Malfuzat Volume 7

Malfuzat Volume 7

ملفوظات (جلد 7)

اکتوبر 1904ء تا ستمبر 1905ء
Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

ملفوظات سے مراد حضرت بانی جماعت احمدیہ، مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا وہ پاکیزہ اور پُرمعارف کلام ہے جو حضورؑ نے اپنی مقدس مجالس میں یا جلسہ سالانہ کے اجتماعات میں اپنے اصحاب کے تزکیہ نفس، ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت، خداتعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرنے اور قرآن کریم کے علم و حکمت کی تعلیم نیز احیاء دین اسلام اور قیام شریعت محمدیہ کے لیے وقتاً فوقتاً ارشاد فرمایا۔


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

Page 7

Page 8

Page 9

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَعَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۴ء (بمقام قادیان بعد نماز مغرب) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شہ نشین پر جلوہ افروز ہوکر فرمایا کہ میرے سر کی حالت آج بھی اچھی نہیں چکر آرہا ہے.جب جماعت کا وقت آتا ہے تو اس وقت خیال گذرتا ہے کہ سب جماعت ہوگی اور میں شامل نہ ہوں گا اور افسوس ہوتا ہے.اس لیے افتاں خیزاں چلا آتا ہوں.چند اصحاب اپنی مستورات کے علاج کے لیے لاہور تشریف لے گئے ہوئے تھے اور انجام کار معلوم ہوا کہ مس ڈاکٹروں کے علاج سے کوئی فرق مرض میں معلوم نہیں ہوتا.اس لیے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ چونکہ یہ لوگ متدیّن نظر نہیں آتے.اس لیے خطرہ ہے کہ کوئی اور تکلیف نہ بڑھ جاوے.ان کو کہہ دو کہ چلے آویں.شافی اللہ تعالیٰ ہی ہے.دائیوں کا دستور ہوتا ہے کہ محض روپیہ بٹورنے کی خاطر وہ مرض کو بڑھاتی جاتی ہیں.قادیان کی آب و ہوا لاہور کی نسبت بہت عمدہ ہے.اس سے ان کو فائدہ ہوگا.ہم یہ اس لیے کہتے ہیں کہ جو بات دل میں آوے اسے مخفی رکھا جاوے تو یہ ایک قسم کی خیانت ہے.

Page 10

بعض امراض کا علاج عورتوں کے بعض امراض اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان کے علاج کے لیے کھلی ہوا کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے بعض رؤسا میں جو اشد درجہ کا پردہ رائج ہے میں اس کے خلاف ہوں.بعض عورتوں کو بعض وقت کھلی ہوا میں پھرانا چاہیے.دیکھو حضرت عائشہ صدیقہؓ رفع حاجت کےلیے باہر جایا کرتی تھیں کیا پھر آجکل کے رؤسا کی عورتیں ان سے بڑھ کر ہیں؟ حضرت حکیم نور الدین صاحب نے فرمایا کہ تجربہ سے معلوم ہوا کہ مراق کے تین علاج ہیں.اوّل چلنا پھرنا.دوسرے بیکار نہ رہنا، کسی نہ کسی شغل میں مصروف رہنا.تیسرے ہینگ اور افسنطین کا استعمال.حصول اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ کے فضل ہی کی ضرورت ہے اور قرآن شریف اور تورات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ بہت ضعیف تھیںاور ان کی کوئی اولاد نہ تھی.ان کی نسبت توریت میں لکھا ہے کہ خدا نے کہا کہ میں نے اس کے رحم کو کھولا.۱ پس خدا ہی کھولے تو کھل سکتا ہے.(مگر یاد رہے کہ اس تقریر سے دائیوں کے علاج کی حرمت نہ سمجھی جائے.)۲ ۱۹؍اکتوبر ۱۹۰۴ء ۱۹؍اکتوبر ۱۹۰۴ء کو سیالکوٹ سے احمدی جماعت کی طرف سے دعوت کا پیغام آیا.آپ نے فرمایا کہ تین چار روز کے بعد میں جواب دوں گا.بعد میں معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام استخارہ کے بعد روانگی کی تاریخ مقرر کریں گے.۳ ۱ پیدائش باب ۳۰ آیت ۲۲ ۲ البدر جلد ۳ نمبر ۴۰ مورخہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۲ ۳ البدر جلد ۳ نمبر ۴۰ مورخہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۲

Page 11

۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۴ء (بوقتِ ظہر) تجارتی روپیہ پر منافع ظہر کے وقت ایک صاحب کی خاطر حضرت حکیم نور الدین صاحبؓنے ایک مسئلہ حضرت اقدسؑ سے دریافت کیا کہ یہ ایک شخص ہیں جن کے پاس بیس بائیس ہزار کے قریب روپیہ موجود ہے.ایک سکھ ہے وہ ان کا روپیہ تجارت میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور ان کے اطمینان کے لیے اس نے تجویز کی ہے کہ یہ روپیہ بھی اپنے قبضہ میں رکھیں لیکن جس طرح وہ ہدایت کرے اسی طرح ہر ایک شے خرید کر جہاں کہے وہاں روانہ کریں اور جو روپیہ آوے وہ امانت رہے.سال کے بعد وہ سکھ دو ہزار چھ سو روپیہ ان کو منافع کا دے دیا کرے گا.یہ اس غرض سے یہاں فتویٰ دریافت کرنے آئے ہیںکہ یہ روپیہ جو ان کو سال کے بعد ملے گا اگر سود نہ ہو تو شراکت کر لی جاوے.حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ چونکہ انہوں نے خود بھی کام کرنا ہے اور ان کی محنت کو دخل ہے اور وقت بھی صرف کریں گے اس لیے ہر ایک شخص کی حیثیت کے لحاظ سے اس کے وقت اور محنت کی قیمت ہوا کرتی ہے.دس دس ہزار اور دس دس لاکھ روپیہ لوگ اپنی محنت اور وقت کا معاوضہ لیتے ہیں.لہٰذا میرے نزدیک تو یہ روپیہ جو ان کو وہ دیتا ہے سود نہیں ہے.اور میں اس کے جواز کا فتویٰ دیتا ہوں.سود کا لفظ تو اس روپیہ پر دلالت کرتا ہے جو مفت بلا محنت کے (صرف روپیہ کے معاوضہ میں) لیا جاتا ہے.اب اس ملک میں اکثر مسائل زیر و زبر ہوگئے ہیں.کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے.اس لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے.۱ احباب کی ضروریات کا خیال ظہر کی نماز سے پیشتر حضور علیہ السلام نے کچھ روپیہ جن کی تعداد غالباً آٹھ یا دس ہوگی ایک مخلص مہاجر کو۱ جو صاحب اس مسئلہ کو دریافت کرنے آئے تھے ان کی دینداری واقعی میں قابل رشک ہے کہ اس وقت جبکہ مسلمانوں نے حلال و حرام کی تمیز کو خیر باد کہہ کر صرف زر اندوزی کو اپنا مقصود بنا رکھا ہے یہ صاحب استفسار کے لیے اس قدر سفر دراز طے کر کے آئے.صرف اس غرض سے کہ کہیں اس لین دین میں سُود نہ ہو جاوے.اللہ تعالیٰ اس زمانہ کے کُل اہل اسلام کو اسی قسم کی توفیق دیوے کہ وہ اپنے معاملات میں دین کو مقدم رکھیں.آمین(ایڈیٹر) یہ کہہ کر دیئے

Page 12

کہ ’’چونکہ موسم سرما ہے آپ کو کپڑوں کی ضرورت ہوگی.‘‘ اس مہاجر کی طرف سے کوئی سوال نہ تھا.خود حضور علیہ السلام نے ان کی ضرورت کو محسوس کر کے یہ رقم عطا کی جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ کو مخلص خدام کی ضرورت کا کس قدر خیال ہے.گناہوں سے معصوم انبیاء ہیں.لیکن دوسرے لوگ توبہ و استغفار کے ذریعہ سے ان سے مشابہت پیدا کر لیتے ہیں.۱ ۲۱؍اکتوبر ۱۹۰۴ء اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے ایک صاحب کے رشتہ دار کسی وجہ سے قید ہوگئے تھے.ان کے ذکر پر حضرت حکیم نور الدین صاحبؓنے عرض کی کہ میں نے ان سے یہ کہا ہے کہ اسے خود استغفار کی تاکید کی جاوے.اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ بعض لوگ جو استغفار کے لائق ہیں وہ تو استغفار کرتے ہیں اور دوسروں کو محض خدا کی رحمت سے بھی رہائی مل جایا کرتی ہے.جن کی طبیعت میں کجی ہے ان کے لیے اس کی رحمت وسیع ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فارسی کا ایک الہام ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نے دریافت کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے کبھی فارسی زبان میں بھی کلام کی ہے؟ تو آپ نے فرمایا ہاں! ایک دفعہ یہ فقرہ الہام ہوا تھا.ع ایں مشتِ خاک را گر نہ بخشم چہ کنم روس اور جاپان کی جنگ اس جنگ کے ذکر پر حضرت حکیم نور الدین صاحبؓنے بیان کیاکہ اس قدر خونخوار جنگ ہے کہ ہزاروں آدمی ہلاک ہو رہے ہیں.حالانکہ دونوں سلطنتوں کا مذہب ایسا ہے جس کے رو سے اس جنگ کی مطلق نوبت ہی نہ آنی چاہیے.۱ البدر جلد ۳ نمبر ۴۱،۴۲ مورخہ یکم و ۸؍ نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ۸

Page 13

جاپان کا بدھ مذہب ہے اور اس کے رو سے ایک چیونٹی کا مارنا بھی گناہ ہے.روس عیسائی۱ ہے اور ان کو چاہیے کہ مسیح کی تعلیم کے بموجب اگر جاپان ایک مقام پر قبضہ کرے تو دوسرا مقام خود اس کے حوالہ کر دیں.چند عیسائیوں سے گفتگو آج تین عیسائی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے لیے تشریف لائے.ایک تو جوان تھے جو کہ ایک صاحب کے بچے تھے اور باقی میں سے ایک صاحب ڈاکٹر تھے جو کہ ضعیف العمر تھے اور ایک قاضی صاحب پشاوری جوان مرد تھے.ایک صاحب ان میں سے وہ تھے جنہوں نے تحقیق مذاہب کی بِنا پر نیاز مندانہ طور پر حضرت اقدس سے کسی زمانہ میں خط و کتابت کی تھی جس کی وجہ سے ان کو کمال شوق حضور علیہ السلام کی زیارت کا تھا.خانقاہوں میں سے ایک مشہور خانقاہ ہے جہاں اکثر لوگ مشرکانہ عقائد کی بِنا پر زیارت وغیرہ کے لیے جاتے ہیں.وہاں کی نسبت ایک عیسائی صاحب نے ذکر کیا کہ جالندھر کے ضلع کے لوگوں کے لیے وہ یہ کیا کرتے ہیں کہ ایک سفید کبوتر کی ٹانگیں کمزور کر کے قبر پر بٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صاحبِ مزار کی روح اس میں حلول کر آئی ہے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’یہ کبوتر پیچھا نہیں چھوڑتا.‘‘ اس کے بعد حضرت اقدس اور عیسائی صاحبوں میں ذیل کی گفتگو ہوئی جس میں اکثر روئے سخن ڈاکٹر صاحب کی طرف ہی تھا.حضرت اقدس.ادھر آپ کا آنا کس تقریب پر ہوا.ڈاکٹر صاحب.صرف زیارت کی غرض سے کیونکہ ایک عرصہ سے شوق تھا.حضرت اقدس.مگر تاہم ایسی کونسی تقریب ہوئی کہ آپ ادھر آگئے.ڈاکٹر صاحب.میں نے رخصت لی تھی اور بال بچوں کو لے کر آیا تھا.وہ لاہور میں ہیں اور خود ادھر آیا ہوں.بڑا باعث رخصت کا آپ کی ملاقات ہی تھی.۱اس وقت روس کا مذہب عیسائی تھا.(مرتّب)

Page 14

حضرت اقدس.اب رخصت کے کتنے دن باقی ہیں؟ مفتی صاحب.(حساب کر کے) ۱۷ دن باقی ہیں.حضرت اقدس.تو اب آپ کو یہ ایام یہاں ہمارے پاس ہی گذارنے چاہئیں.حکیم نور الدین صاحب.یہ تو آج ہی رخصت ہوتے تھے مگر رات کو میں نے رکھ لیا ہے.حضرت اقدس.جب رخصت ہمارے لیے لی تو پھر رخصت کے ایام ہمارے پاس ہی گذارنے چاہئیں.عیسائی قاضی صاحب.اتنی فرصت نہیں.زیارت مقصود تھی سو ہوگئی.حضرت اقدس.ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کر کے.اب پھر کیا صلاح ہے.کتنے دن رہو گے؟ عیسائی قاضی صاحب نے پھر جلدی جانے کا ارادہ ظاہر کیا.حضرت اقدس.یہ مہمان داری کے ادب کے خلاف ہے اور آپ کے ارادے کے بھی برخلاف ہے کہ اس قدر جلدی کی جاوے.میرا ارادہ جمعرات کو سیالکوٹ جانے کا ہے تب تک رہیں.پھر اکٹھے چلیں گے.اس اثنا میں نماز کا وقت ہوگیا.حضرت اقدس نے حکم فرمایا کہ ان کی خواب گاہ اور بستر اور خوراک وغیرہ کا اہتمام بہت عمدہ طور سے کر دیا جاوے کہ کوئی تکلیف نہ ہو.اور ہر سہ صاحبان تشریف لے گئے.دوسرے دن احمدی عمارات اور کارخانوں کو دیکھ کر رخصت ہوگئے.۱ ٍ ۲۲؍اکتوبر ۱۹۰۴ء ایک بیمار شخص کا ذکر ہوا.آپ نے فرمایاکہ انسان حالت تندرستی میں صحت کی قدر نہیں کرتا (کہ ان ایام میں اپنے تعلقات اللہ تعالیٰ سے ۱ بدر جلد ۱ نمبر ۲۵ مورخہ ۲۲؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲

Page 15

Page 16

Page 17

Page 18

حسن انڈرسن احمدی مسٹر سٹیفن حسن انڈرسن جوامریکہ میں احمدی جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور آپ نے حضرت اقدس کے دعاوی مسیحیت و مہدویت کو قبول فرمایا ہے...درخواست کی ہے کہ میرا نام بزمرہ مبائعین درج کیا جاوے.ان کے یہ حالات حضرت کی خدمت میں بیان کئے گئے.آپ نے فرمایا کہ اس کو لکھ دیا جاوے کہ مومن جو قوی الایمان ہوتا ہے اسے خدا اکیلا نہیں چھوڑتا.قوت ایمانی ایک جذب اپنے اندر رکھتی ہے.اس سے ہمیشہ کام لیتے رہیں.اور دعا اور کوشش کریں کہ اکیلے نہ رہیں کیونکہ اکیلے کو بہت سے خطرات کا اندیشہ ہوتا ہے.اور شیطان اس پر ہر طرف سے حملہ کرنا چاہتا ہے.تبلیغ بھی کرتے رہیں اور اپنی علمی اور عملی حالت کو درست رکھیں.کیونکہ امریکہ میں وہ ایک انسان ہماری جماعت کے ہیں جو کہ بطور پیشرو کے ہوں گے.۱ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۰۴ء (سفر سیالکوٹ بمقام بٹالہ) سیالکوٹ کے سفر کے لیے ۴ بجے کے قریب اعلیٰ حضرت اپنے خدام کے زمرہ میں دارالامان سے روانہ ہوئے.اور قریب آٹھ بجے کے حضور بٹالہ پہنچے.بٹالہ سٹیشن پر جماعت بٹالہ نے آکر شرفِ نیاز حاصل کیا.ایک صاحب نے عرض کیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی محنت و تکلیف نہ اٹھانی پڑے اور کمال حاصل ہوجاوے.اس پر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ۲ حصول کمال کے لیے مجاہدہ شرط ہے اس قسم کے لوگ ہمیشہ گذرے ہیں جو چاہتے ہیں کہ بغیر کسی قسم کی محنت اور تکلیف اور سعی اور

Page 19

مجاہدہ کے وہ کمالات حاصل کر لیں جو مجاہدات سے حاصل ہوتے ہیں.صوفیاء کرام کے حالات میں لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے آکر ان سے کہا کہ کوئی ایسا انتظام ہو کہ ہم پھونک مارنے سے ولی ہو جاویں.ایسے لوگوں کے جواب میں انہوں نے یہی فرمایا ہے کہ پھونک کے واسطے بھی تو قریب ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ پھونک بھی دور سے نہیں لگتی.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى(النجم:۴۰) یعنی کوئی انسان بغیر سعی کے کمال حاصل نہیں کر سکتا.یہ خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ قانون ہے.پھر اس کے خلاف اگر کوئی کچھ حاصل کرنا چاہے تو وہ خدا تعالیٰ کے کاموں کو توڑتا ہے اور اسے آزماتا ہے اس لیے محروم رہے گا.دنیا کے عام کاروبار میں بھی تو یہ

Page 20

سلسلہ نہیں ہے کہ پھونک مار کر کچھ حاصل ہوجائے یا بدوں سعی اور مجاہدہ کے کوئی کامیابی مل سکے.دیکھو! آپ شہر سے چلے تو سٹیشن پر پہنچے.اگر شہر سے ہی نہ چلتے تو کیونکر پہنچتے.پاؤں کو حرکت دینی پڑی ہے یا نہیں؟ اسی طرح سے جس قدر کاروبار دنیا کے ہیں سب میں اوّل انسان کو کچھ کرنا پڑتا ہے.جب وہ ہاتھ پاؤں ہلاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی برکت ڈال دیتا ہے.اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی راہ میں وہی لوگ کمال حاصل کرتے ہیں جو مجاہدہ کرتے ہیں.اس لیے فرمایا ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) پس کوشش کرنی چاہیے کیونکہ مجاہدہ ہی کامیابیوں کی راہ ہے.۱ ۲۸؍اکتوبر۱۹۰۴ء ( بمقام سیالکوٹ بعد نماز جمعہ) بیعت کی اہمیت میں ان لوگوں کے لیے جنہوں نے بیعت کی ہے چند نصیحت آمیز کلمات کہنا چاہتا ہوں.یہ بیعت تخم ریزی ہے اعمالِ صالحہ کی.جس طرح کوئی باغبان درخت لگاتا ہے یا کسی چیز کا بیج بوتا ہے.پھر اگر کوئی شخص بیج بو کر یا درخت لگا کر وہیں اس کو ختم کر دے اور آئندہ آبپاشی اور حفاظت نہ کرے تو وہ تخم بھی ضائع ہوجاوے گا.اسی طرح انسان کے ساتھ شیطان لگا رہتا ہے.پس اگر انسان نیک عمل کر کے اس کے محفوظ رکھنے کی کوشش نہ کرے تو وہ عمل ضائع جاتا ہے.تمام مخلوقات مثلاً مسلمان ہی سہی اپنے مذاہب کے فرائض میں پابند ہیں مگر اس میں کوئی ترقی نہیں کرتے.اس کی وجہ یہ ہے کہ نیک عمل کے بڑھانے کا خیال ان کو نہیں ہوتا اور رفتہ رفتہ وہ عمل رسم میں داخل ہو جاتا ہے.پس مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے تو کلمہ پڑھنے لگے.ہندوؤں کے گھر میں ہوتے تو رام رام کرتے.یاد رکھو کہ بیعت کے وقت توبہ کے اقرار میں ایک برکت پیدا ہوتی ہے.اگر ساتھ اس کے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی شرط لگا لے تو ترقی ہوتی ہے.مگر یہ مقدم رکھنا تمہارے اختیار میں نہیں

Page 21

بلکہ امدادِ الٰہی کی سخت ضرورت ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) کہ جو لوگ کوشش کرتے ہیں ہماری راہ میں انجام کار راہنمائی پر پہنچ جاتے ہیں.جس طرح وہ دانہ تخم ریزی کا بدوں کوشش اور آبپاشی کے بے برکت رہتا بلکہ خود بھی فنا ہوجاتا ہے.اسی طرح تم بھی اس اقرار کو ہر روز یاد نہ کرو گے اور دعائیں نہ مانگو گے کہ خدایا! ہماری مدد کر تو فضلِ الٰہی وارد نہیں ہوگا اور بغیر امدادِ الٰہی کے تبدیلی ناممکن ہے.چور، بد معاش، زانی وغیرہ جرائم پیشہ لوگ ہر وقت ایسے نہیں رہتے بلکہ بعض وقت ان کو ضرور پشیمانی ہوتی ہے.یہی حال ہر بدکار کا ہے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان میں نیکی کا خیال ضرور ہے.پس اس خیال کے واسطے اس کو امدادِ الٰہی کی بہت ضرورت ہے.اسی لیے پنجوقتہ نماز میں سورۂ فاتحہ کے پڑھنے کا حکم دیا.اس میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ فرمایا اور پھر اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ یعنی عبادت بھی تیری ہی کرتے ہیں اور مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں.اس میں دو باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے.یعنی ہر نیک کام میں قویٰ، تدابیر، جد و جہد سے کام لیں یہ اشارہ ہے نَعْبُدُ کی طرف.کیونکہ جو شخص نری دعا کرتا اور جد و جہد نہیں کرتا وہ بہرہ یاب نہیں ہوتا.جیسے کسان بیج بو کر اگر جد و جہد نہ کرے تو پھل کا امید وار کیسے بن سکتا ہے.اور یہ سنت اللہ ہے.اگر بیج بو کر صرف دعا کرتے ہیں تو ضرور محروم رہیں گے.مثلاً دو کسان ہیں ایک تو سخت محنت اور کلبہ رانی کرتا ہے یہ تو ضرور زیادہ کامیاب ہوگا.دوسرا کسان محنت نہیں کرتا یا کم کرتا ہے اس کی پیداوار ہمیشہ ناقص رہے گی جس سے وہ شاید سرکاری محصول بھی ادا نہ کر سکے اور وہ ہمیشہ مفلس رہے گا.اسی طرح دینی کام بھی ہیں.انہیں میں منافق، انہیں میں نکمے، انہیں میں صالح، انہیں میں ابدال، قطب، غوث بنتے ہیں.اور خدا کے نزدیک درجہ پاتے ہیں.اور بعض چالیس چالیس برس سے نماز پڑھتے مگر ہنوز روزِ اوّل ہی ہے اور کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی.تیس روزوں سے کوئی فائدہ محسوس نہیں کرتے.بہت لوگ کہتے ہیں کہ ہم بڑے متقی اور مدت کے نماز خواں ہیں مگر ہمیں امدادِ الٰہی نہیں ملتی.اس کا سبب یہ ہے کہ رسمی اور تقلیدی عبادات کرتے ہیں ترقی کا کبھی خیال نہیں، گناہوں کی جستجو ہی نہیں، سچی توبہ کی طلب ہی نہیں.پس وہ پہلے قدم پر ہی رہتے ہیں.ایسے انسان بہائم سے کم

Page 22

نہیں.ایسی نمازیں خدا کی طرف سے وَیْل لاتی ہیں.نماز تو وہ ہے جو اپنے ساتھ ترقی لے آوے.جیسے طبیب کے زیر علاج ایک بیمار ہے ایک نسخہ وہ دس روز استعمال کرتا ہے پر اس سے اس کو روز بروز نقصان ہو رہا ہے.جب اتنے دنوں کے بعد فائدہ نہ ہو تو بیمار کو شک پڑ جاتا ہے کہ یہ نسخہ ضرور میرے مزاج کے موافق نہیں اور بدلنا چاہیے.پس رسم اور رسمی عبادت ٹھیک نہیں.دعاؤں کی اہمیت نمازوں میں دعائیں اور درود ہیں یہ عربی زبان میں ہیں.مگر تم پر حرام نہیں کہ نمازوں میں اپنی زبان میں بھی دعائیں مانگا کرو.ورنہ ترقی نہ ہو گی.خدا کا حکم ہے کہ نماز وہ ہے جس میں تضرع اور حضورِ قلب ہو ایسے ہی لوگوں کے گناہ دور ہوتے ہیں.چنانچہ فرمایا اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ (ھود:۱۱۵) یعنی نیکیاں بدیوں کو دور کرتی ہیں.یہاں حسنات کے معنے نماز کے ہیں.اور حضور اور تضرع اپنی زبان میں مانگنے سے حاصل ہوتا ہے.پس کبھی کبھی ضرور اپنی زبان میں دعا کیا کرو اور بہترین دعا فاتحہ ہے کیونکہ وہ جامع دعا ہے جب زمیندار کو زمینداری کا ڈھب آجاوے گا تو وہ زمینداری کے صراط مستقیم پر پہنچ جاوے گا اور کامیاب ہو جاوے گا.اسی طرح تم خدا کے ملنے کی صراط مستقیم تلاش کرو اور دعا کرو کہ یا الٰہی میں ایک تیرا گنہگار بندہ ہوں اور افتادہ ہوں میری راہنمائی کر.ادنیٰ اور اعلیٰ سب حاجتیں بغیر شرم کے خدا سے مانگو کہ اصل معطی وہی ہے.بہت نیک وہی ہے جو بہت دعا کرتا ہے کیونکہ اگر کسی بخیل کے دروازہ پر سوالی ہر روز جا کر سوال کرے گا تو آخر ایک دن اس کو بھی شرم آجاوے گی.پھر خدا تعالیٰ سے مانگنے والا جو بے مثل کریم ہے کیوں نہ پائے؟ پس مانگنے والا کبھی نہ کبھی ضرور پا لیتا ہے.نماز کا دوسرا نام دعا بھی ہے.جیسے فرمایا اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المؤمن:۶۱) پھر فرمایا وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ(البقرۃ:۱۸۷) جب میرا بندہ میری بابت سوال کرے پس میں بہت ہی قریب ہوں.میں پکارنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں جب وہ پکارتا ہے.بعض لوگ اس کی ذات پر شک کرتے ہیں.پس میری ہستی کا نشان یہ ہے کہ تم مجھے پکارو اورمجھ سے مانگو میں تمہیں پکاروں گا اور جواب دوں گا اور تمہیں یاد کروں گا.اگر یہ کہو کہ ہم

Page 23

پکارتے ہیں پر وہ جواب نہیں دیتا تو دیکھو کہ تم ایک جگہ کھڑے ہو کر ایک ایسے شخص کو جو تم سے بہت دور ہے پکارتے ہو اور تمہارے اپنے کانوں میں کچھ نقص ہے.وہ شخص تو تمہاری آواز سن کر تم کو جواب دے گا مگر جب وہ دور سے جواب دے گا تو تم بباعث بہرہ پن کے سن نہیں سکو گے.پس جوں جوں تمہارے درمیانی پردے اور حجاب اور دوری دور ہوتی جاوے گی تو تم ضرور آواز کو سنو گے.جب سے دنیا کی پیدائش ہوئی ہے اس بات کا ثبوت چلا آتا ہے کہ وہ اپنے خاص بندوں سے ہم کلام ہوتا ہے.اگر ایسا نہ ہوتا تو رفتہ رفتہ بالکل یہ بات نابود ہوجاتی کہ اس کی کوئی ہستی ہے بھی.پس خدا کی ہستی کے ثبوت کا سب سے زبردست ذریعہ یہی ہے کہ ہم اس کی آواز کو سن لیں یا دیدار یا گفتار.پس آج کل کا گفتار قائم مقام ہے دیدار کا.ہاں جب تک خداکے اور اس سائل کے درمیان کوئی حجاب ہے اس وقت تک ہم سن نہیں سکتے.جب درمیانی پردہ اٹھ جاوے گا تو اس کی آواز سنائی دے گی.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ تیرہ سو برس سے خدا کا مکالمہ مخاطبہ بند ہوگیا ہے.اس کا اصل میں مطلب یہ ہے کہ اندھا سب کو ہی اندھا سمجھتا ہے.کیونکہ اس کی اپنی آنکھوں میں جو نور موجود نہیں.اگر اسلام میں یہ شرف بذریعہ دعاؤں اور اخلاص کے نہ ہوتا تو پھر اسلام کچھ چیز بھی نہ ہوتا.اور یہ بھی اور مذاہب کی طرح مردہ مذہب ہوجاتا.اسلام کا خاص امتیاز پس تم ان مُردوں کی طرف خیال مت کرو.جو خود بھی مُردہ اور اسلام کو بھی مردہ بناتے ہیں.یہ تو درحقیقت ایسا مذہب ہے کہ جس میں انسان ترقی کرتا ہوا فرشتوں سے مصافحہ جا کرتا ہے.اور اگر یہ بات نہ تھی تو صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتـحۃ:۷) کیوں سکھایا؟ اس میں صرف جسمانی اموال کی طلب نہیں کی گئی بلکہ روحانی انعام کی درخواست ہے.پس اگر تم نے ہمیشہ اندھا ہی رہنا ہے تو پھر تم مانگتے کیا ہو؟ یہ دعا فاتحہ ایسی جامع اور عجیب دعا ہے کہ پہلے کبھی کسی نبی نے سکھلائی ہی نہیں.پس اگر یہ نرے الفاظ ہی الفاظ ہیں اور اس کو خدا نے منظور نہیں کرنا تو ایسے الفاظ خدا نے ہمیں کیوں سکھلائے؟ اگر تمہیں وہ مقام ملنا ہی نہیں تو ہم پانچ وقت کیوں ضائع کرتے ہیں؟ خدا کی ذات میں بخل نہیں اور نہ انبیاء اس لیے آتے ہیں کہ ان کی

Page 24

پوجا کی جاوے بلکہ اس لیے کہ لوگوں کو تعلیم دیں کہ ہماری راہ اختیار کرنے والے ہمارے ظِل کے نیچے آجاویں گے.جیسے فرمایا اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (اٰلِ عـمران:۳۲) یعنی میری پیروی میں تم خدا کے محبوب بن جاؤ گے.آنحضرت پر محبوب ہونے کی بدولت یہ سب اکرام ہوئے مگر جب کوئی اور شخص محبوب بنے گا تو اس کو کچھ بھی نہیں ملے گا؟ اگر اسلام ایسا مذہب ہے تو سخت بیزاری ہے ایسے اسلام سے.مگر ہرگز اسلام ایسا مذہب نہیں.آنحضرت تو وہ مائدہ لائے ہیں کہ جو چاہے اس کو حاصل کرے.وہ نہ تو دنیا کی دولت لائے اور نہ مہاجن بن کر آئے تھے.وہ تو خدا کی دولت لائے تھے اور خود اس کے قاسم تھے.پس اگر وہ مال دینا نہیں تھا تو کیا وہ گٹھڑی واپس لے گئے؟ پر سچ ہے جس اندھے کے پاس روشنی موجود نہیں وہ کیسے دعویٰ کر سکتا ہے کہ میں روشنی رکھتا ہوں اور تقسیم کر سکتا ہوں.دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِيْلًا(بنی اسـرآءیل :۷۳) انبیاء تو علیٰ وجہ البصیرت ہوتے ہیں.پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ بصیرت کسی کو نہیں ملے گی تو گویا یہ خود اس دنیا سے اندھے ہی جاویں گے.اگر ان کا ایمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سچا ہوتا تو یہ یقین رکھتے کہ وہ آسمانی مال تقسیم کرنے آئے تھے؟ اور ان کا عقیدہ نہ ہوتا کہ یہ امت تمام امتوں سے فوقیت حاصل کرے گی؟ حالانکہ مانتے ہیں کہ حضرت موسٰی کی ماں کو وحی ہوتی تھی.اب بتاؤ کہ ان کے مردوں کو بھی کبھی ایسی وحی ہوئی ہے؟ لاہور میں ایک مولوی سے میری بحث ہوئی محدث کے لفظ پر کہ حدیثوں میں آیا ہے کہ محدث وہ ہے جو خدا سے مکالمہ کر سکے اور یہ بات حضرت عمرؓ کے متعلق تھی تو اس مولوی نے جواب دیا کہ چونکہ اسلام کو آنحضرت کے بعد مکالمہ الٰہی نصیب نہیں.اس لیے حضرت عمرؓ کویہ عہدہ نصیب نہیں ہوا.گویا اس امت میں تو دجّال ہی آتے رہیں گے.مسیح موعود کی بعثت مسیح کے متعلق جس زمانہ کی اطلاع احادیث وغیرہ میں دی گئی ہے وہ یہی زمانہ ہے.سورۂ نور اور بخاری میں مِنْکُمْ کا لفظ صاف ہے.آثار تمام نمو دار ہوگئے ہیں.کسوف و خسوف رمضان میں ہوگیا.طاعون آگئی.یہ کیسے کھلے نشان

Page 25

تھے، لیکن لوگ ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے.نہ تو یہ ہارتے ہیں اور نہ خدا ہارنے والا ہے.آخر تم جانتے ہو کہ نتیجہ کیا ہوگا یہی کہ وہ پاک خدا جیتے گا.باوجود اس قدر کھلے نشانات کے جواب یہ دیتے ہیں کہ تیس دجّالوں میں سے یہ بھی ایک دجّال ہے.او کم بختو! تمہارے حصہ میں دجّال ہی دجّال رہ گئے ہیں؟ بیرونی اور اندرونی بلائیں تم پر آئیں اور خدا کی طرف سے بھی آیا تو دجّال ہی آیا.اوّل تو تم خود بخود مرتے جاتے تھے.اب ایسی حالت میں خدا نے تم سے یہ سلوک کیا کہ مرتے کو مارنے کی تجویز ٹھہرائی.کیا خدا کو تم سے کوئی ایسی ہی سخت عداوت تھی کہ سختی پر سختی کر رہا ہے؟ یہ انسانی غلطیاں ہیں تم لوگ ان سے ہوشیار رہو.خدا بڑا کریم و رحیم ہے.جب کسی کے کپڑے پر ہفتہ گذر جاتا ہے تو اس کو فکر لگ جاتی ہے کہ اس کو صاف کرایا جاوے.پھر کیا وجہ ہے کہ دنیا پر سو کی جگہ ایک سو بیس برس گذر گئے پر خدا نے تجدید دین کی کوئی تجویز نہ کی اور بجائے تجدید کے دجّال بھیج کر اس کی تخریب کی.اس وقت ۳۰ لاکھ مسلمان عیسائی ہوچکا ہے.یہ وہ قوم تھی اگر اس میں سے ایک شخص بھی عیسائی ہوتا تھا تو حشر بپا ہو جاتا تھا.دوسری طرف ایک اور خبیث قوم نے سر اٹھایا ہے وہ مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر آریہ بنا رہی ہے.مگر ان ہمارے مسلمانوں کو یہی خیال آتا ہے کہ ابھی ہمارے اندر دجّال ہی پیدا ہوا ہے.اور خدا نے بھی ان کے ساتھ یہ دھوکا کیا کہ دجّال کو صدی کے سر پر بھیجا تاکہ انکی رہی سہی امید بھی باقی نہ رہے.معلوم ہوا کہ تمہارے اندر بڑے بڑے خبث اور گناہ پوشیدہ ہیںجس کی تمہیں یہ سزا مل رہی ہے.خدا تعالیٰ نے تو فرمایا ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر:۱۰) ہم ہی نے اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی محافظت کریں گے.یعنی جب اس کے معانی میں غلطیاں وارد ہوں گی تو اصلاح کے لیے ہمارے مامور آیا کریں گے.پس تم میرے اوپر خیال مت کرو بلکہ صدی کے ابتدا اور بیرونی حملوں اور اندرونی اعمال کو دیکھ کر تم خود غور اور فکر کرو کہ آیا دجّال کی ضرورت ہے یا مہدی اور مسیح کی؟ تعصب بری بلا ہوتی ہے.تعصب والوں نے تو کسی رسول کو بھی نہیں مانا اور ان کو دوکاندار قرار دیا ہے حالانکہ وہ خدا کی طرف بلاتے رہے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم ضرور ہمیشہ ساتھ رہی ہے

Page 26

اور رہے گی.قرآن کریم کا ابتدا بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ سے ہے.رحمٰن بے مانگے دینے والا اور رحیم محنت کو نہ ضائع کرنے والا.پس اس وقت رحمانیت اور رحیمیت کہاں گئی؟ سوچو تو سہی کہ یہ اس کے مناسب حال ہے یا کیا؟ اصل میں جب انسان تعصب پر آتا ہے تو آنکھ دھندلی ہوجاتی ہے اور جب اس میں ترقی کرتا ہے تو وہ نور چھین لیا جاتا ہے.پس ہدایت پانے کا طریق اشتہار بازی نہیں.ان لوگوں سے پوچھو کہ تم ایک دفعہ بھی میرے پاس آئے ہو اور اپنے اعتراضات کا جواب پوچھا ہے یا کم سے کم میری تصانیف کو ہی دیکھا ہے؟ تو جواب دیں گے کہ میاں ہم کو ان باتوں کی فرصت نہیں.پھر تم نے جھٹ دجّال کا فتویٰ کیوں لگا دیا؟ پھر ہم نے دین میں کونسی تحریف کی ہے.تم منہ سے نماز اور روزہ کا نام لیتے ہو اور میں کہتا ہوں کہ ان کی روحانیت لو.صرف میں ہی نہیں کہتا بلکہ وہ خدا کہتا ہے جس نے مجھے مامور کیا ہے اور یہ اس لیے کہ تمہارے پوست میں کیفیت داخل ہو جاوے.ہاں تمہارے ہمارے درمیان مسیح کا جھگڑا ضرور ہے لیکن خدا کی کلام سے زیادہ سچا گواہ اور کوئی نہیں ہو سکتا.ہمیں دوسرے کے قول سے کیا غرض ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول حق اور سچ ہیں مگر جو قرآن کریم کے خلاف نہ ہوں.پس ہمیں ایمان محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے قصوں پر جو احادیث میں درج ہیں قرآن کریم کو مقدم رکھیں.پس ہم تو قرآن کریم کو ترجیح دیں گے اور جو احادیث قوی اور صحیح ہیں وہ ضرور قرآن کے ساتھ ہیں اور ہمارے دعوے میں ہماری مؤید ہیں.پس ہمارا اور ان لوگوں کا اور کوئی اختلاف نہیں بجز اس کے کہ یہ پوست پر قناعت کرتے ہیں اور ہم مغز کو چاہتے ہیں.مسیح کی موت کا قرآن نے خود فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ میں فیصلہ کر دیا ہے.اگر ہم قبول کر لیں کہ مسیح ناصری آج تک زندہ ہے تو ہمیں یہ بھی قبول کرنا پڑے گا کہ عیسائی بھی آج تک راہِ راست پر ہیں.اور اس کی قرآن کریم خود تردید کرتا ہے تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ(مریم:۹۱) الآیۃ میں.مجھے میرے خدا نے ہزارہا وحیوں میں مامور کیا ہے اور وہ وہی بات ہے جو تیرہ سو برس پہلے سے لکھی ہوئی تھی.ہمارا اور ان کا کوئی جھگڑا نہیں اگر شرم و حیا اور ایمان ہو.یہ بھی نہ سہی.کیا

Page 27

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کل لوگ مسلمان ہوگئے تھے؟ نہیں مگر وہی کہ جن کے حق میں سعادت تھی.پس ہمارا کام تو سمجھانا ہے.پس جو شخص مسیح کو زندہ مانتا ہے وہ جھوٹا ہے اور خدا کا منکر ہے اور جس کو خدا نے مامور کیا ہے اس کو تو تازہ علم اس کی وفات کا دیا ہے.پھر اگر انہوں نے مسیح کو ماننا نہیں تو وہ حَکم کس بات کا ہوگا اور ہر ایک مذہب والا اس کا فیصلہ کس طرح مانے گا؟ حَکم کا لفظ تو صاف دلالت کر رہا ہے کہ ضرور ان لوگوں میں اختلاف اور اغلاط ہوں گے جن کا وہ آکر فیصلہ کرے گا.پس ہم تو تم سے سچا اتباع نبی کریم اور ترکِ اغلاط طلب کرتے ہیں اور بس.مخالفین سے نرمی کا سلوک ہونا چاہیے پس ہمارے لوگ ہمارے مخالفین سے سختی سے پیش نہ آیا کریں.ان کی درشتی کا نرمی سے جواب دیں اور ملاطفت سے سلوک کریں.چونکہ یہ خیالات مدت مدید سے ان کے دلوں میں ہیں رفتہ رفتہ ہی دور ہوں گے اس لیے نرمی سے کام لیں.اگر وہ سخت مخالفت کریں تو اعراض کریں مگر اس بات کے لیے اپنے اندر قوتِ جاذبہ پیدا کرو اور قوتِ جاذبہ اس وقت پیداہوگی جب تم صادق مومن بنو گے اور اگر تم صادق نہیں تو تمہاری نصیحت ایسی ہے جیسے پرنالہ کا پانی موجبِ فساد ہوتا ہے.پس صادق کے واسطے ورزش کی اشد ضرورت ہے.جیسے ایک پہلوان کے سامنے تمہاری کیا ہستی ہے کہ مقابلہ کر سکو.اگرچہ وہ بھی تمہارے جیسا آدمی تھا.جسمانی نشو و نما میں اس نے ترقی اور ورزش کر کے یہ طاقت حاصل کی.پس تم روحانی قویٰ میں ورزش کر کے روحانی پہلوان یعنی صادق مومن بنو.جو شخص اپنا نشو و نما نہیں کرتا وہ تو اپنے کنبہ کو بھی درست نہیں کر سکتا.پس قوتِ روحانی پیدا کرو.دیکھو! نبی رسول سب ایک ایک ہو کر ہی آئے ہیں مگر وہ صادق اور جاذب تھے.مال کی غریبی اور کمزوری جدا چیز ہے.روحانی قوت کی ضرورت روحانی قوت ہونی چاہیے.ہاں کشش میں بھی وہی سعادت مند آتے ہیں جن کو کچھ مناسبت ہوتی ہے.مثلاً انجن اگر سرد ہے تو فائدہ نہیں دے سکتا ہے.اگر خوب گرم ہے تو سو گاڑی بھی لے جاوے گا.پس گرم اور پُر تاثیر مومن بنو.

Page 28

اس ہماری جماعت کے واسطے خدا کا وعدہ ہے کہ دنیا میں پھیلے گی.پھر اگر طاقت والے اور اس کے پھیلانے والے اور لوگ ہوں گے تو تم نے کیا حاصل کیا؟ اب سوال یہ ہوگا کہ طاقت کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ صادق اور پکا بندہ بن جاوے تاکہ کسی زلزلہ سے برگشتہ اور منہ پھیرنے والا نہ ہو.صحابہ کرامؓ سارے ہی باخدا اور عاقل تھے مگر آنحضرت ان سے بڑھ کر ایسے وفادار تھے کہ کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا تھا.اسی لیے آپ کو سانپوں اور درندوں اور خار دار کانٹوں والا جنگل اس کے درندے حیوانات انسانی شکل میں دکھلائے گئے.پھر ملک بھی ایسا اس کے سپرد کیا کہ جس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی شریر النفس نہ تھا.پھر آئے ایسے وقت پر کہ تمام مردہ اور فساد کی جڑھ تھے جیسے فرمایا ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ (الروم:۴۲) اور گئے ایسے وقت پر کہ فرمایا اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ الآیۃ (المآئدۃ:۴) اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ الآیۃ (النّصر:۲) اس کو معجزہ کہتے ہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتنی محبت الٰہی اور قوت جاذبہ آنحضرت کے اندر تھی.پس خدا کے خاص بندوں اور غیروں میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ قوتِ ایمانی اور استقامت ایسی ہو کہ کسی رکاوٹ شدید سے باز نہ رہے.اس صفت سے جس کو جتنا حصہ ملا ہے اتنا ہی وہ برکت کا موجب ہوگا.میرا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی تبدیلی کے واسطے تین باتیں یاد رکھو.(۱) نفس امارہ کے مقابل پر تدابیر اور جد و جہد سے کام لو.(۲) دعاؤں سے کام لو.(۳)سست اور کاہل نہ بنو اور تھکو نہیں.ہماری جماعت بھی اگر بیج کا بیج ہی رہے گی تو کچھ فائدہ نہ ہوگا.جو ردی رہتے ہیں خدا ان کو بڑھاتا نہیں.پس تقویٰ، عبادت اور ایمانی حالت میں ترقی کرو.اگر کوئی شخص مجھے دجّال اور کافر وغیرہ ناموں سے پکارتا ہے تو تم اس بات کی کچھ بھی پرواہ نہ کرو.کیونکہ جب خدا میرے ساتھ ہے تو مجھے ان کے ایسے بد کلمات اور گالیوں کا کیا ڈر ہے؟ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کافر کہا تھا.ایک زمانہ ایسا آگیا کہ پکار اٹھا کہ میں اس خدا پر ایمان لایا جس پر موسیٰ اور اس کے متبع ایمان لائے ہیں.

Page 29

ایسے لوگ یاد رکھو کہ مخنث اور نا مرد ہوتے ہیں.یہ تو ایسے ہوتے ہیں کہ جیسے ایک بچہ بعض اوقات اپنی ماں اور باپ کو بھی ناسمجھی کی وجہ سے گالی دے دیتا ہے.مگر اس کے اس فعل کو کوئی بُرا نہیں سمجھتا.پس یاد رکھو کہ نری بیعت اور ہاتھ پر ہاتھ رکھنا کچھ بھی سود مند نہیں.جب کوئی شخص شدتِ پیاس سے مرنے کے قریب ہوجاوے یا شدتِ بھوک سے مرنے تک پہنچ جاوے تو کیا اس وقت ایک قطرہ پانی یا ایک دانہ کھانے کا اس کو موت سے بچا لے گا؟ ہرگز نہیں.جس طرح اس بدن کو بچانے کے واسطے کافی خوراک اور کافی پانی بہم پہنچانے کے سوائے مفر نہیں.اسی طرح پورے جہنم سے تھوڑی سی نیکی سے تم بھی بچ نہیں سکتے.پس اس دھوکہ میں نہ رہو کہ ہم نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا ہے اب ہمیں کیا غم ہے.ہدایت بھی ایک موت ہے جو شخص یہ موت اپنے اوپر وارد کرتا ہے اس کو پھر نئی زندگی دی جاتی ہے اور یہی اصفیاء کا اعتقاد ہے.اللہ تعالیٰ نے بھی اسی ابتدائی حالت کے واسطہ فرمایا يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ(المآئدۃ:۱۰۶) یعنی پہلے اپنے آپ کو درست کرو.اپنے امراض کو دور کرو دوسروں کا فکر مت کرو.ہاں رات کو اپنے آپ کو درست کرو اور دن کو دوسروں کو بھی کچھ ہدایت کر دیا کرو.خدا تعالیٰ تمہیں بخشے اور تمہارے گناہوں سے تمہیں مخلصی دے اور تمہاری کمزوریوں کو تم سے دور کرے اور اعمالِ صالح اور نیکی میں ترقی کرنے کی توفیق دیوے.آمین۱ ۲؍نومبر ۱۹۰۴ء (بمقام سیالکوٹ) چونکہ آج کا دن آخری دن تھا جو حضرت نے یہاں قیام فرمانا تھا.چنانچہ کئی بار بیعت ہوئی.بیعت کے بعد حسب معمول حضرت اقدس مندرجہ ذیل نصیحت ان لوگوں کو کرتے رہے.بیعت کی غرض اس بیعت کی اصل غرض یہ ہے کہ خدا کی محبت میں ذوق و شوق پیدا ہو اور گناہوں سے نفرت پیدا ہو کر اس کی جگہ نیکیاں پیدا ہوں.جو شخص اس غرض کو ملحوظ نہیں رکھتا اور بیعت کرنے کے بعد اپنے اندر کوئی تبدیلی کرنے کے لیے مجاہدہ اور کوشش نہیں

Page 30

کرتا جو کوشش کا حق ہے اور پھر اس قدر دعا نہیں کرتا جو دعا کرنے کا حق ہے تو وہ اس اقرار کی جو خدا تعالیٰ کے حضور کیا جاتا ہے سخت بے حرمتی کرتا ہے اور وہ سب سے زیادہ گنہگار اور قابل سزا ٹھہرتا ہے.پس یہ ہرگز نہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ بیعت کا اقرار ہی ہمارے لیے کافی ہے اور ہمیں کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیے.مِثل مشہور ہے جوئندہ یابندہ.جو شخص دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اس کے لیے کھولا جاتا ہے اور قرآن شریف میں بھی فرمایا گیا ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) یعنی جو لوگ ہماری طرف آتے ہیں اور ہمارے لیے مجاہدہ کرتے ہیں.ہم ان کے واسطے اپنی راہ کھول دیتے ہیں اور صراط مستقیم پر چلا دیتے ہیں.لیکن جو شخص کوشش ہی نہیں کرتا ہے وہ کس طرح اس راہ کو پاسکتا ہے.۱ خدا یابی اور حقیقی کامیابی اور نجات کا یہی گُر اور اصول ہے.انسان کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرنے سے تھکے نہیں نہ درماندہ ہو اور نہ اس راہ میں کوئی کمزوری ظاہر کرے.تم لوگوں نے اس وقت خدا تعالیٰ کے حضور میرے ہاتھ پر اپنے گناہوں سے توبہ کی ہے.ایسا نہ ہو کہ یہ توبہ تمہارے لیے باعث برکت ہونے کی بجائے لعنت کا موجب ہوجاوے.کیونکہ اگر تم لوگ مجھے شناخت کر کے بھی اور خدا تعالیٰ سے اقرار کر کے بھی اس عہد کو توڑتے ہو تو پھر تم کو دوہرا عذاب ہے کیونکہ عمداً تم نے معاہدہ کو توڑا ہے.دنیا میں جب کوئی شخص کسی سے عہد کر کے اسے توڑتا ہے تو اس کو کس قدر ذلیل اور شرمندہ ہونا پڑتا ہے.وہ سب کی نظروں سے گر جاتا ہے.پھر جو شخص خدا تعالیٰ سے عہد اور اقرار کر کے توڑے وہ کس قدر عذاب اور لعنت کا مستحق ہوگا.پس جہاں تک تم سے ہو سکتا ہے اس اقرار اور عہد کی رعایت کرو اور ہر قسم کے گناہوں سے بچتے رہو.پھر اس اقرار پر قائم اور مضبوط رہنے کے واسطے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو.وہ یقیناً تمہیں تسلی اور اطمینان دے گا اور تمہیں ثابت قدم کرے گا کیونکہ جو شخص سچے دل سے خدا تعالیٰ سے مانگتا ہے اسے دیا جاتا ہے.میں جانتا ہوں کہ تم میں سے بعض ایسے بھی ہوں گے جن کو میرے ساتھ

Page 31

تعلق پیدا کرنے کے واسطے قسم قسم کے ابتلا اور مشکلات پیش آئیں گے.لیکن میں کیا کروں یہ ابتلا نئے نہیں ہیں.جب خدا تعالیٰ کسی کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور کوئی اس کی طرف جاتا ہے تو اس کے واسطے ضرور ہے کہ ابتلاؤں میں سے ہو کر گذرے.دنیا اور اس کے رشتہ عارضی اور فانی ہیں مگر خدا تعالیٰ کے ساتھ تو ہمیشہ کے لیے معاملہ پڑتا ہے پھر اس سے آدمی کیوں بگاڑے؟ دیکھو! صحابہؓ کو کچھ تھوڑے ابتلا پیش آئے تھے.ان کو اپنا وطن، مال و دولت، اپنے عزیز رشتہ دار سب چھوڑنے پڑے.لیکن انہوں نے خدا کی راہ میں ان چیزوں کو مری ہوئی مکھی کے برابر بھی نہیں سمجھا.خدا تعالیٰ کو اپنے لیے کافی سمجھا پر خدا تعالیٰ نے بھی ان کی کس قدر قدر کی.اس سے وہ خسارہ میں نہیں رہے بلکہ دنیا و آخرت میں انہوں نے وہ فائدہ پایا جو اس کے بغیر انہیں مل سکتا ہی نہیں تھا.اس لیے اگر کوئی ابتلا آوے تو گھبرانا نہیں چاہیے.ابتلا مومن کے ایمان کو مضبوط کرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے کیونکہ اس وقت روح میں عجز و نیاز اور دل میں ایک سوزش اور جلن پیدا ہوتی ہے جس سے وہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کے آستانہ پر پانی کی طرح گداز ہو کر بہتا ہے.ایمان کامل کا مزا ھمّ و غم ہی کے دنوں میں آتا ہے.اس وقت اپنے اعمال کی اصلاح کی فکر کرو.خدا تعالیٰ سے اب تمہارا نیا معاملہ شروع ہوا ہے کیونکہ وہ پچھلے گناہ سچی توبہ کے بعد بخش دیتا ہے اور توبہ سے یہ مراد نہیںکہ انسان زبان سے کہہ دے اور اعمال میں اس کا اثر ظاہر نہ ہو.نہیں.توبہ یہی ہے کہ بدیوں اور خدا کی نافرمانیوں کو قطعاً چھوڑ دے اور نیکیاں کرے اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں اپنی زندگی بسر کرے.اب بے فکر رہنے کے دن نہیں ہیں.خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہو شیار کر رہا ہے.تم کو خوب معلوم ہے کہ طاعون نے اس ملک کو کیسا تباہ کیا ہے اور کس طرح پر فنا کا تصرّف جاری ہے.اور ثابت ہو رہا ہے کہ دنیا فانی ہے.اب بھی اگر انسان اپنے اعمال کو درست نہ کرے تو یہ اس کی کیسی غفلت اور بد نصیبی ہے.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم ہرگز ہرگز بے فکر نہ ہو.خدا تعالیٰ کے عذاب کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کس وقت آجاوے اور وہ غافلوں کو ہلاک کر دیتا ہے جو دنیا میں مست ہوجاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر بےباک اور شوخی اختیار کرتے ہیں.تم جانتے ہو کہ طاعون کے دن آتے ہیں اور معلوم نہیں

Page 32

کہ کون اس کے حملہ سے بچے.ہاں اس قدر میں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو اپنے فضل و کرم سے محفوظ رکھتا ہے جو اپنے اندر سچی تبدیلی کر لیتے ہیں اور کسی قسم کا کھوٹ اور کجی دل میں باقی نہیں رکھتے.بسا اوقات کہ جن شہروں میں طاعون پڑی ہے ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی جب تک انہیں تباہ نہیں کرلیتی.اور یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اس کے دورے بڑے بڑے لمبے ہوتے ہیں.مجھ پر خدا تعالیٰ نے ایسا ہی ظاہر کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی کتابوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ شامتِ اعمال سے آتی ہے.میں اس وقت دیکھتا ہوں کہ دنیا میں غفلت حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے.شوخی اور بے باکی خدا تعالیٰ کی کتابوں اور باتوں سے بہت ہوگئی ہے.دنیا ہی دنیا لوگوں کا مقصود اور معبود ٹھہر گئی ہے.اس لیے جیسا کہ پہلے سے کہا گیا تھا اور نبیوں کی معرفت وعدہ دیا گیا تھا میرے اس زمانہ میں یہ طاعون لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے آئی ہے.مگر افسوس ہے لوگ اس کو اب تک بھی ایک معمولی بیماری سمجھتے ہیں.مگر میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم ان لوگوں کے ساتھ مت ملو بلکہ تم اپنے اعمال اور افعال سے ثابت کر کے دکھا دو کہ واقعی تم نے سچی تبدیلی کر لی ہے.تمہاری مجلسوں میں وہی ہنسی اور ٹھٹھا نہیں جو دوسرے لوگوں کی مجلسوں اور محفلوں میں پایا جاتا ہے.یقیناً سمجھو کہ زمین و آسمان کا خالق ایک خدا ہے.وہی خدا ہے جس کے قبضہ قدرت میں زندگی اور موت ہے.کوئی شخص دنیا میں کسی قسم کی راحت اور کوئی نعمت حاصل نہیں کر سکتا مگر اسی کے فضل اور کرم سے.ایک پتہ بھی اس کے فضل بغیر ہرا نہیں رہ سکتا.اس لیے ہر وقت اسی سے سچا تعلق پیدا کرے اور اس کی رضا جوئی کی راہوں پر مضبوط قدم رکھے.اگر وہ اس بات کی پابندی کرے گا تو یقیناً اسے کوئی غم نہیں ہے.ہر قسم کی راحت، صحت، عمر و دولت یہ سب اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہے.جب انسان کا وجود ایسا نافع اور سود مند ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرتا.جیسے باغ میں کوئی درخت عمدہ پھل دینے والا ہو تو اسے باغبان کاٹ نہیں ڈالتا بلکہ اس کی حفاظت کرتا ہے.اسی طرح نافع اور مفید وجود کو اللہ تعالیٰ بھی محفوظ رکھتا ہے جیسا کہ اس نے فرمایا ہے وَ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ(الرّعد:۱۸) جو لوگ دنیا کے لیے نفع رساں لوگ بنتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی عمریں بڑھا دیتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں

Page 33

جو سچے ہیں اور کوئی ان کو جھٹلا نہیں سکتا.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے اور فرمانبردار بندے ایسی بلاؤں سے محفوظ رہتے ہیں.پس اس بات کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے کہ نری بیعت اور اقرار سے کچھ نہیں بنتا، بلکہ انسان زیادہ ذمہ دار اور جوابدہ ہوجاتا ہے.اصل فائدہ کے لیے ضرورت ہے حقیقی ایمان اور پھر اس ایمان کے موافق اعمال صالحہ کی.جب انسان یہ خوبی اپنے اندر پیدا کرتا ہے تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ متقی حقیقی مومن اور اس کے غیر میں ایک امتیاز رکھ دیا جاتا ہے.اسے ممتاز کیا جاتا ہے اور اس امتیاز کا نام قرآن شریف کی اصطلاح میں فرقان ہے.آخرت میں بھی مومن اسی فرقان سے شناخت کئے جائیں گے اور کافر، فاسق، فاجر کے منہ سیاہ ہوجائیں گے.اس دنیا میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ مومن ہمیشہ ممتاز رہتا ہے.اس کے اندر ایک سکینت اور اطمینان بخش روح ہوتی ہے.اگرچہ مومن کو دکھ بھی اٹھانے پڑتے ہیں اور قسم قسم کی مصائب اور شدائد کے اندر سے گذرنا پڑتا ہے خواہ لوگ اس کے کتنے ہی بُرے نام رکھیں اور خواہ اس کے تباہ اور برباد کرنے کے لیے کچھ بھی ارادے کریں.لیکن آخر وہ بچا لیا جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے اور اسے عزیز رکھتا ہے.اس لیے دنیا اس کو ہلاک نہیں کر سکتی.مومن اور اس کے غیر میں امتیاز ضرور ہوتا ہے اور یہ میزان خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.خدا کی آنکھیں خوب دیکھتی ہیں کہ کون بد اور شریر ہے.خدا کو کوئی دھوکا نہیں دے سکتا.پس تم دنیا کی پروا نہ کرو بلکہ اپنے اندر کو صاف کرو.یہ دھوکا مت کھاؤ کہ ظاہری رسم ہی کافی ہے.نہیں امن اس وقت آتا ہے جب انسان سچے طور سے خدا تعالیٰ کے حرم میں داخل ہو.پس اب بڑی تبدیلی کا وقت ہے اور خدا تعالیٰ سے سچی صلح کے دن ہیں.بعض لوگ اپنی غلط فہمی اور شرارت سے اس سلسلہ کو بدنام کرنے کے لیے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سلسلہ میں سے بھی بعض آدمی طاعون سے ہلاک ہوئے ہیں.میں نے بارہا اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ یہ سلسلہ منہاجِ نبوت پر واقع ہوا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کفار پر جو عذاب آیا تھا وہ تلوار کا عذاب تھا.حالانکہ وہ ان کے لیے مخصوص تھا.لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ صحابہؓ میں سے بعض شہید نہیں

Page 34

ہوگئے؟ اسی طرح پر یہ سچ ہے کہ اس سلسلہ میں سے بھی بعض لوگ طاعون سے شہید ہوئے ہیں مگر یہ بھی تو دیکھو کہ طاعون کے ذریعہ سے ہمارا نقصان ہوا ہے یا دوسروں کا؟ ہماری جماعت کی تو ترقی ہوتی گئی ہے اور ہو رہی ہے اور میں پھر کہتا ہوں کہ جو لوگ نافع الناس ہیں اور ایمان، صدق و وفا میں کامل ہیں وہ یقیناً بچا لیے جاویں گے.پس تم اپنے اندر یہ خوبیاں پیدا کرو.اپنے رشتہ داروں اور بیوی بچوں کو بھی سمجھاؤ اور یہی تلقین کرو اور دوستوں کے ساتھ یہی شرط دوستی رکھو کہ وہ بدی سے بچیں.پھر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ سختی نہ کرو اور نرمی سے پیش آؤ.جنگ کرنا اس سلسلہ کے خلاف ہے.نرمی سے کام لو اور اس سلسلہ کی سچائی کو اپنی پاک باطنی اور نیک چلنی سے ثابت کرو.یہ میری نصیحت ہے اس کو یاد رکھو.اللہ تعالیٰ تمہیں استقامت بخشے.آمین.۱ ۳؍نومبر ۱۹۰۴ء (سیالکوٹ سے واپسی پر بمقام وزیر آباد ریلوے اسٹیشن) ایک پادری سے گفتگو وزیر آباد سٹیشن پر وہی ہجوم اور کثرت زائرین تھی جو پہلے تھی.حافظ غلام رسول صاحب نے پھر لیمونیڈ اور سوڈا واٹر کی دعوت اپنے بھائیوں کو دی.اس مرتبہ اس سٹیشن پر ایک عجیب بات جو پیش آئی وہ یہ تھی کہ ڈسکہ کا مشنری پادری سکاٹ صاحب حضرت اقدس سے آکر ملا.پادری سکاٹ صاحب کے ساتھ ہمارے مکرم بھائی شیخ عبد الحق صاحب نو مسلم کے بھی عیسائیت کے ایام میں دوستانہ تعلقات تھے.پادری صاحب نے حضرت اقدس کے پاس آکر پہلے سلسلہ کلام شیخ عبد الحق ہی سے شروع کیا کہ آپ نے ہمارا ایک لڑکا لے لیا.اس قسم کی باتیں ہو رہی تھیں.جبکہ ہم نے پہنچ کر اس گفتگو کو قلمبند کرنا شروع کیا.پادری سکاٹ.آپ میں اور عیسوی مذہب میں کیا اختلاف ہے؟ حضرت اقدسؑ.موجودہ عیسوی مذہب اور ہم میں تو زمین و آسمان کا فرق ہے.البتہ حضرت مسیح علیہ السلام کی اصل تعلیم اور مذہب اور ہمارے مذہب کے اصولوں میں اختلاف نہیں ہے.وہ بھی خدا کی

Page 35

پرستش کرتے اور اس کی توحید کا وعظ اور تبلیغ کرتے تھے اور دوسرے تمام نبی بھی یہی تعلیم لے کر آتے تھے.پادری سکاٹ.آپ لوگوں میں تو بہت سے فرقے موجود ہیں؟ حضرت اقدسؑ.مجھے تعجب ہے کہ آپ اسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں.کیا آپ کو معلوم نہیں کہ عیسائیوں میں کس قدر فرقے ہیں جو ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں اور اصولوں میں بھی متفق نہیں.مسلمانوں کے فرقوں میں اگر کوئی اختلاف ہے تو فروعات اور جزئیات میں ہے.اصول سب کے ایک ہی ہیں.پادری سکاٹ.ان عیسائی فرقوں میں سے آپ کس کو حق پر سمجھتے ہیں؟ حضرت اقدس.میرے نزدیک تو راستباز وہی فرقہ تھا جو حضرت مسیحؑاور ان کے حواریوں کا تھا.اس کے بعد تو اس مذہب کی مرمت شروع ہوگئی اور کچھ ایسی تبدیلی شروع ہوئی کہ حضرت مسیحؑکے وقت کی عیسویت اور موجودہ عیسویت میں کوئی تعلق ہی نہیں رہا.پادری.اس کی خبر آپ کو کہاں سے ملی؟ حضرت اقدس.پیغمبروں کو خدا تعالیٰ ہی سے خبریں ملا کرتی ہیں.میں بھی خدا ہی سے خبریں پاتا ہوں اور اسی پر ایمان لاتا ہوں.پادری.اس میں شک نہیں کہ پیغمبروں کو خدا سے ہی خبر ملتی ہے.اس مقام تک جب پہنچے تو پادری صاحب کی نظر ایڈیٹر الحکم پر پڑی جو اس گفتگو کو قلمبند کر رہا تھا.پادری صاحب اسے دیکھ کر گھبرائے اور بولے یہ کون نوٹ کر رہا ہے.جب ان کو یہ کہا گیا کہ یہ الحکم اخبار کا ایڈیٹر ہے جو اس سفر میں حضرت کے ساتھ ہے اور حالات سفر قلمبند کر کے شائع کرے گا تو پادری صاحب بولے میں اب جاتا ہوں یہ تو شائع کر دیں گے.انہیں کہا گیا کہ کیا حرج ہے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا.مگر ہم سچ کہتے ہیں اور اس وقت جو لوگ موجود تھے وہ پادری صاحب کی گھبراہٹ کا اندازہ کر سکتے ہیں.ہر چند وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح اس سلسلہ کلام کو یہاں چھوڑ دیں مگر حاضرین نے انہیں سلسلہ کلام جاری رکھنے پر اصرار کیا اور کہا کہ اگر آپ کو نہیں تو ہم لوگوں کو فائدہ پہنچ جاوے گا.اس اصرار

Page 36

پر انہوں نے سلسلہ کلام جاری رکھا اور پھر بولے تو یہ بولے پادری.تمہارے بہت سے چیلے ہیں یہ حملہ نہ کر دیں.حضرت اقدس.بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ خواہ نخواہ ایک قوم پر جس کو نیک چلنی، انکسار اور تواضع کی تعلیم دی جاتی ہے حملہ کرتے ہیں.ایسی حالت میں کہ میں ان میں موجود ہوں اور آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی ان میں سے بولتا بھی نہیں آپ یہ امید کر سکتے ہیں.آپ جس طرح چاہیں جو چاہیں مجھ سے پوچھیں ان میں سے کوئی تمہیں مخاطب بھی نہیں کرے گا.ان کو یہ تعلیم نہیں دی جاتی.علاوہ بریں چیلے کا لفظ ٹھیک نہیں ہے گو اس لفظ کے معنے اور مفہوم بُرا نہ ہو.لیکن ہر ایک قوم کو اسی لفظ اور نام سے پکارنا چاہیے جو وہ اپنے لیے پسند کرتی ہے.یہ لفظ چیلے کا ہندوؤں کے ساتھ مختص ہے.پادری.میں نے سنا ہے سیالکوٹ میں بڑی رونق تھی.حضرت اقدس.ہاں بہت بڑا مجمع تھا.پادری.آپ لوگوں کو صرف ہدایت دیتے ہیں یا فضل بھی؟ حضرت اقدس.میری ہدایت کچھ چیز نہیں جب تک اس کے ساتھ فضل نہ ہو.کوئی آدمی کبھی ہدایت نہیں پا سکتا جب تک آسمانی فضل ہی اس کی دستگیری نہیں کرتا ہے.وہ میری شناخت اسے عطا کرتا ہے تب وہ میرے پاس آتا ہے اور وہ ہدایت اور معرفت لیتا ہے جو مجھے خدا نے دی ہے اور پھر اپنے فضل سے دی ہے.پادری.میں اس فضل کا ذکر نہیں کرتا جو آپ کو ملتا ہے بلکہ میں اس فضل کا ذکر کرتا ہوں جو ان کو ملتا ہے.حضرت اقدس.میں بھی تو اس فضل کا ذکر کرتا ہوں جو ان کو ملتا ہے.ان کو پہلے تو وہ فضل ہی ہے جو میرے پاس لاتا ہے.پھر جو فضل مجھے دیا جاتا ہے وہی فضل میری صحبت اور تعلق کی وجہ سے ان میں سرایت کرتا ہے.جس قدر اعتقاد بڑھے گا اسی قدر یہ لوگ اور ہر ایک مخلص ارادتمند اس فضل کو جذب کرے گا.ان لوگوں کا تعلق میرے ساتھ درخت کی شاخوں کی طرح ہے.جس جس قدر وہ شاخیں

Page 37

قریب ہیں اور اپنی سبزی اور زندگی میں ترو تازہ ہیں اسی قدر زیادہ وہ اس غذا کو جو جڑ کے ذریعہ درخت حاصل کرتا ہے یہ جذب کرتی ہیں.اگر کوئی شاخ خشک ہو تو ہر چند وہ درخت کے ساتھ تعلق بھی رکھتی ہو لیکن اس غذا سے کوئی حصہ نہیں پا سکتی.اسی طرح پر شاگرد اور مرید شاخوں کی طرح ہی ہوتے ہیں.جس قدر کوئی تعلق محبت اور حسن ایمان رکھتا ہے اور جس قدر زیادہ صحبت میں رہتا ہے اسی کے موافق وہ حصہ پاتے ہیں.اول فضل خود اس درخت میں بھی ہونا چاہیے.اگر اس میں ہی کوئی قوت اور روح معرفت کی نہ ہوگی تو وہ دوسروں کو کیا پہنچا سکے گا.پادری.کس درخت کی شاخ.حضرت اقدس.وہ درخت جس کو خدا لگاتا ہے جو خدا کی طرف سے آتا ہے جیسے میں خدا کی طرف سے آیا ہوں اور خدا نے مجھے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.پادری.میں آپ کے دعویٰ کا اصل مطلب نہیں سمجھا.کیا آپ مسیح کہلاتے ہیں؟ حضرت اقدس.تعجب ہے.میرا دعویٰ تو عرصہ سے شائع ہو رہا ہے اور ولایت اور امریکہ تک لوگوں کو معلوم ہوگیا ہے.آپ کہتے ہیں کہ میں مطلب نہیں سمجھا.ہاں میں مسیح کہلاتا ہوں اور خدا نے مجھے مسیح کہا اور مسیح کر کے بھیجا.پادری.وہ تو ایک ہی مسیح ہے.حضرت اقدسؑ.اللہ تعالیٰ کی ذات میں بخل نہیں ہے وہ ہزاروں ہزار مسیح بنا سکتا ہے.چنانچہ ایک میں نمونہ موجود ہوں جو زندہ مسیح ہے.پادری.انیس سو برس پیشتر آپ سے ایک مسیح دنیا میں آیا تھا اور وہی مسیح مشہور ہے جس کی طرف یہودیوں کے عہد نامے میں اشارہ ہے کہ مسیح آئے گا اور وہ اس کے منتظر تھے.اس کے سوا تو کوئی اور مسیح نہیں.حضرت اقدسؑ.ہاں انیس سو برس پیشتر ایک مسیح آیا تھا.مگر جس مسیح کا آپ ذکر کرتے ہیں یا جس کو مانتے ہیں اس کا ذکر یہودیوں کے عہد نامے میں کہیں نہیں ہے، کیونکہ وہ کسی خدا مسیح کے منتظر نہ تھے

Page 38

بلکہ ایک نبی کے منتظر تھے.اگر وہ کسی خدا یا خدا کے بیٹے کے منتظر ہوتے تو وہ اس کو مان لیتے.علاوہ بریں یہودیوں کے عہد نامہ میں جس مسیح کا ذکر ہے وہ نشان دو مسیحوں کی طرف جاتا ہے.ایک وہ جو مجھ سے پہلے آیا دوسرا میں ہوں جو ساتویں ہزار میں آنے والا تھا.مسیح کی آمد ثانی کے تم لوگ بھی قائل ہو، لیکن دوسری آمد کو تم نے اسی کی آمد سمجھ لیا ہے.حالانکہ اس سے مراد کسی اور کا آنا مراد تھا یعنی میرا آنا مراد تھا.دانیال نبی کی کتاب میں بھی بڑی وضاحت کے ساتھ اس امر کو بیان کیا ہے.یہ ساتواں ہزار ہے جو آپ کے دعویٰ کو باطل کرتا ہے کہ وہی آنے والا تھا.اس نے میری تصدیق کی.چنانچہ بڑے عیسائی فاضلوں نے مسیح کے آنے کا یہی زمانہ قرار دیا ہے اور آخر مایوس ہو کر امریکہ وغیرہ میں ایسے رسائل بھی شائع ہوگئے کہ دوبارہ آنے کا خیال غلط ہے.آمد ثانی سے مراد صرف کلیسیا ہی ہے.اگر یہ وقت آنے کا نہ تھا تو ان لوگوں کو کیا مصیبت پیش آئی تھی کہ وہ ایسی تاویلیں کرتے یا انکار کرتے.حقیقت میں آنے کا زمانہ یہی تھا.اور آنے والا آگیا مگر تھوڑے ہیں جو اسے دیکھتے ہیں.اب آپ خواہ قبول کریں یا نہ کریں اور کوئی مسیح تو آنے والا نہیں.جس کا آپ کو انتظار ہے وہ مر چکا اور میں خدا کے وعدہ کے موافق آگیا.پادری.جو دھوکا یہودیوں کو تھا وہی آپ کو ہے کہ ایک مسیح دکھ اٹھائے گا.دوسرا بزرگی پائے گا.حضرت اقدسؑ.در اصل یہودیوں والا دھوکہ تو آپ کو لگا ہوا ہے کہ اگر آپ حضرت مسیح کے اپنے فیصلہ کو یاد رکھتے تو ٹھوکر نہ کھاتے.یہودیوں کوجو دھوکا لگا تھا وہ یہی تو تھا کہ مسیح کے آنے سے پہلے ایلیا ہی کا آنا مانتے تھے اور اقرار کرتے تھے کہ وہی ایلیا آئے گا.حالانکہ مسیح نے اس کا فیصلہ یہ کیا کہ آنے والا ایلیا یوحنا کے رنگ میں آیا ہے چاہو تو قبول کرو.اب اگر دوبارہ آنا صحیح ہوتا تو پھر ایلیا ہی کو آنا چاہیے تھا.اسی طرح مسیح کی آمد ثانی ہے اس سے مراد وہ آپ ہی کیونکر ہو سکتے ہیں.اسی واسطے میں کہتا ہوں کہ آپ کو یہودیوں والا دھوکہ لگا ہے.ورنہ میں تو وہی مسیح ہوں جو آنے والا تھا اور میرا وہی فیصلہ ہے جو ایلیا کے حق میں مسیح نے کیا.

Page 39

پادری.وہ ایلیا تو آچکا.حضرت اقدسؑ.میں بھی تو یہی کہتا ہوں کہ آچکا مگر تم یہ بتاؤ کہ کیا یوحنا کو ایلیا نہیں بنایا گیا.اب میرے معاملہ میں آپ کیوں ٹھوکر کھاتے ہیں اور مسیح کے فیصلہ کو حجت نہیں مانتے.پادری.آپ معاف کریں میں جاتا ہوں.حضرت اقدسؑ.اچھا اس کے بعد پادری صاحب تشریف لے گئے.۱ وفات ۳؍نومبر ۱۹۰۴ءکو جناب مولوی سید تفضل حسین صاحب پنشنر تحصیلدار اٹاوہ کے اس جہان فانی سے انتقال کرجانے کی خبر مولوی عبد المجید صاحب احمدی نے اٹاوہ سے ارسال کی ہے.ماہ فروری ۱۹۰۴ء میں تحصیلدار صاحب قادیاں میں تشریف لائے.آپ کا ارادہ صرف چند دن قیام کا تھا.لیکن حضرت اقدس نے اصرار فرما کر کچھ زیادہ دن رہنے کی تاکید کی تھی اور اسی اصرار میں آپؑنے ان کو فرمایا کہ ضروری نصیحت یہ ہے کہ ملاقات کا زمانہ بہت تھوڑا ہے خدا معلوم بعد جدائی کے دوبارہ ملنے کا اتفاق ہو یا نہ ہو.یہ دنیا ایسی جگہ ہے کہ دم بھر کا بھروسہ نہیں.ان الفاظ کو اسی وقت سن کر میرے دل میں یہ بات گذری کہ سید صاحب دوبارہ قادیاں آنے سے پیشتر واصل الی اللہ ہو جاویں گے.اور ذہن کے اس طرف انتقال کی وجہ یہ تھی کہ میں نے بارہا تجربہ کیا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ جب ایسے الفاظ میں کسی کو کچھ فرماتے ہیں تو وہ اس کا آخری وقت ہی ہوتا ہے.مبارک وہ لوگ جو زندگی کے ایام کو اپنے آقا اور امام کی اطاعت یعنی خدمت دین میں گذار کر اپنے رب کو راضی کرتے ہیں.سید صاحب کی تشریف آوری اور آپ کے چند روز قیام پر حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ قابل رشک فقرات اہل پنجاب کے حق میں فرمائے تھے.’’پنجاب کے لوگ بار بار ہمارے پاس آنے کی وجہ سے صدق و صفا میں ترقی کر رہے ہیں اور

Page 40

بعض ایسے نظر آتے ہیں کہ عنقریب عبد اللطیف بننے والے ہیں.‘‘۱ ۵؍نومبر ۱۹۰۴ء (بمقام قادیان.بوقتِ مغرب) طاعون کی شدت طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ کسوف اور خسوف کے ساتھ ہی قرآن شریف میں اَيْنَ الْمَفَرُّ (القیامۃ:۱۱) آیا ہے جس سے یہی مراد ہے کہ طاعون اس کثرت سے ہوگی کہ کوئی جگہ پناہ کی نہ رہے گی.میرے الہام عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلُّھَا وَ مُقَامُھَا کے یہی معنے ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام کا وجود باعث ابتلا ثابت ہوا ہے حضرت مسیح موعود۲ علیہ السلام کے وجود کی نسبت فرمایا کہ ان کا وجود دنیا کے لیے ابتلا ہی ثابت ہوا ہے.یعنی ابتلا اور حضرت مسیح موعود۳ علیہ السلام کے وجود کا گہرا تعلق ہے کیونکہ جو منکر ہوئے وہ بھی دوزخی بنے اور جو ان پر ایماندار ہیں وہ بھی دوزخ کے کُندے ہیں جیسے کہ عیسائیوں کے عقائد اور عملی حالت سے واضح ہے.پھر مسلمان بھی ان پر ایمان رکھتے تھے وہ بھی غلو کر کے اور آسمان پر بٹھا کر مغضوب ہوئے.پس صرف مسیح کا وجود ہی اس قسم کا ہے کہ جس کا دوست بھی جہنم میں اور دشمن بھی جہنم میں.اس قسم کا ابتلا کسی اور نبی کے وجود کے ساتھ نہیں ہے.۴ ۱۱؍نومبر ۱۹۰۴ء ایک شخص کی طرف سے رقعہ پیش کیا گیا کہ یہ مولوی صاحب ہیں اور ان کا لڑکا فوت ہوگیا ہے.ان کو

Page 41

ہستی باری پر شبہات پیدا ہوگئے ہیں یہ اپنی اصلاح کی تدبیر دریافت کرتے ہیں.فرمایا.دل کی بے قراری کو اللہ تعالیٰ دور کرے.دیکھو اگر کسی شخص کے سامنے دو بچے ہوں ایک تو کسی اجنبی کا ہو اور دوسرا اس کا اپنا پیارا.تو کیا وہ اس اجنبی بچہ کی خاطر اپنے بچہ سے محبت چھوڑ دے گا.نہیں بلکہ ہرگز نہیں.پس جب انسان مسلمان کہلاتا ہے جس کے معنے ہیں بالکل خدا کا ہوجانا اور کسی حالت میں اس سے بے وفائی نہ کرنا.پھر اولاد کے حق میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ(التغابن:۱۶).فَاحْذَرُوْهُمْ(التغابن:۱۵) کہ مال اور اولاد تمہاری دشمن ہیں.ان سے ڈرتے رہو.کیونکہ اگر زندہ رہے تو ممکن ہے کہ نافرمان ہو، مرتد ہوجاوے، بدکار ہو، چور یا ڈاکو بن جاوے، مر جاوے تو پھر ویسے ابتلا آجاتا ہے.پس ہر حالت میں موجب فتنہ اور ابتلا ہوتی ہے مگر جب مومن کو خدا سے تعلق ہوتا ہے تو وہ خوش ہوتا (ہے) کہ اگر یہ بچہ مرگیا ہے تو کیا ہوا.اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَا (البقرۃ:۱۰۷).دیکھو! آنحضرتؐکے ۱۲ بچے فوت ہوئے.ایمان تو وہ ہوتا ہے جس میں لغزش نہ ہو اور ایسے ایمان والا خدا کو بہت محبوب ہوتا ہے.ہاں اگر بچہ خدا سے زیادہ محبوب ہے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایسا شخص خدا پر ایمان کا دعویٰ کر سکے؟ اور وہ کیوں ایسا دعویٰ کرتا ہے.ہم نہیں جان سکتے کہ ہماری اولادیں کیسی ہوں گی.صالح ہوں گی یا بد معاش؟ اور نہ ان کے ہم پر کوئی احسان ہیں اور خدا کے تو ہم پر لاکھوں لاکھ احسان ہیں.پس سخت ظالم ہے وہ شخص کہ اس خدا سے تعلق توڑ کر اولاد کی طرف تعلق لگاتا ہے.ہاں خدا کے حقوق کے ساتھ مخلوق کے حقوق کا بھی خیال رکھو.اگر خدا پر تمہارا کامل ایمان ہو تو پھر تو تمہارا یہ مذہب ہونا چاہیے کہ ع ہر چہ از دوست می رسد نیکوست اور اس ایمان والے کے شیطان قریب بھی نہیں آتا.وہ بھی تو وہاں ہی آجاتا ہے جہاں اس کو تھوڑی سی بھی گنجائش مل جاتی ہے.جب خدا کو مقدم رکھا جائے تو برکات کا نزول ہوتا ہے.ہر کسی

Page 42

دوست سے اگر تم ادنیٰ باتوں میں بد عہدی اور جھوٹ اور عہد شکنی سے کام لو تو وہ تمہیں کبھی عزیز نہیں رکھے گا.پھر وہ تو ربُّ العالمین اور احکم الحاکمین اور ربُّ العزت ہے.وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ(البقرۃ:۱۵۶) یعنی ثمرات سے مراد اولاد ہے اور یہ خدا کی طرف سے ابتلا ہوتے ہیں اور یہی انسان کا امتحان ہوتا ہے.ہاں یہ باتیں اور کامل ایمان حاصل ہوتا ہے توبہ استغفار سے اس کی کثرت کرو.اور رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ(الاعراف:۲۴) پڑھا کرو اور اس کی کثرت کرو.خدا تعالیٰ نعم البدل عطا کرے گا.خدا کا دامن نہ چھوڑنے والا گنہگار ہو کر بھی بخشا جاتا ہے.ہاں تعلق توڑنا بُری بات ہے اور یہ زہر قاتل ہے.پس توبہ استغفار کرو اور نمازوں میں دعائیں کرتے رہو.اللہ تعالیٰ تمہارا پروردگار ہو.والسلام۱ بلا تاریخ شہد اور ذیابیطس ذیابیطس کی مرض کا ذکر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس سے مجھے سخت تکلیف تھی.ڈاکٹروں نے اس میں شیرینی کو سخت مضر بتلایا ہے.آج میں اس پر غور کر رہا تھا تو خیال آیا کہ بازار میں جو شکر وغیرہ ہوتی ہے اسے تو اکثر فاسق فاجر لوگ بناتے ہیں اگر اس سے ضرر ہوتا ہو تو تعجب کی بات نہیں.مگر عسل(شہد) تو خدا کی وحی سے طیار ہوا ہے.اس لیے اس کی خاصیت دوسری شیرینیوں کی سی ہرگز نہ ہوگی.اگر یہ ان کی طرح ہوتا تو پھر سب شیرینی کی نسبت شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ فرمایا جاتا.مگر اس میں صرف عسل ہی کو خاص کیا ہے.پس یہ خصوصیت اس کے نفع پر دلیل ہے اور چونکہ اس کی طیاری بذریعہ وحی کے ہے اس لیے مکھی جو پھولوں سے رس چوستی ہوگی تو ضرور مفید اجزا کو ہی لیتی ہوگی.اس خیال سے میں نے تھوڑے سے شہد میں کیوڑا ملا کر اسے پیا تو تھوڑی دیر کے بعد مجھے بہت فائدہ حاصل ہوا.حتی کہ

Page 43

میں نے چلنے پھرنے کے قابل اپنے آپ کو پایا اور پھر گھر کے آدمیوں کو لے کر باغ تک چلا گیا اور وہاں دس رکعت اشراق نماز کی ادا کیں.صفات باری تعالیٰ خدا تعالیٰ کی ان صفات ربّ، رحمٰن، رحیم، مالک یوم الدین پر توجہ کی جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ کیسا عجیب خدا ہے.پھر جن کا ربّ ایسا ہو کیا وہ کبھی نامراد اور محروم رہ سکتا ہے؟ ربّ کے لفظ سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ دوسرے عالم میں بھی ربوبیت کام کرتی رہے گی.جہاں اسباب غیر مؤثر معلوم ہوں وہاں دعا سے کام لے.۱ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۴ء (بوقتِ ظہر) ایک الہام اور ایک رؤیا حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ذیل کی رؤیا سنائی.میں نے ایک سفید تہہ بند باندھا ہوا ہے مگر وہ بالکل سفید نہیں ہے.کچھ کچھ میلا ہے کہ اس اثناء میں مولوی صاحب نماز پڑھانے لگے ہیں اور انہوں نے سورۂ الحمد جہر سے پڑھی ہے اور اس کے بعد انہوں نےیہ پڑھا اَلْفَارِقُ وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْفَارِقُاس وقت مجھے یہی معلوم ہوا کہ یہ قرآن شریف میں سے ہی ہے.اور ایک اور الہام ہوا روزِ نقصاں بر تو نیاید.آریہ مذہب اور اس کے عقائد حضرت حکیم نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کی بعض آریوں نے بہت ہی گندے کلمات قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں لکھے ہیں.فرمایا کہ ہانڈی میں جب اُبال آتا ہے تو پھر بہت جلدی بیٹھ جایا کرتا ہے.یہی حالت ان لوگوں کی ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ اسلام جیسا مذہب جس خدا نے پیش کیا ہے اس کے مقابل پر اور بھی کوئی خدا مانا جا سکتا ہے.اسلام کا خدا کل کمالات کا مالک ہے اور جبکہ روح اور اس کے خواص

Page 44

سب خود بخود ہیں تو وہ خدا کو کہہ سکتی ہے کہ تیرا مجھ پر کیا حق ہے جو تو مجھ کو کسی قسم کی سزا دے سکے.خدا شناسی میں ان لوگوں کی حالت دہریوں سے ملتی ہے اور نیوگ میں تو کنجروں کو مات کر دیا ہے.انہوں نے ہر ایک بات پر اعتراض کا ٹھیکہ لے لیا ہے.حالانکہ ایک عارف آدمی اس بات کا ہرگز قائل نہ ہوگا کہ کل اسرارِ الوہیت کو کوئی سمجھ سکے.مثلاً اس قدر جو مخلوقات موجود ہے اور قسم قسم کے پتھر، بوٹیاں اور اشیاء ہیں کیا کوئی دعویٰ کر سکتا ہے کہ میں نے ہر ایک کے خواص پر احاطہ کر لیا ہے اور جو کچھ میں نے معلوم کیا ہے اس سے بڑھ کر اب اور کوئی حکمت الٰہی اس میں ہرگز نہیں ہے.اس لیے حق کے طالب کو چاہیے کہ وہ بات جس سے ایمان وابستہ ہوتا ہے اختیار کرے اور اسے سمجھے اور دوسری باتوں کے لیے اپنے نقص عقل کو تسلیم کرے.جوں جوں خدا تعالیٰ بصیرت دے گا توں توں اس کا علم بڑھے گا.یہ نادانی ہے کہ انسان کے جسم کے اندر جس قدر قویٰ ہیں ان کی حکمت اور خواص پر تو نظر نہ کی جاوے اور بالوں کے ٹیڑھے ہونے یا اور اس قسم کی باتوں پر اعتراض کیا جاوے.۱ ۲۹؍نومبر ۱۹۰۴ء کسی اہم کام کے لیے نماز توڑنا افریقہ سے ڈاکٹر محمد علی خاں صاحب نے استفسار کیا ہے کہ اگر ایک احمدی بھائی نماز پڑھ رہا ہو اور باہر سے اس کا افسر آجاوے اور دروازہ کو ہلا ہلا کر اور ٹھونک ٹھونک کر پکارے اور دفتر یا دوائی خانہ کی چابی مانگے تو ایسے وقت میں اسے کیا کرنا چاہیے.اسی وجہ سے ایک شخص نوکری سے محروم ہوکر ہندوستان واپس کیا گیا ہے.جواب.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ایسی صورت میں ضروری تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چابی افسر کو دے دیتا (یہ ہسپتال کا واقعہ ہے اس لیے فرمایا)۲ کیونکہ اگر اس کے التوا سے کسی آدمی کی جان چلی جاوے تو یہ سخت معصیت ہوگی.

Page 45

احادیث میں آیا ہے کہ نماز میں چل کر دروازہ کھول دیا جاوے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی.ایسے ہی اگر لڑکے کو کسی خطرہ کا اندیشہ ہو یا کسی موذی جانور سے جو نظر پڑتا ہو ضرر پہنچتا ہو تو لڑکے کو بچانا اور جانور کو مار دینا اس حال میں کہ نماز پڑھ رہا ہے گناہ نہیں ہے اور نماز فاسد نہیں ہوتی.بلکہ بعضوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ گھوڑا کھل گیا ہو تو اسے باندھ دینا بھی مفسد نماز نہیں ہے.کیونکہ وقت کے اندر نماز تو پھر بھی پڑھ سکتا ہے.نوٹ۱.یاد رکھنا چاہیے کہ اشد ضرورتوں کےلیے نازک مواقع پر یہ حکم ہے یہ نہیں کہ ہر ایک قسم کی رفع حاجت کو مقدم رکھ کر نماز کی پرواہ نہ کی جاوے اور اسے بازیچہ طفلاں بنا دیا جاوے ورنہ نماز میں اشغال کی سخت ممانعت ہے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک دل اور نیت کو بخوبی جانتا ہے.۲ بلاتاریخ غیر احمدی امام کے پیچھے نماز بیرونجات کے احباب کے خطوط آنے پر یہ مسئلہ دوبارہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب علیہ الرحمۃ نے مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا جس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ میرا مذہب تو وہی ہے کہ کسی غیر کے پیچھے نماز نہ پڑھی جاوے حج میں بھی آدمی یہ التزام کر سکتا ہے کہ اپنے جائے قیام پر نماز پڑھ لیوے اور کسی کے پیچھے نہ پڑھے.بعض ائمہ دین سالہا سال مکہ میں رہے لیکن چونکہ وہاں کے لوگوں کی حالت تقویٰ سے گری ہوئی تھی.اس لئے کسی کے پیچھے نماز پڑھنا گوارا نہ کیا اور گھر میں تنہا پڑھتے رہے.یہ چار مصلّے جو اب ہیں یہ تو پیچھے بنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ہرگز نہ تھے اس وقت ایک ہی مصلّٰی تھا.اور اب بھی جب تک چاروں اٹھ کر ایک ہی مصلّٰی نہ ہو گا تب تک وہاں توحید اور راستی ہرگز نہ پھیلے گی.۳

Page 46

نجات فضل سے ہے میرے دوست مفتی محمد صادق روایت کرتے ہیں کہ ایک بار میاں کرم داد صاحب احمدی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ماہ رمضان میںحکم دیا کہ مفتی صاحب کے ہمراہ بٹالہ تک جاویں اور تاکید کی کہ روزہ نہ رکھنا.کرم داد نے خواہش ظاہر کی کہ روزہ رکھ لیا جاوے بعد کو تکلیف ہوتی ہے.فرمایا.نجات خدا کے فضل سے ہے عمل سے نہیں ہے.۱ ۱۹؍دسمبر ۱۹۰۴ء (بوقتِ ظہر) مریدان باصفا کی خاطر داری حضرت اقدس بوقتِ ظہر تشریف لائے اور مولانا حکیم نورالدین صاحب کی علالت طبع کا حال خود ان سے دریافت کیا.غذا کے انتظام کے لیے تاکید فرمائی.حضرت مولوی صاحب نے عرض کی کہ ہر چند کوشش کی جاتی ہے مگر قدرت کی طرف سے کچھ ایسے اسباب پیدا ہوجاتےہیں کہ جس سے انتظام قائم نہیں رہتا.شاید ارادۂ الٰہی ابھی اس امر کا خواہاں نہیں ہے کہ آرام ہو.اس اثناء میں ایک صاحب جن کو حکیم صاحب موصوف سے نہایت محبت اور اخلاص اور نیازمندی کا تعلق ہے بول اٹھے کہ آخر تدبیر کرنی چاہیے.قرآن شریف میں آیا ہے فَالْمُدَبِّرٰتِ۠ اَمْرًا (النّٰـزعٰت:۶) اس پر حکیم صاحب نے ایک لطیف عارفانہ جواب یہ دیا کہ یہاں صیغہ مؤنث کا استعمال ہوا ہے فَالْمُدَبِّرُوْنَ اَمْرًا نہیں ہے.جس سے ظاہر ہے کہ اس کا بڑا تعلق اِناث سے ہے (اور ان میں ضرور نقص ہوتا ہے) بہرحال یہ ایک عجیب نکتہ ہے.اس بحث کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دلچسپی سے سنا اور پھر خوراک کا انتظام ایک خاص صاحب کے سپرد فرما کر زبانِ مبارک سے ارشاد فرمایا کہ یہ سب لوگ سنتے ہیں اور گواہ ہیں کہ ہم نے اب تم کو ذمہ وار بنا دیا ہے.اب اس کا ثواب یا

Page 47

عذاب تمہاری گردن پر ہے.۲ ۲۰؍دسمبر ۱۹۰۴ء (بوقتِ ظہر) اپنے نیک انجام پر پختہ یقین ظہر کے وقت حضرت اقدسؑ تشریف لائے.مقدمہ کے ذکر پر فرمایا کہ خواہ کچھ ہی ہو ہم تو سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں اور اس پر راضی ہیں.ع ہرچہ از دوست می رسد نیکوست لیکن ہمارا ایمان جیسے خدا تعالیٰ کے ملائکہ اور کتب اور رسل پر ہے ایسے ہی اس بات پر بھی ہے کہ انجام کار ہم ہی کامیاب ہوں گے.اگرچہ ایک دنیا ہماری مخالف کیوں نہ ہو.آج کل کے عقلمندوں کے نزدیک تو کسی کو اپنا دشمن بنانا غلطی ہے.لیکن سچ پوچھو تو یہ بھی حقانیت کی ایک دلیل ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک سے بھی نہ رکھی سب سے بگاڑ لی.ان لوگوں کے نزدیک تو نعوذ باللہ آپؐنے غلطی کی حالانکہ محض خدا کے لیے سب سے بگاڑ لینا آپ کی صداقت کا بیّن ثبوت ہے کہ جس سے آپ کی قوت ایمانی کا حال معلوم ہوتا ہے.ایک طرف مسیحؑکو دیکھو کہ اس کی تعلیم سے جو کہ انجیلوں میں پائی جاتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مشرب کسی کو ناراض کرنے کا ہرگز نہ تھا.یہودیوں کو سنایا گیا کہ میں توریت کا ایک شوشہ تک زیر و زبر کرنے نہیں آیا.اس فقرہ سے ظاہر ہے کہ ان کی خوشامد مد نظر تھی.برخلاف اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دیکھا جاوے تو کوئی بھی فرقہ اور مذہب روئے زمین پر ایسا نظر نہ آوے گا جس کو آپ نے دعوت نہ کی ہو اور جس کی غلطی نہ نکالی ہو (اور پھر ہر ایک کے مقابلہ پر اپنے مظفر و منصور ہونے کا دعویٰ بھی کیا) بھلا بتلاؤ کہ جب تک خدا پر پورا بھروسہ اور یقین نہ ہو کب کوئی اس طرح سے کر سکتا ہے؟ خیر بات یہ ہے کہ درمیان میں کیا کیا مکروہات ہوں ہمیں اس کا علم نہیں مگر انجام بہرحال نیک

Page 48

ہے.الہاموں کی ترتیب میں مَیں یہ امر مد نظر رکھتا ہوں کہ مکروہات کا مرتبہ اوّل رکھا جاتا ہے اور یہ سنت اللہ بھی ہے کیونکہ خوشحالی اور کامیابی بعد کو ہوا کرتی ہیں اس لیے ان کے الہامات کی ترتیب بھی بعد کو ہی ہوتی ہے.عاقبت کا ذخیرہ تیار کرو کچھ دنوں کا عرصہ گذرا کہ ایک صاحب بہت تھوڑی دیر کےلیے قادیان آئے اور جلدی رخصت ہونے لگے.حضرت اقدسؑنے فرمایا کہ کچھ دن میرے پاس رہو اور عاقبت کا ذخیرہ تیار کرو.دنیا کے کام تو کبھی ختم ہونے میں نہیں آتے.؎ خیرے کن اے فلاں و غنیمت شمار عمر زاں پیشتر کہ بانگ بر آید فلاں نماند ۱ ۲۹؍دسمبر ۱۹۰۴ء تقریر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام بر موقع جلسہ سالانہ بعد نماز ظہر بمقام مسجد اقصیٰ خاتمہ بالخیر کی کوشش کریں میری طرف سے اپنی جماعت کو بار بار وہی نصیحت ہے جو میں پہلے بھی کئی دفعہ کر چکا ہوں کہ عمر چونکہ تھوڑی۲ اور عظیم الشان کام در پیش ہے اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ خاتمہ بالخیر ہو جاوے.

Page 49

خاتمہ بالخیر ایسا امر ہے کہ اس کی راہ میں بہت سے کانٹے ہیں.جب انسان دنیا میں آتا ہے تو کچھ زمانہ اس کا بے ہوشی میں گذر جاتا ہے.یہ بے ہوشی کا زمانہ وہ ہے جبکہ وہ بچہ ہوتا ہے اور اس کو دنیا اور اس کے حالات سے کوئی خبر نہیں ہوتی.اس کے بعد جب ہوش سنبھالتا ہے تو ایک زمانہ ایسا آتا ہے کہ وہ بے ہوشی تو نہیں ہوتی جو بچپن میں تھی.لیکن جوانی کی ایک مستی ہوتی ہے جو اس ہوش کے دنوں میں بھی بے ہوشی پیدا کر دیتی ہے اور کچھ ایسا از خود رفتہ ہوجاتا ہےکہ نفسِ امّارہ غالب آجاتا ہے.اس کے بعد پھر تیسرا زمانہ آتا ہے۱ کہ علم کے بعد پھر لاعلمی آجاتی ہے اور حواس میں اور دوسرے قویٰ میں فتور آنے لگتا ہے.یہ پیرانہ سالی کا زمانہ ہے.بہت سے لوگ اس زمانہ میں بالکل حواس باختہ ہوجاتے ہیں اور قویٰ بیکار ہوجاتے ہیں.اکثر لوگوں میں جنون کا مادہ پیداہوجاتا ہے.ایسے بہت سے خاندان ہیں کہ ان میں سا۶۰ٹھ یا ستر۷۰ سال کے بعد انسان کے حواس میں فتور آجاتا ہے.غرض اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی قویٰ کی کمزوری اور طاقتوں کے ضائع ہوجانے سے انسان ہوش میں بےہوش ہوتا ہے۲ اور ضعف و تکاہل اپنا اثر کرنے لگتا ہے.انسان کی عمر کی تقسیم انہیں تین زمانوں پر ہے اور یہ تینوں ہی خطرات اور مشکلات میں ہیں.پس اندازہ کرو کہ خاتمہ بالخیر کے لیے کس قدر مشکل مرحلہ ہے.بچپن کا زمانہ تو ایک مجبوری کا زمانہ ہے.اس میں سوائے لہو لعب اور کھیل کود اور چھوٹی چھوٹی خواہشوں کے اور کوئی خواہش ہی نہیں ہوتی.ساری خواہشوں کا منتہا کھانا پینا ہی ہوتاہے.دنیا اور اس کے حالات سے محض ناواقف ہوتا ہے.امورِ آخرت سے بکلّی ناآشنا اور لاپروا ہوتا ہے.عظیم الشان امور کی اسے کوئی خبر ہی نہیںہوتی.وہ نہیں جانتا کہ دنیا میں اس کے آنے کی کیا غرض

Page 50

اورمقصد ہے؟ یہ زمانہ تو یوں گذر گیا.اس کے بعد جوانی کا زمانہ آتا ہے کچھ شک نہیں کہ اس زمانہ میں اس کے معلومات بڑھتے ہیں اور اس کی خواہشوں کا حلقہ وسیع ہوتا ہے، مگر جوانی کی مستی اور نفسِ امّارہ کے جذبات عقل مار دیتے ہیں اور ایسے مشکلات میں پھنس جاتا ہے اور ایسے ایسے حالات پیش آتے ہیں کہ اگر ایمان بھی لاتا ہے تب بھی نفسِ امّارہ اور اس کے جذبات اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اسے ایمان اور اس کی ثمرات سے دور پھینک دینے کے لیے حملے کرتے ہیں.اس کے بعد جو پیرانہ سالی کا زمانہ ہے وہ تو بجائے خود ایسا نکمّا اور ردّی ہوتاہے جیسے کسی چیز سے عرق نکال لیا جاوے اور اس کا پھوک باقی رہ جاوے.اسی طرح پر انسانی عمر کا پھوک بڑھاپا ہے.انسان اس وقت نہ دنیا کے لائق رہتا ہے اور نہ دین کے.مخبوط الحواس اور مضمحل سا ہو کر اوقات بسر کرتا ہے.قویٰ میں وہ تیزی اور حرکت نہیں ہوتی جو جوانی میں ہوتی ہے اور بچپن کے زمانہ سے بھی گیا گذرا ہوجاتا ہے.بچپن میں اگرچہ شوخی، حرکت اور نشو و نما ہوتا ہے لیکن بڑھاپے میں یہ باتیں نہیں.نشو و نما کی بجائے اب قویٰ میں تحلیل ہوتی ہے اور کمزوری کی وجہ سے سستی اور کاہلی پیدا ہونے لگتی ہے.بچہ اگرچہ نماز اور اس کے مراتب اور ثمرات اور فوائد سے ناواقف ہوگا یا ہوتا ہے لیکن اپنے کسی عزیز کو دیکھ کر رِیس اور امنگ ہی پیدا ہوجاتی ہے مگر اس پیرانہ سالی کے زمانہ میں تو اس کے بھی قابل نہیں رہتا.۱ حواسِ باطنی میں جس طرح اس وقت فرق آجاتا ہے حواس ظاہری میں بھی معمر ہو کر بہت کچھ فتور پیدا ہوجاتا ہے بعض اندھے ہوجاتے ہیں، بہرہ ہوجاتے ہیں، چلنے پھرنے سے عاری ہوجاتے ہیں اور قسم قسم کی مصیبتوں اور دکھوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.غرض یہ زمانہ بھی بڑا ہی ردّی زمانہ ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی زمانہ ہے جو ان دونوں کے بیچ کا زمانہ ہے یعنی شباب کا جب انسان کوئی کام کر سکتا ہے.کیونکہ اس وقت قویٰ میں نشو و نما ہوتا ہے اور طاقتیں آتی ہیں لیکن یہی

Page 51

زمانہ ہے جبکہ نفسِ امّارہ ساتھ ہوتا ہے اور وہ اس پر مختلف رنگوں میں حملے کرتا ہے اور اپنے زیر اثر رکھنا چاہتا ہے.یہی زمانہ ہے جو مؤاخذہ کا زمانہ ہے اور خاتمہ بالخیر کے لیے کچھ کرنے کے دن بھی یہی ہیں لیکن ایسی آفتوں میں گھرا ہوا ہے کہ اگر بڑی سعی نہ کی جاوے تو یہی زمانہ ہے جو جہنم میں لے جائے گا اور شقی بنا دے گا.ہاں اگر عمدگی اور ہوشیاری اور پوری احتیاط کے ساتھ اس زمانہ کو بسر کیا جاوے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے امید ہے کہ خاتمہ بالخیر ہوجاوے کیونکہ ابتدائی زمانہ تو بےخبری اور غفلت کا زمانہ ہے اللہ تعالیٰ اس کا مؤاخذہ نہ کرے گا.جیسا کہ خود اس نے فرمایا لَايُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا(البقرۃ:۲۸۷) اور آخری زمانہ میں گو بڑھاپے کی وجہ سے سستی اور کاہلی ہوگی لیکن فرشتے اس وقت اس کے اعمال میں وہی لکھیں گے جو جوانی کے جذبات اور خیالات ہیں.جوانی میں اگر نیکیوں کی طرف مستعد اور خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والا اس کے احکام کی تعمیل کرنے والا اور نواہی سے بچنے والا ہے تو بڑھاپے میں گو ان اعمال کی بجا آوری میں کسی قدر سستی بھی ہو جاوے لیکن اللہ تعالیٰ اسے معذور سمجھ کر ویسا ہی اجر دیتا ہے.۱ ہر شخص بڈھے انسان کو دیکھتا کہ وہ کیسا از خود رفتگی کا زمانہ ہے.۲کوئی بات چشم دید کی

Page 52

جبکہ قویٰ میں قوت اور طاقت اور دل میں ایک امنگ اورجوش ہوتا ہے.اس زمانہ میں کوشش کرنا عقلمند کا کام ہے اور عقل اسی لیے اللہ تعالیٰ نے دی ہے.۱ پہلا ذریعہ تدبیر اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے (جیسا کہ میں پہلے کئی مرتبہ بیان کرچکا ہوں) اول ضروری ہے کہ انسان دیدہ دانستہ اپنے آپ کو گناہ کے گڑھے میں نہ ڈالے ورنہ وہ ضرور ہلاک ہوگا.جو شخص دیدہ دانستہ بد راہ اختیار کرتا ہے یا کنوئیں میں گرتا ہے اور زہر کھاتا ہے وہ یقیناً ہلاک ہوگا.ایسا شخص نہ دنیا کے نزدیک اور نہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل رحم ٹھہر سکتا ہے.اس لیے یہ ضروری اور بہت ضروری ہے خصوصاً ہماری جماعت کے لیے (جس کو اللہ تعالیٰ نمونہ کے طور پر انتخاب کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک نمونہ ٹھہرے) کہ جہاں تک ممکن ہے بد صحبتوں اور بد عادتوں سے پرہیز کریں.۲ اور اپنے آپ کو نیکی کی طرف لگائیں.اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے جہاں تک تدبیر کا حق ہے تدبیر کرنی چاہیے اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرنا چاہیے.یاد رکھو تدبیر بھی ایک مخفی عبادت ہے اس کو حقیر مت سمجھو.اسی سے وہ راہ کھل جاتی ہے جو بدیوں سے نجات پانے کی راہ ہے.جو لوگ بدیوں سے بچنے کی تجویز اور تدبیر نہیں کرتے ہیں وہ گویا بدیوں پر راضی ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر خدا تعالیٰ ان سے الگ ہوجاتا ہے.۳ میں سچ کہتا ہوں کہ جب انسان نفسِ امّارہ کے پنجہ میں گرفتار ہونے کے باوجود بھی تدبیروں میں لگا ہوا ہوتا ہے تو اس کا نفسِ امّارہ خدا تعالیٰ کے نزدیک لوّامہ ہو جاتا ہے اور ایسی قابلِ قدر تبدیلی پا لیتا ہے کہ یا تو وہ امّارہ تھا جو لعنت کے قابل تھا اور یا تدبیر اور تجویز کرنے سے وہی قابل لعنت نفسِ امّارہ لوّامہ ہو جاتا ہے.جس کو یہ شرف حاصل ہے کہ خدا تعالیٰ بھی اس کی قسم کھاتا ہے.۱ یہ

Page 53

کوئی چھوٹا شرف نہیں ہے.پس حقیقی تقویٰ اور طہارت کے حاصل کرنے کے واسطے اوّل یہ ضروری شرط ہے کہ جہاں تک بس چلے اور ممکن ہو تدبیر کرو اور بدی سے بچنے کی کوشش کرو.بد عادتوں اور بدصحبتوں کو ترک کر دو.ان مقامات کو چھوڑ دو جو اس قسم کی تحریکوں کا موجب ہوسکیں.جس قدر دنیا میں تدبیر کی راہ کھلی ہے اس قدر کوشش کرو اور اس سے نہ تھکو نہ ہٹو.دوسرا ذریعہ دعا دوسرا طریق حقیقی پاکیزگی کے حاصل کرنے اور خاتمہ بالخیر کے لیے جو خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے۲ وہ دعا ہے اس لیے جس قدر ہو سکے دعا کرو.یہ طریق بھی اعلیٰ درجہ کا مجرب اورمفید ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے خود وعدہ فرمایا ہے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المؤمن:۶۱) تم مجھ سے دعاکرو میں تمہارے لیے قبول کروں گا.دعا ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کو فخر کرنا چاہیے.۳ دوسری قوموں کو دعا کی کوئی قدر نہیں اور نہ انہیں اس پاک طریق پر کوئی فخر اور ناز ہو سکتا ہے.بلکہ یہ فخر اور ناز صرف صرف اسلام ہی کو ہے دوسرے مذاہب اس سے بکلّی بے بہرہ ہیں.مثلاً عیسائیوں نے جب یہ سمجھ لیا ہے کہ ایک انسان (جس کو انہوں نے خدا مان لیا) نے ہمارے لیے قربانی دے دی ہے.انہوں نے اس پر بھروسہ کر لیا اور سمجھ لیا کہ ہمارے سارے گناہ اس نے اٹھا لیے ہیں.پھر وہ کون سا امر ہے جو اس کو دعا کے لیے تحریک کرے گا.ناممکن ہے کہ وہ گدازش دل کے ساتھ دعا کرے.دعا تو وہ کرتا ہے جو اپنی ذمہ واری اور

Page 54

جوابدہی کو سمجھتا ہےلیکن جو شخص اپنے آپ کو بری الذمہ تصور کرتا ہے وہ دعا کیوں کرے گا.اس نے تو پہلے ہی سمجھ لیا ہے کہ گناہ دوسرے شخص نے اٹھا لیے ہیں اور اس طرح پر اس کے ذمہ کوئی جوابدہی نہیں تو اس کے دل میں تحریک کس طرح ہوگی؟ اس نے اور شے پر بھروسہ کرلیا ہے اور اس طرح پر اس طریق سے جو دعا کا طریق ہے وہ دور چلا گیا ہے.۱ غرض ایک عیسائی کے نزدیک دعا بالکل بے سود ہے اور وہ اس پر عمل نہیں کر سکتا.اس کے دل میں وہ رقت اور جوش جو دعا کے لئے حرکت پیداکرتا ہے نہیں ہو سکتا.اسی طرح پر ایک آریہ جو تناسخ کا قائل ہے اور سمجھتا ہے کہ توبہ قبول ہی نہیں ہو سکتی اور کسی طرح پر اس کے گناہ معاف نہیں ہو سکتے وہ دعا کیوں کرے گا؟ اس نے تو یہ یقین کیا ہوا ہے کہ جونوں کے چکر میں جانا ضروری ہے اور بیل، گھوڑا، گدھا، گائے، کتّا، سؤر وغیرہ بننا ہے.وہ اس راہ کی طرف آئے ہی گا نہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دعا اسلام کا خاص فخر ہے اور مسلمانوں کو اس پر بڑا ناز ہے.مگر یہ یاد رکھو کہ یہ دعا زبانی بک بک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے اور دعا کرنے والے کی روح پانی کی طرح بہہ کر آستانہ الوہیت پر گرتی ہے

Page 55

وراپنی کمزوریوں اور لغزشوں کے لیے قوی اور مقتدر خدا سے طاقت اور قوت اور مغفرت چاہتی ہے اور یہ وہ حالت ہے کہ دوسرے الفاظ میں اس کو موت کہہ سکتے ہیں.جب یہ حالت میسر آجاوے تو یقیناً سمجھو کہ بابِ اجابت اس کے لیے کھولا جاتا ہے اور خاص قوت اور فضل اور استقامت بدیوں سے بچنے اورنیکیوں پر استقلال کے لیے عطا ہوتی ہے یہ ذریعہ سب سے بڑھ کر زبردست ہے.اس زمانہ کے لوگ دعا کی تاثیرات کے منکر ہوگئے ہیں مگر بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ دعا کی حقیقت اور حالت سے محض ناواقف ہیں اور اسی وجہ سے اس زمانہ میں بہت سے لوگ اس سے منکر ہوگئے ہیں کیونکہ وہ ان تاثیرات کونہیں پاتے اور منکر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے.پھر دعا کی کیا حاجت ہے؟ مگر میں خوب جانتا ہوں کہ یہ تو نرا بہانہ ہے انہیں چونکہ دعا کا تجربہ نہیں اس کی ۱ تاثیرات پر اطلاع نہیں اس لیے اس طرح کہہ دیتے ہیں.ورنہ اگر وہ ایسے ہی متوکل ہیں تو پھر بیمار ہو کر علاج کیوں کرتے ہیں؟ خطرناک امراض میںمبتلا ہوتے ہیں تو طبیب کی طرف دوڑے جاتے ہیں.بلکہ میں سچ کہتا ہوں کہ سب سے زیادہ چارہ کرنے والے یہی ہوتے ہیں.سید احمد خاں بھی دعا کے منکر تھے.لیکن جب ان کا پیشاب بند ہوا تو دہلی سے معالج ڈاکٹر کو بلایا یہ نہ سمجھ لیا کہ خود بخود ہی پیشاب کھل جاوے گا.حالانکہ وہی خدا ہے جس کے ملکوت میں ظاہری دنیا ہے.جبکہ دوسری اشیاء میں تاثیرات موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ باطنی دنیا میں تاثیرات نہ ہوں.۲ جن میں سے دعا ایک زبردست چیز ہے.یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قضاء و قدر میں سب کچھ ہے مگر کوئی یہ تو بتائے کہ خدا تعالیٰ نے وہ فہرست کس کو دی ہے جس سے معلوم ہو جاوے.میں سچ کہتا ہوں کہ ان اسرار پر کوئی فتح نہیں پاسکتا.ظاہر میںہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص

Page 56

قبض سے بیمار ہے تو تربد یاکسٹرائل جب اس کو دیا جاوے گا تو اسے اسہال آجاویں گے اور قبض کھل جائے گی.کیا یہ اس امر کا بیّن ثبوت نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ نے تاثیرات رکھی ہوئی ہیں.اسی طرح پر اور تدابیر کرنے والے ہیں.مثلاً زراعت کرنے والے اور یہی معالجات کرنے والے وہ خوب جانتے ہیں کہ ان تدابیر کی وجہ سے انہوں نے فائدہ اٹھایا ہے اور اشیاء میں مختلف اثر دیکھے ہیں.پھر جبکہ ان چیزوں میں تاثیرات موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ دعاؤں میں جو وہ بھی مخفی اسباب اور تدابیر ہیں اثر نہ ہوں؟ اثر ہیں اور ضرور ہیں.لیکن تھوڑے لوگ ہیں جو ان تاثیرات سے واقف اور آشنا ہیں اس لیے انکار کر بیٹھتے ہیں.آداب دعا میں یقیناً جانتا ہوں کہ چونکہ بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ہیں جو اس نقطہ سے جہاں دعا اثر کرتی ہے دور رہ جاتے ہیں اور وہ تھک کر دعا چھوڑ دیتے ہیں اور خود ہی یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ دعاؤں میں کوئی اثر نہیں ہے.میں کہتا ہوں کہ یہ تو ان کی اپنی غلطی اور کمزوری ہے.جب تک کافی وزن نہ ہو خواہ زہر ہو یا تریاق اس کا اثر نہیں ہوتا.کسی کو بھوک لگی ہوئی ہو اور وہ چاہے کہ ایک دانہ سے پیٹ بھرلے یا تولہ بھر غذا کھا لے تو کیا ہو سکتا ہے کہ وہ سیر ہو جاوے؟ کبھی نہیں.اسی طرح جس کو پیاس لگی ہوئی ہے ایک قطرہ پانی سے اس کی پیاس کب بجھ سکتی ہے؟ بلکہ سیر ہونے کے لیے چاہیے کہ وہ کافی غذا کھاوے اور پیاس بجھانے کے واسطے لازم ہے کہ کافی پانی پیوے.تب جاکر اس کی تسلّی ہو سکتی ہے.اسی طرح پر دعا کرتے وقت بے دلی اور گھبراہٹ سے کام نہیں لینا چاہیے اور جلدی ہی تھک کر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ اس وقت تک ہٹنا نہیں چاہیے جب تک دعا اپنا پورا اثر نہ دکھائے.جو لوگ تھک جاتے اور گھبرا جاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں کیونکہ یہ محروم رہ جانے کی نشانی ہے.میرے

Page 57

نزدیک دعا بہت عمدہ چیز ہے اور میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں خیالی بات نہیں.جو مشکل کسی تدبیر سے حل نہ ہوتی ہو اللہ تعالیٰ دعا کے ذریعہ اسے آسان کر دیتا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ دعا بڑی زبردست اثر والی چیز ہے.بیماری سے شفا اس کے ذریعہ ملتی ہے.دنیا کی تنگیاں، مشکلات اس سے دور ہوتی ہیں.دشمنوں کے منصوبے سے یہ بچا لیتی ہے اور وہ کیا چیز ہے جو دعا سے حاصل نہیں ہوتی؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کو پاک یہ کرتی ہے اور خدا تعالیٰ پر زندہ ایمان یہ بخشتی ہے.گناہ سے نجات دیتی ہے اور نیکیوں پر استقامت اس کے ذریعہ سے آتی ہے.۱ بڑا ہی خوش قسمت وہ شخص ہے جس کو دعا پر ایمان ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کو دیکھتا ہے اور خدا تعالیٰ کو دیکھ کر ایمان لاتا ہے کہ وہ قادر کریم خدا ہے.اللہ تعالیٰ نے شروع قرآن ہی میں دعا سکھائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بڑی عظیم الشان اور ضروری چیز ہے.اس کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ (الفاتـحۃ:۲تا۴) اس میں اللہ تعالیٰ کی چار صفات کو جو امّ الصفات ہیں بیان فرمایا ہے.رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ذرہ ذرہ کی ربوبیت کر رہا ہے.عالَم اسے کہتے ہیں جس کی خبر مل سکے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز دنیا میں ایسی نہیں ہے جس کی ربوبیت نہ کرتا ہو.ارواح اجسام وغیرہ سب کی ربوبیت کر رہا ہے.وہی ہے جو ہر ایک چیز کے حسب حال اس کی پرورش کرتا ہے جہاں جسم کی پرورش فرماتا ہے وہاں روح کی سیری اور تسلّی کے لیے معارف اور حقائق وہی عطا فرماتا ہے.پھر فرمایا ہے کہ وہ رحمٰن ہے یعنی اعمال سے بھی پیشتر اس کی رحمتیں موجود ہیں.پیدا ہونے سے پہلے ہی زمین، چاند، سورج، ہوا، پانی وغیرہ جس قدر اشیاء انسان کے لیے ضروری ہیں موجود ہوتی ہیں.اور پھر وہ اللہ رحیم ہے یعنی کسی کے نیک اعمال کو ضائع نہیں کرتا بلکہ پاداش عمل دیتا ہے.

