Malfuzat Volume 9

Malfuzat Volume 9

ملفوظات (جلد 9)

نومبر 1906ء تا اکتوبر1907ء
Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

ملفوظات سے مراد حضرت بانی جماعت احمدیہ، مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا وہ پاکیزہ اور پُرمعارف کلام ہے جو حضورؑ نے اپنی مقدس مجالس میں یا جلسہ سالانہ کے اجتماعات میں اپنے اصحاب کے تزکیہ نفس، ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت، خداتعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرنے اور قرآن کریم کے علم و حکمت کی تعلیم نیز احیاء دین اسلام اور قیام شریعت محمدیہ کے لیے وقتاً فوقتاً ارشاد فرمایا۔


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

Page 7

Page 8

Page 9

Page 10

Page 11

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَعَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ۵؍نومبر ۱۹۰۶ء2 استقامت حیدر آباد سے ایک صاحب عابد حسین نام کا خط تجدید بیعت کے واسطے حضرت کی خدمت میں پہنچا.حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا کہ آپ کی جدید بیعت منظور ہے.آئندہ استقامت رکھیں اور خدا تعالیٰ سے استقامت کے لیے دعا کرتے رہیں.مرزا غلام احمد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی صاحبِ شریعت نبی نہیں آسکتا اس اَمر کا ذکر تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی صاحبِ شریعت نہیں ہو سکتا.حضرت نے فرمایا.یہی درست ہے کہ کوئی نبی صاحب شریعت نہیں ہوسکتا.ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النّبیّین ہیں.پر ایسا مت کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بات بڑے علم اور فہم کی ہے اور

Page 12

وہ اصل حقیقت سے آگاہ تھیں کہ خدا تعالیٰ نے سلسلہ مکالمات اور مخاطبات کو تو بند نہیں کر دیا.البتہ کوئی شریعت آنحضرتؐکے بعد نہیں اور نہ کوئی شخص ہو سکتا ہے کہ آنحضرتؐکی وساطت کے سوائے براہ راست خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکے.گوشت خوری ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے ایک ہندو کے ساتھ گوشت خوری کے متعلق اپنی گفتگو کا ذکر کیا.حضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فعل سے استدلال کرنا چا ہیے.دنیا میں جیسا کہ ہزاروں نباتات ہیں اور مختلف ضرورتوں کے واسطے انسان کی خدمت کے واسطے کار آمد ہیں.ایسا ہی ہزاروں جانور بھی ہیں جو کہ انسان کی بہت سی ضرورتوں کے واسطے کار آمد ہوتے ہیں اور ضرورتاً ہندو لوگ بھی استعمال کرتے ہیں بیماری کے وقت مچھلی کا تیل پیتے ہیں.علاوہ ازیں گوشت خور قومیں ہمیشہ فاتح رہی ہیں.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ذکر کیا کہ راولپنڈی میں ایک ہندو ہماری خاطر خربوزے لایا اور ان کو تراش کر اور صاف کر کے اور مصری لگا کر ہمارے آگے رکھا اور گوشت خوری کے مسئلہ کو پیش کیا.میں نے کہا کہ ہم تو گوشت نہیں کھاتے جیسا کہ ہم گھاس بھی نہیں کھاتے دیکھو ہم خربوزہ بھی نہیں کھاتے.کیونکہ اگر ہم خربوزہ کھانے والے ہوتے تو تم کو یہ کانٹ چھانٹ نہ کرنی پڑتی.کچھ تم نے اوپر سے کاٹ کر پھینک دیا اور کچھ اندر سے نکال کر پھینک دیا.پھر جو درمیان میں رہا اس پر بھی مصری لگائی اور ایک مرکب مصفّٰی چیز بنا کر ہمارے آگے رکھی.اس مرکب کو ہم کھاتے ہیں.ایسا ہی انسان گوشت خور بھی نہیں بلکہ ایک معجون مرکب کو کھاتا ہے جو کئی ایک مصالحہ جات اور گھی اور گوشت وغیرہ سے مل کر بنتا ہے.میر صاحب ناصر نواب نے فرمایا کہ اگر گوشت خوری گناہ ہوتا تو ہزاروں لاکھوں بھیڑ بکریاں جو کہ ذبح کی جاتی ہیں ان کے سبب سے خدا تعالیٰ کی ناراضگی انسان پر وارد ہوتی.کیونکہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ جب کبھی کسی بادشاہ یا قوم

Page 13

نے کسی دوسری قوم پر ظلم کیا اور بہ سبب ظلم کے ان کو یا ان کے بچوں کو قتل کیا تو خدا تعالیٰ کا عذاب ضرور ان پر نازل ہوا اور خدا نے اس سلطنت اور قوم کو ہلاک کر دیا.لیکن ہمیشہ سے جانور ذبح کیے جاتے ہیں جو لاکھوں کروڑوں ہوتے ہیں اور خود ان قوموں کے درمیان ہوتے ہیں جو کہ فاتح قومیں ہیں اور اس وجہ سے ان پر کوئی عذاب نازل نہیں ہوتا.فرمایا.خدا تعالیٰ کے نام بے نیازی کے بھی ہیں اور وہ رحم بھی کرنے والا ہے.لیکن میرا عقیدہ یہی ہے کہ اس کی رحمت غالب ہے انسان کو چاہیے کہ دعا میں مصروف رہے.آخر کار اس کی رحمت دستگیری کرتی ہے.۱ ۷؍نومبر ۱۹۰۶ء حالتِ زمانہ ذکر تھا کہ ہر ایک شخص جو فی زمانہ بڑا بننا چاہتا ہے یا شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اپنی عزّت کے حصول کے ذرائع میں یہ ایک ضروری جزو قرار دیتا ہے کہ سلسلہ حقّہ کے ساتھ کچھ نہ کچھ عداوت کا اظہار کرتا رہے.حضرت نے فرمایا.ان لوگوں کی مثال اس پٹھان کی طرح ہے جس کے متعلق رافضی کہا کرتے ہیں کہ اس کو کسی شیعہ نے کہا کہ سنی تو وہ ہوتا ہے جو حضرت علیؓ کے ساتھ بمقدار جَو بغض رکھتا ہو تو اس نے جواب دیا کہ الحمد للہ! من بمقدارِ خربوزہ دارم.یہی حال ان لوگوں کا ہے.جس کو دیکھو ہمارے ساتھ بڑھ چڑھ کر بغض رکھنے میں فخر کرتا ہے.دجّال فرمایا.حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دجّال گرجے سے نکلے گا.وہ ایک ہزار برس تک دَیر (یعنی گرجے) میں مقید تھا.اس کے بعد وہ دنیا میں نکلا اور مسلمانوں کے برخلاف اپنی کوششوں کو شروع کیا.حدیثوں میں اس کا نام دجّال آیا ہے اور پہلی کتابوں میں اس کو اژدہا اور شیطان کر کے لکھا ہے.دراصل وہ ایک ہی ہے اور گرجے سے نکلنے کے الفاظ صفائی کے ساتھ ظاہر کرتے ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۴۵ مورخہ ۸؍نومبر ۱۹۰۶ءصفحہ ۴

Page 14

ہیں کہ وہ کون ہے اور کہاں رہتا ہے اور اس کی کیا کرتوت ہے.آنے والا مصلح فرمایا.آنے والے مصلح اور مجدّد کے مختلف نام پہلی کتابوں میں لکھے ہیں مطلب ان سب کا ایک ہی ہے اور ایک ہی آدمی کی طرف سب اشارے ہیں.مسیح، مہدی، ایک فارسی الاصل شخص وغیرہ.مگر سب سے عظیم الشان کام جو اس کا ہے یعنی گمشدہ ایمان کا دوبارہ قائم کرنا، اس کے لحاظ سے اس کو اسی اُمّت کا ایک شخص فارسی الاصل کہہ کر بیان کیا گیا ہے کہ اگر ایمان تمام جہان سے مفقود ہو کر ثریا پر بھی چلا گیا ہوگا تب بھی وہ اس کو واپس زمین پر قائم کر دے گا.دو قسم کے کام ہوتے ہیں ایک رفع شر کے اور دوسرے جلب خیر کے.اس جگہ جلب خیر کے کام کا ذکر کرتے ہوئے اسے اس امت کی طرف منسوب کیا گیا ہے.مولوی محمد علی صاحب کی تعریف ریویو آف ریلیجنـز کا ذکر تھا.ایک صاحب نے تعریف کی کہ اس کے مضامین نہایت اعلیٰ ہوتے ہیں.فرمایا.اس کے ایڈیٹر مولوی محمد علی صاحب ایک لائق اور فاضل آدمی ہیں.ایم.اے پاس ہیں اور اس کے ساتھ دینی مناسبت رکھتے ہیں.ہمیشہ اول درجہ پر پاس ہوتے رہے ہیں اور ای.اے.سی میں ان کا نام درج تھا.مگر سب باتوں کو چھوڑ کر یہاں بیٹھ گئے.یہی سبب ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کی تحریر میں برکت ڈالی ہے.ترکِ دنیا فرمایا.ترک دنیا کے یہ معنے نہیں ہیں کہ انسان سب کام کاج چھوڑ کر گوشہ نشینی اختیار کر لے.ہم اس بات سے منع نہیں کرتے کہ ملازم اپنی ملازمت کرے اور تاجر اپنی تجارت میں مصروف رہے اور زمیندار اپنی کاشت کا انتظام کرے، لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ انسان کو ایسا ہونا چاہیے کہ دست در کار و دل بہ یار.انسان خدا تعالیٰ کی رضا مندی پر چلے.کسی معاملہ میں شریعت کے برخلاف کوئی کام نہ کرے.جب خدا مقدم ہو تو اسی میں انسان کی نجات ہے.دنیا داروں کو مداہنہ کی عادت بہت بڑھ

Page 15

گئی ہے.جس مذہب والے سے ملے اسی کی تعریف کر دی.خدا تعالیٰ اس سے راضی نہیں.صحابہؓ میں بعض بڑے دولت مند تھے اور دنیا کے تمام کاروبار کرتے تھے اور اسلام میں بہت سے بادشاہ گذرے ہیں جو درویش سیرت تھے.تختِ شاہی پر بیٹھے ہوئے ہوتے تھے لیکن دل ہر وقت خدا کے ساتھ ہوتا.مگر آجکل تو لوگوں کا یہ حال ہے کہ جب دنیا کی طرف جھکتے ہیں تو ایسے دنیا کے ہوجاتے ہیں کہ دین پر ہنسی کرتے ہیں.نماز پر اعتراض کرتے ہیں اور وضو پر ہنسی اڑاتے ہیں.یہ لوگ ساری عمر تو دنیوی علوم کے پڑھنے میں گذار دیتے ہیں اور پھر دین کے معاملات میں رائے زنی کرنے لگتے ہیں.حالانکہ انسان کسی مضمون میں عمیق اسرار تب ہی نکال سکتا ہے جب اس کو اس اَمر کی طرف زیادہ توجہ ہو.ان لوگوں کو دین کے متعلق مصالح، معارف اور حقائق سے بالکل بے خبری ہے.دنیا کی زہریلی ہوا کا ان لوگوں کے دلوں پر زہرناک اثر ہے.دنیائے فانی فرمایا.دنیا کا انجام تو ظاہر ہے اور اس کا نتیجہ ہر روز ہمارے سامنے اپنی مثالیں پیش کرتا رہتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ آج ایک شخص زندہ ہے اور کل فوت ہوجاتا ہے طاعون کی موت کو دیکھو کتنی جلدی آجاتی ہے.آناً فاناً سینکڑوں مَر جاتے ہیں.گورنمنٹ نے بھی ٹکریں ماریں اور تدبیریں کیں مگر آج تک کچھ بن نہیں سکا.خدا کا کون مقابلہ کر سکتا ہے.دنیا کبھی وفا نہیں کر سکتی.انسان ضرور مَر جائے گا اور گھر تو قبر میں ہے.پس دنیا کے ساتھ دل لگانے سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ ذاتِ خدا ایک ذات در پردہ ہے جو اپنے وجود کو اپنے قہری نشانات کے ساتھ دنیا پر ظاہر کرتی ہے تاکہ دنیا کو معلوم ہو اور ثابت ہو کہ وہ موجود ہے.عقلمند آدمی اس کے نشانات سے اس کو پہچانتا ہے.اسلام اور دیگر مذاہب فرمایا.عیسائیوں کا کیا دین ہے کہ ایک انسان کو خدا بنایا گیا ہے اور ہند میں تو اکثر عیسائی اس قسم کے ہیں کہ اگر آج ان کی تنخواہ بند ہوجاوے تو عیسائیت کو چھوڑ کر فوراً علیحدہ ہو بیٹھیں.

Page 16

دوسری طرف آریہ ہیں کہ ان کے نزدیک گناہ معاف ہی نہیں ہوسکتے.سؤر اور کتّے بلّے ہی ہمیشہ بنتے چلے جاؤ.عیسائیوں نے توبہ رکھی تو ایسی کہ اخلاقِ انسانی کا ہی ستیا ناس کر دیا.زنا کرو.چوری کرو.خیانت کرو.جھوٹ بولو.بس مسیح کفّارہ ہوگئے.چلو چھٹی ہوئی.آریہ کہتے ہیں جب انسان گناہ کر چکا تو ہزار پچھتائے، ہزار روئے گناہ معاف ہو ہی نہیں سکتا.ایک ادنیٰ مالک اپنے نوکر کو معاف کر سکتا ہے پر خدا کی لغات میں معافی کا لفظ ہی نہیں.اسلام نے ان دونوں کے درمیان صحیح اور سچی راہ دکھائی ہے کہ انسان جب دل سے پشیمان ہوتا اور اپنے رب کی طرف جھکتا ہے تو رفتہ رفتہ اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے نیکیوں کی توفیق ملتی ہے اور ایک گناہ سوز محبت ا س کے کاروبار میں اثر دکھاتی ہے.ذرّہ ذرّہ خدا تعالیٰ کے تابع ہے، بغیر اس کی اطاعت کے ہرگز کچھ بن نہیں سکتا.اب تو لوگ ہماری باتوں پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں.یہ لوگ ہمارے کہنے سے تو نہیں سمجھتے مگر زمانہ خود ان کو سمجھائے گا.حَسْبُنَا کِتٰبُ اللّٰهِ ایک شخص نے سوال کیا کہ یہ جو صوفیوں نے بنایا ہوا ہے کہ توجہ کے واسطے اس طرح بیٹھنا چاہیے اور پھر اس طرح دل پر چوٹ لگانی چاہیےاور ذکر اَرّہ اور دیگر اس قسم کی کتابیں.کیا یہ جائز ہیں؟ فرمایا.یہ جائز نہیں ہیں بلکہ سب بدعات ہیں.حَسْبُنَا کِتٰبُ اللّٰهِ.ہمارے واسطے اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب قرآن شریف کافی ہے.اللہ تعالیٰ کی کتاب سلوک کے واسطے کافی ہے جو باتیں اب ان لوگوں نے نکالی ہیں یہ باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ میں ہرگز نہ تھیں.یہ صرف ان لوگوں کا اختراع ہے اور اس سے بچنا چاہیے.ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ(التوبۃ:۱۱۹) صادق کی صحبت میں رہو تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے امور میں مشکلات آسان ہوجاتی ہیں.شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ بڑے خدا رسیدہ اور بڑے قبولیت والے انسان تھے.انہوں نے لکھا ہے کہ جس نے خدا کا راہ دیکھنا ہو وہ قرآن شریف کو پڑھے اب اگر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےفرمودہ طریق پر کچھ بڑھائیں اور نئی باتیں ایجاد کریں یا اس کے

Page 17

برخلاف چلیں تو یہ کفر ہوگا.اس زمانہ میں جیسا کہ علماء کے درمیان بہت سے فرقے بن گئے ہیں ایسا ہی فقراء کے درمیان بھی بہت سے فرقے بن گئے ہیں.اور سب اپنی اپنی باتیں نئے طرز کی نکالتے ہیں.تمام زمانہ کا یہ حال ہو رہا ہے کہ ہر جگہ اصلاح کی ضرورت ہے.اسی واسطے خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں وہ مجدّد بھیجا ہے جس کا نام مسیح موعود رکھا گیا ہے اور جس کا انتظار مدت سے ہو رہا تھا اور تمام نبیوں نے اس کے متعلق پیشگوئیاں کی تھیں اور اس سے پہلے زمانہ کے بزرگ خواہش رکھتے تھے کہ وہ اس کے وقت کو پائیں.۱ ۱۸؍نومبر ۱۹۰۶ء دفع شر کے لیے باطنی تدابیر اس بات کا ذکر تھا کہ بعض شہروں میں جہاں طاعون کا خوف تھا.گورنمنٹ چوہے مَروانے کا انتظام کر رہی ہے اور ایک اخبار والے نے جو سناتن ہندو ہے اور کسی جی کا مارنا گناہ سمجھتا ہے اس تجویز کی اس پیرایہ میں تردید کی ہے کہ چونکہ چوہوں میں طاعون کا مادہ ہوتا ہےاس واسطے ان کو پکڑنا اور مارنا خود بخود طاعون کے ردّی مادہ کومنتشر کرنا ہے.حضرت نے فرمایا.یہ ظاہری تدابیر ہیں مگر جب تک باطنی تدبیرنہ کی جاوے طاعون کا اس ملک سے جانا ناممکن ہے.ممکن ہے کہ جیسا کہ اس اخبار والے نے لکھا، طاعونی چوہوں کو پکڑنا اور ہاتھ لگانا وغیرہ بھی کسی حد تک ضرر رساں ہو.لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ سب حیلے کیمیا گروں کے سے خیال ہیں کہ شاید اس بوٹی سے سونا بن جاوے.شاید اس سے سونا بن جاوے.خدا تعالیٰ اس وقت شمشیر برہنہ لے کر کھڑا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دنیا ا س کے وجود پر ایمان لائے.جب تک دنیا کے لوگ اپنی بدکاریوں اور ضد اور تعصب اور فحش گوئی کو چھوڑ کر اور خدا تعالیٰ کے نشانات کی تحقیر سے توبہ کر کے نیکی اختیار نہ کر لیں تب تک خدا تعالیٰ اس عذاب کو ان کے سر سے دور نہ کرے گا.تعجب ہے کہ ہماری گورنمنٹ ظاہری اسباب کو لیتی ہے مگر خدا تعالیٰ کی طرف نہیں جھکتی.پہلے

Page 18

اسلامی بادشاہوں کے متعلق سنا جاتا ہے کہ وہ ایسے مصائب کے وقت راتوں کو اٹھ کر رو رو کر دعائیں کرتے تھے.جو لوگ خدا کو سچے دل سے ماننے والے ہوتے ہیں وہ یہ تماشا دیکھ لیتے ہیں کہ ذرّہ ذرّہ اس کے اختیار میں ہے.یہاں تک کہ ہمارے سر کے بال بھی گنے ہوئے ہیں.برخلاف اس کے آجکل کے تعلیم یافتوں کا یہ حال ہے کہ اپنی گفتگو میں لفظ انشاء اللہ بھی بولنا خلافِ تہذیب سمجھتے ہیں.کتابوں کی کتابیں پڑھ جاؤ کہیں خدا کا نام تک نہیں آتا.لیکن اب وقت آگیا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی ہستی کو منوانا چاہتا ہے.۱ ۲۹؍نومبر ۱۹۰۶ء عمل صالح ایک درویش حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.اس نے ذکر کیا کہ پہلے میں بہت وظائف پڑھتا تھا اور مجھ پر فتوحات کا دروازہ کھلا تھا اور آمد ہوتی تھی مگر کچھ عرصہ کے بعد وہ حالت جاتی رہی.اب باوجود بہت وظائف پڑھنے کے کچھ نہیں آتا.کوئی ایسا طریق بتلائیں کہ پھر وہ بات شروع ہوجاوے.حضرت نے فرمایا.فتوحات وغیرہ مقاصد کو مد نظر رکھنا ہماری شریعت کے نزدیک شرک ہے.اللہ تعالیٰ کی عبادت صرف اللہ کی خاطر کرنی چاہیے اس میں کسی اور بات کو نہ ملاؤ اور نہ کوئی اور نیت رکھو.عمل صالح وہ ہے جس میں کوئی فساد نہ ہو.اگر انسان کچھ دین کا بننا چاہے اور کچھ دنیا کا بننا چاہے تو یہ محض ایک فساد ہے.ایسی حالت سے بچنا چاہیے.خدا ایسے آدمیوں کو پسند نہیں کرتا.عمل صالح وہ ہے جو محض خدا کے واسطے ہو.پھر خدا تعالیٰ اپنے بندے کی پرورش آپ کرتا ہےا ور اس کے واسطے گذارے کی صورتیں خود بخود ظاہر ہوجاتی ہیں مگر یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے.انسان کے واسطے مناسب نہیں کہ اپنی عبادت کے وقت ایسی باتوں کا خیال دل میں لائے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا رزق آسمانوں پر ہے دیکھو جب ایک انسان کسی دوسرے انسان کے ساتھ محبت رکھتا ہے تو ۱البدر جلد ۲ نمبر ۴۷ مورخہ ۲۲؍ نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۴

Page 19

اس میں بھی خالص محبت وہ سمجھی جاتی ہے جس کے درمیان کوئی غرض نہ ہو.اصلی محبت کا نمونہ دنیا کے اندر ماں کی محبت میں قائم ہے کہ وہ اپنے بچے کو کسی غرض کے واسطے محبت نہیں کرتی بلکہ وہ محبت طبعی ہوتی ہے.اگر کوئی بادشاہ بھی کسی عورت کو کہے کہ تو اپنے بچے کے واسطے اتنی تکلیف نہ اٹھا.اس کو اپنے حال پر چھوڑ دے.مَرے یا زندہ رہے کوئی باز پُرس تجھ سے نہیں ہوگی تو وہ عورت بادشاہ پر بجائے خوش ہونے کے سخت ناراض ہوگی کہ یہ میرے بچے کے حق میں موت کا کلمہ منہ سے نکالتا ہے اور محبت کا جوش دو طرفہ ہوتا ہے.بچہ نابالغ ہوتا ہے.اس کو کوئی سمجھ نہیں کہ دوست کیا ہے اور دشمن کیا.مگر ہر حالت میں ماں کی طرف دوڑتا ہے اور اسی سے انس پکڑتا ہے.دل را بدل رہیست والا معاملہ ہے.جب بچہ نادان ہو کر ماں کی محبت کے عوض میں محبت کرتا ہے تو خدا ایک بچے سے بھی گیا گذرا ہے کہ وہ تمہاری محبت کا عوض تم کو نہ دے گا؟ وہ ضرور محبت کرنے والوں کے ساتھ محبت کرتا ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب انسان نرم رفتار سے خدا کی طرف چلتا ہے تو خدا دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے.جب انسان کا دل خالص ہوجاتا ہے تو پھر دنیا کچھ چیز نہیں وہ تو خود بخود خدمت کرنے کے واسطے تیار ہوجاتی ہے لیکن وظائف کے ساتھ خواہش کرنا کہ دنیا مل جاوے یہ ایک بُت پرستی ہے اور اس سے سالک کو سخت پرہیز درکار ہے.جب خدا مل جاوے تو پھر دنیا کچھ شَے نہیں.جو لوگ دنیا کے پیچھے پڑتے ہیں دنیا ان سے بھاگتی ہے اور جو دنیا کو چھوڑتے ہیں دنیا خود بخود ان کے پیچھے آتی ہے.۱ ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۶ء حق کا غلبہ قبل از نماز ظہر بہت سے دوست تشریف لاچکے تھے جو کہ مسجد مبارک میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے.اس وقت اس اَمر کا ذکر تھا کہ غیر مذاہب کے لوگ احمدی جماعت کے آگے نہیں ٹھہرتے.

Page 20

حضرت نے فرمایا کہ جیسا ہمارے مخالفین نے جو کہ عام مسلمان ہیں ہماری مخالفت میں حق کو چھوڑ رکھا ہے اس واسطے اس مقابلہ میں کھڑے نہیں ہو سکتے.ایسا ہی غیر مذاہب کے لوگوں کا حال ہے.اگر وہ کسی مجلس میں ہمارے برخلاف بات کریں تو اپنی اندرونی باتوں کا اظہار کرا کر خود بخود شرمندہ ہوجاتے ہیں.پس ہمارے مقابلہ میں وہ بھی عاجز ہو جاتے ہیں اور یہ بھی عاجز ہوجاتے ہیں.سیالکوٹ کے تاجروں کی ہڑتال ذکر تھا کہ سیالکوٹ کے تجار نے بہ سبب محصول چنگی میں زیادتی کے دوکانیں بند کر دی تھیں اور چند روز کا نقصان اٹھا کر پھر خود بخود کھول دیں.فرمایا.اس طرح کا طریق گورنمنٹ کی مخالفت میں برتنا ان کی بے وقوفی تھی.جس سے ان کو خود ہی باز آنا پڑا محصول تو در اصل پبلک پر پڑتا ہے.آسمانی اسباب کے سبب سے بھی جب کبھی قحط پڑ جاتا ہے تو تاجر لوگ نرخ بڑھا دیتے ہیں اس وقت کیوں دکانیں بند نہیں کر دیتے؟ امراض سینہ کا علاج ایک دوست کا ذکر تھا کہ وہ مرض سل و دق میں مبتلا ہے.حضرت نے فرمایاکہ ہم نے ایک شخص کو دیکھا تھا کہ وہ امراضِ سینہ میں گرفتار تھا.ڈاکٹر نے اس کو مشورہ دیا کہ سمندر کے کنارے کچھ مدت رہے.ایسا کرنے سے وہ بالکل تندرست ہوگیا اور اب تک زندہ ہے.صادقوںکی مخالفت سیالکوٹ کا ذکر تھا کہ اب مخالفوں کا چنداں زور نہیں رہا.حضرت نے فرمایا.جب کسی کی مخالفت شروع ہوتی ہے تو ایک فریق ضرور تھک کر رہ جاتا ہے.مدعی اگر کاذب ہو تو وہ لوگوں کی مخالفت سے تنگ آکر تھک جاتا ہے اور اپنا کام چھوڑ دیتا ہے اور اگر وہ صادق ہو تو اس کے مخالف اپنی مخالفت میں بالآخر تھک کر رہ جاتے ہیں.یہی حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا.اور یہی حال تمام انبیاء کے زمانہ میں ہوتا رہا.صادق ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے.لیکن مخالفوںکے درمیان جہاں تعصب اور بے وقوفی

Page 21

دونوں باتیں مل جاویں وہاں بہت ہی زہریلا اثر ہوتا ہے.دلیل صداقت فرمایا.جتنے لوگ مباہلہ کرنے والے ہمارے مقابلہ میں آئے.خدا تعالیٰ نے سب کو ہلاک کر دیا.انہوںنے اپنے ہاتھوں سے آپ موت مانگی.مخالفوں کو چاہیے کہ اس بات پر غور کریں کہ اس کی وجہ کیا ہے کہ جو شخص مقابلہ میں آتا ہے وہی ہلاک ہوجاتا ہے؟ اگر یہ سلسلہ خدا کی طرف سے نہیںتو پھر کیا سبب ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے مقابلین کو نیست کر دیتا ہے اور اس کو دن بدن سر سبزی ہوتی جاتی ہے؟ ہمارے مخالفوں میں بہت سے لوگ اس قسم کے بھی ہیں جو کہ سچے دل سے ہمارے برخلاف دعائیں مانگتے رہے اور ہم کو اسلام کا دشمن جان کر ناکیں رگڑتے رہے.لیکن کیا خدا تعالیٰ اسلام کا بھی دشمن تھا کہ اس نے ان لوگوں کو ہلاک کر دیا جو کہ سچے مسلمان تھے اور ان کے بالمقابل جس کو وہ اسلام کا دشمن اور دجّال یقین کرتے تھے اس کو خدا تعالیٰ نے زندہ رکھا اور اس کے سلسلہ کو روز بروز ترقی دی؟۱ ۲۵؍دسمبر ۱۹۰۶ء (صبح کی سیر) روح ازلی اور ابدی نہیں ہے ۲۵؍کی صبح جب حضرت اقدس سیر کے واسطے باہر تشریف لے گئے تو ایک مجمع کثیر آپ کے ہمراہ تھا جن میں اکثر حصہ سیالکوٹ کے ضلع کے احمدی برادران کا تھا جو کہ اپنے لائق مہتمم چوہدری مولا بخش صاحب کے ہمراہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں.ایک شخص نے چند ایک سوالات پیش کئے.پہلا سوال یہ تھا کہ جبکہ خدا تعالیٰ ازل سے خالق ہے اور ابد تک ہے اور ارواح بھی ہمیشہ سے اس کی خلق میں شامل ہیں اور ہمیشہ چلے جائیں گے تو پھر آریوں کے اعتقاد کے مطابق روح بھی ازلی اور ابدی ہوا.فرمایا.یہ بات درست نہیں.اس سوال میں مغالطہ دیا گیا ہے.خدا تعالیٰ ہمیشہ سے خالق ہے

Page 22

مگر اس کی تمام صفات کو دیکھنا چاہیے.وہ محیی ہے اور ممیت بھی ہے.اثبات بھی کرتا ہے تو محو بھی کرتا ہے.پیدا بھی کرتا ہے فنا بھی کرتا ہے اس بات کی کیا دلیل ہے کہ روح کو فنا نہیں اور کہ یہی روح ہمیشہ سے چلے آتے ہیں؟ وہ جب تک کسی کو چاہے رکھے.ہر ایک چیز فنا ہوجانے والی ہے.باقی رہنے والی ذات صرف خدا کی ہی ہے.روح میں جبکہ ترقی بھی ہوتی ہے اور تنزل بھی ہوتا ہے تو پھر اس کو ہمیشہ کے واسطے قیام کس طرح ہو سکتا ہے؟ جب تک روح کا قیام ہے وہ اَمر الٰہی کے قیام کے نیچے ہے.خدا کے اَمر کے ماتحت ہی کسی کا قیام ہو سکتا ہے اور وہی فنا بھی کرتا ہے.وہ ہمیشہ خالق بھی ہے اور ہمیشہ خلق کو مٹاتا بھی ہے.مسلمان قدامت کا قائل ہے مگر قدامت نوعی کا نہ کہ قدامت شخصی کا.اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ پہلے کیا چیزیں تھیں اور کیا نہ تھیں.اگر اس کے برخلاف قدامت شخصی کا عقیدہ رکھا جاوے تو وہ دہریت میں داخل ہونا ہوتا ہے.۱ ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۶ء تقریر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (جو حضور نے بعد ظہر و عصر جامع مسجد میں کھڑے ہو کر فرمائی ) اب صاحبو! آرام سے سن لو.اگرچہ میری طبیعت بیمار ہے اور میں اس لائق نہ تھا کہ کھڑا ہو کر ایک لمبی تقریر کرتا.تاہم میں نے خیال کیا کہ لوگ دور دور سے آئے ہیں تاکہ ہماری باتیں سنیں.ایسی صورت میں کچھ نہ کہنا معصیت میں داخل ہوگا.لہٰذا باوجود حالت بیماری کے میں نے مناسب جانا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے جو ہدایت دی ہے میں اس سے سب لوگوں کو اطلاع دوں.۲ کلمہ طیبہ کی حقیقت میں کئی بار ظاہر کر چکا ہوں کہ تمہیں صرف اتنے پر خوش نہیں ہونا چاہیے کہ ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کے قائل ہیں جو لوگ قرآن

Page 23

متوجہ ہو اور درحقیقت دنیا پر دین کو مقدم کر دے.یاد رکھو! مخلوق کو انسان دھوکا دے سکتا ہے اور لوگ یہ دیکھ کر کہ پنج وقت نماز پڑھتا ہے یا اور نیکی کے کام کرتا ہے دھوکا کھا سکتے ہیں.مگر خدا تعالیٰ دھوکا نہیں کھا سکتا.اس لیے اعمال میں ایک خاص اخلاص ہونا چاہیے یہی ایک چیز ہے جو اعمال میں صلاحیت اور خوبصورتی پیدا کرتا ہے.اب یاد رکھنا چاہیے! کہ کلمہ جو ہم ہر روز پڑھتے ہیں اس کے کیا معنے ہیں؟ کلمہ کے یہ معنے ہیں کہ انسان زبان سے اقرار کرتا ہے اور دل سے تصدیق کہ میرا معبود، محبوب اور مقصود خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں.اِلٰہ کا لفظ محبوب اور اصل مقصود اور معبود کے لیے آتا ہے.یہ کلمہ قرآن شریف کی ساری تعلیم کا خلاصہ ہے جو مسلمانوں کو سکھایا گیا ہے.چونکہ ایک بڑی اور مبسوط کتاب کا یاد کرنا آسان نہیں.اس لیے یہ کلمہ سکھا دیا گیا تاکہ ہر وقت انسان اسلامی تعلیم کے مغز کو مد نظر رکھے۱ اور جب تک یہ حقیقت انسان کے اندر پیدا نہ ہو جاوے سچ یہی ہے کہ نجات نہیں.اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مَنْ قَالَ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ یعنی جس نے صدق دل سے لَاۤاِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کو مان لیا وہ جنّت میں داخل ہوگیا.لوگ دھوکا کھاتے ہیں اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ طوطے کی طرح لفظ کہہ دینے سے انسان جنّت میں داخل ہوجاتا ہے.اگر اتنی ہی حقیقت اس کے اندر ہوتی تو پھر سب اعمال بےکار اور نکمے ہوجاتے اور شریعت (معاذ اللہ) لغو ٹھہرتی.نہیں! بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ مفہوم جو اسی میں رکھا گیا ہے وہ عملی رنگ میں انسان کے دل میں داخل ہو جاوے.جب یہ بات پیدا ہو جاتی ہے تو ایسا انسان فی الحقیقت جنّت میں داخل ہوجاتا ہے.۲ نہ صرف مَرنے کے بعد بلکہ اسی ۱ بدر میں ہے.’’اللہ تعالیٰ حکیم ہے.اس نے ایک مختصر سا کلمہ سنا دیا ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ جب تک خدا کو مقدم نہ کیا جاوے جب تک خدا کو معبود نہ بنایا جاوے جب تک خدا کو مقصود نہ ٹھہرایا جاوے انسان کو نجات حاصل نہیں ہو سکتی.‘‘ (بدر جلد ۶نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱) ۲ بدر سے.’’خدا تعالیٰ الفاظ سے تعلق نہیں رکھتا وہ دلوں سے تعلق رکھتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ درحقیقت اس کلمہ کے مفہوم کو اپنے دل میں داخل کر لیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی عظمت پورے رنگ کے ساتھ ان کے دلوں میں بیٹھ جاتی ہےوہ جنّت میں داخل ہوجاتے ہیں.جب کوئی شخص سچے طور پر کلمہ کا قائل ہوجاتا ہے تو بجز خدا

Page 24

زندگی میں وہ جنّت میں ہوتا ہے.یہ سچی بات ہے اور جلد سمجھ میں آجاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے سوا انسان کا کوئی محبوب اور مقصود نہ رہے تو پھر کوئی دکھ یا تکلیف اسے ستا ہی نہیں سکتی.یہ وہ مقام ہے جو ابدال اور قطبوں کو ملتا ہے.آپ یہ خیال نہ کریں کہ ہم کب بتوں کی پرستش کرتے ہیں.ہم بھی تو اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرتے ہیں.یاد رکھو! یہ تو ادنیٰ درجہ کی بات ہے کہ انسان بتوں کی پرستش نہ کرے.ہندو لوگ جن کو حقائق کی کوئی خبر نہیں اب بتوں کی پرستش چھوڑ رہے ہیں.معبود کا مفہوم اسی حد تک نہیں کہ انسان پرستی یا بُت پرستی تک ہو اور یہی معبود ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ہوائے نفس اور ہوس بھی معبود ہیں.جو شخص نفس پرستی کرتا ہے یا اپنی ہوا و ہوس کی اطاعت کر رہا ہے اور اس کے لیے مَر رہا ہے وہ بھی بُت پرست اور مشرک ہے.یہ لا نفی جنس ہی نہیںکرتا بلکہ ہر قسم کے معبودوںکی نفی کرتا ہے خواہ وہ اَنفسی ہوں یا آفاقی.خواہ وہ دل میں چھپے ہوئے بُت ہیں یا ظاہری بُت ہیں.مثلاً ایک شخص بالکل اسباب ہی پر توکل کرتا ہے تو یہ بھی ایک قسم کا بُت ہے.اس قسم کی بُت پرستی تپ دق کی طرح ہوتی ہے جو اندر ہی اندر ہلاک کر دیتا ہے.موٹی قسم کے بُت تو جھٹ پٹ پہچانے جاتے ہیں اور ان سے مخلصی حاصل کرنا بھی سہل ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ لاکھوں ہزاروں انسان ان سے الگ ہو گئے اور ہو رہے ہیں.یہ ملک جو ہندوؤں سے بھرا ہوا تھا کیا سب مسلمان ان میں سے ہی نہیںہوئے؟ پھر انہوں نے بُت پرستی کو چھوڑا یا نہیں؟ اور خود ہندوؤں میں بھی ایسے فرقے نکلتے آتے ہیں جو اب بُت پرستی نہیں کرتے.لیکن یہاں تک ہی بُت پرستی کا مفہوم نہیں ہے.یہ تو سچ ہے کہ موٹی بُت پرستی چھوڑ دی ہے مگر ابھی (بقیہ حاشیہ) کے اور کوئی اس کا پیارا نہیں رہتا.بجز خدا کے کوئی اس کا معبود نہیں رہتا اوربجز خدا کے کوئی اس کا مطلوب باقی نہیں رہتا.وہ مقام جو ابدال کا مقام ہے اور وہ جو قطب کا مقام ہے اور وہ جو غوث کا مقام ہے وہ یہی ہے کہ کلمہ لَاۤاِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ پر دل سے ایمان ہو اور اس کے سچے مفہوم پر عمل ہو.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱)

Page 25

Page 26

تو ہزاروں بُت انسان بغل میں لیے پھرتا ہے اور وہ لوگ بھی جو فلسفی اور منطقی کہلاتے ہیں.وہ بھی ان کو اندر سے نکال نہیں سکتے.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے سوا یہ کیڑے اندر سے نکل نہیں سکتے.یہ بہت ہی باریک کیڑے ہیں اور سب سے زیادہ ضرر اور نقصان ان کا ہی ہے.جو لوگ جذبات نفسانی سے متاثر ہو کر اللہ تعالیٰ کے حقوق اور حدود سے باہر ہوجاتے ہیں اور اس طرح پر حقوق العباد کو بھی تلف کرتے ہیں وہ ایسے نہیں کہ پڑھے لکھے نہیں بلکہ ان میں ہزاروں کو مولوی فاضل اور عالم پاؤ گے اور بہت ہوں گے جو فقیہ اور صوفی کہلاتے ہوں گے مگر باوجود ان باتوں کے وہ بھی ان امراض میں مبتلا نکلیں گے ان بتوں سے پرہیز کرنا ہی تو بہادری ہے اور ان کو شناخت کرنا ہی کمال دانائی اور دانشمندی ہے.یہی بُت ہیں جن کی وجہ سے آپس میں نفاق پڑتا ہے اور ہزاروں کشت و خون ہوجاتے ہیں.ایک بھائی دوسرے کا حق مارتا ہے اور اسی طرح ہزاروں ہزار بدیاں ان کے سبب سے ہوتی ہیں.ہر روز اور ہر آن ہوتی ہیں اور اسباب پراس قدر بھروسہ کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کو محض ایک عضو معطل قرار دے رکھا ہے.بہت ہی کم لوگ ہیں جنہوں نے توحید کے اصل مفہوم کو سمجھا ہے.اور اگر انہیں کہا جاوے تو جھٹ کہہ دیتے ہیں کیا ہم مسلمان نہیں اور کلمہ نہیں پڑھتے؟ مگر افسوس تو یہ ہے کہ انہوں نے اتنا ہی سمجھ لیا ہے کہ بس کلمہ منہ سے پڑھ دیا اور یہ کافی ہے.میں یقیناً کہتا ہوں کہ اگر انسان کلمہ طیبہ کی حقیقت سے واقف ہو جاوے اور عملی طور پر اس پر کاربند ہو جاوے تو وہ بہت بڑی ترقی کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے یہ اَمر خوب سمجھ لو کہ میں جو اس مقام پر کھڑا ہوں میں معمولی واعظ کی حیثیت سے نہیں کھڑا ہوں اور کوئی کہانی سنانے کے لیے نہیں کھڑا ہوں بلکہ میں تو ادائے شہادت کے لیے کھڑا ہوں میں نے وہ پیغام جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے پہنچا دینا ہے.اس اَمر کی مجھے پروا نہیں کہ کوئی اسے سنتا ہے یا نہیں سنتا اور مانتا ہے یا نہیں مانتا.اس کا جواب تم خود دو گے.میں

Page 27

نے فرض ادا کرنا ہے.میں جانتا ہوں بہت سے لوگ میری جماعت میں داخل تو ہیں اور وہ توحید کا اقرار بھی کرتے ہیں مگر میں افسوس سے کہتا ہوں کہ وہ مانتے نہیں.جو شخص اپنے بھائی کا حق مارتا ہے یا خیانت کرتا ہے یا دوسری قسم کی بدیوں سے باز نہیں آتا.میں یقین نہیں کرتا کہ وہ توحید کا ماننے والا ہے.۱ کیونکہ یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ اس کو پاتے ہی انسان میں ایک خارق عادت تبدیلی ہوجاتی ہے.اس میں بغض، کینہ، حسد، ریا وغیرہ کے بُت نہیں رہتے اور خدا تعالیٰ سے اس کا قرب ہوتا ہے.یہ تبدیلی اسی وقت ہوتی ہے اور اسی وقت وہ سچا موحد بنتا ہے.جب یہ اندرونی بُت تکبر، خود پسندی، ریا کاری، کینہ و عداوت، حسد و بخل، نفاق و بد عہدی وغیرہ کے دور ہوجاویں.جب تک یہ بُت اندر ہی ہیں.اس وقت تک لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کہنے میں کیونکر سچا ٹھہر سکتا ہے؟ کیونکہ اس میں تو کل کی نفی مقصود ہے پس یہ پکی بات ہے کہ صرف منہ سے کہہ دینا کہ خدا کو وحدہٗ لاشریک مانتا ہوں کوئی نفع نہیں دے سکتا.ابھی منہ سے کلمہ پڑھتا ہے اور ابھی کوئی اَمر ذرا مخالف مزاج ہوا اور غصہ اور غضب کو خدا بنا لیا.میں بار بار کہتا ہوں کہ اس اَمر کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک یہ مخفی معبود موجود ہوں ہرگز توقع نہ کرو کہ تم اس مقام کو حاصل کر لو گے جو ایک سچے موحد کوملتا ہے جیسے جب تک چوہے زمین میں ہیں مت خیال کرو کہ طاعون سے محفوظ ہو.اسی طرح پر جب تک یہ چوہے اندر ہیں اس وقت تک ایمان خطرہ میں ہے.۲ جو کچھ میں کہتا ہوں اس کو خوب غور سے سنو اور اس پر عمل کرنے کے لیے قدم اٹھاؤ.میں نہیں جانتا کہ اس مجمع میںجو لوگ موجود ہیں آئندہ ان میں سے ۱ بدر سے.’’خدا کے واحد ماننے کے ساتھ یہ لازم ہے کہ اس کی مخلوق کی حقوق تلفی نہ کی جاوے جو شخص اپنے بھائی کا حق تلف کرتا ہے اور اس کی خیانت کرتا ہے وہ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کا قائل نہیں.‘‘ (بدر جلد ۶نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۲) ۲ بدر سے.’’جب تک کہ کل جھوٹے معبود جو کہ چوہوں کی طرح انسان کے دل کی زمین کو وبا زدہ کرتے ہیں بھسم نہ کر دیئے جاویں تب تک انسان صاف نہیں ہوسکتا.جیساکہ زمینی چوہے طاعون لانے والے ہوتے ہیں ایسا ہی یہ چوہے انسان کے دل کو خراب کر کے اسے ہلاکت تک پہنچا دیتے ہیں.‘‘ (بدر جلد ۶نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۲)

Page 28

کون ہوگا اور کون نہیں.یہی وجہ ہے کہ میں نے تکلیف اٹھا کر اس وقت کچھ کہنا ضروری سمجھا ہے تا میں اپنا فرض ادا کروں.پس کلمہ کے متعلق خلاصہ تقریر کا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمہارا معبود اور محبوب اور مقصود ہو.اور یہ مقام اسی وقت ملے گا جب ہر قسم کی اندرونی بدیوں سے پاک ہو جاؤ گے اور ان کو جو تمہارے دل میں ہیں نکال دو گے.نماز کی حقیقت بعد اس کے سنو! دوسرا اَمر نماز ہے جس کی پابندی کے لیے بار بار قرآن شریف میں کہا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھو کہ اسی قرآن مجید میں ان مصلّیوں پر لعنت کی ہے جو نماز کی حقیقت سے ناواقف ہیں اور اپنے بھائیوں سے بخل کرتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ نماز اللہ تعالیٰ کے حضور ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی بدیوں اور بد کاریوں سے محفوظ کر دے.انسان درد اور فرقت میں پڑا ہوا ہے اور چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب اسے حاصل ہو.جس سے وہ اطمینان اور سکینت اسے ملے جو نجات کا نتیجہ ہے مگر یہ بات اپنی کسی چالاکی یا خوبی سے نہیں مل سکتی جب تک خدا نہ بُلاوے یہ جا نہیں سکتا.جب تک وہ پاک نہ کرے یہ پاک نہیں ہوسکتا.۱ بہتیرے لوگ اس پر گواہ ہیں کہ بارہا یہ جوش طبیعتوں میں پیدا ہوتا ہے کہ فلاں گناہ دور ہو جاوے جس میں وہ مبتلا ہیں لیکن ہزار کوشش کریں دور نہیں ہوتا باوجودیکہ نفس لوّامہ ملامت کرتا ہے لیکن پھر بھی لغزش ہوجاتی ہے.اس سے معلوم ہوا کہ گناہ سے پاک کرنا خدا تعالیٰ ہی کا کام ہے.اپنی طاقت سے کوئی نہیں ہو سکتا.ہاں یہ سچ ہے کہ اس کے لیے سعی کرنا ضروری اَمر ہے.غرض وہ اندر جو گناہوں سے بھرا ہوا ہے اور جو خدا تعالیٰ کی معرفت اور قرب سے دور جا پڑا ہے اس کو پاک کرنے اور دور سے قریب کرنے کے لیے نماز ہے.اس ذریعہ سے ان بدیوںکو دور کیا جاتا ہے اوراس کی بجائے پاک جذبات بھر دیئے جاتے ہیں یہی سِر ہے جو کہا گیا ہے کہ نماز ۱ بدر سے.’’طرح طرح کے طوق اور قسما قسم کے زنجیر انسان کی گردن میں پڑے ہوئے ہیں اور وہ بہتیرا چاہتا ہے کہ یہ دور ہو جاویں پر وہ دور نہیں ہوتے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۲)

Page 29

بدیوں کو دور کرتی ہے یا نماز فحشاء یا منکر سے روکتی ہے.پھر نماز کیا ہے؟ یہ ایک دعا ہے جس میں پورا درد اور سوزش ہو.اسی لیے اس کا نام صلوٰۃ ہے.کیونکہ سوزش اورفرقت اوردرد سے طلب کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بد ارادوں اور بُرے جذبات کو اندر سے دور کرے اور پاک محبت اس کی جگہ اپنے فیض عام کے ماتحت پیدا کر دے.صلوٰۃ کا لفظ اس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ نرے الفاظ اور دعا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ ایک سوزش، رِقّت اور درد ساتھ ہو.خدا تعالیٰ کسی دعا کو نہیں سنتا جب تک دعا کرنے والا موت تک نہ پہنچ جاوے.دعا مانگنا ایک مشکل اَمر ہے اور لوگ اس کی حقیقت سے محض نا واقف ہیں.بہت سے لوگ مجھے خط لکھتے ہیں کہ ہم نے فلاں وقت فلاں اَمر کے لیے دعا کی تھی مگر اس کا اثر نہ ہوا اور اس طرح پر وہ خدا تعالیٰ سے بد ظنی کرتے ہیں اور مایوس ہو کر ہلاک ہوجاتے ہیں.وہ نہیں جانتے کہ جب تک دعا کے لوازم ساتھ نہ ہوں وہ دعا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.دعا کے لوازم میں سے یہ ہے کہ دل پگھل جاوے اور روح پانی کی طرح حضرت احدیت کے آستانہ پر گرے اور ایک کرب اور اضطراب اس میں پیدا ہو اور ساتھ ہی انسان بے صبر اور جلد باز نہ ہو بلکہ صبر اور استقامت کے ساتھ دعا میں لگا رہے پھر توقع کی جاتی ہے کہ وہ دعا قبول ہوگی.نماز بڑی اعلیٰ درجہ کی دعا ہے مگر افسوس لوگ اس کی قدر نہیں جانتے اور اس کی حقیقت صرف اتنا ہی سمجھتے ہیں کہ رسمی طور پر قیام رکوع سجود کر لیا اور چند فقرے طوطے کی طرح رٹ لیے خواہ اسے سمجھیں یا نہ سمجھیں.ایک اور افسوسناک اَمر پیدا ہوگیا ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے ہی مسلمان نماز کی حقیقت سے ناواقف تھے اور اس پر توجہ نہیں کرتے تھے.اس پر بہت سے فرقے ایسے پیدا ہوگئے جنہوں نے نماز کی پابندیوں کو اڑا کر اس کی جگہ چند وظیفے اور ورد قرار دیئے گئے.کوئی نوشاہی ہے.کوئی چشتی ہے کوئی کچھ ہے کوئی کچھ.یہ لوگ اندرونی طور پر اسلام اور احکامِ الٰہی پر حملہ کرتے ہیں اور شریعت کی پابندیوں کو توڑ کر ایک نئی شریعت قائم کرتے ہیں.یقیناً یاد رکھو کہ ہمیں اور ہر ایک طالب حق کو نماز ایسی نعمت کے ہوتے ہوئے کسی اور بدعت کی ضرورت نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 30

جب کسی تکلیف یا ابتلا کو دیکھتے تو فوراً نماز میں کھڑے ہو جاتے تھے اور ہمارا اپنا اور ان راستبازوں کا جو پہلے ہو گذرے ہیں ان سب کا تجربہ ہے کہ نماز سے بڑھ کر خدا کی طرف لے جانے والی کوئی چیز نہیں.جب انسان قیام کرتا ہے تو وہ ایک ادب کا طریق اختیار کرتا ہے.ایک غلام جب اپنے آقا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ دست بستہ کھڑا ہوتا ہے.پھر رکوع بھی ادب ہے جو قیام سے بڑھ کر ہے اور سجدہ ادب کا انتہائی مقام ہے.جب انسان اپنے آپ کو فنا کی حالت میں ڈال دیتا ہے اس وقت سجدہ میں گر پڑتا ہے.افسوس! ان نادانوں اور دنیا پرستوں پر جو نماز کی ترمیم کرنا چاہتے ہیں اور رکوع سجود پر اعتراض کرتے ہیں.یہ تو کمال درجہ کی خوبی کی باتیں ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جب تک انسان اس عالم سے حصہ نہ رکھتا ہو جہاں سے نماز آئی ہے.۱ نماز ایسی چیز ہے جو جامع حسنات ہے اور دافع سیئات ہے.میں نے پہلے بھی کئی مرتبہ بیان کیا ہے کہ نماز کے جو پانچ وقت مقرر کئے ہیں اس میں ایک حقیقت اور حکمت ہے.نماز اس لیے ہے کہ جس عذاب شدید میں پڑنے والا مبتلا ہے وہ اس سے نجات پالیوے.اوقاتِ نماز کے لیے لکھا ہے کہ وہ زوال کے وقت سے شروع ہوتی ہے.یہ اس اَمر کی طرف اشارہ ہے کہ جب انسان غنی ہوتا ہے تو وہ طاغی ہوجاتا ہے اور حدود اللہ سے نکل جاتا ہے لیکن جب اس کو کوئی دکھ اور درد پہنچے تو پھر یہ فطرتاً دوسرے کی مدد چاہتا ہے اور اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے.پس جب اس پر ابتداءِ مصیبت ہو تو اسی سے گویا نماز شروع ہوجاتی ہے مثلاً ایک شخص پر غیر متوقع گورنمنٹ کی طرف سے وارنٹ گرفتاری جاری ہوگیا کہ فلاں اَمر کے متعلق تم اپنا جواب دو.یہ پہلا مرحلہ ہے جو مصیبت کا آغاز ہوا اور ۱ کتابت کی غلطی سے عبارت نامکمل رہ گئی ہے.بدر میں یہ عبارت یوں درج ہے.’’جب تک کہ انسان اس عالم میں سے حصہ نہ لے جس سے نماز اپنی حد تک پہنچتی ہے تب تک انسان کے ہاتھ میں کچھ نہیں.مگر جس شخص کا یقین خدا پر نہیں وہ نماز پر کس طرح یقین کر سکتا ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۲)

Page 31

اس کے امن و سکون میں زوال شروع ہوگیا.یہ وقت ظہر کی نماز سے مشابہ ہے.افس۱ پھر بعد اس کے جب وہ عدالت میں حاضر ہوا اور بیانات ہونے کے بعد اس پر فرد قرار داد جرم لگ گئی اور شہادت گذر گئی تو اس کی مصیبت اور کرب پہلے سے زیادہ بڑھ گیا.یہ گویا عصر کا وقت ہے.کیونکہ عصر کی نماز کا وہ وقت ہے جب سورج کی روشنی بہت ہی کم ہوجاوے.یہ عصر کا وقت اس پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اس کی عزّت و توقیر بہت گھٹ گئی۲ اور اب وہ مجرم قرار پاگیا.اس کے بعد مغرب کا وقت آتا ہے.یہ وہ وقت ہے جب آفتاب غروب ہوجاتا ہے اور یہ اس وقت سے مشابہ ہے جب حاکم نے اپنا آخری حکم اس کے لیے سنا دیا اور عشاء کا وقت اس سے مشابہ ہے کہ جب وہ جیل میں چلا جاوے.۳ اور پھر فجر کا وقت وہ ہے جب اس کی رہائی ہو جاوے.۴ ان حالات کے ۱بدر میں یہ مضمون یوں بیان ہوا ہے.’’حالت اوّل زوال سے شروع ہوتی ہے.اس سے پہلے انسان اپنے آپ کو غنی سمجھتا ہے اور طاقتور جانتا ہے اور روزِ روشن کی طرح اس کے تمام امور ایک جلوہ رکھتے ہیں اور ان پر کوئی تاریکی نہیں ہوتی.وہ اپنے آپ کو غیر محتاج کی طرح خیال کرتا ہے اور ایک پوری راحت اور آرام کی صورت میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے اچانک اس پر ایک وقت آتا ہے کہ وہ زوال کے ساتھ ایک مشابہت رکھتا ہے وہ ابتداءِ مصیبت کا وقت ہوتا ہے اور دکھ، درد اور محتاجی کا احساس شروع ہوتا ہے.قبل ازیں اس کو معلوم نہ تھا کہ مجھ پر ایسا وقت آنے والا ہے.اچانک بیٹھے بیٹھے یہ حالت شروع ہوجاتی ہے جیسا کہ گھر میں آرام سے بیٹھے ہوئے اچانک کسی کے پاس گورنمنٹ کی طرف سے وارنٹ آتا ہے اور کسی جرم پر جواب طلبی کی جاتی ہے.یہ مصیبت کا پہلا مرحلہ ہے اور نماز ظہر کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے.چونکہ انسان کی راحت اور جمعیت میں ایک زوال آگیا ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۲) ۲ بدر سے.’’اور اس کے نور کی روح کھینچ لی گئی ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۳) ۳ بدر سے.’’کیونکہ تمام روشنی جاتی رہی اور چاروں طرف سے اس پر تاریکی چھا گئی اور وہ قید خانے میں پڑا ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۳) ۴ بدر سے.’’اس لمبی تاریکی کے بعد پھر فجر کا وقت آتا ہے جبکہ وہ قید خانہ سے رہائی پانے لگتا ہے اور دوبارہ اس پر روشنی کا پر تَو پڑتا ہے اور اس کے ارد گرد نور چمکتا ہے.یہ پانچ اوقات انسان کے حال پر لازم رکھے گئے ہیں اور ان

Page 32

ماتحت ایسے انسان کا درد و سوزش ہر آن بڑھتی جاوے گی.یہاں تک کہ آخر اس کی سوزش و اضطراب اس کے لیے وہ وقت لے آوے کہ وہ نجات پا جاوے.اور یہ جو پہلے میں نے بیان کیا ہے قیام، رکوع اور سجود کے متعلق، اس میں انسانی تضرّع کی ہیئت کا نقشہ دکھایا گیا ہے.پہلے قیام کرتا ہے.جب اس پر ترقی کرتا ہے تو پھر رکوع کرتا ہے اور جب بالکل فنا ہوجاتا ہے تو پھر سجدہ میں گر پڑتا ہے.میں جو کچھ کہتا ہوں صرف تقلید اور رسم کے طور پر نہیں بلکہ اپنے تجربہ سے کہتا ہوں بلکہ ہر کوئی اس کو اس طرح پر پڑھ کر اور آزما کر دیکھ لے.۱ اس نسخہ کو ہمیشہ یاد رکھو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ کہ جب کوئی دکھ یا مصیبت پیش آوے تو فوراً نماز میں کھڑے ہو جاؤ اور جو مصائب اور مشکلات ہوں ان کو کھول کھول کر اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرو کیونکہ یقیناً خدا ہے اور وہی ہے جو ہر قسم کی مشکلات اور مصائب سے انسان کو نکالتا ہے وہ پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہے.اس کے سوا کوئی نہیں جو مددگار ہو سکے.بہت ہی ناقص ہیں وہ لوگ کہ جب ان کو مشکلات پیش آتی ہیں تو وکیل، طبیب یا اَور لوگوں کی طرف تو رجوع کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کا خانہ بالکل خالی چھوڑ دیتے ہیں.مومن وہ ہے جو سب سے اوّل خدا تعالیٰ کی طرف دوڑے.یہ اَمر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ نہ ہو اور رجوع نہ کرو تو اس سے اس کی ذات میں کوئی نقص پیدا نہیں ہو سکتا اور وہ تمہاری کچھ بھی پروا نہیں رکھتا جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُ كُمْ(الفرقان:۷۸) یعنی ان کو کہہ دو کہ میرا ربّ تمہاری پروا کیا رکھتا ہے اگر تم سچے دل سے اس کی عبادت نہ کرو.جیسا کہ وہ رحیم و کریم ہے ویسا ہی وہ غنی بے نیاز بھی ہے.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ طاعون نے کیا کیا اور زلزلوں نے کیا دکھایا؟ گھروں کے گھر اور شہروں کے شہر تباہ ہوگئے اور ہزاروں لاکھوں خاندان ہمیشہ کے لیے مٹ گئے مگر اللہ تعالیٰ کو اس کی (بقیہ حاشیہ) پانچوں حالتوں کی یاد میں جو کہ اس پر آنے والی ہیں وہ روزانہ خدا تعالیٰ کے حضور میں دعائیں کرتا ہے کہ وہ ان مشکلات سے بچایا جاوے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۳) ۱ بدر سے.’’وہ بڑا بد قسمت ہے جو اس نسخہ کو آزما کر نہیں دیکھتا اور اس سے فائدہ حاصل نہیں کرتا.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۳)

Page 33

کیا پروا.باوجود اس کے کہ وہ بہت ہی رحم کرنے والا ہے مگر بے نیاز بھی ہے.نوحؑ کے وقت، لوطؑ کے وقت، موسٰی کے وقت کیا ہوا؟ کیا جو قومیں اور بستیاں اس وقت ہلاک ہوئیں وہ انسان نہ تھے؟ وہ بھی انسان تھے اور تم بھی انسان ہو لیکن جب اس نے دیکھا کہ وہ باز نہیں آتے اور حق کا انکار کرتے ہیں تو آخر خدا تعالیٰ کا قہر نازل ہوا اور آن کی آن میں انہیں مٹا دیا.مگر یاد رکھو اور خوب یاد رکھو!! صرف اتنی ہی بات کہ ہم نے مان لیا ہے کافی نہیں ہے.خدا تعالیٰ مجرد اقرار نہیں چاہتا.وہ چاہتا ہے کہ جو اقرار تم نے کیا ہے اسے کر کے دکھا دو.بعض لوگ اعتراض کر دیتے ہیں کہ فلاں شخص بیعت میں داخل تھا پھر وہ طاعون سے کیوں مَر گیا؟ میں کہتا ہوں کہ میں اس کا ذمہ دار ہوں کہ وہ کیوں مَرگیا؟ اپنے اندر کے طاعون سے مَر گیا.اللہ تعالیٰ ہرگز ہرگز ظلّام نہیں ہے وہ اپنے سچے بندوں کو محفوظ رکھتا ہے اور ان میں اور ان کے غیروں میں فرق رکھ دیتا ہے.مجھے ان لوگوں پر بہت ہی تعجب آتا ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے بیعت کی ہوئی تھی ہم پر یہ مصیبت کیوں آئی؟ وہ نادان نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا.نری بیعت اور زبانی اقرار کیا بنا سکتا ہے؟ جب تک دل صاف نہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے سچا پیوند قائم نہ ہو.کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ میں تیرے اہل کو بچا لوں گا، لیکن جب ان کا بیٹا ہلاک ہونے لگا تو نوح علیہ السلام نے دعا کی اور اس اَمر کو پیش کیا.خدا تعالیٰ نے اس کا کیا جواب دیا؟ یہی کہ تو جاہل مت بن وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے.کیونکہ اس کے اعمال صالح نہیں ہیں.گویا وہ چھپا ہوا مرتد تھا.پھر جب انہیں اپنے ایسے بیٹے کے لیے دعا کرنے پر یہ جواب ملا تو اَور کون ہوسکتا ہے جو خدا تعالیٰ سے تو سچا تعلق پیدا نہیں کرتا اور اپنے اعمال اور حال میں اصلاح نہیں کرتا اور چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ وہ معاملہ ہو جو اس کے مخلص اور وفا دار بندوں سے ہوتا ہے.یہ سخت نادانی اور غلطی ہے.سچے خدا پرست بنو اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا مِنْ شُـرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَیِّئَاتِ اَعْـمَالِنَا.میں جانتا ہوں.بہت سے لوگ ہیں جو چھپے ہوئے مرتد ہیں.بہت سے ایسے ہیں جو باوجود اس کے کہ وہ بیعت میں داخل ہیں اور پھر مجھے خط لکھتے ہیں کہ فلاں شخص نے

Page 34

مجھے کہا کہ جب تک تیرے گھر بیٹا نہ ہو وہ کیوں کر سچا ہو سکتا ہے؟ یہ نادان اتنا نہیں جانتے کہ کیا خدا نے مجھے اس لیے بھیجا ہے کہ میں لوگوں کو بیٹے دوں؟ کسی کے گھر بیٹا ہو یا بیٹی مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں اور نہ میں اس لیے بھیجا گیا ہوں.میں تو اس (لیے) آیا ہوں کہ تا لوگوں کے ایمان درست ہوں.پس جو لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے ایمان درست ہوں اور خدا تعالیٰ سے ان کا سچا تعلق پیدا ہو ان کو میرے ساتھ تعلق رکھنا چاہیے خواہ بیٹے مَریں یا جئیں.۱ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے.اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ(الانفال:۲۹) جو لوگ ایسے خطوط لکھتے ہیں یا اپنے دل میں ایسے خیالات رکھتے ہیں وہ یاد رکھیں اور خوب یاد رکھیں کہ وہ مجھ پر نہیں خدا تعالیٰ پر اعتراض کرتے ہیں.یقیناً سمجھو کہ میرے پیچھے آنا ہے اور سچے مسلمان بننا ہے تو پہلے بیٹوں کو مار لو.بابا فریدؒ کا مقولہ بہت صحیح ہے کہ جب کوئی بیٹا مَر جاتا تو لوگوں سے کہتے کہ ایک کتورہ (کتی کا بچہ ) مَرگیا ہے اس کو دفن کر دو.پس کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا نہیں کر سکتا جب تک باوجود اولاد کے بے اولاد نہ ہو اور باوجود مال کے دل میں مفلس و محتاج نہ ہو اور باوجود دوستوں کے بے یارومددگار نہ ہو.یہ ایک مشکل مقام ہے جو انسان کو حاصل کرنا چاہیے.اسی مقام پر پہنچ کر وہ سچا خدا پرست بنتا ہے.یہ جو قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ میں شرک نہیں بخشوں گا.اس کا مفہوم نادانوں نے اتنا ہی سمجھ لیا ہے کہ اس سے بُت پرستی مراد ہے.نہیں اتنی ہی بات نہیں بلکہ اس سے وہ سب محبوب مراد ہیں جو انسان اپنے لیے بنا لیتا ہے ایسے لوگ دیکھے گئے ہیں کہ جب انہیں ذرا بھی تکلیف یا مصیبت پہنچے یا کوئی اولاد مَر جاوے تو فوراً خدا تعالیٰ سے تعلق توڑ بیٹھتے ہیں اور شکوہ اور شکایت کرنے لگتے ہیں.یہ سخت مشرک اور اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں.پس تم ایسے مت بنو اور اس قسم کے خیالات کو دل سے نکال دو اور اس کی ترکیب یہی ہے کہ نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ اپنی نمازوں میں دعائیں کرو ۱بدر سے.’’نہ کہ لوگ مرید ہو کر آزمائش کیا کریں کہ بیٹے پیدا ہوتے ہیں یا کہ نہیں.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۳)

Page 35

اور اس کی توفیق چاہو.میں کھول کر کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میری بیعت اس لیے کرتا ہے کہ اسے بیٹا ملے یا فلاں عہدہ ملے یعنی شرطی باتوں پر بیعت کرتا ہے تو وہ آج نہیں.کل نہیں.ابھی الگ ہو جاوے اور چلا جاوے.مجھے ایسے آدمیوں کی ضرورت نہیں اور نہ خدا کو ان کی پروا ہے.یقیناً سمجھو! اس دنیا کے بعد ایک اور جہان ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا.اس کے لیے تمہیں اپنے آپ کو تیار کرنا چا ہیے یہ دنیا اور اس کی شوکتیں یہاں ہی ختم ہو جاتی ہیں مگر اس کی نعمتوں اور خوشیوں کا بھی انتہا نہیں ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ جو شخص ان سب باتوں سے الگ ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف آتا ہے وہی مومن ہے اور جب ایک شخص خدا کا ہوجاتا ہے تو پھر یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ اسے چھوڑ دے.یہ مت سمجھو کہ خدا ظالم ہے.جو شخص خدا تعالیٰ کے لیے کچھ کھوتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ پالیتا ہے.اگر تم خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم کر لو اور اولاد کی خواہش نہ کرو تو یقیناً اور ضروری سمجھو کہ اولاد مل جاوے گی.۱ اور اگر مال کی خواہش نہ ہو تو وہ ضرور دے دے گا تم دو کوششیں مت کرو کیونکہ ایک وقت دو کوششیں نہیں ہو سکتی ہیں ایک ہی کوشش کرو کہ جس سے سب کچھ مل جاوے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو پانے کی سعی کرو.میں پھر کہتا ہوں کہ اسلام کی اصل جڑ توحید ہے یعنی خدا تعالیٰ کے سوا کوئی چیز انسان کے اندر نہ ہو اور خدا اور اس کے رسولوں پر طعن کرنے والا نہ ہو خواہ کوئی بَلا یا مصیبت اس پر آئے.کوئی دکھ یا تکلیف یہ اٹھائے مگر اس کے منہ سے شکایت نہ نکلے.بَلا جو انسان پر آتی ہے وہ اس کے نفس کی وجہ سے آتی ہے خدا تعالیٰ ظلم نہیں کرتا.ہاں کبھی کبھی صادقوں پر بھی بَلا آتی ہے مگر دوسرے لوگ اسے بَلا ۱بدر سے.’’جو لوگ درحقیقت خدا کے واسطے دنیا کو چھوڑ دیتے ہیں خدا تعالیٰ انہیں دنیا بھی دیتا ہے.پس تم خدا کے واسطے مال کی خواہش چھوڑ دو اور اس کے واسطے اولاد کے خیال کو ذلیل جانو تو تم کو خدامال اور اولاد سب کچھ دے گا وہ سب کچھ دیتا ہے مگر وہ نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی شریک ہو.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر۱ ،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۳،۱۴)

Page 36

سمجھتے ہیں در حقیقت وہ بَلا نہیں ہوتی وہ ایلام برنگ انعام ہوتا ہے.اس سے خدا تعالیٰ کے ساتھ ان کا تعلق بڑھتا ہے اور ان کا مقام بلند ہوتا ہے اس کو دوسرے لوگ سمجھ ہی نہیں سکتے لیکن جن لوگوں کا خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہوتا اور ان کی شامت اعمال ان پر کوئی بَلا لاتی ہے تو وہ اور بھی گمراہ ہوتے ہیں.ایسے ہی لوگوں کے لیے فرمایا ہے فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ١ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا(البقرۃ:۱۱) پس ہمیشہ ڈرتے رہو اور خدا تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو.تا ایسا نہ ہو کہ تم خدا سے قطع تعلق کرنے والوں میں ہو جاؤ.جو شخص خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت میں داخل ہوتا ہے.وہ خدا تعالیٰ پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے اس کو ایسی توفیق عطا کی.وہ اس بات پر قادر ہے کہ ایک قوم کو فنا کر کے دوسری پیدا کرے.یہ زمانہ لوطؑاور نوحؑکے زمانہ سے ملتا ہے.بجائے اس کے کہ کوئی شدید عذاب آتا اوردنیا کا خاتمہ کر دیتا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے اصلاح چاہی ہے اور اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.بدیوں کو دور کرنے کے لیے مرسلین کا آنا ضروری ہے یہ بھی مت سمجھو کہ ہم خود ہی بدیوں سے باز آسکتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عیسائی اور یہودی موجود تھے اور توریت اور انجیل بھی موجود تھی.پھر تم خود ہی بتاؤ کہ کیا وہ لوگ فسق و فجور اور ہر قسم کے جرائم اور معاصی سے باز آگئے تھے؟ نہیں بلکہ باوجود ان کتابوں کے موجود ہونے کے بھی وہ حدود اللہ سے نکل گئے تھے.سنّت اللہ یہی ہے کہ جب زمین فسق و فجور سے بھر جاتی ہے تو اس کے روکنے والی قوت آسمان سے آتی ہے.اللہ تعالیٰ ایک شخص کو بھیج دیتا ہے جس کے ذریعہ لوگوں کو توبہ کی توفیق ملتی ہے.جو یہودی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت موجود تھے وہ ہزار سال سے ویسے ہی رہے تھے لیکن جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت میں داخل ہوگئے وہ فرشتے بن گئے.اگر انسان خود ہی کر سکتا تو بگڑتا ہی کیوں؟ اور پھر نبیوں کی ضرورت ہی کیا تھی؟ خدا تعالیٰ کے مرسل اسی غرض کے لیے تو آیا کرتے ہیں اور ضرور آتے ہیں.ہاں سنّت اللہ اسی طرح جاری ہے کہ جب خزاں کا وقت آتا ہے تو

Page 37

درختوں کے پتّے گر جاتے ہیں نہ پھل ہوتا ہے نہ پھول نہ خوشبو بلکہ خوشبو کی جگہ بد بو ہوتی ہے اور خوبصورتی کی بجائے بد صورتی ہوتی ہے لیکن پھر یک دفعہ جب بہار کا موسم آتا ہے تو پھر تدریجی طور پر سب کچھ بحال ہوجاتا ہے.یہی سلسلہ روحانی عالم میں ہے.جب دیکھو کہ ایمان اور اعمالِ صالحہ میں خزاں کا دور شروع ہے اور ہر طرف پھل، پھول اور پتّے تک گر رہے ہیں تب سمجھو کہ بہار آئی.انبیاء علیہم السلام کا وقت بہار سے مشابہ ہے.میں نے سب کتابیں دیکھی ہیں.توریت اور انجیل کو خوب پڑھا ہے مگر میں حلفاً کہتا ہوں کہ جو ثبوت قرآن مجید نے دیا ہے.ہرگز ہرگزکسی دوسری کتاب نے نہیں دیا.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جس قدر قصے شریروں اور بدکاروں کے بیان کئے ہیں ساتھ ہی بیان کیا کہ یہ اس وقت موجود ہیں.اس سے غرض کیا تھی؟ اصل غرض یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ جب ایک یا دو قسم کی بدیوں کے دور کرنے کے لیے رسولوں کا آنا ضروری تھا پھر جہاں اس قدر بدیاں پھیل رہی ہوں اور تمام شرارتیں جمع ہوگئی ہوں.وہاں کیوں ضروری نہیں؟ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت حق تھی اور عین ضرورت کے وقت تھی.یہ ان لوگوں پر حجّت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے ہیں.وہ سوچیں کہ جو بد اعمالیاں کبھی کسی زمانہ میں پیدا ہوئیں اور ان کے لیے رسول آیا.پھر جب ان کا مجموعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوگیا یہاں تک کہ کہنا پڑا کہ بحر و بر میں فساد پیدا ہوگیا.اس زمانہ میں ایسی ہوا چلی ہوئی تھی کہ سب بگڑ گئے تھے.۱ آریہ ورت کے لیے پنڈت دیانند نے شہادت دی ہے کہ وہ بھی بگڑا ہوا تھا.جگن ناتھ اور سومنات وغیرہ بُت خانے اسی وقت کے ہیں.گویا اتنی بڑی خزاں تھی کہ اس کی نظیر نہیں ملتی اور وہ وقت بالطبع چاہتا تھا کہ عظیم الشان مصلح پیدا ہو.جو ان تمام فسادوں کی اصلاح کرے.چنانچہ اس وقت کے حسب حال آپؐپیدا ہوئے.یہ بڑا نشان ہے.پھر یہ دیکھنا چاہیے ۱ بدر سے.’’وہ ایسا زمانہ تھا کہ جاہل اپنی جہالت میں حد سے گذر چکے تھے اور اہل کتاب بھی بگڑ گئے تھے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۴)

Page 38

کہ آپؐنے آکر کیا کیا؟ اس وقت جو حالت ملک اور قوم بلکہ دنیا کی ہو رہی تھی اس کی تفصیل کی حاجت نہیں.سب شہادت دیتے ہیں اور خود قرآن مجید نے شہادت دی ہے وہ ان میں شائع ہوتا تھا اگر کوئی اَمر جو ان کے حالات کے متعلق اس میں بیان کیا گیا ہے خلاف واقعہ ہوتا تو وہ شور مچا دیتے کہ جھوٹ کہا ہے لیکن کسی کو انکار کی گنجائش ہی نہ تھی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وقت، کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے بہت بڑی خزاں کا وقت تھا اور اسی کے مقابل میں بہار بھی وہ آئی کہ اس کی نظیر نہ پہلے ملتی ہے اورنہ آئندہ ہوگی.اس لیے کہ آئندہ تو اسی بہار کا سماں ہے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قریب کا زمانہ تھا اور وہ بھی ایک بہار کا وقت تھا مگر اس وقت جو ترقی یا تبدیلی ہوئی وہ اس سے ہی ظاہر ہے کہ آپ نے بارہ آدمی تیار کئے جو بارہ حواری مشہور ہیں.ان میں سے ایک نے جو بڑا مخلص سمجھا جاتا تھا.تیس روپے لے کر گرفتار کرا دیا اور دوسرے نے جس کو بہشت کی کنجیاں دی گئی تھیں تین مرتبہ لعنت کی اور باقی بھاگ گئے مگر اس کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت تیار کی وہ صدق و اخلاص میں ایسی وفادار تھی کہ اس نے بھیڑ بکری کی طرح سر کٹوا دیئے.اس سے بڑھ کر حیرت انگیز تبدیلی کیا ہوگی وہ جو ہرقسم کے عیبوں اور معاصی میں مصروف رہنے والی قوم تھی.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کے نیچے آئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ وہ مخلصانہ پیوند کیا کہ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اللہ ہی سے محبت کرتے تھے.یہ دو نشان ایسے زبردست ہیں کہ جو شخص تعصب سے خالی ہو کر ان پر تدبّر کرے گا اور ضرور کرنا چاہیے اس کو ایک دفعہ اقرار کرنا پڑے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی تھے.مسلمانوں کی موجودہ حالت کی اصلاح کے لیے مرسل کا ظہور اب یہ زمانہ جس میں ہم ہیں اس کی حالت پر نظر کرو کون کہہ سکتا ہے کہ اس میںمسلمانوں کی اندرونی حالت میں تغیّر نہیں ہوا.ان کی عملی اور اعتقادی حالت بگڑ گئی ہے.ان کی اخلاقی حالت

Page 39

ہوگئی ہے.جس پہلو سے دیکھو اور جس حیثیت سے نظر کرو اسے دیکھ کر رونا آتا ہے.بیرونی حالت دیکھتے ہیں تو وہ اور بھی قابل افسوس ہے.اسی ملک میں لاکھوں مرتد ہوگئے ہیں.یہ وہ دین تھا کہ ایک بھی مرتد ہوجاتا تو قیامت آجاتی مگر اب یہ حالت ہے کہ دو چار روپیہ کے لالچ میں آکر گرجا میں جا کر مرتد ہوجاتے ہیں.آپس میں ایک دوسرے کے حقوق تلف کرتے ہیں.قرضہ لے کر دینے کا نام نہیں لیتے.طرح طرح کے معاصی اور فسق و فجور میں مبتلا ہیں.اب کیا یہ حالت زمانہ ایسی تھی کہ خدا تعالیٰ چپ رہتا اور اس کی اصلاح کے لیے کسی کو نہ بھیجتا؟ اگر وہ چپ رہتا تو پھر عذاب آتا اور اس کو تباہ کر دیتا.مگر نہیں، اس نے اپنی رحمت سے ایک شخص کو بھیج دیا ہے جو تم ہی میں سے آیا ہے.اس کے آنے کی غرض یہی ہے کہ تا وہ فساد مٹا دیئے جاویں جو اسلام میں اور مسلمانوں میں پیدا ہوچکے ہیں اور جنہوں نے ان کو اس ذلیل حالت تک پہنچا دیا ہے.لیکن یاد رکھو اس کا آنا فضول ہوجاتا ہے اگر لوگ اس بات کو مضبوط نہ پکڑیں جو وہ لے کر آیا ہے صرف اتنی بات پر خوش ہوجانا کہ ہم میں ایک رسول آیا ہے کافی نہیں.جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب آیا.کیا وہ اس وقت زندہ نہ تھے؟ یا موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں اسرائیلیوں پر بعض عذاب آئے تو وہ ان کے ساتھ نہ تھے؟ اتنے پر خوش نہ ہو کہ ہمارے پاس خدا کا مرسل ہے جو شخص اس دھوکا میں ہے قریب ہے کہ وہ ہلاک ہوجاوے.خدا تعالیٰ کسی کی رعایت نہیں کرتا.یاد رکھو! اسلام ایک موت ہے.جب تک کوئی شخص نفسانی جذبات پر موت وارد کر کے نئی زندگی نہیں پاتا اور خدا ہی کے ساتھ بولتا، چلتا، پھرتا، سنتا، دیکھتا نہیں.وہ مسلمان نہیں ہوتا.دیکھو! یہ چھوٹی سی بات نہیں اور معمولی اَمر نہیں کہ اس نے ایک شخص کو بھیجا اور تمہیں آنے والے عذاب سے ڈرایا.یہ اس کا بڑا بھاری فضل اور رحمت کا نشان ہے اس کو حقیر مت سمجھو.اس کی قدر کرو.مجھے اس شہادت کو ادا کرنا پڑتا ہے جو میرے ذمہ ہے.سنو! مجھے دکھایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قہری نشان نازل ہوں گے.زلزلے آئیں گے اور طاعون کی موتیں ہوں گی اس لیے میں تمہیں اس سے پہلے کہ خدا کا عذاب نازل ہو تمہیں اور

Page 40

سنو! مجھے دکھایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قہری نشان نازل ہوں گے.زلزلے آئیں گے اور طاعون کی موتیں ہوں گی اس لیے میں تمہیں اس سے پہلے کہ خدا کا عذاب نازل ہو تمہیں اور ہرسننے والے کو متنبہ اور آگاہ کرتا ہوں کہ توبہ کرو.ہر شخص جوعذاب سے پہلے توبہ کرتا ہے اور اپنی اصلاح کے لیے تبدیلی کر لیتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے رحم کا امید وار ہوسکتا ہے لیکن جب عذاب نازل ہوگیا پھر توبہ کا دروازہ بند ہوگا.اس وقت جو امن کی حالت ہے توبہ کرو اور اصلاح کے لیے قدم بڑھاؤ.میری باتوں کو اس طرح مت سنو جس طرح پر لڑکے کہانیاں سنا کرتے ہیں.اٹھو اور تبدیلیاں کرو.جب مصیبت آگئی پھر خواہ کوئی ہزار کہے کہ دعا کرو کچھ فائدہ نہ ہوگا کیونکہ عذاب تو آچکا.ہاں اب وقت ہے.اصلاح کے ذرائع تبدیلی اور اصلاح کس طرح ہو؟ اس کا جواب وہی ہے کہ نماز سے جو اصل دعا ہے.قرآن شریف پر تدبرکرو اس میں سباور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانہ کی خبریں ہیں وغیرہ.بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بہ تازہ ملتے ہیں.انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا.اس کی تعلیم اُس زمانہ کے حسب حال ہو تو ہو لیکن وہ ہمیشہ اور ہر حالت کے موافق ہرگز نہیں.یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قویٰ کی تربیت فرمائی ہے اور جو بدی ظاہر کی ہے اس کے دور کرنے کا طریق یہی بتایا ہے اس لیے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو.کچھ ہے.نیکیوں روزہ پھر تیسری بات جو اسلام کا رکن ہے وہ روزہ ہے.روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں.اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے.روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے.انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں.خدا تعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ.ہمیشہ روزہ دارکو یہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو.پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کے لیے تسلی اور سیری کا باعث ہے اور جو لوگ محض خدا کے لیے روزے رکھتےہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے.

Page 41

کرو اور دوسری کو بڑھاؤ.ہمیشہ روزہ دارکو یہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو.پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کے لیے تسلی اور سیری کا باعث ہے اور جو لوگ محض خدا کے لیے روزے رکھتےہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے.حج ایسا ہی حج بھی ہے.حج سے صرف اتنا ہی مطلب نہیں کہ ایک شخص گھر سے نکلے اور سمندر چیر کر چلا جاوے اور رسمی طور پر کچھ لفظ منہ سے بول کر ایک رسم ادا کر کے چلا آوے.اصل بات یہ ہے کہ حج ایک اعلیٰ درجہ کی چیز ہے جو کمال سلوک کا آخری مرحلہ ہے.سمجھنا چاہیے کہ انسان کا اپنے نفس سے انقطاع کا یہ حق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی محبت میں کھویا جاوے اور تعشق باللہ اور محبت الٰہی ایسی پیدا ہوجاوے کہ اس کے مقابلہ میں نہ اسے کسی سفر کی تکلیف ہو اور نہ جان و مال کی پروا ہو، نہ عزیز و اقارب سے جدائی کا فکر ہو جیسے عاشق اور محب اپنے محبوب پر جان قربان کرنے کو تیار ہوتا ہے.اسی طرح یہ بھی کرنے سے دریغ نہ کرے.اس کا نمونہ حج میں رکھا ہے.جیسے عاشق اپنے محبوب کے گرد طواف کرتا ہے اسی طرح حج میں بھی طواف رکھا ہے یہ ایک باریک نکتہ ہے.جیسا بیت اللہ ہے ایک اس سے بھی اوپر ہے.جب تک اس کا طواف نہ کرو.یہ طواف مفید نہیں اور ثواب نہیں.اس کے طواف کرنے والوں کی بھی یہی حالت ہونی چاہیے جو یہاں دیکھتے ہو کہ ایک مختصر سا کپڑا رکھ لیتے ہیں.اسی طرح اس کا طواف کرنے والوں کو چاہیے کہ دنیا کے کپڑے اتار کر فروتنی اور انکساری اختیار کرے اور عاشقانہ رنگ میں پھر طواف کرے.طواف عشق الٰہی کی نشانی ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ گویا مرضاتِ اللہ ہی کے گرد طواف کرنا چاہیے اور کوئی غرض باقی نہیں.زکوٰۃ اسی طرح پر زکوٰۃ ہے.بہت سے لوگ زکوٰۃ دے دیتے ہیں.مگر وہ اتنا بھی نہیں سوچتے اور سمجھتے کہ یہ کس کی زکوٰۃ ہے.اگر کتّے کو ذبح کر دیا جاوے یا سؤر کو ذبح کر ڈالو تو وہ

Page 42

صرف ذبح کرنے سے حلال نہیں ہو جائے گا.زکوٰۃ تزکیہ سے نکلی ہے.مال کو پاک کرو اور پھر اس میں سے زکوٰۃ دو.جو اس میں سے دیتا ہے اس کا صدق قائم ہے لیکن جو حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتا وہ اس کے اصل مفہوم سے دور پڑا ہوا ہے اس قسم کی غلطیوںسے دست بردار ہونا چاہیے اور ان ارکان کی حقیقت کو بخوبی سمجھ لینا چاہیے تب یہ ارکان نجات دیتے ہیں ورنہ نہیں اور انسان کہیں کا کہیں چلا جاتا ہے.یقیناً سمجھو کہ فخر کرنے کی کوئی چیز نہیں ہے۱ اور خدا تعالیٰ کا کوئی اَنفسی یا آفاقی شریک نہ ٹھہراؤ اور اعمالِ صالحہ بجا لاؤ.مال سے محبت نہ کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ( اٰلِ عـمران:۹۳) یعنی تم بِرّ تک نہیں پہنچ سکتے جب تک وہ مال خرچ نہ کرو جس کو تم عزیز رکھتے ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو اپنا اُسوہ بناؤ اور دیکھوکہ وہ زمانہ تھا جب صحابہؓ نے نہ اپنی جان کو عزیز سمجھا نہ اولاد اور بیویوں کو.بلکہ ہر ایک ان میں سے اس بات کا حریص تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں شہید ہو جاؤں.تم حلفاًبیان کرو کیا تمہارے اندر یہ بات ہے؟ جب ذرا سا بھی ابتلا آجاوے تو گھبرا جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ ہی کی شکایت کرنے لگتے ہیں ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کبھی مسلمان نہیںکہلا سکتے.میں بار بار یہی کہتا ہوں کہ تمہارا اسوہ حسنہ وہی ہو جو صحابہؓ کا تھا.میرا کہنا تو صرف کہہ دینا ہے.توفیق کا عطا کرنا اللہ تعالیٰ کے فضل کی بات ہے.اس بات کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھو کہ تمہارے اعمال اور افعال میں اخلاص ہو.ریاکاری اور بناوٹ نہ ہو.کیونکہ تم جانتے ہو اگر کوئی شخص سونے کی بجائے پیتل لے کر بازار میں جاوے تو وہ فوراً پکڑا جاوے گا اور آخر اسے جیل میں جا کر اپنی جعلسازی کی سزا بھگتنی پڑے گی.پس اسی طرح پر خدا تعالیٰ کے حضور دھوکا نہیں چل سکتا.انسان کو دھوکا لگ سکتا ہے مگر وہاں نہیں ہو سکتا.جو چاہتا ہے کہ وہ خدا کا اور خدا اس کا ہوجاوے اسے چاہیے ۱ بدر سے.’’انسان کو اپنے اعمال پر فخر نہیں کرنا چاہیے اور نہ خوش ہونا چاہیے جب تک ایسا ایمان خالص حاصل نہ ہوجاوے کہ انسان کی عبادت میں خدا تعالیٰ کے ساتھ کوئی شریک نہ ہو.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۵

Page 43

کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ننگا ہو جاوے.یہ مت سمجھو کہ میں تمہیں اس اَمر سے منع کرتا ہوں کہ تم تجارت نہ کرو یا زراعت اور نوکری یا دوسرے ذرائع معاش سے روکتا ہوں.ہرگز نہیں.میرا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ میرا مطلب یہ ہے دل با یار دست باکار.تمہارا اُسوہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کوئی تجارت اور بیع و شریٰ انہیں ذکر اللہ سے نہیں روکتا.ہزاروں لاکھوں کی تجارت میں بھی وہ خدا تعالیٰ سے ایک لحظہ کے لیے جدا نہیں ہوتے.اس لیے تمہارا فخر اور دستاویز ایسے اعمال ہونے چاہئیں جو حقیقی ایمان کے بعد پیدا ہوتے ہیں.سچی خواب مدارِ نجات نہیں میں اس اَمر کا افسوس سے ذکر کرتا ہوں کہ بعض لوگ میں نے دیکھے ہیں جن کی زندگی کا بڑا مقصد یہی ہوتا ہے کہ انہیں خواب آجاتے ہیں یا آنے چاہئیں.وہ سارا زور اسی اَمر پر دیتے ہیں.میرے نزدیک یہ ابتلا ہے جو لوگ اس وہم میںمبتلاہیں وہ یاد رکھیں اس اَمر سے نجات وابستہ نہیں ہے.کبھی یہ سوال نہیں ہوگا تجھے کتنے خواب آئے تھے؟ میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جنہوں نے چوری میں سزا پائی اور جب سزا پاکر آئے اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ چوری کرنے گئے تھے.خواب میں معلوم ہوگیا تھا کہ ایسا ہوگا.بڑے بڑے بدکار جو کنجر کہلاتے ہیں انہیں بھی سچی خواب آسکتی ہے.یہاں ہمارے ہاں ایک چوہڑی تھی اس کو بھی خواب آجاتے تھے.پس تم اس ابتلا میں مت پھنسو.خدا تعالیٰ سے اپنے تعلقات بڑھاؤ اور اس کو راضی کرو.اپنے اعمال میں ایک خوبصورتی پیدا کرو.انسان کو چاہیے کہ اس اَمر کا مطالعہ کرے کہ کیا قرآن شریف کے موافق میں نے اپنےا عمال کو بنالیا ہے یا نہیں؟ اگر یہ بات (نہیں) ہے تو خواہ اس کو ہزاروں خواب آئیں بے سود اور بے فائدہ ہیں.قرآن شریف میں یہی حکم ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا پورا ادا کرو.ان میں ریا، خیانت، شرارت باقی نہ ہو.وہ خالصۃً للہ ہوں.پس پہلے اس بات کو پیدا کرو.پھر اس کے ثمرات خود بخود حاصل ہوں گے.

Page 44

ہمارا یہ مطلب نہیں کہ یہ بُری چیزیں ہیں یا بُرا طریق ہے.نہیں نہیں.اصل مطلب یہ ہے کہ بد استعمالی بُری ہے.۱ بیمار کا فرض یہ ہے کہ وہ اوّل علاج کرائے نہ یہ کہ علاج تو کرائے نہیں اور کہے مجھے الف لیلہ کی سیر کے دو چار ورق سنا دو.۲ اسی طرح کشوف اور رؤیا روحانی سیر ہیں.جب روحانی بیماریوں کا علاج ہوجاوے گا اور روحانی صحت درست ہوگی اس وقت سیر بھی مفید ہوگی.جب انسان اپنے نفس کو کھو دیتا ہے اور غیراللہ کی طرف التفات نہیں رہتی اور کسی کو اپنی نظر میں نہیں دیکھتا اور خدا ہی کو دیکھتا اور اس کو ہی سناتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ بھی اس کو سناتا ہے مگر وہ لوگ جن کے باوجودیکہ دو کان ہوتے ہیں مگر وہ حرص، ہوا، حسد، غصہ و کینہ وغیرہ ہر قسم کی طاقتوں کی باتیں سنتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی بات کیوں کر سن سکتے ہیں.ہاں ایک قوم ہوتی ہے جو باقی سب کو ذبح کر ڈالتے ہیں اور سب طرف سے کانوں کو بند کر لیتے ہیں.نہ کسی کی سنتے ہیں اور نہ کسی کو سناتے ہیں.انہیں ہی خدا بھی اپنی سناتا ہے اور ان کی سنتا ہے اور وہی مبارک ہوتا ہے.۳ پس اس قوم میں داخل ہوناچاہتے ہو تو ان کے نقش قدم پر چلو.جب تک یہ بات پیدا نہ ہو ایسی آوازوں اور خوابوں پر ناز نہ کرو.خصوصاً ایسی حالت میں کہ حدیث میں اضغاث احلام اور ۱ بدر سے.’’خوابوں کے ذریعہ سے کوئی شخص نجات نہیں پاسکتا.یہ طریق بُرا نہیں مگر اس کی بد استعمالی نقصاں رساں ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۶) ۲ بدر سے.’’بیمار کو چاہیے کہ اوّل اپنا علاج کرائے.اگر ایک بیمار اپنا علاج نہ کرے اور چند قصے سننے لگے تو اس سے وہ اچھا نہ ہوجائے گا.ایک شخص جو اپنی خراب صحت کے سبب دو چار روز میں مَرنے والا ہے اگر وہ کہے کہ میں امریکہ کی سیر کے واسطے جاتا ہوں تاکہ دنیا کے عجائبات دیکھوں تو یہ اس کی نادانی ہے.اس کو تو چاہیے کہ اول اپنا علاج کرائے.جب تندرست ہوجائے تو پھر سیر بھی کر سکتا ہے.حالت بیماری میں تو سیرو سیاحت اور بھی نقصاں رساں ہوگی.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۶) ۳ بدر سے.’’ایک کان جو ہزاروں طرف لگا ہوا ہے اور شرک کے ساتھ بھرا ہوا ہے اور جذباتِ نفسانی اور ہوا و ہوس کی متابعت میں پُر ہے وہ کیوں کر خدا تعالیٰ کے کلام کو سن سکتا ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۶)

Page 45

حدیث النفس کا ذکر موجود ہے.یہ کوئی چیز نہیں.اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک تو حمل حقیقی ہوتا ہے جب مدت مقررہ نوماہ گذرجاتے ہیں تو لڑکا یا لڑکی پیدا ہوجاتی ہے.ایک اس کے مقابلہ میں حمل کاذب ہوتا ہے بعض عورتیں رات دن اولاد کی خواہش کرتی رہتی ہیں جس سے رجا کی مرض پیدا ہو جاتی ہے اور جھوٹا حمل ہو کر پیٹ پھولنے لگتا ہے اور حمل کے علامات ظاہر ہوتے ہیں لیکن نو ماہ کے بعدپانی کی مشک نکل جاتی ہے ایسا ہی حال ان کشوف اور خوابوں کا ہے جب تک انسان محض خدا ہی کا نہ ہو جاوے.یہ کچھ بھی چیز نہیں ہے.انسان کی عزّت اسی میں ہے اور یہی سب سے بڑی دولت اور نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو.جب وہ خدا کا مقرب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہزاروں برکات اس پر نازل کرتا ہے زمین سے بھی اور آسمان سے بھی اس پر برکات اترتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیخ کنی کے لیے قریش نے کس قدر زور لگایا.وہ ایک قوم تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تن تنہا.مگر دیکھو! کون کامیاب ہوا اور کون نامراد رہے؟ نصرت اور تائید خدا تعالیٰ کے مقرب کا بہت بڑا نشان ہے.دوسرے یہ کہ ایسا شخص خزاں کے وقت آتا ہے اور بہار ہوجاتی ہے.وہ لوگ جو خدا کی طرف سے نہ ہوں اور اس قسم کی شیخیاں مارنے والے ہوں ان کی مثال ایسی ہے جیسے مردار پر بیٹھے ہوں.۱ مگر جو خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے حیّ و قیوم خدا اس کے ساتھ ہے وہ خود زندہ ہے اسے زندہ کرے گا.وہ اپنے وعدوں کو جو اس سے کئے ہیں سچا کر دکھائے گا.۲ میری نصیحت بار بار یہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے اپنے نفسوں کا بار بار مطالعہ کرو.بدی کا چھوڑ دینا یہ بھی ایک نشان ہے اور خدا ہی سے چاہو کہ وہ تمہیں توفیق دے کیونکہ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ (الصّٰفّٰت:۹۷) ۱ بدر سے.’’وہ اس مُردار سے کیا حاصل کر سکتا ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۶) ۲ بدر سے.’’جب تک خدا تعالیٰ کے وعدے جو اس کے ساتھ ہوتے ہیںپورے نہ ہو لیں تب تک وہ مَرتا نہیں اور اس کے سلسلہ میں کچھ کمی نہیں آتی.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۶)

Page 46

قویٰ بھی اس نے ہی پیدا کئے ہیں.۱ پھر میں ایک اور نقص بھی دیکھتا ہوں.بعض لوگ تھک جاتے ہیں.میرے پاس ایسے خطوط آئے ہیں جن میں لکھنے والوں نے ظاہر کیا کہ ہم چار سال یا اتنے سال تک نماز پڑھتے رہے دعائیں کرتے رہے.کوئی فائدہ نہیں ہوا.ایسے لوگوں کومیں مُـخَنَّث سمجھتا ہوں تھکنا نہیں چاہیے.؎ گر نباشد بدوست راہ بردن شرط عشق است در طلب مردن میں تو یہاں تک کہتا ہوں اگر تیس چالیس برس بھی گذر جاویں تب بھی تھکے نہیں اور باز نہ آوے خواہ جذبات بڑھتے ہی جاویں.اللہ تعالیٰ دعا کرنے والے کو ضائع نہیں کرتا.۲ جب تضرّع سے دعا کرتا ہے اور معصیت میں مبتلا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ یہ شخص بچایا جاوے اور وہ بچایا جاتا ہے کیونکہ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ (البقرۃ:۲۲۳).یاد رکھو! جو شخص مَرا ہے اور ہلاک ہوا ہے وہ تھکنے سے مَرا ہے.خدا تعالیٰ سے مانگنا اور دعا کرنا موت ہے ہر شخص جو خدا سے مانگتا ہے ضرور پاتا ہے مگر وہ آپ ہی بد ظنی کرتا ہے تب حاصل نہیں ہوتا.(اس کے بعد آپ نے دیر تک جماعت کے لیے دعا کی.ایڈیٹر) ۳ ۱ بدر سے.’’بدیوںکا چھوڑ دینا کسی کے اپنے اختیار میں نہیں.اس واسطے راتوں کو اٹھ اٹھ کر تہجد میں خدا کے حضور دعائیں کرو.وہی تمہارا پیدا کرنے والا ہے خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ (الصّٰفّٰت:۹۷) پس اور کون ہے جو ان بدیوں کو دور کر کے نیکیوں کی توفیق تم کو دے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۷) ۲ بدر سے.’’یقیناً خدا رحیم کریم اور حلیم ہے.وہ دعا کرنے والوں کو ضائع نہیں کرتا.تم دعا میں مصروف رہو اور اس بات سے مت گھبراؤ کہ جذبات نفسانی کے جوش سے گناہ صادر ہوجاتا ہے.وہ خدا سب کا حاکم ہے وہ چاہے تو فرشتوں کو بھی حکم کر سکتا ہے کہ تمہارے گناہ نہ لکھے جاویں.دیکھو! دعا کے ساتھ عذاب جمع نہیں ہوتا.مگر دعا صرف زبان سے نہیں ہوتی بلکہ دعا وہ ہے کہ.جو منگے سو مَر رہے مَرے سو منگن جا.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۷) ۳الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳تا ۱۱

Page 47

۲۷؍دسمبر ۱۹۰۶ء تقریرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمودہ بعد نماز ظہر و عصر مسجد اقصٰی قادیان میں۱ نے جو کچھ کل بیان کیا تھا اس میں سے کچھ حصہ باقی رہ گیا تھا اس لیے میں نے مناسب اور ضروری سمجھا کہ اس حصہ کو بیان کر دوں تاکہ وہ بیان مکمل ہو جاوے.مذہبی آزادی پر اظہار تشکر سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ جو نئے طور سے قائم کیا ہے۲ اسے قائم ہوتے ہی مصائب اور مشکلات پیدا ہوگئے اندرونی اور بیرونی طور پر طرح طرح کے دکھ اس کو دیئے گئے۳ مگر بیرونی طور پر جو دکھ دیا گیا ہے اس پر افسوس نہیں اس لیے کہ وہ دکھ صرف زبان کا دکھ ہے اور اس دکھ کے مقابلہ میں یہ کچھ چیز نہیں جو ابتدائے اسلام اور غربت اسلام کے وقت ان لوگوں کو اٹھانا پڑا جو اسلام میں داخل ہوئے.وہ دکھ اس قسم کے تھے کہ ان کو بیان کرنے سے بھی دل کانپ جاتا ہے کہ وہ کیسے سنگدل انسان تھے کہ انہوں نے صرف مسلمان ہونے پر ان کو طرح طرح کی مشکلات اور مصائب میں ڈالا اور بہتوں کو ۱ بدر سے.’’ میںنے کل جو کچھ بیان کیا تھا اس کی تکمیل بہ سبب بیماری کے نہ ہو سکی.‘‘ (بدر جلد ۶نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸) ۲ بدر سے.’’اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ اس واسطے قائم کیا ہے کہ لوگ نئے طور پر اس کی ہستی پر ایمان اور یقین حاصل کریں.‘‘ (بدر جلد ۶نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸) ۳ بدر سے.’’یہ ایذا رسانی صرف بیرونی لوگوں کی طرف سے نہیں ہے جو غیر مذاہب کے لوگ ہیں بلکہ اندرونی لوگوں کی طرف سے بھی جو کہ مسلمان کہلاتے ہیں ہم دکھ دیئے جاتے ہیں اور وہ لوگ ہماری مخالفت میں کوئی بات چھوڑ نہیں سکتے.‘‘ (بدر جلد ۶نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸)

Page 48

بے دردی سے ایذائیں دیں اور قتل کر ڈالا لیکن اس زمانہ میں جو آزادی کا زمانہ ہے اس قسم کی کوئی تکلیف نہیں دے سکتے.صرف زبان سے دکھ دیتے ہیں اور یہ کچھ چیز نہیں.ہم پر خدا تعالیٰ کا بڑا فضل اور احسان ہے اور ہم اس کا شکر نہیں کر سکتے کہ اس نے محض اپنے فضل سے ایسی گورنمنٹ کے ماتحت کر دیا جس کی وجہ سے ہمارے مخالف ہمارے خلاف اپنے جوشِ مخالفت میں کامیاب نہیں ہو سکتے.یہ اسی گورنمنٹ کی آزادی اور انصاف پسندی کا ہی سبب ہے کہ وہ جوش ہمارے مخالف ظاہر نہیں کر سکتے جو انہیں ہمارے لیے ہونا چاہیے.وہ دانت پیستے ہیں اور اگر ان کے اختیار میں ہوتا تو ہمیں نیست و نابود کر کے ہی خوش ہوتے.مگر انہیں کوئی قابو نہیں ملتا.میں اس اَمر پر غور کر کے اور پچھلے دکھوں کو جو ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کو پہنچے یاد کر کے خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر کرتا ہوں جس نے محض اپنے ہی فضل و کرم سے ہمیں ایسی نیک خیال گورنمنٹ عطا کی.وہ کیسا رحیم و کریم خدا ہے.جب اس نے چاہا کہ ضعفِ اسلام کے وقت یہ سلسلہ قائم کرے خود ہی اس نے انتظام کر دیا کہ ایسی گورنمنٹ کو بھیج دیا جو امن پسند ہے.میں یہ بات ریاکاری سے نہیں کہتا.میں یقیناً جانتا ہوں کہ ریا کار اور خوشامدی منافق ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نفاق کو دور کرنے آئے ہیں اور واقعات ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ اس گورنمنٹ کی تعریف کریں اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے شکر گذار ہوں.ہم اپنے ہی حالات زندگی کو دیکھتے ہیں کہ اس وقت کس امن اور آزادی کے ساتھ اس سلسلہ کی اشاعت کر رہے ہیں.پچیس سال سے زیادہ عرصہ سے ہم اس اشاعت کے کام لگے ہوئے ہیں اور پوری آزادی اور امن سے اسے کر رہے ہیں.خود گورنمنٹ کے ملکوں (بلادِ یورپ ) میں سولہ ہزار اشتہار دعوتِ اسلام کا میں نے جاری کیا.اور وہ اشتہارات معمولی آدمیوں میں تقسیم نہیں کئے گئے بلکہ معززین کو بھیجے گئے (جن میں شاہی خاندان کے ممبر اور گورنمنٹ کے اعلیٰ عہدہ دار اور اراکین شامل تھے) یہاں تک کہ ملکہ معظمہ کو بھی ایک کتاب دعوت اسلام کی بھیجی گئی اور انہوںنے ایسی محبت اور قدر سے اسے

Page 49

دیکھا کہ بذریعہ تار ایک اور نسخہ اس کا منگوایا.یہ عجیب بات ہے.یہ کیسا خدا تعالیٰ کا ہم پر فضل اور احسان ہے کہ اس نے ایسی جگہ ہمیں بھیجا جہاں ہر طرح پوری آزادی کے ساتھ اپنے فرض کو ادا کر سکتے ہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم اس کی نظیر دوسری جگہ نہیں پاسکتے.لوگ اس پر تعجب کریں گے یا خام خیالی اور ظاہر پرستی کی وجہ سے میری ان باتوں کو خوشامد پر قیاس کریں گے.مگر میں حلفاً کہتا ہوں کہ اگر یہ سلسلہ مکہ معظمہ میں جاری ہوتا تو ہر روز دو چار خون ہوتے.ایسا ہی مدینہ یا روم میں ہوتا تو کوئی سزا پاتا، کوئی کوئی دکھ پاتا.غرض کسی نہ کسی مصیبت کا سامنا رہتا.ایسا ہی کابل میں ہوتا تو قسم قسم کے حملے ہوتے اور تجربہ نے ثابت بھی کر دیا ہے سب کو معلوم ہے کہ ہمارے دو معزز دوست کابل میں شہید ہو چکے ہیں.انہوں نے وہاں کوئی بغاوت نہیں کی.خون نہیں کیا اور کوئی سنگین جرم نہیں کیا.صرف یہ کہا کہ جہاد حرام ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ انہوں نے اس سے زیادہ ہرگز نہیں کہا جو میںیہاں گورنمنٹ کو عیسائی مذہب کی بابت سنا چکا ہوں.وہ نہایت نیک، راستباز اور خاموش تھے.مولوی عبد اللطیف صاحب تو بہت ہی کم گو تھے.۱ مگر کسی خود غرض نے جا کر امیر کابل کو کہہ دیا اور انہیں ان کے خلاف بھڑکایا کہ یہ شخص جہاد کا مخالف ہے اور آپ کے عقائد کا مخالف ہے.اس پر وہ ایسی بے رحمی سے قتل ہوئے کہ سخت سے سخت دل بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس اَمر پر غور کر کے کہ وہ کیا گناہ تھا جس کے بدلہ میں وہ قتل کئے گئے بے اختیار ہر شخص کو کہنا پڑے گا کہ یہ سخت ظلم ہے جو آسمان کے نیچے ہوا ہے.اب اس کے مقابلہ میں ہماری تیس سالہ کارروائی کو دیکھو.بار بار پادریوں اور عیسائیوں کے مذہب پر حملہ ہوا ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ تم سخت غلطی پر ہو.تمہاری تثلیث غلط ہے.کفّارہ باطل ہے مگر کبھی ان مسائل کی غلطیوں کے ظاہر کرنے پر اور یہ بیان کرنے پر کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے اور یہی نجات کا ذریعہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی افضل الرسل ہیں بدر سے.’’اور ملک میں نہایت معزز تھے اور ہزاروں آدمی ان کے مرید تھے اور دربارِ کابل میں ان کی بڑی عزّت تھی.‘‘ (بدر جلد ۶نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸)

Page 50

اور ان کی کامل اتباع ہی سے نجات ملتی ہے.کوئی وارنٹ گرفتاری کا گورنمنٹ کی طرف سے جاری نہیں ہوا.اور نہیں پوچھاگیا کہ تم اپنے مذہب کی اشاعت کیوں کرتے ہو؟ پھر بتاؤ کہ ہم اگر اس کی اس آزادی اور امن کے لیے اس کی تعریف کریں اور اس کے لیے شکر گذاری کا جوش ظاہر کریں تو یہ خوشامد ہو سکتی ہے؟ یہ تو اَمر واقعہ کا اظہار ہے اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو میں یقیناً کہتا ہوں کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور سخت گنہگار ہے.میں نے خوب غور کیا ہے اور تجربہ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ اس قوم کی فطرت میں ہے کہ باوجودیکہ ہم نے عیسائی مذہب کی غلطیوں اور کمزوریوں کو سخت سے سخت طریق سے ظاہر کیا ہے مگر اس نے یہ سمجھ کر جو آزادی اس نے عیسائیوں کو دی ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کا ردّ کریں اور اپنے دین کی اشاعت کریں اس کے سایہ (میں) ہونے کی وجہ سے ویسے ہی حقدار ہیں اور ان کے فطرتی انصاف نے اس مساوات کو توڑنے کا ارادہ نہیں کیا.ہر ایک کو اپنے مذہب کی اشاعت کے لیے پوری آزادی دی ہے بلکہ اس سے بھی عجیب تر یہ بات ہے کہ جب ایک جنٹلمین پادری نے مجھ پر اقدامِ قتل کا مقدمہ کیا تو گورنمنٹ نے اپنے انصاف کا کامل نمونہ دکھایا.اگر ہمارے ساتھ کوئی کینہ ہوتا تو یہ عمدہ موقع تھا کہ ہمیں دکھ دیا جاتا.لیکن میں دیکھتا تھا کہ کوئی رعایت اس جنٹلمین پادری کی میرے مقابلہ میں نہیں کی جاتی تھی.صاحبِ ضلع مجھے عزّت سے بُلاتے تھے اور کرسی دیتے رہے.انجام کار جب انہیں بخوبی معلوم ہوگیا کہ وہ مقدمہ محض شرارت سے مجھ پر بنایا گیا ہے اور سرا سر جھوٹا ہے تو اس نے کہا کہ یہ بد ذاتی مجھ سے نہیں ہو سکتی کہ سزا دے دوں.چنانچہ اس نے عزّت کے ساتھ مجھے بری کیا.۱ اور یہ بات مجھ سے ہی خاص نہیں بلکہ سب کے لیے یکساں حقوق حاصل ہیں.اگر ہمیں یہ تجربہ ذاتی بھی نہ ہوتا تو بھی ہم شکر گذاری کے لیے بہت سے سامان پاتے ہیں اور علاوہ بریں یہ بات ۱ بدر سے.’’میں نے سنا ہے کہ اس کے پاس میرے برخلاف سفارشیں کی گئیں تو اس نے جواب دیا کہ مجھ سے ایسی بد ذاتی نہیں ہو سکتی کہ میں ایک شریف آدمی کو بے گناہ سزا دوں.پس اس نے مجھے عزّت کے ساتھ بُری کیا اور عدالت میں مجھے مبارکباد کہی.‘‘ (بدر جلد ۶نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸)

Page 51

ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کسی قوم کو اس قدر اقبال مندی اور غیر ملکوں پر اس قدر فتوحات نہیں دیتا جب تک اس میں خوبی نہ ہو اور یہ تو ایک کھلی کھلی بات ہے کہ اس وقت اگر گورنمنٹ نہ ہو تو سب کے سب آپس ہی میں لڑ کر مَر جاویں یہ ایسا ثالث ہے کہ اس نے اپنے انصاف اور اقبال سے باہمی جھگڑوں سے بچا لیا ہے.ہماری جماعت کا ہر ایک آدمی سوچ کر دیکھ لے کہ کیا اس کا کسی اور جگہ گذارہ ہو سکتا ہے.وہ اگر اس سلطنت کے سایہ میں نہ ہو تو اس کے دشمن اسے قسم قسم کے عذاب دے کر ہلاک کر دیں.اگر کوئی جاہل یہ سمجھے کہ ہاں کسی اور جگہ گذارہ ہو سکتا ہے تو میں اسے حیوانات میں سمجھتا ہوں.دن رات ہم اپنے منصب کی وجہ سے اسی کام میں لگے ہوئے ہیں کہ عیسائی مذہب کی غلطیوں سے لوگوں کو آگاہ کریں اور ہم اس کام میں لگے ہوئے ہیں لیکن گورنمنٹ کو باوجود عیسائی ہونے کے کوئی تعلق نہیں.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے جو اس نے ہمارے لیے ظاہر کیے ہیں.اللہ تعالیٰ جس درخت کا نشو و نما کرنا چاہتا ہے.اس کے لیے اچھی زمین تجویز ہوتی ہے جہاں وہ لگایا جاتا ہے اور اس کی آب پاشی اور نشو و نما کے دوسرے سامان وہاں ایسے بہم پہنچائے جاتے ہیں اور جسے ستیاناس کرنا چاہتا ہے اسے ایسی زمین میں جگہ ملتی ہے جہاں وہ کچلا جاتا ہے.پس اسی طرح پر یہ بیج جو ہمارے سلسلہ کا بیج ہے ایسی زمین میں لگایا گیا ہے جو اس کی ترقی اور نشو و نما کے لیے بہت ہی مفید اور مبارک ہے کیونکہ یہاں کوئی آفت اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی اور وہ اپنے دشمنوں سے محفوظ ہے اور اس کا بڑا بھاری ذریعہ یہ گورنمنٹ ہے جبکہ یہ احسان ہم پر ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اس احسان شناسی کے بعد اس کا شکریہ ادا کریں کیونکہ خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ(الرحـمٰن:۶۱) اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ مسلمان احسان کرے تو اس کے بدلہ میں احسان کرو اور اگر غیر مذہب والا کرے تو نیش زنی کرو.یہ تو خبیث کا کام ہے.اللہ تعالیٰ کا یہی منشا ہے کہ کوئی ہو جو احسان کرتا ہے اس کے ساتھ احسان کرنا فرض ہے.احسان کی تو یہ طاقت ہے کہ اگر ایک کتّے کو تم ٹکڑا ڈال دو تو وہ بار بار تمہاری طرف آئے گا خواہ تم اسے مار کر بھی نکالو مگر وہ تمہیں دیکھ کر اس احسان کے شکریہ کے لیے دم ہلا دے گا.

