Language: UR
ملفوظات سے مراد حضرت بانی جماعت احمدیہ، مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا وہ پاکیزہ اور پُرمعارف کلام ہے جو حضورؑ نے اپنی مقدس مجالس میں یا جلسہ سالانہ کے اجتماعات میں اپنے اصحاب کے تزکیہ نفس، ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت، خداتعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرنے اور قرآن کریم کے علم و حکمت کی تعلیم نیز احیاء دین اسلام اور قیام شریعت محمدیہ کے لیے وقتاً فوقتاً ارشاد فرمایا۔
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَعَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ۸؍جنوری ۱۹۰۴ء (بعد نماز جمعہ) ۸؍جنوری ۱۹۰۴ءکو بعد نماز جمعہ اعلٰیحضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہمارے محسن و مخدوم جناب محمد علی خان صاحب ڈائرکٹر مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے برادر معظم اور جناب مشیر اعلیٰ ریاست مالیر کوٹلہ کی (جو اپنے کسی ضروری کام کے لئے آئے تھے) ملاقات ہوئی.حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس موقع پر جو کچھ فرمایا وہ تقریر ذیل میں درج کی جاتی ہے.(ایڈیٹر) گناہ سے بچنے کا طریق فرمایا.گلستان میں شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ع کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد گناہ اور غفلت سے پرہیز کے لیے اس قدر تدبیر کی ضرورت ہے جو حق ہے تدبیر کا.اور اس قدر دعا کرے جو حق ہے دعا کا.جب تک یہ دونوں اس درجہ پر نہ ہوں اس وقت تک انسان تقویٰ کا درجہ حاصل نہیں کرتا اور پورا متقی نہیں بنتا.اگر صرف دعا کرتا ہے اور خود کوئی تدبیر نہیں کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا امتحان کرتا ہے.یہ سخت گناہ ہے.اللہ تعالیٰ کا امتحان نہیں کرنا چاہیے.اس کی مثال ایسی ہے
جیسے ایک زمیندار اپنی زمین میں تردّد تو نہیں کرتا اور بدوں کا شت کے دعا کرتا ہے کہ اس میں غلہ پیدا ہو جاوے.وہ حقِ تدبیر کو چھوڑتا ہے اور خدا تعالیٰ کا امتحان کرتا ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.اور اسی طرح پر جو شخص صرف تدبیر کرتا ہے اور اسی پر بھروسہ کرتا اور خدا تعالیٰ سے دعا نہیں مانگتا وہ ملحد ہے.تدبیر اور دعا کا اتحاد اسلام ہے جیسے پہلا آدمی جو صرف دعا کرتا ہے اور تدبیر نہیں کرتا وہ خطاکار ہے.اسی طرح پر یہ دوسرا جو تدبیر ہی کو کافی سمجھتا ہے وہ ملحد ہے مگرتدبیر اور دعا دونوں باہم ملا دینا اسلام ہے.اسی واسطے میں نے کہا ہے کہ گناہ اور غفلت سے بچنے کے لیے اس قدر تدبیر کرے جو تدبیر کا حق ہے اور اس قدر دعا کرے جو دعا کا حق ہے.اسی واسطے قرآن شریف کی پہلی ہی سورۃ فاتحہ میں ان دونوں باتوں کو مدّ ِنظر رکھ کر فرمایا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ(الفاتـحۃ:۵) اِيَّاكَ نَعْبُدُ اسی اصل تدبیر کوبتاتا ہے اور مقدم اس کو کیا ہے کہ پہلے انسان رعایتِ اسباب اور تدبیر کا حق ادا کرے مگر اس کے ساتھ ہی دعا کے پہلو کو چھوڑنہ دے بلکہ تدبیر کے ساتھ ہی اس کو مدّ ِنظر رکھے.مومن جب اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تو معاًاس کے دل میں گزرتا ہے کہ میں کیا چیز ہوں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں جب تک اس کا فضل اورکرم نہ ہو.اس لیے وہ معاً کہتا ہے اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں.یہ ایک نازک مسئلہ ہے جس کو بجز اسلام کے اور کسی مذہب نے نہیں سمجھا.اسلام ہی نے اس کوسمجھاہے.عیسائی مذہب کا تو ایسا حال ہے کہ اس نے ایک عاجز انسان کے خون پر بھروسہ کرلیا اور انسان کو خدا بنا رکھا ہے.ان میں دعا کے لیے وہ جوش اور اضطراب ہی کب پیداہوسکتا ہے جو دعا کے ضروری اجزا ہیں وہ تو انشاء اللہ کہنا بھی گناہ سمجھتے ہیں لیکن مومن کی روح ایک لحظہ کے لیے بھی گوارانہیں کرتی کہ وہ کوئی بات کرے اور انشاء اللہ ساتھ نہ کہے.پس اسلام کے لیے یہ ضروری اَمر ہے کہ اس میں داخل ہونے والا اس اصل کو مضبوط پکڑلے.تدبیر بھی کرے اور مشکلات کے لیے دعا بھی کرے اور کراوے.اگر ان دونوں پلوں میں سے کوئی ایک ہلکا ہے تو کام نہیں چلتا ہے اس لیے ہر ایک مومن کے واسطے ضروری ہے کہ اس پر عمل کرے مگر اس زمانہ میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی یہ
حالت ہو رہی ہے کہ وہ تدبیریں تو کرتے ہیں مگر دعا سے غفلت کی جاتی ہے بلکہ اسباب پرستی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ تدابیردنیاہی کو خدا بنا لیا گیا ہے اور دعا پر ہنسی کی جاتی ہے اور اس کو ایک فضول شَے قرار دیا جاتا ہے یہ سارا اثر یورپ کی تقلید سے ہوا ہے یہ خطرناک زہر ہے جو دنیا میں پھیل رہا ہے مگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس زہر کو دور کرے چنانچہ یہ سلسلہ اس نے اسی لیے قائم کیا ہے.تا دنیاکو خدا کی معرفت ہو اور دعا کی حقیقت اور اس کے اثر سے اطلاع ملے.آداب الدّعا بعض لوگ اس قسم کے بھی ہیں جو بظاہر دعا بھی کرتے ہیں مگر اس کے فیوض اور ثمرات سے بے بہرہ رہتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آداب الدّعا سے ناواقف ہوتے ہیں اور دعا کے اثر اور نتیجہ کے لیے بہت جلدی کرتے ہیں اور آخر تھک کر رہ جاتے ہیں حالانکہ یہ طریق ٹھیک نہیں ہے.پس کچھ تو پہلے ہی زمانہ کے اثر اور رنگ سے اسباب پرستی ہو گئی ہے اور دعا سے غفلت عام ہو گئی.خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں رہا.نیکیوں کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی اور کچھ نا واقفی اور جہالت نے تباہی کر رکھی ہے کہ حق کو چھوڑکر صراط مستقیم کو چھوڑکر اَور اَور طریقے اور راہ ایجاد کرلیے گئے ہیں.جس کی وجہ سے لوگ بہکتے پھر رہے ہیں اور کامیاب نہیں ہوتے.سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ جس سے دعا کرتا ہے اس پر کامل ایمان ہو.اس کو موجود، سمیع، بصیر، خبیر، علیم، متصرّف، قادر سمجھے اوراس کی ہستی پر ایمان رکھے کہ وہ دعائوں کو سنتا ہے اور قبول کرتا ہے مگر کیا کروں کس کو سنائوں اب اسلام میں مشکلات ہی اَور آپڑی ہیں کہ جو محبت خدا تعالیٰ سے کرنی چاہیے وہ دوسروں سے کرتے ہیں اور خدا کا رُتبہ انسانوں اور مُردوں کو دیتے ہیں.حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک تھی.مگر اب جس قبر کو دیکھو وہ حاجت روا ٹھہرائی گئی ہے.میں اس حالت کو دیکھتا ہوں تو دل میں درد اُٹھتا ہے مگر کیا کہیں، کس کو جاکر سنائیں.دیکھو! قبر پر اگر ایک شخص بیس برس بھی بیٹھا ہوا پکار تا رہے اس قبرسے کوئی آواز نہیں آئے گی مگر مسلمان ہیں کہ قبروں پر جاتے اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں.میں کہتا ہوں وہ قبر خواہ کسی کی بھی ہو اس سے کوئی مراد بَر نہیں آسکتی.حاجت روا اور مشکل کُشا تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور کوئی اس
صفت کا موصوف نہیں.قبرسے کسی آواز کی اُمید مت رکھو.بر خلاف اس کے اگر اللہ تعالیٰ کو اخلاص اور ایمان کے ساتھ دن میں دس مرتبہ بھی پکارو تو میں یقین رکھتا ہوں اور میرا اپنا تجربہ ہے کہ وہ دس دفعہ ہی آواز سنتا اور دس ہی دفعہ جواب دیتاہے لیکن یہ شرط ہے کہ پکارے اس طرح پر جو پکارنے کا حق ہے.ہم سب ابرار، اخیارِاُمت کی عزّت کرتے ہیں اور ان سے محبت رکھتے ہیں لیکن ان کی محبت اور عزّت کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ ہم ان کو خدا بنا لیں اور وہ صفات جو خدا تعالیٰ میں ہیں ان میں یقین کر لیں.میں بڑے دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ ہماری آواز نہیں سنتے اور اس کا جواب نہیں دیتے.دیکھو! حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک گھنٹہ میں ۷۲ آدمی آپ کے شہید ہو گئے.اس وقت آپ سخت نرغہ میں تھے اب طبعاً ہر ایک شخص کا کانشنس گواہی دیتا ہے کہ وہ اس وقت جبکہ ہر طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوں گے کہ اس مشکل سے نجات مل جاوے لیکن وہ دعا اس وقت منشاءِ الٰہی کے خلاف تھی اور قضا وقدر اس کے مخالف تھے اس لیے وہ اسی جگہ شہید ہو گئے.اگر ان کے قبضہ واختیار میں کوئی بات ہوتی تو انہوں نے کون سا دقیقہ اپنے بچائو کے لیے اُٹھا رکھا تھا مگر کچھ بھی کارگر نہ ہوا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قضا وقدر کا سارا معاملہ اور تصرّف تام اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے جو اس قدر ذخیرہ قدرت کارکھتا ہے اور حیّ وقیوم ہے اس کو چھوڑ کر جو مُردوں اور عاجز بندوں کی قبروں پر جاکر ان سے مُرادیں مانگتا ہے اس سے بڑھ کر بےنصیب کون ہوسکتا ہے؟ انسان کے سینہ میں دو دل نہیں ہوتے.ایک ہی دل ہے وہ دو جگہ محبت نہیں کرسکتا اس لیے اگر کوئی زندوں کو چھوڑ کر مُردوں کے پاس جاتا ہے وہ حفظِ مراتب نہیں کرتا.اور یہ مشہور بات ہے.ع گر حفظِ مراتب نہ کنی زندیقی خدا تعالیٰ کو خدا تعالیٰ کی جگہ پر رکھو اور انسان کو انسان کا مرتبہ دو.اس سے آگے مت بڑھائو مگر میں افسوس سے ظاہرکرتا ہوں کہ حفظِ مراتب نہیں کیا جاتا.زندہ اور مُردہ کی تفریق ہی نہیں رہی بلکہ
انسان عاجز اور خدائے قادر میں بھی کوئی فرق اس زمانہ میں نہیں کیا جاتا.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے.صدیوں سے خدا تعالیٰ کا قدر نہیں پہچانا گیا اور خدا تعالیٰ کی عظمت وجبروت عاجز بندوں اور بے قدر چیزوں کو دی گئی.مجھے تعجب آتا ہے ان لوگوں پر جو مسلمان کہلاتے ہیں لیکن باوجود مسلمان کہلانے کے خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں اور اس کی صفات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں جیساکہ میں دیکھتا ہوں کہ مسیح بن مریم کو جو ایک عاجز انسان تھا اور اگر قرآن شریف نہ آیا ہوتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث نہ ہوئے ہوتے تو ان کی رسالت بھی ثابت نہ ہوتی بلکہ انجیل سے تو وہ کوئی اعلیٰ اخلاق کا آدمی بھی ثابت نہیں ہوتا لیکن عیسائیوں کے اثر سے متاثر ہو کر مسلمان بھی ان کو خدائی درجہ دینے میں پیچھے نہیں رہے کیونکہ جیسا کہ وہ صاف مانتے ہیں کہ وہ اب تک حیّ وقیوم ہے اور زمانہ کا کوئی اثر اس پر نہیں ہوا، آسمان پر موجود ہے.مُردوں کو زندہ کیا کرتا تھا.جانوروں کو پیدا کرتا تھا.غیب جاننے والا تھا.پھر اس کے خدا بنانے میں اور کیا باقی رہا.افسوس مسلمانوں کی عقل ماری گئی جو ایک خدا کے ماننے والے تھے وہ اب ایک مُردہ کو خدا سمجھتے ہیں.اور ان خدائوں کا تو شمار نہیں جو مُردہ پرستوں اور مزار پرستوں نے بنائے ہوئے ہیں.ایسی حالت اور صورت میں خدا تعالیٰ کی غیرت نے یہ تقاضا کیا ہے کہ ان مصنوعی خدائوں کی خدائی کو خاک میں ملایا جاوے اور زندوں اور مُردوں میں ایک امتیاز قائم کرکے دنیا کو حقیقی خدا کے سامنے سجدہ کرایا جاوے.اسی غرض کے لیے اس نے مجھے بھیجا ہے اور اپنے نشانوں کے ساتھ بھیجا ہے.یاد رکھو انبیاء علیہم السلام کو جو شرف اور رُتبہ مِلا وہ صرف اسی بات سے مِلا ہے کہ انہوں نے حقیقی خدا کو پہچانا اور اس کی قدر کی.اسی ایک ذات کے حضور انہوں نے اپنی ساری خواہشوں اور آرزوؤں کو قربان کیا.کسی مُردہ اور مزار پر بیٹھ کر انہوں نے مُرادیں نہیں مانگی ہیں.دیکھو! حضرت ابراہیم علیہ السلام کتنے بڑے عظیم الشان نبی تھے اور خدا تعالیٰ کے حضور ان کا کتنا بڑادرجہ اور رُتبہ تھا اب اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بجائے خدا تعالیٰ کے حضور گرنے کے ابراہیم
کی پوجا کرتے تو کیا ہوتا؟ کیا آپ کو وہ اعلیٰ درجہ کے مراتب مل سکتے جواب ملے ہیں؟ کبھی نہیں.پھر جبکہ ابراہیم علیہ السلام آپ کے بزرگ بھی تھے اور آپ نے ان کی قبر پر جا کر یا بیٹھ کر ان سے کچھ نہیں مانگا اور نہ کسی اور قبر پر جا کر آپؐنے اپنی کوئی حاجت پیش کی تو یہ کس قدر بیوقوفی اور بے دینی ہے کہ آج مسلمان قبروں پر جاکر ان سے مُرادیں مانگتے ہیں اور ان کی پوجا کرتے ہیں.اگر قبروں سے کچھ مل سکتا تو اس کے لیے سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبروں سے مانگتے.مگر نہیں مُردہ اور زندہ میں جس قدر فرق ہے وہ بالکل ظاہر ہے.بجُز خدا تعالیٰ کے اور کوئی مخلوق اور ہستی نہیں ہے جس کی طرف انسان توجہ کرے اور اس سے کچھ مانگے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ذات کے عاشقِ زار اور دیوانہ ہوئے اور پھر وہ پایا جو دنیا میں کبھی کسی کو نہیں ملا.آپ کو اللہ تعالیٰ سے اس قدر محبت تھی کہ عام لوگ بھی کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُـحَمَّدٌ عَلٰی رَبِّہٖ یعنی محمد اپنے ربّ پر عاشق ہو گیا.صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت میں انبیاء علیہم السلام کوجو شرف مِلا اور جو نعمت حاصل ہوئی وہ اسی وجہ سے اور اگر کوئی پاسکتا ہے تو اسی ایک راہ سے پاسکتا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑا.اور قوم اور برادری کی کچھ بھی پروا نہ کی.خدا تعالیٰ نے بھی وہ وفا کی کہ ساری دنیا جانتی ہے.جس مکہ سے آپ نکالے گئے تھے اسی مکہ میں ایک شہنشاہ کی شان اور حیثیت سے داخل ہوئے.قوم اور برادری نے اپنی طرف سے کوئی دقیقہ ایذا رسانی کا باقی نہیں چھوڑا لیکن جب خدا ساتھ تھا وہ کچھ بھی بگاڑ نہ سکے.میں یقیناً جانتا ہوں اور نبیوں اور رسولوں کی زندگی اس پر گواہ ہے کہ وہ چونکہ اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں اس لیے وہ نہیں مَرتے جب تک کہ ان کی مرادیں پُوری نہ ہو جائیں اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو لیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائوں کی قبولیّت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں دنیا کے لیے نہ تھیں بلکہ آپ کی دعائیں یہ تھیں کہ بُت پرستی دور ہو جاوے اور خدا تعالیٰ کی توحید قائم ہو اور یہ انقلاب ِعظیم میں دیکھ لوں کہ جہاں ہزاروں بُت پوجے جاتے ہیں وہاں ایک خدا کی پرستش ہو.پھر تم خود ہی
