کسی اور مد میں ڈال دے.مجلس عاملہ کو یہ بھی اختیار نہیں ہے کہ مجموعی بجٹ کو از خود بڑھائے.ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الرابع بابت بجٹ و ترمیم بجٹ بجٹ کو ایک مد سے دوسری مد میں منتقل کرنا " وتر اس کے متعلق دو باتیں جماعت کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرنی چاہیئیں.مجلس عاملہ کو اختیار ہے کسی عہد یدار کو نہیں کہ بجٹ کے اندر رہتے ہوئے ایک مد سے دوسری مد میں روپیہ منتقل کرے لیکن مجلس عاملہ کو بھی اختیار نہیں کہ ایک مد کا خرچ بغیر مرکز کو بتائے کسی اور مد میں ڈال دے.یہ بددیانتی ہے، اور یہاں سے آگے پھر بہت قسم کے فتنوں کے رستے کھل جاتے ہیں.اگر سفر خرچ کی مدختم ہوگئی ہے تو سفر خرچ کی مد کو بڑھانا چاہیئے.سفر خرچ کے بل دوسری مد میں نہیں جائیں گے ، اور عملاً یہ جو خاموشی کے ساتھ بات کر دی جاتی ہے وہ یہ ہوتی ہے.کہ بجائے اس کے کہ مجلس عاملہ بیٹھے اور یہ فیصلہ کرے کہ سفر خرچ کی مد کو ایک لاکھ کی بجائے ہم پانچ لاکھ کرتے ہیں اور زائد چار لاکھ روپیہ فلاں فلاں مد سے کاٹ کر ادھر منتقل کرتے ہیں ، جو ایک جائز بات ہے.اس کی بجائے سفر خرچ کی مد ایک لاکھ کی ایک لاکھ رہتی ہے اور بل سفر خرچ کے دوسری مدوں میں ڈال دیئے جاتے ہیں.سفر خرچ کی مثال میں صرف ایک مثال کے طور پر دے رہا ہوں.مجموعی بجٹ کو بڑھانے کا اختیار مجلس عاملہ کو بھی نہیں " ایک اختیار جو مجلس عاملہ کو بھی نہیں ہے وہ یہ ہے کہ مجموعی بجٹ کو از خود بڑھادے.مثلاً مجموعی بجٹ اگر دس لاکھ گلڈرز ہے تو دس لاکھ گلڈرز کے اندر مدات

Page 63

مالی قربانی 55 ایک تعارف " میں پچاس ہزار ، کہیں دس ہزار مختلف مدات ہیں جن میں وہ روپیہ تقسیم ہوا ہے مجلس عاملہ کی طرف سے اندرونی تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں.انفرادی طور پر نہیں.لیکن دس لاکھ گلڈرز کو گیارہ لاکھ بنانے کا ان کو کوئی اختیار نہیں.اس کیلئے لازمی مرکز سے پوچھنا ہوگا کہ آیا دوران سال ہم بجٹ کو بڑھا سکتے ہیں یا نہیں.اور ان امور میں بعض دفعہ بغیر مرکز کی اجازت کے تجاوز کر جاتے ہیں.پھر بارہا یہ سمجھایا گیا ہے کہ اگر آپ کا بجٹ ختم ہونے والا ہے اور آپ کو ضرورت ہے تو پیشتر اس سے کہ آپ کو ضرورت پیش آجائے اور بجٹ ختم ہو چکا ہو آپ مجلس عاملہ کی میٹنگ بلایا کریں اور اس میں ( منظوری )Approval لیا کریں.لیکن اس کی بجائے سال کے آخر پر جب ہم سب حساب منگواتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ جی ! فلاں مد میں مجبوری پیش آگئی تھی.فلاں میں مجبوری پیش آگئی تھی اس کا اتنا منظور کیا جائے ، اتنا منظور کیا جائے.بعض دفعہ تو نظر انداز کرنا پڑا ہے، کیونکہ ابھی پوری تربیت نہیں ہوئی لیکن آج اس خطبہ کے بعد اب میں یہ بات کھول دیتا ہوں کہ بہت دفعہ میں ایسی غلطیوں کو نظر انداز کر چکا ہوں ، آئندہ نہیں کی جائیں گی کیونکہ نظام جماعت میں سے مال کے نظام کی حفاظت نہایت ضروری ہے.آئندہ سینکڑوں سال کا اس کے ساتھ تعلق ہے.اگر جماعت کو کامل یقین رہے کہ اخراجات کی پوری طرح نگرانی ہو رہی ہے اور قوانین سے سیر مو بھی انحراف نہیں ہورہاتو.پھر سلسلہ کے خزانے کبھی بھی ختم نہیں ہوسکیں گے." (خطبہ جمعہ ۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ء) نوٹ:.بجٹ فارم و گوشوارہ میں دی گئی مدات کی تفصیل Annexure II صفحہ 177 پر ملاحظہ کریں.

Page 64

مالی قربانی 56 بجٹ کے مطابق چندے وصول کرنے کی کوشش کرنا بجٹ کے مطابق چندوں کی وصولی کی پوری پوری کوشش کی جائے.ایک تعارف جو رقم بطور بجٹ آمد مقرر کر دی جاتی ہے اسے پورا کرنے کیلئے ہر جماعت ہر طرح ذمہ دار ہے.عہد یدار خود نمونہ دکھا ئیں اور با شرح اور باقاعدہ چندہ ادا کیا کریں.جماعت میں مرکزی تحریکات و ہدایات کی اچھی طرح اشاعت کی جائے.عہدیدا را اپنے فرائض کو بجالانے کیلئے وقت کی قربانی کریں.چندہ کی بر وقت اور بر موقعہ وصولی کا انتظام کیا جائے.چندہ کی وصولی کا مطالبہ اصل آمد پر کیا جائے.مستورات سے چندہ لینے کیلئے ان کے خاوندوں کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے.طلباء اور بچوں کو بھی چندہ ادا کرنے کی عادت ڈالنی چاہیئے.خواہ ایک پیسہ ماہوار ہی کیوں نہ ہو، اسے خوشی سے قبول کیا جائے.لازمی چندوں کے علاوہ دیگر چندہ جات کی وصولی کی طرف بھی توجہ دی جائے.بقایا داران سے بقایا ادا کرنے کا مطالبہ کیا جائے اور بقایا کی وصولی کی طرف خاص توجہ دی جائے.چندہ میں ست احباب کے متعلق ارشاد حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء میں چندہ میں سست احباب کو بجٹ میں شامل نہ کرنے کے سلسلہ میں فرمایا:.ایک دوست نے بجٹ پر بحث کے دوران میں ایک تجویز یہ پیش کی تھی کہ جو دوست چندہ دینے میں سُست ہیں ان کو الگ کر کے جماعتوں کا بجٹ تجویز ہونا چاہیئے یا ایسی بات ہے کہ جس کے متعلق مجھے بھی کچھ کہنا چاہیئے.حقیقت یہ ہے کہ اگر اس قسم کی اجازت دی جائے اور جماعتوں کو یہ کہا جائے کہ وہ سُست لوگوں کے نام اپنی جماعت میں شمار نہ کیا کریں اور ان کو مستقلی کر کے بجٹ تجویز کیا جائے تو یہ چیز قوم کیلئے خود کشی کے مترادف ہوگی اگر ہر وہ شخص جو جماعتوں کو کمزور دکھائی دے اس کا

Page 65

مالی قربانی 57 ایک تعارف نام کاٹنے کی انہیں اجازت ہو تو آج اگر ایک سست ہے تو کل دوست ہو جائیں گے، پرسوں تیں سُست ہو جائیں گے اور ترسوں چارسُست ہو جائیں گے.اس صورت میں تو ان کا بجٹ اگر آج چار سوروپیہ کا ہے تو اگلے سال ساڑھے تین سو روپیہ کا رہ جائے گا اور اس سے اگلے سال تین سو کا.کیونکہ ہر دفعہ وہ کہیں گے کہ اتنے آدمی چونکہ اور سُست ہو گئے ہیں اس لئے اب کی دفعہ ہم نے ان کو بھی شامل نہیں کیا.پھر سوال یہ ہے کہ اگر کمزور لوگوں کو الگ کر کے وہ چندہ بھجواتے ہیں تو اس میں ان کی خوبی کون سی ہے ، یہ تو مفت کی نیک نامی حاصل کرنے والی بات ہے جو دیتا ہے وہ تو خود بخود دے رہا ہے اور اس میں تمہاری کون سی خوبی ہے پس یہ طریق بالکل غلط ہے اور جماعت کیلئے سخت مضر ہے اس سے نہ صرف جماعت کسی تعریف کی مستحق نہیں رہ سکتی بلکہ اس کے افراد میں ترقی کی بجائے تنزل کے آثار پیدا ہو جائیں گے اور جب کمزوروں کے نام جماعت کی لسٹ سے کاٹ دئے جائیں گے تو ان کی اصلاح کا خیال جاتا رہے گا.اور آہستہ آہستہ ان کا ایمان بالکل ضائع ہو جائے گا." تاجروں کے بارہ میں تاکیدی ارشاد مجلس مشاورت ۱۹۳۸ ء کے موقع پر تاجروں سے آمد کے بارہ میں حلف نہ لینے بلکہ صرف تحریک اور نصیحت سے ہی کام لینے کی تجویز پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا:." میری رائے اس وقت یہی ہے کہ تاجر چندوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں.میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ گو میں نے کثرت رائے کو قبول کیا ہے لیکن میرے نزدیک اس تجویز کا ایک حصہ درست نہیں یعنی اس کی یہ تجویز کہ اگر تا جر اپنی آمد بتانے سے انکار کر دیں تو انہیں نصیحت اور تحریک کی جائے.اس کے صرف یہ معنی ہوں گے کہ جو تنخواہ دار ہیں ہم سب بوجھ انہیں پر ڈال دیں.اور تاجر آرام سے بیٹھ ر ہیں پس حلف بے شک نا پسندیدہ ہے مگر کوئی وجہ نہ تھی کہ تاجر سے اتنا بھی نہ پوچھا جائے کہ اس کی آمد کتنی ہے.اور وہ اتنی بات بتانے سے بھی انکار کر دے انسان کو دلیری

Page 66

مالی قربانی 58 ایک تعارف سے اپنی آمد بتا دینی چاہیئے اللہ تعالیٰ اس بیچ کے عوض اس کے روپیہ میں برکت دے گا.پس یہ تجویز غیر طبعی ہے اور اس بات کی کوئی وجہ نہیں کہ تاجر اپنی آمد نہ بتا ئیں.اگر کوئی تاجر اتنا بھی نہیں بتاتا کہ اس کی آمد کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سارا بوجھ تنخواہ دار کارکنوں پر ڈال دیا جائے اور وہ چندوں سے چھوٹ جائیں." اسی طرح زمیندار احباب اپنی آمد کا اندازہ تین سالہ اوسط پیداوار سے بھی لگا سکتے ہیں.سال کے دوران سب فصلوں پر حاصل ہونے والی آمد پر چندہ واجب ہے.اگر کسی کو اس میں مشکل نظر آتی ہو تو وہ اس علاقہ میں ٹھیکہ کی رقم سے بھی اندازہ کر سکتا ہے.متفرق امور بابت وصولی و ادائیگی چندہ دہندہ کی آمد کا ذریعہ جہاں کہیں بھی ہو چندہ کی ادائیگی اسی جماعت میں ہوگی جہاں اس کی مستقل رہائش ہے اور وہ اسی جماعت کے بجٹ میں شامل ہوگا.اگر کوئی فرد جماعت اپنی مستقل رہائش کے علاوہ کسی اور جگہ چندہ دینا چاہتا ہے تو پھر نیشنل مرکز سے اس امر کی تحریری اجازت حاصل کرنا ضروری ہے.اجازت ملنے پر چندہ دہندہ اپنی اس جماعت کو جہاں اس کی مستقل رہائش ہے، اس امر سے مطلع کرے گا.اگر کسی فرد جماعت کی رہائش کسی ایسی جگہ ہے جہاں نظام جماعت قائم نہیں تو وہ ادا ئیگی چندہ کیلئے نیشنل جماعت سے راہنمائی حاصل کرے..ایسے احباب جن کی آمدنی کے ذرائع ایک سے زائد ممالک میں ہوں وہ متعلقہ ممالک میں ہی چندہ ادا کریں گے.اگر اس امر میں انہیں کوئی مشکل پیش آئے تو وہ وکالت مال لندن سے رابطہ کر کے راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں.ایسے احباب جو بیرون پاکستان رہائش رکھتے ہوں لیکن ان کی آمد کا ذریعہ صرف پاکستان میں ہی ہو تو وہ اپنی آمد اور جائیداد پر چندہ پاکستان کی متعلقہ جماعت میں ہی ادا کریں گے.کٹوتی پراویڈنٹ فنڈ کی رقم کو آمد سے منہانہ کیا جائے.بعد ریٹائرمنٹ اس رقم پر دوبارہ چندہ کی ادا ئیگی نہ ہوگی صرف منافع پر ہی چندہ ادا کرنا ہوگا.اگر پراویڈنٹ فنڈ منہا کیا گیا ہوتو اس رقم اور منافع دونوں پر چندہ واجب ہوگا.

Page 67

مالی قربانی 59 ایک تعارف پنشن کی کمیوٹ شدہ رقم پر لازمی چندے یکمشت ادا کرنے ضروری ہیں.اقساط میں ادا ئیگی کیلئے وکالت مال لندن سے اجازت لینی ضروری ہے.اس رقم پر چندہ کی عدم ادائیگی کی صورت میں بقایا دار شمار ہوں گے.اگر اس رقم سے کوئی آمد ہو تو اس پر بھی چندہ ادا کرنا ضروری ہے.کاروباری حضرات ہر سال حساب کر کے اس سال کے منافع پر پورا چندہ ادا کریں اور پھر باقی منافع کو کاروبار میں شامل کیا کریں.اگر کوئی ملازم/ کارکن اپنے ادارہ سے قرض حاصل کر کے اپنی ضروریات پوری کرتا ہے تو قرض کی رقم پر یکمشت چندہ ادا کر دے یا قرض کی اقساط کو تنخواہ الاؤنس میں سے منہانہ کرے.جو شخص اپنی رہائش تبدیل کرتا ہے اس کیلئے لازم ہے کہ اپنی سابقہ جماعت سے اپنے چندوں کی تفصیل صدر جماعت یا سیکرٹری مال سے لے کر جائے اور نئی جماعت میں جا کر رابطہ کر کے اس تفصیل کو پیش کرے.نئی جماعت میں جانے سے سابقہ بقائے ختم نہیں ہو جاتے.اگر بعض افراد جماعت دوران سال کسی جماعت سے رہائش تبدیل کر جائیں تو ان کے بارہ میں ساتھ کے ساتھ مرکز کو اطلاع دی جائے اور بجٹ میں ضروری تبدیلی ( کمی زیادتی ) کی اجازت حاصل کر لی جائے.سال کے آخر میں ملنے والی کمی بجٹ کی درخواستوں پر غور نہیں ہو سکے گا.اسی طرح اگر دوران سال چندہ دہندگان کی آمد میں کوئی قابل ذکر کمی بیشی واقع ہو تو اس کی بھی ساتھ ساتھ مرکز کو اطلاع کرنی ضروری ہے.۱۲.وکالت مال لندن کی طرف سے منظور شدہ نمونہ کے مطابق مطبوعہ رسید حاصل کئے بغیر نہ کوئی چندہ دیا جائے اور نہ ہی لیا جائے.رسید کی پابندی ذیلی تنظیموں پر بھی عائد ہوتی ہے.بجٹ پورا کرنا جماعتوں کی ذمہ داری ہے ---- حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے ۱۹۳۶ء کی مجلس مشاورت میں فرمایا:.بعض لوگ چندہ با شرح نہیں دیتے اس کے متعلق افراد کو اجازت ہے کہ دفتر سے وجوہ پیش کر کے باشرح ادا نہ کرنے کی اجازت لے لیں.جو کمی با شرح نہ دینے

Page 68

مالی قربانی 60 والوں کی وجہ سے ہو سکتی ہے اس کیلئے یہ راستہ رکھ دیا گیا ہے.اس طرح آمد کا بجٹ اور بھی زیادہ یقینی ہو گیا.مگر باوجود ان ساری باتوں کے بالعموم جماعتیں نہ تو ان سہولتوں سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور نہ بجٹ پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں.اب بھی کہا جاتا ہے کہ بعض لوگ با شرح چندہ نہیں دیتے اس لئے کمی رہ گئی.لیکن جب کہا جائے کہ اس وجہ سے اجازت ہے کہ کمی کرالیں تو کہتے ہیں سستی ہو جاتی ہے.بعض کہتے ہیں فلاں شخص اپنی طرف سے درخواست نہیں کرنا چاہتا اس کے لئے یہ علاج ہے کہ اس سے با شرح چندہ کا مطالبہ کریں اور جب وہ نہ دے تو دفتر کو اطلاع دیں.دفتر اس سے مطالبہ کرے گا.اس پر جب وہ جواب دے گا کہ فلاں وجہ سے وہ با شرح نہیں دے سکتا تو پھر اس کی کمی کو مد نظر رکھ کر بجٹ میں کمی کر دی جائے گی اور اگر کوئی چندہ دینے سے انکار کرے گا تو اسے جماعت سے نکال دیا جائے گا.یہ ایسی صاف بات ہے کہ کوئی منطقی طور پر اس کا انکار نہیں کر سکتا ہے.اور ان حالات میں بجٹ پورا نہ کرنے کی ساری ذمہ داری جماعتوں پر پڑتی ہے.زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہمیں اس بات کا پتہ نہ تھا مگر پتہ لگانا ان کا کام تھا." بقایادار خدا کے نزدیک جواب دہ ہے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ۱۹۳۳ء کی مجلس مشاورت میں فرمایا:.یا د رکھنا چاہیئے بجٹ کو پورا کرنا مجھ پر احسان نہیں نہ سلسلہ پر احسان ہے نہ خدا پر احسان ہے.جو خدا کے دین کی خدمت کیلئے کچھ دیتا ہے وہ خدا تعالیٰ سے سودا کرتا ہے اور اس سودا کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے خدا کے نزدیک جواب دہ ہے اور جس قدر کمی رہتی ہے وہ اس کے نام بقایا ہے اگر وہ اس دنیا میں ادا نہیں کرتا، تو جب خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہو گا خدا تعالیٰ فرمائے گا جاؤ جہنم میں بقایا ادا کر کے آؤ." نمائندگان مجلس مشاورت کا فرض حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ۱۹۳۳ء کی مجلس مشاورت میں فرمایا:.ایک تعارف

Page 69

مالی قربانی 61 یہ فیصلہ ہے جس سے میں جماعتوں کو ان نمائندوں کے ذریعہ آگاہ کرنا چاہتا ہوں جو یہاں آئے ہوئے ہیں نرمی سے سمجھا سمجھا کر ہم نے دیکھ لیا ہے.ان نمائندوں کا فرض ہے کہ یا تو وہ کوئی ایسا طریق اختیار کریں کہ کوئی احمدی کہلا کر ناد ہند نہ رہے.یا پھر وہ طریق اختیار کریں جو میں نے بتایا ہے کہ نادہندگان کی مرکز میں اطلاع دیں اگر انہوں نے اس نقص کو دور نہ کیا تو ان سے باز پرس ہوگی اور مندرجہ ذیل سزاؤں میں سے کوئی ایک انہیں دی جائے گی.یا انہیں آئندہ کیلئے نمائندہ تسلیم نہیں کیا جائے گایا جماعت میں کوئی عہدہ نہیں دیا جائے گا یا انہیں میرے ساتھ ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اگر پھر بھی پرواہ نہ کی گئی تو جماعت ان سے بے تعلقی کا اظہار کرے گی کیونکہ انہوں نے جماعت کو سنبھالنے کا فرض ادا نہیں کیا." نادہندگان کی اصلاح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے خطبہ جمعہ " رنومبر ۱۹۴۹ء میں فرمایا:." پہلا طریق تو یہی ہے اور اسی کی ہی ہم تم سے امید کرتے ہیں کہ تم محبت اور پیار سے لوگوں کو سمجھاؤ لیکن اگر تم کہتے ہو کہ ہم نے سارا زور لگالیا مگر وہ اپنی اصلاح نہیں کرتے اگر سال گذرتا چلا جاتا ہے اور وہ بیدار نہیں ہوتے تو تم کیوں اس کے متعلق لمبی امیدیں کرتے چلے جاتے ہو تم کیوں نہیں سمجھ لیتے کہ وہ مرچکے ہیں اور مرے ہوئے کو بیدار کرنے کی کوشش کرنا ہر گز دانائی نہیں کہلا سکتی تم کیوں ان کی وجہ سے اپنے لئے ذلت سہیڑتے ہو.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی زیادہ رحمدل ہو کہ اس پر عمل نہیں کرتے.کہتے ہیں ماں سے زیادہ چاہے پھیپھے کٹنی کہلائے یہ ایک تیسری بات ہے جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں یہ جماعت کی اصلاح کا ایک آسان طریق ہے.جب اس طریق کو تم اختیار کرو گے تو تمہیں نظر آئے گا کہ جو لوگ غافل ہیں وہ سارے کے سارے بے ایمان نہیں وہ بھی ایماندار ہیں صرف ان کے دلوں پر زنگ لگا ہوا ہے جب وہ جماعت سے خارج کئے جائیں گے تو ان میں سے کم سے کم آدھے ضرور واپس آئیں گے اور توبہ کریں گے پھر ایک تعارف

Page 70

مالی قربانی 62 ایک تعارف تمہارا چندہ بڑھ جائے گا تمہاری شان بھی بڑھ جائے گی.تمہارے اندر کام کرنے والے آدمی بھی بڑھ جائیں گے تمہارے اندر بیداری بھی بڑھ جائے گی اور تمہاری ترقی کے کئی نئے راستے نکل آئیں گے.بہر حال خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے رستوں کو رد نہ کرو اور خدا تعالیٰ کے مامور کے کھولے ہوئے رستوں کو اپنے آپ پر بند نہ کرو جب خدا ایک علاج پیدا کر دیتا ہے اور انسان اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا تو وہ بہت سے فضلوں سے محروم ہو جاتا ہے.پس کوشش کرو اور اپنے لئے جماعت میں ایک نیک مقام پیدا کرو اور کوشش کرو کہ تمہیں دنیا میں بھی نیک مقام حاصل ہو." نادہندگان کے خلاف کاروائی کا طریق کار دو ایسے دوستوں کے کیس پیش کئے جانے پر کہ وہ چندہ دینے سے بالکل انکاری ہیں، باوجود یکہ ان کو ہر طرح سمجھایا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا:." ایسے کیسوں میں جماعت ہائے متعلقہ کو ہدایت کر دی جاوے کہ وہ اس قسم کے نادہندگان کے متعلق نظارت امور عامہ میں رپورٹ کریں تا ان کو جماعت سے خارج کیا جاوے." نیز فرمایا:." جب تک ایسے لوگوں کو باقاعدہ طور پر نظارت امور عامہ کی معرفت جماعت سے خارج نہ کروالیا جائے تب تک وہ جماعت کے ممبر سمجھے جائیں گے اور ان سے چندہ کی وصولی کا مطالبہ مرکز کی طرف سے قائم رہے گا." ریزولیوشن صدر انجمن احمدیه ۱۰۹ معمولی مورخه ۲۶ مارچ ۱۹۳۹ء)

Page 71

مالی قربانی 63 ایک تعارف ہدایات برائے بجٹ ذیلی تنظیم تینوں ذیلی تنظیمیں مجلس انصار اللہ مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ براہ راست حضور انور ایدہ اللہ کی ہدایات کے تحت کام کرتی ہیں.ان کی ہدایات و راہنمائی کیلئے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری لندن میں ذیلی تنظیموں کا ایک ڈیسک ہے.تینوں ذیلی تنظیموں کا لائحہ عمل اور دستور اساسی با قاعدہ لندن سے ہر ملک کو بھجوایا گیا ہے.(اگر کسی ملک کو نہ ملا ہوتو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے منگوایا جاسکتا ہے) جس کے مطابق تینوں مجالس ملک اپنا بجٹ آمد و خرچ بناتی ہیں.تینوں مجالس کی ملکی شوری کی سفارش کے ساتھ نیشنل صدور حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بجٹ منظوری کیلئے بھجواتے ہیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری کے بعد تینوں مجالس کے صدور اپنی اپنی مجلس کے بجٹ کے مطابق عمل درآمد کرواتے ہیں.گو کہ نیشنل امیر عمومی نگرانی کا ذمہ دار ہے لیکن ذیلی تنظیموں کے فنڈز بجٹ میں اسے دخل دینے کا اختیار نہ ہے.تنوں ذیلی تنظیمیں درج ذیل شرح سے چندہ مجلس کی مد میں ہونے والی آمد کا حصہ مرکز علیحدہ کرتی ہیں.مجلس انصار الله ۲۰ فیصد مجلس خدام الاحمدیہ ۳۰ فیصد ٣.لجنہ اماءاللہ ۲۵ فیصد جبکہ انصار اللہ کے چندہ اجتماع پر الگ سے ۱۰ فیصد حصہ مرکز ہوتا ہے.مندرجہ بالا طریق پر علیحدہ کیا جانے والا حصہ مرکز لندن بھجوایا جاتا ہے.یا حسب ہدایت وکالت مال لندن اسی ملک کے سنٹرل ریزرو میں جمع کروایا جاتا ہے.دوران سال اگر اخراجات بجٹ سے بڑھنے کا امکان ہو تو قبل از خرچ اس کی منظوری حضرت خلیفہ اتیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے لی جاتی ہے.نیز اگر آمد میں بھی اضافہ کرنا درکار ہو تو اس کیلئے بھی حضرت خلیفہ اسیح کی منظوری حاصل کرنا لازمی ہے.

Page 72

مالی قربانی 64 ایک تعارف سال کے آخر پر بچت ہونے کی صورت میں بچت کی سالم رقم مجلس کے ریزرو میں جمع کر کے اس کی اطلاع پرائیویٹ سیکرٹری لندن کو دینی ضروری ہے اور اس میں سے کوئی خرچ بلا پیشگی منظوری حضرت خلیفہ ا مسیح نہیں کیا جا سکتا.ذیلی تنظیموں کے ریز روا بچت کو نیشنل امیر بھی کسی غرض سے خرچ کرنے کا مجاز نہ ہے.یہ کلیتہ حضرت خلیفہ اسیح کے تابع مرضی ہے اور صرف حضرت خلیفہ اسیح کی اجازت حاصل کر کے خرچ کیا جاسکتا ہے.ذیلی تنظیموں کے انتخابات کے وقت اگر کوئی کمانے والا رکن جماعتی چندوں میں شامل نہیں یا جماعتی چندوں میں بقایا دار ہے تو ذیلی تنظیم کے انتخابات میں بھی شامل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی عہد یدار بن سکتا ہے.چندہ مجلس اور اجتماع کی شرح تمام ممالک کیلئے ایک ہی ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے :- نمبر شمار نام مجلس چنده مجلس مجلس انصار الله ماہانہ آمد پر ایک فیصد iiمجلس خدام الاحمدیہ ماہانہ آمد پر ایک فیصد iii لجنہ اماء الله ماہانہ آمد پر ایک فیصد چنده اجتماع 1.5 فیصد ماہوار آمد پر سال میں ایک بار 2.5 فیصد ماہوار آمد پر سال میں ایک بار اطفال اور ناصرات کے چندہ جات کی شرح کی بابت ہر ملکی متعلقہ ذیلی تنظیم اپنی شورٹی میں غور کر کے معتین سفارش حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کرے گی.ایسے ممبران جن کا کوئی روزگار یا آمد کی سبیل نہ ہو اسی طرح طلباء اور گھر یلو خواتین وغیرہ کیلئے ہر ملک کی متعلقہ ذیلی تنظیم حسب حالات و فیصلہ شوری چندہ کی رقم تجویز کرے گی اور ان تمام چندہ جات کی شرح یا معین رقم کی منظوری حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے حاصل کی جائے گی.ج.لجنہ اماءاللہ کیلئے چندہ اجتماع کی شرح یار تم کا فیصلہ بھی مندرجہ بالا طریق پر ہی ہو گا.☆-

Page 73

مالی قربانی 65 ایک تعارف ماہانہ مالی گوشواره بجٹ کی تیاری کے بعد سب سے اہم کام آمد و خرچ کا حساب رکھنا ہے.مقامی جماعتوں میں ہر ماہ وصول ہونے والے چندہ جات اور دوران ماہ ہونے والے اخراجات کی رپورٹ تیار کر کے نیشنل مرکز بھجوائی جائے.نیشنل سیکرٹری مال ان آمدہ رپورٹس کے مطابق اپنی رپورٹ تیار کر کے نیشنل امیر کے دستخطوں سے وکالت مال لندن اور اس کی کاپی وکالت مال ثانی ربوہ کو بھجوانے کا ذمہ دار ہے.ماہانہ مالی گوشوارہ تیار کرتے وقت درج ذیل ہدایات کو مد نظر رکھا جائے :- ماہانہ مالی گوشوارہ میں آمد وخرچ کے تین ہیڈ ز ہیں.ހނ 1 معمول کا آمد و خرچ 2 مشروط آمد و خرچ 3.ترقیاتی آمد و خرچ Regular Income & Expenditure Conditional Income & Expenditure Development Income & Expenditure ان ہیڈز کے تحت آنے والی مدات میں تبدیلی یا زائد مد کا اندراج صرف مرکز سے منظوری کے بعد ریگولر انکم وایکسپنڈ پچر ہو سکتا ہے.ریگولر انکم (Regular Income) روز مرہ اخراجات ریگولر انکم کے تحت ہونے والی آمد سے ہی ہوں گے.اگر ملک اپنے ذرائع سے روز مرہ اخراجات پورے نہیں کر سکتا تو ایسی صورت میں وہ حضور انور کی منظوری سے سنٹرل ریز رویا مرکز و غیرہ سے گرانٹ حاصل کر سکتا ہے.جس ذریعہ سے بھی گرانٹ حاصل کی جائے گی اسے خرچ کرنے سے پہلے Regular Income کے ہیڈ کے تحت بطور آمد درج کیا جائے گا.ریگولرانم اگر دوران سال ہونے والے ریگولر اخراجات سے کم ہو اور مرکز سنٹرل ریزرو سے اخراجات کرنے کی اجازت دے دے تو درج ذیل ہدایات مد نظر رہنی چاہیں:.

Page 74

مالی قربانی 66 ایک تعارف (i) جہاں تک مالی گوشوارہ جات کا تعلق ہے، دوران سال پیدا ہونے والا سنٹرل ریز روحسب ہدایت اسی طرح الگ کیا جائے گا اور اخراجات میں ایک خرج کے طور پر ظاہر کیا جائے گا.(ii) مندرجہ بالا طریق پر الگ کی گئی رقوم سنٹرل ریز رو کی سٹیٹمنٹ میں آمد کے طور پر درج ہونگی.(iii) پھر جس قدر رقم کی منظوری مرکز کی جانب سے سنٹرل ریزرو میں سے خرچ کرنے کی دی گئی ہے، اس قدر رقم " سنٹرل ریزروسٹیمنٹ " میں خرچ کے طور پر ظاہر کی جائے گی.اور مالی گوشوارہ کے متعلقہ مین ہیڈ یعنی ریگولر، کنڈیشنل یا ڈویلپمنٹ میں " آمد از سنٹرل ریز روا" کے طور پر ظاہر کی جائے گی.اگر مرکز کسی خاص مد میں ہونے والے اخراجات کے تعلق میں سنٹرل ریز رو سے رقم خرچ کرنے کی منظوری دیتا ہے تو وہ رقم اس مد میں خرچ ہونی چاہیئے.تبلیغ وتربیت اور تعلیم کی مدات الگ سے نہیں کھولی جاسکتیں.یہ مشنز کا روز مرہ کا کام ہے.یعنی تبلیغ و تربیت کیلئے اختیار کئے گئے سفر کے اخراجات مد Travelling سے لئے جائیں.ان مقاصد کیلئے رکھے گئے معلمین / ملازمین وغیرہ کی تنخواہوں کے اخراجات مد Establishment میں درج ہونگے اور اسی طرح اس سلسلہ میں کی گئی میٹنگز، ٹیلیفون اور فیکسز وغیرہ کے اخراجات متعلقہ مدات سے لئے جائیں.ریگولر انکم میں نئی مد " Profit/Refund/Interest" کا اندراج کر دیا گیا ہے.اس میں بینکنگ پرافٹ یا کسی قسم کے ریفنڈز سے حاصل ہونے والی آمد درج کی جائے.احباب جماعت سے اشاعت اسلام" کے سلسلہ میں حاصل ہونے والی رقوم بھی اسی مد کے تحت کھولے جانے والے سب ھیڈ میں آئیں گی.اس مد میں حاصل ہونے والی سودی آمد اور لاٹری وغیرہ کی آمد کی رپورٹ الگ بھجوائی جائے."MTA International" کی مد میں MTA کیلئے لیا جانے والا چندہ درج ہوگا.یہ چندہ _^ 100% سنٹرل ریز رو کا حصہ بنے گا اور ملک کو اسے اپنے طور پر خرچ کرنے کا اختیار نہیں ہے....Loan From" کی مد میں کسی بھی ذریعہ سے قرض کی صورت میں ملنے والی امداد درج ہوگی."Regular Income " میں دی گئی مدات کے علاوہ اگر کسی اور ذریعہ سے آمد ہوتی ہے تو..Miscellaneous ( متفرق) کی مد میں درج ہو گی.جسکی تفصیل ماہانہ رپورٹ میں مرکز بھجوائی جائے.اگر کسی نئی مد کے کھولنے کی ضرورت پیش آرہی ہو اور موجودہ مدات میں کوئی رقم نہ ڈالی جا سکتی ہو تو وجہ بیان

Page 75

مالی قربانی 67 ایک تعارف کر کے مرکز سے منظوری حاصل کرنا لازمی ہوگا.ریگولر ایکسپنڈ پچر (Regular Expenditure) اس ہیڈ کے تحت کچھ نئی مدات کا اضافہ کیا گیا ہے اور کچھ مدات میں ترمیم کی گئی ہے جنکی تفصیل درج ذیل ہے.اگر ان مدات کے علاوہ کسی قسم کا خرچ ہوتا ہے تو وہ مد Miscellaneous ( متفرق) میں درج کیا جائے اور اس کی تفصیل ماہانہ رپورٹ میں مرکز بھجوائی جائے."House Rent" کی جگہ "Rent, Rates and Taxes" کی مد درج کی گئی ہے.اس میں ہر قسم کا Taxes Rent اور گورنمنٹ Rates درج ہوں گے.(سوائے ایسے ٹیکس کے جو ملازمین کی جانب سے جماعت نے جمع کروایا ہوگا.) "Stationery" کی جگہ "Printing & Stationery" کی مددرج کی گئی ہے.اس میں دفتری سٹیشنری کے علاوہ رسید بکس، فارمز اور پیڈز وغیرہ کی چھپوائی پر ہونے والا خرچ درج کیا جائے."Literature" کی جگہ "Literature & Publications" کی مد درج کی گئی ہے.اس میں لٹریچر، کتب ، اخبارات ورسائل اور اشتہارات وغیرہ کی طباعت پر آنے والا خرج درج کیا جائے."Postage" کی جگہ "Postage, Telephone & Faxes" کی مد درج کی گئی ہے.اس میں ان امور پر اُٹھنے والے اخراجات درج کئے جائیں."Newspaper" کی جگہ "Newspaper, Books & Periodicals" کی مددرج کی گئی ہے.اس میں اخبارات، رسائل اور کتابوں کی خرید کے اخراجات درج کئے جائیں."Maintenance" کی جگہ م "Repair & Maintenance" درج کی گئی ہے اور اس کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے.گاڑیوں کی مرمت کے اخراجات مد "Vehicles" میں آئیں گے اور باقی.V.C.R، کمپیوٹر، فیکس مشین، فرنیچر وغیرہ اور بلڈنگ کی مرمت کے اخراجات مد "Properties " میں آئیں گے.درج ذیل نئی مدات کا اضافہ کیا گیا ہے :- (Utilities (i" اس مد میں بجلی گیس اور پانی کے اخراجات درج کئے جائیں.

Page 76

مالی قربانی 68 ایک تعارف (Computer and Audio/Video (ii" کی مد میں کمپیوٹر سے متعلقہ روز مرہ کے اخراجات درج ہو نگے.نیز MTA کیلئے ٹی وی پرگرام بنانے اور سمعی بصری شعبہ کیلئے روزمرہ معمول کے اخراجات درج ہونگے.(Insurance/Bank Charges (iii" کی مد میں ہر قسم کی انشورنس کے اخراجات ، بنگ چارجز مثلاً ڈرافٹس اور پے آرڈر وغیرہ پر ہونے والے اخراجات درج کئے جائیں گے.(Grant to Nusrat Jehan Projects" (iv " اگر ریگولر انکم یا کنڈ یشنل انکم سے رقم بچ جاتی ہے اور متعلقہ ملک میں مجلس نصرت جہاں کا کوئی پرا جیکٹ زیر غور یا زیرتعمیر ہے تو یہ رقم مرکز کی منظوری سے اس مد میں خرچ کی جاسکتی ہے.کنڈیشنل انکم وایکسپنڈ بیچر ریشنل انکم (Conditional Income) یہ ہیڈ مشروط با آمد ہے.اس ہیڈ کے تحت ہونے والی آمد ہی سے اس ہیڈ کے اخراجات ہونگے.یعنی اگر آمد نہیں ہوگی تو اخراجات بھی نہیں ہو سکیں گے.مد "Literature" کو مد "Literature & Library Income" میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور اس کے Sources بھی بڑھا دیئے گئے ہیں.ان امور کیلئے جو بھی انکم ہو وہ اس مد میں درج کی جائے." FIDYA" کی نئی مد شامل کی گئی ہے.اس مد میں ہونے والی انکم %100 مقامی طور پر خرچ ہوگی.لیکن اگر متعلقہ ملک میں کوئی ضرورت مند میسر نہ ہوتو یہ رقم سنٹرل ریزرو کا حصہ بنے گی.ان مدات کے علاوہ کوئی انکم ہے تو وہ مد Miscellaneous ( متفرق) میں درج کی جائے اور اس کی تفصیل ماہانہ رپورٹس میں مرکز بھجوائی جائے."Cassette" حذف کر دی گئی ہے.اس ذریعہ سے ہونے والی آمد Miscellaneous (متفرق) کی مد میں درج کر دی جائے.

Page 77

مالی قربانی 69 ایک تعارف کنڈیشنل ایکسپنڈ بچر (Conditional Expenditure) اس مین ہیڈ کے اخراجات مشروط بآمد ہیں.اگر آمد ہوتی ہے تو خرچ ہوگا ورنہ نہیں.جس مد کے تحت آمد ہو رہی ہے اسے اسی مد کے تحت خرچ کیا جائے گا.کسی دوسری مد میں خرچ کرنے کی اجازت نہ ہوگی.اگر کسی مد میں آمد نہیں ہو رہی تو اس میں خرچ بھی نہیں ہو گا اور اگر خرچ ضروری ہو تو مرکز سے آمد کا ذریعہ تجویز کر کے منظوری حاصل کر نالازمی ہوگا.سنٹرل ریز رو سے اگر گرانٹ حاصل کرنا ضروری ہو تو قبل از وقت مرکز سے منظوری حاصل کی جائے ، بعد از منظوری جس ہیڈ میں خرچ کرنے کیلئے گرانٹ لی جائے.اسے اسی ہیڈ کے تحت آمد میں بھی آمد از سنٹرل ریز رو درج کیا جائے.اگر سنٹرل ریز رو بھی ضرورت پوری نہ کر رہا ہو تو جس ذریعہ سے ضرورت پوری کرنا چاہتے ہیں ، وہ تجویز کر کے وکالت مال لندن کی وساطت سے حضور انور سے منظوری حاصل کی جائے.ہر ممکن کوشش کی جائے کہ آمد اور خرچ برابر ہوں." فدیہ " کی ایک نئی مدشامل کی گئی ہے، جو کہ مکمل طور پر مقامی سطح پر خرچ کی جائے گی.ڈیویلپمنٹ انکم وایکسپنڈ بیچر ڈیویلپمنٹ انکم ( Development Income) "Development income" کیلئے درج ذیل ذرائع اختیار کئے جاسکتے ہیں."Through Donation" اس سے مراد لوگوں کی طرف سے خاص طور پر ان اخراجات کیلئے لیا گیا چندہ ہے."From Regular Income Budget اس میں ریگولر انکم سے لی گئی رقوم درج ہوں گی."From Central Reserve اس میں سنٹرل ریز رو سے لی گئی رقوم درج ہوں گی."Grant From Head Quarter" مرکز سے ان مقاصد کیلئے لی گئی رقوم اس میں درج

Page 78

مالی قربانی ہوں گی.70 ایک تعارف اس ہیڈ میں دونئی مدات کا اضافہ کیا گیا ہے.i."Rental Income from any propertyس مد کے تحت جماعت کی ایسی عمارات یا دیگر جائیداد جو کرائے پر دی گئی ہیں، سے ہونے والی آمد درج ہوگی.From Sale of any Property"_ii"اگر جماعت کی کوئی جائیداد فروخت کی جاتی ہے تو حاصل ہونے والی آمد اس میں درج کی جائے گی.ڈیویلپمنٹ ایکسپنڈ پچر (Development Expenditure) مشن ہاؤسز اور مساجد کی تعمیر کیلئے مرکز سے کافی بڑی رقوم حاصل کی جاتی ہیں لیکن ان رقوم کا ذکر نہ تو بجٹ میں اور نہ ہی ماہانہ رپورٹس / سالانہ رپورٹس میں کیا جاتا ہے.نیز دوران سال کسی بھی وقت پلان پیش کر دیا جاتا ہے کہ ہم اتنی مساجد / مشن ہاؤسز بنانا چاہتے ہیں مرکز اس کیلئے گرانٹ دے.آئندہ اس امر کوملحوظ رکھا جائے کہ بجٹ پیش کرتے وقت اگلے پورے سال کا پلان بنا کر کہ ہم اتنی بلڈنگز / مساجد بنائیں گے اور ان پر اتنے اخراجات کا تخمینہ ہے، بجٹ میں شامل کیا جائے اور اس کی منظوری مرکز سے حاصل کی جائے.اگر دوران سال کوئی نفع بخش موقعہ سامنے آئے تو اسے حاصل کرنے کیلئے منظور شدہ بجٹ میں تبدیلی کروانے کیلئے اس سلسلہ میں وضاحت طلب امور کے بارہ میں رپورٹ حضور انور کی خدمت اقدس میں پیش کر کے منظوری حاصل کی جائے اور پھر اس کے مطابق عمل کیا جائے.جہاں سے بھی گرانٹ لی جائے وہ بجٹ میں ظاہر کی جائے ، اس کے اخراجات معمول کے حساب میں درج کئے جائیں اور ماہانہ مالی گوشوارہ کے ساتھ مرکز کو بھجوائے جائیں."Development Expenditure" کے ہیڈ میں پانچ نئی مدات کا اضافہ کیا جارہا ہے.Land / Plots / Buildings" - i اس مد میں نئی خریدی گئی املاک اور ان پر ہونے والے اخراجات درج کئے جائیں.ii."Furniture and Fixture" اس مد میں نئی خریدی گئی اشیاء مثلاً پنکھے، فرنیچر، ریکس، ، الماریاں.A.C اور کارپٹ وغیرہ پر ہونے والے اخراجات درج کئے جائیں.