Page 52

پھر وہ انسان تو کتّے سے بھی بد تر ہے جو انسان ہو کر احسان شناسی سے کام نہیں لیتا.میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان نادان، تنگ خیال اور سفلہ مزاج ملاؤں سے نفرت اور پرہیز کریں جو بغاوت پسند ہیں اور ناحق خون کر کے غازی بنتے ہیں.۱ میری جماعت کے ہر فرد کو لازم ہے کہ وہ گورنمنٹ کی قدر کریں اور پوری اطاعت اور وفاداری کے ساتھ اس کے احسانات کے شکر گذار ہوں اور یقیناً سمجھ لیں کہ جو شخص مخلوق کا شکر نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا شکر گذار بھی نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے پنجاب کو منتخب کرنے کی حکمت غرض اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک یہ بڑا احسان ہے کہ اس نے اس سلسلہ کو گورنمنٹ انگلشیہ کی حکومت میں قائم کیا جو آزادی پسند اور امن دوست گورنمنٹ ہے اور اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے یہ دوسرا احسان ہے کہ اس نے اس سلسلہ کو پنجاب میں قائم کرنا پسند فرمایا اور اس سر زمین کو اس کے لیے منتخب کیا.ہندوستان بھی تو تھا پھر کیا وجہ ہے اور اس میں کیا حکمت ہے کہ پنجاب کو ترجیح دی؟ اس میں جو حکمت ہے وہ تجربہ سے معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ پنجاب کی زمین نرم ہے اور اس میں قبول حق کا مادہ ہندوستان کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے.مجھے کئی مہینے تک دلّی اور دوسری جگہ رہنے کا اتفاق ہوا ہے مگر انہوں نے قبول نہیں کیا اور برخلاف اس کے پنجاب میں لوگوں نے مجھے اس وقت قبول کیا جب دوسروں نے نہیں کیا حالانکہ میں نے ان کو اپنے دعوے کے دلائل سنائے قرآن اور حدیث کو ان کے سامنے پیش کیا، نشانات پیش کئے مگر انہوں نے نہیں مانا (اِلّا ماشاء اللہ)پس یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس ملک میں اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا.علاوہ بریں یہ ملک حق رکھتا تھا کہ یہ سلسلہ قائم ہو کیونکہ چالیس پچاس برس تک سکھوں کا دھکا کھا چکا تھا.بچوں کو تو ان دکھوں اور تکلیفوں کی خبر نہیں اور میں بھی اس وقت بچہ تھا.اس لیے پورا علم تو نہیں مگر جس قدر علم مجھے ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے رؤیت کا علم ؂ ۱ بدر سے.’’ان کے کام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھو.‘‘(بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ءصفحہ ۹)

Page 53

ہوتا ہے.اس وقت اگر بانگ دی جاتی تو اس کی سزا بجز اس کے اور کچھ نہیں ہوتی تھی کہ بانگ دینے والا قتل کیا جاوے.حالانکہ یہ لوگ جانتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جب وہ سنکھ وغیرہ بجاتے ہیں تو ہم کبھی ان کے مزاحم نہیں ہوتے اور نہ انہیں تکلیف دیتے ہیں مگر بانگ سے انہیں ایسی ضد تھی کہ جونہی کسی نے دی وہ قتل کیا گیا جس جگہ میں اس وقت کھڑا ہوں یہ کارداروں کی جگہ تھی اور دارالحکومت نہیں بلکہ دارالظلم تھا.جب انگریزی عدالت کا شروع شروع میں دخل ہوا.اس وقت یہاں ایک کاردار رہتا تھا.۱ اس کا ایک سپاہی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے گیا.اس نے ملّاں کو کہا کہ بانگ دے.مگر ملّاں نے بہت ہی آہستہ آہستہ بانگ کہی.سپاہی نے کہا کہ اونچی آواز سے کیوں بانگ نہیں دیتا جو دوسروں تک بھی پہنچ جاوے؟ ملّاں نے کہا میں اونچی آواز سے بانگ کیوں کر دوں کیا میں پھانسی چڑھوں؟ اس پر سپاہی نے کہا کہ نہیں ، تو کوٹھے پر چڑھ کر بہت اونچی آواز سے بانگ دے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ سلطنت کی تبدیلی ہو چکی ہے.آخر جب ملّاں نے سپاہی کے کہنے سے بلند آواز سے اذان دی تو ایک شور مچ گیا اور کاردار کے پاس جا کر شکایت کی کہ ہمارے آٹے بھرشٹ ہوگئے اور ہم اور ہمارے بچے بھوکے رہے.ہم پر ظلم ہوا.اس پر کاردار نے کہا کہ اچھا پکڑ لاؤ.ملّاں کو پکڑ کر لے گئے.وہ نیک بخت سپاہی بھی ملّاں کے پیچھے پیچھے گیا.جب ملّاں کاردار کے سامنے گیا تو کاردار نے اس سے پوچھا کہ تو نے بانگ دی ہے؟ سپاہی نے آگے بڑھ کر کہا کہ اس نے نہیں دی بانگ تو میں نے دی ہے.جب کاردار نے یہ سنا تو اس نے شکایت کرنے والوں کو کہا کہ اندر جا کر بیٹھو.لاہور میں تو گائے ذبح ہوتی ہے.۲ اذان بھی ایک اسلامی دعوت ہے اور اس حالت میں اسلام کی اجمالی دعوت ہے حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کا کیا مطلب ہے؟ یہی کہ مسلمان ہو جاؤ.مگر یہ لوگ اسلام کے دشمن ۱ بدر سے.’’ابتدا میں انگریزوں کا دخل پنجاب پر ہوا اور ہنوز لوگوں کو عام خبر نہ تھی اور کار دار وہی پرانے تھے اور مقامِ عدالت بھی وہی تھے کہ ایک مسلمان سپاہی باہر سے یہاں قادیان میں آیا اور ایک مسجد میں نمازپڑھنے گیا.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ءصفحہ ۹) ۲ بدر سے.’’گورنمنٹ انگریزی کی پہلی برکت تھی جو کہ ہم کو حاصل ہوئی تھی.کیونکہ بانگ دعوتِ اسلام کا ایک طریقہ ہے جو مختصر الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ءصفحہ ۹)

Page 54

تھے.اس لیے اس بانگ کے بھی دشمن تھے.ایسا ہی ایک واقعہ ہوشیار پور میں ہوا.وہاں کسی شخص نے بانگ دی تو اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا ہے.صاحب ضلع نے اس مقدمہ کو نہایت حیرانی سے سنا.انہوں نے حکم دیا کہ اس شخص کو حاضر کرو.چنانچہ جب وہ حاضر آیا تو اسے کہا گیا کہ اچھا بانگ دو اور جس قدر اونچی آواز سے تم نے وہاں دی ہے اسی قدر آواز سے یہاں بھی دو اور اپنے سررشتہ دار کو بھی کہا کہ تم بھی خیال رکھو اس سے کیا تکلیف ہوتی ہے.بانگ دینے والے نے آہستہ آواز سے بانگ دی تو شکایت کرنے والوں نے کہا کہ اس نے اونچی آواز سے دی تھی اب یہاں آہستہ دیتا ہے.تب اسے کہا گیا کہ خوب زور سے دو.آخر اس نے بانگ دی.جب وہ ختم کر چکا تو صاحب نے سر رشتہ دار سے پوچھا کہ تمہیں کچھ تکلیف ہوئی؟ اس نے کہا کہ نہیں صاحب! صاحب نے کہا کہ ہم کو بھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی.اسے کہا کہ جاؤ جا کر بے شک بانگ دو کچھ ہرج نہیں ہے.۱ ۱ بدر میں یہ واقعہ یوں درج ہے.’’مسلمان کے مسجد میں بلند آواز سے اذان کہنے پر تمام پنڈت برہمن جمع ہوئے اور فریاد کرتے ہوئے مجسٹریٹ ضلع کے پاس پہنچے جو کہ انگریز تھا اور اس کے سامنے شکایت کی کہ ہم پر بڑا سخت ظلم ہوا ہے کہ ایک مسلمان نے بانگ دی ہے اور اس بانگ نے سخت نقصان کیا ہے کیونکہ اس سے ہماری چیزیں بھرشٹ ہوگئی ہیں.نہ آٹے گوندھے ہوئے پکانے کے کام کے رہے نہ روٹیاں پکی ہوئی کھانے کے لائق رہیں.نہ کپڑا پہننے کے قابل رہا.گھر کے سب برتن بھرشٹ ہوگئے.مجسٹریٹ دانا تھا.اس نے کہا کہ وہ بڑی پُر تاثیر اذان معلوم ہوتی ہے.اس مؤذن کو فوراً بُلایا چنانچہ وہ مؤذن طلب کیا گیا اور مجسٹریٹ کے سامنے حاضر ہوا.ایک طرف غریب مؤذن اکیلا کھڑا تھا اور دوسری طرف پنڈتوں، برہمنوں اور کھتریوں کے گروہ کے گروہ داد فریاد کرتے ہوئے جمع ہوئے.انگریز نے اس مؤذن کو کہا کہ ہم تمہاری اذان سننا چاہتے ہیں تم ہمارے سامنے اسی طرح اذان کہو.چنانچہ اس نے اذان کہی.صاحب نے کہا اس اذان سے تو کوئی ایسی بات معلوم نہیں ہوتی اور ہندوؤں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ کیا اس ملّاں نے اسی طرح اذان بانگ دی تھی؟ اس پر سب برہمن اور ان کے ساتھی چیخ چلّا اٹھے کہ نہیں حضور وہ بانگ تو بلند آواز سے تھی.تب مجسٹریٹ نے کہا کہ تم نے یہ بانگ بہت آہستہ کہی ہے.تم بلند آواز سے بانگ کہو.تب اس نے بہت بلند آواز سے بانگ کہی جس کو مجسٹریٹ نہایت غور سے سنتا رہا اور بعد ختم ہونے کے تعجب کےساتھ اپنے سر رشتہ دار

Page 55

پُر امن دورِ حکومت اب خیال کرو کہ انگریزوں کا قدم کس قدر مبارک ہے اور ان کے آنے سے کس قدر ترقیات ہوئی ہیں.کتابوںکی اشاعت ہی کی طرف دیکھو کیسی ہو رہی ہے.ایک شخص کمّے شاہ نام کہنے لگا کہ میرے مرشد ہمیشہ صحیح بخاری کی تلاش میں رہا کرتے تھے اور پنج وقت اس کے ملنے کے لیے دعا کیا کرتے تھے اور کبھی کبھی مایوس ہو کر رونے لگتے تھے اور اس قدر روتے کہ ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور اب یہ حال ہے کہ صحیح بخاری تین چار روپے کو مل جاتی ہے.لیکن اس وقت یہ حال تھا کہ کسی ملّاں کے پاس بھی اگر کوئی کتاب ہو تو بس کنز، قدوری، کافیہ تک ہی اس کی تعداد ہو سکتی ہےاور اس وقت اس قدر خزانے نکل آئے ہیں کہ ان کو کوئی گن بھی نہیں سکتا.غرض میں سچ کہتا ہوں کہ گورنمنٹ کا قدم ڈالنا اس سلسلہ کے لیے بطور ارہاص تھا.ارہاص یہ ہوتا ہے کہ اصل چیز کے ظہور سے پہلے علامات ظاہر ہوں.۱ اب غور کر کے دیکھ لو کہ یہ کیسے صاف صاف نشان ہیں.کتابوں کے ذخیرے نکل آئے.ان کے چھاپنے اور شائع کرنے میں ہر قسم کی آسانیاں ہوگئیں.ارکانِ مذہبی کے ادا کرنے میں کوئی روک اورمزاحمت نہیں.کوئی بانگ اور نماز سے روک نہیں سکتا یا تو وہ وقت تھا کہ گائے کے بدلے خون ہوجاتے تھے مجھے معلوم ہے کہ ایک وقت سکھوں کے عہد میں محض ایک جانور کے لیے سات ہزار آدمی مارے گئے اور بٹالہ کا ایک واقعہ مشہور ہے.بھنڈاری جو وہاں کے رئیس ہیں ان کی حکومت تھی.ایک سیّد شام کو دروازے میں داخل ہوا تو (بقیہ حاشیہ ) کی طرف منہ کر کے کہنے لگا کہ اس بانگ سے تو ہمارا کچھ بھرشٹ نہیں ہوا.کیا تم پر کوئی ایسا اثر ہوا ہے کہ تمہاری کوئی چیز بھرشٹ ہوگئی ہو؟ سررشتہ دار ہنسا اور کہا کہ کچھ نہیں.تب مجسٹریٹ نے کہا کہ یہ پنڈت شریر معلوم ہوتے ہیں.ان سب کے مچلکے لیے جاویں اور اگر آئندہ کوئی ایسی شرارت کریں تو ان کو سزا دی جاوے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۹،۱۰) ۱ بدر سے.’’کسی اَمر کے ظہور سے پہلے اس کا مقدمہ اور پیش خیمہ ہوتا ہے.انگریزوں کا آنا اسلام کی ترقی کا مقدمہ ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰

Page 56

وہاں گائے بھینسوں کا بڑا ہجوم تھا.اس نے تلوار کی نوک سے ایک گائے کو ہٹایا.جس کی وجہ سے اس کی دُم کے پاس ذرا سی خراش ہوگئی.برہمن اسے پکڑ کر لے گئے اور اس جرم میں اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا.اس قسم کے ظلم اور سختیاں ہوتی تھی.اب بتاؤ کہ ہم لوگ جنہوں نے اس قدر مصیبتیں اٹھائی ہیں اگر اس کا انکار کریں۱ تو پھر خدا کا انکار کرنے والے ٹھہریں گے.ا س وقت ایسا امن ہے کہ جو چاہے اور جس طرح چاہے عبادت کرے، بانگ دے، کوئی روکنے والا نہیں.اس لیے ہمارا فرض ہے کہ خدا تعالیٰ کی اس نعمت (گورنمنٹ انگلشیہ) کا شکریہ ادا کریں اور اس کی قدر کریں.مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے جیسا شکر گذاری میں حق (تھا) ادا نہیں کیا.امن کا حق بھی ادا نہیں کیا.چاہیے تو یہ تھا کہ جب امن ہوگیا تھا تو خدا کی طرف زیادہ توجہ کرتے اور عبادت میں مشغول ہوتے.مگر نماز تو درکنار بانگ تک کے روادار نہیں ہیں بلکہ ناگفتنی عیبوں میں مبتلا ہیں.وہ نہیں جانتے کہ یہ امن تو اس لیے تھا کہ نیکی میں ترقی کریں مگر انہوں نے اس کے برخلاف کیا.یہ سچ ہے کہ امن کی حالت دو پہلو رکھتی ہے خواہ انسان نیکی میں ترقی کرے یا شراب خانے میں چلا جاوے.مگر میں افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ مسلمانوں نے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی.مگر ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے.۲ ۱ بدر سے.’’اگر اب اس نعمت کا انکار کریں تو خدا کا انکار ہوگا.کیونکہ خدا ہی نے یہ نعمت بھیجی ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰) ۲ بدر سے.’’اس قدر امن پاکر تو مسلمانوں کو لازم تھا اور بھی زیادہ دین کی طرف توجہ کرتے لیکن برخلاف اس کے اب تو مساجد بھی خالی پڑی ہیں.پہلے تو یہ شکایت تھی کہ سکھ اذان نہیں کہنے دیتے اور اب یہ ہے کہ اذان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا.دنیا کے جھگڑوں میں اور ناگفتنی عیبوں میں ایسے مبتلا ہوئے ہیں کہ دین کو بالکل بھول ہی گئے ہیں.چاہیے تھا کہ نیکی میں ترقی کرتے نہ کہ بدی میں.امن کی حالت میں انسان کو اختیار ہوتا ہے کہ خواہ مساجد کو آباد کرے اور خواہ قمار خانے کو.لیکن افسوس ہے کہ مسلمان نیکی کی طرف نہیں جھکے اور انہوں نے بدی کو اختیار کیا ہے لیکن ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ ایسا نہ کرے بلکہ اس اَمر کی قدر دانی کرے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۹،۱۰)

Page 57

حالت زمانہ ضرورت امام کی داعی ہے میں کہہ چکا ہوں کہ پنجاب میں یہ سلسلہ کیوں قائم ہوا؟ سکھوںکا زمانہ ایسا تھا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مکہ میں قریش کا زمانہ تھا.اب تک بھی کہ ان کے عہد کو گذرے پچاس ساٹھ سال ہونے کو آئے پھر بھی دوسرے ہندوؤں کی نسبت ان کی حالت وحشیانہ پائی جاتی ہے.خلاصہ یہ کہ انسانی فطرت کا تنزل ہو گیا تھا اور قریب تھا کہ لوگ جانوروں کی سی زندگی بسر کرنے لگیں.صرف دم کی کسر باقی رہ گئی تھی.مسلمانوں سے بعض کی حالت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ انہوں نے کَچھ پہن لی تھی اور سکھ ہو گئے تھے اس لیے یہ ملک حق رکھتا تھا کہ خدا تعالیٰ اس سلسلہ کو یہاں ہی قائم کرتا کیونکہ جو ملک زیادہ جہالت میں ہو اس کا حق ہوتا ہے کہ اس کی اصلاح ہو.یہی وجہ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عرب کا حق سب سے بڑھ کر تھا کیونکہ وہاں کی حالت ایسی خراب ہو چکی تھی کہ کسی دوسری جگہ اس کی نظیر پائی نہیں جاتی تھی.ان کی حالت ایسی وحشیانہ تھی کہ اس کو بیان کرتے ہوئے بھی شرم آجاتی ہے.وہ بالکل خلیع الرسن ہوچکے تھے.قمار باز وہ تھے.شراب خوار وہ تھے.یتیموں کا مال مار کر کھا جاتے تھے.زنا کرنے میں دلیر اور بے باک تھے.غرض خیانت، بد دیانتی اور ہر قسم کے فسق و فجور اور معصیت میں دلیر تھے.اس لیے ضرورت تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں ہی آتے جہاں نہ حقوق اللہ کی پروا کی جاتی تھی اور نہ حقوق العباد کی کوئی رعایت باقی تھی.جیسا کہ میں نے کل ذکر کیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے جو یہ ذکر قرآن مجید میں کیا ہے کہ اگلے انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے وقت ایسے ایسے خبیث موجود تھے کہ ان کی مختلف بدیاں ذکر کی ہیں اور پھر اس کے بعد یہ فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک کی جس قدر بدیاں مختلف اوقات میں پیدا ہوئیں وہ آپؐکے وقت میں سب جمع ہوگئی تھیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ زمانہ بالطبع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت کو پکار پکار کر بیان کر رہا تھا اور یہ ایک اَمر آپ کی سچائی کی دلیل ہے اور یہ ایسی واضح دلیل ہے کہ اس کو ہر شخص سمجھ سکتا ہے.عام طور پر سب جانتے ہیں کہ جب مثلاً کوئی بیماری درجہ کمال تک

Page 58

پہنچ جاوے اور وہ ایسی عالمگیر ہوجاوے کہ ہر طرف موت ہی موت نظر آنے لگے تو عادت اللہ یہی ہے کہ اس وقت کوئی نہ کوئی علاج اس کا نکل آتا ہے اور گورنمنٹ کو بھی اس کے انسداد اور علاج کی طرف خاص توجہ ہونے لگتی ہے وہ دیکھتی ہے کہ یہ کیا اندھیر ہوا کہ موت ہی موت ہونے لگی.اسی طرح پر روحانی نظام ہے.جب کسی ملک اور قوم کی حالت بگڑ جاتی ہے اور وہ انسانیت کے جامہ سے نکل کر وحشیانہ حالت میں آجاتی ہے اور ہر قسم کی بدیوں اور بد کاریوں میں مبتلا ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کا کوئی سامان پیدا کر دیتا ہے.یہ بالکل صاف بات ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے دلائل پس جب عرب کی حالت ایسی خراب ہوگئی تو ضروری تھا کہ اس کی اصلاح کےلیے اللہ تعالیٰ کسی کامل انسان کو بھیجتا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا.جو ایسے وقت آئے کہ دنیا آپؐکی اصلاح کے لیے پکار رہی تھی.یہ خدا تعالیٰ کے رحم کا تقاضا تھا اور مسلمانوں کے لیے یہ فخر اور ناز کا مقام ہے کہ آپؐکی بعثت کے وقت زمانہ کی حالت آپ کی سچائی کی ایک روشن دلیل ہے پھر اس کے بعد آپؐنے جو اصلاح کی وہ بھی آپ کی حقانیت کی دلیل ہے کیونکہ جب ایک طبیب بیماروں میں آوے اور مختلف قسم (کے) مریض موجود ہوں.کوئی طاعون میں مبتلا ہو.کوئی دِق سِل کا شکار اور کوئی ذات الریہ اور ذات الجنب وغیرہ اور پھر وہ طبیب اپنے علاج سے اکثروں کو اچھا کر دے تو اس کے حاذق اور ڈاکٹر ماننے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے؟ بلاتکلف ماننا پڑے گا کہ وہ کامل طبیب ہے لیکن جبکہ وہ سب ہی کو اچھا کر دے اور جو دعویٰ کرے اس کو پورا کر دکھائے اور ایسا کہ اس کی نظیر ہی نہ مل سکے تو پھر اس کے کمال میں کوئی شک ہی نہیں ہو سکتا.اسے راستباز اور اپنے فن میں یکتا ماننا پڑے گا.یہی حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے وہ ایسے وقت آئے کہ ضرورت پکار رہی تھی اور پھر اپنی تاثیرات سے ان تمام روحانی مریضوں کو جو اس وقت پڑے ہوئے تھے اچھا کر دیا.میں دیکھتا ہوں اوردعویٰ سے کہتا ہوں کہ دو دلیلیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی ایسی جمع ہوئی ہیںکہ نہ حضرت موسیٰ

Page 59

کو ملیں اور نہ حضرت عیسیٰ کو(علیہما السلام) سب جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو ایسی قوم میں آئے جو تورات پڑھتے تھے اور فقیہوں فریسیوں کے تابع تھے.یہ سچ ہے کہ ان میں غافل دنیا دار بھی تھے لیکن پھر بھی تورات پڑھی جاتی تھی.بیت المقدس قبلہ موجود تھا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس قوم میں آئے وہ تو کسی بات کے بھی قائل نہ تھے نہ ان میں کوئی شریعت تھی اور نہ وہ کسی کتاب کے قائل اور پابند بلکہ اکثر تو خدا تعالیٰ کے بھی قائل نہ تھے.وہ کہتے تھے.مَا هِيَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَ نَحْيَا وَ مَا يُهْلِكُنَاۤ اِلَّا الدَّهْرُ(الـجاثیۃ:۲۵) وہ جو کچھ سمجھتے تھے اسی دنیا کو سمجھتے تھے کہ آگے جاکر کسی نے کیا دیکھا ہے.یہی دنیا ہی دنیا ہے.اس آیت میں دہر کا لفظ اسی لیے بیان کیا ہے تاکہ ظاہر کیا جاوے کہ وہ دہریہ تھے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس وقت عرب میں قریباً تمام بیہودہ اور باطل مذاہب جمع ہوئے ہوئے تھے.وہ گویا ایک چھوٹا سا نقشہ تھا جو گندے اور افراط تفریط کے طریق تھے.وہ عملی طور پر اس میں دکھائے گئے تھے.جیسے کسی ملک کا نقشہ ہو.اس میں سب مقام موٹے موٹے دکھائےجاتے ہیں.اسی طرح وہاں کی حالت تھی.یہ کیسی بڑی روشن دلیل آپؐکی سچائی کی ہے کہ ایسی قوم اور ایسے ملک میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا جو انسانیت کے دائرہ سے نکل چکا تھا.میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ خواہ کیسا ہی پکا دشمن ہو اور خواہ وہ عیسائی ہو یا آریہ جب وہ ان حالات کو دیکھے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عرب کے تھے اور پھر اس تبدیلی پر نظر کرے گا جو آپؐکی تعلیم اور تاثیر سے پیدا ہوئی تو اسے بے اختیار آپؐکی حقانیت کی شہادت دینی پڑے گی.موٹی سی بات ہے کہ قرآن مجید نے ان کی پہلی حالت کا تو یہ نقشہ کھینچا ہے يَاْكُلُوْنَ كَمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ (مـحـمد:۱۳)یہ تو ان کی کفر کی حالت تھی پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تاثیرات نے ان میں تبدیلی پیدا کی تو ان کی حالت یہ ہوگئی يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا (الفرقان:۶۵) یعنی وہ اپنے ربّ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے راتیں کاٹ دیتے ہیں جو تبدیلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے وحشیوں میں کی اور جس گڑھے

Page 60

سے نکال کر جس بلندی اور مقام تک انہیں پہنچایا.اس ساری حالت کے نقشہ کو دیکھنے سے بے اختیار ہو کر انسان رو پڑتا ہے کہ کیا عظیم الشان انقلاب ہے جو آپ نے کیا! دنیا کی کسی تاریخ اور کسی قوم میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی.یہ نری کہانی نہیں.یہ واقعات ہیں جن کی سچائی کا ایک زمانہ کو اعتراف کرنا پڑا ہے.قرآن مجید تو ایسی کتاب ہے کہ وہ ان میں پڑھی جاتی تھی اور یہ سب باتیں اس میں درج ہیں.کفّار سنتے تھے جہاں وہ اس کی مخالفت کے لیے ہر قسم کی کوششیں کرتے تھے.اگر یہ باتیں غلط ہوتیںتو وہ آسمان سر پر اٹھا لیتے کہ یہ ہم پر اتّہام اور الزام ہے.یہ معمولی بات نہیں بلکہ بہت ہی قابل غور مقام ہے! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر ہزاروں ہزار دلائل ہیں! لیکن یہ پہلو آپ کی حقانیت کے ثبوت میں ایک علمی پہلو ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا اور جس دلیل کو کوئی توڑ نہیں سکتا یا تو عربوں کی وہ حالت تھی اور یا یہ تبدیلی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَللہُ اَللہُ فِیْ اَصْـحَابِیْ.۱ اللہ تعالیٰ کے نام سے ناواقف اور اس سے دور پڑی ہوئی قوم کو اس مقام تک پہنچا دینا کہ پھر ان کی نظر ماسوی اللہ سے خالی ہوجاوے.یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے.پھر آپ کی حقانیت پر ایک اور دلیل بھی عجیب تر ہے جس کی نظیر دوسرے مذاہب میں پائی نہیں جاتی اور وہ آپ کے دیئے ہوئے مذہب کا زندہ مذہب ہونا ہے.زندہ مذہب وہ مذہب ہوتاہے جس کی زندگی کے آثار ہر وقت ثابت ہوتے رہتے ہیں اس کے ثمرات اور برکات اور تاثیرات کبھی مُردہ نہیں ہوتے بلکہ ہر زمانہ میں تازہ بتازہ پائے جاتے ہیں.جو درخت خریف کے دنوں میں ٹنڈ ہوجاتے ہیں اور کوئی پھل پھول اور پتّا ان کا نظر نہیں آتا بلکہ نری خشک لکڑیاں نظر آتی ہیں انہیں دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ پھلدار درخت ہے.۲ لیکن جب ربیع کا موسم شروع ہوتا ہے اور خزاں کا ۱ بدر سے.’’میرے اصحاب میں اللہ ہی اللہ ہے.ان کا رنگ ہی بدل گیا تھا.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱) ۲ بدر سے.’’اس وقت کوئی شناخت نہیں کر سکتا کہ ان درختوں کے درمیان پھل دینے والا زندہ درخت کون سا ہے اور مُردہ درخت کون سا ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱)

Page 61

دور ختم ہوجاتا ہے تو پھلدار درختوں کی شان ہی الگ ہوتی ہے.ان میں پھل پھول شروع ہوجاتے ہیں جیسےیہ خریف اور ربیع کا دور جسمانی رنگ میں ہے اسی طرح پر روحانی طور پر دین میں بھی خریف اور ربیع کے دو سلسلے ہوتے ہیں.ایک صدی جب گذر جاتی ہے تو لوگوں میں سستی اور غفلت اور دین کی طرف سے لاپروائی شروع ہوجاتی ہے اور ہر قسم کی اخلاقی کمزوریاں اور عملی اور اعتقادی غلطیاں ان میں پیدا ہوجاتی ہیں.یہ زمانہ غفلت اور لاپروائی کا خریف کے زمانہ سے مشابہ ہوتا ہے.۱ اس کے بعد دوسرا دور شروع ہوتا ہے اور یہ ربیع کا زمانہ ہے.یہی وہ زمانہ ہے جس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر صدی کے سر پر اللہ تعالیٰ ایک مجدّد کو بھیج دیتا ہے جو نئے سِر سے دین کو تازہ کرتا ہے.پس یہ مجدّد کا اور اسلام کا تازہ بتازہ رہنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے کیونکہ اسی سے اس مذہب کی زندگی ثابت ہوتی ہے.غور کرو کہ جن باغوں کے لیے خریف ہی ہو اور ربیع میں وہ اپنا کوئی نمونہ نہ دکھائیں اور ان میں تازگی اور شگفتگی پیدا نہ ہو.پھر وہ کیا بچیں گے؟ آخر وہ تو کاٹ کر جلا لیے جائیں گے.یہی حال اس وقت دوسرے مذاہب کا ہو رہا ہے.ان پر خزاں کا اثر تو ہوچکا مگر ربیع کا دور اُن میں نہیں آتا.اور خود ان کے ماننے والے تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں وہ برکات، تاثیرات اور ثمرات جو ایک زندہ مذہب میں ہونے چاہئیں، نہیں ہیں تو پھر ان کی اپنی شہادت کے موجود ہوتے ہوئے کسی اور کی دلیل کی کیا حاجت ہے؟ ہندو مذہب اور عیسائیت ہندوؤں اور عیسائیوں کے مذہب پر تو خزاںکا تصرّف اور دخل ہوچکا.ان میں کوئی تاثیرات اور نشانات نہیں ہیں.میں علانیہ کہتا ہوں کہ ان میں زندہ مذہب کی برکات نہیںہیں.اگر میں جھوٹ کہتا ہوں تو میں ہر سزا کے لیے جو وہ میرے لیے تجویز کریں تیار ہوں.لیکن سچ یہی ہے کہ وہ روحانیت سے خالی ہیں اور بالکل مَر چکے بدر سے.’’مرورِ زمانہ سے وہ اصلیت نہیں رہتی.چھ سات دن میں تو بدن کا کپڑا بھی میلا ہوجاتا ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱)

Page 62

ہیں.ان میں زندگی کے آثار بالکل نہیں.وہ بے حس و حرکت پڑے ہوئے ہیں اور ان مذاہب کے ماننے والے صرف ایک مُردہ کو لیے ہوئے ہیں کیونکہ وہ خدا جس پر کامل یقین اس سے سچا تعلق پیدا کر دیتا ہے اور جس تعلق سے پھر نجات ملتی ہے وہ ان کے نزدیک ایک وہمی ہستی ہے جس پر کوئی روشن دلیل نہیں ہے.کیا کوئی ان میں ایسا شخص ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ میں نے خدا تعالیٰ کو خود بولتے سنا ہے؟ اس نےمیری دعاؤں کا جواب دیا ہے؟ یا اس نے اپنے فضل سے غیروں میں امتیاز کے لیے کوئی خارق عادت نشانات ایسے دیئے ہیں جس سے اس میں اور اس کے غیروںمیں امتیاز قائم ہو جاوے اگر کوئی ایسا شخص ہے تو اس کا نشان دو.اور اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر اس اَمر کے تسلیم کرنے میں سب طرح سے کام نہ لو کہ فی الحقیقت یہ مذہب خزاں کا نشانہ ہوچکےہیں.خدا تعالیٰ کی ہستی پر جیسی یہ واضح دلیل ہے کہ خود وہ اپنے بندے سے کلام کرے اور نشانات ظاہر ہوں اور کوئی دلیل اس کے مقابلہ میں نہیں آسکتی باقی صرف قیاسات ہیں.آریوں کے عقیدہ کے موافق خدا کی ہستی پر کوئی دلیل نہیں وید کے رُو سے یہ طے شدہ اَمر ہے کہ اب کوئی نشان ظاہر نہیں ہو سکتا اور خدا تعالیٰ کسی سے کلام نہیں کرتا اور خواہ کوئی شخص کتنا ہی اسے پکارے اس کی پکار کا جواب اسے مل ہی نہیں سکتا.کبھی ایک بار خدا تعالیٰ نے کلام کیا تھا مگر اب وہ خاموش ہے.جب یہ اصول اور عقیدہ ہو تو بتاؤ کہ اس سے انسان کو خدا تعالیٰ کے وجود پریقین لانے کے لیے کیا تسلی ہو سکتی ہے اور اس سے وہ یقین کیوں کر پیدا ہو سکتا ہے جس سے انسان حقیقی نجات حاصل کرے.یہ تو سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان لانے کے لیے دلائل کی حاجت ہے اگر مصنوعات اور مخلوقات اس کے وجود پر دلائل ہیں.مثلاً یہ کہ چاند سورج بطور نشان کے ہیں تو ان کے عقیدہ کے موافق اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یہ دلیل نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کے مذہب کے موافق ارواح یعنی

Page 63

جیو خود بخود ہیں اور وہ انادی ہیں.خدا تعالیٰ نے ان کو پیدا ہی نہیںکیا.جب وہ پیدا شدہ ہی نہیں ہیں تو اپنے پیدا کرنے والے پر دلیل کس طرح ہو سکتے ہیں؟ اسی طرح پر ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ذرات جن کو اجسام کہتےہیں یہ بھی خود بخود ہیں.پرمیشر کا صرف اتنا کام ہے کہ وہ ان کو جوڑ جاڑ دیتا ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ جب وہ عظیم الشان کام خود بخود ہیں تو جوڑنے جاڑنے کے لیے اس کی کیا حاجت ہے وہ بھی خود بخود ہو جائے گا.اس لیے آریوں کے عقیدہ کے موافق پرمیشر کے وجود پر کوئی دلیل نہیں.اگر ان سے پوچھا جاوے کہ پرمیشر کے وجود پر کیا دلیل ہے؟ تو جواب یہی ہے کہ کوئی نہیں.نہایت کار وہ یہ کہیں گے کہ وہ ارواح اور مواد کو جوڑتا جاڑتا ہے.سو یہ کچی اور بیہودہ بات ہے.کوئی عقلمند انسان اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا.اسلام کے نزدیک خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت برخلاف اس کے اسلام یہ سکھاتا ہے کہ کوئی چیز خود بخود نہیں خواہ وہ ارواح یا اجسام ہوں، سب کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے.ہر چیز کا مبدء فیض اور سر چشمہ وہی ہے.اس لحاظ سے اس کے مصنوعات پر نظر کر کے ہم اس کو پہچان سکتے ہیں.پس یہ دلیل اگر کام دے سکتی ہے اور مفید ہو سکتی ہے تو مسلمانوں کے لیے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اتنی ہی معرفت مسلمانوں کو نہیں دی بلکہ اپنی شناخت اورمعرفت کے اور بہت سے نشانات ان کو دیئے ہیں اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے لَهُمُ الْبُشْرٰى فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا (یونس:۶۵) اور پھر فرماتا ہے اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ (حٰمٓ السجدۃ:۳۱) یعنی جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر اس پر انہوں نے استقامت دکھائی اور کوئی مشکل اور مصیبت انہیں اس اقرار سے پھرا نہیں سکی ان پر ملائکہ کا نزول ہوتا ہے.یہ بڑا بھاری طریق ہے خد اکو پہچاننے کا.اس سے وہ یقین پید اہوتا ہے جو انسان کو نجات کا وارث بنادیتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کے وجود پر کامل یقین پیدا ہوجاوے تو انسان کی زندگی میں ایک معجز نما تبدیلی ہوتی ہے وہ گناہ آلود زندگی سے نکل آتا ہے اور پاکیزگی اور طہارت کا جامہ پہن لیتا ہے اور یہی نجات ہے جو اس کو گناہ سے بچالیتی ہے.اس کے

Page 64

ثمرات اور برکات خدا تعالیٰ پر کامل یقین اور توکل پیدا ہونے لگتے ہیں اور معجزات اور نشانات مشاہدہ کرائے جاتے ہیں.اب چونکہ زمین و آسمان پرمدت ہائے دراز گذر گئی ہیں اس لیے نرا ان کا وجود یقین کے لیے کافی نہیں.اگر یہ کافی ہوتے تو لوگ دہریہ کیوں بنتے؟۱ میں یقیناً کہتا ہوں کہ دوسرے لوگ دہریوں کو خدا تعالیٰ کی ہستی پر قائل نہیں کر سکتے.لیکن ہمارے سامنے لاؤ.یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ مان جاویں مگر یہ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ وہ لاجواب ہوجائیں گے.وہ طریق جس سے ہم دہریوں اور دوسروں پر حجّت قائم کرتے ہیں وہ کیا ہے؟ خدا تعالیٰ کے اقتداری نشان اور اقتداری پیشگوئیاں.اسلام پر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور رحم ہے کہ ایک سچا مسلمان یہاں تک ترقی کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کو مکالمہ مخاطبہ نصیب ہوجاتا ہے مگر یہ سب کچھ تقویٰ سے نصیب ہوتا ہے.تقویٰ تمام دینی علوم کی کنجی ہے جہاں قرآن شریف میں تقویٰ کا ذکر کیا ہے وہاں بتایا ہے کہ ہر ایک علم (اس سے اخروی علم مراد ہے زمینی اور دنیوی علم مراد نہیں) کی جڑ تقویٰ ہی ہے اور تمام نیکیوں کی جڑ یہی تقویٰ ہے.متقی کا خدا تعالیٰ خود متکفّل ہوتا ہے اور اس کے لیے عجیب در عجیب نشان ظاہر کرتا ہے.قرآن شریف نے شروع میں ہی فرمایا هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠(البقرۃ:۳) پس قرآن شریف کے سمجھنے اور اس کے موافق ہدایت پانے کے لیے تقویٰ ضروری اصل ہے.ایسا ہی دوسری جگہ فرمایا لَا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۠(الواقعۃ:۸۰) دوسرے علوم میں یہ شرط نہیں.ریاضی، ہندسہ و ہیئت وغیرہ میں اس اَمر کی شرط نہیں کہ سیکھنے والا ضرور متّقی اور پرہیزگار ہو.بلکہ خواہ کیسا ہی فاسق و فاجر ہی ہو وہ بھی سیکھ سکتا ہے مگر علم دین میں خشک منطقی اور فلسفی ترقی نہیںکر سکتا اور اس پر وہ حقائق اور معارف نہیں کھل سکتے.جس کا دل خراب ہے اور ۱ بدر سے.’’خدا تعالیٰ کی شناخت کے واسطے یہ ایک بڑا طریق ہے کہ نشانات کا مشاہدہ کرایا جاوے.جب ایک سلسلہ نشانات اورکرامات کو مدت دراز گذر جاتی ہے تو لوگ دہریہ مزاج ہوجاتےہیں اور بیہودہ باتیں بناتے ہیں.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۲)

Page 65

تقویٰ سے حصہ نہیں رکھتا اور پھر کہتا ہے کہ علوم دین اور حقائق اس کی زبان پرجاری ہوتے ہیں وہ جھوٹ بولتا ہے.ہرگز ہرگز ایسے دین کے حقائق اور معارف سے حصہ نہیں ملتا بلکہ دین کے لطائف اور نکات کے لیے متقی ہونا شرط ہے جیسا کہ یہ فارسی شعر ہے.؎ عروس حضرت قرآن نقاب آنگہ بردارد کہ دار الملک معنی را کند خالی ز ہر غوغا جب تک یہ بات پیدا نہ ہو اور دار الملک معنے خالی نہ ہو، وہ غوغا کیاہے؟ یہی فسق و فجور دنیا پسندی ہے.ہاں یہ جدا اَمر ہے کہ چور کی طرح کچھ کہلائے تو کہہ دے.۱ لیکن جو روح القدس سے بولتےہیں وہ بجز تقویٰ کے نہیں بولتے یہ خوب یاد رکھو کہ تقویٰ تمام دینی علوم کی کنجی ہے.انسان تقویٰ کے سوا ان کو نہیں سیکھ سکتا.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا الٓمّٓ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠(البقرۃ:۲،۳) یہ کتاب تقویٰ کرنے والوں کو ہدایت کرتی ہے اور وہ کون ہیں؟ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ (البقرۃ:۴) جو غیب پرایمان لاتے ہیں یعنی ابھی وہ خدا نظر نہیں آتا.اور پھر نماز کو کھڑی کرتے ہیں یعنی نماز میں ابھی پورا سرور اور ذوق پیدا نہیں ہوتا.تاہم بے لُطفی اور بے ذوقی اور وساوس میں ہی نماز قائم کر تےہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ خرچ کرتے ہیں اور جو کچھ تجھ پر یا تجھ سے پہلے نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں.یہ متقی کے ابتدائی مدارج اور صفات ہیں.جیسا کہ میں نے ایک مرتبہ بیان کیا تھا بظاہر یہاں اعتراض ہوتا ہے کہ جب وہ خدا پر ایمان لاتےہیں.نماز پڑھتے ہیں.خرچ کرتے ہیں اور ایسا ہی خدا کی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں پھر اس کے سوا نئی ہدایت کیا ہوگی؟ یہ تو گویا تحصیل حاصل ہوئی.يُنْفِقُوْنَ میں دونوں باتیں داخل ہیں.یعنی دوسروں کو روٹی یا کپڑا یا مال دیتا ہے اور یا قویٰ بدر سے.’’اللہ تعالیٰ نے اس بات کو حرام کیا ہے کہ فسق و فجور اور شرارت کے ساتھ کسی کو دینی علوم بھی حاصل ہوجائیں.ہاں چور کی طرح کوئی دوسروں کی بات لے کر بیان کر دے تو وہ مالِ مسروقہ ہے لیکن وہ کلام جو روح القدس کی تائید کے ساتھ ہوتا ہے وہ تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا.تمام دینی علوم کی کنجی تقویٰ ہی ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۲)

Page 66

خرچ کرتا ہے.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ عبادتیں اور یہ الفاظ اسی حد تک جو بیان کی گئی ہیں انسان کے کمال سلوک اور معرفتِ تامہ پر دلالت نہیں کرتے.اگر ہدایت کا انتہائی نقطہ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ ہی تک ہو تو پھر معرفت کیا ہوئی؟۱ اس لیے جو شخص قرآن مجید کی ہدایت پر کاربند ہوگا وہ معرفت کے اعلیٰ مقام تک پہنچے گا اور وہ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ سے نکل کر مشاہدہ کی حالت تک ترقی کرے گا گویا خدا تعالیٰ کے وجود پر عین الیقین کا مقام ملے گا.اسی طرح پر نماز کے متعلق ابتدائی حالت تو یہی ہوگی جو یہاں بیان کی کہ وہ نماز کو کھڑی کرتے ہیں یعنی نماز گویا گری پڑتی ہے.گرنے سے مراد یہ ہے کہ اس میں ذوق اور لذّت نہیں بے ذوقی اور وساوس کا سلسلہ ہے اس لیے اس میں وہ کشش اور جذب نہیں کہ انسان جیسے بھوک پیاس سے بےقرار ہو کر کھانے اور پانی کے لیے دوڑتا ہے اسی طرح پر نماز کے لیے دیوانہ وار دوڑے، لیکن جب وہ ہدایت پاتا ہے تو پھر یہ صورت نہیں رہے گی اس میں ایک ذوق پیدا ہوجائے گا.وساوس کا سلسلہ ختم ہو کر اطمینان اور سکینت کا رنگ شروع ہوگا.کہتے ہیںکسی شخص کی کوئی چیز گم ہوگئی تو اس نے کہا کہ ذرا ٹھہر جاؤ نماز میں یاد آجاوے گی یہ نماز کاملوں کی نہیں ہوا کرتی کیونکہ اس میں تو شیطان انہیں وسوسہ ڈالتا ہے لیکن جب کامل کا درجہ ملے گا تو ہر وقت نماز ہی میں رہے گا اور ہزاروں روپیہ کی تجارت اور مفاد بھی اس میں کوئی ہرج اور روک نہیں ڈال سکتا.اسی طرح پر باقی جو کیفیتیں ہیںوہ نرے قال کے رنگ میں نہ ہوں گی ان میں حالی کیفیت پیدا ہوجائے گی اور غیب سے شہود پر پہنچ جاوے گا یہ مراتب نرے سنانے ہی کو نہیں ہیں کہ بطور قصہ تم کو سنا دیا اور تم بھی تھوڑی دیر کے لیے سن بدر سے.’’پہلا ایمان غیب پر ہے لیکن اگر ایمان صرف غیب تک محدود رہے تو اس میں کیا فائدہ؟ وہ تو ایک سنی سنائی بات ہے.اس کے بعد معرفت اور مشاہدہ کا درجہ حاصل کرنا چاہیے جو کہ اس ایمان کے بعد رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور انعام کے عطاہوتا ہے اور انسان کی حالت غیب سے منتقل ہو کر علم شہود کی طرف آجاتی ہے.جن باتوں پر وہ پہلے غیب کے طور پر ایمان لاتا تھا اب ان کا عارف بن جاتا ہے اور اس کو رفتہ رفتہ وہ درجہ عطا ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اسی دنیا میں دیکھ لیتا ہے.پس غیب پر ایمان لانےوالے کو آگے ترقی دی جاتی ہے اور وہ مشاہدہ کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۲)

Page 67

کر خوش ہوگئے.نہیں یہ ایک خزانہ ہے اس کو مت چھوڑو.اس کو نکال لو.یہ تمہارے اپنے ہی گھر میں ہے اور تھوڑی سی محنت اور سعی سے اس کو پا سکتے ہو.ایک شخص کے پاس کنواں ہو اور وہ اس کے گھر ہی میں ہو.لیکن وہ کیسا بد نصیب ہے اگر اسے اس کا علم نہ ہو.اسی طرح اس مسلمان سے کون زیادہ بد نصیب ہے جس کو خدا تعالیٰ وعدہ دیتا ہے کہ میں اپنے کلام سے مشرف کروں گا مگر وہ اس کی طرف توجہ نہ کرے.یہ خدا تعالیٰ کا بڑا فضل ہے اور اسلام سے خاص ہے.کسی آریہ سے پوچھو کہ تم وعدہ ہی دکھاؤ وہ یہ بھی نہیں دکھا سکتے.ماتم زدہ اور مُردہ وہ مذہب ہے جس کے الہام پر مہر لگ گئی اور ویران اور اجڑا ہوا وہ باغ ہے جس پر خزاں کا قبضہ ہو چکا لیکن ربیع کا اثر اس پر نہیں ہو سکتا.کیسے افسوس اور تعجب کا مقام ہے کہ انسانی فطرت پر تو مہر نہ لگی اس میں تو معرفت حقیقی کی وہی بھوک پیاس موجود ہے لیکن الہام پر مہر لگا دی گئی جو معرفت الٰہی کا سر چشمہ تھا افسوس! بھوک میں غذا پھینک دی گئی اور پیاس کی حالت میں پانی لے لیا گیا.عیسائیت اور اسلام ایسا ہی عیسائی مذہب کا حال ہے.باوجود ہزاروں ضعف اور غربت کے ایک عاجز انسان کو خدا بنانا اور بات ہے یہ تو نری لاف زنی ہے.زبان سے کہہ دیا لیکن ہم کہتے ہیں کہ اس کی خدائی مان کر جو فضل تم پر ہوا اور جو معرفت بڑھی ہے اسے بھی تو پیش کرو.یہ کیسا میزبان ہے کہ دعوت کر کے بُلایا ہے اور بھوک پیاس بھی لگی ہوئی ہے.ہاتھ دھلا دیتے ہیں.مگر نہ روٹی دیتا ہے اور نہ پانی.اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہی ہے کہ وہ مُردہ مذہب ہیں.ان میں زندگی کے آثار اور زندگی کی حس و حرکت نہیں.وہ خشک ٹہنیاں ہیں.ان میں اب پھل پھول نہیں نکل سکتے.یہ صرف اسلام ہی ہے جو زندہ مذہب ہے.یہی ہے جس کا ربیع ہمیشہ آتا ہے جبکہ اس کے درخت سر سبز ہوتے ہیں اور شیریں اور لذیذ پھل دیتے ہیں اس کے سوا اور کوئی مذہب یہ خوبی نہیں رکھتا.اگر اس میں سے یہ خوبی نکال دی جاوے تویہ بھی مُردہ ہوجاتا.مگر نہیں وہ زندہ مذہب ہے.اللہ تعالیٰ نے ہر زمانہ میںاس کی زندگی کا ثبوت دیا ہے چنانچہ اس زمانہ میں بھی

Page 68

اس نے اپنے فضل سے اس سلسلہ کو اسی لیے قائم کیا ہے تا وہ اسلام کے زندہ مذہب ہونے پر گواہ ہو اور تا خدا کی معرفت بڑھے اور اس پر ایسا یقین پیدا ہو جو گناہ اور گندگی کو بھسم کر جاتا ہے اور نیکی اور پاکیزگی پھیلاتا ہے.موجودہ زمانہ کی حالت یہ زمانہ سخت ابتلا کا زمانہ ہے.ہر قسم کے جرائم کا مجموعہ ہے.ہرقسم کی ضلالت پورے جوش میں ہے.وہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں ہر قسم کے عیب اور معاصی ان میں پائے جاتے ہیں.زانی، شرابی، قمارباز، بد دیانت اور خائن ہیں.قرضہ دیا جاوے تو دیتے نہیں.عہد کرتے ہیں تو توڑتے ہیں.دوسروں کے حقوق کو پامال کرنے اور ظلم کرنے میں دلیر ہیں.یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں.غرض وہ کون سا عیب اور جرم ہے جو نہیں کرتے.میں یقیناً کہتا ہوں کہ ان کی وہی حالت ہو رہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت قریش کی تھی.پھر اس قسم کے فسق و فجور کے ساتھ ایک اور خطرناک ابتلا دوسرے مذاہب کا ہے.وہ ہرقسم کے لالچ دے کر مرتد کر لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی لاکھ مسلمان عیسائی ہو چکے ہیں.اب اندرونی طور پر تو مسلمانوں کی وہ حالت ہے جومیںنے ابھی بیان کی ہے اور بیرونی حالت وہ ہے جو عیسائی اور آریہ اور دوسرے مذاہب اسلام سے گمراہ کرنے کے لیے اپنی تدبیروں کوکام میں لا رہے ہیں اور اس طرح پر نہ اندرونی حالت کو دیکھ کر آرام آتا ہے اور نہ بیرونی حالت کو دیکھ کر کوئی راحت ہو سکتی ہے.پھر جبکہ اس حدتک اسلام کی حالت ہوگئی ہے تو کیا خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر:۱۰) بالکل غلط ہوگیا؟ کیا حق نہ تھا کہ اس وقت اس کی حفاظت کی جاتی؟ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ قوم پورا پورا صدمہ خریف کا اٹھا چکی ہے اب ضروری ہے کہ اسے ربیع کا حصہ ملے اور اسلام کے پاک درخت کے پھل پھول نکلیں.سکھوں کے عہد میں اسلام کو جو صدمہ پہنچا ہے وہ بہت ہی ناگوار ہے.مساجد گرا دی گئیں.وحشیانہ حالت ایسی تھی کہ بانگ اور نماز تک سے روکا جاتا اور شاید ہی کوئی مسلمان ایسا ہو جسے قرآن آتا ہو.اپنی حالت بھی انہوں نے سکھوں کی سی بنا لی

Page 69

کَچھ پہن لیے اور مونچھیں بڑھالیں اور السلام علیکم کی جگہ واہگوروجی کی فتح رہ گئی.یہ تو وہ حالت تھی جو سکھوںکے عہد میں ہوئی.اب جب امن ہوا تو فسق و فجور میں ترقی کی اور ادھر عیسائیوں نے ہر قسم کے لالچ دے کر ان کو عیسائی بنانا چاہا اور ان کا وار خالی نہیں گیا.ہر گرجا میںہر شریف قوم کی لڑکیاں اور لڑکے پاؤ گے جو مرتد ہو کر ان میںمل گئے ہیں.وہ کیسا دردناک واقعہ ہوتا ہے جب کسی شریف خاندان کی لڑکی کو پھسلا کر لے جاتے ہیں اور پھر وہ بے پردہ ہو کر پھرتی ہے اور ہر قسم کے معاصی سے حصہ لیتی ہے.ان حالات کو دیکھ کر ایک معمولی عقل کا آدمی بھی کہہ اٹھے گا کہ یہ زمانہ بالطبع تقاضا کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مدد آوے.ان لوگوں کا تو ہم منہ بند نہیں کر سکتے جو کہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کا کچھ نہیں بگڑا.ایسے لوگوں کے نزدیک تو اگر سب کے سب دہریہ ہو جائیں.تب بھی کچھ نہیں بگڑے گا.لیکن سچی بات یہی ہے کہ اس وقت اسلام خدا کی مدد کا سخت محتاج ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے اس صدی کا مجدّد کرکے بھیجا ہے اور یہ کیسی خوشی کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسے وقت میں اسلام کو بے مدد نہیں چھوڑا.اس نے اپنے قانون کے موافق مجھے بھیجا ہے تا میں اسے زندہ کروں مگر تعجب اور افسوس کا مقام ہے کہ باوجودیکہ زمانہ کی حالت مجدّد کی داعی تھی اور مولویوں سے پوچھو وہ اقرار کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ہر صدی پر ایک مجدّد آئے گا.لیکن جب ان سے پوچھا جاوے کہ اب بتاؤ اس صدی کا مجدّد کون ہے؟ تو جواب نہیں دیتے.حالانکہ چوبیس سال صدی میں سے گذر گئے اور جب میں پیش کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے اس صدی کا مجدّد کر کے بھیجا ہے تو انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دجّال آیا.اور ابھی کہتے ہیں کہ ایک نہیں بلکہ تیس دجّال آنے والے ہیں.۱ افسوس! باوجود اس سرگردانی کے کیا تمہارے حصہ میں دجّال ہی آیا ہے.کیا کہیں یہ بھی لکھا ہے بدر سے.’’کیا سبب ہے کہ اس صدی کے سر پر آکر وہ حدیث بھی جھوٹی ہوگئی جو تیرہ سو سال تک ٹھیک ثابت ہوتی چلی آتی تھی.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۳)

Page 70

کہ پہلے مجدّد آئیں گے مگر چودھویں صدی پر جو سب سے زیادہ فتنوں کی صدی ہے دجّال آئے گا.موجودہ حالت تو کھول کھول کر پکار رہی ہے کہ اصلاح کی ضرورت ہے مگر یہ ابھی اور فساد چاہتے ہیں.یہ پکی بات ہے کہ جب زمین پر معصیت اور پاپ پھیل جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اصلاح کےلیے کسی کو بھیجتا ہے اور اب وہ حالت ہوچکی تھی اس لیے اب بھی اسی نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے.حالت زمانہ کے بعد وہ نشانات ہیں جو اس سلسلہ کی سچائی کے لیے ظاہر ہوئے اور ان نشانات سے وہ نشانات مراد ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرار دیئے تھے اور قبل از وقت بتا دیئے تھے منجملہ ان کے ایک کسوف خسوف کا نشان ہے.مولوی جب تک یہ نشان پورا نہیں ہوا تھا رو رو کر اسی حدیث کو پڑھا کرتے تھے.مولوی محمد لکھوکے والے نے اپنی کتاب احوال الآخرت میں اس نشان کو بڑے زور شور سے بیان کیا ہے کہ مہدی کے زمانہ میں رمضان کے مہینے میں کسوف اور خسوف ہوگا.دار قطنی کھول کر دیکھ لو کہ کیا یہ حدیث اس میں موجود ہے یا نہیں؟ لیکن جب یہ نشان پوار ہوا اور نہ ایک دفعہ بلکہ دو مرتبہ.ایک مرتبہ اس ملک میں ہوا.دوسری مرتبہ امریکہ میں ہوا.اس میں حکمت یہ تھی کہ تا دو مرتبہ حجّت پوری ہوجاوے اور اس ملک میں اس لیے کہ چونکہ وہ ملک عیسائی مذہب کی اشاعت کرتے ہیں ان پر بھی اتمامِ حجت ہو.اب بتاؤ کہ علاوہ اور بے شمار نشانات کے یہ زبردست نشان ظاہر ہوا.اور اس کو پورا ہوئے بھی دس گیارہ سال گذر گئے.اگر حقیقی مدعی موجود نہ تھا تو پھر یہ نشان کس لیے ظاہر ہوا؟ نشان پورا ہوچکا مگر تم ابھی تک حقیقی دعویدار کو دجّال اور واجب القتل کہے جاتے ہو.میرے ایک دوست نے بیان کیا کہ جب یہ نشان پورا ہوا تو ایک مولوی غلام مرتضیٰ نام نے خسوف قمر کے وقت اپنی رانوں پر ہاتھ مار مار کر (جیسے کوئی سیاپا کرتا ہے.ایڈیٹر) کہا کہ اب دنیا گمراہ ہوگی.خیال تو کرو کیا وہ خدا تعالیٰ سے بڑھ کر دنیا کا خیر خواہ تھا؟ اس نے کیسی غلطی کھائی! اگر انصاف اور خدا ترسی ہوتی تو میرے معاملہ میں اس کے بعد خاموش ہوجاتے.مگر نہیں اور بھی دلیر ہوئے.یہ کسوف خسوف کا نشان حدیث ہی میں بیان نہیں ہوا بلکہ قرآن مجید نے بھی اس کو بیان کیا ہے.

Page 71

پھر قرآن شریف میں ایک اور نشان بتایا گیا تھا کہ اس زمانہ میں طاعون کثرت سے پھیلے گا.احادیث میں بھی یہ پیشگوئی تھی.قرآن مجید میں لکھا تھا اِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا (بنی اسـرآءیل:۵۹) اور دوسری جگہ صاف طور پر بتایا گیا تھا کہ وہ ایک زمینی کیڑا ہوگا.(دابۃ الارض) آخری زمانہ میں بہت سے لوگ اس سے مَریں گے.اب کوئی بتائے کہ کیا اس نشان کے پورا ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی رہ گیا ہے؟ پھر اس آخری زمانے کے نشانات میں بتایا گیا تھا کہ نہریں نکالی جاویں گی اور نئی آبادیاں ہوں گی.پہاڑ چیرے جاویں گے.کتابوں اور اخباروں کی اشاعت ہوگی.اور یہ بھی لکھا تھاوَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ(التکویر:۵) یعنی ایک ایسی نئی سواری نکلے گی جس کی وجہ سے اونٹنیاں بے کار ہوجائیں گی اور ایسا ہی حدیث میں بھی فرمایا گیا تھا لَیُتْـرَکُنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْـھَا.اب دیکھ لو کہ ریل کے اِجرا سے یہ پیشگوئی کیسی صاف صاف پوری ہوگئی اور عنقریب جب مکہ تک ریل آئے گی تو اور بھی اس کا نظارہ قابل دید ہوگا.جب وہاں کے اونٹ بے کار ہوجائیں گے.مگر میں افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ اس جگہ محض میرے ساتھ بخل کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک پر بھی حملہ کیا اور آپ کی پیشگوئیوں کی تکذیب کی.وہ اَمر جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت ثابت ہوتی تھی.میری عداوت کی وجہ سے اسے مٹانا چاہا ہے.مجھ سے عداوت ہی سہی لیکن آپؐکی پیشگوئی کو کیوں پامال کر دیا؟ میں سچ کہتا ہوں کہ طاعون اور ریل کے اِجرا وغیرہ کی پیشگوئیوں کا محض اس وجہ سے انہوں نے انکار کیا کہ ان سے میری سچائی ثابت ہوتی تھی جس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انہیں کوئی تعلق محبت کا باقی نہیں کیونکہ یہ کبھی نہیں ہوا کہ دشمن کو آزار پہنچانے کے لیے محبوب کے نشانات کو پامال کر دیا جاوے مگر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان معجزات اور نشانات کو جو اس زمانہ میں ظاہر ہوئے پامال کرنے کی کوشش کی ہے.جو نشانات اورمعجزات آپؐکے وقت میں ظاہر ہوئے وہ اس زمانہ کے لوگوں تک محدود تھے اور اس زمانہ کے لیے وہ ’’شنیدہ کے بود مانند دیدہ‘‘ کے مصداق تھے.لیکن چونکہ آپ کا

Page 72

دامن نبوت بہت وسیع ہے اور اس زمانہ کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ معجزات رکھے تھے اور وہ ظاہر ہوئے لیکن میری مخالفت اور عداوت کی وجہ سے انہوں نے بخل سے مٹانا چاہا ہے.ایک طرف تو آپؐکی محبت اور آپ کی اتباع کا دعویٰ ہے.دوسری طرف جب نشان ظاہر ہوتا ہے تو انکار کر دیتے ہیں.یہ تو وہ نشانات تھے جو اس زمانہ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے وحی پاکر بیان کئے تھے مگر ان کے سوا نشانات کا ایک اور بھی نیا سلسلہ ہے.یہ وہ نشانات ہیں جو خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر ظاہر کئے جن کی قبل از وقت خبر دی گئی تھی.ان کی تعداد بہت بڑی ہے.منجملہ ان کے ایک زلزلہ کی پیشگوئی ہے جو اگرچہ قرآن شریف میں بھی اس کی خبر دی گئی تھی لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے بھی اس کا علم دیا جیسا کہ براہین احمدیہ اور دوسری کتابوں میں میں نے درج کر دیا.اور پھر جن دنوں مَیں گورداسپور میں تھا ’’زلزلہ کا دھکا‘‘ الہام ہوا تھا جو انہیں ایام میں اخبارات میں شائع کر دیا گیا اور پھر عَفَتِ الدِّیَارُ مَـحَلُّھَا وَ مُقَامُھَا بھی الہام ہوا تھا اور یہ پیشگوئی ۴ ؍ اپریل گذشتہ کو پوری ہوگئی اور پھراسی کے ضمن میں اور زلزلوںکی پیشگوئیاں تھیں جو آتے رہے.منجملہ ان کے ایک بھاری زلزلہ کی پیشگوئی تھی.’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی.‘‘چنانچہ وہ بھاری زلزلہ بھی آگیا.مگر افسوس تو یہ ہے کہ محض میری عداوت کی وجہ سے قرآن شریف کی پیشگوئی کا بھی انکار کر دیا.یہ ان کی ایمانی حالت ہے جو کچھ میرے تصدیق دعویٰ میں ظاہر ہو خواہ وہ قرآن مجید میں بھی موجود ہو یہ اس سے ضرور انکار کر دیتے ہیں.مگر خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ نشان پر نشان ظاہر ہو رہے ہیں.یہ لوگ کہاں تک خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا مقابلہ کریں گے اور میرے ساتھ کشتی لڑیں گے.جو لوگ حقیقۃ الوحی کو جب وہ شائع ہوگی پڑھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس قدر نشانات کا سلسلہ ہے میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ ایک لاکھ سے بھی زیادہ نشان ظاہر ہوچکے ہیں.اب غور کرو کہ اگر کوئی شخص خدا کی طرف سے نہ ہو تو کیا اس کی اس قدر نصرت اور تائید ہوا کرتی ہے؟ پھر جبکہ اسے یہ بھی کہا جائے کہ وہ خدا کا دشمن اور خدا اس کا دشمن ہے.

Page 73

جس قدر مقدمات مجھ پر کئے گئے یا کرائے گئے ان میں میرے ہی مخالفوں کو ناکامی اور نامرادی ہوئی اور خدا تعالیٰ نے مجھے ہی بامراد کیا.آتمارام کے سامنے یہ نا کام ہوئے.جہلم میں انہیں نامرادی ہوئی اور اس سے پہلے وہ شرمندہ ہوئے.ماسوا اس کے ایک اور بات میں پیش کرتا ہوں جو بہت ہی صاف اور بدیہی بات ہے.براہین احمدیہ کے زمانہ میں جس کو بتیس سال کے قریب گذرے.کیونکہ کتاب تالیف پہلے ہوتی ہے اور پھر طبع ہوتی ہے اس کو شائع ہوئے بھی چھبیس سال گذرے.اور وہ تالیف اس سے بہت پہلے ہوئی.اس میں اس قدر پیشگوئیاں ہیں کہ میں اس وقت ان سب کو بیان نہیں کر سکتا.نمونہ کے طور پر میں ایک کو بیان کرتا ہوں.ایک زبردست نشان جو ہر روز پورا ہوتا ہے اس کتاب براہین احمدیہ میں اللہ تعالیٰ مجھے ایک دعا سکھاتا ہے یعنی بطور الہام فرماتا ہے رَبِّ لَا تَذَرْنِيْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ یعنی مجھے اکیلا مت چھوڑ اور ایک جماعت بنادے.پھر دوسری جگہ وعدہ دیتا ہے یَاْتِیْکَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ ہر طرف سے تیرے لیے وہ زر اور سامان جو مہمانوں کے لیے ضروری ہیں اللہ تعالیٰ خود مہیا کرے گا اور وہ ہر ایک راہ سے تیرے پاس آئیں گے.اور پھر فرمایا يَاْتُوْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ.لَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰهِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ ہر ایک طرف اور ہر ایک راہ سے تیرے پاس مہمان آئیں گے اور اس قدر کثرت سے آئیں گے کہ قریب ہے تو ان سے تھک جاوے یا بد خلقی کرے.اس لیے پہلے سے بتا دیا کہ نہ تو ان سے تھکے اور نہ ان سے بد خلقی کرے.یہ پیشگوئیاں اس براہین احمدیہ میں موجود ہیں.جن کو شائع ہوئے چھبیس سال کا عرصہ گذرتا ہے اور جس کی تالیف پر بتیس سال گذرتے ہیں.یہ وہ کتاب ہے جو مخالفوں کے پاس بھی موجود ہے اور گورنمنٹ میں بھی بھیجی گئی اور مکہ مدینہ اور بخارا میں بھی اس کے نسخے پہنچے.اب تو اس میں یہ الہامات درج نہیں کر دیئے گئے.

Page 74

اب غور کرو کہ جس زمانہ میں یہ پیشگوئی شائع ہوئی یا لوگوں کو بتائی گئی اس وقت کوئی شخص یہاں آتا تھا؟ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کوئی مجھے جانتا بھی نہ تھا.اور کبھی سال بھر میں بھی ایک خط یا مہمان نہ آتا تھا.میں بالکل ایک گمنامی کی حالت میں پڑا ہوا تھا.یہ ہندو جو یہاں رہتے ہیں اور اب گالیاں دیتے ہیں اور ہر قسم کی مخالفت کرتے اور خباثت دکھاتے ہیں.ان کو قسم دو اور یا وہ بغیر قسم ہی بتائیں کہ کیا ان لوگوں میں سے کوئی ہمارے پاس تھا؟ یہ سب سے پہلے گواہ ہیں اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے ان نشانات کو دیکھا ہے اور اب وہ چھپاتے ہیں اس طرح پر گویا سب سے پہلے جہنم کے لیے تیار ہیں.آریہ سماج والے ملاوامل اور شرمپت رائے یہاں موجود ہیں.یہ میرے ساتھ عموماً آیا جایا کرتے تھے.میرے ساتھ براہین احمدیہ چھپوایا کرتے اور اس کے پروف بھی انہوں نے دیکھے ہیں اور جب ہم امرتسر جاتے تھے تو کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا تھا کہ کہاں گئے اور وہاں جا کر کوئی نہیں جانتا تھا کہ کہاں رہے.اب اگر وہ ایمان رکھتے ہیں اور دھرم رکھتے ہیں تو وہ جواب دیں.میں سچ کہتا ہوں کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے بہت سے نشانات دیکھے ہیں اور وہ گواہ ہیں لیکن قوم اور برادری کے ڈر سے خاموش ہیں.وہ کیوں اس شہادت کو ظاہر نہیں کرتے؟ یہ سچائی کا خون کرنا ہےوہ عنقریب جان لیں گے کہ ان کا انجام کیا ہے؟ وہ قسم کھا کر بتائیں کہ کیا یہ رجوع لوگوںکا تھا؟ کیا اسی طرح فتوحات آتی تھیں؟ اسی طرح پر خطوط آتے تھے؟ تم نے یہ عبارتیں پڑھی تھیں.اگر یہ سچ ہے اور تمہارے سامنے قبل از وقت ایسی حالت میں کہ کوئی مجھے جانتا بھی نہ تھا، خدا تعالیٰ سے وحی پاکر میں نے خبر دی تھی اور وہ پوری ہوئی تو پھر بتاؤ کہ کیا یہ انسان کا اپنا کام ہے کہ اس طرح پر قبل از وقت خبر دے اور ایک زمانہ دراز کے بعد وہ پوری ہوجاوے؟ ایک آدمی جو گمنامی کی حالت میں ہے اس کو اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ تیرے لیے ایک زمانہ آتا ہے کہ تو عالم میں مشہور ہوجائے گا.فَـحَانَ اَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ ایک زمانہ آئے گا کہ تیری مدد کی جائے گی اور تو لوگوں میں شناخت کیا جائے گا.کیا یہ انسانی کام اورمنصوبہ ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.یہ اللہ تعالیٰ

Page 75

ہی کا کام ہے کہ پہلے ایک واقعہ کی خبر دیتا ہے کیونکہ علمِ غیب اسی کو ہے اور یہ اسی کا خاصہ ہے اور وہ اپنے مرسلین پر ایسے ظاہر کرتا ہے.جب یہ بات ہے تو پھر سوچو مَر کر خدا تعالیٰ کے سامنے جانا ہے.اس کا کیا جواب ہے؟ کہ باوجودیکہ تم نے اپنی آنکھوں سے ان نشانات کو دیکھا اور تم ان کے گواہ ٹھہرے اور سنے سنائے گواہ نہیں بلکہ رؤیت کے گواہ اور وہ بھی ایسے کہ دنیا بھر میں جواب نہ دے سکیں.یاد رکھو خدا کی حجّت تم پر قائم ہے.میں حلفاً کہتا ہوں سب سے زیادہ حجّت تم پر قائم ہے.اگرچہ ساری دنیا پر حجّت ہے مگر تم پر سب سے زیادہ ہے.میرا وجود اس وقت نہ ہونے کے برابر تھا.میں ایک محض وجود تھا.پھر جب کہ خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا اور جس کا تمہیں علم دے دیا گیا تھا.اسی طرح پورا ہونا آسان بات نہیں ہے.دیکھو! یہ کیسا بزرگ نشان ہے، ایسا نشان ہے جو ہر روز تازہ بتازہ پورا ہو رہا ہے.یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتا.وہ رحیم کریم خدا ہے لیکن جب انسان شوخی کرتا ہے تو اسے ڈرنا چاہیے.کیا وہ نہیںجانتے کہ ابھی قادیان میں طاعون نہیں ہوا تھا تو میں نے شائع کر دیا تھا اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.پھر کیا وجہ ہے کہ ہندوؤں کے تو گھر خالی ہوجاویں اور میرے گھر کا چوہا بھی نہ مَرے.میں پھر کھول کر کہتا ہوں کہ یہ اور اس قسم کے بہت سے نشانات یہاں کے ہندوؤں نے دیکھے ہیں جو اگرچہ سب دنیا پر حجّت ہیں لیکن ان پر سب سے زیادہ حجّت ہے.وہ مجھے اور میری جماعت کو طرح طرح کی اذیتیں دیتے اور دینے کے ارادوں میں رہتے ہیں مگر وہ یاد رکھیں کہ خدا ہے اور ضرور ہے اور وہ بے باک اور شوخ کو سزا دئیے بغیر نہیں چھوڑتا.جماعت کے لیے نصیحت آخرکار میںاپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم دشمن کے مقابلہ پر صبر اختیار کرو.تم گالیاں سن کر چپ رہو.گالی سے کیا نقصان ہوتا ہے.گالی دینے والے کے اخلاق کا پتا لگتا ہے.میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر تم کو کوئی زدو کوب بھی کرے تب صبر سے کام لو.یہ یاد رکھو اگر خدا کی طرف سے ان لوگوں کے دل سخت نہ ہوتے تو وہ کیوں ایسا کرتے؟ یہ خدا کا فضل ہے کہ ہماری جماعت امن جُو ہے.اگر وہ ہنگامہ پرداز ہوتی تو

Page 76

بات بات پر لڑائی ہوتی اور پھر اگر ایسے لڑنے والے ہوتے اور ان میں صبر برداشت نہ ہوتی تو پھر ان میں اور ان کے غیروں میں کیا امتیاز ہوتا؟ ہمارا مذہب یہی ہے کہ ہم بدی کرنے والے سے نیکی کرتے ہیں.یہی گھر جو سامنے موجود ہے اس کے متعلق میرے لڑکے مرزا سلطان احمد نے مقدمہ کیا تھا.باوجودیکہ میرے لڑکے نے مقدمہ کیا تھا اور یہ سخت ایذا دینے والے دشمن تھے مگر میں نے کہا کہ میں اظہار نہیں دوں گا.کیا اس وقت میں نے سلطان احمد کی رعایت کی تھی یا ان کی؟ اور ان کی دشمنیوں کا خیال رکھا یا ان کے ساتھ نیکی کی؟ یہ ایک ہی بات نہیں.جب جب ان کو میری مدد کی ضرورت ہوئی میں نے ان کو مدد دی ہے اور دیتا رہتا ہوں.جب ان کو مصیبت آئی یا کوئی بیمار ہوا تو میں نے کبھی سلوک اور دوا دینے سے دریغ نہیں کیا.ایسی حالت میں کہ ہم ان سے سلوک کرتے ہیں اور ان کی سختیوں پر صبر کرتے ہیں تم ان کی بد سلوکیوں کو خدا پر چھوڑ دو.وہ خوب جانتا ہے اور اچھا بدلہ دینے والا ہے.میں تمہیں بار بار کہتا ہوں کہ ان سے نرمی کرو اور خدا سے دعا کرو.مگر یہ بھی یاد رکھو کہ دعائیں منظور نہ ہوں گی جب تک تم متقی نہ ہو اور تقویٰ اختیار کرو.تقویٰ کی دو قسم ہیں.ایک علم کے متعلق دوسرا عمل کے متعلق.علم کے متعلق تو میں نے بیان کر دیا کہ علوم دین نہیں آتے اور حقائق معارف نہیں کھلتے جب تک متقی نہ ہو اور عمل کے متعلق یہ ہے کہ نماز، روزہ اور دوسری عبادات اس وقت تک ناقص رہتی ہیں جب تک متقی نہ ہو.اس بات کو بھی خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے دو حکم ہیں اوّل یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو.نہ اس کی ذات میں نہ صفات میں نہ عبادت میں.اور دوسرے نوعِ انسان سے ہمدردی کرو.اور احسان سے یہ مراد نہیں کہ اپنے بھائیوں اوررشتہ داروں ہی سے کرو بلکہ کوئی ہو.آدم زاد ہو اور خدا کی مخلوق میں کوئی بھی ہو.مت خیال کرو کہ وہ ہندو ہے یا عیسائی.میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا انصاف اپنے ہاتھ میں لیا ہے وہ نہیں چاہتا کہ تم خود کرو.جس قدر نرمی تم اختیار کرو گے اور جس قدر فروتنی اور تواضع کرو گے اللہ تعالیٰ اسی قدر تم سے خوش ہوگا.اپنے دشمنوں کو تم خدا کے حوالہ کرو.قیامت نزدیک ہے.تمہیں ان تکلیفوں سے جو دشمن تمہیں دیتے ہیں گھبرانا نہیں چاہیے.

Page 77

میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تم کو ان سے بہت دکھ اٹھانا پڑے گا.کیونکہ جو لوگ دائرہ تہذیب سے باہر ہوجاتے ہیں ان کی زبان ایسی چلتی ہے جیسے کوئی پل ٹوٹ جاوے تو ایک سیلاب پھوٹ نکلتا ہے.پس دیندار کو چاہیے کہ اپنی زبان کو سنبھال کر رکھے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان کسی کا مقابلہ کرتا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ کہنا ہی پڑتا ہے جیسے مقدمات میں ہوتا ہے.اس لیے آرام اسی میں ہے کہ تم ایسے لوگوں کا مقابلہ ہی نہ کرو.سدِّ باب کا طریق رکھو اور کسی سے جھگڑا مت کرو، زبان بند رکھو، گالیاں دینے والے کے پاس سے چپکے سے گذر جاؤ گویا سنا ہی نہیں اور ان لوگوں کی راہ اختیار کرو جن کے لیے قرآن شریف نے فرمایا ہے وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا(الفرقان:۷۳) اگر یہ باتیں اختیار کر لو گے تو یقیناً یقیناً اللہ تعالیٰ کے سچے مخلص بن جاؤ گے.اللہ تعالیٰ کو کسی رپورٹ کی حاجت نہیں.وہ خود دیکھتا ہے اور سنتا ہے اگر تم تین ہو تو چوتھا خدا ہوتا ہے.اس لیے خدا کو اپنا نمونہ دکھاؤ.اگر تمہارے نفسانی جوش اور بد زبانیاں ایسی ہی ہیں جیسے تمہارے دشمنوں کی ہیں پھر تم ہی بتاؤ کہ تم میں اور تمہارے غیروں میں کیا فرق اور امتیاز ہوا؟ تمہیں تو چاہیے کہ ایسا نمونہ دکھاؤ کہ جومخالف خود شرمندہ ہو جاوے.بڑا ہی عقلمند اور حکیم وہ ہے جو نیکی سے دشمن کو شرمندہ کرتا ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ نرمی اوررفق سے معاملہ کرو.اپنی ساری مصیبتیں اور بَلائیں خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو.یقیناً سمجھو اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ ہر شخص کی شرارت پر صبر کرتا ہے اور خدا پر اسے چھوڑتا ہے تو خدا اسے ضائع نہیں کرے گا.اگرچہ دنیا میں ایسے آدمی موجود ہیں جو ہنسی کریں گے اور ان باتوں کو سن کر ٹھٹھا کریں گے مگر تم اس کی پروا نہ کرو.خدا تعالیٰ خود اس کے لیے موجود ہے.وہ خدا پرانا نہیں ہوگیا جیسے انسان بڈھا ہو کر پیر فرتوت ہوجاتا ہے.مگر خدا تعالیٰ وہی ہے جو موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے وقت تھا اور وہی خدا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھا.اس کی وہی طاقتیں اب بھی ہیں جو پہلے تھیں.لیکن جو کچھ میں کہتا ہوں تم اس پر عمل نہ کرو تو میری جماعت میں نہ رہے.

Page 78

اللہ تعالیٰ اپنے مصالح کو خوب جانتا ہے.لوگ مجھے کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے ہمیں مارا اور مسجد سے نکال دیا.میں یہی جواب دیتا ہوں کہ اگر تم جواب دو تو میری جماعت میں سے نہیں.تم کیا چیز ہو.صحابہؓ کی حالت کہ ان کے کس قدر خون گرائے گئے.پس تمہارے لیے اُسوہ حسنہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہے.دیکھو! وہ کیسے دنیا سے باہر ہوگئے تھے.انسان میں جس قدر جوش ہوتے ہیں وہ دنیا کے لیے ہی ہوتے ہیں.کسی ہنگامہ کی خبر، دنیا کا مال، عزّت یا اولاد خدا سے آتی ہے.۱ اس کے سوا جھوٹی عزّتوں کا کیا ہے.نبیوں سے بڑھ کر عزّت کسی کی نہیں.مگر دیکھو! انہیں کیسے کیسے دکھ دیئے گئے.نماز میں ان پر گندے گوبر ڈالے گئے.قتل کے ارادے کئے گئےا ور آخر مکہ سے نکالا گیا لیکن خدا تعالیٰ کے حضور آپ کی وہ عزّت اور عظمت ہے کہ خدا نے فرمایا قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ( اٰلِ عـمران:۳۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو خدا تعالیٰ کی محبت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے.بغیر اس کے یہ مقام مل ہی نہیں سکتا.اب بتاؤ کہ کیا یہ اطاعت کا کام ہے کہ دشمن کا ایسا دشمن بنے کہ جب تک اسے پیس نہ لے اور اسے تکلیف اور دکھ نہ پہنچا لے صبر ہی نہ کرے.یہ میں جانتا ہوں کہ انسانی فطرت میںیہ بات ہے کہ گالی سے مشتعل ہوجاتا ہے مگر اس سے ترقی کرنی چاہیے.جو دکھ دیتے ہیں انہیں سمجھو کہ وہ کچھ چیز نہیں۲ اگر تم پر خدا راضی ہے.لیکن اگر خدا تعالیٰ ناراض ہے تو خواہ ساری دنیا تم سے خوش ہو وہ بےفائدہ ہے.بدر سے.’’در اصل کوئی شخص عزّت کو پا نہیں سکتا جب تک کہ آسمان سے اس کو عزّت نہ ملے.سچی اور پاک عزّت خدا سے ہی ملتی ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۵) ۲ بدر سے.’’تم کو جو دکھ اور گالیاں دی جاتی ہیں وہ کچھ چیز نہیں.اس کی ہرگز پروا نہ کرو.اور انسانوں کے راضی رکھنے کے پیچھے نہ پڑو.بلکہ اپنے خدا کو راضی کرو.لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کا یہی مضمون ہے اگر تم لوگوں کو راضی رکھنے کے واسطے ان کے ساتھ مداہنت سے پیش آؤ گے تو اس میں تم کو ہرگز کامیابی نہیں ہوگی.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۵)

Page 79

یہ بھی یاد رکھو کہ اگر تم مداہنہ سے دوسری قوموں کوملو تو کامیاب نہیں ہو سکتے.خدا ہی ہے جو کامیاب کرتا ہے اگر وہ راضی ہے تو ساری دنیا ناراض ہو تو پروا نہ کرو.ہر ایک جو اس وقت سنتا ہے یاد رکھے کہ تمہارا ہتھیار دعا ہے اس لیے چاہیے کہ دعا میں لگے رہو.یہ یاد رکھو کہ معصیت اور فسق کو نہ واعظ دور کر سکتے ہیں اور نہ کوئی اور حیلہ.اس کے لیے ایک ہی راہ اور وہ دعا ہے.خدا تعالیٰ نے یہی ہمیں فرمایا ہے.اس زمانہ میں نیکی کی طرف خیال آنا اور بدی کو چھوڑنا چھوٹی سی بات نہیں ہے.یہ انقلاب چاہتی ہے اور یہ انقلاب خدا کے ہاتھ میں ہے اور یہ دعاؤں سے ہوگا.ہماری جماعت کو چاہیے کہ راتوں کو رو رو کر دعائیں کریں.اس کا وعدہ ہے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن:۶۱) عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ دعا سے مراد دنیا کی دعا ہے.وہ دنیا کے کیڑے ہیں.اس لیے اس سے پرے نہیں جا سکتے.اصل دعا دین ہی کی دعا ہے.۱ لیکن یہ مت سمجھو کہ ہم گنہگار ہیں یہ دعا کیا ہوگی اور ہماری تبدیلی کیسے ہوسکے گی.۲ یہ غلطی ہے.بعض وقت انسان خطاؤں کے ساتھ ہی ان پر غالب آسکتا ہے.اس لیے کہ اصل فطرت میں پاکیزگی ہے.دیکھو! پانی خواہ کیسا ہی گرم ہو لیکن جب وہ آگ پر ڈالا جاتا ہے تو وہ بہر حال آگ کو بجھا دیتا ہے اس لیے کہ فطرتاً برودت اس میں ہے.ٹھیک اسی طرح پر انسان کی فطرت میں پاکیزگی ہے.ہر ایک میں یہ مادہ موجود ہے وہ پاکیزگی کہیں نہیں گئی.اسی طرح تمہاری طبیعتوں میں خواہ کیسے ہی جذبات ہوں رو کر دعا کرو گے تو اللہ تعالیٰ دور کر دے گا.(اس کے بعد آپؑنے نہایت درد سے ایک لمبی دعا کی.ایڈیٹر) ۳ بدر سے.’’اصل دعا دین کے واسطے ہے اور اصل دین دعا میں ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۵) ۲بدر سے.’’اس سے مت گھبراؤ کہ ہم گناہ سے ملوث ہیں گناہ اس مَیل کی طرح ہے جو کپڑے پر ہوتی ہے اور دور کی جاسکتی ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۵،۱۶) ۳الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳ مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ تا ۱۰،۱۵

Page 80

جنوری۱ ۱۹۰۷ء حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات فرمایا.حضرت عیسٰیؑکے معجزے تو ایسے ہیں کہ اس زمانے میں وہ بالکل معمولی سمجھے جا سکتے ہیں اَکْمَہ سے مراد شب کور ہے.اب ایسا بیمار معمولی کلیجی سے بھی اچھا ہو سکتا ہے.احیاء موتٰی سے مراد بھی خطرناک مریضوں کا تندرست ہونا ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں یہ باتیں کچھ بھی نہیں.۲ بلا تاریخ مَرنے پر طعام کھلانا میں نے عرض کیا کہ دیہات میں دستور ہے.شادی غمی کے موقع پر ایک قسم کا خرچ کرتے ہیں.مثلاً جب کوئی چودھری مَر جاوے تو تمام مسجدوں، دائروں و دیگر کمیوں کو بحصہ رسدی کچھ دیتے ہیں.اس کی نسبت حضور کا کیا ارشاد ہے.فرمایاکہ طعام جو کھلایا جاوے اس کا مُردہ کو ثواب پہنچ جاتا ہے گو ایسا مفید نہیں جیساکہ وہ اپنی زندگی میں خود کر جاتا.عرض کیا گیا حضور وہ خرچ وغیرہ کمیوں میں بطور حق الخدمت تقسیم ہوتا ہے.فرمایا.تو پھر کچھ حرج نہیں.یہ ایک علیحدہ بات ہے کسی کی خدمت کا حق تو دے دینا چاہیے.عرض کیا گیا.اس میں فخر و رِیا تو ضرور ہوتا ہے یعنی دینے والے کے دل میں یہ ہوتا ہے کہ مجھے کوئی بڑا آدمی کہے.فرمایا.بہ نیت ایصال ثواب تو پہلے ہی وہ خرچ نہیں.حق الخدمت ہے.بعض رِیا شرعاً بھی ان ملفوظات پر کوئی تاریخ درج نہیں.جنوری کے پہلے یا دوسرے ہفتے کے معلوم ہوتے ہیں.(مرتّب) ۲بدر جلد ۶ نمبر ۶ مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۴

Page 81

جائز ہیں.مثلاً چندہ وغیرہ نماز باجماعت ادا کرنے کا جو حکم ہے.تو اسی لئے کہ دوسروں کو ترغیب ہو.غرض اظہار و اخفا کےلئے موقع ہے اصل بات یہ ہے کہ شریعت سب رسوم کو منع نہیں کرتی.اگر ایسا ہوتا تو پھر ریل پر چڑھنا، تار، ڈاک کے ذریعے خبر منگوانا سب بدعت ہوجاتے.تنبول میں نے عرض کیا کہ تنبول کی نسبت حضور کا ارشاد.فرمایا.اس کا جواب بھی وہی ہے.اپنے بھائی کی ایک طرح کی امداد ہے.عرض کیا گیا ہے.جو تنبول ڈالتےہیں وہ تو اس نیت سے ڈالتے ہیں کہ ہمیں پانچ کے چھ روپے ملیں اور پھر اسی روپیہ کو کنجروں پر خرچ کرتے ہیں.فرمایا.ہمارا جواب تو اصل رسم کی نسبت ہے کہ نفس رسم پر کوئی اعتراض نہیں.باقی رہی نیت سو آپ ہر ایک کی نیت سے کیوں کر آگاہ ہو سکتے ہیں.یہ تو کمینہ لوگوں کی باتیں ہیں کہ زیادہ لینے کے ارادے سے دیں یا چھوٹی چھوٹی باتوں کا حساب کریں.ایسے شریف آدمی بھی ہیں جو محض بہ تعمیل حکم تعاون و تعلقات محبت تنبول ڈالتےہیں.اور بعض تو واپس لینا بھی نہیں چاہتے بلکہ کسی غریب کی امداد کرتے ہیں.غرض سب کا جواب ہے اِنَّـمَا الْاَعْـمَالُ بِالنِّیَّاتِ.۱ ۳؍جنوری ۱۹۰۷ء ہمارے کلام عربی پر جو بعض نادان اعتراض کرتے ہیں تو اصل بات یہ ہے کہ وہ قرآن مجید و احادیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غور سے نہیں پڑھتے اگر تدبر سے پڑھیں تو معلوم ہو کہ وہ بھی ان کی خود ساختہ صرف و نحو سے نہیں بچتے.دیکھئے شمس کو جب حضرت ابراہیم نے دیکھا تو فرمایا هٰذَا رَبِّيْ.حالانکہ شمس مؤنث ہے.یہ لوگ کلمہ کی تعریف کیا کرتے ہیں.لفظ جو معنی مفرد کے لئے وضع کیا گیا ہو.مگر قرآن مجید میں کلام تام کو كَلَّا اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىِٕلُهَا کہا ہے.ایسا ہی تکرار کو یہ لوگ خلاف فصاحت سمجھتے ہیں مگر قرآن مجید کی کئی آیات میں تکرار ہے.تکرار تسلّی کے لئے ہوتا ہے.چنانچہ کئی ۱ بدر جلد ۶ نمبر۳ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۴

Page 82

الہامات مجھے بیسیوں دفعہ ہوچکے ہیں.انسان کے قلب پر جو ذہول ہوجاتا ہے اس کے ہٹانے اور تاکید کے لئے بھی تکرار ہوجاتا ہے عـجبت کا صلہ لام ہونے کے لئے اعتراض کیا گیا تھا.مگر جب سب سے پہلی حدیث باب الایمان کی پیش کی گئی تو معترض نے کیسی منہ کی کھائی.اعجاز احمدی کے ساتھ جو قصیدہ ہے.اس کے متعلق ذکر تھا.فرمایا.مَنَعَہٗ مَانِعٌ مِّنَ السَّمَآءِ.الہام کئی رنگ میں پورا ہو رہا ہے.کسی کو اس کے جواب کی توفیق ہی نہیں ہوئی.اگر کسی نے جرأت کی بھی تو اس کے تمام یا شائع کرنے سے پہلے ہی مَر گیا.اور ہماری صداقت پر مہر کر گیا.حفظانِ صحت کے لئے قرآن مجید نے تمام اصول بیان کر دیئے ہیں وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ (المدّثر:۶) کیا چھوٹا سا جملہ ہے اور اس میں تمام مدارج صفائی کو درج کر دیا ہے.یہ ظاہری باطنی صفائی کے احکام کو حاوی ہے اور کھانے پینے کے متعلق فرما دیا كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا(الاعراف:۳۲) کھاؤ پیو مگر حد سے نہ بڑھو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ یہی ہے کہ عرب کے رہنے والوں میں پاک تبدیلی کر دی اور آپ اس میں تمام انبیاء علیہم السلام سے متفرد ہیں ان لوگوں کی حالت ایسی ناگفتہ بہ تھی کہ ماں سے بھی زنا کرنے میں نہ جھجکتے تھے.جبھی تو فرمایا حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ(النّساء:۲۴) ورنہ قرآن مجید بے فائدہ کوئی حکم نہیں دیتا.معلوم ہوتا ہے آپ نے یہ سب کچھ دعا کے زور سے کیا.جبھی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ(الشعرآء:۴) دعا کے راز سے اکثر لوگ واقف نہیں.جب تک اس درجہ تک دعا نہ پہنچے.کامیابی محال ہے.۱ مسمریزم ایک شخص نے بذریعہ تحریر حضرت مسیح موعود سے دریافت کیا کہ مسمریزم کیا چیز ہے؟ حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا ہے.مدت ہوئی کہ میں نے مسمریزم کے لئے توجہ کی تھی کہ کیا چیز ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ جواب ملا تھا ھٰذَا ھُوَ التِّـرْبُ الَّذِیْ لَا یَعْلَمُوْنَ.۱بدر جلد ۶ نمبر ۵ مورخہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳

Page 83

طلاق ایک جلسہ میں ایک شخص نے حضرت مسیح موعود کو خط لکھا اور فتویٰ طلب کیا کہ ایک شخص نے از حد غصہ کی حالت میں اپنی عورت کو تین دفعہ طلاق دی.دلی منشا نہ تھا.اب ہر دو پریشان اور اپنے تعلقات کو توڑنا نہیں چاہتے.حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا ہے.فتویٰ یہ ہے کہ جب کوئی ایک ہی جلسہ میں طلاق دے تو یہ طلاق ناجائز ہے اور قرآن کے برخلاف ہے اس لئے رجوع ہو سکتا ہے.صرف دوبارہ نکاح ہو جانا چاہیے اور اسی طرح ہم ہمیشہ فتویٰ دیتے ہیں اور یہی حق ہے.والسلام۱ ۱۵؍جنوری ۱۹۰۷ء دعویٰ اور مذہب فرمایا کہ طاعون کی موت بِالْـخِزْیِ موت ہے.نمونیہ جس سے چند گھنٹوں میں فیصلہ ہو جائے طاعون نہیں تو اور کیا ہے؟ مولوی محمد حسین کا ذکر آیا کہ وہ رجوع کیوں کر کرے گا؟ فرمایا.اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی مشکل بات نہیں.وہ جب چاہے دل کو پھیر دے.وہ اگر غور کرے تو اس کے لیے یہی ایک نشان کافی ہے کہ براہین احمدیہ کے ریویو کے زمانےمیں مَیں اکیلا تھا اور اب يَاْتُوْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ کی پیشگوئی پوری ہو رہی ہے.باقی رہےعقائد سو ان میں تو کوئی اتنا بڑا فرق نہیں.صرف سمجھ کا پھیرہے.پہلےلیجئے وفات مسیح کو.سو اس مسئلہ میں خود ان کے اپنے علماء کے مختلف اقوال ہیں.پس ہمیں ایک قول کو ترجیح دینے سے یہ کیوں کر بُرا کہہ سکتے ہیں.تَوَفَّيْتَنِيْ کے معنوں میں جھگڑا ہے.مگر میرے نزدیک تو جو معنے کریں ہمارا مطلب حاصل ہے.فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ کے اگر یہ معنے ہوں کہ جب تو نےمجھے اٹھا لیا تو پھر تو ہی ان کا نگران حال تھا.اس صورت میں بھی یہ ظاہر ہے کہ آپ دوبارہ دنیا میں تشریف نہیں لائے.ورنہ یہ حصر نہ کرتے.پھر معراج کولو.ہمارا ۱بدر جلد ۶ نمبر ۵ مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۴

Page 84

یہ مذہب ہرگز نہیں کہ وہ ایک خواب تھا یا صرف روح گئی بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عین بیداری میں معراج ہوا اور ایک لطیف جسم بھی ساتھ تھا.مگر یہ باطنی امور ہیں.خشک ملّاں اسے کیا سمجھیں.پھر مکالمہ الٰہی کا دعویٰ ہے.یہ بھی کوئی نئی بات نہیں سنّت اللہ سے بھی یہ بات ثابت ہے اور انسان کے دل کی تڑپ بھی یہی چاہتی ہے.فتوح الغیب میں بھی ایسا ہی لکھا ہے اور اشاعت السنّۃ میں بھی چھپا تھا.وَلَھُمْ مُکَالِمَاتٌ مجدّد صاحب نے بھی یہی لکھا ہے اور ولی و نبی میں قلت و کثرت مکالمات کا فرق بتایا ہے یہ نبی کا لفظ صرف انہی معنوں میں ہے اور اپنی اپنی اصطلاح ہے ورنہ خاتم النّبیّین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں.عوام الناس کو بد ظن کرنے کے لیے ہم پر طرح طرح کے الزام لگائے جاتے ہیں.کبھی کہتے ہیں ملائکہ کے منکر ہیں کبھی کچھ.حالانکہ ہم ملائک پر، خدا کی کتابوں پر، احادیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر، بہشت و دوزخ، عذابِ قبر، تقدیر، حشر اجساد سب پر صدق دل سے ایمان لاتے ہیں.ہم ایسے امور کی تفاصیل خدا کے حوالے کرتے ہیں کیونکہ محتاط مذہب یہی ہے کہ انسان مجمل پر ایمان لاوے اور تفاصیل کو بحوالہءِ خدا کر دے.باقی رہا شریعت کا عملی حصہ، سو ہمارے نزدیک سب سے اوّل قرآن مجید ہے.پھر احادیث صحیحہ جن کی سنّت تائید کرتی ہے.اگر کوئی مسئلہ ان دونو میں نہ ملے تو پھر میرا مذہب تو یہی ہے کہ حنفی مذہب پر عمل کیا جاوے کیونکہ ان کی کثرت اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کی مرضی یہی ہے مگر ہم کثرت کو قرآن مجید و احادیث کے مقابلہ میں ہیچ سمجھتے ہیں.ان کے بعض مسائل ایسے ہیں کہ قیاس صحیح کے بھی خلاف ہیں.ایسی حالت میں احمدی علماء کا اجتہاد اَوْلٰی بِالْعَمَل ہے دیکھو مفقود الخبر کے لیے نوے برس یا کم و بیش میعاد رکھی ہے.یہ ہی نہیں کہہ دیا کہ وہ نکاح نہ کرے.یہ واہیات ہے.حکیم الامت نے عرض کیا کہ حضور شاہ صاحب علیہ الرحمۃ نے لکھا ہے کہ جس ملک میں جس مذہب کی کتابیں بسہولت میسر آئیں اس پر عمل ہونا چاہیے.فرمایا.بیشک ہماری طرف حنفی مذہب کی کتابیں ہی ہیں.اعمال کی اصل روح تو معرفت الٰہی و اخلاص

Page 85

ہے.یہ نہ ہو تو یہ لفظی جھگڑے ہیچ ہیں ہماری بعثت کی ایک بھاری غرض یہ بھی ہے کہ ہم مسلمانوں کو عملاً مسلمان بناویں.۱ بلا تاریخ۲ چند فقہی مسائل روزہ.ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.جائز ہے.اسی شخص کا ایک اور سوال پیش ہوا کہ حالت روزہ میں سر کو یا داڑھی کو تیل لگانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.جائز ہے.اسی شخص کا ایک اور سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کی آنکھ بیمار ہو تو اس میں دوائی ڈالنی جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.یہ سوال ہی غلط ہے.بیمار کے واسطے روزہ رکھنے کا حکم نہیں.اسی شخص کا یہ سوال پیش ہوا کہ جو شخص روزہ رکھنے کے قابل نہ ہو.اس کے عوض مسکین کو کھانا کھلانا چاہیے.اس کھانے کی رقم قادیان کے یتیم فنڈ میں بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.ایک ہی بات ہے خواہ اپنے شہر میں کسی مسکین کو کھلائے یا یتیم اور مسکین فنڈ میں بھیج دے.ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ نمازِ فجر کی اذان کے بعد دوگانہ فرض سے پہلے اگر کوئی شخص نوافل ادا کرے توجائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.نماز فجر کی اذان کے بعد سورج نکلنے تک دو رکعت سنّت اور دو رکعت فرض کے سوا اور کوئی بدر جلد ۶ نمبر۶مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ ۲’’ المفتی ‘‘ کے زیر عنوان ’’بدر‘‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ ملفوظات استفتا کے جواب میں بلاتاریخ درج ہیں.(مرتّب)

Page 86

نماز نہیں ہے.کشتہء بندوق.ایک شخص نے حضرت سے سوال کیا کہ بندوق کی گولی سے جو حلال جانور ذبح کرنے سے پہلے ہی مَر جائے اس کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.گولی چلانے سے پہلے تکبیر پڑھ لینی چاہیے.پھر اس کا کھانا جائز ہے.دائمی دورہ.ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ جو شخص بسبب ملازمت کے ہمیشہ دورہ میں رہتا ہو اس کو نمازوں میں قصر کرنی جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.جو شخص رات دن دورہ پر رہتا ہے اور اسی بات کا ملازم ہے وہ حالت دورہ میں مسافر نہیں کہلا سکتا.اس کو پوری نماز پڑھنی چاہیے.سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو خوشبو لگانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.جائز ہے.سوال پیش ہوا کہ روزہ دار آنکھوں میں سرمہ ڈالے یا نہ ڈالے؟ فرمایا.مکروہ ہے اور ایسی ضرورت ہی کیاہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے.رات کو سرمہ لگا سکتا ہے.۱ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۷ء مسیح موعودؑ کے بارہ میں ایک حدیث آج حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام باہر سیر کو تشریف لے گئے.راستہ میں حضرت مولوی سید محمد احسن فاضل امروہی نے مسیح موعود کے متعلق ایک حدیث نواس بن سمعان کی....جو حاشیہ مسند احمد بن حنبل پر چڑھی ہوئی ہے (کے) دو جملے پیش کئے.ایک جملہ ہے تُقْبَضُ لَہُ الْاَرْضُ یعنی مسیح موعود کے لیے زمین طے کی جاوے گی جس سے ریل و آگبوٹ وغیرہ کی طرف اشارہ ہے چنانچہ کتب و رسالہ جات ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۶ مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۴

Page 87

تبلیغ اسلام کے یورپ و امریکہ وغیرہ ممالک میں انہی ذرائع سے شائع ہو رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ بیشک اس سے پہلے کسی مامور من اللہ کے لیے طیّ الارض واقع نہیں ہوا.اور نہ یہ اسباب ظاہر ہوئے تھے.دوسرا جملہ اس حدیث میں سے مولوی صاحب نے یہ پیش کیا.مَنْ مَّسَّ ابْنَ مَرْیَمَ یَکُوْنُ لَہٗ اَرْفَعُ قَدْرًا وَّ یُعْظَمُ مَسُّہٗ یعنی جو شخص کہ چھوئے گا مسیح موعود کو اس کی قدر خدا تعالیٰ کے نزدیک بہت بلند ہوگی اور اس کا مس کرنا و چھونا یعنی اس کے حلقہ خادمین میں داخل ہونا خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت رکھتا ہے.سبحان اللہ! حضرت مسیح موعودؑ کو اس حدیث کی خبر بھی نہیں اور قریباً اکتیس برس کا الہام مطبوعہ براہین احمدیہ میں درج ہے کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.‘‘ اس الہام کا مضمون قریباً حدیث مذکورہ میں سے ملتا ہے.۱ ۲۴؍جنوری ۱۹۰۷ء رِیا حضرت اقدس بوقت صبح مع احباب باہر سیر کو تشریف لے جاتے ہیں.آج جب حضرت اقدس باہر تشریف لائے تو پہلے ایک بھائی نو مسلم نے دعا کے لیے عرض کی.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے فرمایاکہ حضور یہ شخص اپنی قوم میں واعظ بھی ہے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا.وعظ و اعمال صالحہ کا فائدہ تب ہی ہوتا ہے کہ محض خدا کے لیے ہو.اس میں کوئی غرض نہ ہو.ریائی عمل کو خدا تعالیٰ قبول نہیں فرماتا.اگر عمل میںکسی اور کو شریک سمجھا جاوے تو خدا کئے ہوئے عمل کو ردّ کر دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ جس کے لیے تم نے یہ عمل کیا ہے اس سے اس کا ثواب بھی لو.۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳ مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۴

Page 88

بعد ازاں قادیان کے آریوں کے تعصّب اور ان کی حق پوشی کا ذکر ہوا کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے نشانات بینات دیکھ کر ان کو چھپا رہے ہیں.اثنائے راہ میں آج کا الہام بیان فرمایا.اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا یعنی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے اے اہل بیت! ناپاکی دور کر دے اور تم کو بالکل پاک کر دے.پھر پچیس چھبیس برس کا ایک پرانا الہام بیان فرمایا جو کسی شخص کے متعلق ہے.فَارْتَدَّا عَلٰۤى اٰثَارِهِمَا وَ وُهِبَ لَهُ الْجَنَّۃُ.۱ اتنے میں طاقت بالا اس کو کھینچ کر لے گئی.صبح کی سنتوں کے بعد نفل مفتی محمد صادق صاحب نے ایک شخص کے خط میں سے بیان کیا کہ وہ پوچھتا ہے کہ جب صبح روشن ہو جائے تو اس وقت فرضوں کے پہلے صبح کی سنتوں کے بعد نوافل کی نماز درست ہو سکتی ہے یا نہیں؟ حضرت اقدس و مولوی نور الدین صاحب نے فرمایا کہ دو رکعت سنّت کے سوا فرضوں سے پہلے اور کوئی نماز جائز نہیں.حل مشکلات پھر مفتی محمد صادق صاحب نے ایک شخص کا خط پیش کیا کہ وہ پوچھتا ہے کہ مشکلات و مصائب کے وقت کیا کرنا چاہیے؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ استغفار بہت پڑھے اور اپنے قصوروں کی اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرے.۲ ۲۶؍جنوری ۱۹۰۷ء (بوقت ظہر) ایک احمدی بھائی کا خط پیش کیا گیا لکھا کہ میں نے ایک احمدی بھائی کے دو بیٹوں کا معالجہ کیا تھا ترجمہ از مرتّب) پھر وہ دونوں پچھلے پاؤں واپس لوٹ گئے اور اس کو جنّت عطا کی گئی (مرتّب) ۲الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۷

Page 89

ایک ان میں سے شفایاب ہوا دوسرا مَر گیا اور اس بھائی نے دس روپے فیس کے دیئے تھے کیا وہ میرے لیے جائز ہیں؟ فرمایا.ہاں جائز ہے.ولیمہ تعریف ولیمہ بھی اس ضمن میں پوچھی گئی تھی.فرمایا کہ ولیمہ یہ ہے کہ نکاح کرنے والا نکاح کے بعد اپنے احباب کو کھانا کھلائے.۱ ۲۷؍جنوری ۱۹۰۷ء (بوقت سیر) آج حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مع احباب بوقت صبح باہر سیر کو تشریف لے گئے.راستہ میں آریوں کے تعصب اور ان نشانات بیّنات الٰہی کا ذکر ہوا جو خدا تعالیٰ نے ان کو دکھائے اور پھر بھی اپنی ضد پر اڑ رہے ہیں.سلسلہ کے ساتھ مصری لوگوں کی دلچسپی و توجہ کا ذکر ہوا کہ وہ لوگ حضور کی تصانیف چاہتے ہیں.حضرت نے فرمایا کہ عربی کتابوں کی کثیر تعداد ان کو ارسال کی جاوے.حضرت امام بخاریؒ اور وفاتِ مسیحؑ تھوڑی دور گئے تھے کہ حضرت اقدس کو طبیعت میں ناسازی معلوم ہوئی اور واپس لوٹ آئے.واپس آتے ہوئے کتاب صحیح بخاری کا ذکر ہوا کہ اب بہت سستی ہوگئی ہے.ایک زمانہ میں صدہا روپیہ سے نہ ملتی تھی اور آج کل صحیح بخاری مصر کی چھپی ہوئی اڑھائی روپیہ سے مل سکتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.بخاری والے نے وفاتِ مسیح پر زبردست دلائل پیش کئے ہیں.مُتَوَفِّیْکَ کے معنی مُـمِیْتُکَ کے لکھے اور پھر اسی پر بس نہیں کی بلکہ بطور تظاہر آیات وفاتِ مسیح کے لیے آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ کو ۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۵ مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۰۷ءصفحہ ۱۱

Page 90

پیش کیا اور وہ حدیث لکھی جس میں نبی علیہ السلام نے اپنے متعلق آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ فرمائی اور اس میں تَوَفَّيْتَنِيْ کے معنے وفات کے ظاہر فرمائے.۱ ۲۸؍جنوری ۱۹۰۷ء (بوقت ظہر) چند مسائل آج حضرت اقدس ظہر کی نماز میں تشریف لائے تو مندرجہ ذیل سوالات خطوط سے حضرت کے حضور میں پیش ہوئے.(۱) ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ میری پہلی بیوی کو جلدی اولاد ہو جاتی ہے جس کے باعث وہ کمزور ہوگئی کیا میں دوسرا نکاح کر سکتا ہوں یا نہیں؟ حضرت نے فرمایا.اس کو بہر صورت اختیار ہے.(۲)پھر ایک شخص کا سوال ہوا کہ مجھ سے گناہ ہوجاتا ہے اور پھر توبہ کر لیتا ہوں.پھر گناہ ہوجاتا ہے کیا علاج کروں؟ آپ نے فرمایا.پھر توبہ کرے اور اس کا کیا علاج ہے؟ (۳)سوال پیش ہوا کہ بعض لوگ یہ عذر کرتے ہیں کہ جس کی عورت آگے موجود ہو اس کو ہم ناطہ نہیں دیتے.حضرت نے فرمایا.پھر وہ اس سے تو مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ (النّسآء:۴)کو بند کرنا چاہتے (ہیں).(۴) سوال پیش ہوا کہ بندوق کے شکار کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضرت نے فرمایا.تکبیر پڑھ کر بندوق مارے، شکار مَر جاوے تو حلال ہے.۲ ۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۵ ۲ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۵ مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۰۷ءصفحہ ۴

Page 91

۲۹؍جنوری ۱۹۰۷ء (صبح کی سیر) دشنام دہی کا انجام آج حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بوقت صبح مع احباب باہر سیر کو تشریف لے گئے.مرتد ڈاکٹر عبد الحکیم کے تذکرہ پر حضرت نے فرمایا کہ ایک آریہ اخبار نے باوجود ہمارے مذہبی تخالف کے لکھا کہ عبد الحکیم کا آپ کو گالیاں دینا اس کی سفلہ پنی کو ظاہر کرتا ہے.نہایت نامناسب اَمر ہے.ایک صاحب نے کہا کہ عبد الحکیم کہتا ہے.جعفر زٹلی جو مرزا صاحب کو سخت گالیاں دیتا رہا ہے اس کو کیا ہوا جو مجھے کچھ ہوگا.حضرت نے فرمایا.اس کو پادری عبد اللہ آتھم، لیکھرام، چراغ دین ساکن جموں اور دوسرے مباہلین کے احوال سے عبرت پکڑنی چاہیے تھی.۱ اسی سیر کے دوران کے مزید ملفوظات بدر سے.کلمہ طیبہ کی اصل روح میں۲ نے عرض کیا کہ حضور لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ کو بار بار پڑھنے اوراس کے ذکر کا بھی ثواب ہے یا نہیں؟ فرمایا.دل میں خدا سے تعلق ہو تو.پھر زیادہ تشریح طلب کرنے پر فرمایا.اصل بات یہ ہے کہ میرا مذہب یہ نہیںکہ زبانی جمع خرچ کیا جاوے.ان طریقوں میں بہت سی غلطیاں ہیں ان تمام اذکار کی اصل روح اس پر عمل کرنا ہے.ایک دفعہ صحابہ کرامؓ اللہ بآواز بلند کہہ رہے تھے تو حضرت نے فرمایا تمہارا خدا بہرہ نہیں.تومطلب یہ ہے کہ کلمہ سے مراد ہے توحید کو قائم رکھنا اور اس کے رسول کی اطاعت.اب ثواب اس میں ہے کہ ہربات میں اللہ کو مقدم رکھے اور اللہ پر پورا پورا ایمان لائے.اس کی صفات کے خلاف کوئی کلام کوئی کام نہ کرے حتی کہ خیال بھی نہ لائے.وہ جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ (النّور:۳۸) اس سے بھی یہی الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۹ ۲ اس سے مراد قاضی محمد اکمل صاحب گولیکی ہیں.(مرتّب)

Page 92

مراد ہے کہ دنیا کے کاموں میں بھی میرے احکام کو نہیں بھلاتے.دیکھو! اس وقت ہم ان طریقوں کی طرح ذکر نہیں کر رہے مگر حقیقت میں اسی کی عظمت و جلال کا ذکر ہے.پس یہی ذکر ہے.۱ الہام کا معاملہ بڑا نازک ہوتا ہے ایک صاحب نے ایک شخص مرید کے کچھ الہامات حضرت اقدسؑ کو سنائے.۲ حضرت نے فرمایا.الہام کا بڑا نازک معاملہ ہے.انسان کو اپنے اعمال صاف کرنا چاہیے.بدر جلد ۶ نمبر ۷ مورخہ ۱۴؍ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸ ۲ بدر سے.’’عرض کیا گیا ایک نوجوان احمدی یہ الہامات سناتا ہے.رؤیا میں خلقت نے مجھے سجدہ کیا.بہشت کی سیر کی اور الہام اَنَا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ.‘‘ فرمایا.’’یہ بڑے ابتلا کا مقام ہے.میرا مذہب تو یہ ہے کہ جب تک درخشاں نشان اس کے ساتھ بار بار نہ لگائے جاویں تب تک الہامات کا نام لینا بھی سخت گناہ اور حرام ہے.پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ قرآن مجید اور میرے الہامات کے خلاف تو نہیں.اگر ہے تو یقیناً خدا کا نہیں بلکہ شیطانی اِلقا ہے.اصل میں ایسے تمام لوگوں کی نسبت میرا تجربہ ہے کہ انجام کار ہلاک ہوتے ہیں.اپنے اعمال کی طرف خیال نہیں کرتے.یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارے قلب کا اللہ سے کیسا تعلق ہے اور ان الہامات میں پڑ جاتے ہیں.ان سے عُجب و استکبار پیدا ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ پھر کسی کی بات پسند نہیںکرتے اور ہر سچی بات کو اپنے اوہام کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں.جب مطابق نہیں پاتے تو انکار کرتے اور ہلاکت کے گڑھے میں گِرتے ہیں.ان لوگوں کے دلوں میں ایک قسم کا گند ہوتا ہے اور شیطان متسلّط ہونے کے لیے ایک عجیب راہ نکال لیتا ہے.استغفار پڑھنا چاہیے اور بالکل ان باتوںسے کلی طور سے مجتنب.ورنہ یاد رکھیں کہ یہ بڑے خطرے کا مقام ہے.خدا تعالیٰ کسی کے الہام کو نہیں پوچھے گا.بیشک یہ الہام انعامِ الٰہی سے ہے مگر دیکھو ہوا بنفسہٖ تو ایک بڑی طیّب اور مفرح ذات چیز ہے مگر ایک روڑی پر گذرے تو کثافت پھیلائے گی.یہی حال ہے ایسے لوگوں کا.میں سمجھتا ہوں.مخلوق نے کیا سجدہ کرنا تھا.شیطان اور اس کی ذرّیت نے سجدہ کیا ہوگا کہ ہم تیرے ساتھ ہیں بیشک گمراہی پھیلا.عرض کیا گیا.حضور ایسے لوگوں کی نسبت ہم تو اس لیے کچھ نہیں کہتے کہ وہ آپ کی تصدیق کرتے ہیں.فرمایا.یہ جھوٹ بات ہے ان کے دلوں میں گند پنہاں ہے.ان کے جھوٹے الہامات کو شیطانی کہا جائے تو فوراً ہماری بھی تکذیب کریں.آپ نے بہت تاکیدی الفاظ سے پورے جوش میں تقریر فرمائی.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۷ مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ءصفحہ ۸)