سوچو اور مکہ کے اس انقلاب کو دیکھو کہ جہاں بُت پرستی کا اس قدر چرچا تھا کہ ہر ایک گھر میں بُت رکھا ہوا تھا.آپ کی زندگی ہی میں سارا مکہ مسلمان ہو گیا اور ان بتوں کے پجاریوں ہی نے ان کو توڑا اور ان کی مذمت کی.یہ حیرت انگیز کامیابی، یہ عظیم الشان انقلاب کسی نبی کی زندگی میں نظر نہیں آتا جو ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکے دکھا یا.یہ کامیابی آپ کی اعلیٰ درجہ کی قوتِ قدسی اور اللہ تعالیٰ سے شدید تعلقات کا نتیجہ تھا.ایک وقت وہ تھا کہ آپ مکہ کی گلیوں میں تنہا پھرا کرتے تھے اور کوئی آپ کی بات نہ سنتا تھا.اور پھر ایک وقت وہ تھا کہ جب آپ کے انقطاع کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو یاد دلایا اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا (النصـر:۲،۳) آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہیں.جب یہ آیت اُتری تو آپ نے فرمایا کہ اس سے وفات کی بُو آتی ہے کیونکہ وہ کام جو میں چاہتا تھا وہ تو ہو گیا اور اصل قاعدہ یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام اسی وقت تک دنیا میں رہتے ہیں جب تک وہ کام جس کے لیے وہ بھیجے جاتے ہیں نہ ہو لے.جب وہ کام ہو چکتا ہے تو ان کی رحلت کا زمانہ آ جاتا ہے جیسے بندوبست والوں کا جب کام ختم ہو جاتا ہے تو وہ اس ضلع سے رخصت ہو جاتے ہیں.اسی طرح پر جب آیت شریفہ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ (المآئدۃ:۴) نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جن پر بڑھاپے کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے اس آیت کو سن کر رونے لگے.صحابہؓ میں سے ایک نے کہا کہ اے بڈھےـ! تجھے کس چیز نے رُلایا.آج تو مومنوں کے لیے بڑی خوشی کا دن ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تو نہیں جانتا اس آیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی بُو آتی ہے.۱ دنیا میں اسی طرح پر قاعدہ ہے کہ جب مثلاً محکمہ بندوبست ایک جگہ کام کرتا ہے اور وہ کام ختم ہو جاتا ہے تو پھر وہ عملہ وہاں نہیں رہتا ہے.اسی طرح انبیاء و رسل علیہم الصلوٰۃ والسلام دنیا میں آتے ہیں.ان کے آنے کی ایک غرض ہوتی ہے اور جب وہ پوری ہو جاتی ہے پھر وہ رخصت ہو جاتے ہیں لیکن
میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دیکھتا ہوں تو آپ سے بڑھ کر کوئی خوش قسمت اور قابلِ فخر ثابت نہیں ہوتا.کیونکہ جو کامیابی آپ کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کو نہیں ملی.آپ ایسے زمانہ میں آئے کہ دنیاکی حالت مسخ ہو چکی تھی اور وہ مجذوم کی طرح بگڑی ہوئی تھی اور آپ اس وقت رخصت ہوئے جب آپ نے لاکھوں انسانوں کو ایک خدا کے حضور جھکا دیا اور توحید پر قائم کردیا.آپ کی قوتِ قدسی کی تاثیر کا مقابلہ کسی نبی کی قوتِ قدسی نہیں کرسکتی.حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایسی حالت میں منقطع ہوئے کہ وہ حواری جو بڑی محنت سے طیار کئے تھے جن کو رات دن ان کی صحبت میں رہنے کا موقع ملتا تھا وہ بھی پورے طور پر مخلص اور وفادار ثابت نہ ہوئے اور خود حضرت مسیحؑ کو ان کے ایمان اور اخلاص پر شک ہی رہا یہاں تک کہ وہ آخری وقت جو مصیبت اور مشکلات کا وقت تھا وہ حواری ان کو چھوڑ کر چلے گئے.ایک نے گرفتار کرا دیا اور دوسرے نے سامنے کھڑے ہو کرتین مرتبہ لعنت کی.اس سے بڑھ کر ناکامی اور کیا ہو گی.حضرت موسٰی جیسے اولوالعزم نبی بھی راستہ ہی میں فوت ہو گئے اور وہ ارضِ مقدس کی کامیابی نہ دیکھ سکے اور ان کے بعد ان کا خلیفہ اور جانشین اس کا فاتح ہوا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی قابلِ فخر کامیابی کا نمونہ ہے اور وہ کامیابی ایسی عظیم الشان ہے جس کی نظیر کہیں نہیں مل سکتی.آپ جس بات کو چاہتے تھے جب تک اس کو پورا نہ کر لیا آپ رخصت نہیں ہوئے.آپ کی روحانیت کا تعلق سب سے زیادہ خدا تعالیٰ سے تھا اور آپ اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنا چاہتے تھے.چنانچہ کون اس سے ناواقف ہے کہ اس سر زمین میں جو بتوں سے بھری ہوئی تھی.ہمیشہ کے لیے بُت پرستی دور ہو کر ایک خدا کی پرستش قائم ہو گئی.آپ کی نبوت کے سارے ہی پہلو اس قدر روشن ہیں کہ کچھ بیان نہیں ہوسکتا.آپ ایک خطرناک تاریکی کے وقت دنیا میں آئے اور اس وقت گئے جب اس تاریکی سے دنیا کو روشن کردیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور آپ کی قُدسی قوت کے کمالات کا یہ بھی ایک اثر اور نمونہ ہے کہ وہ کمالات ہر زمانہ میں اور ہر وقت تازہ بہ تازہ نظر آتے ہیں اور کبھی وہ قصّہ یا کہانی کا
رنگ اختیار نہیں کرسکتے.اسلام کی بر کات اور خوارق ہر زمانہ میں جاری ہیں اگر چہ مجھے افسوس ہے کہ بد قسمتی سے مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ خوارق اور اعجازاب نہیں ہیں پیچھے ہی رہ گئے ہیں مگر یہ ان کی بد قسمتی اور محرومی ہے.وہ خود چونکہ ان کمالات و برکات سے جو حقیقی اسلام ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور کامل اطاعت سے حاصل ہوتی ہیں محروم ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تاثیریں اور برکات پہلے ہو اکرتی تھیں اب نہیں.ایسے بیہودہ اعتقاد سے یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان پر حملہ کرتے ہیں اور اسلام کو بد نام کرتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اس وقت جبکہ مسلمانوں میں یہ زہر پھیل گئی تھی اور خود مسلمانوں کے گھروں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والے پیدا ہو گئے تھے مجھے بھیجا ہے تاکہ میں دکھائوں کہ اسلام کے برکات اور خوارق ہر زمانہ میں تازہ بہ تازہ نظر آتے ہیں.اور لاکھوں انسان گواہ ہیں کہ انہوں نے ان برکات کو مشاہدہ کیا ہے اور صد ہا ایسے ہیں جنہوں نے خودان برکات اور فیوض سے حصّہ پایا ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایسا بیّن اور روشن ثبوت ہے کہ اس معیار پر آج کسی نبی کا متبع وہ علامات اور آثار نہیں دکھا سکتا جو میں دکھا سکتا ہوں.آنحضرت ؐکے صحابہؓ کا مقام جس طرح پر یہ قاعدہ ہے کہ وہی طبیب حاذق اور دانا سمجھا جاتا ہے جو سب سے زیادہ مریض اچھے کرے اسی طرح انبیاء علیہم السلام سے وہی ا فضل ہوگا جو روحانی انقلاب سب سے بڑھ کر کرنے والا ہو اور جس کی تاثیرات کا سلسلہ ابدی ہو.اب اس محک پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی اور مسیح کی کامیابی کو دیکھو.ایک موقع مسیح پر مشکلات کا آتا ہے وہ قوم اور جماعت جو اس نے طیار کی تھی وہ اپناکیا نمونہ دکھاتی ہے.انجیل سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ بارہ خاص شاگرد جو حواری کہلاتے تھے اس کو چھوڑ بیٹھے اور جو ان میں بھی خاص
تھے ایک تیس روپے کے لالچ سے اس کو گرفتار کرانے والاٹھہرا.اور دوسرا جس کو بہشت کی کنجیاں دی گئی تھیں وہ سامنے لعنت بھیجتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کو لے کر نکلتے ہیں مگر وہ اس قوم کو کجرو کہتے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں بات بات پر اعتراض کرنے والے اور انکار کرنے والی قوم تھی یہاں تک کہ کہہ دیا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ (المائدۃ:۲۵).مگر اس کے بالمقابل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کو دیکھو کہ انہوں نے بکریوں کی طرح اپنا خون بہا دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ایسے گم ہوگئے تھے کہ وہ اس کے لیے ہر ایک تکلیف اور مصیبت کو اُٹھانے کوہر وقت طیار تھے.انہوں نے یہاں تک ترقی کی کہ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ (البینۃ:۹)کا سرٹیفکیٹ ان کو دیا گیا.پس صحابہ کرامؓ کی وہ پاک جماعت تھی جو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی الگ نہیں ہوئے اور وہ آپ کی راہ میں جان دینے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے بلکہ دریغ نہیں کیا ان کی نسبت آیا ہے مِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ(الاحزاب:۲۴) یعنی بعض اپنا حق ادا کر چکے اور بعض منتظر ہیں کہ ہم بھی اس راہ میں مارے جاویں.اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر وعظمت معلوم ہوتی ہے.مگر یہاں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے روشن ثبوت ہیں.اب اگر کوئی شخص ان ثبوتوں کو ضائع کرتا ہے.تو وہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو ضائع کرنا چاہتا ہے پس وہی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی قدر کرسکتا ہے جو صحابہ کرامؓ کی قدر کرتا ہے جو صحابہ کرامؓ کی قدر نہیں کرتا وہ ہرگزہرگز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدرنہیں کرتا وہ اس دعوے میں جھوٹا ہے اگر کہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں کیونکہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو اور پھر صحابہؓ سے دشمنی.جو لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کوبُرا سمجھتے ہیں اور ان سے دشمنی کرتے ہیں وہ فی الحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کرتے ہیں کیونکہ وہ آپ کی نبوت کے روشن دلائل کو توڑتے ہیں.جب ایک ٹا نگ ٹوٹ جاوے تو باقی کیا رہ جاتا ہے.اگر آپ اپنے سارے زمانہ رسالت میں
دو چار آدمی بھی معاذ اللہ ایسے طیار نہیں کرسکے جو اعلیٰ درجہ کے باخدا انسان ہوں اور جنہوں نے اعلیٰ درجہ کی روحانی تبدیلی کرلی ہو تو پھر آپ کی قوتِ قدسی کا کیا ثبوت رہ جاوے گا.پھر اگر دوسرے لوگوں کے اعتراضوں کو دیکھا جاوے جو وہ ان پر کرتے ہیں تو پھر تو معاذ اللہ ایک بھی راست باز آپ کی تعلیم سے ثابت نہیں ہوتا.بیاضیہ(خوارج)حضرت علیؓ کو معاذ اللہ مُرتد کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر ابو جہل کی لڑکی سے نکاح کرلیا حالانکہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع بھی فرمایا تھا.اس اعتراض کا جواب شیعہ کیا دے سکتے ہیں.اسی طرح پر بیاضیہ کے اعتراض ایسے ہیں کہ ان کو سُن کر بدن پر لرزہ پڑتا ہے.ادھر شیعہ ہیں کہ وہ شیخین کی ذات پاک پر شوخی کے ساتھ اعتراضات جمع کرتے ہیں لیکن اگر یہ دونوں فریق خدا ترسی اور روحانیت سے کام لیتے تو ایسا نہ کرتے.وہ دیکھتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک جسم کی طرح ہیں اورصحابہ کرامؓ آپ کے اعضا ہیں.جب اعضا کاٹ دیئے جاویں تو پھر باقی کیا رہ گیا.جسم ناقص رہ جاتا ہے اور خوبصورتی بھی باقی نہیں رہتی.ان باتوں کو سُن سُن کر بدن پر لرزہ پڑتا ہے اور مسلمانوں کی حالت پر افسوس آتا ہے کہ وہ اپنی اس قسم کی کارروائیوں سے بھی دشمنوں کو اسلام پر اعتراض کرنے کا موقع دیتے ہیں اور ان کی زبانیں کھلتی ہیں بلکہ وہ اپنے ہاتھ سے اسلام کی جڑ کاٹ رہے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ اس قسم کی اندرونی کمزوریوں اور خرابیوں نے یہ ضرورت پیدا کی کہ خدا تعالیٰ اپنے دین کی تائید اور نصرت کے لیے ایک سلسلہ قائم کر دیتا جو اِن غلط فہمیوں کو دلوں سے دور کر دیتا.یہی غرض ہے میرے آنے کی.جو سعید الفطرت ہیں وہ اس حقیقت کو سمجھ کر اس سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں.مَیں پھر کہتا ہوں کہ یہ بات بڑی ہی قابلِ غور ہے کہ یہ لوگ جو مسلمان کہلا کر صحابہؓ کی ذات پر حملہ کرتے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک پر حملہ کرتے ہیں اور قرآن شریف کی عزّت پر حملہ کرتے ہیں غیر قوموں خصوصاً عیسائیوں کے بالمقابل ہمارا یہی زبردست دعویٰ ہے کہ آپ کی پاک تعلیم اور صحبت نے ایسے اعلیٰ درجہ کی روحانیت پیدا کی اور بالمقابل مسیحؑ کے ۱۲ حواری بھی درست نہ رہ
