Malfuzat Volume 8

Malfuzat Volume 8

ملفوظات (جلد 8)

اکتوبر 1905ء تا اکتوبر 1906ء
Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

ملفوظات سے مراد حضرت بانی جماعت احمدیہ، مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا وہ پاکیزہ اور پُرمعارف کلام ہے جو حضورؑ نے اپنی مقدس مجالس میں یا جلسہ سالانہ کے اجتماعات میں اپنے اصحاب کے تزکیہ نفس، ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت، خداتعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرنے اور قرآن کریم کے علم و حکمت کی تعلیم نیز احیاء دین اسلام اور قیام شریعت محمدیہ کے لیے وقتاً فوقتاً ارشاد فرمایا۔


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

Page 7

Page 8

Page 9

Page 10

Page 11

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَعَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یکم اکتوبر ۱۹۰۵ء تصویر کی حلّت و حرمت ذکر آیا کہ ایک شخص۱نے حضور کی تصویر ڈاک کے کارڈ پر چھپوائی ہے تاکہ لوگ ان کارڈوں کو خرید کر خطوط میں استعمال کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا.میرے نزدیک یہ درست نہیں.بدعت پھیلانے کا یہ پہلا قدم ہے.ہم نے جو تصویر فوٹو لینے ۱ نوٹ.بمبئی کے ایک سوداگر نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر والے کارڈ چھپوائے تھے اور ان کا اشتہار الحکم میں بھی شائع کر دیا گیا جو ایک معمولی اشتہار سمجھ کر شائع ہوتا رہا.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میری نیت اس اشتہار کی اشاعت سے کیا تھی.میرا ذاتی خیال یہ تھا کہ یہ بھی تبلیغ کا ایک ذریعہ ہوگا.لیکن یہ مرض تصویر بازی کا کچھ ایسا ترقی کرنے لگا کہ حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خصوصیت کے ساتھ اس پر توجہ کرنی پڑی اور پُر زور الفاظ میں اس کی حرمت اور ممانعت کا فتویٰ دیا اور اس طرح پر اس باب البدعۃ کو کھلتے ہی بند کر دیا.جزاہ اللہ احسن الجزاء.الحکم کی گزشتہ اشاعت میں مختصر طور پر یہ اعلان دے دیا گیا تھا.آج تفصیل کے ساتھ حضرت اقدسؑ کی تقریر کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے.آج کے بعد یقین کیا جاتا ہے کہ اعلیٰ حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر کا کارڈ استعمال نہ کیا جاوے گا.(از ایڈیٹر الحکم)

Page 12

کی اجازت دی تھی وہ اس واسطے تھی کہ یورپ امریکہ کے لوگ جو ہم سے بہت دور ہیں اور فوٹو سے قیافہ شناسی کا علم رکھتے ہیں اور اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں ان کے لیے ایک روحانی فائدہ کا موجب ہو.کیونکہ جیسا تصویر کی حرمت ہے.اس قسم کی حرمت عموم نہیں رکھتی بلکہ بعض اوقات مجتہد اگر دیکھے کہ کوئی فائدہ ہے اور نقصان نہیں تو وہ حسب ضرورت اس کو استعمال کر سکتا ہے.خاص اس یورپ کی ضرورت کے واسطے اجازت دی گئی.چنانچہ بعض خطوط یورپ امریکہ سے آئے جن میں لکھا تھا کہ تصویر کے دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل وہی مسیح ہے.ایسا ہی امراض کی تشخیص کے واسطے بعض وقت تصویر سے بہت مدد مل سکتی ہے.شریعت میں ہر ایک امر جو مَا يَنْفَعُ النَّاسَ (الرّعد:۱۸) کے نیچے آئے اس کو دیر پا رکھا جاتا ہے.لیکن یہ جو کارڈوں پر تصویریں بنتی ہیں ان کو خریدنا نہیں چاہیے.بُت پرستی کی جڑ تصویر ہے.جب انسان کسی کا معتقد ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ تعظیم تصویر کی بھی کرتا ہے.ایسی باتوں سے بچنا چاہیے اور ان سے دور رہنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ ہماری جماعت پر سر نکالتے ہی آفت پڑ جائے.میں نے اس ممانعت کو کتاب میں درج کر دیا ہے جو زیر طبع ہے.جولوگ جماعت کے اندر ایسا کام کرتےہیں ان پر ہم سخت ناراض ہیں.ان پر خدا ناراض ہے.ہاں اگر کسی طریق سے کسی انسان کی روح کو فائدہ ہو تو وہ طریق مستثنیٰ ہے.(ایک کارڈ تصویر والا دکھایا گیا) دیکھ کر فرمایا.یہ بالکل ناجائز ہے.ایک شخص نے اس قسم کے کارڈوں کا ایک بنڈل لا کر دکھایا کہ میں نے یہ تاجرانہ طور پر فروخت کے واسطے خرید کئے تھے اب کیا کروں؟ فرمایا.ان کوجلا دو اور تلف کر دو.اس میں اہانت دین اور اہانت شرع ہے.نہ ان کو گھر میں رکھو.اس سے کچھ فائدہ نہیں.بلکہ اس سے آخیر میں بُت پرستی پیدا ہوتی ہے.اس تصویر کی جگہ پر اگر تبلیغ کا کوئی فقرہ ہوتا تو خوب ہوتا.۱

Page 13

(قبل دوپہر) گناہ کی تعریف تُرک نے مندرجہ ذیل دو سوال کئے اور جواب پایا.سوال.اگر کوئی چوری یا زنا کے ارادے سے جاوے مگر نہ کرے تو کیا گناہ ہوگا؟ جواب.جو خیالات وسوسہ کے رنگ میں دل میں گذرتے ہیں اور ان پر کوئی عزم اور ارادہ انسان نہیں کرتا ان پر مؤاخذہ نہیں ہے.لیکن جب کوئی خیالِ بد دل میں گذرے اور انسان اس پر مصمم ارادہ کر لے تو اس پر مؤاخذہ ہوتا ہے اور وہ گناہ ہے.جیسے ایک اُچکا دل میں خیال کرے کہ فلاں بچہ کو قتل کر کے اس کا زیور اتار لوں گا تو گو قانونی جرم نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ مجرم ہے اور سزا پائے گا.یاد رکھو دل کا ایک فعل ہوتا ہے مگر جب تک اس پر مصمم ارادہ اور عزیمت نہ کر لے اس کا کوئی اثر نہیں.سوال.جو لوگ لڑائیوں میں جاتے ہیں اور وہاں قتل کرتے ہیں.کیا وہ قتل ان کا گناہ ہے یا نہیں؟ جواب.عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ (الاعراف:۱۸۸) میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا.اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے اچھا کیا یا بُرا کیا.۱ ۲؍اکتوبر ۱۹۰۵ء اسلامی جنگوں کی حقیقت مسئلہ جہاد کے متعلق ذکر تھا.اس کے متعلق جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے.اسلامی جہاد پر یہ اعتراض تو محض فضول ہے کہ وہ لڑائیاں مذہب اور اشاعت اسلام کی خاطر تھیں اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال تک مکہ میں کفار کے ہاتھوں سے سخت تکلیف اٹھاتے رہے اور آپ کے جان نثار صحابہ نے دُکھ اٹھائے اور جانیں دیں.بعض غریب اور بیکس ضعیف عورتوں کو شرمناک تکالیف کفار نے پہنچائیں.یہاں تک کہ آخر آپ کو ہجرت کرنی پڑی اور ان کفار نے ۱ الحکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۰

Page 14

وہاں بھی آپ کا تعاقب کیا.ایسی صورت میں جب ان کی شرارتیں اور تکلیفیں حد سے گذر گئیں تو پھر خدا تعالیٰ نے سد باب اور دفاع کے طور پر حکم دیا کہ ان سے جنگ کرو.چنانچہ پہلی آیت جس میں جہاد کا حکم ہوا وہ یہ ہے اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا الآیۃ(الـحج:۴۰) یعنی ان لوگوں کو اجازت دی گئی کہ وہ جنگ کریں جن پر ظلم ہوا ہے.مسلمان مظلوم تھے ان کی طرف سے ابتدا نہیں ہوئی تھی بلکہ بانی فساد کفار مکہ تھے.ایسی حالت میں بھی جب ان کی شرارتیں انتہائی درجہ تک جا پہنچیں تو اللہ تعالیٰ نے آپؐکو مدافعت کے واسطے مقابلہ کرنے کا حکم دیا.پس یہ اعتراض محض فضول اور لغو ہے کہ وہ لڑائیاں مذہب کے لیے تھیں.اگر محض مذہب کے لیے ہوتیں تو جزیہ دینے کی صورت میں ان کو کیوں چھوڑا جاتا.پھر میں کہتا ہوں کہ عیسائی تو اس قسم کا اعتراض کر ہی نہیں سکتے.وہ اپنے گھر میں دیکھیں کہ اسلامی لڑائیاں موسوی لڑائیوں سے زیادہ ہیں؟ اور جبکہ وہ حضرت عیسیٰ کو موسیٰ علیہ السلام کا بھی (معاذ اللہ ) خدا مانتے ہیں تو پھر ان لڑائیوں کا الزام عیسائیوں پر بدستور قائم ہے خصوصاً ایسی حالت میں کہ وہ لڑائیاں اسلامی جنگوں سے زیادہ سخت اور خون ریز تھیں.اسلامی لڑائیوں میں بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا لحاظ کیا جاتا تھا اور ان کو قتل نہیں کیا جاتا تھا مگر موسوی لڑائیوں میں تو ان امور کی پروا نہیں کی جاتی تھی.ایسا ہی اسلامی جنگوں میں مذہبی عبادت گاہوں اور پھلدار درختوں کو بھی ضائع نہیں کیا جاتا تھا.مگر موسوی لڑائیوں میں پھلدار درخت تباہ کر دیئے جاتے.غرض اسلامی جنگ موسوی لڑائیوں کے مقابلہ میں کچھ چیز ہی نہیں.مامور من اللہ کی جماعت اور ایک الہام فرمایا.اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہی عادت چلی آئی ہے کہ جب کوئی مامور اورمرسل اس کی طرف سے آتا ہے تو اولاً اس کی جماعت میں ضعفاء اور غرباء ہی آتے ہیں.بادشاہوں یا امراء کو توجہ نہیں ہوتی ہے.اور آخر اللہ تعالیٰ غرباء کی جماعت کو ہر قسم کی ترقیاں دے دیتا ہے.میرا ایک الہام ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.وہ بادشاہ مجھے دکھائے بھی گئے تھے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی زمانہ آئے گا جب اللہ تعالیٰ بعض کو اس سلسلہ کی سچائی کا فہم عطا کر دے گا.

Page 15

پنجاب کی سر زمین نرم ہے فرمایا.پنجاب کی سر زمین نرم ہے.ان لوگوں میں وہ شور اور شرارت نہیں ہے جو ہندوستانیوں میں ہے.ہندوستانیوں نے غدر کر دیا تھا مگر پنجابی گورنمنٹ کے ساتھ تھے.ہمارے مرزا صاحب نے بھی پچاس گھوڑے اس وقت مدد کے لیے گورنمنٹ کو دیئے تھے.پنجابیوں نے جس قدر مجھے قبول کیا ہے ہندوستان کو ابھی اس سے کچھ نسبت ہی نہیں ہے.۱ ؍اکتوبر۱۹۰۵ء نبی کا انکار کفر کو مستلزم ہے فرمایا.نبی کا انکار موجبِ کفر ہوتا ہے مگر ولی کا انکار بھی سلب ایمان کا موجب ہوجاتا ہے اور آخر کفر تک نوبت پہنچ جاتی ہے.صحیح بخاری میں ہے مَنْ عَادَ لِیْ وَ لِیًّا فَاٰذَنْتُہٗ لِلْحَرْبِ.یعنی جو شخص میرے ولی کے ساتھ دشمنی کرتا ہے میں اس کو لڑائی کے لیے پکارتا ہوں.خدا تعالیٰ نے بلعم کا قصہ بیان کیا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت کی وجہ سے اس حد تک گر گیا کہ اس کی کتے سے مثال دی گئی.نبی کا انکار صریح کفر کو مستلزم ہے مگر ولی کا جب دشمن بنتا ہے تو اندر ہی اندر توفیق چھن جاتی ہے.عبادت میں ذوق و شوق خدا تعالیٰ کے فضل پرملتا ہے کسی نے پوچھا کہ عبادت میں ذوق شوق کس طرح پیدا ہوتا ہے.فرمایا.اعمالِ صالحہ اور عبادت میں ذوق شوق اپنی طرف سے نہیں ہو سکتا.یہ خدا کے فضل اور توفیق پر ملتا ہے.اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان گھبرائے نہیں اور خدا تعالیٰ سے اس توفیق اور فضل کے واسطے دعائیں کرتا رہے.اور ان دعاؤں میں تھک نہ جاوے.جب انسان اس۱ الحکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۰

Page 16

طرح پر مستقل مزاج ہو کر لگا رہتا ہے تو آخر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے وہ بات پیدا کر دیتا ہے جس کے لیے اس کے دل میں تڑپ اور بے قراری ہوتی ہے.یعنی عبادت کےلیے ایک ذوق و شوق اور حلاوت پیدا ہونے لگتی ہے.لیکن اگر کوئی شخص مجاہدہ اور سعی نہ کرے.اور یہ سمجھے کہ پھونک مار کر کوئی کر دے یہ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ اور سنت نہیں.اس طریق پر جو شخص اللہ تعالیٰ کو آزماتا ہے وہ خدا سے ہنسی کرتا ہے اور مارا جاتا ہے.خوب یاد رکھو کہ دل اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے.اس کا فضل نہ ہو تو دوسرے دن جا کر عیسائی ہو جاوے یا کسی اور بے دینی میں مبتلا ہو جاوے.اس لیے ہر وقت اس کے فضل کے لیے دعا کرتے رہو اور اس کی استعانت چاہو تاکہ صراط مستقیم پر تمہیں قائم رکھے.جو شخص خدا تعالیٰ سے بے نیاز ہوتا ہے وہ شیطان ہوجاتا ہے.اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان استغفار کرتا رہے تاکہ وہ زہر اور جوش پیدا نہ ہو جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے.۱ طرح پر مستقل مزاج ہو کر لگا رہتا ہے تو آخر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے وہ بات پیدا کر دیتا ہے جس کے لیے اس کے دل میں تڑپ اور بے قراری ہوتی ہے.یعنی عبادت کےلیے ایک ذوق و شوق اور حلاوت پیدا ہونے لگتی ہے.لیکن اگر کوئی شخص مجاہدہ اور سعی نہ کرے.اور یہ سمجھے کہ پھونک مار کر کوئی کر دے یہ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ اور سنت نہیں.اس طریق پر جو شخص اللہ تعالیٰ کو آزماتا ہے وہ خدا سے ہنسی کرتا ہے اور مارا جاتا ہے.خوب یاد رکھو کہ دل اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے.اس کا فضل نہ ہو تو دوسرے دن جا کر عیسائی ہو جاوے یا کسی اور بے دینی میں مبتلا ہو جاوے.اس لیے ہر وقت اس کے فضل کے لیے دعا کرتے رہو اور اس کی استعانت چاہو تاکہ صراط مستقیم پر تمہیں قائم رکھے.جو شخص خدا تعالیٰ سے بے نیاز ہوتا ہے وہ شیطان ہوجاتا ہے.اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان استغفار کرتا رہے تاکہ وہ زہر اور جوش پیدا نہ ہو جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے.۱ ۱ الحکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۰

Page 17

قائم مقام کر دیتا ہے.قادر اور بے نیاز ہے.پہلے اس سے ایک یہ بھی الہام ہوا تھا جبکہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم زندہ تھے کہ دو شہتیر ٹوٹ گئے.اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ یہ الہام بھی خوفناک ہے خدا تعالیٰ اس کے معنے بہتر جانتا ہے.۱ ۱۳؍اکتوبر۱۹۰۵ء زندگی بے اعتبار ہے فرمایا.ان لوگوں پر مجھے تعجب آتا ہے جو زندگی پر اعتبار کرتے ہیں.بعض دفعہ انسان پر آنی موت وارد ہوتی ہے.ایک شخص بڑے مرزا صاحب کے پاس آیا انہوں نے اس کی نبض دیکھ کر کہا کہ فوراً گھر چلے جاؤ اور پاس والوںکو کہا کہ اگر کسی نے مردہ چلتا ہوا دیکھنا ہو تو اس کو دیکھ لے.وہ گھر پہنچ کر فوراً مر گیا.ایسا ہی خلیفہ محمد حسین پٹیالہ والے کچہری سے گھر جا کر ایک زینہ پر گرے، اُٹھے اور دوسرے پر گرے اور جان نکل گئی.صدقہ اگرچہ قلیل ہو مگر اس پر دوام ہو ایک مختصر سے چندہ کی ضرورت تھی.فرمایا.بعض لوگ ایک بات منہ سے نکالتے ہیں اور پھر اس پر قائم نہیں رہ سکتے اور گناہ گار ہوتے ہیں.صدقہ عمدہ وہ ہے جو اگرچہ قلیل ہو مگر اس پر دوام ہو.مولوی یار محمد صاحب کا اخلاص مولوی صاحب۲ مرحوم کی علالت طبع کے ایام میں بعض کی خدمت گذاری کے ذکر میں مولوی یار محمد صاحب بی.او.ایل کی خدمت گذاری کا ذکر آیا.فرمایا.بہت ہی مخلص یک رنگ آدمی ہے.کئی دفعہ بہت تکلیف کا سفر برداشت کیا.بدنی خدمت قائم مقام کر دیتا ہے.قادر اور بے نیاز ہے.پہلے اس سے ایک یہ بھی الہام ہوا تھا جبکہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم زندہ تھے کہ دو شہتیر ٹوٹ گئے.اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ یہ الہام بھی خوفناک ہے خدا تعالیٰ اس کے معنے بہتر جانتا ہے.۱ ۱۳؍اکتوبر۱۹۰۵ء زندگی بے اعتبار ہے فرمایا.ان لوگوں پر مجھے تعجب آتا ہے جو زندگی پر اعتبار کرتے ہیں.بعض دفعہ انسان پر آنی موت وارد ہوتی ہے.ایک شخص بڑے مرزا صاحب کے پاس آیا انہوں نے اس کی نبض دیکھ کر کہا کہ فوراً گھر چلے جاؤ اور پاس والوںکو کہا کہ اگر کسی نے مردہ چلتا ہوا دیکھنا ہو تو اس کو دیکھ لے.وہ گھر پہنچ کر فوراً مر گیا.ایسا ہی خلیفہ محمد حسین پٹیالہ والے کچہری سے گھر جا کر ایک زینہ پر گرے، اُٹھے اور دوسرے پر گرے اور جان نکل گئی.صدقہ اگرچہ قلیل ہو مگر اس پر دوام ہو ایک مختصر سے چندہ کی ضرورت تھی.فرمایا.بعض لوگ ایک بات منہ سے نکالتے ہیں اور پھر اس پر قائم نہیں رہ سکتے اور گناہ گار ہوتے ہیں.صدقہ عمدہ وہ ہے جو اگرچہ قلیل ہو مگر اس پر دوام ہو.مولوی یار محمد صاحب کا اخلاص مولوی صاحب۲ مرحوم کی علالت طبع کے ایام میں بعض کی خدمت گذاری کے ذکر میں مولوی یار محمد صاحب بی.او.ایل کی خدمت گذاری کا ذکر آیا.فرمایا.بہت ہی مخلص یک رنگ آدمی ہے.کئی دفعہ بہت تکلیف کا سفر برداشت کیا.بدنی خدمت قائم مقام کر دیتا ہے.قادر اور بے نیاز ہے.پہلے اس سے ایک یہ بھی الہام ہوا تھا جبکہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم زندہ تھے کہ دو شہتیر ٹوٹ گئے.اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ یہ الہام بھی خوفناک ہے خدا تعالیٰ اس کے معنے بہتر جانتا ہے.۱ ۱۳؍اکتوبر۱۹۰۵ء زندگی بے اعتبار ہے فرمایا.ان لوگوں پر مجھے تعجب آتا ہے جو زندگی پر اعتبار کرتے ہیں.بعض دفعہ انسان پر آنی موت وارد ہوتی ہے.ایک شخص بڑے مرزا صاحب کے پاس آیا انہوں نے اس کی نبض دیکھ کر کہا کہ فوراً گھر چلے جاؤ اور پاس والوںکو کہا کہ اگر کسی نے مردہ چلتا ہوا دیکھنا ہو تو اس کو دیکھ لے.وہ گھر پہنچ کر فوراً مر گیا.ایسا ہی خلیفہ محمد حسین پٹیالہ والے کچہری سے گھر جا کر ایک زینہ پر گرے، اُٹھے اور دوسرے پر گرے اور جان نکل گئی.صدقہ اگرچہ قلیل ہو مگر اس پر دوام ہو ایک مختصر سے چندہ کی ضرورت تھی.فرمایا.بعض لوگ ایک بات منہ سے نکالتے ہیں اور پھر اس پر قائم نہیں رہ سکتے اور گناہ گار ہوتے ہیں.صدقہ عمدہ وہ ہے جو اگرچہ قلیل ہو مگر اس پر دوام ہو.مولوی یار محمد صاحب کا اخلاص مولوی صاحب۲ مرحوم کی علالت طبع کے ایام میں بعض کی خدمت گذاری کے ذکر میں مولوی یار محمد صاحب بی.او.ایل کی خدمت گذاری کا ذکر آیا.فرمایا.بہت ہی مخلص یک رنگ آدمی ہے.کئی دفعہ بہت تکلیف کا سفر برداشت کیا.بدنی خدمت ۱ بدر جلد ۱ نمبر ۲۸ مورخہ ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ ۲ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ مراد ہیں.(مرتّب)

Page 18

خوب ادا کرتا ہے.چالیس کوس روز پیدل چلنا پڑے تو بھی عذر نہیں کرتا.رات کو چلنا ہو یا دن کو چلنا ہو.ایّام مقدمہ میں ہمارے یکہ کے ساتھ برابر پیادہ دوڑ کر گورداسپور اور قادیان آتا جاتا رہا.محنت اور دیانت سے کام کرنے والا آدمی ہے.جس کے پاس ہوگا وہ مطمئن رہے گا.کیونکہ دانستہ غفلت کرنے والا آدمی نہیں.سنت صحابہ کا ایک جزو اس میں ہے.(قبل عصر) سچے مذہب کی شناخت گجرات کے مشن اسکول کے ہیڈ ماسٹر ڈی نیل صاحب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے.چند تحریری سوال پیش کئے جن کے جوابات تحریری دیئے جائیں گے.مختلف مذاہب کا تذکرہ تھا حضور مسیح علیہ السلام نے فرمایا.آج کل مذاہب کی عجیب حالت ہے.گھر گھر ایک نیا مذہب بن رہا ہے اور تلاش کرنے والے کے واسطے ایک حیرت کا مقام ہو رہا ہے اور اس وقت طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ واقعی انسان کو نجات دینے والا سچا مذہب کون سا ہے؟ اس کا جواب ہر ایک شخص اپنے اپنے رنگ میں دے گا.لیکن اس کا صحیح جواب یہی ہے کہ ہر ایک مذہب میں یہ دیکھنا چاہیے کہ خدا کے ساتھ اس کے معاملات کیسے ہیں.اس کی عظمت جبروت اور خوف کس قدر دل پر غالب ہے.انسان شر سے طبعاً نفرت کرتا ہے اور جس چیز کے فوائد اور منافع مرکوزِ خاطر ہو جائیں اس سے طبعاً محبت کرتا ہے.مثلاً ایک جگہ انسان کو رات رہنا ہو اور اس جگہ سانپ ہو تو گوارا نہ کرے گا کہ وہاں رہے.یا کسی گاؤں میں طاعون ہو تو طبعاً اس بات سے نفرت کرے گا کہ اس میں داخل ہو.فائدہ مند چیز کی طرف رغبت کرتا ہے.بری چیز سے نفرت رکھتا ہے.پس جس شخص کے دل میں خدا کی واقعی عظمت ہو جاوے اور اس کو منافع دینے والا یقین کرلے اور اس کے احکام کی خلاف ورزی میں اپنی ہلاکت پر پورا ایمان قائم کر لے تو پھر باوجود اس نظارہ کے وہ کس طرح خدا کی خلاف مرضی کر سکے گا.انسان کو چلتے چلتے سونے کا خزانہ نظر آجائے تو ضرور اس کو لینے کی سعی کرتا ہے.پس اصل بات

Page 19

یقین اور ایمان ہے جس کے ذریعہ سے تمام بدیوں سے بچ کر نیکی کی طرف انسان آسکتا.اب وہ یقین اور ایمان کس طرح سے حاصل ہو؟ سچا مذہب وہ ہے جو اس یقین کے واسطے صرف قصہ اور کہانیوں پر مدار نہ رکھے کیونکہ یہ کہانیاں تو سب میں پائی جاتی ہیں.کیا وجہ ہے کہ ہم مسیح کے معجزات کا قصہ مان لیں اور ایک ہندو کے دیوتاؤں کے معجزات جو اس کی پرانی کتابوں میں درج ہیں نہ مانیں.تاریخی امور میں سب قومیں تواتر پیش کرتی ہیں.یہ ایک تحکم ہے کہ ایک کی بات مانی جائے اور دوسرے کا انکار کیا جائے.یہ نا مناسب ہے کہ انسان اپنے مذہب کے قصے کو درست جانے اور باقی سب کو غلط مانے.غلط قصوں کے ذریعہ سے حق کے تلاش کرنے کا سفر بہت دور دراز کا ہے جو طے نہیں ہو سکتا.اس کے سوائے آسان راہ یہ ہے کہ خدا جیسا پہلے قادر تھا اب بھی قادر ہے.جیسا پہلے معجزات ظاہر کر سکتا تھا اب بھی ظاہر کر سکتا ہے.جیسا پہلے سنتا تھا اب بھی سنتا ہے اور جیسا پہلے بولتا تھا اب بھی بولتا ہے.یہ کیا وجہ ہے کہ پہلے تو سننے اور بولنے کی دونوں صفتیں اس میں تھیں مگر اب سننے کی صفت تو ہے لیکن بولنے کی نہیں.پس سچا طالب وہ ہے جو سب باتوں کو چھوڑ کر اس لَمْ یَزَلْ ازلی ابدی خدا ہمیشہ کی قدرتوں والے خدا کی طرف جھک جائے.اس خدا کی طرف توجہ کرے جو اَب بھی وہی صفات اور اخلاق رکھتا ہے جو موسیٰ کے وقت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت رکھتا تھا.وہ اب بھی چاہتا ہے کہ گم گشتہ اس کے پاس آئے.وہ اب بھی محبت کرتا ہے کہ کوئی اس کے حضور میں آئے.سچا وہی ہے جو ایسے خدا کو ڈھونڈتا ہے.جس مذہب کا مدار صرف قصوں پر ہے وہ مردہ مذہب ہے.سچا مذہب وہ ہے جس میں وہ خدا اب بھی بولتا ہے.جو تعصب نہیں رکھتا ہے وہ محض خدا حیّ قیوم کا طالب ہو کر اس کو پاتا ہے.خدا اس دل کو دوست رکھتا ہے جو اس کو ڈھونڈنے والا ہو.۱ ۲۲؍اکتوبر ۱۹۰۵ء (سفر دہلی) پہلے تو یہ خیال تھا کہ حضرت اُمّ المؤمنین اپنے والد بزرگوار یعنی میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ دہلی ۱ بدر جلد ۱ نمبر ۲۹ مورخہ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲

Page 20

چلے جائیں گے مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی روانگی کے متعلق اللہ تعالیٰ کے حضور مسنون طریقہ پر استخارہ کیا تو الہام ہوا لَا تَقُوْمُوْا وَلَا تَقْعُدُوْا اِلَّا مَعَہٗ لَا تَرُدُّوْا مَوْرِدًا اِلَّا مَعِیَ.اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ.ان الہامات کی وجہ سے ضروری ہوا کہ حضرت صاحب بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ دہلی جائیں اور جب حضور نے تشریف لے جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو آپ کے حکم اور اجازت سے چند خدام بھی ساتھ ہوئے.عاجز راقم کی طبیعت بیمار تھی چند روز بخار آتا رہا ہے.مگر حضور نے فرمایا کہ چلے چلو.تبدیل آب و ہوا سے بھی فائدہ ہوتا ہے.۲۲؍اکتوبر بروز یک شنبہ کی صبح کو قادیان سے روانہ ہوئے.روانگی سے پیشتر آپ نے فرمایاکہ آج رات ایک رؤیا اور ایک الہام ہوا.رؤیا دیکھا کہ دہلی گئے ہیں تو تمام دروازے بند ہیں.پھر دیکھا کہ کوئی شخص کچھ تکلیف دینے والی شے میرے کان میں ڈالتا ہے.میں نے کہا تم مجھے کیا دُکھ دیتے ہو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے زیادہ دُکھ دیا گیا تھا.‘‘ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی والوں کے دلوں پر ایسے قفل لگے ہوئے ہیں کہ ان پر کوئی نیک اثر نہیں ہوتا اور ہر طرح کی بد زبانی ہم ان لوگوں سے وہاں سنیں گے.۱ (بمقام ریلوے اسٹیشن امرتسر) حضرت مولوی عبد الکریمؓ کی وفات کے متعلق الہامات باتوں ہی باتوں میں حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کا تذکرہ آگیا.فرمایا.بڑے ہی مخلص اور قابل قدر انسان تھے مگر اللہ تعالیٰ کی یہی مرضی تھی.اگرچہ بشریت کے لحاظ سے صدمہ ہوتا ہے مگر ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر خوش ہیں.اس نے ہماری تسلی کے لیے پہلے سے ہی بتا دیا تھا کہ اب مولوی صاحب ہم سے الگ ہوں گے.چنانچہ اِنَّ الْمَنَایَا لَا تَطِیْشُ سِھَامُھَا ان کی بابت الہام ہو چکا تھا اور پھر کفن میں لپیٹا گیا اور پھر صاف طور پر ۴۷برس کی عمر.۱ بدر جلد ۱ نمبر ۳۰ مورخہ ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲

Page 21

اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ.یہ سب الہامات ان کی موت کی خبر دیتے تھے لیکن ہم ان کی نسبت خیر چاہتے تھے.اس لیے اپنے طور پر ان الہامات کو کسی اور مفہوم میں پورا ہونے کے خواہشمند تھے مگر اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر وہی تھی جو صاف طور پر ان الہامات میں بتا دی گئی تھی اور آخر وہ پورے ہوگئے.ان الہامات پر غور کر کے مجھے ایک نکتہ سمجھ میں آیا ہے کہ جب مرض الموت کا وقت آجاوے تو وہ وقت دعا کا نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے ارادہ کو ظاہر کر دیتا ہے.اسی طرح پر جو حالتیں مہلک بیماریوں کی ہوتی ہیں ان میں بھی نتیجہ نظر آجاتا ہے مگر خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ مولوی صاحب کے معاملہ میں ایک عجیب بات دیکھی گئی کہ ان کی اصل مرض سرطان جس کو انگریزی میں کار بنکل کہتے ہیں بالکل اچھا ہو گیا بلکہ خود انہوں نے ہاتھ پھیر کر دیکھا اور یہی کہتے تھے کہ اب میں دو چار روز میں پھرنے لگوں گا.آخر ذات الجنب کی وجہ سے سخت بخار ہوگیا جو ۱۰۶ درجہ تک پہنچ گیا اور اسی عارضہ میں وفات پائی.۵۱ دن تک وہ اس بیماری میں زندہ رہے.یہ زیادتِ ایام بھی استجابت دعا پر دلالت کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس مرض سے ان کو آخر نجات دے دی.رہی موت اس سے تو نہ کوئی بچا ہے نہ بچ سکتا ہے.ان کی بیوی نے بتایا کہ وہ کہتے تھے کہ کئی مرتبہ خدا بلانے آیا ہے مگر تاخیر ہی ہوتی رہی.خدا تعالیٰ کا تردّد اصل بات یہ ہے کہ یہ وہی تردّد ہے جس کا ذکر صحیح حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے مومن کی جان لینے میں تردّد ہوتا ہے.میں نے باوجودیکہ ان کی وفات کے متعلق الہامات ہوچکے تھے بہت دعا کی تو الہام ہوا تُؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا پھر یہ بھی الہام ہوا يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ اس کا مطلب یہ تھا کہ جب انتہا درجہ تک کسی کا وجود ضروری سمجھا جاتا ہے تو وہ معبود ہوجاتا ہے اور یہ صرف خدا تعالیٰ ہی کا وجود ہے جس کا کوئی بدل نہیں.کسی انسان یا اور مخلوق کے لیے ایسا نہیں کہہ سکتے.چند الہامات پھر فرمایا.پرسوں الہام ہوا تھا اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَ اَرُوْمُ مَا یَرُوْمُ وَاُعْطِیْکَ مَا یَدُوْمُ اور آج کا الہام یہ ہے تَاْتِیْکَ وَاَنَا مَعَکَ یہ الہام بخیر و عافیت سفر سے واپس آنے کی خبر دیتا ہے.۱ ۱ الحکم جلد ۹ نمبر ۴۳ مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۴،۵

Page 22

۲۴؍اکتوبر۱۹۰۵ء (بمقام دہلی) ایک رؤیا صبح حضرت نے فرمایا کہ آج رات میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تھوڑے سے چنے بھونے ہوئے سفید ہیں اور ان کے ساتھ ہی منقّہ بھی ہے.فرمایا.ہمارا تجربہ ہے کہ چنے، مولی، بینگن یا پیاز خواب میں دیکھیں تو کوئی امر مکروہ پیش آتا ہے لیکن منقّہ دل کو قوت دینے والی شے ہے اور اس کا دیکھنا اچھا ہے.اس خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی امر مکروہ چھوٹا یا بڑا در پیش ہے جو منقّہ کی آمیزش سے وہ کراہت جاتی رہے گی.تنگی کے بعد فراخی آتی ہے فرمایا.انسان کی زندگی کے ساتھ مکروہات کا سلسلہ بھی لگا ہوا ہے.اگر انسان چاہے کہ میری ساری عمر خوشی میں گذرے تو یہ ہو نہیں سکتا.فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا.اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (اَ لَمْ نَشْـرَحْ:۶،۷) یہ زندگی کا چکر ہے.جب تنگی آوے تو سمجھنا چاہیے کہ اس کے بعد فراخی بھی ضرور آئے گی.۱ زیارت قبور صبح حضرت مسیح موعود مردانہ مکان میں تشریف لائے.دہلی کے سیر کا ذکر درمیان میں آیا.فرمایا.لہو و لعب کے طور پر پھرنا تو درست نہیں.البتہ یہاں بعض بزرگ اولیاء اللہ کی قبریں ہیں ان پر ہم بھی جائیں گے.۱ الحکم سے.’’اور اصل بات یہ ہے کہ تنگیوں اور تکلیفوں کا زمانہ ہی انسان کو انسان اور بندہ بناتا ہے ورنہ اگر کوئی غم ہمّ نہ ہو تو انسان خدا سے بالکل دور چلا جاوے.مومن کی شان اس سے نرالی ہے وہ جس جس قدر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کو دیکھتا اور اس کے انعامات کو پاتا ہے اسی قدر وہ اس کے قریب ہوتا ہے اور اپنی وفاداری اور اخلاق و اخلاص میں زیادہ ترقی کرتا ہے.‘‘ (الحکم جلد ۱۰نمبر ۸ مورخہ ۱۰؍مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ )

Page 23

عاجز۱ کو فرمایا کہ ایسے بزرگوں کی فہرست بناؤ تاکہ جانے کے متعلق انتظام کیا جائے.حاضرین نے یہ نام لکھائے.(ا) شاہ ولی اللہ صاحب (۲) خواجہ نظام الدین صاحب (۳)جناب قطب الدین صاحب (۴) خواجہ باقی باللہ صاحب (۵) خواجہ میر درد صاحب (۶) جناب نصیرالدین صاحب چراغ دہلی.چنانچہ گاڑیوں کا انتظام کیا گیا اور حضرت بمعہ خدّام گاڑیوں میں سوار ہو کر سب سے اوّل حضرت خواجہ باقی باللہ کے مزار پر پہنچے.راستہ میں حضرت نے زیارت قبور کے متعلق فرمایا.قبرستان میں ایک روحانیت ہوتی ہے اور صبح کا وقت زیارت قبور کے لیے ایک سنت ہے.یہ ثواب کا کام ہے اور اس سے انسان کو اپنا مقام یاد آجاتا ہے.انسان اس دنیا میں مسافر ہے.آج زمین پر ہے تو کَل زمین کے نیچے ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب انسان قبر پر جاوے تو کہے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اِنَّا اِنْ شَاءَ اللہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ.زیارت قبور کے آداب خواجہ باقی باللہ کی مزار پر جب ہم پہنچے تو وہاں بہت سی قبریں ایک دوسرے کے قریب قریب اور اکثر زمین کے ساتھ ملی ہوئی تھیں.میں نے غور سے دیکھا کہ حضرت اقدس نہایت احتیاط سے ان قبروں کے درمیان سے چلتے تھے تاکہ کسی کے اوپر پاؤں نہ پڑے.قبر خواجہ صاحب پر پہنچ کر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور دعا کو لمبا کیا.بعد دعا مَیں نے عرض کی کہ قبر پر کیا دعا کرنی چاہیے تو فرمایا کہ صاحبِ قبر کے واسطے دعائے مغفرت کرنی چاہیے اور اپنے واسطے بھی خدا سے دعا مانگنی چاہیے.انسان ہر وقت خدا کے حضور دعا کرنے کا محتاج ہے.قبر کے سرہانے کی طرف ایک نظم خواجہ صاحب مرحوم کے متعلق لکھی ہے.بعد دعا آپ نے وہ نظم ۱ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ (مرتّب)

Page 24

پڑھی اور عاجز راقم کو حکم دیا کہ اس کو نقل کر لو.۱ حضرت خواجہ باقی باللہ فرمایا.خواجہ باقی باللہ بڑے مشائخ میں سے تھے.شیخ احمد سرہندی کے پیر تھے.مجھے خیال آتا ہے کہ ان بزرگوںکی ایک کرامت تو ہم نے بھی دیکھ لی ہے اور وہ یہ ہے کہ دہلی جیسے شہر کو انہوں نے قائل کیا.اور یہ وہ شہر ہے جو ہم کو مردود اور مخذول اور کافر کہتا ہے.سر زمین دہلی سیٹھ صاحب۲ کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ یہ سر زمین بمبئی سے زیادہ سخت ہے اور اس کے لیے آسمانی سر زنش کا حصہ ہمیشہ رہا ہے.صرف انگریزوں کے ساتھ ہی بغاوت نہیںکی بلکہ سلاطین اسلامیہ کے ساتھ بھی شورہ پشتی کرتے رہے ہیں.اس جگہ کے اکابر اور مشائخ کے اخلاق کا بھی اس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ انہوں نے ایسے شہر میں کس طرح بسر کی.یہ بزرگ بہت ہی مسلوب الغضب تھے.انہوں نے اپنے آپ کو مٹی کی طرح کر دیا تھا.مرزا جانِ جاناں کو ان لوگوں نے قتل کر دیا.اور بڑے دھوکے سے کیا.یعنی ایک آدمی نذر لے کر آیا اور دھوکہ سے طپنچہ مار دیا.شاہ ولی اللہ کے لیے بھی دہلی والوں نے ایسے ہی قتل کے ارادے کئے تھے مگر ان کو خدا نے بچا لیا.میرے ساتھ جب مباحثہ ہوا تھا تو آٹھ نو ہزار آدمی کا مجمع تھا اور میں نے سنا ہے کہ بعض کے ہاتھ میں چاقو اور بعض کے ہاتھ میں پتھر بھی تھے.یہاں تک کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس کو اندیشہ ہوا کہ کہیں غدر نہ ہو جاوے اس واسطے اس نے مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر مجمع سے باہر کیا اور گھر پہنچایا.ایسے وقت میں یہ لوگ کوتاہ اندیش، پست خیال اور سفلہ ہونا ظاہر کرتے ہیں.پنجاب میں بڑی سعادت ہے اس کے بالمقابل پنجاب میں بڑی سعادت ہے.ہزار ہا لوگ سلسلہ حقہ میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں.پنجاب کی زمین بہت نرم ہے اور اس میں خدا پرستی ہے.طعن و تشنیع کو برداشت کرتے ہیں.مگر یہ لوگ بہت سخت ہیں جس سے اندیشہ ایسے عذاب الٰہی کا ہے جو پہلے ہوتا رہا ہے کیونکہ جب کوئی ۱ چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ نے وہ نظم نقل کر لی اور بدر میں اسے شائع کر دیا.(مرتّب) ۲سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب مراد ہیں.(مرتّب)

Page 25

مامور من اللہ اور ولی اللہ آتا ہے اور لوگ اس کے درپے ایذا اور توہین ہوتے ہیں تو عادت اللہ اسی طرح واقع ہے کہ بعد اس کے ایسے شہر اور ملک پر جو سر کش اور بے ادب ہوتا ہے ضرور تباہی آتی ہے.پنجاب میں اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے.وہ لوگ خدا کا خوف رکھتے ہیں اور خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اس کثرت سے پنجابیوں کا ہماری طرف رجوع ہو رہا ہے کہ بعض اوقات ان کو ہماری مجالس میں کھڑا ہونے کی جگہ نہیں ملتی.فرمایا.خواجہ باقی باللہ صاحب کی عمر بہت تھوڑی تھی.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سے بھی کم عمر پائی تھی.مولوی صاحب موصوف کی عمر سینتالیس سال کی تھی.خواجہ باقی باللہ کی قبر پر کھڑے ہو کر بعد دعا کے فرمایا کہ ان تمام بزرگوں کی جو دہلی میں مدفون ہیں کرامت ظاہر ہے کہ ایسی سخت سر زمین نے ان کو قبول کیا.یہ کرامت اب تک ہم سے ظہور میں نہیں آئی.ذلّت کا رزق قبر پر بہت سے سائل جمع تھے.فرمایا.یہ سائلین بہت پیچھے پڑتے ہیں.پہلے معلوم نہ تھا.ورنہ ان کے واسطے کچھ پیسے ساتھ لے آتے.شیخ نظام الدین کی قبر پر سائل اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ آپس میں لڑنے لگ جاتےہیں.یہی ان کا رزق ہوگیا ہے جو ذلّت کا رزق ہے.رزق کی تنگی بعض لوگوں سے بہت بُرے کام کراتی ہے.ایک سائل لودیانہ میں میرے پاس آیا اور ظاہر کیا کہ ایک آدمی مر گیا ہے اس کے کفن کے واسطے سامان کرتا ہوں.چار آنے کی کسر باقی ہے.ایک آدمی نے کہا کہ پہلے دیکھنا چاہیے کہ وہ میّت کہاں ہے؟ پھر اس کی پوری مدد کرنی چاہیے چنانچہ وہ آدمی ساتھ گیا تو تھوڑی دور جا کر سائل بھاگ گیا کیونکہ وہ سب جھوٹھا قصہ بنایا ہوا تھا.تنگی رزق یہ بد مکر کراتی ہے.مساجد کی اصل زینت دہلی کی جامع مسجد کو دیکھ کر فرمایا کہ مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چھوٹی سی تھی.کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی گئی تھی

Page 26

اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا.مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں دنیا داروں نے ایک مسجد بنوائی تھی وہ خدا کے حکم سے گرا دی گئی.اس مسجد کا نام مسجد ضرار تھا یعنی ضرر رساں.اس مسجد کی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی تھی.مسجدوں کے واسطے حکم ہے کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں.آثار قدیمہ ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اگر آپ نے قلعہ نہیں دیکھا تو دیکھ لیں.ع آثار پدید است صنادید عجم را اَجل میں تاخیر نہیں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کا ذکر تھا.فرمایا.خدا نے دعا کو قبول کر کے سرطان سے شفا دے دی.مگر جب کسی کی اَجل آجاتی ہے تو پھر رک نہیں سکتی اور یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ دعا سے عمر بڑھ جاتی ہے.اس کے یہ معنی ہیں کہ اَجل کے آ جانے سے پیشتر قبل از وقت جو دعا کی جاوے وہ کام آتی ہے ورنہ جان کندن کے وقت کون دعا کر سکتا ہے؟ ایسی سخت بیماری میں مولوی صاحب مرحوم کا اکیاون دن تک زندہ رہنا بھی استجابت دعا کا ہی نتیجہ تھا.یہ تاخیر بھی تعجب انگیز ہے.ہم بہت دعا کرتے تھے کہ آدمی اچھا ہے زندہ ہی رہے تب خدا کی طرف سے یہ الہام ہوا تُؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا.یعنی کیا اگلے عالَم کے تم قائل نہیں ہو جو اس دنیا کی زندگی کے واسطے اتنا زور دیتے ہو.(بعد ظہر) جو آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں ایک شخص عبد الحق نام جو اپنے آپ کو صوفی ابوالخیر صاحب کے مرید بتلاتے تھے چند طالب علموں کے ساتھ آئے.اور بھی دہلی والے آ موجود ہوئے.حضرت مسیحؑ نے پوچھا کہ کیا تم سب دہلی کے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں.

Page 27

پھر میاں عبد الحق صاحب نے سوال کیا کہ میں تشفّی کے واسطے ایک بات پوچھتا ہوں.حضرت نے اجازت دی.عبد الحق.کیا آپ اس مسیح اور مہدی کو یاد دلانے والے ہیں جو کہ آنے والا ہے یا کہ آپ خود مسیح اور مہدی ہیں؟ حضرت.میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ قرآن اور حدیث کے مطابق اور اس الہام کے مطابق کہتا ہوں جو خدا نے مجھے کہا.جو آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں جس کے کان ہوں وہ سنے اور جس کی آنکھ ہو وہ دیکھے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رؤیت کی گواہی دی.دونو باتیں ہوتی ہیں قول اور فعل.یہاں اللہ تعالیٰ کا قول اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل موجود ہے.شب معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ کو دیگر گذشتہ انبیاء کے درمیان دیکھا.ان دو شہادتوں کے بعد تم اور کیا چاہتے ہو؟ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے صدہا نشانات سے تائید کی.جو طالب حق ہو اور خوف خدا رکھتا ہو اس کے سمجھنے کے واسطے کافی سامان جمع ہوگیا ہے.ایک شخص پہلی پیشگوئی کے مطابق قال اللہ اور قال الرسول کے مطابق عین ضرورت کے وقت دعویٰ کرتا ہے.یہ وہ وقت ہے کہ عیسائیت اسلام کو کھا رہی ہے.خدا تعالیٰ نے اسلام کی حمایت کے واسطے جو بات پیش کی ہے اس سے بڑھ کر کوئی اور بات نہیں ہوسکتی.انیس سو سال سے عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسیٰ خدا ہے اور معبود ہے اور چالیس کروڑ عیسائی اس وقت موجود ہے.اس پر پھر مسلمانوںکی طرف سے ان کی تائید کی جاتی ہے کہ بے شک عیسیٰ اب تک زندہ ہے نہ کھانے کا محتاج نہ پینے کا محتاج.سب نبی مر گئے پر وہ زندہ آسمان پر بیٹھا ہے.اب آپ ہی بتلائیں کہ اس سے عیسائیوں پر کیا اثر ہوگا.عیسائیت کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح ہتھیار عبد الحق.عیسائیوں پر تو کوئی اثر ہو نہیں سکتا جب تک کہ شمشیر نہ ہو.حضرت.یہ بات غلط ہے.تلوار کی اب ضرورت نہیں ہے اور نہ تلوار کا اب زمانہ ہے.ابتدا میں بھی تلوار ظالموں کے حملہ کے روکنے کے واسطے اٹھائی گئی تھی ورنہ اسلام کےمذہب میں جبر نہیں.تلوار کا

Page 28

زخم تو مل جاتا ہے پر حجت کا زخم نہیں ملتا.دلائل اور براہین کے ساتھ اس وقت مخالفین کو قائل کرنا چاہیے.میں آپ لوگوں کی خیر خواہی کی ایک بات کہتا ہوں ذرا غور سے سنو.ہر دو پہلوؤں پر توجہ کرو.اگر عیسائیوں کے سامنے اقرار کیا جائے کہ وہ شخص جس کو تم خدا اور معبود مانتے ہو بیشک وہ اب تک آسمان پر موجود ہے ہمارے نبی تو فوت ہوگئے پر وہ اب تک زندہ ہے اور قیامت تک رہے گا نہ کھانے کا محتاج نہ پینے کا محتاج.اگر ہم ایسا کہیں تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ اور اگر ہم عیسائیوں کے سامنے یہ ثابت کر دیں کہ جس شخص کو تم اپنا معبود اور خدا مانتے ہو وہ مر گیا.مثل دوسرے انبیاء کے فوت ہو کر زمین میں دفن ہے اور اس کی قبر موجود ہے.اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ بحثوں کو جانے دو اور میری مخالفت کے خیال کو چھوڑو.میں پرواہ نہیں کرتا کہ مجھے کوئی کافر کہے، دجال کہے یا کچھ اور کہے.تم یہ کہو کہ ان ہر دو باتوں میں سے کونسی بات ہے جس سے عیسوی مذہب بیخ و بنیاد سے اکھڑ جاتا ہے.اس تقریر کا میاں عبد الحق صاحب پر بہت اثر ہوا.چنانچہ فوراً کھڑا ہو کر حضرت اقدس کے ہاتھ چومے اور کہا میں سمجھ گیا.آپ اپنا کام کرتے جائیں.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ترقی دے.انشاء اللہ تعالیٰ ضرور آپ کی ترقی ہوگی.یہ بات صحیح ہے.۱ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۵ء (بمقام دہلی) ایک رؤیا دیکھا کہ بڑا سخت زلزلہ آیا ہے.ایک رؤیا کی تعبیر فرمایا.اگلے دن جو خواب میں چنے دیکھے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ میر ناصر نواب صاحب۲ کی بیماری کی طرف اشارہ تھا.۳ ۱ بدر جلد ۱ نمبر ۳۱ مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱تا۳ ۲ میر صاحب دو روز سے درد شکم سے بہت تکلیف میں ہیں.لیکن اب بہ نسبت سابق آرام ہے.(ایڈیٹر) (بدر جلد ۱ نمبر ۳۱ مورخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۴) ۳ بدر جلد ۱ نمبر ۳۱ مورخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۴

Page 29

مسیح موعود کو ماننا کیوں ضروری ہے چند مولوی اور طلباء آئے.حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں روزے رکھتے ہیں.قرآن اور رسول کو مانتے ہیں.آپ کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا.انسان جو کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرتا ہے وہ سب موجب معصیت ہوجاتا ہے.ایک ادنیٰ سپاہی سرکار کی طرف سے کوئی پروا نہ لے کر آتا ہے تو اس کی بات نہ ماننے والا مجرم قرار دیا جاتا ہے اور سزا پاتا ہے.مجازی حکام کا یہ حال ہے تو احکم الحاکمین کی طرف سے آنے والے کی بےعزتی اور بے قدری کرنا کس قدر عدولِ حکمی اللہ تعالیٰ کی ہے.خدا تعالیٰ غیور ہے.اس نے مصلحت کے مطابق عین ضرورت کے وقت بگڑی ہوئی صدی کے سر پر ایک آدمی بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلائے.اس کے تمام مصالح کو پاؤں کے نیچے کچلنا ایک بڑا گناہ ہے.کیایہودی لوگ نمازیں نہیں پڑھا کرتے تھے.بمبئی کے ایک یہودی نے ہم کو لکھا کہ ہمارا خد اوہی ہے جو مسلمانوں کا خدا ہے اور قرآن شریف میں جو صفات بیان ہیں وہی صفات ہم بھی مانتے ہیں تیرہ سو برس سے اب تک ان یہودیوں کا وہی عقیدہ چلا آتا ہے مگر باوجود اس عقیدہ کے ان کو سؤر اور بندر کہا گیا.صرف اس واسطے کہ انہوںنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانا.انسان کی عقل خدا کی مصلحت سے نہیں مل سکتی.آدمی کیا چیز ہے جو مصلحت الٰہی سے بڑھ کر سمجھ رکھنے کا دعویٰ کرے.خدا کی مصلحت اس وقت بدیہی اور اجلٰی ہے.اسلام میں سے پہلے ایک شخص بھی مرتد ہوجاتا تھا تو ایک شور بپا ہوجاتا تھا.اب اسلام کو ایسا پاؤں کے نیچے کچلا گیا ہے کہ ایک لاکھ مرتد موجود ہے.اسلام جیسے مقدس مطہر مذہب پر اس قدر حملے کئے گئے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں کتابیں آنحضرت کو گالیاں سے بھری ہوئی شائع کی جاتی ہیں.بعض رسالے کئی کروڑ تک چھپتے ہیں.اسلام کے برخلاف جو کچھ شائع ہوتا ہے اگر سب کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو ایک بڑا پہاڑ بنتا ہے.مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ گویا ان میں جان ہی نہیں اور سب کے سب مر ہی گئے ہیں.اس وقت اگر خدا بھی خاموش رہے تو پھر کیا حال ہوگا.خدا کا ایک حملہ

Page 30

انسان کے ہزار حملہ سے بڑھ کر ہے اور وہ ایسا ہے کہ اس سے دین کا بول بالا ہو جائے گا.حضرت عیسیٰ کو زندہ ماننے کا نتیجہ عیسائیوں نے انیس سو سال سے شور مچا رکھا ہے کہ عیسیٰ خدا ہے اور ان کا دین اب تک بڑھتا چلا گیا اور مسلمان ان کو اور بھی مدد دے رہے ہیں.عیسائیوں کے ہاتھ میں بڑا حربہ یہی ہے کہ مسیح زندہ ہے اور تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) فوت ہوگئے.لاہور میں لارڈ بشپ نے ایک بھاری مجمع میں یہی بات پیش کی.کوئی مسلمان اس کا جواب نہ دے سکا مگر ہماری جماعت میں سے مفتی محمد صادق صاحب جو یہ موجود ہیں اٹھے اور انہوں نے قرآن شریف، حدیث، تاریخ، انجیل وغیرہ سے ثابت کیا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں.کیونکہ آپ سے فیض حاصل کر کے کرامت اور خوارق دکھانے والے ہمیشہ موجود رہے تب اس کا جواب وہ کچھ نہ دے سکا.اب خیال کرو کہ عیسیٰ کو زندہ ماننے کا کیا نتیجہ ہے اور دوسرے انبیاء کی مانند وفات یافتہ ماننے کا کیا نتیجہ ہے.ذرا چار دن فوت شدہ مان کر اس کا نتیجہ بھی تو دیکھ لیں.میں نے ایک دفعہ لدیانہ میں عیسائیوں کو اشتہار دیا تھا کہ تمہارا ہمارا بہت اختلاف نہیں.تھوڑی سی بات ہے یہ کہ تم مان لو کہ عیسیٰ فوت ہوگئے اور آسمان پر نہیں گئے.تمہارا اس میں کیا حرج ہے؟ اس پر وہ بہت جھنجھلائے اور کہنے لگے کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ عیسیٰ مر گیا اور آسمان پر نہیں گیا تو آج دنیا میں ایک بھی عیسائی نہیں رہتا.دیکھو! خدا علیم و حکیم ہے.اس نے ایسا پہلو اختیار کیا ہے جس سے دشمن تباہ ہو جائے.مسلمان اس معاملہ میں کیوں اڑتے ہیں.کیا عیسٰی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) سے افضل تھا؟ اگر میرے ساتھ خصومت ہے تو اس میں حد سے نہ بڑھو اور وہ کام نہ کرو جو دین اسلام کو نقصان پہنچائے.خدا ناقص پہلو اختیار نہیں کرتا اور بجز اس پہلو کے تم کسر صلیب نہیں کر سکتے.اس زمانہ کا جہاد اگر تم نے جنگوں سے فتح پانی ہوتی اور تمہارے لیے لڑائیاں کرنا مقدر تھا تو خدا تم کو ہتھیار دیتا.توپ و تفنگ کے کام میں تم کو سب سے بڑھ کر چالاکی اور ہوشیاری دی جاتی.مگر خدا کا فعل ظاہر کر رہا ہے کہ تم کو یہ طاقتیں نہیں دی گئیں.بلکہ سلطان روم کو

Page 31

بھی ہتھیاروں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ جرمن یا انگلستان وغیرہ ممالک سے بنواتا ہے اور آلات حرب عیسائیوں سے خرید کرتا ہے.چونکہ اس زمانہ کے واسطے یہ مقدر نہ تھا کہ مسلمان جنگ کریں اس واسطے خدا نے ایک اور راہ اختیار کی.ہاں صلاح الدین وغیرہ بادشاہوں کے وقت ان باتوں کی ضرورت تھی.تب خدا نے مسلمانوں کی مدد کی اور کفار پر ان کو فتح دی.مگر اب تو مذہب کے واسطے کوئی شخص جنگ نہیں کرتا.اب تو لاکھ لاکھ پرچہ اسلام کے برخلاف نکلتا ہے.جیسا ہتھیار مخالف کا ہے ویسا ہی ہتھیار ہم کو بھی طیار کرنا چاہیے.یہی حکم خداوندی ہے.اب اگر کوئی خونی مہدی آجائے اور لوگوں کے سر کاٹنے لگے تو یہ بے فائدہ ہوگا.مارنے سے کسی کی تشفّی نہیں ہو سکتی.سر کاٹنے سے دلوں کے شبہات دُور نہیں ہوسکتے.خدا کا مذہب جبر کا مذہب نہیں ہے.اسلام نے پہلے بھی کبھی پیش دستی نہیں کی.جب بہت ظلم صحابہ پر ہوا تو دشمنوں کو دفع کرنے کے واسطے جہاد کیا گیا تھا.خدا کی حکمت کے مطابق کسی کی دانائی نہیں.ہر ایک شخص کو چاہیے کہ اس معاملہ میں دعا کرے اور دیکھے کہ اس وقت اسلام کی تائید کی ضرورت ہے یا نہیں.جسم پر غالب آنا کوئی شے نہیں.اصل بات یہ ہے کہ دلوں کو فتح کیا جائے.اسلام کی فتح وفاتِ مسیح کے عقیدہ میں ہے میں نے کوئی بات قال اللہ اور قال الرسول کے برخلاف نہیں کی.اگر قرآن اور حدیث میں جسم عنصری کا لفظ آیا ہوتا تو اس کا منکر کافر اور ملعون ہوتا مگر اصل حقیقت خدا نے بذریعہ الہام کے مجھ پر ظاہر کر دی اور قرآن اور حدیث اور اجماعِ صحابہ اس کی تائید میں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات صحابہؓ کے واسطے ایک بڑا صدمہ تھا.۶۲ یا ۶۳ سال کوئی بڑی عمر نہیں.صحابہ کو اگر یہ کہا جاتا کہ عیسٰی تو زندہ ہے مگر ہمارے نبی کریم فوت ہوگئے تو ان کے واسطے ایک پشت شکن صدمہ ہوتا.اسی واسطے حضرت ابوبکرؓ نے سب کو اکٹھا کرکے وعظ کیا اور ان کو سمجھایا کہ سب نبی مر گئے کوئی بھی زندہ نہیں.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی فو ت ہوگئے.صحابہؓ ایک عشق اور محبت کی حالت رکھتے تھے.وفات مسیح کے بغیر دوسرا پہلو وہ ہرگز مان نہ سکتے تھے.اسلام کبھی ایسا عقیدہ پیش نہیں کرسکتا جو آنحضرت افضل الرسل کی ہتک کرنے والا ہو.کوئی ہمیں بُرا یا بھلا کہے ہم تو اپنا کام کرتے چلے

Page 32

جائیں گے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کی فتح اسی میں ہے.اگر ہم عیسائیوں کی ہاں میں ہاں ملا دیں تو ہم ان کو کیونکر زیر کر سکتے ہیں.ہمارے مخالف مرنے کے بعد یقیناً سمجھ لیں گے کہ وہ اسلام کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں.عادت بھی ایک بُت ہوتا ہے اور یہ لوگ اس بُت کی پرستش کر رہے ہیں.مسیح علیہ السلام کی زندگی اور نزول کے بارہ میں ایک گفتگو یہاں پر ایک مولوی صاحب مخالفین کی جماعت میں سے بول اٹھے اور چونکہ پھر انہوں نے حضرت کو مسلسل تقریر کرنے نہیں دی بلکہ جلدی جلدی سوال پر سوال کرتے گئے اور کسی سوال کے متعلق حضرت کا جواب پورا نہ سنا.اس واسطے تقریر مذکورہ بالا تو ختم ہوگئی.مولوی صاحب سے سوال جواب میں درج کرتا ہوں تاکہ دہلی کے مولویوں کا نمونہ ناظرین کو نظر آجائے.مولوی صاحب.تو جن روایات سے حضرت عیسیٰ کی زندگی ثابت ہے ان کو کیا کریں؟ حضرت.جو روایت قرآن اور حدیث صحیح کے مخالف ہو وہ ردّی ہے.قابل اعتبار نہیں.قولِ خدا کے برخلاف کوئی بات نہیں ماننی چاہیے.مولوی صاحب.اور جو وہ روایت بھی صحیح ہو.حضرت.جب قولِ خدا قولِ رسول کے برخلاف ہوگی تو پھر صحیح کس طرح؟ خود بخاری میں مُتَوَفِّيْكَ کے معنے مُـمِیْتُکَ کے لکھے ہیں.مولوی صاحب.ہم بخاری کو نہیں مانتے اور روایتوں میں مسیح کی زندگی لکھی ہے.قرآن کی تفسیروں میں لکھا ہے کہ مسیح زندہ ہے.حضرت.تمہارا اختیار جو چاہو مانو یا نہ مانو اور قرآن شریف خود اپنی تفسیر آپ کرتا ہے.خدا نے مجھے اطلاع دی کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے اور کتاب اللہ اور احادیث صحیحہ کے مطابق یہ بات ہے جس کے کان سننے کے ہوں سنے.قرآن و حدیث کے مخالف ہم کوئی روایت نہیں مان سکتے.مولوی صاحب.اور جو وہ بھی صحیح ہو تو؟ حضرت.وہ صحیح ہو ہی نہیں سکتی.

Page 33

مولوی صاحب.اگرچہ صحیح ہو.حضرت.میں کئی دفعہ سمجھا چکا ہوں.اب باربار کیا کہوں.کتاب اللہ کے برخلاف جو روایت ہو وہ کس طرح صحیح ہو سکتی ہے؟ مولوی صاحب.یہ کس نے لکھا ہے.کس کتاب میں یہ درج ہے کہ بر خلاف روایت ہو تو نہ مانو.امام بخاری نے بھی غلطی کھائی جو مُتَوَفِّيْكَ کے معنے مُـمِیْتُکَ کر دیئے.حضرت.اگر بخاری نے غلطی کھائی تو تم اور کوئی حدیث یا لغت پیش کرو جہاں وفات کے معنے سوائے موت کے کچھ اور کئے گئے ہوں.مولوی صاحب.اچھا.حضرت عیسٰیؑ نے تو فرشتوں کے ساتھ نازل ہونا ہے.تمہارے ساتھ فرشتے کہاں ہیں؟ حضرت.تمہارے کندھوں پر جو دو فرشتے ہیں وہ تم کو نظر آتے ہیں جو یہ فرشتے تم کو نظر آجائیں گے؟ مولوی صاحب.تو زینہ کہاں ہے جس کا ذکر آیا کہ اس پر سے عیسیٰ اترے گا.حضرت.نزول کے یہ معنی نہیں جو تم سمجھتے ہو.یہ ایک محاورہ ہے.جیسا ہم مسافر سے پوچھتے ہیں کہ تم کہاں اترے؟ اس کے بعد وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے.(بوقت شام) اولیائے۱ دہلی کی کرامت ڈاکٹر۲صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا.آج کہاں کہاں کی سیر کی.انہوںنے عرض کی کہ فیروز شاہ کی لاٹ، پُرانا کوٹ، مہابت خان کی مسجد، لال قلعہ وغیرہ ۱ آج شام کو یہ عاجز کسی کام پر باہر گیا ہوا تھا.حضرت مغرب کے وقت نشست گاہ میں تشریف لائے اور ایک تقریر فرمائی جس کو مخدوم اخویم ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے قلم بند فرمایا.(ایڈیٹر) ۲مراد ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب (مرتّب)

Page 34

مقامات دیکھے.فرمایا.ہم تو حضرت بختیار کاکی.نظام الدین صاحب اولیاء.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب وغیرہ اصحاب کی قبروں پر جانا چاہتے ہیں.دہلی کے یہ لوگ جو سطح زمین کے اوپر ہیں نہ ملاقات کرتے ہیں اورنہ ملاقات کے قابل ہیں.اس لیے جو اہل دل لوگ ان میں سے گذر چکے ہیں اور زمین کے اندر مدفون ہیں ان سے ہی ہم ملاقات کر لیں تاکہ بِدُوں ملاقات تو واپس نہ جائیں.میں ان بزرگوں کی یہ کرامت سمجھتا ہوں کہ انہوںنے قسی القلب لوگوں کے درمیان بسر کی.اس شہر میں ہمارے حصہ میں ابھی وہ قبولیت نہیں آئی جو ان لوگوں کو نصیب ہوئی.؎ چشم باز و گوش باز و ایں ذکا خیرہ ام از چشم بندی خدا مصلح کی ضرورت اسلام پر یہ کیسا مصیبت کا زمانہ ہے.اندرونی مصائب بھی بے انتہا ہیں.اور بیرونی بھی بے حد ہیں.پھر یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس وقت کسی مصلح کی ضرورت نہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں پھر ہم کو کسی مصلح کی کیا ضرورت ہے مگر نہیں سمجھتے کہ جب تک خدا کی رحمت نہ ہو وہ رقت اور درد پیدا نہیں ہو سکتا جو انسان کے دل کو صاف کرتا ہے.چاہیے کہ بہت دعائیں کریں.صرف بحث کرنے والا فائدہ نہیں اٹھا سکتا.وہ نہیں دیکھتے کہ اسلام پر کس طرح کے مصائب نازل ہیں.وہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام کو گویا خدا نے فراموش کر دیا ہے.دہلی کے لوگ ایسے معلوم ہوتے ہیںکہ لڑنے کو آئے ہیں.حق طلبی کا انہیں خیال نہیں.حلق کے نیچے بات تب اترتی ہے جب حلق صاف ہو.دوائی کا بھی یہی حال ہے کہ جب تک حلق صاف نہ ہو اور معدہ بھی صاف نہ ہو دوائی کا اثر نہیں ہو سکتا.دوائی قے ہو جاتی ہے یا ہضم نہیں ہوتی.احمدی نام کیوں رکھا گیا ہے ایک مولوی صاحب آئے اور انہوں نے سوال کیا کہ خدا نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے.آپ نے اپنے فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھا

Page 35

ہے؟ یہ بات هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ(الـحج:۷۹) کے برخلاف ہے.اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا.اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے.لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آچکا ہے اسلام کے ۷۳ فرقے ہوگئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے.انہی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہ کو سبّ و شتم کرتے ہیں نبی کریم کے ازواجِ مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں اولیاء اللہ کو بُرا کہتے ہیں پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں.خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو بُرا کہتے ہیں اور پھر بھی مسلمان نام رکھاتے ہیں.بلادِ شام میں ایک فرقہ یزیدیہ ہے.جو امام حسین پر تبرّہ بازی کرتےہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں.اسی مصیبت کو دیکھ کر سلف صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی، حنبلی وغیرہ تجویز کئے.آج کل نیچریوں کا ایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت، دوزخ ،ملائک، وحی سب باتوں کا منکر ہے.یہاں تک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سن کر یہ قصے لکھ دیئے ہیں.غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے واسطے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا.حضرت یہ تقریر کر رہے تھے کہ اس مولوی نے پھر سوال کیا کہ قرآن شریف میں تو حکم ہے کہ لَاتَفَرَّقُوْا ( اٰلِ عـمران:۱۰۴) اور آپ نے تو تفرقہ ڈال دیا.حضرت نے فرمایا.ہم تو تفرقہ نہیں ڈالتے بلکہ ہم تفرقہ دور کرنے کے واسطے آئے ہیں.اگر احمدی نام رکھنے میں ہتک ہے تو پھر شافعی حنبلی کہلانے میں بھی ہتک ہے.مگر یہ نام ان اکابر کے رکھے ہوئے ہیں جن کو آپ بھی صلحاء مانتے ہیں.وہ شخص بد بخت ہوگا جو ایسے لوگوں پر اعتراض کرے اور ان کو بُرا کہے صرف امتیاز کےلیے ان لوگوں نے اپنے یہ نام رکھے تھے.ہمارا کارو بار خدا کی طرف سے ہے اور ہم پر اعتراض کرنے والا خدا پر اعتراض کرتا ہے.ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے.

Page 36

اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو.خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے.بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مترتّب نہیں ہوتے اور صرف مسلمان کہلانے سے تمیز نہیں ہو سکتی.امام شافعی اور حنبل وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہوگئی تھیں.اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہو سکتی.ہزار ہا گندے آدمی ملے جلے رہتے.یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چار دیواری کے تھے.اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہوجاتا ہے کہ بدعتی اور غیر بدعتی میں تمیز نہ ہو سکتی.اب بھی ایسا زمانہ آگیا ہے کہ گھر گھر ایک مذہب ہے.ہم کو مسلمان ہونے سے انکار نہیں مگر تفرقہ دور کرنے کے واسطے یہ نام رکھا گیا ہے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت والوں سے اختلاف کیا اور عام نظروں میں ایک تفرقہ ڈالنے والے بنے.لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تفرقہ خود خدا ڈالتا ہے.جب کھوٹ اورملاوٹ زیادہ ہوجاتا ہے تو خدا خود چاہتا ہے کہ ایک تمیز ہوجائے.مولوی صاحب نے پھر وہی سوال کیا کہ خدا نے تو کہا ہے کہ هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ (الـحج:۷۹).فرمایا.کیا اس میں رافضی اور بدعتی اور آجکل کے مسلمان شامل ہیں؟ کیا اس میں آجکل کے وہ لوگ شامل ہیں جو اباحتی ہو رہے ہیں؟ اور شراب اور زنا کو بھی اسلام میں جائز جانتے ہیں.ہرگز نہیں.اس کے مخاطب تو صحابہ ہیں.حدیث شریف میں آیا ہے کہ قرونِ ثلاثہ کے بعد فیج اعوج کا زمانہ ہوگا جس میں جھوٹھ اور کذب کا افشا ہوگا.آنحضرتؐنے اس زمانہ کے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے لَیْسُوْا مِنِّیْ وَ لَسْتُ مِنْـھُمْ نہ ان کا مجھ سے کوئی تعلق ہے نہ میرا ان سے کوئی تعلق ہے.وہ لوگ مسلمان کہلائیں گے مگر میرے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ ہوگا.جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں ان کو تو میں لعنتی کہتا ہوں.میں کوئی بدعت نہیں لایا.جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے ایسا ہی احمدی بھی نام ہے بلکہ احمد کے نام میں اسلام اور اسلام کے بانی احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتصال ہے.اور یہ اتصال دوسرے ناموں میں نہیں.احمد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے.اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے.

Page 37

حدیث شریف میں محمدی رکھا گیا ہے.بعض اوقات الفاظ بہت ہوتے ہیں مگر مطلب ایک ہی ہوتا ہے.احمدی نام ایک امتیازی نشان ہے.آجکل اس قدر طوفان زمانہ میں ہے کہ اول آخر کبھی نہیں ہوا.اس واسطے کوئی نام ضروری تھا.خدا کے نزدیک جو مسلمان ہیں وہ احمدی ہیں.۱ ۲۶؍اکتوبر ۱۹۰۵ء (بمقام دہلی) صبح کے وقت حضور نے گاڑیاں منگوائیں اور خواجہ میر درد صاحب اور شاہ ولی اللہ صاحب کے مزار مبارک پر تشریف لے گئے.راستہ میں قبرستان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا.یہ انسان کی دائمی سکونت ہے جہاں ہر قسم کے امراض سے نجات پاکر انسان آرام کرتا ہے.خواجہ میر درد صاحب کی قبر پر آپ نے فاتحہ پڑھا اور کتبہ کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ کتبہ لکھنا شریعت میں منع نہیں ہے.اس میں بہت سے فوائد ہیں.۲ یہاں سے ہو کر حضرت مسیح موعود حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی قبر پر گئے اور فاتحہ پڑھا.حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ شاہ ولی اللہ صاحب ایک بزرگ اہل کشف اور کرامت تھے.یہ سب مشائخ زیر زمین ہیں اور جو لوگ زمین کے اوپر ہیں وہ ایسے بدعات میں مشغول ہیں کہ حق کو باطل بنا رہے ہیں اور باطل کو حق بنا رہے ہیں.راستہ میں اہل لودیانہ کی درخواست کا ذکر آیا کہ حضور جاتے ہوئے راستہ میں لودیانہ ٹھہریں.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے عرض کی کہ لدھیانہ کی جماعت اسٹیشن لدھیانہ پر ملاقات کے واسطے آئی تھی لیکن حضور سوئے ہوئے تھے میں نے جگانے نہ دیا.فرمایا.آپ نے اچھا کیا اس کے عوض ہم اب لدھیانہ میں اتر کر اہل لودیانہ سے ملاقات ۱ بدر جلد ۱ نمبر ۳۲ مورخہ ۳؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ تا ۴ ۲ بدر جلد ۱ نمبر ۳۲ مورخہ ۳؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۴

Page 38

کریں گے.راستہ میں مذبح کے پاس سے گذرے.کثیر التعداد بھیڑیں اور بکریاں ذبح ہو رہی تھیں اور سینکڑوں کا باہر ریوڑ کھڑا تھا.ان کو دیکھ کر فرمایا کہ کھانے کی حلال اشیاء کا کس قدر ذخیرہ اللہ تعالیٰ نے جمع کر دیا ہے برخلاف اس کے حرام چیزیں مثلاً کتے وغیرہ بہت ہی کم پائے جاتےہیں.فرمایا.اس شہر میں اس قدر انقلاب آئے ہیں کہ شاید کسی دوسرے شہر پر یہ حالات وارد ہوئے ہوں.کئی دفعہ یہ شہر آباد ہوا اور کئی دفعہ خاک میں مل گیا.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مخاطب تھے اور ان کی رخصت کے قریب الاختتام ہونے کا ذکر تھا.فرمایا.دو دن اور ہیں.یہ موقعہ غنیمت سمجھنا چاہیے.خدا کے فضل سے ایسا موقع ہاتھ آسکتا ہے.یہ نہ سمجھو کہ رخصت لینے سے ایسا موقعہ مل جاتا ہے.کئی آدمی ایسے بھی ہیں جو نوکر نہیں مگر ان کو ہمارے پاس رہنے کا موقعہ نہیں ملتا.فارغ البالی ہوتی ہے پر صحبت نصیب نہیں ہوتی.۱ جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد فرمایا.اللہ تعالیٰ کا یہ منشا نہیں کہ مسیح کی وفات کو ثابت کرنے والی ایک جماعت پیدا ہوجائے.یہ بات تو ان مولویوں کی مخالفت کی وجہ سے درمیان آگئی ہے.ورنہ اس کی تو کوئی ضرورت ہی نہ تھی.اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا تو یہ ہے کہ ایک پاک دل جماعت مثل صحابہؓ کے بن جاوے.وفاتِ مسیح کا معاملہ تو جملہ معترضہ کی مانند درمیان آگیا ہے.مولوی لوگوں نے خواہ مخواہ اپنی ٹانگ درمیان میں اڑالی.ان لوگوں کو مناسب نہ تھا کہ اس معاملہ میں دلیری کرتے.قولِ خدا رؤیتِ نبی اور اجماعِ صحابہؓ یہ تین باتیں ان کے واسطے کافی تھیں.ہمیں تو افسوس آتا ہے کہ اس کا ذکر ہمیں خواہ مخواہ کرنا پڑتا ہے.لیکن ہمارا اصلی امر ابھی دیگر ہے.یہ تو صرف خس و خاشاک کو درمیان میں سے اٹھایا گیا ہے.سوچو کہ جو شخص دنیا داری میں غرق ہے اور دین کی پروا نہیں رکھتا اگر تم لوگ بیعت کرنے کے بعد ویسے ہی رہو تو پھر تو ۱ بدر جلد ۱ نمبر ۳۳ مورخہ ۶؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱،۲

Page 39

تم میں اور اس میں کیا فرق ہے؟ بعض لوگ ایسے کچے اور کمزور ہوتے ہیں کہ ان کی بیعت کی غرض بھی دنیا ہی ہوتی ہے.اگر بیعت کے بعد ان کی دنیا داری کے معاملات میں ذرا سا فرق آجاوے تو پھر پیچھے قدم رکھتےہیں.یاد رکھو کہ یہ جماعت اس بات کے واسطے نہیں کہ دولت اور دنیا داری ترقی کرے اور زندگی آرام سے گذرے.ایسے شخص سے تو خدا بیزار ہے.چاہیے کہ صحابہؓ کی زندگی کو دیکھو وہ زندگی سے پیار نہ کرتے تھے.ہر وقت مرنے کے لیے تیار تھے.بیعت کے معنے ہیں اپنی جان کو بیچ دینا.جب انسان زندگی کو وقف کر چکا تو پھر دنیا کے ذکر کو درمیان میں کیوں لاتا ہے.ایسا آدمی تو صرف رسمی بیعت کرتا ہے.وہ تو کَل بھی گیا اور آج بھی گیا.یہاں تو صرف ایسا شخص رہ سکتا ہے جو ایمان کو درست کرنا چاہے.انسان کو چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی زندگی کا ہر روز مطالعہ کرتا رہے.وہ تو ایسے تھے کہ بعض مر چکے تھے اور بعض مرنے کےلیے طیار بیٹھے تھے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس کے سوائے بات نہیں بن سکتی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ کنارہ پر کھڑے ہو کر عبادت کرتے ہیں تاکہ ابتلا دیکھ کر بھاگ جائیں وہ فائدہ نہیں حاصل کر سکتے.دنیا کے لوگوں کی عادت ہے کہ کوئی ذرا سی تکلیف ہو تو لمبی چوڑی دعائیں مانگنے لگتے ہیں اور آرام کے وقت خدا کو بھول جاتےہیں.کیا لوگ چاہتے ہیں کہ امتحان میں سے گذرنے کے سوائے ہی خدا خوش ہوجائے.خدا رحیم و کریم ہے.مگر سچا مومن وہ ہے جو دنیا کو اپنے ہاتھ سے ذبح کر دے.خدا ایسے لوگوں کو ضائع نہیں کرتا.ابتدا میں مومن کے واسطے دنیا جہنم کا نمونہ ہوجاتا ہے.طرح طرح کے مصائب پیش آتے ہیں.اور ڈراؤنی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں.تب وہ صبر کرتے ہیں اور خدا ان کی حفاظت کرتا ہے لیکن ؎ عشق اول سرکش و خونی بود تا گریزد ہر کہ بیرونی بود جو خدا سے ڈرتا ہے اس کے لیے دو جنت ہوتے ہیں.خدا کی رضا کے ساتھ جو متفق ہو جاتا ہے خدا اس کو محفوظ رکھتا ہے اور اس کو حیات طیبہ حاصل ہوتی ہے اس کی سب مرادیں پوری کی جاتی

Page 40

ہیں.مگر یہ بات ایمان کے بعد حاصل ہوتی ہے.ایک شخص کے اپنے دل میں ہزار گند ہوتا ہے.پھر خدا پر شک لاتا ہے اور چاہتا ہے کہ مومنوں کا حصہ مجھے بھی ملے.جب تک انسان پہلی زندگی کو ذبح نہ کر دے اور محسوس نہ کرلے کہ نفس امّارہ کی خواہش مر گئی ہے اور خدا کی عظمت دل میں بیٹھ نہ جائے تب تک مومن نہیں ہوتا.اگر مومن کو خاص امتیاز نہ بخشا جائے تو مومنوں کے واسطے جو وعدے ہیں وہ کیونکر پورے ہوں گے لیکن جب تک دو رنگی اور منافقت ہو تب تک انسان کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتا اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ (النّسآء:۱۴۶) اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک ایسی جماعت بنائے گا جو ہر جہت میں سب پر فوقیت رکھے گی.اللہ تعالیٰ ہر طرح کا فضل کرے گا.مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص اپنے نفس کا تزکیہ کرے.ہاں کمزوری میں اللہ تعالیٰ معاف کرتا ہے.جو شخص کمزور ہے اور ہاتھ اٹھاتا ہے کہ کوئی اس کو پکڑے اور اٹھائے اس کو اٹھایا جائے گا.مگر مومن کو چاہیے کہ اپنی حالت پر فارغ نہ بیٹھے.اس سے خدا راضی نہیں ہے.ہر طرح سے کوشش کرنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے راضی کرنے کے جو سامان ہیں وہ سب مہیا کئے جائیں.ریاکاری ریاکار انسان بے فائدہ کام کرتا ہے.مومن کو تو خداوند تعالیٰ خود بخود شہرت دیتا ہے.ایک شخص کا ذکر ہے کہ وہ مسجدوں میں لمبی نمازیں پڑھا کرتا تھا تاکہ لوگ اسے نیک کہیں.لیکن جب وہ بازار سے گذرتا تو لڑکے بھی اس کی طرف اشارہ کرتے اور کہتے کہ یہ ایک ریاکار آدمی ہے جو دکھلاوے کی نمازیں پڑھتا ہے.ایک دن اس شخص کو خیال ہوا کہ میں لوگوں کا کیوں خیال رکھتا ہوں اور بے فائدہ محنت اٹھاتا ہوں.مجھے چاہیے کہ اپنے خدا کی طرف متوجہ ہوجاؤں اور خالص خدا کی خاطر عبادت کروں.یہ بات سوچ کر اس نے سچی توبہ کی اور اپنے اعمال کو خدا کے واسطے خاص کر دیا اور دنیوی رنگ کی نمازیں چھوڑ دیں اور علیحدگی میں بیٹھ کر دعائیں کرنے لگا اور اپنی عبادت کو پوشیدہ رکھناچاہا.تب وہ جس کوچہ سے گذرتا لوگ اس کی طرف اشارہ کرتے کہ یہ ایک نیک بخت آدمی ہے.

Page 41

سچا مومن سچا مومن وہ ہے جو کسی کی پرواہ نہ کرے.خدا تعالیٰ خود ہی سارے بندو بست کر دے گا.لوگوں کی تکلیف دہی کی پرواہ نہیں رکھنی چاہیے.دنیا میں کوئی کسی کے ساتھ دوستی پکی کرتا ہے تو دنیا کے لوگ اپنی دوستی کا حق ادا کرتے ہیں.وہ کون دوست ہے جس کے ساتھ سلوک کیا جاوے تو وہ بے تعلقی ظاہر کرے.ایک چو رکے ساتھ ہمارا سچاتعلق ہو تو وہ بھی ہمارے گھر میں نقب زنی نہیں کرتا تو کیا خدا کی وفا چور کے برابر بھی نہیں.خدا کی دوستی تو وہ ہے کہ دنیاداروں میں اس کی کوئی نظیر ہی نہیں.دنیا داروں کی دوستی میں تو عذر بھی ہے.تھوڑی سی رنجش کے ساتھ دنیا دار دوستی توڑنے کو طیار ہوجاتا ہے مگر خدا کے تعلقات پکے ہیں.جو شخص خدا کے ساتھ دوستی کرتا ہے خدا اس پر برکات نازل کرتا ہے.اس کے گھر میں برکت دیتا ہے.اس کے کپڑوں میں برکت دیتا ہے.اس کے پس خوردہ میں برکت دیتا ہے.بخاری میں ہے کہ نوافل کے ذریعہ سے انسان خدا سے تعلق پیدا کرتا ہے.نوافل ہر شے میں ہوتے ہیں.فرض سے بڑھ کر جو کچھ کیا جائے وہ سب نوافل میں داخل ہے.جب انسان نوافل میں ترقی کرتا ہے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے.اور اس کی زبان ہوجاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص میرے ولی سے مقابلہ کرتا ہے وہ میرے ساتھ لڑائی کے لیے طیار ہوجائے.خدا کے ساتھ سچی محبت کرنے والے بھی غنی بے نیاز ہوجاتے ہیں.لوگوں کی تکذیب کی کچھ پرواہ نہیں رکھتے.جو لوگ خلقت کی پرواہ کرتے ہیں وہ خلق کو معبود بناتے ہیں.خدا کے بندوں میں ہمدردی بہت ہوتی ہے مگر ساتھ ہی ایک بےنیازی کی صفت بھی لگی ہوئی ہے.وہ دنیا کی پرواہ نہیں کرتے.آگے خدا کا فضل ہوتا ہے کہ دنیا کھچی ہوئی ان کی طرف چلی آتی ہے.جماعت کو نصیحت ہماری جماعت کو ایسا ہونا چاہیے کہ نری لفاظی پر نہ رہے بلکہ بیعت کے سچے منشا کو پورا کرنے والی ہو.اندرونی تبدیلی کرنی چاہیے.صرف مسائل سے تم خدا کو خوش نہیں کر سکتے.اگر اندرونی تبدیلی نہیں تو تم میں اور تمہارے غیر میں پھر کچھ فرق

Page 42

نہیں.اگر تم میں مکر، فریب، کسل اور سستی پائی جائے تو تم دوسروں سے پہلے ہلاک کئے جاؤ گے.ہر ایک کو چاہیے کہ اپنے بوجھ کو اٹھائے اور اپنے وعدے کو پورا کرے.عمر کا اعتبار نہیں دیکھو! مولوی عبدالکریم صاحب فوت ہوگئے.ہر جمعہ میں ہم کوئی نہ کوئی جنازہ پڑھتےہیں.جو کچھ کرنا ہے اب کرلو.جب موت کا وقت آتا ہے تو پھر تاخیر نہیں ہوتی.جو شخص قبل از وقت نیکی کرتا ہے امید ہے کہ وہ پاک ہوجائے.اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو.نماز میں دعائیں مانگو.صدقہ خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے حیلہ سے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا (العنکبوت:۷۰) میں شامل ہوجاؤ.جس طرح بیمار طبیب کے پاس جاتا دوائی کھاتا، مسہل لیتا، خون نکلواتا، ٹکور کرواتا اور شفا حاصل کرنے کے واسطے ہر طرح کی تدبیر کرتا ہے.اسی طرح اپنی روحانی بیماریوں کو دور کرنے کے واسطے ہر طرح کی کوشش کرو.صرف زبان سے نہیں بلکہ مجاہدہ کے جس قدر طریق خدا تعالیٰ نے فرمائے ہیں وہ سب بجالاؤ.صدقہ خیرات کرو.جنگلوں میں جا کر دعائیں کرو.سفر کی ضرورت ہو تو وہ بھی کرو.بعض آدمی پیسے لے کر بچوں کو دیتے پھرتے ہیں کہ شاید اسی طرح کشوف باطن ہوجائے.جب باطن پر قفل ہوجائے تو پھر کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ حیلے کرنے والے کو پسند کرتا ہے.جب انسان تمام حیلوں کو بجا لاتا ہے تو کوئی نہ کوئی نشانہ بھی ہوجاتا ہے.۱ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۰۵ء (بمقام دہلی بعد نماز جمعہ) ہر قوم کی طِبّ سے استفادہ کرناچا ہیے چند مولوی اور مدرسہ طبّیہ کے چند طالب علم اور طبیب آئے.طِبّ کا ذکر درمیان میں آیا.حضرت نے فرمایا کہ مسلمان کو انگریزی طِبّ سے نفرت نہیں چاہیے.اَلْـحِکْمَۃُ ضَآلَّۃُ الْمُؤْمِنِ حکمت کی بات تو مومن کی اپنی ہے گم ہو کر کسی اور کے پاس چلی گئی تھی پھر جہاں سے ملے جھٹ قبضہ کرلے.اس میں ہمارا یہ منشا نہیں کہ ہم ڈاکٹری کی تائید کرتے ہیں بلکہ ہمارا مطلب ۱ بدر جلد ۱ نمبر ۳۴ مورخہ ۸؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۳،۴

Page 43

صرف یہ ہے کہ بموجب حدیث کے انسان کو چاہیے کہ مفید بات جہاں سے ملے وہیں سے لے لے.ہندی، جاپانی، یونانی، انگریزی ہر طِبّ سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے اور اس شعر کا مصداق اپنے آپ کو بنانا چاہیے.؎ تمتع ز ہر گوشہ یافتم ز ہر خرمنے خوشہ یافتم تب ہی انسان کامل طبیب بنتا ہے.طبیبوں نے تو عورتوں سے بھی نسخے حاصل کئے ہیں لَیْسَ الْـحَکِیْمُ اِلَّا ذُوْ تَـجْرِبَۃٍ.لَیْسَ الْـحَلِیْمُ اِلَّا ذُوْ عُسْـرَۃٍ.حکیم تجربہ سے بنتا ہے اور حلیم تکالیف اٹھا کر حلم دکھانے سے بنتا ہے.اور یوں تو تجربوں کے بعد انسان رہ جاتا ہے کیونکہ قضا ؤ قدر سب کے ساتھ لگی ہوئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جامع کمالات تھے اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا ہے کہ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ(الانعام:۹۱) ان کی ہدایت کی پیروی کر یعنی تمام گذشتہ انبیاء کےکمالات متفرقہ کو اپنے اندر جمع کر لے.یہ آیت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی فضیلت کا اظہار کرتی ہے.تمام گذشتہ نبیوں اور ولیوںمیں جس قدر خوبیاں اور صفات اور کمال تھے وہ سب کے سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے تھے.سب کی ہدایتوں کا اقتدا کر کے آپ جامع تمام کمالات کے ہوگئے.مگر جامع بننے کے لیے ضروری ہے کہ انسان متکبر نہ ہو.جو سمجھتا ہے کہ میں نے سب کچھ سمجھ لیا ہے وہ ٹھوکر کھاتا ہے.خاکساری سے زندگی بسر کرنی چاہیے.جہاں انسان کوئی فائدہ کی بات دیکھے چاہیے کہ اسی جگہ سے فائدہ حاصل کر لے.ڈاکٹروں کو بھی مناسب نہیں کہ پرانی طِبّ کو حقارت سے دیکھیں.بعض باتیں ان میں بہت مفید ہیں.میں نے بعض متن کتب طِبّ کے بیس بیس جزو کے حفظ کئے تھے.ہزار سے زیادہ کتاب طِبّ کی ہمارے کتب خانہ میں موجود تھی.جن میں سے بعض کتابیں بڑی بڑی قیمتیں دے کر خرید کی گئی تھیں.مگر یہ علم ظنی ہوتا ہے.لاف مارنے اور دعویٰ کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں.

Page 44

تقویٰ کی اہمیت فرمایا.افسوس ہے کہ لوگ اپنے کاروبار میں اس قدر مصروف ہیں کہ دوسرے پہلو کی طرف ان کو بالکل کوئی توجہ نہیں.ہر ایک شخص ایک پہلو پر حد سے زیادہ جھک جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں جس قدر بار بار تقویٰ کا ذکر کیا ہے اتنا ذکر اور کسی امر کا نہیں کیا.تقویٰ کے ذریعہ سے انسان تمام مہلکات سے بچتا ہے.یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کے معاملہ میں تقویٰ سے کام نہ لیا اور کہا جب تک الیاس آسمان سے نہ آلے ہم تم کو نہیں مان سکتے.انہیں چاہیے تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات اور خوارق کا مطالعہ کرتے اور بہت سی باتوں کے مقابلہ میں صرف ایک بات پر نہ اڑتے.ایسا ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہودیوں نے کہا کہ آخری زمانہ کا نبی تو اسرائیلیوں میں سے آنا چاہیے تھا ہم تم کو نہیں مان سکتے.تائیدات الٰہی، نصرت حق اورمعجزات کی انہوں نے کچھ پروا نہ کی.ہر نبی کے وقت ابتلاؤں کا ہونا ضروری ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک نبی کے وقت ابتلاؤں کا ہونا ضروری ہے.اگر خدا چاہتا تو توریت میں ایسے لفظ صاف لکھ دیتا کہ آخری زمانہ کے نبی کے باپ کا نام عبداللہ اور ماں کا نام آمنہ اور مسکن مکہ ہوگا.مگر خدا نے ایسا نہیں کیا.ایسا ہی اس وقت کے مسیح کے زمانہ میں بھی ہوا.اگر لوگ نبی کریم کے ساتھ فرشتوں کو نازل ہوتے دیکھ لیتے تو کوئی بھی انکار نہ کرتا.مگر خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ ابتلا آئیں اور متقی لوگ اس ابتلا کے وقت بچ رہتے ہیں.آسمان سے نازل ہونے کی حقیقت آسمان سے نازل ہونے کی سنّت پہلے کبھی قائم نہیں ہوئی.آدم سے لے کر آج تک کوئی نظیر پیش کرو کہ کوئی نبی آسمان پر گیا ہو یا آسمان سے نازل ہوا ہو.خدا کی عادت نہیں کہ کسی ایک شخص کے واسطے کوئی امر مخصوص کر دے.ایک امر مخصوص کے ساتھ تو کوئی نبی بھی نہیں آیا.اس طرح سے تو وہ شخص معبود بن جاتا ہے اور یسوع کو خصوصیت دینا تو خود نصاریٰ کو مدد دینا ہے.اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر وفات ظاہر کر دی ہے.معراج کی حدیث کو پڑھو.جو لوگ معراج کے منکر ہیں وہ تو اسلام کے منکر

Page 45

ہیں.لاکھ احادیث کے برابر ایک حدیث معراج کی ہے.شب معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسٰی کو مُردوں میں دیکھا.اگر قبض روح نہیں ہوا اور زندہ مع الجسم آسمان پر گئے تو دوسرے عالَم میں کس طرح پہنچ گئے.متقی کے واسطے تو ایک ہی بات کافی ہوتی ہے.خیالی اور ظنی باتوں کے پیچھے پڑ کر اصلی اور صحیح بات کو چھوڑ دینا تقویٰ کے بر خلاف ہے.مجھے خدا کی طرف سے بار بار تفہیم ہوئی ہے.اس کے ساتھ نشانات، تائید، نصرتِ الٰہی، نصوصِ قرآن و حدیث ہیں.میں جو کچھ کہتا ہوں علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں.خیال کرو کہ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ کون سی بات ہے.میں تو ایسا آیا ہوں جیسا کہ الیاس آیا.یہود سے پوچھو کہ وہ مسیح کے ماننے سے کیوں محروم رہے؟ ان کا عذر بھی یہی تھا کہ جیسا توریت میں لکھا ہے الیاس آسمان سے نہیں آیا.مگر ہمارے مسلمان تو یہ عذر بھی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ بہت واقعات پہلے کے اپنے آگے رکھتے ہیںکہ نزول کس طرح سے ہوا کرتا ہے.یہ لوگ جتنا چاہیں مجھ سے جھگڑا کر لیں.مُونے کے بعد ان کو معلوم ہو جائے گا کہ حق کس طرف ہے.یہ لوگ عیسائیوں کی اس قدر مدد کرتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کو خود ان مولویوں نے ہی عیسائی بنا دیا ہے جو پہلو خدا نے پکڑا ہے وہی سب سے افضل ہے اور اسلام کی فتح اسی کے ذریعہ سے ہوگی.نزول اور نزیل کا لفظ مہمان کے واسطے بطور اعزاز و اکرام کے استعمال کیا جاتا ہے.ہر زبان میں یہ محاورہ ہے.چنانچہ اردو میں بھی کہتے ہیں کہ آپ کہاں اترے ہیں؟ اتنے میں ایک مولوی صاحب درمیان میں بول پڑے اور کہنے لگے کہ مسیح تو دمشق میں نازل ہوگا.آپ کہاں نازل ہوئے؟ حضرت.حدیث سے یہ ثابت ہے کہ وہ دمشق کے مشرق کی طرف نازل ہوگا قادیان دمشق سے عین مشرق میں ہے.توفّی کے معنے توفّی کے معنے کے متعلق شہر بغداد میں ایک بڑا مباحثہ ہوا تھا کہ اس لفظ کے کیا معنے ہیں.اس مباحثہ میں بالآخر یہی فیصلہ ہوا کہ جہاں اللہ تعالیٰ فاعل ہو اور مفعول بہٖ علَم ہو وہاں سوائے مارنے کے اور کوئی معنے نہیں آتے.اگر آج تم قرآن، حدیث یا لغت

Page 46

سے کوئی اور معنے دکھا دو تو میں آج بھی مان لینے کے واسطے طیار ہوں.لغت بھی زبان عربی کی کلید ہے.کوئی مثال لغت سے ہی دکھا دو تب بھی میں مان لوں گا.تعجب ہے کہ دوسروں کی رؤیت کا تم اعتبار کرتے ہو مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت پر تم کو کوئی اعتبار نہیں.یہ جسم عنصری کا لفظ تم نے کہاں سے نکال لیا؟ اگر کہیں یہ لفظ دکھا سکتے ہو تو لے آؤ؟ میں تو اس وقت بھی قبول کرنے کے واسطے طیار ہوں.قرآن شریف میں، حدیث میں، لغت عرب، کہیں کسی نبی، صحابی وغیرہ کے متعلق لفظ توفّی کا بمعنے آسمان پر جسم عنصری کے ساتھ جانے کے دکھا دو تو میں فوراً مان لوں گا.لیکن تم حضرت عیسیٰ کے متعلق ایک لفظ کے وہ معنے کیوں کرتے ہو جو کسی نبی، کسی ولی، کسی صحابی، کسی انسان کے متعلق نہیں کئے گئے.۲۵ سال سے خد اتعالیٰ مجھے یہی بتلا رہا ہے.پھر تائیدات سماوی اور نشانات میرے ساتھ ہیں.میں خدا کی باتوں پر اب بھی ویسا ہی ایمان رکھتا ہوں جیسا کہ پہلی کتابوں پر رکھتا ہوں.اس جگہ بیچ میں پھر وہی مولوی صاحب بول پڑے کہ میں توفّی کے معنے آسمان پر جانے کے دکھا سکتا ہوں.فوراً ایک قرآن شریف مولوی صاحب کے ہاتھ میں دیا گیا.لگے ورق گردانی کرنے اور اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھنے.کبھی اس کو کہتے ہیں کیوں میاں تم نکالو اور کبھی اس کو اشارہ کرتے ہیں کیوں بھائی کچھ بتاؤنہ.بہت سے تھے کبھی اس نے اس کے ہاتھ سے قرآن چھینا کبھی اس نے اس کے ہاتھ سے قرآن چھینا.نکلنا تو کیا تھا.گھبرا کر بولے اچھا رَافِعُكَ( اٰلِ عـمران:۵۶) جو لکھا ہے.رفع کے معنے حضرت اقدس نے فرمایا کہ رَافِعُكَ کے معنے اس جگہ وہی ہیںجو رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا(مریم:۵۸) کے معنے ہیں.مسلمان ہر روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی یہی دعا مانگتےہیں کہ ان کا رفع ہو تو کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے جائیں؟ بات وہی صحیح ہے جو خدا نے بتلا دی اور الہامات سے اس کی تائید کی.سچے الہام کا معیار مولوی.الہام کیا ہے؟ الہام تو مجھے بھی ہوتا ہے.(بعد میں معلوم ہوا کہ اس مولوی کا نام نظام الدین ہے اور کسی مسجد میں

Page 47

لڑکے پڑھاتا ہے.) حضرت.میں ایسے الہام نہیں مان سکتا جس کے ساتھ تائیدات سماوی کا نشان نہ ہو ایسے الہام کے مدعی تو ہر نبی کے زمانہ میں گذرے ہیں.اگر آپ کے پاس کوئی نشان ہے تو دکھلاؤ.اتنے میں حضرت مولوی محمد احسن صاحب نے لغت کی ایک کتاب مختار الصحاح نکالی اور اس مولوی کو دکھلایا کہ توفّی کے معنے مارنے کے لکھے ہیں.مولوی صاحب.میں لغت نہیں مانتا.اچھا مان لیا.اگر عیسیٰ مرگیا ہے تو اس کی لاش دکھلاؤ.حضرت.جب مرجانا ثابت ہے تو کافی ہے.لاشیں حضرت ابراہیم اور موسیٰ کی کہاں ہیں؟ مولوی.دجال کانا کہاں ہے؟ حضرت.اگر اس طرح تم لفظی معنے لو گے تو بہت مشکل پڑے گی.قرآن شریف میں لکھا ہے کہ جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ اس جہان میں بھی اندھا ہوگا تو اس کے یہ معنے ہیں کہ جتنے نابینے ہیں وہ بہرحال سب کے سب جہنم میں جائیں گے اگرچہ حافظ قرآن اور مسلمان ہی ہوں.اُمتی کی حقیقت فرمایا.آنے والے کے متعلق تو یہ لکھا ہے کہ وہ امتی ہوگا.امتی تو وہ ہے جو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی کے ذریعہ سے نور حاصل کرتا ہے.لیکن وہ جو پہلے ہی نور اور بصیرت پاکر نبوت کے درجہ تک پہنچ چکا ہے وہ اب امتی کس طرح سے بنے گا؟ کیا پہلے تمام کمالات حاصل کردہ سے وہ بے نصیب کر دیا جاوے گا؟ ہاں ہم اُمتی ہیں جن کو سب کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ملا ہے اور تمام معرفت وہیں سے حاصل ہوئی ہے.اتنے میں وہ مولوی صاحب تو گھبرا کر اٹھ گئے اور ان کے ساتھی گالیاں دیتے گئے اور ایک اور طالب علم آگے بڑھا.نبی کی تعریف طالب علم.آپ کا مرتبہ کیا ہے اس کی تعبیر نبوت سے ہوگی یا کسی اورلفظ سے؟ حضرت.جس کے ساتھ خدا تعالیٰ مکالمہ اور مخاطبہ کرتا ہے وہ نبی ہے.نبی کے

Page 48

معنے ہیں خدا سے خبر پاکر بتلانے والا.ہاں نبوت شریعت ختم ہوچکی ہے.سچی معرفت بغیر مخاطبات الٰہیہ کے حاصل نہیں ہو سکتی.اگر یہ بات اس امت کو حاصل نہیں تو خیرِ اُمّت کس طرح سے بن گئی؟ اللہ تعالیٰ نے مخاطبات کا دروازہ بند نہیں کیا.ورنہ نجات کا کوئی ذریعہ باقی نہ رہتا.امت محمدیہ میں وحی جاری رہے گی طالب علم.تو آپ کو وحی ہوتی ہے؟ وحی تو صرف انبیاء کو ہوتی ہے.حضرت.خدا تعالیٰ تو قرآن شریف میں فرماتا ہے موسیٰ کی ماں کو بھی وحی ہوئی.کیا یہ امت عورتوں سے بھی بد تر ہوگئی؟ اس سے تو عارف کی کمر ٹوٹ جاتی ہے.کیا ہمارے واسطے تمام دروازے بند ہو گئے؟ دنیا دار کو آگے قدم رکھنے کی ضرورت نہیں.اس امت کو خدا ادھورا رکھنا نہیں چاہتا.میں نہیں قبول کر سکتا کہ پہلی امتوں نے اس قدر برکات حاصل کیں اور یہ امت بالکل محروم رکھی گئی.مسیح موعود کا مرتبہ طالب علم.پھر یہ مرتبہ تو ولی کا ہوا.حضرت.ہم کب کہتے ہیں کہ ہمارا مرتبہ وہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا؟ مگر تم نہیں جانتے ولی کا مرتبہ کم نہیں بلکہ بعض کے نزدیک تو ولایت بڑھ کر ہے کیونکہ ولایت محبت، قرب اور معرفت کا ذریعہ ہے اور نبوت ایک عہدہ ہے.یہود کا تو یہ مذہب ہے کہ حضرت ابراہیم ولی تھے اور تمام انبیاء سے بڑھ کر تھے.ہم تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے باہر ایک قدم بھی رکھنا کفر سمجھتے ہیں.ہم کو الہام ہوا ہے کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّـحَمَّدٍ ہم اس دائرہ سے باہر نہیں جاتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے باہر جانا تو کفر ہے.لوگ محجوب ہونے کے سبب وحی کے لفظ سے گھبراتے ہیں.ورنہ وہاں تو لکھا ہے کہ مکھی کو بھی وحی ہوئی.بلکہ شیخ عبد القادر نے لکھا ہے کہ جس کو کبھی بھی وحی نہیں ہوئی خوف ہے کہ اس کا خاتمہ بُرا ہو.معرفت تامہ بجز مکالمہ مخاطبہ کے حاصل نہیں ہو سکتی.

Page 49

وحی کی ماہیت طالب علم.وحی کس طرح سے ہوتی ہے؟ حضرت.کئی طریق ہیں.بعض دفعہ دل میں ایک گونج پیدا ہوتی ہے کوئی آواز نہیں ہوتی.پھر اس کے ساتھ ایک شگفتگی پیدا ہوتی ہے اور بعض دفعہ تیزی اور شوکت کے ساتھ ایک لذیذ کلام زبان پر جاری ہوتا جو کسی فکر و تدبّر اور وہم و خیال کا نتیجہ نہیں ہوتا.اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کے نشانات ہزاروں ہیں.اگر کوئی چاہے تو اب بھی کم از کم چالیس روز ہمارے پاس رہے اور نشان دیکھ لے.صادق اور کاذب میں خدا فرق کر دیتا ہے.آج سے پچیس سال پہلے خداوند تعالیٰ نے مجھے وعدہ دیا تھا کہ تیرے پاس ہر جگہ سے لوگ آئیں گے اور تحفہ تحائف بھی لائیں گے.یہ ایسے وقت کا الہام ہے کہ ایک آدمی بھی میرے ساتھ نہ تھا.اب تم اس کی نظیر پیش کرو کہ کیا کوئی آدمی اتنا لمبا افترا کر کے ایسی بڑی کامیابی حاصل کر سکتا ہے.اور ایک بات نہیں اگر ہمارے پاس آئیں اور کچھ مدت قیام رکھیں تو آپ کو معلوم ہو.اصل میں تمام مشکلات عدمِ معرفت کے باعث ہوتے ہیں ورنہ حضرت ابو بکر نے کون سا معجزہ مانگا تھا.علماء امت سے مراد طالب علم.امت کے علماء بھی انبیاء کی مانند ہیں جو آپ کی مخالفت کرتے ہیں.حضرت.میں ان لوگوں کو علماء میں شامل نہیں سمجھتا جن کی زبان پر کچھ اور ہے اور اعمال کچھ اور ہی ہیں.منبر پر چڑھ کر کچھ کہتے ہیں اور گھر میں جا کر کچھ اور بیان کرتے ہیں.علماء امت وہ ہیں جو مذہب کی تاکید کرتے ہیں.مسیح موعود علیہ السلام مستقل نبی نہیں طالب علم.کیا آپ مستقل نبی ہیں؟ حضرت.میرے متعلق ایسا کہنا ایک تہمت ہوگی میں اس کو کفر سمجھتا ہوں کہ کوئی مستقل نبی ہونے کا دعویٰ کرے.