Page 93

الہام کا مہبط صاف ہونا چاہیے.اب جو خدا تعالیٰ کی چلائی ہوئی ہوا چل رہی ہے.یہی ہوا بعض انسانوں کے جسموںکے لیے مفید اور بعضوں کے لیے مفسد ہوگی.اگر کسی کا اندر غلیظ ہو.معدہ گندہ ہو اور بیمار ہو تو اس کو اچھی غذا مضر ہوگی.ایسا ہی خدا کا کلام ہے.ابھی تھوڑے روز ہوئے فقیر مرزا ساکن دوالمیال ضلع جہلم جس نے ہماری مخالفت میں لوگوں کو الہام سنایا کہ مجھے عرش سے آواز آئی ہے کہ مرزا جھوٹا ہے رمضان میں مَر جاوے گا.اور اسی پر اس نے بس نہیں کی بلکہ لوگوں کو کہا کہ یہ معمولی بات نہ سمجھو.میرا دستخط لے لو کہ یہ بات ضرور ہونے والی ہے اور خود اس نے اپنا دستخط کر کے اور بہت سے لوگوں کو اپنے الہام کا گواہ ٹھہرایا اور ان کے بھی دستخط لیے.جب رمضان کا مہینہ آیا تو خود ہی مَر گیا.(بوقتِ ظہر) طاعون کا علاج آج حضرت اقدسؑ عام نمازیوںسے پیشتر ہی نماز ظہر کے لیے مسجد میں تشریف لے آئے.کسی نے ذکر کیا کہ بعض قرب و جوار کے دیہات میں طاعون ہے.حضرت نے فرمایا.اس دفعہ یہ بیماری زیادہ تر خطرناک صورت میں ہے.سارے موسم سرما میں بھی اکثر مقامات میں ترقی پر رہی ہے اعتدالی ایام میں اور بھی خطرناک ہوگی.بجز توبہ و استغفار اس کا کوئی علاج نہیں.نماز ظہر کے بارہ میں حضور کا طریق فرمایا.مولوی نورالدین صاحب کو بُلاؤ کہ نماز پڑھی جاوے.مولوی صاحب بُلائے گئے اور ڈیڑھ بجے نماز ظہر ادا کی گئی.فرض کی نماز باجماعت ادا کر کے حضرت اندر تشریف لے گئے.حضرت اقدسؑ کا مدام یہی اصول ہے کہ آپ ظہر کی پہلی چار سنتیں گھر میں ادا کر کے باہر تشریف لاتے ہیں پچھلی دو سنتیں بھی جا کر اندر پڑھتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر ادائے فرض کے بعد مسجد میں بیٹھنا منظور ہو تو پچھلی دو سنتیں فرضوں کے بعد مسجد میں ہی ادا فرماتے ہیں.۱ ۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۷ءصفحہ ۹

Page 94

۳۰؍جنوری ۱۹۰۷ء (بوقت ظہر) آج ظہر کی نماز میں حضرت اقدس تشریف لائے.آپ کی طبیعت قدرے علیل معلوم ہوتی تھی.اس وقت کوئی تذکرہ نہیں ہوا.نماز باجماعت ادا فرما کر اندر تشریف لے گئے.عصر کی نماز میں آپ اذان ہونے کے بعد جلدی تشریف لے آئے.فرمایا.مولوی صاحب کو بُلاؤ.نماز ادا کی جاوے.فرمایا.درد گردہ ہو رہا ہے.سرد ہوا تیز چلتی ہے تو درد شروع ہوجاتا ہے.پھر آپ بیٹھ گئے.مولوی محمد علی صاحب و مفتی محمد صادق صاحب بھی آگئے.ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا.سِول۱ میں کوئی نئی خبر آپ نے پڑھی ہے؟ مولوی صاحب نے عرض کی کہ یورپ کی تار خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض جگہ سخت سردی پڑ رہی ہے حتی کہ انجنوں میں بھی پانی جم جاتا ہے.آپ نے پوچھا کہ کیا غیر معمولی سردی لکھا ہے یا کہ معمولی؟ مولوی صاحب نے عرض کی کہ غیر معمولی سردی کی تار خبریں درج ہیں.اتنے میں مولوی محمد احسن صاحب بھی آگئے.انہوں نے عرض کی کہ حضور کا الہام ہے.پھر بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن ثلج برف کے معنے ہیں اور یہ غیر معمولی سردی اس پیشگوئی کو پورا کر رہی ہے.اتنے میں حضرت حکیم الامت تشریف لے آئے.نماز کی جماعت کھڑی ہوگئی.آپ نماز باجماعت ادا فرما کر اندر تشریف لے گئے.۲ The Civil & Military Gazette ۲ الحکم جلد ۱۱ نمبر۵ مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۴

Page 95

۳۱؍جنوری ۱۹۰۷ء (بوقت عصر) خطوط کےجواب میں حضور کا طریق حضرت اقدس نماز عصر میں تشریف لائے مفتی صاحب سے فرمایا کہ بعض شکایتیں آتی ہیں کہ خطوں کا جواب نہیں ملتا.خطوں کے جواب لکھے جاویں.واضح ہو کہ حضرت اقدس امام علیہ السلام کے نام جو خطوط آتے ہیں وہ براہِ راست چٹھی رساں حضرت اقدس کو جا کر دیتا ہے اور سب خطوں کو حضرت اقدس خود ملاحظہ فرماتے ہیں.اکثر جواب لکھنے کے لیے ہدایتیں کر کے منشی کو سپرد فرماتے ہیں.ناسازیٔ طبع نہ ہو اور فرصت ہو تو بہت کا جواب خود تحریر فرماتے ہیں.۱ ۹؍فروری ۱۹۰۷ء خط سے سوال پیش ہوا کہ مکان میں میرا پانچ سو روپیہ کا حصہ ہے.اس حصہ میں مجھ پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ حضرت نے فرمایاکہ جواہرات و مکانات پر کوئی زکوٰۃ نہیں.۲ (بوقتِ عصر) طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ اس وقت جو بے وقت بارش متواتر برس رہی ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ اس سے طاعونی کیڑے ہی پرورش پارہے ہیں.۳ ۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۵ مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰،۱۱ ۲ بدر سے.مکان اور تجارتی مال پر زکوٰۃ ’’ایک شخص کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ مکان خواہ کتنے ہزار روپے کا ہو اس پر زکوٰۃ نہیں اگر کرایہ پر چلتا ہو تو آمد پر زکوٰۃ ہے ایسا ہی تجارتی مال پر جو مکان میں رکھا ہے زکوٰۃ نہیں.حضرت عمر ۶ ماہ کے بعد حساب کر لیا کرتے تھے اور روپیہ پر زکوٰۃ لگائی جاتی تھی.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۷ مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸) ۳ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۷ مورخہ ۲۴؍فروری ۱۹۰۷ءصفحہ ۱۳

Page 96

بلاتاریخ سید زادی سے نکاح ایک شخص نے حضرت صاحب کی خدمت میں سوال پیش کیا کہ غیر سید کو سیدانی سے نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.اللہ تعالیٰ نے نکاح کے واسطے جو محرمات بیان کئے ہیں ان میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ مومن کے واسطے سید زادی حرام ہے.علاوہ ازیں نکاح کے واسطے طیبات کو تلاش کرنا چاہیے اس لحاظ سے سید زادی کا ہونا بشرطیکہ تقویٰ و طہارت کے لوازمات اس میں ہوں افضل ہے.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے فرمایا کہ سید کا لفظ اولاد حسین کے واسطے ہمارے ملک میں ہی خاص ہے.ورنہ عرب میں سب بزرگوںکو سید کہتے ہیں.حضرت ابوبکرؓ.حضرت عمرؓ.حضرت عثمانؓسب سید ہی تھے اور حضرت علی کی ایک لڑکی حضرت عمر کے گھر میں تھی.اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لڑکی حضرت عثمان سے بیاہی گئی تھی اور اس کی وفات کے بعد پھر دوسری لڑکی بھی حضرت عثمان سے بیاہی گئی تھی.بس اس عمل سے یہ مسئلہ بآسانی حل ہو سکتا ہے.جاہلوں کے درمیان یہ بات مشہور ہے کہ امتی سیدانی کے ساتھ نکاح نہ کرے حالانکہ امتی میں تو ہر ایک مومن شامل ہے.خواہ وہ سید ہو یا غیر سید.چہلم ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ چہلم کرنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.یہ رسم سنّت سے باہر ہے.اخبار کی قیمت اخبار کی قیمت اگر پیشگی وصول کی جاوے تو اخبار کے چلانے میں سہولت ہوتی ہے جو لوگ پیشگی قیمت نہیں دیتے اور بعد کے وعدے کرتے ہیں ان میں سے بعض تو صرف وعدوں پر ہی ٹال دیتے ہیں اور بعض کی قیمتوں کی وصولی کے لئے بار بار کی خط و کتابت میں اور ان سے قیمتیں لینے کے واسطے یادداشتوں کے رکھنے میں اس قدر دقّت ہوتی ہے کہ اس زائد محنت اور نقصان کو کسی حد تک کم کرنے کے واسطے اور نیز اس کا معاوضہ وصول کرنے کے واسطے اخبار بدر کی قیمت مابعد کے نرخ میں ایک روپیہ زائد کیا گیا ہے یعنی مابعد دینے والوں سے قیمت اخبار بجائے  کے وصول کئے جائیں گے اس پر ایک دوست لائل پور نے دریافت کیا ہے کہ کیا یہ صورت سود کی تو نہیں ہے؟ چونکہ یہ مسئلہ شرعی تھا.اس واسطے مندرجہ بالا وجوہات کے ساتھ حضرت اقدسؑکی خدمت میں پیش کیا گیا

Page 97

اس کا جواب جو حضرت نے لکھا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے.السلام علیکم.میرے نزدیک اس سے سود کو کچھ تعلق نہیں.مالک کا اختیار ہے جو چاہے قیمت طلب کرے خاص کر بعد کی وصولی میں ہرج بھی ہوتا ہے.اگر کوئی شخص اخبار لینا چاہتا ہے تو وہ پہلے بھی دے سکتا ہے یہ اَمر خود اس کے اختیار میں ہے.والسلام مرزا غلام احمد جان کے خوف میں والدین کی فرمانبرداری مدت سے ایک افغان ایک ایسے علاقہ کا رہنے والا جہاں اپنا عقیدہ و ایمان کےاظہار موجب قتل ہو سکتا ہے اس جگہ قادیان میں دینی تعلیم کے حصول کے واسطے آیا ہوا ہے.حال میں اس کے والدین نے اس کو اپنے وطن میں طلب کیا ہے.اب اس کو ایک مشکل پیش آئی کہ اگر وطن کو جائے تو خوف ہے کہ مبادا وہاں کے (لوگ) اس بات سے اطلاع پاکر کہ یہ شخص خونی مہدی اور جہاد کا منکر ہے.قتل کے درپے ہوں اور اگر نہ جاوے تو والدین کی نافرمانی ہوتی ہے.پس اس نے حضرت سے پوچھا کہ ایسی حالت میں کیا کروں حضرت نے جواب میں فرمایا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ چونکہ در قرآن شریف در آن امور کہ مخالف شریعت نہ باشند.حکم اطاعت والدین است.لہٰذا بہتر است کہ این قدر اطاعت کنند کہ ہمراہ شان روند.و آن جا چو محسوس شود کہ اندیشہ قتل یا حبس است بلاتوقف باز بیائند.چرا کہ خود را در معرض ہلاک انداختن جائز نیست.ہم چنین مخالفت والدین ہم جائز نیست.پس درین صورت ہر دوحکم قرآن شریف بجا آوردہ مے شود.والسلام مرزا غلام احمد۱،۲ (ترجمہ از مرتّب) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.چونکہ قرآن شریف میں ان امور میں جو شریعت کے مخالف نہ ہوں والدین کی اطاعت کا حکم ہے.لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس قدر اطاعت کریں کہ ان کے ہم راہ ہوجائیں اور اس جگہ کہ محسوس ہوجائے کہ قتل یا قید کا اندیشہ ہے بلاتوقف باز اور جدا ہوجائیں کیونکہ اپنے تئیں ہلاکت میں ڈالنا جائز نہیں.اسی طرح والدین کی مخالفت بھی جائز نہیں پس اس صورت میں قرآن شریف کے ہر دو احکام بجا لائے جا سکتے ہیں.۲بدر جلد ۶ نمبر ۷ مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۴

Page 98

۱۰؍فروری ۱۹۰۷ء مینجر گوروکل گوجرانوالہ کا پھر ایک خط حضرت صاحب کے نام آیا جس کا جواب حضور نے مفتی صاحب کو لکھنے کے لیے فرمایا.چنانچہ مفصلہ ذیل خط لکھا گیا.جناب مینجر صاحب گوروکل گوجرانوالہ تسلیم! آپ کا دوسرا خط حضرت کی خدمت میں پہنچا جس میں آپ نے ظاہر کیا ہے کہ آپ نصف گھنٹہ سے زیادہ وقت نہیں دے سکتے اور کہ ایک عالم کے واسطے بسبب اس کے علم کے اتنا وقت کافی ہے.بجواب گذارش ہے کہ حضرت فرماتے ہیں کہ اہم مذہبی امور پر گفتگو کرنے کے واسطے اتنا تھوڑا وقت کسی صورت میںکافی نہیں ہو سکتا.اس واسطے ہم ایسی مجلس میں شریک نہیں ہو سکتے.اگر آپ کم از کم تین گھنٹہ کا وقت ہمارے مضمون کے واسطے رکھتے تو ممکن تھا کہ ہم خود جاتے یا اپنا کوئی فاضل دوست اپنا مضمون دے کر بھیج دیتے ہم کسی طرح سمجھ ہی نہیں سکتے کہ ایسے مضامین عالیہ میں صرف آدھ گھنٹہ کی تقریر کافی ہےہم رسوم کے پابند نہیں.بلکہ ہم پابند احقاق حق ہیں.باقی آپ کا یہ فرمانا کہ بڑے عالم کے واسطے نصف گھنٹہ کافی ہے.مجھے تعجب ہے کہ یہ بات کیوں کر آپ درست قرار دیتے ہیں.جبکہ آپ کے وید مقدس کے لکھنے والوں نے اپنی باتوں کو ختم نہ کیا جب تک کہ وہ ایک گدھے کے بوجھ کے برابر نہ ہوگئے تو پھر آپ ہم سے یہ امید کیوں کر رکھتے ہیں.ایک نکتہ معرفت کا قبل از تکمیل گلا گھونٹنا در حقیقت سچائی کا خون کرنا ہے جس کو کوئی راستباز پسند نہیں کرے گا.اگر علم اور فضل کا معیار حد درجہ کے اختصار اور تھوڑے وقت میں ہوتا تو چاہیے تھا کہ وید صرف چند سطروں میں ختم ہوجاتا.مجھے افسوس ہے کہ اس تھوڑے وقت نے مجھے اس اشتراک سے محروم رکھا.کیا خدا تعالیٰ کی ذات صفات کی نسبت کچھ بیان کرنا اور پھر روح اور مادہ میں جو کچھ فلاسفی مخفی ہے اس کو کھولنا آدھ گھنٹہ کا کام ہے؟ ہرگز نہیں.بلکہ یہ لفظ ہی سوءِ ادب میں داخل ہے جن لوگوں کو محض شراکت کا فخر حاصل کرنا مقصود ہے وہ جو چاہیں کریں مگر ایک محقق ناتمام تقریر پر خوش نہیں ہوسکتا

Page 99

سچائی کو ناتمام چھوڑنا ایسا ہے جیسا کہ بچہ اپنے پورے دنوں سے پہلے پیٹ سے ساقط ہوجائے آئندہ آپ کا اختیار ہے.خادمِ مسیح موعود محمد صادق عفا اللہ عنہ ۱۷؍فروری ۱۹۰۷ء ۱ ۱۱؍فروری ۱۹۰۷ء (بوقت ظہر) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا مفتی صاحب نے کسی شخص کا سوال خط سے پیش کیا کہ میں نے ایک بیوہ عورت کے ساتھ نکاح کا ارادہ کیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ نے اس کے ساتھ نکاح سے منع فرمایا کیا اس پر عمل کیا جاوے یا نہیں؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَنْ رَاٰنِیْ فَقَدْ رَاَی الْـحَقَّ لہٰذا اس پر عمل کیا جاوے.چند فقہی مسائل (۱) پھر خط سے سوال پیش ہوا کہ کئی اشخاص نے ایک گائے قربانی کرنے کے لیے خریدی تھی جن میں سے ایک احمدی تھا.غیر احمدیوں نے اس کو اس وجہ سے اس گائے کا حصہ قیمت واپس دے دیا کہ اس کا حصہ قربانی میں رکھنے سے قربانی نہ ہوگی.اس لیے اس شخص نے لکھا کہ میں اپنی قربانی کا حصہ نقد قادیان میں بھیج سکتا ہوں یا نہیں؟۲ بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۵ ۲ بد ر سے.قربانی ’’ ایک شخص کی عرضی پیش ہوئی کہ میں نے تھوڑی سی رقم ایک قربانی میں حصہ کے طور پر ڈال دی تھی مگر ان لوگوں نے مجھے احمدی ہونے کے سبب اس حصہ سے خارج کر دیا ہے کیا میں وہ رقم قادیان کے مسکین فنڈ میں دے دوں تو میری قربانی ہو جائے گی.فرمایا.قربانی تو قربانی کرنے سے ہی ہوتی ہے.مسکین فنڈ میں روپے دینے سے نہیں ہو سکتی اگر وہ رقم کافی ہے تو

Page 100

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.اس کو لکھو کہ قربانی کا جانور اس قیمت سے لے کر وہاں ہی قربانی کر دے.عرض کی گئی کہ اس کا حصہ قیمت جو گائے کے خریدنے میں تھا وہ بہت تھوڑا ہے.اس سے دنبہ بکرا خرید نہیں سکے گا.حضرت نے فرمایا.اس کو لکھو کہ تم نے جبکہ اپنے اوپر قربانی ٹھہرائی ہے اور طاقت ہے تو اب تم پر اس کا دینا لازم ہے اور اگر طاقت نہیں تو پھر اس کا دینا لازم نہیں.(۲)۱ خط سے سوال پیش ہوا کہ میں بوقت سحر بماہ رمضان اندر بیٹھا ہوا بے خبری سے کھاتا پیتا رہا.بقیہ حاشیہ) ایک بکرا قربانی کرو.اگر کم ہے اور زیادہ کی تم کو توفیق نہیں تو تم پر قربانی کا دینا فرض نہیں ہے.غیروں کے ساتھ مل کر قربانی ایک شخص نے سوال پیش کیا کہ کیا ہم غیر احمدیوں کے ساتھ مل کر یعنی تھوڑے تھوڑے روپے ڈال کر کوئی جانور مثلاً گائے ذبح کریں تو جائز ہے.فرمایا.ایسی کیا ضرورت پڑ گئی ہے کہ تم غیروں کے ساتھ شامل ہوتے ہو اگر تم پر قربانی فرض ہے تو بکرا ذبح کر سکتے ہو.اور اگر اتنی بھی توفیق نہیں تو پھر تم پر قربانی فرض ہی نہیں وہ غیر جو تم کو اپنے سے نکالتے ہیں اور کافر قرار دیتے ہیں وہ تو پسند نہیں کرتے کہ تمہارے ساتھ شامل ہوں تو تمہیں کیا ضرورت ہے کہ ان کے ساتھ شامل ہو خدا پر توکل کرو.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۷ مورخہ ۱۴؍ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸) ۱ بدر سے.سفیدی میں نیت روزہ ’’ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ میں مکان کے اندر بیٹھا ہوا تھا اور میرا یقین تھا کہ ہنوز روزہ رکھنے کا وقت ہے اور میں نے کچھ کھا کر روزے کی نیت کی مگر بعد میں ایک دوسرے شخص سے معلوم ہوا کہ اس وقت سفیدی ظاہر ہوگئی تھی.اب میں کیا کروں.حضرت نے فرمایا کہ ایسی حالت میں اس کا روزہ ہوگیا دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اپنی طرف سے اس نے احتیاط کی اورنیت میں فرق نہیں صرف غلطی لگ گئی اور چند منٹوں کا فرق پڑ گیا.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۷ مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸)

Page 101

جب باہر نکل کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ سفیدی ظاہر ہوگئی ہے.کیا وہ روزہ میرے اوپر رکھنا لازم ہے یا نہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ بے خبری میں کھایا پیا تو اس پر اس روزہ کے بدلے میں دوسرا روزہ لازم نہیں آتا.(۳) پھر سوال ہوا کہ كُتِبَ (عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ )سے فرضی روزے مراد ہیں یا اور روزے مراد ہیں؟ فرمایا.كُتِبَ سے فرضی روزے مراد ہیں.۱ قبر میں سوال و جواب ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ قبر میں سوال و جواب روح سے ہوتا ہے یا جسم میں وہ روح ڈالا جاتا ہے؟ فرمایا.اس پر ایمان لانا چاہیے کہ قبر میں انسان سے سوال و جواب ہوتا ہے.لیکن اس کی تفصیل اور کیفیت کو خدا پر چھوڑنا چاہیے.یہ معاملہ انسان کا خدا کے ساتھ ہے وہ جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے پھر قبر کا لفظ بھی وسیع ہے.جب انسان مَر جاتا ہے تو اس کی حالت بعد الموت میں جہاں خدا اس کو رکھتا ہے وہی قبر ہے خواہ دریا میں غرق ہوجائے خواہ جل جائے.خواہ زمین پر پڑا رہے.دنیا سے انتقال کے بعد انسان قبر میں ہے.اور اس سے مطالبات اور مواخذات جو ہوتے ہیں اس کی تفصیل کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے انسان کو چاہیے کہ اس دن کے واسطے طیاری کرے نہ کہ اس کی کیفیت معلوم کرنے کے پیچھے پڑے.۲ ۱۲؍فروری۱۹۰۷ء (بوقت ظہر) افغانستان میں مذہبی آزادی نہیں ہے ایک مولوی صاحب حدودِ افغانستان سے حضرت کی ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے.مصافحہ کے بعد حضرت نے ان کے کوائف سفر و صعوبت راہ کی حالت دریافت فرمائی بعد ازاں حکومت افغانستان ۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۷ مورخہ ۲۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۳،۱۴ ۲ بدر جلد ۶ نمبر ۷ مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸ ۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۷ مورخہ ۲۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۳،۱۴ ۲ بدر جلد ۶ نمبر ۷ مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸

Page 102

کی عدم حریت و آزادی کے متعلق ذکر ہوا.۱ فرمایا کہ اخبارات میںجو آجکل لکھا جارہا ہے کہ حکومت افغانستان میں ہر مذہب کے لوگوں کو عام آزادی حاصل ہے سرا سر دروغ بے فروغ ہے کیونکہ اگر افغانستان میں ہندوستان جیسی حریت اور آزادی ہر مذہب کے لوگوں کو حاصل ہوتی تو اخوند زادہ حضرت مولوی محمد عبد اللطیفؓ کو اس سخت بے دردی سے اختلافِ مذہب کے سبب اس حکومت میں ہلاک نہ کیا جاتا.۲ تازہ وحی بعد ازاں حضرت نے خدا تعالیٰ کی تازہ وحی کا ذکر فرمایا جو پہلے۳ درج ہوچکی ہے اور اس میں سے مندرجہ ذیل فقرہ سنایا.آسمان ٹوٹ پڑا سارا معلوم نہیں کیا ہونے والا ہے.تشریح میں فرمایا.اگرچہ کثرت بارش سے بھی آسمان کا ٹوٹ پڑنا مراد ہو سکتا ہے مگران الہامات کی تشریح میں ہم کسی پہلو پر زور نہیں دیتے.جس طرح اللہ تعالیٰ نے جس رنگ و صورت میں چاہا، واقع ہوں گے.ان الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی وحشت ناک اَمر واقع ہونے والا ہے جس سے لوگ متحیر و خوف زدہ ہوجاویں گے.لہٰذا خدا تعالیٰ نےا ن کی طرف سے حکایتاً بیان فرمایا ہے کہ معلوم نہیں کیا ہونے والا ہے.فرمایا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں ہے.قریب آگیا ہے.بدر سے.’’افغانستان کا ذکر تھا کہ اگر ہماری جماعت کے لوگ جو کہ اس جگہ ہیں تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھیں تو امید ہے کہ بہت فائدہ ہو.فرمایا.اگر ایک شخص بھی تمہارے ذریعہ سے دین کو اچھی طرح سمجھ لے تو یہ ایک بڑے ثواب کاکام ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۲ بدر سے.’’خیر ہم خدا تعالیٰ پر امید رکھتےہیں کہ وہ ضرور کوئی نہ کوئی راہ پیدا کر دے گا جس سے ان ممالک میں پوری تبلیغ ہوگی.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۳ الحکم میں ایک اور جگہ یوں درج ہے.’’آسمان ٹوٹ پڑا سارا.کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے‘‘ (الحکم جلد ۱۱ نمبر ۶ مورخہ ۱۷؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱

Page 103

پھر حضرت اقدس نے فاضل امروہی سے استفسار فرمایا کہ خطوط سے معلوم ہوتا ہوگا آپ کی طرف بارش زور سے برس رہی ہے یا نہیں؟ مولوی صاحب نے عرض کی کہ اس طرف اتنی بارش نہیں ہے جس قدر اس طرف برس رہی ہے.پھر حضرت نے بیماری طاعون کا حال پوچھا.مولوی صاحب نے عرض کی کہ بیماری اس طرف بہت ہے.پھر حضرت اقدس نے فرمایا کہ مولوی ثناء اللہ امرتسری ثناء اللہ لکھتا ہے کہ سعد اللہ کی وفات کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.حالانکہ یہ پیشگوئی روزِ روشن کی طرح پوری ہوگئی ہے حقیقۃ الوحی میں اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے متعلق زبردست دلائل لکھے جاویں گے.مولوی محمد حسین بٹالوی فرمایا.ثناء اللہ بہ نسبت محمد حسین بٹالوی کے بد گوئی میں بڑھ گیا ہے.محمد حسین بٹالوی کا ذکر ہوا.فاضل امروہی نے عرض کی کہ ایک وہ زمانہ تھا کہ اس نے کہا تھا کہ میں نے ہی ان کو یعنی حضور کو عروج پر چڑھایا تھا اور میں ہی گرادوں گا مگر معاملہ برعکس ہوا.(محمد حسین کے اس چڑہاؤ و اتار سے مراد پہلے براہین احمدیہ میں ریویو لکھنا اور پھر حضرت اقدس پر تکفیر کا فتویٰ تیار کرنا اور مولویوں کی مہریں لگانا ہے) اس جگہ تو یَوْمًا فَیَوْمًا ترقی ہو رہی ہے اور شرق و غرب کی مخلوق آ پہنچی ہے اور محمد حسین اکیلا و طرید رہ گیا ہے.اکثر احباب نے اس کو چھوڑ دیا ہے ایک زمانہ تھا کہ اشاعت السنّۃ سے اس کو تین سو روپیہ تک بچ جاتا تھا.اب کوئی اس سے پوچھے کہ کیا حال ہے؟ حضرت نے فرمایا.محمد حسین ہمیشہ ہمارے پاس آیا جایا کرتا تھا.پندرہ روز تک بٹالہ میں نہیں ٹھہر سکتا تھا بلکہ ہمارے پاس آجاتا تھا.ایک دفعہ اس کے متعلق اس کے باپ نے ایک سخت ناگوار اشتہار دینا چاہا تھا اور محمد حسین نے مجھے کہا کہ میرے باپ کو اس اَمر سے منع کرو.چنانچہ ہم نے اس کو اس اَمر سے روکا تھا.میر ناصر نواب صاحب نے خواب بیان کی کہ تھوڑے روز ہوئے میں نے محمد حسین کو خواب میں دیکھا

Page 104

کہ سامنے سے چلا آتا ہے اور میرے ساتھ مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا.تو میں نے بھی اس کے ساتھ مصافحہ کیا اتنے میں مجھے آواز آئی.جو جھکے آپ سے اس سے جھک جائیے.(بوقتِ عصر) احوالِ افغانستان حضرت اقدس مسجد میں تشریف لائے تو نو وارد افغان مولوی صاحب سے بزبانِ فارسی استفسار فرمایا کہ آپ کے ملک میں سردی کا کیا حال ہے؟ اس نے عرض کی ہمارے ملک میں بہت سردی ہوتی ہے.بالخصوص تین ماہ میں سخت سردی پڑتی ہے.فصل برف کے نیچے دب جاتے ہیں.حضرت نے پوچھا کہ افغانستان میں عربی کی کیا کیا کتابیں لوگ پڑھتے ہیں.افغان مولوی صاحب نے عرض کی کہ فقہ کا زیادہ رواج ہے.قدوری، کنز، شرح وقایہ، ہدایہ پڑھ لیتے ہیں.زیادہ علوم سے اکثر علماء بے بہرہ ہوتے ہیں.حدیث کے علم کا رواج افغانستان میں نہیں ہے.سفرِ ریل میں ایک افغان مولوی مجھے ملا.میرے پاس بخاری شریف تھی اس نے میرے پاس بخاری شریف دیکھ کر کہا.تم وہابی ہو.حضرت حکیم الامت نے فرمایا خود مؤلف بخاری شریف کو ان لوگوں کے بھائی بندوں نے بخارا سے جلا وطن کر دیا تھا.بعد ازاں جماعت کھڑی ہوگئی.ادائے نماز کے بعد حضرت اندر تشریف لے گئے.۱ ۱۳؍فروری۱۹۰۷ء (بوقت ظہر) مسٹر ویب کا ذکر مفتی صاحب نے مسٹر ویب باشندہ امریکہ کا خط حضرت اقدس کو سنایا.حضرت نے فرمایا.ویب اگر دلی کوشش کرتا تو ضرور اس کا اثر لوگوں میں

Page 105

ہوتا کیونکہ ع سخن کز دل برون آید نشیند لاجرم بر دل ویب اہل امریکہ کو کیا کوستا ہے اس کو اپنے دل کو کوسنا چاہیے.اس نے ہمارے سلسلہ کی طرف پوری توجہ نہیں کی بلکہ بد گوئی کے ساتھ ہندوستان سے واپس چلا گیا تھا.اس سے تو ہمارے نزدیک عبداللہ کوئلم بدرجہا بہتر ہے جس نے ایک جماعت مسلمانوں کی بنا لی ہے.فاضل امروہی نے عرض کیا کہ ویب کے متعلق حضور نے ایک پیشگوئی کی تھی جبکہ وہ قادیان میں آنے کا ارادہ رکھتا تھا کہ وہ یہاں نہیں آئے گا اور واپس چلا جائے گا اور جس بات کے لیے واپس گیا تھا وہ بھی اس کو نصیب نہ ہوئی.چنانچہ واپس جا کر نادم ہوا.(بوقت عصر) اہل مغرب میں تبلیغ قبل نماز عصر حضرت اقدس مسجد میں تشریف لائے.مولوی محمد علی ۱صاحب کو فرمایا کہ اہل یورپ کو کس طرح تبلیغ احمدیت کی جائے اگر اہل امریکہ و یورپ ہمارے سلسلہ کی طرف توجہ نہیں کرتے تو وہ معذور ہیں اور جب تک ہماری طرف سے ان کے آگے اپنی صداقت کے ۱ بدر سے.’’مولوی محمد علی صاحب کو بُلا کر حضرت اقدس نے فرمایاکہ ہم چاہتے ہیںکہ یورپ امریکہ کے لوگوں پر تبلیغ کا حق ادا کرنے کے واسطے ایک کتاب انگریزی زبان میں لکھی جاوے اور یہ آپ کا کام ہے.آجکل جو ان ملکوں میں اسلام نہیں پھیلتا اور اگر کوئی مسلمان ہوتا بھی ہے تو وہ بہت کمزوری کی حالت میں رہتا ہے.اس کا سبب یہی ہے کہ وہ لوگ اسلام کی اصل حقیقت سے واقف نہیں ہیں اور نہ ان کے سامنے اصل حقیقت کو پیش کیا گیا ہے.ان لوگوں کا حق ہے کہ ان کو حقیقی اسلام دکھلایا جاوے جو خدا تعالیٰ نے ہم پر ظاہر کیا ہے.وہ امتیازی باتیں جو کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ میں رکھی ہیں.وہ ان پر ظاہر کرنی چاہئیں اور خدا تعالیٰ کے مکالمات اور مخاطبات کا سلسلہ ان کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور ان سب باتوں کو جمع کیا جاوے جن کے ساتھ اسلام کی عزّت اس زمانہ میں وابستہ ہے.ان تمام دلائل کو ایک جگہ جمع کیا جاوے جو اسلام کی صداقت کے واسطے خدا تعالیٰ نے ہم کو سمجھائے ہیں.اس طرح ایک جامع کتاب تیار ہو جاوے تو امید ہے کہ اس سے ان لوگوں کو بہت فائدہ حاصل ہو.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخہ ۲۱؍ فروری ۱۹۰۷ءصفحہ ۴)

Page 106

دلائل نہ پیش کئے جاویں وہ انکار کا حق رکھتے ہیں.ہماری صداقت کے دلائل و حقیت ِاسلام پر ایک مستقل کتاب انگریزی میں چھاپ کر ان کو پیش کی جاوے.جن باتوں کو ہمارے مخالف مسلمان ان کے آگے پیش کرتے ہیں ان میں بہت غلطیاں ہیں.مثلاً حیاتِ مسیح، مسئلہ ختم نبوت، مکالماتِ الٰہی کے متعلق اس زمانہ کے مسلمانوں نے سخت غلطی کھائی ہے.اس کتاب میں ان مسائل کی تنقیح اور ہمارے سلسلہ کے دلائل صداقت لکھے جاویں.ویب نے ایک چٹھی لکھی کہ جو معجزات اب پیش کئے جاتے ہیں ان پر اب ٹھٹھے کئے جاتے ہیں.ان سب باتوں کے لیے ایک مستقل کتاب جامع ہو جس میں یہ سب مضمون لکھے جاویں.۱ ۱۵؍فروری ۱۹۰۷ء الہام کی کیفیت ایک الہام کا ذکر تھا.فرمایا.یاد نہیں لیکن لکھا ہوا ہے.پھر فرمایا.بعض دفعہ الہام الٰہی ایسی سرعت کے ساتھ ہوتا ہے جیسا کہ ایک پرندہ پاس سے نکل جاتا ہے اور اگر اسی وقت لکھ نہ لیا جاوے یا اچھی طرح سے یاد نہ کر لیا جاوے تو بھول جانے کا خوف ہوتا ہے.ایک الہام آج کی وحی الٰہی ’’اس ہفتہ میں کوئی باقی نہ رہے گا‘‘۲ کے متعلق فرمایا کہ ابھی ٹھیک طور پر نہیں کہہ سکتے کہ اس الہام میں ہفتہ سے کیا مراد ہے اور یہ کس کے متعلق ہے.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے عرض کیا کہ بعض اس قسم کے الہامات کسی خاص مکان اور خاص زمانہ کے متعلق ہوتے ہیں.فرمایا.درست ہے.دانیال کی کتاب میں صدہا سال کو ہفتہ کہا گیا ہے اور دنیا کی عمر بھی ایک ہفتہ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۸ مورخہ ۱۰؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۹ ۲ الحکم میں یہ الہام یوں درج ہے ’’ایک ہفتہ تک ایک بھی باقی نہیں رہے گا‘‘ (الحکم جلد ۱۱ نمبر ۷ مورخہ ۲۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱)

Page 107

بتلائی گئی ہے.اس جگہ ہفتہ سے مراد سات ہزار سال ہیں.ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے.اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ(الـحج:۴۸) تیرے ربّ کے نزدیک ایک دن تمہارے ہزار سال کے برابر ہے.دنیا کی عمر اور اس کا انجام فرمایا.آخر ایک دن اس دنیا کا خاتمہ ہونے والا ہے اور سب فنا ہو جائیں گے اور اس فنا کا وقت دنیا کی عمر کے مطابق ساتویں ہزار سال کے بعد معلوم ہوتا ہے.یہ گنتی ہم حضرت آدم سے کرتے ہیں مگر اس سے یہ مراد نہیں کہ اس سے پہلے انسان نہ تھا یا دنیا نہ تھی بلکہ ایک خاص مورثِ اعلیٰ سے اس گنتی کو لیا جاتا ہے جس کا نام آدم تھا.جیسا کہ اوّل میں وہ آدم تھا ایسا ہی آخر میں ایک آدم ہے.حدیث شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ اس دنیا کی عمر کے روز میں گویا عصر کا وقت تھا.جبکہ وہ عصر کا وقت تھا تو خود اندازہ ہو سکتا ہے کہ اب کتنا وقت باقی ہوگا.انجیل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ اب دنیا کی عمر تھوڑی باقی ہے.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے عرض کیا کہ اس قسم کے الفاظ جیسا کہ قیامت فنا وغیرہ ہیں بعض جگہ کسی خاص قرن اور خاص قوم کے متعلق آتے ہیں.فرمایا.یہ درست ہے اور خدا تعالیٰ قدیم سے خالق چلا آتا ہے.لیکن اس کی وحدت اس بات کو بھی چاہتی ہے کہ کسی وقت سب کو فنا کر دے.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (الرحـمٰن:۲۷) سب جو اس پر ہیں فنا ہوجانے والے ہیں.خواہ کوئی وقت ہو.ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ وقت کب آئے گا؟ مگر ایسا وقت ضرور آنے والا ہے.یہ اس کے آگے ایک کرشمہءِ قدرت ہے.وہ چاہے پھر خلق جدید کر سکتا ہے.تمام آسمانی کتابوں سے ظاہر ہے کہ ایسا وقت ضرور آنے والا ہے.خدا کی قدرت کا خیال کیا جاوے تو یہ بات مستبعد اور قابلِ تجویز نہیں رہی.۱ زلزلہ کا ایک دھکا لگتا ہے تو شہروں کے شہر

Page 108

ویران ہوجاتے ہیں.اس سے خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا اظہار ہوتا ہے.جب امن کا زمانہ ہوتا ہے تو لوگوں کو منطق یاد آتی ہے اور باتیں بناتے ہیں لیکن جب خدا تعالیٰ ایک ہاتھ دکھاتا ہے تو تمام فلسفہ بھول جاتا ہے.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل ذکر کرتے ہیں کہ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء والے زلزلہ میں ان کے کالج کا ایک ہندو لڑکا دہریہ بے ساختہ رام رام بول اٹھا.جب زلزلہ تھم گیا تو پھر کہنے لگا کہ مجھ سے غلطی ہوئی تھی.غرض ایسے لوگ درست نہیں ہوتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ عجوبہءِ قدرت نہ دکھائے.وہ ہر چیز پر قادر ہے اور جب تک کہ ایسا نہ ہو توحید قائم نہیں ہوتی.کیا ہر طاعونی موت شہادت ہے؟ ذکر آیا کہ بعض مخالف کہتے ہیں کہ طاعون کوئی عذابِ الٰہی نہیں بلکہ یہ تو ایک شہادت ہے.فرمایا.شہادت تو مومن کے واسطے ہوتی ہے جو پہلے ہی سے خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے نفس کو قربان کر چکا ہوتا ہے اس کی موت ہر حالت میں شہادت ہے.لیکن یہ ایک عام قانون بنانا کہ ہر ایک شخص جو طاعون سے مَرتا ہے وہ شہید ہے تو پھر کیا چوہڑے، چمار، ہندو،آریہ، عیسائی، دہریہ، بُت پرست جو ہزار ہا طاعون سے مَر رہے ہیں وہ سب درجہ شہادت کو حاصل کر رہے ہیں؟ سید عبد المحی عرب نے مولوی ثناء اللہ کو کہا تھا کہ امرتسر کا رسل بابا طاعون کے عذاب سے ہلاک ہوا ہے تو ثناء اللہ نے کہا کہ وہ شہادت کی موت مَرا ہے تو عرب صاحب نے کہا پھر خوب ہے میں دعا کرتا ہوں کہ خدا آپ کو بھی اس قسم کی شہادت کی موت دے.غرض شہادت نفس طاعونی موت میں شامل نہیں ہے بلکہ شہادت کا درجہ تو ان مومنوں کے واسطے ہے جو اپنی زندگی میں اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر چکے ہیں.طاعونی عذاب حضرت موسیٰ کے زمانہ میں بھی ان کے مخالفوں پر پڑا تھا اور پھر حضرت عیسیٰ کے بعد بھی یہ عذاب ان کے مخالفوں پر وارد ہوا تھا اور اب بھی خدا تعالیٰ نے بطور نشان کے یہ عذاب نازل فرمایا ہے.

Page 109

آدم کا بہشت ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ بہشت میں جو لوگ داخل ہوں گے وہ لوگ نکالے نہیں جاویں گے تو پھر آدم اور حوا کیوں نکالے گئے تھے؟ حضرت نے فرمایا کہ آدم جس بہشت میں سے نکالا گیا تھا وہ زمین پر ہی تھا بلکہ تورات میں ان کے حدود بھی بیان کیے گئے ہیں.نصوص قرآنیہ سے یہی ثابت ہے کہ انسان کے رہنے اورمَرنے کے واسطے یہی زمین ہے جو شخص اس کے برخلاف کچھ مذہب رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے کلام کی بے ادبی کرتا ہے.۱ بلاتاریخ قرض پر زکوٰۃ ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ جو روپیہ کسی شخص نے کسی کو قرضہ دیا ہوا ہے کیا اس پر اس کو زکوٰۃ دینی لازم ہے؟ فرمایا.نہیں.اعتکاف ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ جب آدمی اعتکاف میں ہو تو اپنے دنیوی کاروبار کے متعلق بات کر سکتا ہے یا نہیں؟ فرمایا.سخت ضرورت کے سبب کر سکتا ہے اوربیمار کی عیادت کے لیے اور حوائجِ ضروری کے واسطے باہر جا سکتا ہے.۲ ۱۶؍فروری ۱۹۰۷ء (بوقتِ ظہر) مباحثات تحریری ہوں مونگھیر کی جماعت اور وہاں کے کسی مباحثہ کا ذکر ہوا.فرمایا.تحریری سوالات ہوں تو ہماری طرف سے بھی مخالفین کے لیے ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۴،۵ ۲ بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۵

Page 110

تحریری جواب دیا جاوے اور زبانی مباحثات مظنّہءِ فساد ہوتے ہیں.قصیدہ اعجازیہ قاضی ظفر الدین متوفّی کے قصیدہ کا ذکر ہوا جو اس نے حضرت کے قصیدہ کے مقابلہ میں بنایا تھا اور اس کو خدا نے اتنی فرصت نہیں دی کہ اس کو شائع کر سکے.اب اس کو ثناء اللہ چھاپتا ہے.حضرت نے فرمایا.قصیدہ بنانے والا تو اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا اورجہان سے رخصت ہوگیااور وہ اس کو اپنی زندگی میں بھی شائع نہ کر سکا.ثناء اللہ کو تو اتنی بھی لیاقت نہیں کہ اس کی تصحیح کر سکے.۱ ۱۷؍فروری ۱۹۰۷ء خدا تعالیٰ کا غضب اور آفات سماوی حضرت حکیم الامت نے کسی شخص کا مقولہ بیان فرمایا کہ وہ کہتا ہے کہ زلزلے بیماریاں آیا ہی کرتی ہیں.ان کو خدا کے غضب سے کیا تعلق ہے؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.ایسے لوگوں کو خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں ہوتا.قرآن کریم کے منکر ہیں.دہریے ہیں.کیا موسیٰ، نوح علیہما السلام کے وقت میں یونہی بیماریاں آتی تھیں یا کہ خدا تعالیٰ نے ان کا کوئی سبب بیان فرمایا ہے؟ فرمایا.اس دفعہ طاعون خطرناک شکل پکڑتی جاتی ہے.ہمیں تو اس سے خوشی ہوتی ہے کیونکہ اس سے خدا تعالیٰ کی ہستی اور دنیا کی ناپائیداری اہلِ دنیا پر ثابت ہو رہی ہے.خدا را بخدا تواند شناخت.سوفسطائی جو حقیقت اشیاء کے منکر ہیں ان کا جواب یہی لکھا ہے کہ ان کو جب آگ میں ڈالا

Page 111

جاتا ہے تو تب حقیقت اشیاء کے قائل ہوجاتے ہیں.اب اللہ تعالیٰ اپنی ہستی کا ثبوت دنیا پر واضح فرمارہا ہے.سعد اللہ لدھیانوی سعد اللہ لدھیانوی کا ذکر ہوا تو فرمایا.میں نے اپنے قصیدہ انجام آتھم میں اس کے متعلق لکھا تھا.اٰذَیْتَنِیْ خُبْثًا فَلَسْتُ بِصَادِقٍ اِنْ لَّمْ تَـمُتْ بِالْـخِزْیِ یَا ابْنَ بَغَاءِ یعنی خباثت سے تو نے مجھے ایذا دی ہے.پس اگر تو اب رسوائی سے ہلاک نہ ہوا تو میں اپنے دعویٰ میں سچا نہ ٹھہروں گا.اے سرکش انسان! فرمایا.اسی طرح سعد اللہ نے بھی میرے حق میں لکھا ہے کہ تیرا اخذ یمین اور قطع وتین اور تیرا سلسلہ تباہ ہوگا.اب یہ اس نے مباہلہ کر لیا تھا.دیکھو اب کون تباہ و ہلاک ہو.یہ بھی مباہلہ کا نتیجہ تھا کہ وہ لکھتا ہے کہ یہ کذاب ہے.اب دیکھو کہ کذاب کا یہی حال ہوا کرتا ہے کہ اس کے مقابل پر مومن اور سچے ہلاک ہوتے جاویں؟ ہر اَمر میں کاذب غالب ہو اور اس کو خدا کی نصرت ملتی جاوے اور خدا تعالیٰ سچوں پر تباہی اور ہلاکت وارد کرتا جاوے؟ ہماری صداقت کا آفتاب چڑھ آیا ہے.کیا خدا دجالوں اور کاذبوں کے ساتھ ایسا ہی کرتا آیا ہے کہ کاذبوں کو مہلت دیتا جاوے اور ان کے مقابل سچوں کو ہلاک کرتا جاوے؟ کیا اس بات کا ثبوت کسی سابق زمانہ میں کوئی کبھی گذرا ہے کہ خدا نے ایسا کیا ہو؟ دراصل اب دنیا میں دہریت پھیل گئی ہے.اب تو ہماری صداقت کا آفتاب چڑھ آیا ہے.یہ وہ امور ہیں جن سے خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ملتا ہے.۱ (بوقتِ ظہر) خدا تعالیٰ کے اِذن کے بغیر کوئی سبب مؤثر نہیں آج کل جو خطرناک امراض ترقی پذیر ہو رہے ہیں ان کے متعلق ذکرہونے

Page 112

پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تقریر فرما رہے تھے.جب خاکسار۱ حاضر ہوا تو کلمات ذیل بر زبان دُرّ افشاں جاری تھے.توحید اسلام ہی کی توحید ہے.اسلام سکھلاتا ہے کہ جو زہریلے ذرّات انسان کے اندر جا کر خطرناک امراض کا باعث ہوتے ہیں.وہ سب خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت چلتے اور اثر پذیر ہوتے ہیں.بغیر اذنِ الٰہی کوئی ذرّہ اثر نہیں کر سکتا.لہٰذا خدا تعالیٰ کے آگے تضرّع و زاری کرنی چاہیے کہ وہ زہریلے ذرّات و مواد کے اثر سے محفوظ رکھے.اگر زہریلے ذرّات و مواد انسان کے اندر خود بخود اثر پذیر ہوتے تو پھر ان ذرّات کے آگے ہاتھ جوڑنے پڑتے کہ اثر نہ کریں مگر ایسا اَمر نہیں ہے بلکہ کوئی چیز و ذرّہ خدا تعالیٰ کے حکم و اذن کے سوا اثر نہیں کر سکتا.۲ ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء (بوقتِ ظہر) ایک الہام کی تشریح ذکر ہوا کہ اخبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ طاعون روز بروز ترقی پکڑتی جاتی ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا.شاید وہ جو ہمارا الہام ہے ایک ہفتہ تک ایک بھی باقی۳ نہ رہے گا.یہ خاص اشخاص کے متعلق ہو اور اس کا ظہور اس شکل میں ہو.کل دہلی سے خط آیا کہ مولوی عبد المجید دہلوی جو ہمارا سخت معاند تھا یکا یک مَر گیا.ایسا ہی ایک اور بڑے معاند کی مَرگِ مفاجات کا ذکر تھا.نواب بہاولپور کا حسن خاتمہ نواب بہاولپوری کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا.میرے نزدیک اس کا خاتمہ اچھا ہوا.اس خاندان کا پیر عنی ایڈیٹر صاحب الحکم (مرتّب) ۲الحکم جلد ۱۱ نمبر ۸ مورخہ ۱۰؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۹ ۳ بدر میں ’’نہ ‘‘ کی بجائے ’’نہیں ‘‘ کا لفظ ہے.(مرتّب) (بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخہ ۲۱؍ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳)

Page 113

(غلام فرید صاحب مرحوم ساکن چاچڑاں) ہمارا معتقد تھا.نواب بہاولپور شاید اس نوجوانی کی عمر میں واپس آتا تو غلطیوں میں مرتکب ہوجاتا.اس کا حسن خاتمہ بطور یادگار رہے گا.(بوقتِ عصر) آداب تلاوت ایک صاحب نے سوال کیا کہ قرآن شریف کس طرح پڑھا جاوے؟ حضرت اقدس نے فرمایا.قرآن شریف تدبر و تفکر اور غور سے پڑھنا چاہیے.حدیث شریف میں آیا ہے رُبَّ قَارٍ یَّلْعَنْہُ الْقُرْاٰنُ یعنی بہت ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآن لعنت بھیجتا ہے.جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہے.تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیت رحمت پر گذر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبر و غور سے پڑھنا چاہیے اور اس پر عمل کیا جاوے.۱ امیر حبیب اللہ خان والیءِ افغانستان یہ ڈائری اس وقت کی ہے جبکہ حضرت اقدس اندر کے مکان میں ہوتے ہیں اور اس کو صاحبزادہ حضرت مرزا محمود احمد صاحب نے لکھ کر اپنے رسالہ تشحیذ الاذہان کے جلد ۲ نمبر ۱ میں درج کیا ہے.اور وہاں سے ہم نقل کرتے ہیں.امیر حبیب اللہ خاں والیءِ افغانستان کی آمد پر فرمایا کہ لوگ اس کے لیے بڑے بڑے جلسے کرتے ہیں اور اس کے آنے پر خوش ہیں.مگر ہم اس کا آنا نہ آنا برابر سمجھتے ہیں ہم اس آدمی کی پروا ہی کیا کرتے ہیں جو خدا کے احکام پر عمل نہ کرے.ہمارا بادشاہ خدا ہے اور امیر حبیب اللہ اس کا مجرم ہے کیونکہ اس نے بلا کسی حق کے صاحبزادہ عبداللطیف کو صرف اس لیے کہ وہ گورنمنٹ انگریزی سے جہاد کو ناجائز قرار دیتے تھے قتل کیا اور پھر نہایت بےدردی کے ساتھ.ایسے شخص کے لیے خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ

Page 114

جَهَنَّمُ(النّسآء:۹۴) یعنی جو شخص کہ ایک مومن کو بلاکسی کافی عذر کے قتل کر دے پس اس کی سزا جہنم ہے.پس ہم تو الٰہی فیصلہ کے منتظر ہیں اور یہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے شخص پر میرا غضب نازل ہوگا.پس خدا کے غضب سے اور کون سی چیز ہے جو خطرناک ہے! مسواک کو پسند فرمانا حضرت صاحب مسواک کو بہت پسند فرماتے ہیں اور علاوہ مسواک کے اور مختلف چیزوں سے دن میں کئی دفعہ دانتوں کو صاف کرتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی سنّت تھی.پس سب کو چاہیے کہ اس طرف بھی توجہ رکھا کریں.آزمائش کے بغیر ایمان کوئی حقیقت نہیں رکھتا فرمایا کہ لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم مومن ہیں اور مسلمان ہیں لیکن وہ اصل میں نہیں ہوتے.زبانی اقرار تو ایک آسان بات ہے لیکن کر کے دکھانا اور بات ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ(العنکبوت:۳) یعنی کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ وہ مومن اور پکے ایماندار ہیں اور ابھی وہ آزمائے نہیں گئے.پس جب تک کہ آزمائش نہ ہو ایمان کوئی حقیقت نہیں رکھتا.بہت لوگ ہیں جو آزمائش کے وقت پھسل جاتے ہیں اور تکلیف کے وقت ان کا ایمان ڈگمگا جاتا ہے.ایک یہودی کا قصہ ہے جو کہ ایک بڑا طبیب گذرا ہے اور جس کا نام ابو الخیر تھا کہ ایک دفعہ وہ ایک کوچہ میں سے گذر رہا تھا جبکہ اس نے ایک شخص کو یہ پڑھتے ہوئے سنا کہ اَحَسِبَ النَّاسُ الآیۃ.اگرچہ وہ یہودی تھا.اس نے آیت کو سن کر اپنے ہاتھوں سے ایک دیوار پر ٹیک لگا لی اور سر جھکا کر رونے لگا.جب رو چکا تو اپنے گھر آیا اور جب وہ سو گیا تو اس نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور انہوں نے آکر فرمایا کہ اے ابو الخیر! تعجب ہے کہ تیرے جیسا فضل و کمال والا انسان مسلمان نہ ہو.صبح جب اٹھا تو اس نے تمام شہر میں اعلان کر دیا کہ میں آج مذہب اسلام قبول کرتا ہوں.فرمایاکہ یہود کا قبول اسلام یہودی اگرچہ آجکل بہت تھوڑے ہیں لیکن وہ اصل میںبہت سے مسلمان ہوگئے تھے جیسا کہ اوپر ایک قصہ بیان بھی کیا ہے.کچھ تو

Page 115

آنحضرت کے زمانہ میں اور کچھ دیگر سلاطین کے زمانہ میں.ایک شخص کا قصہ ہے کہ اس نے ایک یہودی کو بہت نصیحت کی کہ تو مسلمان ہوجا.اس یہودی نے جواب دیا کہ میں جانتا ہوں کہ اسلام کوئی آسان مذہب نہیں.صرف منہ سے کہہ دینا کوئی بڑی بات نہیں کہ ہم مسلمان ہیں.میں نے ایک اپنے بیٹے کا نام خالد رکھا تھا یعنی ہمیشہ رہنے والا اور دوسرے دن کو اس کو گاڑ بھی آیا تھا.پس صرف نام رکھانے سے کچھ نہیں ہوتا.مگر انسان کا نام رکھا ہوا اگر خطا جاتا ہے تو خدا کا نہیں.خدا جس کا نام رکھتا ہے وہی ٹھیک ہوتا ہے.خواب اور تعبیر ایک دفعہ ہمارے والد صاحب نے ایک خواب دیکھا کہ آسمان سے تاج اترا اور انہوں نے فرمایا یہ تاج غلام قادر کے سر پر رکھ دو(آپ کے بڑے بھائی) مگر اس کی تعبیر اصل میں ہمارے حق میں تھی جیسا کہ اکثر دفعہ ہوجاتا ہے کہ ایک عزیز کے لیے خواب دیکھو اور وہ دوسرے کے لیے پوری ہوجاتی ہے.اور دیکھو کہ غلام قادر تو وہی ہوتا ہے جو قادر کا غلام اپنے آپ کو ثابت بھی کر دے اور انہیں دنوں میں مجھ کو بھی ایسی ہی خوابیں آتی تھیں.پس میں دل میں سمجھتا تھا کہ یہ تعبیر الٹی کرتے ہیں.اصل میں اس سے مَیں مراد ہوں.سید عبد القادر جیلانیؒ نے بھی لکھا ہے کہ ایک زمانہ انسان پر ایسا آتا ہے کہ اس کا نام عبد القادر رکھا جاتا ہے جیسا کہ میرا نام بھی خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے عبدالقادر رکھا ہے.حقہ نوشی فرمایا کہ انسان عادت کو چھوڑ سکتا ہے بشرطیکہ اس میں ایمان ہو اور بہت سے ایسے آدمی دنیا میں موجود ہیں جو اپنی پرانی عادات کو چھوڑ بیٹھے ہیں.دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ جو ہمیشہ سے شراب پیتے چلے آئے ہیں بڑھاپے میں آکر جبکہ عادت کا چھوڑنا خود بیمار پڑنا ہوتا ہے بلاکسی خیال کے چھوڑ بیٹھتے ہیں اور تھوڑی سی بیماری کے بعد اچھے بھی ہوجاتے ہیں.میں حقہ کو منع کہتا اور نہ جائز قرار دیتا ہوں مگر ان صورتوں میں کہ انسان کو کوئی مجبوری ہو.یہ ایک لغو چیز ہےاور اس سے انسان کو پرہیز کرنا چاہیے.۱

Page 116

(بوقتِ عصر) جاپان کی نسبت کسی نے کچھ استفسار کیا.فرمایا.آج کل ان لوگوں کی توجہ دنیا کی طرف ہے پس مذہب کی طرف کب توجہ کرتے ہیں.ہاں اسباب ایسے جمع ہو رہے ہیں جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کم از کم اپنے مذہب سے بے زار ہیں اور ان کا مذہب ہے ہی کیا؟ کچھ بھی نہیں.بہرحال یہ امید غالباً صحیح نہ نکلے گی کہ وہ عیسائی ہوجائیں.کیونکہ ایسا مذہب تو ان کا اپنا بھی ہے.ترقی و تمدن کے تمام لوازمات انہیں اگر کسی مذہب پر بر انگیخت کر سکتے ہیں تو وہ ’’اسلام‘‘ ہے کیونکہ یہی ایک مذہب ہے جس میں تمام خوبیاں ہیں اور کسی انسان کے بیٹے کو خدا نہیں بنایا جاتا.۲.مومن کے مقابلہ میں کذاب کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا سچے میں سچ کی ایک ایسی طاقت ہوتی ہے کہ بڑے بڑے بہادر اس کے مقابلہ سے جھجکتے ہیں.خدا تعالیٰ نے حق میں ایک قوت غلبہ رکھی ہے.یہ لوگ اتنا نہیں سوچتے کیا خدا مکّاروں مفتریوں کی ایسی نصرت و تائید کیا کرتا ہے جو میری کی؟ خدا نے میرے مخالفوں کو ہر بات میں جھوٹا کیا مگر افسوس انہوں نے بہت کم فائدہ اٹھایا.حقیقت الوحی ایک ایسا مجموعہ نشانات طیار ہوگا کہ دشمن کو مجال گریز نہ رہے گی آخر کس کس بات کو جھٹلائیں گے.کچھ تو ماننا پڑے گا.۱ ۲۳؍فروری ۱۹۰۷ء (بوقتِ عصر) فرمایا.دنیا داروں میں کچھ نہ کچھ پرخاش رہتی ہے اس کی وجہ وہی گند ہے جو دونوں دلوں میں پنہاں ہوتا ہے خواہ کتنا چھپائیں مگر آخر کسی نہ کسی وقت وہ مادہ پھوٹ نکلتا ہے.قصاب خواہ دو سگے بھائی ہوں تو بھی ایک دوسرے سے سلوک نہیں رکھ سکتے.ایک کی دکان

Page 117

سے گوشت لیں تو دوسرا کہے گا لے لو مگر بھیڑ کا ہے یہ کہے گا اس کا بکرے کا ہے مگر مریض.انبیاء کی بھی دنیا کے فرزندوں کے ساتھ دشمنی ہوتی ہے مگر وہ کوئی ذاتی عداوت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتی ہے وہ اپنی طرف سے کسی کے ساتھ نہیں جھگڑتے.دیکھئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ۱۳ برس تک جوروستم سہنے پڑے.اور پھر مدافعت کا حکم دیا گیا.اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا(الـحج:۴۰) سے ظاہر ہے کہ پہلے جواب تک دینے کا بھی حکم نہیں تھا.اسی لئے دو اصل فرمائے ایک تو اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ(الاعراف:۲۰۰) جن لوگوں میں جہالت کا مادہ ہو جو تکبر سے بھرئے ہوئے جھگڑالو ہوں ان سے اعراض کرنا چاہیے.ان کی باتوں کا جواب ہی نہ دیا جاوے.دوم.اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ(حٰمٓ السجدۃ:۳۵)یعنی بدی کے مقابلہ میں نیکی کرنا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دوست بن جاتا ہے اور دوست بھی ایسا کہ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ(حٰمٓ السجدۃ:۳۵).۱ ۲۵؍فروری ۱۹۰۷ء (بوقتِ ظہر) نشانات کا ظہور فرمایا.اب تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر اتمامِ حجّت کر دی ہے.نشان پر نشان ظاہر ہو رہا ہے وہ جو حدیث میں آیا ہے کہ جیسے تسبیح کے دانے ٹوٹ پڑتے ہیں.اسی طرح متواتر نشان ظاہر ہوں گے.اسی وقت کے لیے تھا چنانچہ تم دیکھ رہے ہو کہ ایک نشان پورا ہو رہتا ہے تو اس کے ساتھ ہی دوسرا پورا ہوجاتا ہے.طاعون کے متعلق ایک شخص نے ذکر کیا کہ لدھیانہ میں پانچ جنازے ایک گھر کے ایک ہی وقت میں نکلے.دوسرے نے یہاں سے بارہ چودہ کوس کے فاصلہ پر ایک گاؤں کا ذکر کیا کہ وہاں نو آدمی ایک کنبے کے اکٹھے رات کو چنگے بھلے سوئےا ور صبح سات مُردہ پائے گئے.پھر کچھ دیر کے بعد ایک لڑکا مَر گیا.آپ نے فرمایا.یہ خدا تعالیٰ کے قہری نشان ہیں.افسوس! کہ لوگ اس پر بھی نہیں سمجھتے.

Page 118

الہام اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ جب تک خلقت رجوع الی الحق نہ کرے گی یہ بیماری نہ جائے گی.دیکھو! اس سال سب کی رائے یہ بندھی تھی کہ طاعون سے یہ ملک بہت کچھ پاک ہوگیا ہے اور اب عنقریب بالکل صاف ہوجائے گا مگر اس سال پچھلے سالوں سے بڑھ کر حملہ ہوا ہے.ایسا حملہ کہ کئی گھرانے تباہ ہوگئے ہیں.بعض گاؤں کے گاؤں خالی ہوگئے.وہ جو قرآن مجید میں ہے وَ اِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا (بنی اسـرآءیل:۵۹) سب کچھ پورا ہو رہا ہے.قادیان کے متعلق مجھے الہام ہوا تھا لَوْ لَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ یعنی یہ گاؤں بھی ہلاکت کا مستوجب تھا مگر اکرام کے سبب محفوظ رکھ لیا گیا جس کے متعلق اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ ہے.اٰوٰی کے معنے تمام لغت کی کتابوں میں یہی لکھے ہیں کہ کسی مصیبت کے بعد پناہ دینا.قرآن مجید میں بھی انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے.اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًا فَاٰوٰى (الضُّحٰی:۷) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے قادیان میں کچھ عذاب طاعون آنا تھا اور پھر اس کے بعد حفاظت ہوگی.شرع میں حیلہ عاجز اکمل نے آیت خُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْ (صٓ:۴۵) کی نسبت پوچھا کہ اگر اس کے وہ معنی کئے جاویں جو عام مفسروں نے کئے ہیں تو شرع میں حیلوں کا باب کھل جائے گا.آپ نے فرمایا.چونکہ حضرت ایوبؑکی بیوی بڑی نیک، خدمت گذار تھی اور آپ بھی متقی صابر تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے تخفیف کردی اور ایسی تدبیر سمجھادی جس سے قسم بھی پوری ہوجائے اور ضرر بھی نہ پہنچے.اگر کوئی حیلہ اللہ تعالیٰ سمجھائے تو وہ شرع میں جائز ہے کیونکہ وہ بھی اسی راہ سے آیا جس سے شرع آئی.اس لیے کوئی ہرج کی بات نہیں.۱

Page 119

۲۶؍فروری ۱۹۰۷ء (بوقتِ ظہر) حضرت اقدس نے جو رسالہ ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ لکھا ہے وہ چھپ کر شائع ہوگیا ہے.بعض مخالفین کو بھی ارسال کرنے کے لیے فرمایا.فرمایا.قلوب کئی قسم کے ہوتے ہیں.بعض کو نثر اور بعض کو نظم سے اثر ہوتا ہے.ایک شخص کو صرف ہماری براہین احمدیہ کی نظم سے اثر ہوا.اور وہ ہمارے پاس پہنچا.پھر بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن سال گذشتہ کا الہام ہے.اس کے متعلق ذکر ہوا کہ ہر طرف سے خبریں آرہی ہیں کہ اس سال غیر معمولی سردی پڑی ہے اور یہ پیشگوئی پوری ہوگئی.(بوقتِ عصر) آریوں کے گندے اعتقادات کا ذکر ہوا.فرمایا.آریوں کا اعتقاد ہے کہ خدا نے تو کچھ پیدا ہی نہیں کیا اور اولاد حرام طور پر حاصل کرنے کے شائق ہیں.۱ یکم مارچ ۱۹۰۷ء طاعون زدہ گاؤں سے باہر کھلی جگہ ڈیرہ لگانا چاہیے ایک دوست نے ذکر کیا کہ ہمارے گاؤں میں طاعون ہے.فرمایا کہ گاؤں سے فوراً باہر نکل جاؤ اور کھلی ہوا میں اپنا ڈیرہ لگاؤ.مت خیال کرو کہ طاعون زدہ

Page 120

جگہ سے باہر نکلنا انگریزوں کا خیال ہے اور اس واسطے اس کی طرف توجہ کرنا فرض نہیں.یہ بات نہیں طاعون والی جگہ سے باہر نکلنا یہ فیصلہ شرعی ہے.گندی ہوا سے اپنے آپ کو بچاؤ.جان بوجھ کر ہلاکت میں مت پڑو اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ سے اپنے گناہ بخشواؤ کہ وہ قادر خدا ہے اور سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے باوجود ان احتیاطوں کے اگر تقدیر الٰہی آجاوے تو صبر کرو.۱ ۳؍مارچ ۱۹۰۷ء (قبل نماز ظہر) دین کو مقدم رکھیں سید حبیب اللہ صاحب آئی،سی،ایس مجسٹریٹ۲ آگرہ۳ بمع ایک عزیز رفیق کے قبل نماز ظہر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوگئے ان کو مخاطب کرکے حضرت نے فرمایا کہ اتنی تکلیف اٹھا کر اس جگہ کوئی شخص بغیر قوت ایمانی کے نہیں آسکتا.دنیا داری کے خیال سے تو یہاں آنا گویا اپنے وقت کو ضائع کرنا سمجھا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے.فرمایا.دین اور دنیا ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے سوائے اس حالت کے جب خدا چاہے تو کسی شخص کی فطرت کو ایسا سعید بنائے کہ وہ دنیا کے کاروبار میں پڑ کر بھی اپنے دین کو مقدم رکھے.اور ایسے شخص بھی دنیا میں ہوتے ہیں.چنانچہ ایک شخص کا ذکر تذکرۃ الاولیاء میں ہے کہ ایک شخص ہزارہا روپیہ کے لین دین کرنے میں مصروف تھا ایک ولی اللہ نے اس کو دیکھا اور کشفی نگاہ اس پر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا دل باوجود اس قدر لین دین روپیہ کے خدا تعالیٰ سے ایک دم غافل نہ تھا.ایسے ہی آدمیوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ لَا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ (النّور:۳۸) کوئی تجارت اور خرید و فروخت ان کو غافل نہیں کرتی اور انسان کا کمال بھی یہی ہے کہ دنیوی کاروبار میں بھی مصروفیت ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۲۰ مورخہ ۱۶؍ مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۶ ۲ الحکم سے.’’ جو گورنمنٹ انڈیا کی طرف سے امیر کابل کے ہمراہ تھے.‘‘(الحکم جلد ۱۱ نمبر ۹ مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۷ءصفحہ ۱۰) ۳ الحکم نے مجسٹریٹ الٰہ آباد لکھا ہے.(مرتّب)

Page 121

رکھے اور پھر خدا کو بھی نہ بھولے.وہ ٹٹو کس کام کا ہے جو بر وقت بوجھ لادنے کے بیٹھ جاتا ہے اور جب خالی ہو تو خوب چلتا ہے.وہ قابل تعریف نہیں.وہ فقیر جو دنیوی کاموں سے گھبرا کر گوشہ نشین بن جاتا ہے وہ ایک کمزوری دکھلاتا ہے.اسلام میں رہبانیت نہیں.ہم کبھی نہیں کہتے کہ عورتوں کو اور بال بچوں کو ترک کردو اور دنیوی کاروبار کو چھوڑ دو.نہیں بلکہ ملازم کو چاہیے کہ اپنی ملازمت کے فرائض ادا کرے اور تاجر اپنی تجارت کے کاروبار کو پورا کرے لیکن دین کو مقدم رکھے.۱ اس کی مثال خود دنیا میں موجود ہے کہ تاجر اور ملازم لوگ باوجود اس کے کہ وہ اپنی تجارت اور ملازمت کو بہت عمدگی سے پورا کرتے ہیں.پھر بھی بیوی بچے رکھتے ہیں اور ان کے حقوق برابر ادا کرتے ہیں.ایسا ہی ایک انسان ان تمام مشاغل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حقوق کو ادا کر سکتا ہے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر بڑی عمدگی سے اپنی زندگی گذار سکتا ہے.خدا کے ساتھ تو انسان کا فطرتی تعلق ہے کیونکہ اس کی فطرت خدا تعالیٰ کے حضور میں اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ(الاعراف:۱۷۳) کے جواب میں قَالُوْا بَلٰى کا اقرار کر چکی ہوئی ہے.یاد رکھو کہ وہ شخص جو کہتا ہے کہ جنگل میں چلا جائے اور اس طرح دنیوی کدورتوں سے بچ کر خدا کی عبادت اختیار کرے وہ دنیا سے گھبرا کر بھاگتا ہے اور نامردی اختیار کرتا ہے.دیکھو! ریل کا انجن بےجان ہو کر ہزاروں کو اپنے ساتھ کھینچتا ہے اور منزل مقصود پر پہنچاتا ہے.پھر افسوس ہے اس جاندار پر جو اپنے ساتھ کسی کو بھی کھینچ نہیں سکتا.انسان کو خدا تعالیٰ نے بڑی بڑی طاقتیں بخشی ہیں.اس کے اندر طاقتوں کا ایک خزانہ خدا تعالیٰ نے رکھ دیا ہے لیکن وہ کسل کے ساتھ اپنی طاقت کو ضائع کر دیتا ہے اور عورت سے بھی گیا گذرا ہوجاتا ہے.قاعدہ ہے کہ جن قویٰ کا استعمال نہ کیا جائے وہ رفتہ رفتہ ضائع ہوجاتے ہیں.اگر چالیس دن تک کوئی شخص تاریکی میں رہے تو اس کی آنکھوں کا نور الحکم میں ہے.’’تجارت کرو.نوکری کرو.دنیا کے کام کرو.مگر خدا تعالیٰ کو نہ بھولو.جو لوگ بیوی بچوں اور روزگار دنیا کے تعلقات میں ہو کر خدا سے غافل ہوجاتے ہیں وہ نامرد ہوتے ہیں.‘‘ (الحکم جلد ۱۱ نمبر ۹ مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰)

Page 122

جاتا رہتا ہے.ہمارے ایک رشتہ دار تھے انہوں نے فصد کرایا تھا.جراح نے کہہ دیا کہ ہاتھ کو حرکت نہ دیں.انہوں نے بہت احتیاط کے سبب بالکل ہاتھ کو نہ ہلایا.نتیجہ یہ ہوا کہ ۴۰ دن کے بعد وہ ہاتھ بالکل خشک ہوگیا.انسان کے قویٰ خواہ روحانی ہوں اور خواہ جسمانی جب تک کہ ان سے کام نہ لیا جائے وہ ترقی نہیں پکڑ سکتے.۱ بعض لوگ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ جو شخص اپنے قویٰ سے خوب کام لیتا ہے اس کی عمر بڑھ جاتی ہے.بے کار ہو کر انسان مُردہ ہوجاتا ہے بیکار ہوا تو آفت آئی.۲ مہمان کا حق سید حبیب اللہ صاحب کو مخاطب کر کے حضرت نے فرمایا کہ آج میری طبیعت علیل تھی اور میں باہر آنے کے قابل نہ تھا مگر آپ کی اطلاع ہونے پر میںنے سوچا کہ مہمان کا حق ہوتا ہے جو تکلیف اٹھا کر آیا ہے اس واسطے میں اس حق کو ادا کرنے کے لیے باہر آگیا ہوں.علماء زمانہ کا رویہ فرمایا.خدا کی قدرت ہے کہ ہمارے سلسلہ کے متعلق علماء زمانہ نے بےدیکھے سمجھے فتویٰ دے دیا اور ہم کو نصاریٰ سے بھی بدتر لکھا.ان کو چاہیے تھا کہ پہلے ہمارے حالات کی تحقیقات کرتے.ہماری کتابیں اچھی طرح سے پڑھ لیتے پھر جو انصاف ہوتا وہ کرتے.تعجب ہے کہ یہ لوگ اب تک اسلام کی حالت سے غافل ہیں گویا ان کو معلوم ہی نہیں کہ اسلام کس شکنجہ میں پڑا ہے.اسلام کی اندرونی حالت بھی اس وقت خراب ہے اور بیرونی حالت بھی خراب ہو رہی ہے.۱ الحکم سے.’’انسان کو خدا نے دل تدبّر و تفکّر کے لیے دیا ہے.لوگ تدبّر و تفکّر سے کام نہیں لیتے.اس سے دل سیاہ ہوجاتے ہیں.‘‘ (الحکم جلد ۱۱ نمبر ۹ مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰) ۲بدر جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخہ ۱۴؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۶

Page 123

وفات و حیاتِ مسیح سارا زور ان لوگوں کا اس بات پر ہے کہ حضرت عیسیٰ زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں.حالانکہ نہیں سوچتے کہ یہ بات تو قرآن شریف میںلکھی ہےکہ وہ فوت ہوچکے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر شہادت دی ہے کہ میں ان کو مُردوں میں دیکھ آیا ہوں.قرآن شریف میں پہلے توفّی کا لفظ ہے اور رفع اس کے بعد۱ ہے.پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ حضرت عیسٰیؑ کے زندہ ماننے میں اسلام کو کیا فائدہ حاصل ہے؟ سوائے اس کے کہ عیسائیوں کے جھوٹے خدا کو ایک خصوصیت حاصل ہو جاتی ہے اور عیسائی لوگ حضرت عیسیٰ کو خدا بنا لیتے ہیں.اور جاہل مسلمانوں کو دھوکا دے کر عیسائی بنا لیتے ہیں.یسوع کو زندہ ماننے کا یہ نتیجہ ہے کہ ایک لاکھ مسلمان مرتد ہو کر عیسائی ہوگیا ہے.یہ نسخہ تو آزمایا جا چکا ہے.اب چاہیے کہ دوسرا نسخہ بھی چند روز آزما لیں جو ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے تھے.قاعدہ ہے کہ جب ایک دوائی سے فائدہ حاصل نہ ہو تو انسان دوسری کو استعمال کر لے.ہم نے دیکھا ہے کہ عیسائیت کو مٹانے کے واسطے اس سے بڑا اور کوئی ہتھیار نہیں کہ جس وجود کو وہ خدا بناتے ہیں اسے مُردوں میں داخل ثابت کیا جائے.پہلے پادری لوگ قادیان میں بہت آیا کرتے تھے اور خیموں میں ڈیرے لگاتے تھے اور وعظ کیا کرتے تھے مگر جب سے ہم نے یہ دعویٰ کیا ہے انہوں نے قادیان آنا بالکل چھوڑ دیا ہے.ایسا ہی لاہور میں لارڈ بشپ نے ایک بڑے مجمع میں مسیح کی زندگی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ایک بڑا لیکچر دے کر حضرت مسیح کی فضیلت آنحضرتؐپر ثابت کرنی چاہی تھی.تب کوئی مسلمان بھی اس کا جواب نہ دے سکا.لیکن ہماری جماعت میں سے مفتی محمد صادق صاحب نے اٹھ کر ۱ الحکم سے.’’رفع کے لفظ کو لیے پھرتے ہیں حالانکہ قرآن شریف میں مسیح علیہ السلام کے فوت ہونے کا بار بار ذکر ہوچکا ہے.‘‘ (الحکم جلد ۱۱ نمبر ۹ مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰) ۲ الحکم سے.’’آخر اس نے جواب دیا کہ تم میرزائی معلوم ہوتے ہو.ہمارے مخالف مسلمانوں نے اس وقت کہا کہ یہ لوگ کافر تو ہیں مگر ہمارے کام آئے.ہم کو مدد دی اور ہماری عزّت رکھ لی تھی.‘‘ (الحکم جلد ۱۱ نمبر ۹ مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰)

Page 124

جواب دیا اور کہا کہ قرآن شریف اور انجیل ہر دو سے ثابت ہے کہ حضرت عیسٰیؑ فوت ہوچکے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں کیونکہ آپ سے فیض حاصل کر کے معجزات دکھانے والے اب تک موجود ہیں.اس سے بشپ لاچار ہوگیا.۲ اور اس نے ہماری جماعت کے ساتھ گفتگو کرنے سے بالکل گریز کیا.ہمارے اصول عیسائیوں پر ایسے پتھر ہیں کہ وہ ان کا ہرگز جواب نہیں دے سکتے.یہ مولوی لوگ بڑے بد قسمت ہیں جو ترقی اسلام کی راہ روکتے ہیں.عیسائیوں کا تو سارا منصوبہ خود بخود ٹوٹ جاتا ہے جبکہ ان کا خداہی مَر گیا تو پھر باقی کیا رہا؟ اسلام کے لیے موسم بہار کی آمد اسلام نے بڑے بڑے مصائب کے دن گذارے ہیں.اب اس کا خزاں گذر چکا ہے اور اب اس کے واسطے موسم بہار ہے اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا(الـم نشـرح:۷) تنگی کے بعد فراخی آیا کرتی.تنگی کے بعد فراخی آیا کرتی ہے مگر ملاں لوگ نہیں چاہتے کہ اسلام اب بھی سرسبزی اختیار کرے.اسلام کی حالت اس وقت اندرونی بیرونی سب خراب ہوچکی ہوئی ہے.ظاہری سلطنت اسلامی جو کچھ ہے وہ بھی نہایت ضعف کی حالت میں ہے اور اندرونی حالت یہ ہے کہ ہزاروں گرجاؤں میں جا بیٹھے ہیں اور بہت سے دہریہ ہوگئے ہیں.جب یہ حالت اسلام کی ہوچکی تو کیا وہ خدا جس کا وعدہ تھا کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر:۱۰) ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں.کیا وقت نہیں آیا کہ اب بھی اسلام کی حفاظت کرے؟ چودھویں صدی کا مجدّد فرمایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ لوگ تکذیب کرتے ہیں کہ اس صدی کے مجدّد کو نہیں مانتے.کیا آپ نے نہیں فرمایا تھا کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدّد ہوگا؟ صدی سے پچیس سال گزر گئے یعنی پورا چوتھا حصہ صدی کا طے ہوگیا ہے.اب بتائیں کہ وہ مجدّد کون ہے اور کہاں ہے؟ ہم سے پہلے سب لوگ اس مجدّد کے منتظر تھے بلکہ صدیق حسن خان کا یہ خیال تھا کہ شاید میں ہی بن جاؤں اور عبد الحی لکھو کے والے کا بھی ایسا ہی

Page 125

خیال تھا.مگر اپنے خیال سے کیا بنتا ہے جب تک خدا کسی کو نہ بنائے کون بن سکتا ہے.جس کو خدا تعالیٰ کسی کام پر مامور کرتا ہے وہ اس کو عمر عطا کرتا ہے.اسے اس کے کام کے واسطے توفیق عطا کرتا ہے.اس کے لیے اسباب مہیا کرتا ہے.دوسرے لوگ اپنے خیال میںہی مَر کھپ جاتے ہیں اور ان سے کچھ بن نہیں سکتا.کوئی جھوٹاتحصیلدار بھی بنے تو دو چار روز کے بعد گرفتار ہو کر جیل خانہ میں چلا جاتا ہے چہ جائیکہ کوئی خدا کی طرف سے مامور اپنے آپ کو کہے حالانکہ وہ مامور نہ ہو.۱ نماز میں امام ذکر ہوا کہ چکڑالوی کا عقیدہ ہے کہ نماز میں امام آگے نہ کھڑا ہو بلکہ صف کے اندر ہو کر کھڑا ہو.فرمایا.امام کا لفظ خود ظاہر کرتا ہے کہ وہ آگے کھڑا ہو.یہ عربی لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں وہ شخص جو دوسرے کے آگے کھڑا ہو.معلوم ہوتا ہے کہ چکڑالوی زبانِ عربی سے بالکل جاہل ہے.۲ قِیَامَ فِیْ مَا اَقَامَ اللہُ ایک صاحب نے اپنا ایک خواب بیان کیا جس میں کسی بڑے کام کے کرنے کی طرف اشارہ تھا مگر اس کام کے واسطے سامان سردست مہیا نہ تھے اور ان کا منشا تھا کہ خواب کی بنا پر فوراً اس کام کو شروع کر دیں.حضرت نے فرمایا کہ بعض خوابیں مدت کے بعد پوری ہونے والی ہوتی ہیں.جب تک کہ اس کام کے واسطے اللہ تعالیٰ اسباب مہیا نہ کرے تب تک صبر کے ساتھ انتظارکرنا چاہیے.دیکھو ۱ الحکم سے.’’اب دیکھو جو شخص انسانی سلطنت میں جھوٹا دعویدار، تحصیلداری یا چپڑاسی ہونے کا کرے اس کو پکڑا جاتا ہے اور سزا دی جاتی ہے.پھر کیا خدا کی سلطنت میں ایسا اندھیر چل سکتا ہے؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہےوَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْل لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ (الـحاقۃ:۴۵تا۴۷) یعنی اگر یہ نبی ہمارے اوپر بعض باتیں جھوٹی بنا لیتا تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگ جان کو کاٹ دیتے.یہ آیت صاف بیان کر رہی ہے کہ خدا تعالیٰ پر کوئی جھوٹی وحی و الہام بنانے والا جلدی پکڑا جاتا اور ناکامیاب ہو کر مَرتا ہے.‘‘ (الحکم جلد ۱۱ نمبر ۹ مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰) ۲ بدر جلد ۶ نمبر ۱۳ مورخہ ۲۸؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۸،۹ ۳ بدر جلد ۶نمبر ۱۱ مورخہ ۱۴؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۵

Page 126

حضرت یوسفؑ پر جس قدر مصائب آئے وہ سب بے وقت خواب سنانے کی وجہ سے آئے تھے.شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ فقیر کو چاہیے کہ قِیَامَ فِیْ مَا اَقَامَ اللہُ پر عمل کرے.یعنی جہاں خدا تعالیٰ نے کھڑا کیا ہے وہاں کھڑا رہے جب تک کہ خدا تعالیٰ خود وہاں سے نکلنے کے سامان نہ بنائے.۳ ایمانی طاقت علم سے پیدا ہوتی ہے بات یہ ہے کہ ایمانی طاقت علم کے سوا پیدا نہیں ہوتی.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت صحابہؓ نے بھیڑ بکریوں کی طرح اپنی جانیں دے دی تھیں ان کو حق کا علم حاصل ہوگیا تھا.پھر انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو نہ دیکھا.میں نے جو کتاب حقیقۃ الوحی لکھی ہے اس کو جو شخص حرف بحرف پڑھ لے گا میں نہیں خیال کرتا کہ پھر وہ یہ خیال کرے کہ میں وہی ہوں جو اس کے خیال میں پڑھنے سے پہلے تھا جو شخص ہمارے سلسلہ کو آہستگی اور ٹھنڈے دل سے دیکھے گا.میں خیال کرتا ہوں کہ وہ ہمیں حق پر پائے گا.سچائی میں خدا نے ایک قوت رکھی ہے.سچائی دلوں کو خود اپنی طرف کھینچ لیتی ہے.خدا نے تو لوہے میں بھی ایک کشش کی خاصیت رکھی ہے تو کیا سچ میں کوئی جذب نہیں ہے؟ سچ میں ایک کشش ہے وہ خود بخود دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اصلاح کریں دنیا میں ایک دہریت پھیل رہی ہے.تحصیل دنیا کے لیے ہر وقت دوڑ دھوپ میں لوگ لگے ہوئے ہیں.اس کے لیے مجلسیں ہوتی ہیں اور ان میں شور پکار ہے کہ یہ کرو وہ کرو مگر اسلام کی بہبودی کا کسی کو کوئی فکر نہیں.ایسی غفلت میں پھنسے ہوئے ہیں کہ عذاب کے سوائے ان سے غفلت رفع نہیں ہوتی.ہمیں خدا نے صدہا بار بتایا ہے کہ خدا کے عذاب کے دن نزدیک ہیں اور جب تک لوگوں کے دل سیدھے نہ ہو جاویں خدا کے عذاب پیچھا نہ چھوڑیں گے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (الرعد:۱۲) یعنی خدا تعالیٰ کسی قوم

Page 127

کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو درست نہ کر لیں.طاعون کو دفع کرنے کے لیے بےچارے چوہوں کے مارنے کے درپے ہو رہے ہیں.یہ نہیں سوچتے کہ جب تک ان کے اندر کا چوہا نہ مَرے گا اس وقت تک طاعون ان کا ہرگز پیچھا نہ چھوڑے گی.پس اپنی اصلاح کریں اور خدا تعالیٰ سے ڈریں.اگر یہ لوگ اپنی اصلاح کریں تو خدا تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ ہلاک ہی کرے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَا يَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَ اٰمَنْتُمْ (النساء:۱۴۸) کہ خدا تم کو عذاب دے کر کیاکرے گا اگر تم شکر کرو اور ایمان لے آؤ.ہمارے مسلمان سلاطین کا ذکر ہے کہ جب کوئی بَلا آتی تھی تو بادشاہ خود دعا و زاری بدرگاہ ربّ العالمین کرتے تھے اور رعیت کو نیکیوں کی طرف رغبت دلاتے تھے.جب ٹیکہ لگایا جانا شروع ہوا تو میں نے کتاب کشتی نوح لکھی تھی اور اس میں مَیں نے ظاہر کیا تھا کہ اس ٹیکہ سے جو مَیں آسمانی ٹیکہ پیش کرتا ہوں بہتر ہے.آخر وہی بات سچی ثابت ہوئی جو ہم نے پیش کی تھی.شاید کسی کو کسی وقت سمجھ آجاوے.طاعون تو اب ہاتھ دھوکر لوگوں کے پیچھے ہو پڑی ہے.قادیان کے کسی شخص کا ذکر ہوا کہ فلاں جگہ طاعون ہے اور وہ وہاں بار بار جاتا رہا.آخر وہ طاعون میں گرفتار ہوکر مَر گیا.حضرت اقدس نے فرمایا.جبکہ ایک جگہ آگ برستی ہے تو اس جگہ جانے کی کیا ضرورت ہے؟ مخالفین کا مباہلہ فرمایا.اس ملک کے کئی ایک آدمی جو ہمیں گالیاں دیتے رہتے تھے اور پیچھا نہ چھوڑتے تھے.جب ان کی مدت نزدیک آئی تو خود ہی انہوں نے مباہلہ کر لیا کہ یا الٰہی! ہم میں سے جو جھوٹا ہے اس کو ہلاک کر دے آخر وہ خود ہی ہلاک ہو کر ہماری سچائی پر مہر کر گئے.ایسا ہی ابو جہل نے بدر کے دن نبی علیہ السلام سے مباہلہ کیا تھا.ابو جہل نے کہا تھا کہ جو ہم دونوں میں سے قطع رحم کرنے والا اور مفسد ہو اے خدا! اس کو آج ہلاک کر دے.آخر خدا تعالیٰ

Page 128

نے ابو جہل کو اسی دن ہلاک کر دیا اور اس کی دعا قبول ہو کر اس پر ہی پڑی.۱ بلا تاریخ دسویں محرم کو شربت اور چاول کی تقسیم قاضی ظہور الدین صاحب اکمل نے سوال کیا کہ محرم دسویں کو جو شربت و چاول وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اگر یہ للہ بہ نیت ایصال ثواب ہو تو اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ فرمایا.ایسے کاموں کے لیے دن اور وقت مقرر کر دینا ایک رسم و بدعت ہے اور آہستہ آہستہ ایسی رسمیں شرک کی طرف لے جاتی ہیں.پس اس سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ ایسی رسموں کا انجام اچھا نہیں.ابتدا میں اسی خیال سے ہو مگر اب تو اس نے شرک اور غیر اللہ کے نام کا رنگ اختیار کر لیا ہے اس لیے ہم اسے ناجائز قرار دیتے ہیں.جب تک ایسی رسوم کا قلع قمع نہ ہو عقائد باطلہ دور نہیں ہوتے.دو افراد کا جمعہ یہ مسئلہ پیش ہوا کہ دو احمدی کسی گاؤں میں ہوں تو وہ بھی جمعہ پڑھ لیا کریں یا نہ؟ (حضور نے) مولوی محمد احسن صاحب سے خطاب فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ دو سے جماعت ہوجاتی ہے.اس لیے جمعہ بھی ہوجاتا ہے.آپ نے فرمایا.ہاں پڑھ لیا کریں.فقہاء نے تین آدمی لکھے ہیں.اگر کوئی اکیلا ہو تو وہ اپنی بیوی وغیرہ کو پیچھے کھڑا کر کے تعداد پوری کر سکتا ہے.روزۂ وصال ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے دن روزہ رکھنا ضروری ہے یا کہ نہیں؟ فرمایا.ضروری نہیں ہے.روزہ محرم اسی شخص کا سوال پیش ہوا کہ محرم کے پہلے دس دن کا روزہ رکھنا ضروری ہے یا کہ نہیں؟ فرمایا.ضروری نہیں ہے.چٹھ اسی شخص کا سوال پیش ہوا کہ برائے برآمدگی مراد یا سیرابی ملک یا بطور چٹھ جو لوگ ذبیحہ دیتے ہیں جائز ہے یا نہیں؟

Page 129

فرمایا کہ جائز نہیں ہے.جَھنڈ یا بودی اسی شخص کا سوال پیش ہوا کہ کسی بزرگ کے نام پر جو چھوٹے بچوں کے سر پر جَھنڈ یعنی بودی رکھی جاتی ہے اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا.ناجائز ہے.ایسا نہیں چاہیے.محرم پر تابوت کابنانا اسی شخص کا سوال پیش ہوا کہ محرم پر جو لوگ تابوت بناتے ہیں اور محفل کرتے ہیں.اس میں شامل ہونا کیسا ؟ فرمایا کہ گناہ ہے.۱ ۹؍مارچ ۱۹۰۷ء رسول کے ذریعہ روحانی پرورش الہامِ الٰہی ’’ہزاروں تیرے پروں کے نیچے ہیں‘‘۲ پر فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رسول آتا ہے اس کے ذریعہ سے ایک باطنی پرورش انسانوں کی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے اوّل نزولِ فیضان اس پر ہوتا ہے پھر اس کے ذریعہ سے دوسروں کو بھی حاصل ہوتا ہے جیسا کہ مولوی معنوی صاحب فرماتے ہیں.؎ قطب شیر و صید کردن کارِ او باقیان ہستند باقی خوار او اصل غرض جو تقویٰ اور ایمان سے ہے وہ تو سب کو حاصل ہو ہی جاتی ہے کسی کو بلا واسطہ اور کسی کو بالواسطہ.اصل مقصود تو یہ ہے کہ انسان کامل ایمان حاصل کرے اور ابدی نجات کو پالے.اگر یہ بات خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہو جائے تو پھر اس کی مثال ایسی ہے.جیسا کہ کچھ آدمی راہ پر چلتے ہیں اور کچھ دوسرے ان کے ذریعہ سے راہ کو پہچانتے ہیں.منزلِ مقصود پر پہنچ کر سب برابر ہوجاتے بدر جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخہ ۱۴؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۵ ۲الحکم میں یہ الہام یوں درج ہے ’’ہزاروں آدمی تیرے پروں کے نیچے ہیں‘‘’’مرتّب‘‘ (الحکم جلد ۱۱ نمبر ۹ مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱) ۳ بدر جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخہ ۱۴؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۴

Page 130

ہیں.باعتبار بہشت میں داخل ہوجانے کے تو سب مومن برابر ہی ہو جائیں گے.۳ ۱۰؍مارچ ۱۹۰۷ء (بوقت دس بجے دن) دنیوی معاملات کے سبب کسی سے بغض نہ رکھیں ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب حکیم محمد حسین صاحب قریشی، ڈاکٹر حکیم نور محمد صاحب، حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ، بابو غلام محمد صاحب لاہور سے آکر حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت اقدس ملاقات کے واسطے قریب دس بجے صبح کے مسجد مبارک میں تشریف لائے اور قریب دو گھنٹہ کے تشریف فرما رہے.چند آدمیوں نے بیعت کی اور مختلف مسائل پر گفتگو ہوتی رہی.دو ایک دوستوں کے درمیان کسی دنیوی اَمر پر اختلاف اور باہمی رنج کا ذکر تھا.اس پر حضرت نے فرمایا کہ دیکھو! آجکل موسم کی حالت بہت خراب ہو رہی ہے اور ایک غیر معمولی تغیر زمانے کی حالت میں نظر آتا ہے آسمان ہر وقت غبار ناک رہتا ہے گویا کہ وہ بھی اداس ہو رہا ہے.چاہیے کہ آپس میں جلد صفائی کر لیں.معلوم نہیں کہ کس کی موت آجائے.میں تو یہ بھی سننا نہیں چاہتا کہ اختلاف کی کیا باتیں ہیں.معلوم نہیں کہ کس کی زندگی ہے اور کون اس سال میں مَرجائے گا.جب تک کہ سینہ صاف نہ ہو دعا قبول نہیں ہوتی.اگر کسی دنیوی معاملہ میں ایک شخص کے ساتھ بھی تیرے سینے میں بغض ہے تو تیری دعا قبول نہیں ہو سکتی.اس بات کو اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہیے اور دنیوی معاملہ کے سبب کبھی کسی کے ساتھ بغض نہیں رکھنا چاہیے.اور دنیا اور اس کا اسباب کیا ہستی رکھتا ہے کہ اس کی خاطر تم کسی سے عداوت رکھو.شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے کیا عمدہ واقعہ بیان کیا ہے کہ دو شخص آپس میں سخت عداوت رکھتے تھے.ایسا کہ وہ اس بات کو بھی ناگوار رکھتے تھے کہ ہر دو ایک آسمان کے نیچے ہیں.ان میں سے ایک قضائے کار فوت ہوگیا.اس سے دوسرے کو بہت خوشی ہوئی.ایک روز اس کی قبر پر گیا اور اس کو اکھاڑ ڈالا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کا نازک جسم خاک آلود ہے اور کیڑے اس کو کھا رہے ہیں.ایسی

Page 131

حالت میں دیکھ کر دنیا کے انجام کا نظارہ اس کی آنکھوں کے آگے پھر گیا اور اس پر سخت رقت طاری ہوئی اور اتنا رویا کہ اس کی قبر کی مٹی کو تَر کر دیا اور پھر اس کی قبر کو درست کرا کر اس پر لکھوایا.؎ مکن شادمانی بمرگ کسے کہ دہرت پس از وے نماند بسے خدا کا حق تو انسان کو ادا کرنا ہی چاہیے مگر بڑا حق برادری کا بھی ہے جس کا ادا کرنا نہایت مشکل ہے.ذرا سی بات پر انسان اپنے دل میں خیال کرتا ہے کہ فلاں شخص نے میرے ساتھ سخت کلامی کی ہے.پھر علیحدہ ہو کر اپنے دل میں اس بد ظنی کو بڑھاتا رہتا ہے اور ایک رائی کے دانے کو پہاڑ بنا لیتا ہے اور اپنی بد ظنی کے مطابق اس کینے کو زیادہ کرتا رہتا ہے.یہ سب بغض ناجائز ہیں.لِلہ بغض ہم بھی بعض دفعہ کسی پر ناراض ہوتے ہیں.مگر ہماری ناراضگی دین کے واسطے اور اللہ کے لیے ہے جس میں نفسانی جذبات کی ملونی نہیں اور دنیوی خواہشات کا کوئی حصہ نہیں ہمارا بغض اگر کسی کے ساتھ ہے تو وہ خدا کے واسطے ہے اور اس واسطے وہ بغض ہمارا نہیں بلکہ خود خدا کا ہی ہے کیونکہ اس میں کوئی ہماری نفسانی یا دنیوی غرض نہیں.ہم کسی سے کچھ لینا نہیں چاہتے نہ کسی سے کوئی خواہش رکھتے ہیں.جوشِ نفسانی اور لِلّٰہی جوش میں فرق کے واسطے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک واقعہ سے سبق حاصل کرو.حضرت علیؓ کا ایک سبق آموز واقعہ لکھا ہے کہ حضرت علیؓ کا ایک کافر پہلوان کے ساتھ جنگ شروع ہوا.بار بار آپ اس کو قابو کرتے تھے وہ قابو سے نکل جاتا تھا.آخر اس کو پکڑ کر اچھی طرح سے جب قابو کیا اور اس کی چھاتی پر سوار ہوگئے اور قریب تھا کہ خنجر کےساتھ اس کا کام تمام کر دیتے کہ اس نے نیچے سے آپ کے منہ پر تھوک دیا.جب اس نے ایسا فعل کیا تو حضرت علیؓاس کی چھاتی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کو چھوڑ دیا اور الگ ہوگئے.اس پر اس نے تعجب کیا اور حضرت علیؓسے پوچھا کہ آپ نے اس قدر تکلیف کے ساتھ پکڑا اور میں آپ کا جانی دشمن ہوں اور خون کا پیاسا ہوں پھر باوجود ایسا قابو پاچکنے کے آپ نے مجھے اب چھوڑ دیا.یہ کیا بات ہے؟ حضرت علیؓنے جواب دیا کہ بات یہ ہے کہ ہماری

Page 132

تمہارے ساتھ کوئی ذاتی عداوت نہیں.چونکہ تم دین کی مخالفت کے سبب مسلمانوں کو دکھ دیتے ہو اس واسطے تم واجب القتل ہو اور میں محض دینی ضرورت کے سبب تم کو پکڑتا تھا.لیکن جب تم نے میرے منہ پر تھوک دیا اور اس میں مجھے غصہ آیا تو میں نے خیال کیا کہ یہ اب نفسانی بات درمیان میں آگئی ہے اب اس کو کچھ کہنا جائز نہیں تاکہ ہمارا کوئی کام نفس کے واسطے نہ ہو.جو ہو سب اللہ تعالیٰ کے واسطے ہو.جب میری اس حالت میں تغیر آئے گا اور یہ غصہ دور ہوجائے گا تو پھر وہی سلوک تمہارے ساتھ کیا جائے گا.اس بات کو سن کر کافر کے دل پر ایسا اثر ہوا کہ تمام کفر اس کے دل سے خارج ہوگیا اور اس نے سوچا کہ اس سے بڑھ کر اور کون سا دین دنیا میں اچھا ہو سکتا ہے جس کی تعلیم کے اثر سے انسان ایسا پاک نفس بن جاتا ہے.پس اس نے اسی وقت توبہ کی اور مسلمان ہوگیا.غرض انسانوں کو چاہیے کہ دنیوی کدورتوں کے سبب باہم رنجش پیدا نہ کریں اور پھر یہ دن تو وبا اور زلازل اور قہرِ الٰہی کے دن ہیں.ان میں خدا تعالیٰ کے خوف سے لرزاں رہنا چاہیے.مولویوں کے پیروکار ایک شخص نے ذکر کیا کہ بعض مولوی قسما قسم کے افترا کر کے لوگوں کو بہکاتے ہیں.حضرت نے فرمایا.ان کے ہاتھ سوائے افترا پردازی کے اور کیا ہے؟ لیکن جو لوگ ان کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں وہ خود کمزور اور ضعیف ہیں اور دنیا داری میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ دین کی ان کو ہرگز کوئی خبر ہی نہیں.وہ خود سوچ فکر سے کام نہیں لیتے ورنہ ایسے شریر لوگوں کے شر سے محفوظ رہتے جو ہماری باتوں کو تراش خراش کر افترا کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں.کتاب حقیقۃ الوحی کے لیے قَسم فرمایا.کتاب حقیقۃ الوحی میں ہم نے تمام قسم کی باتوں کو مختصر طور پر جمع کر دیا ہے اور اس میں قَسم دی ہے کہ لوگ کم از کم اوّل سے آخر تک اس کو پڑھ لیں.دوسرے کی قَسم کا نہ ماننا بھی تقویٰ کے برخلاف ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دوسرے کی قَسم پوری ہونے دی تھی اور حضرت عیسٰی علیہ السلام نے بھی دوسرے آدمی کی قَسم کو پورا کیا تھا.غرض ہم ایک نیک کام کے واسطے قَسم دیتے ہیں کہ وہ

Page 133

بلا سوچے سمجھے گالیاں نہ دیں اور مخالفت نہ کریں کم از کم ہمارے دلائل کو ایک دفعہ بغور مطالعہ کر لیں خواہ تھوڑا تھوڑا کر کے پڑھیں.پھر ان کو معلوم ہو جاوے گا کہ حق کس بات میں ہے.(بوقتِ ظہر) طلباء کی سٹرائیک علی گڑھ کالج کے طالب علم مولوی غلام محمد صاحب نے وہاں کے طلباء کی سٹرائیک اور اپنے استادوں کی مخالفت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اس جماعت (فرقہ احمدیہ ) کا کوئی لڑکا اس سٹرائیک میں شامل نہیں ہوا.میاں محمد دین، عبد الغفار وغیرہ سب علیحدہ رہے لیکن عزیز احمد ان طلباء کے ساتھ شریک رہا اور باوجود ہمارے سمجھانے کے باز نہ آیا اور چونکہ بعض اخباروں میں اس قسم کے مضمون نکلے تھے کہ مسیح موعود کا پوتا علی گڑھ کالج میں ہے اس وجہ سے عام طور پر عزیز احمد کا رشتہ حضور کے ساتھ سب کو معلوم ہونے کے سبب وہاں کے اراکین نے اس اَمر پر تعجب ظاہر کیا کہ عزیز احمد اس مفسدہ میں ایسا حصہ لیتا ہے.اس پر حضرت اقدس مرزا صاحب نے فرمایا کہ ’’عزیز احمد نے اپنے استادوں اور افسروں کی مخالفت میں مفسد طلباء کے ساتھ شمولیت کا جو طریق اختیار کیا ہے یہ ہماری تعلیم اور ہمارے مشورہ کے بالکل مخالف ہے لہٰذا وہ اس دن سے جس دن سے وہ اس بغاوت میں شریک ہے ہماری جماعت سے علیحدہ اور ہماری بیعت سے خارج کیا جاتا ہے.ہم ان لڑکوں پر خوش ہیں جنہوں نے اس موقع پر ہماری تعلیم پر عمل کیا.بہت سے لوگ بیعت میں آکر داخل ہوجاتے ہیں لیکن جب وہ شرائط بیعت پر عمل نہیں کرتے تو خود بخود اس سے خارج ہوجاتے ہیں یہی حال عزیز احمد کا تھا.اس میں خصوصیت نہ تھی اور یہ اَمر کہ ہمارا وہ پوتا ہے اس وجہ سے وہ ہمارا رشتہ دار ہے سو واضح ہو کہ ہم ایسے رشتوں کی کوئی پروا نہیں کرتے.ہمارے رشتے سب اللہ تعالیٰ کے واسطے ہیں.عزیز احمد کا باپ خود ہم سے برگشتہ ہے اور ہم اس کو اپنا بیٹا نہیں سمجھتے تو پھر عزیز احمد کا پوتا ہونا کیسا؟ عزیز احمد کو چاہیے تھا کہ اس معاملہ میں اوّل ہم سے مشورہ کرتا یا اس مثال کو دیکھتا جو پہلے میڈیکل کالج لاہور میں قائم ہو چکی تھی کہ جب طلباء نے لاہور میں اپنے پروفیسروں کی مخالفت میں سٹرائیک کیا تھا تو جو لڑکے اس جماعت میں داخل تھے ان کو میں نے حکم دیا تھا کہ وہ اس مخالفت

Page 134

میں شامل نہ ہوں اور اپنے استادوں سے معافی مانگ کر فوراً کالج میں داخل ہو جاویں.چنانچہ انہوں نے میرے حکم کی فرمانبرداری کی اور اپنے کالج میں داخل ہو کر ایک ایسی نیک مثال قائم کی کہ دوسرے طلباء بھی فوراً داخل ہوگئے.عزیز احمد کو اس واقعہ کی خبر ہوگی کیونکہ اخبار میں چھپ چکا تھا.اور اگر خبر نہ ہوتی تو اس کے واسطے ضروری تھا کہ اوّل مجھ سے مشورہ کرتا یا اپنے ساتھیوں کے مشورہ پر چلتا.اس کاعلی گڑھ میں جانا بھی اس کے باپ کے مشورہ اور حکم سے تھا نہ کہ ہمارا اس میں کوئی حکم تھا.ایسا ہی مخالفت استاد ان میں شمولیت ہمارے کسی تعلق کی وجہ سے نہیں اور اسی وجہ سے اس کو خارج از بیعت کیا جاتا ہے جب تک کہ وہ اپنے فعل سے توبہ کر کے اپنے استادوں سے معافی نہ مانگے.۱ ہاں دوسرے طلباء مولوی غلام محمد صاحب وغیرہ نے علی گڑھ جانے سے پہلے ہم ۱مرزا عزیز احمد صاحب کی تجدید بیعت مرزا عزیز احمد صاحب نے میانوالی سے جہاں آپ بتقریب موسمی رخصت مقیم ہیں مفصلہ ذیل خط حضرت کی خدمت میں بھیجا تھا.بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم بخدمت امام زمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ فدوی اپنے گذشتہ قصوروں کی معافی طلب کرتا ہے اور التجا کرتا ہے کہ اس خاکسار کی گذشتہ کوتاہیوں کو معاف کر کے زمرۂ تابعین میں شامل کیا جائے.نیز اس عاجز کے حق میں دعا فرماویں کہ آئندہ اللہ تعالیٰ ثابت قدم رکھے.حضور کا عاجز’’عزیز احمد‘‘ اس کے جواب میں حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہم وہ قصور معاف کرتے ہیں.آئندہ اب تم پرہیز گار اور سچے مسلمانوں کی طرح زندگی بسرکرو اور بُری صحبتوں سے پرہیز کرو.بُری صحبتوں کا انجام آخر بُرا ہی ہوا کرتا ہے.(بدر جلد ۶ نمبر ۴۲ مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۷ ) ۲یعنی ایڈیٹر صاحب بدر.حضرت مفتی محمد صادق صاحب(مرتّب)

Page 135

سے مشورہ لیا تھا اور ہم نے یہی مشورہ دیا تھا کہ وہاں کے لڑکوں کی صحبت سے بچتے رہیں اور کسی بدی میں شامل نہ ہوں تو ہرج نہیں کہ وہاں جائیں.انسان ضرورتاً پاخانہ میں بھی جاتا ہے مگر اپنے آپ کو نجاست سے بچائے رکھتا ہے.‘‘ عاجز۲ کو مخاطب کر کے حضور نے فرمایا کہ ان باتوں کو عام اطلاع کے واسطے اخبار بدر میں شائع کر دیں.۳ وفاتِ مسیح علیہ السلام ہمارے مخالفین کے اس مذہب کا ذکر تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے ہیں اور پھر قیامت سے پہلے دنیا میں آئیں گے اور چالیس سال تک اس زمین پر رہیں گے اور عیسائیوں کی خوب خبر لیں گے اور ان کو بتائیں گے کہ تمہارا دین باطل ہے اور کسر صلیب کریں گے اور پھر اس زمین پر فوت ہو جائیں گے.حضرت نے فرمایا کہ اس عقیدہ کو قرآن شریف کی اس آیت کے آگے پیش کرنا چاہیے کہ وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَ اُمِّيَ اِلٰهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْۤ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ١ۗ بِحَقٍّ١ؐؕ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ١ؕ تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ وَ لَاۤ اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِكَ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِيْ بِهٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبَّكُمْ١ۚ وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ١ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ١ؕ وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ(المائدۃ:۱۱۷،۱۱۸) یعنی قیامت کے روز اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کو کہیں گے کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تو نے لوگوں کو یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے مانو اور اللہ کو چھوڑ دو؟ تو حضرت عیسیٰ جواب دیں گے کہ یا اللہ! تو پاک ہے مجھے کب لائق تھا کہ میں ایسا کلمہ بولتا جو حق نہیں ہے.اگر میں کہتا تو تجھے معلوم ہوتا.تو جانتا ہے جو کچھ کہ میرے نفس میں ہے اور میں نہیں جانتا کہ تیرے نفس میں کیا ہے تو علّام الغیوب ہے.میں نے تو انہیں سوائے اس کے کچھ نہیں کہا جو تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا ربّ ہے اور جب تک کہ میں ان میں رہا.میں

Page 136

ان کا نگران رہا اور جب تو نے مجھے وفات دے دی اس کے بعد تو خود ان کا نگران تھا (مجھے کچھ خبر نہیں) اور تو ہر بات کو دیکھتا ہے.اب اس جگہ سوچنے کے قابل یہ بات ہے کہ قیامت کا دن ہوگا اور سب لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑے ہوں گے اور وہ گھڑی ہوگی جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ هٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُهُمْ(المائدۃ:۱۲۰) وہ دن ہوگا جبکہ سچ بولنے والوں کو ان کا سچ نفع دے گا.اچھا تو ایسے وقت میں حضرت عیسیٰ خدا تعالیٰ کو یہ کہیں گے کہ میں جب تک دنیا میں تھا تب تو ان کو وحدانیت کا وعظ کرتا تھا.بعد کی خبر نہیں انہیں کیا ہوگیا.قطع نظر اس بات کے کہ وہ اس وقت زمین میں مدفون ہیں یا کہیں آسمان پر بیٹھے ہوئے.اس جگہ یہ اَمر سب سے زیادہ قابل غور ہے کہ اگر وہ قیامت سے پہلے دنیا میں آئیں گے اور چالیس سال تک رہیں گے اور عیسائیوں کو انہیں اور ان کی ماں کو خدا بنانے کے سبب خوب سزا بھی دیں گے اور پھر ان کی اصلاح بھی کریں گے اور ماننے والوں کو مسلمان بنائیں گے تو پھر قیامت کے دن ان کا جواب یہ کیوں ہونا چاہیے کہ مجھے تو کچھ خبر نہیں کہ میرے بعد کیا ہوا اور کیا نہ ہوا بلکہ انہیں تو یہ جواب دینا چاہیے کہ اے باری تعالیٰ! میں نے تو ان کے ایسے عقیدے کے سبب ان کو خوب سزائیں دی ہیں اور ان کی صلیب کو توڑا ہے اور چالیس سال تک ان کی خوب خبر لی ہے.سو دیکھنا چاہیے کہ اگر مسیح دوبارہ دنیا میں آوے گا تو کیا اس کا یہ جواب جو قرآن شریف میں درج ہے سچا ہوگا؟ اور اگر ان ملّانوں کی بات درست مان لی جاوے تو روز قیامت حضرت عیسیٰ کو ایسا جواب دینے سے کیا انعام ملے گا؟ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ ایسی باتیں بنا کر وہ ایک خدا کے نبی کو نَعُوْذُ بِاللہِ جھوٹ بولنے والا قرار دے رہے ہیں اور پھر جھوٹ بھی قیامت کے دن اور پھر وہ بھی خدا کے دربار میں نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ.خشیت الٰہی ایمان سے پیدا ہوتی ہے ذکر تھا کہ باوجود اس قدر وبا اور تکالیف کے لوگوں میں شوخی بڑھی ہوئی ہے اور کچھ پروا نہیں کرتے.