سکے،لیکن جب یہ عقیدہ ہو کہ بجُز ایک یا دو کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک صحبت میں کسی کی بھی اصلاح نہیں ہوئی تو پھر ہم کو منہ دکھانے کی بھی جگہ نہیں رہتی.اس صورت میں ہم ان کے سامنے کیا پیش کرسکتے ہیں؟قرآن شریف کی اس سے کیا عزّت رہی.ایک طرف تو ہم یہ مانتے اور پیش کرتے ہیں کہ قرآن کریم خاتم الکتب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اورنبوت ختم ہو چکی.دوسری طرف اس کی تاثیر ات کو یہاں تک ظاہر کرتے ہیں کہ ایک آدمی کے سوا کوئی درست نہ ہوسکا اور جب اس پر ان اعتراضوں کو جمع کیا جاوے جو مخالف کرتے ہیں تو پھر نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک بھی درست نہیں ہوا بلکہ سارے مُرتد ہوگئے.اس عقیدہ کی شناعت کو خوب غور سے سوچو کہ اس کا اثر اسلام پر کیاپڑتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تو یہ یوں مخالف ہوئے اور قرآنِ شریف کے بر خلاف اس طرح پر ہیں کہ کہتے ہیں اصل قرآن شریف نہیں رہا.جو اَب موجود ہے وہ محرّف مبدّل ہو گیا ہے اور اصل قرآن مہدی کسی غار میں لے کر چھپا ہوا ہے اب تک نہیں نکلتا.دنیا گمراہ ہو رہی ہے اور اسلام پر حملے ہو رہے ہیں.مخالف ہنسی کرتے ہیں اور خطرناک توہین کر رہے ہیں اور مسلمانوں کے ہاتھ میں بقول ان کے قرآنِ شریف بھی نہیں ہے اور مہدی ہے کہ وہ غار سے ہی نہیں نکلتا.کوئی سمجھدار آدمی خدا سے ڈر کر ہمیں بتائے کہ کیا یہ بھی دین ہوسکتا ہے اور اس سے کوئی آدمی روحانی ترقی کر سکتا ہے یہ محض افسانے اور خیالی باتیں ہیں.حقیقت اور سچ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلیٰ درجہ کی روحانی قوت اور تاثیر کے ساتھ بھیجا تھا جس کا اثر ہر زمانہ میں پایا جاتا ہے.صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو خدمت اسلام کی کی ہے اور جس طرح پر انہوں نے اپنے خون سے اس باغ کی آبپاشی کی ہے اس کی نظیر دنیا کی کسی تاریخ میں نہیں ملے گی ان کی خدماتِ اسلام کے لیے نہایت ہی قابلِ قدر اور اعلیٰ درجہ کی ہیں.اور جب خدا تعالیٰ کے دین میں سستی واقع ہونے لگتی ہے اور کمی فہم یا مُرورِزمانہ کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہو کر یہ پاک دین بگڑ نے لگتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ ایک شخص کو مامور کرکے بھیجتا ہے جو اُس کے بُلائے بولتا ہے اور روح القدس کی تائید اُس کے ساتھ ہوتی ہے وہ ان غلط فہمیوں اور خرابیوں کو دور کرتا ہے جو علمی طور پر دین میں پیدا ہوجاتی ہیں اور اپنے عملی نمونہ اور قدسی قوت کے ساتھ ایک نیا ایمان دنیا
کو خدا تعالیٰ کی ہستی پر بخشتا ہے.۱ لیکن جب انسان خدا تعالیٰ سے غافل ہوجاتا ہے اور شعائر اللہ کی پروا نہیں کرتا اللہ تعالیٰ بھی اس سے بے پروا ہو جاتا ہے اور اُس شخص اور ایسی قوم کو تباہ کر دیتا ہے چنانچہ چغتائی سلطنت نے جب دین سے غافل ہو کر بہائم کی سی سیرت اختیار کرلی تو پھر اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ وہ سلطنت جو صدیوں سے چلی آتی تھی اس کا کچھ بھی باقی نہ رہا اور ایک مشاعر پر اس کا خاتمہ ہوگیا.پس انسان کو ہر وقت خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے.کھلی اور چھپی ہوئی بدکاریاں آخر انسان پر وہ گھڑی لے آتی ہیں جس کا اسے آسائش کے ایام میں وہم وگمان بھی نہیں ہوتا.اس لیے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کا خوف ہر وقت دل پر رہے اور اس کی عظمت وجبروت سے ڈرتا رہے اور اعمالِ صالحہ کی کوشش کرتا رہے اور پھر دعا کے ساتھ اس کی توفیق مانگے.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے.اس قدر تقریر اعلیٰ حضرت نے فرمائی تھی کہ مشیر اعلیٰ صاحب نے بڑے تکلّف سے ذیل کا سوال آپ سے پوچھا.(ایڈیٹر) سوال.آپ کی طرف سے نبی یا رسول ہونے کے کلمات شائع ہوئے ہیں اور یہ بھی کہ میں عیسٰیؑ سے افضل ہوںاور اَور بھی تحقیر کے کلمات بعض اوقات ہوتے ہیں جن پر لوگ اعتراض کرتے ہیں.حضرت اقدس.ہماری طرف سے کچھ نہیں ہوتا.میں ان باتوں کا خواہشمند نہیں تھا کہ کوئی میری تعریف کرے اور میں گوشہ نشینی کو ہمیشہ پسند کرتا رہا لیکن میں کیا کروں جب خدا تعالیٰ نے مجھے باہر نکالا.یہ کلمات میری طرف سے نہیں ہوتے.اللہ تعالیٰ جب مجھے ان کلمات سے مخاطب کرتا ہے اور میں بالمواجہ اس کا کلام سنتا ہوں پھر میں کہاں جائوں لوگوں کے اعتراضوں اور نکتہ چینیوں کی پروا کروں یا اللہ تعالیٰ کے کلام پر ایمان لاؤں؟ میں دنیا اور اس کے اعتراضوں کی کوئی حقیقت اور اثر نہیں سمجھتا لیکن خدا تعالیٰ کو چھوڑنا اور اس کے کلام سے سرگردانی کرنا اس کو بہت ہی بُرا سمجھتا ہوں اور میں اس کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا.اگر ساری دنیا میری مخالف ہوجائے اور ایک متنفّس بھی میرے ساتھ نہ ہو بلکہ کُل کائنات میری دشمن ہو پھر بھی میں اللہ تعالیٰ کے اس کلام سے انکار نہیں کرسکتا.دنیا اور
اس کی ساری شان وشوکت اس جلیل کلام اور خطاب کے سامنے ہیچ اور مُردار ہیں.میں ان کی کبھی پروا نہیں کرتا.پس کوئی اعتراض کرے یا کچھ کہے میں خدا تعالیٰ کے کلام کو اور خدا کو چھوڑ کر کہاں جائوں.اسی مضمون کو اعلیٰحضرت کے قصیدہ الہامیہ کے ایک شعر میںیوں ادا کیا گیا ہے.؎ حکم است ز آسمان بزمیں مے رسانمش گر بشنوم نگویمش آن را کجا برم (ایڈیٹر) اور یہ بالکل غلط ہے کہ میں انبیاء ورسل یا صلحائِ اُمّت کی تحقیر کرتا ہوں.جیسے میں ابرارواخیار کا درجہ سمجھ سکتا ہوں اور ان کے مقام وقرب کا جتنا علم مجھے ہے کسی دوسرے کو نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم سب ایک ہی گروہ سے ہیں اور اَلْـجِنْسُ مَعَ الْـجِنْسِ کے موافق دوسرے اس درجہ کے سمجھنے سے عاری ہیں.حضرت عیسٰیؑ اور امام حسینؓ کے اصل مقام اور درجہ کا جتنا مجھ کو علم ہے دوسرے کو نہیں ہے کیونکہ جوہری ہی جوہر کی حقیقت کو سمجھتا ہے.اس طرح پر دوسرے لوگ خواہ امام حسینؓ کو سجدہ کریں مگر وہ ان کے رُتبہ اور مقام سے محض ناواقف ہیں اور عیسائی خواہ حضرت عیسٰیؑ کو خدا کا بیٹا یا خدا جو چاہیں بناویں مگر وہ ان کے اصل اتباع اور حقیقی مقام سے بے خبر ہیں اور ہم ہرگز تحقیر نہیں کرتے.مشیرِ اعلیٰ.عیسائی خواہ خدا بناویں لیکن مسلمان تو نبی سمجھتے ہیں.اس صورت میں ایک نبی کی تحقیر ہوتی ہے.حضرت اقدس.ہم بھی حضرت عیسٰیؑ کو خدا تعالیٰ کا سچا نبی یقین کرتے ہیں اور سچے نبی کی تحقیر کرنے والے کو کافر سمجھتے ہیں.اسی طرح پر حضرت امام حسینؓ کی بھی جائز عزّت کرتے ہیں لیکن جب عیسائیوں سے مباحثہ کیا جاوے وہ راضی نہیں ہوتے جب تک عیسٰیؑ کو اللہ یا ابن اللہ نہ کہا جاوے.اس لیے جو کچھ ان کی کتاب پیش کرتی ہے وہ دکھانا پڑتا ہے تاکہ ایک کفر عظیم کو شکست ہو.مشیرِ اعلیٰ.ان کے مقابلہ میں اگر ان کی تردید کی جاوے.یہ تو اچھی بات ہے مگر ایک اُصول صحیح کو تو ان کی خاطر نہیں چھوڑنا چاہیے.حضرت اقدس.اصولِ صحیح وہ ہوسکتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ قائم کرے.ہم ان اُصولوں پر چلتے ہیں جن پر ہم کو اللہ تعالیٰ چلاتا ہے.اگر کوئی اس وقت ان باتوں کو استہزا کی نظر سے دیکھتا ہے اور
یقین نہیں لاتا تو مَرنے کے بعد اس کی حقیقت کھل جائے گی اور خود دیکھ لے گا کہ کون حق پر ہے.میرے اس دعوے پر کہ میں امام حسینؓ سے افضل ہوں شور مچایا جاتا ہے لیکن اگر پوچھا جاوے کہ آنے والا مسیح حسینؑ سے افضل ہے یا نہیں تو اس کا کیا جواب ہے؟ مشیرِ اعلیٰ.پھر آپ کے نزدیک کیا ہے؟ حضرت اقدس.خدا تعالیٰ نے تو مجھے یہی بتایا ہے کہ میں افضل ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ موسیٰ علیہ السلام سے افضل ہیں.اسی طرح آنے والا محمدی مسیح موسوی مسیح سے افضل ہے.اس وقت آپ انکار کریں تو کریں لیکن مَرنے کے بعد تو سب کچھ ظاہر ہو جائے گا اور پتا لگ جائے گا کہ کون افضل اور حق پر ہے.میں اگراپنی طرف سے شیخی جتلاتا ہوں تو مجھ سے بڑھ کر کوئی جھوٹا نہیں لیکن اگر کوئی میرے صدق کے نشانات دیکھ کر بھی جھٹلاتا ہے تو پھر اُس کا معاملہ خدا سے ہے.وہ میری تکذیب نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ اوراس کی آیات کی تکذیب کرتا ہے.آپ جو کچھ کہتے ہیں بطور مقلّد کے کہتے ہیں.ذاتی بصیرت آپ کو نہیں ہے لیکن میں جو کچھ کہتا ہوں بطور محقّق کے کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے بصیرت پاکر کہتا ہوں.میں خدا تعالیٰ کے مکالمات سنتا ہوں.ہر روز اس سے مخاطبات ہوتے ہیں.پھر میں ایک نابینا مقلّد کی پیروی کس طرح کروں.ہاں اگر کوئی امام حسین کو مجھ سے افضل یقین کرتا ہے اور اس کا کوئی الگ خدا ہے تو پھر میں دیکھ لوں گا کہ وہ میرے مقابل اس افضلیت کے کون سے نشان اپنی ذات سے دکھاسکتا ہے.اگر کوئی نشان نہیں دکھا سکتا اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ کوئی بھی نہیں دکھا سکتا تو پھر میرے لیے جو تحقیق کی راہ کھلی ہے اس کا انکار نا مناسب ہے.یہ نری کہنے ہی کی باتیں نہیں ہیں.میری زندگی کا کون ذمہ دار ہوسکتا ہے جبکہ میں براہِ راست خدا تعالیٰ سے سنتا ہوں.خواہ مجھے دوزخ میں ڈال دیا جائے یا ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے میں اس کی بالکل پروا نہیں کرتا.میں کبھی اس اَمرِ حق کو نہیں چھوڑ سکتا.میں نے ان نشانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو پہچانا ہے جن نشانوں کے ساتھ آدم، نوح، موسیٰ، ابراہیم علیہم السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
نے پہچانا تھا.میں اب اس دامن کوکیسے چھوڑ سکتا ہوں.اس دروازہ کو چھوڑ کر اَور کسی جگہ میں کیوں کر جاسکتا ہوں.براہین احمدیہ چوبیس برس پہلے کی چھپی ہوئی کتاب موجود ہے وہ شیعوں کے پاس بھی ہے گورنمنٹ کے پاس بھی کاپی ہے اس کو کھول کر پڑھو کہ کس قدر نشان اس میں دیئے گئے تھے اور وہ اس وقت دیئے گئے تھے کہ جب کسی کے وہم وگمان میں بھی وہ باتیں نہ آسکتی تھیں کہ ایسا ہو جائے گا مثلاً اُس میں لکھا ہے کہ آج تو اکیلا ہے لیکن ایک وقت آتا ہے کہ فوج درفوج لوگ تیرے ساتھ ہوں گے.دنیا دار مقابلہ کریں گے مگر وہ اس مقابلہ میں ناکام رہیں گے اور میں تجھے کامیاب کروں گا.اب کوئی مخالف اس کا جواب دے کہ کیا اس طرح پر نہیں ہوا.جب براہین احمدیہ شائع ہوئی ہے تو سارے ملک میں کوئی آدمی نہیں تھا جو مجھے جانتا ہو.قادیان سے باہر کسی کو کچھ پتا نہ تھا.لیکن اب دیکھ لو کہ کس قدر رجوع دنیا کا ہو رہا ہے اور اس ملک سے نکل کر امریکہ، آسٹریلیا اور یورپ تک اس سلسلہ کی شہرت ہوگئی ہے کیا لوگوں کو اس سلسلہ میں داخل ہونے سے اور روکنے کے واسطے کوششیں نہیں کی گئی ہیں.کفر کے فتوے دئیے گئے.قتل کے مقدمے بنائے گئے.جس طرح پر جس کسی کا بس چلا اس نے لوگوں کو باز رکھنا چاہا.لیکن جس قدر مخالفت کی گئی اسی قدر زور و شور کے ساتھ اس سلسلہ کی اشاعت ہوئی اور آفاق میں اس کا نام پہنچ گیا اسی کے موافق جو خدا نے پہلے فرمایا تھا.اب ہمیں کوئی جواب دے کہ کیا یہ انسانی کلام ہوسکتا ہے کہ جو بیس برس پیشتر ایسی پیشگوئی کرے اور پھر وہ حرفاً حرفاً پوری ہوجاوے اور وہ پیشگوئی ایسی حالت میں کی جاوے کہ اس وقت کوئی آدمی جاننے والا بھی موجود نہ ہو.اگر یہ انسانی کلام ہے تو پھر ایسا دعویٰ کرنے والے کو چاہیے کہ اس کی نظیر پیش کرے.پھر اسی براہین میں درج ہے.یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ وَیَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَمِیْقٍ.اگر اس نشان کو دیکھا جاوے تو اپنی جگہ یہ کوئی دس۱۰ لاکھ نشان ہوگا.ہر آدمی نیا آنے والا مہمان اس نشان کو پورا کرتا ہے اورمختلف دیار وامصارسے خطوط آرہے ہیں، تحائف آرہے ہیں جس کے واسطے
ڈاک خانہ اور محکمہ ریل کی کتابیں بھی گواہ ہیں.پھر کیا یہ معمولی نظر سے دیکھی جانے کے قابل باتیں ہیں ایسے ایسے صدہا نہیں ہزاروں نشان ہیں.اب ان نشانوں کے ہوتے ہوئے میں خدا تعالیٰ کا انکار کروں اور اس کی باتوں کو چھوڑدوں!!! یہ کبھی نہیں ہوسکتا خواہ میری جان بھی چلی جاوے.پھر ان نشانات کو الگ رکھو میں تو اپنے اللہ تعالیٰ پر ایسا یقین رکھتا ہوں اور اس کا وعدہ ہے کہ اگر کوئی چالیس دن میرے پاس رہے تو وہ ضرور کوئی نہ کوئی نشان دیکھ لے گا.ہماری جماعت اس بات کی گواہ ہے اور ان میں شائد ایک بھی ایسا آدمی نہ نکلے گا جس نے کوئی نہ کوئی نشان نہ دیکھا ہو پھر آپ ہی بتائیں کہ خدا کی راہ کو چھوڑ کر میں کس کی بات سُن سکوں.اس کے مقابل میں جلتی ہوئی آگ میں کُود پڑنامیرے لیے آسان ہے مگر اس کو چھوڑنا مشکل ہے.دیکھو! وہ لوگ جو ہمارے ساتھ ہیں ان کی روحیں ان برکات کومحسوس کرتی ہیں جو اس سلسلہ میں داخل ہونے سے ان کو ملی ہیں مگر وہ لوگ جو امام حسینؓ کی پُوجا کرتے ہیں اور ان کے چال چلن کو اختیار نہیں کرتے اور ان کا اتباع نہیں کرتے وہ یاد رکھیں کہ قیامت کو امام حسینؓ سے الگ بٹھائے جائیں گے اور ان سے کوئی تعلق نہ ہوگا.نواب صاحب.(شیعہ ہیں )ہم تو حضرت امام حسینؓ کو سجدہ نہیں کرتے البتہ نواسہ رسول سمجھ کر مانتے ہیں.حضرت اقدس.حضرت امام حسینؓ کے نواسہ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) یا شہید ہونے میں تو کوئی کلام نہیں ہے اور اسی حد تک ان کو مانناکسی خرابی کا باعث نہیں ہوا بلکہ ان کی شان میں بہت بڑا غلو کیا گیا ہے.میرے ایک اُستاد بھی شیعہ تھے جو آپ کے ہاں بھی جایا کرتے تھے.مجھے بہت سا موقع ملا ہے کہ میں اس غلو کا اندازہ کروں جو وہ امام حسینؓ کی نسبت کرتے ہیں.وہ اتنا ہی ہرگز نہیں مانتے کہ وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسہ تھے یا شہید ہوئے بلکہ وہ حاجت روا اور مشکل کُشا مانتے ہیں.لیکن آپ یاد رکھیں کہ جب تک وہ طریق اختیار نہ کیا جاوے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور جس پر حضرت علیؓ اور حضرت امام حسینؓ نے قدم مارا تھا.کچھ بھی نہیں مل سکتا.یہ تعزئیے بنانا