Page 58

پھر مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ہے یعنی جزا وہی دیتا ہے اور وہی یوم الجزاء کا مالک ہے.اس قدر صفاتُ اللہ کے بیان کے بعد دعا کی تحریک کی ہے.جب انسان اللہ تعالیٰ کی ہستی اور ان صفات پر ایمان لاتا ہے تو خواہ مخواہ روح میں ایک جوش اور تحریک ہوتی ہے اور دعا کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتی ہے.اس لیے اس کے بعد اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ(الفاتـحۃ:۶) کی ہدایت فرمائی.۱ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلیات اور رحمتوں کے ظہور کے لیے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے.اس لیے اس پر ہمیشہ کمر بستہ رہو اور کبھی مت تھکو.غرض اصلاحِ نفس کے لیے اور خاتمہ بالخیر ہونے کے لیے نیکیوں کی توفیق پانے کے واسطے دوسرا پہلو دعا کا ہے.اس میں جس قدر توکل اوریقین اللہ تعالیٰ پر کرے گا.اور اس راہ میں نہ تھکنے والا قدم رکھے گا اسی قدر عمدہ نتائج اور ثمرات ملیں گے.تمام مشکلات دور ہوجائیں گی اور دعا کرنے والا تقویٰ کے اعلیٰ محل پر پہنچ جاوے گا.یہ بالکل سچی بات ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہو سکتا.نفسانی جذبات پر محض خدا تعالیٰ کے فضل اور جذبہ ہی سے موت آتی ہے اور یہ فضل اور جذبہ دعا ہی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ طاقت صرف دعا ہی سے ملتی ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ مسلمانوں اور خصوصاً ہماری جماعت کو ہرگز ہرگز دعاکی بے قدری نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہی دعا تو ہے جس پر مسلمانوں کو ناز کرنا چاہیے.اور دوسرے مذاہب کے آگے تو دعا کے لیے گندے پتھر پڑے ہوئے ہیں.۲ اور وہ توجہ نہیں کر سکتے.میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ ایک عیسائی جو خونِ مسیح پر ایمان لا کر سارے گناہوں کو معاف شدہ سمجھتا ہے اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ دعا کرتا رہے؟ اور ایک ہندو جو یقین کرتا ہے کہ توبہ قبول ہی نہیں ہوتی اور تناسخ کے چکر سے رہائی ہی نہیں ہے وہ کیوں دعا کے واسطے ٹکریں مارتا رہے گا؟ وہ تو یقیناً سمجھتا ہے کہ کتے، بلے، بندر، سؤر بننے سے چارہ ہی نہیں ہے.اس لیے یاد رکھو کہ یہ اسلام کا فخر اور ناز ہے کہ اس میں دعا کی تعلیم

Page 59

ہے اس میں کبھی سستی نہ کرو اور نہ اس سے تھکو.پھر دعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ(البقرۃ:۱۸۷) یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے؟ تو کہہ دو کہ وہ بہت ہی قریب ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کو جواب دیتاہوں.یہ جواب کبھی رؤیا صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے اور کبھی کشف اور الہام کے واسطے سے.اور علاوہ بریں دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے جبکہ مشکلات کوحل کر دیتا ہے.غرض دعا بڑی دولت اور طاقت ہے اور قرآن شریف میں جا بجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی.انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو.دعاؤں

Page 60

کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہو جائے گی جو خدا کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جاوے گا.تیسرا ذریعہ صحبت صادقین تیسرا پہلو۱ جو قرآن سے ثابت ہے وہ صحبت صادقین ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التوبۃ:۱۱۹) یعنی صادقوںکے ساتھ رہو.صادقوں کی صحبت میں ایک خاص اثر ہوتا ہے.ان کا نور صدق و استقلال دوسروں پر اثر ڈالتا ہے اور ان کی کمزوریوں کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے.یہ تین ذریعہ ہیں جو ایمان کو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہیں اور اسے طاقت دیتے ہیں اور جب تک ان ذرائع سے انسان فائدہ نہیں اٹھاتا اس وقت تک اندیشہ رہتا ہے کہ شیطان اس پر حملہ کر کے اس کے متاعِ ایمان کو چھین نہ لے جاوے.اسی لیے بہت بڑی ضرورت اس امر کی ہے کہ مضبوطی کے ساتھ اپنے قدم کو رکھا جاوے اور ہر طرح سے شیطانی حملوں سے احتیاط کی جاوے.جو شخص ان تینوں ہتھیاروں سے اپنے آپ کو مسلح نہیں کرتا ہے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ کسی اتفاقی حملے سے نقصان اٹھاوے.دفع شر کے بعد کسب خیر اصل مقصد ہے لیکن یہ بات یاد رکھو کہ کتابوں میں جب لکھا جاتا ہے کہ بدیاں چھوڑ دو اورنیکیاں کرو تو بعض آدمی اتنا ہی سمجھ لیتے ہیں کہ نیکیوں کا کمال اسی قدر ہے کہ جو مشہور بدیاں ہیں مثلاً چوری، زنا، غیبت، بد دیانتی، بد نظری وغیرہ.موٹی موٹی بدیوں سے بچتے ہیں تو اپنے آپ کو سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم نے نیکی کے تمام مدارج حاصل کر لیے ہیں اور ہم بھی کچھ ہوگئے ہیں.حالانکہ اگر غور کر کے دیکھا جاوے تو یہ کچھ بھی چیز نہیں ہے.بہت سے لوگ ایسے ہیں جو چوری نہیں کرتے ہیں.بہت سے ایسے ہیں جو ڈاکے نہیں مارتے یا خون نہیں کرتے یا بد نظری یا بد کاری کی بد عادتوں میں مبتلا نہیں ہیں.زیادہ

Page 61

سے زیادہ اسے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ترکِ شر کیا ہے خواہ وہ عدمِ قدرت ہی کی وجہ سے ہو.قرآن شریف صرف اتنا ہی نہیں چاہتا کہ انسان ترکِ شر کر کے سمجھ لے کہ بس اب میں صاحب کمال ہوگیا، بلکہ وہ تو انسان کو اعلیٰ درجہ کے کمالات اور اخلاق فاضلہ سے متصف کرنا چاہتا ہے.اور اس سے ایسے اعمال و افعال سر زد ہوں جو بنی نوع کی بھلائی اور ہمدردی پر مشتمل ہوں اور ان کا نتیجہ یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاوے.میں اس بات کو بار بار کہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی اپنی ترقی اور کمال روحانی کی یہی انتہا نہ سمجھ لے کہ میں نے ترکِ بدی کی ہے.صرف ترکِ بدی نیکی کے کامل مفہوم اور منشا کو اپنے اندر نہیں رکھتی.بار بار ایسا تصور کرنا کہ میں نے خون نہیں کیا خوبی کی بات نہیں کیونکہ خون کرنا ہر ایک شخص کا کام نہیں ہے.یا یہ کہنا کہ زنا نہیں کیا کیونکہ زنا کرنا تو کنجروں کا کام ہے نہ کہ کسی شریف انسان کا.ایسی بدیوں سے پرہیز زیادہ سے زیادہ انسان کو بد معاشوں کے طبقے سے خارج کر دے گا اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۱.مگر وہ جماعت (جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں کیا ہے کہ انہوں نے ایسے اعمال صالحہ کیے کہ خدا تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا اور وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہوگئے) صرف ترکِ بدی ہی سے نہ بنی تھی.انہوں نے اپنی زندگیوں کو خدا کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہیچ سمجھا.خدا کی مخلوق کو نفع پہنچانے کے واسطے اپنے آرام وآسائش کو ترک کر دیا تب جاکر وہ ان مدارج اور مراتب پر پہنچے کہ آواز آگئی رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ(البینۃ:۹).مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت مسلمانوں کی یہ حالت ہو رہی ہے کہ کسب خیر تو بڑی بات ہے اور وہی اصل مقصد ہے، لیکن وہ تو ترک بدی میں بھی سست نظر آتے ہیں اور ان کاموں کا تو ذکر ہی کیا ہے جو صلحاء کے کام ہیں.پس تمہیں چاہیے کہ تم ایک ہی بات اپنے لیے کافی نہ سمجھ لو.ہاں اول بدیوں سے پرہیز کرو

Page 62

اور پھر ان کی بجائے نیکیوں کے حاصل کرنے کے واسطے سعی اور مجاہدہ سے کام لو.اور پھر خدا تعالیٰ کی توفیق اور اس کا فضل دعا سے مانگو.جب تک انسان ان دونوں صفات سے متصف نہیں ہوتا یعنی بدیاں چھوڑ کر نیکیاں حاصل نہیں کرتا.وہ اس وقت تک مومن نہیں کہلا سکتا.مومن کامل ہی کی تعریف میں تو اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ فرمایا گیا ہے.اب غور کرو کہ کیا اتنا ہی انعام تھا کہ وہ چوری چکاری رہزنی نہیں کرتے تھے یا اس سے کچھ بڑھ کر مراد ہے؟ نہیں.اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں تو وہ اعلیٰ درجہ کے انعامات رکھے گئے ہیں جو مخاطبہ اور مکالمہ الٰہیہ کہلاتے ہیں.۱ اگر اسی قدر مقصود ہوتا جو بعض لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ موٹی موٹی بدیوں سے پرہیز کرنا ہی کمال ہے تو اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا تعلیم نہ ہوتی جس کا انتہائی اور آخری مرتبہ اور مقام خدا تعالیٰ کے ساتھ مکالمہ اور مخاطبہ ہے.انبیاء علیہم السلام کا اتنا ہی تو کمال نہ تھا کہ وہ چوری چکاری نہ کیا کرتے تھے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت، صدق، وفا میں اپنا نظیر نہ رکھتے تھے.پس اس دعا کی تعلیم سے یہ سکھایا کہ نیکی اور انعام ایک الگ شے ہے.جب تک انسان اسے حاصل نہیں کرتا اس وقت تک وہ نیک اور صالح نہیں کہلا سکتا اور منعم علیہ کے زمرہ میں نہیں آتا.اس سے آگے فرمایا غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّآلِّيْنَ (الفاتـحۃ:۷) اس مطلب کو قرآن شریف نے دوسرے مقام پر یوں فرمایا ہے کہ مومن کے نفس کی تکمیل دو شربتوں کے پینے سے ہوتی ہے ایک شربت کا نام کافوری ہے اور دوسرے کا نام زنجبیلی ہے.کافوری شربت تو یہ ہے کہ اس کے پینے سے نفس بالکل ٹھنڈا ہو جاوے اور بدیوں کے لیے کسی قسم کی حرارت اس میں محسوس نہ ہو.جس طرح پر کافور میں یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ زہریلے

Page 63

مواد کو دبا دیتا ہے اسی لیے اسے کافور کہتے ہیں.اسی طرح پر یہ کافوری شربت گناہ اور بدی کی زہر کو دبا دیتا ہے اور وہ مواد ردیہ جو اٹھ کر انسان کی روح کو ہلاک کرتے ہیں ان کو اٹھنے نہیں دیتا بلکہ بےاثر کر دیتا ہے.دوسرا شربت شربت زنجبیلی ہے جس کے ذریعہ سے انسان میں نیکیوں کےلیے ایک قوت اور طاقت آتی ہے اور پھر حرارت پیدا ہوتی ہے.پس اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتـحۃ:۷) تو اصل مقصد اور غرض ہے.یہ گویا زنجبیلی شربت اور غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّآلِّيْنَ (الفاتـحۃ:۷) کافوری شربت ہے.باریک اور مخفی بدیوں سے بچنے کی تلقین اب ایک اور مشکل ہے کہ انسان موٹی موٹی بدیوںکو تو آسانی سے چھوڑ بھی دیتا ہے لیکن بعض بدیاں ایسی باریک اور مخفی ہوتی ہیں کہ اول تو انسان مشکل سے انہیں معلوم کرتا ہے اور پھر ان کا چھوڑنا اسے بہت ہی مشکل ہوتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ محرقہ بھی گو سخت تپ ہے مگر اس کا علاج کھلا کھلا ہو سکتا ہے لیکن تپ دق جو اندر ہی کھا رہا ہے اس کا علاج بہت ہی مشکل ہے.اسی طرح پر یہ باریک اور مخفی بدیاں ہوتی ہیں جو انسان کو فضائل کے حاصل کرنے سے روکتی ہیں.یہ اخلاقی بدیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ اور معاملات میں پیش آتی ہیں اور ذرا ذرا سی بات اور اختلافِ رائے پر دلوں میں بُغض، کینہ، حسد، ریا، تکبر پیدا ہو جاتا ہے اور اپنے بھائی کو حقیر سمجھنے لگتا ہے.چند روز اگر نماز سنوار کر پڑھی ہے اور لوگوں نے تعریف کی تو ریا اور نمود پیدا ہوگیا اور وہ اصل غرض جو اخلاص تھی جاتی رہی.اور اگر خدا تعالیٰ نے دولت دی ہے یا علم دیا ہے یا کوئی خاندانی وجاہت حاصل ہے تو اس کی وجہ سے اپنے دوسرے بھائی کو جس کو یہ باتیں نہیں ملی ہیں حقیر اور ذلیل سمجھتا ہے.اور اپنے بھائی کی عیب چینی کے لیے حریص ہوتا ہے اور تکبر مختلف رنگوں میں ہوتا ہے.کسی میں کسی رنگ میں اور کسی میں کسی طرح سے.علماء علم کے رنگ میں اسے ظاہر کرتے ہیں اور علمی طور پر نکتہ چینی کر کے اپنے بھائی کو گرانا چاہتے ہیں.غرض کسی نہ کسی

Page 64

طرح عیب چینی کر کے اپنے بھائی کو ذلیل کرنا اور نقصان پہنچانا چاہتے ہیں.رات دن اس کے عیبوں کی تلاش میں رہتے ہیں.اس قسم کی باریک بدیاں ہوتی ہیں جن کا دور کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور شریعت ان باتوں کو جائز نہیں رکھتی ہے.ان بدیوں میں عوام ہی مبتلا نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ جو متعارف اور موٹی موٹی بدیاں نہیں کرتے ہیں اور خواص سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اکثر مبتلا ہو جاتے ہیں.ان سے خلاصی پانا اور مرنا ایک ہی بات ہے.اور جب تک ان بدیوں سے نجات حاصل نہ کر لے تزکیہ نفس کامل طور پر نہیںہوتا.اور انسان ان کمالات اور انعامات کا وارث نہیں بنتا جو تزکیہ نفس کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں.بعض لوگ اپنی جگہ سمجھ لیتےہیںکہ ان اخلاقی بدیوں سے ہم نے خلاصی پالی ہے، لیکن جب کبھی موقع آ پڑتا ہے اور کسی سفیہ سے مقابلہ ہو جاوے تو انہیں بڑا جوش آتا ہے اور پھر وہ گند ان سے ظاہر ہوتا ہے جس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا.اس وقت پتہ لگتا ہے کہ ابھی کچھ بھی حاصل نہیں کیا اور وہ تزکیہ نفس جو کامل کرتا ہے میسر نہیں.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تزکیہ جس کو اخلاقی تزکیہ کہتے ہیں بہت ہی مشکل ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا.اس فضل کے جذب کرنے کے لیے بھی وہی تین پہلو ہیں.اوّل مجاہدہ اور تدبیر.دوم دعا.سوم صحبت صادقین.یہ فضل الٰہی انبیاء علیہم السلام پر بدرجہ کمال ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اوّل ان کا تزکیہ اخلاقی کامل طور پر خود کر دیتا ہے.ان میں بد اخلاقیوں اور رذائل کی آلائش رہ ہی نہیں جاتی.ان کی حالت تو یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ سلطنت پاکر بھی وہ فقیر ہی رہتے ہیں اور کسی قسم کا کبر ان کے پاس نہیں آتا.خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر تزکیہ نفس حاصل نہیں ہوتا درحقیقت یہ گند جو نفس کے جذبات کا ہے اور بد اخلاقی، کبر، ریا وغیرہ صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اس پر موت نہیں آتی جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو.اور یہ موادِ ردیہ جل نہیں سکتے جب تک معرفت کی آگ ان کو نہ جلائے.جس میں یہ معرفت کی آگ پیدا ہو جاتی ہے وہ ان اخلاقی کمزوریوں سے پاک ہونے لگتا ہے اور بڑا ہو کر بھی اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا

Page 65

ہے اور اپنی ہستی کو کچھ حقیقت نہیں پاتا.وہ اس نور اور روشنی کو جو انوارِ معرفت سے اسے ملتی ہے اپنی کسی قابلیت اور خوبی کا نتیجہ نہیں مانتا اور نہ اسے اپنے نفس کی طرف منسوب کرتا ہے بلکہ وہ اسے خدا تعالیٰ ہی کا فضل اور رحم یقین کرتا ہے جیسے ایک دیوار پر آفتاب کی روشنی اور دھوپ پڑ کر اسے منور کر دیتی ہے لیکن دیوار اپنا کوئی فخر نہیں کر سکتی کہ یہ روشنی میری قابلیت کی وجہ سے ہے.یہ ایک دوسری بات ہے کہ جس قدر وہ دیوار صاف ہوگی اسی قدر روشنی زیادہ صاف ہوگی، لیکن کسی حال میں دیوار کی ذاتی قابلیت اس روشنی کے لیے کوئی نہیں بلکہ اس کا فخر آفتاب کو ہے اور ایسا ہی وہ آفتاب کو یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ تو اس روشنی کو اٹھا لے.اسی طرح پر انبیاء علیہم السلام کے نفوس صافیہ ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فیضان اور فیوض سے معرفت کے انوار ان پر پڑتے ہیں اور ان کو روشن کر دیتے ہیں اسی لیے وہ ذاتی طور پر کوئی دعویٰ نہیں کرتے بلکہ ہر ایک فیض کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں اور یہی سچ بھی ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اعمال سے داخل جنت ہوں گے تو یہی فرمایا کہ ہرگز نہیں.۱ خدا تعالیٰ کے فضل سے.انبیاء علیہم السلام کبھی کسی قوت اور طاقت کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتے وہ خدا ہی سے پاتے ہیں اور اسی کا نام لیتے ہیں.ہاں ایسے لوگ ہیں جو انبیاء علیہم السلام سے حالانکہ کروڑوں حصہ نیچے کے درجہ میںہوتے ہیں جو دو دن نماز پڑھ کر تکبر کرنے لگتے ہیں اور ایسا ہی روزہ اور حج سے بجائے تزکیہ کے ان میں تکبر اور نمود پیدا ہوتی ہے.۲ یاد رکھو تکبر شیطان سے آیا ہے اور شیطان بنا دیتا ہے.جب تک انسان اس سے دور نہ ہو یہ قبولِ حق اور فیضانِ الوہیت کی راہ میں روک ہوجاتا ہے کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہیے نہ علم کے لحاظ سے نہ دولت کے لحاظ سے نہ وجاہت کے لحاظ سے نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے.کیونکہ زیادہ تر انہی باتوں سے یہ تکبر پیدا ہوتا ہے اور جب تک انسان ان گھمنڈوں سے اپنے آپ کو پاک صاف نہ کرے گا.اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ نہیں ہو سکتا اور وہ معرفت جو جذبات کےمواد ردیہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی، کیونکہ یہ شیطان کا حصہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا.شیطان نے بھی تکبر کیا تھا اور آدم سے اپنے آپ کو

Page 66

بہتر سمجھا اور کہہ دیا اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ(الاعراف:۱۳) اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کے حضور سے مردود ہوگیا اور آدم لغزش پر (چونکہ اسے معرفت دی گئی تھی) اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے لگا.اور خدا تعالیٰ کے فضل کا وارث ہوا.وہ جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا اس لیے دعا کی رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ(الاعراف:۲۴) یہی وہ سِر ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کہا گیا کہ اے نیک استاد! تو انہوں نے کہا کہ تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے.اس پر آجکل کے نادان عیسائی تو یہ کہتے ہیںکہ ان کا مطلب اس فقرہ سے یہ تھا کہ تو مجھے خدا کیوں نہیں کہتا.حالانکہ حضرت مسیح نے بہت ہی لطیف بات کہی تھی جو انبیاء علیہم السلام کی فطرت کا خاصہ ہے.وہ جانتے تھے کہ حقیقی نیکی تو خدا تعالیٰ ہی سے آتی ہے وہی اس کا چشمہ ہے اور وہیں سے وہ اترتی ہے.وہ جس کو چاہے عطا کرے اور جب چاہے سلب کر لے.مگر ان نادانوں نے ایک عمدہ اور قابل قدر بات کو معیوب بنا دیا اور حضرت عیسیٰ کو متکبر ثابت کیا!!! حالانکہ وہ ایک منکسر المزاج انسان تھے.پاک ہونے کا طریق پس میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اورممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبر اور فخر نہ کرے.نہ علمی، نہ خاندانی، نہ مالی.جب خدا تعالیٰ کسی کو آنکھ عطا کرتا ہے تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ ہر ایک روشنی جو ان ظلمتوں سے نجات دے سکتی ہے وہ آسمان سے ہی آتی ہے اور انسان ہر وقت آسمانی روشنی کا محتاج ہے.آنکھ بھی دیکھ نہیں سکتی جب تک سورج کی روشنی جو آسمان سے آتی ہے نہ آئے.اسی طرح باطنی روشنی جو ہر ایک قسم کی ظلمت کو دور کرتی ہے اور اس کی بجائے تقویٰ اور طہارت کا نور پیدا کرتی ہے آسمان ہی سے آتی ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ، ایمان، عبادت،

Page 67

طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے.اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دور کر دے.پس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لا شے محض سمجھے اور آستانہ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے.اور اس نور معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیتا ہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لیے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے.پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبر اورناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اور بھی ترقی ہو.کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشے سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے.اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی.دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اسے حقیر سمجھتا ہے.جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض میں یہ سب باتیں بار بار اس لیے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بناناچاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گم ہوچکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی اسے دوبارہ قائم کرے.عام طور پر تکبر کا لفظ دنیا میں پھیلا ہوا ہے.علماء اپنے علم کی شیخی اور تکبر میں گرفتار ہیں.فقراء کو دیکھو تو ان کی بھی حالت اور ہی قسم کی ہو رہی ہے.ان کو اصلاح نفس سے کوئی کام ہی نہیں رہا.ان کی غرض و غایت صرف جسم تک محدود ہے.اس لیے ان کےمجاہدہ اور ریاضتیں بھی کچھ اور ہی قسم کی ہیں جیسے ذکر اَرّہ وغیرہ.جن کا چشمہ نبوت سے پتہ نہیں چلتا.میں دیکھتا ہوں کہ دل کو پاک کرنے کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں صرف جسم ہی جسم باقی رہا ہوا ہے.جس میں روحانیت کا کوئی نام و نشان نہیں.یہ مجاہدے دل کو پاک نہیں کر سکتے اور نہ کوئی حقیقی نور معرفت کا بخش سکتے ہیں.پس یہ زمانہ

Page 68

اب بالکل خالی ہے.نبوی طریق جو پاک ہونے کا تھا وہ بالکل ترک کر دیا گیا ہے اور اس کو بھلا دیا ہے.اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ عہد نبوت پھر آجاوے اور تقویٰ و طہارت پھر قائم ہو.اور اس کو اس نے اس جماعت کے ذریعہ سے چاہا ہے.پس فرض ہے کہ حقیقی اصلاح کی طرف تم توجہ کرو اسی طرح پر جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح کا طریق بتایا ہے.حقو ق اللہ اور حقوق العباد شریعت کے دو ہی بڑے حصے اور پہلو ہیں جن کی حفاظت انسان کو ضروری ہے.ایک حق اللہ، دوسرے حق العباد.حق اللہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کی اطاعت، عبادت، توحید، ذات اور صفات میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ کرنا.اور حق العباد یہ ہے کہ اپنے بھائیوں سے تکبر، خیانت اور ظلم کسی نوع کا نہ کیا جاوے.گویا اخلاقی حصہ میں کسی قسم کا فتور نہ ہو.سننے میں تو یہ دو ہی فقرے ہیں.لیکن عمل کرنے میں بہت ہی مشکل ہیں.اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل انسان پر ہو تو وہ ان دونوں پہلوؤں پر قائم ہو سکتا ہے.کسی میں قوتِ غضبی بڑھی ہوئی ہوتی ہے جب وہ جوش مارتی ہے تو نہ اس کا دل پاک رہ سکتا ہے اور نہ زبان.وہ دل سے اپنے بھائی کے خلاف ناپاک منصوبے کرتا ہے اور زبان سے گالی دیتا ہے.اور پھر کینہ پیدا کرتا ہے.کسی میں قوتِ شہوت غالب ہوتی ہے اور وہ اس میں گرفتار ہو کر حدود اللہ کو توڑتا ہے.غرض جب تک انسان کی اخلاقی حالت بالکل درست نہ ہو وہ کامل ایمان جو منعم علیہ گروہ میں داخل کرتا ہے اور جس کے ذریعہ سچی معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے داخل نہیں ہوسکتا.پس دن رات یہی کوشش ہونی چاہیے کہ بعد اس کےجو انسان سچا موحد ہو اپنے اخلاق کو درست کرے.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت اخلاقی حالت بہت ہی گری ہوئی ہے.اکثر لوگوں میں بد ظنی کا مرض بڑھا ہوا ہوتا ہے.وہ اپنے بھائی سے نیک ظنی نہیں رکھتے اور ادنیٰ ادنیٰ سی بات پر اپنے دوسرے بھائی کی نسبت

Page 69

بُرے بُرے خیالات کرنے لگتے ہیں اور ایسے عیوب اس کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہی عیب اس کی طرف منسوب ہوں تو اس کو سخت ناگوار معلوم ہو.اس لیے اوّل ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پر بد ظنی نہ کی جاوے اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے، کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور انس پیدا ہوتا ہے اور آپس میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کے باعث انسان بعض دوسرے عیوب مثلاً کینہ، بُغض، حسد وغیرہ سے بچا رہتا ہے.پھر میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھائیوں کے لیے کچھ بھی ہمدردی نہیں.اگر ایک بھائی بھوکا مرتا ہو تو دوسرا توجہ نہیں کرتا اور اس کی خبر گیری کےلیے یہ تیار نہیں ہوتا.یا اگر وہ کسی اور قسم کی مشکلات میں ہے تو نہیں کرتے کہ اس کے لیے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں.حدیث شریف میں ہمسایہ کی خبر گیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیا ہے بلکہ یہاں تک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکاؤ تو شوربا زیادہ کر لو تاکہ اسے بھی دے سکو.اب کیا ہوتاہے اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں، لیکن اس کی کچھ پروا نہیں.یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا ہی مطلب ہے جو گھر کے پاس رہتا ہو.بلکہ جو تمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر بھی ہوں.اخلاق ہی ساری ترقیات کا زینہ ہے ہر شخص کو ہر روز اپنا مطالعہ کرنا چاہیے کہ وہ کہاں تک ان امور کی پروا کرتا ہے اور کہاں تک وہ اپنے بھائیوں سے ہمدردی اور سلوک کرتا ہے.اس کا بڑا بھاری مطالبہ انسان کے ذمہ ہے.حدیث صحیح میں آیا ہے کہ قیامت کے روز خدا تعالیٰ کہے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا.میں پیاسا تھا اور تو نے مجھے پانی نہ دیا.میں بیمار تھا تم نے میری عیادت نہ کی.جن لوگوں سے یہ سوال ہوگا وہ کہیںگے کہ اے ہمارے رب! تو کب بھوکا تھا جو ہم نے کھانا نہ دیا.تو کب پیاسا تھا جو پانی نہ دیا اور کب بیمار تھا جو تیری عیادت نہ کی؟ پھر خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ جو ہے وہ ان باتوں کا محتاج تھا مگر تم نے اس کی کوئی ہمدردی نہ کی.اس کی ہمدردی میری ہی ہمدردی تھی.ایسا ہی ایک اور جماعت کو کہے گا کہ شاباش! تم نے میری ہمدردی کی.میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا.

Page 70

میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا وغیرہ.وہ جماعت عرض کرے گی کہ اے ہمارے خدا! ہم نے کب تیرے ساتھ ایسا کیا؟ تب اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ میرے فلاں بندہ کےساتھ جو تم نے ہمدردی کی وہ میری ہی ہمدردی تھی.دراصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خدا تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ اس سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے.عام طور پر دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم کسی اس کے دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اس کی خبر بھی نہ لے تو کیا وہ آقا جس کا کہ وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہوگا؟ کبھی نہیں.حالانکہ اس کو تو کوئی تکلیف اس نے نہیںدی، مگر نہیں اس نوکر کی خدمت اور اس کے ساتھ حسن سلوک گویا مالک کے ساتھ حسن سلوک ہے.خدا تعالیٰ کو بھی اس طرح پر اس بات کی چڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سر د مہری برتے.کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے.پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے.غرض اخلاق ہی ساری ترقیات کا زینہ ہے.میری دانست میں یہی پہلو حقوق العباد کا ہے جو حقوق اللہ کے پہلو کو تقویت دیتا ہے.جو شخص نوعِ انسان کے ساتھ اخلاق سے پیش آتا ہے.خدا تعالیٰ اس کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا.جب انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک کام کرتا ہے اور اپنے ضعیف بھائی کی ہمدردی کرتا ہے تو اس اخلاص سے اس کا ایمان قوی ہوجاتا ہے مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نمائش اور نمود کے لیے جو اخلاق برتے جائیں وہ اخلاق خدا کے لیے نہیں ہوتے اور ان میں اخلاص کے نہ ہونے کی وجہ سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا.اس طرح پر تو بہت سے لوگ سرائیں وغیرہ بنا دیتے ہیں ان کی اصل غرض شہرت ہوتی ہے.اور اگر انسان خدا تعالیٰ کے لیے کوئی فعل کرے تو خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ اسے ضائع نہیں کرتا اور اس کا بدلہ دیتا ہے.میں نے تذکرۃ الاولیاء میں پڑھا ہے کہ ایک ولی اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بارش ہوئی اور کئی روز تک رہی.ان بارش کے دنوں میں میں نے دیکھا کہ ایک اَسی برس کا بوڑھا گبر ہے جو کوٹھے پر چڑیوں کے لیے دانے ڈال رہا ہے.میں نے اس خیال سے کہ کافر کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں اس سے کہا

Page 71

کہ کیا تیرے اس عمل سے تجھے کچھ ثواب ہوگا؟ اس گبر نے جواب دیا کہ ہاں ضرور ہوگا.پھر وہی ولی اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جو میں حج کو گیا تو دیکھا کہ وہی گبر طواف کر رہا ہے.اس گبر نے مجھے پہچان لیا اور کہا کہ دیکھو ان دانوں کا مجھے ثواب مل گیا یا نہیں؟ یعنی وہی دانے میرے اسلام تک لانے کا موجب ہوگئے.حدیث میں بھی ایک صحابی کا ذکر آیا ہے کہ ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایامِ جاہلیت میں میں نے بہت خرچ کیا تھا.کیا اس کا ثواب بھی مجھے ہوگا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جواب دیا کہ یہ اسی صدقہ و خیرات کا ثمرہ تو ہے کہ تو مسلمان ہوگیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کے ادنیٰ فعلِ اخلاص کوبھی ضائع نہیں کرتا.اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مخلوق کی ہمدردی اور خبر گیری حقوق اللہ کی حفاظت کا باعث ہوجاتی ہے.پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے کہ اگر انسان اسے چھوڑ دے اور اس سے دور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہوجاتا ہے.انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے جب تک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروت، سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے جیسا کہ سعدی نے کہا ہے.ع بنی آدم اعضائے یک دیگراند یاد رکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے.میں آج کل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرو.نہیں میں کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو.خواہ وہ کوئی ہو، ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اور.میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں.ان میں بعض اس قسم کے خیالات بھی رکھتے ہیں کہ اگر ایک شیرے کے مٹکے میں ہاتھ ڈالا جاوے اور پھر اس کو تلوں میں ڈال کر تِل لگائے جاویں تو جس قدر تل اس کو لگ جاویں اس قدر دھوکہ اور فریب دوسرے لوگوں کو دے سکتے ہیں.ان کی ایسی بیہودہ اور خیالی باتوں

Page 72

نے بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے اور ان کو قریباً وحشی اور درندہ بنا دیا ہے.مگر میں تمہیں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہرگز ہرگز اپنی ہمدردی کے دائرہ کو محدود نہ کرو.اور ہمدردی کے لیے اس تعلیم کی پیروی کرو جو اللہ تعالیٰ نے دی ہے یعنی اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى (النحل:۹۱) یعنی اول نیکی کرنے میں تم عدل کو ملحوظ رکھو.جو شخص تم سے نیکی کرے تم بھی اس کے ساتھ نیکی کرو.اور پھر دوسرا درجہ یہ ہے کہ تم اس سے بھی بڑھ کر اس سے سلوک کرو.یہ احسان ہے.احسان کا درجہ اگرچہ عدل سے بڑھا ہوا ہے اور یہ بڑی بھاری نیکی ہے لیکن کبھی نہ کبھی ممکن ہے احسان والا اپنا احسان جتلاوے.مگر ان سب سے بڑھ کر ایک درجہ ہے کہ انسان ایسے طور پر نیکی کرے جو محبت ذاتی کے رنگ میں ہو جس میں احسان نمائی کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے جیسے ماں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے وہ اس پرورش میں کسی اجر اور صلے کی خواستگار نہیں ہوتی بلکہ ایک طبعی جوش ہوتا ہے جو بچے کے لیے اپنے سارے سکھ اور آرام قربان کر دیتی ہے.یہاں تک کہ اگر کوئی بادشاہ کسی ماں کو حکم دے دے کہ تو اپنے بچہ کو دودھ مت پلا اور اگر ایسا کرنے سے بچہ ضائع بھی ہو جاوے تو اس کو کوئی سزا نہیں ہوگی تو کیا ماں ایسا حکم سن کر خوش ہوگی؟ اور اس کی تعمیل کرے گی؟ ہرگز نہیں.بلکہ وہ تو اپنے دل میں ایسے بادشاہ کو کوسے گی کہ کیوں اس نے ایسا حکم دیا.پس اس طریق پر نیکی ہو کہ اسے طبعی مرتبہ تک پہنچایا جاوے.کیونکہ جب کوئی شے ترقی کرتے کرتے اپنے طبعی کمال تک پہنچ جاتی ہے اس وقت وہ کامل ہوتی ہے.۱ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے.اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتا مگر اللہ تعالیٰ کی شان اس سے پاک ہے.(سُـبْحَانَہٗ تَعَالٰی شَانُہٗ).آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحم مجسّم تھے بعض لوگ جن کو حق کے ساتھ دشمنی ہوتی ہے.جب ایسی تعلیم سنتے ہیں تو اور کچھ نہیں تو یہی اعتراض کر دیتے ہیں کہ اسلام میں ہمدردی اگر ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑائیاں

Page 73

کیوں کی تھیں؟ وہ نادان اتنا نہیں جانتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جنگ کئے وہ تیرہ برس تک خطرناک دکھ اٹھانے کے بعد کئے اور وہ بھی مدافعت کے طور پر.تیرہ برس تک ان کے ہاتھوں سے آپ تکالیف اٹھاتے رہے.مسلمان مرد اور عورتیں شہید کی گئیں.آخر جب آپ مدینہ تشریف لے گئے اور وہاں بھی ان ظالموں نے پیچھا نہ چھوڑا تو خدا تعالیٰ نے مظلوم قوم کو مقابلہ کا حکم دیا اور وہ بھی اس لیے کہ شریروں کی شرارت سے مخلوق کو بچایا جائے اور ایک حق پرست قوم کے لیے راہ کھل جاوے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کے لیے بدی نہیں چاہی.آپ تو رحم مجسّم تھے.اگر بدی چاہتے تو جب آپ نے پورا تسلّط حاصل کر لیا تھا اور شوکت اور غلبہ آپ کو مل گیا تھا تو آپ ان تمام ائمۃ الکفر کو جو ہمیشہ آپ کو دکھ دیتے رہتے تھے قتل کروا دیتے اور اس میں انصاف اور عقل کی رو سے آپ کا پلہ بالکل پاک تھا.مگر باوجود اس کے کہ عرف عام کے لحاظ سے اور عقل و انصاف کے لحاظ سے آپ کو حق تھا کہ ان لوگوں کو قتل کروا دیتے مگر نہیں، آپؐنے سب کو چھوڑ دیا.آج کل جو لوگ غدر کرتے ہیں اور باغی ہوتے ہیں انہیں کون پناہ دے سکتا ہے.جب ہندوستان میں غدر ہوگیا تھا اور اس کے بعد انگریزوں نے تسلّط عام حاصل کر لیا تو تمام شریر باغی ہلاک کر دیئے گئے اور ان کی یہ سزا بالکل انصاف پر مبنی تھی.باغی کے لیے کسی قانون میں رہائی نہیں.لیکن یہ آپؐہی کا حوصلہ تھا کہ اس دن آپ نے فرمایا کہ جاؤ تم سب کو بخش دیا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نوع انسان سے بہت بڑی ہمدردی تھی ایسی ہمدردی کہ اس کی نظیر دنیا میں نہیں مل سکتی.اس کے بعد بھی اگر کہا جاوے کہ اسلام دوسروں سے ہمدردی کی تعلیم نہیں دیتا تو اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا؟ یقیناً یاد رکھو کہ مومن متقی کے دل میں شر نہیں ہوتا.جس جس قدر انسان متقی ہوتا جاتا ہے اسی قدر وہ کسی کی نسبت سزا اور ایذا کو پسند نہیں کرتا.مسلمان کبھی کینہ ور نہیں ہو

Page 74

سکتا.ہم خود دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے کوئی دکھ اور تکلیف جو وہ پہنچا سکتے تھے انہوں نے پہنچایا ہے لیکن پھر بھی ان کی ہزاروں خطائیں بخشنے کو اب بھی تیار ہیں.جماعت کو خاص نصیحت پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو، ہمدردی کرو اور بلا تمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے وَ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًا(الدھر:۹) وہ اسیر اور قیدی جو آتے تھے اکثر کفار ہی ہوتے تھے اب دیکھ لو کہ اسلام کی ہمدردی کی انتہا کیا ہے.میری رائے میں کامل اخلاقی تعلیم بجز اسلام کے اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہوئی.مجھے صحت ہو جاوے تو میں اخلاقی تعلیم پر ایک مستقل رسالہ لکھوں گا کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جو کچھ میرا منشا ہے وہ ظاہر ہو جاوے اور وہ میری جماعت کے لیے ایک کامل تعلیم ہو اور اِبْتِغَاءُ مَرْضَاتِ اللہِ کی راہیں اس میں دکھائی جائیں.مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں آئے دن یہ دیکھتا اور سنتا ہوں کہ کسی سے یہ سرزد ہوا اور کسی سے وہ.میری طبیعت ان باتوں سے خوش نہیں ہوتی.میں جماعت کو ابھی اس بچہ کی طرح پاتا ہوں جو دو قدم اٹھاتا ہے تو چار قدم گرتا ہے لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کو کامل کر دے گا.اس لیے تم بھی کوشش، تدبیر، مجاہدہ اوردعاؤں میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے کیونکہ اس کے فضل کے بغیر کچھ بنتا ہی نہیں.جب اس کا فضل ہوتا ہے تو وہ ساری راہیں کھول دیتا ہے.۱ ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۴ء تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو کہ آپ نے بعد از نماز جمعہ مسجد اقصیٰ میں فرمائی چونکہ خاکسار ایڈیٹر کچھ دیر سے پہنچا تھا اس لیے جس قدر ضبط ہو سکا وہ ہدیہ ناظرین ہے.سلسلہ تقریر سے

Page 75

ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انقطاع دنیا اور حصول قرب الی اللہ کے متعلق مضمون تھا اور وہ تقریر یہ ہے.اللہ تعالیٰ کو اپنا نصب العین بنائیں انسان کو چاہیے کہ حسنات کا پلڑا بھاری رکھے.مگر جہاں تک دیکھا جاتا ہے اس کی مصروفیت اس قدر دنیا میں ہےکہ یہ پلڑا بھاری ہوتا نظر نہیں آتا.رات دن اسی فکر میں ہے کہ وہ کام دنیا کا ہو جاوے.فلانی زمین مل جاوے.فلاں مکان بن جاوے.حالانکہ اسے چاہیے کہ افکار میں بھی دین کا پلڑا دنیا کے پلڑے سے بھاری رکھے.اگر کوئی شخص رات دن نماز روزہ میں مصروف ہے تو یہ بھی اس کے کام ہرگز نہیں آسکتا.جب تک کہ خدا کو اس نے مقدم نہیں رکھا ہوا.ہر بات اور فعل میں اللہ تعالیٰ کو نصب العین بنانا چاہیے ورنہ خدا کی قبولیت کے لائق ہرگز نہ ٹھہرے گا.دنیا کا ایک بت ہوتا ہے جو کہ ہر وقت انسان کی بغل میں ہوتا ہے.اگر وہ مقابلہ اور موازنہ کرکے دیکھے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ طرح طرح کی نمائش اس نے دنیا کے لیے ہی بنا رکھی ہے اور دین کا پہلو بہت کمزور ہے.حالانکہ عمر کا اعتبار نہیں اور نہ علم ہے کہ اس نے اس پل کے بعد زندہ بھی رہنا ہے کہ نہیں.شیخ سعدیؒ نے کیا عمدہ فرمایا ہے.ع مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار اس وقت جس قدر لوگ کھڑے ہیں کون کہہ سکتا ہے کہ ایک سال تک ان میں سے میں ضرور زندہ رہوں گا لیکن اگر خدا کی طرف سے علم ہو جاوے کہ اب زندگی ختم ہے تو ابھی سب ارادے باطل ہو جاتے ہیں.پس خوب یاد رکھو کہ مومن کو دنیا کا بندہ نہ ہونا چاہیے.ہمیشہ اس امر میں کوشاں رہنا چاہیے کہ کوئی بھلائی اس کے ہاتھ سے ہوجاوے.خدا تعالیٰ بڑا رحیم کریم ہے اور اس کا ہرگز یہ منشا نہیں ہے کہ تم دکھ پاؤ.لیکن خوب یاد رکھو کہ جو اس سے عمداً دوری اختیار کرتا ہے اس پر اس کا قہر ضرور ہوتا ہے.عادت اللہ اسی طرح سے چلی آتی ہے.نوحؑکے زمانہ کو دیکھو، لوطؑکے زمانہ کو دیکھو، موسٰی کے زمانہ کو دیکھو اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو دیکھو کہ اس وقت جن لوگوں نے عمداً خدا

Page 76

سے بُعد اختیار کیا ان کا کیا حال ہوا.ان لمبی آرزوؤں نے انسان کو ہلاک کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ (التکاثر:۲،۳) کہ اے لوگو! جو تم خدا سے غافل ہو دنیا طلبی نےتمہیں غافل کر دیا ہے یہاں تک کہ تم قبروں میں داخل ہو جاتے ہو مگر غفلت سے باز نہیں آتے.كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ (التکاثر:۴) مگر اس غلطی کا تم کو عنقریب علم ہوجائے گا.ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ (التکاثر:۵) پھر تم کو اطلاع دی جاتی ہے کہ عنقریب تم کو علم ہو جاوے گا کہ جن خواہشات کے پیچھے تم پڑے ہو وہ ہرگز تمہارے کام نہ آویں گی اور حسرت کا موجب ہوں گی.كَلَّالَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْيَقِيْنِ(التکاثر:۶) اگر تم کو یقینی علم حاصل ہوجاوے تو تم علم کے ذریعہ سے سوچ کر اپنے جہنم کو دیکھ لو اور تم کو پتہ لگ جاوے کہ تمہاری زندگی جہنمی زندگی ہے اور جن خیالات میں تم رات دن لگے ہوئے ہو وہ بالکل ناکارہ ہیں.میں ہرچند کوشش کرتا ہوں کہ کسی طرح یہ باتیں لوگوں کے دل نشین ہو جاویں مگر آخرکار یہی کہنا پڑتا ہے کہ اپنے اختیار میں کچھ نہیں ہے جب تک خدا تعالیٰ خود ایک واعظ دل میں نہ پیداکرے تب تک فائدہ نہیں ہوتا.جب انسان کی سعادت اور ہدایت کے دن آتے ہیں تو دل کے اندر ایک واعظ خود پیدا ہو جاتا ہے.اور اس وقت اس کے دل کو ایسے کان مل جاتے ہیں کہ وہ دوسرے کی بات کو سنتا ہے.راتوں کو اور دنوں کو خوب سوچ کر دیکھو تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ انسان بہت ہی بے بنیاد شے ہے اور اس کے وجود کی کوئی کَل بھی اس کے ہاتھ میں نہیں ہے.ایک آنکھ ہی پر نظر کرو کہ کس قدر باریک عضو ہے اگر ایک ذرا پتھر آلگے تو فوراً نابینا ہو جاوے.پھر اگر یہ خدا کی نعمت نہیں ہے تو کیا ہے؟ کیا کسی نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے کہ خدا اسے ضرور بینا ہی رکھے گا؟ اور اسی پر سب قویٰ کا قیاس کرو کہ اگر آج کسی میں فرق آجاوے تو انسان کی کیا پیش چل سکتی ہے.غرضیکہ ہر آن اور پل میں اس کی طرف رجوع کی ضرورت ہے اور مومن کا گذارا تو ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس کا دھیان ہر وقت اس کی طرف لگا نہ رہے.اگر کوئی ان باتوں پر غور نہیں کرتا اور ایک دینی نظر سے ان کو وقعت نہیں دیتا تو وہ اپنے دنیوی معاملات پر ہی نظر ڈال کر دیکھے کہ کیا خدا کی تائید اور فضل کے سوا کوئی کام اس کا چل سکتا ہے؟ اور کوئی منفعت دنیا کی وہ

Page 77

حاصل کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.دین ہو یا دنیا ہر ایک امر میں اسے خدا کی ذات کی بڑی ضرورت ہے اور ہر وقت اس کی طرف احتیاج لگی ہوئی ہے جو اس کا منکر ہے سخت غلطی پر ہے.خدا تعالیٰ کو تو اس بات کی مطلق پرواہ نہیں ہے کہ تم اس کی طرف میلان رکھو یا نہ.وہ فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ(الفرقان:۷۸) اگر اس کی طرف رجوع رکھو گے تو تمہارا ہی اس میں فائدہ ہوگا.انسان جس قدر اپنے وجود کو مفید اور کار آمد ثابت کرے گا اسی قدر اس کے انعامات کو حاصل کرے گا.دیکھو! کوئی بیل کسی زمیندار کا کتنا ہی پیارا کیوں نہ ہو مگرجب وہ اس کے کسی کام بھی نہ آوے گا نہ گاڑی میں جتے گا نہ زراعت کرے گا نہ کنوئیں میں لگے گا تو آخر سوائے ذبح کے اور کسی کام نہ آوے گا.ایک نہ ایک دن مالک اسے قصاب کے حوالہ کر دے گا.ایسےہی جو انسان خدا کی راہ میں مفید ثابت نہ ہوگا تو خدا اس کی حفاظت کا ہرگز ذمہ دار نہ ہوگا.ایک پھل اور سایہ دار درخت کی طرح اپنے وجود کو بنانا چاہیے تاکہ مالک بھی خبر گیری کرتا رہے.لیکن اگر اس درخت کی مانند ہوگا کہ جو نہ پھل لاتا ہے اور نہ پتے رکھتا ہے کہ لوگ سایہ میں آ بیٹھیں تو سوائے اس کے کہ کاٹا جاوے اور آگ میں ڈالا جاوے اور کس کام آ سکتا ہے؟ خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ(الذّٰریٰت:۵۷) جو اس اصل غرض کو مد نظر نہیں رکھتا اور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خرید لوں.فلاں مکان بنا لوں.فلاں جائیداد پر قبضہ ہو جاوے.تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلا لے اور کیا سلوک کیا جاوے.خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کی تڑپ انسان کے دل میں خدا کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہیے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شے ہو جاوے گا.اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہا کا ہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پاکر وہ ہلاک ہو جاوے گا.خدا تعالیٰ

Page 78

مہلت اس لیے دیتا ہے کہ وہ حلیم ہے لیکن جو اس کے حلم سے خود ہی فائدہ نہ اٹھاوے تو اسے وہ کیا کرے.پس انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور تعلق بنائے رکھے.سب عبادتوں کا مرکز دل ہے.اگر عبادت تو بجا لاتا ہے مگر دل کا خدا کی طرف رجوع نہیں ہے تو عبادت کیا کام آوے گی؟ اس لیے دل کا رجوع تام اس کی طرف ہونا ضروری ہے.اب دیکھو کہ ہزاروں مساجد ہیں.مگر سوائے اس کے کہ اس میں رسمی عبادت ہو اور کیا ہے؟ ایسے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یہودیوں کی حالت تھی کہ رسم اور عادت کے طور پر عبادت کرتے تھے اور دل کا حقیقی میلان جو کہ عبادت کی روح ہے ہرگز نہ تھا اس لیے خدا تعالیٰ نے ان پر لعنت کی.پس اس وقت بھی جو لوگ پاکیزگی قلب کی فکر نہیں کرتے تو اگر رسم و عادت کے طور پر وہ سینکڑوں ٹکریں مارتے رہیں ان کو کچھ فائدہ نہ ہوگا.اعمال کے باغ کی سر سبزی پاکیزگی قلب سے ہوتی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا(الشّمس:۱۰،۱۱) کہ وہی بامراد ہوگا جو کہ اپنے قلب کو پاکیزہ کرتا ہے اور جو اسے پاک نہ کرے گا بلکہ خاک میں ملاوے گا یعنی سفلی خواہشات کا اسے مخزن بنا رکھے گا وہ نامراد رہے گا.اس بات سے ہمیں انکار نہیں ہے کہ خدا کی طرف آنے کے لیے ہزارہا روکیں ہیں.اگر یہ نہ ہوتیں تو آج صفحہ دنیا پر نہ کوئی ہندو ہوتا نہ عیسائی، سب کے سب مسلمان نظر آتے.لیکن ان روکوںکو دور کرنا بھی خدا کے فضل سے ہوتا ہے.وہی توفیق عطا کرے تو انسان نیک و بد میں تمیز کر سکتا ہے.اس لیے آخرکار بات پھر اسی پر آٹھہرتی ہے کہ انسان اسی کی طرف رجوع کرے تاکہ قوت اور طاقت دیوے.کوشش کی برکت دنیا میں جس قدر مشورے نفس پرستی اور شہوت پرستی وغیرہ کے ہوتے ہیں ان سب کا مأخذ نفسِ امّارہ ہی ہے لیکن اگر انسان کوشش کرے تو اسی امّارہ سے پھر وہ لوّامہ بن جاتا ہے.کیونکہ کوشش میں ایک برکت ہوتی ہے اور اس سے بھی بہت کچھ تغیرات ہوجاتے ہیں.پہلوانوں کو دیکھو کہ وہ ورزش اور محنت سے بدن کو کیا کچھ بنا لیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ محنت اور کوشش سے نفس کی اصلاح نہ ہو سکے.نفسِ امّارہ کی مثال آگ کی ہے جو کہ

Page 79

مشتعل ہو کر ایک جوش طبیعت میں پیدا کرتا ہے جس سے انسان حد اعتدال سےگذر جاتا ہے.لیکن جیسے پانی آگ سے گرم ہو کر آگ کی مثال تو ہوجاتا ہے اور جو کام آگ سے لیتے ہیں وہ اس سے بھی لے لیتے ہیں مگر جب اسی پانی کو آگ کے اوپر گرایا جاوے تو وہ اس آگ کو بجھا دیتا ہے کیونکہ ذاتی صفت اس کی آگ کو بجھانا ہے.وہ وہی رہے گی.ایسے ہی اگر انسان کی روح نفسِ امّارہ کی آگ سے خواہ کتنی ہی گرم کیوں نہ ہو مگر جب وہ نفس سے مقابلہ کرے گی اور اس کے اوپر گرے گی تو اسے مغلوب کر کے چھوڑے گی.بات صرف اتنی ہے کہ خدا کو ہر ایک بات پر قادرِ مطلق جانا جاوے اور کسی قسم کی بد ظنی اس پر نہ کی جاوے.جو بد ظنی کرتا ہے وہی کافر ہوتاہے.مومن کی صفات میں سے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو غایت درجہ قادر جانے.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بہت نیکیاں کرنے سے انسان ولی بنتا ہے.یہ نادانی ہے.مومن کو تو خدا نے اول ہی ولی بنایا ہے جیسے کہ فرمایا ہے اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا (البقرۃ:۲۵۸) اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ہزاروں عجائبات ہیں اور انہی پر کھلتے ہیں جو دل کے دروازہ کھول کر رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ بخیل نہیں ہے.لیکن اگر کوئی شخص مکان کا دروازہ خود ہی نہیں کھولتا تو پھر روشنی کیسے اندر آوے.پس جو شخص خدا کی طرف رجوع کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف رجوع کرے گا.ہاں یہ ضروری ہے کہ جہاں تک بس چل سکے وہ اپنی طرف سے کوتاہی نہ کرے.پھر جب اس کی کوشش اس کے اپنے انتہائی نقطہ پر پہنچے گی تو وہ خدا کے نور کو دیکھ لے گا.وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ جو حق کوشش کا اس کے ذمہ ہے اسے بجا لائے.یہ نہ کرے کہ اگر پانی ۲۰ ہاتھ نیچے کھودنے سے نکلتا ہے تو وہ صرف دو ہاتھ کھود کر ہمت ہار دے.ہر ایک کام میں کامیابی کی یہی جڑ ہے کہ ہمت نہ ہار دے.پھر اس امت کے لیے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر کوئی پورے طور سے دعا و تزکیہ نفس سے کام لے گا سب وعدے قرآن شریف کے اس کے ساتھ پورے ہو کر رہیں گے.ہاں جو خلاف کرے گا وہ محروم رہے گا کیونکہ اس کی ذات غیور ہے.اس نے اپنی طرف آنے کی راہ ضرور رکھی ہے لیکن اس کے دروازے تنگ بنائے ہیں.پہنچتا

Page 80

وہی ہے جو تلخیوںکا شربت پی لیوے.لوگ دنیا کی فکر میں درد برداشت کرتے ہیں حتی کہ بعض اسی میں ہلاک ہوجاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے ایک کانٹے کی درد بھی برداشت کرنا پسند نہیں کرتے جب تک اس کی طرف سے صدق اور صبر اور وفاداری کے آثار ظاہر نہ ہوں تو ادھر سے رحمت کے آثار کیسے ظاہر ہوں.صدق دکھلاؤ ابراہیم علیہ السلام نے صدق دکھلایا تو ان کو ابوالانبیاء بنا دیا.میرے کہنے کا مدعا یہ ہے کہ دن بہت سخت ہیں اور کسی نے اب تک نہیں سمجھا تو آئندہ سمجھ لیوے.مجھے الہام ہوا تھا عَفَتِ الدِّیَارُ مَـحَلُّھَا وَ مَقَامُھَا.یہ ایک خطرناک کلمہ ہے جس میں طاعون کی خبر دی گئی ہے کہ انسان کے لیے کوئی مفر اور کوئی جائے پناہ نہ رہے گی.اس لیے میں تم سب کو گواہ رکھتا ہوں کہ اگر کوئی سچی تبدیلی نہ کرے گا تو وہ ہرگز اس لائق نہ ہوگا کہ مجھ کو دعا کے لیے لکھے.جو لوگ خدا کے بتلائے ہوئے صراط مستقیم پر چلیں گے وہی محفوظ رہیں گے.خدا کا وعدہ ایسے ہی لوگوں کی حفاظت کا ہے جو سچی تبدیلی اپنے اندر کرتے ہیں.مطلق بیعت انسان کے کیا کام آسکتی ہے؟ پورا نسخہ جب تک نہ پیے تو مریض کو فائدہ نہیں ہوا کرتا.اس لیے پوری تبدیلی کرنی چاہیے.جہاں تک ہوسکے دعا کرو اور اللہ تعالیٰ سے کہو کہ وہ تم کو ہر ایک قسم کی توفیق عطا کرے.۱ ۳۱؍دسمبر ۱۹۰۴ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جناب مفتی محمد صادق صاحب کی علالت طبع کا حال استفسار فرماتے ہوئے فرمایا کہ اگر دودھ ہضم ہونے لگ جاوے تو بخار اس سے بھی ٹوٹ جاتا ہے.۲ یکم جنوری ۱۹۰۵ء

Page 81

ایڈیٹر البدر نے ایک خاکروب کاتب کی درخواست پیش کی کہ اس کا مذہب بھی خاکروبوں کا ہی ہے مگر فن کتابت سے واقف ہے اور کار خانہ البدر میں آنا چاہتا ہے چونکہ میری طبیعت کراہت کرتی ہے اس لیے حضور سے مشورتاً پوچھتا ہوں.آپ نے تبسم فرما کر فرمایا کہ بات تو واقعی مکروہ معلوم ہوتی ہے.۳ ۶؍جنوری ۱۹۰۵ء اپنے محبین کی صحت یابی کے لیے کثرت سے دعا فرمانا حضرت حکیم نور الدین صاحب کی طبیعت بہت علیل رہی چنانچہ اسی وجہ سے آپ کو درسِ قرآن ملتوی رکھنا پڑا.حکیم صاحب کی طبیعت کی ناسازی دیکھ کر حضرت مسیح علیہ السلام نے آپ کی صحت کے لیے کثرت سے دعا شروع کی تو ۶؍جنوری کو آپ نے تشریف لا کر فرمایا کہ میں دعا کر رہا تھا کہ یہ الہام ہوا اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِشِفَآءٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ.یہ الہام ایک بار حضور کو اوّل بھی ہوا تھا.۱ ۱۴؍جنوری ۱۹۰۵ء (بوقتِ عصر) استخارہ مسنونہ کی تلقین محبی قاضی غلام حسین صاحب ویٹرینری اسسٹنٹ حصار نے عرض کی کہ میری تنخواہ میں روپے اضافہ ہوا ہے اور بنگال سے ایک درخواست آئی ہےکہ انسپکٹری کی پوسٹ خالی ہے.روپیہ ماہوار ملیں گے.اس لیے مشورۃً استفسار ہے کہ کونسی جگہ منظور کی جاوے.آپؑنے فرمایا کہ استخارہ مسنونہ کے بعد جس طرف طبیعت کا میلان ہو وہ منظور کر لو.۲

Page 82

۱۵؍جنوری ۱۹۰۵ء (بوقتِ ظہر) الہامات کو ترتیب دینے کی ہدایت ظہر کے وقت مقدمہ کی پیشگوئی کا اپنے الفاظ پر پورے ہونے کا ذکر رہا کہ خدا تعالیٰ نے جو جو بات جس جس طرح الہام فرمائی ویسی ہی پوری ہو کر رہی.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ان سب الہاموں کو الگ الگ ترتیب دے کر اور کچھ لکھ کر پھر دنیا کے سامنے پیش کیا جاوے تو امید ہے کہ کسی کی ہدایت کا موجب ہوں.۱ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۵ء عیسائیت کا مستقبل مفتی محمد صادق صاحب نے ولایت سے آیا ہوا ایک خط پیش کیا۲ میں نے اورمیری بیوی نے آپ کی مرسلہ کتب کو سوائے اس حصہ کے جو کہ عربی یا ہندوستانی (کیونکہ مجھے ٹھیک علم نہیں) خط میں تھا اور جس کے لیے میری زباندانی کی قابلیت سر دست نامکمل ہے بڑی دلچسپی سے پڑھا ہے.ہمارا تعلق ایک چھوٹے سے گروہ سے ہے جس نے کہ یسوع کے خدائی کے خیال کو استعفیٰ دے دیا ہے اور اسے صرف ایک ہادی خیال کرتا ہے اور اگرچہ یہ ایک چھوٹا سا گروہ ہے لیکن بحمد اللہ کہ ترقی کر رہا ہے جو خیال ہمارا یسوع کی نسبت ہے وہی زوڑشتر، بدھ اور محمد (دائمی برکت اور رحمت خدا کی اس پر نازل ہو) کی نسبت ہے.ہم ان گستاخ پادریوں کو کسی قسم کی مدد نہیں دیتے جو کہ لوگوں کو عیسائی بنانے کے لیے بھیجے جاتے ہیں.حالانکہ ان لوگوں کا مذہب پادریوں

Page 83

کے مذہب سے بہتر نہیں تو ان ہی جیسا ضرور ہے.پرائمیر جو کہ میں ارسال کروں گا.اگر آپ اس کے جواب میں مجھے کچھ زیادہ معلومات اپنے نئے مسیح کی نسبت اور خصوصیت سے کشمیر میں مسیح کی قبر کے ثبوت کی نسبت ارسال کریں گے تو میں بہت ہی مشکور ہوں گا.آپ کا سچا دوست پال کلاتھیوس حضرت اقدسؑ نے اس پر فرمایا کہ در اصل اب عیسویت سے دست برداری دنیا میں شروع ہوگئی ہے اور اس مذہب کو جلا دینے والی آگ بھڑک اٹھی ہے.آگ کا دستور ہے کہ وہ اوّل ذرا سی شروع ہو کر پھر آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہے.یہی حال اب عیسائیت کا ہوگا.۱ ۲۸؍جنوری ۱۹۰۵ء حضرت شہزادہ عبد اللطیف کے مریدین حضور علیہ السلام فجر کے وقت تشریف لائے تو چند ایک احباب نے شرف بیعت حاصل کیا.بعد ازاں حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب شہید علیہ الرحمۃ کی جماعت مریدین کا تذکرہ ہوتا رہا کہ اب بعض لوگ ان میں سے آ آ کر بیعت کرتے جاتے ہیں.اس پر حضور علیہ السلام نے اظہار مسرت فرمایا کیونکہ اس طریق سے ان کے وحشیانہ خیالات کی خود بخود اصلاح ہو رہی ہے.۲ یکم فروری ۱۹۰۵ء (بوقتِ ظہر) دو الہامات اور ایک رؤیا ظہر کے وقت حضور علیہ السلام تشریف لائے تو ذیل کے الہامات و رؤیا سنائے.

Page 84

اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْـحَ یُوْسُفَ لَوْ لَا اَنْ تُفَنِّدُوْنِ.۲.اِنِّیْ مَعَ الرُّوْحِ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ.رؤیا ایک کاغذ دکھایا گیا جس میں کچھ سطور فارسی خط میں ہیں اَور سب انگریزی لکھا ہوا ہے.مطلب جن کا یہ سمجھ میں آیا کہ جس قدر روپیہ نکلتا ہے سب دے دیا جاوے گا.اس کے بعد سردی کی شدت کا ذکر رہا کہ رات کو برف جم گئی اور اکثر لڑکوں نے اس سے قلفیاں بنا کر کھائیں جس سے اکثر بیمار ہوگئے ہیں.اس لیے آپ نے فرمایا کہ اس کا استعمال اس موسم میں بہت مضر ہے.برکت چاہنا ایک شخص نے بیعت کی اور درخواست کی کہ تبرکًا مجھے کچھ پڑھا دیا جاوے.جسے میں پڑھتا رہا کروں.حضور علیہ السلام نے اپنی زبان مبارک سے اسے سورۃ الحمد ساری پڑھادی.۱ ۸؍فروری ۱۹۰۵ء مالیر کوٹلہ سے ایک معزز رئیس نے لکھا کہ ایک مولوی صاحب اتفاق سے انہیں مل گئے ہیںاس لئے وہ قادیان آکر تحقیق حق چاہتے ہیں.جواب میں اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ بے شک وہ آجائیں تحقیق حق کے لئے سائلین کا دروازہ کھلا ہے وہ تحریری سوال کریں جواب تحریری دے دیا جاوے گا.اس کے لئے یہاں آنا بھی چنداں ضرور نہیں.ہاں بصورت مباحثہ کوئی امر نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں اصل مقصد ہار جیت ہوتی ہے اس لئے اعلامِ الٰہی کے موافق انجام آتھم میں وہ سلسلہ بند کر دیا گیا ہے.۲ (بوقتِ ظہر)

Page 85

شرک سے پرہیز ظہر کے وقت حضور علیہ السلام تشریف لائے تو آپ کے ایک خادم آمدہ از کشمیر نے سر بسجود ہو کر خدا تعالیٰ کے کلام اُسْـجُدُوْا لِاٰدَمَ کو اس کے ظاہری الفاظ پر پورا کرنا چاہا اور نہایت گریہ و زاری سے اظہار محبت کیا.مگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے اس حرکت سے منع فرمایا اور کہا کہ یہ مشرکانہ باتیں ہیں ان سے پرہیز چاہیے.مباحثات کو بند فرمانا ایک شخص کی درخواست مباحثہ پر فرمایا کہ حسب اعلامِ الٰہی ہم نے مباحثہ کا دروازہ بند کر دیا ہوا ہے.لیکن ہاں جس کا جی چاہے ازالہ شبہات کے لیے ہم سے کلام یا تحریر کر سکتا ہے.بحث میں تو فریقین کو ہار جیت کا خیال ہوتا ہے مگر اس میں یہ خیال نہیں ہوتا.بحث کے بند کرنے سے ہماری یہ غرض نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی اعتراض کرے یا سوال کرے یا اسے کچھ وساوس ہوں تو اس کی طرف توجہ ہی نہ کی جاوے بلکہ اس سے مراد یہ تھی کہ جواب اور جواب الجواب اور پھر ہار جیت کا جو خیال لوگوں کو ہوتا ہے اس سے وہ احقاقِ حق سے دور جا پڑتے ہیں.ورنہ سوالات اور ازالہ وساوس کے لیے دروازہ کھلا ہے جس کا جی چاہے ہم سے پوچھ سکتا ہے.۱ ۹؍فروری ۱۹۰۵ء ظہر کے وقت تشریف لا کر طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ سردی کی شدت میں یہ کم ہو جایا کرتی تھی مگر اب سردی کی شدت کے ساتھ اس کی بھی شدت ترقی کر رہی ہے.حالانکہ ابھی اس کی مزید ترقی کے ایام آنے والے ہیں.۲

Page 86

۱۱؍فروری ۱۹۰۵ء (بوقتِ ظہر) انگریزوں کی حکومت میں رہنے کا مسئلہ ظہر کی نماز ادا فرما کر حضرت اقدس تشریف لے گئے لیکن جناب صاحبزادہ سراج الحق صاحب نعمانی کے اقارب میں سے ایک صاحب مولوی احمد سعید صاحب انصاری سہارنپوری برادر زادہ و شاگرد خلیفہ محی السنۃ و قامع البدعۃ حافظ حدیث جناب مولانا شیخ محمد انصاری سہارنپوری مولداً مکی مہاجراً مرحوم احقاق حق کے خیال سے تشریف لائے ہوئے تھے.اس لیے صاحبزادہ صاحب نے حضور اقدس سے ان کی ملاقات کی درخواست کی.جس پر حضور علیہ السلام اسی وقت تشریف لے آئے اور تھوڑی دیر مجلس فرمائی.بعد استفسار اسم و سکونت و مختلف اذکار کے مسئلہ جہاد کا تذکرہ ہوا.جس میں ضمناً بعض ان گروہوں کا ذکر بھی آگیا جو کہ ہر ایک کافر کو بذریعہ تلوار قتل کر دینے کو غزا قرار دیتے ہیں اور انگریزوں کے ملکوں میں رہنا بدعت اور کفر خیال کرتے ہیں.اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ان کا یہ خیال کہ ہم کفر کے اثر سے بچنے کے لیے الگ رہتے ہیں اور اگر انگریزوں کی رعیت ہو کر رہیں تو آنکھوں سے کفر اور شرک کے کام دیکھنے پڑیں اور مشرکانہ کلام کان سے سننے پڑیں، میرے نزدیک درست نہیں ہیں.کیونکہ اس گورنمنٹ نے مذہب کے بارے میں ہر ایک کو اب تک آزادی دے رکھی ہے اور ہر ایک کو اختیار ہے کہ وہ امن اور سلامت روی سے اپنے اپنے مذہب کی اشاعت کرے.مذہبی تعصب کو گورنمنٹ ہرگز دخل نہیں دیتی.اس کی بہت سی زندہ نظیریں موجود ہیں.ایک دفعہ خود عیسائی پادریوںنے ایک جھوٹا مقدمہ خون کا مجھ پر بنایا.ایک انگریز اور عیسائی حاکم کے پاس ہی وہ مقدمہ تھا اور اس وقت کا ایک لیفٹیننٹ گورنر بھی ایک پادری مزاج آدمی تھا مگر آخر اس نے فیصلہ میرے حق میں دیا اور بالکل بری کر دیا.بلکہ یہاں تک کہا کہ میں پادریوں کی خاطر انصاف کو ترک نہیں کر سکتا.اس کے بعد ابھی ایک مقدمہ فیصلہ ہوا ہے پہلے تو وہ ہندو

Page 87

میجسٹریٹوں کے پاس تھا.نہیں معلوم کہ انہوں نے کس رعب میں آ کر بہت ہی واضح اور بیّن وجوہات کو نظر انداز کر دیا اور مجھ پر جرمانہ کیا لیکن آخر جب اس کی اپیل ایک انگریز حاکم کے پاس ہوئی تو اس نے بری کر دیا اور مجسٹریٹ کی کارروائی پر افسوس کیا اور کہا کہ جو مقدمہ اپنے ابتدائی مرحلہ پر خارج کے قابل تھا اس پر اس قدر وقت ضائع کیا گیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں ابھی تک عدل اور انصاف کا مادہ موجود ہے.اگر کسی قسم کا مذہبی تعصب یا بغض ہوتا تو کم از کم میرے ساتھ تو ضرور برتا جاتا.تین لاکھ کے قریب جماعت ہے پھر افغانستان کے لوگ بھی آ آ کر بیعت کرتے رہتے ہیں اور ایک نیا فرقہ ہونے کی وجہ سے بھی گورنمنٹ کی نظر اور توجہ اس طرف ہونی چاہیے تھی مگر دیکھ لو کہ قریب آٹھ کے ہمارے مقدمات ہوئے ہیں جن میں سے سوائے ایک دو کے باقی کل مخالفین کی طرف سے ہم پر تھے مگر سب میں کامیابی ہم کو ہی حاصل ہوئی ہے.اور انگریزوں نے ہی ہمارے حق میں فیصلے دیئے ہیں.اگرچہ ہم ان سب کامیابیوں کو خدا کی طرف سے ہی سمجھتے ہیں کیونکہ اگر وہ نہ چاہتا تو یہ لوگ کیا کرتے.مگر جن لوگوں کے ذریعہ اور ہاتھوں سے اس کی نصرت ہمارے شامل حال ہوئی وہ بھی قابل شکر کے ہیں.جہاں تک میرا خیال بلکہ یقین ہے وہ یہ ہے کہ ابھی تک ان لوگوں میں تعصب نہیں ہے اور آئندہ کا حال خدا کو معلوم ہے اور اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اگر ان لوگوں کو خدمت دین ہی مطلوب ہے اور ان کی غرض خدا کو راضی کرنا ہے تو چھپ کر بیٹھ رہنے سے کیا فائدہ؟ ان کو چاہیے کہ خدمت دین کا ایک پہلو ہاتھ میں لیں.گورنمنٹ کی طرف سے کسی قسم کی سختی ہرگز نہیں ہے.لوگوں کو تبلیغ اور اتمام حجت کریں.یہ خیال بالکل غلط ہے کہ واعظ لوگوں کو گورنمنٹ گرفت کرتی ہے.ہرگز نہیں.ہاں جو لوگ مفسد ہوتے ہیں وہ ضرور خود ہی گرفت کے قابل ہوتے ہیں.گورنمنٹ کا اس میں کیا قصور؟ اب تو عیسویت کا یہ حال ہے کہ اس پر خود بخود موت آرہی ہے.خود ان کے بڑے بڑے عالم اور فاضل تثلیث کے پکے دشمن ہوگئے ہیں اور نئی تعلیم نے ان کے دلوں میں یہ بات کوٹ کر بھر دی ہے کہ بناوٹی خدا اب کام نہیں آسکتا.پادریوں کی یہ حالت ہے کہ صرف ٹکڑے کی خاطر کام کر رہے ہیں.ایک دن تنخواہ کو دیر ہو جاوے تو

Page 88

کام چھوڑ دیتے ہیں اور خود عیسائی مذہب کی ردّ میں کتابیں لکھتے ہیں.اس زمانہ کا جہاد اب یہ زمانہ کسر صلیب کا ہے.تقریر کے مقابلہ پر تلوار سے کام لینا بالکل نادانی ہے.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جس طرح اور جن آلات سے کفار لوگ تم پر حملہ کرتے ہیں انہی طریقوں اور آلات سے تم ان لوگوں کا مقابلہ کرو.اب ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے حملے اسلام پر تلوار سے نہیں ہیں بلکہ قلم سے ہیں.لہٰذا ضرور ہے کہ ان کا جواب قلم سے دیا جاوے اگر تلوار سے دیا جاوے گا تو یہ اعتدا ہوگا جس سے خدا تعالیٰ کی صریح ممانعت قرآن شریف میں موجود ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ(البقرۃ:۱۹۱).پھر اگر عیسائیوں کو قتل بھی کر دیا جاوے تو اس سے وہ وساوس ہر گز دور نہ ہوں گے جو کہ دلوں میں بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ وہ اور پختہ ہو جاویں گے اور لوگ کہیں گے کہ واقعی میں اہل اسلام کے پاس اپنے مذہب کی حقانیت کی دلیل کوئی نہیں ہے لیکن اگر شیریں کلامی اور نرمی سے ان کے وساوس کو دور کیا جاوے تو امید ہے کہ وہ سمجھ جاویں گے اور ہم نے دیکھا کہ بعض عیسائی لوگ جو یہاں آتے ہیں ان کو جب نرمی سے سمجھایا جاتا ہے تو اکثر سمجھ جاتے ہیں اور تبدیل مذہب کر لیتے ہیں (جیسے کہ ماسٹر عبد الحق صاحب نومسلم) پس ہماری رائے تو یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے کمر بستہ ہو کر دین کی خدمت میں مصروف ہوں کیونکہ یہ وقت اسی کام کے لیے ہے اگر اب کوئی نہیں کرتا تو اور کب کرے گا؟ بعض ایسے لوگ جن تک حضور علیہ السلام کی بعثت اور دعاوی کی مفصل کیفیت نہیں پہنچی تاہم وہ حسن ظن رکھتے ہیں اور بسبب دور ہونے کے یقینی فیصلہ نہیں کر سکتے.ان کے ذکر پر آپ نے فرمایا کہ نیک لوگوں کا یہی شیوہ ہوتا ہے کیونکہ ان کو کامل علم نہیں ہے اور علم اصل میں اسی کو کہتے ہیں جبکہ انسان کی واقفیت رؤیت کے قائم مقام ہو.الہامات کے ذکر پر فرمایا کہ قضا و قدر کے اسرار چونکہ عمیق در عمیق ہوتے ہیں اس لیے بعض وقت الہامات اور رؤیا کی تفہیم میں انسان کو غلطی لگ جاتی ہے.

Page 89

مذکورہ بالا تقریر فرما کر حضرت اقدس تشریف لے گئے مگر پھر بہت جلد تشریف لائے اور فرمایا کہ عصر کا وقت ہوگیا ہے.اذان دے دی جاوے.خاں صاحب شادی خاں اذان دینے گئے اور حضور علیہ السلام نے مجلس فرمائی.سچے الہام کی علامات چونکہ اس وقت اہل اسلام میں سے بھی بعض مخالف اور منکر حضرت مسیح موعود الہام کے مدعی ہیں اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم کو حضرت مرزا صاحب کے کاذب اور دجال ہونے کے بارے میں خدا تعالیٰ سے وحی ہوئی ہے اور ادھر بعض مذاہب غیر از اسلام میں بھی ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں جو کہ اپنے مذہب کی تصدیق کے بذریعہ الہام مدعی ہیں اس لیے ایسے دعاوی کے جواب میں حضور علیہ السلام نے ایک لطیف تقریر فرمائی جو کہ بہت ہی غور اور توجہ کے قابل ہے.ہر ایک شخص اپنی حالت کے لحاظ سے معذور ہوتا ہے اس لیے ان میں فیصلہ کا ایک موٹا طریق ہے جسے ہم پیش کرتے ہیں.اس وقت مختلف اقوام جن کا اسلام سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے الہام کے مدعی ہیں دس سال کا عرصہ گذرا کہ ایک دفعہ امرتسر سے ایک سکھ کا خط آیا کہ مذہب سکھ کے سچا ہونے کی نسبت مجھے الہام ہوا ہے.اور ایسے ہی ایک انگریز نے الٰہ آباد سے لکھا کہ مجھے عیسویت کے سچا ہونے کی نسبت الہام کے ذریعہ سے اطلاع دی گئی ہے.اور ایک مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی جن کو میں نیک جانتا ہوں ان کی اولاد امرتسر میں ہے.ان کو بھی دعویٰ الہام کا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہمیں الہام ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ جھوٹا ہے اور مرزا صاحب کا ذب اور دجال ہیں.پھر ادھر ہماری جماعت میں بھی ہزار ہا ایسے آدمی ہیں جن کو الہام اور رؤیا کے ذریعہ سے یہ اطلاع ملی ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان مبارک سے تصدیق کی ہے کہ یہ سلسلہ منجانب اللہ ہے اور یہی ذریعہ ان کی بیعت کا ہوا ہے تو اب ان مختلف اقسام کے الہاموںمیں جلدی سے فیصلہ تجویز کرنا تقویٰ سے بعید ہے.اس لیے میں جلدی کو پسند نہیں کرتا.انسان کو چاہیے کہ صبر اور دعا سے کام لے اور تقویٰ کے پہلو کو ہاتھ سے نہ چھوڑے اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا (النحل:۱۲۹).

Page 90

اس وقت خود اسلام میں کئی فرقے موجود ہیں جو کہ ایک دوسرے کی تردید کر رہے ہیں.پھر دوسرے مذاہب کے حملے الگ ہیں.ایک کتاب ترکِ اسلام لکھی گئی تھی اور اب ایک تہذیب الاسلام لکھی گئی ہے جس میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر سخت فحش اور شرمناک حملے کئے گئے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کل مذاہب اور فرقوں میں ایک جنگ چل رہی ہے اور ہر ایک کا دعویٰ یہی ہے کہ ہم حق پر ہیں.پس ایسی حالت میں فیصلہ کرنا ایک آسان امر نہیں ہے.یا تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کسی کو فہم دے اور رشد عطا کرے اور یا خود انسان جلدی نہ کرے اور صبر اور دعا سے کام لے تاکہ وقت پر حقیقت کھل جاوے کہ خدا کی تائید اور نصرت کس کے شامل حال ہے کیونکہ جھوٹے مذہب کے ساتھ اس کی نصرت اور تائید کبھی شامل نہیں ہوسکتی.اگر جھوٹے مذہب کی بھی وہی خاطر خدا کو ہو جو کہ سچے مذہب کی ہوتی ہے تو پھر سچ اور جھوٹ کا امتیاز کرنا محال ہوجائے گا.اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے کہ قرآن شریف میں درج ہے یہ جوا ب دیا کہ اِعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّيْ عَامِلٌ(الانعام:۱۳۶) کہ اگر تم لوگوں پر میرا سچا ہونا مشتبہ ہے تو تم بھی اپنی اپنی جگہ عمل کرو میں بھی کرتا ہوں انجام پر دیکھ لینا کہ خدا کی تائید اور نصرت کس کے شامل حال ہے جو امر خدا کی طرف سے ہوگا وہ بہر حال غالب ہو کر رہے گا وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ (یوسف:۲۲).ان مختلف الہامات کے فیصلہ کے لیے بھی در اصل یہی معیار ہے کیونکہ ایک طرف تو اہل اسلام الہام کے مدعی ہیں دوسری طرف سکھ وغیرہ بھی.پس اگر یہ سب الہامات خدا کی طرف سے سمجھے جائیں تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خدا بھی بہت سے ہیں.کیونکہ اگر وہ سب ایک ہی کا کلام ہے تو آپس میں ایک دوسرے کی ضد کیوں ہیں کہ وہی خدا ایک کو کہتاہے کہ فلاں شخص سچا ہے اور دوسرے کو کہتا ہے کہ جھوٹا ہے.پس اس میں فیصلہ کی جو آسان ترین راہ ہے وہ یہ ہے کہ ایک قول ہوتا ہے اور ایک فعل.اگر قول میں اختلاف ہے تو اب فعل کی انتظار چاہیے.قول پر اگر فیصلہ کا مدار رکھا جاوے تو اس کی نظیر دوسری جگہ نکل آتی ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ مجھے یہ الہام ہوا ہے کہ تم کذاب ہوا.لیکن فعل کو کہاں چھپائیں گے.اس کی مثال تو ایک سورج کی ہے جس کی رؤیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا

Page 91

ہے.قول سے مراد ہماری وحی الٰہی ہے اور فعل سے نصرت اور تائیداتِ الٰہیہ.لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ فعل کو دکھلاؤ تو یاد رہے کہ اس کا جلدی ظاہر کرنا ہمارا اپنا اختیار نہیں ہے اور کسی نبی کے اختیار میں بھی یہ بات نہیں ہوتی کہ وہ آیات اللہ کو جب چاہے دکھا دیوے.ہاں خلق اللہ کی خاطر ان کو اس قسم کے اضطراب ضرور ہوتے ہیں اور وہ خواہاں ہوتے ہیں مگر آخر آیات خدا کے ہاتھ میں ہیں اور وہ اپنے مصالحہ سے ان کو کھولتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بڑا اضطراب تھا تو خدا تعالیٰ نے وحی کی کہ تو آسمان پر زینہ لگا کر جا اور ان کو نشان لادے.اگر ہم کذّاب اور دجّال ہیں تو صبر کرو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهٗ وَاِنْ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ يَعِدُكُمْ(المؤمن:۲۹) جب سے دنیا قائم ہوئی ہے یہ کبھی اتفاق نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ نے کاذب کی تائید کر کے سچوں کو شکست دی ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کے مقابلہ پر الہام کے مدعی موجود تھے اور وہ آپ کو جھوٹا خیال کرتے تھے.مسیلمہ کذّاب بھی انہی میں تھا.اگر قول پر مدار ہوتا تو اشتباہ رہتا مگر آخر فعلِ الٰہی نے فیصلہ کر دیا.دیکھ لو کہ اب کس کے دین کا نقارہ بج رہا ہے.کس کا نام روشن ہے جو خدا کی طرف سے ہوتا ہے اس کو برکت دی جاتی ہے وہ بڑھتا ہے وہ پھلتا اور پھولتا ہے اور اس کے دشمنوں پر اسے فتح پر فتح ملتی ہے.لیکن جو خدا کی طرف سے نہیں ہوتا وہ مثل جھاگ کے ہوتا ہے جو کہ بہت جلد نابود ہو جاتا ہے.خدا کو کوئی دھوکا نہیں دے سکتا.جس کا مدار تقویٰ پر ہوگا اور جس کے خدا کے ساتھ پاک تعلقات ہوں گے اسی کی نصرت ہوگی.یہ صرف ہمارے ساتھ ہی نہیں ہے کہ اس وقت اور ملہم ہمیں جھوٹا قرار دیتے ہیں.بلکہ عیسیٰ علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو کہ ملہم تھے اور وہ ان نبیوں کی تکذیب کرتے تھے تو اس وقت کے داناؤں نے یہی فیصلہ دیا تھا کہ جو سچا ہوگا اس کا کاروبار بابرکت ہوگا.پس اب بجز اس بات کے اور فیصلہ نہیں نظر آتا کہ اگر قول میں پیچیدگی ہے تو فعل کو دیکھو، لیکن میں پھر کہتا ہوںکہ مجھ سے یہ درخواست کہ فعل ظاہر ہو عبث ہے میں تو ایک عاجز بندہ ہوں یہ خدا کا کام ہے کہ جو فعل وہ چاہے ظاہر کر دے.میں کیا ہوں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 92

نے یہی جواب دیا کہ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ (العنکبوت:۵۱) انبیاؤں کا کام بازیگروں کی طرح چٹے بٹے دکھانا نہیں ہوتا وہ تو خدا کے پیغام رساں ہوتے ہیں.علمی بحث الگ ہے اور الہامی بحث الگ ہے.مختصر فیصلہ یہی ہے کہ اگر قول میں تعارض ہے تو فعل خود فیصلہ کر دے گا.ایک مفتری تحصیلدار گورنمنٹ سے عزت نہیں پا سکتا اور گرفتار کیا جاتا ہے تو مفتری علی اللہ کیسے اس کا محبوب ہو سکتا ہے اور وہ کب اس کی تائید کر سکتا ہے.اگر سچے کی عزت بھی ویسی ہو جیسے کہ جھوٹے کی تو پھر دنیا سے امان اُٹھ جاوے گا.پس یاد رکھو کہ قول کے اشتباہ فعل سے ہی دور ہو سکتے ہیں.میرے ساتھ جو وعدے خدا کے ہیں وہ۲۵،۳۰ سال پیشتر براہین میں درج ہو چکے ہیں اور بہت سے پورے ہوگئے ہیں.جو باقی ہیں چاہو تو ان کا انتظار کرو.الہام میں دخلِ شیطانی بھی ہوتا ہے جیسے کہ قرآن شریف سے بھی ظاہر ہے مگر جو شخص شیطان کے اثر کے نیچے ہو اسے نصرت نہیں ملا کرتی نصرت اسے ہی ملا کرتی ہے جو رحمان کے زیر سایہ ہو.ہم اپنی زبان سے کسی کو مفتری نہیں کہتے.جبکہ وحی شیطانی بھی ہوتی ہے تو ممکن ہے کہ کسی سادہ لوح کو دھوکا لگا ہو.اس لیے ہم فعل الٰہی کی سند پیش کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ پیش کی تھی اور خدا تعالیٰ نے فعل پر بہت مدار رکھا ہے.وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْل لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ (الـحاقّۃ:۴۵،۴۶) میں فعل ہی کا ذکر ہے.پس جبکہ یہ مسنون طریق ہے تو اس سے کیوں گریز ہے.ہم لوگوں کے سامنے ہیں اور اگر فریب سے کام کر رہے ہیں تو خدا تعالیٰ ایسے عذاب سے ہلاک کرے گا کہ لوگوں کو عبرت ہوجاوے گی اور اگر یہ خدا کی طرف سے ہے اور ضرور خدا کی طرف سے ہے تو پھر دوسرے لوگ ہلاک ہوجاویں گے.۱ ۱۹؍فروری ۱۹۰۵ء (بعد نماز مغرب) آج کا دن اپنی شان میں ایک مبارک دن تھا کیونکہ غالباً سات ماہ کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود

Page 93

علیہ السلام نے مغرب اور عشاء کے درمیان مجلس فرمائی اور جو رسالہ دربارہ فتح مقدمہ حضور تصنیف فرما رہے ہیں اس کے مجوزہ مضامین کا مختصر تذکرہ فرمایا.واجب الادا مہر کی ادائیگی اس کے بعد ایک صاحب نے دریافت کیا کہ ایک شخص اپنی منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتی تھی تو اپنی نصف نیکیاں مجھے دے دے تو بخش دوں.خاوند کہتا رہا کہ میرے پاس حسنات بہت کم ہیں بلکہ بالکل ہی نہیں ہیں.اب وہ عورت مر گئی ہے خاوند کیا کرے؟ حضرت اقدسؑنے فرمایا کہ اسے چاہیے کہ اس کا مہر اس کے وارثوں کو دے دے.اگر اس کی اولاد ہے تو وہ بھی وارثوں سے ہے شرعی حصہ لے سکتی ہے اور علیٰ ہذا القیاس خاوند بھی لے سکتا ہے.ایک لطیف نکتہ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے اثناء گفتگو میں ذکر کیا کہ یہ ایک لطیف بات ہے کہ جس قدر مجدّد گذرے ہیں ان کے نام کے محمد یا احمد کی جزو ضروری ہوتی رہی ہے.قسطنطنیہ میں عجیب قسم کے نام لوگوں کے ہوتے ہیں مگر وہ مہدی جس نے قسطنطنیہ کو فتح کیا تھا اس کے نام میں بھی محمد کا لفظ تھا.معجزات میں افراط و تفریط موجودہ زمانے کے حالات پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک گروہ تو معجزات سے قطعی منکر ہے جیسے کہ نیچری اور آریہ وغیرہ.اس نے تفریط کا پہلو اختیار کیا ہے اور ایک گروہ وہ ہے جو کہ افراط کی طرف چلا گیا ہے جیسے کہ بعض لوگ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ کے معجزات بیان کیا کرتے ہیں کہ بارہ برس کی ڈوبی ہوئی کشتی نکالی اور حضرت عزرائیل کے ہاتھ سے آسمان پر جا کر قبض شدہ ارواح چھین لیں.در اصل بات یہ ہے کہ دونوں فریقوں نے معجزہ کی حقیقت کو نہیں سمجھا ہے.معجزہ سے مراد فرقان ہے جو حق اور باطل میں تمیز کر کے دکھادے اور خدا کی ہستی پر شاہد ناطق ہو.۱

Page 94

۲۰؍فروری ۱۹۰۵ء (قبل از عشاء) خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر ہدایت حاصل نہیں ہوتی حضور علیہ السلام نے عشاء کی نماز سے کچھ پیشتر تشریف لا کر مجلس فرمائی.خدا تعالیٰ کے احسانات اور انعامات کا تذکرہ رہا.بعض کفار کی حالت پر آپ نے فرمایا کہ جب تک خدا تعالیٰ کا فضل انسان کے شامل حال نہ ہو تب تک اسے ہدایت کی راہ نصیب نہیں ہوتی.بعض لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ موت تک کفر ہی پر راضی رہتے ہیں اور کبھی ان کے دل میں یہ خیال نہیں گذرتا کہ ہم غلطی پر ہیں حتی کہ اسی میں مر جاتے ہیں.اس پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے بیان فرمایا کہ چند یوم ہوئے ایک دوست بیان کرتے تھے کہ ان کے گاؤں کی آبادی چار سو باشندوں کی تھی.طاعون جو پڑی تو سب کے سب ہلاک ہوگئے صرف ۴۰شخص بچے.اور ان میں سے بھی صرف ۹ کس تندرست تھے اور باقی کچھ نہ کچھ مریض ہی تھے.ان ۹ میں ان کا چچا بھی تھا.ان کے دل میں آیا کہ اس قدر عبرتناک حادثہ موت کا چونکہ گاؤں میں گذرا ہے ممکن ہے کہ چچا کا دل رقیق ہوا ہو چلو اسے چل کر تبلیغ کر آویں شاید ہدایت نصیب ہو.باوجود اس کے کہ لوگوں نے اس طاعون زدہ گاؤں میں جانے سے روکا مگر تبلیغ حق کے جوش میں وہ چلے گئے اور جا کر اپنے چچا کو اس سلسلہ کی صداقت کی نسبت سمجھایا.چچا نے یہ جواب دیا کہ اگر یہ طاعون مرزے کی مخالفت کی وجہ سے ہے تو مجھے خوشی سے اس سے مر جانا قبول ہے بیشک مجھے طاعون ہو.انجام یہ ہوا کہ وہ اور اس کا تمام بال بچہ تباہ اور ہلاک ہوگیا، مگر مخالفت پر برابر آمادہ رہا اور مرتے دم تک نہ مانا.۱

Page 95

۲۱؍فروری ۱۹۰۵ء (مابین مغرب و عشاء) فارغ نشینی اچھی نہیں حسب دستور قریب ایک گھنٹہ کے حضور نے مجلس فرمائی.اوّل رسالہ زیر تصنیف کا ذکر رہا فرمایا کہ اوّل بوجہ علالت طبع کے فارغ نشینی رہی.اب خدا نے کچھ صحت عطا فرمائی ہے تو قلم میں بھی قوت آگئی ہے.اگر خدا تعالیٰ صحت رکھے تو فارغ نشینی اچھی نہیں ہے.بندہ اگر خدمت ہی کرتا رہے تو خوب ہے.دہریت کو نبی کا وجود ہی جلا سکتا ہے فرمایا کہ دہریہ پن کو اگر کوئی شے جلا سکتی ہے تو وہ صرف انبیاء کا وجود ہے ورنہ عقلی دلائل سے وہاں کچھ نہیں بنتا.کیونکہ عقل کی حد سے تو پیشتر ہی گذر کر وہ دہریہ بنتا ہے.پھر عقل کی پیش اس کے آگے کب چلتی ہے.خدا نمائی کی ضرورت فرمایا کہ آج کل خدا نمائی کی بڑی ضرورت ہے.دراصل اگر دیکھا جاوے تو خدا کی ہستی سے انکار ہو رہا ہے.بہت لوگوں کو یہ خیال ہے کہ کیا ہم خدا کی ہستی کے قائل نہیں ہیں.وہ اپنے زُعم میں تو سمجھتے ہیں کہ خدا کو وہ مانتےہیں لیکن ذرا غور سے ایک قدم رکھیں تو ان کو معلوم ہو کہ وہ در حقیقت قائل نہیں ہیں کیونکہ اور اشیاء کے وجود کے قائل ہونے سے جو حرکات اور افعال ان سے صادر ہوتے ہیں وہ خدا کے وجود کے قائل ہونے سے کیوں صادر نہیں ہوتے.مثلاً جب کہ وہ سمّ الفار سے واقف ہے کہ اس کے کھانے سے آدمی مَر جاتا ہے تو وہ اس کے نزدیک نہیں جاتا اور نہیں کھاتا کیونکہ اسے یقین ہے کہ میں اگر کھا لوں گا تو مَر جاؤں گا.پس اگر خدا کی ہستی پر بھی یقین ہوتا تو وہ اسے مالک، خالق اور قادر جان کر نافرمانی کیوں کرتا؟ پس ظاہر ہے کہ بڑا ضروری مسئلہ ہستی باری تعالیٰ کا ہے اور قابل قدر وہی مذہب ہو سکتا ہے جو کہ اسے

Page 96

نئے نئے لباس میں پیش کرتا رہے تاکہ دلوں پر اثر پڑ سکے.در اصل یہ مسئلہ اُمّ المسائل ہے اور اسلام اور غیر مذاہب میں ایک فرقان ہے.عیسائیوں نے بھی فرقان کا دعویٰ کیا ہے کہ انجیل نے ایمانداروں کی فلاں فلاں علامت قرار دی ہے مگر اب وہ کسی میں بھی پائی نہیں جاتیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایمان کا نام و نشان نہیں مگر اسلام میں فرقان کی سب علامات موجود ہیں.براہین احمدیہ عہد عتیق ہے جو براہین احمدیہ کا حصہ چھپ چکا ہے اس پر ذکر چلا.فرمایا کہ اس میں خدا کی حکمت تھی ورنہ اگر وہ چاہتا تو اسے ہم لکھتے ہی رہتے.لیکن خدا نے اب اول حصہ کو منقطع کر کے بائبل کے عہد عتیق کی طرح الگ کر دیا ہے.کیونکہ جو پیشگوئیاں اس میں درج ہیں وہ اب اس اثنا میں پوری ہو رہی ہیں اور جو حصہ اس کا طبع ہوگا وہ عہد جدید ہوگا جس میں سابقہ حصہ کے حوالے ہوں گے کہ خد انے یوں فرمایا تھا اور وہ اس طرح پورا ہو کر رہا.سادگی سچائی کی دلیل ہے براہین میں ہم نے لکھا ہے کہ حضرت مسیحؑآسمان سے آویں گے.اس پر لوگوں نے اعتراض کئے کہ تناقض ہے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اسی براہین میں ہم نے تمام الہامات بھی درج کئے ہیں جن میں ہمارا نام مسیح رکھا گیا ہے اور پھر صرف نام ہی نہیں بلکہ جو کام مسیح نے آکر کرنا ہے اس کی نسبت بھی الہامات میری نسبت ہی درج ہیں.پس یہ تناقض تو سچائی کی دلیل ہے کیونکہ اگر بناوٹ ہوتی تو تناقض نہ جمع کیا جاتا.کم بختوں کی نظر انسان کی غلطی پر تو پڑتی ہے اور خدا کے کلام پر جو اس میں درج ہے نہیں پڑتی.ایک الہام کل یا پرسوں آپ کو الہام ہوا.اِنَّـمَا اَمْرُکَ اِذَا اَرَدْتَّ شَیْئًا اَنْ تَقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.۱ بلا تاریخ

Page 97

تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جناب حافظ غلام رسول صاحب مدرس وزیر آبادی ایک اپنے واجب التعظیم صاحب کو قادیان میں معالجہ کے لئے لائے تھے اور چونکہ ان کو حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کی نسبت کچھ شکوک و شبہات تھے اس لئے حافظ صاحب موصوف نے حضرت اقدس کی خدمت میں ان کے حل کرنے کے لئے عرض کی.اس پر حضور علیہ السلام نے ایک ذیل کی مختصر تقریر فرمائی جس سے ان کے شکوک کا اکثر حصہ رفع ہوگیا اور بجائے نفرت کے دل میں محبت پیدا ہوگئی.مسئلہ نبوت مجھے ان لوگوں کے اعتراضوں پر تعجب آتا ہے کہ اعتراض کرتے وقت وہ قرآن شریف کی تعلیم اور اسلام کی عظمت اور پاک تاثیرات کو بالکل جواب دے دیتے ہیں.ایک روحانیت ہی ایسی شے ہے کہ جو خاصہ اسلام ہے اور کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی.پس اگر شریعت میں روحانیت ہی نہ رہی تو پھر سوائے اساطیر کے اور کیا باقی رہا.جو اہل دل ہیں وہ تو سمجھتے ہیں مگر جو کَودن ہیں وہ ان رموز سے بالکل ناواقف ہیں.جس کو خدا تعالیٰ نے قلب سلیم عطا کیا ہے اور وہ دینی ضرورتوں سے واقفیت رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ سلسلہ الہام و وحی کبھی بند نہیں ہوتا.ہاں ایسی وحی جو بجز قرآن کے کوئی اور نئی شریعت تجویز کرتی ہے وہ بالکل بند ہے اور جو کوئی اس کا مدعی ہو وہ بلا شک و شبہ کافر ہے.ہمارا ایمان ہے کہ وہ نبوت ختم ہوگئی لیکن مکالمات و مخاطبات ایسے جس سے ایمان کو ترقی ہوتی ہے وہ جاری ہیں اور رہیں گے کیونکہ اگر آواز کا سلسلہ ہی بند ہوجاوے تو پھر یقین کامل کا طریق کوئی نہیں رہتا.ایک بند مکان میں اگر آواز یں مارتے رہو اور کوئی جواب نہ آوے تو آخر یہی کہو گے کہ اس میں کوئی نہیں.پس اسی طرح اگر خدا سے کوئی آواز نہ آوے تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہ ہے بھی.پھر ہم پوچھتے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ الہام اور وحی کا بند ہوگیاہوا ہے تو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ(الفاتـحۃ:۶،۷)کو نماز میں

Page 98

تکرار کرنے کا فائدہ کیا ہے؟ کیونکہ منعم علیہ گروہ میں تو انبیاءؑ بھی ہیں اور دوسرے صلحاءوغیرہ جن پر خدا نے انعام وحی کیا تھا اور وہ تو اب ہونی نہیں تو پھر اس دعا کا کیا فائدہ؟ یہ تو ظاہر ہے کہ انبیاء اور رسل پر انعام الٰہی مال و دولت کے رنگ میں نہیں ہوتے اور نہ وہ ان باتوں کے لئے دنیا میں آتے ہیں بلکہ اس کے برعکس فقر و فاقہ کو پسند کرتے ہیں تو آخر پھر ماننا پڑے گا کہ صرف مکالمات اور مخاطبات الٰہی کا انعام ہی ان پر تھا اور قرآن شریف سے بھی یہی ظاہر ہے تو اب اس کا سلسلہ منقطع کرنا کس قدر کفر کی بات ہے.علاوہ اس کے ہمیں باوجود اس ایمان کے کہ یہ امت خیرالامت ہے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بنی اسرائیل کی عورتیں اس امت کے مردوں سے بدرجہا اچھی ٹھیریں کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کی ماں سے خدا تعالیٰ نے کلام کی اور اس کو وحی کی.پھر بتلاؤ کہ جب اس امت کے رجال اسرائیلی امت کی عورتوں کی مانند بھی نہ ہوئے حالانکہ بڑھ کر ہونے چاہئیں تو اس کا نام خیرالامت کی جگہ شر الامت ہوا یا کہ نہیں.اور یہ کفر ہے یا کہ نہیں.ایمان کا ستون تو یقین ہے اور وہ وحی اور الہام سے حاصل ہوتا ہے.پھر جب وحی نہ رہی اور صرف باتیں اور قصے ہی رہ گئے اور آسمانی اور روحانی امور بالکل نہ رہے تو رہا کیا.قاعدہ کی بات ہے کہ انسان کے ہاتھ میں جب تک کسی بات کی نظیر(نمونہ) نہ رہے تو رفتہ رفتہ وہ اس سے منکر ہوجاتا ہے اسی لیے خد اتعالیٰ نے اسلام میں یہ انتظام کیا ہے کہ اس میں صاحب الہام و وحی ہوتے رہتے ہیں تاکہ ان نمونوں کو دیکھ کر شجر ایمان و یقین ہمیشہ تر و تازہ رہے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ(الذّٰریٰت:۵۷) کے یہ معنے ہیں کہ جنّ و انسان کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ معرفت الٰہی حاصل کریں.اب جب کہ آواز ہی خدا کی طرف سے نہ آئی تو پھر معرفت کیا ہوئی اور انسانی خلقت سے جو اصل مطلب تھا وہ پورا نہ ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی بھی بڑی علّتِ غائی یہی تھی کہ معرفت تامہ حاصل ہو.پھر ہم کہتے ہیں کہ مکالمہ اور مخاطبہ الٰہی کا ایسا مسئلہ ہے کہ کل اکابروں کا اس سے اتفاق ہے.سید عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ بھی یہی کہتے ہیں.ذرا فتوح الغیب کو دیکھو پھر اس حدیث کے کیا معنے ہوئے کہ میں اپنے بندے کی زبان ہوجاتا ہوں؟

Page 99

الہام رحمانی اور شیطانی میں تمیز کی ضرورت بعض لوگ یہ اعتراض پیش کرتے ہیں کہ الہام شیطانی بھی ہوتا ہے اور رحمانی بھی مگر ہم کہتے ہیں کہ آخر کوئی تمیز بھی ہے یا نہیں.اگر کلام رحمانی ا ور شیطانی میں کوئی تمیز نہ رکھیں گے تو پھر وہ بتلاویں کہ رحمان کی عزت کیا ہوئی.کیا ان کے نزدیک رحمان اور شیطان میں کوئی فرق ہے یا کہ مساوات ہے؟ اگر فرق ہے تو دونوں کے کلام میں کیوں فرق تسلیم نہیں کر تے؟ حالانکہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں مختلف مدارج کے لوگوں کے کلام میں ایک فرق بیّن ہوتا ہے تو کیا خالق کی کلام مخلوق کی کلام سے بھی اس درجہ گری ہوئی ہوگی کہ اس میں کوئی تمیز نہ ہوگی.یہی وجہ ہے نہ ہمارا اور کسی اور اکابر دین کا یہ مذہب ہوا ہے کہ رحمانی اور شیطانی الہام ایک ہی صورت رکھتے ہیں.اگر اس امت میں مامورین و مرسلین نہ آویں تو بتلاؤ کہ اس میں اور دوسری امتوں میں فرق کیا ہوا؟ جس طریق سے ہم مانتے ہیں اس طریق سے عظمت قرآن شریف کی اور خاتم الانبیاء کی ظاہر ہوتی ہے.تعجب کی بات ہے کہ حضرت موسیٰ کی شریعت پر عمل در آمد کے لئے تو نبی اور رسول مبعوث ہوں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ایسی ہوئی کہ کوئی نبی اور رسول اس پر عمل در آمد کے لئے نہ آوے.یاد رکھو کہ جس دین میں روحانیت نہ رہے تو وہ قابل جلانے کے ہوتا ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسے باغ میں ایک درخت ہو اور وہ بالکل خشک ہوگیا ہو نہ کوئی پھل دیتا ہے نہ اس کا سایہ ہے نہ کوئی پھول ہی نکلتا ہے تو آخر باغبان سوائے اس کے اور کیا کرے گا کہ اسے کاٹ کر جلا دے کیونکہ اب تو وہ حطب ہے نہ کہ شجر.اور ہمیں ان لوگوں کی باتوں کی پروا ہی کیا ہے جو کاروبار آسمانی ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے.فقط جادو والا مکان ایک شخص نے دریافت کیا کہ ایک مکان میں جانا چاہتا ہوں مگر لوگ کہتے ہیں کہ اس میں جنّات ہوتے ہیں اور جادو کا اثر ہے.آپ نے فرمایا کہ مومن کے پاس جنّ اور شیطان نہیں آتا.