Page 137

فرمایا.خدا تعالیٰ پر پورا ایمان ہو تو انسان کے دل میں خوف اور خشیت بھی ہوتی ہے.جیسے ایمان کم ہوتا جاتا ہے ویسے ہی خشیت بھی کم ہوتی جاتی ہے.دنیا میں عذاب الٰہی کا باعث شوخی اور تکذیب ہے فرمایا.میرا مذہب سچائی کے ساتھ اس بات پر قائم ہے کہ جس قدر لوگ نوحؑاور لوطؑاور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا دیگر پیغمبروں کے زمانہ میں ہلاک ہوئے اگر وہ انبیاء کے ساتھ شوخی سے پیش نہ آتے اور ان کی تکذیب نہ کرتے تومعمولی طور پر زندگی بسر کرتے.دنیا میں جو گناہ فسق و فجور کے کرتا تھا ان کے واسطے جزا کا وقت آخرت میں رکھا گیا ہے.اس دنیا میں عذاب جب آتا ہے وہ انبیاء کی تکذیب کی وجہ سے زیادہ تر آتا ہے.اگر فرعون حضرت موسٰی کے ساتھ بد سلوکی نہ کرتا تو چند دن اور دنیا میں سلطنت کر لیتا.معمولی گناہوں کے واسطے محاسبہ اور مؤاخذہ کا دن قیامت ہے.لیکن وہ گناہ جس پر خدا تعالیٰ بڑی غیرت دکھلاتا ہے وہ اس کے فرستادوں کی تکذیب اور ان کے ساتھ شوخی سے پیش آنا ہے جبکہ شوخی حد سے بڑھ جاتی ہے اور خدا کے پاک نبیوں کو دکھ دیا جاتا ہے اور اس کے برخلاف ظلم اور شرارت اور بدمعاشی سے کام لیا جاتا ہے تو اس وقت خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو اسی دنیا میں عذاب کا مزا چکھاتا ہے.اگر یہ لوگ انکسار اختیار کرتے تو ہلاک نہ ہوتے.حضرت عیسیٰ نے اپنے مخالفوں کو کہا تھا کہ تم کنجروں سے بدتر ہو کیونکہ وہ گناہ کرتے ہیں پر اپنے آپ کو گناہ گار سمجھ کر انکسار اختیار کرتے ہیں اور تم گناہ کرتے ہو اور اس پر خوش ہوتے ہو اور کارِ ثواب جانتے ہو.اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہےمَا يَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَ اٰمَنْتُمْ(النّساء:۱۴۸) یعنی اگر تم شکریہ ادا کرو اور ایمان لاؤ تو خدا نے تمہیں عذاب کر کے کیا لینا ہے.یہ تمہارے بد اعمال ہی تم کو عذاب میں گراتے ہیں.امریکہ میں تبلیغ یہ اعتراض ناجائز ہے کہ امریکہ میں آپ کی تبلیغ نہیں پہنچی پھر وہاں عذاب کیوں آیا.ہماری تبلیغ بہت ہوچکی ہے.ابتدا میں مَیں نے ایک اشتہار سولہ ہزار چھپوا کر یورپ امریکہ میں روانہ کیا تھا اور اسی اشتہار کو پڑھ کر امریکہ سے محمد ویب نے خط و کتابت شروع کی تھی جبکہ وہ مسلمان بھی نہ ہوا تھا.اس کے بعد ڈوئی کے متعلق پیشگوئی کے اشتہارات

Page 138

امریکہ میں کثرت سے تقسیم ہوئےا ور امریکہ کی بہت سی اخباروں میں ہماری تصویر اور ہمارے حالات چھپے جس کو لاکھوں آدمیوں نے پڑھا اور ان کے درمیان اس سلسلہ کی تبلیغ ہو چکی ہے.عذاب کے متعلق سنّت ِالٰہی علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قدیم سے سنّت اللہ اسی طور پر جاری ہے کہ جب عذاب الٰہی آتا ہے تو بدوں کے ساتھ جو نیک ملے جلے ہوتے ہیں ان میں سے بھی بعض کو لپیٹتا ہے پھر ان کا حشر اپنے اپنے اعمال کے مطابق ہوتا ہے.دیکھو! حضرت موسٰی کے وقت میں پلوٹھے ہلاک ہوئے تھے تو پلوٹھوں کا اس میں کیا قصور تھا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں قحط پڑا.تو ظاہر ہے کہ اس کا اثر سب پر ہوا تھا نہ یہ کہ صرف بعض پر ہوا ہو.یہ لوگ سنّت اللہ سے بے خبر ہیں جو اس قسم کے اعتراض کرتے ہیں.صدقات اور توبہ سے بَلا ٹل جاتی ہے فرمایا.تمام مذاہب کے درمیان یہ اَمر متفق ہے کہ صدقہ خیرات کے ساتھ بَلا ٹل جاتی ہے اور بَلا کے آنے کے متعلق اگر خدا تعالیٰ پہلے سے خبر دے تو وہ وعید کی پیش گوئی ہے.پس صدقہ و خیرات سے اور توبہ کرنے اور خدا کی طرف رجوع کرنے سے وعید کی پیش گوئی بھی ٹل سکتی ہے.ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس بات کے قائل ہیں کہ صدقات سے بَلا ٹل جاتی ہے.ہندو بھی مصیبت کے وقت صدقہ خیرات دیتے ہیں.اگر بَلا ایسی شَے ہے کہ ٹل نہیں سکتی تو پھر صدقہ خیرات سب عبث ہوجاتے ہیں.آتھم اور لیکھرام کا رویہ آتھم اور لیکھرام میں بھی فرق تھا کہ پیشگوئی کو سن کر آتھم خوف کھا گیا.اسی وقت بھری مجلس میں کانوں کو ہاتھ لگا کر کہنے لگا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی گالی نہیں دی اور تمام شوخیاں چھوڑ دیں.اس واسطے اس کو چند روز اور مہلت مل گئی.لیکن بر خلاف اس کے لیکھرام نے شوخی اختیار کی اور روز بروز شوخی میں بڑھتا گیا.پس اس کو میعاد کے دنوں کی بھی پوری مہلت نہ دی گئی.اگر وہ بھی آتھم کی طرح خاموش ہو جاتا اور خدا سے ڈرتا تو اس کے ایام میں بھی تاخیر دی جاتی.ایسا ہی احمد بیگ نے چونکہ کوئی نمونہ نہ

Page 139

دیکھا ہوا تھا.اس نے خوف نہ کھایا اور جلد ہلاک ہوا اور پچھلے خوفزدہ ہوگئے اور مہلت حاصل کی.یہ کبھی نہیں ہوا کہ کسی نبی کو سب نے مان لیا ہو.اختلاف تو ضرور ہوتا ہی ہے.کچھ نہ کچھ مخالفت ضرور باقی رہتی ہے.ہر نبی کے وقت میں ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے.قرآن مشکل نہیں ہے فرمایا.بعض نادان لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم قرآن شریف کو نہیں سمجھ سکتے اس واسطے اس کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے کہ یہ بہت مشکل ہے.یہ ان کی غلطی ہے.قرآن شریف نے اعتقادی مسائل کو ایسی فصاحت کے ساتھ سمجھایا ہے جو بےمثل اور بے مانند ہے اور اس کے دلائل دلوں پر اثر ڈالتے ہیں یہ قرآن ایسا بلیغ اور فصیح ہے کہ عرب کے بادیہ نشینوں کو جو بالکل اَن پڑھ تھے سمجھا دیا تھا تو پھر اب کیوں کر اس کو نہیں سمجھ سکتے.۱ (قبل از نماز عصر) تفریحی سفر ریاست جموں کے ایک معزز ہندو اہلکار ساکن قادیان حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر تھے.اثنائے گفتگو میں انہوں نے کشمیر کی آب و ہوا کی تعریف کرتے ہوئے عرض کیا کہ جناب بھی کبھی کشمیر کی سیرکے واسطے تشریف لاویں.فرمایا.ہمارا یہ مذہب نہیں کہ صرف تفریح کے واسطے یا سیر و تماشا کے واسطے کوئی سفر کریں.ہاں جس دینی کاروبار میں ہم مصروف ہیں اگر اس کی ضرورتوں میں ہم کو کوئی سفر پیش آجاوے اور خدمت دین کے واسطے کشمیر جانا بھی ضروری پڑ جائے تو پھر ہم تیار ہیں کہ اس ملک کو جاویں.آریوں کے لیے قابل توجہ رسالہ جدیدہ ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ کا تذکرہ تھا.فرمایا کہ سنا گیا تھا کہ مخاطب آریوں میں سے ایک کہتا تھا کہ ہم بذریعہ اشتہار شبھ چنتک کے مضمون کی تردید کر دیتے ہیں حضرت صاحب رسالہ نہ لکھیں.مگر ہم نے کہا کہ اب رسالہ کا نکلنا نہیں رک سکتا.ان کو چاہیے کہ بعد رسالہ کے نکلنے کے تصدیق یا تکذیب میں قَسم کھالیں.تمام ہندوستان کے آریوں کو چاہیے کہ اس اَمر پر غور کریں.ان کے واسطے

Page 140

بات پیش کی گئی ہے جو قطعاً لاجواب ہے.آریوں کے واسطے اوّل تو اسی کتاب کا مضمون ہے کہ خود آریہ ہمارے نشانات کے پورا ہونے کے گواہ ہیں جس سے وہ کبھی انکار نہیں کر سکتے.پھر ان کا مسئلہ نیوگ اندر ہی اندر ان کے دلوںکو ملزم اور خوار کر رہا ہے.پھران کا یہ مذہب کہ خدا کسی کا خالق نہیں وغیرہ ایسی باتیں ظاہر ہوئی ہیں کہ کوئی آریہ جواب نہیں دے سکتا.سکھوں کی ہدایت کے واسطے خدا نے چولا صاحب ظاہر کر دیا ہے جس پر صاف لکھا ہے کہ اسلام کے سوائے کوئی مذہب مقبول نہیں اور اس سے ثابت ہے کہ باوا نانک کا مذہب کیا تھا.عیسائیوں کے خدا کی خود قبر ہی نکل آئی ہے اور ہمارے مخالف مسلمانوں پر بھی حجّت قائم ہے کیونکہ قرآن شریف حضرت عیسٰیؑ کی وفات کا قائل ہے اور آنحضرتؐنے اس کو مُردوںمیں دیکھا ہے.۱ مسیح موعودؑ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام فرمایا.یہ عجب بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کو سلام کہا ہے اور وصیت کی ہے کہ مسیح موعود کو میرا سلام کہہ دینا.اب اگر آنے والا مسیح وہی ہے جو آسمان پر نبیوںکے درمیان موجود ہے تو وہ تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ہو کر دنیا میں آئے گا.چاہیے تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سلام لے کر مسلمانوں کے پاس آتا نہ یہ کہ جب وہ یہاں آوے تو اس جہان کے لوگ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچائیں.یہ تو وہی مثل ہوئی کہ ’’گھر سے میں آؤں اور خبریں تم سناؤ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سلام پیغام صاف بتلاتا ہے کہ وہ امت میں سے پیدا ہونے والا ایک شخص ہے جس کی ملاقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں ہوئی.۲

Page 141

بلا تاریخ۱ عورتوں کے لیے ضروری نصائح (رقم فرمودہ حضرت صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد) ایک لڑکی کی اس کی ساس کے ساتھ کچھ اچھی طرح نہیں بنتی تھی.لڑکی نے بر سبیل شکایت اور گلہ کچھ عورتوں کے سامنے کہا کہ بُرا مقام ہے کہ جس میں میری ساس وغیرہ رہتے ہیں.آپؑنے اس کو بہت بُرا منایا کہ شہر تو کوئی بُرا ہوتا ہی نہیں.اگر کسی شہر کو بُرا کہا جائے تو اس سے مراد اس کے شہر والے ہوتے ہیں.پس نہایت قابل افسوس ہے اس عورت کی حالت جو ایسا فقرہ اپنی زبان پر لاتی ہے یا اور اس طرح اپنے خاوند اور اس کے والدین کی بُرائی کرتی ہے.اور اس کے بعد اس عورت کو بہت سمجھایا اور کہا کہ خدا تعالیٰ ایسی باتیں پسند نہیں کرتا.یہ مرض عورتوں میں بہت کثرت سے ہوا کرتا ہے کہ وہ ذرا سی بات پر بگڑ کر اپنے خاوند کو بہت کچھ بھلا بُرا کہتی ہیں بلکہ اپنی ساس اور سسر کو بھی سخت الفاظ سے یاد کرتی ہیں.حالانکہ وہ اس کے خاوند کے بھی قابل عزّت بزرگ ہیں.وہ اس کو ایک معمولی بات سمجھ لیتی ہیں اور ان سے لڑنا وہ ایسا ہی سمجھتی ہیں جیسا کہ محلہ کی اور عورتوں سے جھگڑا.حالانکہ خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کی خدمت اور رضا جوئی ایک بہت بڑا فرض مقرر کیا ہے یہاں تک کہ حکم ہے کہ اگر والدین کسی لڑکے کو مجبور کریں کہ وہ اپنی عورت کو طلاق دے دے تو اس کے لڑکے کو چاہیے کہ وہ طلاق دے دے.پس جبکہ ایک عورت کی ساس اور سسر کے کہنے پر اس کو طلاق مل سکتی ہے تو اَور یہ ملفوظات ’’اندرونی ڈائری ‘‘ کے زیر عنوان الحکم نے شائع کئے جن پر کوئی تاریخ درج نہیں.’’اندرونی ڈائری‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ گھر کے اندر حضرت مسیح موعود نے جو ارشادات فرمائے.(مرتّب)

Page 142

کون سی بات رہ گئی ہے.اس لیے ہر ایک عورت کو چاہیے کہ ہر وقت اپنے خاوند اور اس کے والدین کی خدمت میں لگی رہے اور دیکھو کہ عورت جو کہ اپنے خاوند کی خدمت کرتی ہے تو اس کا کچھ بدلہ بھی پاتی ہے.اگر وہ اس کی خدمت کرتی ہے تو وہ اس کی پرورش کرتا ہے مگر والدین تو اپنے بچہ سے کچھ نہیں لیتے وہ تو اس کے پیدا ہونے سے لے کر اس کی جوانی تک اس کی خبر گیری کرتے ہیں اور بلاکسی اجر کے اس کی خدمت کرتے ہیں اور جب وہ جوان ہوتا ہے تو اس کا بیاہ کرتے اور اس کی آئندہ بہبودی کے لیے تجاویز سوچتے اور اس پر عمل کرتے ہیں اور پھر جب وہ کسی کام پر لگتا ہے اور اپنا بوجھ آپ اٹھانے اور آئندہ زمانہ کے لیے کسی کام کرنے کے قابل ہوجاتا ہے تو کس خیال سے اس کی بیوی اس کو اپنے ماں باپ سے جدا کرنا چاہتی ہے یا کسی ذرا سی بات پر سبّ و شتم پر اتر آتی ہے اور یہ ایک ایسا ناپسند فعل ہے جس کو خدا اور مخلوق دونوں ناپسند کرتے ہیں.خدا تعالیٰ نے انسان پر دو ذمہ داریاں مقرر کی ہیں.ایک حقوق اللہ اور ایک حقوق العباد.پھر اس کے دو حصے کئے ہیں یعنی اوّل تو ماں باپ کی اطاعت اور فرماں برداری اور پھر دوسرے مخلوق الٰہی کی بہبودی کا خیال.اور اسی طرح ایک عورت پر اپنے ماں باپ اور خاوند اور ساس سسر کی خدمت اور اطاعت.پس کیا بد قسمت ہے وہ جو ان لوگوں کی خدمت نہ کر کے حقوقِ عباد اور حقوق اللہ دونوں کی بجا آوری سے منہ موڑتی ہے.کسی نام سے بُری فال لینا کسی لڑکی کا نام جنّت تھا.کسی شخص نے کہا کہ یہ نام اچھا نہیں کیونکہ بعض وقت انسان آواز مارتا ہے کہ جنّت گھر میں ہے؟ اور اگر وہ نہ ہو تو گویا اس سے ظاہر ہے کہ دوزخ ہی ہے.یا کسی کا نام برکت ہو اور یہ کہا جائے کہ گھر میں برکت نہیں تو گویا نحوست ہوئی.فرمایا.یہ بات نہیں ہے.نام کے رکھنے سے کوئی ہرج نہیں ہوتا اور اگر کوئی کہے کہ برکت اندر نہیں ہے تو اس کا تو مطلب یہ ہے کہ وہ انسان اندر نہیں ہے نہ یہ کہ برکت نہیں یا اگر کہے کہ جنّت نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جنّت نہیں اور دوزخ ہے بلکہ یہ کہ وہ انسان اندر نہیں جس کا نام جنّت ہے.

Page 143

کسی اور نے کہا کہ حدیث میں بھی حرمت آئی ہے.فرمایاکہ میں ایسی حدیثوں کو ٹھیک نہیں جانتا اور ایسی حدیثوں سے اسلام پر اعتراض ہوتا ہے کیونکہ خدا کے بتائے ہوئے نام عبد اللہ ، عبدالرحیم اور عبد الرحمٰن جو ہیںان پر بھی بات لگ سکتی ہے.کیونکہ جب ایک انسان کہتا ہے کہ عبدالرحمٰن اندر نہیںتو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہو سکتا کہ عبد الشیطان اندر ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ شخص جس کا نام نیک فال کے طور پر رکھا جاتا ہے تا وہ شخص بھی اس نام کے مطابق ہو.بہادر شاہ ظفر سے انگریزوں کا سلوک ذکر ہو اکہ خاندانِ مغلیہ کے آخری بادشاہ کے وقت جو کچھ انگریزوں نے سلوک کیا ہے اس پر ایک اخبار نے بہت سا شور مچایا ہے اور اس کو بُرا منایا ہے.فرمایا.یہ بات نہیں.خدا کسی قوم پر یا کسی خاص شخص پر ظلم نہیں کرتا.جب انسان خود کوئی گناہ کرتا ہے تو اس وقت اس کی تادیب کے لیے خدا تعالیٰ اس پر مصیبتیں نازل فرماتا ہے.بہادر شاہ سے اور اس کے چند پہلے بزرگوں سے چونکہ بہت کچھ خطائیں سرزد ہوئیں.خدا تعالیٰ نے ان کو اس بات کے لائق نہ دیکھا کہ وہ حکومت کرسکیں.تب انگریزوں کو ان پر مسلط کر دیا.اگر وہ ایسے کام نہ کرتے تو خدا تعالیٰ بھی ایسا نہ کرتا.بلکہ میرے خیال میں خدا تعالیٰ نے بہادر شاہ پر بہت بڑا احسان کیا کیونکہ اس طرح تکلیفیں برداشت کر کے اس کے گناہ معاف ہوگئے اور جو سلوک انگریزوں نے کیا وہ تو فاتح قومیں کیا ہی کرتی ہیں.اگر بہادر شاہ فتح یاب ہوجاتا تو کیا وہ ایسا نہ کرتا؟ معالج کےلیے ضروری صفات ایک صاحب گھر میں آئے.طب کا ذکر شروع ہوا.فرمایا کہ طبیب میں علاوہ علم کے جو اس کے پیشہ کے متعلق ہے ایک صفت نیکی اور تقویٰ بھی ہونی چاہیے ورنہ اس کے بغیر کچھ کام نہیں چلتا.ہمارے پچھلے لوگوں میں اس کا خیال تھا اور لکھتے ہیں کہ جب نبض پر ہاتھ رکھے تو یہ بھی کہے سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا(البقرۃ:۳۳) یعنی اے خدا وند بزرگ! ہمیں کچھ علم نہیں مگر وہ جو تو نے سکھایا.

Page 144

شفا محض اللہ کے فضل سے حاصل ہوتی ہے فرمایاکہ دیکھو! پچھلے دنوں میں مبارک احمد کو خسرہ نکلا تھا اس کو اس قدر کھجلی ہوتی تھی کہ وہ پلنگ پر کھڑا ہوجاتا تھا اور بدن کی بوٹیاں توڑتا تھا.جب کسی بات سے فائدہ نہ ہوا تو میں نے سوچا کہ اب دعا کرنی چاہیے.میں نے دعا کی اور دعا سے ابھی فارغ ہی ہوا تھا کہ میںنے دیکھا کہ کچھ چھوٹے چھوٹے چوہوں جیسے جانور مبارک احمد کو کاٹ رہے ہیں.ایک شخص نے کہا کہ ان کو چادر میں باندھ کر باہر پھینک دو.چنانچہ ایسا کیا گیا.جب میں نے بیداری میں دیکھا تو مبارک احمد کو بالکل آرام ہوگیا تھا.اسی طرح دستِ شفا جو مشہور ہوتے ہیں اس میں کیا ہوتا ہے وہی خدا کا فضل اور کچھ نہیں.قبولیت ِدعا کا ایک طریق فرمایا کہ دعا میں بعض دفعہ قبولیت نہیں پائی جاتی تو ایسے وقت اس طرح سے بھی دعا قبول ہوجاتی ہے کہ ایک شخص بزرگ سے دعا منگوائیں اور خدا سے دعا مانگیں کہ وہ اس مرد بزرگ کی دعاؤں کو سنے.اور بارہا دیکھا گیا ہے کہ اس طرح دعا قبول ہوجاتی ہے.ہمارے ساتھ بھی بعض دفعہ ایسا واقعہ ہوا ہے اور پچھلے بزرگوں میں بھی دیکھا جاتا ہے.جیسا کہ باوا غلام فریدؒ ایک دفعہ بیمار ہوئے اور دعا کی مگر کچھ بھی فائدہ نظر نہ آیا.تب آپ نے اپنے ایک شاگرد کو جو نہایت ہی نیک مرد اور پارسا تھے (شاید شیخ نظام الدینؒ یا خواجہ قطب الدینؒ) دعا کے لیے فرمایا.انہوں نے بہت دعا کی اور مگر پھر بھی کچھ اثر نہ پایا گیا.یہ دیکھ کر انہوں نے ایک رات بہت دعا مانگی کہ اے میرے خدا! اس شاگرد کو وہ درجہ عطا فرما کہ اس کی دعائیں قبولیت کا درجہ پائیں.اور صبح کے وقت ان کو کہا کہ آج ہم نے تمہارے لیے یہ دعا مانگی ہے.یہ سن کر شاگرد کے دل میں بہت ہی رقت پیدا ہوئی اور اس نے اپنے دل میں کہا کہ جب انہوں میرے لیے ایسی دعا کی ہے تو آؤ پہلے انہیں ہی شروع کرو اور انہوں نے اس قدر زور شور سے دعا مانگی کہ باوا غلام فریدؒ کو شفا ہوگئی.آفات کے وقت دعا کی ضرورت بارش سخت زور سے ہو رہی تھی اور کوئی وقت ایسا نہ ہوتا تھا کہ بادل پھٹے، مکانوں کے گرنے کا سخت اندیشہ ہو

Page 145

رہا تھا.آپ نے فرمایا کہ ہمیشہ بارشوں یا آندھیاں یا اور طوفانوں میں خدا تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے کہ وہ ہمارے لیے اس عذاب میں کوئی بہتری کی ہی صورت پیدا کرے اور ہر ایک شر سے محفوظ رکھے جو اس سے پیدا ہوتا ہے.اسی طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسے وقتوں میں دعا مانگا کرتے تھے اور جب بارش یا آندھی آتی تھی تو گھبرائے سے معلوم ہوتے تھے اور کبھی اندر جاتے تھے اور کبھی باہر جاتے تھے کہ کہیں قیامت تو نہیں آگئی.گو قیامت کی بہت سی نشانیاں ان کو بتائی گئی تھیں اور ابھی مسیح کی آمد کا بھی انتظار تھا مگر پھر بھی وہ خیال کرتے تھے کہ خدا بڑا بے نیاز ہے.اس لیے سب کو چاہیے کہ اس کی بے نیازی سے ڈرتے رہیں اور ہمیشہ ایسے موقعوں پر خصوصیت سے دعا میں لگے رہیں.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مَہد میں کلام فرمایا کہ حضرت عیسٰیؑ کی نسبت لکھاکہ وہ مہد میں بولنے لگے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ پیدا ہوتے ہی یا دو چار مہینہ کے بولنے لگے بلکہ اس سے مطلب ہے کہ جب وہ دو چار برس کے ہوئے کیونکہ یہی وقت تو بچوں کا پنگھوڑوں میں کھیلنے کا ہوتا ہے اور ایسے بچے کے لیے باتیں کرنا کوئی تعجب انگیز اَمر نہیں.ہماری لڑکی امۃ الحفیظ بھی بڑی باتیں کرتی ہے.۱ ۱۴؍مارچ ۱۹۰۷ء دل کی استقامت کے لیے استغفار کی ضرورت امرتسر سے برادر احمد حسین صاحب کاخط حضرت کی خدمت میں آیا جس میں دل کے خوف کا علاج حضرت سے پوچھا ہوا تھا اور لکھا تھا کہ سنا گیا ہے کہ حضور نے فرمایا ہے کہ پچیس دن سے پہلے سب لوگ یہاں چلے آئیں اور ڈوئی کے نشان پر مبارکباد تھی.اس کے جواب میں حضور نے تحریر فرمایا.’’دل کی استقامت کے لیے بہت استغفار پڑھتے رہیں.‘‘

Page 146

آفات سے بچنے کا طریق اور میں نے کسی کو نہیں کہا کہ زلزلہ یا طاعون سے ڈر کر قادیان میں آجائیں.اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں اور خدا تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور زلزلہ کے دن قریب آتے جاتے ہیں جس سے جانوں کا بہت نقصان ہوگا مگر نہیں معلوم کہ وہ نہایت سخت زلزلہ کب آئے گا.ڈوئی کا مَرنا حقیقت میں بڑی فتح ہے.تمام اخباروں میں اس کا ذکر ہے.ایک تازہ نشان ذکر تھا کہ آجکل بہت سے شہروں میں سخت طاعون ہے اور قادیان کے ارد گرد بھی بہت طاعون ہے.صرف گاؤں میں نسبتاً آرام ہے.فرمایا.ہر ایک خبر کا حال نسبتاً ہی معلوم ہوتا ہے دوسری جگہوں میں قہر الٰہی کی آگ برس رہی ہے مگر جب سے کہ یہ الہام ہوا ہے کہ ’’یا اللہ! اب شہر کی بَلائیں بھی ٹال دے‘‘ تب سے قادیان میں گویا امن ہے.یہ بھی ایک تازہ نشان ہے اور سوچنے والوں کے واسطے ازدیادِ ایمان کا موجب ہے.خواص کی موت کا نشان ذکر آیا کہ اب تو اخباروں میں بڑے بڑے آدمیوں کے مَرنے کی خبریں آرہی ہیں.فرمایا.یہ اس الہامِ الٰہی کے منشا کے مطابق میں ہے جس میں خبر دی گئی ہے کہ مِنَ النَّاسِ وَالْعَامَّۃِ یعنی طاعون میں اس حصہ خاص کے لوگ بھی ہلاک ہوں گے اور عام بھی.جہنم کا عذاب دائمی نہیں ہوگا ایک دوست کا خط پیش ہوا کہ چکڑالوی ملّاں نے اپنا مذہب یہ شائع کیا ہے کہ جب انسان مَر جاتا ہے تو ساتھ ہی روح بھی مَر جاتی ہے اور قیامت کے دن پھر ہر دو زندہ کئے جاویں گے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی کو جو پہلے مَرا ہے زیادہ مدت تک عذاب ہو اور جو قیامت کے قریب مَرے گا اس کو عذاب تھوڑی مدت ہو.حضرت نے فرمایا.یہ چکڑالوی کی جہالت کا خیال ہے.یہ اعتراض تو تب وارد ہو سکتا ہے جبکہ

Page 147

جہنم کا عذاب ہمیشہ کے واسطے ہو جس سے انسان کے واسطے کبھی بھی چھٹکارا ہونے والا نہیں ہے اور ہمیشہ کے واسطے وہ جہنم میں رہے گا.یہ مذہب بالکل غلط ہے اور قرآن شریف اور حدیث کے بالکل برخلاف ہے.قرآن شریف سے یہ اَمر ثابت ہے کہ ایک وقت عذاب کا گذار کر انسان رفتہ رفتہ عذابِ جہنم سے بچایا جائے گا.خدا تعالیٰ غفور الرحیم ہے.یہ بات بالکل غیر معقول ہے کہ جس انسان کو خدا تعالیٰ (نے) آپ پیدا کیا ہے اور وہ اس کی مخلوق ہے اور اس کی کمی بیشی میں اس کے خلق کا حصہ ہے وہ اس کو ایسا عذاب دے دے کہ کبھی اس کے واسطے نجات ہی نہ ہو.یہ مذہب تو آریوں کا ہے کہ انسان کے واسطے نجات کبھی نہیں.وہ کسی نہ کسی جون میں پڑا رہے گا، لیکن معلوم نہیں ہوتا ہے کہ لاکھوں کروڑوں کیڑے مکوڑے کب تک انسان بنیں گے.ایک ایک قطرے میں صدہا کیڑے پائے جاتے ہیں.آریوں کا پرمیشر کیا دیالو ہے کہ کل جگ آگیا مگر تاحال کوئی صورت مکتی کی انسانوں کے واسطے پیدا نہیں ہوئی.۱ بلاتاریخ بچے کے کان میں اذان حکیم محمد عمر صاحب نے فیروز پور سے دریافت کیا کہ بچہ جب پیدا ہوتاہے تو مسلمان اس کے کان میں اذان کہتے ہیں کیا یہ اَمر شریعت کے مطابق ہے یا صرف ایک رسم ہے؟ فرمایا.یہ اَمر حدیث سے ثابت ہے اور نیز اس وقت کے الفاظ کان میں پڑے ہوئے انسان کے اخلاق اور حالات پر ایک اثر رکھتے ہیں.لہٰذا یہ رسم اچھی ہے اور جائز ہے.نشان کے پورا ہونے پر دعوت دینا جائز ہے خان صاحب عبد الحمید نے کپور تھلہ سے حضرت کی خدمت میں ڈوئی کے

Page 148

شاندار نشان کے پورا ہونے کی خوشی پر دوستوں کو دعوت دینے کی اجازت حاصل کرنے کے واسطے خط لکھا.حضرت نے اجازت دی اور فرمایا کہ تحدیث بالنعمت کے طور پر ایسی دعوت کا دینا جائز ہے.مسافر کی تعریف ایک صاحب محمد سعید الدین کا ایک سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں اور میرے بھائی ہمیشہ تجارت عطریات وغیرہ میں سفر کرتے رہتے ہیں کیا ہم نماز قصر کیا کریں.فرمایا.سفر تو وہ ہے جو ضرورتاً گاہے گاہے ایک شخص کو پیش آوے نہ یہ کہ اس کا پیشہ ہی یہ ہو کہ آج یہاں کل وہاں اپنی تجارت کرتا پھرے.یہ تقویٰ کے خلاف ہے کہ ایسا آدمی آپ کو مسافروں میں شامل کر کے ساری عمر نماز قصر کرنے میں ہی گذار دے.صنعتِ کفّار سے فائدہ حاصل کرنا جائز ہے ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ جب ریل دجّال کا گدھا ہے تو ہم لوگ اس پر کیوں سوار ہوں؟ فرمایا.کُفّار کی صنعت سے فائدہ اٹھانا منع نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ گھوڑی کو گدھے کے ساتھ ملانا دجل ہے.پس ملانے والا دجّال ہے.لیکن آپ برابر خچر پر سواری کرتے تھے.اور ایک کافر بادشاہ نے ایک خچر آپ کو بطور تحفہ کے بھیجی تھی اور آپ اس پر برابر سواری کرتے رہے.۱ ۱۹؍مارچ ۱۹۰۷ء ڈوئی کی ہلاکت کا نشان فرمایا کہ ڈوئی کے ساتھ کوئی ہمار ذاتی جھگڑا نہ تھا بلکہ وہ مذہب عیسوی کا اس زمانہ میں ایک ہی پیغمبر تھا اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو ہلاک

Page 149

کرنے کے واسطے دعا اور کوشش میں مصروف تھا.پس اس کی ہلاکت سے اسلام اور عیسائیت کے مابین فیصلہ ہو گیا ہے وہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ مسیح موعود خنزیز کو قتل کرے گا وہ خنزیز یہی ڈوئی تھا اور اتنا بڑا آدمی تھا کہ اس کے مَرنے کی تاریں فوراً تمام دنیا میں دی گئی تھیں اور صدہا اخباروںمیں اس کا ذکر چھپا کرتا تھا اور سب لوگ اسے بخوبی جانتے ہیں.لیکھرام وغیرہ کے حالات تو اسی ملک میں محدود تھے اور ممکن ہے کہ ان کے متعلق پیشگوئی اور پھر ان کی موت کی خبر ان ممالک میں نہ پہنچی ہو.مگر اس کے متعلق کوئی ایسا نہیں کہہ سکتا.لیکھرام تو صرف پنجاب اور بعض علاقہ جات ہند میں مشہور تھا ورنہ ایک گمنام اور بے نشان آدمی تھا لیکن ڈوئی کے نام اور حالات سے یورپ اور امریکہ کے بادشاہ بھی واقف تھے.اس نے ایک دفعہ دنیا کے گرد دورہ کیا تھا اور ہند کے جزیرہ سیلون میں بھی آیا تھا.جو شخص ایسے عظیم الشان نشان کا بھی انکار کرے وہ بہت ہی بے حیا ہوگا اور اس کا جرم قابل عفو نہ ہوگا.قدرتِ خدا! ادھر ڈوئی مَرا ادھر بذریعہ الہام ہم کو اس کی موت کی خبر دی گئی اور ساتھ ہی الہام ہوا.اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰدِقِيْنَ یہ اس مباہلہ کی طرف اشارہ تھا جو اس کے اور میرے درمیان ہو چکا تھا کہ خدا نے صادق کو فتح دی.لیکھرام کی موت ذکر تھا کہ ایک آریہ کہتا تھا کہ ہم لوگ تناسخ کے قائل ہیں.ہم میں کوئی مَرتا نہیں اور لیکھرام مَرا نہیں بلکہ زندہ ہے.حضرت نے فرمایا.لیکھرام نے جب خود مباہلہ کیا تھا.اپنے پرمیشر کے آگے وید پیش کر کے فیصلہ چاہا تھا کہ سچے اور جھوٹے کے درمیان فیصلہ ہوجائے اور میرے حق میں پیشگوئی کی تھی کہ مرزا صاحب تین سال میں مَر جائیں گے اور میں نے خدا سے الہام پاکر پیشگوئی کی تھی کہ وہ چھ سال میں مَر جائے گا.تو پھر جب وہ اس مباہلہ کے نتیجہ میں مَر گیا اور اپنی موت سے خود شہادت دے گیا کہ اسلام سچا ہے اور وید جھوٹے ہیں تو اب اس کو زندہ کہنا کیا معنے رکھتا ہے؟ اور اگر بہرحال تناسخ ہی درست ہوتا تو پھر بھی کسی کو کیا معلوم ہے کہ وہ کس کیڑے یا چرندے یا چار پائے کی جون میں ہے اور کس عذاب اور دکھ میں گرفتار ہے.

Page 150

ویدوں کی حیثیت فرمایا.تعجب ہے کہ آریہ لوگ ویدوں کےکیوں شیدائی بنے پھرتے ہیں.نہ ان میں کوئی معجزہ ہے نہ کوئی نشان ہے نہ کوئی عمدہ تعلیم ہے.بلکہ ان لوگوں نے اس کو دیکھا نہیں.اس کو پڑھا نہیں.ان کے بڑے بڑے پنڈت اس کے فہم سے قاصر ہیں.کیونکہ اوّل تو سنسکرت خود مُردہ زبان ہے پھر ویدوں کی سنسکرت اور بھی نرالی ہے.باوجود اس قدر جہالت کے یہ لوگ شوخیاں دکھاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ شوخی اچھی نہیں ہوتی.اس کا انجام بد ہوتا ہے.اپنی شوخیوں سے ہی آدمی مارا جاتا ہے.کثرتِ ملاقات کی برکات سیالکوٹ کے ایک مولوی صاحب کا ذکر ہوا کہ وہ ایک جگہ مخالف مولویوں کےساتھ مباحثہ کرنے گئے ہیں.فرمایا.مباحثات کا حق ان کو نہیں پہنچتا کیونکہ وہ ہماری ملاقات سے بہت تھوڑا حصہ لیے ہوئے ہیں اور ان کو ہماری صحبت میں رہنے کا اتفاق بہت تھوڑا ہوا ہے اور جو ہوا ہے اس کو بہت مدت گذر چکی ہے.یہاں دن رات نئے دلائل پیدا ہوتے ہیں.صرف کتابوں کے دیکھنے سے کام نہیں چلتا بلکہ حاضری شرط ہے کیونکہ علم میں دن بدن ترقی ہوتی ہے.حضرت مولوی محمد احسن صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا.ہاں یہ حق آپ کو پہنچتا ہے کیونکہ آپ کی توجہ دن رات اسی کام کی طرف ہے.پرانی باتیں بھی آپ کے ذہن نشین ہیں اور تازہ باتیں بھی آپ کے دماغ میں ہیں اور آپ کو اس سلسلہ کے امور اور دلائل سے اچھی طرح واقفیت ہے جب تک ایسا آدمی نہ ہو اس سے خطرہ ہے کہ لاعلمی کے سبب کہیں ٹھوکر کھائے.مسلمان کے لیے فری میسن ہونا ارتداد کا حکم رکھتا ہے امیر کابل کا ذکر تھا کہ اس کے فری میسن ہونے کے سبب اس کی قوم اس پر ناراض ہے.فرمایا.اس ناراضگی میں وہ حق پر ہیں کیونکہ کوئی موحد اور سچا مسلمان فری میسن میں داخل نہیں

Page 151

ہو سکتا.اس کا اصل شعبہ عیسائیت ہے اور بعض مدارج کے حصول کے واسطے کھلے طور پر بپتسمہ لینا ضروری ہوتا ہے.اس لیے اس میں داخل ہونا ایک ارتداد کا حکم رکھتا ہے.۱ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۷ء دعا جامع کرنی چاہیے ایک دوست نے کسی خاص چیز کے حصول کے واسطے عرض کیا.فرمایاکہ یہی دعا کرو کہ جو اَمر اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہتر ہے وہی ہوجائے کیونکہ بعض دفعہ انسان ایک چیز کو اپنے لیے بہتر سمجھ کر خدا تعالیٰ سے دعا مانگتا ہے وہ حاصل ہو جاتی ہے لیکن اور شر اس سے پیدا ہوتا ہے جو پہلے شر سے بڑھ کر ہوتا ہے اس واسطے دعا جامع کرنی چاہیے.میں آپ کے واسطے دعا کرتا ہوں کہ خدا آپ کو محفوظ رکھے اور دراصل محفوظ رکھنے والا وہی ہے.حضرت عیسٰیؑ کی دوبارہ آمد فرمایا.ایک دفعہ حضرت عیسٰیؑ زمین پر آئے تھے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ کئی کروڑ مشرک دنیا میں ہوگئے.دوبارہ آکر وہ کیا بنائیں گے کہ لوگ ان کے آنے کے خواہش مند ہیں.۲ ۲۱؍مارچ ۱۹۰۷ء پھر بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن۳ فرمایاکہ دیکھو! ثلج کے آنے کے دن والی پیشگوئی کس طرح پوری ہوگئی اور میں نےا س کے دو پہلو لیے تھے ایک تو یہ کہ خدا کچھ ایسے نشان دکھائے جن کی وجہ سے لوگوں پر حجّت قائم ہوجائے اور دل تسکین پکڑ جائے اور دوسرا یہ کہ سخت بارش اور سردی اور ژالہ باری ہو جو بدر جلد ۶ نمبر ۱۳ مورخہ ۲۸؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۹ ۲ بدر جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخہ ۹؍مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۵ ۳ بدر میں یہ ملفوظات تشحیذ الاذہان سے نقل کیے گئے ہیں.(مرتّب)

Page 152

ایک زمانہ دراز سے کبھی نہ ہوئی ہو تو خدا تعالیٰ نے یہ دونوں پہلو پورے کر دیئے.یہ نشان اس طرح متواتر ظہور میں آئے کہ نہ صرف پنجاب بلکہ یورپ اور امریکہ پر بھی حجّت قائم ہوگئی یعنی ڈوئی کی موت سے.کیونکہ جب ڈوئی نے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں کہ اسلام بالکل تباہ ہو جائے اور امید کرتا ہوں کہ میری دعا قبول ہوگی تو اس وقت میں نے ایک اشتہار شائع کیا اور اس میں ڈوئی سے مباہلہ کیا کہ تُو تو حضرت عیسٰیؑ کو خدا اور عیسائیت کو سچا سمجھتا ہے مگر میں اس کے برخلاف حضرت عیسٰیؑ کو ایک انسان اور خدا کا نبی مانتا ہوں اور اسلام کو سچا مذہب جانتا ہوں.پس ہم میں سے جو جھوٹا ہوگا وہ سچے کے سامنے مَر جائے گا اور میں نے یہ بھی لکھا کہ اگر تو مباہلہ نہ کرے گا تو بھی تو ضرور ہلاک ہوگا.اس کے مقابلہ میں ڈوئی نے لکھا کہ میں کیڑوں مکوڑوں کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتا اور اگر میں چاہوں تو ان (مسیح موعود) کو پاؤں کے نیچے کچل دوں اور یہ ڈوئی امریکہ کا ایک شخص تھا جس کا دعویٰ تھا کہ میں نبی ہوں اور اس کا اثر امریکہ سے لے کر یورپ تک پڑا تھا اور کہتے ہیںکہ سات کروڑ روپے کا مالک تھا.پس اس مباہلہ کے بعد اس کا روپیہ چھیناگیا اور صیحون گاؤں جس کو اس نے بسایا تھا اس میں سے نکالا گیا.پھر فالج پڑا اور ایسا پڑا کہ پچکاری سے پاخانہ نکالتے تھے اور آخر کار فروری ۱۹۰۷ء میں مَر ہی گیا.پس یہ ایک نشان تھا جس نے تمام یورپ اور امریکہ پر اور سعداللہ کی موت نے ہندوستان پر حجّت قائم کر دی ہے.اور یاد رکھنا چاہیے کہ یہ شخص بھی ہمارا سخت دشمن تھا.پس ان دونشانوں اور دوسرے کئی نشانوں نے مل کر دنیا پر ثلج کی پیشگوئی کا پورا ہونا ثابت کردیا.اور پھر یہی نہیں اصل الفاظ میں بھی یہ پیشگوئی کھلے طور سے پوری ہوگئی یعنی اس موسم بہارکے موسم میں جیسا کہ لکھا گیا تھا کہ بہار کے موسم میں ایسا ہوگا.ایسی سخت سردی اور بارش اور ژالہ باری ہوئی ہے کہ دنیا چیخ اٹھی ہے.جیسا کہ آج (۲۱؍مارچ ۱۹۰۷ء) کو بھی بارش ہو رہی ہے اور سخت سردی پڑ رہی ہے.پس یاد رکھنا چاہیے کہ کیسے کھلے الفاظ میں اور کیسی صریح یہ پیشگوئی تھی جو کہ اپنے ہر ایک پہلو پر پوری ہوئی.

Page 153

طاعون کا نشان فرمایاکہ ہندوستان میں چاروں طرف طاعون پھیل رہی ہے اور قریباً گیارہ برس ہوگئے کہ یہ مرض یہاں ترقی کر رہا ہے اور اب کے سال تو بہت ہی تیزی سے بڑھ رہا ہے.معلوم نہیں کہ کب تک اس کا دور دورہ رہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک لوگ اپنے دلوں کو صاف نہیں کریں گے میں اس مرض کو نہیں ہٹاؤں گا.اور باوجود انگریزوں کے زور لگانے کے اس کا اب تک تو علاج کوئی نہیں نکلا.ٹیکہ ایجاد کیا وہ بھی ناکارہ ثابت ہوا.چوہے مَروائے اس سے بھی کچھ فائدہ نہ ہوا.اب مچھر مَروانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر طاعون اسی طرح تیزی پر شروع ہے بلکہ اور بھی بڑھ رہا ہے.مگر مجھ کو خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ تیرے گھر کی چار دیواری میں رہنے والوں کو اس مرض سے بچاؤں گا اور دیکھو کہ اب تک کئی دفعہ اس نواح میں سخت طاعون پڑ چکی ہے اور گاؤں کے گاؤں خالی ہوگئے ہیں اور خود قادیان میں بھی طاعون کئی دفعہ پڑچکا ہے مگر اس گھر کوخدا نے بچائے رکھا اور کوئی آدمی بھی اس مرض سے نہیں مَرا بلکہ اس گھر کا کوئی چوہا بھی ہلاک نہیں ہوا.پس کیا ہی خدا تعالیٰ کا فضل اور رحم ہے! ۱ ۲۸؍مارچ ۱۹۰۷ء (بوقتِ ظہر) صدقہ جاریہ ایک شخص کا خط حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش ہوا کہ انسان اپنی زندگی میں کس طرح کا صدقہ جاریہ چھوڑ جائے کہ مَرنے کے بعد قیامت تک اس کا ثواب ملتا رہے.فرمایاکہ قیامت تک کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے.ہاں ہر ایک عمل انسان کا جو اس کے مَرنے کے بعد اس کے آثار دنیا میں قائم رہیں وہ اس کے واسطے موجب ثواب ہوتا ہے.مثلاً انسان کا بیٹا ہو اور وہ اسے دین سکھلائے اور دین کا خادم بنائے تو یہ اس کے واسطے صدقہ جاریہ ہے جس کا ثواب اس کو ملتا رہے گا.اعمال نیت پر موقوف ہیں.ہر ایک عمل جو نیک نیتی کے ساتھ ایسے طور سے کیا جائے کہ اس کے بعد قائم رہے وہ اس کے واسطے صدقہ جاریہ ہے.

Page 154

طاعون سے بچنے کا طریق ذکر ہوا کہ اس سال طاعون بہت پھیل رہی ہے اور پچھلے سالوں کی طرح صرف عام لوگ گرفتار نہیں ہوتے بلکہ خواص اور بڑے بڑے امیر ہلاک ہو رہے ہیں جیسا کہ اخباروں میں درج ہو رہا ہے.فرمایا.باوجود اس سختی کے جو طاعون کے سبب وارد ہو رہی ہے لوگ اس طرف اب تک نہیں آتے کہ دنیوی حیلے تو سب فضول ہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا چاہیے بلکہ ابھی تک لوگ یہی تجاویز پیش کرتے ہیں کہ مچھروں کو مارو اور پسوؤں کو مارو لیکن جب تک اپنے آپ کو مارنے کی طرف متوجہ نہ ہوں گے وہ کبھی نجات نہ پائیں گے.محنت کا پھل ذکر تھا کہ جو لوگ دراصل خدا تعالیٰ کے عابد نہیں ہیں لیکن ریا کے طور پر یا غلط راہ پر چل کر لمبی عبادتیں کرتے ہیں ان کو بھی کچھ کچھ ظاہری قبولیت اور فوائد حاصل ہو ہی جاتے ہیں.حضرت نے فرمایا.چونکہ ایک محنت شاقہ اٹھاتے ہیں اس کا عوض کچھ نہ کچھ ان کو دے دیا جاتا ہے.کہتے ہیں کہ ایک گبر چالیس سال تک ایک جگہ آگ پر بیٹھا رہا اور اس کی پرستش میں مصروف رہا.چالیس سال کے بعد جب وہ اٹھا تو لوگ اس کے پاؤں کی مٹی آنکھ میں ڈالتے تھے تو ان کی آنکھ کی بیماری اچھی ہوجاتی تھی.اس بات کو دیکھ کر ایک صوفی گھبرایا اور اس نے سوچا کہ جھوٹے کو یہ کرامت کس طرح سے مل گئی اور وہ اپنی حالت میں مذبذب ہوگیا.اس پر ہاتف کی آواز اسے پہنچی جس نے کہا کہ تو کیوں گھبراتا ہے؟ سوچ کہ جب جھوٹے اور گمراہ کی محنت کو خدا تعالیٰ نے ضائع نہیں کیا توجو سچا اس کی طرف جائے گا اس کا کیا درجہ ہوگا؟ اور اس کو کس قدر انعام ملے گا.تم اس زمانہ میں نہیں دیکھتے کہ پادری لوگ باوجود جھوٹے ہونے کے اپنی محنت کے سبب چالیس کروڑ اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں.توفّی کے معنی فرمایا.آج علی گڑھ سے ماسٹر محمد دین صاحب کا خط آیا ہے.انہوں نے خوب لطیفہ لکھا ہے کہ مصر کے اخباروں میں بھی ڈوئی کے مَرنے کی خبریں لکھی ہیں.ایک عربی اخبار تو لکھتا ہے کہ مَاتَ ڈوئی اور دوسرا لکھتا ہے توفّی ڈوئی.آپس میں تو انہوںنے فیصلہ کر دیا کہ توفّی کے معنے مات کے ہیںلیکن ہمارے مولوی کہیں عربی اخباروں کو پڑھ کر اس کی جگہ

Page 155

بھی یہ معنے نہ کر لیں کہ ڈوئی مَرا نہیں.آسمان پر چلا گیا ہے.۱ ۳۱؍مارچ۱۹۰۷ء (بوقتِ سیر) ایک الہام کا پورا ہونا صبح نو بجے کے قریب حضرت اقدس بمع خدام سیر کے واسطے باہر تشریف لے گئے.حکیم محمد حسین صاحب قریشی کی لڑکی کے فوت ہوجانے کا ذکر تھا.فرمایا.ان کے خطوط اور تاریں آئی تھیں اور میں نے ان کے واسطے دعا کی تھی.وہ ہماری جماعت کے مخلص اور بڑی خدمت کرنے والے ہیں.ان کی لڑکی کے متعلق بہت دن پہلے الہام ہوچکا تھا کہ’’لاہور سے افسوسناک خبر آئی.‘‘۲ ہمیں تو بہت فکر تھا کہ اس سے کیا مراد ہے اور اس وقت ایک آدمی بھی لاہور بھیجا تھا.اچھا خدا کرے کہ اب اتنے پر ہی اکتفا ہو.ظاہری اسباب کی رعایت لاہور میں بیماری کا ذکر تھا کہ بہت پھیلتی جاتی ہےاور قریباً ہر محلہ میں اس کا اثر ہے.فرمایا.یہ ہمارا حکم ہے.بہتر ہے کہ لاہور کے دوست اشتہار دے دیں کہ جس گھر میں چوہے مَریں اور جس کے قریب بیماری ہو فوراً وہ مکان چھوڑ دینا چاہیے اور شہر کے باہر کسی کھلے مکان میں چلا جانا چاہیے.یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے.ظاہری اسباب کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے.گندے اور تنگ و تاریک مکانوں میں رہنا تو ویسے بھی منع ہے خواہ طاعون ہو یا نہ ہو.وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ (المدّثّر:۶) کا حکم ہے.ہر ایک پلیدی سے پرہیز رکھنا چاہیے.کپڑے صاف ہوں.جگہ ستھری ہو.بدن پاک رکھا جائے.یہ ضروری باتیں ہیں اور دعا اور استغفار میں مصروف رہنا چاہیے.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی طاعون ہوئی تھی.ایک جگہ مسلمانوں کی فوج گئی ہوئی تھی.وہاں سخت طاعون پڑی.جب مدینہ شریف میں امیر المؤمنین کے پاس خبر پہنچی تو آپ نے حکم لکھ بھیجا کہ فوراً بدر جلد ۶ نمبر ۱۴ مورخہ ۴؍اپریل ۱۹۰۷ءصفحہ ۷ ۲ بدر میں ایک اور جگہ یہ الہام یوں درج ہے ’’لاہور سے ایک افسوسناک خبر آئی‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۲۷ مورخہ ۴؍جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۷

Page 156

اس جگہ کو چھوڑ دو اور کسی اونچے پہاڑ پر چلے جاؤ.چنانچہ اس سے محفوظ ہو گئی.اس وقت ایک شخص نے اعتراض بھی کیا کہ کیا آپ خد اتعالیٰ کی تقدیر سے بھاگتے ہیں؟ فرمایا.میں ایک تقدیر خدا وندی سے دوسری تقدیر خدا وندی کی طرف بھاگتا ہوں وہ کون سا اَمر ہے جو خدا تعالیٰ کی تقدیر سے باہر ہے.طاعون سے بچانے کے دو وعدے فرمایا.خدا تعالیٰ نے دو وعدے اپنی وحی کے ذریعہ سے کئے ہیں.ایک تو یہ کہ وہ اس گھر کے رہنے والوں کو طاعون سے بچائے گا جیسا کہ اس نے فرمایا ہے کہ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.دوسرا وعدہ اس کا ہماری جماعت کے متعلق ہے کہ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يَلْبِسُوْۤا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ (ترجمہ ) جن لوگوں نے مان لیا ہے اور اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کو نہ ملایا.ایسے لوگوں کے واسطے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں.اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے کہ جماعت کے وہ لوگ بچائے جائیں گے جو پورے طور سے ہماری ہدایتوں پر عمل کریں اور اپنےا ندرونی عیوب اور اپنی غلطیوں کی میل کو دور کر دیں گے اور نفس کی بدی کی طرف نہ جھکیں گے بہت سے لوگ بیعت کر کے جاتے ہیں مگر اپنے اعمال درست نہیں کرتے.صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھنے سے کیا بنتا ہے.خدا تو دلوں کے حالات سے واقف ہے.۱ بلاتاریخ ہمدردی اور احتیاط سوال ہوا کہ طاعون کا اثر ایک دوسرے پر پڑتا ہے.ایسی صورت میں طبیب کے واسطے کیا حکم ہے؟ فرمایا.طبیب اور ڈاکٹر کو چاہیے کہ وہ علاج معالجہ کرے اور ہمدردی دکھائے لیکن اپنا بچاؤ رکھے.بیمار کے بہت قریب جانا اور مکان کے اندر جانا اس کے واسطے ضروری نہیں ہے وہ حال معلوم

Page 157

کر کے مشورہ دے.ایسا ہی خدمت کرنے والوں کے واسطے بھی ضروری ہے کہ اپنا بچاؤ بھی رکھیں اور بیمار کی ہمدردی بھی کریں.طاعون سے مَرنے والا مومن شہید ہوتا ہے سوال ہوا کہ طاعون زدہ کے غسل کے واسطے کیا حکم ہے؟ فرمایا.مومن طاعون سے مَرتا ہے تو وہ شہید ہے.شہید کے واسطے غسل کی ضرورت نہیں.کفن سوال ہوا کہ اس کو کفن پہنایا جائے یا نہیں؟ فرمایا.شہید کے واسطے کفن کی ضرورت نہیں.وہ انہیں کپڑوں میں دفن کیا جاوے.ہاں اس پر ایک سفید چادر ڈال دی جائے تو ہرج نہیں.اسم اعظم ایک شخص کا سوال حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا کہ قرآن شریف میں اسم اعظم کون سا لفظ ہے؟ فرمایا.اسم اعظم اللہ ہے.خواب کو پورا کرنا ایک دوست نے حضرت کی خدمت میں اپنی بیوی کا خواب لکھا کہ ’’کسی شخص نے خواب میں میری بیوی کو کہا کہ تمہارے بیٹے پر بڑا بوجھ ہے اس پر سے صدقہ اتارو اور ایسا کرو کہ چنے بھگو کر مٹی کے برتن میں رکھ کر اور لڑکے کے بدن کا کرتہ اتار کر اس میں باندھ کر رات سوتے وقت سرہانے چارپائی کے نیچے رکھ دو اور ساتھ چراغ جلا دو صبح کسی غیر کے ہاتھ اٹھوا کر چوراہے میں رکھ دو.‘‘ یہ خواب لکھ کر حضرت سے دریافت کیا کہ کیا جائز ہے کہ ہم خواب اسی طرح سے پورا کرلیں.جواب میں حضرت نے تحریر فرمایا کہ جائز ہے کہ اس طرح سے کریں اور خواب کو پورا کر لیں.دعا میں صیغہ واحد کو جمع کرنا ایک دوست کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں ایک مسجد میں امام ہوں بعض دعائیں جو صیغہ واحد متکلم میں ہوتی ہیں.یعنی انسان کے اپنے واسطے ہی ہو سکتی ہیں میں چاہتا ہوںکہ ان کو صیغہ جمع میں پڑھ کر مقتدیوں کو بھی اپنی دعامیں شامل کر لیا کروں اس میں کیا حکم ہے؟

Page 158

فرمایا.جو دعائیں قرآن شریف میں ہیں ان میں کوئی تغیر جائز نہیں کیونکہ وہ کلامِ الٰہی ہے وہ جس طرح قرآن شریف میں ہے اسی طرح پڑھنا چاہیے.ہاں حدیث میں جو دعائیں آئی ہیں.ان کے متعلق اختیار ہے کہ صیغہ واحد کی بجائے صیغہ جمع پڑھ لیا کریں.۱ یکم اپریل ۱۹۰۷ء (بوقتِ سیر) طاعون زدہ علاقوں کے احمدیوں کے واسطے حکم صبح کو حضرت اقدس بمع خدام باہر سیر کے واسطے تشریف لے گئے.راستہ میں عاجز۲ راقم کو مخاطب کر کے فرمایاکہ اخبار میں چھاپ دو اور سب کو اطلاع کر دو کہ یہ دن خدا تعالیٰ کے غضب کے دن ہیں.اللہ تعالیٰ نے کئی بار مجھے بذریعہ وحی فرمایا ہے کہغَضِبْتُ غَضْبًا شَدِیْدًا.آجکل طاعون بہت بڑھتا جاتا ہے اور چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے.میں اپنی جماعت کے واسطے خدا تعالیٰ سے بہت دعا کرتا ہوں کہ وہ اس کو بچائے رکھے.مگر قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جب قہر الٰہی نازل ہوتا ہے تو بدوں کے ساتھ نیک بھی لپیٹے جاتے ہیں اور پھر ان کا حشر اپنے اپنے اعمال کے مطابق ہوگا.دیکھو! حضرت نوحؑکا طوفان سب پر پڑا.اور ظاہر ہے کہ ہر ایک مرد عورت اور بچے کو اس سے پورے طور پر خبر نہ تھی کہ نوحؑکا دعویٰ اور اس کے دلائل کیا ہیں.جہاد میں جو فتوحات ہوئیں وہ سب اسلام کی صداقت کے واسطے نشان تھیں.لیکن ہر ایک میں کفّار کے ساتھ مسلمان بھی مارے گئے.کافر جہنم کو گیا اور مسلمان شہید کہلایا.ایسا ہی طاعون ہماری صداقت کے واسطے ایک نشان ہے اور ممکن ہے کہ اس میں ہماری جماعت کے بعض آدمی بھی شہید ہوں.ہم خدا تعالیٰ کے حضور دعا میں مصروف ہیں کہ وہ ان میں اور غیروں میں تمیز قائم رکھے لیکن جماعت کے آدمیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ صرف ہاتھ پر ہاتھ ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۱۴ مورخہ ۴؍اپریل ۱۹۰۷ءصفحہ ۶ ۲حضرت مفتی محمد صادق ایڈیٹر بدر (مرتّب)

Page 159

رکھنے سے کچھ نہیں بنتا جب تک کہ ہماری تعلیم پر عمل نہ کیا جاوے.سب سے اوّل حقوق اللہ کو ادا کرو.اپنے نفس کو تمام جذبات سے پاک رکھو.اس کے بعد حقوقِ عباد کو ادا کرو اور اعمال صالحہ کو پورا کرو.خدا تعالیٰ پر سچا ایمان لاؤ اور تضرّع کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور میں دعا کرتے رہو اور کوئی دن ایسا نہ ہو جس دن تم نے خدا کے حضور رو کر دعا نہ کی ہو.اس کے بعد اسباب ظاہری کی رعایت رکھو.جس مکان میں چوہے مَرنے شروع ہوں اس کو خالی کر دو.اور جس محلہ میں طاعون ہو اس محلہ سے نکل جاؤ اور کسی کھلے میدان میں جا کر ڈیرا لگاؤ.جو تم میں سے بتقدیر الٰہی طاعون میں مبتلا ہو جاوے اس کے ساتھ اور اس کے لواحقین کے ساتھ پوری ہمدردی کرو اور ہر طرح سے اس کی مدد کرو اور اس کے علاج معالجہ میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھو.لیکن یاد رہے کہ ہمدردی کے یہ معنے نہیں کہ اس کے زہریلے سانس یا کپڑوں سے متاثر ہو جاؤ.بلکہ اس اثر سے بچو.اسے کھلے مکان میں رکھو اور جو خدانخواستہ اس بیماری سے مَر جائے وہ شہید ہے.اس کے واسطے ضرورت غسل کی نہیں اور نہ نیا کفن پہنانے کی ضرورت ہے.اس کے وہی کپڑے رہنے دو اور ہوسکے تو ایک سفید چادر اس پر ڈال دو اور چونکہ مَرنے کے بعد میت کے جسم میں زہریلا اثر زیادہ ترقی پکڑتا ہے اس واسطے سب لوگ اس کے ارد گرد جمع نہ ہوں.حسب ضرورت دو تین آدمی اس کی چارپائی کو اٹھائیں اور باقی سب دور کھڑے ہو کر مثلاً ایک سو گز کے فاصلہ پر جنازہ پڑھیں.جنازہ ایک دعا ہے اور اس کے واسطے ضروری نہیں کہ انسان میت کے سر پر کھڑا ہو.جہاں قبرستان دور ہو مثلاً لاہور میں سامان ہو سکے تو کسی گاڑی یا چھکڑے پر میت کو لاد کر لے جاویں اور میت پر کسی قسم کی جزع فزع نہ کی جاوے.خدا کے فعل پر اعتراض کرنا گناہ ہے.اس بات کا خوف نہ کرو کہ ایسا کرنے سے لوگ تمہیں بُرا کہیں گے وہ پہلے کب تمہیں اچھا کہتے ہیں.یہ سب باتیں شریعت کے مطابق ہیں اور تم دیکھ لو گے کہ آخر کار وہ لوگ جو تم پر ہنسی کریں گے خود بھی ان باتوں میں تمہاری پیروی کریں گے.مکرراً یہ بہت تاکید ہے کہ جو مکان تنگ اور تاریک ہو اور ہوا اور روشنی خوب طور پر نہ آسکے اس

Page 160

کو بلاتوقف چھوڑ دو کیونکہ خود ایسا مکان ہی خطرناک ہوتا ہے گو کوئی چوہا بھی اس میں نہ مَرا ہو اور حتی المقدور مکانوں کی چھتوں پر رہو.نیچے کے مکان سے پرہیز کرو اور اپنے کپڑوں کو صفائی سے رکھو.نالیاں صاف کراتے رہو.سب سے مقدم یہ کہ اپنے دلوں کو بھی صاف کرو اور خدا کے ساتھ پوری صلح کرلو.کتاب ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ حضرت نے فرمایا ہے کہ کتاب’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ تمام دوست مرد اور عورت جو مقدرت رکھتے ہیں ایک ایک جلد خرید فرماویں اور نیز آریوں کے درمیان مفت تقسیم کرنے کے واسطے خریدی جائے.کیونکہ یہ کتاب غلطی کے سبب ساری کی ساری ہر دو اخباروں میں یک دفعہ چھپ چکی ہے اور جس دوست کی ملکیت میں وہ کتاب ہے اس کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے.۱ ۵؍اپریل ۱۹۰۷ء ایک تازہ الہام تازہ الہام ’’حٰمٓ.تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ راز کھل گیا‘‘ کا ذکرتھا.فرمایا.تفہیم یہی ہوئی ہے کہ یہ پیشگوئی ہے.سابقہ کتب کی مثال پہلی کتابوں کا ذکر تھا جو منسوخ شدہ ہیں اورمحرف و مبدل ہیں.فرمایا.اب ان کی مثال ایک مسمار شدہ عمارت کی طرح ہے.جس طرح کوئی عمارت گرجاتی ہے اور اس کی اینٹیں اوپر نیچے کہیں کی کہیں جا پڑتی ہیں.پاخانے کی اینٹ باورچی خانے میں اور باورچی خانے کی اینٹ پاخانے میں چلی جاتی ہے.وہ مکانات اب اس قابل نہیں رہے کہ ان میں رہائش اختیار کی جائے جو ان کو اپنا مسکن بنائے وہ محلات میں رہنے والوں کی طرح آرام پا نہیں سکتا.دیسی جڑی بوٹیاں سیر میں بر لب سڑک خود رو بوٹیوں کی طرف اشارہ کر کے اور حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب کو مخاطب کر کے حضرت اقدس نے فرمایاکہ

Page 161

یہ دیسی بوٹیاں بہت کار آمد ہوتی ہیں مگر افسوس ہے کہ لوگ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے.حضرت مولوی صاحب نے عرض کیا کہ یہ بوٹیاں بہت مفید ہیں.گندلوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ہندو فقیر لوگ بعض اسی کو جمع کر رکھتے ہیں اور پھر اسی پر گذارا کرتے ہیں.یہ بہت مقوی ہے اور اس کے کھانے سے بواسیر نہیں ہوتی.ایسا ہی کنڈیاری کے فائدے بیان کئے جو پاس ہی تھی.حضرت نے فرمایا کہ ہمارے ملک کے لوگ اکثر ان کے فوائد سے بے خبر ہیں اور اس طرح توجہ نہیں کرتے کہ ان کے ملک میں کیسی عمدہ دوائیں موجود ہیںجو کہ دیسی ہونے کے سبب ان کے مزاج کے موافق ہیں.۱ بلا تاریخ غیر کفو میں نکاح ایک دوست کا سوال پیش ہوا کہ ایک احمدی اپنی ایک لڑکی غیر کفو کے ایک احمدی کے ہاں دینا چاہتا ہے حالانکہ اپنی کفو میں رشتہ موجود ہے اس کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے.فرمایا کہ اگر حسب مراد رشتہ ملے تو اپنی کفو میں کرنا بہ نسبت غیر کفو کے بہتر ہے لیکن یہ اَمر ایسا نہیں کہ بطور فرض کے ہو.ہر ایک شخص ایسے معاملات میں اپنی مصلحت اور اپنی اولاد کی بہتری کو خوب سمجھ سکتا ہے اگر کفو میں وہ کسی کو اس لائق نہیں دیکھتا تو دوسری جگہ دینے میں حرج نہیں اور ایسے شخص کو مجبور کرنا کہ وہ بہرحال اپنی کفو میں اپنی لڑکی دیوے.جائز نہیں ہے.جوتا پہن کر نماز ذکر تھا کہ امیر کابل اجمیر کی خانقاہ میں بوٹ پہنے ہوئے چلا گیا تھا اور ہر جگہ بوٹ پہنے ہوئے نماز پڑھی اور اس بات کو خانقاہ کے کارندوں نے بُرا منایا.حضرت نے فرمایا کہ اس معاملہ میں امیر حق پر تھا جوتی پہنے ہوئے نماز پڑھنا شرعاً جائز ہے.۲

Page 162

۱۰؍اپریل ۱۹۰۷ء (بوقتِ سیر) اچھی تلاوت کو پسند فرمانا صبح کو حضرت سیر کے واسطے تشریف لے گئے.خدام ساتھ تھے.حافظ محبوب الرحمٰن صاحب جو کہ اخویم منشی حبیب الرحمٰن صاحب رئیس حاجی پورہ اور بھائی جان منشی ظفر احمد صاحب کے عزیزوں میں سے ہیں ساتھ تھے.حضرت نے حافظ صاحب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ قرآن شریف اچھا پڑھتے ہیں اور میں نے اسی واسطے ان کو یہاں رکھ لیا ہے کہ ہر روز ان سے قرآن شریف سنا کریں گے.مجھے بہت شوق ہے کہ کوئی شخص عمدہ، صحیح، خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنے والا ہو تو اس سے سنا کروں.پھر حافظ صاحب موصوف کو مخاطب کر کے حضرت نے فرمایا کہ آج آپ سیر میں کچھ سنائیں.چنانچہ تھوڑی دور جا کر آپ نہایت سادگی کے ساتھ ایک کھیت کے کنارے زمین پر بیٹھ گئے اور تمام خدام بھی زمین پر بیٹھ گئے اور حافظ صاحب نے نہایت خوش الحانی سے سورۃ دہر پڑھی جس کے بعد آپ سیر کے واسطے آگے تشریف لے گئے.اخبارات میں قرآن کریم کی آیات فرمایا.بڑا افسوس ہے کہ قرآن شریف کی جو آیات اخبار الحکم اور بدر میں لکھی جاتی ہیں ان میں اکثر غلطیاں ہوتی ہیں.اخبار والوں کو بہت احتیاط کرنی چاہیے.مخالفین کا انجام ذکر تھا کہ لیکھرام کی یادگار میں ایک رسالہ نکلتا ہے.چونکہ لیکھرام نے اپنا نام آریہ مسافر لکھا تھا اس واسطے اس رسالہ کا نام بھی آریہ مسافر رکھا گیا ہے.حضرت نے فرمایا کہ وہ تو اپنے اعتراضات کا جواب اپنی موت کے ساتھ آپ ہی دے گیا ہے.وہ مسافر بنتا تھا.

Page 163

خدا نے اسے ایسا مسافر بنایاکہ پھر کبھی واپس نہ آیا.فرعون کہنے والے مَرتے جاتے ہیں ایسا ہی وہ تمام لوگ جو مجھے فرعون کہتے تھے، ہلاک ہوگئے.محی الدین لکھوکے والے نے اپنا الہام شائع کیا تھا کہ مرزا صاحب فرعون ہیں.چراغ الدین نے بھی مجھے فرعون لکھا تھا.الٰہی بخش نے بھی مجھے فرعون لکھا.مگر یہ عجیب فرعون ہے کہ پہلا فرعون تو موسیٰ کے مقابلہ میں ہلاک ہوگیا تھا اور یہاں فرعون تو زندہ ہے اور موسیٰ دن بدن ہلاک ہوتے جاتے ہیں.نزولِ بَلا کا وقت فرمایا.حدیثوں سے ثابت ہے کہ نزولِ بَلا عموماً رات کے وقت اور بعد مغرب تاریکی پھیلنے کے وقت ہوتا ہے.۱ خدا تعالیٰ کے فعل پر اعتراض کرنا گستاخی ہے فرمایا.خدا تعالیٰ کے فعل پر اعتراض کرنا بڑی گستاخی ہے.یہ لوگ کس گنتی میں ہیں.ایک نبی (یونسؑ) بھی صرف لَنْ اَرْجِعَ اِلٰی قَوْمِیْ کَذَّابًا کہنے سے زیر عتاب ہوا دراصل خدا تعالیٰ کے کسی فعل پر شرح صدر نہ رکھنا بھی ایک مخفی اعتراض ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوتا ہے.وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ(القلم:۴۹) ایسے امور میں مخاطب تو انبیاء ہوتے ہیں مگر در اصل سبق امت کو دینا منظور ہوتا ہے ہمارے بارے میں حق کے فیصلہ کے لیے کس قدر کھلی ہوئی راہ ہے کہ کوئی ایسی بات نہیں جس کی نظیر اگلی امتوں میں موجود نہیں.دیکھو مسیح کی دوبارہ آمد کا مسئلہ ایلیا کی آمد سے کیسا صاف ہوجاتا ہے.یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ اس پر دونوں قوموں کا باوجود اختلاف کے اتفاق ہے جیسا مسیح کے صلیب پر چڑھایا جانے کے بارے میں.آتھم جب رجوع والی شرط سے فائدہ اٹھا کر پندرہ ماہ میں نہ مَرا تو خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے نے کیا عمدہ جواب دیا کہ بعض اشخاص آسمان پر مَر جاتے ہیں اور اللہ کا ولی اس کو مُردہ دیکھ لیتا ہے مگر دوسرے عوام الناس اس معرفت تک نہیں پہنچتے اور اعتراض کرتے ہیں.

Page 164

نبی کے مخالفین کی تباہی کا وقت ان سب کی تہہ میں وَ اسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ(ابراھیم:۱۶) کا قانون کام کر رہا ہے.ہر نبی پہلے صبر کی حالت میں ہوتا ہے.پھر جب ارادۂ الٰہی کسی قوم کی تباہی سے متعلق ہوتا ہے تو نبی میں درد کی حالت پیدا ہوتی ہے.وہ دعا کرتا ہے.پھر اس قوم کی تباہی یا خیر خواہی کے اسباب مہیا ہوجاتے ہیں.دیکھو! نوح علیہ السلام پہلے صبر کرتے رہے اور بڑی مدت تک قوم کی ایذائیں سہتے رہے.پھر ارادۂ الٰہی جب ان کی تباہی سے متعلق ہوا تو درد کی حالت پیدا ہوئی اور دل سے نکلا رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا(نوح:۲۷) جب تک خدا تعالیٰ کا ارادہ نہ ہو وہ حالت پیدا نہیں ہوتی.پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال پہلے صبر کرتے رہے.پھر جب درد کی حالت پیدا ہوئی تو قتال کے ذریعہ مخالفین پر عذاب نازل ہوا.خود ہماری نسبت دیکھو جب یہ شبھ چنتک جاری ہوا تو اس کا ذکر تک بھی نہیں کیا گیا.مگر جب ارادۂ الٰہی اس کی تباہی کے متعلق ہوا تو ہماری توجہ اس طرف بے اختیار ہوگئی اور پھر تم دیکھتے ہو کہ رسالہ ابھی اچھی طرح شائع بھی نہ ہونے پایا کہ خدا کی باتیں پوری ہوگئیں.یہ جو کہا جاتا ہے کہ بعض اولیاء اللہ کو صفت خلق یا تکوین دی گئی.اس سے یہی مراد ہے کہ وہ ان کی دعا کا نتیجہ ہوتا ہے اور الٰہی صفت ایک پردہ میں ظاہر ہوتی ہے.اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا یہ عیسائی اور آریہ کہتے ہیں کہ شمشیر کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کئے.ہم کہتے ہیں یہ بھی ایک دو برس تلوار چلا کر دیکھیں کوئی ان کے مذہب میں داخل ہوتا ہے یا نہیں.ایمان جو ایک قلبی معاملہ ہے ہم نہیں سمجھ سکتے تلوار کے ذریعہ کیوں کر کسی کو شرح صدر حاصل ہو سکتا ہے.خدا تعالیٰ کی حکمت اس میں بھی خدا کی حکمت ہے کہ فلاں فلاں مسلمان عالم ہمارے سلسلہ میں داخل نہیں.اگر یہ داخل ہوتے تو خدا جانے کیا کیا فتنے برپا کرتے.لَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِيْهِمْ خَيْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ(الانفال:۲۴) یہ وہ وقت ہے جس کی تمام نبیوں نے خبر دی کہ اس وقت عام تباہی ہوگی اور کوئی ایسی آفت باقی نہ رہے گی جو دنیا پر نازل نہ ہو.تضرّع کا مقام ہے.

Page 165

۱۱؍اپریل ۱۹۰۷ء (بوقتِ سیر) غلام دستگیر قصوری کا مباہلہ غلام دستگیر قصوری کے بارے میں ذکر تھا کہ بعض مخالفین کہتے ہیں.اس نے کب مباہلہ کیا؟ حضور نے فرمایا کہ یہ جو اس نے لکھا فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا(الانعام:۴۶) کا مصداق بنا.اس فقرے کے اس کے سوا اور کیا معنے ہوسکتے ہیں کہ وہ ظالم کی ہلاکت کا خدا تعالیٰ سے خواستگار ہے اب اللہ تعالیٰ کے فعل نے بتا دیا کہ ظالم کون ہے.قرآن مجید میں بھی لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِيْنَ( اٰل عـمران:۶۲) آیا ہے.یوں کھول کر تو نہیں کہا گیا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اور اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر عذاب نازل ہو.گو اس کا مفہوم یہی ہے مگر یہ عبارت نہیں.ایسا ہی وہاں جو قصوری نے اپنی کتاب میں لکھا تو اس کا مطلب یہی تھا.پھر بطریق تنزل ہم مان لیتے ہیں کہ اس نے صرف ہمارے لیے بد دعا کی مگر اب بتاؤ کہ اس کی دعا کا اثر کیا ہوا، کیا وہ الفاظ جومیرے حق میں کہے اور وہ دعا جو میرے برخلاف کی الٹی اس پر ہی نہیں پڑی.اب بتاؤ کہ کیا مقبولانِ الٰہی کا یہی نشان ہے کہ جو دعا وہ نہایت تضرّع و ابتہال سے کریں اس کا الٹا اثر ہو اور اثر بھی یہ کہ خود ہی ہلاک ہو کر اپنے کاذب ہونے پر مہر لگا جاویں.خصوصاً ایسے شخص کے مقابل میں جسے وہ مفتری اور کیا کیا سمجھتا ہے.دراصل وہ مجمع البحار والے کی مثال دے کر خود اس کا قائم مقام بننا چاہتا تھا اور اگر مجھے کوئی نقصان پہنچ جاتا تو بڑے لمبے لمبے اشتہار شائع ہوتے لیکن خدا نے دشمن کو بالکل موقع نہ دیا کہ وہ کسی قسم کی خوشی منائے.اس بات کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے میرے بر خلاف بد دعا کی اور خدا سے میری جڑ کے کٹ جانے کی درخواست کی.لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی جڑ کٹ گئی اور مجھے روز افزوں ترقی حاصل ہوئی.کیا یہ متعصب مخالف کے لیے عبرت کا مقام نہیں؟ افسوس کہ یہ لوگ ذرا بھی غور وفکر سے کام نہیں لیتے.قرآن مجید کی وہ آیت یہاں کیسی صادق آرہی ہےکہ يَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَآىِٕرَ عَلَيْهِمْ

Page 166

دَآىِٕرَةُ السَّوْءِ(التوبۃ:۹۸) (تاکتے ہیں تم پر زمانے کی گردشیں انہیں پر آوے گردش بُری) مامور کے مخالفین کا انجام خدا کے مامور کے جو مقابل میں آتا ہے سب دعائیں اور لعنتیں اسی پر الٹ کر پڑتی ہیں جیسا کہ سب نے دیکھ لیا.یہ آریہ جو مَرے ہیں خدا تعالیٰ نے یہ پسند نہیں کیا کہ اس کے مرکز تجلیات میں کوئی ہم پر افترا کرے.واقعی یہ بڑی خیانت کا کام ہے کہ اپنی آنکھوں سے نشان دیکھیں اور پھر نہ صرف خود انکار کریں بلکہ اَوروں کو بھی بہکائیں.یہ سخت بُرا کام تھا جو انہوں نے اپنے ذمہ لیا جیسے روشنی میں سیاہ دل چور نہیں ٹھہر سکتا ایسے ہی اس مقام میں جو تجلیات و انوار الٰہی کا مرکز ہو کوئی سیاہ دل خائن بہت مدت نہیں ٹھہر سکتا.اسی لیے فرمایا قرآن مجید میں لَا يُجَاوِرُوْنَكَ فِيْهَاۤ اِلَّا قَلِيْلًا(الاحزاب:۶۱) (نہ پڑوس میں رہیں گے تیرے مگر چند دن).نسخہءِ کیمیا میرے نزدیک سب سے بڑے مشرک کیمیا گر ہیں کہ یہ رزق کی تلاش میں یوں مارے مارے پھرتے ہیں اور ان اسباب سے کام نہیں لیتے جو اللہ تعالیٰ نے جائز طور سے رزق کے حصول کے لیے مقرر کئے ہیں اور نہ پھر توکل کرتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَفِي السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ(الذّاریٰت:۲۳) (اور آسمان میں ہے تمہارا رزق اور جو کچھ تم وعدہ دیئے جاتے ہو) ہم ایسے مہوسوں کو ایک کیمیا کا نسخہ بتلاتے ہیں بشرطیکہ وہ اس پر عمل کریں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ(الطلاق:۳،۴) پس تقویٰ ایک ایسی چیز ہے کہ جسے یہ حاصل ہو اُسے گویا تمام جہان کی نعمتیں حاصل ہوگئیں.یاد رکھو متقی کبھی کسی کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ وہ اس مقام پر ہوتا ہے کہ جو چاہتا ہے خدا اس کے لیے اس کے مانگنے سے پہلے مہیا کر دیتا ہے.میں نے ایک دفعہ کشف میں اللہ تعالیٰ کو تمثُّل کے طور پر دیکھا.میرے گلے میں ہاتھ ڈال کر فرمایا.جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو پس یہ وہ نسخہ ہے جو تمام انبیاء و اولیاء و صلحاء کا آزمایا ہوا ہے.نادان لوگ اس بات کو چھوڑ کر

Page 167

بوٹیوں کی تلاش میں مارے پھرتے ہیں.اتنی محنت اگر وہ ان بوٹیوں کے پیدا کرنے والے کے پانے میں کرتے تو سب من مانی مرادیں پا لیتے.تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو ہماری جماعت کو چاہیے کہ تقویٰ کی راہوں پر قدم ماریں اور اپنے دشمن کی ہلاکت سے بے جا خوش نہ ہوںکہ تورات میں لکھا ہے بنی اسرائیل کے دشمنوں کے بارے میں کہ میں نے ان کو اس لیے ہلاک کیا کہ وہ بد ہیں نہ اس لیے کہ تم نیک ہو.پس نیک بننے کی کوشش کرو میرا ایک شعر ہے.؎ ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے ہمارے مخالف جو ہیں وہ بھی متقی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر ہر چیز اپنی تاثیرات سے پہچانی جاتی ہے.نرا زبانی دعویٰ ٹھیک نہیں.اگر یہ لوگ متقی ہیں تو پھر متقی ہونے کے جو نتائج ہیں وہ ان میں کیوں نہیں؟ نہ مکالمہء الٰہی سے مشرف ہیں نہ عذاب سے حفاظت کا وعدہ ہے.تقویٰ ایک تریاق ہے جو اسے استعمال کرتا ہے تمام زہروں سے نجات پاتا ہے مگر تقویٰ کامل ہونا چاہیے.تقویٰ کی کسی شاخ پر عمل پیرا ہونا ایسا ہے جیسے کسی کو بھوک لگی ہو اور وہ دانہ کھالے.ظاہر ہے کہ اس کا کھانا اور نہ کھانا برابر ہے.ایسا ہی پانی کی پیاس ایک قطرہ سے نہیں بجھ سکتی.یہی حال تقویٰ کا ہے.کسی ایک شاخ پر عمل موجبِ ناز نہیں ہو سکتا.پس تقویٰ وہی ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا (النحل:۱۲۹) خدا تعالیٰ کی معیت بتا دیتی ہے کہ یہ متقی ہے.جب سے خالق ہے تب سے مخلوق ہے خدا جب سے خالق ہے تب سے اس کی مخلوق ہے گو ہمیں یہ علم نہ ہو کہ وہ مخلوق کس قسم کی تھی.غرض نوعی قِدم کے ہم قائل ہیں.ایک نوع فنا کر کے دوسری بنا دی مگر یہ نہیں کہ جیسے آریہ مانتے ہیں روح مادہ ویسا ہی ازلی ابدی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ.ہمارا ایمان ہے کہ روح ہو یا مادہ غرض خواہ کچھ ہی ہو اللہ کی مخلوق ہے.۱

Page 168

۱۳؍اپریل ۱۹۰۷ء مومن کامل طاعون سے نہیں مَرتا جو کچھ ہے خدا کے ہاتھ میں ہے جو چاہے کرتا ہے بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ (یٰسٓ:۸۴) دیکھو! خدا نے ہم میں اور ہمارے دشمنوں میں کیسا امتیاز رکھا ہے.یہی قادیان ہے جس میں کئی مَرے اور پھر ہماری جماعت بالکل محفوظ رہی.ان مسلمانوں میں کئی گدّی نشین ہیں.کئی الہام کا دعویٰ کرتے ہیں کئی مقربان الٰہی سے بنتے ہیں.مگر کیا کسی کو یہ بھی وعدہ دیا گیا ہے.اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ یقیناً نہیں.اگر کسی کو یہ دعویٰ ہے تو پیش کرے تاکہ اللہ اس کا جھوٹ ثابت کرے.دیکھو! ان سے جس نے دعویٰ کیا وہ فوراً پکڑے گئے.جموں کے چراغ دین نے دعویٰ کیا تھا اور پھر الٰہی بخش جو میری نسبت طاعون سے مَرنے کا خیال رکھتا تھا طاعون ہی سے ہلاک ہوئے مومن کامل تو کبھی طاعون سے نہیں مَرتا.پچھلے تمام انبیاء علیہم السلام کی نظیر موجود ہے کیا کوئی نبی طاعون سے مَرا؟ پھر کامل مومنین حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کی سوانح کو پڑھو.کیا ان میں سے کوئی طاعون سے مَرا؟ ہرگز نہیں.کیوں؟ اس لیے کہ تورات و انجیل میں اس طاعون کو عذاب قرار دیا گیا.گویا ایک قسم کا جہنم ہے.چنانچہ میرے الہامات میں اکثر جہنم کا ذکر آیا ہے تو اس سے مراد طاعون ہی ہے.پس مومن کامل تو جہنم سے بالکل محفوظ رکھا جاتا ہے.اگر وہ اس میں پڑے تو پھر مومن کیسا ہوا؟ خدا بھی فرماتا ہے.فَاَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ(البقرۃ:۶۰) یعنی طاعون کا عذاب ظالموں اور فاسقوں کے لیے ہے.یہ مامور من اللہ کے انکار اور فسق کی سزا ہے گویا اس کی خصوصیت کفر کے ساتھ ہے ہاں جو مومن کامل نہیں بلکہ معمولی ہیں چونکہ اللہ تعالیٰ کو ان کی تمحیص مقصود ہوتی ہے اس لیے ممکن ہے کہ انہیں اسی دنیا میں اصلاح کے لیے بطور کفّارہ ذنوب جہنم میں داخل کرلے اوریہ سب فرقہ ہائے اسلام کی مانی ہوئی بات ہے کہ ایک فریق مومنوں کا بھی جہنم میں کچھ مدت کے لیے پڑے گا.پس ماننا پڑتا ہے کہ بعض مومنوں کو بھی طاعون ہو سکتا ہے مگر یاد رہے وہی مومن جو کامل نہیں.اسی لیے میرے الہام میں ہے کہ وہ طاعون سے محفوظ رہیں گے

Page 169

جو لَمْ يَلْبِسُوْۤا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ کے مصداق ہیں یعنی اپنے ایمان کے نور میں کسی قسم کی تاریکی شامل نہیں کرتے اور یہ مقام سوائے کاملین کے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا.۶ ہجری میں جب طاعون پڑا ہے تو کوئی مسلمان نہیں مَرا لیکن جب حضرت عمرؓ کے عہد میں طاعون پڑا تو کئی صحابی بھی شہید ہوئے وجہ یہ کہ کامل مومنین ہی ایسی باتوں سے محفوظ رہتے ہیں.اب دیکھنا تو یہ ہے کہ جسے موسیٰ ہونے کا دعویٰ تھا وہ تو یقیناً کامل مومنین سے ہے.پس اس کےلیے ضرور تھا کہ طاعون سے محفوظ رہتا کیونکہ یہ ایک عذاب جہنم ہے جس میں خدا کے برگزیدے نہیں پڑ سکتے.وہ تو اپنی نسبت یہ الہام سناتا تھا کہ ’’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر.‘‘ اب ایسے عالیشان آدمی کو (اگر وہ واقعی تھا) یہ جہنم (طاعون ) کیوں نصیب ہوا.یہ تو واقعی عجیب بات ہے کہ جسے وہ فرعون کہتا تو وہ تو اب تک زندہ ہے اور اس کے گھر کا ایک چوہا بھی نہیں مَرا مگر وہ جو موسیٰ تھا وہ طاعون سے مَر گیا جو ایک عذاب جہنم ہے.کیا خدا کے فرشتہ کو دھوکا ہوگیا؟ جیسے روافض کہا کرتے ہیں کہ وحی نبوت آنی تو علیؓپرتھی مگر بھول کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر چلی گئی.ایسا ہی طاعون کا فرشتہ بجائے قادیان میں آنے کے لاہور چلا گیا.اس نکتہ کو خوب یاد رکھنا چاہیے کہ جو معمولی مومن ہو اس کے لیے ممکن ہے کہ تمحیص کے لیے طاعون کے جہنم میں پڑے تاکہ آخرت میں جنّت نصیب ہو.مگر وہ جو کامل مومنین سے ہو اس کےلیے ہرگز سنّت اللہ نہیں کہ ایسے عذاب میں گرفتار ہو.بعض لوگوں کی نسبت اعتراض کیا جاتا ہے کہ فلاں تو نماز پڑھتا یا ایسا تھا پھر کیوں اسے طاعون ہوا؟ اصل میں اعمال کا تعلق قلب سے ہے اور قلب کے حالات سے بجز اللہ کے کوئی آگاہ نہیں.پس نہیں کہہ سکتے کہ فلاں متقی تھا یا مخلص احمدی تھا.پھر کیوں طاعون سے مَرا؟ کیونکہ ہر انسان کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.کسی کو کیا معلوم کہ فلاں کے دل میں کیا کیا گند بھرے ہیں.دعا کرتا رہتا تھا تو کیا عیسائی دعا نہیں کرتے؟ کیا وہ بعض اوقات نہیں روتے؟ پس ایسے معاملے خدا کے سپرد ہونے چاہئیں ہاں جب ایمان کا ثبوت ہو تو پھر ایسے طاعون سے مَرنے والے شہید ہیں.

Page 170

اللہ تعالیٰ نے ہزاروں نشان دکھائے مگر یہ لوگ ایسے ہیں کہ مانتے نہیں.اگر نجاست قلبی نہ ہو تو بعض اوقات ایک نکتہ ہی کفایت کرتا ہے.دیکھو! جب لدھیانہ میں بیعت ہوئی تو صرف قریباً چالیس آدمی تھے.پھر اب چار لاکھ ہیں.کیا ایسی کامیابی کسی مفتری کو بھی ہوئی ہے.حالانکہ اس کی پیشگوئی بھی کرچکا ہو؟ اچھا میں نے اگر کوئی نشان نہ دکھلایا تو ان کے موسیٰ نے کیا دکھایا؟ کیا یہی کہ طاعون سے مَر گیا.اگر خدا کے اولیاء کا یہی انجام ہوتا ہے تو پھر اسلام کا خدا ہی حافظ.(بوقت ظہر) سچے الہام کے ساتھ فعلی شہادت ہوتی ہے محض قول پر فریفتہ ہونے والوں کا وہی انجام ہوتا ہے جو الٰہی بخش کا ہوا.یادرکھو! محض الہام جب تک اس کے ساتھ فعلی شہادت نہ ہو ہرگز کسی کام کا نہیں.دیکھو! جب کفّار کی طرف سے اعتراض ہوا لَسْتَ مُرْسَلًا تو جواب دیا گیا كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ وَ بَيْنَكُمْ(الرّعد:۴۴) یعنی عنقریب خدا کی فعلی شہادت میری صداقت کو ثابت کر دے گی پس الہام کے ساتھ فعلی شہادت بھی چاہیے.دیکھو! گورنمنٹ جب کسی کو ملازمت عطا کرتی ہے تو اس کی وجاہت کے سامان بھی مہیا کر دیتی ہے.چنانچہ جو لوگ اس کا مقابلہ کرتے ہیں وہ توہین عدالت کے جرم میں گرفتار ہوتے ہیں.اسی طرح جو مامورانِ الٰہی کے مقابلہ پر آتے ہیں وہ ہلاک ہوجاتے ہیں آجکل پچاس آدمی کے قریب ایسے ہیں جو اس مرض میں گرفتار ہیں یعنی اپنے قولی الہام پر بھروسہ رکھتے ہیں وہ سب غلطی پر ہیں شیطان انسان کا بڑا دشمن ہے مگر خود مفتری بھی ایک شیطان ہے پس وہ اپنا آپ دشمن ہے اسی لیے جلد ہلاک ہو جاتا ہے.کیسے ناعاقبت اندیش ہیں وہ لوگ جو ایسوں کے دامِ تزویر میں پھنس جاتے ہیں.جس کے دعویٰ کے ساتھ عظمت و جلال ربّانی کی چمک نہ ہو تو ایسے شخص کو تسلیم کرنا اپنے تئیں آگ میں ڈالنا ہے.عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ کی حقیقت دو مخالفوں کا ذکر تھا کہ وہ اس مسئلہ کے بارے میں ایک دوسرے کے مخالف باہم کفر کے فتوے دے رہے

Page 171

(ہیں) ایک کہتا ہے ضرور ہے کہ انبیاء بہشت میں اور فاسقین جہنم میں پڑیں.دوسرا کہتا ہے کہ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ(البقرۃ:۱۰۷) کی بنا پر چاہے تو انبیاء کو دوزخ میں ڈال دے.فرمایا.اوّل الذکر حق پر ہے.عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ کے یہ معنے تو نہیں کہ اللہ تعالیٰ خود کشی پر بھی قادر ہے.اس طرح تو وہ اپنا بیٹا بنانے پر بھی قادر کہا جا سکتا ہے؟ پھر عیسائی مذہب کے اختیار کرنے میں کیا تأمّل ہے؟ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ بے شک قادر ہے مگر وہ اپنے تقدس اور ان صفات کے خلاف نہیں کرتا جو قدیم سے الہامی کتب میں بیان کی جار ہی ہیں گویا ان کے خلاف اس کی توجہ ہوتی ہی نہیں.وہ ذات پاک اپنے مواعید کے خلاف بھی نہیں کرتا اور نہ اس طرف وہ متوجہ ہوتا ہے پس ازلی ابدی اس کی صفت ہرکتاب الٰہی میں پڑھ کر پھر اس بات کے امکان پر بحث کرنا کہ وہ خود کشی پر قادر ہے یا هُوَاللّٰهُ اَحَدٌ اَللّٰهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ١ۙ۬ وَ لَمْ يُوْلَدْ(الاخلاص:۲تا۴) پڑھتے ہوئے پھر اس کے بیٹے کے امکان کا قائل ہونا نہایت لغو حرکت ہے.پس ایسی باتوں کے بارے میں اس بہانے سے گفتگو کرنا کہ ہم نفس امکان پر بحث کرتے ہیں سخت درجے کی گستاخی ہے.۱ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کروڑ معجزوں سے بڑھ کر معجزہ تو یہ تھا کہ جس غرض کےلیے آئے تھے اسے پورا کر گئے یہ ایسی بے نظیر کامیابی ہے کہ اس کی نظیر کسی دوسرے نبی میں کامل طور سے نہیں پائی جاتی.حضرت موسٰی بھی رستے ہی میں مَر گئے اور حضرت مسیح کی کامیابی تو ان کے حواریوں کے سلوک سے ہویدا ہے.ہاں آپ کو ہی یہ شان حاصل ہوئی کہ جب گئے تو رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا (الـنّصـر:۳) یعنی دین اللہ میں فوجوں کی فوجیں داخل ہوتے دیکھ کر.دوسرا معجزہ تبدیل اخلاق ہے کہ یا تو وہ اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ(الاعراف:۱۸۰) چارپایوں سے بھی بد تر تھے یا يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا (الفرقان:۶۵) رات نمازوں میں گذارنے والے ہوگئے.

Page 172

تیسرا معجزہ.آپ کی غیر منقطع برکات ہیں.کل نبیوں کے فیوض کے چشمے بند ہوگئے.مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چشمہ فیض ابد تک جاری ہے چنانچہ اسی چشمہ سے پی کر ایک مسیح موعود اس امت میں ظاہر ہوا.چوتھی یہ بات بھی آپ ہی سے خاص ہے کہ کسی نبی کے لیے اس کی قوم ہر وقت دعا نہیں کرتی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں نماز میں مشغول ہوتی ہے اور پڑھتی ہے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ.اس کے نتائج برکات کے رنگ میں ظاہر ہو رہے ہیں.چنانچہ انہی میں سے سلسلہ مکالمات الٰہی ہے جو اس امت کو دیا جاتا ہے.۱ ۱۴؍اپریل۱۹۰۷ء (قبل عصر) صداقت اسلام کے لیے طاعون کی تلوار ابو سعید عرب صاحب نے ذکر کیا کہ رنگون میں بندروں میں بھی طاعون کی وبا پڑی تھی.حضرت نے فرمایا کہ براہین کے لکھنے کے زمانے میں خدا تعالیٰ نے ہم کو اس طاعون کے پڑنے کی خبر دی تھی.بدقسمت کفّار کی ہمیشہ سے یہ عادت ہے کہ وہ انبیاء کے مقابلہ میں اپنی موت کا نشان مانگا کرتے ہیں.اب ہمارے مخالفوں کا بھی یہی حال ہے.اس واسطے خدا نے ان کے واسطے یہ تلوار بھیج دی ہے.لوگ لکھتے ہیں کہ براہین میں جو دلائل کا وعدہ دیا گیا تھا وہ پورا نہیں ہوا.حالانکہ براہین میں صداقت اسلام کے واسطے کئی لاکھ دلیل ہے.خدا تعالیٰ نے پہلے سے اس میں یہ باتیں لکھوا دی ہیں.کیا ہی شان ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے کہ پہلے زمانہ میں جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفوں کو نامراد اور ذلیل کر کے ہلاک کیا جاتا تھا ایسا ہی آخر میں بھی ہو رہا ہے.اس وقت شریروں کی سزا کے واسطے تلوار آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ میں دی گئی تھی اور اس زمانہ میں

Page 173

تلوار خدا خود چلا رہا ہے جو لوگ جہاد پر اعتراض کرتے ہیں وہ دیکھ لیںکہ بد قسمت کفّار اس وقت بھی اپنی شامت اعمال کے سبب اسی طرح سے ہلاک ہوئے تھے جیسے کہ اب ہلاک ہو رہے ہیں.دین اسلام کی خاطر اگر اس وقت تلوار چلی تھی تو اس وقت بھی دین اسلام ہی کی خاطر تلوار چل رہی ہے.سب سے بڑی کرامت استجابتِ دعا ہے فرمایا.یہ زمانہ کے عجائبات ہیں.رات کو ہم سوتے ہیں تو کوئی خیال نہیں ہوتا کہ اچانک ایک الہام ہوتا ہے اور پھر وہ اپنے وقت پر پورا ہوتا ہے.کوئی ہفتہ عشرہ نشان سے خالی نہیں جاتا.ثناء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے.یک دفعہ ہماری توجہ اس کی طرف ہوئی اور رات کو توجہ اس کی طرف تھی اور رات کو الہام ہوا کہ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ صوفیاء کے نزدیک بڑی کرامت استجابتِ دعا ہی ہے.باقی سب اس کی شاخیں ہیں.خدا تعالیٰ کی دی ہوئی تسلّی احمد صاحب جو کہ مدراس سے بیعت کے واسطے آئے ہیں.ان کے متعلق عرب صاحب ابو سعید نے ذکر کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ قادیان میں آنے سے پہلے میں نے رؤیا میں یہ سارا نقشہ ہو بہو دیکھا تھا.یہ تمام مکانات وغیرہ مجھے بعینہٖ دکھائے گئے تھے.حضرت نے فرمایا.خدا تعالیٰ تسلّی دینے کے واسطے یہ باتیں دکھلا دیتا ہے اور اس کی تسلّی بے نظیر ہوتی ہے.دیکھو! شرقاً غرباً تمام زمین پر کسی کو یہ تسلّی دی گئی کہ اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.یہ تسلّی فقط ہم کو اس گھر کے متعلق عطا فرمائی گئی ہے یہ خدا کے عجیب کام ہیں.دعا کا معجزہ اس جگہ ایک لڑکے کو طاعون شدید ہوگئی تھی.حضرت نے اس کے واسطے دعا کی.اللہ تعالیٰ نے اس کو صحت دی.اس کا ذکر تھا.مولوی محمد علی صاحب نے عرض کیا کہ میں ہمیشہ غور کرتا رہا ہوں کہ جس شخص کو طاعون کے سبب خون شروع ہوجاوے وہ کبھی نہیں بچتا.صرف یہی ایک لڑکا دیکھا ہے جو باوجود خون آنے کے پھر بچ گیا.فرمایا.یہ صرف دعا کا نتیجہ ہے اور اس کا بچنا ایسا ہی ہے جیسا کہ عبد الکریم کا بچنا تھا جس کے

Page 174

واسطے کسولی سے تار آیا تھا کہ اب اس کی دیوانگی کے (آثار) نمودار ہوجانے پر کوئی علاج نہیں ہوسکتا.لیکن خدا تعالیٰ نے اس کے حق میں ہماری دعا کو قبول کیا اور وہ بالکل تندرست ہوگیا.کبھی کوئی اس طرح سے بچتا دیکھا یا سنا نہیں گیا.ایک الہام کے معنی فرمایا.یہ جو الہام تھا کہ ’’یا اللہ! اب شہر کی بَلائیں بھی ٹال دے‘‘ گو اس کے معنے اور بھی ہوں مگر ایک معنے اس کے یہ بھی ہیںکہ یہ سخت بد زبان آریہ سوم راج اور اچھر جو ہر ہفتہ گندی گالیوں کے بھرے ہوئے اخبار چھاپتے تھے یہ بھی اس شہر کی بَلائیں تھیں.خدا تعالیٰ نے ان کو ٹال دیا اور جہنم واصل کر دیا.اس سال طاعون کا بہت ہی سخت زور ہے.دوسرے شہروں میں بہت تیز ہے اس کے بالمقابل یہاں گویا کچھ نہیں بعض گاؤں بالکل تباہ ہوگئے ہیں.بعض میں صرف ایک یا دو آدمی باقی رہ گئے ہیں اور بس.بہت سے گاؤں حصید بن گئے ہیں اور ابھی معلوم نہیں کہ انجام کیا ہوگا.بڑے احمق ہیں وہ لوگ جو بے باکی نہیں چھوڑتے اور خدا کے ارادے سے غافل اور بے خبر بیٹھے ہیں.طاعون کے جراثیم بھی دابۃ الارض ہیں دابۃ الارض بھی یہی طاعونی کیڑا ہے.تکلیم کاٹنے کو کہتے ہیں.وہ لوگوں کو ہلاک کر رہا ہے.آئے دن بادل بھی بن جاتا ہے اور موسم بہار قائم رہتا ہے جس میں طاعون کا زور ہوتا ہے.اس سال موت بہت کثرت سے ہو رہی ہے.ہم تو چاہتے ہیں کہ کسی طرح خدا پہچانا اور مانا جاوے خواہ کتنے ہی ہلاک ہوں.اس کی کیا پروا ہے.اگر خدا کے منکر اور گستاخ زندہ رہے تو اس میں کوئی فائدہ کی بات نہیں.یاد رہے کہ خدا تعالیٰ بس نہ کرے گا جب تک کہ اس کی قہری تجلی اس کی ہستی کو منوا نہ لے گی.۱

Page 175

۱۶؍اپریل ۱۹۰۷ء مامور من اللہ کی بات قول فیصل ہوتی ہے فرمایا.خواجہ غلام فرید چاچڑاں والے سے کسی نے سوال کیا کہ ہم میں وہ سب پیشگوئیاں ظاہری طور پر پوری نہیں ہوتیں تو انہوں نے کیا اچھا جواب دیا کہ کیا حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہودیوں کے خیال کے مطابق سب باتیں پوری ہوگئی تھیں؟ وہ تو کہتے تھے کہ بنی اسحاق میں سے ہوگا تو کیا پھر وہ نبی انہیں میں سے آیا؟ ایسا ہی مسیح کی نسبت جو کچھ لوگ خیال کئے بیٹھے تھے کہ پہلے ان سے ایلیا آئے گا تو کیا الیاس آسمان سے اتر آیا تھا؟ ہرگز نہیں.پس اسی طرح ضرور نہیں کہ مسیح موعود کے بارے میں سب نشان ان لوگوں کی خواہشات کے مطابق ہی ظہور میں آتے.ایسی غلطیاں ہر ایک قوم میں پڑ جاتی ہیں.آخر مامور من اللہ آکر ان غلط عقائد و خیالات کی اصلاح کر دیتا ہے.اصل میں جب کسی شخص کے منجانب اللہ ہونے کو اللہ تعالیٰ اپنے متواتر نشانوں سے ثابت کر دے تو پھر اس کی ہر بات اختلافی مسئلہ میں قولِ فیصل ہوتی ہے اور سب پیشگوئیوں کے معنے وہی کئے جانے چاہئیں جو وہ کہے.الہامات میں مابہ الامتیاز الہام کا معاملہ بڑا نازک ہے.ایک حدیث النفس ہے.انسان کے جو اپنے خیالات ہوں وہی سنائی دیتے ہیں.دوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کلام کا نزول ہے.جب یہ بات ہے تو پھر مابہ الامتیاز کا ضرور خیال رکھنا چاہیے.اگر کسی کی ایک آدھ بات شاذ و نادر پوری ہو جاوے تو اسے بھی نبی نہیں کہہ سکتے.کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ فاسق سے فاسق شخص کا خواب بھی بعض اوقات سچا ہو جاتا ہے.فاسق تو درکنار ایک کافر کا خواب بھی بعض اوقات ٹھیک نکل آتا ہے.یہ اصل میں اتمامِ حجّت کے لیے ہے.گویا خدا تعالیٰ سمجھاتا ہے کہ یہ مادہ انسان کی فطرت میں داخل ضرور ہے کیونکہ جس کا کوئی نمونہ ہی نہ ہو اسے تو لوگ مانتے ہی نہیں مگر یہ بات نہیں کہ جسے کوئی خواب آوے وہی ولی بن جاوے بلکہ جب پوری شوکت کے ساتھ کلام الٰہی نازل ہو اور ساتھ بارش کی طرح نشانوں کا نزول ہو تو پھر یقین کرنا چاہیے کہ یہ

Page 176

خدا کی طرف سے ہے.اس کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنا الہام يَاْتُوْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ پیش کیا اور فرمایا کہ دیکھو کسی کے وہم و گمان میں بھی آسکتا تھا کہ اس قدر مخلوق الٰہی یہاں آئے گی کہ چلنا بھی دشوار اور سب سے مصافحہ کرنا بھی ناممکن ہوجائے.خدا کے نبی شہرت پسند نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے تئیں چھپانا چاہتے ہیں.مگر الٰہی حکم انہیں باہر نکالتا ہے.دیکھو! حضرت موسٰی کو جب مامور کیا جانے لگا تو انہوں نے پہلے عرض کیا کہ ہارون مجھ سے زیادہ اَفصح ہے.پھر کہا وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنْۢبٌ(الشعـرآء:۱۵) مگر الٰہی منشا یہی تھا کہ وہی نبی بنیں اور وہی اس لائق تھے اس لیے حکم ہوا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں.تم جاؤ اور تبلیغ کرو.(بوقت ظہر) ایک الہام کا پورا ہونا ۱۳،۱۴ ؍اپریل کی درمیانی رات کو گیارہ بجے کے قریب سخت زلزلہ آنے کے بہت سے خط آئے ہیں (جو پڑھ کر سنائے بھی گئے.) فرمایا.الہام پہلے ہو چکا تھا.کیا یہ کسی انسان کا کام ہے کہ پردۂ غیب کی باتیں قبل از ظہور متواتر بتاتا جاوے اور پھر اسی طرح پوری ہوجاویں.اب جو لوگ نہیں مانتے وہ یقیناً بڑے مجرم ہیں.ایک نشان کے متعلق خطوط و خبروں کا سلسلہ ختم نہیں ہونے پاتا کہ دوسرا شروع ہوجاتا ہے.یہ کیا بات ہوئی کہ ہم افترا کرتے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ اسے پورا کرتا جاتا ہے.کیا جب سے دنیا ہے کسی اور مفتری سے بھی ایسا سلوک ہوا ہے؟ کیا خدا تعالیٰ ہمارا محکوم ہے کہ ہم جو کچھ کہیں وہ پورا کر دے؟ آخر کچھ تو سوچنا چاہیے.یہ لوگ جب ایک نشان دیکھ کر دیدہ و دانستہ حق پوشی کرتے ہیں اور نہیں مانتے تو اللہ ایک اور نشان کی پیشگوئی کرا دیتا ہے تاکہ ان پرا تمامِ حجّت ہو.الٰہی بخش کی موت حکیم الامت کے نام امرتسر سے خط آیا تھا کہ الٰہی بخش کوموت سے پہلے اَلرَّحِیْلُ کا الہام ہوا.فرمایا.طاعون کے معنے ہی موت ہیں.پس ایسی حالت میں تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اب میرا کوچ ہے.پھر ہم پوچھتے ہیں کہ بالفرض اگر یہ الہام پورا بھی ہوگیا تو اس سے پہلے جو الہاموں کا انبار

Page 177

تھا وہ کیا ہوا؟ وہ سب کیوں دریا بُرد ہوگئے؟ کہاں گئے اس کے وہ دعوے کہ یہ سلسلہ میرے سامنے تباہ ہوگا؟ عجیب بات ہے کہ موسیٰ تو طوفانِ طاعون میں غرق ہوگیا اور فرعون جیتا موجود ہے.انذاری الہام تو پورا ہوا یا نہ ہوا مگر وہ مبشرات کیا ہوئے.انذاری خبر تو بجائے خود ایک عذاب ہے.جس شخص کو بتا دیا جائے کہ تین دن بعد تم پھانسی ملو گے اس کے دل پر جو گذرتی ہے اور گذرنی چاہیے وہ ہر ایک شخص جانتا ہے.الہام تو وہ ہوتا ہے جس سے کچھ تسکین و راحت ہو نہ کہ الٹا عذاب.اپنے پر عذاب کی خبر پہلے ہوجانا تو معمولی بات ہے.جنگ بدر سے پہلے ایک عورت مشرکہ کو خواب آیا تھا کہ ہمارے خیموں کے نیچے لہو بہہ رہا ہے.آخر وہ بات پوری ہوگئی تو کیا اس سے وہ نبیہ سمجھ لی جاوے؟ ممکن ہے اَلرَّحِیْلُ شیطان نے کہا ہو کہ لو اب میں رخصت ہوتا ہوں جیسا کہ لکھا ہے کہ جب عذاب دیکھے گا تو شیطان کہے گا میں تم سے جدا ہوتا ہوں کیونکہ میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے.دشمن سے نرم گفتاری کی تلقین فرمایا.دشمن اگر سخت کلامی کرے تو اس کے مقابل سختی کرنے سے فائدہ نہیں کیونکہ سخت الفاظ سے برکت دور ہوجاتی ہے.رحم کا مقتضا فرمایا.ثناء اللہ کے واسطے بھی ہم نے توبہ کی شرط لگا دی ہے کیونکہ رحم کا مقتضا ہوتا ہے کہ توبہ سے انسان بچ جاوے.۱ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۷ء (قبل ظہر) نشانات کا ظہور فرمایا.اللہ تعالیٰ کی قدرتیں اس کے نشانات کے ذریعہ سے ظاہر ہو رہی ہیں.اگر یہ معجزات اور نشانات جو اس وقت ظاہر ہو رہے ہیں ایک شخص کے ایمان کے واسطے کافی نہیں تو پھر کسی نبی کے ماننے کے واسطے کوئی راہ دنیا میں باقی نہیں رہتی، اگر معجزات اور خوارق کسی کی سچائی کے واسطے کافی نہیں تو پھر کسی نبی کے ثبوت کے واسطے کوئی دلیل قائم نہیں رہتی.

Page 178

ٹھٹھا کرنے کا انجام ایک شخص کا ذکر تھا کہ جو سلسلہ حقّہ کے ساتھ ہنسی کیا کرتا تھا اور اب طاعون میں اس کا پوتا اور بیٹا مَر گیا ہے.فرمایا.خدا کے رسولوں کے ساتھ ہنسی کرنے والا مَرتا نہیں جب تک کہ وہ نشانات کا نمونہ اپنے پر وارد ہوتا ہوا نہ دیکھ لے.۱ سجدہ تعظیم ناجائز ہے ایک شخص حضرت کی خدمت میں آیا.اس نے سر نیچے جھکا کر آپ کے پاؤں پر رکھنا چاہا.حضرت نے ہاتھ کے ساتھ اس کے سر کو ہٹایا اور فرمایا.یہ طریق جائز نہیں.السلام علیکم کہنا اور مصافحہ کرنا چاہیے.۲ ۲۱؍اپریل ۱۹۰۷ء (بوقتِ سیر) تَفَقُّہ فِی الدِّیْن کی ضرورت فرمایا.ہماری جماعت کو علم دین میں تفقہ پیدا کرنا چاہیے.مگر اس کے وہ معنے نہیں جو عام ملّاں لوگوں نے سمجھ رکھے ہیں کہ استنجا وغیرہ کے چند مسائل آگئے وہ بھی تقلیدی رنگ میں فقیہ بن بیٹھے.بلکہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ وہ آیاتِ قرآنی و احادیث نبوی اور ہمارے کلام میں تدبّر کریں.قرآنی معارف و حقائق سے آگاہ ہوں.اگر کوئی مخالف ان پر اعتراض کرے تو اسے کافی جواب دے سکیں.ایک دفعہ جو امتحان لینے کی تجویز کی گئی تھی بہت ضروری تھی.اس کا ضرور بندو بست ہونا چاہے.حقیقۃ الوحی اس مطلب کے لیے بہت مفید کتاب ہے اصل میں مسلمانوں کے لیے تو یہی جواب کافی ہے کہ تم کوئی ایسا اعتراض اس سلسلہ پر کر کے دکھاؤ جو اور انبیاء علیہم السلام پر نہ ہو سکے وہ ہرگز کوئی ایسا اعتراض نہیں کر سکیں گے.وعیدی پیشگوئی ٹل سکتی ہے یہ آتھم یا احمد بیگ والی پیشگوئیوں پر تو اعتراض کرتے ہیں مگر دوسری پیشگوئیوں اور نشانیوں کا ذکر تک نہیں کرتے.یہ کیسی بدر جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۷؍جون ۱۹۰۷ء صفحہ ۷ ۲ بدر جلد ۶ نمبر ۳۲ مورخہ ۸؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۵

Page 179

بے انصافی ہے! ہم انہیں بارہا سمجھا چکے کہ وعید میں تاخیر بھی ہوجاتی ہے.دیکھو یونس نبی کی پیشگوئی ٹل گئی اور اس کی قوم پر عذاب نہ آیا.یاد رکھو کہ یہ تمام اقوام کا مذہب ہے کہ صدقہ سے ردِّ بَلا ہوجاتا ہے اور خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۠(الانفال:۳۴) استغفار عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہے.ہمارے تجربوں کی طرف کوئی جائے تو ایک منذر اَمر صبح کو ہو تو شام کو منسوخ ہوجاتا ہے.اجتہادی غلطی دوسرا اعتراض ہمارے بعض الہامات کی نسبت اپنی رائے پر ہے کہ وہ غلطی نکلی.بشرط تسلیم ہم کہتے ہیں کہ اَمر تنقیح طلب تو یہ ہے کہ نبی اپنے اجتہاد میں غلطی کھا سکتا ہے یا نہیں؟ سو ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسٰیؑ نے پہلے پہلے اپنی بادشاہت دنیاوی سمجھ کر مریدوں کو ہتھیار خریدنے کا حکم دیا مگر آخر معلوم ہوگیا کہ یہ میری غلطی تھی اور وہ اس ارادہ سے باز آئے.پھر ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا صلح حدیبیہ والا معاملہ کہ آپ کس ارادے سے آئے اور پھر کیا ہوا؟ چونکہ آپؐکی ذات بابرکات تمام انبیاء کے کمالات کی جامع تھی اس لیے صرف ایک ہی واقعہ سے ثابت ہوگیا کہ نبی اپنے اجتہاد میں غلطی کر سکتا ہے.پس اس صورت میں ہم پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.۱ ۲۲؍اپریل ۱۹۰۷ء مسیح کا جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر جانے کا عقیدہ فرمایا.تعجب کی بات ہے کہ مسلمان نصاریٰ سے بھی گئے گذرے ہیں.عیسائیوں میں سے کسی کا بھی یہ عقیدہ نہیںکہ مسیح جسم کے ساتھ آسمان پر گئے.وہ سب قائل ہیں کہ جلالی جسم تھا.مگر یہ مسلمان ہو کر کہتے ہیں کہ نہیں اسی خاکی جسم کے ساتھ گئے اور اسی کے ساتھ اتریں گے.حالانکہ عیسائی ان کے نزول کو بھی ایسا نہیں مانتے.