اور نوحہ خوانی کرناکوئی نجات کاذریعہ اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق قائم کرنے کا طریقہ نہیں ہوسکتا.خواہ کوئی ساری عمر ٹکریں مارتارہے.سچی پیروی الگ چیز ہے اور محض مبالغہ ایک الگ اَمر ہے.جب تک انسان انبیاء علیہم السلام اور صلحاء کے رنگ میں رنگین نہیں ہوجاتا ان کے ساتھ محبت اور ارادت کا دعویٰ محض ایک خیالی اَمر ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں ہے.(ایڈیٹر.ولنعم ما قیل) ؎ از عمل ثابت کن آں نورے کہ درایمان تُست دِل چو دادی یوسفے را راہ کنعاں راگزیں انبیاء ورسل علیہم السلام کے آنے کی غرض انبیاء علیہم السلام کے آنے کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ ان کے نمونہ کو اختیار کریں اور اسی رنگ میں رنگین ہو کر ان کے ساتھ سچی محبت کا اقتضایہی ہوتا ہے کہ ان کے نقشِ قدم پر چلیں اور اگر یہ بات نہیں تو سارے دعوے ہیچ ہیں.انبیاء علیہم السلام کی ایسی ہی مثال ہے جیسے گورنمنٹ مختلف قسم کی صنعتیں وغیرہ یہاں بھیجتی ہے اور لوگوں کو دکھاتی ہے.اس سے اس کی یہ غرض تو نہیں ہوتی کہ لوگ ان صنعتوں کو لے کراس کی پُوجا کریں بلکہ وہ تو یہ چاہتی ہے کہ یہاں کے لوگ بھی ان نمونوں کو دیکھ کر ان کی تقلید کریں اور ایسے نمونے خود طیار کریں.جو طیار کرتے ہیں وہ فائدہ اُٹھاتے ہیں لیکن جو توجہ نہیں کرتے اُن کو کوئی فائدہ ان نمونوں سے نہیں ہوسکتا.اسی طرح انبیاء علیہم السلام کی جو لوگ سچی اطاعت کرتے ہیں اور ان کے قول وفعل کو اپنے لیے ایک نمونہ قرار دے کر اسی کے موافق اپنا چال چلن اور عملدرآمد کرلیتے ہیں خدا تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے اور ان پر بھی اسی رنگ کے برکات اور فیوض کا دروازہ کھولا جاتا ہے جس قسم کے برکات انبیاء علیہم السلام کو دیئے جاتے ہیں اور جو ان کی اتباع نہیں کرتے وہ نامُراد رہتے ہیں.یہ نمونہ جب سے انبیاء علیہم السلام آتے ہیں برابر چلا آیا ہے.اور ہر زمانہ میں اس کا تجربہ اور مشاہدہ ہوا ہے.یہ ایک ایسی صداقت ہے جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا بجُز اس آدمی کے جس کو خدا پر بھی ایمان اور یقین نہ ہو.۱
آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو خدا تعالیٰ کے ماموروں اور راست بازوں کی سچی اتباع کرنے والے ہوتے ہیں.اس طبقہ اور قسم کے لوگ تو بہت ہی کم ہوتے ہیں.دوسری قسم انسانوں کی وہ ہے جو دنیا کی خواہشوں پر گرے ہوئے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے بکلّی دور اور مہجور ہوتے ہیں.ان کی ساری اغراض ومقاصد کامنتہیٰ اورانجام دنیا پر ختم ہوجاتا ہے وہ کبھی خیال بھی نہیں کرتے کہ ان کو اس فانی دنیا سے ایک دن قطع تعلق کرنا ہوگا اور مَر کر یہ سب کچھ یہاںچھوڑجانا ہے اور پھر خدا تعالیٰ سے معاملہ ہوگا.وہ دنیا اور اس کے دھندوں میں کچھ ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ کچھ اور سوجھتا ہی نہیں.یہ بہت ہی بد قسمت گروہ ہے اور اکثر حصّہ اسی میں مبتلا ہے.یاد رکھنا چاہیے کہ انبیاء ورسل اور اَئمہ کے آنے سے کیا غرض ہوتی ہے وہ دنیا میں اس لیے نہیں آتے کہ ان کو اپنی پُوجا کرانی ہوتی ہے.وہ تو ایک خدا کی عبادت قائم کرنا چاہتے ہیں اور اسی مطلب کے لیے آتے ہیں اور اس واسطے کہ لوگ ان کے کامل نمونہ پر عمل کریں اور ان جیسے بننے کی کوشش کریں اور ایسی اتباع کریں کہ گویا وہی ہو جائیں مگر افسوس ہے کہ بعض لوگ ان کے آنے کے اصل مقصد کوچھوڑدیتے ہیں اور ان کو خدا سمجھ لیتے ہیں.اس سے وہ اَ ئمہ اور رسل خوش نہیں ہوسکتے کہ لوگ ان کی اس قدر عزّت کرتے ہیں.کبھی نہیں.وہ اس کو کوئی خوشی کا باعث قرار نہیں دیتے.ان کی اصل خوشی اسی میں ہوتی ہے کہ لوگ ان کی اتباع کریں اور جو تعلیم وہ پیش کرتے ہیں کہ سچے خدا کی عبادت کرو اور توحید پر قائم ہوجائو،اس پر قائم ہوں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حکم ہوا قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (اٰل عـمران:۳۲) یعنی اے رسول ان کو کہہ دو کہ اگرتم اللہ تعالیٰ سے پیار کرتے ہو تو میری اتباع کرو.اس اتباع کا یہ نتیجہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم سے پیار کرے گا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بننے کا طریق یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع کی جاوے پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ انبیاء علیہم السلام اور ایسا ہی اَور جو خدا تعالیٰ کے راست بازاور صادق بندے ہوتے ہیں وہ دنیا میں ایک نمونہ ہو کر آتے ہیں جو شخص اس نمونہ کے موافق چلنے کی کوشش نہیں کرتا لیکن ان کو سجدہ کرنے اور حاجت روا ماننے کو طیار ہو جاتا ہے وہ
کبھی خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر نہیں ہے بلکہ وہ دیکھ لے گا کہ مَرنے کے بعد وہ امام اس سے بیزار ہوگا ایسا ہی جو لوگ حضرت علیؓ یا حضرت امام حسین ؓ کے درجہ کو بہت بڑھاتے ہیں گویا ان کی پرستش کرتے ہیں وہ امام حسین کے متبعین میں نہیں ہیں اور اس سے امام حسین ؓ خوش نہیں ہوسکتے انبیاء علیہم السلام ہمیشہ پیروی کے لیے نمونہ ہو کرآتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ بِدُوں پیروی کچھ بھی نہیں.میں ایک دم میں کیا سناؤں جو خیالات سالہاسال کے دل میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں وہ دفعۃً دور نہیں ہوسکتے.ہاں اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے تو وہ قادر ہے کہ فی الفور تبدیلی کر دے خدا تعالیٰ کی توفیق سے پرانے غلط خیالات کو چھوڑنا بہت ہی سہل ہو جاتا ہے.دلائلِ صداقت مَیں سچ کہتا ہوں کہ میرا دعویٰ جھوٹا نہیں ہے خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اور اس کی تائید میرے ساتھ ہے اگر میں اس کی طرف سے مامور نہ ہوا ہوتا تو وہ مجھے ہلاک کر دیتا اور میری ہلاکت ہی میرے کذب کی دلیل ٹھہر جاتی لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ میری تھوڑی مخالفت نہیں ہوئی ہر طرف سے ہر مذہب والے نے میری مخالفت میں حصّہ لیا اور بہت بڑا حصّہ لیا ہر قسم کے مشکلات اور روکیں میری راہ میں ڈالی جاتی ہیں اور ڈالی گئی ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے ان مشکلات سے صاف نکالا ہے اور ان روکوں کو دور کرکے وہ ایک جہان کو میری طرف لا رہا ہے اسی وعدہ کے موافق جو براہینِ احمدیہ میں کیا گیا تھا اس پر بھی میں کہتا ہوں کہ آپ دیکھیں کہ اگر ان مشکلات کے ہوتے ہوئے بھی میں کامیاب ہو گیا تو میری سچائی میں کیا شبہ باقی رہ سکتا ہے.یہ بھی یادرکھیں کہ یہ مشکلات اور روکیں صرف میری ہی راہ میں نہیں ڈالی گئیں بلکہ شروع سے سنّت اللہ اسی طرح پر ہے کہ جب کوئی راست بازاور خدا تعالیٰ کا مامور ومرسل دنیا میں آتا ہے تو اس کی مخالفت کی جاتی ہے اس کی ہنسی کی جاتی ہے اسے قِسم قِسم کے دکھ دیئے جاتے ہیں مگر آخر وہ غالب آتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمام روکوں کو خود اٹھا دیتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس قسم کے مشکلات پیش آئے.ابنِ جریر نے ایک نہایت ہی دردناک واقعہ لکھا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ابوجہل اور چند اَور لوگ بھڑکے اور مخالفت کے واسطے اٹھے انہوں نے یہ تجویز کی کہ
ابو طالب کے پاس جا کر شکایت کریں.چنانچہ ابو طالب کے پاس یہ لوگ گئے کہ تیرا بھتیجا ہمارے بتوں اور معبودوں کو بُرا کہتا ہے اس کو روکنا چاہیے.چونکہ ایک بڑی جماعت یہ شکایت لے کر گئی تھی اس لیے ابوطالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا تاکہ ان کے سامنے آپ سے دریافت کریں.جہاں یہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے وہ ایک چھوٹا دالان تھا اور ابو طالب کے پاس صرف ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ باقی تھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ چچا کے پاس بیٹھ جائیں مگر ابو جہل نے یہ دیکھ کر کہ آپ یہاں آکر بیٹھیں گے شرارت کی اور اپنی جگہ سے کُود کر وہاں جا بیٹھا تاکہ جگہ نہ رہے اور سب نے مل کر ایسی شرارت کی کہ آپ کے بیٹھنے کو کوئی جگہ نہ رکھی.آخر آپ دروازہ ہی میں بیٹھ گئے.اس درد ناک واقعہ سے ان کی کیسی شرارت اور کم ظرفی ثابت ہوتی ہے غرض جب آپ بیٹھ گئے تو ابو طالب نے کہا کہ اے میرے بھتیجے تو جانتا ہے کہ میں نے تجھ کو کس واسطے بلا یا ہے یہ مکہ کے رئیس کہتے ہیں کہ تو ان کے معبودوں کو گالیاں دیتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے چچا میں تو ان کو ایک بات کہتا ہوں کہ اگرتم یہ ایک بات مان لو تو عرب اور عجم سب تمہارا ہو جائے گا.انہوں نے کہاکہ وہ کون سی ایک بات ہے؟ تب آپ نے فرمایا لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ جب انہوں نے یہ کلمہ سنا تو سب کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اور بھڑک اٹھے اور مکان سے نکل گئے اور پھر آپ کی راہ میں بڑی روکیں اور مشکلات ڈالی گئیں.تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے خدا کے راست بازوں اور ماموروں کے مقابلہ میں ہر قسم کی کوششیں ان کو کمزور کرنے کے لیے کی جاتی ہیں لیکن خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے وہ ساری کوششیں خاک میں مل جاتی ہیں.ایسے موقع پر بعض شریف الطبع اور سعید لوگ بھی ہوتے ہیں جو کہہ دیتے ہیں.اِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهٗ١ۚ وَ اِنْ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ يَعِدُكُمْ(المومن:۲۹) صادق کا صدق خود اس کے لیے زبردست ثبوت اور دلیل ہوتا ہے.اور کاذب کا کذب ہی اس کو ہلاک کردیتا ہے.پس ان لوگوں کومیری مخالفت سے پہلے کم از کم اتنا ہی سوچ لینا چاہیے تھا کہ خدا تعالیٰ کی کتاب
میں یہ ایک راہ راست باز کی شناخت کی رکھی ہے مگر افسوس تو یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن پڑھتے ہیں مگر ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا.اس کے سوا اللہ تعالیٰ نے مجھے وعدہ دیا ہے وَ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ (اٰل عـمران:۵۶) کہ میں تیری جماعت اور تیرے گروہ کو منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا اور ان میں ترقی اور عروج دوں گا.مَیں اس بات کا کیوں کر انکار کرسکتا ہوں.میں بخوبی جانتا ہوں کہ ایک وقت آنے والا ہے کہ ملوک،ملکدار، تاجر اور ہر قسم کے معزز لوگ یہی ہوں گے.لوگوں کے نزدیک یہ انہونی بات ہے مگر میں یقیناً جانتاہوں یہی ہوگا وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے بلکہ مجھے وہ بادشاہ دکھائے بھی گئے ہیں جو گھوڑوں پر سوار تھے.یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ جو اس سلسلہ میں داخل ہوتا ہے اب اس وقت کوئی اس کو باوَر نہیں کرسکتا.لیکن میں جانتا ہوں کہ ایسا ہوگا.جب آنحضرتؐنے کہا تھا کہ دین ودنیا ان میں ہی آجائیں گے اس وقت کسی کو خیال ہوسکتا تھا کیونکہ اتنے آدمی صرف آپ کے ساتھ تھے جو ایک چھوٹے حجرہ میں آجاتے تھے اور لوگ ایسی باتوں کو سن کر اور گھر جا کر استہزا کرتے تھے کہ گھر سے باہر نکلنے کا موقع نہیں ملتا اور یہ دعوے ہیں.آخر سب کو معلوم ہوگیا کہ جو فرمایا تھا وہ سچ تھا.مامور اپنی ابتدائی حالت میں ہلال کی طرح ہوتا ہے.ہر ایک شخص اس کو نہیں دیکھ سکتا لیکن جو تیز نظر ہوتے ہیں وہ دیکھ لیتے ہیں اسی طرح پر سعیدالفطرت مومن مامور کو اس کی ابتدائی حالت میں جبکہ وہ ابھی مخفی رہتا ہے شناخت کر لیتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ماننے والوں کا نام سابقین رکھا ہے لیکن جب بہت سے مسلمان فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے تو ان کا نام صرف ناس رکھا گیا جیسے فرمایا اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا (النصـر:۲،۳) حقیقت یہی ہے کہ جب حق کھل جاتا ہے پھر انکار کی گنجائش نہیں رہتی جیسے جب دن چڑھا ہوا ہے تو پھر بُجز شپْرک کے کون انکار کرے گا.
اصل بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جن پر حق کھل جاتا ہے مگر دنیا کے تعلقات اور مجبوریوں کو اپنا معبود بنا لیتے ہیں اور اس حق سے محروم رہتے ہیں.پس ہمیشہ خدا سے دعا مانگنی چاہیے کہ وہ ان ظلموں سے بچاتا رہے اور قبولِ حق کے لیے کوئی روک اس کے واسطے نہ ہو.نواب صاحب.آپ میرے لیے ایمان کی دعا کریں.دنیا سے تو آخرایک دن مَر ہی جانا ہے.حضرت اقدس.اچھا میں تو دعا کروں گا مگر آپ کو بھی ان آداب اور شرائط کا لحاظ رکھناچاہیے جو دعا کے واسطے ضروری ہیں.میرے دعا کرنے سے کیا ہوگا جب آپ توجہ نہ کریں.بیمار کو چاہیے کہ طبیب کی ہدایتوں اور پرہیز پر بھی تو عمل کرے.پس دعا کرانے کے واسطے ضروری ہے کہ آدمی خود اپنی اصلاح بھی کرے.مشیر اعلیٰ.کیا جناب کو یہ بھی اطلاع دی گئی ہے کہ آپ کی عمر کتنی ہو گی.حضرت اقدس.ہاں عمر کے متعلق مجھے الہاماً یہ بتایا گیا تھا کہ وہ اسّی کے قریب ہو گی.اور حال میں ایک رئویا کے ذریعہ یہ بھی معلوم ہوا کہ ۱۵سال اور بڑھانے کے واسطے دعا کی ہے.(اس پر حضرت اقدس نے رئویا سنایا جو پہلے الحکم میں درج ہو چکا ہے.ایڈیٹر) مشیر اعلیٰ.اب جناب کی عمر کیا ہو گی؟ حضرت اقدس.۶۵یا ۶۶ سال.جب ایک عقیدہ پُرانا ہو جاتا ہے اور دیر سے انسان اس پر رہتا ہے تو پھر اسے اس کو چھوڑنے میں بڑی مشکلات پیش آتے ہیں وہ اس کے خلاف نہیں سن سکتا بلکہ خلاف سننے پر وہ خون تک کرنے کو طیار ہو جاتا ہے کیونکہ پُرانی عادت طبیعت کے رنگ میں ہو جاتی ہے.اس لیے میں جو کچھ کہتا ہوں اس کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک جمے ہوئے خیال کو یہ لوگ چھوڑنا پسند نہیں کرتے.مشیر اعلیٰ.اصل میں یہ کام جو آپ کر رہے ہیں، ہے بھی عظیم الشان.حضرت اقدس.یہ میرا کام نہیں ہے یہ تو خلافتِ الٰہی ہے.جو میری مخالفت کرتا ہے وہ میری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتا ہے اس وقت مسلمانوں کی اخلاقی اور عملی حالت بہت خراب ہو چکی