Page 79

مالی قربانی 71 ایک تعارف Vehicles_iii اس میں گاڑیوں کی خرید پر ہونے والے اخراجات درج کئے جائیں.Office Equipment" iv" اس مد میں آفس کیلئے خریدی گئی اشیاء مثلاً کمپیوٹر، فیکس مشین ، فوٹو کاپی مشین ، پرنٹرز، کیمرہ، سکینر وغیرہ پر ہونے والے اخراجات درج کئے جائیں.v."Audio/Video Equipment " اس مد میں.T.V., V.C.R ، ریسیورز اور ڈش | انٹینا سے متعلق اخراجات درج کئے جائیں.نمبر (i) تا نمبر (v) میں سے ہر چیز کی مرمت وغیرہ پر اٹھنے والے اخراجات ان مدات میں درج نہیں ہوں گے بلکہ "Regular Expenditure" کی مد "Repair and Maintenance" میں درج | کئے جائیں.اس مد کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے، گاڑیوں کی مرمت کے اخراجات اس کی مد "Vehicles" میں آئیں گے اور باقی.V.C.R، کمپیوٹر ، فیکس مشین ، فرنیچر وغیرہ اور بلڈنگ کی مرمت کے اخراجات "Properties" میں آئیں گے.متفرق امور بابت مالی گوشواره اپنے طور پر کسی ہیڈ میں زائد مد کا اندراج نہیں کیا جاسکتا.کسی نئی مد کے اندراج کی ضرورت محسوس ہو، تو وجہ بیان کر کے مرکز سے منظوری حاصل کی جائے.ہر ماہ کے آخر پر مالی گوشوارہ بھجواتے وقت اس امر کا خیال رہے کہ تینوں ہیڈز کے آمد اور خرچ کے بیلنس برا بر ہوں.کسی بیڈ کے تحت دی گئی مدات کے بجٹ کو خود سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا.مجلس عاملہ کو بھی یہ اختیار نہ ہے کہ ایک مد کا خرچ کسی دوسری مد میں ڈالے.مثلاً مد " سفر خرچ " کا بل مد " ڈاک تارفون" میں ڈال دیا جائے.مجلس عاملہ کو بھی ایک مد کے اخراجات کسی دوسری مد کے تحت ظاہر کرنے کا اختیار نہیں ہے.البتہ بجٹ کے اندر رہتے ہوئے اگر ایک مد سے رقم کو دوسری مد میں منتقل کرنے کی ضرورت ہو تو اس اندرونی تبدیلی کی منظوری مجلس عاملہ دے سکے گی.بشرطیکہ اس کیلئے دوسری مد میں رقم کی گنجائش موجود ہو، اور اس میں اضافہ کی ضرورت پیش نہ آئے.

Page 80

مالی قربانی 72 ایک تعارف ایک ھیڈ سے متعلقہ آمد کسی دوسرے ھیڈ کے تحت خرچ نہیں کی جاسکتی.مثلا ریگولر ھیڈ کی آمد سے کنڈ یشنل ھیڈ کی کسی مد کا خرچ ادا کیا جائے.اس کے لئے پہلے مرکز سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہوگا.کسی ایک بجٹ ہیڈ کی آمد مرکز کی منظوری کے بغیر دوسرے بجٹ ہیڈ کے اخراجات کیلئے خرچ نہیں کی جاسکتی.( مثلاً ریگولر کی مد سے کنڈ یشنل یا ڈیویلپمنٹ میں خرچ نہیں کیا جاسکتا.) مجلس عاملہ بھی مرکز کی منظوری کے بغیر over all بجٹ بڑھانے کی بھی مجاز نہیں.مرکزی اور مقامی امانات کو انکم سٹیٹمنٹ میں درج نہ کیا جائے بلکہ ان کا اندراج مجوز د رپورٹ فارم میں کیا جائے.تبلیغ ، تربیت اور تعلیم ریگولر اخراجات ہیں ان کی الگ مدات نہ بنائی جائیں ان کے اخراجات متعلقہ مدات میں مالی گوشوارہ میں درج کئے جائیں.تعمیر مساجد و مشن ہاؤسز کی آمد و خرچ کو مالی گوشوارہ میں درج کیا جائے.بعض ممالک میں " سپیشل اخراجات " کئے جارہے ہیں ان کی آمد و خرچ کو بجائے الگ رکھنے کے مالی گوشوارہ میں ظاہر کیا جائے.بنک سٹیٹمنٹ اور "Bank reconciliation statement" ہر چھ ماہ کے بعد مالی گوشوارہ کے ساتھ بھجوائی جائیں.نوٹ :.ماہانہ مالی گوشوارہ Annexure IV صفحہ نمبر 184 میں درج چیک لسٹ کو مد نظر رکھ کر تیار کر کے مرکز بھجوائیں.

Page 81

مالی قربانی 73 تفصیل چندہ جات لازمی چندہ جات ا.زکوة ۲.فطرانہ ۳.حصہ آمد ۴.حصہ جائیداد ۵.چندہ عام ۶.چندہ جلسہ سالانہ ایک تعارف اس کے علاوہ " چندہ شرط اول " اور " چندہ اعلان وصیت " کا بھی لازمی چندہ جات میں شمار ہوتا ہے.لیکن یہ صرف وصیت کرنے والے احباب پر بوقت وصیت لاگو ہوتے ہیں.طوعی چندہ جات و امانات ا.عید فنڈ ۲.چندہ تحریک جدید ۳.چندہ وقف جدید ۴.امانت تربیت ۵- امداد طلباء ۶.امداد مریضان ے.چندہ بیوت الحمد - بیتامی فنڈ ۹ تعمیر بیوت الذکر ۱۰.صدقہ فدیہ ا.مریم شادی فنڈ ۱۲.سیدنا بلال فنڈ ۱۳.مقامی چندے ( لوکل فنڈ ) ۱۴.کھال قربانی ۱۵.یورپ میں مشن ہاؤس ۱۶.بیت الفتوح لندن ۱۷.طاہر فاؤنڈیشن ۱۸.قادیان گیسٹ ہاؤس ۱۹.درویش فنڈ ۲۰ الفضل انٹرنیشنل ۲۱- ریویو آف ریلیجنز وہ اموال جن کا ذاتی خرچ جائز نہیں ا.سود ( یہ رقم بد اشاعت اسلام جمع ہوگی ) ۲.لاٹری سے ملنے والی رقم یہ رقم بعد اشاعت اسلام جمع ہوگی ) مرکزی تحریکات * * تفصیل صفحہ نمبر ۱۲۳ تا ۱۳۰ پر ملاحظہ فرمائیں ) اس میں مرکز کی طرف سے وقتا فوقتا جاری کردہ تحریکات شامل ہیں اور یہ سو فیصد مرکز کا حصہ ہیں.

Page 82

مالی قربانی 74 ایک تعارف مثلاً مریم شادی فنڈ ، بیوت الحمد تعمیر بیوت الذکر، سیدنا بلال فنڈ ، بیت الفتوح لندن ، طاہر فاؤنڈیشن، بتائی فنڈ.ان کا مرکزی امانات میں اندراج ہو گا.انکے آمد وخرچ کی الگ رپورٹ بھجوائی جائے.مرکزی امانات اس میں مندرجہ بالا تحریکات کے علاوہ مرکزی امانات بھی آئیں گی مثلاً الفضل انٹرنیشنل، ریویو آف ریلیجینز وغیرہ.لوکل امانات لوکل امانات میں مقامی امانات کے علاوہ انصار، خدام اور لجنہ اماءاللہ کے ذیلی چندہ جات شامل ہیں.انہیں بجٹ میں شامل نہ کیا جائے بلکہ ان کے آمد و خرچ کی ماہانہ رپورٹ الگ سے مرکز بھجوائی جائے.لوکل فنڈ مقامی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے قواعد میں دی گئی شرائط کے مطابق لوکل فنڈ قائم کیا جا سکتا ہے، جو اس جماعت کے لازمی چندہ جات کی مجموعی رقم کے ایک فیصد سے زائد نہ ہو.لیکن اسے نیشنل بجٹ میں شامل نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ لوکل فنڈ کی حیثیت سے ایک لوکل امانت ہوگا.لہذا اسے لوکل امانات میں درج کیا جائے.سنٹرل ریزرو سنٹرل ریز رو عموماً درج ذیل ذرائع سے منتقل ہونے والی رقوم پر مشتمل ہوتا ہے..ریگولر انکم کے تحت آنے والے چندہ جات کا حصہ مرکز.ii.کنڈیشنل انکم کے تحت آنے والے چندہ جات کا حصہ مرکز.قواعد کے مطابق ریگولر انکم میں ہونے والی آمد درج ذیل شرح کے مطابق سنٹرل ریزرو میں منتقل کی جائے گی:.1.چندہ عام کا 25% ii.چندہ حصہ آمد کا 25% iii.چندہ حصہ جائیداد کا 100% iv.چندہ تحریک جدید 100% ۷.چندہ وقف جدید 100% MTA-vi(امانت تربیت (100%

Page 83

مالی قربانی جائے گی.75 ایک تعارف اسی طرح کنڈیشنل انکم میں ہونے والی آمد درج ذیل شرح کے مطابق سنٹرل ریزرو میں منتقل کی i صدقات کا 75% iii.عید فنڈ کا100% ii.زکوة کا 25% iv.فطرانہ 10% یعنی صدقات کا 25% ، زکوۃ کا %75 اور فطرانہ کا90% نیشنل سطح پر خرچ کیا جانا چاہئے.لیکن اگر نیشنل سطح پر مستحق افراد میئر نہ ہوں تو یہ تمام رقوم سنٹرل ریزرو میں منتقل کر دی جائیں گی.سنٹرل ریزرو کے بارے میں ہدایات قواعد کے مطابق سنٹرل ریزور کو علیحدہ رکھا جائے.اسے اخراجات میں ظاہر کیا جائے.اس کے آمد و خرچ کے حساب کو maintain رکھا جائے.اگر ممکن ہو تو سنٹرل ریز روکا بنک اکاؤنٹ علیحدہ کھلوایا جائے.سنٹرل ریزرو سے رقوم لینے کیلئے مرکز سے منظوری حاصل کی جائے اور منظوری کی کاپی کی نقل اس ماہ کے گوشوارہ کے ساتھ مرکز بھجوائی جائے سنٹرل ریزرو سے رقوم جس ہیڈ میں خرچ کرنے کی منظوری مرکز سے حاصل کی جائے.انہیں اسی ہیڈ کے تحت خرچ کیا جائے.اگر دوران سال نیشنل جماعت اپنے اخراجات کے بالمقابل مقامی طور پر آمد پیدا نہ کر سکے.تو مرکز سے ان اخراجات کو سنٹرل ریزرو سے پورا کرنے کی منظوری ملنے کی صورت میں درج ذیل ہدایات کو مد نظر رکھا جائے..دوران سال بقیہ عرصہ میں سنٹرل ریز رو ہدایات کے مطابق حسب سابق علیحدہ کیا جاتا رہے گا اور مالی گوشوارہ میں بطور خرچ ظاہر کیا جائے گا.ii.مندرجہ بالا طریق پر علیحدہ کی گئی رقم سنٹرل ریز روسٹیٹمنٹ میں بطور آمد ظاہر کی جائے گی.iii.رقم جس کو استعمال کرنے کی منظوری وصول ہو چکی ہوسنٹرل ریزروسٹیٹمنٹ میں خرچ کے طور پر

Page 84

مالی قربانی 76 ایک تعارف ظاہر کی جائے گی اور مالی گوشوارہ میں اپنی متعلقہ مدیعنی ریگولر، کنڈ یشنل یا ڈیویلپمنٹ میں " آمداز سنٹرل ریزرو" کے تحت ظاہر کی جائے گی.( جیسا کہ مالی گوشوارے کے مجوزہ فارم میں درج کیا گیا ہے) اگر مرکز کی منظوری سے سنٹرل ریزرو سے کچھ رقم بجٹ کے کسی مین ہیڈ مثلا ریگولر، کنڈ یشنل یا ڈویلپمنٹ میں خرچ کرنے کی اجازت ملی ہو تو جتنی رقم سنٹرل ریز رو سے لی جائے اسے اسی ہیڈ کے تحت بطور آمد از سنٹرل ریز رو درج کیا جائے ، جس ہیڈ کے تحت اسے خرچ کرنے کیلئے منظوری حاصل کی گئی ہے.سنٹرل ریز رو مرکز سے منظور شدہ افراد آپریٹ کریں گے.---

Page 85

مالی قربانی 77 احادیث مبارکہ زكوة أَنَّ أَنَسٌ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ اللهِ وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ.(صحیح بخارى كتاب الزكواة) ترجمہ :.حضرت انسؓ نے بیان کیا کہ حضرت ابو بکر نے ان کیلئے فرض زکوۃ کا بیان لکھ دیا جو آنحضرت ﷺ نے مقرر کی تھی.اس میں یہ بھی تھا کہ زکوۃ کے ڈر سے جدا جدا مال کو ایک جا اور ایک جامال کو جدا جدا نہ کیا جائے.--646-- يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَشُقُّ عَلَى الرَّجُلِ أَنْ يَخْرُجَ فِيْهِ زَكَاةَ مَالِهِ.(كنز العمال.كتاب الزكواة) ترجمہ:.آنحضرت ﷺ نے فرمایا یقیناً لوگوں پر ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ آدمی اپنے مال کی زکوۃ نکالتے وقت تکلیف محسوس کرے گا.--646-- فَقَالَ الْقَاسِمُ مِنْ مُحَمَّدٍ أَنَّ أَبَا بَكْرِ الصِّدِّيقَ لَمْ يَكُنُ يَأْخُذُ مِنْ مَالِ زَكوةٍ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ لُحُولُ قَالَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَكَانَ أَبُو بَكْرِ الصِّدِّيقُ إِذَا أَعْطَى ایک تعارف

Page 86

مالی قربانی 78 النَّاسَ أَعْطِيَاتَهُمْ سَاَلَ الرَّجُلُ هَلْ عِنْدَكَ مِنْ مَّال وَجَبَتْ عَلَيْكَ فِيهِ الزَكواةُ فَإِنْ قَالَ نَعْمُ أَخَذَمِنْ عَطَائِهِ زَكَوةَ ذِلِكَ الْمَالِ وَإِنْ قَالَ لَا سَلَّمَ إِلَيْهِ عَطَاءَهُ وَلَمُ يَأْخُذُ مِنْهُ شَيْئًا.(موطا امام مالک کتاب الزكواة باب الزكوة) ترجمہ:.قاسم بن محمد نے کہا کہ حضرت ابوبکر صدیق اکسی مال میں سے زکوۃ نہ لیتے تھے جب تک ایک سال اس پر نہ گزرتا اور آپ جب لوگوں کو ان کے وظائف دیتے تو پوچھ لیتے کہ تم پر کسی مال کی زکوۃ واجب ہے اگر وہ کہتا کہ ہاں تو اسی وظیفہ میں سے زکوۃ نکال لیتے اور اگر کہتا نہیں تو اس کو وظیفہ دے دیتے اور کچھ اس میں سے نہ لیتے.زکوة کیا ہے ---- حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.زکوة کیا ہے.يُؤخَذُ مِنَ الْامَرَاءِ وَيُرَدُّ إِلَى الْفُقْرَاءِ امراء سے لے کر فقراء کو دی جاتی ہے.اس میں اعلیٰ درجہ کی ہمدردی سکھائی گئی ہے.اس طرح سے باہم گرم سرد ملنے سے مسلمان سنبھل جاتے ہیں.امراء پر یہ فرض ہے.کہ وہ ادا کریں.اگر نہ بھی فرض ہوتی.تو بھی انسانی ہمدردی کا تقاضا تھا.کہ غرباء کی مدد کی جائے.مگراب میں دیکھتا ہوں.کہ ہمسایہ اگر فاقہ مرتا ہو.تو پرواہ نہیں.اپنے عیش و آرام سے کام ہے.جو بات خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے.میں اس کے بیان کرنے سے رک نہیں سکتا.انسان میں ہمدردی اعلیٰ درجہ کا جو ہر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ.یعنی تم ہرگز ہرگز اس نیکی کو حاصل نہیں کر سکتے.جب تک اپنی پیاری چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو.یہ طریق اللہ کو ایک تعارف

Page 87

مالی قربانی 79 راضی کرنے کا نہیں.کہ مثلاً کسی ہندو کی گائے بیمار ہو جائے.اور وہ کہے کہ اچھا اسے منس دیتے ہیں.بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں.کہ باسی اور سری بسی روٹیاں جو کسی کام نہیں آسکتی ہیں.فقیروں کو دے دیتے ہیں.اور سمجھتے ہیں.کہ ہم نے خیرات کر دی ہے.ایسی باتیں اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں ہیں.اور نہ ایسی خیرات مقبول ہو سکتی ہے.وہ تو صاف طور پر کہتا ہے.لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ - حقیقت میں کوئی نیکی نیکی نہیں ہو سکتی.جب تک اپنے پیارے مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کے دین کی اشاعت اور اس کی مخلوق کی ہمدردی کے لئے خرچ نہ کرو.اس موقع پر ایک بھائی نے عرض کی.کہ حضور بعض فقیر بھی کہتے ہیں.کہ ہمیں کوئی باسی روٹی دے دو.پھٹا پرانا کپڑا دے دو.وہ مانگتے ہی پرانا اور باسی ہیں.فرمایا: تم نئی دے دو گے؟ وہ کیا کریں.جانتے ہیں.کہ کوئی نہیں دے گا.اس لئے وہ ایسا سوال کرتے ہیں.جہاں تک ہو سکے.مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور شفقت کرو." معلق مال کی زکوۃ (البدر قادیان، اکتوبر ۱۹۰۸ء) ایک تعارف ایک صاحب نے دریافت کیا.کہ تجارت کا مال جو ہے.جس میں بہت سا حصہ خریداروں کی طرف ہوتا ہے.اور اگراہی میں پڑا ہوتا ہے.اس پر زکوۃ ہے یا نہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:." جو مال معلق ہے.اس پر زکوۃ نہیں.جب تک کہ اپنے قبضہ میں نہ آجائے.لیکن تاجر کو چاہیئے کہ حیلہ بہانہ سے زکوۃ کو نہ ٹال دے.آخر اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اخراجات بھی تو اسی مال میں سے برداشت کرتا ہے.تقویٰ کے ساتھ اپنے مال موجودہ اور معلق پر نگاہ ڈالے.اور مناسب دے کر خدا تعالیٰ کو خوش کرتا رہے.بعض لوگ خدا کے ساتھ بھی حیلے بہانے کرتے ہیں.یہ درست نہیں ( الحکم قادیان، ۱۷ جولائی ۱۹۰۷ء، البدر قادیان ، اس جولائی ۱۹۰۷ء) ہے." * اگراہی ( ایسا مال جو ابھی قابل وصول ہے )

Page 88

مالی قربانی زیور پر زکوة 80 ایک تعارف زکوۃ ہر قسم کے سونے اور چاندی پر واجب الادا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:."جو زیور پہنا جائے اور کبھی کبھی غریب عورتوں کو استعمال کیلئے دیا جائے بعض کا اس کی نسبت یہ فتویٰ ہے کہ اس کی کچھ زکوۃ نہیں.اور جو زیور پہنا جائے اور دوسروں کو استعمال کیلئے نہ دیا جائے اس میں زکوۃ دینا بہتر ہے کہ وہ اپنے نفس کیلئے مستعمل ہوتا ہے.اسی پر ہمارے گھر میں عمل کرتے ہیں اور ہر سال کے بعد اپنی موجودہ زیور کی زکوۃ دیتے ہیں.اور جو زیور روپیہ کی طرح جمع رکھا جائے اس کی زکوۃ میں کسی کو بھی اختلاف نہیں تحریری فتاوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام مطبوعہ الحکم قادیان، ۷ ارنومبر ۱۹۰۵ء) مکانات و جواہرات پر کوئی زکوۃ نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں کسی شخص کا خط سے سوال پیش ہوا.کہ میرا پانچ سو روپیہ کا حصہ ایک مکان میں ہے.کیا اس حصہ میں مجھ پر زکوۃ ہے یا نہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: " جواہرات و مکانات پر کوئی البدر قادیان ۱۴۰ / فروری ۱۹۰۷ء) زکوۃ نہیں ہے." مکان اور تجارتی مال پر زکوۃ ایک شخص کے سوال کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.مکان خواہ کتنے ہزار روپیہ کا ہو.اس پر زکوۃ نہیں.اگر کرایہ پر چلتا ہو.تو آمد پر زکوۃ ہے.ایسا ہی تجارتی مال پر جو مکان میں رکھا ہے.زکوۃ نہیں.حضرت عمرؓ چھ ماہ کے بعد حساب کر لیا کرتے تھے.اور روپیہ پر ز کوۃ لگائی جاتی تھی." قرض پر زکوة البدر قادیان ۱۴ فروری ۱۹۰۷ ء ) ایک شخص کا سوال حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوا.کہ جو

Page 89

مالی قربانی 81 ایک تعارف ادائیگی زکوة روپیہ کسی شخص نے کسی کو قرضہ دیا ہوا ہے.کیا اس کو زکوۃ دینی لازم ہے.فرمایا:." نہیں." (البدر قادیان ،۲۱.فروری ۱۹۰۷ء) زکوۃ دین کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے اور حسب شرائط اس کی ادائیگی فرض ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارہ میں فرماتے ہیں:."سواے وے تمام لوگو جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ سچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے.سواپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے روزوں کو خدا کیلئے صدق کے ساتھ پورے کرو.ہر ایک جو زکوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے." پھر حضور فرماتے ہیں:.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹صفحه ۱۵) " چاہیئے کہ زکوۃ دینے والا اسی جگہ اپنی زکوۃ بھیجے اور ہر ایک شخص فضولیوں سے اپنے تئیں بچاوے اور اس راہ میں وہ روپیہ لگاوے.اور بہر حال صدق دکھاوے.تافضل اور روح القدس کا انعام پاوے کیونکہ یہ انعام ان لوگوں کیلئے تیار ہے جو اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں." چندہ جات اور زکوۃ (کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۸۳) حضرت خلیفہ اسیح الاوّل فرماتے ہیں:.میں سمجھتا ہوں کہ سلسلہ احمدیہ کے ہر فرد کو اس طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے کہ زکوۃ کے ایک جگہ جمع ہونے سے بڑے بڑے کام مسلمانوں کے چلتے رہے ہیں اور چل سکتے ہیں.ہمارے سلسلہ کیلئے اسوہ حسنہ وہی صحابہ کا نمونہ ہے جو

Page 90

مالی قربانی 82 زکوۃ کے مال کو علیحدہ علیحدہ خرچ کرنا جائز نہ سمجھتے تھے بلکہ زکوۃ کا کل روپیہ بیت المال میں جمع ہوتا تھا اور عظیم الشان مفید کام اس سے نکلتے تھے.گو اس وقت کتنی ہی چندوں کی آمد ہمارے سلسلہ میں ہو مگر ان اصول کی طرف جن پر اسلام کی بناء ہے توجہ نہ کرنا کم از کم اس سلسلہ کے جو مسیح موعود کا سلسلہ ہے شایان شان نہیں ہے.جس طرح چندوں کے دینے سے نماز اور روزہ اور حج کے فرائض میں کوئی فرق نہیں آیا اسی طرح زکوۃ کے فرض کی ادائیگی میں بھی کوئی فرق نہیں آسکتا.یا جس طرح تہجد اور نوافل کے ادا کرنے سے مسجد میں نماز با جماعت معاف نہیں ہو جاتی بلکہ وہ نوافل بے سود ہیں جو ایک شخص کو نماز با جماعت کی ادائیگی سے محروم رکھتے ہیں اسی طرح دوسرے چندوں کے دینے سے زکوۃ کی ادائیگی جو چار اصول اسلام سے ایک عظیم الشان اصل ہے یا اسلام کی عمارت کی چار دیواری میں سے ایک دیوار ہے معاف نہیں ہوسکتی ہماری ساری کامیابیوں کا مدار اسلامی اصول پر کار بند ہونا ہے.پس اپنے دوستوں سے التماس کرتا ہوں کہ وہ آئندہ کیلئے زکوۃ کے ایک جگہ جمع کر کے تقسیم کرنے کو اور وہ جگہ مرکزی مقام کے سوا نہیں ہو سکتی اپنے سلسلہ کے خاص امتیازات میں داخل کریں کیونکہ جب تک ہم ان لوگوں سے جنہوں نے اصول اسلام کی پابندی کو چھوڑ دیا ہے گو مسلمان کہلاتے ہیں کوئی امتیاز پیدا کر کے نہیں دکھائیں گے نری باتوں سے مظفر و منصور نہیں ہو سکتے.اگر دنیا میں کامیاب قوم بننا چاہتے ہو تو اصول اسلامی کو اپنا ایسا شعار بناؤ جس طرح صحابہ نے بنا کر دکھایا تھا.گو اس وقت ہمارے احباب اس بات کو سمجھیں یا نہ سمجھیں کہ زکوۃ کے ایک جگہ جمع ہونے سے کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں اور گوانہیں میری بات اور بھی زیادہ قابل اعتبار اس لئے معلوم نہ ہو کہ ایک لاکھ چالیس ہزار کی آمد کے بالمقابل ایک دو ہزار روپے کی رقم کیا وقعت رکھتی ہے مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ کامیابی جسے ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں کبھی ایک تعارف

Page 91

مالی قربانی 83 ایک تعارف حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ ادائیگی زکوۃ کے اصول پر کار بند ہوکر ہم اس دو ہزار کو لاکھوں نہیں کروڑوں تک نہ پہنچائیں.جونمو نہ ہمارے سیڈ ومولیٰ حضرت محمد مصطفے اللہ نے ہمیں دکھایا جو راہ خدائے عالم الغیب نے ہمیں بتائی وہی نمونہ اور وہی راہ سب سے زیادہ کامیابی کی راہ ہے.جو خدا انسانوں کو بناتا ہے وہی قوموں کو بناتا ہے.اور جو راہ اب ہماری آنکھوں کے سامنے ایک تجربہ شدہ راہ ہے اس سے ہٹنا اور پھر دعویٰ یہ کرنا کہ ہم اسلام کے پیرو ہیں حماقت ہے.اس لئے میں پھر آپ لوگوں کی خدمت میں یہ التماس کرتا ہوں کہ جس طرح ہمارے نبی کریم نے زکوۃ کے ایک جگہ جمع کر کے تقسیم کرنے کا نمونہ قائم کیا تھا جس طرح خدا کے پاک کلام نے اس کے چند مصارف بتائے تھے اسی طرح جب تک کہ ہمارا سلسلہ اس کو ایک جگہ جمع کر کے انہیں مصارف پر نہیں لگا تا اصول اسلام کے چار اصولوں میں سے ایک عظیم الشان اصل پر وہ کار بند نہیں کہلا سکتا.جس طرح نمازیں فرض ہیں اور مسجد میں جماعت کے ساتھ فرض ہیں اسی طرح زکوۃ فرض ہے اور اس کا ایک جگہ جمع کر کے تقسیم کرنا اور ان مصارف پر لگا نا جو اس کے لئے قرار دئے گئے ہیں فرض ہے.پس اس فرض کی ادائیگی کو اسی طرح ضروری سمجھو جس طرح نماز اور روزہ اور حج کی ادائیگی کو ضروری سمجھتے ہو." (رپورٹ صدرانجمن احمد یہ ۱۲-۱۹۱۱ء) حضرت خلیفہ امسیح الرابع اس بارہ میں فرماتے ہیں :." زکوۃ تو قرآنی حکم ہے....جہاں بھی ادا کرنے کی شرائط پوری ہوں گی ضرورا دا ہوگی." ( مکتوب از مکرم منیر احم جاوید صاحب بنام مکرم ومحترم صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب مورخه ۴ فروری ۲۰۰۳ء) اسی طرح حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز زکوۃ کے بارہ میں فرماتے ہیں.عورتوں پر عموماً زکوۃ فرض ہوتی ہے.یہاں ان ملکوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے

Page 92

مالی قربانی 84 ایک تعارف جہاں کشائش پیدا ہو چکی ہے.ہر ایک عورت نے کچھ نہ کچھ زیور بنایا ہوا ہے.(یعنی) تقریباً ہر ایک عورت پر کچھ نہ کچھ زکوۃ فرض ہوتی ہوگی.زکوۃ کے لئے جو نصاب اور شرائط مقرر ہیں ان کے مطابق پاکستانی کرنسی میں (زکوۃ ) لیں تو تقریباً ڈیڑھ تولہ سونے کے برابر زکوۃ (واجب) ہو جاتی ہے.اس لحاظ سے ہر ایک (عورت) کے پاس کم از کم اتنا سونا ہوتا ہے ،اس لئے اس پر زکوۃ ادا کرنی چاہیے.بہر حال ہر ملک میں قیمت کا اندازہ کر کے زکوۃ ادا کرنی چاہیے.(لجنہ سے خطاب بر موقع جلسہ سالانہ جرمنی - ۲۱ اگست ۲۰۰۴ء) زکوۃ کی ادائیگی سے متعلق بعض بنیادی معلومات سوال.کیا ز کوۃ واجب ہونے سے قبل دی جاسکتی ہے؟ جواب.دی جاسکتی ہے.سوال.زکوۃ کیلئے عرصہ کیا شمار ہوتا ہے؟ جواب.جس تاریخ سے اموال زکوۃ قابل نصاب ہوں اس سے ایک سال بعد ادائیگی زکوۃ واجب ہو جاتی ہے.سوال.کیا قرض دی گئی رقم پر زکوۃ واجب ہے؟ جواب.قرض دی جانے والی رقم پر زکوۃ واجب نہیں البتہ جب رقم واپس ملے تو اس کے ایک سال بعد ز کوۃ واجب ہوگی.بنکوں میں رکھی گئی رقم قرض کی بجائے رقم محفوظ رکھنے کے زمرے میں شمار ہوتی ہے.سوال.بنک میں یا کسی بھی طور پر محفوظ رقم کیلئے زکوۃ کا طریق کیا ہے؟ جواب.اگر نصاب کے مساوی یا زائد رقم محفوظ رکھی گئی ہو تو ایک سال گذرنے پر زکوة واجب ہو جاتی ہے.سوال.کیا چندہ جات زکوۃ کے متبادل ہیں؟ جواب.چندہ جات زکوۃ کے متبادل نہیں ہیں.جن احباب پر زکوۃ کی شرائط پوری ہوتی

Page 93

مالی قربانی 85 ہوں ان کیلئے اس عبادت کا ادا کرنا ضروری ہے.ایک تعارف سوال.کیا ز کو ۃ مال کے مجموعہ پر ہوتی ہے یا ہر قسم کے مال پر الگ الگ؟ جواب.زکوۃ مال کے مجموعہ پر نہیں ہوتی بلکہ ہر قسم کے مال پر الگ الگ واجب ہے.جب کسی مال کی قیمت نصاب زکوۃ یعنی 52.5 تول چاندی کے برابر یا اس سے زائد ہو تو اس وقت اس مال پر زکوۃ واجب ہوگی.سوال.کیا اس مال کی پوری قیمت پر زکوۃ کی ادائیگی ضروری ہے یا نصاب سے زائد پر ؟ جواب.زکوۃ جس مال پر واجب ہو اس کی پوری قیمت پر زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے.صرف نصاب سے زائد پر ادائیگی کرنا کافی نہیں مثلاً اگر کسی کے پاس 55 تولے چاندی ہے تو وہ 55 تولہ چاندی پر ہی زکوۃ ادا کرے گا نہ کہ صرف 2.5 تولہ پر.ہدایات برائے تقسیم زکوة زکوۃ کی تمام رقوم نیشنل جماعت میں اکٹھی ہوں گی لوکل جماعت اس میں سے کچھ بھی خرچ نہیں کرسکتی.اگر مکی سطح پر زکوۃ کی تقسیم کیلئے مستحق افراد نہ ملیں تو زکوۃ کی تمام رقوم سنٹرل ریزرو میں منتقل کر دی جائیں.کسی مقامی جماعت یا فرد کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ زکوۃ کی کوئی رقم از خود کسی مستحق کو دیدے.عہد یداران جماعت کو چاہیئے کہ وہ اپنی اپنی جماعت میں اس مسئلہ کی اچھی طرح تشہیر کرتے رہیں.

Page 94

مالی قربانی 86 فطرانہ ایک تعارف فطرانہ کو عربی میں صدقۃ الفطر کہا جاتا ہے.جس کی ادائیگی عید الفطر سے پہلے کرنا ضروری ہے.تاکہ اس کے ذریعہ غرباء ومساکین کو عید کیلئے ضروریات زندگی مہیا کی جاسکیں.فطرانہ کی شرح ایک صاع یعنی قریباً اڑھائی کلو غلہ یا اس کی قیمت ہے.اگر کوئی پوری شرح سے فطرانہ کی ادائیگی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو نصف شرح سے بھی ادائیگی کر سکتا ہے.فطرانہ کی ادائیگی ہر مسلمان مرد، عورت اور بچہ پر واجب ہے حتی کہ نوزائیدہ بچے کی طرف سے بھی یہ صدقہ ادا کیا جا نالا زمی ہے.مذکورہ شرح یعنی ایک صاع غلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر سال ملکی سطح پر ملکی کرنسی میں فطرانہ کی شرح مقرر کی جائے اور اس کے مطابق اس کی وصولی کی جائے.فطرانہ کی کل رقم کا ۱۰ فیصد بطور سنٹرل ریز روالگ کیا جائے اور ۹۰ فیصد ملکی سطح پر تقسیم کیا جائے.فطرانہ کی تقسیم کے بعد اگر کچھ رقم بچ جائے تو اسے مقامی اخراجات میں خرچ کرنے کی بجائے سنٹرل ریزرو میں جمع کروا دیا جائے.--❖☆☀-- فدیہ کسی بیماری، معذوری یا سفر کے پیش آجانے کی بناء پر رمضان المبارک کے روزے نہ رکھ سکنے والوں کیلئے قرآن کریم میں حکم ہے کہ وہ اس نیکی سے محروم رہنے کے کفارہ کے طور پر نیز آئندہ روزے رکھنے کی توفیق پانے کیلئے فدیہ ادا کریں.اس فدیہ کی مقدار اپنی حیثیت کے مطابق کسی مستحق کو ایک روزہ کے عوض دو وقت کا کھانا یا اس کی قیمت ادا کرنا ہے.فدیہ کی ادائیگی کسی مستحق کو از خود بھی کی جاسکتی ہے اور اس کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق دو وقت کے کھانے کا اوسط خرچ نقد رقم کی صورت میں جماعتی نظام کے تحت سیکرٹری مال کے پاس جمع کروا دیا جائے.فدیہ سے حاصل ہونے والی تمام آمد عمومی طور پر ملکی سطح پر خرچ ہوگی.لیکن اگر کسی ملک میں اس کے خرچ کیلئے مستحق افراد نہ ملیں تو یہ رقم سنٹرل ریز رو میں جمع کروادی جائے.

Page 95

مالی قربانی 87 عید فنڈ ایک تعارف یہ چندہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے قائم ہے.اس فنڈ کی غرض یہ تھی کہ جہاں خوشی کے تہوار پر انسان ذاتی خوشی کیلئے کپڑوں ، کھانوں اور دعوتوں وغیرہ پر کئی قسم کے اخراجات کرتا ہے، عزیزوں رشتہ داروں کو تحفے تحائف بھی دیتا ہے وہاں اس خوشی میں دین کی اغراض کو بھی یادر کھے.پس ہر احمدی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ خوشی کے تہواروں پر دین کی اغراض کو ضرور مد نظر رکھے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کمانے والے احمدی احباب اس مد میں ایک روپیہ فی کس بطور عید فنڈ دیا کرتے تھے.اب جبکہ روپیہ کی قدر وہ نہیں لہذا اسے ایک روپیہ تک محدود رکھنے کی بجائے اس فنڈ کی روح کو مد نظر رکھتے ہوئے عیدین کے مواقع پر حسب توفیق عید فنڈ ادا کئے جانے کی تلقین کی جائے.