Page 100

نہ شہادت نہ جرم ایک شخص نے بیان کیا کہ ایک احمدی بھائی سرحد پر مارے گئے ہیں وہ فوج میں نوکر تھے اور سرحدی لوگ جب ان کے افسر کو قتل کرنے آئے تو وہ پہرہ دے رہا تھا اس لئے ان لوگوں نے اوّل اسے قتل کیا.کیا وہ شہید ہے یا کہ نہیں.آپ نے فرمایا کہ شہادت تو اس موت کا نام ہے جو کہ دین کے لئے ہو باقی اغراض نفسانی کے لئے جو انسان جد و جہد کرتا ہے اور اس میں کامیاب اور ناکام بھی ہوتا ہے بعض وقت جان بھی جاتی ہے اس لئے اس کو نہ ہم شہادت کہتے ہیں اور نہ کوئی گناہ قرار دیتے ہیں.۱ ۳؍مارچ ۱۹۰۵ء (قبل ظہر) بعض نکات معرفت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے مولوی محمد ابراہیم صاحب کو حضرت اقدس حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور پیش کیا.مولوی صاحب موصوف نے حضرت مسیح موعودؑ سے چند استفسار کئے.آپ نے ان کے جواب میں جو کچھ فرمایا وہ درج ذیل ہے.سائل.اطمینانِ قلب کیونکر حاصل ہو سکتا ہے؟ حضرت اقدس.قرآن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ایسی شے ہے جو قلوب کو اطمینان عطا کرتا ہے.جیسا کہ فرمایا اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ (الرّعد:۲۹) پس جہاں تک ممکن ہو ذکر الٰہی کرتا رہے اسی سے اطمینان حاصل ہوگا.ہاں اس کے واسطے صبر اور محنت درکار ہے.اگر گھبرا جاتا اور تھک جاتا ہے تو پھر یہ اطمینان نصیب نہیں ہو سکتا.دیکھو! ایک کسان کس طرح پر محنت کرتا ہے اور پھر کس صبر اور حوصلہ کے ساتھ باہر اپنا غلہ بکھیر آتا ہے.بظاہر دیکھنے والے یہی کہتے ہیں کہ اس نے دانے ضائع کر دیئے لیکن ایک وقت آجاتا ہے کہ وہ ان بکھیرے ہوئے دانوں سے ایک خرمن جمع کرتا ہے.وہ اللہ تعالیٰ پر حسن ظن رکھتا ہے اور صبر کرتا ہے.اسی طرح پر مومن

Page 101

جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق پیدا کر کے استقامت اور صبر کا نمونہ دکھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس پر مہربانی کرتا ہے اور اسے وہ ذوق شوق اور معرفت عطا کرتا ہے جس کا وہ طالب ہوتا ہے.یہ بڑی غلطی ہے جو لوگ کوشش اور سعی تو کرتے نہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ ہمیں ذوق شوق اور معرفت اور اطمینان قلب حاصل ہو جبکہ دنیوی اور سفلی امور کے لئے محنت اور صبر کی ضرورت ہے تو پھر خدا تعالیٰ کو پھونک مار کر کیسے پاسکتا ہے؟ دنیا کے مصائب اور مشکلات سے کبھی گھبرانا نہیں چاہیے اس راہ میں مشکلات کا آنا ضروری ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مصائب کا سلسلہ دیکھو کس قدر لمبا تھا.تیرہ سال تک مخالفوں سے دکھ اٹھاتے رہے.مکہ والوں کے دکھ اٹھاتے اٹھاتے طائف گئے تو وہاں سے پتھر کھا کر بھاگے.پھر اور کوئی شخص ہے جو ان مصائب کے سلسلہ سے الگ ہو کر خدا شناسی کی منزلوں کو طے کر لے؟ جو لوگ چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی محنت اور مشقت نہ کرنی پڑے وہ بیہودہ خیال کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں صاف فرمایا ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے دروازوں کے کھلنے کے لیے مجاہدہ کی ضرورت ہے.اور وہ مجاہدہ اسی طریق پر ہو جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے.اس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ اور اسوہ حسنہ ہے.بہت سے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ دیتے ہیں اور پھر سبز پوش یا گیروے پوش فقیروں کی خدمت میں جاتے ہیں کہ وہ پھونک مار کر کچھ بنادیں.یہ بیہودہ بات ہے.ایسے لوگ جو شرعی امور کی پابندیاں نہیں کرتے اور ایسے بیہودہ دعوے کرتے ہیں وہ خطرناک گناہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے بھی اپنے مراتب کو بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اور وہ مشت خاک ہو کر خود ہدایت دینے کے مدعی ہوتے ہیں.اصل راہ اور گُر خدا شناسی کا دعا ہے اور پھر صبر کے ساتھ دعاؤں میں لگا رہے.ایک پنجابی فقرہ ہے.

Page 102

ع جو منگے سو مر رہے مرے سو منگن جا حقیقت میں جب تک انسان دعاؤں میں اپنے آپ کو اس حالت تک نہیں پہنچا لیتا کہ گویا اس پر موت وارد ہو جاوے.اس وقت تک بابِ رحمت نہیں کھلتا.خدا تعالیٰ میں زندگی ایک موت کو چاہتی ہے.جب تک انسان اس تنگ دروازہ سے داخل نہ ہو کچھ نہیں.خدا جوئی کی راہ میں لفظ پرستی سے کچھ نہیں بنتا بلکہ یہاں حقیقت سے کام لینا چاہیے.جب طلب صادق ہوگی تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اسے محروم نہ کرے گا.سائل.استقامت بھی تو ملنی چاہیے.حضرت اقدس.ہاں یہ سچ ہے کہ استقامت ہونی چاہیے اور یہ استقامت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم ہی سے ملتی ہے.ایک ادنیٰ درجہ کا فقیر بھی ایک بخیل سے بخیل انسان کے دروازے پر جب دھرنا مارتا ہے تو کچھ نہ کچھ لے کر ہی اٹھتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ تو کریم رحیم خدا ہے.یہ ناممکن ہے کہ کوئی اس کے دروازہ پر گرے اور خالی اٹھے.اگر چاہتے ہو کہ ساری مرادیں پوری ہو جاویں تو یہ تو اس کے ہی فضل سے ہوں گی.بعض اوقات انسان کو یہ بھی دھوکا لگتا ہے کہ فلاں مراد پوری نہیں ہوئی.حالانکہ بات یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ احتیاج سے ہی انسان کو بری کر دیتا ہے.لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کا گذر ایک فقیر پر ہوا جس کے پاس صرف ستر پوشی کو چھوٹا سا پارچہ تھا مگر وہ بہت خوش تھا.بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تو اس قدر خوش کیوں ہے؟ فقیر نے جواب دیا کہ جس کی ساری ہی مرادیں پوری ہو جاویں وہ خوش نہ ہو تو اور کون ہو؟ بادشاہ کو بڑی حیرانی ہوئی.اس نے پوچھا کہ کیا تیری ساری مرادیں پوری ہوگئی ہیں؟ فقیر نے کہا کہ کوئی مراد ہی نہیں رہی.حقیقت میں حصول دو ہی قسم کا ہوتا ہے.یا پالے یا ترک.غرض بات یہی ہے کہ خدا یابی اور خدا شناسی کے لیے ضروری امر یہی ہے کہ انسان دعاؤں میں لگا رہے.زنانہ حالت اور بزدلی سے کچھ نہیں ہوتا.اس راہ میں مردانہ قدم اٹھانا چاہیے.ہرقسم کی تکلیفوں کے برداشت کرنے کو طیار ہونا چاہیے.خدا تعالیٰ کو مقدم کر لے اور گھبرائے

Page 103

نہیں.پھر امید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل دستگیری کرے گا اور اطمینان عطا فرمائے گا.ان باتوں کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان تزکیہ نفس کرے جیسا کہ فرمایا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا(الشّمس:۱۰).سائل.دعا جب تک دل سے نہ اٹھے کیا فائدہ ہوگا؟ حضرت اقدس.میں اسی لیے تو کہتا ہوں کہ صبر کرنا چاہیے.اور کبھی اس سے گھبرانا نہیں چاہیے.خواہ دل چاہے یا نہ چاہے.کشاں کشاں مسجد میں لے آؤ.کسی نے ایک بزرگ سے پوچھا کہ میں نماز پڑھتا ہوں مگر وساوس رہتے ہیں.اس نے کہا کہ تو نے ایک حصہ پر تو قبضہ کر لیا دوسرا بھی حاصل ہو جائے گا.نماز پڑھنا بھی تو ایک فعل ہے اس پر مداومت کرنے سے دوسرا بھی انشاء اللہ مل جائے گا.اصل بات یہ ہے کہ ایک فعل انسان کا ہوتا ہے اس پر نتیجہ مرتّب کرنا ایک دوسرا فعل ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے.سعی کرنا مجاہدہ کرنا یہ تو انسان کا اپنا فعل ہے.اس پر پاک کرنا استقامت بخشنا یہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے.بھلا جو شخص جلدی کرے گاکیا؟ کیا اس طریق پر وہ جلد کامیاب ہوجائے گا؟ یہ جلد بازی انسان کو خراب کرتی ہے.وہ دیکھتا ہے کہ دنیا کے کاموں میں بھی اتنی جلدی کوئی امر نتیجہ خیز نہیں ہوتا.آخر اس پر کوئی وقت اور میعاد گذرتی ہے.زمیندار بیج بو کر ایک عرصہ تک صبر کے ساتھ اس کا انتظار کرتا ہے بچہ بھی نو مہینے کے بعد پیدا ہوتا ہے.اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ پہلی ہی خلوت کے بعد بچہ پیدا ہو جاوے تو لوگ اسے بیوقوف کہیں گے یا نہیں؟ پھر جب دنیوی امور میں قانونِ قدرت کو اس طرح پر دیکھتے ہو تو یہ کیسی غلطی اور نادانی ہے کہ دینی امور میں انسان بلا محنت و مشقت کے کامیاب ہو جاوے.جس قدر اولیاء، ابدال، مرسل ہوئے ہیں انہوں نے کبھی گھبراہٹ اور بز دلی اور بے صبری ظاہر نہیں کی.وہ جس طریق پر چلے ہیں اسی راہ کو اختیار کرو.اگر کچھ پانا ہے بغیر اس راہ کے تو کچھ مل نہیں سکتا.اور میں یقیناً کہتا ہوں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کو اطمینان جب نصیب ہوا ہے تو اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المؤمن:۶۱) پر عمل کرنے

Page 104

سے ہی ہوا ہے.مجاہدات عجیب اکسیر ہیں سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے کیسے کیسے مجاہدات کئے.ہندوستان میں جو اکابر گذرے ہیں جیسے معین الدین چشتی اور فرید الدین رحمہما اللہ ان کے حالات پڑھو تو معلوم ہو کہ کیسے کیسے مجاہدات ان کو کرنے پڑے ہیں.مجاہدہ کے بغیر حقیقت کھلتی نہیں.جو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں فقیر کے پاس گئے اور اس نے توجہ کی تو قلب جاری ہوگیا.یہ کچھ بات نہیں.ایسے ہندو فقراء کے پاس بھی جاری ہوتے ہیں.توجہ کچھ چیز نہیں ہے.یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ساتھ تزکیہ نفس کی کوئی شرط نہیں ہے.نہ اس میں کفر و اسلام کا کوئی امتیاز ہے.انگریزوں نے اس فن میں آجکل وہ کمال کیا ہے کہ کوئی دوسرا کیا کرے گا.میرے نزدیک یہ بدعات اور محدثات ہیں.شریعت کی اصل غرض تزکیہ نفس ہوتی ہے اور انبیاء علیہم السلام اسی مقصد کو لے کر آتے ہیں.اور وہ اپنے نمونہ اور اسوہ سے اس راہ کا پتہ دیتے ہیں جو تزکیہ نفس کی حقیقی راہ ہے.وہ چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا ہو اور شرح صدر حاصل ہو.میں بھی اسی منہاج نبوت پر آیا ہوں.پس اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ میں کسی ٹوٹکے سے قلب جاری کر سکتا ہوں یہ غلط ہے.میں تو اپنی جماعت کو اسی راہ پر لے جانا چاہتا ہوں جو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام کی راہ ہے جو خدا تعالیٰ کی وحی کے ماتحت طیار ہوئی ہے.پس اور راہ وغیرہ کا ذکر ہماری کتابوں میں آپ نہ پائیں گے اور نہ اس کی ہم تعلیم دیتے ہیں اور نہ ضرورت سمجھتے ہیں.ہم تو یہی بتاتے ہیںکہ نمازیں سنوار سنوار کر پڑھو اور دعاؤں میں لگے رہو.سائل.حضور نمازیں پڑھتے ہیں.مگر منہیات سے باز نہیں رہتے اور اطمینان حاصل نہیں ہوتاہے؟ حضرت اقدس.نمازوں کے نتائج اور اثر تو تب پیدا ہوں جب نمازوں کو سمجھ کر پڑھو.بجز کلامِ الٰہی اور ادعیہ ماثورہ کے اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو اور پھر ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھو.یہی ایک امر ہے جس کی بار بار تاکید کرتا ہوں کہ تھکو اور گھبراؤ نہیں.اگر استقلال اور صبر سے اس راہ کو اختیار

Page 105

کرو گے تو انشاء اللہ یقیناً ایک نہ ایک دن کامیاب ہو جاؤ گے.ہاں یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی کو مقدم کرو اور دین کو دنیا پر ترجیح دو.جب تک انسان اپنے اندر دنیا کا کوئی حصہ بھی پاتا ہے وہ یاد رکھے کہ ابھی وہ اس قابل نہیں کہ دین کا نام بھی لے.یہ بھی ایک غلطی لوگوں کو لگی ہوئی ہے کہ دنیا کے بغیر دین حاصل نہیں ہوتا.انبیاء علیہم السلام جب دنیا میں آئے ہیں کیا انہوں نے دنیا کے لیے سعی اور مجاہدہ کیا ہے یا دین کے لیے؟ اور باوجود اس کے کہ ان کی ساری توجہ اور کوشش دین ہی کے لیے ہوتی ہے.پھر کیا وہ دنیا میں نامراد رہے ہیں؟ کبھی نہیں.دنیا خود ان کے قدموں پر آ کر گری ہے.یہ یقیناً سمجھو کہ انہوں نے دنیا کو گویا طلاق دے دی تھی.لیکن یہ ایک عام قانون قدرت ہے کہ جو لوگ خدا کی طرف سے آتے ہیں وہ دنیا کو ترک کرتے ہیں.اس سے یہ مراد ہے کہ وہ دنیا کو اپنا مقصود اور غایت نہیں ٹھہراتے اور دنیا ان کی خادم اور غلام ہوجاتی ہے.جو لوگ برخلاف اس کے دنیا کو اپنا اصل مقصود ٹھہراتے ہیں خواہ وہ دنیا کو کسی قدر بھی حاصل کر لیں مگر آخر ذلیل ہوتے ہیں.سچی خوشی اور اطمینان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عطا ہوتا ہے.یہ مجرد دنیا کے حصول پرمنحصر نہیں ہے.اس لیے ضروری امر ہے کہ ان اشیاء کو اپنا معبود نہ ٹھہراؤ.اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اسی کو یگانہ و یکتا معبود سمجھو.جب تک انسان ایمان نہیں لاتا کچھ نہیں.اور ایسا ہی نماز روزہ میں اگر دنیا کو کوئی حصہ دیتا ہے تو وہ نماز و روزہ اسے منزل مقصود تک نہیں لے جا سکتا.بلکہ محض خدا کے لیے ہو جاوے.اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (الانعام:۱۶۳) کا سچا مصداق ہو تب مسلمان کہلائے گا.ابراہیم کی طرح صادق اور وفادار ہونا چاہیے.جس طرح پر وہ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے پر آمادہ ہوگیا اسی طرح انسان ساری دنیا کی خواہشوں اور آرزوؤں کو جب تک قربان نہیں کردیتا کچھ نہیں بنتا.میں سچ کہتا ہوں کہ جب انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کو ایک جذبہ پیدا ہو جاوے اس وقت اللہ تعالیٰ خود اس کا متکفل اور کارساز ہوجاتا ہے.اللہ تعالیٰ پر کبھی بد ظنی نہیں کرنی چاہیے اگر نقص اور خرابی ہوگی تو ہم میں ہوگی.

Page 106

پس یاد رکھو کہ جب تک انسان خدا کا نہ ہو جاوے بات نہیں بنتی اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے ہو جاتا ہے اس میں شتاب کاری نہیں رہتی.مشکل یہی ہے کہ لوگ جلد گھبرا جاتے ہیں اور پھر شکوہ کرنے لگتے ہیں.سائل.ابتدائی منزل اس مقصد کے حصول کی کیا ہے؟ حضرت اقدس.ابتدائی منزل یہی ہے کہ جسم کو اسلام کا تابع کرے.جسم ایسی چیز ہے جو ہر طرف لگ سکتا ہے.بتاؤ زمینداروں کو کون سکھاتا ہے جو جیٹھ ہاڑ کی سخت دھوپ میں باہر جا کر کام کرتے ہیں اور سخت سردیوں میں آدھی آدھی رات کو اٹھ کر باہر جاتے اور ہل چلاتے ہیں.پس جسم کو جس طریق پر لگاؤ اسی طریق پر لگ جاتا ہے.ہاں اس کے لیے ضرورت ہے عزم کی.کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ مٹی کھایا کرتا تھا.بہت تجویزیں کی گئیں مگر وہ باز نہیں رہ سکتا تھا.آخر ایک طبیب آیا اور اس نے دعویٰ کیا کہ میں اس کو روک دوں گا.چنانچہ اس نے بادشاہ کو مخاطب کر کے کہا اَیُّـھَا الْمَلِکُ اَیْنَ عَزْمُ الْمُلُوْکِ یعنی اے بادشاہ! وہ بادشاہوں والا عزم کہاں گیا؟ یہ سن کر بادشاہ نے کہا اب میں مٹی نہیں کھاؤں گا.پس عزمِ مومن بھی تو کوئی چیز ہے.سائل.عزم کرتے تو آپ کی کیا ضرورت ہے؟ حضرت اقدس.بات یہ ہے کہ جب نفوس صافیہ کا جذب ہوتا ہے تو ممد و معاون بھی پیداہو جاتے ہیں.صحابہؓ کے دل اچھے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک رسول بھی پیدا کر دیا.ایسا ہی کہتے ہیں کہ مکہ سے جو مدینہ کی طرف ہجرت کی اس میں بھی یہی سِر تھا کہ وہاں کے اصلاح پذیر قلوب کا ایک جذب تھا.۱ ۱۰؍مارچ ۱۹۰۵ء (بوقتِ شب) پیرانہ سالی کے لحاظ سے عمدہ مجاہدہ ایک صاحب نے عرض کی کہ ایک عرصہ سے میرے دل میں خواہش ہے کہ کشف کی حالت طاری ہواور

Page 107

اگرچہ میں اپنے علم کے رو سے جانتا ہوں کہ اس کا حاصل ہونا کوئی کمالات میں سے نہیں ہے مگر تاہم اس کا خیال ہرگز دور نہیں ہوتا.اس کے لیے کچھ شفاعت فرماویں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کا تعلق مجاہدات اور ریاضات سے ہے.لیکن اب آپ کی عمر ان کی متحمل نظر نہیں آتی.عالم شباب میں ایسے مجاہدات اور ریاضات انسان کر سکتا ہے جس سے اس پر یہ حالت جلد طاری ہو.پیرانہ سالی میں قویٰ ضعیف ہوجاتے ہیں.معدہ کام کرنے سے رہ جاتا ہے.اس لیے مجاہدات میں استقامت حاصل نہیں ہوتی.آپ کے مناسب حال اگر کوئی مجاہدہ ہے تو میری رائے میں یہ ہے کہ خلوت کے درمیان ذکر الٰہی اور توجہ الی اللہ کی کثرت کریں.غیر اللہ کو قلب سے دفع کرنا اور اللہ تعالیٰ کو اس کا مسکن بنا لینا آسان بات نہیں ہے.یہی بڑا مجاہدہ ہے.بیہودہ مجلسوں اور قیل و قال سے الگ رہیے.اور غفلت کے پردہ کو جو کہ انسان کی زندگی پر پڑے ہوئے ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں.پیرانہ سالی کے لحاظ سے یہ عمدہ مجاہدہ ہے جس سے تزکیہ نفس ہو سکتا ہے کیونکہ اب اس عمر میں نوافل اور روزے وغیرہ کی برداشت مشکل ہے.اصل مطلب میرا اس شعر میں خوب بیان ہے.؎ لب بہ بند و گوش بند و چشم بند گر نہ بینی نور حق برما بخند کہ انسان اپنی زبان کو اور کانوں اور آنکھوں کو اپنے قابو میں ایسا کرے کہ سوائے رضائے حق کے اور ان سے کوئی فعل صادر نہ ہو.انسانی زندگی میں جو بے اعتدالی ہوتی ہے اسے اعتدال پر لانا بڑا کام ہے.اب اس وقت یہی مناسب حال ہے کہ خلوت بہت ہو اور ذکر الٰہی سے قلب غافل نہ ہو.اگر انسان اس کی مداومت اختیار کرے تو آخر کار قلب مؤثر ہوجاتا ہے اور ایک تبدیلی انسان اپنے اندر دیکھتا ہے.کشف رؤیا کا اعلیٰ درجہ ہے کشف کیا ہے یہ رؤیا کا ایک اعلیٰ مقام اورمرتبہ ہے اس کی ابتدائی حالت کہ جس میں غیبتِ حس ہوتی ہے صرف

Page 108

اس کو خواب (رؤیا) کہتے ہیں.جسم بالکل معطل بیکار ہوتا ہے اور حواس کا ظاہری فعل بالکل ساکت ہوتا ہے.لیکن کشف میں دوسرے حواس کی غیبت نہیں ہوتی.بیداری کے عالم میں انسان وہ کچھ دیکھتا ہے جو کہ وہ نیند کی حالت میں حواس کے معطل ہونے کے عالم میں دیکھتا تھا.کشف اسے کہتے ہیں کہ انسان پر بیداری کے عالم میں ایک ایسی ربودگی طاری ہو کہ وہ سب کچھ جانتا بھی ہو اور حواس خمسہ اس کے کام بھی کر رہے ہوں اور ایک ایسی ہوا چلے کہ نئے حواس اسے مل جاویں جن سے وہ عالم غیب کے نظارے دیکھ لے.وہ حواس مختلف طور سے ملتے ہیں.کبھی بصر میں، کبھی شامہ (سونگھنے) میں کبھی سمع میں.شامہ میں اس طرح جیسے کہ حضرت یوسف کے والد نے کہا لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ لَوْلَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ(یوسف:۹۵) (کہ مجھے یوسف کی خوشبو آتی ہے.اگر تم یہ نہ کہو کہ بوڑھا بہک گیا).اس سے مراد وہی نئے حواس ہیں جو کہ یعقوبؑکو اس وقت حاصل ہوئے اور انہوں نے معلوم کیا کہ یوسفؑ زندہ موجود ہے اور ملنے والا ہے.اس خوشبو کو دوسرے پاس والے نہ سونگھ سکے کیونکہ ان کو وہ حواس نہ ملے تھے جو کہ یعقوبؑکو ملے.جیسے گڑ سے شکر بنتی ہے اور شکر سے کھانڈ اورکھانڈ سے اور دوسری شیرینیاں لطیف در لطیف بنتی ہیں.ایسے ہی رؤیا کی حالت ترقی کرتی کرتی کشف کا رنگ اختیارکرتی ہے اور جب وہ بہت صفائی پر آجاوے تو اس کا نام کشف ہوتا ہے.کشف اور وحی میں فرق لیکن وحی ایسی شے ہے جو کہ اس سے بدرجہا بڑھ کر صاف ہے اور اس کے حاصل ہونے کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے.کشف تو ایک ہندو کو بھی ہو سکتا ہے بلکہ ایک دہریہ بھی جو خدا کو نہ مانتا ہو وہ بھی اس میں کچھ نہ کچھ کمال حاصل کر لیتا ہے.لیکن وحی سوائے مسلمان کے دوسرے کو نہیں ہو سکتی.یہ اسی امت کا حصہ ہے.کیونکہ کشف تو ایک فطرتی خاصہ انسان کا ہے اور ریاضت سے یہ حاصل ہو سکتا ہے خواہ کوئی کرے کیونکہ فطرتی امر ہے جیسے جیسے کوئی اس میں مشق اور محنت کرے گا ویسے ویسے اس پر اس کی حالتیں طاری ہوں گی اور ہر نیک و بد کو رؤیا کا ہونا اس امر پر دلیل ہے.دیکھا ہوگا کہ سچی خوابیں بعض فاسق و فاجر لوگوں کو بھی آجاتی ہیں.پس جیسے ان کو سچی خوابیں آتی ہیں ویسے ہی زیادہ مشق سے کشف بھی ان کو

Page 109

ہوسکتے ہیں.حتی کہ حیوان بھی صاحب کشف ہو سکتا ہے لیکن الہام یعنی وحی الٰہی ایسی شے ہے کہ جب تک خدا سے پوری صلح نہ ہو اور اس کی اطاعت کے لیے اس نے گردن نہ رکھ دی ہو تب تک وہ کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(حٰمٓ السّجدۃ:۳۱) یہ اسی امر کی طرف اشارہ ہے.نزول وحی کا صرف ان کے ساتھ وابستہ ہے جو کہ خدا کی راہ میں مستقیم ہیں اور وہ صرف مسلمان ہی ہیں.وحی ہی وہ شے ہے کہ جس سے اَنا الموجود کی آواز کان میں آکر ہر ایک شک اور شبہ سے ایمان کو نجات دیتی ہے اور بغیر جس کے مرتبہ یقین کامل کا انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا.لیکن کشف میں یہ آواز کبھی نہیں سنائی دیتی اور یہی وجہ ہے کہ صاحبِ کشف ایک دہریہ بھی ہو سکتا ہے.لیکن صاحب وحی کبھی دہریہ نہیں ہوگا.اس مقام پر حضرت نور الدین صاحب حکیم الامۃ نے عرض کی کہ حضور سائل کا منشا یہ ہے کہ یہ خواہش کسی طرح دل سے دور ہو جاوے.خدا کے برگزیدہ اور محبوب نے فرمایا کہ ان کے دل میں کشف کی جو عظمت بیٹھی ہوئی ہے جب تک وہ نہ دور ہوگی تو علاج کیسے ہوگا اسی لیے تو میں فرق بیان کر رہا ہوں.ہمارے ہاں ایک چوڑھی (خاکروبہ) آتی ہے وہ بھی سچی خوابوں کا ایک سلسلہ بیان کیا کرتی ہے لیکن اس سے اس کا عند اللہ مقرب ہونا یا صاحب کرامت ہونا ثابت نہیں ہوتا.ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک مسلمان کا کشف جس قدر صاف ہوگا اس قدر غیر مسلم کا ہرگز صاف نہ ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ ایک مسلم اور غیر مسلم میں تمیز رکھتا ہے اور فرماتا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا(الشّمس:۱۰).لیکن وحی کو کشف نہیں پاسکتا.یہ وحی کی ہی قدر ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے ارادہ سے اس کے لیے ایک شخص کو انتخاب کرتا ہے اور شرف مکالمہ بخشتا ہے اور ہرمیدان میں اس کا حافظ و ناصر ہوتا ہے اور صاحب وحی کے تعلقات دن بدن خدا سے قائم ہوتے اور بڑھتے جاتے ہیں اور ایمان میں غیر معمولی ترقی روز مشاہدہ کرتا ہے.۱

Page 110

۲۵؍مارچ ۱۹۰۵ء (بوقتِ عصر) اپنی صداقت پر کمال یقین عصر کی نمازسے پیشتر حضرت حجۃ اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور صاحبزادہ سراج الحق صاحب نعمانی نے اپنے بڑے بھائی شاہ خلیل الرحمٰن صاحب سجادہ نشین سرساوہ کا خط سنایا جس میں انہوں نے حضرت حجۃ اللہ علیہ الصلوٰۃ و السلام کی نسبت بطور پیشگوئی لکھا تھا کہ وہ جلد فوت ہوجائیں گے اور ان کے سلسلہ کا خاتمہ ہوجائے گا اور یہ بھی لکھا تھا کہ میں کشف قبور کر سکتا ہوں اور کرا سکتا ہوں.اگر مرزا صاحب سچے ہیں تو وہ بھی مجھے کشف قبور کر کے دکھائیں وغیرہ.ملخّصاً.حضرت اقدسؑ نے سر سری طور پر اس کارڈ کو سن لیا.پھر نمازِ عصر ادا فرمائی.بعد نماز عصر کوئی ایسی تحریک آپ کو ہوئی کہ آپ نے صاحبزادہ سراج الحق صاحب کو وہیں مسجد ہی میں بلایا اور فرمایا کہ جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے.آپ ان کو اپنی طرف سے ایک خط لکھ دو کہ یہ پیشگوئی جو آپ نے کی ہے اس سے میری تو برسوں کی مراد بَر آئی.میں یہی چاہتا تھا کیونکہ اس سے سچائی کا فیصلہ ہوجاتا ہے.لیکن مہربانی کر کے اتنی تصریح کر دو کہ کیا وہ (مرزا صاحب) آپ سے پہلے فوت ہوں گے یا پیچھے تاکہ پھر اس پیشگوئی کو آپ کی کرامت قرار دے کر شائع کر دیا جاوے.جب یہ پیشگوئی پوری ہوگی اس وقت دنیا دیکھ لے گی.پس آپ اب ہرگز دیر نہ کریں.بہت جلد اس امر کو لکھ بھیجیں.اور کشف قبور کا معاملہ تو بالکل بیہودہ امر ہے.جو شخص زندہ خدا سے کلام کرتا ہے اور اس کی تازہ بتازہ وحی اس پر آتی ہے اور اس کے ہزاروں نہیں لاکھوں ثبوت بھی موجود ہیں.اس کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ مُردوں سے کلام کرے اور مُردوں کی تلاش کرے اور اس امر کا ثبوت ہی کیا ہے کہ فلاں مُردے سے کلام کیا ہے.یہاں تو لاکھوں ثبوت موجود ہیں.ایک ایک کارڈ اور ایک ایک آدمی اور ایک ایک روپیہ جو اَب آتا ہے وہ خدا کا ایک زبردست نشان ہے.کیونکہ ایک عرصہ دراز پیشتر خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ يَاْتُوْنَ

Page 111

مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ.وَ یَأْتِیْکَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ.اور ایسے وقت فرمایا تھا کہ کوئی شخص بھی مجھے نہ جانتا تھا.اب یہ پیشگوئی کیسے زور شور سے پوری ہو رہی ہے.کیا اس کی کوئی نظیر بھی ہے؟ غرض ہمیں ضرورت کیا پڑی ہے کہ ہم زندہ خدا کو چھوڑ کر مُردوںکو تلاش کریں؟۱ ۲۷؍مارچ ۱۹۰۵ء (بوقتِ ظہر) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اہم مکتوب ظہر کی اذان ہو چکنے کے بعد اعلیٰ حضرت تشریف لائے.باہر سے آئے ہوئے مہمانوں نے شرفِ زیارت پایا.زاں بعد حضرت مخدوم الملت مولوی عبد الکریم صاحب نے بابو عطا الٰہی صاحب سٹیشن ماسٹر کی طرف سے حصولِ اجازت کے لیے عرض کیا.آپ نے بابو عطا الٰہی صاحب کو بلا کر فرمایا کہ مئی، جون، جولائی وغیرہ مہینوں میں کوئی موقع یہاں رہنے کے لیے نکالنا چاہیے.آئندہ جب رخصت لو تو ان مہینوں کو مد نظر رکھ لینا.اس کے بعد حضرت مخدوم الملت نے عرض کیا کہ میں نے حضور کا وہ خط اخبار میں شائع کرنے کو دے دیا ہے اور اس پر ایک مضمون بھی لکھ دیا ہے.فرمایا.بہت اچھا کیا؟۲ (جس خط کا حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے ذکر کیا ہے یہ خط الحکم جلد ۹ نمبر ۱۱ مورخہ ۳۱؍مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۸ پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے تشریحی مضمون کے ساتھ شائع ہوا ہے جو مندرجہ ذیل ہے.مرتّب) ’’محبی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میں ایک مدت سے بیماریوں میں رہا.اور اب بھی ان کا بقیہ باقی ہے.میں چاہتا تھا کہ اپنے ہاتھ

Page 112

سے جواب لکھوں مگر بباعث بیماری کے لکھ نہ سکا.آپ کے پہلے خط کا ماحصل جس قدر مجھ کو یاد ہے یہ ہے کہ میری نسبت آپ نے ۱.....کی جماعت کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا تھا کہ روپیہ کے خرچ میں بہت اسراف ہوتا ہے.آپ اپنے پاس روپیہ جمع نہ رکھیں.اور یہ روپیہ ایک کمیٹی کے سپرد ہو جو حسب ضرورت خرچ کیا کریں اور یہ بھی ذکر تھا کہ اسی روپیہ میں سے باغ کے چند خدمتگار بھی روٹیاں کھاتے ہیں.اور ایسا ہی اور کئی قسم کے اسراف کی طرف اشارہ تھا جن کو میں سمجھتا ہوں آپ نے اپنی نیک نیتی سے جو کچھ لکھا بہتر لکھا.میں ضروری نہیں سمجھتا کہ اس کا رد لکھوں.میں آپ کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں جس کی قسم کو پورا کرنا مومن کا فرض ہے اور اس کی خلاف ورزی معصیت ہے کہ آپ.....کی تمام جماعت کو اور خصوصاً ایسے صاحبوں کو جن کے دلوں میں یہ اعتراض پیدا ہوا ہے بہت صفائی سے اور کھول کر سمجھادیں کہ اس کے بعد ہم......کا چندہ بکلّی بند کرتے ہیں اور ان پر حرام ہے اور قطعاً حرام ہے اور مثل گوشت خنزیر ہے کہ ہمارے کسی سلسلہ کی مدد کے لیے اپنی تمام زندگی تک ایک حبہ بھی بھیجیں.ایسا ہی ہر شخص جو ایسے اعتراض دل میں مخفی رکھتا ہے اس کو بھی ہم یہی قسم دیتے ہیں.یہ کام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جس طرح وہ میرے دل میں ڈالتا ہے خواہ وہ کام لوگوں کی نظر میں صحیح ہے یا غیر صحیح درست ہے یا غلط میں اسی طرح کرتا ہوں.پس جو شخص کچھ مدد دے کر مجھے اسراف کا طعنہ دیتا ہے وہ میرے پر حملہ کرتا ہے.ایسا حملہ قابل برداشت نہیں.اصل تو یہ ہے کہ مجھے کسی کی بھی پروا نہیں.اگر تمام جماعت کے لوگ متفق ہو کر چندہ بند کر دیں یا مجھ سے منحرف ہوجائیں تو وہ جس نے مجھ سے وعدہ کیا ہوا ہے وہ اور جماعت ان سے بہتر پیدا کر دے گا جو صدق اور اخلاص رکھتی ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے یَنْصُـرُکَ اللہُ مِنْ عِنْدِہٖ.یَنْصُـرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْـھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ یعنی خدا تیری اپنے پاس سے مدد کرے گا.تیری وہ مدد کریں گے جن کے دلوں میں ہم آپ وحی کریں گے اور الہام کریں گے.پس اس کے بعد میں ایسے لوگوں کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح بھی نہیں سمجھتا جن کے دلوں میں بد گمانیاں پیدا ہوتی ہیں.اور کیا

Page 113

وجہ کہ اٹھیں جبکہ میں ایسے خشک دل لوگوں کو چندہ کے لیے مجبور نہیں کرتا جن کا ایمان ہنوز نا تمام ہے.مجھے وہ لوگ چندہ دے سکتے ہیں جو اپنے سچے دل سے مجھے خلیفۃ اللہ سمجھتے ہیں.اور میرے تمام کاروبار خواہ ان کو سمجھیں یا نہ سمجھیں ان پر ایمان لاتے اور ان پر اعتراض کرنا موجب سلب ایمان سمجھتے ہیں.میں تاجر نہیں کہ کوئی حساب رکھوں.میں کسی کمیٹی کا خزانچی نہیں کہ کسی کو حساب دوں.میں بلند آواز سے کہتا ہوں کہ ہر ایک شخص جو ایک ذرہ بھی میری نسبت اور میرے مصارف کی نسبت اعتراض دل میں رکھتا ہے اس پر حرام ہے کہ ایک کوڑی میری طرف بھیجے.مجھے کسی کی پروا نہیں.جبکہ خدا مجھے بکثرت کہتا ہے گویا ہر روز کہتا ہے کہ میں ہی بھیجتا ہوں جو آتا ہے اور کبھی میرے مصارف پر وہ اعتراض نہیں کرتا تو دوسرا کون ہے جو مجھ پر اعتراض کرے.ایسا اعتراض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی تقسیم اموال غنیمت کے وقت کیا گیا تھا.سو میں آپ کو دوبارہ لکھتا ہوں کہ آئندہ سب کو کہہ دیں کہ تم کو اس خدا کی قسم ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور ایسا ہی ہر ایک جو اس خیال میں ان کا شریک ہے کہ ایک حبہ بھی میری طرف کسی سلسلہ کے لیے کبھی اپنی عمر تک ارسال نہ کریں پھر دیکھیں کہ ہمارا کیا حرج ہوا؟ اب قسم کے بعد میرے پاس نہیں کہ اور لکھوں.‘‘ خاکسار مرزا غلام احمد۱ حل مشکلات کا طریق ایک شخص نے اپنے مشکلات کے لیے عرض کی.فرمایا.استغفار کثرت سے پڑھا کرو اور نمازوں میں یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ اَسْتَغِیْثُ بِرَحْـمَتِکَ یَا اَرْحَـمَ الرَّاحِـمِیْنَ پڑھو.پھر اس نے عرض کیا کہ استغفار کتنی مرتبہ پڑھوں؟ فرمایا.کوئی تعداد نہیں.کثرت سے پڑھو یہاں تک کہ ذوق پیدا ہو جاوے اور استغفار کو منتر کی طرح نہ پڑھو بلکہ سمجھ کر پڑھو.خواہ اپنی زبان میں ہی ہو.اس کے معنے یہ ہیں کہ اے اللہ! مجھے گناہوں کے برے نتیجوں سے محفوظ رکھ اور آئندہ گناہوں سے بچا.

Page 114

زاں بعد خاکسار ایڈیٹر الحکم نے مولوی مشرف الدین احمد صاحب کے صاحبزادہ کے لیے دعا کے واسطے عرض کیا.فرمایا.ان کا خط بھی آیا ہے ان کو لکھ دو کہ یاد دلاتے رہیں.ایک الہام مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے بیان کیا کہ کل جب میں اٹھا تو میری زبان پر یہ جاری تھا جو حضور کا الہام ہے.’’آگ سے ہمیں مت ڈرا.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.‘‘ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ کل مجھے الہام ہوا تھا.’’چودہری رستم علی‘‘ اس کے ساتھ اور کچھ نہیں تھا.۱

Page 115

حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا تقرر بحیثیت ایڈیٹر اخبار البدر ۳۰؍مارچ ۱۹۰۵ء بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ نَـحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اطلاع میں بڑی خوشی سے یہ چند سطریں تحریر کرتا ہوں کہ اگرچہ منشی محمد افضل مرحوم ایڈیٹر اخبار البدر قضائے الٰہی سے فوت ہوگئے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے شکر اور فضل سے ان کا نعم البدل اخبار کو ہاتھ آگیا ہے.یعنی ہمارے سلسلہ کے ایک برگزیدہ رکن جوان صالح اور ہر یک طور سے لائق جن کی خوبیوں کے بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں یعنی مفتی محمد صادق صاحب بھیروی قائم مقام منشی محمد افضل مرحوم ہوگئے ہیں.میری دانست میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اس اخبار کی قسمت جاگ اٹھی ہے کہ اس کو ایسا لائق اور صالح ایڈیٹر ہاتھ آیا.خدا تعالیٰ یہ کام ان کے لیے مبارک کرے اور ان کے کاروبار میں برکت ڈالے.آمین ثم آمین.خاکسار میرزا غلام احمد.۲۳ محرم الحرام ۱۳۲۳ھ علیٰ صاحبہا التحیہ والسلام ۳۰؍مارچ ۱۹۰۵ ء۱

Page 116

یکم اپریل ۱۹۰۵ء شیخ عبد الحق صاحب بی اے حضرتؑکی خدمت میں حاضر ہوئے.فرمایا.مدرسہ میں آپ کے تقرر کی بہت خوشی ہوئی.خدا مبارک کرے.آپ کا یہاں قیام کرنا میں بہت پسند کرتا ہوں.۱ (قبل ظہر ) اعلیٰ حضرت حجۃ اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ظہر سے پیشتر تھوڑی دیر مجلس فرمائی.فرمایاکہ عصر کے بعد میری طبیعت خراب ہوجاتی ہے میں اس لیے شام کو آ نہیں سکتا.اپنے محبین سے شفقت اور ہمدردی مولانا مولوی عبد الکریم صاحب سَلَّمَہٗ رَبُّہٗ کو کثرت پیشاب کی دو تین دن سے پھر شکایت ہو گئی ہے اور آج اعلیٰ حضرت نے ان کا قارورہ منگوا کر دیکھا تھا جو کثیر مقدار میں تھا.اس کے متعلق مولوی عبد الکریم صاحب کو مخاطب کر کے جو کچھ فرمایا اس سے آپ کی کمال شفقت اور ہمدردی کا ثبوت ملتا ہے اس لیے میں خلاصۃً اسے اپنے الفاظ میں درج کرتا ہوں.فرمایا.میں آپ کا پیشاب دیکھ کر بہت حیران ہوگیا.میں نے تو اس کے بعد دعا ہی شروع کر دی اور انشاء اللہ بہت دعا کروں گا.۲ مجھے چونکہ خود کثرت پیشاب کی شکایت ہے میں جانتا ہوں کہ کس قدر تکلیف ہوتی، دل گھٹتا ہے اور پنڈلیوں میں درد ہونے لگتا ہے.بہت بے چینی اور گھبراہٹ ہو جاتی ہے.میں نے ارادہ کیا ہے کہ اس رسالہ۳ کو ختم کر لینے کے بعد کچھ دنوں تک صرف دعا ہی میں لگا رہوں گا.

Page 117

میں نے جو گولی آپ کو بنا کر دی تھی وہ مفید ثابت ہوئی تھی.آپ اس کا استعمال کریں میں بھیج دوں گا اور ختم ہونے پر اَور دوا طیار ہوسکتی ہے.آپ دودھ کثرت سے پئیں وہ اس مرض میں بہت مفید ہے.اور میں انشاء اللہ بہت دعا کروں گا.آپ کے اس پیشاب کو دیکھ کر مجھے تو حیرت ہی ہوئی کہ آپ کس طرح التزام کے ساتھ نمازوں میں آتے ہیں اور آپ کی آواز سے بھی معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کو شکایت ہے.اس پر حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے فرمایا کہ حضور کی دعا ہے جو اس ہٹ اور استقلال سے میں حاضر ہوتا ہوں ورنہ بعض اوقات قریب بہ غش ہوجاتا ہوں.پھر حضرت اقدس نے فرمایا کہ میں بہت دعا کروں گا.مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور کی عافیت چاہیے.فرمایا.عافیت ہو ہی جاتی ہے.جب میں آپ کے لیے دعا کروں گا.حدیث میں آیا ہے مَنْ کَانَ فِیْ عَوْنِ اَخِیْہِ کَانَ اللہُ فِیْ عَوْنِہٖ جو اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا مددگار ہوجاتا ہے.۱ دو الہامات اس کے بعد فرمایا.کل الہام ہوا تھا مَـحَوْنَا نَارَ جَھَنَّمَ۲ اللہ تعالیٰ کے کلام میں یہ عجیب بات ہوتی ہے کہ بعض اوقات صرفی نحوی ایسی ترکیب پر اعتراض کر اٹھتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان کے ماتحت تو نہیں ہے.۳

Page 118

طاعون کو بھی نارِ جہنم کہا ہے.پہلے بھی ایک الہام ہوا تھا یَـاْتِیْ عَـلٰی جَــــھَـــنَّـــمَ زَمَـــانٌ لَــــیْسَ فِیْـھَا اَحَدٌ.اس کے بعد آپ نے نماز ظہر جماعت کے ساتھ معمول کے موافق ادا کی اور آپ تشریف لے گئے.۱ ۳؍اپریل ۱۹۰۵ء محبین سے تعلق خاطر سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی کے تقرر مستقل بر عہدہ سپرنٹنڈنٹ دفتر صاحب ضلع کی خبر حضرت کی خدمت میں سنائی گئی.آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ شاہ صاحب ایک درویش مزاج آدمی ہیں اور خدا ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتا ہے.مولوی عبد الکریم صاحب کی علالت طبع کا ذکر تھا حضرت نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں نے آپ کے واسطے اس قدر دعا کی ہے جس کی حد نہیں.۲ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء ایک زور آور زلزلہ کا نشان صبح۴ ۱ ۶ بجے یک دفعہ نہایت زور آور حملہ زلزلہ کا ہوا.تمام مکانات اور اشیاء ہلنے اور ڈولنے لگ پڑیں.لوگ حیران اور سراسیمہ ہو کر گھبرانے لگے.ایسے وقت میں خدا کے مسیح کا حال دیکھنے کے لائق تھا کیونکہ احادیث میں تو ہم پڑھا ہی کرتے تھے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے آسمانی اور زمینی واقعات پر خشیت اللہ کا بڑا اثر

Page 119

اپنے چہرے پر ظاہر فرماتے تھے.ذرا سے بادل کے نمودار ہونے پر آپ بےآرام سے ہو جاتے.کبھی باہر نکلتے اور کبھی اندر جاتے.غرض اس وقت بھی نبی اللہ نے ہر کہ عارف تر است ترساں تر والے مقولہ کو عملی رنگ میں بالکل سچا کر کے دکھایا.زلزلہ کے شروع ہوتے ہی آپ بمعہ اہل بیت اور بال بچہ کے اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا کرنے میں شروع ہوگئے اور اپنے رب کے آگے سر بسجود ہوئے.بہت دیر تک قیام، رکوع اور سجدہ میں سارا کنبہ کا کنبہ بمعہ خدام کے گرا رہا اور اللہ تعالیٰ کی بے نیازی سے لرزاں و ترساں رہا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے تمام مکانات اور جانوں کو گرنے اور تلف ہونے سے محفوظ رکھا اور کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جیسا کہ دوسرے شہروں سے تباہی اور ہلاکت کی خبریں آرہی ہیں بلکہ ایسے مکانات جن کے پردے صرف ایک ایک اینٹ کے تھے اور کچھ پھٹے ہوئے بھی تھے اور بعض اینٹیں اکھڑی ہوئی یونہی پڑی تھیں ان میں سے ایک اینٹ بھی نہیں گری چونکہ ہر دس منٹ کے بعد بار بار زلزلہ کا احساس ہوتا تھا اور تمام روز کچھ کچھ زلزلہ محسوس ہوتا رہا.اس واسطے حضور اقدس نے برعایت اسباب مناسب سمجھا کہ سہ منزلہ مکان میں رہنے کے بجائے اپنے باغ والے مکان میں ایک دو روز کے واسطے رہائش اختیار کریں.اگرچہ اس موقع پر کچھ خوف ہم سب کو دیکھنا پڑا ہے تاہم در اصل اس پاک مسیح کے قدموںکے طفیل کوئی امر ہمارے واسطے فائدہ سے خالی نہیں.اوّل تو ۳؍ اپریل کی رؤیا اس سے پوری ہوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھی تھی.اور کئی ایک کو سنائی تھی.۱

Page 120

دوم اشتہار الوصیت میں جو ایک عظیم الشان پیشگوئی حضرت امامؑ نے ابھی چند روز ہوئے شائع کی تھی کہ ایک شور قیامت برپا ہے اور موتا موتی لگی ہوئی ہے اور لوگ چیخ رہے ہیں.وہ پوری ہوئی.یہ اشتہار الوصیت اخبار الحکم مورخہ ۲۸؍فروری ۱۹۰۵ء اور اخبار البدر مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۵ء اور ریویو آف ریلیجنز بابت ماہ مارچ ۱۹۰۵ء میں شائع ہو گیا تھا.اس زلزلہ کی خبر براہین احمدیہ میں بھی دی گئی تھی.غرض یہ ایک بڑا نشان ہے جو خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمایا.اسی زلزلہ کا ذکر تھا حضرتؑنے فرمایا کہ یہ ایک قیامت ہے جو لوگ قیامت کے منکر ہیں وہ اب دیکھ لیں کہ کس طرح ایک ہی سیکنڈ میں ساری دنیا فنا ہو سکتی ہے.جب لوگوں کو بہت امن اور آسودگی حاصل ہو جاتی ہے تو وہ خدا سے اعراض کرتے ہیں یہاں تک کہ خدا کا انکار کر دیتے ہیں.اس قسم کا امن ایک خباثت کا پھوڑا ہے.یہ قیامت لوگوں کے واسطے عذاب مگر ہمارے واسطے مفید ہے.پھر آپ نے سلطان احمد کو دیکھنے والا رؤیا بیان کیا جو الہامات کے ذیل میں درج کیا گیا ہے.اور میاں بشیر احمد اور شریف احمد کے خوابوں کا پھر ذکر کیا.اور براہین احمدیہ کے حصہ پنجم کے چھپنے کا ذکر کیا جس کا نام نصرت الحق ہے اور فرمایا.یہ قیامت ہمارے لیے نصرت الحق ہے.ہم صبح یہی مضمون لکھ رہے تھے اور اس الہام پر پہنچے تھے جو براہین احمدیہ میں درج تھا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کردے گا.ہم یہ الفاظ لکھ ہی رہے

Page 121

تھے اور اس کے پورا ہونے کے ثبوت آگے درج کرنے کو تھے کہ یک دفعہ زلزلہ ہوا.یہ ایک زور آور حملہ ہے اور پیشگوئی میں حملوں کا لفظ جمع ہے جو عربی میں تین پر اطلاق پاتا ہے.اس واسطے خوف ہے کہ طاعون اور زلزلہ کے سوائے خدا جانے تیسرا حملہ کون سا ہے جو ہماری سچائی کے ثبوت کے واسطے خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمانا ہے اور ابھی خدا جانے کیا ہے باہر سے خبریں آئیں گی تو معلوم ہوگا کہ کس قدر تباہی ہوئی ہے.ہم نے کل ہی کہا تھا کہ خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہیبت ناک نشان ہونے والا ہے.یہ ایک ہلاکت کا نشان ہے جماعت کے سب لوگوں کو چاہیے کہ اپنی حالتوں کو درست کریں توبہ و استغفار کریں اور تمام شکوک و شبہات کو دور کر کے اور اپنے دلوں کو پاک و صاف کر کے دعاؤں میں لگ جائیں اور ایسی دعا کریں کہ گویا مر ہی جائیں تاکہ خدا ان کو اپنے غضب کی ہلاکت کی موت سے بچائے.بنی اسرائیل جب گناہ کرتے تھے تو حکم ہوتا تھا کہ اپنے تئیں قتل کرو.اب اس امت مرحومہ سے وہ حکم تو اٹھایا گیا ہے مگر یہ اس کے بجائے ہے کہ دعا ایسی کرو کہ گویا اپنے آپ کو قتل ہی کر دو.یہ الہامات جو پہلے سے شائع ہو چکے ہیں کہ مکذبوں کو ایک نشان دکھایا جائے گا اور یہ کہ ایک چونکا دینے والی خبر.یہ سب اب پورے ہوگئے ہیں اور دیکھنے والوں کے واسطے کافی سے زیادہ سامان ایمان لانے کے پیدا ہو چکے ہیں.۱ ۵؍اپریل ۱۹۰۵ء نصرۃ الحق کے ایام سید امیر علی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر کو مخاطب کر کے نہایت لطف و مہربانی کے ساتھ حضرت نے فرمایا کہ ’’آپ کو کچھ تکلیف تو نہیں ہوئی.‘‘

Page 122

انہوں نے عرض کی کہ حضور کے قدموں میں حاضری نصیب ہو تو پھر تکلیف کس بات کی.یہاں تو جو ہو سب راحت ہی راحت ہے.حضرتؑ نے فرمایا.ہاں رحمت الٰہی کے دن ہیں.گو دوسروں کے واسطے عذاب کے دن ہیں مگر ہمارے واسطے نصرۃ الحق کے ایام ہیں.۱ ۷؍اپریل ۱۹۰۵ء قادیان دارالامان مختلف مقامات سے نہایت سخت تباہی اور سینکڑوں آدمیوں کے دب جانے اور مر جانے اور ہزاروں مکانات کے گر جانے اور زمینوں کے دھس جانے کا ذکر ہو رہا تھا.بالمقابل اس کے قادیان میں جو امن رہا اس کے متعلق حضرت نے فرمایا کہ اس میں وہ وحی الٰہی بھی پوری ہوئی جو مدت ہوا اخباروں میں شائع ہوئی تھی کہ امن است در مقام محبت سرائے ما ان تباہیوں اور شہروں کے دبنے سے وہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی جس کو گیارہ ماہ ہوئے کہ شائع ہوئی تھی اور گورداسپور میں نازل ہوئی تھی کہ عَفَتِ الدِّیَارُ مَـحَلُّھَا وَ مَقَامُھَا یعنی سرائیں بھی تباہ ہوگئیں اور اصلی مقامات بود و باش بھی مٹ گئے اور ان کے نشان بھی مٹ گئے.باغ کے مکان میں منتقل ہونا قادیان کے گاؤں سے بعض آدمیوں کے طاعون میں مبتلا ہونے اور بعض کے مرنے کا ذکر ہوا.حضرت نے فرمایا.خدا جانے ہمارے باہر آجانے میں کیا کیا حکمتیں ہیں اگر قادیان میں سو آدمی روز طاعون سے مرنے لگتا تب بھی ہم نے قادیان سے نہیں نکلنا تھا مگر اس میں خدا تعالیٰ کی کوئی حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایسی نئی بات پیدا ہوگئی یعنی سخت زلزلہ کے سبب سہ منزلہ مکانات کے گرنے کا اندیشہ ہوتا ہے اس واسطے بموجب پابندی شریعت اپنے آپ کو خطرناک جگہ سے محفوظ کرنے کے

Page 123

واسطے ہم باہر آگئے اورزلزلہ کی کیفیت ایسی ہے کہ اب تک محسوس ہوتا ہے.خدا نے دل میں پختہ طور سے یہی بات ڈال دی کہ اب باہر جانا چاہیے.طاعون کے لحاظ سے باہر آنا تو گناہ تھا مگر زلزلہ کے سبب خدا نے یہ بات دل میں ڈال دی اور اس سے ہم کو بہت فائدہ اور آرام ہوا.کیونکہ باغ میں عمدہ ہوا اور خوشبو دار پھولوں کے سبب مضامین کے لکھنے اور فکر اور تدابیر کے واسطے عمدہ موقع ملتا ہے اور صحت میں بہت ترقی محسوس ہوتی ہے اور درختوں کی چھاؤں کے نیچے دعا کے واسطے عمدہ خلوت گاہ مل جاتی ہے جس کے سبب ہم باغ کے مکان میں آگئے.نشانات کی کثرت اور وسعت فرمایا.اب تو اس قدر نشانات ظاہر ہو رہے ہیں کہ گویا خدا اپنے آپ کو برہنہ کر کے دکھانا چاہتا ہے.فرمایا.پہلے انبیاء کے معجزات تو خاص زمینوں اور خاص شہروں تک عموماً محدود ہوتے تھے مگر اب تو خدا تعالیٰ ایسے نشان اس سلسلہ کی تائید میں ظاہر کرتا ہے جو دنیا بھر پر اپنا اثر ڈالتے ہیں.۱ ۸؍اپریل ۱۹۰۵ء فرمایا.جب دنیا مد نظر ہو تو تطہیر مشکل ہے.۲ ۹؍اپریل۱۹۰۵ء سلسلہ کی مخالفت اور اللہ تعالیٰ کی چہرہ نمائی پرچہ اہلحدیث امرتسر کا ذکر ہوا جس نے بہت سے بے جا حملے خدا کے سلسلہ پر کئے.حضرت اقدسؑ نے فرمایا.کم علم آدمی تو معذور ہوتا ہے معاف بھی کیا جاتا ہے مگر تعجب ہے ان

Page 124

لوگوں پر جو علم رکھتے ہیں اور پھر بھی تقویٰ اختیار نہیں کرتے.کسی کو کیا معلوم کہ اندر ہی اندر کیا طیاری ہو رہی ہے اور ابھی زمین پر کیا ہونے والا ہے.جب اللہ تعالیٰ ایسی تباہی لائے گا جس کی خبر وحی الٰہی میں ہے تو پھر توبہ اور رجوع بھی فائدہ نہ دے گا.مبارک ہیں وہ جو پہلے ایمان لائے اور پھر وہ جو اُن کے بعد آئے.ایسا ہی درجہ بدرجہ سب کا حصہ ہے.دیکھو کس قدر قیامت کا نمونہ ہے مگر پھر بھی یہ لوگ باز نہیں آتے اور ناجائز باتیں کہتے ہیں.لیکن ہماری جماعت کو چاہیے کہ ان کی باتوں کے سبب غمگین نہ ہوویں.یہ لوگ جیسے اہلحدیث وغیرہ ہیں یہ ہمارے سلسلہ کی رونق ہیں.اگر اس قسم کے شور مچانے والے نہ ہوں تو رونق کم ہوجاتی ہے کیونکہ جس نے مان لیا ہے وہ تو اپنے آپ کو فروخت کر چکا ہے اور مثل مردہ کے ہے وہ کیا بولے گا وہ تو زبان کھول ہی نہیں سکتا.اگر سارے ابو بکر ہی بن جاتے تو پھر ایسی بڑی بڑی نصرتوں کی کیا ضرورت پڑتی جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر ہوئی تھیں.دیکھو سنت اللہ یہی ہے کہ پہلے سخت گرمی پڑے پھر برسات ہو.پس تم خوش ہو کہ ایسے آدمی دنیا میں موجود ہیں جو اس نصرت اور فتح کو جو کروڑوں کوس دور ہوتی ہے ایک دو کوس کے قریب کھینچ لاتے ہیں.اب ان معاملات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے.آج کے الہامات پر غور کرو.اب بحث مباحثہ کی کوئی ضرورت نہیں.ہماری طرف سے خدا آپ جواب دینے لگا ہے تو خلاف ادب ہے کہ ہم دخل دیں اور سبقت کریں.جس کام کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے وہ اس کو ناقص نہ چھوڑے گا.کیونکہ اب اگر امن ہو جائے اور کوئی نشان نہ دکھایا جائے تو قریب ہے کہ ساری دنیا دہریہ بن جائے اور کوئی نہ جانے کہ خدا ہے.لیکن خدا اب اپنا چہرہ دکھائے گا.میرے۱ لڑکے محمد منظور کا رؤیا حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا گیا.فرمایا.مومن کبھی رؤیا دیکھتا ہے اور کبھی اس کی خاطر کسی اور کو دکھاتا ہے.ہم نے اس کی تعمیل میں چودہ بکرے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے.سب جماعت کو کہہ دو کہ جس جس کو استطاعت ہے قربانی کر دے.

Page 125

ایک پرانا الہام فرمایا کہ ہمیں اس وقت اپنا پرانا الہام یاد آتا ہے کہ وَتَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ فَجَعَلَهٗ دَكًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰى صَعِقًا جو براہین احمدیہ میں درج ہے.اور تجلی کی اس کے رب نے پہاڑ پر یعنی مشکلات کے پہاڑ پر اور کر دیا اس کو پاش پاش اور گرا موسیٰ بے ہوش ہو کر.یعنی ایسی تجلی ہیبت ناک تھی کہ اس کی ہیبت کا اثر موسیٰ پر بھی پڑا.زلزلہ کے پہلے دھکّا کے وقت ہم دعا کرتے ہوئے سجدے میں گر پڑے تھے.ایک ہیبت ناک صورت پیش نظر تھی جس کا ایک قوی اثر دل پر تھا.ایسا اثر تھا کہ گویا ایک صعق کی قسم تھی.آج کے الہام میں جو آئندہ زلزلہ کا خوف ہے معلوم نہیں کہ کب پورا ہو اور معلوم نہیں کہ زلزلہ سے مراد کس قسم کا عذاب ہے.عَفَتِ الدِّیَارُ مَـحَلُّھَا وَ مَقَامُھَا والا الہام کیسا پورا ہوا کہ شہر اور چھاؤنیوں کے نشان مِٹ گئے.نہ خانہ رہا اور نہ صاحب خانہ.آریوں کے اخبار ڈیلی ٹائمز اور آریہ پترکا اور اہلحدیث نے جو مخالفانہ ریمارکس کئے ہیں ان کا ذکر آیا.حضرت نے فرمایا کہ ان سب کو یہی جواب دے دو کہ ہم آسمانی فیصلہ کے منتظر ہیں تمہارا جواب دینا پسند نہیں کرتے.تمہارا جو جی چاہے کہتے جاؤ.انبیاء کی تربیت آہستہ آہستہ ہوتی ہے فرمایا.تربیت انبیاء کی اسی طرح آہستہ آہستہ ہوتی چلی آئی ہے ابتدا میں جب مخالف دکھ دیتے ہیں تو صبر کا حکم ہوتا ہے اور نبی صبر کرتا ہے یہاں تک کہ دکھ حد سے بڑھ جاتا ہے.تب خدا کہتا ہے کہ اب میں خود تیرے دشمنوں کا مقابلہ کروں گا.اب یقیناً جانو کہ وقت بہت قریب ہے اس وقت ہمیں وہ وحی الٰہی یاد آتی ہے جو عرصہ ہوا کہ ہم پر نازل ہوئی تھی کہ قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ.وَلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا.ان مخالفوں کی مخالف باتوں کا کوئی نشان اور ذکر باقی نہ رہے گا.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس جماعت کو اپنی قدرتوں پر ایمان دلاوے.یمین و یسار میں نشانات ہیں.

Page 126

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جماعت کو حفاظت میں رکھے.۱ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۵ء ایک عارفانہ دعا کثرت زلازل اور تباہیوں کا ذکر تھا.فرمایا.ہم تو یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا جماعت کو محفوظ رکھے اور دنیا پر یہ ظاہر ہوجائے کہ نبی کریم برحق رسول تھے اور خدا کی ہستی پر لوگوں کو ایمان پیدا ہوجائے.خواہ کیسے ہی زلزلے پڑیں پر خدا کا چہرہ لوگوں کو ایک دفعہ نظر آجائے اور اس ہستی پر ایمان قائم ہوجائے.جماعت کا مستقبل آج رات کے الہام اِنَّ فِرْعَوْنَ....الـخ کا ذکر تھا.فرمایا.فرعون اور اس کے ساتھی تو یہ یقین کرتے تھے کہ بنی اسرائیل ایک تباہ ہوجانے والی قوم ہے اور اس کو ہم جلد فنا کر دیں گے.پر خدا نے فرمایا کہ وہ ایسا خیال کرنے میں خطا پر تھے.ایسے ہی اس جماعت کے متعلق مخالفین و معاندین کہتے ہیں کہ یہ جماعت تباہ ہو جائے گی مگر خدا کا منشا کچھ اور ہے.فحاشی عذاب کا موجب ہے کانگڑہ کے متعلق بہت تباہی کا ذکر تھا.مولوی نور الدین صاحب نے عرض کی کہ اس جگہ فحش بہت تھا.فرمایا.اسی واسطے وہاں عذاب بھی بہت ہوا.۲ ۱۱؍اپریل ۱۹۰۵ء کانگڑہ کی تباہی وحی الٰہی عَفَتِ الدِّیَارُ کا ذکر تھا حضرت مولوی نور الدین صاحب نے عرض کی کہ اَلدِّیَارُ سے مراد کانگڑہ ویلی ہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ شرک کا بڑا مکان ان دنوںمیں

Page 127

وہی ہے.دو بڑی دیویوں کے مندر اس جگہ ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہر دو کو تباہ کیا اور بڑے پرانے شرک کو دنیا سے مٹا دیا.حضرت نے فرمایا.لوگ کہا کرتے تھے کہ خدا نے کس طرح پہاڑ کو بنی اسرائیل کے اوپر کر دیا تھا یہ قصہ صحیح نہیں معلوم ہوتا.اب کانگڑہ دھرم سالہ مقامات کے لوگوں نے خوب سمجھ لیا ہوگا کہ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ (البقرۃ:۶۴) کس طرح سے ہو سکتا ہے.ذرا سے زلزلے میں ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ گویا پہاڑ اوپر آگرا پھر خدا چاہے اس کو پیچھے ہٹا دے یا اوپر گرادے.یہ نیچریت زمانہ کے جہلاء کا جواب ہے جو خدا نے زلزلہ کے ذریعہ سے دیا ہے.امید ہے کہ اس قدر نظارے دیکھ کر بعض خوش قسمت لوگ سمجھ جائیں گے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے احاطہ قدرت میں ہے اور وہ جو چاہتا ہے کر دیتا ہے.زلزلہ کا نشان ایک اخبار والے کا ذکر آیا کہ وہ لکھتا ہے زلزلے تو آیا ہی کرتے ہیں.اس میں مرزا صاحب کا کیا نشان ہوا.فرمایا.یہ لوگ نابینا ہیں.نشان تو اس بات میں ہے کہ عین موقع پر ایک شخص نے قبل از وقت پیشگوئی کی اور دکھایا کہ یہی وقت ہے.خیر سب اندھے نہیں ہیں.سمجھنے والے سمجھ لیں گے کہ یہ کس قسم کا نشان ہے.ہزاروں برسوں کے جو معبد اور بت چلے آتے تھے وہ اب سر نگوں ہوگئے ہیں.یہ نشان نہیں تو اور کیا ہے؟ فرمایا.ان بتوں کا ٹوٹنا خدا تعالیٰ کی اس توحید کے قائم ہونے کے واسطے جس کے لیے ہم رات دن دعائیں کرتے ہیں ایک تفاؤل ہے.فرمایا.اس الہام سے بھی جو ہم کو ہوا تھا کہ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بت ٹوٹنے والے ہیں کیونکہ قرآن شریف میں بھی یہ آیت بتوں کے ٹوٹنے اور اسلام کے غلبہ کے واسطے آئی ہے.فرمایا.براہین احمدیہ بڑی کام آئی.وہ سب پہلوؤں کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے.کوئی نیا الزام اور ظن ایسا نہیں جس کا جواب پہلے سے اس کے اندر نہ دیا گیا ہو.

Page 128

بیماری کا ذکر تھا.فرمایا.میں تو سب کے لیے دعا کرتا ہوں.آگے اپنے اپنے اعمال ہیں.۱ ۱۴؍اپریل ۱۹۰۵ء نواب محمد علی خان صاحب کا خط آیا.جس میں انہوں نے الحاح کے ساتھ لکھا ہوا تھا کہ میں اب لاہور میں ہرگز نہیں رہ سکتا.مجھے باغ کے کسی گوشہ میں جگہ دے دیں.عاجز راقم۲ کو حکم دیا کہ ان کو تحریر کر دو کہ آجائیں اور باغ کے کسی حصہ میں جہاں چاہیں جگہ کر لیں.اس زمانہ کے بنی اسرائیل دھرم سالہ سے خبر آئی کہ اس جگہ اپنی جماعت کے جتنے آدمی تھے سب بچ گئے.فرمایا.كَفَفْتُ عَنْ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ والی وحی ان کے معاملہ میں تو پوری ہوگئی.خدا نے اس غریب جماعت کا نام اس وقت بنی اسرائیل رکھا ہے.۳ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۵ء آفات کی خبر فرمایا.لوگ کچھ ہی کریں اور کچھ ہی لکھیں مگر جیسی آفت کی خبر خدا نے اب دی ہے یہ جب ظاہر ہوگی تو بہرحال ان کو ماننا ہی پڑے گا.کسی جگہ سے دس ہزار کے مرنے کی اور کسی جگہ سے تین ہزار کے مرنے کی خبر آرہی ہے.اللہ تعالیٰ کی وحی نے پہلے سے ہی خبر دی تھی کہ یہ سب کچھ تیرے لیے ہے لَکَ نُرِیْ اٰیَاتٍ.اور ایسا ہی براہین احمدیہ میں درج ہے قُوَّۃُ الرَّحْمٰنِ لِعُبَیْدِ اللہِ الصَّمَدِ.اس جگہ ہمارا نام عبید اللہ اس لحاظ سے رکھا گیا ہے کہ ہم مخالفوں

Page 129

کی دکھ دہی اور مصائب سے بہت ستائے گئے ہیں.کسی نے خبر سنائی کہ بہاگسو میں کئی سو مر گئے اور جو باقی ہیں وہ بھوکھ سے مر رہے ہیں.اور سبحان پور میں بڑی تباہی آئی لیکن احمدی جماعت کا آدمی وزیر الدین ہیڈ ماسٹر بچ گیا.فالحمد للہ فرمایا.یہ نشان تو صرف ایک بیج بویا گیا ہے اور تخم ریزی ہے اور دوسرا نشان اس سے بڑھ کر ہوگا.کفار میں بھی سعید فطرت ہوتے ہیں.آخر ہنود بھی اس طرف توجہ کریں گے.۱ ۱۶؍اپریل ۱۹۰۵ء امام الصلوٰۃ کے لیے ہدایت کسی شخص نے ذکر کیا کہ فلاں دوست نماز پڑھانے کے وقت بہت لمبی سورتیں پڑھتے ہیں.فرمایا.امام کو چاہیے کہ نماز میں ضعفاء کی رعایت رکھے.ایک اخبار انگریزی کا مضمون حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ محققین حیران ہیں کہ ان پہاڑوں سے یہ امید نہ تھی.فرمایا.عقلمندوں کو کس طرح خدا حیران کرتا ہے.ان ملکوں میں آتش فشانی کی کبھی امید نہ تھی بلکہ یہ پہاڑ امن کا سلسلہ سمجھا جاتا تھا.۲ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۵ء اس زمانہ کے مسلمانوں سے خطاب فرمایا.براہین احمدیہ میں ایک الہام یہ بھی درج ہے اَمْ حَسِبْتُمْ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيْمِ كَانُوْا مِنْ اٰيٰتِنَا عَجَبًا اس میں اس زمانہ کے لوگوں کو کہا گیا ہے کہ تم اصحاب کہف کے قصہ

Page 130

پر کیا تعجب کرتے ہو وہ تو تین سو سال تک سوئے رہے تھے اور تم کو تو سوئے ہوئے تیرہ سو سال گذر گئے ہیں.اور اب بھی تم جاگنا نہیں چاہتے.اسی طرح غفلت میں سوئے ہوئے ہو اور کوئی جگانا چاہتا ہے تو اس کو برا کہتے ہو.دعا کا اثر مولوی عبد الکریم صاحب کی علالتِ طبع کا ذکر تھا.فرمایا.میں بہت دعا کرتا ہوں.دعا ایسی شے ہے کہ جن امراض کو اطباء اور ڈاکٹر لاعلاج کہہ دیتے ہیں.ان کا علاج بھی دعا کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے.پیشگوئیوں کا صحیح مفسر فرمایا.پیشگوئیوں کا صحیح مفسر خود زمانہ ہے.دیکھو! اس زمانہ میں یاجوج ماجوج، دجال، نزولِ مسیح وغیرہ کے متعلق تمام پیشگوئیاں صاف سمجھ میں آگئی ہیں.فرمایا.رات کو ہم نے دیکھا کہ سخت زلزلہ آیا ہے.وہ زمانہ اصل میں قریب ہے.اچانک آئے گا.معلوم نہیں کہ کس وقت آجائے.خوابوں کے معاملات ایک شخص کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ میں نے خواب میں مرزا صاحب کو اچھی صورت میں نہیں دیکھا.فرمایاکہ انسان کو اپنے اندرونی حالات کے نقشے دکھائے جاتے ہیں.اپنے ہی حجب درمیان میں آجاتے ہیں.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ذکر کیا کہ ہمارے استاد صاحب نے ایک شہر میں ایک دفعہ خواب میں اللہ تعالیٰ کو ایک بد صورت عورت کی شکل میں دیکھا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس شہر کے لوگوں نے میری ایسی بے عزتی کی ہے.۱

Page 131

۱۹؍اپریل۱۹۰۵ء آتھم اور لیکھرام فرمایا.آتھم نے نرم دلی اختیار کی اس کے معاملہ میں تاخیر کی گئی.لیکھرام نے شوخی دکھائی اس کے معاملہ میں تقدیم کی گئی.یعنی مدت پیشگوئی ہنوز گذرنے نہ پائی تھی کہ وہ ہلاک ہوگیا.۱ قبل نماز ظہر عاجز راقم ۲سے دریافت کیا کہ آیا شیخ یعقوب علی صاحب اشتہار النداء کے انطباع کے انتظام کے واسطے لاہور چلے گئے ہیں.میں نے عرض کی کہ صبح چلے گئے ہیں.فرمایا.ہمارا جی چاہتا ہے کہ آپ بھی جائیں اور پروف کو بغور پڑھ کر درست کر دیں.چنانچہ حسب الحکم یہ عاجز شام کو لاہور چلا گیا اور چار روز کے بعد واپس دارالامان میں حاضر ہوا.۳ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۵ء وساوس کا علاج ایک شخص نے عرض کی میرا دل آجکل ایسا ہو رہا ہے کہ نماز میں لذّت اور رِقّت پیدا نہیں ہوتی اور نہایت سخت تکلیف میں رہتا ہوں.خواہ مخواہ شبہات پیدا ہوتے رہتے ہیں اگرچہ ان کو بہت ردّ کرتا ہوں تاہم وساوس پیچھا نہیں چھوڑتے.فرمایا.یہ بھی خدا کا فضل اور احسان ہے کہ انسان ایسے وساوس کا مغلوب نہیں ہوتا.یہ بھی ثواب کی حالت ہے.نفس کی تین حالتیں ہیں.ایک تو نفسِ امّارہ ہے نفسِ امّارہ والے کو تو خبر ہی نہیں کہ بدی کیا شے ہے.دوسرا نفس لوّامہ ہے جو بدی کرتا ہے پر بدی پر ہمیشہ گھبراتا ہے اور شرمندہ ہوتا ہے اور توبہ کرتا رہتا ہے.ایسا شخص نفس کا غلام نہیں ہے اور اس حالت میں ہونا ایک حد تک ضروری بھی ہے اس سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس میں بڑے بڑے ثواب ہیں یہاں تک کہ

Page 132

اللہ تعالیٰ خود بخود نور اور سکینت نازل کرتا ہے.خدا کی رحمت کا وقت آتا ہے اور ایک ٹھنڈ پڑ جاتی ہے اور وہ بات ہوا ہو جاتی ہے.انسان کو چاہیے کہ تھک نہ جاوے.سجدہ میں یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْـمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ بہت پڑھا کرو.لیکن یاد رکھو کہ جلد بازی خوفناک ہے.اسلام میں انسان کو بہادر بننا چاہیے.برسوں کی محنت و مشقت کے بعد آخر شیطان کے حملے کمزور ہوجاتے ہیں اور وہ بھاگ جاتا ہے.۱ ۲۵؍اپریل ۱۹۰۵ء آئندہ آنے والی آفات اس الہام کا تذکرہ تھا کہ بھونچال آیا اور شدید آیا.فرمایا کہ بار بار زلزلہ کے متعلق جو الہامات ہوتے ہیں اور خوابیں آتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر کچھ ایسی طیاری ہو رہی ہے کہ یہ امر جلد ہونے والا ہے.بہت سی باتیں ہوتی ہیں کہ انسان ان کو دور سمجھتا ہے مگر خدا کے علم میں وہ بہت قریب ہوتی ہے.يَرَوْنَهٗ بَعِيْدًا وَّ نَرٰىهُ قَرِيْبًا (المعارج:۷،۸) تم اسے دور دیکھتے ہو اور ہم قریب دیکھتے ہیں.بَغْتَةً آنے والے عذاب مرزا ظفر اللہ خان صاحب ای.اے.سی گورداسپور کے ایک رشتہ دار کا ایک خط بنام سید امیر علی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر تھا وہ پڑھا گیا.اس میں نہایت دردناک الفاظ میں زلزلہ سے گھر کے آدمیوں کی تباہی کا تذکرہ تھا.اور لکھا تھا کہ میرے بتیس رشتہ دار ایک دم میں فوت ہوگئے ہیں.جن میں عزیز بھائی اور پیاری بیوی بھی شامل تھی.حضرت نے فرمایا.ابھی آگے آنے والا اس سے بھی سخت نظر آتا ہے مگر لوگوں کی حالت یہ ہے کہ ابھی تک ہنسی ٹھٹھے سے باز نہیں آتے.خدا کا دن اچانک آنے والا ہے.مولوی نور الدین صاحب نے عرض کی کہ انجیل میں لکھا ہے کہ وہ چور کی طرح آئے گا.

Page 133

فرمایا کہ ٹھیک ہے مگر چور کا لفظ کچھ زیب نہیں دیتا ہے.قرآن شریف میں بہت مناسب لفظ ہے کہ بَغْتَةً یعنی اچانک آئے گا پہلے کچھ خبر نہ ہوگی.فرمایا.شاید اس میں کچھ دیر ہوجائے تاکہ لوگ پوری طرح شوخیاں کر لیں اور اپنے واسطے عذاب کے سامان اچھی طرح جمع کر لیں پھر اچانک یہ آفت ان پر پڑے گی.۱ ۲۸؍اپریل ۱۹۰۵ء رؤیا میں دیکھا کہ ایک سفید سا کپڑا بچھا ہوا ہے.اس پر کسی نے ایک انگشتری رکھ دی ہے اس کے بعد یہ وحی نازل ہوئی.’’فتح نمایاں ہماری فتح‘‘ یعنی واقعات آئندہ کے واسطے جو پیش گوئیاں کی ہوئی ہیں.اور جن پر دشمن ہنسی کرتا ہے ان کو خدا تعالیٰ پورا کر کے ہماری صداقت دنیا پر ظاہر کر دے گا.اور لو گ نیک چلنی اختیار کریں گے.اور خدا پر ایمان لائیں گے.صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا سچا کیا تو نے خواب کو.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً یعنی میں اپنی فرشتوںکی فوجوں کے ساتھ اس وقت آؤں گا کہ کسی کو گمان بھی نہ ہوگا کہ ایسا حادثہ ہونے والا ہے.۲ (بعد نماز جمعہ) باہمی ہمدردی اور اخوت کی تلقین اعلیٰ حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مندرجہ ذیل تقریر باہم ہمدردی اور حقوقِ اخوت پر فرمائی.میں صرف اس قدر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہماری اس جماعت کو ایک قسم کا دھوکا لگا ہوا

Page 134

ہے.شاید اچھی طرح میری باتوں پر غور نہیں کی.اور وہ غلطی اور دھوکا یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہماری جماعت میں سے طاعون سے فوت ہوجاوے تو اس قدر بے رحمی اور سرد مہری سے پیش آتے ہیں کہ جنازہ اٹھانے والا بھی نہیں ملتا.درحقیقت جیسا کہ قاضی امیر حسین صاحب نے لکھا ہے یہ مصیبت تو ماتم سے بھی بڑھ کر ہے.یاد رکھو تم میں اس وقت دو اخوتیں جمع ہوچکی ہیں.ایک تو اسلامی اخوت اور دوسری اس سلسلہ کی اخوت ہے.پھر ان دو اخوتوں کے ہوتے ہوئے گریز اور سرد مہری ہو تو یہ سخت قابلِ اعتراض امر ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایسے مسافر اپنے گھروں میں ہوتے تو وہ جو خارج از مذہب سمجھتے ہیں اور کافر کہتے ہیں ان میں بھی اس قسم کی سرد مہری نہ ہوتی.لیکن یہ سرد مہری کیوں ہوتی ہے؟ دو باتوں کا لحاظ نہیں رکھا جاتا.افراط اور تفریط کا.اگر افراط اور تفریط کو چھوڑ کر اعتدال سے کام لیا جاوے تو ایسی شکایت پیدا نہ ہو جبکہ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ(العصـر:۴) وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ(البلد:۱۸) کا حکم ہے تو پھر ایسے مردوں سے گریز کیوں کیا جاوے؟ اگر کسی کے مکان کو آگ لگ جاوے اور وہ پکار فریاد کرے تو جیسے یہ گناہ ہے کہ محض اس خیال سے کہ میں نہ جل جاؤں اس مکان کو اور اس میں رہنے والوں کو جلنے دے اور جاکر آگ بجھانے میں مدد نہ دے ویسے ہی یہ بھی معصیت ہے کہ ایسی بے احتیاطی سے اس میں کود پڑے کہ خود جل جاوے.ایسے موقع پر احتیاط مناسب کے ساتھ ضروری ہے کہ آگ بجھانے میں اس کی مدد کرے.پس اسی طریق پر یہاں بھی سلوک ہونا چاہیے.اللہ تعالیٰ نے جا بجا رحم کی تعلیم دی ہے.یہی اخوتِ اسلامی کا منشا ہے.اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ تمام مسلمان مومن آپس میں بھائی ہیں.ایسی صورت میں کہ تم میں اسلامی اخوت قائم ہو اور پھر اس سلسلہ میں ہونے کی وجہ سے دوسری اخوت بھی ساتھ ہو یہ بڑی غلطی ہوگی کہ کوئی شخص مصیبت میں گرفتار ہو اور قضا و قدر سے اسے ماتم پیش آجاوے تو دوسرا تجہیز و تکفین میں بھی اس کا شریک نہ ہو.ہرگز ہرگز اللہ تعالیٰ کا یہ منشا نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ جنگ میں شہید ہوتے یا مجروح ہو جاتے تو میں یقین نہیں رکھتا کہ صحابہ انہیں چھوڑ کر چلے جاتے ہوں یا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر راضی ہوجاتے کہ وہ ان کو چھوڑ کر چلے جاویں.

Page 135

میں سمجھتا ہوں کہ ایسی وارداتوں کے وقت ہمدردی بھی ہوسکتی ہے اور احتیاط مناسب بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے.اوّل تو کتاب اللہ سے یہ مسئلہ ملتا ہی نہیں کہ کوئی مرض لازمی طور پر دوسرے کو لگ بھی جاتی ہے.ہاں جس قدر تجارب سے معلوم ہوتا ہے اس کے لیے بھی نَصِّ قرآنی سے احتیاط مناسب کا پتہ لگتا ہے.جہاں ایسا مرکز وباکا ہو کہ وہ شدت سے پھیلی ہوئی ہو وہاں احتیاط کرے.لیکن اس کے بھی یہ معنے نہیں کہ ہمدردی ہی چھوڑ دے.خدا تعالیٰ کا ہرگز یہ منشا نہیں ہے کہ انسان ایک میّت سے اس قدر بُعد اختیار کرے کہ میّت کی ذلّت ہو اور پھر اس کے ساتھ ساری جماعت کی ذلّت ہو.آئندہ خوب یاد رکھو کہ ہرگز اس بات کو نہیں کرنا چاہیے جبکہ خدا تعالیٰ نے تمہیں باہم بھائی بنا دیا ہےپھر نفرت اور بُعد کیوں ہے.اگر وہ بھی مرے گا تو اس کی بھی کوئی خبر نہ لے گا اور اس طرح پر اخوت کے حقوق تلف ہوجائیں گے.خدا تعالیٰ نے دو ہی قسم کے حقوق رکھے ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد.جو شخص حقوق العباد کی پروا نہیں کرتا وہ آخرحقوق اللہ کو بھی چھوڑ دیتا ہے کیونکہ حقوق العباد کا لحاظ رکھنا یہ بھی تو امر الٰہی ہے جو حقوق اللہ کے نیچے ہے.یہ خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ پر توکّل بھی کوئی چیز ہے.یہ مت سمجھو کہ تم نری پرہیزوں سے بچ سکتے ہو.جب تک خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق نہ ہو اور انسان اپنے آپ کو کار آمد انسان نہ بنالے اس وقت تک اللہ تعالیٰ اس کی کچھ پرواہ نہیں کرتا خواہ وہ ہزار بھاگتا پھرے.کیا وہ لوگ جو طاعون میں مبتلا ہوتے ہیں وہ پرہیز نہیں کرتے؟ میں نے سنا ہے کہ لاہور میں نواب صاحب کے قریب ہی ایک انگریز رہتا تھا وہ مبتلا ہوگیا.حالانکہ یہ لوگ تو بڑے پرہیز کرنے والے ہوتے ہیں.نرا پرہیز کچھ چیز نہیں جب تک خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق نہ ہو.پس آئندہ کے لیے یاد رکھو کہ حقوقِ اخوت کو ہرگز نہ چھوڑو ورنہ حقوق اللہ بھی نہ رہیں گے.خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ طاعون کا سلسلہ جو مرکز پنجاب ہوگیا ہے کب تک جاری رہے لیکن مجھے یہی بتایا گیا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ اللہ تعالیٰ کبھی حالت ِقوم میں تبدیلی نہ کرے گا جب تک لوگ دلوں کی تبدیلی نہ

Page 136

کریں گے.ان باتوں کو سن کر یوں تو ہرشخص جواب دینے کو طیار ہوجاتا ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں استغفار بھی کرتے ہیں.پھر کیوں مصائب اور ابتلا آجاتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی باتوں کو جو سمجھ لے وہی سعید ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کا منشا کچھ اور ہوتا ہے سمجھا کچھ اور جاتا ہے اور پھر اپنی عقل اور عمل کے پیمانہ سے اسے ماپا جاتا ہے.یہ ٹھیک نہیں.ہر چیز جب اپنے مقررہ وزن سے کم استعمال کی جاوے تو وہ فائدہ نہیں ہوتا جو اس میں رکھا گیا ہے.مثلاً ایک دوائی جو تولہ کھانی چاہیے اگر تولہ کی بجائے ایک بوند استعمال کی جاوے تو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ اور اگر روٹی کی بجائے کوئی ایک دانہ کھالے تو کیا وہ سیری کا باعث ہوسکے گا؟ اور پانی کے پیالے کی بجائے ایک قطرہ سیراب کر سکے گا؟ ہرگز نہیں.یہی حال اعمال کا ہے.جب تک وہ اپنے پیمانہ پر نہ ہوں وہ اوپر نہیں جاتے ہیں.یہ سنت اللہ ہے جس کو ہم بدل نہیں سکتے.پس یہ بالکل خطا ہے کہ اسی ایک امر کو پلے باندھ لو کہ طاعون والے سے پرہیز کریں تو طاعون نہ ہوگا.پرہیز کرو جہاں تک مناسب ہے لیکن اس پرہیز سے باہمی اخوت اور ہمدردی نہ اٹھ جاوے اور اس کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرو.یاد رکھو کہ مردہ کی تجہیز و تکفین میں مدد دینا اور اپنے بھائی کی ہمدردی کرنا صدقات خیرات کی طرح ہی ہے.یہ بھی ایک قسم کی خیرات ہے اور یہ حق حق العباد کا ہے جو فرض ہے.جیسے خدا تعالیٰ نے صوم و صلوٰۃ اپنے لیے فرض کیا ہے اسی طرح اس کو بھی فرض ٹھہرایا ہے کہ حقوق العباد کی حفاظت ہو.پس ہمارا کبھی یہ مطلب نہیں ہے کہ احتیاط کرتے کرتے اخوت ہی کو چھوڑ دیا جاوے.ایک شخص مسلمان ہو اور پھر سلسلہ میں داخل ہو اور اس کو یوں چھوڑ دیا جاوے جیسا کتے کو.یہ بڑی غلطی ہے جس زندگی میں اخوت اور ہمدردی ہی نہ ہو وہ کیا زندگی ہے! پس ایسے موقع پر یاد رکھو کہ اگر کوئی ایسا واقعہ ہو جاوے تو ہمدردی کے حقوق فوت نہ ہونے پاویں.ہاں مناسب احتیاط بھی کرو.مثلاً ایک شخص طاعون زدہ کا لباس پہن لے یا اس کا پس خورہ کھا لے تو اندیشہ ہے کہ وہ مبتلا ہوجاوے.لیکن ہمدردی یہ نہیں بتاتی کہ تم ایسا کرو.احتیاط کی رعایت رکھ کر اس کی خبرگیری کرو اور پھر جو زیادہ وہم رکھتا ہو وہ غسل کر کے صاف کپڑے بدل لے.

Page 137

جو شخص ہمدردی کو چھوڑتا ہے وہ دین کو چھوڑتا ہے.قرآن شریف فرماتا ہے مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ الآیۃ(المائدۃ:۳۳) یعنی جو شخص کسی نفس کو بلاوجہ قتل کر دیتا ہے وہ گویا ساری دنیا کو قتل کرتا ہے.ایسا ہی میں کہتا ہوں کہ اگر کسی شخص نے اپنے بھائی کے ساتھ ہمدردی نہیں کی تو اس نے ساری دنیا کے ساتھ ہمدردی نہیں کی.زندگی سے اس قدر پیار نہ کرو کہ ایمان ہی جاتا رہے.حقوق اخوت کو کبھی نہ چھوڑو.وہ لوگ بھی تو گذرے ہیں جو دین کے لیے شہید ہوئے ہیں.کیا تم میں سے کوئی اس بات پر راضی ہے کہ وہ بیمار ہو اور کوئی اسے پانی تک نہ دینے جاوے.خوفناک وہ بات ہوتی ہے جو تجربہ سے صحیح ثابت ہو.بعض ملاں ایسے ہیں جنہوں نے صدہا طاعون سے مرے ہوئے مُردوں کو غسل دیا ہے اور انہیں کچھ نہیں ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے فرمایا ہے کہ یہ غلط ہے کہ ایک کی بیماری دوسرے کو لگ جاتی ہے.وبائی ایام میں اتنا لحاظ کرے کہ ابتدائی حالت ہو تو وہاں سے نکل جاوے لیکن زور شور ہو تو مت بھاگے.حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو کہا تھا کہ تم ابوابِ متفرقہ سے داخل ہونا اس لحاظ سے کہ مبادا کوئی جاسوس سمجھ کر پکڑ نہ لے.احتیاط تو ہوئی لیکن قضاء و قدر کے معاملہ کو کوئی روک نہ سکا.وہ ابواب متفرقہ سے داخل ہوئے لیکن پکڑے گئے.پس یاد رکھو کہ سارے فضل ایمان کے ساتھ ہیں.ایمان کو مضبوط کرو.قطع حقوق معصیت ہے اور انسان کی زندگی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے.ایسا پرہیز اور بُعد جو ظاہر ہوا ہے وہ عقل اور انصاف کی رو سے صحیح نہیں ہے.ایسے امور سے اپنے آپ کو بچاؤ جو تجربہ میں مضر ثابت ہوئے ہیں.یہ جماعت جس کو خدا تعالیٰ نمونہ بنانا چاہتا ہے اگر اس کا بھی یہی حال ہوا کہ ان میں اخوت اور ہمدردی نہ ہو تو بڑی خرابی ہوگی.میں دوسرا پہلو نہ بیان کرتا لیکن مجھے چونکہ سب سے ہمدردی ہے اس لیے اسے بھی میں نے بیان کرنا ضروری سمجھا یعنی جس کے واقعہ ہو جاوے اس کے ساتھ بھی اور جو بچے ہوئے ہیں ان کے ساتھ بھی.افسوس ہے میں خود نہیں آسکا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عصر کے بعد مجھے چکر آتا ہے اور مجھے خبر تک

Page 138

نہیں ہوئی جب تک انہوں نے نہیں لکھا.بہرحال باہم ہمدردی ہو اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت سے اس طاعون کو اٹھا لے.آمین۱ گیارہ ماہ۲ پہلے زلزلہ کی خبر ذکر آیا کہ ایک اخبار میں لکھا ہے کہ جوتشی نے پیشگوئی کی ہے کہ اب زلزلہ کا کوئی خوف نہیں.فرمایا.یہ اور بھی خوشی کی بات ہے.خدا نہیں چاہتا کہ اپنے غیب کی خبر میں دنیا داروں کو بھی شامل کرے.اب صاف ہوجائے گا کہ جوتشی سچے ہیں یا خدا کا کلام صحیح ہے.اگر یہ جوتشی اور علم طبقات الارض کے ماہر انگریز ایسے ہی دانا ہیں کہ وہ زلزلوں کی خبروں سے پہلے ہی واقف ہوجاتے ہیں تو یقیناً انہوں نے گورنمنٹ انگریزی سے بڑی عداوت کی جو اس کے متعلق پہلے سے اطلاع دے کر ہزاروں جانوں اور کروڑوں روپے کے مال کو تلف ہونے سے نہ بچا لیا.کیونکہ انہوں نے چھ ماہ پہلے خبر و اطلاع نہ دی کہ ایسی سخت مصیبت آنے والی ہے.ہم نے تو گیارہ ماہ پہلے خبر دے دی تھی کہ ایسی آفت آنے والی ہے جس سے مکانات گر جائیں گے اور مٹ جائیں گے اور وہ ایک زلزلہ کا دھکا ہوگا.اس میں لفظ بھی ایک تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلا دھکا ہی بہت تیز ہونے والا تھا.چنانچہ سب مکانات ایک دفعہ ہی گر گئے.یہاں تک کہ جو لوگ برانڈوں میں تھے وہ دوڑ کر باہر نہیں آسکے اور جو لیٹے ہوئے تھے وہ بیٹھ نہیں سکے اور جو بیٹھے ہوئے تھے ان کو کھڑا ہونے کا وقت نہیں ملا.۳ ۲۹؍اپریل ۱۹۰۵ء ایک رؤیا گذشتہ رات کو ۲بجنے میں سات منٹ باقی تھے جبکہ ہم نے یہ رؤیا دیکھا کہ زمین ہلتی ہے.پہلے ہم نے خیال کیا کہ شاید ویسے ہی کچھ حرکت ہوئی ہے.مگر پھر زور سے

Page 139

ایک دھکا لگا تب یقین ہوا کہ زلزلہ ہے.اور میں گھر کے آدمیوں کو جگاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اٹھو زلزلہ آیا.مبارک کو بھی اٹھا لو.اور یہ بھی رؤیا میں کہتا ہوں کہ جوتشی کس قدر جھوٹے ہیں.پنڈت نے تو اخبار میں چھپوایا تھا کہ اب زلزلہ نہیں آئے گا.اس کے بعد بیداری ہوئی.۱ آج رات کی رؤیا کا ذکر تھا کہ سخت زلزلہ آیا اور گھر کے آدمیوں کو جگاتے ہیں.فرمایا کہ آسمان پر ضرور کچھ تیاری معلوم ہوتی ہے.ممکن ہے کہ ظاہر پر یہ بات محمول ہو اور ممکن ہے کہ اس سے مراد اور کوئی سخت آفت ہو.بعض دفعہ ویسے بھی زمینوں میں خسف ہوجاتا ہے.فرمایا.اس (میں) مبارک کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ یہ امر ہمارے واسطے خیر و برکت کا موجب ہوگا گو دوسروں کے واسطے اس میں مصائب اور شدائد ہوں.میں نے مناسب سمجھا ہے کہ اس واسطے ایک اور اشتہار لکھا جاوے.بار بار کے سمجھانے سے ممکن ہے کہ کوئی آدمی سمجھ جائے.ذکر آیا کہ لدھیانہ میں ایک فحش گو نے پھر گالیاں دینے پر کمر باندھی ہے.فرمایا کہ اب ایسے لوگوں سے اعراض ہی اچھا ہے.ہم کیا جواب دے سکتے ہیں.خدا خود ہی اب تو جواب دینے لگ پڑا ہے.نزولِ آفات کا سبب ذکر ہوا کہ ایک شہر میں ایسا بگولہ آیا ہے کہ شہر کے ایک حصہ کو بالکل تباہ کر گیا ہے.اور دریائے بیاس کا پانی پہاڑ کے گرنے سے رک گیا ہے اور خوف ہے کہ جب وہ یک دفعہ پھٹے گا تو بڑا سخت طوفان نازل ہوگا.فرمایا.ہر طرف سے آفات کا سامنا ہے.چاروں عناصر انسان کو تباہ کرنے کے در پے ہیں.کیونکہ اس نے خدا کی نافرمانی کی.فرمایا.صرف باتوں سے کام پورا نہیں ہوتا.سنّت اللہ ہمیشہ یہی ہے کہ نشانات دکھائے جاتے ہیں.الہامات کے الفاظ میں بھی استعارات ہوتے ہیں.زلزلہ سے مراد کبھی زلزلہ ہوتا ہے کبھی آفت شدید.

Page 140

آج رات میں اس خیال سے سویا تھا کہ زلزلہ کا خواب اور الہامات ہوئے.فرمایا.ایمان والے مانتے ہیں پر دوسرے لوگ ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں.پیسہ اخبار بہت ہی شوخی کرتا ہے اور لوگوں کو خدا کے نشانوں سے غافل کرنا چاہتا ہے اور ان کو تھپک تھپک کر سلاتا ہے.۱ بلاتاریخ حضرت ام المؤمنین کو کیا فرمایا گھر میں بھی تبلیغ کا سلسلہ بدستور جاری رہتا ہے ایک روز حضرت ام المؤمنین کو مخاطب کر کے فرمایا.دیکھو!نوکروں پر سختی بالکل نہیں ہونی چاہیے.ان کو جو کچھ سمجھانا ہو نرمی سے سمجھا دیا کرو اور ان کے واسطے دعا کیا کرو.اگر ان کو ملامت کرو تو اس طرح پر کرو کہ خدا تمہیں ہدایت دے.نیکی دے.سمجھ دے.ایسا ہی بچوں کی اگر کسی حرکت سے ناراض ہو جاؤ تو ان کو بھی جھڑکو نہیں ان کے لئے دعا کرو.اور اسی قسم کے دعائیہ کلمات سے سمجھاؤ.خدا تعالیٰ کے غضب کے دن آئے ہوئے ہیں وہ کسی کی پروا نہیں کرتا.جہاں تک ہو سکے خدا کی مخلوق پر رحم کرو تاکہ اللہ تعالیٰ تم پر بھی رحم کرے.۲ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۵ء صدقہ و خیرات اور توبہ سے بلائیں دور ہوجاتی ہیں آتھم کے متعلق کسی نے سوال کیا.فرمایا.صدقہ و خیرات سے بلا دور ہوجاتی ہے اگر صدقہ سے عذاب میں تاخیر نہیں ہو جاتی تو

Page 141

پھر سارے پیغمبر نعوذ باللہ جھوٹے ٹھہرتے ہیں.یونسؑ اور اس کی قوم کا قصہ پڑھو.آتھم تو آخر مر ہی گیا تھا مگر یونس کی قوم تو توبہ کرنے سے بالکل بچ گئی.اگر وہ باوجود اس قدر گریہ و زاری اور خاموشی کے مرجاتا تو پھر اس میں اور لیکھرام میں کیا فرق ہوتا؟ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ شوخ میں اور غیر شوخ میں فرق کر کے دکھاوے.۱ یکم مئی ۱۹۰۵ء سچا مسلمان ضلع مظفر گڈھ کا ایک عیسائی آپ کے ہاتھ پر توبہ کر کے مسلمان ہوا اس کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا.گذشتہ زندگی اور مذہب اور قوم کے طرز و طریق کے مطابق انسان میں بعض خصلتیں اور خواہشیں راسخ ہو جاتی ہیں اور بہت سے نفسانی فریب اندر ہی اندر پوشیدہ ہوتے ہیں.سچا مسلمان وہ ہے کہ سب گندوں کی گٹھڑیاں اپنے سر سے پھینک کر اور اپنے آپ کو پاک صاف کر کے خدا کی فرمانبرداری اختیار کرے.کوئی غرض نفسانی درمیان نہ رکھے.رازق اللہ تعالیٰ ہے ہم نے دیکھا ہے کہ بعض ہندو مسلمان ہوتے ہی کسی ملا سے ایک کاغذ لکھوا لیتے ہیں اور ان کی ساری عمر بھیک مانگنے میں گذر جاتی ہے.ان کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ اسلام کیا شے ہے.مسلمان اس کو کہتے ہیں جو دنیا کے لوگوں سے منہ پھیر کر خدا کی طرف آجائے.مسلمان کو چاہیے کہ ایسا طریق اختیار کرے جس سے نفس کی ذلّت نہ ہو.تھوڑے پر قناعت کرلے.اللہ تعالیٰ کو راضی رکھے.راستی اور صراط مستقیم پر پکا قدم رکھے.ورنہ اسلام میں آنا اس کے لیے مفید نہیں.۲

Page 142

۲؍مئی ۱۹۰۵ء (قبل نماز ظہر) ایک نئی روشنی کے نوجوان جو بمبئی سے کسی تقریب پر لاہور آئے تھے اور وہاں سے حضرت اقدس کے شوق ملاقات میں قادیان تشریف لائے تھے.حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت ان کا حال دریافت کرتے رہے.اس کے بعد آپ نے فرمایا.دین کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت زمانہ میں بہت انقلاب ہوتے ہیں.لیکن اکثر آج کل لوگوں کا یہ حال ہے کہ ایک طرف ایسے جھکے ہوئے ہیں کہ دوسری طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اور اپنے دنیوی کاموں میں یا رسمی معاملات میں ایسے منہمک ہیں کہ دوسری جانب یا تو نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے یا اس سے قطعاً نفرت رکھتے ہیں.لیکن جو بات خدا کی طرف سے ہونے والی ہے وہ خواہ مخواہ ہو کر رہتی ہے.دیکھو! ایک زور آور سیلاب جو آنے والا ہوتا ہے اس کو کوئی کتنا ہی روکے بہرحال وہ آہی جاتا ہے اور کسی کے روکنے سے رک نہیں سکتا.حضرت کے اس نوجوان سے دریافت کرنے پر کہ آپ کتنے روز ہمارے پاس قیام کریں گے انہوں نے عرض کی کہ مجھے کل واپس جانا ضروری ہے.اس پر فرمایا کہ آپ اخلاص کے ساتھ یہاں آئے ہیں.آپ چند روز ٹھہرتے تو خوب ہوتا.مگر آپ کا وقت تنگ ہے.دوسرے پہلو کو بھی سمجھ لینا چاہیے.ع کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد جیسا جیسا انسان کسی کام میں بڑھتا ہے ویسا ہی اس کام کے بڑھنے اور زیادہ ہونے کے بھی راہ کھلتے جاتے ہیں.یہاں تک کہ دوسری طرف توجہ کرنے کے واسطے انسان کے پاس نہ وقت رہتا ہے اور نہ ہمت.مگر رشید آدمی کے واسطے خدا تعالیٰ آپ ہی سامان مہیا کر دیتا ہے اور اس کے دل کے اندر ہی ایک واعظ پیدا کردیتا ہے.حدیث شریف میں آیا ہے اِذَا اَرَادَ اللہُ بِہٖ خَیْـرًا یُّفَقِّھْہُ

Page 143

فِی الدِّیْنِ جب اللہ تعالیٰ کسی کے واسطے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین میں فہم عطا کر دیتا ہے.آج کل لوگوں کو انگریزی تعلیم نے فریفتہ کر رکھا ہے اور اکثر لوگ ایسے ہیں کہ ان کو دوسرے گھر کا ایمان ہی نہیں اور اگر کسی کو ہے تو ایسا کہ ہونا نہ ہونا برابر ہے.مگر اس وقت اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ اپنا چہرہ دکھلاوے.مخلوق کی قساوت قلبی انتہاء تک پہنچ گئی ہے اور لوگوں نے نرمی سے فائدہ نہیں اٹھایا اس واسطے وہ اب قہری نشان بھی دکھانا چاہتا ہے.سعید ہیں وہ لوگ جو قبل ایسے نشانات کے واقع ہوجانے کے ایمان لاویں ورنہ فرعون کی طرح آفت میں پڑ کر ایمان لانا مفید نہیں ہوتا.جو لوگ بعد میں ایمان لاتے ہیں وہ برگزیدہ پاک جماعت میں داخل نہیں ہوسکتے.آپ کا ہمارے پاس آنا دو نتائج سے خالی نہیں.یا تو قبل از وقت آپ پر اثر پڑے یا بعد میں آپ کو حسرت حاصل ہو.(نوجوان.خدا کرے دوسری بات نہ ہو) جس سلطنت کے نیچے لوگ رہتے ہیں اس کا اثر مخلوق پر ضرور ہی ہوتا ہے.لوگ اگرچہ بظاہر ایک مذہب رکھتے ہیں تا ہم ان کا سارا رخ دنیا کی طرف ہے اور خدا کی طا قتوں پر ایمان نہیں ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی سنت قدیمہ کے مطابق پھر جلوہ دکھائے.یہ زمانہ نوح کے زمانہ سے بہت ملتا ہے.اس وقت بھی لوگ اکثر دہریہ تھے.خدا فرماتا ہے کہ کُنْتُ کَنْـزًا مَّـخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ میں ایک مخفی خزانہ تھا پھر میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں.صرف انگریزی زبان میں کوئی کتنی ہی ترقی کرلے اس کا نتیجہ بجز دنیا کے اور کچھ نہیں ہے.یوں دیکھ لینا چاہیے کہ جو بچے ایسے ہیں کہ ان کے ماں باپ ہر دو انگریز ہیں ان کا انگریزی میں کمال ان کو دین کے لیے کیا فائدہ دے سکتا ہے کیونکہ یہ زبان وہ نہیں جس کے ساتھ فخر کیا جاسکے.معاش بیشک انسان پیدا کر سکتا ہے.مگر معاش تو ایک مزدور بھی ویسی ہی پیدا کر لیتا ہے بلکہ وہ مزدور اچھا ہے کیونکہ اس کے ساتھ وساوس نہیں ہیں.ہمارا منشا یہ نہیں کہ انگریزی نہ پڑھو.خود ہماری جماعت میں بہت انگریزی خواں ہیں اور بی.اے، ایم.اے تک تعلیم یافتہ ہیں اور معزز سرکاری عہدوں پر ملازم ہیں لیکن ہمارا منشا یہ ہے کہ اس سے نیک فائدہ اٹھاؤ اور اس کے بُرے فلسفہ سے بچو جو

Page 144

انسان کو دہریہ بنا دیتا ہے.ہر شے میں ایک اثر ہوتا ہے.چونکہ انگریزی زبان میں بہت سی کتابیں اس قسم کی ہیں جو دہریت یا دہریت کی طرف جھکے ہوئے خیالات اپنے اندر رکھتی ہیں.اس واسطے بغیر کسی زبردست رشد اور فضل الٰہی کے ہر ایک شخص اس سے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور لے لیتا ہے.آج کل دنیا کے لیے حد سے زیادہ زور لگایا جاتا ہے مگر معاش کے لیے سب دروازے کھلے ہیں.افراط کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا.دنیا میں بہت لوگ ایسے ہیں کہ وہ خدا پر ایمان رکھنے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں.کیا آخرت کے لیے وہ اس قدر محنت اور جان خراشی کرتے ہیں جس قدر کہ وہ دنیا کے لیے کر رہے ہیں.ان کو معلوم ہی نہیں کہ اس طرف کا معاملہ بھی کبھی پڑے گا.نوجوان نے عرض کی میں نے عربی بھی ساتھ ساتھ پڑھی ہے.حضرت نے فرمایا.ہم تو صرف اتنے پر بھی خوش نہیں ہو سکتے.کیا ہزاروں مولوی ایسے نہیں ہیں جو بڑے بڑے علوم عربیہ کی تحصیل کر چکے ہیں.مگر پھر بھی وہ اس سلسلہ حقہ کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ علوم ان کے واسطے اور بھی زیادہ حجاب کا موجب ہو رہے ہیں.ہزاروں مولوی ہیں جو بجز گالیاں دینے کے اور کچھ کام نہیں رکھتے.بیشک معارف قرآنی کا ذخیرہ سب عربی میں ہے تا ہم جب ایک مدت گذر جاتی ہے اور خدا کے ایک رسول کو بہت زمانہ گذر جاتا ہے تب لوگوں کے ہاتھ میں صرف الفاظ ہی رہ جاتے ہیں جن کے معانی اور معارف کسی پر نہیں کھل سکتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ ان کے واسطے کوئی چابی پیدا نہ کر دے.جب خدا کی طرف سے راہ کھلتا ہے تب کوئی منور قلب والا زندہ دل پیدا کیا جاتا ہے.وہ صاحب حال ہوتا ہے اس واسطے اس کی تفسیر درست ہوتی ہے.زندہ دل کے سوا کچھ نہیں.یہ باتیں سیدھی ہیں مگر افسوس ہے کہ ان لوگوں کو سمجھ نہیں آتی.(نوجوان.جہالت ہے.) خدا کہتا ہے کہ حضرت مسیحؑفوت ہوگئے.حدیث نبوی سے بھی یہی ثابت ہے کہ فوت ہوگئے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مُردوں میں دیکھا.پھر بھی ہمارے مخالف مولوی انکار کئے چلے جاتے ہیں.