ہے.خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اس فسق وفجور کی آگ سے ایک جماعت کو بچائے اور مخلص اور متقی گروہ میں شامل کرے.یہ انقلاب عظیم الشان جو مسلمانوں کی اس حالت میں ہونے والا ہے اگر یہ انقلاب ہو اتو سمجھ لو کہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے ورنہ جھوٹاٹھہرے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ایسا ہی ارادہ کیا ہے اور خدا تعالیٰ کے کام کو کوئی روک نہیں سکتا.مسیح موعود جو نام رکھا ہے اور یَکْسِـرُ الصَّلِیْبَ اس کا کام مقرر فرمایا ہے.یہ اس لیے ہے کہ عیسائیت کا زمانہ ہوگا اور عیسائیت نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہوگا.چنانچہ اب دیکھ لو کہ تیس لاکھ کے قریب آدمی مُرتد ہو چکے ہیں.اور پھر ان مرتدین میں شیخ، سید، مغل، پٹھان ہر قوم ہر طبقہ کے لوگ ہیں.عورتیں بھی ہیں اور مرد بھی ہیں اور بچے بھی ہیں.کوئی شہر نہیں جہاں ان کی چھائونی نہ ہو اور انہوں نے اپنا سکّہ نہ جمایا ہو.یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے کہ حقیقی خدا کو چھوڑکر ایک بناوٹی اور مصنوعی خدابنایا جاوے اور اس کی پرستش ہو.پھر یہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے سچے نبی اور افضل الرسل پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی گئیں آپ کی شانِ پاک میں ہر قسم کی گستاخیاں اور ہر زہ گوئیاں روارکھی گئیں جن کو سن کر بدن پر لرزہ پڑجاتا ہے اور کوئی نیک انسان ان کو سُن ہی نہیں سکتا.جب ہم ان باتوںکو برداشت نہیں کرسکتے تو خدا تعالیٰ کی غیرت کب روارکھ سکتی ہے کہ یہ گالیاں اسی طرح پر دی جائیں اوراسلام کی دستگیری اور نصرت نہ ہو حالانکہ اس نے آپ وعدہ فرمایا تھا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الـحجر:۱۰) یہ کبھی نہیں ہوسکتا تھا کہ زمانہ کی یہ حالت ہو اور اللہ تعالیٰ باوجود اس وعدہ کے پھر خاموش رہے.بے باک اور شوخ عیسائی قرآن شریف کی یہاں تک بے ادبی کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ استنجے کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قِسم قِسم کے افترا باندھتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں اور وہ لوگ ان میں زیادہ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے گھروں میں جنم لیا اور مسلمانوں کے گھروں میں پرورش پائی اور پھر مُرتد ہو کر اسلام کی پاک تعلیم پر ٹھٹھا کرنا اپنا شیوہ بنا لیا ہے.یہ حالت بیرونی طور پر اسلام کی ہو رہی ہے اور ہر طرف سے اس پر تیر اندازی ہو رہی ہے.تو کیا یہ وقت خدا تعالیٰ کی غیرت کو
جو وہ اپنے پاک رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیےرکھتا ہے جوش میں لانے والا نہ تھا؟ اس کی غیرت نے جوش مارا اور مجھے مامور کیا.اس وعدہ کے موافق جو اس نے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر:۱۰) میں کیا تھا.۱ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس قدر تقریر فرمائی تھی کہ عصر کی اذان ہو گئی اور نواب صاحب اور مشیر اعلیٰ صاحب خاموش ہو گئے.حضرت نے فرمایا کہ اذان میں باتیں کرنی منع نہیں ہیں آپ اگر کچھ اور بات پو چھنا چاہتے ہیں تو پوچھ لیں کیونکہ بعض باتیں انسان کے دل میں ہوتی ہیں اور وہ کسی وجہ سے ان کو نہیں پوچھتا اور پھر رفتہ رفتہ وہ بُرا نتیجہ پیدا کرتی ہیں.جو شکوک پیدا ہوں ان کو فوراً باہر نکالنا چاہیے.یہ بُری غذاکی طرح ہوتی ہیں اگر نکالی نہ جائیں تو سوءِ ہضمی ہو جاتی ہے.جب یہ حضرت فرما چکے تو سلسلہ کلام حسب ذیل طریق پر شروع ہوا.(ایڈیٹر) مشیر اعلیٰ.میرے نز دیک اہم امور یہی تھے جو ان الفاظ کے متعلق میں نے پوچھے ہیں.نواب صاحب.حضرت کے اشتہار میں بھی یہی ہے اور زبانی بھی وہی ارشاد فرمایا ہے.حضرت اقدس.دراصل انسان کو بعض اوقات بڑے ہی مشکلات پیدا ہوتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے شاملِ حال نہ ہو تو وہ ان مشکلات میں پڑ کر ہدایت اور حقیقت کی راہ سے دور جا پڑتا ہے.یہودیوں کو بھی اسی قسم کے مشکلات پیش آئے.اُنہوں نے تورات میں بھی یہی پڑھا تھا کہ خاتم الانبیاء ان ہی میں ہوگا.وہ ان ظاہر الفاظ پر جمے ہوئے تھے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو ان کو آپ کے قبول کرنے میں بھی دقّت اور مشکل پیش آئی کہ خاتم الانبیاء تو ہم میں ہی سے ہو گا مگر ان کو یہی جواب ملا کہ تم نے جو کچھ سمجھاہے وہ غلط سمجھا ہے.آنے والا خاتم الانبیاء بنی اسمٰعیل میں سے ہونے والا تھا اور وہ بھی تمہارے بھائی ہیں.تم اس سوال پر مت جھگڑو بلکہ ضرورت اس اَمر
کی ہے کہ نبوت کے ثبوت دیکھو اس میں ہیں یا نہیں جبکہ انبیاء علیہم السلام کے خواص اور نشانات اس کے ساتھ ہیں تو پھر تمہیں ماننے میں کوئی عذر نہیں ہونا چاہیے.اسی طرح پر انہوں نے ملا کی نبی کی کتاب میں پڑھا ہو اتھا کہ حضرت عیسٰیؑ کے آنے سے پہلے ایلیا آسمان سے اُترے گا لیکن جب حضرت مسیح نے اپنادعویٰ پیش کیا تو اس وقت یہود اسی ابتلا میں پھنسے.انہوں نے مسیح سے یہی سوال پیش کیا کہ ایلیا کا آسمان سے آنا ضروری ہے.وہ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ سچ مچ وہی ایلیا آئے گا اور ایک طرح پر وہ یہ معنی سمجھنے میں حق پر تھے کیونکہ اس سے پہلے کوئی ایسا واقعہ اورنظیر ان میں موجود نہ تھی.لیکن حضرت مسیح نے یہی کہا کہ آنے والا ایلیا یوحنا بن زکریا کے رنگ میں آگیا ہے.وہ اس بات کو بھلا کب مان سکتے تھے.ایک یہودی نے اس مضمون پر ایک کتاب لکھی ہے اور وہ لوگوں کے سامنے اپیل کرتا ہے کہ ان واقعات کے ہوتے ہوئے ہم مسیح پر کس طرح ایمان لائیں بلکہ وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ اگر ہم سے مواخذہ ہوگا تو ہم ملا کی نبی کی کتاب کھول کر آگے رکھ دیں گے.مامور من اللہ کی شناخت کے معیار غرض ظاہر الفاظ پر آنے والے بعض اوقات سخت دھوکا کھا جاتے ہیں.پیشگوئیوں میں استعارات اور مجازات سے ضرور کام لیا جاتاہے.جو شخص ان کو ظاہر الفاظ پر ہی حمل کر بیٹھتا ہے اسے عموماً ٹھوکر لگ جاتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ ایسے موقع پر یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ آیا جو شخص خدا کی طرف سے آنے کا مدّعی ہے وہ ان معیاروں کے روسے سچا ٹھہرتا ہے یا نہیں جو راستبازوں کے لیے مقرر ہیں؟ پس اگر وہ ان معیاروں کے رُو سے صادق ثابت ہو تو سعادت مند اور متقی کا یہ فرض ہے کہ اس پر ایمان لاوے.سو یاد رکھنا چاہیے کہ انبیاء کی شناخت کے لیے تین بڑے معیار ہوتے ہیں.اوّل یہ کہ نصوصِ قرآنیہ اور حدیثیہ بھی اس کی مؤید ہیں یا نہیں.دوم اس کی تائید میں سماوی نشانات صادر ہوتے ہیں یا نہیں.سوم نصوصِ عقلیہ اس کے ساتھ ہیں یا نہیں یا آیا وقت اور زمانہ کسی ایسے مدعی کی ضرورت بھی بتاتا ہے یانہیں؟
ان تینوں معیاروں کو ملا کر جب کسی مامور اور راست باز کی نسبت غور کیا جائے گا تو حقیقت کھل جاتی ہے.میرا دعویٰ ہے کہ میں خدا کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہوں اب میرے دعوے کو پرکھ کر دیکھ لو کہ آیا یہ ان تین معیاروں کے رو سے سچا ثابت ہوتا ہے یا نہیں.سب سے پہلے دیکھنا چاہیے کہ کیا یہ وقت کسی مدّعی کی ضرورت کا داعی ہے یا نہیں؟ پس ضرورت تو ایسی صاف ہے کہ اس پر زیادہ کہنے کی ہمیں ضرورت ہی نہیں.اسلام پر اس صدی میں وہ وہ حملے کئے گئے ہیں جن کے سننے اور بیان کرنے سے ایک مسلمان کے دل پر لرزہ پڑتا ہے.سب سے بڑا فتنہ اس زمانہ میں نصاریٰ کا فتنہ ہے جنہوں نے اسلام کے استیصال کے واسطے کوئی دقیقہ فرو گذاشت ہی نہیں کیا ان کی کتابوں اور رسالوں اور اخباروں اور اشتہاروں کو جو اسلام کے خلاف ہیں اگر جمع کیا جاوے تو ایک بڑا پہاڑ بن جاتا ہے اور پھر تیس لاکھ کے قریب مُرتد ہو چکے ہیں.اس کے ساتھ آریوں،برہموئوں اور دوسرے آزاد خیال لوگوں کو ملالیا جائے تو پھر دشمنانِ اسلام کے حملوں کا وزن اور بھی بڑھ جاتا ہے.اب ایسی صورت میں کہ اسلام کو پائوں کے نیچے کچلا جارہا ہے.کیا ضرورت نہ تھی کہ خدا تعالیٰ اپنے سچے دین کی حمایت کرتا اور اپنے وعدہ کے موافق اس کی حفاظت فرماتا اور اگر عام حالت کو دیکھا جائے تو وہ ایسی خراب ہے کہ اس کے بیان کرنے سے بھی شرم آتی ہے.فسق وفجور کا وہ حال ہے کہ علانیہ بازاری عورتیں بدکاری کرتی ہیں.معاملات کی حالت بگڑی ہوئی ہے.تقویٰ و طہارت اُٹھ گیا.وہ لوگ جو اسلام کے حامی اور محافظِ شرعِ متین کہلاتے تھے اُن کی خانہ جنگی اور اپنی عملی حالت کی کمزوری نے اور بھی ستم برپاکر رکھا ہے عوام جب ان کی حالت بد دیکھتے ہیں تو وہ حدود اللہ کے توڑنے میں اور بھی دلیری سے کام لیتے ہیں.غرض اندرونی اور بیرونی حالت بہت ہی خطرناک ہو رہی ہے.پھر دیکھنا ہے کہ آیا قرآنِ شریف اوراحادیثِ صحیحہ میں کسی آنے والے کا وعدہ دیا گیا ہے سو قرآنِ شریف نے بڑی وضاحت کے ساتھ دو سلسلوں کا ذکر کیا ہے ایک وہ سلسلہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت مسیح علیہ السلام پر آکر ختم ہوا اور دوسرا سلسلہ جو اسی
سلسلہ کے مقابل پر واقع ہوا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ ہے چنانچہ تورات میں بھی آپ کو مثیلِ موسیٰ کہا گیا اور قرآن شریف میں بھی آپ کو مثیلِ موسیٰ ٹھہرایا گیا جیسے فرمایا ہے.اِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا١ۙ۬ شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا (المزمل:۱۶) پھر جس طرح پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سلسلہ حضرت مسیح علیہ السلام پرآکر ختم ہو گیا.اسی سلسلہ کی مماثلت کے لیے ضروری تھا کہ اسی وقت اور اسی زمانہ پر جب حضرت مسیحؑ حضرت موسٰی کے بعد آئے تھے مسیح محمدی بھی آتا اور یہ بالکل ظاہر اور صاف بات ہے کہ مسیح موسو ی چو دہویں صدی میں آیا تھا.اس لیے ضروری تھا کہ مسیح محمدی بھی چو دہویں صدی میں آتا.اگر کوئی اور نشان اور شہادت نہ بھی ہوتی تب بھی اس سلسلہ کی تکمیل چاہتی تھی کہ اس وقت مسیح محمدی آوے مگر یہاں تو صدہا اور نشان اور دلائل ہیں.پھر آنے والے کو اسی اُمّت میں سے ٹھہرایا گیا ہے جیسے وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ(النّور:۵۶)میں فرمایاگیا ہے اور اسی طرح پر احادیث میں بھی آنے والا اسی اُمّت سے ٹھہرایا گیا ہے جبکہ فرمایا ہے وَ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ.اب نصوصِ قرآنیہ اور حدیثیہ بو ضاحت شہادت دیتے ہیں کہ آنے والا مسیح موعود اسی اُمّت میں سے ہوگا اور ضرورت بجائے خود داعی ہے کیونکہ اسلام پر سخت حملے ہو رہے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ جہاں تک ان مخالفوں کا بس چلے اسلام کو نابود کردیں.پھر دیکھنے کے قابل یہ بات ہے کہ اس کے آنے کا وقت کون سا ہے.سلسلہ موسوی کے ساتھ مماثلتِ تامّہ کا تقاضا صاف طور پر ظاہر کرتا ہے کہ آنے والا مسیح موعود جو اسی اُمّت میں سے ہوگا.چودہویں صدی میں آنا چاہیے.اس کے علاوہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے آنے کا وہ وقت ہے جبکہ صلیب پرستی کا غلبہ ہوگا کیونکہ کسرِ صلیب اس کا کام ٹھہرایا گیا ہے.ان سب کے علاوہ ایک انقلاب عظیم کی خبر قرآن شریف سے معلوم ہوتی ہے کہ وہ اس وقت آئے گا.وہ انقلاب کیا ہے؟سواری بھی بدل جاوے گی.اونٹوں اور اونٹنیوں کی سواریاں بیکار ہو جائیں گی.اب دیکھو کہ ریلوے کی ایجاد نے اس پیشگوئی کو کس طرح پورا کیا ہے اور اب تو یہ حال ہے کہ حجاز ریلوے جو بن
رہی ہے تو تھوڑے ہی عرصہ میں مدینہ اور مکّہ کے درمیان بھی ریل ہی دوڑتی نظر آئے گی اور پھر اخبارات اور رسالہ جات کی اشاعت کے اسباب کا پیدا ہوجانا جیسے پریس ہے ڈاک خانہ ہے اور تاروں کے ذریعہ سے کل دنیا ایک شہر کے حکم میں ہوگئی ہے.دریا چیرے گئے ہیں اور نہریں نکالی جا رہی ہیں.طبقاتُ الارض کے عالموں نے زمین کے طبقات کو کھود ڈالا ہے غرض وہ تمام ایجادات اور علوم وفنون کی ترقیاں جو مسیح موعود کے زمانہ کی علامتوں میں سے قرار دی گئی تھیں وہ پوری ہو رہی ہیں اور ہو چکی ہیں.اس کے بعد انکار اور شُبہ کی کون سی گنجائش باقی رہتی ہے اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی کا آنا اور مامور ہونا افسوس ناک بات نہیں بلکہ افسوس ناک یہ اَمر ہوتا اگر کوئی مامور ہو کر نہ آیا ہوتا.ان علامات اور نشانات کو چھوڑ کر ایک اور بات بھی اس کی تائید میں ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام اولیاء اللہ اور اکابرِاُمّت جو پہلے ہو گذرے ہیں انہوں نے قبل از وقت میرے آنے کی خبر دی ہے.بعض نے میرا نام لے کر پیشگوئی کی ہے اور بعض نے اور الفاظ میں بھی کی ہے.ان میں سے شاہ نعمت اللہ ولی نے شہادت دی ہے اور میرا نام لے کر بتایا ہے.اسی طرح پر ایک اہل اللہ بزرگ گلاب شاہ مجذوب تھے جنہوں نے ایک شخص کریم بخش ساکن جمالپور ضلع لودھیانہ سے میرا نام لے کر پیشگوئی کی ہے اور اس نے کہا کہ وہ قادیان میں ہے کریم بخش کو قادیان کا شبہ پڑا کہ شاید لودھیانہ کے قریب کی قادیان میں ہوں.مگر آخر اس نے بتایا کہ یہ قادیان نہیں اور اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ لودھیانہ میں آئے گا اور مولوی اس کی مخالفت کریں گے.چنانچہ اس کا یہ سارا بیان چھپ چکا ہے اور کُل گائوں کریم بخش کی راست بازی اور نیکو کاری کی شہادت دیتاتھا اور جس وقت وہ بیان کرتا تھا تو رو پڑتا تھا.اس نے گلاب شاہ سے یہ بھی کہا کہ عیسٰیؑ تو آسمان سے آئے گا اس نے جواب دیا کہ جو آسمان پر چلا جاتا ہے وہ پھر واپس نہیں آیا کرتا.اس پیشگوئی کے موافق کریم بخش میری جماعت میں داخل ہوا.بہت سے لوگوں نے اس کو روکا اور منع بھی کیامگر اس نے کہا کہ میں کیا کروں یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ہے میں اس شہادت کو کیوں کر چھپائوں.غرض اس طرح پر بہت سے اکابر ِامّت گذرے ہیں جنہوں نے میرے لیے پیشگوئی کی