Page 50

مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات طالب علم.معجزہ تو نبی کا ہوتا ہے.آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ میں معجزہ دکھاتا ہوں؟ حضرت.ہمارے معجزات سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ہیں.ہمارا اپنا کچھ نہیں.سب کاروبار آنحضرت کا ہی چلا آتا ہے.دین انحطاط پر تھا ہم نے سعی کی.اگر ہم خدا کی طرف سے ہیں تو خدا ہماری مدد کرے گا.ورنہ یہ سلسلہ خود بخود ہی تباہ ہو جائے گا.مسیح موعود کی بعثت کا مقصد ہمارے دو کام ہیں.اول یہ کہ اعتقاد میں نصوص کے برخلاف جو غلطیاں پڑ گئی ہیں وہ نکالی جاویں.دوم یہ کہ لوگوں کی عملی حالتیںدرست کی جائیں اور صحابہ کے مطابق ان کو تقویٰ اور طہارت حاصل ہوجائے.طالب علم.کیا پہلے بھی کسی نے دعویٰ کیا تھا کہ میں اسلام میں نبی ہوں؟ حضرت.پہلے کس طرح کوئی دعویٰ کر سکتا.وہ لوگ مامور نہ تھے کہ ایسا دعویٰ کریں اورمیں مامور ہوں.طالب علم.آپ کے مخالف کو کافر کیوں کہا جائے گا؟ حضرت.کفر کے معنے ہیں انکار کرنا.جب یہ لوگ مامور من اللہ کو نہیں مانتے اور گالیاں دیتے ہیں اور انکار کرتے ہیں تو بات یہاں تک نہیں رہتی بلکہ ایک فتح الباب ہوتا ہے اور زبان کھل جاتی ہے اور رفتہ رفتہ توفیق اعمال کی جاتی رہتی ہے.۱ جب تک استقامت نہ ہو بیعت نا تمام ہے ایک شخص نے بیعت کی.فرمایا.خدا تعالیٰ ثابت قدم رکھے.ثابت قدمی خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے حاصل ہو سکتی ہے.جب تک استقامت نہ ہو بیعت بھی ناتمام ہے.انسان جب خدا کی طرف قدم اٹھاتا ہے تو راستہ میں بہت سی بلاؤں اور طوفانوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے.جب تک ان میں سے انسان گذر نہ لے منزلِ مقصود کو پہنچ نہیں سکتا.امن کی ۱ بدر جلد ۱ نمبر ۳۳ مورخہ ۶؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲تا۴

Page 51

حالت میں استقامت کا پتہ نہیں لگ سکتا کیونکہ امن اور آرام کے وقت تو ہر ایک شخص خوش رہتا ہے اور دوست بننے کو طیار ہے.مستقیم وہ ہے کہ سب بلاؤں کو برداشت کرے.طولِ امل سے ہی سب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی موت کو دیکھو اور اس پر غور کرو کہ بڑےعبرت کی جگہ ہے کس طرح ناگہانی موت ان پر وارد ہوئی.ہر ایک شخص کو سمجھنا چاہیے کہ یہ دن کسی وقت آنے والا ہے.سب کو اس کے واسطے طیار رہنا چاہیے.ان باتوں کا تصور اور مطالعہ انسان کو سچا مومن بنا دیتا ہے.جب انسان دنیا کی طرف جھکتا ہے اور بہت امور کو اپنے گلے ڈال لیتا ہے تو ایک طولِ امل پیدا ہو جاتا ہے.طولِ امل سے ہی سب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں.جو شخص عمر کو لمبا سمجھتا ہے اور بڑی بڑی امیدیں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کروں گا وہ کروں گا اس کے واسطے دل کی پاکیزگی کا حصول مشکل ہے.مومن کو چاہیے کہ رات کو سوئے اور صبح اٹھنے کی امید نہ کرے اور صبح اٹھے تو رات تک زندگی کی امید نہ رکھے.سب سے اعلیٰ اور آخری بات یہ ہے کہ دل کی پاکیزگی حاصل ہو.جب خدا کسی پر فضل کرتا ہے تو دل کی پاکیزگی اس کو عطا کرتا ہے.بغیر فضل الٰہی کے دل کی پاکیزگی حاصل نہیں ہو سکتی.اوّل بات یہ ہے کہ طولِ امل جاتا رہے.تب انسان تسلّی پکڑتا ہے.جب انسان دن بھر ناجائز وسائل اختیار کرتا ہے اور دنیا کمانے کے پیچھے پڑا رہتا ہے تو دل ناپاک ہوجاتا ہے.مگر موت سے زیادہ اور کوئی واعظ نہیں یہی بڑا واعظ ہے.مومن میں اللہ تعالیٰ نے قوتِ جذب رکھی ہے اٹاوہ کے دوست سید صادق حسین صاحب اور دیگر دوست اس جگہ کے مخاطب تھے.فرمایا.اگر ایک آدمی بھی متقی اور صالح کسی مقام پر ہو جو اشاعت حق کے لیے پورا جوش رکھتا ہو تو خدا تعالیٰ اس میں قوت جاذبہ پیدا کر دیتا ہے اور وہ ایک جماعت بنا ہی لیتا ہے کیونکہ مومن کبھی اکیلا نہیں رہ سکتا.یہ نہیں کہ صرف معجزات کے ذریعہ سے ہی لوگوں پر حجّت پوری کی جاتی ہے.بلکہ

Page 52

مومن میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوت جذب رکھی ہے.سعید لوگ اس کی طرف کھینچے جاتے ہیں اور غیرسعید لوگ بھی سلسلہ حقہ کی خدمت میں لگائے جاتے ہیں.ان کے سپرد یہ خدمت کی جاتی ہے کہ سلسلہ حقہ کی مخالفت میں شور و غوغا مچا کر اس کی تشہیر کریں اور اس کی تبلیغ کو دور تک پہنچاویں.مومن میں قوت جاذبہ ضرور ہوتی ہے.جب میں براہین لکھتا تھا تو یہ الہام ہوا تھا کہ ہر ایک دور کے راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے.اس وقت ایک آدمی بھی میرے ساتھ نہ تھا.اور یہ کتاب وہ ہے جو ہرایک فرقہ عیسائی، ہندو، برہمو، آریہ اور سب مخالفین کے پاس ہے.مولوی محمد حسین نے اس پر بڑا ریویو لکھا تھا.کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ پیشگوئیاں ہم نے بنائی ہیں.یا ایسے زمانے میں لکھی گئی تھی کہ لوگ آیا جایا کرتے تھے.ایسے وقت میں یہ الہامات شائع ہوئے اور کئی ایک زبانوں میں عربی، فارسی، اردو، انگریزی، عبرانی سب زبانوں میں الہامات ہوئے.یہ اس لیے ہوا کہ ہر ایک زبان گواہ رہے اور اس کتاب کی عظمت ہو.اور اس میں یہ بھی ایک راز معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک زبان کے لوگ گواہ ہوں گے اور اس جماعت میں داخل ہوں گے.اگر دنیا میں یہ باتیں انسان اپنی طاقت سے بنا سکتا تو اس کی نظیر کہاں ہے؟ اگر یہ ہو سکتا اور انسان کر سکتا تو تمام انبیاء کی پیشگوئیاں اور خوارق ایک شبہ میں پڑ جاتیں.مگر بات یہ ہے کہ ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے.ہر نبی کے وقت میں ابتلاء آئے اور اب بھی وہی سنّت اللہ جاری ہے.مجدّد صاحب نے بھی ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ جب مسیح آئے گا تو علماء اس کا مقابلہ کریں گے اور اس کی تکذیب کریں گے.جماعت کو صبر کی تلقین فرمایا.صبر بڑا جو ہر ہے.جو شخص صبر کرنے والا ہوتا ہے اور غصے سے بھر کر نہیں بولتا اس کی تقریر اپنی نہیں ہوتی بلکہ خدا اس سے تقریر کراتا ہے.جماعت کو چاہیے کہ صبر سے کام لے اور مخالفین کی سختی پر سختی نہ کرے اور گالیوں مومن میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوت جذب رکھی ہے.سعید لوگ اس کی طرف کھینچے جاتے ہیں اور غیرسعید لوگ بھی سلسلہ حقہ کی خدمت میں لگائے جاتے ہیں.ان کے سپرد یہ خدمت کی جاتی ہے کہ سلسلہ حقہ کی مخالفت میں شور و غوغا مچا کر اس کی تشہیر کریں اور اس کی تبلیغ کو دور تک پہنچاویں.مومن میں قوت جاذبہ ضرور ہوتی ہے.جب میں براہین لکھتا تھا تو یہ الہام ہوا تھا کہ ہر ایک دور کے راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے.اس وقت ایک آدمی بھی میرے ساتھ نہ تھا.اور یہ کتاب وہ ہے جو ہرایک فرقہ عیسائی، ہندو، برہمو، آریہ اور سب مخالفین کے پاس ہے.مولوی محمد حسین نے اس پر بڑا ریویو لکھا تھا.کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ پیشگوئیاں ہم نے بنائی ہیں.یا ایسے زمانے میں لکھی گئی تھی کہ لوگ آیا جایا کرتے تھے.ایسے وقت میں یہ الہامات شائع ہوئے اور کئی ایک زبانوں میں عربی، فارسی، اردو، انگریزی، عبرانی سب زبانوں میں الہامات ہوئے.یہ اس لیے ہوا کہ ہر ایک زبان گواہ رہے اور اس کتاب کی عظمت ہو.اور اس میں یہ بھی ایک راز معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک زبان کے لوگ گواہ ہوں گے اور اس جماعت میں داخل ہوں گے.اگر دنیا میں یہ باتیں انسان اپنی طاقت سے بنا سکتا تو اس کی نظیر کہاں ہے؟ اگر یہ ہو سکتا اور انسان کر سکتا تو تمام انبیاء کی پیشگوئیاں اور خوارق ایک شبہ میں پڑ جاتیں.مگر بات یہ ہے کہ ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے.ہر نبی کے وقت میں ابتلاء آئے اور اب بھی وہی سنّت اللہ جاری ہے.مجدّد صاحب نے بھی ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ جب مسیح آئے گا تو علماء اس کا مقابلہ کریں گے اور اس کی تکذیب کریں گے.جماعت کو صبر کی تلقین فرمایا.صبر بڑا جو ہر ہے.جو شخص صبر کرنے والا ہوتا ہے اور غصے سے بھر کر نہیں بولتا اس کی تقریر اپنی نہیں ہوتی بلکہ خدا اس سے تقریر کراتا ہے.جماعت کو چاہیے کہ صبر سے کام لے اور مخالفین کی سختی پر سختی نہ کرے اور گالیوں مومن میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوت جذب رکھی ہے.سعید لوگ اس کی طرف کھینچے جاتے ہیں اور غیرسعید لوگ بھی سلسلہ حقہ کی خدمت میں لگائے جاتے ہیں.ان کے سپرد یہ خدمت کی جاتی ہے کہ سلسلہ حقہ کی مخالفت میں شور و غوغا مچا کر اس کی تشہیر کریں اور اس کی تبلیغ کو دور تک پہنچاویں.مومن میں قوت جاذبہ ضرور ہوتی ہے.جب میں براہین لکھتا تھا تو یہ الہام ہوا تھا کہ ہر ایک دور کے راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے.اس وقت ایک آدمی بھی میرے ساتھ نہ تھا.اور یہ کتاب وہ ہے جو ہرایک فرقہ عیسائی، ہندو، برہمو، آریہ اور سب مخالفین کے پاس ہے.مولوی محمد حسین نے اس پر بڑا ریویو لکھا تھا.کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ پیشگوئیاں ہم نے بنائی ہیں.یا ایسے زمانے میں لکھی گئی تھی کہ لوگ آیا جایا کرتے تھے.ایسے وقت میں یہ الہامات شائع ہوئے اور کئی ایک زبانوں میں عربی، فارسی، اردو، انگریزی، عبرانی سب زبانوں میں الہامات ہوئے.یہ اس لیے ہوا کہ ہر ایک زبان گواہ رہے اور اس کتاب کی عظمت ہو.اور اس میں یہ بھی ایک راز معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک زبان کے لوگ گواہ ہوں گے اور اس جماعت میں داخل ہوں گے.اگر دنیا میں یہ باتیں انسان اپنی طاقت سے بنا سکتا تو اس کی نظیر کہاں ہے؟ اگر یہ ہو سکتا اور انسان کر سکتا تو تمام انبیاء کی پیشگوئیاں اور خوارق ایک شبہ میں پڑ جاتیں.مگر بات یہ ہے کہ ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے.ہر نبی کے وقت میں ابتلاء آئے اور اب بھی وہی سنّت اللہ جاری ہے.مجدّد صاحب نے بھی ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ جب مسیح آئے گا تو علماء اس کا مقابلہ کریں گے اور اس کی تکذیب کریں گے.جماعت کو صبر کی تلقین فرمایا.صبر بڑا جو ہر ہے.جو شخص صبر کرنے والا ہوتا ہے اور غصے سے بھر کر نہیں بولتا اس کی تقریر اپنی نہیں ہوتی بلکہ خدا اس سے تقریر کراتا ہے.جماعت کو چاہیے کہ صبر سے کام لے اور مخالفین کی سختی پر سختی نہ کرے اور گالیوں کے عوض میں گالی نہ دے.جو شخص ہمارا مکذب ہے اس پر لازم نہیں کہ وہ ادب کے ساتھ بولے.اس کے نمونے آنحضرت کی زندگی میں بھی بہت پائے جاتے ہیں.صبر جیسی کوئی شے نہیں.مگر صبر کرنا

Page 53

کے عوض میں گالی نہ دے.جو شخص ہمارا مکذب ہے اس پر لازم نہیں کہ وہ ادب کے ساتھ بولے.اس کے نمونے آنحضرت کی زندگی میں بھی بہت پائے جاتے ہیں.صبر جیسی کوئی شے نہیں.مگر صبر کرنا بڑا مشکل ہے.اللہ تعالیٰ اس کی تائید کرتا ہے جو صبر سے کام لے.دہلی کی سر زمین سخت ہے تاہم سب یکساں نہیں کئی آدمی مخفی ہوں گے جب وقت آئے گا تو وہ خود سمجھ لیں گے.عرب بہت سخت ملک تھا وہ بھی سیدھا ہوگیا دہلی تو ایسی سخت نہیں.میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی پر حملہ کریں یا اخلاق کے برخلاف کوئی کام کریں.خدا تعالیٰ بُردباری کا حکم دیتا ہے اور اسی کے مطابق کرنا چاہیے.خدا تعالیٰ کے الہامات کی تفہیم بھی یہی ہے کہ بُردباری کریں.ہمارے پاس کوئی ایسا شربت نہیں کہ فوراً کسی کے ہاتھ پر ڈال دیں.ابھی تو بعض ماننے والے بھی ایسے ہیں کہ وہ پورا یقین نہیں کرتے بلکہ وساوس کی قے کرتے ہیں.تاہم کمزوروں پر رحم کرنا چاہیے اور ہر ایک کو یہ خیال کرنا چاہیے کہ میں جب نیا تھا تو میرا حال بھی ایسا ہی کمزوری کا تھا.شیطان ہر ایک کے ساتھ لگا ہوا ہے.رفتہ رفتہ سکینت کی نعمت حاصل ہوتی ہے.کیونکہ گذشتہ معاصی کا زہر نیش زنی کرتا رہتا ہے.کوئی سہل امر نہیں کہ یک دفعہ یہ سارا زہر نکل جائے.رفتہ رفتہ خدا کی رحمت دستگیر ہوتی ہے.بیمار تندرست ہوتا ہے تو نقاہت باقی رہتی ہے اور نقاہت کے لوازم میں سے ہے کہ انسان کسی وقت گر جائے بلکہ بعض دفعہ مرض عود کر آتی ہے.مومن ولی ہوتا ہے مگر اس نعمت کا حاصل ہونا مشکل ہے.اسی واسطے کہا گیا ہے کہ اٰمَنَّا نہ کہو بلکہ اَسْلَمْنَا کہو.مسیح موعود کو ماننے کی ضرورت حضرت کی خدمت میں آج پھر ایک سوال پیش ہوا کہ جب ہم لوگ نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں اور شریعت کے دیگر امور کی پیروی کرتے ہیں تو صرف آپ کو نہ ماننے کے سبب کیا حرج ہو سکتا ہے؟ حضرت نے فرمایا.میں نے اس بات کا جواب کئی دفعہ دیا ہے ہم قال اللہ اور قال الرسول کو مانتے ہیں پھر خدا کی وحی کو مانتے ہیں.میرا آنا اللہ اور رسول کے وعدے کے مطابق ہے جو شخص خدا اور رسول کی ایک بات مانتا ہے اور دوسری نہیں مانتا وہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ میں خدا پر ایمان لاتا ہوں.یہ تو وہ بات ہے جو قرآن شریف میں تذکرہ ہے کہ وہ لوگ بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض پر

Page 54

Page 55

ہوسکتا ہے کہ انسان درحقیقت پاک ہوکر محبت الٰہی کو اپنے اندر داخل کر لیتا ہے.لیکن اگر یہ امر آسان ہوتا تو اولیاء، ابدال، غوث اور اقطاب ایسے کمیاب کیوں ہوتے؟ بظاہر تو وہ سب عام لوگوں کی مانند نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہیں مگر فرق صرف توفیق کا ہے.ان لوگوں نے کسی قسم کی شوخی اور کج روی نہ کی بلکہ خاکساری کا راہ اختیار کیا اور مجاہدات میں لگ گئے.جو شخص دنیوی حکام کے بالمقابل شوخی کرتا ہے وہ بھی ذلیل کیا جاتا ہے.پھر اس کا کیا حال ہوگا جو خدا تعالیٰ کے فرستادہ حَکم کے ساتھ شوخی اور گستاخی سے پیش آتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے اَللّٰھُمَّ لَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طُرْفَۃَ عَیْنٍ.یا اللہ مجھے ایک آنکھ جھپکنے تک بھی میرے نفس کے سپرد نہ کر.اب ان لوگوں کے تقویٰ کے حال کو دیکھنا چاہیے.میں ان کے سامنے آیا.میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا ہے.کیا انہوں نے میرے معاملہ میں تدبر کیا؟ کیا انہوں نے میری کتب کا مطالعہ کیا؟ کیا یہ میرے پاس آئے کہ مجھ سے سمجھ لیں؟ صرف لوگوں کے کہنے کہلانے سے بے ایمان، دجال اور کافر مجھے کہنا شروع کیا اور کہا کہ یہ واجب القتل ہے.بغیر تحقیقات کے انہوں نے یہ سب کارروائی کی اور دلیری کے ساتھ اپنا مونھ کھولا.مناسب تھا کہ میرے مقابلہ میں یہ لوگ کوئی حدیث پیش کرتے.میرا مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ذرا اِدھر اُدھر جانا بے ایمانی میں پڑنا ہے.لیکن کیا اس کی پہلے کوئی نظیر دنیا میں موجود ہے کہ ایک شخص ۲۵ سال سے خدا پر افترا کرتا ہے اور خدا تعالیٰ ہر روز اس کی تائید اور نصرت کرتا ہے.وہ اکیلا تھا اور خدا نے تین لاکھ آدمی اس کے ساتھ شامل کر دیا.کیا تقویٰ کا حق ہے کہ اس کے مخالف بے ہودہ شور مچایا جاوے اور اس کے معاملہ میں کوئی تحقیقات نہ کی جاوے.عقیدہ وفات مسیح علیہ السلام کی اہمیت وفاتِ مسیح پر قرآن ہمارے ساتھ ہے.معراج والی حدیث ہمارے ساتھ ہے.صحابہؓ کا اجماع ہمارے ساتھ ہے.کیا وجہ ہے کہ تم حضرت عیسیٰ کو وہ خصوصیت دیتے ہو جو دوسرے کے لیے نہیں.مجھے ایک بزرگ کی بات بہت ہی پیاری لگتی ہے.اس نے لکھا ہے کہ اگر دنیا میں کسی کی زندگی کا میں قائل ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا قائل ہوتا دوسرے کی زندگی سے ہم کو کیا فائدہ؟

Page 56

تقویٰ سے کام لو ضد اچھی نہیں.دیکھو! پادری لوگ گلی اور کوچوں اور بازاروں میں یہی کہتے پھرتے ہیں کہ ہمارا یسوع زندہ ہے اور تمہارا رسول مر چکا ہے.اس کا جواب تم ان کو کیا دے سکتے ہو؟ یہ زمانہ تو اسلام کی ترقی کا زمانہ ہے.کسوف خسوف بھی پیشگوئی کے مطابق ہو چکا ہے.اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے واسطے وہ پہلو اختیار کیا ہے جس کے سامنے کوئی بول نہیں سکتا.سوچو ۱۹۰۰ سال تک مسیح کو زندہ ماننے کا کیا نتیجہ ہوا؟ یہی کہ چالیس کروڑ عیسائی ہوگئے.اب دوسرے پہلوکو بھی چند سال کے واسطے آزماؤ اور دیکھو کہ اس کا کیا نتیجہ ہوتا ہے.کسی عیسائی سے پوچھو کہ اگر یسوع مسیح کی وفات کو تسلیم کر لیا جائے تو کیا پھر بھی کوئی عیسائی دنیا میں رہ سکتا ہے.تمہارا یہ طیش اور یہ غضب مجھ پر کیوں ہے؟ کیا اسی واسطے کہ میں اسلام کی فتح چاہتا ہوں.یاد رکھو کہ تمہاری مخالفت میرا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی.میں اکیلا تھا خدا کے وعدے کے موافق کئی لاکھ آدمی میرے ساتھ ہوگئے اور دن بدن ترقی ہو رہی ہے.لاہور میں بشپ صاحب نے یہی سوال مسلمانوں کے سامنے پیش کیا تھا.ہزاروں آدمی جمع تھے اور بڑا بھاری جلسہ تھا.یسوع کی فضیلت اس نے اس طرح بیان کی کہ وہ زندہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوچکے ہیں.تب کوئی مسلمان اس کا جواب نہ دے سکا.لیکن ہماری جماعت میں سے مفتی محمد صادق صاحب اُٹھے جو اس جگہ اس وقت موجود ہیں.انہوں نے کہا کہ میں ثابت کرتا ہوں کہ قرآن، حدیث، انجیل سب کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں.چنانچہ انہوں نے ثابت کر دیا.تب بشپ کوئی جواب نہ دے سکا اور ہماری جماعت کے ساتھ مخاطب ہونے سے اعراض کیا.اسلام کبھی تلوار کے ساتھ نہیں پھیلایا گیا ان مولویوں پر افسوس ہے کہ میری تذلیل کی خاطریہ لوگ اسلام پر حملہ کرتے ہیں اور اسلام کی بے عزتی کرتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ مہدی آئے گا تو وہ تلوار کے ساتھ دین پھیلائے گا.اے نادانو! کیا تم عیسائیوں کے اعتراض کی مدد کرتے ہو کہ دین اسلام تلوار کے ساتھ پھیلا ہے.یاد رکھو کہ اسلام کبھی تلوار کے ساتھ نہیں پھیلایا گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی دین جبراً

Page 57

پھیلانے کے واسطے تلوار نہیں اٹھائی بلکہ دشمنوں کے حملوں کو روکنے کے واسطے اور وہ بھی بہت برداشت اور صبر کے بعد غریب مسلمانوں کو ظالم کفار کے ہاتھ سے بچانے کے واسطے جنگ کی گئی تھی.اور اس میں کوئی پیش قدمی مسلمانوں کی طرف سے نہیں ہوئی تھی.یہی جہاد کا سِر ہے.آج کل عیسائیوں کے حملے تلوار کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ قلم کے ساتھ ہیں.پس قلم کے ساتھ ان کا جواب ہونا چاہیے.تلوار کے ساتھ سچا عقیدہ نہیں پھیل سکتا.بعض بیوقوف جنگلی لوگ ہندوؤں کو پکڑ کر ان سے جبراً کلمہ پڑھواتے ہیں مگر وہ گھر جا کر پھر ہندو ہی ہندو ہوتے ہیں.اسلام ہرگز تلوار کے ساتھ نہیں پھیلا بلکہ پاک تعلیم کے ساتھ پھیلا ہے.صرف تلوار اٹھانے والوں کو تلوار کا مزہ چکھایا تھا.اب قلم کے ساتھ دلائل اور براہین کے ساتھ اور نشانوں کے ساتھ مخالفوں کو جواب دیا جارہا ہے.اگر خدا کو یہی منظور ہوتا کہ مسلمان جہاد کریں تو سب سے بڑھ کر مسلمانوں کو جنگی طاقت دی جاتی اور آلات حرب کی ساخت اور استعمال میں ان کو بہت دسترس عطا کی جاتی.مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ مسلمان بادشاہ اپنے ہتھیار یورپ کے لوگوں سے خرید کر لیتے ہیں.تم میں تلوار نہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاءہی نہیں کہ تم تلوار کا استعمال کرو.سچی تعلیم اور معجزات کے ساتھ اب اسلام کا غلبہ ہوگا.میں اب بھی نشان دکھانے کو طیار ہوں.کوئی پادری آئے اور چالیس روز تک میرے پاس رہے.تلواروں کو تو زنگ بھی لگ جاتا ہے پر ان نشانات کو جو تازہ ہیں کون زنگ لگا سکتا ہے.اسلام کی فتح کا ذریعہ اسلام کے واسطے ایک انحطاط کا وقت ہے.اگر ہمارا طریق ان لوگوں کو پسند نہیں تو فتح اسلام کے واسطے کوئی پہلو یہ لوگ ہم کو بتلائیں ہم قبول کر لیں گے.اب تو ہر ایک عقلمند نے شہادت دے دی ہے کہ اگر اسلام کی فتح کسی بات سے ہو سکتی ہے تو وہ یہی بات ہے.یہاں تک کہ خود عیسائی قائل ہیں کہ وفاتِ مسیح کا یہی ایک پہلو ہے جس سے دنیوی مذہب بیخ و بُن سے اکھڑ جاتا ہے.اگر یہ لوگ عیسائیت کو چھوڑ دیں گے تو پھر ان کے واسطے بجز اس کے اور کوئی دروازہ نہیں کہ اسلام قبول کریں اور اس میں داخل ہو جائیں.یہی ایک راہ ہے.اگر کوئی دوسری راہ کسی کو معلوم ہے تو اس پر فرض ہے کہ اس کو پیش کرے بلکہ اس پر

Page 58

کھانا پینا حرام ہے جب تک اس پہلو کو پیش نہ کر لے.اے مسلمانو! سوچو اس میں تمہارا کیا حرج ہے کہ عیسیٰ فوت ہوگیا.کیا تمہارا پیارا نبی فوت نہیں ہوگیا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے نام پر تمہیں غصہ نہیں آتا.عیسیٰ کی وفات کا نام سن کر تمہیں کیوں غصہ آتا ہے؟ میرا مطلب نفسانیت کا نہیں.میں کوئی شہرت نہیں چاہتا.میں تو صرف اسلام کی ترقی چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ میرے دل کو خوب جانتا ہے.اسی نے میرے دل میں یہ جوش ڈال دیا.میں اپنی طرف سے بات نہیں کہتا.پچیس برس سے خدا تعالیٰ کا الہام مجھ سے یہ بات کہلا رہا ہے.اسی زمانہ کا یہ الہام ہے اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ خدا چاہتا ہے کہ مجرم علیحدہ ہوجائیں اور راستباز علیحدہ ہوجائیں.میرے پر حملہ کرنے کا کچھ فائدہ نہیں.بصیرت والا اپنی بصیرت کو نہیں چھوڑ سکتا.میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر کوئی صادق طالب حق ہے تو میرے پاس آوے.میں تازہ تر نشان دکھاؤں گا.کیا میں اس قدر یقین کو ترک کر کے تمہاری ظنی باتوں کے پیچھے پڑ جاؤں.جس شخص کو خدا نے بصیرت دی، نشانوں کے ساتھ اپنے مخاطبات اورمکالمات کے ساتھ اس کی صداقت پرمہر لگا دی وہ تمہاری خیالی باتوں کو کیا کرے؟ اگر تم اس قدر باتوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لا سکتے تو اِعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّيْ عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ (الانعام:۱۳۶) تم اپنی جگہ اپنا کام کرو میں اپنا کام کرتا ہوں.عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ سچا کون ہے.۱ ۲۸؍اکتوبر ۱۹۰۵ء (بمقام دہلی) ویران مساجد دہلی کے ارد گرد بہت سی ویران مساجد کا تذکرہ تھا.حضرت نے فرمایا.ان کا مرمت کرانا کچھ مشکل امر نہ تھا.اگر لوگ چاہتے تو کر لیتے مگر جب خدا تعالیٰ کسی امر سے توجہ کو ہٹا دیتا ہے تو پھر کوئی کر ہی کیا سکتا ہے.علاوہ ازیں ۱بدر جلد ۱ نمبر ۳۶ مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۳تا۵

Page 59

بعض مساجد کسی صحیح نیت سے نہیں بنوائی جاتیں بلکہ صرف اس واسطے بنائی جاتی ہیں کہ ہماری مسجد ہو اور کہلائے.فرمایا.کُل امور نیت صحیح اور دل کے تقویٰ پر موقوف ہیں.ایک بزرگ کے پاس بہت دولت تھی.کسی نے اعتراض کیا اس نے جواب دیا.؎ کے انداختم در دل مگر انداختم در گل غرض خدا کے ساتھ دل لگا کر جب دنیوی کاروبار کرتا ہے تو کوئی شے اسے خدا سے مانع نہیں ہو سکتی خواہ کتنے ہی بڑے مشاغل کیوں نہ ہوں.ہندوستان میں اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا فرمایا کہ یہ بالکل غلط ہے کہ ہند میں اسلام تلوار کے ذریعہ سے پھیلا.ہرگز نہیں.ہند میں اسلام بادشاہوں نے بجبر نہیں پھیلایا بلکہ ان کو تو دین کی طرف بہت ہی کم توجہ تھی.اسلام ہند میں ان مشائخ اور بزرگان دین کی توجہ، دعا اور تصرفات کا نتیجہ ہے جو اس ملک میں گذرے تھے.بادشاہوں کو یہ توفیق کہاں ہوتی ہے کہ دلوںمیں اسلام کی محبت ڈال دیں.جب تک کوئی آدمی اسلام کا نمونہ خود اپنے وجود سے نہ ظاہر کرے تب تک دوسرے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا.یہ بزرگ اللہ تعالیٰ کے حضور میں فنا ہو کر خود مجسم قرآن اور مجسم اسلام اور مظہر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بن جاتے ہیں.تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ایک جذب عطا کیا جاتا ہے اور سعید فطرتوں میں ان کا اثر ہوتا چلا جاتا ہے.نوے کروڑ مسلمان ایسے لوگوں کی توجہ اور جذب سے بن گیا.تھوڑے سے عرصہ میں کوئی دین اس کثرت کے ساتھ کبھی نہیں پھیلا.یہی لوگ تھے جنہوں نے صلاح و تقویٰ کا نمونہ دکھلایا اور ان کی برہان قوی نے جوش مارا اور لوگوں کو کھینچا.مگر یہ بزرگ بھی عوام کی طعن و تشنیع سے خالی نہ تھے.گو ہم زیادہ تر ان لوگوں کے آگے گالیوں کے لیے تختہ مشق ہو رہے ہیں تاہم ان سب نے دکھ اٹھایا.یہ ہمارے علماء ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہے ہیں.

Page 60

سماع ذکر آیا کہ بعض بزرگ راگ سنتے ہیں آیا یہ جائز ہے؟ فرمایا.اس طرح بزرگان دین پر بد ظنی کرنا اچھا نہیں.حسن ظن سے کام لینا چاہیے.حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اشعار سنے تھے.لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک صحابی مسجد کے اندر شعر پڑھتا تھا.حضرت عمر نے اس کو منع کیا.اس نے جواب دیا میں نبی کریم کے سامنے مسجد میں شعر پڑھا کرتا تھا تو کون ہے جو مجھے روک سکے؟ یہ سن کر حضرت امیر المؤمنین بالکل خاموش ہوگئے.قرآن شریف کو بھی خوش الحانی سے پڑھنا چاہیے.بلکہ اس قدر تاکید ہے کہ جو شخص قرآن شریف کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے.اور خود اس میں ایک اثر ہے.عمدہ تقریر خوش الحانی سے کی جائے تو اس کا بھی اثر ہوتا ہے.وہی تقریر ژولیدہ زبانی سے کی جائے تو اس میںکوئی اثر نہیں ہوتا.جس شے میں خدا نے تاثیر رکھی ہے اس کو اسلام کی طرف کھینچنے کا آلہ بنایا جائے تو اس میں کیا حرج ہے.حضرت داؤد کی زبور گیتوں میں تھی جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ جب حضرت داؤد خدا کی مناجات کرتے تھے تو پہاڑ بھی ان کے ساتھ روتے تھے اور پرندے بھی تسبیح کرتے تھے.مزامیر یہاں ایک شخص درمیان میں بول پڑا کہ مزامیر کے متعلق آپ کا حکم کیا ہے؟ فرمایا.بعض نے قرآن شریف کے لفظ لَهْوَ الْحَدِيْثِ (لقمان:۷) کو مزامیر سے تعبیر کیا ہے.مگر میرا مذہب یہ ہے کہ ہر ایک شخص کو مقام اور محل دیکھنا چاہیے.ایک شخص کو جو اپنے اندر بہت سے علوم رکھتا ہے اور تقویٰ کے علامات اس میں پائے جاتے ہیں اورمتقی با خدا ہونے کی ہزار دلیل اس میں موجود ہے.صرف ایک بات جو تمہیں سمجھ میں نہیں آتی اس کی وجہ سے اسے بُرا نہ کہو.اس طرح انسان محروم رہ جاتا ہے.بایزید بسطامیؒ کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ لوگ بہت ان کے گرد ہوئے اور ان کے وقت کو پراگندہ کرتے تھے.رمضان کامہینہ تھا.انہوںنے سب کے سامنے روٹی کھانی شروع کر دی.تب سب لوگ کافر کہہ کر بھاگ گئے.عوام واقف نہ تھے کہ یہ مسافر ہے

Page 61

اور اس کے واسطے روزہ ضروری نہیں.لوگ نفرت کر کے بھاگے.ان کے واسطے عبادت کے لیے مقام خلوت حاصل ہوگیا.خضری اسرار یہ اسرار ہیں اور ان کے واسطے ایک عمدہ مثال خود قرآن شریف میں موجود ہے جہاں حضرت خضر نے ایک کشتی توڑ ڈالی اور ایک لڑکے کو قتل کر دیا.کوئی ظاہر شریعت ان کو ایسے کام کی اجازت نہ دے سکتی تھی.اس قصہ سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے.خضری اسرار اس امت میں ہمیشہ پائے جاتے رہے ہیں.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام کمالات متفرقہ کے جامع تھے اور ظلی طور پر وہ کمالات آنحضرت کی امت میں بھی موجود ہیں.جو خضر نے کیا آئندہ صاحبان کمالات بھی حسب ضرورت کرتے ہیں.جہاں حضرت خضر نے ایک نفس زکیہ کو قتل کر دیا اس کے بالمقابل مزامیر کیا شے ہے.لہٰذا جلد بازی نہیں کرنی چاہیے.جلد بازی انسان کو ہلاک کر دیتی ہے.دوسری علامات کو دیکھنا چاہیے جو اولیاء الرحمٰن میں پائی جاتی ہیں.ان لوگوں کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے.اس میں بڑی احتیاط لازم ہے.جو اعتراض کرے گا وہ مارا جائے گا.تعجب ہے کہ زبان کھولنے والے خود گندے لوگ ہوتے ہیں اور ان کے دل ناپاک ہوتے ہیں اور پھر بزرگوں پر اعتراض کرتے ہیں.یہ بھی میں دیکھتا ہوں کہ اولیاء اللہ میں کسی ایسی بات کا ہونا بھی سنت اللہ میں چلا آتا ہے.جیسا کہ خوبصورت بچے کو جب ماں عمدہ لباس پہنا کر باہر نکالتی ہے تو اس کے چہرے پر ایک سیاہی کا داغ بھی لگا دیتی ہے تاکہ وہ نظر بد سے بچا رہے.ایسا ہی خدا بھی اپنے پاکیزہ بندوں کے ظاہری حالات میں ایک ایسی بات رکھ دیتا ہے جس سے بد لوگ اس سے دور رہیں اور صرف نیک لوگ اس کے گرد جمع رہیں.سعید آدمی چہرے کی اصلی خوبصورتی کو دیکھتا ہے اور شقی کا دھیان اس داغ کی طرف رہتا ہے.امرتسر کا واقعہ ہے.ایک دعوت میں چند مولوی شریک تھے اور صاحب مکان نے مجھے بھی بلایا ہوا تھا.چائے لائی گئی میں نے پیالی بائیں ہاتھ سے پکڑی.تب سب نے اعتراض کیا کہ یہ سنت

Page 62

کے برخلاف کام کرتا ہے.میں نے کہا یہ سنت ہے کہ پیالی دائیں ہاتھ سےپکڑی جائے مگر کیا یہ سنت نہیں کہ لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ (بنی اسـرآءیل:۳۷) جس بات کا تجھے علم نہیں اس کے متعلق اپنی زبان نہ کھول.کیا آپ لوگوں کو مناسب نہ تھا کہ مجھ پر حسن ظن کرتے اور خاموش رہتے.یا یہ نہیں ہو سکتا تھا تو اعتراض کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھ ہی لیتے کہ تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟ پھر میں نے بتلایا کہ اصل بات یہ ہے کہ میرے دائیں بازو کی ہڈی بچپن سے ٹوٹی ہوئی ہے اور پیالی پکڑ کر میں ہاتھ کو اوپر نہیں اٹھا سکتا.جب یہ بات انہیں بتلائی گئی تب وہ سن کر شرمندہ ہوگئے.۱ ۲۹؍اکتوبر۱۹۰۵ء (بمقام دہلی ) وفات مسیح کے متعلق ایک جامع تحریر جو تحریر حضرت نے مولوی صاحبان کو لکھ کر دی تھی اس کی نقل ذیل میں درج کی جاتی ہے.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وجوہ مفصلہ ذیل ہیں جن کے رو سے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فوت شدہ قرار دیتا ہوں.(۱) قرآن شریف میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت یہ آیات ہیں يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ (اٰلِ عـمران:۵۶) فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ (المائدۃ:۱۱۸) ان آیات کے معنی صحیح بخاری کتاب التفسیر میں موت لکھے ہیں جیسا کہ اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے لکھا ہے مُتَوَفِّيْكَ مُـمِیْتُکَ اور پھر تظاہر آیات کے لیے آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ کا اس جگہ ذکر کیا ہے اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول بھی ذکر کیا ہے کہ میں قیامت کے دن یہی عرض کروں گا کہ یہ لوگ میری وفات کے بعد بگڑے ہیں جیسا کہ لکھا ہے کَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِـحُ.....الـخ.(۲) دوسری دلیل توفّی کے ان معنوں پر جو اوپر ذکر کئے گئے لغت عرب کی کتابیں ہیں.۱ بدر جلد ۱ نمبر ۳۶ مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۶،۷۱ مبر ۷

Page 63

میں نے جہاں تک ممکن تھا قریباً تمام شائع شدہ کتابیں لغت کی دیکھی ہیں.جیسے قاموس، تاج العروس، صراح، صحاح جوہری، لسان العرب اور وہ کتابیں جو حال میں بیروت میں تالیف کر کے عیسائیوں نے شائع کی ہیں.ان تمام کتابوں سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ محاورہ عرب اسی طرح پر ہے کہ جب کسی جملہ میں خدا تعالیٰ فاعل ہو اور کوئی عَلم انسان مفعول بہٖ ہو جیسا کہ تَوَفَّی اللہُ زَیْدًا تو ایسی صورت میں بجز اماتت اور قبض روح اور کوئی معنے نہیںہوتے.اور جو شخص اس سے انکار کرے اس پر لازم ہے کہ اس کے بر خلاف لغت کی کتابوں سے کوئی نظیر مخالف پیش کرے.(۳) میں نے بہت محنت اور کوشش سے جہاں تک میرے لیے ممکن تھا صحاحِ ستہ وغیرہ حدیث کی کتابیں غور سے دیکھی ہیں اور میں نے کسی ایک جگہ پربھی توفّی کے معنے بجز وفات دینے کے حدیث میں نہیں پائے بلکہ تین سو کے قریب ایسی جگہ پائی ہیں جہاں ہر جگہ موت دینے کے ہی معنے ہیں.(۴) میں نے جہاں تک میرے لیے ممکن تھا عرب کے مختلف دیوان بھی دیکھے ہیں مگر نہ میں نے جاہلیت کے زمانہ کے شعراء اور نہ اسلام کے زمانے کے مستند شعراء کے کلام میں کوئی ایسا فقرہ پایا ہے کہ ایسی صورت میں جو اوپر بیان کی گئی ہے بجز وفات دینے کے کوئی اور معنے ہوں.(۵) شاہ ولی اللہ صاحب کے فوز الکبیر میں بھی یہی لکھا ہے کہ مُتَوَفِّيْكَ مُـمِیْتُکَ.اور میں جانتا ہوں کہ شاہ ولی اللہ صاحب بڑے پایہ کے محدث اور فقیہ اور عالم فاضل تھے.(۶) حدیث معراج جو صحیح بخاری میں موجود ہے اس سے پایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فوت شدہ انبیاء میں دیکھا تھا.پس اس جگہ دو شہادتیں ہیں.ایک خدا تعالیٰ کی شہادت قرآن شریف میں دوسری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت لیلۃ المعراج میں.(۷) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا کہ کنز العمال و طبرانی اور کتاب مَاثَبَتَ بِالسُّنَّۃِ میں شیخ عبد الحق وغیرہ نے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی عمر ایک سو پچیس برس کی تھی اور ایک روایت

Page 64

میں ایک سو بیس برس بھی ہے اور ہزاروں برس کی عمر کسی جگہ نہیں لکھی.(۸) جو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہوا وہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر دلیل قاطع ہے جو اس آیت کے رو سے اجماع تھا مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ(اٰلِ عـمران:۱۴۵) (۹) ما سوائے اس کے خدا تعالیٰ نے اپنی وحی قطعی صحیح سے بار بار میرے پر ظاہر کر دیا ہے کہ حضرت عیسیٰ وفات پاگئے اور اپنے کھلے کھلے نشانوں سے میری سچائی ظاہر فرمائی ہے.اسی طرح اور بہت سے دلائل ہیں مگر اسی قدر کافی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت قرآن شریف اور حدیث اور اجماع صحابہ سے ثابت ہے.اور سورہ نور سے ثابت ہے کہ اس امت کے کل خلفاء اسی امت میں سے آئیں گے اور صحیح بخاری سے ثابت ہے کہ آنے والا عیسیٰ اسی امت میں سے ہوگا.جیسا کہ لکھا ہے کہ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ بلکہ صحیح بخاری میں پہلے مسیح کا اور حلیہ لکھا ہے اور آنے والے عیسیٰ کا اور حلیہ لکھا ہے.ماسوائے اس کے میرا آنا بے وقت نہیں.صدی جس کے سر پر آنا تھا تئیس برس اس میں سے گذر گئے.کسوف خسوف بھی رمضان میں ہوگیا، طاعون بھی پیدا ہوگئی، ایک نئی سواری یعنی ریل بھی پیدا ہوگئی اور خدا تعالیٰ نے دس ہزار سے زیادہ نشان میرے ہاتھ پر ظاہر فرمائے ہیں.اور ہر ایک عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ اسلام کی زندگی حضرت عیسٰیؑ کی موت میں ہے.اگر آج یہ امر عیسائیوں پر ثابت ہو کہ حضرت عیسٰیؑ فوت ہوگئے تو وہ سب کے سب عیسائی مذہب کو ترک کر دیں.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ ۲۹؍اکتوبر۱۹۰۵ء۱ میں ایک سو بیس برس بھی ہے اور ہزاروں برس کی عمر کسی جگہ نہیں لکھی.(۸) جو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہوا وہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر دلیل قاطع ہے جو اس آیت کے رو سے اجماع تھا مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ(اٰلِ عـمران:۱۴۵) (۹) ما سوائے اس کے خدا تعالیٰ نے اپنی وحی قطعی صحیح سے بار بار میرے پر ظاہر کر دیا ہے کہ حضرت عیسیٰ وفات پاگئے اور اپنے کھلے کھلے نشانوں سے میری سچائی ظاہر فرمائی ہے.اسی طرح اور بہت سے دلائل ہیں مگر اسی قدر کافی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت قرآن شریف اور حدیث اور اجماع صحابہ سے ثابت ہے.اور سورہ نور سے ثابت ہے کہ اس امت کے کل خلفاء اسی امت میں سے آئیں گے اور صحیح بخاری سے ثابت ہے کہ آنے والا عیسیٰ اسی امت میں سے ہوگا.جیسا کہ لکھا ہے کہ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ بلکہ صحیح بخاری میں پہلے مسیح کا اور حلیہ لکھا ہے اور آنے والے عیسیٰ کا اور حلیہ لکھا ہے.ماسوائے اس کے میرا آنا بے وقت نہیں.صدی جس کے سر پر آنا تھا تئیس برس اس میں سے گذر گئے.کسوف خسوف بھی رمضان میں ہوگیا، طاعون بھی پیدا ہوگئی، ایک نئی سواری یعنی ریل بھی پیدا ہوگئی اور خدا تعالیٰ نے دس ہزار سے زیادہ نشان میرے ہاتھ پر ظاہر فرمائے ہیں.اور ہر ایک عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ اسلام کی زندگی حضرت عیسٰیؑ کی موت میں ہے.اگر آج یہ امر عیسائیوں پر ثابت ہو کہ حضرت عیسٰیؑ فوت ہوگئے تو وہ سب کے سب عیسائی مذہب کو ترک کر دیں.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ ۲۹؍اکتوبر۱۹۰۵ء۱ در جلد ۱ نمبر ۳۳ موخہ ۶؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۴

Page 65

یکم نومبر ۱۹۰۵ء (بمقام دہلی) نزولِ برکات کے مقامات کل حضرت صاحب کی طبیعت کچھ علیل تھی اس واسطے کل آپ قطب کے مزار پر نہ جا سکے اور آج تشریف لے گئے.حضرت بختیار کاکی کے مزار مبارک پر آپ نے دعا کی اور دعا کو لمبا کیا.واپس آتے ہوئے حضرت نے راستہ میں فرمایا کہ بعض مقامات نزولِ برکات کے ہوتے ہیں اور یہ بزرگ چونکہ اولیاء اللہ تھے اس واسطے ان کے مزار پر ہم گئے.ان کے واسطے بھی ہم نے اللہ سے دعا کی اور اپنے واسطے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اور دیگر بہت دعائیں کیں.لیکن یہ دو چار بزرگوں کے مقامات تھے جو جلد ختم ہوگئے.اور دہلی کے لوگ تو سخت دل ہیں.یہی خیال تھا کہ واپس آتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے ہوئے الہام ہوا دست تو دعائے تو ترحم ز خدا۱ ۴؍نومبر ۱۹۰۵ء (بمقام دہلی) آج کے لدھیانہ میں پہنچنے کے اخبار کی تحریر سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کل کی دہلی کی کیفیت مختصراً بیان کروں.کل کی باتوں میں سے زیادہ تر قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک نوجوان معلوم نہیں طالب علم تھا یا مولوی صاحبان میں شامل تھا چند اور مسجد کے طلباء اور مولوی لوگوں کے ہمراہ حضرتؑکے پاس آیااور نہایت گستاخی کے ساتھ بہت ہی کج بحثی کی گفتگو شروع کی.مسئلہ متعلق موعود مسیح اور الیاس کے موعود ہونے کی بابت تھا حضرت نے بار بار نہایت نرمی سے اس کو سمجھایا کہ جس کے آنے کے متعلق خدا نے وعدہ کیا کہ وہ آئے گا وہ موعود ہے مگر وہ بار بار یہی کہتا رہا کہ موعود کا لفظ دکھاؤ اور توریت میں الیاس کے متعلق موعود کا لفظ دکھاؤ بہت ہی سمجھایا گیا.مگر وہ بار بار تکذیب کرتا گیا اور نہایت شوخی کے ساتھ انکار یکم نومبر ۱۹۰۵ء (بمقام دہلی) نزولِ برکات کے مقامات کل حضرت صاحب کی طبیعت کچھ علیل تھی اس واسطے کل آپ قطب کے مزار پر نہ جا سکے اور آج تشریف لے گئے.حضرت بختیار کاکی کے مزار مبارک پر آپ نے دعا کی اور دعا کو لمبا کیا.واپس آتے ہوئے حضرت نے راستہ میں فرمایا کہ بعض مقامات نزولِ برکات کے ہوتے ہیں اور یہ بزرگ چونکہ اولیاء اللہ تھے اس واسطے ان کے مزار پر ہم گئے.ان کے واسطے بھی ہم نے اللہ سے دعا کی اور اپنے واسطے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اور دیگر بہت دعائیں کیں.لیکن یہ دو چار بزرگوں کے مقامات تھے جو جلد ختم ہوگئے.اور دہلی کے لوگ تو سخت دل ہیں.یہی خیال تھا کہ واپس آتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے ہوئے الہام ہوا دست تو دعائے تو ترحم ز خدا۱ ۴؍نومبر ۱۹۰۵ء (بمقام دہلی) آج کے لدھیانہ میں پہنچنے کے اخبار کی تحریر سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کل کی دہلی کی کیفیت مختصراً بیان کروں.کل کی باتوں میں سے زیادہ تر قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک نوجوان معلوم نہیں طالب علم تھا یا مولوی صاحبان میں شامل تھا چند اور مسجد کے طلباء اور مولوی لوگوں کے ہمراہ حضرتؑکے پاس آیااور نہایت گستاخی کے ساتھ بہت ہی کج بحثی کی گفتگو شروع کی.مسئلہ متعلق موعود مسیح اور الیاس کے موعود ہونے کی بابت تھا حضرت نے بار بار نہایت نرمی سے اس کو سمجھایا کہ جس کے آنے کے متعلق خدا نے وعدہ کیا کہ وہ آئے گا وہ موعود ہے مگر وہ بار بار یہی کہتا رہا کہ موعود کا لفظ دکھاؤ اور توریت میں الیاس کے متعلق موعود کا لفظ دکھاؤ بہت ہی سمجھایا گیا.مگر وہ بار بار تکذیب کرتا گیا اور نہایت شوخی کے ساتھ انکار یکم نومبر ۱۹۰۵ء (بمقام دہلی) نزولِ برکات کے مقامات کل حضرت صاحب کی طبیعت کچھ علیل تھی اس واسطے کل آپ قطب کے مزار پر نہ جا سکے اور آج تشریف لے گئے.حضرت بختیار کاکی کے مزار مبارک پر آپ نے دعا کی اور دعا کو لمبا کیا.واپس آتے ہوئے حضرت نے راستہ میں فرمایا کہ بعض مقامات نزولِ برکات کے ہوتے ہیں اور یہ بزرگ چونکہ اولیاء اللہ تھے اس واسطے ان کے مزار پر ہم گئے.ان کے واسطے بھی ہم نے اللہ سے دعا کی اور اپنے واسطے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اور دیگر بہت دعائیں کیں.لیکن یہ دو چار بزرگوں کے مقامات تھے جو جلد ختم ہوگئے.اور دہلی کے لوگ تو سخت دل ہیں.یہی خیال تھا کہ واپس آتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے ہوئے الہام ہوا دست تو دعائے تو ترحم ز خدا۱ ۴؍نومبر ۱۹۰۵ء (بمقام دہلی) آج کے لدھیانہ میں پہنچنے کے اخبار کی تحریر سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کل کی دہلی کی کیفیت مختصراً بیان کروں.کل کی باتوں میں سے زیادہ تر قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک نوجوان معلوم نہیں طالب علم تھا یا مولوی صاحبان میں شامل تھا چند اور مسجد کے طلباء اور مولوی لوگوں کے ہمراہ حضرتؑکے پاس آیااور نہایت گستاخی کے ساتھ بہت ہی کج بحثی کی گفتگو شروع کی.مسئلہ متعلق موعود مسیح اور الیاس کے موعود ہونے کی بابت تھا حضرت نے بار بار نہایت نرمی سے اس کو سمجھایا کہ جس کے آنے کے متعلق خدا نے وعدہ کیا کہ وہ آئے گا وہ موعود ہے مگر وہ بار بار یہی کہتا رہا کہ موعود کا لفظ دکھاؤ اور توریت میں الیاس کے متعلق موعود کا لفظ دکھاؤ بہت ہی سمجھایا گیا.مگر وہ بار بار تکذیب کرتا گیا اور نہایت کرتا گیا.اس کی زبان نہایت تیز چلتی تھی اور کوئی تقویٰ کی خوشبو اس میں نہ تھی.آخر حضرت نے فرمایا کہ میں نے بہت سمجھایا ہے قرآن اور حدیث کو پیش کیا ہے.گذشتہ ا نبیاء کے حالات کو پیش کیا بدر جلد ۱ نمبر ۳۴ مورخہ ۸؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۳

Page 66

ہے.منہاج نبوت کو تمہارے سامنے رکھا ہے.خدا تعالیٰ کے نشانات دکھلائے ہیں.اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کی دلیل پیش کی ہے پھر اگر تم نہیں مانتے اور ضد سے باز نہیں آتے تو عنقریب خدا تعالیٰ تم سے حساب لے گا.صرف مرنے کے بعد نہیں بلکہ اسی دنیا میں تم کو معلوم ہوجائے گا کہ میں صادق ہوں یا کاذب ہوں.خدا نے مجھے اور نشانوںکا بھی وعدہ دیا ہے.جن میں سے ایک طاعون ہے اور ایک زلزلہ ہے.تھوڑا اور صبر کرو.چند سالوں میں تم دیکھ لو گے کہ کیا ہوتا ہے.اگر یہ عذاب تم پر نازل ہوئے تو خود ثابت ہوجائے گا ورنہ یہ ظاہر ہوگا کہ میں باطل پر ہوں.انسان امن اور راحت کی حالت میں باتیں بناتا ہے.میں نے اچھی طرح دیکھ لیا ہے کہ یہ وہ وقت نہیں کہ لوگ مانیں.لیکن وقت عنقریب آنے والا ہے جب کہ خدا کے وعدے پورے ہوں گے اور لوگوں پر ظاہر ہوجائے گا کہ صادق کون ہے اور کاذب کون ہے.اگر میں خدا کی طرف سے نہیں تو میں خود بخود تباہ ہوجاؤں گا اور تم آسودگی سے زندگی بسر کرو گے.میں خدا کا نشان پیش کرتا ہوں ذرا دانتوں میں زبان لو کہ خدا کا عذاب آنے والا ہے مجازی گورنمنٹ کے ساتھ جو آدمی زیادہ قیل و قال کرتا ہے وہ بھی پکڑا جاتا ہے.میں نے جو کچھ پیش کرنا تھا وہ پیش کر دیا.تواتر پیش کر دیا.خدا اور رسول کا کلام پیش کیا.نشانات تائید و نصرت پیش کئے اب خدا کا وعدہ ہے کہ تکذیب کرنے والوں پر میں عذاب کی مار ماروں گا.تھوڑے دن صبر کرو اگر خدا سچا ہے اور میں اس کی طرف سے ہوں تو عنقریب تم لوگوں کومعلوم ہوجائے گا.۱ لیکچر لدھیانہ (جو حضور علیہ السلام نے ۴؍ نومبر ۱۹۰۵ء کو ہزاروں آدمیوں کی موجودگی میں دیا) دلائل صداقت اوّل میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوںجس نے مجھے یہ موقع دیا کہ میں پھر اس شہر میں تبلیغ کرنے کے لئے آؤں.میں اسی شہر میں ۱۴ برس کے بعد آیا ۱بدر جلد ۱ نمبر ۳۶ مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۵

Page 67

ہوں.اور میں ایسے وقت اِس شہر سے گیا تھا جبکہ میرے ساتھ چند آدمی تھے اور تکفیر تکذیب اور دجّال کہنے کا بازار گرم تھا.اور میں لوگوں کی نظرمیں اس انسان کی طرح تھا جو مطرود اور مخذول ہوتا ہے.اور ان لوگوں کے خیال میں تھا کہ تھوڑے ہی دنوں میں یہ جماعت مردود ہو کر منتشر ہو جائے گی اور اس سلسلہ کا نام نشان مٹ جائے گا چنانچہ اس غرض کےلئے بڑی بڑی کوششیں اور منصوبے کئے گئے اور ایک بڑی بھاری سازش میرے خلاف یہ کی گئی کہ مجھ اور میری جماعت پر کفر کا فتویٰ لکھا گیا اور سارے ہندوستان میں اس فتویٰ کو پھرایا گیا.میں افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ سب سے اوّل مجھ پر کفر کا فتویٰ اسی شہر کے چند مولویوں نے دیا مگر میں دیکھتا ہوں اور آپ دیکھتے ہیں کہ وہ کافر کہنے والے موجود نہیں اور خدا تعالیٰ نے مجھے اب تک زندہ رکھا اور میری جماعت کو بڑھایا.میرا خیال ہے کہ وہ فتویٰ کفر جو دوبارہ میرے خلاف تجویز ہوا اسے ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں پھرایا گیا.اور دو سو کے قریب مولویوں اور مشائخوں کی گواہیاں اورمہریں اس پر کرائی گئیں اس میں ظاہر کیا گیا کہ یہ شخص بے ایمان ہے، کافر ہے، دجال ہے، مفتری ہے، کافر ہے بلکہ اَکْفَر ہے.غرض جوجو کچھ کسی سے ہو سکا میری نسبت اس نے کہا اور ان لوگوں نے اپنے خیال میں سمجھ لیا کہ بس یہ ہتھیار اب سلسلہ کو ختم کردے گا.اور فی الحقیقت اگر یہ سلسلہ انسانی منصوبہ اور افترا ہوتاتو اس کے ہلاک کرنے کے لئے یہ فتوے کا ہتھیار بہت ہی زبردست تھا لیکن اس کو خدا نے قائم کیا تھا.پھروہ مخالفوں کی مخالفت اور عداوت سے کیونکر مر سکتا تھا.جس قدر مخالفت میں شدّت ہوتی گئی اسی قدر اس سلسلہ کی عظمت اور عزت دلوں میں جڑ پکڑتی گئی.اور آج میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ یا تو وہ زمانہ تھا کہ جب میں اس شہر میں آیا اور یہاں سے گیا تو صرف چند آدمی میرے ساتھ تھے.اور میری جماعت کی تعداد نہایت ہی قلیل تھی اور یا اب وہ وقت ہے کہ تم دیکھتے ہو کہ ایک کثیر جماعت میرے ساتھ ہے اور جماعت کی تعداد تین لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور دن بدن ترقی ہورہی ہے اور یقیناً کڑوڑوں تک پہنچے گی.پس اس انقلابِ عظیم کو دیکھو کہ کیا یہ انسانی ہاتھ کا کام ہو سکتا ہے؟ دنیا کے لوگوں نے تو چاہا کہ اس سلسلہ کا نام و نشان مٹا دیں اور اگر ان کے اختیار میں ہوتا تو وہ کبھی کا اس کو مٹا چکے ہوتے مگر یہ

Page 68

للہ تعالیٰ کا کام ہے وہ جن باتوں کا ارادہ فرماتا ہے دنیا ان کو روک نہیں سکتی اور جن باتوں کا دنیا ارادہ کرے مگر خدا تعالیٰ ان کا ارادہ نہ کرے وہ کبھی ہو نہیں سکتی ہیں.غور کرو! میرے معاملہ میں کل علماء اور پیر زادے اور گدی نشین مخالف ہوئے اور دوسرے مذہب کے لوگوں کو بھی میری مخالفت کے لیے اپنے ساتھ ملایا.پھر میری نسبت ہر طرح کی کوشش کی مسلمانوں کوبدظن کرنے کے لئے مجھ پر کفر کا فتویٰ دیا اور پھر جب اس تجویز میں بھی کامیابی نہ ہوئی تو پھرمقدمات شروع کئے.خون کے مقدمے میں مجھے پھنسایا اور ہر طرح کی کوششیں کیں کہ میں سزا پا جاؤں.ایک پادری کے قتل کا الزام مجھ پر لگایا گیا.اس مقدمے میں مولوی محمد حسین نے بھی میرے خلاف بڑی کوشش کی اور خود شہادت دینے کے واسطے گیا.وہ چاہتا تھا کہ میں پھنس جاؤں اور مجھے سزا ملے.مولوی محمد حسین کی یہ کوشش ظاہر کرتی تھی کہ وہ دلائل اور براہین سے عاجز ہے اس لئے کہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب دشمن دلائل سے عاجز ہو جاتا ہے اور براہین سے ملزم نہیں کرسکتا تو ایذا قتل کی تجویزیں کرتا ہے اور وطن سے نکال دینے کا ارادہ کرتا ہے اوراس کے خلاف مختلف قسم کے منصوبے اور سازشیں کرتا ہے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں جب کفّار مکہ عاجز آگئے اور ہر طرح سے ساکت ہوگئے تو آخر انہوں نے بھی اس قسم کے حیلے سوچے کہ آپ کو قتل کر دیں یا قید کریں یا آپ کووطن سے نکال دیا جاوے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو ایذائیں دیں مگر آخر وہ سب کے سب اپنے ارادوں اور منصوبوں میں نامراد اور ناکام رہے.اب وہی سنّت اور طریق میرے ساتھ ہورہا ہے مگر یہ دنیا بغیر خالق اور ربّ العالمین کے ہستی نہیں رکھتی.وہی ہے جو جھوٹے اور سچے میں امتیاز کرتا ہے اور آخر سچے کی حمایت کرتا اور اُسے غالب کر کے دکھادیتا ہے.اب اس زمانہ میں جب خدا تعالیٰ نے پھر اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا ہے.میں اس کی تائیدوں کا ایک زندہ نشان ہوں اور اس وقت تم سب کے سب دیکھتے ہو کہ میں وہی ہوں جس کو قوم نے ردّ کیا اور میں مقبولوں کی طرح کھڑا ہوں.تم قیاس کرو کہ اس وقت آج سے چودہ برس پیشتر جب میں یہاں آیا تھا تو کون چاہتا تھا کہ ایک آدمی بھی میرے ساتھ ہو.علماء، فقراء اور ہر قسم کے معظم مکرم لوگ یہ چاہتے تھے کہ میں ہلاک ہو جاؤں اور اس سلسلہ کا نام و نشان مٹ جاوے وہ کبھی

Page 69

گوارا نہیں کرتے تھے کہ ترقیات نصیب ہوں مگر وہ خدا جو ہمیشہ اپنے بندوں کی حمایت کرتا ہے اور جس نے راستبازوں کو غالب کر کے دکھایا ہے اُس نے میری حمایت کی اور میرے مخالفوں کے خلاف ان کی اُمیدوں اورمنصوبوں کے بالکل برعکس اُس نے مجھے وہ قبولیت بخشی کہ ایک َخلق کو میری طرف متوجہ کیا جو ان مخالفتوں اور مشکلات کے پردوں اور روکوں کو چیرتی ہوئی میری طرف آئی اور آرہی ہے.اب غور کا مقام ہے کہ کیا انسانی تجویزوں اور منصوبوں سے یہ کامیابی ہو سکتی ہے کہ دنیا کے بارسوخ لوگ ایک شخص کی ہلاکت کی فکر میں ہوں اور اس کے خلاف ہر قسم کے منصوبے کئے جاویں اس کے لئے خطرناک آگ جلائی جاوے مگر وہ ان سب آفتوں سے صاف نکل جاوے؟ ہرگز نہیں! یہ خدا کے کام ہیں جو ہمیشہ اس نے دکھائے ہیں.پھر اسی امر پر زبردست دلیل یہ ہے کہ آج سے ۲۵ برس پیشتر جبکہ کوئی بھی میرے نام سے واقف نہ تھا اور نہ کوئی شخص قادیان میں میرے پاس آتاتھا یا خط و کتابت رکھتا تھا اس گمنامی کی حالت میں ان کس مپرسی کے ایّام میں اللہ تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.لَا تُصَعِّرْ لِـخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ.رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْـرُالْوَارِثِیْنَ.یہ وہ زبردست پیشگوئی ہے جو ان ایّام میں کی گئی اور چھپ کر شائع ہوگئی.اور ہر مذہب و ملّت کے لوگوں نے اسے پڑھا.ایسی حالت اور ایسے وقت میں کہ میں گمنامی کے گوشہ میں پڑا ہوا تھا اور کوئی شخص مجھے نہ جانتا تھا خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرے پاس دور دراز ملکوں سے لوگ آئیں گے اور کثرت سے آئیں گے اور اُن کے لئے مہمانداری کے ہر قسم کے سامان اور لوازمات بھی آئیں گے.چونکہ ایک شخص ہزاروں لاکھوں انسانوں کو مہمانداری کے جمیع لوازمات مہیّا نہیں کر سکتا اور نہ اس قدر اخراجات کو برداشت کر سکتا ہے اس لئے خود ہی فرمایا یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ اُن کے سامان بھی ساتھ ہی آئیںگے اور پھر انسان کثرت مخلوقات سے گھبرا جاتا ہے اور ان سے کج خلقی کر بیٹھتا ہے.اس لئے اِس سے منع کیا کہ ان سے کج خلقی نہ کرنا.اور پھر یہ بھی فرمایا کہ لوگوں کی کثرت کو دیکھ کر تھک نہ جانا.

Page 70

اب آپ غور کریں کہ کیا یہ امر انسانی طاقت کے اندر ہے کہ پچیس تیس برس پہلے ایک واقعہ کی اطلاع دے.اور وہ بھی اسی کے متعلق اور پھر اسی طرح پر وقوع بھی ہو جاوے.انسانی ہستی اور زندگی کا تو ایک منٹ کا بھی اعتبار نہیں اور نہیں کہہ سکتے کہ دوسرا سانس آئے گا یا نہیں.پھر ایسی خبر دینا یہ کیونکر اس کی طاقت اور قیاس میں آسکتا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ میں بالکل اکیلا تھا اور لوگوں سے ملنے سے بھی مجھے نفرت تھی اور چونکہ ایک وقت آنے والا تھا کہ لاکھوں انسان میری طرف رجوع کریں اس لئے اس نصیحت کی ضرورت پڑی لَا تُصَعِّرْ لِـخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ.اور پھر انہیں دنوں میں یہ بھی فرمایا.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْـزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ.فَـحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ.یعنی وہ وقت آتا ہے کہ تیری مدد کی جاوے گی اور تو لوگوں کے درمیان شناخت کیا جاوے گا.اسی طرح پرفارسی.عربی اور انگریزی میں کثرت سے ایسے الہامات ہیں جو اس مضمون کو ظاہر کرتے ہیں.اب سوچنے کا مقام ہے ان لوگوں کے لئے جو خدا کا خوف رکھتے ہیں کہ اس قدر عرصہ دراز پیشتر ایک پیشگوئی کی گئی اور وہ کتاب میں چھپ کر شائع ہوئی.براہین احمدیہ ایسی کتاب ہے جس کو دوست دشمن سب نے پڑھا.گورنمنٹ میں بھی اس کی کاپی بھیجی گئی.عیسائیوں ہندوؤں نے اسے پڑھا.اس شہر میں بھی بہتوں کے پاس یہ کتاب ہوگی وہ دیکھیں کہ اس میں درج ہے یا نہیں؟ پھر وہ مولوی (جو محض عداوت کی راہ سے مجھے دجّال اور کذّاب کہتے ہیں اور یہ بیان کرتے ہیں کہ کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی) شرم کریں اور بتائیں کہ اگر یہ پیشگوئی نہیں تو پھر اور پیشگوئی کس کو کہتے ہیں؟ یہ وہ کتاب ہے جس کا ریویو مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی نے کیا ہے.چونکہ وہ میرے ہم سبق تھے اس لئے اکثر قادیان آیا کرتے تھے.وہ خوب جانتے ہیں.اور ایسا ہی قادیان، بٹالہ، امرتسر میں اور گرد نواح کے لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ اس وقت میں بالکل اکیلا تھا اور کوئی مجھے جانتا نہ تھا.اور اس وقت کی حالت سے عند العقل دور ا ز قیاس معلوم ہوتا تھا کہ میرے جیسے ایک گمنام آدمی پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لاکھوں آدمی اس کے

Page 71

ساتھ ہو جائیں گے.میں سچ کہتا ہوں کہ میں اس وقت کچھ بھی نہ تھا.تنہا و بے کس تھا.خود اللہ تعالیٰ اس زمانہ میں مجھے یہ دعا سکھاتا ہے.رَبِّ لَا تَذَرْنِيْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ.یہ دعا اِس نے سکھائی کہ وہ پیار رکھتا ہے اُن لوگوں سے جو دعا کرتے ہیں.کیونکہ دعا عبادت ہے اور اس نے فرمایا ہے.اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن:۶۱) دعا کرو میں قبول کروںگا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مغز اور مُخ عبادت کا دعا ہی ہے.اور دوسرا اشارہ اس میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دعا کے پیرایہ میں سکھانا چاہتا ہے کہ تو اکیلا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ تو اکیلا نہ رہے گا.اور میں پکار کر کہتا ہوں کہ جیسا یہ دن روشن ہے۱ اِسی طرح یہ پیشگوئی روشن ہے اور یہ امر واقعی ہے کہ میں اس وقت اکیلا تھا.کون کھڑا ہو کر کہہ سکتا ہے کہ تیرے ساتھ جماعت تھی.مگر اب دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کے موافق اور اس پیشگوئی کے موافق جو اس نے ایک زمانہ پہلے خبر دی.ایک کثیر جماعت میرے ساتھ کردی.۲ ایسی حالت اور صورت میں اس عظیم الشان پیشگوئی کو کون جھٹلا سکتا ہے.پھر جبکہ اسی کتاب میں یہ پیشگوئی بھی موجود ہے کہ لوگ خطرناک طور پر مخالفت کریں گے اور اس جماعت کو روکنے کے لئے ہر قسم کی کوششیں کریںگے مگر میں ان سب کو نامراد کروںگا.پھر براہین احمدیہ میںیہ بھی پیشگوئی کی گئی تھی کہ جب تک پاک پلید میں فرق نہ کرلوںگا نہیں چھوڑوں گا.ان واقعات کو پیش کر کے ان لوگوں کو مخاطب نہیں کرتا جن کے دلوں میں خدا کا خوف نہیں اور جو گویا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے مرنا ہی نہیں وہ خدا تعالیٰ کے کلام میں تحریف کرتے ہیں بلکہ میں ان لوگوں کو مخاطب کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ مرنا ہے اور موت کے دروازے قریب ہورہے ہیں اس لئے کہ خدا سے ڈرنے والا ایسا گستاخ نہیں ہو سکتا.وہ غور کریں کہ کیا ۲۵ برس پیشتر ایسی پیشگوئی کرنا انسانی طاقت اور قیاس کا نتیجہ ہو سکتا ہے؟ پھر ایسی حالت میں کہ کوئی اسے جانتا بھی نہ ہو اور ساتھ ہی یہ پیشگوئی بھی ہو کہ لوگ مخالفت کریں گے مگر وہ نامراد رہیں اس وقت آفتاب نکلا ہوا تھا.ایڈیٹر ۲ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۱ مورخہ ۱۰؍ ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۸،۹

Page 72

گے مخالفوں کے نامراد رہنے اور اپنے بامراد ہو جانے کی پیشگوئی کرنا ایک خارق عادت امر ہے اگر اس کے ماننے میں کوئی شک ہے تو پھر نظیر پیش کرو.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ حضرت آدم سے لے کر اس وقت تک کے کسی مفتری کی نظیر دو جس نے ۲۵ برس پیشتر اپنی گمنامی کی حالت میں ایسی پیشگوئیاں کی ہوں اور وہ یوں روزروشن کی طرح پوری ہو گئی ہوں.اگر کوئی شخص ایسی نظیر پیش کردے تو یقیناً یاد رکھو کہ یہ سارا سلسلہ اور کاروبار باطل ہو جائے گا.مگر اللہ تعالیٰ کے کاروبار کو کون باطل کر سکتا ہے؟ یوں تکذیب کرنا اور بلاوجہ معقول انکار اور استہزا.یہ حرام زادے کا کام ہے کوئی حلال زادہ ایسی جرأت نہیں کر سکتا.میں اپنی سچائی کو اسی پر حصر کر سکتا ہوں اگر تم میں کوئی سلیم دل رکھتا ہو.خوب یاد رکھو کہ یہ پیشگوئی کبھی ردّ نہیں ہو سکتی جب تک اس کی نظیر پیش نہ کی جاوے.میں پھر کہتا ہوں کہ یہ پیشگوئی براہین احمدیہ میں موجود ہے جس کا ریویو مولوی ابوسعید نے لکھا ہے.اسی شہر میں مولوی محمد حسن اور منشی محمد عمر وغیرہ کے پاس ہوگی.اس کا نسخہ مکّہ، مدینہ، بخارا تک پہنچا.گورنمنٹ کے پاس اس کی کاپی بھیجی گئی.ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں، برہموؤں نے اسے پڑھا اور وہ کوئی گمنام کتاب نہیں بلکہ وہ شہرت یافتہ کتاب ہے کوئی پڑھا لکھا آدمی جو مذہبی مذاق رکھتا ہو اس سے بے خبر نہیں ہے.پھر اس کتاب میں یہ پیشگوئی لکھی ہوئی موجود ہے کہ ایک دنیا تیرے ساتھ ہو جائے گی.دنیا میں تجھے شہرت دوںگا.تیرے مخالفوں کو نامراد رکھوںگا.اب بتاؤ کہ کیا یہ کام کسی مفتری کا ہو سکتا ہے؟ اگر تم یہی فیصلہ دیتے ہو کہ ہاں یہ مفتری کا کام ہو سکتا ہے تو پھر اس کے لئے نظیر پیش کرو.اگر نظیر دکھادو.تو میں تسلیم کرلوںگا کہ میں جھوٹا ہوں مگر کوئی نہیں جو اس کی نظیر دکھا سکے.اور اگر تم اس کی نظیر نہ پیش کر سکو اور یقیناً نہیں کرسکو گے تو پھر میں تمہیںیہی کہتا ہوں کہ خدا سے ڈرو اور تکذیب سے باز آؤ.یاد رکھو! خدا تعالیٰ کے نشانات کو بدوں کسی سند کے ردّ کرنا دانشمندی نہیں اور نہ اس کا انجام کبھی بابرکت ہوا ہے.میں تو کسی کی تکذیب یا تکفیر کی پروا نہیں کرتا اور نہ ان حملوں سے ڈرتا ہوں جو مجھ پر کئے جاتے ہیں اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے آپ ہی مجھے قبل از وقت بتا دیا تھا کہ تکذیب اور تکفیر ہوگی اور خطرناک

Page 73

مخالفت یہ لوگ کریںگے مگر کچھ بگاڑنہ سکیں گے.کیا مجھ سے پیشتر راستبازوں اور خدا کے ماموروں کو ردّ نہیں کیا گیا؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر فرعون اور فرعونیوں نے.حضرت مسیح علیہ السلام پر فقیہو ں نے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مشرکین مکّہ نے کیا کیا حملے نہیں کئے مگر ان حملوں کا انجام کیا ہوا؟ ان مخالفوں نے ان نشانات کے مقابلہ میں کبھی کوئی نظیر پیش کی؟ کبھی نہیں.نظیر پیش کرنے سے تو ہمیشہ عاجز رہے.ہاں زبانیں چلتی تھیں اس لئے وہ کذّاب کہتے رہے.اسی طرح پر یہاں بھی جب عاجز آگئے تو اور تو کچھ نہ پیش گئی دجّال کذّاب کہہ دیا.مگر ان منہ کی پھونکوں سے کیا یہ خدا تعالیٰ کے نور بجھا دیںگے؟ کبھی نہیں بجھا سکتے.وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ(الصّف:۹) دوسرے خوارق اور نشانات کو وہ لوگ جو بدظنّی کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں کہہ دیتے ہیں کہ شاید دست بازی ہو مگر پیشگوئی میں انہیں کوئی عذر اور باقی نہیں رہتا اِس لئے نشانات نبوت میں عظیم الشان نشان اور معجزہ پیشگوئیوں کو قرار دیا گیا ہے.یہ امر تو ریت سے بھی ثابت ہے اور قرآن مجید سے بھی.پیشگوئیوں کے برابر کوئی معجزہ نہیں.اس لئے خدا تعالیٰ کے ماموروں کو ان کی پیشگوئیوں سے شناخت کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نشان مقرر کر دیا ہے لَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ(الـجنّ:۲۷) یعنی اللہ تعالیٰ کے غیب کا کسی پر ظہور نہیں ہوتا مگر اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسولوں پر ہوتا ہے.پھر یہ بھی یاد رہے کہ بعض پیشگوئیاں باریک اسرار اپنے اندر رکھتی ہیں اور دقیق امور کی وجہ سے ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی ہیں جو دُور بین آنکھیں نہیں رکھتے اور موٹی موٹی باتوں کو صرف سمجھ سکتے ہیں.ایسی ہی پیشگوئیوں پر عموماًتکذیب ہوتی ہے اور جلد باز اور شتاب کار کہہ اُٹھتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں.اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْا (یوسف:۱۱۱) ان پیشگوئیوں میں لوگ شبہات پیدا کرتے ہیں.مگر فی الحقیقت وہ پیشگوئیاں خدا تعالیٰ کے سُنن کے ماتحت پوری ہوجاتی ہیں.تا ہم اگر وہ سمجھ میں نہ بھی آئیں تو مومن اور خدا ترس انسان کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ ان پیشگوئیوں پر نظر کرے جن میں دقائق نہیں.یعنی جو موٹی موٹی پیشگوئیاں ہیں.پھر دیکھے کہ وہ کس قدر

Page 74

تعداد میں پوری ہو چکی ہیں.یونہی منہ سے انکار کر دینا تقویٰ کے خلاف ہے.دیانت اور خدا ترسی سے ان پیشگوئیوں کو دیکھنا چاہیے جو پوری ہو چکی ہیں.مگر جلد بازوں کا منہ کون بند کرے؟ اس قسم کے امور مجھے ہی پیش نہیں آئے حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پیش آئے.پھر اگر یہ امر مجھے بھی پیش آوے تو تعجب نہیں.بلکہ ضرور تھا کہ ایسا ہوتا کیونکہ سنّت اللہ یہی تھی.میں کہتا ہوں کہ مومن کے لئے تو ایک شہادت بھی کافی ہے.اسی سے اس کا دل کانپ جاتا ہے.مگر یہاں تو ایک نہیں صدہا نشان موجود ہیں بلکہ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اس قدر ہیں کہ میں انہیں گِن نہیں سکتا.یہ شہادت تھوڑی نہیں کہ دلوں کو فتح کرلے گا.مکذبوں کو موافق بنا لے گا.اگر کوئی خدا کا خوف کرے اور دل میں دیانت اور دُور اندیشی سے سوچے تو اُسے بے اختیار ہوکر ماننا پڑے گا کہ یہ خدا کی طرف سے ہیں.پھر یہ بھی ظاہر بات ہے کہ مخالف جب تک ردّ نہ کرے اور اس کی نظیر پیش نہ کرے خدا کی حجت غالب ہے.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ میں اسی خدا کا شکر کرتا ہوں جس نے مجھے بھیجا ہے اور باوجود اس شر اور طوفان کے جو مجھ پر اٹھا اور جس کی جڑ اور ابتدا اسی شہر سے اٹھی اور پھر دلّی تک پہنچی مگر اس نے تمام طوفانوں اور ابتلاؤں میں مجھے صحیح سالم اور کامیاب نکالا.اور مجھے ایسی حالت میں اس شہر میں لایا کہ تین لاکھ سے زیادہ زن ومرد میرے مبایعین میں داخل ہیں اور کوئی مہینا نہیں گزرتا جس میں دو ہزار، چار ہزار، بعض اوقات پانچ پانچ ہزار اس سلسلہ میں داخل نہ ہوتے ہوں.پھر اس خدا نے ایسے وقت میں میری دستگیری کی کہ جب قوم ہی دشمن ہوگئی جب کسی شخص کی دشمن اس کی قوم ہی ہو جاوے تو وہ بڑا بے کس اور بڑا بے دست و پا ہوتا ہے.کیونکہ قوم ہی تو دست و پا اور جوارح ہوتی ہے.وہی اس کی مدد کرتی ہے.دوسرے لوگ تو دشمن ہوتے ہی ہیں کہ ہمارے مذہب پر حملہ کرتا ہے لیکن جب اپنی قوم بھی دشمن ہو تو پھر بچ جانا اور کامیاب ہو جانا معمولی بات نہیں بلکہ یہ ایک زبردست نشان ہے.

Page 75

قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میرا عقیدہ ہے میں نہایت افسوس اور درد دل سے یہ بات کہتا ہوں کہ قوم نے میری مخالفت میں نہ صرف جلدی کی بلکہ بہت بے دردی بھی کی.صرف ایک مسئلہ وفاتِ مسیح کا اختلاف تھا جس کو میں قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت.صحابہؓ کے اجماع اور عقلی دلائل اور کتب سابقہ سے ثابت کرتا تھا اور کرتا ہوں.اور حنفی مذہب کے موافق نص، حدیث، قیاس، دلائل شرعیہ میرے ساتھ تھیں مگر ان لوگوں نے قبل اس کے کہ وہ پورے طور پر مجھ سے پوچھ لیتے اور میرے دلائل کو سُن لیتے اِس مسئلہ کی مخالفت میں یہاں تک غلو کیا کہ مجھے کافر ٹھہرایا گیا.اور اس کے ساتھ اور بھی جو چاہا کہا اور میرے ذمّہ لگایا.دیانت نکو کاری اور تقویٰ کا تقاضا یہ تھا کہ پہلے مجھ سے پوچھ لیتے.اگر میں قال اللہ اور قال الرسول سے تجاوز کرتا تو پھر بے شک انہیں اختیار اورحق تھا کہ وہ مجھے جو چاہتے کہتے دجّال کذّاب وغیرہ.لیکن جبکہ میںابتدا سے بیان کرتا آیا ہوں کہ میں قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ذرا اِدھر اُدھر ہونا بے ایمانی سمجھتا ہوں.میرا عقیدہ یہی ہے کہ جو اس کو ذرا بھی چھوڑے گا وہ جہنمی ہے.پھر اس عقیدہ کو نہ صرف تقریروں میں بلکہ ساٹھ کے قریب اپنی تصنیفات میں بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے اور دن رات مجھے یہی فکر اور خیال رہتا ہے.پھر اگر یہ مخالف خدا سے ڈرتے تو کیا ان کا فرض نہ تھاجو مجھ سے پوچھتے کہ فلاں بات خارج از اسلام کی ہے اس کی کیا وجہ ہے یا اس کا تم کیا جواب دیتے ہو؟ مگر نہیں.اِس کی ذرا بھی پروا نہیںکی.سُنا اور کافر کہہ دیا.میں نہایت تعجب سے ان کی اس حرکت کو دیکھتا ہوں.کیونکہ اوّل تو حیات وفات مسیح کا مسئلہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو اسلام میں داخل ہونے کے لئے شرط ہو.یہاں بھی ہندو یا عیسائی مسلمان ہوتے ہیں مگر بتاؤ کہ کیا اُس سے یہ اقرار بھی لیتے ہو؟ بجز اس کے کہ اٰمَنْتُ بِاللہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَ الْقَدْرِ خَیْـرِہٖ وَشَـرِّہٖ مِنَ اللہِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ.جبکہ یہ مسئلہ اسلام کی جزو نہیں پھر مجھ پر وفات مسیح کے اعلان سے اِس قدر تشدّد کیوں کیا گیا کہ یہ کافر ہیں دجّال ہیں ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جاوے.اِن کے مال لُوٹ

Page 76

لینے جائز ہیں اور ان کی عورتوں کو بغیر نکاح گھر میں رکھ لینا درست ہے.ان کو قتل کر دینا ثواب کا کام ہے وغیرہ وغیرہ.ایک تو وہ زمانہ تھا کہ یہی مولوی شور مچاتے تھے کہ اگر ۹۹ وجوہ کفر کے ہوں اور ایک وجہ اسلام کی ہو تب بھی کفر کا فتویٰ نہ دینا چاہیے اس کو مسلمان ہی کہو.مگر اب کیا ہوگیا.کیا میں اس سے بھی گیا گزرا ہوگیا؟ کیا میں اور میری جماعت اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُـحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ نہیں پڑھتی؟ کیا میں نمازیں نہیں پڑھتا یا میرے مرید نہیں پڑھتے؟ کیا ہم رمضان کے روزے نہیں رکھتے؟ اور کیا ہم اُن تمام عقائد کے پابند نہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی صورت میں تلقین کئے ہیں؟ میں سچ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اور میری جماعت مسلمان ہے.اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر اُسی طرح ایمان لاتی ہے جس طرح پر ایک سچے مسلمان کو لانا چاہیے.میں ایک ذرّہ بھی اسلام سے باہر قدم رکھنا ہلاکت کا موجب یقین کرتا ہوں اور میرا یہی مذہب ہے کہ جس قدر فیوض اور برکات کوئی شخص حاصل کر سکتا ہے اور جس قدر تَقَرُّب اِلَی اللہ پا سکتا ہے وہ صرف صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اطاعت اور کامل محبت سے پا سکتا ہے ورنہ نہیں.آپ کے سوا اب کوئی راہ نیکی کی نہیں.عقیدہ حیاتِ مسیح میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے ہاں یہ بھی سچ ہے کہ میں ہرگز یقین نہیں کرتا کہ مسیح علیہ السلام اِسی جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر گئے ہوں.اور اب تک زندہ قائم ہوں.اس لئے کہ اِس مسئلہ کو مان کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت توہین اور بے حرمتی ہوتی ہے.میں ایک لحظہ کے لیے اس ہجو کو گوارا نہیں کر سکتا.سب کو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶۳ سال کی عمر میں وفات پائی اور مدینہ طیّبہ میں آپ کا روضہ موجود ہے.ہر سال وہاں ہزاروں لاکھوں حاجی بھی جاتے ہیں.اب اگر مسیح علیہ السلام کی نسبت موت کا یقین کرنا یا موت کو ان کی طرف منسوب کرنا بے ادبی ہے تو پھر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ گستاخی اور بے ادبی کیوں یقین کرلی جاتی ہے؟ مگر تم بڑی خوشی سے کہہ دیتے ہو کہ آپ نے وفات پائی.مولود خواں بڑے خوش الحانی سے واقعات وفات کو ذکر کرتے ہیں.اور کفار کے

Page 77

مقابلہ میں بھی تم بڑی کشادہ پیشانی سے تسلیم کر لیتے ہو کہ آپ نے وفات پائی.پھر میں نہیں سمجھتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر کیا پتھر پڑتا ہے کہ نیلی پیلی آنکھیں کر لیتے ہو؟ ہمیں بھی رنج نہ ہوتا کہ اگر تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی وفات کا لفظ سُن کرایسے آنسو بہاتے.مگر افسوس تو یہ ہے کہ خاتم النبیین اور سرورِ عالم کی نسبت تو تم بڑی خوشی سے موت تسلیم کر لو.اور اُس شخص کی نسبت جو اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتی کا تسمہ کھولنے کے بھی قابل نہیں بتاتا، زندہ یقین کرتے ہو اور اس کی نسبت موت کا لفظ منہ سے نکالا اور تمہیں غضب آجاتا ہے.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اب تک زندہ رہتے تو ہرج نہ تھا.اس لئے کہ آپ وہ عظیم الشان ہدایت لے کر آئے تھے جس کی نظیر دنیا میں پائی نہیں جاتی.اور آپؐ نے وہ عملی حالتیں دکھائیں کہ آدم سے لے کر اس وقت تک کوئی ان کا نمونہ اور نظیر پیش نہیں کر سکتا.میں تم کو سچ سچ کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی ضرورت دنیا اور مسلمانوں کو تھی اس قدر ضرورت مسیح کے وجود کی نہیںتھی.پھر آپ کا وجود باجود وہ مبارک وجود ہے کہ جب آپ نے وفات پائی تو صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ وہ دیوانے ہوگئے.یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تلوار میان سے نکال لی اور کہا کہ اگر کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مُردہ کہے گا تو میں اُس کا سر جُدا کردوںگا.اس جوش کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو ایک خاص نور اور فراست عطا کی.انہوں نے سب کو اکٹھا کیا اور خطبہ پڑھا.مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ( اٰلِ عـمران:۱۴۵) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک رسول ہیں اور آپ سے پیشتر جس قدر رسول آئے وہ سب وفات پا چکے.اب آپ غور کریں اور سو چ کر بتائیں کہ حضرت ابوبکرصدیق نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر یہ آیت کیوں پڑھی تھی؟ اور اس سے آپ کا کیا مقصد اور منشا تھا؟ اور پھر ایسی حالت میں کہ کُل صحابہؓ موجود تھے.میں یقیناً کہتا ہوں اور آپ انکار نہیں کر سکتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی وجہ سے صحابہؓ کے دل پرسخت صدمہ تھا اور اس کو بے وقت اور قبل از وقت سمجھتے تھے.وہ پسند نہیں کر سکے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سُنیں ایسی حالت اور صورت میں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ

Page 78

جیسا جلیل القدر صحابی اس جوش کی حالت میں ہو اُن کا غصہ فرو نہیں ہو سکتا بجز اس کے کہ یہ آیت ان کی تسلّی کا موجب ہوتی.اگر انہیں یہ معلوم ہوتا یا یہ یقین ہوتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو وہ تو زندہ ہی مر جاتے.وہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشّاق تھے اور آپ کی حیات کے سوا کسی اور کی حیات کو گوارا ہی نہ کر سکتے تھے.پھر کیونکر اپنی آنکھوں کے سامنے آپ کو وفات یافتہ دیکھتے اور مسیح کو زندہ یقین کرتے.یعنی جب حضرت ابوبکر نے خطبہ پڑھا تو اُن کا جوش فرو ہوگیا اس وقت صحابہؓ مدینہ کی گلیوں میں یہ آیت پڑھتے پھرتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ گویا یہ آیت آج ہی اُتری ہے.اُس وقت حسّان بن ثابت نے ایک مرثیہ لکھا جس میں انہوں نے کہا کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیْ عَلَیکَ النَّاظِرٗ مَنْ شَائَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ چونکہ مذکورہ بالا آیت نے بتا دیا تھا کہ سب مر گئے اس لئے حسّان نے بھی کہہ دیا کہ اب کسی کی موت کی پروا نہیں.یقیناً سمجھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کسی کی زندگی صحابہؓ پر سخت شاق تھی اور وہ ان کو گوارا نہیں کر سکتے تھے.اس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر یہ پہلا اجماع تھا جو دنیا میں ہوا اور اس میں حضرت مسیح کی وفات کا بھی کُلّی فیصلہ ہو چکا تھا.میں بار بار اس امرمیںاس لئے زور دیتا ہوں کہ یہ دلیل بڑی ہی زبردست دلیل ہے جس سے مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کوئی معمولی اور چھوٹا امر نہ تھا جس کا صدمہ صحابہؓ کو نہ ہوا ہو.ایک گاؤں کا نمبردار یا محلہ دار یا گھر کا کوئی عمدہ آدمی مر جاوے تو گھر والوں، محلہ والوں یا دیہات والوں کو صدمہ ہوتا ہے پھر وہ نبی جو کل دنیا کے لئے آیا تھا اور رحمۃ للعالمین ہو کر آیا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا ہے وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ(الانبیاء:۱۰۸) اور پھر دوسری جگہ فرمایا قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا (الاعراف:۱۵۹) پھر وہ نبی جس نے صدق اور وفا کا نمونہ دکھایا اور وہ کمالات دکھائے کہ جن کی نظیر نظر نہیں آتی وہ فوت ہو جاوے اور اس کے ان جان نثار متبعین پر اثر نہ پڑے جنہوں نے اس کی خاطر جانیں دے دینے

Page 79

سے دریغ نہ کیا.جنہوں نے وطن چھوڑا، خویش و اقارب چھوڑے اور اس کے لئے ہر قسم کی تکلیفوں اور مشکلات کو اپنے لئے راحت جان سمجھا.ایک ذرا سے فکرا ور توجہ سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ جس قدر بھی دکھ اور تکلیف انہیں اس خیال کے تصور سے ہو سکتا ہے اس کا اندازہ اور قیاس ہم نہیں کر سکتے.ان کی تسلّی اور تسکین کا موجب یہی آیت تھی کہ حضرت ابوبکرؓ نے پڑھی.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے کہ انہوں نے ایسے نازک وقت میں صحابہ کو سنبھالا.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض نادان اپنی جلد بازی اور شتاب کاری کی وجہ سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ آیت تو بیشک حضرت ابوبکرؓ نے پڑھی لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اِس سے باہر رہ جاتے ہیں.میں نہیں جانتا کہ ایسے نادانوں کو میں کیا کہوں.وہ باوجود مولوی کہلانے کے ایسی بےہودہ باتیں پیش کر دیتے ہیں وہ نہیں بتاتے کہ اس آیت میں وہ کونسا لفظ ہے جو حضرت عیسیٰ کو الگ کرتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے تو کوئی امر قابلِ بحث اس میںچھوڑا ہی نہیں.قَدْ خَلَتْ کے معنے خود ہی کر دیئےاَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ ( اٰلِ عـمران:۱۴۵) اگر کوئی تیسری شق بھی اس کے سوا ہوتی تو کیوں نہ کہہ دیتا اَوْ رُفِعَ بِـجَسَدِہِ الْعَنْصُـرِیِّ اِلَی السَّمَآءِ.کیا خدا تعالیٰ اس کو بھول گیا تھا جو یہ یاد دلاتے ہیں؟ نعوذ باللہ من ذالک اگر صرف یہی آیت ہوتی تب بھی کافی تھی.مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو انہیں ایسی محبوب اور پیاری تھی کہ اب تک آپ کی وفات کا ذکر کر کے یہ لوگ بھی روتے ہیں.پھر صحابہؓ کے لیے تو اور بھی درد اور رقّت اس وقت پیدا ہوگئی تھی.میرے نزدیک مومن وہی ہوتا ہے جو آپؐکی اتباع کرتا ہے اور وہی کسی مقام پر پہنچتا ہے.جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ( اٰلِ عـمران:۳۲) یعنی کہہ دو کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کو محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو تاکہ اللہ تمہیں اپنا محبوب بنالے.اب محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ محبوب کے فعل کے ساتھ خاص موانست ہو.اور مرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے.آپ نے مَرکر دکھا دیا.پھر کون ہے جو زندہ رہے یا زندہ رہنے کی آرزو کرے یا کسی اور کے لیے تجویز کرے کہ وہ زندہ رہے؟

Page 80

محبت کا تقاضا تو یہی ہے کہ آپ کی اتباع میں ایسا گم ہو کہ اپنے جذبات نفس کو تھام لے اور یہ سوچ لے کہ میں کسی کی اُمت ہوں.ایسی صورت میں جو شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ اب تک زندہ ہیں وہ کیونکر آپ کی محبت اور اتباع کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ اس لئے کہ آپ کی نسبت وہ گوارا کرتا ہے کہ مسیح کو افضل قرار دیا جاوے اور آپ کو مُردہ کہا جاوے مگر اُس کے لئے وہ پسند کرتا ہے کہ زندہ یقین کیا جاوے.۱ حیات مسیح کے عقیدہ کے نقصانات میں سچ سچ کہتا ہوں اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہتے تو ایک فرد بھی کافر نہ رہتا.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی نے کیا نتیجہ دکھایا؟ بجز اس کے کہ چالیس کروڑ عیسائی ہیں.غور کر کے دیکھو کہ کیا تم نے اس زندگی کے اعتقاد کو آزما نہیں لیا اور نتیجہ خطرناک نہیں ہوا؟ مسلمانوں کی کسی ایک قوم کا نام لو جس میں سے کوئی عیسائی نہ ہوا ہو مگر میں یقیناً کہہ سکتا ہوں اور یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر طبقہ کے مسلمان عیسائی ہو چکے ہیں.اور ایک لاکھ سے بھی ان کی تعداد زیادہ ہوگی.عیسائیوں کے ہاتھ میں مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے واسطے ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ یہی زندگی کا مسئلہ ہے.وہ کہتے ہیں کہ یہ خصوصیت کسی دوسرے میں ثابت کرو.اگر وہ خدا نہیں تو پھر کیوں اسے یہ خصوصیت دی گئی؟ وہ حیّ و قـیوم ہے (نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ) اس حیات کے مسئلہ نے ان کو دلیر کر دیا اور انہوں نے مسلمانوں پر وہ حملہ کیا جس کا نتیجہ میں تمہیں بتا چکا ہوں.اب اس کے مقابل پر اگر تم پادریوں پر یہ ثابت کردو کہ مسیح مر گیا ہے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ میں نے بڑے بڑے پادریوں سے پوچھا ہے.انہوں نے کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جاوے کہ مسیح مر گیا ہے تو ہمارا مذہب زندہ نہیں رہ سکتا.ایک اور غور طلب بات ہے کہ مسیح کی زندگی کے اعتقاد کا تو آپ لوگوں نے تجربہ کیا.اب ذرا اس کی موت کا بھی تجربہ کرو اور دیکھو کہ عیسائی مذہب پر اس اعتقاد سے کیا زد پڑتی ہے.جہاں کوئی لحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۲ مورخہ ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۶صفحہ۲،۳

Page 81

میرا مرید عیسائیوں سے اس مضمون پر گفتگو کرنے کو کھڑا ہوتا ہے وہ فوراً انکار کر دیتے ہیں.اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس راہ سے ان کی ہلاکت قریب ہے.موت کے مسئلہ سے نہ ان کا کفارہ ثابت ہو سکتا ہے اور نہ ان کی الوہیت اور ابنیت.پس اس مسئلہ کا تھوڑے دنوں تک تجربہ کرو پھر خود حقیقت کھل جاوے گی.مسئلہ وفاتِ مسیح، غلبہ اسلام اور کسر صلیب کا حربہ سنو! قرآن شریف اور احادیث میں یہ وعدہ تھا کہ اسلام پھیل جاوے گا.اور وہ دوسرے ادیان پر غالب آجائے گا اور کسرِ صلیب ہوگا.اب غور طلب امر یہ ہے کہ دنیا تو جائے اسباب ہے.ایک شخص بیمار ہو تو اس میں تو شک نہیں کہ شفا تو اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے لیکن اس کے لئے ادویات میں خواص بھی اُسی نے رکھ دیئے ہیں.جب کوئی دوا دی جاتی ہے تو وہ فائدہ کرتی ہے.پیاس لگتی ہے تو اُس کے بجھانے والا تو خدا ہے مگر اس کے لئے پانی بھی اُسی نے مقرر کیا ہے.اِسی طرح پر بھوک لگتی ہے تو اس کو دُور کرنے والا تو وہی ہے مگر غذا بھی اُسی نے مقرر کی ہے.اسی طرح پر غلبہ اسلام اور کسرِ صلیب تو ہوگا جو اس نے مقدّر کیا ہے لیکن اس کے لئے اس نے اسباب مقرر کئے ہیں اور ایک قانون مقرر کیا ہے.چنانچہ بالاتفاق یہ امر قرآن مجید اور احادیث کی بنا پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں جب عیسائیت کا غلبہ ہوگا اس وقت مسیح موعود کے ہاتھ پر اسلام کا غلبہ ہوگا اور وہ کل ادیان اور ملتوں پر اسلام کو غالب کر کے دکھادے گا اور دجّال کو قتل کرے گا.اور صلیب کو توڑ دے گا.اور وہ زمانہ آخری زمانہ ہوگا.نواب صدیق حسن خان اور دوسرے بزرگوں نے جنہوں نے آخر ی زمانہ کے متعلق کتابیں لکھی ہیں انہوں نے بھی اس امر کو تسلیم کیا ہے.اب اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے لئے بھی تو کوئی سبب اور ذریعہ ہوگا؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ وہ اسباب سے کام لیتا ہے.دواؤں سے شفا دیتا ہے اور اغذیہ اور پانی سے بھوک پیاس کودُور کرتا ہے.اسی طرح پر اب جبکہ عیسائی مذہب کا غلبہ ہوگیا ہے اور ہر طبقہ کے مسلمان اس گروہ میں داخل ہو چکے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اسلام کو اپنے وعدہ کے موافق غالب کرے اس

Page 82

کے لئے بہرحال کوئی ذریعہ اور سبب ہوگا اور وہ یہی موتِ مسیح کا حربہ ہے.اِس حربہ سے صلیبی مذہب پر موت وارد ہوگی اور ان کی کمریں ٹوٹ جاویں گی.میں سچ کہتا ہوں کہ اب عیسائی غلطیوں کے دُور کرنے کے لئے اس سے بڑھ کر کیا سبب ہو سکتا ہے کہ مسیح کی وفات ثابت کی جاوے.اپنے گھروں میں اس امر پر غور کریں اور تنہائی میں بستروں پر لیٹ کر سوچیں.مخالفت کی حالت میں تو جوش آتا ہے.سعید الفطرت آدمی پھر سوچ لیتا ہے.دہلی میں جب میں نے تقریر کی تھی تو سعید الفطرت انسانوں نے تسلیم کر لیا اور وہیں بول اُٹھے کہ بے شک حضرت عیسیٰ کی پرستش کا ستون ان کی زندگی ہے جب تک یہ نہ ٹوٹے اسلام کے لئے دروازہ نہیں کھلتا بلکہ عیسائیت کو اس سے مدد ملتی ہے.جو ان کی زندگی سے پیار کرتے ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ دو گواہوں کے ذریعہ سے پھانسی مل جاتی ہے مگر یہاں اس قدر شواہد موجود ہیں اور وہ بدستور انکار کرتے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ ( اٰلِ عـمران:۵۶) اور پھرحضرت مسیح کا اپنا اقرار اسی قرآن مجید میں موجود ہے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ(المائدۃ:۱۱۸) اور توفّی کے معنے موت بھی قرآن مجید ہی سے ثابت ہے.کیونکہ یہی لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی آیا ہے جیسا کہ فرمایا وَ اِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ۠(یونس:۴۷) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ کہا ہے جس کے معنی موت ہی ہیں.اور ایسا ہی حضرت یوسف اور دوسرے لوگوں کے لئے بھی یہی لفظ آیا ہے.پھر ایسی صورت میں اس کے کوئی اور معنے کیونکر ہو سکتے ہیں؟ یہ بڑی زبردست شہادت مسیح کی وفات پر ہے.اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں حضرت عیسیٰ کو مُردوں میںدیکھا.حدیث معراج کا تو کوئی انکار نہیں کر سکتا.اسے کھول کر دیکھ لو کہ کیا اس میں حضرت عیسیٰ کا ذکر مُردوں کے ساتھ آیا ہے یا کسی اور رنگ میں.جیسے آپ نے حضرت ابراہیم اور موسیٰ اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کو دیکھا اُسی طرح حضرت عیسیٰ کو دیکھا.اُن میں کوئی خصوصیت اور امتیاز نہ تھا.اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ حضرت موسیٰ اور ابراہیم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام وفات پاچکے ہیں اور

Page 83

قابض الارواح نے ان کو دوسرے عالَم میں پہنچا دیا ہے.پھران میں ایک شخص زندہ بجسدہ العنصری کیسے چلا گیا؟ یہ شہادتیں تھوڑی نہیں ہیں ایک سچے مسلمان کے لئے کافی ہیں.پھر دوسری احادیث میں حضرت عیسیٰ کی عمر ۱۲۰ یا ۱۲۵ برس کی قرار دی ہے.ان سب امور پر ایک جائی نظر کرنے کے بعد یہ امر تقویٰ کے خلاف تھا کہ جھٹ پٹ یہ فیصلہ کر دیا جاتا کہ مسیح زندہ آسمان پر چلا گیا ہے اور پھر اس کی کوئی نظیر بھی نہیں.عقل بھی یہی تجویز کرتی تھی مگر افسوس ان لوگوں نے ذرا بھی خیال نہ کیا.اور خدا ترسی سے کام نہ لے کر فوراً مجھے دجّال کہہ دیا.خیال کرنے کی بات ہے کہ کیا یہ تھوڑی سی بات تھی؟ افسوس! پھر جب کوئی عذر نہیں بن سکتا تو کہتے ہیں درمیانی زمانہ میں اجماع ہو چکا.میں کہتا ہوں کب؟ اصل اجماع تو صحابہؓ کا اجماع تھا.اگر اس کے بعد اجماع ہوا ہے تو اب ان مختلف فرقوں کو تواکٹھا کر کے دکھاؤ.میں سچ کہتا ہوں کہ یہ بالکل غلط بات ہے.مسیح کی زندگی پر کبھی اجماع نہیں ہوا.انہوں نے کتابوں کو نہیں پڑھا ورنہ انہیں معلوم ہوجاتا کہ صوفی موت کے قائل ہیں اور وہ ان کی دوبارہ آمد بروزی رنگ میں مانتے ہیں.غرض جیسے میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی ہے ویسے ہی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہوں کہ آپ ہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور آپ ہی کے فیضان اور برکات کا نتیجہ ہے جو یہ نصرتیں ہورہی ہیں.میں کھول کر کہتا ہوں اور یہی میرا عقیدہ اور مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اور نقش قدم پر چلنے کے بغیر انسان کوئی روحانی فیض اور فضل حاصل نہیں کرسکتا.حکومت کی امن پسندی، عدل اور مذہبی آزادی کی تعریف پھر اس کے ساتھ ہی ایک اور امر قابل ذکر ہے.اگر میں اس کا بیان نہ کروں تو ناشکری ہوگی.اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ایسی سلطنت اور حکومت میں پیدا کیا ہے جو ہر طرح سے امن دیتی ہے اور جس نے ہم کو اپنے مذہب کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے پوری آزادی دی ہے اور ہر قسم کے

Page 84

سامان اس مبارک عہد میں ہمیں میسّر ہیں.اس سے بڑھ کر اور کیا آزادی ہوگی کہ ہم عیسائی مذہب کی تردید زور شور سے کرتے ہیں اور کوئی نہیں پوچھتا مگر اس سے پہلے ایک زمانہ تھا اُس زمانہ کے دیکھنے والے بھی اب تک موجود ہیں.اُس وقت یہ حالت تھی کہ کوئی مسلمان اپنی مسجدوں میں اذان تک نہیں کہہ سکتا تھا.اور باتوں کا تو ذکر ہی کیا ہے.اورحلال چیزوں کے کھانے سے روکا جاتا تھا.کوئی باقاعدہ تحقیقات نہ ہوتی تھی مگر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ ہم ایک ایسی سلطنت کے نیچے ہیں جو ان تمام عیوب سے پاک ہے یعنی سلطنت انگریزی جو امن پسند ہے جس کو مذاہب کے اختلاف سے کوئی اعتراض نہیں.جس کا قانون ہے کہ ہر اہل مذہب آزادی سے اپنے مذہبی فرض ادا کرے.چونکہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ ہماری تبلیغ ہر جگہ پہنچ جاوے اس لئے اُس نے ہم کو اس سلطنت میں پیدا کیا جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نوشیرواں کے عہد سلطنت پرفخر کرتے تھے اسی طرح پر ہم کو اس سلطنت پر فخر ہے.یہ قاعدوئی بات ہے کہ مامور چونکہ عدل اور راستی لاتا ہے اس لئے اس سے پہلے کہ وہ مامور ہو کر آئے عدل اور راستی کااجرا ہونے لگتا ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اس رومی سلطنت سے جو مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں تھی یہ سلطنت بمراتب اَولیٰ اور افضل ہے اگرچہ اِس کا اور اُس کا قانون ملتا جلتا ہے لیکن انصاف یہی ہے کہ اس سلطنت کے قوانین کسی سے دبے ہوئے نہیں ہیں اور مقابلہ سے دیکھا جاوے تو معلوم ہوگا کہ رومی سلطنت میں وحشیانہ حصہ ضرور پایا جاوے گا یہ لیکن بزدلی تھی کہ یہودیوں کے خوف سے خدا کے پاک اور برگزیدہ بندے مسیح کو حوالات میں دیا گیا.اس قسم کا مقدمہ مجھ پر بھی ہوا تھا.مسیح علیہ السلام کے خلاف تو یہودیوں نے مقدمہ کیا تھا مگر اس سلطنت میں میرے خلاف جس نے مقدمہ کیا وہ معزز پادری تھا اور ڈاکٹر بھی تھا یعنی ڈاکٹر مارٹن کلارک تھا جس نے مجھ پر اقدام قتل کا مقدمہ بنایا اور اس نے شہادت پوری بہم پہنچائی.یہاں تک کہ مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی بھی جو اس سلسلہ کا سخت دشمن ہے شہادت دینے کے واسطے عدالت میں آیا.اور جہاں تک اُس سے ہو سکا اس نے میرے خلاف شہادت دی اور پورے طور پر مقدمہ میرے خلاف ثابت کرنے کی کوشش کی.یہ مقدمہ کپتان ڈگلس

Page 85

ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے اجلاس میں تھا جو شاید اب شملہ میں ہیں.۱ اُن کے روبرو مقدمہ پورے طور پر مرتّب ہوگیا اور تمام شہادتیں میرے خلاف بڑے زور شور سے دی گئیں.ایسی حالت اور صورت میں کوئی قانون دان اہل الرائے بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ میں بَری ہو سکتا ہوں.تقاضائے وقت اور صورتیں ایسی واقع ہوچکی تھیں کہ مجھے سیشن سپرد کر دیا جاتا اور وہاں سے پھانسی کا حکم ملتا یا عبور دریائے شور کی سزا دی جاتی مگر خدا تعالیٰ نے جیسے مقدمہ سے پہلے مجھے اطلاع دی تھی اسی طرح یہ بھی قبل از وقت ظاہر کر دیا تھا کہ میں اِس میں بَری ہوں گا.چنانچہ یہ پیشگوئی میری جماعت کے ایک گروہ کثیر کو معلوم تھی.غرض جب مقدمہ اس مرحلہ پر پہنچا اور دشمنوں اور مخالفوں کا یہ خیال ہوگیا کہ اب مجھے مجسٹریٹ سیشن سپرد کرے گا.اس موقعہ پر اس نے کپتان پولیس سے کہا کہ میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ یہ مقدمہ بناوٹی ہے.میرا دل اس کو نہیں مانتا کہ فی الواقعہ ایسی کوشش کی گئی ہو.اور انہوں نے ڈاکٹر کلارک کے قتل کے لئے آدمی بھیجا ہو.آپ اس کی پھر تفتیش کریں.یہ وہ وقت تھا کہ میرے مخالف میرے خلاف ہر قسم کے منصوبوںہی میں نہ لگے ہوئے تھے بلکہ وہ لوگ جن کو قبولیت دعا کے دعوے تھے وہ دعاؤں میں لگے ہوئے تھے اور رو رو کر دعائیں کرتے تھے کہ میں سزایاب ہو جاؤں مگر خدا تعالیٰ کا مقابلہ کون کر سکتا ہے.مجھے معلوم ہے کہ کپتان ڈگلس صاحب کے پاس بعض سپارشیں بھی آئیں مگر وہ ایک انصاف پسند مجسٹریٹ تھا.اُس نے کہا کہ ہم سے ایسی بدذاتی نہیں ہو سکتی.غرض جب مقدمہ دوبارہ تفتیش کے لئے کپتان لیمارچنڈ کے سپرد کیا گیا تو کپتان صاحب نے عبدالحمید کو بلایا اور اُس کو کہا کہ تو سچ سچ بیان کر.عبدالحمید نے اس پر بھی وہی قصہ جو اس نے صاحب ڈپٹی کمشنر کے رو برو بیان کیا تھا دوہرایا.اُس کو پہلے سے یہ کہا گیا تھا کہ اگر ذرا بھی خلاف بیانی ہوگی تو تُو پکڑا جاوے گا اِس لئے وہ وہی کہتا گیا.مگر کپتان صاحب نے اس کو کہا کہ تُو تو پہلے یہی بیان کر چکا ہے.صاحب اس سے تسلّی نہیں پاتے کیونکہ تو سچ سچ بیان نہیں کرتا.جب دوبارہ کپتان لیمارچنڈ نے الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۳ مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۴،۵

Page 86

اس کو کہا تو وہ روتا ہوا اُن کے پاؤں پر گِر پڑا.اور کہنے لگا کہ مجھے بچا لو.کپتان صاحب نے اس کو تسلی دی.اور کہا کہ ہاں بیان کرو.اس پر اُس نے اصلیّت کھول دی اور صاف اقرار کیا کہ مجھے دھمکا کر یہ بیان کرایا گیا تھا.مجھے ہرگز ہرگز مرزا صاحب نے قتل کے لئے نہیں بھیجا.کپتان اس بیان کوسُن کر بہت خوش ہوا اور اُس نے ڈپٹی کمشنر کو تار دیا کہ ہم نے مقدمہ نکال لیا ہے چنانچہ پھر گورداسپور کے مقام پر یہ مقدمہ پیش ہوا.اور وہاں کپتان لیمارچنڈ کو حلف دیا گیا اور اس نے اپنا حلفی بیان لکھوایا.میں دیکھتا تھا کہ ڈپٹی کمشنر اصلیت کے کھل جانے سے بڑا خوش تھا.اور اُن عیسائیوں پر اُسے سخت غصّہ تھا جنہوں نے میرے خلاف جھوٹی گواہیاں دی تھیں.اُس نے مجھے کہا کہ آپ ان عیسائیوں پر مقدمہ کر سکتے ہیں.مگر چونکہ میں مقدمہ بازی سے متنفر ہوں میں نے یہی کہا کہ میں مقدمہ نہیںکرنا چاہتا.میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے.اس پر اُسی وقت ڈگلس صاحب نے فیصلہ لکھا.ایک مجمع کثیر اُس دن جمع ہوگیا ہوا تھا اُس نے فیصلہ سُناتے وقت مجھے کہا کہ آپ کو مبارک ہو.آپ بَری ہوئے.اَب بتاؤ کہ یہ کیسی خوبی اس سلطنت کی ہے کہ عدل اور انصاف کے لئے نہ اپنے مذہب کے ایک سرگروہ کی پروا کی اور نہ کسی اور بات کی.میں دیکھتا تھا کہ اس وقت میری دشمن تو ایک دنیا تھی.اور ایسا ہی ہوتا ہے جب دنیا دکھ دینے پر آتی ہے تو درو دیوار نیش زنی کرتے ہیں.خدا ہی ہوتا ہے جو اپنے صادق بندوں کو بچا لیتا ہے.پھر مسٹر ڈوئی کے سامنے ایک مقدمہ ہوا.پھر ٹیکس کا مقدمہ مجھ پر بنایا گیا مگر ان تمام مقدمات میں خدا نے مجھے بَری ٹھہرایا.پھر آخر کرم دین کا مقدمہ ہوا.اس مقدمہ میں میری مخالفت میں سارا زور لگایا گیا اور یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ بس اب اس سلسلہ کا خاتمہ ہے.اور حقیقت میں اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سلسلہ نہ ہوتا اور وہی اس کی تائید اور نصرت کے لئے کھڑا نہ ہوتا تو اس کے مٹنے میں کوئی شک و شبہ ہی نہ رہا تھا.ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کرم دین کی حمایت کی گئی.اور ہر طرح سے اس کو مدد دی گئی.یہاں تک کہ اس مقدمہ میں بعض نے مولوی کہلا کر میرے خلاف وہ گواہیاں دیں جو سراسر خلاف تھیں.اور یہاں تک بیان کیا کہ زانی ہو، فاسق ہو، فاجر ہو پھر وہ متقی

Page 87

ہوتا ہے.یہ مقدمہ ایک لمبے عرصہ تک ہوتا رہا.اس اثنا میں بہت سے نشانات ظاہر ہوئے.آخر مجسٹریٹ نے جو ہندو تھا مجھ پر صما؍ (پانچسو) روپیہ جرمانہ کر دیا.مگر خدا تعالیٰ نے پہلے سے یہ اطلاع دی ہوئی تھی.’’عدالتِ عالیہ نے اس کو بَری کر دیا.‘‘ اس لئے جب وہ اپیل ڈویژنل جج کے سامنے پیش ہوا، خدا داد فراست سے انہوں نے فوراً ہی مقدمہ کی حقیقت کو سمجھ لیا اور قرار دیا کہ کرم دین کے حق میں میں نے جو کچھ لکھا تھا وہ بالکل درست تھا یعنی مجھے اس کے لکھنے کا حق حاصل تھا.چنانچہ اس نے جو فیصلہ لکھا ہے وہ شائع ہو چکا ہے.آخر اس نے مجھے بَری ٹھہرایا اور جرمانہ واپس کیا اور ابتدائی عدالت کو بھی مناسب تنبیہ کی کہ کیوں اتنی دیر تک یہ مقدمہ رکھا گیا.غرض جب کوئی موقع میرے مخالفوں کو ملا ہے انہوں نے میرے کچل دینے اور ہلاک کر دینے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا اور کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے ہر آگ سے بچایا اُسی طرح جس طرح پر وہ اپنے رسولوں کو بچاتا آیا ہے.میں ان واقعات کو مدّ نظر رکھ کر بڑے زور سے کہتا ہوں کہ یہ گورنمنٹ بمراتب اس رومی گورنمنٹ سے بہتر ہے جس کے زمانہ میں مسیحؑ کو دُکھ دیا گیا.پیلاطوس گورنر جس کے روبرو پہلے مقدمہ پیش ہوا وہ دراصل مسیح کا مرید تھا اور اس کی بیوی بھی مرید تھی.اسی وجہ سے اس نے مسیح کے خون سے ہاتھ دھوئے مگر باوجود اس کے کہ وہ مرید تھا اور گورنر تھا اُس نے اِس جرأت سے کام نہیں لیا جو کپتان ڈگلس نے دکھائی.وہاں بھی مسیح بےگناہ تھا اور یہاں بھی میں بے گناہ تھا.میں سچ کہتا ہوں اور تجربہ سے کہتا ہوںکہ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو حق کے لئے ایک جرأت دی ہے.پس میں اس جگہ پر تمام مسلمانوں کو نصیحت کرتاہوں کہ ان پر فرض ہے کہ وہ سچے دل سے گورنمنٹ کی اطاعت کریں.یہ بخوبی یاد رکھو کہ جو شخص اپنے محسن انسان کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خدا تعالیٰ کا شکر بھی نہیں کر سکتا.جس قدر آسائش اور آرام اس زمانہ میں حاصل ہے اس کی نظیر نہیں ملتی.ریل،تار، ڈاکخانہ، پولیس وغیرہ کے انتظام دیکھو کہ کس قدر فوائد ان سے پہنچتے ہیں.آج سے ساٹھ ستّر برس پہلے بتاؤ کیا ایسا

Page 88

آرام اور آسانی تھی؟ پھر خود ہی انصاف کرو جب ہم پر ہزاروں احسان ہیں توہم کیونکر شکر نہ کریں.مسئلہ جہاد کی وضاحت اکثر مسلمان مجھ پر حملہ کرتے ہیں کہ تمہارے سلسلہ میں یہ عیب ہے کہ تم جہاد کو موقوف کرتے ہو.مجھے افسوس ہے کہ وہ نادان اس کی حقیقت سے محض ناواقف ہیں.وہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرتے ہیں.آپ نے کبھی اشاعت مذہب کے لئے تلوار نہیں اُٹھائی.جب آپ پر اور آپ کی جماعت پر مخالفوں کے ظلم انتہا تک پہنچ گئے اور آپ کے مخلص خدّام میں سے مَردوں اور عورتوں کو شہید کر دیا گیا اور پھر مدینہ تک آپ کا تعاقب کیا گیا اُس وقت مقابلہ کا حکم ملا.آپؐ نے تلوار نہیں اُٹھائی مگر دشمنوں نے تلوار اُٹھائی بعض اوقات آپؐ کو ظالم طبع کفار نے سر سے پاؤں تک خون آلود کر دیا تھا مگر آپؐنے مقابلہ نہیں کیا.خوب یاد رکھو کہ اگر تلوار اسلام کا فرض ہوتا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ میں اُٹھاتے مگر نہیں وہ تلوار جس کا ذکر ہے وہ اُس وقت اٹھی جب موذی کفار نے مدینہ تک تعاقب کیا.اس وقت مخالفین کے ہاتھ میں تلوار تھی مگر اب تلوار نہیںاور میرے خلاف جھوٹی مخبریوں اور فتووں سے کام لیا جاتا ہے.اور اسلام کے خلاف صرف قلم سے کام لیا جاتا ہے.پھر قلم کا جواب تلوار سے دینے والا احمق اور ظالم ہوگا یا کچھ اور؟ اس بات کو کبھی مت بھولو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے حد سے گزرے ہوئے ظلم و ستم پر تلوار اُٹھائی اور وہ حفاظت خود اختیاری تھی جو ہر مہذب گورنمنٹ کے قانون میں بھی جرم نہیں.تعزیراتِ ہند میں بھی حفاظت خود اختیاری کو جائز رکھا ہے.اگر ایک چور گھر میں گھس آوے اور وہ حملہ کر کے مار ڈالنا چاہے اس وقت اس چور کو اپنے بچاؤ کے لئے مار ڈالنا جرم نہیں ہے.۱ پس جب حالت یہاں تک پہنچی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جان نثار خدام شہید کر دیئے گئے اور مسلمان ضعیف عورتوں تک کو نہایت سنگدلی اور بے حیائی کے ساتھ شہید کیا گیا تو کیا حق نہ تھا ۱ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۴ مورخہ ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳

Page 89

کہ ان کو سزا دی جاتی.اس وقت اگر اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہوتا کہ اسلام کا نام و نشان نہ رہے تو البتہ یہ ہو سکتا تھا کہ تلوار کا نام نہ آتا مگر وہ چاہتا تھا کہ اسلام دنیا میں پھیلے اور دنیا کی نجات کا ذریعہ ہو اِس لئے اُس وقت محض مدافعت کے لئے تلوار اُٹھائی گئی.میں دعوےسے کہتا ہوں کہ اسلام کا اُس وقت تلوار اٹھانا کسی قانون، مذہب اور اخلاق کے رُو سے قابل اعتراض نہیں ٹھیرتا.وہ لوگ جو ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دینے کی تعلیم دیتے ہیں وہ بھی صبر نہیں کر سکتے.اور جن کے ہاں کیڑے کا مارنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے وہ بھی نہیں کر سکتے.پھر اسلام پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے؟ اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا میں یہ بھی کھول کر کہتا ہوں کہ جو جاہل مسلمان یہ لکھتے ہیں کہ اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا ہے وہ نبی ٔمعصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام پر افترا کرتے ہیں اور اسلام کی ہتک کرتے ہیں.خوب یاد رکھو کہ اسلام ہمیشہ اپنی پاک تعلیم اور ہدایت اور اس کے ثمرات انوار و برکات اور معجزات سے پھیلا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم الشان نشانات، آپ کے اخلاق کی پاک تاثیرات نے اسے پھیلایا ہے.اور وہ نشانات اور تاثیرات ختم نہیں ہوگئی ہیں بلکہ ہمیشہ اور ہرزمانہ میں تازہ بتازہ موجود رہتی ہیں اور یہی وجہ ہے جو میں کہتا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں.اس لئے کہ آپ کی تعلیمات اور ہدایات ہمیشہ اپنے ثمرات دیتی رہتی ہیں.اور آئندہ جب اسلام ترقی کرے گا تو اس کی یہی راہ ہوگی نہ کوئی اور.پس جب اسلام کی اشاعت کے لئے کبھی تلوار نہیں اُٹھائی گئی تو اس وقت ایسا خیال بھی کرنا گناہ ہے.کیونکہ اب تو سب کے سب امن سے بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنے مذہب کی اشاعت کے لئے کافی ذریعے اور سامان موجود ہیں.مجھے بڑے ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عیسائیوں اور دوسرے معترضین نے اسلام پر حملہ کرتے وقت ہرگز ہرگز اصلیت پر غور نہیں کیا.وہ دیکھتے کہ اُس وقت تمام مخالف اسلام اور مسلمانوں کے استیصال کے درپے تھے اور سب کے سب مل کر اس کے خلاف منصوبے کرتے اور مسلمانوں کو دکھ دیتے تھے.ان دکھوں اور تکلیفوں کے مقابلہ میں اگر وہ اپنی جان نہ بچاتے تو کیا کرتے.قرآن شریف

Page 90

میںیہ آیت موجود ہے.اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا (الـحج:۴۰) اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم اُس وقت دیا گیا جبکہ مسلمانوں پر ظلم کی حد ہوگئی تو انہیں مقابلہ کا حکم دیا گیا.اُس وقت کی یہ اجازت تھی دوسرے وقت کے لیے یہ حکم نہ تھا.چنانچہ مسیح موعود کے لئے یہ نشان قرار دیا گیا.یَضَعُ الْـحَرْبَ.اب یہ تو اُس کی سچائی کا نشان ہے کہ وہ لڑائی نہ کرے گا.اس کی وجہ یہی ہے کہ اس زمانہ میں مخالفوں نے بھی مذہبی لڑائیاں چھوڑ دیں.ہاں اس مقابلہ نے ایک صورت اور رنگ اختیار کر لیا ہے.اور وہ یہ ہے کہ قلم سے کام لے کراسلام پر اعتراض کررہے ہیں.عیسائی ہیں کہ ان کا ایک ایک پرچہ پچاس پچاس ہزار نکلتا ہے اور ہر طرح کوشش کرتے ہیں کہ لوگ اسلام سے بیزار ہو جائیں.پس اس کے مقابلہ کے لئے ہمیں قلم سے کام لینا چاہیے یا تیر چلانے چاہئیں؟ اس وقت تو اگر کوئی ایسا خیال کرے تو اُس سے بڑھ کر احمق اور اسلام کا دشمن کون ہوگا؟ اس قسم کا نام لینا اسلام کو بدنام کرنا ہے یا کچھ اور؟ جب ہمارے مخالف اس قسم کی سعی نہیں کرتے حالانکہ وہ حق پر نہیں اور پھر کیسا تعجب اور افسوس ہوگا اگر ہم حق پر ہو کر تلوار کا نام لیں.اس وقت تم کسی کو تلوار دکھا کر کہو کہ مسلمان ہوجا ورنہ قتل کردوںگا.پھر دیکھونتیجہ کیا ہوگا وہ پولیس میں گرفتار کراکے تلوار کا مزہ چکھا دے گا.یہ خیالات سراسر بیہودہ ہیں ان کو سروں سے نکال دینا چاہیے.اب وقت آیا ہے کہ اسلام کا روشن اور درخشاں چہرہ دکھایا جاوے.یہ وہ زمانہ ہے کہ تمام اعتراضوں کو دُور کردیا جاوے اور جو اسلام کے نورانی چہرہ پر داغ لگایا گیا ہے اسے دور کر کے دکھایا جاوے.میں یہ بھی افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے لئے جو موقعہ خدا تعالیٰ نے دیا ہے اور عیسائی مذہب کے اسلام میںداخل کرنے کے لئے جو راستہ کھولا گیا تھا اسے ہی بُری نظر سے دیکھا اور اس کا کفر کیا.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں صادق ہوں میں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ پورے طور پر اس طریق کو پیش کیا ہے جو اسلام کو کامیاب اور دوسرے مذاہب پر غالب کرنے والا ہے.میرے رسائل امریکہ اور یورپ میں جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اس قوم کو جو فراست دی ہے.