Page 180

مقام لولاک کی حقیقت لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ میں کیا مشکل ہے؟ قرآن مجید میں ہےخَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا(البقرۃ:۳۰) زمین میں جو کچھ ہے وہ عام آدمیوں کی خاطر ہے تو کیا خاص انسانوں میں سے ایسے نہیں ہو سکتے کہ ان کے لیے افلاک بھی ہوں؟ در اصل آدم کو جو خلیفہ بنایا گیا تو اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ وہ اس مخلوقات سے اپنے منشا کا خدا کی رضامندی کے موافق کام لے اور جن پر اس کا تصرف نہیں وہ خدا کے حکم سے انسان کے کام میں لگے ہوئے ہیں سورج، چاند، ستارے وغیرہ.ہندوؤں کی حکومت کیا انصاف کرے گی؟ آریہ اور بنگالیوں کی شورش کا ذکر تھا.فرمایا.ان کے خیالات و حرکات سے ہمیں قطعی نفرت ہے.ہماری جماعت کو بالکل ان سے الگ رہنا چاہے.تعجب کی بات ہے کہ جو قوم حیوان کو انسان پر ترجیح دیتی ہو اور ایک گائے کے ذبح سے انسان کا خون کر دینا کچھ بات نہ سمجھتی ہو.وہ حاکم ہو کر کیا انصاف کرے گی.؎ مردانِ خدا.خدا نہ باشند لیکن از خدا.جدا نہ باشند خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے وہ کام دکھلاتا ہے کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے.۱ بلا تاریخ فاتحہ خوانی سوال پیش ہوا کہ کسی کے مَرنے کے بعد چند روز لوگ ایک جگہ جمع رہتے اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں.فاتحہ خوانی ایک دعائے مغفرت ہے پس اس میں کیا مضائقہ ہے؟ فرمایاکہ ہم تو دیکھتے ہیں وہاں سوائے غیبت اور بے ہودہ بکواس کے اور کچھ نہیں ہوتا.پھر یہ سوال ہے کہ آیا نبی کریمؐ یا صحابہ کرامؓ و ائمہ عظام میںسے کسی نے یوں کیا؟ جب نہیں کیا تو کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی؟ ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں.

Page 181

ناجائز ہے جو جنازہ میں شامل نہ ہو سکیں وہ اپنے طور سے دعا کریں یا جنازہ غائب پڑھ دیں.۱ ۲۶؍اپریل ۱۹۰۷ء ایک فقہی مسئلہ نماز مغرب میں آدمیوں کی کثرت کی وجہ سے پیش امام صاحب کی آواز آخری صفوں تک نہ پہنچ سکنے کے سبب درمیانی صفوں میں سے ایک شخص حسب معمول تکبیر کا بآواز بلند تکرار کرتا جاتا تھا.آخری رکعت میں جب سب التحیات بیٹھے تھے اور دعائے التحیات اور درود شریف پڑھ چکے تھے اور قریب تھا کہ پیش امام صاحب سلام کہیں مگر ہنوز انہوں نے سلام نہ کہا تھا کہ درمیانی مکبّر کو غلطی لگی اور اس نے سلام کہہ دیا جس پر آخری صفوں کے نمازیوں نے بھی سلام کہہ دیا اور بعض نے سنتیں بھی شروع کر دیں کہ امام نے سلام کہا اور درمیانی مکبّر نے جو اپنی غلطی پر آگاہ ہوچکا تھا دوبارہ سلام کہا.اس پر ان نمازیوں نے جو پہلے سے سلام کہہ چکے تھے اور نماز سے فارغ ہوچکے تھے مسئلہ دریافت کیا کہ آیا ہماری نماز ہوگئی یا ہم دوبارہ نماز پڑھیں.صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب نے جو خود بھی پچھلی صفوں میں تھے اور امام سے پہلے سلام کہہ چکے ہوئے تھے فرمایا کہ یہ مسئلہ حضرت مسیح موعودؑ سے دریافت کیا جا چکا ہے اور حضرت نے فرمایا ہے کہ آخری رکعت میں التحیات پڑھنے کے بعد اگر ایسا ہوجائے تو مقتدیوں کی نماز ہوجاتی ہے.دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں.ایک مسجد میں دو جمعے سوال پیش ہوا کہ بعض مساجد اس قسم کی ہیںکہ وہاں احمدی اور غیر احمدی کو اپنی جماعت اپنے امام کے ساتھ الگ الگ کرا لینے کا اختیار قانوناً یا باہمی مصالحت سے حاصل ہوتا ہے تو ایسی جگہ جمعہ کے واسطے کیا کیا جاوے؟ کیونکہ ایک مسجد میں دو جمعے جائز نہیں ہو سکتے.فرمایا.جو لوگ تم کو کافر کہتے ہیں اور تمہارے پیچھے نماز نہیں پڑھتے وہ تو بہرحال تمہاری اذان

Page 182

اور تمہاری نماز جمعہ کو اذان اور نماز سمجھتے ہی نہیں اس واسطے وہ تو پڑھ ہی لیں گے اور چونکہ وہ مومن کو کافر کہہ کر بموجب حدیث خود کافر ہو چکے ہیں.اس واسطے تمہارے نزدیک بھی ان کی اذان اور نماز کاعدم وجود برابر ہے.تم اپنی اذان کہو اور اپنے امام کے ساتھ اپنا جمعہ پڑھو.حجِ بدل خوشاب سے ایک مرحوم احمدی کے ورثاء نے حضرت کی خدمت میں خط لکھا کہ مرحوم کا ارادہ پختہ حج پر جانے کا تھا مگر موت نے مہلت نہ دی.کیا جائز ہے کہ اب اس کی طرف سے کوئی آدمی خرچ دے کر بھیج دیا جاوے.فرمایا.جائز ہے.اس سے متوفّٰی کو ثواب حج کا حاصل ہوجائے گا.۱ ۲۸؍اپریل ۱۹۰۷ء خدا تعالیٰ کے ساتھ کون لڑ سکتا ہے حضرت اقدس کی طبیعت کسی قدر علیل ہے اس واسطے خدام کو جن میں زیادہ تر باہر سے آئے ہوئے دوست ہیں جیسا کہ شیخ رحمت اللہ صاحب، شیخ عبدالرحمٰن صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، میاں چراغ الدین صاحب، صاحبزادگان میاں صاحب موصوف، میاں معراج الدین صاحب، سردار فضل حق صاحب وغیرہ سب کو صبح کے وقت ملاقات کے واسطے از روئے شفقت اندر ہی طلب کیا اور فرمایا.وہ دن آتے جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے روشن نشانوں کے ساتھ تمام پردے اٹھاتا جاتا ہے.خدا تعالیٰ ایسا ہی ایک دو زبردست ہاتھ اور دکھا دے گا تو پھر کہاں تک لوگ برداشت کر سکیں گے.آخر ان کو ماننا پڑےگا کہ حق اسی میں ہے جو ہم کہتے ہیں.ہمارے مخالف جو ہمارے ساتھ لڑائی کرتے ہیں دراصل ہمارے ساتھ لڑائی نہیں کرتے بلکہ خدا کے ساتھ لڑائی کرتے ہیں اور کون ہے جو خدا کے ساتھ لڑائی میں کامیاب ہو؟ مخفی گناہوں سے بچنے کی تلقین فرمایا.جب کوئی مصائب میں گرفتار ہوتا ہے تو قصور آخر بندے کا ہی ہوتا ہے خدا تعالیٰ کا تو قصور نہیں.

Page 183

بعض لوگ بظاہر بہت نیک معلوم ہوتے ہیں اور انسان تعجب کرتا ہے کہ اس پر کوئی تکلیف کیوں وارد ہوئی یا کسی نیکی کے حصول سے یہ کیوں محروم رہا لیکن دراصل اس کے مخفی گناہ ہوتے ہیں جنہوں نے اس کی حالت یہاں تک پہنچائی ہوئی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ چونکہ بہت معاف کرتا ہے اور درگذر فرماتا ہے.اس واسطے انسان کے مخفی گناہوں کا کسی کو پتا نہیں لگتا.مگر مخفی گناہ در اصل ظاہر کے گناہوں سے بدتر ہوتے ہیں.گناہوں کا حال بھی بیماریوں کی طرح ہے.بعض موٹی بیماریاں ہیں ہر ایک شخص دیکھ لیتا ہے کہ فلاں بیمار ہے مگر بعض ایسی مخفی بیماریاں ہیں کہ بسا اوقات مریض کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ مجھے کوئی خطرہ دامنگیر ہو رہا ہے.ایسا ہی تپِ دق ہے کہ ابتدا میں اس کا پتا بعض دفعہ طبیب کو بھی نہیں لگتا یہاں تک کہ بیماری خوفناک صورت اختیار کرتی ہے ایسا ہی انسان کے اندرونی اورمخفی گناہ ہیں جو رفتہ رفتہ اسے ہلاکت تک پہنچا دیتے ہیں.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے رحم کرے.قرآن شریف میں آیا ہے.قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشمس:۱۰) اس نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا.لیکن تزکیہ نفس بھی ایک موت ہے.جب تک کہ کل اخلاقِ رذیلہ کو ترک نہ کیا جاوے تزکیہ نفس کہاں حاصل ہو سکتا ہے.ہر ایک شخص میں کسی نہ کسی شَر کا مادہ ہوتا ہے وہ اس کا شیطان ہوتا ہے.جب تک کہ اس کو قتل نہ کرے کام نہیں بن سکتا.تکبّر بڑا گناہ ہے فرمایا.سب سے اوّل آدم نے بھی گناہ کیا تھا اور شیطان نے بھی.مگر آدم میں تکبر نہ تھا اس لیے خدا تعالیٰ کے حضور اپنے گناہ کا اقرار کیا اور اس کا گناہ بخشا گیا.اسی سے انسان کے واسطے توبہ کے ساتھ گناہوں کے بخشا جانے کی امید ہے.لیکن شیطان نے تکبر کیا اور وہ ملعون ہوا جو چیز کہ انسان میں نہیں، متکبر آدمی خواہ مخواہ اپنے لیے اس چیز کے دعوے کے واسطے تیار ہوجاتا ہے.انبیاء میں بہت سے ہنر ہوتے ہیں.ان میں سے ایک ہنر سلب خودی کا ہوتا ہے.ان میں خودی نہیں رہتی.وہ اپنے نفس پر ایک موت وارد کر لیتے ہیں کبریائی خدا کے واسطے ہے.جو لوگ تکبر نہیں کرتے اور انکساری سے کام لیتے ہیں وہ ضائع نہیں ہوتے.استخارہ کا بھی وقت ہوتا ہے ایک شخص کا خط آیا کہ میں آپ کے متعلق استخارہ کرنا چاہتا ہوں کہ آیا آپ حق پر ہیں یا نہیں.

Page 184

فرمایا.ایک وقت تھا کہ ہم نے خود اپنی کتاب میں استخارہ لکھا تھا کہ لوگ اس طرح سے کریں تو خدا تعالیٰ ان پر حق کو کھول دے گا.مگر اب استخاروں کی کیا ضرورت ہے جبکہ نشاناتِ الٰہی بارش کی طرح برس رہے ہیں اور ہزاروں کرامات اور معجزات ظاہر ہوچکے ہیں.کیا ایسے وقت میں استخاروں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے؟ کھلے نشانات کو دیکھ کر پھر استخارہ کرنا خدا تعالیٰ کے حضور میں گستاخی ہے.کیا اب جائز ہے کہ کوئی شخص استخارہ کرے کہ اسلام کا مذہب سچا ہے یا جھوٹا اور استخارہ کرے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی طرف سے سچے نبی تھے یا نہیں تھے.اس قدر نشانات کے بعد استخاروں کی طرف توجہ کرنا جائز نہیں.۱ ۵؍مئی ۱۹۰۷ء اظہار غیب فرمایا.آج قرآن شریف کی آیت شریفہ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ(الـجن:۲۷،۲۸) سے مجھے ایک نکتہ خیال میں آیا اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ اس کے غیب کا اظہار سوائے برگزیدہ رسولوں کے اور کسی پر نہیںہوتا.اس میں سوچنے کے لائق لفظ اظہار ہے اظہار سے مراد یہ ہے کہ کھلا کھلا غیب کثرت کے ساتھ کسی پر کھولا جائے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف متشابہات کے طور پر تھوڑا سا غیب تو گاہے گاہے کسی دوسرے پر بھی کھولا جاتا ہے.مگر اس میں محکم بات نہیں ہوتی اور اس کے واسطے شرط نہیں کہ جس پر کھولا جائے وہ مومن ہو یا کافر ہو.ہر ایک مذہب کے آدمی کو یہ حالت گاہے حاصل ہو سکتی ہے کہ کوئی تھوڑی سی بات مشتبہ یا غیر مشتبہ اس کو غیب سے مل جائے.یہ سب کچھ ہو سکتا ہے، لیکن منع صرف اظہار علی الغیب کی ہے.اظہار کا لفظ اس کی کیفیت اور کمیت پر دلالت کرتا ہے یعنی وہ غیب کی خبر مصفّٰی ہو.شک اور شبہ سے پاک ہو اور دوسرا کثرت سے ہو جس سے ظاہر ہو کہ یہ خارق عادت اور معجزہ نما ہے اس آیت سے خود ظاہر ہوتا ہے کہ رسولوں کے سوائے دوسرے لوگوں کو بھی غیب کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے مگر ان کے غیب میں اظہار کا رنگ نہیں ہوتا.اظہار کا لفظ ایک خاص

Page 185

امتیاز کو ظاہر کرتا ہے.پیشگوئیوں میں اخفا ضروری ہے فرمایا.پیشگوئی میں کسی قدر اخفا اور متشابہات کا ہونا بھی ضروری ہے اور یہی ہمیشہ سے سنّتِ الٰہی ہے.ملاکی نبی اگر اپنی پیشگوئی میں صاف لکھ دیتا کہ الیاس خود نہ آئے گا بلکہ اس کا مثیل تو حضرت عیسیٰ کے ماننے میں اس قدر دقّتیں اس زمانہ کے علماء کو پیش نہ آتیں.ایسا ہی اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو پیشگوئیاں تورات اور انجیل میں ہیں وہ نہایت ظاہر الفاظ میں ہوتیں کہ آنے والا نبی آخرالزمان اسمٰعیلؑ کی اولاد میں سے ہوگا اور شہر مکہ میں ہوگا تو پھر یہودیوں کو آپ کے ماننے سے کوئی انکار نہ ہوسکتا تھا، لیکن خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ ان میں متقی کون ہے جو صداقت کو اس کے نشانات سے دیکھ کر پہچانتا اور اس پر ایمان لاتا ہے.کسی احمدی کا طاعون سے مَرنا فرمایا.مخالفین کا یہ اعتراض کہ بعض ہماری جماعت کے آدمی طاعون سے کیوں مَرتے ہیں بالکل ناجائز ہے.ہم نے کبھی کوئی ایسی پیشگوئی نہیں کی کہ ہمارے ہاتھ پر بیعت کرنے والا کوئی شخص کبھی طاعون میں گرفتار نہ ہوگا.ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ اوّل طبقہ کے لوگ اس قسم کی بیماری میں گرفتار ہو کر نہیں مَرتے.کوئی نبی، صدیق، ولی کبھی طاعون سے ہلاک نہیں ہوا.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی طاعون ہوئی تھی مگر کیا حضرت عمرؓ پر بھی اس کا کوئی اثر ہوا تھا؟ عظیم الشان صحابہؓ میں سے کوئی طاعون میں گرفتار نہیں ہوا.ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر گذرا ہے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی طاعون سے مَرا ہے؟ ہاں اس میں شک نہیں کہ ایسی بیماری کے وقت بعض ادنیٰ طبقہ کے مومنین (طاعون) میں گرفتار ہوتے ہیں مگر وہ شہید ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ ان کی کمزوریوں اور گناہوں کو اس طرح سے غفر کرتا ہے جیسا کہ ان جہادوں میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفّار کے ساتھ کئے.اگرچہ پہلے سے پیشگوئی تھی کہ ان جہادوں میں کفّار جہنم میں گرائے جائیں گے.تاہم بعض مسلمان بھی قتل کئے گئے مگر اعلیٰ طبقہ کے صحابہ مثلاً حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ جیسوں میں سے کوئی

Page 186

شہید نہیں ہوا.نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوئے.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے جنگ میں شہادت میں اعلیٰ درجہ کے لوگ شامل نہیں ہوتے اسی طرح طاعون میں بھی اگر ہماری جماعت کا کوئی آدمی گرفتار ہوجائے تو یہ اس کے واسطے شہادت ہے اور خدا تعالیٰ اس کا اس کو اجر دے گا.عیسیٰ علیہ السلام کا بن باپ ہونا قرآن سے ثابت ہے ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ کیا یہ ضروری ہے کہ مسیح کو بن باپ مانا جائے؟ فرمایا.قرآن شریف سے ایسا ہی ثابت ہوتا ہے اور قرآن شریف پر ہم ایمان لاتے ہیں.پھر قانونِ قدرت میں ہم اس کے برخلاف کوئی دلیل نہیںپاتے.کیونکہ سینکڑوں کیڑے مکوڑے پیدا ہوتے رہتے ہیں جو نہ باپ رکھتے ہیں اور نہ ماں.قرآن شریف میں جہاں اس کا ذکر ہے وہاں خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کے دو عجائب نمونوں کا ذکرکیا ہے.اوّل حضرت زکریاؑ کا ذکر ہے کہ ایسی پیرانہ سالی میں جہاں کہ بیوی بھی بانجھ تھی خدا نے بیٹاپیدا کیا.اور اس کے ساتھ ہی یہ دوسرا واقعہ ہے جو خدا تعالیٰ کی ایک اور قدرت عجیبہ کا نمونہ ہے.اس کے ماننے میں کون سا ہرج پیدا ہوتا ہے.قرآن مجید کے پڑھنے سے ایسا ہی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح بن باپ ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ نے كَمَثَلِ اٰدَمَ جو فرمایا اس سے بھی ظاہر ہے کہ اس میں ایک عجوبہ قدرت ہے جس کے واسطے آدم کی مثال کا ذکر کرنا پڑا.شہید کا جنازہ فرشتے پڑھتے ہیں ذکر تھا کہ بعض جگہ چھوٹے گاؤں میں ایک ہی احمدی گھر ہے اور مخالف ایسے متعصب ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی احمدی مَر جائے گا تو ہم جنازہ بھی نہ پڑھیں گے.حضرت نے فرمایا کہ ایسے مخالفوں کا جنازہ پڑھا کر احمدی نے کیا لینا ہے.جنازہ تو دعا ہے جو شخص خود ہی خدا کے نزدیک مَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ میں ہے اس کی دعا کا کیا اثر ہے؟ احمدی شہید کا جنازہ خود فرشتے پڑھیں

Page 187

گے.ایسے لوگوں کی ہرگز پروا نہ کرو اور اپنے خدا پر بھروسہ کرو.طاعون اور ہماری جماعت فرمایا.یہ نادان لوگوں کا غلط خیال ہے کہ طاعون ہماری جماعت کو نقصان پہنچاتی ہے.اگر طاعون سے کوئی آدمی ہماری جماعت کا شہید ہوتا ہے تو یہاں تو خدا تعالیٰ ایک کی بجائے سو بھیج دیتا ہے لیکن ہمارے مخالفوں کا یہ حال ہے کہ ایک تو طاعون سے ہزاروں مَر رہے ہیں.وہ بھی ان میں سے کم ہو گئے اور جو زندہ ہیں ان میں سے ہزاروں نکل کر ہماری جماعت میں داخل ہو رہے ہیں.ہماری جماعت تو دن بدن بڑھ رہی ہے اور مخالفوں کی جماعت دن بدن گھٹ رہی ہے.پس ظاہر ہے کہ گھاٹے میں کون ہیں اور فائدے میں کون ہیں.آریہ سماج کا انجام فرمایا.افسوس ہے کہ آریہ سماج نے ایسی بُری راہ اختیار کی ہے جس کا انجام کسی صورت میں نیک نہیں ہو سکتا اور اب ان کے لیڈر کو ہی جلا وطن نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ در اصل آریہ سماج ہی جلا وطن ہو گیا ہے اور اب اس کا خاتمہ ہے.اہلسنّت و الجماعت کون ہے حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ایک عمدہ نکتہ بیان کیا.فرمایا.میں نے ایک سنی مولوی سے پوچھا کہ تم اہلسنّت و الجماعت بنتے ہو.تمہارا امام کون ہے؟ اس نے کہا کہ کئی ایک لوگ امام ہیں.میں نے کہا کہ امام تو ایک ہی ہوتا ہے اور وہ تمہارے درمیان کوئی نہیں اس واسطے تمہیں اہل سنّت و الجماعت کہلانے کا کوئی حق نہیں.امام والی جماعت ایک ہی ہے اس وقت دنیا بھر میں ایک ہی مذہبی جماعت (احمدیہ) ہے جو اپنا ایک امام رکھتی ہے ورنہ تمام دوسری جماعتیں نخصمیہیں.ان کا کوئی پیشوا نہیں.آپس میںقُلُوْبُهُمْ شَتّٰى (الـحشـر:۱۵) کا مصداق بن رہے ہیں.۱ تواضع اور عاجزی فرمایا.تواضع اور مسکنت عمدہ شَے ہے جو شخص باوجود محتاج ہونے کے تکبر کرتا ہے وہ کبھی مراد کو نہیںپاسکتا.اس کو چاہیے کہ عاجزی اختیار

Page 188

کرے.کہتے ہیں کہ جالینوس حکیم ایک بادشاہ کے پاس ملازم تھا.بادشاہ کی عادت تھی کہ ایسی ردّی چیزیں کھایا کرتا تھا جن سے جالینوس کو یقین تھا کہ بادشاہ کو جذام ہوجائے گا.چنانچہ وہ ہمیشہ بادشاہ کو روکتا تھا مگر بادشاہ باز نہ آتا تھا.اس سے تنگ آکر جالینوس وہاں سے بھاگ کر اپنے وطن کو چلا گیا.کچھ عرصہ کے بعد بادشاہ کے بدن پر جذام کے آثار نمودار ہوئے.تب بادشاہ نے اپنی غلطی کو سمجھا اور اس نے انکسار اختیار کیا.اپنے بیٹےکو تخت پر بٹھایا اور خود فقیرانہ لباس پہن کر وہاں سے چل نکلا اور جالینوس کے پاس پہنچا.جالینوس نے اس کو پہچانا اور بادشاہ کی تواضع اسے پسند آئی اور پورے زور سے اس کے علاج میںمصروف ہوا.تب خدا نے اسے شفا دی.۱ ۷؍مئی ۱۹۰۷ء بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اپنی جماعت کے لیے ضروری نصیحت چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان دنوں میں بعض جاہل اور شریر لوگ اکثر ہندوؤں میں سے اور کچھ کچھ مسلمانوں میں سے گورنمنٹ کے مقابل ایسی ایسی حرکات ظاہر کرتے ہیں جن سے بغاوت کی بُو آتی ہے بلکہ مجھے شک ہوتا ہے کہ کسی وقت باغیانہ رنگ ان کی طبائع میں پیدا ہو جائے گا اس لیے میں اپنی جماعت کے لوگوں کو جو مختلف مقامات پنجاب، ہندوستان میں موجود ہیں جو بفضلہ تعالیٰ کئی لاکھ تک ان کا شمار پہنچ گیا ہے.نہایت تاکید سے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ میری اس تعلیم کو خوب یاد رکھیں جو قریباً چھبیس برس سے تقریری اور تحریری طور پر ان کے ذہن نشین کرتا آیا ہوں یعنی یہ کہ اس گورنمنٹ انگریزی کی پوری اطاعت کریں کیونکہ وہ محسن گورنمنٹ ہے.اس کے ظِل حمایت میں ہمارا یہ فرقہ احمدیہ چند سال میں لاکھوں تک پہنچ گیا ہے اور اس گورنمنٹ کا احسان ہے کہ اس کے

Page 189

زیر سایہ ہم ظالموں کے پنجہ سے محفوظ ہیں.خدائے تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت ہے کہ اس نے اس گورنمنٹ کو اس بات کے لیے چن لیا کہ تا یہ فرقہ احمدیہ اس کے زیر سایہ ہو کر ظالموں کے خونخوار حملوں سے اپنے تئیں بچاوے اور ترقی کرے.کیا تم یہ خیال کر سکتے ہو کہ تم سلطانِ روم کی عملداری میں رہ کر یا مکہ اورمدینہ میں ہی اپنا گھر بنا کر شریر لوگوں کے حملوں سے بچ سکتے ہو.نہیں ہرگز نہیں.بلکہ ایک ہفتہ میں ہی تم تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کئے جاؤ گے.تم سن چکے ہو کہ کس طرح صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب جو ریاست کابل کے ایک معزز اور بزرگوار اور نامور رئیس تھے جن کے مرید پچاس ہزار کے قریب تھے جب وہ میری جماعت میں داخل ہوئے تو محض اس قصور کی وجہ سے کہ وہ میری تعلیم کے موافق جہاد کے مخالف ہوگئے تھے.امیر حبیب اللہ خاں نے نہایت بے رحمی سے ان کو سنگسار کرا دیا.پس کیا تمہیں ایسے لوگوں سے کچھ توقع ہے کہ تمہیں ایسے سلاطین کے ماتحت کوئی خوشحالی میسر آئے گی.بلکہ تم تمام اسلامی مخالف علماء کے فتووں کے رو سے واجب القتل ٹھہر چکے ہو.سو خدا تعالیٰ کا یہ فضل اور احسان ہے کہ اس گورنمنٹ نے ایسا ہی تمہیں اپنے سایہءِ پناہ کے نیچے لے لیاجیسا کہ نجاشی بادشاہ نے جو عیسائی تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو پناہ دی تھی میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا جیسا کہ نادان لوگ خیال کرتے ہیں نہ اس سے کوئی صلہ چاہتا ہوں بلکہ میں انصاف اور ایمان کے رو سے اپنا فرض دیکھتا ہوں کہ اس گورنمنٹ کی شکر گذاری کروں اور اپنی جماعت کو اطاعت کےلیے نصیحت کروں.سو یاد رکھو اور خوب یاد رکھو! کہ ایسا شخص میری جماعت میں داخل نہیں رہ سکتا جو اس گورنمنٹ کے مقابل پر کوئی باغیانہ خیال رکھے اور میرے نزدیک یہ سخت بد ذاتی ہے کہ جس گورنمنٹ کے ذریعہ سے ہم ظالموں کے پنجہ سے بچائے جاتے ہیں اور اس کے زیر سایہ ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے اس کے احسان کے ہم شکر گذار نہ ہوں اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ(الرحـمٰن:۶۱) یعنی احسان کا بدلہ احسان ہے اور حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ جو انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر نہیں کرتا.یہ تو سوچو کہ اگر تم اس گورنمنٹ کے سایہ

Page 190

سے باہر نکل جاؤ تو پھر تمہارا ٹھکانا کہاں ہے؟ ایسی سلطنت کا بھلا نام تو لو جو تمہیں اپنی پناہ میں لے آئے گی.ہر ایک اسلامی سلطنت تمہارے قتل کرنے کے لیے دانت پیس رہی ہے کیونکہ ان کے نزدیک تم کافر اورمرتد ٹھہر چکے ہو.سو تم خدا داد نعمت کی قدر کرو اور تم یقیناً سمجھ لو کہ خدائے تعالیٰ نے سلطنت انگریزی تمہاری بھلائی کے لیے ہی اس ملک میں قائم کی ہے اور اگر اس سلطنت پر کوئی آفت آئے تو وہ آفت تمہیں بھی نابود کر دے گی.یہ مسلمان لوگ جو اس فرقہ احمدیہ کے مخالف ہیں تم ان کے علماء کے فتوے سن چکے ہو یعنی یہ کہ تم ان کے نزدیک واجب القتل ہو اور ان کی آنکھ میں ایک کتا بھی رحم کے لائق ہے مگر تم نہیں ہو.تمام پنجاب اور ہندوستان کے فتوے بلکہ تمام ممالک اسلامیہ کے فتوے تمہاری نسبت یہ ہیں کہ تم واجب القتل ہو اور تمہیں قتل کرنا اور تمہارا مال لوٹ لینا اور تمہاری بیویوں پر جبر کرکے اپنے نکاح میں لے آنا اور تمہاری میت کی توہین کرنا اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دینا نہ صرف جائز بلکہ بڑا ثواب کا کام ہے.سو یہی انگریز ہیں جن کو لوگ کافر کہتے ہیں جو تمہیں ان خونخوار دشمنوں سے بچاتے ہیں اور ان کی تلوار کے خوف سے تم قتل کئے جانے سے بچے ہوئے ہو.ذرا کسی اور سلطنت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیاجاتا ہے؟ سوانگریزی سلطنت تمہارے لیے ایک رحمت ہے.تمہارے لیے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے.پس تم دل و جان سے اس سپر کی قدر کرو اور تمہارے مخالف جو مسلمان ہیں ہزارہا درجہ ان سے انگریز بہتر ہیں کیونکہ وہ تمہیں واجب القتل نہیں سمجھتے.وہ تمہیں بے عزّت کرنا نہیں چاہتے.کچھ بہت دن نہیں گذرے کہ ایک پادری نے کپتان ڈگلس کی عدالت میں میرے پر اقدامِ قتل کا مقدمہ کیا تھا.اس دانشمند اور منصف مزاج ڈپٹی کمشنر نے معلوم کر لیا کہ وہ مقدمہ سرا سر جھوٹا اور بناوٹی ہے اس لیے مجھے عزّت کے ساتھ بری کیا بلکہ مجھے اجازت دی کہ اگر چاہو تو جھوٹا مقدمہ بنانے والوں پر سزا دلانے کے لیے نالش کرو.سو اس نمونہ سے ظاہر ہے کہ انگریز کس انصاف اور عدل کے ساتھ ہم سے پیش آتے ہیں.اور یاد رکھو کہ اسلام میں جو جہاد کا مسئلہ ہے میری نگاہ میں اس سے بدتر اسلام کو بدنام کرنے والا اور

Page 191

کوئی مسئلہ نہیں ہے.جس دین کی تعلیم عمدہ ہے جس دین کی سچائی ظاہر کرنے کے لیے خدا نے معجزات دکھلائے ہیں اور دکھلا رہا ہے ایسے دین کو جہاد کی کیا ضرورت ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ظالم لوگ اسلام پر تلوار کے ساتھ حملے کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ اسلام کو تلوار کے ذریعہ سے نابود کر دیں.سو جنہوں نے تلواریں اٹھائیں وہ تلوار سے ہی ہلاک کئے گئے.سووہ جنگ صرف دفاعی جنگ تھی.اب خواہ نخواہ ایسے اعتقاد پھیلانا کہ کوئی مہدی خونی آئے گا اور عیسائی بادشاہوں کو گرفتار کرے گا یہ محض بناوٹی مسائل ہیں جن سے ہمارے مخالف مسلمانوں کے دل خراب اور سخت ہوگئے ہیں اور جن کے ایسے عقیدے ہیں وہ خطرناک انسان ہیں اور ایسے عقیدے کسی زمانہ میں جاہلوں کے لیے بغاوت کا ذریعہ ہو سکتے ہیں بلکہ ضرور ہوں گے سو ہماری کوشش ہے کہ مسلمان ایسے عقیدوں سے رہائی پاویں.یاد رکھو کہ وہ دین خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتا.جس میں انسانی ہمدردی نہیں.خدا نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ زمین پر رحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم کیا جاوے.والسلام خاکسار میرزا غلام احمد مسیح موعود عافاہ اللہ و ایَّد مورخہ ۷؍مئی ۱۹۰۷ء ۱ نرخ اشیاء سوال پیش ہوا کہ بعض تاجر جو گلی کوچوں میں یا بازار میں اشیاء فروخت کرتے ہیں ایک ہی چیز کی قیمت کسی سے کم لیتے ہیں اور کسی سے زیادہ کیا یہ جائز ہے.؟ فرمایا.مالک شَے کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کی قیمت جو چاہے لگائے اور مانگے لیکن وقت فروخت تراضی طرفین ہو اور بیچنے والا کسی قسم کا دھوکا نہ کرے مثلاً ایسا نہ ہو کہ چیز کے خواص وہ نہ ہوں جو بیان کئے جاویں یا اور کسی قسم کا دغا خریدار سے کیا جاوے اور جھوٹ بولا جاوے اور یہ بھی جائز نہیں کہ بچے یا ناواقف کو پائے تو دھوکا دے کر قیمت زیادہ لے لے جس کو اس ملک میں ’’لگّا دا ‘‘ لگانا کہتے ہیں.یہ ناجائز ہے.۲

Page 192

۱۴؍مئی ۱۹۰۷ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکسار ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ حضور نے حقیقۃ الوحی کے لکھنے اور پروفوں کے باربار پڑھنے میں بہت محنت اٹھائی ہے اور یہی وجہ ہے کہ باربار حضور کی طبیعت علیل ہوجاتی ہے اب حضور چند روز بالکل آرام فرماویں اور پڑھنے لکھنے کے کام کو بالکل ترک فرماویں.حضرت نے جواب میں فرمایا.ہماری محنت ہی کیا ہے.ہمیں تو شرم آتی ہے جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی محنتوں کی طرف نگاہ کرتے ہیں کہ کس طرح خوشی کے ساتھ انہوں نے خدا کی راہ میں اپنے سر بھی کٹوا دیئے.۱ بلاتاریخ غسّال کے پیچھے نماز ایک شخص نے حضرت سے سوال کیا کہ غسال کو نماز کے واسطے پیش امام بنانا جائز ہے؟ فرمایا.یہ سوال بے معنے ہے.غسّال ہونا کوئی گناہ نہیں.امامت کے لائق وہ شخص ہے جو متّقی ہو.نیکو کار، عالم باعمل ہو.اگر ایسا ہے تو غسّال ہونا کوئی عیب نہیں جو امامت سے روک سکے.۲ ۱۸؍مئی ۱۹۰۷ء (بوقت ظہر) خواب میں بادل کا دیکھنا فرمایا.میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ بادل چڑھا ہے.میں ڈرا ہوں مگر کسی نے کہا کہ تمہارے لیے مبارک ہے.قرآن کریم سے بھی ثابت ہے کہ عذاب کو بادل کے رنگ میں دکھایا جاتا ہے.یہ لوگ نشان پر نشان

Page 193

دیکھتے ہیں مگر کچھ پروا نہیں کرتے.یاد رکھو اللہ تعالیٰ اپنے فعل کو عبث نہیں جانے دے گا.جو اس کے فعل کو عملی رنگ میں عبث قرار دیتے ہیں وہ ضرورپکڑے جاویں گے.موسٰی کے زمانہ کی طرح ایک نشان سے بڑھ کر دوسرا نشان دکھایا جاتا ہے مگر ان کی فرعونیت فرعون سے بھی بڑھ گئی.اپنی تدبیروں پر بھروسہ رکھتے ہیں.مگر دیکھو کیسی الٹی منہ پر پڑتی ہے.رائے ظاہر کی کہ طاعون اب رو بہ کمی ہے.اس کا کیڑا مَر چکا ہے.مگر دیکھو کہ اس سال تمام پچھلے سالوں سے بڑھ کر مَری پڑی اور آئندہ دیکھئے کیا ہوتا ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بھی بڑھ کر پڑے گی.بعض عیسائیوں کی درخواستوں کا تذکرہ تھا جو ضلالت کی ظلمات سے نکل کر ہدایت کے نور میں آنا چاہتے ہیں.فرمایا.کسی کی غرض دین ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے سب سامان مہیا کر دیتا ہے.بیکار لوگ جو کسی کام کے نہ ہوں.صرف کھانے پینے اور روپیہ جمع کرنے کی فکر میں ہوں ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا.ایسے لوگ بعد میں تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کی رحیمیت پر اعتراض کا جواب لاہور کا دہریہ اپنے اخبار جیون تت میں مختلف حوادث سماوی اور طاعون سے بعض جگہ آدمیوں کے تلف ہونے پر خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت پر اعتراض کرتا ہے اور نادان کو اتنا خیال نہیں آتا کہ گورنمنٹ کسی بدمعاش کو جیل خانہ بھیجتی ہے یا کسی مجرم کو پھانسی کا حکم دیتی ہے تو کیا کبھی کسی دانا نے گورنمنٹ کو ظالم یابے رحم قرار دیا ہے؟ ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دینا خود رحم ہے.کیا نادان دہریہ کے نزدیک جیل کے داروغے اور سیشن کورٹ کے جج سب ظالم اور سفاک ہیں؟ اور محکمات سب بند کر دینے چاہئیں؟۱

Page 194

بلاتاریخ حضرت ابراہیمؑ کے لیے آگ کا ٹھنڈا کیا جانا ایک دوست کا خط حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ حضرت ابراہیمؑ پر جو آگ ٹھنڈی ہو گئی تھی آیا وہ فی الواقع آتش ہیزم تھی یا کہ فتنہ و فساد کی آگ تھی.حضرت نے فرمایا.فتنہ و فساد کی آگ تو ہر نبی کے مقابل میں ہوتی ہے اور وہی ہمیشہ کوئی ایسا رنگ اختیار کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک معجزہ نما طاقت اپنے نبی کی تائید میں اس کے بالمقابل دکھاتا ہے.ظاہری آتش کا حضرت ابراہیمؑ پر فرو کر دینا خدا تعالیٰ کے آگے کوئی مشکل اَمر نہیں اور ایسے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں.حضرت ابراہیمؑ کے متعلق ان واقعات کی اب بہت تحقیقات کی ضرورت نہیں کیونکہ ہزاروں سالوں کی بات ہے.ہم خود اس زمانہ میں ایسے واقعات دیکھ رہے ہیں اور اپنے اوپر تجربہ کرر ہے ہیں.معجزات حفاظت کے چند واقعات (۱) ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھا تو ایک دن بارش ہو رہی تھی.جس کمرہ کے اندر میں بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی سارا کمرہ دھوئیں کی طرح بھر گیا اور گندھک کی سی بو آتی تھی، لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا اسی وقت وہ بجلی ایک مندر میں گری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اس میں ہندوؤں کی رسم کے مطابق طواف کے واسطے پیچ در پیچ ارد گرد دیوار بنی ہوئی تھی اوروہ اندر بیٹھا ہوا تھا.بجلی ان تمام چکروں میں سے ہو کر اندر جا کر اس پر گری اور وہ جل کرکوئلہ کی طرح سیاہ ہوگیا.دیکھو وہی بجلی کی آگ تھی جس نے اس کو جلا دیا مگر ہم کو کچھ ضرر نہیں دے سکی.کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی.(۲) ایسا ہی سیالکوٹ کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات کو میں ایک مکان کی دوسری منزل میں سویا ہوا تھا اور اسی کمرہ میں میرے ساتھ پندرہ سولہ اور آدمی بھی تھے.رات کے وقت شہتیر میں

Page 195

ٹک ٹک کی آواز آئی.میں نے آدمیوں کو جگایا کہ شہتیر خوفناک معلوم ہوتا ہے یہاں سے نکل جانا چاہیے.انہوں نے کہا کوئی چوہا ہوگا کچھ خوف کی بات نہیں.اور یہ کہہ کر پھر سو گئے.تھوڑی دیر کے بعد پھر ویسی ہی آواز سنی.تب میں نے ان کو دوبارہ جگایا مگر پھر بھی انہوں نے کچھ پروا نہ کی.پھر تیسری بار شہتیر سے آواز آئی.تب میں نے ان کو سختی سے اٹھایا اور سب کو مکان سے باہر نکالا اور جب سب نکل گئے تو خود بھی وہاں سے نکلا.ابھی میں دوسرے زینہ پر تھا کہ وہ چھت نیچے گری اور دوسری چھت کو بھی ساتھ لے کر نیچے جا پڑی.اور چارپائیاں ریزہ ریزہ ہوگئیں اور ہم سب بچ گئے.یہ خدا تعالیٰ کی معجزہ نما حفاظت ہے جب تک کہ ہم وہاں سے نکل نہ آئے شہتیر گرنے سے محفوظ رہا.(۳) ایسا ہی ایک دفعہ ایک بچھو میرے بسترے کے اندر لحاف کے ساتھ مَرا ہوا پایا گیا اور دوسری دفعہ ایک بچھو لحاف کے اندر چلتا ہوا پکڑا گیا.مگر ہر دو بار خدا تعالیٰ نے مجھے ان کے ضرر سے محفوظ رکھا.(۴) ایک دفعہ میرے دامن کو آگ لگ گئی تھی.مجھے خبر بھی نہ ہوئی.ایک اور شخص نے دیکھا اور بتلایا اور اس آگ کو بجھا دیا.خدا تعالیٰ کے پاس کسی کے بچانے کی ایک راہ نہیں بلکہ بہت راہیں ہیں.آگ کی گرمی اور سوزش کے واسطے بھی کئی ایک اسباب ہیں اور بعض اسباب مخفی در مخفی ہیں.جن کی لوگوں کو خبر نہیں اور خدا تعالیٰ نے وہ اسباب اب تک دنیا پر ظاہر نہیں کئے جن سے اس کی سوزش کی تاثیر جاتی رہے.پس اس میں کون سے تعجب کی بات ہے کہ حضرت ابراہیمؑ پر آگ ٹھنڈی ہوگئی.۱ بلاتاریخ اگر آپ کو طاعون ہے تو ہمارا سلسلہ ہی جھوٹا ہے ایک دفعہ مولوی محمد علی صاحب کو طاعون کے ایام میں سخت تپ چڑھا جو یہاں تک شدید تھا کہ انہوں نے سمجھا کہ مجھ کو طاعون ہوگیا ہے اور اس خیال کا ان پر اس قدر

Page 196

اثر پڑا کہ مفتی محمد صادق صاحب کو بُلا کر وصیت بھی لکھوانی شروع کر دی.اتفاقاً یہ خبر مجھ کو ملی اور میں ان کی عیادت کے لیے گیا تو ان کے اس خیال کو دور کرنے کے لیے میں نے کہہ دیا کہ آپ کو قطعاً طاعون نہیں.اگر آپ کو طاعون ہے تو ہمارا سلسلہ ہی جھوٹا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے صاف کہہ دیا ہے کہ میں ہر ایک شخص کو جو اس چار دیواری میں ہے اس مرض سے بچاؤں گا اور یہ کہہ کر میں نے ان کی نبض جو دیکھی تو تپ کا کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا.(منقول از تشحیذ الاذہان) مسلمانوں کی یہود سے نسبت جہاد کی ممانعت کی نسبت جو نظم درثمین میں شائع ہوچکی ہے اس میں ایک شعر ہے.؎ اب زندگی تمہاری تو سب فاسقانہ ہے مومن نہیں ہو تم کہ قدم کافرانہ ہے اس کی نسبت فرمایاکہ دیکھو! آجکل ہر طرح کا فسق و فجور پھیلا ہوا ہے اور مسلمانوں کی پہلی سی حالت نہیں رہی.ان کے ہاتھوں سے سلطنت بھی اسی لیے چھینی گئی ہے کہ انہوں نے خدا کو چھوڑ دیا.خدا تعالیٰ تو کسی کا رشتہ دار نہیں کہ وہ باوجود اس کے بگڑ جانے کے پھر بھی اس کی پاسداری کرتا چلا جاوے.چونکہ یہودیوں سے مسلمانوں کو نسبت ہے اس لیے ان کی طرح ان پر بھی دو دفعہ سخت عذاب آنا ضروری تھا.چنانچہ ایک دفعہ تو تب ان پر عذاب آیا جبکہ ہلاکو خان نے حملہ کر کے بغداد کو تباہ کیا اور مسلمانوں کو اس قدر ہلاک کیا کہ صرف بغداد میں کہتے ہیں کہ چھ لاکھ انسان قتل ہوا.اس وقت کے مسلمانوں کی حالت اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ ایک بزرگ کے پاس لوگ اکٹھے ہوئے اور کہا کہ خدا سے دعا کیجئے گا کہ وہ ہم کو اس عذاب سے نجات دے اور یہ طوفان تھم جائے.انہوں نے فرمایا کہ کم بختو! تمہاری وجہ سے ہم بھی اس عذاب میں پھنس گئے میں دیکھتا ہوں کہ فرشتے کھڑے کہتے ہیں یَآ اَیُّـھَا الْکُفَّارُ اُقْتُلُوا الْفُجَّارَ یعنی اے کافرو! ان فاجروں کو قتل کرو.پس وہی حالت اس وقت دوبارہ ہوگئی ہے اور انگریزوں کی حکومت بھی جو کہ مذہب کی رو سے کافر ہیں ہندوستان میں اسی لیے ہوئی ہے کہ مسلمان خود فاجر ہوگئے ہیں اور خدا کے رحم کو حاصل کرنے کے لائق نہیں ہیں اور میرے اس شعر کا

Page 197

یہی مطلب ہے کہ خود تمہاری حالت ایسی نہیں رہی کہ خدا تمہاری مدد کرے تو جہاد کیسا؟۱ ۲۱؍مئی ۱۹۰۷ء انسان ہر دم خدا تعالیٰ کا محتاج ہے ہم نے جو کیمیا کو شرک قرار دیا تھا تو اس کا یہ مطلب تھا کہ خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ انسان مستغنی ہو اسی لیے فرمایا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰۤى اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰى(العلق:۷،۸) وہ فرماتا ہے.انسان سر کشی کرتا ہے جبکہ اپنے تئیں غنی دیکھتا ہے.عبودیت کا الوہیت سے ایسا تعلق ہے کہ عبد اپنے مولا کا ذرّہ ذرّہ کے لیے محتاج ہے اور ایک دم خدا کے سوا نہیں گذار سکتا.پس جو شخص ایسے اسباب تلاش کرتا ہے جن سے خدا کی طرف توجہ نہ رہے (اور توجہ مبنی ہے احتیاج پر) تو گویا شرک میں پڑتا ہے کیونکہ اپنا قبلہءِ مقصود ایک کے سوا دوسرا بھی بناتا ہے.مومن تو وہ ہے جو ایسے امور کا نام تک نہ لے جن سے توحید میں رخنہ اندازی ہوتی ہو.اس بات کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ بیمار اسی وقت تک طبیب کے پاس رہتا ہے جب تک کہ بیمار رہے.پس عبد اسی وقت تک متوجہ رہے گا جب تک عبودیت کی حالت باقی رہے.اَلْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ دوفریق ہوتے ہیں جن میں مقابلہ ہوتا ہے مگر آخر کار فتح وہی پاتے ہیں جن کے ساتھ خدا ہوتا ہے.موسٰی بظاہر فرعون کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتے تھے مگر خدا نے اپنی عجیب در عجیب قدرتوں سے فتح بخشی.آخری فیصلہ کا وقت بڑے تعجب کی بات ہے کہ یہ مخالف اپنے دوسرے ہلاک شدہ بھائیوں سے ذرا بھی عبرت حاصل نہیں کرتے بلکہ ایک بولتا ہے تو دوسرا اس کی تائید کرتا ہے.یہ آریہ ہوں یا مسلم یا ہندو یا سکھ.ہماری مخالفت میں سب ایک ہوجاتے ہیں (ایک حدیث میں مسیح موعود کا یہ نشان بھی ہے کہ کینہ و بغض باہمی چلا جائے گا اور ایک اور حدیث بھی اس کی تائید کرتی ہے)۲ حالانکہ یہ صرف اس بات پر تقویٰ و خدا ترسی کے ساتھ غور کریں کہ چھبیس برس کا الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲۰ مورخہ ۱۰؍جون ۱۹۰۷ءصفحہ ۴ و بدر جلد ۶ نمبر ۲۳ مورخہ ۶؍جون ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ ۲ غالباً یہ نوٹ ڈائری نویس کا ہے.واللہ اعلم(مرتّب)

Page 198

زمانہ کوئی تھوڑا زمانہ نہیں بلکہ اس میں تو ایک بچہ بھی پیدا ہوکر بالغ ہو سکتا ہے.اب وہ زمانہ آتا ہے کہ آخری فیصلہ کر دیا جاوے اور وہ فرقان حاصل ہو جو انبیاء اور ان کے مخالفین میں ہوا کرتا ہے.پہلے خدا تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ دو فریق آپس میں کشتی کریں پھر آخر وہ وقت آتا ہے کہ ایک فریق کی حمایت کر کے ان کو کامیاب کرے اور دوسرے کو فنا یا مغلوب کرے.۱ ۲۸؍مئی ۱۹۰۷ء (ظہر) فرمایاکہ ان ہندوؤں نے جو دکھ ہمیں دیئے ہیں وہ بیان سے باہر ہیں.دیانند نے کیا کچھ نہیں لکھا.کنھیا لال اس سے کم نہیں.پھر لیکھرام نے جو خبث پھیلایا ہے اس کا نتیجہ کسی سے مخفی نہیں.پس جب ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ایک حیوان کے بدلے میں انسان کا قتل بھی جائز قرار دیں اور اپنی حکومت کے زمانہ میں اونچی اذان تک بھی نہ کہنے دیں تو پھر ہم کیوں نہ کہیں کہ انگریزی حکومت ہمارے لئے خدا کی ایک خاص رحمت ہے.؎ بہ قومے کہ نیکی پسندد خدا دہد خسرو عادل و نیک رائے ان ہندوؤں سے ہمارا کچھ کبھی اتحاد نہیں ہو سکتا کہ آزمودہ را آزمودن جہل است.انگریز بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جب مسلمان بادشاہوں سے وزارت تک کے عہدے پاکر بھی یہ ان کی شکایت کرنا ہی اپنا مذہبی جزو سمجھتے ہیں تو پھر ان سے کیا وفا شعاری کریں گے.ہمیں تو ان کے بڑھے ہوئے تعصب پر افسوس آتا ہے کہ ہم تو ان کے ہادیوں کرشن رامچندر کی عام مجلسوں میں بھی تصدیق کریں اور ان کو خدا کے پاک بندے قرار دیں اور یہ ایسے شوخ چشم کہ بلاوجہ حماقت سے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کل اصفیا کے سردار کو بُرا کہیں ایسی باتوں سے میں نے کہا کہ جنگل کے بھیڑیوں، سانپوں، بچھوؤں سے صلح آسان مگر ان سے ناممکن.۲

Page 199

بلاتاریخ ایک دعا اور اس کا جواز میاں محمد دین احمدی کباب فروش لاہور (حال ساکن موضع دھورہ ڈھیری بٹاں ریاست جموں) نے ایک عریضہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا جس میں لکھا تھا ’’یا حضرت میں نے چند روز سے محض رضائے الٰہی کے لیے جناب باری تعالیٰ میں یہ دعا شروع کی ہے کہ میری عمر میں سے دس سال حضرت اقدس مسیح موعود کو دی جاوے کیونکہ اسلام کی اشاعت کے واسطے میری زندگی ایسی مفید نہیں.کیا ایسی دعا مانگنا جائز ہے؟‘‘ حضرت اقدس نے جواب میں تحریر فرمایا.’’ایسی دعا میں مضائقہ نہیں بلکہ ثواب کا موجب ہے.‘‘ ہندوؤں سے ہمدردی ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ بہ سبب پرانے تعلقات کے ایک ہندو ہمارے شہر کا ہمارے معاملات شادی اور غمی میں شامل ہوتا ہے اور کوئی مَر جائے تو جنازہ میں بھی ساتھ جاتا ہے.کیا ہمارے واسطے بھی جائز ہے کہ ہم اس کے ساتھ ایسی شمولیت دکھائیں؟ فرمایا کہ ہندوؤں کی رسوم اور امور مخالف شریعت اسلام سے علیحدگی اور بیزاری رکھنے کے بعد دنیوی امور میں ہمدردی رکھنا اور ان کی امداد کرنا جائز ہے.نماز جمعہ کے بعد احتیاطی ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ بعض لوگ جمعہ کے بعد احتیاطی پڑھتے ہیں.اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ قرآن شریف کے حکم سے جمعہ کی نماز سب مسلمانوں پر فرض ہے.جبکہ جمعہ کی نماز پڑھ لی تو حکم ہے کہ جاؤ اب اپنے کاروبار کرو.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ انگریزوں کی سلطنت

Page 200

میں جمعہ کی نماز اور خطبہ نہیں ہو سکتا کیونکہ بادشاہ مسلمان نہیں ہے تعجب ہے کہ خود بڑے امن کے ساتھ خطبہ اور نماز جمعہ پڑھتے بھی ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ نہیں ہو سکتا.پھرکہتے ہیں کہ احتمال ہے کہ جمعہ ہوا یا نہیں اس واسطے ظہر کی نماز بھی پڑھتے ہیں اور اس کا نام احتیاطی رکھا ہے.ایسے لوگ ایک شک میں گرفتار ہیں.ان کا جمعہ بھی شک میں گیا اور ظہر بھی شک میں گئی.نہ یہ حاصل ہوا نہ وہ.اصل بات یہ ہے کہ نماز جمعہ پڑھو اور احتیاطی کی کوئی ضرورت نہیں.۱ ۸؍جون ۱۹۰۷ء (بوقتِ عصر) استخارہ کی اہمیت فرمایا کہ آجکل اکثر مسلمانوں نے استخارہ کی سنّت کو ترک کر دیا ہے.حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیش آمدہ اَمر میں استخارہ فرما لیا کرتے تھے.سلف صالحین کا بھی یہی طریق تھا.چونکہ دہریت کی ہوا پھیلی ہوئی ہے اس لیے لوگ اپنے علم و فضل پر نازاں ہو کر کوئی کام شروع کر لیتے ہیں اور پھر نہاں در نہاں اسباب سے جن کا انہیں علم نہیں ہوتا نقصان اٹھاتے ہیں.اصل میں یہ استخارہ ان بد رسومات کے عوض میں رائج کیا گیا تھا جو مشرک لوگ کسی کام کی ابتدا سے پہلے کیا کرتے تھے لیکن اب مسلمان اسے بھول گئے حالانکہ استخارہ سے ایک عقل سلیم عطا ہوتی ہے.جس کے مطابق کام کرنے سے کامیابی حاصل ہوتی ہے.بعض لوگ کوئی کام خود ہی اپنی رائے سے شروع کربیٹھتے ہیں اور پھر درمیان میں آکر ہم سے صلاح پوچھتے ہیں.ہم کہتے ہیں جس علم و عقل سے پہلے شروع کیا تھا اسی سے نبھائیں.اخیر میں مشورے کی کیا ضرورت؟۲ ۱۱؍جون ۱۹۰۷ء

Page 201

آریوں کی فطرت فرمایا.ہمارا ایک پرانا واقف ہندو ہے اس کا خط آیا تھا کہ آریہ لوگ دراصل گورنمنٹ کے خیر خواہ ہیں.سرکار کو غلط فہمی ہوئی.میں نے اسے خط لکھا ہے یہ تمہاری غلطی ہے کہ آریہ سرکار کے خیر خواہ ہیں.اس سلوک کو دیکھا جائے جو گورنمنٹ نے ان کے ساتھ کیا ہے کہ ان کو اعلیٰ تعلیم دی ہے اور تمام معزز عہدوں پر ان کو ممتاز کیا ہے اور دفاتر ان سے بھر دیئے ہیں اور پھر اس سلوک کو دیکھا جائے جو کہ اب انہوںنے گورنمنٹ کے ساتھ کیا ہے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ گورنمنٹ کے صرف بدخواہ ہی نہیں بلکہ نمک حرام بھی ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ آریوں کی فطرت میں یہ بدی ہے کہ اپنے محسن کے ساتھ ایسی بد سلوکی کریں.فرمایا.میں نے اس کو صلاح دی ہے کہ تم اپنا تعلق آریوں سے بالکل علیحدہ کر لو.ناجائز وعدہ کو توڑنا ضروری ہے ایک شخص کی درخواست پیش ہوئی کہ میری ہمشیرہ کی منگنی مدت سے ایک غیر احمدی کے ساتھ ہوچکی ہے اب اس کو قائم رکھنا چاہیے یا نہیں؟ فرمایا.ناجائز وعدہ کو توڑنا اور اصلاح کرنا ضروری ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قَسم کھائی تھی کہ شہد نہ کھائیں گے.خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ ایسی قَسم کو توڑ دیا جاوے.علاوہ ازیں منگنی تو ہوتی ہی اسی لیے ہے کہ اس عرصہ میں تمام حسن و قبح معلوم ہوجاویں.منگنی نکاح نہیں ہے کہ اس کو توڑنا گناہ ہو.مجالس مشاعرہ ایک جگہ بعض شاعرانہ مذاق کے دوست ایک باقاعدہ انجمن مشاعرہ قائم کرنا چاہتے تھے اس کے متعلق حضرت سے دریافت کیا گیا.فرمایا.یہ تضیعِ اوقات ہے کہ ایسی انجمنیں قائم کی جاویں اور لوگ شعر بنانے میںمستغرق رہیں.ہاں یہ جائز ہے کہ کوئی شخص ذوق کے وقت کوئی نظم لکھے اور اتفاقی طور پر کسی مجلس میں سنائے یا کسی اخبار میں چھپوائے.ہم نے اپنی کتابوں میں کئی نظمیں لکھی ہیں مگر اتنی عمر ہوئی آج تک کبھی کسی

Page 202

مشاعرہ میں شامل نہیں ہوئے.میں ہرگز پسند نہیں کرتا کہ کوئی شاعری میں اپنا نام پیدا کرنا چاہے.ہاں اگر حال کے طور پر نہ صرف قال کے طور پر اور جوشِ روحانی سے اور نہ خواہش نفسانی سے کبھی کوئی نظم جو مخلوق کے لیے مفید ہو سکتی ہو لکھی جائے تو کچھ مضائقہ نہیں.مگر یہی پیشہ کر لینا ایک منحوس کام ہے.۱ بلاتاریخ اس بات کو دیکھ کر کہ اکثر خطوط طالبان دعا کے ہی ہوتے ہیں میں ۱نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ہر روز ڈاک میں سے طالبان دعاکی ایک فہرست طیار کرتا جس میں نام و پتہ اور مطلب دعا لکھا جاتا اور وہ روزانہ حضرت کی خدمت میں بھیج دیتا چند روز کے بعد میں نے حضور سے دریافت کیا کہ جو لوگ صرف دعا کے واسطے خط لکھتے ہیں ان کو کیا جواب دیا جائے.فرمایا.ایسے لوگوں کے واسطے پہلے تو میں صرف ایک دفعہ دعا کیا کرتا تھا جبکہ مجھے خط ملتا تھا.اب جب سے آپ فہرست بنا کر بھیجتے ہیں میں ان کے لئے دو دفعہ دعا کرتا ہوں.۲ بلاتاریخ احسان دل کو مسخر کر لیتا ہے فرمایاکہ احسان ایک نہایت عمدہ چیز ہے.اس سے انسان اپنے بڑے بڑے مخالفوں کو زیر کر لیتا ہے چنانچہ سیالکوٹ میں ایک شخص تھا جو کہ تمام لوگوں سے لڑائی رکھتا تھا اور کوئی ایسا آدمی نہ ملتا تھا جس سے اس کی صلح ہو.یہاں تک کہ اس کے بھائی اور عزیز اقارب بھی اس سے تنگ آچکے تھے.اس سے میں نے بعض دفعہ معمولی سا سلوک کیا اور وہ اس کے بدلہ میں کبھی ہم سے برائی سے پیش نہ آتا بلکہ جب ملتا تو بڑے ادب سے گفتگو کرتا.اسی طرح ایک عرب ہمارے ہاں آیا اور وہ وہابیوں کا سخت مخالف تھا یہاں تک کہ جب اس کے سامنے وہابیوں کا ذکر بھی کیا جاتا تو گالیوں پر اتر آتا.اس نے یہاں آکر بھی سخت گالیاں دینی شروع کیں اور وہابیوں کو بُرا بھلا کہنے لگا.ہم نے اس کی کچھ پروا نہ کر کے اس

Page 203

کی خدمت خوب کی اور اچھی طرح سے اس کی دعوت کی اور ایک دن جبکہ وہ غصہ میں بھرا ہوا وہابیوں کو خوب گالیاں دے رہا تھا کسی شخص نے اس کو کہا کہ جس کے گھر میں تم مہمان ٹھہرے ہو وہ بھی تو وہابی ہے.اس پر وہ خاموش ہوگیا اور اس شخص کا مجھ کو وہابی کہنا غلط نہ تھا.کیونکہ قرآن شریف کے بعد صحیح احادیث پر عمل کرنا ہی ضروری سمجھتا ہوں.خیر وہ شخص چند دن کے بعد چلا گیا.اس کے بعد ایک دفعہ لاہور میں مجھ کو پھر ملا.اگرچہ وہ وہابیوں کی صورت دیکھنے کا بھی روادار نہ تھا مگر چونکہ اس کی تواضع اچھی طرح سے کی تھی اس لیے اس کا وہ تمام جوش و خروش دب گیا اور وہ بڑی مہربانی اور پیار سے مجھ کو ملا.چنانچہ بڑے اصرار کے ساتھ مجھ کو ساتھ لے گیا اور ایک چھوٹی سی مسجد میں جس کا کہ وہ امام مقرر ہوا تھا مجھ کو بٹھلایا اور خود نوکروں کی طرح پنکھا کرنے لگا اور بہت خوشامد کرنے لگا کہ کچھ چائے وغیرہ پی کر جاویں.پس دیکھو کہ احسان کس قدر دلوں کو مسخر کر لیتا ہے.۱ اخلاص کی ایک علامت ایک صاحب کی لڑکی بیمار تھی.انہوں نے اس کی دعا کے لیے تار بھیجا تھا.آپ نے اس کو پڑھ کر فرمایا کہ دیکھو یہ لوگ ہم سے کتنا اخلاص رکھتے ہیں.جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جھٹ ہماری طرف آتے اور دعا کے خواستگار ہوتے ہیں.میں دعا کروں گا.آگے شفا خدا کے اختیار میں ہے.چند دن ہوئے مجھ کو الہام ہوا تھا کہ ’’لاہور سے ایک افسوسناک خبر آئی.‘‘ چنانچہ یہ چھپ بھی چکا ہے اور اس الہام کی وجہ سے ہم نے ایک آدمی لاہور بھیج کر پچھوایا بھی تھا کہ وہاں کے دوستوں کا کیا حال ہے؟ مگر کیا معلوم تھا کہ یہ چند دن کے بعد پورا ہوگا.۲ لنگر خانہ کی اہمیت فرمایا.آجکل لوگ لنگر کی طرف بہت کم توجہ کرتے ہیں اور دوسری مدات کی طرف بہت متوجہ ہیں.حالانکہ سب سے ضروری مد یہی ہے کیونکہ ۱ قیاس ہے کہ غالباً یہ دونوں واقعات حضور علیہ السلام کے دعویٰ ماموریت سے پہلے کے ہیں.واللہ اعلم بالصواب (خاکسار مرتّب) ۲نوٹ از ایڈیٹر صاحب بدر.چنانچہ چند روز کے بعد خبر آئی کہ مریض فوت ہوگیا ہے چونکہ وہ ایک معصوم بچہ تھا خدا تعالیٰ نے اس کو بخش ہی دیا ہوگا.خدا اس کے والدین کو اس کا نعم البدل عطا فرمائے.آمین(ایڈیٹر) ۳ بدر جلد ۶ نمبر ۲۷ مورخہ ۴؍جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۷

Page 204

اس کی وجہ سے بہت سے لوگ علم حاصل کرتے ہیں.بعض دفعہ کئی کئی دن تک ایک ایک دو دو روپیہ ہی آتے ہیں اور خرچ دوسرے دن کا سو روپیہ ہوتا ہے.شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری مدات کی تحریکات ہمیشہ ہوتی رہتی ہیں اور لنگر کی کوئی تحریک نہیں ہوتی.۳ بلاتاریخ جس کے ہاں ماتم ہو اس کے ساتھ ہمدردی حضرت کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ کیا یہ جائز ہے کہ جب کارِ قضا کسی بھائی کے گھر میں ماتم ہوجائے تو دوسرے دوست اپنے گھر میں اس کا کھانا تیار کریں.فرمایا.نہ صرف جائز بلکہ برادرانہ ہمدردی کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ ایسا کیا جاوے.۱ ۶؍جولائی ۱۹۰۷ء دجّال کے دو مظاہر فرمایا.دجّال کی دو شانیں ہیں.ایک تو پادری لوگ ہیں جو گویا نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں.ہر قسم کے مکر اور فریب کے ساتھ لوگوں کو بہکاتے ہیں اور عیسائی بناتے ہیں.خود انجیل اور تورات کا ترجمہ در ترجمہ کرتے ہیں.اصل کتاب ان کے پاس موجود نہیں.تراجم میں ہمیشہ تبدیلیاں کرتے ہیں اور انہیں اپنے خیالات کے الفاظ کو دنیا کے سامنے پیش کر کے بیان کرتے ہیں کہ خدا کا کلام ہے یہ ایک طرح نبوت کا دعویٰ ہے.دوسرے اس زمانہ کے فلسفی لوگ ہیں جو کہ خدا تعالیٰ کے ہی منکر ہو بیٹھے ہیں اور رات دن مادی دنیا کی طرف ایسے جھکے ہوئے ہیں کہ دین کو کچھ نہیں سمجھتے بلکہ دین کو غیر ضروری اور اپنی دنیوی ترقی کی راہ میں ایک حارج یقین کرتے ہیں.

Page 205

وقت کے مرسل کو ماننا ضروری ہے فرمایا.خدا تعالیٰ کی عدولِ حکمی سے کوئی شخص کس طرح بچ سکتا ہے.جو لوگ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کے مرسل کو نہیں مانتے وہ خدا تعالیٰ کی عدولِ حکمی کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو یہود اور عیسائی تھے وہ صاحب شریعت تھے.نمازیں پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے.تمام انبیاء کو مانتے تھے مگر آنحضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ ماننے کے سبب وہ کافر قرار دیئے گئے.اس زمانہ کے لوگ جو نہ صرف ہمارے مخالف ہیں بلکہ ہم کو کافر قرار دیتے ہیں وہ بموجب حدیث نبویؐ مومن کو کافر کہہ کر خود کافر بنتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے.معلّق مال پر زکوٰۃ واجب نہیں ایک صاحب نے دریافت کیا کہ تجارت کا مال جو ہے جس میں بہت سا حصہ خریداروں کی طرف ہوتا ہے اور اُگراہی میں پڑا ہوتا ہے اس پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ فرمایا.جو مال معلّق ہے اس پر زکوٰۃ نہیں جب تک کہ اپنے قبضہ میں نہ آجائے لیکن تاجر کو چاہیے کہ حیلے بہانے سے زکوٰۃ کو نہ ٹال دے.آخر اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اخراجات بھی تو اسی مال میں سے برداشت کرتا ہے.تقویٰ کے ساتھ اپنے مالِ موجودہ اور معلّق پر نگاہ ڈالے اور مناسب زکوٰۃ دے کر خدا تعالیٰ کو خوش کرتا رہے.بعض لوگ خدا کے ساتھ بھی حیلے بہانے کرتے ہیں.یہ درست نہیں ہے.دین کو دنیا پر مقدم رکھنا چاہیے فرمایا.دین کو دنیا پر مقدم رکھنا نہایت مشکل اَمر ہے.کہنے کو تو انسان کہہ لیتا ہے اور اقرار بھی کر لیتا ہے مگر اس کا پورا کرنا ہر ایک کا کام نہیں.دین کو دنیا پر مقدم رکھنا اس طرح سے پہچانا جاتا ہے کہ جب انسان کا دنیوی مال میں نقصان ہو تو کس قدر درد اس کے دل کو پہنچتا ہے اور اس کے بالمقابل جب کسی دینی اَمر میں نقصان ہو جائے تو پھر کس قدر درد اس کے دل کو ہوتا ہے.انسان کو چاہیے کہ اس شناخت کے واسطے اپنے دل کو ہی ترازو بنائے کہ دنیاوی نقصان کے واسطے وہ کس قدر بے قرار ہوتا ہے اور چیختا چلاتا ہے

Page 206

اور پھر دینی نقصان کے وقت اس کا کیا حال ہوتا ہے؟ بد ہے وہ شخص جو دوسرے کو دھوکا دیتا ہے مگر بدتر وہ ہے جو اپنے آپ کو بھی دھوکا دیتا ہے.دین کو مقدم نہیں کرتا اور خیال کرتا ہے کہ میں دین کو مقدم کئے ہوئے ہوں.وہ سچے طور پر خدا تعالیٰ کا فرمانبردار نہیں بنا اور ظن کرتا ہے کہ میں مسلمان ہوں.جو شخص دوسرے پر ظلم کرتا ہے ممکن ہے وہ ظلم کر کے بھاگ جائے اور اس طرح اپنے آپ کو بچائے مگر وہ جس نے اپنی جان پر ظلم کیا وہ کہاں بھاگ کر جائے گا اور اس ظلم کی سزا سے کس طرح بچ سکے گا؟ مبارک ہے وہ جو دین کو اور خدا کو سب چیزوں پر مقدم رکھتا ہے کیونکہ خدا بھی اسے مقدم رکھتا ہے.حقیقۃ الوحی کو غور سے پڑھیں فرمایا.ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ حقیقۃ الوحی کو اوّل سے آخر تک بغور پڑھیں بلکہ اس کو یاد کر لیں.کوئی مولوی ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا کیونکہ ہر قسم کے ضروری امور کا اس میں بیان کیا گیا ہے اور اعتراضوں کے جواب دیئے گئے ہیں.خواجہ غلام فریدؒ صاحب کا ذکر خیر فرمایا.خواجہ غلام فریدؒ صاحب کی سوانح کی ایک کتاب لکھی گئی ہے.اس میں خواجہ صاحب نے جابجا ہماری تائید کی ہے.ایک جگہ لکھا ہے کہ بعض مولویوں نے خواجہ صاحب مرحوم سے دریافت کیا تھا کہ آپ کیوں ان کی تائید کرتے ہیں مولوی لوگ تو ان کو کافر قرار دیتے ہیں.تو انہوں نے کیا خوب جواب دیا کہ مولوی لوگوں نے پہلے کس کو مانا ہے اور کس کو کافر قرار نہیں دیا؟ ان کا تو کام ہی یہ ہے ان کی طرف خیال مت کرو.فیصلہ کی آسان راہ ایک صاحب نے حضرت کی خدمت میں ذکر کیا کہ حضور کی اس تحریر پر جو اخبار میں چھپی ہے کہ ’’اگر ہمارے مکذب ہمارے شائع کردہ الہامِ الٰہی اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ کو افترا سمجھتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ محض اپنے دل سے یہ بات بنائی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا کلام نہیں جو ہم پر نازل ہوا ہے اور صرف اتفاقی طور پر ہمارے گھر کی حفاظت ہو رہی ہے تو چاہیے کہ ہمارے مکذبوں میں سے بھی کوئی ایسا الہام شائع

Page 207

کرے تب اس کو جلد معلوم ہو جاوے گا کہ افترا کا کیا نتیجہ ہے.‘‘ اس بات کو پڑھ کر بعض مخالف یہ کہتے ہیں کہ ہم مفتری نہیں ہیں جو خدا تعالیٰ پر افترا کریں.ہم کس طرح ایسا الہام شائع کر سکتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا.یہی بات ہے جو ہم ان کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر افترا کر کے کوئی شخص بچ نہیں سکتا.اگر یہ کلام ہم پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل نہ ہوتا اور ہمارا افترا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کلمہ کے مطابق ہمارے گھر کی حفاظت کیوں کرتا؟ جبکہ ایک کلام صریح الفاظ میں پورا ہوگیا ہے تو پھر اس کے ماننے میں کیا شک ہے؟ لیکن ہم نے مخالفین کے واسطے فیصلہ کی دوسری راہ بھی بیان کر دی ہے کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ انسان کا افترا ہے تو اسے لازم ہے کہ وہ قَسم کھا کر ان الفاظ کے ساتھ بیان کرے کہ یہ انسان کا افترا ہے.خدا کا کلام نہیں وَلَعْنَۃُ اللہِ عَلٰی مَنْ کَذَّ بَ وَحْیَ اللہِ.اگر کوئی شخص ایسی قَسم کھاوے تو خدا تعالیٰ اس قَسم کا نتیجہ ظاہر کر دے گا.چاہیے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اور جعفر زٹلی لاہوری اور ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب اور غزنوی صاحبان بہت جلد اس کی طرف توجہ کریں.ایک الہام کی تشریح ایک سوال پیش ہوا کہ حضور کو جو الہام ہوا ہے ’’قرآن خدا کا کلام ہے اور میرے منہ کی باتیں.‘‘ اس الہام الٰہی میں میرے کی ضمیر کس کی طرف پھرتی ہے.یعنی کس کے منہ کی باتیں؟ فرمایا.خدا کے منہ کی باتیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے منہ کی باتیں.اس طرح کے ضمائر کے اختلاف کی مثالیں قرآن شریف میں موجود ہیں.فرمایا.بعض رؤیا یا الہامات ظاہر الفاظ میں منذر ہوتے ہیں اور ملہم اس وقت ڈر جاتا ہے اور خوف کھاتا ہے مگر در اصل اس کے معنے کچھ اور ہوتے ہیں.ایک دفعہ ہم کو سخت درد گردہ تھا.کسی دوا سے آرام نہ ہوتا تھا.الہام ہوا.’’الوداع‘‘ اس کے بعد درد بالکل یک دفعہ بند ہوگیا.تب معلوم ہوا کہ یہ الوداع درد کا تھا.

Page 208

آریہ کب سمجھیں گے فرمایا.بعض اخبارات کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لاجپت رائے اور اجیت سنگھ کی جلاوطنی سے آریوں کو پورے طور پر نصیحت حاصل نہیں ہوئی.اس واقعہ کو وہ صرف ایک شخصی وبال خیال کرتے ہیں اور قومی وبال نہیں سمجھتے.یہ ان کی غلطی ہے.گورنمنٹ ان لوگوں کے ایسے حالات دیکھ کر اب ان کی نسبت ضرور محتاط رہے گی.ان کو چاہیے کہ گورنمنٹ کے متعلق اپنے رویہ کو ہمیشہ کے واسطے درست کر لیں.علم طب کی بنیاد ظنّیّات پر ہے فرمایا.علم طب کی بنا بھی ظنّیّات پر ہے.جب مرض الموت آتی ہےتو کوئی دوا شفا نہیں دیتی بلکہ ہر ایک دوا الٹی پڑتی ہے.لیکن جب اللہ تعالیٰ شفا دینا چاہتا ہے تومعمولی دوائی بھی کارگر ہوجاتی ہے.۱ ۹؍جولائی ۱۹۰۷ء نسل افزائی کے لیے سانڈ رکھنا ایک شخص نے سوال کیا کہ خالصۃً لِوجہِ اللہ نسل افزائی کی نیت اگر کوئی سانڈ چھوڑے تو کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا.اَصْلُ الْاَشْیَآءِ اِبَاحَۃٌ.اشیاء کا اصل تو اباحت ہی ہے.جنہیں خدا تعالیٰ نے حرام فرمایا وہ حرام ہیں باقی حلال.بہت سی باتیں نیت پر موقوف ہیں.میرے نزدیک تو یہ جائز بلکہ ثواب کا کام ہے.عرض کیا گیا کہ قرآن مجید میں آیا ہے.فرمایا.میں نے جواب دیتے وقت اسے زیر نظر رکھ لیا ہے.وہ تو دیوتوں کے نام پر دیتے.یہاں خاص خدا تعالیٰ کے نام پر ہے.نسل افزائی ایک ضروری بات ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں اَنْعَام وغیرہ کو اپنی نعمتوں سے فرمایا ہے.سو اس نعمت کا قدر کرنا چاہیے اور قدر میں نسل کا بڑھانا بھی ہے.پس اگر ایسا نہ ہو تو پھر چار پائے کمزور ہوں گے اور دنیا کے کام بخوبی نہ چل سکیں گے اس

Page 209

لیے میرے نزدیک تو حرج کی بات نہیں.ہر ایک عمل نیت پر موقوف ہے.ایک ہی کام جب کسی غیراللہ کے نام پر ہو تو حرام اور اگر اللہ کے لیے ہو تو حلال ہو جاتا ہے.بآواز بلند اپنی زبان میں دعا ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور امام اگر اپنی زبان میں (مثلاً اردو میں) بآواز بلند دعا مانگتا جائے اور پچھلے آمین کرتے جاویں تو کیا یہ جائز ہے جبکہ حضور کی تعلیم ہے کہ اپنی زبان میں دعائیں نماز میں کر لیا کرو.فرمایا.دعا کو بآواز بلند پڑھنے کی ضرورت کیا ہے.خدا تعالیٰ نے تو فرمایا تَضَرُّعًا وَّ خُفْيَةً(الاعراف:۵۶) اور دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ (الاعراف:۲۰۶) عرض کیا کہ قنوت تو پڑھ لیتے ہیں.فرمایا.ہاں ادعیہ ماثورہ جو قرآن و حدیث میں آچکی ہیں وہ بیشک پڑھ لی جاویں.باقی دعائیں جو اپنے ذوق و حال کے مطابق ہیں وہ دل ہی میں پڑھنی چاہئیں.کنویں کو پاک کرنے کے بارہ اصولی فتویٰ سوال ہوا کہ یہ جو مسئلہ ہے کہ جب چوہا یا بلی یا مرغی یا بکری یا آدمی کنوئیں میں مَر جاویں تو اتنے دَلْو پانی نکالنے چاہئیں.اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ پہلے تو ہمارا یہی عمل تھا کہ جب تک رنگ، بو، مزا نہ بدلے پانی کو پاک سمجھتے.فرمایا.ہمارا تو وہی مذہب ہے جو احادیث میں آیا ہے.یہ جو حساب ہے کہ اتنے دَلْو نکالو اگر فلاں جانور پڑے اور اتنے اگر فلاں پڑے.یہ ہمیں تو معلوم نہیں اور نہ اس پر ہمارا عمل ہے.عرض کیا گیا کہ حضور نے فرمایا ہے جہاں سنّت صحیحہ سے پتا نہ ملے وہاں حنفی فقہ پر عمل کر لو.فرمایا.فقہ کی معتبر کتابوں میں بھی کب ایسا تعین ہے ہاں نجات المومنین میں لکھا ہے.سو اس میں تو یہ بھی لکھا ہے.سر ٹوئے وچہ دے کے بیٹھ نماز کرے کیا اس پر کوئی عمل کرتا ہے اور کیا یہ جائز ہے جبکہ حیض و نفاس کی حالت میں نماز منع ہے.پس

Page 210

ایسا ہی یہ مسئلہ بھی سمجھ لو.میں تمہیں ایک اصل بتا دیتا ہوں کہ قرآن مجید میں آیا ہے.وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ(المدثر:۶) پس جب پانی کی حالت اس قسم کی ہوجائے جس سے صحت کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو صاف کر لینا چاہیے.مثلاً پتّے پڑ جاویں یا کیڑے وغیرہ (حالانکہ اس پر یہ ملّاں نجس ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے) باقی یہ کوئی مقدار مقرر نہیں.جب تک رنگ، بو و مزا نجاست سے نہ بدلے وہ پانی پاک ہے.۱ ۱۲؍جولائی ۱۹۰۷ء (قبل از خطبہ جمعہ) احسان اور دعا باہر سے آئے ہوئے ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور میری بیوی کسی صورت میں مسلمان نہیں ہوتی.کیا کروں میں تو اسے بہتیرا سمجھا چکا ہوں.فرمایا.دیکھو! زبانی وعظوں سے اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا اپنی حالت درست کر کے اپنے تئیں نمونہ بنانے سے.تم اپنی حالت کو ٹھیک کرو اور ایسے بنو کہ لوگ بے اختیار بول اٹھیں (کہ) اب تم وہ نہیں رہے.جب یہ حالت ہوگی تو تمہاری بیوی کیا کئی لوگ تمہارا مذہب قبول کر لیں گے.حدیث میں آیا ہے خَیْـرُکُمْ خَیْـرُکُمْ لِاَہْلِہٖ.پس جب بیوی سے تمہارا اچھا سلوک ہوگا تو وہ خود بخود محجوب ہو کر تمہاری مخالفت چھوڑ دے گی اور دل سے جان لے گی کہ یہ مذہب بہت ہی اچھا ہے جس میں ایسے نرم و عمدہ سلوک کی ہدایت ہوتی ہے پھر وہ خواہ مخواہ متابعت کرے گی.احسان تو ایسی چیز ہے کہ اس سے ایک کتا بھی نادم ہوجاتا ہے چہ جائیکہ ایک انسان.اس نے عرض کی کہ حضور وہ تو کبھی نہیں ماننے کی.فرمایا.دیکھو! مایوس نہیں ہونا چاہیے.خدا تعالیٰ جب کسی دل میں تبدیلی پیدا کرنا چاہتا ہے تو کسی چھوٹی سی بات سے کر دیتا ہے.دعا کرنی چاہیے کہ دل سے نکلی ہوئی دعا ضائع نہیں جاتی اور لطیف پیرایہ میں نصیحت بھی کرتے رہیں مگر سختی نہ کریں.اسے سمجھائیں کہ ہمارا وہی اسلام دین ہے

Page 211

ہوگئے تو ان کے بعد کسی کو زندہ نہ سمجھے.صحابہ کرامؓ کس قدر درد و اَلم میں تھے جب مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ( اٰلِ عـمران:۱۴۵) سنا تو سب کو ٹھنڈ پڑ گئی.مگر یاد رکھو ان وعظوں سے کچھ نہیں بنتا جب تک ساتھ دعا اور اپنا عملی نمونہ نہ ہو.ہر جمعہ کس قدر مولوی سر کھپاتے ہیں مگر خاک بھی اثر نہیں ہوتا.کیوں؟ اس لیے کہ جو کچھ کہتے ہیں ان کا خود اس پر عمل نہیں.جتنے پیغمبر دنیا میں آئے ان میں سے کسی نے بھی وعظوں پر اتنا سر نہیں مارا.جتنا دعا و عملی نمونہ کام دیتا ہے سو اسے میسر لانے کی کوشش کرو.۱ ۱۴؍جولائی ۱۹۰۷ء طاعون سے بچنے کا حقیقی علاج حضرت ام المؤمنین بمع صاحبزادگان و اقارب و خدام اٹھارہ کس بغرض تبدیل ہوا ۴؍جولائی ۱۹۰۷ء کو لاہور کی طرف روانہ ہوئے تھے اور ۱۴؍جولائی ۱۹۰۷ء کو بروز اتوار ایک بجے دن کے بٹالہ میں واپس پہنچ گئے.اس واسطے حضرت اقدس بمع چند خدام کے ۱۴؍جولائی کی صبح کو بٹالہ تک تشریف لے گئے تھے.چونکہ گرمی کا موسم ہے اس واسطے صبح سویرے پانچ بجے کے قریب یہاں سے روانہ ہوئے.آپ پالکی میں بیٹھے ہوئے تھے بہت سے عاشقانہ مزاج خدّام پالکی کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے بٹالہ تک گئے.قریب دس بجے کے آپ بٹالہ میں پہنچے.بٹالہ کے شریف اور لائق تحصیلدار جناب رائے جسمل صاحب کا شکریہ ہے کہ جب ان کو شیخ صاحب سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حضرت اقدس تشریف لاتے ہیں اور چند گھنٹہ وہاں قیام کریں گے تو انہوں نے اسٹیشن کے پاس ہی اپنے مکان کے متصل ایک عمدہ آرام کی جگہ مہیا کر دی.تحصیلدار صاحب خود بھی حضرت کی ملاقات کے واسطے تشریف لائے.اثناء گفتگو میں انہوں نے فرمایا کہ میں شہر سے باہر اسی جگہ رہتا ہوں.حضرت نے فرمایا کہ اسی جگہ رہنا بہتر ہے کیونکہ شہر میں اکثر بیماری کا خوف ہوتا ہے اور گذشتہ موسم میں بٹالہ میں بہت

Page 212

بہت طاعون تھی اور اگرچہ اب آرام ہے تاہم جائے امن نہیں.کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ لوگ اصلاحِ عمل کی طرف توجہ نہیں کرتے اور جب تک کہ اصلاح عمل نہ ہوگا یہ عذاب دور نہ ہوگا.پہلے پہل جبکہ طاعون سے بچنے کے واسطے ٹیکے کی تجویز کی گئی تھی اور بڑے زور شور سے ہر جگہ ٹیکہ لگایا جاتا تھا.اس وقت ہم نے بھی ایک کتاب بنام کشتی نوح لکھی تھی جس میں ہم نے یہ بات ظاہر کی تھی کہ اس بیماری سے بچنے کا اصلی اور حقیقی علاج یہ ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں.اس وقت ایک انگریز اور ایک دیسی افسر جو کہ آئی.اے.سی تھا ہر دو ٹیکہ لگانے کے واسطے قادیان میں بھی آئے تھے تب ہم نے اپنی کتاب کا ایک نسخہ اس کو بھیجا تھا جس کو اس دیسی افسر نے پڑھ کر اس انگریز کو سنایا.اس کو سن کر انگریز نے کہاکہ سچ تو یہی ہے جو اس کتاب میں لکھا ہے باقی تو سب حیلے ہی ہیں اصلی علاج یہی ہے.غرض خدا سے جو ڈرتا ہے خدا اس پر رحم کرتا ہے.میں حیران ہوں کہ میں یہ باتیں کس طرح لوگوں کے دلوں میں ڈال دوں کیونکہ یہ آسمانی اور روحانی باتیں ہیں.اور زمینی لوگ ان کو نہیں سمجھ سکتے.ابھی یہ عذاب ختم ہونے والا نہیں ہے جب تک لوگ اپنی اصلاح نہ کریں.خدا تعالیٰ کا غضب ان پر نازل ہوتا رہے گا.خالی ان ظاہری حیلوں سے کچھ نہیں بنتا خواہ چوہوں کو مارا جائے خواہ مچھروں کو اور خواہ کوؤں کو.جب تک کہ لوگ خدا کی طرف نہ جھکیں گے ان پر کس طرح پر رحم ہو سکے گا.ایک گاؤں کے متعلق لکھا تھا کہ وہ بالکل ویران ہوگیا.پرانی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ طاعون نے بعض جگہ شہروں کے شہر بالکل ویران کر دیئے اور جب سب آدمی مَر گئے تب یہ بیماری جانوروں پر پڑی اور جب وہ بھی مَر گئے تو پھر جنگل کے سانپوں پر پڑی اور وہ ہلاک ہو کر بالکل ویرانہ رہ گیا.صدہا کوس تک آبادی کا نام و نشان مٹ گیا.خدا کے رحم کے سوائے کہیں گذارہ نہیں.جو لوگ دردِ دل کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں.خدا ان پر اپنا رحم کرتا ہے اور ان کو ہرایک شر سے

Page 213

محفوظ رکھتا ہے.مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بتلایا گیا ہے کہ ابھی بیماری اس سے بھی زیادہ سخت پڑنے والی ہے.میں نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ سال وہ سختی آوے یا درمیان میں ایک سال نرم ہو کر پھر سختی دکھاوے بہر حال آئندہ آنے والی طاعون گذشتہ سے بہت ہی سخت ہے اور ایسا ہی مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ ایک سخت زلزلہ ابھی آنے والا ہے.افسوس ہے کہ لوگوں کو ان باتوں کی طرف کچھ خیال نہیں کہ خدا تعالیٰ کا عذاب کس طرح بھڑک رہا ہے.باوجود اس کے فریب اور چالبازیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں.دنیا کی حرکت بے انصافی کی طرف ہے.اس کے بعد حضرت اقدس نے تحصیلدار صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے آپ کے واسطے مکان کا عمدہ انتظام کیا اور ان کی شرافت کی تعریف کی.خواب کے متعلق ایک نکتہ مرزا اکبر بیگ صاحب نے حضرت کی خدمت میں اپنا ایک خواب بیان کیا کہ میں ایک عمدہ خواب دیکھ رہا تھا کہ مجھے ایک شخص محمد حسین نے فوراً جگا دیا.حضرت نے فرمایا کہ جگانے والے کا وجود بھی خواب کا ایک جزو ہوتا ہے اور اس کے نام میں اس خواب کے متعلق تعبیر ہوتی ہے.فرمایا.اگر خدا تعالیٰ کا منشا نہ ہو تو کوئی جگا بھی نہیں سکتا.یہ بھی خدا تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے.تندرستی ہزار نعمت ہے مخدومی اخویم شیخ رحمت اللہ صاحب بھی گیارہ بجے کی گاڑی پر شملہ سے بٹالہ پہنچ گئے تھے اور قادیان جانے کو تیار تھے لیکن ایک آدمی نے سٹیشن پر ان کو اطلاع کر دی تھی کہ حضرت صاحب اسی جگہ ہیں.وہ بھی حضرت کی خدمت میں تیسرے پہر تک حاضر رہے اور پھر لاہور کو چلے گئے.شیخ صاحب موصوف ولایت کا ذکر کرتے تھے کہ وہاں بعض چشمے ایسے عمدہ ہوتے ہیں اور سمندر کے کنارے بعض جگہ ایسی عمدہ ہوتی ہیں کہ چند روز اگر لوگ وہاں جا کر رہیں تو صحت بہت عمدہ حالت میں ہو جاتی ہے.

Page 214

حضرت نے فرمایا کہ صحت عمدہ شَے ہے تمام کاروبار دینی اور دنیاوی صحت پر موقوف ہیں.صحت نہ ہو تو عمر ضائع ہو جاتی ہے.۱ کیا آنحضرتؐکا سایہ نہ تھا جھانسی سے ایک دوست کا خط حضرت کی خدمت میں آیا جس میں یہ دریافت کیا گیا تھا کہ ’’پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم‘‘کا سایہ تھا یا کہ نہیں بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ سایہ حضور پُر نور کا زمین پر نہیں گرتا تھا.‘‘ اس خط کے جواب میں حضرت نے تحریر فرمایا.یہ اَمر کسی حدیث صحیح سے ثابت نہیں ہوتا اور نہ کسی ثقہ مورخ نے لکھا ہے جو معجزات محدثین نے اپنی کتابوں میں جمع کئے ہیں ان میں اس کا ذکر نہیں.مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ۲ سر سید لیڈر نہ تھا ایک شخص نے ذکر کیا کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کے درمیان دو شخص قومی لیڈر ہوئے ہیں اور ہندوؤں کے درمیان ایک.ہندوؤں کے درمیان دیانند تھا.اس کی تعلیم کے نتیجہ میں گورنمنٹ کے متعلق جو خیالات ہندوؤں کے بن گئے ہیں وہ ظاہر ہیں.مسلمانوں کے دو لیڈر ہوئے.سر سید اور حضرت مرزا صاحب ہر دو کی جماعت ایسی ہوئی جو کہ گورنمنٹ کی سچی خیر خواہ ہے.حضرت نے فرمایا.یہ درست ہے کہ سر سید کے کالج میں جو طلباء پڑھتےہیں یا جو لوگ ان کے ہم خیال ہیں وہ گورنمنٹ کی نسبت عمدہ خیال رکھتےہیں لیکن اصل میں سر سید نے کوئی مذہبی جماعت نہیں بنائی اور نہ خود سر سید کوئی قومی امام لیڈر تھا بلکہ اس کے پاس اہل الرائے کا ایک مجمع تھا جو کہ بعض باتوں میں سر سید کے ساتھ متفق تھے اور بعض میں مخالف بھی تھے.برخلاف اس کے یہ سلسلہ خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے اور مجھے اس جماعت کا امام مقرر کیا ہے یہ ایک مذہبی جماعت ہے جو ہر ایک بات ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۸؍جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۶ ۲بدر جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۸؍جولائی ۱۹۰۷ءصفحہ ۴

Page 215

میں ہماری اطاعت کے واسطے ہر وقت طیار ہے اور ہم نے مذہبی عقائد کے طور پر ان کے ذہن نشین یہ اَمر کرا دیا ہے کہ اس گورنمنٹ کی اطاعت کرنا اور اس کا شکریہ ادا کرنا ہمارا فرض مذہبی ہے.اس رنگ میں پہلے کبھی کسی نے گورنمنٹ کی اطاعت کی تائید نہیں کی.۱ ۲۱؍جولائی ۱۹۰۷ء آخری فیصلہ ڈاکٹر عبد الحکیم نے حضرت کے متعلق جو الہام شائع کیا ہے اس کا ذکر تھا.حضرت نے فرمایا کہ یہ آخری مرحلہ ہے.اللہ تعالیٰ نے اب آخری فیصلہ کی تقریب پیدا کر دی ہے.براہین احمدیہ کے آخر میں وحی الٰہی درج ہے اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا وہ یہی فتح ہے.اس پر اللہ تعالیٰ ایسے امور ظاہر کرے گا کہ لوگ سمجھ لیں گے کہ اب آخری فیصلہ ہے.ایک دوست نے عرض کی کہ حضور کا ایک پرانا الہام ہے لَا تَنْقَطِعُ الْاَعْدَاءُ اِلَّا بِمَوْتِ اَحَدٍ مِّنْـھُمْ ترجمہ.دشمن نہیں منقطع ہوں گے مگر ان میں سے ایک کی موت کے ساتھ.فرمایا.ہاں یہ پرانا الہام ہے ہمیں اس وقت یاد نہیں کہ یہ الہام کہیں چھپ چکا ہے یا نہیں.جھوٹے مدعیانِ نبوت فرمایا.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی بہت سے جھوٹے نبی پیدا ہوئے تھے.مگر جھوٹا ہمیشہ بعد میں پیدا ہوتا ہے.سچا پہلے ظاہر ہوجاتا ہے تو پھر اس کی ریس کر کے جھوٹے بھی نکل کھڑے ہوتے ہیں.ہمارے دعوے سے پہلے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کسی نے اس طرح خدا تعالیٰ سے الہام پاکر مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہو.مگر ہمارے دعویٰ کے بعد چراغ دین اور عبد الحکیم اور کئی ایک دوسرے ایسے پیدا ہوگئے ہیں.اپنے بھائی کو حقارت سے نہ دیکھو اس کے لیے دعا کرو حضرت کی خدمت میں ایک شخص کا خط پیش ہوا ۱بدر جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۸؍جولائی ۱۹۰۷ءصفحہ ۵

Page 216

کہ میں کئی جگہ گیا تھا اور میں نے آپ کی جماعت کے آدمیوں کو نماز کی بروقت پابندی میں اور باہمی اخوت کے شرائط کے پورا کرنے میں قاصر پایا.فرمایا.اصلاح ہمیشہ رفتہ رفتہ ہوتی ہے.بعض مستعجل لوگ ہیں جو نکتہ چینی پر جلدی کرتے ہیں اخلاص اور ثباتِ قدم خدا تعالیٰ کا ایک فضل ہے اور اس سلسلہ میں داخل ہونا بھی اللہ تعالیٰ کا ایک فضل ہے.بہت لوگ ایسے ہیں جنہوں نے داخلہ کے فضل کی توفیق پائی اور ثباتِ قدم اور اخلاص کی توفیق کے حاصل کرنے کے واسطے ہنوز وہ منتظر ہیں.ہر ایک شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی حالت کو دیکھے.کیا وہ جس دن اس سلسلہ میں داخل ہوا اس دن اس کی حالت وہ تھی جو آج اس کی ہے.ہر ایک آدمی رفتہ رفتہ ترقی کرتا ہے اور کمزوریاں آہستہ آہستہ دور ہو جاتی ہیں گھبرانا نہیں چاہیے اور اصلاح کے واسطے کوشش کرنی چاہیے.اپنے بھائی کو حقارت سے نہ دیکھو بلکہ اس کے واسطے دعا کرو.اس کے ساتھ لڑائی نہ کرو بلکہ اس کی اصلاح کی فکر کرو.اپنی موت کو یاد رکھو ایک شخص نے عرض کی کہ مجھے نماز میں لذّت نہیں آتی.فرمایا کہ موت کو یاد رکھو.یہی سب سے عمدہ نسخہ ہے.دنیا میں انسان جو گناہ کرتا ہے اس کی اصل جڑ یہی ہے کہ اس نے موت کو بھلا دیا ہے.جو شخص موت کو یاد رکھتا ہے وہ دنیاکی باتوں میں بہت تسلی نہیں پاتا.لیکن جو شخص موت کو بھلا دیتا ہے اس کا دل سخت ہوجاتا ہے اور اس کے اندر طولِ اَمَل پیدا ہوجاتا ہے.وہ لمبی لمبی امیدوں کے منصوبے اپنے دل میں باندھتا ہے.دیکھنا چاہیے کہ جب کشتی میں کوئی بیٹھا ہو اور کشتی غرق ہونے لگے تو اس وقت دل کی کیا حالت ہوتی ہے.کیا ایسے وقت میں انسان گناہ گاری کے خیالات دل میں لا سکتا ہے؟ ایسا ہی زلزلہ اور طاعون کے وقت میں چونکہ موت سامنے آجاتی ہے اس واسطے گناہ نہیں کر سکتا اور نہ بدی کی طرف اپنے خیالات کو دوڑا سکتا ہے.پس اپنی موت کو یاد رکھو.خدا تعالیٰ کا سلام ایک دوست نے عرض کی کہ مخالفین نے ہم کو سلام کہنا چھوڑ دیا.فرمایا.تم نے ان کے سلام میں سے کیا حاصل کر لینا ہے.سلام تو وہ

Page 217

ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو.خدا کا سلام وہ ہے جس نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ سے سلامت رکھا.جس کو خدا کی طرف سے سلام نہ ہو بندے اس پر ہزار سلام کریں اس کے واسطے کسی کام نہیں آسکتے.قرآن شریف میں آیا ہے سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ(یٰسٓ:۵۹) ایک دفعہ ہم کو کثرت پیشاب کے باعث بہت تکلیف تھی.ہم نے دعا کی الہام ہوا.اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اسی وقت تمام بیماری جاتی رہی.سلام وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو.باقی سب رسمی سلام ہیں.حدیث کی اہمیت ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں ایک فقہی مسئلہ پیش کر کے درخواست کی کہ اس کا جواب صرف قرآن شریف سے دیا جاوے.حضرت نے فرمایا کہ متقی کے واسطے مناسب ہے کہ اس قسم کا خیال دل میں نہ لاوے کہ حدیث کوئی چیز نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو عمل تھا وہ گویا قرآن کے مطابق نہ تھا.آجکل کے زمانہ میں مرتد ہونے کے قریب جو خیالات پھیلے ہوئے ہیں ان میں سے ایک خیال حدیث شریف کی تحقیر کا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کاروبار قرآن شریف کے ماتحت تھے.اگر قرآن شریف کے واسطے معلّم کی ضرورت نہ ہوتی تو قرآن رسول پر کیوں اترتا.یہ لوگ بہت بے ادب ہیں کہ ہر ایک اپنے آپ کو رسول کا درجہ دیتا ہے اور ہر ایک اپنے آپ کو ایسا سمجھتا ہے کہ قرآن شریف اسی پر نازل ہوا ہے.یہ بڑی گستاخی ہے کہ ایک چکڑالوی مولوی جو معنے قرآن کے کرے اس کو مانا جاتا ہے اور قبول کیاجاتا ہے اور خدا کے رسول پر جو معنے نازل ہوئے ان کو نہیں دیکھا جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے تو انسانوں کو اس اَمر کا محتاج پیدا کیا ہے کہ ان کے درمیان کوئی رسول ،مامور، مجدّد ہو.مگر یہ چاہتے ہیں کہ ان کا ہر ایک رسول ہے اور اپنے آپ کو غنی اور غیر محتاج قرار دیتے ہیں.یہ سخت گناہ ہے.ایک بچہ محتاج ہے کہ وہ اپنے والدین وغیرہ سے تکلم سیکھے اور بولنے لگے.پھر استاد کے پاس بیٹھ کر سبق پڑھے.جائے استاد خالی است.