Page 96

مالی قربانی 88 ایک تعارف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام وصیت کرنے والوں کیلئے خدا کے حضور دعا کرتے ہوئے رسالہ الوصیت میں تحریر فرماتے ہیں:.ایک جگہ مجھے دکھلائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا اور ظاہر کیا گیا کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں تب سے ہمیشہ مجھے یہ فکر رہی کہ جماعت کیلئے ایک قطعہ زمین قبرستان کی غرض سے خریدا جائے.اس لئے میں نے اپنی ملکیت کی زمین جو ہمارے باغ کے قریب ہے.جس کی قیمت ہزار روپیہ سے کم نہیں اس کام کے لئے تجویز کی اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اسی کو بہشتی مقبرہ بنا دے.اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خوابگاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کر لیا.اور دنیا کی محبت چھوڑ دی اور خدا کیلئے ہو گئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا.آمین یا رب العالمین." پھر میں دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر خدا اس زمین کو میری جماعت میں سے ان پاک دلوں کی قبریں بنا جو فی الواقع تیرے لئے ہو چکے اور دنیا کی اغراض کی ملونی ان کے کاروبار میں نہیں.آمین یا رب العالمین.پھر میں تیسری دفعہ دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر کریم اے خدائے غفور و رحیم تو صرف ان لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجالاتے ہیں اور تیرے لئے اور تیری راہ میں اپنے دلوں میں جان فدا کرچکے ہیں.جن سے تو راضی ہے اور جن کو تو جانتا ہے کہ وہ بکلی تیری محبت میں کھوئے گئے اور تیرے فرستادہ سے وفاداری اور پورے ادب اور انشراحی ایمان کے ساتھ محبت اور جانفشانی کا تعلق رکھتے ہیں.آمین یا رب العالمین." (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰.صفحہ ۳۱۷۳۱۶)

Page 97

مالی قربانی شرائط وصیت 89 ایک تعارف حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.خدا نے میرا دل اپنی وحی خفی سے اس طرف مائل کیا کہ ایسے قبرستان کیلئے ایسے شرائط لگا دئیے جائیں کہ وہی لوگ اس میں داخل ہو سکیں جو اپنے صدق اور کامل راستبازی کی وجہ سے ان شرائط کے پابند ہوں ، سو وہ تین شرطیں ہیں، اور سب کو بجالانا ہوگا.اس قبرستان کی زمین موجودہ بطور چندہ کے میں نے اپنی طرف سے دی سو پہلی شرط یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اس قبرستان میں مدفون ہونا چاہتا ہے.ہے وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مصارف کیلئے چندہ داخل کرے اور یہ چندہ محض انہیں لوگوں سے طلب کیا گیا ہے نہ دوسروں سے.دوسری شرط یہ ہے کہ تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا جو یہ وصیت کرے جو اس کی موت کے بعد دسواں حصہ اس کے تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہوگا اور ہر ایک صادق کامل الایمان کو اختیار ہوگا کہ اپنی وصیت میں اس سے بھی زیادہ لکھ دے لیکن اس سے کم نہیں ہوگا...تیسری شرط یہ ہے کہ اس قبرستان میں دفن ہونے والا متقی ہو اور محرمات سے پر ہیز کرتا اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہوسچا اور صاف مسلمان ہو.ہر ایک صالح جو اس کی کوئی بھی جائیداد نہیں.اور کوئی مالی خدمت نہیں کر سکتا.اگر یہ ثابت ہو کہ وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف رکھتا تھا اور صالح تھا.تو اس قبرستان میں دفن ہوسکتا ہے.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۸ تا ۳۲۰)

Page 98

مالی قربانی 90 واضح ہو کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ ایسے کامل الایمان ایک ہی جگہ دفن ہوں تا آئندہ کی نسلیں ایک ہی جگہ ان کو دیکھ کر اپنا ایمان تازہ کریں اور تا ان کے کارنامے یعنی جو خدا کیلئے انہوں نے دینی کام کئے ہمیشہ کیلئے قوم پر ظاہر ہوں.بالآخر ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس کام میں ہر ایک مخلص کو مدد دے اور ایمانی جوش ان میں پیدا کرے اور ان کا خاتمہ بالخیر کرے.آمین." (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۲۱) حضور علیہ السلام مزید فرماتے ہیں:." مناسب ہے کہ ہر ایک صاحب ہماری جماعت میں سے جن کو یہ تحریر ملے وہ اپنے دوستوں میں اس کو مشتہر کریں اور جہاں تک ممکن ہو اس کی اشاعت کریں اور اپنی آئندہ نسل کیلئے اس کو محفوظ رکھیں.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰.صفحہ ۳۲۱) یہ انتظام حسب وحی الہی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:." کوئی نادان اس قبرستان اور اس انتظام کو بدعت میں داخل نہ سمجھے کیونکہ یہ انتظام حسب وحی الہی ہے اور انسان کا اس میں دخل نہیں.اور کوئی یہ خیال نہ کرے کہ صرف اس قبرستان میں داخل ہونے سے کوئی بہشتی کیوں کر ہوسکتا ہے کیونکہ یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ زمین کسی کو بہشتی کر دے گی بلکہ خدا کے کلام کا یہ مطلب ہے کہ صرف بہشتی ہی اس میں دفن کیا جائے گا." ( رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰.صفحہ ۳۲۱.حاشیہ ) جو لوگ اس الہی انتظام پر اطلاع پا کر بلا توقف اس فکر میں پڑتے ہیں کہ دسواں حصہ کل جائیداد کا خدا کی راہ میں دیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اپنا جوش دکھلاتے ہیں وہ اپنی ایمانداری پر مہر لگا دیتے ہیں." (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ - صفحہ ۳۲۷) ایک تعارف

Page 99

مالی قربانی 91 " جو احباب کوئی جائیداد نہیں رکھتے مگر آمدنی کی کوئی سبیل رکھتے ہیں وہ اپنی آمدنی کا کم از کم ۱/۱۰ حصہ ماہوارانجمن کے سپرد کریں.لیکن ان کو وصیت کرنی ہوگی کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے متروکہ کی کم از کم ۱/۱۰ حصہ کی مالک انجمن ہو." دنیا کا نیا نظام الوصیت میں موجود ہے "1.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۳۲) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی فرماتے ہیں:.تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ علاوہ کوۃ کے غرباء کی سب ضرورتیں رسول کریم ے چندوں سے پوری فرمایا کرتے تھے." ( نظام نوصفحه ۱۱۰) ضرورت ہے کہ اس موجودہ دور میں اسلامی تعلیم کا نفاذ ایسی صورت میں کیا جائے کہ وہ نقائص بھی پیدا نہ ہوں جو ان دنیوی تحریکوں میں ہیں اور اس قدر رو پی بھی اسلامی نظام کے ہاتھ میں آجائے جو موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے مساوات کو قائم رکھنے اور سب لوگوں کی حاجات کو پورا کرنے کیلئے ضروری ہے." ( نظام نو صفحه ۱۱۲) خلفاء نے اپنے اپنے زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے اسلام کے احکام کی تعبیر کی.مگر موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے کسی اور نظام کی ضرورت تھی اور اس نظام کے قیام کیلئے ضروری تھا کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے اور وہ ان تمام دکھوں اور دردوں کو مٹانے کیلئے ایسا نظام پیش کرے جوز مینی نہ ہو بلکہ آسمانی ہوا اور ایسا ڈھانچہ پیش کرے جو ان تمام ضرورتوں کو پورا کر دے جو غرباء کو لاحق ہیں اور دنیا کی بے چینی کو دور کر دے." ( نظام نوصفحه ۱۱۳) ".پس موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے خاتم الخلفاء کا فرض تھا کہ وہ اسلامی اصول کے مطابق کوئی سکیم تیار کرتا اور دنیا سے اس مصیبت کا خاتمہ کر دیتا." ایک تعارف

Page 100

مالی قربانی 92 " اسلامی سکیم کے اہم اصول یہ ہیں :.اوّل: سب انسانوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے."" " دوم: مگر اس کام کو پورا کرتے وقت انفرادیت اور عائلی زندگی کے لطیف جذبات کو تباہ نہ ہونے دیا جائے.تیسرے یہ کام مالداروں سے طوعی طور پر لیا جائے اور جبر سے کام نہ لیا جائے.چوتھے یہ نظام ملکی نہ ہو بلکہ بین الاقوامی ہو." ( نظام نو صفحه ۱۱۴) خدا تعالیٰ کے مامور نے نئے نظام کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں رکھ دی تھی اور وہ الوصیت " کے ذریعہ رکھی تھی." ( نظام نو صفحه ۱۱۵) اگر اسلامی حکومت نے ساری دنیا کو کھانا کھلانا ہے ساری دنیا کو کپڑے پہنانا ہے ساری دنیا کی رہائش کیلئے مکانات کا انتظام کرنا ہے ساری دنیا کی بیماریوں کیلئے علاج کا انتظام کرنا ہے ساری دنیا کی جہالت کو دور کرنے کیلئے تعلیم کا انتظام کرنا ہے تو یقیناً حکومت کے ہاتھ میں اس سے بہت زیادہ روپیہ ہونا چاہیئے جتنا پہلے زمانہ میں ہوا کرتا تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اعلان فرمایا کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کیلئے جو حقیقی جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ انتظام فرمایا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے اپنے مال کے کم سے کم دسویں حصہ کی اور زیادہ سے زیادہ تیسرے حصہ کی وصیت کر دیں." " ( نظام نو صفحه ۱۱۶) عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جب دنیا چلا چلا کر کہے گی کہ ہمیں ایک نئے نظام کی ضرورت ہے تب چاروں طرف سے آواز میں اٹھنی شروع ہو جائیں گی کہ آؤ ہم تمہارے سامنے ایک نیا نظام پیش کرتے ہیں.روس کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ایک تعارف

Page 101

مالی قربانی 93 " " ہوں.ہندوستان کہے گا کہ آؤ میں تم کو ایک نیا نظام دیتا ہوں ، جرمنی اور اٹلی کہے گا آؤ میں تم کو ایک نیا نظام دیتا ہوں امریکہ کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں اس وقت میرا قائم مقام قادیان سے کہے گا کہ نیا نظام الوصیت میں موجود ہے اگر دنیا فلاح و بہبود کے رستہ پر چلنا چاہتی ہے تو اس کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ الوصیت کے پیش کردہ نظام کو دنیا میں جاری کیا جائے." ( نظام نوصفحہ ۱۱۷) پھر فرماتے ہیں ہر مومن کے ایمان کی آزمائش اس میں ہے کہ وہ اس نظام میں داخل ہو اور خدا تعالیٰ کے خاص فضل حاصل کرے صرف منافق ہی اس نظام سے باہر رہے گا.گویا کسی پر جبر نہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ اس میں تمہارے ایمانوں کی آزمائش ہے.اگر تم جنت لینا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم یہ قربانی کرو.ہاں اگر جنت کی قدرو قیمت تمہارے دل میں نہیں تو اپنے مال اپنے پاس رکھو ہمیں تمہارے اموال کی ضرورت نہیں." ( نظام نو صفحه ۱۱۸) غرض نظام نو کی بنیاد 1910 ء میں روس میں نہیں رکھی گئی نہ وہ آئندہ کسی سال میں موجودہ جنگ کے بعد یورپ میں رکھی جائے گی بلکہ دنیا کو آرام دینے والے.ہر فرد بشر کی زندگی کو آسودہ بنانے والے اور ساتھ ہی دین کی حفاظت کرنے والے نظام نو کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں قادیان میں رکھی جا چکی ہے.اب دنیا کو کسی نظام نو کی ضرورت نہیں ہے." ( نظام نوصفحه ۱۲۵) اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں تحریک جدید کا القاء فرمایا تا کہ اس ذریعہ سے ابھی سے ایک مرکزی فنڈ قائم کیا جائے اور ایک مرکزی جائیداد پیدا کی جائے جس کے ذریعہ تبلیغ احمدیت کو وسیع کیا جائے.پس تحریک جدید کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کے سامنے عقیدت کی یہ نیاز پیش کرنے کیلئے ہے کہ وصیت کے ذریعہ تو جس نظام ایک تعارف

Page 102

مالی قربانی 94 کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اس کے آنے میں ابھی دیر ہے اس لئے ہم تیرے حضور اس نظام کا ایک چھوٹا سا نقشہ تحریک جدید کے ذریعہ پیش کرتے ہیں تا کہ اس وقت تک کہ وصیت کا نظام مضبوط ہو اس ذریعہ سے جو مرکزی جائیداد پیدا ہواس سے تبلیغ احمدیت کو وسیع کیا جائے اور تبلیغ سے وصیت کو وسیع کیا جائے." ( نظام نو صفحه ۱۳۰) جب وصیت کا نظام مکمل ہوگا تو صرف تبلیغ ہی اس سے نہ ہوگی بلکہ اسلام کے منشاء کے ماتحت ہر فرد بشر کی ضرورت کو اس سے پورا کیا جائے گا اور دکھ اور تنگی کو دنیا سے مٹادیا جائے گا انشاء اللہ.یتیم بھیک نہ مانگے گا، بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے گی، بے سامان پریشان نہ پھرے گا کیونکہ وصیت بچوں کی ماں ہوگی، جوانوں کی باپ ہوگی عورتوں کا سہاگ ہوگی اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اس کے ذریعہ سے مدد کرے گا اور اس کا دینا بے بدلہ نہ ہوگا بلکہ ہر دینے والا خدا تعالیٰ سے بہتر بدلہ پائے گا.نہ امیر گھاٹے میں رہے گا نہ غریب.نہ قوم قوم سے لڑے گی بلکہ اس کا احسان سب دنیا پر وسیع ہو گا." ( نظام نوصفحه ۱۳۱).پس تم جلد سے جلد وصیتیں کرو تا کہ جلد سے جلد نظام نو کی تعمیر ہو اور وہ مبارک دن آجائے جبکہ چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا لہرانے لگے.اس کے ساتھ ہی میں ان سب دوستوں کو مبارکباد دیتا ہوں جنہیں وصیت کرنے کی توفیق حاصل ہوئی اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی جو ابھی تک اس نظام میں شامل نہیں ہوئے توفیق دے کہ وہ بھی اس میں حصہ لے کر دینی و دنیوی برکات سے مالا مال ہوسکیں اور دنیا اس نظام سے ایسے رنگ میں فائدہ اٹھائے کہ آخر اسے یہ تسلیم کرنا پڑے کہ قادیان کی وہ ہستی جس کوردہ کہا جاتا تھا جسے جہالت کی بستی کہا جاتا تھا اس میں سے وہ نور نکلا جس نے ساری دنیا کی تاریکیوں کو دور کر دیا جس نے ایک تعارف

Page 103

مالی قربانی 95 ایک تعارف ساری دنیا کی جہالت کو دور کر دیا جس نے ساری دنیا کے دکھوں اور دردوں کو دور کر دیا اور جس نے ہر امیر اور غریب کو ہر چھوٹے اور بڑے کو محبت اور پیار اور الفت باہمی سے رہنے کی توفیق عطا فرما دی." (نظام نوصفحه ۱۳۳ ۱۳۴) سید نا حضرت خلیفہ اسی انا مساید اللہ تعالی نےجلسہ سالا نہ یو کے 2004ء میں اپنے تیرے دن کے خطاب کے دوران وصیت کی اہمیت اور اس میں احمدی احباب کو بھر پور طریق سے شامل ہونے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.".اس نظام کو قائم ہوئے 2005ء میں انشاء اللہ تعالیٰ ایک سوسال ہو جائیں گے، جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا کہ 1905ء میں آپ نے یہ ( نظام ) جاری فرمایا تھا.آج 99 سال پورے ہونے کے بعد ( یعنی ) 1905ء سے لے کر آج تک صرف اڑتیس ہزار (38000) کے قریب احمدیوں نے وصیت کی ہے اور اگلے سال انشاء اللہ تعالیٰ وصیت کے نظام کو قائم ہوئے سو سال ہو جائیں گے.جیسا کہ میں نے کہا، میری یہ خواہش ہے اور میں یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ اس آسمانی نظام میں اپنی زندگیوں کو پاک کرنے کیلئے ، اپنی نسلوں کی زندگیوں کو پاک کرنے کیلئے شامل ہوں ، آگے آئیں اور کم از کم.پندرہ ہزار (15000) اس ایک سال میں نئی وصایا ہو جائیں." پھر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.لیکن میری یہ خواہش ہے کہ 2008ء میں جب خلافت احمدیہ کو قائم ہوئے انشاء اللہ تعالیٰ سوسال ہو جائیں تو دُنیا کے ہر ملک میں، ہر جماعت میں جو کمانے والے افراد ہیں ( یعنی ) چندہ دہند ہیں ان میں سے کم از کم %50 تو ایسے ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس عظیم الشان نظام میں شامل ہو چکے ہوں اور روحانیت کو بڑھانے اور قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے بن چکے ہوں اور یہ جماعت کی

Page 104

مالی قربانی 96 ایک تعارف طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک حقیر سانذرانہ ہوگا جو جماعت خلافت کے سوسال پورے ہونے پر شکرانے کے طور پر دے رہی ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر رہی ہوگی.اس نظام میں شامل ہونے کیلئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو انجام بخیر کی فکر کرنے اور عبادات بجالانے والے ہوں.اس کیلئے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے بہترین زمانہ وہ ہے جو جوانی کا زمانہ ہے اس لئے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کی صف دوم نیز لجنہ اماءاللہ کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئیے کیونکہ ستر پچھتر سال کی عمر کو پہنچ کر جب قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہوں تو اس وقت وصیت میں بچا کھچا ہی ہے جو پیش کیا جاتا ہے، تو امید ہے کہ احمدی خواتین بھی اور نوجوان بھی اس سلسلہ میں بھر پور کوشش کریں گے اور عورتوں کو میں خاص طور پر کہ رہا ہوں کہ وہ اپنے خاوندوں اور بچوں کو بھی اس عظیم انقلابی نظام میں شامل کرنے کی کوشش کریں.نوٹ :.جب بھی کوئی نیا فارم وصیت منظوری کے لئے مرکز بھجوایا جائے تو Annexure VI صفحہ نمبر 190 میں درج چیک لسٹ کے ساتھ موازنہ کر کے بھجوائیں.

Page 105

مالی قربانی 97 ایک تعارف " چنده شرط اول حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.سو پہلی شرط یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اس قبرستان میں مدفون ہونا چاہتا ہے وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مصارف کیلئے چندہ داخل کرے اور یہ چندہ محض انہیں لوگوں سے طلب کیا گیا ہے نہ دوسروں سے.لیکن اگر خدا نے چاہا تو یہ سلسلہ ہم سب کی موت کے بعد بھی جاری رہے گا.اس صورت میں ایک انجمن چاہیئے.کہ ایسی آمدنی کا روپیہ جو وقتاً فوقتاً جمع ہوتا رہے گا اعلائے کلمہء اسلام اور اشاعت توحید میں جس طرح مناسب سمجھیں خرچ کریں." (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰.صفحہ ۳۱۸) -6*6- چنده اعلان وصیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:."ہر ایک صاحب جو شرائط رسالہ الوصیت کی پابندی کا اقرار کریں.ضروری ہوگا کہ وہ ایسا اقرار کم سے کم دو گواہوں کی ثبت شہادت کے ساتھ اپنے زمانہ قائمی ہوش وحواس میں انجمن کے حوالہ کریں اور تصریح سے لکھیں کہ وہ اپنی کل جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کا دسواں حصہ اشاعتِ اغراض سلسلہ احمدیہ کیلئے بطور وصیت یا وقف دیتے ہیں.اور ضروری ہوگا کہ وہ کم سے کم دو اخباروں میں اس کو شائع کر دیں." (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ - صفحه ۳۲۳) نوٹ:.اس اشاعت کیلئے مقررہ شرح سے جو ادائیگی کی جاتی ہے اس کو چندہ اعلان وصیت کہتے ہیں.

Page 106

مالی قربانی 98 چندہ حصہ آمد ایک تعارف موصی احباب کی اصل آمد پر واجب الا دا چندہ کو چندہ حصہ آمد کہا جاتا ہے.جس کی کم از کم شرح ۱/۱۰ ہے جو ۱/۳ تک بڑھائی جاسکتی ہے.موصی وصیت کے بعد بھی مجلس کار پر ادز کو درخواست دے کر ۱/۱۰ سے زیادہ اور بصورت مجبوری و عدم استطاعت ۱/۳ سے کم کروا سکتا ہے.اس چندہ کی ادائیگی موصی اپنی آمد کے مطابق ماہانہ کرے گا.لیکن جن موصیان کی آمد ماہانہ کی بجائے سہ ماہی ، ششماہی یا سالا نہ ہو وہ آمد ہونے پر اپنی وعدہ کردہ شرح کے مطابق چندہ ادا کریں.جس موصی پر وصیت کا چندہ واجب ہو جائے اور وہ چھ ماہ تک ادا ئیگی نہ کرے تو مجلس کار پرداز وصیت منسوخ کر سکتی ہے.البتہ بحالت مجبوری وکالت مال ثانی کے توسط سے مجلس کار پرداز سے مہلت کی درخواست کی جاسکتی ہے..جو موصی وصیت کرنے کے بعد چھ ماہ تک ادائیگی بھی نہ کرے اور نہ ہی کوئی رابطہ کرے اس کی وصیت عدم ادائیگی اور عدم رابطہ کی وجہ سے منسوخ ہو سکتی ہے.۴.چندہ حصہ آمد ( وصیت) کی معافی نہیں ہوسکتی.ایسی صورت میں کہ موصی شرح کے مطابق وصیت ادانہ کر سکے، اسے بامر مجبوری وصیت منسوخ کروالینی چاہیے اور چندہ عام ادا کرنا چاہیے.☆ -

Page 107

مالی قربانی 99 ایک تعارف چندہ حصہ جائیداد موصیان اپنی جائیداد کی قیمت کی تشخیص کے بعد اس پر جو چندہ حسب شرح وصیت ادا کرتے ہیں اسے چندہ حصہ جائیداد کہتے ہیں.حصہ جائیداد کی ادائیگی کے بعد یا قبل بھی اس جائیداد سے حاصل ہونے والی آمد پر حصہ آمد بشرح چندہ عام یعنی ۱/۱۶ ادا کرنا ضروری ہے.ہر وہ جائیداد جو موصی کو وراثت میں ملے یا وہ خود بنائے اور اپنے یا کسی اور کے نام لگائے موصی کی جائیداد ہی شمار ہوتی ہے.Mortgage پر خریدی ہوئی جائیداد موصی / موصیبہ کی ملکیت شمار ہوگی جب کوئی موصی / موصیہ Mortgage پر یا کیش پر جائیداد خرید کرے تو اسکی اطلاع جائیداد کی تفصیلات سمیت مرکز کو دینا ضروری ہو گا.نیز اگر کوئی جائیداد منافع پر بیچی جائے تو منافع پر بھی حصہ جائیداد واجب ہوگا..موصی / موصیبہ کو اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ جو جائیداد Mortgage پر خریدی گئی ہے وہ خریدار کی ملکیت بن جاتی ہے گو یہ درست ہے کہ وہ جائیداد، جب تک اس کی مکمل رقم ادا نہ ہو جائے ، بنگ یا متعلقہ سوسائٹی کے قرض کی ادائیگی کی ضمانت کے طور پر Mortgage رہتی ہے.موصی / موصیبہ پر کسی بھی جائیداد کا حصہ جائیداد حسب قواعد وفات کے بعد واجب الادا ہو گا.زندگی میں تشخیص کروا کر جائیداد کا حصہ ادا کرنا موصی کیلئے ایک سہولت ہے.اگر کوئی موصی / موصیبہ زندگی میں جائیداد پر وصیت ادا کرنا چاہتا ہے تو بازاری قیمت کے مطابق تشخیص ہوگی اور Mortgage کی رقم منہا نہیں کی جائے گی.اگر کوئی موصی / موصیہ Mortgage پر لی گئی جائیداد کو Mortgage کی معیاد پوری ہونے سے پہلے فروخت کرتا ہے تو وہ قیمت فروخت میں سے اس جائیداد کیلئے اٹھائے جانے والے قرض کی بقیہ رقم منہا کر کے باقی رقم پر حصہ جائیدا دا دا کرے گا.موصی / موصیبہ کی وفات کے وقت Mortgage پر لی گئی جائیداد کی بازاری قیمت میں سے بنگ/ ادارہ ( جس سے یہ جائیداد Mortgage کروائی گئی ہو ) کو اس جائیداد کے سلسلہ میں واجب الادا رقم منها کر کے باقی پر حصہ جائیداد واجب ہوگا.

Page 108

مالی قربانی 100 چندہ عام ایک تعارف چندہ عام وہ لازمی اور بنیادی چندہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر کمانے والے احمدی مرد عورت کیلئے ضروری قرار دیا ہے.اس کی شرح تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی کل آمد کا ۱۶/ا ہے.ایسے احمدی احباب جو اپنی کسی کمزوری و مجبوری کی بناء پر پوری شرح سے اس چندہ کی ادائیگی ممکن نہ پاتے ہوں وہ اپنے حالات اور اپنی پوری آمد تحریر کر کے حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے رعایت شرح لے سکتے ہیں.بجٹ میں رعایت شرح والے احباب کی پوری آمد درج کی جائے اور کیفیت کے خانہ میں رعایت شرح کا حوالہ دیا جائے.رعایت شرح ایک سال کیلئے ہوتی ہے.ہر سال رعائت شرح کیلئے الگ درخواست دینی ضروری ہے.رعایت شرح حاصل کرنے والے احباب کو انتخاب کے موقع پر ووٹ دینے کا حق ہوگا لیکن وہ عہد یدار منتخب نہیں ہوسکیں گے.بقایا کی معافی یا رعایت شرح کی درخواست مقامی جماعت کی وساطت سے نیشنل امیر کی سفارش کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے نام وکالت مال لندن کو بھجوائی جائے.اگر درخواست دہندہ کو رعایت ملنے سے مقامی/ نیشنل جماعت کو اختلاف ہو تو بھی درخواست نہیں روکی جاسکتی.تاہم مقامی نیشنل جماعت کو اس درخواست کے ساتھ اپنا اختلافی نوٹ لف کرنے کا اختیار ہوگا.بقایا جات کی قسط وار ادا ئیگی کی اجازت وکالت مال لندن سے لی جا سکتی ہے لیکن درخواست مقامی جماعت کی وساطت سے آنی ضروری ہے.بقایا جات کی معافی والے احباب بھی حسب قواعد انتخاب میں شامل ہونگے )

Page 109

مالی قربانی 101 چنده جلسه سالانه ایک تعارف حصہ آمد یا چندہ عام ادا کرنے والے احباب اپنی سالانہ آمد کا ۱/۱۲۰ (ایک سو بیسواں حصہ یا ایک ماہ کی آمد کا دسواں حصہ سال میں ایک دفعہ چندہ جلسہ سالانہ کی صورت میں ادا کرتے ہیں.اگر کسی دوست نے چندہ عام میں رعایت شرح حاصل کی ہو تو چندہ جلسہ سالانہ میں بھی اسی تناسب سے رعایت متصور ہوگی اس کیلئے الگ درخواست دینے کی ضرورت نہ ہوگی.ایسے موصی اور موصیات جن کی اپنی کوئی ذاتی آمدنی نہیں ، صرف جیب خرچ پر حصہ آمد ادا کر رہے ہوتے ہیں اور چندہ جلسہ سالانہ ادا نہیں کر رہے ہوتے.اگر چہ چندہ جلسہ سالانہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے ان کی وصیت متاثر تو نہیں ہوتی لیکن ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ جہاں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے نظام وصیت میں شامل ہونے کی توفیق پائی، چندہ جلسہ سالانہ کا مطالبہ بھی چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی ہے، لہذا وصیت کے نظام میں شامل احباب کیلئے بہتر ہے کہ چندہ جلسہ سالانہ بھی اسی ذوق شوق سے ادا کریں جس ذوق شوق سے چندہ وصیت ادا کرتے ہیں.اس چندے کے متعلق حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے مجلس مشاورت ۱۹۳۸ ء میں فرمایا:.حصہ " جہاں تک مجھے علم ہے چندہ جلسہ سالانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے ہی شروع ہے.بعض دوستوں نے غلطی سے یہ سمجھا ہے کہ یہ چندہ عام کا ہی ایک حص ہے.جسے الگ کر دیا گیا ہے.حالانکہ مجھے ایک مثال بھی ایسی یاد نہیں جب چندہ جلسہ سالانہ کیلئے الگ تحریک نہ کی گئی ہو.تو یہ چندہ نہایت ہی پرانے چندوں میں سے ہے.پس جہاں میں سب کمیٹی کی یہ تجویز منظور کرتا ہوں کہ آئندہ چندہ جلسہ سالانہ لازمی ہوگا وہاں بجائے پندرہ فیصدی کے میں دس فیصدی مقرر کرتا ہوں مگر دس فیصدی چندہ کا یہ مطلب نہیں کہ جو پندرہ فیصدی دے سکتا ہے وہ بھی نہ دے جو شخص پندرہ فیصدی چندہ دیتا ہے اس کا خدا کے پاس اجر ہے اور ہم اس کے اجر کے راستہ میں روک نہیں بن سکتے.پس اس شرح میں اگر کوئی شخص خوشی سے زیادتی کرنا چاہے تو وہ ہر وقت کرسکتا ہے.لیکن وہ لوگ جو دس فیصدی چندہ نہیں

Page 110

مالی قربانی 102 دیتے انہیں ہم مجبور کر یں گے کہ وہ دس فیصدی چندہ ضرور دیں." حضرت خلیفہ اسی الثانی نے مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء میں فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چندہ جلسہ سالانہ کو ایک مستقل کام قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلاء کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالٰی نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اس کے لئے قو میں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں." (اشتہارے دسمبر ۱۸۹۲ء) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ سالانہ کو ایک مستقل کام قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ سلسلہ جاری کیا گیا ہے پس اگر چندہ جلسہ سالانہ کو الگ رکھا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس زور دینے کی وجہ سے کہ ہمارا جلسہ سالانہ دوسرے لوگوں کے جلسوں کی طرح نہیں مومنوں کا اس چندہ میں حصہ لینا ان کے ایمانوں کو ہمیشہ تازہ کرنے کا موجب بنتا رہے گا." ایک تعارف

Page 111

مالی قربانی 103 تحریک جدید ایک تعارف ۱۹۳۴ء میں مجلس احرار نے جماعت کے خلاف ایک مہم چلائی اور کہا کہ وہ جماعت کو مٹا کر دم لیں اس کے مقابل پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ میں احرار کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکلتے دیکھتا ہوں اور احرار کہتے ہیں کہ وہ جماعت کو مٹادیں گے.اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک ایسا منصوبہ سمجھایا ہے جس کے نتیجہ میں جماعت دنیا کے سب ملکوں میں پھیل جائے گی اور کوئی بھی نہ ہو گا جو اس کو مٹا سکے.چنانچہ اس وقت حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ نے تحریک جدید کا آغاز فرمایا اور اس تحریک کے بارہ میں فرمایا:.تحریک جدید کو اس لئے جاری کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ ہمارے پاس ایسی رقم جمع ہو جائے جس سے خدا تعالیٰ کے نام کو دنیا کے کناروں تک آسانی اور سہولت کے ساتھ پہنچا دیا جائے." خطبه جمعه ۲۷ نومبر ۱۹۴۲ء) شروع شروع میں یہ تحریک عارضی تھی مگر جب انیس سال مکمل ہوئے تو حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے فرمایا:." جب انہیں سال ختم ہونے کو آئے ہیں تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں تحریک جدید کو اُس وقت تک جاری رکھوں گا جب تک کہ تمہارا سانس قائم ہے." آپ نے مزید فرمایا:.( خطبه جمعه ۲۷ نومبر ۱۹۵۳ء) ہم تو اُمید رکھتے ہیں کہ تحریک جدید کے یہ دور غیر محدود ہوں گے اور جس طرح آسمان کے ستارے گنے نہیں جاتے اسی طرح تحریک جدید کے دور بھی نہیں گنے جائیں گے ، جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے کہا کہ تیری نسل گئی نہیں جائے گی.اور حضرت ابراہیم کی نسل نے دین کا بہت کام کیا یہی حال تحریک جدید کا ہے.خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۳۵ء)

Page 112

مالی قربانی رمایا:.104 ایک تعارف 9 نومبر 1934ء کو خطبہ جمعہ میں تحریک جدید میں شمولیت کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے حضور نے " گو اس میں شامل ہونا اختیاری ہو گا مگر جو شخص شامل ہونے کی اہلیت رکھنے کے باوجود اس خیال کے ماتحت شامل نہیں ہوگا کہ خلیفہ نے شمولیت کو اختیاری قرار دیا ہے وہ مرنے " سے پہلے اس دنیا میں یا مرنے کے بعد اگلے جہاں میں پکڑا جائے گا...ابتداء میں تحریک جدید میں شمولیت کے معیار کو بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:." پس دوسرا مطالبہ اس تحریک کے ماتحت میرا یہ ہے کہ جماعت کے ذی ثروت لوگ جو سوسو روپیہ یا زیادہ روپیہ دے سکیں اس کے لئے رقوم دیگر ثواب حاصل کریں.اس تحریک میں بھی غرباء کو حصہ دلانے کیلئے میں اجازت دیتا ہوں کہ جو لوگ پانچ پانچ روپیہ اس مد میں دے سکیں وہ بھی اس میں حصہ لے سکتے ہیں." الفضل قادیان ، ۲۹ نومبر ۱۹۳۴ء) تحریک جدید جیسی عظیم تحریک میں ہر شخص نے اپنے لئے قربانی کے معیار کا خود فیصلہ کرنا ہے.لیکن یہ فیصلہ کرتے وقت تحریک جدید کی اہمیت و عظمت اور لامحدود بین لاقوامی ذمہ داریوں کے ساتھ خلفاء سلسلہ کے ارشادات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے.سیدنا حضرت مصلح موعود نے مختلف موقعوں پر مختلف معیاروں کو اختیار کرنے کی ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:." اگر کوئی شخص اپنی ایک ماہ کی آمد کا نصف دے دیتا ہے مثلاً اُس کی سوروپیہ ماہوار آمد ہے تو وہ پچاس روپیہ وعدہ لکھوا دے تو سمجھا جائے گا کہ اس نے اچھی قربانی کی ہے.اور وہ اگر ایک ماہ کی پوری آمد یعنی سو کی سوروپے ہی بطور وعدہ لکھوا دے تو ہم سمجھیں گے کہ اُس نے تکلیف اُٹھا کر قربانی کی ہے." خطبه جمعه ۴ /دسمبر ۱۹۵۳ء) حضرت خلیفہ امسح الثالث" نے مجلس مشاورت 1969ء میں تحریک جدید کے وعدہ جات کے معیار کے متعلق فرمایا:.

Page 113

مالی قربانی 105 ایک تعارف تحریک جدید کی پہلے دن سے بنیاد طلوعی قربانی پر ہے.یہ بات کہ تحریک جدید کا چندہ ماہوار آمد کا کم از کم 1/5 ہونا چاہیے.یہ شرح مقرر نہیں.." حضرت مصلح موعود کے دل میں ساری دنیا کی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ رقم زیادہ ہوتا کہ ہم غلبہ اسلام کی مہم میں زیادہ تیزی پیدا کر سکیں.حضور نے خدام سے عہد لیتے ہوئے فرمایا:- اور وہ عہد یہ ہے کہ آپ کے ہمسایہ میں یا آپ کے گاؤں میں یا آپ کے محلہ میں اگر کوئی ایسا احمدی ہو جوتحریک جدید میں حصہ نہیں لے رہا تو آپ اسے تحریک جدید میں شامل کرنے کی کوشش کریں.یہاں تک کہ ایک احمدی بھی نہ رہے جوتحریک جدید میں حصہ نہ لے رہا ہو.ارشاد فرمایا:." " خطاب مجلس شوری خدام الاحمدیه مرکز یه ۲۳ را کتوبر۱۹۵۰ء) حضرت خلیفہ المسح الرابع نے خطبہ 25 اکتوبر 1985ء میں چندہ تحریک جدید کی قربانی کے متعلق ہے.جتنے تحریک جدید نے جو کچھ بھی خدا کی راہ میں خرچ کیا ہر آئندہ سال اسے بہت بڑھ کر خدا تعالیٰ نے پھر عطا کر دیا اور یہ سلسلہ حیرت انگیز طور پر مسلسل آگے کی طرف بڑھ رہا جتنے چندے بڑھے ہیں یہ سب تحریک جدید کے چندے کے بچے ہیں اگران غریب قادیان والوں نے اور ہندستان کی جماعتوں نے بکریاں بیچ بیچ کر اور کپڑے بیچ بیچ کر اور مہینوں روپیہ روپیہ دو دو روپے اکٹھے کر کے تحریک جدید کے چندے نہ دیئے ہوتے تو آج کروڑوں تک بجٹ نہیں پہنچ سکتا تھا چندے آپ کو اس وقت یورپ اور امریکہ اور افریقہ اور دیگر جماعتوں میں نظر آرہے ہیں یہ سارے تحریک جدید کے اُن چندوں کی برکتیں ہیں جو آغاز میں دیئے گئے تھے اور بڑی خاص دعاؤں کے ساتھ دیئے گئے تھے ان چندوں میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے صحابہ شامل تھے..نیکی کا عجیب ماحول تھا جس رنگ میں وہاں چندے دیئے جاتے تھے وہ ایک ایسا منظر ہے کہ شاذ و نادر ہی تاریخ میں ایسے مناظر آیا

Page 114

مالی قربانی 106 ایک تعارف کرتے ہیں کئی کئی مہینوں کی تنخواہیں انجمن کے غریب کارکن دیا کرتے تھے آج بھی یہ مناظر ساری دنیا میں پھیل رہے ہیں اور احمدیت کی برکت سے بڑے حسین نقوش ظاہر ہو رہے ہیں لیکن انکا آغاز قادیان سے ہوا ہے، اور تحریک جدید نے اس مالی قربانی کی رغبت پیدا کرنے میں جو کردارادا کیا ہے.اسے ہم کسی صورت بھی نظر انداز." نہیں کر سکتے." حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے تحریک جدید کی قربانی میں کتنا اور کس طرح حصہ لیا جائے ، کے بارہ میں ہدایت دیتے ہوئے فرمایا:.اس مالی قربانی (تحریک جدید ) کا فلسفہ سیدنا حضرت فضل عمر نے بیان فرماتے ہوئے اس امر کی بھر پور تلقین فرمائی کہ ہر جہت سے بچت عمل میں لاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ استطاعت کے ساتھ خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے ہر فرد جماعت فحشاء سے احتراز کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مغفرت کا طالب ہو." تحریک جدید کے ادوار ( خطبه جمعه ۵/ نومبر ۱۹۹۳ء) تحریک جدید کا آغاز ۱۹۳۴ میں ہوا.شروع میں یہ تحریک عارضی تھی لیکن جب دس (۱۰) سال کا عرصہ گزرا.تو آپ نے اس کے کام کی نوعیت اور اسکی اہمیت کے پیش نظر اس کو مزید آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا اور پہلے دس (۱۰) سال کے عرصہ کو دفتر اول کا نام دیا، جس میں پانچ ہزاری مجاہدین شامل ہیں.حضرت مصلح موعود تحریک جدید کے ادوار کی شکل کے بارہ میں فرماتے ہیں:." میں نے سوچا ہے کہ اب تحریک جدید کی یہ شکل کر دی جائے کہ ہر دفتر جو بنے گا اس کے دور اول وثانی بنتے چلے جائیں.اور ہر ایک انیس سال کا ہو....پس اس کے بعد دوسرے لوگ بھی اس طرح 19 ، 19 سالہ دوروں میں حصہ لیتے چلے جائیں گے.انیس (19) میں میں نے جو حکمت رکھی تھی میں اسے بدلنا نہیں چاہتا." ( خطبه جمعه ۲۷ نومبر ۱۹۵۳ء)

Page 115

مالی قربانی 107 ایک تعارف اس طرح دفتر اول:.1934ء سے 1944ء تک شاملین مجاہدین دفتر اول میں شمار ہوتے ہیں.دفتر دوم : 1944ء سے 1965 ء تک شاملین مجاہدین دفتر دوم میں شمار ہوتے ہیں.دفتر سوئم : 1965ء سے 1985 ء تک شاملین مجاہدین ، دفتر سوئم میں شمار ہوتے ہیں.سوئم:.دفتر چهارم: - 1985ء سے 2004 ء تک کے شاملین مجاہدین ، دفتر چہارم میں شمار ہوتے ہیں.دفتر پنجم:.2004ء کے بعد سے شامل کے بعد سے شامل ہونے والے مجاہدین کا شمار اس دفتر میں ہوگا دفتر پنجم کے اجراء کا اعلان کرتے ہوئے حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نے فرمایا:.حضرت مصلح موعودؓ نے جو ایک اصول رکھا تھا کہ اُنہیں (۱۹) " سالہ دور ہو گا، اس اصول کے تحت دفتر چہارم کے انیس ( ۱۹ ) سال پورے ہو گئے ہیں.اس لئے آج سے دفتر پنجم کا آغاز ہوتا ہے، انشاء اللہ تعالیٰ.اب آئندہ سے جتنے بھی نئے مجاہدین تحریک جدید کی مالی قربانی میں شامل ہو نگے وہ دفتر پنجم میں شامل ہونگے.گذشتہ سالوں میں جو احمدی ہوئے ہیں لیکن تحریک جدید میں شامل نہیں ہوئے ان سب کو اب تحریک جدید میں شامل کرنے کی کوشش کریں اور ان کا شمار اب دفتر پنجم میں ہوگا.جیسا کہ میں نے پہلے کہا ان کو بتایا جائے کہ مالی قربانی دینی ضروری ہے اور بتائیں کہ تمھارے پاس جو احمدیت کا پیغام پہنچا ہے یہ تحریک جدید میں مالی قربانی کرنے والوں کی وجہ سے ہی پہنچا ہے اس لئے اس میں شامل ہوں تا کہ اپنی زندگیوں کو بھی سنوار نے والے بنو اور اس پیغام کو آگے پہنچانے والوں میں بھی شامل ہو جاؤ ،حصہ دار بن جاؤ.جیسا کہ میں نے کہا ہے میرے علم میں ہے، ہندوستان میں بھی اور افریقہ میں بھی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جن کو مالی قربانی میں شامل نہیں کیا گیا.ان کو مالی قربانی میں شامل کریں.اب جو نئے احمدی بچے پیدا ہوں گے ، وہ دفتر پنجم میں شامل ہونگے.." " حضرت مصلح موعودؓ نے ایک وقت فرمایا تھا کہ تحریک جدید کا جو نیز فرمایا:.نظام ہے، تحریک ہے یہ نظام وصیت کے لئے ارحاص کے طور پر ہے یعنی اسکی وجہ

Page 116

مالی قربانی 108 ایک تعارف سے نظام وصیت بھی مضبوط ہوگا.یہ مالی قربانیوں کی عادت ڈالنے کی بنیاد ہو گی.یہ پیشرو ہے، یہ آگے چلنے والی چیز ہے، اطلاع دینے والا جو ایک دستہ ہوتا ہے اس طرح ہے.لوگوں کو اطلاع دیتا چلا جائے گا کہ ایک عظیم نظام اسکے پیچھے آرہا ہے.یہ نظام وصیت کہلائے گا.اور جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ نظام وصیت کے ساتھ نظام خلافت کا بھی گہرا تعلق ہے.اب اس نظام وصیت کے ساتھ ہی قربانیوں کے معیار بھی بڑھنے ہیں..تو پہلے قربانیوں کی عادت ڈالنے کیلئے تحریک جدید کا نظام ہی ہے......ثمرات تحریک جدید (خطبه جمعه ۵ نومبر ۲۰۰۴ء) اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے ۷۸ ممالک میں جماعتیں قائم ہیں ،۱۳۰۰۰ سے زائد مساجد، جبکہ مشنز کی تعداد ۴۰ ۷ ہے.اس وقت ۲۵۰ مربیان کرام مختلف ممالک میں خدمات سلسلہ بجالا رہے ہیں ، ان میں سے ۵۰ غیر پاکستانی مبلغ بھی ہیں.مطالبات تحریک جدید ا.سادہ زندگی بسر کرنا ۲ تبلیغ بیرون هند ۳.وقف رخصت ۴.وقف زندگی ۵- وقف رخصت موسمی ۶- وقف اولاد ے.پینشنر اصحاب کا اپنے آپ کو جماعت کیلئے پیش کرنا ۸ وقف جائیداد و آمد ۹.صاحب پوزیشن لیکچر دیں ۱۰.دشمن کے گندے لٹریچر کا جواب ا.صاحب حیثیت لوگ اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے مشورہ طلب کریں ۱۲.اپنے ہاتھ سے کام کرنا ۱۳.بریکار چھوٹے سے چھوٹا کام کریں ۱۴.تمدن اسلامی کا قیام ۱۵.قومی دیانت کا قیام ۱۶.راستوں کی صفائی ۱۷.عورتوں کے حقوق کا تحفظ ۱۸.قادیان میں مکان بنانا ۱۹.دعا ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الثانی فرماتے ہیں:.