Page 91

انہوں نے اس خداداد فراست سے اس امر کو سمجھ لیا ہے.لیکن جب ایک مسلمان کے سامنے میں اسے پیش کرتا ہوں تو اس کے منہ میں جھاگ آجاتی ہے گویا وہ دیوانہ ہے یا قتل کرنا چاہتا ہے.حالانکہ قرآن شریف کی تعلیم تو یہی تھی اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ (حٰمٓ السجدۃ:۳۵) یہ تعلیم اس لئے تھی کہ اگر دشمن بھی ہو تو وہ اس نرمی اور حسن سلوک سے دوست بن جاوے اور ان باتوں کو آرام اور سکون کے ساتھ سن لے.میں اللہ جل شانہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں اُس کی طرف سے ہوں.وہ خوب جانتا ہے کہ میں مفتری نہیں کذّاب نہیں.اگر تم مجھے خدا تعالیٰ کی قسم پر بھی اور ان نشانات کو بھی جو اس نے میری تائید میں ظاہر کئے دیکھ کر مجھے کذّاب اور مفتری کہتے ہو تو پھر میں تمہیں خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ کسی ایسے مفتری کی نظیر پیش کرو کہ باوجود اُس کے ہر روز افترا اور کذب کے جو وہ اللہ تعالیٰ پر کرے پھراللہ تعالیٰ اس کی تائید اور نصرت کرتا جاوے.چاہیے تو یہ تھا کہ اُسے ہلاک کرے مگر یہاں اس کے برخلاف معاملہ ہے.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں صادق ہوں اس کی طرف سے آیا ہوں مگر مجھے کذّاب اور مفتری کہا جاتا ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ ہر مقدمہ اور ہر بلا میں جو قوم میرے خلاف پیدا کرتی ہے مجھے نصرت دیتا ہے.اور اُس سے مجھے بچاتا ہے.اور پھر ایسی نصرت کی کہ لاکھوں انسانوں کے دل میں میری محبت ڈال دی.میں اس پر اپنی سچائی کو حصر کرتا ہوں.اگر تم کسی ایسے مفتری کا نشان دے دو کہ وہ کذّاب ہو اور اللہ پر اس نے افترا کیا ہو اور پھر خدا تعالیٰ نے اس کی ایسی نصرتیں کی ہوں اور اس قدر عرصہ تک اسے زندہ رکھا ہو اور اس کی مرادوں کو پورا کیا ہو.دکھاؤ.یقیناً سمجھو کہ خدا کے مُرسل ان نشانات اور تائیدات سے شناخت کئے جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ ان کے لیے دکھاتا اور اُن کی نصرت کرتا ہے.میں اپنے قول میں سچا ہوں.اور خدا تعالیٰ جو دلوں کو دیکھتا ہے وہ میرے دل کے حالات سے واقف اور خبردارہے.کیا تم اتنا بھی نہیں کہہ سکتے جو آلِ فرعون کے ایک آدمی نے کہا تھا اِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهٗ وَ اِنْ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ يَعِدُكُمْ(المؤمن:۲۹) کیا تم یہ یقین نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹوں کا سب سے زیادہ

Page 92

دشمن ہے.تم سب مل کر جو مجھ پر حملہ کرو خدا کا غضب اس سے کہیںبڑھ کر ہوتا ہے.پھر اس کے غضب سے کون بچا سکتا ہے.وعیدی پیشگوئی ٹل سکتی ہے یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس میں یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ وعید کی پیشگوئیاں بعض پوری کردے گا.کُل نہیں کہا.اس میں حکمت کیا ہے؟ حکمت یہی ہے کہ وعید کی پیشگوئیاںمشروط ہوتی ہیں.وہ توبہ، استغفار اور رجوع اِلَی الحق سے ٹل بھی جایا کرتی ہیں.پیشگوئی دو قسم کی ہوتی ہے ایک وعدہ کی جیسے فرمایاوَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ (النّور:۵۶) اہل سنّت مانتے ہیں کہ اس قسم کی پیشگوئیوں میں تخلّف نہیں ہوتا کیونکہ خدا تعالیٰ کریم ہے.لیکن وعید کی پیشگوئیوں میں وہ ڈرا کر بخش بھی دیتا ہے اس لئے کہ وہ رحیم ہے.بڑا نادان اور اسلام سے دُور پڑا ہوا ہے وہ شخص جو کہتا ہے وعید کی سب پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں.وہ قرآن کریم کو چھوڑتا ہے.اس لئے کہ قرآن شریف تو کہتا ہے يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ يَعِدُكُمْ(المؤمن:۲۹).افسوس ہے بہت سے لوگ مولوی کہلاتے ہیں مگر انہیں نہ قرآن کی خبر ہے نہ حدیث کی نہ سنّت انبیاء کی.صرف بغض کی جھاگ ہوتی ہے.اس لئے وہ دھوکہ دیتے ہیں.یاد رکھو اَلْکَرِیْمُ اِذَا وَعَدَ وَفٰی.رحیم کا تقاضا یہی ہے کہ قابل سزا ٹھیرا کر معاف کر دیتا ہے اور یہ تو انسان کی بھی فطرت میں ہے کہ وہ معاف کر دیتا ہے.ایک مرتبہ میرے سامنے ایک شخص نے بناوٹی شہادت دی.اس پر جرم ثابت تھا وہ مقدمہ ایک انگریز کے پاس تھا.اُسے اتفاقاً چٹھی آگئی کہ کسی دُور دراز جگہ پر اس کی تبدیلی ہوگئی ہے.وہ غمگین ہوا.جو مجرم تھا وہ بوڑھا آدمی تھا.منشی سے کہا کہ یہ تو قیدخانہ ہی میں مر جاوے گا.اس نے بھی کہا کہ حضور بال بچہ دار ہے.اس پر وہ انگریز بولا کہ اب مثل مرتب ہو چکی ہے.اب ہوکیا سکتا ہے.پھر کہا کہ اچھا اس مثل کو چاک کردو.اب غور کرو کہ انگریز کو تو رحم آسکتا ہے خدا کو نہیں آتا؟ پھر اس بات پر بھی غور کرو کہ صدقہ اور خیرات کیوں جاری ہے اور ہر قوم میں اس کا رواج ہے.فطرتاً انسان مصیبت اور بلا کے وقت صدقہ دینا چاہتا ہے اور خیرات کرتا ہے.اور کہتے ہیں کہ

Page 93

بکرے دو، کپڑے دو،یہ دو وہ دو.اگر اس کے ذریعہ سے ردِّ بلا نہیں ہوتا تو پھر اضطراراً انسان کیوں ایسا کرتاہے؟ نہیں ردِّ بلا ہوتا ہے.ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر کے اتفاق سے یہ بات ثابت ہے.اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ صرف مسلمانوں ہی کا مذہب نہیں بلکہ یہودیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کا بھی یہ مذہب ہے اور میری سمجھ میں روئے زمین پر کوئی اس امر کا منکر ہی نہیں جبکہ یہ بات ہے تو صاف کھل گیا کہ وہ ارادۂ الٰہی ٹل جاتا ہے.پیشگوئی اور ارادۂ الٰہی میں صرف یہ فرق ہوتا ہے کہ پیشگوئی کی اطلاع نبی کو دی جاتی ہے اور ارادۂ الٰہی پر کسی کو اطلاع نہیں ہوتی.اور وہ مخفی رہتا ہے.اگر وہی ارادۂ الٰہی نبی کی معرفت ظاہر کر دیا جاتا تو وہ پیشگوئی ہوتی.اگر پیشگوئی نہیں ٹل سکتی تو پھر ارادۂ الٰہی بھی صدقہ خیرات سے نہیں ٹل سکتا.لیکن یہ بالکل غلط ہے.چونکہ وعید کی پیشگوئیاں ٹل جاتی ہیں.اس لئے فرمایا اِنْ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ يَعِدُكُمْ(المؤمن:۲۹).اب اللہ تعالیٰ خود گواہی دیتا ہے کہ بعض پیشگوئیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بھی ٹل گئیں.اگر میری کسی پیشگوئی پر ایسا اعتراض کیا جاتا ہے تو مجھے اس کا جواب دو.اگر اس امر میں میری تکذیب کروگے تو میری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تکذیب کرنے والے ٹھہروگے.میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ کُل اہل سنت جماعت اور کُل دنیا کا مسلّم مسئلہ ہے کہ تضرّع سے عذاب کا وعدہ ٹل جایا کرتا ہے.کیا حضرت یونس علیہ السلام کی نظیر بھی تمہیں بھول گئی ہے؟ حضرت یونسؑ کی قوم سے جو عذاب ٹل گیا تھا اس کی وجہ کیا تھی؟ درمنثور وغیرہ کو دیکھو اور بائبل میں یُونہ نبی کی کتاب موجود ہے.اس عذاب کا قطعی وعدہ تھا مگرحضرت یونسؑ کی قوم نے عذاب کے آثار دیکھ کر توبہ کی اور اس کی طرف رجوع کیا.خدا تعالیٰ نے اس کو بخش دیا اور عذاب ٹل گیا.اُدھر حضرت یونسؑ یوم مقررہ پر عذاب کے منتظر تھے.لوگوں سے خبریں پوچھتے تھے.ایک زمیندار سے پوچھا کہ نینوہ کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ اچھا حال ہے.تو حضرت یونسؑ پر بہت غم طاری ہوا.اور انہوں نے کہا لَنْ اَرْجِعَ اِلٰی قَوْمِیْ کَذَّابًا.یعنی میں اپنی قوم کی طرف کذّاب کہلا کر نہیں جاؤںگا.اب اس نظیر کے ہوتے ہوئے اور

Page 94

قرآن شریف کی زبردست شہادت کی موجودگی میں میری کسی ایسی پیشگوئی پر جو پہلے ہی سے شرطی تھی اعتراض کرنا تقویٰ کے خلاف ہے.متقی کی یہ شان نہیں کہ بغیر سوچے سمجھے منہ سے بات نکال دے اور تکذیب کو آمادہ ہو جاوے.حضرت یونسؑ کا قصہ نہایت دردناک اور عبرت بخش ہے.اور وہ کتابوں میں لکھا ہوا ہے اُسے غور سے پڑھو.یہاں تک کہ وہ دریا میں گرائے گئے.اور مچھلی کے پیٹ میں گئے.تب توبہ منظور ہوئی.یہ سزا اور عتاب حضرت یونس پر کیوں ہوا؟ اس لئے کہ انہوں نے خدا کو قادر نہ سمجھا کہ وہ وعید کو ٹال دیتا ہے.پھر تم لوگ کیوں میرے متعلق جلدی کرتے ہو؟ اور میری تکذیب کے لئے ساری نبوتوں کو جھٹلاتے ہو؟ خونی مہدی کا عقیدہ یاد رکھو! خدا کا نام غفور ہے پھر کیوں وہ رجوع کرنے والوں کو معاف نہ کرے؟ اِس قسم کی غلطیاں ہیں جو قوم میں واقع ہوگئی ہیں.انہیں غلطیوں میں سے جہاد کی غلطی بھی ہے.مجھے تعجب ہے کہ جب میں کہتا ہوں کہ جہاد حرام ہے تو کالی پیلی آنکھیں نکال لیتے ہیں.حالانکہ خود ہی مانتے ہیں کہ جو حدیثیں خونی مہدی کی ہیں وہ مخدوش ہیں.مولوی محمد حسین بٹالوی نے اس باب میں رسالے لکھے ہیں اور یہی مذہب میاں نذیر حسین دہلوی کا تھا.وہ ان کوقطعی صحیح نہیں سمجھتے.پھر مجھے کیوں کاذب کہا جاتا ہے؟ سچی بات یہی ہے کہ مسیح موعود اور مہدی کا کام یہی ہے کہ وہ لڑائیوں کے سلسلہ کو بند کرے گا.اور قلم، دعا ،توجہ سے اسلام کا بول بالا کرے گا.اور افسوس ہے کہ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی اس لئے کہ جس قدر توجہ دنیا کی طرف ہے دین کی طرف نہیں.دنیا کی آلودگیوں اور ناپاکیوں میں مبتلا ہو کر یہ امید کیونکر کر سکتے ہیں کہ اُن پر قرآن کریم کے معارف کھلیں.وہاں تو صاف لکھا ہے لَا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۠(الواقعۃ:۸۰).مسیح موعود کی بعثت کی علّتِ غائی اس بات کو بھی دل سے سنو کہ میرے مبعوث ہونے کی علّتِ غائی کیا ہے؟ میرے آنے کی غرض اور مقصود صرف اسلام کی تجدید اور تائید ہے.اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ کوئی نئی شریعت سکھاؤں یا نئے احکام دوں یا کوئی نئی کتاب نازل ہوگی.ہرگز نہیں اگر کوئی شخص یہ

Page 95

خیال کرتا ہے.تو میرے نزدیک وہ سخت گمراہ اور بے دین ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر شریعت اور نبوت کا خاتمہ ہو چکا ہے.اب کوئی شریعت نہیں آسکتی.قرآن مجید خاتم الکتب ہے.اس میں اب ایک شعشہ یا نقطہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوضات اور قرآن شریف کی تعلیم اور ہدایت کے ثمرات کا خاتمہ نہیں ہوگیا.وہ ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجود ہیں اور انہیں فیوضات اور برکات کے ثبوت کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے.اسلام کی حالت جو اس وقت ہے وہ پوشیدہ نہیں بالاتفاق مان لیا گیا ہے کہ ہر قسم کی کمزوریوں اور تنـزّل کا نشانہ مسلمان ہورہے ہیں ہر پہلو سے وہ گر رہے ہیں.اُن کی زبان ساتھ ہے تو دل نہیں ہے اور اسلام یتیم ہوگیا ہے.ایسی حالت میں خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اُس کی حمایت اور سرپرستی کروں.اور اپنے وعدہ کے موافق بھیجا ہے.کیونکہ اس نے فرمایا تھا اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الـحجر:۱۰) اگر اس وقت حمایت اور نصرت اور حفاظت نہ کی جاتی تو وہ اور کونسا وقت آئے گا؟ اب اس چودھویں صدی میں وہی حالت ہورہی ہے جو بدر کے موقع پر ہوگئی تھی.جس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّةٌ( اٰلِ عـمران:۱۲۴) اس آیت میں بھی دراصل ایک پیشگوئی مرکوز تھی یعنی جب چودھویں صدی میں اسلام ضعیف اور ناتوان ہو جائے گا.اس وقت اللہ تعالیٰ اس وعدہ حفاظت کے موافق اس کی نصرت کرے گا.پھر تم کیوں تعجب کرتے ہو کہ اُس نے اسلام کی نصرت کی؟ مجھے اس بات کا افسوس نہیں کہ میرا نام دجّال اور کذّاب رکھا جاتا ہے اور مجھ پر تہمتیں لگائی جاتی ہیں.اس لئے کہ یہ ضرور تھا کہ میرے ساتھ وہی سلوک ہوتا جو مجھ سے پہلے فرستادوں کے ساتھ ہوا تا میں بھی اس قدیم سنت سے حصّہ پاتا.میں نے تو ان مصائب اور شدائد کا کچھ بھی حصّہ نہیں پایا لیکن جو مصیبتیں اور مشکلات ہمارے سیّد ومولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں آئیں اُس کی نظیر انبیاء علیہم السلام کے سلسلے میں کسی کے لئے نہیں پائی جاتی.آپ نے اسلام کی خاطر وہ دُکھ اُٹھائے کہ قلم اُن کے لکھنے اور زبان اُن کے

Page 96

بیان سے عاجز ہے.اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیسے جلیل الشان اور اولو العزم نبی تھے.اگر خدا تعالیٰ کی تائید اورنصرت آپ کے ساتھ نہ ہوتی تو ان مشکلات کے پہاڑ کو اُٹھانا ناممکن ہو جاتا.اور اگر کوئی اور نبی ہوتا تو وہ بھی رہ جاتا.مگر جس اسلام کو ایسی مصیبتوں اور دکھوں کے ساتھ آپ نے پھیلایا تھا آج اس کا جو حال ہوگیا ہے وہ میں کیونکر کہوں؟ اسلام کی حقیقت اور تعلیم اسلام کے معنے تو یہ تھے کہ انسان خدا کی محبت اور اطاعت میں فنا ہو جاوے اور جس طرح پر ایک بکری کی گردن قصاب کے آگے ہوتی ہے اس طرح پر مسلمان کی گردن خدا تعالیٰ کی اطاعت کے لئے رکھ دی جاوے.اور اس کا مقصد یہ تھا کہ خدا تعالیٰ ہی کو وحدہٗ لاشریک سمجھے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اس وقت یہ توحید گم ہوگئی تھی اور یہ دیش آریہ ورت بھی بتوں سے بھرا ہوا تھا.جیسا کہ پنڈت دیانند سرستی نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے.ایسی حالت اور ایسے وقت میں ضرور تھا کہ آپ مبعوث ہوتے.اسی کا ہمرنگ یہ زمانہ بھی ہے جس میں بُت پرستی کے ساتھ انسان پرستی اور دہریت بھی پھیل گئی ہے اور اسلام کا اصل مقصد اور روح باقی نہیں رہا.اس کا مغز تو یہ تھا کہ خدا ہی کی محبت میں فنا ہو جانا اور اس کے سوا کسی کو معبود نہ سمجھنا اور مقصد یہ ہے کہ انسان رو بخدا ہو جاوے روبدنیا نہ رہے.اور اس مقصد کے لئے اسلام نے اپنی تعلیم کے دو حصّے کئے ہیں.اوّل حقوق اللہ دوم حقوق العباد.حق اللہ یہ ہے کہ اس کو واجب الاطاعت سمجھے اور حقوق العباد یہ ہے کہ خدا کی مخلوق سے ہمدردی کریں.یہ طریق اچھا نہیں کہ صرف مخالفت مذہب کی وجہ سے کسی کو دکھ دیں.ہمدردی اور سلوک الگ چیز ہے اور مخالفت مذہب دوسری شے.مسلمانوں کا وہ گروہ جو جہاد کی غلطی اور غلط فہمی میں مبتلا ہیں انہوں نے یہ بھی جائز رکھا ہے کہ کفّار کا مال ناجائز طور پر لینا بھی درست ہے.خود میری نسبت بھی ان لوگوں نے فتویٰ دیا کہ ان کا مال لوٹ لو بلکہ یہاں تک بھی کہ ان کی بیویاں نکال لو حالانکہ اسلام میں اس قسم کی ناپاک تعلیمیں نہ تھیں.وہ تو ایک صاف اور مصفّٰی مذہب تھا.اسلام کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ جیسے باپ اپنے حقوق ابوت کو چاہتا ہے اسی طرح وہ چاہتا ہے کہ اولاد میں ایک دوسرے کے

Page 97

ساتھ ہمدردی ہو.وہ نہیں چاہتا کہ ایک دوسرے کو مارے.اسلام بھی جہاں یہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی شریک نہ ہو وہاں اس کا یہ بھی منشا ہے کہ نوع انسان میں مودّت اور وحدت ہو.۱ نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب رکھا ہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے.اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں.اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کر سکیں.وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے.یہ خوب یاد رکھو کہ انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ دوسرے کے انوار کو جذب کرتا ہے.پھر اسی وحدت کے لئے حکم ہے کہ روزانہ نمازیں محلہ کی مسجد میں اور ہفتہ کے بعد شہر کی مسجد میں اور پھر سال کے بعد عیدگاہ میں جمع ہوں.اور کل زمین کے مسلمان سال میں ایک مرتبہ بیت اللہ میں اکٹھے ہوں.ان تمام احکام کی غرض وہی وحدت ہے.اللہ تعالیٰ نے حقوق کے دو ہی حصے رکھے ہیں.ایک حقوق اللہ دوسرے حقوق العباد.اس پر بہت کچھ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے.ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہےفَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا(البقرۃ:۲۰۱) یعنی اللہ تعالیٰ کو یاد کرو جس طرح پر تم اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.اس جگہ دو رمز ہیں.ایک توذکر اللہ کو ذکر آباء سے مشابہت دی ہے.اس میں یہ سرّ ہے کہ آباء کی محبت ذاتی اور فطرتی محبت ہوتی ہے.دیکھو! بچہ کو جب ماں مارتی ہے وہ اس وقت بھی ماں ماں ہی پکارتا ہے.گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ انسان کو ایسی تعلیم دیتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے فطری محبت کا تعلق پیدا کرے.اس محبت کے بعد اطاعت امر اللہ کی خود بخود پیدا ہوتی ہے.یہی وہ اصلی مقام معرفت کا ہے جہاں انسان کو پہنچنا چاہیے.یعنی اس میں اللہ تعالیٰ کے لئے فطری اور ذاتی محبت پیدا ہو جاوے.ایک اور مقام پر یوں فرمایا ہے اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ۱ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۶ مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۴،۵

Page 98

وَالْاِحْسَانِ وَ اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى (الـنحل:۹۱) اِس آیت میں ان تین مدارج کا ذکر کیاہے جو انسان کو حاصل کرنے چاہئیں پہلا مرتبہ عدل کا ہے.اور عدل یہ ہے کہ انسان کسی سے کوئی نیکی کرے بشرط معاوضہ.اور یہ ظاہر بات ہے کہ ایسی نیکی کوئی اعلیٰ درجہ کی بات نہیں بلکہ سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ عدل کرو.اور اگر اس پر ترقی کرو تو پھر وہ احسان کا درجہ ہے یعنی بلا عوض سلوک کرو.لیکن یہ امر کہ جو بدی کرتا ہے اس سے نیکی کی جاوے.کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے دوسری پھیر دی جاوے یہ صحیح نہیں یا یہ کہو کہ عام طور پر یہ تعلیم عمل درآمد میں نہیں آسکتی چنانچہ سعدی کہتا ہے.؎ نکوئی با بداں کردن چنان است کہ بد کردن برائے نیک مرداں اس لئے اسلام میں انتقامی حدود میں جو اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی ہے کہ کوئی دوسرا مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور وہ یہ ہے جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ الآیۃ(الشورٰی:۴۱) یعنی بدی کی سزا اسی قدر بدی ہے اور جو معاف کر دے مگر ایسے محل اور مقام پر کہ وہ عفو اصلاح کا موجب ہو.اسلام نے عفو خطا کی تعلیم دی لیکن یہ نہیں کہ اس سے شر بڑھے.غرض عدل کے بعد دوسرا درجہ احسان کا ہے.یعنی بغیر کسی معاوضہ کے سلوک کیا جاوے.لیکن اس سلوک میں بھی ایک قسم کی خود غرضی ہوتی ہے کسی نہ کسی وقت انسان اس احسان یا نیکی کو جتا دیتا ہے.اس لئے اس سے بھی بڑھ کر ایک تعلیم دی اور وہ اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى کا درجہ ہے.ماں جو اپنے بچہ کے ساتھ سلوک کرتی ہے وہ اس سے کسی معاوضہ اور انعام و اکرام کی خواہش مند نہیں ہوتی.وہ اس کے ساتھ جو نیکی کرتی ہے محض طبعی محبت سے کرتی ہے.اگر بادشاہ اس کو حکم دے کہ تُو اس کو دودھ مت دے اور اگر یہ تیری غفلت سے مر بھی جاوے تو تجھے کوئی سزا نہیں دی جاوے گی بلکہ انعام دیا جاوے گا.اس صور ت میں وہ بادشاہ کا حکم ماننے کو طیار نہ ہوگی بلکہ اس کو گالیاں دے گی کہ یہ میری اولاد کا دشمن ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ذاتی محبت سے کررہی ہے.اُس کی کوئی غرض درمیان نہیں.یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے جو اسلام پیش کرتا ہے.اور یہ آیت حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں پر حاوی ہے.حقوق اللہ کے پہلو کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ انصاف کی رعایت سے

Page 99

اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہاری پرورش کرتا ہے.اور جو اطاعتِ الٰہی میں اس مقام سے ترقی کرے تو احسان کی پابندی سے اطاعت کر.کیونکہ وہ محسن ہے اور اس کے احسانات کو کوئی شمار نہیں کر سکتا.اور چونکہ محسن کے شمائل اور خصائل کو مدّ نظر رکھنے سے اس کے احسان تازہ رہتے ہیں.اس لئے احسان کا مفہوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ ایسے طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گویادیکھ رہا ہے یا کم از کم یہ کہ اللہ تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے.اس مقام تک انسان میں ایک حجاب رہتا ہے لیکن اس کے بعد جو تیسرا درجہ ہے اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى کا یعنی اللہ تعالیٰ سے اُسے ذاتی محبت پیدا ہو جاتی ہے.اور حقوق العباد کے پہلو سے میں اس کے معنے پہلے بیان کر چکا ہوں.اور یہ بھی میں نے بیان کیا ہے کہ یہ تعلیم جو قرآن شریف نے دی ہے کسی اور کتاب نے نہیں دی.اور ایسی کامل ہے کہ کوئی نظیر اس کی پیش نہیں کر سکتا.یعنیجَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا الآیۃ (الشورٰی:۴۱) اِس میں عفو کے لئے یہ شرط رکھی ہے کہ اس میں اصلاح ہو.یہودیوں کے مذہب نے تو یہ کیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت الآخرہ.اُن میں انتقامی قوت اس قدر بڑھ گئی تھی اور یہاں تک یہ عادت اُن میں پختہ ہوگئی تھی کہ اگر باپ نے بدلہ نہیں لیا تو بیٹے اور اُس کے پوتے تک کے فرائض میںیہ امر ہوتا تھا کہ وہ بدلہ لے.اس وجہ سے اُن میں کینہ توزی کی عادت بڑھ گئی تھی.اور وہ بہت سنگدل اور بے درد ہو چکے تھے.عیسائیوں نے اس تعلیم کے مقابل یہ تعلیم دی کہ ایک گال پر کوئی طمانچہ مارے تو دوسری بھی پھیر دو.ایک کوس بیگارلے جاوے تو دو کوس چلے جاؤ وغیرہ.اس تعلیم میں جونقص ہے وہ ظاہر ہے کہ اس پر عملدرآمد ہی نہیں ہو سکتا.اور عیسائی گورنمنٹوں نے عملی طور پر ثابت کردیا ہے کہ یہ تعلیم ناقص ہے.کیا یہ کسی عیسائی کی جرأت ہو سکتی ہے کہ کوئی خبیث طمانچہ مار کر دانت نکال دے تو وہ دوسری گال پھیر دے کہ ہاں اب دوسرا دانت بھی نکال دو.وہ خبیث تو اور بھی دلیر ہو جاوے گا.اور اس سے امن عامہ میں خلل واقع ہوگا.پھر کیونکر ہم تسلیم کریں کہ یہ تعلیم عمدہ ہے یا خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہو سکتی ہے اگر اس پر عمل ہو تو کسی ملک کا بھی انتظام نہ ہو سکے ایک ملک ایک دشمن چھین لے تو دوسرا خود حوالہ کرنا

Page 100

پڑے.ایک افسر گرفتار ہو جاوے تو دس اور دے دیئے جاویں.یہ نقص ہیں جو ان تعلیموں میں ہیں.اور یہ صحیح نہیں.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ یہ احکام بطور قانون مختص الزمان تھے.جب وہ زمانہ گذر گیا دوسرے لوگوں کے حسبِ حال وہ تعلیم نہ رہی.یہودیوں کا وہ زمانہ تھا کہ وہ چار سو برس تک غلامی میں رہے اور اس غلامی کی زندگی کی وجہ سے ان میں قساوت قلبی بڑھ گئی اور وہ کینہ کش ہوگئے.اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس بادشاہ کے زمانہ میں کوئی ہوتا ہے اُس کے اخلاق بھی اسی قسم کے ہو جاتے ہیں.سکھوں کے زمانہ میں اکثر لوگ ڈاکو ہوگئے تھے.انگریزوں کے زمانہ میں تہذیب اور تعلیم پھیلتی جاتی ہے اور ہرشخص اس طرف کوشش کررہا ہے.غرض بنی اسرائیل نے فرعون کی ماتحتی کی تھی اسی وجہ سے اُن میں ظلم بڑھ گیا تھا.اس لئے توریت کے زمانہ میں عدل کی ضرورت مقدم تھی کیونکہ وہ لوگ اس سے بے خبر تھے اور جابرانہ عادت رکھتے تھے.اور انہوں نے یقین کر لیا تھا کہ دانت کے بدلے دانت کا توڑناضروری ہے.اور یہ ہمارا فرض ہے.اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سکھایا کہ عدل تک ہی بات نہیں رہتی بلکہ احسان بھی ضروری ہے.اس سبب سے مسیح کے ذریعہ انہیں یہ تعلیم دی گئی کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دو.اور جب اسی پر سارا زور دیا گیا تو آخر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اس تعلیم کو اصل نقطہ پر پہنچا دیا.اور وہ یہی تعلیم تھی کہ بدی کا بدلہ اُسی قدر بدی ہے لیکن جو شخص معاف کردے اور معاف کرنے سے اصلاح ہوتی ہو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور اجر ہے.عفو کی تعلیم دی ہے مگر ساتھ قید لگائی کہ اصلاح ہو بے محل عفو نقصان پہنچاتا ہے.پس اس مقام پر غور کرنا چاہیے کہ جب توقع اصلاح کی ہو تو عفو ہی کرنا چاہیے.جیسے دو خدمتگار ہوں ایک بڑا شریف الاصل اور فرمانبردار اور خیر خواہ ہو لیکن اتفاقاً اس سے کوئی غلطی ہو جاوے اس موقع پر اُس کو معاف کرنا ہی مناسب ہے.اگر سزا دی جاوے تو ٹھیک نہیں.لیکن ایک بدمعاش اور شریر ہے ہر روز نقصان کرتا ہے اور شرارتوں سے باز نہیں آتا اگر اُسے چھوڑ دیا جاوے تو وہ اور بھی بیباک ہو جائے گا.اُس کو سزا ہی دینی چاہیے.غرض اس طرح پر محل اور موقع شناسی سے کام لو.یہ تعلیم ہے جو اسلام نے دی ہے

Page 101

اور جو کامل تعلیم ہے اس کے بعد اور کوئی نئی تعلیم یا شریعت نہیں آسکتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور قرآن شریف خاتم الکتب.اب کوئی اور کلمہ یا کوئی اور نماز نہیں ہو سکتی.جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا کرکے دکھایا اور جو کچھ قرآن شریف میں ہے اُس کو چھوڑ کر نجات نہیں مل سکتی.جو اس کو چھوڑے گا وہ جہنم میں جاوے گا.یہ ہمارا مذہب اور عقیدہ ہے.امت کے لیے مکالمہ و مخاطبہ کا دروازہ کھلا ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس امت کے لیے مخاطبات اور مکالمات کا دروازہ کھلا ہے.اور یہ دروازہ گویا قرآن مجید کی سچائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر ہر وقت تازہ شہادت ہے اور اس کے لئے خدا تعالیٰ نے سورہ فاتحہ ہی میں یہ دعا سکھائی ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ(الفاتـحۃ:۶،۷) اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی راہ کے لیے جو دعا سکھائی تو اس میں انبیاء علیہم السلام کے کمالات کے حصول کا اشارہ ہے اوریہ ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو جو کمال دیا گیا وہ معرفت الٰہی ہی کا کمال تھا.اور یہ نعمت ان کو مکالمات اور مخاطبات سے ملی تھی اسی کے تم بھی خواہاں رہو.پس اس نعمت کے لئے یہ خیال کرو کہ قرآن شریف اس دعا کی تو ہدایت کرتا ہے مگر اس کا ثمرہ کچھ بھی نہیں یا اس اُمت کے کسی فرد کو بھی یہ شرف نہیں مل سکتا.اور قیامت تک یہ دروازہ بند ہوگیا ہے.بتاؤ اس سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ثابت ہوگی یا کوئی خوبی ثابت ہوگی؟ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے وہ اسلام کو بدنام کرتا ہے.اور اس نے مغز شریعت کو سمجھا ہی نہیں.اسلام کے مقاصد میں سے تو یہ امر تھا کہ انسان صرف زبان ہی سے وَحدہٗ لاشریک نہ کہے بلکہ درحقیقت سمجھ لے اور بہشت دوزخ پر خیالی ایمان نہ ہو بلکہ فی الحقیقت اسی زندگی میں وہ بہشتی کیفیات پر اطلاع پالے.اور ان گناہوں سے جن میں وحشی انسان مبتلا ہیں نجات پالے.یہ عظیم الشان مقصد اسلام کا تھا اور ہے.اور یہ ایسا پاک مطہر مقصد ہے کہ کوئی دوسری قوم اس کی نظیر اپنے مذہب میں پیش نہیں کر سکتی اور نہ اس کا نمونہ دکھا سکتی

Page 102

ہے.کہنے کو تو ہر ایک کہہ سکتا ہے مگر وہ کون ہے جو دکھا سکتا ہو؟ میں نے آریوں سے عیسائیوں سے پوچھا ہے کہ وہ خدا جو تم مانتے ہو اس کا کوئی ثبوت پیش کرو.نری زبانی لاف گزاف سے بڑھ کر وہ کچھ بھی نہیں دکھا سکتے.وہ سچا خدا جو قرآن شریف نے پیش کیا ہے اس سے یہ لوگ ناواقف ہیں.اس پر اطلاع پانے کے لئے یہی ایک ذریعہ مکالمات کا تھا جس کے سبب سے اسلام دوسرے مذاہب سے ممتاز تھا مگر افسوس ان مسلمانوں نے میری مخالفت کی وجہ سے اس سے بھی انکار کردیا.یقیناً یاد رکھو کہ گناہوں سے بچنے کی توفیق اس وقت مل سکتی ہے جب انسان پورے طور پر اللہ تعالیٰ پر ایمان لاوے.یہی بڑا مقصد انسانی زندگی کا ہے کہ گناہ کے پنجہ سے نجات پالے.دیکھو! ایک سانپ جو خوش نما معلوم ہوتا ہے بچہ تو اس کو ہاتھ میں پکڑنے کی خواہش کرسکتا ہے اور ہاتھ بھی ڈال سکتا ہے لیکن ایک عقلمند جو جانتا ہے کہ سانپ کاٹ کھائے گا اور ہلاک کر دے گا وہ کبھی جرأت نہیں کرے گا کہ اس کی طرف لپکے بلکہ اگر معلوم ہو جاوے کہ کسی مکان میں سانپ ہے تو اس میں بھی داخل نہیں ہوگا.ایسا ہی زہر کو جو ہلاک کرنے والی چیز سمجھتا ہے تو اس کے کھانے پر وہ دلیر نہیں ہوگا.پس اسی طرح پر جب تک گناہ کو خطرناک زہر یقین نہ کرلے اس سے بچ نہیں سکتا.یہ یقین معرفت کے بدوں پیدا نہیں ہو سکتا.پھر وہ کیا بات ہے کہ انسان گناہوں پر اس قدر دلیر ہو جاتا ہے باوجودیکہ وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور گناہ کو گناہ بھی سمجھتا ہے.اس کی وجہ بجز اس کے اور کوئی نہیں کہ وہ معرفت اور بصیرت نہیں رکھتا جو گناہ سوز فطرت پیدا کرتی ہے.اگر یہ بات پیدا نہیں ہوتی تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ معاذ اللہ اسلام اپنے اصلی مقصد سے خالی ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ ایسا نہیں.یہ مقصد اسلام ہی کامل طور پر پورا کرتا ہے اور اس کا ایک ہی ذریعہ ہے مکالمات و مخاطباتِ الٰہیہ کیونکہ اِسی سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین پیدا ہوتا ہے اور اِسی سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الحقیقت اللہ تعالیٰ گناہ سے بیزار ہے اور وہ سزا دیتا ہے.گناہ ایک زہر ہے جو اوّل صغیرہ سے شروع ہوتا ہے اور پھر کبیرہ ہو جاتا ہے اور انجام کار کفر تک پہنچا دیتا ہے.

Page 103

گناہ سے بچنے کا صحیح علاج میں جملہ معترضہ کے طور پر کہتا ہوں کہ اپنی اپنی جگہ پر قوم کو یہ فکر لگا ہوا ہے کہ ہم گناہ سے پاک ہو جاویں.مثلاً آریہ صاحبان نے تو یہ بات رکھی ہوئی ہے کہ بجز گناہ کی سزا کے اور کوئی صورت پاک ہونے کی ہے ہی نہیں.ایک گناہ کے بدلے کئی لاکھ جونیں ہیں جب تک انسان ان جونوں کو نہ بھگت لے وہ پاک ہی نہیں ہو سکتا.مگر اس میں بڑی مشکلات ہیں.سب سے بڑھ کر یہ کہ جبکہ تمام مخلوقات گناہگار ہی ہے تو اس سے نجات کب ہوگی؟ اور اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ ان کے ہاں یہ امر مسلّمہ ہے کہ نجات یافتہ بھی ایک عرصہ کے بعد مکتی خانہ سے نکال دیئے جاویں گے تو پھر اس نجات سے فائدہ ہی کیا ہوا؟ جب یہ سوال کیا جاوے کہ نجات پانے کے بعد کیوں نکالتے ہو تو بعض کہتے ہیں کہ نکالنے کے لئے ایک گناہ باقی رکھ لیا جاتا ہے.اب غور کر کے بتاؤ کہ کیا یہ قادر خدا کا کام ہو سکتا ہے؟ اور پھر جبکہ ہر نفس اپنے نفس کا خود خالق ہے خدا تعالیٰ اس کا خالق ہی نہیں (معاذ اللہ) تو اسے حاجت ہی کیا ہے کہ وہ اس کا ماتحت رہے.دوسرا پہلو عیسائیوں کا ہے.انہوں نے گناہ سے پاک ہونے کا ایک پہلو سوچا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ کو خدا اور خدا کا بیٹا مان لو.اور پھر یقین کر لو کہ اُس نے ہمارے گناہ اُٹھالئے اور وہ صلیب کے ذریعہ لعنتی ہوا.نـعـوذ باللہ مـن ذالـک.اب غور کرو کہ حصولِ نجات کو اس طریق سے کیا تعلق؟ گناہوں سے بچانے کے لئے ایک اور بڑا گناہ تجویز کیا؟ کہ انسان کو خدا بنایا گیا.کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور گناہ ہو سکتا ہے؟ پھر خدا بنا کر اُسے معاً ملعون بھی قرار دیا.اس سے بڑھ کر گستاخی اور بے ادبی اللہ تعالیٰ کی کیا ہوگی؟ ایک کھاتا پیتا حوائج کا محتاج خدا بنا لیا گیا حالانکہ توریت میں لکھا تھا کہ دوسرا خدا نہ ہو.نہ آسمان پر نہ زمین پر.پھر دروازوں اور چوکھٹوں پر یہ تعلیم لکھی گئی تھی.اُس کو چھوڑ کر یہ نیا خدا تراشا گیا.جس کا کچھ بھی پتہ توریت میں نہیں ملتا.میں نے فاضل یہودی سے پوچھا ہے کہ کیا تمہارے ہاں ایسے خدا کا پتہ ہے جو مریم کے پیٹ سے نکلے اور وہ یہودیوں کے ہاتھوں سے ماریں کھاتا پھرے.اس پر یہودی علماء نے مجھے یہی

Page 104

جواب دیا کہ یہ محض افترا ہے.توریت سے کسی ایسے خدا کاپتہ نہیں ملتا.ہمارا وہ خدا ہے جو قرآن شریف کا خدا ہے.یعنی جس طرح پر قرآن مجید نے خدا تعالیٰ کی وحدت کی اطلاع دی ہے اسی طرح پر ہم توریت کے رُو سے خدا تعالیٰ کو وحدہٗ لاشریک مانتے ہیں اور کسی انسان کو خدا نہیں مان سکتے.اور یہ تو موٹی بات ہے اگر یہودیوں کے ہاں کسی ایسے خدا کی خبر دی گئی ہوتی جو عورت کے پیٹ سے پیدا ہونے والا تھا تو وہ حضرت مسیح کی ایسی سخت مخالفت ہی کیوں کرتے؟ یہاں تک کہ انہوں نے اس کو صلیب پر چڑھوادیا.اور ان پر کفر کہنے کا الزام لگاتے تھے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس امر کو ماننے کے لئے قطعاً طیار نہ تھے.غرض عیسائیوں نے گناہ کے دُور کرنے کا جو علاج تجویز کیا ہے وہ ایسا علاج ہے جو بجائے خود گناہ کو پیدا کرتا ہے اور اس کو گناہ سے نجات پانے کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے.۱ انہوں نے گناہ کے دُور کرنے کا علاج گناہ تجویز کیا ہے جو کسی حالت اور صورت میں مناسب نہیں.یہ لوگ اپنے نادان دوست ہیں اور ان کی مثال اس بندر کی سی ہے جس نے اپنے آقا کا خون کر دیا تھا.اپنے بچاؤ کے لئے اور گناہوں سے نجات پانے کے لیے ایک ایسا گناہ تجویز کیا جو کسی صورت میں بخشا نہ جاوے.یعنی شرک کیا اور عاجز انسان کو خدا بنا لیا.مسلمانوں کے لیے کس قدر خوشی کا مقام ہے کہ ان کا خدا ایسا خدا نہیں جس پر کوئی اعتراض یا حملہ ہو سکے.وہ اس کی طاقتوں اور قدرتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی صفات پر یقین لاتے ہیں.مگر جنہوں نے انسان کو خدا بنایا یا جنہوں نے اس کی قدرتوں سے انکار کردیا اُن کے لئے خدا کا عدم و وجود برابر ہے.جیسے مثلاً آریوں کا مذہب ہے کہ ذرّہ ذرّہ اپنے وجود کا آپ ہی خدا ہے.اور اس لئے کچھ بھی پیدا نہیں کیا.اب بتاؤ کہ جب ذرّات کے وجود کا خالق خدا نہیں توان کے قیام کے لئے خدا کی حاجت کیا ہے جبکہ طاقتیں خود بخود موجود ہیں اور ان میں اِتّصال اور اِنفصال کی قوتیں بھی موجود ہیں تو پھر انصاف سے بتاؤ کہ ان کے لئے خدا کے وجود کی کیا ضرورت ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس عقیدہ کو رکھنے والے آریوں اور دہریوں میں ۱ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۷ مورخہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۶ءصفحہ ۳،۴

Page 105

۱۹ اور ۲۰ کا فرق ہے.اب صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو کامل اور زندہ مذہب ہے.اور اب وقت آگیا ہے کہ پھر اسلام کی عظمت.شوکت ظاہر ہو.اور اسی مقصد کو لے کرمیں آیا ہوں.مسلمانوں کو چاہیے کہ جو انوار و برکات اس وقت آسمان سے اُتر رہے ہیں وہ اُن کی قدر کریں اور اللہ تعالیٰ کا شکر کریں کہ وقت پر ان کی دستگیری ہوئی اور خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اس مصیبت کے وقت اُن کی نصرت فرمائی.لیکن اگر وہ خدا تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر نہ کریں گے تو خدا تعالیٰ ان کی کچھ پروا نہ کرے گا.وہ اپنا کام کرکے رہے گا مگر ان پر افسوس ہوگا.جو موعود آنے والا تھا وہ میں ہوں میں بڑے زور سے اور پورے یقین اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ دوسرے مذاہب کو مٹا دے اور اسلام کو غلبہ اور قوت دے.اب کوئی ہاتھ اور طاقت نہیں جو خدا تعالیٰ کے اس ارادہ کا مقابلہ کرے.وہ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ (ھود:۱۰۸)ہے.مسلمانو! یاد رکھو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تمہیں یہ خبر دے دی ہے اور میں نے اپنا پیام پہنچا دیا ہے اب اس کو سننا نہ سننا تمہارے اختیار میں ہے.یہ سچی بات ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو موعود آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں.اسلام کی زندگی عیسیٰ کے مرنے میں ہے اور یہ بھی پکّی بات ہے کہ اسلام کی زندگی عیسٰی کے مرنے میں ہے.اگر اس مسئلہ پر غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہی مسئلہ ہے جو عیسائی مذہب کا خاتمہ کر دینے والا ہے.یہ عیسائی مذہب کا بہت بڑا شہتیر ہے اور اسی پر اس مذہب کی عمارت قائم کی گئی ہے اسے گرنے دو.یہ معاملہ بڑی صفائی سے طے ہو جاتا اگر میرے مخالف خدا ترسی اور تقویٰ سے کام لیتے.مگر ایک کا نام لو جو درندگی چھوڑ کر میرے پاس آیا ہو اور اُس نے اپنی تسلّی چاہی ہو.اُن کا تو یہ حال ہے کہ میرا نام لیتے ہی اُن کے منہ سے جھاگ گِرنی شروع ہو جاتی ہے اور وہ گالیاں دینے لگتے ہیں.بھلا اس طرح پر بھی کوئی شخص حق کو پا سکتا ہے؟ میں تو قرآن شریف کے نصوص صریحہ کو پیش کرتا ہوں اور

Page 106

حدیث پیش کرتا ہوں، اجماع صحابہ پیش کرتا ہوں مگر وہ ہیں کہ ان باتوں کو سنتے نہیں اور کافر کافر دجّال دجّال کہہ کر شور مچاتے ہیں.میں صاف طور پر کہتا ہوں کہ قرآن شریف سے تم ثابت کرو کہ مسیح زندہ آسمان پر چلا گیا ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت کے خلاف کوئی امر پیش کرو.اور یا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر پہلا اجماع ہوا اس کا خلاف دکھاؤ تو جواب نہیں ملتا.پھر بعض لوگ شور مچاتے ہیں کہ اگر آنے والا وہی عیسیٰ ابن مریم اسرائیلی نبی نہ تھا تو آنے والے کا یہ نام کیوں رکھا ؟ میں کہتا ہوں کہ یہ اعتراض کیسی نادانی کا اعتراض ہے.تعجب کی بات ہے کہ اعتراض کرنے والے اپنے لڑکوں کا نام تو موسیٰ، عیسیٰ، داؤد، احمد، ابراہیم، اسماعیل رکھ لینے کے مجاز ہوں.اور اگر اللہ تعالیٰ کسی کا نام عیسیٰ رکھ دے تو اس پر اعتراض!!! تائیدات سماوی اور نشانات غور طلب بات تو اس مقام پر یہ تھی کہ آیا آنے والا اپنے ساتھ نشانات رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ ان نشانات کو پاتے تو انکار کے لئے جرأت نہ کرتے مگر انہوں نے نشانات اور تائیدات کی تو پروا نہ کی اور دعویٰ سنتے ہی کہہ دیا اَنْتَ کَافِرٌ.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور خدا تعالیٰ کے مامورین کی شناخت کا ذریعہ ان کے معجزات اور نشانات ہوتے ہیں.جیسا کہ گورنمنٹ کی طرف سے کوئی شخص اگر حاکم مقرر کیا جاوے تواس کو نشان دیا جاتا ہے.اسی طرح پر خداکے مامورین کی شناخت کے لئے بھی نشانات ہوتے ہیں.اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے میری تائید میں نہ ایک نہ دو نہ دو سو بلکہ لاکھوں نشانات ظاہر کئے.اور وہ نشانات ایسے نہیں ہیں کہ کوئی انہیں جانتا نہیں بلکہ لاکھوں ان کے گواہ ہیں.اور میں کہہ سکتا ہوں کہ اس جلسہ میں بھی صدہا ان کے گواہ موجود ہوںگے.آسمان سے میرے لئے نشانات ظاہر ہوئے ہیں.زمین سے بھی ظاہر ہوئے.وہ نشانات جو میرے دعوے کے ساتھ مخصوص تھے اور جن کی قبل از وقت اور نبیوں اور

Page 107

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ خبر دی گئی تھی وہ بھی پورے ہوگئے.مثلاً ان میں سے ایک کسوف خسوف کا ہی نشان ہے جو تم سب نے دیکھا.یہ صحیح حدیث میں خبر دی گئی تھی کہ مہدی اور مسیح کے وقت میں رمضان کے مہینے میں سورج اور چاند گرہن ہوگا.اب بتاؤ کہ کیا یہ نشان پورا ہوا ہے یا نہیں؟ کوئی ہے جو یہ کہے کہ اُس نے یہ نشان نہیں دیکھا؟ اورایسا ہی یہ بھی خبر دی گئی تھی کہ اس زمانہ میں طاعون پھیلے گی.یہاں تک شدید ہوگی کہ دس میں سے سات مر جاویں گے.اب بتاؤ کہ کیا طاعون کا نشان ظاہر ہوا یا نہیں؟ پھر یہ بھی لکھا تھا کہ اس وقت ایک نئی سواری ظاہر ہوگی جس سے اونٹ بیکار ہو جائیں گے.کیا ریل کے اجرا سے یہ نشان پورا نہیں ہوا؟ میں کہاں تک شمار کروں یہ بہت بڑا سلسلہ نشانات کا ہے.اب غور کرو کہ میں تو دعویٰ کرنے والا دجّال اور کاذب قرار دیا گیا پھر یہ کیا غضب ہوا کہ مجھ کاذب کے لئے ہی یہ سارے نشان پورے ہوگئے؟ اور پھر اگر کوئی آنے والا اور ہے تو اس کو کیا ملے گا؟ کچھ تو انصاف کرو اور خدا سے ڈرو.کیا خدا تعالیٰ کسی جھوٹے کی بھی ایسی تائید کیا کرتا ہے؟ عجیب بات ہے کہ جو میرے مقابلہ میں آیا وہ ناکام اور نامراد رہا اور مجھے جس آفت اور مصیبت میں مخالفین نے ڈالا میں اس میں سے صحیح سلامت اور بامراد نکلا.پھر کوئی قسم کھا کر بتاوے کہ جھوٹوں کے ساتھ یہی معاملہ ہوا کرتا ہے؟ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان مخالف الرائے علماء کو کیا ہوگیا.وہ غور سے کیوں قرآن شریف اور احادیث کو نہیں پڑھتے.کیا انہیں معلوم نہیں کہ جس قدر اکابر اُمت کے گذرے ہیں وہ سب کے سب مسیح موعود کی آمد چودھویں صدی میں بتاتے رہے ہیں.اور تمام اہل کشوف کے کشف یہاں آکر ٹھیر جاتے ہیں.حجج الکرامہ میں صاف لکھا ہے کہ چودھویں صدی سے آگے نہیں جائے گا.یہی لوگ منبروں پر چڑھ چڑھ کر بیان کیا کرتے تھے کہ تیرھویں صدی سے تو جانوروں نے بھی پناہ مانگی ہے اور چودھویں صدی مبارک ہوگی مگر یہ کیا ہوا کہ وہ چودھویں صدی جس پر ایک موعود امام آنے والا تھا اُس میں بجائے صادق کے کاذب آگیا.اور اُس کی تائید میں ہزاروں لاکھوں نشان بھی ظاہر ہوگئے اور خدا تعالیٰ نے ہر میدان اور ہرمقابلہ میں نصرت بھی اُسی کی کی.ان باتوں کا ذرا سوچ کر جواب

Page 108

دو.یونہی منہ سے ایک بات نکال دینا آسان ہے مگر خدا کے خوف سے بات نکالنا مشکل ہے.اس کے علاوہ یہ بات بھی توجہ کے قابل ہے کہ خدا تعالیٰ ایک مفتری اور کذّاب انسان کو اتنی لنبی مہلت نہیں دیتا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ جاوے.میری عمر ۶۷ سال کی ہے اورمیری بعثت کا زمانہ ۲۳ سال سے بڑھ گیا ہے.اگر میں ایسا ہی مفتری اور کذّاب تھا تو اللہ تعالیٰ اس معاملہ کو اتنا لنبا نہ ہونے دیتا.بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تمہارے آنے سے کیا فائدہ ہوا؟ مسیح موعود کے آنے کی غرض یاد رکھوکہ میرے آنے کی دو غرضیں ہیں.ایک یہ کہ جو غلبہ اِس وقت اسلام پر دوسرے مذاہب کا ہوا ہے گویا وہ اسلام کو کھاتے جاتے ہیں اور اسلام نہایت کمزور اور یتیم بچے کی طرح ہوگیا ہے.پس اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے تا میں ادیانِ باطلہ کے حملوں سے اسلام کو بچاؤں اور اسلام کے پُر زور دلائل اور صداقتوں کے ثبوت پیش کروں.اور وہ ثبوت علاوہ علمی دلائل کے انوار اور برکاتِ سماوی ہیں جو ہمیشہ سے اسلام کی تائید میں ظاہر ہوتے رہے ہیں.اس وقت اگر تم پادریوں کی رپورٹیں پڑھو تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ اسلام کی مخالفت کے لئے کیا سامان کررہے ہیں.اور ان کا ایک ایک پرچہ کتنی تعداد میں شائع ہوتا ہے.ایسی حالت میں ضروری تھا کہ اسلام کا بول بالا کیا جاتا.پس اِس غرض کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے.اور میں یقیناً کہتا ہوں کہ اسلام کا غلبہ ہو کر رہے گا اور اس کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں.ہاں یہ سچی بات ہے کہ اس غلبہ کے لئے کسی تلوار اور بندوق کی حاجت نہیں اور نہ خدا نے مجھے ہتھیاروں کے ساتھ بھیجا ہے.جو شخص اِس وقت یہ خیال کرے وہ اسلام کا نادان دوست ہوگا.مذہب کی غرض دلوں کو فتح کرنا ہوتی ہے اور یہ غرض تلوار سے حاصل نہیں ہوتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تلوار اُٹھائی میں بہت مرتبہ ظاہر کر چکا ہوں کہ وہ تلوار محض حفاظت خود اختیاری اور دفاع کے طور پر تھی اور وہ بھی اس وقت جبکہ مخالفین اور منکرین کے مظالم حد سے گذر گئے اور بے کس مسلمانوں کے خون سے زمین سُرخ ہو چکی.غرض میرے آنے کی غرض تو یہ ہے کہ اسلام کا غلبہ دوسرے ادیان پر ہو.دوسرا کام یہ ہے کہ

Page 109

جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھتے ہیں اور یہ کرتے ہیں اور وہ کرتے ہیں یہ صرف زبانوں پر حساب ہے.اس کے لیے ضرورت ہے کہ وہ کیفیت انسان کے اندر پیدا ہو جاوے جو اسلام کا مغز اور اصل ہے.میں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابوبکر،عمر،عثمان، علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سارنگ پیدا نہ ہو وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں.اب جو کچھ ہے وہ دنیا ہی کے لئے ہے.اور اس قدر استغراق دنیا میں ہورہا ہے کہ خدا تعالیٰ کے لئے کوئی خانہ خالی نہیں رہنے دیا.تجارت ہے تو دنیا کے لئے.عمارت ہے تو دنیا کے لئے.بلکہ نماز روزہ اگر ہے تو وہ بھی دنیا کے لئے.دنیاداروں کے قرب کے لئے تو سب کچھ کیا جاتا ہے مگر دین کا پاس ذرہ بھی نہیں.اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ کیا اسلام کے اعتراف اور قبولیت کا اتنا ہی منشا تھا جو سمجھ لیا گیا ہے یا وہ بلند غرض ہے.میں تویہ جانتا ہوں کہ مومن پاک کیا جاتا ہے اور اس میں فرشتوں کا رنگ ہو جاتا ہے.جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کا قرب بڑھتا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا کلام سنتا اور اُس سے تسلّی پاتا ہے.اب تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے دل میں سوچ لے کہ کیا یہ مقام اُسے حاصل ہے؟ میں سچ کہتا ہوں کہ تم صرف پوست اور چھلکے پر قانع ہوگئے ہو حالانکہ یہ کچھ چیز نہیں ہے.خدا تعالیٰ مغز چاہتا ہے.پس جیسے میرا یہ کام ہے کہ اُن حملوں کو رو کا جاوے جو بیرونی طور پر اسلام پر ہوتے ہیں ویسے ہی مسلمانوں میں اسلام کی حقیقت اور رُوح پیدا کی جاوے.میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں میں جو خدا تعالیٰ کی بجائے دنیا کے بُت کو عظمت دی گئی ہے اُس کے اَمَانِی اور امیدوں کو رکھا گیا ہے.مقدمات، صلح جو کچھ ہے وہ دنیا کے لئے ہے.اس بُت کو پاش پاش کیا جاوے.اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جبروت اُن کے دلوں میں قائم ہو اور ایمان کا شجر تازہ بتازہ پھل دے.اس وقت درخت کی صورت ہے مگر اصل درخت نہیں کیونکہ اصل درخت کے لئے تو فرمایا.اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِي السَّمَآءِ تُؤْتِيْٓ اُكُلَهَا كُلَّ حِيْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَا( ابراھیم:۲۵،۲۶) یعنی کیا تُونے

Page 110

نہیں دیکھا کہ کیونکر بیان کی اللہ نے مثال یعنی مثال دین کامل کی کہ وہ بات پاکیزہ، درخت پاکیزہ کی مانند ہے جس کی جڑھ ثابت ہو اور جس کی شاخیں آسمان میں ہوں اور وہ ہر وقت اپنا پھل اپنے پروردگار کے حکم سے دیتا ہے.اَصْلُهَا ثَابِتٌ سے مراد یہ ہے کہ اصول ایمانیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں اور یقین کامل کے درجہ تک پہنچے ہوئے ہوں.اور وہ ہر وقت اپنا پھل دیتا رہے کسی وقت خشک درخت کی طرح نہ ہو.مگر بتاؤ کہ کیا اب یہ حالت ہے؟ بہت سے لوگ کہہ تو دیتے ہیں کہ ضرورت ہی کیا ہے؟ اس بیمار کی کیسی نادانی ہے جو یہ کہے کہ طبیب کی حاجت ہی کیا ہے؟ وہ اگر طبیب سے مستغنی ہے اور اس کی ضرورت نہیں سمجھتا تو اس کا نتیجہ اس کی ہلاکت کے سوا اور کیا ہوگا؟ اس وقت مسلمان اَسْلَمْنَا میں تو بے شک داخل ہیں مگر اٰمَنَّا کی ذیل میں نہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک نور ساتھ ہو.غرض یہ وہ باتیں ہیں جن کے لیے میں بھیجا گیا ہوں.اس لئے میرے معاملہ میں تکذیب کے لیے جلدی نہ کرو بلکہ خدا سے ڈرو اور توبہ کرو کیونکہ توبہ کرنے والے کی عقل تیز ہوتی ہے.طاعون کا نشان بہت خطرناک نشان ہے اور خدا تعالیٰ نے اِس کے متعلق مجھ پر جو کلام نازل کیا ہے وہ یہ ہے.اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ(الرعد:۱۲) یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس پر لعنت ہے جو خدا تعالیٰ پر افترا کرے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے ارادے کی اس وقت تبدیلی ہوگی جب دلوں کی تبدیلی ہوگی.پس خدا سے ڈرو اور اس کے قہر سے خوف کھاؤ.کوئی کسی کا ذمہ وار نہیں ہو سکتا.معمولی مقدمہ کسی پر ہو تو اکثر لوگ وفا نہیں کر سکتے.پھر آخرت میں کیا بھروسہ رکھتے ہو جس کی نسبت فرمایا.یَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِ(عبس:۳۵).مخالفوں کا تو یہ فرض تھا کہ وہ حسن ظنّی سے کام لیتے اور لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ (بنی اسـرآءیل:۳۷) پر عمل کرتے مگر انہوں نے جلد بازی سے کام لیا.یاد رکھو پہلی قومیں اسی طرح ہلاک ہوئیں.عقل مند وہ ہے جو مخالفت کر کے بھی جب اُسے معلوم ہو کہ وہ غلطی پر تھا اُسے چھوڑ دے.مگر یہ بات تب نصیب ہوتی ہے کہ خدا ترسی ہو.دراصل مردوں کا کام یہی ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں.وہی پہلوان ہے اور اُسی کو خدا پسند کرتا ہے.

Page 111

قیاس کی حجت اِن ساری باتوں کے علاوہ میں اب قیاس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ اگرچہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ میرے ساتھ ہیں.اجماع صحابہ بھی میری تائید کرتا ہے.نشانات اور تائیداتِ الٰہیہ میری مؤید ہیں.ضرورتِ وقت میرا صادق ہونا ظاہر کرتی ہے.لیکن قیاس کے ذریعہ سے بھی حجت پوری ہو سکتی ہے.اِس لئے دیکھنا چاہیے کہ قیاس کیا کہتا ہے؟ انسان کبھی کسی ایسی چیز کے ماننے کو طیار نہیں ہو سکتا جو اپنی نظیر نہ رکھتی ہو.مثلاً اگر ایک شخص آکر کہے کہ تمہارے بچے کو ہوا اڑا کر آسمان پر لے گئی ہے یا بچہ کتا بن کر بھاگ گیا ہے.تو کیا تم اس کی بات کو بلاوجہ معقول اور بلا تحقیق مان لو گے؟ کبھی نہیں.اس لئے قرآن مجید نے فرمایا فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(الانبیاء:۸) اب مسیح علیہ السلام کی وفات کے مسئلہ پر اور ان کے آسمان پر اُڑ جانے کے متعلق غور کرو قطع نظر اُن دلائل کے جو اُن کی وفات کے متعلق ہیں.یہ پکّی بات ہے کہ کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھ جانے کا معجزہ مانگا اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو ہر طرح کامل اور افضل تھے ان کو چاہیے تھا کہ وہ آسمان پر چڑھ جاتے مگر اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کی وحی سے کیا جواب دیا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا(بنی اسـرآءیل:۹۴) اس کا مفہوم یہ ہے کہ کہہ دو اللہ تعالیٰ اس امر سے پاک ہے کہ وہ خلاف وعدہ کرے جبکہ اُس نے بشر کے لئے آسمان پر مع جسم کے جانا حرام کر دیا ہے.اگر میں جاؤںتو جھوٹا ٹھیروں گا.اب اگر تمہارا یہ عقیدہ صحیح ہے کہ مسیح آسمان پر چلا گیا ہے اور کوئی بالمقابل پادری یہ آیت پیش کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرے تو تم اس کا کیا جواب دے سکتے ہو؟ پس ایسی باتوں کے ماننے سے کیا فائدہ جن کا کوئی اصل قرآن مجید میں موجود نہیں.اس طرح پر تم اسلام کو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے والے ٹھیروگے.پھر پہلی کتابوں میں بھی تو کوئی نظیر موجود نہیں.اور ان کتابوں سے اجتہاد کرنا حرام نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ (الاحقاف:۱۱) اور پھر فرمایا كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ وَ بَيْنَكُمْ وَ مَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ(الرّعد:۴۴) اور ایسا ہی فرمایا يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا

Page 112

يَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ(البقرۃ:۱۴۷) جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت کے لئے ان کو پیش کرتا ہے تو ہمارا ان سے اجتہاد کرنا کیوں حرام ہوگیا.اب انہیں کتابوں میں ملا کی نبی کی ایک کتاب ہے جو بائبل میں موجود ہے.اِس میں مسیح سے پہلے ایلیا نبی کے دوبارہ آنے کا وعدہ کیا گیا.آخر جب مسیح ابن مریم آئے تو حضرت مسیح سے الیاس کے دوبارہ آنے کا سوال ملاکی نبی کی اس پیشگوئی کے موافق کیا گیا مگر حضرت مسیح نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ آنے والا یوحنّا کے رنگ میں آچکا.اب یہ فیصلہ حضرت عیسیٰ ہی کی عدالت سے ہو چکا ہے کہ دوبارہ آنے والے سے کیا مراد ہوتی ہے.وہاں یحییٰ کا نام مثیل الیاس نہیں رکھا بلکہ انہیں ہی ایلیا قرار دیا گیا.اب یہ قیاس بھی میرے ساتھ ہے.میں تو نظیر پیش کرتا ہوں مگر میرے منکر کوئی نظیر پیش نہیں کرتے.بعض لوگ جب اس مقام پر عاجز آجاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ کتابیں محر ّ ف مبدّل ہیں.مگر افسوس ہے یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ اس سے سند لیتے رہے اور اکثر اکابر نے تحریف معنوی مراد کی ہے.بخاری نے بھی یہی کہا ہے.علاوہ اس کے یہودیوں اور عیسائیوں کی جانی دشمنی ہے.کتابیں جُدا جُدا ہیں.وہ اب تک مانتے ہیں کہ الیاس دوبارہ آئے گا.اگر یہ سوال نہ ہوتا تو حضرت مسیح کو وہ مان نہ لیتے؟ ایک فاضل یہودی کی کتاب میرے پاس ہے وہ بڑے زور سے لکھتا ہے اور اپیل کرتا ہے کہ اگر مجھ سے یہ سوال ہوگا تو میں ملاکی نبی کی کتاب سامنے رکھ دوںگا کہ اس میں الیاس کے دوبارہ آنے کا وعدہ کیا گیا تھا.اب غور کرو جبکہ باوجود ان عذرات کے لاکھوں یہودی جہنمی ہوئے اور سؤر بندر بنے تو کیا میرے مقابلہ میں یہ عذر صحیح ہوگا کہ وہاں مسیح ابن مریم کا ذکر ہے.یہودی تو معذور ہو سکتے تھے ان میں نظیر نہ تھی.مگر اب تو کوئی عذر باقی نہیں.مسیح کی موت قرآن شریف سے ثابت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت اس کی تصدیق کرتی ہے.اور پھر قرآن شریف اور حدیث میں مِنْکُمْ آیا ہے.پھر خدا تعالیٰ نے مجھے خالی ہاتھ نہیں بھیجا ہزاروں لاکھوں نشان میری تصدیق میں

Page 113

ظاہر ہوئے اور اب بھی اگر کوئی چالیس دن میرے پاس رہے تو وہ نشان دیکھ لے گا.لیکھرام کا نشان عظیم الشان نشان ہے.احمق کہتے ہیں کہ میں نے قتل کرا دیا.اگر یہ اعتراض صحیح ہے تو پھر ایسے نشانات کا امان ہی اُٹھ جائے گا.کل کو کہہ دیا جائے گا کہ خسرو پرویز کو معاذ اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کرا دیا ہوگا.ایسے اعتراض حق بین اور حق شناس لوگوں کا کام نہیں ہے.میں آخر میں پھر کہتا ہوں کہ میرے نشانات تھوڑے نہیں.ایک لاکھ سے زیادہ انسان میرے نشانوں پر گواہ ہیں اور زندہ ہیں.میرے انکار میں جلدی نہ کرو.ورنہ مرنے کے بعد کیا جواب دوگے؟ یقیناً یاد رکھو کہ خدا سر پر ہے اور وہ صادق کو صادق ٹھیراتا اور کاذب کو کاذب.۱ ۹؍نومبر ۱۹۰۵ء (بمقام امرتسر) ۹؍تاریخ کی صبح کو امرتسر میں ایک تقریر کے واسطے تجویز کی گئی.جس کے لئے رائے گنھیا لال صاحب وکیل کا لکچر ہال لیا گیا تھا.لکچر ہال سب آدمیوں سے بھر گیا تھا.۸بجے کے بعد حضرت نے تقریر شروع کی پہلے یہ بیان فرمایا کہ قریباً چودہ سال پہلے جب کہ میں یہاں آیا تھا تو اس وقت چند آدمی میرے ساتھ تھے مولوی لوگوں نے مجھے کفر کا فتویٰ دیا اور عبد الحق غزنوی نے میرے ساتھ مباہلہ کیا یعنی میں نے اور اس نے قسم کھائی.جس میں میںنے کہا کہ اگر میں اپنے دعویٰ میں جھوٹا اور مفتری ہوں تو خدا مجھے ذلیل اور ہلاک کرے.اس مباہلہ کے بعد خدا تعالیٰ نے میری بڑی نصرت کی.تین لاکھ سے زیادہ آج میرے مرید ہیں.اور کثرت سے مخلصین میرے گرد ہیں.اور باوجود مخالفین کی سخت کوششوں اور منصوبوں کے خدا تعالیٰ نے مجھے مقدمات سے بچایا اور بہت سا مال مجھے بھیجا.غرض قریب پونے گھنٹہ کے حضرت نے تقریر کی.اور اس کے بعد آپ نے اسلام کی خوبیوںکا ذکر شروع کرنا چاہا.لیکن افسوس ہے کہ مخالفین نے جو پہلے سے منصوبہ کر کے آئے تھے کہ درمیان میں شور ۱ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴۱ مورخہ ۳۰؍نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۴ تا ۶ نیز بدر جلد ۲ نمبر ۵۱مورخہ ۲۰؍دسمبر۱۹۰۶ءصفحہ ۴تا۱۸

Page 114

ڈالیں تاکہ کوئی سننے نہ پائے.اور جن میں غزنوی گروہ اور مولوی ثناء اللہ کی پارٹی کے آدمی شامل تھے.ایک بڑا ہنگامہ اور شور مچایا اور بعض نے تالیاں بجائیں اور سیٹیاں ماریں اور بعض نے گالیاں فحش دینی شروع کر دیں.امرتسر کے رؤساء نے کھڑے ہو کر بار بار انکو سمجھایا اور پولیس نے بہت بٹھانا اور خاموش کرنا چاہامگر کسی نے ایک نہ مانی اور اس قدر شور برپا کیا کہ لیکچر کو بند کرنا پڑا اور لوگوں کو منتشر کرنا چاہا مگر نہ ہوئے.اور جب حضرت گاڑی پر سوار ہونے لگے تو پتھر اور اینٹیں بارش کی مانند برسانی شروع کیں.یہ خدا کی حفاظت تھی کہ ہم سب بچ گئے ورنہ ہم پر پتھر اس طرح پڑ رہے تھے جس طرح طائف والوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکے تھے.حضرت نے اسی جگہ فرمایا.ضرور تھا کہ یہ سنت بھی پوری ہوتی کیونکہ تمام نبیوں کے ساتھ یہ حالت ہوتی رہی ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ کے وقت بھی یہ منصوبہ بازی کی گئی تھی کہ جب قرآن شریف پڑھا جاوے تو درمیان میں شور ڈال دو تاکہ کوئی شخص قرآن شریف نہ سن سکے.۱ ۲۰؍نومبر ۱۹۰۵ء (قبل ظہر ) دو تا زہ الہامات آجکل اعلیٰ حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ السلام کا علی العموم معمول ہے کہ صبح کو دس بجے کے قریب نئے مہمان خانہ میں جہاں سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب نزیل ہیں تشریف لے آتے ہیں دوسرے احباب بھی حاضر ہوجاتے ہیں اور ۱۲ بجے کے قریب تک وہاں بیٹھے رہتے ہیں.کل آپ نے قبل ظہر اپنا تازہ الہام سنایا جو ۱۹؍کی شب کو ہوا.فرمایا.رات عجیب طرز کا الہام تھا.اگرچہ اس سے پہلے اس مفہوم کا ایک الہام ہو چکا ہے مگر یہ طرز عجیب ہے اِنِّیْ مَعَکَ یَا ابْنَ رَسُوْلِ اللہِ.دوسرا الہام اس کے ساتھ یہ ہے سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلٰی دِیْنٍ وَّاحِدٍ.۱ بدر جلد ۱ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۵؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۴

Page 115

اس پر فرمایا.پہلے ایک الہام ہوا تھا جس کو عرصہ ہوتا ہے سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ عَلٰی مَشْـرَبِ الْـحَسَنِ یُصَالِـحُ بَیْنَ النَّاسِ.۱ اور اب یہ الہام ہوا ہے جس میں مجھے یَا ابْنَ رَسُوْلِ اللہِ فرمایا ہے.دوسرے الہام کے متعلق فرمایا کہ یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلٰی دِیْنٍ وَّاحِدٍ یہ ایک خاص قسم کا امر ہے.احکام و اوامر کی دو قسمیں احکام اور امر دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک شرعی رنگ میں ہوتے ہیں جیسے نماز پڑھو، زکوٰۃ دو، خون نہ کرو وغیرہ.اس قسم کے اوامر میں ایک پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ گویا بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اس کی خلاف ورزی کریں گے.جیسے یہود کو کہا گیا کہ توریت کو محرف مبدل نہ کرنا.یہ بتاتا تھا کہ بعض ان میں سے کریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.غرض یہ امر شرعی ہے اور یہ اصطلاح شریعت ہے.دوسرا امر کونی ہوتا ہے اور یہ احکام اور امر قضا و قدر کے رنگ میں ہوتے ہیں جیسے قُلْنَا يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا (الانبیاء:۷۰) اور وہ پورے طور پر وقوع میں آگیا.اور یہ امر جو میرے اس الہام میں ہے یہ بھی اس قسم کا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمانان روئے زمین عَلٰی دِیْنٍ وَّاحِدٍ جمع ہوں اور وہ ہو کر رہیں گے.ہاں اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان میں کوئی کسی قسم کا بھی اختلاف نہ رہے.اختلاف بھی رہے گا مگر وہ ایسا ہوگا جو قابل ذکر اور قابل لحاظ نہیں.۲ ۱ یہ الہام ۱۹۰۱ء کا ہے اور الحکم میں چھپا ہوا ہے.(ایڈیٹر ) ۲ الحکم جلد ۹ نمبر ۴۲ مورخہ ۳۰؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲

Page 116

بلا تاریخ (بمقام لدھیانہ) سوادیشی تحریک پر حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رائے آج کل بنگالیوں کو بالخصوص اور ان کے دیکھا دیکھی ہندوستان کے دیگر علاقہ کے آریوں اور ہندوؤں کو بالعموم یہ جوش پیدا ہو رہا ہے کہ یورپ کی اشیاء کو قطعاً حرام کر کے صرف ہندوستانی ساخت کی اشیاء کا استعمال کریں.لدھیانہ میں ایک ہندو صاحب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے یہی ذکر چھیڑا کہ ہمارا ملک بہت غریب ہو گیا ہے ان کے افلاس کو دور کرنے کی کوشش آپ کریں اور سوادیشی کے متعلق آپ تائید اور تحریک کریں.اس کے جواب میں حضرت اقدسؑ نے فرمایا.غربت اور افلاس اس ملک کے ساتھ خاص نہیں ہر جگہ غریب لوگ بھی ہوتے ہیں.ہم سنتے ہیں کہ ولایت کے بعض شہروں میں جو بڑے امیر شہر سمجھے جاتے ہیں کئی لوگ فاقہ کشی سے مر جاتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں کبھی ایسا سننے میں نہیں آیا کہ کوئی شخص بھوک سے فوت ہوگیا ہو اور سوادیشی کے متعلق یہ ہےکہ اپنے وطن کی چیز کا استعمال بے شک عمدہ بات ہے.خود گورنمنٹ بھی اس کو پسند کرتی ہےکہ تمام ضروری اشیاء کی ساخت کا ہنر ہندوستانی سیکھیں.اور حرفت اور تجارت میں ترقی کریں لیکن موجودہ تحریک سوادیشی اپنے اندر ایک بغاوت کی خفیہ ملونی رکھتی ہے اور دراصل اس تحریک کی ابتدا ملکی اشیاء کی ہمدردی سے نہیں ہے.بلکہ تقسیم بنگالہ پر بنگالیوں کی ناراضگی اس کی جڑ ہے.اس واسطے یہ امر منحوس معلوم ہوتا ہے.علاوہ ازیں ملک کے تمام حرفے مدت سے موقوف ہو چکے ہیں ان کو پھر جب تک بحال نہ کیا جائے تب تک ایسی تحریکیں بجائے فائدہ کے نقصان کا موجب ہوں گی.غرض موجودہ تحریک سوادیشی کسی نیک نیتی پر مبنی نہ ہونے

Page 117

کے سبب قابل ہمدردی اور شمولیت نہیں ہے.۱ ۲۶؍نومبر ۱۹۰۵ء (قبل دوپہر) حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کا ذکر خیر سید امیر علی شاہ کے ساتھ مخدوم الملۃ کا ذکر چل پڑا، حضرت مولوی عبد الکریم ؓکے ذکر پر فرمایا.مولوی صاحب ہر تقریب اور ہر جلسہ پر یاد آجاتے ہیں.ان کے سبب لوگوں کو فائدہ ہوتا تھا.وہ بڑی زبردست تقریر کرنے والے تھے.میں نے مقابلہ کر کے خوب دیکھا ہے ان کے اندر محبت اور اخلاص کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور بجز اس کے میں سمجھتا ہوںاور کچھ تھا ہی نہیں اور اس حد تک تھا کہ میں دیکھتا ہوں کہ دوسروں میں وہ نہیں.میں ان سے بہت عرصہ سے واقف ہوں.اس وقت بھی میں نے ان کو دیکھا تھا جب وہ نیچری تھے.اس وقت بیعت بھی کر لی تھی.لیکن ابھی بعض امور ان کے دل میں تھے.چنانچہ مسیح کے بے پدر ہونے پر مجھ سے گفتگو بھی کیا کرتے تھے اور کئی بار کہا کرتے کہ ان کا بھی فیصلہ کر دو.مگر میں انہیں جواب دیا کرتا کہ ہمارا یہی مذہب ہے کہ وہ بن باپ ہوئے.اس کا زبردست ثبوت یہ ہے کہ یحییٰ اور عیسیٰ کا قصہ ایک ہی جگہ بیان کیا ہے.پہلے یحییٰ کا ذکر کیا جو بانجھ سے پیدا ہوئے.دوسرا قصہ مسیح کا اس کے بعد بیان فرمایا جو اس سے ترقی پر ہونا چاہیے تھا اور وہ یہی ہے کہ وہ بن باپ ہوئے اور یہی امر خارق عادت ہے.اگر بانجھ سے پیدا ہونے والے یحییٰ کے بعد باپ سے ہونے والے کا ذکر ہوتا تو اس میں خارق عادت کی کیا بات ہوئی؟ اور عیسائی جو ان کے بن باپ ہونے سے خدا بناتے ہیں اس کا جواب دوسری جگہ دے دیا اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ( اٰلِ عـمران:۶۰) اب اگر بن باپ پیدا ہونے والا خدا ہو سکتا ہے تو پھر جس کا ماں اور باپ دونوں نہ ہوں وہ تو بدرجہ اولیٰ خدا ہو گا مگر ان کو وہ خدا نہیں مانتے اور ایسا ہی یحییٰ میں بھی ۱ بدر جلد ۱ نمبر ۳۷ مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۷

Page 118

خدائی ماننی چاہیے کیونکہ وہ بانجھ سے پیدا ہوئے تھے.غرض اوائل میں اس قسم کی گفتگو ہوتی رہی تھیں.پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کی معرفت زیادہ کی تو ایک دن کہنے لگے آپ گواہ رہیں آج سے میں نے سب گفتگوئیں ترک کر دیں اس کے بعد موت تک بجز تسلیم اور کچھ نہ ہوگا.اور پھر میں نے دیکھا کہ اس دن کے بعد موت تک واقعی یہی حالت رہی کہ رضا اور تسلیم کے سوا کوئی اور بات تھی ہی نہیں.میں نے دیکھا ہے کہ جن لوگوں نے ان کے خطبات سنے ہیں وہ یہ بات جانتے ہیں کہ ان میں بجز میرے حالات اور ذکر کے اور کچھ نہ ہوتا تھا بلکہ بعض اوقات میں نے سنا کہ بعض آدمی اس امر کو کسی حد تک پسند نہیں کرتے.مگر وہ بجز اس کے اور کچھ کہنا نہ چاہتے تھے.اس مقام پر میں۱ نے عرض کی کہ حضور مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ وہ تقریر اور کلام میرے نزدیک حرام ہے جس میں حضرت مسیح موعود کی سچائی کا ذکر نہ ہو.یہ الفاظ سن کر میں نے دیکھا کہ (مامور) آنحضرتؑکی آنکھوں پُر نم ہوگئی تھی.لیکن ان لوگوں کا ضبط اور صبر لا نظیر ہوتا ہے اس لیے ضبط کا نمونہ دکھلایا مگر چہرہ سرخ ہوگیا تھا اور اس میں خاص قسم کی درخشندگی پائی جاتی تھی.پھر اس ذکر کے سلسلہ میں فرمایا کہ ان کی بڑی بیوی نے رؤیا دیکھا تھا کہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ میں احمدی ہوگیا ہوں.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ میری محبت میں فنا ہوگئے تھے.اچھا.اللہ تعالیٰ مغفرت کرے.آمین ثم آمین راستباز وہی ہے جس کی شہادت خدا دے مولوی صاحب کے اس ذکر کے بعد سید امیر علی شاہ نے جماعت علی کا ذکر کیا کہ وہ ان کی موت کو اپنی پیشگوئی کی بنا پر ظاہر کرتا ہے.اس پر فرمایا.موت فوت سے تو کوئی رہ نہیں سکتا.انبیاء علیہم السلام پر بھی موت آئی.انہیں ٹھٹھا کرنا اور اس ۱ یعنی ایڈیٹر الحکم (مرتّب)

Page 119

قسم کی شیخیاں اچھی نہیں ہوتی ہیں.اسی طرح شیعہ بھی کہتے ہیں.اگر پیشگوئیاں اور خوارق یہی ہوتے ہیں تو پھر یزید کی کرامت کا بھی ان کو قائل ہونا پڑے گا.افسوس یہ لوگ نہیں سوچتے کہ راستباز وہی ہے جس کی شہادت خدا دے.اور کسی قہر کے وقت امتیازی رنگ اس کے ساتھ ہو.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت فرعونی تباہ ہوئے مگر موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا.اس قسم کی باتیں ہوتی رہیں.طاعون کا ذکر چل پڑا.آپ نے پرانی رؤیا ہاتھی والی بیان کی اور بالآخر فرمایا کہ میرا الہام تو یہی ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ جب تک پوری تبدیلی اور اصلاح نہیں ہوتی خدا تعالیٰ کا یہ عذاب ٹلتا نظر نہیں آتا.۱ ۲۹؍نومبر ۱۹۰۵ء (قبل ظہر) مدرسہ کے اجرا کی غرض فرمایا.ہماری غرض مدرسہ کے اجرا سے محض یہ ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کیا جاوے.مروجہ تعلیم کو اس لیے ساتھ رکھا ہے کہ یہ علوم خادمِ دین ہوں.ہماری یہ غرض نہیں کہ ایف اے یا بی اے پاس کرکے دنیا کی تلاش میں مارے مارے پھریں.ہمارے پیش نظر تو یہ امر ہے کہ ایسے لوگ خدمت دین کے لیے زندگی بسر کریں.اور اسی لیے مدرسہ کو ضروری سمجھتا ہوں کہ شاید دینی خدمت کے لیے کام آسکے.مشکل یہ ہے کہ جس کو ذرا بھی استعداد ہو جاوے وہ دنیا کی طرف جھک جاتا ہے.میں چاہتا ہوں ایسے لوگ پیدا ہوں جیسے مولوی محمد علی صاحب کام کر رہے ہیں.زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں.اب وہ اکیلے ہیں.کوئی ان کا ہاتھ بٹانے والا یا قائم مقام نظر نہیں آتا.میں دیکھتا ہوں کہ آریوں کی یہ حالت ہے کہ ایک طرف تو وہ ذرہ ذرہ کو خدا بنا رہے ہیں اور اس ۱ الحکم جلد ۹ نمبر ۴۲ مورخہ ۳۰؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲

Page 120

طرح پر اللہ تعالیٰ کی معرفت سے بے نصیب اور حقوق کے سمجھنے سے قاصر ہیں.اور حقوق العباد کی طرف سے ایسے اندھے ہیں کہ نیوگ جیسے مسئلہ کو مانتے ہیں.باوجود ایسا مذہب رکھنے کے پھر ان میں اس کی حمایت کے لیے اس قدر جوش ہے کہ بہت سے تعلیم یافتہ اپنی زندگیاں مذہب کی خاطر وقف کر دیتے ہیں.اور یہاں یہ حال ہے کہ جو مدرسہ سے نکلتا ہے اس کو دنیوی امور کی طرف ہی توجہ ہو جاتی ہے.جہاں تک ہو سکے یہی آرزو ہے کہ کوئی دینی خدمت ہو جاوے.تازہ الہامات رات پھر وہی الہام ہوا جو پہلے بھی ہو چکا ہے.(۱) بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.(۲) قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ.(۳) اس دن سب پر اداسی چھا جائے گی.(۴) قَرُبَ اَجَلُکَ الْـمُقَدَّرُ.وَلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْـمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا.ان الہامات پر غور کر کے میں بھی سمجھتا ہوں کہ وہ زمانہ بہت ہی قریب ہے.پہلے بھی یہ الہام ہوا تھا.اس وقت اس کے ساتھ ایک رؤیا بھی تھی کہ ایک شخص نے مجھے کنوئیں کی ایک کوری ٹنڈ میں ٹھنڈا پانی دیا وہ پانی بڑا ہی مصفّٰی اور مقطّر تھا مگر وہ تھوڑا سا تھا اور اس کے ساتھ الہام ہوا تھا ’’آبِ زندگی‘‘ غرض زندگی کا زمانہ خواہ کتنا ہی لمبا ہو پھر بھی تھوڑا ہی ہے.(قبل عصر) مامورین کے اغراض و مقاصد کا ان کے متبعین کے ذریعہ پورا ہونا ۳۰؍نومبر ۱۹۰۵ء کی صبح کو جناب سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب مدراسی واپس وطن کو جانے والے تھے اس لیے حضرت اقدس سیٹھ صاحب کی ملاقات کے واسطے مہمان خانہ جدید میں جہاں سیٹھ صاحب اور دوسرے احباب فروکش تھے تشریف لائے اور سیٹھ صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا.رات مجھے یہ الہام ہوا ہے (وہی الہام جو اوپر درج ہوچکے ہیں سنائے)

Page 121

الہام سنانے کے بعد فرمایا.وَلَا نُبْقِيْ لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكْرًا سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی رسوا کرنے والا ذکر باقی نہ چھوڑیں گے.یہ بڑا مبشر الہام ہے یعنی تیرے آنے کی جو علّتِ غائی ہے اس کو ہم پورا کر دیں گے.کسی مامور و مرسل کے لیے رسوا کرنے والا ذکر یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد و اغراض میں ناکامیاب ہو.سو اللہ تعالیٰ نے بشارت دی ہے کہ تیرے آنے کی جو غرض اور مقصد ہے اس کو ہم پورا کر دیں گے.مگر یہ سنت اللہ ہے کہ جس قدرمامور دنیا میں آتے ہیں یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ ان کے ہی زمانہ میں پوری تکمیل ہو جاوے.بلکہ بہت سے امور ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے متبعین کے ہاتھوں سے پورے ہوتے ہیں اور ان کے ہی ہاتھ پر وہ تکمیل سمجھی جاتی ہے.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت میں مکہ مدینہ اور بعض نواح تک اسلام تھا لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اسلام کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا.اور بہت سے امور کی تکمیل صحابہؓ کے ہاتھ پر ہوئی جو درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی کامیابی اور آپ کے دست مبارک پر ہی تکمیل تھی.اس کے بعد بنو امیہ اور دوسرے سلاطین کے ذریعہ ان ترقیوں میں اور ترقی ہوئی اور محمود غزنوی نے بھی ان میں حصہ لیا.اور یہ سلاطین ہند جو سات سو برس تک حکمران رہے کسی حد تک ان کو بھی حصہ ملا.انہوں نے ایسی ایسی جگہ مساجد تعمیر کرائیں جو ہندوؤں کے مرکز تھے.غرض یہ سنت اللہ ہے جو مامور ہو کر آتا ہے.ضروری نہیں کہ سب مقاصد اس کے وقت ہی میں مکمل ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ قیصر و کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دی گئی ہیں.لیکن وہ کنجیاں آپ کے بعد حضرت عمرؓکو دی گئیں.یہ کہنا کہ وہ آپ کو نہیں ملیں غلط ہے کیونکہ اس بات کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ متبعین کی فتوحات اور کامیابیاں بھی دراصل متبوع ہی کی فتوحات ہوتی ہیں.مامور کی وفات پر جماعت کا غمگین ہونا فطری امر ہے ’’اس دن سب پر اداسی چھا جائے گی.‘‘

Page 122

اس کے متعلق فرمایا کہ یہ بالکل سچ ہے.جب اللہ تعالیٰ کا کوئی مامور دنیا سے اٹھتا ہے تو ہر چیز پر ایک اداسی چھا جاتی ہے خصوصاً ان لوگوں پر جو اس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.انسان کی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ ہر بات کو قبل از وقت سمجھتا ہے.اس لیے جب اس کی کوئی محبوب چیز جاتی رہے تو پھر ضرور غمگین ہوتا ہے.یہ ایک فطرتی تقاضا ہے.صحابہ کی حالت کا کون اندازہ کر سکتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تھی.ان کو تو قریباً ایک قسم کا جنون ہوگیا تھا اس غم میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں ان پر آیا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تو وہ جوش آیا کہ انہوں نے تلوار ہی نکال لی کہ جو شخص کہے گا کہ آپ وفات پاگئے ہیں میں اسے قتل کر دوں گا.گویا وہ یہ لفظ بھی سننا نہ چاہتے تھے.پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا اور آیت مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ( اٰلِ عـمران:۱۴۵) پڑھی تو ان کا جوش فرو ہوا.یہ آیت دراصل ایک جنگ میں نازل ہوئی تھی جبکہ شیطان کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی آواز دی گئی مگر اس وقت حضرت ابو بکر نے اس آیت کو پڑھا تو صحابہ سمجھتے تھے کہ گویا یہ آیت ابھی اتری ہے.یقینی الوجود عالَم آخرت فرمایا.ایسے امور میں حیرت اور سرگشتگی ایک لازمی امر ہوتا ہے.یہ اختیاری بات نہیں کہ نہ ہو.میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جو قبل از وقت ان امور کو بار بار ظاہر کرتا ہے.اس میں یہ سِر ہے کہ تاجماعت کی تسلّی اور اطمینان کا موجب ہو.ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ دو عالَم ہیں جو یقینی الوجود ہیں.ایک تو یہی عالَم جس میں ہم اب ہیں اور زندگی بسر کر رہے ہیں.دوسرا وہ عالَم جس میں مرنے کے بعد ہم داخل ہوتے ہیں.چونکہ انسان کو اس کا وسیع علم نہیں ہوتا اس لیے اسے وہمی سمجھتا اور اس سے کراہت کرتا ہے.اس کی وجہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ اس کی خبر نہیں.اور اس عالَم میں چونکہ رہتا ہے اور اس کی خبر اور اطلاع ہے اس لیے اس سے محبت کرتا ہے اور اسی میں رہنا چاہتا ہے.اگر اس عالَم پر پورا یقین ہوجاوے تو

Page 123

اس عالَم سے چلا جانے کا کوئی غم اس کو نہ ہو اور ایسی صورت میں یہ عالَم تو اسی قدر ہے کہ جیسے مسافر کسی جگہ کو کوچ کرنے کو طیاری کرے تو زادِ راہ کا بندوبست کر لیتا ہے.اسی قدر یہ عالَم ہے کہ اس عالَم کے سفر کے لیے زادِ راہ کا بندوبست کرے اور نہ اس سے زیادہ شریعت حکم دیتی ہے.اگر یہ عالَم ہمیشہ کے لیے ہوتا تو آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک جس قدر انبیاء و رسل اس دنیا میں گذرے ہیں ان کے ہمیشہ یہاں رہنے کی بہت بڑی ضرورت تھی اور اس کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے؟ مگر دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے جب تک ان کے لیے اس عالَم میں رہنا پسند کیا وہ یہاں رہے اور آخر اپنا کام کر کے اس دنیا سے رخصت ہوئے خواہ دوسروں کے نزدیک ان کی وہ رخصت قبل از وقت ہی سمجھی گئی ہو.اوروں کا ذکر چھوڑو کہ بنی اسرائیل میں بھیجے ہوئے رسولوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک بڑے اولوالعزم رسول تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان سے بڑے بڑے وعدے فرمائے.منجملہ ان کے ارضِ مقدس میں داخل ہونے کا وعدہ تھا مگر اس ارضِ مقدس کے راستہ ہی میں ان کو موت آگئی اور وہ اس وعدہ کی زمین میں داخل نہ ہو سکے.پھر خدا تعالیٰ نے ان کےبعد یشوع بن نون کو برگزیدہ کیا اور وہ اس زمین میں داخل ہوا.غرض یہ ایک قسم کے اسرار ہوتے ہیں جن کو ہر شخص نہیں سمجھ سکتا.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعائیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو رو رو کر دعائیں کرتے تھے اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ موت سے ڈرتے تھے یا اس زندگی سے پیار کرتے تھے بلکہ ان کو ناکامی کا اندیشہ تھا کہ ایسا نہ ہو میں ناکام دنیا سے اٹھوں.آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو سنا.مگر یہ نہیں کہ وہ موت کا پیالہ ان سے ٹل گیا اپنے وقت پر انہوں نے پیا اور رخصت ہوئے.مامور کی وفات سے خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں کوئی فرق نہیں آتا فرمایا.ہم تو اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرتے ہیں اور ہم یقین کرتے ہیں کہ جو کچھ وہ کرتا ہے بہتر کرتا ہے.یہ مت خیال کرو کہ اللہ تعالیٰ کے کاروبار میں جن کا اس نے ارادہ کیا ہوتا ہے کسی قسم کا

Page 124

فرق آجاتا ہے.ایسا تو وہم کرنا بھی سخت گناہ ہے.نہیں بلکہ وہ کاروبار جس طرح وہ چاہتا ہے بدستور چلتا ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اسے چلاتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے کہ وہ راستہ ہی میں فوت ہوگئے.قوم چالیس دن تک ماتم کرتی رہی مگر خدا تعالیٰ نے وہی کام یشوع بن نون سے لیا اور پھر چھوٹے چھوٹے اور نبی آتے رہے یہاں تک کہ مسیح ابن مریم آگیا اور اس سلسلہ میں جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے شروع کیا تھا کوئی فرق نہ آیا.پس یہ کبھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں کوئی فرق آجاتا ہے.یہ ایک دھوکہ لگتا ہے اور بُت پرستی تک نوبت پہنچ جاتی ہے اگر یہ خیال کیا جاوے کہ ایک شخص کے وجود کے بغیر کام نہیں چل سکتا.میں تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور طرف نظر اٹھانا کبھی پسند نہیں کرتا.مولا بس فرمایا.میرے ایک چچا صاحب فوت ہوگئے تھے.عرصہ ہوا میں نے ایک مرتبہ ان کو عالَم رؤیا میں دیکھا اور ان سے اس عالَم کے حالات پوچھے کہ کس طرح انسان فوت ہوتا ہے اور کیا ہوتا ہے.انہوں نے کہا کہ اس وقت عجیب نظارہ ہوتا ہے.جب انسان کا آخری وقت قریب آتا ہے تو دو فرشتے جو سفید پوش ہوتے ہیں سامنے آتے ہیں اور وہ کہتے آتےہیں مولا بس.مولا بس.(فرمایا.حقیقت میں ایسی حالت میں جب کوئی مفید وجود درمیان سے نکل جاتا ہے تو یہی لفظ ’’مولا بس‘‘ موزوں ہوتا ہے.) اور پھر وہ قریب آکر دونو انگلیاں ناک کے آگے رکھ دیتے ہیں.اے روح! جس راہ سے آئی تھی اسی راہ سے واپس نکل آ.فرمایا.طبعی امور سے ثابت ہوتا ہے کہ ناک کی راہ سے روح داخل ہوتی ہے اسی راہ سے معلوم ہوا نکلتی ہے.توریت سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ نتھنوں کے ذریعہ زندگی کی روح پھونکی گئی.وہ عالَم عجیب اسرار کا عالَم ہے جن کو اس زندگی میں انسان پورے طور پر سمجھ بھی نہیں سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم خوش قسمتی فرمایا.اگر دن تھوڑے بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں بسر ہوں تو غنیمت

Page 125

ہیں.حضرت عیسیٰ علیہ السلام جس ملک میں رہے تھے وہاں کی زندگی صرف ساڑھے تین سال کی ہی رسالت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ رسالت ۲۳ سال تھا.مگر میں جانتا ہوں کہ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش قسمتی ثابت ہوتی ہے اور کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں.امور رسالت میں یہ کامیابی اور سعادت کسی اور کو نہیں ملی.آپ کی آمد کا وہ وقت تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے خود ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ(الـروم:۴۲) سے بیان کیا ہے یعنی نہ خشکی میں امن تھا نہ تری میں.مراد اس سے یہ ہے کہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سب بگڑ چکے تھے اور قسم قسم کے فساد اور خرابیاں ان میں پھیلی ہوئی تھیں.گویا زمانہ کی حالت بالطبع تقاضا کرتی تھی کہ اس وقت ایک زبردست ہادی اور مصلح پیدا ہو.ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا اور پھر آپ ایسے وقت دنیا سے رخصت ہوئے جب آپ کو یہ آواز آگئی اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا(المائدۃ:۴) یہ آواز کسی اور نبی اور رسول کو نہیں آئی.کہتے ہیں جب یہ آیت اتری اور پڑھی گئی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس آیت کو سن کر رو پڑے.ایک صحابی نے کہا کہ اے بڈھے آدمی تجھے کیا ہوگیا آج تو خوشی کا دن ہے تو کیوں رو پڑا؟ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ تو نہیں جانتا مجھے اس آیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی بو آتی ہے.حضرت ابوبکرؓ کی فراست بہت تیز تھی انہوں نے سمجھ لیا کہ جب کام ہوچکا تو پھریہاں کیا کام؟ قاعدہ کی بات ہے کہ جب کوئی بندوبست کا افسر کسی ضلع کا بندوبست کرنے کو بھیجا جاتا ہےوہ اس وقت تک وہاں رہتا ہے جب تک وہ کام ختم نہ ہولے.جب کام ختم ہوجاتا ہے تو پھر کسی اور جگہ بھیجا جاتا ہے.اسی طرح پر مرسلین کے متعلق بھی یہی سنت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ امر دریافت کیا گیا تو آپؐنے فرمایا ابوبکر سچ کہتا ہے اور پھر یہ بھی فرمایا کہ اگر میں کسی کو دنیا میں دوست رکھتا تو ابوبکر کو.خُلَّت کی حقیقت یہ جملہ بھی قابل تشریح ہے.حضرت ابوبکرؓ کو آپ دوست تو رکھتے تھے پھر اس کا کیا مطلب؟ بات اصل میں یہ ہے کہ خُلّت اور دوستی تو وہ ہوتی

Page 126

ہے جو رگ و ریشہ میں دھنس جاوے.وہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کا خاصہ اور اسی کے لیے مخصوص ہے.دوسروں کے ساتھ محض اخوت اور برادری ہے.خُلّت کا مفہوم ہی یہی ہے کہ وہ اندر دھنس جاوے جیسے یوسف زلیخا کے اندر رچ گیا تھا.بس یہی معنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پاک فقرہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں تو کوئی شریک نہیں.دنیا میں اگر کسی کو دوست رکھتا تو ابوبکر کو رکھتا.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کسی کو بیٹا بناتا تو ایک مقرب کو بنا لیتا.ایک مفسر کہتا ہے کہ مقرّب سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کو مقام لَدُنّی حاصل ہے.غرض یہ امور تکمیل کے لیے ضروری ہیں جن کو ہر شخص سمجھ نہیںسکتا.امت پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا عظیم احسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ہزاروں آدمی مرتد ہوگئے حالانکہ آپ کے زمانہ میں تکمیل شریعت ہوچکی تھی.یہاں تک اس ارتداد کی نوبت پہنچی کہ صرف دو مسجدیں رہ گئیں جن میں نماز پڑھی جاتی تھی.باقی کسی مسجد میں نماز ہی نہیں پڑھی جاتی تھی.یہ وہی لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا (الـحجرات:۱۵) مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ دوبارہ اسلام کو قائم کیا اور وہ آدم ثانی ہوئے.میرے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہت بڑا احسان اس امت پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہے کیونکہ ان کے زمانہ میں چار جھوٹے پیغمبر ہوگئے.مسیلمہ کے ساتھ ایک لاکھ آدمی ہوگئے تھے.اور ان کا نبی ان کے درمیان سے اٹھ گیا تھا مگر ایسی مشکلات پر بھی اسلام اپنے مرکز پر قائم ہوگیا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو توبات بنی بنائی ملی تھی.پھر وہ اس کو پھیلاتے گئے.یہاں تک کہ نواح عرب سے اسلام نکل کر شام و روم تک جا پہنچا اور یہ ممالک مسلمانوں کے قبضے میں آگئے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ والی مصیبت کسی نے نہیں دیکھی تھی نہ حضرت عمرؓ نے نہ حضرت عثمانؓنے اور نہ حضرت علیؓنے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور میرا باپ خلیفہ ہوا اور لوگ مرتد ہو گئے تو میرے