Page 218

چکڑالوی لوگ دھوکا دیتے ہیں کہ کیاقرآن محتاج ہے.اے نادانو! کیا تم بھی محتاج نہیں؟ اور خدا کی ذات کی طرح بے احتیاج ہو؟ قرآن تمہارا محتاج نہیں پر تم محتاج ہو کہ قرآن کو پڑھو، سمجھو اور سیکھو.جبکہ دنیا کے معمولی کاموں کے واسطے تم استاد پکڑتے ہو تو قرآن شریف کے واسطے استاد کی ضرورت کیوں نہیں؟ کیا بچہ ماں کے پیٹ سے نکلتے ہی قرآن پڑھنے لگے گا؟ بہر حال معلّم کی ضرورت ہے.جب مسجد کا ملّاں ہمارا معلّم ہوسکتا ہے تو کیا وہ نہیں ہو سکتا جس پر خود قرآن شریف نازل ہوا ہے.دیکھو قانون سرکاری ہے اس کے سمجھنے اور سمجھانے کے واسطے بھی آدمی مقرر ہیں حالانکہ اس میں کوئی ایسے معارف اور حقائق نہیں جیسے کہ خدا کی پاک کتاب میں ہیں.یاد رکھو کہ سارے انوار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہیں.جو لوگ آنحضرتؐکی اتباع نہیں کرتے ان کو کچھ حاصل نہیں ہو سکتا.بجز نورِ اتباع خدا کو بھی پہچاننا مشکل ہے.شیطان شیطان اسی واسطے ہے کہ اس کو نورِ اتباع حاصل نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تئیس سال۱ دنیا میں رہے.متقی کا فرض ہونا چاہیے کہ وہ اس بات کو محبت کی نگاہ سے دیکھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا طریق عمل تھا.۲ نابالغ کے نکاح کا فسخ سوال پیش ہوا کہ اگر نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح اس کا ولی کردے اور ہنوز وہ نابالغ ہی ہو اور ایسی ضرورت پیش آوے تو کیا طلاق بھی ولی دے سکتا ہے یا نہیں.حضرت نے فرمایاکہ دے سکتا ہے.۳ ۲۵؍جولائی ۱۹۰۷ء آجکل کے فقیر اور فقراء فرمایا.میں تعجب کرتا ہوں کہ آجکل بہت لوگ فقیر بنتے ہیں مگر سوائے نفس پرستی کے اور کوئی غرض اپنے اندر نہیں رکھتے.اصل ۱ بعد ازدعویٰ (مرتّب) ۲ بدر جلد ۶ نمبر ۳۱ مورخہ یکم اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۶ نیز الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲۸ مورخہ ۱۰؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۵ ۳ بدر جلد ۶ نمبر ۳۰ مورخہ ۲۵؍جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱

Page 219

دین سے بالکل الگ ہیں جس دنیا کے پیچھے عوام لگے ہوئے ہیں اسی دنیا کے پیچھے وہ بھی خراب ہو رہے ہیں.توجہ اور دم کشی اور منتر جنتر اور دیگر ایسے امور کو اپنی عبادت میں شامل کرتے ہیں جن کا عبادت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ صرف دنیا پرستی کی باتیں ہیں اور ایک ہندو کافر اور ایک مشرک عیسائی بھی ان ریاضتوں اور ان کی مشق میں ان کے ساتھ شامل ہو سکتا بلکہ ان سے بڑھ سکتا ہے اصلی فقیر تو وہ ہے جو دنیا کی اغراضِ فاسدہ سے بالکل الگ ہوجائے اور اپنے واسطے ایک تلخ زندگی قبول کرے تب اس کو حالت عرفان حاصل ہوتی ہے اور وہ ایک قوت ایمانی کو پاتا ہے.آجکل کے پیرزادے اور سجادہ نشین نماز جو اعلیٰ عبادت ہے اس کی یا تو پروا نہیں کرتے یا ایسی طرح جلدی جلدی ادا کرتے ہیں جیسے کہ کوئی بیگار کاٹنی ہوتی ہے اور اپنے اوقات کو خود تراشیدہ عبادتوں میں لگاتے ہیں جو خدا اور رسول نے نہیں فرمائیں.ایک ذکر اَرّہ بنایا ہوا ہے جس سے انسان کے پھیپھڑے کو سخت نقصان پہنچتا ہے.بعض آدمی ایسی مشقتوں سے دیوانے ہوجاتے ہیں اور بعض مَر ہی جاتے ہیں جو دیوانے ہو جاتے ہیں ان کو جاہل لوگ ولی سمجھنے لگ جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنی رضامندی کی جو راہیں خود ہی مقرر فرما دی ہیں وہ کچھ کم نہیں.خدا تعالیٰ ان باتوں سے راضی ہوتا ہے کہ انسان عفت اور پرہیز گاری اختیار کرے.صدق و صفا کے ساتھ اپنے خدا کی طرف جھکے.دنیوی کدورتوں سے الگ ہو کر تَبَتُّل اِلَی اللہ اختیار کرے.خدا تعالیٰ کو سب چیزوں پر اختیار کرے.خشوع کے ساتھ نماز ادا کرے.نماز انسان کو منزّہ بنا دیتی ہے.نماز کے علاوہ اٹھتے بیٹھتے اپنا دھیان خدا کی طرف رکھے یہی اصل مدعا ہے جس کو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تعریف میں فرمایا ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے خدا تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں اور اس کی قدرتوں میں فکر کرتے ہیں.ذکر اور فکر ہر دو عبادت میں شامل ہیں فکر کے ساتھ شکر گذاری کا مادہ بڑھتا ہے.انسان سوچے اور غور کرے کہ زمین اور آسمان، ہوا اور بادل، سورج اور چاند، ستارے اور سیارے، سب انسان کے فائدے کے واسطے خدا تعالیٰ نے بنائے ہیں.فکر معرفت کو بڑھاتا ہے.غرض ہر وقت خدا کی یاد میں اس کے نیک بندے مصروف رہتے ہیں.اسی پر کسی نے کہا کہ

Page 220

جودم غافل سو دم کافر.آجکل کے لوگوں میں صبر نہیں.جو اس طرف جھکتے ہیں وہ بھی ایسے مستعجل ہوتے ہیں کہ چاہتے ہیں کہ پھونک مار کر ایک دم میں سب کچھ بنا دیا جائے اور قرآن شریف کی طرف دھیان نہیں کرتے کہ اس میں لکھا ہے کہ کوشش اور محنت کرنے والوں کو ہدایت کا راستہ ملتا ہے.خدا تعالیٰ کے ساتھ تمام تعلق مجاہدہ پر موقوف ہے.جب انسان پوری توجہ کے ساتھ دعا میں مصروف ہوتا ہے تو اس کے دل میں رقّت پیدا ہوتی ہے اور وہ آستانہ الٰہی پر آگے سے آگے بڑھتا ہے تب وہ فرشتوں کے ساتھ مصافحہ کرتا ہے.ہمارے فقراء نے بہت سی بدعتیں اپنے اندر داخل کر لی ہیں.بعض نے ہندوؤں کے منتر بھی یاد کئے ہوئے ہیں اور ان کو بھی مقدس خیال کیا جاتا ہے.ہمارے بھائی صاحب کو ورزش کا شوق تھا.ان کے پاس ایک پہلوان آیا تھا.جاتے ہوئے اس نے ہمارے بھائی صاحب کو الگ لے جا کر کہا کہ میں ایک عجیب تحفہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جو بہت ہی قیمتی ہے.یہ کہہ کر اس نے ایک منتر پڑھ کر ان کو سنایا اور کہا کہ یہ منتر ایسا پُر تاثیر ہے کہ اگر ایک دفعہ صبح کے وقت اس کو پڑھ لیاجاوے تو پھر سارا دن نہ نماز کی ضرورت باقی رہتی ہے اورنہ وضو کی ضرورت.ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے کلام کی ہتک کرتے ہیں.وہ پاک کلام جس میں هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ (البقرۃ:۳) کا وعدہ دیا گیا ہے خود اسی کو چھوڑ کر دوسری طرف بھٹکتے پھرتے ہیں.انسان کے ایمان میں ترقی تب ہی ہو سکتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فرمودہ پر چلے اور خدا پر اپنے توکل کو قائم کرے.ایک دفعہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلالؓکو دیکھا کہ وہ کھجوریں جمع کرتا تھا.آپ نے فرمایا کہ کس لیے ایسا کرتا ہے.اس نے کہا کہ کل کے لیے جمع کرتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ کیا توکل کے خدا پر ایمان نہیں رکھتا؟ لیکن یہ بات بلالؓکو فرمائی ہر کسی کو نہیں فرمائی.اور ہر ایک کو وعظ اور نصیحت اس کی برداشت کے مطابق کیا جاتا ہے.بہترین ریاضت ایک شخص نے عرض کی کہ میں پہلے فقراء کے پاس پھرتا رہا اور کئی طرح کی مشکل ریاضتیں انہوں نے مجھ سے کرائیں.اب میں نے آپ کی بیعت کی ہے تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ فرمایا.نئے سرے سے قرآن شریف کو پڑھو اور اس کے معانی پر خوب غور کرو.نماز کو دل لگا

Page 221

کر پڑھو اور احکامِ شریعت پر عمل کرو.انسان کا کام یہی ہے.آگے پھر خدا کے کام شروع ہوجاتے ہیں.جو شخص عاجزی سے خدا تعالیٰ کی رضا کو طلب کرتا ہے خدا اس پر راضی ہوتا ہے.اختلافِ فقہاء فرمایا.آجکل علماء کے درمیان باہم مسائل کے معاملہ میں اس قدر اختلاف ہے کہ ہر ایک مسئلہ کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اس میں اختلاف ہے.جیسا کہ لاہور میں ایک طبیب غلام دستگیر نام تھا.وہ کہا کرتا تھا کہ مریضوں اور ان کے لواحقین کی اس ملک میں رسم ہے کہ وہ طبیب سے پوچھا کرتے ہیں کہ یہ دوا گرم ہے یا سرد؟ تو میں نے اس کےجواب میں ایک بات رکھی ہوئی ہے.میں کہہ دیاکرتا ہوں کہ اختلاف ہے.اوّل تو اس اختلاف کے سبب کئی فرقے ہیں.پھر مثلاً ایک فرقہ حنفیوں کا ہے ان میں آپس میں اختلاف ہے.پھر خود امام ابو حنیفہؒ کے اقوال میں اختلاف ہے.آجکل کے پیر فرمایا.آجکل کے پیر اکثر فاحشہ عورتوں کو مرید بناتے ہیں.بعض ہندوؤں کے پیر ہوتے ہیں.ایسے لوگ اپنی بد کاریوں پر اور اپنے کفر پر برابر قائم رہتے ہیں.صرف پیر کو چندہ دے کر وہ مرید بن سکتے ہیں.اعمال خواہ کیسے ہی ہوں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا.اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو آنحضرتؐابوجہل کو بھی مرید بنا سکتے تھے وہ اپنے بتوں کی پرستش بھی کرتا رہتا اور اس قدر لڑائی جھگڑے کی ضرورت نہ پڑتی مگر یہ باتیں بالکل گناہ ہیں.۱ بلاتاریخ۲ حج کے لیے نہ جانے کی وجہ ایک شخص نے عرض کی کہ مخالف مولوی اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب حج کو کیوں نہیں جاتے؟ فرمایا.یہ لوگ شرارت کے ساتھ ایسا اعتراض کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دس سال مدینہ ۱بدرجلد ۶ نمبر ۳۱ مورخہ یکم اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ و الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲۸ مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ ۲اس ڈائری پر کوئی تاریخ تو درج نہیں لیکن اندازاً جولائی ۱۹۰۷ء کی کسی تاریخ کے یہ ملفوظات ہیں.واللہ اعلم بالصواب(مرتّب)

Page 222

مدینہ میں رہے.صرف دو دن کا راستہ مدینہ اور مکہ میں تھا مگر آپ نے دس سال میں کوئی حج نہ کیا.حالانکہ آپ سواری وغیرہ کا انتظام کر سکتے تھے.لیکن حج کے واسطے صرف یہی شرط نہیں کہ انسان کے پاس کافی مال ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہ ہو.وہاں تک پہنچنے اور امن کے ساتھ حج ادا کرنے کے وسائل موجود ہوں.جب وحشی طبع علماء اس جگہ ہم پر قتل کا فتویٰ لگا رہے ہیں اور گورنمنٹ کا بھی خوف نہیں کرتے تو وہاں یہ لوگ کیا نہ کریں گے.لیکن ان لوگوں کو اس اَمر سے کیا غرض ہے کہ ہم حج نہیں کرتے.کیا اگر ہم حج کریں گے تو وہ ہم کو مسلمان سمجھ لیں گے؟ اور ہماری جماعت میں داخل ہوجائیں گے؟ اچھا یہ تمام مسلمان علماء اوّل ایک اقرار نامہ لکھ دیں کہ اگر ہم حج کر آویں تو وہ سب کے سب ہمارے ہاتھ پر توبہ کر کے ہماری جماعت میں داخل ہوجائیں گے اور ہمارے مرید ہوجائیں گے.اگر وہ ایسا لکھ دیں اور اقرار حلفی کریں تو ہم حج کر آتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے واسطے اسباب آسانی کے پیدا کر دے گا تاکہ آئندہ مولویوں کا فتنہ رفع ہو.ناحق شرارت کے ساتھ اعتراض کرنا اچھا نہیں ہے.یہ اعتراض ان کا ہم پر نہیں پڑتا بلکہ آنحضرتؐپر بھی پڑتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صرف آخری سال میں حج کیا تھا.توکل فرمایا.توکل کرنے والے اور خدا کی طرف جھکنے والے کبھی ضائع نہیں ہوتے.جو آدمی صرف اپنی کوششوں میں رہتا ہے اس کو سوائے ذلّت کے اور کیا حاصل ہو سکتا ہے.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہمیشہ سے سنّت اللہ یہی چلی آتی ہے کہ جو لوگ دنیا کو چھوڑتے ہیں وہ اس کو پاتے ہیں اور جو اس کے پیچھے دوڑتے ہیں وہ اس سے محروم رہتے ہیں جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے وہ اگر چند روز مکروفریب سے کچھ حاصل بھی کر لیں تو وہ لاحاصل ہے کیونکہ آخر ان کو سخت ناکامی دیکھنی پڑتی ہے.اسلام میں عمدہ لوگ وہی گذرے ہیں جنہوں نے دین کے مقابلہ میں دنیا کی کچھ پروا نہ کی.ہندوستان میں قطب الدینؒ اور معین الدینؒ خدا کے اولیاء گذرے ہیں.ان لوگوں نے پوشیدہ خدا کی عبادت کی مگر خدا نے ان کی عزّت کو ظاہر کر دیا.ہم نے بٹالہ میں ایک پیر زادہ کو دیکھا کہ وہ اپنی زمین کے مقدمات کے واسطے غبار آلودہ ہوا

Page 223

کسی ڈپٹی کے پیچھے پھرتا تھا.میں حیران ہوا کہ اگر اس شخص میں سچی نیکی ہوتی اور یہ خدا پر توکل کرنے والا ہوتا تو ایسے مکدرات میں کیوں گرتا.مذہب فروشی سکھانے والے پادری ایک شخص کا ذکر ہوا کہ وہ دیسی عیسائی ہے اور مسلمان ہونا چاہتا ہے مگر روپے مانگتا ہے یا تنخواہ مانگتا ہے حالانکہ لیاقت کچھ نہیں.حضرت نے فرمایا کہ پادریوں نے ہندوستانیوں کے اخلاق خراب کر دئیے ہیں اور ان کو مذہب فروش بنا دیا ہے.کئی عیسائی دیکھے ہیں کہ وہ ہندوؤں یا مسلمانوں کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مسلمان یا ہندو ہونے کے واسطے تیار ہیں لیکن عیسائی لوگ ہم کو اس قدر تنخواہ دیتے ہیں تم کیا تنخواہ دو گے؟ جدھر سے زیادہ تنخواہ کی امید ہو ادھر ہی جھک پڑتے ہیں اور بسا اوقات کبھی ادھر سے اور کبھی ادھر سے بطور نیلام کے اپنی قیمت کے بڑھانے میں کوشش کرتے رہتے ہیں.یہ بد اخلاقی ہندوستان میں پادریوں نے ہی پھیلائی ہے ورنہ ان سے پہلے ہندوستانی لوگ مذہب کے معاملہ میں ایسے رذیل اخلاق رکھنے والے نہ تھے.آدمیوں کو چاہیے کہ جب ایک مذہب کو سچا سمجھ کر قبول کرے تو پھر اس پر استقامت دکھلائے.خدا تعالیٰ رازق ہے وہ خود تمام سامان مہیا کر دے گا.جب انسان خدا کے واسطے کوئی کام کرتا ہے تو پھر اس کو موت کی پروا نہیں رہتی اور نہ اسے خدا تعالیٰ ضائع کرتا ہے.اندرونی تقویٰ اور طہارت کا خیال کرنا چاہیے.جن لوگوں کے دل اور دماغ میں صرف دنیا ہی رہ جاتی ہے وہ کس کام کے آدمی ہیں؟ جو لوگ سچے دل کے ساتھ خلوص نیت کے ساتھ خدا کی طرف جھکتے ہیں خدا ان کی دستگیری کرتا ہے.اس قسم کے عیسائی نو مسلموں کی نسبت تو ہم نے ان لوگوں کو بہت ثابت قدم دیکھا ہے جو ہندوؤں میں سے مسلمان ہو کر ہمارے پاس آئے ہیں جیسا کہ شیخ عبد الرحیم ہیں.سردار فضل حق ہیں.شیخ عبدالرحمٰن صاحب، شیخ عبد العزیز صاحب ہیں.ان لوگوں نے اسلام کی خاطر بہت دکھ

Page 224

اٹھائے مگر اپنے ایمان پر قائم رہے.جب سردار فضل حق صاحب مسلمان ہوئے تو ان کو قتل کرنے کے واسطے کئی سکھ یہاں تک آئے تھے مگر خدا تعالیٰ نے ان کو بچایا اور سردار صاحب نے کسی کا خوف نہ کیا.ایسا ہی شیخ عبد الرحیم کے چہرے سے نیک بختی کے آثار نمایاں ہیں.شیخ عبد الرحمٰن صاحب کو ایک دفعہ ان کے رشتہ دار دھوکے سے لے گئے تھے اور وہاں لے جاکر ان کو قید کر دیا تھا.مگر خدا تعالیٰ نے ان کو بچا لیا اور خود بخود یہاں چلے آئے.برخلاف عیسائیوں کا مذہب عموماً تنخواہ پر ہے.اگر آج ان کو موقوف کر دیا جائے تو بس ساتھ ہی ان کی عیسائیت بھی موقوف ہوجائے.امرتسر میں ایک پادری رجب علی تھا.وہ کئی مرتبہ مسلمانوں میں آکر ملتا تھا.پھر عیسائی ہوجاتا تھا.عیسائی ہونے کی حالت میں اس کا ایک اخبار نکلتا تھا.عیسائیوں سے کچھ ناراض تھا.ان دنوں میں ایک گرجا پر بجلی گری تھی.اس خبر کو اپنے اخبار میں درج کرتے ہوئے اس نے لکھا کہ گرجے پر بجلی گرنا دو اسباب سے خالی نہیں.یا تو اس کا یہ سبب ہوا ہے کہ روح القدس کو مصالحہ بہت لگ گیا تھا اور اس نے گرجے پر اتر کر گرجے کو جلا دیا.اور اگر یہ سبب نہیں تو پھر یہ سبب ہے کہ میری آہ گرجے پر پڑی ہے اور اس نے گرجا کو جلا دیا ہے.اکثر اس قسم کے عیسائی دہریہ اور کمینہ طبع ہوتے ہیں.عیسائی مذہب کے کفّارہ نے ایسی بے قیدی کر دی ہے کہ جو گناہ چاہو کر لو سزا تو یسوع بھگتے گا.اسی واسطے ضرب المثل ہوگئی ہے کہ’عیسائی‘ باش ہرچہ خواہی کن.کیونکہ اگر زنا اور شراب حرام ہے تو پھر کفّارے سے فائدہ کیا؟ کفّارے کا یہی تو فائدہ ہے کہ اس نے معافی کی ایک راہ کھول دی ہے.اگر عیسائی بھی گناہ کرنے سے پکڑا جاتا ہے جیسا کہ غیر عیسائی پکڑا جاتا ہے تو پھر دونوں میں فرق کیا ہوا؟ اور کسی کو عیسائی بننے سے فائدہ کیا حاصل ہوا؟۱ ۱بدر جلد ۶ نمبر ۳۲ مورخہ ۸؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۸ نیز الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۷؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰،۱۱

Page 225

یکم اگست ۱۹۰۷ء صادق کا دعویٰ پہلے ہوتا ہے اور کاذب کا بعد میں تازہ الہام الٰہی اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کا ذکر تھا.فرمایا کہ قریب العہد اہانت کرنے والا تو ڈاکٹر عبد الحکیم ہے جس نے بہت اہانت کے لفظوں میں ایک خط لکھا ہے اور ہماری موت کے متعلق پیشگوئی کی ہے.یہ وحی الٰہی پہلے بھی بہت بار نازل ہوچکی ہے.مگر ہربار اس کا شانِ نزول جدید ہوتا ہے.ایسے لوگوں کی مخالفت سے رنجیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیے.ضرور تھا کہ ایسے لوگ بھی پیدا ہوتے تاکہ صادق اور کاذب کے درمیان ایک فرق ہوجائے.سب انبیاء کے وقتوں میں ایسے مخالف ہوتے چلے آئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسے آدمی موجود تھے.مگر اس قسم کے لوگ ہمیشہ بعد میں آتے ہیں.شروع میں صادق ہی ظاہر ہوتا ہے.پھر اس کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی ریس کرتے ہیں.اس میں خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ اچھی طرح سے شائع نہ ہوگیا.تب تک کوئی آدمی ایسا پیدا نہ ہوا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تاکہ کوئی ایسا نہ کہہ سکے کہ اس شخص نے فلاں شخص کی ریس کر کے دعویٰ نبوت کر دیا ہے.ایسا ہی اس زمانہ میں مطلق خاموشی تھی.کوئی شخص خدا سے وحی پانے کا اور مسیح موعود ہونے کا مدعی نہ تھا ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے ہم پر اپنی وحی نازل کر کے ہمیں مسیح موعود بنایا.یہ اَمر بھی منہاجِ نبوت میں داخل ہے کہ صادق کادعویٰ اوّل ہو اور کاذب پیچھے ہوں.اور لوگوں کی بےخبری کے علاوہ ہم تو خود بھی بے خبر تھے.اپنے طور پر میری عادت تھی کہ غیر مذاہب کے برخلاف اخبارات میں مضامین دیتا تھا اور اسلام کی صداقت کے ظہور میں کوشاں رہتا تھا.ان ایام میں ایک عیسائی کا اخبار سفیر ہند نام نکلا کرتا تھا اور ایک برہموؤں کا رسالہ بنام برادر ہند شائع ہوتا تھا.ان ہر دو میں بعض مضامین میں نے لکھے تھے مگر ان مضامین میں ہمارا مطلب صرف عقلی دلائل کے پیش کرنے کا ہوتا تھا اور وحی الٰہی اور نشانات کے دکھانے کا کوئی خیال نہ تھا.دو جلدیں

Page 226

براہین احمدیہ کی میں لکھ چکا تھا اور اس وقت تک مجھے خبر نہ تھی جبکہ یکدفعہ یہ الہام ہوا اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ قُلْ اِنِّيْۤ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ.اسی براہین احمدیہ میں ہم نے یہ الہام بھی درج کیا ہے کہ يَاعِيْسٰٓى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ اور اسی میں ہم نے حضرت عیسٰیؑ کے متعلق اپنا وہی عقیدہ پیش کیا ہے جو پرانا عقیدہ تھا کہ مسیح آسمان پر ہے.اس سے دیکھنے والے کے واسطے یہ اَمر ظاہر ہے کہ اگر ہم تصنّع اور بناوٹ سے کوئی کام کرتے اور افترا کے ساتھ یہ باتیں بناتے تو ہم ایسا کیوں کرتے.جو شخص افترا کرنے لگتا ہے وہ تو اول ہی سب پہلو سوچ لیتا ہے.اس میں بھی خدا تعالیٰ کی ایک مصلحت تھی کہ ہم نے ایسا لکھ دیا تاکہ ہماری سچائی پر ایک دلیل قائم ہوجائے.پہلے سے ہی براہین کے اندر ایک تناقض ہوگیا.اور ہم خود بھی اس تناقض کو نہ سمجھ سکے.یہ خدا تعالیٰ کی ایک بڑی حکمت تھی.نشانات کا ظہور فرمایا.گذشتہ دنوں میں خدا تعالیٰ بہت سے نشانات دکھا چکا ہے جن میں سے بعض کتاب حقیقۃ الوحی میں بھی درج ہو چکے ہیں مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر کسی اور نشان کی تیاری ہو رہی ہے تاکہ ایمانداروں کے ایمان اور قوی ہوجاویں.ہر ایک نشان جو ظاہر ہوتا ہے اس سے لوگوں کے ایمان قوی ہوتے ہیں کیونکہ نشان کے ذریعہ سے ایک انکشاف تام ہوجاتا ہے جب آدمی اچھی طرح سے معلوم کر لیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کس بات میں راضی ہے اور کس دین کے حق میں وہ اپنے نشانات زبردست دکھاتا ہے.تب انسان اس دین کو سچے دل سے قبول کرتا ہے اور اخلاص کے ساتھ اس کی خاطر ہر ایک تکلیف کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے نشانات کے ذریعہ سے تکمیل ایمان ہوتی ہے.جماعت کے واسطے خدا تعالیٰ نے یہ ایک عمدہ راہ نکالی ہے.جب خدا کی فرمائی ہوئی باتیں پوری ہوتی ہیں تو دل کو سرور اور خوشی ہوتی ہے.انسان خدا تعالیٰ کے فضل سے سیراب ہوجاتا ہے اور اس کا یقین بڑھتا ہے کہ اس سلسلہ کے اختیار کرنے میں میں نے کوئی غلطی نہیں کھائی.مگر یہ مت خیال کرو کہ غلطی کے نہ کھانے میں تمہاری کوئی بہادری ہے.ہرگز نہیں.یہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک فضل ہے کہ تم نے غلطی نہیں کھائی ورنہ بڑے بڑے

Page 227

فاضل اور مولوی لوگ اس جگہ ٹھوکر کھاگئے ہیں.۱ اگست ۱۹۰۷ء ۲ ہر ایک کے واسطے تفتیش کرنا منع ہے ایک شخص نے عرض کی کہ میں ایک گاؤں میں دوکان پر گڑشکر بیچتا ہوں.بعض دفعہ لڑکے یا زمینداروں کے مزدور اور خادم چاکر کپاس یا گندم یا ایسی شَے لاتے ہیں اور اس کے عوض میں سودا لے جاتے ہیں جیساکہ دیہات میں عموماً دستور ہوتا ہے لیکن بعض لڑکے یا چاکر مالک سے چوری ایسی شَے لاتے ہیں.کیا اس صورت میں ان کو سودا دینا جائز ہے یا کہ نہیں؟ فرمایا.جب کسی شَے کے متعلق یقین ہو کہ یہ مالِ مسروقہ ہے تو پھر اس کا لینا جائز نہیں لیکن خواہ مخواہ اپنے آپ کو بد ظنی میں ڈالنا اَمر فاسد ہے.ایسی باتوں میں تفتیش کرنا اور خواہ مخواہ لوگوں کو چور ثابت کرنے کی کوشش کرنا دوکاندار کا کام نہیں.اگر دوکاندار ایسی تحقیقاتوں میں لگے گا تو پھر دوکانداری کس وقت کرے گا؟ ہر ایک کے واسطے تفتیش کرنا منع ہے.قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ گائے ذبح کرو.بہتر تھا ایک گائے پکڑ کر ذبح کر دیتے.حکم کی تعمیل ہوجاتی.انہوں نے خواہ مخواہ اور باتیں پوچھنی شروع کیں کہ وہ کیسی گائے ہے اور کیسا رنگ ہے اور اس طرح کے سوال کر کے اپنے آپ کو اور دقّت میں ڈال دیا.بہت مسائل پوچھتے رہنا اور باریکیاں نکالتے رہنا اچھا نہیں ہوتا.۳ ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۳۲ مورخہ ۸؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۸،۹ نیز الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۷؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱ ۲اس ڈائری پر صرف اگست ۱۹۰۷ء لکھا ہے.قیاس یہ ہے کہ یہ ملفوظات ۲ تا ۵ اگست کی کسی تاریخ کے ہیں.واللہ اعلم بالصواب (مرتّب) ۳بدر جلد ۶ نمبر ۳۲ مورخہ ۸؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۵

Page 228

۶؍اگست ۱۹۰۷ء کھانا کھلانے کا ثواب مُردوں کو پہنچتا ہے ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ اگر کوئی شخص حضرت سید عبدالقادر کی روح کو ثواب پہنچانے کی خاطر کھانا پکا کر کھلاوے تو کیا یہ جائز ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ طعام کا ثواب مُردوں کو پہنچتا ہے.گذشتہ بزرگوں کو ثواب پہنچانے کی خاطر اگر طعام پکا کر کھلایا جائے تو یہ جائز ہے لیکن ہر ایک اَمر نیت پر موقوف ہے.اگر کوئی شخص اس طرح کے کھانے کے واسطے کوئی خاص تاریخ مقرر کرے اور ایسا کھانا کھلانے کو اپنے لیے قاضی الحاجات خیال کرے تو یہ ایک بُت ہے اور ایسے کھانے کا لینا دینا سب حرام ہے اور شرک میں داخل ہے.پھر تاریخ کے تعین میں بھی نیت کا دیکھنا ہی ضروری ہے.اگر کوئی شخص ملازم ہے اور اسے مثلاً جمعہ کے دن ہی رخصت مل سکتی ہے تو ہرج نہیں کہ وہ اپنے ایسے کاموں کے واسطے جمعہ کا دن مقرر کرے.غرض جب تک کوئی ایسا فعل نہ ہو جس میں شرک پایا جائے صرف کسی کو ثواب پہنچانے کی خاطر طعام کھلانا جائز ہے.قرآن شریف کے اوراق کا ادب ایک شخص نے عرض کی کہ قرآن شریف کے بوسیدہ اوراق کو اگر بے ادبی سے بچانے کے واسطے جلادیا جائے تو کیا جائز ہے؟ فرمایا.جائز ہے حضرت عثمانؓنے بھی بعض اوراق جلائے تھے.نیت پر موقوف ہے.۱ ۱بدر جلد ۶ نمبر ۳۲ مورخہ ۸؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۵

Page 229

۱۳؍اگست ۱۹۰۷ء ادائیگی قرض کی اہمیت ایک شخص کا ذکر ہوا کہ وہ ایک دوسرے شخص کی امانت جو اس کے پاس جمع تھی لے کر کہیں چلا گیا ہے.فرمایا.ادائے قرضہ اور امانت کی واپسی میں بہت کم لوگ صادق نکلتے ہیں اور لوگ اس کی پروا نہیں کرتے حالانکہ یہ نہایت ضروری اَمر ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے جس پر قرضہ ہوتا تھا.دیکھا جاتا ہے کہ جس التجا اور خلوص کے ساتھ لوگ قرض لیتے ہیں اسی طرح خندہ پیشانی کے ساتھ واپس نہیں کرتے بلکہ واپسی کے وقت ضرور کچھ نہ کچھ تنگی ترشی واقع ہوجاتی ہے.ایمان کی سچائی اسی سے پہچانی جاتی ہے.۱ ۱۵؍اگست ۱۹۰۷ء (بعد از نماز ظہر) سچے سلسلہ کی مخالفت اس کی صداقت کا نشان ہے ایک شخص نور محمد نامی نے بیعت کے واسطے عرض کی.فرمایا.عصر کے وقت کر لینا.عصر کے وقت جب حضرت تشریف لائے تو وہ شخص بیعت کے لیے آگے بڑھا.حضرت نے فرمایا.جس جس نے بیعت کرنی ہے آجاؤ.چونکہ جگہ تنگ اور لوگ زیادہ تھے.حضرت نے فرمایا.تم لوگ ایک دوسرے کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ دو.بیعت کے بعد حضرت صاحب نے اس شخص کو مخاطب کر کے فرمایا.کیا آپ ملتان سے آئے ہیں؟ شخص.حضور ملتان سے ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۳۲ مورخہ ۵؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۶

Page 230

حضرت.خاص ملتان گھر ہے یا گردو نواح میں؟ شخص.حضور امیر پور ایک گاؤں تحصیل کبیر والہ میں ہے.وہاں بڑے بھارے مخالف ہیں.حضرت.اس طرف بھی بارش ہوئی ہے؟ شخص.حضور اس طرف کم بارش ہوئی ہے.حضرت.اس طرف بارش ہمیشہ کم ہی ہوا کرتی ہے.اس طرف لوگوں کی صحت تو اچھی ہوگی.کوئی بیماری تو نہیں ہوگی.شخص.بیماری کم ہی ہے.حضرت.اس طرف تو اس سلسلہ کی مخالفت کثرت سے نہیں؟ شخص.بہت لوگ مخالف ہیں.اس پر حضرت نے فرمایا.عادت اللہ اسی طرح پر ہے کہ جس سلسلہ کو خدا تعالیٰ خود قائم کرتا ہے اس کی سب سے زیادہ مخالفت ہوتی ہے جس سلسلہ کی مخالفت نہ ہو یا اگر ہو بھی تو بہت کم ہو وہ سلسلہ سچا سلسلہ نہیں ہوتا.سچے سلسلہ کی سچائی کا ایک بڑا نشان یہ بھی ہے کہ اس کی بہت مخالفت ہو.دیکھو! ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعویٰ نبوت کیا تو کمبخت مخالفوں نے بہت شور مچایا اور بڑی مخالفت کی.مگر جب مسیلمہ کذاب نے دعویٰ کیا تو سب آپس میںمل جل گئے.کسی نے مخالفت نہ کی.وجہ یہ ہے کہ شیطان جھوٹے کا دشمن نہیں ہوتا.سچے کی مخالفت میں سب اپنا زور لگاتا ہے.دیکھو! ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے بیگانے سب دشمن ہوگئے.کیا عالم اور کیا جاہل سب کے سب مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے.یہاں تک کہ جن کو دین سے کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا وہ بھی دشمن ہوگئے.آجکل بھی یہی حال ہے.ہر ایک نے مخالفت پر کمر باندھی ہوئی ہے.بڑے بڑے جرائم پیشہ اور بدکار لوگ ہماری مخالفت پر کمر بستہ ہیں.بہت لوگ ایسے ہیں جو دنیا طلبی کے ہی فکر میں ہر وقت لگے رہتے ہیں اور بھولے سے بھی کبھی دین کا نام نہیںلیتے.ہر وقت زمینداری اور ملازمت میں

Page 231

مست رہتے ہیں اور دین کی ذرّہ بھی پروا نہیں کرتے اور مذہب سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتے.وہ ہماری مخالفت کرتے اور ہمارانام سنتے ہی آگ بگولا ہوجاتے ہیں.ان کے نزدیک اگر تمام دنیا سے بدتر ہوں تو میں ہی ہوں.سو ایسے لوگوں کا فیصلہ تو اب خدا خود کرے گا.ایسوں کو کیا جواب دیا جاوے ان کا فیصلہ تو خدا کے پاس ہے.قرآن مجید میں ایسے لوگوں کے بہت گندوں اور شرارتوں کا ذکر نہیں کیا گیا.صرف اشارات ہی پائے جاتے ہیں.مثلاً ایسے لوگوں کی بابت لکھا ہے کہ وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کہتے تھے کہ جب قرآن پڑھا جاوے تو شور ڈالا کرو اور تالیاں بجایا کرو اور پھر بعض لوگ ایسے بھی تھے جن کی نسبت اللہ کریم فرماتا ہے وَ اِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ۠(البقرۃ:۱۵) اور ایسے لوگ بہت پائے جاتے تھے جو دوسروں کو کہتے تھے کہ جھوٹے طور پر بیعت کر آؤ اور پھر کہو کہ ہم سب کچھ دیکھ آئے ہیں کوئی بات نہیں وہ تو دوکانداری ہے اور پھر مرتد ہوجاؤ اور پھر ایسے لوگوں کو جو بیعت کر کے پھرجاتے تھے، پیش کر کے کہتے تھے کہ دیکھو! یہ تجربہ کار لوگ ہیں مرتد ہوگئے ہیں.یہ محض جھوٹا سلسلہ ہے.ایسا ہی چند آدمیوں نے ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے.پہلے جھوٹے طور پر یہاں آکر بیعت کی.پھر بعد ازاں یہاں سے جا کر چھپوا دیا کہ ہم سب کچھ دیکھ آئے ہیں کچھ بھی نہیں.ہم بھی مرید ہوئے تھے سب پتا لیا محض دھوکا بازی ہے.بیوقوف اتنا نہیں جانتے کہ آخر کار کام تو وہی ہو کر رہے گا اور وہی بہر صورت پورا ہو کر رہے گا جو ارادۂ الٰہی میں ہے.خدا کی قدرت دیکھو کہ جہاں ہماری مخالفت میں زیادہ شور اٹھا ہے وہاں ہی زیادہ جماعت تیار ہوئی ہے.جہاں مخالفت کم ہے وہاں ہماری جماعت بھی کم ہے.ایک شخص نے سلسلہ تقریر میں عرض کی کہ اگر کوئی حقیقۃ الوحی کو خدا کے خوف سے پڑھے تو ضرور مان لیوے.حضرت نے فرمایا.خدا کا خوف ان میں رہا ہی کہاں ہے.خدا کا خوف ہوتا تو ہماری مخالفت ہی کیوں کرتے.خدا نے اتمامِ حجّت کر دی.ہماری تائید میں بڑے بڑے نشان دکھائے گئے.مگر ان لوگوں کا کیا کِیا

Page 232

جاوے.اتنے نشانات ہیں کسی کی نظیر تو پیش کریں اَور نشان جانے دو ان سے کوئی پوچھے کہ چھبیس ستائیس سال ہمیں دعویٰ کئے گذر گئے اور ہزاروں نشانات ہماری تائید میں ظاہر ہوئے.کسی ایسے جھوٹے کی نظیر تو پیش کرو جس نے خدا پر افترا کیا ہو اور اتنی مہلت اور نشانات اس کی تائید میں دکھائے گئے ہوں.خدا نے اس کے مخالف ہلاک، تباہ اور ذلیل کر دیئے ہوں.حالانکہ خدا جانتا تھا کہ وہ مفتری ہے.بھلا کوئی نظیر تو دو.سنّت اللہ اسی طرح سے ہے کہ جب کوئی خدا کی طرف سے مامور ہوکر آتا ہے تو عبد الحکیم وغیرہ کی طرح بعض لوگ الہام کے دعویدار بن بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بھی رسول ہیں.مگر ایسے دعویٰ کرنے والے ہمیشہ بعد میں ہوتے ہیں.دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعویٰ کرلیا اور اس کی اچھی طرح سے شہرت ہوگئی تب مسیلمہ کذاب وغیرہ نے بھی دعویٰ کر دیا.ایسا ہی ہمیں بھی چھبیس ستائیس برس دعویٰ کئے گذر گئے تو ان لوگوں کو بھی دعوے یاد آگئے.سچے مدّعی کی نشانی مگر یاد رکھو کہ سچے کی نشانی یہ بھی ہے کہ وہ سب سے پہلے دعویٰ کرتا ہے وہ کسی کی رِیس نہیں کرتا.ابو سفیان وغیرہ جب کفر کے زمانہ میں قیصر کے پاس گئے تو اس نے ان سے یہی پوچھا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پہلے بھی کسی نے دعویٰ کیا ہوا ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں.تب اس نے کہا کہ اگر اس سے پہلے کوئی دعویٰ کرنے والا ہوتا تو میں سمجھتا کہ یہ ریس کرتا ہے.ابتداء ً دعویٰ کرنا یہ سچے کی شناخت پر ایک بڑی بھاری دلیل ہے.دیکھو چھبیس ستائیس برس گذر چکے ہیں.اس عرصہ میں تو ایک بچہ بھی پیدا ہو کر باپ بن سکتا ہے.۱ ۱۷؍اگست ۱۹۰۷ء (بوقت عصر) نئے نشانات کا ظہور حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ آج رات کے دو بجے الہام ہوا تھا اِنَّ خَبَـرَ رَسُوْلِ اللہِ وَاقِعٌ جس سے ۱ الحکم جلد ۱۱نمبر ۳۰ مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۷ءصفحہ۱۱

Page 233

سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی پیشگوئی واقع ہونے والی ہے.دو تین ماہ میں کوئی نہ کوئی نشان ضرور ظہور میں آجاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے خاتمہ کے دن قریب ہیں کیونکہ لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں نئے نئے نشانات ظہور میں آئیں گے اور جیسے تسبیح کا دھاگا توڑ دیا جاوے تو دانے پر دانہ گرتا ہے ویسے ہی نشان پر نشان ظاہر ہوگا.یہ عجیب بات ہے کہ کوئی سال اب خالی نہیں جاتا.دو چار مہینہ میں کوئی نہ کوئی نشان ضرور واقع ہوجاتا ہے.تمام نبیوں نے اس بات کو مان لیا ہے کہ جس زور سے آخری زمانہ میں نشانات کا نزول ہوگا اس سے پہلے ویسا کبھی نہیں ہوا ہوگا.مخالفت ہمارے لئے مفید ہے فرمایا.مخالفوں کا انکار ہمارے واسطے بہتر ہے کیونکہ جتنی گرمی زور سے پڑتی ہے اتنی ہی بارش زور سے ہوتی ہے.جس قدر مخالفوں میں تپش بڑھتی جائے گی اتنے ہی نشانات بارش کی طرح برستے جائیں گے.۱ ۱۸؍اگست۱۹۰۷ء (بوقت عصر) مخالف ہمیں منہاج نبوت پر پرکھیں کسی شخص کے ذکر پر فرمایا کہ مجوسیوں، یہودیوں اور نصرانیوں نے بھی تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کئے تھے.جس طرح سے لوگ انبیاء پر اعتراض کرتے رہے ہیں اور خدا آخر ان کے جواب دیتا رہا ہے اسی طرح کے جواب ہم سے بھی لو.ان کو چاہیے کہ ہم پر کوئی ایسا اعتراض کریں جو کسی پہلے نبی پر نہ ہو سکتا ہو.چاہیے کہ منہاج نبوت پر ہمیں پرکھ لیں.آتھم کی پیشگوئی آتھم کی نسبت اعتراض کرتے ہیں.مگر ان کو خیال کرنا چاہیے کہ جب اسے کہا گیا تھا کہ چونکہ تم نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دجّال کہا ہے اس لیے تمہاری نسبت یہ پیشگوئی کی گئی ہے.تو یہ بات سن کر اس نے سر ہلایا اور کہا کہ نہیں جی، نہیں جی.میں نے تو نہیں کہا اور زبان نکالی اور کانوں پر ہاتھ رکھ کر بڑا انکار کیا.اور اکثر روتا رہتا تھا اور ۱ الحکم جلد ۱۱نمبر ۳۰ مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۷ءصفحہ ۴

Page 234

ادھر ادھر اس طرح پھرتا رہتا تھا جیسے کسی کو قطرب کی بیماری ہوجاتی ہے.سوچنے والی بات یہ ہے کہ مخالف کی بات کا اس قدر اثر پڑجانا کہ اکثر اوقات روتے رہنا کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ اس نے رجوع کیا تھا.ساٹھ ستر آدمیوں کے سامنے اس نے زبان نکالی اور کانوں پر ہاتھ رکھ کر دجّال کہنے سے رجوع کیا تھا.لیکھرام کی پیشگوئی لیکھرام کی نسبت چھ برس کی پیشگوئی تھی.پانچ برس اس نے شوخی سے گذارے اور میری نسبت پیشگوئی بھی کی کہ تم تین سال کے اندر ہیضہ سے مَر جاؤ گے.چونکہ اس نے بہت شوخی کی تھی اس لیے وہ مہلت بھی اس کے لیے کم کر دی گئی اور پانچ برس کے اندر ہی ہلاک ہوگیا اور یہ ایک جلالی رنگ کی پیشگوئی تھی مگر آتھم نے چونکہ انکساری اختیار کی تھی اس لیے خوف اور رجوع کے سبب اس کی میعاد بڑھ گئی.اور یہ ایک جمالی رنگ کی پیشگوئی تھی.ڈاکٹر عبد الحکیم کی بے باکی عبد الحکیم کی شوخی اور بے باکی پر حضرت نے فرمایا کہ ہزاروں لوگ خود پسندی اور رعونت کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں.یہ تو بہت ہی دلیر ہوگیا ہے اور حد سے بڑھ گیا ہے.جتنی گالیاں انسان سوچ سکتا ہے وہ سب اس نے ہمیں دی ہیں.اس کے رو برو بڑے بڑے نشانات خدا نے دکھائے.اس نے خود بھی تصدیق کی.بیس برس تک یہ ہمارا مصدق رہا.اس کے خطوط میرے پاس موجود ہیں.یہ کہتا تھا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر نجات ہوسکتی ہے.ہم نے اسے نصیحت کی اور اس کی غلطی سے اسے متنبہ کیا.مگر اس نے بُرا منایا.آخر اس کا یہ مرض بڑھتا گیا اور تکبر پیدا ہوتا گیا.شیطان بھی تو تکبر کی وجہ سے ہی ہلاک کیا گیا تھا.اس کو چاہیے تھا کہ جب ہم نے روکا تھا تو خود قادیان میں آجاتا.ہماری صحبت سے فائدہ اٹھاتا اور اپنے وساوس کو انکساری سے پیش کرتا.ایسے گند نبیوں کے ذریعہ سے ہی دور ہو سکتے ہیں.مگر وہ کہتا ہے کہ نبیوں کی اتباع کی ضرورت نہیں.خاکساری کے ساتھ آتا.ہم دعا بھی کرتے اور اس کے وساوس کا جواب بھی دے دیتے.اس نے اپنا ایک خواب بھی چھپوایا تھا کہ جس میں یہ ایک شخص کو کہتا ہے کہ مرزا صاحب نے میرا نام

Page 235

بیعت سے کاٹ دیا ہے.اب اگر اس کے دل میں واقعی اعتراض تھے تو اس کو خود الگ ہونا چاہیے تھا نہ کہ ہم خود کاٹتے.اگر وہ ہمارے سلسلہ کو بُرا سمجھ کر چھوڑ دیتا پھر تو ایک بات تھی مگر ہم نے اس کو خود جماعت سے کاٹ دیا ہے.وہ اپنی تحریروں میں مانتا ہے کہ انہوں نے خود میرا نام بیعت سے کاٹ دیا.۱ ۱۹؍اگست ۱۹۰۷ء (بوقتِ ظہر) الہام ’’آید آں روزے کہ مستخلص شود ‘‘ طبابت ایک ظنی علم ہے طبیبوں کے علاج اور بعض بیماریوں کا ذکر ہو رہا تھا.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ اکثر طبیبوں کا یہ کام ہے کہ جب انہیں مایوسی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں اور بظاہر نظر کامیابی کی راہیں مسدود نظر آتی ہیں تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ خاص خاص شبہات پیدا ہوگئے تھے.ورنہ یہ ہوتا تو ٹھیک تھا.یہ بات نہیں ہو سکی وہ نہیں ہو سکی.ایسا کرنا چاہیے تھا ویسا کرنا چاہیے تھا مگر یہ سب باتیں توحید کے برخلاف ہیں.اگر طبیب سے غلطی ہوگئی ہے یا کامیابی نہیں ہو سکی تو پھر کیا ہوا.اس کا کام تو صرف ہمدردی کرنا تھا تقدیر کا مقابلہ کرنا نہ تھا.ایک طبیب کا ذکر ہے کہ وہ قبرستان کو جاتے وقت برقع پہن لیا کرتے تھے کسی نے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں.طبیب نے جواب دیا کہ یہ سب آدمی میری دوائیوں سے ہی ہلاک ہوئے تھے.سنّت اللہ اسی طرح سے ہے کہ کام تو وہ خود کرتا ہے مگر اپنی حکمت سے اسباب کا ایک سلسلہ بھی قائم کر دیا ہوا ہے.پنجابی میں ایک مثل ہے ’’مارے آپ تے نام دھرایا تاپ‘‘عجیب بات ہے کہ کَل بگڑی کی بگڑتی چلی جاتی ہے کچھ پتا نہیں لگتا کہ ہوتا کیا ہے.کوئی دعویٰ کرنے کا امکان نہیں.دیکھو جہاں پیچ پڑنا ہوتا ہے وہاں بے اختیارخود بخود صورت بگڑتی جاتی ہے.ایک مرض کا علاج کرو تو ۱ الحکم جلد ۱۱نمبر ۳۰ مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۷ءصفحہ ۴

Page 236

ساتھ ہی قے کے ذریعہ سے یا کسی اور وجہ سے کئی مرضیں اور پیدا ہوجاتی ہیں.مگر جہاں آرام آنا ہوتا ہے تو صرف عورتوں کے سونف اجوائن بتانے سے بھی آرام ہوجاتا ہے اور خود بخود سب علاج کر لیتی ہیں.طبابت ایک ظنّی علم ہے.دعویٰ کا کوئی امکان نہیں.جب بیماری بڑھنی ہو تو علاج کرتے کرتے بڑھتی جاتی ہے.مَرنا برحق ہے اور ایک دن موت ضرور آکر رہے گی حدیث شریف میں آیا ہے کہ خوش قسمت انسان وہ ہے جو نیک اعمال کر کے مَرے.عمر کا کیا ہے.ساٹھ برس جئیں خواہ سو برس آخر موت برحق ہے.جنون کا مرض حضرت حکیم الامت نے ایک خط پڑھ کر سنایا جس میں ایک شخص کی بیماری کی نسبت بعض باتیں درج تھیں اور دعا کے لیے حضرت اقدس کی خدمت میں بھی التجا کی ہوئی تھی.اس پر حضرت نے فرمایا.خدا اپنا فضل کرے.یہ مرض جنون کی نہایت خطرناک ہے.حضرت حکیم الامت نے عرض کیا کہ حضور انبیاء نے بھی یہ دعا مانگی ہے کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبَرَصِ وَالْـجُذَامِ وَالْـجُنُوْنِ.....الـخ (بوقتِ عصر) طاعون موسمی تغیر و تبدل پر گفتگو ہو رہی تھی.باتوں ہی باتوں میں طاعون کا ذکر چل پڑا.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ اب کی دفعہ طاعون بہت کم پڑے گی کیونکہ زور بہت ہوگیاہے اور چوہے بھی بہت مارے گئے ہیں.ان کی ایسی رایوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا جس کی نسبت قرآن مجید میں لکھا ہے وَ اِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا(بنی اسـرآءیل:۵۹) مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (الرعد:۱۲) معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس جگہ ڈاکٹروں اور

Page 237

مدبروں کو ہرا دے.دمدار ستارہ کا طلوع آجکل دمدار ستارہ طلوع ہوتا ہے.اس کے متعلق ایک شخص سے حضرت اقدس نے دریافت فرمایا کہ کیا آپ نے بھی دمدار ستارے دیکھے ہیں.اس نے عرض کیا کہ حضور میں نے تو ابھی نہیں دیکھا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ضرور دیکھنا.آج ہی دیکھنا وہ ایک نہیں ہے دو ہیں.میں نے بھی دیکھے تھے.ایک چھوٹا ہے اور ایک بڑا ہے.تین بجے سے دکھائی دینا شروع ہوتا ہے.مفسروں نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جب بہت ستارے ٹوٹے تھے تو اس سے کچھ عرصہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا.یہ جو ستارے وغیرہ ہوتے ہیں ان کا اثر زمین پر ضرور ہوتا ہے.میرے دعویٰ سے پہلے اس قدر ستارے ٹوٹے تھے کہ ایسی کثرت آگے کبھی نہیں ہوئی تھی.میں اس وقت دیکھ رہا تھا کہ ستاروں کی آپس میں ایک قسم کی لڑائی ہوتی تھی.کوئی سو دو سو ایک طرف تھے اور سو دو سو ایک طرف تھے.ہمارے لیے گویا وہ ایک پیش خیمہ تھے.اِس طرف سے اُس طرف نکل جاتے تھے اور اُس طرف سے اِس طرف نکل جاتے تھے.میرے خیال میں تو کسوف خسوف کا بھی خاص اثر زمین پر ہوتا ہے.دمدار ستارے کا پیدا ہونا ایک خارقِ عادت اَمر ہے.آسمان پر اس کا ظاہر ہونا ظاہر کرتا ہے کہ زمین پر بھی ضرور کوئی خارقِ عادت اَمر ظاہر ہوگا.یہ زمین کے لیے شہادتیں ہوتی ہیں.آئندہ زمین پرجو خارق عادت نشان ظاہر ہونے والے ہوتے ہیں ان کے لیے یہ پیش خیمہ ہوتے ہیں.اس طرف ہمیں الہام بھی ہو رہے ہیں کہ آئندہ خارق عادت نشان ظاہر ہونے والے ہیں اور کل جو میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک ستارہ ٹوٹا ہے اور سر پر آگیا ہے.میں نے خیال کیا تھا کہ ضرور اس کی کوئی تعبیر ہوگی.ذو السنین ستارہ کی نسبت جب نکلا تھا تو انگریزی اخبار والوں نے لکھا تھا کہ یہ وہی ستارہ ہے جو حضرت عیسٰیؑ کے زمانہ میں طلوع ہوا تھا.

Page 238

فرمایا.بعض منذر الہام اور خوابات ہوتے ہیں.ان سے ڈر ہی لگ جاتا ہے.اپنے محبین کے لیے دعا فرمایا کہ مولوی صاحب۱ کے واسطے دعا کرتے کرتے یہاں تک اثر ہوا کہ ہمیں خود بھی دست لگ گئے.۲ ۲۰؍اگست ۱۹۰۷ء (بوقتِ ظہر ) امانت داری مفتی محمد صادق صاحب نے عرض کیا کہ ایک شخص نے لکھا ہے کہ میں نے حضور کی خدمت میں دو روپیہ نقد اور ایک طلائی ڈنڈی بھیجی ہے.حضرت نے فرمایا کہ ہاں پہنچ گئی ہے اور روپیہ بھی مل گئے ہیں مگر ہم نے تو امانتاً رکھ دی ہے کیونکہ معلوم نہیں اس نے کس لیے بھیجی ہے کچھ لکھا نہیں.اس پر مفتی صاحب نے عرض کیا کہ اس نے لکھا ہے جہاں حضرت پسند فرمائیں خرچ کر لیں.اولاد کے لیے باپ کی دعا فرمایا.باپ کی دعا اپنی اولاد کے لیے منظور ہوتی ہے.سید کے لیے زکوٰۃ سوال ہوا کہ غریب سید ہو تو کیا وہ زکوٰۃ لینے کا مستحق ہوتا ہے؟ فرمایا.اصل میں منع ہے.اگر اضطراری حالت ہو.فاقہ پر فاقہ ہو تو ایسی مجبوری کی حالت میں جائز ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ(الانعام:۱۲۰) حدیث سے فتویٰ تو یہ ہے کہ نہ دینی چاہیے اگر سید کو اور قسم کا رزق آتا ہو تو اسے زکوٰۃ لینے کی ضرورت ہی کیا ہے.ہاں اگر اضطراری حالت ہو تو اَور بات ہے.۳ ۱ یعنی حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ (مرتّب) ۲ الحکم جلد ۱۱نمبر ۳۰ مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۷ءصفحہ ۴،۵ ۳ الحکم جلد ۱۱نمبر ۳۰ مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۷ءصفحہ ۵

Page 239

۲۱؍اگست ۱۹۰۷ء (بوقتِ ظہر) طاعون کا نشان فرمایا.امریکہ کے ایک بڑے حصہ میں بڑی تیزی سے طاعون شروع ہوگئی ہے.ایسا ہی یورپ کے بعض حصوں کی نسبت بھی لکھا ہے.اصل میں یہ دونوں ملک آپس میں بہت آمد و رفت رکھتے ہیں.ایک ہی طرح کا لباس ہے.ایک ہی بولی ہے اور تقریباً ایک ہی طرح کی سردی ہے.اخبار والوں نے بڑا خطرہ ظاہر کیا ہے کہ چونکہ یہ ملک سرد ہے اس لیے اندیشہ ہے کہ یہ بیماری زیادہ تباہی لاوے.ہماری پیشگوئی میں یورپ بھی ہے اور کابل بھی ہے.سنا گیا ہے کہ کابل میں ہیضہ ہے.مگر اس سے کچھ نہیں ہوتا یہ کوئی عذاب نہیں ہے.پوری خبر تو طاعون ہی لیتی ہے.دیکھو ابھی اس بیماری کا نام و نشان بھی نہ تھا تو میں نے اشتہار شائع کرا دیا تھا کہ پنجاب میں طاعون کے پودے لگائے گئے ہیں.ثناء اللہ کو بھی یہ اشتہار پہنچ گیا تھا.تاریخ کو دیکھ لو.ایک طرف طاعون کی آمد کی تاریخ اور دوسری طرف اشتہار کے طبع ہونے کی تاریخ موجود ہے.اب گیارہ سال سے تباہی شروع ہے.کیا یہ انسانی کوشش اور طاقت کا کام ہے کہ اتنے بڑے واقعہ کی قبل از وقت خبر دے دے.اب یورپ، کابل وغیرہ کی باری آئی ہے مگر پھرے گی سارے جہان میں.اللہ کریم فرماتا ہے.وَ اِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا(بنی اسـرآءیل:۵۹) اس کے یہی معنے ہیں کہ طاعون آخری زمانہ میں تمام جہان میں دورہ کرے گی.اور حدیث شریف میں لکھا ہے کہ اگر کسی گھر میںدس آدمی ہوں گے تو سات مَر جائیں گے اور تین بچے رہیں گے اور یہ مہدی کی علامات میں سے ہے کہ اس کی مخالفت سے سخت طاعون پڑے گی.عجیب بات ہے کہ خسوف کسوف کے رمضان میں واقع ہونے کی نسبت لکھا ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ایسا کبھی نہیں ہوا.یہ ایک خارقِ عادت اَمر ہے پھر یہ زلزلے اور طاعون بھی خارق عادت امور ہیں.مگر یہ نہیں سوچتے اور نشان پر نشان مانگتے ہیں یہ ان کے لیے اچھے تو نہیں ہوں گے.خدا تعالیٰ

Page 240

فرماتا ہے کہ نشان جب آئیں گے تو پھر اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا؟ (پھر لیکھرام کے نشان کا ذکر فرماتے رہے) حکومت سے تعاون قیصر کی چٹھی متعلقہ طاعون کا ذکر کر کے حضور نے فرمایا.ہم نے ایک اعلان کے ذریعہ لکھ دیا ہے کہ ایسے امور میں گورنمنٹ کو ہر قسم کی مدد دینے کو تیار رہیں.ہم اپنی جماعت کو بھی یہی تاکید کریں گے کہ وہ خاص احتیاط کرے اور گورنمنٹ کی ہدایت کے بموجب جب ضرورت پڑے باہر کھلے میدانوں اور کھلی ہوا میں چلی جاوے.ہماری تمام جماعت ایسے امور میں گورنمنٹ کو خاص امداد دے گی کیونکہ وہ گورنمنٹ کی خیرخواہی کو اپنا مذہبی فرض سمجھتی ہے.اپنی حفاظت کے لیے حکومت کو توجہ دلائی جائے ایک معزز خادم نے عرض کی کہ پشاور جیسے سرحدی مقام پر کیا کیا جاوے کیونکہ وہاں تو لوگ قتل سے نہیں ڈرتے.وہ انجام کو نہیں سوچتے.ادنیٰ ادنیٰ باتوں پر قتل ہوجاتے ہیں.ایک شخص نے ڈیڑھ روپیہ قرضہ دینا تھا.اس پر یہاں تک نوبت پہنچی کہ تین آدمی قتل ہوگئے اور قاتل علاقہ غیر میں بھاگ گئے.ان باتوں کو سن کر فرمایا.ایسے مقامات پر گورنمنٹ کو توجہ دلائی جاوے تو وہ ہماری جماعت کی طرف خاص توجہ کرے گی اور حفاظت کے سامان بہم پہنچاوے گی.کیونکہ یہ بالکل سچ ہے کہ بعض اضلاع میں لوگ ڈاکہ کے عادی ہیں اور ہماری جماعت سے بھی خاص دشمنی رکھتے ہیں اس لیے خاص طور پر گورنمنٹ کو حفاظت کا انتظام کرنا چاہیے.ہم گورنمنٹ کی ہدایتوں پر عمل کرنے کو تیار ہیں مگر ایسے خطرناک مقامات کے لیے ہم یہ ضرور کہیں گے کہ چونکہ ڈاکو لوگ مخالف مولویوں کے بھڑکانے سے اور بھی تکلیف دینے پر آمادہ ہو جائیں گے اس لیے گورنمنٹ کو حفاظت کا پورا انتظام کرنا چاہیے ایسے موقع پر کافی اور مسلح پہرہ اگر ہو تو خطرہ دور ہو سکتا ہے.اگر ایسا نہ ہو تو پھر طاعون نے نہ مارا تو ڈاکوؤں نے مار دیا.۱ ۱الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۱ مورخہ ۳۱؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۲،۱۳

Page 241

۲۳؍اگست ۱۹۰۷ء (بوقتِ عصر) ڈاکٹر عبد الحکیم کا دعویٰ مسیحیت ڈاکٹر عبد الحکیم خاں مرتد کی مسیحیت کا ذکر تھا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہمارا نام وہ دجّال رکھتا ہے.عجیب بات یہ ہے کہ بیس برس تک دجّال ہی کا مصدق رہا ہے اور اسی کے ماتحت رہا ہے.بھلا کوئی دنیا میں ایسا بھی مسیح گذرا ہے جو بیس سال تک دجّال کے ماتحت رہا ہو.ایک ہندو نے عبد الحکیم کی نسبت لکھا ہے کہ جن کی وہ بیعت ہے ان کی زبان سے تو کوئی گندہ لفظ تک نہیں نکلا مگر یہ بڑا کمبخت ہے کہ جس کی بیس برس تک بیعت میں رہا ہے اس کو گالی نکالتا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ اس سوال کے جواب سننے کا مجھے بہت شوق ہے کہ وہ کیسا مسیح ہے جو بیس برس تک دجّال کے ماتحت رہے.کیسی عجیب بات ہے کہ سچا بھی تھا، مسیح بھی تھا اور رسول بھی تھا مگر بیس برس تک دجّال کی بیعت رہا.اس کا مصدق رہا.اس کی تائید میں سچی خوابیں، رؤیا اور الہامات بھی سناتا رہا.ایک شخص کی بابت کسی کو لکھتا ہے کہ مجھے یہ خواب آئی ہے کہ یہ شخص طاعون سے ہلاک ہوگا کیونکہ یہ سچے مسیح کا منکر ہے اور پھر اس خواب کے سچا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.اس پر ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ حضور اس کے دل میں تو یہ بات ہوگی کہ آپ ہی حقیقت میں سچے مسیح ہیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ دل مسخ ہوگیا ہے.مسیلمہ کذاب کی طرح پہلے مانا پھر انکار کر دیا.خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ (البقرۃ:۸) کے بھی یہی معنے ہیں.مسیلمہ کذاب کی تو پہلے نظیر بھی موجود تھی مگر اس کی تو نظیر بھی کوئی نہیں.۱ ۱الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۱ مورخہ ۳۱؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۳ نیز بدر جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخہ ۵؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۶

Page 242

دل مسخ ہوگیا ہے.مسیلمہ کذاب کی طرح پہلے مانا پھر انکار کر دیا.خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ (البقرۃ:۸) کے بھی یہی معنے ہیں.مسیلمہ کذاب کی تو پہلے نظیر بھی موجود تھی مگر اس کی تو نظیر بھی کوئی نہیں.۱ بلاتاریخ بسم اللہ کی رسم ایک شخص نے بذریعہ تحریر عرض کی کہ ہمارے ہاں رسم ہے کہ جب بچے کو بسم اللہ کرائی جاوے تو بچے کو تعلیم دینے والے مولوی کو ایک عدد تختی چاندی یا سونے کی اور قلم و دوات چاندی یا سونے کی دی جاتی ہے.اگرچہ میں ایک غریب آدمی ہوں مگر چاہتا ہوں کہ یہ اشیاء اپنے بچے کی بسم اللہ پر آپ کی خدمت میں ارسال کروں.حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا.تختی اور قلم و دوات سونے یا چاندی کی دینا یہ سب بدعتیں ہیں ان سے پرہیز کرنا چاہیے اور باوجود غربت کے اور کم جائیداد ہونے کے اس قدر اسراف اختیار کرنا سخت گناہ ہے.جماعت جمعہ سوال پیش ہوا کہ کہ نماز جمعہ کے واسطے اگر کسی جگہ صرف ایک دو مرد احمدی ہوں اور کچھ عورتیں ہوں تو کیا یہ جائز ہے کہ عورتوں کو جماعت میں شامل کر کے نماز جمعہ ادا کی جائے؟ حضرت نے فرمایا کہ جائز ہے.دریائی جانوروں کی حلّت کا اصول سوال پیش ہوا کہ دریائی جانور حلال ہیں یا نہیں؟ فرمایا.دریائی جانور بے شمار ہیں.ان کے واسطے ایک ہی قاعدہ ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرما دیا ہے کہ جو ان میں سے کھانے میں طیّب، پاکیزہ اور مفید ہوں ان کو کھا لو دوسروں کو مت کھاؤ.ناول نویسی و ناول خوانی حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ ناولوں کا لکھنا اور پڑھنا کیسا ہے؟ فرمایا کہ ناولوں کے متعلق وہی حکم ہے جو آنحضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعار کے متعلق فرمایا ہے کہ حَسَنُہٗ حَسَنٌ وَ قَبِیْحُہٗ قَبِیْحٌ اس کا اچھا حصہ اچھا ہے اور قبیح قبیح ہے.اعمال

Page 243

نیت پر موقوف ہیں.مثنوی مولوی رومی میں جو قصے لکھے ہیں وہ سب تمثیلیں ہیں اور اصل واقعات نہیں ہیں.ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام تمثیلوں سے بہت کام لیتے تھے.یہ بھی ایک قسم کے ناول ہیں جو ناول نیت صالح سے لکھے جاتے ہیں.زبان عمدہ ہوتی ہے نتیجہ نصیحت آمیز ہوتا ہے اور بہرحال مفید ہیں ان کے حسب ضرورت و موقع لکھنے پڑھنے میں گناہ نہیں.۱ بلاتاریخ صحیح عہد فرمایا.صحیح عہد وہ ہوتا ہے کہ عہد کرنے سے پہلے طرفین نے قلب صافی کے ساتھ تمام معاملات ایک دوسرے کو سمجھا دیئے ہوں اور کوئی بات ایسی درمیان میں پوشیدہ نہ رکھی ہو جو کہ اگر ظاہر کی جاتی تو دوسرا آدمی اس عہد کو منظور نہ کرتا.ہر ایک عہد جائز نہیں ہوتا کہ اس کو پورا کیا جائے بلکہ بعض عہد ایسے ناجائز ہوتے ہیں کہ ان کا توڑنا ضروری ہوتا ہے ورنہ انسان کے دین میں سخت حرج واقع ہوتا ہے.کامل تزکیہءِ نفس فرمایا.پورے طور پر تزکیہ نفس تھوڑے ہی شخصوں کو حاصل ہوتا ہے.اکثر لوگ جو نیک ہوتے ہیں وہ بسبب کمزوری کے کچھ نہ کچھ خرابی اپنے اندر رکھتے ہیں اور ان کے دین میں کوئی حصہ دنیوی ملونی کا بھی ہوتا ہے.اگر انسان اپنے سارے امور میں صاف ہو اور ہر بات میں پوری طرح تزکیہ نفس رکھتا ہو وہ ایک قطب اور غوث بن جاتا ہے.آپ نے ایک مشہور مولوی کا نام لیا اور فرمایا کہ وہ ایک رسالہ ماہواری نکالتا تھا.ایک دفعہ ہم نے اس سے دریافت کیا کہ کیا یہ خدمت رسالہ کی خالصۃً اللہ کے واسطے ہے یا اس میں کچھ ملونی دنیا کی بھی ہے؟ ان دنوں میں اس کے دل کی حالت کچھ ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخہ ۵؍ستمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۳

Page 244

کچھ اچھی تھی.اس نے صفائی سے کہہ دیا کہ یہ خالص اللہ کے لیے نہیں ہے بلکہ اس میں دنیا کی ملونی بھی ہے.اگر کوئی فعل انسان خاص خدا کے لیے کرے تو وہ انسان کو یکدفعہ آسمان پر لے جاتا ہے.براہین کا اشتہار صدق نیت سے تھا فرمایا.جبکہ ہم نے براہین احمدیہ کا اشتہار دیا کہ اگر کوئی ان دلائل کو توڑے تو اس کو ہم دس ہزار روپیہ دیں گے تو یہ اشتہار صدق نیت سے تھا.ہم نے اتنا ہی روپیہ لکھا تھا جتنا کہ ہم دے سکتے تھے اور یہی اس وقت ہمارے پاس جمع ہو سکتا تھا.صرف اسلام کی محبت کے واسطے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت کے قائم کرنے کی خاطر ہم نے ایسی کتاب لکھی اور اس کے ساتھ اتنا اشتہار دیا ورنہ ہم کو ہرگز وہم گمان بھی نہ تھا کہ ہم اس کے ذریعہ سے کوئی روپیہ کمائیں اور کسی قسم کی دنیوی ملونی اس میں نہ تھی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیں دس ہزار چھوڑ ایک روپیہ بھی نہ دینا پڑا بلکہ کئی دس ہزار روپیہ اس کے بعد ہمارے پاس آیا.یہ خلوصِ نیت کا نتیجہ ہے.مثالی طبیب ایک بیمار جو کہ باہر سے حضرت مولوی نور الدین صاحب کے پاس معالجہ کے واسطے آیا تھا.حضرت کی خدمت میں بھی سلام کے واسطے حاضر ہوا.حضرت نے اثنائے گفتگو میں فرمایا کہ مولوی صاحب کا وجود از بس غنیمت ہے.آپ کی تشخیص بہت اعلیٰ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بیمار کے واسطے دعا بھی کرتے ہیں.ایسے طبیب ہرجگہ کہاں مل سکتے ہیں؟ گوشت خوری کا جواز مذکورہ بالا بیمار ہندو تھا حضرت نے اس سے دریافت کیا کہ کیا آپ لوگ گوشت کھایا کرتے ہیں؟ اس نے عرض کی کہ ہاں میں کھایا کرتا ہوں.حضرت نے فرمایا کہ ایسی بیماریوں میں قوت کے قائم رکھنے کے واسطے گوشت کی یخنی مفید ہوتی ہے اور وہ لوگ بے وقوف ہیں جو کہتے ہیں کہ گوشت حرام ہے.طبیب اور ڈاکٹر لوگ جانتے ہیں کہ انسان کے واسطے گوشت کی خوراک کیسی مفید ہے کس قدر انسانی ضرورتیں ہیں جو مثل گوشت کے ہیں.اگر جانوروں پر رحم کے یہ معنے ہیں کہ گوشت حرام کیا جاوے تو پھر تو بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو حرام کرنا پڑے گا.اوّل تو دودھ کو ہی حرام کرنا چاہیے کیونکہ یہ جانوروں کے بچوں کی

Page 245

خوراک ہے.پھر ریشم کو لو جو کیڑوں کو مارنے سے نکلتا ہے.پھر شہد کو دیکھو جو ہزار ہا مکھیوں سے چھین کر انسان اپنے منہ میں ڈال لیتا ہے.حالانکہ مکھی ایک غریب اور چھوٹا ساجانور ہے.پھر کستوری کو دیکھو جو آریوں اور ہندوؤں کی عبادت میں مانند شہد کے استعمال ہوتی ہے وہ ایک ہرن کو مار کر اس کی ناف میں سے نکالی جاتی ہے.پھر موتی کو لو جن کے تاجر سب ہندو ہی چلے آتے ہیں.وہ بھی جانور کو مار کر اس کے پیٹ میں سے نکالا جاتا ہے.پھر انسان اپنے پاؤں کی جوتی کو ہی دیکھے کہ وہ کس سے بنتی ہے.غرض کس کس چیز کو گنا جائے.کیا لباس انسانی، کیا خوراکِ انسانی، کیا دیگر ضروریات سب میں اس قسم کی اشیاء ہیں جو کسی جاندار کے مارنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہیں.بعض انسانوں کو ایسی بیماری ہوتی ہے کہ ان کے ناک میں کیڑے پڑ جاتے ہیں لاجرم ان کیڑوں کو مارنا پڑتا ہے.بعض آدمیوں کے زخموں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں تو زخم کے اندر ایسی دوائی ڈالی جاتی ہے جس سے وہ کیڑے مَر جاویں.ایامِ وبا میں جب کنوئیں کے پانی میں کیڑے ہوجاتے ہیں تو کنوئیں کے اندر دوائی ڈال دی جاتی ہے تاکہ وہ کیڑے مَر جاویں.کس کس شَے کا ذکر کیا جائے ہندوؤں کے بڑے بڑے بزرگ راجہ رام چندر وغیرہ سب شکار کھیلتے تھے.خدا کے قانون کی رعایت رکھ کر دیکھنا چاہیے کہ آیا بغیر اس کے انسان کا گذارہ چل سکتا ہے؟ ایمان میں عورتوں کی مسابقت فرمایا.بہت عورتیں گھر میں آکر بیعت کرتی ہیں.ان کے نام مبائعین کے درمیان لکھنے کا تاحال کوئی انتظام نہیں ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بعض عورتیں بسبب اپنی قوت ایمانی کے مَردوں سے بڑھی ہوئی ہوتی ہیں.فضیلت کے متعلق مَردوں کا ٹھیکہ نہیں.جس میں ایمان زیادہ ہوا وہ بڑھ گیا.خواہ مرد ہو خواہ عورت ہو.خدا تعالیٰ کو مقدم رکھیں ایک دوست جو باوجود ایک لمبی رخصت لینے کے قادیان نہ آسکے تھے کیونکہ وہ ایک عمارت بنوا رہے ہیں.ایک دو روز کے واسطے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے کسی نے عرض کی کہ ان کی رخصت لمبی ہے ان کو قادیان رہنا چاہیے.فرمایا.ایک پنجابی ضرب المثل ہے کہ ؎ یا تو ں لوڑ مقدّمیں یا اللہ نوں لوڑ

Page 246

یعنی یا تو انسان خدا تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہو یا دنیاوی دھندے مثلاً مقدمہ بازی وغیرہ میں لگے.ایک طرف کا ہی کام ہو سکتا ہے.دو طرفہ چلنا مشکل ہے.سلسلہ کے کارکنان کی صفات اس اَمر کا ذکر تھا کہ سلسلہ حقّہ کے واسطے واعظ مقرر کئے جاویں جو مختلف شہروں اور گاؤں میں جا کر وعظ بھی کریں اور ضروریاتِ اسلام کے واسطے چندے بھی جمع کریں.حضرت نے فرمایا کہ جب تک کسی میں تین صفتیں نہ ہوں وہ اس لائق نہیں ہوتا کہ اس کے سپرد کوئی کام کیا جائے.اور وہ صفتیں یہ ہیں.دیانت، محنت، علم.جب تک کہ یہ تینوں صفتیں موجود نہ ہوں.تب تک انسان کسی کام کے لائق نہیں ہوتا.اگر کوئی شخص دیانتدار اور محنتی بھی ہو لیکن جس کام میں اس کو لگایا گیا ہے.اس فن کے مطابق علم اور ہنر نہیں رکھتا.تو وہ اپنے کام کو کس طرح سے پورا کر سکے گا.اور اگر علم رکھتا ہے، محنت بھی کرتا ہے دیانتدار نہیں تو ایسا آدمی بھی رکھنے کے لائق نہیں.اور اگر علم و ہنر بھی رکھتا ہے اپنے کام میں خوب لائق ہے اور دیانت دار بھی ہے مگر محنت نہیں کرتا تو اس کا کام بھی ہمیشہ خراب رہے گا.غرض ہر سہ صفات کا ہونا ضروری ہے.فرمایا.کارکن آدمی ہرجگہ جماعت کے اندر مل سکتے ہیں ایسے لوگوں کو ذاتی اخراجات کے واسطے جو کچھ دیا جاوے وہ بھی ناگوار نہیں گذرتا خواہ وہ معمولی واعظ کی تنخواہ سے زیادہ ہو کیونکہ کارکن کوجو کچھ دیا جائے وہ ٹھکانے پر لگتا ہے اس میں کوئی اسراف نہیں.سیکھوانی برادران سیکھوانی برادران میاں جمال الدین، میاں امام الدین، میاں خیر الدین صاحبان کا ایک دوست نے ذکر کیا کہ وہ بھی اس کام کے واسطے رکھے جا سکتے ہیں.حضرت نے فرمایا.بیشک وہ بہت موزوں ہیں.مخلص آدمی ہیں.ہمیشہ اپنی طاقت سے بڑھ کر خدمت کرتے ہیں.تینوں بھائی ایک ہی صفت کے ہیں.میں نہیں جانتا کہ کون ان میں سے دوسروں سے بڑھ کر ہے.محصّلین کے لیے ہدایت فرمایا.بیرون جات میں جو لوگ چندہ لینے کے واسطے بھیجے جاویں ان کو سمجھا دیں کہ چندہ ایسے طور سے وصول کرنا چاہیے

Page 247

کہ لوگ جو کچھ طیب خاطر سے دیں وہ قبول کیا جائے کسی قسم کا اصرار نہ ہو.کوئی شخص ایک پیسہ دے خواہ ایک دھیلہ دے اس کو خوشی کے ساتھ قبول کر لینا چاہیے.کسر صلیب کی حقیقت فرمایا.چند روز سے میرے دل میں خیال تھا کہ کسر صلیب سے کیا مراد ؟یہ بات تو صحیح نہیں ہو سکتی کہ مسیح لکڑی یا پتھر کی صلیبیں توڑتا پھرے.اس سے کچھ حاصل نہیں.بعد سوچنے کے یہی بات دل میں آئی کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ ایک زمانہ ہی ایسا لائے گا کہ اس میں خود بخود آسمان سے ایک ہوا ہی ایسی چلے گی کہ خواہ مخواہ عیسائیت کے بیہودہ مذہب سے لوگوں کے دل ٹھنڈے پڑنے لگ جائیں گے.عیسائیت جیسے مذہب کو دنیا سے مٹانا اور چالیس کروڑ آدمی کی اصلاح کرنا یہ واحد جان کا کام نہیں ہو سکتا.جب تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کے دلوں میں ایسی تحریک نہ ہو.جس سے وہ خود بخود اس مذہب سے بیزار ہوتے چلے جائیں.اور اگر غور سے دیکھو تو یہ کارروائی شروع ہوگئی.لوگ تربیت یافتہ ہوتے جاتے ہیں اور عقلی اور دماغی قوتیں بڑھتی جاتی ہیں.اب ایسی کچی باتوں کو کون مان سکتا ہے.اگر تھوڑا بہت کچھ ایمان ہے تو عورتوں میں ہے اور بس.پرچوں کا تبادلہ جاری رکھنا چاہیے مولوی ثناء اللہ صاحب کے پرچہ اہلحدیث کے تبادلہ میں یہاں سے میگزین اردو جاتا تھا.مینیجر ریویو نے بدیں خیال کہ یہاں اہلحدیث اور دفتروں میں آتا رہتا ہے ضروری نہ سمجھا کہ اس کے ساتھ تبادلہ وہ بھی جاری رکھیں اس واسطے بند کر دیا تھا.جس پر مولوی ثناء اللہ صاحب نے حضرت کے نام ایک کارڈ لکھا کہ کیا یہ تجویز آپ کی منظوری سے ہوئی ہے.اس پر حضرت نے دریافت کیا کہ تبادلہ کیوں بند کیا گیا ہے؟ اور پھر فرمایاکہ تبادلہ جاری رکھنے میں یہ فائدہ ہے کہ مولوی صاحب پر اتمامِ حجّت ہوتا رہے گا اور شاید کوئی بندہ خدا ان کے دفتر میں اس کو پڑھ کر اس سے مستفید ہو جاوے.۱ ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخہ ۵؍ستمبر ۱۹۰۷ءصفحہ ۵،۶

Page 248

۵؍ستمبر ۱۹۰۷ء تمہارے اعمال تمہارے احمدی ہونے پر گواہی دیں آج صبح ۹بجے حضرت روح اللہ کے دست مبارک پر دس بارہ آدمیوں نے دار البرکات کے صحن میں بیعت کی.حضور نے ایک لمبی تقریر فرمائی جس کا خلاصہ عرض ہے.حدیث میں آیا ہے کہ اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ.اب جو تم لوگوں نے بیعت کی تو اب خدا تعالیٰ سے نیا حساب شروع ہوا ہے.پہلے گناہ صدق و اخلاص کے ساتھ بیعت کرنے پر بخشے جاتے ہیں.اب ہر ایک کا اختیار ہے کہ اپنے لیے بہشت بنا لے یا جہنم.انسان پر دو قسم کے حقوق ہیں.ایک تو اللہ کے دوسرے عباد کے.پہلے میں تو اسی وقت نقصان ہوتا ہے جب دیدہ دانستہ کسی اَمر اللہ کی مخالفت قولی یا عملی کی جائے مگر دوسرے حقوق کی نسبت بہت کچھ بچ بچ کے رہنے کا مقام ہے.کئی چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں جنہیں انسان بعض اوقات سمجھتا بھی نہیں.ہماری جماعت کو تو ایسا نمونہ دکھانا چاہیے کہ دشمن پکار اٹھیں کہ گو یہ ہمارے مخالف ہیں مگر ہیں ہم سے اچھے.اپنی عملی حالت کو ایسا درست رکھو کہ دشمن بھی تمہاری نیکی خدا ترسی اور اتقاء کے قائل ہوجائیں.یہ بھی یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی نظر جذرِ قلب تک پہنچتی ہے.پس وہ زبانی باتوں سے خوش نہیں ہوتا.زبان سے کلمہ پڑھنا یا استغفار کرنا انسان کو کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے.جب وہ دل و جان سے کلمہ یا استغفار نہ پڑھے.بعض لوگ زبان سے اَسْتَغْفِرُ اللہَ کرتے جاتے ہیں مگر نہیں سمجھتے کہ اس سے کیا مراد ہے.مطلب تو یہ ہے کہ پچھلے گناہوں کی معافی خلوصِ دل سے چاہی جائے اور آئندہ کے لیے گناہوں سے باز رہنے کا عہد باندھا جائے اور ساتھ ہی اس کے فضل و امداد کی درخواست کی جائے.اگر اس حقیقت کے ساتھ استغفار نہیں ہے تو وہ استغفار کسی کام کا نہیں.انسان کی خوبی اسی

Page 249

میں ہے کہ وہ عذاب آنے سے پہلے اس کے حضور میںجھک جائے اور اس کا امن مانگتا رہے.عذاب آنے پر گڑ گڑانا اور وَ قِنَا وَ قِنَا پکارنا تو سب قوموں میں یکساں ہے.ایسے وقت میں جبکہ خدا کا عذاب چاروں طرف سے محاصرہ کئے ہوئے ہو ایک عیسائی، ایک آریہ، ایک چوہڑا بھی اس وقت پکار اٹھتا ہے کہ الٰہی ہمیں بچائیو.اگر مومن بھی ایسا کرے تو پھر اس میں اور غیروں میں فرق کیا ہوا.مومن کی شان تو یہ ہے کہ وہ عذاب آنے سے قبل خدا تعالیٰ کے کلام پر ایمان لا کر خدا کے حضور گڑ گڑائے.اس بات کو اس نکتہ کو خوب یاد رکھو کہ مومن وہی ہے جو عذاب آنے سے پہلے کلامِ الٰہی پر یقین کر کے عذاب کو وارد سمجھے اور اپنے بچاؤ کے لیے دعا کرے.دیکھو! ایک آدمی جو توبہ کرتا ہے.دعا میں لگا رہتا ہے تو وہ صرف اپنے پر نہیں بلکہ اپنے بال بچوں پر اپنے قریبیوں پر رحم کرتا ہے کہ وہ سب ایک کے لیے بچائے جا سکتے ہیں.ایسا ہی جو غفلت کرتا ہے تو نہ صرف اپنے لیےکرتا ہے بلکہ اپنے تمام کنبے کا بد خواہ ہے.یہ بڑا نازک وقت ہے.خدا تعالیٰ کے غضب کی آگ مشتعل ہے.نہیں معلوم کہ آئندہ موسم طاعون میں کیا ہونے والا ہے.اس کا کلام مجھے اطلاع دیتا ہے کہ آگے سے بڑھ کر مَری پڑے گی.پس مومنو! قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِيْكُمْ نَارًا(التحریم:۷) دعا میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ(الفرقان:۷۸).ایک انسان جو دعا نہیں کرتا.اس میں اور چارپائے میں کچھ فرق نہیں.ایسے لوگوں کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے يَاْكُلُوْنَ كَمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ وَ النَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ(مـحمّد:۱۲) یعنی چارپائیوں کی زندگی بسر کرتے ہیں اور جہنم ان کا ٹھکانا ہے.پس تمہاری بیعت کا اقرار اگر زبان تک محدود رہا تو یہ بیعت کچھ فائدہ نہ پہنچائے گی.چاہیے کہ تمہارے اعمال تمہارے احمدی ہونے پر گواہی دیں.میں ہرگز یہ بات نہیں مان سکتا کہ خدا کا عذاب اس شخص پر وارد ہو جس کا معاملہ خدا تعالیٰ سے صاف ہو.خدا اسے ذلیل نہیں کرتا جو اس کی راہ میں ذلّت اور عاجزی اختیار کرے.یہ سچی اور صحیح بات ہے.

Page 250

مَرنا تو بیشک سب نے ہے مگر یہ موتیں جو آجکل ہو رہی ہیں یہ تو ذلّت کی موتیںہیں.خدا اس سے محفوظ رکھے کہ ایک ابھی دفن نہیں ہوا تھا کہ دوسرا جنازہ تیار ہے.پس راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو.کوٹھڑی کے دروازے بند کر کے تنہائی میں دعا کرو کہ تم پر رحم کیا جائے.اپنا معاملہ صاف رکھو کہ خدا کا فضل تمہارے شامل حال ہو جو کام کرو نفسانی غرض سے الگ ہو کر کرو تا خدا کے حضور اجر پاؤ.حضرت علیؓ کی نسبت روایت ہے کہ ایک کافر نے جس پر قابو پا چکے تھے ان کے منہ پر تھوکا تو آپ نے چھوڑ دیا.اس نے پوچھا یہ کیوں؟ تو فرمایا اب میرے نفس کی بات درمیان میں آگئی.اس نے جب دیکھا کہ یہ لوگ نفسانی کاموں سے اس قدر الگ ہیں تو مسلمان ہوگیا.ایسے ایسے عملی نمونوں سے وہ کام ہو سکتا ہے جو کئی تقریریں اور وعظ نہیں کرتے.۱ بلاتاریخ طلاق فرمایا.جائز چیزوں میں سے سب سے زیادہ بُرا خدا اور اس کے رسول نے طلاق کو قرار دیا ہے اور یہ صرف ایسے موقعوں کے لیے رکھی گئی ہے جبکہ اشد ضرورت ہو.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے جو ربّ ہے کہ سانپوں اور بچھوؤں کے لیے خوراک مہیا کی ہے ویسا ہی ایسے انسانوں کے لیے جن کی حالتیں بہت گری ہوئی ہیں اور جو اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکتے.طلاق کا مسئلہ بنا دیا ہے کہ وہ اس طرح ان آفات اور مصیبتوں سے بچ جاویں جو طلاق کے نہ ہونے کی صورت میں پیش آئیں یا بعض اوقات دوسرے لوگوں کو بھی ایسی صورتیں پیش آجاتی ہیں اور ایسے واقعات ہوجاتے ہیں کہ سوائے طلاق کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا.پس اسلام نے جو کہ تمام مسائل پر حاوی ہے یہ مسئلہ طلاق کا بھی دکھلایا ہے اور ساتھ ہی اس کو مکروہ بھی قرار دیا ہے.رازق اللہ تعالیٰ ہے فرمایا.اصل رازق خدا تعالیٰ ہے.وہ شخص جو اس پر بھروسہ کرتا ہے کبھی رزق سے محروم نہیں رہ سکتا.وہ ہر طرح سے اور ہرجگہ سے اپنے پر ۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۲ مورخہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۶

Page 251

رازق اللہ تعالیٰ ہے فرمایا.اصل رازق خدا تعالیٰ ہے.وہ شخص جو اس پر بھروسہ کرتا ہے کبھی رزق سے محروم نہیں رہ سکتا.وہ ہر طرح سے اور ہرجگہ سے اپنے پر توکل کرنے والے شخص کے لیے رزق پہنچاتا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مجھ پر بھروسہ کرے اور توکل کرے میں اس کے لیے آسمان سے برساتااور قدموں میں سے نکالتا ہوں.پس چاہیے کہ ہرایک شخص خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرے.بیوی پر ظلم کا نتیجہ ایک صاحب کا ذکر تھا.فرمایا.ان کے مجھ کو بہت سے خطوط آئے ہیں کہ میں اکثر بیمار رہتا ہوں اور بہت کمزور ہوگیا ہوں یہاں تک کہ میں اپنا کام بھی اچھی طرح نہیں کر سکتا اور اس لیے مجبوراً مجھے ایک لمبی رخصت لینی پڑے گی مگر اصل بات یہ ہے کہ ظلم کا نتیجہ ہمیشہ خراب ہوتا ہے.وہ اپنی پہلی بیوی پر بہت کچھ سختی کرتے ہیں اور یہ کام خدا کو ناپسند ہے.بہت دفعہ مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے ان کو نصیحت کی.مگر وہ سمجھتے نہیں.میں نے کنایتاً کئی دفعہ ان کو جتایا ہے مگر انہوں نے کوئی خیال نہیں کیا.مگر اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا.ضرور ہے کہ وہ کسی دن اپنے کام سے پچھتائیں اور میری بات کو سمجھیں.۱ ۱۰؍ستمبر۱۹۰۷ء (قبل نماز ظہر) ابتلاؤں کی برکات فرمایا.اصل میں دیکھا گیا ہے کہ ابتلا اور تکالیف کا زمانہ جو انسان پر آتا ہے وہ اس کے واسطے بہت مفید ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں قاعدین پر مجاہدین کو فضیلت دی ہے.مجاہدین دو قسم کے ہیں ایک وہ جو اپنے اوپر خدا تعالیٰ کے راہ میں مشکل کام ڈال لیتے ہیں اور اس کی تکالیف کو برداشت کرتے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جن پر قضاء و قدر سے مشکلات اور تکالیف وارد ہوتی ہیں اور وہ صبر اور تحمل کے ساتھ ان مشکلات کو برداشت کرتے ہیں.جو شخص رات دن اپنے کھانے پینے میں مصروف رہتے ہیں اور اسی طرح ان کی زندگی گذر جاتی ہے اور ان پر کوئی تلخی نہیں آتی کہ وہ صبر کریں تو وہ قاعدین میں داخل ہیں.۱ بدر جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخہ ۱۹؍ستمبر ۱۹۰۷ءصفحہ ۷

Page 252

جس زمانہ کو انسان بسبب تلخی کے بُرا زمانہ کہتا ہے اور اس کو ناگوار جانتا ہے اور نہیں چاہتا کہ ویسا زمانہ اس پر آوے دراصل وہی زمانہ اس کے واسطے اچھا ہوتا ہے بشرطیکہ صبر اور تحمل سے بسر کرے.حسن بصریؒ کا ذکر ہے کہ کسی نے اس سے پوچھا کہ تم کو غم کب ہوتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ جب کوئی غم نہ ہو.سوچ کر دیکھ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب تلخ زندگی مصائب شدائد کی انسان پر پڑتی ہے اور وہ ان کو برداشت کرتا ہے تو اس کے بعد پوشیدہ انعامات وارد ہوتے ہیں.دنیا کی وضع ہی کچھ ایسی بنی ہے کہ اوّل تکلیف ہوتی ہے تو پھر آرام حاصل ہوتا ہے.اچھی طرح کھانے کا مزا اسی وقت ہوتا ہے جبکہ انسان بھوک کی شدت کو برداشت کر چکا ہو جو مزا ٹھنڈے پانی میں روزے دار کو حاصل ہوتا ہے وہ دوسرے کو کہاں نصیب ہو سکتا ہے؟ معمولی طور پر ہر روز کھایا جاتا ہے مگر اس میں وہ لطف نہیں جو لطف اس کھانے میں ہوتا ہے جو مثلاً سفر کے بعد بھوک کی شدت سے حاصل ہوتا ہے.وضع دنیا کی ایسی واقع ہوئی ہے کہ درد کے بعد ہی راحت حاصل ہوتی ہے.۱ ۱۱؍ستمبر ۱۹۰۷ء (قبل نماز ظہر ) فطرت مستقل ہادی نہیں فطرت ایسی چیز نہیں جو مستقل طور پر ہادی ہو سکے کیونکہ وہ شیطان کے قائم مقام مُضِل بھی تو ہوجاتی ہے.فطرت میں توہمات کے داخل ہوجانے سے جو بعض نقص پیدا ہو جاتے ہیں اسی وجہ سے كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ(الروم:۳۳) کہا گیا ہے.مداہنہ بُری مرض ہے کمبخت مکہ والے لوگ بھی مداہنہ کیا کرتے تھے.فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ١ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا(البقرۃ:۱۱) کے یہی معنے ہیں.کمبخت خبیث جو مداہنہ کا گند اپنے اندر رکھتے ہیں ان کا گند نکالنا اچھا ہی ہوتا ہے.۱ بدر جلد ۶ نمبر ۳۷ مورخہ ۱۲؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴نیز الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۹

Page 253

نشان بڑی چیز ہے ساری جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جن باتوں کا اعتراض عیسائی، آریہ اور دوسرے مخالفین اس وقت تک اسلام پر کرتے ہیں اور بے سمجھی سے الزام لگاتے ہیں اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ پھر انہیں باتوں کو از سر نو تازہ کیا جاوے؟ کیا خدا کے پاس اپنے رسول کی نصرت کے لیے اور کوئی ہتھیار نہیں.ان ہتھیاروں کی چوٹ تو جسم پر لگتی تھی مگر اس جگہ قلب پر لگتی ہے.ایک ہی نشان ہزاروں اعتراضوں کو دور کر سکتا ہے.ایک نکتہ مرتد ڈاکٹر نے مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور بابو محمد افضل مرحوم کی موت کا باعث اپنی تفسیر کی مخالفت قرار دیا ہے.اس پر منشی احمد دین صاحب اپیل نویس گوجرانوالہ نے ایک عجیب نکتہ بیان کیا کہ ’’ڈاکٹر صاحب خود بھی تو اپنی تفسیر کے مخالف ہوگئے ہیں.‘‘ ڈاکٹر عبدالحکیم خاں کا دعویٰ حضرت اقدس نے فرمایا.جو شخص اپنے آپ کو مسیح سمجھتا ہے، رسول سمجھتا ہے.رحمۃ للعالمین ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.ہم عبد الحکیم سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا کبھی ایسا بھی اتفاق ہوا ہے کہ ایسا شخص بیس برس تک دجّال کا مرید رہا ہو؟ یہ اس کی کون سی شامت اعمال ہے اور کون سے بُرے کرم اس نے کئے ہیں جو دجّال کی بیعت رہا؟ اس قدر ذلّت اور رسوائی اٹھائی کہ بیس برس تک شیطان کا مرید رہا.جب سے دنیا پیدا ہوئی اس کی نظیر تو پیش کرو کہ ایک شخص مسیح بھی ہو، رسول بھی ہو اور پھر بیس برس تک دجّال کی بیعت رہا ہو.عدم تصنّع اور سادگی کا ثبوت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر جانے کے متعلق فرمایا کہ وہ ہمارا ایک پرانا تقلیدی خیال تھا اور رسمی طور پر براہین احمدیہ میں لکھا گیا تھا اور یہ بات کہ مسیح ناصری فوت ہوگیا ہے اور آنے والا مسیح میں ہوں خدا کی وحی سے ہے اور خدا کا الہام ہے.جس براہین میں یہ لکھا ہے کہ عیسیٰ آسمان پر چلا گیا.اسی میں یہ بھی لکھا ہے اور واضح طور پر لکھا ہے کہ میں مسیح ہوں.جیسے يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَوغیرہ.اگر یہ انسانی کاروبار اور بناوٹی منصوبہ ہوتا تو یہ ظاہراً تناقض کیوں ہوتا؟ اگر تقویٰ ہو اور تھوڑا بہت انصاف ہو تو ایک طرف

Page 254

پرانا رسمی عقیدہ لکھ دینا اور دوسری طرف کل الہامات کا بھی لکھ دینا جو اس عقیدہ کے صریح مخالف ہیں ایک ایسی بات ہے جس سے انسان عدم تصنّع اور سادگی کا استدلال کر سکتا ہے.دیکھو کل الہام مخالف ہیں جیسے یَا عِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ.اِنَّا اَ.نْـزَلْـنَــاہُ قَـرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ.وَبِالْـحَـقِّ اَ.نْزَلْنَاہُ وَ بِالْـحَقِّ نَزَلَ.صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا.بعض انبیاء کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی یہ عجیب حکمت ہوتی ہے کہ ان سے ذہول سر زد ہو جاتا ہے اور وہ ذہول بھی ایک حکمت رکھتا ہے ورنہ سمجھا جاتا کہ بناوٹ سے دعویٰ کر دیا ہے اور اس طرح سے تو سمجھ میں آسکتا ہے کہ جب خزانہ موجود تھا اس وقت دعویٰ نہ کیا اور اب کر دیا.یہ بناوٹ نہیں ہو سکتی.۱ (بعد نمازِ ظہر) ڈاکٹر عبد الحکیم کی غلطی حضرت حکیم الامت سلّمہٗ ربّہٗ نے مرتد ڈاکٹر عبد الحکیم خاں کے ایک خط کا ذکر کیا جس میں وہ لکھتا ہے کہ تمام انبیاء سے غلطیاں ہوتی رہیں ایسے ہی مجھ سےبھی ہوگئیں.حضرت نے فرمایا.مگر ایسی غلطیاں کہ بیس برس تک دجّال کے مرید بنے رہنا ایسی ذلّت اور رسوائی کسے نصیب ہوئی کہ بیس برس تک شیطان کا مرید رہا اور جسے دجّال سمجھتا تھا اس کی بیعت رہا اور پھر خود مسیح ہونے کا دعویٰ کر دیا.حضرت اقدس نے فرمایا.اس خط میں عبد الحکیم گویا یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ میرا دعویٰ غلط ہے میں وہ مسیح نہیں ہوں جس کی نسبت قرآن شریف اور احادیث میں وعدہ ہے.چونکہ وہ مسیح ناصری کی وفات کا اقرار کرتا ہے اس لیے کسی دوسرے مسیح کی آمد کا ہی قائل ہوگا.مگر جب وہ ایسے زمانہ میں جو مقررہ علامتوں کے ساتھ پکارتا ہے نہ آیا تو پھر بتلاؤ وہ کس زمانہ میں ظاہر ہوگا.چودھویں صدی میں سے بھی پچیس برس گذر گئے.نواب صدیق حسن خاں نے بھی لکھا ہے کہ مسیح صدی کے سر پر آئے گا.اگر ابھی تک وہ مسیح ۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۳مورخہ ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۹، ۱۰

Page 255

نہیں آیا تو بقول اس کے یہ صدی ہی خالی گئی.سب نشانات پورے ہوگئے مگر مسیح ابھی تک نہ آیا.احادیث میں لکھا ہے کہ جب مسیح آئے گا تو علماء زمانہ اس کی بہت مخالفت کریں گے کیونکہ وہ ان کی حدیثوں کے خلاف کرے گا.نواب صدیق حسن خاں نے بھی لکھا ہے کہ مولوی لوگ اس پر تکفیر کے فتوے لکھیں گے اور کہیں گے کہ یہ دین اسلام کو تباہ کر رہا ہے.اب عبد الحکیم جو میری نسبت ایسا ویسا لکھتا ہے تو یہ خود پیشگوئیوں کو پورا کر رہا ہے.گالی گلوچ نکالنے اور طرح طرح کے بہتان باندھنے سے یہ مجھ کو جھٹلاتا نہیں بلکہ تصدیق کرتا ہےا ور ان پیشگوئیوں کو پورا کرتا ہے جن میں لکھا ہے کہ اس زمانہ کے علماء مسیح کی بڑی مخالفت کریں گے اور اس کو دین کے تباہ کرنے والا اور مفتری قرار دیں گے.۱ ۱۲؍ستمبر ۱۹۰۷ء (بوقتِ ظہر) مسیح موعودؑ کے لیے علامات کا پورا ہونا فرمایا.سِوَل اخبار میں لکھا ہے کہ روز بروز اب اونٹ بیکار ہوتے جاتے ہیں.کیسی بیّن طور پر قرآن شریف اور حدیث کی تصدیق ہوتی جاتی ہے حدیث میں لکھا ہے.وَلَیُتْـرَکَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْـھَا اور قرآن شریف میں وَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ(التکویر:۵) لکھا ہے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب دنیا میں کوئی مامور من اللہ مبعوث ہوتا ہے تو زمانہ میں جتنی بڑی بڑی کارروائیاں ہوں اور بڑے بڑے انقلاب ظہور میں آویں تو وہ سب اسی کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں.کسر صلیب اور وضع حرب کی حقیقت آجکل جنگ و جدال کو دور کرنے کے لیے جو بڑے بڑے عہدوپیمان ہو رہے ہیں.اور زمانہ خود بخود صلح اور امن کی طرف رجوع کرتا جاتا ہے اس پر فرمایا کہ یَضَعُ الْـحَرْبَ اور یَکْسِـرُ الصَّلِیْبَ سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ ایک شخص ہوگا اور وہ لڑائیوں ۱الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۲

Page 256

میں جاجا کے صلح کراتا پھرے گا اور دو دو چار چار آنہ کی صلیبوں کو توڑتا پھرے گا.کیونکہ اس طرح سے اگر دو چار توڑیں تو سینکڑوں اور بن گئیں.بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ارادۂ الٰہی سے کوئی ہوا ہی ایسی چلے گی اور ایسے اسباب اور وسائل پیدا ہوجائیںگے کہ لڑائی دور ہو جائے گی اور صلیب پرستی جاتی رہے گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگیں دفاعی تھیں فرمایا.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑائیوں کے لیے سبقت نہیں کی تھی.بلکہ ان لوگوں نے خود سبقت کی تھی.خون کئے، ایذائیں دیں، تیرہ برس تک طرح طرح کے دکھ دیئے آخر جب صحابہ کرامؓ سخت مظلوم ہوگئے تب اللہ تعالیٰ نے بدلہ لینے کی اجازت دی جیسے فرمایا.اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا(الـحج:۴۰) وَ قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ (الـبقرۃ:۱۹۱) اس زمانہ کے لوگ نہایت وحشی اور درندے تھے.خون کرتے تھے.جنگ کرتے تھے.طرح طرح کے ظلم اور دکھ دیتے تھے.ڈاکوؤں اور لٹیروں کی طرح ماردھاڑ کرتے پھرتے تھے اور ناحق کی ایذا دہی اور خونریزی پر کمر باندھے ہوئے تھے.خدا نے فیصلہ دیا کہ ایسے ظالموں کو سزا دینے کا اذن دیا جاتا ہے اور یہ ظلم نہیں بلکہ عین حق اور انصاف ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے انہوں نے بڑی بڑی کوششیں کیں.طرح طرح کے منصوبے کئے یہاں تک کہ ہجرت کرنی پڑی مگر پھر بھی انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ تک تعاقب کیا اور خون کرنے کے در پے ہوئے.غرض جب ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدت تک صبر کیا اور مدت تک تکلیف اٹھائی تب خدا نے فیصلہ دیا کہ جنہوں نے تم لوگوں پر ظلم کئے اور تکلیفیں دیں ان کو سزا دینے کا اذن دیا جاتا ہے اور پھر بھی یہ فرما ہی دیا کہ اگر وہ صلح پر آمادہ ہوویں تو تم صلح کر لو.ہمارے نبی کریمؐ تو یتیم، غریب، بے کس پیدا ہوئے تھے وہ لڑائیوں کو کب پسند کر سکتے تھے.۱ ۱الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ۱۰

Page 257

۱۴؍ستمبر ۱۹۰۷ء (بوقت ظہر) ھوالشّافی سید نادر علی شاہ صاحب سب رجسٹرار رئیس چکوال کے بیعت کر لینے کے بعد ذکر امراض پر فرمایا.قبرستان میں جتنے لوگ دفنائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اصل میں یہ سب طبیبوں کی غلطیوںکا ہی نتیجہ ہے بہت کم آدمی ہوں گے جو عمر طبعی تک پہنچے ہوں.عمر طبعی عموماً سو اَسی سال تک سمجھی جاتی ہے.حدیث شریف میں لکھا ہے.مَا مِنْ دَآءٍ اِلَّا لَہٗ دَوَآءٌ یعنی کوئی بیماری نہیں جس کی دوائی موجود نہ ہو اگر اصلی دوا اور علاج ہوتا رہے تو عمر طبعی سے پہلے انسان مَرے کیوں؟ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ انسان ایک نہایت ہی کمزور ہستی ہے.ایک ہی بیماری میں باریک در باریک اَور بیماریاں شروع ہو جاتی ہیں.انسان غلطی سے کب تک بچ سکتا ہے.انسان بڑا کمزور ہے غلطی ہو ہی جاتی ہے.اکثر اوقات تشخیص میں ہی غلطی ہوجاتی ہے اور اگر تشخیص میں نہیں ہوئی تو پھر دوا میں ہو جاتی ہے.غرض انسان نہایت کمزور ہستی ہے غلطی سے خود بخود نہیں بچ سکتا.خدا کا فضل ہی چاہیے.اس کے فضل کے بغیر انسان کچھ چیز نہیں.یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دافع بلیات تو صرف خدا تعالیٰ ہے.ہندو تو پتھروں کی پوجا کرتے ہیں.کبھی نہ کبھی خیال آ ہی جاتا ہوگا کہ اپنے ہی ہاتھوں سے انہیں بنایا ہے اور پھر انہیں کی پوجا کی جاتی ہے.مگر اسباب کی پرستش کرنے والے ان سے بھی زیادہ مشرک ہوتے ہیں.نیچری وغیرہ جو اسباب پر بھروسہ کرتے ہیں اور وہ جو اپنی علمیت و دولت پر گھمنڈ کرتے ہیں وہ خطرناک مقام پر ہوتے ہیں.ہاں اسباب کا تلاش کرنا منع نہیں.قرآن شریف میںلکھا ہے کہ جب جمعہ کی نماز پڑھ لو تو اپنے کام کاج کی تلاش میں لگ جاؤ اور اللہ کریم کا فضل مانگتے رہو.اسباب پر بھروسہ مت کرو.مومن کو چاہیے کہ بظاہر اسباب تلاش کرے اور نظر اللہ تعالیٰ پر رکھے.علم طب پہلے یونانیوں کے پاس تھا.پھر ان سے مسلمانوں کے ہاتھ آیا تو انہوںنے ہر نسخہ

Page 258

سے پہلے ھوالشّافی لکھنا شروع کر دیا اور یہ طریق مسلمانوںکے سوا کسی نے بھی اختیار نہیں کیا.بڑا سعید طبیب وہ ہے جو ایک طرف تو دوا کرے اور دوسری طرف دعا میں مشغول رہے اور یہ سمجھے کہ شفا صرف خدا کے ہاتھ میں ہے.دوسروں پر رحم کرو تا تم پر رحم کیا جاوے فرمایا.شیخ سعدیؒ لکھتے ہیں کہ ’’ایک بادشاہ کو ناروا کی بیماری تھی.اس نے کہا کہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ کریم مجھے شفا بخشے.تو میں نے جواب دیا کہ آپ کے جیل خانہ میں ہزاروں بےگناہ قید ہوں گے ان کی بد دعاؤں کے مقابلہ میں میری دعا کب سنی جا سکتی ہے.تب اس نے سب قیدیوں کو رہا کر دیا اور پھر وہ تندرست ہوگیا.‘‘ غرض خداکے بندوں پر اگر رحم کیا جاوے تو خدا بھی رحم کرتا ہے.جو لوگ دوسروں پر رحم کرتے ہیں ان پر اللہ اور اس کے رسول کو بھی رحم آجاتا ہے.دوسروں کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آنا اور بے جا طور پر مال اکٹھا کرنا اور اسباب پر ہی گرے رہنا بہت بُری بات ہے.تقویٰ اختیار کریں فرمایا.گو اعادہ کلام کا ہوتا ہے مگر چونکہ غفلت لگی ہوئی ہے.ایک طرف وعظ و نصیحت سنی جاتی ہے اور دل میں تقویٰ حاصل کرنے کے لیے جوش پیدا ہوتا ہے مگر پھر غفلت ہوجاتی ہے.اس لیے ہماری جماعت کو یہ بات بہت ہی یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی حالت میں نہ بھلایا جاوے.ہر وقت اسی سے مدد مانگتے رہنا چاہیے.اس کے بغیر انسان کچھ چیز نہیں.خوب یاد رکھو کہ وہ ایک دم میں فنا کر سکتا ہے.طرح طرح کے دکھ اور مصیبتیں موجود ہیں.بے خوف اور نڈر ہونے کا مقام نہیں.اس دنیا میں بھی جہنم ہو سکتا ہے اور بڑے بڑے مصائب آسکتے ہیں.خوب یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی کسی کی مصیبت میں کام نہیں آسکتا.اور کوئی شریک ہمدردی نہیں کر سکتا جب تک خدا خود دستگیری نہ کرے اور اپنے فضل سے آپ اس مصیبت کو دور نہ کرے.اسی واسطے ہر ایک کو چاہیے کہ خدا کے ساتھ پوشیدہ علاقہ رکھے.جو شخص جرأت کے ساتھ گناہ، فسق و فجور اور معصیت میں مبتلا ہوتا ہے وہ خطرناک حالت میں ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کا عذاب اس کی تاک میں ہوتا ہے.اگر بار بار اللہ کریم کا رحم چاہتے ہو تو تقویٰ

Page 259

اختیار کرو اور وہ سب باتیں جو خدا کو ناراض کرنے والی ہیں چھوڑ دو.جب تک خوفِ الٰہی کی حالت نہ ہو تب تک حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتا.کوشش کرو کہ متقی بن جاؤ.جب وہ لوگ ہلاک ہونے لگتے ہیں جو تقویٰ اختیار نہیں کرتے تب وہ لوگ بچا لیے جاتے ہیں جو متقی ہوتے ہیں.ایسے وقت ان کی نافرمانی انہیں ہلاک کر دیتی ہے اور ان کا تقویٰ انہیں بچا لیتا ہے.انسان اپنی چالاکیوں، شرارتوں اور غداریوں کے ساتھ اگر بچنا چاہے تو ہرگز نہیں بچ سکتا.کوئی انسان بھی نہ اپنی جان کی حفاظت کر سکتا ہے نہ مال و اولاد کی حفاظت کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اور کامیابی حاصل کر سکتا ہے.جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو.خدا تعالیٰ کے ساتھ پوشیدہ طور پر ضرور تعلق رکھنا چاہیے اور پھر اس تعلق کو محفوظ رکھنا چاہیے.عقلمند انسان وہی ہے جو اس تعلق کو محفوظ رکھتا ہے اور جو اس تعلق کو محفوظ نہیں رکھتا وہ بیوقوف ہے جو اپنی چترائی پر نازاں ہے وہ ہلاک کیا جائے گا اور کبھی بامراد اور کامیاب نہیں ہوگا.دیکھو یہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں نظر آرہا ہے اتنا بڑا کارخانہ کیا یہ خدا کے پوشیدہ ہاتھ کے سوائے چل سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.یاد رکھو! جو امن کی حالت میں ڈرتا ہے وہ خوف کی حالت میں بچایا جاتا ہے اور جو خوف کی حالت میں ڈرتا ہے تو وہ کوئی خوبی کی بات نہیں ایسے موقع پر تو کافر مشرک بےدین بھی ڈرا کرتے ہیں.فرعون نے بھی ایسے موقع پر ڈر کر کہا تھا قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِيْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ(یونس:۹۱) اس سے صرف اتنا فائدہ اسے ہوا کہ خدا نے فرمایا کہ تیرا بدن تو ہم بچا لیں گے مگر تیری جان کو اب نہیں بچائیں گے آخر خدا نے اس کے بدن کو ایک کنارے پر لگا دیا.ایک چھوٹے سے قد کا وہ آدمی تھا.غرض جب گناہ اور معصیت کی طرف انسان ترقی کرتا ہے تو پھر لَايَسْتَاْخِرُوْنَ۠ سَاعَةً وَّ لَا يَسْتَقْدِمُوْنَ۠(الاعراف:۳۵)والا معاملہ ہوتا ہے.جب اَجلِ بَلا آجاتی ہے تو پھر آگے پیچھے نہیں ہوا کرتی.انسان کو چاہیے کہ پہلے ہی سے خدا کے ساتھ تعلق رکھے مگر ؎ خیال زلف تو بستن نہ کارِ خامان است کہ زیر سلسلہ رفتن طریقِ عیاری است

Page 260

انبیاء کا ہی گروہ ایسا گروہ ہوتا ہے کہ وہ بے سلسلہ چلتے ہی نہیں.جو لوگ انبیاء کی زندگی میں فسق و فجور میں مبتلا رہتے ہیں اور عاقبت کی کچھ فکر نہیں کرتے اور راستبازوں پر حملے کرتے ہیں ایسوں ہی کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَ لَا يَخَافُ عُقْبٰهَا(الشمس:۱۶) اس سے مراد یہ ہے کہ جب ایک موذی بے ایمان کو اللہ کریم مارتا ہے تو پھر کچھ پروا نہیں رکھتا کہ اس کے عیال اطفال کا گذارہ کس طرح ہوگا اور اس کے پسماندہ کیسی حالت میں بسر کریں گے؟ ستاروں کا ٹوٹنا ایک شخص نے ستاروں کے ٹوٹنے کی نسبت سوال کیا.فرمایا.جہاں تک پتا لگ سکتا ہے.مفسرین یہی لکھتے ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ سے پہلے بہت ستارے ٹوٹے تھے اور یہاں بھی شاید ۱۸۸۵ء میں ہمارے دعویٰ سے پہلے بہت سے ستارے ٹوٹے تھے.ایک لشکر کا لشکر اِس طرف سے اُس طرف چلا جاتا تھا اور اُس طرف سے اِس طرف چلا آتا تھا.وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰى (النجم:۲)کا بھی یہی مطلب ہے.جب کبھی خدا تعالیٰ کا کوئی نشان زمین پر ظاہر ہونے والا ہوتا ہے تو اس سے پہلے آسمان پر کچھ آثار ظاہر ہوتے ہیں.بڑے بڑے مفسر اور اہل کشف بھی یہی بیان کرتے ہیں اور قرآن شریف میں بھی یہی لکھا ہے.مجھے ایک خط آیا تھا کہ ’’ایک ستارہ ٹوٹا جس سے بہت روشنی ہوگئی اور پھر ایسی خطرناک آواز آئی کہ لوگ دہشت ناک ہوگئے اور بڑا خوف ہوا‘‘ اور پھر نہیں معلوم کہ آئندہ ابھی کیا کیا ہونے والا ہے؟ آئے دن نئے نئے حوادث ہوتے رہتے ہیں.کوئی سال ایسا نہیں گذرتا جس میں کوئی نہ کوئی حادثہ واقع نہ ہو.ستاروں کا ٹوٹنا ظاہر کرتا ہے کہ زمین پر بھی اب کچھ نشانات ظاہر ہونے والے ہیں اور پھر خدا نے بھی مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ میں بہت سے عجیب نشان ظاہر کروں گا کچھ اوّل میں اور کچھ آخر میں.زلزلہ کی خبر بھی اس نے دی ہے.گذشتہ کی نسبت زیادہ سخت طاعون پڑنے کی بھی اطلاع دی ہے.معلوم نہیں کہ اس سال وہ خطرناک طاعون پڑے گی یا آئندہ سال میں مگر وہ خطرناک بہت ہوگی.

Page 261

خدا تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کا گُر اس پر سید نادر علی شاہ صاحب نے عرض کی کہ ’’ایسے موقع پر کیا کرنا چاہیے؟‘‘ فرمایا.توبہ و استغفار کرنی چاہیے.بغیر توبہ استغفار کے انسان کر ہی کیا سکتا ہے.سب نبیوں نے یہی کہا ہے کہ اگر توبہ استغفار کرو گے تو خدا بخش دے گا.سو نمازیں پڑھو اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے لیے خدا تعالیٰ سے مدد چاہو اور پچھلے گناہوں کی معافی مانگو اور بار بار استغفار کرو تاکہ جو قوت گناہ کی انسان کی فطرت میں ہے وہ ظہور میں نہ آوے.انسان کی فطرت میں دو طرح کا ملکہ پایا جاتا ہے.ایک تو کسب خیرات اور نیک کاموں کے کرنے کی قوت ہے اور دوسرے بُرے کاموں کو کرنے کی قوت.اور ایسی قوت کو روکے رکھنا یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور یہ قوت انسان کے اندر اس طرح سے ہوتی ہے جس طرح کہ پتھر میں ایک آگ کی قوت ہے.استغفار کے معنے اور استغفار کے یہی معنے ہیں کہ ظاہر میں کوئی گناہ سرزد نہ ہو اور گناہوں کے کرنے والی قوت ظہور میں نہ آوے.انبیاء کے استغفار کی بھی یہی حقیقت ہے کہ وہ ہوتے تو معصوم ہیں مگر وہ استغفار اس واسطے کرتے ہیں کہ تا آئندہ وہ قوت ظہور میں نہ آوے اور عوام کے واسطے استغفار کے دوسرے معنے بھی لیے جاویں گے کہ جو جرائم اور گناہ ہوگئے ہیں ان کے بد نتائج سے خدا بچائے رکھے اور ان گناہوں کو معاف کر دے اور ساتھ ہی آئندہ گناہوں سے محفوظ رکھے.بہرحال یہ انسان کے لیے لازمی اَمر ہے وہ استغفار میں ہمیشہ مشغول رہے.یہ جو قحط اور طرح طرح کی بَلائیں دنیا میں نازل ہوتی ہیں ان کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ لوگ استغفار میں مشغول ہوجائیں.مگر استغفار کا یہ مطلب نہیں ہے جو اَسْتَغْفِرُ اللہَ اَسْتَغْفِرُ اللہَ کہتے رہیں.اصل میں غیر ملک کی زبان کے سبب لوگوں سے حقیقت چھپی رہی ہے.عرب کے لوگ تو ان باتوں کو خوب سمجھتے تھے.مگر ہمارے ملک میں غیر زبان کی وجہ سے بہت سی حقیقتیں مخفی رہی ہیں.بہت سے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے اتنی دفعہ استغفار کیا.سو تسبیح یا ہزار تسبیح پڑھی مگر جو استغفار کا مطلب اور معنے پوچھو تو بس کچھ

Page 262

نہیں.ہکّا بکّا رہ جاویں گے.انسان کو چا ہیے کہ حقیقی طور پر دل ہی دل میں معافی مانگتا رہے کہ وہ معاصی اور جرائم جو مجھ سے سرزد ہو چکے ہیں ان کی سزا نہ بھگتنی پڑے اور آئندہ دل ہی دل میں ہر وقت خدا سے مدد طلب کرتا رہے کہ آئندہ نیک کام کرنے کی توفیق دے اور معصیت سے بچائے رکھے.خوب یاد رکھو کہ لفظوں سے کچھ کام نہیں بنے گا.اپنی زبان میں بھی استغفار ہو سکتا ہے کہ خداپچھلے گناہوں کو معاف کرے اور آئندہ گناہوں سے محفوظ رکھے اور نیکی کی توفیق دے اور یہی حقیقی استغفار ہے.کچھ ضرورت نہیں کہ یونہی اَسْتَغْفِرُ اللہَ اَسْتَغْفِرُ اللہَ کہتا پھرے اور دل کو خبر تک نہ ہو.یادرکھو کہ خدا تک وہی بات پہنچتی ہے جو دل سے نکلتی ہے.اپنی زبان میں ہی خدا سے بہت دعائیں مانگنی چاہئیں.اس سے دل پر بھی اثر ہوتا ہے.زبان تو صرف دل کی شہادت دیتی ہے.اگر دل میںجوش پیدا ہو اور زبان بھی ساتھ مل جائے تو اچھی بات ہے.بغیر دل کے صرف زبانی دعائیں عبث ہیں ہاں دل کی دعائیں اصلی دعائیں ہوتی ہیں.جب قبل از وقتِ بَلا انسان اپنے دل ہی دل میں خدا سے دعائیں مانگتا رہتا ہے اور استغفار کرتا رہتا ہے تو پھر خدا وند رحیم و کریم ہے وہ بَلا ٹل جاتی ہے.لیکن جب بَلا نازل ہوجاتی ہے پھر نہیں ٹلاکرتی.بَلا کے نازل ہونے سے پہلے دعائیں کرتے رہنا چاہیے.اور بہت استغفار کرنا چاہیے.اس طرح سے خدا بَلا کے وقت محفوظ رکھتا ہے.ہماری جماعت کو چاہیے کہ کوئی امتیازی بات بھی دکھائے.اگر کوئی شخص بیعت کر کے جاتا ہے اور کوئی امتیازی بات نہیں دکھاتا.اپنی بیوی کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہے جیسا پہلے تھا اور اپنے عیال و اطفال سے پہلے کی طرح ہی پیش آتا ہے تو یہ اچھی بات نہیں.اگر بیعت کے بعد بھی وہی بد خلقی اور بدسلوکی رہی اور وہی حال رہا جو پہلے تھا تو پھر بیعت کرنے کا کیا فائدہ؟ چاہیے کہ بیعت کے بعد غیروں کو بھی اور اپنے رشتہ داروں اور ہمسائیوں کو بھی ایسا نمونہ بن کر دکھاوے کہ وہ بول اٹھیں کہ اب یہ وہ نہیں رہا جو پہلے تھا.خوب یاد رکھو اگر صاف ہو کر عمل کرو گے تو دوسروں پر تمہارا ضرور رعب پڑے گا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 263

کا کتنا بڑا رعب تھا.ایک دفعہ کافروں کو شک پیدا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بددعا کریں گے تو وہ سب کافر مل کر آئے اور عرض کی کہ حضور بد دعا نہ کریں.سچے آدمی کا ضرور رعب ہوتا ہے.چاہیے کہ بالکل صاف ہو کر عمل کیا جاوے اور خدا کے لیے کیا جاوے تب ضرور تمہارا دوسروں پر بھی اثر اور رعب پڑے گا.۱ قومی ترقی کا راز ۱۴؍ستمبر ۱۹۰۷ءکو قادیان میں ایک بیرسٹر صاحب تشریف لائے تھے جن کا نام نامی مسٹر فضل حسین صاحب ہے.ان کے ساتھ ہی میاں حسین بخش صاحب پنشنر رئیس بٹالہ بھی تھے حضرت اقدس سے بھی ملاقات ہوئی.اثنائے گفتگو میں بعض باتیں ایسی تھیں جو نہایت مؤثر اور اس زندہ ایمان کا ثبوت تھیں جو حضرت اقدس کو اللہ تعالیٰ پر ہے.اس لیے میں اس حصہ کو یہاں درج کرتا ہوں.مسٹر فضل حسین.آریوں نے اپنا یہ اصل قرار دیا ہے کہ جب تک بہت سی پابندیاں دور نہ ہوں، قومی ترقی نہیں ہو سکتی.حضرت اقدسؑ.یہ غلط خیال ہے.ترقی کا یہ اصول نہیں ہے.اسلام نے کیسے ترقی کی.کیا بےقیدی اور آزادی سے یا پابندیٔ شریعت اور اطاعت سے.بعض مسلمانوں کو بھی ایسا ہی خیال ہو رہا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ بےقیدی سے ترقی ہوگی مگر میں اس راہ کو سخت مضر اور خطرناک سمجھتا ہوں.مسلمان جب ترقی کریں گے خدا پرستی سے کریں گے جس طرح پر اوائل میں اسلام نے ترقی کی وہی خدا اب بھی موجود ہے.میری جماعت ہی کو دیکھو! مجھے کافر و دجّال بنایا گیا.میرے قتل کے فتوے دیئے.راہ و رسم بند کیا.مسلمان میرے دشمن ہوگئے.یہاں تک فتوے دے کر کہ کوئی مسلمان ہم سے کشادہ پیشانی سے بھی پیش نہ آئے.مگر آپ ہی بتائیں.اس مخالفت کا کیا نتیجہ ہوا؟ اب میری جماعت چارلاکھ کے قریب ہے جس میں ڈاکٹر ہیں، حکماء ہیں، وکلاء ہیں، تاجر ہیں، ہرپیشہ اور طبقہ کے لوگ موجود ہیں.یہ مخالفت ہمارا کیا بگاڑ سکی ہے.خدا داری چہ غم داری.۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخہ ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳،۴

Page 264

میں تو یہی ایمان رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر انسان ہلاک ہو جاتا ہے اور اگر اسے نہ چھوڑے تو ساری دنیا اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی.اگر خالص سونا لینا ہو تو پابندی شریعت سے ملے گا.ہاں اگر رأس المال بھی کھونا ہو تو پھر بے قیدی اختیار کرے.خدا تعالیٰ کے لیے اگر کوئی بات نہ ہو تو کوئی ساتھ نہیں دیتا.دیکھو لاجپت رائے کی گرفتاری پر اخباروںمیں آریوں کی طرف سے کیا نکلا یہی کہ ہمارا تعلق نہیں.بیرسٹر.آریوں کے نزدیک اس وقت مصلحت وقت یہی تھی.حضرت اقدسؑ.یہ کیا مصلحت وقت تھی.یہ تو بزدلی ہے.صحابہؓ نے ایسا نہیں کیا.حضرتؐکے صحابہؓ ذبح ہوگئے مگر حق کہنے سے نہ رکے.انہوں نے ایسی کشور کشائی کی کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.اس کی وجہ کیا تھی؟ ان میں اخلاص تھا صدق اور وفا تھی.اس قسم کے مصلحت اندیش دہریئے ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ پر وثوق رکھتے ہیں اور خدا کےلیے ایک بات کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی نصرت آئے گی.اس لیے وہ ایسا نہیں کرتے کہ حق بات کے کہنے سے رکیں.مجھ سے اگر سوال ہو کہ تم مسیح موعود کا دعویٰ کرتے ہو تو پھر میں بتاؤں کہ اس کا کیا جواب دیتا ہوں سوا صدق اور مردانہ ہمت کے کام نہیں چلتا.ہم پر اس قدر مقدمے کئے گئے مگر ان کا انجام کیا ہوا؟ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان باتوں سے ڈر کر ہم نے قدم پیچھے ہٹایا.یہ تو شرک ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا ہے اور وہ اپنے مخلص بندوں کی مدد فرماتا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو سچے دل سے لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کہتا ہے خدا تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے.اسلام ہی ایک مذہب ہے جس سے یہ جوہر پیدا ہوتا ہے.یہ لوگ ملک و ملّت کے دشمن ہیں.ان کی صحبت سے بچنا چاہیے.گورنمنٹ کے ہم مسلمانوں پر بہت بڑے احسان ہیں.ہمارا فرض ہے کہ اس کی شکر گذاری کے لیے ہر وقت تیار رہیں.بیرسٹر.میں نے فلسفہ پر بہت سا وقت ضائع کیا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ ان کا فلسفہ کمزور ہے.حضرت اقدسؑ.پھر ہم تو یہ کہتے ہیں.؎ اے کہ خواندی حکمت یونانیان حکمت ایمانیان را ہم بخوان

Page 265

بیرسٹر.ہاں ان میں ایثار نفس ہے.حضرت اقدسؑ.میں اس بات کو نہیں مانتا میں تو یہ جانتا ہوں اِنَّـمَا الْاَعْـمَالُ بِالنِّیَّاتِ کیا چوروں میں باہم وفاداری کے تعلقات نہیں ہوتے.ایک خود پھنس جاتا ہے مگر دوسرے کو بچانا چاہتا ہے کنجریوں میں بھی ناپاک تعلقات کے رنگ میں ہمدردی اور ایثار کا اظہار کیا جاتا ہے مگر کیا ان باتوں میں کوئی خوبی ہو سکتی ہے؟۱ اس لیے کہ ان تعلقات کی بنا خدا کے لیے نہیں ہوتی.سچا اور پاک تعلق جو ہوتا ہے اس کے نمونے اسلام میںپاؤ گے کیونکہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر جو محبت ہوتی ہے وہ صرف اسلام ہی میں ہے.بیرسٹر.عملی حالت کو دیکھنا چاہیے.حضرت اقدسؑ.یہ تو سچ ہے کہ عملی حالت کو دیکھنا چاہیے مگر پہلے نیت بھی تو دیکھو آپ تو قانون دان ہیں.قانون میں بھی نیت کا سوال ہوتا ہے.ظاہری ترقیات سے یہ کبھی نتیجہ نہیں ہوا کرتا کہ نیک نیتی بھی ہے.بعض ظالم طبع لوگ ایسے بھی گذرے ہیں کہ انہوں نے عالمگیر سلطنتیں پیدا کر لی تھیں مگر لوگ لعنت بھیجتے ہیں.اس واسطے یہ بالکل سچی بات ہے کہ اِنَّـمَا الْاَعْـمَالُ بِالنِّیَّاتِ.خیر یہ ترقیاں بھی نظر آجائیں گی اور ان کی حقیقت کھل جائے گی.خدا تعالیٰ نے مجھ پر جو کچھ ظاہر کیا ہے اور جس کی میں پیشگوئی کر چکا ہوں کہ ابھی اس زمانہ کے لوگ زندہ ہوں گے جو یہ۲ تباہ ہوجائیں گے.ایسی ترقیوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا.ترقی وہی مبارک ہوگی جو خدا تعالیٰ کے احکام کی پابندی سے ہو.۳ ۱ معلوم ہوتا ہے یہاں ’’ہرگز نہیں‘‘ کے الفاظ کاتب کی غلطی سے رہ گئے ہیں.(مرتّب) ۲حضور کا اشارہ آریوں کی طرف ہے جن کا اوپر ذکر ہوا.(مرتّب) ۳الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۷ مورخہ ۶؍مارچ۱۹۰۸ء صفحہ ۶

Page 266

۱۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء صاحبزادہ مبارک احمد کی وفات پر حضرت اقدس کی تقریر ابتلاؤں کی حکمت فرمایا.قضاء و قدر کی بات ہے.اصل مرض سے (مبارک احمد نے ) بالکل مخلصی پالی تھی.بالکل اچھا ہوگیا تھا.بخار کا نام نشان بھی نہ رہا تھا.یہی کہتا رہا کہ مجھے باغ میں لے چلو.باغ کی خواہش بہت کرتا تھا سو آگیا.اللہ تعالیٰ نے اس کی پیدائش کے ساتھ ہی موت کی خبر دے رکھی تھی.تریاق القلوب میں لکھا ہے ’’اِنِّیْ اَسْقُطُ مِنَ اللہِ وَاُصِیْبُہٗ ‘‘ مگر قبل از وقت ذہول رہتا ہے اور ذہن منتقل نہیںہوا کرتا.پھر ایک جگہ پیشگوئی ہے.’’ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان کو قبول کر.‘‘ پھر کئی دفعہ یہ الہام بھی ہوا ہے ’’اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا.‘‘ اور پھر اہل بیت کو مخاطب کر کے فرمایا ہے يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ اور پھر فرمایا ہے يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ اللّٰہَ خَلَقَكُمْ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے لیے یہ بڑا تطہیر کا موقع ہے.ان کو بڑے بڑے تعلقات ہوتے ہیں اور ان کے ٹوٹنے سے رنج بہت ہوتا ہے.میں تو اس سے بڑا خوش ہوں کہ خدا کی بات پوری ہوئی.گھر کے آدمی اس کی بیماری میں بعض اوقات بہت گھبرا جاتے تھے.میں نے ان کو جواب دیا تھا کہ آخر نتیجہ موت ہی ہونا ہے یا کچھ اَور ہے.دیکھو ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المؤمن:۶۱) یعنی اگر تم مجھ سے مانگو تو قبول کروں گا اور دوسری جگہ فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ......وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ(البقرۃ:۱۵۶تا۱۵۸) اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کی طرف سے بھی امتحان آیا کرتے ہیں.مجھے بڑی خوشی اس بات کی بھی ہے کہ میری بیوی کے منہ سے سب سے پہلا کلمہ جو نکلا ہے وہ یہی تھا کہ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ.کوئی نعرہ نہیں مارا.کوئی چیخیں نہیں ماریں.اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں انسان اسی واسطے آتا ہے کہ آزمایا

Page 267

جاوے.اگر وہ اپنی منشا کے موافق خوشیاں مناتا رہے اور جس بات پر اس کا دل چاہے وہی ہوتا رہے تو پھر ہم اس کو خدا کا بندہ نہیں کہہ سکتے.اس واسطے ہماری جماعت کو اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے دو طرح کی تقسیم کی ہوئی ہے اس لیے اس تقسیم کے ماتحت چلنے کی کوشش کی جاوے.ایک حصہ تو اس کا یہ ہے کہ وہ تمہاری باتوں کو مانتا ہے اور دوسرا حصہ یہ ہے کہ وہ اپنی منواتا ہے جو شخص ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ خدا ہمیشہ اس کی مرضی کے مطابق کرتا رہے اندیشہ ہے کہ شاید وہ کسی وقت مرتد ہوجاوے.کوئی یہ نہ کہے کہ میرے پر ہی تکلیف اور ابتلا کا زمانہ آیا ہے بلکہ ابتدا سے سب نبیوں پر آتا رہا ہے.حضرت آدم علیہ السلام کا بیٹا جب فوت ہوا تھا تو کیا انہیں غم نہیں ہوا تھا.ایک روایت میں لکھا ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ بیٹے فوت ہوئے تھے.آخر بشریت ہوتی ہے.غم کا پیدا ہونا ضروری ہے.مگر ہاں صبر کرنے والوں کو پھر بڑے بڑے اجر ملا کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کی ساری کتابوں کا منشا یہی ہے کہ انسان رضا بالقضاء سیکھے.جو شخص اپنے ہاتھ سے آپ تکلیف میں پڑتا ہے اور خدا کے لیے ریاضات اور مجاہدات کرتا ہے وہ اپنے رگ پٹھے کی صحت کا خیال بھی رکھ لیتا ہے اور اکثر اپنی خواہش کے موافق ان اعمال کو بجا لاتا ہے اور حتی الوسع اپنے آرام کو مدّ ِنظر رکھتا ہے.مگر جب خدا کی طرف سے کوئی امتحان پڑتا ہے اور کوئی ابتلا آتا ہے تو وہ رگ اور پٹھے کا لحاظ رکھ کر نہیں آتا خدا کو اس کے آرام اور رگ پٹھے کا خیال مدّ ِنظر نہیں ہوتا.انسان جب کوئی مجاہدہ کرتا ہے تو وہ اپنا تصرف رکھتا ہے مگر جب خدا کی طرف سے کوئی امتحان آتا ہے تو اس میں انسان کے تصرف کا دخل نہیں ہوتا.انسان خدا کے امتحان میں بہت جلد ترقی کر لیتا ہے اور وہ مدارج حاصل کر لیتا ہے جو اپنی محنت اور کوشش سے کبھی حاصل نہیں کر سکتا اسی واسطے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن:۶۱) میں اللہ تعالیٰ نے کوئی بشارت نہیں دی مگر وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ الآیۃ(البقرۃ:۱۵۶) میں بڑی بڑی بشارتیں دی ہیں اور فرمایا ہے کہ یہی لوگ ہیںجن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی بڑی برکتیں اور رحمتیں ہوں گی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں.