Page 145

(نوجوان.جہالت اور بد قسمتی.) اللہ تعالیٰ آپ کی اور ہماری ملاقات سے فائدہ دے.۱ ۶؍مئی ۱۹۰۵ء (قبل ظہر) اللہ تعالیٰ سے چہرہ نمائی کے لیے دعا فرمایا کہ ہم تو زلزلہ کے وقت آئے تھے کہ باغ میں چل کر دعا کریں.اب محض اس وجہ سے ٹھہرے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو خبر دی ہے اس کے متعلق کچھ اور معلوم ہو جاوے کہ وہ قریب ہے یا دور.اگر معلوم ہوا کہ دور ہے تو پھر ایک ماہ کے بعد واپس چلے جاویں گے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ زلزلہ ایسے وقت آئے گا کہ کسی کو خبر بھی نہ ہو گی بلکہ لوگ ہماری تکذیب کر چکے ہوں گے کہ وہ پیشگوئی جھوٹی نکلی.قرآن شریف سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ (الانعام:۴۵) یہ عادت اللہ ہے کہ ایسے وقت عذاب آتا ہے جب لوگ اسے بالکل بھول جاتے ہیں.ایسا ہی ان الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا چھپ کر آؤں گا.گویا ہر شخص کا دل یقین کر لے گا کہ ہم نے جھوٹ بولا ہے.بَغْتَةً کا یہی منشا ہے.طبقات الارض والے اور جوتشی سب مل ملا کر فیصلہ کر دیں کہ کوئی زلزلہ نہیں آئے گا.پھر خدا تعالیٰ کی وحی کی اور بھی عظمت ظاہر ہوگی.حقیقت میں اگر وہ بھی یہی رائے دیتے کہ زلزلہ آئے گا تو ہماری بات مشتبہ ہوجاتی اور کمزور سمجھی جاتی.لیکن اب تو ان لوگوں نے اقرار کر لیا ہے کہ زلزلہ نہیں آئے گا.فرمایا.اگر اب خدا تعالیٰ چپ رہے تو پھر دہریہ پن کے سوا کوئی اور مذہب نہ ہوگا.اگر اس وقت اس کی چہرہ نمائی کی ضرورت نہیں ہے تو پھر کب ہوگی؟ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں دعا کی تھی کہ اے اللہ اگر تو نے آج اس گروہ کو ہلاک کر دیا تو پھر تیری کبھی عبادت نہ ہوگی.یہی دعا آج ہمارے دل سے بھی نکلی ہے.پس یقیناً یاد رکھو کہ اب اگر خدا تعالیٰ دستگیری نہ کرے تو سب ہلاک

Page 146

ہوجائیں.اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اگر نہ ہو تو قطعِ یقین ہو جاتا ہے.بچہ کو اگر دودھ نہ ملے تو وہ کب تک جئے گا؟ آخر سسک کر مر جائے گا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے انقطاعِ امداد ہو تو انسان چونکہ کمزور اور ضعیف ہے جیسا کہ فرمایا خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا (النساء :۲۹) پس وہ بھی آخر روحانی طور پر مر جائے گا.اس کی طرف اشارہ کر کے براہین احمدیہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا.اصل یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی تائیدیں اور اس کے تازہ بتازہ نشان ظاہر ہوتے ہیں تو ایمانی حالت درست اور مضبوط رہتی ہے ورنہ شیطانی علوم نے کچھ ایسا دخل کر لیا ہے کہ وہ دلوں سے قہری سیاست کے بغیر جو آسمان سے اترتی ہے نکل ہی نہیں سکتے.ان کے لیے ایسی قہری ضرب چاہیے کہ شیطان چیخ کر نکل جاوے.اللہ تعالیٰ رحیم ہے.پس وہ اپنے بندوں پر ان نشانوں کے ذریعہ فضل کر رہا ہے اور ان کے ایمانوں کو طاقت دے رہا ہے.فرمایا.۵؍مئی کو میں نے ایک جامن کا پتہ توڑا.اس پر ہر جگہ غور سے دیکھا تو یہی لکھا ہوا پایا لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ۱ ۱۵؍مئی ۱۹۰۵ء سلسلہ کا مستقبل فرمایا.انبیاء کی زندگی وہی ہوتی ہے جو ابتلا بھی ساتھ ہو.چپ چاپ کی زندگی جو امن کے ساتھ کھاتے پیتے گذر جائے وہ عمدہ زندگی نہیں ہوتی.محنتوں اور مشقتوں کے بعد سارٹیفکیٹ ملا کرتے ہیں.یہ سلسلہ جو خدا نے جاری کیا ہے.یہ اب ضرور اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا خواہ ہماری محنتوں سے یہ کام پورا ہو خواہ قضاء و قدر سے ایسے امور

Page 147

پیدا ہوجائیں جو اس کام کو پورا کر دیں.زلزلہ کے متعلق اشتہار شائع کرنے کا مقصد فرمایا.ہم نے زلزلہ کے متعلق جو اشتہار شائع کیا ہے یہ مخلوق الٰہی کی خیر خواہی کے واسطے ہے اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی کے گھر کو آگ لگے اور کوئی جا کر اسے اطلاع دے.ہر ایک خطرناک بات جو آئندہ ہونے والی ہوتی ہے جب اس سے کسی کو اطلاع دی جاوے تو ممکن ہے کہ اس کو تشویش ہو.مگر یہ اطلاع اس کی بہتری کے واسطے ہے تاکہ آئندہ تباہی سے وہ بچ جاوے.بہلول پور علاقہ لائل پور سے ایک خط پڑھا گیا جس میں لکھا تھا کہ ۱۱؍مئی کی رات کو یہاں ایسا زلزلہ آیا کہ پہلے ایسا سخت نہ آیا تھا.ذکر آیا کہ اس سے نجومیوں کی بات غلط ہوئی جنہوں نے کہا تھا کہ اب ان تاریخوں میں کوئی زلزلہ نہیں آوے گا.ابتلاؤں کا مقصد خدا کے بندوں پر ابتلا کے آنے کا ذکر تھا.فرمایا.ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے.بعض فتوحات کا مدار ابتلاؤں پر ہوتا ہے.کسی کی گریہ و زاری بعض دفعہ راہ کھول دیتی ہے.مثنوی میں ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک بزرگ کے پاس ایک دفعہ کھانے کو نہ تھا.وہ بزرگ اور اس کے ساتھی سب بھوکے تھے.اتنے میں ایک لڑکا حلوا بیچتا ہوا وہاں سے آ گذرا.اس بزرگ نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ اس سے حلوا چھین لو.چنانچہ آدمیوں نے ایسا کیا اور وہ حلوا بزرگ نے اور اس کے ساتھیوں نے کھا لیا.وہ لڑکا بہت رویا اور چلایا.آدمیوں نے سوال کیا کہ اس میں کیا حکمت تھی کہ بچہ کا حلوا چھین لیا.فرمایا کہ یہی اس بچہ کی پونجی تھی.وہ بہت درد کے ساتھ رویا ہے اور اس کا رونا موجب کشائش اور فتوح کا ہوا ہے جو ہماری دعائیں نہیں ہوسکتی تھیں.چنانچہ اس بچہ کو اس کے حق سے بہت زیادہ دے کر راضی کیا گیا.اسی طرح بعض ابتلا صرف اس واسطے آتے ہیں کہ انسان اس رتبہ کو جلد حاصل کرلے جو اس کے واسطے مقدر ہے.ذکر تھا کہ ۱۴؍ اپریل گذر گئی ہے جس کے واسطے انگریز نے پیشگوئی زلزلہ کی کی تھی.اب

Page 148

لوگوں کو تشفی ہوگئی.فرمایا.لوگ منجم پرست ہیں.خدا پرست نہیں ہیں.سبحان اللہ کے معنی ایک شخص نے اپنا خواب سنایا کہ میں سبحان اللہ پڑھتاہوں.فرمایا.سبحان اللہ کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ خلافِ وعدہ اور کذب اور دیگر تمام منقصتوں سے پاک ہے وہ اپنے وعدوں کو سچا کرتا اور پیشگوئیوں کو پورا کرتا ہے.۱ ۱۶؍مئی ۱۹۰۵ء فرمایا.سورہ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ میں زلزلہ کے واسطے صاف پیشگوئی ہے کہ زمین پر سخت زلزلہ آئے گا.اور زمین اندر کی چیزیں باہر نکال پھینکے گی.پہاڑوں کی ساخت فرمایا.قرآن شریف میں آیا ہے کہ پہاڑ زمین کی میخیں ہیں.نادان اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کیا بات ہے.اس زلزلہ نے اس اعتراض کو بھی صاف کیا ہے.ان آتش فشانیوں اور زلزلوں کا موجب یہ پہاڑ ہی ہوا کرتے ہیں.جب پہاڑوں پر تباہی پڑتی ہے تو سب پر تباہی پڑتی ہے.پہاڑ امن یا بے امنی کا مرکز بنا ہوا ہے.۲ ۱۷؍مئی ۱۹۰۵ء معالج کے لئے ہدایت ایک ڈاکٹر صاحب کا ذکر آیا کہ انہوں نے ایک بیمار کو خوفناک بتایا تھا.بعد میں معلوم ہوا کہ وہ تندرست ہے.فرمایا.یہ لوگ ایسی غلطیاں کھاتے ہیں.ہمارے مسلمان اطباء میں کیا عمدہ بات ہے کہ لکھا ہے کہ نبض دیکھنے سے پہلے طبیب یہ پڑھا کرے سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ...الْحَكِيْمُ تک۳(البقرۃ:۳۳)

Page 149

تو پاک ہے ہمیں کوئی علم نہیں سوا اس کے جو تو نے ہم کو سکھایا تحقیق تو علم اور حکمت والا ہے.۱ ۲۱؍مئی ۱۹۰۵ء لڑکیاں اور لڑکے اور ان کے والی بعض وجوہات سے خود قادیان میں حاضر نہیں ہو سکتے تھے.لیکن ان کی دلی خواہش تھی کہ یہ نکاح قادیان میںہو اور ایسے جلسہ میں ہو جس میں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام موجود ہوں.چنانچہ یہ درخواست سیالکوٹ سے یہاں حضرت کی خدمت میں آئی.حضرت اقدسؑ نے فرمایاکہ یہ شرعی مسئلہ ہے.بذریعہ تحریر اجازت کے بعد اس جگہ نکاح ہوسکتا ہے.۲ ۲۵؍مئی ۱۹۰۵ء ایک خادم نے عرض کی کہ مخالف حضور کی نسبت جھوٹی خبریں بیماری وغیرہ کی شائع کرتے رہتے ہیں اور ہمیں سناتے ہیں.فرمایا.مخالفین خواہ مخواہ ایسی بات کرتے ہیں جس سے تم کو اشتعال پیدا ہو اور لڑائی ہو جائے.ایسے فتنوں سے بچنا چاہیے اور صبر کرنا چاہیے.جو شخص کسی پر تہمت لگاتا ہے وہ مرتا نہیں جب تک کہ اس میں گرفتار نہ ہوجائے.ایک خادم نے عرض کی کہ تمام قسموں کے دردوں کے واسطے یہ بڑا عمدہ علاج ہے کہ بُھرجی کی ریت ہو.اس پر الحمد لکھا جائے وغیرہ وغیرہ.فرمایا.یہ توجہ کی ایک قسم ہے مگر یاد رکھو کہ دعا جیسی پاک صاف اور شرک سے خالی کوئی توجہ

Page 150

نہیں دوسرے قسم کی توجہوں میں انسان کا بھروسہ اشیاء پر ہوتا ہے.جب قبلہ حقیقی کی طرف توجہ نہ ہو تو پھر بے فائدہ ہے.فرمایا.انگریزی میں سونے کو گولڈ کہتے ہیں جس کے لکھنے میں انگریزی حروف ج.و.ل.د استعمال ہوتے ہیں.یہ عربی لفظ دجال کا مقلوب ہے.عربی میں دجال سونے کو کہتے ہیں.اس زمانہ کی سہولتیں ہماری خادم ہیں اس زمانہ کے عجائبات کا تذکرہ تھا کہ ریل تار ڈاک وغیرہ سے کس قدر سہولتیں پیدا ہوگئی ہیں.فرمایا.اسی واسطے ہم کو الہام ہواتھا کہ اَلَمْ نَـجْعَلْ لَّکَ سُھُوْلَۃً فِيْ كُلِّ اَمْـرٍکیا ہم نے تیرے واسطے ہر امر میں سہولت نہیں کر دی.حقیقت میں یہ اشیاء کسی کے واسطے ایسی مفید نہیں ہوئیں جیسی کہ ہمارے واسطے ہوئی ہیں.کیونکہ ہمارا مقابلہ دین کا ہے اور ان اشیاء سے جو نفع ہم اٹھاتے ہیں وہ دائمی رہنے والا ہے.لوگ بھی چھاپے خانوں سے فائدے اٹھاتے ہیں لیکن ان کے اغراض دنیوی اور ناپائیدار ہیں.برخلاف اس کے ہمارے معاملات دینی ہیں.اس واسطے یہ چھاپے خانے وغیرہ جو اس زمانہ کے عجائبات ہیں در اصل ہمارے ہی خادم ہیں.ایک الہام فرمایا.آج رات یہ وحی ہوئی اُرِیْدُ مَا تُرِیْدُوْنَ میں ارادہ کرتا ہوں جو تم ارادہ کرتے ہو.چونکہ ہمارے ارادے سب دوستوں کے واسطے مشترک ہیں جن کے لیے ہم دعائیں کرتے ہیں اس واسطے اس میں سب کے واسطے بشارت ہے.یہ وحی قبولیتِ دعا کی طرف اشارہ کرتی ہے یعنی تمہارے ارادے کے موافق ہمارا ارادہ ہے.حضرت مولوی نورالدین صاحب نے عرض کی کہ یہ قرآن شریف کی اس وحی کے مطابق ہے کہ اَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ(البقرۃ:۱۱۶).قبولیتِ دعا کے اوقات شیخ رحمت اللہ صاحب کو فرمایا کہ ہم آپ کے واسطے دعا کرتے ہیں آپ بھی اس وقت دعا کیا کریں.ایک تو رات کو تین بجے تہجد کے واسطے خوب وقت ہوتا ہے.کوئی کیساہی کمزور ہو تین بجے

Page 151

اٹھنے میں اس کے لیے ہرج نہیں.اور دوسرا جب اچھی طرح سورج چمک اٹھے تو اس وقت ہم بیت الدعا میں بیٹھتے ہیں.یہ دونوں وقت قبولیت کے ہیں.نماز میں تکلیف نہیں.سادگی کے ساتھ اپنی زبان میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا کرے.صلوٰۃ اور دعا میں فرق فرمایا.ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ صلوٰۃ میں اور دعا میں کیا فرق ہے.حدیث شریف میں آیا ہے اَلصَّلٰوۃُ ھِیَ الدُّعَآءُ.اَلصَّلٰوۃُ مُـخُّ الْعِبَادَۃِ یعنی نماز ہی دعا ہے نماز عبادت کا مغز ہے.جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کے لیے ہو تو اس کا نام صلوٰۃ نہیں لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کو مد نظر رکھتا ہے اور ادب، انکسار، تواضع اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے تب وہ صلوٰۃ میں ہوتا ہے.اصل حقیقت دعا کی وہ ہے جس کے ذریعہ سے خدا اور انسان کے درمیان رابطہ تعلق بڑھے.یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے اور انسان کو نامعقول باتوں سے ہٹاتی ہے.اصل بات یہی ہے کہ انسان رضائے الٰہی کو حاصل کرے.اس کے بعد روا ہے کہ انسان اپنی دنیوی ضروریات کے واسطے بھی دعا کرے.یہ اس واسطے روا رکھا گیا ہے کہ دنیوی مشکلات بعض دفعہ دینی معاملات میں ہارج ہو جاتے ہیں.خاص کر خامی اور کچ پنے کے زمانہ میں یہ امور ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہیں.صلوٰۃ کا لفظ پُر سوز معنے پر دلالت کرتا ہے جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے ویسی ہی گدازش دعا میں پیدا ہونی چاہیے جب ایسی حالت کو پہنچ جائے جیسے موت کی حالت ہوتی ہے تب اس کا نام صلوٰۃ ہوتا ہے.نماز میں وساوس کی وجہ ایک شخص نے سوال کیا کہ مجھے نماز میں وساوس اور ادھر ادھر کے خیالات بہت پیدا ہوتے ہیں.فرمایا.اس کی اصل جڑ امن اور غفلت ہے.جب انسان خدا تعالیٰ کے عذاب سے غافل ہو کر امن میں ہو جاتا ہے تب وساوس ہوتے ہیں.دیکھو! زلزلہ کے وقت اور کشتی میں بیٹھ کر جب کشتی خوفناک مقام پر پہنچتی ہے سب اللہ اللہ کرتے ہیں اور کسی کے دل میں وساوس پیدا نہیں ہوتے.

Page 152

مخالفین کا وجود بھی ضروری ہے ذکر آیا کہ بعض جگہ مخالفین ہماری جماعت کے لوگوں کو بہت دکھ دیتے ہیں اور بڑی بڑی ایذا رسانی کرتے ہیں.فرمایا.خدا تعالیٰ کے آگے کسی کا نابود کرنا کچھ مشکل نہیں.لیکن جس کی طاقتیں بڑی ہوتی ہیں اس کا حوصلہ بھی بڑا ہوتا ہے.لیکن ایسے آدمیوں کا وجود بھی ضروری ہے.اعداء کا وجود انبیاء کے واسطے بہت مفید ہوتا ہے.قرآن شریف کے جو تیس سیپارے ہیں.اس کے اکثر حصہ نزول کا سبب اعداء ہی ہوئے اگر سب ابو بکر کی طرح اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا کہنے والے ہوتے تو چند آیتوں پر یہ سلسلہ ختم ہوجاتا ہے.درخت کے واسطے جیسے صاف پانی کی ضرورت ہے ویسے ہی کچھ کھاد کے لیے گند کی بھی ضرورت ہے.بہت سی آسمانی سر گرمی انہی لوگوں کی شرارتوں پر منحصر ہے.کوئی بھی نہیں جس کے اعداء نہیں ہوئے.نبی کے نفس کے واسطے یہ امر بہتر ہے کیونکہ اس طرح اس کی توجہ بڑھتی ہے.اور معجزات تائید و نصرت زیادہ ہوتے ہیں اور جماعت کے واسطے بھی مفید ہے کہ وہ پکے ہو جاتے ہیں.خدا کو دیر نہیں لگتی کہ لاکھوں کروڑوں کو ایک آن میں تباہ کر دے لیکن ضرورت کے سبب مخالفین کا وجود قائم رکھا جاتا ہے جس شہر میں خاموشی سی ہو اس جگہ جماعت ترقی نہیں پکڑتی.خدا کی حکمتوں کو ہر ایک شخص نہیں پہچان سکتا.۱ ۲۶؍مئی ۱۹۰۵ء چند الہامات اور ایک رؤیا فرمایا.گھر میں طبیعت علیل تھی.بہت سر در، دبخار اور کھانسی بھی تھی.لوگوں کے لیے ابتلا کا خوف ہوتا ہے میں نے رات بہت دعا کی.(شیخ رحمت اللہ صاحب کو مخاطب کرکے) آپ کے لیے بھی دعا کی تھی.پہلے تو ایک مشتبہ سا الہام ہوا معلوم نہیں کس کے متعلق ہے اور وہ یہ ہے.(۱) شَـرُّ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْـھِمْ (ترجمہ) شرارت

Page 153

ان لوگوں کی جن پر تو نے انعام کیا (۲) میں ان کو سزا دوں گا (۳) میں اس عورت کو سزا دوں گا.معلوم نہیں یہ کس کے متعلق ہے.اس کے بعد گھر والوں کے متعلق یہ الہام ہوا رَدَّ اِلَیْـھَا رَوْحَھَا وَرَیْـحَانَـھَا.اِنِّیْ رَدَدْتُّ اِلَیْـھَا رَوْحَھَا وَ رَیْـحَانَـھَا.رؤیا اسی وقت جبکہ مذکورہ بالا الہام ہوا دیکھا کہ کسی نے کہا کہ آنے والے زلزلہ کی یہ نشانی ہے.جب میں نے نظر اٹھائی تو دیکھا کہ اس ہمارے خیمہ کے سر پر سے جو باغ کے قریب نصب کیا ہوا ہے ایک چیز گری ہے.خیمہ کی چوب کا اوپر کا سِرا وہ چیز ہے.جب میں نے اٹھایا تو وہ ایک لونگ ہے جو عورتوںکے ناک میں ڈالنے کا ایک زیور ہے.اور ایک کاغذ کے اندر لپیٹا ہوا ہے.میرے دل میں خیال گذرا کہ یہ ہمارے ہی گھر کا مدت سے کھویا ہوا تھا اور اب ملا ہے اور زمین کی بلندی سے ملا ہے اور یہی نشانی زلزلہ کی ہے.۱ آج کی تازہ وحی رَدَّ اِلَیْـھَا رَوْحَھَا وَ رَیْـحَانَـھَا کا ذکر تھا.فرمایا.اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے.تمام سماوی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی امر کے ضرور آئندہ پورا ہوجانے کے متعلق کسی پیشگوئی کو ظاہر فرماتے وقت ماضی کا صیغہ استعمال کرتا ہے مثلاً قرآن شریف میں آیا ہے تَبَّتْ يَدَاۤ اَبِيْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ (اللَّھب:۲) ابولہب کے دونو ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ خود بھی ہلاک ہوگیا.یہ وحی الٰہی بطور پیشگوئی کے ایسے وقت میں نازل ہوئی تھی جبکہ ابو لہب چنگا بھلا پھرتا تھا.لیکن آسمان پر اس کے لیے ہلاکت کا حکم ہوچکا تھا.اس واسطے یہ بات ایسے طور پر بیان کی گئی کہ یہ کام ہوچکا ہے.پہلے ایک معاملہ آسمان پر ہو جاتا ہے اور پھر زمین پر اس کا ظہور ہوتا ہے.ایسا ہی ہمارا الہام عَفَتِ الدِّیَارُ والا تھا یعنی مٹ گئے گھر.اگرچہ گیارہ ماہ پہلے یہ زلزلہ کی پیشگوئی تھی تاہم چونکہ آسمان پر یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ زلزلہ ضرور آئے گا اس واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مکانات عارضی اور مستقل سب گر گئے اور نشان مٹ گئے.جو لوگ مثلاً پیسہ اخبار کے نامہ نگار وغیرہ اعتراض کرتے ہیں وہ اس محاورہ سے ناواقف اور جاہل ہیں یا جان بوجھ کر تعصب کے

Page 154

ساتھ ضد کرتے ہیں ورنہ یہ محاورہ سب زبانوں میںپایا جاتا ہے.آتھم کے متعلق جب ہم نے پیشگوئی کی تھی تو اس نے اسی مجلس میں کہا تھا کہ میں تو مرگیا.باوجود عیسائی ہونے کے وہ ادب کا بہت لحاظ رکھتا تھا اور یہی سبب تھا کہ وہ ڈرتا رہا اور میعاد کے اندر مرنے سے بچ گیا.ابولہب کے متعلق صاف پیشگوئی مکہ میں کی گئی تھی کہ وہ ہلاک ہوگیا.حالانکہ وہ جنگ بدر کے بعد طاعون سے مرا تھا.فرمایا.رَوح و ریحان سے مراد ہر قسم کی آسائش اور آسودگی ہوتی ہے.۱ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ مبارک منہ کے مبارک الفاظ معناً (مرقومہ شیخ عبد الرحیم صاحب) بو۲قت ۹ بجے آپ باہر تشریف لائے.شیخ رحمت اللہ صاحب نو وارد اور مولوی صاحبان اور دیگر احباب محفل موجود تھے.ادھر ادھر کی باتوں میں آپ نے فرمایا کہ ہم خدا کے مرسلین اور مامورین کبھی بزدل نہیں ہوا کرتے بلکہ سچے مومن بھی بزدل نہیں ہوتے.بزدلی ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے.صحابہ رضی اللہ عنہم پر مصیبتوں نے بار بار حملے کئے مگر انہوں نے کبھی بزدلی نہیں دکھائی.خدا تعالیٰ ان کی نسبت فرماتا ہے مِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا(الاحزاب : ۲۴) یعنی جس ایمان پر انہوں نے کمر ہمت باندھی تھی اس کو بعض نے تو نبھا دیا اور بعض منتظر ہیں کہ کب موقع ملے اور سر خرو ہوں اور انہوںنے کبھی کم ہمتی اور بزدلی نہیں دکھائی.سب سے بڑھ کر راحت دعا کے متعلق آپ نے فرمایا کہ ادھر کی جاتی ہے اور ادھر جواب ملتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا

Page 155

راحت ہوسکتی ہے اور یہی ایک مابہ الامتیاز امر ہوتا ہے جو مامورین اور دوسروں میں رکھ دیا جاتا ہے.استجابتِ دعا کا ایک وقت ہوتا ہے فرمایا.شیخ صاحب میں آپ کے لیے پانچ وقت دعا کرتا ہوں لیکن استجابت کا ایک وقت ہوتا ہے.انسان کو بعض وقت ایک ہی سمت مقصود ہوتی ہے.مگر خدا تعالیٰ مومن کے لیے دنیا اور آخرت میں سنوار چاہتا ہے.اس لیے بعض وقت ابتلا آجاتے ہیں جو بالآخر بابرکت ہوتے ہیں.بعض انسانی کمزوریوں کا علاج یہ مصائب ہوتے ہیں.انسان میں بیشک بعض کمزوریاں ایسی ہوتی ہیں جن کو یہ سمجھ نہیں سکتا.لیکن میری دعائیں ایسی ہوتی ہیں کہ محل قبولیت تک پہنچتی ہیں.وقت شرط ہے.پھر ایک طرف مخاطب ہو کر.میں آپ کے لیے دعا کرتا ہوں لیکن کل کے امر میں میں نے خیال کیا تو میں نے سمجھا کہ شاید یہی امور میری دعا کی استجابت میں مانع ہوں مگر آپ کے لکھنے پر مجھے اصل واقعہ کی حقیقت معلوم ہوئی.دعا کی قبولیت میں تاخیر ڈالنے والے یا دعا کے ثمرات سے محروم کرنے والے بعض مکروہات ہوتے ہیں.جن سے انسان کو بچنا لازم ہے.مصائب دنیا میں آکر آخرت میں موجب مدارج ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ثواب ملتا دیکھ کر بعض لوگ کہیںگے کہ کاش ہمارے وجود بھی قینچیوں سے کاٹے جاتے اور ہم بھی یہ معاوضے حاصل کرتے.سب سے بڑھ کر مصائب انبیاء پر آتے ہیں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو زندگی میں کیا کیا تکلیفیں اٹھانی پڑیں.غرضیکہ گھبرانا نہیں چاہیے.اپنے الہامات پر یقین کامل ہمیں زلزلے کے متعلق پورا اطمینان ہے.مَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى ہمارے اشتہارات کے شائع ہونے کے بعد الہام ہوا ہے.جس سے خدا تعالیٰ کا ارادہ قطعی ثابت ہوتا ہے.ہم نے جو کچھ اخراجات ہزاروں تک خیمے وغیرہ منگوا کر کئے ہیں.وہ دھوکے کی بنا پر نہیں کئے.ہمیں خدا کی باتوں پر ایمان ہے.تاریخ کا مقرر نہ ہونا یا وقت کی کمی بیشی پیشگوئی کے ظاہر ہونے کی وقعت میں کچھ کمی

Page 156

نہیں ڈال سکتے.قرآن شریف میں اِنْ اَدْرِيْۤ اَقَرِيْبٌ اَمْ بَعِيْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ (الانبیآء:۱۱۰) (مَیں نہیں جانتا کہ عذاب کے نزول کا وقت قریب ہے یا بعید) صاف بتاتا ہے کہ ہر ایک عذاب کی مقررہ تاریخ نہیں بتائی جاتی.۱ ۲۷؍مئی ۱۹۰۵ء ایک جلیل القدر الہام عَبْدُ الْقَادِرِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ.اَرٰی رِضْوَانَہٗ اَللہُ اَکْبَـرُ.پہلی وحی کے متعلق فرمایا کہ خدا اپنی کچھ قدرتیں میرے واسطے ظاہر کرنے والا ہے.اس واسطے میرا نام عبد القادر رکھا.رضوان کا لفظ دلالت کرتا ہے کہ کوئی فعل دنیا میں خدا کی طرف سے ایسا ظاہر ہونے والا ہے جس سے ثابت ہو جائے اور دنیا پر روشن ہوجائے کہ خدا مجھ پر راضی ہے.دنیا میں بھی جب بادشاہ کسی پر راضی ہوتا ہے تو فعلی رنگ میں بھی اس رضامندی کا کچھ اظہار ہوتا ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ اس کی رضا پر دلالت کرنے والے افعال دیکھتا ہوں.مومن کو اللہ تعالیٰ کی رضا بہت پیاری ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ مومنین جب بہشت میں داخل کئے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ اب مانگو جو کچھ مانگنا چاہتے ہو تو وہ عرض کریں گے کہ اے رب! تو ہم پر راضی ہو جا.جواب ملے گا.اگر میں راضی نہ ہوتا تو تم کو بہشت میں کس طرح داخل کرتا.۲ ۲۸؍مئی ۱۹۰۵ء ایک رؤیا شیخ رحمت اللہ صاحب کی ایک گھڑی میرے پاس ہے اور ایک ایسی چیز جیسے ترازو کے دو پلڑے ہوتے ہیں مثل جھیوروں کے بینگی کے.میں ایک ڈولی میں بیٹھا ہوا ہوں.

Page 157

پھر کسی نے میاں شریف احمد کو اس میں بٹھا دیا اور اس کو چکر دینا شروع کیا.اتنے میں گھڑی گر گئی اور اس جگہ قریب ہی گری ہے.میں کہتا ہوںکہ اس کو تلاش کرو ایسا نہ ہو کہ محمد حسین نالش کر دے.فرمایا کہ خیال گذرتا ہے کہ شاید گھڑی سے مراد وہ ساعت ہے جو زلزلہ کی ساعت ہے جو معلوم نہیں.واللہ اعلم.اور وہ رحمت کی ساعت ہے یعنی یہ ساعت ہمارے واسطے رحمت الٰہی کا موجب ہوگی.۱ بلا تاریخ۲ القول الطیب حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی والدہ یہاں آئی ہوئی ہیں انہوں نے اپنی والدہ کی پیری اور ضعف کا اور ان کی خدمت کا جو وہ کرتے ہیں ذکر کیا.خدمت والدین حضرت نے فرمایا.والدین کی خدمت ایک بڑا بھاری عمل ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بد قسمت ہیں.ایک وہ جس نے رمضان پایا اور رمضان گذر گیا پر اس کے گناہ نہ بخشے گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گذر گئے اور اس کے گناہ بخشے نہ گئے.والدین کے سایہ میں جب بچہ ہوتاہے تو اس کے تمام ھمّ و غم والدین اٹھاتے ہیں.جب انسان خود دنیوی امور میں پڑتا ہے تب انسان کو والدین کی قدر معلوم ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں والدہ کو مقدّم رکھا ہے کیونکہ والدہ بچہ کے واسطے بہت دکھ اٹھاتی ہے.کیسی ہی متعدی بیماری بچہ کو ہو.چیچک ہو، ہیضہ ہو، طاعون ہو ما اس کو چھوڑ نہیںسکتی.ہماری لڑکی کو ایک دفعہ ہیضہ ہوگیا تھا ہمارے گھر سے اس کی تمام قے وغیرہ اپنے ہاتھ پر لیتی تھیں.ما سب تکالیف میں بچہ کی شریک ہوتی ہے.یہ طبعی محبت ہے جس کے ساتھ کوئی دوسری محبت

Page 158

مقابلہ نہیں کر سکتی.خدا تعالیٰ نے اسی کی طرف قرآن شریف میں اشارہ کیا ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى(الـنحل:۹۱).اخلاق کی انتہا ادنیٰ درجہ عدل کا ہوتا ہے.جتنا لے اتنا دے.اس سے ترقی کرے تو احسان کا درجہ ہے جتنا لے وہ بھی دے اور اس سے بڑھ کر بھی دے.پھر اس سے بڑھکر اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰىکا درجہ ہے یعنی دوسروں کے ساتھ اس طرح نیکی کرے جس طرح ما بچہ کے ساتھ بغیر نیت کسی معاوضہ کے طبعی طور پر محبت کرتی ہے.قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل اللہ ترقی کر کے ایسی محبت کو حاصل کر سکتے ہیں.انسان کا ظرف چھوٹا نہیں.خدا کے فضل سے یہ باتیں حاصل ہوجاتی ہیں بلکہ یہ وسعت اخلاق کے لوازمات میں سے ہے.میں تو قائل ہوں کہ اہل اللہ یہاں تک ترقی کرتے ہیں کہ مادری محبت کے اندازہ سے بھی بڑھ کر انسان کے ساتھ محبت کرتے ہیں.ایک بڑھیا کا ذکر ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کی وفات کے روز بغیر اس کے کہ اس کو کسی نے خبر دی ہو خود بخود کہنے لگی کہ آج ابو بکر مر گیا ہے.لوگوں نے پوچھا کہ تجھ کو کس طرح سے معلوم ہوا.اس نے کہا کہ ہر روز مجھ کو آپ حلوہ کھلایا کرتے تھے اور وہ وعدہ میں تخلّف کرنے والے ہرگز نہ تھے چونکہ آج وہ حلوہ کھلانے نہیں آئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فوت ہوگئے ہیں ورنہ وہ ضرور مجھے حلوہ کھلانے آج بھی آتے.دیکھو اخلاقی حالت کہاں تک وسعت کر سکتی ہے.یہ بھی ایک معجزہ ہے.ان اخلاق پر دوسرے لوگ قادر نہیں ہو سکتے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مجرم پکڑا ہوا آیا تو وہ آپ ہی رعب سے کانپتا تھا.آپ نے فرمایا تو کیوں اتنا ڈرتا ہے میں تو ایک بڑھیا کا بیٹا ہوں.معمولی انسانوں کے یہ اخلاق نہیں ہوتے.عرب کی قوم کئی پشتوں تک کینہ رکھنے والی تھی.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان پر غلبہ پایا تو باوجود اس قدر دکھوں کے جو ان سے اٹھایا تھا سب کو معاف کر دیا.دنیوی حکومت رحم نہیں کر سکتی.انگریزوں نے باغیوں کو کس طرح پھانسی دیا اور قتل کیا تھا.مگر آنحضرتؐنے اپنے سب باغیوں کو یک دفعہ معاف کر دیا.کسی نبی کو ایسی

Page 159

پوری کامیابی نہیں ہوئی جیسی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی.حضرت موسیٰ اپنے وعدہ کی زمین تک نہ پہنچ سکے اور راستہ میں ہی فوت ہوگئے اور ان کے ساتھیوں نے کہا کہ اے موسیٰ! تو اور تیرا خدا مل کر مخالفوں سے جا کر لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں.مگر آنحضرتؐکے اصحاب نے کہا کہ ہم تیرے ساتھ چلیں گے اگرچہ سمندر میں گریں اور قتل کئے جائیں.قاعدہ ہے کہ نبی کا پَرتَوہ امت پر بھی پڑتا ہے.جب استاد کامل ہوتا ہے ایسے ہی شاگرد بھی بنتے ہیں جیسے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت افعال و اعمال اور کامیابی کی نظیر نہیں ویسے ہی صحابہ کی بھی نظیر نہیں.صحابہؓ باوجود قلیل ہونے کے جدھر جاتے فتح پاتے.صحابہ ایسے تھے جیسے کسی برتن کو بہت دھو کر بالکل صاف اور ستھرا کر دیا جاتا ہے اور اس میں کسی قسم کی آلائش کا شائبہ نہیں رہتا.ان کی ایسی محنت اور اخلاص تھا تو خدا نے پھر بدلہ بھی ایسا دیا.حضرت ابو بکر کو آنحضرتؐکا خلیفہ بنایا.شیعوںکی غلطی اس جگہ شیعوں نے بڑی غلطی کھائی ہے کہ خلافت کا حق حضرت علی کو تھا.بدقسمت نہیں دیکھتے کہ خدا نے کیا فیصلہ کیا جو وقت وعدوں کے پورا ہونے کا تھا اس وقت خدا نے ایک منافق اور اہل بیت کے دشمن کو کیوں گدی پر بٹھا دیا.میں جانتا ہوں کہ اس قوم نے بھی عیسائیوں کی طرح ایک غلو کیا ہے اور اس غلو کا باعث اصلی نامرادی ہے جو ابتدا میں حاصل ہوئی.جو لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ یسوع کو ظاہری بادشاہت حاصل ہوگی ان کو جب اس معاملہ میں ناکامی حاصل ہوئی تو انہوں نے یسوع کی صفت میں غلو کر کے یسوع کو خدا ہی بنا دیا.ایسا ہی قومِ شیعہ نے بھی حضرت علی کو وہ درجہ دئیے ہیں جو خدا نے نہ چاہا کہ ان کو دے.خدا کا معاملہ ہر ایک کے ساتھ اس کے دل کی حالت کے مطابق ہوتا ہے.اگر ان کے پاس نورِ ایمان ہوتا تو ایسی بات نہ بولتے.کیا اس وقت خدا کمزور تھا اور وہ بدلہ لے نہ سکتا تھا یا خدا پالیسی باز تھا.حضرت ابوبکرؓ کو طاقتور دیکھ کر خاموش رہا.۱

Page 160

۳جون ۱۹۰۵ء بچوںکی وفات پر صبر کی تلقین عاجز راقم ۱ کی لڑکی سعیدہ بیگم بعمر تین سال آٹھ ماہ بعارضہ اُمّ الصبیان فوت ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بمع جماعت باغ میں جنازہ پڑھا اور مجھے مخاطب کرکے فرمایا.اولاد جو پہلے مرتی ہے وہ فرط ہوتی ہے.حضرت عائشہؓ نے رسول کریمؐ سے عرض کی تھی کہ جس کی کوئی اولاد نہیں مرتی وہ کیا کرے گا؟ فرمایا میں اپنی امت کا فرط ہوں.فرمایا.آپ صبر کریں.اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اس کے عوض میں لڑکا دے گا.صبر تو خواہ مخواہ کرنا ہی پڑتا ہے.لڑکیوں کے معاملات بھی مشکل ہوتے ہیں.اَلْـخَیْـرُ فِیْ مَا وَقَعَ.انشاء اللہ کہنے کا مقصد فرمایا.لفظ انشاء اللہ تعالیٰ کہنے میں انسان اپنی کمزوری کا اظہار کرتا ہے کہ میں تو چاہتا ہوں کہ یہ کام کروں.لیکن خدا نے توفیق دی تو امید ہے کہ کر سکوں گا.ایمان کی جڑ نماز ہے فرمایا.جس طرح بہت دھوپ کے ساتھ آسمان پر بادل جمع ہوجاتے ہیں اور بارش کا وقت آجاتا ہے.ایسا ہی انسان کی دعائیں ایک حرارت ایمانی پیدا کرتی ہیں اور پھر کام بن جاتا ہے.نماز وہ ہے جس میں سوزش اور گدازش کے ساتھ اور آداب کے ساتھ انسان خدا کے حضور میں کھڑا ہوتا ہے.جب انسان بندہ ہو کر لاپرواہی کرتا ہے تو خدا کی ذات بھی غنی ہے.ہر ایک امت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس میں توجہ الی اللہ قائم رہتی ہے.ایمان کی جڑ بھی نماز ہے.بعض بیوقوف کہتے ہیں کہ خدا کو ہماری نمازوں کی کیا حاجت ہے؟ اے نادانو! خدا کو حاجت نہیں مگر تم کو تو حاجت ہے کہ خدا تمہاری طرف توجہ کرے.خدا کی توجہ سے بگڑے ہوئے کام سب درست ہوجاتے ہیں.نماز ہزاروں خطاؤں کو دور کر دیتی ہے اور ذریعہ حصول قرب الٰہی ہے.

Page 161

میح موعود کے دو بازو فرمایا.یہ اخبار (الحکم و بدر) ہمارے دو بازو ہیں.الہامات کو فوراً ملکوں میں شائع کرتے ہیں اور گواہ بنتے ہیں.روزہ اور نماز فرمایا.روزہ اور نماز ہر دو عبادتیں ہیں.روزے کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زور روح پر ہے.نماز سے ایک سوز و گداز پیدا ہوتی ہے.اس واسطے وہ افضل ہے.روزے سے کشوف پیدا ہوتے ہیں مگر یہ کیفیت بعض دفعہ جوگیوں میں بھی پیدا ہوسکتی ہے لیکن روحانی گدازش جو دعاؤں سے پیدا ہوتی ہے.اس میں کوئی شامل نہیں.۱ تعبیر الرؤیا بعد نماز جمعہ ماسٹر عبد الرحیم صاحب سیکنڈ ماسٹر مدرسہ اکونہ ضلع بھڑائچ نے اپنا رؤیا حضرت کے آگے عرض خدمت کیاکہ رات میں نے حضورؑکی زیارت عالم رؤیا میں کی اور حضورؑنے دست خاص سے کچھ مٹھائی کی قسم سے جس میں گری وغیرہ ملی ہوئی تھی مجھے عنایت فرمایا میں اسے دیکھ رہا تھا کہ آنکھ کھل گئی حضرت میں نے اسے کھایا نہیں.حضرت نے فرمایا.شکر کرو مل تو گیا.

Page 162

۱۱جون۱۹۰۵ء زلزلہ کی پیشگوئی کے متعلق بعض اعتراضات کے جوابات فرمایا.ایک شخص نے اعتراض کیا ہے کہ زلزلہ کے واسطے جب تک تاریخ نہ ہو تب تک یہ پیشگوئی کچھ نہیں.فرمایا.اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ بَغْتَةً یعنی یہ واقعہ اچانک ہونے والا ہے جبکہ کسی کو بھی خبر نہ ہوگی.اس واسطے اب تاریخ کا سوال بے فائدہ ہے اللہ تعالیٰ اگر تاریخ بتلا دے تو یہ امر پہلے الہام کے مخالف ہوگا.علاوہ اس کے خدا چاہتا ہے کہ نیکوں کو بچائے اور بدوں کو ہلاک کرے اگر وقت اور تاریخ بتلائی جائے تو ہر ایک شریر سے شریر اپنے واسطے بچاؤ کا سامان کر سکتا ہے.اگر وقت کے نہ بتلانے سے پیشگوئی قابل اعتراض ہو جاتی ہے تو پھر تو قرآن شریف کی پیشگوئیوںکا بھی یہی حال ہے.وہاں بھی اس قسم کے لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ (یونس:۴۹) یہ وعدہ کب پورا ہوگا.ہمیں وقت اور تاریخ بتلاؤ.مگر بات یہ ہے کہ وعید کی پیشگوئیوں میں تعیّن نہیں ہوتا ورنہ کافر بھی بھاگ کر بچ جائے.فرمایا.ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حوادث اور زلزلہ تو آیا ہی کرتے ہیں پھر یہ پیشگوئی کیا ہوئی؟ قیامت تک زلزلہ اور حادثہ تو کوئی نہ کوئی آئے ہی گا.اس کا جواب یہ ہے کہ اس پیشگوئی میں صریح الفاظ ہیں کہ یہ امر ہماری تائید میں اور ہماری زندگی میں ہونے والا ہے جس کو اس زمانہ کے لوگ دیکھیں گے اور پھر تخصیص یہ ہے کہ یہ حادثہ ایسا سخت ہوگا جس کو نہ کسی نے پہلے دیکھا نہ سنا.فرمایا.ایک اور اعتراض یہ کیاجاتا ہے کہ عَفَتِ الدِّیَارُ مَـحَلُّھَا وَ مَقَامُھَا ایک کافر کا شعر ہے جو آپ کو الہام ہوا.تو پھر یہ معجزہ کس طرح سے ہوا؟ تو اس کا یہ جواب ہے کہ اول تو خود قرآن شریف کی آیات مثلاً فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ

Page 163

الْخٰلِقِيْنَ (المؤمنون:۱۵) قبل وحی قرآن کے دوسروں کے منہ پر یہ الفاظ جاری تھے.چنانچہ یہی بات اُن بدبختوں کے واسطے موجب ارتداد ہوئی.دوم یہ الفاظ جس شاعر کے ہیںوہ کافر نہ تھا بلکہ مسلمان ہوگیا تھا.سوم اصل بات یہ ہے کہ یہ الفاظ جب تک ایک شاعر کے شعر کے طور پر تھے تب تک ان میں کوئی معجزہ نہ تھا.لیکن جب خدا نے اپنی وحی کے لیے ان کو استعمال فرمایا تب یہ معجزہ بن گئے.پہلے تو یہ ایک گذشتہ قصہ تھا مگر اب کلام الٰہی اور ایک پیشگوئی اور معجزہ بن گیا.فرمایا.کتاب براہین احمدیہ حصہ پنجم میں مَیں کچھ اشعار لکھ رہا تھا اور گھر سے قریب ہی سوئے ہوئے تھے کہ اچانک وہ اٹھے اور ان کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے.ع صوفیا سب ہیچ ہے تیری تراہ تیری تراہ ہم نے اس الہامی مصرعہ کو بھی ان اشعار کے درمیان درج کر دیا ہے.تثلیث کسی نے ذکر کیا ہے کہ عیسائیوں نے تثلیث پر چند نئے رسالے لکھے ہیں اور اب تثلیث کا نام ثالوث رکھا ہے.فرمایا.یہ زمانہ ہی ان کے ثالوث کا فیصلہ کر جائے گا.تبرکات کچھ تبرکات کا ذکر تھا.فرمایا.تبرکات کا ہونا مسلمانوں کے آثار میں پایا جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کے بال ایک شخص کو دیئے تھے.ہمیں الہام ہوا ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.۱ ۱۳؍جون ۱۹۰۵ء صالح اولاد کی خواہش کرنا چاہیے قاضی غلام حسین صاحب ویٹرنری اسسٹنٹ حصار حاضر خدمت ہوئے.چند روز ہوئے قاضی صاحب

Page 164

کا لڑکا چند روز کی عمر پاکر فوت ہو چکا ہے.اس پر فرمایا.جو بچہ مرجاتا ہے وہ فرط ہے.انسان کو عاقبت کے لیے بھی کچھ ذخیرہ چاہیے.میں لوگوں کی خواہش اولاد پر تعجب کیا کرتا ہوں.کون جانتا ہے اولاد کیسی ہوگی.اگر صالح ہو تو انسان کو دنیا میں کچھ فائدہ دے سکتی ہے اور پھر مستجاب الدعوات ہو تو عاقبت میں بھی فائدہ دے سکتی ہے.اکثر لوگ تو سوچتے ہی نہیں کہ ان کو اولاد کی خواہش کیوں ہے اور جو سوچتے ہیں وہ اپنی خواہش کو یہاں تک محدود رکھتے ہیں کہ ہمارے مال و دولت کا وارث ہو اور دنیا میں بڑا آدمی بن جائے.اولاد کی خواہش صرف اس نیت سے درست ہو سکتی ہے کہ کوئی ولدِ صالح پیدا ہو جو بندگانِ خدا میں سے ہو لیکن جو لوگ آپ ہی دنیا میں غرق ہوں وہ ایسی نیت کہاں سے پیدا کر سکتے ہیں.انسان کو چاہیے کہ خدا سے فضل مانگتا رہے تو اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے.نیت صحیح پیدا کرنی چاہیے.ورنہ اولاد ہی عبث ہے.دنیا میں ایک بے معنی رسم چلی آتی ہے کہ لوگ اولاد مانگتے ہیں اور پھر اولاد سے دکھ اٹھاتے ہیں.دیکھو! حضرت نوحؑ کا لڑکا تھا کس کام آیا.اصل بات یہ ہے کہ انسان جو اس قدر مرادیں مدّ ِنظر رکھتا ہے اگر اس کی حالت اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہو تو خداا س کی مرادوں کو خود پوری کر دیتا ہے اور جو کام مرضی الٰہی کے مطابق نہ ہوں ان میں انسان کو چاہیے کہ خود خدا تعالیٰ کے ساتھ موافقت کرے.شافی مطلق ایک بیمار اور اس کے علاج کا ذکر تھا.فرمایا.ہر ایک مرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلّط ہوتا ہے.جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے مرض ہٹ جاتا ہے.ایمانداری ایک مَد کے متعلق فنڈ کا تذکرہ تھا.فرمایا.خدا تعالیٰ سمیع و علیم ہے.اس سے دعا کرتے رہو خدا برکت دے گا.اس رمز کا سمجھنا ایمانداری ہے.۱

Page 165

۱۴جون ۱۹۰۵ء خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں سب کچھ ہے ایک شخص بیمار ملنے کے واسطے آیا.اس کے معالجہ کا ذکر تھا.فرمایا.خدا کے نزدیک کوئی بات انہونی نہیں ہے.میر صاحب کا لڑکا محمد اسحاق سخت بیمار ہوا.ڈاکٹر نے مایوسی ظاہر کی ہم نے دعا کی.الہام ہوا سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ پر خدا کا رحم ہے کوئی بھی اس سے ڈر نہیں.دنیا سرائے فانی ہے اور معمولی موت فوت لگی ہوئی ہے.خدا اس کی پروا نہیں کرتا لیکن جہاں کوئی پیچ پڑجاتا ہے اور دین پر اعتراض وارد ہوتا ہے.وہاں تو خدا اپنا قانون بھی بدل دیتا ہے اور معجزہ نمائی کرتا ہے.یوں تو مرنا کوئی حرج یا دکھ کی بات نہیں جن کو ہم کہتے ہیں کہ مرگیا ہے وہ دوسرے جہان میں چلا جاتا ہے.اور وہ جہان نیک آدمیوں کے لیے بہت عمدہ ہے مگر جہاں کوئی اعتراض دین کے لیے مزاحم ہوتا ہے وہاں خدا تعالیٰ عجائبات ظاہر کرتا ہے.دنیوی حکّام بھی ایسا کرتے ہیں کہ کسی اہم ملکی ضرورت کے وقت قانون کی بھی پروا نہیں کرتے.خدا کے ہاتھ میں سب کچھ ہے.اس نے دو گھر بنائے ہیں.ادھر سے اٹھا کر ادھر آباد کر دیتا ہے.ھو الشّافی طب اور معالجات کا تذکرہ تھا.فرمایا.یہ سب ظنی باتیں ہیں.علاج وہی ہے جو خدا تعالیٰ اندر ہی اندر کر دیتا ہے جو ڈاکٹر کہتا ہے کہ یہ علاج یقینی ہے وہ اپنے مرتبہ اور حیثیت سے آگے بڑھ کر قدم رکھتا ہے.بقراط نے لکھا ہے کہ میرے پاس ایک دفعہ ایک بیمار آیا.میں نے بعد دیکھنے حالات کے حکم لگایا کہ یہ ایک ہفتہ کے بعد مر جائے گا.تیس سال کے بعد میں نے اس کو زندہ پایا.بعض ادویہ کو بعض طبائع کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے.اسی بیماری میں ایک کے واسطے ایک دوا مفید پڑتی ہے اور دوسرے کے واسطے ضرر رساں ہوتی ہے.جب بُرے دن ہوں تو مرض سمجھ میں نہیں آتا.اور اگر مرض سمجھ میں آجائے تو پھر علاج نہیں سوجھتا.اسی واسطے مسلمان جب ان علوم کے

Page 166

وارث ہوئے تو انہوں نے ہر امر میں ایک بات بڑھائی.نبض دیکھنے کے وقت سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا(البقرۃ:۳۳) کہنا شروع کیا اور نسخہ لکھنے کے وقت ھو الشّافی لکھنا شروع کیا.اسلام کی بے مثال تائید حضرت کی خدمت میں مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے پالم پور کے ایک انگریز کا خط پڑھ کر سنایا.جس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے اسلام کے ساتھ دلچسپی ہے اور آپ کے رسالہ میں جیسی اسلام کی تائید ہے ایسی میں نے کہیں نہیں دیکھی.۱ ۱۷؍جون ۱۹۰۵ء کشف صحیح سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہو سکتی ہے ذکر آیا کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ میں بھی تابعین میں سے ہوں کیونکہ ایک جنّ جس نے زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پایا تھا میں نے اس سے ملاقات کی.فرمایا.اس سے بہتر کشفِ صحیح ہے جو بیداری کا حکم رکھتا ہے جو لوگ بذریعہ کشفِ صحیح آنحضرتؐکی صحبت حاصل کرتے ہیں وہ اصحاب میں سے ہیں.۲ ۲۶؍جون ۱۹۰۵ء ہمارا دارومدار خدا تعالیٰ کے حکم پر ہے ایک دوست۳ نے تحریک کی کہ جاپان میں تہذیب کی بہت ترقی ہوئی ہے اور عیسائی لوگ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ تمام جاپانی عیسائی ہوجائیں.آریوں نے بھی لاہور میں جاپانی زبان

Page 167

سیکھنے کے واسطے ایک مدرسہ قائم کیا ہے اور جاپان میں کئی ایک آدمی بھیجے ہیں.اگرمناسب ہو تو سلسلہ حقہ کی اس ملک میں اشاعت کے واسطے کوئی تجویز کی جائے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا.ہر نبی اور رسول کا آخری زمانہ اس کے سلسلہ کی نصرت کا وقت ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ نبوت کا پہلا بہت سا حصہ مصائب اور تکالیف میں گذرا تھا اور فتوحات اور نصرت کا زمانہ آپ کی عمر کا آخری حصہ ہی تھا ہم بھی اپنی عمر کا بہت سا حصہ طے کر چکےہیں اور زندگی کا کچھ اعتبار نہیں.اب خدا کے وعدوں کے پورے ہونے کے دن ہیں.ہماری حالت وہ ہے کہ عدالت میں مدت سے کسی کا مقدمہ پیش ہے اور اب فیصلہ کے دن قریب ہیں.ہمیں مناسب نہیں کہ اور طرف توجہ کر کے اس فیصلہ میں گڑ بڑ ڈال دیں.ہم چاہتے ہیں کہ اب اس فیصلہ کو دیکھ لیں.اس ملک میں جو جماعت طیار ہوئی ہے ابھی تک وہ بھی بہت کمزور ہے.بعض ذرا سے ابتلا سے ڈر جاتے ہیں اور لوگوں کے سامنے انکار کر دیتے ہیں اور پھر بعد میں ہم کو خط لکھتے ہیں کہ ہمارا انکار دلی نہیں ہے.گو ایسے لوگ اس آیت کی ذیل میں آجاتے ہیں مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِهٖۤ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَقَلْبُهٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِيْمَانِ (الـنحل:۱۰۷) تاہم جن کے دلوں میں حلاوت ایمانی پورے طور سے بیٹھ جائے وہ ایسا فعل نہیں کر سکتے.فی الحال موجودہ معاملات میں ہی توجہ اور دعا کی بہت ضرورت ہے اور ہم خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں کہ اب معاملہ دور جانے والا نہیں.ایسے معاملات میں آریوں کے ساتھ ہماری کوئی مناسبت نہیں ہو سکتی.وہ قوم کو بڑھانا چاہتے ہیں اور ہم دنیا میں تقویٰ اورنیکی کو قائم کرنا چاہتے ہیں.اگر ہم آریوں کی نقل کرنا چاہیں تو ان کی پیروی ہمارے لیے منحوس ہوگی.اور ہم کو وحی کرنے والے گویا وہی ٹھہریں گے.اگر خدا تعالیٰ جاپانی قوم میں کسی تحریک کی ضرورت سمجھے گا تو خود ہم کو اطلاع دے گا.عوام کے واسطے امور پیش آمدہ میں استخارہ ہوتا ہے اور ہمارے واسطے استخارہ نہیں.جب تک پہلے سے خدا تعالیٰ کا منشا نہ ہو ہم کسی امر کی طرف توجہ کر ہی نہیں سکتے.ہمارا دارو مدار خدا تعالیٰ کے حکم پر ہے.انسان کی اپنی کی ہوئی بات میں اکثر ناکامی ہی حاصل ہوتی ہے.اگر خدا چاہے گا تو اس ملک میں طالب اسلام پیدا کر دے گا جو خود ہماری طرف توجہ کرے گا.اب

Page 168

آخری زمانہ ہے.ہم فیصلہ سننے کے انتظار میں ہیں.ہاں سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ میں اپنی جماعت کے سب لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ دن بہت نازک ہیں.خدا سے ہراساں و ترساں رہو.ایسا نہ ہو کہ سب کیا ہوا برباد ہو جائے.اگر تم دوسرے لوگوں کی طرح بنو گے تو خدا تم میں اور ان میں کچھ فرق نہ کرے گا اور اگر تم خود اپنے اندر نمایاں فرق پیدا نہ کرو گے تو پھر خدا بھی تمہارے لیے کچھ فرق نہ رکھے گا.عمدہ انسان وہ ہے جو خدا کی مرضی کے مطابق چلے.ایسا انسان ایک بھی ہو تو اس کی خاطر ضرورت پڑنے پر خدا ساری دنیا کو بھی غرق کر دیتا ہے.لیکن اگر ظاہر کچھ اور ہو اور باطن کچھ اور تو ایسا انسان منافق ہے اورمنافق کافر سے بدتر ہے.سب سے پہلے دلوں کی تطہیر کرو.مجھے سب سے زیادہ اس بات کا خوف ہے.ہم نہ تلوار سے جیت سکتے ہیں اور نہ کسی اور قوت سے.ہمارا ہتھیار صرف دعا ہے اور دلوں کی پاکیزگی.اگر ہم اپنے آپ کو درست نہ کریں گے تو ہم سب سے پہلے ہلاک ہوں گے.اگر خدا نہ چاہے تو جاپان میں کیا رکھا ہے؟ ہاں زبان سیکھنے میں کوئی حرج نہیں داشتہ آید بکار.اگر ہمیں خدا کا حکم ہو تو بغیر زبان سیکھنے کے آج ہی چل پڑیں.ہم ایسے معاملات میں کسی کے مشورہ پر نہیں چل سکتے.خدا کے منشا کے قدم بقدم ہمارا کام ہے.۱ یکم جولائی ۱۹۰۵ء دعا کی طاقت کچھ بیماریوں کا ذکر تھا.فرمایا.میرا مذہب بیماریوں کے دعا کے ذریعہ سے شفاکے متعلق ایسا ہے کہ جتنا میرے دل میں ہے اتنا میں ظاہر نہیں کر سکتا.طبیب ایک حد تک چل کر ٹھہر جاتا ہے اور مایوس ہوجاتا ہے مگر اس کے آگے خدا دعا کے ذریعہ سے راہ کھول دیتا ہے.۲ خدا شناسی اور خدا پر توکّل اسی

Page 169

کا نام ہے کہ جو حدیں لوگوں نے مقرر کی ہوئی ہیں ان سے آگے بڑھ کر رجا پیدا ہو ورنہ اس میں تو آدمی زندہ ہی مر جاتا ہے.اسی جگہ سے اللہ تعالیٰ کی شناخت شروع ہو جاتی ہے.مجھے ایسے معاملات میں مولوی رومی کا ایک شعر بہت پسند آیا ہے.؎ اے کہ خواندی حکمت یونانیاں حکمت ایمانیاں را ہم بخواں عام لوگوں کے نزدیک جب کوئی معاملہ یاس کی حالت تک پہنچ جاتا ہے خدا تعالیٰ اندر ہی اندر تصرفات شروع کرتا ہے اور معاملہ صاف ہوجاتا ہے.دعا کے واسطے بہت لوگوں کے خطوط آتے ہیں.ہر ایک کے لیے جو دعا کے واسطے لکھتا ہے دعا کرتا ہوں.لیکن اکثر لوگ دعا کی اصل فلاسفی سے ناواقف ہیں اور نہیں جانتے کہ دعا کے ٹھیک ٹھکانہ پر پہنچنے کے واسطے کس قدر توجہ اور محنت درکار ہے۱ در اصل دعا کرنا ایک قسم کی موت کا اختیار کرنا ہوتا ہے.۲ ۴؍جولائی ۱۹۰۵ء اس زمانہ کا سب سے بڑا فتنہ عاجز۳ نے ایک اخبار ولایت کا پیش کیا جس میں عیسویت پر کچھ لے دے کی ہوئی تھی.فرمایا.عیسائیت تو خود بخود گلتی جاتی ہے لیکن بڑا فتنہ اس زمانہ کا دہریت والی سائنس ہے

Page 170

خدا نخواستہ اگر اس کو دیر پا مہلت مل گئی تو پھر ساری دنیا دہریہ ہونے کو آمادہ ہوجائے گی.سائنس کا اور مذہب کا اس وقت مقابلہ ہے.عیسویت ایک کمزور مذہب ہے اس واسطے سائنس کے آگے فوراً گر گیا ہے لیکن اسلام طاقتور ہے یہ اس پر غالب آئے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.۱ ۶؍جولائی ۱۹۰۵ء طبعی علوم سے خدا پہچانا نہیں جا سکتا فرمایا.جب خدا کے ساتھ انسان اپنا معاملہ درست کرتا ہے تو خدا اس پر نعمت وارد کرتا ہے ورنہ جھوٹھے پر لعنت کی مار پڑتی ہے.جھوٹھا فلسفہ اور طبعی علوم ہمیشہ سے چلے آتے ہیں مگر ان سے خدا نہیں پہچانا جا سکتا.خدا تعالیٰ کی صفت خلق ایک آریہ مخاطب تھا.فرمایا.خدا سب کا خالق ہے اور وہ ہمیشہ سے خالق ہے.قرآن شریف سے یہی ثابت ہوتا ہے اور اسلام کا یہی مذہب ہے کہ لَمْ یَزَلْ خَالِقًا مگر اس کا خلق ہمیشہ ایک قسم کا نہیں کہ ہم کہیں انسان ہی پیدا ہوتے رہے یا بندر ہی پیدا ہوتے رہے بلکہ وہ ہمیشہ سے گونا گوں خلقت کا خالق ہے جس کی حد ہم نہیں پا سکتے.جس طرح خالق ازلی ہے اس کی پیدائش بھی ازلی ہے.آدم سے پہلے بھی مخلوق تھی آریہ نے سوال کیا کہ اسلام کے مطابق تو دنیا آدم سے شروع ہوئی یعنی چھ ہزار سال سے.حضرت نے فرمایا.یہ غلط ہے.اسلام اور قرآن شریف کا یہ مذہب نہیں کہ دنیا چھ ہزار سال سے ہے یہ تو عیسائی لوگوں کاعقیدہ ہے مگر قرآن شریف میں تو خدا تعالیٰ نے آدمؑ کے متعلق فرمایا ہےکہ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً (البقرۃ:۳۱) اب ظاہر ہے کہ خلیفہ اس کو کہتے ہیںکہ جو کسی کے پیچھے آوے اور اس کا جانشین ہو جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آدمؑ سے پہلے بھی مخلوق تھی.آدم اس کا

Page 171

قائم مقام اور جانشین ہوا.آریوں کے عقائد کا ردّ میں یہ نہیں قبول کر سکتا کہ انسان بار بار کتے بلے اور سؤر بنتا رہتا ہے.نہ میں یہ قبول کر سکتا ہوں کہ کوئی انسان ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہے گا.خدا رحیم و کریم ہے.میں اس خدا کو جانتا ہوں کہ جب انسان اس کے سامنے پاک دل کے ساتھ سچی صلح کے واسطے آتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس پر رحم کرتا ہے.جو پوری قربانی دیتا ہے اور اپنی زندگی خدا کے ہاتھ میں دے دیتا ہے خدا ضرور اسے قبول کر لیتا ہے.بندر اور سؤر بننے کا عقیدہ تو انسان کی کمر توڑ دیتا ہے.مسلمان ہونے کے یہ معنے ہیں کہ انسان اپنی تمام عملی اور اعتقادی غلطیوں سے دست بردار ہوجائے.۱ ۲۰؍جولائی ۱۹۰۵ء ایک خواب کی تعبیر مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنا ایک خواب عرض کیا کہ میرے کپڑے کو ایسا معلوم ہوا کہ گویا آگ لگ گئی ہے پانی ڈالا تو کپڑا بالکل صاف نکل آیا گویا اس کو کچھ آنچ نہ پہنچی تھی.فقط.مولوی صاحب کے والد صاحب بیمار ہیں.حضرت نے فرمایا.ان کی صحت کی طرف اشارہ ہے.۲ ۲۲؍جولائی ۱۹۰۵ء دعا کی حدود خاںصاحب ذو الفقار علی خاں کی زوجہ کلاں کی وفات کا ذکر آیا.عاجز۳ کو حکم دیا کہ ہماری طرف سے ان کو تعزیت نامہ لکھ دیں کہ صبر کریں موت فوت کا سلسلہ دنیا میں لگا ہوا ہے.صبر کے ساتھ اجر ہے.

Page 172

فرمایا.قبولیت دعا حق ہے لیکن دعا نے کبھی سلسلہ موت فوت کو بند نہیں کر دیا.تمام انبیاء کے زمانہ میں یہی حال ہوتا رہا ہے.وہ لوگ بڑے نادان ہیں جو اپنے ایمان کو اس شرط سے مشروط کرتے ہیں کہ ہماری دعا قبول ہو اور ہماری خواہش پوری ہو.ایسے لوگوں کے متعلق قرآن شریف میں آیا ہے وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَيْرُ ا۟طْمَاَنَّ بِهٖ وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ ا۟نْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ خَسِرَ الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةَ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ (الـحج:۱۲) بعض لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ایک کنارے پر کھڑے ہو کر کرتے ہیں.اگر اس کو بھلائی پہنچے تو اس کو اطمینان ہوجاتا ہے اور اگر کوئی فتنہ پہنچے تو منہ پھیر لیتا ہے.ایسے لوگوں کو دنیا اور آخرت کا نقصان ہے.اور یہ نقصان ظاہر ہے.فرمایا.صحابہؓ کے درمیان بھی بیوی بچوں والے تھے اور سلسلہ بیماری اور موت فوت کا بھی ان کے درمیان جاری تھا.لیکن ان میں ہم کوئی ایسی شکایت نہیں سنتے جیسے کہ اس زمانہ کے بعض نادان شکایت کرتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ دنیا کی محبت کو طلاق دے چکے تھے.وہ ہر وقت مرنے کے لیے طیار تھے تو پھر بیوی بچوں کی ان کو کیا پروا تھی.وہ ایسے امور کے واسطے کبھی دعائیں نہ کرواتے تھے اور اسی واسطے ان میں کبھی ایسی شکائتیں بھی نہ پیدا ہوتی تھیں.وہ دین کے راہ میں اپنے آپ کو قربان کر چکے ہوئے تھے.۱ ۲۴؍جولائی ۱۹۰۵ء صبر کی تلقین پشاور کے دو دوست پیش ہوئے.ان کے متعلق ذکر ہوا کہ مخالفین نے ان کو بہت ہی دکھ دیا ہے.فرمایا.صبر کرنا چاہیے.ایسے موقع پر صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے.۲

Page 173

Page 174

فرمایا.ہر شخص اپنے دل میں جھانک کر دیکھے کہ دین و دنیا میں سے کس کا زیادہ غم اس کے دل پر غالب ہے.اگر ہر وقت دل کا رُخ دنیا کے امور کی طرف رہتا ہے تو اسے بہت فکر کرنی چاہیے.اس لیے کہ کلماتِ الٰہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی.فرمایا.کاش لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آجاتی کہ جس شخص کا تمام ھمّ و غم دین کے لیے ہوتا ہے اس کے دنیا کے ھمّ و غم کا اللہ تعالیٰ متکفّل و متولّی ہوجاتا ہے.فرمایا.میں نے کبھی نہیں سنا اور نہ کوئی کتاب گواہی دیتی ہے کہ کبھی کوئی نبی بھوکا مرا ہو یا اس کی اولاد دروازوں پر بھیک مانگتی پھرتی ہو.ہاں دنیا کے ملوک اور امراء اور اغنیاء کا یہ بُرا حال اکثر سنا گیا ہے کہ ان کی اولاد نے در بدر ٹکڑے مانگے ہیں.خدا تعالیٰ کی سنت مستمرہ ہے کہ کبھی کوئی کامل مومن بستر نرم سے خاکستر گرم پر نہیں بیٹھا اور نہ اس کی اولاد کو روزِ بد دیکھنا نصیب ہوا.اگر لوگ ان باتوں پر پختہ ایمان لے آئیں اور سچا اور پاک بھروسہ اللہ تعالیٰ پر کر لیں تو ہر قسم کی روحانی خود کشی اور دلی جلن سے رہائی پا جائیں.فرمایا.اکثر لوگوں کو اولاد کی آرزو بھی اس خیال سے لگی رہتی ہے کہ کوئی ان کی مردار دنیا کا وارث پیدا ہو جائے.نہیں جانتے کہ اگر وہ بد کار و ناہنجار نکلے تو ان کا کمایا ہوا روپیہ اور اندوختہ فسق و فجور میں ان کا معاون ہوگا اور ان کی سیاہ کاریوں کا ثواب۱ ان کے نامہ اعمال میں ثبت ہوتا رہے گا.فرمایا.اولاد کی آرزو کےلیے حضرت زکریا علیہ السلام کا سا دل درکار ہے.اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں اس کا ذکر کرنا اس لیے ہے کہ حضرت زکریاؑ کی دعا ولد صالح کے لیے مومنوں کے لیے اُسوہ ٹھہر جائے.

Page 175

فرمایا.زندگی نا قابل اعتبار ہے فرصت بہت کم ہے.ہر ایک کو چاہیے کہ دین کی فکر میں لگ جائے.اس سے بہتر نسخہ عمر بڑھانے اور برکت کا نہیں.۱ ۲۶؍جولائی ۱۹۰۵ء (بوقتِ نماز فجر) اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کا موقع آج صبح تین بجے کے قریب زلزلہ کا سخت دھکا لگا.صبح کی نماز میں حضرت تشریف لائے.فرمایا.کل میں دعا کر رہا تھا کہ ایسے لوگ شرارتوں میں بڑھ رہے ہیں اور غفلت نے ان کے قلوب موٹے کر دیئے ہیں کہ اگر یونہی سکون قرار رہا تو ان کا استہزا ترقی کر جائے گا.اس سلسلہ کو جاری رہنا چاہیے.فرمایا.اب ان مادہ پرست منکران قدرت الٰہی کا مقابلہ اللہ تعالیٰ سے آپڑا ہے.یہ حکم لگاتے ہیں کہ کوئی آفت آنے والی نہیں.آخر میں فرمایا کہ ہماری جماعت کے لیے اب عمدہ وقت ہے کہ ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرلیں.اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان کے لیے تبدیلی کرے.فرمایا.خدا تعالیٰ کا معاملہ انسان کے ساتھ اس کے گمان اور تبدیلی کے اندازہ پر ہوتا ہے سو خدا تعالیٰ پر نیک گمان رکھو اور دعا اور اُمّـید میں کبھی نہ تھکو اور نہ مایوس ہو.ایک الہام اور اس کی تشریح کُنْتُ کَنْزًا مَّـخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ ترجمہ.میں مخفی خزانہ تھا پھر میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں.فرمایا.یہ صفاتِ الٰہیہ کا ظہور ہے کسی زمانہ میں کوئی ایک صفت ظاہر ہوتی ہے اور کسی زمانہ میں پوشیدہ رہتی ہے جب ایک اصلاح کا زمانہ دور پڑ جاتا ہے اور لوگوں میں خدا شناسی نہیں رہتی تو اللہ تعالیٰ پھر اپنی معرفت کو ظاہر کرنے کے واسطے ایک ایسا آدمی پیدا کرتا ہے.جس کے ذریعہ سے

Page 176

اس کی معرفت دنیا میں پھیلتی ہے لیکن جس زمانہ میں وہ مخفی ہوتا ہے اس زمانہ میں عابدوں کی عبادت اور زاہدوں کے زُہد بھی ادھورے اور نکمّے رہ جاتے ہیں.یہ الہام براہین احمدیہ میں بھی درج ہے.لیکن اب پھر اس کے خاص ظہور کا وقت معلوم ہوتا ہے.اس واسطے دوبارہ یہ الہام ہوا ہے.باطنی عالم اسباب فرمایا.دعا اور توجہ میں ایک روحانی اثر ہے جس کو طبعی لوگ جو صرف مادی نظر رکھنے والے ہیں نہیں سمجھ سکتے.سنت اللہ میں دقیق در دقیق اسباب کا ذخیرہ ہے جو دعا کے بعد اپنا کام کرتا ہے نیند کے واسطے طبعی اسباب رطوبات کے بیان کئے جاتے ہیں مگر بہت دفعہ آزمائش کی گئی ہے کہ بغیر رطوبات کے اسباب کے ایک نیند سی آجاتی ہے اور ایک حالت طاری ہوتی ہے جس میں سلسلہ الہامات کا وارد ہوتا ہے اور وہ بعض اوقات ایسا لمبا سلسلہ ہوتا ہے کہ انسان بار بار اپنے رب سے سوال کرتا ہے اور رب جواب دیتا ہے.ایسا ہی بعض مادی لوگوں نے چند ظاہر اسباب کو دیکھ کر فتویٰ لگایا ہے کہ اب زلازل کا خاتمہ ہے اور دو سو سال تک یہاں کوئی زلزلہ نہیں آئے گا.لیکن یہ لوگ در اصل اللہ تعالیٰ کے باریک رازوں اور اسباب سے بے خبر ہیں.وہ ظاہر عالم اسباب کو جانتے ہیں لیکن اس کا ایک باطنی عالم اسباب بھی ہے.؎ فلسفی گو منکر حنّانہ است از حواسِ اولیاء بیگانہ است اس جہاں کے لوگ جب فتنہ و فساد کی کثرت کو دیکھ کر اس کی اصلاح سے عاجز آجاتے ہیں تب اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو ایسے قویٰ عطا کرتے ہیں جن کی توجہ سے سب کام درست ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ دعا کے ذریعہ سے عمریں بڑھ جاتی ہیں.انبیاء خلقت کی ہدایت کے واسطے بہت توجہ کرتے ہیں.اسی کی طرف قرآن شریف میں اشارہ ہے کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ (الکھف:۷) آنحضرتؐکو مخلوق کی ہدایت کا اس قدر غم تھا کہ قریب تھا کہ اسی میں اپنے آپ کو ہلاک کر دیں.ظاہری قیل و قال سے کچھ نہیں ہوتا.اندرونی صفائی اور روحانیت کی ضرورت ہے.۱

Page 177

اس کی معرفت دنیا میں پھیلتی ہے لیکن جس زمانہ میں وہ مخفی ہوتا ہے اس زمانہ میں عابدوں کی عبادت اور زاہدوں کے زُہد بھی ادھورے اور نکمّے رہ جاتے ہیں.یہ الہام براہین احمدیہ میں بھی درج ہے.لیکن اب پھر اس کے خاص ظہور کا وقت معلوم ہوتا ہے.اس واسطے دوبارہ یہ الہام ہوا ہے.باطنی عالم اسباب فرمایا.دعا اور توجہ میں ایک روحانی اثر ہے جس کو طبعی لوگ جو صرف مادی نظر رکھنے والے ہیں نہیں سمجھ سکتے.سنت اللہ میں دقیق در دقیق اسباب کا ذخیرہ ہے جو دعا کے بعد اپنا کام کرتا ہے نیند کے واسطے طبعی اسباب رطوبات کے بیان کئے جاتے ہیں مگر بہت دفعہ آزمائش کی گئی ہے کہ بغیر رطوبات کے اسباب کے ایک نیند سی آجاتی ہے اور ایک حالت طاری ہوتی ہے جس میں سلسلہ الہامات کا وارد ہوتا ہے اور وہ بعض اوقات ایسا لمبا سلسلہ ہوتا ہے کہ انسان بار بار اپنے رب سے سوال کرتا ہے اور رب جواب دیتا ہے.ایسا ہی بعض مادی لوگوں نے چند ظاہر اسباب کو دیکھ کر فتویٰ لگایا ہے کہ اب زلازل کا خاتمہ ہے اور دو سو سال تک یہاں کوئی زلزلہ نہیں آئے گا.لیکن یہ لوگ در اصل اللہ تعالیٰ کے باریک رازوں اور اسباب سے بے خبر ہیں.وہ ظاہر عالم اسباب کو جانتے ہیں لیکن اس کا ایک باطنی عالم اسباب بھی ہے.؎ فلسفی گو منکر حنّانہ است از حواسِ اولیاء بیگانہ است اس جہاں کے لوگ جب فتنہ و فساد کی کثرت کو دیکھ کر اس کی اصلاح سے عاجز آجاتے ہیں تب اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو ایسے قویٰ عطا کرتے ہیں جن کی توجہ سے سب کام درست ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ دعا کے ذریعہ سے عمریں بڑھ جاتی ہیں.انبیاء خلقت کی ہدایت کے واسطے بہت توجہ کرتے ہیں.اسی کی طرف قرآن شریف میں اشارہ ہے کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ (الکھف:۷) آنحضرتؐکو مخلوق کی ہدایت کا اس قدر غم تھا کہ قریب تھا کہ اسی میں اپنے آپ کو ہلاک کر دیں.ظاہری قیل و قال سے کچھ نہیں ہوتا.اندرونی صفائی اور روحانیت کی ضرورت ہے.۱

Page 178

فرمایا.یہ تو وہی بات ہوئی کہ ایک بزرگ کسی شہر میں بہت بیمار ہوگئے اور موت تک حالت پہنچ گئی تب اپنے ساتھیوں کو وصیت کی کہ مجھے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کرنا.دوست حیران ہوئے کہ یہ عابد زاہد آدمی ہیں.یہودیوں کے قبرستان میں دفن ہونے کی کیوں خواہش کرتے ہیں شاید اس وقت حواس درست نہیں رہے.انہوں نے پھر پوچھا کہ یہ آپ کیا فرماتے ہیں؟ بزرگ نے کہا کہ تم میرے فقرہ پر تعجب نہ کرو.میں ہوش سے بات کرتا ہوں اور اصل واقعہ یہ ہے کہ تیس سال سے میں دعا کرتا ہوں کہ مجھے موت طوس کے شہر میں آوے پس اگر آج میں یہاں مر جاؤں تو جس شخص کی تیس سال کی مانگی ہوئی دعا قبول نہیں ہوئی وہ مسلمان نہیں ہے.میں نہیں چاہتا کہ اس صورت میں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہو کر اہل اسلام کو دھوکا دوں اور لوگ مجھے مسلمان جان کر میری قبر پر فاتحہ پڑھیں.قدرت خداوندی وہ اس وقت تندرست ہوگیا اور پھر دس پندرہ سال کے بعد شہر طوس میں بیمار ہو کر فوت ہوگیا.فرمایا.مرحومہ نے اپنی عمر میں بہت شدائد اور مصائب اٹھائے.کتنی اولاد مرگئی.یہ مصائب جو قضا و قدر سے انسان پر پڑتے ہیں اس کی کمی پورا کر دیتے ہیں جو انسان سے اعمال حسنہ میں رہ جاتی ہے.جب حضرت کے ہاں صاحبزادہ میاں بشیر احمد تولد ہوئے تھے تو حضرت نے مرحومہ کو فرمایا تھا کہ یہ تمہارا بیٹا ہے.اس واسطے بشیر احمد کے ساتھ مرحومہ کو خاص محبت تھی.صاحبزادہ بشیر احمد جنازہ کے ساتھ اور دفن کے وقت اس طرح موجود رہے کہ ان کا چہرہ اس اندرونی محبت کو ظاہر کرتا تھا.۱ ۲۹؍جولائی ۱۹۰۵ء (قبل از عشاء) دعاؤں کی قبولیت کے لوازمات بعد ادائے نماز مغرب حضرت حجۃ اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لے گئے اور عشاء کی نماز کی اذان ہوتے ہی

Page 179

تشریف لا کر شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے.شیخ مظہر الدین صاحب انسپکٹر پولیس پشاور چند روز سے اپنی محترمہ ہمشیرہ صاحبہ کو لے کر آئے ہوئے تھے.شیخ صاحب کی ہمشیرہ ایک صدمہ رسیدہ خاتون ہے اور متواتر موت کے صدموں نے انہیں سخت شکستہ خاطر بنا دیا ہے.وہ اپنے معزز بھائی کے ہمراہ اس غرض سے دارالامان آئی تھیں کہ حضرت اقدس سے دعا کرائیں تاکہ درد رسیدہ دل پر سکینت کا نزول ہو اور آپ کی پُر اثر نصائح سے اطمینان خاطر ہو.حضرت مخدوم الملّت نے حضرت حکیم الامت کے اشارہ سے شیخ صاحب کے لیے اجازت چاہی کہ وہ ایک ضروری کام اور تفکّر کی وجہ سے جلد جانا چاہتے ہیں.فرمایا.میں نے آپ کی ہمشیرہ صاحبہ کو بہت کچھ سمجھایا ہے اور ان کے لیے دعا بھی کی ہے.اور وعدہ بھی کیا ہے کہ دعا کروں گا.ہاں اتنی بات ہے کہ آپ یاد دلاتے رہیں.میں نے ان کو کہہ دیا تھا کہ مولویانہ وعظ و نصیحت سے آپ کے دل کو تسلّی نہیں ہوگی.یہ تسلّی تو خدا تعالیٰ کی ہی طرف سے آئے گی کیونکہ جس نے دل بنایا ہے وہ دل پر اثر ڈال سکتا ہے اور یہ سب کچھ دعاؤں سے ہی ممکن ہے.میں دیکھتا ہوں کہ انہیں بہت فائدہ ہوا ہے.فرمایا.دعاؤں میں جو رو بخدا ہو کر توجہ کی جاوے تو پھر ان میں خارق عادت اثر ہوتا ہے.لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دعاؤں میں قبولیت خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے اور دعاؤں کے لیے بھی ایک وقت جیسے صبح کا ایک خاص وقت ہے اس وقت میں خصوصیت ہے وہ دوسرے اوقات میں نہیں.اسی طرح پر دعا کےلیے بھی بعض اوقات ہوتے ہیں جبکہ ان میں قبولیت اور اثر پیدا ہوتا ہے.فرمایا.عام انسان صدموں کو برداشت نہیں کر سکتے.یہ انبیاء علیہم السلام ہی کے قلوب ہوتے ہیں کہ وہ ہر قسم کی صدمات اور مشکلات کو برداشت کرتے ہیں اور ذرا بھی نہیں گھبراتے.فرمایا.بعض مقام ایسے ہوتے ہیں کہ تقریر سے دل تسلّی پکڑتا ہے لیکن بعض مقام ایسے ہوتے ہیں کہ محض اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی کام کرتی ہے.اللہ تعالیٰ کے کام میں صدہا مخفی اسرار ہوتے ہیں جن کو انسان کبھی سمجھ لیتا ہے اور کبھی نہیں.انسان کو چونکہ آخرت کے ذخیرہ کی ضرورت ہے اور بعض اوقات انسان کے افعال ایسے نہیں ہوتے جو آخرت میں کام دیں اس لیے اللہ تعالیٰ قضاء و قدر

Page 180

سے اس کا تدارک کر دیتا ہے.جس طرح پر انسان روزہ رکھتا ہے تو اس روزہ کے ساتھ سحری بھی ہے اور اس میں اس کو اجازت ہے کہ جو چاہے سو کھائے لیکن قضاء و قدر کا جو روزہ ہے اس کے لیے کون سی سحری ہے؟ ایک الہام فرمایا.آج اللہ تعالیٰ نے میرا ایک اور نام رکھا ہے جو پہلے کبھی سنا بھی نہیں.تھوڑی سی غنودگی ہوئی اور الہام ہوا محمد مُفلح وراء الوراء اسباب زلزلہ کے متعلق مختلف ذکر ہوتے رہے.فرمایا.اموری کا پتہ رکھنا چاہیے تاکہ جب پیشگوئی پوری ہو تو اس کو بھی اشتہار بھیجا جاوے.فرمایا.عام لوگوں کا علم یہیں تک محدود ہے کہ عام اسبابِ مادیہ کے ماتحت تحریکات ہوتی ہیں.لیکن اسی حد تک ختم کر دینا یہ سخت غلطی ہے.قضاء و قدر کے اسباب بعض اوقات وراء الوراء ہوتے ہیں اور ان کا تعلق محض كُنْ فَيَكُوْنُ(البقرۃ:۱۱۸)سے ہی ہوتا ہے.جسے دوسرے لوگ سمجھ بھی نہیں سکتے اگر یہ اسباب اسی حد تک ہوتے جہاں تک یہ لوگ سمجھے بیٹھے ہیں تو پھر تو گویا خدائی ہی کو اپنے قبضہ میں لے آتے.پہلی امتوں پر جو جو عذاب آئے ہیں اگر ان کے حکماء کو ان کے اسباب کی خبر ہوتی تو وہ ان کو بچا کیوں نہ لیتے.مگر ایسا نہیں ہوا.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اسباب وراء الوراء رہتے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اس خارق عادت نشان سے بہت سے لوگ سیدھے ہوجائیں گے.۱ ۳۰؍جولائی ۱۹۰۵ء (قبل از عشاء) مسیح موعود اور آپ کے مخالفین میں فرق حسب معمول جب اعلیٰ حضرت قبل عشاء تشریف لائے تو سب سے اوّل لودی ننگل کے متصل آئے ہوئے چار آدمیوں نے بیعت کی.بعد بیعت تذکرہ ہوا کہ موضع تیجہ متصل لودی ننگل میں

Page 181

مولوی ثناء اللہ امرتسری گیا تھا.وہاں اس نے عام مجمع میں اثنائے وعظ میں کہا کہ مرزا صاحب کے مرید لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مِرْزَا غُلَامِ اَحْـمَدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یہ کلمہ پڑھتے ہیں.اس پر ایک مخالف مگر انصاف پسند شخص نے کھڑے ہو کر کہا کہ مولوی صاحب اگر یہ کلمہ مرزا صاحب کی کسی تصنیف سے نکال دیں تو میں پانچسو روپیہ ابھی آپ کو نقد انعام دیتا ہوں.یہ تحدی سن کر مولوی صاحب چکرائے اور اکثر لوگ بیزار ہو کر حلقہ وعظ سے اٹھ گئے مولوی صاحب اپنا سا منہ لے کر واپس آئے.نکتہ معرفت حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا.ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے درمیان یہ فرق ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو لاکر امت بناتے ہیں اور ہم امت کو مسیح بناتے ہیں.۱ بلا تاریخ صحیح علم کی ضرورت اور اس کے حصول کا ذریعہ قوتِ ذوق شوق علم سے پیدا ہوتی ہے.جب تک علم اور معرفت نہ ہو کیا ہوسکتا ہے.رَبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا (طٰہٰ:۱۱۵) کی دعا میں یہ بھی ایک سِر ہے کیونکہ جس قدر آپ کا علم وسیع ہوتا گیا اسی قدر آپ کی معرفت اور آپ کا ذوق شوق ترقی کرتا گیا.پس اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت میں اسے ذوق شوق پیدا ہو تو اس کو اللہ تعالیٰ کی نسبت صحیح علم حاصل کرنا چاہیے اور یہ علم کبھی حاصل نہیں ہوتا جب تک انسان صادق کی صحبت میں نہ رہے اور اللہ تعالیٰ کی تازہ بتازہ تجلیات کا ظہور مشاہدہ نہ کرے.کامل وفاداری کی ضرورت اللہ تعالیٰ کے ساتھ صحیح اور سچا تعلق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان پورا وفادار اور مخلص ہو.جو شخص وفادار نہیں اگر وہ ہر روز اس قدر روتا رہے کہ اس کے آنسوؤں کا ایک چھپڑ۲ لگ جاوے تو بھی خدا تعالیٰ کے

Page 182

نزدیک اس کی کوئی قدر نہیں ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمہارا تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ کامل وفاداری کا نمونہ ہو.موت کا واعظ انسان کی عجیب حالت ہے کہ اگر کہیں سانپ نکلے تو اس سے دہشت کھاتا ہے اور جس اندر کی بابت اسے گمان ہو کہ جہاں سانپ ہے وہاں جاتے ہوئے ڈرتا ہے لیکن ہزاروں تجارب موت فوت کے اس کے سامنے ہیں اور پھر بھی نصیحت نہیں پکڑتا.ورنہ ایک موت ہی کا واعظ اس کی اصلاح کے لیے کافی تھا.جھوٹے قصوں پر ایمان کا نتیجہ جھوٹے قصوں سے جھوٹا بھروسہ پیدا ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آخر اصلیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے جیسے کیمیا کی وہمی باتوں کے بھروسہ میں انسان اگلی دولت بھی کھو بیٹھتا ہے.جھوٹے خیالات اور خیالی قصوں کا بھی اثر ایمان پر ہوتا ہے.جو لوگ قرآن شریف کو جو اللہ تعالیٰ کی کلام ہے چھوڑتے ہیں وہ آخر اسی مرض میں گرفتار ہو کر اپنے ایمان کو ضائع کر لیتے ہیں.قرآن شریف میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو انسان کو دھوکہ دے.اصل میں انسان کے ایمان کی تازگی اسی وقت شروع ہوتی ہے جب وہ اللہ تعالیٰ ہی پر ایمان لاتا ہے اسی وقت اس کے گناہ دور ہونے لگتے ہیں.حقیقی ایمان جب تک پیدا نہیں ہوتا گناہ کی زہر سے انسان بچ نہیں سکتا.میرے نزدیک ایمان کی شناخت کا یہی بڑا معیار ہے اور ہر شخص اپنے ایمان کو اس پر آزما سکتا ہے.اس لیے دلیل ظاہر ہے کہ جو لوگ سمّ الفار کو زہر سمجھتے ہیں وہ اسے نہیں کھاتے ہیں.اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس کو کھا کر ہلاک ہو جائیں گے.اسی طرح پر گناہ بھی ایک زہریلا پھل ہے جسے کھاتے ہی انسان مر جاتا ہے.لیکن اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو تو انسان اس پھل کے نزدیک جانے سے ڈرتا ہے.اس پر اس کی ہلاکت کی تاثیروں کا دروازہ کھل جاتا ہے.میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ بے حیائی اور کھلی بد کاری کی بیماری جو دنیا میں پھیل رہی ہے یہ دہریت کے روگ سے شروع ہوئی ہے اور اس کی جڑ کفارہ کے جھوٹے فسانے ہیں.

Page 183

دنیا پرستی کی وجہ دنیا پرستی کی حد ہوگئی ہے.ہر شخص دنیا ہی کا شیدائی نظر آتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جدھر آنکھ اٹھاتا ہے ابنائے دنیا ہی کو دیکھتا ہے.چونکہ ایسے مخلصوں کی نظیریں بہت ہی کم ہیں جو خدا تعالیٰ کے ساتھ کامل تعلقات کا نمونہ ہوں اس لیے اس طرف توجہ ہی نہیں.برخلاف اس کے دنیا پرستوں کی نظیریں نظر آتی ہیں.اس لیے ہر شخص اسی طرف کو جھکتا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف بہت ہی کم لوگ آتے ہیں کیونکہ خدا کی راہ اختیار کرنا دنیا سے باہر ہوجانا ہے.جب تک انسان ایک موت اختیار نہیں کر لیتا اس راہ سے داخل نہیں ہو سکتا.اسی لیے فرمایا ہے مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَـمُوْتُوْا.۱ یکم اگست ۱۹۰۵ء (دربار شام) سڑوعہ ضلع ہوشیار پور سے آئے ہوئے دو بھائی داخل بیعت ہوئے.فرمایا.بیعت میں داخل ہونے والوں کے اسماء کو باقاعدہ لکھا جاوے.اگر یہ سب نام لکھے جائیں تو ان مشکلات کا سامنا نہ ہو جو بعض وقت پیش آتی ہیں.مولوی محمد حسین بٹالوی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ایک خط کا ذکر ہوا جو انہوں نے منشی حسین بخش صاحب تحصیلدار پنڈی گھیپ حال رخصتی قادیان کے نام لکھا ہے.فرمایا.معلوم نہیں وہ کون سی بدی تھی جس نے اس کو اس سلسلہ کی شناخت سے محروم رکھا.تاہم جب تک وہ زندہ ہے ہم اس پیشگوئی کی کوئی تاویل نہیں کرتے جو اس کے متعلق ہے کہ وہ آخر رجوع کرے گا.میں جانتا ہوں کہ اوائل میں وہ بڑا اخلاص ظاہر کیا کرتا تھا.بٹالہ کے سٹیشن پر خود اس نے حامد علی سے لوٹا لے کر مجھے وضو کرایا اور جب میں اٹھتا تو میرا جوتا اٹھا کر آگے رکھ دیتا تھا.اس میں دوسرے مولویوں کی نسبت ایک بات تو ہے وہ یہ کہ جب یہ کسی بات کو مان لے تو دلیری کے ساتھ

Page 184

اس کا اعلان کر سکتا ہے.مثیل مسیح فرمایا.میں حیران ہوں میرا معاملہ تو بالکل صاف تھا.تین باتیں تھیں.ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ بھی تسلیم کر لیا اور امت کے مثل یہود ہو جانے کا بھی اقرار کر لیا اور عُلَمَآءُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَآءِ بَنِیْ اِسْـرَآءِیْلَ بھی تسلیم کیا.ان ساری باتوں کو تو مثیل کے طور پر مانا لیکن مسیح کے متعلق یہ کہتے ہیںکہ وہی آئے گا.یہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ یہ تو ایسی مثال ہے کہ جیسے دو بھائی ہیں.جب ان میں کوئی تقسیم ہو تو ہر ایک قسم کی چیزیں انہیں دی جاتی ہیں جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں یہودیوں کے مثیل مانتے ہیں تو اس میں کیوں موت پڑتی ہے کہ ایک مسیح بھی تسلیم کریں.فرمایا.میں دیکھتا ہوں براہین میں میرا نام اصحاب الکہف بھی رکھا ہے.اس میں یہ سِر ہے کہ جیسے وہ مخفی تھے اسی طرح پر تیرہ سو برس سے یہ راز مخفی رہا اور کسی پر نہ کھلا.اور ساتھ اس کے جو رقیم کا لفظ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود مخفی ہونےکے اس کے ساتھ ایک کتبہ بھی ہے.اور وہ کتبہ یہی ہے کہ تمام نبی اس کے متعلق پیشگوئی کرتے چلے آئے ہیں.۱ ۳؍اگست ۱۹۰۵ء خدا تعالیٰ کی تازہ وحی رؤیا میں دیکھا کہ ایک لفافہ ہے جس میں کچھ پیسے ہیں.کچھ پیسے اس میں سے نکل کر باہر سامنے بھی پڑے ہیں.اس کے بعد الہام ہوا ’’تیرے لیے میرا نام چمکا.‘‘ فرمایا.اس الہام سے پہلے اگرچہ خواب میں پیسے دیکھے گئے جو کسی جھگڑے یا غم پر دلالت کرتے ہیں مگر وحی الٰہی صریح لفظوں میں دلالت کرتی ہے کہ اس کے بعد کوئی نشان ظاہر ہوگا جس

Page 185

کے واقعہ سے خدا تعالیٰ اپنے نام اور اپنی ہستی کو لوگوں پر ظاہر کرے گا.۱ الہام کا دروازہ کھلا ہے فرمایا.جیسا ہمارے علماء کا عقیدہ ہے کہ اب الہام کا دروازہ بند ہوگیا ہے.اگر یہ سچ ہوتا تو ایک عارف طالب تو زندہ ہی مر جاتا.خدا بخیل نہیں ہے اس نے خود صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتـحۃ:۷) کی دعا سکھائی ہے جس میں ظاہر کیا گیا ہے کہ ان نعمتوں کا دروازہ کھلا ہے.افسوس ہے کہ مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کا بھی یہی مذہب تھا کہ ہم نہیں جانتے کہ ہمیں جو الہام ہوتا ہے وہ شیطانی یا الہامی۲ ہے.ہمیں تعجب آتا ہے کہ ان لوگوں کا ایسے الہام اور اس عقیدہ کے بعد کیا حال ہوتا ہے.اگر اس پر عمل کریں تو ممکن ہے شیطان کے فرمان کی پیروی کرتے ہیں.اگر نہ کریں تو یہ شبہ ہے کہ خدا کو ناراض کرتے ہیں.یہی حال الٰہی بخش اکونٹنٹ کے الہامات کا ہے.ان سے تو موسیٰ کی ماں ہی اچھی رہی جس نے خدا کے کلام پر ایمان قائم کر کے اپنے بچے کو دریا میں رکھ دیا.۳ (دربارِ شام) شام کی تاریکی قلمبند کرنے کی اجازت نہ دیتی تھی اس لیے میں نے خدا داد قوت حافظہ کی مدد سے اپنے الفاظ میں اس روئداد کو لکھا ہے جو بزرگ اس اجلاس میں موجود تھے وہ اسے پڑھ کر انشاء اللہ سمجھ لیں گے کہ میں اس کے لکھنے میں بہت بڑی حد تک کامیاب ہوا ہوں.وَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذٰلِکَ (ایڈیٹر) انبیاء کے کلام میں عجز و انکسار کا اظہار سلسلہ کلام اس امر سے شروع ہوا کہ تمام نبیوں اور راستبازوں کے کلام میں عجز و انکسار کے الفاظ اور اپنی کمزوری کا اظہار پایا جاتا ہے اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے.حضرت حجۃ اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام

Page 186

نے جو اشتہار متعلقہ زلزلہ میں اس قسم کے الفاظ استعمال کئے ہیں ان پر مولوی محمد حسین بٹالوی نے اعتراض کیا ہے.اعلیٰ حضرت نے میرے معزز بھائی مفتی محمد صادق صاحب کو غالباً بائبل میں ایسے مقامات دیکھنے کے لیے ارشاد فرمایا تھا.اس کا ذکر مفتی صاحب نے کیا.اس پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا اس قسم کے الفاظ تمام نبیوں کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں.چونکہ ان کی معرفت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کے مقام کو شناخت کرتے ہیں.اس لیے نہایت انکسار اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں.نادان جن کو اس مقام کی خبر نہیں ہے.وہ اس پر اعتراض کرتے ہیں.حالانکہ یہ ان کی کمال معرفت کا نشان ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا (الـنصـر:۲تا۴) آیا ہے.اس میں صاف فرمایا ہے تو استغفار کر.اس سے کیا مراد ہے؟ اس سے یہی مراد ہے کہ تبلیغ کا جو عظیم الشان کام تیرے سپرد تھا دقائق تبلیغ کا پورا پورا علم تو اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اس لیے اگر اس میں کوئی کمی رہی ہو تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے.یہ استغفار تو نبیوں اور راست بازوں کی جان بخش اور عزیز چیز ہے.اب اس پر نادان اور کوتاہ اندیش عیسائی اعتراض کرتے ہیں.جہاں استغفار کا لفظ انہوں نے سن لیا جھٹ اعتراض کر دیا.حالانکہ اپنے گھر میں دیکھیں تو مسیح کہتا ہے کہ مجھے نیک مت کہہ.اس کی تاویل عیسائی یہ کرتے ہیں کہ مسیح کا منشا یہ تھا کہ مجھے خدا کہے.یہ کیسے تعجب کی بات ہے.کیا مسیح کو ان کی والدہ مریم یا ان کے بھائی خدا کہتے تھے جو وہ یہی آرزو اس شخص سے رکھتے تھے کہ وہ بھی خدا کہے.انہوں نے یہ لفظ تو اپنے عزیزوں اور شاگردوں سے بھی نہیں سنا تھا.وہ بھی استاد استاد ہی کہا کرتے تھے.پھر یہ آرزو اس غریب سے کیونکر ان کو ہوئی.کیا وہ خوش ہوتے تھے کہ کوئی انہیں خدا کہے؟ یہ بالکل غلط ہے.ان کو نہ کسی نے اوستاد۱ کہا اور نہ انہوں نے کہلوایا.پھر ایک اور توجیہ کرتے ہیں کہ در اصل وہ شخص منافق تھا.اس لیے حضرت مسیح گویا خفا ہوئے کہ

Page 187

تو نیک کیوں کہتا ہے کیونکہ تو مجھے نیک نہیں جانتا.یہ بھی بالکل غلط بات ہے کہاں سے معلوم ہوا کہ وہ منافق تھا.غرض اصل بات یہی ہے کہ خدا کے برگزیدہ بندے اپنی عبودیت کا اعتراف کرتے رہتے ہیں اور دعاؤں میں لگے رہتے ہیں.احمق ان باتوں کو عیب سمجھتے ہیں.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کو دیکھا جاوے تو پھر ایسے احمق اعتراض کرنے والے تو خدا جانے کیا کیا کہیں.جیسے اَللّٰھُمَّ بَاعِدْبَیْنِیْ وَ بَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَّ بَیْنَ الْمَشْـرِقِ وَالْمَغْرِبِ.۱ گرمیوں کو روحانی ترقی کے ساتھ مناسبت ہے ایک مخلص نے پہاڑ پر جانے کے لیے اجازت چاہی.اس کے متعلق تذکرہ آنے پر فرمایا.اللہ تعالیٰ کے وعدے بالکل سچے ہیں جبکہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کوئی عذاب شدید آنے والا ہے تو اس کا کوئی وقت تو ہمیں معلوم نہیں ہے اس لیے بڑی احتیاط کرنی چاہیے.پہاڑوں پر کیا ہے؟ ہم تو گرمیاں یہاں ہی بسر کرتے ہیں کوئی ایسی تکلیف نہیں ہوتی.بلکہ میں ایک مرتبہ ڈلہوزی گیا کسی مقدمہ کی تقریب تھی.جب میں وہاں پہنچا تو خلاف عادت دیکھا نہ گرمی ہے نہ پسینہ آتا ہے.بارش ہوتی ہے اور بادل گھروں میں اندر گھس آئے ہر وقت اندر بیٹھے رہنا نہ چلنے پھرنے کے لیے موقع ملے.اگر ہر روز چائے نہ پئیں تو اسہال آجائیں.ایک دو دن میں نے گذارے پھر سخت تکلیف محسوس ہونے لگی اور میں جب تک پٹھان کوٹ نہ پہنچ گیا طبیعت میں نشاط اور انشراح پیدا نہ ہوا.ان کو لکھ دو کہ وہ یہاں آجائیں.اگر بارش ہوتی رہی تو یہاں بھی موسم اچھا ہے اور ۱۵؍ ستمبر تک تو امید ہے موسم میں بڑی تبدیلی ہوجائے گی.فرمایا.میں دیکھتا ہوں کہ گرمیوں کو بھی روحانی ترقی کے ساتھ خاص مناسبت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مکہ جیسے شہر میں پیدا کیا اور پھر آپ ان گرمیوں میں تنہا

Page 188

غار حرا میں جا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے وہ کیسا عجیب زمانہ ہوگا.آپ ہی ایک پانی کا مشکیزہ اٹھا کر لے جایا کرتے ہوں گے.انبیاء کی خلوت پسندی اصل بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ انس اور ذوق پیداہو جاتا ہے تو پھر دنیا اور اہل دنیا سے ایک نفرت اور کراہت پیدا ہو جاتی ہے.بالطبع تنہائی اور خلوت پسند آتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی حالت تھی.اللہ تعالیٰ کی محبت میں آپ اس قدر فنا ہو چکے تھے کہ آپ اس تنہائی میں ہی پوری لذّت اور ذوق پاتے تھے.ایسی جگہ میں جہاں کوئی آرام اور راحت کا سامان نہ تھا اور جہاں جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہو آپ وہاں کئی کئی راتیں تنہا گذارتے تھے.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیسے بہادر اور شجاع تھے.جب خدا تعالیٰ سے تعلق شدید ہو تو پھر شجاعت بھی آجاتی ہے اس لیے مومن کبھی بزدل نہیں ہوتا.اہل دنیا بز دل ہوتے ہیں ان میں حقیقی شجاعت نہیں ہوتی ہے.اس بات کو سن کر کہ خدا تعالیٰ سے جس قدر تعلقات شدید ہوتے ہیں اور ایسے لوگ تنہائی اور خلوت کو پسند کرتے ہیں.بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ پھر ان نبیوں اور رسولوں کے بیوی بچے کیوں ہوتے ہیں؟ وہ بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں اور کھاتے پیتے ہیں.مگر افسوس ہے کہ ایسا اعتراض کرنے والے نہیں سوچتے کہ ان لوگوں کی تو ایسی مثال ہے جیسے ایک شخص تو کسی کے دروازے پر بھیک مانگنے جاوے اور ایک اس کا دوست ہو اور وہ محض اس سے ملنے ہی کے لیے گیا ہو.اب اگر وہ دوست اپنے دوست کے سامنے پلاؤ وغیرہ لاکر رکھ دیتا ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے؟ اس دوست کو تو اس کے کھانے میں لذّت آتی ہے اور وہ گدا جو ہے اس کو خشک روٹی کا ٹکڑا دے دیا جاتا ہے.اگر زیادہ ٹھہرے تو پھر دھکے دے کر باہر کیا جاتا ہے.حالانکہ یہ معاملہ دوست سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے زیادہ قیام اور اس کے کھانے پینے سے خود اسے ایک لذت آتی ہے.یہی حال ان نبیوں اور ماموروں کا ہوتا ہے.ان کے سامنے جو کچھ آتا ہے وہ ان کی نفسانی خواہشوں کا نتیجہ نہیں ہوتا.وہ تو ساری لذّت اور راحت اللہ تعالیٰ ہی کے ذکر اور شغل میں پاتے ہیں

Page 189

اور فی الحقیقت تنہائی ہی کو پسند کرتے ہیں جہاں وہ اپنے محبوب سے اپنے دل کی آرزوئیں اور تمنائیں پیش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس حالت میں کوئی ان کو نہ دیکھ لے علاوہ بریں یہ تعلقات ان کی تکمیل کے لیے ہوتے ہیں.میں نے بارہا بیان کیا ہے کہ اخلاق کے سارے پہلو پورے نہیں ہوتے ہیں جب تک ہر قسم کی حالتیں پیش نہ آئیں.نبیوں اور رسولوں کے لیے شدائد اور مشکلات بھی آتے ہیں اور یہ مشکلات بھی ان کے اخلاق کی تکمیل کے لیے ہوتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جیسے تمام اخلاق کا اظہار ہوا ہے کسی دوسرے کو یہ موقع نہیں ملا.مکہ معظمہ میں جب تک آپ رہے تو ہر قسم کی تکالیف اور مشکلات کا سامنا رہا.جس میں آپ کے کمال صبر اور رضا بالقضا کے پہلو کا ظہور ہوا.پھر جب آپ فاتح ہو کر ایک بادشاہ کی حیثیت سے داخل ہوئے تو حالانکہ آپ ان سب کو قتل کر سکتے تھے اور اس قتل میں حق پر بھی تھے لیکن باوجود مقدرت کے ان سب کو معاف کر دیا جس سے آپ کے کمال ایثار، سخاوت، عفو اور در گذر کا ثبوت مل گیا.حضرت مسیح کو یہ موقع نصیب نہیں ہوا.اور وہ ان دونوں پہلوؤں کو ظاہر نہیں کر سکے.۱ ۵؍اگست ۱۹۰۵ء (دربار شام) سلسلہ کے لیے کشش حضرت حجۃ اللہ کے تشریف فرما ہوتے ہی ایک حاجی صاحبِ درد نے پیش ہو کر بیعت کی درخواست کی جس پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ ایک دو دن کے بعد کر لینا.اس کے بعد سلسلہ کلام یوں شروع ہوا کہ کثرت کے ساتھ لوگ اس سلسلہ میں داخل ہو رہے ہیں بظاہر اس کے وجوہ اور اسباب کا ہمیں علم نہیں.ہماری طرف سے کون سے واعظ مقرر ہیںجو لوگوں کو جاکر اس طرف بلاتے ہوں یہ محض خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کشش ہے.اور جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی سلسلہ قائم ہوتا ہے تو اس میں ایک کشش لگی ہوئی ہوتی ہے جس کے ساتھ لوگ کھچے چلے آتے ہیں.یہی حال یہاں بھی

Page 190

ہے کہ اس نے ایک کشش رکھ دی ہے.جہاں تک اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو پہنچانا چاہتا ہے اسی حد تک اس نے کشش رکھ دی ہے.مشروط بیعت پھر ذکر آیا کہ بعض لوگ بیعت کے خطوط بھیجتے ہیں تو ان میں درج ہوتا ہے کہ ہمارا فلاں کام ہوجاوے یا اس قدر روپیہ مل جاوے تو بیعت کرلیں گے.اس پر فرمایا.ایسی شرائط والے ہمیشہ محروم رہتے ہیں.صدیقی فطرت والے تو کسی نشان یا معجزہ کا طلب کرنا اپنی ہتک شان سمجھتے ہیں.حضرت ابو بکر صدیقؓ نے کون سے نشانات دیکھے تھے.وہ جانتے تھے کہ عرب کی موجودہ حالت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ کوئی مصلح آوے.اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا تو آپ کے اخلاق اور آپ کی راستبازی ہی ایک عظیم الشان معجزہ ان کے واسطے ہوگئی اور انہوں نے دعویٰ کے سنتے ہی قبول کر لیا ایسے لوگوں کے لیے کسی نشان کی کبھی حاجت نہیں ہوئی.جو لوگ اس قسم کی شرائط پیش کرتے ہیں کہ اس قدر آمدنی ہو جاوے تو ایمان لائیں گے وہ گویا یہ سمجھتےہیں کہ ایمان لا کر اللہ تعالیٰ پر یا اس کے رسول پر احسان کرتے ہیں.وہ احمق نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی پروا کیا ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہدایت کی راہ ان کو بتائی اور اپنے مامور کو ہدایت کے واسطے بھیجا.یہ اللہ تعالیٰ کا صاف احسان ہے وہ الٹا خدا تعالیٰ پر احسان رکھنا چاہتے ہیں.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نشان اللہ کے پاس ہیں.اور دوسری جگہ فرماتا ہے زمین و آسمان میں نشان ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ کیسے بیوقوف ہیں جو اتنا نہیں سمجھتے کیا یہ وقت کسی نبی کی ضرورت کا ہے یا نہیں؟ حالت زمانہ خود اس پر شہادت دیتی ہے.پھر اس سے بڑھ کر اور وہ کیا نشان چاہتے ہیں؟ ہر شخص اس امر کا محتاج ہے کہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہو اور وہ اطمینان کے ساتھ اس دنیا سے جاوے.جب اس امر کی ضرورت ہے تو یہ شرط کیسی بیہودہ اور فضول ہے کہ وہ کام ہو یا اس قدر آمدنی ہو تو بیعت کروں گا.ضرورت جو ہر وقت مد نظر ہونی چاہیے وہ تو حسنِ انجام کی ضرورت ہے.میں دیکھتا ہوں کہ یہ باتیں کیوں ہوتی ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت دل پر نہیں ہے.

Page 191

اگر اللہ تعالیٰ کے جلال و جبروت کا دل پر اثر ہو اور اس کی ہستی پر ایمان ہو تو دل ڈر جاوے اور یہ فسق و فجور اورشرورِ نفسانی جس میں دنیا مبتلا ہے اس سے نجات پا جائیں اور اس کی طرف آنے میں ایسی شرطیں نہ لگائیں.کیسی حیرانی کی بات ہے.کیا بیمار طبیب کے پاس جا کر اسے کچھ نذرانہ دیتا ہے یا اس سے یہ شرط کرتا ہے کہ اگر میں اچھا ہو جاؤں تو مجھے اس قدر نذرانہ دینا؟ جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی طرف آتے ہی نہیں.ان کا مقصد اور غرض تو وہ کمبخت دنیا ہوتی ہے جس کو وہ پیش کرتے ہیں.ان کے دل میں یہ سوز و گداز اور جلن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہو اور اس کی طرف دلی رجوع اور توجہ ہو جاوے اگر یہ قلق اور کرب پیدا ہو تو ایسی باتیں نہ کریں کیونکہ بیمار خواہ جسمانی ہو یا روحانی جب وہ اپنی مرض کو محسوس کر لیتا ہے تو وہ تو بےاختیار ہو کر تڑپتا پھرتا ہے اور طبیب کے کہنے پر اس قدر ایمان لاتا ہے کہ جو کچھ وہ دے دے اسے اپنی بہتری کے لیے کھا لیتا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ آنا تو دین کی طرف اور اس کے لیے دنیا کی شرط لگانا!!! بعض لوگ اس قسم کے بھی ہوتے ہیں کہ ذرا دنیا کا کوئی ابتلا پیش آجاوے تو سارا جوش ٹھنڈا ہوجاتا ہے.اگر ایسے ہی لوگ ہماری جماعت میں داخل ہوں تو ان سے کیا فائدہ اور صحابہؓ سے کیا مقابلہ؟ صحابہؓ کی عجیب حالت تھی.ان کے بیوی بچے بھی تھے پھر بھی ہزاروں خدا تعالیٰ کی راہ میں مارے گئے.اگر وہ دین کو دنیا پر مقدم نہ کر لیتے تو کیونکر ممکن تھا کہ وہ اپنی جانوں کو اس طرح پر خدا کی راہ میں دے دیتے.لکھا ہے کہ ایک صحابیؓ کے ہاتھ میں کچھ کھجوریں تھیں اور وہ کھا رہا تھا اسے معلوم ہوا کہ دوسرا شہید ہوگیا ہے اس نے اپنے نفس کو سخت ملامت کی کہ تیرا بھائی شہید ہوگیا ہے اور تو ابھی باقی ہے.یہ تھی ان لوگوں کی ایمانی حالت! میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دین کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہو سکتی.ہاں خدمتگار کے طور پر تو بیشک ہوسکتی ہے لیکن بطور شریک کے ہرگز نہیں ہو سکتی.یہ کبھی نہیں سنا گیا کہ جس کا تعلق صافی اللہ تعالیٰ سے

Page 192

ہو وہ ٹکڑے مانگتا پھرے.اللہ تعالیٰ تو اس کی اولاد پر بھی رحم کرتا ہے.جب یہ حالت ہے تو پھر کیوں ایسی شرطیں لگا کر ضدیں جمع کرتے ہیں.ہماری جماعت میں وہی شریک سمجھنے چاہئیں جو بیعت کے موافق دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہیں.جب کوئی شخص اس عہد کی رعایت رکھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف حرکت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو طاقت دے دیتا ہے.صحابہؓ کی حالت کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے ان کو پاک صاف کر دیا.حضرت عمرؓ کو دیکھو کہ آخر وہ اسلام میں آکر کیسے تبدیل ہوئے.اسی طرح پر ہمیں کیا خبر ہے کہ ہماری جماعت میں وہ کون سے لوگ ہیں جن کے ایمانی قویٰ ویسے ہی نشو و نما پائیں گے.اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے.اگر ایسے لوگ نہ ہوں جن کے قویٰ نشو و نما پاکر ایک جماعت قائم کرنے والے ہوں تو پھر سلسلہ چل کیسے سکتا ہے.مگر یہ خوب یاد رکھو کہ جس جماعت کا قدم خدا کے لیے نہیں اس سے کیا فائدہ؟ خدا کے لیے قدم رکھنا امر سہل بھی ہے جبکہ خدا تعالیٰ اس پر راضی ہو جاوے اور روح القدس سے اس کی تائید کرے.یہ باتیں پیدا نہیں ہوتی ہیں جب تک اپنے نفس کی قربانی نہ کرے اور اس پر عمل ہو اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَاْوٰى (النّٰـزعٰت:۴۱،۴۲).هِيَ الْمَاْوٰى سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہشتی زندگی اسی دنیا سے شروع ہو جاتی ہے اگر ہوائے نفس کو روک دیں.صوفیوں نے جو فنا وغیرہ الفاظ سے جس مقام کو تعبیر کیا ہے وہ یہی ہے کہ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى کے نیچے ہو.۱ ۷؍اگست ۱۹۰۵ء (قبل از عشاء) بار بار ہونے والے الہامات ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ ایک جگہ مُبَارِکٌ وَّ مُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَکٍ یُّـجْعَلُ فِیْہِ والا الہام چھوٹی مسجد کے متعلق ظاہر کیا گیا ہے اور دوسری جگہ وہی الہام بڑی مسجد کے متعلق ظاہر کیا گیا ہے.