Page 127

باپ پر اس قدر غم پڑا کہ اگر پہاڑ پر وہ غم پڑتا تو وہ زمین کے برابر ہوجاتا.ایسی حالت میں حضرت ابو بکرؓ کا مقابلہ ہم کس سے کریں.اصل مشکلات اور مصائب کا زمانہ وہی تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیاب کیا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقت کوئی فتنہ باقی نہ تھا اور حضرت عثمانؓ کو تو میں حضرت سلیمانؑ سے تشبیہ دیتا ہوں ان کو بھی عمارات کا بڑا شوق تھا.حضرت علیؓ کے وقت میں اندرونی فتنے ضرور تھے.ایک طرف معاویہ تھے اور دوسری طرف علیؓ.اور ان فتنوں کے باعث مسلمانوں کے خوب خون بہے.۶ سال کے اندر اسلام کے لیے کوئی کارروائی نہیں ہوئی.اسلام کے لیے تو عثمانؓ تک ہی ساری کارروائیاں ختم ہوگئیں.پھر تو خانہ جنگی شروع ہوگئی.حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما حضرت حسنؓ نے میری دانست میں بہت اچھا کام کیا کہ خلافت سے الگ ہوگئے پہلے ہی ہزاروں خون ہوچکے تھے.انہوںنے پسند نہ کیا کہ اور خون ہوں اس لیے معاویہ سے گذارہ لے لیا.چونکہ حضرت حسنؓ کے اس فعل سے شیعہ پر زد ہوتی ہے اس لیے امام حسنؓ پر پورے راضی نہیں ہوئے.ہم تو دونوں کے ثناخواں ہیں.اصلی بات یہ ہے کہ ہر شخص کے جدا جدا قویٰ معلوم ہوتے ہیں.حضرت امام حسنؓ نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں.انہوں نے امن پسندی کو مدّ نظر رکھا.اور حضرت امام حسینؓ نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے.دونوں کی نیت نیک تھی.اِنَّـمَا الْاَعْـمَالُ بِالنِّیَّاتِ.یہ الگ امر ہے کہ یزید کے ہاتھ سے بھی اسلامی ترقی ہوئی یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے وہ چاہے تو فاسق کے ہاتھ سے بھی ترقی ہو جاتی ہے.یزید کا بیٹا نیک بخت تھا.ہر شخص اپنے قویٰ کے موافق کام کرتا ہے اصل یہی ہے کہ ہر شخص اپنے قویٰ کے موافق کام کرتا ہے قُلْ كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ(بنی اسـرآءیل:۸۵) بعض لوگ دنیا داری میں بڑے کامل ہوتے ہیں.بعض سادہ ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دیکھا کہ لوگ کھجور کو پیوند کر رہے ہیں.یہ پیوند نر کا مادہ

Page 128

کو ہوتاہے.آپ نے ان کو منع کیا انہوں نے نہ لگایا.اس سال کھجوریں نہ لگیں تو آپ نے فرمایا اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ یعنی تم اپنے دنیوی معاملات کو بہت جانتے ہو.انبیاء علیہم السلام باوجود اس کے کہ بڑے قوی الحوصلہ اور صاحبِ ہمت لوگ ہوتے ہیں.لیکن اگر انہیں قلبہ رانی کے لیے کہا جاوے تو انہیں کب توفیق ہو سکتی ہے.اس لیے کہ وہ اس غرض کے لیے بنائے ہی نہیںجاتے.جس مقصد اور غرض کے لیے وہ آتے ہیں اور اس راہ میں جو تکالیف اور مصائب انہیںاٹھانے پڑتے ہیں کوئی دوسرا شخص دنیا کا خواہ وہ کیسا ہی بہادر اور تنومند کیوں نہ ہو وہ ان مشکلات کو ہرگز ہرگز برداشت نہیں کر سکتا.مگر اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو کچھ ایسا دل اور حوصلہ عطا کرتا ہے کہ وہ بڑی جرأت اور دلیری کے ساتھ ان کو برداشت کرتے ہیں.خود انسان کو دیکھو کہ باوجودیکہ بڑا عقل مند اور عجیب عجیب ایجادیں کرتا ہے مگر بئے کا سا گھونسلا نہیں بنا سکتا.اس لیے کہ اس قسم کے قویٰ اسے نہیں ملے.شہد کی مکھی شہد بناتی ہے انسان کا کیا مقدور ہے کہ اس قسم کا شہد بنا سکے.وہی بوٹیاں موجود ہیں مگر انسان عاجز ہے.ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے جدا جدا طاقت دی ہے.اسی طرح ایک طبقہ اناس کا وہ ہے جس کو روحانی قوتیں دی جاتی ہیں.مُردوں سے استفاضہ ایک شخص نے سوال کیا کہ زندگی میں کسی مردے سے تعلق ہو یا مرید کا اپنے پیر سے ہو.کیا وہ بھی اس سے فیض پا لیتا ہے؟ فرمایا.صوفی تو کہتے ہیں کہ انسان مرنے کے بعد بھی فیض پاتا ہے بلکہ وہ کہتے ہیںکہ زندگی میں ایک دائرہ کے اندر محدود ہوتا ہے اور مرنے کے بعد وہ دائرہ وسیع ہوجاتا ہے اس کے سب قائل ہیں.چنانچہ یہاں تک بھی مانا ہے کہ حضرت عیسیٰ جب آسمان سے آئیں گے تو چونکہ وہ علوم عربیہ سے نا واقف ہوں گے کیا کریں گے؟ بعض کہتے ہیں کہ وہ علوم عربیہ پڑھیں گے اور حدیث اور فقہ بھی پڑھیں گے.بعض کہتے ہیں کہ یہ امر تو ان کے لیے موجب عار ہے کہ وہ کسی مولوی کے شاگرد ہوں.اس لیے مانا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں بیٹھیں گے اور وہاں بیٹھ کر استفاضہ کریں گے.مگر اصل میں یہ دونوں باتیں غلط ہیں.مگر اس سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ان کا عقیدہ ہے

Page 129

کہ قبور سے استفاضہ ہو سکتا ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ امر بطریق شرک نہ ہو جیسا کہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے.دارِ فانی فرمایا.ہماری نصیحت یہی ہے کہ ہر شخص گور کے کنارے بیٹھا ہے.یہ الگ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اطلاع دے دے اور کسی کو اچانک موت آجاوے.مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ گھر ہے بے بنیاد.بہت سے لوگ دیکھے ہیں کہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے گھر کے سارے آدمیوں کو مٹی میں دبایا اور اولادوں کو دفن کیا مگر کچھ ایسے سخت دل ہوتے ہیں کہ وہ موت ان پر اثر نہیں کرتی اور تبدیلی ان میںنہیں پائی جاتی.یہ بد قسمتی ہے.یہ تماشا سلاطین کےہاں بہت دیکھا جاتا ہے.لاکھوں لاکھ خون ہوجاتے ہیں اور ان پر کوئی اثر نہیں.مساکین سے مال لیتے ہیں اور خود عیش کرتے ہیں.بڑی بھاری غفلت کا نمونہ ان کے ہاں دیکھا جاتا ہے.۱ بلا تاریخ مولوی برہان الدین صاحب مرحوم حضرت کی خدمت میں جب مولوی صاحب۲ کا ذکر آیا تو فرمایا کہ مولوی صاحب ایک صوفی مشرب آدمی تھے.اکثر فقراء اور بزرگوں کی خدمت میں جایا کرتے تھے.مولوی عبد اللہ صاحب کے استاد کے پاس بھی ایک مدت تک رہے تھے.ان کو ایک فقر کی چاشنی تھی.قریباً بائیس برس سے میرے پاس آیا کرتے تھے.پہلی دفعہ جب آئے تو میں ہوشیار پور میں تھا.اسی جگہ میرے پاس پونچے.ایک سوزش اور جذب ان کے اندر تھا.اور ہمارے ساتھ ایک مناسبت رکھتے تھے.انہوں نے مجھ سے ایک دفعہ قرآن شریف پڑھنا شروع کیا تھا.مگر صرف چند سطریں پڑھی تھیں.ایک صوفیانہ مذاق رکھتے تھے.ان کے بیٹے کو چاہیے کہ تکمیل اور تحصیل علوم دینی کی کرے اور اپنے باپ کی طرح خادم دین بنے اور بہتر ہے کہ اس جگہ ۱ الحکم جلد ۹ نمبر ۴۳ مورخہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲تا۴ ۲’’حضرت مولوی برہان الدین صاحبؓ‘‘(مرتّب)

Page 130

آجائے اور علوم دینی حاصل کرے.۱ ۲؍دسمبر ۱۹۰۵ء ایک رؤیا اور ایک الہام رؤیا دیکھا کہ ایک دیوار پر ایک مرغی ہے وہ کچھ بولتی ہے.سب فقرات یاد نہیں رہے مگر آخری فقرہ جو یاد رہا یہ تھا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ (ترجمہ) اگر تم مسلمان ہو.اس کے بعد بیداری ہوئی.یہ خیال تھا کہ مرغی نے یہ کیا الفاظ بولے ہیں پھر الہام ہوا.اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ(ترجمہ) اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اگر تم مسلمان ہو.فرمایا کہ مرغی کا خطاب اور الہام کا خطاب ہر دو جماعت کی طرف تھے.دونوں فقروں میں ہماری جماعت مخاطب ہے.چونکہ آجکل روپیہ کی ضرورت ہے.لنگر میں بھی خرچ بہت ہے اور عمارت پربھی بہت خرچ ہو رہا ہے اس واسطے جماعت کو چاہیے کہ اس حکم پر توجہ کریں.پرندوں میں انفاق فی سبیل اللہ کا سبق فرمایا.مرغی اپنے عمل سے دکھاتی ہے کہ کس طرح انفاق فی سبیل اللہ کرنا چاہیےکیونکہ وہ انسان کی خاطر اپنی ساری جان قربان کرتی ہے اور انسان کے واسطے ذبح کی جاتی ہے.اسی طرح مرغی نہایت محنت اور مشقت کے ساتھ ہر روز انسان کے کھانے کے واسطے انڈا دیتی ہے.ایسا ہی ایک پرند کی مہمان نوازی پر ایک حکایت ہے کہ ایک درخت کے نیچے ایک مسافر کو رات آگئی.جنگل کا ویرانہ اور سردی کا موسم.درخت کے اوپر ایک پرند کا آشیانہ تھا.نر اور مادہ آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ یہ غریب الوطن آج ہمارا مہمان ہے اور سردی زدہ ہے.اس کے واسطے ہم کیا کریں؟سوچ کر ان میں یہ صلاح قرار پائی کہ ہم اپنا آشیانہ توڑ کر نیچے پھینک دیں اور وہ اس کو جلا کر آگ تاپے.چنانچہ انہوںنے ایسا کیا پھر انہوں نے کہا کہ یہ بھوکا ہے.اس کے واسطے کیا ۱ بدر جلد ۱ نمبر ۳۸ مورخہ ۸؍دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۷

Page 131

دعوت طیار کی جائے.اور تو کوئی چیز موجود نہ تھی ان دونوں نے اپنے آپ کو نیچے اس آگ میں گرا دیا تاکہ ان کے گوشت کا کباب انکے مہمان کے واسطے رات کا کھانا ہوجائے.اس طرح انہوں نے مہمان نوازی کی ایک نظیر قائم کی.سو ہماری جماعت کے مومنین اگر ہماری آواز کو نہیں سنتے تو اس مرغی کی آواز کو سنیں.مگر سب برابر نہیں.کتنے مخلص ایسے ہیں کہ اپنی طاقت سے زیادہ خدمت میں لگے ہوئے ہیں.خدا اُن کو جزائے خیر دے.؟۱ ۶؍دسمبر ۱۹۰۵ء ایک الہام فرمایا.کل پھر الہام ہوا.قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ.واقفین زندگی کی ضرورت اس پر فرمایا کہ مدرسہ کی حالت دیکھ کر دل پارہ پارہ اور زخمی ہوگیا.علماء کی جماعت فوت ہو رہی ہے.مولوی عبد الکریم کی قلم ہمیشہ چلتی رہتی تھی.مولوی برہان الدین فوت ہوگئے.اب قائم مقام کوئی نہیں.جو عمر رسیدہ ہیں ان کو بھی فوت شدہ سمجھئے.دوسرا جیسا کہ خدا چاہتا ہے کہ تقویٰ ہو اس کی تخم ریزی نہیں.یہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، ورنہ اچھے آدمی مفقود ہو رہے ہیں.آریہ زندگی وقف کر رہے ہیں.یہاں ایک طالب علم کے منہ سے بھی نہیں نکلتا.ہزار ہا روپیہ قوم کا جو جمع ہوتا ہے وہ ان لوگوں کے لیے خرچ ہوتا ہے جو دنیا کا کیڑا بنتے ہیں.یہ حالت تبدیل ہو کر ایسی حالت ہو کہ علماء پیدا ہوں.علم دین میں برکت ہے.اس سے تقویٰ حاصل ہوتی ہے.بغیر اس کے شوخی بڑھتی ہے.نبوی علم میں برکات ہیں.لوگ جو روپیہ بھیجتے ہیں لنگر خانہ کے لیے یا مدرسہ کے لیے.اس میں اگر بے جا خرچ ہوں تو گناہ کا نشانہ ہوگا.اللہ تعالیٰ نے تدبیر کرنے والوں کی قسم کھائی ہے فَالْمُدَبِّرٰتِ۠ اَمْرًا (النّٰـزعٰت:۶) میں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت سمجھتا ہوں جو دین کی خدمت کریں.میرے نزدیک زبان دانی ضروری ۱ بدر جلد ۱ نمبر ۳۸ مورخہ ۸؍دسمبر ۱۹۰۵ءصفحہ ۲

Page 132

ہے.انگریزی پڑھنے سے میں نہیں روکتا.میرا مدعا یہ ہے اور میں نے پہلے بھی سوچا ہے اور جب سوچا ہے میرے دل کو صدمہ پہنچا ہے کہ ایک طرف تو زندگی کا اعتبار نہیں جیسا کہ خدا کی وحی قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ سے ظاہر ہوتا ہے.دوسرا اس مدرسہ کی بنا سے غرض یہ تھی کہ دینی خدمت کے لیے لوگ تیار ہو جاویں.یہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے پہلے گزر جاتے ہیں دوسرے جانشین ہوں.اگر دوسرے جانشین نہ ہوں تو قوم کے ہلاک ہونے کی جڑ ہے.مولوی عبد الکریم اور دوسرے مولوی فوت ہوگئے اور جو فوت ہوئے ہیں ان کا قائم مقام کوئی نہیں.دوسری طرف ہزار ہا روپیہ جو مدرسہ کے لیے لیا جاتا ہے پھر اس سے فائدہ کیا؟ جب کوئی تیار ہوجاتا ہے تو دنیا کی فکر میں لگ جاتا ہے.اصل غرض مفقود ہے.میں جانتا ہوں جب تک تبدیلی نہ ہوگی کچھ نہ ہوگا.جو اللہ کی جماعت روحانی سپاہیوں کے تیار کرنے والے تھے وہ نہیں رہے دور چلے گئے ہیں.ہمیں کیا غرض ہے کہ قدم بقدم ان لوگوں کے چلیں جو دنیا کے لیے چلتے ہیں.۱ ۷؍دسمبر ۱۹۰۵ء وفات کے متعلق الہامات فرمایا.اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت ہے.وہی بہتر جانتا ہے.پانچ چھ روز سے متواتر یہی الہام ہو رہا ہے.انسان جن چیزوں کی بابت تمنا کرتا ہے ان کی بابت چاہتا ہے کہ معلوم ہوں جن سے کراہت کرتا ہے چاہتا ہے کہ وہ نامعلوم ہوں.مگر عادت اللہ یہ نہیں کہ وہ انسانی خواہشات کی پیروی کرے.مجھے پانچ چھ روز سے فجر کے قریب یہ الہام ہوتا ہے قَرُبَ اَجَلُکَ الْـمُقَدَّرُ.آج اس کے ساتھ یہ بھی تھا.وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْـحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.انبیاء علیہم السلام کے متعلق سنت اللہ یہی ہے کہ وہ تخم ریزی کر جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق صحابہ کا اجماع غلط نکلا وہ یہی سمجھتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب کو فتح کریں گے.۱الحکم جلد ۱۳ نمبر ۱ مورخہ ۷؍جنوری ۱۹۰۹ءصفحہ ۱۲، ۱۳

Page 133

انہوںنے آپ کی وفات کو قبل از وقت سمجھا مگر ابوبکرؓ کی فراست صحیح تھی.طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ.مولوی عبد الکریم صاحب کے متعلق جو الہام ہوا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب نصرت الٰہی ظاہر ہو.میرا مذہب یہی ہے کہ طولِ امل کے طور پر کچھ نہیں کرنا چاہیے.انبیاء علیہم السلام جس قدر آئے ہیں وہ تخم ریزی کر جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب میں اشاعت اسلام کی اور ان میں سے بھی بعض اَسْلَمْنَا میں داخل تھے.یہ گویا تخم ریزی تھی.وفات پاجانے والے چند اصحاب کا ذکر خیر مولوی برہان الدین مرحوم کے متعلق فرمایا کہ وہ اوّل ہی اوّل ہوشیار پور میں میرے پاس گئے.ان کی طبیعت میں حق کے لیے ایک سوزش اورجلن تھی.مجھ سے قرآن شریف پڑھا.بائیس برس سے میرے پاس آتے تھے.صوفیانہ مذاق تھا.جہاں فقراء کو دیکھتے وہیں چلے جاتے.میرے ساتھ بڑی محبت رکھتے تھے.میں چاہتا ہوں کہ ماتم پرسی کے لیے لکھ دوں.بہتر ہے کہ ان کا جو لڑکا ہو وہ یہاں آجاوے تاکہ وہ باپ کی جابجا ہو.اسے لکھو کہ وہ دین کی تکمیل کرے کیونکہ باپ کی ہی روش پر ہونا چاہیے.منشی جلال الدین بھی بڑے مخلص تھے اور ان کے ہمنام پیر کوٹ والے بھی.دونوں میں سے ہم کسی کو ترجیح نہیں دے سکتے.سال گذشتہ میں ہمارے کئی دوست جدا ہوگئے.مولوی جمال الدین سید والہ بھی.مولوی شیر محمد ہوجن والے بھی.اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادہ میں کوئی مصالح رکھے ہوں گے.اس سال میں حزن کے معاملات دیکھنے پڑے.۱ ۸؍دسمبر ۱۹۰۵ء ایک مثالی قبرستان کی تجویز میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے لیے ایک زمین تلاش کی جاوے جو قبرستان ہو.یادگار ہو اور عبرت کا مقام ہو.۱ الحکم جلد ۱۳ نمبر ۱ مورخہ ۷؍جنوری ۱۹۰۹ءصفحہ ۱۳

Page 134

قبروں پر جانے کی ابتداً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مخالفت کی تھی جب بُت پرستی کا زور تھا.آخر میں اجازت دے دی.مگر عام قبروں پر جا کر کیا اثر ہوگا جن کو جانتے ہی نہیں لیکن جو دوست ہیں اور پارسا طبع ہیں ان کی قبریں دیکھ کر دل نرم ہوتا ہے.اس لیے اس قبرستان میں ہمارا ہردوست جو فوت ہو اس کی قبر ہو.میرے دل میں خدا تعالیٰ نے پختہ طور پر ڈال دیا ہے کہ ایسا ہی ہو.جو خارجاً مخلص ہو اور وہ فوت ہو جاوے اور اس کا ارادہ ہو کہ اس قبرستان میں دفن ہو وہ صندوق میں دفن کر کے یہاں لایا جاوے.اس جماعت کو بہ ہیئت مجموعی دیکھنا مفید ہوگا.اس کے لیے اوّل کوئی زمین لینی چاہیے اور میں چاہتا ہوں کہ باغ کے قریب ہو.فرمایا.عجیب مؤثر نظارہ ہوگا جو زندگی میں ایک جماعت تھے مرنے کے بعد بھی ایک جماعت ہی نظر آئے گی.یہ بہت ہی خوب ہے جو پسند کریں وہ پہلے سے بندوبست کر سکتے ہیں کہ یہاں دفن ہوں.جو لوگ صالح معلوم ہوں ان کی قبریں دور نہ ہوں.ریل نے آسانی کا سامان کر دیا ہے اور اصل تو یہ ہے کہ مَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ(لقمان:۳۵) مگر اس میں یہ کیا لطیف نکتہ ہے کہ بِاَیِّ اَرْضٍ تُدْفَنُ نہیں لکھا.صلحاء کے پہلو میں دفن بھی ایک نعمت ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا ہے کہ مرض الموت میں انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہلا بھیجا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں جو جگہ ہے انہیں دی جاوے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایثار سے کام لے کر وہ جگہ ان کو دے دی تو فرمایا مَا بَقِیَ لِیْ ھَمٌّ بَعْدَ ذَالِکَ یعنی اس کے بعد اب مجھے کوئی غم نہیں جبکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ میں مدفون ہوں.مجاورت بھی خوشحالی کا موجب ہوتی ہے.میں اس کو پسند کرتا ہوں.اور یہ بدعت نہیں کہ قبروں پر کتبے لگائے جاویں.اس سے عبرت ہوتی ہے اور ہر کتبہ جماعت کی تاریخ ہوتی ہے.ہماری نصیحت یہ ہے کہ ایک طرح سے ہر شخص گور کے کنارے ہے کسی کو موت کی اطلاع مل گئی اور کسی کو اچانک آجاتی ہے یہ گھر ہے بےبنیاد.بہت سے لوگ ہوتے ہیں کہ ان کے گھر بالکل ویران ہوجاتےہیں.ایسے واقعات کو انسان دیکھتا ہے.جب تک مٹی ڈالتا ہے دل نرم ہوتا ہے.پھر دل سخت ہوجاتا ہے یہ بد قسمتی ہے.۱ ۱الحکم جلد ۱۳ نمبر ۱ مورخہ ۷؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۱۳

Page 135

۱۴؍دسمبر ۱۹۰۵ء غیر احمدی کے پیچھے نماز دو آدمیوں نے بیعت کی.ایک نے سوال کیا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.وہ لوگ ہم کو کافر کہتے ہیں.اگر ہم کافر نہیں ہیں تو وہ کفر لوٹ کر ان پر پڑتا ہے.مسلمان کوکافر کہنے والا خود کافر ہے.اس واسطے ایسے لوگوں کے پیچھے نماز جائز نہیں.پھر ان کے درمیان جو لوگ خاموش ہیں وہ بھی انہیں میں شامل ہیں.ان کے پیچھے بھی نماز جائز نہیں کیونکہ وہ اپنے دل کے اندر کوئی مذہب مخالفانہ رکھتے ہیں جو ہمارے ساتھ بظاہر شامل نہیں ہوتے.۱ ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۵ء ایک الہام اور اس کی لطیف تشریح یَاقَـمَرُ یَا شَمْسُ اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ ترجمہ.اے چاند اے سورج تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں.فرمایا.اس الہام میں خدا تعالیٰ نے ایک دفعہ اپنے آپ کو سورج فرمایا ہے اورمجھے چاند اور دوسری دفعہ مجھے سورج فرمایا ہے اور اپنے آپ کو چاند.یہ ایک لطیف استعارہ ہے جس کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے میری نسبت یہ ظاہر فرمایا ہے کہ میں ایک زمانہ میں پوشیدہ تھا.اور اس کی روشنی کے انعکاس سے میں ظاہر ہوا.اور پھر فرمایاکہ ایک زمانہ میں وہ خود پوشیدہ تھا.پھر وہ روشنی جو مجھے دی گئی اس روشنی نے اس کو ظاہر کیا.یہ ایک مشہور مسئلہ ہے کہ نُوْرُ الْقَمَرِ مُسْتَفَاضٌ مِّنْ نُّوْرِ الشَّمْسِ.یعنی چاند کا نور سورج کے نور سے فیض حاصل کرنے والا ہے.پس اس الہام میں اوّل خدا تعالیٰ نے اپنے تئیں سورج قرار دیا اور اس کے انوار اور فیوض کے ذریعہ سے مجھ میں نور پیدا ہونا بیان ۱ بدر جلد ۱ نمبر ۳۹ مورخہ ۱۵؍دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲

Page 136

بیان فرمایا اس لیے میں قمر کہلایا.پھر چونکہ میری روشنی سے جو مجھے دی گئی اس کا نام روشن ہوا اس لیے اس بناء پر مجھے سورج قرار دیا گیا اور خدا تعالیٰ نے آپ کو قمر قرار دیا کیونکہ وہ میرے ذریعہ سے ظاہر ہوا.اور اس نے اپنا زندہ وجود میرے وسیلہ سے لوگوں پر نمایاں کیا.یہ شمس و قمر کا خطاب الہام کے دوسرے حصہ کی تشریح ہے کہ اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ یہ ایک ایسی نظیر ہے جو انسان کے وہم و گمان میں نہیں آسکتی.۱ تقریر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (جو ۲۶؍ ڈسمبر ۱۹۰۵ء کو قبل دوپہر آپ نے مہمان خانہ جدید میں بیان فرمائی) میں نے یہ امر پیش کیا تھا کہ ہماری جماعت میں سے ایسے لوگ طیار ہونے چاہئیں جو واقعی طور پر دین سے واقف ہوں اور اس لائق بھی ہوں کہ وہ ان حملوں کا جو بیرونی اور اندرونی طور پر اسلام پرہو رہے ہیں پورا پورا جواب دے سکیں.۲ اسلام کی اندرونی بدعات اس حد تک پہنچ گئی ہیں کہ ان کی وجہ اور جہالت سےہم کافر ٹھیرائے گئے ہیں.اور ہم ایسی کراہت کی نظر سے دیکھے گئے ہیںکہ حال کے مخالف علماء کے فتووں کے موافق ہماری جماعت مسلمانوں کے قبرستان میں بھی داخل ہونے کے قابل نہیں.جماعت کی مخالفت کی وجوہات اندرونی طور پر یہ حالت ہے اور بیرونی دشمن اور مخالف ہمارے فرقہ سے اس درجہ مخالفت اور عداوت رکھتے ہیں اور اس حد تک ہم کو اور ہماری جماعت کو بُرا کہتے ہیں کہ گویا ہم سے ذاتی عداوت ہے اور کسی فرقہ سے ایسی عداوت نہیں.عیسائی پادریوں کے سینہ پر بھاری پتھر یہی جماعت ہے.آریوں کی نظر کے ۱ بدر جلد ۱ نمبر ۴۱ مورخہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ ۲ بدر میں ہے کہ مدرسہ کے متعلق اصلاح کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے یہ بات بیان فرمائی.ملاحظہ ہو بدر جلد ۲ نمبر ۲ مورخہ ۱۲؍ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲

Page 137

سامنے سخت دشمن ہم ہی معلوم ہوتے ہیں.اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کے دو وجوہ معلوم ہوتے ہیں.اوّل یہ کہ ان لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ کمر بستہ ہو کر کفر اور مخالفوں کے طریق کو دور کرنا ہمارا ہی کام ہے.ہم میں نفاق کا شعبہ نہیں پایا جاتا اور حقیقت میں جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے اور اس کی طرف سے آکر تبلیغ کرتا ہے اس میں نفاق ہوتا ہی نہیں.پس ہم چونکہ ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتے اور اظہار حق سے نہیں رکتے اور نہیں دبتے اس لیے طبعاً ہم انہیں بُرے معلوم ہوتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں.دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان کے اعمال کا عکس دوسروں کے دل پر ضرور پڑتا ہے اور انسان تو انسان حیوانات میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے.مثلاً اگر ایک بکری کو جس نے ساری عمر میں کبھی بھیڑئیے کو نہ دیکھا ہو اور ایسا ہی بھیڑئیے نے بھی نہ دیکھا ہو.تاہم جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے تو ایک دوسرے کے دل پر وہ اثر جو ان کے تعلقات کا ہوسکتا ہے ضرور پڑے گا.اسی طرح پر یہ ہمارے مخالف فطرتاً جانتے ہیں کہ ہمارے غلط عقائد کا استیصال اس فرقہ کے ذریعہ ہوگا اور اس لیے وہ فطرتاً ہمارے دشمن ہیں اور فی الحقیقت یہ سچی بات ہے کہ جو آسمان سے نازل ہوتا ہے اس کا اثر سب پر پڑتا ہے.سیہ دل اور کافر بھی اس اثر کو محسوس کرتے ہیں اور ایسا ہی نیک طینت اور سعید الفطرت بھی اس اثر سے متأثر ہوتے ہیں.چونکہ اس کی غرض ہر بدی کی اصلاح ہوتی ہے.اس لیے ان بدیوں کے حامی اس کی مخالفت کو ضرور اٹھتے ہیں.پھر ہم مخالفت سے کیونکر بچ سکتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب پیدا ہوئے اور آپ نے دعوت کی تو جس قدر مخالفت آپ کی کی گئی اور جس قدر دکھ آپ کو دیئے گئے کسی جھوٹے پیغمبر کو نہیں دیئے گئے.خود آپ ہی کے زمانہ میں جھوٹے پیغمبر بھی اٹھے.مگر کوئی بتا سکتا ہے کہ مسیلمہ کذّاب اور اسود عنسی کو بھی اس قسم کے دکھ دیئے گئے اور ان کی بھی ویسی ہی مخالفت کی گئی؟ میں سچ کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ دکھ دیا گیا کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.چہ جائیکہ بیان کریں اور نہ الفاظ مل سکتے ہیں کہ ان کی تفصیل پیش کریں اور آپ کے بالمقابل جھوٹے نبیوں کو کوئی دکھ نہیں دیا گیا.اس کی وجہ کیا تھی؟ یہی کہ

Page 138

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فطرتاً دلوں پر اثر پڑ گیا تھا کہ یہی شخص ہے جو اس کفر اور بدعت کو جو اس وقت پھیل رہی ہے دور کر دے گا اور آخر وہ ہو کر رہا.اسی طرح پر آج ہماری مخالفت کی جاتی ہے.یہ ہمارے مخالف طبعاً یقین کرتے ہیں کہ ان کے غلط عقائد کا استیصال ہمارے ہی ہاتھ سے ہوگا.اس لیے وہ فطرتاً ہماری مخالفت کرتے ہیں اور ہم کو دکھ دینے میں کوئی کمی نہیں کرتے مگر ان کے یہ دکھ اور ایذائیں ہمیں اپنے کام سے نہیں روک سکتی ہیں.یہ سچ ہے کہ آجکل ہم بہت ہی غریب ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہمارا کوئی بھی نہیں اور وہی ہمیں بس ہے.ہمیشہ ہمارے خلاف یہ کوشش کی جاتی ہے کہ جب اور جس طرح کسی کا بس چلے اس تھوڑی سی قوم کو نابود کر دیا جاوے.یہ تو اللہ ہی کا فضل ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرتا ہے.ورنہ مخالفت کی تو یہ حالت ہے کہ اگر کوئی بیرونی مخالف مقدمہ کرے تو اندرونی مخالف اس سے سازش کرتے ہیں اور اس کو ہر قسم کی مدد دیتے ہیں اور اگر کوئی اندرونی مخالف حملہ کرے تو بیرونی دشمن اس سے آملتے ہیں اور پھر سب ایک ہو کر مخالفت میں اٹھتے ہیں.یہ ساری مخالفتیں بے حقیقت ہیں ان ساری مخالفتوں عداوتوں کو میں دیکھتا ہوں اور برداشت کرتا ہوں اور مجھے یہ سب بے حقیقت نظر آتی ہیں جب خدا تعالیٰ کے وعدوں پر نظر کرتا ہوں.چنانچہ اس کا ایک وعدہ یہ ہے جو پچیس برس ہوئے اشاعت پاچکا ہے.براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ.یہ وعدہ بتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے منکروں کومیرے متبعین پر غالب نہیں کرے گا بلکہ وہ مغلوب ہی رہیں گے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر لوگ اس فرقہ حقہ کے مخالف ہیں خواہ وہ اندرونی ہوں یا بیرونی مغلوب رہیں گے.پس اس وعدہ الٰہی کو دیکھ کر ساری مخالفتیں اور عداوتیں ہیچ نظر آتی ہیں.اگر چہ ہم مطمئن

Page 139

ہیں کہ یہ وعدے پورے ہوں گے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے وعدے سچے ہیں وہ پورے ہو کر رہتے ہیں.کوئی انسان ان کو روک نہیں سکتا.مجاہدہ اور سعی کی ضرورت تاہم دنیا جائے اسباب ہے.اس لیے اسباب سے کام لینا چاہیے.دنیا میں لوگ حصول مقاصد کے لیے سعی کرتے ہیں اور اپنے اپنے رنگ پر ہر شخص کوشش کرتا ہے.دیکھو! ایک کسان کی خواہ کیسی ہی عمدہ زمین ہو آب پاشی کے لیے کنواں بھی ہو لیکن پھر بھی وہ تردد کرتا ہے.زمین کو جوتتا ہے، قلبہ رانی کر کے اس میں بیج ڈالتا ہے، پھر اس کی آب پاشی کرتا ہے، حفاظت اور نگہبانی کرتا ہے اور بہت کوشش اور محنت کے بعد وہ اپنا ما حصل حاصل کرتا ہے.اسی طرح پر ہر قسم کے معاملات میں دنیا کے ہوں یا دین کے محنت، مجاہدہ اور سعی کی حاجت اور ضرورت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کا اثر اوائل صدرِ اسلام میں جبکہ اللہ تعالیٰ کے محض فضل و کرم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپ کو وہ قوتِ قدسی عطا ہوئی کہ جس کے قوی اثر سے ہزاروں بااخلاص اور جان نثار مسلمان پیدا ہو گئے.آپ کی جماعت ایک ایسی قابل قدر اور قابل رشک جماعت تھی کہ ایسی جماعت کسی نبی کو نصیب نہیں ہوئی.نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملی اور نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو.میں نے اس امر کے بیان کرنے میں ہرگز ہرگز مبالغہ نہیں کیا بلکہ میں جانتا ہوں کہ وہ جماعت جس مقام اور درجہ پر پہنچی ہوئی تھی اس کو پورے طور پر بیان ہی نہیں کر سکتے.ہمارے مخالف علماء اور دوسرے فرقے اگرچہ ہمارے مخالف ہیں تاہم وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس بیان میں ہم نے مبالغہ کیا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت تو ایسی شریر کج فہم تھی کہ وہ حضرت موسیٰ کو پتھراؤ کرنا چاہتی تھی.بات بات میں سرکشی اور ضد کر بیٹھتے تھے.توریت کو پڑھو تو معلوم ہو جائے گا کہ ان کی حالت کیسی تھی.وہ ایک سنگدل قوم تھی.کیا توریت میں ان کو رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ کہا گیا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ وہاں تو سرکش، ٹیڑھی، شریر وغیرہ ہی لکھتا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جماعت وہ

Page 140

اس سے بدتر تھی جیسا کہ انجیل سے معلوم ہوتا ہے.خود حضرت عیسیٰ اپنی جماعت کو لالچی بےایمان کہتے رہے بلکہ یہاں تک بھی کہا کہ اگر تم میں ذرہ بھر بھی ایمان ہو تو تم میں یہ برکات ہوں وہ برکات ہوں.غرض وہ اور حضرت موسیٰ علیہما السلام اپنی جماعت سے ناراض ہی گئے اور انہیں ایک وفادار جماعت کے میسر نہ آنے کا افسوس ہی رہا.یہ بالکل سچی بات ہے کہ نہ توریت میں اور نہ انجیل میں کہیں بھی ان کو رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ نہیں کہا گیا.مگر برخلاف اس کے جو جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میسر آئی تھی اور جس نے آپ کی قوتِ قدسی سے اثر پایا تھا اس کے لیے قرآن شریف میں آیا ہے رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ( البیّنۃ:۹) اس کا سبب کیا ہے؟ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ کا نتیجہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجوہِ فضیلت میں سے یہ بھی ایک وجہ ہے کہ آپ نے ایسی اعلیٰ درجہ کی جماعت طیار کی.میرا دعویٰ ہے کہ ایسی جماعت آدم سے لے کر آخر تک کسی کو نہیں ملی.جماعت کی موجودہ حالت میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ہم کو بھی ایسی جماعت نہیں ملی.جب ہم کسی امر میں فیصلہ کر دیں تو تھوڑے ہیں جو اس کو شرح صدر سے منظور کر لیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تو وہ ایسے فدائی اور جان نثار تھے کہ جانیں دے دیں.اب اگر اتنا ہی کہا جاوے کہ سو دو سو کوس پر جاؤ اور وہاں دو چار برس تک بیٹھے رہو تو پھر گننے مننے لگ جاویں.زبان سے تو کہنے کو کہہ دیتے ہیں کہ آپ جو کر دیں ہم کو منظور ہے لیکن جب کہا جاوے تو پھر ناراضگی کا موجب ہوتے ہیں.یہ نفاق ہوتا ہے.میں منافقوں کو پسند نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ منافقوں کی نسبت فرماتا ہے اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ(النساء: ۱۴۶) یقیناً یاد رکھو منافق کافر سے بھی بدتر.اس لیے کہ کافر میں شجاعت اور قوت فیصلہ تو ہوتی ہے وہ دلیری کے ساتھ اپنی مخالفت کا اظہار کر دیتا ہے مگر منافق میں شجاعت اور قوتِ فیصلہ نہیں ہوتی وہ چھپاتا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر جماعت میں وہ اطاعت ہوتی جو ہونی چاہیے تھی تو اب تک یہ جماعت بہت کچھ ترقی کر لیتی.مگر میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے لوگ ابھی تک کمزور ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ

Page 141

میرا کہا نہیں مانتے.بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ وہ برداشت نہیں کر سکتے.اگر کوئی ابتلا آجاوے تو موت آجاوے.جماعت کی ایسی حالت دیکھ کر دل میں درد پیدا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے امر اور وحی سے قبرستان کی تجویز اب جو بار بار اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ تیری اجل کے دن قریب ہیں.جیسا کہ یہ الہام ہے قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ.وَلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا.ایسا ہی اردو زبان میں بھی فرمایا بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.اس دن سب پر اداسی چھا جائے گی.غرض جب خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ ظاہر کر دیا کہ اب تھوڑے دن باقی ہیں تو اسی لیے میں نے وہ تجویز سوچی جو قبرستان کی ہے.اور یہ تجویز میں نے محض اللہ تعالیٰ کے امر اور وحی سے کی ہے اور اسی کے امر سے اس کی بناء ڈالی گئی ہے کیونکہ اس کے متعلق عرصہ سے مجھے خبر دی گئی تھی.میں جانتا ہوں کہ یہ تجویز بھی بہت سے لوگوں کے لیے ابتلا کا موجب ہوگی لیکن اس بناء سے غرض یہی ہے کہ تا آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسی قوم کا نمونہ ہو جیسے صحابہ کا تھا اور تا لوگ جانیں کہ وہ اسلام اور اس کی اشاعت کے لیے فدا شدہ تھے.ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے اس سے کوئی بچ نہیں سکتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ(العنکبوت :۳) یعنی کیا لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اتنی ہی بات پر راضی ہو جاوے کہ وہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ وہ ابھی امتحان میں نہیں ڈالے گئے اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ( اٰلِ عـمران:۹۳) یعنی اس وقت تک تم حقیقی نیکی کو حاصل ہی نہیں کر سکتے جب تک تم اس چیز کو خرچ نہ کرو گے جو تم کو سب سے زیادہ عزیز اور محبوب ہے.اب غور کرو جبکہ حقیقی نیکی اور رضائے الٰہی کا حصول ان باتوں کے بغیر ممکن ہی نہیں تو پھر نری لاف گزاف سے کیا ہوسکتا ہے.صحابہؓ کا یہ حال تھا کہ ان میں سے مثلاً ابو بکر رضی اللہ عنہ کا وہ قدم اور صدق تھا کہ سارا مال ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے.اس کی وجہ کیا تھی؟ یہ کہ خدا تعالیٰ کے لیے زندگی وقف کر چکے تھے اور انہوں نے اپنا کچھ بھی نہ رکھا تھا.مومن کی بھلائی کے

Page 142

دن بھلے آتے ہیں تو ایسے موقعوں پر جبکہ اس کو کچھ خرچ کرنا پڑے خوش ہوتا ہے.وہ جانتا ہے کہ وہ جوہر صدق و صفا کے جو اب تک چھپے ہوئے تھے ظاہر ہوں گے.برخلاف اس کے منافق ڈرتا ہے اس لیے کہ وہ جانتا ہے اب اس کا نفاق ظاہر ہوجائے گا.یہ قبرستان کا امر بھی اسی قسم کا ہے مومن اس سے خوش ہوں گے اور منافقوں کا نفاق ظاہر ہو جائے گا.میں نے اس امر کو جب تک تواتر سے مجھ پر نہ کھلا پیش نہیں کیا.اس میں تو کچھ شک ہی نہیں کہ آخر ہم سب مرنے والے ہیں.اب غور کرو کہ جو لوگ اپنے بعد اموال چھوڑ جاتے ہیں وہ اموال ان کی اولاد کے قبضہ میں آتے ہیں.مرنے کے بعد انہیں کیا معلوم اولاد کیسی ہو؟ بعض اوقات اولاد ایسی شریر اور فاسق فاجر نکلتی ہے کہ وہ سارا مال شراب خانوں اور زناکاری میں اور ہر قسم کے فسق و فجور میں تباہ کیا جاتا ہے اور اس طرح پر وہ مال بجائے مفید ہونے کے مضرہوتا اور چھوڑنے والے پر عذاب کا موجب ہو جاتا ہے جبکہ یہ حالت ہے تو پھر کیوں تم اپنے اموال کو ایسے موقع پر خرچ نہ کرو جو تمہارے لیے ثواب اورفائدہ کا باعث ہو.اور وہ یہی صورت ہے کہ تمہارا مال دین کا بھی حصہ ہو.اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ اگر تمہارے مال میں دین کا بھی حصہ ہے تو اس بدی کا تدارک ہوجائے گا جو اس مال کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو یعنی جو بدی اولاد کرتی ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم اس بات کو خوب یاد رکھو کہ جیسا کہ قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے اور ایسا ہی دوسرے نبیوں نے بھی کہا ہے یہ سچ ہے کہ دولت مند کا بہشت میں داخل ہونا ایسا ہی ہے جیسے اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے داخل ہونا.اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کا مال اس کے لیے بہت سی روکوں کا موجب ہو جاتا ہے.اس لیے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا مال تمہارے واسطے ہلاکت اور ٹھوکر کا باعث نہ ہو تو اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اسے دین کی اشاعت اور خدمت کے لیے وقف کرو.سچا مومن کون ہے؟ یقیناً یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی مومن اور بیعت میں داخل ہوتا ہے جو دین کو دنیا پر مقدم کرلےجیسا کہ وہ بیعت کرتے وقت کہتا

Page 143

ہے.اگر دنیا کی اغراض کو مقدم کرتا ہے تو وہ اس اقرار کو توڑتا ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ مجرم ٹھیرتا ہے.پس اسی غرض سے یہ اشتہار (الوصیۃ) میں نے خدا تعالیٰ کے اذن سے دیا ہے.سچی بات یہی ہے.سال دیگر را کہ مے داند حساب.لیکن جبکہ خدا تعالیٰ کی متواتر وحی نے مجھ پر کھولا کہ وقت قریب ہے اور اجل مقدر کا الہام ہوا تو میں نے اللہ تعالیٰ ہی کے اشارہ سے یہ اشتہار دیا کہ تا آئندہ کے لیے اشاعت دین کا سامان ہو اور تا لوگوں کو معلوم ہو کہ اٰمَنَّا و صَدَّقْنَا کہنے والوں کی عملی حالت کیا ہے.یقیناً سمجھو کہ جب تک انسان کی عملی حالت درست نہ ہو زبان کچھ چیز نہیں.یہ نری لاف گزاف ہے.زبان تک جو ایمان رہتا ہے اور دل میں داخل ہو کر اپنا اثر عملی حالت پر نہیں ڈالتا وہ منافق کا ایمان ہے.سچا ایمان وہی ہے جو دل میں داخل ہو اور اس کے اعمال کو اپنے اثر سے رنگین کر دے.سچا ایمان ابو بکر اور دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تھا کیونکہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال تو مال جان تک کو دے دیا اور اس کی پروا بھی نہ کی.جان سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہوتی مگر صحابہؓ نے اسے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیا.انہوں نے کبھی اس بات کی پروا بھی نہیں کی کہ بیوی بیوہ ہوجائے گی یا بچے یتیم رہ جائیں گے بلکہ وہ ہمیشہ اسی آرزو میں رہے کہ خدا کی راہ میں ہماری زندگیاں قربان ہوں.مجھے ہمیشہ خیال آتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا نقش دل پر ہوجاتا ہے اور کیسی بابرکت وہ قوم تھی اور آپ کے قوت قدسیہ کا کیسا قوی اثر تھا کہ اس قوم کو اس مقام تک پہنچا دیا.غور کر کے دیکھو کہ آپ نے ان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا.ایک حالت اور وقت ان پر ایسا تھا کہ تمام محرمات ان کے لیے شیرِ مادر کی طرح تھیں.چوری، شراب خوری، زنا، فسق و فجور سب کچھ تھا.غرض کون سا گناہ تھا جو ان میں نہ تھا.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض صحبت اور تربیت سے ان پر وہ اثر ہوا اور ان کی حالت میں وہ تبدیلی پیدا ہوئی کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شہادت دی اور کہا اَللہُ اَللہُ فِیْ اَصْـحَابِیْ.گویا وہ بشریت کا چولہ اتار کر مظہر اللہ ہوگئے تھے اور ان کی حالت فرشتوں کی سی ہوگئی تھی جو يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ( الـتحریم:۷) کے مصداق ہیں.ٹھیک ایسی

Page 144

ہی حالت صحابہؓ کی ہوگئی تھی.ان کے دلی ارادے اور نفسانی جذبات بالکل دور ہوگئے تھے.ان کا اپنا کچھ رہا ہی نہیں تھا.نہ کوئی خواہش تھی نہ آرزو بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو.اور اس لیے وہ خدا کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح ہوگئے.قرآن شریف ان کی اس حالت کے متعلق فرماتا ہےفَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا( الاحزاب:۲۴) دین کو دنیا پر مقدم کر لو یہ حالت انسان کے اندر پیدا ہو جانا آسان بات نہیں کہ وہ خدا کی راہ میں جان دینے کو آمادہ ہوجاوے.مگر صحابہؓ کی حالت بتاتی ہے کہ انہوں نے اس فرض کو ادا کیا.جب انہیں حکم ہوا کہ اس راہ میں جان دے دو.پھر وہ دنیا کی طرف نہیں جھکے.پس یہ ضروری امر ہے کہ تم دین کو دنیا پر مقدم کر لو.یاد رکھو! اب جس کا اصول دنیا ہے اور پھر وہ اس جماعت میں شامل ہے خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ اس جماعت میں نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی اس جماعت میں داخل اور شامل ہے جو دنیا سے دست بردار ہے.یہ کوئی مت خیال کرے کہ میں ایسے خیال سے تباہ ہو جاؤں گا.یہ خدا شناسی کی راہ سے دور لے جانے والا خیال ہے.خدا تعالیٰ کبھی اس شخص کو جو محض اسی کا ہوجاتا ہے ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ خود اس کا متکفّل ہوجاتا ہے.اللہ تعالیٰ کریم ہے جو شخص اس کی راہ میں کچھ کھوتا ہے وہی کچھ پاتا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کو پیار کرتا ہے اور انہیں کی اولاد بابرکت ہوتی ہے جو خدا کے حکموں کی تعمیل کرتا ہے اور یہ کبھی نہیں ہوا اور نہ ہوگا کہ خدا تعالیٰ کا سچا فرمانبردار ہو وہ یا اس کی اولاد تباہ و برباد ہو جاوے.دنیا ان لوگوں ہی کی برباد ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں اور دنیا پر جھکتے ہیں.کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہر امر کی طناب اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے.اس کے بغیر کوئی مقدمہ فتح نہیں ہو سکتا.کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی اور کسی قسم کی آسائش اور راحت میسر نہیں آسکتی.دولت ہو سکتی ہے مگر یہ کون کہہ سکتا ہے کہ مرنے کے بعد یہ بیوی یا بچوں کے ضرور کام آئے گی.ان باتوں پر غور کرو اور اپنے اندر ایک نئی تبدیلی پیدا کرو.غرض مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں جماعت کو دیکھتا ہوں کہ یہ ابھی تھوڑے سے ابتلا کے بھی

Page 145

لائق نہیں.وجہ یہ ہے کہ ابھی تک وہ قوتِ ایمانی پیدا نہیں ہوئی جو ہونی چاہیے.ابھی تک جو تعریف کی جاتی ہے وہ خدا کی ستاری کرا رہی ہے.لیکن جب کوئی ابتلا اور آزمائش آتی ہے تو وہ انسان کو ننگا کر کے دکھا دیتی ہے.اس وقت وہ مرض جو دل میں ہوتی ہے اپنا پورا اثر کر کے انسان کو ہلاک کر دیتی ہے.فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا(البقرۃ:۱۱) یہ مرض ابتلا ہی کے وقت بڑھتی اور اپنا پورا زور دکھاتی ہے خدا تعالیٰ کی یہ بھی عادت ہے کہ وہ دلوں کی مخفی قوتوں کو ظاہر کر دیتا ہے.جو شخص اپنے دل میں ایک نور رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا صدق اور اخلاص ظاہر کر دیتا ہے اور جو دل میں خبث اور شرارت رکھتا ہے اس کو بھی کھول کر دکھا دیتا ہے اور کوئی بات چھپی ہوئی نہیں رہ سکتی.ایک صادق جماعت ملنے کا وعدہ یقیناً سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں ہیں جن کی پوشاکیں عمدہ ہوں اور وہ بڑے دولت مند اور خوش خور ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا ہی کے لیے ہو جاتے ہیں.پس تم اس امر کی طرف توجہ کرو نہ پہلے امر کی طرف.اگر میں جماعت کی موجودہ حالت پر ہی نظر کروں تو مجھے بہت غم ہوتا ہے کہ ابھی بہت ہی کمزور حالت ہے.اور بہت سے مراحل باقی ہیں جو اس نے طے کرنے ہیں.لیکن جب اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر نظر کرتا ہوں جو اس نے مجھ سے کئے ہیں تو میرا غم امید سے بدل جاتا ہے.منجملہ اس کے وعدوں کے ایک یہی ہے جو فرمایا وَ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ یہ تو سچ ہے کہ وہ میرے متبعین کو قیامت تک میرے منکروں اور مخالفوں پر غلبہ دے گا.لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ متبعین میں ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہو سکتا.جب تک اپنے اندر وہ اتباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا متبعین میں داخل نہیں ہو سکتا.پوری پوری پیروی جب تک نہیں کرتا ایسی پیروی کہ گویا اطاعت میں فنا ہوجاوے اور نقش قدم پر چلے اس وقت تک اتباع کا لفظ صادق نہیں آتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسی جماعت میرے لیے مقدر کی ہے جو میری اطاعت میں فنا ہو اور پورے طور پر میری اتباع کرنے والی ہو.اس سے مجھے تسلّی ملتی اور

Page 146

میرا غم امید سے بدل جاتا ہے.مجھے اس بات کا غم نہیں کہ ایسی جماعت نہ ہوگی.نہیں جماعت تو ضرور ہوگی اس لیے کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ ایسے لوگ ضرور ہوں گے.مگر غم اس بات کا ہے کہ ابھی جماعت کچی ہے اور پیغام موت آرہا ہے.گویا جماعت کی حالت اس بچہ کی سی ہے جس نے ابھی دو چار روز دودھ پیا ہو اور اس کی ماں مر جائے.۱ بہرحال خدا تعالیٰ کے وعدوں پر میری نظر ہے اور وہ خدا ہی ہے جو میری تسکین اور تسلّی کا باعث ہے.ایسی حالت میں کہ جماعت کمزور اور بہت کچھ تربیت کی محتاج ہے.یہ ضروری امر ہے کہ میں تمہیں توجہ دلاؤں کہ تم خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرو.اور اسی کو مقدم کر لو اور اپنے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک جماعت کو نمونہ سمجھو ان کے نقش قدم پر چلو.صحابہ کرام کی پاک جماعت کا نمونہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ وہ ایک ایسی صادق جماعت تھی جو اپنے ایمان قوی کے لحاظ سے جان فدا کرنے میں بھی دریغ نہ کرتی تھی بلکہ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ وہ ایک ایسی قوم ہے کہ اس کی نظیر مل سکتی ہی نہیں.جب ہم دوسری قوموں کا ان سے مقابلہ کرتے ہیں تو ان کی عظمت اور شوکت کا اور بھی دل پر اثر ہوتا ہے.۲ اور جس قدر غور کرتے جاویں آپؐکے مراتب اور مدارج پر حیرت ہوتی ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کیسی قوتِ قدسی عنایت فرمائی تھی اور اس میں ایسی تاثیر اور طاقت رکھی تھی کہ صحابہؓ جیسی جان نثار قوم آپ نے طیار کی.آپ ایسی قوم چھوڑ گئے تھے جو خالص خدا ہی کے لیے قدم اٹھانے والی تھی.وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ایسے سر گرم اور طیار تھے اور اس راہ میں انہیں جان دے کر ایسی خوشی ہوتی تھی کہ آجکل کے دنیا داروں کو کسی مقدمہ کی فتح سے بھی وہ خوشی نہیں ہو سکتی.وہ بالکل خدا ہی کے لیے ہوگئے تھے.ایسی زبردست اور بے مثل تبدیلی کوئی نبی اپنی قوم میں پیدا نہیں کر سکا.لکھا ہے کہ ایک صحابی جنگ کر رہا تھا اس نے دشمن پر تلوار ماری لیکن وہ تلوار دشمن کے تو نہ لگی ۱ حضرت حجۃ اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کےمنہ سے جس وقت یہ جملے نکلے ان میں کچھ ایسا درد اور رقت تھی کہ اس نے سامعین کو بے قرار کر دیا اور کئی آدمی جو آخر ضبط نہ کر سکے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے.(ایڈیٹر) ۲ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۱ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۳تا ۵

Page 147

الٹ کر اسی کے آ لگی.بعض نے کہا کہ وہ شہید نہیں ہوا.اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میں شہید نہیں ہوا اس لیے کہ اسے اس بات کا سخت غم تھا.آپ نے فرمایا کہ تجھ کو دو شہیدوں کا ثواب ملے گا.اس لیے کہ ایک تو تو نے دشمن پر حملہ کیا.دوسرے خود اسی راہ میں مارا گیا.بات کیا تھی؟ صرف یہ کہ وہ نہ چاہتے تھے کہ یہ مرتبہ شہادت ہم سے رہ جاوے.یہ بالکل سچی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو اپنی محبت سے بھر دیا تھا اور اتنا ہی نہیں تھا بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت اورمعرفت الٰہی میں اعلیٰ درجہ تک پہنچ گئے تھے اور اسی وجہ سے ان کی عقل فہم اور فراست میں بہت بڑی ترقی ہو گئی تھی.ایک انگریز جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح کا مقابلہ کرتا ہے تو وہ لکھتا ہے کہ صحابہؓ میں علاوہ اس کے کہ ان میں صدق اور ایمان کی وہ طاقت موجود تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سر دینے کو طیار ہوجاتے تھے اور ایسی جگہ کھڑے ہوتے تھے جہاں بجز جان دینے کے اور کوئی چارہ ہی نہ ہوتا تھا لیکن برخلاف اس کے مسیح کے حواریوں کی یہ حالت تھی کہ خود انہیں میں سے ایک نے تیس روپیہ لے کر پکڑوا دیا اور دوسرے اس کے پاس سے بھاگ گئے اور دو گھڑی بھی اس کے ساتھ نہ ٹھیر سکے.سامنے کھڑے ہو کر ایک نے لعنت کی.ایسے حواریوں کو صحابہ کے ساتھ کیا نسبت اور کیا مقابلہ؟ پھر عقلی طور پر مقابلہ کر کے لکھا ہے کہ حواریوں کی تو یہ حالت تھی کہ وہ ایک گاؤں کا انتظام کرنے کی بھی قابلیت نہ رکھتے تھے.برخلاف ان کے صحابہؓ نے علومِ سیاست اور حکمرانی میں وہ کمال دکھایا اور ایسی اعلیٰ قابلیت کا ثبوت دیا کہ آج اس کی نظیر نہیں مل سکتی.انہوں نے ایک عظیم الشان سلطنت کا انتظام کیا.حضرت عمر اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہما کا نمونہ موجود ہے.حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت میں ایسا خطرناک فتنہ پیدا ہوا تھا اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو سخت مشکلات کا سامنا تھا مگر حضرت ابوبکر نے خدا تعالیٰ سے تائید پاکر اس فتنہ کو اور جو جنگلی بادیہ نشین مرتد ہوگئے تھے ان کو سدھارا اور درست کیا.غرض باوجود اس بات کے کہ وہ طیار شدہ تھے اور صدق اور نور سے بھرے

Page 148

ہوئے تھے.تاہم اللہ تعالیٰ ان کو فرماتا ہے لَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىِٕفَةٌ (التوبۃ:۱۲۲) یعنی ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو تفقّہ فی الدین کریں یعنی جو دین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے اس میں تفقّہ کر سکیں.یہ نہیں کہ طوطے کی طرح یاد ہو اور اس میں غور و فکر کی مطلق عادت اور مذاق ہی نہ ہو.اس سے وہ غرض حاصل نہیں ہو سکتی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے اور وہی غرض ہماری ہے یعنی محل اور موقع کے حسب حال جواب دے سکیں.مناظرہ کر سکیں.لیکن چونکہ سب کے سب ایسے نہیں ہو سکتے.اس لیے یہ نہیں فرمایا کہ سب کے سب ایسے ہوجائیں بلکہ یہ فرمایا کہ ہر جماعت اور گروہ میں سے ایک ایک آدمی ہو اور گویا ایک جماعت ایسے لوگوں کی ہونی چاہیے جو تبلیغ اور اشاعت کا کام کر سکیں.انسانوں کے تین درجات اس لیے بھی کہ ہر شخص ایسی طبیعت اور مذاق کا نہیں ہوتا.خود اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تقسیم تین طرح پر کی ہے مِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَيْرٰتِ (فاطر:۳۳) یعنی تین قسم کےلوگ ہوتے ہیں.جو ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ کہلاتے ہیں ان کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ خواہش نفس ان پر غالب ہوتی ہے اور وہ گویا پنجہ نفس میں گرفتار ہوتے ہیں.دوئم وہ لوگ ہیں جو مُقْتَصِدٌ یعنی میانہ رو کہلاتے ہیں یعنی کبھی نفس ان پر غالب ہوجاتا ہے اور کبھی وہ نفس پر غالب ہوجاتے ہیں اور پہلی حالت سے نکل چکے ہوتے ہیں لیکن تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو پنجہ نفس سے بکلی رہائی پالیتے ہیں اور وہ سَابِقٌۢ بِالْخَيْرٰتِ کہلاتے ہیں یعنی نیکی کرنے میں سب سے سبقت لے جاتے ہیں.اور وہ محض خدا ہی کے لیے ہوجاتے ہیں.ان میں علمی اور عملی قوت آجاتی ہے.ایسے لوگ خدمت دین کے لیے مفید اور کار آمد ہوتے ہیں.اس قانون کو مدّ ِنظر رکھ کر اللہ تعالیٰ نے بعض کا حکم دیا کیونکہ کُل کے کُل تو اس مقصد کے لیے طیار نہیں ہو سکتے تھے.اور یہی اللہ تعالیٰ کا قانونِ قدرت ہے کہ بعض لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو تجارت، زراعت یا ملازمت کریں اور ایسے بھی ہونے چاہئیں جو دین کی تبلیغ کرنے والے ہوں تاکہ قوم آئندہ ٹھوکروں سے بچ جاوے.

Page 149

یہ یاد رکھو کہ جب کوئی قوم تباہ ہونے کو آتی ہے تو پہلے اس میں جہالت پیدا ہوتی ہے اور وہ دین جو انہیں سکھایا گیا تھا اسے بھول جاتے ہیں.جب جہالت پیدا ہوتی ہے تو اس کے بعد یہ مصیبت اور بلا آتی ہے کہ اس قوم میں تقویٰ نہیں رہتا اور اس میں فسق و فجور اور ہر قسم کی بدکرداری شروع ہو جاتی ہے اور آخر اللہ تعالیٰ کا غضب اس قوم کو ہلاک کر دیتا ہے کیونکہ تقویٰ اور خدا ترسی علم سے پیدا ہوتی ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓـؤُا (فاطر:۲۹) یعنی اللہ تعالیٰ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو عالم ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی علم خشیت اللہ کو پیدا کر دیتا ہے اور خدا تعالیٰ نے علم کو تقویٰ سے وابستہ کیا ہے کہ جو شخص پورے طور پر عالَم ہوگا اس میں ضرور خشیت اللہ پیدا ہوگی.علم سے مراد میری دانست میں علم القرآن ہے.اس سے فلسفہ، سائنس یا اور علوم مروجہ مراد نہیں کیونکہ ان کے حصول کےلیے تقویٰ اور نیکی کی شرط نہیں بلکہ جیسے ایک فاسق فاجر ان کو سیکھ سکتا ہے ویسے ہی ایک دیندار بھی.لیکن علم القرآن بجز متقی اور دیندار کے کسی دوسرے کو دیا ہی نہیں جاتا.پس اس جگہ علم سے مراد علم القرآن ہی ہے جس سے تقویٰ اور خشیت پیدا ہوتی ہے.مبلغین کے لیے دنیوی علوم کی ضرورت ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ جس قوم سے تمہیں مقابلہ پیش آوے اس مقابلہ میں تم بھی ویسے ہی ہتھیار استعمال کرو جیسے ہتھیار وہ مقابلہ والی قوم استعمال کرتی ہے.اور چونکہ آجکل مذہبی مناظرہ کرنے والے لوگ ایسے امور پیش کر دیتے ہیں جن کا سائنس اور موجودہ علوم سے تعلق ہے اس لیے اس حد تک ان علوم میں واقفیت اور دخل کی ضرورت ہے.جیسے مثلاً اعتراض کر دیتے ہیں کہ جن ممالک میں چھ ماہ تک آفتاب طلوع یا غروب نہیں ہوتا وہاں نماز یا روزہ کے احکام کی تعمیل کس طرح پر ہوگی؟ اب جو شخص ان ممالک سے واقف نہیں یا ان باتوں پر اطلاع نہیں رکھتا وہ سنتے ہی گھبرا جاوے گا اور حیران ہو کر رہ جائے گا.ایسا اعتراض کرنے والوں کا منشا یہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم کی تکمیل کو ناقص قرار دیں کہ ایسے ممالک کے لیے کوئی اور حکم ہونا چاہیے

Page 150

تھا.غرض ایسے اعتراضات چونکہ آجکل ہوتے ہیں اس لیے ضروری امر ہے کہ ان علوم میں کچھ نہ کچھ دسترس ضرور ہو.ایسا ہی بعض لوگ یہ بھی اعتراض کرتےہیں کہ قرآن شریف گردشِ آسمان کا قائل ہے جیسے فرمایاوَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ( الطارق:۱۲) حالانکہ آجکل کے بچے بھی جانتے ہیں کہ زمین گردش کرتی ہے.غرض اسی قسم کے بیسیوں اعتراض کر دیتے ہیں اور تا وقتیکہ ان علوم میں کچھ مہارت اور واقفیت نہ ہو جواب دینے میں مشکل پیدا ہوتی ہے.یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ زمین یا آسمان کی گردش ظنی امور ہیں ان کو یقینیات میں داخل نہیں کر سکتے.ایک زمانہ تک گردش آسمان کے قائل رہے پھر زمین کی گردش کے قائل ہوگئے.سب سے زیادہ ان لوگوں کی طبابت پر مشق ہے لیکن اس میں بھی دیکھ لو کہ آئے دن تغیّر و تبدل ہوتا رہتا ہے.مثلاً پہلے ذیابیطس کے لیے یہ کہتے تھے کہ اس کے مریض کو میٹھی چیز نہیں کھانی چاہیے مگر اب جو تحقیقات ہوئی ہے تو کہتے ہیںکچھ حرج نہیں اگر سنگترہ بھی مریض کھا لے یا چاء پی لے.غرض یہ سب علوم ظنی ہیں اس موقع پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ کے معنے بتا دیئے جاویں.کیونکہ اس کا ذکر آگیا ہے.سو یاد رکھنا چاہیے کہ سماء کےمعنے آسمان ہی کے نہیں ہیں بلکہ سماء مینہ کو بھی کہتے ہیں.گویا اس آیت میں اس مینہ کی جو زمین کی طرف رجوع کرتا ہے قسم کھائی ہے اور پھر وہ زمین جس سے شگوفے نکلتے ہیں.اکیلی زمین اور اکیلا آسمان کچھ نہیں کر سکتا.وحی الٰہی کی ضرورت پر ایک عقلی دلیل اس آیت کو اللہ تعالیٰ ضرورت وحی پر بطور مثال پیش کرتا ہے کہ ہر چند زمین میں جو جوہر قابل ہوں اور اس کی فطرت میں نشو و نما کا مادہ ہو لیکن وہ مادہ نشو و نما نہیں پا سکتا اور وہ فطرت بارآور نہیں ہو سکتی جب تک آسمان سے مینہ نہ برسے.؎ باراں کہ در لطافت طبعش خلاف نیست در باغ لالہ رویدد در شورہ بوم و خس

Page 151

اس غرض کے لیے کہ عمدہ عمدہ پھل اور پھول پیدا ہوں عمدہ زمین اور اس کے لیے بارش کی ضرورت ہے جب تک یہ بات نہ ہو کچھ نہیں ہو سکتا.اب اس نظارہ فطرت کو اللہ تعالیٰ ضرورتِ وحی کے لیے پیش کرتا ہے اور توجہ دلاتا ہے کہ دیکھو جب مینہ نہ برسے تو قحط کا اندیشہ ہوتا ہے یہاں تک کہ زمینی پانی جو کنوؤں اور چشموں میں ہوتا ہے وہ بھی کم ہونے لگتا ہے.پھر جبکہ دنیوی اور جسمانی ضرورتوں کے لیے آسمانی پانی کی ضرورت ہے تو کیا روحانی اور ابدی ضرورتوں کے لیے روحانی بارش کی ضرورت نہیں؟ اور وہ وحی الٰہی ہے.جیسے مینہ کے نہ برسنے سے قحط پڑتا اور کنوئیں اور چشمے خشک ہوجاتے ہیں.اسی طرح پر اگر انبیاء و رسل دنیا میں نہ آئیں تو فلسفیوں کا وجود بھی نہ ہو کیونکہ قویٰ عقلیہ کا نشو و نما وحی الٰہی ہی سے ہوتا ہے اور زمینی عقلیں اسی سے پرورش پاتی ہیں.پس اس آیت وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ اور وَ الْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ (الطارق:۱۲،۱۳) میں وحی الٰہی کی ضرورت پر عقلی اور فطرتی دلائل پیش کئے ہیں.جو شخص اس امر کو سمجھ لے گا وہ بول اٹھے گا کہ بےشک وحی الٰہی کی ضرورت ہے.اور یہ وہ طریق ہے جو آدم سے چلا آتا ہے اور ہر شخص نے اپنی استعداد اور فطرت کے موافق اس سے فائدہ اٹھایا ہے.ہاں جو جاہل اور ناقص تھے یا جن میں تکبّر اور خود سری تھی وہ محروم رہ گئے اور انہوں نے کچھ بھی حصہ نہ لیا.یہی اصل اور سچی بات ہے اور تم یقیناً یاد رکھو کہ آسمانی بارش کی سخت ضرورت ہے.اس لیے کہ عملی قوت بجز اس بارش کے پیدا ہی نہیں ہوسکتی.تقویٰ کا مدار علم پر ہے غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا تقویٰ بھی تب ہی پورا ہوتا ہے جب علمِ الٰہی اس کے ساتھ ہو اور وہ وہ علم ہے جو کتاب اللہ میں مندرج ہے.یہ سچی بات ہے کہ کوئی شخص مراتب ترقیات حاصل نہیں کر سکتا جب تک تقویٰ کی باریک راہوں کی پروا نہ کرے اور تقویٰ کا مدار علم پر ہے.یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مجید کے شروع ہی میں بیان فرمایا ہے.یہاں حضرت اقدس نے سورہ بقرہ کے پہلے رکوع کے کچھ حصہ کی تفسیر بیان فرمائی جس کو میں ذیل

Page 152

میں درج کرتا ہوں لیکن سہولت اور اس تفسیر کی ترتیب اَبلغ کےلحاظ سے پہلے وہ حصہ یکجائی طور پر درج کرتا ہوں اور پھر اس کا ترجمہ دیتا ہوں.زاں بعد تفسیر (ایڈیٹر) بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۰۰ الٓمّٓ۰۰ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ١ۛۖۚ فِيْهِ١ۛۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠۰۰ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ۰۰وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَ۰۰ اُولٰٓىِٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۰۰(البقرۃ:۱تا۶) ترجمہ.میں اللہ بہت جاننے والا ہوں.یہ کتاب جس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے.متّقیوں کے لیے ہدایت نامہ ہے (متقی کون ہوتے ہیں؟) جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو کھڑی کرتے ہیں اور جو کچھ انہیں عطا کیا گیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.اورمتّقی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس وحی پر ایمان لاتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی ہے اور اس وحی پر بھی جو تجھ سے پہلے نازل ہوئی اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے ربّ سے ہدایت یافتہ ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں.تفسیـر الٓمّٓ.ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ١ۛۚ فِيْهِ ١ۛۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠.میں اللہ جو بہت جاننے والا ہوں یہ کتاب جو شک و شبہ اور ہر عیب و نقص سے پاک ہے متقیوں کی ہدایت کے لیے بھیجی گئی ہے.قرآن کریم کی عللِ اربعہ ہر شے کی چار علّتیں ہوتی ہیں.یہاں بھی ان عِللِ اربعہ کو بیان کیا ہے اور وہ عِللِ اربعہ یہ ہوتی ہیں علّتِ فاعلی، علّتِ صوری، علّتِ مادی، علّتِ غائی.اس مقام پر قرآن شریف کی چار علّتوں کا ذکر کیا.علّتِ فاعلی تو اس کتاب کی الٓمّٓ ہے.اور الٓمّٓ کے معنے میرے نزدیک اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ یعنی میں

Page 153

للہ وہ ہوں جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں.اور علّتِ مادی ذٰلِكَ الْكِتٰبُ ہے.یعنی یہ کتاب اس خدا کی طرف سے آئی ہے جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہے.اور علّتِ صوری لَا رَيْبَ فِيْهِ ہے یعنی اس کتاب کی خوبی اور کمال یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ ہی نہیں.جو بات ہے مستحکم اورجو دعویٰ ہے وہ مدلل اور روشن.اور علّتِ غائی اس کتاب کی هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ ہے.یعنی اس کتاب کے نزول کی غرض و غایت یہ ہے کہ متقیوں کو ہدایت کرتی ہے.متقی کی صفات یہ چاروں علّتیں بیان کرنے کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے عام صفات بتائے ہیں کہ وہ متقی کون ہوتے ہیں جو ہدایت پاتےہیں الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ.وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَ.یعنی وہ متقی ہوتے ہیں جو خدا پر جو ہنوز پردہ غیب میں ہوتا ہے ایمان لاتے ہیں اور نماز کو کھڑا کرتے ہیں.اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.اور وہ ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر جو تجھ پر نازل کی ہے اور جو کچھ تجھ سے پہلے نازل ہوا اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں.یہ صفات متّقی کے بیان فرمائے.اب یہاں بالطبع ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کتاب کی غرض و غایت تو یہ بتائی هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ اور پھر متقیوں کے صفات بھی وہ بیان کئے جو سب کے سب ایک باخدا انسان میں ہوتے ہیں.یعنی خدا پر ایمان لاتا ہو.نماز پڑھتا ہو.صدقہ دیتا ہو.کتاب اللہ کو مانتا ہو.قیامت پر یقین رکھتا ہو.پھر جو شخص پہلے ہی سے ان صفات سے متّصف ہے اور وہ متقی کہلاتا ہے اور ان امور کا پابند ہے تو پھر وہ ہدایت کیا ہوئی جو اس کتاب کے ذریعہ اس نے حاصل کی؟ اس میں وہ امر زائد کیا ہے جس کے لیے یہ کتاب نازل ہوئی ہے؟ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی اور امر ہے جو اس ہدایت میں رکھا گیا ہے کیونکہ یہ امور جو بطور صفات متقین بیان فرمائے ہیں یہ تو اس ہدایت کے لیے جو اس کتاب کا اصل مقصد اور غرض ہے بطور شرائط ہیں.ورنہ وہ ہدایت اور چیز ہے اور وہ ایک اعلیٰ امر ہے جو خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے اور جس کو میں بیان کرتا ہوں.

Page 154

ایمان بالغیب سے اگلا درجہ پس یاد رکھو کہ متقی کے صفات میں سے پہلی صفت یہ بیان کی يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ یعنی غیب پر ایمان لاتے ہیں.یہ مومن کی ایک ابتدائی حالت کا اظہار ہے کہ جن چیزوں کو اس نے نہیں دیکھا ان کو مان لیا ہے.غیب اللہ تعالیٰ کا نام ہے.ا ور اس غیب میں بہشت، دوزخ، حشر اجساد اور وہ تمام امور جو ابھی تک پردہ غیب میں ہیں، شامل ہیں.اب ابتدائی حالت میں تو مومن ان پر ایمان لاتا ہے لیکن ہدایت یہ ہے کہ اس حالت پر اسے ایک انعام عطا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا علم غیب سے انتقال کر کے شہود کی طرف آجاتا ہے اور اس پر پھر ایسا زمانہ آجاتا ہے کہ جن باتوں پر وہ پہلے غائب کے طور ایمان لاتا تھا وہ ان کا عارف ہوجاتا ہے اور وہ امور جو ابھی تک مخفی تھے اس کے سامنے آجاتے ہیں اور حالت شہود میں انہیں دیکھتا ہے.پھر وہ خدا کو غیب نہیں مانتا بلکہ اسے دیکھتا ہے اور اس کی تجلّی سامنے رہتی ہے.غرض اس غیب کے بعد شہود کا درجہ اسے عطا کیا جاتا ہے.جیسے ایمان کے بعد عرفان کا مرتبہ ملتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کو اسی عالَم میں دیکھ لیتا ہے.اور اگر اس کو یہ مرتبہ عطا نہ ہوتا تو پھر يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ کےمصداق کو کوئی ہدایت اور انعام عطا نہ ہوتا.اس کے لیے قرآن شریف گویا موجب ہدایت نہ ہوتا.مگر ایسا نہیں ہوتا اور اس کےلیے ہدایت یہی ہے کہ اس کے ایمان کو حالت غیب سے منتقل کر کے حالت شہود میں لے آتا ہے اور اس پر دلیل یہ ہے مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسـرآءیل:۷۳) یعنی جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ دوسرے عالَم میں بھی اندھا اٹھایا جاوےگا.اس نابینائی سے یہی مراد ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی تجلّی اور ان امور کوجو حالت غیب میں ہیں اسی عالَم میں مشاہدہ نہ کرے اور یہ نابینائی کا کچھ حصہ غیب والے میں پایا جاتا ہے لیکن هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ کے موافق جو شخص ہدایت پالیتا ہے اس کی وہ نابینائی دور ہوجاتی ہے اور وہ اس حالت سے ترقی کر جاتا ہے اور وہ ترقی اس کلام کے ذریعہ سے یہ ہے کہ ایمان بالغیب کے درجہ سے شہود کے درجہ پر پہنچ جاوے گا اور اس کے لیے یہی ہدایت ہے.اقامت صلوٰۃ سے اگلا درجہ متقی کی دوسری صفت یہ ہے يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ یعنی وہ نماز کو کھڑی کرتےہیں.متقی سےجیسے ہو سکتا ہے نماز کھڑی کرتا

Page 155

ہے.یعنی کبھی اس کی نماز گر پڑتی ہے پھر اسے کھڑا کرتا ہے.یعنی متقی خدا سے ڈرا کرتا ہے اور وہ نماز کو قائم کرتا ہے.اس حالت میں مختلف قسم کے وساوس اور خطرات بھی ہوتے ہیں جو پیدا ہو کر اس کے حضور میں ہارج ہوتے ہیں اور نماز کو گرا دیتے ہیں.لیکن یہ نفس کی اس کشاکش میں بھی نماز کو کھڑا کرتا ہے.کبھی نماز گرتی ہے مگر یہ پھر اسے کھڑا کرتا ہے.اور یہی حالت اس کی رہتی ہے کہ وہ تکلّف اور کوشش سے بار بار اپنی نماز کو کھڑا کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس کلام کے ذریعہ ہدایت عطا کرتا ہے.اس کی ہدایت کیا ہوتی ہے؟۱ اس وقت بجائے يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ کے ان کی یہ حالت ہوجاتی ہے کہ وہ اس کشمکش اور وساوس کی زندگی سے نکل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ انہیں وہ مقام عطا کرتا ہے جس کی نسبت فرمایا ہے کہ بعض آدمی ایسے کامل ہوجاتے ہیں کہ نماز ان کےلیے بمنزلہ غذا ہوجاتی ہے اور نماز میں ان کو وہ لذت اور ذوق عطا کیا جاتا ہے جیسے سخت پیاس کے وقت ٹھنڈا پانی پینے سے حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ نہایت رغبت سے اسے پیتا ہے اور خوب سیر ہو کر حظّ حاصل کرتا ہے یا سخت بھوک کی حالت ہو اور اسے نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا خوش ذائقہ کھانا مل جاوے جس کو کھا کر وہ بہت ہی خوش ہوتا ہے.یہی حالت پھر نماز میں ہو جاتی ہے وہ نماز اس کے لیے ایک قسم کا نشہ ہوجاتی ہے جس کے بغیر وہ سخت کرب و اضطراب محسوس کرتا ہے.لیکن نماز کے ادا کرنے سے اس کے دل میں ایک خاص سرور اور ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے جس کو ہر شخص نہیں پاسکتا اور نہ الفاظ میں یہ لذت بیان ہو سکتی ہے اور انسان ترقی کر کے ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اسے ذاتی محبت ہوجاتی ہے اور اس کو نماز کے کھڑے کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اس لیے کہ وہ نماز اس کی کھڑی ہی ہوتی ہے اور ہر وقت کھڑی ہی رہتی ہے.اس میں ایک طبعی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور ایسے انسان کی مرضی خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہوتی ہے.انسان پر ایسی حالت آتی ہے کہ اس کی محبت اللہ تعالیٰ سے محبت ذاتی کا رنگ رکھتی ہے.اس میں کوئی تکلف اور بناوٹ نہیں ہوتی.جس طرح پر حیوانات اور دوسرے انسان اپنے ماکولات و مشروبات ۱ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۴،۵

Page 156

اور دوسری شہوات میں لذت اٹھاتے ہیں اس سے بہت بڑھ چڑھ کر وہ مومن متقی نماز میں لذت پاتا ہے.اس لیے نماز کو خوب سنوار سنوار کر پڑھنا چاہیے.نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے.اس دین میں ہزاروں لاکھوں اولیاء اللہ، راستباز، ابدال، قطب گذرے ہیں.انہوں نے یہ مدارج اور مراتب کیونکر حاصل کئے؟ اسی نماز کے ذریعہ سے.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وَ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ یعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے اور فی الحقیقت جب انسان اس مقام اور درجہ پر پہنچتا ہے تو اس کے لیے اکمل اتم لذت نماز ہی ہوتی ہے اور یہی معنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے ہیں.پس کشاکش نفس سے انسان نجات پاکر اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتا ہے.غرض یاد رکھو کہ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وہ ابتدائی درجہ اور مرحلہ ہے جہاں نماز بے ذوقی اور کشاکش سے ادا کرتا ہے.لیکن اس کتاب کی ہدایت ایسے آدمی کے لیے یہ ہے کہ اس مرحلہ سے نجات پاکر اس مقام پر جا پہنچتا ہے جہاں نماز اس کے لیے قرۃ ُالعین ہوجاوے.یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس مقام پر متقی سے مراد وہ شخص ہے جو نفسِ لوّامہ کی حالت میں ہے.نفس کے تین درجے نفس کے تین درجہ ہیں.نفسِ امّارہ.لوّامہ.مطمئنّہ نفسِ امّارہ وہ ہے جو فسق و فجور میںمبتلا ہے اور نافرمانی کا غلام ہے.ایسی حالت میں انسان نیکی کی طرف توجہ نہیں کرتا بلکہ اس کے اندر ایک سرکشی اور بغاوت پائی جاتی ہے لیکن جب اس سے کچھ ترقی کرتا اور نکلتا ہے تو وہ وہ حالت ہے جو نفسِ لوّامہ کہلاتی ہے.اس لیے کہ وہ اگر بدی کرتا ہے تو اس سے شرمندہ بھی ہوتا ہے اور اپنے نفس کو ملامت بھی کرتا ہے.اور اس طرح پر نیکی کی طرف بھی توجہ کرتا ہے.لیکن اس حالت میں وہ کامل طور پر اپنے نفس پر غالب نہیں آتا بلکہ اس کے اور نفس کے درمیان ایک جنگ جاری رہتی ہے جس میں کبھی وہ غالب آجاتا ہے اور کبھی نفس اسے مغلوب کر لیتا ہے.یہ سلسلہ لڑائی کا بدستور جاری رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس کی دستگیری کرتا ہے اور آخر اسے کامیاب اور بامراد کرتا ہے اور وہ اپنے نفس پر فتح پا لیتا

Page 157

ہے.پھر تیسری حالت میں پہنچ جاتا ہے جس کا نام نفسِ مطمئنّہ ہے.اس وقت اس کے نفس کے تمام گند دور ہوجاتے ہیں اور ہر قسم کے فساد مٹ جاتے ہیں.نفسِ مطمئنّہ کی آخری حالت ایسی حالت ہوتی ہے جیسے دو سلطنتوں کے درمیان ایک جنگ ہو کر ایک فتح پالے اور وہ تمام مفسدہ دور کر کے امن قائم کرے اور پہلا سارا نقشہ ہی بدل جاتا ہے.جیسا کہ قرآن شریف میں اس امر کی طرف اشارہ ہے اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسَدُوْهَا وَ جَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةً(الـنّمل:۳۵) یعنی جب بادشاہ کسی گاؤں میں داخل ہوتے ہیں تو پہلا تانا بانا سب تباہ کر دیتے ہیں.بڑے بڑے نمبردار رئیس نواب ہی پہلے پکڑے جاتے ہیں اور بڑے بڑے نامور ذلیل کئے جاتے ہیں اور اس طرح پر ایک تغیر عظیم واقع ہوتا ہے.یہی ملوک کا خاصہ ہے اور ایسا ہی ہمیشہ ہوتا چلا آیا ہے.اسی طرح پر جب روحانی سلطنت بدلتی ہے تو پہلی سلطنت پر تباہی آتی ہے.شیطان کے غلاموں کو قابو کیا جاتا ہے.وہ جذبات اور شہوات جو انسان کی روحانی سلطنت میںمفسدہ پردازی کرتے ہیں.ان کوکچل دیا جاتا ہے اور ذلیل کیا جاتا ہے اور روحانی طور پر ایک نیا سکہ بیٹھ جاتا ہے اور بالکل امن و امان کی حالت پیدا ہو جاتی ہے.یہی وہ حالت اور درجہ ہے جو نفسِ مطمئنّہ کہلاتا ہے.اس لیے کہ اس وقت کسی قسم کی کشمکش اور کوئی فساد پایا نہیں جاتا.بلکہ نفس ایک کامل سکون اور اطمینان کی حالت میں ہوتا ہے کیونکہ جنگ کا خاتمہ ہو کر نئی سلطنت قائم ہوجاتی ہے اور کوئی فساد اور مفسدہ باقی نہیں رہتا.بلکہ دل پر خدا کی فتح کامل ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ خود اس کے عرش دل پر نزول فرماتا ہے.اسی کو کمال درجہ کی حالت بیان فرمایا ہے جیسا کہ فرمایا اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى(النحل:۹۱) یعنی بیشک اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے اور پھر اس سے ترقی کرو تو احسان کا حکم دیتا ہے اور پھر اس سے بھی ترقی کرو تو ایتاء ذی القربیٰ کا حکم ہے.حالتِ عدل عدل کی حالت یہ ہے جو متقی کی حالت نفس امّارہ کی صورت میں ہوتی ہے.اس حالت کی اصلاح کے لیے عدل کا حکم ہے.اس میں نفس کی مخالفت کرنی پڑتی ہے.مثلاً کسی کا قرضہ ادا کرنا ہے لیکن نفس اس میں بھی خواہش کرتا ہے کہ کسی طرح سے اس کو

Page 158

دبا لوں.اور اتفاق سے اس کی میعاد بھی گذر جاوے اس صورت میں نفس اور بھی دلیر اور بے باک ہوگا کہ اب تو قانونی طور پر بھی کوئی مؤاخذہ نہیں ہو سکتا.مگر یہ ٹھیک نہیں.عدل کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا دَین واجب ادا کیا جاوے اور کسی حیلے اور عذر سے اس کو دبایا نہ جاوے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پروا نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو بہت کم توجہ کرتے ہیں اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں.یہ عدل کے خلاف ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھے.پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یاد رکھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہیے اور ہرقسم کی خیانت اور بےایمانی سے دور بھاگنا چاہیے.کیونکہ یہ امر الٰہی کے خلاف ہے جو اس نے اس آیت میں دیا ہے.حالتِ احسان اس کے بعد احسان کا درجہ ہے.جو شخص عدل کی رعایت کرتا ہے اور اس کی حد بندی کو نہیں توڑتا.اللہ تعالیٰ اسے توفیق اور قوت دے دیتا ہے اور وہ نیکی میں اور ترقی کرتا ہے.یہاں تک کہ عدل ہی نہیں کرتا بلکہ تھوڑی سی نیکی کے بدلے بہت بڑی نیکی کرتا ہے.لیکن احسان کی حالت میں بھی ایک کمزوری ابھی باقی ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی وقت اس نیکی کو جتا بھی دیتا ہے.مثلاً ایک شخص دس برس تک کسی کو روٹی کھلاتا ہے اور وہ کبھی ایک بات اس کی نہیں مانتا تو اسے کہہ دیتا ہے کہ دس برس کا ہمارے ٹکڑوں کا غلام ہے اور اس طرح پر اس نیکی کو بے اثر کر دیتا ہے.در اصل احسان والے کے اندر بھی ایک قسم کی مخفی ریا ہوتی ہے.لیکن تیسرا مرتبہ ہر قسم کی آلائش اور آلودگی سے پاک ہے اور وہ ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے.حالتِ ایتاء ذی القربیٰ ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ طبعی حالت کا درجہ ہے یعنی جس مقام پر انسان سے نیکیوں کا صدور ایسے طور پر ہو جیسے طبعی تقاضا ہوتا ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسی ماں اپنے بچے کو دودھ دیتی ہے اور اس کی پرورش کرتی ہے.کبھی اس کو خیال بھی نہیں آتا کہ بڑا ہو کر کمائی کرے گا اور اس کی خدمت کرے گا.یہاں تک کہ اگر کوئی بادشاہ اسے یہ حکم دے کہ تو اگر اپنے بچے کو دودھ نہ دے گی اور اس سے وہ مر جاوے تو بھی تجھے مؤاخذہ نہ ہوگا.اس حکم پر بھی اس کو دودھ دینا وہ نہیں چھوڑ سکتی بلکہ ایسے بادشاہ کو دو چار گالیاں ہی سناوے گی.

Page 159

اس لیے کہ وہ پرورش اس کا ایک طبعی تقاضا ہے.وہ کسی امید یا خوف پر مبنی نہیں.اسی طرح پر جب انسان نیکی میں ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچتا ہے کہ وہ نیکیاں اس سے ایسے طور پر صادر ہوتی ہیں گویا ایک طبعی تقاضا ہے تو یہی وہ حالت ہے جو مطمئنّہ کہلاتی ہے.غرض يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ کے یہ معنے ہیںکہ جب تک نفسِ مطمئنّہ نہ ہو.اسی کشاکش میں لگا رہتا ہے.کبھی نفس غالب آجاتا ہے اور کبھی آپ غالب آجاتا ہے.صبح کو اٹھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ٹھنڈا پانی ہے اس کو نہانے کی حاجت ہے.پس اگر نفس کی بات مان لیتا ہے تو نماز کو کھو لیتا ہے اور اگر ہمت سے کام لیتا ہے تو اس پر فتح پالیتا ہے.شکر کی بات ہے کہ ایک مرتبہ خود مجھے ایسی حالت پیش آئی.سردی کا موسم تھا مجھے غسل کی حاجت ہوگئی.پانی گرم کرنے کے لیے کوئی سامان اس جگہ نہ تھا.ایک پادری کی لکھی ہوئی کتاب میزان الحق میرے پاس تھی اس وقت وہ کام آئی.میں نے اس کو جلا کر پانی گرم کر لیا اور خدا کا شکر کیا.اس وقت میری سمجھ میں آیا کہ بعض وقت شیطان بھی کام آجاتا ہے.پھر میں اصل مطلب کی طرف رجوع کرتا ہوں کہ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ کے یہی معنے ہیں اور اس پر ترقی یہی ہے کہ ایسی حالت سے نجات پاکر مطمئنّہ کی حالت میں پہنچ جاوے.خوب یاد رکھو کہ نرا غیب پر ایمان لانے کا انجام خطرناک ہوتا رہا ہے.افلاطون جب مرنے لگا تو کہنے لگا کہ میرے لیے بُت پر ایک مرغا ہی ذبح کرو.جالینوس نے کہا میری قبر میں خچر کے پیشاب گاہ کے برابر ایک سوراخ رکھ دینا تاکہ ہوا آتی رہے.اب غور کرو کہ کیا ایسے لوگ ہادی ہوسکتے ہیں جو ایسی مذبذب اور مضطرب حالت میں ہوتے ہیں.اصل بات یہی ہے کہ جب تک اندر روشنی پیدا نہ ہو کیا فائدہـ؟ لیکن یہ روشنی خدا تعالیٰ کے فضل ہی سے ملتی ہے.یہ بالکل سچ ہے کہ سب طبائع یکساں نہیں ہوتی ہیں اور خدا تعالیٰ نے سب کو نبی پیدا نہیں کیا.صادقین کی صحبت کا اثر لیکن صحبت میں بڑا شرف ہے.اس کی تاثیر کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچا ہی دیتی ہے.کسی کے پاس اگر خوشبو ہو تو پاس والے کو بھی پہنچ ہی

Page 160

جاتی ہے.اسی طرح پر صادقوں کی صحبت ایک روح صدق کی نفخ کر دیتی ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ گہری صحبت نبی اور صاحب نبی کو ایک کر دیتی ہے.یہی وجہ ہے جو قرآن شریف میںكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التوبۃ:۱۱۹) فرمایا ہے.اور اسلام کی خوبیوں میں سے یہ ایک بے نظیر خوبی ہے کہ ہرزمانہ میں ایسے صادق موجود رہتے ہیں.لیکن آریہ سماجی یا عیسائی اس طریق سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں جبکہ ان کے ہاں یہ مسلّم امر ہے کہ اب کوئی شخص خدا رسیدہ ایسا ہو نہیں سکتا جس پر خدا تعالیٰ کی تازہ بتازہ وحی نازل ہو اور وہ اس سے توفیق پاکر ان لوگوں کو صاف کرے جو گناہ آلود زندگی بسر کرتے ہیں.میں افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ آریہ سماج کے اندر ایک نیش ہے وہ بے جا طور سے مسلمانوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اعتراض کرنا ہی اپنے مذہب کی خوبی اور کمال پیش کرتے ہیں.لیکن جب ان سے پوچھا جاوے کہ اسلام کے مقابلہ میں روحانیت پیش کرو.تو کچھ نہیں.نکتہ چینی کرنا کوئی خوبی کی بات نہیں ہو سکتی.وہ شخص بڑا بد نصیب اور نادان ہے جو بغیر اس کے کہ کسی منزل پر پہنچا ہو دوسروں پر نکتہ چینی کرنے لگے.ایک بچہ جو اقلیدس کے اصولوں سے ناواقف ہے اور ان نتائج سے بے خبر ہے جو اس کی اشکال سے پیدا ہوتے ہیں.وہ ان ٹیڑھی لکیروں کو دیکھ کر کب خوش ہوسکتا ہے وہ تو اعتراض کرے گا لیکن عقلمندوں کے نزدیک اس اعتراض کی کیا وقعت اور حقیقت ہو سکتی ہے.ایسا ہی حال ان آریوں کا ہے.وہ اعتراض کرتے ہیں مگر خود حق اور حقیقت سے بے خبر اور محروم ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں سے آگاہ نہیں اور اس کی طاقتوں کا انہیں علم نہیں ہے اور نہ انہیں وہ حواس ملے ہیں جو وہ اسی عالَم میں بہشتی نظاروں کو دیکھ سکیں اور اللہ تعالیٰ کی طاقتوں اور قدرتوں کے نمونے مشاہدہ کریں.ایسے مذہب کی بنیاد بالکل ریت پر ہے.وہ آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں.اسلام کی صداقت یہ خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی نابینا مذہب کی تائید نہیں کرتا اور کوئی نصرت اسے نہیں دی جاتی.اسلام کی سچائی کی یہی بڑی زبردست دلیل ہے کہ ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ اس کی نصرت فرماتا ہے اور اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے

Page 161

تا میں اس کی تازہ بتازہ نصرتوں کا ثبوت دوں.چنانچہ تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا جس نے خدا تعالیٰ کے نشانات نہ دیکھے ہوں.اس کے بالمقابل ہمیں کوئی بتائے کہ وید کیا لایا؟ وہ تو بالکل ادھورا ہے دوسرے لوگوں کو تو خواب بھی آجاتی ہے مگر وید والوں کے نزدیک خواب بھی بے حقیقت چیز ہے اور وہ بھی نہیں آسکتی.جبکہ وہ دروازہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کے لیے یقینی دروازہ ہی بند ہے تو اور وسائل خدا رسی کے کیا ہوسکتے ہیں؟ میں سچ کہتا ہوں کہ جہاں تک میں نے اس فرقہ کے حالات دیکھے ہیں ان میں شوخیوںکے سوا کچھ نہیں دیکھا یا بعض ایسے لوگ اس میں داخل ہوتے ہیں کہ انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ مذہب کی اصل غرض کیا ہے؟ غرض اسلام ایک ایسا پاک مذہب ہے جو ساری نیکیوں کا حقیقی سر چشمہ اورمنبع ہے اس لیے کہ نیکیوں کی جڑ ہے.اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور وہ بدوں اس کے پیدا نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کے عجائبات اور نشانات تازہ بتازہ دیکھتا رہے اور یہ بجز اسلام کے کسی دوسرے کو حاصل نہیں.اگر ہے تو کوئی پیش کرے.علاوہ بریں اسلام کی یہ بھی ایک خوبی ہے کہ بعض فطرتی نیکیاں جو انسان کرتا ہے یہ ان پر ازدیاد کرتا اور انہیں کامل کرتا ہے اس لیے ہی هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ فرمایا ھُدًی لِّلظَّالِمِیْنَ یا لِلْكٰفِرِيْنَ نہیں کہا.عرصہ کی بات ہے ایک برہمو اگنی ہوتری نے کہا تھا کہ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ تو ہم بھی کہتے ہیں تم مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ کیوں کہتے ہو؟ ہم نے کہا تھا کہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ انسان دہریہ نہیں ہوتا.چنانچہ اب وہ کھلا دہریہ ہے.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پورا ایمان ہوتا تو کیوں دہریہ بنتا.میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف ایسی کامل اور جامع کتاب ہے کہ کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.کیا وید میں کوئی ایسی شرتی ہے جو هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ کا مقابلہ کرے.اگر زبانی اقرار کوئی چیز ہے.یعنی اس کے ثمرات اور نتائج کی حاجت نہیں تو پھرتو ساری دنیا کسی نہ کسی رنگ میں خدا تعالیٰ کا اقرار کرتی ہے اور بھگتی، عبادت، صدقہ خیرات کو بھی اچھا سمجھتی ہے اور کسی نہ کسی صورت میں ان

Page 162

باتوں پر عمل بھی کرتی ہے.پھر ویدوں نے آکر دنیا کو کیا بخشا؟ یا تو یہ ثابت کرو کہ جو قومیں وید کو نہیں مانتی ہیں ان میں نیکیاں بالکل مفقود ہیں اور یا کوئی امتیازی نشان بتاؤ.قرآن شریف کو جہاں سے شروع کیا ہے ان ترقیوں کا وعدہ کر لیا ہے جو بالطبع روح تقاضا کرتی ہے چنانچہ سورۃ فاتحہ میں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ (الفاتـحۃ:۶) کی تعلیم کی اور فرمایا کہ تم یہ دعا کرو کہ اے اللہ ہم کو صراطِ مستقیم کی ہدایت فرما.وہ صراطِ مستقیم جو ان لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرے انعام و اکرام ہوئے.اس دعا کے ساتھ ہی سورۃ البقر کی پہلی ہی آیت میں یہ بشارت دے دی ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ گویا روحیں دعا کرتی ہیں اور ساتھ ہی قبولیت اپنا اثر دکھاتی ہے اور وہ وعدہ دعا کی قبولیت کا قرآن مجید کے نزول کی صورت میں پورا ہوتا ہے.ایک طرف دعا ہے اور دوسری طرف اس کا نتیجہ موجود ہے یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور کرم ہے جو اس نے فرمایا.مگر افسوس دنیا اس سے بے خبر اور غافل ہے اور اس سے دور رہ کر ہلاک ہو رہی ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو ابتدائے قرآن مجید میں متقیوں کے صفات بیان فرمائے ہیں ان کو معمولی صفات میں رکھا ہے.لیکن جب انسان قرآن مجید پر ایمان لا کر اسے اپنی ہدایت کے لیے دستور العمل بناتا ہے تو وہ ہدایت کے ان اعلیٰ مدارج اور مراتب کو پالیتا ہے جو هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ میں مقصود رکھے ہیں.قرآن شریف کی اس علّت غائی کے تصور سے ایسی لذت اور سرور آتا ہے کہ الفاظ میں ہم اس کو بیان نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور قرآن مجید کےکمال کا پتہ لگتا ہے.متقی کی تیسری علامت پھر متقی کی ایک اور علامت بیان فرمائی وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ یعنی جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.یہ ابتدائی حالت ہوتی ہے اوراس میں سب کے سب شریک ہیں کیونکہ عام طور پر یہ فطرت انسانی کا ایک تقاضا ہے کہ اگر کوئی سائل اس کے پاس آجاوے تو کچھ نہ کچھ اسے ضرور دے دیتا ہے.گھر میں دس روٹیاں موجود ہوں اور کسی سائل نے آکر صدا کی تو ایک روٹی اس کو بھی دے دے گا.یہ امر

Page 163

زیر ہدایت نہیں ہے بلکہ فطرت کا ایک طبعی خاصہ ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ یہاں مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ عام ہے.اس سے کوئی خاص شے روپیہ پیسہ یا روٹی کپڑا مراد نہیں ہے بلکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ خرچ کرتے رہتے ہیں.غرض یہ انفاق عام انفاق ہے اور اس کے لیے مسلمان یا غیر مسلمان کی بھی شرط نہیں اور اس لیے یہ انفاق دو قسم کا ہوتا ہے.ایک فطرتی دوسرا زیر اثر نبوت.فطرتی تو وہی ہے جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ تم میں سے کون ہے اگر کوئی قیدی یا بھوکا آدمی جو کئی روز سے بھوکا ہو یا ننگا ہو آ کر سوال کرے اور تم اسے کچھ نہ کچھ دے نہ دو.کیونکہ یہ امر فطرت میں داخل ہے.اور یہ بھی میں نے بتا دیا ہے کہ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ روپیہ پیسہ سے مخصوص نہیں خواہ جسمانی ہو یا علمی سب اس میں داخل ہے.جو علم سے دیتا ہے وہ بھی اسی کے ماتحت ہے.مال سے دیتا ہے وہ بھی داخل ہے.طبیب ہے وہ بھی داخل ہے.لِلّٰہی وقف کا مقام مگر بموجب منشا هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ ابھی تک اس مقام تک نہیں پہنچا جہاں قرآن شریف اسے لے جانا چاہتا ہے اور وہ وہ مقام ہے کہ انسان اپنی زندگی ہی خدا تعالیٰ کے لیے وقف کر دے.اور یہ لِلّٰہی وقف کہلاتا ہے.اس حالت اور مقام پر جب ایک شخص پہنچتا ہے تو اس میں مِمَّا رہتا ہی نہیں.کیونکہ جب تک وہ مِمَّا کی حد کے اندر ہے اس وقت تک وہ ناقص ہے اور اس علّتِ غائی تک نہیں پہنچا جو قرآن مجید کی ہے لیکن کامل اسی وقت ہوتا ہے جب یہ حد نہ رہے اور اس کا وجود اس کا ہر فعل ہر حرکت و سکون محض اللہ تعالیٰ کے حکم اور اذن کے ماتحت بنی نوع کی بھلائی کے لیے وقف ہو.دوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ کا کمال یہی ہے جو هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ کےمنشا کے موافق ہے.۱ متقی کی چوتھی صفت اس کے بعد ایک اور صفت متقیوں کی بیان کی یعنی وہ وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ کے موافق ایمان لاتے ہیں اور ایسا ہی جو کچھ ۱ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۰۶ءصفحہ ۴،۵

Page 164

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر اتنا ہی ایمان ہے تو پھر ہدایت کیا ہے؟ وہ ہدایت یہ ہے کہ ایسا انسان خود اس قابل ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر وحی اور الہام کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور وہ وحی الٰہی اس پر بھی اترتی ہے جس سے اس کا ایمان ترقی کر کے کامل یقین اور معرفت کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے اور وہ اس ترقی کو پالیتا ہے جو ہدایت کا اصل مقصود تھا.اس پر وہ انعام و اکرام ہونے لگتےہیں جو مکالمہ الٰہیہ سے ملتے ہیں.اسلام میں وحی و الہام کا دروازہ کھلا ہے یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے وحی اور الہام کے دروازہ کو بند نہیں کیا.جو لوگ اس امت کو الہام و وحی کے انعامات سے بے بہرہ ٹھیراتےہیں وہ سخت غلطی پر ہیں اور قرآن شریف کے اصل مقصد کو انہوںنے سمجھا ہی نہیں.ان کے نزدیک یہ امت وحشیوں کی طرح ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات اور برکات کا معاذ اللہ خاتمہ ہوچکا.اور وہ خدا جو ہمیشہ سے متکلم خدا رہا ہے اب اس زمانہ میں آکر خاموش ہوگیا.وہ نہیں جانتے کہ اگر مکالمہ مخاطبہ نہیں تو هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ کا مطلب ہی کیاہوا؟ بغیر مکالمہ مخاطبہ کے تو اس کی ہستی پر کوئی دلیل قائم نہیں ہو سکتی.اور پھر قرآن شریف میں یہ کیوں کہا وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا (حٰمٓ السجدۃ:۳۱) یعنی جن لوگوں نے اپنے قول اور فعل سے بتا دیا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر انہوں نے استقامت دکھائی ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے.اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ فرشتوںکا نزول ہو اور مخاطبہ نہ ہو.نہیں بلکہ وہ انہیں بشارتیں دیتے ہیں.یہی تو اسلام کی خوبی اور کمال ہے جو دوسرے مذاہب کو حاصل نہیں ہے.استقامت بہت مشکل چیز ہے یعنی خواہ ان پر زلزلے آئیں، فتنے آئیں، وہ ہر قسم کی مصیبت اور دکھ میں ڈالے جاویں مگر ان کی استقامت میں فرق نہیں آتا.ان کا اخلاص اور وفاداری پہلے سے زیادہ ہوتی ہے.ایسے لوگ اس قابل ہوتے ہیں کہ ان پر خدا کے فرشتے اتریں

Page 165

اور انہیں بشارت دیں کہ تم کوئی غم نہ کرو.یہ یقیناً یاد رکھو کہ وحی اور الہام کے سلسلہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اکثر جگہ وعدے کئے ہیں.اور یہ اسلام ہی سے مخصوص ہے.ورنہ عیسائیوں کے ہاں بھی مہر لگ چکی ہے.وہ اب کوئی شخص ایسا نہیں بتا سکتے جو اللہ تعالیٰ کے مخاطبہ مکالمہ سے مشرف ہو.اور ویدوں پر تو پہلے ہی سے مہر لگی ہوئی ہے.ان کا تو مذہب ہی یہی ہے کہ ویدوں کے الہام کے بعد پھر ہمیشہ کےلیے یہ سلسلہ بند ہوگیا.گویا خدا پہلے کبھی بولا تھا مگر اب وہ گونگا ہے.میں کہتا ہوں کہ اگر وہ اس وقت کلام نہیں کرتا اور کوئی اس کے اس فیض سے بہرہ ور نہیں تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ وہ پہلے بولتا تھا اور یا اب وہ سنتا اور دیکھتا بھی ہے؟ مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں مسلمانوں کے منہ سے اس قسم کے الفاظ نکلتے سنتا ہوں کہ اب مخاطبہ مکالمہ کی نعمت کسی کو نہیں مل سکتی.یہ کیوں عیسائیوں یا آریوں کی طرح مہر لگاتے ہیں؟ اگر اسلام میں یہ کمال اور خوبی نہ ہو تو پھر دوسرے مذاہب پر اسے کیا فخر اور امتیاز حاصل ہوگا؟ نری توحید سے تو نہیں ہو سکتا کیونکہ برہمو بھی تو ایک ہی خدا کو مانتا ہے.وہ بھی صدقہ دیتا ہے خدا کو اپنے طور پر یاد بھی کرتا ہے اور یہی اخلاقی صفات اس میں پائے جاتےہیں تو پھر ایک مسلمان میں اور اس برہمو میں کیا فرق ہوا؟ یہ امور تو نقل سے بھی ہو سکتے ہیں اس کا کیا جواب ہے؟ کچھ بھی نہیں.بجز اس کے کہ اسلام کا روشن چہرہ ان امتیازی نشانوں کے ذریعہ دکھایا جاوے جو خدا تعالیٰ کے مکالمہ کے ذریعہ ملتے ہیں.یقیناً سمجھو کہ اصل جو فضل آسمان سے آتا ہے اس کی کوئی چوری اور نقل نہیں کر سکتا.اگر اسلام میں مکالمہ مخاطبہ اور تفضّلات نہ ہوتے تو اسلام کچھ بھی چیز نہ ہوتا.اس کا یہی تو فخر ہے کہ وہ ایک سچے مسلمان کو ان انعامات و اکرام کا وارث بنا دیتا ہے اور وہ فی الحقیقت خدا نما مذہب ہے.اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کو دکھا دیتا ہے اور یہی غرض ہے اسلام کی.کیونکہ اسی ایک ذریعہ سے انسان کی گناہ آلود زندگی پر موت وارد ہو کر اسے پاک صاف بنا دیتی ہے اور حقیقی نجات کا دروازہ اس پر کھلتا ہے کیونکہ جب تک خدا تعالیٰ پر کامل یقین نہ ہو گناہ سے کبھی نجات مل سکتی ہی نہیں.جیسے یہ ایک ظاہر امر ہے کہ جب انسان کویقین ہو کہ فلاں جگہ سانپ ہے تو وہ ہرگز ہرگز اس

Page 166

جگہ داخل نہ ہوگا.یا زہر کے کھانے سے مر جانے کا یقین زہر کے کھانے سے بچاتا ہے پھر اگر خدا تعالیٰ پر پورا پورا یقین ہو کہ وہ سمیع اور بصیر ہے اور ہمارے افعال کی جزا دیتا ہے اور گناہ سے اسے سخت نفرت ہے تو اس یقین کو رکھ کر انسان کیسے جرأت کر سکتا ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ اسلام کی روح اور اصل حقیقت تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مکالمہ اور مخاطبہ کا شرف وہ انسان کو عطا کرتا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ آسمان سے انعام و اکرام ملتے ہیں.جب انسان اس مرتبہ اور مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس کی نسبت کہا جاتا ہے اُولٰٓىِٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جو کامل ترقی پاکر اپنے رب کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے نجات پائی ہے.تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھاؤ غرض جب کہ یہ حالت ہے اور اسلام کے دنیا میں آنے کی یہ غرض اور غایت ہے اور نجات کی حقیقت بغیر اس کے متحقق نہیں ہوتی تو ہماری جماعت کو کس قدر فکر کرنا چاہیے کہ وہ ان باتوں کو جب تک حاصل نہ کر لیں اس وقت تک بے فکر اور مطمئن نہ ہو جاویں.میں جانتا ہوں کہ ہماری جماعت ایک درخت کی طرح ہے وہ اصلی پھل جو شیریں ہوتا اور لذت بخشتا ہے نہیں آیا.جیسے درخت کو پہلے پھول اور پتے نکلتے ہیں.پھر اس کو پھل لگتا ہے جو سنیرو پھل کہلاتا ہے وہ گر جاتا ہے پھر ایک اور پھل آتا ہے اس میں سے کچھ جانور کھا جاتے ہیں اور کچھ تیز آندھیوں سے گر جاتے ہیں.آخر جو بچ رہتے ہیں اور آخر تک پک کر کھانے کے قابل ہوتے ہیں وہ تھوڑے ہوتے ہیں.اسی طرح سے میں دیکھتا ہوں کہ یہ جماعت تو ابھی بہت ہی ابتدائی حالت میں ہے اور پتے بھی نہیں نکلے چہ جائیکہ ہم آج ہی پھل کھائیں.ابھی تو سبزہ ہی نکلا ہے جس کو ایک کتا بھی پامال کر سکتا ہے.ایسی حالت میں حفاظت کی کس قدر ضرورت ہے؟ پس تم استقامت اور اپنے نمونے سے اس درخت کی حفاظت کرو.کیونکہ تم میں سے ہر ایک اس درخت کی شاخ ہے اور وہ درخت اسلام کا شجر ہے.یہی وجہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ اس شجر کی حفاظت کی جاوے.