Page 117

مالی قربانی سادہ زندگی 109 " اس زمانہ میں مالی قربانی کی بہت ضرورت ہے.اس لئے سب مرد اور عورتیں اپنی زندگی کو سادہ بنائیں اور اخراجات کم کر دیں.تا کہ جس وقت قربانی کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے وہ تیار ہوں.قربانی کے لئے صرف تمہاری نیت ہی فائدہ نہیں دے سکتی جب تک تمہارے پاس سامان بھی مہیا نہ ہوں.ایک نابینا جہاد کا کتنا ہی شوق کیوں نہ رکھتا ہو اُس میں شامل نہیں ہو سکتا.ایک غریب آدمی اگر ز کوۃ دینے کی خواہش بھی کر لے تو نہیں دے سکتا.ایک مریض کی خواہش خواہ کسقد ر زیادہ ہو روزے نہیں رکھ سکتا.پس اگر سامان مہیا نہ ہوں تو ہم وہ قربانی کسی صورت میں بھی پیش نہیں کر سکتے جس کی ہمیں خواہش ہے.اس لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک سادہ زندگی اختیار کرے تا کہ وقت آنے پر وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سامنے ( الفضل قادیان ۱۲ جون ۱۹۳۵) پیش کر سکے." وقف زندگی "جو شخص دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرتا ہے وہ ادنی نہیں بلکہ اعلیٰ ہے بشرطیکہ ہر قسم کی کوتاہی سے اپنے آپ کو بچائے." (خطبه جمعه ۲۰ ستمبر ۱۹۳۵) "جو قو میں اپنی جان بچانا چاہتی ہیں وہی مرتی ہیں اور جو اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پر لئے پھرتی ہیں وہی ہمیشہ زندہ رہتی ہیں." شرائط وقف ( خطبه جمعه ۵ فروری ۱۹۳۷) " پس وہ نو جوان آگے آئیں.جو دین کے کام میں مرنا چاہیں اور جب تک کوئی یہ نہ سمجھے کہ ناکامی کا میں ذمہ دار ہوں وہ اپنے آپ کو وقف نہ کرے." ( خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۳۵) وقف کی استطاعت رکھتے ہوئے نہ وقف کرنے والوں کے متعلق فیصلہ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ جب اسلام کو سپاہیوں کی ضرورت ہے تو جو شخص طاقت اور اہلیت رکھنے کے باوجود آگے نہیں بڑھتا ایک تعارف

Page 118

مالی قربانی 110 وہ گنہگار ہے.اس لئے جونو جوان اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہوں اور اس ذمہ داری کو نباہ سکتے ہوں وہ پیش کریں." ذیلی تنظیموں کی ذمہ داریوں کے متعلق ارشاد ( خطبه جمعه یکم اکتو بر۱۹۴۳) " قادیان میں بھی اور بیرونی جماعتوں میں بھی ہر جگہ جلسے کئے جائیں.لجنہ اماءاللہ الگ جلسے کریں.انصار اللہ الگ جلسے کریں.خدام الاحمد یہ الگ جلسے کریں.اور تحریک جدید کے مطالبات اور اس کے اصولوں کو پھر تازہ کیا جائے.جہاں جماعتیں مختلف حلقوں میں تقسیم ہوں وہاں الگ الگ حلقوں میں جلسے کئے جائیں اور دوبارہ تحریک جدید کو زندہ کر کے اور اسکے مطالبات کی اہمیت بتا کر لوگوں کے اندر زیادہ سے زیادہ قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کیا جائے." الفضل قادیان، ۱۵ نومبر ۱۹۴۶ء) حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحم اللہ تعالی فرماتے ہیں:.بابت اجراء کھاتہ مرحومین دفتر اول " جس کا چندہ جاری ہے وہ کس طرح مرسکتا ہے.اسلئے دفتر اول کی از سر نو ترتیب کرنی پڑے گی.میری خواہش یہ ہے کہ یہ دفتر قیامت تک جاری رہے.اور جولوگ ایک دفعہ دین حق کی مثالی خدمت کر چکے ہیں انکا نام قیامت تک نہ مٹنے پائے.انکی اولاد میں انکی طرف سے چندے دیتی رہیں اور ایک بھی دن ایسا نہ آئے جب ہم یہ کہیں کہ اس دفتر کا ایک آدمی فوت ہو چکا ہے.خدا کے نزدیک بھی وہ زندہ ہیں اور قربانیوں کے لحاظ سے بھی.اس دنیا میں بھی انکی زندگی کی علامتیں ہمیں نظر آتی رہیں." (خطبه جمعه ۲ دسمبر ۱۹۸۲ء) حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :.احیائے کھانہ مجاہدین دفتر اول " اس بات پر خوف زدہ نہ ہوں کہ اتنے لمبے عرصے کے کھاتے کس طرح زندہ کئے ایک تعارف

Page 119

مالی قربانی 111 ایک تعارف جائیں.جتنا زیادہ سے زیادہ پیچھے جا کر کھاتے زندہ کر سکتے ہیں اپنی توفیق کے مطابق وہ کریں اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بھی دیکھیں.جوں جوں اللہ تعالیٰ فضل بڑھاتا چلا جائے ، آپ کی توفیق بھی بڑھتی چلی جائے گی.اور پھر یہ بھی خواہش ہوگی کہ یہ تسلسل بھی قائم رکھیں کہ بیچ میں کوئی سال ایسا نہ ہو جو خالی رہ گیا ہو...اپنے لئے بھی اور اپنے والدین کی قربانیوں کیلئے بھی توجہ کریں.پس جلدی سے آگے بڑھیں اور فرشتوں کی دعائیں لینے والے بنیں تا کہ آپ کی اولادیں بھی ان قربانیوں سے فیض پاتی رہیں.یہی ان دعاؤں کا سب سے بڑا خزانہ ہوگا جو آپ اپنی اولادوں خطبه جمعه فرموده ۵ نومبر ۲۰۰۴ء) کیلئے چھوڑ کر جائیں گے." ہدایات بابت چندہ تحریک جدید تحریک جدید کا سال یکم نومبر سے شروع ہو کر ۳۱ اکتوبر کو اختتام پذیر ہوتا ہے.کوشش کی جائے کہ کوئی بھی فرد جماعت اس سکیم میں شامل ہونے سے رہ نہ جائے.ہر نو مبائع کو بھی اس سکیم میں شامل کیا جائے.والدین اپنے نئے پیدا ہونے والے بچے کو بھی اس سکیم میں شامل کریں.نئے کمانے والے جو پہلے اپنے والدین کے زیر دست تھے ملازمت / کاروبار شروع کرنے کے بعد پہلے سے بڑھ کر اس سکیم میں حصہ لیں.اگر کسی کے فوت شدہ عزیزان چندہ تحریک جدید ادا کرتے رہے ہوں تو وہ اپنے ان عزیزوں کی قربانی کو بھی جاری رکھنے کی کوشش کریں.وعدہ کنندگان کو اپنے اور دیگر خاندان کے افراد کی طرف سے وعدہ کرتے وقت عرصہ کوملحوظ رکھتے ہوئے چاہیئے کہ دفاتر تحریک جدید ( اول تا پنجم ) کو واضح کریں.اس سے حساب رکھنے اور تیار کرنے میں سہولت ہو جاتی ہے.

Page 120

مالی قربانی 112 ایک تعارف نصرت جہاں سیکیم یہ سکیم تحر یک جدید کے زیر انتظام ہے.اس کی بنیاد حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے اری دی زیرا نام نیا 1920 ء میں رکھی.۱۴اپریل ۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفہ امسح الثالث حمہ اللہ تعالی ربوہ سے مغربی افریقہ کے چھ مالک نائجیر یا، غانا، آئیوری کوسٹ، لائبیریا، گیمبیا اور سیرالیون کے دورہ پر روانہ ہوئے اور ۱۴ رمئی ۱۹۷۰ء کوفری ٹاؤن سے براستہ ہالینڈ، لندن تشریف لائے.اس دورہ کے دوران گیمبیا میں اللہ تعالیٰ نے حضور کو یہ القاء فرمایا کہ افریقن ممالک کی بہبود کیلئے ایک لاکھ پاؤنڈ خرچ کئے جائیں.اس پر حضور نے لندن میں نصرت جہاں ریزروفنڈ کے نام سے رقم پیش کرنے کی تحریک فرمائی اور فوری طور پر ڈاکٹر ز اور اساتذہ کو وقف کی تحریک فرمائی.اس سکیم کے تحت پہلا ہسپتال Kokufu غانا میں یکم نومبر ۱۹۷ء کو کھولا گیا اور بعد ازاں اس سکیم کے دائرہ کار کو مشرقی اور وسطی افریقہ تک وسعت دیدی گئی.اس تحریک کے نتیجہ میں ہونے والے خدا تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:." میں نے مغربی افریقہ کے چھ ملکوں کیلئے 18 ڈاکٹروں کا وعدہ کیا تھا اور یہ وعدہ 5 سال میں پورا ہونا تھا لیکن ڈیڑھ سال سے کم عرصہ میں وہاں خدا کے فضل سے 14 ڈاکٹر پہنچ چکے ہیں اور چار جلد ہی پہنچ جائیں گے." الفضل ربوہ، ۱۷ اکتو برا ۱۹۷ء) اس وقت نصرت جہاں سکیم کے تحت افریقہ کے مختلف ممالک میں 38 طبی ادارے ہیں، جن میں 37 عدد واقفین ڈاکٹر ز اور کچھ لوکل ڈاکٹر ز خدمات سرانجام دے رہے ہیں.اسی طرح نصرت جہاں سکیم کے تحت افریقہ کے مختلف ممالک میں تعلیمی اداروں کی تعداد درج ذیل ہے:.ا.پرائمری سکولز 301 ۲.سیکنڈری سکولز 40

Page 121

مالی قربانی 113 ایک تعارف ان تعلیمی اداروں میں 7 مرکزی اساتذہ کے علاوہ باقی لوکل اساتذہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں.جن کی تفصیل درج ذیل ہے:.طبی ادارے تعلیمی ادارے نمبر شمار نام ملک تعداد ادارے تعداد ڈاکٹرز تعداد پرائمری سکوئز تعداد سیکنڈری سکوائر 1 غانا ۲ سیرالیون کیمبیا لائبریا نائجیریا آئیوری کوسٹ کانگو بورکینا فاسو و بینن 10 کینیا 11 = تنزانیہ ۱۲ یوگنڈا میزان 7 144 14 11 25 148 3 3 3 4 2 1 3 1 4 5 6 3 1 1 1 1 2 3 2 2 4 10 5 1 2 3 1 40 301 37 38 حمد

Page 122

مالی قربانی 114 وقف جدید ایک تعارف وقف جدید کی ابتداء ۱۹۵۷ ء میں ہوئی.اس تحریک کے مقاصد میں دیہاتی جماعتوں کی تعلیم و تربیت کے پروگرام کے علاوہ ایسے افراد جوبت پرست میں مبتلاہیں کو وحی کا پیغام پہنچانا بھی شامل ہے.ابتدائی طور پر اس تحریک میں حصہ لینا پاکستان تک محدود تھا، بعد ازاں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس تحریک کو عالمگیر حیثیت عطا فرما دی.تحر یک وقف جدید کے بارہ میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی فرماتے ہیں:.یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور ضرور پورا ہوکر رہے گا.میرے دل میں چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے اس لئے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں، کپڑے بیچنے پڑیں ، میں اس فرض کو تب بھی پورا کروں گا.اگر جماعت کا ایک فرد بھی میرا ساتھ نہ دے، خدا تعالیٰ ان لوگوں کو الگ کر دے گا جو میرا ساتھ نہیں دے رہے اور میری مدد کیلئے فرشتے خطبه مورخه ۵/جنوری ۱۹۵۸ء) آسمان سے اتارے گا." وقف جدید اور ماؤں کی ذمہ داریاں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے احمدی ماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:."اگر تمام احمدی بچے جو آپ کی گودوں میں پلتے ہیں، تمام احمدی بچے جن کی تربیت کی ذمہ داری آپ پر ہے ، اس طرف متوجہ ہوں.لیکن اس طرف پوری توجہ کی ضرورت ہے اور بچوں کے ذہنوں میں اس کام کی اہمیت بٹھانے کی ضرورت ہے.اور بچوں کے ذہنوں میں آپ وقف جدید کی اہمیت بٹھا نہیں سکتیں جب تک خود آپ کے ذہنوں میں وقف جدید کی اہمیت نہ بیٹھی ہو." بچو اٹھو، آگے بڑھو الفضل ربوه،۱۱ رفروری ۱۹۶۸ء) حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے ۱۹۶۶ء میں دفتر اطفال کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا." میں آج احمدی بچوں (لڑکوں اور لڑکیوں ) سے اپیل کرتا ہوں کہ بچو اٹھو اور آگے

Page 123

مالی قربانی 115 بڑھو اور تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں وقف جدید کے کام میں جو رخنہ پڑ گیا ہے اسے پر کر دو اور اس کمزوری کو دور کر دو جو اس تحریک کے کام میں واقع ہوگئی الفضل ربوہ ۷ اکتوبر ۱۹۶۶ء) ہے." حضرت خلیفہ المسح الرابع نے فرمایا:." بچوں کو شروع ہی سے وقف جدید میں شامل کیا جائے تو ہر قسم کے دوسرے چندوں میں اللہ تعالیٰ ان کے حوصلے بڑھائے گا." ہدایات بابت چندہ وقف جدید ایک تعارف چندہ وقف جدید کا سال یکم جنوری سے شروع ہو کر ۳۱ دسمبر کو اختتام پذیر ہوتا ہے.کوشش کی جائے کہ کوئی فرد جماعت مرد، عورت، جوان، بوڑھا یا بچہ اس پاک تحریک میں شامل ہونے سے رہ نہ جائے.نو مبائعین کو بھی اس مقدس سکیم میں شامل کیا جائے.خاندان کا سرپرست اس امر کو یقینی بنائے کہ گھر کا کوئی فرد اس سکیم میں شامل ہونے سے محروم نہ رہے حتی کہ نئے پیدا ہونے والے بچے کی طرف سے بھی چندہ ادا کیا جائے.نئے کمانے والے جو پہلے اپنے والدین کے زیر کفالت تھے، برسر روزگار ہونے کے بعد ان سے ان کی آمد کے مطابق وعدے لئے جائیں.وہ وفات شدگان جو خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سکیم میں حصہ لے رہے تھے، ان کے عزیز واقارب کو ان کی مالی قربانی جاری رکھنے کی طرف توجہ دلائی جائے.ہر طرح سے کوشش کی جائے کہ کوئی بھی فرد جماعت اس بابرکت سکیم میں حصہ لینے سے محروم نہ رہے تا وہ خدا تعالیٰ کی برکات وافضال سے حصہ پانے والا ہو.

Page 124

مالی قربانی 116 ایک تعارف امانت تربیت حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی ہجرت کے بے شمار انعامات میں سے ایک عظیم الشان انعام جماعت احمدیہ کو ایم.ٹی.اے کی صورت میں ملا.1991ء میں ایم.ٹی.اے کے آغاز میں اس کے پروگرام روزانہ چند گھنٹوں کیلئے نشر ہونا شروع ہوئے، پھر چند سال بعد یہ پروگرام چوبیس گھنٹے کیلئے شروع ہو گئے اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ایم.ٹی.اے ڈیجیٹل لائن پر ۲۴ گھنٹے ساری دنیا کیلئے جاری ہے اور روز بروز ترقی کی نئی منازل طے کر رہا ہے.حضرت خلیفتہ مسیح کی آواز پر لبیک کہنے والوں نے اس مد میں بھی فقید المثال قربانیاں پیش کیں.یہ سارے کا سارا نظام خلافت کے گرد گھومتا ہے اور حضور کا دیدار کرنے والے عاشقوں نے اس نظام کے احسان اور شکرانے کے طور پر دل کھول کر اپنے اموال پیش کئے.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس نظام سے ساری جماعت کو بے انتہا فوائد پہنچ رہے ہیں جس میں افراد جماعت کی تربیت کے ساتھ ساتھ اسکے نتیجہ میں تبلیغ میں بھی بے انتہا کامیابیاں نصیب ہو رہی ہیں.اس مد میں دیا گیا چندہ امانت تربیت کہلاتا ہے.اس روحانی مائدہ پرمشتمل خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہونے والے نظام کے شکرانہ کے طور پر اپنی جماعت کے تمام افراد، احباب و خواتین اور بچگان کو اس کا حصہ دار بنائیں تا کہ اس نظام میں ذاتی شمولیت کے ساتھ ایک وابستگی اور لطف کا احساس ہو.یہ چندہ سارے کا ساراسنٹرل ریزرو میں جمع ہو گا.مقامی طور پر اس میں سے کسی خرچ کی اجازت نہیں ہے.☆ بیوت الحمد منصوبہ حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹ اکتو بر۱۹۸۲ء میں جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کے استقبال اور پہلی صدی میں ہونے والے خدا تعالیٰ کے فضلوں پر شکرانے کے طور پر ایک سوغریب گھرانوں کو مفت رہائش کی سہولت مہیا کرنے کیلئے ایک منصوبہ " بیوت الحمد" کے نام سے جماعت کے سامنے پیش فرمایا، اس منصوبہ کا اعلان فرماتے ہوئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.پاکستان میں آجکل اقتصادی حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ بہت کثرت کے "

Page 125

مالی قربانی 117 ساتھ ایسے غرباء ہیں جن کو سر چھپانے کی جگہ میسر نہیں..ہمارا فرض ہے کہ ان کیلئے کچھ نہ کچھ کریں.جتنی توفیق ہے، تھوڑی سہی تھوڑی کریں لیکن اللہ تعالیٰ کی حمد کا عملی صورت میں ایک یہ اظہار بھی کریں کہ ہم اس کے بندوں کے گھروں کی طرف کچھ توجہ دے رہے ہیں.ویسے تو یہ اتنی بڑی ضرورت ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں بھی اس کو پورا نہیں کر سکتیں ، مگر مجھے اللہ کے فضل سے توقع ہے کہ چونکہ جماعت احمد یہ اس زمانہ میں وہ واحد جماعت ہوگی جو محض رضاء باری تعالیٰ کی خاطر یہ کام شروع کرے گی ، اس لئے اللہ اس میں برکت دیگا اور کروڑوں روپوں کے مقابل پر ہمارے چند روپوں میں زیادہ برکت پڑ جائے گی اور اس کے نتیجہ میں جماعت کے غرباء کا ایمان بھی ترقی کرے گا اور اللہ کے فضل بھی ان پر نازل ہوں گے." اس تحریک کی اہمیت اور اس میں حصہ لینے والوں کو نصائح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.اس تحریک کیلئے چونکہ انتظار میرے بس میں نہیں رہا تھا.اللہ تعالیٰ نے اتنے زور سے یہ تحریک میرے دل میں ڈالی کہ میں نے مجبوراً اس موقعہ پر اس کا اعلان کر دیا.اس لئے اس شرط کے ساتھ جماعت کے دوسرے احباب کو اس میں شمولیت کا موقعہ دیا جائے گا کہ اول تو وہ توازن کو بگڑنے نہ دیں.دل تو چاہے گا کہ پہلی تحریک ہے سب کچھ اس راہ میں پیش کر دیں.یہ ایک مومن کے قلب کی طبعی حالت ہوتی ہے لیکن یاد رکھیں اور بہت سی تحریکات اللہ کی راہ میں آنے والی ہیں اس لئے وہ ان کیلئے بھی اپنے ذہن میں گنجائش رکھیں اور توازن برقرار رکھتے ہوئے جو کچھ پیش کرنے کی خدا سے توفیق پائیں اس پر راضی ہوں.دل تو چاہے گا کہ اور بھی زیادہ پیش کریں لیکن اپنے آپ کو سنبھال کر پیش کریں اور دوسرے یہ کہ صرف وہ پیش کریں جو خدا تعالیٰ کو حاظر و ناظر جان کر خود یہ سمجھتے ہیں، یہ فیصلہ انہوں نے خود کرنا ہے کہ وہ اپنے لازمی چندوں میں پورے ہیں، شرح کے مطابق دیتے ہیں حصہ وصیت بھی اور چندہ عام بھی.جن کو ابھی تک یہ توفیق نہیں ملی ، یہ حوصلہ عطا نہیں ہواوہ ہرگز ایک آنہ بھی اس تحریک میں نہ دیں." ایک تعارف

Page 126

مالی قربانی 118 ایک تعارف اس منصو بہ پر احباب جماعت نے لبیک کہا اور اس میں چندہ ادا کیا اور اب بھی ادا کیا جارہا ہے.اس منصوبہ کے ذریعہ مرکز میں ایک سو کوارٹر تعمیر کئے گئے ہیں، جن میں غریب اور مستحق افراد کو رہائش مہیا کی گئی ہے.اس کے علاوہ بہت سے غریب احباب جماعت کو جزوی طور پر گھروں کی تعمیر میں بھی مدد دی جارہی ہے نیز ان کوارٹروں کی مرمت اور دیگر ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے.اس مقصد کیلئے دیا جانے والا چندہ ، چندہ بیوت الحمد کہلاتا ہے.یتامی فنڈ سید نا حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے احمدیت کی دوسری صدی جو غلبہ اسلام کی صدی ہے کے استقبال کے طور پر اعلان فرمایا کہ جماعت ایک سو یتیم بچوں کی کفالت کرے گی.اس طرح جہاں ایک طرف یتیم بچوں کی تلاش شروع کی گئی جن کی کفالت کا انتظام کرنا تھاوہاں دوسری طرف اس سلسلہ میں مخلصین کو اس فنڈ میں چندہ دینے کی تحریک کی گئی.الہی منشاء تھا کہ جوں جوں اس سلسلہ میں جماعتوں کی طرف سے یتامیٰ کے کوائف ملے اور ان کی کفالت کے سلسلہ میں خرچ ہوا، ساتھ کے ساتھ اس ضرورت کے مطابق بلکہ اس سے زیادہ رقوم کی آمد کا سلسلہ جاری ہو گیا اور اب یہ شکرانہ صرف ایک سو یتامی کی کفالت تک محدود نہ ہے بلکہ گھرانوں کی تعداد سو سے زیادہ اور یتامی کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے.یہ خوش کن امر بھی سامنے آیا ہے کہ ان یتامی اور گھرانوں میں جونہی کوئی بچہ برسر روزگار ہوتا ہے اور اپنے خاندان کا گزارہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے تو وہ بچہ اور گھرانہ شکریہ کے ساتھ وظیفہ یا مد دلینا بند کر وا دیتا ہے.اس تحریک میں بعض احباب نے اندازاً اوسط خرچ فی کس 500 تا 1500 روپے ماہوار کے حساب سے چندہ دینے کا وعدہ کر رکھا ہے اور بعض بالمقطع رقم بطور چندہ کے ادا کرتے ہیں.اس تحریک کے سیکرٹری فی الحال نائب ناظر ضیافت ربوہ ہیں، جن سے بذریعہ وکالت مال لندن خط و کتابت کر کے مزید معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں.یامی کی کفالت کے بارہ میں حضرت خلیفہ اسی الخامس ایدہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :." اب میں باقی دنیا کے امراء کو بھی کہتا ہوں کہ اپنے ملک میں احمدی یتامی کی

Page 127

مالی قربانی 119 ایک تعارف تعداد کا جائزہ لیں جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں، پڑھائی نہ کر سکتے ہوں، کھانے پینے کے اخراجات مشکل ہوں اور پھر مجھے بتائیں خاص طور پر افریقن ممالک میں اسی طرح بنگلہ دیش ہے، ہندوستان ہے اس طرف کافی کمی ہے توجہ دینے کی ضرورت ہے تو با قاعدہ ایک سکیم بنا کر اس کام کو شروع کریں اور اپنے اپنے ملکوں کے یتامی کو سنبھالیں.مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کے مالی لحاظ سے مضبوط حضرات اس نیک کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور انشاء اللہ ہمیں ان کو سنبھالنے کے جو اخراجات ہیں ان میں کوئی کمی کبھی پیش نہیں آئے گی.(لیکن امراء جماعت یہ کوشش کریں کہ یہ جائزے، یہ تمام تفاصیل زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک مکمل ہو جائیں اور اس کے بعد مجھے بھجوائیں).اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے اور ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم یتانی کا جو حق ہے وہ ادا کر سکیں.." تعمیر بیوت الذکر خطبه جمعه ۲۳ / جنوری ۲۰۰۴ء) تعمیر بیوت الذکر کیلئے مرکز اپنے بجٹ میں ہر سال رقم مختص کرتا ہے مگر پھر بھی وہ رقم جماعتی ضرورت کو پورا نہیں کرتی ، تعداد میں اضافہ کے ساتھ ضرورت بھی بڑھتی ہے اور تعمیر کے اخراجات بھی کافی آجاتے ہیں.بہت سی جماعتیں خوشی سے اس ضرورت کو مقامی طور پر پورا کرتی ہیں ان کے سامنے یہی بات ہوتی ہے کہ اگر ہم اپنے گھر خود بنا سکتے ہیں تو خدا کا گھر بھی اپنی مدد آپ کے تحت خود ہی بنائیں گے.لیکن جس جماعت کے احباب مالی کمزوری کے سبب دقت محسوس کرتے ہیں اور مدد کے خواہاں ہوتے ہیں ، مرکز اپنی مختص رقم میں سے ان کی جزوی یا کلی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے.تاہم یہ ضرورت ہر سال بڑھتی رہنے والی ہے اس لئے وہ احباب جن کو خدا تعالیٰ نے مال کے ساتھ یہ سوچ بھی عطا کی ہے کہ مقامی ضرورت کے ساتھ ساتھ مرکز کی بھی اس سلسلہ میں مدد کرنی چاہیئے ، ان کیلئے سہولت ہے کہ وہ اس مد کے تحت مرکز کے لئے رقوم جمع کروا سکتے ہیں.کوئی خوشی پہنچے، نئی نوکری میسر آئے ، نوکری میں ترقی حاصل ہو یا نیا مکان بنانے کی

Page 128

مالی قربانی 120 ایک تعارف توفیق وغیرہ ملے تو اس موقع پر شکرانہ کے طور پر تعمیر بیوت الذکر کی مد میں حسب توفیق چندہ کی ادائیگی کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیئے.ہر ملک اس چندہ کی رقم کو مرکزی امانات میں رکھے گا.اور مرکز کی ہدایت پر اسکی ترسیل کا انتظام کرے گا.صدقات احادیث میں آیا ہے کہ صدقہ رڈ بلا ہے.کسی حاجت مند کی ضرورت پورا کرنے سے اللہ تعالیٰ ضرورت پوری کرنے والے کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے راستے کھولتا اور اس کیلئے سامان بہم پہنچاتا ہے.صدقہ انفرادی طور پر بھی دیا جا سکتا ہے اور جماعتی نظام کے تحت بھی دیا جا سکتا ہے.جماعتی نظام کے تحت امداد گندم، امداد مریضان اور امدادطلبا و غیرہ صدقہ ہی کی اقسام ہیں.صدقہ کی مد میں چندہ دینے سے مرکز مستحقین کی بر وقت مدد کر سکتا ہے.چندہ کی طرح صدقہ کی رقم بھی بغیر رسید لئے ہر گز نہیں دینی چاہیئے.مریم شادی فنڈ شادی بیاہ اور وفات وغیرہ کے مواقع پر جن رسومات میں معاشرہ جکڑا ہوا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے افراد جماعت کو اس سے آزادی دلائی.پس جہاں ایک طرف ہمارے لئے ان رسومات سے بچنا ضروری ہے وہاں دوسری طرف جب ہم خوشی اور شادی بیاہ کے مواقع پر خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنی استطاعت کے مطابق اخراجات کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیئے کہ ہمارے معاشرہ کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو اس قسم کے مواقع پر بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا.ایسے لوگوں کی ان بنیادی ضرورتوں کے پیش نظر حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے خطبہ جمعہ فرموده ۲۱ فروری ۲۰۰۳ ء میں ایک فنڈ کا اجراء فرمایا اور بعد ازاں اسے مریم شادی فنڈ کا نام عطا فرمایا.اس فنڈ میں آنے والی رقوم سے غریب اور ضرورت مند والدین کو ان کی بچیوں کی شادی کیلئے امداد دی جاتی ہے.حضور نے اس فنڈ کا اجراء کرتے ہوئے فرمایا:." میں شکر نعمت کے طور پر اپنی والدہ مرحومہ کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں.آپ غریبوں کی

Page 129

مالی قربانی 121 ایک تعارف بہت ہمدرد تھیں.غریب بچیوں کے جہیز کا انتظام کیا کرتی تھیں اور بہت سی ایسی بچیاں تھیں یا دوسری غریب جن کے جہیز کا آپ نے ہمیشہ انتظام فرمایا ان کی یاد میں اور ان کی روح کو ثواب پہنچانے کی خاطر میں یہ....اعلان کرتا ہوں کہ جن کی بیٹیاں بیاہنے والی ہیں اور انہیں مدد کی ضرورت ہے.وہ بے تکلفی سے مجھے لکھیں ان کا مناسب گزارہ ہو جائے گا اور جہیز کی رسم کسی حد تک پوری ہو جائے گی.اگر میرے اندر اتنی توفیق نہ ہوتو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا تعالیٰ کی جماعت غریب نہیں ہے بہت روپیہ ہے جماعت کے پاس.تو انشاء اللہ جماعت کے کسی فنڈ سے ان کی امداد کر دی جائے گی مگر ان کو تو فیق مل جائے گی کہ ان کی بیٹیاں خیر و خوبی کے ساتھ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوں." الفضل انٹر نیشنل لندن ۲۸ / مارچ تا ۳ را پریل ۲۰۰۳ء) سیدنا بلال فنڈ احمدیت کیلئے اپنی جان کی قربانی پیش کر نیوالے شہداء کے خاندانوں کی کفالت کیلئے حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۴ / مارچ ۱۹۸۶ء کے خطبہ جمعہ میں ایک فنڈ کا اعلان فرمایا، اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ میں جماعت کو یہ بھی تسلی دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے جماعت احمد یہ میں کوئی بھی خدا کی راہ میں مارا جانے والا ہر گز یہ وہم لے کر یہاں سے رخصت نہیں ہوتا کہ میرے بیوی بچوں کا کیا بنے گا.جماعت احمدیہ میں ایسے لوگوں کے بچے یتیم نہیں ہوا کرتے.یہ ایک زندہ جماعت ہے اور یہ ناممکن ہے کہ جماعت اپنے قربانی کرنے والوں کے اہل وعیال کو اور ان کے حقوق کو بھول جائے.ایسی جماعتوں کی زندگی کی ضمانت اس بات میں ہے کہ ان کے قربانی کرنے والوں کو اپنے پسماندگان کے متعلق کوئی فکر نہ رہے.اس فنڈ کی عظمت اور اس کی اہمیت کے بارہ میں حضور نے فرمایا کہ یہ ہرگز صدقہ کی تحریک نہیں بلکہ جو شخص اس میں حصہ لے گا وہ اسے اعزاز سمجھے گا اور خیال کرے گا کہ مجھے جتنی خدمت کرنی چاہیئے تھی اتنی نہیں کی بلکہ بہت ہی معمولی خدمت کی توفیق پائی ہے.

Page 130

مالی قربانی 122 ایک تعارف اس تحریک میں حصہ لینے والوں کو نصائح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ پوری طرح شرح صدر اور محبت کے جذبہ سے جو دینا چاہتا ہے وہ دے، ادنی سا بھی تردد یا بوجھ ہو تو وہ ہرگز نہ دے.یہ ایک خاص نوعیت کی تحریک ہے جس میں بشاشت طبع ہی ضروری نہیں بلکہ طبیعت کا دباؤ ضروری ہے.دل سے بے قرار تمنا اٹھ رہی ہو، یہ خواہش پیدا ہورہی ہو کہ میں اس میں شامل ہوں.آج ایک آنہ بھی جس کو توفیق ہو وہ بھی بہت عظیم دولت ہے ، وہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑی سعادت ہوگی.اس اعلان کے ایک روز بعد یعنی ۱۵ / مارچ ۱۹۸۶ ء کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس تحریک کو سید نا بلال فنڈ کا نام عطا فر مایا.اس فنڈ میں چندہ کی ادائیگی کرنے والے احباب کے ناموں کی فہرست دعا کیلئے ہر ماہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے.طاہر فاؤنڈیشن حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت خلیفہ المسح الرابع کے کاموں کو جاری رکھنے اور آپ کے علمی فیضان کی تدوین و اشاعت کیلئے " طاہر فاؤنڈیشن" کے قیام کا اعلان فرماتے ہوئے فرمایا:.اس مقصد کیلئے ایک الگ ادارہ کی ضرورت ہے جس کے ۲۰ ڈائر یکٹرز ہوں گے.اس کی ایک شاخ لندن میں قائم ہوگی.جہاں تک فنڈز کا تعلق ہے تینوں انجمنیں یعنی صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید انجمن احمد یہ اور وقف جدید انجمن احمد یہ اس کیلئے فنڈ مہیا کریں گی.جو لوگ خوشی سے حصہ لینا چاہتے ہیں وہ حصہ لے سکتے ہیں." الفضل ربوه، ۸ راگست ۲۰۰۳ء) ☆

Page 131

مالی قربانی 123 ایک تعارف مداشاعت اسلام ایسے احباب جو اپنی رقوم کو اپنے کاروبار میں استعمال کرنے کی بجائے ان رقوم کے ذریعہ ایسے ادارہ جات میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جو ان رقوم پر سرمایہ کاری کے نتیجہ میں سود یا Interest ادا کرتے ہیں مثلاً بنک ، ڈاکخانہ اور سرمایہ کاری کے دیگر ادارہ جات، یا ایسے احباب جنہیں اپنے کاروبار کیلئے بنک میں رقوم جمع کروانے کی مجبوری ہے، ان سب احباب کو ایسے ادارہ جات کی جانب سے ان کی رقوم پر سود یا Interest کی جو رقم ملتی ہے اس رقم کا ذاتی استعمال کرنا یا اس میں سے کسی مد میں چندہ دینا ہرگز درست اور جائز امر نہیں.اس بارہ میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا درج ذیل ارشاد " مد نظر رکھنا چاہیئے:.بنک سے ملنے والے INTEREST کو اس طرح انفرادی طور پر خرچ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ورنہ کسی کا نفس کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اس کے غلط استعمال کرنے کا موجب بن سکتا ہے.ایسی رقم مرکز کو ادا کرنی چاہیئے.مرکز از خودا سے اشاعت اسلام کیلئے خرچ کرے گا.اگر کوئی ایسی رقم بطور چندہ اشاعت اسلام مرکز کو ادا نہیں کرنا چاہتا تو بے شک نہ کرے لیکن اس طرح انفرادی طور پر استعمال کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی." ( مکتوب مؤرخه ۰۲ / مارچ ۱۹۹۴ء) سود کے بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (بالکل) اسی طرح کھڑے ہوتے ہیں جس طرح وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جس پر شیطان ( یعنی مرض جنوں) کا سخت حملہ ہو.یہ (حالت) اس وجہ سے ہے کہ وہ کہتے (رہتے) ہیں کہ (خرید و ) فروخت ( بھی تو) بالکل سود (ہی) کی طرح ہے.حالانکہ اللہ نے (خرید و فروخت کو جائز قرار دیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے.سو ( یاد رکھو کہ ) جس (شخص) کے پاس اس کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت ( کی بات ) آئے اور وہ (اسے سن کر خلاف ورزی سے ) باز آجائے

Page 132

مالی قربانی 124 ایک تعارف تو جو (لین دین) وہ پہلے کر چکا ہے اس کا نفع اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے.اور جو (لوگ) پھر ( وہی کام ) کریں تو وہ (ضرور) آگ ( میں پڑنے ) والے ہیں.وہ اس میں پڑے رہیں گے." پھر فرمایا:- (البقرہ : ۲۷۶) "اے ایمان دارو! تم (اپنے مال پر ) سود جو ( مال کو ) بے انتہا بڑھاتا ہے.مت کھاؤ.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ." (ال عمران : ۱۳۱) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے ایک شخص نے سوال کیا کہ ضرورت پر سودی روپیہ لے کر تجارت وغیرہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ اس پر آپ نے فرمایا :."حرام ہے.ہاں اگر کسی دوست اور تعارف کی جگہ سے روپیہ لیا جاوے اور کوئی وعدہ اس کو زیادہ دینے کا نہ ہو، نہ اس کے دل میں زیادہ لینے کا خیال ہو.پھر اگر مقروض اصل سے کچھ زیادہ دے دے تو وہ سود نہیں ہوتا.بلکہ یہ تو هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ہے.اس پر ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر ضرورت سخت ہوا اور سوائے سود کے کام نہ چل سکے تو پھر اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اس کی حرمت مومنوں کے واسطے مقرر کی ہے اور مومن وہ ہوتا ہے جو ایمان پر قائم ہو.اللہ تعالیٰ اس کا متوتی اور متکفل ہوتا ہے اسلام میں کروڑ ہا ایسے آدمی گزرے ہیں جنہوں نے نہ سود لیا نہ دیا آخر ان کے حوائج بھی پوری ہوتی رہیں کہ نہ.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہ لو نہ دو.جو ایسا کرتا ہے وہ گویا خدا کے ساتھ لڑائی کی تیاری کرتا ہے.ایمان ہو تو اس کا صلہ خدا بخشتا ہے.ایمان بڑی بابرکت شئے ہے.اَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِ شَيْءٍ قَدِير.اگر اسے خیال ہو کہ پھر کیا کرے تو کیا خدا کا حکم بھی بے کار ہے.اس کی قدرت بہت بڑی ہے.سود تو کوئی شئے ہی نہیں ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا کہ زمین کا پانی نہ پیا کرو تو وہ ہمیشہ بارش کا پانی آسمان سے دیا کرتا.