Page 268

غرض یہی طریق ہے جس سے انسان خدا کو راضی کر سکتا ہے نہیں تو اگر خدا کے ساتھ شریک بن جاوے اور اپنی مرضی کے مطابق اسے چلانا چاہے تو یہ ایک خطرناک راستہ ہوگا جس کا انجام ہلاکت ہے.ہماری جماعت کو منتظر رہنا چاہیے کہ اگر کوئی ترقی کا ایسا موقع آجاوے تو اس کو خوشی سے قبول کیا جاوے.آج رات کو ( مبارک احمد نے) مجھے بُلایا اور اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا اور مصافحہ کیا جیسے اب کہیں رخصت ہوتا ہے اور آخری ملاقات کرتا ہے.جب یہ الہام اِنِّیْ اَسْقُطُ مِنَ اللہِ وَاُصِیْبُہٗ ہوا تھا تو میرے دل میں کھٹکا ہی تھا.اسی واسطے میں نے لکھ دیا تھا کہ یا یہ لڑکا نیک ہوگا اور روبخدا ہوگا اور یا یہ کہ جلد فوت ہوجائے گا.قرآن شریف پڑھ لیا تھا.کچھ کچھ اردو بھی پڑھ لیتا تھا اورجس دن بیماری سے افاقہ ہوا.میرا سارا اشتہار پڑھا اور یا کبھی کبھی پرندوں کے ساتھ کھیلنے میں مشغول ہو جاتا تھا.فرمایا.بڑا ہی بد قسمت وہ انسان ہے جو خدا تعالیٰ کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتا ہے.خدا کے ساتھ تو دوست والا معاملہ چاہیے.کبھی اس کی مان لی اور کبھی اپنی منوالی.؎ ز بخت خویش برخوردار باشی بشرط آن کہ با من یار باشی ہمارے گاؤں میں ایک شخص تھا.اس کی گائے بیمار ہوگئی.صحت کے لیے دعائیں مانگتا رہا ہوگا مگر جب گائے مَر گئی تو وہ دہریہ ہوگیا.خدا نے اپنی قضاء و قدر کے راز مخفی رکھے ہیں اور اس میں ہزاروں مصالح ہوتے ہیں.میرا تجربہ ہے کہ کوئی انسان بھی اپنے معمولی مجاہدات اور ریاضات سے وہ قرب نہیں پاسکتا جو خدا کی طرف سے ابتلا آنے پر پا سکتا ہے.زور کا تازیانہ اپنے بدن پر کون مارتا ہے.خدا بڑا رحیم و کریم ہے.ہم نے تو آزمایا ہے ایک تھوڑا سا دکھ دے کر بڑے بڑے انعام و اکرام عنایت فرماتا ہے.وہ جہان ابدی ہے.جو لوگ ہم سے جدا ہوتے ہیں وہ تو واپس نہیں آسکتے ہاں ہم جلدی ان کے پاس چلے

Page 269

جاویں گے.اس جہان کی دیوار کچی ہے اور وہ بھی گرتی جاتی ہے سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہاں سے انسان نے لے ہی کیا جانا ہے اور پھر انسان کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ کب جانا ہے.جب جائے گا بھی تو بے وقت جائے گا اور پھر خالی ہاتھ جائے گا.ہاں اگر کسی کے پاس اعمال صالحہ ہوں تو وہ ساتھ ہی جائیں گے.بعض آدمی مَرنے لگتے ہیں تو کہتے ہیں میرا اسباب دکھا دو اور ایسے وقت میںمال و دولت کی فکر پڑ جاتی ہے.ہماری جماعت کے لوگ بھی اس طرح کے ابھی بہت ہیں جو شرطی طور پر خدا کی عبادت کرتے ہیں.بعض لوگ خطوںمیںلکھتے ہیں کہ اگر ہمیں اتنا روپیہ مل جاوے یا ہمارا یہ کام ہوجاوے تو ہم بیعت کرلیں گے.بیوقوف اتنا نہیں سمجھتے کہ خدا کو تمہاری بیعت کی ضرورت کیا ہے.ہماری جماعت کا ایمان تو صحابہ والا چاہیے جنہوں نے اپنے سر خدا کی راہ میں کٹوا دیئے تھے.اگر آج ہماری جماعت کو یورپ اور امریکہ میں اشاعت اسلام کے لیے جانے کو کہا جاوے تو اکثر یہی کہہ دیں گے جی ہمارے بال بچوں کو تکلیف ہوگی.ہمارے گھروں کا ایسا حال ہے.یہ ہے وہ ہے.اِنَّ بُيُوْتَنَا عَوْرَةٌ(الاحزاب:۱۴) اور ہم نے یہ تو نہیں کہنا کہ جا کر سر کٹوائیں بلکہ یہی ہے کہ دین کے لیے سفر کی تکالیف اور صدمے اٹھاویں مگر اکثر یہی کہہ دیں گے.جی گرمی بہت ہے زیادہ تکلیف کا اندیشہ ہے مگر خدا کہتا ہے کہ جہنم کی گرمی اس سے بھی زیادہ ہوگی.نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا(التوبۃ:۸۱) صحابہؓ کا نمونہ مسلمان بننے کے لیے پکا نمونہ ہے.ابھی تو جماعت پر مجھے یہ بھی اطمینان نہیں کہ اس کا نام میں جماعت رکھوں.ابھی تو یہ حشو ہے.ایسا انسان تو ہمیں نہیں چاہیے جو صرف خوشی میں ہی خدا کو پکارے.ایسے شخص پر تو ذرا خدا کا امتحان آیا اور طرح طرح کی مایوسیاں اور بے امیدیاں ظاہر کرنی شروع کر دیں.مگر خد اتعالیٰ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ(العنکبوت:۳) کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف اتنا کہہ دینے سے ہی کہ ہم ایمان لائے چھوٹ جائیں گے اور ان کا امتحان نہ لیا جاوے گا.امتحان کا ہونا تو ضروری ہے اور امتحان بڑی چیز ہے.سب پیغمبروں نے امتحان سے ہی درجے پائے ہیں.یہ زندگی

Page 270

دنیا کی بھروسہ والی زندگی نہیں ہے.کچھ ہی کیوں نہ ہو آخر چھوڑنی پڑتی ہے.مصائب کا آنا ضروری ہے.دیکھو ایوبؑکی کہانی میں لکھا ہے کہ طرح طرح کی تکالیف اسے پہنچیں اور بڑے بڑے مصائب نازل ہوئے اور اس نے صبر کئے رکھا.ہمیں یہ بہت خیال رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو ہماری جماعت صرف خشک استخواں کی طرح ہو.بعض آدمی خط لکھتے ہیں تو ان سے مجھے بو آجاتی ہے شروع خط میں تو وہ بڑی لمبی چوڑی باتیں لکھتے ہیں کہ ہمارے لیے دعا کرو کہ ہم اولیاء اللہ بن جاویں اور ایسے اور ویسے ہو جاویں اور اخیر پر جا کر لکھ دیتے ہیں کہ فلاں ایک مقدمہ ہے اس کے لیے ضرور دعا کریں کہ فتح نصیب ہو.اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ اصل میں یہ ایک مقدمہ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے خط لکھا گیا تھا.خدا کی رضا مندی مد نظر نہ تھی.اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے دو طرح کی تقسیم کی ہوئی ہے.کبھی تو وہ اپنی منوانا چاہتا ہے اور کبھی انسان کی مان لیتا ہے.یہ نہیں ہوتا کہ ہمیشہ انسان کی مرضی کے مطابق ہی کام ہوا کریں.اگر ایسا سمجھا جائے کہ خدا کی مرضی ہمیشہ انسان کے ارادوں کے موافق ہو تو پھر امتحان کوئی نہ رہا.کون چاہتا ہے کہ آرام، عیش و عشرت اور ہر طرح کے سکھ سے دکھ میں مبتلا ہوؤں.جس کے تین چار بیٹے ہوں، وہ کب چاہتا ہے کہ یہ مَر جائیں اور کون چاہتا ہے کہ میری تمام خوشیاں دکھوں اور مصیبتوں سے تبدیل ہوجاویں.غرض خدا نے امتحان کو انسان کی ترقی کے لیے اور یا اس کی بد گوہری ظاہر کرنے کے لیے مقرر کیا ہے.بہت لوگ امتحان کے وقت طرح طرح کی باتیں بنانے لگ جاتے ہیں اور طرح طرح کے باطل توہمات اور وساوس انہیں اٹھا کرتے ہیں مگر اصلی بات یہ ہے کہ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ١ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌۢ١ۙ۬ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ(البقرۃ: ۱۱).یاد رکھو خدا کا ساتھ بڑی چیز ہے.اگر فرض بھی کر لیں کہ نہ کوئی بیٹا رہے نہ کوئی مال و دولت رہے پھر بھی خدا بڑی دولت ہے.اس نے یہ کبھی نہیں کیا کہ جو اس کے ہو کر رہتے ہیں ان کو بھی تباہ کر دیا ہو.اس کے امتحان میں استقلال اور ہمت سے کام لینا چاہیے.یاد رکھو کہ امتحان ہی وہ چیز ہے

Page 271

جس سے انسان بڑے بڑے مدارج حاصل کر سکتا ہے.نریاں نمازاں اور دنیا کے لیے ٹکراں کچھ چیز نہیں.مومن کو چاہیے کہ خدا کی قضا و قدر کے ساتھ شکوہ نہ کرے اور رضا بالقضا پر عمل کرنا سیکھے اور جو ایسا کرتا ہے میرے نزدیک وہی صدیقوں، شہیدوں اور صالحوں میں سے ہے.جان سے بڑھ کر اور تو کوئی چیز نہیں اس کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے اور یہی وہ بات ہے جو ہم چاہتے ہیں.فرمایا.ہمیشہ ایسا ہوتا رہتا ہے کہ انسان جہاں چاہتا ہے کہ بیمار بچ جاوے وہاں غلطیاں ہو جاتی ہیں.اس پر ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نے عرض کی کہ چند دن ہوئے حضور نے فرمایا تھا کہ خواب میں دیکھا ہے کہ اس مکان میں موت ہونے والی ہے اور بکری ذبح کی گئی اور ان دنوں میں مولوی نور الدین صاحب چونکہ بیمار تھے اس لیے ان کی نسبت خطرہ پڑ گیا تھا اور نواب محمد علی خاں صاحب اور ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب اور میں ہم تینوں اس بات کے گواہ ہیں.فرمایا.تقدیر دو طرح کی ہوتی ہے ایک کو تقدیر معلق کہتے ہیں اور دوسری کو تقدیر مبرم کہتے ہیں.ارادۂ الٰہی جب ہو چکتا ہے تو پھر اس کا تو کچھ علاج نہیں ہوتا.اگر اس کا بھی کچھ علاج ہوتا تو سب دنیا بچ جاتی.مبرم کے علامات ہی ایسے ہوتے ہیں کہ دن بدن بیماری ترقی کرتی جاتی ہے اور حالت بگڑتی چلی جاتی ہے.دیکھو نو دن کا تپ ٹوٹ گیا تھا بالکل نام و نشان باقی نہ رہا تھا مگر پھر دوبارہ چڑھ گیا.یہ تو خدا نے نہیںکہا تھا کہ بخار ٹوٹنے کے بعد زندہ بھی رہے گا.خدا کی دونوں پیشگوئیاں پوری ہونی تھیں.بخار بھی ٹوٹ گیا.اور خورد سالی میںفوت بھی ہوگیا.کچھ مدت گذری کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک جگہ پانی بہہ رہا ہے اور مبارک اس میں گر گیا ہے.بہتیرا دیکھا اور غوطے بھی لگائے مگر تلاش کرنے پر نہ ملا.یہ خواب ہمیشہ میرے مد نظر رہا ہے.سید میر حامد شاہ صاحب نے عرض کی کہ حضور میری والدہ نے آج صبح کو خواب میں دیکھا تھا کہ حضور

Page 272

کے چار روشن ستارے ہیں.ایک ان میں سے ٹوٹ کر زمین کے اندر چلا گیا ہے.پھر خلیفہ ڈاکٹر رشید الدین صاحب نے عرض کیا کہ مبارک احمد کو لوگ اکثر ’’ولی ولی ‘‘ کر کے پکارا کرتے تھے.فرمایا.ہاں ولی وہی ہوتا ہے جو بہشتی ہو.میاں مبارک احمد کی قبر دوسری قبروں سے کسی قدر فاصلہ پر ہے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا.بعض اوقات اگر باپ خواب دیکھے تو اس سے مراد بیٹا ہوتا ہے اور اگر بیٹا خواب دیکھے تو اس سے باپ مراد ہوتا ہے.ایک دفعہ میں خواب میں یہاں (بہشتی مقبرہ ) آیا اور قبر کھودنے والوں کو کہا کہ میری قبر دوسروں سے جدا چاہیے دیکھو جو میری نسبت تھا وہ میرے بیٹے کی نسبت پورا ہوگیا.۱ ۱۸؍ستمبر ۱۹۰۷ ء۲ (بوقتِ سیر) ورزش جسمانی حضرت اقدس نے فرمایا.حکیم لکھتے ہیں کہ ریاضاتِ بدنی ادویہ کی مشق سے بہتر ہوتی ہیں.ایک الہام فرمایا.مبارک احمد کی فوتیدگی سے دو دن پہلے یہ الہام بھی ہوا تھا.’’.لَا عِلَاجَ وَ لَا یُـحْفَظُ.‘‘ فرمایا.براہین احمد یہ میں ایک یہ الہام بھی درج ہے.’’اِیْلِیْ اِیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَانِیْ.اے خدا رحم کر‘‘ یہ کسی خطرناک ابتلا پر دلالت کرتا ہے.معلوم نہیں اس کے پورا ہونے کا کون سا زمانہ ہے.ہماری جماعت بہت کمزور ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ یقین کی طرف ترقی کریں بدظنّی کی طرف زیادہ مائل ہوجاتے ہیں.مجھے اس بات کا بہت خیال رہتا ہے کہ کسی کو ٹھوکر نہ لگے.جس خدا نے اتنی ۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخہ ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۵،۶ ۲ ۱۸؍ستمبر کی ڈائری کا کچھ حصہ اس واسطے درج کیا گیا ہے کہ الحکم ایک دن دیر کر کے شائع ہوتا ہے.(ایڈیٹر )

Page 273

Page 274

گوہ کا کھانا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز رکھا ہے مگر خود کھانا پسند نہیں فرمایا.یہ اسی طرح کی بات ہے جیسا کہ شیخ سعدی نے فرمایا ہے.؎ سعدیا حب وطن گرچہ حدیث است درست نتوان مرد بہ سختی کہ درین جا زادم بد امنی کی جگہ پر احمدی کا کردار سرحد پار کے علاقہ جات سے ایک جگہ سے چند احمدیوں کا ایک خط حضرت کی خدمت میںپہنچا کہ اس جگہ بد امنی ہے لوگ آپس میں ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں.کوئی پرسان نہیں.چند ملاں ہم کو قتل کرنا چاہتے ہیں کیا آپ کی اجازت ہے کہ ہم بھی ان کو قتل کرنے کی کوشش کریں؟ حضرت نے فرمایا کہ ایسا مت کرو.ہر طرح سے اپنی حفاظت کرو لیکن خود کسی پر حملہ نہ کرو.تکالیف اٹھاؤ اور صبر کرو.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ تمہارے لیے کوئی انتظام احسن کر دے.جو شخص تقویٰ کرتا ہے اور صبر کرتا ہے.خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے.اضطراری حالات کے بعض مسائل (۱) آبکاری کی تحصیلداری ایک دوست جو محکمہ آبکاری میں نائب تحصیلدار ہیں ان کا خط حضرت کی خدمت میں آیا اور انہوں نے دریافت کیا کہ کیا اس قسم کی نوکری ہمارے واسطے جائز ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ اس وقت ہندوستان میں ایسے تمام امور حالت اضطرار میں داخل ہیں.تحصیلدار یا نائب تحصیلدار نہ شراب بناتا ہے نہ بیچتا ہے نہ پیتا ہے.صرف اس کی انتظامی نگرانی ہے اور بلحاظ سرکاری ملازمت کے اس کا فرض ہے.ملک کی سلطنت اور حالات موجودہ کے لحاظ سے اضطراراً یہ اَمر جائز ہے.ہاں خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ انسان کے واسطے اس سے بھی بہتر سامان پیدا کرے.گورنمنٹ کے ماتحت ایسی ملازمتیں بھی ہوسکتی ہیں جن کا ایسی باتوں

Page 275

سے تعلق نہ ہو اور خدا تعالیٰ سے استغفار کرتے رہنا چاہیے.(۲) ننگوں کے ساتھ میل جول افریقہ سے ایک دوست نے بذریعہ تحریر حضرت سے دریافت کیا کہ اس جگہ کے اصلی باشندے مرد و زن بالکل ننگے رہتے ہیں اور معمولی خورد و نوش کی اشیاء کا لین دین ان کے ساتھ ہی ہوتا ہے تو کیا ایسے لوگوں سے ملنا جلنا گناہ تو نہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ تم نے تو ان کو نہیں کہا کہ ننگے رہو وہ خود ہی ایسا کرتے ہیں.اس میں تم کو کیا گناہ؟ وہ ایسے ہی ہیں جیسے کہ ہمارے ملک میں بعض فقیر اور دیوانے ننگے پھرا کرتے ہیں.ہاں ایسے لوگوں کو کپڑے پہننے کی عادت ڈالنے کی کوشش کرنی چاہیے.ایسے ہی لوگوں کی نسبت یہ بھی سوال کیا گیا کہ چونکہ ملک افریقہ میں غریب لوگ بھی ہیں جو نوکری پر بآسانی سستے مل سکتے ہیں.اگر ایسے لوگوں سے کھانا پکوایا جائے تو یہ کیا جائز ہے؟ یہ لوگ حرام حلال کی پہچان نہیں رکھتے.فرمایا.اس ملک کے حالات کے لحاظ سےجائز ہے کہ ان کو نوکررکھ لیاجائے اور اپنے کھانے وغیرہ کے متعلق ان سے احتیاط کرائی جائے.(۳) ایسی عورتوں سے نکاح یہ بھی سوال ہوا کہ کیا ایسی عورتوں سے نکاح جائز ہے؟ فرمایا.اس ملک میں اور ان علاقوںمیں بحالت اضطرار ایسی عورتوں سے نکاح جائز ہے لیکن صورت نکاح میں ان کو کپڑے پہنانے اور اسلامی شعار پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے.نوٹوں پر کمیشن حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں ایک صاحب کا سوال پیش ہوا کہ نوٹوں کے بدلے روپیہ لینے یا دینے کے وقت یا پونڈ یا روپیہ توڑانے کے وقت دستور ہے کہ کچھ پیسے زائد لیے یا دیئے جاتے ہیں کیا اس قسم کا کمیشن لینا یا دینا جائز ہے؟ حضرت نے فرمایا.یہ جائز ہے اور سود میں داخل نہیں.ایک شخص وقت ضرورت ہم کو نوٹ بہم

Page 276

پہنچا دیتا ہے یا نوٹ لے کر روپے دے دیتا ہے تو اس میں کچھ ہرج نہیں کہ وہ کچھ مناسب کمیشن اس پر لے لے.کیونکہ نوٹ یا روپیہ یا ریزگاری کے محفوظ رکھنے اور تیار رکھنے میں وہ خود بھی وقت اور محنت خرچ کرتا ہے.فاسقہ کا حق وراثت ایک شخص نے بذریعہ خط حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ ایک شخص مثلاً زید نام لا ولد فوت ہوگیا ہے.زید کی ایک ہمشیرہ تھی جو زید کی حینِ حیات میں بیاہی گئی تھی.بہ سبب اس کے کہ خاوند سے بن نہ آئی اپنے بھائی کے گھر میں رہتی تھی اور وہیں رہی یہاں تک کہ زید مَر گیا.زید کے مَرنے کے بعد اس عورت نے بغیر اس کے کہ پہلے خاوند سے باقاعدہ طلاق حاصل کرتی ایک اور شخص سے نکاح کر لیا جو کہ ناجائز ہے.زید کے ترکہ میں جو لوگ حقدار ہیں کیا ان کے درمیان اس کی ہمشیرہ بھی شامل ہے یا اس کو حصہ نہیں ملنا چاہیے؟ حضرت نے فرمایا کہ اس کو حصہ شرعی ملنا چاہیے کیونکہ بھائی کی زندگی میں وہ اس کے پاس رہی اور فاسق ہوجانے سے اس کا حق وراثت باطل نہیں ہو سکتا.شرعی حصہ اس کو برابر ملنا چاہیے باقی معاملہ اس کا خدا کے ساتھ ہے.اس کا پہلا خاوند بذریعہ گورنمنٹ باضابطہ کارروائی کر سکتا ہے.اس کے شرعی حق میں کوئی فرق نہیں آسکتا.انبیاء کے مصائب فرمایا.انبیاء کے سوانح اور حالات میں بعض ایسے امور ہوتے ہیں کہ کفّار کے واسطے موجب ٹھوکر ہوجاتے ہیں.مگر اس میں قصور ان کفّار کا ہوتا ہے کیونکہ وہ صرف ایک واقعہ کو پکڑ لیتے ہیں اور باقی تمام باتوں کو چھوڑ دیتے ہیں.انصاف یہ ہے کہ تمام امور کو یکجائی نظر سے دیکھا جائے.انبیاء پر جو مصائب آتے ہیں ان میں بھی اللہ تعالیٰ کے ہزار ہا اسرار ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت سے مصائب آتے تھے.جنگ احد میں ایک روایت ہے کہ آپ کو ستر تلواروں کے زخم لگے تھے اور مسلمانوں کی ظاہری حالت خراب دیکھ کر کفّار کو بڑی خوشی ہوئی.چنانچہ ایک کافر نے یہ یقین کر کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐکے اصحاب کبار سب شہید ہوگئے ہوں گے بآواز بلند پکار کر کہا کہ کیا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم

Page 277

میں ہے؟ آنحضرتؐنے کہا کہ خاموش رہو اس کا جواب نہ دو.خاموشی سے اسے خوشی ہوئی کہ فوت ہوگئے ہوںگے اس واسطے جواب نہیں آیا.پھر اسی طرح اس نے حضرت ابو بکرؓ کے متعلق آواز دیا.تب بھی ادھر سے خاموشی اختیار کی.پھر اس نے حضرت عمرؓ کے متعلق آواز دیا.حضرت عمرؓسے نہ رہا گیا.انہوں نے کہا کمبخت کیا بکتا ہے.سب زندہ ہیں.ایسی تلخیوں کا دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے مگر ان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۱ فرمایا کہ اب اس کے بعد کفّار ہم پر چڑھائی نہ کریں گے بلکہ ہم کفّار پر چڑھائی کریں گے.مکہ سے نکلنے کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسی تلخی کا وقت تھا.ہمارے مخالف اس بات پر خوش ہوتے ہوں گے کہ ان کا بیٹا مَر گیا.مگر اس میں تو پیشگوئی پوری ہوئی ہے اور نیز خدا کے ساتھ جو زندگی ہوتی ہے وہ مصائب اور شدائد کے ساتھ ملی جلی ہوتی ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کتنے ہی لڑکے فوت ہوئے تھے.ایسا ہی کفّار نے اس وقت بھی خوشیاں منائی ہوں گی.دشمن میں ہمدردی کی طاقت سلب ہو جاتی ہے مگر آخری فیصلہ خدا کے پاس ہے اور تمام باتوں کو ملاکر یکجائی نظر سے دیکھنا چاہیے کہ انجام کیا ہوتا ہے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم لوگوں کو اسی سنّت پر لائے جو قرآن کریم میں مرقوم ہے کیونکہ پہلے تمام انبیاء پر مصائب شدائد پڑتے رہے.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ تم پر ان آزمائشوں کا پڑنا ضروری ہے جو پہلوں پر پڑیں.ان امتحانوں میں پاس ہونے کے بعد تم سچے مومن کہلا سکتے ہو.آنحضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبکہ اپنی خواب کی بنا پر حج کے واسطے گرمی میں سفر کیا تھا اور پھر اس سال حج نہ ہوا تو یہ اَمر بہتوں کے واسطے موجب ابتلا ہوا تھا مگر اس کے بعد خدا تعالیٰ نے بہت ساری فتوحات دیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مصائب سب سے بڑھ کر تھے تمام انبیاء پر مصائب اور تکالیف پڑیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو تکالیف آئیں وہ سب سے بڑھ کر تھیں حضرت عیسیٰ کا وقت بھی بہت تھوڑا تھا صرف تین سال لوگوں کو تبلیغ کی وہ بھی اکثر حصہ ۱غزوہ خندق کے بعد الفاظ معلوم ہوتا ہے سہواً رہ گئے ہیں.(مرتّب)

Page 278

گمنامی میں گذر گیا صرف ایک مصیبت واقعہ صلیب کی ان پر پڑی.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت سخت مصائب پڑے.تیرہ سال تک بڑے صبر اور استقلال کے ساتھ آپ نے مکہ میں زندگی بسر کی اور ہر طرح کا دکھ اٹھایا اور آخر نہایت مجبوری کی حالت میں ہجرت کی.آپؐکی تکالیف سب سے بڑھ کر تھیں.آنحضرتؐکی کامیابی سب سے بڑھ کر تھی مگر آپؐکو جو کامیابی نصیب ہوئی وہ بھی سب سے بڑھ کر تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے اصحاب دیئے گئے جنہوں نے آپؐکی خاطر جانیں دے دیں اور اس کو فخر سمجھا، لیکن جب حضرت عیسٰیؑ کے اصحاب کو دیکھتے ہیں تو ایک نے تیس روپے لے کر اپنے نبی کو بیچ ڈالا گویا وہ اس کا مرشد نہ تھا غلام تھا.دوسرے نے منہ پر لعنت کی.حضرت موسٰی کے ساتھیوں نے کہا کہ جا تو اور تیرا خدا کافروں سے لڑائی کرو.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ حضرت موسٰی کو وعدہ کی زمین بھی اپنی عمر میں دیکھنی نصیب نہ ہوئی.مسیح موعودؑ تمام انبیاء کا مظہر ہے فرمایا.اللہ تعالیٰ نے ہمارا نام آدمؑبھی رکھا ہے، نوحؑبھی رکھا موسٰی بھی رکھا ہے، داؤدؑ، سلیمانؑ، عیسٰیؑ، محمدؐ غرض بہت سے انبیاء کے نام ہم کو دیئے ہیں اور پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ جَرِیُّ اللہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَآءِ جس میں یہ اشارہ ہے کہ مسیح موعود تمام انبیاء گذشتہ کا مظہر ہے.فرمایا.ہمارے مخالف مولوی ہم پر اس وجہ سے فتویٰ کفر لگاتے ہیں کہ ہم نے عیسٰیؑ ہونے کا دعویٰ کیا ہے.مگر خدا نے تو ہمارا نام محمدؐ بھی رکھا ہے وہ اس وجہ سے کیوںکفر کا فتویٰ نہیں لگاتے.کیا ان کے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ حضرت عیسٰیؑ سے کم ہے یا ان کو عیسیٰ سے بہت محبت ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ان کے دل میں کوئی غیرت باقی نہیں رہی.

Page 279

جماعت کمزور ہے کسی شخص کے مرتد ہونے والا خواب جو گذشتہ اخبار میں چھپ چکا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت بہت کمزور ہے.اکثر نادان لوگ بد ظنی کے قریب چلے جاتے ہیں.اور تھوڑی بات پر ٹھوکر کھاتے ہیں.اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے.آمین بدیہی اور نظری باتیں حافظ احمد اللہ صاحب نے عرض کیا کہ حضور کا ایک الہام جو اخبار بدر ۲۰؍ستمبر ۱۹۰۶ء میں چھپا تھا اس طرح سے ہے مَاۤ اَنَا اِلَّا کَالْقُرْاٰنِ وَسَیَظْھَرُ عَلٰی یَدَیَّ مَا ظَھَرَ مِنَ الْفُرْقَانِ.اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف میں چونکہ آیات محکمات کے ساتھ آیاتِ متشابہات بھی ہیں.اسی کے موافق مامور من اللہ کا حال و قال ہے.بعضی بعضی باتیں بدیہی ہیں اور بعضی نظری.فرمایا.یہ درست ہے.چند فقہی مسائل (۱) بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتا ہے کہ کاشت کاروں سے جبکہ کام کی کثرت مثل تخم ریزی و درودگی ہوتی ہے.ایسے ہی مزدوروں سے جن کا گذارہ مزدوری پر ہے روزہ نہیں رکھا جاتا ان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟ فرمایا.اَلْاَعْـمَالُ بِالنِّیَّاتِ.یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں.ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے.اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتا ہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے.پھر جب میسر ہو رکھ لے.(۲) اور وَ عَلَى الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ (البقرۃ:۱۸۵) کی نسبت فرمایا کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جو طاقت نہیں رکھتے.(۳) اور نصف شعبان کی نسبت فرمایا کہ یہ رسوم حلوا وغیرہ سب بدعات ہیں.۱ ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخہ ۲۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۶،۷

Page 280

۱۹؍ستمبر ۱۹۰۷ء (بوقتِ ظہر) حضور کے متعلق ایک شخص کی پیشگوئی پیسہ اخبار مورخہ ۱۸؍ستمبر ۱۹۰۷ء میں شائع شدہ دہلی کے ایک شخص نور احمد نامی کا مندرجہ ذیل مراسلہ حضرت اقدس کی خدمت میں پڑھ کر سنایا گیا.’’پچھلے سال اکتوبر کے مہینہ میں افسر الاطباء جناب حافظ محمد اجمل خاں صاحب کے دولت خانہ میں بموجودگی جناب نواب شجاع الدین صاحب رئیس لوہارو، خان بہادر غلام حسن خان صاحب آنریری مجسٹریٹ و رئیس دہلی، نواب مرزا اکبر علی خاں صاحب، حاجی عبد الغنی و دیگر معززین جناب مولانا مولوی میر کرامت علی خاں صاحب نے فرمایا تھا کہ اب کے طاعون فروری سے زور پکڑے گا اور اپریل، مئی میںیہاں تک زور ہوگا کہ نوے ہزار فی ہفتہ اموات طاعون سے ہوں گی ۲۴؍اپریل صبح ۵۱۴ بجے اٹلی میں زلزلہ آئے گا.آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ دلی میں بھی طاعون ہوگا اور افراتفری پھیلے گی لیکن جس محلہ میں آپ کا مسکن ہے وہاں طاعون نہیں ہوگا.جس طاعون کے مریض کومیں چھوؤں گاوہ طاعون سے نہیں مَرے گا.چنانچہ یہ پیشگوئی من و عن پوری ہوئی.فراش خانہ میں حضرت کا مکان ہے وہاں طاعون نہیں ہوا.اور یہ بھی سنا گیا ہے کہ جن بیماروں کو آپ نے تعویذ دیا وہ بچ گئے.چنانچہ ولایت علی اور قمر الدین سوداگران صدر بازار دہلی کا بیان ہے کہ ساٹھ مریضوں کو تعویذ پلائے گئے سب کے سب بچ گئے.اب کہ طاعون کے متعلق جو پیشگوئی کی گئی ہے برائے اندراج پیسہ اخبار ارسال خدمت ہے.پیشنگوئی متعلقہ طاعون بابت سال ۱۹۰۷ء و ۱۹۰۸ء.پنجاب میں اب کے طاعون کا پچھلے سال جیسا زور نہیں ہوگا البتہ ممالک مغربی و شمالی میں بہت زور ہوگا.دلی میں بھی گذشتہ سال سے زیادہ ہوگا.پنجاب کے ایک بہت بڑے مذہبی لیڈر جن کو دعویٰ ہے کہ ان کو طاعون نہیں ہو سکتا.طاعون سے انتقال کریں گے.ان کے مرید اس واقعہ سے متاثر ہو کر اپنے کئے سے پشیمان ہوں گے.ہندوستان سے

Page 281

طاعون دور نہیں ہوگا جب تک کہ اصلی مسیح موعود یعنی پرنس ایڈورڈ خلف جناب پرنس آف ویلز و نبیرہ حضور ملک معظم شاہ ایڈورڈ ہندوستان میں بطور وائسرائے نہیں آئیں گے.(نیاز مند نور احمد خریدار روزانہ پیسہ اخبار معرفت ایجنٹ دہلی )۱ یہ مراسلہ سن کر حضرت اقدس نے فرمایا.پیشگوئیاں تو وہ ہوتی ہیں جو قبل از وقت وقوع اخباروں اور رسالوں کے ذریعہ سے عام طور پر شائع ہوں اور دنیا میں ان کی عام طور پر شہرت ہو.آجکل کے لوگوں کی زبانی شہادتوںکا کیا بھروسہ ہے.ہمارے مخالفوں کی اس وقت عجیب حالت ہو رہی ہے.تھوڑے دنوں کی بات ہے کہ ایک جگہ آٹھ آدمیوں نے قَسم کھا کے بیان کیا کہ ہم دیکھ آئے ہیں جو مجھے جذام ہوگیا ہے.زبانی شہادتوں پر تو بڑی بڑی کرامتیں لوگوں میں مشہور ہو جایا کرتی ہیں حالانکہ اصلیت کچھ بھی نہیں ہوتی.فرمایا.یہ اخبار تو رکھنے کے لائق ہے.اس کی پہلی پیشگوئی کی نسبت صرف زبانی شہادتوں کو ہم کافی نہیں سمجھتے.ہاں یہ ایک پیشگوئی ہے جو اس اخبار میں درج ہے.اب خود بخود سچائی ظاہر ہوجاوے گی.اس نے بڑا ہی ظلم کیا ہے جو دلی میں ہزاروں آدمی طاعون سے مَر گئے اور اس نے ان کو چھوا تک بھی نہیں.زبانی شہادتیں آجکل کے لوگوں کی قابل قدر نہیں البتہ اس کی یہ پیش گوئی محفوظ رکھنے کے لائق ہے.یہ کیسی حیلہ سازی ہے کہ جو پیشگوئی کرتا ہے وہ تو چپ ہے اور اس کی بجائے ایک دوسرا شخص شائع کرتا ہے.دیکھو جتنی پیشگوئیاں ہم کرتے ہیں خود ہی لکھتے اور شائع کرواتے ہیں.اصل میں قرون ثلاثہ۲ کا حال کمال پر پہنچ چکا ہے.اس زمانہ میں جھوٹ تو حلوا بے دُود سمجھا جاتا ہے.ہم پر بڑے بڑے افترا کئے گئے اور طرح طرح کے بہتان لگائے گئے.عدالتوں میں ہم پر طرح طرح کے جھوٹے الزام ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور ان لوگوں نے ہمارے برخلاف آتمارام اور ۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخہ ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰ ۲غالباً یہ لفظ ’’قرونِ سابقہ‘‘ ہوگا جو کاتب کی غلطی سے ’’ثلاثہ‘‘ لکھا گیا.واللہ اعلم بالصواب(مرتّب)

Page 282

چندولال کے سامنے کتنے جھوٹ بولے.فسق و فجور کی کوئی حد نہیں رہی اور خاص جھوٹ میں تو ان لوگوں نے وہ کمال حاصل کیا ہے کہ اگر لاکھ آدمی بھی مل کر شہادت دیں تو اعتبار نہیں ہو سکتا.شیخ یعقوب علی صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ تمہارا ذمہ ہے کہ پیسہ اخبار کی طرف اصلیت کو دریافت کرنے کے لیے ایک خط لکھو بلکہ میں کہتا ہوں کہ خود ہی ایک دو آدمی کرامت علی کے پاس دلی چلے جاؤ اور اس کو یہ اخبار دکھا دو.کسی شخص نے عرض کی کہ منشی قاسم علی اور ڈاکٹر محمد اسماعیل دلی میں موجود ہیں اور بڑے مخلص ہیں انہیں کو لکھا جاوے.حضرت نے مولوی محمد احسن صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا.ہم تو اسی وقت آدمی بھیجنے کو بھی تیار تھے مگر خیر انہیں کو لکھ دو اور تاکیداً لکھ دو کہ ہمارا خط دیکھتے ہی خود اس کے پاس جائیں اور اخبار دکھا دیں.اگر وہ اقرار کرے تو بھی اس سے لکھوا لیں اور اگر انکار کرے تو بھی لکھوا لیں.منشی قاسم علی اور ڈاکٹر محمد اسمٰعیل ہمارے خط کو دیکھتے ہی اس کے پاس جاویں اور پوری کوشش سے کام لے کر اس سے اقرار لیں.ایسی چور کارروائی ٹھیک نہیں ہے.ان کو تاکیداً لکھ دو کہ خود جا کر اس سے اقرار لیویں اور اس کے ہاتھ سے لکھوائیں.یہ تو بڑی فیصلہ کی بات ہے.گویا تمام دنیا کو ایک فیصلہ نے ہی چھڑا دیا ہے.اس کے پاس ضرور خود جا کر اس کی تصدیق کرانی چاہیے.معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرنے کے لیے ایسی پیشگوئیاں کر دیتے ہیں مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَ اللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ(البقرۃ:۷۳) ایک ہفتہ تک پتا لگ جائےگا کہ اصلیت کیا ہے؟ چاہیے کہ یہی اخبار ان کو بھیج دیا جاوے.ایسا نہ ہو کہ وہ وہاں سے اخبار ہی تلاش کرتے پھریں.کرامت علی کے پاس جا کر اخبار کی وہ جگہ اسے دکھلائیں جہاں پیشگوئی درج ہے اور اس کو کہہ دیں کہ ایک بڑی جماعت کے ساتھ تمہارا مقابلہ ہے.اس کی تصدیق ہم کرنے آئے ہیں.اور وہ اس بات کی بھی اچھی طرح سے تصدیق کر لیں کہ وہ کون سے ساٹھ آدمی ہیں جن کو چھونے سے ان کی طاعون جاتی رہی اور وہ تندرست ہوگئے.

Page 283

خوشنودی کے چند الہامات فرمایا.کئی دنوں سے ابتلاؤں کا سامنا تھا.بیس پچیس دن رات تو میں سویا بھی نہیں.آج ذرا سی میری آنکھ لگ گئی تو یہ فقرہ الہام ہوا.’’خدا خوش ہوگیا‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کریم اس بات سے بہت خوش ہوا ہے کہ اس ابتلا میں میں پورا اترا ہوں اور اس الہام کا یہی مطلب ہے کہ اس ابتلا میں تو پورا اترا.اس کے بعد پھر آنکھ لگ گئی تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت خوشخط خوبصورت کاغذ میرے ہاتھ میں ہے جس پر کوئی پچاس ساٹھ سطریں لکھی ہوئی ہیں.میں نے اس کو پڑھا ہے مگر اس میں سے یہ فقرہ مجھے یاد رہا ہے کہ ’’یَا عَبْدَ اللہِ اِنِّیْ مَعَکَ ‘‘ یعنی اے خدا کے بندے میں تیرے ساتھ ہوں اور اس کو پڑھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ گویا خدا کو دیکھ لیا.دیکھو ہمارے ساتھ تو خدا کےیہ معاملے ہیں اور یہ ہیں جو ہماری ہلاکت کی پیشگوئیاں کرتےہیں.اگر خدا کو اپنے دین کا بیڑا غرق کر دینا منظور ہے تو جو چاہے سو کرے.اس کو کوئی روک نہیں سکتا.مگر یہاں تو اس نے بڑے بڑے وعدے دیئے ہوئے ہیں.ایک طرف خدا تو یہ فرماتا ہے وَلَکَ نُرِیْٓ اٰیَاتٍ وَّ نَـھْدِمُ مَا یَعْمُرُوْنَ.اُرِیْـحُکَ وَلَا اُجِیْحُکَ وَ اُخْرِجُ مِنْکَ قَوْمًا.اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْـحُ الَّذِیْ لَا یُضَاعُ وَقْتُہٗ.کَمِثْلِکَ دُرٌّ لَّا یُضَاعُ.لَکَ دَرَجَۃٌ فِی السَّمَآءِ وَ فِی الَّذِیْنَ ھُمْ یُبْصِـرُوْنَ.(یعنی میں تجھے آرام دوں گا اور تیرا نام نہیں مٹاؤں گا اور تجھ سے ایک بڑی قوم پیدا کروں گا اور تیرے لیے ہم بڑے بڑے نشان دکھلا دیں گے اور ہم ان عمارتوں کو ڈھا دیں گے جو بنائی جاتی ہیں.۱ تو وہ بزرگ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیںکیا جائے گا اور تیرے جیسا موتی ضائع نہیں ہو سکتا.آسمان پر تیرا بڑا درجہ ہے اور نیز ان لوگوں کی نگاہ میںجن کو آنکھیں دی گئی ہیں.) ۱ یہ فقرہ کہ ’’تیرے لیے ہم بڑے بڑے نشان دکھلا دیں گے اور ہم ان عمارتوں کو ڈھا دیں گے جو بنائی جاتی ہیں.‘‘ ترجمہ کی ترتیب کے لحاظ سے سب سے پہلے ہونا چاہیے.معلوم ہوتا ہے کہ کاتب نے غلطی سے بعد میں لکھ دیا ہے.دراصل یہ الہامی عبارت کے پہلے فقرہ کا ترجمہ ہے.(مرتّب)

Page 284

مگر یہ کہتے ہیں کہ اس کی تمام جماعت پاش پاش ہوجاوے گی اور یہ خود بھی طاعون سے ہلاک ہوجائے گا.توفّی کے معنی فرمایا.ایک دفعہ دلی میں تین شخص ہمارے پاس آئے اور ان میں سے ایک نے کہا تھا کہ تم دعویٰ کرتے ہو کہ مسیح ناصری فوت ہوچکا اور آنے والا مسیح میں ہوں اور توفّی کے معنے قبض روح کے کرتے ہو حالانکہ اس کے معنے پورا کرنے کے بھی ہیں اور اس کی تائید میں یہ مصرع پڑھ کر سنایا.تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَا ضَـمِنَتْ.میں نے جواب دیا کہ مولوی بن کر مفسر بن کر ایسی بات کرنی؟ بھلا یہ تو پہلے بتلاؤ کہ یہ صیغہ کاہے کا ہے.بس پھر تو یہی کہنے لگ گیا.جی غلطی ہوگئی.(توفّی کے معنے پورا دینے کے وہاں ہوں گے جہاں باب تفعیل میں ہوگا اور قبض روح کے معنے وہاں ہوں گے جہاں باب تفعّل سے ہوگا.) میر کرامت علی خان دہلوی کا عقیدہ فرمایا.عجیب بات یہ ہے کہ ہمیں تو ردّ کر دیا اور ایک عیسائی کو مسیح بنا دیا.امید ہے کہ یہ ایک ہنسی ٹھٹھا کی پیشگوئی ثابت ہوگی.ورنہ ایک مسلمان کا ایسے شخص کو مسیح قرار دینا جو انسان کی پرستش کرتا اور انسان کو خدا بناتا اور مسلمانوں کے نزدیک کفر کا عقیدہ رکھتا ہے نیک نیتی پر مبنی نہیں ہو سکتا.محض ہنسی ٹھٹھا معلوم ہوتا ہے.حضور کے متعلق ہلاکت کی پیشگوئیاں کرنے والوں کا انجام فرمایا.طاعون تو ابھی سر پر ہے.یہ کوئی صحیح فیصلہ تو نہیں کہ اب طاعون دور ہوگئی ہے.یاد رکھو کہ مفتری کو خدا تعالیٰ بے سزا کبھی نہیں چھوڑتا.ابھی تو طاعون کی نسبت گورنمنٹ خود بھی حیران ہے کہ اس کو روکنے کی کیا تدبیر کی جاوے اور اس طرف خدا تعالیٰ نے ہمیں بھی خبر دے رکھی ہے کہ اس سال یا اگلے سال سخت طاعون پڑے گی اور شدت سے پڑے گی اور مغربی ممالک میں بھی خطرناک طاعون پڑے گی اور کابل کی نسبت طاعون تو نہیں

Page 285

مگر یہ فرمایا ہے کہ وہاں پچاسی ہزار آدمی ہلاک ہوں گے اور ساتھ ہی ہمارے ساتھ وعدہ ہے کہ ’’اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ‘‘ اگر یہ افترا ہے تو دکھاؤ کہ ان گیارہ برسوں میں کتنے ہلاک ہوئے؟ دیکھو! فقیر مرزا نے میری نسبت کتنے زور سے یہ پیشگوئی کی کہ یہ شخص آئندہ ماہِ رمضان میں طاعون سے مَرے گا اور بڑا بڑا دعویٰ کیا کہ میرا عرش معلی تک گذر ہوا ہے اور میری نسبت بار بار کہا کہ یہ جھوٹا ہے اور مجھے خدا کی آواز آئی ہے کہ اس پر آئندہ رمضان کی فلاں تاریخ کو بڑا غضب نازل ہوگا اور تباہ ہوجائے گا مگر دیکھو کہ پھر خود ہی طاعون سے ہلاک ہوگیا اور پھر عجیب بات یہ کہ آئندہ رمضان کی اسی تاریخ کو آپ ہی ہلاک ہوگیا جس تاریخ کو میری ہلاکت کی پیشگوئی لکھی تھی.پھر چراغ الدین کو دیکھو جو بڑا دعویٰ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ حضرت عیسٰی نے مجھے عصا دیا ہے اور پھر میری ہلاکت کے لیے بڑی بڑی دعائیں کرتا رہا مگر آخر خود ہی اپنے لڑکوں سمیت طاعون سے مارا گیا.یہ تو ان پیشگوئی کرنے والوں کے حال ہیں اور ان کے کشفوں اور الہاموں کا حال یہ ہے کہ خدا ان کو کہتا تو کچھ اَور ہے اور ہو کچھ اَور جاتا ہے اور پھر ایک نہیں دو نہیں کئی ہیں.حقیقۃ الوحی میں ہم نے نمونہ کے طور پر لکھ دیئے ہیں.دیکھو! غلام دستگیر نے لکھا تھا کہ جیسے مجمع بحار الانوار کے مؤلف کی دعا سے ان کے زمانہ کے مہدی کاذب کا بیڑا غارت ہوا تھا ویسے ہی میری دعا سے مرزا قادیانی جڑ سے کاٹا جاوے.پھر دیکھو وہ خود ہی تباہ ہوگیا اور یہ باتیں ایسی نہیںجو یونہی چھوڑ دی جاویں بلکہ ان پر غور کرنا چاہیے.فرمایا.اصل میں جیسے کافر اور مشرک لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسی اور ٹھٹھے میں اڑانا چاہتے تھے ویسے ہی یہ ہم کو بھی ہنسی ٹھٹھے میں اڑانا چاہتے ہیں.آپ تو وہ عورتوں کی طرح چھپ کر بیٹھا ہوا ہوگا.اصل میں دلی میں ہنسی ٹھٹھا بہت ہے.کوئی دیندار ایسے لفظ کب استعمال کر سکتا ہے کہ ایسا شخص جو نصرانیت کے شرک میں مبتلا ہو اور ایک انسان کو پوجنے والا ہو اصلی مسیح ہے.خیال تو کرو کہ مسلمان ہو کر اپنے مذہب کو کیسے ہنسی ٹھٹھے میں اڑاتا ہے.آریہ وغیرہ بھی اپنے مذہب سے ایسے ٹھٹھے نہیں کرتے.معلوم ہوتا ہے کہ ابھی دلی کی کمبختی کچھ باقی ہے.۱ ۱الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۵ مورخہ ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۲،۳

Page 286

۲۰؍ستمبر ۱۹۰۷ء (بوقتِ سیر ) اَلدَّار کی حفاظت کا الٰہی وعدہ فرمایا.آج رات کو پھر الہام ہوا کہ ’’اِنِّيْۤ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ ‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سال یا دوسرے سال شدت سے طاعون پڑے گی.گو بڑے بڑے انتظام ہو رہے ہیں کہ کسی طرح طاعون دور ہو مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان تدابیر میں اللہ تعالیٰ کا ذکر تک بھی نہیں کیاجاتا.ہم نے مانا کہ قواعد بھی ہیں.طبیب اور ڈاکٹر بھی ہیں.انتظام بھی ہیں.مگر یہ تو بڑی بے ادبی کی بات ہے کہ اصلی اور حقیقی محافظ کا اشارہ تک نہیں کیا جاتا.اس الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ طاعون، ہیضہ یا کوئی اور وبائی امراض پھیلنے والے ہیں اور اللہ کریم وعدہ فرماتا ہے کہ اِنِّيْۤ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ اور اخبار روزانہ میں جو میری نسبت پیشگوئی کی گئی ہے کہ طاعون سے ہلاک ہوجاؤں گا اس کا جواب اللہ تعالیٰ دیتا ہے کہ اِنِّيْۤ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.ہماری طرف سے تو بالکل خاموشی تھی مگر خدا تو سمیع علیم ہے.حضور کے خلاف پیشگوئیوں کی حقیقت پیشگوئی میں جو لکھا ہے کہ میں (ہلاک) ہوجاؤں گا اور میری جماعت پاش پاش ہو جاوے گی خدا اس کا جواب دیتا ہے کہ میں ہر ایک کی جو تیرے گھر میں ہوگا حفاظت کروں گا.ہمیں تو شک پڑتا ہے کہ کرامت علی بھی کہیں فرضی نام نہ ہو ورنہ مسلمان ہو کر اسلام پر ہنسی ٹھٹھا کرنا کچھ تعجب ہی آتا ہے.ہم یہ بھی پوچھنا چاہتے ہیں کہ یہ جو پیشگوئی کی گئی ہے آیا کسی الہام کی بنا پر کی گئی ہے یا فرضی طور پر ہنسی ٹھٹھے سے کام لیا گیا ہے.اگر خدا نے بتلائی ہے تو پھر اس وحی اور الہام کو بھی شائع کیا جاوے ورنہ یوں تو یہاں اچّھر نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ میں طاعون سے نہیں مَروں گا.اپنے ارادوں پر تو ہرایک نے مَرنا۱ ہی ہے.ایسے فضول دعووں پر ہم توجہ نہیں کیا کرتے.چاہیےکہ ہمارے مقابلہ ۱ یہ سہو کتابت معلوم ہوتا ہے.غالباً عبارت یوں ہوگی.’’اپنے ارادوں پر تو ہر ایک نے مَرنا نہیں ہے.‘‘(مرتّب)

Page 287

میںیہ شائع کیا جاوے کہ خدا کی طرف سے یہ الہام ہوا ہے تاکہ خدا کو بھی غیرت آئے.خدا کو تو غیرت تبھی آئے گی جب اس پر افترا کیا جاوے گا اور اس کا نام لے کر جھوٹ بولا جاوے گا.اور پھر اس پیشگوئی میں ایک انسان کی پرستش کرنے والے اور اسلامیوں کے رو سے کفر کا عقیدہ رکھنے والے کو اس نے حقیقی مسیح قرار دیا.کیا کوئی مسلمان اس سے خوش ہو سکتا ہے؟ ہمارا تو خیال ہے کہ ایک پادری بھی اس کو پسند نہیں کرے گا اور ایسی بات سے کبھی خوش نہیںہوگا.عیسائی ایسی باتوں کو کب مانتے ہیں؟ یہ تو سب فرضی باتیں معلوم ہوتی ہیں.گورنمنٹ کی اطاعت اَور اَمر ہے اور مذہبی امور اَور بات ہے.جہاں تک ہمارا خیال ہے ایسی چور کارروائی سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی فرضی نام ہوگا.کئی خطوط آتے ہیں.جب ان کا جواب بھیجا جاتا ہے تو کئی دنوں کے بعد وہی واپس آجاتا ہے.جس پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ اس نام کی بہتیری تلاش کی گئی مگر کوئی شخص اس نام اور پتا کا نہیں ملا.حضرت اقدس نے فرمایا.میں نے پڑھا ہے.اصل میں یہ لوگ ہمارے مقابلہ پر ہر ایک شَر سے کام لینا چاہتے ہیں اور ہمیں ہر طرح کے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے.امام حسینؓکو قریباً پچاس ہزار کوفے کے آدمیوں نے خط لکھا کہ آپ آئیں ہم نے بیعت کرنی ہے اور جب وہ آئے تو سب مل کر قَسمیں کھا کر کہنے لگے کہ ہم نے تو کوئی خط روانہ نہیں کیا اور صاف انکار کر دیا اور ابھی تقویٰ اس زمانہ میں بہت تھا کیونکہ زمانہ نبوت کو تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا.مگر اس زمانہ کے لوگوں میں تو تقویٰ اور دیانت، امانت کا نام و نشان بھی نہیں رہا اور جھوٹ تو ایسے مزہ سے بولتے ہیں کہ گویا وہ گناہ ہی نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت فرمایا.ہمارے نبی کریمؐ کے زمانہ میں ایک لڑکے کا باپ جنگ میں شہید ہوگیا.جب لڑائی سے واپس آئے تو اس لڑکے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا میرا باپ کہاں ہے؟ توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے کو گود میں اٹھا لیا اور کہا کہ میں تیرا باپ ہوں.

Page 288

صحابیات کا مثالی ایمان ایک عورت کا حال بیان کرتے ہیں کہ اس کا خاوند اور بیٹا اور بھائی جنگ میں شہید ہوگئے.جب لوگ جنگ سے واپس آئے تو انہوں نے اس عورت کو کہا کہ تیرا خاوند، بیٹا اور بھائی تو لڑائی میں مارے گئے تو اس عورت نے جواب دیا کہ مجھے صرف اتنا بتا دو کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم تو صحیح سلامت زندہ بچ کر آگئے یا نہیں؟ تعجب ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی عورتوں کا بھی کتنا بڑا ایمان تھا.حضرت اُم المؤمنین کا اعلیٰ ایمان فرمایا.کل والا الہام کہ ’’خدا خوش ہوگیا‘‘ ہم نے اپنی بیوی کو سنایا تو اس نے سن کر کہا کہ مجھے اس الہام سے اتنی خوشی ہوئی ہے کہ اگر دو ہزار مبارک احمد بھی مَر جاتا تو میں پروانہ کرتی.فرمایا.یہ اس الہام کی بنا پر ہے کہ ’’میں خدا کی تقدیر پر راضی ہوں.‘‘ اور پھر چار دفعہ یہ الہام بھی ہوا تھا اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا.اور پھر ’’ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان کو قبول کر.‘‘ اور پھر ’’لائف آف پین ‘‘ یعنی تلخ زندگی.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کی وفات خدائی وعدوں کے مطابق ہے فرمایا.اگر یکجائی نظر سے دیکھا جائے تو ایک اندھا بھی انکار نہیں کر سکتا اور پھر پیدا ہوتے ہی الہام ہوا تھا اِنِّيْۤ اَسْقُطُ مِنَ اللہِ وَاُصِیْبُہٗ میرے دل میں خدا نے اسی وقت ڈال دیا تھا.تبھی تو میں نے لکھ دیا تھا یا یہ لڑکا نیک ہوگا اور روبخدا ہوگا اور خدا کی طرف اس کی حرکت ہوگی اور یا یہ جلد فوت ہوجائے گا.کوئی بد معاش اور راستی کا دشمن ہو تو اَور بات ہے مگر یکجائی طور پر نظر کرنے سے ایک دشمن بھی مان جائے گا کہ یہ جو کچھ ہوا ہے خدا ئی وعدوں کے مطابق ہوا ہے اور پھر یہ الہام بھی ہوا تھا.’’اِنِّیْ مَعَ اللہِ فِیْ کُلِّ حَالٍ‘‘اب بتلاؤ ایسی صاف بات سے انکار کس طرح ہو سکتا ہے.ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے اصل میں ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے.اگر انسان عمدہ عمدہ کھانے گوشت پلاؤ اور طرح طرح کے آرام اور راحت میں زندگی

Page 289

بسر کر کے خدا کو ملنے کی خواہش کرے تو یہ محال ہے.بڑے بڑے زخموں اور سخت سے سخت ابتلاؤں کے بغیر انسان خدا کو مل ہی نہیں سکتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ(العنکبوت:۳) غرض بغیر امتحان کے تو بات بنتی ہی نہیں اور پھر امتحان بھی ایسا جو کہ کمر توڑنے والا ہو.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑھ کر مشکل امتحان ہوا تھا جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِيْۤ اَنْقَضَ ظَهْرَكَ(الم نشـرح:۳،۴) جب سخت ابتلا آئیں اور انسان خدا کے لیے صبر کرے تو پھر وہ ابتلا فرشتوں سے جا ملاتے ہیں.انبیاء اسی واسطے زیادہ محبوب ہوتے ہیں کہ ان پر بڑے بڑے سخت ابتلا آتے ہیں اور وہ خود ہی ان کو خدا سے جاملاتےہیں.امام حسینؓپر بھی ابتلا آئے اور سب صحابہ کے ساتھ یہی معاملہ ہوا کہ وہ سخت سے سخت امتحان میں ڈالے گئے.گوشت اور پلاؤ کھانے سے اور آرام سے بیٹھ کر تسبیح پھیرتے رہنے سے خدا کا ملنا محال ہے.صحابہؓ کی تسبیح تو تلوار تھی اگر آج کل کے لوگوں کو کسی جگہ اشاعت اسلام کے واسطے باہر بھیجا جاوے تو دس دن کے بعد تو ضرور کہہ دیں گے کہ ہمارا گھر خالی پڑا ہے.صحابہؓ کے زمانہ پر اگر غور کیا جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ابتدا سے فیصلہ کر لیا ہوا تھا کہ اگر خدا کی راہ میں جان دینی پڑ جائے تو پھر دے دیں گے.انہوںنے تو خدا کی راہ میں مَرنے کو قبول کیا ہوا تھا.جتنے صحابہؓ جنگوں میں جاتے تھے کچھ تو شہید ہوجاتے تھے اور کچھ واپس آجاتے تھے اور جو شہید ہوجاتے تھے ان کے اقربا پھر ان سے خوش ہوتے تھے کہ انہوں نے خدا کی راہ میں جان دی اور جو بچے آتے تھے وہ اس انتظار میں رہتے تھے اور شاکی رہتے کہ شاید ہم میں کوئی کمی رہ گئی جو ہم جنگ میں شہید نہیںہوئے اور وہ اپنے ارادوں کو مضبوط رکھتے تھے اور خدا کے لیے جان دینے کو تیار رہتے تھے جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا(الاحزاب:۲۴) سب سے زیادہ تقویٰ پر قدم مارنے والی، استقامت اور رضا کے نمونے دکھانے والی تو ہماری جماعت ہی ہے مگر ان میں سے بھی ابھی بہت ایسے ہیں جو دنیا کے کیڑے ہیں اور ایسے موقع پر میں

Page 290

ایک شعر سنا دیتا ہوں کہ ؎ ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دون این خیال است و محال است و جنون موت کو یاد رکھو اور خدا تعالیٰ کو مت بھولو اور پھر موت کا اعتبار نہیں کہ کب آجاوے.اس لیے انسان کو نڈر نہیں ہونا چاہیے اور سِفلی دنیا کی خاطر دین سے غفلت نہیں کرنا چاہیے.؎ مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار مباش ایمن از بازیٔ روزگار وہ موت تاریکی کی موت ہے.جو انسان اپنے دنیاوی دھندوں میں مصروف ہوتا ہے اور موت اوپر سے آ دباتی ہے.حافظ نے ایسے موقع پر ایک شعر کہا ہے ؎ چو روزِ مَرگ نہ پیداست بارے آں اولیٰ کہ روزِ واقعہ پیش نگار خود باشد یعنی موت کا دن تو مخفی ہوتا ہے.بہتر یہی ہے کہ مَرنے کے دن میرا محبوب اورمیرا معشوق میرے پاس ہو.موت جب آتی ہے تو ناگہانی طور پر آجاتی ہے.انسان کہیں اَور تدبیروں اور دھندوں میں پھنسا ہوا ہوتا ہے کہ یہ کام اس طرح ہو جاوے یہ ایسے ہو جاوے اور اوپر سے موت آجاتی ہے اور پھر لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ۠ سَاعَةً وَّ لَا يَسْتَقْدِمُوْنَ۠(الاعراف:۳۵) والا معاملہ ہوتا ہے.ہم یہ نہیں کہتے کہ ملازمت، تجارت، زمینداری اور دوسرے وجوہِ معاش کو انسان چھوڑ دیوے بلکہ چاہیے کہ عملی طور پر اس تعلق کو بھی ثابت کر کے دکھاوے جو خدا کے ساتھ رکھنے کا اقرار کرتا ہے.جتنی جانفشانیاں اور جد و جہد دنیا کے لیے کرتا ہے دوسری طرف دین کے لیے بھی تو کر کے دکھاوے.زبانی دعوے تو خواہ آسمان تک پہنچ جاویں جب تک عملی طور پر کر کے نہ دکھاؤ گے کچھ نہیں بنے گا.مومن آدمی کا سب ہم ّ و غم خدا کے واسطے ہوتا ہے.دنیا کے لیے نہیں ہوتا اور وہ دنیاوی کاموں کو کچھ خوشی سے نہیں کرتا بلکہ اداس سا رہتا ہے اور یہی نجات حیات کا طریق ہے اور وہ جو دنیا کے پھندوں میںپھنسے ہوئے ہیں اور ان کے ہمّ و غم سب دنیا کے لیے ہی ہوتے ہیں ان کی نسبت تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا(الکھف:۱۰۶) ہم قیامت کو ان کا ذرّہ بھر بھی قدر نہیں کریں گے.

Page 291

حضرت امّاں جان کا عظیم نمونہ فرمایا.مبارک احمد کی وفات پر میری بیوی نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’ خدا کی مرضی کو میں نے اپنے ارادوںپر قبول کر لیا ہے‘‘ اور یہ اس الہام کے مطابق ہے کہ ’’میں نے خدا کی مرضی کےلیے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے.‘‘ فرمایا.پچیس برس شادی کو ہوئے اس عرصہ میں انہوں نے کوئی واقعہ ایسا نہیں دیکھا جیسا اب دیکھا.میں نے انہیں کہا تھا کہ ایسے محسن اور آقا نے جو ہمیں آرام پر آرام دیتا رہا.اگر ایک اپنی مرضی بھی کی تو بڑی خوشی کی بات ہے.فرمایا.ہم نے تو اپنی اولاد وغیرہ کا پہلے ہی سے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ یہ سب خدا کا مال ہے اور ہمارا اس میں کچھ تعلق نہیں اور ہم بھی خدا کا مال ہیں جنہوں نے پہلے ہی سے فیصلہ کیا ہوتا ہے ان کو غم نہیں ہوا کرتا.مومن ضائع نہیں کیا جاتا فرمایا.میں تو کبھی نہیں مان سکتا کہ جو شخص دل سے خدا تعالیٰ کی طرف قدم رکھے وہ ضائع ہو.مومن آدمی کبھی ضائع نہیں کیا جاتا.اس کو دین بھی ملتا ہے اور دنیا بھی، عزّت بھی ملتی ہے اور مال بھی.انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں مثالی نمونہ فرمایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے گھر میں آکر پوچھاکہ ہمارے گھر میں کیا ہے؟ عائشہؓ نے دو اشرفیاں نکال کر دیں اور کہاکہ یہی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیلی پر رکھ لیں اور کہا کہ کیا حال ہے اس نبی کا جو پیچھے دو اشرفیاں چھوڑ جائے اور پھر اسی وقت تقسیم کر دیں.فرمایا.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اگر ہمارے پاس کبھی کچھ ہو تو دوسرے دن سب خرچ ہوجاتا ہے.جو کچھ ہوتا ہے جماعت کا ہوتا ہے اور وہ بھی لنگر خانہ میں خرچ ہوجاتا ہے.بعض اوقات کچھ بھی نہیں رہتا اور ہمیں غم پیدا ہوتا ہے.تب خدا تعالیٰ کہیںسے بھیج دیتا ہے.اکثر لوگ خدا تعالیٰ کی پوری پوری قدر نہیں سمجھتے.وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖۤ (الانعام:۹۲) خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے وَ فِي السَّمَآء

Page 292

رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ(الذّٰاریٰت:۲۳) فرمایا.اس زمانہ کے فلسفی تو ایسی باتیں کرنے والوں کو نادان، بےوقوف اور پاگل کہتے ہیں.مگر ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے مجرب اور آزمودہ فلسفہ کو ہم ردّ کس طرح کر سکتے ہیں.چونکہ خدا پر پورا ایمان نہیں ہوتا اس لیے اس کی راہ میں مال خرچ کرنے سے بھی دریغ کرتے ہیں.مگر ہمارے خیال میں مال تو پھر مال ہے اس راہ میں تو جانیں بھی قربان کر دینی چاہئیں.۱ ۲۱؍ستمبر ۱۹۰۷ء (بوقتِ ظہر) سچی خوابوںکے بارہ میں سنّت اللہ فرمایا.سنّت اللہ اسی طرح سے جاری ہے اور ہمارا اعتقاد بھی یہی ہے کہ بعض لوگوں کو نہ ہی تو خدا کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے اخلاق عادات اچھے ہوتے ہیں.مگر جب کسی اپنے پرائے نے مَرنا ہو یا کوئی اور ایسا ہی واقع ہونا ہو تو بعض اوقات خوابوں کے ذریعہ سے کچھ نہ کچھ اطلاع ہوجاتی ہے یہاں تک کہ ایک چوہڑی کو بھی میں نے دیکھا ہے کہ اس کی اکثر خوابیں سچی نکلا کرتی تھیں.بلکہ ایک پہلے درجہ کی زانیہ اور بدکار عورت کو بھی کچھ نہ کچھ خوابیں آسکتی ہیں اور بازاری عورتیں طوائف وغیرہ بھی اکثر اوقات بیان کیا کرتی ہیں کہ میری فلاں خواب سچی نکلی.ہاں اگر یہ سوال کیا جاوے کہ خدا نے ایسا کیوں کیا تو اس بات کا جواب یہ ہے کہ تا یہ لوگ ایسا نمونہ پاکر کارخانہ نبوت کو سمجھ لیں اگر ایسا نمونہ نہ ہوتا تو پھر نبیوں کے تعلق کو سمجھنے میں دقّت ہوتی.یہ سچی بات ہے کہ کافر، فاسق، فاجر سب کو سچی خوابیںکبھی کبھی آیا کرتی ہیں.اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب تم لوگ باوجود طرح طرح کے عیبوں، فسق و فجور اور دنیا کے گند میں مبتلا ہونے کے ایسی خوابیں دیکھ لیا کرتے ہو تو پھر وہ جو ہر وقت خدا کے پاس رہتے ہیں اور اسی کے آستانہ پر ہر دم گرے رہتے ہیں ان کو سچا کیوں نہ سمجھا جائے.۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخہ ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۸،۹

Page 293

ایک دفعہ چند آریہ ہندو ہمارے پاس آئے تھے اور کہنے لگے کہ ہمیں بھی سچی خوابیں آتی ہیں.میںنے ان کو یہی کہا تھا کہ ہم تو مانتے ہیں کہ چوہڑوں اور چماروں کو بھی سچی خوابیں آجاتی ہیں.اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ جس کو سچی خواب آوے اس کی عملی حالت بھی بڑی اعلیٰ ہے اور اس کا دل بڑا پاک ہے بلکہ یہ تو کارخانہءِ نبوت کو سمجھنے کے لیے ہر ایک کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے ایک مادہ رکھا ہے.مرزا مبارک احمد کی وفات کا نشان فرمایا.مبارک احمد کی نسبت جو کچھ قبل از وقت لکھا گیا تھا اور پھر اس کی والدہ کی نسبت خاص طور پر الہام ہونا کہ ’’ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان کو قبول کر‘‘ اور پھر چار دفعہ ’’اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا‘‘ اور پھر ’’لائف آف پین‘‘ یعنی تلخ زندگی.اگر یکجائی طور پر ایک دشمن بھی دیکھے تو بجز اس کے کچھ بھی جواب نہیں دے سکے گا کہ خدا کا ایک نشان ظہور میں آیا ہے.ہاں اگر بے حیائی اور شرارت سے کام لے تو اور بات ہے.چاہیے کہ منہاج نبوت سے پرکھا جاوے.یا کم از کم عقل کے رو سے ہی سہی کہ اتنے بچے تھے اور صرف مبارک کی نسبت ایسا لکھا گیا.کیا کوئی انسان عقل سے ایسا کر سکتا ہے؟ موت فوت کی خبر دینا یہ خدا کے سوا کسی اور کا کام نہیں خدا کا فضل ہے جوسب کچھ پہلے ہی ظاہر کر دیا گیا تھا.اگر اب کہتے تو کون مانتا.سوچنا چاہیے کہ آیا جو کچھ وفات سے پہلے ظاہر کیا گیا ہے وہ وفات بتلا رہا ہے یا زندگی؟ ’’ اِنِّیْ اَسْقُطُ مِنَ اللّٰہِ وَاُصِیْبُہٗ ‘‘تو مبارک کی ولادت سے بھی پہلے کہا گیا تھا.خدا تعالیٰ تو صاف فرماتا ہے فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًااِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ(الـجنّ:۲۷،۲۸).ایک الہام فرمایا.کل ذرا سی مجھے غنودگی ہوئی تو الہام ہوا جس کا اتنا حصہ یاد رہا کہ ’’اِنِّیْ مُبَارَکٌ‘‘ اس کے معنے بہت ہیں.جیسے اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ(الکوثر:۴) ہے.ویسے ہی یہ ہے.۱ ۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۵ مورخہ ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳

Page 294

۲۵؍ستمبر ۱۹۰۷ء (بوقتِ ظہر) جماعت کے مبلغین کے لیے ضروری صفات حضرت اقدس نے فرمایا.ایک تجویز کی تھی.اگر راست آجاوے تو بڑی مراد ہے.یونہی عمر گذرتی جاتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ میں ایک کا بھی نام نہیں لے سکتے جس نے اپنے لیے کچھ حصہ دین کا اور کچھ حصہ دنیا کا رکھا ہو اور ایک صحابی بھی ایسا نہیں تھا جس نے کچھ دین کی تصدیق کر لی ہو اور کچھ دنیا کی بلکہ وہ سب کے سب منقطعین تھے اور سب کے سب اللہ کی راہ میں جان دینے کو تیار تھے.اگر چند آدمی ہماری جماعت میں سے بھی تیار ہوں جو مسائل سے واقف ہوں اور ان کے اخلاق اچھے ہوں اور وہ قانع بھی ہوں تو ان کو باہر تبلیغ کے لیے بھیجا جاوے.بہت علم کی حاجت نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ سب اُمّی ہی تھے.حضرت عیسٰیؑ کے حواری بھی امی تھے.تقویٰ اور طہارت چاہیے.سچائی کی راہ ایک ایسی راہ ہے جو اللہ تعالیٰ خود ہی عجیب عجیب باتیں سجھا دیتا ہے.بچوں کو تعلیم کے لیے مرکز بھجوانے کا فائدہ لوگ جو اپنے لڑکوں کو تعلیم دینے کے لیے یہاں کے سکول میں بھیجتے ہیں اگرچہ وہ اچھا کرتے ہیں اور یہ اچھا کام ہے مگر وہ محض للہ نہیں بھیجتے.کیونکہ ان کا خیال ہوتا ہے کہ جو سرکاری تعلیم اور جماعت بندی اور دوسرے قواعد دیگر سکولوں میں ہیں وہی یہاں بھی ہیں اور یہاں بھیجتے وقت دنیاوی تعلیم کا بھی خصوصیت سے خیال رکھ لیتے ہیں اور جانتے ہیں کہ جو تعلیم دوسرے سکولوں میں ہے وہی یہاں ہے مگر تاہم بھی نیک نیتی کی بنا پر یہ سب عمدہ باتیں ہیں اور اس سے کچھ عمدہ نتیجہ ہی نکلنے کی توقع ہے اور یہاں کے سکول میں تعلیم پانے سے اتنا فائدہ تو ضرور ہے کہ دن رات نیکوکاروں اور صادقوں کی صحبت میں رہنا پڑتا ہے.عمدہ عمدہ کتابوں اور ہماری تصانیف کے پڑھنے کا موقع بھی ملتا رہتا ہے اور مولوی (نور الدین) صاحب کی عمدہ عمدہ باتوں اور نصیحتوں اور درس کے سننے سے

Page 295

بہت فائدہ ہوتا ہے اور جب بچپن سے ہی ان طالب علموں کے کانوں میں صالح اور راستباز استادوں کی آواز پڑتی ہے تو اس سے وہ متاثر ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ دینداری کی طرف ترقی کرتے رہتے ہیں.غرض یہ سچی بات ہے کہ اس مدرسہ کی بنا فائدہ سے خالی نہیں.اگر تین یا چارسو لڑکا تعلیم پاتا ہو تو اتنی امید ہے کہ تیس یا چالیس ہماری منشا کے مطابق بھی نکل آویں گے.صحابہ رضی اللہ عنہم کا نمونہ اختیار کرو مگر جو بات ہم چاہتے ہیں وہ اس سے پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ خواہ کچھ ہی ہو یہ باتیں ملونی سے خالی نہیں.ہمارا مطلب اس بات کے بیان کرنے کا یہ ہے کہ خدا جس نمونہ پر اس جماعت کو قائم کرنا چاہتا ہے وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا نمونہ ہے.ہم تو منہاجِ نبوت کے طریقہ پر ترقیات دیکھنی چاہتے ہیں.موجودہ کارروائی کو خالص کارروائی نہیں کہہ سکتے.ہزار ہا مرتبہ رائے زنی کی جائے اصل میں جیسا کہ میں نے کل کہا تھا ابھی تو پانی کے ساتھ پیشاب کی ملونی ہے.غرض اس طرح کی تعلیم ہماری ترقیات کے لیے کافی نہیں.ہمارے سلسلہ کو تو صرف اخلاص، صدق اور تقویٰ جلد تر ترقی دے سکتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ ایک لاکھ سے متجاوز تھے.میرا ایمان ہے کہ ان میں سے کسی کا بھی ملونی والا ایمان نہ تھا.ایک بھی ان میں سے ایسا نہ تھا جو کچھ دین کے لیے ہو اور کچھ دنیا کے لیے بلکہ وہ سب کے سب خدا کی راہ میں جان دینے کے لیے تیار تھے جیسے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ(الاحزاب:۲۴).منافق کون ہوتا ہے جو لوگ ملونی والے ہوتے ہیں ان کو خدا نے منافق کہا ہے.بیعت کرنے والوں کو خوش نہیں ہونا چاہے.کیونکہ منافق وہ لوگ ہیں جنہوں نے کچھ ملونی کی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو منافق تھے اگر وہ اس زمانہ میں ہوتے تو بڑے بزرگ اور مومن سمجھے جاتے.کیونکہ شَر جب بہت بڑھ جاتا ہے تو اس وقت تھوڑی سی نیکی کی بھی بڑی قدر ہوتی ہے.وہ لوگ جن کو منافق کہا گیا ہے اصل میں وہ بڑے بڑے صحابہؓ کے مقابل پر منافق

Page 296

تھے.یاد رکھو جس شخص نے خدا کے ساتھ کچھ حصہ شیطان کا ڈالا وہی منافق ہے.فرمایا.قرآن شریف میں ہماری جماعت کی نسبت لکھا ہے.وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ(الـجمعۃ:۴) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ میں سے ایک اور گروہ بھی ہے مگر ابھی وہ ان سے ملے نہیں.ان کے اخلاق، عادات، صدق اور اخلاص صحابہؓ کی طرح ہوگا.جماعت کے مبلّغین کی صفات میرا دل گوارا نہیں کرتا کہ اب دیر کی جاوے.چاہیے کہ ایسے آدمی منتخب ہوں جو تلخ زندگی کو گوارا کرنے کے لیے تیار ہوں اور ان کو باہر متفرق جگہوں میں بھیجا جاوے.بشرطیکہ ان کی اخلاقی حالت اچھی ہو.تقویٰ اور طہارت میں نمونہ بننے کے لائق ہوں.مستقل، راست القدم اور بردبار ہوں اور ساتھ ہی قانع بھی ہوں اور ہماری باتوں کو فصاحت سے بیان کر سکتے ہوں.مسائل سے واقف اور متقی ہوںکیونکہ متقی میں ایک قوتِ جذب ہوتی ہے.وہ آپ جاذب ہوتا ہے.وہ اکیلا رہتا ہی نہیں.جس نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.اس نے پہلے ازل سے ہی ایسے آدمی رکھے ہیں جو بکلی صحابہؓ کے رنگ میں رنگین اور انہیں کے نمونہ پر چلنے والے ہوں گے اور خدا کی راہ میں ہر طرح کے مصائب کو برداشت کرنے والے ہوں گے اور جو اس راہ میں مَر جائیں گے وہ شہادت کا درجہ پائیں گے.دین کی حقیقت اللہ تعالیٰ نرے اقوال کو پسند نہیں کرتا.اسلام کا لفظ ہی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جیسے ایک بکرا ذبح کیا جاتا ہے ویسے ہی انسان خدا کی راہ میں جان دینے کے لیے تیار رہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قوم آئی اور کہنے لگی کہ ہمیں فرصت کم ہے.ہماری نمازیں معاف کی جائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ دین ہی نہیں جس میں نمازیں نہیں.جب تک عملی طور پر ثابت نہ ہو کہ خدا کے لئے تکلیف گوارا کر سکتے ہو تب تک نرے اقوال سے کچھ نہیں بنتا.نصاریٰ نے بھی جب عملی حالت سے لا پروائی کی تو پھر ان کی دیکھو کیسی حالت ہوئی کہ کفّارہ جیسا مسئلہ بنا لیا گیا.

Page 297

صدق دل سے ایک ہی قدم میں ولی بن سکتے ہو اگر آدمی صدق دل سے محض خدا کے لیے قدم اٹھائے تو میرا ایمان ہے کہ پھر بہت برکت ہوگی.میں تو جانتا ہوں کہ وہ اولیاء اللہ میں داخل ہو جائے گا.یاد رکھو ایک قدم سے ہی انسان ولی بن جاتا ہے جب غیر اللہ کی شراکت نکال لی بس عباد الرحمٰن میں داخل ہوگیا.جب اس کے دل میں محض خدا ہی خدا ہے اور کچھ نہیں تو پھر ایسے کو ہی ہم ولی کہتے ہیں دیکھو! صادق کے واسطے یہ کوئی مشکل کام نہیں.اس میں ایک کشش ہوتی ہے وہ خالی جاتا ہی نہیں.دنیا کی زندگی کا آرام ہو.ہر طرح سے آسودگی اور عیش و عشرت کے سامان ہوں یہ ایمانی اصول کے مخالف پڑا ہوا ہے.ایمانی اصول تو چاہتا ہے کہ ایسے لوگوں کا نہ دن نہ رات کوئی وقت آرام سے گذرتا ہی نہیں.ایک مرحلہ مصائب کا اگر طے کرتے ہیں تو دوسرا مرحلہ درپیش ہوتا ہے.کاش اگر صحابہؓ کی طرح بعد میں آتے تو ایک بھی کافر نہ رہتا مگر وہ دل نہ ہوئے جو اُن کے تھے وہ اخلاص اور صدق نہ ہوا جو اُن کا تھا وہ تقویٰ اور استقلال نہ رہا جو اُن کا تھا.تبلیغ کا صحیح طریق ہماری جماعت کے لوگ گو مالی امداد میں تو کچھ فرق نہیں کرتے مگر اللہ تعالیٰ تو ہر اَمر میں آزمانا چاہتا ہے.اب تلوار کی بجائے گالیاں کھا کر صبرکرنا چاہیے.چاہیے کہ بڑی نرمی اور خوش خلقی سے لوگوں پر اپنے خیالات ظاہر کئے جاویں.بہ نسبت شہروں کے دیہات کے لوگوں میں سادگی بہت ہے اور ہمارے دعویٰ سے بہت کم واقفیت رکھتے ہیں.اگر ان کو نرمی سے سمجھایا جاوے تو امید ہے کہ سمجھ لیں گے.جلسوںکی بھی ضرورت نہیں اور نہ ہی بازاروں میں کھڑے ہو کر لیکچر دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس طرح سے فتنہ پیدا ہوتا ہے.چاہیے کہ ایک ایک فرد سے علیحدہ علیحدہ مل کر اپنے قصے بیان کئے جاویں.جلسوں میں تو ہار جیت کا خیال ہو جاتا ہے.چاہیے کہ دوستانہ طور پر شریفوں سے ملاقات کرتے رہیں اور رفتہ رفتہ موقع پاکر اپنا قصہ سنا دیا.بحث کا طریق اچھا نہیں بلکہ ایک ایک فرد سے اپنا حال بیان کیا اور بڑی آہستگی اور نرمی سے

Page 298

سمجھانے کی کوشش کی.پھر تم دیکھو گے کہ بہت سے آدمی ایسے بھی نکلیں گے جو کہیں گے کہ ہم پر تو ان مولویوں نے اصلیت ظاہر ہی نہیں ہونے دی.چاہیے کہ جس شخص میں علم اور رشد کا مادہ دیکھا اسی کو اپنا قصہ بتا دیا اور فرداً فرداً واقفیت بڑھاتے رہے.یہ نہیں کہ سب کے سب ظالم طبع اور شریر ہوتے ہیں بلکہ شریف اور مخلص بھی انہیں میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں.لاہور کی نسبت ایک شخص نے رات کے پہلے حصہ میں کشف میں دیکھا کہ زنا، فسق و فجور، بدکاری اور بے حیائی کا بازار بڑا گرم ہے.تب وہ جاگا اور خیال کیا کہ اگر ایسا ہی حال ہے تو یہ شہر تباہ کیوں نہیں ہوتا؟ مگر جب وہ تہجد کی نماز پڑھ کر پچھلی رات کو پھر سویا تو کیا دیکھتا ہے کہ صدہا آدمی ہیں جو دعاؤں میں مشغول ہیں اور خدا کی یاد میں مصروف ہیں.کوئی صدقہ و خیرات کر رہے ہیں.کوئی بیکسوں اور یتیموں کی مدد کر رہے ہیں.غرض توبہ اور استغفار کابازار گرم ہے.تب اس نے سمجھا کہ انہیں کی خاطر یہ شہر بچا ہوا ہے.یہ سنّت اللہ ہے کہ ابرار اخیار کے واسطے بڑے بڑے بدکار اور بدمعاش آدمی بھی بچالئے جاتے ہیں.یاد رکھو! کچھ نہ کچھ نیک لوگ بھی ضرور مخفی ہوتے ہیں.اگر سب ہی بُرے ہوں تو پھر دنیا ہی تباہ ہوجاوے.۱ بلاتاریخ۲ تزکیہءِ اخلاق کی ضرورت بڑے دردِ دل کے ساتھ سلسلہ کلام شروع کیا کہ ہماری جماعت کا اعلیٰ فرض ہے کہ وہ اپنے اخلاق کا تزکیہ کریں ۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۵ مورخہ ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۷،۸ ۲حضور کے ان ملفوظات پر کوئی تاریخ درج نہیں.ایڈیٹر صاحب بدر نے ۲۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء کے پرچہ میں صرف اتنا لکھا ہے کہ ’’رات اس قدر لمبی تقریر فرمائی کہ اگر کوئی لکھتا تو رسالہ مرتّب ہوجاتا.‘‘ اس سے پتا چلتا ہے کہ ۲۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء کے قریب کی کسی تاریخ کے یہ ملفوظات ہیں.(مرتّب)

Page 299

اور حقوقِ عباد اور حقوق اللہ کے ادا کرنے کی دقیق سے دقیق رعایت کیا کریں.کوئی منصوبہ اور جعل ان کے کسی عضو پر نہ ہو.کوئی کتّا اور بلّی بھی ان کے احسان سے محروم نہ رہے چہ جائیکہ بنی آدم.میں ان لوگوں کو بہت بُرا جانتا ہوں جو دین کی آڑ میں کسی غیر قوم کی جانی و مالی ایذا روا رکھتے ہیں.غرض خلاصہ ساری تقریر کا یہی ہے کہ اب وقت ہے کہ جماعت اپنی حالت میں بیّن تبدیلی دکھائے.نشانات کی قدر دانی کریں فرمایا کہ مجھے پختہ وعدہ دیا گیا ہے کہ بہت سے عظیم الشان نشان تیرے ہاتھ سے ظاہر ہوں گے مگر یہ علم مجھ کو نہیں دیا گیا کہ کون کون لوگ اس سے مستفید ہوں گے.فرمایا کہ نشانوں کی نا قدر دانی دو طرح سے وقوع میں آتی ہے.ایک کفر و انکار سے، اور ایک اس طرح سے کہ دو روز تک اس کے وقوع کے بعد واہ واہ کی جائے اور پھر اسے قطعاً فراموش کر ڈالا جائے اور خدا کی عظمت و جبروت اس کے وقوع کے بعد نئے سرے دل پر وارد نہ کی جائے.سو میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کا بھی یہی حال ہے کہ نشانِ الٰہی کی چنداں پروا نہیں کرتے اور غفلت و تساہل سے وقت گذارتے ہیں اور اکثر ان میں ایسے ہیں کہ سوز و گداز ان کے افعال میں نظر نہیں آتا.فرمایا.اگر دین الٰہی کے اِعلا اور تعظیم اور حرمات الٰہیہ کی ہتک کے انتقام کے لیے روح میں جوش اور قوت اور عقد ہمت نہ ہو تو یہ نمازیں نری جنتر منتر ہیں.اب وقت ہے کہ گداز گداز ہو ہو جائیں اور رات دن دعاؤں میںمصروف رہیں.میں فکروں میں ہلاک ہو رہا ہوں.مگر دیکھتا ہوں کہ جماعت میں ہنوز یہ روح پیدا نہیں ہوئی.میں ان روکھی سوکھی نمازوں کا ہرگز قائل نہیں جو رسم و عادت کے پیرایہ سے پڑھی جاتی ہیں.خدا تعالیٰ اس وقت دیکھتا ہے کہ کن لوگوں نے گذشتہ نشانوں کی قدر دانی کی اور اپنے اعمال میں تبدیلی پیدا کی.وہ ان ہی کو آئندہ بھی مستفید ہونے کی توفیق بخشے گا.۱ ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخہ ۲۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۸

Page 300

۲۸؍ستمبر ۱۹۰۷ء (بوقتِ عصر) طاعون سے بچنے کے لیے حفظ ماتقدم کسی نے ٹیکہ لگوانے کی بابت دریافت کیا.فرمایا.حدیث شریف میں آیا ہے کہ کوئی بیماری نہیں جس کی دوا نہ ہو.ٹیکہ بھی ایک دوا ہے.مسلمانوں کو اگر وہ مسلمان بن جاویں تو خدا ہی ان کا ٹیکہ ہے.چاہیے کہ جس جگہ بیماری زور پکڑ جاوے وہاں نہ جاویں اور جس جگہ ابھی ابتدائی حالت ہو تو وہاں سے باہر کھلی ہوا میں چلے جائیں.مکان، بدن اور کپڑے کی صفائی کا بہت خیال رکھیں کوشش تو اس کے روکنے کی بہت ہو رہی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بار بار فرمایا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ.یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اس حالت کو نہیں بدلائے گا جب تک دلوں کی حالت میں یہ لوگ خود تبدیلی نہ کریں مجوزوں نے سب زور اسباب کے مہیا کرنے میں لگا دیا ہے.اگر یہ بیماری دور بھی ہو جاوے تو ممکن ہے کوئی اور بَلا آجاوے.توکل کی جو بات خدا نے ہمیں سکھائی ہے وہ تو ان کے وہم میں بھی نہیں آتی ہوگی.اگر اسباب اور دوسری باتوں پر اتنا بھروسہ کیا گیا تو شاید کوئی اور وبا آجاوے.ہماری جماعت کے لیے بہت بہتر ہے کہ جس جگہ کوئی چوہا مَرے تو وہاں سے نکل جاوے اور دور اندیشی تو یہ ہے کہ پہلے ہی سے جگہ تجویز کر لی جاوے اور عام میل جول نہ رکھے.صرف اپنے زیادہ قریبیوں اوردوستوں سے ملاقات رکھنی چاہیے.ایسے دنوں میں کثرت سے پرہیز کرنی چاہیے اور گندی اور زہریلی ہوا سے علیحدہ رہنا چاہیے.خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ(المدثر:۶) اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک ایسی جگہ پر ٹھہرنے سے منع کیا تھا جہاں پہلے ایک دفعہ عذاب آچکا تھا.قہر الٰہی ابھی بھڑکنے والا ہے فرمایا.طاعون کیسا قہر الٰہی ہے کہ ہر سال سر پر آجاتی ہے اور پھر ایسی آتی ہے کہ لوگ دیوانہ کی طرح ہوجاتے ہیں اورمیں نے یہ بھی سنا ہے کہ بعض آدمی قبریں پہلے ہی سے کھود رکھتے ہیں بڑے ہی خوفناک دن

Page 301

ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے یہ جو دوبارہ فرمایا ہے کہ گذشتہ طاعون کی نسبت آئندہ شدت سے طاعون کا حملہ ہونے والا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی نہایت ہی خطرناک دن آنے والے ہیں اور آگے کی نسبت سخت زور سے طاعون پھیلنے والی ہے.فرمایا.بالفرض اگر کسی انسان کا گھر محفوظ بھی رہے.مگر سجّے کھبّے، دائیں بائیں، چِیک چہاڑا اور شور و غوغا ہوتو وہ بھی ایک مصیبت ہے.فرمایا.خدا کے الہام کے مطابق سخت اندیشہ ہے کہ اب کے سال ہی یا دوسرے ایسی سخت طاعون پڑے کہ پہلے نہ پڑی ہو.اس لیے یہ دن نہایت خوف کے دن ہیں.طاعون کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا ہوا ہے کہ میں روزہ بھی رکھوں گا اور افطار بھی کروں گا.کلامِ الٰہی میں استعارات اس پر ایک شخص نے عرض کی کہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ خدا بھی اب روزے رکھنے لگ گیا ہے.فرمایا.ساری کتابوںمیں اس قسم کے فقرات پائے جاتے ہیں.فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا (البقرۃ:۲۰۱) اور يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ(الفتح:۱۱) ایسے فقرات قرآن مجید میں لکھے ہیں.حدیث شریف میں لکھا ہے کہ خدا تردّد کرتا ہے.توریت میں لکھا ہے خدا طوفان لا کے پھر پچھتایا.یہ تو استعارات ہوتے ہیں.ان پر اعتراض کرنے کے معنے ہی کیا؟ بلکہ ان سے تو سمجھا جاتا ہے کہ یہ خدا کا کلام ہے اس بات کو سوچنا چاہیے کہ بناوٹ والے انسان کو کیا مشکل بنی ہے جو وہ جان بوجھ کر ایسی باتیں کرے جن پر خواہ نخواہ اعتراض ہوں.دیکھو! قرآن شریف میں صاف لکھا ہے کہ خدا کو قرض حسنہ دو.اس وقت بھی بعض نادان لوگ کہنے لگ گئے تھے کہ لو! اب خدا مفلس اور محتاج ہوگیا ہے.خوب یاد رکھو کہ اگر اللہ چاہتا تو ایسے الفاظ استعمال نہ کرتا.اصلیت دیکھنی چاہیے.قرض کا مفہوم تو صرف اسی قدر ہے کہ وہ شَے جس کے واپس دینے کا وعدہ ہو.ضروری نہیں کہ لینے والا مفلس بھی ہو.ایسی باتیں ہر کتاب میں پائی جاتی ہیں.حدیث شریف میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کو لوگوں کو کہے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ

Page 302

کھلایا.میں بیمار تھا تم نے میری بیمار پرسی نہ کی.وغیرہ وغیرہ.یہ تو سب استعارات ہوتے ہیں.۱ ۲۹؍ستمبر۱۹۰۷ء طاعون کی جگہ کو چھوڑنا چاہیے حکیم محمد حسین صاحب قریشی کو مخاطب کر کے فرمایاکہ لاہور میں اکتوبر کے ماہ میں طاعون کا خوف معلوم ہوتا ہے.ہے.آپ ہمارے پہلے اصول کو یاد رکھیں کہ جب ارد گرد طاعون کا غلبہ ہو یا مکان میں چوہے مَریں تو فوراً اس مکان کو چھوڑ دو اور شہر کے باہر کہیںکھلی ہوا میں اپنے لیے جگہ بناؤ.باہر نکل کر بھی اس اَمر کی احتیاط کرنی چاہیے کہ پھر ایک ہی جگہ بہت سے آدمی جمع ہو کر وہی صورت خراب ہوا کی پیدا نہ کرلیں جو شہر میں تھی.سنّت انبیاء یہی ہے کہ ایسی جگہ سے بھاگ جانا چاہیے.خدا کا مقابلہ کرنا اچھا نہیں.چوہوں کو ختم کرنے کا بہتر ذریعہ ایک شخص کا ذکر ہوا کہ وہ اس گاؤں میں سرکار کی طرف سے پنجرے لے کر آیا ہے کہ چوہوں کو مارا جائے.فرمایا.ہمارے گھر میں تو ایسے موقع پر بلیاں جمع ہوجاتی ہیں.پنجروں کی نسبت بلیوںکی خدمات ایسے موقع پر بہتر معلوم ہوتی ہیں کیونکہ بلّی کے خوف سے چوہے بالکل بھاگ جاتےہیں.طاعون ایک خوفناک بیماری فرمایا.طاعون ایک بے نظیر وَبا ہے.اس کے اثر سے نہ صرف انسان مَرتے ہیں بلکہ جانوروں پر بھی پڑتی ہے.سرگودھا کے علاقہ میں سنا گیا ہے کہ جنگل میں گلہریاں، بھیڑیئے اور گیدڑ بھی اس بیماری سے مَرتے ہوئے دکھائی دیئے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کا غضب سخت ہے کہ کوئی ایسی بیماری نہیںجو جانوروں اور آدمیوں اور چرندوں اور پرندوں سب پر اس طرح مساوی پڑے اور سب کو تباہ کر دیوے.۱

Page 303

(بوقتِ ظہر) اس زمانہ میں ایک رسول کے آنے کی پیشگوئی طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ اس عذاب کی اللہ کریم نے پہلے ہی سے قرآن مجید میں خبر دے رکھی ہے.جیسے فرمایا وَ اِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا(بنیٓ اسـرآءیل:۵۹) اور پھر ساتھ ہی قرآن مجید میںیہ بھی لکھا ہے وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا(بنیٓ اسـرآءیل:۱۶) اگر ان دونو ںآیتوں کو ملا کر پڑھا جاوے تو صاف ایک رسول کی نسبت پیشگوئی معلوم ہوتی ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول کا آنا اس زمانہ میں ضروری ہے.یہ کہنا کہ فلاں فلاں رسول کے زمانہ میں یہ یہ عذاب آئے ان لوگوں کے خیال کے بموجب تو جب کل دنیا میں عذاب شروع ہوگیا اس وقت کوئی رسول نہ آیا تو اس بات کا کیا اعتبار رہا کہ پہلے زمانہ میں جو عذاب آئے تھے ان رسولوں کے انکار سے ہی آئے تھے.کیسی صاف بات تھی کہ آخری زمانہ میں سخت عذاب آئیں گے اور ساتھ ہی یہ لکھا تھا کہ جب تک رسول مبعوث نہ کر لیں عذاب نہیں بھیجتے ہیں.اس سے بڑھ کر صاف پیشگوئی اور کیا ہوسکتی ہے؟۱ زمانہ کی موجودہ حالت بھی اس بات کو ظاہر کر رہی ہے کہ کوئی رسول آوے.سب دنیا اسباب پر ہی گر گئی ہے.اصلی مسبّب الاسباب کو بالکل بھلا دیا ہے.سچی خوابیں اور پھر دوسری تباہی یہ آرہی ہے کہ جس شخص کو کوئی سچی خواب، رؤیا یا الہام ہوتا ہے وہی اپنے آپ کو مامور من اللہ اور رسول سمجھنے لگ جاتا ہے.۲ اور کوئی پچاس ۱بدر سے.’’قرآن شریف سے تو ثابت ہے کہ کسی ایک گاؤں پر بھی عذاب نہیں آتا جب تک کہ اس سے پہلے خدا کا کوئی رسول نہ آوے.تعجب ہے کہ ایسا عالمگیر عذاب زمین پر پڑ رہا ہے اور ہنوز ان لوگوں کے نزدیک خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نذیر نہیں آیا اور نہ ان کے نزدیک کسی نذیر کی ضرورت ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخہ ۳؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۶ ) ۲بدر سے.’’ وہ سمجھ لیتا ہے کہ میں ولی ہوگیا ہوں، رسول ہوگیا ہوں، خدا کا برگزیدہ بن گیا ہوں، اس کا پیارا ہوگیا ہوں.اور نہیں سوچتا کہ اس کے نفس کا کیا حال ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت اور وفا اور صدق اور اخلاص کا تعلق (بقیہ حاشیہ)اس کو کہاں تک حاصل ہے اور کہ اس کا دل کہاں تک بدیوں سے پاک ہو کر نیکیاں حاصل کر چکا ہے.صرف خوابوں کا آنا اور ان کا سچا ہوجانا کوئی شَے نہیں.کیونکہ یہ بات تو تخم ریزی کے طور پر ہر انسان میں رکھی گئی ہے

Page 304

آدمی کے قریب ہوں گے جو اسی طرح ہلاک ہو رہے ہیں اور خلق خدا کو راہ راست سے پھیر رہے ہیں اور اس زمانہ میں ایسی باتوں کا وہ چرچا پھیل گیا ہے کہ پہلے زمانوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی.ایک ہندو میرے پاس آیا اور بیان کیا کہ فلاں آدمی کی تبدیلی کی نسبت میں نے خواب دیکھی تھی پھر ویسے ہی ظہور میں آگئی تھی اور طاعون کی نسبت بھی پہلے ہی سے خواب دیکھی ہوئی تھی.میں نے اس کو جواب دیا کہ انہیں باتوں نے ہی تجھے ہلاک کرنا ہے.ایسے ہی ایک چوہڑی اپنی خوابیں بیان کیا کرتی تھی جو اکثر سچی ہوا کرتی تھیں.ایسے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابوجہل کو بھی خوابیں آیا کرتی تھیں اور اکثر سچی نکل آتی تھیں.۱ ہر ایک اس فرق کو معلوم نہیں کر سکتا.ایسی خوابوں وغیرہ پر اپنے آپ کو پاک صاف نہیں سمجھ لینا چاہیے بلکہ اپنی عملی حالت کو پاک کرنا چاہیے جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى (الاعلٰی: ۱۵) اپنی حالت کا بہت مطالعہ کرنا چاہیے اور ایسی باتوں کی خواہش بھی نہیں کرنی چاہیے.اگر تخم ریزی سے ہی انسان سمجھ لے گا کہ میں رسول ہوں تو ٹھوکر کھائے گا.۲ یہاں تو معاملہ ہی اَور ہے اور اس کے شرائط اور آثار بھی الگ ہیں.اور خدا کے کسی مامور رسول کے وقت اس کی کثرت ہوجاتی ہے جیسا کہ چشمہ صافی سے پانی نکلتا ہے تو کچھ اور جگہوں پر پڑتا ہے.اس میں خواب دیکھنے والے کی کوئی خوبی اور نیکی کی نشانی نہیں.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخہ ۳؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۶ ) ۱بدر سے.’’غرض یہ کوئی قابل فخر اَمر نہیں اور افسوس ہے کہ لوگ اس سے ٹھوکر کھاتے ہیں اور سخت نقصان اٹھاتے ہیں.ان لوگوں کے واسطے بہتر تھا کہ ان کو کوئی خواب نہ آتا اور یہ دھوکے میں پڑ کر تکبر نہ کرتے.وہ نہیں سمجھتے کہ ان خوابوں کی بنا پر اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگنا ان کے واسطے موجب ہلاکت ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخہ ۳؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۶ ) ۲ بدر سے.’’جو شخص اپنی خوابوں کی طرف جاتا ہے وہ ٹھوکر کھا کر ہلاک ہوجائے گا.اس جگہ بہت عقلمندی درکار ہے.

Page 305

اس جگہ پر بڑی عقلمندی درکار ہے.بدر کی لڑائی سے پہلے ایک عورت نے خواب میں دیکھا کہ بکرے ذبح ہو رہے ہیں تو ابو جہل سن کر کہنے لگا کہ ایک اور نبیہ ہمارے گھر میں پیدا ہوگئی ہے.چاہیے کہ انسان اپنی حالت کو دیکھے اور اپنے اس تعلق کو دیکھے جو وہ خدا سے رکھتا ہے اور اپنے نفس کا مطالعہ کرے کہ کہاں تک عملی حالت درست ہوئی ہے.یہ نہیں کہ مجھے سچی خواب آگئی ہے.یہ تو دنیا میں ہوتا ہی رہتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ فرعون کو بھی خواب آیا تھا اور حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی بادشاہ وقت کے خواب کی تعبیر کی تھی.بہتیرے لوگ ہماری جماعت میں ایسے پائے جاتے ہیں جو بڑے بڑے الہامات لکھ کر بھیج دیتے ہیں اور اپنی بڑی بڑی خوابیں اور رؤیا بیان کرتے ہیں اور ان کی حالت دیکھ کر مجھے اندیشہ ہی رہتا ہے کہ کہیں ٹھوکر نہ کھاویں.ان کی نسبت تو سادہ طبع لوگ ہی اچھے ہوتے ہیں.غرض ایسی تمنّا ہی نہیں کرنی چاہیے.۱ (قبل نماز عصر) جماعت کے واعظین اور مبلّغین کی صفات فرمایا.میں واعظین کے متعلق دیگر لوازمات کے سوچنے میں مصروف ہوں.بالفعل بارہ آدمی منتخب کر کے روانہ کئے جائیں اور یہاں قریب کے اضلاع میں بھیجے جائیں.بعد میں رفتہ رفتہ دوسری جگہوں میں جا سکتے ہیں.ان کا اختیار ہوگا کہ مثلاً ایک دو ماہ باہر گذاریں اور پھر دس پندرہ روز کے واسطے قادیان آجائیں.اس کام کے واسطے وہ آدمی موزوں ہوں گے جو کہ مَنْ يَّتَّقِ وَ يَصْبِرْ (یوسف:۹۱) کے مصداق ہوں.ان میں تقویٰ کی خوبی بھی ہو اور صبر بھی ہو.پاک دامن ہوں.فسق و فجور سے بچنے والے ہوں.معاصی سے دور رہنے والے ہوں، لیکن ساتھ ہی مشکلات پر صبر کرنے والے ہوں.لوگوں کی دشنام دہی پر جوش میں نہ آئیں.ہر طرح کی تکلیف اور دکھ کو برداشت کر کے صبر کریں.(بقیہ حاشیہ)مجھے الٰہی بخش کی نسبت بھی ہمیشہ یہ کھٹکا تھا اور آخر وہی نتیجہ نکلا.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخہ ۳؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۶ ) ۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۶ مورخہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۸،۹

Page 306

کوئی مارے تو بھی مقابلہ نہ کریں جس سے فتنہ و فساد ہوجائے.دشمن جب گفتگو میں مقابلہ کرتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ ایسے جوش دلانے والے کلمات بولے جن سے فریق مخالف صبر سے باہر ہو کر اس کے ساتھ آمادہ بجنگ ہوجائے.اخراجات کے معاملہ میں ان لوگوں کو صحابہؓ کا نمونہ اختیار کرنا چاہیے کہ وہ فقر و فاقہ اٹھاتے تھے اور جنگ کرتے تھے.ادنیٰ سے ادنیٰ معمولی لباس کو اپنے لیے کافی جانتے تھے اور بڑے بڑے بادشاہوں کو جا کر تبلیغ کرتے تھے.یہ ایک بہت مشکل راہ ہے.قبل امتحان کسی کے متعلق ہم کوئی رائے نہیں لگا سکتے اور میں جانتا ہوں کہ اس امتحان میں بعض مدعی کچے نکلیں گے.اب تک جس قدر درخواستیں آئی ہیں میں ان سب پر نیک ظن رکھتا ہوں کہ وہ عمدہ آدمی ہیں اور صابر اور شاکر ہیں، لیکن بعض ان میں سے بالکل نوجوان ہیں.نیز عرفاً اور شرعاً لازم ہے کہ ان کے واسطے ہم قُوْت لا یموت کا فکر کریں گو ہر جگہ جہاں وہ جائیں گے میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں وہ بات پائی جاتی ہے جو اخوت اسلامی کے واسطے ضروری ہے.ہماری جماعت کے لوگ ان کی خدمت کریں گے.مگر پہلے سے ان کے واسطے اسی جگہ انتظام مناسب ہوجانا بہتر ہے.واعظ ایسے ہونے چاہئیں جن کی معلومات وسیع ہوں.حاضر جواب ہوں.صبر اور تحمل سے کام کرنے والے ہوں.کسی کی گالی سے افروختہ نہ ہوجائیں.اپنے نفسانی جھگڑوں کو درمیان میں نہ ڈال بیٹھیں.خاکسارانہ اور مسکینانہ زندگی بسر کریں.سعید لوگوں کو تلاش کرتے پھریں جس طرح کہ کوئی کھوئی ہوئی شَے کو تلاش کرتا ہے.مفسدہ پرداز لوگوں سے الگ رہیں.جب کسی گاؤں میں جائیں وہاں دو چار دن ٹھہر جائیں.جس شخص میں فساد کی بد بو پائیں اس سے پرہیز کریں.کچھ کتابیں اپنے پاس رکھیں جو لوگوں کو دکھائیں.جہاں مناسب جانیں وہاں تقسیم کر دیں.یہ عمدہ صفات سید سرور شاہ صاحب میں پائے جاتے ہیں اور کشمیر کے واسطے مولوی عبد اللہ صاحب اس کام کے لیے موزوں معلوم ہوتے ہیں.واعظین کے واسطے ضروری ہوگا کہ اپنی ہفتہ وار رپورٹ یہاں بھیج دیا کریں.۱ ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخہ ۳؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۶

Page 307

بلاتاریخ بیوگان کا نکاح ایک شخص کا سوال حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا کہ بیوہ عورتوں کا نکاح کن صورتوں میں فرض ہے.اس کے نکاح کے وقت عمر، اولاد، موجودہ اسباب، نان و نفقہ کا لحاظ رکھنا چاہیے یا کہ نہیں؟ یعنی کیا بیوہ باوجود عمر زیادہ ہونے کے یا اولاد بہت ہونے کے یا کافی دولت پاس ہونے کے ہر حالت میں مجبور ہے کہ اس کا نکاح کیا جائے؟ فرمایا.بیوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم ہے.چونکہ بعض قومیں بیوہ عورت کا نکاح خلافِ عزّت خیال کرتے ہیں اور یہ بد رسم بہت پھیلی ہوئی ہے.اس واسطے بیوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہر بیوہ کا نکاح کیا جائے.نکاح تو اسی کا ہوگا جو نکاح کے لائق ہے اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے.بعض عورتیں بوڑھی ہو کر بیوہ ہوتی ہیں.بعض کے متعلق دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نکاح کے لائق نہیں ہوتیں.مثلاً کسی کو ایسا مرض لاحقِ حال ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہیں یا ایک بیوہ کافی اولاد اور تعلقات کی وجہ سے ایسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہیں کر سکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے.ایسی صورتوں میں مجبوری نہیں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑ کر خاوند کرایا جائے.ہاں اس بد رسم کو مٹا دینا چاہیے کہ بیوہ عورت کو ساری عمر بغیر خاوند کے جبراً رکھاجاتا ہے.۱ بلاتاریخ متبنّٰی بنانا حرام ہے کسی کا ذکر تھا کہ اس کی اولاد نہ تھی اور اس نے ایک اور شخص کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنا کر اپنی جائیداد کا وارث کر دیا تھا.فرمایا.یہ فعل شرعاً حرام ہے.شریعت اسلام کے مطابق دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنانا قطعاً حرام ہے.۱بدر جلد ۶نمبر ۴۱مورخہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۷ءصفحہ ۱۱

Page 308

بیمار اور مسافر روزہ نہ رکھیں بیمار اور مسافر کے روزہ رکھنے کا ذکر تھا.حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ شیخ ابن عربی کا قول ہے کہ اگر کوئی بیمار یامسافر روزہ کے دنوں میں روزہ رکھ لے تو پھر بھی اسے صحت پانے پر ماہ رمضان کے گذرنے کے بعد روزہ رکھنا فرض ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے.فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ(البقرۃ:۱۸۵) جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو وہ ماہِ رمضان کے بعد کے دنوں میں روزے رکھے.اس میں خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو مریض یا مسافر اپنی ضد سے یا اپنے دل کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے انہیں ایام میں روزے رکھے تو پھر بعد میں رکھنے کی اس کو ضرورت نہیں.خدا تعالیٰ کا صریح حکم یہ ہے کہ وہ بعد میں روزے رکھے.بعد کے روزے اس پر بہرحال فرض ہیں.درمیان کے روزے اگر وہ رکھے تو یہ اَمر زائد ہے اور اس کے دل کی خواہش ہے اس سے خدا تعالیٰ کا وہ حکم جو بعد میں رکھنے کے متعلق ہے ٹل نہیں سکتا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام میں روزہ رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے.خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے.مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے.خدا کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے.کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کر سکتا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا ہو بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہیے.مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا.مسافر اور مریض فدیہ دے سکتے ہیں فرمایا.اللہ تعالیٰ نے شریعت کی بنا آسانی پر رکھی ہے جو مسافر اور مریض صاحب مَقدرت ہوں.ان کو چاہیے کہ روزہ کی بجائے فدیہ دے دیں.فدیہ یہ ہے کہ ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے.۱ ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۴۲ مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۷

Page 309

بلاتاریخ المفتی ایک غلطی کی اصلاح کون سا مریض صرف فدیہ دے سکتا ہے گذشتہ پرچہ اخبار نمبر ۴۲مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۷ء کے صفحہ ۷ کالم اوّل میں یہ لکھا گیا تھا کہ مریض اور مسافر ایامِ مرض اور ایامِ سفر میں روزہ نہ رکھیں بلکہ ان ایام کے عوض میں ماہ رمضان کے بعد دوسرے دنوں میں بصورت صحت اور قیام ان روزوں کو پورا کریں.اسی عبارت کے اخیر میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’’جو مریض اور مسافر صاحب مقدرت ہوں ان کو چاہیے کہ روزہ کی بجائے فدیہ دیں.‘‘ اس جگہ مریض اور مسافر سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو کبھی امید نہیں کہ پھر روزہ رکھنے کا موقع مل سکے.مثلاً ایک نہایت بوڑھا ضعیف انسان یا ایک کمزور حاملہ عورت جو دیکھتی ہے کہ بعد وضع حمل بہ سبب بچے کو دودھ پلانے کے وہ پھر معذور ہو جائے گی.اور سال بھر اسی طرح گذر جائے گا.ایسے اشخاص کے واسطے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں کیونکہ وہ روزہ رکھ ہی نہیں سکتے اور فدیہ دیں.باقی اور کسی کے واسطے جائز نہیں کہ صرف فدیہ دے کر روزے کے رکھنے سے معذور سمجھا جاسکے.چونکہ اخبار بدر کی مذکورہ بالا عبارت صاف نہ تھی اس واسطے یہ مسئلہ دوبارہ حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا.آپ نے فرمایا کہ صرف فدیہ تو شیخ فانی یا اس جیسوں کے واسطے ہو سکتا ہے جو روزہ کی طاقت کبھی بھی نہیں رکھتے.ورنہ عوام کے واسطے جو صحت پاکر روزہ رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں.صرف فدیہ کا خیال کرنا اباحت کا دروازہ کھول دینا ہے.جس دین میں مجاہدات نہ ہوں وہ دین ہمارے نزدیک کچھ نہیں.اس طرح سے خدا تعالیٰ کے بوجھوں کو سر پر سے ٹالنا سخت گناہ ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ میرے راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ان کو ہی ہدایت دی جاوے گی.