Page 167

اسلام کی حفاظت اور سچائی کے ظاہر کرنے کے لیے سب سے اوّل تو وہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھاؤ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلاؤ.اس پہلو میں مالی ضرورتوں اور امداد کی حاجت ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ سے چلا آیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایسی ضرورتیں پیش آئی تھیں اور صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ ایسے وقتوں پر بعض ان میں سے اپنا سارا ہی مال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتے اور بعض نے آدھا دے دیا اور اسی طرح جہاں تک کسی سے ہو سکتا فرق نہ کرتا.مجھے افسوس سے ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے ہاتھ میں بجز خشک باتوں کے اور کچھ بھی نہیں رکھتے اور جنہیں نفسانیت اور خود غرضی سے کوئی نجات نہیں ملی اور حقیقی خدا کا چہرہ ان پر ظاہر نہیں ہوا.وہ اپنے مذاہب کی اشاعت کی خاطر ہزاروں لاکھوں روپیہ دے دیتے ہیں اور بعض اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں.عیسائیوں میں دیکھا ہے کہ بعض عورتوں نے دس دس لاکھ کی وصیت کر دی ہے.پھر مسلمانوں کے لیے کس قدر شرم کی بات ہے کہ وہ اسلام کے لیے کچھ بھی کرنا نہیں چاہتے یا نہیں کرتے.مگر خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اسلام کے روشن چہرہ پر سے وہ حجاب جو پڑا ہوا ہے دور کر دے اور اسی غرض کے لیے اس نے مجھے بھیجا ہے.مر کر خدا کے حضور جانا ہے یقیناً یاد رکھو کہ خدا ہے اور مَر کر اس کے حضور ہی جانا ہے.کون کہہ سکتا ہے کہ سال آئندہ کے انہیں دنوں میں ہم میں سے یہاں کون ہوگا اور کون آگے چلا جائے گا.جبکہ یہ حالت ہے اور یہ یقینی امر ہے پھرکس قدر بد قسمتی ہوگی.اگر اپنی زندگی میں قدرت اور طاقت رکھتے ہوئے اس اصل مقصد کے لیے سعی نہ کریں.اسلام تو ضرور پھیلے گا اور وہ غالب آئے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ایسا ہی ارادہ فرمایا ہے مگر مبارک ہوں گے وہ لوگ جو اس اشاعت میں حصہ لیں گے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے جو اس نے تمہیں موقع دیا ہے.یہ زندگی جس پر فخر کیا جاتا ہے ہیچ ہے اور ہمیشہ کی خوشی کی وہی زندگی ہے جو مرنے کے بعد عطا ہوگی.ہاں یہ سچ ہے کہ وہ اسی دنیا اور اسی زندگی سے شروع ہوجاتی ہے اور اس کی

Page 168

طیاری بھی یہاں ہی ہوتی ہے.دین کو دنیا پر مقدم کر کے وصیت کرنے کی تلقین عرصہ ہوا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا تھا کہ ایک بہشتی مقبرہ ہوگا.گویا اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے علم و ارادہ میں جنتی ہیں.پھر اس کے متعلق الہام ہوا اُنْزِلَ فِیْـھَا کُلُّ رَحْـمَۃٍ.اس سے کوئی نعمت اور رحمت باہر نہیں رہتی.اب جو شخص چاہتا ہے کہ وہ ایسی رحمت کے نزول کی جگہ میں دفن ہو.کیا عمدہ موقع ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کر لے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کو اپنی مرضی پر مقدم کرے.یہ صدی جس کے ۲۳ سال گذرنے کو ہیں گذر جائے گی اور اس کے آخر تک موجودہ نسل میں سے کوئی نہ رہے گا اور اگر نکما ہو کر رہا تو کیا فائدہ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنا صدقہ پہلے بھیجو.یہ لفظ صدقہ کا صدق سے لیا گیا ہے.جب تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوئی کامل نمونہ اپنے صدق اور اخلاص کا نہیں دکھاتا لاف زنی سے کچھ بن نہیں سکتا.الوصیۃ اشتہار میں جو میں نے حصہ جائداد کی اشاعت اسلام کے لیے وصیت کرنے کی قید لگائی ہے.میں نے دیکھا کہ کل بعض نے ۶؍۱ کی کر دی ہے.یہ صدق ہے جو ان سے کراتا ہے اور جب تک صدق ظاہر نہ ہو کوئی مومن نہیں کہلا سکتا.تم اس بات کو کبھی مت بھولو کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کے بغیر جی ہی نہیں سکتے چہ جائیکہ موت سر پر ہو.طاعون کا موسم پھر آرہا ہے.زلزلہ کا خوف الگ دامنگیر ہے.وہ تو بڑا ہی بے وقوف ہے جو اپنے آپ کو امن میں سمجھتا ہے امن میں تو وہی ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا سچا فرمانبردار اور اس کی رضا کا جویاں ہے.ایسی حالت میں بے بنیاد زندگی کے ساتھ دل لگانا کیا فائدہ؟ سلسلہ کے قیام اور وصیت کی غرض دوسری طرف اسلام سخت اور خطرناک ضعف کی حالت میں ہے.اس پر یہی آفت اور مصیبت نہیں کہ باہر والے اس پر حملے کر رہے ہیں اگرچہ یہ بالکل سچ ہے کہ مخالف سب کے سب مل کر ایک ہی کمان سے تیر مار رہے ہیں اور جہاں تک ان سے ہو سکتا ہے وہ اس کے مٹا دینے کی سعی اور فکر کرتے

Page 169

ہیں.لیکن اس مصیبت کے علاوہ بڑی بھاری مصیبت یہ ہے کہ اندرونی غلطیوں نے اسلام کے درخشاں چہرہ پر ایک نہایت ہی تاریک حجاب ڈال دیا ہے.اور سب سے بڑی آفت یہ ہے کہ اس میں روحانیت نہیں رہی.اس سے میری مراد یہ ہے کہ ان لوگوں میں جو مسلمان کہلاتےہیں اور اسلام کے مدعی ہیں روحانیت موجود نہیں ہے اور اس پر دوسری بد قسمتی یہ کہ وہ انکار کر بیٹھے ہیںکہ اب کوئی ہو ہی نہیں سکتا جس سے خدا تعالیٰ کا مکالمہ مخاطبہ ہو اور وہ خدا تعالیٰ پر زندہ اور تازہ یقین پیدا کراسکے.ایسی حالت اور صورت میں اس نے ارادہ فرمایا ہے کہ اسلام کے چہرہ پر سے وہ تاریک حجاب ہٹا دے.اور اس کی روشنی سے دلوں کو منور کرے اور ان بے جا اتہامات اور حملوں سے جو آئے دن مخالف اس پر لگاتے اور کرتے ہیں اسے محفوظ کیا جاوے.اسی غرض سے یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے.وہ چاہتا ہے کہ مسلمان اپنا نمونہ دکھاویں.یہی وجہ ہے جو میں نے پسند کیا ہے کہ ایسے لوگ جو اشاعت اسلام کا جوش دل میں رکھتےہیں اور جو اپنے صدق و اخلاص کا نمونہ دکھا کر فوت ہوں اور اس مقبرہ میں دفن ہوں ان کی قبروں پر ایک کتبہ لگا دیا جاوے جس میں اس کے مختصر سوانح ہوں اور اس اخلاص و وفا کا بھی کچھ ذکر ہو جو اس نے اپنی زندگی میں دکھایا تا جو لوگ اس قبرستان میں آویں اور ان کتبوں کو پڑھیں ان پر ایک اثر ہو اور مخالف قوموں پر بھی ایسے صادقوں اور راستبازوں کے نمونے دیکھ کر ایک خاص اثر پیدا ہو.اگر یہ بھی اسی قدر کرتے ہیں جس قدر مخالف قومیں کر رہی ہیں اور وہ لوگ کر رہے ہیں جن کے پاس حق اور حقیقت نہیں تو انہوں نے کیا کیا.پھر انہیں تو ایسی حالت میں شرمندہ ہونا چاہیے.لعنت ہے ایسے بیعت میں داخل ہونے پر جو کافر جتنی بھی غیرت نہ رکھتا ہو.اسلام اس وقت یتیم ہوگیا ہے اور کوئی اس کا سر پرست نہیں اور خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو اختیار کیا اور پسند فرمایا کہ وہ اس کی سر پرست ہو اور وہ ہر طرح سے ثابت کرے، دکھائے کہ اسلام کی سچی غمگسار اور ہمدرد ہے.وہ چاہتا ہے کہ یہی قوم ہوگی جو بعد میں آنے والوں کے لیے نمونہ ٹھیرے گی.اس کے ثمرات برکات آنے والوں کے لیے ہوں گے اور زمانہ پر محیط ہوجائیں گے.میں سچ کہتا ہوں کہ یہ جماعت بڑھے گی لیکن وہ لوگ جو بعد میں آئیں

Page 170

گے وہ ان مراتب اور مدارج کو نہ پائیں گے جو اس وقت والوں کو ملیں گے.خدا تعالیٰ نے ایسا ہی ارادہ فرمایا کہ وہ اس جماعت کو بڑھائے اور وہ اسلام اور توحید کی اشاعت کا باعث بنے.خادمِ دین واقفینِ زندگی کی ضرورت مدرسہ کی سلسلہ جنبانی کی بھی اگر کوئی غرض ہے تو یہی ہے.اسی لیے میں نے کہا تھا کہ اس کے متعلق غور کیا جاوے کہ یہ مدرسہ اشاعت اسلام کا ایک ذریعہ بنے اور اس سے ایسے عالِم اور زندگی وقف کرنے والے لڑکے نکلیں جو دنیا کی نوکریوں اور مقاصد کو چھوڑ کر خدمت دین کو اختیار کریں.ایسا ہی اس قبرستان کے ذریعہ بھی اشاعت اسلام کا ایک مستقل انتظام سوچا گیا ہے.مدرسہ کے متعلق میری روح ابھی فیصلہ نہیں کر سکی کہ کیا راہ اختیار کیا جاوے.ایک طرف ضرورت ہے ایسے لوگوں کی جو عربی اور دینیات میں توغل رکھتے ہوں.اور دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہے جو آجکل کے طرزِ مناظرات میں پکے ہوں.علومِ جدیدہ سے بھی واقف ہوں کسی مجلس میں کوئی سوال پیش آجاوے تو جواب دے سکیں.اور کبھی ضرورت کے وقت عیسائیوں سے یا کسی اور مذہب والوں سے انہیں اسلام کی طرف سے مناظرہ کرنا پڑے تو ہتک کا باعث نہ ہوں بلکہ وہ اسلام کی خوبیوں اور کمالات کو پُر زور اور پُر شوکت الفاظ میں ظاہر کر سکیں.میرے پاس اکثر ایسے خطوط آئے ہیں جن میں ظاہر کیا گیا تھا کہ آریوں سے گفتگو ہوئی یا عیسائیوں نے اعتراض کیا اور ہم جواب نہیں دے سکے.ایسے لوگ اسلام کی ہتک اور بے عزتی کا موجب ہوجاتے ہیں.اس زمانہ میں اسلام پر ہر رنگ اور ہر قسم کے اعتراض کئے جاتے ہیں.میں نے ایک مرتبہ اس قسم کے اعتراضوں کا اندازہ کیا تھا تو میں نے دیکھا کہ اسلام پر تین ہزار اعتراض مخالفوں کی طرف سے ہوا ہے.پس یہ کس قدر ضروری امر ہے کہ ایک جماعت ایسے لوگوں کی ہو جو ان تمام اعتراضات کا بخوبی جواب دے سکے.آجکل کے مناظروں اور مباحثوں کی حالت اور بھی بُری ہوگئی ہے کہ اصول کو چھوڑ کر فروع میں جھگڑتے ہیں حالانکہ اس اصل کو کبھی ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے کہ جب کسی سے گفتگو ہو تو وہ ہمیشہ اصول میں محدود ہو.لیکن یاوہ گو اس طریق کو پسند نہیں

Page 171

کرتے وہ جہاں تک ان سے ہو سکتا ہے اس سے نکلتے ہیں اور فروعات میں آکر الجھ جاتے ہیں.ایسے لوگ اس امر کی بھی پابندی نہیں کرتے کہ پہلے اپنے گھر کو دیکھ لیں کہ دوسرے مذہب پر جو اعتراض کرتا ہوں وہ میرے گھر میں تو کسی تعلیم پر وارد نہیں ہوتا بلکہ ان کی غرض محض اعتراض کرنا ہوتا ہے حق کو لینا نہیں ہوتا.ایک آریہ پر اگر نیوگ کا اعتراض کرو تو وہ قبل اس کے کہ نیوگ کی حقیقت اور خوبی بیان کرے بلاسوچے سمجھے جھٹ اعتراض کر دے گا کہ تم میں متعہ ہے حالانکہ اوّل تو متعہ ہے ہی نہیں اور علاوہ بریں متعہ کی حقیقت تو اتنی ہے کہ وہ میعادی طلاق ہے.طلاق کو نیوگ سے کیا نسبت اور کیا تعلق؟ جو شخص محض حصول اولاد کے لیے اپنی بیوی کو دوسرے سے ہمبستر کرواتا ہے وہ طلاق پر اعتراض کرے تو تعجب نہیں تو کیا ہے؟ واقفین زندگی کے لیے غیر زبانیں سیکھنے کی تلقین غرض اعتراض کرنے والوں کی یہ حالت ہے اور نہایت شوخی اور بیباکی کے ساتھ یہ سلسلہ جاری ہے میں جب اسلام کی حالت کو مشاہدہ کرتا ہوں تو میرے دل پر چوٹ لگتی ہے اور دل چاہتا ہے کہ ایسے لوگ میری زندگی میں طیار ہو جاویں جو اسلام کی خدمت کر سکیں.ہم تو پابگور ہیں اور اگر اور طیار نہ ہوں تو پھر مشکل پیش آتی ہے.میرا مدعا اس قدر ہے کہ آپ لوگ تدبیر کریں خواہ کسی پہلو پر صاد کیا جاوے مگر یہ ہو کہ چند سال میں ایسے نوجوان نکل آویں جن میں عملی قابلیت ہو اور وہ غیر زبان کی واقفیت بھی رکھتےہوں اور پورے طور پر تقریر کر کے اسلام کی خوبیاں دوسروں کے ذہن نشین کر سکیں.میرے نزدیک غیر زبانوں سے اتنی ہی مراد نہیں کہ صرف انگریزی پڑھ لیں.نہیں اور زبانیں بھی پڑھیں اور سنسکرت بھی پڑھیں تاکہ ویدوں کو پڑھ کر ان کی اصلیت ظاہر کر سکیں.اس وقت تک وید گویا مخفی پڑے ہوئے ہیں.کوئی ان کا مستند ترجمہ نہیں.اگر کوئی کمیٹی ترجمہ کر کے صاد کر دے تو حقیقت معلوم ہو جاوے.اصل بات یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ اسلام کو ان لوگوں اور قوموں میں پہنچایا جاوے جو اس

Page 172

سے محض ناواقف ہیں اور اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ جن قوموں میں تم اسے پہنچانا چاہو ان کی زبانوں کی پوری واقفیت ہو.ان کی زبانوں کی واقفیت نہ ہو اور ان کی کتابوں کو پڑھ نہ لیا جاوے تو مخالف پورے طور پر عاجز نہیں ہو سکتا.مولوی عبید اللہ صاحب مرحوم نے تحفۃ الہند نام ایک کتاب لکھی.اندرمن نے اس کا جواب دیا اور بڑی گالیاں دیں.اسلام پر اعتراض کر دیئے.اگرچہ اس کی بعض کتابیں جلا دی گئی تھیں.مگر انہیں اعتراضوں کو لے کر پنڈت دیانند صاحب نے پیش کر دیا.اگر مولوی عبید اللہ صاحب نے وید پڑھے ہوتے تو وہ ویدوں سے ان کا جواب دیتے.غرض زبان کا سیکھنا ضروری ہے.۱ واقفین کی تعلیم و تربیت مجھے یہ بھی شبہ ہے کہ دماغی حالتیں کچھ اچھی نہیں ہیں.بہت ہی کم ایسے لڑکے ہوتے ہیں جن کے قویٰ اعلیٰ درجہ کے ہوں.ورنہ اکثر وںکو سِل یا دِق ہوجاتی ہے.پس ایسے کمزور قویٰ کے لڑکے بہت محنت برداشت نہیں کر سکتے.اس لحاظ سے جب ہم دیکھتے ہیں تو اور بھی فکر دامنگیر ہوتا ہے کیونکہ ایک طرف تو ہم ایسے لڑکے طیار کرنا چاہتے ہیں جو دین کے لیے اپنی زندگی وقف کریں اور وہ فارغ التحصیل ہو کر خدمتِ دین کریں مگر دوسری طرف اس قسم کے مشکلات ہیں.اس لیے ضروری ہے کہ اس سوال پر بہت فکر کیا جاوے.ہاں میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ جو بچے ہمارے اس مدرسہ میں آتے ہیں ان کا آنا بھی بے سود نہیں ہے.ان میں اخلاص اور محبت پائی جاتی ہے اس لیے اس موجودہ صورت اور انتظام کو بدلنا بھی مناسب نہیں ہے.میرے نزدیک یہ قاعدہ ہونا چاہیے تھا کہ ان بچوں کو تعطیل کے دن مولوی سید محمد احسن صاحب یا مولوی حکیم نور الدین صاحب زبانی تقریروں کے ذریعہ ان کو قرآن شریف اور علم حدیث اور مناظرہ کا ڈھنگ سکھاتے اور کم از کم دو گھنٹہ ہی اس کام کے لیے رکھے جاتے.میں یقیناً کہتا ہوں کہ زبانی تعلیم ہی کا سلسلہ جاری رہا ہے اور طِبّ کی تعلیم بھی زبانی ہوتی آئی.زبانی تعلیم سے طالب علموں ۱ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲،۳

Page 173

کو خود بھی بولنے اور کلام کرنے کا طریق آجاتا ہے.خصوصاً جبکہ معلّم فصیح و بلیغ ہو.زبانی تعلیم سے بعض اوقات ایسے فائدے ہوتے ہیں کہ اگر ہزار کتاب بھی تصنیف ہوتی تو وہ فائدہ نہ ہوتا.اس لیے اس کا التزام ضروری ہے.تعطیل کے دن ضرور ان کو سکھایا جاوے.پھر باقاعدہ ان کو قرآن شریف سنایا جاوے.اس کے حقائق و معارف بیان کیے جاویں اور ان کی تائید میں احادیث کو پیش کیا جاوے.عیسائی جو اعتراض اسلام پر کرتے ہیں ان کے جواب ان کو بتائے جاویں اور اس کے بالمقابل عیسائیوں کے مذہب کی حقیقت کھول کر ان کو بتائی جاوے تاکہ وہ اس سے خوب واقف ہو جاویں.ایسا ہی دہریوں اور آریوں کے اعتراضات اور ان کے جوابات سے ان کو آگاہ کیا جاوے.اور یہ سب کچھ سلسلہ وار ہو یعنی کسی ہفتہ کچھ اور کسی ہفتہ کچھ.اگر یہ التزام کر لیا گیا تو میں یقیناً جانتا ہوں کہ بہت کچھ طیاری کر لیں گے.نری عربی زبان کی واقفیت کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب پیدا نہیں ہوئے تھے تو اس زبان نے عربوں کے اخلاق، عادات اورمذہب پر کیا اثر ڈالا؟ اور اب شام و مصر میں کیا فائدہ پہنچایا؟ ہاں یہ سچ ہے کہ عربی زبان اگر عمدہ طور سے آتی ہو تو وہ قرآن شریف کی خادم ہوگی اور انسان قرآن کریم کے حقائق و معارف خوب سمجھ سکے گا.چونکہ قرآن اور احادیث عربی میں ہیں اس لیے اس زبان سے پورے طور پر باخبر ہونا بہت ہی ضروری ہوگیا ہے.اگر عربی زبان سے واقفیت نہ ہو تو قرآن شریف اور احادیث کو کیا سمجھے گا؟ ایسی حالت میں تو پتہ بھی نہیں ہو سکتا کہ یہ آیت قرآن شریف میں ہے بھی یا نہیں.ایک شخص کسی پادری سے بحث کرتا تھا اس سے کہہ دیا کہ قرآن شریف میں جو آیا ہے لَوْلَاکَ لَمَا پادری نے جب کہا کہ نکال کر دکھاؤ تو بہت ہی شرمندہ ہونا پڑا.سادہ ترجمہ پڑھ لینے سے اتنا فائدہ نہیں ہوتا.ان علوم کا جو قرآن شریف کے خادم ہیں واقف ہونا ضروری ہے.اس طرح پر قرآن شریف پڑھایا جاوے اور پھر حدیث.اور اسی طرح پر ان کو اس سلسلہ کی سچائی سے آگاہ کیا جاوے اور ایسی کتابیں طیار کی جاویں جو اس تقسیم کے ساتھ ان کے لیے مفید ہوں.اگر یہ سلسلہ اس طرح پر جاری ہوجاوے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مقاصد کا بہت

Page 174

بڑا مرحلہ طے ہو جاوے گا.یہ بھی یاد رہے کہ بیان کرنے والے تقسیم اوقات کے ساتھ بیان کریں اور پھر وہ ان بچوں سے امتحان لیں.غرض میں جو کچھ چاہتا ہوں وہ تم نے سن لیا ہے اور میری اصل غرض اورمنشا کو تم نے سمجھ لیا ہے.اس کے پورا کرنے کے لیے جو جو تجاویز اور پھر ان تجاویز پر جو اعتراض ہوتے ہیں وہ بھی تم نے بیان کر دیئے ہیں اور میں سن چکا ہوں.میں مدرسہ کی موجودہ صورت کو بھی پسند کرتا ہوں.اس سے نیک طبع بچے کچھ نہ کچھ اثر ضرور لے جاتے ہیں.اس لیے یہ نہیں چاہیے کہ مَا لَا یُدْرَکُ کُلُّہٗ لَا یُتْرَکُ کُلُّہٗ.تجربہ کے طور پر سر دست ایک سال کے لیے ہی ایسا انتظام کر کے دیکھو کہ ہفتہ وار جلسوں کے ذریعہ ان کو دینی ضروریات سے آگاہ کیا جاوے.ہاں عربی زبان کےلیے معقول انتظام ہوناچاہیے.اگر اس کےلیے کچھ نہ ہوا تو پھر ’’ہماں اش در کاسہ‘‘ والی بات ہوگی.گویا زبانی تو سب کچھ ہوا مگر عملی اور حقیقی طور پر کچھ بھی نہ ہوا.اس بات کو بھی زیر نظر رکھ لو کہ اگر ان بچوں پر اور بوجھ ڈالا گیا تو وہ پاس ہونے کے خیالات میں دو طرفہ محنت نہیں کر سکیں گے.ایک ہی طرف کوشش کریں گے.اور اگر علیحدہ تعلیم ہوگی تو اس کے لیے وقت وہی ہے وہ بڑھ نہیں سکتا.اس لیے ایک تو وہی صورت ہو سکتی ہے جو زبانی تعلیم کی میں نے بتائی ہے.اور ایک اور یہ صورت ہے کہ وہ بچے جو پاس اور فیل کی پروا نہ رکھیں بلکہ ان کی غرض خدمتِ دین کے لیے طیار ہونا ہو اور محض دین کے لیے تعلیم حاصل کریں ایسے بچوں کے لیے خاص انتظام کر دیا جاوے مگر ان کےلیے بھی یہ ضروری امر ہے کہ علومِ جدید سے انہیں واقفیت ہو.ایسا نہ ہو کہ اگر علومِ جدیدہ کے موافق کسی نے اعتراض کر دیا تو وہ خاموش ہو جاویں اور کہہ دیں کہ ہمیں تو کچھ معلوم نہیں.اس لیے موجودہ علوم سے انہیں کچھ نہ کچھ واقفیت ضروری ہے تاکہ وہ کسی کے سامنے شرمندہ نہ ہوں اور ان کی تقریر کا اثر زائل نہ ہو جاوے محض اس وجہ سے کہ وہ بے خبر ہیں.ہاں ایک جماعت یہ ہو کہ وہ دونوں علوم حاصل کر سکیں اور بجائے خود انہیں وقت کی پروا نہ ہو.پھر اس پر مشکل یہ ہوگی کہ اوستاد متعدد اور مقرر بنیں.غرض ہر پہلو کو سوچ کر یہ انتظام کرنے کی بات

Page 175

ہے.اس لیے میں جب ان تمام امور کو مد نظر رکھ کر سوچتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں اور سمجھ نہیں سکتا کہ ہمارا جو مطلب ہے وہ کیونکر پورا ہو سکتا ہے.اگر موجودہ صورت ہی کو قائم رکھیں اور کوئی انتظام نہ کیا گیا تو پھر ان ساری تقریروں سے فائدہ کیا ہوا؟ اور اگر اس پر مضامین بڑھادیں تو اوستاد واویلا کرتے ہیں کہ وقت تھوڑا ہے اور ساتھ ہی لڑکوں کی صحت کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے.خلاصہ یہ کہ اس نکتہ کو مد نظر رکھو کہ ایسے لوگ طیار ہو جاویں گے.اس لیے کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے سامنے طیار ہوں.خدا تعالیٰ نے جو نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا (ھود:۳۸) تو کشتی ہمارے سامنے بنا اسی طرح پر میں اس جماعت کو اپنے سامنے تیار کرانا چاہتا ہوں.فائدہ اسی سے ہوگا.مسیح موعود کی صحبت کا اثر میں یقیناً کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ایک ہفتہ ہماری صحبت میں رہے اور اسے ہماری تقریریں سننے کا موقع مل جاوے کہ وہ مشرق و مغرب کے مولوی سے بڑھ جاوے گا.اس لیے جو کچھ ہو میرے سامنے ہوآپ لوگ اس کی فکر کریں.میں اس امر میں تمہارے ساتھ اتفاق رائے کرتا ہوں کہ مدرسہ کو توڑا نہ جاوے.ان کے لیے تو تعطیل کا دن مناظرات اور دینیات کے واسطے قرار دیا جاوے.ہمارا یہ مطلب نہیں کہ سب کے سب مولوی ہی ہو جاویں اور نہ ایسا ہوسکتا ہے.ہاں اگر ان میں سے ایک بھی نکل آوے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا مقصد پورا ہوگیا اور باقیوں کو کم از کم اپنے دین ہی کی خبر ہو جاوے گی اور وہ غیر قوموں کے فتنہ میں نہ پڑ سکیں گے.ہماری کسی سے دشمنی نہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مخالف مذہبوں کے لوگوں سے ہمیں کوئی دشمنی نہیں بلکہ ان کے سچے خیر خواہ اور ہمدرد ہم ہیں.لیکن کیا کریں ہمارا مسلک اس جراح کی طرح ہے جس کو ایک پھوڑے کو چیرنا پڑتا ہے اور پھر وہ اس پر مرہم لگاتا ہے.بیوقوف مریض پھوڑے کے چیرنے کے وقت شور مچاتا ہے حالانکہ اگر وہ سمجھے تو اس پھوڑے کو چیرنے کی اصل غرض اسی کے مفید مطلب ہے کیونکہ جب تک وہ چیرا نہ جاوے گا اور

Page 176

اس کی آلائش دور نہ کی جاوے گی وہ اپنا فساد اور بڑھائے گا اور زیادہ مضر اور مہلک ہوگا.اسی طرح پر ہم مجبور ہیں کہ ان کی غلطیاں ان پر ظاہر کریں اور صراط مستقیم ان کے سامنے پیش کریں.جب تک وہ صراط مستقیم اختیار نہ کریں گے تو کیا بن سکتے ہیں؟ آریوں کے بعض غیر معقول عقائد ایک طرف ایسے لوگ موجود ہیں جو خدا تعالیٰ کے وجود ہی سے منکر ہیں اور دوسری طرف ایسے ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ کے وجود کا بظاہر اقرار کیا ہے مگر وہ مانتے ہیں کہ اس نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا.گویا ذرّہ ذرّہ خود خدا ہے.مجھے تعجب ہے کہ اس پر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پرمیشر سُرَو شکتی مان ہے.یہ کیسا سُرَو شکتی مان ہے کہ کچھ پیدا نہیں کر سکتا ذرہ ذرہ انادی ہے اور روحیں انادی ہیں.ان کے خواص اور قویٰ انادی ہیں.پھر جوڑنا جاڑنا بھی کوئی کام ہو سکتا ہے.میرے نزدیک ایسے عقیدہ میں اور دہریوں کے عقیدہ میں ۱۹ اور ۲۰ کا فرق ہے.یہ لوگ درحقیقت اللہ تعالیٰ اور اس کے قدرتوں پر ایمان نہیں لاتے.ہم تو اس کوخدا مانتے ہیں جو عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ(البقرۃ:۱۰۷) ہے.پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نیستی سے ہستی نہیں ہو سکتی.یہ ایسا بیہودہ اور غلط اصول ہے کہ اس کے لیے کسی بڑی دلیل کی حاجت نہیں ہے.خواب کے نظارے کس نے نہیں دیکھے؟ یہاں تک کہ خواب میں مُردوں سے باتیں کرتا اور کھانے پینے کی چیزوں سے فائدہ اٹھاتا.اب کوئی بتائے کہ وہ ہستی کہاں سے ہوتی ہے؟ کیا نیستی سے نہیں ہوتی؟ اگر عقل ہوتی اور باپ دادا میں روحانیت کا اثر ہوتا تو ایسی باتیں نہ کرتے.یہ باتیں یونانیوں کے اندھے فلاسفروں سے لی ہیں.اور علم دین سے محض بے خبر ہیں.علم دین کچھ اور حواس عطا کرتا ہے.جس کو فلسفی اور طبعی نہیں پہنچ سکتے.رؤیا میں سب امور ہست ہوجاتے ہیں بلکہ بعض اوقات روحانی امور جسمانی رنگ بھی اختیار کر لیتے ہیں.جیسا کہ میری وہ رؤیا ہے جو سرمہ چشم آریہ میں درج ہے جس میں سیاہی کے چھینٹے کُرتے پر پڑے تھے اور وہ کُرتہ اب تک موجود ہے.یہ عجیب در عجیب اسرار ہیں جن کا ان پر ایمان نہیں وہ ایمان ہی کیا ہے؟

Page 177

دین وہی ہے جو روحانیت سکھاتا ہے اور آگے قدم رکھواتا ہے.میں افسوس نہیں کرتا کہ ایسی بُری حالت کیوں ہوئی ہے جو اس وقت نظر آرہی ہے.یہ سب اسلام کے کمالات کے ظہور کی خاطرہوا.بت پرستی سے دست برداری کرانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسی قوم پیدا کر دی.یہ لوگ اسلام کی ڈیوڑھی پر ہیں.ایک غیب کا دھکا لگے گا تو تمہارے بھائی ہوجائیں گے.۱ ۲۷؍دسمبر ۱۹۰۵ء ۲۷؍دسمبر کی صبح کو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا صندوق جنازہ مقبرہ بہشتی میں دفن کیا گیا.یہ پہلا بہشتی ہے جو اس مقبرہ میں دفن ہوا.دفن کرنے سے پہلے حضرت نے بمعہ خدام جنازہ پڑھایا جس کی تحریک اس طرح سے ہوئی کہ مرحوم کی زوجہ کلاں نے آج رات خواب میں مرحوم کو دیکھا اور مرحوم نے فرمایا کہ میرا جنازہ پڑھا جاوے.چنانچہ اس خواب کی تعمیل میں دوبارہ جنازہ پڑھا گیا.حضرت نے فرمایا.جنازہ بھی دعا ہے.خواب کو پورا کر دینا اچھا ہے.۲ (بعد نماز ظہر) مسیح موعود کی بعثت اور سلسلہ کے قیام کی غرض اعلیٰ حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک تقریر جو آپ نے ۲۷؍دسمبر ۱۹۰۵ءکو بعد نماز ظہر و عصر مسجد اقصیٰ میں فرمائی.۲۶؍دسمبر ۱۹۰۵ء کی صبح کومہمان خانہ جدید کے بڑے ہال میں احباب کا ایک بڑا جلسہ اس غرض کے لیے منعقد ہوا تھا کہ مدرسہ تعلیم الاسلام کی اصلاح کے سوال پر غور کریں.اس میں بہت سے بھائیوں نے مختلف پہلوؤں پر تقریریں کیں.ان تقریروں کے ضمن میں ایک بھائی نے اپنی تقریر کے ضمن میں کہا کہ جہاںتک میں جانتا ہوں حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سلسلہ اور دوسرے مسلمانوں میں صرف اسی قدر فرق ہے کہ وہ مسیح ابن مریم زندہ آسمان پر جانا تسلیم کرتے ہیں اور ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ ۱ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۵ مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۰۶ءصفحہ ۲ ۲بدر جلد ۱ نمبر ۴۱ مورخہ ۲۹ ؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲

Page 178

وفات پاچکےہیں.اس کے سوا اور کوئی نیا امر ایسا نہیں جو ہمارے اور ان کے درمیان اصولی طور پر قابلِ نزاع ہو.اس سے چونکہ کامل طور پر سلسلہ کی بعثت کی غرض کا پتہ نہ لگ سکتا تھا بلکہ ایک امر مشتبہ اور کمزور معلوم ہوتا تھا اس لیے ضروری امر تھا کہ آپ اس کی اصلاح فرماتے.چونکہ اس وقت کافی وقت نہ تھا.اس لیے ۲۷؍دسمبر کو بعد ظہر و عصر آپ نے مناسب سمجھا کہ اپنی بعثت کی اصل غرض پر کچھ تقریر فرمائیں.آپ کی طبیعت بھی ناساز تھی.تاہم محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی.فرمایا.افسوس ہے اس وقت میری طبیعت بیمار ہے اور میں کچھ زیادہ بول نہیں سکتا لیکن ایک ضروری امر کی وجہ سے چند کلمے بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں.کل میں نے سنا تھا کہ کسی صاحب نے یہ بیان کیا تھا کہ گویا ہم میں اور ہمارے مخالف مسلمانوں کے درمیان فرق موت و حیات مسیح علیہ السلام کا ہے ورنہ ایک ہی ہیں اور عملی طور ہمارے مخالفوں کا قدم بھی حق پر ہے یعنی نماز روزہ اور دوسرے اعمال مسلمانوں کے ہیں اور وہ سب اعمال بجا لاتے ہیں.صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے بارے میں ایک غلطی پڑ گئی تھی جس کے ازالہ کے لیے خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ پیدا کیا.سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بات صحیح نہیں.یہ تو سچ ہے کہ مسلمانوں میں یہ غلطی بہت بُری طرح پر پیدا ہوئی ہے.لیکن اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ میرا دنیا میں آنا صرف اتنی ہی غلطی کے ازالہ کے لیے ہے اور اور کوئی خرابی مسلمانوں میں ایسی نہ تھی جس کی اصلاح کی جاتی بلکہ وہ صراط مستقیم پر ہیں تو یہ خیال غلط ہے.میرے نزدیک وفات یا حیات مسیح ایسی بات نہیں کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ اتنا بڑا سلسلہ قائم کرتا اور ایک خاص شخص کو دنیا میں بھیجا جاتا اور اللہ تعالیٰ ایسے طور پر اس کو ظاہر کرتا جس سے اس کی بہت بڑی عظمت پائی جاتی ہے یعنی یہ کہ دنیا میں تاریکی پھیل گئی ہے اور زمین لعنتی ہوگئی ہے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت۱ کی غلطی کچھ آج پیدا نہیں ہوگئی بلکہ یہ غلطی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تھوڑے ہی عرصہ بعد پیدا ہوگئی تھی اور خواص، اولیاء اللہ، صلحاء اور اہل اللہ بھی آتے رہے اور لوگ اس غلطی میں گرفتار رہے.اگر اس غلطی ہی کا ازالہ مقصود ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس وقت بھی کر دیتا ۱ یہ لفظ در اصل ’’حیات‘‘ ہے جو سہو کتابت سے ’’موت‘‘ لکھا گیا ہے (مرتّب)

Page 179

مگر نہیں ہوا اور یہ غلطی چلی آئی اور ہمارا زمانہ آگیا.اس وقت بھی اگر نری اتنی ہی بات ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک سلسلہ پیدا نہ کرتا کیونکہ وفات مسیح ایسی بات تو تھی ہی نہیں جو پہلے کسی نے تسلیم نہ کی ہو.پہلے سے بھی اکثر خواص جن پر اللہ تعالیٰ نے کھول دیا یہی مانتے چلے آئے مگر بات کچھ اور ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا.یہ سچ ہے کہ مسیح کی وفات۱ کی غلطی کو دور کرنا بھی اس سلسلہ کی بہت بڑی غرض تھی.لیکن صرف اتنی ہی بات کے لیے خدا تعالیٰ نے مجھ کو کھڑا نہیں کیا بلکہ بہت سی باتیں ایسی پیدا ہوچکی تھیں اگر ان کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ ایک سلسلہ قائم کر کے کسی کو مامور نہ کرتا تو دنیا تباہ ہوجاتی اور اسلام کا نام و نشان مٹ جاتا.اس لیے اسی مقصد کو دوسرے پیرایہ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہماری بعثت کی غرض کیا ہے؟ حیاتِ مسیح کا فتنہ وفاتِ عیسیٰ اور حیاتِ اسلام یہ دونوں مقاصد باہم بہت بڑا تعلق رکھتے ہیں اور وفاتِ مسیح کا مسئلہ اس زمانہ میں حیاتِ اسلام کے لیے ضروری ہوگیا ہے.اس لیے کہ حیاتِ مسیح سے جو فتنہ پیدا ہوا ہے وہ بہت بڑھ گیا ہے.حیاتِ مسیح کے لیے یہ کہنا کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو زندہ آسمان پر اٹھالے جاتا؟ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی۲ سے ناواقفی کو ظاہر کرتا ہے.ہم تو سب سے زیادہ اس بات پر ایمان لاتے اور یقین کرتے ہیں اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ(البقرۃ:۲۱).اللہ تعالیٰ بےشک ہر بات پر قادر ہے اور ہم ایمان رکھتےہیںکہ بیشک وہ جو کچھ چاہے کر سکتا ہے.لیکن وہ ایسے امور سے پاک اور منزہ ہے جو اس کی صفاتِ کاملہ کے خلاف ہوں اور وہ ان باتوں کا دشمن ہے جو اس کے دین کے مخالف ہوں.حضرت عیسیٰ کی حیات اوائل میں تو صرف ایک غلطی کا رنگ رکھتی تھی مگر آج یہ غلطی ایک اژدھا بن گئی ہے جو اسلام کو نگلنا چاہتی ہے.ابتدائی زمانہ میں اس غلطی سے کسی گزند کا اندیشہ نہ تھا اور وہ غلطی ہی کے رنگ میں تھی.مگر جب سے عیسائیت کا خروج ہوا اور انہوں نے مسیح کی زندگی کو ان کی خدائی کی ایک بڑی زبردست دلیل قرار دیا تو یہ ۱سہو کتابت ہے ’’مسیح کی حیات کی غلطی ‘‘ ہونا چاہیے.(مرتّب) ۲ اس جگہ کتابت کی غلطی سے کوئی لفظ رہ گیا ہے.(مرتّب)

Page 180

خطرناک امر ہوگیا.انہوں نے بار بار اور بڑے زور سے اس امر کو پیش کیا کہ اگر مسیح خدا نہیں تو وہ عرش پر کیسے بیٹھا ہے؟ اور اگر انسان ہو کر کوئی ایسا کر سکتا ہے کہ زندہ آسمان پر چلا جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آدم سے لے کر اس وقت تک کوئی بھی آسمان پر نہیں گیا؟ اس قسم کے دلائل پیش کر کے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا بنانا چاہتے ہیں اور انہوں نے بنایا اور دنیا کے ایک حصہ کو گمراہ کر دیا.اور بہت سے مسلمان جو تیس لاکھ سے زیادہ بتائے جاتےہیں اس غلطی کو صحیح عقیدہ تسلیم کرنے کی وجہ سے اس فتنہ کا شکار ہوگئے.اب اگر یہ بات صحیح ہوتی اور درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے جاتے جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں اور مسلمان اپنی غلطی اور ناواقفی سے ان کی تائید کرتے ہیں تو پھر اسلام کےلیے تو ایک ماتم کا دن ہوتا.کیونکہ اسلام تو دنیا میں اس لیے آیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر دنیا کو ایک ایمان اور یقین پیدا ہو اور اس کی توحید پھیلے.وہ ایسا مذہب ہے کہ کوئی کمزوری اس میں پائی نہیں جاتی اور نہیں ہے.وہ تو اللہ تعالیٰ ہی کو وحدہٗ لاشریک قرار دیتا ہے.کسی دوسرے میں خصوصیت تسلیم کی جاوے تو یہ تو اللہ تعالیٰ کی کسر شان ہے اور اسلام اس کو روا نہیں رکھتا.مگر عیسائیوں نے مسیح کی اس خصوصیت کو پیش کر کے دنیا کو گمراہ کر دیا ہے اور مسلمانوں نے بغیر سوچے سمجھے ان کی اس ہاں میں ہاں ملا دی اور اس ضرر کی پروا نہ کی جو اس سے اسلام کو پہنچا.اس بات سے کبھی دھو کا نہیں کھانا چاہیے جو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ مسیح کو زندہ آسمان پر اٹھا لے جاوے؟ بیشک وہ قادر ہے مگر وہ ایسی باتوں کو کبھی روا نہیں رکھتا جو مبدأ شرک ہو کر کسی کو شریک الباری ٹھہراتی ہوں اور یہ صاف ظاہر ہے کہ ایک شخص کو بعض وجوہ کی خصوصیت دینا صریح مبدأ شرک ہے.پس مسیح علیہ السلام میں یہ خصوصیت تسلیم کرنا کہ وہ تمام انسانوں کے برخلاف اب تک زندہ ہیں اور خواص بشری سے الگ ہیں یہ ایسی خصوصیت ہے جس سے عیسائیوں کو موقع دیا کہ وہ ان کی خدائی پر اس کو بطور دلیل پیش کریں.اگر کوئی عیسائی مسلمانوں پر یہ اعتراض کرے کہ تم ہی بتاؤ کہ ایسی خصوصیت اس وقت کسی اور شخص کو بھی ملی ہے؟ تو اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہے.اس لیے کہ وہ یقین کرتے ہیں کہ سب انبیاء علیہم السلام مر گئے ہیں مگر

Page 181

مسیح کی موت بقول ان مخالف مسلمانوں کے ثابت نہیں کیونکہ توفّی کے معنے تو آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کے کرتےہو.اس لیے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ (المائدۃ:۱۱۸) میں بھی یہی معنے کرنےپڑیں گے کہ جب تو نے مجھے زندہ آسمان پر اٹھا لیا.اور کوئی آیت ثابت نہیں کرتی کہ اس کی موت بھی ہوگی.پھر بتاؤ کہ ان کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے اور وہ اپنی غلطی کو سمجھیں.میں سچ کہتا ہوں کہ جو لوگ مسلمان کہلا کر اس عقیدہ کی کمزوری اور شناعت کے کھل جانے پر بھی اس کو نہیں چھوڑتے وہ دشمنِ اسلام اور اس کے لیے مارِ آستیں ہیں.یاد رکھو! اللہ تعالیٰ بار بار قرآن شریف میں مسیح کی موت کا ذکر کرتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ وہ دوسرے نبیوں اور انسانوںکی طرح وفات پاچکے.کوئی امر ان میں ایسا نہ تھا جو دوسرے نبیوں اور انسانوں میں نہ ہو.یہ بالکل سچ ہے کہ توفّی کے موت ہی معنے ہیں.کسی لغت سے یہ ثابت نہیں کہ توفّی کے معنے کبھی آسمان پر مع جسم اٹھانے کے بھی ہوتے ہیں.زبان کی خوبی لغات کی توسیع پر ہے.دنیا میں کوئی لغت ایسی نہیں ہے جو صرف ایک کےلیے ہو اور دوسرے کے لیے نہ ہو.ہاں خدا تعالیٰ کے لیے یہ خصوصیت ضرور ہے اس لیے کہ وہ وحدہٗ لا شریک خدا ہے.لغت کی کوئی کتاب پیش کرو جس میں توفّی کےیہ معنے خصوصیت سے حضرت عیسیٰ کے لیے کہے ہوئے ہوں کہ زندہ آسمان پر مع جسم اٹھانا ہے اور سارے جہان کے لیےجب یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے موت کے ہوں گے اس قسم کی خصوصیت لغت کی کسی کتاب میں دکھاؤ.اور اگر نہ دکھا سکو اور نہیں ہے تو پھر خدا تعالیٰ سے ڈرو کہ یہ مبدأ شرک ہے.اس غلطی ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان عیسائیوں کے مدیون ٹھیرتےہیں.اگر عیسائی یہ کہیں کہ جس حال میں تم مسیح کو زندہ تسلیم کرتے ہو کہ وہ آسمان پر ہے اور پھر اس کا آنا بھی مانتےہو اور یہ بھی کہ وہ حکم ہو کر آئے گا.اب بتاؤ کہ اس کے خدا ہونے میں کیا شبہ رہا جبکہ یہ بھی ثابت نہ ہو کہ اس کو موت ہوگی یہ کہنا بڑا مصیبت کا امر ہو کہ عیسائی سوال کرے اور اس کا جواب نہ ہو.غرض اس غلطی کا اثر بد اب یہاں تک بڑھ گیا.یہ تو سچ ہے کہ دراصل مسیح کی موت کا مسئلہ ایسا عظیم الشان نہ تھا کہ اس کے لیے ایک عظیم الشان مامور کی ضرورت ہوتی.مگر میں دیکھتا ہوں کہ

Page 182

مسلمانوں کی حالت بہت ہی نازک ہوگئی ہے.انہوں نے قرآن کریم پر تدبّر چھوڑ دیا اور ان کی عملی حالت خراب ہوگئی.اگر ان کی عملی حالت درست ہوتی اور وہ قرآن کریم اور اس کے لغات پر توجہ کرتے تو ایسے معنے ہرگز نہ کرتے.انہوں نے اسی لیے اپنی طرف سے یہ معنے کر لئے.توفّی کا لفظ کوئی نرالا اور نیا لفظ نہ تھا اس کے معنے تمام لغت عرب میں خواہ وہ کسی نے لکھی ہوں موت کے کئے ہیں.پھر انہوں نے مع جسم آسمان پر اٹھانے کے معنے آپ ہی کیوں بنا لیے.ہم کو افسوس نہ ہوتا اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی اس لفظ کے یہی معنے کر لیتے کیونکہ یہی لفظ آپ کے لیے بھی تو قرآن شریف میں آیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے وَ اِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ۠ (یونس:۴۷) اب بتاؤ کہ اگر اس لفظ کے معنے مع جسم آسمان پر اٹھانا ہی ہیں تو کیا ہمارا حق نہیں کہ آپؐکے لیے بھی یہی معنے کریں.کیا وجہ ہے کہ وہ نبی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہزارہا درجہ کمتر ہے اس کے لیے جب یہ لفظ بولا جاوے تو اس کے من گھڑت معنے کر کے زندہ آسمان پر لے جاویں.لیکن جب سیدالاولین و الآخرین کے لیے یہ لفظ آوے تو اس کے معنے بجز موت کے اور کچھ نہ کریں.حالانکہ آپ کی زندگی ایسی ثابت ہے کہ کسی اور نبی کی ثابت نہیں.حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبوت اور اس لیے ہم زور اور دعویٰ سے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ اگر کوئی نبی زندہ ہے تو وہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.اکثر اکابر نے حیات النبی پر کتابیں لکھی ہیں.اور ہمارے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ایسے زبردست ثبوت موجود ہیں کہ کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.منجملہ ان کے ایک یہ بات ہے کہ زندہ نبی وہی ہو سکتا ہے جس کے برکات اور فیوض ہمیشہ کے لیے جاری ہوں اور یہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک کبھی بھی مسلمانوں کو ضائع نہیں کیا.ہر صدی کے سر پر اس نے کوئی آدمی بھیج دیا جو زمانہ کے مناسب ِحال اصلاح کرتا رہا یہاں تک اس صدی پر اس نے مجھے بھیجا ہے تاکہ میں حیات النبی کا ثبوت دوں.یہ امر قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی حفاظت کرتا

Page 183

رہا ہے اور کرے گا جیسا کہ فرمایا ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر:۱۰) یعنی بے شک ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیاہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے.اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ کا لفظ صاف طور پر دلالت کرتا ہے کہ صدی کے سر پر ایسے آدمی آتے رہیں گے جو گمشدہ متاع کو لائیں اور لوگوں کو یاد دلائیں.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب پہلی صدی گذر جاتی ہے تو پہلی نسل بھی اٹھ جاتی ہے اور اس نسل میں جو عالم، حافظ قرآن، اولیاء اللہ اور ابدال ہوتے ہیں وہ فوت ہوجاتےہیں.اور اس طرح پر ضرورت ہوتی ہے کہ احیاءِ ملّت کے لیے کوئی شخص پیدا ہو کیونکہ اگر دوسری صدی میں نیا بندوبست اسلام کے تازہ رکھنے کے لیے نہ کرے تو یہ مذہب مر جاوے.اس لیے وہ ہر صدی کے سر پر ایک شخص کو مامور کرتا ہے جو اسلام کو مرنے سے بچا لیتا ہے اور اس کو نئی زندگی عطا کرتا ہے اور دنیا کو ان غلطیوں، بدعات اور غفلتوں اور مستیوں سے بچا لیتا ہے جو ان میں پیدا ہوتی ہیں.یہ خصوصیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے اور یہ آپ کی حیات کی ایسی زبردست دلیل ہے کہ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اس طرح پر آپ کے برکات و فیوض کا سلسلہ لا انتہا اور غیر منقطع ہے اور ہرزمانہ میں گویا امت آپ کا ہی فیض پاتی ہے اور آپ ہی سے تعلیم حاصل کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبّ بنتی ہے جیسا کہ فرمایا ہے اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ( اٰلِ عـمران:۳۲) پس خدا تعالیٰ کا پیار ظاہر ہے کہ اس امت کو کسی صدی میں خالی نہیں چھوڑتا.اور یہی ایک امر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پر روشن دلیل ہے.بالمقابل حضرت عیسیٰ کی حیات ثابت نہیں.ان کی زندگی ہی میں ایسا فتنہ برپا ہوا کہ کسی اورنبی کی زندگی میں وہ فتنہ نہیں ہوا.اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو حضرت عیسیٰ سے مطالبہ کرنا پڑا کہ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَ اُمِّيَ اِلٰهَيْنِ (المائدۃ:۱۱۷) یعنی کیا تُو نے ہی کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا بنا لو.جو جماعت حضرت عیسیٰ نے تیار کی وہ ایسی کمزور اور نا قابلِ اعتبار تھی کہ خود یہی عیسائی بھی اس کا اقرار کرتے ہیں.صحابہ اور حواریوں کا موازنہ انجیل سے ثابت ہے کہ وہ بارہ شاگرد جو ان کی خاص قوت قدسی اور تاثیر کا نمونہ تھے.ان میں سے ایک نے جس کا نام

Page 184

یہودا اسکریوطی تھا اس نے تیس روپیہ پر اپنے آقا و مرشد کو بیچ دیا اور دوسرے نے جو سب سے اول نمبر پر ہے اور شاگرد رشید کہلاتا تھا اور جس کے ہاتھ میں بہشت کی کنجیاں تھیں یعنی پطرس اس نے سامنے کھڑے ہو کر تین مرتبہ لعنت کی.جب خود حضرت مسیح کی موجودگی میں ان کا اثر اور فیض اس قدر تھا اور اب انیس سو سال گذرنے کے بعد خود اندازہ کر لو کہ کیا باقی رہا ہوگا.اس کے بالمقابل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت طیار کی تھی وہ ایسی صادق اور وفادار جماعت تھی کہ انہوں نے آپ کے لیے جانیں دے دیں، وطن چھوڑ دیئے، عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ دیا.غرض آپ کے لیے کسی چیز کی پروا نہ کی.یہ کیسی زبردست تاثیر تھی.اس تاثیر کا بھی مخالفوں نے اقرار کیا ہے اور پھر آپ کی تاثیرات کا سلسلہ بند نہیں ہوا بلکہ اب تک وہ چلی جاتی ہیں.قرآن شریف کی تعلیم میں وہی اثر وہی برکات اب بھی موجود ہیں.قرآن کریم اور انجیل کا موازنہ اور پھر تاثیر کا ایک اور بھی نمونہ قابل ذکر ہے کہ انجیل کا کہیں پتہ ہی نہیں لگتا.خود عیسائیوں کو اس امر میں مشکلات ہیں کہ اصل انجیل کون سی ہے اور وہ کس زبان میں تھی اور کہاں ہے؟ مگر قرآن شریف کی برابر حفاظت ہوتی چلی آئی ہے.ایک لفظ اور نقطہ تک اس کا ادھر ادھر نہیں ہو سکتا.اس قدر حفاظت ہوئی ہے کہ ہزاروں لاکھوں حافظ قرآن شریف کے ہر ملک اور ہر قوم میں موجود ہیں جن میں باہم اتفاق ہے ہمیشہ یاد کرتے اور سناتے ہیں.اب بتاؤ کہ کیا یہ آپ کے برکات اور زندہ برکات نہیں ہیں؟ اور کیا ان سے آپ کی حیات ثابت نہیں ہوتی؟ غرض کیا قرآن شریف کی حفاظت کے رو سے اور کیا تجدید دین کے لیے ہر صدی پر مجدّد کے آنے کی حدیث سے اور کیا آپؐکی برکات اور تاثیرات سے جو اب تک جاری ہیں آپ کی حیات ثابت ہوتی ہے اب غور طلب امر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی حیات کے عقیدہ نے دنیا کو کیا فائدہ پہنچایا ہے؟ کیا اخلاقی اور عملی طور پر دنیا کی اصلاح ہوئی ہے یا فساد پیدا ہوا ہے؟ اس امر پر جس قدر غور کریں گے اسی قدر اس کی خرابیاں ظاہر ہوتی چلی جائیں گی.میں سچ کہتا ہوں کہ اسلام نے اس

Page 185

عقیدہ سے بہت بڑا ضرر اٹھایا ہے یہاں تک کہ ۴۰ کروڑ کے قریب لوگ عیسائی ہوچکے جو سچے خدا کو چھوڑ کر ایک عاجز انسان کو خدا بنا رہے ہیں اور عیسائیت نے دنیا کو جو نفع پہنچایا ہے وہ ظاہر امر ہے خود عیسائیوں نے اس امر کو قبول کیا ہے کہ عیسائیت کے ذریعہ بہت سی بد اخلاقیاں دنیا میں پھیلی ہیں کیونکہ جب انسان کو تعلیم ملے کہ اس کے گناہ کسی دوسرے کے ذمہ ہو چکے تو وہ گناہ کرنے پر دلیر ہوجاتا ہے اور گناہ نوعِ انسان کے لیے ایک خطرناک زہر ہے جو عیسائیت نے پھیلائی ہے.اس صورت میں اس عقیدہ کا ضرر اور بھی بڑھا جاتا ہے.وفاتِ مسیح کے مسئلہ کو مشیتِ ایزدی نے مخفی رکھا میں یہ نہیں کہتا کہ حیاتِ مسیح کے متعلق اسی زمانہ کے لوگوں پر الزام ہے.نہیں بعض پہلوں نے غلطی کھائی ہے.مگر وہ تو اس غلطی میں بھی ثواب ہی پر رہے.کیونکہ مجتہد کے متعلق لکھا ہے قَدْ یُـخْطِیْ وَ یُصِیْبُ کبھی مجتہد غلطی بھی کرتا ہے اور کبھی صواب.مگر دونوں طرح پر اسے ثواب ہوتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ مشیت ایزدی نے یہی چاہا تھا کہ ان سے یہ معاملہ مخفی رہے.پس وہ غفلت میں رہے اور اصحابِ کہف کی طرح یہ حقیقت ان پر مخفی رہی جیسا کہ مجھے بھی الہام ہوا تھا اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِيْمِ كَانُوْا مِنْ اٰيٰتِنَا عَجَبًا اسی طرح مسیح کی حیات کا مسئلہ بھی ایک عجیب سِر ہے.باوجودیکہ قرآن شریف کھول کھول کر مسیح کی وفات ثابت کرتا ہے اور احادیث سے بھی یہی ثابت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جو آیت استدلال کے طور پر پڑھی گئی وہ بھی اسی کو ثابت کرتی ہے.مگر باوجود اس قدر آشکارا ہونے کے خدا تعالیٰ نے اس کو مخفی کرلیا اور آنے والے موعود کے لیے اس کو مخفی رکھا چنانچہ جب وہ آیا تو اس نے اس راز کو ظاہر کیا.یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ وہ جب چاہتا ہے کسی بھید کو مخفی کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے اسے ظاہر کر دیتا ہے.اسی طرح اس نے اس بھید کو اپنے وقت تک مخفی رکھا مگر اب جبکہ آنے والا آگیا اور اس کے ہاتھ میں اس سِر کی کلید تھی اس نے اسے کھول کر دکھا دیا.اب اگر کوئی نہیں مانتا اور ضد کرتا

Page 186

ہے تو وہ گویا اللہ تعالیٰ کا مقابلہ کرتا ہے.وفات مسیح کا مسئلہ ایک ثابت شدہ امر ہے غرض وفاتِ مسیح کا مسئلہ اب ایسا مسئلہ ہوگیا ہے کہ اس میں کسی قسم کا اخفا نہیں رہا بلکہ ہر پہلو سے صاف ہوگیا ہے.قرآن شریف سے مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے احادیث وفات کی تائید کرتی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ معراج موت کی تصدیق کرتا ہے اور آپ گویا چشم دید شہادت دیتے ہیں کیونکہ آپ نے شب معراج میں حضرت عیسیٰ کو حضرت یحییٰ کے ساتھ دیکھا.اور پھر آیت قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا(بنی اسـرآءیل:۹۴) مسیح کو زندہ آسمان پر جانے سے روکتی ہے.کیونکہ جب کفار نے آپؐسے آسمان پر چڑھ جانے کا معجزہ مانگا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہی جواب دیا کہ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًایعنی میرا ربّ اس وعدہ خلافی سے پاک ہے جو ایک مرتبہ تو وہ انسان کے لیے یہ قرار دے کہ وہ اسی زمین میں پیدا ہوا اور یہاں ہی مرے گا فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَ فِيْهَا تَمُوْتُوْنَ (الاعراف:۲۶) میں تو ایک بشر رسول ہوں یعنی وہ بشریت میرے ساتھ موجود ہے جو آسمان پر نہیں جا سکتی.اور دراصل کفار کی غرض اس سوال سے یہی تھی.چونکہ وہ پہلے یہ سن چکے تھے کہ انسان اس دنیا میں جیتا اور مرتا ہے.اس لیے انہوں نے موقع پاکر یہ سوال کیا جس کا جواب ان کو ایسا دیا گیا کہ ان کا منصوبہ خاک میں مل گیا.پس یہ طے شدہ مسئلہ ہے کہ مسیح وفات پا چکے.ہاں یہ ایک معجزانہ نشان ہے کہ انہیں غفلت میں رکھا اور ہوشیاروں کو مست بنا دیا.مسیح کی موت میں اسلام کی زندگی ہے یہ بھی یاد رکھو کہ جن لوگوں نے یہ زمانہ نہیں پایا وہ معذور ہیں.ان پر کوئی حجت پوری نہیں ہوئی اور اس وقت اپنے اجتہاد سے جو کچھ وہ سمجھے اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے اجر اور ثواب پائیں گے.مگر اب وقت نہیں رہا.اس وقت اللہ تعالیٰ نے اس نقاب کو اٹھا دیا اور اس مخفی راز کو ظاہر کر دیا ہے اور اس مسئلہ کے بُرے اور خوفناک اثروں کو تم دیکھ رہے ہو کہ اسلام تنزل کی حالت میں ہے اور عیسائیت

Page 187

کا یہی ہتھیار حیات مسیح ہے جس کو لے کر وہ اسلام پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کی ذرّیت عیسائیوں کا شکار ہو رہی ہے.میںسچ سچ کہتا ہوں کہ ایسے ہی مسائل وہ لوگوں کو سنا سنا کر برگشتہ کر رہے ہیں اور وہ خصوصیتیں جو نادانی سے مسلمان ان کے لیے تجویز کرتے ہیں سکولوں اور کالجوں میں پیش کرکے اسلام سے جدا کر رہے ہیں اس لیے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اب مسلمانوں کو متنبہ کیا جاوے.۱ پس اس وقت چاہا ہے کہ مسلمان متنبہ ہوجاویں کہ ترقی اسلام کے لیے یہ پہلو نہایت ہی ضروری ہے کہ مسیح کی وفات کے مسئلہ پر زور دیا جاوے اور وہ اس امر کے قائل نہ ہوں کہ مسیح زندہ آسمان پر گیا ہے.مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میرے مخالف اپنی بد قسمتی سے اس سِر کو نہیں سمجھتےاور خواہ نخواہ شور مچاتے ہیں.کاش یہ احمق سمجھتے کہ اگر ہم سب مل کر وفات پر زور دیں گے تو پھر یہ مذہب (عیسائی)نہیں رہ سکتا.میں یقیناً کہتا ہوں کہ اسلام کی زندگی اس موت میں ہے.خود عیسائیوں سے پوچھ کر دیکھ لو کہ جب یہ ثابت ہو جاوے کہ مسیح زندہ نہیں بلکہ مر گیا ہے تو ان کے مذہب کا کیا باقی رہ جاتا ہے؟ وہ خود اس امر کے قائل ہیںکہ یہی ایک مسئلہ ہے جو ان کے مذہب کا استیصال کرتا ہے مگر مسلمان ہیں کہ مسیح کی حیات کے قائل ہو کر ان کو تقویت پہنچا رہے ہیں اور اسلام کو نقصان پہنچاتے ہیں ان کی وہی مثال ہے.ع یکے بر سر شاخ و بُن مے برید صلیب کو توڑنے والا ہتھیار عیسائیوں کا جو ہتھیار اسلام کے خلاف تھا اسی کو ان مسلمانوں نے اپنے ہاتھ میں لیا۲ اور اپنی نا سمجھی اور کم فہمی سے چلا دیا جس سے اسلام کو اس قدر نقصان پہنچا.مگر خوشی کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عین وقت پر اس سے ان کو آگاہ کر دیا اور ایسا ہتھیار عطا کیا جو صلیب کے توڑنے کے واسطے بے نظیر ۱ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخہ ۱۷؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲،۳ ۲ بدر میں ہے.’’تعجب ہے کہ عیسائی تو مسلمانوں کی گردن کاٹنے کے واسطے یہ ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور مسلمان بھی اپنی گردنیں کٹوانے کے واسطے ان کی امداد میں کھڑے ہوجاتے ہیں.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخہ ۲۶؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۳)

Page 188

ہے اور اس کی تائید اور استعمال کے لیے اس نے یہ سلسلہ قائم کیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور تائید سے اس موتِ مسیح کے ہتھیار نے صلیبی مذہب کو جس قدر کمزور اور سست کر دیا ہے وہ اب چھپی ہوئی بات نہیں رہی.عیسائی مذہب اور اسکے حامی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی فرقہ اور سلسلہ ان کے مذہب کو ہلاک کر سکتا ہے تو وہ یہی سلسلہ ہے.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر یک اہل مذہب سے مقابلہ کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں مگر اس سلسلہ کے مقابلہ میں نہیں آتے.بشپ صاحب کو جب مقابلہ کی دعوت کی گئی تو ہر چند اس کو بعض انگریزی اخباروں نے بھی جوش دلایا مگر پھر بھی وہ میدان میں نہیں نکلا.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے پاس عیسائیت کے استیصال کے لیے وہ ہتھیار ہیں جو دوسروں کو نہیں دیئے گئے اور ان میں سے پہلا ہتھیار یہی موتِ مسیح کا ہتھیار ہے.موت اصلی غرض نہیں.یہ تو اس لیے کہ عیسائیوں کا ہتھیار تھا جس سے اسلام کا نقصان تھا.اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اس غلطی کا تدارک کرے.چنانچہ بڑے زور کے ساتھ اس کی اصلاح کی گئی.سلسلہ کے قیام کا ایک اور مقصد اس کے علاوہ ان غلطیوں اور بدعات کو دور کرنا بھی اصل مقصد ہے جو اسلام میں پیدا ہوگئی ہیں.یہ قلّتِ تدبّر کا نتیجہ ہے.اگر یہ کہا جاوے کہ اس سلسلہ میں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں ہے.اگر موجودہ مسلمانوں کے معتقدات میں کوئی فرق نہیں آیا اور دونوں ایک ہی ہیں تو پھر کیا خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو عبث قائم کیا؟ ایسا خیال کرنا اس سلسلہ کی سخت ہتک اور اللہ تعالیٰ کے حضور ایک جرأت اور گستاخی ہے.اللہ تعالیٰ نے بار بار ظاہر کیا ہے کہ دنیا میں بہت تاریکی چھا گئی ہے.عملی حالت کے لحاظ سے بھی اور اعتقادی حالت کی وجہ سے بھی.وہ توحید جس کے لیے بے شمار نبی اور رسول دنیا میں آئے اور انہوں نے بے انتہا محنت اور سعی کی آج اس پر ایک سیاہ پردہ پڑا ہوا ہے اور لوگ کئی قسم کے شرک میں مبتلا ہوگئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ دنیا کی محبت نہ کرو.مگر اب دنیا کی محبت ہر ایک دل پر غلبہ کر چکی ہے اور جس کو دیکھو اسی محبت میں غرق ہے.دین کے لیے ایک تنکا بھی ہٹانے کے واسطے کہا جاوے تو وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے اور ہزاروں عذر اور بہانے

Page 189

کرنے لگتا ہے.ہر قسم کی بد عملی اور بد کاری کو جائز سمجھ لیا گیا ہے اور ہر قسم کے منہیات پر کھلم کھلا زور دیا جاتا ہے دین بالکل بیکس اوریتیم ہو رہا ہے.ایسی صورت میں اگر اسلام کی تائید اور نصرت نہ فرمائی جاتی تو اور کون سا وقت اسلام پر آنے والا ہے جو اس وقت مدد کی جاوے.اسلام تو صرف نام کو باقی رہ گیا.اب بھی اگر حفاظت نہ کی جاتی تو پھر اس کے مٹنے میں کیا شبہ ہو سکتا تھا.میں سچ کہتا ہوں کہ یہ صرف قلّتِ تدبّر کا نتیجہ ہے جو کہا جاتا ہے کہ دوسرے مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟ حُبّ دنیا کا فتنہ اگر صرف ایک ہی بات ہوتی تو اس قدر محنت اٹھانے کی کیا حاجت تھی.ایک سلسلہ قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بار بار ظاہر کر چکا ہے کہ ایسی تاریکی چھا گئی ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا.وہ توحید جس کا ہمیں فخر تھا اور اسلام جس پر ناز کرتا تھا وہ صرف زبانوں پر رہ گئی ہے ورنہ عملی اور اعتقادی طور پر بہت ہی کم ہوں گے جو توحید کے قائل ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا دنیا کی محبت نہ کرنا.مگر اب ہر ایک دل اسی میں غرق ہے اور دین ایک بیکس اور یتیم کی طرح رہ گیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف طور پر فرمایا تھا حُبُّ الدُّنْیَا رَأْسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ.یہ کیسا پاک اور سچا کلمہ ہے.مگر آج دیکھ لو ہر ایک اس غلطی میں مبتلا ہے.ہمارے مخالف آریہ اور عیسائی اپنے مذاہب کی حقیقت کو خوب سمجھ چکے ہیں.لیکن اب اسے نباہنا چاہتے ہیں.عیسائی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے مذہب کے اصول و فروع اچھے نہیں.ایک انسان کو خدا بتانا ٹھیک نہیں.اس زمانہ میں فلسفہ، طبعی اور سائنس کے علوم ترقی کر گئے ہیں اور لوگ خوب سمجھ گئے ہیں کہ مسیح بجز ایک ناتواں اور ضعیف انسان ہونے کے سوا کوئی اقتداری قوت اپنے اندر نہ رکھتا تھا اور یہ ناممکن ہے کہ ان علوم کو پڑھ کر خود اپنی ذات کا تجربہ رکھ کر اور مسیح کی کمزوریوں اور ناتوانیوں کو دیکھ کر یہ اعتقاد رکھیں کہ وہ خدا تھا.ہرگز نہیں.شرک عورت سے شروع ہوا ہے اور عورت سے اس کی بنیاد پڑی ہے یعنی حوا سے جس نے خدا تعالیٰ کا حکم چھوڑ کر شیطان کا حکم مانا.اور اس شرک عظیم یعنی عیسائی مذہب کی حامی بھی عورتیں ہی ہیں.درحقیقت عیسائی مذہب ایسا مذہب ہے کہ انسانی فطرت دور سے اس کو دھکے دیتی ہے اور وہ

Page 190

کبھی اسے قبول ہی نہیں کر سکتی.اگر درمیان دنیا نہ ہوتی تو عیسائیوں کا گروہ کثیر آج مسلمان ہوجاتا.بعض لوگ عیسائیوں میں مخفی مسلمان رہے ہیں اور انہوں نے اپنے اسلام کو چھپایا ہے لیکن مرنے کے وقت اپنی وصیت کی اور اسلام ظاہر کیا ہے.ایسے لوگوں میں بڑے بڑے عہدہ دار تھے.انہوں نے حُبِّ دنیا کی وجہ سے زندگی میں اسلام کو چھپایا لیکن آخر انہیں ظاہر کرنا پڑا.میں دیکھتا ہوں کہ ان دلوں میں اسلام نے راہ بنا لیا ہے اور اب وہ ترقی کر رہا ہے.حُبِّ دنیا نے لوگوں کو محجوب کر رکھا ہے.غرض مسلمانوں میں اندرونی تفرقہ کا موجب بھی یہی حُبِّ دنیا ہی ہوئی ہے کیونکہ اگر محض اللہ تعالیٰ کی رضا مقدم ہوتی تو آسانی سے سمجھ میں آسکتا تھا کہ فلاں فرقے کے اصول زیادہ صاف ہیں اور وہ انہیں قبول کر کے ایک ہوجاتے.اب جبکہ حُبِّ دنیا کی وجہ سے یہ خرابی پیدا ہو رہی ہے تو ایسے لوگوں کو کیسے مسلمان کہا جاسکتا ہے جبکہ ان کا قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پر نہیں.اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا تھا قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ( اٰلِ عـمران:۳۲) یعنی کہو اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم کو دوست رکھے گا.اب اس حُبُّ اللہ کی بجائے اور اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حُبُّ الدنیا کومقدم کیا گیا ہے.کیا یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے؟ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا دار تھے؟ کیا وہ سود لیا کرتے تھے؟ یا فرائض اور احکام الٰہی کی بجا آوری میں غفلت کیا کرتے تھے؟ کیا آپ میں (معاذ اللہ) نفاق تھا، مداہنہ تھا؟ دنیا کو دین پر مقدم کرتے تھے؟ غور کرو.اتباع تو یہ ہے کہ آپ کے نقش قدم پر چلو اور پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کیسے کیسے فضل کرتا ہے.صحابہؓ نے وہ چلن اختیار کیا تھا.پھر دیکھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچایا.انہوں نے دنیا پر لات مار دی تھی اور بالکل حُبِّ دنیا سے الگ ہوگئے تھے.اپنی خواہشوں پر ایک موت وارد کر لی تھی.اب تم اپنی حالت کا ان سے مقابلہ کر کے دیکھ لو.کیا انہیں کے قدموں پر ہو؟ افسوس اس وقت لوگ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ ان سے کیا چاہتا ہے.رَأْسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ نے بہت سے بچے دے دیئے ہیں کوئی شخص عدالت میں جاتا ہے تو

Page 191

۲آنے لےکر جھوٹی گواہی دے دینے میں ذرا شرم و حیا نہیں کرتا.کیا وکلاء قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ سارے کے سارے گواہ سچے پیش کرتے ہیں.آج دنیا کی حالت بہت نازک ہوگئی ہے.جس پہلو اور رنگ سے دیکھو جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں.جھوٹے مقدمہ کرنا تو بات ہی کچھ نہیں جھوٹے اسناد بنا لیے جاتے ہیں.کوئی امر بیان کریں گے تو سچ کا پہلو بچا کر بولیں گے اب کوئی ان لوگوں سے جو اس سلسلہ کی ضرورت نہیں سمجھتے پوچھے کہ کیا یہی وہ دین تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے؟ اللہ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پرہیز کرو اِجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ(الـحج:۳۱) بُت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے جیسا احمق انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکاتا ہے ویسے ہی صدق و راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لیے جھوٹ کو بُت بناتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بُت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی جیسے ایک بُت پرست بُت سے نجات چاہتا ہے جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بُت بناتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس بُت کے ذریعہ نجات ہو جاوے گی.کیسی خرابی آکر پڑی ہے.اگر کہا جاوے کہ کیوں بُت پرست ہوتے ہو اس نجاست کو چھوڑ دو تو کہتے ہیں کہ کیونکر چھوڑ دیں اس کے بغیر گذارہ نہیں ہو سکتا.اس سے بڑھ کر اور کیا بد قسمتی ہوگی جھوٹ پر اپنی زندگی کا مدار سمجھتے ہیں.مگر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتا ہے.بھلائی اور فتح اسی کی ہے.سچائی کی برکت مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک مرتبہ امرتسر ایک مضمون بھیجا.اس کے ساتھ ہی ایک خط بھی تھا.رلیا رام کے وکیل ہند اخبار کے متعلق تھا.میرے اس خط کو خلافِ قانون ڈاکخانہ قرار دے کر مقدمہ بنایا گیا.وکلاء نے یہی کہا کہ اس میں بجز اس کے رہائی نہیں جو اس خط سے انکار کر دیا جاوے.گویا جھوٹ کے سوا بچاؤ نہیں.مگر میں نے اس کو ہرگز پسند نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ اگر سچ بولنے سے سزا ہوتی ہے تو ہونے دو جھوٹ نہیں بولوں گا.آخر وہ مقدمہ عدالت میں پیش ہوا.ڈاک خانوں کا افسر بہ حیثیت مدعی حاضر ہوا.مجھ سے جس وقت اس کے متعلق پوچھا گیا تو میں نے صاف طور پر کہا کہ یہ میرا خط ہے مگر میں نے اس کو جزوِ مضمون سمجھ کر اس میں رکھا

Page 192

ہے.مجسٹریٹ کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو بصیرت دی.ڈاکخانوں کے افسر نے بہت زور دیا مگر اس نے ایک نہ سنی اور مجھے رخصت کر دیا.۱ میں ۱ بدر میں یہ واقعہ زیادہ تفصیل کے ساتھ یوں درج ہے.’’تخمیناً ۲۷ یا ۲۸ سال کا عرصہ گذرا ہوگا یا شاید اس سے کچھ زیادہ ہو کہ اس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رلیا رام تھا اور وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں بھیجا.اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا.چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کے لیے تاکید بھی تھی اس لیے وہ عیسائی مخالفتِ مذہب کی وجہ سے افروختہ ہوا.اور اتفاقاً اس کو دشمنانہ حملہ کے لیے یہ موقع ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً ایک جرم تھا جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کے رو سے پانسو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے.سو اس نے مخبر بن کر افسران ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرا دیا.اور قبل اس کے جو مجھے اس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رلیا رام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لیے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اسے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ہے.میں جانتا ہوں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام میں آسکتی ہے.غرض میں اس جرم میں صدر ضلع گورداسپور میں طلب کیا گیا اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لیے مشورہ لیا گیا انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغ گوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا، رلیارام نے خود ڈال دیا ہوگا اور نیز بطور تسلّی دہی کے کہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پر فیصلہ ہو جائے گا اور دو چار جھوٹھے گواہ دے کر بریت ہوجائے گی.ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں.مگر میں نے ان سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا جو ہوگا سو ہوگا.تب اسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے مقابل پر ڈاکخانہ جات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا.اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا.اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے؟ تب میں نے بلا توقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور میرا ہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لیے بد نیتی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ

Page 193

میں کیونکر کہوں کہ جھوٹ کے بغیر گذارہ نہیں.ایسی باتیں نری بیہودگیاں ہیں.سچ تو یہ ہے کہ سچ کے بغیر گذارہ نہیں.میں اب تک بھی جب اپنے اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو ایک مزا آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے پہلو کو اختیار کیا اس نے ہماری رعایت رکھی.اور ایسی رعایت رکھی جو بطور ایک نشان کے ہوگئی.مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ (الطلاق:۴) یقیناً یاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں.عام طور پر دنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتا رہوجاتے ہیں مگر میں کیونکر اس کو باور کروں مجھ پر سات مقدمے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک میں ایک لفظ بھی مجھے جھوٹ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑی.کوئی بتائے کہ کسی ایک میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو.اللہ تعالیٰ تو آپ سچائی کا حامی اور مددگار ہے.یہ ہو سکتا ہے کہ وہ راستباز کو سزا دے؟ اگر ایسا ہو تو دنیا میں پھر کوئی شخص سچ بولنے کی جرأت نہ کرے اور خدا تعالیٰ پر سے ہی اعتقاد اٹھ جاوے.راستباز تو زندہ ہی مر جاویں.اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں وہ سچ کی وجہ سے نہیں ہوتی وہ سزا ان کی بعض اور مخفی در مخفی بد کاریوں کی ہوتی ہے اور کسی اور جھوٹ کی سزا ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کے پاس تو ان کی بدیوں اور شرارتوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے.ان کی بہت سی خطائیں ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی میں وہ سزا پا لیتے ہیں.(بقیہ حاشیہ) نہیں سمجھا اور نہ اس میں کوئی نج کی بات تھی.اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا اور میرے مقابل پر افسر ڈاکخانہ جات نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریریں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا تھا.مگر اس قدرمیں سمجھتا تھا کہ ہر ایک تقریر کے بعد زبانِ انگریزی میں وہ حاکم نو نو کر کے اس کی سب باتوں کو رد کر دیتا تھا.انجام کار جب وہ افسر مدعی اپنے تمام وجوہ پیش کرچکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شاید سطر یا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا کہ اچھا آپ کے لیے رخصت.یہ سن کر میں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجا لایا جس نے ایک افسر انگریز کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اس بلا سے مجھ کو نجات دی.میں نے اس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اتارنے کے لیے ہاتھ مارا میں نے کہا کیا کرنے لگا ہے؟ تب اس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا کہ خیر ہے خیر ہے.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخہ ۲؍فروری ۱۹۰۶ءصفحہ ۳)

Page 194

میرے ایک استاد گل علی شاہ بٹالے کے رہنے والے تھے.وہ شیر سنگھ کے بیٹے پرتاپ سنگھ کو بھی پڑھایا کرتے تھے.انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ شیر سنگھ نے اپنے باورچی کو محض نمک مرچ کی زیادتی پر بہت مارا تو چونکہ وہ بڑے سادہ مزاج تھے انہوں نے کہا کہ آپ نے بڑا ظلم کیا.اس پر شیر سنگھ نے کہا مولوی جی کو خبر نہیں.اس نے میرا سو بکرا کھایا ہے اسی طرح پر انسان کی بدکاریوں کا ایک ذخیرہ ہوتا ہے اور وہ کسی ایک موقع پر پکڑا جا کر سزا پاتا ہے.۱ جوشخص سچائی اختیار کرے گا کبھی نہیں ہو سکتا کہ ذلیل ہو اس لیے کہ وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی حفاظت جیسا اور کوئی محفوظ قلعہ اور حصار نہیں.لیکن ادھوری بات فائدہ نہیں پہنچا سکتی.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب پیاس لگی ہوئی ہو تو صرف ایک قطرہ پی لینا کفایت کرے گا یا شدت بھوک کے وقت ایک دانہ یا ایک لقمہ سے سیر ہوجاوے گا.بالکل نہیں.بلکہ جب تک پورا سیر ہو کر پانی نہ پئے یا کھانا نہ کھائے تسلی نہ ہوگی.اسی طرح پر جب تک اعمال میں کمال نہ ہو وہ ثمرات اور نتائج پیدا نہیں ہوتے جو ہونے چاہئیں.ناقص اعمال اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتے اورنہ وہ بابرکت ہوسکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا یہی وعدہ ہے کہ میری مرضی کے موافق اعمال کرو پھر میں برکت دوں.غرض یہ باتیں دنیا دار خود ہی بنا لیتےہیں کہ جھوٹھ اور فریب کے بغیر گذارہ نہیں، کوئی کہتا ہے فلاں شخص مقدمہ میں سچ بولا تھا اس لیے چار برس کو دھرایا گیا.میں پھر کہوں گا کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں جو عدم معرفت سے پیدا ہوتی ہیں.ع کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی یہ نقص کے نتیجے ہیں.کمال ایسے ثمرات پیدا نہیں کرتا.ایک شخص اگر اپنی موٹی سی کھدر کی چادر میں کوئی توپا بھرے تو اس سے وہ درزی نہیں بن جاوے گا.اور یہ لازم نہ آئے گا کہ اعلیٰ درجہ کے ریشمی کپڑے بھی وہ سی لے گا.اگر اس کو ایسے کپڑے دیئے جاویں تو نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ انہیں برباد کر ۱ بدر میں ہے.’’ایسا ہی انسان گناہ کسی اور موقعہ پر کرتا ہے اور پکڑا کسی اور موقعہ پر جاتا ہے.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر ۶ مورخہ ۹؍فروری ۱۹۰۶ءصفحہ ۳)

Page 195

دے گا.پس ایسی نیکی جس میں گند ملا ہوا ہو کسی کام کی نہیں خدا تعالیٰ کے حضور اس کی کچھ قدر نہیں لیکن یہ لوگ اس پر ناز کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ نجات چاہتے ہیں.اعمال کے لیے اخلاص شرط ہے اگر اخلاص ہو تو اللہ تعالیٰ تو ایک ذرہ بھی کسی نیکی کو ضائع نہیں کرتا.اس نے تو خود فرمایا ہے مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ(الزلزال:۸) اس لیے اگر ذرہ بھر بھی نیکی ہو تو اللہ تعالیٰ سے اس کا اَجر پائے گا.پھر کیا وجہ ہے کہ اس قدر نیکی کر کے پھل نہیں ملتا.اس کی وجہ یہی ہے کہ اس میں اخلاص نہیں آیا ہے.اعمال کے لیے اخلاص شرط ہے جیسا کہ فرمایا مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ(البیّنۃ:۶) یہ اخلاص ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ابدال ہیں.۱ یہ لوگ ابدال ہوجاتے ہیں اور وہ اس دنیا کے نہیں رہتے.ان کے ہر کام میں ایک خلوص اور اہلیت ہوتی ہے لیکن دنیا داروں کا تو یہ حال ہے کہ وہ خیرات بھی کرتے ہیں تو اس کے لیے تعریف اور تحسین چاہتے ہیں.اگر کسی نیک کام میں کوئی چندہ دیتا ہے تو غرض یہ ہے کہ اخبارات میں اس کی تعریف ہو.لوگ تعریف کریں.اس نیکی کو خدا تعالیٰ سے کیا تعلق؟ بہت لوگ شادیاں کرتے ہیں.اس وقت سارے گاؤں میں روٹی دیتے ہیں مگر خدا کے لیے نہیں صرف نمائش اور تعریف کے لیے.اگر ریا نہ ہوتی اور محض شفقت علیٰ خلق اللہ کے لحاظ سے یہ فعل ہوتا اور خالص خدا کے لیے تو ولی ہوجاتے لیکن چونکہ ان کاموں کو خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق اور غرض نہیں ہوتا اس لیے کوئی نیک اور بابرکت اثر ان میں پیدا نہیں ہوتا.یہ خوب یاد رکھوکہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لیے ہوجاوے خدا تعالیٰ اس کا ہو جاتا ہے اور خدا کسی کے دھوکے میں نہیں آتا.اگر کوئی یہ چاہے کہ ریاکاری اور فریب سے خدا کو ٹھگ لوں گا تو یہ حماقت اور نادانی ہے.وہ خود ہی دھوکہ کھا رہا ہے.دنیا کے زیب، دنیا کی محبت ساری خطا کاریوں کی جڑ ہے.اس میں اندھا ہو کر انسان انسانیت سے نکل جاتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ میں کیا کر رہا ہوں اور مجھے کیا ۱ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۶ءصفحہ ۴،۵

Page 196

کرنا چاہیے تھا.جس حالت میں عقلمند انسان کسی کے دھوکہ میں نہیں آسکتا تو اللہ تعالیٰ کیونکر کسی کے دھوکہ میں آسکتا ہے.مگر ایسے افعال بد کی جڑ دنیا کی محبت ہے اور سب سے بڑا گناہ جس نے اس وقت مسلمانوںکو تباہ حال کر رکھا ہے اور جس میں وہ مبتلا ہیں وہ یہی دنیا کی محبت ہے.سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ہر وقت لوگ اسی غم و ھمّ میں پھنسے ہوئے ہیں.اور اس وقت کا لحاظ اور خیال بھی نہیں کہ جب قبر میں رکھے جاویں گے.ایسے لوگ اگر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور دین کےلیے ذرا بھی ھمّ و غم رکھتے تو بہت کچھ فائدہ اٹھا لیتے.سعدی کہتا ہے.ع گر وزیر از خدا ترسیدے خدا کی عظمت کو دل میں جگہ دو ملازم لوگ تھوڑی سی نوکری کے لیے اپنے کام میں کیسے چست و چالاک ہوتے ہیں لیکن جب نماز کا وقت آتا ہے تو ذرا ٹھنڈا پانی دیکھ کر ہی رہ جاتے ہیں.ایسی باتیں کیوں پیداہوتی ہیں؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت دل میں نہیں ہوتی.اگر خدا تعالیٰ کی کچھ بھی عظمت ہو اور مرنے کا خیال اوریقین ہو تو ساری سستی اور غفلت جاتی رہے.اس لیے خدا تعالیٰ کی عظمت کو دل میں رکھنا چاہیے اور اس سے ہمیشہ ڈرنا چاہیے.اس کی گرفت خطرناک ہوتی ہے.وہ چشم پوشی کرتا ہے اور در گذر فرماتا ہے لیکن جب کسی کو پکڑتا ہے تو پھر بہت سخت پکڑتا ہے یہاں تک کہ لَا يَخَافُ عُقْبٰهَا(الشّمس:۱۶) پھر وہ اس امر کی بھی پروا نہیں کرتا کہ اس کے پچھلوں کا کیا حال ہوگا.برخلاف اس کے جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور اس کی عظمت کو دل میں جگہ دیتےہیں خدا تعالیٰ ان کو عزت دیتا اور خود ان کےلیے ایک سِپَر ہوجاتا ہے.حدیث میں آیا ہے مَنْ کَانَ لِلہِ کَانَ اللہُ لَہٗ یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کےلیے ہو جاوے اللہ تعالیٰ اس کا ہو جاتا ہے.مگر افسوس یہ ہے کہ جو لوگ اس طرف توجہ بھی کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف آنا چاہتے ہیں ان میں سے اکثر یہی چاہتے ہیں کہ ہتھیلی پر سرسوں جما دی جاوے.وہ نہیں جانتے کہ دین کے کاموں میں کس قدر صبر اور حوصلہ کی حاجت ہے اور تعجب تو یہ ہے کہ وہ دنیا جس کے لیے وہ رات دن مرتے اور ٹکریں مارتے ہیں اس کے کاموں کے لیے تو

Page 197

برسوں انتظار کرتے ہیں.کسان بیج بو کر کتنے عرصہ تک منتظر رہتا ہے لیکن دین کے کاموں میں آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پھونک مار کر ولی بنا دو اور پہلے ہی دن چاہتے ہیں کہ عرش پر پہنچ جاویں.حالانکہ نہ اس راہ میں کوئی محنت اور مشقت اٹھائی اور نہ کسی ابتلا کے نیچے آیا.دین کے کاموں میں صبر اور محنت کی ضرورت خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون اور آئین نہیں ہے.یہاں ہر ترقی تدریجی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ نری اتنی باتوں سے خوش نہیں ہو سکتا کہ ہم کہہ دیں ہم مسلمان ہیں یا مومن ہیں.چنانچہ اس نے فرمایا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ(العنکبوت:۳) یعنی کیا یہ لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اتنے ہی کہنے پر راضی ہو جاوے اور یہ لوگ چھوڑ دیئے جاویں کہ وہ کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی کوئی آزمائش نہ ہو.یہ امر سنّت اللہ کے خلاف ہے کہ پھونک مار کر ولی بنا دیا جاوے.اگر یہی سنت ہوتی تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے اور اپنے جان نثار صحابہؓ کو پھونک مار کر ہی ولی بنا دیتے.ان کو امتحان میں ڈلوا کر ان کے سر نہ کٹواتے اور خدا تعالیٰ ان کی نسبت یہ نہ فرماتا مِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا(الاحزاب:۲۴).پس جب دنیا بغیر مشکلات اور محنت کے ہاتھ نہیں آتی تو عجب بے وقوف ہے وہ انسان جو دین کو حلوائے بے دُود سمجھتا ہے.یہ تو سچ ہے کہ دین سہل ہے مگر ہر نعمت مشقت کو چاہتی ہے.باایں اسلام نے تو ایسی مشقت بھی نہیں رکھی.ہندوؤں میں دیکھو کہ ان کے جوگیوں اور سنیاسیوں کو کیا کیا کرنا پڑتا ہے.کہیں ان کی کمریں ماری جاتی ہیں.کوئی ناخن بڑھاتا ہے.ایسا ہی عیسائیوں میں رہبانیت تھی.اسلام نے ان باتوں کو نہیں رکھا بلکہ اس نے یہ تعلیم دی قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا(الشّمس:۱۰) یعنی نجات پاگیا وہ شخص جس نے تزکیہ نفس کیا.یعنی جس نے ہر ایک قسم کی بدعت، فسق و فجور، نفسانی جذبات سے خدا تعالیٰ کےلیے الگ کر لیا اور ہر قسم کے نفسانی لذات کو چھوڑ کر خدا کی راہ میں تکالیف کو مقدم کر لیا ایسا شخص فی الحقیقت نجات یافتہ ہے جو خدا تعالیٰ کو مقدم کرتا ہے اور دنیا اور اس

Page 198

کے تکلّفات کو چھوڑتا ہے.۱ اور پھر فرمایا قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا (الشّمس:۱۱) مٹی کے برابر ہوگیا وہ شخص جس نے نفس کو آلودہ کر لیا یعنی جو زمین کی طرف جھک گیا.گویا یہ ایک ہی فقرہ قرآن کریم کی ساری تعلیمات کا خلاصہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کس طرح خدا تعالیٰ تک پہنچتا ہے.یہ بالکل سچی اور پکی بات ہے کہ جب تک انسان قویٰ بشریہ کے بُرے طریق کو نہیں چھوڑتا اس وقت تک خدا نہیں ملتا.دنیا کی گندگیوں سے نکلنا چاہتے ہو اور خدا تعالیٰ کو ملنا چاہتے ہو تو ان لذات کو ترک کرو ورنہ ؎ ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں ایں خیال است و محال است و جنوں ریا انسان کی فطرت میں در اصل بدی نہ تھی اور نہ کوئی چیز بُری ہے لیکن بد استعمالی بُری بنا دیتی ہے.مثلاً ریا ہی کو لو یہ بھی در اصل بُری نہیں کیونکہ اگر کوئی کام محض خدا تعالیٰ کے لیے کرتا ہے اور اس لیے کرتا ہے کہ اس نیکی کی تحریک دوسروں کو بھی ہو تو یہ ریا بھی نیکی ہے.ریا کی دو قسمیں ہیں.ایک دنیا کے لیے مثلاً کوئی شخص نماز پڑھا رہا ہے اور پیچھے کوئی بڑا آدمی آگیا اس کے خیال اور لحاظ سے نماز کو لنبا کرنا شروع کر دیا.ایسے موقع پر بعض آدمیوں پر ایسا رعب پڑ جاتا ہے کہ وہ پھول پھول جاتے ہیں.یہ بھی ایک قسم ریا کی ہے جو ہر وقت ظاہر نہیں ہوتی مگر اپنے وقت پر جیسے بھوک کے وقت روٹی کھاتا ہے یا پیاس کے وقت پانی پیتا ہے.مگر برخلاف اس کے جو شخص محض اللہ تعالیٰ کے لیے نماز کو سنوار سنوار کر پڑھتا ہے وہ ریا میں داخل نہیں.بلکہ رضاءِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے.غرض ریا کے بھی محل ہوتے ہیں.اور انسان ایسا جانور ہے کہ بے محل عیوب پر نظر نہیں کرتا.مثلاً ایک شخص اپنے آپ کو بڑا عفیف اور پارسا سمجھتا ہے راستہ میں اکیلا جا رہا ہے.راستہ میں وہ ایک تھیلی جواہرات کی پڑی پاتا ہے وہ اسے دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ مداخلت کی کوئی بات نہیں.کوئی دیکھتا نہیں اگر یہ اس وقت اس پر گرتا نہیں اور سمجھتا ہے کہ غیر کاحق ہوگا اور روپیہ جو گرا ۱ بدر سے.’’ جس نے دین کو مقدم کیا وہ خدا کے ساتھ مل گیا.نفس کو خاک کے ساتھ ملا دینا چاہیے.خدا کو ہر بات میں مقدم کرنا چاہیے.یہی دین کا خلاصہ ہے جتنے بُرے طریق ہیں ان سب کو ترک کر دینا چاہیے.تب خدا ملتا ہے.‘‘ ۱ بدر سے.’’ جس نے دین کو مقدم کیا وہ خدا کے ساتھ مل گیا.نفس کو خاک کے ساتھ ملا دینا چاہیے.خدا کو ہر بات میں مقدم کرنا چاہیے.یہی دین کا خلاصہ ہے جتنے بُرے طریق ہیں ان سب کو ترک کر دینا چاہیے.تب خدا ملتا ہے.‘‘ ۱ بدر سے.’’ جس نے دین کو مقدم کیا وہ خدا کے ساتھ مل گیا.نفس کو خاک کے ساتھ ملا دینا چاہیے.خدا کو ہر بات میں مقدم کرنا چاہیے.یہی دین کا خلاصہ ہے جتنے بُرے طریق ہیں ان سب کو ترک کر دینا چاہیے.تب خدا ملتا ہے.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر ۶ مورخہ ۹؍فروری ۱۹۰۶ءصفحہ ۳)

Page 199

ہوا ہے آخر کسی کا ہے.ان باتوں کو سوچ کر اگر اس پر نہیں گرتا اور لالچ نہیں کرتا تو فی الحقیقت پوری عفت اور تقویٰ سے کام لیتا ہے ورنہ اگر نرا دعویٰ ہی دعویٰ ہے تو اس وقت اس کی حقیقت کھل جاوے گی اور وہ اسے لے لے گا.اسی طرح ایک شخص جس کے متعلق یہ خیال ہے کہ وہ ریا نہیں کرتا.جب ریا کا وقت ہو اور وہ نہ کرے تو ثابت ہوگا کہ نہیں کرتا.لیکن جیسا کہ ابھی میں نے ذکر کیا بعض اوقات ان عادتوں کا محل ایسا ہوتا ہے کہ وہ بدل کر نیک ہوجاتی ہیں.چنانچہ نماز جو باجماعت پڑھتا ہے اس میں بھی ایک ریا تو ہے لیکن انسان کی غرض اگر نمائش ہی ہو تو بیشک ریا ہے اور اگر اس سے غرض اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری مقصود ہے تو یہ ایک عجیب نعمت ہے.پس مسجدوں میں بھی نمازیں پڑھو اور گھروں میں بھی.ایسا ہی ایک جگہ دین کے کام کے لیے چندہ ہو رہا ہو.ایک شخص دیکھتا ہے کہ لوگ بیدار نہیں ہوتے اور خاموش ہیں.وہ محض اس خیال سے کہ لوگوں کو تحریک ہو سب سے پہلے چندہ دیتا ہے.بظاہر یہ ریا ہوگی لیکن ثواب کا باعث ہوگی.اسی طرح خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے لَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا (لقمان:۱۹) زمین پر اکڑ کر نہ چلو.لیکن حدیث سے ثابت ہے کہ ایک جنگ میں ایک شخص اکڑ کر اور چھاتی نکال کر چلتا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا کہ یہ فعل خدا تعالیٰ کو ناپسند ہے لیکن اس وقت اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتا ہے.پس ع گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی خُلق کی تعریف غرض خُلق محل پر مومن اور غیر محل پر کافر بنا دیتا ہے میں پہلے کہہ چکا ہوں کوئی خُلق بُرا نہیں بلکہ بد استعمالی سے بُرے ہوجاتے ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غصہ کے متعلق آیا ہے کہ آپ سے کسی نے پوچھا کہ قبل از اسلام آپ بڑے غصہ ور تھے.حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ غصہ تو وہی ہے البتہ پہلے بے ٹھکانے چلتا تھا مگر اب ٹھکانے سے چلتا ہے.اسلام ہر ایک قوت کو اپنے محل پر استعمال کرنے کی ہدایت دیتا ہے.

Page 200

پس یہ کبھی کوشش مت کرو کہ تمہارے قویٰ جاتے رہیں بلکہ ان قویٰ کا صحیح استعمال سیکھو.قرآن کریم اور انجیل کی اخلاقی تعلیم کا موازنہ یہ سب جھوٹے اور خیالی عقائد ہیں جو کہتے ہیں کہ ہماری تعلیم یہ ہے کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دو.ممکن ہے یہ تعلیم اس وقت قانون مختص المکان اور مختص الزمان کی طرح ہو.ہمیشہ کے لیے یہ قانون نہ کبھی ہو سکتا ہے اور نہ یہ چل سکتا ہے.اس لیے کہ انسان ایک ایسے درخت کی طرح ہے جس کی شاخیں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں.اگر اس کی ایک ہی شاخ کی پروا کی جاوے تو باقی شاخیں تباہ اور برباد ہو جائیں گی.عیسائی مذہب کی اس تعلیم میں جو نقص ہے وہ بخوبی ظاہر ہے.اس سے انسان کے تمام قویٰ کی نشو و نما کیونکر ہو سکتی ہے.اگر صرف در گذر ہی ایک عمدہ چیز ہوتی تو پھر انتقامی قوت اس کی قوتوں میں کیوں رکھی گئی ہے؟ اور کیوں پھر اس در گذر کی تعلیم پر عمل نہیں کیا جاتا؟ مگر برخلاف اس کے کامل تعلیم وہ ہے جو اسلام نے پیش کی اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم کو ملی ہے اور وہ یہ ہے جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ(الشورٰی:۴۱) یعنی بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو.لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخش دے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو، کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے.اس سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا ہرگز یہ منشا نہیں کہ خواہ نخواہ ضرور ہر مقام پر شر کا مقابلہ نہ کیا جاوے اور انتقام نہ لیا جاوے بلکہ منشاءِ الٰہی یہ ہے کہ محل اور موقعہ کو دیکھنا چاہیے کہ آیا وہ موقع گناہ کے بخش دینے اور معاف کر دینے کا ہے یا سزا دینے کا.اگر اس وقت سزا دینا ہی مصلحت ہو تو اس قدر سزا دی جاوے جو سزاوار ہے اور اگر عفو کا محل ہے تو سزا کا خیال چھوڑ دو.یہ خوبی ہے اس تعلیم میں کیونکہ وہ ہر پہلو کا لحاظ رکھتی ہے.اگر انجیل پر عمل کر کے ہر شریر اور بدمعاش کو چھوڑ دیا جاوے تو دنیا میں اندھیر مچ جاوے.پس تم ہمیشہ یہی خیال رکھو کہ تمام قویٰ کو مردہ مت تصور کرو.تمہاری کوشش یہ ہو کہ محل پر استعمال کرو.میں یقیناً کہتا ہوں کہ یہ تعلیم ایسی ہے جس نے

Page 201

انسانی قویٰ کے نقشہ کو کھینچ کر دکھا دیا ہے.مگر افسوس ہے ان لوگوں پر جو عیسائیوں کی میٹھی میٹھی باتیں سن کر فریفتہ ہوجاتے ہیں اور اسلام جیسی نعمت کو ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتے ہیں.صادق ہر حالت میں دوسروں کے واسطے شیریں ظاہر نہیں ہوتا.جس طرح کہ ماں ہر وقت بچے کو کھانے کے واسطے شیرینی نہیں دے سکتی بلکہ وقت ضرورت کڑوی دوائی بھی دیتی ہے.ایسا ہی ایک صادق مصلح کا حال ہے.یہی تعلیم ہر پہلو پرمبارک تعلیم ہے.خدا ایسا ہے کہ سچا خدا ہے.ہمارے خدا پر عیسائی بھی ایمان لاتے ہیں جو صفات ہم خدا تعالیٰ کے مانتے ہیں وہ سب کو ماننے پڑتے ہیں.پادری فنڈر ایک جگہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اگر کوئی ایسا جزیرہ ہو جہاں عیسائیت کا وعظ نہیں پہنچا تو قیامت کے دن ان لوگوں سے کیا سوال ہوگا؟ تب خود ہی جواب دیتا ہے کہ ان سے یہ سوال نہ ہو گا کہ تم یسوع پر اور اس کے کفارہ پر ایمان لائے تھے یا نہ لائے تھے.بلکہ ان سے بھی سوال ہوگا کہ کیا تم اس خدا کو مانتے ہو جو اسلام کے صفات کا خدا واحد لاشریک ہے.اسلام کا خدا وہ خدا ہے کہ ہر ایک جنگل میں رہنے والا فطرتاً مجبور ہے کہ اس پر ایمان لائے.ہر ایک شخص کا کانشنس اور نور قلب گواہی دیتا ہے کہ وہ اسلامی خدا پر ایمان لائے.اس حقیقت اسلام کو اور اصل تعلیم کو جس کی تفصیل کی گئی آجکل کے مسلمان بھول گئے ہیں.اور اسی بات کو پھر قائم کر دینا ہمارا کام ہے.اور یہی ایک عظیم الشان مقصد ہے جس کو لے کر ہم آئے ہیں.حضرت عیسیٰ اور مریم کا مَسِّ شیطان سے پاک ہونا ان امور کے علاوہ جو اوپر بیان کئے گئے اور بھی علمی اعتقادی غلطیاں مسلمانوں کے درمیان پھیل رہی ہیں جن کا دور کرنا ہمارا کام ہے.مثلاً ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ عیسیٰ اور اس کی ماں مَسِّ شیطان سے پاک ہیں اور باقی سب نعوذ باللہ پاک نہیں ہیں.یہ ایک صریح غلطی ہے بلکہ کفر ہے اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت اہانت ہے.ان لوگوں میں ذرہ بھی غیرت نہیں جو اس قسم کے مسائل گھڑ لیتے ہیں اور اسلام کو بے عزت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ لوگ اسلام سے بہت دور ہیں.اصل میں یہ مسئلہ اس طرح سے ہے کہ قرآن شریف

Page 202

سے ثابت ہوتا ہے کہ پیدائش دو قسم کی ہوتی ہے.ایک مَسِّ روح القدس سے اور ایک مَسِّ شیطان سے.تمام نیک اور راستباز لوگوں کی اولاد مَسِّ روح القدس سے ہوتی ہے اور جو اولاد بدی کا نتیجہ ہوتی ہے وہ.مَسِّ شیطان سے ہوتی ہے.تمام انبیاء.مَسِّ روح القدس سے پیدا ہوئے تھے مگر چونکہ حضرت عیسیٰ کے متعلق یہودیوں نے یہ اعتراض کیا تھا کہ وہ نعوذ باللہ ولد الزنا ہیں اور مریم کا ایک اور سپاہی پنڈارا نام کے ساتھ تعلق ناجائز کا ذریعہ ہیں اور.مَسِِّّ شیطان کا نتیجہ ہیں اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ان کے ذمہ سے یہ الزام دور کرنے کے واسطے ان کے متعلق یہ شہادت دی تھی کہ ان کی پیدائش بھی.مَسِّ روح القدس سے تھی.چونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کے متعلق کوئی اس قسم کا اعتراض نہ تھا.اس واسطے ان کے متعلق ایسی بات بیان کرنے کی ضرورت بھی نہ پڑی.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین عبد اللہ اور آمنہ کو تو پہلے ہی سے ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ان کے متعلق ایسا خیال و گمان بھی کبھی کسی کو نہ ہوا تھا.ایک شخص جو مقدمہ میں گرفتار ہوجاتا ہے تو اس کے واسطے صفائی کی شہادت کی ضرورت پڑتی ہے لیکن جو شخص مقدمہ میں گرفتار ہی نہیں ہوا.اس کے واسطے صفائی شہادت کی کچھ ضرورت ہی نہیں.معراج کی حقیقت ایسا ہی ایک اور غلطی جو مسلمانوں کے درمیان پڑ گئی ہوئی ہے وہ معراج کے متعلق ہے ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوا تھا.مگر اس میں جو بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ صرف ایک معمولی خواب تھا سو یہ عقیدہ غلط ہے.اور جن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ معراج میں آنحضرت اسی جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے سو یہ عقیدہ بھی غلط ہے.بلکہ اصل بات اور صحیح عقیدہ یہ ہے کہ معراج کشفی رنگ میں ایک نورانی وجود کے ساتھ ہوا تھا.وہ ایک وجود تھا مگر نورانی اور ایک بیداری تھی مگر کشفی اور نورانی جس کو اس دنیا کے لوگ نہیں سمجھ سکتے مگر وہی جن پر وہ کیفیت طاری ہوئی ہو.ورنہ ظاہری جسم اور ظاہری بیداری کے ساتھ آسمان پر جانے کے واسطے تو خود یہودیوں نے معجزہ طلب کیا تھا جس کے جواب میں قرآن شریف میں کہا گیا تھا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا(بنی اسـرآءیل:۹۴) کہہ دے میرا ربّ

Page 203

پاک ہے میں تو ایک انسان رسول ہوں.انسان اس طرح اُڑ کر کبھی آسمان پر نہیں جاتے.یہی سنّت اللہ قدیم سے جاری ہے.قرآن شریف حدیث پر مقدم ہے ایک اور غلطی اکثر مسلمانوں کے درمیان ہے کہ وہ حدیث کو قرآن شریف پر مقدم کرتے ہیں حالانکہ یہ غلط بات ہے.قرآن شریف ایک یقینی مرتبہ رکھتا ہے اور حدیث کا مرتبہ ظنی ہے.حدیث قاضی نہیں، بلکہ قرآن اس پر قاضی ہے.ہاں حدیث قرآن شریف کی تشریح ہے اس کو اپنے مرتبہ پر رکھنا چاہیے.حدیث کو اس حد تک ماننا ضروری ہے کہ قرآن شریف کے مخالف نہ پڑے اور اس کے مطابق ہو.لیکن اگر اس کے مخالف پڑے تو وہ حدیث نہیں بلکہ مردود قول ہے.لیکن قرآن شریف کے سمجھنے کے واسطے حدیث ضروری ہے.قرآن شریف میں جو احکامِ الٰہی نازل ہوئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عملی رنگ میں کر کے اور کرا کے دکھا دیا اور ایک نمونہ قائم کر دیا اگر یہ نمونہ نہ ہوتا تو اسلام سمجھ میں نہ آسکتا.لیکن اصل قرآن ہے.بعض اہلِ کشف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست ایسی احادیث سنتے ہیں جو دوسروں کو معلوم نہیں ہوئیں یا موجودہ احادیث کی تصدیق کر لیتے ہیں.غرض اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو کہ ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جن سے خدا تعالیٰ ناراض ہے اور جو اسلامی رنگ سے بالکل مخالف ہیں.اس واسطے اللہ تعالیٰ اب ان لوگوں کو مسلمان نہیں جانتا جب تک کہ وہ غلط عقائد کو چھوڑ کر راہِ راست پر نہ آجاویں اور اس مطلب کے واسطے خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے کہ میں ان سب غلطیوں کو دور کرکے اصلی اسلام پھر دنیا پر قائم کروں.یہ فرق ہے ہمارے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان.ان کی حالت وہ نہیں رہی جو اسلامی حالت تھی.یہ مثل ایک خراب اور نکمّے باغ کے ہوگئے.ان کے دل ناپاک ہیں اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایک نئی قوم پیدا کرے جو صدق اور راستی کو اختیار کر کے سچے اسلام کا نمونہ ہو.۱ ۱ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۱ مورخہ ۱۷؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۳،۴

Page 204

ایام جلسہ دسمبر ۱۹۰۵ء حضرت مولوی عبد الکریم مرحوم کا ذکر خیر باہر بہشتی مقبرہ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا ذکر تھا.فرمایا.وہ اس سلسلہ کی محبت میں بالکل محو تھے.جب اوائل میںمیرے پاس آئے تھے تو سید احمد کے معتقد تھے.کبھی کبھی ایسے مسائل پر میری ان کی گفتگو ہوتی جو سید احمد کے غلط عقائد میں تھے اور بعض دفعہ بحث کے رنگ تک نوبت پہنچ جاتی.مگر تھوڑی ہی مدت کے بعد ایک دن علانیہ کہا کہ آپ گواہ رہیں کہ آج میں نے سب باتیں چھوڑ دیں.اس کے بعد وہ ہماری محبت میں ایسے محو ہوگئے تھے کہ اگر ہم دن کو کہتے کہ ستارے ہیں اور رات کو کہتے کہ سورج ہے تو وہ کبھی مخالفت کرنے والے نہ تھے.ان کو ہمارے ساتھ ایک پورا اتحاد اور پوری موافقت حاصل تھی.کسی امر میں ہمارے ساتھ خلاف رائے کرنا وہ کفر سمجھتے تھے.ان کو میرے ساتھ نہایت درجہ کی محبت تھی اور وہ اصحاب الصفہ میں سے ہوگئے تھے جن کی تعریف خدا تعالیٰ نے پہلے سے اپنی وحی میں کی تھی.ان کی عمر ایک معصومیت کے رنگ میں گذری تھی اور دنیا کی عیش کا کوئی حصہ انہوں نے نہیں لیا تھا.نوکری بھی انہوں نے اسی واسطے چھوڑ دی تھی کہ اس میں دین کی ہتک ہوتی ہے.پچھلے دنوں میں ان کو ایک نوکری دو سو روپے ماہوار کی ملتی تھی مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا.خاکساری کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی گذار دی.صرف عربی کتابوں کے دیکھنے کا شوق رکھتے تھے.اسلام پر جو اندرونی بیرونی حملے پڑتے تھے ان کے اندفاع میں اپنی عمر بسر کردی.باوجود اس قدر بیماری اور ضعف کے ہمیشہ ان کی قلم چلتی رہتی تھی.ان کے متعلق ایک خاص الہام بھی تھا.’’مسلمانوں کا لیڈر‘‘ غرض میں جانتا ہوں کہ ان کا خاتمہ قابلِ رشک ہوا کیونکہ ان کے ساتھ دنیا کی ملونی نہ تھی.جس کے ساتھ دنیا کی ملونی ہوتی ہے اس کا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا.انجام نیک ان کا ہوتا ہے جو فیصلہ کر لیتے ہیں کہ خدا کو راضی کرنے میں خاک ہوجائیں گے.