Page 133

مالی قربانی 125 ایک تعارف اسی طرح ضرورت پر وہ خود ایسی راہ نکال ہی دیتا ہے کہ جس سے اس کی نافرمانی بھی نہ ہو.جب تک ایمان میں میل کچیل ہوتا ہے تب تک یہ ضعف اور کمزوری ہے کوئی گناہ چھوٹ نہیں سکتا جب تک خدا نہ چھڑا دے ورنہ انسان تو ہر ایک گناہ پر یہ عذر پیش کر سکتا ہے کہ ہم چھوڑ نہیں سکتے.اگر چھوڑیں تو گزارہ نہیں چلتا.دوکانداروں، عطاروں کو دیکھا جاوے کہ پرانا مال سال ہا سال تک بیچتے ہیں دھوکا دیتے ہیں، ملازم پیشہ لوگ رشوت خوری کرتے ہیں اور سب یہ عذر کرتے ہیں کہ گزارہ نہیں چلتا.ان سب کو اگر اکھٹا کر کے نتیجہ نکالا جاوے تو پھر یہ نکلتا ہے کہ خدا کی کتاب پر عمل ہی نہ کرو کیونکہ گذارہ نہیں چلتا.حالانکہ مومن کیلئے خدا خود سہولت کر دیتا ہے.یہ تمام راستبازوں کا مجرب علاج ہے کہ مصیبت اور صعوبت میں خدا خودراہ نکال دیتا ہے.لوگ خدا کی قدر نہیں کرتے جیسے بھروسہ ان کو حرام کے دروازے پر ہے.ویسا خدا پر نہیں.خدا پر ایمان.یہ ایک ایسا نسخہ ہے کہ اگر قدر ہو تو جی چاہے کہ جیسے اور عجیب نسخہ مخفی رکھنا چاہتے ہیں ویسے ہی اسے بھی مخفی رکھا جاوئے." البدر قادیان ، ۲۷ / مارچ ۱۹۰۳ ء صفحه ۵-۷ ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ سودی روپے کے لینے اور دینے کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:." ہمارے نزدیک سودی روپیہ لینا اور دینا دونوں حرام ہیں.مومن وہ ہوتے ہیں جو اپنے ایمان پر قائم ہوں.اللہ تعالیٰ ان کا خود متولی اور متکفل ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے.اس قدر مومن دنیا میں گذرے ہیں وہ کبھی ایسی مشکلات میں مبتلا نہیں ہوئے بلکہ يَرُزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ اللہ تعالیٰ ہر ضیق سے ان کو نجات دیتا ہے.ہاں رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ایک نمونہ پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ جب کسی سے کچھ روپیہ قرض لیتے ہیں تو اس کے ساتھ کچھ اور بھی دیتے.اس طریق پر کہ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَان پر عمل ہو جاوے.اور یہ جوزائد دے

Page 134

مالی قربانی 126 ایک تعارف رمایا:.دیتے ، وہ بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ اصل سے دو چند، سہ چند ہوتا.ایسی صورتیں جائز ہیں کہ اگر کسی اپنے دوست سے روپیہ لے اور کوئی شرط اس کے ساتھ طے نہ ہو تو صلہ مواسات کے طور پر کچھ بڑھا کر دے دے.لیکن جیسے آج کل عام طور پر مروج ہے کہ پہلے سود کا فیصلہ ہو جاتا ہے یہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے.ایمان بڑی بابرکت چیز ہے.مومن کو اللہ تعالیٰ ایسی مشکلات میں نہیں ڈالتا مومن اپنے رب کی نسبت یقین رکھتا ہے کہ وہ ہر شئے پر قادر ہے.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِ شَيْءٍ قَدِير مومن کو یہ ضرورت نہیں ہوتی اگر ہوتی ہے تو وہ خود کفیل ہو جاتا ہے سود تو کوئی چیز نہیں اگر اللہ تعالیٰ مومن کو کہتا ہے کہ تو زمین کا پانی نہ پیا کر تو میں ایمان رکھتا ہوں کہ اس کو آسمان سے پانی ملتا.جس قدر ضعف اور لاچاری ہوتی ہے اسی قدر ایمان کی کمزوری ہوتی ہے کوئی گناہ چھوٹ نہیں سکتا جب تک اللہ تعالیٰ توفیق اور قوت نہ دے.جب وہ قوت عطا کرتا ہے تو پھر سہولت کے دروازے کھول دیتا ہے اگر عذر نکال نکال کر گناہ کئے جائیں جیسے مثلاً کہتے ہیں کہ سودی روپیہ لئے بغیر گزارہ نہیں ، تو پھر عذروں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی کتاب کے کسی حکم پر عمل نہ ہو.سب راست بازوں کا تجربہ یہی ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ رحمت کا دروازہ نہ کھولے کچھ بھی نہیں بنتا افسوس یہ ہے کہ جیسا بھروسہ انسان مخلوق کے دروازوں پر رکھتا ہے اگر اپنے خالق کے دروازہ پر رکھے تو کبھی محتاج نہ ہو مگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی قدر نہیں کرتے." (الحکم قادیان ۲۴ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۵) پھر ایک موقع پر ایک شخص نے کہا کیا کریں مجبوری سے سودی قرضہ لیا جاتا ہے اس پر آپ نے " جو خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے.خدا اس کا کوئی سبب پردہ غیب سے بنادیتا ہے.افسوس کہ لوگ اس راز کو نہیں سمجھتے کہ متقی کیلئے خدا تعالیٰ کبھی ایسا موقع نہیں بنا تا کہ وہ سودی قرضہ لینے پر مجبور ہو یا درکھو جیسے اور گناہ ہیں مثلاً زنا، چوری ایسے ہی یہ سود دینا

Page 135

مالی قربانی..127 اور لینا ہے.کس قدر نقصان دہ یہ بات ہے کہ مال بھی گیا حیثیت بھی گئی اور ایمان بھی گیا.دیکھو سود کا کس قدر سنگین گناہ ہے کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں سٹور کا کھانا تو بحالت اضطرار جائز رکھا ہے چنانچہ فرماتا ہے فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيم یعنی جو شخص باغی نہ ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں اللہ غفور رحیم ہے مگر سود کے لئے نہیں فرمایا کہ بحالت اضطرار جائز ہے بلکہ اس کیلئے تو ارشا د ہے یا ایها الذين آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرَوُا مَا بَقِيَ مِنَ الربوا إِنْ كُنتُمْ مُومْنِيْنَ.فَإِنْ تَفْعَلُوا فَأَذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ - اگر سود کے لین دین سے باز نہ آؤ گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان ہے.ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ جو خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اسے حاجت ہی نہیں پڑتی مسلمان اگر اس ابتلاء میں ہیں تو یہ ان کی اپنی ہی بدعملیوں کا نتیجہ ہے.ہند واگر یہ گناہ کرتے ہیں تو مالدار ہو جاتے ہیں مسلمان یہ گناہ کرتے ہیں تو تباہ ہو جاتے ہیں.خَسِرَ الدُنْيَا وَالْآخِرَةُ کے مصداق پس کیا یہ ضروری نہیں کہ مسلمان اس سے باز آئیں." البدر قادیان ۶ فروری ۱۹۰۸ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ ۷۷۲) حضور علیہ السلام مزید فرماتے ہیں:." انسان کو چاہیئے کہ اپنے معاش کے طریق میں پہلے ہی کفایت شعاری مد نظر رکھے تا که سودی قرضہ اٹھانے کی نوبت نہ آئے جس سے سود اصل سے بڑھ جاتا ہے.ابھی کل ایک شخص کا خط آیا تھا کہ ہزار روپیہ دے چکا ہوں ابھی پانچ چھ سو باقی ہے پھر مصیبت یہ ہے کہ عدالتیں بھی ڈگری دے دیتی ہیں.مگر اس میں عدالتوں کا کیا گناہ.جب اس کا اقرار موجود ہے تو گویا اس کے یہ معنے ہیں کہ سود دینے پر راضی ہے پس وہاں سے ڈگری جاری ہو جاتی ہے.اس سے یہ بہتر تھا کہ مسلمان اتفاق کرتے اور کوئی فنڈ جمع کر کے تجارتی طور پر اسے فروغ دیتے تاکہ کسی بھائی کوسود پر قرضہ لینے کی ایک تعارف

Page 136

مالی قربانی 128 حاجت نہ ہوتی بلکہ اسی مجلس سے ہر صاحب ضرورت اپنی حاجت روائی کر لیتا اور میعاد مقررہ پر واپس دے دیتا." (البدر قادیان ۶ فروری ۱۹۰۸ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ۷۷۲) پھر حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:." سود کا روپیہ تصرف ذاتی کے واسطے ناجائز ہے.لیکن خدا کے واسطے کوئی شے حرام نہیں.خدا کے کام میں جو مال خرچ کیا جائے وہ حرام نہیں ہے.اس کی مثال اس طرح سے ہے.کہ گولی بارود کا چلانا کیسا ہی ناجائز اور گناہ ہو.لیکن جو شخص اسے ایک جانی دشمن پر مقابلے کے واسطے نہیں چلا تا وہ قریب ہے.کہ خود ہلاک ہو جائے کیا خدا نے نہیں فرمایا کہ تین دن کے بھوکے کے واسطے سٹور بھی حرام نہیں بلکہ حلال ہے.پس سود کا مال اگر ہم خدا کیلئے لگائیں تو پھر کیونکر گناہ ہوسکتا ہے.اس میں مخلوق کا حصہ نہیں لیکن اعلائے کلمہ اسلام میں اور اسلام کی جان بچانے کیلئے اس کا خرچ کرنا ہم اطمینان اور شلج قلب سے کہتے ہیں.کہ یہ بھی فَلَا اثْمَ عَلَيْهِ میں داخل ہے.یہ ایک استثناء ہے.اشاعت اسلام کے واسطے ہزاروں حاجتیں ایسی پڑتی ہیں جن میں مال کی ضرورت ہے." ( البدر قادیان ، ۲۹ ستمبر ۱۹۰۵ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ ۷۷) پھر حضور فرماتے ہیں:." اشاعت اسلام کیلئے روپیہ کی ضرورت ہے اور اس پر اگر وہ روپیہ جو بنکوں کے سود سے آتا ہے خرچ کیا جاوے تو جائز ہے کیونکہ وہ خالص خدا کیلئے ہے.خدا تعالیٰ کیلئے وہ حرام نہیں ہے.جیسے میں نے ابھی کہا ہے کہ کسی جگہ کا سکہ و بارود ہو وہ جہاد میں خرچ کرنا جائز ہے یہ ایسی باتیں ہیں کہ بلا تکلف سمجھ میں آجاتی ہیں.کیونکہ بالکل صاف ہیں.اللہ تعالیٰ نے سٹور کو حرام کیا ہے لیکن بایں ہمہ فرماتا ہے فَمَنِ اضْطُرَ غَيْرَ باغ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ جب اضطراری حالت میں اپنی جان بچانے کی خاطر سکور کا کھانا جائز ہے تو کیا ایسی حالت میں کہ اسلام کی حالت بہت ضعیف ہو گئی ہے ایک تعارف

Page 137

مالی قربانی 129 ایک تعارف اور اس کی جان پر آبنی ہے اس کی جان بچانے کیلئے محض اعلائے کلمہ اسلام کیلئے سود کا روپیہ خرچ نہیں ہوسکتا ؟ میرے نزدیک یقیناً خرچ ہو سکتا ہے اور خرچ کرنا چاہیئے." الحاکم قادیان ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ ۷۷) حضور فرماتے ہیں:."میرا امذ ہب جس پر خدا نے مجھے قائم کیا ہے اور جو قرآن شریف کا مفہوم ہے وہ یہ ہے کہ اپنے نفس عیال اطفال دوست عزیز کے واسطے اس سود کو مباح نہیں کر سکتے.بلکہ یہ پلید ہے اور اس کا گناہ (استعمال ) حرام ہے.لیکن ضعف اسلام کے زمانہ میں جب کہ دین مالی امداد کا سخت محتاج ہے اسلام کی مددضرور کرنی چاہیئے.ہمارا منشاء صرف یہ ہے کہ صرف اضطراری حالت میں جب خنزیر کھانے کی اجازت نفسانی ضرورتوں کے واسطے جائز ہے تو اسلام کی ہمدردی کے واسطے اگر انسان دین کو ہلاکت سے بچانے کے واسطے سود کے روپے کو خرچ کرلے تو کیا قباحت ہے.یہ اجازت مختص المقام اور مختص الزمان ہے.یہ نہیں کہ ہمیشہ کے واسطے اس پر عمل کیا جائے.جب اسلام کی نازک حالت نہ رہے تو پھر اس ضرورت کے واسطے بھی سود لینا ویسا ہی حرام ہے.کیونکہ دراصل سود کا عام حکم تو حرمت ہی ہے." (البدر قادیان، ۲۹ ستمبر ۱۹۰۵ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ ۷۷-۷۷۱ ) ایک صاحب کا خط حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا کہ جب بنکوں کے سود کے متعلق حضور نے اجازت دی ہے کہ موجودہ زمانہ اور اسلام کی حالت کو مد نظر رکھ کر اضطرار کا اعتبار کیا جائے تو اضطرار کا اصول چونکہ وسعت پذیر ہے اس لئے ذاتی ، قومی ہلکی، تجارتی وغیرہ اضطرار بھی پیدا ہو کر سود کا لین دین جاری ہو سکتا ہے یا نہیں، فرمایا:.اس طرح سے لوگ حرام خوری کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں.کہ جو جی چاہے کرتے پھریں.ہم نے یہ نہیں کہا کہ بنگ کا سود بہ سبب اضطرار کے کسی انسان کو لینا اور کھانا جائز ہے.بلکہ اشاعت اسلام میں اور دینی ضروریات میں اس کا خرچ جائز ہونا بتلایا

Page 138

مالی قربانی 130 ایک تعارف گیا ہے.وہ بھی اس وقت تک کہ امداد دین کے واسطے رو پیدل نہیں سکتا اور دین غریب ہو رہا ہے.کیونکہ کوئی شے خدا کے واسطے تو حرام نہیں.باقی رہی اپنی ذاتی اور ملکی اور قومی اور تجارتی ضروریات سوان کے واسطے اور ایسی باتوں کے واسطے سود با لکل حرام ہے.وہ جواز جو ہم نے بتلایا ہے ہ وہ اس قسم کا ہے کہ مثلاً کسی جاندار کو آگ میں جلانا شرعاً منع ہے.لیکن ایک مسلمان کے واسطے جائز ہے کہ اس زمانہ میں اگر کہیں جنگ پیش آوے تو توپ، بندوقوں کا استعمال کرے.کیونکہ دشمن بھی اس کا استعمال کر رہا ہے." (البدر قادیان ۶ فروری ۱۹۰۸ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ ۷۷ ) اسی طرح لاٹری ہے جس میں چونکہ اصل زر محفوظ نہیں رہتا اس لئے یہ خالص جوا ہے جو حرام ہے.لاٹری سے ملنے والی رقم ذاتی استعمال کیلئے خرچ کرنا یا از خود کسی نیک کام میں خرچ کرنا منع حاصل ہونے والی رقم بھی اشاعت اسلام کی مد میں جمع کروا دی جائے.

Page 139

مالی قربانی 131 ایک تعارف مقامی چندہ جات مقامی جماعتیں اپنی مقامی ضرورتوں کو لوکل فنڈ کے ذریعے پورا کر سکتی ہیں.اس مقصد کیلئے تحریک جدید انجمن احمد یہ کے قواعد و ضوابط میں اجازت موجود ہے :- ( جن کا ذکر اس کتاب کے صفحہ نمبر ۲ ۱۵ تا ۱۵۷ پر موجود ہے) لوکل فنڈ کے بارہ میں حضرت خلیفتہ امسح الثالث رحمہ اللہ تعالی اور حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ذیل میں پیش ہیں.ایک دوست نے کہا کہ بالعموم یہ سمھا جاتاہے کہ لوکل فنڈ کوئی ایسی ضروری چیز نہیں ہے کہ جو وصول کیا جایا کرے.اس کے جواب میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: - لوکل فنڈ فی نفسہ ضروری چیز نہیں لیکن اگر مقامی طور پر اخراجات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو پھر لوکل فنڈ اکٹھا کرنا ضروری ہو جاتا ہے.ضروری مقامی خرچ بتاتا ہے کہ لوکل فنڈ کی کتنی ضرورت ہے..البتہ قواعد تحریک جدید احمدیہ کے " مطابق اکٹھا کرنا چاہیئے." ( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۴ء) حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب بنام ناظر مال آمد صاحب قادیان زیر نمبر 7246-VM مورخہ 17.09.1996 میں فرمایا:." جو شخص لازمی چندہ با شرح ادا نہیں کرتا اس سے لوکل چندہ لینا بھی بند کردیں.اگر کوئی دیتا ہے تو اس سے اس کے لازمی چندہ کی کمی پوری کیا کریں..لوکل فنڈ اور دیگر مقاصد کیلئے عطایا اکٹھے کرنے کیلئے درج ذیل ہدایات کی پابندی ضروری ہے :- جو دوست لازمی چندوں کے بقایا دار ہوں یا اپنی پوری آمد پر چندہ نہ دے رہے ہوں، ان سے لوکل فنڈ یا عطیہ کی رقم وصول نہ کی جائے.لوکل فنڈ اور عطایا مقامی احباب سے ہی وصول کئے جائیں کسی دوسری جماعت کے ممبر سے رقم کی سولی سے پہلے نیشنل مجلس عاملہ کی اجازت ضروری ہے.

Page 140

مالی قربانی 132 ایک تعارف کوئی بھی چندہ لوکل فنڈ ہو یا عطیہ خواہ وہ کتنی ہی معمولی رقم کا کیوں نہ ہو بغیر رسید جاری کئے وصول کرنے کی اجازت نہیں.مقامی چندوں کے اخراجات تحریک جدید کے قواعد کے مطابق کئے جائیں.اخراجات کا باقاعدہ تحریری حساب رکھنا ضروری ہوگا.اخراجات کی تمام رسیدات حاصل کی جائیں اور ان پر متعلقہ عہد یداروں کے دستخط کروانے بھی ضروری ہیں.قابل اندراج اشیاء رجسر جائیداد میں لازمی درج کی جائیں اور رسید کے علاوہ رجسٹر جائیداد پر بھی متعلقہ عہد یداروں کے دستخط کروانے ضروری ہیں.ہر جماعت کیلئے لازم ہوگا کہ وہ مقامی آمد و خرج کا با قاعدہ بجٹ بنائے اور شعبہ وار بجٹ مقامی مجلس عاملہ کے اجلاس میں پیش کیا جائے اور پھر اس کے مطابق سال کے دوران آمد وخرچ کا جائزہ بھی لیا جاتا رہے تا کہ کوئی دقت پیش نہ آئے.مقامی آمد میں لوکل فنڈ اور مرکزی گرانٹ (اگر ملتی ہو ) اور فروخت کھال قربانی ، کی رقوم شامل ہوں گی.عطیہ اسی مقصد کیلئے خرچ کیا جائے جس کی خاطر اس کی وصولی کی اجازت لی گئی ہے.تاہم زائد خرچ کی صورت میں لوکل فنڈ میں سے مقامی مجلس عاملہ کی منظوری سے مزید فنڈ حاصل کیا جا سکتا ہے.اسی طرح عطیہ سے بچ جانے والی رقم بھی مقامی مجلس عاملہ کی منظوری سے لوکل فنڈ میں شامل کی جاسکتی ہے.مقامی فنڈ بھی جماعتی رقم ہے اس کو کسی طور پر ذاتی استعمال میں لانے کی اجازت نہیں ہے.اگر بآسانی بنک اکاؤنٹ کھل سکتا ہو تو تمام جماعتی رقوم جماعتی بنک اکاؤنٹ میں جمع ہوں گی اور تمام مدات کا حساب maintain رکھا جائے گا.دوسری صورت میں مقامی جماعت جمع شدہ چندہ ، مدوار تفصیل کے ساتھ نیشنل سیکرٹری مال کو بھجوا دے.زیر دست رکھنے کی اجازت نہیں.رقم بذریعہ منی آرڈر ، کراس چیک اور بنک ڈرافٹ بھجوائی جاسکتی ہے.ان ذرائع پر اٹھنے والے اخراجات مقامی سطح پر ادا ہوں گے، چندہ جات کی اصل رقوم میں سے منہا نہیں کئے جاسکتے.اگر نیشنل سیکرٹری مال کو چندہ جات کی مد وار تفصیل نہ بھجوائی گئی تو سال کے آخر پر ایسی تمام رقوم چندہ عام میں منتقل کر دی جائیں گی جن کی بعد میں دوسری مدات میں منتقلی ممکن نہ ہوگی.

Page 141

مالی قربانی 133 وصولی و ترسیل چندہ جات وصولی چندہ جات ایک تعارف نیشنل سطح پر رسید بکس سے متعلقہ امور تمام رسید بکس نیشنل امیر کی منظوری سے نیشنل سیکرٹری مال کی نگرانی میں وکالت مال لندن سے منظور شده نمونہ کے مطابق طبع کروائی جائیں.طبع شدہ تمام رسید بکس کا مکمل ریکارڈ ایک رجسٹر کی صورت میں محاسب کے پاس رکھا جائے.جس میں سیریل نمبر کے حساب سے رسید بکس جماعتوں کو جاری کی جائیں اور اسی حساب سے استعمال شدہ رسید بکس کی واپسی ریکارڈ کی جائے.اس رجسٹر میں رسید بک نمبر، رسید بک کے اجراء کی تاریخ کس جماعت کو جاری کی گئی ، وصول کنندہ کا نام اور دستخط.اسی طرح واپسی کی تاریخ، وصول کنندہ کا نام اور دستخط وغیرہ تمام امور کا اندارج رکھا جائے.نوٹ:.جن جماعتوں میں محاسب کا تقرر نہ ہو ان جماعتوں میں رسید بکس کی حد تک تمام تر ذمہ داری سیکرٹری مال کی ہوگی.جب کہ محاسب کے دیگر فرائض سیکرٹری مال کے علاوہ کسی عہدیدار کے سپرد کئے جائیں.٣.رسید بکس کی طباعت اور استعمال کے وقت خیال رکھا جائے کہ یا تو ان کی طباعت carbonless paper ( جس میں کاربن پیپر رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی ) پر ہو، یا پھر رسید لکھتے ہوئے درمیان میں کاربن پیپر ضرور رکھا جائے.منی پر قلم سے تحریر نہ کیا جائے.تمام جماعتی چندہ جات ان منظور شدہ رسید بکس پر وصول کی جائیں.کوئی چندہ بغیر رسید نہ لیا جائے اور نہ ہی ادا کیا جائے.استعمال شدہ رسید بکس کو ضائع کرنے کے لئے مرکز کی اجازت ضروری ہے.مرکز کی اجازت موصول ہونے پر یہ ضائع کی جاسکتی ہیں.سوائے ان رسید بکس کے جو متنازعہ ہوں.

Page 142

مالی قربانی 134 ایک تعارف اسی طرح روز نامچہ اور کھانہ جات بھی مرکز سے اجازت حاصل کرنے کے بعد ضائع کئے جاسکتے ہیں.سوائے ان روز نامچوں اور کھانہ جات کے جن میں موصیان کی ادائیگیوں کا ریکارڈ ہو.مقامی سطح پر رسید بکس سے متعلقہ امور رسید بک پر تمام اندراجات واضح اور صاف ہوں اور کسی قسم کی کٹنگ یا اوور رائٹنگ ( over writing) نہ ہو، اشد مجبوری کی صورت میں ایسا ہونے پر ساتھ دستخط کئے جائیں اور کٹنگ اس طرح ہو کہ پہلی تحریر بھی پڑھی جائے.چاہیئے.رسیدات پر چندہ جات کی میزان ہندسوں اور لفظوں میں یکساں ہو، دونوں میں فرق نہیں ہونا رسیدات پر چندہ وصول کرنے کے بعد جائزہ لے لیں کہ مثنی صاف پڑھی جاتی ہے اور متعلقہ مدات کا چندہ متعلقہ خانے کے اندر ہی درج ہے.۴.رسید بک پر چندہ وصول کرنے والا اپنے دستخط کرے.بغیر رقم لئے پیشگی رسید ہرگز نہ بنائی جائے.ایسا کرنے کی صورت میں رسید جاری کرنے والا رقم کا خود ذمہ دار ہوگا.رسید بک میں کسی نمبر کی رسید یا مٹی کے نہ ہونے یا ترتیب کے درست نہ ہونے کی صورت میں امیر ا صدر جماعت حلقہ کو فوراً اطلاع دی جائے.رسید بک کے گم ہونے کی صورت میں تحریری رپورٹ کی جائے جس میں پوری تفصیل درج ہو.یہ معاملہ مقامی مجلس عاملہ میں پیش کر کے اس کی رپورٹ کے ساتھ نیشنل مرکز کو بھجوایا جائے.محصلین کو رسید بک مہیا کرنے کی صورت میں ان سے چندہ کی رقم وصول کرنے کی ذمہ داری سیکرٹری مال کی ہوتی ہے.اس لئے اس کا فرض ہے کہ جب بھی رسید بک کسی کو جاری کرے تو کچھ مدت کے بعد رسید بک کے مطابق رقم کے ساتھ رسید بک بھی ضرور واپس لے.یہ مدت ایک ماہ سے زائد نہ ہو.و.جماعتوں میں تمام چندہ جات کی وصولی اور ترسیل کی ذمہ داری لوکل سیکرٹری مال کی ہے.کسی دوسری مالی تحریک کے عہدیدار کو اپنے عہدہ کے لحاظ سے چندہ وصول کرنے کی اجازت نہیں ، وہ صرف بطور

Page 143

مالی قربانی 135 ایک تعارف محصل چندہ وصول کر سکتا ہے اور اس کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ لوکل سیکرٹری مال سے رسید بک حاصل کر کے تمام رقم لوکل سیکرٹری مال کے پاس جمع کروائے.خود براہ راست ترسیل کرنے کی اجازت نہیں.استعمال شده رسید بکوں کو آڈیٹر کی پڑتال کے بعد نیشنل مرکز جمع کروادیا جائے.جبکہ روز نامچہ اور کھانہ جات کا ریکارڈ مقامی جماعت میں محفوظ رکھا جائے.مقامی سطح پر وصول شدہ چندہ کا حساب رکھنے کا طریق کار چندہ جات کے حسابات رکھنے کیلئے جماعتوں میں نیشنل مرکز کی طرف سے مہیا کردہ روز نامچہ ہی استعمال کیا جائے اور ملک بھر میں ایک ہی روز نامچہ استعمال ہوگا.مختلف چندوں کیلئے الگ الگ روز نامچے استعمال نہیں ہوں گے.نیشنل مرکز کی اجازت کے بغیر اپنے رجسٹرات اور طریق حساب اختیار نہیں کیا جاسکتا.مثنی رسید بک کے مطابق روز نامچہ پر مدوار چندہ جات کا اندراج کیا جائے.یہ امر ضروری ہے کہ جب کسی رسید بک کے اندراج شروع کئے جائیں تو رسید نمبروں کی ترتیب درست ہو.روز نامچہ کے ہر صفحہ کی الگ میزان کی جائے اور مہینہ کے اندراج مکمل ہونے پر تمام میزان اکٹھی کر دی جائے.ترسیل کے وقت میزان ضروری ہے.مقامی جماعت کی جانب سے نیشنل جماعت کو چندہ جات کی ترسیل ہر ماہ کی دس (۱۰) تاریخ تک گذشتہ ماہ کی وصولی کی مدوار تمام رقم کی ترسیل ضروری ہے لیکن جون میں وصول شدہ رقوم کی ترسیل ۳۰ جون تک ہونی لازمی ہے.موصیان کے چندہ کے ساتھ وصیت نمبر ، نام اور چندہ کی رقم ضرور کھی جائے.زکوۃ کی رقوم کی اسم وار تفصیل نیشنل مرکز میں بھجوائی جائے.چندہ کی رقم بھجوانے کے بعد اگر کچھ ایام تک نیشنل مرکز کی طرف سے مقامی جماعت کو رسید یا کو پن نہ ملے تو نیشنل مرکز سے رابطہ کیا جائے.سیکرٹری مال اور امین کے پاس رقم جمع کروانے کی صورت میں نیشنل مرکز کی مطبوعہ رسید ضرور حاصل کی جائے.نئے سال کے شروع ہونے پر یا دوران سال اگر سابقہ سالوں کے چندہ جات بھجوائے جائیں تو

Page 144

مالی قربانی 136 ایک تعارف ان کے ساتھ سال کا حوالہ یا سابقہ بقایا کا لفظ ضرور لکھا جائے.__ کسی ادائیگی یا چندہ کی رقم چیک کے ذریعہ بھجوانے کی صورت میں اس امر کو مد نظر رکھیں کہ بنگ اکاؤنٹ میں اس قدر رقم ضرور موجود ہو.اعتراض کی ساتھ چیک کی واپسی کی صورت میں جماعتی ساکھ مجروح ہوتی ہے.چیک بعد کی تاریخوں کا نہ ہو.اس صورت میں چیک قابل قبول نہ ہوں گے.ہر چندہ دہندہ کا کھاتہ تیار کیا جائے جس میں اس کے بجٹ کے اندراج کے علاوہ اس کی وصولیوں کے اندراجات کئے جائیں.سیکرٹری مال کو محاسب اور امین کے کام سپر د کر نے کے رواج کو ختم کیا جانا چاہیے.اگر کارکنان کی کمی ہو تو سیکرٹری مال کے علاوہ کسی دوسرے عہد یدار کو محاسب اور امین کی ذمہ داری سونپی جانی چاہیئے.کسی کو ترسیل کیلئے نقد رقم نہ دی جائے.ترسیل چندہ کیلئے رقم کی حفاظت کرنے اور نیشنل جماعت کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کی تمام تر ذمہ داری سیکرٹری مال کی ہوگی.چندہ جات کی ترسیل کیلئے مرکز کی طرف سے وقتافوقتاً جاری کردہ ہدایات کی پابندی ضروری ہے.۱۲.چندہ جات کی ترسیل میں تاخیر کی صورت میں رقم ذاتی مصرف کے طور پر شمار ہوگی اور مرکز ایسی رپورٹ پر حسب قواعد کا روائی کرے گا.۱۳.مقامی چندہ جات ( لوکل فنڈ ) بھی جماعتی رقم ہے، اسے کسی کو ذاتی استعمال میں لانے کی ہرگز اجازت نہ ہوگی.اس رقم کو بھی کسی بنک میں محفوظ رکھا جائے.۱۴.چندہ جات کے سلسلہ میں تمام ریکارڈ ( بشمول سٹاک رجسٹرا رجسٹر جائیداد ) آڈیٹر کو پیش کر کے آڈٹ کروانا سیکرٹری مال کے فرائض میں شامل ہوگا.تمام چندہ جات مرکزی سطح پر جاری کی جانے والی رسید بکس پر اکٹھے کئے جائیں اور نیشنل ہیڈ کوارٹر کو بھجوا دئیے جائیں.حصہ مرکز کی ادائیگی کے بعد نیشنل ہیڈ کوارٹر حسب قواعد ان رقوم کو جماعتی ضروریات پر خرچ کرے گا.

Page 145

مالی قربانی 137 ایک تعارف تمام وصول شدہ چندہ جات بنک میں جمع کروائے جائیں جائیں گے.تمام وصول شدہ چندہ جات جماعت کے نام پر کھلوائے گئے بنک اکاؤنٹ میں جمع کروائے تمام آمد واخراجات حتی المقدور بنک اکاؤنٹ کے ذریعہ ہی کئے جائیں گے.ایسے تمام بنک اکاؤنٹس کم از کم دو افراد کے دستخط سے operate کئے جائیں گے.دستخط کنندگان میں سے ایک ضروری طور پر امیر ا صدر ہوگا.دستخط کنندگان کی منظوری مجلس عاملہ دے گی.

Page 146

مالی قربانی 138 ایک تعارف حسابات ومعائنہ جماعتوں میں آمد وخرچ کا حساب رکھنے کیلئے نیشنل اور لوکل سطح پر درج ذیل کتب اور جسٹر ز ہونے.رسید بکس iii.روز نامچہ (ڈے بک) ۷.کھاتہ (جنرل لیجر ) vii.بجٹ فائل ii.رجسٹر رسید بکس iv.کیش بک vi.رجسٹر جائیدادوسٹاک viii.فائل خط و کتابت بابت مالی امور لوکل سطح پر ا.رجسر رسید بکس ii.روز نامچہ (ڈے بک) iii.کیش بک ۷.رجسٹر جائیدا دوسٹاک iv.کھاتہ (جنرل لیجر ) vi.فائل خط و کتابت بابت مالی امور مندرجہ بالا تمام رجسٹر اور رسید بکس نیز انفرادی و جماعتی بجٹ فارم اور ر پورٹ فارم نیشنل سطح پر شائع کر کے جماعتوں کو مہیا کئے جائیں گے (سوائے اس کہ نیشنل مجلس عاملہ اس بارہ میں کوئی لائحہ عمل طے کر کے مرکز سے منظوری حاصل کر لے) تمام ریکارڈ کی حفاظت سیکرٹری مال کی ذمہ داری ہوگی.نئے سیکرٹری مال کے تقرر کے وقت سابقہ سیکرٹری مال کا فرض ہے کہ تمام متعلقہ ریکارڈ نئے سیکرٹری مال کو دیدے اور نئے عہد یدار کا بھی فرض ہے کہ وہ سارا ریکارڈ اور چارج لے کر نیشنل مرکز کو رپورٹ کرے.بصورت دیگر کسی ریکارڈ کے موجود نہ ہونے پر نیا عہد یدار ہی ذمہ دار ہوگا.جماعتی رسید بکس کی ایک مناسب تعداد نیشنل سطح پر موجود ہونی ضروری ہے.تمام رسیدات ایک سیریل نمبر کے تحت جاری اور درج ہونی چاہئیں.کوئی رقم جماعتی رسید جاری کئے بغیر وصول نہ کی جائے.ذیلی تنظیمیں اپنی تنظیم کے تحت جاری ہونے والی رسید بکس پر چندہ اکٹھا کریں گی.اپنی رسیدات نہ

Page 147

مالی قربانی 139 ایک تعارف ہونے کی صورت میں نیشنل امیر سے درخواست کر کے جماعتی رسید بکس حاصل کی جاسکتی ہیں.مقامی آڈیٹر سے آڈٹ کروا کر ایک سال کے اندر رسید بکس نیشنل امیر اپریذیڈنٹ کو بھجوا دی جائیں.جماعتی رقوم کی حفاظت کیلئے کم از کم ایک منظور شدہ بنک میں اکا ؤنٹ ہونا چاہیئے جس میں تمام.رقوم جمع ہوں.اس اکاؤنٹ کو کم از کم دو افراد آپریٹ کرتے ہوں.(i).امیر جماعت (ii).جس کو مجلس عاملہ مرکز کی اجازت کے بغیر کوئی نئ رقم اعطیہ وغیرہ جماعت سے وصول نہیں کیا جاسکتا.آمد و بقایا جات کا مکمل حساب رکھا جائے تاکہ بقایا جات کی موجودہ صورتحال مستحضر رہے.مقامی آڈیٹر کم از کم ہر تین ماہ بعد مقامی حسابات کی پڑتال کرے.جن مقامی جماعتوں میں آڈیٹر مقرر نہ ہوں وہاں کے امیر ا پریذیڈنٹ اس امر کی تسلی کر لیں کہ حسابات با قاعدہ رکھے جارہے ہیں.قواعد وضوابط تحریک جدید کے مطابق ہر ملک میں مختلف سطحوں پر درج ذیل آڈیٹر مقرر کئے جانے الد ضروری ہیں.(0) مقامی آڈیٹر (ب) انٹرنل آڈیٹر ( ج ) نیشنل آڈیٹر مقامی آڈیٹر یہ مقامی جماعت اور اس کے ماتحت حلقوں کے حسابات کے آڈٹ کا ذمہ دار ہے.اور اپنی آڈٹ رپورٹ انٹرنل آڈیٹر اور نیشنل امیر کو بھجوائے گا.(ب) انٹرنل آڈیٹر (بمطابق قواعد وضوابط تحریک جدید 396,172) ی نیشنل سطح پر تمام جماعتوں اور ان کے حلقوں کے حسابات کے آڈٹ کا ذمہ دار ہوگا.وہ اس بات کو یقینی بنائے گا.کہ تمام مقامی آڈیٹر اس کو اپنی آڈٹ رپورٹ بھجوائیں.نیز وہ نیشنل جماعت اور کسی بھی مقامی جماعت کے حسابات آڈٹ کرنے کا اختیار رکھتا ہے.انٹرنل آڈیٹر حسب قواعد تحریک جدید فیشنل امیر کو جواب دہ ہوگا.لیکن اپنی رپورٹ کی کاپی نیشنل آڈیٹر کوبھی بھجوائے گا.

Page 148

مالی قربانی 140 ایک تعارف ( ج ) نیشنل آڈیٹر (بمطابق قواعد وضوابط تحریک جدید 388 تا 395) انٹرنل آڈیٹر کے علاوہ (جیسا کہ قواعد وضوابط تحریک جدید نمبر 388 میں درج کیا گیا ہے ) مرکز کی طرف سے ہر ملک میں ایک آڈیٹرا میر کے مشورہ سے مقرر کیا جائے گا.جو نیشنل آڈیٹر کے طور پر کام کرے گا.نیشنل آڈین نیشنل جماعت یا کسی بھی مقامی جماعت کا جب چاہے آؤٹ کر سکتا ہے.نیشنل آڈیٹر حسب قواعد، صدر مجلس تحریک جدید کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کا ذمہ دار ہے.رٹ:.1- مرکز کی طرف سے مقرر کردہ قاضی اور آڈیٹر، کسی بھی دوسرے جماعتی عہدے کیلئے منتخب نہیں ہو سکتے.استثنائی صورت میں ایسا کرنے کیلئے مرکز سے پیشگی منظوری حاصل کرنا ضروری ہوگا.2.آڈیٹر اس بات کا ذمہ دار ہے.کہ تمام جماعتی حسابات درست ہوں.اگر کسی جگہ کوئی کوتاہی ہو رہی ہے.تو آڈیٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر مرکز کو اس سے آگاہ کرے.اگر آڈیٹر کی کوتاہی کی وجہ سے جماعت کا کوئی نقصان ہوتا ہے تو وہ اس نقصان کے پورا کرنے کا ذمہ دار ہوگا.آڈیٹر کے معائنہ کے بعد کسی عہد یدار کورپورٹ معائنہ میں تبدیلی یا تنسیخ کا اختیار نہ ہوگا اور نہ ہی اس کو ضائع کر سکے گا.-17 آڈیٹر کی معائنہ رپورٹ کے مطابق ضروری اصلاحی کا روائی کی جائے اور اس کی رپورٹ بھی دی جائے.اگر کسی امر کے بارہ میں اختلاف ہو تو اپنی اختلافی رائے کے ساتھ اس امر کے متعلق بالا اتھارٹی سے فیصلہ کروایا جائے ، تا آخری فیصلہ آڈیٹر کی رپورٹ کے مطابق عمل درآمد کیا جانا ضروری ہے.سوائے اس کے کر نیشنل امیر، آڈیٹر کی رپورٹ کے مطابق عمل درآمد کو جماعت کیلئے نقصان دہ سمجھے، اس صورت میں وہ فوری طور پر اس امر کی منظوری صدر مجلس تحریک جدید سے حاصل کرے گا.ا.ترسیل چندہ جات کا متعلقہ ریکارڈ اور اخراجات کی رسیدات حفاظت کے ساتھ رکھی جائیں اور آڈیٹر کو بوقت پڑتال مہیا کی جائیں.

Page 149

مالی قربانی 141 ایک تعارف فرائض عہد یداران مندرجہ درج ذیل عہدیداران کے فرائض قواعد وضوابط تحریک جدید کے تحت درج ذیل ہیں.ا.سیکرٹری مال ۲.ایڈیشنل سیکرٹری مال ۴.سیکرٹری تحریک جدید سیکرٹری وصایا ۵.سیکرٹری وقف جدید ۶.ایڈیشنل سیکر ٹری وقف جدید ( برائے نو مبائعین ) ۷.سیکرٹری جائیداد محاسب ا.فنانس کمیٹی ۹.امین فرائض سیکرٹری مال وصولی سیکشن:.محصلین بھی نامزد کیے جاسکتے ہیں.۱۰.آڈیٹر سیکرٹری مال احباب جماعت سے چندہ اکٹھا کرے گا.اس سلسلہ میں بڑی جماعتوں کی مدد کیلئے ( قاعدہ نمبر 324) چندہ جات درج ذیل ہیں :- (۱) لازمی چندہ جات چندہ عام: کسی شخص کی ماہانہ آمدنی کا (1/16) ہے جو ماہانہ ادا کیا جاتا ہے.حصہ آمد :.موصی اپنی آمد کے مطابق ماہانہ ادا کرے گا.اس کی شرح کل آمد کا 1/10 سے لیکر 1/3 تک ہے جو حسب وعدہ اپنی وصیت کے مطابق کرتا ہے.حصہ جائیداد :.یہ موصی کی طرف سے وصیت کے قواعد کے مطابق ادا کیا جاتا ہے اسکی شرح موصی کی جائیداد کے 1/10 سے لیکر 1/3 تک ہوتی ہے.چندہ جلسہ سالانہ :.یہ سال میں ایک بار ادا کیا جاتا ہے.اور اسکی شرح سالانہ آمدنی کا 1/120 ہوتی ہے.

Page 150

مالی قربانی 142 ایک تعارف (ب) دیگر چندہ جات: (i) زکوة (ii) فطرانہ (iii) عید فنڈ (iv) صدقہ (ج) چندہ تحریک جدید ، چندہ وقف جدید، اور دیگر تحریکات میں حصہ لینا ، جو حضرت خلیفتہ امسیح کی طرف سے وقتا فوقتا جاری کی جائیں.(1) 1.ایسے عطیات جن کے لینے کی منظوری مرکز سے حاصل کی گئی ہو.2.لوکل فنڈ ( قاعدہ نمبر 325) سیکرٹری مال کو ہر قسم کی آمد (چندہ جات + عطیات + گرانٹس وغیرہ ) کا اس کی مدات کے مطابق ماب رکھنا ہوگا اور وصول شدہ رقوم متعلقہ بنک اکاؤنٹ میں رکھنا ہوگی.( قاعدہ نمبر 326) ہر ماہ کے آخر پر امیر جماعت کی معرفت اُس ماہ میں وصول ہونے والے تمام چندہ جات کی فہرست متعلقہ مدات کے مطابق وکیل المال ثانی کو بھجوانی ہوگی.جہاں تک حصہ آمد اور حصہ جائیداد کا تعلق ہے اُسے ایک تفصیلی فہرست جس میں موصیان کا نام، وصیت نمبر اور انکی ادا کردہ رقم کا مکمل اندراج ہو بھجوانی ہوگی.( قاعدہ نمبر 327) مالی سال یکم جولائی کو شروع ہوتا ہے اور اگلے سال ۳۰ جون کو ختم ہوتا ہے.سیکرٹری مال کو قواعد کے مطابق مالی سال کے شروع ہی میں جماعت وار تشخیص بجٹ تیار کرنا ہوگا.تشخیص بجٹ کمانے والے افراد جماعت کی اصل آمد پر بمطابق شرح تیار کیا جائے گا.وہ تمام ملک کی تمام جماعتوں سے موصول شدہ بجٹ کے گوشواروں کا خلاصہ بذریعہ امیر، وکیل المال ثانی ربوہ کو بھیجے گا.امید کی جاتی ہے کہ بجٹ کا گوشوارہ 30 ستمبر تک مرکز میں بھجوانے کے لئے تیار ہو جائے گا.وہ جماعت کے ممبران سے تشخیص شدہ بجٹ کے مطابق چندے کی وصولی کا انتظام کرے گا.اور قاعدہ نمبر 328) وصول شدہ رقوم کو با قاعدگی سے جماعت کے بنک اکاؤنٹ میں جمع کروائے گا.نیز حصہ مرکز کوسنٹرل ریزرو میں جمع کروائے گا.اُسے مندرجہ ذیل کھاتوں کا حساب مکمل رکھنا ہوگا.قاعدہ نمبر 329) (۱) روز نامچه (ب) انفرادی کھاتہ ( ج ) اجتماعی کھاتہ ( جو مختلف مدات کے تحت آمد

Page 151

مالی قربانی 143 ایک تعارف کا رجسٹر ہے ).سیکرٹری مال مجلس عاملہ کو وقتا فوقتا تدریجی وصولی سے مطلع کرے گا.( قاعدہ نمبر 330) خرچ سیکشن : - وہ دی گئی ہدایات کے مطابق آمد و خرچ کے کھانہ جات کو مکمل رکھنے کا ذمہ دار ہے.قاعدہ نمبر (331) اُسکی ذمہ داری ہوگی کہ وہ رسید بکس چھپوائے لوکل سیکرٹریان مال محصلین کو مہیا کرے اور اُن کا با قاعدہ ریکارڈ رکھے.(قاعدہ نمبر 332) اُسے ماہانہ آمد وخرچ کا گوشوارہ بذریعہ امیر وکیل المال ثانی کو بھجوانا ہوگا.(قاعدہ نمبر 333) اُسے ہر 3 ماہ بعد اپنے کھانہ جات کا آڈیٹر سے آڈٹ کروانا ہوگا.قاعدہ نمبر 334) وہ سالانہ آمد و خرچ کا بجٹ تیار کرے گا.اور اسے فنانس کمیٹی کے سامنے پیش کرے گا.قاعدہ نمبر 335 اُسے دوران سال حصہ مرکز اور دیگر امانات متعلقہ اکاؤنٹس میں جمع کروانی ہوں گی.( قاعدہ نمبر 336) اُسے مختلف جماعتوں کی طرف سے گرانٹ کے حصول کی درخواستیں مجلس عاملہ میں منظوری کے ( قاعدہ نمبر 337) لئے پیش کرنا ہوں گی.مالی سال کے اختتام پر ماہ جولائی میں اُسے آمد وخرچ کا گوشوارہ وکیل المال ثانی کو بھیجنا ہوگا اور اس کی ایک نقل آڈیٹر کو برائے جانچ پڑتال بھیجنا ہوگی.یہ رپورٹ باقاعدہ امیر کے دستخط سے آنی چاہئیے.قاعدہ نمبر 338) ایڈیشنل سیکرٹری مال اُسے اُن ممبران کی ایک فہرست تیار کرنا ہوگی جو چندہ ادا نہیں کرتے یا مقررہ شرح کے مطابق ادا ئیگی نہیں کرتے.اُسے بھر پور کوشش کرنا ہوگی کہ ایسے تمام افراد بمطابق شرح چندہ ادا کریں.( قاعدہ نمبر 339) وہ ایسی تمام درخواستوں کا پر کاروائی کرے گا جو غیر موصی چندہ دھندگان کی طرف سے حضرت

Page 152

مالی قربانی 144 ایک تعارف خلیفتہ امسیح کی خدمت میں رعایتی شرح سے چندہ دینے کی اجازت کے حصول کے لئے دی گئی ہوں.شامل ہوں.سیکرٹری وصایا وہ احباب جماعت کو نظام وصیت سے روشناس کروائے گا.قاعدہ نمبر 340) ( قاعدہ نمبر 341) وہ اس بات کی بھر پور کوشش کرے گا کہ جماعت کے زیادہ سے زیادہ احباب نظام وصیت میں وہ موصیان کو وصیت کے قواعد کے بارہ میں آگاہ کرے گا.( قاعدہ نمبر 342) قاعدہ نمبر 343) وہ اپنے دائرہ کار میں تمام موسیان کی مکمل فہرست اپنے پاس رکھے گا.اور ہر سال کے آغاز پر اس ( قاعدہ نمبر 344) کی نقل وکیل المال ثانی کو بھجوائے گا.اگر کوئی موصی نقل مکانی کر جائے.تو سیکرٹری وصایا اس کے نئے ایڈریس سے مرکز کو اور اس ( قاعدہ نمبر 345) جماعت کو جس میں وہ نقل مکانی کر کے گیا ہے.مطلع کرے گا.وہ اس امر کو یقینی بنائے گا کہ ہر موصی نے اپنے سالانہ حساب کے موصول ہونے پر اقرار تصدیقی ( قاعدہ نمبر 346 ) بابت ادا ئیگی چندہ حصہ آمد وکیل المال ثانی کو بھجوا دیا ہے.کسی موصی کی وفات کے موقعہ پر سیکرٹری وصایا قواعد وصیت میں دیئے گئے شیڈول "F" کے مطابق تمام کوائف مکمل کر کے میت کے ساتھ بھجوانے کا انتظام کرے گا.( قاعدہ نمبر 347) وہ قواعد وصیت کے مطابق بطور صدر موصیان اپنے فرائض سرانجام دے گا.( قاعدہ نمبر 348) سیکرٹری تحریک جدید وہ تحریک جدید کیم کے اغراض و مقاصد سے احباب جماعت کو آگاہ کرے گا.اور اس سکیم اورا سکے مطالبات جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بیان کیئے مناسب طور پر تشہیر کرے گا.( قاعدہ نمبر (349) وہ جماعت کو تحریک جدید کی عالمگیر سرگرمیوں اور کامیابیوں سے باخبر رکھے گا.( قاعدہ نمبر 350)

Page 153

مالی قربانی 145 ایک تعارف وہ تحریک جدید کے مطالبات کی روشنی میں احباب جماعت کا جائزہ لے گا کہ احباب جماعت اپنی ( قاعدہ نمبر 351) روز مرہ زندگی میں اس پر عمل کر رہے ہیں.ان مطالبات میں سے ایک مطالبہ جماعت سے اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ اسلام کے پیغام کی عالمگیر اشاعت کی عظیم الشان جد و جہد کیلئے کثیر مالی امداد کریں.اس معاونت کو چندہ تحریک جدید کہتے ہیں.( قاعدہ نمبر 352) اس چندہ کا مالی سال یکم نومبر سے شروع ہو کر اگلے سال ۳۱.اکتوبر کو ختم ہوتا ہے.اس کے مطابق سیکر ٹری تحریک جدید پہلے ۳ ماہ کے اندر اندر تمام احباب جماعت سے چندہ تحریک جدید کے وعدہ جات حاصل کرے گا.بعد ازاں وہ اس بات کا جائزہ لے گا کہ ممبران اپنے وعدہ جات ۳۱.اکتوبر تک ادا کر دیں.قاعدہ نمبر (353) نوٹ.اس چندہ کی کوئی شرح مقرر نہیں.افراد جماعت دوران سال ایک مخصوص رقم کی ادائیگی کا وعدہ کرتے ہیں.یہ وعدہ جات افراد جماعت کی مالی حیثیت کے مطابق ہونے چاہیئیں.والدین اپنے بچوں کی طرف سے ایک مناسب رقم چندہ کے طور پر ادا کر سکتے ہیں.تا کہ وہ بچپن ہی سے اس سکیم میں شامل ہو جائیں.وہ وکیل المال ثانی کو بذریعہ امیر درج ذیل معلومات بھجوائے گا :- ر سال کے آغاز میں احباب جماعت کے وعدہ جات کا خلاصہ ہر ماہ کی مکمل وصولی کی رپورٹ معدہ کل وعدہ جات ( قاعدہ نمبر 354) وہ دفتر اول کے فوت شدہ مجاہدین کی اولاد کو تلقین کرے گا کہ وہ اپنے ان بزرگوں کی قربانیوں کو جو عظیم ہستیوں نے کی تھیں ہمیشہ زندہ رکھنے کی خاطر ان کی طرف سے چندہ ادا کرتے رہیں.نوٹ: تحریک جدید سکیم کا اجراء ۱۹۳۴ء میں ہوا.نسل در نسل احباب جماعت کو ان قربانیوں میں شامل کرنے کی خاطر حضرت خلیفہ المسیح نے وقتاً فوقتاً مختلف دفاتر کا اجراء کیا جو درج ذیل ہیں :.(۱) دفتر اول (یا حصہ اول) = وہ اولین مجاہدین جو 1934 تا 1944 کے دوران ابتدا ان قربانیوں میں شامل ہوئے.