اور پتہ بتایا.بعض نے تاریخ پیدائش بھی بتائی جو چراغ دین ۱۲۶۸ھ ہے.اوراس کے علاوہ وہ نشان جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے تھے وہ بھی پورے ہوگئے.منجملہ ان کے ایک کسوف وخسوف کا نشان تھا.جب تک کہ یہ کسوف وخسوف کا نشان نہیں ہوا تھا یہ مولوی جو اَب میری مخالفت کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تکذیب کررہے ہیں اس کی سچائی کے قائل تھے اور یہ نشان بتاتے تھے کہ مسیح ومہدی کا یہ نشان ہوگا کہ رمضان کے مہینہ میں سورج اور چاند کو گرہن ہوگا.لیکن جب یہ نشان میرے دعوے کی صداقت کی شہادت کے لیے پورا ہو گیا تو پھر جس منہ سے اس کا اقرار کیا کرتے تھے اسی منہ سے انکار کرنے والے ٹھہرے.کسی نے تو سرے سے اس حدیث ہی کا انکار کردیا اور کسی نے اپنی کم سمجھی اور نادانی سے یہ کہہ دیا کہ چاند کی پہلی تاریخ کو گرہن ہونا چاہیے حالانکہ پہلی رات کا چاند تو خود گرہن ہی میں ہوتا ہے اور علاوہ بریں حدیث میں تو قمر کا لفظ ہے جو پہلی رات کے چاند پر بولا ہی نہیں جاتا.غرض اس طرح پر جس قدر نشان تھے وہ پورے ہوگئے مگر یہ لوگ ہیں کہ محض میری مخالفت کی وجہ سے خدا تعالیٰ اور اس کے سچے اور پاک رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی انکار کررہے ہیں اور آپ کی تکذیب کی بھی کچھ پروا نہیں کرتے.ان نشانات اور علامات کے بعد پھر یہ بات بھی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے کہ کیا مدّعی کے اپنے ہاتھ پر کوئی نشان اس کی تصدیق کے لیے ظاہر ہوا ہے یا نہیں؟اس کے لیے میں کہتا ہوں کہ اس قدر نشان اللہ تعالیٰ نے ظاہر کئے ہیں کہ ان کی تعداد ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں تک پہنچی ہوئی ہے اور اگر میری جماعت کو خدا تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھا جائے تو میں امید نہیں کرتا کہ کوئی شخص ایک بھی ایسا نکلے جو یہ کہے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا اور پھر یہ کہ نشانوں کی بارش برس رہی ہے.اولیاء اللہ کی اسی لیے حُرمت اور تکریم کی جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق رکھتے ہیں.اس تعلق کا ایک زندہ اور سچا نمونہ پیش کرتے ہیں یعنی خوارق کا صدور ان سے ہوتا رہتا ہے اور نشانات ہی سے وہ واجب العزّت ہوتے ہیں.پھر اس صورت میں مجھے حق ہے کہ وہ لوگ جو میری اس بات سے کہ میں امام حسین سے افضل ہوں گھبراتے ہیں بجائے اس کے کہ مجھ
پر اعتراض کریں صاف طور پر میرے مقابلہ میں آئیں.میں ان سے پوچھوں گا کہ جس قسم کے نشانات میں اپنی سچائی اور منجانب اللہ ہونے کے پیش کرتا ہوں.اس قسم کے نشانات تم بھی پیش کرو اور پھر اسی قدر تعداد میں دکھائو.میں مرثیہ نہیں سنوں گا بلکہ نشانات کا مطالبہ کروں گا.جس کو حوصلہ ہے اور جو امام حسین کو سجدے کرتے ہیں وہ ان کے خوارق اور نشانات کی فہرست پیش کریں اور دکھائیں کہ کس قدر لوگ ان واقعات کے گواہ ہیں.اس مقابلہ میں یقیناًیہ ماننا پڑے گا کہ واقعات میں قافیہ تنگ ہے.مبالغہ سے ایک بات کو پیش کردینا اَور ہے اور حقیقی طور سے واقعات کی بنا پر اسے ثابت کر دکھانا مشکل ہے.اصل بات یہ ہے کہ جو خدا تعالیٰ کا سچا پرستار ہے اسے کسی دوسرے سے کیا واسطہ؟ضرورت اس اَمر کی ہے کہ یہ ثابت کیا جاوے کہ آیا وہ شخص جو خدا کی طرف سے ہونے کا مدّ عی ہے اپنے ساتھ دلائل اور نشانات بھی دکھاتا ہے یا نہیں.جب ثابت ہو جاوے کہ وہ واقعی خدا کی طرف سے ہے تو اس کافرض ہے کہ اپنی ارادت کو منتقل کرے.غرض یہ تین ذریعے ہیں جن سے ہم کسی مامور من اللہ کو شناخت کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں.میرا سلسلہ منہاجِ نبوت پر قائم ہوا ہے.اس منہاج کو چھوڑ کر جو اس کو آزمانا چاہے وہ غلطی کھاتا ہے اور اس کو راہ ِراست مل نہیں سکتالیکن منہاجِ نبوت پرمیرے ساتھ دلائل وبراہین اور آیات اللہ کا زبردست لشکر ہے اگر کوئی اس پر بھی نہ مانے تو میں مجبور نہیں کرسکتا.یہ کاروبار اور سلسلہ میرا قائم کردہ تو ہے نہیں.خدا نے اس کو قائم کیا ہے اور وہی اس کی اشاعت کر رہا ہے.انسانی تجاویز اور منصوبے چل نہیں سکتے آخر تھک کر رہ جاتے ہیں.وہ شخص بڑا ہی ظالم اور خبیث ہے جو خود ایک بات گھڑ لیتا ہے اور پھر لوگوں کو کہتا ہے کہ مجھ کو وحی ہوئی ہے.ایسے لوگ دنیا میں کبھی بامراد اور کامیاب نہیں ہوسکتے.خدا تعالیٰ ایسے مفتری اور ظالم کو مہلت نہیں دیتا.لیکن اگر ایک شخص خدا تعالیٰ کا نام لے کر ایک وحی پیش کرتا ہے اور خدا تعالیٰ اسے سچا کرتا ہے اور اس کی تائید ونصرت کررہا ہے تو پھر اس سے انکار کرنا اچھا نہیں.پس انسان کو چاہیے کہ شپّر کی طرح نہ ہو.عجب روشنی اس وقت
پھیل رہی ہے.اس سے منہ موڑنا خوب نہیں ہر شخص جو اعتراض اور نکتہ چینیاںرکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اس دروازہ پر بیٹھ کر اپنے شکوک کو رفع کرے لیکن جو یہاں تو بیٹھتا نہیں اور دریافت نہیں کرتا اور گھر جا کر نکتہ چینیاں کرتا ہے وہ خدا کی تلوار کے سامنے آتا ہے جس سے وہ بچ نہیں سکتا.دیکھو افترا کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور مفتری ہمیشہ خائب و خاسر رہتا ہے.قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰى(طٰہٰ:۶۲) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ اگرتو افترا کرے توتیری رگِ جان ہم کاٹ ڈالیں گے اور ایسا ہی فرمایا مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا (الانعام:۲۲) ایک شخص ان باتوں پر ایمان رکھ کر افترا کی جرأت کیوںکر کر سکتا ہے.ظاہری گورنمنٹ میں ایک شخص اگر فرضی چپڑاسی بن جائے تو اس کو سزا دی جاتی ہے اور وہ جیل میں بھیجا جاتا ہے تو کیا خدا ہی کی مقتدر حکومت میں یہ اندھیر ہے کہ کوئی شخص جھوٹادعویٰ مامورمن اللہ ہونے کا کرے اور پکڑانہ جائے بلکہ اس کی تائید کی جائے.اس طرح تو دہریت پھیلتی ہے.خدا تعالیٰ کی ساری کتابوں میں لکھا ہے کہ مفتری ہلاک کیا جاتا ہے.پھر کون نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ ۲۵ سال سے قائم ہے اور لاکھوں آدمی اس میں داخل ہو رہے ہیں یہ باتیں معمولی نہیں بلکہ غور کرنے کے قابل ہیں.محض ذاتی خیالات بطور دلیل مانے نہیں جاسکتے.ایک ہندو جو گنگا میں غوطہ مار کر نکلتا ہے اور کہتا ہے کہ میں پاک ہو گیا.بِلا دلیل اس کو کون مان لے گا؟ بلکہ اس سے دلیل مانگے گا.پس میں نہیں کہتا کہ بِلا دلیل میرا دعویٰ مان لو.نہیں منہاجِ نبوت کے لیے جو معیار ہے اس پر میرے دعویٰ کو دیکھو.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں خدا سے وحی پاتا ہوں اور منہاجِ نبوت کے تینوں معیار میرے ساتھ ہیں اور میرے انکار کے لیے کوئی دلیل نہیں.۱ ۱۳؍جنوری ۱۹۰۴ء (گورداسپور) صبح کے وقت منشی محمد اروڑاصاحب نقشہ نویس ریاست کپورتھلہ نے حضرت اقدس سے نیاز حاصل کی ۱ الحکم جلد ۸ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰ ؍اپریل ۱۹۰۴ ءصفحہ ۳ تا ۷ نیز البدرجلد ۳ نمبر ۲۰، ۲۱ مورخہ ۲۴؍ مئی و یکم جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۳ تا ۵
آپ نے فرمایا کہ میں نے آواز تو رات کو ہی شناخت کرلی تھی مگر طبیعت کو تکلیف تھی اس لیے بُلا نہ سکا.منشی صاحب موصوف نے جناب خان صاحب محمد خان صاحب افسر بگی خانہ سرکار کپور تھلہ مرحوم کی وفات کا واقعہ سنایا جس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ نیکی کرنے والے کی اولاد کو بھی اس کی نیکی کا حصّہ ملتا ہے.یہ دنیا فنا کا مقام ہے اگر ایک مَر جاتا ہے تو پھر دوسرے نے کون سا ذمہ لیاہے کہ وہ نہ مَریں گے.دُنیا کی وضع ایسی ہی ہے کہ آخر کار قضا و قدر کو ماننا پڑتا ہے.دنیا ایک سَرا ہے اگر اس میں آتے ہی جاویں اور نہ نکلیں تو کیسے گزارہ ہو.انبیاء کے وجود سے زیادہ عزیز کوئی دوسرا وجود قدر کے لائق نہیں لیکن آخر ان کو بھی جانا پڑا.موت کے وقت اوّل انسان کو دہشت ہو تی ہے مگر جب مجبوراً وقت قریب آتا ہے تو اسے قضا و قدر پر راضی ہونا پڑتا ہے اور نیک لوگوں کے دلوں سے تعلقات دنیاوی خود اللہ تعالیٰ توڑدیتا ہے کہ ان کو تکلیف نہ ہو.۱ ۱۳؍جنوری کو بمقام گورداسپور مولوی غلام حسین صاحب احمدی امام مسجد گمٹی بازار لاہور نے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام سے آپ کی لاہور میں تشریف آوری کے لئے دریافت کیا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ لاہور میں جانے کی کوئی تاریخ تو مقرر نہیں ہے بشرط صحت اگر کوئی موقع ہوا تو میرا اپنا ارادہ ہے کہ وہاں جا کر زبانی طور پر تبلیغ کی جاوے لیکن خدا کا ارادہ غالب ہے مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ (التکویر:۳۰) زبانی تبلیغ سنّتِ انبیاء ہے اگر موقع نکل آیا تو اپنا دعویٰ اور لوگوں کے اعتراضوں کی حقیقت کو بیان کیا جاوے اور یہ حصّہ پورا ہو کر اتمامِ حجّت ہو جاوے لیکن یہ اَمر ضروری ہے کہ طبیعت اچھی ہو.۱البدر جلد ۳نمبر۴مورخہ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۶
اس سے یہ مطلب میرا نہیں ہے کہ وہاں کے لوگ ضرور مان لیں، کوئی مانے نہ مانے، ہمارا مقصود کان تک آواز کو پہنچا دینا ہے بہت لوگ ہیں کہ اب تک گالیاں دیتے ہیں.عیسیٰ علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کو گالیاں دینے والے اب تک موجود ہیں.پس اگر وہ بھی بجائے فائدہ اٹھانے کے گالیاں دیویں تو کون سا تعجب ہے.افسوس آتا ہے کہ ہم نے کون سی ایسی بات کی ہے جس پر یہ حملہ کیا جاتا ہے.دو شَے تھیں.ایک کتاب اللہ و سنّت اللہ دوسرے احادیث صحیحہ.کتاب اللہ ہر صورت میں مقدم ہے.احادیث کی عظمت یہاں تک ہمارے نزدیک ہے کہ خفیف سے خفیف حدیث پر بھی ہم عمل کرتے ہیں بشرطیکہ خلاف کتاب اللہ نہ ہو.اب غور کا مقام ہے کہ اگر احکام وغیرہ میں نسخ ہو تو ہو سکتا ہے.بھلا قصّوں میں نسخ کا ہونا کب ممکن ہے.اس صورت میں اگر قرآن شریف ایک واقعہ کو بیان کرے اور حدیث اس کا انکار کرے تو یہ بات کب مانی جا سکتی ہے کہ حدیث درست ہو.جیسے وفاتِ مسیح کا ایک واقعہ ہے کہ جسے قرآن شریف نے بیان کیا ہے.لیکن الحمد للہ کہ احادیث وفاتِ مسیح میں قرآن کی موافق ہیں مخالف نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کبھی یہ لفظ نہیں نکلا کہ مسیح آسمان پر اُڑ گیا.پھر جبکہ اس کا صعود بھی ثابت نہیں تو نزول کس کا ہو.پھر آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ کھول کر وفات ثابت کر رہی ہے.اگر وہ دوبارہ دنیا میں آکر رہے تو اب اپنے علم اور آنے کو کیوں چھپاتے ہیں کہ خدا کے سامنے لا علمی بیان کرتے ہیں.پس آیت نے صرف یہی نہیں کیا کہ وفات ثابت کر دی بلکہ دوبارہ آنے کا بھی ثبوت دے دیا ہے پھر بخاری اور مسلم میں مِنْکُمْ ہے قرآن میں بھی مِنْکُمْ ہے کہ آنے والا تمہارے اندر سے ہی آوے گا ان لوگوں میں تقویٰ ہی نہیں ہے اگر تھوڑا سا بھی تقویٰ لے کر آویں تو اور ہمارے دعاوی کو سنیں تو شاید ہدایت ہو.۱۱البدر جلد ۳ نمبر ۴ مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۳۹
۳۰؍جنوری۱۹۰۴ء (بعد نماز مغرب) خدا تعالیٰ پر سچے ایمان کی ضرورت طاعون کا ذکر ہوتا رہا کہ اب فروری کا مہینہ آگیا ہے اس کا زور ہوگا چنانچہ مختلف مقامات سے اس کی خبریں آنی شروع ہو گئی ہیں.فرمایا کہ ضروری بات خدا شناسی ہے کہ خدا کی قدرت اور جزا سزا پر ایمان ہو.اسی کی کمی سے دنیا میں فسق و فجور ہو رہا ہے لوگوں کی توجہ دنیا کی طرف اور گناہوں کی طرف بہت ہے دن اور رات یہی فکر ہے کہ کسی طرح دنیا میں دولت، وجاہت، عزّت ملے.جس قدر کوشش ہے خواہ کسی پیرایہ میں ہی ہو مگر وہ دنیا کے لیے ہے خدا کے لیے ہرگز نہیں.دین کا اصل لُب اور خلاصہ یہ ہے کہ خدا پر سچا ایمان ہو مگر اب مولوی وعظ کرتے ہیں تو ان کے وعظ کی بھی علّتِ غائی یہ ہوتی ہے کہ اسے چار پیسے مل جائیں جیسے ایک چور باریک در باریک حیلے چوری کے لیے کرتا ہے ویسے ہی یہ لوگ کرتے ہیں ایسی حالت میں بجُز اس کے کہ عذابِ الٰہی نازل ہو اور کیا ہوسکتا ہے.ایک اعتراض ہم پر یہ ہوتا ہے کہ اپنی تعریف کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مُطہَّرو بر گزیدہ قرار دیتے ہیں.اب لوگوں سے کوئی پوچھے کہ خدا تعالیٰ جو اَمر ہمیں فرماتا ہے کیا ہم اس کی نافرمانی کریں.اگر ان باتوں کا اظہار نہ کریں تو معصیت میں داخل ہو.قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کیا کیا الفاظ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان میں فرمائے ہیں.ان لوگوں کے خیال کے مطابق تو وہ بھی خود ستائی ہو گی.خود ستائی کرنے والا حق سے دور ہوتا ہے مگر جب خدا تعالیٰ فرمائے تو پھر کیا کیا جائے.یہ اعتراض ان نادانوں کا صرف مجھ پر ہی نہیں ہے بلکہ آدم سے لے کر جس قدر نبی، رسول، اَزکِیا اور مامور گزرے ہیں.سب پر ہے.ذرا غور کرنے سے انسان سمجھ سکتا ہے کہ جسے خدا تعالیٰ مامور کرتا ہے ضرور ہے کہ اس کے لیے اجتبا اوراصطفا ہو اور کچھ نہ کچھ اس میں ضرور خصوصیت چاہیے کہ خدا تعالیٰ کل مخلوق میں سے اسے بر گزیدہ کرے.خدا کی نظر خطا جانے والی نہیں ہوتی.پس جب وہ کسی کو منتخب کرتا ہے وہ معمولی آدمی نہیں ہوتا.