Page 205

ہمارا مسلک سب کی خیر خواہی ہے فرمایا.ہمیں کسی کے ساتھ بغض و عداوت نہیں.ہمارا مسلک سب کی خیر خواہی ہے.اگر ہم آریوں یا عیسائیوں کے برخلاف کچھ لکھتے ہیں تو وہ کسی دلی عناد یا کینہ کا نتیجہ نہیں ہوتا.بلکہ اس وقت ہماری حالت اس جرّاح کی طرح ہوتی ہے جو پھوڑے کو چیر کر اس پر مرہم لگاتا ہے.نادان بچہ سمجھتا ہے کہ یہ شخص میرا دشمن ہے اور اس کو گالیاں دیتا ہے.مگر جرّاح کے دل میں نہ غصہ ہے نہ رنج نہ اس کو گالیوں پر کوئی غضب آتا ہے.وہ ٹھنڈے دل سے اپنی خیر خواہی کا کام کرتا چلا جاتا ہے.صحبت مسیح موعود کی برکت مدرسہ کا ذکر تھا.فرمایا.اس جگہ طلباء کا آکر پڑھنا بہت ضروری ہے.جو شخص ایک ہفتہ ہماری صحبت میں آکر رہے وہ مشرق مغرب کے مولوی سے بڑھ جائے گا.جماعت کے بہت سے لوگ ہمارے رو برو ایسے طیار ہونے چاہئیں جو آئندہ نسلوں کے واسطے واعظ اور معلّم ہوں اور لوگوں کو راہِ راست پر لاویں.۱ ۲۹؍دسمبر ۱۹۰۵ء ۲۹؍دسمبر ۱۹۰۵ء کی صبح کو ۹ بجے مہمان خانہ جدید میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ایک عام مجلس ہوئی.جس قدر مہمان مختلف شہروں اور قصبوں سے آئے ہوئے تھے وہ سب کے سب موجود تھے جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے ایک لمبی تقریر فرمائی.اس تقریر کا مضمون اور مفہوم یہ تھا کہ چونکہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غرض اور غایت یہ ہے کہ اسلام کی عام اشاعت اور تبلیغ ہو اور ہمارے یہاں ایک ایسی جماعت پیدا ہو جو اپنی علمی اور عملی قابلیتوں کی وجہ سے ممتاز ہو کر اس خدمت کو سر انجام دے.اس لیے تین دن سے مدرسہ کے جدید انتظام کے مسئلہ پر غور کیا جاتا رہا ہے اور آخر یہ فیصلہ ہوا ہے کہ مدرسہ بصورت موجودہ بھی قائم رہے ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۲ مورخہ ۱۲؍ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۳

Page 206

اور مبلغین اور واعظین کے لیے ایک الگ جماعت کھولی جاوے.اس کے لیے روپیہ کی ضرورت ہے.خواجہ صاحب نے نہایت شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا کہ دنیا کی کامیابیاں بھی دین ہی کے ماتحت ہیں اور دین سے الگ ہو کر دنیا کی کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی.غرض خواجہ صاحب کی تقریر کا خلاصہ ’’سلسلہ کی ضروریات اور ان کی تکمیل کے لیے قوم کے اپنے فرائض‘‘ تھا اور اس میں صحابہ کرام کے زمانہ کا اس زمانہ سے مقابلہ کر کے بتایا کہ انہوں نے تو جانیں فدا کر دیں.اس وقت جانوں کی ضرورت نہیں اس لیے کہ خدا کے مسیح نے جہاد کی حرمت کا فتویٰ شائع کر دیا ہے.اب اگر ضرورت ہے تو مال خرچ کرنے کی ضرورت ہے اس لیے کوئی مستقل فنڈ ہونا چاہیے.خواجہ صاحب اس پر تقریر کر ہی رہے تھے کہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی تشریف لائے.خواجہ صاحب نے سلسلہ کی ضروریات کے روز افزوں اخراجات کا ذکر کر کے جماعت کو متوجہ کیا.ان کے بیٹھ جانے پر خدام نے عرض کی کہ حضور کچھ ارشاد فرما دیں.جس پر آپؑنے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی.خدا تعالیٰ کی راہ میں اموال خرچ کرنے والوں کے لئے بشارت دیکھو! جو کچھ خواجہ صاحب نے بیان کیا ہے یہ سب کچھ صحیح اور درست ہے.لیکن یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ اس جماعت کو حکم دیتا ہے کہ اپنی اپنی عملی حالت، قوتِ ایمانی کو درست کر کے دکھاویں کیونکہ جب تک عملی رنگ میں ایمان ثابت نہ ہو صرف زبان سے ایمان اللہ کے نزدیک منظور نہیں اور وہ کچھ نہیں.زبان میں تو ایک مخلص اور منافق یکساں معلوم ہوتے ہیں.ہر ایک شخص جو اپنا صدق اور ثباتِ قدم ثابت کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ عملی طور پر ظاہر کرے جب تک عملی طور پر قدم آگے نہیں رکھتا آسمان پر اس کو مومن نہیں کہا جاتا.بعض شخصوں کے دل میں خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ آئے دن ہم پر ٹیکس لگائے جاتے ہیں کہاںتک برداشت کریں.میں جانتا ہوں کہ ہر شخص ایسا دل نہیں رکھتا کیونکہ ایک طبیعت کے ہی سب نہیں ہوتے.بہت سے تنگدل اور کم ظرف ہوتے ہیں اور اس قسم کی باتیں کر بیٹھتے ہیں مگر وہ نہیں جانتے

Page 207

کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی پروا کیا ہے.ایسے شبہات ہمیشہ دنیا داری کے رنگ میں پیدا ہوا کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو توفیق بھی نہیں ملتی.لیکن جو لوگ محض خدا تعالیٰ کے لیے قدم اٹھاتے ہیں اور اس کی مرضی کو ہی مقدم کرتے ہیں اور اس بنا پر جو کچھ بھی خدمت دین کرتے ہیں اس کے لیے اللہ تعالیٰ خود انہیں توفیق دے دیتا ہے اور اعلاءِ کلمۃ الاسلام کے لیے جن اموال کو وہ خرچ کرتے ہیں ان میں برکت رکھ دیتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور جو لوگ صدق اور اخلاص سے قدم اٹھاتے ہیں انہوں نے دیکھا ہوگا کہ کس طرح پر اندر ہی اندر انہیں توفیق دی جاتی ہے.وہ شخص بڑا نادان ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ آئے دن ہم پر بوجھ پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے وَ لِلّٰهِ خَزَآىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (المنافقون:۸) یعنی خدا کے پاس آسمان و زمین کے خزانے ہیں.منافق اس کو سمجھ نہیں سکتے لیکن مومن اس پر ایمان لاتا اور یقین کرتا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر سب لوگ جو اس وقت موجود ہیں اور اس سلسلہ میں داخل ہیں یہ سمجھ کر کہ آئے دن ہم پر بوجھ پڑتا ہے وہ دست بردار ہو جائیں اور بخل سے یہ کہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے تو خدا تعالیٰ ایک اور قوم پیدا کر دے گا جو ان سب اخراجات کا بوجھ خوشی سے اٹھائے اور پھر بھی سلسلہ کا احسان مانے.ایک عظیم نشان اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلہ کو بڑھائے.پس کون ہے جو اسے روک لے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ بادشاہ سب کچھ کر سکتے ہیں.پھر وہ جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے کب تھک سکتا ہے.آج سے ۲۵ برس بلکہ اس سے بھی بہت پہلے خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ایسے وقت میں کہ ایک شخص بھی میرے پاس نہ آتا تھا اور کبھی سال بھر میں بھی کوئی خط نہ آتا تھا.اس گمنامی کی حالت میں مَیں نے جو دعوے کئے ہیں وہ براہین احمدیہ میں چھپے ہوئے موجود ہیں اور یہ کتاب مخالفوں موافقوں کے پاس موجود ہے بلکہ ہندوؤں عیسائیوں تک کے پاس بھی ہے.مکہ، مدینہ اور قسطنطنیہ تک بھی پہنچی.اسے کھول کر دیکھو کہ اس وقت خدا نے فرمایا يَاْتُوْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ وَ یَاْتِیْکَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ یعنی تیرے پاس دور دراز جگہوں سے لوگ آئیں گے اور جن راستوں سے آئیں گے وہ راہ عمیق ہو جائیں گے.پھر فرمایا کہ یہ لوگ جو کثرت سے آئیں گے

Page 208

تو ان سے تھکنا نہیں اور ان سے کسی قسم کی بد اخلاقی نہ کرنا.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب لوگوں کی کثرت ہوتی ہے تو انسان ان کی ملاقات سے گھبرا جاتا ہے اور کبھی بے توجہی کرتا ہے جو ایک قسم کی بد اخلاقی ہے پس اس سے منع کیا اور کہا کہ ان سے تھکنا نہیں اور مہمان نوازی کے لوازم بجالانا.ایسی حالت میں خبر دی گئی تھی کہ کوئی بھی نہ آتا تھا اور اب تم سب دیکھ لو کہ کس قدر موجود ہو.یہ کتنا بڑا نشان ہے؟ اس سے اللہ تعالیٰ کا عالم الغیب ہونا ثابت ہوتا ہے.ایسی خبر بغیر عالم الغیب خدا کے کون دے سکتا ہے.نہ کوئی منجم نہ کوئی فراست والا کہہ سکتا ہے.ان حالات پر جب ایک سعید مومن غور کرتا ہے تو اسے لذت آتی ہے وہ یقین کرتا ہے کہ ایک خدا ہے جو اعجازی خبریں دیتا ہے.غرض اس خبر میں اس نے کثرت کے ساتھ مہمانوں کی آمد رفت کی خبر دی.پھر چونکہ ان کے کھانے پینے کے لیے کافی سامان چاہیے تھا اور ان کے فروکش ہونے کے لیےمکانوں کا انتظام ہونا چاہیے تھا.پس اس کے لیے بھی ساتھ ہی خبر دی یَاْتِیْکَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ.اب غور کرو کہ جس کام کو اللہ تعالیٰ نے خود کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اور ارادہ کر لیا ہے کون ہے جو اس کی راہ میں روک ہو.وہ خود ساری ضرورتوںکا تکفّل اور تہیہ کرتا ہے.یہ بات انسانی طاقت سے باہر ہے کہ اس قدر عرصہ پہلے ایک واقعہ کی خبر دے کہ ایک بچہ بھی پیدا ہو کر صاحبِ اولاد ہو سکتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کا عظیم الشان معجزہ ہے.یہی وجہ ہے جو خدا تعالیٰ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ صادق کی نشانی پیشگوئی ہے اور یہ بہت بڑا نشان ہے جس پر غور کرنا چاہیے.قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان تدبّر اور غور سے بڑھتا ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نشانوں پر غور نہیں کرتے ان کا قدم پھسلنے والی جگہ پر ہوتا ہے.یہ بالکل سچی بات ہے کہ انسان اپنے ایمان میں اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک خدا تعالیٰ کے اقوال، افعال اور قدرتوں کو نہ دیکھے.پس یہ سلسلہ اسی غرض کے لیے قائم ہوا ہے تا اللہ تعالیٰ پر ایمان بڑھے.یہ نشان جو میں نے ابھی پیش کیا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ایسا زبردست ہے کہ کوئی اس کو روک نہیں سکتا.

Page 209

برخلاف اس کے کسی دوسرے مذہب والے کو یہ حوصلہ اور ہمت کہاں ہے کہ وہ ایسے تازہ بتازہ نشان پیش کرے.جماعت کے لوگ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر نشانات ظاہر ہوتے رہتے ہیں.یہ محض خدا کا کاروبار ہے کسی اور کو اس میں دخل نہیں.نشانات کا مقصد یقیناً سمجھو کہ اللہ تعالیٰ ان پیشگوئیوں کے ساتھ دکھاتا ہے کہ ایمانی قوت بڑھ جاوے اور یہ قوت بغیر ایسے نشانوں کے بڑھ نہیں سکتی کیونکہ ان میں خدا تعالیٰ کا زبردست ہاتھ نمایاں طور پر نظر آتا ہے.انسان ایسا جاندار ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے تربیتِ ایمانی کے لیے فیوض و برکات نہ ہوں وہ خود بخود پاک صاف نہیں ہو سکتا.اور حقیقت میں پاک صاف ہونا اور تقویٰ پر قدم مارنا آسان امر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے یہ نعمت ملتی ہے.تقویٰ اور احسان اور سچی تقویٰ جس سے خدا تعالیٰ راضی ہو اس کے حاصل کرنے کے لیے بار بار اللہ تعالیٰ نے فرمایا يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ ( اٰلِ عـمران:۱۰۳) اور پھر یہ بھی کہا اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ(النحل:۱۲۹) یعنی اللہ تعالیٰ ان کی حمایت اور نصرت میں ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں.تقویٰ کہتے ہیں بدی سے پرہیز کرنے کو.اور محسنون وہ ہوتے ہیں جو اتنا ہی نہیں کہ بدی سے پرہیز کریں بلکہ نیکی بھی کریں اور پھر یہ بھی فرمایا لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى (یونس:۲۷) یعنی ان نیکیوں کو بھی سنوار سنوار کر کرتے ہیں.مجھے یہ وحی بار بار ہوئی اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ اور اتنی مرتبہ ہوئی ہے کہ میں گن نہیں سکتا.خدا جانے دو ہزار مرتبہ ہوئی ہو.اس سے غرض یہی ہے کہ تاجماعت کو معلوم ہو جاوے کہ صرف اس بات پر ہی فریفتہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اس جماعت میں شامل ہوگئے ہیں یا صرف خشک خیالی ایمان سے راضی ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ کی معیت اور نصرت اسی وقت ملے گی جب سچی تقویٰ ہو اور پھر نیکی ساتھ ہو.یہ فخر کی بات نہیں کہ انسان اتنی ہی بات پر خوش ہوجاوے کہ مثلاً وہ زنا نہیں کرتا.یا اس نے

Page 210

خون نہیں کیا.چوری نہیں کی.یہ کوئی فضیلت ہے کہ بُرے کاموں سے بچنے کا فخر حاصل کرتا ہے؟ دراصل وہ جانتا ہے کہ چوری کرے گا تو ہاتھ کاٹا جاوے گا.یا موجودہ قانون کے رو سے زندان میں جاوے گا.اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ایسی چیز کا نام نہیں ہے کہ بُرے کام سے ہی پرہیز کرے بلکہ جب تک بدیوں کو چھوڑ کر نیکیاں اختیار نہ کرے وہ اس روحانی زندگی میں زندہ نہیں رہ سکتا.نیکیاں بطور غذا کے ہیں.جیسے کوئی شخص بغیر غذا کے زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح جب تک نیکی اختیار نہ کرے تو کچھ نہیں.قرآن شریف میں ایک جگہ ذکر کیا ہے کہ دو حالتیں ہوتی ہیں.ایک حالت تو وہ ہوتی ہے يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا (الدّ ھر:۶) یعنی ایسا شربت پی لیتے ہیں جس کو ملونی کافور ہو.اس سے یہ مطلب ہے کہ دنیا کی محبت سے دل ٹھنڈا ہوجاتا ہے.کافور ٹھنڈی چیز ہے اور زہروں کو دبا لیتا ہے.ہیضہ اور وبائی امراض کے لیے مفید ہے.پس پہلا مرحلہ تقویٰ کا وہ ہے جس کو استعارہ کے رنگ میں يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا.ایسے لوگ جو کافوری شربت پی لیتے ہیں ان کے دل ہر قسم کی خیانت، ظلم، ہر نوع کی بدی اور بُرے قویٰ سے دل ٹھنڈے ہوتے ہیں.اور یہ بات ان میں طبعاً اور فطرتاً پیدا ہوتی ہے نہ کہ تکلّف سے.وہ ہر قسم کی بدیوں سے بیزار ہو جاتے ہیں یہ سچ ہے کہ یہ معمولی بات نہیں.بدیوں کا چھوڑ دینا آسان نہیں.انجیل کا اکثر حصہ اسی سے پُر ہے کہ بُرے کام نہ کرو.مگر یہ پہلا زینہ ہے تکمیل ایمان کا.اسی پر قانع نہیں ہو جانا چاہیے.ہاں اگر انسان اس پر عمل کرے اور بدیوں کو چھوڑ دے تو دوسرے حصہ کے لیے اللہ تعالیٰ آپ ہی مدد دیتا ہے.یہ بات انسان منہ سے تو کہہ سکتا ہے کہ میں بدیوں سے پرہیز کرتا ہوں.لیکن جب مختلف قسم کے بُرے کام سامنے آتے ہیں تو بدن کانپ جاتا ہے.بعض گناہ موٹے موٹے ہوتے ہیں مثلاً جھوٹ بولنا، زنا کرنا، خیانت، جھوٹی گواہی دینا اور اتلافِ حقوق، شرک کرنا وغیرہ.لیکن بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں.جوان سے بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے.مثلاً گلہ

Page 211

کرنے کی عادت ہوتی ہے.ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں.حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت ہی بُرا قرار دیا ہے.چنانچہ فرمایا اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ (الـحجرات:۱۳) خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے.ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل و نادان ہونا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پیدا ہو یہ سب بُرے کام ہیں.ایسا ہی بخل، غضب یہ سب بُرے کام ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے موافق پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان ان سے پرہیز کرے اور ہر قسم کے گناہوں سے جو خواہ آنکھوں سے متعلق ہوں یا کانوں سے، ہاتھوں سے یا پاؤں سے بچتا رہے کیونکہ فرمایا ہے لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔوْلًا (بنی اسـرآءیل : ۳۷) یعنی جس بات کا علم نہیں خواہ نخواہ اس کی پیروی مت کرو.کیونکہ کان، آنکھ، دل اور ہر ایک عضو سے پوچھا جاوے گا.بہت سی بدیاں صرف بد ظنی سے ہی پیدا ہوجاتی ہیں.ایک بات کسی کی نسبت سنی اور جھٹ یقین کر لیا.یہ بہت بُری بات ہے جس بات کا قطعی علم اور یقین نہ ہو اس کو دل میں جگہ مت دو.یہ اصل بد ظنی کو دور کرنے کے لیے ہے۱ کہ جب تک مشاہدہ اور فیصلہ صحیح نہ کرے نہ دل میں جگہ دے اور نہ ایسی بات زبان پر لائے.یہ کیسی محکم اور مضبوط بات ہے.بہت سے انسان ہیں جو زبان کے ذریعہ پکڑے جائیں گے.یہاں دنیا میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے آدمی محض زبان کی وجہ سے پکڑے جاتے ہیں اور انہیں بہت کچھ ندامت اور نقصان اٹھانا پڑتا ہے.دل میں جو خطرات اور سر سری خیال گذر جاتے ہیں.ان کے لیے کوئی مؤاخذہ نہیں.مثلاً کسی کے دل میں گذرے کہ فلاں مال مجھے مل جاوے تو اچھا ہے.یہ ایک قسم کا لالچ تو ہے لیکن محض اتنے ہی خیال پر جو طبعی طور پر دل میں آئے اور گذر جاوے کوئی مؤاخذہ نہیں.لیکن جب ایسے خیال ۱ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۲ مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۲،۳

Page 212

کو دل میں جگہ دیتا ہے اور پھر عزم کرتا ہے کہ کسی نہ کسی حیلے سے وہ مال ضرور لینا چاہیے تو پھر یہ گناہ قابل مؤاخذہ ہے.غرض جب دل عزم کر لیتا ہے اور اس کے لیے شرارتیں اور فریب کرتا ہے تو یہ گناہ قابل مؤاخذہ لکھا جاتا ہے پس یہ اس قسم کے گناہ ہیں جو بہت ہی کم توجہی کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں اور یہ انسان کی ہلاکت کا موجب ہوجاتے ہیں.بڑے بڑے اور کھلے کھلے گناہوں سے تو اکثر پرہیز کرتے ہیں.بہت سے آدمی ایسے ہوں گے جنہوں نے کبھی خون نہیںکیا یا نقب زنی نہیں کی یا اور اسی قسم کے بڑے بڑے گناہ نہیں کیے.لیکن سوال یہ ہے کہ وہ لوگ کتنے ہیں جنہوں نے کسی کا گلہ نہیں کیا یا کسی اپنے بھائی کی ہتک کر کے اس کو رنج نہیں پہنچایا یا جھوٹ بول کر خطا نہیں کی؟ یا کم از کم دل کے خطرات پر استقلال نہیں کیا؟ میں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ ایسے لوگ بہت ہی کم ہوں گے جو ان باتوں کی رعایت رکھتے ہوں اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہوں ورنہ کثرت سے ایسے لوگ ملیں گے جو تفریحاً جھوٹ بولتے ہیں اور ہر وقت ان کی مجلسوں میں دوسروں کا شکوہ و شکایت ہوتا رہتا ہے اور وہ طرح طرح سے اپنے کمزور اور ضعیف بھائیوں کو دکھ دیتے ہیں.اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے.میں اس وقت بُرے کاموں کی تفصیل بیان نہیں کر سکتا.قرآن شریف میں اول سے آخر تک اوامر و نواہی اور احکامِ الٰہی کی تفصیل موجود ہے اور کئی سو شاخیں مختلف قسم کے احکام کی بیان کی ہیں.خلاصۃً یہ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کو ہرگز منظور نہیں کہ زمین پر فساد کریں.اللہ تعالیٰ دنیا پر وحدت پھیلانا چاہتا ہے.لیکن جو شخص اپنے بھائی کو رنج پہنچاتا ہے.ظلم اور خیانت کرتا ہے وہ وحدت کا دشمن ہے.جب تک یہ بد خیال دل سے دور نہ ہوں کبھی ممکن نہیں کہ سچی وحدت پھیلے.اس لیے اس مرحلہ کو سب سے اوّل رکھا.تقویٰ کی حقیقت تقویٰ کیا ہے؟ ہر قسم کی بدی سے اپنے آپ کو بچانا.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابرار کے لیے پہلا انعام شربت کافوری ہے.اس شربت کے پینے سے دل بُرے کاموں سے ٹھنڈے ہوجاتے ہیں.اس کے بعد ان کے دلوں میں برائیوں اور

Page 213

بدیوں کے لیے تحریک اور جوش پیدا نہیں ہوتا.ایک شخص کے دل میں یہ خیال تو آجاتا ہے کہ یہ کام اچھا نہیں یہاں تک کہ چور کے دل میں بھی یہ خیال آہی جاتا ہے مگر جذبہ دل سے وہ چوری بھی کر ہی لیتا ہے.لیکن جن لوگوں کو شربت کافوری پلا دیا جاتا ہے ان کی یہ حالت ہوجاتی ہے کہ ان کے دل میں بدی کی تحریک ہی پیدا نہیں ہوتی بلکہ دل بُرے کاموں سے بیزار اور متنفّر ہوجاتا ہے گناہ کی تمام تحریکوں کے مواد دبا دیئے جاتے ہیں.یہ بات خدا تعالیٰ کے فضل کے سوا میسر نہیں آتی.جب انسان دعا اور عقد ہمت سے خدا تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرتا ہے اور اپنے نفس کے جذبات پر غالب آنے کی سعی کرتا ہے تو پھر یہ سب باتیں فضلِ الٰہی کو کھینچ لیتی ہیں اور اسے کافوری جام پلایا جاتا ہے جو لوگ اس قسم کی تبدیلی کرتےہیں اللہ تعالیٰ انہیں زمرہ ابدال میں داخل فرماتا ہے اور یہی تبدیلی ہے جو ابدال کی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے.یہ بھی عموماً دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے جب اس قسم کی باتوں کو سنتے ہیں تو ان کے دل متأثر ہوجاتے ہیں اور وہ اچھا بھی سمجھتے ہیں.لیکن جب اس مجلس سے الگ ہوتے ہیں اور اپنے احباب اور دوستوں سے ملتے ہیں تو پھر وہی رنگ ان میں آجاتا ہے اور ان سنی ہوئی باتوں کو یکدم بھول جاتے ہیں اور وہی پہلا طرزِ عمل اختیار کرتےہیں.اس سے بچنا چاہیے.جن صحبتوں اورمجلسوں میں ایسی باتیں پیدا ہوں ان سے الگ ہوجانا ضروری ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ان تمام بُری باتوں کے اجزاء کا علم ہو.کیونکہ طلب شے کے لیے علم کا ہونا سب سے اوّل ضروری ہے.جب تک کسی چیز کا علم نہ ہو اسے حاصل کیونکر کر سکتے ہیں؟ قرآن شریف نے باربار تفصیل دی ہے پس باربار قرآن شریف کو پڑھو.اور تمہیں چاہیے کہ بُرے کاموں کی تفصیل لکھتے جاؤ.اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے کوشش کرو کہ ان بدیوں سے بچتے رہو.یہ تقویٰ کا پہلا مرحلہ ہوگا.جب تم ایسی سعی کروگے تو اللہ تعالیٰ پھر تمہیں توفیق دے گا اور وہ کافوری شربت تمہیں دیا جاوے گا جس سے تمہارے گناہ کے جذبات بالکل سرد ہوجائیں گے.اس کے بعد نیکیاں ہی سرزد ہوں گی.جب تک انسان متقی نہیں بنتا یہ جام اسے نہیں دیا جاتا اور نہ اس کی

Page 214

عبادات اور دعاؤں میں قبولیت کا رنگ پیدا ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ(المائدۃ:۲۸) یعنی بیشک اللہ تعالیٰ متقیوں ہی کی عبادات کو قبول فرماتا ہے.یہ بالکل سچی بات ہے کہ نماز روزہ بھی متقیوں ہی کا قبول ہوتا ہے ان عبادات کی قبولیت کیا ہے اور اس سے مراد کیا ہے؟ عبادات کی قبولیت سے مراد سو یاد رکھنا چاہیے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نماز قبول ہوگئی ہے تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ نماز کے اثرات اور برکات نماز پڑھنے والے میں پیدا ہوگئے ہیں جب تک وہ برکات اور اثرات پیدا نہ ہوں اس وقت تک نری ٹکریں ہی ہیں.اس نماز یا روزہ سے کیا فائدہ ہوگا جبکہ اسی مسجد میں نماز پڑھی اور وہیں کسی دوسرے کی شکایت اور گلہ کر دیا یا رات کو چوری کر دی، کسی کے مال یا امانت میں خیانت کر لی، کسی کی شان پر جو خدا تعالیٰ نے اسے عطا کی ہے بخل اور حسد کی وجہ سے حملہ کر دیا، کسی کی آبرو پر حملہ کر دیا.غرض اس قسم کے عیبوں اور بُرائیوں میں اگر مبتلا کا مبتلا رہا تو تم ہی بتاؤ اس نماز نے اس کو کیا فائدہ پہنچایا؟ چاہیے تو یہ تھا کہ نماز کے ساتھ اس کی بدیاں اور وہ برائیاں جن میں وہ مبتلا تھا کم ہوجاتیں اور نماز اس کے لیے ایک عمدہ ذریعہ ہے.پس پہلی منزل اور مشکل اس انسان کے لیے جو مومن بننا چاہتا ہے یہی ہے کہ بُرے کاموں سے پرہیز کرے.اسی کا نام تقویٰ ہے.اور یہ بھی یاد رکھو کہ تقویٰ اس کا نام نہیں کہ موٹی موٹی بدیوں سے پرہیز کرے.بلکہ باریک در باریک بدیوں سے بچتا رہے مثلاً ٹھٹھے اور ہنسی کی مجلسوں میں بیٹھنا یا ایسی مجلسوں میں بیٹھنا جہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ہتک ہو یا اس کے بھائی کی شان پر حملہ ہو رہا ہو اگرچہ ان کی ہاں میں ہاں بھی نہ ملائی ہو مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بھی بُرا ہے کہ ایسی باتیں کیوں سنیں؟ یہ ان لوگوں کا کام ہے جن کے دلوں میں مرض ہے کیونکر اگر ان کے دل میں بدی کی پوری حس ہوتی تو وہ کیوں ایسا کرتے اور کیوں ان مجلسوں میں جا کر ایسی باتیں سنتے؟

Page 215

یہ بھی یاد رکھو کہ ایسی باتیں سننے والا بھی کرنے والا ہی ہوتا ہے جو لوگ زبان سے ایسی باتیں کرتے ہیں وہ تو صریح مؤاخذہ کے نیچے ہیں کیونکہ انہوں نے ارتکاب گناہ کا کیا ہے.لیکن جو چپکے ہو کر بیٹھے رہے ہیں وہ بھی اس گناہ کے خمیازہ کا شکار ہوں گے اس حصہ کو بڑی توجہ سے یاد رکھو اور قرآن شریف کو بار بار پڑھ کر سوچو.احسان یہ تو وہ پہلا حصہ ہے نیکی کا.مگر نیکی اسی پر ختم نہیں.بعض لوگ ہندوؤں، عیسائیوں اور دوسری قوموں میں بھی پائے جاتے ہیں جو بعض گناہ نہیں کرتے.مثلاً بعض جھوٹ نہیں بولتے، کسی کا مال ناحق نہیں کھاتے، قرضہ دبا نہیں لیتے بلکہ واپس کرتے ہیں، معاملات معاشرت میں بھی پکے ہوتے ہیں مگر خدا نے فرمایا ہے کہ اتنی ہی بات نہیں جس سے وہ راضی ہو جاوے بدیوں سے بچنا چاہیے اور اس کے بالمقابل نیکی کرنی چاہیے.اس کے بغیر مخلصی نہیں.جو اسی پر مغرور ہے کہ وہ بدی نہیں کرتا وہ نادان ہے.اسلام انسان کو اسی حد تک نہیں پہنچاتا اور چھوڑتا بلکہ وہ دونوں شقیں پوری کرانی چاہتا ہے.یعنی بدیوں کو تمام و کمال چھوڑ دو اور نیکیوں کو پورے اخلاص سے کرو.جب تک یہ دونوں باتیں نہ ہوں نجات نہیں ہو سکتی.مجھے ایک مثال کسی نے بتائی تھی اور وہ صحیح ہے.کہتے ہیں ایک شخص نے کسی کی دعوت کی اور بڑے تکلف سے اس کی تواضع کی.جب وہ کھانے سے فراغت پا چکا تو اس سے نہایت عجز اور انکسار سے میزبان نے کہا کہ میں آپ کی شان کے موافق حق دعوت ادا نہیں کر سکا.آپ مجھے معاف فرمائیں.مہمان نے سمجھا کہ گویا اس طرح پر احسان جتاتا ہے.اسے کہا کہ میں نے بھی آپ کے ساتھ بڑی نیکی کی ہے.اسے تم یاد نہیں رکھتے اس نے کہا کہ وہ کون سی نیکی ہے؟ تو کہا کہ جب تم مہمان داری میں مصروف تھے تو میں تمہارے گھر کو آگ لگا سکتا تھا مگر میں نے کس قدر احسان کیا ہے کہ آگ نہیں لگائی.یہ بدی کی مثال ہے گویا آگ لگا کر خطرناک نقصان نہیں کیا.بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بدی نہ کرنے کا احسان جتاتے ہیں.ایسے لوگ حیوانات کی طرح ہیں.اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر وہی لوگ ہیں جو بدی سے پرہیز کر کے ناز نہیں کرتے بلکہ نیکی کر کے بھی کچھ نہیں سمجھتے.

Page 216

غرض پہلی حالت تو وہ کافوری شربت کی تھی اور دوسرا مرحلہ زنجبیلی شربت کا ہے.چنانچہ فرمایايُسْقَوْنَ فِيْهَا كَاْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيْلًا(الدھر:۱۸) اور ایسے جام انہیں پلائے جاتے ہیں جو زنجبیلی شربت کے ہوتے ہیں.بلند روحانی مراتب حاصل کرنا انسان کے لئے ناممکن نہیں انسان کو یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہیے کہ ایسا مرتبہ حاصل ہونا ناممکن ہے.یہ سب کچھ مل سکتا ہے اور ملتا ہے.جن لوگوں نے یہ مراتب اور مدارج حاصل کئے وہ بھی تو آخر انسان ہی تھے.اصل بات یہ ہے کہ جب انسان کے سامنے اس کے جرائم کی ایک لنبی فہرست ہوتی ہے تو وہ اسے دیکھ کر گھبرا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ان سے بچنا مشکل ہے.مگر یہ اس کی انسانی کمزوری کا نتیجہ ہے.بہت سے لوگ یورپ میںبھی اس خیال کے موجود ہیں جو یہ کہتے ہیںکہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا فقط اتنا ہی منشا ہے کہ انسان سے یہ اقرار کرایا جاوے کہ وہ ان کی تعلیم پر عمل کرنے کے ناقابل ہے یا اس پر قادر نہیں.ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت سے محض ناواقف ہیں اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر غور نہیں کیا.اگر وہ خود انسان کی اپنی حالت اور ان انقلابات پر ہی غور کرتے جن کے اندر سے وہ گذرا ہے تو اس قسم کا کلمہ منہ سے نہ نکالتے.مگر ان کے علم اور معرفت کی کمزوری نے انہیں ایسا خیال کرنے کا موقع دیا.دیکھو! انسان پر کس قدر انقلاب آئے ہیں.ایک زمانہ انسان پر وہ گذرا ہے کہ وہ صرف نطفہ کی حالت میں تھا اور وہ وہ حالت تھی کہ کچھ بھی چیز نہ تھا.اگر زمین یا کپڑے پر گرتا تو چند منٹ کے اندر خشک ہوجاتا.پھر علقہ بنا اس میں ذرا بستگی پیدا ہوئی اس وقت بھی اس کی کچھ ہستی نہ تھی.پھر مضغہ ہوا.پھر ایک اور زمانہ آیا کہ جنین کی صورت میں اس میں جان آئی.بعد اس کے پیدا ہوا پھر شیر خوار سے بلوغ تک پہنچا.وغیرہ وغیرہ.

Page 217

اب غور کرو کہ جس قادر خدا نے انسان کو ایسے ایسے انقلابات میں سے گذار کر انسان بنا دیا ہے اور اب ایسا انسان ہے کہ گویا عقل حیران ہے کہ کیا سے کیا بن گیا.ناک منہ اور دوسرے اعضاء پر غور کرو کہ خدا تعالیٰ نے اسے کیا بنایا ہے.پھر اندرونی حواس خمسہ دیئے اور دوسرے قویٰ اور طاقتیں اس کو عطا کیں.پس جس خدائے قادر نے اس زمانہ سے جو یہ نطفہ تھا عجیب تصرفات سے انسان بنا دیا کیا اس کے لئے مشکل ہے کہ اس کو پاک حالت میں لے جاوے اور جذبات سے الگ کر دے؟ جو شخص ان باتوں پر غور کرے گا وہ بے اختیار ہو کر کہہ اٹھے گا اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ(البقرۃ:۲۱) اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ جب گنہگار لوگ جہنم میں ڈالے جاویں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہارا ایک ہی گناہ بہت بڑا ہے کہ تم نے خدا پہ بد ظنی کی، اگر بدظنی نہ کرتے تو کامل اور مومن بن کر آتے.حقیقت میں یہ بہت بڑا گناہ ہے جو انسان اللہ تعالیٰ پر بد ظن ہوجاوے.باقی جس قدر گناہ ہیں وہ اسی سے پیدا ہوتے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کو حقیقی رازق یقین کرے تو پھر چوری، بددیانتی اور فریب سے لوگوں کا مال کیوں مارے؟ افسوس نادان انسان سمجھتا ہے.اے جہاں مٹھا اگلا کس نے ڈٹھا.یہ بھی خدا تعالیٰ پر بد ظنی ہے.اگر اسے صادق یقین کرتے تو یہ نہ کہتے.بلکہ یہ کہتے کہ ؎ دنیا روزے چند آخر باخداوند دنیا کو چند روزہ یقین کر کے اس کی عمارتوں اور آسائشوں اور ہر قسم کی دولتوں سے دل نہ لگاتے بلکہ ہر وقت موت کے فکر میں لرزاں ترساں رہ کر عاقبت کا خیال کرتے اور اس کا بندوبست کرتے کہ آخر مر کر اللہ تعالیٰ کے حضور جانا ہے.مگر اب تو یہ حالت ہے کہ عام طور پر ایک غفلت چھائی ہوئی ہے اور لوگ اس طرح پر مصروف اور دلدادہ دنیا ہیں گویا انہوں نے کبھی یہاں سے جانا ہی نہیں اور موت کوئی چیز ہی نہیں یا کم از کم اس کا اثر ان پر کچھ بھی ہونے والا نہیں.خدا تعالیٰ پر بد ظنی کے نتائج یہ بد خیالی، یہ غفلت اور خود رفتگی کیوں پیدا ہوئی ہے؟ اس کی جڑ بھی وہی خدا پر بد ظنی ہے.اس کو صادق یقین نہیں کیا.

Page 218

انسان کی عادت ہے کہ جس کام پر اس کی آنکھ کھل جاوے اور کسی امر کو یہ اپنے لیے مفید سمجھ لے وہی کرتا ہے.ایک تاجر کو معلوم ہو جاوے کہ فلاں ملک میں اگر اس کا مال جاوے تو اسے اس قدر فائدہ ہوگا تو ضرور اپنا مال وہیں لے جائے گا.ایسا ہی ایک زمیندار اور دوسرے اہل حرفہ کرتے ہیں.اسی طرح پر اگر انسان کی آنکھ کھل جاوے اور عاقبت کا فکر اسے دامنگیر ہو اور وہ ایک یقین اپنے اندر پیدا کرلے کہ خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہونا ہے تو اس کی اصلاح ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ظاہر فرمایا ہے کہ اگر مجھ پر نیک ظن ہوتا تو مشکل کیا تھا؟ کیا پانچ وقت نماز پڑھنا مشکل تھا؟ ہرگز نہیں.خدا تعالیٰ کا خوف جب غالب ہو تو آدمی کیسا ہی مصروف ہو اسے چھوڑ کر بھی ادا کر سکتا ہے.اس وقت ہم سب یہاں بیٹھے ہیں اور ایک کام میں مصروف ہیں.لیکن اگر خدانخواستہ اس وقت زلزلہ آجاوے تو کیا ہم میں سے کوئی یہاں رہ سکتا ہے؟ سب کے سب بھاگ جاویں یہاں تک کہ مریض اور ضعیف بھی دوڑ پڑیں.اصل بات یہ ہے کہ خوف کے ساتھ ایک قوت آتی ہے.اگر خدا تعالیٰ پر بدظنی نہ ہوتی تو طاقت آجاتی اور اس کے احکام کی تعمیل کے لیے ایک جوش اور اضطراب پیدا ہوجاتا.غرض بد ظنی تمام بُرائیوں کی جڑ ہے.جو نیک ظنی سے خدا تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لاویں تو سب کچھ ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان ہو تو پھر کیا ہے جو نہیں ہوسکتا.بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ فلاں گناہ کیونکر چھوٹ سکتا ہے.یہ باتیں اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں پر کامل ایمان نہیں ہوتا.چونکہ اس کوچہ سے نامحرم ہوتے ہیں اس لیے ایسے اوہام طبیعت میں پیدا ہوتے ہیں.مگر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ وہ خدا جس نے نطفہ سے انسان کو بنا دیا ہے وہ اس انسان کو ہر قسم کے پاک تغیرات کی توفیق عطا کر سکتا ہے اور کرتا ہے.ہاں ضرورت ہے طلبگار دل کی.زنجبیلی مقام میں پھر اصل مطلب کی طرف رجوع کر کے کہتا ہوں کہ انسان کا اتنا ہی کمال نہیں ہے کہ بدیاں چھوڑ دے.کیونکہ اس میں اور بھی شریک ہیں یہاں تک کہ حیوانات

Page 219

بھی بعض امور میں شریک ہو سکتے ہیں.بلکہ انسان کامل نیک تب ہی ہوتا ہے کہ نہ صرف بدیوں کو ترک کرے بلکہ اس کے ساتھ نیکیوں کو بھی کامل درجہ تک پہنچاوے.پس جب ترک شرّ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے کافوری شربت پلاتا ہے.جس سے یہ مراد ہے کہ وہ جوش اور تحریکیں جو بدی کے لیے پیدا ہوتی تھیں سرد ہوجاتی ہیں اور بدی کے مواد دب جاتے ہیں.اس کے بعد اس کو دوسرا شربت پلایا جاتا ہے جو قرآن کریم کی اصطلاح میں شربت زنجبیلی ہے جیسا کہ فرمایا يُسْقَوْنَ فِيْهَا كَاْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيْلًا(الدّھر:۱۸) زنجبیل مرکب ہے زنا اور جبل سے زنا الـجبل کے یہ معنے ہیں کہ ایسی حرارت اور گرمی پیدا ہوجاوے کہ پہاڑ پر چڑھ جاوے.زنجبیل میں حرارت غریزی رکھی گئی ہے اور اس کے ساتھ انسان کی حرارت غریزی کو فائدہ پہنچتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بڑے بڑے کام جو میری راہ میں کئے جاتے ہیں جیسے صحابہؓ نے کئے یہاں تک کہ انہوں نے اپنی جانوں سے دریغ نہیں کیا.خدا کی راہ میں سر کٹوا دینا آسان امر نہیں ہے.جس کے بچے چھوٹے چھوٹے اور بیوی جوان ہو.جب تک کوئی خاص گرمی اس کی روح میں پیدا نہ ہو.کیونکر انہیں یتیم اور بیوہ چھوڑ کر سر کٹوا لے.میں صحابہؓ سے بڑھ کر کوئی نمونہ پیش نہیں کر سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ اعلیٰ درجہ کی قوتِ قدسی اور تزکیہ نفس کی طاقت کا ہے اور صحابہؓ کا نمونہ اعلیٰ درجہ کی تبدیلی اور فرمانبرداری کا ہے.پس ایسی طاقت اور یہ قوت ایسی زنجبیلی شربت کی تاثیر سے پیدا ہوتی ہے اور حقیقت میں کافوری شربت کے بعد طاقت کو نشو و نما دینے کے لیے اس زنجبیلی شربت کی ضرورت بھی تھی.اولیاء اور ابدال جو خدا تعالیٰ کی راہ میں سر گرمی اور جوش دکھاتے ہیں اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ زنجبیلی جام پیتے رہتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعویٰ کیا تو غور کرو کس قدر مخالفت کا بازار گرم تھا.ایک طرف مشرک تھے دوسری طرف عیسائی بے حد جوش دکھا رہے تھے جنہوں نے ایک عاجز انسان کو خدا بنا رکھا تھا اور ایک طرف یہودی سیاہ دل تھے یہ بھی اندر ہی اندر ریشہ دوانیاں کرتے اور مخالفوں کو اکساتے اور ابھارتے تھے.غرض جس طرف دیکھو مخالف ہی مخالف نظر آتے تھے.قوم دشمن،

Page 220

پرائے دشمن، جدھر نظر اٹھاؤ دشمن ہی دشمن تھے.ایسی حالت اور صورت میں وہ زنجبیلی شربت ہی تھا جو آپ کو اپنے پیغام رسالت کی تبلیغ کے لیے آگے ہی آگے لیے جاتا تھا.کسی قسم کی مخالفت کا ڈر آپ کو باقی نہ رہا تھا.اس راہ میں مرنا سہل اور آسان معلوم ہوتا تھا.چنانچہ صحابہؓ اگر موت کو اس راہ میں آسان اور آرام دہ چیز سمجھ نہ لیتے تو کیوں جانیں دیتے.میں سچ کہتا ہوں کہ جب تک یہ شربت نہیں پیتا ایمان کا ٹھکانا نہیں.قصور میں ایک شخص قادر بخش تھا بڑا موحد کہلاتا تھا.گورنمنٹ کی اس وقت اس فرقہ پر ذرا نظر تھی.ڈپٹی کمشنر نے اس کو ذرا دھمکایا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گھر آکر اس نے رنڈیوں کا ناچ کرا دیا اور اپنے تمام طریق بدل دیئے اس غرض سے کہ تا ظاہر ہو جاوے کہ میں اس فرقہ سے الگ ہوں.اب بتاؤ کہ ایسا ایمان کیا کام دے سکتا ہے؟ وہ انسان بھی کچھ انسان ہوتا ہے جو خدا سے انسان کو مقدم کر لیتا ہے.میں یقیناً کہتا ہوں کہ اس کا ایمان ایک کوڑی قیمت نہیں رکھتا.یہی وجہ ہے جو ایمان کے برکات اور ثمرات نہیں ملتے.عام لوگوں اور اہل اللہ کی عبادات میں فرق بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز روزہ کی وجہ سے برکات حاصل نہیں ہوتے.وہ غلط کہتے ہیں.نماز روزہ کے برکات اور ثمرات ملتے ہیں اور اسی دنیا میں ملتے ہیں.لیکن نماز روزہ اور دوسری عبادات کو اس مقام اور جگہ تک پہنچانا چاہیے جہاں وہ برکات دیتے ہیں.صحابہؓ کا سارنگ پیدا کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اور سچی اتباع کرو.پھر معلوم ہوگا کہ کیا کیا برکات ملتے ہیں.میں صاف صاف کہتا ہوں کہ صحابہؓ میں ایسا ایمان تھا جو تم میں نہیں.انہوں نے خدا کے لیے اپنا فیصلہ کر لیا تھا.ایسے لوگ قبل از موت مر جاتے ہیں اور قبل اس کے کہ قربانی دیں وہ سمجھتے ہیں کہ دے چکے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںکہ کیا ابو بکر (رضی اللہ عنہ ) کا درجہ نماز، روزہ، صدقات اور خیرات کی وجہ سے ہے؟ نہیں بلکہ اس چیز کے ساتھ اس کا درجہ بڑھا ہے جو اس کے دل میں ہے.

Page 221

حقیقت میں وہی بات ہے جو ان اعمال کا بھی موجب اور باعث ہوتی ہے.جس قدر لوگ اہل اللہ گذرے ہیں ان کے مدارج نرے ان اعمال کی وجہ سے نہیں ہیں.ان اعمال میں اور بھی شریک ہیں.مسجدیں بھری پڑی ہیں.۱ ان لوگوں کی زندگی سفلی ہوتی ہے.یہ دنیا اور اس کی گندگیوں کو چھوڑ کر الگ نہیں ہوتے.ان کے اعمال میں زندگی کی روح نہیں ہوتی.لیکن جب انسان اس سفلی زندگی سے نکل آتا ہے تو اس کے اعمال میں اخلاص ہوتا ہے.وہ ہر قسم کی ناپاکیوں سے الگ ہوجاتا ہے.پھر اسے وہ قوت اور طاقت ملتی ہے کہ وہ شے اور امانت اللہ جس کو اٹھانا مشکل ہے وہ اٹھا لیتا ہے جس کی اطلاع فرشتوں کو بھی نہیں ہوتی.وہ بھی یہی نماز روزہ کرتے ہیں اور دنیا بھی یہی کرتی ہے.مگر ان کی نماز اور دنیا داروں کی نماز میں زمین اور آسمان کا فرق ہے.حضرت سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ بڑے مخلص اور شان کے لائق تھے.کیا ان کے عہد میں لوگ نماز روزہ نہ کرتے تھے؟ پھر ان کو سب پر سبقت اور فضیلت کیوں ہے؟ اس لیے کہ دوسروں میں وہ بات نہ تھی جو ان میں تھی.یہ ایک روح ہوتی ہے جب پیدا ہو جاتی ہے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدوں میں شامل کر لیتا ہے.لیکن وہ ملعونی زندگی خدا کو منظور نہیں جو نماز روزہ کی حالت اور صورت میں ریاکاری اور تصنع سے آدمی بنا لیتا ہے ایسے لوگوں میں زبان کی چالاکیاں اور منطق بڑھ جاتا ہے.خدا تعالیٰ کو لاف گزاف پسند نہیں وہ ناراض ہوجاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ نماز روزہ اور زکوٰۃ و صدقات کسی وقعت اور قدر کے لائق نہیں جن میں اخلاص نہ ہو بلکہ وہ لعنت ہیں یہ اسی وقت بابرکت ہوتے ہیں جب دل اور زبان میں پوری صلح ہو.خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی دھوکا نہیں دے سکتا.وہ دل کے نہاں در نہاں اسرار سے واقف ہے.انسان جو محدود العلم ہے اور جس کی نظر وسیع نہیں ہے دھوکا کھا سکتا ہے.ہمارے دوست سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب جو بڑے مخلص اور نیک آدمی ہیں.انہوں نے ایک مرتبہ ایک ہیرے کے متعلق دھوکہ کھایا.سیٹھ صاحب یہاں قادیان ہی میں میرے پاس موجود تھے.ایک شخص کابل کی ۱ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲،۳

Page 222

طرف کا رہنے والا چند ٹکڑے پتھر کے یہاں لایا اور ظاہر کیا کہ وہ ہیرے کے ٹکڑے ہیں.وہ پتھر بہت چمکیلے اور آبدار تھے.سیٹھ صاحب کو وہ پسند آگئے اور وہ ان کی قیمت میں پانسو روپیہ دینے کو طیار ہوگئے اور پچیس روپیہ یا کچھ کم و بیش ان کو دے بھی دیئے.پھر اتفاقاً مجھ سے مشورہ کیا کہ میں نے یہ سودا کیا ہے، آپ کی کیا رائے ہے.میں اگرچہ ان ہیروں کی شناخت اور اصلیت سے ناواقف تھا لیکن روحانی ہیرے جو دنیا میں کمیاب ہوتے ہیں یعنی پاک حالت کے اہل اللہ جن کے نام پر کئی جھوٹے پتھر یعنی مزوّر لوگ اپنی چمک دمک دکھا کر لوگوں کو تباہ کرتے ہیں.اس جوہر شناسی میں مجھے دخل تھا.اس لیے میں نے اس ہنر کو اس جگہ برتا اور سیٹھ صاحب کو کہا کہ جو کچھ آپ نے دیا ہے وہ تو واپس لینا مشکل ہے.لیکن میری رائے یہ ہے کہ پانسو روپیہ دینے سے پہلے کسی اچھے اور قابل جوہری کو یہ پتھر دکھلا لینے چاہئیں.اگر درحقیقت ہیرے ہوئے تو روپیہ دے دینا.چنانچہ وہ پتھر مدراس میں ایک جوہری کے شناخت کرنے کے لیے بھیجے گئے اور دریافت کیا گیا کہ ان کی کیا قیمت ہے.وہاں سے جواب آیا کہ یہ نرے پتھر ہیں ہیرے نہیں ہیں.اور اس طرح پر اس دھوکہ سے سیٹھ صاحب بچ گئے.غرض بات یہ ہے کہ جس طرح دنیوی امور میں دھوکے لگ جاتے ہیں.اسی طرح پر ان گدی نشینوں اور علماء کے دھوکے ہیں جو اس سلسلہ کی مخالفت میں مختلف قسم کی روکیں پیدا کرتے ہیں.بہت سے لوگ جو سادہ دل ہوتے ہیں اور ان کو پوری واقفیت اس سلسلہ کی نہیں ہوتی ان کو دھوکہ لگ جاتا ہے اور وہ ناراستی کے دوست ہو جاتے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہی ہو تو انسان روحانی طور پر جوہر شناس ہو جائیں.بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں جو اس جوہر کو شناخت کرتے ہیں.مجاہدہ اور دعا سے کام لیں بہرحال میرا مقصد اس سے یہ ہے کہ نرا بدیوں سے بچنا کوئی کمال نہیں.ہماری جماعت کو چاہیے کہ اسی پر بس نہ کرے.نہیں بلکہ انہیں دونوں کمال حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہیے.جس کے لیے مجاہدہ اور دعا سے کام لیں.یعنی بدیوں سے بچیں اور نیکیاں کریں.ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ خدا کو سادہ نہ سمجھ لے کہ وہ

Page 223

مکر و فریب میں آجائے گا.جو شخص سفلہ طبع ہو کر خدا تعالیٰ کو دھوکہ دینا چاہتا ہے اور نیکی اور راستبازی کی چادر کے نیچے فریب کرتا ہے.وہ یاد رکھے کہ خدا تعالیٰ اسے اور بھی رسوا کرے گا.فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا(البقرۃ:۱۱)ایسے ہی لوگوں کے لیے فرمایا ہے.سچے اخلاص کی نشانی نفاق اور ریاکاری کی زندگی لعنتی زندگی ہے.یہ چھپ نہیں سکتی.آخر ظاہر ہو کر رہتی ہے اور پھر سخت ذلیل کرتی ہے.خدا تعالیٰ کسی چیز کو چھپاتا نہیں، نہ نیکی کو نہ بدی کو.سچے نکو کار اپنی نیکیوں کو چھپاتے ہیں مگر خدا تعالیٰ انہیں ظاہر کر دیتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب حکم ہوا کہ تو پیغمبر ہو کر فرعون کے پاس جا تو انہوں نے عذر ہی کیا.اس میں سِر یہ تھا کہ جو لوگ خدا کے لیے پورا اخلاص رکھتے ہیں وہ نمود اور ریا سے بالکل پاک ہوتے ہیں.سچے اخلاص کی یہی نشانی ہے کہ کبھی خیال نہ آوے کہ دنیا ہمیں کیا کہتی ہے.جوشخص اپنے دل میں اس امر کا ذرا بھی شائبہ رکھتا ہے وہ بھی شرک کرتا ہے.سچا مخلص اس امر کی پروا ہی نہیں کرتا کہ دنیا اسے نیک کہتی ہے یابد.میں نے تذکرۃ الاولیاء میں دیکھا ہے کہ ایک نیک آدمی جب چھپ کر مناجات کرتا ہے تو اس کی عجیب حالت ہوتی ہے.وہ اپنے ان تعلقات کو جو خدا تعالیٰ سے رکھتا ہے کبھی ظاہر کرنا نہیں چاہتا.اگر اس مناجات کے وقت اتفاق سے کوئی آدمی آجاوے تو وہ ایسا شرمندہ ہوتا ہے جیسے کوئی زناکار عین حالت زنا میں پکڑا جاوے.یہ بالکل سچی بات ہے کہ ہر نیک آدمی جس کے دل میں اخلاص بھرا ہوا ہے.وہ طبعاً اپنے آپ کو پردہ میں رکھنا چاہتا ہے.ایسا کہ کوئی پاکدامن عورت بھی ایسا نہیں رکھتی.یہ امر ان کی فطرت ہی میں ہوتا ہے.انبیاء و رسل کی خلوت پسندی یہ مت سمجھو کہ انبیاء و رسل اپنے مبعوث ہونے کے لیے درخواست کرتے ہیں.ہرگز نہیں.وہ تو ایسی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں کہ بالکل گمنام رہیں اور کوئی ان کو نہ جانے.مگر خدا تعالیٰ زور سے ان کو ان کے حجروں سے باہر نکالتا ہے.ہر ایک نبی کی زندگی ایسی ہی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا سے

Page 224

پوشیدہ رہنا چاہتے تھے.یہی وجہ تھی جو وہ غارِ حرا میں چھپ کر رہتے اور عبادت کرتے رہتے.ان کو کبھی وہم بھی نہ آتا تھا کہ وہ وہاں سے نکل کر کہیں يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا(الاعراف:۱۵۹) آپ کا منشا یہی تھا کہ پوشیدہ زندگی بسر کریں.مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہ چاہا اور آپ کو مبعوث فرما کر باہر نکالا.اور یہ عادت اللہ ہے کہ جو کچھ بننے کی آرزو کرتے ہیں وہ محروم رہتے ہیں اور جو چھپنا چاہتے ہیں ان کو باہر نکالتا اور سب کچھ بنا دیتا ہے.پس یقیناً سمجھو کہ میں بھی تنہائی کی زندگی کو پسند کرتا ہوں.وہ زمانہ جو مجھ پر گذرا ہے اس کا خیال کر کے مجھے اب بھی لذت آتی ہے.میں طبعاً خلوت پسند تھا مگر خدا تعالیٰ نے مجھے باہر نکالا.پھر اس حکم کو میں کیونکر رد کر سکتا تھا؟ میں اس نمود اور نمائش کا ہمیشہ دشمن رہا.لیکن کیا کروں.جب اللہ تعالیٰ نے یہی پسند کیا تو میں اس میں راضی ہوں اور اس کے حکم سے منحرف ہونا کبھی پسند نہیں کر سکتا.اس پر دنیا کے جو جی میں آئے کہے میں اس کی پروا نہیں کرتا.سچے موحد یہ خوب سمجھ رکھو کہ سچے موحد وہی ہیںجو ذرہ بھر نیکی ظاہر نہیںکرتے اور نہ سچائی کے قبول کرنے میں دنیا سے ڈرتے ہیں.اگر دنیا ان کے کسی فعل سے بدکتی ہے تو انہیں پروا نہیں ہوتی.بعض کہتے ہیں کہ صحابہؓ جس قدر مجاہدہ کرتے تھے یا روزہ رکھتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ثابت نہیں.صحابہؓ میں سے بعض بعض قریب قریب رہبانیت کی زندگی کے پہنچ جاتے.اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے (معاذ اللہ) بڑھے ہوئے تھے.بلکہ اصل بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اللہ تعالیٰ نے جبر اور اکراہ سے باہر نکالا تھا.آپ کی وہ عادت جو اخفا کی تھی دور نہ ہوئی تھی.کسی کو کیا معلوم ہے کہ آپ پوشیدہ طور پر کس قدر مجاہدات اور عبادات میں مصروف رہتے تھے.ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی میرے گھرمیں باری تھی.رات کو جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں.میں بہت حیران ہوئی اور آپ کو تلاش کیا.جب کہیںپتہ نہ لگا تو آپ کو ایک قبرستان میں پایا کہ نہایت الحاح کے ساتھ مناجات کر رہے تھے کہ اے میرے خدا!

Page 225

میری روح، میری جان، میری ہڈیوں، میرے بال بال نے تجھے سجدہ کیا.اب اگر عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس معاملہ کی خبر نہ ہوتی تو کس کو معلوم ہوتا کہ آپ اپنے رب کے ساتھ کیا معاملہ کر رہے ہیں.اسی طرح آپ کے مجاہدات اور عبادات کا حال تھا.چونکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی عادت میں رکھ دیتا ہے کہ وہ اخفا کرتے ہیں اس لیے دنیا کو پورے حالات کی خبر بھی نہیں ہوتی.وہ دنیا کے لیے تو کچھ کرتے ہی نہیں.جس سے معاملہ اور تعلق ہوتا ہے وہ ہر جگہ جانتا ہے اور دیکھتا ہے.سِرًّا وَّ عَلَانِيَةً نیکیاں کرنے کا حکم پس مومنوں کو بھی دو ہی قسم کی زندگی بسر کرنے کا حکم ہے سِرًّا وَّ عَلَانِيَةً (ابراہیم:۳۲).بعض نیکیاں ایسی ہیں کہ وہ علانیہ کی جاویں اور اس سے غرض یہ ہے کہ تا اس کی وجہ سے دوسروں کو بھی تحریک ہو اور وہ بھی کریں.جماعت نماز علانیہ ہی ہے اور اس سے غرض یہی ہے کہ تا دوسروں کو بھی تحریک ہو اور وہ بھی پڑھیں.اور سِرًّا اس لیے کہ یہ مخلصین کی نشانی ہے جیسے تہجد کی نماز ہے.یہاں تک بھی سِرًّا نیکی کرنے والے ہوتے ہیںکہ ایک ہاتھ سے خیرات کرے اور دوسرے کو علم نہ ہو.اس سے بڑھ کر اخلاص مند ملنا مشکل ہے.انسان میں یہ بھی ایک مرض ہے کہ وہ جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ لوگ بھی اسے سمجھیں مگر میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ میری جماعت میں ایسے بھی لوگ ہیں جو بہت کچھ خرچ کرتے ہیں مگر اپنا نام تک ظاہر نہیں کرتے.بعض آدمیوں نے مجھے کئی مرتبہ پارسل بھیجا ہے اور جب اسے کھولا ہے تو اندر سے سونے کا ٹکڑا نکلا ہے یا کوئی انگشتری نکلی ہے اور بھیجنے والے کا کوئی پتہ ہی نہیں.کسی انسان کے اندر اس مرتبہ اور مقام کا پیدا ہونا چھوٹی سی بات نہیں اور نہ ہر شخص کو یہ مقام میسر آتا ہے.یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان کامل طور پر اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کے صفات پر ایمان لاتا ہے اور اس کے ساتھ اسے ایک صافی تعلق پیدا ہوتا ہے.دنیا اور اس کی چیزیں اس کی نظر میں فنا ہوجاتی ہیں اور اہل دنیا کی تعریف یا مذمت کا اسے کوئی خیال ہی پیدا نہیں ہوتا.اس مقام پر جب انسان پہنچتا ہے تو وہ فنا کو زیادہ پسند کرتا ہے اور

Page 226

تنہائی اور تخلیہ کو عزیز رکھتا ہے.۱ غرض بدیوں کے ترک پر اس قدر ناز نہ کرو.جب تک نیکیوں کو پورے طور پر ادا نہ کرو گے اور نیکیاں بھی ایسی نیکیاں جن میں ریا کی ملونی نہ ہو اس وقت تک سلوک کی منزل طے نہیں ہوتی.یہ بات یاد رکھو کہ ریا حسنات کو ایسے جلا دیتی ہے جیسے آگ خس و خاشاک کو.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس مرد سے بڑھ کر مردِ خدا نہ پاؤ گے جو نیکی کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی پر ظاہر نہ ہو.ایک بزرگ کی حکایت لکھی ہے کہ اسے کچھ ضرورت تھی.اس نے وعظ کہا اور دورانِ وعظ میں یہ بھی کہا کہ مجھے ایک دینی ضرورت پیش آگئی ہے.مگر اس کے واسطے روپیہ نہیں ہے.ایک بندہ خدا نے یہ سن کر دس ہزار روپیہ رکھ دیا.اس بزرگ نے اٹھ کر اس کی بڑی تعریف کی اور کہا کہ یہ شخص بڑا ثواب پائے گا.جب اس شخص نے ان باتوں کو سنا تو وہ اٹھ کر چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا اور کہا کہ یا حضرت مجھ سے اس روپیہ کے دینے میں بڑی غلطی ہوئی.وہ میرا مال نہ تھا بلکہ میری ماں کا مال ہے.اس لیے وہ واپس دے دو.اس بزرگ نے تو اسے روپیہ دے دیا مگر لوگوں نے بڑی لعن طعن کی اور کہا کہ یہ اس کی اپنی بد نیتی ہے.معلوم ہوتا ہے پہلے وعظ سن کر جوش میں آگیا اور روپیہ دے دیا اور اب اس روپیہ کی محبت نے مجبور کیا تو یہ عذر بنا لیا ہے.غرض وہ روپیہ لے کر چلا گیا اور لوگ اسے بُرا بھلا کہتے رہے اور وہ مجلس برخواست ہوئی.جب آدھی رات گذری تو وہی شخص روپیہ لئے ہوئے اس بزرگ کے گھر پہنچا اور آکر انہیں آواز دی.وہ سوئے ہوئے تھے انہیں جگایا اور وہی دس ہزار روپیہ رکھ دیا اور کہا حضرت میں نے یہ روپیہ اس وقت اس لیے نہیں دیا تھا کہ آپ میری تعریف کریں.میری نیت تو اور تھی.اب میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ مرنے تک اس کا ذکر نہ کریں.یہ سن کر وہ بزرگ رو پڑے.اس نے پوچھا کہ آپ روئے کیوں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے رونا اس لیے آیا ہے کہ تو نے ایسا اخفا کیا ہے کہ جب تک یہ لوگ رہیں گے تجھے لعن طعن کریں گے.غرض وہ چلا گیا اور آخر خدا تعالیٰ نے اس امر کو ظاہر کر دیا.۱ الحکم جلد ۱۰نمبر ۲۵ مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۶ءصفحہ ۳

Page 227

خوش قسمت ہے وہ انسان جو ریا سے بچے جو شخص خدا تعالیٰ سے پوشیدہ طور پر صلح کر لیتا ہے.خدا تعالیٰ اسے عزت دیتا ہے.یہ مت خیال کرو کہ جو کام تم چھپ کر خدا کے لیے کرو گے وہ مخفی رہے گا.ریا سے بڑھ کر نیکیوں کا دشمن کوئی نہیں.ریا کار کے دل میں کبھی ٹھنڈ نہیں پڑتی ہے.جب تک کہ پورا حصہ نہ لے لے.مگر ریا ہر مال کو جلا دیتی ہے اور کچھ بھی باقی نہیں رہتا.خوش قسمت وہ ہے انسان جو ریا سے بچے اور جو کام کرے وہ خدا کے لیے کرے.ریاکاروں کی حالت عجیب ہوتی ہے.خدا کے لیے جب خرچ کرنا ہو تو وہ کفایت شعاری سے کام لیتا ہے.لیکن جب ریا کا موقع ہو تو پھر ایک کی بجائے سو دیتا ہے اور دوسرے طور پر اسی مقصد کے لیے دو کا دینا کافی سمجھتا ہے.اس لیے اس مرض سے بچنے کی دعا کرتے رہو.جو لوگ اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سمیع اور بصیر ہے وہ ان باتوں کی پروا نہیں کرتے.انہیں اس بات کی غرض ہی نہیں ہوتی کہ کوئی ان کے دیئے ہوئے مال کا ذکر بھی کرے.دنیا مزرعہ آخرت ہے یعنی آخرت کی کھیتی ہے.جو کچھ بنانا ہے اسی دنیا میں بناؤ.جو شخص روحانی مال دولت اور جائیداد یہاں جمع کرے گا وہ خوشحال ہوگا.ورنہ یہاں سے خالی ہاتھ جانا ہوگا اور بڑے عذاب میں مبتلا ہونا پڑے گا.اس وقت نہ مال کام آئے گا نہ اولاد اور نہ دوسرے عزیز جن کے لیے دین کے پہلو کو چھوڑا تھا.خدا کو راضی کرنے کے یہی دن ہیں اب یاد رکھو وہی خدا جس نے تیرہ سو برس پہلے اس زمانہ کی خبر دی تھی وہی خبر دیتا ہے کہ زمانہ قریب آگیا ہے اور بڑے بڑے حوادث ظاہر ہوں گے.اگر ان نشانوں کا انتظار ہے اور ان کے بعد جوش پیدا ہوا تو اس کا ثواب ایسا نہ ہوگا جیسا آج ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس وقت اگر کوئی ایمان پیش کرے گا تو ذرہ برابر اس کی قدر نہ ہوگی کیونکہ اس وقت تو کافر سے کافر بھی سمجھ لے گا کہ دنیا فانی ہے.

Page 228

میں نے سنا ہے کہ طاعون کے زور کے دنوں میں ایک جگہ ایک بڑا متمول ہندو مر گیا.مرتے وقت اس نے اپنے مال و دولت کی کنجیاں اپنے بھائی کو دیں وہ بھی مر گیا.اور اس طرح پر ان کا سارا خاندان تباہ ہوگیا اور آخری شخص نے مرتے وقت وہاں کے ایک زمیندار کو کنجیاں پیش کیں اس نے انکار کر دیا کہ میں کیا کروں گا.بالآخر وہ مال داخل خزانہ سرکار ہوا.یہ سچی بات ہے کہ جب خوف کے دن آتے ہیں تو بڑے بڑے پاجی اور خبیث لوگ بھی صدقات اور خیرات کی طرف مائل ہوجاتے ہیں.اس وقت یہ باتیں کام نہیں آتی ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ کا غضب بھڑک چکا ہوتا ہے.لیکن جو شخص عذاب کے آنے سے پہلے خدا تعالیٰ سے ڈرتا اور اس سے صلح کرتا ہے وہ بچا لیا جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے یہی دن ہیں.میں بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جس قدر اپنی ہستی کا ثبوت مجھے دیا ہے میرے پاس الفاظ نہیں جن میں میں اسے ظاہر کر سکوں.وہی خدا ہے جس نے براہین کے زمانہ میں ان تمام امور کی جو آج تم دیکھ رہے ہو خبر دی.ان ہندوؤں سے جو ہمارے جدّی دشمن ہیں پوچھ لو کہ اس زمانہ میں اس جلوہ قدرت کا کہاں نشان تھا پھر جب وہ ساری باتیں پوری ہوچکی ہیں.پھر جو باتیں آج وہ بتاتا ہے وہ کیونکر پوری نہ ہوں گی؟ اس خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ عنقریب خطرناک وقت آنے والا ہے.زلازل آئیں گے اور موتوں کے دروازے کھل جاویں گے.پس اس سے پہلے کہ وہ خطرناک گھڑی آجاوے اور موت اپنا منہ کھول کر حملہ شروع کر دے تم نیکی کرو اور خدا تعالیٰ کو خوش کر لو.کسوف و خسوف والی حدیث کی صداقت میں یہ بھی تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس زمانہ کی تمام نبیوں نے خبر دی ہے.یہ آخری ہزار کا زمانہ آگیا ہے اور دیکھو یہ وہ وقت ہے جس کے لیے گیارہ سو برس پہلے کی کتابوں میں لکھا تھا کہ مہدی کے وقت رمضان میں کسوف خسوف ہوگا اور آدم سے لے کر اس وقت تک کبھی یہ نشان ظاہر نہیں ہوا.وہ نشان تم نے دیکھ لیا.پھر یہ کیسی قابل غور بات ہے.بعض جاہل

Page 229

اعتراض کرتے اور بہانہ بناتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے.احمق اتنا نہیں جانتے کہ جس حدیث نے اپنے آپ کو سچا کر دیا ہے وہ کیسے جھوٹ ہو سکتی ہے.محدثین کے اصول پر سچی اور صحیح حدیث تو وہی ہے جو اپنی سچائی آپ ظاہر کر دے.اگر یہ حدیث ضعیف ہوتی تو پھر پوری کیوں ہوتی؟ دو مرتبہ کسوف خسوف ہوا.اس ملک میں بھی اور امریکہ میں بھی.اگر یہ حدیث ضعیف ہے تو پھر اس کی مثال پیش کریں کہ کسی اور کے زمانہ میں بھی ہوا ہو؟ یہ حدیث اہلِ سنّت اور شیعہ دونوں کےہاں کتابوں میں موجود ہے.پھر اس سے انکار کیونکر کیا جاسکتا ہے.یہ آسمان کا نشان تھا.زمین کا نشان طاعون اور زمین کا نشان وہ ہے جو طاعون کی صورت میں نمودار ہوا قرآن شریف میں آیا ہے وَ اِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا(بنی اسـرآءیل:۵۹) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب قیامت قریب آجائے گی تو عام طور پر موت کا دروازہ کھولا جاوے گا اور یہ حدیث کسوف خسوف کی قرآن شریف سے بھی صحیح ثابت ہوچکی ہے.طاعون کے متعلق شیعہ کی کتابوں میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ ایسی طاعون ہوگی کہ جہاں دس آدمی ہوں گے ان میں سے سات مر جاویں گے.اور حقیقت میں یہ ایسی بلا ہے کہ خاندانوں کے خاندان اس سے مٹ گئے اور بے نام و نشان ہوگئے.کون جانتا ہے کل کیا ہوگا؟ اس قدر سردی کی شدت میں طاعون ترقی کر رہی ہے.امرت سر میں زور شور ہے.ایسی حالت میں کوئی کیا امید کر سکتا ہے.جبکہ موت کا بازار گرم ہے تو کیا املاک اور جائیدادیں سر پر اٹھا کر لے جاؤگے؟ ہرگز نہیں.پھر اگر ان نشانات کو دیکھ کر بھی تبدیلی نہیں کرتے تو کیونکر کہہ سکتے ہو کہ خدا پر ایمان ہے.اسلام کی ترقی کے لئے اپنے مالوں کو خرچ کرو ہم اپنے نفس کے لیے کچھ نہیں چاہتے.بارہا یہ خیال کیا ہے کہ

Page 230

اپنے گذارہ کے لیے تو پانچ سات روپیہ ماہوار کافی ہیں اور جائیداد اس سے زیادہ ہے.پھر میں جو بار بار تاکید کرتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ کرو.یہ خدا کے حکم سے ہے کیونکہ اسلام اس وقت تنزل کی حالت میں ہے.بیرونی اور اندرونی کمزوریوں کو دیکھ کر طبیعت بے قرار ہوجاتی ہے.اور اسلام دوسرے مخالف مذاہب کا شکار بن رہا ہے.پہلے تو صرف عیسائیوں ہی کا شکار ہو رہا تھا.مگر اب آریوں نے اس پر دانت تیز کیے ہیں اور وہ بھی چاہتے ہیںکہ اسلام کا نام و نشان مٹا دیں.جب یہ حالت ہوگئی ہے تو کیا اب اسلام کی ترقی کے لیے ہم قدم نہ اٹھائیں؟ خدا تعالیٰ نے اسی غرض کے لیے توا س سلسلہ کو قائم کیا ہے.پس اس کی ترقی کے لیے سعی کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور منشا کی تعمیل ہے.اس لیے اس راہ میں جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ سمیع و بصیر ہے.یہ وعدے بھی اس اللہ کی طرف سے ہیں کہ جو شخص خدا کے لیے دے گا میں اس کو چند گنا برکت دوں گا.دنیا ہی میں اسے بہت کچھ ملے گا اور مرنے کے بعد آخرت کی جزا بھی دیکھ لے گا کہ کس قدر آرام میسر آتا ہے.غرض اس وقت میں اس امر کی طرف تم سب کو توجہ دلاتا ہوں کہ اسلام کی ترقی کے لیے اپنے مالوں کو خرچ کرو.اسی مطلب کے لیے یہ گفتگو ہے.اس وقت جیسا کہ میں شائع کر چکا ہوں اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ تیری وفات کا وقت قریب ہے جیسا کہ اس نے فرمایا قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ.وَلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا.اس وحی سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا ذکر باقی نہ رہنے دے گا جو کسی قسم کی نکتہ چینی اور خزی کا باعث ہو.انبیاء و رسل پر اعتراضات دشمن بد اندیش اورمریض قلب والوں کے لیے بہت سی باتیں ہوتی ہیں اور انبیاء و رسل کی تو قسمت ہی میں اعتراض ہوتے ہیں.دیکھو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کس قدر اعتراض ہوئے اور اب تک کیے جاتے ہیں.کیا کسی معمولی زندگی کے انسان پر بھی کئے جاتے ہیں؟ کبھی نہیں.صدہا انسان ایسے ہوں گے جو معمولی زندگی کے انسان کی تعریف کریں گے.مگر جب انبیاء و رسل کا ذکر آئے گا تو وہاں اعتراض کے لیے زبان کھولیں گے.بات کیا ہے کہ انبیاء و رسل پر اس قدر اعتراض ہوئے ہیں؟ اصل یہ ہے

Page 231

کہ جیسے دولت پر سانپ ہوتا ہے تاکہ نا محرم پاس نہ جاوے.اسی طرح پر انبیاء و رسل بھی ایک بے نظیر دولت ہوتے ہیں خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ سعید اور رشید ہی ان تک پہنچیں.اس لیے ان پر قسم قسم کے اعتراض ہوتے ہیں تاکہ وہ لوگ جو اہل نہیں ہیں دور رہیں.ورنہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ نہ جہاد کرتے، نہ بیویاں کرتے، نہ اعتراض ہوتے.مگر وہ نبی جس کی تعلیم اَتم اور اکمل تھی اس کے لیے خدا نے نہ چاہاکہ اسے نا اہل قبول کریں.اس لیے چند باتیں ایسی رکھ دیں جو نظر بد دور کا کام دیتی ہیں اور ان پر اعتراض ہوا اور نا اہل الگ رہے مگر جو لوگ اہل تھے انہوں نے حقیقت کو پالیا.دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک نکتہ چین اور معترض یہ ہمیشہ محروم رہتے ہیں.دوسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت اور نبی کے صدق و وفا کو دیکھتے ہیں.وہ اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور پھر خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے عجائبات مشاہدہ کرتے ہیں.وہ اس کے حالات سے خبر پاتے ہیں اور انہیں حاجت نہیں ہوتی کہ کچھ اور دیکھیں.بد بخت نااہل وہ باتیں دیکھتے ہیں جن سے شقاوت بڑھے.میں نے تذکرۃ الاولیاء میں ایک لطیفہ دیکھا کہ ایک شخص ایک بزرگ کی نسبت بدگمانی رکھتا تھا کہ یہ مکار ہے اور فاسق ہے.ایک دن ان کے پاس آیا اور کہا کہ حضرت کوئی کرامت تو دکھاؤ.فرمایا میری کرامت تو ظاہر ہے.باوجودیکہ تم تمام دنیا کے معاصی مجھ میں بتاتے ہو مگر پھر دیکھتے ہو کہ خدا تعالیٰ مجھے غرق نہیں کرتا.لوط کی بستی تباہ ہوئی.عاد و ثمود وغیرہ تباہ ہوئے.مگر مجھ پر غضب نہیں آتا.کیا یہ تیرے لیے کرامت نہیں ہے؟ بات بڑی لطیف ہے.یعنی عیوب پیدا کرنے والے لوگوں کو یہ بھی تو چاہیے کہ وہ دیکھیں کہ وہ شخص جو منجانب اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جس پر اس قدر اعتراض اور نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں.وہ جو ہلاک نہیں ہوتا کیا خدا بھی اس سے دھوکہ میں ہی رہا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ثبوت عیسائیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حقیقت سمجھی کہ معاذ اللہ آپ افترا کرتے تھے مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو وہ نصرت دی اور وہ فضیلت دی کہ آدم سے اخیر تک کسی کو وہ

Page 232

کامیابی کبھی نصیب نہ ہوئی.بلکہ آپ کے متعلق ایک ایسا نکتہ ہے جو آپ کی عظمت کو اور بھی بڑھا دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ ایسے وقت تشریف لائے جبکہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ (الروم:۴۲) کا وقت تھا یعنی اہل کتاب بھی بگڑ چکے تھے اور غیر اہل کتاب بھی بگڑے ہوئے تھے.اور یہ بات مخالفوں کی تصدیق سے بھی ثابت ہے.پنڈت دیانند صاحب کہتے ہیں کہ آریہ ورت میں بُت پرستی ہو رہی تھی اور اس طرف عرب میں بھی تاریکی پھیلی ہوئی تھی.عیسائیوں کے مذہب کا خاصہ یہ رہ گیا تھا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا تھا.غرض جس طرف دیکھو ایک تاریکی چھائی ہوئی تھی اور خدا تعالیٰ سے بالکل غفلت اور لاپروائی ہو چکی تھی اور وہ وقت پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ ایک عظیم الشان مصلح کی ضرورت ہے اور یہ مسلّم بات ہے کہ ضرورت علوم کی ماں ہوتی ہے.ہر قسم کا علم ضرورت سے پیدا ہوا ہے.طب، طبعی، ہیئت، جغرافیہ وغیرہ تمام علوم کی ماں ضرورت ہی ہے.پس اگر سمجھ دار ہو تو سمجھ لے کہ اس دقیقہ معرفت۱ کی ماں بھی کوئی عظیم الشان ضرورت ہے.بہت سے صحابہؓ آپ پر ایمان لائے یہ دیکھ کر کہ آپ ایسے وقت آئے ہیں جو سخت ضرورت کا وقت ہے.اگر آپ نہ آتے تو شاید نوح کی طرح ایک طوفان آکر دنیاکو ہلاک کر دیتا.میں یقیناً جانتا ہوں اور دعویٰ سے کہتا ہوں کہ آپ کے لیے ایسا اجلٰی اور اصفٰی نظارہ ضرورتوں کا ہے کہ کسی دوسرے کے لیے وہ میسر نہیں اور حضرت عیسیٰ کے لیے تو کچھ بھی نظر نہیں آتا.فقیہ اور فریسی موجود تھے جو موسیٰ علیہ السلام کی گدی پر بیٹھتے تھے.اس لیے انہوں نے کسی نئی شریعت کا دعویٰ ہی نہیں کیا اور پھر جبکہ یہودیوں کے اس قدر گروہ موجود تھے تو نہیں کہہ سکتے کہ سب منحرف تھے.بعض عامل بھی تھے اور وحی اور الہام کا بھی دعویٰ کرتے تھے کیا ان میں کوئی ایسا تھا جو انسان کو خدا بناتا ہو؟ وہ تو موجودہ عیسائی مذہب سے بھی اچھے تھے.موحد تھے.میں نے زین الدین ابراہیم کی معرفت بمبئی میں ایک یہودی عالم سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے کہیں یہ بھی لکھا ہے کہ انسان خدا ہوگا.اس نے قسماً کہا کہ ہرگز نہیں.ہم تو اسی خدا کومانتے ہیں جو قرآن میں بیان ہوا ہے.ہم انسان کو خدا کہنا کفر سمجھتے ہیں جو تمام لوازمِ ضعف، ناتوانی، بیماری کے رکھتا ہے.یہ لعنتی مذہب ہے جو انسان کو خدا بناتا ہے.۱ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت(ایڈیٹر الحکم)

Page 233

غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی ضرورت ایسی واضح اور روشن ہے کہ کسی دوسرے نبی کا زمانہ ایسی نظیر نہیں رکھتا.اب دوسرا حصہ دیکھو کہ آپ فوت نہیں ہوئے جب تک اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المائدۃ: ۴) کی آواز نہیں سن لی.اور اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا(النصـر:۲،۳) کا نظارہ آپ نے نہیں دیکھ لیا.یہ آیت نہ توریت میں ہے نہ انجیل میں.توریت کا تو یہ حال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام راستہ ہی میں فوت ہوگئے اور قوم کو وعدہ کی سر زمین میں داخل نہ کر سکے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود کہتے ہیں کہ بہت ہی باتیں بیان کرنے کی تھیں.کیا قرآن شریف میں بھی ایسا لکھا ہے؟ وہاں تو اَكْمَلْتُ لَكُمْ ہے.رہی ان کی تکمیل.صحابہؓ کی جو تکمیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی وہ اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ان کی نسبت فرماتا ہے مِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ الآیۃ.(الاحزاب:۲۴) اور پھر ان کی نسبت رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ(البیّنۃ:۹) فرمایا.لیکن انجیل میں مسیح کے حواریوں کی جو تعریف کی گئی ہے وہ سب کو معلوم ہے کہ جا بجا ان کو لالچی اور کم ایمان کہا گیا ہے اور عملی رنگ ان کا یہ ہے کہ ان میں سے ایک نے تیس روپیہ لے کر پکڑوا دیا.اور پھر ایک نے سامنے لعنت کی.انصاف کر کے کہو کہ یہ کیسی تکمیل ہے.اس کے بالمقابل قرآن شریف صحابہؓ کی تعریف سے بھرا پڑا ہے.اور ان کی ایسی تکمیل ہوئی کہ دوسری کوئی قوم ان کی نظیر نہیں رکھتی.پھر ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے جزا بھی بڑی دی.یہاں تک کہ اگر باہم کوئی رنجش بھی ہوگئی تو اس کے لیے فرمایا وَ نَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ الآیۃ (الـحجر:۴۸) حضرت عیسیٰ نے بھی حواریوں کو تختوں کا وعدہ دیا تھا مگر وہ ٹوٹ گیا.کیونکہ بارہ تختوں کا وعدہ تھا مگر یہودا اسکریوطی کا ٹوٹ گیا جب وہ قائم نہ رہا تو اوروں کا کیا بھروسہ کریں.مگر صحابہؓ کے تخت قائم رہے.دنیا میں بھی رہے اور آخرت میں بھی.غرض یہ آیت اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ مسلمانوں کے لیے کیسے فخر کی بات ہے.لیلۃ القدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا زمانہ اب ان باتوں کو ملا کر غور کرو کہ آپ آئے

Page 234

ایسے وقت جبکہ بالکل تاریکی چھائی ہوئی تھی.جیسا کہ فرمایا اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ (القدر:۲) ایک لیلۃ القدر تو وہ ہے جو پچھلے حصہ رات میں ہوتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ تجلی فرماتا ہے اور ہاتھ پھیلاتا ہے کہ کوئی دعا کرنے والا اور استغفار کرنے والا ہے جو میں اس کو قبول کروں لیکن ایک معنے اس کے اور ہیں جس سے بد قسمتی سے علماء مخالف اور منکر ہیں.اور وہ یہ ہیں کہ ہم نے قرآن کو ایسی رات میں اتارا ہے کہ تاریک و تار تھی اور وہ ایک مستعد مصلح کی خواہاں تھی.خدا تعالیٰ نے انسان کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے جبکہ اس نے فرمایا مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ(الذاریٰت:۵۷) پھر جب انسان کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے.یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ تاریکی ہی میں پڑا رہے.ایسے زمانے میں بالطبع اس کی ذات جوش مارتی ہے کہ کوئی مصلح پیدا ہو.پس اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ اس زمانہ ضرورت بعثت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور دلیل ہے اور انجام اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ میں فرما دیا.گویا یہ باب نبوت کی دوسری فصل ہے.اکمال سے یہی مطلب نہیں کہ سورتیں اتار دیں بلکہ تکمیل نفس اور تطہیر قلب کی.وحشیوں سے انسان پھر اس کے بعد عقلمند اور بااخلاق انسان اور پھر با خدا انسان بنا دیا اور تطہیرِ نفس، تکمیل اور تہذیب نفس کے مدارج طے کرا دیئے.اور اسی طرح پر کتاب اللہ کو بھی پورا اور کامل کر دیا.یہاں تک کہ کوئی سچائی اور صداقت نہیں جو قرآن شریف میں نہ ہو.میں نے اگنی ہوتری کو بارہا کہا کہ کوئی ایسی سچائی بتاؤ جو قرآن شریف میں نہ ہو مگر وہ نہ بتا سکا.ایسا ہی ایک زمانہ مجھ پر گذرا ہے کہ میں نے بائبل کو سامنے رکھ کر دیکھا.جن باتوں پر عیسائی ناز کرتے ہیں وہ تمام سچائیاں مستقل طور پر اور نہایت ہی اکمل طور پر قرآن مجید میں موجود ہیں.مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں کو اس طرف توجہ نہیں.وہ قرآن شریف پر تدبّر ہی نہیں کرتے اور نہ ان کے دل میں کچھ عظمت ہے.ورنہ یہ تو ایسا فخر کا مقام ہے کہ اس کی نظیر دوسروں میں ہے ہی نہیں.تکمیل دین کا مبارک دن غرض اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ (المائدۃ: ۴) کی آیت دو پہلو رکھتی ہے.ایک یہ کہ تمہاری تطہیر کرچکا.دوئم کتاب مکمل کرچکا.کہتے ہیں جب یہ آیت اتری وہ جمعہ کا دن تھا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کسی یہودی نے کہا کہ اس

Page 235

آیت کے نزول کے دن عید کر لیتے.حضرت عمر نے کہا کہ جمعہ عید ہی ہے.مگر بہت سے لوگ اس عید سے بے خبر ہیں.دوسری عیدوں کو کپڑے بدلتے ہیں.لیکن اس عید کی پروا نہیں کرتے اور میلے کچیلے کپڑوں کے ساتھ آتے ہیں.میرے نزدیک یہ عید دوسری عیدوں سے افضل ہے.اسی عید کے لیے سورہ جمعہ ہے اور اسی کے لیے قصر نماز ہے.اور جمعہ وہ ہے جس میں عصر کے وقت آدم پیدا ہوئے.اور یہ عید اس زمانہ پر بھی دلالت کرتی ہے کہ پہلا انسان اس عید کو پیدا ہوا.قرآن شریف کا خاتمہ اس پر ہوا.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فراست کہتے ہیں جب یہ آیت اتری تو ابوبکررضی اللہ عنہ رو پڑے.کسی نے کہا اے بڈھے! کیوں روتا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ اس آیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی بو آتی ہے.کیونکہ یہ مقرر شدہ بات ہے کہ جب کام ہوچکتا ہے تو اس کا پورا ہونا ہی وفات پر دلالت کرتا ہے.جیسے دنیا میں بندو بست ہوتےہیں اور جب وہ ختم ہوجاتا ہے تو عملہ وہاں سے رخصت ہوتا ہے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر والا قصہ سنا تو فرمایا سب سے زیادہ سمجھ دار ابوبکر ہے اور یہ فرمایا کہ اگر دنیا میں کسی کو دوست رکھتا تو ابوبکر کو رکھتا اور فرمایا ابوبکر کی کھڑکی مسجد میں کھلی رہے باقی سب بند کر دو.کوئی پوچھے کہ اس میں مناسبت کیا ہوئی؟ تو یاد رکھو کہ مسجد خانہ خدا ہے جو سر چشمہ ہے تمام حقائق معارف کا.اس لیے فرمایا کہ ابو بکر کی اندرونی کھڑکی اس طرف ہے تو اس کے لیے یہ بھی کھڑکی رکھی جاوے.یہ بات نہیں کہ اور صحابہ محروم تھے.نہیں بلکہ ابوبکر کی فضیلت وہ ذاتی فراست تھی جس نے ابتدا میں بھی اپنا نمونہ دکھایا اور انتہا میں بھی.گویا حضرت ابوبکر کا وجود مجموعۃالفراستین تھا.تم اس وصیت کی تکمیل میں میرا ہاتھ بٹاؤ اب میں پھر یہ ذکر کر کے اس کو ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نےجہاں میری وفات کی خبر دی ہے یہ بھی فرمایا ہے لَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا.جو مامور ہو کر آتا ہے بڑا

Page 236

اعتراض عقلمندوں کا یہ ہوتا ہے کہ وہ مرگیا کام کیاکیا؟ یہ مہذب لوگ کہتےہیں کہ اتنا بڑا دعویٰ کیا تھا کہ کسر صلیب ہوگا اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا.مگر اب خامی کی حالت میں چلے گئے.اس میں اللہ تعالیٰ پیشگوئی فرماتا ہےلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا.اور سچے آدمی کو غم بھی یہی ہوتا ہے.جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ تیرے بوجھ کو جس نے تیری پیٹھ توڑ دی تھی اٹھا دیا.وہ یہی علّتِ غائی کا بوجھ ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے اس وحی میں بشارت دی ہے گویا اس کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے.اب سنو! جبکہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے تو یہ ہو کر رہے گا.تمہیں مفت کا ثواب ہے.پس تم اس وصیت کی تکمیل میں میرا ہاتھ بٹاؤ.وہ قادر خدا جس نے پیدا کیا ہے دنیا اور آخرت کی مرادیں دےدے گا.۱ دسمبر ۱۹۰۵ءکا آخری ہفتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک آریہ سے گفتگو ہر سال دسمبر کے آخری ہفتہ میں احمدی احباب مختلف شہروں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور قادیان میں ایک جلسہ کا رنگ ہوجاتا ہے.اسی واسطے آریوں نے بھی چند سالوں سے قادیان میں سالانہ جلسہ کرنے کی تجویز کی ہوئی ہے.پہلے تو جھوٹی خبریں اڑایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب کے ساتھ مباحثہ ہوگا اس واسطے دور ونزدیک کے آریہ تماش بینی کے واسطے آجاتے تھے.مگر اب بھی خصوصاً ایسے آریہ مہاشے لیکچرار جمع ہوجاتے ہیں کہ اسلام کو گالیاں دینے میں خاص مشق اور ملکہ رکھتے ہیں.اس واسطے آریوں کو خوش ہوجانے کا کچھ سامان مل ہی جاتا ہے.ان باہر سے آنے والے آریوں میں سے ہر سال کوئی نہ کوئی جماعت ایسی بھی ہوتی ہے جو حضرت مسیح کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتی ہے کہ ہم تو زیادہ تر آپ کے درشنوں کے واسطے آئے تھے اور ایسے لوگ عموماً نہایت ادب کے ساتھ بیٹھتے اور حضور کی باتیں سنتے ہیں.چنانچہ اس دفعہ بھی جلسہ آریہ کی چند جماعتیں متفرق اوقات میں ۱ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۷ مورخہ ۳۱؍جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ ۳تا۵

Page 237

حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتی رہیں.ایک دن ان میں سے ایک آریہ کے ساتھ حضرت کی کچھ گفتگو ہوئی جس کا اندراج دلچسپی سے خالی نہ ہوگا.آریہ صاحب سے گفتگو کرنے کے وقت درمیان میں ایک سکھ بول اٹھا اور اس نے چاہا کہ حضرت کے ساتھ کچھ گفتگو کرے مگر آپ نے نرمی کے ساتھ اس کو کہا کہ ہم تمہاری عزت کرتے ہیں اور تمہارے ساتھ ہمارا کوئی مباحثہ نہیں کیونکہ ہم باوا نانک کو ہندوؤں کے درمیان ایک اوتار اور بزرگ مانتے ہیں اور اس کو ایک پاک آدمی سمجھتے ہیں.پس جبکہ تمہارے مقصد کو ہم پہلے سے ہی مانتے ہیں تو تمہارے ساتھ مباحثہ کرنے کی ہمیں حاجت نہیں.اس کے بعد آپ آریہ کی طرف مخاطب ہوئے جس کا نام پورن چند تھا جو کہ ہوشیار پور کے رہنے والے ایک صاحب تھے.حضرت.آریوں میںجو لوگ بڑے بڑے لیکچر دیتے ہیں.اور قوم کی پست حالت کو ترقی دینا چاہتے ہیں ان کی علّت غائی کیا ہے؟ ہر ایک قوم اپنے لیے ایک انتہائی مقصد رکھتی ہے.سو وہ انتہائی مقصد تمہارے ریفارمروں کا کیا ہے؟ لیکن مصلحین کے مقاصد دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ ہوتے ہیں جو دنیوی امور کی طرف توجہ رکھتے ہیں.ایک وہ ہوتے ہیں جو دینی امور کی طرف توجہ رکھتے ہیں.میرا مطلب اس وقت دینی امور میں اصلاح کرنے والوں سے ہے کہ وہ اپنا انتہائی مقصد کیا رکھتے ہیں؟ آریہ.ہمارے نزدیک دین دنیا سے علیحدہ نہیں.دینی لوگ ہی دنیا کے کاموں کو اچھی طرح سمجھ سکتے اور عمدگی سے کر سکتے ہیں.اس واسطے ہم دونوں کی اصلاح کرتے ہیں.ہم دنیا داری کی اصلاح دین میں شامل رکھتے ہیں.حضرت.میں قبول کرتا ہوں کہ جس شخص کی دین میں آنکھ کھلتی ہے وہ دنیا کے معاملات میں بھی راستی اور دیانت اختیار کرتا ہے اور اس کے بغیر دنیا نہیں سنورتی.لیکن میرا مطلب اس جگہ صرف دین کے متعلق سوال کرنے اور دنیا کو علیحدہ رکھنے سے یہ ہے کہ دنیا کے واسطے ایک خاص عقل بھی ہوتی ہے.

Page 238

مثلاً راج کا کام میں نہیں جانتا میں اس کے کام پر کوئی اعتراض نہیں کرتا نہ اس کے کام کی اصلاح کرتا ہوں.اگر گورنمنٹ کو ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ ایسا آدمی ملازم رکھتی ہے جس نے اس فن میں بہت محنت اور کوشش کر کے ایک استعداد پیدا کی ہوئی ہوتی ہے.کیساہی کوئی دھرم آتما ہو اگر وہ سرکاری قانون سے آگاہ نہیں تو جج نہیں بن سکتا.اس طرح دنیوی اصلاحوں کی ایک علیحدہ شاخ ہے.جیسا کہ لوگ نئے نئے قسم کی ایجادیں کر کے پہلے سے بہتر گاڑیاں اور اوزار اور سامان بناتے ہیں یہ بھی ایک اصلاح ہے.ہاں نیک دل لوگ بھی اصلاح کے واسطے ہی آتے ہیں.لیکن دنیوی امور میں ان کا دخل ایک عام اتفاق تک ہوتا ہے کہ بد چلنی نکل جاوے اور لوگ تمام کام نیک نیتی سے پورے کریں.باقی علوم فنون دنیا دار ہی جانتے ہیں.دینی مصلح ایک عام اصلاح کرتا ہے جو رفاہِ عام کے متعلق ہو.آریہ.جیسا کہ تمام اشیاء قدرت نے ہم کو دی ہیں جو ہماری دوسری ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں.ایسا ہی گیان کے واسطے بھی قدرت نے ہم کو ایک شے دی ہے اور وہ وید ہیں.آریہ سماج کا یہ کام ہے کہ ویدوں کی تعلیم کو پھیلائیں.حضرت.وہ انتہائی نقطہ کون سا ہے جس کی طرف ویدوںکی تعلیم لے جاتی ہے.آریہ.جسم کی ترقی سماج کی ترقی اور روح کی ترقی.حضرت.روحانی ترقی کیا ہے؟ آریہ.موکش پانا (نجات حاصل کرنا).حضرت.یہ تو سب کا دعویٰ ہے.لیکن ایک ادعائی رنگ ہوتا ہے جو صرف خیالی رنگ اور وہم تک محدود ہوتا ہے کہ ہم نے یہ کام کر لیا ہے.لیکن اس میں ایک امتیازی رنگ ہونا چاہیے جس سے تمیز ہوجاوے کہ اس میں نجات ہے اور اس میں نہیں.خیر اس وقت ہم ویدوں کی تعلیم پر حملہ نہیں کرتے.فرض کرو وہ سب تعلیم عمدہ ہے.لیکن ممکن ہے کہ وہ کسی کی نقل ہو.مثلاً جاپان اس وقت ایک طاقت بن گئی ہے لیکن ان کی سب باتیں یورپ کی نقل ہیں.ایسا ہی پارسی کہتے ہیں کہ ژند اوستا

Page 239

ویدوں سے بھی پرانے ہیں اور ویدوں کی بعض باتیں اس سے ملتی بھی ہیں.اس لیے اب سوال یہ ہے کہ اگر ایک شخص وید کی باتوں پر عمل کرے.فلسفیانہ رنگ میں اس کو علم کی طرح حاصل کرے لیکن ویدوں کو الہامی کتاب نہ مانے اور نہ اس کے ساتھ کوئی تعلق رکھے تو کیا وہ موکش کو حاصل کر سکتا ہے؟ جیسا کہ دنیوی علوم و فنون کے واسطے ضروری نہیں ہوتا کہ استاد کس مذہب کا ہو.ایک ہندو استاد ہو یا عیسائی ہو یا دہریہ ہو.سب مدرسوں میں موجود ہوتے ہیں.آریہ.ہاں موکش کے واسطے وید کو الہامی ماننا ضروری نہیں.جو مثالیں آپ نے دی ہیں وہ درست ہیں اور جیسا کہ اقلیدس کی شکلیں ہیں ہر ایک اس کو سیکھ اور سکھا سکتا ہے.لیکن آریہ سماج ان شکلوں کو درست حالت میں رکھتی ہے باقیوں نے غلطیاں ملا دی ہیں.اگر وید پر اسلام عمل کرے تو وہ اچھا ہے بہ نسبت اس ہندو کے جو نہیں کرتا.حضرت.ہمارا سوال تو صرف اتنا ہے کہ اگر کوئی شخص وید کو خدا کا کلام نہیں مانتا مگر اس کی باتوں پر عمل کرتا ہے تو کیا وہ مکتی پائے گا یا نہیں؟ آریہ.بے شک مکتی پائے گا.۱ ۱۱؍جنوری ۱۹۰۶ء میّت کے واسطے دعا اور صدقات ۱۱؍جنوری کی صبح کو حضرت مسیح بمعہٗ خدام سیر کرنے کے واسطے باہر نکلے تو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی قبر پر تشریف لے گئے جہاں آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی.بعد دعا کے ایک شخص نے چند سوال کئے جو اس کالم میں درج کرنے کے لائق ہیں.سوال.قبر پر کھڑے ہو کر کیا پڑھنا چاہیے؟ جواب.میّت کے واسطے دعا کرنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ اس کے ان قصوروں اور گناہوں کو بخشے ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۳ مورخہ۱۹؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۶

Page 240

جو اس نے اس دنیا میں کئے تھے اور اس کے پس ماندگان کے واسطے بھی دعا کرنی چاہیے.سوال.دعا میں کون سی آیت پڑھنی چاہیے؟ جواب.یہ تکلفات ہیں.تم اپنی ہی زبان میں جس کو بخوبی جانتے ہو اور جس میں تم کو جوش پیدا ہوتا ہے میت کے واسطے دعا کرو.سوال.کیا میت کو صدقہ خیرات اور قرآن شریف کا پڑھنا پہنچ سکتا ہے؟ جواب.میت کو صدقہ خیرات جو اس کی خاطر دیا جاوے پہنچ جاتا ہے لیکن قرآن شریف کا پڑھ کر پہنچانا حضرت رسول کریمؐ اور صحابہؓ سے ثابت نہیں ہے.اس کی بجائے دعا ہے جو میت کے حق میں کرنی چاہیے.میت کے حق میں صدقہ خیرات اور دعا کا کرنا ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کی سنت سے ثابت ہے.لیکن صدقہ بھی وہ بہتر ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے دے جائے.کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسان اپنے ایمان پر مہر لگاتا ہے.۱ ۱۵؍جنوری ۱۹۰۶ء نبی کی وفات اور اللہ تعالیٰ کی قدرت نمائی ایک خادم جو باہر سے آیا تھا حضور کی خدمت میں اس الہام کا ذکر کر کے کہ آپ کی وفات کے دن قریب ہیں رو پڑا.فرمایا.یہ وقت تمام انبیاء کے متبعین کو دیکھنا پڑتا ہے اور اس میں ایک نشان خدا تعالیٰ دکھاتا ہے.نبی کی وفات کے بعد اس سلسلہ کو قائم رکھ کر اللہ تعالیٰ یہ دکھانا چاہتا ہے کہ یہ سلسلہ دراصل خدا ہی کی طرف سے ہے.بعض نادان لوگ نبی کے زمانہ میں کہا کرتے ہیں کہ یہ ایک ہوشیار اور چالاک آدمی ہے اور دوکاندار ہے.کسی اتفاق سے اس کی دوکان چل پڑی ہے.لیکن اس کے مرنے کے بعد یہ سب کاروبار تباہ ہو جاوے گا.تب اللہ تعالیٰ نبی کی وفات کے وقت ایک زبردست ہاتھ دکھاتا ہے ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۳ مورخہ ۱۹؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۶

Page 241

اور اس کے سلسلہ کو نئے سرے سے پھر قائم کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت بھی ایسا ہی ہوا تھا.بہت سے بادیہ نشین مرتد ہوگئے تھے.لوگوں نے سمجھا کہ یہ بے وقت موت ہے.صرف دو مسجدوں میں نماز پڑھی جاتی تھی باقی میں بند ہوگئی.تب خدا تعالیٰ نے ابو بکر کو اٹھایا اور تمام کاروبار اسی طرح جاری رہا.اگر انسان کا کاروبار ہوتا تو اس وقت ادھورا رہ جاتا.ایسا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد جو نمونہ ایک ناکامی اور تباہی اور پریشانی کا ان کی امت نے دیکھا تھا اس کی تو کوئی نظیر ہی موجود نہیں.اللہ تعالیٰ اپنی قدرت نمائی کا ایک نمونہ دکھانا چاہتا ہے کہ نبی کے زمانہ میں اس کے تمام کاموں کی تکمیل نہیں کرتا.سنت اللہ ہمیشہ اسی طرح سے جاری ہے کہ لوگوں کا خیال کسی اور طرف ہوتاہے اور خدا تعالیٰ کوئی اور بات کر دکھلاتا ہے جس سے بہتوں کے واسطے صورت ابتلا پیدا ہوجاتی ہے.آنحضرتؐکے متعلق تمام پہلوں کو بھی دھوکا رہا کہ وہ نبی بنی اسرائیل میں سے ہوگا.حضرت عیسیٰ کے متعلق الیاس کا دھوکا آج تک یہودیوں کو لگا ہوا ہے.لکھا ہے کہ ایک بزرگ جب فوت ہوئے تو انہوں نے کہا کہ جب تم مجھے دفن کر چکو تو وہاں ایک سبز چڑیا آئےگی.جس کے سر پر وہ چڑیا بیٹھے وہی میرا خلیفہ ہوگا.جب وہ اس کو دفن کر چکے تو اس انتظار میں بیٹھے کہ وہ چڑیا کب آتی ہے اور کس کے سر پر بیٹھتی ہے.بڑے بڑے پرانے مرید جو تھے ان کے دلوں میں خیال گزرا کہ چڑیا ہمارے ہی سر پر بیٹھے گی.تھوڑی ہی دیر میں ایک چڑیا ظاہر ہوئی اور وہ ایک بقّال کے سر پر آبیٹھی جو اتفاق سے شریک جنازہ ہوگیا تھا تب وہ سب حیران ہوئے لیکن اپنے مرشد کے قول کے مطابق اس کو لے گئے اور اس کو اپنے پیر کا خلیفہ بنایا.آنے والا موعود ایک ہی ہے ایک شخص نے سوال کیا کہ لکھا ہے کہ مسیح کئی ہوں گے.فرمایا.جیسا تشابہ فی الصُّوَر ہوتا ہے ایسا ہی تشابہ فی الاخلاق بھی ہوا کرتا ہے لکھا ہے کہ ہر ایک صالح کا دل کسی نہ کسی نبی کے دل پر ہوتا ہے.لیکن موعود جو آنے والا تھا وہ صرف ایک ہی ہے.

Page 242

مرسل کا مقابلہ کرنے والے خطا پر ہیں فرمایا.جو لو گ پہلے سے غلطی پر تھے ان کی غلطی اجتہاد تھی اس میں بھی وہ ثواب پر تھے.لیکن ان لوگوں نے ایک مرسل کا مقابلہ کیا ہے اس واسطے یہ خطا پر ہیں.۱ ۲۰؍جنوری ۱۹۰۶ء وحدت کا دشمن فرمایا.خدا تعالیٰ ایک وحدت چاہتا ہے جو شخص اپنے بھائی کو بے جا رنج دیتا ہے جھوٹ خیانت یا غیبت میں حصہ لیتا ہے وہ اس وحدت کا دشمن ہے.۲ ۲۲؍جنوری ۱۹۰۶ء معجزات حضرت مولوی محمد احسن صاحب نے اپنی تحریر کردہ پہلے سیپارہ کی تفسیر کا ایک حصہ سیر میں حضرت کی خدمت میں سنایا.معجزات کا ذکر تھا.حضرت نے فرمایا.علوم طبعی ہمیشہ ایک رنگ پر نہیں رہتے مگر خدا تعالیٰ کا کلام ہمیشہ سچا ہے.پہلے طبعی والوں کا خیال تھا کہ آسمان گردش کرتا ہےا ور زمین۳ متحرک ہے.اب طبعی والوں کا خیال ہے کہ زمین حرکت کرتی ہے.دن بدن کی تحقیقات کا نتیجہ کچھ اور ہی نکلتا چلا آتا ہے.ایک بات کو خدائی قول جان کر اس پر پختہ ہو جانا درست نہیں ہے ہر ایک شے کے اصل سبب کو انسان پہنچ نہیں سکتا.صرف اس بات پر معجزات کا انکار کرنا کہ یہ بات ہم نے کبھی ہوتے نہیں دیکھی جائز نہ ہوگا.انسان قدرت کے سارے قوانین کا عالم نہیں ہے.بدر جلد ۲ نمبر ۳ مورخہ ۱۹؍جنوری ۱۹۰۶ءصفحہ ۲ ۲ بدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخہ ۲۶؍جنوری ۱۹۰۶ءصفحہ ۲ ۳ سہو کتابت سے ’’غیر‘‘ کا لفظ لکھنے میں رہ گیا ہے.اصل فقرہ یوں ہے.’’زمین غیر متحرک ہے‘‘(مرتّب)

Page 243

صرف ترک بدی قابل فخر نہیں فرمایا کہ صرف بدی کو ترک کرنا کوئی درجہ نہیں رکھتا.اس کے بالمقابل نیکی اختیار کرنی چاہیے.ایک شخص کا ذکر ہے کہ وہ ایک دوست کے ہاں دعوت کے واسطے گیا.اس دوست نے بہت پُر تکلف دعوت پکائی اور ہر طرح سے اس کی خاطر کی.جب وہ کھانے سے فارغ ہوا تو کہنے لگا کہ آپ نے میرے واسطے بہت تکلیف اٹھائی اور عمدہ کھانا کھلایا.مگر میں نے بھی آپ پر ایک بھاری احسان کیا.میزبان نے کہا کہ آپ بیان فرمائیں تاکہ اور بھی زیادہ آپ کا مشکور اورممنون احسان ہوجاؤں.تب اس نے کہا کہ جب آپ گھر میں نہ تھے اور میں یہاں اکیلا تھا اگر اس وقت میں آپ کے گھر کو آگ لگا دیتا تو آپ کا کئی ہزار روپے کا مکان اور اسباب سب جل کر راکھ ہوجاتا.اس شخص نے ترکِ بدی پر فخرکیا.لیکن اس مثال سے ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ ترکِ بدی میں کوئی عمدگی اور فخر نہیں.۱ یکم تا ۸؍فروری ۱۹۰۶ء خوفناک وقت میں بچ رہنا محض اللہ کے فضل پر منحصر ہے ایک دوست نے حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور کو الہام ہوا کہ ۲۵؍ فروری کے بعد جانا ہوگا تو کیا اب ہم شہر کے باہر کوئی مکان لے لیں؟ فرمایا.اس کا مطلب ہم ابھی نہیں کہہ سکتے کہ کیا ہے اور نہ ہم ابھی باہر جانے کے واسطے کوئی مشورہ دیتے ہیں.علاوہ ازیں ایسے خوفناک وقت میں بچ رہنا محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم پر منحصر ہے.صرف اندر رہنا یا باہر جانا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا یہ تو ظاہری اسباب ہیں.اصل بات یہ ہے کہ سچے دل کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف جھکنا چاہیے.اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے.۱ بدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخہ ۲۶؍جنوری ۱۹۰۶ءصفحہ ۲

Page 244

استغفار بہت کرنا چاہیے اور اپنی حالت میں ایک تبدیلی کرنی چاہیے.سوائے اس کے کوئی صورت بچاؤ کی نہیں.زلزلہ کے متعلق متواتر الہامات ہوچکے ہیں اور خوابیں آئی ہیں.اور بھی بہت لوگوں نے ایسے خواب دیکھے ہیں.۱ ۱۱؍فروری ۱۹۰۶ء دعاؤں کی قبولیت فرمایا.بڑے شکر کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں جو دعائیں کی جاتی ہیں وہ اکثر قبول ہوتی ہیں قضاء و قدر تو رک نہیں سکتی اور اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کاملہ سے ہر ایک کام کرتا ہے.لیکن اکثر دعاؤں میں اپنی مراد کے مطابق کامیابی ہو جاتی ہے اور ایک قطعی اور یقینی امر یہ ہے کہ دعا کا نتیجہ خواہ کچھ ہی ہونے والا ہو جواب ضرور مل جاتا ہے.خواہ وہ جواب حسب مراد ہو اور خواہ خلاف مراد ہو.اللہ تعالیٰ دعا سے ناراض نہیں ہوتا فرمایا.زلزلہ کے بارے میں میں نے یہ توجہ نہیں کی کہ کب اور کس وقت واقع ہوگا کیونکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں اخفا چاہتا ہے.انسان کے ملکی رازوں میں بھی اخفا ہوتا ہے.ایسا ہی اللہ تعالیٰ کے کاموں میں بھی اخفا ہوتا ہے اس واسطے میں ڈرتا ہوں کہ اس کے متعلق زیادہ دریافت کرنے کی کوشش کرنا کہیں بیہودگی نہ سمجھی جاوے.تاہم اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے وہ دعا کرنے سے ناراض نہیں ہوتا.لکھا ہے کہ جب آنحضرتؐکو کہا گیا کہ اگر تو فلاں اشخاص کے متعلق ستّر دفعہ بھی دعا کرے تب بھی قبول نہ ہوگی تو آنحضرتؐنے کہا کہ میں ستر سے بھی زیادہ دفعہ دعا کروں گا.ایسا ہی حضرت ابراہیم نے قومِ لوط کے متعلق مجادلہ کیا.حالانکہ مجادلہ کرنا سوء ادب ہے.کیونکہ مجادلہ میں بے دلیل درخواست ہوتی ہے.لیکن چونکہ یہ دعا کا رنگ تھا خدا تعالیٰ نے اس کو نا پسند نہیں فرمایا.فرمایا.زلزلہ کے متعلق بہت خطرہ ہے اور اس کا علاج بجز دعا کے اور کچھ نظر نہیں آیا.راتوں کو اٹھ اٹھ کر تہجد میں دعائیں کرو تاکہ خدا تعالیٰ رحم کرے.۱ بدر جلد ۲ نمبر ۶ مورخہ ۹؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲

Page 245

میّت کے نام پر قبرستان میں کھانا تقسیم کرنا ایک شخص نے سوال کیا کہ میّت کے ساتھ جو لوگ روٹیاں پکا کر یا اور کوئی شے لے کر باہر قبرستان میں لے جاتے ہیں اور میّت کو دفن کرنے کے بعد مساکین میں تقسیم کرتے ہیں.اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا.سب باتیں نیت پر موقوف ہیں.اگر یہ نیت ہو کہ اس جگہ مساکین جمع ہو جایا کرتے ہیں اور مردے کو صدقہ پہنچ سکتا ہے.ادھر وہ دفن ہو ادھر مساکین کو صدقہ دے دیا جاوے تاکہ اس کے حق میں مفید ہو اور وہ بخشا جاوے تو یہ ایک عمدہ بات ہے.لیکن اگر صرف رسم کے طور پر یہ کام کیا جاوے تو جائز نہیں ہے.کیونکہ اس کا ثواب نہ مردے کے لیے اور نہ دینے والوں کے واسطے اس میں کچھ فائدے کی بات ہے.میّت کے لئے اسقاط ایک شخص نے سوال کیا کہ کسی شخص کے مرجانے پر جو اسقاط کرتےہیں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا.یہ بالکل بدعت ہے اور ہرگز اس کے واسطے کوئی ثبوت سنت اور حدیث سے ظاہر نہیں ہو سکتا.۱ ۱۸؍فروری ۱۹۰۶ء خدا تعالیٰ ظالم نہیں فرمایا.خدا تعالیٰ ظالم نہیں اور نہ انسان کی طرح چڑ چڑا ہے.جب کسی کو عذاب ملتا ہے تو وہ دراصل اس انسان کے اپنے ہی اعمال کی ایک حالت ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کو آزمانا نہیں چاہیے ایک شخص نے عرض کی میرے باپ کی دوکان خراب حالت میں ہوگئی ہے اگر وہ درست ہوجاوے تو میں مرزا صاحب کو مان لوں گا.فرمایا.خدا تعالیٰ کو ان باتوں کے ساتھ آزمانا نہیں چاہیے.میں تعجب کرتا ہوں ان لوگوں کی ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۷ مورخہ ۱۶؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲

Page 246

حالت پر جو اس قسم کے سوال کرتے ہیں.خدا کو کسی کی کیا پروا ہے.کیا یہ لوگ خدا پر اپنے ایمان لانے کا احسان رکھتے ہیں؟ جو شخص سچائی پر ایمان لاتا ہے وہ خود گناہوں سے پاک ہونے کا ایک ذریعہ تلاش کرنے والا ہے.ورنہ خدا کو اس کی کیا حاجت ہے؟ خدا فرماتا ہے کہ اگر تم سب کے سب مرتد ہو جاؤ تو وہ ایک اور نئی قوم پیدا کرے گا جو اس سے پیار کرے گی.جو شخص گناہ کرتا اور کافر بنتا ہے وہ خدا کا کچھ نقصان نہیں کرتا اور جو ایمان لاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا کچھ بڑھا نہیں دیتا.ہر ایک شخص اپنا ہی فائدہ یا نقصان کرتا ہے.جو لوگ خدا پر احسان رکھ کر اور شرطیں لگا کر ایمان لانا چاہتے ہیں.ان کی وہ حالت ہےکہ ایک شخص جو سخت پیاس میں مبتلا ہے پانی کے چشمہ پر جاتا ہے مگر وہ کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ اے چشمہ! میں تیرا پانی تب پیوں گا جبکہ تو مجھے ایک ہزار روپیہ نکال کر دیوے.بتاؤ اس کو چشمہ سے کیا جواب ملے گا؟ یہی کہ جا پیاس سے مر.مجھے تیری حاجت نہیں.خدا تعالیٰ غنی بے نیاز ہے.۱ ۱۹؍فروری ۱۹۰۶ء عملی کمزوریاں خدا تعالیٰ کے فضل سے دور ہوجاتی ہیں ایک دوست نے جو باہر سے تشریف لائے تھے اس جگہ کی جماعت احمدیہ کے ایک شخص کی کسی عملی کمزوری کی شکایت کی.فرمایا.جیسے جیسے جماعت بڑھتی جاتی ہے اس قسم کے مشکلات بھی پیدا ہوتے جاتے ہیں.کیونکہ ہر قسم کے لوگ داخل ہوجاتے ہیں.خدا تعالیٰ چاہے تو رفتہ رفتہ ان کی کمزوریاں بھی دور ہو جاتی ہیں.۲ ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۸ مورخہ ۲۳؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ ۲ بدر جلد ۲ نمبر ۸ مورخہ ۲۳؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲

Page 247

۲۰؍فروری ۱۹۰۶ء امریکہ میں دو جگہ سخت زلزلہ کا ذکر تھا.فرمایا.بحالت مجموعی تاریخ میں دیکھا جائے تو ایسا سلسلہ زلازل جو تمام دنیا پر محیط ہوگیا ہو کبھی نظر نہیں آتا.اس میں ایک تنبیہ ہے جس سے سمجھنے والے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں.کسوف خسوف بھی پہلے اس طرف ہوا تھا پھر دوسرے سال امریکہ میں ہوا تھا.بابا نانک کے بظاہر مسلمان نہ ہونے کی حکمت حضرت باوا نانک کا ذکرتھا.فرمایا.چولہ اور مسلمانوں کی مصاحبت اور دیگر تمام امور صاف بتلاتے ہیں کہ بابا نانک مسلمان تھے.لیکن ان کا اس طرح سے ظاہر نہ ہونا بھی ایک بڑی مصلحت اپنے اندر رکھتا ہے کیونکہ وہ اس طرح کھلے طور پر تمام تعلقات چھوڑکر مسلمانوں میں شامل ہوتے تو اکیلے ہوتے.برخلاف اس کے اب ایک بڑی جماعت کئی لاکھ آدمیوں کی ساتھ لے کر وہ مسلمان ہیں.۱ بلا تاریخ نصائح حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو گھر میں عورتوں کے متعلق بیان فرمائیں (مرتبہ صاحبزادہ میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب) پاکیزہ مزاح ایک روز کسی بیمار بچہ نے کسی سے کہانی کی فرمائش کی تو اس نے جواب دیا کہ ہم تو کہانی سنانا گناہ سمجھتے ہیں.حضور علیہ السلام نے فرمایاکہ گناہ نہیں.کیونکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۸ مورخہ ۲۳؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲

Page 248

بھی کبھی کبھی کوئی مذاق کی بات فرمایا کرتے تھے اور بچوں کو بہلانے کے لیے اس کو روا سمجھتے تھے.جیساکہ ایک بڑھیا عورت نے آپؐسے دریافت کیا کہ حضرت کیا میں بھی جنت میں جاؤں گی؟ فرمایا نہیں.وہ بڑھیا یہ سن کر رونے لگی.فرمایا روتی کیوں ہے؟ بہشت میں جوان داخل ہوں گے بوڑھے نہیں ہوں گے یعنی اس وقت سب جوان ہوں گے.اسی طرح سے فرمایا کہ ایک صحابی کی داڑھ میں درد تھا.وہ چھوارا کھاتا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھوارا نہ کھا کیونکہ تیری داڑھ میں درد ہے.اس نے کہا میں دوسری داڑھ سے کھاتا ہوں.پھر فرمایاکہ ایک بچہ کے ہاتھ سے ایک جانور جس کو نُـغَیْـر کہتے ہیں چھوٹ گیا.وہ بچہ رونے لگا.اس بچہ کا نام عُمیر تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عُـمَیْـرُ! مَا فَعَلَتْ بِکَ نُـغَیْـرُ ؟ اےعمیر نُـغَیْـر نے کیا کیا؟ لڑکے کو قافیہ پسند آگیا.اس لیے چپ ہوگیا.بچوں کو تنبیہ کرنا ضروری ہے ایک بچہ کی خبر لگی کہ اس نے کوئی شرارت کی ہے یعنی آگ سے کچھ جلا دیا ہے.فرمایا.بچوں کو تنبیہ کر دینا بھی ضروری ہے اگر اس وقت ان کو شرارتوں سے منع نہ کیا جاوے تو بڑے ہو کر اس کا انجام اچھا نہیںہوتا.بچپن میں اگر لڑکے کو کچھ تادیب کی جاوے تو وہ اس کو خوب یاد رہتی ہے کیونکہ اس وقت حافظہ قوی ہوتاہے.۱ اظہار تشکر ایک دن حضور علیہ السلام بیمار تھے.ایک شخص کو کچھ چیزیں فواکہ کی قسم سے لانے کے لیے امرتسر بھیجا.جب وہ آیا تو اس وقت حضرت کی طبیعت زیادہ ناساز تھی اس وقت ایک میوہ کی خواہش ہوئی جو اس شخص سے منگوایا تھا.لیکن وہ امرتسر سے نہیں لایا تھا.تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ قاضی نظیر حسین صاحب تحصیلدار تشریف لائے اور وہی پھل ساتھ لائے.آپ نے فرمایا.ہمارے گھر کے لوگوں کو ان چیزوں کے کھاتے وقت خیال کرنا چاہیے کہ آج ۱ نوٹ از ایڈیٹر.اس موقعہ پر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت صاحب بچوں کو ہر وقت مارنے اور جھڑکتے رہنے سے بھی سخت منع کرتے ہیں.ہر ایک کام ایک اندازہ تک ہونا چاہیے.مندرجہ بالا ذکر سے مراد حضور علیہ السلام کی یہ ہے کہ بچہ کو بالکل آوارہ نہیں چھوڑ دینا چاہیے.