Page 193

حضرت نے فرمایا.بعض الہام بار بار کئی دفعہ ہوتے ہیں اورہر دفعہ وہ جدا شان رکھتے ہیں اِنِّیْ مُھِیْـنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ والا الہام بہت دفعہ ہوا ہے اور ہر دفعہ اس کا ظہور کسی نئے رنگ میں ہوا ہے.ہر دفعہ اہانت کنندہ اور اہانت یافتہ کوئی نیا وجود ہوتا رہا ہے.ایسا ہی الہام اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً بہت کثرت سے ہوا ہے.اور ہمیشہ خدائی فوجوں کی نصرت سے ایک نیا معجزہ پیدا ہوا ہے.اسی طرح اکثر الہامات بار بار ہوتے ہیں اور ہر دفعہ کوئی نیا رنگ رکھتے ہیں.اسی طرح قرآن شریف میں بھی بہت سی آیات ہیں جو اپنے اپنے موقع پر جُدا مطابقت رکھتی ہیں اگرچہ ظاہر الفاظ ایک ہی ہیں.اللہ تعالیٰ کی صفت ہے کہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ(الرحـمٰن:۳۰) لیکن وہ مقامات کتب مجھے دکھانے چاہئیں جن پر یہ سوال پیدا ہوا ہے.حقیقت روح القدس کسی شخص کا سوال پیش ہوا کہ آپ نے جبریل کے متعلق جو تحریر کی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا خیال بھی سید احمد کی طرح ہے کہ روح الامین انسان کے اندر ہی ہے اور اس کے سوائے کوئی اور روح القدس اور جبریل نہیں.فرمایا.یہ بالکل غلط ہے.سید احمد کے ساتھ اس معاملہ میں ہمارے خیال کو کوئی مطابقت نہیں.ہمارا منشا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے روح الامین کا نزول انسان پر اس وقت ہوتا ہے جبکہ انسان خود تقدس اور تطہر کے درجہ کو حاصل کر کے اپنے اندر بھی ایک حالت پیدا کرتا ہے جو نزولِ روح الامین کے قابل ہوتی ہے.اس وقت گویا ایک روح الامین اِدھر ہوتا ہے تب ایک اُدھر سے آتا ہے یہ بات ہم اپنے حال اور اپنے تجربہ سے کہتے ہیں نہ کہ صرف قال ہی قال ہے.اس کی بجلی کے ساتھ خوب مثال مطابق آ سکتی ہے.جب کسی جسم میں خود بھی بجلی ہوتی ہے تو آسمانی بجلی اس پر اثر کرتی ہے.تدبر سے دیکھا جائے تو قرآن شریف سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے.خلوت میں عبادات اور دعا کا لطف آج کل سخت گرمی پڑنے اور برسات کے نہ ہونے کا ذکر تھا.فرمایا.ایسے موقع پر نماز استسقاء کا پڑھنا سنت ہے.میں جماعت کے ساتھ بھی سنت ادا کروں

Page 194

گا.مگر میرا ارادہ ہے کہ باہر جاکر علیحدگی میں نماز پڑھوں اور دعا کروں.خلوت میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کرنے اور دعا مانگنے کا جو لُطف ہے وہ لوگوں میں بیٹھ کر نہیں ہے.اور بھی دعاؤں کا ذخیرہ ہے.اسی مطلب کے واسطے میں نے باغ میں ایک چھوٹی سی مسجد بنائی ہے جس کو مسجد البیت کہنا چاہیے.فرمایا.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات دو رنگ کے تھے.ایک ظاہر اور ایک مخفی.آپ کی پہلی عبادت وہی تھی جو آپ نے غارِ حرا میں کی.جہاں کئی کئی دن ویرانہ پہاڑی کی غار میں جہاں ہر طرح کے جنگلی جانور اور سانپ چیتے وغیرہ کا خوف ہے دن رات اللہ تعالیٰ کے حضور میں عبادت کرتے تھے اور دعائیں مانگتے تھے.قاعدہ ہے کہ جب ایک طرف کی کشش بہت بڑھ جاتی ہے تو دوسری طرف کا خوف دل سے دور ہو جاتا ہے.بعض عورتوں کو جو بہت ہی ڈرنے والی طبیعت کی ہیں دیکھا گیا ہے کہ کسی بچے کی بیماری کے وقت اندھیری راتوں میں ضرورتاً ایسی جگہ جاتی ہیں جہاں دن کو نکلنا ان کے واسطے دشوار ہے.ایک مرتبہ ایک شخص کو دیکھا کہ وہ زلزلہ کے وقت خوف سے اونچے مکان سے نیچے کودنے لگا.لوگوں نے پکڑ لیا.جب خوف الٰہی اور محبت غالب آتی ہے تو باقی تمام خوف اور محبتیں زائل ہوجاتی ہیں ایسی دعا کے واسطے علیحدگی بھی ضروری ہے.اسی پورے تعلق کے ساتھ انوار ظاہر ہوتے ہیں اور ہر ایک تعلق ایک ستر کو چاہتا ہے.ایک ہی خواہش فرمایا.آجکل حبس اور گرمی اور برسات کی کمی کسی امر کی تمہید ہے جو آگے ظاہر ہوگا.معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے.ہم تو چاہتے ہیں کہ ہر چہ بادا باد.مگر خدا کی ہستی دنیا پر ثابت ہو جائے اور دین اسلام کی حقیقت ظاہر ہوجائے خواہ کسی طرح سے ہو.وفاتِ مسیح اجماعی مسئلہ ہے ایک شخص نے سوال کیا کہ اسلامی کتب میں حیات مسیح کی بات کہاں سے آگئی؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بات ایسی ہی ہے جیسا کہ ہند کے مسلمان رسوم شادی و مرگ اب تک پرانے ہندوؤں کی

Page 195

طرح ادا کرتے ہیں.جب بہت سے عیسائی اور یہودی مسلمان ہوئے تو کچھ پرانے خیالات کا بقیہ ساتھ لائے.وہی خیالات مسلمانوں میں منتقل ہو کر اور احادیث کی غلط فہمی بھی ساتھ مل کر یہ فاسد عقیدہ پیدا ہوگیا اور کتابوں میں درج ہوگیا.ورنہ صدرِ اسلام میں اس کا نام و نشان نہ تھا بلکہ تمام نبیوںکی موت پر اجماع تھا.لیکن ان لوگوں میں بھی بہتیرے ایسے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی موت کے قائل ہیں.کوئی کہتا ہے کہ وہ تو تین دن تک مرے رہے.کوئی کہتا ہے کہ سات دن تک مرے رہے اور کوئی ہمیشہ کے لیے ان کا مر جانا مانتا ہے.بہر حال اصل اجماع اسلامی وہ ہے جو صحابہؓ کے درمیان ہوا.صحابہؓ میں سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر ہوا کہ تمام انبیاء فوت ہوچکے ہیں.بغیر اس کے صحابہؓ کو آنحضرتؐکے مَرنے کے بعد کبھی صبر نہیں آسکتا تھا.یہ مبارک اجماع حضرت ابو بکرؓ کے ذریعہ سے ہوا.اور اگر کسی کو یہ وہم تھا بھی کہ کوئی نبی زندہ ہے تو وہ بھی دور ہوگیا اور اس طرح آنحضرتؐکی موت کا صدمہ صحابہؓ کے دل سے اٹھا کہ نبی تو سب مرا ہی کرتے ہیں.اگر کسی فردِ واحد کو قصور درایت کے سبب کچھ غلطی لگی ہوئی تھی تو وہ بھی دور ہوگئی.خود خدا تعالیٰ کے کلام میں اس امر کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ کوئی آسمان پر نہیں جاتا.جہاں آنحضرتؐسے کفار نے آسمان پر چڑھنے کا معجزہ طلب کیا تو فرمایا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا(بنی اسـراءیل:۹۴) یعنی بشر رسول کبھی کوئی آسمان پر نہیں چڑھا اور فرمایا مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ ( اٰلِ عـمران:۱۴۵) یعنی کوئی نبی نہیں جو فوت نہیں ہوچکا پس اگر یہ نبی مر جائے یا قتل کیا جائے تو کیا تم دین سے پھر جاؤ گے.کتب سماوی اور تاریخ زمانہ بھی یہی شہادت دیتی ہیں.کوئی نظیر ایسی نہیں کہ پہلے کوئی دو چار نبی آسمان پر گئے ہوں.خود مسیح نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ یوحنا ہی الیاس ہے.ہاں جس طرح آدمؑ، موسٰی، نوحؑ اور دوسرے نبی آسمان پر گئے اس طرح بیشک حضرت عیسیٰ بھی گئے تھے.چنانچہ شب معراج میں آنحضرتؐنے سب کو آسمان پر دیکھا حضرت عیسیٰ کی کوئی خصوصیت نہ تھی.افسوس ہے کہ ان لوگوں کی قوت شامہ ہی ماری گئی ہے خود زمانہ کی حالت سے بو آتی ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنا عیسائیت کی پہلی اینٹ ہے.بعض لوگ میری نسبت اعتراض کر کے کہتے ہیں

Page 196

کہ میں نے بھی براہین میں ایسا ہی لکھا تھا مگر وہ نہیں سمجھتے کہ یہی بات ہماری صداقت کی گواہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کوئی منصوبہ بازی نہیں کرتے.خود اسی کتاب براہین میں ہمارا نام مسیح رکھا گیا اور خدا تعالیٰ کے تمام وعدے اسی کے اندر ہیں.اگر یہ غلطی مجھ سے براہین احمدیہ میں صادر نہ ہوتی تو ایک بناوٹ معلوم ہوسکتی تھی.۱ ۸؍اگست ۱۹۰۵ء (دربار شام) موجودہ دنیا کی حالت فرمایا.آج میں نے بارش کے لیے دعا کی تھی دعا کے ساتھ ہی دل میں یہ خیال گذرا کہ یہ حبس اور امساک باراں اللہ تعالیٰ کے قضاء و قدر کے موافق ہے اور اس میں دخل دینا مناسب نہیں.اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے.’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.‘‘ ہر قسم کے مصائب شدائد اس کے زور آور حملوں میں آتے ہیں اور یہ سب ایک قسم کی پیشگوئیاں ہیں اور جو کچھ ہو رہا ہے بہر حال ہمارے لیے مفید ہے.کیا عجب کہ قحط کے رنگ میں بھی کوئی حملہ ظاہر ہونے والا ہو.فرمایا.دنیا کی حالت اور رنگ دیکھا جاوے تو وہ بہت کچھ بدلا ہوا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ایسی حالت ہوگئی ہے کہ گویا حسن ظن کا موقع ہی نہیں رہا.کیونکہ اگر ہر پہلو سے بد ظنی ہی ظاہر ہو تو انسان کہاں تک اس پر حسن ظن کرے گا.میں حیران ہوتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ دنیا میں سوائے دہریت مکر و فریب کے اور کوئی بات نظر نہیں آتی.بالکل طبیعتیں دنیا ہی پر مائل ہوگئی ہیں.یہاں تک کہ دین کا کام بھی اگر کوئی اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو اس میں بھی ان باتوں کا دخل ہے.یا تو وہ محض دنیا کا لالچ ہے یا دنیا کی ملونی ہے.ایسی حالت میں میں نے سوچا کہ اگر کوئی مرتا ہے تو پھرمرے.میں حیران ہوتا ہوں کہ لوگ تو اَور اَور باتوں کے لیے روتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ اَور باتوں کو

Page 197

چھوڑو مجھے تو اس کا فکر ہو رہا ہے کہ خدا کی ہستی ہی پر ان کو یقین نہیں رہا.اس مقام پر حضرت حکیم الامت نے عرض کی کہ کل میں نے اپنے درس میں ایک موقع پر اپنی جماعت کو خطاب کر کے کہا کہ سنو! تم نے اس سلسلہ میں داخل ہو کر کیا لیا؟ دنیا تو تم پر لعنت بھیجتی ہے اگر خدا کے ساتھ ہی تمہارا معاملہ صاف نہ ہو اور باہم بغض کینہ اور دشمنی رہی تو پھر خدا سے کیا لیا؟ حضرت اقدس نے فرمایا خدا سے کیا لینا تھا.کچھ بھی نہیں.بالکل سچ ہے.حضرت منشی احمد جان کا ذکر خیر منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور مشہور صوفی لودہانوی کے ذکر خیر میں حضرت حکیم الامت نے عرض کیا کہ انہوں نے طب روحانی کے سلسلہ میں اور بھی دو تین جلدیں لکھنے کا ارادہ کیا تھا لیکن حضور کے دعوے کو سن کر انہوں نے اس طریق کو چھوڑ دیا اور اسے محض کھیل تماشہ قرار دیا.جس سے مجھے ان کے ساتھ بڑی محبت ہوگئی.حضرت حجۃ اللہ نے فرمایا مجھے بھی انہوں نے ایسا ہی خط لکھا تھا.دعا ہی اصلیت ہے غرض آپ کا ذکر خیر ہوتا رہا.ان کے اخلاص کے ذکر میں توجہ اور سلبِ امراض کے علم کا ذکر ہوا.اس پر فرمایا.اللہ تعالیٰ نے اسلام میں جو طریق شفا کا رکھا ہے وہ تو دعا ہی کا طریق ہے اپنے نفس اورتوجہ پر بھروسہ کرنا یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے.لیکن جب انسان خدا سے دعا کرتا ہے تو یہ سب باتیں فنا ہوجاتی ہیں اور انسان پھر اصل پناہ کی طرف دوڑتا ہے.پس یاد رکھو کہ دعا ہی اصلیت ہے.باقی جو کچھ ہے وہ نرا خبط ہے.دعا کی عجیب عجیب تاثیریں میں نے تجربہ کی ہیں.ایک بار میں درد دانت سے سخت تکلیف میں تھا عمر دراز نام ایک گردَاوَر ہمارے ہاں آیا ہوا تھا.میں نے اس سے پوچھا کہ دانت کے درد کا علاج بھی آپ کو معلوم ہے.اس نے کہا علاجِ دندان اخراجِ دندان.میں نے جب یہ بات سنی تو خیال کیا کہ دانت کا نکلوانا بھی ایک عذاب ہی ہے.میں اس وقت ایک چٹائی پر بیٹھا ہوا تھا اور درد کی

Page 198

بیقراری کی وجہ سے سر چار پائی کی پاٹی پر رکھا ہوا تھا.اس وقت مجھے ذرا سی غنودگی ہوئی اور الہام ہوا وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْ اور اس کے ساتھ ہی معاً درد جاتا رہا.میں یقیناً جانتا ہوں کہ دعا کے سلسلہ میں ہزارہا خزائن معارف کے مخفی ہیں.جو شخص دوسری طرف توجہ کرے گا وہ ان خزائن سے محروم رہ جائے گا کیونکہ جب انسان اس راہ کو جس پر سایہ دار درخت ہوں اور پانی کا سامان ہو چھوڑ دے تو وہ ان تمام آرام کے سامانوں سے محروم رہے گا یا نہیں کسی کے پہلو میں دو دل تو نہیں ہو سکتے ایک ہی طرف توجہ کرے گا.فِرَق ضالہ نے اسی وجہ سے نقصان اٹھایا کہ حقیقی راہ کو انہوں نے چھوڑدیا.شیعہ وغیرہ جو حسین حسین پکارتے رہتے ہیں اسی سبب سے محروم رہے کہ انہوں نے انسان کو بت بنا لیا.اور ان کے سینہ میں وہ نور عرفان کا نہ رہا.اس کے بعد اپنے زمانہ طالب علمی اور شیعہ اوستاد کے بعض حالات بیان فرماتے رہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ قوم کہاں تک حقائق و معارف سے محروم رہ گئی ہے.۱ ۹؍اگست ۱۹۰۵ء (دربار شام) حقیقی دین سے محروم رہ جانے کا باعث پشاور سے ایک نوجوان ہندو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کے واسطے آیا ہواتھا.اس نے مختصراً اپنے حالات بیان کئے کہ کس طرح پر الحکم کے پڑھنے اور ایک احمدی کی صحبت نے اسے مشتاق زیارت بنایا.اس تحریک پر حضرت حجۃ اللہ نے ذیل کی تقریر فرمائی.سب سے بڑی بات تو دین ہے جس کو حاصل کرکے انسان حقیقی خوشحالی اور راحت کو حاصل کرتا ہے.دنیا کی زندگی تو بہرحال گذر ہی جاتی ہے.ع شبِ تنور گذشت و شب سمور گذشت

Page 199

یعنی راحت اور رنج دونو گذر جاتے ہیں.لیکن دین ایک ایسی چیز ہے کہ اس پر چل کر انسان خدا تعالیٰ کو راضی کر لیتا ہے.یقیناً جانو کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک راضی نہیں ہوتا اور نہ کوئی شخص اس تک پہنچ سکتا ہے جب تک صراط مستقیم پر نہ چلے.وہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی ذات صفات کو شناخت کرے اور ان راہوں اور ہدایتوں پر عملدر آمد کرے جو اس کی مرضی اور منشا کے موافق ہیں.جب یہ ضروری بات ہے تو انسان کو چاہیے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرے اور یہ کچھ مشکل امر نہیں.دیکھو! انسان پانچ سات روپیہ کی خاطر جو دنیا کی ادنیٰ ترین خواہش ہے اپنا سر کٹا لیتا ہے.پھر جب اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا خیال ہو اور اسے راضی کرنا چاہے تو کیا مشکل ہے.انسان حقیقی دین سے کیوں محروم رہ جاتا ہے اس کا بڑا باعث قوم ہے.خویش و اقارب دوستوں اور قوم کے تعلقات کو ایسا مضبوط کر لیتا ہے کہ وہ ان کو چھوڑنا نہیں چاہتا.ایسی صورت میں ناممکن ہے کہ یہ نجات کا دروازہ اس پر کھل سکے.یہ ایک قسم کی نامردی اور کمزوری ہے لیکن یہ شہیدوں اور مَردوں کا کام ہے کہ ان تعلقات کی ذرا بھی پروا نہ کرے اور خدا تعالیٰ کی طرف قدم اٹھائے.بعض کمزور فطرت لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت ہی کرنی ہے خواہ کسی مذہب میں ہوں.مگر وہ نہیں جانتے کہ آج جس قدر مذاہب موجود ہیں ان میں کوئی بھی مذہب بجز اسلام کے ایسا نہیں جو اعتقادی اور عملی غلطیوں سے مبرا ہو.وہ سچا اور زندہ خدا جس کی طرف رجوع کر کے انسان کو حقیقی راحت اور روشنی ملتی ہے.جس کے ساتھ تعلق پیدا کر کے انسان اپنی گناہ آلودہ زندگی سے نجات پاتا ہے وہ اسلام کے سوا نہیں مل سکتا.یہی پہلا زینہ ہر قسم کی روحانی ترقیوں کا ہے اگر اس کی توفیق مل جاوے تو پھر خدا اس کا اور وہ خدا کا ہوجاتا ہے.یہ سچ ہے کہ جب ایک شخص محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کسی قسم کی نفسانی اغراض کے بغیر ایک قوم سے قطع تعلق کرتا ہے اور خدا ہی کو راضی کرنے کے لیے دوسری قوم میں داخل ہوتا ہے تو ان تعلقات قومی کے توڑنے میں سخت تکلیف اور دکھ ہوتا ہے مگر یہ بات خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑی قابل قدر ہے اور یہ ایک شہادت ہے جس کا بہت بڑا اجر اللہ تعالیٰ کے حضور ملتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرً

Page 200

يَّرَهٗ (الزلزال:۸) یعنی جو شخص ایک ذرہ برابر بھی نیکی کرتا ہے اسے بھی ضائع نہیںکرتا بلکہ اجر دیتا ہے تو پھر جو شخص اتنی بڑی نیکی کرتا ہےا ور خدا کی رضا کے لیے ایک موت اپنے لیے روا رکھتا ہے اسے اجر کیوں نہ ملے؟ جو شخص خدا تعالیٰ کے لیے اپنے تعلقات کو توڑتا ہے وہ فی الحقیقت ایک موت اختیار کرتا ہے کیونکہ اصل موت بھی ایک قسم کا قطع تعلق ہی ہے یعنی روح کا جسم سے قطع تعلق ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کےلیے ان تعلقات کو توڑنا جو اپنی قوم اور خویش و اقارب سے ہوتے ہیں خدا کے نزدیک بہت بڑی بات ہے.بسا اوقات یہ روک بڑی زبردست روک انسان کو خدا کی طرف آنے کے لیے ہوجاتی ہے.وہ دیکھتا ہے کہ دوستوں کا ایک گروہ ہے.ماں باپ بہن بھائی اور دوسرے رشتہ دار ہیں ان کی محبت اور تعلقات نے اس کے رگ و ریشہ میں ایسی سرایت کی ہوئی ہے کہ وہ اسلام کی صداقت اور سچائی کو تسلیم کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بجز اس کے نجات نہیں.لیکن ان تعلقات کی بنا پر اقرار کرتا ہے کہ یہ راہ جس پر میں چلتا ہوں خطرناک اور گندی راہ ہے مگر کیا کریں جہنم میں پڑنا منظور ان تعلقاتِ قومی کو کیونکر چھوڑ دیں؟ ایسے لوگ نہیں جانتے کہ یہ صرف زبان سے کہنا تو آسان ہے کہ جہنم میں پڑنا منظور اگر انہیں اس دکھ درد کی کیفیت معلوم ہو تو پتہ لگے.ایک آنکھ میں ذرا درد ہو تو معلوم ہو جاتا ہے کہ کس قدر تکلیف ہے پھر جہنم تو وہ جہنم ہے جس کی بابت قرآن شریف میں آیا ہے لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيٰى (طٰہٰ: ۷۵) ایسے لوگ سخت غلطی پر ہیں.اس کا تو فیصلہ آسان ہے.دنیا میں دیکھ لے کہ کیا وہ دنیا کی بلاؤں پر صبر کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں تو پھر یہ کیونکر سمجھ لیا کہ عذابِ جہنم کو برداشت کر لیں گے.بعض لوگ تو دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں مگر یہ لوگ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں.یقیناً سمجھو کہ جہنم کا عذاب بہت ہی خطرناک ہے اور یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا ہے وَمَنْ يَّبْتَغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا....الآیۃ (اٰلِ عـمران:۸۶) یعنی جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا خواستگار ہو وہ آخر کار ٹوٹے میں رہے گا.جس طرح پر انسان کا ایک حلیہ ہوتا ہے اور وہ اسی سے شناخت کیا جاتا ہے اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے صفات بھی ایک طرح پر واقع ہوئے ہیں.یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ مختلف مذاہب والے

Page 201

خدا تعالیٰ کی جو شکل اور صفات پیش کرتے ہیں وہ سب کی سب درست ہوں.عیسائی، ہندو، چینی ہرایک جدا جدا صفات پیش کرتا ہے پھر کون عقلمند یہ مان لے گا کہ ہر ایک اپنے اپنے بیان میں سچا ہے.سچے مذہب کی علامات ماسوا اس کے سچائی کے خود انوار اور برکات ہوتے ہیں.یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ وہ نشانات اور انوار و برکات کس خدا کو مان کر ملتے ہیں اور کس دین میں وہ پائے جاتے ہیں.ایک شخص ایک نسخہ کو استعمال کرتا ہے اگر اس نسخہ میں کوئی خوبی اور اثر ہے تو صاف ظاہر ہے کہ چند روز کے استعمال کے بعد ہی اس کی مفید تاثیریں معلوم ہونے لگیں گی.لیکن اگر اس میں کوئی خوبی اور تاثیر نہیں ہے تو خواہ ساری عمر اسے استعمال کرتے جاؤ کچھ فائدہ نہیں ہوگا.اس معیار پر اسلام اور دوسرے مذاہب کی سچائی اور حقیت کا بہت جلد پتہ لگ جاتا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی تاثیر اور انوار و برکات کے لیے کسی گذشتہ قصہ کا حوالہ نہیں دیتا اور نہ صرف آئندہ کے وعدہ ہی پر رکھتا ہے بلکہ اس کے پھل اور آثار ہروقت اور ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں اور اسی دنیا میں ایک سچا مسلمان ان ثمرات کو کھا لیتا ہے.بتلاؤ ایسے مذاہب انسان کو کیا امید دلا سکتے ہیں جن میں توبہ تک منظور نہیں.ایک گنہ کر کے جب تک کروڑوں جونیں نصیب نہ ہولیں خدا سے صلح ہی نہیں ہو سکتی وہاں انسان کیا پائے گا.اس کی روح کو راحت اور تسلّی کیونکر مل سکے گی؟ مذہب کی سچائی کی بڑی علامت یہ ہے کہ اس راہ سے دور افتادہ خدا کے نزدیک آجاتا ہے.جیسے جیسے وہ نیک عمل کرتا جاوے.اسی اسی قدر تاریکی دور ہوکر معرفت اور روشنی آتی جاوے اور انسان خود محسوس کر لے کہ وہ نجات کی ایک یقینی راہ پر جا رہا ہے.اس کی ہدایتیں ایسی صاف اور واضح ہوں کہ انسان ان کے ماننے اور اس پر عمل کرنے میں اٹکے نہیں.بھلا یہ بھی کوئی تعلیم اور اصول ہے کہ ذرّہ ذرّہ کو خدا قرار دے دیا جاوے جیسے خدا ازلی ابدی ہے.اسی طرح پر ذرّاتِ عالَم اور ارواح کو بھی ازلی ابدی تسلیم کیا جاوے؟ اگر ایسا کوئی خدا ہے کہ جس نے ایک ذرہ بھی کسی قسم کا پیدا نہیں کیا تو اس پر بھروسہ کیسا؟ اور اس کا ہم پر حق کیا ہے جو عبادت کریں؟ کیونکہ عبادت کے لیے حق بھی تو ہونا چاہیے جب کوئی حق ہی نہ ہو تو ایک ذرّہ ذرّہ

Page 202

اسے کہہ سکتا ہے کہ تیرا ہم پرکیا حق ہے؟ اس عقیدہ کو رکھ کر انسان کس طرح پر خدا پرست ہو سکتا ہے بلکہ میرے نزدیک خدا کی ہستی پر دلیل ہی قائم نہیں ہو سکتی.اگر آریوں سے کوئی دہریہ پوچھے کہ پرمیشر کی ہستی کا کیا ثبوت ہے تو اس کا جواب وہ کیا دے سکتے ہیں؟ کیونکہ صانع کو مصنوعات سے شناخت کرتے ہیں.جبکہ مصنوعات ہی کا وجود نہیں تو صانع کا وجود کہاں سے آیا.جیو اور پرکرتی کو جو خود بخود تسلیم کرتے ہیں تو پھر ان کے جوڑنے جاڑنے کے لیے کیا حاجت ہو سکتی ہے؟ اس طرح پر کوئی دلیل اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ان کے ہاتھ میں نہیں ہے اورجب تک اس کی ہستی پر کوئی دلیل نہ ہو کس طرح کوئی مان لے کہ وہ ہے.ما سوا اس کے ان لوگوں کا یہ بھی اصول نہیں کہ خدا رحم کرنے والا ہے.ہر شخص کی اس ہستی پر توجہ ہوتی ہے جسے رحیم، کریم اور فیاض تسلیم کرے.لیکن انہوں نے یہ مانا ہے کہ بغیر کرموں کے پھل کے اَور کچھ عطا ہی نہیں کر سکتا.اگر کرموں پر ہی سارا مدار ہے تو اس خدا پر کیا بھروسہ اور کیا امید جس کا ذرّہ بھر بھی احسان نہیں ہے.یہ تمام امور ہیں جب انسان ان کو بنظر غور دیکھتا ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ سوائے اسلام کے دوسروں میں سچی ہدایتیں نہیں ملتی ہیں.ما سوا اس کے ایک اور بڑی بات قابل غور ہے کہ اسلام میں بہت بڑی خاصیت یہ ہے کہ انسان جس مطلب کے لیے بنایا گیا ہے وہ اسلام کے سوا حاصل نہیں ہو سکتا.وہ کیا ہے؟ یہ کہ خدا کی محبت بڑھے اور اس کی معرفت ترقی کرے جس سے وہ ایک کامل شوق ذوق کے ساتھ اس کی عبادت کرے.لیکن یہ مطلب کبھی پورا نہیں ہوسکتا جب تک تعلیم اور ہدایت کامل نہ ہو اور پھر اس تعلیم اور ہدایت پر عمل کرنے کے جو نتائج اور ثمرات ہیں ان کا نمونہ موجود نہ ہو جس کو دیکھ کر معلوم ہو کہ خدا قادر خدا ہے.یہ ساری باتیں اس وقت سمجھ میں آتی ہیں جب انسان پُر غور مطالعہ کرتا ہے.عقلمند اور سعید کے دل میں تو اللہ تعالیٰ خود ہی ایک واعظ پیدا کر دیتا ہے اور وہ اسلام اور دوسرے مذاہب میں اسی طرح امتیاز کر لیتا ہے جس طرح پر تاریکی اور نور میں کر لیتا ہے لیکن بعض شخص ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے

Page 203

دل پر ایک مہر ہوتی ہے وہ حقیقت تک پہنچنے کی سعی نہیں کرتے بلکہ بیہودہ اعتراض کرتے ہیں.سعادت خدا تعالیٰ کی عطا اور بخشش ہے کوئی شخص جب تک روح حق اور راستی سے مناسبت نہیں رکھتا ہے اس طرف آ نہیں سکتا اور یہ خدا کے فضل پر موقوف ہے.اگر کوئی کہے کہ اعمال سے شناخت ہو سکتا ہے کہ کونسا مذہب سچا ہے تو وہ لوگ جو راہزنی اور قزاقی کرتے ہیں ان سے پوچھا جاوے تو وہ اسے مکروہ خیال نہیں کرتے بلکہ ایک شکار سمجھتے ہیں.اسی طرح اور لوگ جو فسق و فجور میں مبتلا ہیں وہ بُرا نہیں سمجھتے.یہ کوئی بات نہیں ہے.اصل یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض کے برکات اور انوار ساتھ ہوں.غرض اوّل یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق غور کرے اور سمجھے.سب سے اوّل اسی کا فرض ہے اور یہ سمجھ ملنا اس کے فضل پر موقوف ہے.پھر دعا کرے اور نیک صحبت میں رہے اور یہ بھی خیال کرے کہ عمر کا کوئی اعتبار نہیں.بعض لوگ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ فلاں وقت اس نیکی کو کر لیں گے مگر وہ اس انتظار ہی میں رہتے ہیں اورموت آجاتی ہے.اس لیے نیکی کے اختیار کرنے میں دیر نہیں چاہیے.۱ ۱۰؍اگست ۱۹۰۵ء (قبل از عشاء) سچی اور آسمانی تہذیب ذکر آیا کہ ایک انگریزی اخبار میں مضمون نکلا ہے کہ اسلام ہند میں نہیں پھیلا کیونکہ ہندو خود مہذب تھے اور کسی مہذب قوم میں اسلام پھیل نہیں سکتا.فرمایا.یہ جھوٹھ ہے ہندوستان میں سوائے چند ایک قوموں کے جو باہر سے آئی ہیں (قریش، مغل، پٹھان) باقی سب ہند کے باشندے ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا مثلاً شیخ، خواجگان، زمینداروںکی سب اقوام وغیرہ یہ سب پہلے ہندو تھے.

Page 204

فرمایا.عیسائیوں کا عجیب طریقہ ہے.اگر کثرت دکھائی جاوے تو کہتے ہیں جبراً مسلمان ہوئے اور اگر کثرت نہ دکھائی جاوے تو کہتے ہیں اسلام کا کچھ اثر نہ ہوا.فرمایا.تہذیب بھی انکا اپنا بنایا ہوا ایک لفظ ہے جس کے معنے ان کی اصطلاح میں سوائے اس کے نہیں کہ انسان خدا کی مقرر کردہ رسموں کو توہین سے دیکھے اور دنیا پرستی اور دہریہ پن کی طرف جھک جائے.سچی تہذیب وہ ہے جو قرآن شریف نے سکھلائی.۱ جس کے ذریعہ سے روحانی زندگی حاصل ہوتی ہے اور انسان اور حیوان میں فرق معلوم ہوتا ہے.اور جس کے ذریعے سے سچے اور جھوٹھے مذہب میں ایک امتیاز پیدا ہوتا ہے اور انسان کو سفلی زندگی سے دل سرد ہو کر عالم جاودانی کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے.ان لوگوں کے نزدیک تہذیب اس کا نام ہے کہ انسان دنیا کا کیڑا بن جاوے.خدا کو بھول جائے اور ظاہری اسباب کی پرستش میں لگ جائے.۲ مگر خدا کے

Page 205

نزدیک تہذیب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر پورا بھروسہ حاصل ہوجائے اور اس کی عظمت اور ہیبت دل میں بیٹھ جائے اور دل کو سچی پاکیزگی حاصل ہوجائے.یورپ میں جب عیسائیت پھیلی تھی تو اس وقت یورپ کس قدر تاریکی اور سخت بت پرستی میں مبتلا تھا.پھر ان وحشی قوموں پر عیسائیت کا کیا اثر ہوا صرف یہ کہ ایک بت پرستی کی جگہ دوسری بت پرستی قائم ہوگئی.خدا تعالیٰ کا ارادہ اسلام نے وحشیوں کو حقیقی انسانیت تک پہنچایا.ان کے اندر توحید کی روح پھونک دی مگر انجیل کی تعلیم نے صرف یہ سکھلایا کہ ایک انسان کو خدا بنانے کے لیے رغبت دی اور شراب اور سؤر کھلایا اور خدا تعالیٰ کی سچی عبادت سے آزاد کر کے اباحت کا دروازہ کھولایا.پس چونکہ عیسائی مخلوق پرستی اور آزادی کے عادی ہوگئے ہیں اس لیے نہیں چاہتے کہ سچا دین زمین پر پھیلے مگر خدا کے ارادہ کو کون پلٹ سکتا ہے.ان لوگوں کی لڑائی ارادۂ الٰہی کے ساتھ ہے.انسانی کوششوں سے اب یہ جنگ فتح نہیں ہو سکتی.مگر خدا سب پر قادر و توانا ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ قادر ہے کہ نیا زمین و آسمان بنائے.عرب کی پہلی حالت کہ وہ کس گند میں پڑے ہوئے تھے ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے تھے دیکھ کر اور پھر ان کی پچھلی حالت اسلامی دیکھ کر تسلّی ہوتی ہے کہ خدا سب کچھ کر سکتا ہے.ساری دنیا پر اثر ڈالنا اور ان کو اباحت کے گندے خیالات سے نکال کر اسلام کا پاک جامہ پہنانا انسانی کام نہیں ہے.

Page 206

اللہ تعالیٰ ہی دنیا کی اصلاح فرما سکتا ہے ہماری کوششیں تو بچوں کا کھیل ہے نہ لوگوں کے دلوں سے ہم وہ گند نکال سکتے ہیں جو آجکل دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے نہ کمال محبت الٰہی کا ان کے اندر بھر سکتے ہیں.نہ ان کے درمیان باہمی کمالِ اُلفت پیدا کر سکتے ہیں جس سے وہ سب مثل ایک وجود کے ہو جائیں یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.چنانچہ قرآن شریف میں صحابہؓ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا ہے.هُوَ الَّذِيْۤ اَيَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ وَ اَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّاۤ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَيْنَهُمْ اِنَّهٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ(الانفال:۶۳،۶۴) وہ خدا جس نے اپنی نصرت سے اور مومنوں سے تیری تائید کی اور ان کے دلوں میں ایسی اُلفت ڈالی کہ اگر تو ساری زمین کے ذخیرے خرچ کرتا تو بھی ایسی اُلفت پیدا نہ کر سکتا لیکن خدا نے ان میں یہ اُلفت پیدا کر دی.وہ غالب اور حکمتوں والا خدا ہے.جس خدا نے پہلے یہ کام کیا وہ اب بھی کر سکتا ہے.آئندہ بھی اسی پر توکل ہے جو کام ہونے والا ہوتا ہے اس میں خدا کے فضل کی روح پھونکی جاتی ہے جیسا کہ باغبان اپنے باغ کی آبپاشی کرتا ہے تو وہ ترو تازہ ہوتا ہے.ایسا ہی خدا تعالیٰ اپنے مرسلین کے سلسلہ کو ترقی اور تازگی عطا فرماتا ہے.جو فرقے صرف اپنی تدبیر سے بنتے ہیں ان کے درمیان چند روز میں ہی تفرقے پیدا ہوجاتے ہیں جیسا کہ برہمو تھوڑے دن تک ترقی کرتے کرتے آخر رک گئے اور دن بدن نابود ہوتے جاتے ہیں کیونکہ ان کی بنا صرف انسانی خیال پر ہے.ہماری جماعت کے متعلق خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے وعدے ہیں.کوئی انسانی عقل یا دوراندیشی یا دنیوی اسباب ان وعدوں تک ہم کو نہیں پہنچا سکتے.۱ اللہ تعالیٰ خود ہی سب اسباب مہیا کر دے گا

Page 207

تب یہ کام انجام کو پہنچے گا.اگر بالفرض ہماری جماعت کی تعداد بیس پچیس لاکھ تک پہنچ کر ٹھہر جائے تو پھر بھی کیا ہے کچھ بھی نہیں.اتنی تعداد تو سکھوں کی بھی ہے.ہم تو چاہتے ہیں کہ ساری دنیا اس جماعت سے بھر جائے اور یہ انسان کا کام نہیں.انسان کی زندگی کا تو ایک دم کا اعتبار نہیں وہ کیا کرسکتا ہے؟ نبی کا بڑا معجزہ لیکن خدا سب کچھ کر سکتا ہے.در اصل بڑا معجزہ یہی ہے کہ فرستادہ کی علّتِ غائی باطل نہ ہو جاوے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدہا معجزات ہیں لیکن سب سے بڑا یہی ہے کہ جس بات کا دعویٰ کیا تھا اس کو پورا کر دکھایا.طبیب حاذق اسی طرح پہچانا جاتا ہے کہ بڑے بڑے بیمار اس سے شفا پائیں تب ہی اس کا دعویٰ سچا ثابت ہو.۱ صحابہ کرام کی مثالی وفاداری حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت قوم عرب کے تمدن اور اخلاق اور روحانیت کا کیا حال تھا؟ گھر گھر میں جنگ اور شراب نوشی اور زنا اور لوٹ مار.غرض ہر ایک بدی موجود تھی.کوئی نسبت اور تعلق خدا کے ساتھ اور اخلاق فاضلہ کے ساتھ کسی کو حاصل نہ تھا ہر ایک فرعون بنا پھرتا تھا لیکن آنحضرت کے آنے سے جب اسلام میں داخل ہوئے تو ایسی محبت الٰہی اور وحدت کی روح ان میں پیدا ہوگئی کہ ہرایک خدا کی راہ میں مرنے کے لیے طیار ہوگیا.۲ انہوں نے بیعت کی حقیقت کو ظاہر کر دیا اور اپنے عمل سے اس کا نمونہ دکھا دیا.اب تو بعض لوگ بیعت میں داخل ہوتے ہیں تو ذرا سے ابتلا سے

Page 208

گھبرا جاتےہیں.مال اور جسمانی آرام سے بڑھ کر جان پیاری ہوتی ہے.صحابہؓ نے سب سے پہلے اپنی عزیز جان کو فدا کیا.۱ برخلاف اس کے یسوع کے شاگردوں میں کوئی بات نہیں دیکھتے جس سے یسوع کی کامیابی پر دلیل پکڑی جائے.پطرس نے انکار کیا۲ بلکہ لعنت کی.یہودا نے گرفتار کرایا باقی بھاگ گئے.معلوم ہوتا ہے ان کے ہادی میں کچھ کشش نہ تھی کہ ان کو برائی اور منتشر ہونے سے روک سکتے.یہ خدا کا فضل ہے جس پر چاہے کرے.اللہ تعالیٰ کی ذات میں ایک کشش اور جذب ہے وہ جذب خدا تعالیٰ اپنے کامل نبی میں رکھ دیتا ہے.آنحضرتؐکے صحابہؓ نے کس قدر وفاداری کا نمونہ دکھایا جس کی نظیر نہ پہلے تھی نہ آگے دکھائی دیتی ہے.لیکن خدا چاہے تو وہ پھر بھی ویسا ہی کر سکتا ہے.ان نمونوں سے دوسروں کے لیے فائدہ ہے.اس جماعت میں خدا تعالیٰ ایسے نمونے پیدا کر سکتا ہے.۳ خدا تعالیٰ نے صحابہؓ کی تعریف میں کیا خوب فرمایا مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ(الاحزاب:۲۴) مومنوں میں ایسے مرد ہیں جنہوں نے اس وعدہ کو سچا کر دکھایا جو انہوں نے خدا کے ساتھ کیا تھا.سو ان میں سے بعض اپنی جانیں دے چکے اور بعض جانیں دینے کو طیار بیٹھے ہیں.صحابہؓ کی تعریف میں قرآن شریف سے آیات اکٹھی کی جائیں تو اس سے بڑھ کر کوئی اسوہ حسنہ نہیں.۴

Page 209

غیر معمولی موسم کا نشان آسمان پر گرد و غبار ہے.بارش نہ ہونے اور موسم میں ایک غیر معمولی رنگ رہنے کا ذکر تھا.فرمایا.ایک دن سخت گرمی اور لوگوں کی گھبراہٹ کو دیکھ کر میں دعا کرنے لگا تھا مگر پھر مجھے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ یہ جو کچھ کر رہا ہے ہماری ہی تائید میں کر رہا ہے.آج اگر طاعون اٹھ جائے زلزلوں سے امن ہو جائے اور فصلیں خوب پک جائیں تو پھر لوگوں کا یہی کام ہوگا کہ امن پاکر ہم کو گالیاں

Page 210

دینے میں مصروف ہوجائیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں زور آور حملوں سے تیری سچائی کو ظاہر کر دوں گا.یہی اس کے حملے ہیں.پس ہم ان حملوں کو روکنے کے واسطے کیوں دعا کریں؟ دنیا کے آرام میں ہمارا آرام نہیں.جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہمارے ہی لیے ہو رہا ہے اور ہمیشہ سے عادت اللہ اسی طرح جاری ہے.جب ہمارے ہر امر کا متولی خدا ہے تو ہمیں کیا غم ہے.جو ہوگا کوئی نشان ہی ہوگا.۱ ۱۱؍اگست ۱۹۰۵ء (دربارِ شام) تناسخ حضرت حکیم الامت کا بچہ عبد القیوم بیمار تھا.گذشتہ شب کو اسے تکلیف تھی.حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کا حال پوچھ رہے تھے.اسی ذکر میں حضرت حکیم الامت نے کہا کہ میں اس سوال پر سوچتا رہا کہ آریہ جو اعتراض کرتے ہیں کہ بچوں کو دکھ یا تکالیف ان کے پچھلے جنم کا نتیجہ ہے.اس تحریک پر حضرت اقدس نے ذیل کی تقریر بیان فرمائی یہ تو بالکل بیہودہ عقیدہ ہے.۲ اول تو یہ بھی قابل غور امر ہے کہ آیا بچے اس قدر تکلیف محسوس بھی کرتے ہیں یا نہیں جس قدر ماں باپ محسوس کرتے ہیں.کیونکہ حس بھی عقل ہی کے ساتھ بڑھتی ہے اور علاوہ بریں بچہ بھی جو بہشت میں داخل ہوگا تو کسی حق ہی سے ہوگا اس لیے اس قسم کی تکالیف اٹھاتا ہے.۳

Page 211

تکالیف اور شدائد کا فلسفہ اصل بات یہ ہے کہ انسانی فطرت ایسی واقعہ ہوئی ہے کہ وہ زد و کوب ہی سے درست ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت انسان کی تکمیل چاہتی ہے اور خود عبودیت کا بھی تقاضا ہے کہ کسی نہ کسی طرح تکمیل کرے.اس لیے منجملہ تکمیل کی صورتوں کے ایک شدائد اور مصائب بھی ہیں.انبیاء علیہم السلام جو بالکل معصوم اور مقدس وجود ہوتے ہیں وہ بھی تکالیف اور شدائد کا نشانہ بنتے ہیں.۱ اور ایسے مصائب ان پر آتے ہیں کہ اگر کسی اور پر آئیں تو وہ برداشت بھی نہ کر سکے.ہر طرف سے ان کے دشمن اٹھتے ہیں کوئی باتوں سے دکھ دیتا ہے کوئی حکام وقت کے ذریعہ تکلیف دینے کا منصوبہ کرتا ہے کوئی قوم کو اس کے برخلاف اکساتا ہے.غرض ہر پہلو سے اس کو تکلیف دی جاتی ہے اور ہر طرح کی بے آرامی اور حزن و غم ان پر آتا ہے.باوجود اس کے ان ساری باتوں کا کچھ بھی اثر ان پر نہیں ہوتا اور وہ پہاڑ کی طرح جنبش نہیں کرتے.کیا اس سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ گنہ گار ہیں؟ ہرگز نہیں.اگر کوئی ایسا خیال کرے تو اس سے بڑھ کر بیہودگی اور کیا ہوگی؟ بچوں کی تکالیف کا مسئلہ انبیاء علیہم السلام کے مسئلہ سے خوب حل ہوتا ہے.معصومیت کے لحاظ سے بچہ سمجھ لو.یہ مصائب عبودیت کی تکمیل کے لیے ہیں۲ اور عالم آخرت کے لیے مفید ہیں.اگر ایسی حالت ہوتی کہ مرنے کے بعد بچہ کی روح مفقود ہو جاتی تو بھی اعتراض کا موقع ہوتا لیکن جب کہ

Page 212

جاودانی عالم اور ابدی راحت موجود ہے.تو پھر یہ سوال ہی کیوں ہے؟ اگر یہ سوال ہے کہ بغیر تکلیف کے اس ابدی راحت میں داخل کر دے تو پھر کہیں گے کہ معاصی کا بکھیڑا کیوں ہے؟ اس کے ساتھ بھی داخل کر سکتا تھا.۱ اس کا جواب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں غنی بے نیاز ہے.انسان کو نجات اور ابدی آسائش کے حصول کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا چاہیے.جب تک وہ تکالیف اور شدائد نہیں اٹھاتا راحت اور آسائش نہیں پاسکتا.یہ شدائد دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو وہ ہیں جو انسان خود مجاہدات کرتا ہے اپنے نفس کے ساتھ جنگ کرتا ہے اور اس طرح پر اکثر تکالیف میں سے ہو کر گذرتا ہے.اور دوسری صورت یہ ہے کہ قضاء و قدر خود اس پر کچھ تکالیف نازل کر دیتی ہے اور اس ذریعہ سے اسے صاف کرتی ہے.اس طریق میں بچہ اور انبیاء علیہم السلام کے نفوس قدسیہ ہوتے ہیں.وہ بے گناہ اور معصوم ہوتے ہیں اس پر بھی مصائب اور شدائد ان پر آتے ہیں وہ محض ان کی تکمیل اور ان کے اخلاق اور صدق و وفا کے اظہار کے لیے.انسان کے لیے سعی اور مجاہدہ ضروری چیز ہے اور اس کے ساتھ مصائب اور مشکلات بھی ضروری ہیں.لَيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى (النجم:۴۰) جو لوگ سعی کرتے ہیں وہ اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اسی طرح پر جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں اور نفس کی قربانی کرتے ہیں ان پر الٰہی قرب و انوار و برکات اور قبولیت کے آثار ظاہرہوتے ہیں اور بہشت کا نقشہ ان پر کھولا جاتا ہے.یہ لوگ۲ اس راہ سے بے خبر ہیں اور ان انعامات سے بے بہرہ اس لیے ایسے گندے اور

Page 213

بیہودہ اعتراض کرتے ہیں.ان کے ہاں تو نجات کسی کو ملتی ہی نہیں ہے.یہی وجہ ہے کہ وہ تناسخ مان بیٹھے ہیں.ہم یقین رکھتے ہیں اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ اس عالم کی تکالیف کا اجر دوسرے عالم میں ملتا ہے.جس طرح پر انبیاء و رسل کو ملتا ہے اسی طرح پر دوسرے لوگوں کو ملتا ہے.سنت اللہ یہی ہے.اور انسانی کمزوری ضروری تھی تاکہ وہ خدا تعالیٰ کا ہمسر نہ ہو.ہاں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے مظہر تجلیات الٰہیہ ہوتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مصائب اور شدائد اٹھائے اور بہت سی ماریں کھائے.۱ یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ اس کی سچائی تجربہ سے ثابت ہو رہی ہے.پس جب ایک واقعہ تجربہ سے ثابت ہو جاوے تو اس پر بحث فضول ہے.فرمایا.تناسخ کی دلیل میں جو امیر اور مفلس کا تفاوت پیش کیا جاتا ہے.یہ بھی ایک بیہودہ بات ہے.اس لیے کہ غنی کے لیے زکوٰۃ اور صدقات رکھے ہیں کہ وہ ادا کرے اور مفلس کے لیے صبر رکھا ہے اور دونوں کے لیے اجر ہے.اس کی ایسی مثال ہے جیسے کسی نے دو چار کوس کا راستہ طے کرنا ہو ایک شخص کے پاس تو عمدہ عمدہ کھانے ہوں اور دوسرے کے پاس ستو ہی ہوں دونوں ہی اس راستہ کو طے کر لیں گے اور منزل مقصود پر جا کر اپنے اعمال کے موافق فائدہ اٹھائیں گے.۲ تناسخ پر تو اس قدر اعتراض ہوتے ہیں کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے.مثلاً ایک طرف تو یہ لوگ ناطہ رشتہ میں دور دراز کے گوتوں اور ذاتوں کا لحاظ کرتے ہیں.۳ دوسری طرف اگر ایک بچہ کی ماں یا بہن

Page 214

اس کی چھوٹی عمر میں مر جاوے اور کسی دوسری جگہ جنم لے کر اس کے ساتھ بیاہی جاوے تو اس کے روکنے کا کیا انتظام ہے؟۱ اور پھر تناسخ کے لیے یہ بھی ضروری ہوگا کہ جرائم کے انواع بھی تجویز کریں کیونکہ جس کثرت سے کیڑے مکوڑے پیدا ہوتے ہیں یہ سب جرائم ہی کی وجہ سے نہ ہوں گے؟ اور پھر ہر جون کا گناہ الگ چاہیے.اس۲ قسم کے بہت سے اعتراض اس مسئلہ پر وارد ہوتے ہیں.۳ ۱۳؍اگست۱۹۰۵ء (دربار شام) ایک نو مسلم صاحب رحیم آباد۴ سے آئے ہوئے تھے.حضرت حکیم الامت نے ان کی زبانی بیان کیا کہ وہ پنڈت دیانند صاحب کے ساتھ سات سال تک رہے ہیں.پھر خود نومسلم صاحب نے بیان کیا

Page 215

کہ میں نے ویدوں کو ایشور انند سے پڑھا ہے.حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا کہ آپ کے قبول اسلام کی کیا تقریب ہوئی؟ جواباً کہا کہ اصل تو آپ کی پیشگوئیوں پر میری نظر تھی اور اس کے بعد دیوریا کے مباحثہ میں مجھ پر اسلام کی سچائی واضح ہوگئی اور میں مسلمان ہوگیا.معراج کی حقیقت اس کے بعد انہوں نے سوال کیا کہ معراج کے متعلق حضور کی کیا رائے ہے؟ کیا وہ جسمانی تھا یا روحانی؟ اس کے جواب میں حضرت اقدس نے ذیل کی تقریر فرمائی.فرمایا.جب تک انسان بے خبر ہوتا ہے اس کی باتیں نری اٹکلیں ہی ہوتی ہیں.ایسا ہی معراج کے متعلق لوگوں کا حال ہے.وہ اس کی حقیقت اور اصلیت سے بے خبر ہیں.ہم تو معراج کو بالکل بیداری تسلیم کرتے ہیں.ہاں ایک بیداری دنیاداروں کی ہے اور ایک بیداری عارفوں، صادقوں، نبیوں اور خدا رسیدہ لوگوں کی بیداری ہوتی ہے اور ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل اور تمام صادقوں اور عارفوں کے سردار ہیں اس لحاظ سے یہ مرتبہ بھی آپ کا سب سے بڑھا ہوا ہے.معراج ایک کشفی معاملہ تھا.یہ بھی یاد رہے کہ کشف دو طرح کا ہوتا ہے.ایک کشف ایسا ہوتا ہے کہ اس میں غیبتِ حس زیادہ ہوتی ہے.دوسرا کشف ایسا ہوتا ہے کہ وہ بالکل بیداری کے رنگ میں ہوتا ہے اور دراصل ہوتی ہی بیداری ہے.اس قسم کے کشف کو خواب کبھی کہہ ہی نہیں سکتے بلکہ ایسے کشف کو خواب کہنا ایسی غلطی ہے جیسے کوئی دن کو رات کہہ دے.اس حالتِ کشف میں صاحبِ کشف وہ دیکھتا ہے جو دوسرے نہیں دیکھ سکتے اور وہ اسرار مشاہدہ کرتا ہے جو دوسروں کو نصیب نہیں ہوتے.اس بیداری میں (جو عام لوگوں کی حالت ہوتی ہے) اس بیداری کے مقابلہ میں صدہا پردے اور حجاب ہیں.اگر اس کو اندھا کہیں تو زیادہ مناسب ہے اور اگر بہرہ کہیں تو موزوں ہے.لیکن اس کشفی بیداری میں اعلیٰ درجہ کی بینائی اور شنوائی عطا ہوتی ہے.جس میں صاحب کشف وہ حالات دیکھتا ہے جو کسی نے نہ دیکھے ہوں اور وہ باتیں سنتا ہے جو کبھی نہ سنی ہوں.پس اسی قسم کی بیداری کے ساتھ وہ معراج تھا اور ایک لطیف اور

Page 216

روحانی جسم کے ساتھ تھا.انسان کے جسم دو ہیں.ایک زمینی اور دوسرا آسمانی جسم ہے.زمینی جسم کے متعلق قرآن شریف میں آیا ہے اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ كِفَاتًا(المرسلٰت:۲۶) پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج جس جسم کے ساتھ ہوا وہ آسمانی جسم تھا.وہ معراج قابل تعریف نہیں جو عوام مانتے ہیں.چونکہ ہرشخص اپنی حد تک بات کرتا ہے.بچہ اس حد تک ہی کہتا ہے جو کھیل تک محدود ہو.کم علم اپنی حد تک.اسی طرح یہ لوگ چونکہ اس حقیقت سے محض نا آشنا اور ناواقف تھے.انہوں نے یہاں تک ہی اس راز کو سمجھا لیکن خدا تعالیٰ نے مجھ پر اس کی حقیقت کھول دی ہے اور عوام اس سے محض ناواقف ہیں اس لیے اعتراض کرتے ہیں.اصل بات یہی ہے کہ یہ ایسا کشفی رنگ تھا کہ اس کو ہرگز خواب نہیں کہہ سکتے.یہ سچی بیداری تھی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کمال حاصل ہوا.اور یہ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کامل درجہ کا تقدس اور تطہر نہ ہو.اس تقریر کو سن کر شیخ عبد الحق صاحب (یہ اس نو مسلم کا نام ہے) نے کہا یہ تو بالکل سچ ہے.افسوس یہ مخالف مولوی منبروں پر چڑھ کر کہتے ہیں کہ وہ معراج سے ہی منکر ہیں.اس پر پھر حضرت اقدس نے سلسلہ تقریر شروع کیا.اسلام اور دوسرے مذاہب میں مابہ الامتیاز فرمایا.جو کچھ اسلام کا زیور تھا جس پر اسلام کو ہمیشہ ناز تھا اور جو اسلام اور دوسرے مذاہب میں ما بہ الامتیاز تھا اس سے یہ لوگ بالکل بے خبر ہیں.اسلام کے سوا جس قدر مذاہب دنیا میں موجود ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنے محبوب کی بڑی تعریف کرے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دے کہ ہاں ایک آنکھ اس کی نہیں اور دوسرا ساری تعریفیں کرنے کے بعد کہہ دے کہ اس کی شنوائی نہیں یا ایک ٹانگ نہیں.غرض کوئی نہ کوئی نقص ضرور مانتے ہیں.پورے طور پر کامل محبوب تسلیم نہیں کرتے.اسلام میں یہ خوبی ہے کہ اس نے احسن طور پر خدا تعالیٰ کو دکھایا ہے اور کبھی انسان شرمندہ نہیں ہوسکتا.جس قسم کا خدا انسانی فطرت تقاضا کرتی ہے وہ ایسا ہی اسلام میں

Page 217

پائے گی.کوئی نقص اور کمزوری اس میں نہیں ہے.اسلام ایسا مذہب ہے جو ایک ہی زندہ اور ابدی مذہب ہے کیونکہ اس کی تاثیرات اور پھل ہمیشہ تازہ بتازہ موجود رہتے ہیں لیکن ہمارے مخالف علماء اسلام کی عام خوبیاں تو بیان کرتے ہیں کہ وہ توحید کی تعلیم دیتا ہے لیکن ایک اعلیٰ درجہ کی خوبی کا انکار کرتے ہیں.ایسا تو ایک برہمو بھی کر سکتا ہے.فرض کرو اگر ایک برہمو کہے کہ بے شک لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کی تعلیم عمدہ ہے اور میں بھی مانتا ہوں.خدا تعالیٰ کی صفات بھی مانتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان لاتا ہوں اور تمہاری طرح ہم بھی تناسخ کے نقص بیان کرتے ہیں اور اس کی تردید کرتے ہیں.باوجود ان باتوں کے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار کرتا ہے تو کیا اس کی اتنی باتیں قابل قدر ہو سکتی ہیں؟ ہرگز نہیں.اس لیے کہ اسلام کی جو اعلیٰ درجہ کی خوبی تھی وہ تو اس نے فروگذاشت کر دی.اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یقینی ثبوت اور زندہ ثبوت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ہی تھی.جب اسے وہ نہیں مانتے تو معلوم ہوا کہ باقی جو کچھ ہے وہ بھی محض خیالی امر ہے.اسی طرح پر ہمارے مخالف علماء کی حالت ہو رہی ہے.وہ چیز جو میں دنیا کو دینی چاہتا ہوں وہ ان کے پاس نہیں اور اس سے وہ غفلت کر رہے ہیں.وہ یہ ہے کہ انسان جب تک اللہ تعالیٰ کی ہستی کو سمجھ نہیں لیتا اور انا الموجود ہونے کی آواز نہیں سن لیتا نفس امّارہ پر غالب نہیں آتا.اسلام کی اصلی غرض یہی تھی جو اَب مفقود ہو چکی تھی.اسی کے احیاء کے لیے مجھے بھیجا گیا ہے.یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میں جس قدر کوئی کسی سے خوف کرتا ہے یا کسی کی طرف رغبت کرتا ہے وہ معرفت کا ثمرہ ہوتا ہے.دیکھو! اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ اس سوراخ میں سانپ ہے تو وہ کبھی اس میں ہاتھ نہیں ڈالتا بلکہ رات کے وقت اس مکان میں بھی داخل نہ ہوگا.ایسا ہی اگر معلوم ہو کہ یہاں ایک خزانہ مخفی ہے تو اس کی طرف التفات پیدا ہوگی.اندھیرے میں ایک چیز کو اگر بکرا سمجھتا ہے تو جب تک اسے بکرا سمجھتا ہے تو پاس کھڑا رہے گا لیکن یونہی جب یہ خیال ہوگا کہ وہ شیر ہے پھر وہاں نہیں رہ سکتا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز کی محبت اور خوف معرفت سے پیدا ہوتی ہے.ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی آدمی دانستہ زہر نہیں کھا سکتا.سنکھیا خواہ شہد میں بھی ملا ہوا

Page 218

ہو پھر بھی کوئی اسے نہیں کھائے گا کیونکہ جانتا ہے کہ اس کو ہلاک کرنے والی زہر ہے.لیکن اسی طرح پر گناہ بھی ایک زہر ہے جو انسان کی روح کو ہلاک کرتا ہے.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان رکھتا ہے تو پھر بڑی دلیری اور جرأت سے گناہ کیوں کرتا ہے؟ اگر اسے یہ معرفت ہو کہ کوئی محاسب بھی ہے تو اس قدر دلیری نہ کرے.یہ دلیری اور جرأت عدم معرفت کا نتیجہ اور ثمرہ ہے.غرض اسلام اور دوسرے مذاہب میں جو امتیاز ہے وہ یہی ہے کہ اسلام حقیقی معرفت عطا کرتا ہے جس سے انسان کی گناہ آلودہ زندگی پر موت آجاتی ہے اور پھر اسے ایک نئی زندگی عطا کی جاتی ہے جو بہشتی زندگی ہوتی ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر قرآن شریف سے اعراض صوری یا معنوی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس میں اور اس کے غیروں میں فرقان رکھ دیتا ہے.اللہ تعالیٰ پر کامل یقین اور ایمان پیدا ہوتا ہے.اس کی قدرتوں کے عجائبات وہ مشاہدہ کرتا ہے.اس کی معرفت بڑھتی ہے.اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اس کو وہ حواس اور قویٰ دیئے جاتے ہیں کہ وہ ان چیزوں اور اسرار قدرت کو مشاہدہ کرتا ہے جو دوسرے نہیں دیکھتے وہ ان باتوں کو سنتا ہے کہ اوروں کو اس کی خبر نہیں اسی لیے فرمایا مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسـرآءیل: ۷۳) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس جہاں کے لیے انسان اسی عالم سے حواس لے جاتا ہے.اسی جگہ سے وہ بصارت لے جاتا ہے جو وہاں کی اشیاء اور عجائبات کو دیکھے اور یہاں ہی سے وہ شنوائی لے جاتا ہے جو سنے.گویا جو اس جہان میں وہاں کی باتیں دیکھتا اور سنتا نہیں وہ وہاں بھی نہیں دیکھ سکے گا.یہ تھا مابہ الامتیاز اسلام اور دوسرے مذاہب کے درمیان جس کو میرے مخالف پیش نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ نے اسی فرقان کو دے کر مجھے بھیجا ہے.اب سوال ہوتا ہے کہ جبکہ یہ مابہ الامتیاز ہے تو کیوں ہر شخص نہیں دیکھ لیتا؟ اس کا جوا ب یہ ہے کہ سنّت اللہ اسی پر واقع ہوئی ہے کہ یہ بات بجز مجاہدہ، توبہ اور تبتل تام کے نہیں ملتی چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) یعنی جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کریں گے انہی کو یہ راہ ملے گی.پس جو

Page 219

لوگ خدا تعالیٰ کے وصایا اور احکام پر عمل نہ کریں بلکہ ان سے اعراض کریں ان پر یہ دروازہ کس طرح کھل جائے؟ یہ نہیں ہوسکتا.اگر کوئی شخص کہے کہ یہاں ایک خزانہ مدفون ہے اور دس بارہ دن کی محنت کے بعد نکل سکتا ہے اور کوئی شخص محنت تو کرے نہیں اور یہ کہے کہ خزانہ مل جاوے.کیونکر ملے گا؟ اسی طرح پر یہ خزانہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں رکھا ہے لیکن اس خزانہ کی کلید احکام اور ہدایتوں پر عمل ہے.اس کی وصیت اور ہدایت پر عمل کرنا اور محض خدا کے لیے نفس کو روک رکھنا یہ کنجی ہے اور اسلام ہی میں یہ ملتی ہے.مَنْ يَّبْتَغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ( اٰل عـمران: ۸۶) اسلام ایک چشمہ ہے اگر کوئی شخص اس پر جا بیٹھا ہے اور منہ رکھ کر اس سے سیراب ہو کر نہیں پیتا تو اس کا اپنا قصور ہے اس چشمہ کا کیا قصور ہے؟ اگر کوئی شخص آفتاب کی طرف سے اپنے دروازے اور کھڑکیاں بند کر لیتا ہے تو ضرور ہے کہ اس کے کمرہ میں تاریکی آجاوے اس میں آفتاب کا کوئی قصور نہیں.اس لیے جب تک انسان سچا مجاہدہ اور محنت نہیں کرتا وہ معرفت کا خزانہ جو اسلام میں رکھا ہوا ہے اور جس کے حاصل ہونے پر گناہ آلود زندگی پر موت وارد ہوتی ہے.انسان خدا تعالیٰ کو دیکھتا ہے اور اس کی آوازیں سنتا ہے اسے نہیں مل سکتا.چنانچہ صاف طور پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَاْوٰى (النّٰـزعٰت:۴۱،۴۲) یہ تو سہل بات ہے کہ ایک شخص متکبرانہ طور پر کہہ دے کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہوں اور باوجود اس دعویٰ کے اس ایمان کے آثار اور ثمرات کچھ بھی پیدا نہ ہوں یہ نری لاف زنی ہوگی.ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی کچھ پروا نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کی پروا نہیں کرتا.اصل بات یہی ہے کہ یہ دولت مجاہدہ اور محنت کے بغیر ہاتھ نہیں آتی ہے اور ان راہوں پر چلنا سب کے لیے ضروری ہے.یہاں تک کہ انبیاء و رسل کے لیے بھی یہی راہ ہے.ان کو جو فتوحات دیئے جاتے ہیں وہ اسی راہ سے ملتے ہیں.انبیاء علیہم السلام تو اس راہ میں فنا ہو جاتے ہیں اور وہی حالت ہوتی ہے جب ان سے معجزات صادر ہوتے ہیں.وہ عام لوگوں سے بالکل نرالی قوم ہوتی ہے.ہر شخص تو یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں.اس کی عزت اور شہرت ہو.برخلاف اس

Page 220

کے انبیاء علیہم السلام اپنے نفس کو بالکل بھلا دیتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ ہی کی عزت اور عظمت کے بھوکے پیاسے ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کے اظہار کے لیے وہ ہر قسم کی ذلت کے برداشت کرنے کو طیار ہوجاتے ہیں وہ تمام دکھوں اور مصیبتوں کو برداشت کرتے ہیں مگر ذرا بھی پروا نہیں کرتے.ان کی ساری خواہشیں اور آرزوئیں اس ایک بات پر آکر ختم ہوجاتی ہیں کہ کسی طرح پر اہل دنیا خدا تعالیٰ پر ایمان لاویں.انہیں سخت تکلیف پہنچتی ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ مشرک اور خدا سے دور لوگ اپنے بتوں اور معبودوں کی ایسی تعریف کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی ہونی چاہیے.ایسا ہی وہ اس کو بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ لوگ ہر قسم کے فسق و فجور اور بد اعمالیوں میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف سے منہ موڑیں.ایسی صورت میں ان کے دل پر قلق اور کرب کا استیلاء ہوتا ہے.پس جب ان کے دکھوں اور تکالیف کا اندازہ حد سے گذر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ پھر گوارا نہیں کرتا کہ وہ اس طرح پر دکھ اٹھائیں.اس لیے وہ کرامت یا نشان ظاہر کرتا ہے.یہ بھی یاد رکھو کہ راستباز دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو انبیاء و رسل.یہ تو اعلیٰ درجہ کے راستباز اور مقدس وجود ہیں.دوسری قسم کے وہ راستباز ہیں جو عام مومن ہوتے ہیں.لیکن ان میں کچھ نہ کچھ بقایا نفس بھی موجود ہوتا ہے.ان دوسرے درجہ کے لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ کچھ نہ کچھ خوارق کا حصہ دے دیتا ہے لیکن بڑے نشانوں کے مستحق وہی قوم انبیاء و رسل کی ہے جو کسی صورت میں بھی خدا تعالیٰ کے غیر کا جلال نہیں دیکھ سکتے.ان کی مصیبت اور دکھ اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے خلاف نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں.میرا ایمان یہی ہے کہ نوح علیہ السلام کا طوفان جو آیا اس طوفان سے پہلے ایک طوفان خود نوح پر بھی آیا.تب وہ طوفان آیا جس نے لوگوں کو غرق کیا.اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں فرعون غرق ہوا مگر اس سے پہلے موسیٰ علیہ السلام نے ایک سخت مصیبت دیکھی جو لوگوں کی نظر سے مستور تھی مگر وہ ایسی مصیبت تھی کہ اسے ان کا ہی دل برداشت کر سکتا تھا.اور ایسی بھاری مصیبت تھی جس نے یہ نمونہ غرق دکھایا.نوح علیہ السلام کا غم خیال کرو کہاں تک پہنچا ہوگا جو خدا تعالیٰ کا غضب اس طرح پر بھڑکا.

Page 221

یقیناً سمجھو کہ یہ قوم ایک عجیب قوم ہوتی ہے.لوگوں کے ھمّ غم اپنے گھر کے دائرہ کے اندر ہوتے ہیں.بیوی بچوں کا غم ہوا یا اپنی عزت و دولت کے لیے اور اس لیے خدا تعالیٰ ان کی پروا نہیں کرتا لیکن اس قوم کے غموں کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے کیونکہ ایک طرف مخلوق کی ہمدردی انہیں ھمّ و غم میں مبتلا کرتی ہے.دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی عظمت اور شان بلند کے لیے کڑھتے ہیں اور یہ بات تکلف یا بناوٹ سے پیدا نہیں ہوتی.ان کی فطرت ہی اس قسم کی بنی ہوئی ہوتی ہے.اس قوم کو اس رنگ میں گویا آگ لگی ہوئی ہوتی ہے.ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ گوارا نہیں کرتا کہ وہ غم میں مرجاویں.وہ دیکھتا ہے کہ ان کا غم محض اس کے لیے ہے.ان سے اگر پوچھا جاوے کہ وہ کیوں اس قدر غم کھاتے ہیں تو بتلا نہیں سکتے کیونکہ ان کے تعلقات ذاتیہ ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی عظمت کے اظہار کے لیے وہ طبعی طور پر بے قرار ہوتے ہیں اور اس میں ان کے نفس کا کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا.کامل نفوس کے تعلقات جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتے ہیں وہ اس قسم کے ہیں کہ اگر بہشت و دوزخ بھی نہ ہو تب بھی وہ دور نہیں ہو سکتے.غرض انسان اس کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت کے لیے کس کس قسم کے قلق و کرب میں رہتےہیں.جب یہ اضطراب حد سے بڑھ جاتا ہے تو پھر آسمانی نشان ظاہر ہوتا ہے.یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ بے پروا ہے.اگر ساری دنیا اس کی حمد و ستائش کرے اور کوئی بھی اس کی خلاف ورزی نہ کرے تو اس کی شانِ ربوبیت اور الوہیت میں کچھ بھی زیادتی نہیں ہوسکتی اور نہ اس سے کوئی کمی واقع ہو سکتی ہے اگر سب کے سب فسق و فجور میں مبتلا ہو جائیں.مگر بات یہ ہے کہ جب ایک انسان اس کے لیے ہی کھپتا ہے تو آخر اسے اپنی مستور ذات کو ظاہر کرنا پڑتا ہے.یہی سِر ہے اس حدیث میں کُنْتُ کَنْـزًا مَّـخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے ماموروں اور مرسلوں کا قلق کرب حد سے بڑھتا ہے.انبیاء علیہم السلام کے مجاہدات کا اتنا ہی نتیجہ نہیں ہوتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھتے اور پہچانتے ہیں بلکہ دنیا پر بھی احسان کر جاتے ہیں کیونکہ اسے بھی دکھا دیتے ہیں.

Page 222

پس نرے چھلکے پر کفایت کر لینا کافی نہیں ہے ایسی متاع چرائی جا سکتی ہے لیکن جو متاع حقیقی اسلام پیش کرتا ہے جو اس میں اور اس کے غیروں میں ما بہ الامتیاز ہے اسے کوئی چرا نہیں سکتا.یہ بات ہے جو ہم پیش کرتے ہیں کہ خدا موجود ہے اور اس کے امتیازی نشان ظاہر ہوتے ہیں.اسلام کے ثمرات اب بھی ایسے ہی ہیں.اگر کوئی ان پھلوں کو نہیں کھاتا تو اسلام کا کیا قصور؟ طبیب اگر ایک نسخہ بتا دے اور کوئی اسے استعمال نہ کرے تو اس میں طبیب کا تو کوئی قصور نہیں ہے.اسلام میں یہ ایسی نعمت ہے جو کسی اور دین میں نہیں مل سکتی.اسی کی طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ (المآئدۃ: ۴) لیکن یہ نعمت نہیں مل سکتی جب تک اس طرف قدم نہ اٹھاوے اور افسوس کہ ہمارے مخالف اس نعمت کی طرف متوجہ نہیں!!۱ ۱۴؍اگست ۱۹۰۵ء (دربار شام) اولو الامر کون ہے شیخ عبد الحق صاحب آریہ نو مسلم نے اجازت چاہی.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ کچھ دن اَور رہو.دین کی تپش اور تلاش انسان کو مقدم ہونی چاہیے.اس پر انہوں نے ذیل کا سوال کیا اس کا جو جواب حضرت اقدسؑ نے دیا وہ بھی درج ہے.سوال.اولو الامر سے کیا مراد ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ ہر ایک مولوی اولو الامر ہے اور بعض کہتےہیں کہ کوئی نہیں.جواب (از حضرت اقدسؑ).اصل بات یہ ہے کہ اسلام میں اس طرح پر چلا آیا ہے کہ اسلام کے بادشاہ جن کے ہاتھ میں عنانِ حکومت ہے ان کی اطاعت کرنی چاہیے وہ بھی ایک قسم کے اولو الامر ہوتے ہیں.لیکن اصل اولو الامر وہی ہوتے ہیںجن کی زندگی پاک ہوتی ہے اور ایک بصیرت اورمعرفت جن کو ملتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے امر پاتے ہیں یعنی مامور الٰہی.بادشاہوں کے پاس حکومت ہوتی ہے وہ انتظامی امور میں تو پورا دخل رکھتےہیں لیکن دینی امور

Page 223

کے لیے کیا کر سکتے ہیں.سچے اولو الامر وہی ہیں جن کے اتباع سے معرفت کی آنکھ ملتی ہے اور انسان معصیت سے دور ہوتا ہے.ان دونوں باتوں کا لحاظ اولو الامر میں رکھو.اگر کوئی شخص بادشاہ وقت کی بغاوت کرے تو اس کا نتیجہ اس کے لیے اچھا نہیں ہوگا کیونکہ اس سے فتنہ پیدا ہوگا اور اللہ تعالیٰ فتنہ کو پسند نہیں کرتا.اسی طرح پر مامور کی مخالفت کرے تو سلب ایمان ہوجاتا ہے کیونکہ ان کی مخالفت سے لازم آتا ہے کہ مخالفت کرنے والا خدا کی مخالفت کرتا ہے.سوال.پھر اس وقت جو مولوی ہیں کیا ان کو اولو الامر سمجھیں؟ جواب.او خویشتن گم است کرا رہبری کند.اصل بات یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کسی کی آنکھ نہ کھولے آنکھ کھلتی نہیں.ان لوگوں نے دین صرف چند رسوم کا نام سمجھ رکھا ہے.حالانکہ دین رسوم کا نام نہیں ہے.ایک زمانہ وہ ہوتا ہے جبکہ یہ باتیں محض رسم اور عادت کے طور پر سمجھی جاتی ہیں یہ لوگ اسی قسم کے ہو رہے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جن کو نماز اور روزہ سکھایا گیا تھا ان کا اور مذاق تھا وہ حقیقت کو لیتے تھے اور اسی لیے جلد مستفیض ہوتے تھے پھر مدت کے بعد وہی نماز اور روزہ جو اعلیٰ درجہ کی طہارت اور خدا رسی کا ذریعہ تھا ایک رسم اور عادت سمجھا گیا.پس اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اصل امر دین کو جو مغز ہے تلاش کرے.سچے مذہب کی خصوصیات یاد رکھو انسان کو اللہ تعالیٰ نے تعبّد ابدی کے لیے پیدا کیا ہے اس لیے اس کو چاہیے کہ اسی میں لگا رہے.اس جہان کی جس قدر چیزیں ہیں.بیوی، بچے، احباب، رشتہ دار، مال و دولت اور ہر قسم کے املاک ان کا تعلق اسی جہان تک ہے.اس جہان کو چھوڑنے کے ساتھ ہی یہ سارے تعلقات قطع ہو جاتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ ہے اور اس جہان میں بھی اور اُس جہان میں بھی اس کی ضرورت ہے اس لیے سچا تعلق اسی کے ساتھ ہونا چاہیے کیونکہ نجات ابدی اسی کے ساتھ وابستہ ہے جو خدا تعالیٰ کی معرفت محبت اور صدق وفاداری کے تعلق پیدا کرنے سے ملتی ہے.یہاں تک تو سب مذاہب متفق ہیں وہ نجات کا یہی ذریعہ سمجھتے ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ یہ باتیں حاصل کیونکر ہوں؟ یہی وہ مقام ہے جہاں سے

Page 224

مذاہب کا تفرقہ شروع ہوتا ہے.اب جس مذہب نے حصولِ نجات کے عمدہ وسائل پیدا کئے ہیں اور جو مذہب تاثیر اور جذب اور کشش اپنے اندر رکھتا ہے وہ سچا ہے لیکن جس مذہب کے اندر وہ تاثیر اور جذب نہیں جس کی عملی تاثیروں کا کوئی نمونہ پایا نہیں جاتا وہ خواہ خدا تعالیٰ کو واحد ہی کہے لیکن جھوٹا ہے.یہ توحید اس کی محض قال کے رنگ میں ہے.حالی کیفیت اس میں پائی نہیں جاتی.حالی کیفیت تو اس وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ غیر کا وجود بالکل نابود ہوجاوے.اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنے والا ہو.اسی سے ہر ایک امید و خوف ہو.جب تک یہ بات عملی طور پر پیدا نہ ہو نرے قال سے کچھ نہیں بنتا.مثلاً اللہ تعالیٰ کو واحد سمجھتا ہے پھر دوسرے سے بھی تعلق رکھتا ہے تو توحید کہاں رہی؟ یا خدا تعالیٰ کو رازق مانتا ہے مگر کسی دوسرے پر بھی بھروسہ کرتا ہے یا دوسرے سے محبت کرتا ہے یا کسی سے امید اور خوف رکھتا ہے تو اس نے واحد کہاں مانا؟ غرض ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ کو واحد ماننے سے توحید حقیقی متحقق ہوتی ہے مگر یہ اپنے اختیار میں نہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی ہستی پر کامل یقین سے پیدا ہوتی ہے.یک طرفہ خیال رفتہ رفتہ ضائع ہو جایا کرتےہیں مثلاً ایک شخص خیال کرلے کہ اس چوبارہ کے اندر آدمی ہے.جب وہ بیدار ہوگا تو اس کو کھولے گا لیکن جب اس پر دو دن، چار دن، مہینہ دو مہینے یہاں تک کہ کئی برس گذر جاویں اور کوئی آواز نہ آوے نہ کھڑکا ہو تو آخر اسے اپنا اعتقاد بدلنا پڑے گا اور خیال پیدا ہونے لگے گا کہ اگر اس کے اندر کوئی آدمی ہوتا تو ضرور بولتا معلوم ہوا کوئی آدمی ہے ہی نہیں.اسی طرح پر خدا تعالیٰ جو ان آنکھوں سے پوشیدہ ہے اس کی بابت بھی طالب حق چاہتا ہے کہ اس کا پورا پتہ لگے تاکہ ایمان ترقی کرے.ضرور ہے کہ اس کی قدرتوں کے عجائبات نظر آویں.اس کی آواز بھی سنائی دے اور اس کے سننے کا پتہ لگے لیکن اگر کسی بات کا پتہ ہی نہیں چلتا تو پھر رفتہ رفتہ ایمان کمزور ہو کر انسان دہریہ ہوجائے گا.یہ تو سب اہل مذاہب مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے اور ہماری دعائیں سنتا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ وہ جس طرح پر سنتا ہے کیا یہ ضرور نہیں کہ اسی طرح پر بولتا بھی ہو.اگر بولتا نہیں تو پھر اس کا

Page 225

سننا بھی باطل ہوگا اور پھر دوسرے صفات بھی باطل ہوجائیں گے.آریہ بھی اتنا تو مانتے ہیں کہ وہ سنتا ہے لیکن جب ہم پوچھتے ہیںکہ کیا وہ سنتا۱ بھی ہے تو یہاں آکر خاموش ہوجاتے ہیں.تو پھر یہ کیونکر مان لیا جاوے کہ اس کے کان تو ہیں مگر زبان نہیں.یہ تو ادھورا خدا ہوا.سچا معلم اور مذہب وہی ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت دے جو سننے کا ثبوت دیتا ہے وہ بولنے کا بھی دیتا ہے.اس معیار پر آکر صرف اسلام ہی ہے جو سچا ثابت ہوگا.آریہ کہتے ہیں کہ کسی قدیم زمانے میں بولتا تھا اب نہیں بولتا.مگر ہم کہتے ہیں اس کا کیا ثبوت ہے کہ پہلے بولتا تھا؟ ایسا ہی عیسائیوں کا بھی حال ہے وہ بھی اس بات کا ثبوت نہیں دے سکتے کہ خدا بولتا ہے.ہاں ہم کہتے ہیں کہ جس طرح خدا کو دیکھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ دیکھتا ہے اور سنتا ہے اسی طرح ہم یقین رکھتے ہیں اور اپنے تجربہ سے کہتے ہیں کہ وہ بولتا بھی ہے.یہ سچ ہے کہ اس کی آواز سننے کے لیے خود تمہارے کان بھی کھلے ہوئے ہونے چاہئیں.اگر تم اپنے کان میں روئی دے دو گے تو ہرگز نہیں سن سکتے.یا آفتاب اور ماہتاب کے نور سے بھاگ کر کسی تہہ خانہ میں چھپ جاؤ تو روشنی کیونکر آسکے گی؟ ہر چیز کے حصول کے لیے ایک قانون ہوتا ہے.اگر کوئی اس قانون کو چھوڑ کر اور اس سے منحرف ہوکر اسے حاصل کرنا چاہے تو حاصل نہیں کر سکتا مثلاً آنکھ کان میں جو قوتیں ہیں اگر ان سے کام نہ لے تو اثر نہیں رہتا.اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ قانون مقرر کیا ہے کہ انسان اول اپنے دل کو پاک کرے اور نفسانی خواہشوں کی مخالفت کرے.اس سے درمیانی گرد و غبار اٹھ جائے گا اور ثابت ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ سنتا بھی ہے اور بولتا بھی ہے.جو لوگ عارف ہوتےہیں ان پر یہ باتیں کھل جاتی ہیں.وہ اسی دنیا میں خدا تعالیٰ کے صفات کو مشاہدہ کرتے ہیں جو شخص ان صفات کو دیکھتا نہیں وہ صرف طوطے کی طرح رٹتا ہے.آریوں نے جو صفائی کی ہے وہ تو پہلے سے بھی گیا گذرا والا معاملہ ہوا ہے.اگر انصاف سے دیکھا جاوے تو زبانی لاف و گزاف کچھ نہیں کر سکتی.میں یقیناً کہتا ہوں کہ ان لوگوں کے سارے دعوے باطل ہیں.اس لیے

Page 226

کہ ان کو رؤیت کی توفیق نہیں ملی ہے.جس پر اس جہان کی کھڑکی نہیں کھلی وہ کیا دیکھے گا؟ پنڈت دیانند نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ نری اٹکل ہے.جیسا ایک اندھا کسی کو ہاتھ لگا کر اس کے متعلق بیان کرتا ہے اسی طرح سے انہوں نے کیا ہے.محض اپنے مذہب کے تعصب کی جہالت سے کہا جو کچھ کہا.اس کو وہ آنکھیں نہیں تھیں جو وہ اس عالم کے عجائبات کو مشاہدہ کرتا.اس کو بالکل خبر نہیں کہ خدا کیا ہے اور اس کے صفات کیا ہیں؟ یہ بھی یاد رکھو کہ جس چیز کے صفات دور ہو جائیں تو وہ چیز بھی جاتی رہتی ہے.پھول کی صورت نوعی بھی جاتی رہے گی جب اس کے خواص اور صفات نہ ہوں.اسی طرح پر آریوں کے قول کے بموجب پرمیشر ہی کا وجود نہیں رہتا جبکہ یہ مان لیا جاوے کہ اس کے صفات نہیں کیونکہ وہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کسی سے بولتا بھی ہے جب بولتا نہیں تو سننے پر کیا دلیل ہوگی.اسی طرح قدرت بھی باطل ہوئی.خدا تعالیٰ کے صفات قدیم سے چلے آتے ہیں.جب ایک صفت باطل ہوئی تو ممکن ہے کوئی دوسری بھی باطل ہو جاوے.سچا مذہب وہی ہے جو زندہ خدا کو پیش کرے اور وہ اسلام ہے.ہمارے مخالف اسلام کا اقرار کرتے ہیں مگر افسوس ہے کہ وہ اسلام کی اس قابل قدر خوبی سے انکار کرتے ہیں.جب سے اسلام ہوا ہے اس میں ہمیشہ عملی نمونے رہے ہیں لیکن وہ انکار کرتے ہیں کہ اب نہیں.افسوس! فرمایا.ایک اور بڑی خرابی ہوتی ہے کہ انسان میں علم ہو سمجھ ہو پھر دنیا کے خیال اس پر غالب ہو جائیں تو اس طرح پر دینی سر گرمی نہیں رہتی وہ مردہ یا منافق ہوجاتا ہے اس لیے اس جماعت میں ملنے والا تو وہ ہوگا جو ہر قسم کے مصائب اور شدائد کا نشانہ بننے کو آمادہ ہو.لیکن محبت ہو تو سب کچھ ہوسکتا ہے.جیسے ایک مست اونٹ پر جس قدر بوجھ چاہو لاد دو.فرمایا.قوی القلب آدمی ہو تو یہی نہیں کہ وہ مخالفوں کے شور و شر سے امن پاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اس میں جذب اور کشش رکھ دیتا ہے.۱

Page 227

۱۹اگست۱۹۰۵ء ایک شخص نے اپنا خواب عرض کیا کہ فلاں آدمی نے مجھے خواب میں ایسا کہا.فرمایا.خواب کا تعین ہمیشہ صحیح نہیں ہوتا.بعض دفعہ جس کو خواب میں دیکھا جاتا ہے اس سے مراد کوئی اور شخص ہوتا ہے.مسیح علیہ السلام کے بارہ میں قتل و صلیب کی نفی کسی شخص نے اعتراض کیا کہ قرآن شریف میں حضرت مسیح کے متعلق اللہتعالیٰ نے فرمایا ہے وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ (النسآء : ۱۵۸) نہ قتل کیا اور نہ صلیب دیا.اس میں قتل کا ذکر پہلے ہے اور صلیب پیچھے.حالانکہ پہلے کسی کو صلیب پر چڑھایا جاتا ہے اور بعد میں صلیب کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قتل ہوجائے.برخلاف اس کے قرآن شریف میں قتل کا ذکر پہلے ہے اور صلیب کا پیچھے ہے.فرمایا.اوّل تو یہود کا اعتراض جو قرآن شریف میں درج ہے وہ یہی ہے کہ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ (النسآء : ۱۵۸) یعنی ہم نے مسیح کو قتل کیا.چونکہ انہوں نے قتل کا لفظ بولا تھا اس واسطے اللہ تعالیٰ نے پہلے لفظ قتل کی ہی نفی کی.دوم یہ کہ یہود میںدو روایتیں تھیں.ایک یہ کہ ہم نے یسوع کو تلوار سے قتل کر دیا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ اس کو صلیب پر مارا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ہر دو کی جدا جدا نفی کی.تیسری بات یہ ہے کہ یہودیوں کی بعض پرانی کتب میںیہ بھی لکھا ہے کہ یسوع کو پہلے سنگسار کیا گیا تھا اور جب وہ مر گیا تو بعد میں اس کو کاٹھ پر لٹکایا گیا یعنی پہلے قتل ہوا اور پیچھے صلیب.پس اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی نفی کی اور فرمایا کہ یہود جھوٹھے ہیں.نہ حضرت مسیح ان کے ہاتھوں قتل ہوئے اور نہ صلیب کے ذریعے سے مارے گئے.اسلام کی صداقت پر ایک بھاری دلیل فرمایا.خدا تعالیٰ کے صفات کا جو کامل اکمل نقشہ اسلام نے پیش کیا ہے وہ اسلام کی صداقت پر ایک بڑی بھاری دلیل ہے.باقی تمام مذاہب اس معاملہ میں ناقص ہیں کہ وہ خدائی

Page 228

صفات کا سرو پا پوری طرح بیان کر سکیں اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی تمام مذاہب خدا تعالیٰ کی کمال طاقتوں کے صفات سے منکر ہیں.مثلاً آریہ کہتے ہیں کہ وہ کلام نہیں کرتا چُپ ہے.عیسائیوں کا بھی یہی مذہب ہے اور وہ کہتے ہیں کہ وہ کسی کو نجات دینے کی طاقت نہیں رکھتا.اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی کسی شخص کی تعریف کرے اور کہے کہ وہ ایسا خوبصورت ہے اور ایسا طاقتور ہے مگر بہرہ ہے سن نہیں سکتا اور گونگا ہے کچھ بولتا نہیں.چڑ چڑا ہے ہم کو نجات دینا نہیں چاہتا.بہشت میں بھیجتا ہے تو بھی ایک گناہ باقی رکھ لیتا ہے جس سے پھر جلد سانپ، بچھو، کتے، سؤر کی جون میں ڈال دیتا ہے.ان دینوں میں یہ برکت نہیں کہ انسان پاکیزگی حاصل کر کے خدا سے اَنا الموجود کی آواز کوئی سن سکے.اسی واسطے یہ لوگ غفلت کی تاریکی میں پڑے ہوئے ہیں.مجاہدہ کی اہمیت فرمایا.جو لوگ خدا کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں.سچی توبہ کے ساتھ اس کے آگے جھک جاتے ہیں ان کو خدا مل جاتا ہے مگر جو لوگ اس کے بتلائے ہوئے راہ پر نہیں چلتے اور اس میں محنت نہیں کرتے ان کے واسطے مشکل ہے کہ وہ اس بات کو پاسکیں.ایسے لوگوں کی مثال اس طرح ہے کہ ایک باپ نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ فلاں مقام میں ایک خزانہ دفن ہے اور وہ زمین کے اندر اتنے ہاتھ گہرائی پر ہے.جب تک اس کو کھودنے کی محنت نہ کی جاوے وہ کس طرح ان کو مل سکتا؟ ۱ ۲۰؍اگست ۱۹۰۵ء ۲۰؍اگست کی صبح کو حضرت کے سر میں اٹھتے ہوئے ایک جگہ سے چوٹ لگی جس سے بہت خون نکلا اور تکلیف ہوئی.اب بفضل الٰہی آرام ہے.فرمایا.ہر امر میں کچھ مصلحت الٰہی ہوتی ہے جو بعد میں معلوم ہوتی ہے.۲

Page 229

۲۳اگست ۱۹۰۵ء ۲۳؍ اگست ۱۹۰۵ء کو بعد عصر جناب شیخ رحمت اللہ صاحب حصول اجازت کےلئے آپ کے حضور حاضر تھے.مجھے بھی اس تقریب پر حصول معذرت کا موقع مل گیا.فرمایا.خدا کا شکر ہے کہ زخم مل گیا ہے.لیکن ابھی ضعف باقی ہے.نماز میں سجدہ کرتا ہوں تو سر چکرانے لگتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ذرا آرام ہو جائے تو اپنے کام میں لگ جاؤں.۱ رؤیا دیکھا کہ میں ایک جگہ کھڑا ہوں.آگے ایک پردہ ہے.پردہ کے پیچھے سے آواز آئی.’’تو جانتا ہے میں کون ہوں میں خدا ہوں جس کو چاہتاہوں عزت دیتا ہوں جس کو چاہتا ہوں ذلت دیتا ہوں.‘‘ فرمایا.قرآن شریف میں آیا ہے وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِهٖ مَا يَشَآءُ اِنَّهٗ عَلِيٌّ حَكِيْمٌ(الشورٰی:۵۲) یعنی کسی آدمی کے لائق نہیں کہ خدا اس سے کلام کرے مگر بذریعہ وحی کے یا پردہ کے پیچھے سے یا کسی فرستادہ کے ذریعہ سے.جو اس کے حکم سے جیسا وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے.وہ عالی شان اور حکمتوں والا خدا ہے.۲ ۲۶؍اگست ۱۹۰۵ء آج نماز ظہر میں مسجد مبارک میں قبل از نماز ذکر آیا کہ جاپان میں اسلام کی طرف رغبت معلوم ہوتی ہے اور بعض ہندی مسلمانوں نے وہاں جانے کا ارادہ کیا ہے.اس پر فرمایا.جاپان میں اسلام کی تبلیغ جن کے اندر خود ہی اسلام کی روح نہیں وہ دوسروں کو کیا فائدہ پہنچائیں گے؟ جب یہ قائل ہیں کہ اب اسلام میں کوئی اس قابل

Page 230

نہیں ہوسکتا کہ خدا اس سے کلام کرے اور وحی کا سلسلہ بند ہے تو یہ ایک مردہ مذہب کے ساتھ دوسرے پر کیا اثر ڈالیں گے؟ یہ لوگ صرف اپنے پر ظلم نہیں کرتے بلکہ دوسروں پر بھی ظلم کرتے ہیں کہ ان کو اپنے بد عقائد اور خراب اعمال دکھا کر اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں.ان کے پاس کون سا ہتھیار ہے جس سے یہ غیر مذاہب کو فتح کرنا چاہتے ہیں؟ جاپانیوں کو عمدہ مذہب کی تلاش ہے.ان کی بوسیدہ اور ردی متاع کو کو ن لے گا؟ چاہیے کہ اس جماعت میں سے چند آدمی اس کام کے واسطے تیار کیے جائیں جو لیاقت اور جرأت والے ہوں اور تقریر کرنے کا مادہ رکھتے ہوں.۱ ۳۱؍اگست ۱۹۰۵ء ایک رؤیا اور اس کی تعبیر ۳۱؍اگست کی رات کو دیکھا.میں نے دیکھا کہ عبد اللہ سنوری میرے پاس آیا ہے اور وہ ایک کاغذ پیش کر کے کہتا ہے کہ اس کاغذ پر میں نے حاکم سے دستخط کرانا ہے اور جلدی جانا ہے.میری عورت سخت بیمار ہے اور کوئی مجھے پوچھتا نہیں.دستخط نہیں ہوتے.اس وقت میں نے عبد اللہ کے چہرہ کی طرف دیکھا تو زرد رنگ اور سخت گھبراہٹ اس کے چہرہ پر ٹپک رہی ہے میںنے اس کو کہا کہ یہ لوگ روکھے ہوتے ہیں.نہ کسی کی سپارش مانیں اورنہ کسی کی شفاعت.میں تیرا کاغذ لے جاتا ہوں.آگے جب کاغذ لے کر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص مٹھن لال نام جو کسی زمانہ میں بٹالہ میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھا کرسی پر بیٹھا ہوا کچھ کام کر رہا ہے اور گرد اس کے عملہ کے لوگ ہیں.میں نے جا کر کاغذ اس کو دیا اور کہا کہ یہ ایک میرا دوست ہے اور پرانا دوست ہے اور واقف ہے اس پر دستخط کر دو.اس نے بلا تأمل اسی وقت لے کر دستخط کر دیئے پھر میں نے واپس آکر وہ کاغذ ایک شخص کو دیا اور کہا خبردار ہوش سے پکڑو! ابھی دستخط گیلے ہیں اور پوچھا کہ عبد اللہ کہاںہے؟ انہوں نے کہا کہ کہیں باہر گیا ہے.بعد اس کے آنکھ کھل گئی

Page 231

اور ساتھ پھر غنودگی کی حالت ہوگئی.تب میںنے دیکھا کہ اس وقت میں کہتا ہوں مقبول کو بلاؤ اس کے کاغذ پر دستخط ہوگئے ہیں.یہ جو مٹھن لال دیکھا گیا ہے.ملائک طرح طرح کے تمثّلات اختیار کر لیا کرتے ہیں.مٹھن لال سے مراد ایک فرشتہ تھا.سنوری سے یہ مراد ہے.سنور عربی میں بلّی کو کہتے ہیں اور تعبیر کی رو سے بلّی ایک بیماری کا نمونہ ہے.عبد اللہ سنوری سے مراد ہوئی وہ عبد اللہ جو بیمار ہے.فرمایا.طب تو ظاہری محکمہ ہے.ایک اس کے وراء محکمہ پردہ میں ہے جب تک وہاں دستخط نہ ہو.کچھ نہیں ہوتا.۱ ۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء وحی کا ایک طریق فرمایا کہ بعض دفعہ وحی اس طرح بھی نازل ہوتی ہے کہ کوئی کاغذ یا پتھر وغیرہ دکھایا جاتا ہے جس پر کچھ لکھا ہوا ہوتا ہے.فرمایا.اللہ تعالیٰ کے نشان اس طرح کےہوتے ہیں کہ ان میں قدرت اور غیب ملا ہوا ہوتا ہے اور انسان کی طاقت نہیں ہوتی کہ ان کو ظاہر کر سکے.حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علالت فرمایا.مولوی صاحب کی زیادہ علالت کے وقت میں بہت دعا کرتا تھا اور بعض نقشے میرے آگے ایسے آئے جن سے نا امیدی ظاہر ہوتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا موت کا وقت ہے اور ظاہر طب کی رُو سے بھی معاملہ خوفناک تھا کیونکہ ذیابیطس والے کو سرطان ہوجائے تو پھر بچنا مشکل ہوتا ہے اس دعا میں مَیں نے بہت تکلیف اُٹھائی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے بشارت نازل کی اور

Page 232

عبداللہ سنوری والا خواب میں نے دیکھا جس سے نہایت درجہ غمناک دل کو تشفی ہوئی.جو گذشتہ اخبار میں چھپ چکا ہے.۱ امت کی تشبیہ عورت سے اس دعا میں میں نے ایک شفاعت کی تھی جیسا کہ خواب کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے کہ یہ شخص میرا دوست ہے خدا کی قدرت اور اس کا عالم الغیب ہونا ظاہر ہونا تھا کہ مولوی صاحب بچ گئے.خدا کی کتب میں نبی کے ماتحت امت کو عورت کہا جاتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ایک جگہ نیک بندوں کی تشبیہ فرعون کی عورت سے دی گئی ہے اور دوسری جگہ عمران کی بیوی سے مشابہت دی گئی ہے.اناجیل میں بھی مسیح کو دولہا اور امت کو دلہن قرار دیا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ امت کے واسطے نبی کی ایسی ہی اطاعت لازم ہے جیسی کہ عورت کو مرد کی اطاعت کا حکم ہے.اسی واسطے ہماری رؤیا میں عبد اللہ نے کہا کہ میری بیوی بیمار ہے.ایک رؤیا کی تعبیر عبد اللہ نبی کا نام ہے.قرآن شریف میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عبد اللہ آیا ہے.مٹھن سے مراد وہ لذت اور راحت صحت کی ہے جو بیماری کی تلخی کے بعد نصیب ہوتی ہے مقبول سے مراد ہے کہ دعا قبول ہوگئی.یہ سب گہرے استعارات ہیں اور تمثلات ہیں.جب تک آسمان پر نہ ہو زمین پر کچھ ہو نہیں سکتا.مولوی صاحب کا اس بیماری سے صحت پانا ایک بڑا معجزہ ہے.مطالعہ کتب کی تلقین سب دوستوں کے واسطے ضروری ہے کہ ہماری کتب کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھ لیا کریں.کیونکہ علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے شجاعت پیدا ہوتی ہے.جس کو علم نہیںہوتا مخالف کے سوال کے آگے حیران ہوجاتا ہے.مولوی محمد حسین بٹالوی کے متعلق ایک رؤیا بٹالوی کا ذکر تھا.ایک دوست نے عرض کی کہ کہیں مرنے کے وقت توبہ

Page 233

کرے گا؟ فرمایا.اللہ تعالیٰ ہر شے پر غالب ہے.ایک وہ زمانہ تھا کہ ہماری جوتیاں جھاڑ کر آگے رکھتا تھا.ہم کو وضو کرانا ایک بڑا ثواب جانتا تھا.براہین کا ریویو اس نے خود بخود لکھا ہماری درخواست نہ تھی.تعجب نہیں کہ وہ کسی وقت پہلی حالت پر پھر لوٹ آئے جیسا کہ ہم رؤیا میں دیکھ چکے ہیں.بعض خوابیں مدت کے بعد پوری ہوتی ہیں.یہ رؤیا چھپ چکا ہے جس میں میں نے دیکھا تھا کہ وہ ایک چھوٹا لڑکا ہے ننگا، رنگ سیاہ اور بد شکل ہے.میں نے اس کو اشارہ سے بلایا تب وہ آیا اور میرے گلے لگا اورپورے قد کا ہوگیا اور اس پر لباس بھی ہے اور رنگ سفید ہے.تب میں نے کہا کہ آپ کا ہمارا اس قدر مقابلہ رہا ممکن ہے کہ قلم سے یا زبان سے کوئی سخت لفظ نکل گیا ہو تم بخش دو.اس نے کہا اچھا میں نے بخشا.تب میں نے کہا کہ تم نے جو ایذا ہم کو دی تھی وہ بھی ہم نے بخش دی.تب ہم نے اس کی دعوت کی جس کو اس نے کچھ تردّد کے بعد قبول کیا اور ایک شخص جان کندن میں ہے تب میں نے کہا کہ یہ مقدّر تھا کہ جس دن یہ شخص مرے اس دن تم توبہ کرو.انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہے آج کے الہام مَسِیْـرُ الْعَـرَبِ کا ذکر تھا.فرمایا.اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ عرب میں چلنا.شاید مقدر ہو کہ ہم عرب میں جائیں.مدت ہوئی کہ کوئی پچیس چھبیس سال کا عرصہ گذرا ہے ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص میرا نام لکھ رہا ہے تو آدھا نام اس نے عربی میں لکھا ہے اور آدھا انگریزی میں لکھا ہے.انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہے.لیکن بعض رؤیا نبی کے اپنے زمانہ میں پورے ہوتےہیں اور بعض اولاد یاکسی متبع کے ذریعے سے پورے ہوتے ہیں.مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قیصر و کسریٰ کی کنجیاں ملی تھیں تو وہ ممالک حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فتح ہوئے.۱

Page 234

۱۲ستمبر ۱۹۰۵ء الہام اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ آج کے الہام اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کا ذکر تھا.فرمایا.بڑے بڑے مکفرین اور ایذا دہندہ جو ہیں ان کو خدا تعالیٰ ہمارے سامنے ہی اس زمین سے ناکام اٹھا رہا ہے اور ان کی مرادوں کے برخلاف دن بدن اس سلسلہ کو ترقی دے رہا ہے.ابتدا میں جن لوگوں نے بہت زور شور سے مخالفت کا بیڑا اٹھا یا تھا ان میں سے کوئی چودہ پندرہ ایسے یاد ہیں جو ہماری مخالفت کے معاملہ میں ناکام مر چکے ہیں.ان میں سے مولوی غلام دستگیر قصوری تھا جو مکہ سے کفر کا فتویٰ لایا تھا.نواب صدیق حسن خاں.لکھو کے کا مولوی محمد اور عبد الحئی.رشید احمد گنگوہی.لدھیانہ کے تین مولوی.سید احمد خاں جو کہتا تھا کہ ہماری تحریریں بے فائدہ ہیں.محمد عمر.مولوی شاہ دین لدھیانوی.نذیر حسین دہلوی.محمد حسین بھینی.مولوی محمد اسماعیل علیگڈھی.رسل بابا امرتسری.جس نے جلدی معجزہ دیکھنا ہو اسے چاہیے کہ دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کرے یا تو سخت مخالف بنے یا محبت کا کمال تعلق پیدا کرے.اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو تیری اہانت کرے گا اس کی میں اہانت کروں گا اور جو تیری اعانت کرے گا اس کی میں اعانت کروں گا.معمولی طور مخالفت کرنے والا اور اپنے کاروبار میں چلنے پھرنے والا ماخوذ نہیں ہوتا کیونکہ خدا حلیم اور کریم ہے وہ اس طرح نہیں پکڑتا.کذبِ باری تعالیٰ کا مسئلہ بعض لوگوں کا اعتقاد ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰعَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (الاحقاف:۳۴) ہے اس واسطے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ جھوٹھ بولے.ایسا اعتقاد بے ادبی میں داخل ہے.ہر ایک امر جو خدا تعالیٰ کے وعدہ اس کی ذات جلال اور صفات کے بر خلاف ہے وہ اس کی طرف منسوب کرنا بڑا گناہ ہے.جو امر اس کی

Page 235

صفات کے بر خلاف ہے ان کی طرف اس کی توجہ ہی نہیں.ادریس علیہ السلام کا آسمان پر جانا صدیق حسن خاں نے ادریسؑ کے آسمان پر جانے کی تکذیب کی ہے اور لکھا ہے کہ اگر وہ آسمان پر گیا تو اس کی موت کس طرح سے ہوگی کیونکہ سب کا مرنا زمین پر ضروری ہے تعجب ہے کہ مسیح کے معاملہ میں یہ بات اس کو سمجھ نہیں آئی.اگر خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو موت نہیں دی اور ویسے ہی آسمان پر اٹھا لیا ہے تو لفظ رفع کا قرآن شریف میں کافی تھا.رفع سے پہلے توفّی کے لفظ لانے کی پھر کوئی ضرورت نہ تھی آسمان پر جانے کا مفہوم تو لفظ رفع سے ہی پوری طرح نکل سکتا تھا.غالی اہل تشیع کے ایک عقیدہ کی تردید بعض اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ امام حسین آنحضرتؐسےافضل ہیں اور اس پر دلیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ امام حسین کو شہادت کا درجہ ملا جو آنحضرتؐکو نہ ملا تھا.یہ ایک غلط خیال ہے کیونکہ شہادت صرف امام حسین کو نصیب نہیں ہوئی بلکہ ہزارہا اصحاب کو ہوئی.اس میں سب برابر ہیں اور آنحضرتؐکا کسی کے ہاتھ سے قتل نہ کیا جانا ایک بڑا بھاری معجزہ ہے اور قرآن شریف کی صداقت کا ثبوت ہے کیونکہ قرآن شریف کی یہ پیشگوئی ہے کہ وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ(المآئدۃ:۶۸) اور پہلی کتابوں میں یہ پیشگوئی درج تھی کہ نبی آخر زمان کسی کے ہاتھ سے قتل نہ ہوگا.علاوہ ازیں فضیلت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ثابت ہوتا ہے.خدا کی پاک کتاب نے آنحضرتؐکو سب سے افضل قرار دیا.امام حسین نے کہیں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں سب سے افضل ہوں.نہ ان کی کسی تحریر سے اور نہ کسی تقریر سے ایسی بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ تمام امت سے افضل ہیں.اور اگر ان کا کوئی ایسا دعویٰ ہوتا تب بھی ماننے کے قابل نہ تھا کیونکہ قرآن شریف کے بر خلاف تھا.امام حسین کی شہادت سے بڑھ کر حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب کی شہادت ہے جنہوں نے صدق اور وفا کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا اور جن کا تعلق شدید بوجہ استقامت سبقت لے گیا تھا.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ

Page 236

لوگوں کے مراتب اور درجات کیا ہیں؟ اسی نے مجھے الہام کیا ہےکہ اِنِّيْ فَضَّلْتُكَ عَلَى الْعٰلَمِيْنَ.اگر سارا زمانہ ایک طرف ہو جاوے اور میں اکیلا ایک طرف رہ جاؤں تب بھی خدا کے الہام کے بالمقابل کسی کا کہنا نہیں مان سکتا.اگر امام حسین کو یہ وحی ہوئی تھی کہ وہ قیامت تک سب سے افضل ہیں تو دوسری وحی اسی خدا نے اس کے برخلاف مجھے کس طرح سے کر دی؟ اگر یہ وحی شیطانی ہے تو دن رات خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت اس کے ساتھ کیوں ہے؟ عجب خدا ہے جو پچیس تیس سال سے مفتری کو مہلت دیتا ہے بلکہ دن بدن اس کے سلسلہ کو ترقی دیتا ہے اور اس کے مخالفوں کو ہلاک کرتا ہے.اس طرح سارے انبیاء کی صداقت پر شبہ پڑ سکتا ہے.افترا اور کذب تو ایک مکروہ اور غیر طبعی امر ہے.انسان کب تک اس کو اختیار کر سکتا ہے.ہمارے دشمن تو ہمیشہ منتظر رہتے ہیں کہ یہ اب مارے گئے اور اب ہلاک ہوئے مگر ہر دفعہ ان کو ندامت اٹھانی پڑتی ہے ہر طرح سے ایذا دیتے ہیں قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں.ہمارے قتل کے جواز کے فتوے دیتے ہیں.خون کے مقدمات بناتے ہیں مگر خدا ہر امر میں بقول ان کے کاذب کی طرفداری کرتا ہے.ہماری دشمنی کے سبب ان کی شریعت بھی بدل گئی.خدا جو صادق کا معاون ہوا کرتا تھا اب ان کے نزدیک کاذب کا معاون ہونے لگا.یہ عداوت ان کو کشاں کشاں کہاں لے جائے گی؟ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ عناد ان کو رفتہ رفتہ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کے حلقہ سے باہر نکال دے گا.صادق کے لیے ایک امر ما بہ الامتیاز ہوتا ہے اگر وہ نہیں تو انبیاء کی صداقت مشتبہ ہو جاتی ہے.۱ ۱۳؍ستمبر ۱۹۰۵ء اس زمانہ کے لوگوں کی حالت فرمایا.اگر بعض لوگ خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے دعا کی تھی تو بارش ہوگئی.مگر ان کی یہ دعائیں قابل قدر نہیں

Page 237

ہیں کیونکہ یہ صرف مصیبت کے وقت کا رونا ہے اور مصیبت کے ذرا ہٹنے کے بعد پھر وہی سخت دلی ان میں پائی جاتی ہے.اس بارش پر بھی خوش نہیں ہونا چاہیے.جو بات الہام الٰہی سے ہم کو معلوم ہوئی ہے وہ یہی ہے کہ اس زمانہ کے لیے دن خیر کے نہیں ہیں اور یہ سچ ہے کہ اگر خدا ان بلاؤں کو نازل نہ کرے تو پھر دین کی خیر نہیں.تین قسم کے لوگ ہیں.خواص، اوسط درجہ کے لوگ اور عوام.خواص تو دہریہ مذہب بن رہے ہیں.ان کو دین کی کچھ پروا نہیں بلکہ دین پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں.اوسط درجہ کے لوگ خواص کے تابع ہیں.عوام مثل وحشیوں کے ہیں.تمام دنیا کی حالت اس وقت بگڑی ہوئی ہے.مقدمہ والے ہیں تو جھوٹھے گواہوں کے بنانے میں مصروف ہیں.زمیندار ہے تو شریعت کو چھوڑ بیٹھا ہے.ملازم ہے تو اپنی ملازمت کے حقوق ادا نہیں کرتا.تاجر ہے تو اپنی تجارت میں قسما قسم کے دھوکھوں میں مصروف ہے.جب تک لوگ تقویٰ اختیار نہیں کریں گے خدا ہرگز ان پر راضی نہ ہوگا اور نہ یہ بلائیں ان کے سر سے ٹلیں گی.۱ ۱۶؍ستمبر ۱۹۰۵ء حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے بارہ میں ایک دوست کا خواب شیخ نور احمد صاحب جالندھر سے اور منشی نبی بخش صاحب کوئٹہ سے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے.شیخ نور احمد صاحب نے اپنا ایک خواب عرض کیا کہ میں نے دیکھا کہ مولوی عبد الکریم صاحب مسجد میں کھڑے ہیں اور وعظ کرتے ہیں اور یہ آیت پڑھتے ہیں اُولٰٓىِٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(البقرۃ:۶) فرمایا.اس سے بظاہر مولوی صاحب کی صحت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے.واللہ اعلم فرمایا.یہ مرض مہلک ہے اور آثار مرض بھی خطرناک ہیں.لیکن دعا بہت کی گئی ہے.سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جب وہ چاہتا ہے ایک تنکے سے شفا ہو جاتی ہے اور جب وہ نہیں چاہتا لاکھ دوائی بے سود ہے.