Page 154

مالی قربانی (ب) دفتر دوم ( یا حصہ دوم ) (ج) دفتر سوم ( یا حصہ سوم ) = 146 1965 1944 = 1985 1965 = (د) دفتر چهارم (یا حصہ چہارم) = 1985 تا2004 (ع) دفتر پنجم (یا حصہ پنجم ) = 2004 سے آئندہ ایک تعارف ( قاعدہ نمبر 355) وہ تحریک جدید کے متعلق خلفاء اور مرکز کی ہدایات کو احباب جماعت تک پہنچائے گا.( قاعدہ نمبر 356) سال میں کم از کم دو دفعہ یوم تحریک جدید یا ہفتہ تحریک جدید منانے کا انتظام کرے گا.ایک دفعہ وعدوں کے حصول کے لئے اور ایک دفعہ وصولیوں کو یقینی بنانے کیلئے ( قاعدہ نمبر 357) وہ جماعت کی ذیلی تنظیموں ( یعنی لجنہ ، انصار اور خدام) سے وعدہ جات اور وصولیوں دونوں کے حصول میں ان سے تعاون حاصل کرے گا.نوٹ : مطالبات تحریک جدید کی فہرست ضمیمہ نمبر ۴ میں درج ہیں.( قاعدہ نمبر 358) ید امید کی جاتی ہے کہ نہ صرف کمانے والے افراد بلکہ وہ عورتیں اور بچے جو بھی کماتے نہیں.وہ بھی اس چندہ کی ادائیگی میں شامل ہوں.سیکرٹری وقف جدید وہ وقف جدید کے اغراض و مقاصد سے جماعت کو روشناس کروائے گا.( قاعدہ نمبر 359) وقف جدید کا مالی سال یکم جنوری سے شروع ہو کر ۳۱.دسمبر کو ختم ہوتا ہے.یہ اس کا فرض ہو گا کہ سال کے آغاز میں تمام افراد جماعت سے وعدہ اکٹھا کرے اور بعد ازاں ان وعدہ جات کی وصولی کی کوشش کرے.( قاعدہ نمبر 360) نوٹ:.اس چندہ کی کوئی شرح مقر ر ہیں.افراد جماعت دوران سال رقوم کی ادائیگی کا وعدہ کرتے ہیں.وہ وکیل المال ثانی کو بذریعہ امیر درج ذیل معلومات بھجوائے گا: - ر سال کے آغاز میں احباب جماعت کے وعدہ جات کا خلاصہ.

Page 155

مالی قربانی 147 ایک تعارف ہر ماہ کی مکمل وصولی کی رپورٹ معہ کل وعدہ جات.( قاعدہ نمبر 361) وہ اس ( وقف جدید ) کے متعلق حضرت خلیفہ اُسیح کے ارشادات اور مرکز کی ہدایات کو احباب جماعت تک پہنچانے کا اہتمام کرے گا.ایڈیشنل سیکرٹری وقف جدید ( برائے نو مبائعین ) وہ ایڈیشنل سیکرٹری وقف جدید برائے نو مبائعین کہلائے گا.قاعدہ نمبر 362) (قاعدہ نمبر 363) ( قاعدہ نمبر 364) اس کا انتخاب بھی دوسرے عہدیداران کے ساتھ ہی ہوگا.اس کی ذمہ داری ہوگی کہ وقف جدید کے اغراض و مقاصد سے نو مبائعین کو آگاہ رکھے گا.( قاعدہ نمبر 365) وہ اس بات کی نگرانی کرے گا کہ نو مبائعین وقف جدید کی مالی قربانیوں میں حصہ لے رہے ہیں.سیکرٹری جائیداد ( قاعدہ نمبر 366) سیکرٹری جائیداد جماعت کی تمام منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کی دیکھ بھال ،نگرانی اور انتظام کا ذمہ دار ہو گا (ماسوائے نقد رقم کے ).۲.اُسے جماعت کی ہر جائیداد کا مکمل ریکارڈ رکھنا ہوگا.( قاعدہ نمبر 367) ( قاعدہ نمبر 368) سیکرٹری جائیداد امیر ا صدر جماعت کی نگرانی میں کام کرے گا.قاعدہ نمبر 369) وہ حسب ہدایت مجلس عاملہ ہر قسم کی پراپرٹی کی خرید و فروخت، لیز ، قرضہ پر لینے اور کرائے پر دینے وغیرہ جیسے تمام امور کا انتظام کرے گا.( قاعدہ نمبر 370) ہر سال جولائی میں ، جماعت کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد میں دوران سال ہونے والی تبدیلیوں کی مکمل رپورٹ وکیل المال ثالث کو بھجوائے گا.نیز اس کے ساتھ جماعتی جائیداد کی مکمل لسٹ بھی بھیجے گا.یہ رپورٹ نیشنل / مقامی ، امیر اصدر کے دستخط کے ساتھ بھیجی جائے گی.قاعدہ نمبر (371)

Page 156

مالی قربانی 148 ایک تعارف محاسب (اکاؤنٹینٹ) وہ تمام وصولیوں کا حساب کتاب مکمل رکھے گا ( چندہ جات و دیگر آمد ) ( قاعدہ نمبر 378) قاعدہ نمبر (379) اُسے تمام اخراجات کے خرچ کا با قاعدہ حساب رکھنا ہوگا.وہ رسید بکس اپنی تحویل میں رکھنے کا ذمہ دار ہو گا اور حسب مطالبہ جماعتوں کو مہیا کرنے اور استعمال کے بعد واپس حاصل کرنے کا بھی ذمہ دار ہوگا.نوٹ :.سیکرٹری مال کو محاسب اور امین کے کام سپرد کرنے کے رواج کو ختم کیا جانا چاہیے.اگر کارکنان کی کمی ہو تو سیکرٹری مال کے علاوہ کسی دوسرے عہدیدار کو محاسب اور امین کی ذمہ داری سونپی جانی چاہیئے.امین ( خزانچی) ( قاعدہ نمبر 380) (امین) تمام وصول شدہ رقوم کی باقاعدہ رسید جاری کرے گا.( قاعدہ نمبر 381) وہ وصول کردہ تمام رقم فوری طور پر بنک میں جمع کروائے گا.( قاعدہ نمبر 382) اسے جماعت کے تمام بنک اکاؤنٹس کا حساب رکھنا ہوگا.وہ نقد رقم کی حفاظت کا ذمہ دار ہوگا.وہ محاسب / سیکرٹری مال کے تحریری مطالبہ پر ادا ئیگی کرنے کا انتظام کرے گا.( قاعدہ نمبر 383) ( قاعدہ نمبر 384) ( قاعدہ نمبر 385) چونکہ عام طور پر جماعت کے فنڈز بنکوں میں رکھنے ہوں گے اور بنک اکاونٹس مجاز عہد یدار ہی آپر میٹ کر سکتے ہیں.اس لئے امین کے پاس صرف ایک محد و در قم ہی رہنی چاہئے.( قاعدہ نمبر 386) ضروری نہیں کہ ہر جماعت میں ایک امین مقرر کیا جائے.امیر مجلس عاملہ کے مشورہ سے فیصلہ کرے گا کہ امین کی ضرورت ہے یا نہیں.( قاعدہ نمبر 387)

Page 157

مالی قربانی 149 آڈیٹر ایک تعارف انٹرنل آڈیٹر کے علاوہ (جیسا کے قاعدہ نمبر 172 میں درج کیا گیا ) مرکز کی طرف سے ہر ملک میں ایک آڈیٹرا میر کے مشورہ سے مقرر کیا جائے.اسے نیشنل آڈیٹر کا نام دیا جائے گا.ہوگی._^ ہوگا.آڈیٹر جماعت کے اکاؤنٹس کا آڈٹ کرنے کا ذمہ دار ہوگا.قاعدہ نمبر 388) قاعدہ نمبر (389) اگر منظور شدہ بجٹ سے زیادہ خرچ ہوا ہو، تو آڈیٹر کو فوری طور پر اس کی اطلاع مرکز میں کرنا ( قاعدہ نمبر 390) کھانہ جات (اکاؤنٹس ) کا آڈٹ ہر سہ ماہی میں کم از کم ایک دفعہ ضرور کیا جائے.تمام آڈٹ رپورٹس مرکز میں بجھوائی جائیں گی.( قاعدہ نمبر 391) قاعدہ نمبر (392) آڈیٹر کو ہر مالی سال کے اختتام پر سالانہ آڈٹ رپورٹ تیار کرنا ہوگی.( قاعدہ نمبر 393) آڈیٹر صدرتحریک جدید کو جواب دہ ہوگا.قاعدہ نمبر 394) اس کے علاوہ اگر حضرت خلیفہ امسیح کی طرف سے کوئی مزید کام سونپا جائے گا تو وہ بھی اسے بجالانا قاعدہ نمبر 395) انٹرنل آڈیٹر (جیسا کے قاعدہ نمبر 172 میں لکھا گیا ہے) نیشنل امیر کو جواب دہ ہوگا.تحریک جدید کے قواعد کے مطابق اور مرکز کی ہدایات کے مطابق وہ نیشنل جماعت اور لوکل جماعتوں کے اکاؤنٹس کا آڈٹ کرے گا.اور اپنی رپورٹ نیشنل امیر کو پیش کرے گا.( قاعدہ نمبر 396) ا.عہدیداروں کے فرائض زیادہ تر نیشنل عہدیداروں کو مد نظر رکھ کر متعین کئے گئے ہیں.۲.لوکل عہدیداران لوکل سطح پر اپنے محدود دائرہ کار میں وہی فرائض سرانجام دیں گے..لوکل جماعتوں کا صدر لوکل جماعت کے اجلاسات اور لوکل مجلس عاملہ کے اجلاسات کی صدارت کرے گا.لیکن اس کو اکثریت کی رائے کو مستر دکرنے کا اختیار حاصل نہیں ہوگا.اسی

Page 158

مالی قربانی 150 ایک تعارف جائے گی.طرح اس کو لوکل عہدیدار کو معطل کرنے کا اختیار بھی نہیں ہوگا.اس سلسلے میں اسے نیشنل امیر سے منظوری حاصل کرنا ہوگی.۴.اپنے سے بالا افسر یا بالا ادارہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کو معطل نہ کر سکے گا.فنانس کمیٹی جماعت کے مالی معاملات پر مناسب کنٹرول رکھنے کیلئے نیشنل سطح پر ایک فنانس کمیٹی تشکیل دی ( قاعدہ نمبر 397) فنانس کمیٹی پانچ مہران پر مشتمل ہوگی بشمول امیر، جو اس کمیٹی کا چیئر مین ہوگا.نیشنل سیکرٹری مال اور نیشنل جنرل سیکرٹری بھی اس کے ممبر ہونگے.بقیہ دو ممبران وکیل اعلیٰ تحریک جدید کی طرف سے مجلس عاملہ کی قاعدہ نمبر 398 سفارش پر مقرر کئے جائیں گے.سیکرٹری مال اس کمیٹی کا سیکرٹری ہوگا.فنانس کمیٹی کے فرائض اور کام مندرجہ ذیل ہونگے :- i.جماعت کے اموال کو بڑھانے کے سلسلے میں مجلس عاملہ کی مناسب ذرائع اور طریق کی جانب راہنمائی کرنا.ii - منظور کردہ بجٹ کے مطابق جماعت کے اخراجات کو کنٹرول کرنا.ii.اس بات کو یقینی بنانا، کہ جماعت کے اکاؤنٹس کا مناسب طور پر حساب کتاب رکھا جارہا ہے.iv.اس بات کو یقینی بنانا کہ ہر ماہ کے آخر پر ماہانہ مالی گوشوارہ بذریعہ وکیل المال ثانی ، وکیل اعلیٰ تحریک جدید کو بھجوادیا گیا ہے.نیشنل جماعت کا سالانہ بجٹ تیار کرنا اور جس عمل کو نظرانی کیلئے پیش کر کے نیشنل مجلس شوری میں پیش کرنا.جس کی سفارشات حضرت خلیفہ مسیح کی خدمت میں حتمی منظوری کیلئے بھجوائی جائیں گی.vi.مالی سال کے دوران سالانہ بجٹ میں ضروری ترامیم کی مجلس عاملہ کے سامنے سفارش کرنا.مجلس عاملہ حتمی منظوری کیلئے مرکز کو درخواست کرے گی.ہنگامی اخراجات کی وجہ سے کسی ایک ذیلی مد سے کسی دوسری ذیلی مد میں اندرونی تبدیلی اور غیر

Page 159

مالی قربانی 151 ایک تعارف متوقع اخراجات کے سلسلہ میں ریزرو سے رقم کی منتقلی کیلئے مجلس عاملہ منظوری دے سکتی ہے اور مرکز سے ( قاعدہ نمبر 399) منظوری کی ضرورت نہ ہے.) کسی اختلاف رائے کی صورت میں چیئر مین فنانس کمیٹی کا فیصلہ کمیٹی کے لئے ماننا ضروری ہوگا.لیکن کوئی ممبر جو متفق نہ ہو چیئر مین کمیٹی کی معرفت وکیل اعلی تحریک جدید کی خدمت میں اپیل کر سکتا ہے.جس ( قاعدہ نمبر 400) فنانس کمیٹی اس بات کی مجاز ہوگی کہ وہ جماعت کی مقامی شاخوں اور ریجنل جماعتوں کے اکاؤنٹس کا فیصلہ حتمی ہوگا.کا معائنہ کرے.( قاعدہ نمبر 401) -☆--

Page 160

مالی قربانی 152 متعلقہ قواعد ایک تعارف کسی بھی مقامی جماعت کے عہدیداران اُسی جماعت کے چندہ دھندگان میں سے منتخب کئے جائیں گے، سوائے سیکریٹری رشتہ ناطہ کے جس کو نیشنل امیر اپنی صوابدید پر نامزد کرے گا.یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ تمام عہدیداران : () داڑھی رکھتے ہوں، استثنائی صورت میں (داڑھی نہ رکھنے والے کا بھی انتخاب ہوسکتا ہے لیکن اُسکی اجازت حضرت خلیفتہ اسیح سے لینا ضروری ہوگا.دوران).(ب) معروف طور پر متقی ہوں.( قاعدہ نمبر 180) ) درج ذیل افراد کسی بھی جماعتی انتخاب میں ووٹ دینے کے اہل نہ ہوں گے.(i) ایسا شخص جو لازمی چندہ جات کا نا دھندہ ہو.(ii) ایسا شخص جس کی عمر ۱۸ سال سے کم ہو.(iii) ایسے افراد جن کے خلاف نظام جماعت نے تعزیری کاروائی کی ہو.(iv) ایسے عہدیداران جنہیں نظام جماعت نے بوجوہ معطل کر دیا ہو ( معطلی کے عرصہ کے (ب) ایسے بقایا داران / نا دھندگان، جو انتخاب کی تاریخ کے اعلان کے بعد اپنا چندہ ادا کریں وہ س انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے.محض انتخاب میں حصہ لینے کی خاطر چندے کی ادائیگی کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے.( ج ) ایک نو مبائع اپنی بیعت کے ایک سال کے بعد انتخاب میں حصہ لینے کا حق دار ہوگا.بشرطیکہ وہ قواعد وضوابط میں دی گئی تمام دوسری شرائط پوری کرتا ہو.نوٹ :.چندہ ادا کرنے والے ممبر سے مراد ایسا شخص ہے جو چھ ماہ یا اس سے زائد کے لازمی چندہ جات کا بقایا دار نہ ہو، اس شرط سے وہ افراد متقی ہیں جنہوں نے مرکز سے بقایا جات کی بالاقساط ادائیگی یا رعائتی شرح سے چندہ کی ادائیگی کی اجازت حاصل کی ہو.تاہم ایسے تمام افراد کسی جماعتی عہدہ یا مجلس انتخاب کے ممبر کی حیثیت سے منتخب نہیں کئے جاسکتے سوائے اس کے کہ مرکز کی طرف سے قبل از وقت ان کے انتخاب

Page 161

مالی قربانی کی اجازت حاصل کر لی گئی ہو.153 ایسے اجلاس کا کورم ووٹ ڈالنے کے اہل افراد کی تعداد کا کم از کم نصف ہوگا.ایک تعارف ( قاعدہ نمبر 181) قاعدہ نمبر 182 اگر کوئی انتخابی اجلاس کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے منعقد نہ ہو سکے، تو اس صورت میں دوسری مرتبہ ( قاعدہ نمبر 183) کے اجلاس کا کورم ووٹ کے اہل ممبران کا 1/3 ہو گا.اُن امارتوں میں جہاں مرکز کی طرف سے مجلس انتخاب مقرر کی گئی ہو ، وہاں امیر ،سیکریٹریز ، محاسب اور امین براہ راست منتخب نہیں ہوں گے بلکہ ان کا انتخاب مجلس انتخاب کے ذریعہ ہوگا.چندہ دہندگان ان کا انتخاب مقرر شدہ قواعد کے مطابق کریں گے.مجلس انتخاب کے ان ممبران کے علاوہ وہ تمام چندہ دهندگان بھی انتخاب میں حصہ لینے کے اہل ہوں گے جنکی عمر ۶۰ سال سے زائد ہو.( قاعدہ نمبر 187) ایسی امارتیں جن میں چندہ دھندگان کی تعداد 40 تا 100 ہو مجلس انتخاب کے ااممبران ہوں گے.(سوائے ان زائد ممبران ( ۶۰ سال سے زائد) کے جن کا ذکر قاعدہ نمبر ۱۸۷ میں ہو چکا ہے.اس کے بعد ہر ۲۵ ممبران کی زائد تعداد پر ایک ممبر برائے مجلس انتخاب منتخب ہو گا.( قاعدہ نمبر 188) مجلس انتخاب ایک مستقل ادارہ ہے.ہر مقامی جماعت اس بات کی پابند ہے کہ وہ ہر سہ سالہ مدت کے لیے مجلس انتخاب کے ممبران کی مکمل تعداد کو چندہ دھندگان کی تعداد کے مطابق برقرار رکھے.جب بھی ان ممبران میں سے کسی ممبر کی جگہ خالی ہو جائے تو مقامی جماعت نے ممبران کا انتخاب کر کے اُنکے اسماء مرکز کو ھجوائے.( قاعدہ نمبر 194) چندہ جات کا نادھند کسی بھی عہدے کیلئے نا اہل ہوگا.نا دھند ایسا شخص ہے جو لازمی چندہ جات.یعنی چندہ عام، چندہ حصہ آمد اور چندہ جلسہ سالانہ ) کا ۶ ماہ یا اس سے زائد کا بقایا دار ہو.نوٹ :.استثنائی صورت میں مرکز سے اجازت لی جاسکتی ہے.قاعدہ نمبر 208

Page 162

مالی قربانی 154 درج ذیل افراد جماعت میں کسی بھی عہدے کیلئے اہل نہ ہوں گے.با شخص جو قاعدہ نمبر ۱۸۱ کے تحت ووٹ دینے کا اہل نہ ہو.ایسا ب.ایسا موصی ،جسکی وصیت صدرا انجمن احمدیہ نے منسوخ کر دی ہو.ج.ایسا موصی جس کی وصیت کسی تعزیری کاروائی کی وجہ سے منسوخ کی گئی ہو.ایک تعارف د.ایسا شخص جو جماعتی رقوم کو ذاتی استعمال میں لایا ہو (جیسا کہ قاعدہ نمبر ۲۳۵ میں ذکر ہے ) اور ایسا شخص جو ذیلی تنظیم سے متعلقہ رقوم کو ذاتی استعمال میں لایا ہو.ایسا شخص تمام رقم واپس جمع کروانے اور حضرت خلیفہ اسیح سے معافی مل جانے کے تین سال بعد تک نہ کسی عہدے کیلئے چنا جاسکتا ہے اور نہ ہی نامزد کیا جاسکتا ہے.اگر ایسا شخص دوبارہ یہی غلطی دوہرائے وہ آئندہ کبھی بھی کسی عہدہ کا اہل نہ ہو گا.نوٹ..اگر کسی موصی کی وصیت شق نمبر (ب) اور (ج) کے علاوہ کسی اور وجہ سے منسوخ ہوئی ہو اور ایسا ں اپنے لازمی چندہ جات با قاعدگی سے ادا کر رہا ہوا اور نہ ہی وہ چھ ماہ یا اس سے زائد کا بقایا دار ہو تو ایسے شخص کے انتخاب یا نامزدگی کے خلاف کوئی اعتراض نہیں ہوگا.ii.اگر کوئی شخص تعزیری طور پر کسی عہدے سے دوسری دفعہ فارغ کیا جائے تو آئندہ ہمیشہ کیلئے وہ کسی بھی جماعتی عہدہ کا اہل نہ ہوگا.ا.قاعدہ نمبر 209) تمام عہدیداران بشمول امراء اپنے فرائض متعلقہ وکلاء تحریک جدید انجمن احمدیہ کی ہدایت و نگرانی کے تحت ادا کریں گے اور ان کے سامنے جوابدہ ہوں گے.ہر وکیل اپنی زیر نگرانی جماعت کے ریکارڈ کو چیک کرنے کا اختیار رکھتا ہے.وہ یہ بھی اختیار رکھتا ہے کہ ریکارڈ کو مرکز یا جہاں چاہے منگوا سکتا ہے.( قاعدہ نمبر 215) نیشنل امیر استثنائی حالات میں یہ حق رکھتا ہے کہ وہ مجلس عاملہ کی ایسی سفارشات کو رد کر دے جو اس کے خیال میں جماعتی اغراض و مقاصد اور مفادات کے لئے نقصان دہ ہوں ایسی صورت میں امیر کو اس فیصلہ کا اندراج مجلس عاملہ کے رجسٹر کا روائی میں کرنا ہوگا اور اس بارے میں ایک ہفتہ کے اندر اندر رپورٹ مرکز بھجوا نا ضروری ہوگی.نوٹ:.نیشنل صدر کو مجلس عاملہ کی کسی سفارش کو رد کرنے کا اختیار نہیں ہوگا.قاعدہ نمبر 218)

Page 163

مالی قربانی 155 ایک تعارف اگر کسی جماعت کے ممبران کو اپنے نیشنل امیر کے کسی فیصلے حکم یا کاروائی کے خلاف شکایت پیدا ہو تو ایسی صورت میں وہ مرکز میں اُس کے خلاف اپیل کرنے کا حق رکھتے ہیں.اس صورت میں مرکز کے فیصلہ کی اطاعت جماعت اور امیر، دونوں پر لازمی ہوگی.ایسی اپیل امیر کی معرفت آنی چاہئے جو اسے سات دن کے اندر اندر مرکز بھجوانے کا پابند ہو گا مرکز سے فیصلہ ہو جانے کی مدت تک اس امیر کی ہدایت / حکم قائم رہے گا.تاہم مرکز یہ اختیار رکھتا ہے کہ حتمی فیصلہ تک امیر کے اُس حکم کو معطل کر دے.قاعدہ نمبر 221 ہر مقامی جماعت اپنے ممبران ( یعنی مردوں عورتوں اور بچوں) کا مکمل ریکارڈ معین طریق پر قاعدہ نمبر 227) ۱۳.الد رجسٹر میں مہیا کرے گی.ہر مقامی جماعت اپنے ہر شعبہ کی سالانہ کارکردگی رپورٹ نیشنل امیر کو بھیجے گی اسی طرح نیشنل امیر بھی اپنی سالانہ کارکردگی رپورٹ مرکز کو ارسال کرے گا.مرکز یا امیر کے مطالبہ پر درمیانی مدت کی رپورٹ قاعدہ نمبر 228) بھی بھجوائی جانی ضروری ہے.ہر کمانے والے ممبر جماعت کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ مرکز کی طرف سے مقرر کردہ شرح کے مطابق قاعدہ نمبر (232) _17 جماعت کی مالی معاونت کرے.ہر مقامی جماعت ہمیشہ تمام چندہ جات اور دیگر رقوم نیشنل ہیڈ کوارٹر بھجوانے کی پابند ہوگی.کسی مقامی جماعت کو یا اس کے کسی عہدیدار کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ ان چندہ جات یا رقوم میں سے اپنی صوابدید سے خرچ کر سکے.مقامی امیر صدر اس بات کو یقینی بنائے گا کہ وصول شدہ رقوم محاسب یا امین کے پاس حسب قواعد جمع کروادی گئی ہیں..قاعدہ نمبر (233) ہر مقامی جماعت تمام حسابات اور ریکارڈ کو مناسب طور پر مکمل رکھے گی.اور مرکز سے اس سلسلہ میں موصول ہونے والی ہدایات پر عملدرآمد کرے گی.۱۸.قاعدہ نمبر 234) اگر کوئی محصل (چندہ اکٹھا کرنے والا )/ سیکریٹری مال / یا کوئی اور شخص قاعدہ نمبر 233 کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا، اور جماعتی رقوم یا ذیلی تنظیم سے متعلقہ رقوم کو ذاتی استعمال میں لایا.تو ایسے شخص کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ استعمال شدہ رقم واپس جمع کروائے.نیز ایسا شخص استعمال شدہ چندہ واپس جمع کروانے اور حضرت خلیفہ اسیح سے معافی حاصل کرنے کے بعد تین سال تک کسی بھی عہدہ کیلئے نامزد یا منتخب کیئے جانے کا

Page 164

مالی قربانی 156 ایک تعارف اہل نہیں رہے گا.اگر ایسے شخص کے خلاف دوسری مرتبہ کوئی تعزیری کاروائی ہو تو ایسا شخص ہمشہ کیلئے کسی بھی جماعتی عہدے کے لئے نا اہل قرار پائے گا.امیر / صدر اور آڈیر جو اس سلسلہ میں اپنے فرائض سے کوتا ہی برتنے کے مرتکب ہوئے ہیں.وہ بھی اس نقصان کی ادائیگی کے ذمہ دار ہونگے.قاعدہ نمبر (235) امیر کی منظوری سے کوئی جماعت اپنے ممبران سے لوکل فنڈ کی اپیل کر سکتی ہے.جو کہ اس جماعت کے لازمی چندہ جات کی مجموعی رقم کے ایک فیصد سے زائد نہیں ہوسکتی.اسی طرح اگر ملکی سطح پر ایسی کوئی اپیل کرنا مطلوب ہو تو مرکز سے قبل از وقت اجازت لینا ضروری ہوگا.قاعدہ نمبر 236) ۱۹.ہر مقامی جماعت اپنی آمد و خرج کا بشمول اس گرانٹ کے بجٹ تیار کرے گی جو اسے نیشنل ہیڈ کوارٹر سے دی گئی ہو.یہ بجٹ مقامی مجلس عاملہ میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا.خرچ اس بجٹ کے مطابق عاملہ سے قبل از وقت اجازت حاصل کرنا ضروری ہوگی.۲۲.کیا جائے گا اور نیشنل ہیڈ کوارٹر کی ہدایت کے تابع اس آمد و خرچ کا حساب رکھا جائے گا.ان اخراجات کی جانچ پڑتال کی ذمہ داری نیشنل آڈیٹر پر ہوگی.( قاعدہ نمبر 237) کوئی بھی مقامی جماعت اپنے ممبران سے مقامی سطح پر ہنگامی ضروریات کے پیش نظر خصوصی طور پر رقم اکٹھی کر سکتی ہے.بشرطیکہ اسکا اثر مرکزی چندہ جات کی وصولی پر نہ پڑے لیکن ایسی صورت میں نیشنل مجلس قاعدہ نمبر 238 مقامی چندہ سے بنیادی طور مراد وہ چندہ ہے، جو مقامی ضروریات کے لیے اکھٹا کیا جاتا ہے.مثلاً مقامی مسجد کی دیکھ بھال ، مرکزی چندہ جات کے حصول پر اٹھنے والے اخراجات، مہمان نوازی ، مقامی دعوت الی اللہ ، مقامی تعلیم ، ڈاک، سٹیشنری اور دیگر متفرق اخراجات.قاعدہ نمبر 239) ۲۳.اگر کوئی جماعت اتنا لوکل فنڈ اکٹھانہ کر سکے جو اس کی مقامی ضروریات کیلئے کافی ہو تو اس صورت میں نیشنل مجلس عاملہ اس جماعت کو گرانٹ دینے کے بارہ میں غور کر سکتی ہے.لیکن صرف وہی جماعتیں اس گرانٹ کو لینے کی حقدار ٹھریں گی جنہوں نے اپنے لازمی چندہ جات کا کم از کم %80 وصول کر لیا ہو.عام حالات میں یہ گرانٹ اصل وصول شدہ لازمی چندہ جات کے %10 سے زائد نہ ہوگی.لیکن مخصوص حالات میں یہ گرانٹ %25 تک بڑھائی جاسکتی ہے بشرطیکہ فنڈ زموجود ہوں.نیشنل مجلس عاملہ اس بات کا اختیار رکھتی ہے کہ جب کبھی مناسب سمجھے اس گرانٹ پر نظر ثانی کرے.( قاعدہ نمبر 240)

Page 165

مالی قربانی 157 ایک تعارف نوٹ :.ایسی گرانٹس نیشنل ہیڈ کواٹرز سے مناسب اقساط میں ادا کی جائیں گی.کسی جماعت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ چندہ جات کی وصول شدہ رقوم سے یہ گرانٹس منہا کر لے.۲۴.وہ مقامی جماعت جو نیشنل مجلس عاملہ سے گرانٹ کی درخواست کرے اس پر لازم ہو گا کہ وہ درخواست کے ساتھ اپنے مقامی آمد و اخراجات کے بجٹ کی ایک نقل بھی نیشنل مجلس عاملہ کو ارسال کرے.۲۵.مقامی اخراجات کی درج ذیل مدات ہو سکتی ہیں.(i) کسی غریب کے علاج پر اُٹھے والے اخراجات قاعدہ نمبر 241) ( ii ) مقامی سطح پر تبلیغ تعلیم ، مہمان نوازی اور چندہ جات کے حصول پر آنے والے اخراجات نیز مقامی مسجد کی روز مرہ مرمت ، ڈاک اور سٹیشنری وغیرہ پر آنے والے اخراجات.قاعدہ نمبر (242) نوٹ:.عام طور پر مقامی جماعت کا کام رضا کارانہ بنیاد پر ہوگا.تاہم نیشنل مرکز کی اجازت سے معاوضہ پر کام کرنے والے افرا در کھے جاسکتے ہیں.

Page 166

مالی قربانی 158 قواعد وصیت ایک تعارف وصیت کنندہ کیلئے یہ بھی لازم ہوگا کہ بوقت وصیت چندہ شرط اول کے علاوہ اخراجات اعلان ( قاعدہ نمبر (29) وصیت بھی ادا کرے.بوقت منظوری وصیت کننده کی قبل از وصیت اخلاقی و دینی حالت کے علاوہ قبل از وصیت مالی حالات کو بھی اسی نقطہ نظر سے مدنظر رکھا جائے گا.کہ نمایاں مالی قربانی کا عصر اور وصیت کی روح مجروح نہ ہوتی قاعدہ نمبر 35 ہو.اگر کوئی وصیت کا ایسا خواہش مند نا گہانی وفات پا جائے جو قبل از وفات وصیت کروانے کی کاروائی کا آغاز کر چکا ہو.تو خواہ فارم وصیت پر نہ بھی کیا جاسکا ہو.قابل اعتماد گواہی کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کی وصیت کی پس از مرگ منظوری کا معاملہ زیر غور لایا جا سکتا ہے.بشرطیکہ.1.مرحوم وصیت کی دیگر شرائط پر پورا اترتا ہو اور یہ توقع کی جاسکتی ہو کہ اگر نا گہانی وفات حائل نہ ہوتی تو اس کی وصیت منظور کرنے کی راہ میں کوئی روک نہ ہوتی.ہوں.2.مرحوم کے وارثان اس کے ترکہ پر حصہ وصیت ادا کرنے اور بلا تاخیر عملدرآمد پر بشرح صدر آمادہ 3.قرآئن کسی منفی احتمالات کی طرف اشارہ نہ کرتے ہوں.مثلاً ل لمبے عرصے تک توفیق کے باوجود وصیت کی طرف متوجہ نہ ہونا.ب.لمبی معقول مہلت کے باوجود محض خواہش کا اظہار کرنا او قطعی اقدام کی طرف متوجہ نہ ہونا.ج.وصیت کی کاروائی کا آغاز اس وقت کرنا جب نسبتا کم مالی قربانی سے وصیت ہو سکتی ہو.د.دینی حالت کا کسی پہلو سے واضح طور پر داغدار ہونا.مثلاً (i) نمازوں میں غفلت.(ii) عام چندوں میں اعلیٰ معیار کے مطابق نہ ہونا.(iii) نظام جماعت سے وابستگی اور تعلق میں کمزوری وغیرہ.قاعدہ نمبر 43) عام حالات میں جائیداد کی وصیت پر موصی کی وفات کے بعد عمل درآمد ہوگا اور حصہ جائیدا دترکہ پر واجب الادا ہو گا.قاعدہ نمبر 44

Page 167

مالی قربانی 159 ایک تعارف ایسے مالکان اراضی " جن کی راہ میں وصیت کرنے میں کوئی دقتیں ہیں تو ان کیلئے مناسب ہے کہ وہ جس قدر جائیداد کو وصیت کرنا چاہتے ہیں اسے بجائے وصیت کے اپنی زندگی میں ہبہ کر دیں اور ہبہ نامہ پر اپنے ور ثائے بازگشت کے (اگر کوئی ہوں ) دستخط کرا ئیں.جن سے ایسے ورثاء کی رضا مندی پائی جائے".( قاعدہ نمبر 45) موصی کی جائیداد سے اگر کوئی آمدنی ہوتی ہو تو اس آمد پر حصہ آمد بشرح چندہ عام (یعنی (۱/۱۶ ) ادا ( قاعدہ نمبر 51) کرنالازم ہوگا.جس جائیداد کا حصہ جائیداد سو فیصدی ادا کر دیا گیا ہو اس پر حصہ آمد بشرح چندہ عام کی ادائیگی ( قاعدہ نمبر 52) لازمی ہوگی.پنشن کے کمیوٹ شدہ حصہ پر حصہ آمد کی ادائیگی لازمی ہوگی اور موصی کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ اس پر حصہ آمد یکمشت ادا کرے.یا کسی خاص مجبوری کی وجہ سے ایسا نہ کر سکتا ہو تو حسب ضابطہ مجلس کار پرداز سے ( قاعدہ نمبر 55) اجازت اور مہلت حاصل کرے.پراویڈنٹ فنڈ کا وہ حصہ جس پر حصہ وصیت نہ ادا کیا گیا ہو اور وہ موصی کی وفات کے بعد پسماندگان کو ملے وہ موصی کا ترکہ شمار ہوگا اور اس پر حصہ وصیت واجب الادا ہو گا.( قاعدہ نمبر 59) جو موصی وصیت کا چندہ واجب ہونے کی تاریخ سے چھ ماہ بعد تک چندہ حصہ آمد ادا نہ کرے اور نہ دفتر سے اپنی معذوری بتا کر مہلت حاصل کرے تو صدر انجمن احمدیہ کو اختیار ہو گا.کہ مجلس کار پرداز کی سفارش پر ( قاعدہ نمبر 68) ایسی وصیت کو منسوخ کر دے.ہر موصی کیلئے لازم ہوگا کہ وہ سالانہ فارم اصل آمد حسب نمونہ جدول ج پر کر کے دفتر کو بھجوائے.فارم اصل آمد نہ آنے کی صورت میں صدر انجمن احمدیہ کو اختیار ہوگا کہ وہ مناسب تنبیہہ کے بعد موصی کو بقایا دار قرار دے کر موصی کے خلاف مناسب تادیبی کاروائی کرے جو منسوخی وصیت بھی ہوسکتی ہے.( قاعدہ نمبر 69) ایسے موصی ورثاء جو مدفون موصیوں کے بقایا جات وعدہ کے مطابق ادا نہیں کریں گے اور نہ ہی حالات بیان کر کے مہلت حاصل کریں گے.ان کی وصایا منسوخ کر دی جائیں گی.۱۲.( قاعدہ نمبر 71) --

Page 168

مالی قربانی 160 انشورنس ایک تعارف اگر انشورنس میں سود اور جواء کی صورت نہ پائی جاتی ہو تو جائز ہے ورنہ نا جائز ہے.اس بارہ میں مجلس افتاء کی سفارشات جنہیں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۲۳ جون ۱۹۸۰ ء کو منظور فرمایا درج ذیل ہیں :.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے فتاویٰ کے مطابق جب تک معاہدات سود اور قمار بازی سے پاک نہ ہوں بیمہ کمپنیوں سے کسی قسم کا بیمہ کروانا جائز نہیں ہے.یہ فتاویٰ مستقل نوعیت کے اور غیر مبدل ہیں البتہ وقتا فوقتا اس امر کی چھان بین ہو سکتی ہے کہ بیمہ کمپنیاں اپنے بدلتے ہوئے قوانین اور طریق کار کے نتیجہ میں قمار بازی اور سود کے عناصر سے کس حد تک مبرا ہو چکی ہیں.مجلس افتاء نے اس پہلو سے بیمہ کمپنیوں کے موجودہ طریق کار پر نظر کی ہے اور اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اگر چہ رائج الوقت عالمی مالیاتی نظام کی وجہ سے کسی کمپنی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے کاروبار میں کلیتہ سود سے دامن بچا سکے لیکن اب کمپنی اور پالیسی ہولڈر کے درمیان ایسا معاہدہ ہو ناممکن ہے جو سودا اور قمار بازی کے عناصر سے پاک ہو اس لئے اس شرط کے ساتھ بیمہ کروانے میں حرج نہیں کہ بیمہ کروانے والا کمپنی سے اپنی جمع شدہ رقم پر کوئی سود وصول نہ کرے." (رجسٹر فیصلہ جات مجلس افتاء صفحه ۶۰) مناسب ہوگا کہ بیمہ کروانے والا شخص بیمہ کروانے سے پہلے مجلس افتاء کو پوری معلومات مہیا کر کے با قاعدہ فتویٰ لے کر بیمہ کروائے.اگر کسی حکومتی ادارہ میں ملازمت کی صورت میں یا در پیش حالات میں بیمہ پالیسی لازمی ہو تو یہ صورت اس سے مستفی ہوگی.