Page 249

سے چھبیس یا ستائیس برس پہلے خدا تعالیٰ کا وعدہ شائع کیا گیا تھا کہ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ وَیَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ.ان سب لوگوں کے آنے سے پہلے خدا تعالیٰ نے ان کے آنے کی خبر بھی دی.اور یہ بھی اطلاع دی تھی کہ ان کے کھانے کے سامان بھی میں دور دور سے تیرے پاس لاؤں گا.ان باتوں کو دیکھ کر کتنا بھروسہ کرنا چاہیے کہ خود بخود بغیر ہماری کوششوں کے ہر قسم کے سامان مہیا کرتا ہے.گلے شکوے کرنا اچھا نہیں ہے ایک روز ایک عورت نے کسی دوسری عورت کا گلہ کیا.آپ نے فرمایا کہ دیکھو یہ بہت بُری عادت ہے جو خصوصاً عورتوں میں پائی جاتی ہے.چونکہ مرد اَور کام بہت رکھتے ہیں اس لیے ان کو شاذ و نادر ہی ایسا موقع ملتا ہے کہ وہ بے فکری سے بیٹھ کر آپس میں باتیں کریں اور اگر ایسا موقع بھی ملے تو ان کو اَور بہت سی باتیں ایسی مل جاتی ہیں جو وہ بیٹھ کر کرتے ہیں لیکن عورتوں کو نہ علم ہوتا ہے اور نہ کوئی ایسا کام ہوتا ہے اس لیے سارا دن کا شغل سوائے گلہ اور شکایت کے کچھ نہیں ہوتا.ایک شخص تھا اس نے کسی دوسرے کو گنہگار دیکھ کر خوب اس کی نکتہ چینی کی اور کہا کہ تو دوزخ میں جائے گا.قیامت کے دن خدا تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ کیوں تجھ کو میرے اختیارات کس نے دیئے ہیں؟ دوزخ اور بہشت میں بھیجنے والا تو میں ہی ہوں تو کون ہے؟ اچھا جا میں نے تجھ کو دوزخ میں ڈالا اور یہ گنہگار بندہ جس کا تو گلہ کیا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ یہ ایسا ہے ویسا ہے اور دوزخ میں جائے گا اس کو میں نے بہشت میں بھیج دیا ہے.سو ہر ایک انسان کو سمجھنا چاہیے کہ ایسا نہ ہو کہ میں ہی الٹا شکار ہوجاؤں.غیبت سے بچو فرمایا.دل تو اللہ تعالیٰ کی صندوقچی ہوتا ہےا ور اس کی کنجی اس کے پاس ہوتی ہے.کسی کو کیا خبر کہ اس کے اندر کیا ہے؟ تو خواہ مخواہ اپنے آپ کو گناہ میں ڈالنا کیا فائدہ؟ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک شخص بڑا گنہگار ہوگا.خدا تعالیٰ اس کو کہے گا کہ میرے قریب ہو جا.یہاں تک کہ اس کے اور لوگوں کے درمیان اپنے ہاتھ سے پردہ کر دے گا.اور اس سے پوچھے گا کہ تو نے فلاں گناہ کیا.فلاں گناہ کیا.لیکن چھوٹے چھوٹے گناہ گنائے گا.وہ کہے گا کہ ہاں یہ گناہ مجھ سے ہوئے ہیں.خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا آج کے دن میں نے تیرے سب معاف

Page 250

کئے اور ہر ایک گناہ کے بدلے دس دس نیکیوں کا ثواب دیا.تب وہ بندہ سوچے گا کہ جب ان چھوٹے چھوٹے گناہوں کا دس دس نیکیوں کا ثواب ملا ہے تو بڑے بڑے گناہوں کا تو بہت ہی ثواب ملے گا.یہ سوچ کر وہ بندہ خود ہی اپنے بڑے بڑے گناہ گنائے گا کہ اے خدا! میں نے تو یہ گناہ بھی کئے ہیں تب اللہ تعالیٰ اس کی بات سن کر ہنسے گا اور فرمائے گا کہ دیکھو! میری مہربانی کی وجہ سے یہ بندہ ایسا دلیر ہوگیا ہے کہ اپنے گناہ خود ہی بتلاتا ہے.پھر اسے حکم دے گا کہ جا بہشت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے تیری طبیعت چاہے داخل ہو جا.تو کیا خبر ہے کہ خدا تعالیٰ کا اس سے کیا سلوک ہے یا اس کے دل میں کیا ہے.اس لیے غیبت کرنے سے بکلّی پرہیز کرنا چاہیے.۱ ۹تا۱۴؍مارچ۱۹۰۶ء اس ہفتہ میں جملہ دیگر مہمانوں کے ایک حاجی الٰہی بخش صاحب ہیں جو اسی سال حج بیت اللہ سے مشرف ہو کر واپس آتے ہوئے راستہ میں قادیان میں ٹھہر گئے چونکہ وہ گھر نہیں گئے انہوں نے جلد گھر جانے کے واسطے حضرت سے اجازت طلب کی.مگر آپ نے فرمایاکہ آپ چند دن اور یہاں قیام فرماویں.فرمایا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کوئی سلسلہ قائم ہوتا ہے تو وہ بھی ایک حج کی جگہ ہوتا ہے.لکھا ہے بایزید نے اپنے ایک مرید کو جو حج کا ارادہ رکھتا تھا کہا کہ تو میرے گرد سات مرتبہ طواف کر یہی تیرا حج ہوجائے گا.۲ ۱۸؍مارچ ۱۹۰۶ء خدا کی تازہ وحی آج بروز یک شنبہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے گھر کے مکان میں بیٹھا ہوں اور ایک خربزہ کی شکل پر کوئی پھل میرے ہاتھ میںہے.۱ بدر جلد ۲ نمبر ۱۰ مورخہ ۹؍مارچ ۱۹۰۶ءصفحہ ۱۰ ۲بدر جلد ۳نمبر ۱۱ مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲

Page 251

اس کو چھیل کر کھانا چاہتا ہوں.اتنے میں میں نے محمود احمد کو دیکھا.اس کے ساتھ ایک انگریز ہے.وہ ہمارے گھر میں داخل ہو گیا پہلے اس جگہ کھڑا ہوا جہاں پانی کے گھڑے رکھے جاتے ہیں.پھر اس چوبارے کی طرف آگے بڑھا جہاں بیٹھ کر میں کام کرتا ہوں.گویا اس کے اندر جا کر تلاشی کرنا چاہتا ہے.اس وقت میں نے دیکھا کہ میر ناصر نواب کی شکل پر ایک شخص میرے سامنے کھڑا ہے اس نے بطور اشارہ کے مجھ کو کہا کہ آپ بھی اس چوبارہ میں جائیں.انگریز تلاشی کرے گا اور میرے دل میں گزرا کہ اس میں صرف وہ کاغذات پڑے ہیں جو نوتالیف کتاب کا مسوّدہ ہے وہی دیکھے گا.اتنے میں آنکھ کھل گئی.معلوم نہیں اس واقعہ کی کیا تعبیر ہے؟ اس سے پہلے تھوڑے دن ہوئے ہیں یہ دیکھا تھا یعنی یہ الہام ہوا تھا کہ عورت کی چال ایلی ایلی لما سبقتانی.بریّت.اِذْکَفَفْتُ عَنْ بَنِیْ اِسْـرَآءِیْلَ میں نے اپنے اجتہاد سے اس کے یہ معنے سمجھے تھے کہ کوئی شخص عورتوں کی طرح پوشیدہ مکر کرے گا جس سے ممکن ہے کہ ہم پر اس کی دھوکہ دہی سے کوئی مقدمہ ہو مگر آخر بریّت ہوگی.مگر یہ میرے اجتہادی معنے ہیں اور ممکن ہے کہ جو کچھ میں نے پہلے دیکھا اور جو میں نے اب دیکھا اس کے کوئی اور معنے ہوں لیکن ظاہری معنے یہی ہیں.واللہ اعلم.اس خواب میں محمود کا دیکھنا اور پھر میر ناصر نواب کا دیکھنا نیک انجام پر دلالت کرتا ہے کیونکہ محمود کا لفظ خاتمہ محمود کی طرف اشارہ ہے یعنی اس ابتلا کا خاتمہ اچھا ہوگا اور ناصر نواب کا دیکھنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ ناصر ہوگا اور اپنی نصرت سے ابتلا سے رہائی دے گا اور آخر یہ ابتلا نشان کی صورت میں ہوجائے گا.۱ ۱۹؍مارچ ۱۹۰۶ء ایک نشان فرمایا.اس فکر میں ہوں اور توجہ کرتا ہوں کہ اگر پتہ لگ جائے کہ کس ماہ میں آئندہ زلزلہ آنےوالا ہے تو یہ پھر ایک بڑا نشان ہو جاتا ہے.متعصب آدمی کا تو کیا ذکر ہے لیکن ۱ بدر جلد ۲نمبر ۱۲ مورخہ ۲۲؍مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲

Page 252

غور کرنے والے کے واسطے یہ ایک بڑا نشان ہے.ایک الزامی نکتہ فرمایا.عیسائیوں کے خدا سے تو آدمؑ ہی اچھا رہا.کیونکہ آدم کے سامنے تو فرشتوں نے سجدہ کیا تھا اور ایک شیطان جس نے سجدہ نہیں کیا تھا وہ ذلیل کیا گیا اور نکالا گیا.برخلاف اس کے عیسائیوں کا خدا شیطان کے پیچھے پیچھے لگتا پھرا اور شیطان کہہ سکتا ہے کہ چونکہ اس نے مجھے سجدہ نہیںکیا تھا اس واسطے ذلیل ہوا اور پھانسی دیا گیا.یسوع مسیح کا ایک کمزور انسان ہونا ثابت ہے فرمایا.عیسائی لوگ یسوع کی تعریف میں کہا کرتے ہیں کہ وہ بے گناہ تھا حالانکہ بے گناہ ہونا کوئی خوبی نہیں.خوبی تو اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعلیٰ درجہ کے تعلقات ہوں اور انسان قربِ الٰہی کو حاصل کرے.چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ یسوع کی لوگ حد سے زیادہ ناجائز عزت کریں گے اس واسطے پہلے ہی سے اس کا وہ حال ہوا جس سے ہر بات میں اس کا عجز اور کمزور انسان ہونا ثابت ہوتا ہے.معنی التوفّی فرمایا.ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کا یہ قول کہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ (المائدۃ:۱۱۸) اس کے یہ معنے ہیں کہ جب تو نے مجھے آسمان پر اٹھا لیا اگر قیامت کے دن حضرت عیسیٰ یہ کلمہ بولے گا تو گویاوہ کبھی فوت ہی نہیںہوگا؟ کیونکہ قیامت کے دن بھی آسمان پر ہی جانے کا ذکر ہوگا مرنے کا تو کوئی ذکر ہی نہیں.اور اگر اس آیت کے یہ معنے لیے جائیںکہ جب میں فوت ہوگیا یعنی مر گیا.لیکن موت قیامت کے دن وارد ہوگی تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ عیسائی آج تک نہیں بگڑے اور ان کا مذہب راستی پر ہے.تسبیح بعد کی ایجاد ہے ایک شخص نے ذکر کیا کہ مخالف کہتے ہیں کہ یہ لوگ نمازیں تو پڑھتے ہیں.لیکن تسبیحیں نہیں رکھتے.فرمایا.صحابہؓ کے درمیان کہاں تسبیحیں ہوتی تھیں یہ تو ان لوگوں نے بعد میں باتیں بنائی ہیں.فرمایا.ایک شخص کا ذکر ہے کہ وہ لمبی تسبیح ہاتھ میں رکھا کرتا تھا اور کوچہ میں سے گذر رہا تھا.راستہ میں

Page 253

ایک بڑھیا نے دیکھا کہ خدا کا نام تسبیح پر گن رہا ہے.اس نے کہا کیا کوئی دوست کا نام گن کر لیتا ہے.ا س نے اسی جگہ تسبیح پھینک دی.اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے حساب ہیں ان کو کون گن سکتا ہے.۱ یکم اپریل ۱۹۰۶ء وحی الٰہی وحی الٰہی اَخَّرَہُ اللہُ اِلٰی وَقْتٍ مُّسَمًّی کا ذکر تھا.فرمایا.اس سے پہلے دن دعا کے رنگ میں الہام ہوا تھا کہ رَبِّ اَخِّرْ وَقْتَ ھٰذَا دوسرے دن اس دعا کی قبولیت کے اظہار میں یہ الہام ہوا.خود ہی اللہ تعالیٰ دعا کراتا ہے اور خود اس کو قبول کرتا ہے.طریق ادب ڈاکٹر نور محمد صاحب نے ذکر کیا کہ لاہور میں ایک شخص نے جو اپنی جماعت کا ہے مجھ سے ذکر کیا کہ پٹیالہ میں کسی فقیر نے پیشگوئی کی ہے کہ فلاں تاریخ کو زلزلہ آئے گا اور وہ تاریخ قریب ہے.میں نے کہا کہ اس کی طرف ہرگز توجہ نہیں کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ نے جو اپنا رسول بھیجا ہے.جب تک اس کے ذریعہ سے کوئی خبر نہ ملے ہرگز کوئی دوسری بات قابل اعتبار نہیں.حضرت نے فرمایا.یہی طریقِ ادب ہے ایسے لوگوں کی باتوں پر جو فقیر بنے پھرتے ہیں یقین کر لینا ایک الحاد ہے اور ایمان سے خارج ہونا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ سب لوگوں کو ایک ہی حلقے میں لائے اور اسی کے ذریعہ سے تمام خبریں دوسروں کو پہنچاوے تو پھر کسی دوسرے شخص کو درمیان میںلانا اور یقین کرنا کہ اس کو زلزلہ کے دن کی خبر دی گئی ہے یہ ایک شرک کی بنیاد ہے.ہمیں جب زلزلہ کے متعلق الہام ہوا تب ہم خیموں میں گئے اور اب جب اس کی تاخیر کی خبر دی گئی تو ہم واپس اپنے مکانوں میں آگئے ہیں.اللہ تعالیٰ نکتہ نواز ہے.ایسا ہی نکتہ گیر ہے.بعض دفعہ انسان سمجھتا ہے کہ تھوڑی سی بات ہے مگر وہ بات اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوجاتی ہے.۱ بدر جلد ۲ نمبر ۱۲ مورخہ ۲۲؍مارچ ۱۹۰۶ءصفحہ ۲ نیز الحکم جلد ۱۰ نمبر ۱۰ مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱

Page 254

ایک نئی تصنیف فرمایا.ہم نے ایک نیا رسالہ لکھنا شروع کیا ہے جس کا نام ’’حقیقۃ الوحی‘‘ ہوگا.بعض لوگ الہام اور وحی کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ وحی اور الہام کی حقیقت کیا ہے؟ بمبئی بمبئی کا ذکر تھا کہ ایک جزیرہ ہے اور سمندر کے پانی کو روک کر اکثر جگہ مکانات بنائے گئے ہیں.فرمایا.مجھے بھی کئی دفعہ خیال آیا ہے کہ جب سخت زلزلہ آئے گا تو اس وقت بمبئی کا کیا حال ہوگا؟ زلزلہ کے بارہ میں فرمایا.چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس میں دیر کر دی ہے اس واسطے مخالفین کی شوخیاں بڑھتی جائیں گی اور وہ گالیاں دینے میں اور بھی تیزی دکھائیںگے.’’پھر چلے آتے ہیں یارو! زلزلہ آنے کے دن‘‘ فرمایا.پیسہ اخبار جو ایک لاکھ چھپا ہے اور ایک ایک پرچہ کو کئی کئی آدمی پڑھیں گے تو اس طرح زلزلہ والی پیشگوئی کئی لاکھ آدمیوں تک پہنچ جائے گی.اس نظم۱ میں ہم نے لوگوں کو نیک نصائح کی ہیں اور مخلوق کو توبہ کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور اسلام کی طرف دعوت کی ہے.ایڈیٹر نے لکھا ہے کہ مجھے اس کے ساتھ اتفاق نہیں تو کیا وہ نہیں چاہتا کہ لوگ نیک بنیں؟ امرتسر میں ایک رشید فرمایا.امرتسر ایک ایسی جگہ ہے جس میں مادہ رشد کے لوگ حق کو قبول کرنے والے کم ہوتے ہیں.آج وہاں سے ایک خط آیا ہے جس میں ایک شخص لکھتا ہے کہ میں کتاب چشمہ مسیحی پڑھ کر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسلام کے واسطے اس قسم کی تائید اور اخلاص ایک مفتری کی تحریر میں نہیں ہو سکتا.اس واسطے میں آپ کے مریدین میں شامل ہوتا ہوں میرا نام مبائعین میںلکھا جائے.فرمایا.مجھے خوشی ہوئی کہ اس کتاب کے ذریعہ سے ایک جان بچ گئی.۲ ۱ حاشیہ.’’پھر چلے آتے ہیں یارو زلزلہ آنے کے دن‘‘ والی نظم مراد ہے.(مرتّب) ۲ بدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۳

Page 255

۷؍اپریل ۱۹۰۶ء خدا تعالیٰ کی لا انتہا قدرتوں پر ایمان پیدا کرو اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ يَّرْتَدَّ اِلَيْكَ طَرْفُكَ(الـنّمل:۴۱) کے معنے ایک شخص نے پوچھے تو فرمایا.ایک پَل میں عرش بلقیس کے آجانے میں استبعاد کیا ہے؟ اصل میں ایسے اعتراض ان لوگوں کے دلوں میں اٹھتے ہیں اور وہی ایسی باتوں کی تاویل کرنے پر دوڑتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر پورا پورا یقین نہیں آتا.ہم تو یہی جانتے ہیں اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ(البقرۃ:۱۰۷) ایک واقعہ کا انکار صرف اپنے جیسوں کے ناقص تجربے کی بنا پر نہایت بُری بات ہے.دیکھو! جب تک تار برقی نہ نکلی تھی اس وقت اگر کوئی بیان کرتا کہ ایک سیکنڈ میں اتنی دور تک خبر پہنچ جاتی ہے تو کون یقین کرتا.مگر اب جب مشاہدہ میں آگیا تو سب نے مان لیا.ویسے ہی خدا کی لاانتہا قدرتوں کا احاطہ کون کر سکتا ہے.جب معمولی باتیں انسان کی سمجھ میں نہیں آسکتیں تو خدا کے بعض افعال اگر سمجھ میں نہ آئیں تو ان کا انکار نہیں چاہیے بلکہ سچے دل سے ایمان لانا چاہیے کیونکہ جتنا کسی کو خدا پر یقین ہو اتنی ہی وہ اس کی مدد کرتا ہے اور جیسی ایمان کی حالت ہو اتنا ہی اسے اسباب میں ڈالتا ہے.خود ہم نے خدا کی ایسی قدرتوں کے نمونے دیکھے.دیکھو! عبد اللہ سنوری والا کُرتا جس پر بغیر کسی ظاہری اسباب کے سرخ نشان پڑ گئے تھے اور ہم نے کشف میں دیکھا کہ دستخط کراتے ہوئے بارگاہِ الٰہی سے وہ چھینٹا پڑا.ایسا ہی دانت میں سخت درد تھا طبیب نے مشورہ دیا علاجِ دنداں اخراجِ دنداں.مگر بعد ازاں الہام ہوا وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ تو معاً وہ درد جاتا رہا.ایسا ہی میں ایک دفعہ میں سخت بیمار ہوا حتی کہ سورہ یٰسین بھی تین دفعہ سنائی گئی.میرے دل میں ڈالا گیا کہ کچھ تسبیحیں پڑھ کر دریا کی ریت اور پانی بدن پر ملوں.چنانچہ ایسا کرنے پر وہ بیماری جاتی رہی.خدا پر کامل ایمان پیدا کرو تاکہ ایسے شبہات سے نجات ہو.(یہ خلاصہ ہے اس تقریر کا جو حضور علیہ السلام نے فرمائی)

Page 256

فاتحہ خوانی اور اسقاط عرض کیا گیا کہ جب کوئی مسلمان مر جائے تو اس کے بعد جو فاتحہ خوانی کا دستور ہے اس کی شریعت میں کوئی اصل ہے یا نہیں؟ فرمایا.نہ حدیث میں اس کا ذکر ہے نہ قرآن شریف میں نہ سنت میں.عرض کیا گیا کہ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ دعائے مغفرت ہی ہے؟ فرمایا.نہ اسقاط درست نہ اس طریق سے دعا ہے کیونکہ بدعتوں کا دروازہ کھل جاتا ہے.۱ ۱۴؍اپریل ۱۹۰۶ء طوری مشاہدات فرمایا.خدا تعالیٰ اپنے وجود کو آپ دوبارہ ثابت کرنا چاہتا ہے جیسا کہ کوہ طور پر تجلیات الٰہیہ کا نمونہ دکھایا گیا تھا ایسا ہی اب بھی دکھایا جائے گا.جس طر ح فرعون کے پاس رسول بھیجا گیا تھا وہی الفاظ ہم کو بھی الہام ہوئے ہیں کہ تو بھی ایک رسول ہے جیسا کہ فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا گیا تھا.بجز طُوری مشاہدات کے اب دنیا کے لوگ سیدھے نہیں ہو سکتے.۲ ۱۷؍اپریل۱۹۰۶ء معجزات کے بارہ میں سنت الٰہی فرمایا.بعض لوگ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے مانگے ہوئے معجزات ان کو دکھائے جائیں.یہ درست نہیں اللہ تعالیٰ کی یہ سنت نہیں.جس حد تک خدا تعالیٰ کا قانون قدرت تشفی دینے کا ہے اگر اس حد تک تشفی ہو جائے تو پھر مؤاخذہ کے لائق انسان ہوجاتا ہے.جماعت میں داخل ہونے والوں کی قبولیت فرمایا.خدا تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ جو لوگ اس جماعت میں داخل ہوں ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۱۶ مورخہ ۱۹؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ ۲ بدر جلد ۲ نمبر ۱۷مورخہ ۲۶؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲

Page 257

گے وہ ان کو قبول کرے گا.باقی جو لوگ اپنی ضد پر قائم رہتے ہیں اور شقاوت کی راہ سے انکار کرتے ہیں وہ راستباز نہیں ٹھہر سکتے.دینی عقل تقویٰ سے تیز ہوتی ہے فرمایا.دینی عقل اور ہے اور دنیوی عقل اور ہے.جو لوگ دنیوی عقل میں ریاضت کرنے والے ہیں وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ان کو ساتھ ہی دینی عقل بھی حاصل ہوگئی ہے بلکہ دینی عقل تقویٰ سے تیز ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے لَا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۠(الواقعۃ:۸۰) جس قدر پاکیزگی بڑھتی ہے اسی قدر معرفت بھی بڑھتی جاتی ہے.۱ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۶ء (میاں معراج الدین عمر کے قلم سے) جماعت کی ایمانی حالت مضبوط ہوتی جائے گی آج صبح کی گاڑی میں سوار ہو کر میں قریب ایک بجے کے قادیان پہنچا.تھوڑے عرصہ بعد اذان نماز ہوئی.وضو کر کے میں چھوٹی مسجد میں پہنچا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چھوٹے حجرے میں تشریف فرما ہیں اور آپ کے پاس حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب اور مولوی محمد علی صاحب بیٹھے تھے اور میاں غلام رسول حجام امرتسری کچھ اپنا حال بیان کر رہا تھا.اس پر حضور نے فرمایا کہ آپ صبر کریں.ہماری جماعت کی حالت ابتدائی ہے.یہ ابھی کچے درخت کی طرح ہیں.دیکھو! بڑے سے بڑا درخت شیشم یا کوئی اور جب چھوٹا ہوتا ہے تو بہت تھوڑی طاقت سے بلکہ ناخن سے اکھڑ سکتا ہے.اسی طرح ہماری جماعت کے بعض لوگ ابھی ایمانی حالت میں ایسے ہی کمزور ہیں.جیسے درخت بڑا ہو کر ایسا مضبوط ہوتا جاتا ہے کہ اس پر آدمی چڑھتے ہیں تو وہ ٹوٹتا نہیں ایسے ہی ان کی ایمانی حالت رفتہ رفتہ مضبوط ہوجائے گی اور پھر مضبوط درخت کی طرح جاگزین ہوجائے گی.۲ ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۱۷ مورخہ ۲۶؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ ۲بدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۳

Page 258

۲۶ اپریل ۱۹۰۶ء غیر معمولی ایام فرمایا.یہ دن ایسے ہیں کہ گویا آسمان کی زمین کے ساتھ کشتی ہے.بالکل غیر معمولی دن ہیں اور غیر معمولی واقعات ہر طرف سے پیش آرہے ہیں اور اپنے غیر معمولی ہونے میں روز بروز بڑھتے جاتے ہیں.کہیں زلازل ہیں کہیں طوفان آرہے ہیں.کہیں لڑائیوں میں مخلوق ماری جاتی ہے کہیں طوفان سے لوگ تباہ ہو رہے ہیں کہیں آگ لگ رہی ہے.مگر افسوس کہ لوگ ان سب باتوں کو معمولی سمجھ کر اپنی غفلت میں حسب معمول سوئے ہوئے ہیں اور کچھ فکر نہیں کرتے.خدا تعالیٰ کا منشا اَور ہے اور لوگوں کے ارادے کچھ اَور ہیں.راستباز اطاعت اور اعمال سے پہچانا جاتا ہے.جس صورت میں ہم ان لوگوں کے سامنے نشان پیش کرتے ہیں اور قرآن اور حدیث کے نصوص دکھاتے ہیں اور پھر وہ انکار کرتے ہیں تو وہ لوگ راستباز نہیں کہلا سکتے.خدا کو کیا پروا ہے کہ یہ لوگ تعداد میں زیادہ ہیں اللہ تعالیٰ کثرت اور تعداد کے رعب میں نہیں آتا قَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ (سبا:۱۴) دیکھو! حضرت نوحؑکے وقت کس قدر مخلوق غرقِ آب ہوئی اور ان کے بالمقابل جو لوگ بچ گئے ان کی تعداد کس قدر تھی.پیر زادگی کا مرض فرمایا.پیر زادگی کا مرض دق اور سِل سے بد تر ہے کیونکہ ان میں رعونت اور تکبر کا مادہ ہوتا ہے اور خواہ مخواہ ایک عظمت اپنی دکھاتے ہیں اور فقیری کا دم مارتے رہتے ہیں.۱ ۵؍مئی ۱۹۰۶ء طبقہ لولاک الہام الٰہی لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ کا تذکرہ تھا.فرمایا.اللہ تعالیٰ کی کمال رضا جوئی کی حالت میں یہ طبقہ خدمت گذاران کا لو لاک ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۱۷ مورخہ ۲۶؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲

Page 259

کا حکم رکھتا ہے اور یہ بات صاف ہے کہ اگر یہ طبقہ لولاک کا نہ ہو تو افلاک کی خلقت عبث و فضول ہے.افلاک کا بنانا محض اس طبقہ لولاک کی خاطر ہے.فرمایا.یہ در اصل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تھا لیکن ظلی طور پر ہم پر اس کا اطلاق ہوتا ہے.مرقومہ بالا الہام الٰہی یہ میری کتاب۱......الـخ کا ذکر تھا.فرمایا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو احباب ہماری جماعت میں خدمت دین میں سر گرم ہیں اللہ تعالیٰ ان کو درجہ و عظمت دینا چاہتا ہے.۲ ۸؍مئی ۱۹۰۸ء (بوقت عصر) پورے جوش سے خدا تعالیٰ کی طرف جھک جائیں فرمایا.جب تک کہ انسان بالکل خدا کا نہ ہو جائے وہ کچھ نہ کچھ مسِّ عذاب اس دنیا میں پاتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے بعض افراد دنیوی آرائش اور آرام کی طرف جھکے ہوئے ہیں اور اس میں مصروف ہیں.ان کو چاہیے کہ اپنی عملی حالت کو درست کریں اور خدا تعالیٰ کی طرف پورے جوش اور طاقت کے ساتھ جھک جاویں.کمزوروں کے حق میں بُرا نہ بولنے کی تلقین فرمایا.جب تمہارے بھائیوں میں سے کوئی کمزور ہو تو اس کے حق میں بُرا بولنے میں جلد بازی نہ کرو.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ پہلے ان کی حالت خراب ہوتی ہے پھر یکدفعہ ایک تبدیلی کا وقت ان پر آجاتا ہے جیسا کہ ان کی جسمانی حالت بہت سے مرحلے طے کرتی ہے.پہلے نطفہ ہوتا ہے پھر خون کا لوتھڑا.اور ایک ذلیل سی حالت ہوتی ہے.پھر رفتہ رفتہ ترقی کرتا ۱ ڈائری نویس صاحب نے اس کتاب کا نام نہیں لکھا.(مرتّب) ۲ بدر جلد ۸ نمبر ۷ ،۸ مورخہ۲۴ و ۳۱؍دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۳

Page 260

ہے.ایسے ہی انبیاء کے سوائے سب لوگوں کو تمام مرحلے طے کرنے پڑتے ہیں.مامور من اللہ کی صحبت سے انسان درست ہوجاتا ہے.اگر ہر شخص گھر سے ہی ابدال میں سے بن کر آتا تو پھر سلسلہ بیعت کی ضرورت ہی کیا ہوتی؟ سلسلہ میں داخل ہو کر کمزور آدمی رفتہ رفتہ طاقت پکڑتا ہے.صحابہ کی پہلی حالت پر غور کرو.جب کافر مومن بن سکتا ہے تو کیا ایک فاجر صالح نہیں بن سکتا؟ انسان پر کئی حالتیں آتی ہیں اور کئی تغیرات واقع ہوتے ہیں.۱ ۱۰؍مئی ۱۹۰۶ء مباہلہ اعلیٰ درجہ کا ہتھیار ہے احمد مسیح عیسائی کے حضرتؑکو مباہلہ کے واسطے بلانے کا ذکر تھا.(جس کا جواب منظوری گذشتہ اخبار میں شائع ہو چکا ہے) فرمایا.مباہلہ ایک آخری فیصلہ ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نصاریٰ کو مباہلہ کے واسطے طلب کیا تھا مگر ان میں سے کسی کو جرأت نہ ہوئی.اب بھی عیسائیوں کے دلوں پر حق کا رعب طاری ہے اور امید نہیں کہ کوئی بشپ مباہلہ کے میدان میں آوے.لیکن اگر کوئی آئے گا تو ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک بڑی کامیابی دے گا.مباہلہ دشمن پر زد کرنے کا ایک اعلیٰ درجہ کا ہتھیار ہے.مہدی کے بارہ میں مسلمانوں میں اختلافات فرمایا.اس زمانہ میں مسلمانوں کے ساتھ بھی بحث مباحثہ فضول ہے کیونکہ جن حدیثوں اور روایتوں اور عقائد کی بناء پر وہ ہم سے مباحثہ کرنا چاہتے ہیں.ان کے بارے میں خود ان کے اپنے درمیان بڑے بڑے اختلاف موجود ہیں.کوئی کہتا ہے کہ مہدی فاطمی ہوگا.کوئی کہتا ہے کہ عباسی ہوگا.کوئی کہتا ہے کہ حسینی ہوگا.کوئی کہتا ہے کہ پیدا ہوگا.کوئی کہتا ہے کہ غار میں سے نکلے گا.کوئی کہتا ہے کہ امت میں سے ایک فرد ہوگا.کوئی کہتا ہے کہ وہی عیسیٰ ہی مہدی ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۳

Page 261

ہوگا.غرض اس قدر اختلاف کے ساتھ تعجب ہے کہ پھر یہ ہمارا مقابلہ کرتے ہیں.وہ نہیں سمجھتے کہ آنے والا حَکم ہے.وہ تمام بحثوں کا خاتمہ کرتا ہے اور اختلافی امور کے درمیان میں سے ایک سچی راہ پیش کرتا ہے اور وہی ماننے کے قابل ہے.۱ ۲۱؍مئی ۱۹۰۶ء میڈیکل اسکول کے خارج شدہ طلباء کو حضرت مسیح موعود ؑکی نصیحت میڈیکل اسکول کے جن طلباء نے اپنے استادوں سے ناراض ہو کر اتفاق کر کے مدرسہ جانا بند کر دیا ہے.ان میں سے دو طالب علم (عبد الحکیم صاحب اور ایک اور) قادیان میں حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں ۲۱؍مئی کو حاضر ہوئے.اور اپنا واقعہ گذشتہ اور پرنسپل کا ۳۱؍مئی تک داخل ہو جانے کی اجازت دے دینے کا ذکر کیا.آپ نے فرمایا کہ آجکل اس قسم کی کارروائیاں گورنمنٹ کے ساتھ بغاوت کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اور ان سے بچنا چاہیے.میرے نزدیک اب اس معاملہ کو ترقی نہیں دینا چاہیے اور پرنسپل صاحب کی اجازت سے فائدہ حاصل کر کے داخل ہوجانا چاہیے.جن استادوں کے ساتھ تم نے ناراضگی کااظہار کیا ہے ان کو اندر ہی اندر ضرور تنبیہ کی گئی ہوگی اور امید نہیںکہ وہ آئندہ تمہارے ساتھ بُرا سلوک کریں.گورنمنٹ ایسے لوگوں کو بغیر باز پرس نہیں چھوڑتی گو عام اظہار ایسی بات کا نہ کیا جاوے.علاوہ اس کے تمہیں چاہیے کہ اگر انہوں نے بد اخلاقی کی ہے تو تم ان سے اخلاق سیکھو اور اگر تمہیں کبھی ایسی افسری کا موقع ملے تو تم اخلاق کا برتاؤ اپنے شاگردوں اور ماتحتوں کے ساتھ کرو.۱ بدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۳

Page 262

اور جو قسمیں تم نے ضد پر کھائی ہیں وہ ناجائز ہیں.ناجائز قسم پر قائم رہنا گناہ ہے.خدا نے اسلامی شریعت میں یہی حکم دیا ہے کہ ناجائز قسموں اورناجائز اقراروں کو توڑ دیا جاوے.وقت کو ضائع کرنا اچھا نہیں.اپنے آپ کو پریشانی میں مت ڈالو اور اپنے مدرسہ میں داخل ہوجاؤ.۱ ۲۷؍مئی ۱۹۰۶ء ایک الہام اور ایک رؤیا کا پورا ہونا چودہری الٰہ داد صاحب مرحوم کا ذکر تھا.فرمایا.بڑے مخلص آدمی تھے.ایسا آدمی پیدا ہونا مشکل ہے.فرمایا.جو الہام الٰہی نازل ہوا تھا کہ ’’دو شہتیر ٹوٹ گئے‘‘ ان میں سے ایک شہتیر تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم تھے.دوسرے چودہری صاحب معلوم ہوتے ہیں.فرمایا.یہ جو رؤیا دیکھا گیا تھا کہ مولوی عبد الکریم صاحب کی قبر کے پاس دو اور قبریں ہیں وہ بھی پورا ہوا.ایک قبر الٰہی بخش صاحب ساکن مالیر کوٹلہ کی بنی اور دوسری چودہری صاحب مرحوم کی بنی.مخالف ملہموں کے واسطے فیصلہ کی آسان راہ الہام الٰہی اُرِیْـحُکَ وَلَا اُجِـیْحُکَ وَاُخْرِجُ مِنْکَ قَوْمًا کا ذکر تھا جس کے معنے ہیں میں تجھے راحت دوں گا اور تجھے بڑھاؤں گا اور تجھے تباہ نہ کروں گا اور تجھ سے ایک قوم نکالوں گا.فرمایا.اس وحی الٰہی کو مدّ نظر رکھ کر ہمارے مخالف ملہمین آسانی کے ساتھ فیصلہ کر سکتے ہیں.کیونکہ یہ خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو جواب دیا ہے جو اس کوشش میں ہیں کہ ہم کو بےنشان کر دیں.خدا تعالیٰ نے ان کا ردّ کر دیا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی محبت اور فضل و کرم کے خاص الفاظ ہیں جو کاذب کے حق میں نہیں بولے جاتے.اب مخالف ملہموں کے واسطے راستہ آسان ہے.چاہیے کہ وہ خدا کی ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۲۱ مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۰۶ءصفحہ ۲

Page 263

طرف سے ایسا الہام شائع کریں کہ یہ شخص ہلاک ہوجائے گا.ایک تازہ مثال ایسے ملہم کی تو چراغ دین کے وجودمیں قائم ہوچکی ہے اور بھی جو چاہے آزمائش کر لے.ہم تو خدا تعالیٰ کی ہزار حلف کھا کر کہتے ہیں کہ یہ جو ہم پر نازل ہوا یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جیسا کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا کلام ہے.یہ ایک خدا کا نشان ہے اور فیصلہ کی آسان راہ ہے جس کا جی چاہے اختیار کر لے.۱ ۳۰؍مئی ۱۹۰۶ء مسیح ہمیشہ فتح پائے گا فرمایا.ہر ایک نبی جو دنیا میں آتا ہے اس پرا للہ تعالیٰ کے کسی نہ کسی اسم کا پَرتوہ ہوتا ہے.مسیح موعود پر اللہ تعالیٰ کے غالب ہونے والے نام کا پَرتوہ ہے.صوفیوں نے بھی لکھا ہے کہ آنے والا مسیح ہمیشہ فتح پائے گا اور کبھی مغلوب نہ ہوگا.دشمن ہزار اس کی مخالفت کریں مگر وہ ایسا وجود ہے کہ اس کو ہمیشہ فتح ہی ہوگی.شکست تو اس نے کھانی ہی نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کے بغیر نجات نہیں ڈاکٹر عبدالحکیم کا ذکر تھا.فرمایا.جو شخص یہ کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر نجات ہوسکتی ہے وہ جھوٹھا ہے.خدا تعالیٰ نے جو بات ہم کو سمجھائی ہے وہ بالکل اس کے برخلاف ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (اٰلِ عـمران:۳۲) اے رسول (محمد صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلم) ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے پیار کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تم خدا کے محبوب بن جاؤ گے.بغیرمتابعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی شخص نجات نہیں پاسکتا.جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بغض رکھتے ہیں ان کی کبھی خیر نہیں.اس کے لیے مناسب نہ تھا کہ وہ تفسیر لکھنے بیٹھتا کیونکہ نہ تو ظاہری علوم سے اس کو کچھ حصہ تھا اور نہ باطنی طہارت اور پاکیزگی کو وہ حاصل کر چکا تھا.۱ بدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ ۷؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۴

Page 264

اسی واسطے میں نے کبھی اس کی تفسیر کو نہیں پڑھا کیونکہ اس میں تضیعِ اوقات ہے.ایسے آدمی کی کتاب کو پڑھنا صرف اپنے وقت کو خراب کرنا ہے.جاہل آدمی پھر متکبر کبھی نیک انجام نہیں پاسکتا.ایک الہام فرمایا.چند سال ہوئے کہ مجھے الہام ہوا تھا.؎ سر انجام جاہل جہنم بود کہ جاہل نکو عاقبت کم بود جماعت کی حفاظت کے بارہ میں ایک مبشر رؤیا اور اس کی تعبیر فرمایا.اللہ تعالیٰ جب ایک باغ لگاتا ہے اور کوئی اس کو کاٹنا چاہتا ہے تو خدا اس شخص پر کبھی راضی نہیں ہو سکتا.مدت کی بات ہے میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میں ایک گھوڑے پر سوار ہوں اور باغ کی طرف جاتا ہوں اور میں اکیلا ہوں سامنے سے ایک لشکر نکلا جس کا یہ ارادہ ہے کہ ہمارے باغ کو کاٹ دیں.مجھ پر ان کا کوئی خوف طاری نہیں ہوا.اور میرے دل میں یہ یقین ہے کہ میں اکیلا ان سب کے واسطے کافی ہوں.وہ لوگ اندر باغ میں چلے گئے اور ان کے پیچھے میں بھی چلا گیا.جب میں اندر گیا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ سب کے سب مرے پڑے ہیں اور ان کے سر اور ہاتھ اور پاؤں کاٹے ہوئے ہیں اور ان کی کھالیں اتری ہوئی ہیں.تب خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا نظارہ دیکھ کر مجھ پر رقّت طاری ہوئی اور میں رو پڑا کہ کس کا مقدور ہے کہ ایسا کر سکے.فرمایا.اس لشکر سے ایسے ہی آدمی مراد ہیں جو جماعت کو مرتد کرنا چاہتے ہیں اور ان کے عقیدوں کو بگاڑنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیںکہ ہماری جماعت کے باغ کے درختوں کو کاٹ ڈالیں.خدا تعالیٰ اپنی قدرت نمائی کے ساتھ ان کو ناکام کرے گا.اور ان کی تمام کوششوں کو نیست و نابود کر دے گا.فرمایا.یہ جو دیکھا گیا ہے کہ اس کا سر کٹا ہوا ہے.اس سے یہ مراد ہے کہ ان کا تمام گھمنڈ ٹوٹ جائے گا اور ان کے تکبر اور نخوت کو پامال کیا جائے گا.اور ہاتھ ایک ہتھیار ہوتا ہے جس کے ذریعہ

Page 265

سے انسان دشمن کا مقابلہ کرتا ہے.ہاتھ کے کاٹے جانے سے مراد یہ ہے کہ ان کے پاس مقابلہ کا کوئی ذریعہ نہیں رہے گا اور پاؤں سے انسان شکست پانے کے وقت بھاگنے کا کام لے سکتا ہے لیکن ان کے پاؤں بھی کٹے ہوئے ہیں جس سے یہ مراد ہے کہ ان کے واسطے کوئی جگہ فرار کی نہ ہوگی اور یہ جو دیکھا گیا ہے کہ ان کی کھال بھی اتری ہوئی ہے اس سے یہ مراد ہے کہ ان کے تمام پردے فاش ہوجائیں گے اور ان کے عیوب ظاہر ہوجائیں گے.دلیل صداقت فرمایا.اگر ہم افترا کرتے ہیں تو خدا خود ہمارا دشمن ہے اور ہمارے لیے بچاؤ کی کوئی صورت ہو ہی نہیں سکتی.لیکن اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے ہے اور مصائب اسلامی کے واسطے اللہ تعالیٰ نے خود ایک سامان بنایا ہے تو اس کا مقابلہ خدا تعالیٰ کو کس طرح پسند آسکتا ہے.بڑا بد قسمت ہے جو اس کو توڑنا چاہتا ہے.خدا کا جلال خدا کے رسول کے جلال سے وابستہ ہے فرمایا.یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کانام بے ادبی سے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کے جلال کے اظہار کے واسطے ہے اور نادان نہیں جانتے کہ جب تک خدا کے نبی اور اس کے رسول کا جلال نہ ہو.خدا کا جلال وہ کس طرح ظاہر کر سکتے ہیں؟ ڈاکٹر عبد الحکیم فرمایا.اگر ڈاکٹر عبد الحکیم کو تقویٰ صحیح ہوتا تو وہ کبھی تفسیر لکھنے کا نام نہ لیتا کیونکہ وہ اس کا اہل نہیں ہے.اس کی تفسیر میں ایک ذرہ روحانیت نہیں اور نہ ظاہری علم کا کچھ حصہ ہے.صلیب توڑی جانے کے قابل ہی ہے فرمایا.صلیب بھی خطا کار ہے کہ وہ اوّل یسوع پر غالب آئی اور اس کو مُردہ ساکر دیا اور پھر اس کی اُمّت پر غالب آئی اور اس کو اپنا پرستار بنایا.اس واسطے صلیب بھی اس قابل ہے کہ توڑی جاوے.

Page 266

سچے الہام کی خصوصیات فرمایا.الہام الٰہی کی عبارت عموماً مقفّٰی ہوتی ہے اور اس میں ایک شوکت ہوتی ہے اور اس میں سے کلام الٰہی کی ایک خوشبو آتی ہے.چودہری الٰہ داد مرحوم چودہری الٰہ داد صاحب مرحوم کا ذکر تھا.فرمایا کہ قبرستان کے متعلق جو الہام الٰہی تھا کہ اُنْزِلَ فِیْـھَا رَحْمَۃٌ اس کے مستحق چودہری صاحب موصوف بھی ہوئے.سچی توحید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے ہی مل سکتی ہے فرمایا.توحید آسمان سے نازل ہوتی ہے جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بغض رکھتے ہیں.(جیسا کہ ڈاکٹر عبد الحکیم خاں وغیرہ جو کہتے ہیں کہ آنحضرتؐپر ایمان لانے کی کچھ ضرورت نہیں.یہود و نصاریٰ خود بخود نجات پا جائیں گے) ان کو کبھی توحید مل ہی نہیں سکتی.سارا قرآن شریف اس سے بھرا ہوا ہے.جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ ان کے اندر سے ایمان کی کیفیت کو سلب کر لیتا ہے.مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ نبی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.فرمایا کہ تمام اکابر اس بات کو مانتے چلے آئے ہیں کہ اس اُمتِ مرحومہ کے درمیان سلسلہ مکالماتِ الٰہیہ کا ہمیشہ جاری ہے اس معنے سے ہم نبی ہیں.ورنہ ہم اپنے آپ کو امتی کیوں کہتے؟ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جو فیضان کسی کو پہنچ سکتا ہے وہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پہنچ سکتا ہے.اس کے سوائے اَور کوئی ذریعہ نہیں.ایک اصطلاح کے جدید معنے اپنے پاس سے بنا لینا درست نہیں ہے.حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ آنے والا مسیح نبی بھی ہوگا اور امتی بھی ہوگا.امتی تو وہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے فیض حاصل کر کے تمام کمال حاصل کرے.لیکن جو شخص پہلے ہی سے نبوت کا درجہ پاچکا ہے وہ امتی کس طرح سے بن سکے گا؟ وہ تو پہلے ہی سے نبی ہے.

Page 267

سائل نے سوال کیا کہ اگر اسلام میں اس قسم کا نبی ہو سکتا ہے تو آپ سے پہلے کون نبی ہواہے؟ حضرت نے فرمایا.یہ سوال مجھ پر نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے.انہوں نے صرف ایک کا نام نبی رکھا ہے.اس سے پہلے کے کسی آدمی کا نام نبی نہیں رکھا.اس سوال کا جواب دینے کا اس واسطے میں ذمہ وار نہیں ہوں.۱ ۳۱؍مئی ۱۹۰۶ء ایک رؤیا فرمایا.تین چار روز ہوئے میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ بہت سے چھوٹے زنبور ہیں اور میں ان کو مارتا ہوں اس سے مراد یہی مخالف دشمن ہیں جو احمق ہیں اور غوغا مچاتے ہیں.مخالفین کی تباہی دلائل کے ذریعہ ہوگی یہ بھی حکمت الٰہی ہے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ جوش دیا کہ خلقت کو ہدایت دیں اور ان کو راہِ راست پر لاویں اور دوسری طرف ابوجہل جیسوںکو جوش دیا کہ مخالفت میں شور و غوغا مچائیں.مذکورہ بالا رؤیا کے مطابق مخالفوں کی تباہی بذریعہ دلائل اور بذریعہ نشاناتِ الٰہی کے ہے.دشمن خود بخود ہلاک ہو رہے ہیں کیونکہ یہ زمانہ تلوار کا نہیں.خدا آپ سامان پیدا کرتا ہے.رفعِ درجات کے لیے ابتلا ضروری ہیں حیدر آباد کے مولوی محمد سعید صاحب نے اپنے ابتلاؤں کا ذکر کیا.فرمایا.جب تک انسان ابتلا کی برداشت نہ کرے خدا کے پاس اس کو درجہ نہیں مل سکتا.روحانی انقلاب کے لیے خدا تعالیٰ کے فضل کی ضرورت ہے فرمایا.ہم غریب اور ضعیف ہیں نہ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ ۷؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۳،۴

Page 268

تلوار ہمارے ہاتھ میں ہے اور نہ ہم اس امر کے واسطے مامور ہیں کہ تلوار چلائیں اور نہ ہمارے پاس جنگ کے سامان ہیں.لیکن ہماری تلوار آسمان پر ہے.دنیا میں جس عظیم الشان انقلاب کو ہم چاہتے ہیں کہ لوگ خدا کی طرف جھکیں اور اس کی ہستی پر ایمان لاویں وہ ہمارے اختیار میں نہیں.کتابوں کے لکھنے سے بھی کچھ نہیں ہوتا.گو ایک ہرے بھرے باغ کی طرح دلائل کا مجموعہ ہم نے اکٹھا کیا ہے.لیکن اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے کچھ کرے گا.میرا قلب محسوس کرتا ہے کہ اس وقت دنیا ایسی سخت غفلت میں پڑی ہوئی ہے کہ بغیر الیم اور شدید عذاب کے ماننے والے نہیں.حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ آنے والا مسیح مُردوں کو زندہ کرتا پھرے گا بلکہ یہ فرمایا کہ زندوں کو مارے گا.(جیسا کہ طاعون وغیرہ نشانات میں ہلاکت ہو رہی ہے)۱ بلا تاریخ مسیح موعودؑ کی نصائح عورتوں کو گھر میں (رقم زدہ صاحبزادہ میاں بشیر الدین محمود احمدصاحب) (منقول از رسالہ تشحیذ الاذہان بابت جون ۱۹۰۶ء) غیبت (فرمایا) غیبت کرنے والے کی نسبت قرآن کریم میں ہے کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے.عورتوں میں یہ بیماری بہت ہے.آدھی رات تک بیٹھی غیبت کرتی ہیں اور پھر صبح اٹھ کر وہی کام شروع کر دیتی ہیں.لیکن اس سے بچنا چاہیے.عورتوں کی خاص سورت قرآن شریف میں ہے.حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے بہشت میں دیکھا کہ فقیر زیادہ تھے اور دوزخ میں دیکھا کہ عورتیں بہت تھیں.۱ بدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ ۷؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۳

Page 269

فخر و مباہات فرمایاکہ عورتوں میں چند عیب بہت سخت ہیں اور کثرت سے ہیں.ایک شیخی کرنا کہ ہم ایسے اور ایسے ہیں.پھر یہ کہ قوم پر فخر کرنا کہ فلاں تو کمینی ذات کی عورت ہے یا فلاں ہم سے نیچی ذات کی ہے.پھر یہ کہ اگر کوئی غریب عورت ان میں بیٹھی ہوتی ہے تو اس سے نفرت کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارہ شروع کر دیتی ہیں کہ کیسے غلیظ کپڑے پہنے ہیں.زیور اس کے پاس کچھ بھی نہیں.خاوند کی اطاعت فرمایا کہ عورت پر اپنے خاوند کی فرمانبرداری فرض ہے.نبی کریمؐنے فرمایا ہے کہ اگر عورت کو اس کا خاوند کہے کہ یہ ڈھیر اینٹوں کا اٹھا کر وہاں رکھ دے اور جب وہ عورت اس بڑے اینٹوں کے انبار کو دوسری جگہ پر رکھ دے تو پھر اس کا خاوند اس کو کہے کہ پھر اس کو اصل جگہ پر رکھ دے تو اس عورت کو چاہیے کہ چون و چرا ذرا نہ کرے بلکہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے.عورتوں کے حقوق فرمایا کہ عورتیں یہ نہ سمجھیں کہ ان پر کسی قسم کا ظلم کیا گیا ہے کیونکہ مرد پر بھی ان کے بہت سے حقوق رکھے گئے ہیں بلکہ عورتوں کو گویا کہ بالکل کرسی پر بٹھا دیا ہے اور مرد کو کہا ہے کہ ان کی خبر گیری کر.اس کا تمام کپڑا کھانا اور تمام ضروریات مرد کے ذمہ ہیں.فرمایا کہ دیکھو! موچی ایک جوتی میں بد دیانتی سے کچھ کا کچھ بھر دیتا ہے صرف اس لیے کہ اس سے کچھ بچ رہے تو جورو بچوں کے پیٹ پالوں.سپاہی لڑائی میں جا کر سر کٹاتے ہیں صرف اس لیے کہ کسی طرح جورو بچوں کا گذارہ ہو.فرمایا کہ بڑے بڑے عہدیدار رشوت کے الزام میں پکڑے ہوئے دیکھے جاتے ہیں.وہ کیا ہوتا ہے؟ عورتوں کے لیے ہوتا ہے.عورت کہتی ہے کہ مجھ کو زیور چاہیے کپڑا چاہیے.مجبوراً بیچارے کو کرنا پڑتا ہے.لیکن خدا نے ایسی طرز وںسے رزق کمانا منع فرمایا ہے.یہاں تک عورتوں کے حقوق ہیں کہ جب مرد کو کہا گیا ہے کہ ان کو طلاق دو تو مہر کے علاوہ ان کو

Page 270

کچھ اور بھی دو.کیونکہ اس وقت تمہاری ہمیشہ کے لیے اس سے جدائی لازم ہوتی ہے.پس لازم ہے کہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرو.توفّی کے معنی قرآن شریف کے ترجمہ کی بابت ذکر ہوا تو فرمایا.دیکھو! توفّی کے معنے ہمارے مخالف مولوی مرنے کے کرتے ہیں.لیکن جب مسیح کے بارہ میں یہ لفظ آجاوے تو اس کا اور ہی مطلب بتاتے ہیں کہ آسمان پر مع جسم عنصری کے چڑھ گیا.حضرت یوسفؑ اور آنحضرتؐکے بارہ میں جب یہ لفظ آجاوے.تب تو وفات کے معنے وہی موت کئے جاتے ہیں.افسوس! چاہیے تو تھا کہ اگرمعنے بدلنے ہی ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بدلے جاتے.آسمان پر جانا ناممکن ہے فرمایا.قرآن شریف تو بتاتا ہے کہ آسمان پر جانا تمہارا ناممکن ہے.جیسا کہ آنحضرتؐکو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کہہ دے کہ میں ایک بشر رسول ہوں میں آسمان پر کیونکر چلا جاؤں اور پھر قرآن شریف میں ہے مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ(البقرۃ:۳۷).معراج کی حقیقت پھر فرمایا کہ مخالف مولوی ہماری مخالفت میں معراج کی حدیث پیش کرتے ہیں حالانکہ حضرت عائشہؓ کا مذہب تھا کہ جو کوئی کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع جسم عنصری آسمان پر گئے وہ آنحضرت پر تہمت لگاتا ہے.اسی طرح اور ائمہ اور اصحاب کرام کابھی یہی مذہب رہا ہے کہ آنحضرت ایک نورانی جسم کے ساتھ آسمان پر گئے نہ اس جسم کے ساتھ.ایسا ہی شاہ ولی اللہ صاحب کا بھی یہی مذہب تھا اور شاہ عبد العزیز بھی یہی لکھتے ہیں کہ اس جسم کے ساتھ آسمان پر جانا نہیں ہوتا بلکہ ایک اور نورانی جسم ملتا ہے جس سے کہ انسان آسمان پر جاتا ہے.بندہ کی فضیلت الہام میں نہیں، اعمال صالحہ میں ہے ایک شخص نے تحریر کیا کہ یہاں اَور بہت لوگوں

Page 271

کو الہام ہوتا ہے.مجھ کو خواب تک نہیں آتی.آپ دعا کریں کہ مجھ کو بھی الہام ہوا کریں کیونکہ میری عمر کا ایک بہت بڑا حصہ اس میں گذرا ہے.اس لیے کوئی ایسی بات بتا ئیں جس سے میری مراد پوری ہو جاوے.اس پر جو حضرت صاحب نے حکم تحریر کیا ہے وہ اس قابل ہے کہ ناظرین رسالہ ہذا بھی اس سے مطلع کئے جاویں.کیونکہ یہ اس امام برحق کے الفاظ ہیں جس کا ایک ایک لفظ ہمارے لیے جواہرات سے بڑھ کر قیمت رکھتا ہے.(ایڈیٹر تشحیذ) حضرتؑنے جواب دیا.السلام علیکم.الہام خدا تعالیٰ کا فعل ہے.بندہ کی الہام میں فضیلت نہیں.بلکہ اعمالِ صالحہ میں فضیلت ہے اور اس میں کہ خدا تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے.سو نیک کاموں میں کوشش چاہیے تاکہ موجب نجات ہو.والسلام مرزا غلام احمد مسیح موعود کے لیے نمازیں جمع کی جائیں گی چونکہ کچھ مدت سے حضرت کی طبیعت دن کے دوسرے حصہ میں اکثر خراب ہوجاتی ہے اس لیے نماز مغرب اور عشاء گھر میں باجماعت پڑھ لیتے ہیں.باہر تشریف نہیں لا سکتے.ایک دن نماز مغرب کے بعد چند عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا جو سننے کے قابل ہے.(ایڈیٹر تشحیذ) فرمایا کہ کوئی یہ نہ دل میں گمان کر لے کہ یہ روز گھر میں جمع کر کے نماز پڑھا دیتے ہیں اور باہر نہیں جاتے.یہ نبی کریمؐنے پیشگوئی کی کہ آنے والا شخص نماز جمع کیا کرے گا.سو چھ مہینہ تک تو باہر جمع کرواتا رہا ہوں اب میں نے کہا کہ عورتوں میں بھی اس پیشگوئی کو پورا کر دینا چاہیے.چونکہ بغیر ضرورت کے نماز جمع کرنا ناجائز ہے اس لیے خدا نے مجھ کو بیمار کر دیا اور اس طرح سے نبی کریمؐ کی پیشگوئی کو پورا کر دیا.ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ آنحضرتؐکے قول کو پورا کرے.کیونکہ وہ پورا نہ ہو تو آنحضرتؐنعوذباللہ جھوٹے ٹھہرتے ہیں.اس لیے ہر ایک کو وہ بات جو اس کے اختیار میں ہو نبی کریمؐکے کہنے کے موافق پوری کر دینی چاہیے اور خدا خود بھی سامان مہیا کر دیتا ہے جیسا کہ مجھ کو بیمار

Page 272

کر دیا تاکہ آنحضرتؐکے قول کو پورا کر دے.جیسا کہ ایک دفعہ نبی کریمؐنے ایک صحابی سے فرمایا کہ تیرا اس وقت کیا حال ہوگا جبکہ تیرے ہاتھ میں کسریٰ کے سونے کے کڑے پہنائے جائیں گے.آنحضرت کی وفات کے بعد جب کسریٰ کا ملک فتح ہوا.تو حضرت عمرؓ نے اس کو سونے کے کڑے جو لوٹ میں آئے تھے پہنائے.حالانکہ سونے کے کڑے یا کوئی اور چیز سونے کی مَردوں کے لیے ایسی ہی حرام ہے جیسا کہ اور حرام چیزیں.لیکن چونکہ نبی کریمؐکے منہ سے یہ بات نکلی تھی اس لیے پوری کی گئی.اسی طرح ہر ایک دوسرے انسان کو بھی آنحضرتؐکے قول کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.دو زرد چادروں سے مراد فرمایا کہ دیکھو! میری بیماری کی نسبت بھی آنحضرتؐنے پیشگوئی کی تھی جو اسی طرح وقوع میں آئی.آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح آسمان پر سے جب اترے گا تو دو زرد چادریں اس نے پہنی ہوئی ہوں گی تو اسی طرح مجھ کو دو بیماریاں ہیں ایک اوپر کے دھڑ کی اور ایک نیچے کے دھڑ کی.یعنی مراق اور کثرت بول.ہمارے مخالف مولوی اس کے معنے یہ کرتے ہیں کہ وہ سچ مچ جوگیوں کی طرح دو چادریں اوڑھے ہوئے آسمان سے نیچے اتریں گے.لیکن یہ غلط ہے.کیونکہ معبّروں نے ہمیشہ زرد چادر کے معنے بیماری کے ہی لکھے ہیں.ہر ایک شخص جو زرد چادر دیکھے یا کوئی اور زرد چیز تو اس کے معنے بیماری کے ہی ہوں گے اور ہر ایک شخص جو ایسا دیکھے آزما سکتا ہے کہ اس کے معنے یہی ہیں.صلح پسندی کے ساتھ مذہب کی غیرت ضروری ہے دو عورتوںکے جھگڑے پر فرمایا کہ قرآن شریف میں آیا ہے وَالصُّلْحُ خَيْرٌ(النسآء:۱۲۹) اس لیے اگر آپس میں کوئی لڑائی جھگڑا ہو جائے تو صلح کر لینی چاہیے کیونکہ اس میں خیر اور برکت ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ غیر مذاہب کے ساتھ بھی یہ بات رکھی جائے بلکہ ان کے ساتھ سخت مذہبی عداوت رکھنا چاہیے.جب تک مذہب کی غیرت نہ ہو انسان کا مذہب ٹھیک نہیں ہوتا.اب یہ جو ہندو عیسائی ہمارے آنحضرتؐکو گالیاں نکالتے ہیں تو کیا ہم ان کے ساتھ صلح رکھ سکتے ہیں بلکہ ان کی محفلوں میں بیٹھنا اور ان کے ساتھ دوستی کرنا اور

Page 273

ان کے گھروں میں جانا تو معصیت میں داخل ہے.جھگڑوںکی بنیاد بد ظنی ہوتی ہے ہاں آپس میں جو ایک فرقہ میں ہوں تو لڑائی جھگڑا کی زیادہ تر بنیاد بد ظنی ہوتی ہے.حدیث میں ہے کہ دوزخ میں دو تہائی آدمی بد ظنی کی وجہ سے داخل ہوں گے.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ قیامت کے دن میں لوگوں سے پوچھوں گا کہ اگر تم مجھ پر بد ظنی نہ کرتے تو یہ کیوں ہوتا.حقیقت میں اگر لوگ خدا پر بدظنی نہ کرتے تو اس کے احکام پر کیوں نہ چلتے.انہوں نے خدا پر بد ظنی کی اور کفر اختیار کیا اور بعض تو خدا کے وجود تک کے منکر ہوگئے.تمام فسادوں اور لڑائیوں کی وجہ یہی بدظنی ہے.پیشگوئیوں کے مطابق زلزلوںکا وقوع زلزلہ کی نسبت باتوں میں فرمایا کہ قرآن شریف میں زلزلہ آنے کی خبر دی گئی ہے کہ مسیح کے وقت ایسے زلزلے آئیں گے کہ شدت میں نہایت ہی سخت ہوں گے.اب تک ان مولویوں نے یہ سب باتیں قیامت پر اٹھا چھوڑی تھیں مگر یہ جو پیشگوئی ہے کہ حمل دار عورتوں کے حمل گر جائیں گے تو قیامت کے دن عورتوں کو حمل بھی ہوں گے؟ یہ بات کچھ بھوپال کے نواب صدیق حسن خان نے سمجھی ہے لیکن افسوس کہ اب تک کوئی مولوی نہیں سمجھا کہ قیامت کو عورتوں کے حمل کہاں ہوں گے.کئی مسائل ہیں کہ جن کا ظاہر ہونا مسیح کے وقت میں بیان کیا گیا تھا یہاں تک کہ آنحضرتؐنے فرمایا کہ ایک شخص کھڑا ہوگا اور کہے گا کہ یہ کون شخص ہے کہ ہمارے مذہب کے برخلاف باتیں بناتا ہے جو آج تک نہیں سنیں.جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ ان نشانوں میں سے ایک زلزلہ بھی ہے کہ علماء اس کو قیامت کے وقت قرار دیتے ہیں.اب دیکھو کہ یہ دونوں زلزلے جو آئے ہیں کیا ایسے کبھی پہلے بھی دیکھے یا سنے تھے؟ جو اصل میں قرآن شریف کی اسی پیشگوئی کے مطابق آئے.۱ ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ ۷؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۴،۵

Page 274

۷؍جون ۱۹۰۶ء بذریعہ الہام الٰہی معلوم ہوا کہ میاں منظور محمد صاحب کے گھر میں یعنی محمدی بیگم کا ایک لڑکا پیدا ہوگا جس کے دو نام ہوں گے.(۱) بشیر الدولہ (۲)عالَم کباب یہ ہر دو نام بذریعہ الہام الٰہی معلوم ہوئے اور ان کی تعبیر اور تفہیم یہ ہے.(۱)بشیر الدولہ سے یہ مراد ہے کہ وہ ہماری دولت اور اقبال کے لئے بشارت دینے والا ہوگا.اس کے پیدا ہونے کے بعد یا اس کی ہوش سنبھالنے کے بعد زلزلہ عظیمہ کی پیشگوئی اور دوسری پیشگوئیاں ظہور میں آئیں گی.ا ور گروہ کثیر مخلوقات کا ہماری طرف رجوع کرے گا اور عظیم الشان فتح ظہور میں آئے گی.(۲) عالَم کباب سے یہ مراد ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے بعد چند ماہ تک یا جب تک کہ وہ اپنی برائی بھلائی شناخت کرے دنیا پر ایک سخت تباہی آئے گی.گویا دنیا کا خاتمہ ہوجائےگا اس وجہ سے اس لڑکے کا نام عالَم کباب رکھا گیا.غرض وہ لڑکا اس لحاظ سے کہ ہماری دولت اور اقبال کی ترقی کے لیے ایک نشان ہوگا بشیر الدولہ کہلائے گا.اور اس لحاظ سے کہ مخالفوں کے لیے قیامت کا نمونہ ہوگا عالَم کباب کے نام سے موسوم ہوگا.خدا تعالیٰ کے الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے سرکش لوگوں کے لئے کچھ اور مہلت منظور ہے تب بالفعل میاں منظور محمد صاحب کے گھر میں لڑکا نہیں بلکہ لڑکی پیدا ہو گی اور لڑکا بعد میں ہوگا.مگر ضرور ہوگا کیونکہ وہ خدا کا نشان ہے اور اگر دنیا پر جلد عذاب کا وقت آ پہنچا ہے یعنی عذاب عظیم کا وقت تب ابھی لڑکا پیدا ہوگا جس کا نام بشیر الدولہ اور عالَم کباب ہوگا اور وہ دنیا کے لئے، نیکوں کے لئے

Page 275

اور نیز بدوں کے لئے خدا کا نشان ہوگا.یہ اسی قسم کا نشان ہے جیسا کہ عزریا نبی نے حزقیاہ بادشاہ کے لئے فرمایا تھا.اور خدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ عنقریب دو نشان ظاہر ہوں گے.پس اگر دو نشان ظاہر ہونے والے جو عنقریب ہیں وہ اور ہیں تو اس صورت میں بھی اب کی دفعہ ان کے گھر میں لڑکی پیدا ہوگی.نہیں تو اب کی دفعہ ہی لڑکا پیدا ہوگا اور وہ خدا کا نشان ہوگا.اور اس کے ساتھ ایک دوسرا نشان ظاہر ہوگا.اور وہ لڑکا نیکوںکے لئے اور اس سلسلہ کے لئے ایک سعد ستارہ کی طرح مگر بدوں کے لئے اس کے برخلاف ہوگا.۱ بلاتاریخ۲ حقیقی مصلح اور واعظین میں فرق آج کل کے ایک مشہور لیڈر قوم کا ذکر تھا کہ وہ کہتا ہے کہ ان دنوں مسلمان وعظ کی مجلس میں نہیں آتے لیکن اگر رنڈیوں کا راگ ناچ ہو تو وہاں خوب جمع ہوجاتے ہیں.حضرت نے فرمایا.یہ بات درست ہے لیکن اس کا اصل باعث واعظین کی حالتیں ہے.آجکل کے وعظ کرنے والے ہی ایسے ہیں کہ وہ خود پرلے درجہ کے دنیادار اور بے عمل اور بد کار ہیں.اور ان کے وعظ میں نہ کوئی تاثیر ہے اور نہ کوئی لذت ہے اور نہ کوئی کشش ہے.برخلاف اس کے رنڈیوں کے راگ میں خراب کاروں کے واسطے ایک لذت ہے گو وہ ظاہری ہے اور بدی کی طرف ہے.مگر لوگ ایک ظاہری لذت کی طرف کھینچے چلے جاتے ہیں.اگر واعظین کے وعظ میں کشش اور لذت ہوتی تو وہ سب کو کھینچ کر اپنی طرف لے آتے.ہر ایک مصلح، ریفارمر، ولی، نبی میں چار باتوں کا ہونا ضروری ہے.۱الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۰ مورخہ ۱۰؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ ۲ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان ملفوظات پر کوئی تاریخ درج نہیں.لیکن اندازہ ہے یہ ارشادات جون ۱۹۰۶ء کے پہلے تین ہفتوں کی کسی تاریخ کے ہیں.واللہ اعلم بالصواب.(مرتّب)

Page 276

اوّل اس میں ایک بصیرت ہو جس سے وہ علمی مسائل کو ایسے رنگ میں پیش کرے جس سے سننے والوں کو ایک لذت حاصل ہو.کیونکہ نامعقول بات سے انسان کے دل میں ایک خلش رہتی ہے اور معقول بات خواہ مخواہ پسندیدہ ہوتی ہے اور اس میں ایک لذت ہوتی ہے جیسا کہ شربت میں طبعاً ایک لذت محسوس ہوتی ہے.دوم یہ کہ اس میں ایک عملی طاقت ہو.خود عالم با عمل ہو.صدق، وفا اور شجاعت اس میں پائی جاتی ہو کیونکہ جو شخص خود عمل کرنے والا نہیں اس کا اثر دوسروں پر ہرگز نہیں ہو سکتا.سوم یہ کہ اس میں کشش ہو.کوئی نبی نہیں جس میں قوت جاذبہ نہ ہو.ہر ایک مامور کو ایک قوت جاذبہ عطا کی جاتی ہے کہ وہ اپنی جگہ بیٹھا ہوا دوسروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور لوگ اس کی طرف کھینچے ہوئے چلے آتے ہیں.چہارم یہ کہ وہ خوارق اور کرامات دکھائے اور نشانات کے ذریعہ سے لوگوں کے ایمان کو پختہ کرے.ان وعظ کرنے والے لوگوں میں ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی نہیں پائی جاتی.ضرورتِ امام نادان لوگ کہتے ہیں کہ امام کی ضرورت کیا ہے؟ سب لوگ نماز حج وغیرہ فرائض اپنی اپنی جگہ ادا کر رہے ہیں.مگر یہ لوگ جھوٹھ کہتے ہیں.فی زمانہ ان کے درمیان نہ اندرونی خوبیاں اور نہ بیرونی.اللہ تعالیٰ نے جو اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ(الفاتـحۃ:۷) میں ایسے لوگوں کا ذکر کیا وہ انعامات ان کے درمیان کہاں پائے جاتے ہیں.یہ لوگ تو خود ہی تاریکی میں پڑے ہوئے ہیں.اخلاق خراب ہیں.اعمال خراب ہیں.ایمان نہیں.دین صرف ایک رسم رہ گیا ہے جس میں خالی استخوان ہے اور مغز نہیں.بیرونی حملوں کا یہ حال ہے کہ کوئی خاندان ایسا نہیں جس میں کوئی نہ کوئی مرتد نہ ہوگیا ہو.وہ جو مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے تھے اور جن کے کانوں میں لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ کا کلمہ پڑھا گیا تھا اب گرجوں میں بیٹھ کر ایک خدا کے ساتھ دوسرے اور تیسرے خدا بناتے ہیں.اور مُردوں کی پرستش کرتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ( نعوذ باللہ) گالیاں دیتے ہیں.اسلامی سلطنتوں کا یہ حال ہے کہ سب سے زیادہ فخر سلطانِ روم

Page 277

پر کیا جاتا ہے جو رات دن یورپ سلطنت سے خوفزدہ رہتا ہے اور بمشکل اپنی زندگی کے دن کاٹ رہا ہے وہ کون سی خوش قسمتی کی بات ہے جو اس وقت مسلمانوں کے درمیان پائی جاتی ہے ہر پہلو سے ان کے حالات پر رونا آتا ہے.ایک اہلِ رائے ان کے حال سے بالکل ناامیدی ظاہر کرتا ہے.ہمارا ہتھیار دعا ہے دشمن بد اندیش صرف عداوت کے سبب ہماری ہر بات اور ہر فعل پر اعتراض کرتا ہے کیونکہ اس کا دل خراب ہے اور جب کسی کا دل خراب ہوتا ہے تو پھر چاروں طرف اندھیرا ہی نظر آتا ہے.یہ نادان کہتے ہیں کہ وہ اپنی جگہ پر بیٹھے ہیں اور کچھ کام نہیں کرتے.مگر وہ خیال نہیں کرتے کہ مسیح موعود کے متعلق کہیں یہ نہیں لکھا کہ وہ تلوار پکڑے گا اور نہ یہ لکھا ہے کہ وہ جنگ کرے گا بلکہ یہی لکھا ہے کہ مسیح کے دم سے کافر مریں گے یعنی وہ اپنی دعا کے ذریعہ سے تمام کام کرے گا.اگر میں جانتا کہ میرے باہر نکلنے سے اور شہروں میں پھرنے سے کچھ فائدہ ہو سکتا ہے تو میں ایک سیکنڈ بھی یہاں نہ بیٹھتا مگر میں جانتا ہوں کہ پھرنے میں سوائے پاؤں گھسانے کے اور کوئی فائدہ نہیں ہے.اور یہ سب مقاصد جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں صرف دعا کے ذریعہ سے حاصل ہو سکیں گے.دعا میں بڑی قوتیں ہیں.کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ ایک ملک پر چڑھائی کرنے کے واسطے نکلا.راستہ میں ایک فقیر نے اس کے گھوڑے کی باگ پکڑی اور کہا کہ تم آگے مت بڑھو ورنہ میں تمہارے ساتھ لڑائی کروں گا.بادشاہ حیران ہوا اور اس سے پوچھا کہ تو ایک بے سروسامان فقیر ہے تو کس طرح میرے ساتھ لڑائی کرے گا؟ فقیر نے جواب دیا کہ میں صبح کی دعاؤں کے ہتھیار سے تمہارے مقابلہ میں جنگ کروں گا.بادشاہ نے کہا کہ میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا.غرض دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں.خدا نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کےیہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ سے ہوگا.ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس کے سوائے اور کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں.جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خدا اس کو ظاہر کر کے دکھا دیتا ہے.گذشتہ انبیاء کے زمانہ میں بعض مخالفین کو نبیوں کے ذریعہ سے بھی سزا دی جاتی تھی مگر خدا جانتا ہے کہ ہم

Page 278

ضعیف اور کمزور ہیں اس واسطے اس نے ہمارا سب کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے.اسلام کے واسطے اب یہی ایک راہ ہے جس کو خشک مُلّا اور خشک فلسفی نہیں سمجھ سکتا.اگر ہمارے واسطے لڑائی کی راہ کھلی ہوتی تو اس کے لیے تمام سامان بھی مہیا ہوجاتے.جب ہماری دعائیں ایک نقطہ پر پہنچ جائیں گی تو جھوٹے خود بخود تباہ ہوجائیں گے.نادان دشمن جو سیاہ دل ہے وہ کہتا ہے کہ ان کو سوائے سونے اور کھانے کے اور کچھ کام ہی نہیں.مگر ہمارے نزدیک دعا سے بڑھ کر اور کوئی تیز ہتھیار ہی نہیں.سعید وہ ہے جو اس بات کو سمجھے کہ خدا تعالیٰ اب دین کو کس راہ سے ترقی دینا چاہتا ہے.۱ بلاتاریخ۲ کامل تعلیم کے اوصاف ایک فرقہ مذہبی کا ذکر آیا کہ وہ صرف چند باتوںکے ترک پر زور دیتے ہیں اور بس.فرمایا.یہ تعلیم ناقص ہے.صرف ترک سے وصول نہیں ہوتا کیونکہ ترک مستلزم وصول نہیں.اس کی مثال اس طرح سے ہے کہ ایک شخص نے لاہور جانا ہے اور گورداسپور نہیں جانا.صرف اتنے سے کہ وہ گورداسپور نہیں گیا یہ امر حاصل نہیں ہو سکتا کہ وہ لاہور پہنچ گیا ہے.ترک معاصی اَور شے ہے اور نیکیوں کا حصول اور قربِ الٰہی دوسری شے ہے.عیسائیوں نے بھی اس معاملہ میں بڑا دھوکا کھایا ہے اور اسی واسطے انہوں نے کفارہ کا غلط مسئلہ ایجاد کیا ہے کہ یسوع کے پھانسی ملنے سے ہمارے گناہ دور ہوگئے.اوّل تو یہ بات ہی غلط ہے کہ ایک شخص کا پھانسی ملنا سب کے گناہ دور کر دے.دوم اگر گناہ دوربھی ہو جاویں تو صرف گناہ کا موجود نہ ہونا کوئی خوبی کی بات نہیں ہے.بہت کیڑے مکوڑے اور بھیڑ بکریاں دنیا میں موجود ہیں جن کے ذمہ کوئی گناہ نہیں لیکن وہ خدا تعالیٰ کے ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۲۵ مورخہ ۲۱؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۴ ۲ان ملفوظات پر کوئی تاریخ تو درج نہیں.اندازاً جون ۱۹۰۶ء کے آخری ہفتہ یا جولائی ۱۹۰۶ء کے پہلے عشرہ کے معلوم ہوتے ہیں.واللہ اعلم بالصواب.(مرتّب)

Page 279

مقربوں میں سے نہیں شمار ہو سکتے اور ایسا ہی کثرت سے اس قسم کے ابلہ اور سادہ لوح لوگ موجود ہیں جو کوئی گناہ نہیں کرتے نہ چوری، نہ زنا، نہ جھوٹھ، نہ بد کاری، نہ خیانت لیکن ان گناہوں کے نہ کرنے کے سبب وہ مقربانِ الٰہی میں شمار نہیں ہو سکتے.انسان کی خوبی اس میں ہے کہ وہ نیکیاں اختیار کرے اور خدا کو راضی کرنے کے کام کرے اور معرفتِ الٰہی کے مدارج حاصل کرے اور روحانیت میں ترقی کرے اور ان لوگوں میں شامل ہو جاوے جو بڑے بڑے انعام حاصل کرتے ہیں.اس کے واسطے قرآن شریف میں دونوں باتوں کی تعلیم دی گئی ہے.ایک ترک گناہ اور دوم وصول قربِ الٰہی.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ابرار کی دو صفتیں ہیں ایک یہ کہ وہ کافوری شربت پیتے ہیں جس سے گناہوں کے جوش ٹھنڈے ہوجاتے ہیں اور پھر زنجبیلی شربت پیتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کے راہ میں مشکل گھاٹیوںکو طے کرتے ہیں.وہ آیت کریمہ اس طرح سے ہے اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا عَيْنًا يَّشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللّٰهِ يُفَجِّرُوْنَهَا۠ تَفْجِيْرًا (الدّھر:۶،۷) وَ يُسْقَوْنَ فِيْهَا كَاْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيْلًا(الدّھر:۱۸) ایسے لوگ جو خدا میں محو ہیں خدا نے ان کو وہ شربت پلایا ہے جس نے ان کے دل اور خیالات اور ارادات کو پاک کر دیا.نیک بندے وہ شربت پی رہے ہیںجس کی ملونی کافور ہے وہ اس چشمہ سے پیتے ہیں جس کو وہ آپ ہی چیرتے ہیں.اور میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ کافور کا لفظ اس واسطے اس آیت میں اختیار فرمایا گیا ہے کہ لغت عرب میں کفر دبانے اور ڈھانکنے کو کہتے ہیں.سو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے ایسے خلوص سے انقطاع اور رجوع الی اللہ کا پیالہ پیا ہے کہ دنیا کی محبت بالکل ٹھنڈی ہوگئی ہے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ تمام جذبات دل کے خیال سے ہی پیدا ہوتے ہیں اور جب دل ان نالائق خیالات سے بہت ہی دور چلا جاوے اور کچھ تعلقات ان سے باقی نہ رہیں تو وہ جذبات بھی آہستہ آہستہ کم ہونے لگتے ہیںیہاں تک کہ نابود ہوجاتے ہیں.سو اس جگہ خدا تعالیٰ کی یہی غرض ہے اور وہ اس آیت میں یہی سمجھاتا ہے کہ وہ اس کی طرف کامل طور سے جھک گئے.وہ نفسانی جذبات سے بہت ہی دور نکل گئے ہیں اور ایسے خدا کی طرف جھکے کہ دنیا کی سر گرمیوں سے ان کے دل ٹھنڈے ہوگئے اور ان کے

Page 280

جذبات ایسے دب گئے جیسا کہ کافور زہریلی مادوںکو دبا دیتا ہے اور پھر فرمایا کہ وہ لوگ اس کافوری پیالہ کے بعد وہ پیالے پیتے ہیں جن کی ملونی زنجبیل ہے.اب جاننا چاہیے کہ زنـجبیل دو لفظ سے مرکب ہے یعنی زَنَا اور جَبَل سے اور زَنَا لغت عرب میں اوپر چڑھنے کو کہتے ہیں اور جبل پہاڑ کو.اس کے ترکیبی معنے یہ ہیں کہ پہاڑ پر چڑھ گیا.اب جاننا چاہیے کہ انسان پر ایک زہریلی بیماری کے فرو ہونے کے بعد اعلیٰ درجہ کی صحت تک دو حالتیں آتی ہیں.ایک وہ حالت جبکہ زہریلی مواد کا جوش بکلّی جاتا رہتا ہے اور خطرناک مادوں کا جوش روباصلاح ہوجاتا ہے اور سمّی کیفیات کا حملہ بخیر و عافیت گذرجاتا ہے اور ایک مہلک طوفان جو اٹھاتھا نیچے دب جاتا ہے لیکن ہنوز اعضاء میں کمزوری باقی ہوتی ہے کوئی طاقت کا کام نہیں ہو سکتا.ابھی مردہ کی طرح افتاں و خیزاں چلتا ہے.اور دوسری وہ حالت ہے کہ جب اصل صحت عود کر آتی ہے اور بدن میں طاقت بھر جاتی ہے اور قوت کے بحال ہونے سے یہ حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے کہ بلا تکلف پہاڑ کے اوپر چڑھ جاوے اور نشاطِ خاطرسے اونچی گھاٹیوں پر دوڑتا چلا جاوے.سو سلوک کے تیسرے مرتبہ میں یہ حالت میسر آتی ہے.ایسی حالت کی نسبت اللہ تعالیٰ آیت موصوفہ میں اشارہ فرماتا ہے کہ انتہائے درجہ کے باخدا لوگ وہ پیالے پیتے ہیں جن میں زنجبیل ملی ہوئی ہے یعنی وہ روحانی حالت کی پوری قوت پاکر بڑی بڑی گھاٹیوں پر چڑھ جاتے ہیں اور بڑے مشکل کام ان کے ہاتھ سے انجام پذیر ہوتے ہیں اور خدا کی راہ میں حیرت ناک جانفشانیاں دکھلاتے ہیں.اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ علم طِبّ کی رو سے زنجبیل وہ دوا ہے جسے ہندی میں سونٹھ کہتے ہیں.وہ حرارتِ غریزی کو بہت قوت دیتی ہے اور دستوں کو بند کرتی ہے اور اس کا زنجبیل اسی واسطے نام رکھا گیا ہے کہ گویا وہ کمزور کو ایسا قوی کرتی ہے اور ایسی گرمی پہنچاتی ہے جس سے وہ پہاڑوں پر چڑھ سکے.ان متقابل آیتوں کے پیش کرنے سے جن میں ایک جگہ کافور کا ذکر ہے اور ایک جگہ زنجبیل کا خدا تعالیٰ کی یہ غرض ہے کہ تا اپنے بندوں کو سمجھائے کہ جب انسان جذبات نفسانی سے نیکی کی طرف

Page 281

حرکت کرتا ہے تو پہلے پہل اس حرکت کے بعد یہ حالت پیدا ہوتی ہے کہ اس کے زہریلے مواد نیچے دبائے جاتے ہیں اور نفسانی جذبات رو بکمی ہونے لگتے ہیں جیسا کہ کافور سے زہریلے مواد کا جوش بالکل جاتا رہے گا اور ایک کمزور صحت جو ضعف کے ساتھ ملی ہوتی ہے حاصل ہو جاتی ہے تو پھر دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ وہ ضعیف بیمار زنجبیل کے شربت سے قوت پاتا ہے اور زنجبیلی شربت خدا تعالیٰ کے حسن و جمال کی تجلی ہے جو روح کی غذا ہے.جب اس تجلی سے انسان قوت پکڑتا ہے تو پھر بلند اور اونچی گھاٹیوں پر چڑھنے کے لائق ہوجاتا ہے اور خدا کی راہ میں ایسی حیرت ناک سختی کے کام دکھلاتا ہے کہ جب تک یہ عاشقانہ گرمی کسی کے دل میں نہ ہو ہرگز ایسے کام دکھلا نہیں سکتا.سو خدا تعالیٰ نے اس جگہ ان دو حالتوں کے سمجھانے کے لیے عربی زبان کے دو لفظوں سے کام لیا ہے.ایک کافور جو نیچے دبانے والے کو کہتے ہیں اور دوسرے زنجبیل جو اوپر چڑھنے والے کو کہتے ہیں اور اسی راہ میں یہی دو حالتیں سالکوںکے لیے واقعہ ہیں.۱ ۱۴؍جولائی ۱۹۰۶ء (قبل نماز ظہر) بے ثباتی دنیا ایک معزز خاندانی ہندو دیوان صاحب جو صرف حضرت کی ملاقات کے واسطے قادیان آئے تھے قبل نماز ظہر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خواہش ظاہر کی کہ ان کو کچھ نصیحت کی جائے.حضرت نے فرمایا.ہر ایک شخص کا ہمدردی کا رنگ جداہوتا ہے.اگر آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں تو وہ آپ کے ساتھ یہی ہمدردی کر سکتا ہے کہ آپ کی کسی بیماری کا علاج کرے اور اگر آپ حاکم کے پاس جائیں تو اس کی ہمدردی یہ ہے کہ کسی ظالم کے ظلم سے بچائے ایسا ہی ہر ایک کی ہمدردی کا رنگ جدا ہے.ہماری طرف سے ہمدردی یہ ہے کہ ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیںکہ دنیا روزے چند ہے.اگر یہ خیال دل میں پختہ ہوجائے تو تمام جھوٹھی خوشیاں پامال ہوجاتی ہیں اور ۱بدر جلد ۲ نمبر ۲۶.۲۷.۲۸مورخہ ۲۸؍جون و ۵و۱۲؍جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ ۳

Page 282

انسان خدا کی طرف اپنا دل لگاتا ہے.لمبے منصوبے اور ناجائز کارروائیاں انسان اسی واسطے کرتا ہے کہ اس کو معلوم نہیں کہ زندگی کے ایام کتنے ہیں.جب انسان جان لیتا ہے کہ موت اس کے آگے کھڑی ہے تو پھر وہ گناہ کے کاموں سے رک جاتا ہے.خدا رسیدہ لوگوں کو ہر روز اپنےا ور اپنے دوستوں کے متعلق معلوم ہوتا رہتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے.اس واسطے وہ دنیا کی باتوں پر خوش نہیں ہو سکتے اور نہ ان پر تسلی پکڑ سکتے ہیں.دیکھو! اس وقت ملک میں طاعون پھیلی ہوئی ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے اس کے متعلق ایسے وقت میں اطلاع دی تھی جبکہ یہاں طاعون کا نام و نشان بھی نہ تھا.اسی وقت میں نے لوگوں کو اس کے متعلق اطلاع کر دی تھی.یاد رکھو! جب غفلت اور دنیا پرستی بہت بڑھ جاتی ہے تو پھر تباہیوں کے آنے کا وقت ہوتا ہے.میں بار ہا کہہ چکا ہوں کہ جب تک یہ لوگ شرارت کو نہ چھوڑ دیں گے اور اپنی اصلاح نہ کریں گے اور اپنے اخلاق درست نہ کر لیں گے تب تک یہ بیماری ملک سے دور نہ ہوگی.ایسا ہی دوسری بلا زلزلہ کی ہے.ہمارے ملک کے لوگ اس قسم کے خوفناک زلزلوں سے کبھی آگاہ نہ تھے.کبھی اتفاقی کوئی زلزلہ آجاتا تھا.لیکن اب نہایت خوفناک زلزلے آتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار اطلاع دی ہے کہ ہنوز ایک سخت تباہ کن زلزلہ آنے والا ہے.جس سے یہ مطلب ہے کہ لوگ کسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں.وہ ربّ جس نے پیدا کیا ہے اس کی طرف متوجہ ہوجائیں.جب انسان خدا کی طرف جھکتا ہے تو اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں.اس کی عمر زیادہ ہوجاتی ہے اور خوفناک صدموں کے وقت وہ بچایا جاتا ہے.بد ظنی سارے گناہوں کی جڑ بد ظنی ہے.لکھا ہے جب کافر لوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے انہیں کہا جائے گا کہ یہ تمہاری بد ظنی کا نتیجہ ہے.خدا کا رسول تمہارے پاس آیا اس نے تمہیں نیکی کی بات سکھائی توبہ اور استغفار کا سبق دیا پر تم نے اس کی مخالفت کی.اور اس پر بد ظنی کر کے کہا کہ تجھے خدا کی طرف سے کوئی الہام نہیںہوتا تو سب باتیں اپنے پاس سے بنا کر کہتا ہے.دیکھو! ہم خدا سے خبر پاکر مخلوق کو اطلاع دیتے ہیں کہ ایک سخت زلزلہ آنے والا ہے.تم نیکی

Page 283

اختیار کرو.بدیوں سے بچو.اپنی اصلاح کرو اور خدا سے ڈرو تاکہ تم مصیبت کے وقت میں بچائے جاؤ اور تم پر رحم کیا جاوے.اس کے جواب میں یہ لوگ اخباروں میں اور خطوں میں ہم کو گندی گالیاں دیتے ہیں اور ہر طرح سے ستانے کی کوشش کرتے ہیں اور دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو جھوٹھا ہے اور افترا کرتا ہے مگر ہمارا فرض ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو خبر ہم کو دی ہے وہ ہم ان لوگوں کو پہنچا دیں.ایک شخص ایک گاؤں میں رہنے والا یقیناً جانتا ہے کہ صبح ہوتے یہ گاؤں ہلاک ہوجائےگا.پھر اگر وہ گاؤں کے رہنے والوں کو اس طوفان سے مطلع نہ کرے تو کیا کرے؟ یہی حال حضرت نوحؑکے زمانہ میں ہوا تھا جبکہ حضرت نوحؑکشتی بناتے تھے تو لوگ ہنستے تھے اور ٹھٹھا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھو یہ کیسا دیوانہ ہے کہ خشکی پر شہر میں کشتی بناتا ہے.مگر وہ نہ جانتے تھے کہ وہ خود ہی غلطی پر ہیں اور حضرت نوحؑکی کارروائی درست اور راست ہے.اسی طرح آج کل بھی گو امساکِ باراں ہے مگر قسم قسم کے طوفانوں سے اور زلازل سے دنیا پر عذاب آنے والے ہیں.جیسا کہ پہلے زمانوں کی تمام شرارتیں اور مفاسد آجکل جمع ہوگئے ہیں ایسا ہی پہلے زمانوں میں جو عذاب اور بلائیں متفرق وقتوں میں وارد ہوا کرتی تھیں وہ سب کی سب اب اس زمانہ میں جمع ہوگئی ہیں.جس قدر قانون بڑھتا جاتا ہے ساتھ ہی فریب اور دھوکہ بھی بڑھتا جاتا ہے.سرکار اس واسطے قانون بناتی ہے کہ ملک میں امن پھیلے شریر لوگ اسی قانون میں سے ایک ایسی بات نکالتے ہیں کہ ان کو اپنی شرارت کے پورا کرنے کا اور بھی موقعہ مل جائے.اگر کوئی کسی کا قرضدار ہوتا ہے تو اسی فکر میں رہتا ہے کہ قرضہ کی میعاد گذر چکی ہے اور نہیں سوچتا کہ خدا کے نزدیک کوئی میعاد نہیں.غیر مذہب والوں سے خوش خلقی مذکورہ بالا ہندو صاحب نے عرض کیا کہ مجھے تو لوگ ڈراتے تھے کہ مرزا صاحب تو کسی کے ساتھ بات نہیں کرتے اور ہندوؤں کے ساتھ بہت بد خلقی سے پیش آتے ہیں.میں نے یہ سب بات اس کے برخلاف پائی ہے اور آپ کو اعلیٰ درجہ کا خلیق اورمہمان نواز دیکھا ہے.حضرت نے فرمایا.لوگ جھوٹھی خبریں اڑا دیتے ہیں.ہمیں خدا تعالیٰ نے وسیع اخلاق سکھلائے

Page 284

ہیں.بلکہ ہمیں افسوس ہے کہ ہم پوری طرح سے آپ کے ساتھ اخلاقِ حسنہ کا اظہار نہیں کر سکتے کیونکہ آپ کی قومی رسم کے مطابق ہمارا کھانا کھا لینا جائز نہیں.ایسے ہندو مہمانوں کے کھانے کے انتظام ہم کسی ہندو کے ہاں کر لیا کرتے ہیں.لیکن اس کھانے کی ہم خود نگرانی نہیں کر سکتے.ہمارے اصول میں داخل نہیں کہ اختلاف مذہبی کے سبب کسی کے ساتھ بد خلقی کریں اور بد خلقی مناسب بھی نہیں کیونکہ نہایت کار ہمارے نزدیک غیر مذہب والا ایک بیمار کی مانند ہے جس کو صحت روحانی حاصل نہیں.پس بیمار تو اور بھی قابل رحم ہے جس کے ساتھ بہت خلق اور حلم اور نرمی کے ساتھ پیش آنا چاہیے.اگر بیمار کے ساتھ بد خلقی کی جاوے تو اس کی بیماری اور بھی بڑھ جائے گی.اگر کسی میں کجی اور غلطی ہے تو محبت کے ساتھ سمجھانا چاہیے.ہمارے بڑے اصول دو ہیں.خدا کے ساتھ تعلق صاف رکھنا اور اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاق سے پیش آنا.۱ بلاتاریخ۲ سچے مذہب کی پہچان ایک ہندو نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ سچے مذہب کی کیا شناخت ہے؟ دنیا میں اس قدر مذاہب پھیلے ہوئے ہیں ان میں سے کس طرح شناخت کریں کہ سب سے افضل اور اعلیٰ مذہب قابل قبول کون سا مذہب ہے؟ حضرت نے فرمایا.جس مذہب میں سب سے زیادہ تعظیم الٰہی اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کا سامان ہو وہی سب سے اعلیٰ مذہب ہے.انسان اسی چیز کی قدر زیادہ کرتا ہے جس کا علم اس کو زیادہ حاصل ہوتا ہے.مثلاً ایک شخص کو معلوم ہو کہ فلاں مکان میں ایک سانپ پھرتا ہے اور وہ آدمیوں کو کاٹتا ہے تو وہ شخص کبھی جرأت نہ کرے گا کہ رات کو ایسے مکان میں جا کر سوئے.اگر کسی کو ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۹؍جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ ۲ قیاس ہے کہ شائد جولائی ۱۹۰۶ء کی کسی تاریخ کی یہ ڈائری ہوگی.واللہ اعلم بالصواب.(مرتّب)

Page 285

معلوم ہوجائے کہ اس کھانے میں جو میرے آگے رکھا ہے زہر ہے تو وہ ہرگز کبھی ایک لقمہ بھی اس کھانے میں سے نہ اٹھائے گا.اگر کسی گاؤں میں طاعون ہو اور لوگ مر رہے ہوں تو کوئی شخص اس گاؤں میں جانے کا حوصلہ نہیں کرتا.جس کو معلوم ہو کہ جنگل میں شیر رہتا ہے وہ اس جنگل میں ہر گز داخل نہیں ہوتا.ان سب کا اصل علم اور معرفت ہے جس چیز کا علم انسان کو بخوبی ہوجاوے اور اس کے متعلق معرفت تام پیدا ہوجاوے انسان اس کے برخلاف بالکل نہیں کر سکتا.پھر کیا وجہ ہے کہ لوگ گناہ کو ترک نہیں کرتے؟ اس کا سبب یہی ہے کہ خدا کی ہستی کا کامل علم اور معرفت تام ان کو حاصل نہیں.یہ جو کہا جاتا ہے اور اقرار کیا جاتا ہے کہ ہم خدا پر ایمان رکھتے ہیں یہ صرف ایک رسمی ایمان ہے ورنہ دراصل گناہ سوز معرفت حاصل نہیں ہے.اگر وہ حاصل ہو تو ممکن ہی نہیں کہ انسان پھر گناہ کر سکے.ہر شے کی قدر اس کی پہچان اور معرفت سے ہوتی ہے.دیکھو! ایک جاہل گنوار کو ایک قیمتی پتھر لعل یا موتی مل جاوے تو وہ حد درجہ اس کو دو چار پیسہ میں فروخت کر دے گا.یہی مثال ان نادانوں کی ہے جنہوں نے خدا کو نہیں پہچانا وہ الٰہی احکام کے بالمقابل دو چار پیسوں کی زیادہ قدر کرتے ہیں.جہاں کوئی دنیوی تھوڑا سا فائدہ نظر آتا ہے وہاں اپنا ایمان فروخت کر دیتے ہیں.جھوٹی گواہیاں عدالتوں میں جا کر دوآنہ یا چار آنہ کے بدلے دیتے ہیں.ان کے نزدیک خدا تعالیٰ کے اس پاک حکم کی قدر کہ جھوٹھ نہ بولو اور سچی گواہی دو اس سے بڑھ کر نہیں کہ دو چار آنہ کی خاطر اس کو چھوڑ دیں اور بیچ ڈالیں.خدا کی آیتوں کو تھوڑے مول پر بیچنے کے یہی معنے ہیں کہ انسان تھوڑے سے ظاہری فائدہ کی خاطر احکام الٰہی کی بے قدری کرتا ہے.آج کل جو مذاہب لوگوں میں رائج ہیں وہ سب قومی مذاہب ہیں.یعنی ایک قومیت کی پچ کی جاتی ہے.ورنہ سچا مذہب وہ ہے جو خدا کے خوف سے شروع ہوتا ہے اور خوف اور محبت کی جڑھ معرفت ہے پس مذہب وہ اختیار کرنا چاہیے جس سے خدا کی معرفت اور گیان بڑھ جائے اور خدا تعالیٰ کی تعظیم دلوں میں بیٹھ جائے.جس مذہب میں صرف پرانے قصے ہوں وہ ایک مُردہ مذہب ہے.دیکھو! خدا وہی ہے جو پہلے تھا اس کی عبادت سے جو پھل پہلے لوگ پا سکتے تھے وہی پھل اب بھی پا سکتے ہیں.

Page 286

خدا تعالیٰ نے اپنے اخلاق بدل نہیں ڈالے.پھر کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ صرف ایک خشک لکڑی کی طرح ہیں جس کے ساتھ کوئی پھل نہیں.وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے خدا کو پہچانا ہی نہیں.اگر پہچانتے تو ان پر ضرور برکات نازل ہوتے مگر اس راہ میں بہت مشکلات ہیں اور یہ بڑی قوت والوں کا کام ہے اور خدا کے اختیار میں ہے جس کو چاہے قوت عطا فرماوے اگر انسان تلاش میں لگا رہے تو ہوسکتا ہے کہ کسی وقت اس کو قوت عطا ہوجائے.استقامت شرط ہے ہمت کے ساتھ خدا کو تلاش کرو تو اسے پا لو گے.۱ بلا تاریخ۲ گناہ اور ان کی بخشش ایک شخص نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ دنیا میں لوگ بہت گنہگار ہوں گے مگر میرے جیسا گنہگار تو کوئی نہ ہوگا.میں نے بڑے بڑے سخت گناہ کئے ہیں.میری بخشش کس طرح ہوگی؟ حضرت نے فرمایا.دیکھو! خدا جیسا غفور الرحیم کوئی نہیں.اللہ تعالیٰ پر یقین کامل رکھو کہ وہ تمام گناہوں کو بخش سکتا ہے اور بخش دیتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر دنیا بھر میں کوئی گنہگار نہ رہے تو میں ایک اور اُمت پیدا کروں گا جو گناہ کرے اور میں اس کے گناہ بخش دوں.اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام غفور ہے اور ایک رحیم.یاد رکھو کہ گناہ ایک زہر ہے اور ہلاکت ہے.مگر توبہ اور استغفار ایک تریاق ہے.قرآن شریف میں آیا ہے اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ(البقرۃ:۲۲۳) اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے پیار کرتا ہے جو توبہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاک ہوجاویں.خدا تعالیٰ نے ہر ایک شے میں ایک حکمت رکھی ہے.اگر آدم گناہ کر کے توبہ نہ کرتا اور خدا کی طرف نہ جھکتا تو صفی اللہ کا لقب کہاں سے پاتا؟ اگر کوئی انسان ایسا اپنے آپ کو دیکھتا کہ جیسا ماں کے پیٹ سے نکلا ۱ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴؍جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ ۹ ۲ قیاس ہے کہ غالباً یہ جولائی ۱۹۰۶ء کے دوسرے ہفتہ کی ڈائری ہے.واللہ اعلم بالصواب.(مرتّب)

Page 287

ہے اور اپنے اندر کوئی گناہ نہ دیکھتا تو اس کے دل میں تکبّر پیدا ہوتا جو تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے اور شیطان کا گناہ ہے.شیطان نے گھمنڈ کیا کہ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا اسی واسطے وہ شیطان بن گیا.گناہ جو انسان سے صادر ہوتا ہے وہ نفس کو توڑنے کے واسطے ہے.جب انسان سے گناہ ہوتا ہے تو وہ اپنی بدی کا اقرار کرتا ہے اور اپنے عجز کو یقین کر کے خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے.جس طرح مکھی کے دو پَر ہیں کہ ایک میں زہر ہے اور دوسرے میں تریاق ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر تمہارے کھانے پینے کی چیز میں مکھی پڑے تو وہ اپنا صرف ایک پَر اس کے اندر ڈبوتی ہے جس میں زہر ہے پر تم اس کو نکالنے سے پہلے اس کا دوسرا پَر بھی ڈبو لو کہ وہ اس کے بالمقابل تریاق ہے.یہ مثال انسان کے گناہ اور توبہ کی ہے.اگر گناہ صادر ہوجاوے تو توبہ کرو کہ وہ اس کے واسطے تریاق ہے اور گناہ کے زہر کو دور کر دیتی ہے.عاجزی اور تضرع سے خدا تعالیٰ کے حضور میں جھکو تاکہ تم پر رحم کیا جاوے.اگر گناہ نہ ہو تا تو ترقی بھی نہ ہوتی.جو شخص جانتا ہے کہ میں نے گناہ کیا ہے اور اپنے آپ کو ملزم دیکھتا ہے وہ خدا کی طرف جھکتا ہے تب اس پر رحم کیا جاتا ہے اور وہ ترقی پکڑتا ہے.لکھا ہے.اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ.گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے کہ گویا اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں.لیکن توبہ سچےدل کے ساتھ ہونی چاہیے اورنیت صادق کے ساتھ چاہیےکہ انسان پھر کبھی اس گناہ کا مرتکب نہ ہوگا.گو بعد میں بہ سبب کمزوری کے ہوجاوے لیکن توبہ کرنے کے وقت اپنی طرف سے یہ پختہ ارادہ اور سچی نیت رکھتا ہو کہ آئندہ یہ گناہ نہ کرے گا.نیت میں کسی قسم کا فساد نہ ہو بلکہ پختہ ارادہ ہو کہ قبر میں داخل ہونے تک اس بدی کے قریب نہ آئے گا.تب وہ توبہ قبول ہوجاتی ہے.لیکن خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو امتحان میں ڈ التا ہے تاکہ ان کو انعام دیوے.انعام حاصل کرنے کے واسطے امتحانوں کا پاس کرنا ضروری ہے.نماز کے اندر دعا فرمایا.نماز کے اندر ہی اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرو.سجدہ میں، بیٹھ کر، رکوع میں، کھڑے ہو کر ہرمقام پر اللہ تعالیٰ کے حضورمیں دعا ئیں کرو.بیشک پنجابی زبان میں دعائیں کرو.جن لوگوں کی زبان عربی نہیں اور عربی سمجھ نہیں

Page 288

سکتے ان کے واسطے ضروری ہے کہ نماز کے اندر ہی قرآن شریف پڑھنے اور مسنون دعائیں عربی میں پڑھنے کے بعد اپنی زبان میں بھی خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگے اور عربی دعاؤں کا اور قرآن شریف کا بھی ترجمہ سیکھ لینا چاہیے.نماز کو صرف جنتر منتر کی طرح نہ پڑھو بلکہ اس کے معانی اور حقیقت سے معرفت حاصل کرو.خدا تعالیٰ سے دعاکرو کہ ہم تیرے گنہگار بندے ہیں اور نفس غالب ہے تو ہم کو معاف کر اور دنیا اور آخرت کی آفتوں سے ہم کو بچا.آجکل لوگ جلدی جلدی نماز کو ختم کرتے ہیں اور پیچھے لمبی دعائیں مانگنے بیٹھتے ہیں.یہ بدعت ہے.جس نماز میں تضرع نہیں.خدا تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں خدا تعالیٰ سے رقّت کے ساتھ دعا نہیں وہ نماز تو خود ہی ٹوٹی ہوئی نماز ہے.نماز وہ ہے جس میں دعا کا مزا آجاوے.خدا کے حضور میں ایسی توجہ سے کھڑے ہوجاؤ کہ رقّت طاری ہوجائے جیسے کہ کوئی شخص کسی خوفناک مقدمہ میں گرفتار ہوتا ہے اور اس کے واسطے قید یا پھانسی کا فتویٰ لگنے والا ہوتا ہے.اس کی حالت حاکم کے سامنے کیا ہوتی ہے.ایسے ہی خوفزدہ دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے.جس نماز میں دل کہیں ہے اور خیال کسی طرف ہے اور منہ سے کچھ نکلتا ہے وہ ایک لعنت ہے جو آدمی کے منہ پر واپس ماری جاتی ہے اور قبول نہیںہوتی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۠ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ (الماعون:۵،۶) لعنت ہے ان پر جو اپنی نماز کی حقیقت سے ناواقف ہیں.نماز وہی اصلی ہے جس میں مزہ آجاوے.ایسی ہی نماز کے ذریعہ سے گناہ سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور یہی وہ نماز ہے جس کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے.نماز مومن کے واسطے ترقی کا ذریعہ ہے.اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ (ھود:۱۱۵) نیکیاں بدیوں کو دور کر دیتی ہیں.دیکھو! بخیل سے بھی انسان مانگتا رہتا ہے تو وہ بھی کسی نہ کسی وقت کچھ دے دیتا ہے اور رحم کھاتا ہے.خدا تعالیٰ تو خود حکم دیتا ہے کہ مجھ سے مانگو اور میں تمہیں دوں گا.جب کبھی کسی امر کے واسطے دعا کی ضرورت ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریق تھا کہ آپ وضو کر کے نماز میں کھڑے ہوجاتے اور نماز کے اندر دعا کرتے.دعا کے معاملہ میں حضرت عیسٰیؑ نے خوب مثال بیان کی ہے.وہ کہتے ہیں کہ ایک قاضی تھا جو

Page 289

کسی کا انصاف نہ کرتا تھا اور رات دن اپنی عیش میں مصروف رہتا تھا ایک عورت جس کا ایک مقدمہ تھا وہ ہر وقت اس کے دروازے پر آتی ہے اور اس سے انصاف چاہتی.وہ برابر ایسا کرتی رہتی یہاں تک کہ قاضی تنگ آگیا اور اس نے بالآخر اس کا مقدمہ فیصلہ کیا اور اس کا انصاف اسے دیا.دیکھو! کیا تمہارا خدا قاضی جیسا بھی نہیں کہ وہ تمہاری دعا سنے اور تمہیں تمہاری مراد عطا کرے.ثابت قدمی کے ساتھ دعا میں مصروف رہنا چاہیے.قبولیت کا وقت بھی ضرور آ ہی جائے گا.استقامت شرط ہے.۱ ۱۶؍جولائی ۱۹۰۶ء ڈاکٹر عبد الحکیم ڈاکٹر عبد الحکیم کا ذکر تھا.فرمایا.وہ ہم سے ہی کیا پھرا ہے وہ تو خود اسلام سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی پھر گیا ہے.افسوس تو ان مولویوں اور مسلمانوں پر ہے جو اسلام کا دعویٰ کر کے ایک ایسے آدمی کی حمایت کرتے ہیں اور اس کا ساتھ دیتے ہیں جو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو بھی ضروری نہیں جانتا اور اس کے نزدیک گویا آنحضرتؐکے وجود کا ہونا نہ ہونا برابر ہے.افسوس ہے کہ ہمارے بغض کے سبب یہ لوگ ایسے کام کرتے ہیں کہ خود ہی اسلام کی مخالفت کر رہے ہیں.چراغ دین فرمایا.چراغ دین مسیح بنتا تھا.عیسائیوں نے اس کی امداد کی.مگر خدا کے مسیح کے بالمقابل وہ ناکام رہا.ہمارا دعویٰ بھی مسیح ہونے کا ہے لیکن ہمارے ساتھ عیسائی لوگ سخت عداوت رکھتے ہیں.اور چراغ دین کا دعویٰ بھی مسیح ہونے کا تھا مگر اس کی امداد اور نصرت میں کھڑے ہوگئے.وجہ یہ ہے کہ وہ جھوٹا تھا اور یہ بھی جھوٹے ہیں جو انسان کو خدا بناتے ہیں.جھوٹا جھوٹے کا حامی اور ناصر بن جاتا ہے، لیکن صادق کا ساتھ صرف وہی لوگ دے سکتے ہیں جو راستباز ہوں اور ایسے لوگ ہمیشہ تھوڑے ہوتے ہیں.۲ ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۲۶؍جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ ۲بدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۲۶؍جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ ۴

Page 290

بلا تاریخ حضرت مسیح موعودؑ کا عورتوں کے واسطے نصیحت نامہ (ایک پرانی تحریر سے اقتباس) (۱) ماتم کی حالت میں جزع فزع اور نوحہ یعنی سیاپا کرنا اور چیخیں مار کر رونا اور بے صبری کے کلمات زبان پر لانا یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ جن کے کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ سب رسمیں ہندوؤں سے لی گئیں.جاہل مسلمانوں نے اپنے دین کو بھلا دیا اور ہندوؤں کی رسمیں اختیار کر لیں.کسی عزیز اور پیارے کی موت کی حالت میں مسلمانوں کے لیے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ صرف اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ:۱۵۷) کہیں.یعنی ہم خدا کا مال اور ملک ہیں.اسے اختیار ہے جب چاہے اپنا مال لے لے اور اگر رونا ہو تو صرف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے اور جو اس سے زیادہ کرے وہ شیطان سے ہے.(۲) دوم برابر ایک سال تک سوگ رکھنا اور نئی نئی عورتوں کے آنے کے وقت یا بعض خاص دنوں میں سیاپا کرنا اور باہم عورتوں کا سر ٹکرا کر چلانا رونا اور کچھ کچھ منہ سے بھی بکواس کرنا اور پھر برابر ایک برس تک بعض چیزوں کا پکانا چھوڑ دینا اس عذر سے کہ ہمارے گھر میں یا ہماری برادری میںماتم ہوگیا ہے.یہ سب ناپاک رسمیں اور گناہ کی باتیں ہیں جن سے پرہیز کرنا چاہیے.(۳) سیاپا کرنے کے دنوں میں بے جا خرچ بھی بہت ہوتے ہیں.حرامخور عورتیں شیطان کی بہنیں جو دور دور سے سیاپا کرنے کے لیے آتی ہیں اور مکر و فریب سے منہ کو ڈھانپ کر اور بھینسوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا کر چیخیں مار کر روتی ہیں ان کو اچھے اچھے کھانے کھلائے جاتے ہیں اور اگر مقدور ہو تو اپنی شیخی اور بڑائی جتلانے کے لیے صدہا روپیہ کا پلاؤ اور زردہ پکا کر برادری وغیرہ میں تقسیم کیا جاتا ہے.اس غرض سے کہ لوگ واہ واہ کریں کہ فلاں شخص نے مرنے پر اچھی کرتوت دکھلائی.