Page 310

پانچ مجاہدات فرمایا.خدا تعالیٰ نے دین اسلام میں پانچ مجاہدات مقرر فرمائے ہیں.نما۱ز، رو۲زہ، ز۳کوٰۃ صدقات،۴حج، اسلامی دشمن۵ کا ذَبّ اور دَفع خواہ سیفی ہو خواہ قلمی.یہ پانچ مجاہدے قرآن شریف سے ثابت ہیں.مسلمانوں کو چاہیے کہ ان میں کوشش کریں اور ان کی پابندی کریں.یہ روزے تو سال میں ایک ماہ کے ہیں.بعض اہل اللہ تو نوافل کے طور پر اکثر روزے رکھتے رہتے ہیں اور ان میں مجاہدہ کرتے ہیں.ہاں دائمی روزے رکھنا منع ہیں.یعنی ایسا نہیں چاہیے کہ آدمی ہمیشہ روزے ہی رکھتا رہے بلکہ ایسا کرنا چاہیے کہ نفلی روزہ کبھی رکھے اور کبھی چھوڑ دے.صدقہ کی جنس خریدنا جائز ہے ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ میںمرغیاں رکھتا ہوں اور ان کا دسواں حصہ خدا کے نام پر دیتا ہوں اورگھر سے روزانہ تھوڑا تھوڑا آٹا صدقہ کے واسطے الگ کیا جاتا ہے کیا یہ جائز ہے کہ وہ چوزے اور وہ آٹا خود ہی خرید کر لوں اور اس کی قیمت مدّ متعلق میں بھیج دوں؟ فرمایا.ایسا کرنا جائز ہے.نوٹ.لیکن اس میں یہ خیال کرلینا چاہیے کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں.اگر کوئی شخص ایسی اشیاء کو اس واسطے خود ہی خرید کر لے گا کہ چونکہ خرید اور فروخت ہر دو اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں.جیسی تھوڑی قیمت سے چاہے خرید لے تو یہ اس کے واسطے گناہ ہوگا.۱ بلاتاریخ القول الطیّب مومن کی فراست بعض دوستوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں ایک شخص کی سفارش کی کہ وہ اب اپنی اصلاح کر رہا ہے.فرمایا.اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ.مومن کی فراست سے ڈرو.میری فراست اس کی حالت کو ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۴۳ مورخہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳

Page 311

تم سے بہتر جانتی ہے.فرمایا.ایک بزرگ کے پاس دو شیعہ آئے اور اپنے آپ کو سنّی ظاہر کیا اور اس بزرگ سے سوال کیا کہ اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ کے کیا معنے؟ انہوںنے جواب دیا کہ اس کے یہ معنے ہیں کہ تم اپنے شیعہ پن سے توبہ کرو اور سچے دل سے سنّی مسلمان ہوجاؤ.مثالی صبر و شکر فرمایا.بعض نادان خیال کرتے ہیں کہ مبارک احمد کا مَرنا ہمارے واسطے کسی سخت رنج اور صدمہ کا سبب ہوا ہے.وہ نہیں جانتے کہ اس واقعہ پر خدا تعالیٰ نے کس قدر تشفّی اور تسلّی اور اپنی خوشنودی کا اظہار اپنی پاک وحی کے ذریعہ سے کیا ہے.خدا تعالیٰ نے ہمارے صبر اور شکر اور والدہ مبارک احمد کے صبر پر جو خوشی کا اظہار کیا ہے اور فتح و نصرت کے وعدے دیئے ہیں اور فرمایا ہے کہ خدا تیرے ہر قدم کے ساتھ ہوگا.یہ ایسی باتیں ہیں کہ والدہ مبارک احمد نے کہا کہ خدا کا خوش ہوجانا مجھے ایسا پیارا ہے کہ اگر دو ہزار مبارک احمد مَر جائے تو مجھے اس کا غم نہیں.حلم کی تعلیم ایک دوست کو حضرت نے ایک مخالف کو کسی موقع پر سمجھانے کے واسطے تاکید کی.فرمایا.وہ مانے یا نہ مانے، آپ تبلیغ کا حق ادا کریں.کیونکہ جو شخص تبلیغ کرتا ہے اس کو بہرحال ثواب مل جاتا ہے اور تم یہ امید نہ رکھو کہ مخالف تمہارے ساتھ خوش خلقی یا تہذیب سے پیش آئے گا.کیونکہ وہ تو مخالف ہے.ہم کو بُرا جانتا ہے اس کے دل میں ہمارا ادب نہیں.جب تک کہ وہ دشمن ہے اس کے دل میں نہ ہمارا ادب ہو سکتا ہے نہ اعزاز اور نہ خیر اندیشی اور نہ وہ منصف مزاجی سے گفتگو کر سکتا ہے.ایک دفعہ ایک ایلچی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.وہ بار بار آپ کی ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتا تھا اور حضرت عمرؓ تلوار کے ساتھ اس کا ہاتھ ہٹاتے تھے آخر حضرت عمرؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا.حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ یہ ایسی گستاخی کرتا ہے کہ میرا جی چاہتا ہے کہ اس کو قتل کر دوں.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تمام گستاخی حلم کے ساتھ برداشت کی.سرشتِ زمین فرمایا.سیالکوٹ، گجرات، گوجرانوالہ اور جہلم کے اضلاع کی سر زمین اپنے اندر اسلامی سرشت کی خاصیت رکھتی ہے.ان اضلاع میں بہت لوگوں نے حق کی

Page 312

طرف رجوع کیا ہے.اور کثرت سے مرید ہوئے ہیں.ان کی تبلیغ کے خاص ذرائع پیدا کرنے چاہئیں.۱ بلاتاریخ فاتحہ خلف امام ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ فاتحہ خلف امام پڑھنا ضروری ہے؟ فرمایا.ضروری ہے.رفع یدین اسی شخص کا سوال پیش ہوا کہ کیا رفع یدین ضروری ہے؟ فرمایا کہ ضروری نہیں جو کرے تو جائز ہے.رمضان کا چاند سیالکوٹ سے ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ یہاں چاند منگل کی شام کو نہیں دیکھا گیا بلکہ بدھ کو دیکھا گیا ہے.اس واسطے پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا تھا.اب ہم کو کیا کرنا چاہیے؟ حضرت نے فرمایاکہ اس کے عوض میںماہ رمضان کے بعد ایک اور روزہ رکھنا چاہیے.جوازِ نکاح سوال پیش ہوا کہ ایک احمدی لڑکی ہے جس کے والدین غیر احمدی ہیں.والدین اس کی ایک غیر احمدی کے ساتھ شادی کرنا چاہتے تھے اور لڑکی ایک احمدی کے ساتھ کرنا چاہتی تھی.والدین نے اصرار کیا.عمر اس کی اسی اختلاف میں بائیس سال تک پہنچ گئی.لڑکی نے تنگ آکر والدین کی اجازت کے بغیر ایک احمدی سے نکاح کر لیا.نکاح جائز ہوا یا نہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ نکاح جائز ہوگیا.امام مقتدیوں کا خیال رکھے سوال پیش ہوا کہ ایک پیش امام ماہِ رمضان میں مغرب کے وقت لمبی سورتیں شروع کر دیتا ہے.مقتدی تنگ آتے ہیں کیونکہ روزہ کھول کر کھانا کھانے کا وقت ہوتا ہے.دن بھر کی بھوک سے ضعف لاحق حال ہوتا ہے.بعض ضعیف ہوتے ہیں.اس طرح پیش امام اور مقتدیوں میں اختلاف ہوگیا ہے.حضرت نے فرمایا کہ پیش امام کی اس معاملہ میں غلطی ہے.اس کو چاہیے کہ مقتدیوں کی حالت ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۴۴ مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۷

Page 313

کا لحاظ رکھے اور نماز کو ایسی صورت میں بہت لمبا نہ کرے.داڑھی بڑھانا اور مونچھیں کٹانا مستحسن ہے داڑھی اور مونچھ کے متعلق ذکر آیا کہ نئے نئے فیشن نکلتے ہیں.کوئی داڑھی منڈاتا ہے کوئی ہر دو داڑھی اور مونچھ منڈاتا ہے.حضرت نے فرمایا.مستحسن یہی بات ہے جو شریعت اسلام نے مقرر کی ہے کہ مونچھیں کٹائی جاویں اور داڑھی بڑھائی جاوے.۱ ۲؍اکتوبر ۱۹۰۷ء (بوقتِ سیر) جھوٹا مباہلہ کرنے والا سچے کی زندگی میں ہلاک ہوتا ہے ہماری جماعت کے ایک شخص نے کسی غیر احمدی کا سوال پیش کیا کہ آپ نے اپنی تصانیف میں لکھا ہے کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوجاتا ہے یہ درست نہیں کیونکہ مسیلمہ کذّاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد فوت ہوا تھا.حضرت اقدس نے فرمایا.یہ کہاں لکھا ہے کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مَر جاتا ہے.ہم نے تو اپنی تصانیف میں ایسا نہیں لکھا.لاؤ پیش کرو وہ کون سی کتاب ہے جس میں ہم نے ایسا لکھا ہے.ہم نے تو یہ لکھا ہوا ہے کہ مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہوجاتا ہے.مسیلمہ کذّاب نے تو مباہلہ کیا ہی نہیں تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا فرمایا تھا کہ اگر تو میرے بعد زندہ بھی رہا تو ہلاک کیا جائے گا سو ویسا ہی ظہور میں آیا.مسیلمہ کذّاب تھوڑے ہی عرصہ بعد قتل کیا گیا اور پیشگوئی پوری ہوئی.یہ بات کہ سچا جھوٹے۲ کی زندگی میں مَر جاتا ہے یہ بالکل غلط ہے.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۲کاتب کی غلطی ہے.دراصل یہ فقرہ یوں ہونا چاہیے.’’یہ بات کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مَر جاتا ہے یہ بالکل غلط ہے‘‘ چنانچہ سیاق و سباق میں اس کی وضاحت موجود ہے.(مرتّب)

Page 314

کے سب اَعدا ان کی زندگی میں ہی ہلاک ہوگئے تھے؟ بلکہ ہزاروں اَعدا آپ کی وفات کے بعد زندہ رہے تھے.ہاں جھوٹا مباہلہ کرنے والا سچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوا کرتا ہے.ایسے ہی ہمارے مخالف بھی ہمارے مَرنے کے بعد زندہ رہیں گے اور مخالفوں کے وجود کا قیامت تک ہونا ضروری ہے جیسے وَ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ( اٰلِ عـمران:۵۶) سےظاہر ہے.ہم تو ایسی باتیں سن سن کر حیران ہوتے ہیں.دیکھو! ہماری باتوں کو کیسے الٹ پلٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور تحریف کرنے میں وہ کمال حاصل کیا ہے کہ یہودیوں کے بھی کان کاٹ دیئے ہیں.کیا یہ کسی نبی، ولی، قطب، غوث کے زمانہ میں ہوا کہ اس کے سب اَعدا مَر گئے ہوں؟ بلکہ کافر منافق باقی رہ ہی گئے تھے.ہاں اتنی بات صحیح ہے کہ سچے کے ساتھ جو جھوٹے مباہلہ کرتے ہیں تو وہ سچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوتے ہیں جیسے کہ ہمارے ساتھ مباہلہ کرنے والوں کا حال ہو رہا ہے.جماعت کو خود سوچ کر عام سوالوں کا جواب دینا چاہیے مجھے تو اپنی جماعت پر افسوس ہوتا ہے کہ کیا ان میں اتنی عقل بھی نہیں کہ ایسے اعتراض کرنے والے سے پوچھیں کہ یہ ہم نے کہاں لکھا ہے کہ بغیر مباہلہ کرنے کے ہی جھوٹے سچے کی زندگی میں تباہ اورہلاک ہوجاتے ہیں؟ وہ جگہ تو نکالو جہاں یہ لکھا ہے.ہماری جماعت کو چاہیے کہ عقل میں، فہم میں ہر طرح سے ترقی کریں اور ایسی باتوں کا خود سوچ کر جواب دیا کریں اور اپنی ایمانی روشنی سے ان باتوں کو حل کیا کریں.مگر دنیا داری کے دھندوں میں مت ماری جاتی ہے.اتنا نہیں کر سکتے کہ معترض سے ہماری کتاب کی وہ جگہ ہی پوچھیں جہاں یہ لکھا ہے کہ سچے کی زندگی میں سب جھوٹے مَر جاتے ہیں.بلکہ جھوٹے تو قیامت تک رہیں گے.مبلّغین کے لیے حضرت اقدس کی کتب کے مطالعہ کی اہمیت فرمایا.اس تحریک سے مجھےیہ بھی یاد آگیا ہے کہ وہ لوگ جو اشاعت اور تبلیغ کے واسطے باہر جاویں.وہ ایسے نہ ہوں کہ الٹ پلٹ کر

Page 315

ہماری باتوں کو کچھ اَور کا اَور ہی بناتے رہیں اور بات تو کچھ اَور ہو اور سمجھانے کچھ اَور لگ جاویں.دوسروں کو تو ہمارے دعویٰ سے آگاہ کریں اور خود ہماری کتابوں کو کبھی پڑھا بھی نہ ہو.اس طرح سے ہی تحریف ہوا کرتی ہے.ایسے وقتوں میں صرف زبانی فیصلہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ تحریر پیش کرنی چاہیے.ہم پر الزم لگائے جاتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام حسینؓ کی توہین کی جاتی ہے حالانکہ ہم ان کو راستباز اور متقی سمجھتے ہیں.اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بہت بےعزّتی کی جاتی ہے اور ان کو گالی دی جاتی ہے حالانکہ ہم ان کو ایک اولو العزم نبی اور خدا کا راستباز بندہ سمجھتے ہیں.ہاں اگر حضرت عیسٰیؑ کا مَر جانا ثابت کرنا ان کے نزدیک گالی دینا ہے تو اس طرح سے تو ہم نے نکالی ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ دوسرے نبیوں کی طرح وفات پاگئے ہیں.۱ ۳؍اکتوبر۱۹۰۷ء (قبل نماز ظہر) ترقیءِ مدارج کے لیے آزمائش ضروری ہے ایک شخص نے عرض کی کہ میں روحانی فائدہ کے واسطے یہاں آیاہوں مجھے کچھ بتایا جائے.فرمایا.روحانی فائدہ بھی انہیں کو پہنچتا ہے جو آپ کوشش کرتے ہیں.دیکھو! ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اعلیٰ اور افضل تھے مگر انہوں نے بھی دین کی خاطر کیسے کیسے مصائب اٹھائے.دین بھی تو مَرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے.خدا چاہتا تو ایسا نہ کرتا مگر اس نے دنیا کے لیے بھی یہی قانون رکھا ہے کہ محنت سے سب کچھ ہوتا ہے اگر خدا کا فضل بھی ہو اور محنت بھی ہو تو انسان منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے.دنیا کے کاموں کے لیے انسان کیسے کیسے دکھ اٹھاتا اور کیسی کیسی تکلیفیں برداشت کرتا ہے اور تب جا کر کچھ حاصل ہوتا ہے تو کیا دین کے لیے کچھ بھی محنت اور سعی نہیں کرنی چاہیے؟ اگر تھوڑا سا مقدمہ آجاوے تو پھر انسان اس کے واسطے کہاں کہاں سے سفارشیں ۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۶ مورخہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۹

Page 316

لاتا ہے اور کس قدر خرچ کرتا ہے اور کتنی کوشش کرتا ہے اور اگر باوجود اتنی کوشش کے وہ مقدمہ خارج ہوجاتا ہے تو پھر اپیل کراتا ہے بلکہ اگر وہ بھی خارج ہوجاتی ہے توپھر کیسی کیسی مصیبتیں برداشت کر کے اپیل در اپیل کرتا اور کیا کا کیا کر گذرتا ہے تو کیا دین کو ہی ایسا سمجھنا چاہیے کہ وہ محض پھونک مارنے اور کسی وِرد وظیفہ کے کرنے سے حاصل ہوجائے گا.اور یونہی آرام طلبی سے گذارنے پر اس میں کامیابی ہوجائے گی؟ خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ(العنکبوت:۳) کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف زبانی قیل و قال پر ہی ان کو چھوڑ دیا جائے گا اور صرف اتنا کہنے سے ہی کہ ہم ایمان لے آئے دیندار سمجھے جائیں گے اور ان کا امتحان نہ ہوگا؟ بلکہ امتحان اور آزمائش کا ہونا نہایت ضروری ہے.سب انبیاء کا اس پر اتفاق ہے کہ ترقی مدارج کے لیے آزمائش ضروری ہے اور جب تک کوئی شخص آزمائش اور امتحان کی منازل طے نہیں کرتا دیندار نہیں بن سکتا.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ دکھ کے بعد ہی ہمیشہ راحت ہوا کرتی ہے.یاد رکھو جو شخص خدا کی راہ میں دکھ اور مصیبت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں وہ کاٹا جاوے گا.ترقی ہمیشہ مصائب اور تکالیف کے بعد ہوتی ہے اور ایمانی حالت کا پتا اسی وقت لگتا ہے جب تکالیف اور مصائب آویں.روحانی فوائد حاصل کرنے کے لیے پہلے اپنے آپ کو دکھ اور تکالیف اٹھانے کے لیے تیار کرلینا چاہیے.؎ عشق اوّل سرکش و خونی بود تاگریزد ہر کہ بیرونی بود بعض لوگ آتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں پھونک مارو کہ اولیاء اللہ بن جاویں اور ہماراسینہ صاف ہو جاوے اور روحانی معراج پر پہنچ جاویں اور ہمارے قلب میں پاکیزگی پیدا ہوجاوے.ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ سب کچھ دکھوں اور تکالیف کے بعد مل جاتا ہے اور ضرور مل جاتا ہے مومن کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا.جب انسان دنیا کے لیے طرح طرح کی تکالیف برداشت کر لیتا ہے.ایک کسان کو ہی دیکھو کہ پہر رات کے قریب اٹھتا ہے.ہل جوتتا ہے اور کتنی تکالیف اٹھاتا اور محنت

Page 317

کرتا ہے.نہ رات کو آرام کرتا ہے اور نہ دن کو.بلکہ جب بہت سی مشکل کے بعد فصل پک بھی جاتا ہے اس وقت بھی اس کے حاصل کرنے کے لیے کیا کیا مصائب اٹھاتا ہے اور اپنے عیال و اطفال سے علیحدگی اختیار کر کے اسے کاٹتا اور اس کو حاصل کرنے کے لیے کیسے کیسے دکھ اٹھاتا ہے.اور اس دنیا کے لیے جو آج ہے اور کل فنا ہوجائے گی، مارامارا پھرتا اور مصیبت پر مصیبت اور دکھ پر دکھ اٹھاتا ہے تو کیا پھر دین ہی ایسی چیز ہے جو محض پھونک مارنے سے حاصل ہوجاتا ہے اور اس میں کسی امتحان آزمائش اور محنت کی ضرورت نہیں؟ دین کے لیے محنت کی ضرورت دین کے لیے ایسی توقع کرنا اور اس کو ایک حلوہ بے دُود کی طرح سمجھنا کسی طرح بھی ٹھیک نہیں.صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ پر غور کرو کہ انہوں نے دین کی خاطر کیسے کیسے مصائب اٹھائے اور کن کن دکھوں میں وہ مبتلا ہوئے نہ دن کو آرام کیا نہ رات کو.خدا کی راہ میں ہر ایک مصیبت کو قبول کیا اور جان تک قربان کر دی اور دین کی خاطر سر کٹوا دیئے.مجھے اس وقت یاد آگیا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دشمن کے مقابلہ پر ایسے موقع پر نکلے کہ دوپہر کا وقت اور گرمی کا موسم تھا.سخت گرمی اور تپش تھی.لُو چلتی اور تیز دھوپ پڑتی تھی چلتے چلتے ایک نہایت ہی خوشگوار اور سر سبز و شاداب چشمے پر پہنچے.ایک صحابیؓ نے ایسی خوشگوار سر سبز اور ہری بھری جگہ دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے اجازت دی جاوے کہ اس جگہ پر عبادت کروں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا توبہ کرو کیا تو نہیں جانتا کہ یہ سب مصیبت ہم خدا کی خاطر برداشت کر رہے ہیں ایسی خوشکن جگہ پر آرام کر کے عبادت کرنے کا تو کوئی فائدہ نہیں.ذبح ہونے کے بعد زندگی ملتی ہے وہ تو بندگی ہی نہیں جو دکھ درد کے ساتھ نہیں.ہندوؤں کے گروؤں کی طرح کسی تالاب یا عمدہ حوض کے کنارے پر بیٹھ کر بآرام زندگی بسر کرنا اور سرسبز ہری بھری جگہ پر لیٹ کر خدا کی یاد کرنے سے کچھ نہیں بنتا.چاہیے کہ ابتلاؤں اور امتحانوں میں ثابت قدم رہو اور خدا کے لیے جان دینے میں بھی فرق نہ رکھو اور اس کی راہ میں قربان ہونے کے لیے ہر وقت تیار رہو.جب انسان اپنے دل

Page 318

میں فیصلہ کر لیتا ہےا ور دکھ کے لیے تیار رہتا ہے تب پھر خدا بھی ملتا ہے اور روحانی فائدہ بھی ہوتا ہے.یہی سنّت اللہ ہے اور جب سے دنیا پیدا ہوئی اور انبیاء کا سلسلہ شروع ہوا بغیر دکھ اور تکالیف کے برداشت کر نے کے خدا راضی نہیں ہوا کرتا اور نہ ہی دین حاصل ہوتا ہے.بعض لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ کسی جنتر منتر یا پھونک سے ہی ہمیں اولیاء اللہ بنا دیویں اور ایک زندگی کی روح پھونک دیویں.مگر خدا تو پہلے ذبح کر لیتا ہے اور پھر زندہ کرتا ہے بلکہ ایسے ایسے امتحانوں اور آزمائشوں کے وقت انسان خود بھی معلوم کر لیتا ہے کہ اب میں وہ نہیں ہوں جو پہلے تھا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ ایسے امتحانوں میں پورا اترنے کے بعد خدا ضرور ملتا ہے.جب تک انسان خدا کی راہ میں تکالیف اور مصائب برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوجاتا.تب تک ترقی کی امید بھی نہیں ہو سکتی.نماز بھی اضطرابی حالت کوظاہر کرتی ہے دیکھو! یہ جو نماز پڑھی جاتی ہے اس میں بھی ایک طرح کا اضطراب ہے.کبھی کھڑا ہونا پڑتا ہے، کبھی رکوع کرنا پڑتا ہے، کبھی سجدہ کرنا پڑتا اور پھر طرح طرح کی احتیاطیں کرنی پڑتی ہیں.مطلب یہی ہوتا ہے کہ انسان خدا کے لیے دکھ اور مصیبت کو برداشت کرنا سیکھے ورنہ ایک جگہ بیٹھ کر بھی تو خدا کی یاد ہو سکتی تھی.پر خدا نے ایسا منظور نہیں کیا.صلوٰۃ کا لفظ ہی سوزش پر دلالت کرتا ہے.جب تک انسان کے دل میں ایک قسم کا قلق اور اضطراب پیدا نہ ہو اور خدا کے لیے اپنے آرام کو نہ چھوڑے تب تک کچھ بھی نہیں.ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ فطرتاً اس قسم کے ہوتے ہیں جو ان باتوں میں پورے نہیں اتر سکتے اور پیدائشی طور پر ہی ان میں ایسی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جو وہ ان امور میں استقلال نہیں دکھا سکتے مگر تاہم بھی توبہ اور استغفار بہت کرنی چاہیے کہ کہیں ہم ان میں ہی شامل نہ ہوجاویں جو دین سے بالکل بے پروا ہوتے ہیں اور اپنا مقصود بالذّات دنیا کو ہی سمجھتے ہیں.ہر زمانہ کی آزمائشیں الگ الگ ہوتی ہیں ہر ایک زمانہ میں علیحدہ علیحدہ امتحان اور آزمائشیں ہوا کرتی ہیں.صحابہ رضی اللہ عنہم

Page 319

نے تو خدا کی راہ میں جانیں دی تھیں اور اپنے سر کٹوائے تھے اور دوسرے نبیوں کے زمانہ میں کسی اور قسم کے ہی دکھ اور مصائب تھے.غرض جب تک انسان ابتلاؤں اور آزمائشوں میں پورا نہیں اترتا تب تک ترقی نہیں کرتا اور مقبول حضرت احدیت نہیں ہوتا.بغیر تکلیفوں اور طرح طرح کے مصائب کے تو کچھ بنتا ہی نہیں.اللہ تعالیٰ پر بد ظنّی مت کرو یاد رکھو! اللہ تعالیٰ رحیم کریم ہے.اس پر بدظنی نہیں کرنی چاہیے جو اس کی سنّت کو نگاہ میں رکھے گا اور اس کے لیے دکھ اور تکالیف کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جاوے گا وہ ضرور کامیاب ہوگا.اگر اس کے بتائے ہوئے راستہ پر نہیں چلے گا اور بخل سے کام لے گا تو رہ جاوے گا.دیکھو! فوجوں میں جو لوگ بھرتی ہوتے ہیں اور دنیا کی خاطر لڑنے مَرنے اور جان دینے کے لیے نوکر ہوتے ہیں وہ کوئی ہزاروں روپیہ تو تنخواہ نہیں پاتے.یہی دس بارہ روپیہ کی خاطر جان دینا قبول کر لیتے ہیں مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ خدا کی خاطر اور اس دائمی بہشت اور دائمی خوشنودی کے لیے کوئی فکر نہیں کرتے.دائمی سکھ کے لیے کوشش کرنی چاہیے جب دنیا کے لیے ایسےایسے کام کر لیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ حقیقی آرام اور ہمیشہ کے سکھ کے لیے اتنی کوشش نہیں کی جاتی؟ اصل میں ایسے لوگ خدا کی اور خدا کے انعام و اکرام کی قدر نہیں کرتے.اگر اس کی قدر کرتے تو جان کیا چیز تھی جو قربان کرنے کے لیے تیار نہ ہوجاتے.اصلی زندگی اور حقیقی سکھ تو ہے ہی وہ جو خدا کی راہ میں مَرنے سے حاصل ہوتا ہے.حقیقی زندگی تو اپنے آپ پر ایک موت وارد کر لینے سے ہی ملا کرتی ہے ایسے لوگ جو جنتروں منتروں اور ٹونوں ٹوٹکوں کی تلاش میں پھرتے رہتے ہیں دین کے لیے کوشش کرنا چاہتے ہی نہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ بڑے آرام سے اور گھر بیٹھے بٹھائے قلب کی صفائی حاصل ہوجاوے.اصل میں جھوٹے قصوں اور کہانیوں نے ان لوگوں کو بڑا نقصان پہنچایا ہے اور ایسی باتوں سے انہوں نے سمجھ رکھا ہے کہ دین ایک ایسی چیز ہے جو جنتروں منتروں اور تعویذوں سے حاصل ہو سکتا ہے.اسی واسطے ان لوگوں نے بعض بعض ریاضتیں بھی مقرر

Page 320

کی ہوئی ہیں جن پر عمل کرنے سے کہتے ہیں قلب جاری ہوجاتا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ باوجود قلب جاری ہونے کے عملی حالت ان کی اور بھی خراب ہوجاتی ہے.اور ایسے وظائف میں سے ایک ذکر اَرّہ بھی ہے کہ جس کا نتیجہ آخر میں سِل ہوا کرتا ہے.حالانکہ خدا تعالیٰ نے ایک ہی راہ رکھا ہے جیسے فرمایا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا(الشمس:۱۰) اور یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان خدا کی رضا کے ساتھ راضی ہوجاوے.کوئی دوئی نہ رہے.خدا کے ساتھ کسی اور کی ملونی نہ رہے اور کسی قسم کی دوری یا جدائی نہ رہے.صدق، وفا اور استقلال کی ضرورت یہ تھوڑی سی بات نہیں.یہی وہ مشکل گھاٹی ہے جو بڑے بڑے مصائب اور امتحانوں کے بعد طے ہوا کرتی ہےیہ نماز جو تم لوگ پڑھتے ہو.صحابہؓ بھی یہی نماز پڑھا کرتے تھے اور اسی نماز سے انہوں نے بڑے بڑے روحانی فائدے اور بڑے بڑے مدارج حاصل کئے تھے.فرق صرف حضور اور خلوص کا ہی ہے.اگر تم میں بھی وہی اخلاص، صدق، وفا اور استقلال ہو تو اسی نماز سے اب بھی وہی مدارج حاصل کر سکتے ہو جو تم سے پہلوں نے حاصل کئے تھے.چاہیے کہ خدا کی راہ میں دکھ اٹھانے کے لیے ہر وقت تیار رہو.یاد رکھو! جب اخلاص اور صدق سے کوشش نہیں کرو گے کچھ نہیں بنے گا.بہت آدمی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ یہاں سے تو بیعت کر جاتے ہیں مگر گھر میں جا کر جب تھوڑی سی بھی تکلیف آئی اور کسی نے دھمکایا تو جھٹ مرتد ہوگئے.ایسے لوگ ایمان فروش ہوتے ہیں.صحابہؓ کو دیکھو کہ انہوں نے تو دین کی خاطر اپنے سر کٹوا دیئے تھے اور جان و مال سب خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے.کسی دشمن کی دشمنی کی انہیں پروا تک بھی نہ تھی.وہ تو خدا تعالیٰ کی راہ میں سب طرح کی تکالیف اٹھانے اور ہر طرح کے دکھ برداشت کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے اور انہوں نے اپنے دلوں میں فیصلہ کیا ہوا تھا.مگر یہ ہیں جو ذرا بھی نمبردار یا کسی اور شخص نے دھمکایا تو دین ہی چھوڑ دیا.ایسے لوگوں کی عبادتیں بھی محض پوست ہی پوست ہوتی ہیں.ایسوں کی نمازیں بھی خدا تک نہیں

Page 321

پہنچتیں بلکہ اسی وقت ان کے منہ پر ماری جاتی ہیں اور ان کے لیے لعنت کا موجب ہوتی ہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۠ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ(الماعون:۵،۶) وہ لوگ جو نمازوں کی حقیقت سے ہی بے خبر ہوتے ہیں.ان کی نمازیں نری ٹکریں ہوتی ہیں.ایسے لوگ ایک سجدہ اگر خدا کو کرتے ہیں تو دوسرا دنیا کو کرتے ہیں جب تک انسان خدا کے لیے تکالیف اور مصائب کو برداشت نہیں کرتا.تب تک مقبول حضرتِ احدیت نہیں ہوتا.دیکھو! دنیا میں بھی اس کا نمونہ پایا جاتا ہے.اگر ایک غلام اپنے آقا کا ہر ایک تکلیف اور مصیبت میں اور ہر ایک خطرناک میدان میں ساتھ دیتا رہے تو وہ غلام غلام نہیں رہتا بلکہ دوست بن جاتا ہے.یہی خدا کا حال ہے اگر انسان اس کا دامن نہ چھوڑے اور اسی کے آستانہ پر گرا رہے اور استقلال کے ساتھ وفاداری کرتا رہے تو پھر خدا بھی ایسے کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور اس کے ساتھ دوست والا معاملہ کرتا ہے.وفاداری کا مادہ تو کتّے میں بھی پایا جاتا ہے.خواہ وہ بھوکا رہے.بیمار ہو جائے کمزور ہو جائے خواہ کچھ ہی ہو مگر اپنے مالک کے گھر کو نہیں چھوڑتا اور وہ لوگ جو ذرا سی تکلیف پر دین سے ہی روگرداں ہو جاتے ہیں ان کو کتّے سے سبق سیکھنا چاہیے.لکھا ہے کہ ایک یہودی مشرف باسلام ہوا.کچھ دن بعد جو مصیبت کا سامناہوا اور بھوکا مَرنے لگا اور فاقہ پر فاقہ آنے لگا تو کسی یہودی کے مکان پر بھیک مانگنے کے لیے گیا.یہودی نے اس نومسلم کو چار روٹیاں دیں.جب وہ روٹیاں لے کر جا رہا تھا تو ایک کتّا بھی اس کے پیچھے ہو لیا.اس شخص نے یہ خیال کر کے کہ شاید ان روٹیوں میں سے کتّے کا بھی کچھ حصہ ہے ایک روٹی کتّے کے آگے پھینک دی اور آگے چل دیا.کتّا اس روٹی کو جلدی جلدی کھا کر پھر پیچھے پیچھے ہو لیا تب اس نے خیال کیا کہ شاید ان روٹیوں میں سے نصف حصہ کتّے کا ہو.تب اس نے ایک اور روٹی کتّا کے آگے پھینک دی مگر کتّا اس کو بھی کھا کر پیچھے پیچھے چل دیا.پھر اس نے جب معلوم کیا کہ کتّا پیچھا نہیں چھوڑتا تو اسے خیال گذرا کہ شاید تین حصے اس کے ہوں اور ایک حصہ میرا ہو اس لئے اس نے ایک روٹی اور ڈال دی مگر کتّا وہ روٹی کھا کر بھی واپس نہ گیا.تب اسے کتّے پر غصہ آیا اور کہا تُو تو بڑا بد ذات ہے.

Page 322

مانگ کر میں چار روٹیاں لایا تھا مگر ان میں سے تین کھا کر بھی تو پیچھا نہیں چھوڑتا.خدا تعالیٰ نے اس وقت کتّے کو بولنے کے لئے زبان دے دی.تب کتّےنے جواب دیا کہ میں بد ذات نہیں ہوں.میں خواہ کتنے فاقے اٹھاؤں مگر مالک کے سوائے دوسرے گھر پر نہیں جاتا.بد ذات تو تُو ہے جو دو تین فاقے اٹھا کر ہی کافر کے گھر مانگنے کے لیے آگیا.تب وہ مسلمان یہ جواب سن کر اپنی حالت پر بہت پشیمان ہوا.ایسے ہی گورداسپور میں ایک بلّی تھی خواہ کچھ ہی اس کے پاس پڑا رہے مگر وہ بغیر اجازت کچھ نہ کھاتی تھی ایک دفعہ بعض دوستوں نے اس بلّی کے مالک کو کہا کہ ہم بھی یہ تجربہ کرناچاہتے ہیں چنانچہ انہوں نے حلوہ، دودھ، چھیچھڑے وغیرہ بلّی کے پاس رکھ کر باہر سے قفل لگاد یا.تین دن کے بعد جو دیکھا تو بلّی مَری پڑی تھی اور وہ کھانا اسی طرح صحیح سالم موجود تھا.اگر ارذل مخلوقات کے صفاتِ حسنہ بھی انسان میں نہ پائے جائیں تو پھر وہ کس خوبی کے لائق ہے؟۱ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۷ء (بوقتِ سیر) عبادت کے اصول کا خلاصہ ایک شخص نے سوال کیا کہ نماز میں کھڑے ہو کر اللہ جل شانہ کا کس طرح کا نقشہ پیش نظر ہونا چاہیے؟ حضرت اقدس نے فرمایا.موٹی بات ہے.قرآن شریف میں لکھا ہے اُدْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ(الاعراف:۳۰) اخلاص سے خدا تعالیٰ کو یاد کرنا چاہیے اور اس کے احسانوں کا بہت مطالعہ کرنا چاہیے.چاہیے کہ اخلاص ہو.احسان ہو اور اس کی طرف ایسا رجوع ہو کہ بس وہی ایک ربّ اور حقیقی کار ساز ہے.عبادت کے اصول کا خلاصہ اصل میں یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے کھڑا کرے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور یا یہ کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے.ہر قسم کی ملونی اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو

Page 323

جاوے اور اسی کی عظمت اور اسی کی ربوبیت کا خیال رکھے.ادعیہ ماثورہ اور دوسری دعائیں خدا سے بہت مانگے اور بہت توبہ استغفار کرے اور بار بار اپنی کمزوری کا اظہار کرے تاکہ تزکیہء نفس ہوجاوے اور خدا سے سچا تعلق ہو جاوے اور اسی کی محبت میں محو ہوجاوے اور یہی ساری نماز کا خلاصہ ہے اور یہ سارا سورہ فاتحہ میںہی آجاتا ہے.دیکھو اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ(الفاتـحۃ:۵) میں اپنی کمزوریوں کا اظہار کیا گیا ہے اور امداد کے لیے خدا تعالیٰ سے ہی درخواست کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ سے ہی مدد اور نصرت طلب کی گئی ہے اور پھر اس کے بعد نبیوں اور رسولوں کی راہ پر چلنے کی دعا مانگی گئی ہے اور ان انعامات کو حاصل کرنے کے لیے درخواست کی گئی ہے جو نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ سے اس دنیا پر ظاہر ہوئے ہیں اور جو انہیں کی اتباع اور انہیں کے طریقہ پر چلنے سے حاصل ہو سکتے ہیں.اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا مانگی گئی ہے کہ ان لوگوں کی راہوں سے بچا جنہوں نے تیرے رسولوں اور نبیوں کا انکار کیا اور شوخی اور شرارت سے کام لیا ور اسی جہان میں ہی ان پر غضب نازل ہوا یا جنہوں نے دنیا کو ہی اپنا اصلی مقصود سمجھ لیا اور راہ راست کو چھوڑ دیا.اصلی مقصد نماز کا تو دعا ہی ہے اور اس غرض سے دعا کرنی چاہیے کہ اخلاص پیدا ہو اور خدا تعالیٰ سے کامل محبت ہو اور معصیت سے جو بہت بُری بَلا ہے اور نامہ اعمال کو سیاہ کرتی ہے طبعی نفرت ہو اور تزکیہ نفس اور روح القدس کی تائید ہو.دنیا کی سب چیزوں جاہ و جلال، مال و دولت، عزّت و عظمت سے خدا مقدم ہو اور وہی سب سے عزیز اور پیارا ہو اور اس کے سوائے جو شخص دوسرے قصے کہانیوں کے پیچھے لگا ہوا ہے جن کا کتاب اللہ میں ذکر تک نہیں وہ گرا ہوا ہے اور محض جھوٹا ہے.نماز اصل میں ایک دعا ہے جو سکھائے ہوئے طریقہ سے مانگی جاتی ہے.یعنی کبھی کھڑے ہونا پڑتا ہے کبھی جھکنا اور کبھی سجدہ کرنا پڑتا ہے اور جو اصلیت کو نہیں سمجھتا وہ پوست پر ہاتھ مارتا ہے.مصائب و شدائد ضروری ہیں فرمایا.مصائب اور شدائد کا آنا نہایت ضروری ہے.کوئی نبی نہیں گذرا جس کا امتحان نہیں لیا گیا.جب کسی کا کوئی عزیز مَر جاتا ہے تو اس کے لیے یہ بڑا نازک وقت ہوتا ہے.مگر یاد رکھو ایک پہلو پر جانے

Page 324

والے لوگ مشرک ہوتے ہیں.آخر خدا کی طرف قدم اٹھانے اور حقیقی طور پر اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ(الفاتـحۃ:۶) والی دعا مانگنے کے یہی معنے تو ہیں کہ خدایا! وہ راہ دکھا جس سے تو راضی ہو اور جس پر چل کر نبی کامیاب اور بامراد ہوئے.آخر جب نبیوں والی راہ پر چلنے کے لیے دعا کی جاوے گی تو پھر ابتلاؤں اور آزمائشوں کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے اور ثابت قدمی کے واسطے خدا سے مدد طلب کرتے رہنا چاہیے.جو شخص یہ چاہتا ہے کہ صحت و عافیت بھی رہے.مال و دولت میں بھی ترقی ہو اور ہر طرح کے عیش و عشرت کے سامان اور مالی اور جانی آرام بھی ہوں.کوئی ابتلا بھی نہ آوے اور پھر یہ کہ خدا بھی راضی ہو جاوے وہ ابلہ ہے وہ کبھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا.جن لوگوں پر خدا راضی ہوا ہے ان کے ساتھ یہی معاملہ ہوا ہے کہ وہ طرح طرح کے امتحانوں میں ڈالے گئے اور مختلف مصائب اور شدائد سے ان کا سامنا ہوا.حضرت ابراہیمؑ پر دیکھو کیسا نازک ابتلا آیا تھا اور پھر اس کے بعد سب نبیوں کے ساتھ یہی معاملہ رہا.یہاں تک کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آگیا.دیکھو ان کو پیدا ہوتے ہی یتیمی کا سامنا ہوا.یتیمی بھی تو بُری بَلا ہے خدا جانے کیا کیا دکھ اٹھائے اور پھر دعویٰ کرتے ہی مصیبتوں کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا.یاد رکھو! انبیاء کا دوسرا نام اہلِ بَلا و اہلِ ابتلا بھی ہے.ابتلاؤں سے کوئی نبی بھی خالی نہیں رہا.ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ بیٹے فوت ہوئے تھے اور پھر انبیاء کو تو رہنے دو.امام حسینؓ کو دیکھو کہ ان پر کیسی کیسی تکلیفیں آئیں.آخری وقت میں جو ان کو ابتلا آیا تھا کتنا خوفناک ہے.لکھا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ستاون برس کی تھی اور کچھ آدمی ان کے ساتھ تھے.جب سولہ یا سترہ آدمی ان کے مارے گئے اور ہر طرح کی گھبراہٹ اور لاچاری کا سامنا ہوا تو پھر ان پر پانی کا پینا بند کر دیا گیا.اور ایسا اندھیر مچایا گیا کہ عورتوں اور بچوں پر بھی حملے کئے گئے اور لوگ بول اٹھے کہ اس وقت عربوں کی حمیت اور غیرت ذرا بھی باقی نہیں رہی.اب دیکھو کہ عورتوں اور بچوں تک بھی ان کے قتل کئے گئے اور یہ سب کچھ درجہ دینے کے لیے تھا.جاہل تو کہیں گے کہ وہ گنہگار اور بد اعمال تھے اس لیے ان پر یہ تکلیف آئی مگر ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ آرام سے کوئی درجہ

Page 325

نہیں ملا کرتا جو لوگ ایک ہی پہلو پر زور دئیے جاتے ہیں اور ابتلاؤں اور آزمائشوں میں صبر کرنا نہیں چاہتے.اندیشہ ہے کہ وہ دین ہی چھوڑ دیں جیسے کہ شیعہ لوگ ہیں کہ اس حقیقت کو دیکھتے نہیں جو امتحانوں اور آزمائشوں کے بعد حاصل ہوا کرتی ہے اور نہ ہی اس کی پروا کرتے ہیں مگر سیاپا لگا تار کئے جاتے ہیں اور چھوڑنے میں نہیں آتے.کیا امام حسینؓ نے انہیں وصیت کی تھی کہ میرے بعد میرا سیاپا کرتے رہنا؟ یاد رکھو جتنے اولیاء اللہ اور مقرب لوگ گذرے ہیں.ان کے بڑے بڑے تلخ امتحان ہوئے ہیں اور جو پہلوں کا حال ہے وہ آنے والوں کے لیے ایک سبق ہے.یہ تو بڑی غلطی ہے کہ ایک طرف تو انسان چاہے کہ ہر طرح کی آسودگی اور آرام ہو اور خوشنودی کے سب سامان مہیا ہوں اور دوسری طرف مقرب اللہ بھی بن جاوے.یہ تو ایسا مشکل ہے جیسے اونٹ کا سوئی کے نکّے میں سے گذر جانا بلکہ اس سے بھی ناممکن.جب تک ابتلاؤں اور امتحانوں میں انسان پورا نہ اترے کچھ نہیں بنتا.۱ بلا تاریخ چند سوالات کے جوابات ایک شخص نے حضرت اقدس کی خدمت بابرکت میں چند سوال پیش کئے جو بمع جواب ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.سوال نمبر۱.زردشت نبی تھا یا نہیں؟ حضرت اقدس نے فرمایا.ہم تو یہی کہیں گے کہ اٰمَنْتُ بِاللہِ وَ رُسُلِہٖ ۲ خدا کے کل رسولوں۳ پر ہمارا ایمان ہے مگر ۱الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۸ مورخہ ۲۴؍اکتوبر۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱ نیز بدر جلد ۶ نمبر ۴۴ مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ ۲بدر میںلکھا ہے.’’ اٰمَنْتُ بِاللہِ وَ مَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ‘‘(بدر جلد ۶ نمبر ۴۴ مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۸) ۳بدر میں لکھا ہے.’’خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں اور تمام رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۴۴ مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۸)

Page 326

اللہ کریم نے ان سب کے نام اور حالات سے ہمیں آگاہی نہیں دی۱.جیسے فرمایا وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ(المؤمن:۷۹) اتنے کروڑ مخلوقات پیدا ہوتی رہی اور کروڑ ہا لوگ مختلف ممالک میں آباد رہے یہ تو نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ نے ان کو یونہی چھوڑ دیا ہو اور کسی نبی کے ذریعہ سے ان پر اتمامِ حجّت نہ کی ہو.آخر ان میں رسول آتے ہی رہے ہیں.۲ ممکن ہے کہ یہ بھی انہیں میں سے ایک رسول ہوں مگر ان کی تعلیم کا صحیح صحیح پتا اب نہیں لگ سکتا.کیونکہ زمانہ دراز گذر جانے سے تحریف لفظی اور معنوی کے سبب بعض باتیں کچھ کا کچھ بن گئی ہیں حقیقی طور پر محفوظ رہنے کا وعدہ تو صرف قرآن مجید کے لیے ہی ہے.مومن کو سوءِ ظن کی نسبت نیک ظن کی طرف زیادہ جانا چاہیے.۳ قرآن مجید میں وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ (فاطر:۲۵) لکھا ہے.اس لیے ہو سکتا ہے کہ وہ بھی ایک رسول ہوں.سوال نمبر۲.براہین احمدیہ میں آپ نے کلامِ الٰہی کی ایک نشانی یہ بھی لکھی ہے کہ وہ ہر ایک پہلو میں دوسری کلاموں سے افضل ہوتا ہے.توریت انجیل بھی تو خدا کا کلام ہیں کیا ان میں بھی یہ وصف پایا جاتا ہے؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کتابوں کی نسبت قرآن مجید میں يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ (المائدۃ:۱۴) لکھا ہے وہ لوگ شرح کے طور پر اپنی طرف سے بھی کچھ ملا دیا کرتے تھے.اس لیے جو کتابیں محرّف مبدّل

Page 327

ہوچکی ہیں ان میں یہ نشانی کب مل سکتی ہے؟ اس پر حضرت حکیم الامت نے عرض کی کہ حضور توریت میں لکھا ہے ’’پھر موسیٰ خدا کا بندہ مَر گیا اور موسیٰ جیسا نہ کوئی پیدا ہوا نہ ہوگا اور اس کی قبر بھی آج تک کوئی نہیں جانتا‘‘ تو یہ کلام حضرت موسٰی کی ہو ہی کس طرح سکتی ہے اور انجیل کی نسبت تو عیسائی خود قائل ہیں کہ وہ اصلی جو عیسیٰ کی انجیل تھی نہیں ملتی.یہ سب تراجم در تراجم ہیں اور ترجمے مترجم کے اپنے خیالات کے مطابق ہوا کرتے ہیں.اور ا ن میں بہت سا حصہ اس قسم کا پایا جاتا ہے جو دوسروں کا بیان ہے جیسے صلیب کا واقعہ وغیرہ.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ ٹھیک بات ہے.اگر تمام دنیا میں تلاش کریں تو قرآن مجید کی طرح خالص اور محفوظ کلامِ الٰہی کبھی نہیں مل سکتا بالکل محفوظ اور دوسروں کی دست بُرد سے پاک کلام تو صرف قرآن مجید ہی ہے.دوباتیں بڑی یاد رکھنے والی ہیں ایک تو قرآن شریف کی حفاظت کی نسبت کہ روئے زمین پر ایک بھی ایسی کتاب نہیں جس کی حفاظت کا وعدہ خود اللہ کریم نے کیا ہو اور جس میں اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الـحجر:۱۰) کا پُر زور اور متحدیانہ دعویٰ موجود ہو.اور دوسرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی حالتوں کی نسبت.کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر ایک طرح کے اخلاق ظاہر کرنے کا موقع ملا.حضرت موسٰی کو دیکھو کہ وہ راستہ میں ہی فوت ہوگئے تھے اور حضرت عیسٰیؑ تو ہمیشہ مغلوب ہی رہے.معلوم نہیں اگر غالب ہوتے تو کیا کرتے.مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح سے اقتدار اور اختیار حاصل کر کے اپنے جانی دشمنوں اور خون کے پیاسوں کو اپنے سامنے بُلا کر کہہ دیا لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ(یوسف:۹۳) اور پھر یہ بھی دیکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مبعوث ہوئے تھے جب فسق و فجور، شرک اور بُت پرستی اپنے انتہا کو پہنچ چکی تھی اور ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ (الروم:۴۲) والا معاملہ ہو رہا تھا.اور گئے اس وقت تھے جب وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا(الـنصـر:۳) والا نظارہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیا تھا اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کی نظیر تمام دنیا میں نہیں پائی جاتی اور یہی تو کاملیت ہے کہ جس مقصود کے لیے

Page 328

آئے تھے اس کو پورا کر کے دکھا دیا.حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو صلیب کا ہی منہ دیکھتے پھرے اور یہودیوں سے رہائی نہ پاسکے.مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غالب ہو کر وہ اخلاق دکھائے جن کی نظیر نہیں.سوال نمبر۳.عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت تو قرآن شریف میں کلمۃاور رُوْحٌ مِّنْهُ لکھا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا.ہم بھی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو مسِّ شیطان سے پاک سمجھتے اور دوسرے نبیوں کی ارواح کی طرح اس کی روح کو بھی رُوْحٌ مِّنْهُ مانتے ہیں اور يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ (الاعراف:۱۵۹) پر یقین رکھتے ہیں.مگر اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوسرے انبیاء سے کوئی فضیلت تو ثابت نہیں ہو سکتی.آپ ہی بتائیں کہ ہر ایک شخص رُوْحٌ مِّنْهُ ہوتا ہے یا کسی اور طرف سے؟ سب ارواح خدا تعالیٰ کی مخلوق اور اسی کی طرف سے ہوتی ہیں نہ کہ کسی اور طرف سے.ہاں اس میں ایک لطیف اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ فاسقوں، فاجروں کی ارواح کو بسبب ان کے فسق و فجور اور شرک کی گندگی کے رُوْحٌ مِّنْهُ نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ روح الشیطان ہوتے ہیں جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے شَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ (بنی اسـرآءیل:۶۵) اور اس طرح سے ہم مانتے ہیں کہ بعض روح الشیطان ہوتے ہیں اور بعض رُوْحٌ مِّنْهُ ہوتے ہیں بعض آدمی ایسے خراب ہوتے ہیں کہ وہ نہایت ہی خبیث الفطرت اور شیطان خصلت ہوتے ہیں.ان سے توقع ہی نہیں ہو سکتی کہ وہ کبھی رجوع الی اللہ کر سکیں.ایسے لوگوں پر رُوْحٌ مِّنْهُ کا لفظ نہیں بولا جاتا بلکہ وہ روح الشیطان ہوتے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر جو رُوْحٌ مِّنْهُ یا کلمۃ کا لفظ بولا گیا ہے تو وہ بطور ذبّ اور دفع کے ہے اور اس الزام کو دور کیا گیا ہے جو ان پر لگایا گیا تھا ورنہ کل راستباز اور نیکو کار لوگ رُوْحٌ مِّنْهُ ہی ہوتے ہیں.سوال نمبر ۴.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو خدا نے بے باپ پیدا کیا تھا.حضرت اقدس نے فرمایا.اگر بے باپ پیدا ہونا دلیلِ الوہیت اور ابنیت ہے تو پھر حضرت آدم علیہ السلام بدرجہ اولیٰ اس

Page 329

کے مستحق ہیں کیونکہ نہ ان کی ماں ہے نہ باپ اور خدا فرماتا ہے اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ(اٰلِ عـمران:۶۰) اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ چونکہ حضرت عیسٰیؑ کے بے باپ ہونے سے خلقت کو دھوکا لگنے کا اندیشہ تھا اس لیے خدا نے آدم علیہ السلام کو بغیر ماں اور باپ کے پیدا کر کے ایک نظیر پہلے ہی سے قائم کر دی تھی، لیکن اگر اس کے آسمان پر جانے والی بات بھی صحیح مانی جاوے تو چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی بھی ایک نظیر قائم کر دیتا.اب بتلاؤ جبکہ خدا نے آسمان پر جانے کی کوئی نظیر پیش نہیں کی تو پھر اسی سے ہی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے آسمان پر جانے والی کہانی محض جھوٹی ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب کفّار نے سوال کیا تھا کہ اَوْ تَرْقٰى فِي السَّمَآءِ (بنی اسـرآءیل:۹۴) یعنی آسمان پر چڑھ جاؤ تو خدا نے یہی جواب دیا تھا کہ بشر آسمان پر نہیں جا سکتا جیسے فرمایا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا (بنی اسـرآءیل:۹۴) اگر بشر آسمان پر جا سکتا تھا تو چاہیے تھا کہ کفّار نظیر پیش کر دیتے.افسوس کہ ان لوگوں نے بے وجہ پادریوں کی مدد پر کمر باندھ لی ہے.جب وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی رو سے بشر تو آسمان پر جا نہیں سکتا مگر عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر چلے گئے اس لیے وہ خدا ہیں تو پھر منہ تکتے رہ جاتے ہیں.اتنا نہیں سمجھتے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو ایک کمزور اور عاجز انسان تھے اور خدا کے رسول تھے ایک ذرّہ بھی اس سے زیادہ نہ تھے.اگر وہ خدا تھا تو یہ بارِ ثبوت عیسائیوں پر ہے کہ وہ کوئی سورج، چاند یا زمین کا پتا دیویں جو اس نے بنائی تھی.وہ بےچارے تو ایک مچھر بھی پیدا نہیں کر سکتے تھے.قرآن مجید میں تو صاف لکھا ہے کہ وہ ایک عبد تھے کھانے پینے اور دوسرے حوائج کے محتاج تھے اور دوسرے نبیوں کی طرح وفات پاگئے تھے.سوال نمبر۵.ایسے موقع پر مسلمان معراج پیش کر دیتے ہیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ معراج جس وجود سے ہوا تھا وہ یہ ہگنے موتنے والا وجود تو نہ تھا بلکہ وہ ایک اَلْطف اور نہایت ہی نورانی وجود تھا.کس کس غلطی کی اصلاح کی جاوے.بخاری میں صاف طور پر ثُمَّ اسْتَیْقَظَ لکھا

Page 330

ہے یعنی پھر وہ جاگ اٹھے.اب بتلاؤ ہم یہ بات کس طرح مان لیں کہ وہ یہی وجود تھا.ہمارا تو تجربہ ہے کہ پاک لوگوں کو ایک نورانی وجود ملتا ہے.یاد رکھو! ایک الہام ہوتا ہے اور ایک رؤیا اور کشف بھی ہوتا ہے.کشف رؤیا سے بڑھ کر ہوتا ہے.صاحبِ کشف جانتا ہے کہ میں ایک اور جگہ پر ہوں اور وہ دوسروں کی آواز بھی سنتا ہے.صوفیاء کرام اس بات کے قائل ہیں کہ اولیاء اللہ کو ایک نوری جسم ملتا ہے بلکہ بعض اوقات اسے دوسرے لوگ بھی دیکھ لیتے ہیں اور سب صوفی اس بات کے بھی قائل ہوتے ہیں کہ وحی کا سلسلہ بند نہیں ہوتا بلکہ ظلی طور پر انسان نبی بن سکتا مگر کمزوری کے ساتھ وحیِ دل کہہ دیتے ہیں.خوب یاد رکھو کہ وہ یہ وجود نہیں تھا جو معراج میں تھا بلکہ وہ ایک اَور ہی وجود ہوتا ہے.اسی سے انسان مُردوں سے بھی ملاقات کرتا ہے اور اس کا نمونہ کسی قدر خواب میں بھی پایا جاتا ہے کہ انسان کا یہ وجود تو چارپائی پر ہوتا ہے مگر ایک آنکھیں ہوتی ہیں جن سے دیکھتا ہے اور ایک پاؤں ہوتے ہیں جن سے چلتا ہے اور خواب کو موت کی بہن بھی اسی واسطے کہا گیا ہے کہ اس سے اس عالم کی کسی قدر سمجھ آجاتی ہے.جب بخاری جیسی کتاب میں ثُمَّ اسْتَیْقَظَ لکھا ہے اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بھی یہی مذہب ہے تو ہمیں کیا بنی ہے جو یونہی کچھ کا کچھ پیش کر دیا کریں.معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ کا مذہب بھی یہی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج اس وجود سے نہیں ہوا تھا بلکہ وہ ایک اور نورانی وجود تھا ورنہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی مخالفت میں شور برپا کرتے.۱ ۱۹؍اکتوبر۱۹۰۷ء (بوقتِ سیر) مجدّد کی ضرورت فرمایا.طرح طرح کے نشانات اور موجودہ حالات زمانہ کے اور صدی کا سر سب کے سب ضرورتِ مجدّد ثابت کر رہے ہیں اور مجدّد کا کام اپنے زمانہ

Page 331

کی اصلاح اور اس فتنہ موجودہ کا دور کرنا ہوتا ہے جو سب سے بڑا فتنہ ہو.اور وہ اسی زمانہ کے مطابق ضروری اصلاح کرنے کے لیے آتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں اس سے بڑھ کر فتنہ نہیں کہ ایک طرف تو ایک عاجز بندہ کو خدا بنایا جائے اور اسی کو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا سمجھا جائے اور دوسری طرف ایک صادق نبی کو جو دنیا میں سب سے بڑھ کر توحید کا حامی آیا ہے نعوذ باللہ جھوٹا قرار دیا جائے.یہ وہ فتنہ ہے جس نے لاکھوں انسانوں کو خدا پرستی سے برگشتہ کر کے انسان پرست بنادیا اور اسی کے اثر سے اکثر لوگ دہریہ بن گئے اور توحید کی محبت دلوں میں سے جاتی رہی اور اسلام صرف برائے نام رہ گیا اور سب کے سب چھوٹے بڑے اس فتنہ عظیمہ سے اثر پذیر ہو رہے تھے.سو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کی اصلاح کے لیے اور فتنہ کے مناسب حال جو امام اور مجدّد بھیجنا تھا اس کا نام اسی فتنہ کو دور کرنے کے لیے مسیح رکھا کیونکہ حضرت عیسٰیؑ کی امت نے ہی بگڑ کر یہ فتنہ برپا کیا ہے اس لیے اس کی اصلاح کے لیے اور زمانہ کو اس کے فتنہ سے بچانے کے لیے ضرور تھا کہ اسی نام پر کوئی پیدا کیا جاتا.اسی مصلحت سے اس صدی کے مجدّد اور امام کا نام مسیح موعود رکھا گیا.فتنے دو طرح کے ہوتے ہیں.ایک بیرونی اور دوسرے اندرونی.بیرونی طور پر تو پادریوں اور دوسرے مخالف مذاہب والوں نے اسلام پر وہ وہ ناجائز اور بے بنیاد اعتراض کئے کہ جن کو سن کر ہزار ہا لوگ مرتد ہوگئے ہزاروں رسالے اور کتابیں اسلام کی مخالفت میں لکھی گئیں اور ہر ایک قسم کے محض غلط اعتراضوں سے اس پاک مذہب کے نابود کرنے کی کوشش کی گئی اور ایک عورت کے بچہ کو طرح طرح کے پیرایوںمیں پیش کر کے خدا کا بیٹا بنایا گیا.یہ تو سچ ہے کہ وہ خدا کا رسول تھا مگر خدا تو نہیں تھا اور نہ اس میں اور رسولوں سے ایک ذرّہ زیادتی ہے اورنہ اس کے معجزات کچھ انوکھے معجزات ہیں اور اندرونی طور پر اسلام کو یہ فتنہ در پیش تھا کہ خود مسلمانوں نے عیسٰیؑ میں وہ وہ صفات قائم کیں جو صرف خدا کے لیے مخصوص تھیں اور اس طرح سے عیسائیوں کو بہت مدد دی.۱

Page 332

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور جملہ انبیاء مسِّ شیطان سے پاک ہیں صبح کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بمع خدام سیر کے واسطے تشریف لے گئے.فرمایا.میں نے ایک مولوی صاحب کی ایک تازہ تصنیف پڑھی ہے جس میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ اور اس کی ماں مریم کے سوائے مسّ شیطان سے دنیا میں کسی کی پیدائش پاک نہیں.صرف یہی دو نفس مریم اور ابن مریم مس شیطان سے پاک ہیں اور بس.اس عبارت کو پڑھ کر مجھے بہت ہی افسوس ہوا کہ ہمیں تو یہ لوگ کافر کہتے ہیں اور اپنا یہ حال ہے کہ تمام انبیاء اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو پاکوں کے سردار ہیں نعوذ باللہ مس شیطان سے محفوظ نہیں سمجھتے.گویا ان کے نزدیک نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش میں شیطان کا حصہ تھا مگر حضرت عیسٰیؑ اور ان کی ماں کی پیدائش میں شیطان کا حصہ نہ تھا.بار بار افسوس آتا ہے کہ ان لوگوں کی حالت کہاں تک پہنچ گئی ہے! اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ.فرمایا.یہ لوگ اپنے اس دعویٰ کی دلیل میں ایک حدیث پیش کرتے ہیں جو صحیح بخاری میں ہے اور نہیں سوچتے کہ سب سے مقدم تو قرآن شریف ہے.قرآن شریف میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے شیطان کو کہا کہ اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ(بنی اسـرآءیل:۶۶) میرے بندوں پر تجھے کوئی غلبہ نہیں.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نزدیک عباد میں شامل نہ تھے؟ اوّل تو جو حدیث قرآن شریف کے مخالف ہو وہ حدیث ہی نہیں خواہ بخاری میں ہو اور خواہ مسلم میں ہو.دوسرا جس حدیث سے حضرت نبی کریم محمد مصطفیٰ ، حبیب خدا محبوب الٰہی کی تمام نبیوں کے سردار کی اس قدر ہتک اور توہین لازم آتی ہو کیوں کر ایک مسلمان کی غیرت مان سکتی ہے کہ اسے صحیح حدیث تسلیم کر لے.ان لوگوں میں کچھ شرم اور حیا باقی نہیں رہی جو آنحضرتؐپر ایسے ناجائز حملے کرتے ہیں اگر ان لوگوں میں آنحضرتؐکی کچھ محبت ہوتی تو یہ لوگ اس حدیث کے یہ معنے نہ کرتے.ہر ایک کلام کے واسطے ایک شانِ نزول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں حضرت عیسٰیؑ اور ان کی والدہ مریم کے واسطے

Page 333

ضرورتاً اس قسم کے لفظ بولے گئے ہیں کہ مریم صدیقہ تھی اور حضرت عیسٰیؑ کا روح خدا کی طرف سے تھا ایسا ہی حدیث میں ضرورتاً یہ کلمات بولے گئے ہیںکہ حضرت عیسٰیؑ کی پیدائش مسّ شیطان سے پاک تھی اور یہ ضرورت اس طرح سے واقعہ ہوئی تھی کہ یہودی لوگ کہا کرتے تھے بلکہ اب تک کہتے ہیں کہ حضرت مریم نعوذ باللہ زانیہ تھیں اور یسوع کی پیدائش ناجائز تھی اور مسّشیطان سے تھی.اس الزام کے جواب میں خدا تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث شریف میں یہ بات فرمائی کہ یہ الزام جھوٹے ہیں بلکہ مریم صدیقہ تھی اور حضرت عیسٰیؑ کی پیدائش مسّشیطان سے پاک تھی چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی والدہ ماجدہ کے متعلق کبھی کسی کافر کو ایسا وہم و گمان بھی نہ ہوا تھا بلکہ سب کے نزدیک آپؐاپنی ولادت کی رو سے طیب اور طاہر تھے اور آپ کی والدہ عفیفہ اور پاک دامن تھیں اس لیے آپ کی نسبت یا آپ کی والدہ ماجدہ کی نسبت ایسے الفاظ بیان کرنے ضروری نہ تھے کہ وہ مس شیطان سے پاک ہیں مگر حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ ماجدہ کی نسبت یہودیوں کے بہتان کی وجہ سے ایسے بَری کرنے والے الفاظ کی ضرورت پڑی.یہی حال دیگر انبیاء علیہم السلام کا ہے.ان کے متعلق بھی نہ کبھی ایسا اعتراض ہوا اور نہ اس کے دفعیہ کی ضرورت کبھی محسوس ہوئی.افسوس ہے کہ ان علماء کو یہ خبر بھی نہیں کہ یہ باتیں کیوں قرآن و حدیث میں ذکر کی گئی ہیں.وہ نہیں جانتے کہ ایسی باتیں کسی بہتان کے دفع کرنے کے لیے آتی ہیں.قرآن شریف میں لکھا ہے کہ مریم صدیقہ پر ایک بڑا بہتان باندھا گیا تھا.اسی واسطے خدا تعالیٰ نے اس کا نام صدیقہ رکھ دیا.افسوس ہے نہ تو ان لوگوں کے اکابر سمجھتے ہیں اور نہ ان کا اقتدا کرنے والوں کو کچھ خیال آتا ہے کہ ایسے عقیدہ سے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر داغ لگایا جاتا ہے.اگر قرآن شریف میں خدا کے بندوں کا مسّ شیطان سے پاک ہونے کا ذکر بھی نہ ہوتا تب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عظمت اور آپ پر ایمان کا یہ تقاضا ہونا چاہیے تھا کہ ایسا ناپاک عقیدہ آپ کے متعلق نہ رکھا جاتا.حضرت مریم کے متعلق یہ دعا تھی کہ.اِنِّيْۤ اُعِيْذُهَا بِكَ وَ ذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ( اٰلِ عـمران:۳۷) مگر یہ دعا بھی اسی اعتراض کے رفع کرنے کے واسطے ذکر کی گئی ہے ورنہ

Page 334

خدا کے انبیاء اور اولیاء کے متعلق تو پہلے سے اللہ تعالیٰ کا خاص ارادہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو مقدس رسول بنایا جاوے گا.وہی ارادہ الٰہی ابتدا سے ان کی پیدائش اور تمام امور کو مقدس رکھتا ہے.انبیاء علیہم السلام تومادر زاد پاک ہوتے ہیں اور شیطان سے دور رکھے جاتے ہیں.دنیا میں پیدائش دو قسم کی ہوتی ہے ایک رحمانی اور دوسری شیطانی.خدا تعالیٰ کے تمام نیک بندوں کی پیدائش رحمانی ہوتی ہے.شیطان کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا.اور انہیںکے متعلق کہا جاتا کہ رُوْحٌ مِّنْهُ ان کا روح خدا کی طرف سے ہوتا ہے.اس میں حضرت عیسٰیؑ کی کوئی خصوصیت نہیں ہے خدا تعالیٰ کے تمام نیک بندوں کی روح خدا کی طرف سے آتی ہے.علامہ زمخشریؒ کی تعریف فرمایا.زمخشریؒ نے بخاری کے حاشیہ میں اس حدیث کے یہ معنے کئے ہیں جو ہم کرتے ہیں.یہ علماء زمخشری کو اچھا نہیں سمجھتے.مگر ہماے خیال میں وہ ان علماء سے بہتر اور افضل تھا گو معتزلی تھا مگر اس کے ایمان نے گوارا نہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت پر داغ لگاوے بلکہ اس کے دل میں اسلامی غیرت اور محبت نے جوش مارا.اصل میں ان لوگوں میں تزکیہ نفس نہیں ہے.جب انسان تزکیہ نفس اختیار کرتا ہے تو قرآن شریف کے معانی اور معارف اس پر کھولے جاتے ہیں.۱ ضرورتِ مجدّد فرمایا.ان علماء نے ایسے عقائد کے ساتھ عیسائیوں کی بہت امداد کی ہے حضرت عیسٰیؑ کو خصوصیت کے ساتھ ایسے صفات دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دوسرے انسانوں میں یہ باتیں نہیں پائی جاتیں.عیسائیوں کو اس سے مدد مل جاتی ہے کہ جب تم خود کہتے

Page 335

کہتے ہو کہ یہ صفات کسی انسان میں نہیں پائے جاتے تو ضرور ہے کہ وہ خدا ہو جس میں خاص بلا شرکت غیر ایسے صفات پائے جاتے ہیں.اس وقت اسلام پر دو بڑے فتنے ہیں.ایک تو بیرونی فتنہ ہے کہ کئی لاکھ آدمی مرتد ہو کر عیسائی ہو چکا ہے اور باقی بہت سے نیم مرتد پھرتے ہیں.ارتداد کے دروازے ہر طرف سے کھلے ہیں.دوسرا بیرونی ۱فتنہ ہے کہ مسلمان لوگ اپنے عقائد کے ساتھ اس ارتداد میں امداد کرتےہیں کیا ایسے فتنہ عظیمہ کے وقت کسی مجدّد کے آنے کی ضرورت نہیں؟ قاعدہ ہے کہ جس قسم کی اصلاح کے واسطے کوئی شخص دنیا میں آتا ہے اس کے مطابق اس کا نام بھی رکھا جاتا ہے.چونکہ اس زمانہ میں بڑا فتنہ عیسویت کا تھا.اس واسطے اس کی اصلاح کے واسطے جو مجدّد بھیجا گیا اس کا نام مسیح ہی رکھا گیا ہے.۲ بلا تاریخ مُردہ کو ثواب کا پہنچنا ایک شخص نے دریافت کیا کہ مُردے کو کھانے کا ثواب پہنچتا ہے یا نہیں؟ اور ساتھ ہی مختلف اشیاء کے نام لے لے کر تفصیل وار پوچھنا شروع کر دیا کہ ان کا ثواب بھی پہنچتا ہے یا نہیں؟ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ طعام کا ثواب پہنچتا ہے بشرطیکہ حلال کا طعام ہو.قرآن شریف جس طرز سے حلقہ باندھ کر پڑھتے ہیں یہ تو سنّت سے ثابت نہیں.ملّاں لوگوں نے اپنی آمدن کے لیے یہ رسمیں جاری کر دی ہیں.ہاں اگر خدا چاہے تو مُردہ کے حق میں دعا بھی قبول ہو جاتی ہے لیکن یاد رکھو کہ اپنے ہاتھ سے ایک پیسہ دینا بھی بہتر ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ کوئی دوسرا آدمی اس کے عوض میں بہت سا مال خرچ کر دے.اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے وہ نیتوں کو

Page 336

جانتا ہے اور وہی ثواب پہنچانے والا ہے.جب یہ بات ثابت ہے کہ مُردوں کو بھی ثواب مل جاتا ہے تو پھر تفصیلوں کی کیا ضرورت ہے؟ ایک صحابیؓ کا بیٹا دعا مانگا کرتا تھا کہ یا اللہ! مجھے بہشت بھی دے اور انار اور انگور بھی دے.صحابیؓ نے کہا کہ جب بہشت مل گیا تو انار انگور سب چیزیں اسی میں آگئیں.اس کی تفصیلوں کی ضرورت کیا ہے؟ اس عالم کی تفصیلیں ہو نہیں سکتیں.وہ تو ایک پوشیدہ اور مخفی عالم ہے.انسان کا اصل مقصد دین ہے فرمایا.آج کل دنیا کی عجیب حالت ہو رہی ہے.تم لوگ اچھی طرح سے نظر ڈال کر دیکھ لو.شہروں اور بازاروں میں جا کر دیکھ لو.لاکھوں اور کروڑوں آدمی اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر محض دنیا کی خاطر مارے مارے پھرتے ہیں.ایسے آدمی تھوڑے نکلیں گے جو دین کی غرض سے پھرتے ہوں.حالانکہ خدا تعالیٰ نے تو یہی دعا سکھلائی تھی کہ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ(الفاتـحۃ:۷) کہ یا الٰہی وہ راہ دکھا اور اسی راہ پر چلنے کی توفیق دے جس پر چلنے سے منعم علیہ گروہ میں شامل ہوجاویں.اصلی مقصد انسان کا تو دین ہونا چاہیے اسی واسطے میں کہتا ہوں کہ جو لوگ یہاں دین کی خاطر آتے ہیں ان کو کچھ دن ضرور ٹھہرنا چاہیے.شاید کوئی مفید کلمہ ان کے کانوں میں پڑ جاوے بعض لوگوں کی کوششیں اور تدبیریں محض دنیا کمانے کی خاطر ہوتی ہیں.یہاں تک کہ بڑی بڑی پنشنیں پالیتے ہیں لیکن پھر بھی بس نہیں کرتے.اندر ہی اندر اس جستجو میں لگے رہتے ہیں کہ اب کوئی خطاب ہی مل جاوے لیکن جونہی یہ مال متاع چھوٹتا نظر آتا ہے اور موت سر پر آجاتی ہے تب ہاتھ ملتے ہیں.کہ اوہو یہی دنیا تھی جس کے لیے ہم مارے مارے پھرتے تھے اور ہر وقت اسی کے فکر اور غم میں مبتلا رہتے تھے اور اس وقت سخت دکھ اور پریشانی ہوتی ہے اور اسی میں جان نکل جاتی ہے.فرمایا.جب ایک چیز کی کثرت ہو جاوے تو پھر اس کی قدر نہیں رہتی.پانی اور اناج جیسی کوئی چیز نہیں اور یہ سب چیزیں آگ، ہوا، مٹی، پانی ہمارے لیے نہایت ہی ضروری ہیں مگر کثرت کی وجہ سے انسان ان کی قدر نہیں کرتا.لیکن اگر جنگل میں ہو اور کروڑ ہا روپیہ بھی پاس ہو.مگر پانی نہ ہو تو اس

Page 337

وقت کروڑ ہا روپیہ بھی ایک گھونٹ کے بدلے دینے کو تیار ہوتا ہے اور آخر بڑی حسرت سے مَرتا ہے.دنیا کی دولت چیز ہی کیا ہے؟ جس کے لیے انسان مارا مارا پھرتا ہے.ذرا سی بیماری آجاوے.پانی کی طرح روپیہ بہایا جاتا ہے مگر سکھ ایک منٹ کے لیے بھی نہیں آتا.جب یہ حال ہے تو انسان کی یہ کس قدر غفلت ہے کہ اس حقیقی کار ساز کی طرف توجہ نہ کرے جس کا بنایا ہوا یہ سب کار خانہ ہے اور اس کا ذرّہ ذرّہ جس کے تصرف اور اختیار میں ہے.صحبت صادقین فرمایا.لوگ تلاش کرتے ہیں کہ ہمیں حقیقت ملے.لیکن یہ بات جلد بازی سے حاصل نہیں ہوا کرتی.جب انسان کی روح پگھل کر آستانہءِ الوہیت پر گرتی ہے اور اسی کو اپنا اصل مقصود خیال کرتی ہے تب اس کے لیے حقیقت کا دروازہ بھی کھولا جاتا ہے لیکن یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے اور صحبت صادقین سے یہ باتیں حاصل ہوا کرتی ہیں.دنیا داری کا انجام فرمایا.لوگ دنیا کا حساب و کتاب کس قدر محنت سے یاد رکھتے ہیں لیکن عمر کا حساب نہیں رکھتے اور خیال بھی نہیں کرتے کہ اب عمر کا کس قدر حصہ باقی رہ گیا ہے اور اس کا اعتبار کیا ہے.فرمایا.دنیادار دنیا کے ہمّ و غم میں ایسا غرق ہوتا ہے کہ انجام کا اسے بھولے سے بھی خیال نہیں گذرتا اور جس طرح ایک خارش والا بس نہیں کرتا جب تک کہ خون نہ نکل آوے.اسی طرح وہ بھی سیر نہیں ہوتا اور کتے کی طرح اپنا خون آپ پیتا ہے اور جانتا نہیں کہ دنیا کی زندگی چیز ہی کیا ہے.اسی واسطے اللہ کریم نے مسلمانوں کو غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ(الفاتـحۃ:۷) والی دعا سکھائی ہے کہ جو لوگ اسی دنیا کے کیڑے ہوتے ہیں اور اسی دنیا کی خاطر رسولوں اور نبیوں کا انکار کر دیتے ہیں اور پھر اسی دنیا میں ہی ان پر عذاب نازل ہوتا ہے ان میں شامل ہونے سے بچا.یہ بڑے خطرہ کا مقام ہے.دیکھو! اب تو مَرنے کے لیے نئے نئے سامان پیدا ہوگئے ہیں.بہت سی ایسی بیماریاں نکل آئی ہیں جو بالکل نئی ہیں اور پھر طاعون کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے.گھر کے گھر خالی ہوگئے ہیں

Page 338

اور دنیا میں ایک تباہی آگئی ہے.۱ ۲۲؍اکتوبر ۱۹۰۷ء (بوقتِ ظہر) الہام کا دعویٰ کرنے والے لوگ فرمایا.ہماری جماعت میں کوئی بیس پچیس بلکہ تیس کے قریب ایسے آدمی ہوں گے جو الہام کا دعویٰ کرتے ہیں.مجھے ان کے جنون کا ہی اندیشہ رہتا ہے.انسان کو چاہیے کہ اپنی حالت کا مطالعہ کرے اور اپنے اس معاملہ کو دیکھے جو وہ خدا کے ساتھ رکھتا ہے اور حدیث النفس کا خیال نہ رکھے.ایسے لوگوں کے خط جب مجھے آتے ہیں تو بجائے اس کے کہ میں خوش ہووں اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ان کو جنون نہ ہو جاوے.جب وہ خط میں پڑھتا ہوں تو بدن کانپ جاتا ہے اللہ کریم نے کاہنوں اور مجنونوں کی جو تردید کی ہے تو اسی واسطے کہ آخر ان کو بھی بعض باتیں معلوم ہو جایا کرتی ہیں.انسان کو چاہیے کہ اپنے تعلق کو خدا سے پاک کرے.زانی، فاسق، فاجر تو ابھی توبہ کر سکتے ہیں مگر ایسے لوگ کبھی توبہ نہیں کرتے کیونکہ وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں اور ایسی باتوں سے اکڑ باز ہوجاتے ہیں.الزامی جواب دینے کی وجہ فرمایا.موقع کے مناسب حال بعض اوقات الزامی جوابات دینے پڑتے ہیں.جب دل بہت دُکھایا جاتا ہے تو عیسائیوں کو متنبہ کرنے کے لئے کہ اگر جواب انہیں باتوں کو کہا جاتا ہےتو ایسا جواب ہم بھی دے سکتے ہیں.انہیں کی کتابوں سے وہ باتیں پیش کی جاتی ہیں اور ایسے جواب قرآن مجید میں بھی بکثرت پائے جاتے ہیں.وہ جواب صرف پادریوں کو متنبہ کرنے کے لیے ہوتے ہیں.ورنہ حضرت عیسٰیؑ کو ہم خدا کا رسول اور خدا کا مقبول اور برگزیدہ سمجھتے ہیں.۲

Page 339

۲۳؍اکتوبر ۱۹۰۷ء (بوقتِ سیر ) انبیاء پر جادو اثر نہیں کرتا ایک شخص نے سوال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کافروں نے جو جادو کیا تھا اس کی نسبت آپ کا کیا خیال ہے؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ جادو بھی شیطان کی طرف سے ہوتا ہے.رسولوں اور نبیوں کی یہ شان نہیں ہوتی کہ ان پر جادو کا کچھ اثر ہو سکے.بلکہ ان کو دیکھ کر جادو بھاگ جاتا ہے جیسے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ اَتٰى (طٰہٰ:۷۰) دیکھو حضرت موسٰی کے مقابل پر جادو تھا.آخر موسٰی غالب ہوا کہ نہیں؟ یہ بات بالکل غلط ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ پر جادو غالب آگیا.ہم اس کو کبھی نہیں مان سکتے.آنکھ بند کر کے بخاری اور مسلم کو مانتے جانا یہ ہمارے مسلک کے بر خلاف ہے.یہ تو عقل بھی تسلیم نہیں کر سکتی کہ ایسے عالی شان نبی پر جادو اثر کر گیا ہو.ایسی ایسی باتیں کہ اس جادو کی تاثیر سے (معاذ اللہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حافظہ جاتا رہا.یہ ہوگیا اور وہ ہو گیا کسی صورت میں صحیح نہیں ہو سکتیں.معلوم ہوتا ہے کسی خبیث آدمی نے اپنی طرف سے ایسی باتیں ملا دی ہیں.گو ہم نظر تہذیب سے احادیث کو دیکھتے ہیں لیکن جو حدیث قرآن کریم کے برخلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت کے برخلاف ہو اس کو ہم کب مان سکتے ہیں! اس وقت احادیث جمع کرنے کا وقت تھا گو انہوں نے سوچ سمجھ کر احادیث کو درج کیا تھا مگر پوری احتیاط سے کام نہیں لے سکے.وہ جمع کرنے کا وقت تھا لیکن اب نظر اور غور کرنے کا وقت ہے.آثار نبی جمع کرنا بڑے ثواب کا کام ہے، لیکن یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جمع کرنے والے خوب غور سے کام نہیں لے سکتے.اب ہر ایک کا اختیار ہے کہ خوب غور اور فکر سے کام لے جو ماننے والی ہو وہ مانے اور جو چھوڑنے والی ہو وہ چھوڑ دے ایسی بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر (معاذ اللہ )جادو کا اثر ہوگیا تھا.اس سے تو ایمان اٹھ جاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِذْ يَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا (بنی اسـرآءیل : ۴۸) ایسی ایسی باتیں کہنے

Page 340

کہنے والے تو ظالم ہیں نہ مسلمان.یہ تو بے ایمانوں اور ظالموں کا قول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر (معاذ اللہ ) سحر اور جادو کا اثر ہوگیا تھا.اتنا نہیں سوچتے کہ جب (معاذ اللہ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال ہے تو پھر امت کا کیا ٹھکانا؟ وہ تو پھر غرق ہوگئی.معلوم نہیں ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ جس معصوم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء مسّ شیطان سے پاک سمجھتے آئے ہیں یہ ان کی شان میں ایسے ایسے الفاظ بولتے ہیں.مقام مریمی فرمایا.یہ بات ہمارے تو وہم و قیاس میں بھی نہ تھی کہ خدا تعالیٰ نے ہمارا نام مریم رکھا ہے اور پھر اس میں نفخ روح کر کے عیسیٰ پیدا کیا ہے.فرمایا.باوجود براہین احمدیہ کے ریویو لکھنے کے کسی نے اس پر جرح نہیںکی کہ کیوں مریم نام رکھا.اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ اسی کتاب میں يَاعِيْسٰٓى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ کا الہام بھی درج ہے مگر اس طرف کسی نے ذرا بھی توجہ نہ کی.۱ بلا تاریخ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا مرتکب کون ہے فرمایا.یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم انبیاء کو گالی نکالتے ہیں.حالانکہ کسی کو وفات یافتہ کہنا گالی نہیں ہوتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب وفات پاگئے تو اور کون ہے جو زندہ رہے؟ انہوں نے خود مَر کر دکھایا کہ سب نبی فوت ہوگئے ہیں اور پھر معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسٰیؑ کو وفات یافتہ انبیاء میں دیکھا.اصل میں گالی تو یہ لوگ نکالتے ہیں جو افضل الرسل سید المعصومین کو (معاذ اللہ ) شیطانی مسّ سے آلودہ سمجھتے ہیں اور حضرت عیسٰیؑ کو پاک سمجھتے ہیں.کتنے اندھیر کی بات ہے کہ یہ لوگ باوجودیکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء سمجھتے ہیں.انہیںکا کلمہ پڑھتے اور انہیں کی امت سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر پھر

Page 341

اس جواب کے سنتے ہی خاموش ہوگئے.ہمیں بتلاؤ کہ جب انہوں نے آسمان پر چڑھتے دیکھ کر ایمان لانے کا وعدہ کیا تھا تو کیوں نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر چڑھ کر دکھایا.یہ کیوں کہہ دیا کہ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا(بنی اسـرآءیل:۹۴)؟؟ سبحان کا لفظ اس واسطے بولا گیا ہے کہ سبحان کے معنے ہیں ہر عیب سے مبرّا.لیکن وعدہ کو توڑنا تو سخت عیب ہے.خدا نے وعدہ کیا ہوا تھا کہ.اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ كِفَاتًا اَحْيَآءً وَّ اَمْوَاتًا(المرسلات:۲۶،۲۷) جس کا یہ مطلب ہے کہ ہم نے زمین کو زندوں اور مُردوں کے سمیٹنے کے لیے کافی بنایا ہے اور اس میں ایک کشش ہے جس کی وجہ سے زمین والے کسی اور جگہ زندگی بسر کر ہی نہیں سکتے.اب اگر بشر آسمان پر گیا ہوا مان لیا جاوے تو نعوذ باللہ ماننا پڑے گا کہ خدا نے اپنا وعدہ توڑ دیا.غرض اسی کی تائید کے واسطے سبحان کا لفظ بولا گیا ہے کہ اللہ بے عیب ہے وہ وعدہ خلافی نہیں کیا کرتا اور میں تو ایک بشر ہوں.بشر آسمان پر نہیں جا سکتا.وفات کے بارہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اقرار اور پھر دیکھو کہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ میں حضرت عیسٰیؑ کا صاف طور پر اقرار موجود ہے کہ عیسائیوں کے بگڑنے کی مجھے خبر نہیں.اب ان لوگوں کی یہ عجیب قسم کی مولویت ہے کہ حضرت عیسٰیؑ تو قیامت کے دن اقرار کریں گے کہ میں دوبارہ زمین پر نہیں گیا اور عیسائیوں کے بگڑنے کا جب ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ کانوں پر ہاتھ دھریں گے اور اپنی بے خبری جتلائیں گے.لیکن یہ ہیںکہ ان کو دوبارہ اتار رہے ہیں.اب انصاف سے بتلاؤ کہ کیا یہ ہماری اپنی بنائی ہوئی باتیں ہیں؟ سوچو تو سہی کہ وہ تو بے چارے بار بار خدا تعالیٰ کے سامنے اقرار کرتے ہیں کہ مجھے خبر نہیںکہ عیسائیوں نے مجھے پوجا ہے یا کسی اور کو.اور اپنے خدا یا خدا کا بیٹا بنائے جانے سے لاعلمی ظاہر کریں گے مگر یہ لوگ کہتےہیں کہ قیامت سے پہلے دنیا میں نازل ہوں گے.کسر صلیب کریں گے لڑائیاں کریں گے اور سب مشرکوں کو قتل کر کے مسلمان کر دیں گے.جس سے ماننا پڑتا ہے کہ حضرت عیسٰیؑ خدا کے سامنے جھوٹ بولیں گے اور باوجود عیسائیوں کے اعتقاد سے خبر رکھنے کے لا علمی ظاہر کریں گے.

Page 342

Page 343

مامور من اللہ کی صداقت کے نشان اور پھر یہ بھی یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.اس کے لیے چند نشان ہوا کرتے ہیں جن سے اس کی سچائی پرکھی جاتی ہے.اوّل یہ کہ وہ پاک اور صاف تعلیم لے کر آتا ہے جب اس کی تعلیم گندی ہوگی تو اس کو قبول کون کرے گا؟ دیکھو! ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کیسی پاک ہے.اس میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں اور کسی قسم کے شرک کی گنجائش نہیں.دوسرے یہ کہ اس کے ساتھ بڑے بڑے نشان ہوتے ہیں اور وہ نشان ایسے ہوتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی دنیا میں کوئی بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.تیسرے یہ کہ گذشتہ انبیاء کی جو پیشگوئیاں اس کے متعلق ہوتی ہیں وہ اس پر صادق آتی ہیں.چوتھی بات یہ ہے کہ اس وقت زمانہ کی حالت خود ظاہر کرتی ہے کہ کوئی مامور من اللہ آوے.پانچویں بات یہ ہے کہ سچے مدعی کا صدق اور اخلاص، استقلال اور تقویٰ نہایت اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے اور اس میں ایک کشش ہوتی ہے جس سے وہ اوروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے.تمام قرآن مجید میں یہی موٹی باتیں ہیں جن سے کسی مامور کی سچائی کا پتا لگتا ہے.اب جس کو ایمان کی ضرورت ہے وہ یہی پانچ علامتیں پیش کر کے ہمارا امتحان کر لے.اس صدی کا مجدّد کون ہے اور پھر دیکھو کہ یہ لوگ خود بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدّد آیا کرتا ہے لیکن افسوس کہ بقول ان کے چودھویں صدی کے سر پر کوئی مجدّد نہ آیا.حالانکہ چوتھائی حصہ صدی کا گذر بھی گیا ہے اور ہزار ہا لوگ دین اسلام سے مرتد بھی ہو چکے ہیں.ہر ایک خاندان اور ہر ایک قوم کے لوگ عیسائی بن چکے ہیں.ایک وقت وہ تھا کہ اگر ایک مسلمان بھی مرتد ہوجاتا تھا تو قیامت برپا ہوجاتی تھی، لیکن اب تو ہر ایک قوم سادات، مغل، قریش، پٹھان اور ہر ایک طبقہ کے لوگ عیسائی مذہب میں موجود ہیں اور مخلوق پرستی کا وہ طوفان برپا ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ایسا سننے میں نہیں آیا.تو اب بتلاؤ کہ جن صدیوں میں

Page 344

ایسا طوفان نہ تھا ان میں تو مجدّد آتے رہے لیکن جس صدی میں اسلام کو نیست و نابود کرنے کے ہزار ہا سامان پیدا ہوگئے اور لاکھوں انسان مرتد ہو گئے اور بے دینی اور فسق و فجور حد سے زیادہ بڑھ گیا اور صدی میں سے پچیس برس گذر بھی گئے اس میں کوئی مجدّد نہ آیا.اور جو دعویٰ کرتا ہے کہ اس صدی کا مجدّد میں ہوں تو اسے دجّال سمجھا جاتا ہے اور کذاب اور مفتری خیال کیا جاتا ہے.ان لوگوں کو چاہیے تھا کہ ہمارے انجام کو دیکھتے.ہم نے ایک سو ستاسی نشانات کتاب حقیقۃ الوحی میں نہایت ہی اختصار کے ساتھ درج کئے ہیں.اب ان کو چاہیے کہ کسی جھوٹے میں وہ نشانات ثابت کریں.ہمارا موقف تعلیم کی نسبت سن لو کہ ہم ان تمام ناپاکیوں کو دور کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لگائی جاتی ہیں.یہ لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسّ شیطان سے پاک نہیں ہم کہتے ہیں کہ وہ افضل الرسل، سید المعصومین، رحمۃ للعالمین اور خاتم النبیین ہیں اور مسّ شیطان سے سب سے بڑھ کر پاک ہیں اور تمام کمالات نبوت انہیں کی ذات پاک پر ختم ہوگئے ہیں.اسی طرح یہ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر زندہ موجود ہیں.ہم ایمان لاتے ہیں کہ کوئی بشر آسمان پر نہیں جا سکتا.قرآن مجید میں صاف طور پر سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا (بنی اسـرآءیل:۹۴) لکھا ہے اور پھر اسی قرآن مجید میں فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ بھی درج ہے.اگر حضرت عیسٰی دوبارہ دنیا میں آئے ہوتے کسر صلیب کی ہوتی، کافروں کو قتل کیا ہوتا.تو کیا ان کو قیامت کے دن خدا کے حضور میں یہی جواب دینا چاہیے تھا کہ مجھے عیسائیوں کے بگڑنے کی خبر نہیں؟ باوجودیکہ دوبارہ آکر انہوں نے کافروں اور مشرکوں کو مسلمان کیا.اپنے ذاتی مشاہدہ سے تمام حالات معلوم کر لیے مگر خدا کے رو برو کہیں گے کہ مجھے عیسائیوں کے بگڑنے کی خبر نہیں.کیا وہ خدا کے عرش کے سامنے جھوٹ بولیں گے اور خدا خاموش ہو رہے گا؟ کیا خدا اتنا بھی نہ کہے گا کہ تم کیوں جھوٹ بولتے ہو.تم تو دوبارہ دنیا میں گئے تھے.عیسائیوں کو تم نے مسلمان کیا تھا پھر یہ کیوں کہتے ہو کہ اس کی خبر نہیں؟ ہم تو دیکھتے ہیں کہ ادنیٰ عدالتوں میں بھی انسان حلف دروغی کے باعث

Page 345

پکڑا جاتا ہے تو کیا خدا کی درگاہ میں جھوٹ کی پُرسش نہیںہوگی؟ افسوس کہ ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کی ذات بابرکات اور صفات کو بٹہ لگایا.قرآن مجید کی توہین کی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی.تمام راستبازوں کی توہین کی.اب ایسے مذہب کو کون قبول کرے؟ ایسی باتیں تو وہی بولے گا جس کو خدا کا خوف نہ ہو.دوسرا شخص ایسی باتوں کو کب مان سکتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ بار بار ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے نبی اور رسول ہونے کی دلیل کیا ہے؟ اوّل تو ہم یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا دعویٰ صرف نبی یا رسول ہونے کا نہیں ہے اور نہ ہم کسی شریعت لانے کے مدعی ہیں.بلکہ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ میں ایک پہلو سے امتی ہوں اور ایک پہلو سے نبی اور وہ نبوت براہ راست نہیں بلکہ امتی ہونے کی کامل برکات نے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوضِ تامہ نے مجھے یہ درجہ نبوت بخشا ہے اور در حقیقت وہ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں جو میرے آئینہ صافیہ میں جلوہ نما ہوئی ہے اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ میرے پاس بھی اپنی اس قسم کی نبوت کے وہی دلائل ہیں جو سب انبیاء کے پاس ہوتے چلے آئے ہیں.بعض انبیاء کے پاس تو صرف ایک دلیل تھی.کہاں لکھا ہے کہ ان کے پاس پچاس یا ساٹھ نشان تھے بلکہ اکثر انبیاء کےلئے نو یا اس سے بھی کم نشان ہوا کرتے تھے لیکن ہم نے تو نہایت اختصار کے ساتھ ۱۸۷ نشان حقیقۃ الوحی میں لکھ دیئے ہیں اور پھر خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ابھی بڑے بڑے نشانوں کا وعدہ کرتا ہے.کم از کم یہ لوگ کچھ مدت کے لیے کف لسان اختیار کرتے اور ہمارے انجام کو دیکھتے.مگر افسوس کہ بغیر کسی یقینی علم اور پختہ دلیل کے ہماری تکفیر اور تکذیب پر آمادہ ہوگئے.حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ (بنی اسـرآءیل:۳۷) اور اگر حضرت عیسیٰ کے مَرنے پر ان لوگوں کو طیش آتا ہے تو یہ سچی بات ہے کہ وہ مَر گئے ہیں اور سب انبیاء مَرتے ہی آئے ہیں.آخر یہ لوگ بھی تو مانتے ہیں کہ وہ دوبارہ آکر مَریں گے پھر تکفیر کے کیامعنے؟ الزامی جوابات دینے کی وجہ باقی رہا یہ کہ عیسائیوں کو جواب دیتے وقت بعض اوقات سخت الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں تو یہ بات بالکل صاف

Page 346

ہے جب ہمارا دل بہت دُکھایا جاتا ہے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر طرح طرح کے ناجائز حملے کئے جاتے ہیں تو صرف متنبہ کرنے کی خاطر انہیں کی مسلّمہ کتابوں سے الزامی جواب دیئے جاتے ہیں.ان لوگوں کو چاہیے کہ ہماری کوئی بات ایسی نکالیں جو حضرت عیسٰیؑ کے متعلق ہم نے بطور الزامی جواب کے لکھی ہو اور وہ انجیل میں موجود نہ ہو.آخر یہ تو ہم سے نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین سن کر چپ رہیں اور اس قسم کے جواب تو خود قرآن مجید میں پائے جاتے ہیں جیسے لکھا ہے اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَ لَهُ الْاُنْثٰى (الـنجم:۲۲) اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَ لَهُمُ الْبَنُوْنَ(الصّٰفّٰت:۱۵۰)وہ لوگ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تمہارے بیٹے اور ہماری بیٹیاں؟ غرض الزامی رنگ کے جواب دینا تو طریق مناظرہ ہے.ورنہ ہم حضرت عیسیٰ کو خدا تعالیٰ کا رسول اور ایک مقبول اور برگزیدہ انسان سمجھتے ہیں اور جن لوگوں کا دل صاف نہیں ان کا فیصلہ ہم خدا پر چھوڑتے ہیں.۱ بلاتاریخ بد دعا دینا اچھا نہیں فرمایا کہ ذرا ذرا سی بات پر بد دعا دینا اچھا نہیں ہوتا کیونکہ حدیث میں حکم آیا ہے کہ صبر کرو.(جو لوگ ذرا ذرا سی بات پر بد دعا دیتے ہیں اکثر انہیں پشیمان ہونا پڑتا ہے کیونکہ اس وقت تو وہ جوش میں آکر کچھ کا کچھ کہہ دیتے ہیں اور پیچھے جب سوچتے ہیں تو خود ان کا نفس ان کو ملامت کرتا ہے کہ اس قدر خفیف معاملہ پر اس قدر خفگی اور ناراضگی دکھائی جو اخلاق کے سرا سر بر خلاف ہے.) حرام و حلال فرمایا کہ جو چیز بُری ہے وہ حرام ہے اور جو چیز پاک ہے وہ حلال.خدا تعالیٰ کسی پاک چیز کو حرام قرار نہیں دیتا بلکہ تمام پاک چیزوں کو حلال فرماتا ہے.ہاں جب پاک چیزوں ہی میں بُری اور گندی چیزیں ملائی جاتی ہیں تو وہ حرام ہو جاتی ہیں.اب

Page 347

شادی کو دَفْ کے ساتھ شہرت کرنا جائز رکھا گیا ہے لیکن اس میں جب ناچ وغیرہ شامل ہوگیا تو وہ منع ہوگیا.اگر اسی طرح پر کیا جائے جس طرح نبی کریمؐ نے فرمایا تو کوئی حرام نہیں.خدا تعالیٰ کے فیصلوں پر انشراح برادرم۱ مبارک احمد کی وفات پر فرمایاکہ خدا تعالیٰ اتنی مدت سے ہم پر رحم کرتا آیا ہے.ہر طرح سے ہماری خواہش کے مطابق کام کرتا آیا ہے اور اس نے اٹھارہ برس کے عرصہ میں ہم کو طرح طرح کی خوشیاں پہنچائیں اور انعام و اکرام کئے.گویا اپنی رضا پر ہماری رضا کو مقدم کر لیا.پھر اگر ایک دفعہ اس نے اپنی مرضی ہم کو منوانی چاہی تو کون سی بڑی بات ہے.اگر ہم باوجود اس کے اس قدر احسانات کے پھر بھی جزع فزع اور واویلا کریں تو ہمارے جیسا احسان فراموش کوئی نہ ہوگا.اور پھر اس نے تو پہلے ہی اطلاع دے دی تھی کہ یہ جلد فوت ہوجائے گا جیسا کہ تریاق القلوب میں لکھا ہے.دوسرے یہ کہ دوستی تو اسی کو کہتے ہیں کہ کچھ دوست کی باتیں مانی جاویں اور کچھ اس کو منوائی جاویں.یہ تو دوستی نہیں کہ اپنی ہی اپنی منواتے جانا.اور جب دوست کی بات ماننے کا وقت آئے تو بُرا منانا.پس جبکہ ہم نے خدا تعالیٰ سے تعلق کیا ہے تو چاہیے کہ کچھ اس کی مانیں اور کچھ اس سے منوائیں.۲ بلا تاریخ (القول الطیّب) مغربی اقوام کے بارہ میں پیشگوئیوں کا ظہور جنگوں میں کام آنے والے نئے بیلون کا ذکر تھا اور اس اَمر کا ذکر تھا کہ بعض انگریز اس

Page 348

تجویز میں ہیں کہ مریخ سیارے کے لوگوں سے باتیں کی جاویں.فرمایا.یہ وہی بات پوری ہو رہی ہے جو ان کی نسبت پہلے سے کہا گیا ہے کہ آسمان کی طرف تیر چلائیں گے.فرمایا.ان لوگوں کے واسطے خدا تعالیٰ نے ہر اَمر کے واسطے طاقت کھول دی ہے.دیکھئے! انجام کیا ہوتا ہے؟ سیّد احمد صاحب مثیل یوحنا تھے فرمایا.جس طرح کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے یوحنا نبی خدا تعالیٰ کی توحید کی تبلیغ کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے.اسی طرح ہم سے پہلے اسی ملک پنجاب میں سیّد احمد صاحب توحید کا وعظ کرتے ہوئے شہید ہوگئے.یہ بھی ایک مماثلت تھی جو خدا تعالیٰ نے پوری کر دی.خدا کی اولاد سے مراد فرمایا.اللہ تعالیٰ نے جو ہم کو مخاطب کیا ہے کہ اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْـزِلَۃِ اَوْلَادِیْ اس جگہ یہ تو نہیں کہ تو میری اولاد ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ بمنزلہ اولاد کے ہے یعنی اولاد کی طرح ہے اور دراصل یہ عیسائیوں کی اس بات کا جواب ہے جو وہ حضرت عیسیٰ کو حقیقی طور پر ابن اللہ مانتے ہیں.حالانکہ خدا کی کوئی اولاد نہیں اور خدا نے یہودیوں کے اس قول کا عام طور پر کوئی ردّ نہیں کیا جو کہتے تھے کہنَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗ(المائدۃ:۱۹) بلکہ یہ ظاہر کیا ہے کہ تم ان ناموں کے مستحق نہیں ہو.در اصل یہ ایک محاورہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے برگزیدوں کے حق میں اکرام کے طور پر ایسے الفاظ بولتا ہے.جیسا کہ حدیثوں میں ہے کہ میں اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں اور میں اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں اور جیسا کہ حدیثوں میںہے کہ اے بندے! میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہ دیا اور میں بھوکا تھا تو نے مجھے روٹی نہ دی.ایسا ہی توریت میں بھی لکھا ہے کہ یعقوب خدا کا فرزند بلکہ نخست زادہ ہے.سو یہ سب استعارے ہیں جو عام طور پر خدا تعالیٰ کی عام کتابوں میں پائے جاتے ہیں اور احادیث میں ہے.اور خدا تعالیٰ نے یہ الفاظ میرے حق میں اسی واسطے استعمال کئے ہیں کہ تا عیسائیوں کا ردّ ہو.کیونکہ باوجود ان لفظوں کے میں کبھی ایسا دعویٰ

Page 349

نہیں کرتا کہ نعوذ باللہ میں خدا کا بیٹا ہوں بلکہ ایسا دعویٰ کرنا کفر سمجھتے ہیں اور ایسے الفاظ جو انبیاء کے حق میں خدا تعالیٰ نے بولے ہیں.ان میں سب سے زیادہ اور سب سے بڑا عزّت کا خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا قُلْ يٰعِبَادِيَ (الزمر:۵۴) جس کے معنے ہیں کہ اے میرے بندو! اب ظاہر ہے کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کے بندے تھے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے.اس فقرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ کا اطلاق استعارہ کے رنگ میں کہاں تک وسیع ہے.کشمیر میں حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر ابو سعید عرب صاحب جو حال میں کشمیر کی سیاحت سے واپس آئے ہیں.انہوں نے حضرت اقدس (علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کی کہ کشمیر کے اندر عام لوگ تو اب تک حضرت عیسٰیؑ کی قبر کو پہلے کی طرح نبی صاحب کی قبر یا عیسٰیؑ کی قبر کہتے ہیں مگر وہاں کے علماء جو اس سلسلہ احمدیہ کے حالات سے آگاہ ہوگئے ہیں.انہوں نے بسبب عداوت اب ایسا کہنا چھوڑ دیا ہے تاکہ اس فرقہ کو مدد نہ ملے.حضرت نے فرمایا.اب ان لوگوں کی ایسی کارروائیوں سے کیا بنتا ہے جبکہ پرانی کتابیں جو کشمیر میں اور دوسری جگہوں میں موجود ہیں اور ایک عربی پرانی کتاب گیارہ سو برس کی جو کسی فاضل شیعہ کی تصنیف ہے.اس میں یُوز آسف کو شاہزادہ نبی لکھا ہے اور اس کی قبر کشمیر میں بتلائی ہے اور اس کا وقت بھی وہی لکھا ہے جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وقت تھا.عیسائی بھی تو یہاں تک قائل ہوگئے ہیں کہ وہ حضرت عیسٰیؑ کا حواری تھا اور اس کے نام پر سِسلی میں ایک گرجا بھی بنا ہوا ہے.لیکن اب سوال یہ ہےکہ وہ حواری کون تھا جو شہزادہ بھی کہلایا ہو اور نبی بھی کہلایا ہو؟ اس کا جواب عیسائی نہیں دے سکتے.۱

Page 350

۳ میں خربوزہ کے برابر حصہ رکھتا ہوں.۴ ہاتھ کام میں ہو اور دل محبوب(خدا) کےساتھ.۹ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے.۳۳ دل محبوب(خدا) کےساتھ اور ہاتھ کام میں ہو.۳۶ اگرچہ محبوب تک رسائی پانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو پھر بھی، عشق کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی تلاش میں جان لڑا دی جائے.۵۵ بارگاہ فرقان کی دلہن تب نقاب اٹھاتی ہے جب باطن کی بستی کو ہر قسم کے شور و شر سے خالی کر لیا جائے.۷۱ سنا ہوا اور دیکھا ہو ا کب برابر ہو سکتے ہیں.۹۵ بات جو (کسی ) دل سے نکلتی ہے وہ (دوسروں کے)دل میں بیٹھ جاتی ہے.۱۰۰ خد اکو خدا کی ہستی سے پہچانا جا سکتا ہے.۱۱۹ قطب شیر کی مانند ہے شکار کرنا اسی کا کام ہے باقی سب اس کا بچا کھچا کھانے والے ہیں.۱۲۰ کسی کی موت پر خوشی مت مناؤ کیونکہ اس کے بعد تیری زندگی کا عرصہ بھی زیادہ باقی نہیں رہے گا.۱۵۹ خدا تعالیٰ کے بعد تو ہی بزرگ و برتر ہے.حق بات ہی ہے.

Page 351

۱۷۰ خدا کے بندے خدا تو نہیں ہوتے لیکن خدا سے جدا بھی نہیں ہوتے.۱۸۸ خدا تعالیٰ جس قوم کے ساتھ نیکی کا ارادہ کرتا ہے اسے عادل اور نیک بادشاہ عطا فرماتا ہے.۲۰۷ استاد کی جگہ خالی ہوتی ہے.۲۱۴ عیسائی ہو جا پھر جو چاہے کر.۲۲۵ وہ دن آرہا ہے کہ وہ تکلیف سے رہائی پائے.۲۴۹ تیری زلف کا تصور جمانا کچے آدمیوں کا کام نہیں کیونکہ تیری زلفوں کے سایہ میں آنا چالاکی کا طریقہ ہے.۲۵۳ جب خدا تیرا ہے تو تجھے کیا غم ہو سکتا ہے.۲۵۴ اے شخص! جس نے یونانیوں کی حکمت پڑھی ہے، ایمان والوں کی حکمت بھی پڑھ.۲۵۸ تو اپنے نصیبہ کا پھل خوب کھائے گا بشرطیکہ میرا دوست بن جائے.۲۶۴ اے سعدی! اگرچہ وطن کی محبت (کا جزو ایمان ہونا ) صحیح حدیث ہے لیکن محض اس لئے کہ میں یہاں پیدا ہوا تھا تنگ دستی سے مَرا نہیں جاتا.۲۸۰ تو خدا کا طالب بھی بنتا ہے اور حقیر دنیا کا بھی، یہ محض وہم ہے، ناممکن ہے، دیوانگی ہے.۲۸۰ بے ثبات زندگی پر بھروسہ نہ رکھو زمانہ کی چالوں سے بے فکر مت رہو.۲۸۰ موت کا دن تو مخفی ہوتا ہے.بہتر یہی ہے کہ مَرنے کے دن میرا محبوب اورمیرا معشوق میرے پاس ہو.۳۰۶ شروع میں عشق بہت منہ زور اور خونخوار ہوتا ہے تا وہ شخص جو صرف تماشائی ہے بھا گ جائے.

Page 352

Page 353

Page 354

Page 355

Page 356

Page 357

Page 358

Page 359

Page 360

Page 361

Page 362

Page 363

Page 364

Page 365

Page 366

Page 367

Page 368

Page 369

Page 370

Page 371

Page 372

Page 373

Page 374

Page 375

Page 376

Page 377

Page 378

Page 379

Page 380

Page 381

Page 382

Page 383

Page 384

Page 385

Page 386

Page 387

Page 388

Page 389

Page 390

Page 391

Page 392

Page 393

Page 394

Page 395

Page 396

Page 397

Page 398

Page 399

Page 400

Page 401

Page 402

Page 403

Page 404

Page 405

Page 406

Page 407

Page 408

Page 409

Page 410

Page 411

Page 412

Page 412