قرآن شریف میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ (الانعام:۱۲۵) اس سوال کا آخر ماحصل یہ ہے کہ وہ ہمیں مفتری کہیں گے مگر پھر ان پر سوال ہوتا ہے کہ عجب خدا ہے کہ اس قدر عرصہ دراز سے برابر افترا کا موقع دئیے چلا جاتا ہے اور جو کچھ ہم کہتے ہیں وہی وقوع میں آتا ہے.اگر مفتریوں کے ساتھ خدا کے یہ سلوک ہیں اور اس طرح سے ان کی تائید اور نصرت کی جاتی ہے جیسے کہ ہماری تو پھر کل انبیاء کو بھی انہیں مفتری قرار دینا پڑے گا.وہی علامات اور براہین جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں آپ کی صداقت کے نشان اور دلیل تھے وہی اب بھی موجود ہیں جسے خدا تعالیٰ منتخب کرے اگر وہ اس کی تعریف نہ کرے تو کیا گندا کہے؟اس سے خدا پر حرف آتا ہے کہ اس کا انتخاب گندا ٹھہرتا ہے.اگر دنیا کے مجازی حکامِ اعلیٰ کو بھی دیکھو تو وہ بھی حتی الوسع کمشنری، لفٹینٹی، ڈپٹی کمشنری وغیرہ کے عہدوں کے لیے انہیں کو انتخاب کرتے ہیں جو کہ ان کی نظر میں لائق ہوتے ہیں.اگر وہ حکّامِ اعلیٰ کی نظر میں نالائق اور ذمہ داریوں کی بجاآوری کے ناقابل ہوں تو انتخاب نہیں کئے جاتے.پس اسی طرح مامورین وغیرہ خدا تعالیٰ کی نظروں میں نالائق اور نکمّے اور اشقیاء ہوں تو پھر لوگوں کو مزکّی بنانے کی خدمت ان سے کیسے لی جاوے.یہ ایک نکتہ ہے کہ ان کا جو اعتراض ہوتا ہے وہ صرف میری ذات پرنہیں ہوتا بلکہ عام ہوتا ہے کہ آدم سے لے کر جس قدر نبی اس وقت تک گذرے ہیں.سب اس میں شامل ہوتے ہیں.بھلا وہ ایک اعتراض کرکے تو دکھلاویں جو سابقہ انبیاء میں سے کسی پر نہ ہوا ہو.اصل بات یہ ہے کہ ایمان کے لوازم تمام اس وقت ردّی ہوگئے تھے.دل حلاوت ایمان سے خالی ہیں.دنیا کی زیب وزینت کے خیال نے دلوں پر تصرّف کر لیا ہے ایک گہرے بحرِ ظلمات میں لوگ پڑے ہوئے ہیں.اس وقت بڑی ضرورت اور احتیاج اس اَمر کی ہے کہ وہ تقویٰ جس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور کتاب اللہ نازل ہوئی،حاصل ہو.ایک مُردہ ایمان لوگوں کے پاس ہے.اس لیے اس ایمان کی کوئی نشانی بھی ہاتھ میں نہیں ہے اور اسی باعث سے یہ وبال ان لوگوں پر ہے.پھر کہتے
ہیں کہ کیا ہم نماز ادا نہیں کرتے،روزہ نہیں رکھتے، کلمہ نہیں پڑھتے.ان کم بختوں کو اتنی خبر نہیں کہ جب آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے تو یہود بھی تو سب عبادتیں کرتے تھے پھر وہ کیوں مغضوب ہوئے؟ ان کی نہایت بد قسمتی اور شقاوت ہے کہ بھلا دیا ہے کہ اسلام کیا ہے، دین کیا ہے.کب کہا جاتا ہے کہ فلاں متقی ہے،فلاں مومن ہے.صرف چھلکے اور پوست پر نازاں ہیں اور مغز کو ہاتھ سے کھو دیا ہے جو کہ دین کی اصل روح ہے.اب خدا چاہتا ہے کہ وہ روح دوبارہ پیدا کرے.اگر ان لوگوں میں تقویٰ اور معرفت ہو تو یہ اعتراض کرکے خود ہی نادم ہوں.سوادِاعظم کی حقیقت ایک یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سوادِاعظم حیاتِ مسیح کا قائل ہے.اگر سوادِاعظم کے یہ معنے ہیں کہ ایک گروہ کثیر ایک طرف ہو تو اس کی بات سچی ہوتی ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت یہود و عیسائی قوم کا بھی سوادِاعظم تھا.وہ اہلِ کتاب ہی تھے.بڑے بڑے عالم، فاضل، عابد ان میں موجود تھے.ان کے معیار سے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ان کی شہادت معتبر مان لینی چاہیے.اصل سوادِاعظم وہ لوگ ہیں جو حقیقی طور پر اللہ کو مانتے ہیں اورعلیٰ وجہ البصیرت خدا تعالیٰ پر ان کا ایمان ہے اور ان کی شہادت معتبر ہوتی ہے.بھلا سوچ کر دیکھو کہ جس راہ میں بچھو، سانپ اور درندے وغیرہ ہوں.کیا دس ہزار اندھے اس کی نسبت کہیں کہ یہ راہ اختیار کرو توکوئی ان کی بات مانے گا؟اور جو ان کے پیچھے چلیں گے وہ سب مَریں گے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں علیٰ وجہ البصیرت بلاتا ہوں اگرچہ آپ ایک فرد واحد تھے لیکن آپ کے مقابل ہزارہا منکرین کی بات قابلِ اعتبار نہ تھی جو آپ کی مخالفت کرتے تھے.اب اس وقت ایک سوادِ اعظم نہیں ہے بلکہ کئی سوادِاعظم ہیں.افیونیوں، بھنگیوں، چرسیوں، شرابیوں وغیرہ کا بھی ایک سوادِ اعظم ہے.مخلوق پرستوں کا بھی ایک سوادِاعظم ہے توکیاان لوگوں کے اقوال کو سند پکڑا جاوے.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.قَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ (سبا:۱۴)
کہ شاکر اور سمجھدار بندے ہمیشہ کم ہوتے ہیں جو کہ حقیقی طور پر قرآن پر چلنے والے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ان کو اپنی محبت اور تقویٰ عطا کیا ہے وہ خواہ قلیل ہوں مگر اصل میں وہی سوادِاعظم ہے.اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو اُمَّۃٌ کہا ہے.حالانکہ وہ ایک فرد واحد تھے مگر سوادِ اعظم کے حکم میں تھے.یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ جو لوگ شرارتوں، منصوبوں اور حیلہ بازیوں میں رہتے ہیں.ان کا عمل ایک بالشت بھی آسمان پر جا سکے اور وہ ان نیک بندوں کے برابر ہوں،جن کی عظمت خدا کی نظر میں ہے.عبد اللطیف کی ہی ایک نظیر دیکھ لو کہ بار بار موقع ملا کہ جان بچاوے مگر اس نے یہی کہا کہ میں نے حق کو پالیا اس کے آگے جان کیا شَے ہے.سوچ کر دیکھو کیا جھوٹ کے واسطے دیدہ و دانستہ کوئی جان جیسی عزیز شَے دے سکتا ہے.اکثر یت کی بد نصیبی ایک بد نصیبی ان لوگوں کی یہ ہے کہ آکر صحبت حاصل نہیں کرتے اور دور دور رہتے ہیں.ان کے اسلام کی مثال ایک تصویر کی مثال ہے کہ اس میں نہ ہڈی، نہ گوشت، نہ پوست،نہ خُون،نہ روح اور پھر اسے انسان کہا جاتا ہے.اپنی کثرت پر ناز کرتے ہیں.کتاب اللہ کی عزّت نہیں کرتے حالانکہ اس کثرت پرآنحضرتؐنے لعنت کی ہے.آپ نے دو گروہوں کا ذکر کیا ہے ایک اپنا اور ایک مسیح موعود کا اور درمیانی زمانہ کو جس میں ان کی تعداد کروڑوں تک پہنچی اور کثرت ہوئی، فیجِ اعوج کہا ہے پھر اصل میں یہ کثرت بھی نہیں ہے خود ان میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے.ہر ایک کا الگ الگ مذہب ہے.ایک دوسرے کی تکفیر کررہا ہے.جب یہ حال ہے تو خدا کی طرف سے کوئی فیصلہ کرنے والا نہ آوے گا؟خود انہی میں سے ہیں جو مانتے چلے آئے ہیں کہ مسیح اسی اُمّت میں سے ہوگا حدیثوں میں اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ موجود ہے.سورہ نور میں مِنْکُمْ ہے.معراج میں آپؐنے اسرائیلی مسیح کا حلیہ اور دیکھا اور آنے والے اپنے مسیح کا اور حُلیہ بتلایا.پھر کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتر سب انبیاء فوت ہو چکے ہیں.ان تمام ثبوتوں کے بعد اَور ان کو کیا چاہیے.۱ ۱الحکم جلد ۸نمبر۶مورخہ۱۷؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ۱،۲ والبدر جلد ۳نمبر۶ مورخہ ۸؍فروری ۱۹۰۴ء و نمبر ۷ مورخہ ۱۶؍فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۲
۳۱؍جنوری ۱۹۰۴ء (صبح کی سیر) عذاب ِالٰہی کی ضرورت وَ اِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا (بنی اسـرآءیل:۵۹) یہ اسی زمانہ کے لیے ہے کیونکہ اس میں ہلاکت اور عذاب مختلف پیرایوں میں ہے کہیں طوفان ہے، کہیں زلزلوں سے، کہیں آگ کے لگنے سے.اگرچہ اس سے پیشتر بھی یہ سب باتیں دنیا میں ہوتی رہی ہیں مگر آج کل ان کی کثرت خارِق عادت کے طور پر ہو رہی ہے جس کی وجہ سے یہ ایک نشان ہے اس آیت میں طاعون کا نام نہیں ہے.صرف ہلاکت کا ذکر ہے خواہ کسی قسم کی ہو.یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس قوت اور پوری توجہ سے لوگوں نے دنیا اور اس کے ناجائز وسائل کو مقدم رکھا ہوا ہے اور عظمتِ الٰہی کو دلوں سے اُٹھا دیا ہے.اب صرف وعظوں کا کام نہیں ہے کہ اس کا علاج کرسکیں عذابِ الٰہی کی ضرورت ہے.بابو شاہدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور عذاب سے بھی لوگ عبرت نہیں پکڑتے.کہتے ہیں کہ ہمیشہ بیماریاں وغیرہ ہوا ہی کرتی ہیں.فرمایا.قرآنِ شریف میں طوفانِ نوح کا ذکر ہے.بجلی کا ذکرہے اور یہ سب حادثات دنیا میں ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں.کیا ان کے نزدیک یہ عذابِ الٰہی نہ تھے جن کا ذکر خدا تعالیٰ نے کیا ہے اور ان سب کا ہمیشہ دنیا میں وجود رہتا ہے مگر جب کثرت ہو اور ہولناک صورت سے ظاہر ہوں اور ایک دنیا میں تہلکہ پڑ جاوے تب یہ نشان ہیں.وحی بھی اسی طرح سے ہمیشہ سے ہے.ہمیشہ لوگوں کو سچے خواب آتے ہیں تو پھر انبیاء کی خصوصیت کیا ہوئی.خصوصیت ہمیشہ کثرت اور درجہ کمال سے ہوتی ہے.اب اس وقت جو ہلاکت مختلف طور سے ہو رہی ہے اس کی نظیر یہ دکھلا دیں.گذشتہ دنوں میں عالی جناب احسان علی خانصاحب برادر نواب محمد علی خانصاحب مالیر کوٹلہ سے تشریف لائے تھے.انہوں نے حضرت اقدس سے نیاز بھی حاصل کی تھی اور آپ نے ایک جامع تقریر بھی
اس وقت فرمائی تھی جس سے ان کے اکثر شبہات وشکوک کا قلع قمع ہوا تھا.انہیں کا ذکر ہوتا رہا کسی کی طرف سے یہ اعتراض بھی پیش ہوا کہ ان کے ایک مصاحب نے یہ کہا ہے کہ ابھی مہدی و مسیح کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ لوگ نمازیں پڑھتے ہیں.اس پر آپؑنے فرمایا کہ عام طور پر دلوں میں دہریت گھر کر گئی ہے.لاکھوں مسلمان عیسائی ہو گئے ہیں.صلیبی فتنہ بڑھ رہا ہے.اگر اب بھی ضرورت نہیں تو کیا یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کا نام ونشان نہ رہے اس کی تو وہی مثال ہے کہ ایک میّت موجود ہو اس میں روح کا نام ونشان نہ ہو اور صرف اس کے آنکھ، کان، ناک وغیرہ اعضا دیکھ کرکہا جائے کہ یہ میّت نہیں ہے.اگر نہیں ہے تو اور چار دن رکھ کر دیکھ لو جب سڑے گا اور بدبو پھیلے گی تو خود پتا لگ جائے گا کہ روح کا نام و نشان نہیں صرف پوست ہی پوست ہے.ابھی کہتے ہیں کہ ضرورت نہیں.اہلِ تشیع کو جو محبت حضرت امام حسین سے ہے اور آپ کے واقعہ شہادت کو سن کر جس طرح ان کے جگر پارہ پارہ ہوتے ہیں اس میں سے تکلّف اور تصنّع کو دور کر کے باقی ان لوگوں کے حق میں جو دلی خلوص سے امام صاحب سے محبت رکھتے ہیں اور ان کی شان میں ہر ایک قسم کے غلو کو معیوب قرار دیتے ہیں.فرمایا کہ اس سے ہم منع نہیں کرتے کہ کوئی کسی بزرگ کی محبت یا جدائی میں آنسوئوں سے رولے.فرمایا کہ ہدایت کے تین طریق ہیں.بعض لوگ تو کلمات طیبّات سن کر ہدایت پاتے ہیں.بعض تہدید کے محتاج ہوتے ہیں بعض کو آسمانی نشان اور تائید نظر آجاتی ہے کیونکہ شنیدہ کَے بود مانند دیدہ اب اس وقت جو خدا دکھلا رہا ہے وہ چشم دید ہے دوسرے نقول ہیں.۱ ۱ الحکم جلد ۸نمبر۶مورخہ۱۷؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ۲
یکم فروری ۱۹۰۴ء (صبح کی سیر) اتمامِ حُجّت کی تکمیل فرمایا کہ قویٰ خواہ کتنے ہی قوی ہوں اور عمر کس قدر ہی اوائل میں کیوں نہ ہو مگر تا ہم عمر کا اعتبار نہیں ہے.نہیں معلوم کہ کس وقت موت آجاوے.اس لیے میرا ارادہ ہے کہ اگرچہ اپنے فرض کا ایک حصّہ بذریعہ تحریروں کے ہم نے پورا کر دیا ہے مگرتا ہم ایک بڑا ضروری حصّہ باقی ہے کہ عوام الناس کے کانوں تک ایک دفعہ خدا تعالیٰ کے پیغام کو پہنچا دیا جاوے کیونکہ عوام النّاس میں ایک بڑا حصّہ ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جو کہ تعصّب اور تکبّر وغیرہ سے خالی ہوتے ہیں اور محض مولویوں کے کہنے سننے سے وہ حق سے محروم رہتے ہیں.جو کچھ یہ مولوی کہہ دیتے ہیں اسے اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا کہہ کر مان لیتے ہیں.ہماری طرف کی باتوں اور دعوؤں اور دلیلوں سے محض نا آشنا ہوتے ہیں.اس لیے ارادہ ہے کہ بڑے بڑے شہروں میں جا کر بذریعہ تقریر کے لوگوں پر اِتمامِ حُجّت کی جاوے اور ان کو بتلایا جاوے کہ ہمارے مامور ہونے کی غرض کیا ہے اور اس کے دلائل کیا ہیں فقط.دراصل یہ ایک لمبی تقریر تھی جس کا خلاصہ میں نے درج کردیا ہے.حضرت اقدسؑ بہت دور نکل گئے تھے اور میں پیچھے پہنچا.حافظ روشن علی صاحب برادرڈاکٹر رحمت علی صاحب مرحوم کی زبانی یہ خلاصہ سن کر درج کیا ہے جس کی تصدیق دیگر احباب نے بھی کی.اس اِتمامِ حُجّت کے بعد پنجاب کے بڑے بڑے شہر یا تو خدا تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ہوں گے اور بصورتِ انکار سخت غضب کے.خدا تعالیٰ کی بے نیازی پر ایمان فرمایا کہ عمر کی نسبت اگرچہ مجھے الہام بھی ہوا ہے اور خوابیں بھی آئی ہیں مگر جب اللہ تعالیٰ کی بے نیازی پر نظر پڑتی ہے تو مجھے اپنی عمر کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ہمارا کوئی حق نہیں ہے.پھر مجھے لوگوں پر تعجب آتا ہے کہ ان کو عمر کا کوئی وعدہ بھی نہیں ملا ہوا مگر پھر بھی وہ ایسے عمل کرتے ہیں جیسے کہ مطلق موت آنی ہی نہیں.سعادت یہ ہے کہ موت کو قریب جانے تو سب کام خود بخود درست ہو جاویں گے.