Page 291

اچھا نام پیدا کیا.سو یہ سب شیطانی طریق ہیں جن سے توبہ کرنا لازم ہے.(۴) اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو دوسرا خاوند کرنا ایسا بُرا جانتی ہے جیسا کہ کوئی بڑا بھاری گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ اور رانڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاکدامن بیوی ہوگئی ہوں.حالانکہ اس کے لیے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے.عورتوں کے لیے بیوہ ہونے کے حالت میں خاوند کر لینا نہایت ثواب کی بات ہے.ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں بڑے ہونے کی حالت میں بُرے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کر لے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے.ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود لعنتی اور شیطان کی چیلیاں ہیں جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے.جس عورت کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پیارا ہے اس کو چاہیے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلاش کر لے اور یاد رکھے کہ خاوندکی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صدہا درجہ بہتر ہے.(۵) عورتوں میں ایک خراب عادت یہ بھی ہے کہ وہ بات بات میں مردوں کی نافرمانی کرتی ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر ان کا مال خرچ کر دیتی ہیں اورناراض ہونے کی حالت میں بہت کچھ بُرا بھلا ان کے حق میں کہہ دیتی ہیں.ایسی عورتیں اللہ اور رسول کے نزدیک لعنتی ہیں.ان کا نماز روزہ اور کوئی عمل منظور نہیں.اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ کوئی عورت نیک نہیں ہو سکتی جب تک پوری پوری خاوند کی فرمانبرداری نہ کرے اور دلی محبت سے اس کی تعظیم نہ بجا لائے اور پس پشت یعنی اس کے لیے اس کی خیر خواہ نہ ہو اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے مردوں کی تابعدار رہیں ورنہ ان کا کوئی عمل منظور نہیں اور نیز فرمایا ہے کہ اگر غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں حکم کرتا کہ عورتیں اپنے خاوندوں کو سجدہ کیا کریں.اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے حق میں کچھ بد زبانی کرتی ہے یا اہانت کی نظر سے اس کو دیکھتی ہے اور حکم ربانی سن کر بھی باز نہیں آتی تو وہ لعنتی ہے.خدا اور رسول اس سے ناراض ہیں.عورتوں کو چاہیے کہ اپنے خاوندوں کا مال نہ چراویں

Page 292

اور نامحرم سے اپنے تئیں بچائیں اور یاد رکھنا چاہیے کہ بجز خاوند اور ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور جتنے مرد ہیںان سے پردہ کرنا ضروری ہے جو عورتیں نامحرم لوگوں سے پردہ نہیں کرتیں شیطان ان کے ساتھ ساتھ ہے.عورتوں پر یہ بھی لازم ہے کہ بدکار اور بد وضع عورتوں کو اپنے گھروں میں نہ آنے دیں اورنہ ان کو اپنی خدمت میں رکھیں کیونکہ یہ سخت گناہ کی بات ہے کہ بدکار عورت نیک عورت کی ہم صحبت ہو.(۶) عورتوں میں یہ بھی ایک بد عادت ہوتی ہے کہ جب کسی عورت کا خاوند کسی اپنی مصلحت کے لیے دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہے تو وہ عورت اور اس کے اقارب سخت ناراض ہوتے ہیں اور گالیاں دیتے اور شور مچاتے ہیں اور بندۂ خدا کو ناحق ستاتے ہیں ایسی عورتیں اور ان کے اقارب بھی نابکار اور خراب ہیں.کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ نے اپنی حکمت کاملہ سے جس میں صدہا مصالحہ ہیں مردوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت یا مصلحت کے وقت چار تک بیویاں کر لیں.پھر جو شخص اللہ اور رسول کے حکم کے مطابق کوئی نکاح کرتا ہے تو اس کو کیوں بُرا کہا جاوے.ایسی عورتیں اور ایسے ہی اس عادت والے اقارب جو خدا اور اس کے حکموں کا مقابلہ کرتےہیں نہایت مردود اور شیطان کے بہن بھائی ہیں کیونکہ وہ خدا اور رسول کے فرمودہ سے منہ پھیر کر اپنے ربِّ کریم سے لڑائی کرنا چاہتےہیں اور اگر کسی نیک دل مسلمان کے گھر میں ایسی بد ذات بیوی ہو تو اسے مناسب ہے کہ اس کو سزا دینے کے لیے دوسرا نکاح ضرور کرے.۱ (۷) بعض جاہل مسلمان اپنے ناطہ رشتہ کے وقت یہ دیکھ لیتے ہیں کہ جس کے ساتھ اپنی لڑکی کانکاح کرنا منظور ہے اس کی پہلی بیوی بھی ہے یا نہیں.پس اگر پہلی بیوی موجود ہو تو ایسے شخص سے ہرگز نکاح کرنا نہیں چاہتے.سو یاد رکھناچا ہیے کہ ایسے لوگ بھی صرف نام کے مسلمان ہیں اور ایک طور سے وہ ان عورتوں کے مددگار ہیں جو اپنے خاوندوں کے دوسرے نکاح سے ناراض ہوتی ہیں.سو ان کو بھی خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے.

Page 293

(۸) ہماری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ دوسری قوم کو لڑکی دینا پسند نہیں کرتے بلکہ حتی الوسع لینا بھی پسند نہیں کرتے.یہ سرا سر تکبر اور نخوت کا طریقہ ہے جو احکام شریعت کے بالکل برخلاف ہے.بنی آدم سب خدا تعالیٰ کے بندےہیں.رشتہ ناطہ میں یہ دیکھنا چاہیے کہ جس سے نکاح کیاجاتا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا تو نہیں جو موجبِ فتنہ ہو.اور یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ (الـحجرات:۱۴) یعنی تم میں سے خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ تر بزرگ وہی ہے جو زیادہ تر پرہیزگار ہے.(۹) ہماری قوم میں ایک یہ بھی بد رسم ہے کہ شادیوں میں صدہا روپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے.سو یادرکھنا چاہیے کہ شیخی اور بڑائی کے طور پر برادری میں بھاجی تقسیم کرنا اور اس کا دینا اور کھانا یہ دونوں باتیں عند الشرع حرام ہیں.اور آتش بازی چلانا اور رنڈی بھڑوؤں ڈوم ڈھاریوں کو دینا یہ سب حرام مطلق ہے.ناحق روپیہ ضائع جاتا اور گناہ سر پر چڑھتا ہے.سو اس کے علاوہ شرع شریف میں تو صرف اتنا حکم ہے کہ نکاح کرنے والا بعد نکاح کے ولیمہ کرے یعنی چند دوستوں کو کھانا پکا کر کھلا دیوے.(۱۰) ہمارے گھروں میں شریعت کی پابندی میں بہت سستی کی جاتی ہے بعض عورتیں زکوٰۃ دینے کے لائق ہیں اور بہت سا زیور ان کے پاس ہے مگر وہ زکوٰۃ نہیں دیتیں.بعض عورتیں نماز روزہ کے ادا کرنے میں بہت کوتاہی کرتی ہیں.بعض عورتیں شرک کی رسمیں بجا لاتی ہیں جیسے چیچک کی پوجا.بعض فرضی دیویوں کی پوجا کرتی ہیں.بعض ایسی نیازیں دیتی ہیں جن میں یہ شرط لگا دیتی ہیں کہ عورتیں کھاویں کوئی مرد نہ کھاوے یا حقہ نوش نہ کھاوے بعض جمعرات کی چوکی بھرتی ہیں.مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سب شیطانی طریق ہیں.ہم صرف خالص اللہ کے لیے ان لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ آؤ خدا سے ڈرو ورنہ مرنے کے بعد ذلّت اور رسوائی سے سخت عذاب میں پڑو گے اور اس غضبِ الٰہی میں مبتلا ہو جاؤ گے جس کی انتہا نہیں.والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ.خاکسارمیرزا غلام احمد از قادیان۱

Page 294

۲۹؍جولائی ۱۹۰۶ء بزرگانِ اسلام اور علماءِ وقت امرت سر کے ایک شریف خاندان کا ایک ممبر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اثنائے گفتگو میں حضرت نے کہا کہکیا آپ امرت سر میں ہمارے لیکچر میں موجود تھے؟ شریف.میں اس لیکچر میں موجود تھا اور آپ کی کرسی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا.نادانوں نے شرارت کی مگر اس وقت ان کو کون سمجھاتا.حضرت اقدس.ہاں اس وقت ان لوگوں کو سمجھانا محال تھا.اس وقت تو ان لوگوں کا وہ حال تھا جیسا کہ تاجروں کا قصہ ہے کہ چند تاجر کسی جگہ راہ میں جاتے تھے کہ قزاقوں نے ان پر حملہ کیا.تجار کے ہمراہ ایک حکیم بھی تھا.کسی نے حکیم کو کہا کہ ان کو نصیحت کرو.حکیم نے جواب دیا کہ اس وقت ان لوگوں کو نصیحت کرنا بے فائدہ ہے.یہ نفس پرستی میں ایسے اندھے ہیںکہ ان کو اس وقت کوئی نصیحت کارگر نہیں ہو سکتی.ہمارا منشا اس لیکچر میں یہ تھا کہ اسلام کی خوبیاں بیان کی جائیں.مگر افسوس ہے کہ ان لوگوں نے شرارت کی.شریف.ان کا قصور ہی کیاہے وہ اندھے ہیں ان کو بصیرت نہیں.حضرت اقدس.زیادہ تر افسوس تو علماء پر ہے جو عوام کو دھوکہ میں ڈالتے ہیں.دیکھو! اسلام پر کس قدر انحطاط کا زمانہ ہے کہ علماء کی حالت ایسی گندی ہے.شریف.علماء کیوں ایسا نہ کریں جبکہ ان کے واسطے ذریعہ معاش صرف اسی میں ہے.آپ نے دیکھا یا سنا ہوگا آجکل امرت سر کے مولوی ثناء اللہ صاحب حضرت امام ابو حنیفہ کے حق میں کیسے کیسے خراب کلمات لکھ کر اشتہار دے رہا ہے.یہی علماء لوگ اسلام میں فتنہ ڈالتے ہیں.حضرت اقدس.ائمہ کے حق میں سخت کلامی کرنا بہت ہی نامناسب امر ہے.جس زمانہ میں یہ بزرگ گذرے ہیں اگر وہ دین کی خدمت نہ کرتے تو ہزار ہا خرابیاں پیدا ہوجاتیں یہ لوگ اسلام

Page 295

میں بطور چار دیواری کے تھے انہوں نے جو کچھ کیا خدا کے واسطے کیا اور شریر لوگوں کو حد سے بڑھنے سے بچایا.ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے.ان لوگوں نے اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالا اور بے نفس ہو کر اسلام کی خدمت کی.ان لوگوں کی طرح وہ نہ تھے کہ ہر وقت دنیا کو مقدم رکھتے.خواجہ کمال الدین صاحب.ان علماء کا تو یہی نمونہ کافی ہے جو ثناء اللہ نے عدالت کے اندر حضور کے برخلاف گواہی کی خاطر دکھایا (یعنی بیان کیا کہ جھوٹھ، چوری، زنا جو کچھ مسلمان کر لے اس کے تقویٰ میں کچھ فرق نہیں آتا.ایڈیٹر) شریف.ان لوگوں میں دنیا طلبی ہے.دین نہیں رہا.دعا کے اصول اس کے بعد اس شریف مرد نے اپنے بعض ذاتی امور کے واسطے دعا کے لیے حضرت کی خدمت میں درخواست کی جس پر حضرت نے فرمایا.میں آپ کے واسطے انشاء اللہ دعا کروں گا.مگر میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اصول دعا میں سے یہ بات ہے کہ جب تک انسان کو کسی کے حالات کے ساتھ پورا تعلق نہ ہو تب تک وہ رقّت اور درد اور توجہ نہیں ہو سکتی جو دعا کے واسطے ضروری ہے اور اس قسم کے حضور اور توجہ کا پیدا کرنا دراصل اختیاری امر نہیں ہے.دعا میں کوشش ہر دو طرف سے ہونی ضروری ہے.دعا کرنے والا خدا تعالیٰ کے حضور میں توجہ کرنے میں کوشش کرے اور دعا کرانے والا اس کو توجہ دلانے میں مشغول رہے.بار بار یاد دلائے خاص تعلق پیدا کرے.صبر اور استقامت کے ساتھ اپنا حالِ زار پیش کرتا رہے.تو خواہ مخواہ کسی نہ کسی وقت اس کے لیے درد پیدا ہوجائےگا.دعا بڑی شے ہے جبکہ انسان ہر طرف سے مایوس ہوجائے تو آخری حیلہ دعا ہے جس سے تمام مشکلات حل ہو جاتے ہیں.مگر ایسی توجہ کی دعا ضرور ایک وقت چاہتی ہے اور یہ بات انسان کے اختیار میں نہیں کہ کسی کے واسطے دل میں درد پیدا کرلے.ایک صوفی کا ذکر ہے کہ وہ راستہ میں جاتا تھا کہ ایک لڑکا اس کے سامنے گر پڑا.اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی.صوفی کے دل میں درد پیدا ہوا.اور اسی جگہ خداوند کے آگے دعا کی اور عرض کی کہ اے خدا تو

Page 296

اس لڑکے کی ٹانگ کو درست کر دے ورنہ تو نے اس قصاب کے دل میں درد کیوں پیدا کر دیا.میرا مذہب یہ ہے کہ کیسے ہی مشکلات مالی یا جانی انسان پر پڑیں.ان سب کا آخری علاج دعا ہے خدا تعالیٰ ہر شے کا مالک ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور کر سکتا ہے اور ہر شے پر اس کا قبضہ ہے.انسان کسی حاکم یا افسر کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرتا ہے اور اس کو راضی کرتا ہے تو وہ اسے بہت سے فائدہ پہنچا دیتا ہے.کیا خدا تعالیٰ جو حقیقی حاکم اور مالک ہے اس کو نفع نہیں دے سکتا؟ مگر دعا کا معاملہ ایسا نہیں کہ انسان دور سے گولی چلادے اور چلا جائے بلکہ جس شخص سے دعا کرانی چاہیے اس کے ساتھ تعلق پیدا کرنا چاہیے.دیکھو! بازار میں آپ کو ایک شخص اتفاقیہ طور پر مل جاوے اور آپ اس کو پکڑ لو اور کہو کہ تو میرا دوست بن جا تو وہ کس طرح دوست بن سکتا ہے دوستی کے واسطے تعلقات کا ہونا ضروری ہے اور وہ رفتہ رفتہ ہو سکتے ہیں.ہم تو چاہتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ تمام بنی نوع کے واسطے دل میں سچا درد پیدا ہو جاوے مگر یہ امر اپنے ہاتھ میں نہیں، نہ اپنے واسطے، نہ عزیز و اقارب کے واسطے، نہ بیوی بچے کے واسطے.ایسے درد کا پیدا ہونا محض خدا کے فضل پر منحصر ہے.لیکن تعلقات کا ہونا بہت ضروری ہے.کہتے ہیں کہ کوئی شخص شیخ نظام الدین صاحب ولی اللہ کے پاس اپنے کسی ذاتی مطلب کے لیے دعا کرانے کے واسطے گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے واسطے دودھ چاول لےآ.اس شخص کے دل میں خیال آیا کہ عجیب ولی ہے.میں اس کے پاس اپنا مطلب لے کر آیا ہوں تو اس نے میرے آگے اپنا ایک مطلب پیش کر دیا ہے.مگر وہ چلا گیا اور دودھ چاول پکا کر لے آیا.جب وہ کھا چکے تو انہوں نے اس کے واسطے دعا کی اور اس کی مشکل حل ہوگئی.تب نظام الدین صاحب نے اس کو بتلایاکہ میں نے تجھ سے دودھ چاول اس واسطے مانگے تھے کہ جب تو دعا کرانے کے واسطے آیا تھا تو میرے واسطے ایک بالکل اجنبی آدمی تھا اور میرے دل میں تیرے واسطے کوئی ہمدردی کا ذریعہ نہ تھا.اس واسطے تیرے ساتھ ایک تعلق محبت پیدا کرنے کے واسطے میں نے یہ بات سوچی تھی.ایسا ہی توریت میں حضرت اسحٰق کا قصہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو کہا کہ جا تو میرے واسطے

Page 297

شکار لے آ اور پکا کر مجھے کھلا تاکہ میں تجھے برکت دوں اور تیرے واسطے دعا کروں.اس قسم کے بہت سے قصے اولیاء کے حالات میں درج ہیں اور ان میں حقیقت یہی ہے کہ دعا کرنے والے اور کرانے والے کے درمیان تعلق ہونا چاہیے.انسان پر جس قدر مصائب مالی یا جانی وارد ہوتے ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کی نا رضا مندی کے سبب سے ہوتے ہیں.انسان کو چاہیے کہ اپنی حالت میں تبدیلی کرے اور خدا کو راضی کرے تب تمام تکالیف درد دُور ہوجاتی ہیں.دنیا کی تمام اشیاء اور تمام دل انسانوں کے خدا کے قبضہ قدرت میں ہیں.دیکھو! جب تم کسی کے گھر میں جاؤ اور گھر والا تم پر راضی ہو تو اس کے تمام نوکر تمہاری خاطر کریں گے اور تمہارے ساتھ ادب سے پیش آئیں گے لیکن اگر تم آقا کو ناراض کر دو تو کوئی نوکر تمہاری پروا نہ کرے گا بلکہ سب بے عزتی کرنے پر آمادہ ہوجائیں گے.۱ بلا تاریخ۲ دعا اور اس کی قبولیت فرمایا.میرے ساتھ عادت اللہ یہ ہے کہ جب میں کسی امر کے واسطے توجہ کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں تو اگر وہ توجہ اپنے کمال کو پہنچ جائے اور دعا اپنے انتہائی نقطے کو حاصل کر لے تب ضرور اس کے متعلق کچھ اطلاع دی جاتی ہے.اس میں شک نہیں کہ جب انسان خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو اکثر خدا تعالیٰ اپنے بندے کی دعا قبول کرتا ہے لیکن بعض دفعہ خدا تعالیٰ اپنی بات منواتا ہے.دو دوستوں کی آپس میں دوستی کے قائم رہنے کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ کبھی اُس نے اِس کی بات مان لی اور کبھی اِس نے اُس کی بات مان لی.ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہمیشہ ایک ہی دوسرے کی بات مانتا رہے اور وہ اپنی بات کبھی نہ منوائے.جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ ہمیشہ اس کی دعا قبول ہوتی رہے اور اسی کی خواہش پوری ہوتی رہے وہ بڑی غلطی کرتا ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۳۱مورخہ ۲؍ اگست ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ ۲ غالباً یہ جولائی ۱۹۰۶ء کی کسی تاریخ کے ملفوظات ہیں.واللہ اعلم بالصواب (مرتّب)

Page 298

ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ سے قرآن شریف میں دو آیتیں نازل فرمائی ہیں.ایک میں فرمایا ہے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المؤمن:۶۱) تم دعا مانگو میں تمہیں جواب دوں گا.دوسری آیت میں فرمایا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ...الـخ (البقرۃ:۱۵۶) یعنی ضرور ہے تم پر قسما قسم کے ابتلا پڑیں اور امتحان آئیں اور آزمائشیں کی جاویں تاکہ تم انعام حاصل کرنے کے مستحق ٹھہرو.خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے لیکن جو لوگ استقامت اختیار کرتے ہیں خدا ان کو ضائع نہیں ہونے دیتا.دعا کے بعد کامیابی اپنی خواہش کے مطابق ہو یا مصلحت الٰہی کوئی دوسری صورت پیدا کر دے ہر حال میں دعا کا جواب ضرور خدا تعالیٰ کی طرف سے مل جاتا ہے ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ دعا کے واسطے اس کی حد تک جو ضروری ہے تضرع کی جاوے اور پھر جواب نہ ملے.گناہوں سے بچنے کا واحد ذریعہ گناہوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ خوفِ الٰہی دل میں پیدا ہو.بغیر اس کے انسان گناہوں سے بچ نہیں سکتا اور خوف بغیر معرفت کے پیدا نہیں ہو سکتا.جب کسی کے سر پر ننگی تلوار لٹک رہی ہو اور اس کو یقین ہو کہ اگر فلاں کام میں کروں گا تو یہ تلوار میرے سر میں لگے گی پھر وہ کس طرح وہ کام کر سکتا ہے اس کو یقین ہے کہ وہ تلوار اس کو دکھ دے گی.اس قسم کا یقین اگر خدا تعالیٰ پر ہو اور اس کی عظمت اور اس کا جلال اس کے دل میں گھر کر جائے تو کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ بدی کا ارتکاب کرے.خدا تعالیٰ کی یہ سنّت نہیں کہ وہ انسان کی طرح کسی کو اپنا چہرہ دکھائے.بلکہ وہ زبردست نشانات کے ساتھ اپنی ہستی کا ثبوت دیتا ہے.جب ۴؍اپریل کا زلزلہ آیا تو ہمارے عزیز محمد اسمٰعیل میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے وہ ذکر کرتے ہیں کہ ان کے کالج میں ایک لڑکا دہریہ تھا جب زلزلہ آیا تو وہ بھی رام رام پکارنے لگا.لیکن جب زلزلہ گذر گیا اور ہوش ٹھکانے لگے تو پھر کہنے لگا کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے کہ میں نے رام رام کہا.خدا تعالیٰ کے اقتداری نشانات اس کی ہستی کا ثبوت دے دیتے ہیں.خدا تعالیٰ نے ہم کو خبر دی ہے کہ ایک سخت زلزلہ آنے والا ہے.وہ دن دنیا کے واسطے ایک غیر معمولی دن ہوگا جس سے

Page 299

لوگ جان لیں گے کہ خدا موجود ہے.لوگ شیطانی خیالات میں ایسے بڑھے ہوئے ہیں کہ ایک قدم پیچھے نہیں ہٹانا چاہتے.مگر خدا تعالیٰ جب چاہتا ہے تو وہ ایسی ہیبت ڈال دیتا ہے کہ لوگ تمام بدیوں کو چھوڑ دیتے ہیں.جب تک خدا کسی کو نہ کھینچے وہ کس طرح کھینچا جا سکتا ہے.ہمارا بھروسہ تو صرف خدا پر ہے وہ قوم جو ہم کو کافر کہتی ہے اس سے ہم امید ہی کیا کر سکتے ہیں.خدا ہی سچا بادشاہ اور سچا حکمران ہے.جب تک کہ آسمان پر کچھ نہیں ہوتا زمین پر کچھ نہیں ہو سکتا.طبیب اپنے بیماروں کے واسطے دعا کیا کریں فرمایا.طبیب کے واسطے بھی مناسب ہے کہ اپنے بیمار کے واسطے دعا کیا کرے کیونکہ سب ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.خدا تعالیٰ نے اس کو حرام نہیں کیا کہ تم حیلہ کرو.اس واسطے علاج کرنا اور اپنے ضروری کاموں میں تدابیر کرنا ضرور ی امر ہے لیکن یاد رکھو کہ مؤثر حقیقی خدا تعالیٰ ہی ہے.اسی کے فضل سے سب کچھ ہو سکتا ہے.بیماری کے وقت چاہیے کہ انسان دوا بھی کرے اور دعا بھی کرے.بعض وقت اللہ تعالیٰ مناسب حال دوائی بھی بذریعہ الہام یا خواب بتلا دیتا ہے اور اس طرح دعا کرنے والا طبیب علم طِبّ پر ایک بڑا احسان کرتا ہے.کئی دفعہ اللہ تعالیٰ ہم کو بعض بیماریوں کے متعلق بذریعہ الہام کے علاج بتلا دیتا ہے.یہ اس کا فضل ہے.۱ یکم اگست ۱۹۰۶ء صدمات پر صبر حافظ محمد ابراہیم صاحب جن کی بیوی کل شام کو فوت ہو چکی ہے.حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے.حافظ صاحب کو مخاطب کرکے حضرت نے فرمایا کہ آپ پر اپنی بیوی کے مرنے کا بہت صدمہ ہوا ہے.اب آپ صبر کریں تاکہ آپ کے واسطے ثواب ہو.آپ نے اپنی بیوی کی خدمت بہت کی ہے.باوجود اس معذوری کے کہ آپ نابینا ہیں.آپ نے خدمت کا حق ادا کیا ہے.اللہ تعالیٰ کے پاس اس کا اجر ہے.مرنا تو سب کے واسطے مقدر ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۳۲ مورخہ ۹؍اگست ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ نیز الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۸ مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۶ء صفحہ ۹

Page 300

ہے.آخر ایک نہ ایک دن سب کے ساتھ یہی حال ہونے والا ہے.مگر غربت کے ساتھ بے شر ہو کر مسکینی اور عاجزی میں جو لوگ مرتے ہیں ان کی پیشوائی کے واسطے گویا بہشت آگے آتا ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ نے لعزر کے متعلق بیان کیا ہے.نماز میں دعا نماز کے اندر اپنی زبان میں دعا مانگنی چاہیے.کیونکہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے پورا جوش پیدا ہوتا ہے.سورۂ فاتحہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے وہ اسی طرح عربی زبان میںپڑھنا چاہیے اور قرآن شریف کا حصہ جو اس کے بعد پڑھا جاتا ہے وہ بھی عربی زبان میں ہی پڑھنا چاہیے اور اس کے بعد مقررہ دعائیں اور تسبیح بھی اسی طرح عربی زبان میں پڑھنی چاہئیں لیکن ان سب کا ترجمہ سیکھ لینا چاہیے اور ان کے علاوہ پھر اپنی زبان میں دعائیں مانگنی چاہئیں تاکہ حضور دل پیدا ہوجاوے.کیونکہ جس نماز میں حضور دل نہیں وہ نماز نہیں.آجکل لوگوں کی عادت ہے کہ نماز تو ٹھونگے دار پڑھ لیتے ہیں.جلدی جلدی نماز کو ادا کر لیتےہیں جیسا کہ کوئی بیگار ہوتی ہے.پھر پیچھے سے لمبی لمبی دعائیں مانگنا شروع کرتے ہیں.یہ بدعت ہے.حدیث شریف میں کسی جگہ اس کا ذکر نہیں آیا کہ نماز سے سلام پھیرنے کے بعد پھر دعا کی جاوے.نادان لوگ نماز کو تو ٹیکس جانتے ہیں اور دعا کو اس سے علیحدہ کرتے ہیں.نماز خود دعا ہے.دین و دنیا کے تمام مشکلات کے واسطے اور ہر ایک مصیبت کے وقت انسان کو نماز کے اندر دعائیں مانگنی چاہئیں.نماز کے اندر ہر موقعہ پر دعا کی جا سکتی ہے.رکوع میں بعد تسبیح، سجدہ میں بعد تسبیح، التحیات کے بعد، کھڑے ہو کر رکوع کے بعد بہت دعائیں کرو تاکہ مالا مال ہوجاؤ.چاہیے کہ دعا کے واسطے روح پانی کی طرح بہہ جاوے.ایسی دعا دل کو پاک و صاف کر دیتی ہے.یہ دعا میسر آوے تو پھر خواہ انسان چار پہر تک دعا میں کھڑا رہے.گناہوں کی گرفتاری سے بچنے کے واسطے اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعائیں مانگنی چاہئیں.دعا ایک علاج ہے جس سے گناہ کی زہر دور ہوجاتی ہے بعض نادان لوگ خیال کرتے ہیں کہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.یہ غلط خیال ہے.ایسے لوگوں کی نماز تو خود ہی ٹوٹی

Page 301

ہوئی ہے.۱ ۲۶؍اگست۱۹۰۶ء میاں اسماعیل صاحب ساکن ترگڑی کا ایک تحریری سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینا جائز ہے یا نہیں.حضرت نے فرمایا.صدقہ کے واسطے مسلم یا غیر مسلم کی قید ضروری نہیں.کافر محتاج مسکین کو بھی صدقہ دیا جا سکتا ہے.ایسا ہی دعوت کے واسطے بھی جائز ہے کہ تالیف قلوب کے واسطے غیر مسلم کو دعوت کی جاوے.مذکورہ بالا صاحب کا ہی ایک اور سوال پیش ہوا کہ جہاں ایک دفعہ نماز ہو جاوے وہاں اسی نماز کے واسطے دوبارہ جماعت ہو سکتی ہے یا نہیں؟ فرمایا.اس میں کچھ حرج نہیں حسب ضرورت اور جماعت بھی ہو سکتی ہیں.جہلم سے آئے ہوئے ایک شخص نے سوال کیا کہ جہلم میں ایک حضور کا مرید ہے وہ غیراحمدیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتا ہے اور کبھی کبھی ہمارا امام بننے کا بھی اس کو اتفاق ہوتا ہے اس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.جب کہ وہ لوگ ہم کو کافر قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ان کو کافر کہنے میں ہم غلطی پر ہیں تو ہم خود کافر ہیں تو اس صورت میں ان کے پیچھے نماز کیونکر جائز ہو سکتی ہے.ایسا ہی جو احمدی انکے پیچھے نماز پڑھتا ہے جب تک توبہ نہ کرے اس کے پیچھے تم نماز نہ پڑھو.تمباکو نوشی ایک شخص نے سوال کیا کہ سنا گیا ہے کہ آپ نے حقہ نوشی کو حرام فرمایا ہے.فرمایا.ہم نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا کہ تمباکو پینا مانند سؤر اور شراب کے حرام ہے.ہاں ایک لغو امر ہے اور اس سے مومن کو پرہیز چاہیے البتہ جو لوگ کسی بیماری وغیرہ کے سبب مجبور ہوں وہ بطور دوائی یا علاج کے استعمال کریں تو حرج نہیں.۱ بدر جلد ۲ نمبر ۳۲ مورخہ ۹؍اگست ۱۹۰۶ء صفحہ ۴ نیز الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۸ مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۶ء صفحہ ۹

Page 302

نبی بخش.ایک شخص نے سوال کیا کہ میرا نام نبی بخش ہے کیا یہ ضروری ہے کہ میں اپنے نام میں تبدیلی کر لوں.فرمایا.یہ ضروری نہیں.نبی بخش کے معنے ہیں کہ نبی کی شفاعت سے اور اس کے طفیل سے بخشا گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت برحق ہے اور قرآن شریف سے.۱ یکم ستمبر ۱۹۰۶ء مخالفت ہمیشہ راستبازوں کی ہوتی ہے ایک اخبار کی مخالفانہ اور تعصب اور جھوٹھ سے بھری ہوئی تحریر پیش ہوئی.فرمایا.یہ لوگ لکھ لیں جو کچھ ان کا جی چاہتا ہے مگر کب تک؟ آخر کار سچائی سچائی ہے اور جھوٹھ جھوٹھ ہے اور دنیا کے سامنے جلد کھل جائے گا کہ حق پر کون ہے اور جھوٹے خود بخود مٹ جائیں گے کیونکہ جھوٹھ کو کبھی فروغ نہیں ہو سکتا.فرمایا.تعجب ہے ان لوگوں پر کہ نہایت بے باکی سے کہہ دیتے ہیں کہ کوئی زلزلہ نہیں آئے گا.یہ سب پیشگوئیاں جھوٹی ہیں.ان کو چاہیے تھا کہ انتظار کرتے اور ایسی جلد بازی سے تکذیب نہ کرتے.دنیوی عدالتوں میں ایک مقدمہ پیش ہوتا ہے تو اس جگہ بھی انسان خوفزدہ رہتا ہے اور بیہودہ گوئی سے یہ نہیں کہتا پھرتا کہ مجھ کو ڈگری حاصل ہوجائے گی.چہ جائیکہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں مقدمہ پیش ہے اور یہ لوگ اتراتے پھرتے ہیں.فرمایا کہ مخالفت ہمیشہ راستبازوں کی ہوتی ہے.جھوٹوں کی کوئی مخالفت نہیں کرتا.بلکہ لوگ ان کے ساتھ ہوجاتے ہیں اور یہ سنت اللہ ہے.ہر نبی کے زمانہ میں کوئی نہ کوئی جھوٹھا مدعی بھی ضرور پیدا ہوتا ہے.حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں بھی دو اور شخصوں نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا تھا مگر یہودیوں نے ان دونوں کی کچھ مخالفت نہ کی اور نہ ان کو کچھ ستایا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیچھے پڑ گئے اور ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۱ و ۲ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ صفحہ ۱۸

Page 303

ان کو دکھ دیا اور مقدمہ بنایا اور سخت مخالفت کی اور بالآخر صلیب پر چڑھا کر چھوڑا.ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا تو کفار عرب نے ہرگز اس کی مخالفت نہ کی نہ اس کو ستایا نہ دکھ دیا بلکہ کئی لاکھ آدمی اس کے ساتھ ہوگئے.برخلاف اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت سخت تکلیفیں دیں اور شہر سے نکال دیا.قتل کے منصوبے باندھے اور ہر طرح کی ایذا کے درپے رہے.یہی ہمیشہ سے سنت اللہ جاری ہے کہ سچے کے ساتھ ایک دو جھوٹے مدعی بھی کھڑے ہوتے ہیں.سچا باوجود سخت مخالفتوں کے کامیاب ہوسکتا ہے اور جھوٹا باوجود اس کے کہ اس کی کوئی مخالفت نہیں ہوتی ناکام اور نامراد مرتا ہے ایسا ہی ہمارے زمانہ میں بھی ہمارے دعوے کے ساتھ کئی ایک جھوٹھے مدعی الہام اور وحی الٰہی کے پیدا ہوئے ہیں.جن میں سے بعض نہایت نامرادی کے ساتھ مر بھی گئے ہیں جیسا کہ لاہور میں ایک شخص مہدی ہونے کا دعویدار تھا.ان کی کوئی مخالفت نہیں کرتا.لاہور میں ایک شخص ملا محمد بخش بھی الہام کا مدعی ہے.اپنے الہامات شائع کرتا ہے.کوئی اس کی مخالفت میں اشتہار نہیں دیتا.نہ اس کو ستایا جاتا ہے نہ دکھ دیا جاتا ہے کیونکہ وہ جھوٹا ہے لیکن ہمارے مقابلہ میں شیطان کو ہلاکت نظر آتی ہے.اس واسطے وہ لوگوں کو مخالفت کے لیے جوش دلاتا ہے یہی قدیم سے خدا تعالیٰ کی سنت چلی آتی ہے.صادق کی مخالفت سخت ہوتی ہے تاکہ اس کی کامیابی ایک بڑا نمایاں اشتہار ہو.۱ ۹؍ستمبر ۱۹۰۶ء مسیح موعود کا کام فرمایا.ہمارے سامنے جو کام آیا ہے وہ آسان نہیں بلکہ نہایت مشکل کام ہے.ہمارے دو کام ہیں.اندرونی طور پر قوم کو درست کرنا اور تقویٰ و طہارت کا گمشدہ راستہ ان کو دوبارہ دکھانا اور اس پر چلانا اور دوسرا بیرونی حملوں کو روکنا اور کسر صلیب کرنا.یہ ہر دو کام ایسے مشکل ہیں کہ بغیر اللہ تعالیٰ کے خاص معجزہ نما کاموں کے معمولی انسانی کوششوں سے ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۳۶ مورخہ ۶؍ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۴

Page 304

کبھی یہ کام پورا نہیں ہو سکتا.ہمارے بے وقوف مخالف نادانی کے ساتھ مسیح کو آسمان پر چڑھائے بیٹھے ہیں اور خیال نہیں کرتے کہ اتنے عرصہ تک اس نامعقول عقیدہ نے کیا فساد ڈالا ہے جو آئندہ اس عقیدہ فاسدہ کی پیروی سے ان کو کچھ حاصل ہو جائے گا.خدا تعالیٰ علیم اور حکیم اور عمیق اور دقیق باتوں کا واقف کار ہے.اس کی حکمت نے جو راہ اختیار کی ہے.اسی پر چلنے سے اسلام کا بول بالا ہو سکتا ہے.یسوع تو خود داغی ہوچکے کہ ان کے نام پر اس قدر شرک ہوتا ہے.اب ان کی آمد میں اسلام کے واسطے کوئی فائدہ کی صورت نہیں بن سکتی.اسلام کے واسطے بیرونی اور اندرونی فساد اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ ظاہری عقل کے مطابق تو اب یاس اورنا امیدی کے سوائے اور کچھ باقی نہیں ہے.دین کی اشاعت کے لیے جو سامان اور طاقتیں عیسائیوں کے پاس ہیں کہ ایک ایک کتاب کو کئی کئی لاکھ چھاپتے ہیں اورمفت تقسیم کرتے ہیں وہ بات مسلمانوں کو کہاں حاصل ہے؟ یہاں تو ایک چھوٹا رسالہ چھاپنا ہو تو اس کے واسطے بھی سامان بمشکل حاصل ہوتا ہے.غرض ظاہری دولت اور طاقت اور سعی کے ذریعہ سے ہم فتح نہیں پا سکتے.بلکہ ہمارا ہتھیار ہے صرف دعا اور توجہ الی اللہ.یہ بھاری مہم صرف دعا کے عظیم الشان ذریعہ سے سر ہوگی.ڈاکٹر عبد الحکیم نادانی سے اعتراض کرتا ہے کہ یہ ایک جگہ بیٹھے ہوئے ہیں.کیوں ایسا نہیں کرتے کہ شہر بشہر گشت کریں.یہ اس کی غلطی ہے.اگر میں جا نتا کہ ملکوں میں پھرنے سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے تو میں ضرور ہی ایسا کرتا.حدیث شریف میں دجال کے متعلق آیا ہے کہ لَا یَدَانِ لِاَحَدٍ لِّقِتَالِھِمْ.اس کے ساتھ جنگ کرنے کے ہاتھ کسی کے پاس نہ ہوں گے.زمینی اسباب کے ساتھ ہم اس دجل کا مقابلہ نہیں کر سکتےکیونکہ زمینی اسباب خود اس کے پاس بہت ہیں.ہمارے پاس کوئی ایسا اعلیٰ ہتھیار ہونا چاہیے جو اس کے پاس نہ ہو تب تو ہم فتح پا سکتے ہیں.آجکل مخلوق پر دنیا کی حُبّ حد سے زیادہ غالب ہے.اس کو ہم نکالنا چاہتے ہیں اور اسی کو نکالنا سب سے زیادہ مشکل کام ہے.لکھا ہے کہ سب سے آخر جو چیز نفس سے نکلتی ہے وہ دنیا کی محبت ہے.بجز ایک آسمانی طاقت کے ہمارے واسطے کوئی کامیابی کی راہ نہیں.

Page 305

فرمایا.اللہ تعالیٰ نے ہم کو سورۂ فاتحہ میں یہ دعا سکھائی کہ اے خدا نہ تو ہمیں مغضوب علیہم میں سے بنائیو اور نہ ضالّین میں سے.اب سوچنے کا مقام ہے کہ ان ہر دو کا مرجع حضرت عیسیٰ ہی ہیں.مغضوب علیہ وہ قوم ہے جس نے حضرت عیسیٰ کے ساتھ عداوت کرنے اور ان کو ہر طرح سے دکھ دینے میں غُلو کیا اور ضالّین وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کے ساتھ محبت کرنے میں غُلو کیا اور خدائی صفات ان کو دے دیئے.صرف ان دونوں کی حالت سے بچنے کے واسطے ہم کو دعا سکھلائی گئی ہے.اگر دجّال ان کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو یہ دعا اس طرح سے ہوتی کہ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الدَّجَّالِ.یہ ایک پیشگوئی ہے جو کہ اس زمانہ کے ہر دو قسم کے شر سے آگاہ کرنے کے واسطے مسلمانوں کو پہلے سے خبردار کرتی ہے.یہ عیسائیوں کے مشن ہی ہیں جوکہ اس زمانہ میں ناخنوں تک زور لگا رہے ہیں کہ اسلام کو سطح دنیا سے نابود کر دیں.اسلام کے واسطے یہ سخت مضر ہو رہے ہیں اور باوجود ایسے سخت صدمات کے دیکھنے کے پھر خیالی اور وہمی باتوں کے پیچھے پڑنا اور دجال کو کسی اور جگہ تلاش کرنا غلطی میں داخل ہے.ہمارے سامنے تو ایک ایسا خطرناک دجال موجود ہے کہ اس کی نظیر پہلی امتوں میں موجود نہیں.کوئی انسانی طاقت اور ہاتھ اس کو زیر نہیں کر سکتا.ہاں خدا کے ہاتھوں سے یہ کام ہوگا.یہ کام جو ہمارے در پیش ہے اور جس کا ہم نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم کسر صلیب کے واسطے آئے ہیں یہ ہمارے واسطے کوئی تھوڑا سا غم نہیں.کیونکہ ہمارا اصل کام پورا نہ ہو تو پھر معجزات اور کرامات بھی کچھ شے نہیں.ایک طبیب اگر بیمار کا علاج نہیں کر سکتا اور بازی اچھی لگا لیتا ہے تو یہ امر اس کی طبابت کے دعویٰ کو مفید نہیں ہوسکتا.پس ہم کو بڑا غم جو دامنگیر ہے وہ یہی ہے کہ کسرِ صلیب کا کام پورا ہوجائے.دوسرا پہلو غم کا اندرونی ، قوم کے متعلق ہے جو سیدھی بات کو الٹا سمجھتے ہیں اور دوست کو دشمن خیال کرتے ہیں.افسوس تو یہ ہے کہ ہماری دشمنی کی خاطر آنحضرت کے ساتھ بھی دشمنی کرتے ہیں اور جو بات آنحضرت کے حق میں تائیدی ثبوت ہو وہ اگر ہم میں پایا جاوے تو اس ثبوت سے بھی انکار کر جاتے ہیں.مثلاً قرآن شریف کی یہ آیت کہ اگر رسول خدا تعالیٰ پر اپنی طرف سے کوئی بات بناتا تو

Page 306

فوراً ہلاک کیا جاتا ہے.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر ایک بڑی دلیل ہے کہ دعویٰ نبوت کے ساتھ آپ ۲۳ سال تک کامیاب ہی ہوتے چلے آئے.بہت سے اکابر نے اس دلیل کو کفار کے سامنے پیش کیا ہے.مگر اب چونکہ یہ دلیل ہمارے سلسلہ کی بھی تائید کرتی ہے.اس واسطے اس سے قطعاً انکار کر بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کوئی دلیل ہی نہیں.مفتری بڑی مہلت پا سکتا ہے بعض کہتے ہیں کہ یہ دلیل تو ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے خاص ہے.دوسرے انبیاء کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں.نادان نہیں جانتے کہ کیا دلیل بھی خاص اور مخصوص ہوا کرتی ہے؟ جو دلیل خاص ہے وہ تو بجائے خود ایک دعویٰ ہے نہ کہ دلیل.ایسی ہی غلطی عیسائی لوگ کیا کرتے ہیں کہ جب کوئی بات یسوع کے متعلق پیش کی جاتی ہے کہ اس نے فلاں کام کیوں کیا تو کہہ دیتے ہیں کہ وہ تو خدا تھا اور اس کے واسطے جائز تھا جو چاہتا کرتا.بیوقوف نہیں جانتے کہ دعویٰ خدائی تو بجائے خود ایک دعویٰ ہے نہ کہ دلیل.دعویٰ بطور دلیل کے کس طرح پیش ہو سکتا ہے.سو جھوٹھے دعوے والا کبھی سر سبز نہیں ہوا.کبھی کسی کاذب کو اتنی مہلت نہیں ملی جتنی کہ آنحضرت کو ملی.افسوس آتا ہے کہ ہماری عداوت کے سبب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی دشمنی کی جاتی ہے.جو تبدیلی ہم اس وقت قوم کے درمیان چاہتے ہیں وہ کسی آسمانی طاقت کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے.ورنہ زمینی لوگوں کےاختیار میں نہیں کہ وہ عظیم الشان کام کر دکھلائیں ابتدائے اسلام میں بھی جو کچھ ہوا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا نتیجہ تھا جو کہ مکہ کی گلیوں میں خدا تعالیٰ کے آگے رو رو کر آپ نے مانگیں.جس قدر عظیم الشان فتوحات ہوئے کہ تمام دنیا کے رنگ ڈھنگ کو بدل دیا وہ سب آنحضرت کی دعاؤں کا اثر تھا.ورنہ صحابہؓ کی قوت کا تو یہ حال تھا کہ جنگ بدر میں صحابہؓ کے پاس صرف تین تلواریں تھیں اور وہ بھی لکڑی کی بنی ہوئی تھیں.قوم کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے تقویٰ اور طہارت کو اختیار کرے اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرے تب ہی کچھ بن سکے گا.۱ ۱بدر جلد ۲ نمبر ۳۷ مورخہ ۱۳؍ ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۴ نیز الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۲ مورخہ ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۶ءصفحہ ۴

Page 307

ماہ ستمبر۱۹۰۶ء خدا تجھے خوش رکھے اے تشحیذ الاذہان والے رسالہ تشحیذالاذہان بابت ماہ ستمبر ۱۹۰۶ء میں اس کے لائق ایڈیٹر نے حضرت مسیح موعود کے چند پرانے اشعار جو پہلے کبھی شائع نہیں ہوئے اور ایک پرانی تحریر مسیح موعود کی شائع کی ہے.حضرت مہدی کی اس قسم کی تحریروں کا تحفہ پبلک کے سامنے پیش کرنا ایک ایسا قابل شکر گذاری کارِ نمایاں ہے کہ رسالہ تشحیذ الاذہان کا سالہا سال کا چندہ اس ایک نظم اور مضمون پر قربان ہو سکتا ہے.احباب کو چاہیے کہ اس رسالہ کے واسطے خریدار کثرت سے پیدا کریں.کیونکہ یہ ایک قیمتی شے ہے.ہم ذیل میں وہ نظم اور مضمون نقل کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس معزز مخدوم کو خوش رکھے.جس نے مسیح موعود کی خوشی کے ذرائع ہم کو سنائے ہیں.غزل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام مرا نہ زہد و عبادت نہ خدمت و کارے است ہمیں مرا است کہ جانم رہیں دلدارے است چہ لذتے است بر ویش کہ جان فدایش باد چہ راحتے است بکویش اگرچہ خون بارے است مسیح وقت مرا کرد آنکہ دید ایں حال بہ بین دلائل دعوے اگرچہ بیکارے است دوائے عشق نہ خواہم کہ آں ہلاکت ما است شفاء ما بہ ہمیں رنج و درد و آزارے است اگر مردی رہ مولیٰ طلب کن چہ نالی روز و شب از بہر مردار

Page 308

نمے رنجم گر اکنوں سر بہ پیچند کہ ترک رسم و رہ کارے است دشوار فلک را بین کہ مہر و مہ سیہ شد زمین طاعون بر آرد بہر انذار مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پرانی تحریر میں خوش کیوں ہوں میرے دل میں تین خوشیاں ہیں جو میرے لئے دنیا اور آخرت میں ہی ہیں.(۱) ایک یہ کہ میں نے اس سچے خدا کو پالیا ہے جو درحقیقت خدا ہے جس کی طرف سجدہ کرتے ہوئے ہر ایک ذرہ ایسا ہی جھکتا ہے جیسا کہ ایک عارف جھکتا ہے.(۲) یہ کہ اس کی رضامندی میں نے اپنے شامل حال دیکھی ہے اور اس کی رحمت سے بھری ہوئی محبت کا میں نے مشاہدہ کیا ہے.(۳)تیسرے یہ کہ میں نے دیکھا ہے اور تجربہ کیا ہے کہ وہ عالم الغیب ہے اور ایسا کامل رحیم ہے کہ ایک رحم اس کا تو عام ہے اور خاص رحم اس کا ان لوگوں سے تعلق رکھتا ہے جو اس میں کھوئے جاتے ہیں اور وہ قدیر ہے جس کی تکلیف کو راحت کے ساتھ بدلنا چاہے ایک دم میں بدل سکتا ہے یہ تین صفتیں اس کے پرستاروں کے لئے بڑی خوشی کا مقام ہیں.۱ ۱۹؍ستمبر ۱۹۰۶ء کوئی بیماری لاعلاج نہیں ایک بیمار حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا اور اس نے دعا کے واسطے عرض کی اور اپنی حالت پر مایوسی کا اظہار کیا.۱بدر جلد ۲ نمبر ۳۸ مورخہ ۲۰؍ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۸

Page 309

حضرت نے فرمایا.میرا مذہب یہ ہے کہ کوئی بیماری لاعلاج نہیں.ہر ایک بیماری کا علاج ہو سکتا ہے جس مرض کو طبیب لاعلاج کہتا ہے اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ طبیب اس کے علاج سے آگاہ نہیں ہے.ہمارے تجربہ میں یہ بات آچکی ہے کہ بہت سی بیماریوں کو اطباء اور ڈاکٹروں نے لاعلاج بیان کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے شفا پانے کے واسطے بیمار کے لیے کوئی نہ کوئی راہ نکال دی بعض بیمار بالکل مایوس ہوجاتے ہیں.یہ غلطی ہے.خدا تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے اس کے ہاتھ میں سب شِفا ہے.سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب مدراس والے ایک ضعیف آدمی ہیں.ان کو مرض ذیابیطس بھی ہے اور ساتھ ہی کاربنکل نہایت خوفناک شکل میں نمودار ہوا اور پھر عمر بھی بڑھاپے کی ہے.ڈاکٹروں نے نہایت گہرا چیرا دیا اور ان کی حالت نہایت خطرناک ہوگئی یہاں تک کہ ان کی نسبت خطرہ کے اظہار کے خطوط آنے لگے.تب میں نے ان کے واسطے بہت دعا کی تو ایک روز اچانک ظہر کے وقت الہام ہوا.’’آثار زندگی‘‘.اس الہام کے بعد تھوڑی دیر میں مدراس سے تار آیا کہ اب سیٹھ صاحب موصوف کی حالت رو بصحت ہے.بیمار کو چاہیے کہ توبہ استغفار میں مصروف ہو.انسان صحت کی حالت میں کئی قسم کی غلطیاں کرتا ہے.کچھ گناہ حقوق اللہ کے متعلق ہوتے ہیں اور کچھ حقوق عباد کے متعلق ہوتے ہیں.ہر دو قسم کی غلطیوں کی معافی مانگنی چاہیے اور دنیا میں جس شخص کو نقصان بے جا پہنچایا ہو اس کو راضی کرنا چاہیے اور خدا تعالیٰ کے حضور میں سچی توبہ کرنی چاہیے توبہ سے یہ مطلب نہیں کہ انسان جنتر منتر کی طرح کچھ الفاظ منہ سے بولتا رہے بلکہ سچے دل سے اقرار ہونا چاہیے کہ میں آئندہ یہ گناہ نہ کروں گا اور اس پر استقلال کے ساتھ قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہیے تو خدا تعالیٰ غفور الرحیم ہے.وہ اپنے بندوں کے گناہوں کو بخش دیتا ہے.اور وہ ستار ہے.بندوں کے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہے.تمہیں ضرورت نہیںکہ مخلوق کے سامنے اپنے گناہوں کا اظہار کرو.ہاں خدا تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے.۱ ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۴۰ مورخہ ۴؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۴

Page 310

۲۳؍ستمبر ۱۹۰۶ء آریہ مت کی موت کا سبب آریوں کا ذکر تھا کہ اب تو آریہ صاحبان خود ہی اقرار کرنے لگے ہیں کہ آریہ مذہب مردہ مذہب ہے اور ایک سو سال تک بالکل نیست و نابود ہوجائے گا.جب حضور نے پیشگوئی کی تھی کہ آریہ مذہب ایک سو سال تک دنیا سے مفقود ہوجائے گا تو اس وقت آریوں نے بڑا شور مچایا تھا کہ یہ مذہب ہمیشہ قائم رہے گا مرزا صاحب نے غلط کہا ہے.اب تعجب ہے کہ وہی آریہ صاحبان خود ہی اپنے لیکچروں اور رسالوں میں بیان فرماتے ہیں کہ آریہ مذہب مُردہ ہے.حضور کی پیشگوئی آریہ مذہب کے متعلق فروری ۱۹۰۳ء میں جب شائع ہوئی تھی کہ ایک صدی نہ گزرے گی جو اس مذہب پر موت وارد ہوجائے گی تو اس وقت پنڈت رام بھجدت نے بڑے زور سے اس کی مخالفت کی تھی اور خود قادیان میں آکر اپنے لیکچر میں اس پیشگوئی کا ذکر کیا تھا.اب وہی پنڈت رام بھجدت صاحب ہیں جنہوںنے ۱۱؍ستمبر کے اخبار پرکاش میں فرمایا ہے کہ موجودہ آریہ سماج کبھی بھی سو برس سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا بلکہ نیست و نابود ہو جاوے گا اور اس کے علاوہ نئے آریہ دھرم پال صاحب نے اپنے رسالہ اندر میں آریہ سماج کی موت پر ایک مضمون لکھ دیا ہے.غالباً مؤخر الذکر صاحب اسی واسطے آریہ بنے تھے کہ آریہ مت کی موت کو ثابت کرنے میں جلدی کریں.غرض یہ ذکر تھا جس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی مذہب ہو خواہ قوم ہو خواہ جماعت ہو بغیر روحانیت کے کوئی قائم نہیں رہ سکتا.جب تک خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پختہ نہ ہو کوئی مذہب دنیا میں کس طرح ٹھہر سکتا ہے چونکہ آریہ مذہب میں روحانیت نہیں ہے اس واسطے اس کا قیام محال ہے.سارے انبیاء صرف خدا کو جانتے تھے.برخلاف اس کے ان کے پیٹ ہزاروں فریبوں سے بھرے ہوئے ہیں اور ان میں روحانیت کا کوئی حصہ نہیں.خدا کی قدرت ہے کہ جس قدر انبیاء دنیا میں آئے وہ دنیاوی معاملات میں ایسے تھے کہ ان کو

Page 311

پانچ روپے کی بھی نوکری نہ مل سکتی.مگر چونکہ وہ خدا کے بنے اس واسطے دین و دنیا میں وہ مالا مال ہوگئے.حقیقۃ الوحی کے مطالعہ کی تلقین فرمایا.حقیقۃ الوحی کے تین سو سے زائد صفحات لکھے گئے ہیں.اس کتاب میں ہر قسم کے دلائل لکھے گئے ہیں.جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ اس کو بغور مطالعہ کریں.جن لوگوں کو فرصت شوق اور فہم حاصل ہوگا اور اس کو بغورمطالعہ کریں گے ان میں ایک طاقت پیدا ہوجائے گی اور وہ پھر اس بات کے محتاج نہ رہیں گے کہ ایسے سوالات کے جوابات کسی سے دریافت کریں.جماعت کے سب لوگوں کو چاہیے کہ یہ طاقت اپنے اندر پیدا کریں.کیونکہ مخالفین کی عادت ہے کہ خواہ مخواہ چھیڑ دیتے ہیں اور بعض ایسے شریر ہوتے ہیںکہ خود تو اعتراض کر دیتے ہیں اور جب دوسرا آدمی جواب دینے لگے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو کوئی اعتراض نہیں کرتے ہم نے تو یونہی ایک بات کہی تھی.ہماری عادت تو بحث کرنے کی نہیں ایسے لوگ بڑے خبیث ہوتے ہیں ان کو ضرور جواب دینا چاہیے اور مختصر جواب دینا چاہیے تاکہ جلدی ان کو شرمندگی حاصل ہو.علاوہ ازیں مختصر اور معقول جواب ہر امر کے واسطے یاد رکھناچا ہیے کیونکہ آجکل دنیا دار دینی معاملات کی طرف توجہ نہیں رکھتے اور دینی باتوں کے سننے میں اپنا تضیع اوقات خیال کرتے ہیں.پس ایسے لوگوں کو مختصر بات سنانی چاہیے جو کہ فوراًان کے دماغ میں چلی جاوے اور اپنا اثر کرجائے.غلام دستگیر قصوری غلام دستگیر قصوری کا ذکر تھا.فرمایا.اس نے ایک ایسا مباہلہ کیا تھا جس کی نظیر پہلے بھی اسلامی دنیا میں موجود ہے جس کا اس نے خود ہی اپنے رسالہ میں ذکر کیا ہے کہ ایک بزرگ محمد طاہر نام تھے ان کے زمانہ میںدو شخص پیدا ہوئے.ایک نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور ایک نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا جس پر مولوی محمد طاہر صاحب نے خدا تعالیٰ کے حضور میں دعا کی کہ یا الٰہی اگر یہ مدعی جھوٹھے ہیںتو ان کو ہلاک کر اور اگر ان کو نہ ماننے میں میں جھوٹا ہوں تو مجھے ہلاک کر.چونکہ وہ دونوں

Page 312

کاذب تھے.اس واسطے وہ ہر دو ہلاک ہوگئے.غلام دستگیر نے بھی اسی طرح مباہلہ کیا تھا اور لکھا تھا کہ میں وہی دعا کرتا ہوں جو کہ محمد طاہر نے کی تھی چونکہ اس کے مقابل میں جو شخص تھا وہ سچا ہے اس واسطے غلام دستگیر خود ہلاک ہوگیا.۱ بلا تاریخ۲ نماز تراویح اکمل صاحب آف گولیکی نے بذریعہ تحریر حضرتؑسے دریافت کیا کہ رمضان شریف میں رات کو اٹھنے اور نماز پڑھنے کی تاکید ہے.لیکن عموماً محنتی مزدور زمیندار لوگ جو ایسے اعمال کے بجالانے میں غفلت دکھاتے ہیں اگر اول شب میں ان کو گیارہ رکعت تراویح بجائے آخر شب کے پڑھا دیا جاوے تو کیا یہ جائز ہوگا؟ حضرت نے جواب میں فرمایا.کچھ ہرج نہیں پڑھ لیں.توکّل علی اللہ کسی دشمن کا ذکر تھا کہ وہ شر کرے گا اور حضور کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کرے گا.فرمایا.ہم اس بات سے کب ڈرتے ہیں وہ بے شک کرے بلکہ ہم خوش ہیں کہ وہ ایسا کرے کیونکہ ایسے ہی موقع پر اللہ تعالیٰ ہمارے واسطے نشانات دکھلاتا ہے ہم خوب دیکھ چکے ہیں کہ جب کبھی کسی دشمن نے ہمارے ساتھ بدی کے واسطے منصوبہ کیا خدا تعالیٰ نے ہمیشہ اس میں سے ایک نشان ہماری تائید میں ظاہر فرمایا.ہمارا بھروسہ خدا پر ہے انسان کچھ چیز نہیں.باوا نانک مسلمان تھے ایک سکھ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا.باوا صاحب کا ذکر آیا.حضرت نے فرمایا کہ باوا صاحب مسلمان تھے اور نماز پڑھتے تھے.سکھ لوگ بڑی غلطی کرتے ہیں جو اپنے گرو کے مذہب کو چھوڑ کر بے ہودہ باتوں کے پیچھے پڑ ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۳۹ مورخہ ۲۷؍ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۴ ۲غالباً اکتوبر ۱۹۰۶ء کے پہلے ہفتہ کی یہ ڈائری ہے.(مرتّب)

Page 313

گئے ہیں اور بُت پرست ہندوؤں کے ساتھ اپنے تعلقات پیدا کر لیے ہیں.اس سکھ نے جواب دیا کہ بے شک باوا صاحب فرما گئے ہیں کہ بے نماز کتا ہوتا ہے اور صبح سویرے اٹھ کر وضو کر کے نماز پڑھنی چاہیے.۱ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ء پیشگوئی بڑا معجزہ ہوتی ہے پیشگوئیوں اور معجزات کا ذکر تھا حضرت نے فرمایا کہ پہلے انبیاء کی کتابوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بڑا معجزہ پیشگوئی ہی ہے.پیشگوئی کے سوائے دوسرے معجزات میںکئی قسم کے شبہات ہوتے ہیں اور وہ صرف ایک عارضی بات ہوتی ہے.بہت سے تماشہ کرنے والے بھی ایسے کام کرتے ہیں کہ لوگ حیرت میں رہ جاتے ہیں.مگر کوئی تماشہ کرنے والا پیشگوئی کے کام میں پیش دستی نہیں کر سکتا.خواجہ کمال الدین صاحب نے عرض کیا کہ اس زمانہ میں یا تو بالخصوص پیشگوئی ایک نمایاں معجزہ ہے کیونکہ فلسفی اور سائنسدان لوگوں نے دوسرے معجزات کے متعلق کچھ نہ کچھ راز بیان کئے ہیں لیکن پیشگوئی کے متعلق چونکہ وہ کچھ سمجھ نہیں سکے کہ اس میں کیا راز ہو سکتا ہے یا کس ظاہری سائنس کے مطابق پیشگوئی کی جا سکتی ہے.اس واسطے پیشگوئی کا انہوںنے صاف انکار کر دیا ہے کہ پیشگوئی کوئی ہوتی ہی نہیں.لہٰذا اس زمانہ میں پیشگوئی کرنا اور اس کا ثابت کر دینا معجزہ دکھانے کا یہی سب سے بڑا ذریعہ ہے جس میں دنیا دار عاجز ہیں.حضرت نے فرمایا کہ پیشگوئیوں پر ہی پہلے انبیاء بھی زور دیتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بہت سی پیشگوئیاں کیں جن میں سے بہت پوری ہوچکی ہیں کیونکہ ان کےپورا ہونے کا وقت آگیا تھا.چنانچہ آپ نے ایک بڑی آگ کے نمودار ہونے کی پیشگوئی کی تھی اور اس کے متعلق تمام نشانات اور علامات کا ذکر کیا تھا.وہ پیشگوئی جب صحیح بخاری وغیرہ کتب میں درج ہوگئی اور وہ کتابیں ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۴۲ مورخہ ۱۸؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۴

Page 314

عیسائیوں اور یہودیوں کے ہاتھ میں پہنچ چکیں تو اس وقت نمودار ہوئی.اس پر مخالف عیسائی بھی آج تک حیران ہیں کہ یہ کیا بات تھی کہ اتنی صدیوں کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی ایسی صراحت کے ساتھ پوری ہوگئی.مولوی عبد اللہ غزنوی مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کا ذکر تھا.فرمایا کہ وہ اچھے آدمی تھے.مرد صالح تھے.خدا نے ان کو ہمارے دعویٰ کے زمانہ سے پہلے ہی اٹھا لیا تاکہ وہ کسی ابتلا میں نہ پڑیں.میں نے ان کو خواب میں بھی دیکھا تھا.انہوں نے میری تصدیق کی اور کہا کہ جب میں دنیا میں تھا تو میں ایسے آدمی کے پیدا ہونے کا منتظر تھا.گذشتہ اکابر قابل مؤاخذہ نہیں ہوں گے فرمایا.گذشتہ بزرگ جو گذر چکے ہیں اگر انہوں نے مسئلہ وفات مسیح کو نہ سمجھا ہو اور اس میں غلطی کھائی ہو تو اس سبب سے ان پر مؤاخذہ نہیں کیونکہ ان کے سامنے یہ بات کھول کر بیان نہیں کی گئی تھی اور یہ مسائل ان کے راہ میں نہ تھے.انہوں نے اپنی طرف سے تقویٰ و طہارت میں حتی الوسع کوشش کی.ان لوگوں کی مثال ان یہودی فقہاء کے ساتھ دی جا سکتی ہے جو کہ بنی اسرائیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے گذر چکے تھے اور ان کا عقیدہ پختہ تھا کہ آخری نبی جو آنے والا ہے وہ حضرت اسحٰق کی اولاد میں سے ہوگا اور اسرائیلی ہوگا وہ مر گئے اور بہشت میں گئے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ مسئلہ روشن ہوگیا کہ آنے والا آخری نبی بنی اسمٰعیل میں سے ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے تھا تب بنی اسرائیل میں سے جو لوگ ایمان نہ لائے وہ کافر قرار دیئے گئے اور لعنتی ہوئے اور آج تک ذلیل اور خوار اور در بدر مصیبت زدہ ہو کر پھر رہے ہیں.سلطنتِ عثمانیہ سلطان روم کا کچھ ذکرتھا.فرمایا.ان لوگوں میں روحانیت نہیں معلوم ہوتی ورنہ وہ یورپ کے محتاج نہ

Page 315

ہوتے.لوگ کہتے ہیں کہ وہ حرمین کی حفاطت کرتا ہے یہ غلط ہے بلکہ حرمین اس کی حفاظت کر رہے ہیں.ورنہ وہ کرتا ہی کیا ہے؟ آج تک بدوؤں تک کا انتظام نہیں کر سکا.ہر سال غریب حاجی اس کثرت کے ساتھ قتل کئے جاتے ہیں اور لوٹے جاتے ہیں اور وہ کچھ انسداد نہیں کر سکتا.اگر اسلامی روحانیت اس میں ہوتی تو وہ اکیلا بیس سلطنتوں کے مقابلہ کے واسطے بھی کافی تھا چہ جائیکہ اب اپنی سلطنت کا سنبھالنا بھی مشکل ہو رہا ہے.سب مخلوق خدا تعالیٰ کی ہے اور سب کے دل اس کے قبضہ قدرت میں، اور وہ سب پر غالب ہے.جو خدا کا بنتا ہے خدا اسے سب پر غالب کر دیتا ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں رہتا.۱ ۱۸؍اکتوبر ۱۹۰۶ء جماعتی تصانیف مرکز سے منظور ہوکر شائع ہوں دہلی سے ایک دوست کی تحریری تحریک پیش ہوئی کہ اپنی جماعت کے بہت سے دوست سلسلہ کی تائید میں کتابیں لکھتے ہیں مگر ان کے چھپوانے کا کوئی انتظام نہیں ہوسکتا.اس واسطے ایک سرمایہ کے ساتھ ایک کمپنی بنانی چاہیے اور ایک کارخانہ مطبع کا بنانا چاہیے جو کہ دہلی میں قائم ہو.اس پر حضرت نے فرمایا کہ ہمیں ایسی کمپنی کے بنانے کی ثلج صدر نہیں اور ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا انجام اچھا ہو.بہت سے لوگ اس قسم کے بھی ہوتے ہیں جو دینی علوم سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے.ان کی تصنیف بجائے فائدہ کے ضرر رساں ہوتی ہے اس قسم کی تصانیف پہلے قادیان میں آنی چاہئیں اور یہاں لوگ اس کو دیکھیں اور اس پر غور کریں کہ آیا وہ چھپنے کے قابل بھی ہیں یا کہ نہیں.اوّل تو اس قسم کے آدمی پیدا ہوجانے چاہئیں جو دینی علوم سے پوری واقفیت رکھنے والے ہوں.عالم باعمل ہوں ۱بدر جلد ۲ نمبر ۴۲ مورخہ ۱۸؍اکتوبر ۱۹۰۶ءصفحہ ۴

Page 316

تاکہ ان کی تحریر اور تقریر کا دوسروں پر اثر بھی ہو سکے.ایک آدمی جس کے دل میں یہ بات ہو کہ خدا کے واسطے کام کرے وہ کروڑوں آدمی سے بہتر ہے.مولوی سید محمد احسن صاحب فرمایا.مولوی سید محمد احسن صاحب بحث مباحثہ کے کام میں اور مناظرہ میں یکتا ہیں.وہ پورے تحصیل یافتہ ہیں.علم حدیث اور علم فقہ کے بڑے ماہر ہیں.مخالف مولویوں کے مقابلہ میں سلسلہ تصانیف کا کام خوب کر سکتے ہیں.ہر شخص کا کام نہیں کہ ایسے امور میں مداخلت کرے.کلام پڑھ کر پھونکنا ایک دوست نے سوال کیا کہ مجھے قرآن شریف کی کوئی آیت بتلائی جاوے کہ میں پڑھ کر اپنے بیمار کو دم کروں تاکہ اس کو شفا ہو.حضرت نے فرمایا.بیشک قرآن شریف میں شفا ہے.روحانی اور جسمانی بیماریوں کا وہ علاج ہے مگر اس طرح کے کلام پڑھنے میں لوگوں کو ابتلا ہے.قرآن شریف کو تم اس امتحان میں نہ ڈالو.خدا تعالیٰ سے اپنے بیمار کے واسطے دعا کرو.تمہارے واسطے یہی کافی ہے.۱ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صاحب نور کابلی رضی اللہ عنہ صاحب نور مرحوم کا ذکر تھا.حضرت نے احمدنور۲ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ خدا اس کو بہشت نصیب کرے.میں اس کی اچانک موت کی خبرسن کر صدمہ سے خود بیمار ہوگیا تھا اس واسطے جنازہ پڑھنے کے واسطے باہر نہ آسکا.مولوی احمد نور صاحب نے ذکر کیا کہ رات بھر قرآن شریف پڑھتا رہا تھا اور صبح کو بالکل تندرست ۱بدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۴ ۲یہ صاحب نور مرحوم کے بھائی تھے.یہ دونوں بھائی صاحبزادہ عبد اللطیف شہیدؓ کے مرید تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لا کر ہجرت کر کے قادیان میں مقیم ہوگئے.(مرتّب)

Page 317

دوکان پر بیٹھا تھا اچانک موت آگئی.دوسرے لوگوں نے ذکر کیا کہ نیک آدمی تھا.دنیاوی دھندوں جھگڑوںکے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا علیحدہ رہتا تھا.حضرت نے فرمایا.وہ تو دنیوی تعلقات پہلے ہی چھوڑ کر اور ہجرت کر کے قادیان میں آبسا تھا.۱ بلا تاریخ۲ نماز میں بے حضوری کا علاج ایک شخص نے سوال کیا کہ جب میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو مجھے حضور قلب حاصل نہیں ہوتا.کیا اس صورت میں میری نماز ہوتی ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ انسان کی کوشش سے جو حضور قلب حاصل ہو سکتا ہے وہ یہی ہے کہ مسلمان وضو کرتا ہے اپنے آپ کو کشاں کشاں مسجد تک لے جاتا ہے نماز میں کھڑا ہوتا ہے اور نماز پڑھتا ہے.یہاں تک انسان کی کوشش ہے اس کے بعد حضورِ قلب کا عطا کرنا خدا تعالیٰ کا کام ہے.انسان اپنا کام کرتا ہے.خدا تعالیٰ بھی ایک وقت پر اپنی عطا نازل کرتا ہے.نماز میں بے حضوری کا علاج بھی نماز ہی ہے.نماز پڑھتے جاؤ.اسی سے سب دروازے رحمت کے کھل جاویں گے.۳ ۲۸؍اکتوبر۱۹۰۶ء (صبح کی سیر) قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ معلوم کر کے کہ ۱ بدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۴ ۲غالباً اکتوبر۱۹۰۶ء کے ابتدائی ایام کے یہ ملفوظات ہیں.واللہ اعلم بالصواب (مرتّب) ۳بدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ۱۳

Page 318

لاہور سے شیخ محمد چٹو۱ آئے ہیں اور احباب بھی آئے ہیں.محض اپنے خلق عظیم کی بنا پر باہر نکلے.غرض یہ تھی کہ باہر سیر کو نکلیں گے.احباب سے ملاقات کی تقریب ہوگی.چونکہ پہلے سے لوگوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ حضرت اقدس باہر تشریف لائیں گے اس لیے اکثر احباب چھوٹی مسجد میں موجود تھے.جب حضرت اقدس اپنے دروازے سے باہر آئے تو معمول کے موافق خدام پروانہ وار آپ کی طرف دوڑے.آپ نے شیخ صاحب کی طرف دیکھ کر بعد سلام مسنون فرمایا.حضرت اقدس.آپ اچھی طرح سے ہیں؟ آپ تو ہمارے پرانے ملنے والوں میں سے ہیں.بابا چٹو.شکر ہے.حضرت اقدس.(حکیم محمد حسین قریشی کو مخاطب کرکے) یہ آپ کا فرض ہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.ان کے کھانے اور ٹھہرنے کا پورا انتظام کر دو.جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے کہو اور میاں نجم الدین کو تاکید کر دو کہ ان کے کھانے کے لیے جو مناسب ہو اور یہ پسند کریں وہ طیار کرے.حکیم محمد حسین.بہت اچھا حضور.انشاء اللہ کوئی تکلیف نہیں ہوگی.حضرت اقدس.(بابا چٹو کو خطاب کر کے) آپ تو مسافر ہیں.روزہ تو نہیں رکھا ہوگا؟ بابا چٹو.نہیں مجھے تو روزہ ہے میں نے رکھ لیا ہے.حضرت اقدس.اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے.خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لیے اس حکم پر بھی تو عمل رکھنا چاہیے.میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے.کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے نہ اپنی مرضی اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے.اس نے تو یہی حکم دیا ہے مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ ۱ پہلے یہ فرقہ اہلحدیث میں شامل تھے.بعد میں چکڑالوی مسلک اختیار کر لیا.حضور کی خدمت میں جب آئے تو چکڑالوی تھے.(مرتّب)

Page 319

اُخَرَ(البقرۃ:۱۸۵) اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یا ایسی بیماری ہو.میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں چنانچہ آج بھی میری طبیعت اچھی نہیں اور میں نے روزہ نہیں رکھا.چلنے پھرنے سے بیماری میں کچھ کمی ہوتی ہے اس لیے باہر جاؤں گا.کیا آپ بھی چلیں گے.بابا چٹو.نہیں میں تو نہیں جا سکتا آپ ہو آئیں.یہ حکم تو بے شک ہے مگر سفر میں کوئی تکلیف نہیں پھر کیوں روزہ نہ رکھا جاوے.حضرت اقدس.یہ تو آپ کی اپنی رائے ہے.قرآن شریف نے تو تکلیف یا عدمِ تکلیف کا کوئی ذکر نہیں فرمایا.اب آپ بہت بوڑھے ہوگئے ہیں.زندگی کا اعتبار کچھ نہیں.انسان کو وہ رہ اختیار کرنی چاہیے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو جاوے اور صراطِ مستقیم مل جاوے.بابا چٹو.میں تو اسی لیے آیا ہوں کہ آپ سے کچھ فائدہ اٹھاؤں.اگر یہ راہ سچی ہے تو ایسا نہ ہو کہ ہم غفلت ہی میں مر جاویں.حضرت اقدس.ہاں یہ بہت عمدہ بات ہے.میں تھوڑی دور ہو آؤں.آپ آرام کریں.(یہ کہہ کر حضرت اقدس سیر کو تشریف لے گئے)۱ (قبل دوپہر) اَلصُّلْحُ خَيْرٌ حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور دو بھائیوں کے کسی باہمی نزاع کا ذکر خواجہ صاحب نے کیا.یہ امر انسانی فطرت کے خلاف نہیں کہ باہم نزاع ہو.حقیقی بھائیوں میں بھی ہوجاتا ہے اور انسانی اَمْزِجَہ کا اختلاف جو خدا تعالیٰ کی ہستی کا بیّن اور واضح ثبوت ہے اس امر کا مقتضی ہے کہ اختلافِ رائے اور اختلافِ خیال سے کبھی نزاع بھی پیدا ہو مگر وہ نزاع قابلِ ذکر یا قابل لحاظ نہیں ہوا کرتا جہاں خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم کر کے اپنے نزاع کو چھوڑ دیا جاوے.بہر حال دو بھائیوں کے نزاع کا ذکر تھا اور خواہش یہ کی گئی تھی کہ حضور ارشاد فرماویں گے تو ان ۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۴

Page 320

میں سے کسی کو بھی شکایت باقی نہ رہے گی اس پر حضور نے عام طور پر فرمایا.میں صلح کو پسند کرتا ہوں اور جب صلح ہوجاوے پھر اس کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہیے کہ اس نے کیا کہا یا کیا کیا تھا.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص جس نے مجھے ہزاروں مرتبہ دجّال اور کذاب کہا ہو اور میری مخالفت میں ہر طرح کوشش کی ہو اور وہ صلح کا طالب ہو تو میرے دل میں خیال بھی نہیں آتا اور نہیں آسکتا کہ اس نے مجھے کیا کہا تھا اور میرے ساتھ کیا سلوک کیا تھا ہاں خدا تعالیٰ کی عزت کو ہاتھ سے نہ دے.یہ سچی بات ہے کہ جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی وجہ سے دوسروں کو فائدہ پہنچے اس کو کینہ ور نہیں ہونا چاہیے اگر وہ کینہ ور ہو تو دوسروں کو اس کے وجود سے کیا فائدہ پہنچے گا؟ جہاں ذرا اس کے نفس اور خیال کے خلاف ایک امر واقع ہوا وہ انتقام لینے کو آمادہ ہوگیا.اسے تو ایسا ہونا چاہیے کہ اگر ہزاروں نشتروں سے بھی مارا جاوے پھر بھی پروا نہ کرے.میری نصیحت یہی ہے کہ دو باتوں کو یاد رکھو.ایک خدا تعالیٰ سے ڈرو.دوسرے اپنے بھائیوں سے ایسی ہمدردی کرو جیسی اپنے نفس سے کرتے ہو.اگر کسی سے کوئی قصور اور غلطی سرزد ہوجاوے تو اسے معاف کرنا چاہیے نہ یہ کہ اس پر زیادہ زور دیا جاوے اور کینہ کشی کی عادت بنا لی جاوے.نفس انسان کو مجبور کرتا ہے کہ اس کے خلاف کوئی امر نہ ہو اور اس طرح پر وہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تخت پر بیٹھ جاوے اس لیے اس سے بچتے رہو.میں سچ کہتا ہوں کہ بندوں سے پورا خُلق کرنا بھی ایک موت ہے.میں اس کو ناپسند کرتا ہوں کہ اگر کوئی ذرا بھی کسی کو توں تاں کرے تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاوے.بلکہ میں تو اس کو پسند کرتا ہوں اگر کوئی سامنے بھی گالی دے دے تو صبر کر کے خاموش ہو رہے.انبیاء کی سختی بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ نبی بعض اوقات سختی کرتے ہیں وہ اس امر کو سمجھ نہیں سکتے کہ ان کی سختی کا رنگ اَور ہے.اس میں کینہ ملا ہوا نہیں ہوتا وہ اپنے نفس کے لیے نہیں کرتے.اس میں کوئی ذاتی غرض ان کی مدّ نظر نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی

Page 321

عزت کے لیے اور اس کی اپنی اصلاح کے لیے.دیکھو! ماں بچے کو بعض وقت مارتی بھی ہے اور سخت مارتی ہے.دوسرا دیکھنے والا کہہ سکتا ہے کہ کیسی بے دردی سے مار رہی ہے مگر وہ اس سے ناواقف ہے کہ اس کی شفقت کا اندازہ کر سکے.اگر ماں کی محبت اور ہمدردی کی اسے خبر ہوتی تو وہ ایسا وہم نہ کرتا.کیا یہ سچ نہیں کہ اگر بچے کو ذرا بھی درد ہو تو ماں ساری رات بے قرار رہتی اور اس کی خدمت گذاری میں گذار دیتی ہے.دوسرا کون ہے جواس شفقت اور ہمدردی کا مقابلہ کر سکے.اسی طرح پر نبی کی سختی ہوتی ہے اس کے دل میں ایک درد اور کوفت ہوتی ہے خدا کی مخلوق کی اصلاح کے لیے.وہ چاہتا ہے کہ خدا کے عذاب سے بچ جاوے.اگر اپنے کسی خادم پر سختی کرتا ہے تو شفیق ماں کی طرح راتوں کواٹھ اٹھ کر دعائیں بھی تو اسی کے لیے کرتا ہے.غرض ماں باپ اور شفیق اوستاد کی سختی سختی نہیں وہ تو عین رحمت اور شفقت ہے.ایسا ہی عادل بادشاہ کی سختی بھی سختی نہیں.نادانی سے لوگ اعتراض کر اٹھتے ہیں اور شور مچاتے ہیں عادل بادشاہ ہمیشہ اپنی رعایا کی بھلائی اور خیر خواہی چاہتا ہے.میں بار بار یہی کہوں گا کہ نفس پرستی کی شیخی خدا تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں ہے اس لیے اس قسم کے نزاعوں کو یکدم چھوڑنا چاہیے.۱ یاد رکھو! اگر ایک بھی راستباز ہوگا وہ ہزاروں کو اپنی طرف کھینچ لائے گا اور راستباز وہ ہے جو اس کے اور اس کے نفس کے درمیان ہزاروں کوس کا فاصلہ ہو.مذہب کی جڑ یہی ہے.تقویٰ اور خدا ترسی اور مذہب یہی ہے.دوکانداری کا نام دین نہیں ہے.۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کی صداقت کے دلائل اس تقریر کے دوران ہی میں شیخ صاحب بھی تشریف لے آئے اور جب حضرت اقدس کو اپنی طرف ۱ اس مقام پر حضرت حجۃ اللہ پہنچے تھے ایک بھائی نے فوراً ہی اپنے دوسرے بھائی سے السلام علیکم کہہ کر ہاتھ ملا لیا اور صلح کر لی.جزاھم اللہ احسن الجزاء(ایڈیٹر ) ۲الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴۲ مورخہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳

Page 322

متوجہ پایا تو پھر آپ سے سلسلہ کلام شروع کیا.وہ مکالمہ درج ذیل ہے.بابا چٹو.قرآن سے اپنا دعویٰ پیش کریں.حضرت اقدس.میرا دعویٰ انہیں دلائل سے ثابت ہے جن سے قرآن شریف خدا تعالیٰ کا کلام ثابت ہوتا ہے پس پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ نے قرآن شریف کو کیوں مانا ہے؟ جو طریق آپ پیش کریں گے اسی طرح پر میرا دعویٰ ثابت ہوجائے گا.بابا چٹو.قرآن کو تو اسی طرح مانا ہے جس طرح خدا کو مانا ہے.حضرت اقدس.آخر وہ صورت بھی تو آپ بتائیں کہ کس طرح مانا ہے؟ خدا تعالیٰ تو اپنی قدرتوں سے شناخت ہوا ہے مگر قرآن شریف کے ماننے کے وجوہات آپ کے پاس کیا ہیں؟ نرا زبان سے کہہ دینا کہ میں اس کو خدا تعالیٰ کا کلام مانتا ہوں دوسرے کی تسلی کا موجب تو نہیں ہوا کرتا.ہر نبی اور رسول جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آیا کرتا ہے وہ یہی اپنے صدق دعویٰ کے دلائل اور نشانات رکھا کرتا ہے.یونہی اگر اس کے کہنے ہی پر ماننے والے ہوں تو پھر دلائل کیوں پوچھیں؟ اس لیے دلائل ہوتے ہیں.مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ لوگ نری منقولی باتوں کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ ان کی سچائی کے لیے ان کی تائید میں خارق عادت نشانات ظاہر فرماتا ہے.پھر ان نشانات سے بھی فائدہ اٹھانے والے سب نہیں ہوتے.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے دلائل کچھ تھوڑے تھے؟ مگر پھر بھی یہودیوں اور عیسائیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو (معاذ اللہ ) جھوٹا کہہ دیا.ان کی تو کتابوں میں بھی آپ کی پیشن گوئیاں موجود تھیں.اسی طرح پر میری سچائی ثابت ہوسکتی ہے لیکن اس کے لیے اصل اور آسان راہ وہی ہے جو آپ ان دلائل کو پیش کریں جن سے آپ نے قرآن شریف کو قبول کیا ہے.(حضرت حجۃ اللہ اس طرز پر کلام فرما رہے تھے کہ بابا چٹو نے اپنی عمر اور آداب مجلس کا کچھ بھی لحاظ نہ کر کے آپ کا قطع کلام کیا اور درمیان ہی میں بول اٹھے کہ مجھے یہی علم پہنچا ہے کہ سب نبیوں پر قرآن نازل ہوا تھا)

Page 323

حضرت اقدس.اب آپ نے ایک اور دعویٰ کر دیا.اچھا آپ یہ تو بتائیں کہ کوئی دعویٰ بلا دلیل تو نہیں ہوا کرتا.آپ یہ امر ثابت کریں کہ یہودی جو اس وقت موجود ہیں.وہ توریت کا درس کرتے ہیں یا قرآن شریف کا؟ اور قرآن شریف ان پر توریت کے ذریعہ اتمامِ حجت کرتا ہے یا نہیں؟ ایسا ہی عیسائیوں کے پاس انجیل موجود ہے.کیا وہ اس انجیل کو پڑھتے ہیں یا قرآن شریف کو؟ آپ کے اس دعویٰ کا کیا مطلب ہے؟ اور اس کا کیا ثبوت ہے؟ کیا یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس توریت اور انجیل کے سوا یہ قرآن بھی تھا؟ بابا چٹو.نہیں.ان کے پاس تو قرآن تو نہ تھا مگر نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وہ بھی کرتے تھے.حضرت اقدس.پھر کیا اس سے یہ ثابت ہوا کہ ان پر بھی قرآن شریف اترا تھا؟ یہ تو سچ ہے کہ بعض احکام مشترکہ چلے آئے ہیں اور بعض احکام ایسے ہوتے ہیں کہ ایک امت اور قوم کے لیے خاص ہوتے ہیں.جیسے یہودیوں میں اونٹ کا گوشت کھانا یا بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا.اور ابھی بہت سے احکام ایسے دونوں قوموں میں ہیں جو ان کے لیے مخصوص تھے.انبیاء علیہم السلام کی تعلیم وقت اور موقع کے حسبِ حال ہوتی ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت چونکہ ہر قسم کے فساد کمال تک پہنچ چکے تھے اس لیے ان کی اصلاح کےلیے جو تعلیم دی گئی وہ کامل تھی.یہی وجہ ہے کہ خاتم الکتب قرآن مجید نازل ہوا.اور آپ پر نبوت ختم ہوگئی.حضرت اقدس اس موقع پر بھی لنبی تقریر کرنا چاہتے تھے مگر افسوس بابا چٹو کی جلد بازی نے پھر انہیںقطع کلام پر دلیر کر دیا اور جھٹ بول اٹھے کہ میں چاہتا ہوں کہ بیعت سے محروم نہ ہوں.حضرت اقدس.یہ تو خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے.وہ جس کو چاہے ہدایت دے یہ میرا کام نہیں.ہاں میں اپنی سچائی کا ثبوت دے سکتا ہوں اور ایسا ثبوت دے سکتا ہوں جو انسانی طاقت سے بالا تر ہو اور جس کی نظیر پہلے انبیاء اور مرسلین کے سوا نہ ملتی ہو.

Page 324

بابا چٹو.ہاں ٹھیک ہے.حضرت اقدس.پھر قصہ مختصر ہے.یہ جملہ بالطبع چاہتا ہے کہ حضرت اقدس اب اپنے ثبوت دعویٰ پر دلائل بیان کریں.مگر سید محمد یوسف صاحب کو جو چیز اندر ہی اندر دکھ دے رہی تھی وہ باہر نکلے بغیر رہ نہیں سکتی تھی اور ان کا مقصد یہ معلوم ہوتا تھا کہ ان کے جبّہ و دستار کی فضیلت جاتی رہے گی اگر اس موقع پر انہوں نے کلام نہ کیا.اس لیے وہ بے اختیار ہو کر بولے.بابا صاحب آپؑکا سوال نہیں سمجھے.میں جواب دیتا ہوں.اس پر بابا چٹو نے کہا کہ ہاں مولوی صاحب بیان کریں گے.اس لیے حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کو اختیار ہے کہ یہ بیان کریں.۱ جب مولوی سید محمد یوسف صاحب اسی سلسلہ گفتگو میں داب مجلس کے خلاف دخل در معقول دینے لگے تو پھر سلسلہ کلام بابا چٹو کے اشارے سے یوں شروع ہوا.وکیل بابا چٹو.آپ کا سوال یہ ہے کہ قرآن کو ہم نے کیونکر مانا.اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کو ہم نے اس لیے مانا کہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے.حضرت اقدس.یہ تو عجیب دلیل ہے.اس طرح پر تو ہر شخص اپنی کتاب اور اپنے مذہب کی حقانیت آسانی سے ثابت کر سکتا ہے.صرف یہ کہہ کر کہ میں ہندوؤں یا عیسائیوں کے گھر میں پیدا ہوا ہوں.آپ کی اس دلیل میں اور قرآن مجید کے مقابلہ میں مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَآءَنَا (المائدۃ:۱۰۵) کہنے والوں میں کیا فرق ہے؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں؟ وکیل بابا چٹو.جب سب مسلمان قرآن کو متفق طور پر مانتے ہیں پھر اس کے لیے کسی اور دلیل کی حاجت ہی نہیں.حضرت اقدس.یہ تو خوب جواب ہے.جو شخص مسلمانوں کے گھر میں پیدا نہ ہوا ہو کیا اس کو بھی یہی دلیل ۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۴،۱۵

Page 325

دو گے؟ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کے اعتقاد کے موافق قرآن مجید کی حقانیت کی دلیل اب پیدا ہوئی جب تیرہ سو سال گذر گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت معاذ اللہ کوئی دلیل ہی نہ تھی.وکیل بابا چٹو.اس وقت دلیل کی حاجت ہی کیا تھی؟ حضرت اقدس.تو آپ کے اس جواب کے موافق قرآن شریف اب ثابت ہوا.اس وقت تک محض ایک بے ثبوت کتاب تھی.یہ تو بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ کوئی دلیل ہی پیش نہیں کر سکتےبجز اس کے کہ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَآءَنَا(المائدۃ:۱۰۵) یہ تو کفار بھی کہتے تھے.اگر یہ اصول آپ قرآن مجید کی حقانیت کا پیش کریں گے کہ سب فرقے مانتے ہیں تو پھر ثابت ہوگا کہ دوسرے مذاہب سچے ہیں کیونکہ وہ بھی تو اپنی مذہبی کتاب کو مانتے ہیں.وکیل بابا چٹو.ہم ان کی بات کیوں مانیں ہم کہہ دیں گے لَنَاۤ اَعْمَالُنَا (البقرۃ:۱۴۰) حضرت اقدس.میں بہت افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے اسلام کی حالت پر غور ہی نہیں کی اور قرآن کریم کو سمجھا ہی نہیں.اسلام تو اس وقت بتیس دانتوں میں زبان ہو رہا ہے.ہر طرف سے اس پر حملے اور اعتراض ہو رہے ہیں.اگر یہی جواب دیا جاوے تو پھر کیا فائدہ ہوگا؟ میں نے پہلے بھی کہا ہے.اب بھی یہ کہتا ہوں کہ اگر یہ طریق استدلال صحیح ہو تو قطعی فیصلہ نہیں ہو سکتا.فرقوں کا مختلف۱ طور پر ایک بات کو مان لینا اس کی حقانیت کی دلیل نہیں ہوا کرتا.اور یہ ہتھیار اس زمانہ میں ہمارے لیے کام نہیں دے سکتا.اگر ایک پادری آپ پر اعتراض کرے اور آپ اس کے جواب میں یہ کہہ دیں کہ چونکہ سب فرقے مان رہے ہیں اس لیے ہم قرآن مجید کو خدا کی کتاب مانتے ہیں تو آپ ہی بتائیں کہ اس کا کیا اثر ہوگا؟ میں آپ کو سچ سچ کہتا ہوں اور محض خدا کے لیے کہتا ہوں کہ آپ اس معاملہ پر غور کریں.ضد اور تعصّب اَور بات ہے اور حق کو قبول کرنا اَور شے ہے.میںنے بھی مرنا ہے اور آپ نے بھی ایک دن ضرور مرنا ہے.پھرکیوں موت کو سامنے رکھ کر میرے معاملہ میں غور نہیں کرتے کیا اس امر میں مَیں خدا پر ۱ سہو کاتب معلوم ہوتا ہے ’’متفق طور پر‘‘ہونا چاہیے.(مرتّب)

Page 326

افترا کر سکتا ہوں.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں مفتری نہیں ہوں.مجھے خدا تعالیٰ نے اس صدی پر امام بنا کر بھیجا ہے اور اپنے وعدوں کے موافق بھیجا ہے اور مَیں اس میں آپ پر جبر نہیں کرتا کہ آپ ضرور اس کو مان لیں کیونکہ قرآن مجید میں تو یہ حکم ہے لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ (البقرۃ:۲۵۷) ہاں یہ سچ ہے کہ میں یہ حق رکھتا ہوں کہ اپنے دعویٰ کی سچائی پر دلائل پیش کروں اور اسی لیے میں نے کہا تھا کہ جن دلائل سے قرآن مجید کا کلام الٰہی ہونا ثابت ہوتا ہے اسی طرح پر میرا ثبوت ہے مگر آپ وہ طرزِ استدلال پیش نہیں کرتے اور میری بات سنتے نہیں پھر میں کیا کروں.میں پھر کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں روشن دلائل دیئے ہیں.انہیں ہم ایک ترازو میں رکھتے ہیں اور دوسری طرف ان دلائل کو رکھتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کی سچائی کے دلائل ہیں پھر یہ دونوں پلڑے برابر ہوں گے.میں جس طرح کتاب اللہ کو مانتا ہوں کہ وہ خدا تعالیٰ کی کتاب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فی الواقع نازل ہوئی ا سی طرح پر میں اس وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھ پر اترتی ہے میں اس کو خدا ہی کا کلام اور خالص کلام یقین کرتا ہوں.میں قرآن شریف کا ایک خادم ہوں اور یہ وحی جو مجھ پر اترتی ہے یہ قرآن شریف کی سچائی کا ایک روشن ثبوت ہے.نبوت کے فقط یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے کلام کرے اورقدرتی معجزات دکھائے یہ آپ کا حق ہے کہ قرآن شریف سے اس کے معارض ثابت کریں.میں پھر کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا وہ کلام جو مجھ پراترتا ہے میں اس پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسے قرآن شریف پر یعنی جیسے قرآن شریف خدا تعالیٰ ہی کا کلام ہے وہ وحی بھی اسی کی طرف سے ہے.وکیل بابا.میں اس امر میں آپ کی تکذیب کرتا ہوں.اگر تکذیب نہ کرتا تو آپ کی بیعت کر لیتا.حضرت اقدس.تو کیا پھر آپ مجھے مفتری علی اللہ سمجھتے ہیں؟ وکیل بابا.نہیں میں نہیں کہتا کیونکہ لَا تَسُبُّوْا پر میرا عمل ہے.حضرت اقدس.میں آپ سے اور کچھ نہیں کہتا بجز اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن

Page 327

پکڑ لو.سعادت اسی میں ہے.وکیل بابا.زندہ رسول کے موافق ہو تو مان لیں.میں آپ کو مجدد بھی نہیں مان سکتا.حضرت اقدس.پھر سہل راہ یہ ہے کہ مباہلہ کر لو.وکیل بابا.میں موجود ہوں.حضرت اقدس.یہ تو آپ بھی جانتے ہوں گے کہ سادہ لوح کی تکذیب کچھ چیز نہیں.اس لیے پہلے ضروری ہے کہ آپ پر اتمامِ حجت ہولے.میں نے ایک کتاب حقیقۃ الوحی لکھی ہے.آپ اس کو خوب غور سے پڑھ لیں اور میرے دلائل پر غور کر لیں.اس کے بعد بھی اگر بعد امتحان آپ میری تکذیب کریں تب آپ کو مباہلہ کا اختیار ہے.وکیل بابا.بہت اچھا میں تعمیل کروں گا.اور اس وقت بار بار کہتا تھا کہ میں جھوٹا ہوں تو میرا مرنا ہی بہتر ہے.اس کے بعد مباہلہ کے لیے مندرجہ ذیل اقرار نامہ لکھا گیا.مباہلہ کے لیے اقرار نامہ جو حکیم مولوی محمد یوسف صاحب سیاح سے ۲۸؍اکتوبر ۱۹۰۶ء کو قبل ظہر ہوا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ مباہلہ سے پہلے کتاب حقیقۃ الوحی کو آپ پڑھ لیں اور خوب غور سے سمجھ لیں.اس کے بعد بھی اگر آپ میری تکذیب کریں تو مباہلہ ہوگا مگر پہلے دس سوال اس کتاب سے کروں گا.ان کے جواب لوں گا تاکہ معلوم ہو آپ نے سمجھ لیا ہے جو دس سوال میں کروں گا ان کا جواب انہیں الفاظ میں دینا ہوگا جو میں نے لکھے ہیں اور پھر ایک شخص اس وقت لکھتا جاوے گا اور کتاب سے مقابلہ ہوگا.اگر موافق نہ ہوا تو پھر کتاب دیکھنی ہوگی اور پھر اس طرح پر دس سوال ہوں گے.مکرر یہ بات یاد رہے کہ دس سوالوں سے مراد میری یہ ہے کہ متفرق مقامات کتاب حقیقۃ الوحی سے دس طور کی باتیں میں مولوی حکیم محمد یوسف صاحب سے دریافت کروں گا اور یہ ایک لازمی امر

Page 328

ہوگا کہ ہر ایک سوال کا کتاب کے موافق پورا پورا جواب دیں.کسی حصہ میں کمی نہ ہو.اور اگر کسی جواب کے دینے میں پورا جواب نہ پایا جاوے تو پھر لازم ہوگا کہ دوبارہ کتاب کو اوّل سے آخر تک دیکھیں اور پھر نئے دس سوال انتخاب کئے جاویں گے.اگر اس میں بھی کسی جواب کے دینے میں کمی ہو تو یہی قاعدہ جاری رہے گا جب تک دس سوال کا پورے طور پر جواب نہ دیں.حکیم مولوی محمد یوسف صاحب نے یہ بھی اقرار کیا کہ وہ کتاب پڑھ کر جب اس غرض کے لیے آئیں گے تو وہ دن اس مطلب کے لیے شمار نہ ہوگا اور وہ خود اس مطلب کے لیے آئیں گے.اس کتاب کے پورے دیکھنے سے ایک دن پہلے ہمیں اطلاع دیں تاکہ سوالات کے انتخاب کے لیے وقت مل سکے.المعتصم بحبل الفتاح سید محمد یوسف سیاح بقلم ۲۸؍اکتوبر دستخط ہندی بابا چٹو مرزا غلام احمد عفی عنہ گواہ شد : خواجہ کمال الدین وکیل۱ بلا تاریخ۲ حقیقی مسلمان کا مقصد حقیقی مسلمان کا یہ مقصد نہیں ہوا کرتا کہ اس کو خوابیں آتی رہیں بلکہ اس کا مقصد تو ہمیشہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاوے اور جہاں تک اس کی طاقت اور ہمت میں ہے اس کو راضی کرنے کی سعی کرے.اگرچہ یہ سچ ہے کہ یہ بات نرے مجاہدہ اور سعی سے نہیں ملتی بلکہ یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق پر موقوف ہے.مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ رحیم کریم ایسا ہے کہ اگر کوئی اس کی طرف بالشت بھر آتا ہے تو وہ ۱الحکم جلد ۱۱ نمبر ۵ مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۲،۳ ۲ اس ڈائری پر کوئی تاریخ درج نہیں.آخر میں ایڈیٹر صاحب الحکم نے ’’پرانی یاد داشت سے‘‘ کے الفاظ لکھے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پرانے ملفوظات ہیں.واللہ اعلم بالصواب( مرتّب)

Page 329

ہاتھ بھر آتا ہے اور اگر کوئی معمولی رفتار سے اس کی طرف قدم اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے.غرض مومن کبھی ان باتوں کو اپنی زندگی کا مقصد تجویز نہیں کرتا کہ اسے خواب آنے لگیں یا کشوف ہوں یا الہامات ہوں.وہ تو ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس سے راضی ہو جاوے اور اس کے ساتھ موافقت تامہ ایسی ہو کہ یہ خدا سے راضی ہوجاوے.اللہ تعالیٰ کی مقادیر اور قضا سے راضی ہو جانا بھی سہل امر نہیں.یہ ایک مشکل اور تنگ راہ ہے.اس سے ہر کوئی گذر نہیں سکتا.پس جب انسان ان اغراض کو مدّ نظر رکھے گا کہ خدا تعالیٰ اس سے راضی ہوجاوے اور وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہو جاوے اور متقی اور مخلص مومن ہو کر اعمال صالحہ بجا لاوے تو ایسے لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے جو معاملات ہوا کرتے ہیں اور جو سنت اللہ اس کی جاری ہے وہ اس کے ساتھ بھی ضرور ہی ہوگی.ا س کی خواہش کی حاجت ہی کیا.خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ( حٰمٓ السجدۃ:۳۱) یعنی جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر انہوں نے سچی استقامت دکھائی یعنی ہر قسم کے مصائب اور مشکلات عسر یسر میں انہوں نے قدم آگے ہی بڑھایا اور ہر قسم کے امتحانوں میں وہ پاس ہوگئے تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان پر ملائکہ کا نزول ہوتا ہے جو ان کو خوش خبریاں دیتے ہیں کہ ہم تمہارے ولی ہیں.اس حیات دنیا میں تمہیں کوئی غم اور حزن نہ ہوگا.یا دوسری جگہ فرمایا اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ(البقرۃ:۲۵۸) یعنی اللہ تعالیٰ مومنوں کا ولی ہوتا ہے اور انہیں ہرقسم کی تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے.میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ جن کو اس بات کا ٹھرک ہوتا ہے کہ انہیں کشف ہو اور بعض کشف قبور تسخیر وغیرہ بیہودہ باتوں کی طرف توجہ کرتے ہیں مگر اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ یہ چیزیں کچھ بھی نہیں.اصل بات یہی ہے کہ انسان کا دل خدا تعالیٰ کی خالص محبت سے اس طرح پر لبریز ہوجاوے جیسے کہ عطر کا شیشہ بھرا ہوا ہو اور خدا تعالیٰ اس سے خوش ہو جاوے.یہ مراد اگر مل جاوے

Page 330

کیا تھا آخر بدکاری اور شراب خوری میں صرف ہوتا ہے اور وہ اولاد ایسے ماں باپ کے لیے شرارت اور بد معاشی کی وارث ہوتی ہے.اولاد کا ابتلا بھی بہت بڑا ابتلا ہے.اگر اولاد صالح ہو تو پھر کس بات کی پروا ہو سکتی ہے.خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے وَ هُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ (الاعراف:۱۹۷) یعنی اللہ تعالیٰ آپ صالحین کا متولی اور متکفل ہوتا ہے.اگر بد بخت ہے تو خواہ لاکھوں روپیہ اس کے لیے چھوڑ جاؤ وہ بد کاریوں میں تباہ کرکے پھر قلاش ہو جائے گی اور ان مصائب اور مشکلات میں پڑے گی جو اس کے لیے لازمی ہیں.جو شخص اپنی رائے کو خدا تعالیٰ کی رائے اورمنشا سے متفق کرتا ہے وہ اولاد کی طرف سے مطمئن ہو جاتا ہے اور وہ اسی طرح پر ہے کہ اس کی صلاحیت کے لیے کوشش کرے اور دعائیں کرے.اس صورت میں خود اللہ تعالیٰ اس کا تکفّل کرے گا.اور اگر بد چلن ہے تو جائے جہنم میں.اس کی پروا تک نہ کرے.حضرت داؤد علیہ السلام کا ایک قول ہے کہ میں بچہ تھا، جوان ہوا، اب بوڑھا ہوگیا میں نے متقی کو کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا کہ اسے رزق کی مار ہو اور نہ اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے دیکھا.اللہ تعالیٰ تو کئی پشت تک رعایت رکھتا ہے.پس خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لیے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہوجاؤ اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لیے سعی اور دعا کرو.جس قدر کوشش تم ان کے لیے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو.خوب یاد رکھو کہ جب تک خدا تعالیٰ سے رشتہ نہ ہو اور سچا تعلق اس کے ساتھ نہ ہو جاوے کوئی چیز نفع نہیں دے سکتی.یہودیوں کو دیکھو کہ کیا وہ پیغمبروں کی اولاد نہیں؟ یہی وہ قوم ہے جو اس پر ناز کیا کرتی تھی اور کہا کرتی تھی نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗ(المائدۃ:۱۹) ہم اللہ کے فرزند اور اس کے محبوب ہیں مگر جب انہوں نے خدا تعالیٰ سے رشتہ توڑ دیا اور دنیا ہی دنیا کو مقدم کر لیا کیا نتیجہ ہوا؟ خدا تعالیٰ نے اسے سؤر اور بندر کہا.اور اب جو حالت ان کی مال و دولت ہوتے ہوئے بھی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں.

Page 331

ترجمہ فارسی عبارات مندرجہ ملفوظات جلد ہشتم از صفحہ نمبر ترجمہ فارسی ۱۶ عجم کے بزرگوں کے نشان ابھی موجود ہیں.۲۴ آنکھیں کھلیں کان کھلے اور یہ عقل موجود، خدا کرے ان کی آنکھیں سینے پر حیران ہوں.۲۹ شروع میں عشق بہت منہ زور اور خونخوار ہوتا ہے تا وہ شخص جو صرف تماشائی ہے بھا گ جائے.۳۳ میں نے دور دراز ملکوں سے بھی فائدہ اٹھایا اور ہر کھلیاں سے کوئی خوشہ لیا.۴۹ میں نے کب دل میں ڈالا ہے شاید کیچڑ میں ڈال دیا ہے.۵۵ تیرا ہاتھ ہے اور تیری دعا اور خدا کی طرف سے رحم ہے.۸۸ شروں کے ساتھ نیکی کرنا گویا شریفوں سے دشمنی کرنا ہے.۱۳۳ اگلے سال کا کس کو علم ہے کہ کیا ہوگا.۱۴۰ بارش جس کی پاکیزہ فطرت میں کوئی ناموافقت نہیں، وہ باغ میں تو پھول اگاتی ہے اور شورہ زمین میں گھاس پھونس.۱۶۴ برتن میں وہی کچھ ہے یعنی جوحالت پہلے تھی وہی ہے کچھ فرق نہیں پڑا.۱۷۷ ایک شخص ٹہنی کے سرے پر بیٹھا اس کی جڑ کاٹ رہا تھا.۱۸۴ کوئی کمال حاصل کر، تا لوگ تجھے پسند کریں.۱۸۶ اگر وزیر خدا سے ڈرتا.

Page 332

از صفحہ نمبر

Page 333

Page 334

Page 335

Page 336

Page 337

Page 338

Page 339

Page 340

Page 341

Page 342

Page 343

Page 344

Page 345

Page 346

Page 347

Page 348

Page 349

Page 350

Page 351

Page 352

Page 353

Page 354

Page 355

Page 356

Page 357

Page 358

Page 359

Page 360

Page 361

Page 362

Page 363

Page 364

Page 365

Page 366

Page 367

Page 368

Page 369

Page 370

Page 371

Page 372

Page 373

Page 374

Page 375

Page 376

Page 377

Page 378

Page 379

Page 380

Page 381

Page 382

Page 383

Page 384

Page 385

Page 386

Page 387

Page 388

Page 389

Page 389