Page 238

ہم سب کے واسطے دعا کرتے ہیں میاں نبی بخش صاحب نے عرض کی ہے کہ ایک ہندو نے مجھے تاکید کی تھی کہ میرے واسطے حضرت سے دعا کرائیں.فرمایا.ہندو یا کسی اور مذہب کا آدمی جو دعا کے واسطے درخواست کرے ہم سب کے واسطے دعا کرتے ہیں.ذکر آیا ایک شخص نے اپنے بیٹے کا نام استغفر اللہ رکھا ہے.فرمایا.اچھا ہے جتنی دفعہ اس کو بلائے گا خدا تعالیٰ سے استغفار کرتا رہے گا.قریب رہنے والے ہمیشہ نشانات دیکھتے رہتے ہیں مولوی نور الدین صاحب کے صاحبزادہ عبد الحئی کا ذکر تھا کہ اس کے متعلق پہلے سے خبر دی تھی.فرمایا.اجنبی دشمن اور دور رہنے والا کیا حاصل کر سکتا ہے جو لوگ قریب رہتے ہیں وہ ہمیشہ نشانات دیکھتے رہتے ہیں.پاس رہنے والے تو آپ بیتی کے نشان بھی دیکھ لیتے ہیں.اِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيْمٌ صبح ایک دوست نے عرض کی میرے گھر سے خبر آئی ہے کہ تمہارا لڑکا سخت بیمار ہے جلد آؤ مگر بیماری کی تفصیل نہیں.حضور دعا فرماویں.فرمایا.میں دعا کروں گا.لیکن بعض دفعہ عورتیں صرف بلانے کے واسطے بھی ایسا لکھ دیا کرتی ہیں.چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم اس جگہ قادیان میں تھے کہ میر ناصر نواب صاحب کے گھر سے خط آیا کہ والدہ اسحاق فوت ہوگئی ہیں اور اسحاق بھی قریب المرگ ہے.یہ خط اسحاق کے بھائی کا لکھا ہوا تھا جو اس وقت بہت چھوٹی عمر کا تھا.میں اس خط کو پڑھ کر بہت پریشان ہوا.کیونکہ اس وقت ہمارے گھر میں بیمار تھے بخار چڑھا ہوا تھا.ایسی حالت میں ان کو والدہ کی وفات کی خبر سنانا ہرگز مناسب نہ تھا.میں اسی فکر میں تھا کہ الہام ہوا اِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيْمٌ جس سے میں نے سمجھ لیا کہ یہ صرف بلانے کا بہانہ ہے ورنہ دراصل خیر ہے.اس وقت مولوی عبد الکریم صاحب اس جگہ تھے ان کو سنایا گیا اور حافظ حامد علی کو بھی سنایا گیا اور اسی کو وہاں بھیجا گیا تو بات وہی نکلی جو خدا نے بذریعہ

Page 239

الہام ہم کو بتلائی تھی.شیخ نور احمد صاحب نے عرض کی کہ اس دن میں بھی اسی جگہ تھا اور اس واقعہ کا گواہ ہوں.۱ (قبل دوپہر) بینکوں کا سود اشاعت اسلام کے لیے خرچ کرنا جائز ہے جب سے حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کی طبیعت ناساز ہوئی ہے اور نیز اکثر احباب رخصت لے کر آئے ہیں.اعلیٰ حضرت کا معمول سا ہوگیا ہے کہ قبل دوپہر تشریف لا کر مسجد میں بیٹھتے ہیں اور مناسب موقع کلام فرماتے ہیں.۱۴؍ستمبر کو شیخ نور احمد صاحب جالندھری، چودہری نصر اللہ خان صاحب پلیڈر سیالکوٹ سے آئے ہوئے تھے.اور بھی کئی احباب بیرونجات سے آئے ہوئے تھے.شیخ نور احمد صاحب نے بینک کے سود کے متعلق تذکرہ کیا کہ بینک والے ضرور سود دیتے ہیں.۲ پھر اسے کیا کیا جاوے؟ اس پر فرمایا.ہمارا یہی مذہب ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہی ہمارے دل میں ڈالا ہے کہ ایسا روپیہ اشاعت دین کے کام میں خرچ کیا جاوے.یہ بالکل سچ ہے کہ سود حرام ہے لیکن اپنے نفس کے واسطے اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں جو چیز جاتی ہے وہ حرام نہیں رہ سکتی.کیونکہ حرمت اشیاء کی انسان کے لیے ہے نہ اللہ تعالیٰ کے واسطے.پس سود اپنے نفس کے لیے، بیوی بچوں، احباب، رشتہ داروں اور ہمسایوں کے لئےبالکل حرام ہے.۳ لیکن اگر یہ روپیہ خالصۃً اشاعت دین کے لیے خرچ ہو تو ہرج

Page 240

نہیں ہے.خصوصاً ایسی حالت میں کہ اسلام بہت کمزور ہوگیا ہے اور پھر اس پر دوسری مصیبت یہ ہے کہ لوگ زکوٰۃ بھی نہیں دیتے.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت دو مصیبتیں واقع ہو رہی ہیں اور دو حرمتیں روا رکھی گئی ہیں.اول یہ کہ زکوٰۃ جس کے دینے کا حکم تھا وہ دیتے نہیں اور سود جس کے لینے سے منع کیا تھا وہ لیتے ہیں.یعنی جو خدا تعالیٰ کا حق تھا وہ تو دیا نہیں اور جو اپنا حق نہ تھا اسے لیا گیا.۱ جب ایسی حالت ہو رہی ہے اور اسلام خطرناک ضعف میں مبتلا ہے تو میں یہی فتویٰ دیتا ہوں کہ ایسے سودوں کی رقمیں جو بینک سے ملتا ہے یک مشت اشاعت دین میں خرچ کرنی چاہئیں.میں نے جو فتویٰ دیا ہے وہ عام نہیں ہے ورنہ سود کا لینا اور دینا دونو حرام ہیں.مگر اس ضعف اسلام کے زمانہ میں جبکہ مالی ترقی کے ذریعے پیدا نہیں ہوئے اور مسلمان توجہ نہیں کرتے ایسا روپیہ اسلام کے کام میں لگنا حرام نہیں ہے.قرآن شریف کے مفہوم کے موافق جو حرمت ہے وہ یہی ہے کہ وہ اپنے نفس کے لیے اگر خرچ ہو تو حرام ہے.یہ بھی یاد رکھو جیسے سود اپنے لیے درست نہیں کسی اورکو اس کا دینا بھی درست نہیں.ہاں خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ایسے مال کا دینا درست ہے اور اس کا یہی طریق ہے کہ وہ صرف اشاعت اسلام میں خرچ ہو.اس کی ایسی مثال ہے جیسے جہاد ہو رہا ہو اور گولی بارود کسی فاسق فاجر کے ہاں ہو اس وقت محض اس خیال سے رک جانا کہ یہ گولی بارود مال حرام ہے ٹھیک نہیں.۲بلکہ مناسب یہی

Page 241

ہوگا کہ اس کو خرچ کیا جاوے.اس وقت تلوار کا جہاد تو باقی نہیں رہا اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں ایسی گورنمنٹ دی ہے جس نے ہر ایک قسم کی مذہبی آزادی عطا کی ہے.اب قلم کا جہاد باقی ہے اس لیے اشاعت دین میں ہم اس کو خرچ کر سکتے ہیں.موجودہ مسلمانوں کی حالت مسلمانوںکی عام حالت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.مسلمانوں کی حالت بہت خراب ہوگئی ہے.ہر ایک قسم کی علمی اور عملی کمزوریاں ان میں آگئی ہیں.ہر قسم کے فسق و فجور میں مبتلا ہیں.جرائم پیشہ والے کثرت کے ساتھ مسلمان ہیں.جیل خانوں میں جا کر دیکھو جس قدر شدید اور سنگین جرائم ہیں ان کے مرتکب مسلمان نظر آئیں گے.اب یہ کس قدر عار کی بات ہے.غرباء سے ہمدردی اور حقوق العباد کی ادائیگی کی تلقین زکوٰۃ کیا ہے؟ تُؤْخَذُ مِنَ الْاُمَرَاءِ وَ تُرَدُّ اِلَی الْفُقَرَاءِ.امراء سے لے کر فقراء کو دی جاتی ہے.اس میں اعلیٰ درجہ کی ہمدردی سکھائی گئی تھی.اس طرح سے باہم گرم سرد ملنے سے مسلمان سنبھل جاتے ہیں.امراء پر یہ فرض ہے کہ وہ ادا کریں.اگر نہ بھی فرض ہوتی تو بھی انسانی ہمدردی کا تقاضا تھا کہ غرباء کی مدد کی جاوے.مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ہمسایہ اگر فاقہ مرتا ہو تو پروا نہیں اپنے عیش و آرام سے کام ہے.جو بات خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے میں اس کے بیان کرنے سے نہیں رک سکتا.اگر کسی کا ہمسایہ فاقہ میں ہو تو اس کے لیے شرعاً حج جائز نہیں.مقدم ہمدردی اور اس کی خبرگیری ہے کیونکہ حج کے اعمال بعد میں آتے ہیں مگر آجکل عبادات کی اصل غرض اور مقصد کو ہرگز مد نظر نہیں رکھا جاتا بلکہ عبادات کو رسوم کے رنگ میں ادا کیا جاتا ہے اور وہ نری رسمیں ہی رہ گئی ہیں.یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں حاجیوں کے متعلق بدظنیاں پیدا ہوئی ہوئی ہیں.کہتے ہیں ایک اندھی عورت بیٹھی تھی کوئی شخص آیا اور اس کی چادر چھین کر لے گیا وہ عورت چلائی کہ بچہ! حاجیا! میری چادر دے جا.اس نے اس کو پوچھا کہ مائی تو یہ تو بتا کہ یہ کیونکر تجھے معلوم ہوا کہ میں حاجی ہوں.اس نے کہا تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ ایسے کام حاجی ہی کرتے ہیں

Page 242

پس اگر ایسی ہی حالت ہو تو پھر ایسے حج سے کیا فائدہ؟ حج میں قبولیت ہو کیونکر؟ جبکہ گردن پر بہت سے حقوق العباد ہوتے ہیں ان کو تو ادا کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشّمس:۱۰) فلاح نہیں ہوتی جب تک نفس کو پاک نہ کرے اور نفس تب ہی پاک ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے احکام کی عزت اور ادب کرے اور ان راہوں سے بچے جو دوسرے کے آزار اور دکھ کا موجب ہوتی ہیں.انسان میں ہمدردی اعلیٰ درجہ کا جوہر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ( اٰل عـمران: ۹۳) یعنی تم ہرگز ہرگز اس نیکی کو حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی پیاری چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو.یہ طریق اللہ کو راضی کرنے کا نہیں کہ مثلاً کسی ہندو کی گائے بیمار ہو جاوے اور وہ کہے کہ اچھا اس کو مَنس دیتے ہیں.۱ بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ باسی اور سڑی بُسی روٹیاں جو کسی کام نہیں آسکتی ہیں فقیروں کو دے دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے خیرات کر دی ہے.ایسی باتیں اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں اور نہ ایسی خیرات مقبول ہو سکتی ہے.وہ تو صاف طور پر کہتا ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ.حقیقت میں کوئی نیکی نیکی نہیں ہو سکتی جب تک اپنے پیارے مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کے دین کی اشاعت اور اس کی مخلوق کی ہمدردی کے لیے خرچ نہ کرو.(اس موقع پر ایک بھائی نے عرض کی کہ حضور بعض فقیر بھی کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی باسی روٹی دے دو.پھٹا پرانا کپڑا دے دو.وہ مانگتے ہی پرانا اور باسی ہیں.) فرمایا.کیا تم نئی دے دو گے؟ وہ کیا کریں جانتے ہیں کہ کوئی نئی نہیں دے گا اس لیے وہ ایسا سوال کرتے ہیں.جہاں تک ہو سکے مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور شفقت کرو.یاد رکھو شریعت کے دو ہی قسم کے حقوق ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد.مگر میں جانتا ہوں اگر کوئی بد قسمت نہ ہو تو حقوق اللہ پر قائم ہونا سہل ہے اس لیے کہ وہ تم سے کھانے کو نہیں مانگتا اور کسی قسم کی ضرورت اسے نہیں وہ تو صرف یہی چاہتا ہے کہ تم اسے وحدہٗ لاشریک خدا سمجھو.اس کی صفات کاملہ پر ایمان لاؤ اور اس کے مرسلوں پر ایمان لا کر ان کی اتباع کرو.لیکن حقوق العباد میں آکر مشکلات پیدا ہوتی ہیں جہاں نفس

Page 243

دھوکہ دیتا ہے.ایک بھائی کا حق ہے اور اس کے دبا لینے کا فتویٰ دیتا ہے.مقدمات ہوتے ہیں تو چاہتا ہے کہ شریک کو ایک حبّہ نہ ملے سب کچھ مجھ ہی کو مل جاوے.غرض حقوق العباد میں بہت مشکلات ہیں.اس لیے جہاں تک ہو سکے اس کی بڑی رعایت اور حفاظت کرنی چاہیے.ایسا نہ ہو کہ آدمی دوسرے کے حقوق تلف کرنے والا ٹھیرے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے ملتا ہے جس کے لیے دعا کی بڑی ضرورت ہے.جاپانیوں کے لیے ایک جامع کتاب کی ضرورت ہے یہاں تک آپ نے بیان فرمایا تھا کہ اور احباب تشریف لے آئے.حضرت حکیم الامت بھی آگئے.اس لیے سلسلہ کلام بند کر دیا اور پھر آپ نے مکرراً مسئلہ سود بینک کے متعلق فرمایا جو میں اوپر درج کر آیا ہوں.زاں بعد جاپان اور اشاعت اسلام کے مضمون پر سلسلہ کلام شروع ہوگیا.جس کا مفہوم درج ذیل ہے.(ایڈیٹر) مجھے معلوم ہوا ہے کہ جاپانیوں کو اسلام کی طرف توجہ ہوئی ہے اس لیے کوئی ایسی جامع کتاب ہو جس میں اسلام کی حقیقت پورے طور پر درج کر دی جاوے گویا اسلام کی پوری تصویر ہو جس طرح پر انسان سراپا بیان کرتا ہے اور سر سے لے کر پاؤں تک کی تصویر کھینچ دیتا ہے.۱ اسی طرح سے اس کتاب میں اسلام کی خوبیاں دکھائی جاویں.اس کی تعلیم کے سارے پہلوؤں پر بحث ہو اور اس کے ثمرات اور نتائج بھی دکھائے جاویں.اخلاقی حصہ الگ ہو اور ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا جاوے.

Page 244

یہ قلم کے جہاد کا زمانہ ہے فرمایا.میرے نزدیک تو یہ ضرورت ایسی ضرورت ہے کہ جس شخص پر حج فرض ہے اسے بھی چاہیے کہ وہ اپنا روپیہ اس دینی جہاد میں صرف کر دے.ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچوں نمازیں اکٹھی پڑھنی پڑی تھیں.لیکن اب چونکہ تلوار کا جہاد نہیں بلکہ صرف قلم کا جہاد رہ گیا ہے اس لیے اسی ذریعہ سے اس میں ہمت، وقت اور مال کو خرچ کرنا چاہیے.خوب سمجھ لو کہ اب مذہبی لڑائیوں کا زمانہ نہیں.اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جو لڑائیاں ہوئی تھیں اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ جبراً مسلمان بنانا چاہتے تھے بلکہ وہ لڑائیاں بھی دفاع کے طور پر تھیں.جب مسلمانوں کو سخت دکھ دیا گیا اور مکہ سے نکال دیا گیا اور بہت سے مسلمان شہید ہو چکے تب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اسی رنگ میں ان کا مقابلہ کرو.پس وہ حفاظت خود اختیاری کے رنگ میں لڑائیاں کرنی پڑیں مگر اب وہ زمانہ نہیں ہے ہر طرح سے امن اور آزادی ہے.ہاں اسلام پر جو حملے ہوتے ہیں وہ قلم کے ذریعہ ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ قلم ہی کے ذریعہ ان کا جواب دیا جاوے.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک مقام پر فرماتا ہے کہ جس قسم کی طیاریاں تمہارے مخالف کرتے ہیں تم بھی ویسی ہی طیاریاں کرو.اب کفار کی طیاریاں جو اسلام کے خلاف ہو رہی ہیں ان کو دیکھو وہ کس قسم کی ہیں؟ یہ نہیں کہ وہ فوجیں جمع کرتے ہوں.نہیں بلکہ وہ تو طرح طرح کی کتابیں اور رسالے شائع کرتے ہیں.۱ اس لیے ہمارا

Page 245

یہی فرض ہے کہ ہم بھی ان کے جواب میں قلم اٹھائیں اور رسالوں اور کتابوں کے ذریعہ ان کے حملوں کو روکیں.یہ نہیں ہو سکتا کہ بیماری کچھ ہو اور علاج کچھ اور کیا جاوے.اگر ایسا ہو تو اس کا نتیجہ ہمیشہ غیر مفید اور برا ہو گا.یقیناً یاد رکھو کہ اگر ہزاروں ہزار جانیں بھی ضائع کر دی جائیں اور اسلام کے خلاف کتابوں کا ذخیرہ بدستور موجود ہو تو اس سے کچھ بھی فائدہ نہیں ہو سکتا.اصل یہی بات ہے کہ ان کتابوں کے اعتراضوں کا جواب دیا جاوے.پس ضرورت اس امر کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پاک کیا جاوے.مخالفوں کی طرف سے جو کارروائی ہو رہی ہے اس کا انسداد بجز قلم کے نہیں ہو سکتا.یہ نری خام خیالی اور بیہودگی ہے جو مخالف تو اعتراض کریں اور اس کا جواب تلوار سے ہو.خدا تعالیٰ نے کبھی اس کو پسند نہیں کیا.یہی وجہ تھی جو مسیح موعود کے وقت میں اس قسم کے جہاد کو حرام کر دیا.اس ملک میں تو عیسائیوں کی ایسی تحریریں شائع ہوتی ہی رہتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ فتنہ اسی ملک میں ہے مگر معلوم ہوا ہے کہ دوسرے ملکوں میں بھی اس قسم کی شرارتیں ہو رہی ہیں.مصر اور بلادِ شام

Page 246

بیروت وغیرہ میں بھی ایسی تحریریں شائع کی جاتی ہیں یہاں تک کہ لغت تک کی کتابوں میں شرارتیں کی جاتی ہیں.اس مقام پر حضرت حکیم الامت نے عرض کیا کہ حضور فقہ اللغۃ ثعلبی کی ایک کتاب ہے اسے عیسائیوں نے چھاپا ہے.اس مٰں الحمد للہ و الصلوٰۃ لالہ لکھ دیا اور آنحضرتﷺ کا نام ہی نکال دیا ہے.یہاں تک دشمنی مدّ نظر ہے.پھر جاپان میں اشاعت اسلام کے سلسلہ پر فرمایا.میں دوسری کتابوں پر جو لوگ اسلام پر لکھ کر پیش کریں بھروسہ نہیں کرتا کیونکہ ان میں خود غلطیاں پڑی ہوئی ہیں.ان غلطیوں کو ساتھ رکھ کر اسلام کے مسائل جاپان یا دوسری قوموں کے سامنے پیش کرنا اسلام پر ہنسی کرانا ہے.اسلام وہی ہے جو ہم پیش کرتے ہیں.ہاں اشاعت اسلام کے لیے روپیہ کی ضرورت ہے اور اس پر اگر وہ روپیہ جو بینکوں کے سود سے آتا ہے خرچ کیا جاوے تو جائز ہے کیونکہ وہ خالص خدا کے لیے ہے.خدا تعالیٰ کے لیے وہ حرام نہیں ہے.جیسے میں نے ابھی کہا ہے کہ کسی جگہ کا سکہ و بارود ہو وہ جہاد میں خرچ کرنا جائز ہے.یہ ایسی باتیں ہیں کہ بلا تکلف سمجھ میں آجاتی ہیں کیونکہ بالکل صاف ہیں.اللہ تعالیٰ نے سؤر کو حرام کیا ہے لیکن بایں فرماتا ہے فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَيْهِ (البقرۃ:۱۷۴) جب اضطراری حالت میں محض اپنی جان بچانے کی خاطر سؤر کا کھانا جائز ہے تو کیا ایسی حالت میں کہ اسلام کی حالت بہت ضعیف ہو گئی ہے اور اس کی جان پر آ بنی ہے اس کی جان بچانے کے لیے محض اعلائے کلمہ اسلام کے لیے سود کا روپیہ خرچ نہیں ہو سکتا؟ میرے نزدیک یقیناً خرچ ہو سکتا ہے اور خرچ کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا ظاہر کرنا مقصود خاطر ہو فرمایا.دنیا تو ایسی ہے کہ کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد.اللہ تعالیٰ کا یہ ایک سر بستہ راز ہے جو کسی پر نہیں کھلا کہ موت کس وقت آجاوے.پھر جب موت آگئی تو سب مال و اسباب یہاں کا یہاں ہی رہ جاتا ہے اور بعض اوقات اس کے وارث وہ

Page 247

لوگ ہوتے ہیں جن کو اگر مرنے والا زندہ ہوتا تو ایک حبّہ بھی ان کو دینا پسند نہیں کرتا تھا.پھر کیسی غلطی ہے کہ انسان اپنے مال کو ایسی جگہ خرچ نہ کرے جو اس کے لیے ہمیشہ کے واسطے راحت اور آسائش کا موجب ہو جاوے.میں حیران ہوتا ہوں جب یورپ کی طرف دیکھتا ہوں کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنانے کے لیے ان میں اس قدر جوش اور سر گرمی ہے اور ہم میں خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے ظاہر کرنے کے لیے کچھ بھی نہ ہو.یہ کس قدر بد قسمتی ہے؟ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کر لیں.اگر اسے خوش کریں تو سب کچھ مل سکتا ہے.مگر ان کی یہی تو بد قسمتی ہے کہ وہ اس کو ناراض کر رہے ہیں.مجھے بہت ہی افسوس ہوتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں کو خدا نے ایک سچا دین اسلام عطا کیا تھا مگر انہوں نے اس کی قدر نہیں کی.خدا جانے یہ بے پروائی کیا نتیجہ پیدا کرے؟ دین کی کچھ بھی پروا اور غیرت نہیں.باہم اگر جنگ و جدل ہے تو اس میں شیخی، ریا، عُجب مقصود ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا جلال اور اس کی عظمت.لیکن جو شخص ہر امر میں اللہ تعالیٰ کو مقدم کرے اور اس کے دین کی حمیت اور غیرت میں ایسا محو ہو کہ ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اورجلال کا ظاہر کرنا اس کا مقصود خاطر ہو ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے دفتر میں صدیق کہلاتا ہے.ہم جس طریق پر اسلام کو پیش کر سکتے ہیں دوسرا نہیں کر سکتا.مگر مشکلات یہ ہیں کہ ہماری جماعت کا بہت بڑا حصہ غرباء کا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ باوجودیکہ یہ غرباء کی جماعت ہے تاہم میں دیکھتا ہوں کہ ان میں صدق ہے اور ہمدردی ہے اور وہ اسلام کی ضروریات سمجھ کر حتی المقدور اس کے لیے خرچ کرنے سے فرق نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ ہی کا فضل ساتھ ہو تو کام بنتا ہے اور ہم اس کے فضل کے امید وار ہیں.اللہ تعالیٰ اسلام کو تمام حملوں سے بچائے گا جس طرح پر ایک طوفان قریب آتا ہو تو انسان کو فکر ہوتا ہے کہ یہ طوفان تباہ کر دے گا اسی طرح پر اسلام پر طوفان آرہے ہیں.مخالف ہر وقت ان کوششوں میں لگے ہوئے ہیں

Page 248

لوگ ہوتے ہیں جن کو اگر مرنے والا زندہ ہوتا تو ایک حبّہ بھی ان کو دینا پسند نہیں کرتا تھا.پھر کیسی غلطی ہے کہ انسان اپنے مال کو ایسی جگہ خرچ نہ کرے جو اس کے لیے ہمیشہ کے واسطے راحت اور آسائش کا موجب ہو جاوے.میں حیران ہوتا ہوں جب یورپ کی طرف دیکھتا ہوں کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنانے کے لیے ان میں اس قدر جوش اور سر گرمی ہے اور ہم میں خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے ظاہر کرنے کے لیے کچھ بھی نہ ہو.یہ کس قدر بد قسمتی ہے؟ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کر لیں.اگر اسے خوش کریں تو سب کچھ مل سکتا ہے.مگر ان کی یہی تو بد قسمتی ہے کہ وہ اس کو ناراض کر رہے ہیں.مجھے بہت ہی افسوس ہوتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں کو خدا نے ایک سچا دین اسلام عطا کیا تھا مگر انہوں نے اس کی قدر نہیں کی.خدا جانے یہ بے پروائی کیا نتیجہ پیدا کرے؟ دین کی کچھ بھی پروا اور غیرت نہیں.باہم اگر جنگ و جدل ہے تو اس میں شیخی، ریا، عُجب مقصود ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا جلال اور اس کی عظمت.لیکن جو شخص ہر امر میں اللہ تعالیٰ کو مقدم کرے اور اس کے دین کی حمیت اور غیرت میں ایسا محو ہو کہ ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اورجلال کا ظاہر کرنا اس کا مقصود خاطر ہو ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے دفتر میں صدیق کہلاتا ہے.ہم جس طریق پر اسلام کو پیش کر سکتے ہیں دوسرا نہیں کر سکتا.مگر مشکلات یہ ہیں کہ ہماری جماعت کا بہت بڑا حصہ غرباء کا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ باوجودیکہ یہ غرباء کی جماعت ہے تاہم میں دیکھتا ہوں کہ ان میں صدق ہے اور ہمدردی ہے اور وہ اسلام کی ضروریات سمجھ کر حتی المقدور اس کے لیے خرچ کرنے سے فرق نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ ہی کا فضل ساتھ ہو تو کام بنتا ہے اور ہم اس کے فضل کے امید وار ہیں.اللہ تعالیٰ اسلام کو تمام حملوں سے بچائے گا جس طرح پر ایک طوفان قریب آتا ہو تو انسان کو فکر ہوتا ہے کہ یہ طوفان تباہ کر دے گا اسی طرح پر اسلام پر طوفان آرہے ہیں.مخالف ہر وقت ان کوششوں میں لگے ہوئے ہیں

Page 249

اس کے لیے ہر قسم کے سامان مہیا ہوجاتے ہیں اور وہ ترقی کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ بالکل اکیلے تھے اور اس بیکسی کی حالت میں دعویٰ کرتے ہیں يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا (الاعراف:۱۵۹) کون اس وقت خیال کر سکتا تھا کہ یہ دعویٰ ایسے بے یارو مددگار شخص کا بار آور ہوگا.پھر ساتھ ہی اس قدر مشکلات آپؐکو پیش آئے کہ ہمیں تو ان کا ہزارواں حصہ بھی نہیں آئے.وہ زمانہ تو ایسا زمانہ تھا کہ سکھا شاہی سے بھی بدتر تھا.اب تو گورنمنٹ کی طرف سے پورا امن اور آزادی ہےاس وقت ایک چالاک آدمی ہر قسم کی منصوبہ بازی سے جو کچھ بھی چاہتا دکھ پہنچاتا مگر مکہ جیسی جگہ میں اور پھر عربوں جیسی وحشیانہ زندگی رکھنے والی قوم میں آپؐنے وہ ترقی کی جس کی نظیر دنیا کی تاریخ پیش نہیں کر سکتی.مخالفوں میں سے ہی خدا کی مرضی پوری کرنے والے پاک دل نکلیں گے اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے کہ خود ان کی مذہبی تعلیم اور عقائد کے خلاف انہیں سنایا کہ یہ لات اور عزیٰ جن کو تم اپنا معبود قرار دیتے ہو یہ سب پلید اور حطبِ جہنم ہیں.اس سے بڑھ کر اور کون سی بات عربوں کی ضدی قوم کو جوش دلانے والی ہو سکتی تھی.لیکن انہیں عربوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نشو و نما پایا اور ترقی کی.انہیں میں سے حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) جیسے بھی نکل آئے.اس سے ہمیں امید ہوتی ہے کہ انہیں مخالفوں سے وہ لوگ بھی نکلیں گے جو خدا تعالیٰ کی مرضی کو پورا کرنے والے اور پاک دل ہوں گے اور یہ جماعت جو اس وقت تک طیار ہوئی ہے آخر انہیں میں سے آئی ہے.کئی دفعہ میر صاحب۱ نے ذکر کیا کہ دلّی سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے مگر میرے دل میں یہی آتا ہے کہ یہ بات درست نہیں.دلّی میں بھی بعض پاک دل ضرور چھپے ہوئے ہوں گےجو آخر اس طرف آئیں گے.اللہ تعالیٰ نے جو ہمارا تعلق دلّی سے کیا ہے یہ بھی خالی از حکمت نہیں.اللہ تعالیٰ سے ہم کبھی نا امید نہیں ہو سکتے.آخر خود میر صاحب بھی دلّی ہی کے ہیں.۲ غرض یہ کوئی نا امید ۱ میر ناصر نواب صاحبؓمراد ہیں.(ایڈیٹر) ۲ حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا.منشی عبد العزیز بابو محمد اسمٰعیل صاحب وغیرہ بھی دہلوی ہی ہیں.(ایڈیٹر)

Page 250

کرنے والی بات نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک اور کامل نمونہ ہمارے سامنے ہے کہ مکہ والوں نے کیسی مخالفت کی اور پھر اسی مکہ میں سے وہ لوگ نکلے جو دنیا کی اصلاح کرنے والے ٹھیرے.کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ابو بکر (رضی اللہ عنہ) انہیں میں سے تھے.وہ ابو بکر (رضی اللہ عنہ) جن کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابو بکر کی قدر و منزلت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس بات سے ہے جو اس کے دل میں ہے.پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں مکہ والوں میں سے تھے.حضرت عمرؓ بڑے بھاری مخالف تھے یہاں تک کہ ایک مرتبہ مشورہ قتل میں بھی شریک اور قتل کے لیے مقرر ہوئے لیکن آخر خدا تعالیٰ نے ان کو وہ جوش اظہار اسلام کا دیا کہ غیر قومیں بھی ان کی تعریف کرتیں اور ان کا نام عزت سے لیتی ہیں.غرض ہم کو وہ مشکلات پیش نہیں آئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آئے.باوجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے جب تک پورے کامیاب نہیں ہوگئے اور آپ نےاِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا (النصـر:۲،۳) کا نظارہ دیکھ نہیں لیا.آج ہمارے مخالف بھی ہر طرح کی کوشش ہمارے نابود کرنے کی کرتے ہیں.مگر خدا کا شکر ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے اور انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ جس قدر مخالفت اس سلسلہ کی انہوں نے کی ہے اسی قدر ناکامی اور نامرادی ان کے شامل حال رہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو بڑھایا ہے.یہ تو خیال کرتے اور رائے لگاتے ہیں کہ یہ شخص مرجاوے گا اور جماعت متفرق ہو جاوے گی.یہ فرقہ بھی دوسرے فرقہ برہموؤں وغیرہ کی طرح ہے کہ جن میں کوئی کشش نہیں ہے اس لیے اس کے ساتھ ہی اس کا خاتمہ ہو جاوے گا مگر وہ نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ نے خود ارادہ فرمایا ہے کہ اس سلسلہ کو قائم کرے اور اسے ترقی دے.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے فرقے نہ تھے؟ اس وقت ان کے مخالف بھی یہی سمجھتے ہوں گے کہ بس اب ان کا خاتمہ ہے لیکن خدا نے ان کو کیسا نشو و نما دیا اور پھیلایا.ان کو

Page 251

سوچنا چاہیے کہ اگر کوئی فرقہ تھوڑی سی ترقی کر کے رک جاتا ہے تو کیا ایسے فرقوں کی نظیر موجود نہیں جو عالم پر محیط ہوجاتے ہیں.اس لیے اللہ تعالیٰ کے ارادوں پر نظر کر کے حکم کرنا چاہیے.جو لوگ رہ گئے اور ان کی ترقی رک گئی ان کی نسبت ہم یہی کہیں گے کہ وہ اس کی نظر میں مقبول نہ تھے.وہ اس کی نہیں بلکہ اپنی پرستش چاہتے تھے مگر میں ایسے لوگوں کو نظیر میں پیش کرتا ہوں جو اپنے وجود سے جل جاویں اور اللہ تعالیٰ ہی کی عظمت اور جلال کے خواہشمند ہوں.اس کی راہ میں ہر دکھ اور موت کے اختیار کرنے کو آمادہ ہوں.پھر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں تباہ کر دے؟ کون ہے جو اپنے گھر کو خود تباہ کردے؟ ان کا سلسلہ خدا کا سلسلہ ہوتا ہے اس لیے وہ خود اسے ترقی دیتا ہے اور اس کے نشو ونما کا باعث ٹھیرتا ہے.ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں ہوئے ہیں.کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ان میں سے کون تباہ ہوا؟ ایک بھی نہیں.اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مجموعی طور پر دیکھ لو کیونکہ آپ جامع کمالات تھے.ساری قوم آپ کی دشمن ہوگئی اور اس نے قتل کے منصوبے کئے مگر آپ کی اللہ تعالیٰ نے وہ تائید کی جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.ایک دفعہ اوائل دعوت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری قوم کو بلایا.یہ ابوجہل وغیرہ سب ان میں شامل تھے.۱ اہل مجمع نے سمجھا تھا کہ یہ مجمع بھی کسی دنیوی مشورہ کے لیے ہوگا.لیکن جب ان کو اللہ تعالیٰ کے آنے والے عذاب سے ڈرایا گیا تو ابو جہل۲ بول اٹھا تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْیَوْمِ اَلِھٰذَا جَـمَعْتَنَا.غرض باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ صادق اورامین سمجھتے تھے مگر اس موقع پر انہوں نے خطرناک مخالفت کی اور ایک آگ مخالفت کی بھڑک اٹھی.لیکن آخر آپ کامیاب ہوگئے اور آپ کے مخالف سب نیست و نابود ہوگئے.ہاں حضرت اقدس نے وہ سارا واقعہ بیان فرمایا.(ایڈیٹر) ۲ ابو لہب نے یہ بات کہی تھی.غالباً ڈائری نویس یا کاتب کی غلطی سے ابوجہل لکھا گیا ہے.(مرتّب)

Page 252

ترقی کرنے کے گُر فرمایا.لوگ چاہتے ہیں کہ ترقی ہو مگر وہ نہیں جانتے کہ ترقی کس طرح ہوا کرتی ہے.دنیاداران نے تو یہی سمجھ لیا ہے کہ یورپ کی تقلید سے ترقی ہوگی.مگر میں کہتا ہوں کہ ترقی ہمیشہ راستبازی سے ہوا کرتی ہے.اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے نمونہ رکھا ہوا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کا نمونہ دیکھو.ترقی اسی طرح ہوگی جیسے پہلے ہوئی تھی.اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ پہلے جو ترقی ہوئی وہ صلاح اور تقویٰ اور راستبازی سے ہوئی تھی.وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے جویا ہوئے اور اس کے احکام کے تابع ہوئے.اب بھی جب ترقی ہوگی اسی طرح ہوگی.سید احمد خاں قومی قومی کہتے تھے.مگر افسوس ہے کہ وہ ایک بیٹے کی بھی اصلاح نہ کر سکے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دعویٰ کرنا اور چیز ہے اور اس دعویٰ کی صداقت کو دکھانا اور بات.اصل یہی ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں سکھایا ہے.جب تک مسلمان قرآن شریف کے پورے متبع اور پابند نہیں ہوتے وہ کسی قسم کی ترقی نہیں کر سکتے.جس قدر وہ قرآن شریف سے دور جا رہے ہیں اسی قدر وہ ترقی کے مدارج اور راہوں سے دور جا رہے ہیں.قرآن شریف پر عمل ہی ترقی اور ہدایت کا موجب ہے.اللہ تعالیٰ نے تجارت، زراعت اور ذرائع معاش سے جو حلال ہوں منع نہیں کیا.مگر ہاں اس کو مقصود بالذات قرار نہ دیا جاوے بلکہ اس کو بطور خادمِ دین رکھنا چاہیے.زکوٰۃ سے بھی یہی منشا ہے کہ وہ مال خادمِ دین ہو.قومی ترقی کا راز خوب یاد رکھو کہ اصل طریق ترقی کا یہی ہے.جب تک قوم اللہ تعالیٰ کے لیے قدم نہیں اٹھاتی اور اپنے دلوں کو پاک و صاف نہیں کرتی کبھی ممکن نہیں کہ یہ قوم ترقی کر سکے.یہ خیال محض غلط ہے کہ صرف انگریزی پڑھنے اور انگریزی لباس پہننے اور شراب پینے اور فسق و فجور میں مبتلا ہونے سے ترقی ہو سکتی ہے.یہ تو ہلاک کرنے کی راہ ہے.نوح علیہ السلام کے زمانہ میں جو قوم رہتی تھی کیا وہ معاش اور آسائش کے سامان نہ رکھتے تھے؟ کیا وہ انگریزی ہی پڑھے ہوئے تھے؟ اسی طرح لوط علیہ السلام کے زمانہ میں بھی معاش کے ذریعے

Page 253

تھے.اس طرح اس زمانہ میں بھی معاش کے بعض ذریعے ہیں جن میں سے ایک یہ زبان بھی ہے جو معاش کا ذریعہ سمجھی گئی ہے لیکن وہ زبان جو خدا کی زبان ہے اسے اللہ تعالیٰ نے علم و معرفت کی کنجی بنایا ہے.جب انسان تعصب سے پاک ہو کر تدبر سے قرآن شریف کو دیکھے گا اور اعراض صوری اور معنوی سے باز رہے گا بلکہ دعاؤں میں لگا رہے گا تب ترقی ہوگی.یہ لوگ جو قومی ترقی قومی ترقی کا شور مچا رہے ہیں میں ان کی آوازوں کو سن کر حیران ہوا کرتا ہوں کہ شاید ان کو مرنا ہی بھولا ہوا ہے اور ناپائیدار زندگی کو انہوں نے مقدم کر لیا ہے.یہ چاہتے ہیں کہ یورپ جیسے امیر کبیر بن جاویں.ہم منع نہیں کرتے کہ حد مناسب تک کوئی کوشش نہ کرے.مگر افراط تومذموم امر ہے.افسوس ان ترقی چاہنے والوں کے نزدیک عملی طور پر ہر ایک بدی حلال ہے یہاں تک کہ زنا بھی جیسا کہ یورپ کا عملی طرز بتا رہا ہے.اگر یہی ترقی ہے تو پھر ہلاکت کیا ہوگی؟ پس تم اپنی نیتوں کو صاف کرو.اللہ تعالیٰ کو رضا مند کرو.دعاؤں میں لگے رہو اور دین کی اشاعت کے لیے دعا کرو.پھر منع نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس قسم کی استعداد اور مناسبت معاش کے لیے دی ہے اس سے کام لو.زراعت ہو یا ملازمت یا تجارت کرو مگر یہ نہیں کہ اس کو مقصود بالذات سمجھ کر دل اس سے لگا لو.بلکہ دل اس سے ہمیشہ اداس رکھو اور اسے ایک ابتلا سمجھو اور دعا کرتے رہو کہ خدا تعالیٰ وہ زمانہ لاوے کہ فراغت کا زمانہ یادِ الٰہی کے لیے میسر آوے.میری غرض اور تعلیم تو یہ ہے جو اس پر مخالفت کرے اس کا اختیار ہے ہنسی کرے اختیار ہے مگر حق یہی ہے.جو لوگ آزاد مشرب ہیں وہ ایسی باتوں پر سخت ہنسی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ اطفال کے درجہ پر ہیں اور ہمیں تیرہ سو برس پیچھے لے جاتے ہیں مگر جن میں تقویٰ ہو اور موت کو یاد رکھتے ہیں وہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان دونوں میں سے حق پر کون ہے؟ میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ جب تک صحت ہے اس وقت تک یہ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں لیکن جب ذرا مبتلا ہوتے ہیں تو ہوش میں آجاتے ہیں.نیچری مذہب کے لیے اسی قدر مستحکم ہوگا جس قدر دنیوی آسائش و آرام میسر ہوگا جس قدر مصائب ہوں گے ڈھیلا ہوتا جائے گا.جو شخص دنیوی وجاہت

Page 254

اور عہدہ پاتا ہے اور قوم میں ایک عزت دیکھتا ہے وہ کیا سمجھ سکتا ہے کہ دین کیا چیز ہے؟ جو گروہ نمازوں میں تخفیف کرنی چاہتا ہے اور روزوں کو اڑانا چاہتا ہے اور قرآن شریف کی ترمیم کرنے کا خواہشمند ہے اگر اسے ترقی ہو تو تم سمجھ لو کہ انجام کیا ہو؟ اس کے ضمن میں آپ نے نواب محمد حیات خاں مرحوم کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح پر قبل از وقت مجھے اس کی بحالی کی اطلاع دی جس کی میں نے اس کو بھی خبر دے دی تھی.لیکن جب بحال ہوگیا تو پھر وہ ساری باتیں جو معطلی کے زمانہ میں تھیں بھول گئیں.۱ ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء حقِ محنت کی ادائیگی فرمایا.خدا تعالیٰ کی طلب میں جو شخص پوری کوشش نہیں کرتا وہ بھی کافر ہے.ہر ایک چیز کو جب اس کی حد مقررہ تک پہنچایا جاتا ہے تب اس سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے.جیسے اس زمین میں چالیس یا پچاس ہاتھ کھودنے سے کنواں طیار ہو سکتا ہے.اگر کوئی شخص صرف چار پانچ ہاتھ کھود کر چھوڑ دے اور کہہ دے کہ یہاں پانی نہیں ہے تو یہ اس کی غلطی ہے.اصل بات یہ ہے کہ اس شخص نے حق محنت کا ادا نہیں کیا.(قبل از ظہر) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت فرمایا.یہ جو قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ( الانعام:۹۱) پس ان کی یعنی گذشتہ نبیوں کی جن کا اوپر ذکر آیا ہے اقتدا کر.اس اور عہدہ پاتا ہے اور قوم میں ایک عزت دیکھتا ہے وہ کیا سمجھ سکتا ہے کہ دین کیا چیز ہے؟ جو گروہ نمازوں میں تخفیف کرنی چاہتا ہے اور روزوں کو اڑانا چاہتا ہے اور قرآن شریف کی ترمیم کرنے کا خواہشمند ہے اگر اسے ترقی ہو تو تم سمجھ لو کہ انجام کیا ہو؟ اس کے ضمن میں آپ نے نواب محمد حیات خاں مرحوم کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح پر قبل از وقت مجھے اس کی بحالی کی اطلاع دی جس کی میں نے اس کو بھی خبر دے دی تھی.لیکن جب بحال ہوگیا تو پھر وہ ساری باتیں جو معطلی کے زمانہ میں تھیں بھول گئیں.۱ ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء حقِ محنت کی ادائیگی فرمایا.خدا تعالیٰ کی طلب میں جو شخص پوری کوشش نہیں کرتا وہ بھی کافر ہے.ہر ایک چیز کو جب اس کی حد مقررہ تک پہنچایا جاتا ہے تب اس سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے.جیسے اس زمین میں چالیس یا پچاس ہاتھ کھودنے سے کنواں طیار ہو سکتا ہے.اگر کوئی شخص صرف چار پانچ ہاتھ کھود کر چھوڑ دے اور کہہ دے کہ یہاں پانی نہیں ہے تو یہ اس کی غلطی ہے.اصل بات یہ ہے کہ اس شخص نے حق محنت کا ادا نہیں کیا.(قبل از ظہر) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت فرمایا.یہ جو قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ( الانعام:۹۱) پس ان کی یعنی گذشتہ نبیوں کی جن کا اوپر ذکر آیا ہے اقتدا کر.اس اور عہدہ پاتا ہے اور قوم میں ایک عزت دیکھتا ہے وہ کیا سمجھ سکتا ہے کہ دین کیا چیز ہے؟ جو گروہ نمازوں میں تخفیف کرنی چاہتا ہے اور روزوں کو اڑانا چاہتا ہے اور قرآن شریف کی ترمیم کرنے کا خواہشمند ہے اگر اسے ترقی ہو تو تم سمجھ لو کہ انجام کیا ہو؟ اس کے ضمن میں آپ نے نواب محمد حیات خاں مرحوم کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح پر قبل از وقت مجھے اس کی بحالی کی اطلاع دی جس کی میں نے اس کو بھی خبر دے دی تھی.لیکن جب بحال ہوگیا تو پھر وہ ساری باتیں جو معطلی کے زمانہ میں تھیں بھول گئیں.۱ ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء حقِ محنت کی ادائیگی فرمایا.خدا تعالیٰ کی طلب میں جو شخص پوری کوشش نہیں کرتا وہ بھی کافر ہے.ہر ایک چیز کو جب اس کی حد مقررہ تک پہنچایا جاتا ہے تب اس سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے.جیسے اس زمین میں چالیس یا پچاس ہاتھ کھودنے سے کنواں طیار ہو سکتا ہے.اگر کوئی شخص صرف چار پانچ ہاتھ کھود کر چھوڑ دے اور کہہ دے کہ یہاں پانی نہیں ہے تو یہ اس کی غلطی ہے.اصل بات یہ ہے کہ اس شخص نے حق محنت کا ادا نہیں کیا.(قبل از ظہر) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت فرمایا.یہ جو قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ( الانعام:۹۱) پس ان کی یعنی گذشتہ نبیوں کی جن کا اوپر ذکر آیا ہے اقتدا کر.اس آیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی فضیلت ظاہر ہوتی ہے.اس کا یہ مطلب ہے کہ جس قدر گذشتہ انبیاء ہوئے اور انہوں نے مخلوق کی ہدایت مختلف پہلوؤں سے کی اور مختلف قسم کی ان میں

Page 255

خوبیاں تھیں.کسی میں کوئی خوبی اور کمال تھا اور کسی میں کوئی.اور ان تمام نبیوں کی اقتدا کرنا یہ معنے رکھتا ہے کہ ان تمام متفرق خوبیوں کو اپنے اندر جمع کر لینا چاہیے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جو شخص جامع ان تمام خوبیوں کا ہے جو متفرق طور پر تمام انبیاء میں پائی جاتی ہیں وہ تمام متفرق کمالات اپنے اندر جمع رکھتا ہے اس لیے وہ تمام انبیاء سے افضل ہے کیونکہ ہر ایک کی خوبی اس میں موجود ہے اور وہ تمام متفرق خوبیوں کا جامع ہے مگر پہلے اس سے کوئی نبی ان تمام خوبیوں کاجامع نہ تھا.۱ ۲۰؍ستمبر ۱۹۰۵ء (بوقتِ صبح) انجام بخیر ہے فرمایا.طب کے ظنی امور ہیں.اللہ تعالیٰ کے پاس جو یقین ہوتا ہے وہ کہاں؟ پیشگوئیوں کا معاملہ مخفی رکھا جاتا ہے تاکہ تکالیف کا ثواب انسان حاصل کرے.درمیانی دکھ ہیں اور انجام بخیر ہے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی ایک رؤیا اور اس کی تعبیر عاجز۲ راقم نے اپنی رؤیا بیان کی کہ ’’میں رات مولوی عبد الکریم صاحب کے واسطے بہت دعا کرتا تھا تو تھوڑی غنودگی میں ایسا معلوم ہوا کہ میں کہتا ہوں یا کوئی کہتا ہے بلاؤں میں جندرے مارے گئے.‘‘ فرمایا:.’’مبشر ہے.‘‘ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کی ایک رؤیا اور اس کی تعبیر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے اپنا ایک خواب عرض کیا کہ کوئی کہتا ہے مولوی صاحب کو خیر ہے.استغفار اور لاحول پڑھنا چاہیے اور پھر میں نے ایک آواز سنی سَلَامٌ.عَلَیْکُمْ.فرمایا.’’لاحول سے یہ مراد ہے کہ بغیر فضل الٰہی کے کوئی حیلہ باقی نہیں رہا.اور سَلَامٌ.عَلَیْکُم ۱ بدر جلد ۱ نمبر ۲۵ مورخہ ۲۲؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ ۲ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ (مرتّب)

Page 256

سے مراد سلامتی ہے.‘‘ فرمایا.’’سب اللہ تعالیٰ کے لشکر ہیں جہاں حکم ہوتا ہے وہاں چڑھائی کرتے ہیں.‘‘ مصائب گناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں مولوی عبد الکریم صاحب کی بیماری کا اور ان کے متعلق دعا کا ذکر کرتے ہوئے شیخ رحمت اللہ صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا.آپ کے واسطے بھی پانچ وقت نماز میں دعا کی جاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ تکالیف سے اپنے بندوں کو ثواب دے.عبادات میں جو قصور رہ جاتے ہیں ان کا ازالہ قضاء و قدر کے مصائب سے ہوجاتا ہے کیونکہ عبادت کی تکلیف میں تو انسان اپنا رگ پٹھا آپ بچا لیتا ہے.سردی ہو تو وضو کے لیے پانی گرم کر لیتا ہے.کھڑا نہ ہو سکے تو بیٹھ کر پڑھ لیتا ہے لیکن قضاء و قدر سے جو آسمانی مار پڑتی ہے وہ رگ پٹھہ نہیں دیکھتی.دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے.حدیث میں آیا ہے کہ دنیا میں ہمیشہ کی خوشی صرف کافر کو حاصل ہو سکتی ہے کیونکہ اس کے لیے عذاب کا گھر آگے ہے.لیکن مومن کے لیے ایسی زندگی ہوتی ہے کہ کبھی آرام اور کبھی تکلیف.ہاں جان بخیر چاہیے.یہ مصائب گناہ کا کفارہ ہوتے ہیں.کرب اور گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں.ع خدا داری چہ غم داری خدا پر پورا ایمان اور بھروسہ ہو تو پھر انسان کو خواہ تنور میں ڈال دیا جاوے اسے کوئی غم نہیں ہوتا.تکالیف کا بھی ایک وقت ہوتا ہے.اس کے بعد پھر راحت ہے.جیسا بچہ پیدا ہونے کے وقت عورت کو تکلیف ہے بلکہ ساتھ والے بھی روتے ہیں.لیکن جب بچہ پیدا ہوگیا تو پھر سب کو خوشی ہے.ایسا ہی مومن پر خدا کی طرف سے ایک تکلیف اور دکھ کا وقت آتا ہے تاکہ وہ آزمایا جائے اور صبر اور استقامت کا اجر پائے.اصل میں تکالیف کے دن ہی مبارک دن ہوتے ہیں.انبیاء تکالیف کے ساتھ موافقت کرتے ہیں.ہر ایک شخص پر نوبت بہ نوبت یہ دن آتے ہیں تاکہ معلوم ہوجاوے کہ اس

Page 257

کا تعلق خدا کے ساتھ اصلی ہے یا نہیں.مولوی رومی نے خوب فرمایا ہے.؎ ہر بلا کیں قوم را حق دادہ است زیر آں گنج کرم بنہادہ است حدیث میں آیا ہے کہ جب خدا کسی سے پیار کرتا ہے تو اسے کچھ دکھ دیتا ہے.انبیاء کے معجزات انہیں مصائب کے زمانہ کی دعاؤں کا نتیجہ ہوتے ہیں.یہ خدا کا اپریشن ہے جو ہر صادق کے واسطے ضروری ہے.دعاؤں کی تلقین فرمایا.آگے پھر طاعون کے دن آرہے ہیں.نہیں معلوم کون بچے گا اور کون مرے گا؟ آجکل توبہ کرنی چاہیے اور راتوں کو اٹھ کر دعائیں کرنی چاہئیں تاکہ خدا تعالیٰ اس وقت کے عذاب سے بچائے.قادیان کے قریب دو گاؤں طاعون سے ملوّث ہیں.دعا کے ذریعہ ہی مشکلات حل ہوتی ہیں فرمایا.اللہ تعالیٰ مخفی ہے.مگر وہ اپنی قدرتوں سے پہچانا جاتا ہے.دعا کے ذریعہ سے اس کی ہستی کا پتہ لگتا ہے.کوئی بادشاہ یا شہنشاہ کہلائے.ہر شخص پر ضرور ایسے مشکلات پڑتے ہیں جن میں انسان بالکل عاجز رہ جاتا ہے اور نہیں جانتا کہ اب کیا کرنا چاہیے.اس وقت دعا کے ذریعہ سے مشکلات حل ہو سکتے ہیں.چراغ الدین جمونی جموں والے چراغ الدین کا ذکر تھا کہ عیسائیوں کے ساتھ بہت تعلق محبت رکھتا ہے.فرمایا.بد قسمت اور بد بخت آدمی ہے.اسلام ایسے گندوں کو باہر پھینکتا جاتا ہے.عیسائیوں پر ایک سوال یورپ کی شراب نوشی کا ذکر تھا.فرمایا.حقیقی تہذیب شراب خور کو حاصل نہیں ہو سکتی.انجیل کی کسی آیت نے سؤر کو برخلاف توریت کے حلال نہیںکیا مگر یہ لوگ کثرت سے سؤر بھی کھاتے ہیں اور شراب بھی پیتے ہیں.

Page 258

جب شریعت توریت قابل عمل نہیں اور باوجود بہت سی اشیاء کی حرمت کے جن کا حکم توریت میں موجود ہے عیسائیوں کے واسطے ضروری نہیں کہ ان احکام پر عمل کریں تو پھر رشتہ ناطہ کے معاملہ میں اس قدیم شریعت پر عمل کرنے کی کیا حاجت ہے اور بہن یا سالی وغیرہ سے شادی کرنا انجیل کے کس حکم کے برخلاف ہے؟ خدا تعالیٰ کا حلم بعض لوگوں کے بدیوں اور شرارتوں میں حد سے بڑھ جانے کا ذکر تھا.فرمایا.اللہ تعالیٰ بڑا حلیم اور کریم ہے اور اس کے کام نہایت آہستگی کے ساتھ ہوتے ہیں.معصیت میں پڑے ہوئے لوگوں کو وہ مہلت دیتا ہے اور لوگ اس پر حیران ہوتے اور گھبراتے ہیں.لیکن گذشتہ واقعات زمانہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں پر جب عذاب آتا ہے نہایت سخت آتا ہے.زمانہ میں راحت کے دن بہت ہیں مگر آخر کار گرفتاری کا بھی ایک دن آہی جاتا ہے اور اس وقت ایسا پکڑا جاتا ہے کہ اس کے دکھ کو دیکھ کر سخت سے سخت دل آدمی بھی دردناک ہوجاتا ہے.؎ ہاں مشو مغرور از حلم خدا دیر گیرد سخت گیرد مر ترا (قبل نماز ظہر) دعا کا اثر جیسا اثر دعا میں ہے ویسا اور کسی شے میں نہیں ہے مگر دعا کے واسطے پورا جوش معمولی باتوں میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ معمولی باتوں میں تو بعض دفعہ دعا کرنا گستاخی معلوم ہوتی ہے اور طبیعت صبر کی طرف راغب رہتی ہے.ہاں مشکلات کے وقت دعا کے واسطے پورا جوش دل میں پیدا ہوتا ہے تب کوئی خارق عادت ظاہر ہوتا ہے.کہتے ہیں دہلی میں ایک بزرگ تھا.بادشاہ وقت اس پر سخت ناراض ہوگیا.اس وقت بادشاہ کہیں باہر جاتا تھا.حکم دیا کہ واپس آکر میں تم کو ضرور پھانسی دوں گا اور اپنے اس حکم پر قسم کھائی.جب اس کی واپسی کا وقت قریب آیا تو اس بزرگ کے دوستوں اورمریدوں نے غمگین ہو کر عرض کی کہ بادشاہ کی واپسی کا وقت اب قریب آگیا ہے.اس نے جواب دیا ہنوز دہلی دور است.جب

Page 259

بادشاہ ایک دو منزل پر آگیا تو انہوں نے پھر عرض کی.مگر اس نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ ہنوز دہلی دور است.یہاں تک کہ بادشاہ عین شہر کے پاس آگیا اور شہر کے اندر داخل ہونے لگا.تب لوگوں نے اس بزرگ کی خدمت میں عرض کی کہ اب تو بادشاہ شہر میں داخل ہونے لگا ہے.یا داخل ہوگیا ہے مگر پھر بھی اس بزرگ نے یہی جواب دیا کہ ہنوز دہلی دور است.اسی اثنا میں خبر آئی کہ جب بادشاہ دروازہ شہر کے نیچے پہنچا تو اوپر سے دروازہ گرا اور بادشاہ ہلاک ہوگیا.معلوم ہوتا ہے کہ اس بزرگ کو کچھ منجانب اللہ معلوم ہوچکا تھا.ایسا ہی شیخ نظام الدین کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ بادشاہ کا سخت عتاب ان پر ہوا اور حکم ہوا کہ ایک ہفتہ تک تم کو سخت سزا دی جائے گی.جب وہ دن آیا تو وہ ایک مرید کی ران پر سر رکھ کر سوئے تھے.اس مرید کو جب بادشاہ کے حکم کا خیال آیا تو وہ رویا اور اس کے آنسو شیخ پر گرے جس سے شیخ بیدار ہوا اور پوچھا کہ تو کیوں روتا ہے؟ اس نے اپنا خیال عرض کیا اور کہا کہ آج سزا کا دن ہے.شیخ نے کہا کہ تم غم مت کھاؤ ہم کو کوئی سزا نہ ہوگی.میں نے ابھی خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مارکھنڈ گائے مجھے مارنے کے واسطے آئی ہے.میں نے اس کے دونو سینگ پکڑ کر اس کو نیچے گرا دیا ہے.چنانچہ اسی دن بادشاہ سخت بیمار ہوا اور ایسا سخت بیمار ہوا اور اسی بیماری میں مر گیا.یہ تصرفات الٰہی ہیں جو انسان کی سمجھ میں پہلے نہیں آسکتے.جب وقت آجاتا ہے تو کوئی نہ کوئی تقریب پیدا ہوجاتی ہے.سب دل خدا کے ہاتھ میں ہیں.وہ جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے.خدا کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا چاہیے.اس کے اذن کے بغیر تو کوئی جان بھی نہیں نکل سکتی خواہ کیسے ہی شدید عوارض ہوں.نا امید ہونے والا بُت پرست سے بھی زیادہ کافر ہے.آئندہ طاعون سے بچنے کا علاج عاجز۱ راقم نے اپنا آج کا خواب عرض کیا کہ طاعون بہت پھیلا ہوا دکھائی دیا اور کوئی کہتا ہے یا میں کہتا ہوں کہ جو آجکل رات کو اٹھ کر دعا کرے گا وہ اس سے آئندہ طاعون کے وقت بچایا جائے گا.فرمایا.یہ بالکل سچ ہے.راتوں کو اٹھ کر بہت دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ آنے والے

Page 260

عذاب سے اپنے فضل و کرم سے محفوظ رکھے.جانوروں کی پرورش میں حفاظت کی ضرورت فرمایا.ایک نجاست خور گائے ہوتی ہے جس کو جلالہ کہتے ہیں.اس کا گوشت حرام لکھا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے کے جانور مثل بھیڑ مرغی پرورش میں حفاظت کرنی چاہیے اور ان کو نجاست خوری سے بچانا چاہیے.۱ ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۵ء (قبل دوپہر) چراغ الدین جمونی اور اس کی تصنیف آج اتفاق سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں میاں چراغ دین ساکن جموں کا ذکر اس تقریب پر شروع ہوگیا کہ اس نے ایک کتاب منارۃ المسیح حال میں شائع کی ہے.جس میں اسلام کی سخت ہتک کی گئی ہے.اس کتاب کے تذکرہ پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ وہ اسلام کا سخت مخالف ہے.ہر امر میں اس نے حضرت مسیح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت دی ہے پھر یہ بھی کہتا ہے کہ اسلام اور عیسائیت میں صلح کرانے آیا ہوں.یہ کیسی عجیب بات ہے اسلام اور عیسائیت میں آسمان زمین کا فرق ہے اور وہ صلح کراتا ہے.مجھے اس کتاب میں بہت گالیاں دی ہیں.کشمیر میں بنی اسرائیل اور مسیح علیہ السلام کی قبر مسیح کی قبر واقع کشمیر کا ذکر تھا.اس کے متعلق جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بہت سے شواہد اور دلائل سے یہ امر ثابت ہوگیا ہے کہ یہ مسیح علیہ السلام ہی کی قبر ہے.اور ۱ بدر جلد ۱ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۹؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲، ۳

Page 261

یہاں نہ صرف ان کی قبر ہی ہے بلکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ ان کے بعض دوستوں کی قبریں بھی اسی جگہ ہیں اوّل یوز آسف کا نام ہی اس پر دلالت کرتا ہے.اس کے علاوہ چونکہ وہ اپنے وطن میں باغی ٹھیرائے گئے تھے.اس لیے اس گورنمنٹ کے تخت حکومت میں کسی جگہ رہ نہ سکتے تھے.پس اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کر کے پسند کیا کہ شام جیسا سرد ملک ہی ان کے لیے تجویز کیا جہاں وہ ہجرت کر کے آگئے اور یہودیوں کی دس تباہ شدہ قومیں جن کا پتہ نہیں ملتا تھا وہ بھی چونکہ یہاں ہی آباد تھیں اس لیے اس فرض تبلیغ کو ادا کرنے کے لیے بھی یہاں ان کا آنا ضروری تھا.اور پھر یہاں کے دیہات اور دوسری چیزوں کے نام بھی بلاد شام کے بعض دیہات وغیرہ سے ملتے جلتے ہیں.(اس موقع پر مفتی محمد صادق صاحب نے عرض کی حضور کاشیر کا لفظ خود موجود ہے.یہ لفظ اصل میں کاشیر ہے.م تو ہم لوگ ملا لیتے ہیں.اصلی کشمیری کاشیر بولتے ہیں اور وہ کاشر کہلاتے ہیں.اور آشیر عبرانی زبان میں ملک شام کا نام ہے اور ک بمعنے مانند ہے.یعنی شام کی مانند.پھر اور بہت سے نام ہیں.ایڈیٹر) حضرت نے فرمایا کہ وہ سب نام جمع کرو تاکہ ان کا حوالہ کسی جگہ دیا جاوے.اسی سلسلہ کلام میں فرمایا کہ اکمال الدین جو پرانی کتاب ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ انیس سو برس کا ایک نبی ہے.پھر کشمیریوں کے رسم و رواج وغیرہ یہودیوں سے ملتے ہیں.برنیئر فرانسیسی سیاح نے بھی ان کو بنی اسرائیل ہی لکھا ہے.اس کے علاوہ تھوما حواری کا ہندوستان میں آنا ثابت ہے.(اس مقام پر مفتی صاحب نے عرض کی کہ میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ جب حضرت مریم بیمار ہوئیں تو انہوں نے تھوما سے جو اس وقت ہندوستان میں تھا ملنا چاہا.چنانچہ ان کے تابوت کو ہندوستان میں پہنچایا گیا اور وہ تھوما سے مل کر بہت خوش ہوئیں اور اس کو برکت دی اور پھر تھوما نے اس کا جنازہ پڑھا.اس ذکر پر کہا گیا کہ کیا تعجب ہے اگر فی الحقیقت یہ ایک ذریعہ اختیار کیا گیا ہو بیٹے کے پاس آنے کا.اس کے متعلق مختلف باتیں ہوتی رہیں.)

Page 262

فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ پر ایک اعتراض کا جواب مندرجہ بالا سلسلہ کلام میں آپ نے فرمایا کہ ہم جب مسیح کی موت کے لیے آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ (المآئدۃ:۱۱۸) پیش کرتے ہیں تو اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام اگر واقعہ صلیب کے بعد کشمیر چلے آئے تھے تو پھر ان کو بجائے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ کے یہ کہنا چاہیے تھا کہ جب تو نے مجھے کشمیر پہنچا دیا.اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض ایک سفسطہ ہے.یہ سچ ہے کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر سے زندہ اتر آئے اور موقع پاکر وہ وہاں سے کشمیر کو چلے آئے.لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مخالفوں کا حال تو پوچھا نہیں.وہ تو ان کی اپنی امت کا حال پوچھتا ہے.مخالف تو بدستور کافر کذاب تھے.دوسرے یہاں مسیح علیہ السلام نے اپنے جواب میں یہ بھی فرمایا ہے مَا دُمْتُ فِیْھِمْ(المآئدۃ:۱۱۸) میں جب تک ان میں تھا.یہ نہیں کہا مَا دُمْتُ فِیْ اَرْضِھِمْ.مَا دُمْتُ فِیْھِمْ کا لفظ تقاضا کرتا ہے کہ جہاں مسیح جائیں وہاں ان کے حواری بھی جائیں.یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ کا ایک مامور و مرسل ایک سخت حادثہ موت سے بچایا جاوے اور پھر وہ خدا تعالیٰ کے اذن سے ہجرت کرے اور اس کے پیرو اور حواری اسے بالکل تنہا چھوڑ دیں اور اس کا پیچھا نہ کریں.نہیں بلکہ وہ بھی ان کے پاس یہاں آئے.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ وہ یک دفعہ ہی سارے نہ آئے ہوں بلکہ متفرق طور پر آگئے ہوں.چنانچہ تھوما کا تو ہندوستان میں آنا ثابت ہی ہے اور خود عیسائیوں نے مان لیا ہے.اس قسم کی ہجرت کے لیے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی نظیر موجود ہے.حالانکہ مکہ میں آپ کے وفادار اور جاں نثار خدام موجود تھے.لیکن جب آپ نے ہجرت کی تو صرف حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے لیا.مگر اس کے بعد جب آپ مدینے پہنچ گئے تو دوسرے اصحاب بھی یکے بعد دیگرے وہیں جا پہنچے.لکھا ہے کہ جب آپ ہجرت کر کے نکلے اور غار میں جا کر پوشیدہ ہوئے تو دشمن بھی تلاش کرتے ہوئے وہاں جا پہنچے ان کی آہٹ پاکر حضرت ابو بکرؓ گھبرائے تو اللہ تعالیٰ نے وحی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا (التوبۃ:۴۰) کہتے ہیں کہ وہ نیچے اتر کر اس کو دیکھنے بھی گئے.مگر خدا کی قدرت ہے کہ غار

Page 263

کے منہ پر مکڑی نے جالا تن دیا تھا.اسے دیکھ کر ایک نے کہا کہ یہ جالا تو (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیدائش سے بھی پہلے کا ہے.اس لیے وہ واپس چلے آئے.یہی وجہ ہے جو اکثر اکابر عنکبوت سے محبت کرتے آئے ہیں.غرض جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود ایک گروہ کثیر کے اس وقت ابو بکر ہی کو ساتھ لینا پسند کیا اسی طرح پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صرف تھوما کو ساتھ لے لیا اور چلے آئے.پس جب حواری ان کے ساتھ تھے تو پھر کوئی اعتراض نہیں رہتا.دوسرا سوال اس پر یہ کرتے ہیں کہ جبکہ وہ ۸۷ سال تک زندہ رہے تو ان کی قوم نے ترقی کیوں نہ کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا ثبوت دینا ہمارے ذمہ نہیں.ہم کہتے ہیں ترقی کی ہوگی لیکن حوادث روزگار نے ہلاک کر دیا ہوگا.کشمیر میں اکثر زلزلے اور سیلاب آتے رہتے ہیں.مدت دراز کے بعد قوم بگڑ گئی.لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ایک قوم تھی.اٰوَيْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِيْنٍ (المؤمنون:۵۱) کے متعلق بعض کہتے ہیں کہ وہ شام ہی میں تھا.میں کہتا ہوں یہ بالکل غلط ہے.قرآن شریف خود اس کے مخالف ہے اس لیے کہ اٰوٰی کا لفظ تو اس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں ایک مصیبت کے بعد نجات ملے اور پناہ دی جاوے.یہ بات اس رومی سلطنت میں رہ کر انہیں کب حاصل ہو سکتی تھی.وہ تو وہاں رہ سکتے ہی نہ تھے.اس لیے لازمی طور پر انہوں نے ہجرت کی.زندگی لائق اعتبار نہیں فرمایا.زندگی اعتبار کے لائق نہیں.اس پر مختلف امراض اور خصوصاً طاعون نے اور بھی خوف پیدا کر دیا ہے.(قبل عصر) اصل طریق دعا ہے حضرت مخدوم الملت۱ کی بیماری کا تذکرہ تھا.ایک بزرگ نے باتوں ہی باتوں میں حکایتاً عن الغیر ذکر کیا کہ بعض مسمریزم کے عامل توجہ سے مرض

Page 264

کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر بدل دینے کے دعوے کرتے ہیں.اس پر فرمایا.یہ کچھ چیز نہیں.میری طبیعت اس سے سخت نفرت کرتی ہے.اصل طریق دعا ہے.اس سے بہتر اور کوئی راہ نہیں ہے.میں تو اس کے سوا دوسرے طریقوں کو ایسا سمجھتا ہوں جیسے قے کے ساتھ کسی بیماری کا علاج کیا جاوے.پس کون پسند کرتا ہے کہ قے کے ساتھ علاج ہو.سچا اور خدا شناسی کا جو طریق ہے جسے انبیاء علیہم السلام نے استعمال کیا وہ یہی دعا ہے.۱ ۲۴؍ستمبر۱۹۰۵ء (قبل دوپہر) مومن کا بھروسہ خدا تعالیٰ پر ہوتا ہے مخد۲وم الملت کی بیماری کے تذکرہ پر مندرجہ ذیل تقریر فرمائی.اگر انسان کا وجود اللہ تعالیٰ کے بغیر ہوتا تو کچھ شک نہیں بڑی مصیبت ہوتی، مگر اب تو ذرّہ ذرّہ کی حفاظت وہ ایک ذات کر رہی ہے.پھر کس بات کا غم اور خوف ہے.اس کی قدرتیں عجیب ہیں اور اس کے تصرفات بے نظیر.قادر خدا کو مان کر مومن کبھی غمگین نہیں ہوتا.وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے اسی میں خیر و برکت ہوتی ہے.مومن اور غیر مومن میں ایمان ہی کا تو فرق ہے.دہریہ مزاج اور اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ لانے والے کی زندگی اس وقت تک عمدہ اور بے خوف و خطر ہوتی ہے جب تک اس پر مصائب اور مشکلات کا حملہ نہیں ہوتا.لیکن جب خفیف سے مشکلات بھی آکر ظاہر ہوتے ہیں تو اس کی عقل مار دیتے ہیں اور وہ ان کی برداشت نہیں کر سکتا.اس کی امید اللہ تعالیٰ پر ہوتی ہی نہیں اور اسباب اسے مایوس کر دیتے ہیں.ایسی حالت میں ذرا ذرا سی بات خلافِ مزاج پیش آجانے پر بعض اوقات یہ لوگ خود کشیاں کر لیتے ہیں.یورپ میں جہاں دہریوں کی کثرت ہے وہاں اس قدر خود کشیاں ہوتی ہیں کہ کسی اور ملک میں ان کی نظیر نہیں ملتی.اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ وہ لحکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۴،۵

Page 265

ھم و غم اور مصائب کی برداشت نہیں کر سکتے.ان کے دل کمزور ہوجاتے ہیں.لیکن برخلاف اس کے مومن قوی دل ہوتا ہے.اس لیے کہ اس کا بھروسہ خدا تعالیٰ پر ہوتا ہے.اس پر اگر مصائب آئیں تو وہ اس کو پست ہمت نہیں بناتیں بلکہ وہ مصائب میں اور بھی قدم آگے بڑھاتا ہے.اس کا ایمان پہلے سے اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور سچ پوچھو تو ایمان کا مزا اور لذت انہیں دنوں میں آتی ہے اور ایمان انہیں ایام کے لیے ہوتا ہے.صحت کی حالت میں جبکہ نہ کوئی مالی غم ہو نہ جانی بلکہ ہر قسم کی آسائش اور امن ہو اس وقت کافر اور غیر کافر کی حالت یکساں ہو سکتی ہے لیکن مصیبت اور بیماری اور دوسرے مشکلات میں ان باتوں کا امتحان ہوجاتا ہے اور ثابت ہو جاتا ہے کہ کون اللہ تعالیٰ سے قوی تعلق رکھتا ہے اور اس کی قدرتوں پر ایمان لاتا ہے اور کون اس کا شکوہ کرتا اور اس سے ناراض ہوتا ہے؟ ایمان کا کامل معیار مصیبت اور دکھ ایمان کا ایک کامل معیار ہے اسی سے پہچانا جاتا ہے کہ کون صبر کرتا ہے.صبر کیا ہے؟ یہ بھی ایمان ہی کا نتیجہ ہے.مصیبتوں میں جب مومن صبر کرتا ہے تو یہ صبر بھی ایک نئے رنگ کا صبر معلوم ہوتا ہے کہ کافر اس صبر میں مشابہت نہیں رکھتا.اس کے علاوہ خدا تعالیٰ کا معاملہ بھی ایک نئے رنگ کا معاملہ ہوتا ہے.اور سچ تو یہ ہے کہ ایک نیا خدا معلوم ہوتا ہے.اس لیے کہ اس پر ایمان لا کر معرفت میں ترقی ہوتی ہے.جب مشکلات اور مصائب کی وجہ سے مومن دعائیں کرتا ہے تو دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو وہ مصائب بجائے خود اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہیں.دوسرے ان دعاؤں کے ذریعہ ان سے نجات بھی ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ پر اور اس کی قدرتوں پر ایمان بڑھتا ہے.مصیبت سے انسان کی زندگی کبھی خالی نہیں رہ سکتی.کسی نہ کسی رنگ میں کوئی نہ کوئی مصیبت انسان پر آ ہی جاتی ہے.خواہ بیماری کے رنگ میں ہو خواہ عزت و آبرو کے متعلق ہو یامال و اسباب کی صورت میں ہو.لیکن مومن کی مصیبت اس پر سہل ہوجاتی ہے اور اس کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے.وہ اس مصیبت کو اپنے لیے خدا تعالیٰ سے تعلقات بڑھانے کا ایک ذریعہ یقین کرتا ہے اور فی الحقیقت ایسا ہی ہوتا ہے مگر وہی مصیبت بے ایمانوں

Page 266

کے لیے عذاب کے رنگ میں ہوجاتی ہے.کبھی دوسرے کو مصیبت میں دیکھ کر خوش نہیں ہونا چاہیے.کیونکہ وہ تو ایک عبرت کا مقام ہے.خود بھی اس کے لیے طیار رہنا چاہیے.اللہ تعالیٰ پر بھروسہ تسکین دِہ ہے یہ بھی یاد ر کھو کہ مصیبت کے زخم کے لیے کوئی مرہم ایسا تسکین دِہ اور آرام بخش نہیں جیساکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ہے.جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے وہ سخت سے سخت مشکلات اور مصائب میں بھی اندر ہی اندر تسلی اور اطمینان پاتا ہے وہ اپنے قلب میں تلخی اور عذاب کو محسوس نہیں کرتا.نہایت کار اس مصیبت کا انجام یہ ہو سکتا ہے کہ اگر تقدیر مبرم ہے تو موت آجاوے.لیکن اس سے کیا ہوا؟ دنیا کوئی ایسی جگہ تو ہے ہی نہیں جہاں کوئی ہمیشہ رہ سکے.آخر ایک دن اور وقت سب پر آتا ہے کہ اس دنیا کو چھوڑنا پڑے گا.پھر اگر اسے موت آگئی تو ہرج کیا ہوا؟ مومن کے لیے تو یہ موت اور بھی راحت رساں اور وصالِ یار کا ذریعہ ہو جاتی ہے.اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور اس کی قدرتوں پر بھروسہ کرتا ہے اور جانتا ہے کہ اگلا جہان اس کے لیے ابدی راحت کا ہے.پس نری مصیبت خواہ بیماری کی ہو یا کسی اور قسم کی تکلیف یا عذاب کا موجب نہیں ہوسکتی بلکہ وہ مصیبت دکھ دینے والا عذاب ٹھیرتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ پر ایمان اور بھروسہ نہ ہو.ایسے شخص کو البتہ سخت عذاب ہوتا ہے اور اگر کوئی یہ خیال کرے کہ موت ہی نہ آوے تو یہ خیال خام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو ناپائیدار قرار دیا ہے.ایسے شخص کے لیے دوسرے جہان میں سخت دردناک جہنم ہوگا جس کے لیے اسے طیار رہنا چاہیے.موت کی حقیقت موت ضرور آنے والی ہے اس سے کسی کو چارہ نہیں.یقیناً سمجھو کہ اس پیالہ کے پینے سے کوئی نہیں بچ سکتا.خدا تعالیٰ کے تمام برگزیدہ بندوں اور انبیاء و رسل کو بھی اس راہ سے گذرنا پڑا تو اور کون ہے جو بچ جاوے.حکیم اور فلاسفر جو سخت دل ہوتے ہیں ان کو بھی یہ بات سوجھ گئی ہے اور انہوں نے اعتراف کیا بلکہ موت کو ضروری سمجھا ہے

Page 267

انہوں نے دیکھا کہ زمین تو ربع مسکون ہے اور اس میں بھی بہت ہی تھوڑا حصہ آباد ہے.اگر وہ تمام لوگ جو ابتدائے آفرینش سے پیدا ہوئے اب تک زندہ رہتے تو ان کے رہنے کو کوئی جگہ اور مقام نہ ملتا.یہاں تک کہ وہ کھڑے بھی نہ ہو سکتے.پس اس قدر کثرت خود چاہتی ہے کہ موت ہوتا کہ پہلے چلے جاویں تو دوسروں کے لیے جگہ ہو.موت کو یہ ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے کہ مر کر انسان بالکل گم ہو جاتا ہے نہیں بلکہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک کوٹھڑی سے نکل کر انسان دوسری کوٹھڑی میں چلا جاتا ہے.اس کی حقیقت کسی قدر خواب سے سمجھ میں آسکتی ہے کیونکہ خواب بھی گویا ہمشیرہ موت ہے.خواب میں بھی ایک قسم کا قبض روح ہی ہوتا ہے.دوسروں کے خیال میں جو سونے والے کے پاس بیٹھے ہیں وہ بالکل بے خبری اور محویت کے عالم میں ہیں.لیکن خواب دیکھنے والا معاً دوسرے عالم میں ہوتا ہے.اور وہ سیاحت کر رہا ہوتا ہے.اب بظاہر اس کے حواس اور قویٰ سب معطل ہوتے ہیں لیکن سونے والا اور خواب دیکھنے والا خوب جانتا ہے کہ اس کے حواس اور قویٰ سب کام میں لگے ہوئے ہیں.اسی طرح پر مرنے والا موت کے بعد اپنے آپ کو معاً دوسرے عالم میں دیکھتا ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ جب موت آتی ہے تو وہ شخص جس نے اپنی عمر عزیز کو دنیا کے حصول میں ہی ضائع کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا نہیں کیا تھا.وہ چونکہ ابھی اپنے بہت سے کاموں کو ناتمام اور ادھورا پاتا ہے.اس لیے اس پر حسرت اور افسوس کا استیلا ہو جاتا ہے اور وہ موت اسے تلخ گھونٹ معلوم ہوتی ہے.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ انسان دل بستگی پیدا نہ کرے اور اپنے اوقات کو ضائع نہ کرے.ہر لحظہ کو غنیمت سمجھ کر اور یہ یقین کر کے کہ شاید ابھی موت آجاوے مرنے کے واسطے طیار رہنا چاہیے.جب اس طیاری کی فکر دامنگیر رہے گی تو اس کا اثر یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان اپنے تعلقات کو بڑھائے گا اور اس دوسرے جہان میں آرام پانے کا خیال کرے گا.یہ خوب یاد رکھو کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے.جیسے زمیندار اپنی فصل کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے لیے ہر قسم کے دکھ اور تکالیف اٹھاتا ہے.اسی طرح پر مومن کو اس کی حفاظت کے لیے کرنا چاہیے.تاکہ دوسرے جہان میں آرام پاوے.اگر اب بے پروائی کرے گا اور وقت کی قدر نہیں

Page 268

کرے گا تو پھر اس کو اس وقت سخت افسوس اور حسرت ہوگی.جب اس جہان سے رخصت ہو کر دوسرے عالم میں جانا پڑے گا اور وہاں اس کے لیے بجز دکھ اور درد کے اور کیا ہوگا؟ اس دنیا میں وہ اس دنیا کے ھمّ و غم میں مبتلا رہا اور اس عالم میں اس ھمّ و غم کے نتائج ہیں.موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے جو شخص اس عالم کے ھمّ و غم میں مبتلا ہو رہا ہے اور دوسرے عالم کا اسے کوئی فکر بھی نہیں.اگر اسے یکدفعہ ہی پیغام موت آجاوے تو خیال کرو اس کا کیا حال ہوگا؟ موت تو ایک بازی گاہ ہے.ہمیشہ ناگاہ آتی ہے اور جسے آتی ہے وہ یہی سمجھتا ہے کہ میں تو قبل از وقت جاتا ہوں.ایسا خیال اسے کیوں پیدا ہوتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ چونکہ خیالات اور طرف لگے ہوئے تھے اور وہ اس کے لیے طیار نہ تھا.اگر طیاری ہو تو قبل از وقت نہ سمجھے بلکہ ہر وقت اسے قریب اور دروازہ پر یقین کرے.اس لیے تمام راستبازوں نے یہی تعلیم دی ہے کہ انسان ہر وقت اپنا محاسبہ کرتا رہے اور آزماتا رہے کہ اگر اس وقت موت آجاوے تو کیا وہ طیار ہے یا نہیں؟ حافظ نے کیا اچھا کہا ہے.؎ چو کارِ عمر ناپید است بارے آں اولیٰ کہ روز واقعہ پیش نگار خود باشم ان کا مطلب یہی ہے کہ ہر وقت طیار اور مستعد رہنا چاہیے.اور کسی وقت بھی اس طیاری سے بے فکر اور غافل نہ ہونا چاہیے ورنہ عذاب ہوگا.یہ بالکل صاف بات ہے کہ جو شخص ہر وقت سفر کی طیاری میں ہے اور کمر بستہ بیٹھا ہے.اگر یکایک اسے سفر کرنا پڑے تو اسے کوئی تکلیف اور گھبراہٹ نہ ہوگی.لیکن اگر اس نے کبھی یہ خیال بھی نہیںکیا تو پھر ایسے موقع پر سخت گھبراہٹ کا سامنا ہوگا.ایک شاعر نے کیا اچھا کہا ہے.؎ وَلَمْ یَتَّفِقْ حَتّٰی مَضٰی فِیْ سَبِیْلِہٖ وَکَمْ حَسَـرَاتٍ فِیْ بُطُوْنِ الْمَقَابِرٖ یعنی اس وقت تک اس امر سے اتفاق نہ کیا یہاں تک کہ کوچ کرنا پڑا تب اقرار کیا کہ بہت

Page 269

ساری حسرتیں قبروں میں دفن کی گئی ہیں.مگر یہ بات اللہ تعالیٰ کے فضل بغیر میسر نہیں ہو سکتی کہ انسان غفلت کی زندگی کو چھوڑ کر عالم آخرت کی طیاری میں لگا رہے.سننے کو تو ہر ایک کان سن سکتا ہے کیونکہ سننا سہل ہے مگر عمل کرنے کے لیے مشکل پڑتی ہے.انسان کی عادت میں داخل ہے کہ جب تک ایک مجلس میں بیٹھا ہے اس مجلس کی باتوں سے متاثر ہوتا ہے لیکن جب وہاں سے اٹھتا ہے اور مجلس منتشر ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی وہ باتیں بھی بھول جاتی ہیں گویا وہ وہیں کے لیے تھیں.ایسے لوگ سخت نقصان اٹھاتے ہیں اور دفعتًا موت کے آجانے پر انہیں بہت کچھ حسرت اور افسوس کرنا پڑتا ہے.موت انہیں کی اچھی ہوتی ہے جو مرنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتے ہیں.فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ عطاری کی دوکان کیا کرتے تھے ایک دن صبح ہی صبح جب آکر انہوں نے دوکان کھولی تو ایک فقیر نے آکر سوال کیا.فرید الدین نے اس سائل کو کہا کہ ابھی بوہنی نہیں کی.فقیر نے ان کو کہا کہ اگر تو ایسا ہی دنیا کے دھندوں میں مشغول ہے تو تیری جان کیسے نکلے گی.فرید الدین نے اس کو جواب دیا کہ جیسے تیری نکلے گی.فقیر یہ سن کر وہیں لیٹ گیا اور کہا لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ اور اس کے ساتھ ہی جان نکل گئی.فرید الدین نے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو بہت متاثر ہوا.اسی وقت ساری دوکان لُٹا دی اور ساری عمر یادِ الٰہی میں گذار دی.یہ طیاری ہوتی ہے.طیاری میں رنج نہیں ہوتا.کش مکش ہو تو پھر رنج اور افسوس ہوتا ہے.صوفیاء اور مولوی فرمایا.صوفیوں کی جو کتابیں ہیں ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں موت کا خیال دامنگیر رہا ہے.لیکن مولویوں کے نام سے جو لوگ گذرے ہیں وہ عموماً محجوب رہے ہیں.بہت ہی کم جو دراصل وہ بھی فقیر تھے وہ تو اس حجاب سے بچے ہیں ورنہ اہل تصوف سے عموماً الگ رہے ہیں اور ایسے پاک باز لوگوں پر کفر ہی کے فتوے دیتے رہے جو دنیا سے انقطاع کرنے والے تھے.صوفی تو ایسے ہیں جیسے ہر وقت کوئی مرنے کو طیار رہتا ہے.ان کی کتابوں کو پڑھ کر طبیعت خوش ہوجاتی ہے.اور ان سے خوشبو آتی ہے کہ وہ صاحبِ حال ہیں صاحبِ قال

Page 270

نہیں.اگر فراست صحیحہ ہو تو انسان ان باتوں کو سمجھ لیتا ہے.سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب فتوح الغیب بڑی ہی عمدہ کتاب ہے.میں نے اس کو کئی مرتبہ پڑھا ہے.بدعات سے پاک ہے.بعض کتابیں صوفیوں کی اس قسم کی بھی ہیں کہ ان میں بدعات بھی داخل ہوگئی ہیں لیکن یہ کتاب بہت ہی عمدہ ہے.وحدتِ وجودی کا فتنہ فقیروں میں بھی ایک آفت آ پڑی ہے.یعنی بعض فقیر تو ہوئے مگر وحدت وجودی ہوگئے اور خود ہی خدا بن بیٹھے.ہمارے ملک میں دوآبہ (بست جالندھر) میں اکثر وجودی ہیں.اور جو وجودی کہلاتے ہیں ان کا مذہب عموماً اباحتی دیکھا گیا ہے.اور حقیقت میں اس مذہب کا خاصہ اور اثر ہونا بھی یہی چاہیے کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو ان صفات سے متصف نہیں مانتا جو قرآن شریف میں بیان ہوئی ہیں اور اپنے اور خدا تعالیٰ میں کوئی فرق نہیں کرتا بلکہ خود ہی خدا بنتا ہے وہ اگر اباحتی نہ ہو تو اور کیا ہو؟ زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ دوزخ اور بہشت پر ایمان بھی لاتے ہیں اور ایمان لاکر بھی سمجھتے ہیں کہ ہم ہی خدا ہیں.اور ایک اور بڑی غلطی ہے جس میں یہ لوگ مبتلا ہیں اور وہ یہ ہے کہ اپنے مذہب کو اکابر سے منسوب کرتے ہیں.وحدتِ شہودی اصل یہ ہے کہ مذہب دو ہیں.وجودی اور شہودی.وجودیوں نے فلسفیوں کی طرح یہ سمجھ لیا ہے کہ انسان کے سوا خدا کچھ نہیں ہے یا خدا کے سوا اور کچھ نہیں.مگر شہودی ان کے سوا ہیں اور وہ ٹھیک ہیں.جنہوں نے استیلاءِ محبت اور تجلیاتِ صفاتِ الٰہی سے ایسا معلوم کیاکہ خدا ہے.انہوں نے اس کی ہستی اور وجود کے سامنے اپنی ہستی اور وجود کی نفی کر لی.اور من تو شدم تو من شدی کے مصداق ہوئے.حقیقت میں محبت کے ثمرات میں سے نفی وجود ضروری ہے.اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا.بلکہ قرآن شریف سے یہ صحیح معلوم ہوتا ہے.یہی وہ مقام ہے جو فنا فی اللہ کہلاتا ہے.لیکن وجودیوں کا یہ حال نہیں.ان کا تو یہ حال ہے کہ گویا انہوں نے ڈاکٹروں کی طرح تشریح کر کے خدا تعالیٰ کو دیکھ لیا ہے.تب ہی تو یہ خود بھی خدا بنتے ہیں.حالانکہ یہ

Page 271

صریح غلط اور بے ہودہ امر ہے.اللہ تعالیٰ تو صاف فرماتا ہے لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ(الانعام:۱۰۴) وجودیوں کا یہ مذہب ہے کہ ہم ہی لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ پڑھتے ہیں اور ہم ہی سچے موحد ہیں باقی سب مشرک ہیں.اس کا نتیجہ عوام میں یہ ہوا کہ اباحت پھیل گئی اور فسق و فجور میں ترقی ہوگئی کیونکہ وہ اسے حرام نہیں سمجھتے اور نماز روزہ اور دوسرے اوامر کو ضروری نہیں سمجھتے.اس سے اسلام پر بہت بڑی آفت آئی ہے.میرے نزدیک وجودیوں اور دہریوں میں ۱۹ اور ۲۰ کا فرق ہے.یہ وجودی سخت قابل نفرت اور قابل کراہت ہیں.افسوس کا مقام ہے کہ جس قدر گدیاں ہیں ان میں سے شاید ایک بھی ایسی نہیں ہوگی جو یہ مذہب نہ رکھتی ہو.سب سے زیادہ افسوس یہ ہے کہ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا فرقہ جو قادری کہلاتا ہے وہ بھی وجودی ہوگئے ہیں.حالانکہ سید عبدالقادر وجودی نہ تھے.ان کا طرز عمل اور ان کی تصنیفات اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ (الفاتـحۃ:۶) کی عملی تصدیق دکھاتی ہیں.علماء صرف یہ سمجھتے ہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صرف پڑھنے کے لیے ہے لیکن اس کے اثرات اور نتائج کچھ نہیں.مگر وہ عملی طور پر دکھاتے ہیں کہ ان منعم علیہ لوگوں کے نمونے اس امت میں ہوتے ہیں.غرض یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ گو ایسے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں.لیکن ہیں ضرور جو خدا تعالیٰ سے کامل محبت کرتے ہیں اور اسی دنیا میں رہ کر انقطاع اور سفر آخرت کی طیاری کرتے ہیں.یہ امور ایسے ہی لوگوں کے حصے میں آئے ہیں جیسے سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ.مگر اب برخلاف ان کے وجودیوں کی کثرت ہے اور اسی وجہ سے فسق و فجور میں ترقی ہے.اس دنیا میں معرفت اور بصیرت حاصل کرنے کا نسخہ قرآن شریف کی تعلیم کا خلاصہ مغز کے طور پر یہی بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت اس قدر استیلاء کرے کہ ماسوی اللہ جل جاوے.یہی وہ عمل ہے جس سے گناہ جلتے ہیں اور یہی وہ نسخہ ہے جو اسی عالم میں انسان کو وہ حواس اور بصیرت عطا کرتا ہے جس

Page 272

سے وہ اُس عالم کی برکات اور فیوض کو اِس عالم میں پاتا ہے اور معرفت اور بصیرت کے ساتھ یہاں سے رخصت ہوتا ہے.ایسے ہی لوگ ہیں جو اس زمرہ سے الگ ہیں مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى ( بنی اسـرآءیل :۷۳) اور ایسے ہی لوگوں کے لیے فرمایا ہے وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ(الرّحـمٰن:۴۷) یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں ان کو دو جنت ملتے ہیں.ہمارے نزدیک اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک جنت تو وہ ہے جو مرنے کے بعد ملتی ہے.دوسری جنت اسی دنیا میں عطا ہوتی ہے اور یہی جنت اس دوسری جنت کے ملنے اور عطا ہونے پر بطور گواہ واقعہ ٹھیر جاتی ہے.ایسا مومن دنیا میں بہت سے دوزخوں سے رہائی پاتا ہے.مختلف قسم کی بد اخلاقیاں یہ بھی دوزخ ہی ہیں.جن چیزوں سے شدید تعلق ہو جاتا ہے وہ بھی ایک قسم کا دوزخ ہی ہے کیونکہ پھر ان کو چھوڑنے سے تکلیف ہوتی ہے.مثلاً مال سے محبت ہو اور اسے چور لے جائیں تو اسے سخت تکلیف ہوتی ہے.یہاں تک کہ بعض اوقات ایسے لوگ مر ہی جاتے ہیں یا ان کی زبان بند ہوجاتی ہے.اسی طرح پر اَور جن فانی اشیاء سے محبت ہے وہ اگر تلف ہو جائیں یا مر جاویں تو اس کو سخت رنج اور صدمہ ہوتا ہے.مثنوی میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک شخص کا ایک دوست مر گیا جس کے غم میں وہ رو رہا تھا.اس سے پوچھا گیا کہ تو کیوں روتا ہے تو اس نے کہا کہ میرا ایک نہایت ہی عزیز دوست مر گیا.اس نے کہا کہ تو نے مرنے والے سے دوستی ہی کیوں کی؟ اصل بات یہ ہے کہ مفارقت تو ضروری ہے اور جدائی ضروری ہوگی.یا یہ خود جائے گا یا وہ جس سے دوستی اورمحبت کی ہے.پس وہ مفارقت عذاب کا موجب ہوجائے گی.لیکن جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتے ہیں اور ان فانی اشیاء کے دلدادہ اور گرویدہ نہیں ہوتے وہ اس عذاب سے بچا لیے جاتے ہیں.کسی نے کیا اچھا کہا ہے.؎ دشتِ دنیا جزو دو جز دام نیست جز بخلوت گاہِ حق آرام نیست

Page 273

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء کی حقیقت اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ہمارا اصل منشا اور آنے کی غرض یہ نہیں کہ عیسیٰ فوت ہوگیا.یہ تو ایک سچائی تھی جو ہم نے پیش کی.اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہی ظاہر کیا.ہم نے اسی طرح اس کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا.ہمیں حضرت عیسٰیؑ کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ایک رسول اور پیغمبر ہیں.یہ کہتے ہیں کہ وہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر نہیں گئے ہم کو ان کی تذلیل منظور نہیں مگر ہم کیا کریں اصل بات ہی یہ ہے جو امر ہم کسی نبی اور رسول کے لیے نہیں مانتے ہم کیونکر ان کے ساتھ اسے مختص کریں.ہاں ہم کو بخل نہیں ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جس جسم کے ساتھ دوسرے پیغمبر آسمان پر گئے ہیں.حضرت عیسٰیؑ بھی اسی جسم کے ساتھ گئے ہیں.مگر ان لوگوں کی غلطیوں اور خود تراشیدہ خیالات کو کیسے مان لیں.یہ خوب یاد رہے کہ ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر روح بلا جسم ہرگز نہیں مانتے.ہم مانتے ہیں کہ وہ وہاں جسم ہی کے ساتھ ہیں.ہاں فرق اتنا ہے کہ یہ لوگ جسم عنصری کہتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ وہ جسم وہی جسم ہے جو دوسرے رسولوں کو دیا گیا ہے.دوزخیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ(الاعراف:۴۱) یعنی کافروں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاویں گے اور مومنوں کے لیے فرماتا ہے مُفَتَّحَةً لَّهُمُ الْاَبْوَابُ (صٓ:۵۱) اب ان آیات میں لَهُمْ کا لفظ اجسام کو چاہتا ہے تو کیا یہ سب کے سب پھر اسی جسم عنصری کے ساتھ جاتے ہیں؟ نہیں ایسا نہیں.جسم تو ہوتے ہیں مگر وہ وہ جسم ہیں جو مرنے کے بعد دیئے جاتے ہیں.ایسا ہیفَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ وَ ادْخُلِيْ جَنَّتِيْ(الفجر:۳۰،۳۱) بھی اجسام کو چاہتا ہے.پھر تیسری شہادت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت ہے.معراج میں آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت یحییٰ کے ساتھ دیکھا وہاں آپ نے روحیں تو نہ دیکھی تھیں.یعنی جسم صرف حضرت عیسیٰ کا ہو اور باقی نبیوں کی روحیں تھیں اور مسیح ہی کا جسم تھا.

Page 274

سچی اور بالکل سچی اور صاف بات یہی ہے کہ اجسام ضرور ملتے ہیں لیکن یہ عنصری اجسام یہاں ہی رہ جاتے ہیں یہ اوپر نہیں جا سکتے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے جواب میں فرمایا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا ( بنی اسـرآءیل :۹۴) یعنی ان کو کہہ دے میرا ربّ اس سے پاک ہے جو اپنے وعدوں کے خلاف کرے جو وہ پہلے کر چکا ہے میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں.سُبْحَانَ کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ سابق جو وعدے ہو چکے ہیں ان کی خلاف ورزی وہ نہیں کرتا.وہ وعدہ کیا ہے؟ وَ لَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ(البقرۃ:۳۷) اور ایسا ہی فرمایا اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ كِفَاتًا(المرسلٰت:۲۶) اور پھر فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَ فِيْهَا تَمُوْتُوْنَ (الاعراف:۲۶) ان سب آیتوں پر اگر یکجائی نظر کی جاوے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جسم جو کھانے پینے کا محتاج ہے آسمان پر نہیں جاتا.پھر ہم دوسرے نبیوں سے بڑھ کر مسیح میں یہ خصوصیت کیونکر تسلیم کر لیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار نے شرارت سے یہی سوال کیا تھا کہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں.اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ پہلے وہ آیات سن چکے تھے جس میں اس امر کی نفی کی گئی تھی.انہوںنے سوچا کہ اگر اب اقرار کریں تو اعتراض کا موقع ملے.لیکن وہ تو اللہ کا کلام تھا اس میں اختلاف نہیں ہو سکتا تھا.اس لیے ان کو یہی جواب ملا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا (بنی اسـرآءیل :۹۴) یعنی ان کو کہہ دو کہ ایسا معجزہ اللہ تعالیٰ کے قول کے خلاف ہے اور وہ اس سے پاک ہے کہ اپنے پہلے قول کے خلاف کرے.غرض یہ کس قدر موٹی باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بار بار پیش کی ہیں.مگر تعجب اور افسوس کا مقام ہے کہ یہ ان کو سمجھتے نہیں اور خواہ مخواہ حضرت مسیح میں کچھ ایسی خصوصیت پیدا کرنا چاہتے ہیں جو دوسروں میں نہیں ہے.قرآن شریف کی یہ تعلیم اور بخاری اور مسلم کو دیکھو اور صحاح کو پڑھو وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت موجود ہے.آپ نے حضرت مسیح کو یحییٰ کے ساتھ دیکھا ویسے ہی حضرت مسیح کو اس وقت ان میں کوئی خاص بات نہ تھی جو بطور جسم کے الگ ہو یعنی ان کا تو جسم ہو اور حضرت یحییٰ کی مجرد روح ہو.جب قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح شہادت

Page 275

موجود ہے پھر یہ نرالا جسم کیسا؟ اگر نرالا نہیں تو بسم اللہ ہم ایمان لاتے ہیں کہ وہ جسم جو مرنے کے بعد دیا جاتا ہے وہ مسیح کو بھی دیا گیا.پھر نزاع لفظی نکلی.یہ ہم کبھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ مسیح کو کوئی الگ جسم دیا جاوے کیونکہ یہ شرک ہے.ہم جسم کے قائل ہیں لیکن اس جسم عنصری کے قائل نہیں.انجیل سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جلالی جسم تھا اور ایسا جسم مرنے کے بعد ملتا ہے.ہمارا مذہب یہی ہے کہ بہشت میں بھی جسم ہوں گے.نعماء بہشت کی حقیقت لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جو لکھا ہے کہ بہشت میں دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی تو اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہاں گایوں کا ایک گلہ ہوگا اور بہت سارے گوالے ہوں گے جو دودھ دوہ دوہ کر ایک نہر میں ڈالتے رہیں گے.یا بہت سے چھتے شہد کی مکھیوں کے ہوں گے اور پھر ان کا شہد جمع کر کے نہروں میں گرایا جاوے گا.یہ مطلب نہیں؟ اللہ تعالیٰ نے جو مجھ پر ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ بات نہ ہوگی.اگر یہی خربوزہ اور تربوز یا انار ہوں گے تو پھر بات ہی کیا ہوئی؟ کافر بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے یہاں اس دنیا میں کھا لیے.تم نے آگے جا کر کھائے.اس کی حقیقت جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھولی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن شریف میں فرمایا ہے وَ بَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ (البقرۃ:۲۶) یعنی جو لوگ ایمان لاتے اور اچھے عمل بجا لاتے ہیں وہ ان باغوں کے وارث ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو باغ کے ساتھ مشابہت دی جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں.اس آیت میں بہشت کی حقیقت اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے.گویا جو رشتہ نہروں کو باغ کے ساتھ ہے.وہی تعلق اور رشتہ اعمال کا ایمان کے ساتھ ہوتا ہےاور جس طرح پر کوئی باغ یا درخت بغیر پانی کے سر سبز نہیں رہ سکتا اسی طرح پر کوئی ایمان بغیر اعمال صالحہ کے زندہ اور قائم نہیں رہ سکتا.اگر ایمان ہو اور اعمال صالحہ نہ ہوں تو ایمان ہیچ ہے اور اگر اعمال ہوں اور ایمان نہ ہو تو وہ اعمال ریاکاری ہیں.پس قرآن شریف نے جو بہشت پیش کیا ہے اس کی حقیقت اور فلسفی یہی ہے کہ وہ اس دنیا کے ایمان اور اعمال کا ایک ظل ہے اور ہر شخص کی بہشت اس کے اپنے اعمال اور

Page 276

ایمان سے شروع ہوتی ہے اور اس دنیا میں ہی اس کی لذت محسوس ہونے لگتی ہے اور پوشیدہ طور پر ایمان اور اعمال کے باغ اور نہریں نظر آتی ہیں.لیکن عالم آخرت میں یہی باغ کھلے طور پر محسوس ہوں گے اور ان کا ایک خارجی وجود نظر آجائے گا.قرآن شریف سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کی آبپاشی اعمال صالحہ سے ہوتی ہے بغیر اس کے وہ خشک ہوجاتا ہے.پس یہاں دو باتیں بیان کی ہیں ایک یہ کہ وہ بہشت باغ ہے.دوسرا ان درختوں کی نہروں سے آبپاشی ہوتی ہے.قرآن شریف کو پڑھو اور اول سے آخر تک اس پر غور کرو تب اس کا مزا آئے گا کہ حقیقت کیا ہے؟ ہم مجاز اور استعارہ ہرگز پیش نہیں کرتے بلکہ یہ حقیقت الامر ہے.وہ خدا تعالیٰ جس نے عدم سے انسان کو بنایا ہے اور جو خلق جدید پر قادر ہے وہ یقیناً انسان کے ایمان کو اشجار سے متمثل کر دے گا اور اعمال کو انہار سے متمثل کرے گا اور واقعی طور پر دکھاوے گا یعنی ان کا وجود فی الخارج بھی نظر آئے گا.اس کی مختصر سی مثال یوں بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے انسان خواب میں عمدہ اور شیریں پھل کھاتا ہے اور ٹھنڈے اور خوشگوار پانی پیتا ہے اور فی الواقع وہ پھل اور آب سرد ہوتا ہے.اس وقت اس کے ذہن میںکوئی دوسرا امر نہیں ہوتا.پھلوںکو کھا کر سیری ہوتی اور پانی پی کر فی الواقع پیاس دور ہوتی ہے.لیکن جب اٹھتا ہے تو نہ ان پھلوں کا کوئی وجود ہوتا ہے اور نہ اس پانی کا.اسی طرح پر جیسے اس حالت میں اللہ تعالیٰ ان اشیاء کا ایک وجود پیدا کر دیتا ہے.عالم آخرت میں بھی ایمان اور اعمالِ صالحہ کو اس صورت میں متمثل کر دیا جائے گا.اسی لیے فرمایا ہے هٰذَا الَّذِيْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَاُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا(البقرۃ:۲۶) اس کے اگر یہ معنے کریں کہ وہ جنتی جب ان پھلوں اور میووں کو کھائیں گے تو یہ کہیں گے کہ یہ وہ پھل اور خربوزے یا تربوز یا انار ہیں جو ہم نے دنیا میںکھائے تھے تو یہ ٹھیک نہیں کیونکہ اس طرح پر تو وہ لذت بخش چیز نہیں ہو سکتے اور نعماء جنت کی حقارت ہے.اگر کوئی شخص مثلاً کشمیر میں جاوے اور وہاںکی ناشپاتیاں کھا کر کہے کہ یہ تو وہی ناشپاتیاں ہیںجو پنجاب میں کھائی تھیں تو صریح ان ناشپاتیوں کی حقارت ہے.پس اگر بہشت کی نعماء کی بھی یہی مثال ہے تو یہ خوشی نہیں بلکہ ان سے بیزاری ہے.اس لیے اس کا یہ مفہوم اور مطلب نہیں ہے.بلکہ اس سے مراد

Page 277

یہ ہے کہ وہ بہشتی لوگ جو اس دنیا میں بڑے عابد اور زاہد تھے جب وہ اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کے متمثلات سے لطف اٹھائیں گے تو ان کو وہ ایمانی لذت آجائے گی اور ان مجاہدات اور اعمال صالحہ کا مزا آجائے گا جو اس عالم میں انہوں نے کئے تھے اس لیے وہ کہیں گے هٰذَا الَّذِيْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ(البقرۃ:۲۶).محبت الٰہی کی لذات غرض جس قدر قرآن شریف کو کوئی شخص تدبر اور غور سے پڑھے گا اسی قدر وہ اس حقیقت کو سمجھ لے گا کہ ان لذات کا تمثیلی رنگ میں فائدہ اٹھائے گا.محبت الٰہی کی لذات ہیں.لذت کا لفظ جو مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے وہ جسمانی لذت کے مفہوم سے ہزاروں درجہ زیادہ مفہوم روحانی لذت میں رکھتا ہے.اگر اس محبت کی لذت میں غیر معمولی سیری اور سیرابی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے محب جسمانی لذات کو ترک کیوںکریں.یہاں تک کہ بعض اس قسم کے بھی ہو گذرے ہیں جنہوں نے سلطنت تک کو چھوڑ دیا.چنانچہ ابراہیم ادھم نے سلطنت چھوڑ دی.اور انبیاء علیہم السلام نے ہزاروںلاکھوں مصائب کو برداشت کیا.اگر وہ لذت اور ذوق اس محبت الٰہی کی تہہ میں نہ تھا جو انہیں کشاں کشاں لیے جاتا تھا تو وہ پھر کیا بات تھی کہ اس قدر مصائب کو انہوں نے خوشی کے ساتھ اٹھا لیا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اس درجہ میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں.اس لیے آپؐکی زندگی کانمونہ بھی سب سے افضل و اعلیٰ ہے.کفارِ مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دنیا کی ساری نعمتیں اور عزتیں پیش کیں.مال و دولت، سلطنت، عورتیں.اور کہا کہ آپؐ ہمارے بتوں کی مذمت نہ کریں اور یہ توحید کا مذہب پیش نہ کریں.اس خیال کو جانے دیں وہ دنیادار تھے ان کی نظر دنیا کی فانی اوربے حقیقت لذتوں سے پرے نہ جاسکتی تھی.انہوںنے سمجھا کہ یہ تبلیغ انہیں اغراض کے لیے ہوگی مگر آپ نے ان کی ان ساری پیش کردہ باتوں کو ردّ کر دیا اور کہا کہ اگر میرے دائیں بائیں آفتاب اور ماہتاب بھی لا کر رکھ دو تب بھی میں اس کو نہیں چھوڑ سکتا.پھر اس کے بالمقابل انہوں نے آپ کو وہ تکالیف پہنچائیں جن کا نمونہ کسی دوسرے شخص کی تکالیف میں نظر نہیں آتا.لیکن آپ نے ان تکالیف کو بڑی لذت اور سرور سے منظور کیا مگر اس راہ کو نہ چھوڑا.

Page 278

اب اگر کوئی لذت اور ذوق نہ تھا تو پھر کیا وجہ تھی جو ان مصائب اور مشکلات کو برداشت کیا؟ وہ وہی لذت تھی جو اللہ تعالیٰ کی محبت میںملتی ہے اور جس کی مثال اورنمونہ کوئی پیش نہیں کیا جا سکتا.جماعت کے قیام کا مقصد محبت الٰہی کو پیدا کرنا ہے خدا تعالیٰ نے اس وقت ایک صادق کو بھیج کر چاہا ہے کہ ایسی جماعت طیار کرے جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرے.میں دیکھتا ہوں کہ بعض کچے لوگ داخل ہوجاتے ہیں اور پھر ذرا سی دھمکی ملتی ہے اور لوگ ڈراتے ہیں تو پھر خط لکھ دیتے ہیں کہ کچھ تقیہ کر لیا ہے.بتاؤ انبیاء علیہم السلام اس قسم کے تقیہ کیا کرتے ہیں؟ کبھی نہیں.وہ دلیر ہوتے ہیں اور انہیں کسی مصیبت اور دکھ کی پروا نہیں ہوتی.وہ جو کچھ لے کر آتےہیں اسے چھپا نہیں سکتے خواہ ایک شخص بھی دنیا میں ان کا ساتھی نہ ہو.وہ دنیا سے پیار نہیں کرتے.ان کا محبوب ایک ہی خد اہوتا ہے.وہ اس راہ میں ایک مرتبہ نہیں خواہ ہزار مرتبہ قتل ہوں اس کو پسند کرتے ہیں.اس سے سمجھ لو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچے تعلق کا مزا اور لطف نہیں تو پھر یہ گروہ کیوں مصائب اٹھاتے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کو پڑھو کہ کفار نے کس قدر دکھ آپ کو دیئے.آپ کے قتل کا منصوبہ کیا گیا.طائف میں گئے تو وہاں سے خون آلود ہو کر پھرے.آخر مکہ سے نکلنا پڑا.مگر وہ بات جو دل میں تھی اور جس کےلئے آپؐمبعوث ہوئے تھے اسے ایک آن کے لیے بھی نہ چھوڑا.یہ مصائب اور تکالیف کبھی برداشت نہیں ہوسکتیں جب تک اندرونی کشش نہ ہو.ایک غریب انسان کےلیے دو چار دشمن بھی ہوں وہ تنگ آجاتا ہے اور آخر صلح کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے.مگروہ جس کا سارا جہان دشمن ہو وہ کیونکر اس بوجھ کو برداشت کرے گا.اگر قوی تعلق نہ ہو.عقل اس کو قبول نہیں کرتی.مختصر یہ کہ خدا تعالیٰ کی محبت کی لذت ساری لذتوں سے بڑھ کر ترازو میں ثابت ہوتی ہے.پس وہ لذات جو بہشت میں ملیں گی.یہ وہی لذتیں ہیں جو پہلے اٹھاچکے ہیں.اور وہی ان کو سمجھتےہیں جو پہلے اٹھا چکے ہیں.