Page 169

ایک تعارف 161 ANNEXURES مالی قربانی

Page 170

مالی قربانی 162 ایک تعارف

Page 171

مالی قربانی 163 ANNEXURE I ایک تعارف وصیت سے متعلق مختلف امور کی وضاحت سوال آمد اور جائیداد پر شرح وصیت کیا ہے؟ جواب:.ایک موصی کے لئے ضروری ہے کہ ا.بوقت وفات اپنی جائیداد پر 1/10 سے لیکر 113 حصہ کی ادائیگی کی وصیت کرے.۲.دوران زندگی جائیداد سے حاصل ہونے والی آمد کے علاوہ ، تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی آمد کا 1/10 سے لیکر 1/3 حصہ بطور چندہ حصہ آمد ادا کرے.آمد از جائیداد پر چندہ حصہ آمد بمطابق شرح چندہ عام (1/16 ) ادا کرے.سوال:.اگر بوقت وصیت کسی شخص کی مستقل ایک بھی آمد نہ ہو، تو وہ اپنی ماہانہ آمد کی تحریر کرے؟ جواب:.اس صورت میں اسے اپنی انداز ماہانہ آمد تحریر کرنی چاہیے ہے.یا چھ ماہ یا سال کی آمد کی اوسط تحریر کر دینی چاہیئے.سوال:.ایسی خاتون خانہ جو موصیہ ہو اور خود کوئی کام نہ کرتی ہو، عام طور پر ان سے جیب خرچ پر چندہ لیا جاتا ہے.کیا اس بارہ میں کوئی رہنما اصول ہیں ؟ جواب:.عورتوں کو حسب توفیق رہن سہن کے معیار کے لحاظ سے قربانی کرنی چاہیئے.عام طور پر بیوی کیلئے چندہ وصیت کی ادائیگی کا طریق یہی ہے کہ اگر اسکی آمدنی کوئی نہ ہو تو اس کا خاوند مناسب جیب خرچ مقرر کرے اور وہ اسکی بیوی کی آمد متصور ہو اور اسطرح مالی قربانی کے تسلسل کو قائم رکھنے کی خاطر اس جیب خرچ پر چندہ وصیت ادا کرے.جیب خرچ کا تعین ہر ایک کے رہن سہن کو مدنظر رکھ کر مقرر کیا جاتا ہے سوال: کیا موصی طالب علم پر اپنے جیب خرچ / وظیفہ پر چندہ وصیت کی ادا ئیگی لازم ہوگی ؟ جواب:.طالب علمی وظیفوں پر شرح کا اطلاق نہیں ہو گا.طلباء سے توقع رکھی جائے گی کہ وہ حسب حیثیت

Page 172

مالی قربانی 164 ایک تعارف خود کچھ رقم معین کر کے جماعت سے افہام و تفہیم کے ذریعہ اس کے مطابق با قاعدہ چندہ ادا کریں.سوال:.ملاز میں اپنی تنخواہ پر مکمل حصہ آمد ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پینشن کے لئے ماہانہ یا سہ ماہی بنیاد پر contribution کرتے ہیں.جس کے نتیجہ میں انہیں ریٹائر منٹ پر پنشن ملتی ہے.ایسی پینشن پر چندہ کے بارہ میں کیا طریق ہے؟ جواب:.پنشن پر حصہ آمد واجب الادا ہوگا.کیونکہ ماہانہ contribution تو معمولی رقم سے ہوتی ہے جب کہ ریٹائر منٹ پر ماہانہ پنشن تو اس سے کافی زائد ملتی ہے.لہذا اگر کوئی اپنی پینشن سے اس رقم کو منہا کرنا چاہتا ہے.تو وہ صرف اسی قدر ہوگی جس قدر وہ اپنی contribution کرتا رہا ہے.باقی رقم پر حصہ آمد واجب الادا ہو گا.سوال: کسی شخص کی آمد میں سے چندہ کی غرض کے لئے کون کون سے واجبات منہا کرنے کی اجازت ہے؟ جواب:.آمد جس پر چندہ واجب الادا ہے اس سے مراد ہر قسم کی آمد جو مختلف ذرائع سے حاصل ہو.صرف درج ذیل واجبات کو اصل آمد سے منہا کرنے کی اجازت ہے.( ) ملازمین کو ملنے والے ایسے الاؤنسز جن کے اخراجات ملازمین کے ذاتی اختیار اور صوابدید پرنہ ہوں ( ) حکومت کی طرف سے عائد کردہ لازمی واجبات مثلاً ٹیکس، لازمی انشورنس، لوکل ریس.(iii) ملازمین کو ملنے والے ایسے الاؤنسز جو مخصوص اخراجات کیلئے ہوں.مثلاً یونیفارم الاؤنس، تعلیمی الاؤنس، چلڈرن الاؤنس وغیرہ.(iv) ایسے الاؤنسز جو دفتری امور کی سرانجام دہی کے عوض ادا ہوں مثلاً T.A-DA - سوال:.کیا مکانات پر ادا ہونے والی انشورنس کی رقم چندہ کی ادائیگی کیلئے اصل آمد سے منہا ہوگی ؟ جواب:.(1) مکان پر ادا ہونے والی انشورنس ہاؤس انشورنس) کی رقم خواہ لازمی ہو ، ایسی رقم چندہ کی غرض سے کسی شخص کی آمد سے منہا نہیں ہوگی.اگر Mortgage Company سے قرض لینے کے لئے ایسے مکان پر انشورنس کرانا لازمی ہو تو اس انشورنس کا فائدہ خریدار کو جاتا ہے.لہذا

Page 173

مالی قربانی 165 ایک تعارف یہ معمول کے اخراجات شمار ہونگے.اس لئے قرضہ کی کسی قسط کی ادائیگی یا Mortgage ، Interest یا انشورنس پریمیئم وغیرہ کو چندہ کی غرض کے لئے اصل آمد سے منہا کرنے اجازت نہیں ہے.(۲) اسی طرح آٹو انشورنس کو بھی اصل آمد سے منہا کرنے کی اجازت نہیں.کیونکہ اس کا فائدہ بھی مالک کو جاتا ہے.سوال:.کیا ہیلتھ انشورنس کو چندہ کی غرض کے لئے آمد سے منہا کیا جاسکتا ہے.؟ جواب:.ہیلتھ انشورنس کے اخراجات بھی آمد سے منہا نہیں ہوں گے خواہ یہ لازمی ہی کیوں نہ ہو.سوائے ایسی صورت کے کہ جس میں ہیلتھ انشورنس ایک حکومتی ٹیکس کی صورت اختیار کر لے یا اس کا فائدہ ایک کمیونٹی پر محیط ہو اور ذاتی طور پر کوئی سہولت اس سے حاصل نہ ہوتی ہو.سوال: اگر موصی کو کسی غیر منقولہ جائیداد پر بطور کرایہ کوئی آمد وصول ہو رہی ہو تو کیا اس آمد پر وہ چندہ حصہ آمد ادا کرے گا ؟ جواب:.جی ہاں موصی ایسی جائیداد سے پیدا ہونے والی آمد پر حصہ آمد بشرح چندہ عام ( یعنی (1/16 جائیداد ادا کرے گا.سوال: ایک شخص اپنی آمد میں سے (جائیداد ) کے قرضہ کی قسط منہا کئے بغیر کل آمد پر حصہ آمد ادا کرتا ہے تو کیا ایسی صورت میں بھی اس جائیداد پر مکمل حصہ جائیداد ادا کرناضروری ہے؟ جواب:.جائیداد پر حصہ جائیداد مکمل بمطابق وصیت ادا کرنا ضروری ہے.(۱) اگر کوئی شخص اس قدر آمد کی سبیل نہیں رکھتا کہ اس سے یکمشت یا بالاقساط ایک جائیداد خرید سکے.اور ایسی جائیداد کے حصول کیلئے وہ قرض حاصل کرتا ہے.اگر وہ زندگی میں ایسی جائیداد پر حصہ جائیدا دادا کرنا چاہتا ہے تو قرض کی ذمہ داری اپنے اوپر رکھے گا.اور تشخیص کے وقت پر اس جائیداد کی جو قیمت ہوگی اس پر حصہ جائیداد ادا کرے گا.کیونکہ زندگی میں قرض کی کوئی حیثیت نہیں ( بلکہ ہر شخص دوران زندگی قرض لیتا اور واپس کرتارہتا ہے ).(۲) ایک شخص پہلے اپنی آمد پیدا کرتا ہے اور اس آمد پر وصیت حصہ آمد ادا کرتا ہے بعد ازاں بقیہ

Page 174

مالی قربانی 166 ایک تعارف آمد سے یکمشت یا بالاقساط ایک جائیداد خریدتا ہے.جس پر بعد از وفات وصیت کی ادائیگی واجب ہوتی ہے یا اس کی اپنی آسانی کیلئے یہ اجازت دی گئی ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنی زندگی میں اس کی ادائیگی کر سکتا ہے.سوال:.منقولہ جائیداد از قسم شیئر ز اور اسی طرح کی دوسری Investments پر وصیت کی ادائیگی کا کیا طریق ہوگا ؟ جواب:.(1) ایسی جائیداد (Shares) اپنی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق جائیداد شمار ہوگی اور اس پر حصہ جائیداد واجب الاداء ہوگا.(۲) نیز ایسی جائیداد سے ملنے والے منافع پر حصہ آمد بمطابق شرح دینا ہوگا.(1/10 کے حساب سے یا جو موصی نے اپنی شرح مقرر کی ہو ) یہی ہدایت ہر قسم کی Investments پر بھی لاگو ہوگی.سوال:.وصیت کرواتے وقت موصی اپنے ملکیتی مکان پر کس شرح سے وصیت ادا کرے گا؟ جواب:.چندہ وصیت کی کم سے کم شرح 1/10 اور زیادہ سے زیادہ 113 ہے.ہر شخص اس کے مابین اپنی حیثیت کے مطابق کسی بھی شرح پر حصہ آمد اور حصہ جائیداد مقرر کر کے اور دفتر کو اطلاع کر کے اس کی ادائیگی کرسکتا ہے.سوال: کیا کار موصی کی جائیداد کے طور پر شمار ہو سکتی ہے؟ جواب:.عام روز مرہ استعمال کی اشیاء کی طرح کا ر بھی موصی کی جائیداد شمار نہیں ہوگی.سوائے اس کے کہ موصی کی کوئی اور جائیداد نہ ہو اور وہ از خود اپنی رضامندی سے کار یا اس طرح کی دوسری اشیاء پر حصہ جائیداد ادا کرنے کی خواہش کرے.یا کسی موصی کی جائیداد زیادہ تر اس طرح کی اشیاء پرشت بینید ور اس مشکل ہو.یا کسی موصی کے پاس اس طرح کی بہت سی اشیاء کا قیمتی ذخیرہ ہو، جسے اس کی جائیداد متصور کیا جاسکے.

Page 175

مالی قربانی 167 ایک تعارف سوال : کیا روز مرہ استعمال کی اشیاء مثلاً ٹی وی، کمپیوٹر ، گاڑی وغیرہ دوران وصیت بصورت جائیدادا لکھوائے جاسکتے ہیں؟ جواب:.مندرجہ بالا اشیاء گھر یلو استعمال کے زمرے میں آتی ہیں.لہذا ان اشیاء پر وصیت لاگو نہیں.سلائی مشین پر بھی وصیت لاگو نہ ہے.اسی طرح کیمرہ ، ٹیپ ریکارڈر، وی سی آروغیرہ بھی گھر میلو استعمال کی اشیاء ہیں.سوال:.بیرون ممالک میں اکثر جائیداد میاں بیوی کے نام پر ( نصف نصف) مشتر کہ ہوتی ہے ایسی صورت میں اگر ان میں سے صرف ایک موصی ہو تو اس پر کتنے حصہ کی وصیت واجب الادا ہے؟ جواب:.(۱) اگر جائیداد کے حصول میں ہر دو میاں بیوی کی رقم برابر لگی ہوئی ہے اور ان میں سے موصی صرف ایک ہے تو اس کو نصف جائیداد پر حصہ جائیداد واجب الادا ہو گا.(۲) لیکن اگر صرف ملکی قانون کی وجہ سے حصہ دار ہیں اور ان دونوں میں سے صرف ایک کی رقم لگی ہوئی ہے تو جس کی رقم لگی ہے اور وہ موصی ہے، تو پوری جائیداد پر حصہ جائیداد ادا کرنے کا پابند ہوگا.اگر دوسرا فریق موصی ہے جس کی رقم نہیں لگی ہوئی تو یہ جائیداد اس کی شمار نہ ہوگی ، اور نہ ہی اس پر اس کا حصہ جائیدا د واجب الادا ہو گا.(۳) ملکی قانون شریعت پر لاگو نہیں ہو سکتا.اس لئے اس ( ملکیت) کی وضاحت کی جانی ضروری ہوگی.پہلے فریق کی وفات کے بعد ترکہ شمار ہو کر اگر دوسرا فریق موصی ہو تو اُس کو شرعی حصہ کے مطابق وصیت ادا کرنا ہوگی.سوال:.اگر کسی جائیداد کا حصہ جائیدا ادا ہو چکا ہو اور پھر اسے فروخت کر کے کوئی نئی جائیداد خرید لی جائے تو کیا اس پر بھی حصہ جائیداد ادا کرنا ہو گا ؟ جواب:.زمین ، مکان ، پلاٹ جیسی ملکیت کو فروخت کر کے حاصل ہونے والی رقم کے متعلق درج ذیل صورت ہوگی :.(۱) اگر اسی قدر رقم سے یا اس سے کم رقم میں کوئی نئی جائیداد خریدی جائے تو ایسی نئی جائیدا پر حصہ وصیت واجب الادا نہ ہوگا.البتہ ایسی جائیداد سے حاصل ہونے والی آمد پر (اگر کوئی ہو ) چندہ وصیت واجب ہوگا ( بشرح ۱/۱۶).

Page 176

مالی قربانی 168 ایک تعارف (۲) لیکن اگر فروخت سے حاصل ہونے والی رقم میں مزید کچھ رقم ڈال کر نئی جائیداد خریدی جائے تو اس جائیداد میں نئی ڈالی گئی رقم کے تناسب سے اس جائیداد کے اس حصہ پر حصہ وصیت واجب الادا ہوگا جس تناسب سے رقم ڈالی گئی.لیکن ایسی جائیداد سے بھی حاصل ہونے والی آمد پر (اگر) کوئی ہو ) چندہ وصیت کل آمد پر واجب الادا ہو گا ( بشر ح ۱/۱۹).(۳) حصہ وصیت ادا کر چکنے کے بعد جمع شدہ نقدی اصل حالت میں رہے تو اس پر حصہ وصیت واجب الادا نہ ہوگا.البتہ نقد رقم سے حاصل ہونے والی آمد یا منافع پر حصہ وصیت واجب الادا ہوگا.سوال:.زیورات فروخت کر کے حاصل کرنے والی اشیاء کے متعلق کیا صورت ہوگی؟ جواب:.ایسے زیورات جن پر حصہ وصیت ادا کیا جاچکا ہے، کو فروخت کر کے اگر کوئی نئے زیورات اسی قدر رقم سے خریدے جائیں جتنے میں پہلے فروخت کئے گئے تھے تو ایسی صورت میں نئے خرید کردہ زیورات پر حصہ وصیت واجب الادا نہ ہوگا.البتہ دفتر وصیت کو یہ اطلاع واضح طور پر دینا ہوگی کہ مندرج نئے نئے زیورات کی قسم اور وزن کی تفصیل ساتھ منسلک کریں) زیورات سابقہ زیورات کی فروخت سے حاصل شدہ رقم سے خریدے گئے ہیں.لیکن اگر فروخت سے حاصل ہونے والی رقم میں مزید کچھ رقم ڈال کر نئے زیورات خرید کئے جائیں تو ان نئے زیورات میں نئی ڈالی گئی رقم کے تناسب سے حصہ وصیت واجب الادا ہو گا جس تناسب سے رقم ڈالی گئی ہو.سوال:.کیا ایسی جائیداد جو مار گیج / قرض پر لی گئی ہو ئی وصیت کرتے وقت ایسی جائیداد وصیت فارم میں درج کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ جواب:.ایسی کوئی بھی جائیداد جو مار گیج قرض پر لی گئی ہو، وہ وصیت کنندہ کی ہی جائیدا تصو ر ہوگی اور اس کا اندراج وصیت کرتے وقت وصیت فارم میں کیا جانا ضروری ہوگا.اس کے علاوہ ایسی جائیداد کی اندازه مالیت اور ایڈریس بھی درج کرنا ہوگا.اس کے علاوہ اگر بعد وصیت بھی ایسی کوئی جائیداد خریدی جائے تو اس کی اطلاع مرکز کو کرنا ضروری ہوگا.سوال مار گیج / قرض پر لی گئی جائیداد کے متعلق اصولی طرز عمل کیا ہے؟

Page 177

مالی قربانی 169 ایک تعارف جواب:.جو جائیداد قرض پر لی گئی ہو اس پر وصیت کی ادائیگی کے متعلق حضرت خلیفہ امسیح الربع " کا ارشاد :- اس ضمن میں اصولی طرز عمل یہ ہے کہ جو شخص زندگی میں اپنی جائیداد کا حصہ وصیت ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے بعض شرائط کے ساتھ منظور کر لیا جاتا ہے.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے اپنی جائیداد پر اتنا قرض دینا ہے، یہ منہا کر لیا جائے اور بقیہ پر حصہ وصیت کی ادا ئیگی ہو جائے تو ایسے معاملے میں بعض پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں.ان پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے عام طور پر یہی بہتر ہے کہ جس نے قرض پر جائیداد بنائی ہو اس جائیداد کا حصہ وصیت اس کی زندگی میں اسی صورت میں قبول کیا جائے کہ وہ قرض کی ذمہ داری اپنی ذات پر رکھے اور پوری جائیداد کی قیمت پر حصہ وصیت ادا کر کے فارغ ہو جائے.اگر وہ قرض کو منہا کر کے حصہ وصیت ادا کرنا چاہے تو منظوری کی صورت میں اس کا مطلب صرف یہ ہوگا کہ یہ حصہ وصیت صرف اس جائیداد کا ہوا ہے جس پر کسی قسم کا قرض نہیں تھا.اور جس جائیداد پر قرض ہے اس کا معاملہ وفات کے دن تک ملتوی سمجھا جائے گا.یعنی اگر اس وقت تک قرض ادا کر دیا گیا ہو تو جائیداد کے اس حصہ کی وصیت کا مطالبہ وفات کے بعد کیا جائے گا.کیونکہ اس نے اپنی زندگی میں قرض کے عذر پر اس حصہ کی وصیت ادا نہ کی تھی.اگر کچھ قرض باقی ہو تو پھر اس جائیداد کا تخمینہ کر کے اس میں سے قرض منہا کر لیا جائے اور بقیہ قیمت جائیداد پر وصیت واجب الادا ہوگی.یہ اصولی طرز عمل ہے اس کا سب پر اطلاق ہوگا.خط محرره 1990-01-28) سوال: Mortgage پر لی گئی جائیداد کی تشخیص کا کیا طریقہ کار ہے؟ جواب: ہر ایسی جائیداد جو Mortgage پر خریدی گئی ہو اس کے حصہ جائیداد کی ادائیگی کے دو ہی طریق ہیں: (1) اگر موصی اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا حصہ جائیداد ادا کرنا چاہے تو ایسی جائیداد کی با قاعدہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق تشخیص ہوتی ہے اور Mortgage کی رقم منہا نہیں کی جاتی.کیونکہ قرضہ کی زندگی میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی.(۲).اگر کوئی موصی اپنی زندگی میں اپنی کسی جائیداد کا حصہ ادا نہیں کرتا تو وفات کی صورت میں

Page 178

مالی قربانی 170 ایک تعارف پہلے قرضہ ، پھر وصیت ، پھر وراثت ہوتی ہے.اس صورت میں اگر وفات کے وقت ایسی جائیداد جس پر حصہ جائیداد قابل ادا ہو اس پر اگر کوئی Mortgage کی اقساط رہتی ہیں تو وفات کے وقت اس جائیداد کی جو مالیت ہوگی اس میں سے Mortgage کی رقم منہا کر کے بقیہ رقم پر حصہ جائیداد ادا ہوگا.سوال: کیا کوئی موصی اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کی تشخیص کروا کر اس پر واجب الاداء رقم کی ادائیگی کر سکتا ہے؟ اگر کر سکتا ہے تو کس شرح پر نیز کیا تشخیص کروانے کے بعد مکمل ادائیگی کرنے کی کوئی معیاد مقرر ہے؟ جواب:.۱.جی ہاں موصی اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کی تشخیص کروا کر اس پر حصہ جائیداد دا کرسکتا ہے.۲.ادائیگی کی شرح موصی از خود مقرر کرتا ہے (مقررہ شرح کے مابین ) نیز مجلس کار پرداز سے اس کی منظوری بھی لازم ہے.۳ تشخیص مکمل ہو جانے کے بعد ہر قسم کی جائیداد کی ادائیگی دوسال میں کرنا ضروری ہے.۴.رہائشی مکان کی صورت میں یہ معیاد 5 سال تک کی ہو سکتی ہے.اگر موصی خود اس میں رہائش پذیر ہے.سوال:.جائیداد جو کسی موصی کے نام ہو مگر وہ مکمل طور پر اس کی ملکیت نہ ہو تو کیا موصی اس جا حصہ جائیدا دادا کرے گا؟ جواب:.اگر جائیداد مکمل طور پر موصی کی ملکیت نہ ہو تو اس جائیداد میں سے صرف اس کے ملکیتی حصہ پر حصہ جائیداد ادا کرنالازمی ہو گا.لیکن اگر اس جائیداد میں سے موصی کا کچھ بھی حصہ نہ ہے بلکہ موصی کا محض نام استعمال ہو رہا ہے تو اس کی اطلاع مجلس کار پرداز کو دینا ہوگی.سوال: اگر موصی کسی قرض کی ہوئی رقم سے خریدے گئے مکان پر اقساط ادا کر رہا ہو اور وہ چاہتا ہو کہ اسکی تشخیص کروا کر حصہ جائیداد ادا کر دے تو کیا وہ خریدی گئی جائیداد کی کل مالیت پر حصہ جائیداد ادا کرے گا یا صرف اس حصہ پر جس کی اس نے ادا ئیگی کر دی ہے؟ جواب:.حصہ جائیداد در حقیقت موصی کی وفات پر ادا کرنا ہوتا ہے.تاہم پیچیدہ اور غیر یقینی صورتحال سے بچنے کیلئے موصی کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی حصہ جائیدادا دا کر لے.

Page 179

مالی قربانی 171 ایک تعارف سواگر موصی اپنی زندگی میں ہی حصہ جائیداد ادا کرنا چاہتا ہے تو قرض پر لی گئی جائیداد بھی اس کی جائیداد متصور ہوگی.اور اسے اس کی رائج الوقت قیمت پر حصہ جائیدا دا دا کرنا لازم ہوگا.لیکن اگر قرض کی مکمل ادائیگی سے قبل ہی اس کی وفات ہو جائے تو کل مارکیٹ ویلیو میں سے بقیہ واجب الاداء قرض کی رقم منہا کر کے حصہ جائیدا دادا کیا جائے گا.ادائیگی حصہ جائیداد بعد از وفات سوال: اگر کسی موصی نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد پر حصہ جائیداد ادا کر دیا ہو، تو کیا اس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء اس جائیداد پر دوبارہ اس کا حصہ جائیداد ادا کریں گے؟ جواب:.اگر موصی نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد پر حصہ جائیداد ادا کر دیا ہے تو اس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء کو اس جائیداد پر دوبارہ حصہ جائیداد ادا نہیں کرنا ہوگا.سوال:.موصی کی وفات کی صورت میں حصہ جائیداد کی ادائیگی کا کیا طریق ہوگا؟ جواب:.موصی کی وفات کے وقت پر حصہ جائیداد فوری ادا کرنا واجب ہو جاتا ہے.اگر اس کے ورثاء فوری ادائیگی نہیں کر سکتے تو ایسی صورت میں ان کی طرف سے کوئی قابل اعتماد ضمانت پیش ہونے پر مجلس کار پرداز ایسے موصی کو استثنائی طور پر تدفین کی اجازت دے سکتی ہے.تاہم یہ ضمانت زیادہ سے زیادہ ایک سال کی مدت کیلئے ہوگی.اس عرصہ میں مکمل ادائیگی ہوناضروری ہے.کاروبار سے متعلق سوالات سوال:.کیا کاروبار میں لگا ہوا سر مایہ ( راس المال ) وصیت کنندہ کی جائیداد شمار ہو گا ؟ اور کیا اس کا اندراج وصیت فارم میں کیا جانا ضروری ہے؟ جواب:.کاروبار میں لگا ہوا سر مایہ ( راس المال) وصیت کنندہ کی جائیداد شمار ہوگا.اور اس کی مکمل تفصیل کا وصیت فارم میں درج کیا جانا ضروری ہوگا.سوال: کیا کاروبار سے حاصل ہونے والے کل منافع (Net income) پر چندہ وصیت ادا کرنا ضروری ہوگایا کہ ایک تاجر جو اپنے روزمرہ گزارے کیلئے اس منافع سے ایک مقرر کردہ رقم حاصل کرتا ہے اس پر چندہ کی ادائیگی کی جائے گی ؟

Page 180

مالی قربانی 172 ایک تعارف جواب.تاجر حضرات کو اپنی کل آمد (Gross income) میں سے ایسے اخرجات وضع کر کے جو آمد پیدا کرنے کیلئے کئے جاتے ہیں باقی مجموعی اصل آمد (Net total income) پر چندہ ادا کرنا ہوگا.محض اپنے ماہانہ اخراجات کیلئے تجارت (Business) سے وصول کردہ رقم (Drawings) پر چندہ ادا کر نا درست نہیں.سوال:.کاروبار سے حاصل ہونے والی آمد پر چندہ وصیت کس شرح سے ادا کرنا ضروری ہوگا ؟ جواب:.کاروبار سے حاصل ہونے والی آمد پر موصی کا اپنی مقرر کردہ شرح کے مطابق ادائیگی کرنا ضروری ہوگی.(نہ کہ چندہ عام کی شرح سے ) زندگی میں وصیت کی ادائیگی کا روبار سے حاصل ہونے والی آمد سے ہو گی.راس المال یعنی کل اثاثے منفی کل Liability پر ادا ئیگی وفات کے وقت ہوگی یا اگر موصی خود زندگی میں اس پر چندہ کی ادائیگی کرنا چاہے.WorkingCapital پر چندہ نہیں ہوتا.سوال:.کیا بلڈنگ کنسٹرکشن میں استعمال ہونے والی مشنری شٹرنگ میٹریل بطور جائیدا دوصیت میں درج ہوگا.جواب:.کسی بھی قسم کا کاروبار ہو چاہے وہ فیکٹری / میل یا کنسٹرکشن کمپنی ہو ، وہ صرف اس حد تک موصی کی جائیداد شمار ہوگی.جس حد تک موصی کا حصہ ہوگا.مثلاً اگر کسی فیکٹری / مل یا کنسٹرکشن کمپنی کی کل مالیت اس کے اثاثے ، بنک بیلنس وغیرہ کی مالیت ایک کروڑ ہو اور اس کا روبار کے ذمہ واجب الاداء بنک کا قرضہ اور دیگر واجبات کی مالیت ۶۰ لاکھ ہو تو موصی کا حصہ ۴۰ لاکھ روپے بنے گا.اور وہ اس کی جائیداد شمار ہوگی.جس پر وہ حصہ جائیداد ادا کرے گا.یعنی کل اثاثے منفی کل قرضہ اور دیگر واجبات = موصی کا حصہ جس پر چندہ حصہ جائیداد ادا ہو گا.اور کاروبار پر حصہ جائیداد عموماً موصی کی وفات پر ہوتا ہے.لیکن اگر وہ اپنی زندگی میں ادا کرنا چاہے تو مندرجہ بالا طریق کے مطابق اسکے کاروبار کے تمام اثاثہ جات کی تشخیص کے بعد اس کمپنی یا کاروبار کے ذمہ قرض اور دیگر واجبات کو منہا کر کے بقایا اثاثہ جات پر حصہ جائیدا دادا ہوگا.وفات و کتبہ جات سے متعلق سوال: کیا مقامی مقبرہ موصیان کے انتظام و انصرام اور تدفین کیلئے وہی قوانین ہیں جو بہشتی مقبرہ ربوہ

Page 181

مالی قربانی 173 ایک تعارف کیلئے ہیں یا ان سے کچھ مختلف ہیں؟ جواب:.(1) مقبرہ موصیان میں تدفین کے قواعد وشرائط مکمل طور پر وہی ہیں جوکسی موصی کی بہشتی مقبرہ میں تدفین کے لئے لازمی قرار دئے گئے ہیں.جیسا کہ قواعد میں درج ہے کہ کسی موصی کی تدفین سے قبل اسکے حصہ آمد کی ادائیگی مکمل طور پر لازمی ہوگی.البتہ جائیداد کے بارہ میں استثناء رکھا گیا ہے.اگر کسی موصی کا حصہ جائیداد مکمل ادانہ ہوا ہو تو اسکی ادائیگی کے بارہ میں قابل اعتماد ضمانت لے لینے پر تدفین ہو سکے گی.کسی بھی موصی کی وفات پر تدفین سے قبل ضروری ہے کہ موصی کے حساب حصہ آمد و جائیداد کے بارہ میں مرکز سے حساب منگوا کر اس کی روشنی میں سابقہ بقایا جات وصول کئے جائیں.(۲) بیرون ممالک میں جو مقبرہ موصیان قائم ہیں ایسے مقبروں کو بہشتی مقبرہ کا نام نہیں دیا جا سکتا.یہ مقبرہ موصیان کہلاتے ہیں.(۳) مقبرہ ہائے موصیان بیرون کے انتظام وانصرام کے لئے جو کمیٹی بنتی ہے.اس کا صدر نیشنل امیر جماعت اور سیکرٹری نیشنل سیکرٹری وصایا ہوتا ہے.نیشنل سیکرٹری مال اور مبلغ انچارج بھی اس کے ممبر ہوتے ہیں.کل ممبران کی تعداد پانچ سے سات تک مناسب ہوتی ہے.اور قورم تین ممبران کا ہوگا.اس کمیٹی کا یہ کام ہو گا کہ وہ اپنے ملک میں وصیت کی تحریک کرتی رہے.اور موصیان کی تدفین اور مقبرہ موصیان سے متعلقہ امور سرانجام دے.سوال کیا کمیٹی برائے تدفین قبرستان کی نگہداشت کیلئے مقامی حالات کے پیش نظر کوئی رقم مقرر کر سکتی ہے؟ جو ہر موصی کی وفات پر اُس کے ورثاء سے لی جائے.کیونکہ عام قبرستان میں بھی تدفین کیلئے کچھ نہ کچھ رقوم لی جاتی ہیں.جواب:.اگر کسی ملک میں ایسی کوئی ضرورت پیدا ہوتی ہے تو مناسب ہوگا کہ اس بارہ میں کمیٹی کی معین رائے مکمل وضاحت کے ساتھ امیر صاحب کی وساطت سے مرکز بھجوائی جائے تا کہ بعد غور و جائزہ فیصلہ ہو سکے.سوال: کتبہ لگانے کے اخراجات کس کے ذمہ ہونگے.جواب:.بعد وفات موصی / موصیه، تر که وغیرہ کی مکمل رپورٹس منگوانے کے بعد ادا ئیگی مکمل کروا کر دفتر اپنی

Page 182

مالی قربانی 174 ایک تعارف طرف سے موصی کا کتبہ لگاتا ہے.جو کہ عام سٹینڈرڈ سائز کا ہوتا ہے.لیکن اگر در ثاء خود کتبہ لگوانا چاہتے ہوں تو اس کے لئے تحریری طور پر سیکرٹری مجلس کار پرداز کو درخواست دینی ہو گی ، اور نمونہ عبارت دیگر اسکی منظوری لینی ہوگی.ورثاء اگر خود کتبہ لگوا ئیں تو اس کتبہ کا مقرر شدہ سائز ہے سائز کتبہ :.لمبائی 24 انچ اور چوڑائی 15 اینچ کتبہ کی عبارت کا نمونہ حسب ذیل ہے...ولدیت زوجیت مزار سکونت تاریخ بیعت تاریخ وفات..وصیت نمبر.(1).......دسویں حصہ سے زائد کی وصیت ہو تو اُس کا ذکر.(۲) امتیازی خصوصیات ، خدمات اور واقعات کا مختصر ذکر.تاریخ پیدائش (۳) حضرت مسیح موعود یا خلفائے کرام نے کوئی تعریفی کلمات فرمائے ہوں تو اُن کا ذکر.عبارت کی منظوری سیکرٹری مجلس کار پرداز دیں گے.بیرونی ممالک میں مقبرہ موصیان میں لگائے جاے والے کتبہ جات کے متعلق بھی یہی طریق ہے.سوال:.ترکہ میں تجہیز اور تدفین کے اخراجات وضع کرنے کے بارہ میں شرعاً کس حد تک جواز ہے.اب:.حضرت مسیح موعود کے زمانہ سے ہی وصیت فارم کے شروع میں شق اول کے تحت موصی درج ذیل اقرار کرتا ہے " کہ میرے مرنے کے بعد نعش کو بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن کرنے کیلئے قادیان پہنچایا جائے.بشرطیکہ اور نعش کو قادیان پہنچانے کے اخراجات اگر میں فوت ہونے سے پہلے خزانہ صدرانجمن احمد یہ میں جمع نہ کروا سکا تو میری جائیداد متروکہ میں سے وضع کئے جائیں.لیکن ایسے اخراجات کا اثر اس حصہ جائیداد پر نہ پڑے گا جو میں اس وصیت کی رُو سے صدر انجمن احمد یہ کودیتا ہوں".اسی طرح حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ سے اس بارہ میں سوال کیا گیا تو حضور نے فرمایا:.سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں تجہیز و تدفین وغیرہ امور کے بارہ میں موصی جو اقرار کرتے تھے وہی جاری رہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی

Page 183

مالی قربانی ضرورت نہیں." متفرق سوالات 175 ایک تعارف سوال: اگر کسی شخص کی کوئی آمد نہ ہے تو کیا وہ وصیت کر سکتا ہے؟ اگر کر سکتا ہے تو کس شرح سے اپنی وصیت ادا کرے گا ؟ جواب:.ایسا شخص جس کی کسی قسم کی آمد یا جائیداد نہ ہے.اس کے لئے وصیت کرنا ضروری نہیں ہے.تاہم اگر کسی شخص کے پاس مناسب جائیداد ہے لیکن آمد کا کوئی ذریعہ نہ ہے ( مثلاً شادی شدہ گھر یلو خاتون ) تو وہ اپنے رہن سہن کے لحاظ سے کوئی ایسی مناسب رقم بطور جیب خرچ معین کر سکتی ہے جس پر وہ اپنا چندہ ادا کر سکے.سوال: اگر کوئی شخص جس نے کسی وجہ سے چندہ عام میں معافی حاصل کر رکھی ہو.کیا وہ بعد میں وصیت کر سکتا ہے؟ جواب:.اگر کسی دوست نے قبل از وصیت چندہ عام میں اپنی کسی مجبوری کے تحت حضرت خلیفہ المسیح سے معافی حاصل کی ہو اور پھر وہ چندہ عام با قاعدہ ادا کر رہے ہوں، تو وصیت کرنے میں کوئی قاعدہ مانع نہیں.سوال: کیا مقروض کی حالت میں وصیت کرنا جائز ہے؟ جواب:.اگر وصیت کنندہ کی آمد اور جائیداد کے ساتھ دیگر شرائط مکمل ہیں تو وصیت کرنے میں کوئی قاعدہ روک نہ ہے.اور قرض وصیت کی راہ میں روک نہ ہے.کیونکہ قرضہ کی زندگی میں تو کوئی حیثیت نہیں ہوتی.مقروض کی حالت کا جائزہ لینا ضروری ہے.اگر تو قرض لے کر کوئی جائیداد بنائی ہے جس سے آمد ہو رہی ہے یا قرضہ لے کر کوئی کاروبار شروع کیا ہے اور اس سے آمد ہو رہی ہے تو ایسی صورت میں وصیت کر سکتے ہیں.لیکن اگر کسی فرد جماعت کی اپنی کوئی آمد اور جائیداد نہیں اور اپنے مستقل گزارہ کے لئے قرض پر انحصار کر رہا ہے تو ایسے شخص پر وصیت کرنالازم نہیں.اور اس کی وصیت منظور نہیں ہوسکتی.سوال:- فارم وصیت پر بطور گواہ کس کے دستخط ہونے ضروری ہیں.جواب:.روئیداد اجلاس اول مجلس معتمدین صدر انجمن احمد یہ منعقدہ ۲۹ جنوری ۱۹۰۶ ء کے تحت ہدایات نمبر ۳.(ب) کے تحت درج ہے، کہ

Page 184

مالی قربانی 176 اور وصیت نامہ پر حتی الوسع بطور گواہ ورثا یا شرکائے وصیت کنندہ کے دستخط ہوں.اور ساتھ ہی شہر یا گاؤں کے دو معزز گواہ ہوں." سوال:.اعلان وصیت کی کیا شرح ہے؟ ایک تعارف جواب:.وصیت کی تشہیر کے اخراجات کیلئے کوئی رقم معین نہیں ہے.ملکی حالات کے مطابق اس میں تبدیلی آتی رہتی ہے.امیر صدر جماعت مرکز کو اس بارہ میں سفارش پیش کر کے منظوری لیتے ہیں.سوال:.چندہ شرط اول کی کیا شرح ہے؟ جواب:.چندہ شرط اول کے بارہ میں راہنما اصول یہی ہے کہ خواہشمند موصی اپنی حیثیت کے مطابق ادا کرے تاکہ قبرستان کی ترتیب و تزئین کے اخراجات کو پورا کیا جا سکے.نیز بوقت ادا ئیگی اپنی آمد ، اثاثے اور مقبرہ موصیان کی ضروریات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے.سوال :.ترکہ کی تعریف کیا ہے اور اس میں کون کون سی اشیاء شامل ہیں.جواب:.موصی کی وفات پر اس کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ اس کا ترکہ شمار ہوگی.اس جائیداد میں موصی کا مکان، زمین، زیورات، نقد رقم ، بانڈز ، شیئر ز وغیرہ سب شامل ہیں.غرضیکہ وہ سب اشیاء جو ورثاء میں قابل تقسیم شمار ہوتی ہیں وہ موصی کا ترکہ ہے.تاہم حصہ جائیداد کی ادائیگی کیلئے ان میں سے گھریلو استعمال کی ضروری اشیاء مستثنی ہیں.سوال:.جماعتی نظام کے تحت کی گئی وصیت اور مقامی طورپر کی گئی کسی دوسری وصیت کی صورت میں کیا شکل بنے گی؟ جواب:.ہر ایک موصی جماعتی نظام کے تحت کی گئی وصیت کی تعمیل کا مکمل طور پر پابند ہوگا اور اس پر حسب تحریر عمل ہوگا.وصیت کنندہ سے اسی لئے جماعتی نظام کے تحت یہ تحریر لی جاتی ہے کہ یہ اس کی آخری وصیت ہوگی.یعنی وہ بعد میں کوئی ایسی وصیت نہیں کر سکتا جو کسی صورت میں اس وصیت پر اثر اندازا ہو سکے.لہذا مقامی طور پر کی گئی کوئی وصیت جماعتی نظام کے تحت کی گئی وصیت سے متصادم نہ ہو سکے گی.بلکہ صدرانجمن کے حق میں کیا گیا حصہ مقامی وصیت میں ایک قرض کے طور پر ظاہر ہونا چاہئے.

Page 185

مالی قربانی 177 ANNEXURE II ایک تعارف بجٹ فارم میں دی گئی تمام مدات ذیل میں درج کر دی گئی ہیں نیز یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ کس مد کے تحت کسی قسم کی آمد یا اخراجات آئیں گے.اس لئے بجٹ کی تیاری کے وقت اور دوران سال ان مدات کو مد نظر رکھیں.INCOME Regular Income ذرائع آمد Regular Income Chanda 'Am | چندہ عام سے ہونے والی آمد (Chanda Wasiyyat (Hissa Amad | چندہ وصیت (حصہ آمد ) سے ہونے والی آمد (Chanda Wasiyyat (Hissa Jaidad | چندہ وصیت (حصہ جائیداد ) سے ہونے والی آمد Chanda Jalsa Salana | چندہ جلسہ سالانہ سے ہونے والی آمد Chanda Tahrik Jadid | چندہ تحریک جدید سے ہونے والی آمد Chanda Waqf Jadid | چندہ وقف جدید سے ہونے والی آمد MTA International | احمد یہ مسلم ٹیلی ویثرن کے لئے لیا جانے والا چندہ Miscellaneous Chandas باقی ہر قسم کے متفرق چندہ جات Profits / Refunds / Interest بنگنگ پرافٹ اور کسی قسم کے Refunds سے حاصل ہونے والی آمد، اسی طرح اشاعت اسلام کے تحت حاصل ہونے والی آمد اس کے تحت ایک سب ہیڈ میں ظاہر کی جائے گی.....Loan from | مرکز یا کسی بھی ذریعہ سے قرض کی صورت میں دی گئی امداد Income from سنٹرل ریزرو، مرکز یا نصرت جہاں ریزروفنڈ سے حاصل کردہ i) Central Reserve) گرانٹ سے آمد (ii).Headquarters (iii).Nusrat Jehan Reserve (vi).