Page 279

نعماء جنت کیونکر ہوں گی اگر کہو کہ وہ نعمتیں کیوں کرہوں گی؟ تو اس کا جواب صاف ہے.اللہ تعالیٰ خلق جدید پر قادر ہے.خود انسان کا اپنا وجود بھی خیالی ہے جس قطرہ سے پیدا ہوتا ہے وہ کیا چیز ہے؟ پھر خیال کرو کہ اس سے کیسا اچھا انسان بناتا ہے کیسے عقلمند، خوبصورت، بہادر.پھر وہی خدا ہے جو دوسرے عالم میں خلق جدید کرے گا.دیکھنے میں وہ لذات اورمیوہ جات ہمرنگ ہوں گے لیکن کھانے میں ایسے لذیذ ہوں گے کہ نہ کسی آنکھ نے ان کو دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی زبان نے ان کو چکھا اور نہ وہ کسی خیال میں گذرے.بہشت کی لذات کی کیفیت بہشت کی لذات میں ایک اور بھی خوبی ہے.دنیا کی لذتوں میں اور جسمانی لذتوں میں نہیں ہے.مثلاً انسان روٹی کھاتا ہے تو دوسری لذتیں اسے یاد نہیں رہتی ہیں.مگر بہشت کی لذات نہ صرف جسم ہی کے لیے ہوں گی بلکہ روح کے لیے بھی لذت بخش ہوں گی.دونوں لذتیں اس میں اکٹھی ہوں گی اور پھر اس میں کوئی کثافت نہ ہوگی اور سب سے بڑھ کر جو لذت ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا.مگر دیدار الٰہی کےلیے یہ ضروری ہے کہ یہاں ہی سے طیاری ہو اور اس کے دیکھنے کے لیے یہاں ہی سے انسان آنکھیں لے جاوے.جو شخص یہاں طیاری کر کے نہ جاوے گا وہ وہاں محروم رہے گا.چنانچہ فرمایا مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسـرآءیل :۷۳) اس کے یہ معنی نہیں کہ جو لوگ یہاں نابینا اور اندھے ہیں وہ وہاں بھی اندھے ہوں گے.نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ دیدار الٰہی کےلیے یہاں سے حواس اور آنکھیں لے جاوے اور ان آنکھوں کےلیے ضرورت ہے تبتّل کی.تزکیہ نفس کی اور یہ کہ خدا تعالیٰ کو سب پر مقدم کرو اور خدا تعالیٰ کے ساتھ دیکھو، سنو اور بولو.اسی کا نام فنا فی اللہ ہے اور جب تک یہ مقام اور درجہ حاصل نہیں ہوتا نجات نہیں.خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق قوی اور محبت صافی تب ہو سکتی ہے جب اس کی ہستی کا پتہ لگے دنیا اس قسم کے شبہات کے ساتھ خراب ہوئی ہے.بہت سے تو

Page 280

کھلے طور پر دہریہ ہوگئے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو دہریہ تو نہیں ہوئے مگر ان کے رنگ میں رنگین ہیں اور اسی وجہ سے دین میں سست ہو رہے ہیں.اس کا علاج یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں تا ان کی معرفت زیادہ ہو اور صادقوں کی صحبت میں رہیں جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور تصرف کے تازہ بتازہ نشان دیکھتے رہیں.پھر وہ جس طرح پر چاہے گا اور جس راہ سے چاہے گا معرفت بڑھاوے گا اور بصیرت عطا کرے گا اور ثلج قلب ہو جائے گا.یہ بالکل سچ ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی عظمت پر ایمان ہوگا اسی قدر اللہ تعالیٰ سے محبت اور خوف ہوگا ورنہ غفلت کے ایام میں جرائم پردلیر ہوجائے گا.اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کی عظمت اور جبروت کا رعب اور خوف ہی دو ایسی چیزیں ہیںجن سے گناہ جل جاتے ہیں اوریہ قاعدہ کی بات ہے کہ جن اشیاء سے ڈرتا ہے پرہیز کرتا ہے.مثلاً جانتا ہے کہ آگ جلا دیتی ہے اس لیے آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتا.یا مثلاً اگر یہ علم ہو کہ فلاں جگہ سانپ ہے تو اس راستہ سے نہیں گذرے گا.اسی طرح اگر اس کو یہ یقین ہو جاوے کہ گناہ کا زہر اس کو ہلاک کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت سے ڈرے اور اس کو یقین ہو کہ وہ گناہ کو ناپسند کرتا ہے اور گناہ پر سخت سزا دیتاہے تو اس کو گناہ پر دلیری اور جرأت نہ ہو.زمین پر پھر اس طرح سے چلتا ہے جیسے مُردہ چلتا ہے.اس کی روح ہر وقت خدا کے پاس ہوتی ہے.یہ امور ہیں جو ہم اپنی جماعت میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ان کی ہی اشاعت ہمارا مقصود ہے.میں یقیناً جانتا ہوں اور کھول کر کہتا ہوں کہ انہیں امور کی پابندی سے مسلمان مسلمان ہوں گے اور اسلام دوسرے ادیان پر غالب آئے گا.اگر اللہ تعالیٰ مسیح کی موت یا مسیح موعود ہونے کے امور کو ہماری راہ میں نہ ڈال دیتا تو ہمیں کچھ بھی ضرورت نہ تھی کہ عیسیٰ کہلاتے.مگر میں کیا کر سکتا ہوں جب کہ خود اس نے مجھے اس نام سے پکارا اور اس کی اشاعت اور اعلان پر مجھے حکم دیا.میں خوب جانتا ہوںکہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے لیے مجھے عیسیٰ کہلانے کی کچھ بھی حاجت نہ تھی اور منزل مقصود پر پہنچنے کےلیے اس کی کچھ بھی حاجت نہیں اور نہ قرآن شریف میں یہ لکھا ہے.مگر اللہ تعالیٰ

Page 281

نے ایسا ہی چاہا اور اس لیے چاہا کہ تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور عظمت کا اظہار ہو اور ایک عاجز انسان جس کو غلطی سے خدا بنا لیا گیا ہے اس کی حقیقت دنیا پر کھل جاوے.اللہ تعالیٰ کی برکات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض بند نہیں ہوں گے میں یہ بھی ظاہر کرتا ہوں کہ ہم نیکی کے ثمرات کو محدود نہیں کرتے اور نہ خدا تعالیٰ کے فضل اور فیوض کی حد بندی کرتے ہیں کہ وہ اب ختم ہوگئے ہیں اور کسی دوسرے کو نہیں مل سکتے.یہ بالکل غلط بات ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی بات کی کمی نہیں ہے اور کوئی شخص بھی جو مجاہدہ کرے اور اس راہ پر جو اس نے بتائی ہے چلے محروم نہیں رہ سکتا.ہاں یہ بالکل سچ ہے کہ جو کچھ ملے گا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور کامل اطاعت اور اتباع پر ملے گا.اگر یہ مان لیا جاوے کہ بس اب خدا کے برکات کا دروازہ بند ہے تو اللہ تعالیٰ کو یا تو بخیل ماننا پڑے گا اور یا یہ کہنا پڑے گا کہ خاتمہ ہوگیا.مگر سُبْـحَانَ رَبِّیْ وہ اس قسم کے نقصوں سے پاک ہے.جو شخص سچے دل سے خدا تعالیٰ کے حضور آتا ہے وہ خالی نہیں جاتا.پاکیزہ قلب ہونے کی ضرورت ہے ورنہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ(الفاتـحۃ:۶،۷) کی تعلیم اور تاکید بے فائدہ ہو جاتی ہے.اگر وہ انعام اکرام اب کسی کو ملنے ہی نہیں ہیں توپھر پانچ وقت اس دعا کے مانگنے کی کیا حاجت ہے؟ یہ بڑی غلطی ہے جو مسلمانوں میں پھیل گئی ہے.حالانکہ یہی تو اسلام کا حسن اور خوبی تھی کہ اس کے برکات اور فیوض اور اس کی پاک تعلیم کے ثمرات تازہ بتازہ بہت مل سکتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کے ثمرات تمام صوفیوں اور اکابران امت کا یہی مذہب ہے بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ کامل متبع ہوتا ہی نہیں جب تک بروزی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کو اپنے اندر نہ رکھتا ہو اور حقیقت میں یہ بات صحیح بھی ہے کیونکہ کامل اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لازم ہے کہ اس کے ثمرات اپنے اندر پیدا کرے.جب ایک شخص کامل اطاعت کرتا ہے اور گویا اطاعتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں محو اور فنا ہو کر گم ہوجاتا ہے اس وقت اس کی حالت

Page 282

ایسی ہوتی ہے جیسے ایک شیشہ سامنے رکھا ہوا ہو اور تمام و کمال عکس اس میں پڑے.میں کبھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور برکات اور ان تاثیرات کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل اتباع سے ملتی ہیں محدود نہیں کر سکتا بلکہ ایسا خیال کرنا کفر سمجھتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ بہشت میں ایک مقام ہے جو مجھے ہی ملے گا.ایک صحابی یہ سن کر رو پڑا.آپ نے جب پوچھا کہ تو کیوں رو پڑا؟ تو اس نے کہا کہ یا رسول اللہ مجھے آپ کے ساتھ محبت ہے.جب آپ اس مقام میں ہوں گے تو میں کہاں ہوںگا؟ آپ نے فرمایا کہ تو میرے ساتھ ہو گا.اس سے معلوم ہوا کہ آپؐنے اس کے وجود کو اپنے اندر لے لیا.غرض یہ یقیناً یاد رکھو کہ کامل اتباع کے ثمرات ضائع نہیں ہو سکتے.یہ تصوف کا مسئلہ ہے.اگر ظلی مرتبہ نہ ہوتا تو اولیاء امت تو مر جاتے.یہی کامل اتباع اور بروزی اور ظلی مرتبہ ہی تو تھا جس سے بایزیدؒ نے محمدؐ کہلایا اور اس کہنے پر ستر مرتبہ کفرکا فتویٰ ان کے خلاف دیا گیا اور انہیں شہر بدر کیا گیا.مختصر یہ کہ لوگ جو ہماری مخالفت کر تے ہیں انہیں اس بات کا علم نہیں اور وہ اس حقیقت سے بےخبر ہیں کاش وہ ان حالی کیفیات سے واقف ہوتے تو انہیں معلوم ہوتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر اور حقیقت ان لوگوں نے سمجھی ہی نہیں اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی تاثیرات اور ثمرات بھی باقی نہیں ہیں تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ثبوت ہی کیا ہے؟ اور اسلام کی فضیلت ہی کیا؟ اور اس شریعت کی اتباع کی حاجت ہی کیا جبکہ اس کے نتائج اور برکات ہم کو مل نہیںسکتے؟ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک بیہودہ اور کفریہ خیال ہے.اسلام کی اتباع کے ثمرات اب بھی اور ہمیشہ مل سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی ذات میں بخل نہیں اور نہ اس کے ہاں کسی بات کی کمی.بعض آدمی اپنی بیوقوفی اور شتاب کاری سے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ کیا ہم نے ولی بننا ہے؟ میرے نزدیک ایسے لوگ کفر کے مقام پر ہیں.اللہ تعالیٰ تو سب کو ولی کہتا ہے اور سب کو ولی بنانا چاہتا ہے.اسی لیے وہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی ہدایت کرتا ہے.وہ چاہتا ہے کہ تم منعم علیہ گروہ کی مانند ہوجاؤ.جو کہتا ہے کہ میں ایسا نہیں ہو سکتا وہ اللہ تعالیٰ پر بخل کی تہمت لگاتا ہے اور اس لیے یہ کلمہ کفر

Page 283

ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا مقام تو یہ تھا کہ آپ محبوب الٰہی تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں کو بھی اس مقام پر پہنچنے کی راہ بتائی جیسا کہ فرمایا قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ( اٰلِ عـمران:۳۲) یعنی ان کو کہہ دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ محبوب الٰہی بن جاؤ تومیری اتباع کرو.اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنا لے گا.اب غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع محبوب الٰہی تو بنا دیتی ہے.پھر اور کیا چاہیے؟ مگر اصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ ہی کو شناخت نہیں کیا مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ( الانعام: ۹۲).ایسا ہی شیعہ ہیں.انہوں نے فقط اتنا ہی سمجھ لیا ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے رو پیٹ لینا ہی نجات کے واسطے کافی ہے.یہ کبھی ان کو خواہش نہیں ہوتی کہ ہم امام حسین رضی اللہ عنہ کی اتباع میں ایسے کھوئے جاویں کہ خود حسین بن جاویں.حالانکہ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ اس وقت تک نجات نہیں جب تک انسان نبی کا روپ نہ ہوجاوے.وہ انسان جو اپنے مراتب اور مدارج میں ترقی نہیں چاہتا وہ مخنثوں کی طرح ہے.میں کھول کر کہتا ہوں کہ جس قدر انبیاء و رسل گذرے ہیں ان سب کے کمالات حاصل ہو سکتے ہیں.اس لیے کہ ان کے آنے کی غرض اور غایت ہی یہی تھی کہ لوگ اس نمونہ اور اسوہ پر چلیں.موت و حیات مسیح کا مسئلہ یہ امور ہیں جن کی وجہ سے ہم کو بدنام کیا جا رہا ہے.موت، حیات مسیح کا مسئلہ تو یونہی راہ میں آگیا.بہت سے مصالح الٰہی تھے جو یہ مسئلہ پیش آگیا ورنہ اصل مقاصد اور اغراض ہماری بعثت کے اور ہیں.ہاں یہ مسئلہ چونکہ تعلیم الٰہی کے خلاف تھا اور اس میں توحید کے مصفّٰی چشمہ کو مکدر کرنے والے اجزا موجود تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا ازالہ کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ سب نبی فوت ہوگئے ہیں.مسیح علیہ السلام میں کوئی ایسی خصوصیت نہیں جو دوسرے نبیوں کو نہ ملی ہو.میں تسلیم کرتا ہوں کہ مسیح جسم کے ساتھ آسمان پر گیا ہے لیکن میں یہ کبھی تسلیم نہیں کر سکتا کہ دوسرے نبی جسم کے بغیر آسمان پر گئے ہیں.جس قسم کے جسم ان کو عطا ہوئے ہیں وہی جسم مسیح کو دیا

Page 284

گیا ہے اور یہ وہ جسم ہے جو مرنے کے بعد عطا ہوتا ہے.یہ پرانی باتیں ہیں نئی نہیں.چونکہ انہوں نے قرون ثلاثہ کی باتیں بھلا دی ہیں.اس لیے بار بار کہتے ہیں کہ کیا ہمارے باپ دادے غلطی پر تھے؟ میں نہیں کہتا کہ وہ غلطی پر تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ وہ زمانہ فیج اعوج ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر بھی کفار ایسا ہی کہتے تھے کہ یہ ہمارے باپ دادوں کے خلاف ہے.یہ باپ دادے کی سند صحیح نہیں ہو سکتی.ایک زمانہ قرونِ ثلاثہ کے بعد گذرا ہے جس کو شیطانی زمانہ کہتے ہیں یہ درمیانی زمانہ ہزار سال کا زمانہ ہے جس قدر خرابیاں اور فسق و فجور پھیلا ہے.اس زمانہ میں ہی پھیلا ہے.اگر صحابہ کرام ہوتے تو وہ بھی شناخت نہ کر سکتے.اس زمانہ کا تو حوالہ دینا ہی عقلمندی نہیں.وفاتِ مسیح کا مسئلہ تو ایسا صاف ہو چکا ہے کہ اب کوئی عقل اس کے خلاف تجویز نہیں کر سکتی.اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرمایا کہ فوت ہوگئے.خود مسیح نے اپنی وفات کا اقرار کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مُردوں میں دیکھا اور پھر صحابہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر پہلا اجماع اسی پر کیا اور فیصلہ کر دیا.صحابہؓ کا اجماع غلطی پر نہیں ہوسکتا.کیونکہ صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونے کی فضیلت ہے.وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ( اٰلِ عـمران: ۱۴۵) میں کہتے ہیں کہ خَلَتْ کے معنے موت کے نہیں.مگر یہ تو ان کی غلطی ہے اس لیے کہ خود اللہ تعالیٰ نے خَلَتْ کے معنے کر دیئے ہیں.اَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ ( اٰلِ عـمران: ۱۴۵) اگر اس کے سوا کوئی اور معنے ہوتے جو یہ کرتے ہیں تو پھر رفع الـجسد العنصـری بھی ساتھ ہوتا.مگر قرآن شریف میں تو ہے نہیں پھر ہم کیونکر تسلیم کر لیں.ایسی صورت میں درمیانی زمانہ کی شہادت کو ہم کیا کریں؟ اور پھر تعجب یہ ہے کہ اس زمانہ میں بھی اس مذہب کے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اس کی وفات کا اقرار کیا ہے.اور اللہ تعالیٰ نے اگر میرا نام عیسیٰ رکھا تو اس میں اسلام کا کیا برا ہوا؟ یہ تو اسلام کا فخر ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فخر ہوا کہ وہ شخص جسے چالیس کروڑ انسان خدا سمجھتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا ایک فرد ان کمالات کو پالیتا ہے بلکہ اس سے بڑھ جاتا ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے

Page 285

جیسے لکھا ہے کہ ہارون رشید نے مصر کا علاقہ ایک حبشی کو دے دیا.کسی نے پوچھا تو جواب دیاکہ یہ وہی مصر ہے جس کی حکومت سے فرعون نے خدائی کا دعویٰ کر دیا تھا.اسی طرح پرمسیح کی خدائی پر زدّ مارنے کے لیے اللہ تعالیٰ نےمجھے مسیح بنا دیا تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی علوّ ِشان اس سے ظاہر ہو.مَسِّ شیطان کی حقیقت میں حیران ہوتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ ان لوگوں نے مسیح کو بہت سی خصوصیتیں ایسی دے رکھی ہیں جو اور کسی کو نہیں دی گئیں.مثلاً کہتے ہیں کہ مَسِّ شیطان سے وہی پاک ہے حالانکہ ہمارا ایمان یہ ہے کہ کسی نبی کو بھی مسّ شیطان نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کے راستباز اور صادق بندوں میں سے بھی کسی کو مسّ شیطان نہیں ہوتا.مطلب اس سے اَور تھا اور انہوں نے کچھ اَور سمجھ لیا.اگر صرف یہ اعتقاد رکھا جاوے کہ مسیحؑ ہی مسِّ شیطان سے پاک تھے اَور کوئی پاک نہ تھے تو یہ تو کلمہ کفر ہے.اصل بات یہ ہے کہ یہودی مریم علیہا السلام کو معاذ اللہ زانیہ اور حضرت مسیح کو نعوذ باللہ ولد الزنا کہتے تھے.اس لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کے اس الزام سے بریت کی اور مریم کا نام صدیقہ رکھا.اور حضرت مسیح کے لیے کہا کہ وہ مسّ شیطان سے پاک ہے.اولاد دو قسم کی ہوتی ہے ایک وہ جو مسّ شیطان سے ہو وہ ولد الحرام کہلاتی ہے.دوسری وہ جو روح القدس کے مسّ سے ہو وہ ولد الحلال ہوتی ہے.یہودیوں کا اس پر زور تھا کہ وہ مسیح پر ناجائز پیدائش کا الزام لگاتے تھے.اور ان کے ہاں یہ لکھا تھا کہ ولد الحرام سات پشت تک بھی خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا.چونکہ ان کے اس شبہ اور الزام کا جواب ضروری تھا اس لیے ان کے متعلق یہ کہا گیا.اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ معاذ اللہ معاذ اللہ!! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسّ شیطان سے پاک نہ تھے.ایسا اعتقاد کفر صریح ہے.کیا کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت آمنہ کی نسبت ایسا الزام لگایا؟ کبھی نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ مخالفوں نے امین اور صادق تسلیم کیا.برخلاف اس کے مسیح اور ان کی والدہ کی نسبت یہودیوں کے بیہودہ الزام تھے ہی.خود عیسائیوں نے انسائیکلو پیڈیا میں مان لیا ہے کہ نعوذ باللہ وہ ولد الحرام تھے پھر ایسی صورت میں کس قدر

Page 286

ضروری تھا کہ اس کا ازالہ ہوتا.اب یہ ہمارے مخالف اندھے ہو کر ان کی خصوصیت بتاتے ہیں اور منبروں پر چڑھ کر بیان کرتےہیں.حالانکہ یہ تو حضرت مسیح کا ایک داغ تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دھویا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کے بیان کرنےکی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ مثلاً اگر ایک شخص کے چہرہ پر سیاہی کا داغ ہو اور اسے صاف کر دیا جاوے تو یہ کیسی حماقت ہو کہ ایک شخص جس کے چہرہ پر وہ داغ ہی نہیں بلکہ خوبصورت اور روشن چہرہ رکھتا ہو اس سے اس سیاہی کے داغ والے کو افضل کہا جاوے صرف اس لیے کہ اس کا داغ صاف ہوا ہے.اس قسم کی غلطیوں میں ہمارے مخالف مبتلا ہیں.ہم ان پر صبر کرتے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسلام اور ملت پر زد نہ ہوتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تو جب آسمان پر جانے کا معجزہ مانگا جاوے تو انہیں قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ (بنی اسـراءیل:۹۴) کا جواب ملے اور مسیح کے لیے تجویز کر لیا جاوے کہ وہ آسمان پر چڑھ گئے.ایسی خصوصیتوں کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ اسے خدا بنایا جاوے.پھر توحید کہاں رہی؟ انہوں نے تو ان چالیس کروڑ کی مدد کی جو اسے خدا بنا رہے ہیں.افسوس ان لوگوں نے اصل شریعت کو چھوڑ دیا اور عجوبہ پسند ہوگئے.احیاء موتیٰ کا مسئلہ میرے متعلق یہ بھی اعتراض کرتے ہیںکہ مسیح نے مُردے زندہ کئے تھے اِنہوں نے کتنے کئے ہیں؟ میں اس کا کیا جواب دوں پہلے یہ تو معلوم کر لیں کہ مسیح نے کتنے مُردے زندہ کئے تھے؟ پھر اس کے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ مجھ سے پہلے ہے میں تو آپؐکا ایک ادنیٰ خادم ہوں.آپ کے پاس ایک مُردہ کی بابت کہا گیا جس کو سانپ نے کاٹا تھا اور کہا کہ اس کی نئی شادی ہوئی ہے آپ اسے زندہ کر دیں.آنحضرتؐنے فرمایا کہ اپنے بھائی کو دفن کرو.اگر حقیقی مُردے زندہ ہو سکتے تو سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معجزہ دیا جاتا.ہاں یہ سچ ہے کہ بعض اوقات سخت امراض میں مبتلا اور ایسی حالت میں کہ اس میں آثارِ حیات مفقود ہوں

Page 287

ا للہ تعالیٰ اپنے ماموروں اور مرسلوں کی دعاؤں کی وجہ سے انہیں شفا دے دیتا ہے.اس قسم کا احیاء ہم مانتے ہیں اور یہاں بھی ہوا ہے اور اس کے سوا دوسری حیات روحانی حیات ہے.غرض یہ دو قسم کا احیاء موتیٰ ہم مانتے ہیں.روحانی طور پر مسیح کا اثر بہت کم ہوا.کیونکہ یہودیوں نے مانا نہیں اور جنہوں نے مانا ان کی تکمیل نہ ہوئی.ایک نے لعنت بھیج دی.دوسرے نے پکڑوا دیا اور باقی بھاگ گئے.ہاں جسمانی طور پر بعض کےلیے دعائیں کیں اور وہ مریض اچھے ہوگئے اب بھی ہو رہے ہیں.غرض ہماری اصل غرض اور مقصد اور تعلیم وہ ہے جس کا میں ذکر کر آیا ہوں.یہ امور وفاتِ مسیح وغیرہ ہماری راہ میں آگئے جو مشرکین کا غلبہ توڑنے کے لیے مصلحت الٰہی نے ایسا ہی پسند فرمایا کہ چونکہ موسیٰ علیہ السلام کے آخری سلسلہ میں مسیح آیا تھا ویسے ہی یہاں بھی ضروری تھا کہ مسیح آتا چنانچہ آگیا.بعض یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مثیلِ موسیٰ تھا اس لیے یہاں بھی مثیل مسیح ہوتا.اس کا جواب یہ ہے کہ اگر وہاں موسیٰ ہوتا تو شبہ پڑ جاتا.لیکن یہاں الیاس کی نظیر موجود تھی اس لیے یہاں مسیح ہی کہہ دیا.اصل مقصد فرمایا.ہماری جماعت کو قیل و قال پر محدود نہیں ہونا چاہیے.یہ اصل مقصد نہیں.تزکیہ نفس اور اصلاح ضروری ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے.۱ خواب کی حقیقت خواب کی فلاسفی بیان کرنے کی خاطر ایڈیٹر صاحب الحکم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک مکتوب گرامی حاشیہ میں شائع کیا ہےیہ مکتوب میر عباس علی کے نام ہے(مکتوبات جلد اوّل صفحہ ۸تا۱۰)جو درج ذیل ہے (مرتّب) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی مکرمی سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کی خواب کے آثار یوں ہی نظر آتے ہیں کہ انشاء اللہ رؤیا صالحہ و واقعہ صحیحہ ہوگا.مگر اس ۱ الحکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۵تا ۱

Page 288

بات کے لیے کہ مضمون خواب حیّزِ قوت سے حدّ ِفعل میں آوے بہت سی محنتیں درکار ہیں.خواب کے واقعات اس پانی سے مشابہ ہیں کہ جو ہزاروں من مٹی کے نیچے زمین کی تہہ تک میں واقع ہے جس کے وجود میں تو کچھ شک نہیں لیکن بہت سی جانکنی اور محنت چاہیے تا وہ مٹی پانی کے اوپر سے بکلی دور ہوجائے اور نیچے سے پانی شیریں اور مصفّا نکل آوے.ہمت مرداں مدد خدا.صدق اور وفا سے خدا کو طلب کرنا موجب فتح یابی ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰).؎ گویند سنگ لعل شود در مقامِ صبر آرے شود و لیک بخون جگر شود گرچہ وصالش نہ بکوشش دہند ہر قدر اے دل کہ توانی بکوش آپ کی ملاقات کے لیے میں بھی چاہتا ہوں مگر وقت مناسب کا منتظر ہوں.بے وقت حج بھی فائدہ نہیں کرتا.اکثر حاجی جو بڑی خوشی سے حج کرنے کو جاتے ہیں اور پھر دل سخت ہو کر آتے ہیں اس کا یہی باعث ہے کہ انہوں نے بے وقت بیت اللہ کی زیارت کی اور بجز ایک کوٹھہ کے اور کچھ نہ دیکھا اور اکثر مجاورین کو صدق اور صلاح پر نہ پایا.دل سخت ہوگیا.علیٰ ہذا القیاس ملاقات جسمانی سے بھی کئی ایک قسم کے ابتلا پیش آجاتےہیں.الّا ماشاء اللہ.آپ کے سوالات کا جواب جو اس وقت میرے خیال میں آتا ہے مختصر طور پر عرض کیا جاتا ہے.آپ نے پہلے یہ سوال کیا ہے کہ پورا پورا علم جیسا بیداری میں ہوتا ہے خواب میں کیوں نہیں ہوتا اور خواب کا دیکھنے والا اپنی خواب کو خواب کیوں نہیں سمجھتا؟ سو آپ پر واضح ہو کہ خواب اس حالت کا نام ہے کہ جب بباعث غلبہ رطوبت مزاجی کے جو دماغ پر طاری ہوتی ہے حواس ظاہری و باطنی اپنے کاروبار معمولی سے معطل ہوجاتے ہیں.پس جب خواب کو تعطّل حواس لازم ہے تو ناچار جو علم اور امتیاز اور تیقّظ بذریعہ حواس انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ حالت خواب میں بباعث تعطّل حواس نہیں رہتا کیونکہ جب حواس بوجہ غلبہ رطوبت مزاجی معطّل ہوجاتے ہیں تو بالضرورت اس فعل میں بھی

Page 289

فتور آجاتا ہے پھر بَعِلَّت اس فتور کے انسان نہیں سمجھ سکتا کہ میں خواب میں ہوں یا بیداری میں.لیکن ایک اور حالت ہوتی ہے کہ جس سے اربابِ طلب اور اصحاب سلوک کبھی کبھی متمتّع اور محظوظ ہوجاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ بباعث دوام مراقبہ و حضور و استیلاء شوق و غلبہ محبت ایک حالت غیبت حواس ان پر وارد ہو جاتی ہے جس کا یہ باعث نہیں ہوتا کہ دماغ پر رطوبت مستولیٰ ہو بلکہ اس کا باعث صرف ذکر اور شہود کا استیلاء ہوتا ہے.اس حالت میں چونکہ تعطّل حواس بہت کم ہوتا ہے.اس جہت سے انسان اس بات پر متنبہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر بیدار ہے خواب میں نہیں اور نیز اپنے مکان اور اس کے تمام وضع پر بھی اطلاع رکھتا ہے.یعنی جس مکان میں ہے اس مکان کو برابر شناخت کرتا ہے.حتی کہ لوگوں کی آواز بھی سنتا ہے اور کل مکان کو بچشم خود دیکھتا ہے.صرف کسی قدر بجذبہ غیبی غَیبتِ حس ہوتی ہے اور جو انسان خواب کی حالت میں اپنی رؤیا میں اپنے تئیں بیدار معلوم کرتا ہے.یہ علم بذریعہ حواس نہیں بلکہ اس علم کا منشا فقط روح ہے.دوسرا سوال آپ کا یہ ہے کہ فناءِ اَتم اَعْنِیْ غَایَۃُ الْمَوَاجِّ وَ نَـہَایَۃُ الْوِصَالِ میں علم حق رہتا ہے یا نہیں.اوّل سمجھنا چاہیے کہ فناءِ اَتم عین وصال کا نام نہیں بلکہ امارات اور آثار وصال میں سے ہے کیونکہ فناءِ اَتم مراد اس حالت سے ہے کہ طالب حق خلق اور ارادت اور نفس سے بکلی باہر ہو جاوے اور فعل اور ارادت الٰہی میں بکلی کھویا جاوے.یہاں تک کہ اسی کے ساتھ دیکھتا ہو اور اسی کے ساتھ سنتا ہو اور اسی کے ساتھ پکڑتا ہو اور اسی کے ساتھ چھوڑتاہو.پس یہ تمام آثار وصال کے ہیں نہ عین وصال کے اور عین وصال ایک بیچوں اور بیچگوں نور ہے کہ جس کو اہل وصال شناخت کرتے ہیں مگر بیان نہیں کر سکتے.خلاصہ کلام یہ کہ جب طالب کمال وصال کا خدا کے لیے اپنے تمام وجود سے الگ ہوجاتا ہے اور کوئی حرکت اور سکون اس کا اپنے لیے نہیں رہتا بلکہ سب کچھ خدا کے لیے ہوجاتا ہے تو اس حالت میں اس کو ایک روحانی موت پیش آتی ہے جو بقا کو مستلزم ہے.پس اس حالت میں گویا وہ بعد موت کے زندہ کیا جاتا ہے اور غیر اللہ کا وجود اس کی آنکھ میں باقی نہیں رہتا.یہاں تک کہ غلبہ شہود ہستی الٰہی سے وہ اپنے وجود کو بھی نابود ہی خیال کرتا ہے.پس یہ مقام عبودیت و فناءِ اَتم ہے جو

Page 290

غایت سیر اولیاء ہے اور اسی مقام میں غیب سے باذن اللہ ایک نور سالک کے قلب پر نازل ہوتا ہے جو تقریر اور تحریر سے باہر ہے.غلبہ شہود کی ایک ایسی حالت ہے کہ جو علم الیقین اور عین الیقین کے مرتبہ سے برتر ہے.صاحب شہود تام کو ایک علم تو ہے مگر ایسا علم جو اپنے ہی نفس پر وارد ہوگیا ہے جیسے کوئی آگ میں جل رہا ہے.سو اگرچہ وہ بھی جلنے کا ایک علم رکھتا ہے مگر وہ علم الیقین اور عین الیقین سے برتر ہے.کبھی شہود تام بے خبری تک بھی نوبت پہنچا دیتا اور حالت سُکر اور بیہوشی کی غلبہ کرتی ہے.اس حالت سے یہ آیت مشابہ ہے فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰى صَعِقًا(الاعراف:۱۴۴) لیکن حالت تام وہ ہے جس کی طرف اشارہ ہے مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى (النجم:۱۸) یہ حالت اہل جنت کے نصیب ہوگی.پس غایت یہی ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے آپ اشارہ فرمایا ہے وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ(القیامۃ:۲۳،۲۴).واللہ اعلم بالصواب خاکسار مرزا غلام احمد.۱۸؍مارچ ۱۸۸۳ ء مطابق ۸؍جمادی الاوّل ۱۳۰۰ھ ۱ ۲۶؍ستمبر۱۹۰۵ء (قبل دوپہر) یہاں رہیں اور ان ایام کی قدر کریں یہ بھی غنیمت ہے کہ انسان اس جگہ کی صحبت کو غنیمت سمجھے جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہاں آنے یا رہنے سے دنیاوی کاروبار میں ہرج ہوگا وہ بیمار ہے اسے اس بیماری کا علاج کرنا چاہیے.دنیا کے کام تو کبھی ختم نہیں ہوتے اور نہ ہو سکتے ہیں جب تک خود انسان خدا سے توفیق پاکر ان کا خاتمہ نہ کر دے.ابھی ہماری جماعت کو سمجھنے کے لیے بہت سی باتیں ہیں.رفتہ رفتہ تحریک ہوتی ہے کسی مجمع میں کوئی تحریک ہوگئی اور کسی میں کوئی.اس لیے جب تک یہاں انسان ایک عرصہ تک نہ رہے یا کثرت الحکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۷،۸

Page 291

کے ساتھ نہ آتا رہے کم فائدہ ہوتا ہے اور یہ بڑی خامی اور بے قدری ہوتی ہے اور سلسلہ کی بد نامی کا موجب ہوتا ہے.جب ایک شخص سلسلہ میں داخل ہوتا ہے اور وہ توجہ کے ساتھ ان مسائل پر جو ہم پیش کرتے ہیں نظر نہیں کرتا اور پھر اگر اس سے کوئی سوال کرتا ہے تو اسے چپ ہونا پڑتا ہے.اس لیے ضروری ہے کہ ہماری کتابوں کو غور سے پڑھیں اور فکر کریں اور یہاں رہیں اور ان ایام کی قدر کریں.جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں اور ایمان لاتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ کیا یہ دن وہ نہیں ہیں جن کے لیے بہت سے سعید لوگ حسرت کرتے چلے گئے ہیں اور یہ امور کتابوں میں درج ہیں کہ کس طرح پر ہزاروں روحیں اس آرزو میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں کہ وہ مسیح موعود کے زمانہ کو پالیتیں مگر اس زمانہ کے لوگ جس طرح پر ان ایام کی قدر نہیں کرتے اور مخالفت سے پیش آتے ہیں کیا تعجب اگر وہ یہ زمانہ پاتے تو وہ سیر ہوجاتے.اسی طرح پر آجکل لوگ کہا کرتے ہیں کہ اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتے تو ہم اس طرح خدمت کرتے اور یہ اخلاص دکھاتے اور یہ کرتے اور وہ کرتے.لیکن سچ یہی ہے کہ اگر یہ لوگ اس وقت ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتے جو آجکل ہمارے ساتھ کر رہے ہیں.زمانہ کی معاصرت بھی ایک روک ہے اس سے لوگوں کے دل تنگ ہوجاتےہیں.یہ بھی ایک رنگ کا ابتلا ہے.ایمان کی سلامتی کے لیے باطن پر نظر رکھنی ضروری ہے ذوالنون مصری ایک باکمال شخص تھا اور اس کی شہرت باہر دور دور پہنچی ہوئی تھی.ایک شخص اس کے کمال کو سن کر اس سے ملنے کے واسطے گیا اور گھر پر جاکر اسے پکارا تو اس کو جواب ملا کہ خدا جانے کہاں ہے.کہیں بازار میں ہوگا.وہ جب بازار میں ان کی تلاش کرتا ہوا پہنچا تو وہ بازار میں معمولی طور پر سادگی سے کچھ سودا خرید رہا تھا.لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ذو النون ہے.اس نے دیکھا کہ ایک سیاہ رنگ پست

Page 292

قامت آدمی ہے معمولی سا لباس ہے چہرہ پر کچھ وجاہت نہیں.معمولی آدمیوں کی طرح بازار میں کھڑا ہے اس سے اس کا سارا اعتقاد جاتا رہا اور کہا کہ یہ تو ہماری طرح ایک معمولی آدمی ہے.ذوالنون نے اس کو کہا کہ تو کس لیے میرے پاس آیا ہے جبکہ تیرا ظاہر پر خیال ہے.ذوالنون نے اس کے مافی الضمیر کو دیکھ لیا اس لیے کہا کہ تیری نظر ظاہر پر ہے تجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا.ایمان تب سلامت رہتا ہے کہ باطن پر نظر رکھی جاوے.کہتے ہیں لقمان بھی سیاہ منظر تھے.یہی وجہ ہے جو لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں اور برگزیدوں کے پاس ارادت سے جانا سہل ہے لیکن ارادت سے واپس آنا مشکل ہے کیونکہ ان میں بشریت ہوتی ہے.اور ان کے پاس جانے والے لوگوں میں سے اکثر ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے دل میں اس کی ایک فرضی اور خیالی تصویر بنا لیتے ہیں.لیکن جب اس کے پاس جاتے ہیں تو وہ اس کے برخلاف پاتےہیں جس سے بعض اوقات وہ ٹھوکر کھاتے ہیں اور ان کے اخلاص اور ارادت میں فرق آجاتا ہے.اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول کر بیان کر دیا کہ قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ( حٰمٓ السجدۃ:۷) یعنی کہہ دو کہ بیشک میں تمہارے جیسا ایک انسان ہوں.یہ اس لیے کہ وہ لوگ اعتراض کرتے تھے وَ قَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ( الفرقان : ۸) اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے.ان کو آخر یہی جواب دیا گیا کہ یہ بھی ایک بشر ہے اور بشری حوائج اس کے ساتھ ہیں.اس سے پہلے جس قدر نبی اور رسول آئے وہ بھی بشر ہی تھے.یہ بات انہوں نے بنظر استخفاف کہی تھی.وہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی بازاروں میں عموماً سودا سلف خریدا کرتے تھے.ان کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو نقشہ تھا وہ تو نری بشریت تھی.جس میں کھانا، پینا، سونا، چلنا، پھرنا وغیرہ تمام امور اور لوازم بشریت کے موجود تھے.اس واسطے ان لوگوں نے ردّ کر دیا.یہ مشکل اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ لوگ اپنے دل سے ہی ایک خیالی تصویر بنا لیتے ہیں کہ نبی ایسا ہونا چاہیے اور چونکہ اس تصویر کے موافق وہ اسے نہیں پاتے اس لحاظ سے ٹھوکر کھاتے ہیں.یہ مرض یہاں تک ترقی کر گیا ہے کہ بعض شیعوں کا

Page 293

بعض ائمہ کی نسبت خیال ہے کہ وہ منہ کے راستہ پیدا ہوئے تھے.لیکن یہ باتیں ایسی ہیں کہ ایک عقلمند ان کو کبھی قبول نہیں کر سکتا بلکہ ہنسی کرتا ہے.اصل یہ ہے کہ جو شخص گذر جاوے اس کی نسبت جو چاہو تجویز کر لو کہ وہ آسمان سے اترا تھا یا منہ کے راستہ پیدا ہوا تھا.لیکن جو موجود ہیں ان میں بشری کمزوریاں موجود ہیں.وہ روتا بھی ہے کھاتا بھی ہے اور پیتا بھی ہے.غرض ہر قسم کی بشری ضرورتوں اور کمزوریوں کو اپنے اندر رکھتا ہے.اس کو دیکھ کر ان لوگوں کو جو انبیاء و رسل کی حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے.یہی وجہ تھی جو اللہ تعالیٰ کو ان کے اس قسم کے اعتراضوں کا ردّ کرنا پڑا اور قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰۤى اِلَيَّ ( حٰمٓ السجدۃ:۷) کہنا پڑا.یعنی مجھ میں بشریت کے سوا جو امر تمہارے اور میرے درمیان خارق اور مابہ الامتیاز ہے وہ یہ ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کی وحی آتی ہے.دوسری جگہ قرآن شریف میں یہ اعتراض بھی منقول ہوا ہے کہ یہ تو بیویاں کرتا ہے.اس کے جواب میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ کوئی نبی اور رسول ایسا نہیں جو بیوی نہ رکھتا ہو.غرض ایسی باتوں سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے.خانہ کعبہ کی تجلیات اور انوار و برکات ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتے اسی طرح پر بعض لوگ حج کو جاتے ہیں.اس وقت ان کے دل میں بڑا جوش اور اخلاص ہوتا ہے.لیکن جس جوش اور تپاک سے جاتے ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہی جوش اور اخلاص لے کر واپس نہیں آتے ہیں بلکہ واپس آنے پر بسا اوقات پہلے سے بھی گئے گذرے ہو جاتے ہیں.؎ سہل است رفتن بارادت مشکل است آمدن بارادت واپس آکر ان کے اخلاق میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوتی بلکہ وہ تبدیلی کچھ الٹی تبدیلی ہوجاتی ہے.وہ جانے سے پہلے سمجھتے ہیں کہ خانہ کعبہ میں ایک عظیم الشان تجلی نور کی ہوگی اور وہاں سے انوار و برکات نکلتے ہوں گے اور وہاں فرشتوں کی آبادی ہوگی لیکن جب وہاں جاتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ خانہ کعبہ جس کی تصویر انہوں نے اپنے خیال اور ذہن سے کچھ اور ہی قسم کی تجویز کی تھی وہ محض

Page 294

ایک کوٹھا ہے اور اس کے ہمسایہ میں جو لوگ رہتے ہیں ان میں بعض جرائم پیشہ بھی ہیں وہ دنگہ فساد بھی کر لیتے ہیں اور اکثر ان میں ایسے مفسد طبع دیکھے جاتے ہیں کہ بعض خام طبیعت کے آدمی انہیں دیکھ کر متردّد ہو جاتے ہیں.ایسے لوگوں کو دیکھ کر وہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ یہاں کی ساری آبادی کا یہی حال ہے اور کل عرب ایسے ہی ہیں.اور اس طرح پر ان کے دل میں کئی قسم کے شبہات پیدا ہوجاتےہیں کیونکہ نہ وہاں وہ تجلی انوار و برکات کی دیکھتے ہیں جو انہوں نے بطور خود تجویز کر لی تھی اور نہ ملائک کی بستی پاتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ خود خام طبع ہوتے ہیں.اسی وجہ سے وہ ٹھوکر کھاتے ہیں.یہ ان کی اپنی غلطی ہے جو وہ ایسا سمجھ لیتے ہیں اس میں خانہ کعبہ کا کیا قصور؟ یہ کوئی ضروری امر نہیں ہے کہ خانہ کعبہ میں سارے قطب اور ابدال اور اولیاء اللہ ہی رہتے ہوں.خانہ کعبہ نے اس وقت بھی تو گذارہ کر ہی لیا تھا جب اس کے چاروں طرف بت پرست ہی بت پرست رہتے تھے اور خود خانہ کعبہ بتوں سے بھرا ہوا تھا.اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ خانہ کعبہ انوار و برکات کی تجلی گاہ ہے اور اس کی بزرگی میں کوئی کلام اور شبہ نہیں.پہلی کتابوں میں بھی اس کی بزرگی کا ذکر ہے.مگر یہ تجلیات اور انوار و برکات اس ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آسکتے.اس کے لیے دوسری آنکھ کی حاجت ہے.اگر وہ آنکھ کھلی ہو تو یقیناً انسان دیکھ لے گا کہ خانہ کعبہ میں کس قسم کے برکات نازل ہو رہے ہیں.ایک زمانہ تھا کہ وہ بتوں سے بھرا ہوا تھا اور اس کے زائرین میں ابو جہل جیسے شریر تھے.پھر ان سے مقابلہ کر کے اگر ایسے خام طبع لوگ کوئی بات کہتے تو انہیں شرمندہ ہونا پڑتا کیونکہ اگر غور سے دیکھا جاوے تو وہ لوگ جو بیت اللہ کے جوار میں رہتے ہیں عوام سے ہزار ہا درجہ اچھے ہیں اور یہ امر مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے.حقیقت میں کثرت کے ساتھ ان میں نیک اور اچھے لوگ ہیں اور ان کو دیکھ کر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ خانہ کعبہ کی مجاورت نے ان کو بہت بڑا فائدہ پہنچایا ہے.یہ تو قانون قدرت ہی نہیں کہ دنیا میں آکر فرشتے آباد ہوں.پھر ایسا خیال کرنا کیسی غلطی اور نادانی ہے.انسانیت کے لازم حال زلّات تو ضرور ہیں.پس مکہ میں جب انسان آباد ہیں تو ان کی

Page 295

کمزوریوں پر نظر کر کے مکہ کو بدنام کرنا یا اس کی بزرگی اور عظمت کی نسبت شک کرنا بڑی غلطی ہے.سچ یہی ہے کہ کعبہ کی بزرگی اور نورانیت دوسری آنکھوں سے نظر آتی ہے جیسا کہ سعدی نے فرمایا ہے ؎ چو بیت المقدس درون پُر ز تاب رہا کردہ دیوار بیرون خراب موجودہ زمانہ کے پیر زادے اور مشائخ اولیاء اللہ کی بھی ایسی ہی حالت ہوتی ہے کہ ان میں تکلفات نہیں ہوتے بلکہ وہ بہت ہی سادہ اور صاف دل لوگ ہوتے ہیں.ان کے لباس اور دوسرے امور میں کسی قسم کی بناوٹ اور تصنع نہیں ہوتا مگر اس وقت اگر پیر زادوں اور مشائخوں کو دیکھا جاوے تو ان میں بڑے بڑے تکلفات پائے جاتے ہیں.ان کا کوئی قول اور فعل ایسا نہ پاؤ گے جو تکلف سے خالی ہو گویا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ امت محمدیہ ہی میں سے نہیں ہیں.ان کی کوئی اور ہی شریعت ہے.ان کی پوشاک دیکھو تو اس میں خاص قسم کا تکلف ہوگا.نشست برخاست اور ہر قسم کی حرکات میں ایک تکلف ہوگا یہاں تک کہ لوگوں سے ملنے جلنے اور کلام میں بھی ایک تکلف ہوتا ہے.اِن کی خاموشی محض تکلف سے ہوتی ہے.گویا ہرقسم کی تاثیرات کو وہ تکلف سے ہی وابستہ سمجھتے ہیں.برخلاف اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شان ہے وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ (صٓ:۸۷) اور ایسا ہی دوسرے تمام انبیاء و رسل جو وقتاً فوقتاً آئے وہ نہایت سادگی سے کلام کرتے اور اپنی زندگی بسر کرتے تھے.ان کے قول و فعل میں کوئی تکلف اور بناوٹ نہ ہوتی تھی مگر اِن کے چلنے پھرنے اور بولنے میں تکلف ہوتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن کی اپنی شریعت جدا ہے جو اسلام سے الگ اور مخالف ہے.بعض ایسے پیر بھی دیکھے گئے ہیں جو بالکل زنانہ لباس رکھتے ہیں یہاں تک کہ رنگین کپڑے پہننے کے علاوہ ہاتھوں میں چوڑیاں بھی رکھتے ہیں.پھر ایسے لوگوں کے بھی بہت سے مرید پائے جاتے ہیں.اگر کوئی ان سے پوچھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کب ایسی زنانہ صورت اختیار کی تھی تو اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہے.وہ ایک نرالی شریعت بنانا چاہتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ کر اپنی تجویز اور اختیار سے ایک راہ بنانا چاہتےہیں.

Page 296

میں یقیناً جانتا ہوں کہ اس قسم کی باتیں شعائر اسلام میں سے نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں نے یہ امور بطور رسوم ہندوؤں سے لے لئے ہیں اور نہ صرف یہی بلکہ اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو انہیں سے لی گئیں ہیں جیسے دم کشی وغیرہ.خوب سمجھو کہ یہ امور اسلام کے بالکل برخلاف ہیں اور ان سے کوئی بھی مطلب اور مراد حاصل نہیں ہو سکتی.اصل غرض تو انسان کی یہ ہونی چاہیے تھی کہ دل پاک ہوجاوے اور ہر قسم کے گند اور ناپاک مواد جو روح کو تباہ کرتے ہیں دور ہوجاتے تاکہ اللہ تعالیٰ کے فیضان اور برکات نازل ہونے لگیں.اگر یہ امر حاصل نہیں تو پھر نرے تکلفات کو لے کر کیا کرو گے؟ تمہارا مقصود ہمیشہ یہی ہونا چاہیے کہ جس طرح ممکن ہو دل صاف ہو جاوے اور عبودیت کا منشا اور مقصد پورا ہو اور خطرناک زہر جو گناہ کی زہر ہے جس سے انسان کی روح ہلاک ہو جاتی ہے اس سے نجات ملے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک صاف اور سچا تعلق پیدا ہو جاوے مگر یہ باتیں تکلف سے حاصل نہیں ہوسکتی ہیں.ان کے حصول کا ذریعہ تو وہی اسلام ہے جس میں سادگی ہے.یقیناً یاد رکھو کہ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے ایسی سادگی رکھی ہے کہ اگر دوسری قوموں کو اس کی حقیقت پر اطلاع ہو تو وہ اس کی سادگی پر رشک کریں.ایک سچے مسلمان کےلیے کچھ ضرور نہیں کہ ہزار دانہ کی تسبیح اس کے ہاتھ میں ہو اور اس کے کپڑے بھگوے یا سبز یا اَور کسی قسم کے رنگین ہوں اور وہ خدا رسی کے لیے دم کشی کرے یا اَور اسی قسم کے حیلے حوالے کرے.اس کے لیے ان امور کی ہرگز ہرگز ضرورت نہیں اس لیے کہ یہ سب امور زائدہ ہیں اور اسلام میں کوئی امر زائد نہیں ہوتا.ہاں یہ سچ ہے کہ اسلام چاہتا ہے کہ تم اندرونی طور پر بڑی بڑی ترقیاں کرو اور اپنے اندر خصوصیتیں پیدا کرو.بیرونی خصوصیتیں نری ریاکاریاں ہیں اور ان کی غرض بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ لوگوں پر ظاہر کیا جاوے کہ ہم ایسے ہیں اور وہ رجوع کریں.حضرت امام غزالی کے زمانہ کے پیر زادے اور فقراء امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے زمانہ کے پیر زادوں

Page 297

اور فقیروں کے عجیب عجیب حالات لکھے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ افسوس ہے بڑی ابتری پھیل گئی ہے کیونکہ یہ فقیر جو اس زمانہ میں پائے جاتے ہیں وہ فقیر اللہ نہیں ہیں بلکہ فقیر الخلق ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہر حرکت و سکون، لباس خور و نوش اور کلام میں حکمت (پر) عمل کرتے ہیں.مثلاً کپڑوں کے لیے وہ دیکھتے ہیں کہ اگر ہم عام غریبوں کی طرح گزی گاڑھے کے کپڑے پہنیں تو وہ عزت نہ ہوگی جو امراء سے توقع کی جاتی ہے وہ ہم کو کم حیثیت اور ادنیٰ درجہ کے لوگ سمجھیں گے.لیکن اگر اعلیٰ درجہ کے کپڑے پہنتے ہیں تو پھر وہ ہم کو کامل دنیادار سمجھ کر توجہ نہ کریں گے اور دنیا دار ہی قرار دیں گے اس لیے اس میں یہ حکمت نکال لی کہ کپڑے تو اعلیٰ درجہ کے اور قیمتی اور باریک لے لیے لیکن ان کو رنگ دے لیا جو فقیری کے لباس کا امتیاز ہوگئے.اسی طرح حرکات بھی عجیب ہوتی ہیں مثلاً جب بیٹھتے ہیں تو آنکھیں بند کر کے بیٹھتے ہیں اور اس حالت میں لب ہل رہے ہیں گویا اس عالم ہی میں نہیں ہیں حالانکہ طبیعت فاسد ہوتی ہے.نمازوں کا یہ حال ہے کہ بڑے آدمیوں سے ملیں تو بہت ہی لمبی لمبی پڑھتے ہیں اور بطور خود سرے سے ہی نہ پڑھیں.ایسا ہی روزوں میں عجیب عجیب حالات پیش آتے ہیں مثلاً یہ ظاہر کرنے کےلیے کہ نفلی روزے ہم رکھتےہیں وہ یہ طریق اختیار کرتے ہیں کہ جب کسی امیر کے ہاں گئے اور وہاں کھانے کا وقت آگیا اور کھانا رکھا گیا تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ کھائیے مجھے کچھ عذر ہے.اس کے معنے دوسرے الفاظ میں یہ ہوئے کہ مجھے روزہ ہے.اس طرح پر وہ گویا اپنے روزوں کو چھپاتے ہیں اور در اصل اس طرح پر ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ظاہر کریں کہ ہم نفلی روزے رکھتے ہیں.غرض انہوں نے اپنے زمانہ کے فقراء کے اس قسم کے بہت سے گند لکھے ہیں اور صاف طور پر لکھا ہے کہ ان میں تکلفات بہت ہی زیادہ ہیں.ایسی حالت اس زمانہ میں بھی قریب قریب واقع ہوگئی ہے.جو لوگ ان پیروں اور پیر زادوں کے حالات سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ قسم قسم کے تکلفات اور ریاکاریوں سے کام لیتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اسی سے امید رکھتا ہے وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے لیے درست کرتا ہے اور اس طرح پر درست

Page 298

کرتا ہے جس طرح پر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور ہدایت کرتا ہے لیکن جو شخص مخلوق سے ڈرتا اور مخلوق سے امید رکھتا ہے وہ اپنے آپ کو مخلوق کےلیے درست کرتا ہے.خدا والوں کو مخلوق کی پروا نہیں ہوتی بلکہ وہ اسے مرے ہوئے کیڑے سے بھی کمتر سمجھتے ہیں.اس لیے وہ ان بلاؤں میں نہیں پھنستے.۱ اور در اصل وہ ان کو کیا کرے.اللہ تعالیٰ خود اس کے ساتھ ہوتا ہے اور وہی اس کی تائید اور نصرت فرماتا ہے.وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ خدا اپنی مخلوق کو خود اس کے ساتھ کر دے گا.یہی سِر ہے کہ انبیاء علیہم السلام خلوت کو پسند کرتے ہیں اور میں یقیناً اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ وہ ہرگز ہرگز پسند نہیں کرتے کہ باہر نکلیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کو مجبور کرتا ہے اور پکڑ کر باہر نکالتا ہے.مامورین اور مرسلین کا استغناء دیکھو موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے مامور کرنا چاہا اور فرعون کی طرف ہدایت اور تبلیغ کی خاطر بھیجنے کی بشارت دی تو انہوں نے عذر شروع کر دیا کہ میں نے ان کا ایک خون کیا ہوا ہے بھائی کو بھیج دیا جاوے.یہ کیا بات تھی؟ یہ ایک قسم کا استغناء اور اہل عالم سے الگ رہنے کی زندگی کو پسند کرنا تھا.یہی استغناء ہر مامور اور مرسل کو ہوتا ہے اور وہ اس تنہائی کی زندگی کو بہت پسند کرتاہے اور یہی ان کے اخلاص کا نشان ہوتا ہے اور اسی لیے اللہ تعالیٰ ان کو اپنے لیے منتخب کرتا ہے کیونکہ وہ ان کے دل پر نظر کر کے خوب دیکھ لیتا ہے کہ اس میں غیر کی طرف قطعاً توجہ نہیں ہوتی اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور تعمیل امر ہی کو اپنی زندگی اور حیات کا ذریعہ سمجھتے ہیں.؎ آں کس کہ ترا شناخت جہاں را چہ کند فرزند و عیال و خانماں را چہ کند دیوانہ کنی و ہر دو جہانش بخشی دیوانہ تو ہر دو جہاں را چہ کند

Page 299

اس کے دل میں بڑا بننے سے طبعاً نفرت اور کراہت ہوتی ہے.مگر وہ لوگ جو خود اس قسم کی کبریائی کی بیہودہ خواہشوں کے غلام اور اسیر ہوتے ہیں وہ اپنے نفس پر قیاس کر کے ان کی نسبت بھی یہی سمجھتے ہیں کہ وہ بڑا بننے کی خواہشوں سے ایسے دعوے کرتے ہیں حالانکہ وہ اتنا نہیں دیکھتے کہ ان کا دعویٰ تو ان پر ایک آفتوں اور مصائب کا طوفان لے آتا ہے اور ان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے.ہر طرف سے ان کی مخالفت کے لیے ہاتھ اور زبان چلتی ہے اور کوئی دقیقہ ان کو دکھ دینے میں اٹھا نہیں رکھا جاتا.پھر یہ کیسی بے انصافی اور ظلم ہے کہ ان کی نسبت یہ وہم کیا جاوے کہ وہ خواہش کبریائی سے ایسا کرتے ہیں.یہ بہتانِ عظیم ہے.وہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا جلال اور اس کی عظمت کے اظہار اور اس کی کبریائی کے اعلان کو پسند کرتے ہیں اور ان کے لیے اپنی جان ایک جان کیا ہزار جان بھی دینے کو طیار ہوتے ہیں.افسوس اہل دنیا ان کے حالات سے بے خبر اور ناواقف ہوتے ہیں اس لیے اس قسم کے اعتراض کرتے ہیں.اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مصالح پسند فرماتے ہیں کہ ان کو باہر نکالا جاوے اور وہ دنیا کے سامنے نکلیں اور وہ خدا جو اہل دنیا سے مخفی ہوتا ہے ان کے وجود میں نظر آوے.انبیاء کو اللہ تعالیٰ عظمت عطا کرتا ہے یہ بھی یاد رکھو کہ جس چیز سے انسان نفرت کرتا ہے وہی اس کو دیتا ہے اور جس کی طرف بھاگتا ہے اس سے محروم کیا جاتا ہے.انبیاء و رسل کا گروہ ہرگز ہرگز اپنی جاہ و حشمت کو نہیں چاہتے.لیکن اللہ تعالیٰ اپنے مصالح کی بنا پر انہیں عطا کرتا ہے.ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر گذرے ہیں اور اس لحاظ سے ان سب کو گویا ایک ہی سمجھو کیونکہ سب کے ساتھ ایک ہی معاملہ ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کسی ایک کو بھی ذلیل اور خوار نہیں کیا اس لیے کہ ان کی ذلت خود اللہ تعالیٰ کی ذلت ہے وتعالیٰ شانہٗ.جو لوگ ان کے خلاف کرتے ہیں اور مخلوق کو عظمت دیتے ہیں گویا اللہ تعالیٰ کی کبریائی کی رِدا مخلوق کو پہناتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں مردُود ہوتے ہیں.انبیاء میں مخلوق سے ہمدردی یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ایک طرف انبیاء و رسل اور خدا تعالیٰ کے مامورین اہل دنیا سے نفور ہوتے ہیںاور

Page 300

دوسری طرف مخلوق کے لیے ان کے دل میں اس قدر ہمدردی ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے لیے بھی خطرہ میں ڈال دیتے ہیں اورخود ان کی جان جانے کا اندیشہ ہوتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن شریف میں فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ(الشعرآء:۴) یہ کس قدر ہمدردی اور خیر خواہی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس میں فرمایا ہے کہ تو ان لوگوں کے مومن نہ ہونے کے متعلق اس قدر ھمّ و غم نہ کر.اس غم میں شاید تو اپنی جان ہی دے دے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمدردی مخلوق میں کہاں تک بڑھ جاتے ہیں.اس قسم کی ہمدردی کا نمونہ کسی اور میں نہیں پایا جاتا.یہاں تک کہ ماں باپ اور دوسرے اقارب میں بھی ایسی ہمدردی نہیں ہو سکتی.مخلوق تو انہیں کاذب اور مفتری کہتی ہے اور وہ مخلوق کے لیے مرتے ہیں.یقیناً یاد رکھو کہ یہ ہمدردی والدین میں بھی نہیں ہوتی اس لیے کہ وہ جب دیکھتے ہیں کہ اولاد سرکش اور نافرمان ہے یا اور نقص اس میں پاتےہیں تو آخر اسے چھوڑ دیتے ہیں مگر انبیاء و رسل کی یہ حالت نہیں ہوتی وہ مخلوق کو دیکھتے ہیں کہ ان پرحملے کرتی اور ستاتی ہے.لیکن وہ اس کے لیے دعا کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی ہدایت کے لیے اس قدر دعا کرتے تھے جس کا نمونہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں ایک پیاس لگا دی تھی کہ لوگ مسلمان ہوں اور خدائے واحد کے پرستار ہوں.انبیاء کی جذب و کشش اور اس کے اثرات جس قدر کوئی نبی عظیم الشان ہوتا ہے اسی قدر یہ پیاس زیادہ ہوتی ہے اور یہ پیاس جس قدر تیز ہوتی ہے اسی قدر جذب اور کشش اس میں ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم الانبیاء اور جمیع کمالات نبوت کے مظہر تھے اس لیے یہ پیاس آپ میں بہت ہی زیادہ تھی اور چونکہ یہ پیاس بہت تھی اسی وجہ سے آپ میں جذب اور کشش کی قوت بھی تمام راستبازوں اور ماموروں سے بڑھ کر تھی جس کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ آپ کی زندگی ہی میں کل عرب

Page 301

مسلمان ہوگیا.یہ کشش اور جذب جو مامورین کو دیاجاتا ہے وہ مستعد دلوں کو تو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور ان لوگوں کو جو اس سے حصہ نہیں رکھتے دشمنی میں ترقی کرنے کا موقع دیتا ہے.؎ باراں کہ در لطافتِ طبعش خلاف نیست در باغ لالہ روید و در شورہ بوم و خس اسی طرح پر انبیاء علیہم السلام کی خاصیت ہوتی ہے کہ مومن اور کافر ان کے طفیل سے اپنے کفر اور ایمان میں کمال کرتے ہیں.لکھا ہے کہ ابوجہل کا کفر پورا نہ ہوتا اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ آتے.پہلے اس کا کفر مخفی تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر اس کا اظہار ہوگیا.اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا صدق بھی مخفی تھا جو اس وقت ظاہر ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روحانی دعوت کی.ایک نے اس دعوت کو قبول کیا اور دوسرے نے انکار کر دیا.ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا(البقرۃ:۱۱) انبیاء و رسل آکر اس خباثت اور شقاوت کو جو ان کے اندر ہوتی ہے ظاہر کر دیتے ہیں.قرآن شریف نے انبیاء و رسل کی بعثت کی مثال مینہ سے دی ہے وَ الْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهٗ بِاِذْنِ رَبِّهٖ وَالَّذِيْ خَبُثَ لَا يَخْرُجُ اِلَّا نَكِدًا (الاعراف:۵۹) یہ تمثیل اسلام کی ہے.جب کوئی رسول آتا ہے تو انسانی فطرتوں کے سارے خواص ظاہر ہو جاتے ہیں.ان کے ظہو رکا یہ خاصہ اورعلامات ہیں کہ مخلص سعیدالفطرت اور مستعد طبیعت کے لوگ اپنے اخلاص اور ارادت میں ترقی کرتے ہیں ا ور شریر شرارت میں بڑھ جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جب خبیث اور منکر گروہ نے شرارتیں کرنی شروع کیں اور دکھ اور ایذا رسانی کے منصوبے کیے اس وقت معلوم ہوا کہ کیسی کیسی خبیث روحیں ہیں.ایک وہ لوگ تھے کہ انہوں نے آپ کی راہ میں اپنے سر کٹوا ڈالے.ان کے حالات اور واقعات کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ ان میں کیسا اخلاص اور ارادت تھی.فی الحقیقت ان کا اسوہ اسوۂ حسنہ ہے.یہاں تک کہ ان میں سے اگر کسی کا ایک ضرب سے سر نہیں کٹا تو اس کو شک ہوا کہ شہید نہیں ہوا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں کیسے فدا تھے.لکھا ہے کہ ایک صحابی نے اپنے مخالف کو ایک تلوار ماری.اس کے نہ لگی مگر اپنے لگی.دوسرے نے کہا کہ شہید نہیں

Page 302

ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور پوچھا کہ کیا شہید نہیں ہوا؟ آپ نے فرمایا دو اجر ملیں گے.ایک یہ کہ دشمن پر حملہ کیا اور دوسرا اس لیے کہ اپنے آپ کو محض خدا کے لیے خطرہ میں ڈالا.اس قسم کا ایمان ان لوگوں کا تھا.پس جب تک اس قسم کا اخلاص اور استقامت اللہ تعالیٰ کے لیے حاصل نہ ہو کچھ نہیں بنتا.میں اپنی جماعت میں صحابہؓ کا نمونہ دیکھنا چاہتا ہوں میں یہی نمونہ صحابہؓ کا اپنی جماعت میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو وہ مقدم کر لیں اور کوئی امر ان کی راہ میں روک نہ ہو.وہ اپنے مال و جان کو ہیچ سمجھیں.میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگوں کے کارڈ آتے ہیں.کسی تجارت یا اور کام میں نقصان ہوا یا اور کسی قسم کا ابتلا آیا تو جھٹ شبہات میں پڑ گئے.ایسی حالت میں ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اصل مطلب اور مقصد سے وہ کس قدر دور ہیں.غور کرو کیا فرق ہے صحابہؓ میں اور ان لوگوں میں؟ صحابہؓ یہ چاہتے تھے کہ خدا تعالیٰ کو راضی کریںخواہ اس راہ میں کیسی ہی سختیاں اور تکلیفیں اٹھانی پڑیں.اگر کوئی مصائب اور مشکلات میں نہ پڑتا اور اسے دیر ہوتی تو وہ روتا اور چلاتا تھا.وہ سمجھ چکے تھے کہ ان ابتلاؤں کے نیچے خدا تعالیٰ کی رضا کا پروانہ اور خزانہ مخفی ہے.؎ ہر بلا کیں قوم را حق دادہ است زیر آں گنج کرم بنہادہ است قرآن شریف ان کی تعریف سے بھرا ہوا ہے.اسے کھول کر دیکھو.صحابہؓ کی زندگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا عملی ثبوت تھا.صحابہؓ جس مقام پر پہنچے تھے اس کو قرآن شریف میں اس طرح پر بیان فرمایا ہے مِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ (الاحزاب:۲۴) یعنی بعض ان میں سے شہادت پا چکے اور انہوں نے گویا اصل مقصود حاصل کر لیا اور بعض اس انتظار میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ شہادت نصیب ہو.صحابہؓ دنیا کی طرف نہیں جھکے کہ عمریں لمبی ہوں اور اس قدر مال و دولت ملے اور یوں بے فکری اور عیش کے سامان ہوں.میں جب صحابہؓ کے اس نمونہ کو دیکھتا ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی اور کمال فیضان کا بے اختیار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ

Page 303

کس طرح پر آپ نے ان کی کایا پلٹ دی اور انہیں بالکل رو بخدا کر دیا.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُـحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَ سَلِّمْ.خلاصہ یہ کہ ہمارا فرض یہ ہونا چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے جویا اور طالب رہیں اور اسی کو اپنا اصل مقصود قرار دیں.ہماری ساری کوشش اور تگ و دو اللہ تعالیٰ کے رضا کے حاصل کرنے میں ہونی چاہیے.خواہ وہ شدائد اورمصائب ہی سے حاصل ہو.یہ رضائے الٰہی دنیا اور اس کی تمام لذات سے افضل اور بالا تر ہے.شہادت کی حقیقت یہ بھی یاد رکھو کہ یہی شہادت نہیں کہ ایک شخص جنگ میں مارا جاوے بلکہ یہ امر ثابت شدہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں ثابت قدم رہتا ہے اور اس کے لیے ہر دکھ درد اور مصیبت کو اٹھانے کے لیے مستعد رہتا ہے اور اٹھاتا ہے وہ بھی شہید ہے.شہید کا مقام وہ مقام ہے جہاں وہ اللہ تعالیٰ کو گویا دیکھتا اور مشاہدہ کرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ہستی اس کی قدرتوں اور تصرفات پر وہ اس طرح ایمان لاتا ہے جیسے کسی چیز کو انسان مشاہدہ کر لیتا ہے.جب اس حالت پر انسان پہنچ جاوے پھر اس کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینا کچھ بھی مشکل معلوم نہیں ہوتا بلکہ وہ اس میں راحت اور لذت محسوس کرتا ہے.شہادت کا ابتدائی درجہ خدا کی راہ میں استقلال اور ثباتِ قدم ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص نہ مرا اللہ کی راہ میں اور نہ تمنا کی مر گیا وہ نفاق کے شعبہ میں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص مومن کامل نہیں ہوتا جب تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں مرنا دنیا کی زندگی سے وہ مقدم نہ کرلے.پھر یہ کیسا گراں مرحلہ ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے دنیا کی حیات کو عزیز سمجھا.خدا تعالیٰ کی راہ میں مرنے کے یہ معنے نہیں کہ انسان خواہ نخواہ لڑائیاں کرتا پھرےبلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکام اور اوامر کو اس کی رضا کو اپنی تمام خواہشوں اور آرزوؤں پر مقدم کرلے اور پھر اپنے دل میں غور کرے کہ کیا وہ دنیا کی زندگی کو پسند کرتا ہے یا آخرت کو اور خدا کی راہ میں اگر اس پر مصائب اور شدائد بھی پڑیں تو وہ ایک لذت اور خوشی کے ساتھ انہیں برداشت کرے اور اگر جان بھی دینی پڑے تو تردّد نہ ہو.

Page 304

اصل غرض مقامِ رضا کا حصول ہے پس یہی وہ امر ہے جو میں اپنی جماعت میں پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ ان میں صحابہؓ کا نمونہ قائم ہو.مجھے افسوس ہوتا ہے کہ جب کثرت سے ایسے خطوط آتے ہیں کہ جن میں دنیا اور اس کی خواہشوں کا ذکر ہوتا ہے اور لکھا جاتا ہے کہ میرے لیے فلاں امر کے واسطے دعا کرو.میری فلاں آرزو پوری ہو جائے.بہت ہی تھوڑے لوگ ہوتے ہیں جو محض خدا کی رضا ہی کو مقدم کرتے ہیں اور اسی کی ہی خواہش اور آرزو کرتے ہیں.بعض ایسے ہوتے ہیں کہ مکر سے لکھتے ہیں.یعنی پہلے تو ذکر کرتے ہیں کہ آپ دعا کریں کہ ہمارے دل میں ذوق شوق عبادت کا پیدا ہوجاوے اور یہ ہو اور وہ ہو.پھر آخر میں اپنی دنیوی خواہشوں کو ظاہر کرتے ہیں.میں ایسی بدبو دار تحریروں کو شناخت کر لیتا ہوں کہ ان کی اصل غرض کیا ہے؟ وہ نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے اور وہ نیّات کو خوب دیکھتا ہے.اس طرح پر تو گویا خدا کو دھوکہ دینا ہے.اس طریق کو بالکل چھوڑ دینا چاہیے.تمہیں چاہیےکہ خالصۃً اللہ کے لیے ہو جاؤ.اگر تم اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کو مقدم کرو گے تو یقیناً سمجھو دنیا میں بھی ذلیل اور خوار نہیں رہو گے.اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے لیے غیرت ہوتی ہے وہ خود ان کا تکفّل فرماتا ہے اور ہرقسم کی مشکلات سے انہیں نجات اور مخلصی عطا فرماتا ہے.میں یقیناً جانتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اگر تم میں وہ تخم بویا گیا جو صحابہؓ میں بویا گیا تھا تو اللہ تعالیٰ ہر طرح اپنے فضل کرے گا.ایسے شخص پر کوئی شخص حملہ نہیں کر سکتا.اس امر کو خوب یاد رکھو کہ اگر خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا اور مضبوط تعلق ہو جاوے تو پھر کسی کی دشمنی کی کیا پروا ہو سکتی ہے.میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میرے نزدیک عیسیٰ یا موسیٰ کا دعویٰ کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اصل غرض تو یہ ہے کہ میں مقام رضا حاصل کرنا چاہتا ہوں اور یہی سب کو کرنا چاہیے.یہ اس کا فضل اور محض فضل ہے کہ وہ اپنے انعامات سے حصہ دے اور اس کے حضور کوئی کمی اور اس کی ذات میں کوئی بخل نہیں.یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہیے.میرے نزدیک جو شخص ایسا گمان کرتا ہے وہ کافر ہوجاتا ہے.اگر انسان انبیاء و رسل کے انعامات کو حاصل نہیں کر سکتا تو پھر دنیا میں ان کے آنے سے کیا فائدہ اور کیا حاصل؟ خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرنے والوں اور راستبازوں کی

Page 305

ساری امیدوں کا خون ہوجاوے اور وہ تو گویا زندہ ہی مر جاویں.مگر نہیں ایسا نہیں ہے اللہ تعالیٰ ہر شخص پر وہی انعام کر سکتا ہے جو اس نے اپنے برگزیدہ بندوں پر کیے.ہاں یہ ضروری ہے کہ اس قسم کا دل اور اخلاص لے کر اس کے حضور آؤ.مسیح کا نام دیئے جانے کی حکمت میں نے از خود کوئی دعویٰ نہیں کیا.میں اپنی خلوت کو پسند کرتا تھا.مگر اللہ تعالیٰ کے مصالح نے ایسا ہی چاہا اور اس نے خود مجھے باہر نکالا.چونکہ سنت اللہ یہی ہے کہ جب کسی شخص کو اس کی مناسب عزت سے بڑھ کر عظمت دی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس عظمت کا دشمن ہو جاتا ہے کیونکہ یہ اس کی توحید کے خلاف ہے.اسی طرح پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے وہ عظمت تجویز کر دی گئی تھی جس کے وہ مستحق نہ تھے.یہاں تک کہ انہیں خدا بنا دیا گیا اور خانہ خدا خالی ہوگیا.عیسائیوں سے پوچھ کر دیکھ لو وہ یہی کہتے ہیں کہ عیسیٰ مسیح ہی خود خدا ہے.اب جس انسان کو اس قدر عظمت دی گئی اور اسے خدا بنایا گیا (نعوذ باللہ ) اور اس طرح پر خد اکا پہلو گم کر دیا گیا تو کیا خدا تعالیٰ کی غیرت مخلوق کو اس انسان پرستی سے نجات دینے کے لیے جوش میں نہ آتی؟ پس اس تقاضا کے موافق اس نے مجھے مسیح کر کے بھیجا تاکہ دنیا پر ظاہر ہوجاوے کہ مسیح بجز ایک عاجز انسان کے اور کچھ نہ تھا.خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس کفر کی اصلاح کرے اور اس کے لیے یہی راہ اختیار کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ایک فرد کو اسی نام سے بھیج دیا تا ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا اظہار ہو اور دوسری طرف مسیح کی حقیقت معلوم ہو.یہ ایسی موٹی بات ہے کہ معمولی عقل کا انسان بھی اس کو سمجھ سکتا ہے.دیکھو اگر ایک بڑے آدمی کو معمولی اردلی سے مشابہت دی جاوے تو وہ چِڑتا ہے یا نہیں؟ پھر کیا خدا تعالیٰ میں اتنی بھی غیرت نہیں کہ ایک عاجز انسان کو اس کی الوہیت کے عرش پر بٹھایا جاوے اور مخلوق تباہ ہو اور وہ انسداد نہ کرے؟ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مسیح نے ہرگز ایسا دعویٰ نہیں کیا کہ میں خدا ہوں.اگر وہ ایسا دعویٰ کرے تو میں جہنم میں ڈال دوں.ایک مقام پر یہ بھی فرمایا ہے کہ مسیح سے اس کا جواب طلب ہوگا کہ کیا تو نے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا بنا لو تو حضرت مسیح اس مقام

Page 306

پر اس سے اپنی بریت ظاہر کریں گے اور آخر یہ کہیں گے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ (المآئدۃ:۱۱۸) یعنی جب تک میں ان میں زندہ رہا تھا میں نے ہرگز نہیں کہا.ہاں جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تُو آپ ان کا نگران تھا.اس سے پہلے مَا دُمْتُ فِيْهِمْ (المآئدۃ:۱۱۸) کا لفظ صاف طور پر ظاہر کرتا ہے کہ جب تک حضرت مسیح زندہ رہے ان کی قوم میں یہ بگاڑ پیدا نہیں ہوا.ساری ضلالت بعد وفات ہوئی ہے.اگر حضرت مسیح ابھی تک زندہ ہیں تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ عیسائی نہیں بگڑے بلکہ حق پر ہیں.پر غور کر کے بتاؤ اسلام کی حقانیت پر یہ کس قدر خطرناک حملہ ہوگا.کیونکہ جب وہ ایک سچا مذہب موجود ہے اور اس میں کوئی خرابی ہی پیدا نہیں ہوئی تو پھر جو کچھ وہ کہتے ہیں مان لینا چاہیے.مگر نہیں خدا تعالیٰ کا کلام حق ہے اور یہی سچ ہے کہ وہ مر گئے اور عیسائی مذہب بھی ان کے ساتھ ہی مر گیا اور اس میں کوئی روح حق اور حقیقت کی نہیں رہی.اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ اس دنیا میں نہیں آئیں گے کیونکہ وہ عیسائیوں کے بگڑنے کا اقرار اپنی موت کے بعد کرتے ہیں.اگر انہوں نے آنا تھا تو وہ یہ جواب نہ دیتے ورنہ یہ جواب اللہ تعالیٰ کے حضور جھوٹ سمجھا جاوے گا اور رب العرش العظیم کے حضور حلف دروغی ہوگی.کیونکہ اس صورت میں تو انہیں کہنا چاہیے تھا کہ میں گیا اور جا کر ان کی صلیبوں کو توڑا اور ان میں پھر توحید قائم کی وغیرہ وغیرہ.غرض یہ میرا دعویٰ جو اللہ تعالیٰ کے ایماء اور حکم صریح سے کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے عظیم الشان مصالح اور حکمت سے ایسا ہی چاہا ہے تاکہ مسیح کی عظمت کو توڑا جاوے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کیا ہے.یہودی خدا تعالیٰ کی برگزیدہ قوم کہلاتے تھے.لیکن جب انہوں نے شریعت کی بے حرمتی کی اور وہ حد سے زیادہ بگڑ گئے تو اللہ تعالیٰ کی غیرت نے نہ چاہا کہ ان میں نبوت کا سلسلہ رہےا ور نبوت کو خاندان بنی اسمٰعیل میں منتقل کر کے ختم کر دیا جیسا کہ خود حضرت عیسٰیؑ نے بھی باغ والی تمثیل میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے.یہودیوں کی اس شوخی اور گستاخی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر ذلت کی مار ماری گئی.اب وہ ہر سلطنت کے ماتحت ذلیل ہیں بلکہ بعض سلطنتوں سے کئی دفعہ نکالے گئے ہیں.اب جبکہ یہود پر ذلت پڑ چکی اور نبوت ان کے خاندان سے منتقل ہوچکی.تو کیا یہ

Page 307

نتقال نبوت تنزل کے طور پر تھا اور ناقص تھا؟ اگر ایسا تھا تو پھر یہودی ناز کر سکتے ہیں اور وہ یہ پیش کر سکتے ہیں کہ ہم پر یہ فضل ہوا اور وہ انعام ہوا.منجملہ اس کے ایک یہ بھی کہ توریت کی خدمت اور اس کے استحکام کے لیے برابر خلفاء اور رسل آتے رہے.لیکن قرآن شریف کو یہ مرتبہ حاصل نہ ہوا (نعوذ باللہ من ذالک).سوچ کر بتاؤ کہ کیا یہ اسلام کی بے عزتی اور نقص کی دلیل ہوگی یا اس کے لیے عظمت کا ذریعہ؟ مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میرے مخالفوں نے میری مخالفت میں یہاں تک غلو کیا ہے کہ اسلام کی بھی سخت ہتک کر لینی انہوں نے گوارا کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خاتم الانبیاء اور تمام نبیوں سے افضل اور اکمل تھے (صلی اللہ علیہ وسلم) معاذ اللہ ناقص نبی ٹھیرایا.جب یہ تسلیم کر لیا اور اپنا عقیدہ بنا لیا کہ اب کوئی شخص ایسا نہیں ہو سکتا جو اللہ تعالیٰ سے شرفِ مکالمہ پاسکے اور خدا تعالیٰ اس کے ہاتھ پر تائیدی نشان ظاہر کر سکے.تم خود بتاؤ کہ اس عقیدہ سے اسلام کا کیا باقی رہتا ہے؟ اگر خدا تعالیٰ پہلے بولتا تھا مگر اب نہیں بولتا تو اس کا ثبوت کیا ہے کہ وہ پہلے بولتا تھا.اگر خدا تعالیٰ پہلے خارق عادت تصرفات دکھاتا تھا مگر اب نہیں دکھاتا تو اس کا کیا ثبوت ہے؟ قصے کہانیاں کون قوم بیان نہیں کرتی.افسوس! ان کو تعصب نے ایسا اندھا کر دیا ہے کہ کچھ بھی ان کو سوجھائی نہیں دیتا اور میری مخالفت میں یہ اسلام کو بھی ہاتھ سے دیتے ہیں.مسیح ناصری کے اس امت میں آنے کے عقیدہ کے نقصانات غرض اگر یہودی ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ(البقرۃ:۶۲) کے مصداق ہوچکے ہیں اور نبوت اس خاندان سے منتقل ہوچکی ہے تو پھر یہ ناممکن ہے کہ مسیح دوبارہ اسی خاندان سے آوے.اگر یہ تسلیم کیا جاوے گا تو اس کا نتیجہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ادنیٰ نبی مانا جاوے اور اس امت کو بھی ادنیٰ امت.حالانکہ یہ قرآن شریف کے منشا کے صریح خلاف ہے کیونکہ قرآن شریف نے تو صاف طور پر فرمایا كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( اٰلِ عـمران:۱۱۱) پھر اس امت کو خیر الامت کی بجائے

Page 308

شر الامت کہو گے؟ اور اس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ پر حملہ ہو گا.مگر یقیناً یہ سب جھوٹ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اعلیٰ درجہ کی تھی اور ہے اس لیے کہ وہ اب تک اپنا اثر دکھا رہی اور تیرہ سو سال گذرنے کے بعد مطہر اور مقدس وجود پیدا کرتی ہے.اسلام کی برکات اور تاثیرات اب بھی جاری ہیں اللہ تعالیٰ کا انتقالِ نبوت سے یہی منشا تھا کہ وہ اپنا فضل و کمال دکھانا چاہتا تھا جواس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا تھا.اسی کی طرف اشارہ ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ (الفاتـحۃ:۶) میں.یعنی اے اللہ! ہم پر وہ انعام و اکرام کر جو پہلے نبیوں اور صدیقوں شہیدوں اور صالحین پر تو نے کئے ہیں ہم پر بھی کر.اگر خدا تعالیٰ یہ انعام و اکرام کر ہی نہیں سکتا تھا اور ان کا دروازہ بند ہو چکا تھا تو پھر اس دعا کی تعلیم کی کیا ضرورت تھی؟ اسرائیلیوں پر تو یہ دروازہ بند ہوچکا تھا.اگر یہاں بھی بند ہوگیا تو پھر کیا فائدہ ہوا؟ اور کس بات میں بنی اسرائیل پر اس امت کو فخر ہوا؟ جو خود اندھا ہے وہ دوسرے اندھے پر کیا فخر کر سکتا ہے؟ اگر وحی، الہام، خوارق یہودیوں پر بند ہو چکے ہیں تو پھر یہ بتاؤ کہ یہ دروازہ کسی جگہ جا کر کھلا بھی یا نہیں؟ ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ نہیں ہم پر بھی یہ دروازہ بند ہے.یہ کیسی بد نصیبی ہے پانچ وقت اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دعا کرتے ہیں اور اس پر بھی کچھ نہیں ملتا.تعجب!! اللہ تعالیٰ کا خود ایسی دعا تعلیم کرنا تو یہ معنی رکھتا ہے کہ میں تم پر انعام و اکرام کرنے کے لیے طیار ہوں.جیسے کسی حاکم کے سامنے پانچ امیدوار ہوں اور وہ ان میں سے ایک کو کہے کہ تم یہاں حاضر رہو تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ اس کو ضرور کام دیا جاوے گا.اسی طرح پر اللہ تعالیٰ نے یہ دعا تعلیم کی اور پانچ وقت یہ پڑھی جاتی ہے مگر ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ اس کا کچھ بھی اثر اور نتیجہ نہیں ہوتا.کیا یہ قرآن شریف کی ہتک اور اسلام کی ہتک نہیں؟ میرے اور ان کے درمیان یہی امر در اصل متنازعہ فیہ ہے.میں یہ کہتا ہوں کہ اسلام کے برکات اور تاثیرات جیسے پہلے تھیں ویسے ہی اب بھی ہیں.وہ خدا اپنے تصرفات اب بھی دکھاتا ہے اور کلام کرتا ہے.مگر یہ اس کے مقابلہ میں کہتے ہیں کہ اب یہ دروازہ بند

Page 309

ہوچکا ہے اور خدا تعالیٰ خاموش ہوگیا وہ کسی سے کلام نہیں کرتا.دعاؤں میں تاثیر اور قبولیت نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تاثیرات پیچھے رہ گئی ہیں اب نہیں.افسوس ان پر! انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف اور خدا تعالیٰ کی قدر نہیں کی.اسلام زندہ مذہب اور ہماری کتاب زندہ کتاب اور ہمارا خدا زندہ خدا اور ہمارا رسول زندہ رسول.پھر اس کے برکات، انوار اور تاثیرات مردہ کیونکر ہو سکتی ہیں؟ میں اس مخالفت کی کچھ پروا نہیں کر سکتا.ان کی مخالفت کے خیال سے میں خدا تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ کیا امت میں وحی و الہام کا دروازہ بند ہے لاہور میں عبد الحکیم نام ایک شخص سے میری گفتگو ہوئی.اس نے کہا کہ الہام پہلی امتوں کا خاصہ تھا یہاں تک کہ عورتوں کو بھی وحی ہوتی تھی مگر اس امت میں یہ دروازہ بند ہے.کیسے شرم کی بات ہے! کیا یہ امت بنی اسرائیل کی عورتوں سے بھی گئی گذری ہو گئی اور خدا تعالیٰ نے اس کے لیے یہی چاہا ہے کہ وہ خیر الامم کہلا کر بھی محروم رہے؟ اس عبد الحکیم نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی محدّث نہ تھے.وہ بھی صرف ان کو ایک خوش کرنے کی بات تھی محدّث وہ بھی نہ تھے.مختصر یہ کہ اس قسم کی ہتک اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ لوگ کرتے ہیں.پھر میں ان کی مخالفت کی کیا پروا کروں؟ یہ لوگ اسلام کے دوست نہیں دشمن ہیں.اگر بقول ان کے سب بے نصیب ہیں تو پھر کیا فائدہ؟ ہزار اتباع کریں معرفت نہ بڑھے گی.تو کوئی احمق اور نادان ہی ہوگا جو اس پر بھی اتباع ضروری سمجھے.حضرت عیسیٰ کا آنا نہ آنا تو امر ہی الگ ہے.اس سوال کو پیچھے چھوڑو.پہلے یہ تو فیصلہ کرو کہ کیا اس امت پر بھی وہ برکات اور فیوض ہوں گے یا نہیں؟ جب یہ فیصلہ ہولے تو پھر عیسیٰ کی آمد کا سوال جھٹ حل ہو سکتا ہے.یہ لوگ جن مہلکات میں پھنسے ہوئے ہیں وہ بہت خطرناک مرض ہے اس سے بڑھ کر اور کیا

Page 310

مصیبت ہوگی کہ اس امت کی نسبت باوجود خیر الامم ہونے کے یہ یقین کر لیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل شرف مکالمہ سے محروم ہے.اور خواہ ساری عمر کوئی مجاہدہ کرتا رہے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا (نعوذ باللہ).جیسے کہہ دیا جاوے کہ خواہ ہزار ہاتھ تک کھودتے چلو مگر پانی نہیں ملے گا.اگر یہ سچ ہے جیسا کہ ہمارے مخالف کہتے ہیں تو پھر مجاہدہ اور دعا کی کیا حاجت ہے؟ کیونکہ انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ جس کو ممکن الحصول سمجھتا ہے اسے تلاش کرتا ہے اور اس کے لیے سعی کرتا ہے اور اگر اسے یہ خیال اور یقین نہ ہو تو وہ مجاہدہ اور سعی کا دروازہ بند کر دیتا ہے.جیسے ہُما یا عنقا کی کوئی تلاش نہیں کرتا.اس لیے کہ سب جانتے ہیں کہ یہ چیزیں ناممکن الحصول ہیں.پس اسی طرح جب یہ یقین کر لیا گیا کہ اللہ تعالیٰ سے مکالمہ کا شرف ملنے کا ہی نہیں اور خوارق اب دیئے ہی نہیں جا سکتے تو پھر مجاہدہ اور دعا جو اس کے لیے ضروری ہیں محض بیکار ہوں گے اور اس کے لیے کوئی جرأت نہ کرے گا اور اس امت کے لیے نعوذ باللہ مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسـرآءیل :۷۳) صادق آئے گا.اور اس سے خاتمہ کا بھی پتہ لگ جائے گا کہ وہ کیسا ہوگا کیونکہ اس میں تو کوئی شک و شبہ ہی نہیں ہو سکتا کہ یہ جہنمی زندگی ہے.پھر آخرت میں بھی جہنم ہی ہوگا اور اسلام ایک جھوٹا مذہب ٹھیرے گا اور نعوذ باللہ خدا نے بھی اس امت کو دھوکا دیا کہ خیرالامت بنا کر پھر کچھ بھی اسے نہ دیا.اس قسم کا عقیدہ رکھنا ہی کچھ کم بد قسمتی اور اسلام کی ہتک نہ تھی کہ اس پر دوسری مصیبت یہ آئی کہ اس کے لیے وجوہات اور دلائل پیدا کرنے لگے.چنانچہ کہتے ہیں کہ یہ دروازہ مکالمات و مخاطبات کا اس وجہ سے بند ہوگیا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ(الاحزاب:۴۱) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم النبیین ہیں اس لیے آپ کے بعد یہ فیض اور فضل بند ہوگیا.مگر ان کی عقل اور علم پر افسوس آتا ہے کہ یہ نادان اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اگر ختم نبوت کے ساتھ ہی اگر معرفت اوربصیرت کے دروازے بھی بند ہوگئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (معاذ اللہ) خاتم النبیین تو کجا نبی بھی ثابت نہ ہوں گے.کیونکہ نبی کی آمد اور بعثت تو اس غرض کے لیے ہوتی ہے کہ تااللہ تعالیٰ پر ایک یقین اور بصیرت پیدا ہو

Page 311

Page 312

مانتے ہو کہ اس کو جو کچھ دیا جائے گا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک امتی ہونے اور آپ کے کامل اتباع کی وجہ سے نصیب ہوگا یا پہلے سے انہیں دیا گیا ہے؟ یہ مانتے ہیں کہ وہ توریت اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا متبع تھا.پھر یہ تو توریت کا فخر ہوا نہ کہ قرآن مجید کا.پھر کیسی بیہودگی ہے کہ ایسا عقیدہ رکھا جاوے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی ہتک شان کا موجب ہو.اس لیے یہ ضرور ہے کہ آنے والا مسیح اسی امت سے ہو اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے برکت اور تعلیم پائے اور آپ ہی کے فیض اور ہدایت سے روشنی حاصل کرے.امتی کی حقیقت میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے مخالف اس موقع پر چالاکی سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ آنے والا عیسیٰ امتی ہوگا.یہ مصیبت انہیں بخاری اور مسلم سے آئی کیونکہ اس میں اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ اور اَمَّکُمْ مِنْکُمْ لکھا ہوا ہے.اس لیے حضرت عیسیٰ کو امتی بناتے ہیں مگر نہیں سمجھتے کہ امتی تو وہ ہوتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے بغیر گمراہ تھا جو رشد اور سعادت اس نے پائی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اور تعلیم سے پائی.مگر یہ وہ تسلیم نہیں کرتے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پہلے گمراہ تھے اور اب بھی گمراہ ہیں.جس وقت آئیں گے اس وقت آپ کی ہدایت اور تعلیم پر عمل کرنے سے وہ درجہ اور عزت انہیں ملے گی.پھر اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ کا مفہوم اس صورت میں تو درست نہ ٹھیرا.افسوس کا مقام ہے کہ ان لوگوں نے قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے اور وہ جو حَکم ہو کر آیا تھا اس کا انکار کر دیا.پھر ان کو سمجھ آوے تو کیونکر.اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ صاف طور پر یہی ظاہر کرتا تھا کہ آنے والا امام تم میں سے ہی ہوگا مگر یہ اس پر راضی نہیں ہوتے.یہ امت کو شر الامم اور یہودی بنا کر تو خوش ہو جاتے ہیں لیکن مسیح اور امام کا آنا اس امت سے تسلیم نہیں کرسکتے!!! اب یا تو حضرت مسیح کی نسبت یہ اقرار کریں کہ وہ گمراہ ہیں (معاذ اللہ) جیسا کہ عیسائیوں نے اقرار کر لیا کہ وہ ملعون ہیں (نعوذ باللہ).عیسائیوں نے لعنتی تو ان کو کہہ دیا مگر

Page 313

لعنت کے مفہوم سے بے خبر ہیں.اگر ان کو پہلے خبر ہوتی کہ لعنت کا یہ مفہوم ہے تو کبھی نہ کہتے.میں نے فتح مسیح کو لکھا کہ لعنت کا مفہوم تو یہ ہے کہ ملعون راندہ درگاہ ہو اور خدا اس سے بیزار اور وہ خدا سے بیزار ہو اور شیطان سے جا ملے.اب بتاؤ کہ تم مسیح کے لیے یہ لفظ تجویز کرتے ہو؟ تو آخر وہ جواب نہ لکھ سکا.اور حقیقت میں اس کا جواب ہے ہی نہیں.انہوں نے غلطی سے لعنت کے مفہوم سے بے خبر رہ کر یہ لفظ ان کے لیے تراش لیا.اب جو خبر ہوئی تو فکر پڑی کہ کیا کیا جاوے.۱ اسی طرح پر اگر یہ لوگ امتی کے مفہوم پر نظر ڈالیں اور غور کریں تو غلطی نہ کھائیں.کیونکہ امتی کے معنے یہی ہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان و برکات سے مستفیض ہو اور ترقی کرے.لیکن جس کے لئے یہ کہتے ہیں وہ تو پہلے ہی پیغمبر ہے.اس کو کونسا موقع ملا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے استفاضہ کرے.مسیح موعود کی نبوت پھر نبی کے لفظ پر بھی بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دعویٰ نبوت ہے.میں کہتا ہوںیہ تو نری لفظی نزاع ہے نبی تو خبر دینے والے کو کہتے ہیں اب جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے مخاطبات اور مکالمات ہوتے ہوں اس کا کیا نام رکھا جاوے گا.اور یہ نبوت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی طفیل اور اتباع کا نتیجہ ہے.میں اس کو کفر اور لعنت سمجھتا ہوں اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے استفاضہ کئے بغیر کوئی شخص نبوت کے چشمہ سے حصہ لیتا ہے اور مستقل نبوت کا مدعی ہے.یہ نرے دھوکے ہیں جو ان لوگوں کو لگے ہوئے ہیں اور بعض باوجودیکہ اس امر کو بخوبی سمجھتے ہیں لیکن جہلاء اور عوام کو بھڑکانے کے لیے ایسی باتیں کرتے ہیں تاکہ وہ میری کتابوں سے بیزار ہوجائیں اور انہیں پڑھ کر فائدہ نہ اٹھا سکیں.مسیح علیہ السلام کے لیے تجویز کردہ خصوصیات کاش یہ لوگ سمجھتے کہ انہوں نے حضرت مسیح کے لیے جو خصوصیتیں

Page 314

تجویزکی ہیں ان کا نتیجہ کیا ہے؟ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ مَسّ شیطان سے وہی پاک ہے اور روح القدس کے سایہ سے پیدا ہوا ہے.اس میں اس کا کوئی شریک نہیں جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر وہی گئے ہیں اور کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں.پھر وہی آسمان سے اترے گا اور قیامت کے قریب آخری قاضی وہی ہوں گے اور پھر یہ بھی خصوصیت کہ دو ہزار برس ہونے کو آئے وہ اب تک آسمان پر ہیں اور کھانے پینے اور دیگر حوائج انسانی کے محتاج نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو بھوک سے پتھر پیٹ پر باندھ لیتے مگر ان کو اس کی بھی ضرورت نہیں.کوئی اثر زمانہ کا اس پر نہیں ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کا اثر ہو مسیح پر بالکل نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر شیب اور پیرانہ سالی کے آثار ظاہر ہوں مگر مسیح ان سے بھی محفوظ.اب سوچو اور بتاؤ کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ یقیناً یہی نتیجہ ہو گا کہ انہیں ساری دنیا سے الگ اور نرالا مانا جاوے یا دوسرے الفاظ میں ان کو خدا ہی کہا جاوے اس لیے کہ ایسی خصوصیتیں یقیناً انہیں خدا بناتی ہیں اور عیسائی اس کو پیش کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار و برکات جاری ہیں غرض اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح کو یہودیوں کے ہاتھ سے نجات دے کر ان کے الزاموں سے ان کو بری کیا تھا تاکہ ان کو زک دے اور پھر اس سلسلہ محمدیہ کو قائم کر کے بتا دیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا فضل جس طرف وہ چاہتا ہے آتا ہے خواہ اسرائیلیوں میں ہو خواہ اسماعیلیوں میں.اب تو یہودیوں کے ہاتھ میں نرا حسد ہے لیکن اگر وہ دیکھیں کہ ان کے کمالات کا سلسلہ بند نہیںہوا تو پھر نری رسالت سے کیا حسد.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود و عدم وجود معاذ اللہ برابر ہو جائے گا کیونکہ آپ کے کمالات فیوض اور برکات کا سلسلہ بجائے آگے چلنے کے انہیں پر ختم ہوگیا.مجھے سخت تعجب آتا ہے کہ یہ لوگ میری مخالفت میں کچھ ایسے اندھے ہو رہے ہیں کہ وہ اس کے انجام اور نتائج سے بالکل بے خبر اور بے پروا ہو رہے ہیں.کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اگر آپ کا سلسلہ آپ سے ہی شروع ہو کر آپ ہی پر ختم ہوگیا تو آپ اَبْتر ٹھہریں گے (معاذ اللہ ).حالانکہ اللہ تعالیٰ

Page 315

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ (الکوثر:۴) یعنی تجھے تو ہم نے کثرت کے ساتھ روحانی اولاد عطا کی ہے جو تجھے بے اولاد کہتا ہے وہی اَبْتر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسمانی فرزند تو کوئی تھا نہیں.اگر روحانی طور پر بھی آپؐکی اولاد کوئی نہیں تو ایسا شخص خود بتاؤ کیا کہلاوے گا؟ میں تو اس کو سب سے بڑھ کر بے ایمانی اور کفر سمجھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اس قسم کا خیال بھی کیا جاوے.اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ (الکوثر:۲) کسی دوسرے نبی کو نہیں کہا گیا.یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا خاصہ ہے.آپ کو اس قدر روحانی اولاد عطا کی گئی جس کا شمار بھی نہیں ہو سکتا.اس لیے کہ قیامت تک یہ سلسلہ بدستور جاری ہے.روحانی اولاد ہی کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں کیونکہ آپؐکے انوار و برکات کا سلسلہ برابر جاری ہے اور جیسے اولاد میں والدین کے نقوش ہوتے ہیں اسی طرح روحانی اولاد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور فیوض کے آثار اور نشانات موجود ہیں.اَلْوَلَدُ سِـرٌّ لِّاَبِیْہِ.امت محمدیہ کا شرف صوفیوں نے اس حدیث کو عُلَمَآءُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَآءِ بَنِیْٓ اِسْـرَآءِیْلَ صحیح مانا ہے اور فی الحقیقت یہ صحیح ہے اور یہودیوں پر اسی سے مار پڑتی ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس امت کو ایسا شرف عطا فرمایا کہ علماء امت کو انبیاء بنی اسرائیل کی مثل ٹھیرایا.علماء کے لفظ سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے.عالم وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہےاِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓـؤُا(فاطر:۲۹) یعنی بیشک جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اس کے بندوں میں سے وہی عالم ہیں.ان میں عبودیت تامہ اور خشیت اللہ اس حد تک پیدا ہوتی ہے کہ وہ خود اللہ تعالیٰ سے ایک علم اور معرفت سیکھتے ہیں اور اسی سے فیض پاتے ہیں اور یہ مقام اور درجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور آپؐسے پوری محبت سے ملتا ہے.یہاں تک کہ انسان بالکل آپ کے رنگ میں رنگین ہو جاوے.اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ( اٰلِ عـمران:۳۲) یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت

Page 316

کرتے ہو تو میری اتباع کرو.اس اتباع کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا.پس اب اس آیت سے صاف ثابت ہے کہ جب تک انسان کامل متبع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ہوتا وہ اللہ تعالیٰ سے فیوض و برکات پا نہیں سکتا اور وہ معرفت اور بصیرت جواس کی گناہ آلود زندگی اور نفسانی جذبات کی آگ کو ٹھنڈا کر دے عطا نہیں ہوتی.ایسے لوگ ہیں جو عُلَمَاءُ اُمَّتِیْ کے مفہوم کے اندر داخل ہیں.غرض ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرمایا کہ اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ (الکوثر:۲) اور دوسری طرف اس امت کو كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ ( اٰلِ عـمران:۱۱۱) کہا تاکہ یہودیوں پر زد ہو.مگر میرے مخالف عجیب بات کہتے ہیں کہ یہ امت باوجود خیر الامت ہونے کے پھر شر الامت ہے.بنی اسرائیل میں تو عورتوں تک کو شرف مکالمہ الٰہیہ دیا گیا مگر اس امت کے مرد بھی خواہ کیسے ہی متقی ہوں اور خدا تعالیٰ کی رضا جوئی میں مریں اور مجاہدہ کریں مگر ان کو حصہ نہیں دیا جائے گا اور یہی جوا ب ان کے لیے خدا کی طرف سے ہے کہ بس تمہارے لیے مہر لگ چکی ہے.اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور گستاخی اور اس پر سوء ظن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور اسلام کی ہتک کیا ہوگی؟ دوسری قوموں کو ملزم کرنے کے لیے یہی تو زبردست اور بے مثل اوزار ہمارے ہاتھ میں ہے اور اسی کو تم ہاتھ سے دیتے ہو.سلسلہ موسوی اور سلسلہ محمدیہ میں مشابہت پھر ایک اور بات قابل غور ہے اللہ تعالیٰ نے دو سلسلے قائم کئے تھے.پہلا سلسلہ سلسلہ موسوی تھا.دوسرا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ یعنی محمدؐی سلسلہ.اور اس دوسرے سلسلہ کو مثیل ٹھیرایا.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مثیل موسیٰ کہا گیا تھا.توریت کی کتاب استثناء میں یہی لکھا گیا تھا کہ تیرے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی اٹھاؤں گا اور قرآن شریف میں یہ فرمایا اِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا(المزمل:۱۶) یعنی بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا جو تم پر شاہد ہے.اسی طرح یہ

Page 317

رسول بھیجا گیا ہے جس طرح فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا گیا تھا (یعنی موسیٰ کی طرح).اب غور کرو کہ اس میں كَمَا کا لفظ صاف طور پر ظاہر کرتا ہے کہ اس سلسلہ میں بھی کمالات و برکات کی کمی نہ ہوگی.پھر سورہ نور میں آیت استخلاف میں بھی یہی کَمَا کا لفظ آیا.وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الآیۃ(النور:۵۶) اسی امت کے اب مومنین اور اعمال صالحہ بجالانے والوں سے خلافت کا وعدہ کیا گیا اسی طرح پر جس طرح بنی اسرائیل میں خلفاء کئے گئے تھے.یہاں بھی وہی كَمَا کا لفظ موجود ہے.ایک طرف تو اس سلسلہ کو سلسلہ موسوی کا مثیل ٹھیرایا.دوسری جگہ سلسلہ موسوی کی طرح خلفاء بنانے کا وعدہ کیا.پھر کیا دونوں سلسلوں کا طبعی توافق ظاہر نہیں کرتا کہ اس امت میں خلفاء اسی رنگ کے قائم ہوں؟ ضرور کرتا ہے.اور اس میں تو کوئی کلام ہی نہیں کہ سلسلہ موسوی میں تیرھواں خلیفہ مسیح تھا.پھر کیا وجہ ہے کہ سلسلہ محمدیہ میں تیرھواں خلیفہ مسیح نہ کہلائے؟ اس لیے ضرور تھا کہ آنے والے کا نام مسیح رکھا جاتا.یہی سِر ہے جو خدا تعالیٰ نے اس امت میں بھی ایک مسیح کا وعدہ کیا.بعض نادان اعتراض کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تو مثیلِ موسیٰ رکھا ہے مگر آخر میں آنے والے خلیفہ کا نام عیسیٰ رکھا ہے مثیل عیسیٰ نہیں رکھا اس لیے وہ آپ ہی آجائے گا.اس قسم کے اعتراض بظاہر دھوکہ دہ ہیں اور ممکن ہے کہ وہ آدمی جو اصل حالات سے واقف نہیں اس کو سن کر گھبرا جاوے.مگر حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تو مثیل موسیٰ ہی ہونا چاہیے تھا.اس لیے کہ توریت کی کتاب استثناء میں مثیل موسیٰ ہی کہا گیا تھا.پس اگر آپ موسیٰ ہونے کا دعویٰ کرتے تو کتاب والے کہتے کہ ہمیں تو مثیل موسیٰ کا وعدہ دیا گیا ہے نہ کہ موسیٰ کا.اس لیے ان کو توجہ دلانے کے واسطے وہی لفظ رکھا جو وہاں موجود تھا مگر یہاں اس کے خلاف بات تھی.پہلی کتابوں میں اور انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ آئے گا.مگر جب یہ ثابت ہوچکا کہ وہ وفات پاچکے ہیں اور آچکے ہیں تو کوئی خیال بھی نہیں کرے گا کہ وہ زندہ ہو کر آجائیں گے.

Page 318

عیسیٰ علیہ السلام کی وفات رہا وفات کا مسئلہ وہ ایسا صاف ہے کہ اس پر زیادہ کہنے کی حاجت ہی نہیں.خدا تعالیٰ نے اپنے قول سے يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ ( اٰلِ عـمران:۵۶) اور حضرت مسیح نے اپنے اقرار سے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ (المائدۃ:۱۱۸) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رؤیت سے جبکہ معراج کی رات حضرت عیسیٰ کو حضرت یحییٰ علیہما السلام کے ساتھ اکٹھا دیکھا ثابت کر دیا ہے کہ وہ وفات پاچکے ہیں.ورنہ اگر وہ زندہ ہیں تو مُردہ کے پاس رہنے کا کیا تعلق؟ اور اس کے علاوہ صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر پہلا اجماع یہی کیا کہ مسیح فوت ہوگیا.جیساکہ بار ہا میں نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کی وفات پر تلوار نکال لی اور کہا کہ اگر کوئی آپ کو مُردہ کہے گا تو اس کا سر اڑا دوں گا.اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ( اٰلِ عـمران:۱۴۵)یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک رسول ہیں اور آپ سے پیشتر سب رسول وفات پاچکے ہیں.اب بتاؤ اس میں مسیح یا کسی اور کی کیا خصوصیت ہے؟ کیا حضرت ابو بکرؓ نے کسی کو باہر رکھ لیا تھا اور صحابہؓ کب گوارا کر سکتے تھے کہ وہ کسی اور کو تو زندہ تسلیم کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ تجویز کریں کہ آپ نے وفات پائی ہے.غرض صحابہؓ کا اجماع بھی موت پر مہر کرتا ہے اور پھر عقلِ سلیم تو دور سے اس کو دھکے دیتی ہے.عام طور پر ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں.اگر عقل کے سامنے یہ پیش کریں کہ کانوں سے دیکھتے ہیں تووہ کب اس کو مان لے گی؟ اسی طرح جب آدم سے لے کر اب تک آسمان پر زندہ اسی جسم کے ساتھ جانے کی کوئی نظیر نہیں ملتی تو ہم کیونکر مان لیں کہ مسیح زندہ اور اسی جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلا گیا.نظیر اگر کوئی ملتی ہے تو وہ ایلیاء کی آمد کی نظیر ہے جس کا وعدہ ملاکی نبی کی کتاب میں کیا گیا تھا اور اس کے آنے کا فیصلہ خود حضرت مسیح نے کیا کہ آنے والا ایلیاء یہی یوحنا ہے.چاہو تو قبول کرو.اب اس نظیر سے معلوم ہوتا ہے کہ دوبارہ آمد کے یہی معنی ہوتے ہیں اور ایسے کلمات بطور استعارہ کے استعمال کیے جاتے ہیں.اس کے بعد بھی اگر فیصلہ موت میں شک ہو تو پہلے ان دلائل کو توڑو اور پھر

Page 319

آنے والے کا جو فیصلہ حضرت عیسیٰ کی اپنی عدالت سے ہوا اس کے خلاف کوئی فیصلہ پیش کرو.انہوں نے تو ثابت کیا کہ آنے والا بروزی رنگ میں آیا کرتا ہے.تم کہتے ہو کہ وہ حقیقی مُردے زندہ کر دیا کرتے تھے.پس اگر یہ سچ ہے تو کیوں انہوں نے ایلیاء کو زندہ نہ کر لیا تاکہ ان کی نبوت مشتبہ نہ ہوتی اور یہودیوں کی قوم تباہ نہ ہوتی.انہوں نے ملاکی نبی کی پیشگوئی ہی کا تو سوال کیا تھا.ان کے راہ میں روک اور پتھر وہی امر ہوا نہ کوئی اور.اس تاویل پر جو حضرت مسیح نے کی تھی وہ راضی نہ ہوئے اور انکار کر کے لعنتی ٹھیرے.بعض اوقات جب اس دلیل کا نقض ہمارے مخالف نہیں کر سکتے تو پھر کہہ دیتے ہیں کہ یہ کتابیں محرف مبدّل ہیں.میں کہتا ہوں کہ محرف مبدّل ہی سہی لیکن تواتر قومی کو کیا کرو گے؟ یہودی اب تک موجود ہیں ان سے پوچھ لو کہ کیا وہ اس امر کے منتظر نہیں ہیں کہ مسیح سے پہلے ایلیا ضرور آئے گا اور عیسائی بھی اس کے قائل.اگر وہ قائل نہ ہوتے تو ایلیاء کا بروز یوحنا کو کیوں تسلیم کرتے؟ پس یہودی اور عیسائی باوجودیکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں.مگر اس امر پر بالکل متفق ہیں.ایسی صورت میں یہ امر بالکل صاف ہوجاتا ہے کہ یہ امور ہمارے زبردست مؤیّد ہیں جیسے یحییٰ کا نام الیاس رکھا.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے میرا نام عیسیٰ رکھا لیکن اگر کوئی کہے کہ اس نام میں حکمت کیا تھی؟ اس کے جواب میں یاد رہے کہ یہود اسی شرارت کی وجہ سے منحرف ہوئے تھے کہ الیاس نہیں آیا.چنانچہ ایک فاضل یہودی کی کتاب میرے پاس موجود ہے اس نے اس امر پر بڑا زور دیا ہے بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ اگر قیامت کو ہم سے سوال ہوگا تو ہم ملاکی نبی کا صحیفہ پیش کریں گے کہ اس میں کہاں لکھا ہے کہ مثیل آئے گا؟ پس یہودیوں کے لعنتی اور منحرف ہونے کے لیے یہ ابتلا انہیں آگیا.اس امت کے لیے سلسلہ موسوی کی مماثلت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ ایک مسیح آئے اور علاوہ بریں چونکہ اس امت کے لیے یہ کہا گیا تھا کہ آخری زمانہ میں وہ یہود کے ہمرنگ ہوجائے گی.چنانچہ بالاتفاق غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ (الفاتـحۃ:۷) میں مغضوب سے مراد یہود لی گئی ہے.پھر یہ یہودی تو اسی وقت ہوتے جب ان کے سامنے بھی ایک

Page 320

عیسیٰ پیش ہوتا اور اسی طرح پر یہ بھی انکار کر دیتے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آنے والا عیسیٰ آگیا اور انہوں نے انکار کر دیا.اس میں میرا کیا قصور ہے؟ یہ تو زیادہ ملزم ہیں.اس لیے کہ ان کے سامنے ایلیاء والی نظیر موجود تھی.مگر افسوس یہ ہے کہ انہوں نے غور ہی نہیں کیا اور نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے.آمین۱ ۲۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء انکسار اور فروتنی ماموروں کا خاصّہ ہے فرمایا.اللہ تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے.وہ ہر طرح انسان کی پرورش فرماتا اور اس پر رحم کرتا ہے اور اسی رحم کی وجہ سے وہ اپنے ماموروں اور مرسلوں کو بھیجتا ہے تا وہ اہل دنیا کو گناہ آلود زندگی سے نجات دیں.مگر تکبر بہت خطرناک بیماری ہے جس انسان میں یہ پیدا ہوجاوے اس کے لیے روحانی موت ہے.میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ بیماری قتل سے بھی بڑھ کر ہے.متکبر شیطان کا بھائی ہو جاتا ہے.اس لیے کہ تکبر ہی نے شیطان کو ذلیل و خوار کیا.اس لیے مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا کے ماموروں کا خاصہ ہوتا ہے ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے.اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ وصف تھا.آپ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپؐکا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُـحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ.یہ ہے نمونہ اعلیٰ اخلاق اور فروتنی کا اور یہ بات بھی سچ ہے کہ زیادہ تر عزیزوں میں خدام ہوتے ہیں جو ہر وقت گرد و پیش حاضر رہتے ہیں.اس لیے اگر کسی کے انکسار و فروتنی اور تحمل و برداشت کا نمونہ دیکھنا ہو تو ان سے معلوم ہو سکتا ہے.بعض مرد یا عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ خدمتگارسے ذرا کوئی

Page 321

کام بگڑا.مثلاً چائے میں نقص ہوا تو جھٹ گالیاں دینی شروع کر دیں یا تازیانہ لے کر مارنا شروع کر دیا اور ذرا شوربے میں نمک زیادہ ہوگیا بس بیچارے خدمت گاروں پر آفت آئی.دوسرے غرباء کے ساتھ معاملہ تب پڑتا ہے کہ وہ فاقہ مست ہوتے ہیں اور خشک روٹی پر گذارہ کر لیتے ہیں مگر یہ باوجود علم ہونے کے بھی ان کی پروا نہیں کرتے.وہ ان کو امتحان میں ڈالتے ہیں جب بصورت سائل آتے ہیں.خدا تعالیٰ تو ذرّہ ذرّہ کا خالق ہے کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.یہ غریبوں کے ساتھ ہی معاملہ کر کے سمجھا جاتا ہے کہ کس قدر نا خدا ترسی یا خدا ترسی سے حصہ لیتا ہے یا لے گا.نوع انسان پر شفقت کرنا عبادت ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت میں اللہ تعالیٰ بعض بندوں سے فرمائے گا کہ تم بڑے برگزیدہ ہو اور میں تم سے بہت خوش ہوں کیونکہ میں بہت بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا.میں ننگا تھا تم نے کپڑا دیا.میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا.میں بیمار تھا تم نے میری عیادت کی.وہ کہیں گے کہ یا اللہ! تُو تو ان باتوں سے پاک ہے تو کب ایسا تھا جو ہم نے تیرے ساتھ ایسا کیا؟ تب وہ فرمائے گا کہ میرے فلاں فلاں بندے ایسے تھے تم نے ان کی خبر گیری کی وہ ایسا معاملہ تھا کہ گویا تم نے میرے ساتھ ہی کیا.پھر ایک اور گروہ پیش ہوگا.ان سے کہے گا کہ تم نے میرے ساتھ برا معاملہ کیا.میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ دیا.پیاسا تھا پانی نہ دیا.ننگا تھا مجھے کپڑا نہ دیا.میں بیمار تھا میری عیادت نہ کی.تب وہ کہیں گے کہ یا اللہ تعالیٰ! تُو تو ایسی باتوں سے پاک ہے.تو کب ایسا تھا جو ہم نے ایسا کیا؟ اس پر فرمائے گا کہ میرا فلاں فلاں بندہ اس حالت میں تھا اور تم نے ان کے ساتھ کوئی ہمدردی اور سلوک نہ کیا وہ گویا میرے ہی ساتھ کرنا تھا.غرض نوعِ انسان پر شفقت اوراس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے.دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے.ان پر ٹھٹھے کیے جاتے ہیں.ان کی خبر گیری کرنا اور

Page 322

کسی مصیبت اور مشکل میں مدد دینا تو بڑی بات ہے.جو لوگ غرباء کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کو حقیر سمجھتے ہیں مجھے ڈر ہے کہ وہ خود اس مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاویں.اللہ تعالیٰ نے جن پر فضل کیا ہے اس کی شکر گزاری یہی ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ احسان اور سلوک کریں.اور اس خدا داد فضل پر تکبر نہ کریں اور وحشیوں کی طرح غرباء کو کچل نہ ڈالیں.بہت سی سعادتیں غرباء کے ہاتھ میں ہیں خوب یاد رکھو کہ امیری کیا ہے؟ امیری ایک زہر کھانا ہے.اس کے اثر سے وہی بچ سکتا ہے جو شفقت علیٰ خلق اللہ کے تریاق کو استعمال کرے اور تکبر نہ کرے لیکن اگر وہ اس کی شیخی اور گھمنڈ میں آتا ہے تو نتیجہ ہلاکت ہے.ایک پیاسا ہو اور پاس کنواں بھی ہو لیکن کمزور ہو اور غریب ہو اور پاس ایک متمول انسان ہو تو وہ محض اس خیال سے کہ اس کو پانی پلانے سے میری عزت جاتی رہے گی اس نیکی سے محروم رہ جائے گا.اس نخوت کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہی کہ نیکی سے محروم رہا اور خد اتعالیٰ کے غضب کے نیچے آیا.پھر اس سے کیا فائدہ پہنچا.یہ زہر ہوا یا کیا؟ وہ نادان ہے سمجھتا نہیں کہ اس نے زہر کھائی ہے لیکن تھوڑے دنوں کے بعد معلوم ہوجائے گا کہ اس نے اپنا اثر کر لیا ہے اور وہ ہلاک کر دے گی.یہ بالکل سچی بات ہے کہ بہت سی سعادت غرباء کے ہاتھ میں ہے.اس لیے انہیں امیروں کی امیری اور تموّل پر رشک نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ انہیں وہ دولت ملی ہے جو ان کے پاس نہیں.ایک غریب آدمی بے جاظلم ، تکبر، خود پسندی، دوسروں کو ایذا پہنچانے، اتلافِ حقوق وغیرہ بہت سی برائیوں سے مفت میں بچ جائے گا.کیونکہ وہ جھوٹی شیخی اور خود پسندی جو ان باتوں پر اسے مجبور کرتی ہے اس میں نہیں ہے.یہی وجہ ہے کہ جب کوئی مامور اور مرسل آتا ہے تو سب سے پہلے اس کی جماعت میں غرباء داخل ہوتے ہیں.اس لیے کہ ان میں تکبر نہیں ہوتا.دولت مندوں کو یہی خیال اور فکر رہتا ہے کہ اگر ہم اس کے خادم ہوگئے تو لوگ کہیں گے کہ اتنا بڑا آدمی ہو کر فلاں شخص کا مرید ہوگیا ہے اور اگر ہو بھی جاوے تب بھی وہ بہت سی سعادتوں سے محروم رہ جاتا ہے.الّا ماشاء اللہ.

Page 323

کیونکہ غریب تو اپنے مرشد اور آقا کی کسی خدمت سے عار نہیں کرے گا مگر یہ عار کرے گا.ہاں اگر خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے اور دولت مند آدمی اپنے مال و دولت پر نازنہ کرے اور اس کو بندگان خدا کی خدمت میں صرف کرنے اور ان کی ہمدردی میں لگانے کے لیے موقع پائے اور اپنا فرض سمجھے تو پھر وہ ایک خیر کثیر کا وارث ہے.دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ ہو اصل بات یہ ہے کہ سب سے مشکل اور نازک مرحلہ حقوق العباد ہی کا ہے کیونکہ ہر وقت اس کا معاملہ پڑتا ہے اور ہر آن یہ ابتلا سامنے رہتا ہے.پس اس مرحلہ پر بہت ہی ہوشیاری سے قدم اٹھانا چاہیے.میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ ہو.بعض لوگ چاہتےہیں کہ جہاں تک ہو سکے اس کی تخریب اور بربادی کے لیے سعی کی جاوے.پھر وہ اس فکر میں پڑ کر جائز اور ناجائز امور کی بھی پروا نہیں کرتے.اس کو بدنام کرنے کے واسطے جھوٹی تہمت اس پر لگاتے، افترا کرتے اور اس کی غیبت کرتے اور دوسروں کو اس کے برخلاف اکساتے ہیں.اب بتاؤ کہ معمولی دشمنی سے کس قدر برائیوں اور بدیوں کا وارث بنا اور پھر یہ بدیاں جب اپنے بچے دیں گی تو کہاں تک نوبت پہنچے گی؟ میں سچ کہتا ہوں کہ تم کسی کو اپنا ذاتی دشمن نہ سمجھو اور اس کینہ توزی کی عادت کو بالکل ترک کر دو.اگر خدا تمہارے ساتھ ہے اور تم خدا کے ہو جاؤ تو وہ دشمنوں کو بھی تمہارے خادموں میں داخل کر سکتا ہے.لیکن اگر تم خدا ہی سے قطع تعلق کیے بیٹھے ہو اور اس کے ساتھ ہی کوئی رشتہ دوستی کا باقی نہیں اس کی خلاف مرضی تمہارا چال چلن ہے پھر خدا سے بڑھ کر تمہارا دشمن کون ہوگا؟ مخلوق کی دشمنی سے انسان بچ سکتا ہے لیکن جب خدا دشمن ہو تو پھر اگر ساری مخلوق دوست ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا.اس لیے تمہارا طریق انبیاء علیہم السلام کا سا طریق ہو.خدا تعالیٰ کا منشا یہی ہے کہ ذاتی اعداء کوئی نہ ہوں.خوب یاد رکھو کہ انسان کو شرف اور سعادت تب ملتی ہے جب وہ ذاتی طور پر کسی کا دشمن نہ ہو.ہاں اللہ اور اس کے رسول کی عزت کے لیے الگ امر ہے یعنی جو شخص خدا اور اس کے رسول کی عزت

Page 324

نہیں کرتا بلکہ ان کا دشمن ہے اسے تم اپنا دشمن سمجھو.لیکن اس دشمنی سمجھنے کے یہ معنے نہیںہیں کہ تم اس پر افترا کرو اور بلا وجہ اس کو دکھ دینے کے منصوبے کرو.نہیں.بلکہ اس سے الگ ہوجاؤ اور خدا تعالیٰ کے سپرد کرو.ممکن ہو تو اس کی اصلاح کے لیے دعا کرو.اپنی طرف سے کوئی نئی بھاجی اس کے ساتھ شروع نہ کرو.یہ امور ہیں جو تزکیہ نفس سے متعلق ہیں.کہتے ہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک دشمن سے لڑتے تھے اور محض خدا کے لیے لڑتے تھے.آخر حضرت علیؓ نے اس کو اپنے نیچے گرا لیا اور اس کے سینہ پر چڑھ بیٹھے.اس نے جھٹ حضرت علیؓ کے منہ پر تھوک دیا.آپ فوراً اس کی چھاتی پر سے اتر آئے اور اسے چھوڑ دیا.اس لیے کہ اب تک تو میں محض خدا کے لیے تیرے ساتھ لڑتا تھا لیکن اب جبکہ تو نے میرے منہ پر تھوک دیا ہے تو میرے اپنے نفس کا بھی کچھ حصہ اس میں شریک ہوجاتا ہے.پس میں نہیں چاہتا کہ اپنے نفس کے لیے تمہیں قتل کروں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے نفس کے دشمن کو دشمن نہیں سمجھا.ایسی فطرت اور عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے.اگر نفسانی لالچ اور اغراض کے لیے کسی کو دکھ دیتے اور عداوت کے سلسلوں کو وسیع کرتے ہیں تو اس سے بڑھ کر خدا کو ناراض کرنے والی کیا بات ہوگی.ہم سے دو شغل نہیں ہو سکتے ایک شخص نے ایک جائیداد کے متعلق جو فروخت ہونے والی ہے کہا کہ آپ اس کو خرید لیں ایسا نہ ہو کہ فلاں سکھ یا کوئی اور خرید لے.فرمایا.ہمیں ان باتوں سے کیا غرض.ہم جائیدادیں اور زمینیں خریدنے کے واسطے نہیں آئے.ہم کو کیا سکھ خرید لے یا کوئی اور خرید لے.ہمیشہ اس شعر کو یاد رکھا جاوے.؎ خواجہ در بند نقش ایوان است خانہ از پائے بست ویران است ہم سے دو شغل نہیں ہو سکتے.یہی خدمت جو خدا نے ہمارے سپرد کی ہے.پورے طور پر ادا ہوجائے تو کافی ہے اس کے سوا ہمیں اور کسی کام کے لیے نہ فرصت ہے نہ ضرورت.ایک شخص نے کہا کہ تجارت کے متعلق خواہ نخواہ سود دینا پڑتا ہے.

Page 325

فرمایا.ہم جائز نہیں رکھتے.مومن ایسی مشکلات میں پڑتا ہی نہیں.اللہ تعالیٰ خود اس کا تکفّل کرتا ہے.عذرات سے شریعت باطل ہوجاتی ہے.کون امر ہے جس کے لیے کوئی عذر آدمی نہیں تراش سکتا ہے.خدا سے ڈرنا چاہیے.دقائق تقویٰ کی رعایت ضروری ہے کسی نے پوچھا کہ بعض آدمی غلہ کی تجارت کرتے ہیں اور خرید کر اسے رکھ چھوڑتے ہیں جب مہنگا ہو جاوے تو اسے بیچتے ہیں.کیا ایسی تجارت جائز ہے؟ فرمایا.اس کو مکروہ سمجھا گیا ہے.میں اس کو پسند نہیں کرتا.میرے نزدیک شریعت اَور ہے اور طریقت اَور ہے.ایک آن کی بد نیتی بھی جائز نہیں اور یہ ایک قسم کی بد نیتی ہے ہماری غرض یہ ہے کہ بد نیتی دور ہو.امامِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بابت لکھا ہے کہ آپ ایک مرتبہ بہت ہی تھوڑی سی نجاست جو ان کے کپڑے پر تھی دھو رہے تھے.کسی نے کہا کہ آپ نے اس قدر کے لیے تو فتویٰ نہیں دیا.اس پر آپ نے کیا لطیف جواب دیا کہ آں فتویٰ است و ایں تقویٰ.پس انسان کو دقائق تقویٰ کی رعایت رکھنی چاہیے سلامتی اسی میں ہے.اگر چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروا نہ کرے تو پھر ایک دن وہی چھوٹی چھوٹی باتیں کبائر کا مرتکب بنادیں گی اور طبیعت میں کسل اور لاپروائی پیدا ہو کر ہلاک ہو جائے گا.تم اپنے زیر نظر تقویٰ کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کرنا رکھو اور اس کے لیے دقائق تقویٰ کی رعایت ضروری ہے.اسی طرح کہتے ہیں.ذوالنون مصریؒ سے کسی نے پوچھا کہ چالیس مُہر کی کیا زکوٰۃ دینی چاہیے.ذوالنون نے کہا کہ چالیس مُہر کی زکوٰۃ چالیس مُہر.سائل اس جواب پر حیران ہوا.اور پوچھا کہ یہ کیوں؟ اس پر ذوالنون نے کہا کہ چالیس اس نے رکھی ہی کیوں؟ گویا کیوں خدا کی راہ میں خرچ نہ کر دیں.جمع ہی کیوں کیا؟ شریعت سے ایسا ہی پایا جاتا ہے.کہتے ہیں کہ کوئی محدِّث وعظ کرتا تھا.ایک صوفی نے بھی سنا اور اس کو کہا کہ محدِّث صاحب

Page 326

زکوٰۃ بھی دیا کرو.اس نے کہا میرے پاس تو مال ہی نہیں.زکوٰۃ کس چیز کی دوں؟ صوفی بولا چالیس حدیثیں لوگوں کو سنایا کرو تو ایک پر آپ بھی عمل کر لیا کرو.انسانوں کے تین طبقات فرمایا.اسلام میں انسان کے تین طبقے رکھے ہیں.ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ.مُقْتَصِدٌ.سَابِقٌۢ بِالْخَيْرٰتِ.ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖتو وہ ہوتے ہیں جو نفس امارہ کے پنجے میں گرفتار ہوں اور ابتدائی درجے پر ہوتے ہیں.جہاں تک ان سے ممکن ہوتا ہے وہ سعی کرتے ہیں کہ اس حالت سے نجات پائیں.مقتصد وہ ہوتے ہیں جن کو میانہ رو کہتے ہیں.ایک درجہ تک وہ نفس امارہ سے نجات پا جاتے ہیں لیکن پھر بھی کبھی کبھی اس کا حملہ ان پر ہوتا ہے اور وہ اس حملہ کے ساتھ ہی نادم بھی ہوتے ہیں.پورے طور پر ابھی نجات نہیں پائی ہوتی.مگر سابق بالخیرات وہ ہوتے ہیں کہ ان سے نیکیاں ہی سر زد ہوتی ہیں اور وہ سب سے بڑھ جاتے ہیں.ان کے حرکات و سکنات طبعی طور پر اس قسم کے ہو جاتے ہیں کہ ان سے افعال حسنہ ہی کا صدور ہوتا ہے.گویا ان کے نفس امارہ پر بالکل موت آجاتی ہے اور وہ مطمئنہ حالت میں ہوتے ہیں.ان سے اس طرح پر نیکیاں عمل میں آتی ہیں گویا وہ ایک معمولی امر ہے.اس لیے ان کی نظرمیں بعض اوقات وہ امر بھی گناہ ہوتا ہے جو اس حد تک دوسرے اس کو نیکی ہی سمجھتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی معرفت اور بصیرت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے.یہی وجہ ہے جو صوفی کہتے ہیں حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ.مثلاً چندہ کی حالت پر ہی لحاظ کرو.ایک آدمی غریب اور دو آنہ روز کا مزدور ہے اور ایک دوسرا آدمی دو لاکھ روپیہ کی حیثیت رکھتا ہے اور ہزاروں کی روزانہ آمدنی ہے.وہ دو آنہ کا مزدور بھی اس میں دو پیسہ دیتا ہے اور وہ لاکھ پتی ہزاروں کی آمدنی والا دو روپیہ دیتا ہے.تو اگرچہ اس نے اس مزدور سے زیادہ دیا ہے مگر اصل یہ ہے کہ اس مزدور کو تو ثواب ملے گا مگر اس دولت مند لاکھ پتی کو

Page 327

ثواب نہیں بلکہ عذاب ہوگا.کیونکہ اس نے اپنی حیثیت اور طاقت کے موافق قدم نہیں بڑھایا بلکہ گونہ بخل کیا ہے.غرض یہ ہے کہ جس قسم کا انسان ہو اُسے اپنی طاقت اور قدرت کے موافق قدم بڑھانا چاہیے.ہر شخص اپنی معرفت کے لحاظ سے پوچھا جائے گا.جس قدر کسی کی معرفت بڑھی ہوئی ہوگی اسی قدر وہ زیادہ جواب دہ ہوگا.اسی لیے ذوالنون نے زکوٰۃ کا وہ نکتہ سنایا یہ خلافِ شریعت نہیں ہے.اس کی شریعت کا یہی اقتضا تھا.وہ جانتا تھا کہ مال رکھنے کے لیے نہیں ہے بلکہ اسے خدمت دین اور ہمدردی نوع انسان میں صرف کرنا چاہیے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آخری وقت ایک مہر تھی.آپ نے اسے نکلوا دیا.اصل یہی ہے کہ ہر امر کے مراتب ہوتے ہیں.بعض آدمی شبہ کریں گے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غنی کہلاتے تھے.انہوں نے کیوں مال جمع کیا؟ یہ ایک بیہودہ شبہ ہے.اس لیے کہ وہ مہاجن نہ تھے.خدا بہتر جانتا ہے کہ اس غنی کے کیا معنے ہیں.میں اتنا جانتا ہوں کہ جومال خدمت دین کے لیے وقف ہو وہ اس کا نہیں ہے.اس نیت اور غرض سے جو شخص رکھتا ہے وہ اپنے لیے جمع نہیں کرتا وہ خدا کا مال ہے لیکن جو اپنے اغراض نفسانی اور دنیاوی کو ملحوظ رکھ کر جمع کرتا جاتا ہے.وہ مال داغ لگانے کے لیے ہے جس سے آخر اس کو داغ دیا جائے گا.وہ کام کرو جو اولاد کے لیے بہترین نمونہ اور سبق ہو بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہوتاہے کہ اولاد کے لیے کچھ مال چھوڑنا چاہیے.مجھے حیرت آتی ہے کہ مال چھوڑنے کا تو ان کو خیال آتا ہے.مگر یہ خیال ان کو نہیں آتا کہ اس کا فکر کریں کہ اولاد صالح ہو طالح نہ ہو.مگر یہ وہم بھی نہیں آتا اور نہ اس کی پروا کی جاتی ہے.بعض اوقات ایسے لوگ اولاد کے لیے مال جمع کرتے ہیں اور اولاد کی صلاحیت کی فکر اور پروا نہیں کرتے.وہ اپنی زندگی ہی میں اولاد کے ہاتھ سے نالاں ہوتے ہیں اور اس کی بد اطواریوں سے مشکلات میں پڑ جاتے ہیں اور وہ مال جو انہوں نے خدا جانے کن کن حیلوں اور طریقوں سے جمع

Page 328

Page 329

پس وہ کام کرو جو اولاد کے لیے بہترین نمونہ اور سبق ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے اول خود اپنی اصلاح کرو.اگر تم اعلیٰ درجہ کے متقی اور پرہیزگار بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کو راضی کر لو گے تو یقین کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا.قرآن شریف میں خضر اور موسیٰ علیہما السلام کا قصہ درج ہے کہ ان دونوں نے مل کر ایک دیوار کو بنا دیا جو یتیم بچوں کی تھی وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَكَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا (الکہف:۸۳) ان کا والد صالح تھا.یہ ذکر نہیں کیا کہ وہ آپ کیسے تھے.پس اس مقصد کو حاصل کرو.اولاد کے لیے ہمیشہ اس کی نیکی کی خواہش کرو.اگر وہ دین اور دیانت سے باہر چلے جاویں.پھر کیا؟ اس قسم کے امور اکثر لوگوں کو پیش آجاتے ہیں.بد دیانتی خواہ تجارت کے ذریعہ ہو یا رشوت کے ذریعہ یا زراعت کے ذریعہ جس میں حقوقِ شرکاء کو تلف کیا جاتا ہے.اس کی وجہ یہی میری سمجھ میں آتی ہے کہ اولاد کے لیے خواہش ہوتی ہے کیونکہ بعض اوقات صاحب جائیداد لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ کوئی اولاد ہوجاوے جو اس جائیداد کی وارث ہو تاکہ غیروں کے ہاتھ میں نہ چلی جاوے مگر وہ نہیں جانتے کہ جب مر گئے تو شرکاء کون اور اولاد کون.سب ہی تیرے لیے تو غیر ہیں.اولاد کے لیے اگر خواہش ہو تو اس غرض سے ہو کہ وہ خادم دین ہو.غرض حق العباد میں پیچ در پیچ مشکلات ہیں جب تک انسان ان میں سے نکلے نہیں مومن نہیں ہوسکتا.نری باتیں ہی باتیں ہیں.نجات نہ قوم پر منحصر ہے نہ مال پر اللہ تعالیٰ کا کسی سے رشتہ ناطہ نہیں.اس کے ہاں اس کی بھی کچھ پروا نہیں کہ کوئی سید ہے یا کون ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ یہ خیال مت کرنا کہ میرا باپ پیغمبر ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کوئی بھی بچ نہیں سکتا.کسی نے پوچھا کہ کیا آپؐبھی؟ فرمایا ہاں میں بھی.مختصر یہ کہ نجات نہ قوم پر منحصر ہے نہ مال پر بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے اور اس کو

Page 330

اعمال صالحہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل اتباع اور دعائیں جذب کرتی ہیں.قوم کا ابتلا بھی مال کے ابتلا سے کم نہیں.بعض لوگ دوسری قوموں کو حقیر سمجھتے ہیں.اس ابتلا میں سید سب سے زیادہ مبتلا ہیں.ایک عورت گداگر ہمارے ہاں آئی وہ کہتی تھی کہ میں سیدانی ہوں اس کو پیاس لگی اور پانی مانگا تو کہا کہ پیالہ دھو کر دینا کسی امتی نے پیا ہوگا.اس قسم کے خیالات ان لوگوں میں پیدا ہوئے ہوئے ہیں.خدا تعالیٰ کے حضور ان باتوں کی کچھ قدر نہیں.اس نے فیصلہ کر دیا ہے اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ(الـحجرات:۱۴).تنخواہ دار امام الصلوٰۃ ایک مخلص اور معزز خادم نے عرض کی کہ حضور میرے والد صاحب نے ایک مسجد بنائی تھی وہاں جو امام ہے اس کو کچھ معاوضہ وہ دیتے تھے اس غرض سے کہ مسجد آباد رہے.وہ اس سلسلہ میں داخل نہیں.میں نے اس کا معاوضہ بدستور رکھا ہے اب کیا کیا جاوے؟ فرمایا.خواہ احمدی ہو یا غیر احمدی جو روپیہ کے لیے نماز پڑھتا ہے اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے.نماز تو خدا کے لیے ہے.اگر وہ چلا جائے گا تو خدا تعالیٰ ایسے آدمی بھیج دے گا جو محض خدا کے لیے نماز پڑھیں اور مسجد کو آباد کریں.ایسا امام جو محض لالچ کی وجہ سے نماز پڑھتا ہے میرے نزدیک خواہ وہ کوئی ہو احمدی یا غیر احمدی اس کے پیچھے نماز نہیں ہو سکتی.امام اَتقیٰ ہونا چاہیے.بعض لوگ رمضان میں ایک حافظ مقرر کر لیتے ہیں اور اس کی تنخواہ بھی ٹھیرا لیتے ہیں.یہ درست نہیں.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی محض نیک نیتی اور خدا ترسی سے اس کی خدمت کر دے تو یہ جائز ہے.۱ ۲۸؍ستمبر ۱۹۰۵ء (قبل دوپہر) امام مہدی کی جنگیں آج ایک ترک اور ایک یہودی اعلیٰ حضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کے لیے آئے ہوئے تھے.انہوں نے حضرت اقدسؑ سے چند سوالات

Page 331

پوچھے.جواب سمیت ذیل میں درج کرتا ہوں.یہ یاد رہے کہ سوال جواب عربی زبان میں تھے.میں ان کا مفہوم لے کر اردو میں لکھتا ہوں.(ایڈیٹر ) ترک.آپ کا دعویٰ ہے کہ میں مہدی ہوں اور احادیث میں آیا ہے کہ مہدی جب آئے گا تو لڑائی کرے گا.حضرت اقدس.آپ کو معلوم نہیں.یہ بالکل غلط خیال ہے.مہدی کے متعلق جس قدر احادیث اس قسم کی ہیں وہ محدثین نے مجروح قرار دی ہیں.صرف ایک حدیث لَا مَھْدِیَ اِلَّا عِیْسٰی ہے یعنی بجز مسیح موعود کے اور کوئی مہدی آنے والا نہیں ہے.وہی موعود جس کو بخاری میں اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ فرمایا ہے یعنی اسی امت میں سے آنے والا.اور اس کے متعلق کہیں نہیں لکھا کہ وہ لڑائیاں کرے گا بلکہ بخاری میں جو اَصَـحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللہِ ہے صاف لکھا ہے کہ یَضَعُ الْـحَرْبَ.یعنی اس کے وقت میں مذہبی لڑائیاں نہ ہوں گی.اس کی وجہ یہ ہے کہ اب حرب کی ضرورت نہیں ہے.ہمارے مخالف ہمارے ساتھ جنگ نہیں کرتے.وہ تو قلم کے ساتھ اعتراض کرتے ہیں.پس یہ کیسی کمزوری ہوتی کہ قلم کا جواب قلم سے نہ دیا جاتا بلکہ اس کے لیے ہتھیار استعمال ہوتے.ایسی صورت میں جبکہ قلم کے حملے ہو رہے ہیں ہمارا یہی فرض ہے کہ قلم کے ساتھ ان کو روکیں.علاوہ بریں اگر اللہ تعالیٰ کی یہ مرضی ہوتی کہ ایسے زمانہ میں اسلام کی ترقی جنگ سے وابستہ ہوتی تو ہر قسم کے ہتھیار مسلمانوں کو دیئے جاتے.حالانکہ جس قدر ایجادیں آلاتِ حربیہ کے متعلق یورپ میں ہو رہی ہیں کسی جگہ نہیں ہوتی ہیں.جس سے اللہ تعالیٰ کی مصلحت کا صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ لڑائی کا زمانہ نہیں ہے.اور کبھی بھی کوئی دین اور مذہب لڑائی سے نہیں پھیل سکتا.پہلے بھی اسلام کی ترقی اور اشاعت کے لیے تلوار نہیں اٹھائی گئی.اسلام اپنے برکات، انوار اور تاثیرات کے ذریعہ پھیلا ہے اور ہمیشہ اسی طرح پھیلے گا.پس یہ نہایت ہی غلط اور مکروہ خیال ہے کہ مسیح کے وقت جنگ ہوگی اور نہ مسیح کو اس کی حاجت.وہ قلم سے کام لے گا اور اسلام کی حقانیت اور صداقت کو پر زور دلائل اور تاثیرات کے ساتھ ثابت کر کے دکھائے گا اور دوسرے ادیان پر اس کو غالب کرے گا اور یہ ہو رہا ہے.

Page 332

قرآن دنیا سے کس طرح اٹھایا جائے گا ترک.یہ بھی تو آیا ہے کہ مسیح کے زمانہ میں قرآن اٹھایا جائے گا.اب کہاں اٹھایا گیا ہے؟ حضرت اقدس.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایک صحابی نے یہ پوچھا تھا کہ اس وقت قرآن شریف کیسے اٹھایا جاوے گا؟ آپؐنے اس کو یہ جواب دیا تھا کہ میں تو تجھے عقلمند سمجھتا تھا.یہی جواب میرا ہے.کیا آپ نہیں دیکھتے کہ قرآن شریف پر کوئی عمل نہیں کیا جاتا.اس کی حمایت اور حمیت کے لیے کچھ بھی سعی نہیں ہوتی.قرآن شریف سے صوری اور معنوی اعراض کیا گیا ہے اس کے حقائق اور معارف اور اس کی تعلیم سے مسلمان بالکل بے خبر ہو رہے ہیں.اَور کس طرح قرآن اٹھایا جاوے گا؟ توحید اور شرک کی حقیقت (ترک صاحب تو دو سوالوں کے بعد خاموش ہوگئے.پھر یہودی صاحب نے اپنے سوالات پیش کرنے شروع کئے.) یہودی.یہودیوں میں بھی تو توحید موجود ہے.اسلام اس سے بڑھ کر کیا پیش کرتا ہے؟ حضرت اقدس.یہودیوں میں توحید تو نہیں ہے.ہاں قشر التوحید بیشک ہے اور نرا قشر کسی کام کا نہیں ہو سکتا.توحید کے مراتب ہوتے ہیں.بغیر ان کے توحید کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی.نرا لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ہی کہہ دینا کافی نہیں یہ تو شیطان بھی کہہ دیتا ہے.جب تک عملی طور پر لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کی حقیقت انسان کے وجود میں متحقق نہ ہو کچھ نہیں.یہودیوں میں یہ بات کہاں ہے؟ آپ ہی بتا دیں.توحید کا ابتدائی مرحلہ اور مقام تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول کے خلاف کوئی امر انسان سے سر زد نہ ہو اور کوئی فعل اس کا اللہ تعالیٰ کی محبت کے منافی نہ ہو.گویا اللہ تعالیٰ ہی کی محبت اور اطاعت میں محو اور فنا ہوجاوے.اسی واسطے اس کے معنے یہ ہیں لَا مَعْبُوْدَ لِیْ وَ لَا مَحْبُوْبَ لِیْ وَ لَا مُطَاعَ لِیْ اِلَّا اللہُ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی میرا معبود ہے اور نہ کوئی محبوب ہے اور نہ کوئی واجب الاطاعت ہے.یاد رکھو شرک کی کئی قسمیں ہوتی ہیں.ان میں سے ایک شرک جلی کہلاتا ہے دوسرا شرک خفی.شرک جلی کی مثال تو عام طور پر یہی ہے جیسے یہ بت پرست لوگ بتوں، درختوں یا اَور اشیاء کو معبود

Page 333

سمجھتے ہیں.اور شرک خفی یہ ہے کہ انسان کسی شے کی تعظیم اسی طرح کرے جس طرح اللہ تعالیٰ کی کرتا ہے یا کرنی چاہیے یا کسی شے سے اللہ تعالیٰ کی طرح محبت کرے.یا اس سے خوف کرے یا اس پر توکل کرے.اب غور کر کے دیکھ لو کہ یہ حقیقت کامل طور پر توریت کے ماننے والوں میں پائی جاتی ہے یا نہیں.خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہی میں جو کچھ ان سے سر زد ہوا وہ آپ کو بھی معلوم ہوگا.اگر توریت کافی ہوتی تو چاہیے تھا کہ یہودی اپنے نفوس کو مزکی کرتے مگر ان کا تزکیہ نہ ہوا.وہ نہایت قسی القلب اور گستاخ ہوتے گئے.یہ تاثیر قرآن شریف ہی میں ہے کہ وہ انسان کے دل پر بشرطیکہ اس سے صوری اورمعنوی اعراض نہ کیا جائے.ایک خاص اثر ڈالتا ہے اور اس کے نمونے ہر زمانہ میں موجود رہتے ہیں.چنانچہ اب بھی موجو دہے.قرآن شریف نے فرمایا قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (اٰلِ عـمران:۳۲) یعنی اے رسول تو ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو.اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنا لے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع انسان کو محبوب الٰہی کے مقام تک پہنچا دیتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کامل موحد کا نمونہ تھے.پھر اگر یہودی توحید کے ماننے والے ہوتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ایسے موحد سے دور رہتے.انہیں یاد رکھنا چاہیے تھا کہ خدا تعالیٰ کے خاتم الرسل کا انکار اور عناد نہایت خطرناک امر ہے.مگر انہوںنے پروا نہیں کی اور باوجودیکہ خود ان کی کتاب میں آپ کی پیشگوئی موجود تھی مگر انکار کر دیا.اس کی وجہ بجز اس کے اور کیا ہوسکتی ہے قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ (الانعام:۴۴).سوائے اسلام کے کسی مذہب میں نجات نہیں ہے.سوال.کیا کسی اور مذہب میں رہ کر انسان نجات نہیں پاسکتا؟ جواب.اس کا جواب خود قرآن شریف نفی میں دیتا ہے.اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ (اٰلِ عـمران:۲۰)

Page 334

وَ مَنْ يَّبْتَغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ(اٰلِ عـمران:۸۶) اسلام کے سوا اور کوئی دین قبول نہیں ہو سکتا.اور یہ نرا دعویٰ نہیں.تاثیرات ظاہر کر رہی ہیں.اگر کوئی اہل مذہب اسلام کے سوا اپنے مذہب کے اندر انوار و برکات اور تاثیرات رکھتا ہے تو پھر وہ آئے ہمارے ساتھ مقابلہ کرلے.اور ہم نے ہمیشہ ایسی دعوت کی ہے کوئی مقابلہ پر نہیں آیا.قرآن شریف کے انوار و برکات سوال.اگر اسلام کے سوا کوئی دوسرا مذہب اپنے اندر انوار و برکات نہ رکھتا تھا اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبول نہیں ہو سکتا تھا تو پھر جزیہ کیوں رکھا تھا؟ جواب.یہ تو ایک الگ امر ہے.اس سے یہ تو نہیں ثابت ہوتا کہ دوسرے مذاہب سچے تھے.ہاں اس سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام جبر سے نہیں پھیلایا گیا.ان لوگوں کو سوچنے اور غور کرنے کا موقع دیا گیا ہے اور جیسا فرمایا تھا لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ (البقرۃ:۲۵۷) اس پر عمل کیا گیا.مجھے افسوس ہے کہ یہ تو قابل قدر بات تھی جس پر آپ اعتراض کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت.اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (الانبیاء:۱۰۸) یعنی اے رسول! ہم نے تجھ کو رحمۃ للعالمین کر کے بھیجا ہے.پس یہ آپ کی رحمت کا ایک نمونہ تھا.قرآن شریف میں اگر تدبر کریں تو اس کی روشن حقیقت آپ کو معلوم ہو جائے گی.توریت میں کوئی اثر باقی نہیں رہا.ورنہ چاہیے تھا کہ ان میں اولیاء اللہ اور صلحاء ہوتے.یہودی.چونکہ توریت پر عمل نہیں رہا اس لیے ولی اور صلحاء نہیں ہوتے.حضرت اقدس.اگر توریت میں کوئی تاثیر باقی ہوتی تو اسے ترک ہی کیوں کرتے؟ اگر آپ یہ کہیں کہ بعض نے ترک کیا ہے تو پھر بھی اعتراض بدستور قائم ہے کہ جنہوں نے ترک نہیں کیا ان پر جو اثر ہوا ہے وہ پیش کرو.اور اگر کُل نے ہی ترک کر دیا ہے تو یہ ترک تاثیر کو باطل کرتا ہے.ہم قرآن شریف کے لیے یہی نہیں مانتے.یہ سچ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے قرآن شریف کو چھوڑ دیا

Page 335

ہے.لیکن پھر بھی قرآن شریف کے انوار و برکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ زندہ اور تازہ بتازہ ہیں.چنانچہ میں اس وقت اسی ثبوت کے لیے بھیجا گیا ہوں.اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے اپنے وقت پر اپنے بندوں کو اس کی حمایت اور تائید کے لیے بھیجتا رہا ہے.کیونکہ اس نے وعدہ فرمایا تھا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر:۱۰) یعنی بے شک ہم نے ہی اس ذکر (قرآن شریف ) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں.قرآن شریف کی حفاظت کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ توریت یا کسی اور کتاب کےلیے نہیں.اسی لیے ان کتابوں میں انسانی چالاکیوں نے اپنا کام کیا.قرآن شریف کی حفاظت کا یہ بڑا زبردست ذریعہ ہے کہ اس کی تاثیرات کا ہمیشہ تازہ بتازہ ثبوت ملتا رہتا ہے اور یہود نے چونکہ توریت کو بالکل چھوڑ دیا ہے اور ان میں کوئی اثر اور قوت باقی نہیں رہی جو ان کی موت پر دلالت کرتی ہے.قیامت کی حقانیت یہودی.مسلمان قیامت پر ایمان لاتے ہیں.وہ کون سے علامات ہیں جن کی وجہ سے وہ ایمان لاتے ہیں.حضرت اقدس.انسان کا اپنا جسم ہی اس کو حشر نشر پر ایمان لانے کے لیے مجبور کرتا ہے کیونکہ ہر آن اس میں حشر نشر ہو رہا ہے.یہاں تک کہ تین سال کے بعد یہ جسم رہتا ہی نہیں اور دوسرا جسم آجاتا ہے یہی قیامت ہے.اس کے سوا یہ ضروری امر نہیں کہ کل مسائل کو عقلی طور پر ہی سمجھ لے.بلکہ انسان کا فرض ہے کہ وہ اس بات پر ایمان لائے کہ اللہ تعالیٰ اپنے افعال اور صفات کے ساتھ موجود ہے اور اس کی صفات میں سے یہ بھی ہے يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ(اٰلِ عـمران:۴۸) اور عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (البقرۃ:۱۰۷).تو اس بات کے ماننے میں کہ قیامت ہوگی کیا شک ہو سکتا ہے.خصوصاً ایسی حالت میں کہ ہم اس کا ثبوت یہاں بھی رکھتے اور دیکھتے ہوں.بے شک قیامت حق ہے اور اس کی قدرتوں کا ایک نمونہ.اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (البقرۃ:۱۰۷) سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ حشر و نشر پر بھی قادر ہے اور حشر و نشر قدرت ہی پر موقوف ہے.یہ اسلام کی خصوصیات ہیں کہ اسلام نری تعلیم ہی نہیں دیتا بلکہ جب انسان اس تعلیم پر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے نشانات

Page 336

اور آیات بھی دکھاتا ہے.چنانچہ جب وہ اپنے نفس کا تزکیہ کرتا ہے اور اس پر ایمان لاتا ہے تو وہ آیات اللہ کو دیکھتا ہے جس سے اس کا ایمان عرفان کے رنگ میں مضبوط ہوجاتا ہے.دوسرے ادیان کے متبعین میں یہ آیات اور نشانات نہیں ہیں.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل متبعین ہی کو ملتے ہیں جو اپنے دل کو صاف کرتے ہیں اور ان میں کوئی شک و شبہ نہیں رہتا.اس وقت انہیں یہ نشانات دیئے جاتے ہیں جو ان کی معرفت اور قوت یقین کو بہت بڑھا دیتے ہیں.خدا تعالیٰ کا قادر ہونا یہودی.اگر خدا قادر ہے تو کیوں نہیں ہو سکتا کہ وہ مسیح کو آسمان سے لے آوے؟ حضرت اقدس.بے شک خدا تعالیٰ قادر ہے مگر اسکے یہ معنے نہیںکہ وہ خلاف وعدہ کرتا ہے یا ایسے افعال بھی اس سے صادر ہوتے ہیں جو اس کی صفات کاملہ اور اس کی قدوسیت کے خلاف ہوں.کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے آپ کو قتل کر دے یا کوئی اپنا مثیل پیدا کر لے.اسی طرح پر جبکہ وہ ایک عہد کر چکا ہے کہ مُردے واپس اس دنیا میں نہیں آتے تو وہ اس کا خلاف کیونکر کرے؟ قادر سمجھ کر خدا تعالیٰ کے لیے ایسے امور تجویز کر لینا جو اس کی صفات کاملہ کے منافی ہوں اللہ تعالیٰ کی سخت ہتک اور توہین ہے اور اس سے ڈرنا چاہیے.یہ محل ادب ہے.(اس مقام پر یہودی صاحب بھی خاموش ہوگئے اور سلسلہ کلام ختم ہوگیاہے.اعلیٰ حضرت تشریف لے گئے.)۱ ۲۹؍ستمبر ۱۹۰۵ء (قبل دوپہر) سلسلہ مجددین ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا آپ کے بعد بھی مجدد آئےگا؟ اس پر فرمایا.اس میں کیا ہرج ہے کہ میرے بعد بھی کوئی مجدد آجاوے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت ختم ہوچکی تھی.اس لیے مسیح علیہ السلام پر آپ کے خلفاء کاخاتمہ ہوگیا.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ قیامت تک ہے اس لیے اس میں قیامت تک ہی مجددین آتے رہیں گے.اگر

Page 337

قیامت نے فنا کرنے سے چھوڑا تو کچھ شک نہیں کہ کوئی اور بھی آجائے گا.ہم ہرگز اس سے انکار نہیں کرتے کہ صالح اور ابرار لوگ آتے رہیں گے.اور پھر بَغْتَةً قیامت آجائےگی.اس زمانہ کے مولوی مولویوں کے ذکر پر فرمایا.اگر تزکیہ نفس اور اتباع سنت ان میں ہوتا تو اس قدر اختلاف اور جھگڑا کیوں ہوتا.کوئی ہرج اسلام کا بھی نہ ہوتا.مگر اب تو عام طور پر ہر شخص جانتا ہے کہ ان لوگوں کی حالت کیسی ہوگئی ہے.آزمائش کے لیے دو چار مولوی لے آؤ پھر دیکھ لو کہ کیا ہوتا ہے؟ ہم ایک بات کہیں گے قطع نظر اس سے کہ وہ اس پر غور کریں فوراً اس کی تردید پر آمادہ ہوجائیں گے.میں افسوس سے کہتا ہوں کہ جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہودیوں کی سی حالت ہوجاوے گی.وہی حالت ہوچکی ہے.مجھے اس امر سے بہت محبت اور خواہش تھی اور ہے کہ کوئی ان میں درندگی چھوڑ کر انسانیت سے ہم پر اعتراض کرے اور اس کا جواب غور سے سنے.میں اس بات پر بھی رضامند اور خوش تھا کہ یہاں آکر ہمارے پاس رہتے ہم ہر طرح سے ان کی خاطر داری اور تواضع کرتے.وہ ٹھنڈے دل سے اپنے اعتراض پیش کرتے اور سعید الفطرت لوگوں کی طرح جواب سنتے.پھر جو اعتراض رہتا یا اس جواب پر ہوتا پیش کرتے.مگر انہوں نے اس طریق کو بالکل چھوڑ دیا اور عمداً حق پوشی کی ہے.وہ چاہتے نہیں کہ ان کی آنکھ کھلے اور حق ظاہر ہو.اگرچہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے اس لیے کہ یہ ارادہ ان کا اللہ تعالیٰ کے ارادہ کا صریح مخالف ہے.کونسی گالی ہے جو انہوں نے ہم کو نہیں دی اور کونسا نام ہے جو انہوں نے ہمارا نہیں رکھا.آنے والا موعود حَکم ہو کر آئے گا انسان کا فرض تو یہ ہے کہ اگر اسے راستی ملے تو اس کے لینے میں چون و چرا نہ کرے مگر انہوں نے ذرا سے اختلاف کی وجہ سے (جو وہ بھی اختلاف نہ تھا) ساری صداقتوں کا خون کر دیا.ہمارا ان کا بہت سے امور میں اتفاق تھا.صرف ایک بات پیش کی تھی مسیح ابن مریم مرگیا ہے اور آنے والا موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے موافق تم ہی میں سے آیا ہے.میں حیران ہوں کہ ایک طرف تو یہ تسلیم

Page 338

کرتے ہیں کہ آنے والا موعود حکم ہو کر آئے گا.دوسری طرف حالت یہ ہے کہ ایک بات بھی ماننے کو طیار نہیں.پھر وہ حَکم کس بات کا ہوگا؟ اگر ان کے زعم اور خیال کے موافق مسیح آسمان سے بھی آجاتا تب بھی یقینی امر تھا کہ اسے ہرگز تسلیم نہ کرتے کیونکہ بہ حیثیت حَکم ہونے کے اس کا تو کام یہ ہوتا کہ وہ سب کی غلطیاں نکال کر صراط مستقیم پر سب کو لاتا اور یہ اپنی غلطیوں کو چھوڑنے والے نہیں.حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، شیعہ، خوارج وغیرہ وغیرہ.ہر فرقہ والا اپنی بات اسے منوانی چاہتا اور جس کی وہ نہ مانتا اس کے نزدیک ہی کافر اور بے دین ٹھہرتا.پھر ایسی صورت میں ہم کیونکر مان لیں کہ یہ اپنے فرضی مسیح کو مان لیں گے.حَکم اسے کہتے ہیںجو قاضی ہو اور غلطیاں نکال کر اصلاح کرے.ہم نے تو ذرا سی ہی غلطی پیش کی تھی کہ مسیح مر گیا ہے اور وہ نہیں آئیں گے.آنے والا امتی ہے جیسا کہ قرآن مِنْکُمْ کہتا ہے اور بخاری اور مسلم میں بھی مِنْکُمْ ہی آیا ہے.اب اس غلطی کو جو اسلام کی عظمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت شان کی صریح مخالف ہے یہ چھوڑ نہیں سکتے اور میرا فیصلہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ خود مجھ پر حَکم ہونا چاہتے ہیں.افسوس ہے کہ میں اس اختلاف کی وجہ سے جو اسلام کی زندگی کا اصل ذریعہ ہے کافر اور یہ اپنے ہزاروں خطرناک اختلافوں کی وجہ سے بھی مسلمان کے مسلمان ہی ہیں.شیعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخلص اور جان نثار صحابہؓ کو سبّ و شتم کرتے ہیں اور ان کو کافر اور مرتد بتاتے ہیں اور پھر بھی وہ سچے کے سچے.اب کوئی انصاف کرے کہ وہ آنے والا حَکم ان میں آکر کیا کرے گا.کیا وہ بھی ان کے ساتھ تبرّا میں شامل ہوگا یا اس سے ان کو باز رہنے کی ہدایت کرے گا؟ اگر ان میں خوفِ خدا ہوتا اور یہ تقوے سے کام لیتے اور لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ (بنی اسـرآءیل:۳۷) پر عمل کرتے اور میری باتوں کو غور سے سنتے اور پھر ان پر فکر کرتے اس کے بعد حق تھا جو چاہتے کہتے.مگر انہوں نے اس کی پروا نہ کی اور خدا کے خوف سے نہ ڈرے جو منہ میں آیا کہہ گذرے.

Page 339

میں سخت افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ ان لوگوں کی حالت مسخ ہوگئی ہے.یہی توفّی کا لفظ یوسف علیہ السلام کے لیے ہو تو موت کے معنے کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہو تو موت کے معنے کریں لیکن مسیح کی نسبت ہو تو اس کے معنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر جانا ہو.کس قدر جرأت اور دلیری ہے! کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذرا بھی عزت ان کے دل میں نہیں؟ اگروہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی یہی معنے کرتے تو ہم سمجھ لیتے کہ یہ کوئی خصوصیت پیدا نہیں کرتے.مگر اب تو یہ خاص طور پر مسیح ہی کے ساتھ اس امر کو مخصوص کرتے ہیں.حالانکہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر جانے کا کوئی بھی قائل نہیں.نہ یہودی قائل نہ عیسائی.یہودی تو رفع روحانی کے بھی قائل نہیں.عیسائی جلالی جسم کے قائل ہیں گو وہ اس میں جھوٹے ہیںاس لیے انہوں نے جب مسیح کو دیکھا تو وہ وہی عنصری جسم تھا کیونکہ اس میں زخم موجود تھے اور خود انہوں نے ہاتھ ڈال کر دیکھا.باایں عیسائیوں نے سمجھ لیا کہ جسم عنصری آسمان پر نہیں جاتا.اسی لیے انہوں نے جلالی جسم تجویز کیا.حضرت مسیح کی وفات کا مسئلہ بہت صاف تھا اور اسکے لیے خود مسیح کا اپنا اقرار اللہ تعالیٰ کا قول اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم دید شہادت، صحابہ کا اجماع کافی دلائل تھے مگر انہوں نے ذرا بھی پروا نہ کی.اور سچ پوچھو تو یہ یہودیوں سے بھی گئے گذرے ہوئے اس لیے کہ وہ تو ایک جماعت بنا کر مسیح کے پاس گئے اور ان سے ان کے دعاوی کی تحقیق کی.مگر یہ کب میرے پاس آئے اور انہوں نے پوچھا؟۱ ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۵ء (قبل دوپہر) قرآن کریم کا اعجاز مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نے اپنا بے نقط عربی قصیدہ سنایا.اسی تحریک سے فرمایا.ایک پادری نے مجھ پر اعتراض کیا کہ فیضی کی تفسیر اعلیٰ درجہ کی فصاحت و بلاغت میں ہے ۱ الحکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۸،۹

Page 340

کیونکہ ساری بے نقط لکھی ہے.میں نے اس کا جواب دیا کہ بے نقط لکھنا کوئی اعلیٰ درجہ کی بات نہیں.یہ ایک قسم کا تکلف ہے اور تکلفات میں پڑنا لغو امر ہے.مومنوں کی شان یہ ہےوَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(المؤمنون:۴) یعنی مومن وہ ہوتے ہیں جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں.اگر بے نقط ہی کو معجزہ سمجھتےہو تو قرآن شریف میں بھی ایک بے نقط معجزہ ہے اور وہ یہ ہے لَا رَيْبَ فِيْهِ (البقرۃ:۳) اس میں رَیب کا کوئی لفظ نہیں.یہی اس کا معجزہ ہے.لَا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ (حٰمٓ السجدۃ:۴۳) اس سے بڑھ کر اور کیا خوبی ہوتی.میں نے کئی بار اشتہار دیا ہے کہ کوئی ایسی سچائی پیش کرو جو ہم قرآن شریف سے نہ نکال سکیں.لَا رَطْبٍ وَّ لَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ(الانعام:۶۰) یہ ایک ناپیدا کنار سمندر ہے اپنے حقائق اور معارف کے لحاظ سے اور اپنی فصاحت و بلاغت کے رنگ میں.اگر بشر کا کلام ہوتا تو سطحی خیالات کا نمونہ دکھایا جاتا.مگر یہ طرز ہی اور ہے جو بشری طرزوں سے الگ اور ممتاز ہے.اس میں باوجود اعلیٰ درجہ کی بلند پروازی کے نمود و نمائش بالکل نہیں.خود فرمایا کہ امیوں کے لیے ہے.اور پھر اور لطف یہ ہے کہ ظاہر تو امیوں کے لیے ہے اور باطن ہر ایک کے سیراب کرنے والا ہے.سورۃ الرحمٰن میں تکرار کی حکمت خواجہ صاحب۱ نے پوچھا کہ سورہ رحمان میں اعادہ کیوں ہوا ہے؟ فرمایا.اس قسم کا التزام اللہ تعالیٰ کے کلام کا ایک ممتاز نشان ہے.انسان کی فطرت میں یہ امر واقع ہوا ہے کہ موزوں کلام اسے جلد یاد ہوجاتا ہے.اسی لیے فرمایا وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ (الـقمر:۱۸) یعنی بے شک ہم نے یاد کرنے کے لیے قرآن شریف کو آسان کر دیا ہے.یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی ساری چیزوں میں ایک حُسن ہے تو کیا یہ ضروری نہیں کہ اس کے کلام میں بھی حُسن ہو؟ یہ اس کا ایک حُسن ہے.اگر قرآن مجید ژولیدہ بیان ہوتا تو اس سے کیا فائدہ ہوتا؟ طبائع کو اس کی طرف توجہ ہی نہ ہوتی.اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں عجیب عجیب قسم کی مخلوق دیکھی جاتی ہے

Page 341

عجائب خانہ میں جا کر بعض جانور اس قسم کے دیکھے گئے ہیںکہ گویا وہ ایک خوبصورت چھینٹ ہیں.ان ساری باتوں پر نظر کر کے معلوم ہوتا ہے کہ رنگینی خلق خدا تعالیٰ کی عادت ہے.یہاں تک بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض جانور انڈے خود دیتے ہیں اور اس کے بچے اَور جانور نکالتے ہیں.کوئل انڈے خود دیتی ہے اور کوے کے آشیانہ میں رکھ دیتی ہے.پس جس جس قدر کوئی مخلوقات الٰہی کا اور افعال اللہ کا مشاہدہ کرے گا.اسی قدر اس کا تعجب بڑھتا جائے گا.اسی طرح اس کے اقوال میں لاانتہا اسرار ہوتے ہیں جن کا مشاہدہ افعال اللہ کی خورد بین سے ہو جاتا ہے.حضرت حکیم الامت نے عرض کیا کہ شاعر اور فصیح تو اس طرزبیان پر اعتراض کر ہی نہیں سکتا.اس لیے کہ خود ان کو اس امر کا التزام کرنا پڑتا ہے.پھر حضرت حجۃ اللہ نے اسی سلسلہ کلام میں فرمایا کہ فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(الرحـمٰن:۱۴) بار بار توجہ دلانے کے واسطے ہیں.اسی تکرار پر نہ جاؤ.قرآن شریف میں اور بھی تکرار ہے.میں خود بھی تکرار کو اسی وجہ سے پسند کرتا ہوں.میری تحریروں کو اگر کوئی دیکھتا ہے تو وہ اس تکرار کو بکثرت پائے گا.حقیقت سے نا خبر انسان اس کو منافی بلاغت سمجھ لے گا.اور کہے گا کہ یہ بھول کر لکھا ہے.حالانکہ یہ بات نہیں ہے.میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاید پڑھنے والا پہلے جو کچھ لکھا ہے اسے بھول گیا ہو.اس لیے بار بار یاد دلاتا ہوں.تاکہ کسی مقام پر تو اس کی آنکھ کھلے.اِنَّـمَا الْاَعْـمَالُ بِالنِّیَّاتِ.علاوہ بریں تکرار پر اعتراض ہی بے فائدہ ہے.اس لیے کہ یہ بھی تو انسانی فطرت میں ہے کہ جب تک بار بار ایک بات کو دہرائے نہیں وہ یاد نہیں ہوتی.سُبْـحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی اور سُبْـحَانَ رَبِّیَ الْعَظیْمُ بار بار کیوں کہلوایا؟ ایک بار ہی کافی تھا.نہیں.اس میں یہی سِر ہے کہ کثرت تکرار اپنا ایک اثر ڈالتی ہے اور غافل سے غافل قوتوں میں بھی ایک بیداری پیدا کر دیتی ہے.اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اُذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(الانفال:۴۶) یعنی اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ.جس طرح پر ذہنی تعلق ہوتا ہے اور کثرت تکرار ایک بات کو حافظہ میں محفوظ کر دیتی ہے.اسی طرح ایک روحانی تعلق بھی ہے اس میں بھی تکرار کی حاجت ہے.بِدُوں تکرار وہ روحانی پیوند

Page 342

اور رشتہ قائم نہیں رہتا.اور پھر سچ تو یہ ہے کہ اصل بات نیت پر موقوف ہے.جو شخص صرف حفظ کرنے کی نیت سے پڑھتا ہے وہ تو وہیں تک رہتا ہے اور جو شخص روحانی تعلق کو بڑھا لیتا ہے.۱ حضرت امام جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک آیت اتنی مرتبہ پڑھتا ہوں کہ وہ آخر وحی ہو جاتی ہے.صوفی بھی اسی طرف گئے ہیں اور وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا کے یہ معنے ہیں یعنی اس قدر ذکر کرو کہ گویا اللہ تعالیٰ کا نام کنٹھ ہوجاوے.انبیاء علیہم السلام کے طرز کلام میں یہ بات عام ہوتی ہے کہ وہ ایک امر کو بار بار اور مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں.ان کی اصل غرض یہی ہوتی ہے کہ تا مخلوق کو نفع پہنچے.میں خود دیکھتا ہوں اور میری کتابیں پڑھنے والے جانتے ہیں کہ اگر چار صفحے میری کسی کتاب کے دیکھے جاویں تو ان میں ایک ہی امر کا ذکر پچاس مرتبہ آئے گا اور میری غرض یہی ہوتی ہے کہ شاید پہلے مقام پر اس نے غور نہ کیا ہو اور یونہی سر سری طور سے گذر گیا ہو.قرآن شریف میں اعادہ اور تکرار کی بھی یہی حکمت ہے.یہ تو احمقوں کی خشک منطق ہے جو کہتے ہیں کہ بار بار تکرار سے بلاغت جاتی رہتی ہے.وہ کہتے رہیں.قرآن شریف کی غرض تو ایک بیمار کا اچھا کرنا ہے.وہ تو ضرور ایک مریض کو بار بار دوا دے گا.اگر یہ قاعدہ صحیح نہیں تو پھر ایسے معترض جب کوئی ان کے ہاں بیمار ہوجاوے تو اسے بار بار دوا کیوں دیتے ہیں.اور آپ کیوں دن رات کے تکرار میں اپنی غذا لباس وغیرہ امور کا تکرار کرتےہیں؟ پچھلے دنوں میں نے کسی اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک انگریز نے محض اسی وجہ سے خود کشی کر لی تھی کہ بار بار وہی دن رات اور غذا مقرر ہے اور میں اس کو برداشت نہیں کر سکتا.معجزات مسیح کی حقیقت معجزات مسیح کے متعلق کہا گیا کہ ازالہ میں جو تصریح کی گئی ہے.اس سے انکار پایا جاتا ہے.فرمایا.تعجب کی بات ہے کہ وہ انکار ہے؟ یا اقرار.معجزات مسیح کا تو اقرار کیا گیا ہے اور ہم اب

Page 343

بھی اقرار کرتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام سے خوارق کا ظہور ہوا.لیکن یہ سچ ہے کہ ان معجزات کی حقیقت جو خدا تعالیٰ نے ہم پر کھولی اسے ہم نے بہ حیثیت حَکم ظاہر کر دیا ہے.اس کی ہم کو کچھ پروا نہیں کہ یہ لوگ اس پر گالیاں دیتےہیں یا کیا کہتے ہیں.یہ لوگ اگر میری بات سے انکار کرتے ہیں تو پھر مجھ سے نہیں بلکہ قرآن شریف سے انکار کرتے ہیں.کیونکہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اپنی طرف سے تو لکھا ہی نہیں.قرآن شریف ہی سے لکھا ہے.کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قرآن شریف نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ حقیقی مُردے واپس نہیں آتے فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ (الزّمر:۴۳) کے کیا معنے ہیں.پھر اگر میں نے یہ کہا کہ وہ مُردے جو حضرت مسیح نے زندہ کئے وہ حقیقی مُردے نہ تھے جو آیت فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ کے وعدے کے موافق واپس نہیں آتے تو کیا برا کیا؟ اس سے معجزات کا انکار کیونکر ثابت ہوا.میرا معجزات سے انکار تو ثابت نہیں ہوتا.البتہ ایسا اعتراض کرنے والے کا قرآن شریف سے انکار ثابت ہوتا ہے کیونکہ نہ ایک جگہ نہ دو جگہ بلکہ قرآن شریف کے متعدد مقامات سے یہ امر ثابت ہو رہا ہے.ایک اور جگہ فرمایا وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ(الانبیاء:۹۶).اب بتاؤ کہ جب اللہ تعالیٰ کھول کھول کر ایک امر کو بیان کر دے کہ مُردہ حقیقی واپس نہیں آیا کرتا تو پھر قرآن شریف کی تعلیم سے یہ کیسا انحراف ہے کہ خواہ نخواہ یہ تجویز کیا جاوے کہ فلاں شخص ایسا کرتا تھا.خدا سے ڈرنا چاہیے.ایسی باتوں کو منہ سے نکالتے وقت اللہ تعالیٰ کا ادب کرو.ہاں یہ سچ ہے کہ بعض لوگ جو مُردہ ہی کی طرح ہو جاتے ہیں اور کوئی امید زندگی کی باقی نہیں ہوتی.صرف دم باقی ہوتا ہے.ہر قسم کی تدابیر کی راہ بند ہوتی ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اپنے کسی بندہ کی دعاؤں سے اس مُردہ کو زندہ کر دیتا ہے.یہ بھی احیاءِ موتیٰ ہی ہوتا ہے.اور یہاں بھی اس قسم کی مثالیں موجود ہیں.نواب صاحب کے لڑکے عبد الرحیم کو جن لوگوں نے دیکھا ہے وہ اس کی شہادت دے سکتے ہیں

Page 344

کہ اس کی کیا حالت تھی.اس کی زندگی کی کوئی امید بھی باقی نہ تھی.۱ ایسا ہی خود میرا لڑکا مبارک ایسی حالت تک پہنچ گیا تھا کہ گھر والوں نے اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ بھی پڑھ دیا.مگر اللہ تعالیٰ نے پھر اسے زندہ کر دیا.یہ احیاءِ موتیٰ ہوتا ہے.اور علاوہ اس کے روحانی احیاء بھی ہوتا ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ہدایتوں سے بے خبر ہوتے ہیں اور ان کی زندگی ایک گمراہی کی زندگی ہوتی ہے وہ بھی مُردہ ہی ہوتے ہیں کیونکہ روحانی طور پر مرچکے ہوتے ہیں.پس ایسے لوگوں کا ہدایت یاب ہوجانا یہ ان کا زندہ ہونا ہے.یہ حقیقت احیاء موتیٰ کی ہے جو قرآن شریف نے بیان کی ہے اور اسی کے موافق خدا تعالیٰ سے علم پاکر میں نے اس کی تصریح کی.اب اگر یہ انکارِ معجزات ہے ایسا الزام لگانے والا خود سوچ لے کہ وہ مجھے منکر نہیں ٹھیراتا بلکہ خود قرآن شریف سے انحراف اور انکار کرتا ہے.یہ کس قدر نا سمجھی اور نا واقفی کی بات ہے کہ انسان اس طرز اور کلام کو اختیار کرے جس میں قرآن شریف پر حملہ ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ ہو.میں حیران ہوتا ہوں کہ یہ لوگ کیا کرتے ہیں؟ کیا ان کو معجزاتِ مسیح پیارے ہیں یا خدا تعالیٰ کا کلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم؟ یہ اگر معجزاتِ مسیح کے لیے خدا کے کلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ سکتے ہیں تو چھوڑ دیں.ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو چھوڑ دیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کریں.اس عقیدہ پر اگر ساری دنیا مجھ کو چھوڑتی ہے تو چھوڑ دے مجھے اس کی پروا نہیں اس لیے کہ خدا میرے ساتھ ہے.ان کو اعتراض کا حق تو اس وقت ہوتا جب ہم خدا تعالیٰ کے کلام کے خلاف کرتے.لیکن جب ہم خدا تعالیٰ کے کلام کے بالکل موافق کہتے ہیں تو پھر اعتراض کرنا خدا تعالیٰ کےکلام پر اعتراض ہے نہ مجھ پر.اگر مسیح واقعی مُردوں کو زندہ کرتے تھے یعنی ایسے مُردوں کو جو قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ کے نیچے آچکے تھے تو پھر کیوں انہوں نے ایلیاء کو زندہ کر کے نہ دکھا دیا تاکہ یہودی ٹھوکر نہ کھاتے اور خود بھی

Page 345

صلیبی ابتلا سے بچ جاتے.سعدی بھی یہی مذہب رکھتا تھا اور یہی سچا مذہب ہے.کوئی اکابر اس کے خلاف نہیں ہو سکتا.سعدی کہتا ہے.؎ وہ کہ گر مُردہ باز گردیدے بسرائے قبیلہ و پیوند رد میراث سخت تر بودے وارثاں را ز مرگ خویشاوند ۱ حضرت اقدسؑ کےکلمات طیبات (ایک شخص کے اپنے الفاظ میں) بلاتاریخ۲ انسان اور آدم فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان کو آدم بننا چاہیے.آدم سے مراد کامل انسان ہے.جب انسان کامل آدم بن جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم سجدہ (اطاعت) کا دیتا ہے اور اس کے ہر ایک کام کو خدا تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ سے سر انجام کرتا ہے.لیکن آدم کامل بننے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا خدا سے سچا اور پکا تعلق ہو.جب انسان ہر ایک حرکت اور سکون حکم الٰہی کے نیچے ہو کر کرتا ہے تو انسان خدا کا ہو جاتا ہے.تب خدا انسان کا والی وارث ہوجاتا ہے اور پھر اس پر کوئی مخالفت سے دست اندازی نہیں کر سکتا.لیکن وہ آدمی جو احکامِ الٰہی کی پروا نہیں کرتا خدا بھی اس کی پروا نہیں کرتا.جیسے کہ آیت کریمہوَ لَا يَخَافُ عُقْبٰهَا(الشّمس: ۱۶) سے ظاہر ہے.یعنی نافرمانوں پر جب وہ عذاب کرنے پر آتا ہے تو ایسی لا اُبالی ۱ الحکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۹،۱۰ ۲مندرجہ عنوان کے ماتحت بلا تاریخ یہ ملفوظات الحکم جلد ۹ نمبر ۵ کے صفحہ ۴ پر درج ہیں.جن کے آخر میں محمد خاں صاحب مرحوم کا نام لکھا ہے.معلوم ہوتا ہے مکرم محمد خاں صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کسی مجلس میں یہ کلمات سنے اور انہیں اپنے الفاظ میں قلمبند کر کے الحکم میں اشاعت کے لیے بھیجا.(مرتّب)

Page 346

سے عذاب کرتا ہے کہ عذاب کسی ہلاکت سے ان کے بال بچوں کی بھی پروا نہیں کرتا کہ ان کا حال ان کے نافرمان والدین کے بعد کیا ہوگا جیسے کہ آیت کریمہ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُ.كُمْ(الفرقان:۷۸) یعنی خدا کو تمہاری پروا ہی کیا ہے اگر تم اس کی فرماں برداری میںکوشاں نہ ہو اور اس کے احکاموں کو بے پروائی سے دیکھو.فرمایا کہ دنیا میں لاکھوں بکریاں بھیڑیں ذبح ہوتی ہیں لیکن کوئی ان کے سرہانے بیٹھ کر نہیں روتا اس کا کیا باعث ہے؟ یہی کہ ان کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.اسی طرح ایسے انسان کی ہلاکت کی بھی آسمان پر کوئی پروا نہیں ہوتی جو اس سے سچا تعلق نہیں رکھتا.انسان اگر خدا سے سچا تعلق رکھتا ہے تو اشرف المخلوقات ہے ورنہ کیڑوں سے بھی بد تر ہے.اس میں دو اُنس ہیں.ایک اُنس احکام الٰہی سے (جو ہو تو وہ کامل آدم ہے ورنہ وہ مردہ کیڑہ ہے) دوم مخلوق الٰہی سے.دنیا میں دیکھا جاتا ہے کہ کئی ایک محض بے گناہ قید ہو جاتے ہیں اور ظالمانہ دست اندازیوں کا نشانہ بنتے ہیں مگر اس کا باعث یہ ہوتا ہے کہ وہ خدا کے احکام کی پوری پروا نہیں کرتے اور دعاؤں سے اس کی پناہ نہیں چاہتے اور شریعت میں بالکل لاپروا ہوتے ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ بھی ان سے لا اُبالی کا معاملہ کرتا ہے ورنہ ان کا خدا سے سچا تعلق ہوتا تو ہرگز ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنے دوست کو دشمنوں کے ہاتھوں میں یوں چھوڑے کیونکہ وہ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ(اٰلِ عـمران: ۶۹) اور نَحْنُ اَوْلِيٰٓـؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ(حٰمٓ السجدۃ: ۳۲) کا وعدہ کرتا ہے.آدم علیہ السلام کامل انسان تھے تو فرشتوں کو سجدہ (اطاعت ) کا حکم ہوا.اسی طرح اگر ہم میں ہر ایک آدم بنے تو وہ بھی فرشتوں سے سجدہ کا مستحق ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کامل انسان کوئی نہیں فرمایا کہ کامل انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون ہوگا؟ دیکھو! جب انہوں نے اپنی جان، اپنا مال، اپنی حیات، ممات رب العالمین پر قربان کر دیئے یعنی سارے کے سارے خدا کے ہوگئے تو کیسا خدا ان کا ہوا اور کیسے فرشتوں سے ان کی مدد کی.اگر وہ فرشتوں سے مدد نہ کرتا

Page 347

تو ممکن نہ تھا ایک یتیم بچہ دنیا کو مغلوب کر لیتا.حکم وَاذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا(الاحزاب:۴۲) کا وہی عامل گذرا ہے.یعنی لڑائی کے وقت جب جھاگ منہ سے جاری ہے اورمارے غصہ کے آدمی جل رہا ہے.اس وقت بھی یہ حکم ہوتا ہے کہ خدا کو یاد کر کے کسی پر وار چلانا.ان دشمنان دین کے مقابلہ پر جنہوں نے سیکڑوں صحابہؓ کو ذبح کر دیا تھا.فتح مکہ پر کیسا خدا کو یاد کیا اور کیسا ترحم دکھایا.ذکر الٰہی کی حقیقت فرمایا کہ خدا کا بننا اس طرح ہو سکتا ہے کہ ہر ایک گھنٹہ اور رات میں انسان ذکر الٰہی میں رہے.ذکر الٰہی سے مراد یہ نہیں کہ تسبیح پکڑ لے بلکہ ذکر سے مراد یہ ہے کہ ہر ایک کام شروع کرتے وقت اس کو اس بات کا دھیان ہو کہ آیا یہ کام خدا کی مرضی کے خلاف تو نہیں.جب اس طرح انسان کامل بن جاتا ہے تو خدا اس کا بن جاتا ہے اور حسب وَلِيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ اس کو ہر موقعہ پر غموم و ہموم سے بچاتا ہے.بظاہر اکثر ایسے لوگ ہیں کہ وہ آدمی ہوتے ہیں لیکن حالت کشف میں ان کو کتوں اور گدھوں کی شکل میں دیکھا جاتا ہے.درازیٔ عمر پھر فرمایا کہ خدا کا قرب اورنزدیکی بھی اور زندگی بھی انعام (اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ) میں شامل ہے.مخالفین اس انعام میں مسیح کو تو شامل کرتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بے نصیب رکھتے ہیں.کیونکہ ان کو اس عقیدہ سے شرم نہیں آتی.اور لمبی زندگی اس طرح انعام میں شمار ہو سکتی ہے کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ (الرّعد:۱۸) اور مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ(الفرقان:۷۸) یعنی نافع چیز کو درازیٔ عمر نصیب ہوتی ہے اور خدا دین سے غافلوں کو ہلاکت میں ڈالنے سے پروا نہیں کرتا.پس ثابت ہوا کہ جو دین سے غافل نہ ہوں.ان کی ہلاکت اور موت میں خدا جلدی نہیں کرتا.سلسلہ کا منہاج نبوت پر ہونا فرمایاکہ ہمارا سلسلہ منہاج نبوت پر ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہود اور نصاریٰ سے مقابلہ کرنا پڑا.اسی طرح ہم کو بھی ان یہودی صفت مسلمانوں اور نصاریٰ سے مقابلہ کرنا پڑا.کیا یہ

Page 348

مولوی ہم کو رطب و یابس اور ضعیف حدیثوں اور قولوں سے جیتنا چاہتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام تورات اور انجیل کی آیات کو محرف قرار دیا جو آپ کے حَکم ہونے کی معارض تھیں یا ان کے ایسے معنے کئے جو آپ کے سلسلہ اسلام کے موافق ثابت ہوئیں اور ان آیات کے معنے خداداد فراست اور الہام سے کئے اور اہل کتاب کے غلط معنوں کو رد کیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری موجودہ تورات اور انجیل کو صحیح قبول نہ کیا.بلکہ کئی ایک آیات کو محرف اور کئی ایک کے معنے صحیح طور سے بذریعہ الہام کئے.اسی طرح ہمارا سلسلہ ہے.ہم بطور حَکم کے آئے ہیں.کیا حَکم کو یہ لازم ہے کہ کسی خاص فرقہ کا مرید بن جاوے؟ بہتّر فرقوں میں سے کس کی حدیثوں کومانے؟ حَکم تو بعض احادیث کو مردود اور متروک قرار دے گا اور بعض کو صحیح.مظالم سے بچنے کی واحد راہ فرمایا.بڑے بڑے صریح ظلم مظلوموں پر ڈھائے جاتے ہیں.اور ہمارے سامنے ظالموں سے کوئی چنداں باز پرس نہیں ہوتی.اس کا باعث بھی خدا تعالیٰ نے اسی آیت میں فرمایا ہے مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ(الفرقان:۷۸) یعنی خدا کو تمہاری پروا کیا ہے.اگر تم دعاؤں اور عبادت الٰہی میں تغافل اختیار کرو.بے شک ظلم اور دست درازیاں مظلوموں پر ہوویں کوئی پروا نہیں کی جائے گی جب تک وہ مظلوم خدا سے سچا تعلق بذریعہ صراط مستقیم پیدا نہ کر لیں.اور مظلوم پر ظلم اس لیے ہوتے ہیں کہ مظلوم خود ذبیحہ بکری یا کیڑے کی طرح ہوتا ہے کیونکہ وہ خدا سے سچا تعلق نہیں رکھتا.ورنہ ممکن ہے کہ خدا جو اس کا دین و دنیا کا متکفل ہو اور اس کی حفاظت کا ذمہ وار ہے.پھر اس پر کسی ظالمانہ مخالفت کا وار چلنے دے.۱ بلاتاریخ مامور من اللہ کی صداقت کا نشان راستباز اور مامور من اللہ کی صداقت کا بڑا نشان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو غیب کی خبریں دیتا ہے اور پھر

Page 349

ان خبروں میںایک طاقت ہوتی ہے جو دوسروں کو نہیں دی جاتی.نجومی جو خبریں دیتا ہے ان میں وہ طاقت اور جبروت نہیں ہوتی جو مامور کی خبروں میں ہوتی ہے.علاوہ بریں مامور کی خبریں ایسی ہوتی ہیں کہ فراست اور قیافہ پر ان کی بنا نہیں ہو سکتی مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی زندگی میں جو بالکل بے سرو سامانی اور بیکسی کی زندگی تھی اپنی کامیابی اور دشمنوں کی ناکامی اور نامرادی کی پیشگوئی کی تھی.کیا کوئی عقلمند اور ملکی مدبّر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت کی حالت کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتا تھا کہ یہ شخص کامیاب ہوجائے گا اور وہ قوم جو اس کی مخالفت پر آمادہ ہے.ذلت کے ساتھ نامراد رہے گی؟ پھر دیکھ لو کہ انجام کیا ہوا؟ پس یہ ایک زبردست نشان مامور کو دیاجاتا ہے.عیسائیت کا انجام اور اسلام کا مستقبل عیسائیوں کے حملے اسلام پر اس صدی میں بہت تیزی کے ساتھ ہوئے ہیں.ان کی زبان درازی اور چھیڑ چھاڑ بہت بڑھ گئی.اللہ تعالیٰ چاہتا تو ایک دم میں ان کی مخالفانہ کارروائیوں کا فیصلہ کر دیتا مگر وہ اپنا فیصلہ روزِ روشن کی طرح دکھانا چاہتا ہے.اب وقت آگیا ہے کہ اس مذہب کی حقیقت دنیا پر کھل جاوے.شیطان کی آدم کے ساتھ یہ آخری جنگ ہے ملائکۃ اللہ آدم کے ساتھ ہیں اور اب شیطان ہمیشہ کے لیے ہلاک کر دیا جائے گا.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر میری طرف سے اس مُردہ پرستی کے دور کرنے کے لیے کوئی تحریک نہ بھی ہوتی اور خدا تعالیٰ مجھے بھی نہ بھیجتا تب بھی اس مذہب کی حالت ایسی ہوچکی تھی کہ یہ خود بخود نمک کی طرح پگھل جاتا.میں خدا تعالیٰ کی تائیدوں اور نصرتوں کو دیکھ رہا ہوں جو وہ اسلام کے لیے ظاہر کر رہا ہے اور میں اس نظارہ کو بھی دیکھ رہا ہوں جو موت کا اس صلیبی مذہب پر آنے کو ہے.اس مذہب کی بنیاد محض ایک لعنتی لکڑی پر ہے جس کو دیمک کھا چکی ہے اور یہ بوسیدہ لکڑی اسلام کے زبردست دلائل کے سامنے اب ٹھیر نہیں سکتی.اس عمارت کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں.اب وقت آتا ہے کہ یکدم یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو اسلام کی طرف توجہ ہوگی.اور وہ اس مُردہ پرستی کے مذہب سے بیزار ہو کر حقیقی مذہب اسلام کو اپنی نجات کا ذریعہ یقین کریں گے.

Page 350

اسلام، عیسائیت اور آریوں کا خدا کے متعلق نظریہ توحید ماننے والوں میں ایک خاص رعب اور جلال ہوتا ہے جو بت پرست کو حاصل نہیں ہوتا.کیونکہ اس کا قلب ملزم کرتا رہتا ہے اور اس کے اعتقاد کی بنیاد علوم حقہ پر نہیں ہوتی بلکہ ظنیات اور اوہام پر ہوتی ہے مثلاً عیسائیوں نے یسوع کو خدا بنا لیا مگر کوئی ایسی خصوصیت آج تک دو ہزار برس ہونے کو آئے نہیں بتائی جو یسوع میں ہو اور دوسرے انسانوں میں نہ ہو.بلکہ جہاں تک انجیل کے بیان کے موافق یسوع کی حالت پر غور کرتے ہیں اسی قدر اسے انسانی کمزوریوں کا بہت بڑا نمونہ پاتے ہیں.بڑی خصوصیت اقتداری معجزات کی ہوتی ہے لیکن یسوع کی لائف میں اقتداری معجزات کا پتہ نہیں ملتا اور اگر عیسائیوں کے بیان کے موافق بعض مان بھی لیں تو پھر ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ اسی رنگ کے اقتداری معجزات یسوع کے معجزات سے کہیں بڑھ چڑھ کر پہلے نبیوں کے بائبل میں موجود ہیں پھر خصو صیت کیار ہی؟ وہ کیا بات تھی جس پر اسے خدا مان لیا گیا؟ اگر ایک مجلس میں اللہ تعالیٰ کے صفات بیان کئے جاویں اور اس میں آریا، عیسائی اور مسلمان موجود ہوں تو اگر کسی کا ضمیر مر نہیں گیا تو بجز مسلمان کے ہر ایک خدا تعالیٰ کے صفات بیان کرنے سے شرمندہ ہوگا مثلاً آریہ کیا یہ بیان کرکے خوش ہوگا کہ میں ایسے خدا پر ایمان لاتا ہوں جس نے دنیا کا ایک ذرّہ بھی پیدا نہیں کیا.وہ میری روح اور جسم کا خالق نہیں.مجھے جو کچھ ملتا ہے میرے اپنے اعمال اور افعال کا ثمرہ ہے.خدا تعالیٰ کا کوئی عطیہ اور کرم نہیں.میرا خدا مجھے کبھی ہمیشہ کی نجات نہیں دے سکتا.میرے لیے لازمی ہے کہ میں جونوں کے چکر میں آکر کیڑے مکوڑے بنتا رہوں یا کیا عیسائی صاحب یہ بیان کر کے راضی ہوگا کہ میں ایک ایسے خدا پر ایمان لاتا ہوں جو ناصرہ نام بستی میں یوسف نجار کے گھرمعمولی بچوں کی طرح پیدا ہوا تھا.وہ معمولی بچوں کی طرح روتا چلاتا اور کبھی اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ماں باپ سے تھپڑ بھی کھاتا تھا.اسے اتنی بھی خبر نہ تھی کہ وہ انجیر کے پھل کے موسم کا علم رکھتا.وہ ایسا غصہ ور تھا کہ درختوں تک کو بد دعائیں دیتا تھا.وہ آخر میرے گناہوں کی وجہ سے صلیب پر لعنتی ہوا.اور

Page 351

تین دن ہاویہ میں رہا.بتاؤ کیا وہ یہ باتیں خوشی کے ساتھ بیان کرے گا یا اندر ہی اندر اس کا دل کھایا جائے گا.لیکن ایک مسلمان بڑی جرأت اور دلیری سے کہے گا کہ میں اس خدا پر ایمان لایا ہوں جو تمام صفات کاملہ سے موصوف اور تمام بدیوں اور نقائص سے منزہ ہے.وہ رب ہے.بلا مانگے دینے والا رحمان ہے.سچی محنتوں کے ثمرات ضائع نہ کرنے والا ہے.وہ حیّ و قیوم ارحم الراحمین خدا ہے.وہ ہمیشہ کی نجات دیتا ہے.اس کی عطا غیر مجذوذ ہے.پس جب مسلمان اپنے خدا کی صفات بیان کرے گا تو ہرگز شرمندہ نہیں ہوگا اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جو ہم پر ہے.ایسا ہی اور بہت سی باتیں ہیں.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مان کر ہم کبھی کسی کے سامنے شرمندہ نہیں ہو سکتے.معجزات مسیح معجزات مسیح کی حقیقت ڈوئی نے خوب کھولی ہے.وہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں بھی سلبِ امراض کرتا ہوں اسی طرح پر جس طرح یسوع مسیح کیا کرتا تھا.اور عجیب تر یہ بات ہے کہ جہاں کوئی شخص اچھا نہیں ہوتا وہاں وہ شرمندہ نہیں ہوتا بلکہ کہہ دیتا ہے کہ یسوع مسیح سے بھی فلاں شخص اچھا نہیں ہوا.سلبِ امراض فی الحقیقت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر ناز کیا جا سکے.یہودی بھی اس زمانہ میں سلبِ امراض کرتے تھے اور ہندوستان میں بھی بہت لوگ اس قسم کے ہوئے ہیں اور آج کل تو ہزاروں ہزار دہریئے اور ملحد بھی ایسے ہیں جو سلبِ امراض کر سکتے ہیں.کیونکہ یہ ایک فن اور مشق ہے جس کے لیے یہ بھی ضرور نہیں کہ اس فن کا عامل خدا پر یقین رکھتا ہو یا نیک چلن ہو.جس طرح پر دوسرے علوم کے حصول کے لیے نیک چلنی اور خدا پرستی شرط نہیں ہے اس کے لیے بھی نہیں.یعنی اگر کوئی شخص ریاضی کے قواعد کی مشق کرے تو قطع نظر اس کے کہ وہ دہریہ ہے یا موحّد خدا پرست وہ قواعد اس کے لیے کوئی روک پیدا نہیں کریں گے.برخلاف اس کے وہ روحانی کمالات جو اسلام سکھاتا ہے ان کے لیے ضروری ہے کہ اعمال میں پاکیزگی اور صدق اور وفاداری ہو.بغیر اس کے وہ باتیں حاصل ہی نہیں ہو سکتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ سلبِ امراض والے مسیح کے اچھے کئے ہوئے مَر گئے.لیکن قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشمس:۱۰) کی تعلیم دینے والے کے زندہ کئے ہوئے آج تک

Page 352

بھی زندہ ہیں اور ان پر کبھی فنا آ ہی نہیں سکتی.صحابہ کرام اور حواریانِ مسیح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقابلہ میں حواریوں کو پیش کرتے ہوئے بھی شرم آجاتی ہے.حواریوںکی تعریف میں ساری انجیل میں ایک بھی ایسا فقرہ نظر نہ آئے گا کہ انہوں نے میری راہ میں جان دے دی بلکہ برخلاف اس کے ان کے اعمال ایسے ثابت ہوں گے جس سے معلوم ہو کہ وہ حد درجہ کے غیر مستقل مزاج، غدّار اور بے وفا اور دنیا پرست تھے اور صحابہ کرامؓ نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی راہ میں وہ صدق دکھلایا کہ انہیں رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ(البیّنۃ:۹) کی آواز آگئی.یہ اعلیٰ درجہ کا مقام ہے جو صحابہؓ کو حاصل ہوا.یعنی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوگئے.اس مقام کی خوبیاں اور کمالات الفاظ میں ادا نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ سے راضی ہو جانا ہر شخص کا کام نہیں بلکہ یہ توکل، تبتل اور رضا و تسلیم کا اعلیٰ مقام ہے جہاں پہنچ کر انسان کو کسی قسم کا شکوہ اور شکایت اپنے مولیٰ سے نہیں رہتی اور اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ سے راضی ہونا یہ موقوف ہے بندے کے کمال صدق و وفاداری اور اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی اور طہارت اور کمال اطاعت پر جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ نے معرفت اور سلوک کے تمام مدارج طے کر لیے تھے.اس کا نمونہ حواریوں میں اگر تلاش کریں تو ہرگز نہیں مل سکتا.پس نرے سلبِ امراض پر خوش ہوجانا یہ کوئی دانشمندی نہیں ہے اور روحانی کمالات کا شیدائی ان باتوں پر خوش نہیں ہو سکتا.اس لیے میں تمہارے لیے یہی پسند کرتا ہوں کہ تم اپنے دل کو پاک کرو اور خدا تعالیٰ کے ساتھ ایسے تعلقات پیدا کرو کہ وہ مولیٰ کریم تم سے راضی ہو جاوے اور تم اس سے راضی ہو جاؤ.پھر وہ تمہارے جسم میں تمہاری باتوںمیں ایسی برکت رکھ دے گا جو سلبِ امراض کر نے والے بھی انہیں دیکھ کر حیران اور شرمندہ ہوں گے.ایک نکتہ معرفت قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کے نام کے ساتھ کوئی صفت مفعول کے صیغہ میں نہیں ہے.قدوس تو ہے مگر معصوم نہیں ہے کیونکہ معصوم کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ اس کو بچانے والا کوئی اور ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ تو اپنی ذات ہی میں بے عیب اور پاک خدا ہے

Page 353

اور وحدہٗ لاشریک اکیلا خدا ہے اس کو بچانے والا کون ہو سکتا ہے.ایک الزامی جواب ایک مرتبہ آپ کی مجلس میں مفتی محمد صادق صاحب رسالہ ’’بے گناہی مسیح‘‘ سنا رہے تھے.اس میں ایک مقام پر مصنف نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر محض اس بنا پر حملہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیوں کیا؟ اس پر فرمایا.افسوس یہ لوگ ایسے بیہودہ اعتراض کرتے ہیں جن کو کوئی سلیم الفطرت پسند نہیں کر سکتا.ایسی باتیں کر کے یہ لوگ کچھ سننا چاہتے ہیں.اگر یہ اعتراض کرنے سے پہلے اتنا سوچ لیتے کہ ایک شخص جو بیگانی اور بد وضع مشہور عورتوں سے تعلق رکھتا ہے اس کی زندگی کو تو وہ بے عیب اور خدا کی زندگی قرار دیتے ہیں.پھر جائز طور پر نکاح کرنے والے پر اعتراض کیوں ہے؟ کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے؟ اپنے گھر میں انجیل کا مطالعہ کریں اور کفارہ کے برکات جو یورپ کو اخلاقی طور پر ورثہ میں ملے ہیں ان پر نظر کر لے.پھر وہ اسلام پر اعتراض کرنے کے لیے منہ کھولے.جس کے گھر میں اس قدر گند ہو اسے تو شرم آنی چاہیے.۱ بلا تاریخ۲ اس زمانہ کی دنیا پرستی افسوس کا مقام ہے کہ یہ دنیا چند روزہ ہے لیکن اس کے لیے وہ وہ کوششیں کی جاتی ہیں گویا کبھی یہاں سے جانا ہی نہیں ہے.انسان کیسا غافل اور نا سمجھ ہے کہ علانیہ دیکھتا ہے کہ یہاں کسی کو ہمیشہ کےلیے قیام نہیں ہے لیکن پھر بھی اس کی آنکھ نہیں کھلتی.اگر یہ لوگ جو بڑے کہلاتے ہیں اس طرف توجہ کرتے تو کیا اچھا ہوتا.دنیا کی عجیب حالت ہو رہی ہے جو ایک درد مند دل کو گھبرا دیتی ہے.بعض لوگ تو کھلے طور پر طالب دنیا لحکم جلد ۹ نمبر ۱۹ مورخہ ۳۱؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۹ ۲یہ ملفوظات جن پر کوئی تاریخ درج نہیں.ایڈیٹر صاحب الحکم نے ’’پرانی نوٹ بک میں سے ایک صفحہ‘‘ کے زیر عنوان الحکم میں شائع کئے ہیں.معلوم ہوتا ہے.۱۹۰۵ء سے پہلے کی کسی تاریخ کے یہ ملفوظات ہیں واللہ اعلم (مرتّب).

Page 354

ہیں اور ان کی ساری کوششیں اور تگ و دَو دنیا تک محدود ہے لیکن بعض لوگ ہیں تو اسی مردود دنیا کے طلبگار مگر وہ اس پر دین کی چادر ڈالتےہیں.جب اس چادر کو اٹھایا جاوے تو وہی نجاست اور بد بو موجود ہے.یہ گروہ پہلے گروہ کی نسبت زیادہ خطرناک اور نقصان رساں ہے.اکثر لوگ جب ان دینداروں کی حالت کو دیکھتے ہیں تو وہ دہریئے ہو جاتے ہیں.اس لیے کہ ان کے اعمال کو ان کے اقوال کے ساتھ کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا.سننے والے جب ان کی باتوں کو سن کر پھر ان کے اعمال کو دیکھتے ہیں تو ان کا ایمان بالکل جاتا رہتا ہے اور وہ دہریہ ہوجاتے ہیں.سلسلہ احمدیہ کے قیام کی وجہ میں دیکھتا ہوں اس وقت قریباً علماء کی یہی حالت ہو رہی ہے.لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(الصف:۳) کے مصداق اکثر پائے جاتے ہیں اور قرآن شریف پر بگفتن ایمان رہ گیا ہے.ورنہ قرآن شریف کی حکومت سے لوگ نکلے ہوئے ہیں.احادیث سے پایا جاتا ہے کہ ایک وقت ایسا آنے والا تھا کہ قرآن آسمان پر اٹھ جائے گا.میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ وہی وقت آگیا ہے.حقیقی طہارت اور تقویٰ جو قرآن شریف پر عمل کرنے سے پیدا ہوتا ہے آج کہاں ہے؟ اگر ایسی حالت نہ ہوگئی ہوتی تو خدا تعالیٰ اس سلسلہ کوکیوں قائم کرتا.ہمارے مخالف اس بات کو نہیں سمجھ سکتے لیکن وہ دیکھ لیں گے کہ آخر ہماری سچائی روزِ روشن کی طرح کھل جائے گی.خدا تعالیٰ خود ایک ایسی جماعت طیار کر رہا ہے جو قرآن شریف کے ماننے والی ہوگی.ہر ایک قسم کی ملونی اس میں سے نکال دی جائے گی اور ایک خالص گروہ پیدا کیا جاوے گا اور وہ یہی جماعت ہے.اس لیے میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کے احکام کے پورے پابند ہوجاؤ اور اپنی زندگیوں میں ایسی تبدیلی کرو جو صحابہ کرام نے کی تھی.ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں دیکھ کر ٹھوکر کھاوے.ہاں میں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ افترا اور کذب کے سلسلہ سے الگ ہوجاوے.پس تم دیکھو اور منہاج نبوت پر اس سلسلہ کو دیکھو.یہ میں جانتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے اور زمین پر بارش ہوتی ہے تو جہان میں مفید اور نفع رساں بوٹیاں اور پودے پیدا ہوتے ہیں اس کے ساتھ ہی زہریلی بوٹیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں.اس وقت خدا تعالیٰ کا

Page 355

کلام اتر رہا ہے اور آسمان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں.چونکہ ایک سلسلہ حقہ قائم ہوا ہے.ضروری تھا کہ اس کے ساتھ جھوٹے مدعی اورمفتری بھی ہوتے جو اکثروں کو گمراہ کرتے.پس ہر شخص کا فرض ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ سے کشودِ کار کے لیے دعا کرے اور دعاؤں میں لگا رہے.ہمارے سلسلہ کی بنیاد نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ پر ہے.پھر اس سلسلہ کی تائید اور تصدیق کےلیے اللہ تعالیٰ نے آیات ارضیہ اور سماویہ کی ایک خاتم ہم کو دی ہے.یہ بخوبی یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اسے ایک مہر دی جاتی ہے اور وہ مہر محمدی مہر ہے جس کو نا عاقبت اندیش مخالفوںنے نہیں سمجھا.میں بڑے یقین اور دعویٰ سے کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کمالاتِ نبوت ختم ہوگئے.وہ شخص جھوٹا اور مفتری ہے جو آپ کے خلاف کسی سلسلہ کو قائم کرتا ہے اور آپ کی نبوت سے الگ ہو کر کوئی صداقت پیش کرتا ہے اور چشمہ نبوت کو چھوڑتا ہے.میں کھول کر کہتا ہوں کہ وہ شخص لعنتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا آپ کے بعد کسی اور کو نبی یقین کرتا ہے اور آپ کی ختم نبوت کو توڑتا ہے.یہی وجہ ہے کہ کوئی ایسا نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا جس کے پاس وہی مہر نبوت محمدی نہ ہو.ہمارے مخالف الرائے مسلمانوں نے یہی غلطی کھائی ہے کہ وہ ختم نبوت کی مہر کو توڑ کر اسرائیلی نبی کو آسمان سے اتارتے ہیں.اور میں یہ کہتا ہوںکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور آپؐکی ابدی نبوت کا یہ ادنیٰ کرشمہ ہے کہ تیرہ سو سال کے بعد بھی آپ ہی کی تربیت اور تعلیم سے مسیح موعود آپ کی امت میں وہی مہر نبوت لے کر آتا ہے.اگر یہ عقیدہ کفر ہے تو پھر میں اس کفر کو عزیز رکھتا ہوں.لیکن یہ لوگ جن کی عقلیں تاریک ہوگئی ہیں.جن کو نورِ نبوت سے حصہ نہیں دیا گیا اس کو سمجھ نہیں سکتے اور اس کو کفر قرار دیتےہیں.حالانکہ یہ وہ بات ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال اور آپ کی زندگی کا ثبوت ہوتا ہے.مامورین کی تائید اور تصدیق کے لیے نشانات غرض ہر مامور اور راستباز کو اللہ تعالیٰ ایک نشانِ نبوت دیتا

Page 356

ہے اور وہ وہ آیاتِ ارضیہ اور سماویہ ہوتے ہیں جو اس کی تائید اور تصدیق کے لیے ظاہر ہوتے ہیں اور خدا کا فضل ہے کہ اس نے میری تائید اور تصدیق میں ایک دو نہیں لاکھوں لاکھ نشان ظاہر کئے ہیں.کوئی دیکھنے والا بھی ہو.پھر میری تائید اور تصدیق اور اس سلسلہ کی سچائی کےلیے دلائل عقلیہ موجود ہیں.کاش یہ لوگ اگر نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے واقف نہیں تھے اور ان آیات ارضیہ اور سماویہ کو جو میری صداقت کے ثبوت میں میرے ہاتھ پر ظاہر ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے تو عقل ہی سے کام لیتے.ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن کریم میں ذکر آیا ہے کہ جب وہ دوزخ میں داخل ہوں گے تو اس وقت ان کی آنکھیں کھلیں گی اور اپنی غلطی پر اطلاع ہوگی تو کہیں گے لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْۤ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ(الملک:۱۱) اے کاش! اگر ہم سنتے اورپھر سن کر عقل سے کام لیتے تو ہم جہنمی نہ ہوتے.ضرورت زمانہ کی دلیل میں کہتا ہوں کہ اگر دوسرے امور پر نظر نہ بھی کریں تو ایک ضرورت موجودہ ہی ایسی ہے جو میری سچائی پر مہر کر دیتی ہے.کیا اس طوفان اور جنگ کے وقت جب عیسائیوں نے اسلام کو نابود کرنا چاہا ہے اور ہر طرف سے اور ہر رنگ سے اس پر حملے کر رہے ہیں.ہزاروں لاکھوں اخبارات اور رسالے اس کی مخالفت میں شائع کر رہے ہیں.اس لیےکہ اسلام ان کی راہ میں ایک روک اور پتھر ہے.اسلام ہی ان کی عیش میں تلخ ہے.اخبارات یورپ پکار پکار کر کہتے اور وہاں کے مدبّر اور اہل الرائے اسلام ہی کو اپنی ترقی کی راہ میں روک قرار دیتے ہیں.ایسی حالت میں اسلام کے نیست و نابود کرنے کی جس قدر فکر عیسائیوں کو ہو سکتی ہے اس سے وہ لوگ جو حجروں میں رہتے ہیں کب آشنا اور واقف ہو سکتے ہیں؟ وہ دیکھتے ہیں کہ آئے دن دو چار آدمی مسلمان ہو جاتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی ترقی ہو رہی ہے انہیں ان حملوں کی خبر نہیں جو مقدس اسلام پر مختلف رنگوں میں ہو رہے ہیں.عیسائیت کی برباد کن آگ اسلام کے گھر کو لگ چکی ہے.۲۹ لاکھ تو ایسے ہیں جو اس آگ کی نذر ہو چکے ہیں.اور اسلام کے لخت جگر کہلا کر مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں

Page 357

کھڑے ہو کر وعظ کہتے ہیں.یہ تو علانیہ دشمن ہیں.پھر ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہےجو گو کھلے طور پر عیسائی تو نہیں ہوئے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ انہیں اسلام کے ساتھ کوئی محبت اور لگاؤ نہیں ہے.وہ اسلام کے ارکان اور شعار پر ہنستے اور ٹھٹھے کرتے ہیں.آئے دن اس میں لگے رہتے ہیںکہ جہاں تک ممکن ہو اور بس چلے اسلام کے احکام نماز روزہ میں ترمیم کریں اور اپنی تجویز اور تدبیر سے ایک ایسا اسلام پیدا کریں جس کے بانی مبانی وہ آپ ہی ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیم کردہ اسلام سے خواہ وہ الگ ہی کیوں نہ ہو.ان لوگوں کی حالت کسی صورت میں عیسائیوں سے کم نہیں ہے.وہ کھلم کھلا ان کی وردی پہنتے ہیں.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک دشمنِ دین کی وردی وہ کیوں پہنتے ہیں اگر اسلام کے ساتھ انہیں محبت اور پیار ہے.منہاج نبوت کے معیار پر اس صداقت کو آزماؤ اگر کوئی شخص ہماری جماعت سے نفرت کرتا ہے تو کرے.لیکن اسے کم از کم غیرت اسلام کے تقاضا سے اور اسلام کی موجودہ حالت کے لحاظ سے یہ بھی تو ضرور ہے کہ وہ کسی ایسی جماعت کو تلاش کرے اور اس کا پتہ دے جو حجج و براہین اور خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات اور روشن آیات سے کسر صلیب کر رہی ہو.مگر میں دعوے سے کہتا ہوں کہ خواہ شرقاً غرباً شمالاً جنوباً کہیں بھی چلے جاؤ اس جماعت کا پتہ بجز میرے نہیں ملے گا.اس لیے کہ خدا تعالیٰ نے اس غرض کے واسطے مجھے ہی مبعوث کر کے بھیجا ہے.میرے دعوے کو سن کر نری بد ظنی اور بد لگامی سے کام نہ لو بلکہ تمہیں چاہیے کہ اس پر غور کرو اور منہاج نبوت کے معیار پر اس کی صداقت کو آزماؤ.انسان ایک پیسے کا برتن لیتا ہے تو اس کی بھی دیکھ بھال کرتا ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری باتوں کو سنتے ہی، بغیر فکر کئے گالیاں دینی شروع کرتے ہیں.یہ بہت ہی نامناسب امر ہے.جو طریق میں نے پیش کیا ہے اس طرح پر میرے دعوے کو آزماؤ اور پھر اگر اس طریق سے بھی تم مجھے کاذب پاؤ تو بے شک افسوس کے ساتھ چھوڑ دو.لیکن میں تمہیں دعوے سے کہتا ہوں کہ میں مفتری نہیں ہوں.کاذب نہیں ہوں.بلکہ میں وہی ہوں جس کا وعدہ نبیوں کی زبانی ہوتا چلا آیا ہے.جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے

Page 358

سلام کہا ہے.وہی مسیح موعود ہوں جو چودھویں صدی میں آنے والا تھا اور جو مہدی بھی ہے.مجھے وہی قبول کرتا ہے جس کو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے دیکھنے والی آنکھ عطا کرتا ہے اور یہ جماعت اب دن بدن بڑھ رہی ہے.خدا چاہتا ہے کہ یہ بڑھے پس یہ بڑھے گی.اور ضرور بڑھے گی.۱ بلا تاریخ۲ حجۃ اللہ کا مقام جب انسان حجۃ اللہ کے مقام پر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی اس کے جوارح ہو جاتا ہے.مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى (النجم:۴) کے یہی معنے ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ انسان کامل طور پر اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار اور اس کا وفادار بندہ ہوجاتا ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ اسے کامل صلح ہوتی ہے.اس کی کوئی حرکت کوئی سکون اللہ تعالیٰ کے اذن اورامر۳ کی ایک کَل ہوتی ہے.ایسی حالت میں اس پر مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى کا اطلاق ہوتاہے اور یہ مقام کامل اور اکمل طور پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا.مکر کے معنے مکر کا لفظ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کے لیے استعمال کیا ہے.پھر یہی لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی آیا ہے اور براہین احمدیہ میں میرے متعلق بھی ایک الہام ہے.مکر کی حد اس وقت تک ہوتی ہے جب تک وہ انسانی تدابیر اور منصوبوں تک ہو.لیکن جب انسانی منصوبوں کی طرح نہ ہو تو پھر وہ خارق عادت ہوتا ہے مکر نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کفار نے جو منصوبے کئے وہ اس میں پورے ناکام اور نامراد رہے اور اللہ تعالیٰ نے خارقِ عادت و طریق سے آپ کو وعدہ کے موافق بچا لیا.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۰ مورخہ ۱۰؍جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ ۲ یہ ملفوظات بھی ایڈیٹر صاحب الحکم نے ’’پرانی نوٹ بک میں سے کچھ‘‘ کے زیر عنوان بغیر تاریخ کے شائع کیے ہیں.(مرتّب) ۳ نقل مطابق اصل

Page 359

بروز کا مسئلہ مذہب کبھی سر سبز نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی روحانیت کا بروز نہ ہو.اس لیے ضروری تھاکہ اسلام کے کامیاب اور بامراد ہونے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوچکے اور مدینہ طیبہ میں قبر کے اندر رکھے گئے.مگر میں یہ ماننے کو طیار نہیں ہوں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہی ظاہر کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو قبر میں رکھے گئے وہ ایک پاک دانہ کی طرح رکھے گئے ہیں جس کو بہت سے خوشے لگے ہیں جو اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِي السَّمَآءِ(ابراہیم:۲۵) کا سچا مصداق ہیں اگر کوئی شخص اس امر کو نہیں مانتا تو وہ گویا تسلیم کرتا ہے کہ معاذ اللہ آپؐضائع ہوگئے.حالانکہ آپ کے برکات اور فیوض کا تو یہاں تک اثر ہوا کہ مدینہ طیبہ کا نام یثرب بھی نہیں رہنے دیا کیونکہ یثرب ہلاک ہونے کو کہتے ہیں.میں یقیناً کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس حقیقت کو کھول دیا ہے کہ آپ مدینہ کی خاک میں اس دانے کی طرح تھے جس سے ہزارہا دانے اُگیں.یہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیں وہ تعصب اور ضد میں اندھے ہو کر آپ کو اس دانہ سے مشابہ سمجھتے ہیں جو معاذ اللہ کِرم خوردہ ہو.اللہ تعالیٰ کی یہ قدیم سے عادت ہے کہ نبی کے اخلاق، عادات اور توجہ کسی اور کو بھی دیئے جاتےہیں جو اس کی اتباع میں اس کی محبت میں کامل طور پر فنا ہوگیا ہو.اور ظلی طور پر اس کے کمالات اور خوبیوں کو اپنے اندر جذب کرتا ہو.اس صورت میں اس نبی کا حلیہ گو اس کو دیا جاتا ہے.اس وقت اس کا نام اس نبی کا ہوتا ہے.یہی سِر ہے جو انجیل۱ میں لکھا ہے.مسیح نہ آئے گا جب تک ایلیا نہ آئے.اور دوسرے مقام پر ایلیا کے آنے سے مراد اس کی خُو اور طبیعت اور طاقت پر آنے سے لی گئی ہے.پس مہدی کے متعلق جو کہا گیا ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر آئے گا اس سے یہی مراد ہے کہ وہ ظلی اور بروزی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مظہر ہوگا.بعثت مسیح موعود کے مقاصد میرے آنے کے دو مقصد ہیں.مسلمانوں کے لیے یہ کہ اصل تقویٰ اور طہارت پر قائم ہوجائیں.وہ ایسے سچے ۱ لفظ ’’بائبل ‘‘ ہونا چاہیے.غالباًسہو کتابت سے ’’انجیل‘‘ لکھا گیا ہے.(مرتّب)

Page 360

مسلمان ہوں جو مسلمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے اور عیسائیوں کے لیے کسر صلیب ہو اور ان کا مصنوعی خدا نظر نہ آوے.دنیا اس کو بالکل بھول جاوے.خدائے واحد کی عبادت ہو.میرے ان مقاصد کو دیکھ کر یہ لوگ میری مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو کام نفاق طبعی اور دنیا کی گندی زندگی کے ساتھ ہوں گے وہ خود ہی اس زہر سے ہلاک ہوجائیں گے.کاذب کبھی کامیاب ہو سکتا ہے؟ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ (المؤمن:۲۹) کذاب کی ہلاکت کے واسطے اس کا کذب ہی کافی ہے.لیکن جو کام اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے رسول کی برکات کے اظہار اور ثبوت کے لیے ہوں اور خود اللہ تعالیٰ کے اپنے ہی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہو تو پھر اس کی حفاظت تو خود فرشتے کرتے ہیں.کون ہے جو اس کو تلف کر سکے؟ یاد رکھو میرا سلسلہ اگر نری دوکانداری ہے تو اس کا نام و نشان مٹ جائے گا لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یقیناً اسی کی طرف سے ہے تو خواہ ساری دنیا اس کی مخالفت کرے یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے.اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو اور کوئی بھی مدد نہ دے.تب بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہوگا.مخالفت کی میں پروا نہیں کرتا.میں اس کو بھی اپنے سلسلہ کی ترقی کے لیے لازمی سمجھتا ہوں.یہ کبھی نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ کا کوئی مامور اور خلیفہ دنیا میں آیا ہو اور لوگوں نے چپ چاپ اسے قبول کر لیا ہو.دنیا کی تو عجیب حالت ہے.انسان کیسا ہی صدیق فطرت رکھتا ہو مگر دوسرے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے وہ تو اعتراض کرتے ہی رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارے سلسلے کی ترقی فوق العادت ہو رہی ہے.بعض اوقات چار چار پانچ پانچ سو کی فہرستیں آتی ہیں اور دس دس پندرہ پندرہ تو روزانہ درخواستیں بیعت کی آتی رہتی ہیں اور وہ لوگ علیحدہ ہیں جو خود یہاں آکر داخلِ سلسلہ ہوتے ہیں.سلسلہ کے قیام کی غرض اس سلسلہ کے قیام کی اصل غرض یہی ہے کہ لوگ دنیا کے گند سے نکلیں اور اصل طہارت حاصل کریں اور فرشتوں کی سی زندگی بسر کریں.

Page 361

وفاتِ مسیح مسیح کی موت کا جھگڑا بالکل صاف ہوچکا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے قول سے اور مسیح علیہ السلام کے اپنے اقرار سے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ (المائدۃ:۱۱۸) میں موت ثابت کر دی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل سے معراج کی رات میں ان کو مُردوں میں دیکھا.یہ منطق ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ جو شخص ابھی اس عالم میں ہے وہ ان روحوںمیں جو اس جہان سے گذر چکی ہیں کیونکر شامل ہوگیا؟۱

Page 362

ترجمہ فارسی عبارات مندرجہ ملفوظات جلد ہفتم از صفحہ نمبر ترجمہ فارسی ۴ اس مٹھی بھر خاک کو اگر میں نہ بخشوں تو کیا کروں.۱۱ کسی کے ہاں جانا تو اپنے ارادہ سے ہوتا ہے اور اس کے ہاں سے واپس آنا اس کی اجازت سے ہوتا ہے.۳۳ دوست جو بھی سلوک کرے بجا ہے.۳۵ نقصان کا دن تجھ پر نہ آئے.۳۹ دوست جو بھی سلوک کرے بجا ہے.۴۰ اے مخاطب! کچھ نیکی کر لے اور عمر کو غنیمت سمجھ، اس سے پہلے کہ آواز آئے فلاں نہیں رہا.۶۴ انسان ایک دوسرے کے اعضاء ہیں.۶۸ بے ثبات زندگی پر بھروسہ نہ رکھو.۱۱۱ جو زیادہ واقف ہو وہی زیادہ ڈرتا ہے.۱۱۴ ہمارے مکان محبت سرائے میں امن ہے.۱۳۴ دنیا کے کام کسی نے پورے نہیں کئے.۱۳۸ ایک باخبر انسان کی نظر میں درختوں کے سر سبز پتوں میں سے ہر ایک پتہ خدا کی معرفت کے لیے ایک رجسٹر مانند ہے.۱۶۱ اے شخص! جس نے یونانیوں کی حکمت پڑھی ہے، ایمان والوں کی حکمت بھی پڑھ.

Page 363

۱۶۸ وہ فلسفی جو رونے والے ستون کا منکر ہے، وہ انبیاء کی باطنی حسوں سے بیخبر ہے.۱۸۶ جو مرضی ہو جائے.۱۸۹ بیمار دانتوں کا علاج دانت نکلوانا ہی ہے.۱۹۰ تنور والی رات بھی گذر گئی اور سمور والی رات بھی گزر گئی.۲۰۱ دوستوں کی موت بھی ایک جشن رکھتی ہے.۲۱۵ وہ تو خود گمراہ ہے کسی اورکی کیا رہنمائی کرے گا.۲۳۸ دنیا کے کام کبھی کوئی پورے نہیں کر سکتا.۲۴۸ اگر تیرا خدا سے تعلق ہے تو پھر تجھے کاہے کا غم.۲۴۹ ہر آزمائش جو خدا نے اس قوم کے لئے مقدر کی ہے، اس کے نیچے رحمتوں کا خزانہ چھپا رکھا ہے.۲۵۰ خدا کے حلم سے دھوکہ میں نہ رہو وہ دیر سے پکڑتا ہے مگر سخت پکڑتا ہے.۲۶۰ جب عمر کا معاملہ پوشیدہ ہے تو بہتر ہے کہ ہم موت کے آنے کے دن محبوب سامنے نہ ہوں.۲۶۴ یہ دنیا کا جنگل درندوں اور پھندوں سے خالی نہیں بارگاہ الٰہی کی تنہائی کے سوا کہیں امن نہیں.۲۸۰ کہتے ہیں صبر کرنے (یعنی لمبا عرصہ گزرنے )سے پتھر لعل بن جاتا ہے ہاں بن جاتا ہے لیکن خون جگر پی کر.۲۸۰ اگرچہ اس کا وصال کوشش سے حاصل نہیں ہو سکتا پھر بھی اے دل! جہاں تک تجھ سے ہو سکے کوشش کر لے.۲۸۵ عقیدت کے ساتھ جاناآسان ہے لیکن عقیدت کے ساتھ واپس آنا مشکل ہے.۲۸۷ بیت المقدس کی طرح ان کا اندرونہ روشن ہے مگر باہر کی دیوار خراب ہے.

Page 364

از صفحہ نمبر ترجمہ فارسی ۲۹۰ جو شخص تجھے پہچان لے وہ اپنی جان کو کیا کرے اولاد، اہل و عیال اور خاندان کو کیا کرے؟ ۲۹۰ تو اپنا دیوانہ بنانے کے بعد دونوں جہان بخش دیتا ہے تیرا دیوانہ دونوں جہانوں کو کیا کرے؟ ۲۹۳ بارش جس کی پاکیزہ فطرت میں کوئی ناموافقت نہیں.وہ باغ میں تو پھول اگاتی ہے اور شورہ زمین میں گھاس پھونس.۲۹۴ ہر آزمائش جو خدا نے اس قوم کے لئے مقدر کی ہے، اس کے نیچے رحمتوں کا خزانہ چھپا رکھا ہے.۳۱۶ مالک مکان کے نقش ونگار کی فکر میں ہے حالانکہ مکان کی بنیادیں ویران ہوچکی ہیں.۳۱۷ وہ فتویٰ ہے اور یہ تقویٰ ہے.۳۳۷ غضب ہوجاتا اگر مُردہ اپنے خاندان اور برادری کے گھر واپس آجاتا.۳۳۷ میراث کا واپس کرنا زیادہ سخت ہوتا وارثوں کے لیے اپنوں کی موت سے.

Page 365

Page 366

Page 367

Page 368

Page 369

Page 370

Page 371

Page 372

Page 373

Page 374

Page 375

Page 376

Page 377

Page 378

Page 379

Page 380

Page 381

Page 382

Page 383

Page 384

Page 385

Page 386

Page 387

Page 388

Page 389

Page 390

Page 391

Page 392

Page 393

Page 394

Page 395

Page 396

Page 397

Page 398

Page 399

Page 400

Page 401

Page 402

Page 403

Page 404

Page 405

Page 406

Page 407

Page 408

Page 409

Page 410

Page 411

Page 412

Page 413

Page 414

Page 415

Page 416

Page 417

Page 418

Page 419

Page 420

Page 421

Page 422

Page 423

Page 424

Page 425

Page 426

Page 427

Page 428

Page 429

Page 430

Page 430