Page 186

مالی قربانی Conditional Income Conditional Income 178 ایک تعارف ذرائع آمد Literature & Library Income | لٹریچر اور لائبریریوں کے لئے مختلف ذرائع سے i) from Sale) ملنے والی رقوم (ii) as Grant from Regular Income (iii) from Central Reserve (IV) from Donation (V).......Development Income Development Income Sadaqat | صدقات سے آمد Zakat زکوۃ سے آمد Fitrana | فطرانہ سے آمد Id Fund' عید فنڈ سے آمد Fidya | فدیہ سے آمد Miscellaneous | دیگر متفرق آمد Income arising :- ذرائع آمد Through donation | عطیات سے ہونے والی آمد From Regular Income budget ریگولر انکم سے لی گئی رقوم From Central Reserve Grant from Headquarters سنٹرل ریز رو سے لی گئی رقوم مرکز سے حاصل کی گئی رقوم As Rental Income from any property جماعت کی عمارات جو کہ کرایہ پر دی گئی ہوں، ان سے ہونے والی آمد From sale of any property جماعت کی کوئی پراپرٹی اگر فروخت ہوئی ہو، تو وہ آمد

Page 187

مالی قربانی 179 EXPENDITURE Regular Expenditure|| ایک تعارف Regular Expenditure تفصیل اخراجات Establishment مبلغین ، معلمین ، کارکنان کے الاؤنسز سہولیات اور بینیفٹس وغیرہ پر ہونے والے اخراجات Travelling & Meetings | روز مرہ اجلاسات اور سفر سے متعلق اخراجات یعنی Fuel چارجز اور TA / DAوغیرہ Entertainment | مہمان نوازی پر ہونے والے اخراجات Rent / Rates and Taxes ہر قسم کی جماعتی املاک کا کرایہ اور گورنمنٹ Rates اور Taxes کے اخراجات Printing and Stationary آفس سٹیشنری ، رسید بکس اور پیڈز وغیرہ کی چھپائی کے اخراجات Postage, Telephone & Faxes | Postage / Telephone / Faxes کے اخراجات Newspapers, Books and Periodicals | اخبارات، رسائل اور کتابوں کے اخراجات Vehicles Repair and Maintenance اور Properties کی مرمت پر ہونے والے i).Vehicles) اخراجات.یہاں پر Properties میں ہرقسم کی بلڈنگ ii).Properties) کمپیوٹر ،Equipments وغیرہ کی مرمت شامل ہے.Jalsa Salana | جلسہ سالانہ کے ہونے والے اخراجات Literature & Publications | لٹریچر اور ہر قسم کی طباعت پر ہونے والے اخراجات Utilities بجلی ، گیس اور پانی کے اخراجات Computer and Audio / Video | Computer and Audio / Video سے متعلقہ نیز TV پروگرام بنانے اور سمعی و بصری شعبہ کیلئے روز مرہ کے معمول کے اخراجات

Page 188

مالی قربانی 180 ایک تعارف Medical and Educational Aid علاج اور تعلیم کے لئے دی گئی مدداور قرض پر ہونے والے اخراجات Contingency Reserve ایمر جنسی ضروریات پر ہونے والے اخراجات نیز برائے اضافہ جات دوران سال Insurance / Bank charges ہر قسم کی انشورنس، بنک چارجز ، چیک بک ، بنک ڈرافٹس وغیرہ پر ہونے والے اخراجات.مزید برآں اس کے تحت مختلف سب ہیڈ ز کھول کر ان اخراجات کو الگ الگ ظاہر کیا جاسکتا ہے Grant to Branches | مقامی جماعتوں کو دی جانے والی رقوم Grant to Nusrat Jehan Projects مجلس نصرت جہاں کے پراجیکٹس کے لئے دی جانے والی رقوم Miscellaneous | مندرجہ بالا مدات کے علاوہ اخراجات Repayment of Loan | مرکز سے یا کہیں سے بھی لئے گئے قرض کی واپسی Payment to Central Reserve % 25 Chanda 'Am چندہ عام سے مرکز کا حصہ % 25 Wasiyyat Hissa Amad | چندہ وصیت حصہ آمد سے مرکز کا حصہ 100% Wasiyyat Hissa Jaidad | چندہ وصیت حصہ جائیداد سے مرکز کا حصہ 100 % Tahrik Jaid | چندہ تحریک جدید سے مرکز کا حصہ 100% Waqf Jadid چندہ وقف جدید سے مرکز کا حصہ 100% MTA International | چندہ MTA سے مرکز کا حصہ Conditional Expenditure Conditional Expenditure تفصیل اخراجات Literature & Library | لٹریچر اور لائبریریوں پر ہونے والے اخراجات Sadaqat صدقات سے دی جانے والی رقوم Zakat زکوۃ سے دی جانے والی رقوم Id Fund عید فنڈ سے دی جانے والی رقوم Fitrana فطرانہ سے دی جانے والی رقوم

Page 189

مالی قربانی Payment to Central Reserve 75 % 25% 181 Fidya فدیہ سے دی جانے والی رقوم Miscellaneous متفرق اخراجات کیلئے خرچ کی جانے والی رقوم i) (i) Sadaqat) صدقات سے مرکز کا حصہ ii) (ii) Zakat) زکوۃ سے مرکز کا حصہ % 100 iii) (iii) 'Id Fund) عید فنڈ سے مرکز کا حصہ % 10 iv) (iv) Fitrana) فطرانہ سے مرکز کا حصہ Development Expenditure| Development Expenditure تفصیل اخراجات ایک تعارف Land / Plots / Buildings نئی خرید کرده یا تعمیر کردہ جماعتی املاک اور اس پر ہونے i).Mosques) والے اخراجات (ii).Mission Houses (iii).Others Furniture and Fixtures فرنیچر، کرسیاں ، میز، ریکس ، پنکھے ،.A.C اور کار پٹ وغیرہ کی خرید کے اخراجات Vehicles نئی خرید کردہ گاڑیوں پر اٹھنے والے اخراجات Office Equipment آفس کی ضرورت کے لئے خریدی گئی اشیاء مثلاً کمپیوٹرز، فیکس مشین، فوٹو کاپی مشین، پرنٹرز ہکینر وغیرہ کے اخراجات T.VV.C.R | Audio / Video Equipment ، کیمرہ، ریسیورز، ڈش انٹینا وغیرہ کی خرید کے اخراجات

Page 190

ایک تعارف x/ 182 ANNEXURE III مالی قربانی نمبر شمار 1 2 3 4 5 6 7 8 9 مجوزہ بجٹ برائے منظوری وکالت مال لندن بھجوانے سے قبل درج ذیل امور کا جائزہ لے لیا جائے:.تفصیل کیا جماعت کے برسر روزگار افراد کی کل تعداد ( مردوزن ) دی گئی ہے.کیا تمام افراد کو افراد بجٹ میں شامل کیا گیا ہے؟ کیا جو افراد بجٹ میں شامل نہ ہیں انکی تعداد بجٹ کے ساتھ بھیجوائی جارہی ہے؟ جو افرا درعایتی شرح سے بجٹ میں شامل ہیں، انکی تعداد ساتھ بھجوائی جا رہی ہے؟ کیا رعایتی شرح سے ادا ئیگی کے لئے حضور انور سے منظوری حاصل کی گئی ہے کیا رعایتی شرح حاصل کرنے والے افراد کی آمد صحیح درج کی گئی ہے ؟ کیا بجٹ میں شامل ہونے والے افراد کی آمد صحیح درج کی گئی ؟ کیا نو مبائعین کو بجٹ میں شامل کیا گیا ہے ؟ کیا بجٹ فنانس کمیٹی میں منظوری کے لئے پیش کیا گیا ؟ 10 کیا فنانس کمیٹی کی منظوری کے بعد مجلس عاملہ نے اس کا جائزہ لے لیا ہے ؟ 11 کیا مجلس عاملہ کے بعد بجٹ نیشنل مجلس شوریٰ میں پیش کیا گیا ہے ؟ 12 لوکل فنڈ کو تو بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا ؟ 13 انصار، خدام اور لجنہ اماءاللہ کے چندہ جات کو تو نیشنل بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا ؟ 14 ریگولر اخراجات میں سے درج ذیل مدات کے اخراجات کی تفصیل بجٹ کے ساتھ بھجوائی گئی ہے؟ Establishment_i Rent / Rates and Taxes-ii Contingency Reserve_iii Repayment of Loan_iv Grant to branches-v

Page 191

مالی قربانی نمبر شمار 15 16 17 18 183 تفصیل کیا ڈویلپمنٹ اخراجات کے تحت سال بھر میں تمام مدات میں ہونے والے اخراجات کی تفصیل بجٹ کے ساتھ بھجوائی گئی ہے ؟ کیا بلڈنگز / مساجد بنانے کے لئے اخراجات کے تخمینہ کو بجٹ میں شامل کیا گیا ؟ کیا سنٹرل ریز روکو بجٹ میں الگ کر کے دکھایا گیا ہے ؟ کیا تینوں بڑے ہیڈز کے آمد و خرچ کے بجٹ برابر ہیں ؟ ایک تعارف x//

Page 192

ایک تعارف x// 184 ANNEXURE IV مالی قربانی چیک لسٹ برائے تیاری ماہانہ گوشوارہ جات ماہانہ مالی گوشوارہ مرکز بھجواتے وقت درج ذیل چیک لسٹ کے مطابق چیک کر کے بھجوایا جائے:.نمبر شمار تفصیل 1 کیا ماہانہ مالی گوشوارہ مرکز سے منظور شدہ Format کے مطابق ہے ؟ 2 کیا مینوں ہیڈز کے منظور شدہ بجٹ اپنی متعلقہ مدات کے سامنے درج کر دیئے گئے ہیں.3 مرکز سے منظور شدہ مدات کے علاوہ کسی نئی مد کا اضافہ تو نہیں کیا گیا ہے ؟ اگر نئی بد کا اضافہ کیا گیا ہے تو کیا اس کی منظوری مرکز سے حاصل کی گئی ہے ؟ 5 کیا تینوں ہیڈ ز میں آمد و خرچ برابر ہیں ؟ اگر کسی بیڈ کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے سنٹرل ریز روا نیشنل بجٹ امرکز یا نصرت جہاں سے گرانٹ لی گئی ہے تو کیا اسے متعلقہ ہیڈ میں آمد کے تحت درج کیا گیا ہے ؟ 7 کیا مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر نیز دیگر ترقیاتی اخراجات کیلئے حاصل کردہ رقوم اور اس تعلق میں کئے گئے اخراجات کو مالی گوشوارہ میں ان کی متعلقہ مدات میں درج کیا گیا ہے.؟ کیا کسی ہیڈ کے بجٹ کو از خود تبدیل تو نہیں کیا گیا ؟ و کیا ایک مد کے بجٹ کو دوسری مد کے تحت تو خرچ نہیں کیا گیا ؟ ہاں کی صورت میں وجہ تحریر کریں.10 کیا تبلیغ ، تربیت اور تعلیم کی الگ مدات تو نہیں بنائی گئیں ؟ 11 کیا سنٹرل ریز روکو قواعد کے مطابق الگ کیا گیا ہے ؟ 12 کیا سنٹرل ریز روکو اخراجات میں ظاہر کیا جا رہا ہے ؟ 13 کیا سنٹرل ریز روکو الگ بنگ اکاؤنٹ میں رکھا جا رہا ہے ؟ 14 اگر سنٹرل ریز رو سے کوئی رقم خرچ کی گئی ہے.تو کیا اس کی اجازت حاصل کی گئی ہے؟ 15 کیا مرکز سے لی گئی اجازت کا حوالہ مالی گوشوارہ کے ساتھ بھجوایا جا رہا ہے ؟

Page 193

مالی قربانی نمبر شمار 185 تفصیل 16 کیا مرکزی اور لوکل امانات کو آمد و خرچ کے گوشوارہ میں تو درج نہیں کیا گیا ؟ 17 کیا مرکزی اور لوکل امانات کے آمد و خرچ کی الگ رپورٹ بھجوائی جا رہی ہے ؟ 18 کیا چندہ حصہ آمد اور چندہ حصہ جائیداد کی وصولی کی اسموار تفصیل بمعہ وصیت نمبر گوشوارہ کے ساتھ بھجوائی جارہی ہے ؟ 19 کیا آمد وخرچ کی سمری بھجوائی جارہی ہے ؟ 20 کیا دوران ماہ تمام چندہ جات میں شامل چندہ دہندگان کی کل تعداد دی گئی ہے ؟ 21 کا ہر چھ ماہ بعد بنک سٹیٹمنٹ اور Reconciliation رپورٹ بھجوائی جارہی ہے؟ 22 کیا ماہانہ گوشوارہ ہر وقت ارسال کیا جار ہا ہے.ایک تعارف x/

Page 194

مالی قربانی 186 ANNEXURE V فارم وصیت دفتری استعمال کے لئے وصیت نمبر بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَلَهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ولد ، بنت زوجه، بیوه تاریخ پیداش عمر تاریخ بیعت ایک تعارف موجودہ پتہ مستقل پند- ضروری نوٹے (یہاں پیشہ کی نوعیت، ملازمت سرکاری نیم سرکاری پرائیویٹ کی نوعیت کا روبان تجارت کی نوعیت وضاحت سے لکھیں نیز اگر طالبعلم ہیں تو کلائی اور کوری لکھیں؟ بقائمی ہوش و حواس بالا جبر و اکراہ آج بتاریخ حسب ذیل وصیت کرتا کم کرتی ہوں.اول میں حضرت میرزاغلام احمد مسیح موعود بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ قادیان ضلع گورداسپور پنجاب کالہ کی بیرو ہوں اور ان کے تمام دعا وکی پر صدق دل سے ایمان رکھتا ر کھتی ہوں میں نے حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا رسالہ الوصیت محمر به ۲۳ دسمبر ۱۹۰۵ ء نعیمہ رسالہ الوصیت مورخہ 4 جنور کی ۱۹۰۶ ء و ریزولیوشن مجلس معتمدین صدر انجمن احمد یہ قادیان اجلاس اول منعقده ۲۹ جنوری ۱۹۰۲ء مصدر حضرت مسیح موعود بائی سلسلہ عالیہ احمد یہ تمام و کمال پڑھ اور سن لیا ہے.اور میں ان تمام ہدایات کا جو اس میں مندرج ہیں اپنے آپ کو پابند قرار دیتا کہ دیتی ہوئی.اور میں ان ہدایات کی روشنی میں وصیت کرنا م کرتی ہوں کہ میرے مرنے کے بعد فش کو بہشتی مقبرہ واقعہ قادیان میں دفن کرنے کے لئے قادیان پہنچایا جائے بیٹر یک مجلس کا رپرداز مصارح قبرستان کی طرف سے ایسا کرنے کی مجھے یا میرے بعد میرے ورثا کو اجازت حاصل ہو جائے اور نعش کو قادیان پہنچانے کے اخراجات اگر میں فوت ہونے سے پہلے خزانہ صدر انجمن احمد یہ ربوہ میں جمع نہ کر سکا اسکی تو میر کی جائیداد مترو کہ میں سے وضع کئے جائیں لیکن ایسے اخراجات کا اثر اس حصہ جائید او پر نہ پڑیگا جو میں اس وصیت کی رو سے صدر انجمن احمد یہ ریو و کو دیتا کر دیتی ہوں.دوم رسالہ الوصیت کے بعد مقدر ہدایات یا احکام حضرت خلیرہ آتی اور اللہ تعالی تصرم احزیز کی طرف سے یا صدر انجمن احمدیہ پاکستان ریو یا صدر انجمن احمد به او این با مجلس کارپردار مصالح قبرستان قادریان / ربوہ کی طرف سے متعلق مقیرہ بہشتی یا موسیان جار گیا ہو گے ان ہدایات اور احکام کا جہاں تک وصیت سے تعلق ہے میں اور میر ے ورنہ ویا بند ہوں گے.موم میری وصیت جو میر کی آخری وصیت ہے ہر طرح صحیح اور قائم رہے گی خواد میری نعش بہشتی مقبرہ میں دفن ہو سکے یا نہ ہو سکے.چہارم.میں اقرار قانونی اور شرعی کرنا کم کرتی ہوں کہ اپنی وصیت کے حوالے سے جس نوعیت کا چند بھی ادا کروں گا گی و محض اللہ ادائیگی ہوگی اور مجھے اور میر سے کسی مزیز یا وارث کو کبھی اور کسی حالت میں ہی ادا شد و چندہ کی واپسی کے مطالبہ کا حق نہ ہوگا.پنجم: میں نے اپنی حیثیت کے لحاظ سے مسلط روپے چند شرط اول کے طور پر اور مبلغ روپے اعلان وصیت کے لئے بذریعہ رسید نمیر مقامی جماعت خزانہ صدر الیمین احمدیہ پاکستان ربوہ میں ادا کر دیتے ہیں.مورة 1 قوٹ:- یہاں وصیت کننده اپنی آمد، جائیداد اور شرح وصیت وغیرہ کا اندراج کرے.نیز کوئی اندراج مشکوک و مشکوک نہ ہو اور صاف ہو، دو قلموں یا سیاہیوں سے لکھا نہ ہو.میں وصیت کرتا کرتی هوں که میری وفات پر میری کل مترو که جائیداد منقوله و غیر منقوله کی.حصہ کی مالک صدر انجمن احمدیه پاکستان ربوه هو گی اس وقت میری کی جائیداد منقوله و غیر منقولہ کی تفصیل حسب ذیل ھے جس کی موجودہ قیمت درج کر دی گئی ھے اس وقت میری کوئی جائیداد نہیں ھے.

Page 195

مالی قربانی 187 ایک تعارف روپے ماهوار/ سالانه بصورت.کل رهے هیں اور مبلغ روپے سالانه اس وقت مجھے مبلغ.آمد از جائیداد هے.میں تازیست اپنی ماهوار/ سالانه المذ کا جو بهی هو گی 1 حصه داخل خزانه صدر انجمن احمدیه پاکستان ربوه کرتا رھوں گار کرتی رھوں گی.اور اگر اس کے بعد کونی جائیداد یا آمد پیدا کروں تو اس کی اطلاع مجلس کارپرداز کو دیتار ھوں گا دینی رہوں گی اور اس پر بھی یہ وصیت حاوی هرگی میں اقرار کرتا / کرتی ہوں کہ اپنی جائیداد کی آمد پر حصه آمد بشرح چنده عام تاریست حسب قواعد صدر انجمن احمدیه پاکستان ربوہ کو ادا کرتا هوں گا کرتی رھوں گی میری به وصیت تاریخ تحریر منظوری وصیت سے نافذ کی جائے.ولد بیت.گواه شد دستخط و نشان انگوٹھا العبد الامير دستخط ونشان انگوٹھا ولدبیت.ولد ، بنت زوجه - عمل گواه شده و مستخط و نشان انگوٹھا ضروری نوٹ : وصیت کند و او ر امیران کو ایران خواہ و الہ و ہولی یاتا شوالہ و.اپ کو تا ہو اہیر کے ساتھ منان اگر شما ضرور کی نگاہ میں اور جو خوالہ و ہیں و دوست بھی کریں.اور مردیا کھا تے کا اور عورت دا کیا تھے کا اگر شما نگا ہے.تصدیق میں پورے صدقی اور دیانتداری سے تصدیق کرتا ہوں کہ جہاں تک میرا علم ہے وصیت کرنے والا والی مسلمی / مسماة ساکن ولد بنت از وجه جہاں تک اس کے لئے ممکن ہے پابند احکام دین ہے اور تقوی طہارت کے امور میں کوشش کرنے والا والی ہے اور احمدی خدا کو ایک جانے والا کروالی اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے والا والی ہے اور تیز حقوق عبار نصب کرنے والا) والی نہیں ہے.ن جو کچھ وصیت کنندہ نے وصیت فارم میں اپنی جائیداد اور آمد درج کی ہے وہ درست ہے.عملیات و ستخط مصدق نمبرا متحمل نوشته مصدق نمبر ۳ د ستخط صدر لجنه ( بصورت خواشین) دستخط مصداق نمبر ۲ نکھل ته

Page 196

مالی قربانی 188 ایک تعارف P ا: ۱۳ سوالات نام وصیت کننده مع ولدیت ا نر و جیت تصدیق کوائف وصیت کنندہ.کیا نظام جماعت کے ساتھ اطاعت و تعاون اور احترام کی روح میں صف اول کے شمار ہو سکتے ہیں ؟ ذیلی تنظیموں کے کام میں دیچیپی اور تعاون کا نمایاں جذبہ ہے؟ وصیت کنندہ کے خلاف کبھی کوئی تعزیری کا روائی تو نہیں ہوئی ؟ اس کی نوعیت واضح ہونی چاہئے اس سے قبل وصیت کنندہ کی وصیت منسوخ انا منظور تو نہیں ہوتی ؟ کیا ریٹی پردہ کے احکامات اور روح کی حفاظت کی جاتی ہے؟ صاحب اولاد مرد کی صورت میں بیوی اور بچیاں اگر کوئی ہوں تو ریٹی شعار پر رہ وغیرہ کی پابند ہیں؟ مائی لین دین اور معاملات میں کردار بے واقع ہے؟ تا بلی زندگی میں میاں بیوی کا نمونہ احمدیت کی تعلیمات کے منافی تو نہیں؟ ذریعہ معاش یا کاروبا را پیا التیار تو نہیں کیا بوعرفنایا شرمانا سنت پر ٹھہرتا ہو؟ وصیت سے قبل کوئی جائیداد بصورت پیدا تقسیم اگر اولا دیا کسی دوسرے کے نام نقل کر چکے ہیں تو ذکر کریں کتنی جائیدار اور کب کی ؟ گھر کے رہن مہن کے لحاظ سے کپڑوں، کھانے پینے اور روز مرہ کی سہولتوں پر اند انر نما ہوا ر اوسط شرح فی کس کیا ہے؟ ۱ اگر کوئی ایسی جائیداد ہے جو وصیت کنندہ نے اپنے پیسوں سے اپنے بیٹوں یا کسی رشته را ریا واقف کار کے نام خریدی ہو تو اس جائیداد کی تفصیل منبع قیمت لکھیں.والدین کی اولا دیا خاوند بیوئی سے تڑکہ میں ملنے والی جائیداد کی تفصیل بھی تحریر کریں کیا تمام تر کہ شامی وصیت کیا گیا ہے.اگر شامل نہیں کیا گیا تو کیوں؟ ۱۴: کیا وصیت کنندہ کے خاوند بیوی ، والد، والدہ کی وصیت ہے؟ ۱۵: (۱) وصیت کنندہ کی عمر ۶۰ سال یا زائد ہے تو تحریر کر لیں کہ انکی زیادہ سے زیادہ ماہانہ یا سالانہ آمدن کیا رہی ہے؟ ( ب ) اس سے قبل وصیت کیوں نہیں کر سکے؟ وصیت کنندہ نے وصیت صحت کی حالت میں مکی ہے؟ کا کیا اولاد وصیت کنندہ کی مالی اعانت کرتی ہے؟ اگر کرتی ہے تو کسی قدر؟ ۱۸ وصیت کنندہ کے زیر کفالت کتنے افراد ہیں؟ نوٹ :.تمام سوالات کے جوابات واضح لکھیں.ہاں یا نہ کافی نہیں.تصديق بابت چنده جات جوابات ا وصیت کنندہ ہماری جماعت میں عرصہ سے لازمی چندہ جات با شرح با قاعدہ ادا کر رہا ہے اور بقایا وارنہ ہے نیز دیگر مالی تحریکات اور ذیلی تنظیم کے چندہ جات میں بھی حسب توفیق شامل ہے.2 ہم میران مجلس عاملہ تصدیق کرتے ہیں کہ مندرجہ بالا کوا تک اور جوابات درست ہیں.وصیت کنند دوصیت کے نظام میں شامل ہونے کے قابل ہے.دستخط امیر لمصدر جماعت دستخط سیکریٹری مال و ستخط عهدید ارزی تنظیم

Page 197

مالی قربانی 189 ایک تعارف |: مدايات ) وصیت تحریر کرنے سے پہلے رسالہ الوصیت نھیمہ اور فیصلہ جاتے کو پڑھ یا سن لینا چاہئے اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وصیت کی سب سے مقدم شرط یہ ہے کہ.موصی نیک، پابند احکام شریعت، دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا سچا اور پاک وصاف مخلص احمدی ہو.وصیت تندرستی کی حالت میں کی جاوے.مرض الموت کی وصیت منظور نہ ہوگی.جسمی وصیت میں جائیدا وغیر منقولہ درج ہواس پر حتی الوسع موصی کے ورثاء اور شرکاء کے دستخط ہونے چاہئیں.۴ عورت کی وصیت پر اگر اس کا خاوند زندہ ہے تو اس کی گواہی درج ہونی چاہئے.حق مہر بھی عورت کی جائیداد ہے جو شامل وصیت ہونا چاہتے.اس وضاحت کے ساتھ کہ خامنہ سے وصول ہو چکا ہے یا اس کے ذمہ ہے.زیورات کی تفصیل میں زیور کا نام ، وزن اور اندازہ قیمت درج کیا جائے.اسی طرح خاوند کی یا ہوا ر آباد بھی درج کی جاوے اور خاوند کے موصی ہونے کی صورت میں اس کا وصیت نمبر بھی درج کیا جائے.2 9 : جس وصیت میں جائیدا وغیر منقولہ درج ہوا کس کو اپنے علاقے کے سب رجسٹرار سے سرکاری طور پر رجسٹری کروا لینا چاہتے.جن مومیان کے رستے میں جائیدا وغیر منقولہ کی وصیت کرنے میں کوئی قانونی روک ہو وہ جس قدر جا ئیداد کی وصیت کرنا چاہتے ہیں اسے اپنی زندگی میں بھی صدر انجمن احمد یہ پاکستان ربوہ کے نام ہبہ کر دیں اور جائیداد مو ہو بہ کا داخل اخراج صدرانجمن احمدیہ پاکستان ربوہ کے نام کروا کر منظور شدہ انتقال کی با قاعد نقل بھجوا دیں.اگر یہ مذکورہ میں رفت ہو تو جس قد رجائیدا رومیت کے وقت موجود ہے اس کی تفصیل فرنچ جائے وقوع وغیر ہ وصیت میں تحریر کر کے اس کی بازاری قیمت درج کر دی جائے.یہ قیمت موصی کو اپنی مقامی انجمن کے مشورہ سے درج کرنی چاہتے اور علیحدہ کاغذ پر مقامی پریذیڈنٹ کی طرف سے تصدیق بھجوانی چاہیئے کہ بازاری ریٹ کے لحاظ سے صحیح قیمت لگائی گئی ہے نیز یہ بھی تصدیق ہو کہ اس کے علاوہ موصی کی کوئی جائیدان نہیں ہے.ہر ایک موصی کا فرض ہو گا کہ حسب توا پر اپنی جائیدا و غیر منقولہ کی آمد پر چندہ حصد آمد بشرح چندہ عام ادا کرے ہر موصی کو اپنی جائیداد کے علاوہ اپنی ما ہوا تما مد پر بھی حصد وصیت ادا کرنے کا اقرار کرنا چاہتے اور حسب وحمیت چندہ حصہ آمد ماہ بہاو ادا کرنا چاہتے.نیز ہر موصی کا یہ بھی فرض ہو گا کہ اپنی کل سالانہ آمدن کی اطلاع ہر سال بمطابق جدول ج صیفہ بہشتی مقبرہ کو بھجوائے.حصہ آمد کی ادائیگی بمطابق وصیت تا ریخ تحریر منظوری سے شروع ہوگی.خواہ سرٹیفکیٹ بعد میں کسی وقت ملے.جو موصی وصیت کا چندہ یعنی حصہ آمد واجب ہو چکنے کے چھ ما وبعد تک حصہ آمد ادا نہیں کر پکایا ادائیگی شروع کر کے پھر بند کر دیگا اوردفتر مجلس کا ریر و از مصالح قبرستان ربوہ سے معذوری بتا کرا جازت بھی حاصل نہیں کریگا.اس کی وصیت تامل منسوخی ہوگی.صدر انجمن احمدیہ کو یا تیار حاصل ہوگا کہ کوئی وصیت منظور کرنے سے انکار کر دے یا بعد منظوری بلا وجہ بتائے منسوخ کر دے اور صدر انجمن احمدیہ کا فیصلہ ہر صورت میں ناطق ہو گا.سیکرٹری مجلس کا رپر را ز مصالح قبرستان ربوہ مضلع جھنگ) ========= تحریر خاوند بسلسله حق مهر = کے ماہر کو ادا کرنے کا ذمہ دار ہوں میری اس وقت ماہوار اسالانہ آمد ========= روپے کا حصہ وصیت صدر انجمن احمد یہ پاکستان ربوہ روپے ہے.میں اپنی بیوی مسماق ولد بیت عمل ہے گواه مشد نمبر 1 والد بیت ملة الحبيب ولید بیت.کمل گواه شد نمبر 2

Page 198

مالی قربانی 190 ANNEXURE VI ایک تعارف چیک لسٹ بابت فارم وصیت جب بھی کوئی ممبر جماعت وصیت کرنے کی خواہش کا اظہار کرے تو درج ذیل امور کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے وصیت فارم کو مکمل کروائیں.ا.کیا وصیت کنندہ نے رسالہ الوصیت کا بغور مطالعہ کر لیا ہے.۲.کیا وصیت کنندہ نے فارم وصیت اور فارم وصیت کی پشت پر دی گئی تمام ہدایات کا اچھی طرح مطالعہ کر لیا ہے.فارم وصیت مرکز بھجوانے سے قبل اس کا مندرجہ ذیل چیک لسٹ کے ساتھ موازنہ کر لیا جائے.۴.جب چیک لسٹ کے تمام جواب ہاں میں ہو جائیں تو پھر اس کے بعد فارم وصیت مرکز (ربوہ) بغرض منظوری بھجوایا جائے.تاکہ کم سے کم وقت میں وصیت کی منظوری کی کاروائی مکمل ہو سکے.۵- چیک لسٹ نیشنل سیکرٹری وصایا / مکرم امیر صاحب کے دستخط کے بعد فارم وصیت کے ساتھ بھجوائی جائے چیک لسٹ بابت فارم وصیت نمبر شمار 1 کیا وصیت فارم میں نام * پیشه ** کوائف ولدیت............زوجيت.......تاریخ پیدائش / عمر تاریخ بیعت موجودہ اور مستقل پتہ اور تاریخ وصیت..........وغیرہ کا اندراج ہو چکا ہے ؟ کیا وصیت کنندہ کی طرف سے حسب حیثیت چندہ شرط اول اور اعلان وصیت ادا شدہ ہے ؟ کیا مضمون وصیت میں تمام اندراجات مکمل کر لئے گئے ہیں؟ نام مکمل لکھا جائے.ہمخفف میں نہ لکھا جائے.x/ * * یہاں پیشہ سے مراد، ملازمت کی نوعیت (سرکاری رنیم سرکاری پرائیویٹ) ، مزدوری ، کاروبار تجارت کی نوعیت ، اور بصورت طالب علم ( کلاس رکورس اور عرصہ تعلیم ) وغیرہ کی وضاحت لکھیں.

Page 199

مالی قربانی 191 ایک تعارف نمبر شمار کوائف کیا فارم وصیت میں درج جائیداد کے کوائف مکمل ہیں ؟ ( اگر زمین ، پلاٹ، مکان ، دوکان ہو، تو رقبہ، ایڈریس اور موجودہ مالیت.اگر زیور وغیرہ ہو تو زیور کا نام ، وزن اور اندازہ قیمت کا اندراج نیز زیور کی قسم یعنی طلائی یا نفقر کی وغیرہ کی وضاحت ، اس کے علاوہ بنک بیلنس، نقدی، شیئر زوغیرہ اور ان کی تفصیل) کیا وصیت کنندہ اور دومرد گواہان کے نام، ولدیت ، ایڈریس اور دستخط معه نشان انگوٹھا مثبت ہیں؟ کیا فارم وصیت میں تاریخ درج کی گئی ہے کہ وصیت تاریخ تحریر سے قابل منظوری ہے؟ یا تاریخ منظوری سے؟ کیا دینی تصدیق فارم مکمل ہو چکا ہے ؟ اور تصدیق فارم پر دو مردوں اور خاتون ہونے کی صورت میں تیسری تصدیق صدر لجنہ کی موجود ہے؟ کیا فارم " تصدیق بابت وصیت کنندہ " میں والد / والدہ یا خاوند بیوی کی طرف سے ملنے والے ترکہ کی تفصیل درج ہے؟.(اگر کوئی ہو ) و کیا فارم " تصدیق بابت وصیت کنندہ" کے سوالات کے جوابات مکمل ہیں ؟ 10 کیا وصیت کننده چندہ عام کے بقایا دار تو نہیں؟ اگر بقایادار ہیں تو وضاحت منسلک کریں.11 کیا تصدیق بابت چندہ جات پر مکرم امیر صاحب، سیکرٹری مال اور ذیلی تنظیم کے عہدیدار کے دستخط موجود ہیں.؟ x/ 12 بصورت شادی شدہ خواتین وصیت کننده تحریر خاوند بسلسلہ حق مہر “ شامل ہے؟ 13 فارم وصیت پر کرتے ہوئے اگر کہیں کوئی کنگ کی گئی ہے.تو کیا اس پر وصیت کنندہ یا متعلقہ صدرا سیکرٹری مال) کے دستخط موجود ہیں؟ نوٹ :.اگر کسی سوال کا جواب نہیں کی صورت میں ہے یا قابل وضاحت ہے، تو اس کی تفصیل الگ ساتھ بھجوائیں.دستخط نیشنل سیکرٹری وصایا / امیر صاحب

Page 200

مالی قربانی جدول ج 192 ANNEXURE VII ایک تعارف اقرار / تصدیقی فارم متعلقہ ادائیگیاں چندہ حصہ آمد میں دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر خدا اس زمین کو میری جماعت میں سے ان پاک دلوں کی قبریں بنا جو فی الواقع تیرے لئے ہو چکے اور دنیا کی اغراض کی ملونی ان کے کاروبار میں نہیں.آمین یا رب العالمین " (الوصیت) مکرم وکیل المال صاحب (ثانی) تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان.ربوہ بتوسط مکرم امیر صاحب جماعت ا خاکسار کے حصہ آمد کی دوران سال.ادائیگیوں کی تفصیل آپ کی طرف سے موصول ہوئی.جوابات تحریر خدمت ہے کہ (۱) میں نے فارم ہذا کی پشت پر دی گئی ہدایات پڑھ لی ہیں اور اپنے ہر ذریعہ آمد کو ٹک کر کے دستخط کر دیئے ہیں اور (ب) حسب ذیل بیان دیتا / دیتی ہوں کہ: میری ادائیگیوں کا مرسلہ حساب درست ہے.میری کل ادا ئیگی.ہی ہے.اور میں شرط تقویٰ کو مد نظر رکھتے ہوئے تصدیق کرتا / کرتی ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنی مجموعی آمد پر جو کہ مختلف ذرائع سے حاصل ہوئی حسب قواعد تمام تر مکمل ادا کر چکا چکی ہوں.مزید برآں میری کل ادا ئیگی..زائداز واجب الاداء ادائیگی شامل ہے جو واجب الاداء حصہ آمد کہ سابقہ بقایا کی رقم ہے احمد از امدادا کی گئی ہے.(ب) میرے واجب الاداء حصہ آمد اور ادائیگی کے حساب کی رو سے بقایا حصہ آمد مبلغ.بنتا ہے.جو میں نے زیر رسید نمبر ادا کر دیئے ہیں جو میں انشاء الله..ماہ کے اندرادا کردوں گا گی اور اس کی وکالت مال ثانی کو بتوسط امیر جماعت اطلاع بھی کروں گا / گی.۲.میری ادائیگیوں کا مرسلہ حساب درست نہیں ہے میری ادائیگیوں کا اندراج نامکمل ہے.میری کل ادائیگی..دکھائی گئی ہے جبکہ میری اصل ادائیگی ہے.میں اپنی حصہ آمد کی ادائیگیوں کا حساب مع مکمل رسیدات نمبر.ہ ہمراہ شامل کر رہا / رہی ہوں.براہ کرم اس کے مطابق درستگی کی جائے.مزید برآں میری کل ادا ئیگی.(0) میں شرط تقومی کو مد نظر رکھتے ہوئے تصدیق کرتا / کرتی ہوں کہ میری جملہ آمد پر خدا تعالیٰ کے فضل سے حسب قواعد تمام تر واجب الاداء حصه آمد و حصه آمد بشرح چنده زائد از واجب الادا ادائیگی شامل ہے جو کہ سابقہ بقایا کی رقم ہے احمد از اندادا کی گئی ہے.عام معمل ادا ہو چکا ہے.(ب) میرے واجب الاداء حصہ آمد اور ادائیگی کے حساب ( جو میں منسلک کر رہا / رہی ہوں ) کی رو سے بقایا حصہ آمد مبلغ..جو میں نے زمیر رسید نمبر...مورخه کر کے وکالت مال ثانی کو بتوسط امیر جماعت اطلاع بھی کروں گا / گی.بنتا ہے.ادا کر دیئے ہیں جو میں انشاء الله.ماہ کے اندر ادا کر دوں گا گی اور اس کی ادائیگی تفصیل بقایا حصہ آمد دوران سال حصہ آمد بشرح وصیت (1/10) یا /1).حصہ آمد بشرح چنده عام (1/16).جائیداد کی کل آمد پر ) میزان بقایا والسلام دستخط موصی موصیه معه تاریخ :.نام موصی / موصیه: موجودہ پتہ مستقل براہ کرم فارم ھذا کی پشت پر دستخط کرنا نہ بھولیں

Page 201

مالی قربانی 193 ایک تعارف -1 -2 ہدایات دی جماعت احمدیہ کی مالی قربانی کی بنیاد مسمار زقنہم کے سنہرے اصول پر رکھی گئی ہے.اس اصول کو زندہ رکھنا اور اس کی روح کی حفاظت کرنا ہم پر لازم ہے.چندہ کی ادائیگی کی بنیاد تقویٰ پوچنی ہے.اس لئے اپنی صحیح آمدنی کا تعین اور چندہ کی ادائیگی کرتے وقت تقوی اللہ سکولھو ڈارکھنا چاہئے.مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی مجموعی آمد کو آمد شمار کیا جائے.اس کے لئے ضروری ہے کہ پورے انشراح کے ساتھ ہر ذریعہ سے حاصل ہونے والی آمد کو سامنے رکھ کر حسب قواعد اس پر جس قدر چندہ واجب الا واہ بنتا ہے اس کی تعین کی جائے اور پھر اس فارم کو پر کیا جائے.عمومی راہنمائی کے لئے بعض ذرائع آمد نیچے دے دیئے گئے ہیں.(1) آمد میں موصی کی ہر قسم کی آمد شامل ہے البتہ صرف وہ الاؤنس جس کا خرچ کرنا ملازم موصی کے تابع مرضی نہ ہو وہ آمد سے مستفی ہوگا.اسی طرح گورنمنٹ ڈیوز از تم ٹیکس، ریونیو، مالیه، لوکل رئیس، لازمی انشورنس وغیرہ جو گورنمنٹ کے حکم سے عائد کئے گئے ہوں وہ آمد سے منہا کئے جاسکتے ہیں.(ii).اسی طرح مخصوص اخراجات کے لئے ملنے والے الاؤنس مثلاً وردی الاؤنس، بچوں کی تعلیم کے لئے ملنے والا الا ونس چندہ سے مستثنیٰ ہیں.(ii)، اسی طرح پیشہ ورانہ فرائض منصبی کی ادائیگی کے ضمن میں سفروں کے دوران ملنے والا زادراہ آمد سے متقی شمار ہوگا سوائے اس کے کہ اس میں سے بچت ہو تو اس پر چندہ ادا کر نامستحسن ہے.(iv).مکان وغیرہ کے کرائے اور اس قسم کی متفرق چیزیں وضع کرنا جائز نہیں ہو گا.(۷).تاجر حضرات کو اپنی کل آمد (Gross income) میں سے ایسے اخراجات وضع کر کے جو کہ آمد پیدا کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں باقی مجموعی اصل آمد (Net total income) پر چندہ ادا کرنا ہوگا ، محض اپنے ماہانہ اخراجات کے لئے تجارت (Business) سے وصول کردہ رقم (Drawings) پر چندہ ادا کرنا درست نہیں.ذرائع آمد عمومی راہنمائی کے لئےبعض ذرائع اوان کی آمد پر واجب رح پند و ذیل مں درج ہےان کو اچھی طرح پڑھنے کےبعد اپنے ہر راجہ آم کےسامنےبنے ہوئے چوکھٹے میں یک مارک کرکے نیچے وتخط کردیں.نمبر شمار ذریعہ آمد 1 ملازمت تنخواہ ،اوور ٹائم ، ٹیوشن فیس وغیرہ محنت مزدوری، اجرت، بونس و غیره شرح 1/10 یا مطابق شرح وصیت ايضاً م ۹ 1.11 ۱۲ تجارت اصنعت و حرفت حقیقی منافع ڈیویڈنڈ از شیئر را سر نیکلیس و غیره پیشه افن (وکالت، میڈیکل پریکٹس.آرٹ وغیرہ) ٹھیکہ داری (ٹھیکہ پر کوئی بھی کام کرتے ہوں ) جیب خرچ / بنیادی ضروریات و اخراجات کیلئے ملنے والی رقم از سر براہ خاندان/بچگان وغیرہ نقد تحفه امدادی وظیفه انعام، سوشل ویلفیئر الاؤنس اور بے کاری الاؤنس وغیرہ ریٹائر منٹ پر ملنے والی پیشن گریجوئیٹی، حق الخدمت ، اولڈ ایج پنشن وغیرہ زمیندارہ، غیر ملکیتی زمین سے آمد بصورت مزارعت یا ٹھیکیداری وغیرہ زمیندارہ، اپنی ملکیتی زمین سے آمد (خواہ خود کاشتہ ہو یا ٹھیکہ پر دی گئی ہو وغیرہ) پشه یا کرایہ پر دی گئی ملکیتی جائیداد از قسم کا رخانه، ورکشاپ / مکان، دوکان و غیره تعلیمی وظیفہ.طالب علمی کے وظائف کیلئے طلباء حسب حیثیت کچھ مناسب رقم معین کر کے جماعت سے افہام تفہیم کر کے اس پر 11 چندہ ادا کریں گے.ايضاً 1/16 ايضاً.کلاس کورس میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں جس کی معیاد.ہے) دستخط موصی / موصیه معه تاریخ

Page 201