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے بہت سے آثار بتلائے مگرتاہم اگر ذرا سخت آندھی چلتی یا بارش ہوتی تو آپ گھبرا جاتے اور خیال کرتے کہ کیا قیامت تو نہیں آئی.اس وقت آپ کی نظر خدا کی بے نیازی پر ہوتی.جنگِ بدر میں فتح کا وعدہ تھا مگرتا ہم رو رو کر دعائیں کرتے.آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ فتح کا وعدہ تو ہے مگر شاید کوئی شرط اس میں ایسی پنہاں ہو جس کا مجھے علم نہیں تو پھر فتح نہ ہو.موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا کیا وعدے تھے مگرآخر قوم کی قوم جنگلوں میں مَر کھپ گئی.اس کی وجہ یہ تھی کہ الٰہی وعدے جن شرائط کے ساتھ مشروط تھے ان کے بر عکس قوم نے کارروائی کی.جماعت کی شامت ِاعمال کا اثر مامور پر پڑتا ہے.جنگِ اُحد میں ایک طائفہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کہا نہ مانا تو آپ کو کس قدر تکلیف ہوئی.ستّر زخم آپ کو لگے.دانت شہید ہوا.خَود اس قدر سر میں دھنس گئی کہ صحابہؓ زور لگا کر اسے نکالتے اور نہ نکلتی.اللہ تعالیٰ کی بے نیازی کے آگے کسی کی کیا پیش چل سکتی ہے.۱ ۲ تا ۴ ؍فروری ۱۹۰۴ء حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طبیعت علیل رہی اور بایں وجہ سیر بھی ملتوی رہی بردِ اطراف چکر وغیرہ کے دماغی امراض جو آپ کو مصلحت ِالٰہی سے لاحق ہیں.ان کے دورے رہے.مختلف اوقات میں آپ شریک نماز باجماعت ہوتے رہے اور جو اذکار ان اوقات میں ضبط ہوئے وہ ہدیہ ناظرین ہیں.رحمت علی مرحوم مرحوم رحمت علی کے ذکر پر آپ نے فرمایا کہ یہ اس کی پاکیزہ فطرت کی نشانی ہے کہ افریقہ میں غائبانہ طور پر ہمیں قبول کیا اور اس چھوٹی سی عمر میں ترقی اخلاص میں بھی کی.اس سال میں اور بھی ہمارے مخلص فوت ہوئے ہیں.۱ البدر جلد ۳نمبر۷مورخہ۱۶؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ ۲،۳ والحکم جلد ۸نمبر۶مورخہ۱۷؍فروری۱۹۰۴ءصفحہ۲،۳
شہد کے خواص شہد کے تذکرے پر آپ نے فرمایا کہ دوسری تمام شیرینیوں کو تو اطباء نے عفونت پیدا کرنے والی لکھا ہے مگر یہ ان میں سے نہیں ہے.آنب وغیرہ اور دیگر پھل اس میں رکھ کر تجربے کئے گئے ہیں کہ وہ بالکل خراب نہیں ہوتے سالہاسال ویسے ہی پڑے رہتے ہیں.فرمایا کہ ایک دفعہ میں نے انڈے پر تجر بہ کیا تو تعجب ہو اکہ اس کی زردی تو ویسی ہی رہی مگر سفیدی انجماد پا کر مثل پتھر کے سخت ہو گئی جیسے پتھر نہیں ٹوٹتا ویسے ہی وہ بھی نہیں ٹوٹتی تھی.خدا تعالیٰ نے اسے شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ(النّحل:۷۰) کہا ہے.واقعی میں عجیب اور مفید شَے ہے تو کہا گیا ہے.یہی تعریف قرآنِ شریف کی فرمائی ہے.ریاضت کش اور مجاہدہ کرنے والے لوگ اکثر اسے استعمال کرتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہڈیوں وغیرہ کو محفوظ رکھتا ہے.اس میں ال جو ناس کے اوپر لگایا گیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو اس کے اپنے (یعنی خدا تعالیٰ کے )ناس(بندے)ہیں اور اس کے قرب کے لیے مجاہدے اور ریا ضتیں کرتے ہیں ان کے لیے شفا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ تو ہمیشہ خواص کو پسند کرتا ہے عوام سے اسے کیا کام؟ مَرنے والوں کے اَمثال فرمایا.کوئی عمدہ آدمی فوت ہو تو صدمہ ضرور ہوتا ہے لیکن دنیا ایسی جگہ ہے کہ اس میں پھر ویسے اَمثال پیدا ہو جاتے ہیں نیکوں کے بھی.بدوں کے بھی.اسی لیے بعض نے دنیا کو دَوری لکھا ہے کہ جن صفات کے لوگ اس کے ایک دَور میں گذرجاتے ہیں پھر اسی قسم کے لوگ وہی سیرتیں اور صورتیں لے کر دوسرے دَور میں پیدا ہوتے رہتے ہیں.مخدوم حضرت مولوی نورالدین صاحب نے عرض کی کہ حضور یہیں سے ٹھوکر کھا کر لوگ تنا سخ کے قائل ہو گئے ہیں.۱ ۱ البدر جلد ۳نمبر۷مورخہ۱۶؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ۳ والحکم جلد ۸نمبر۶مورخہ۱۷؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ۳
۵،۶ ؍فروری ۱۹۰۴ء ۵؍تاریخ کو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام سیر کو تشریف لے گئے لیکن میں اس سیر میں ایک مغالطہ کی وجہ سے شریک نہ ہوسکا.(ڈائری نویس) ۶؍تاریخ کو عصر کے وقت آپ نے مجلس فرمائی.مختلف تذکرے ہوتے رہے.سر سید کا ذکر آگیا فرمایا.مداہنت دوسری قوم کے رعب میں آ کر اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے آخر یہاں تک نوبت پہنچی کہ آپ آخر ایام میں تثلیث کے ماننے والوں کو بھی نجات یافتہ قرار دے گئے مداہنہ کی انتہا یہی ہوا کرتی ہے کہ آخر اسی قوم کا انسان کو بنناپڑتا ہے.قرآن شریف میں اسی لیے ہے لَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْيَهُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ( البقرۃ:۱۲۱) دوسرے کو راضی کرنے کے لیے انسان کو اس کے مذہب کو بھی اچھا کہنا پڑتا ہے اسی لیے مداہنہ سے مومن کو پرہیز کرنا چاہیے.مخالفین کا رویّہ فرمایا کہ مجھے بھی یہ الہام ہوا ہے جیسے کہ براہین میں درج ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت ان لوگوں (یعنی مخالفوں )میں سے شاذ و نادر ہی ہوگا جو ہم سے راضی ہو اور ہمارے ساتھ اخلاق سے پیش آنا چاہتا ہو.ہاں اگر شخصی طورپر کسی کی ذات میں اخلاق سرشت ہوا ہوا ہو تو وہ شاید ہم سے اخلاق سے پیش آجاوے ورنہ قومی طور پر ہم سے ہرگز اخلاق سے پیش آنا نہیں چاہتے.اجتہاد میں غلطی ہو جانا نبوت کے خلاف نہیں کسی صاحب نے لودھیانہ سے حضرت صاحب کو مخالفین کا یہ اعتراض لکھا کہ شَاتَانِ تُذْبَـحَانِ کا الہام جو اب شہزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کے بارے میں لکھا گیا ہے وہ قبل ازیں کسی تصنیف میں مرزا احمد بیگ اور اس کے داماد پر چسپاں ہو چکا ہے.اس پر
آپ (علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے فرمایا کہ اگر ہم سے اجتہاد میں غلطی ہو جاوے توحرج کیا ہے؟ اجتہاد اَور شَے ہے اور تفہیمِ الٰہی اَور شَے.اگر ہم نے ایک معنی اپنی رائے اور فکر سے کر دئیے تو آخر اپنے وقت پر خدا تعالیٰ نے اصل اور حقیقی معنے بتلادیئے.اس الہام میں یہ الفاظ بھی لکھے ہیں عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَيْـًٔا وَّ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ اب دیکھنا چاہیے کہ کیا احمد بیگ جیسے منکرین کی زندگی ہماری محبوبات سے تھی یا مکروہات سے؟ اگر ہماری کوئی غلطی ہو تو اس میں تنقیح طلب یہ اَمر ہے کہ آیا ایسی غلطیاں انبیاؤوں سے ہوتی رہیں کہ نہیں.جیسے کہ خواب میں ابوجہل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انگور کا خوشہ دیا تو آپ نے اس کے یہ معنے سمجھے کہ ابو جہل کسی وقت مسلمان ہو جاوے گا لیکن وہ تو مسلمان نہ ہوا.آخر عکرمہ اس کا بیٹا جب مسلمان ہوا تو خواب کے معنے پورے طور پر سمجھ میں آئے.سلسلہ کی صداقت ایک مفتری کی زندگی حباب کی طرح ہوتی ہے لیکن ہمارے سلسلہ میں سچائی کی خوشبو ہے کہ نہ واعظ ہیں (نہ کانفرنسیں جو مختلف مقاموں پر ہوتی ہیں) نہ لیکچرار ہیں.لیکن ہماری صداقت خود بخود لوگوںکے دلوں میں پڑتی جاتی ہے.ان لوگوں نے بہتیرا واویلا کیا اور روکتے رہے اور اب بھی کرتے اور روکتے ہیں لیکن پھر بھی ہمارا کچھ بگاڑ نہ سکے.اب باریک نظر سے غور سے دیکھو تو ہمارا سلسلہ دن بہ دن ترقی کر رہا ہے اور یہی نشانی ہے اس بات کی کہ یہ خدا کی طرف سے ہے.اگر یہ نہ ہوتا تو ہمارے مخالف آج تک کب کے کامیاب ہو جاتے.ہم یہاں چپ چاپ بیٹھے ہیں کسی تدبیر اور ایسی طاقت سے کام نہیں لیتے کہ اثر انداز ہو.نہ دورے لگا رہے ہیں نہ کچھ.مگرتا ہم ایک حرکت شروع ہے.روز جو ڈاک آتی ہے شاذ و نادر ہی کوئی ایسا دن ہو تو ہو ورنہ ہر روز بِلاناغہ بیعت کے خطوط آتے ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں چڑھتا کہ اس میں کوئی نہ کوئی بیعت کے لیے طیاری نہ کرتا ہو.
تین قسم کے لوگ فرمایا کہ اس وقت تین قسم کے لوگ ہیں.ایک وہ جو بغض وحسد میں جلے ہوئے ہیں اور ضد اور تعصّب سے مخالفت پر آمادہ ہیں.ان کی تعداد تو بہت ہی کم ہے.دوسرے وہ جو اس طرف رجوع کرتے ہیں ان کی تعداد ترقی پر ہے.تیسرے وہ جو خاموش ہیں نہ اِدھر ہیں نہ اُدھر.ان کی تعداد کثیر ہے وہ ملّانوں کے زیر اثر نہیں ہیں ورنہ ان کے ساتھ مل کر سبّ وشتم کرتے.پس اس لیے وہ ہماری مدّ میں ہیں.فرقہ معاندین کی افادیت یہ فرقہ جومعاندین کا ہے اگر نہ ہوتا تو چپ رہنے والے اصل میں کوئی شَے نہیں ہیں انہیں کی وجہ سے تحریک ہوتی ہے وہ شور ڈال ڈال کر ان لوگوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرتے ہیں.ان کی باتوں میں چونکہ آسمانی تائید نہیں ہوتی اس لیے تناقض ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کچھ فرماتا ہے اور یہ کچھ کہتے ہیں.قال کچھ ہے حال کچھ ہے.آخر شور شرابا سن کر بعض کو تحریک ہوتی ہے کہ دیکھیں تو سہی ہے کیا.پھر جب وہ تحقیق کرتے ہیں تو حق ہماری طرف ہوتا ہے آخر ان کو ماننا پڑتا ہے معاندین ہم پر کیا کیا الزام لگاتے ہیں.کہیں کہتے ہیں کہ یہ پیغمبروں کو گالیاں دیتے ہیں.کہیں کہتے ہیں کہ نماز روزہ وغیرہ ادا نہیں کرتے.آخر تنقید پسند طبائع ان باتوں سے فائدہ اُٹھا کر ہماری طرف رجوع کرتے ہیں.اس جماعت معاندین کے ہونے سے ہمارا برسوں کا کام دنوں میں ہورہا ہے.لوگ آگے ہی منتظر ہیں وقت خود شہادت دے رہا ہے اور ان کی آنکھیں اس طرف لگی ہوئی ہیں کہ آنے والا آوے.جب یہ معاندین ایک مفتری کے رنگ میں ہمیں پیش کرتے ہیں تو تحقیق کرتے کرتے خود حق پالیتے ہیں.۱۱البدر جلد ۳نمبر۷مورخہ۱۶؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ۳،۴نیز الحکم جلد ۸نمبر۶مورخہ۱۷؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ۳
؍فروری ۱۹۰۴ء ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب لاہور سے تشریف لائے تھے.حضرت اقدس نے باہر تشریف لاتے ہی ڈاکٹر صاحب سے اپنی ناسازی طبیعت کا ذکر فرمایا.۱ اور اسی سلسلہ میں فرمایا.عوارض میں اللہ تعالیٰ کی مصلحت انسان کا اصل طبیب اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے اس کو بنایاہے.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری کمزوری کا سِر یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر کیا ہوا تھا کہ اس وقت جہاد کے خیالات کو دور کیا جاوے اور ہم کو اس سے الگ رکھنا تھا.اس لیے اس نے عوارض اور کمزوری کے ساتھ بھیجا اور یہ بھی کہ اپنی کسی کارروائی پر گھمنڈ نہ ہو بلکہ ہر وقت اللہ تعالیٰ ہی کے فضل کے خواستگار رہیں.نزول کے لفظ میں بھی یہی سِر ہے گویا آسمان سے اُترا ہے یعنی سب کام خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتے ہیں.اس میں انسانی دخل نہیں ہے اور جب انسانی ارادوں اور منصوبوں سے الگ ہوئے تو وہ سب امور خارقِ عادت ٹھہرے.عام طور پر بھی کہا کرتے ہیں کہ خدا اُتر کر لڑا ہے مگرتعجب کی بات ہے کہ ہمارے مخالفوں نے باتوں کو جسمانی بنالیا ہے.ادھر یہ مان لیا ہے کہ وہ دو زرد چادریں پہنے ہوئے اُترے گا.۲ معلوم نہیں ان بھگوے کپڑوں کے پہننے سے اس کی کیا غرض ہوگی.یہ چادریں شاید حضرت ادریس البدر میں ہے کہ ’’ڈاکٹر صاحب نے کچھ ادویہ ان کے متعلق عرض کیں.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۷مورخہ۱۶؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ۴) ۲ البدر میں ہے.’’یہ لوگ ظاہر پر حمل کرتے ہیںحالانکہ اللہ تعالیٰ کا یہ منشا نہیں ہے یہ منتظر ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے آویں اور دو زرد چادریں اوڑھی ہوئی ہوں ایک اوپر اور ایک نیچے.لیکن یہ نہیں بتلا تے کہ آیا وہ چادریں آسمان پر ہی رنگی جاویں گی یا یہاں سے ہی فرشتے لے کر آسمان پر پہنچا دیں گے اور وہ اوڑھ کر نیچے اتریں گے ان چادروں سے مراد امراض ہیں اور یہی دونوں امراض ہمیں لگی ہوئی ہیں نیچے کی چادر سے مراد پیشاب کی بیماری ہے اور اوپر سے مراد سَر کی بیماری ہے ان دونوں میں مَیں ہمیشہ مبتلا رہتا ہوں.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۷مورخہ ۱۶؍فروری ۱۹۰۴ءصفحہ۴)
نے سی کردی ہوں گی.پھر تعجب ہے کہ وہ کبھی مَیلی نہ ہوں گی اور نہ وہ کبھی ان کو اُتاریں گے اور نہ وہ پھٹیں گی.یہ کیسی عجیب باتیں ہیں جن کو سن کر ہنسی آتی ہے ادھر یہ لباس تجویز کیا اور خدمت یہ تجویز کی کہ وہ جنگلوں میں خنزیر مارتا پھرے.۱ پردہ میں افراط وتفریط سے بچنے کی تلقین حضرت اُمّ المومنین کی طبیعت کسی قدر ناساز رہا کرتی تھی.آپؑنے ڈاکٹر صاحب سے مشورہ فرمایا کہ اگر وہ ذرا باغ میں چلی جایا کریں تو کچھ حرج تو نہیں.انہوں نے کہا کہ نہیں.اس پر اعلیٰ حضرت نے فرمایاکہ دراصل میں تو اس لحاظ سے کہ معصیت۲ نہ ہو کبھی کبھی گھر کے آدمیوں کو اس لحاظ سے کہ شرعاً جائز ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں رعایت پردہ کے ساتھ باغ میں لے جایا کرتا تھا اور میں کسی ملامت کرنے والے کی پروا نہیں کرتا.حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ بہار کی ہوا کھاؤ گھر کی چار دیواری کے اندر البدر میں ہے.’’ ان میں بھی ضدین کو جمع کیا ہے ادھر بھگوے کپڑے پہناتے ہیں ادھر ہاتھ میں نیزہ.‘‘ (البدر جلد۳نمبر۷مورخہ ۱۶؍فروری ۱۹۰۴ءصفحہ۴) ۲ البدر میں ہے.’’ عورتوں کو سخت تکلیف ہوتی ہے کہ جب موسم متعفّن ہوتا ہے تو ان کو اسی چار دیواری کے حبس میں زندگی بسر کرنی پڑتی ہے.لوگ اگرچہ ملامت کرتے ہیں اور بُرا جانتے ہیں لیکن جبکہ ایک اَمر خدا کی رضا کے برخلاف نہیں ہے تو ہمیں اس کے بجالانے میں کیا تأمّل ہے.جبکہ خدا نے مرد و عورت میں مساوات رکھی ہے تو اسی خیال سے کہ کہیں ان کو حبس میں رکھنا معصیّت کا موجب نہ ہو.میں گاہے گاہے اپنے گھر سے چند دوسری عورتوں کے ساتھ باغ میں سیر کے لیے لے جایا کرتا تھا اور اب بھی ارادہ ہے کہ لے جایا کروں.یورپ کے اعتراض پردہ پر بے حیائی کے ہیں اور ان میں تفریط ہے اور مسلمانوں میں افراط ہے کہ گھروںکو عورتوں کے لیے بالکل حبس بنادیاہے.پیغمبرِخدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ حضرت عائشہ ؓ کو باہر اپنے ساتھ لے جایا کرتے جنگوں میں بھی اپنے ساتھ رکھتے جو پردہ کہ سمجھا گیا ہے وہ غلط ہے.قرآن شریف نے جو پردہ بتلایا ہے وہ ٹھیک ہے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۷مورخہ۱۶؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ ۶ )
ہر وقت بند رہنے سے بعض اوقات کئی قسم کے امراض حملہ کرتے ہیں علاوہ اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ کو لے جایا کرتے تھے جنگوں میں حضرت عائشہؓ ساتھ ہوتی تھیں.پردہ کے متعلق بڑی افراط و تفریط ہوئی ہے یورپ والوں نے تفریط کی ہے اور اب ان کی تقلید سے بعض نیچری بھی اسی طرح چاہتے ہیں حالانکہ اس بے پردگی نے یورپ میں فسق وفجور کادریا بہادیا ہے اور اس کے بالمقابل بعض مسلمان افراط کرتے ہیں کہ کبھی عورت گھر سے باہر نکلتی ہی نہیں حالانکہ ریل پر سفر کرنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے غرض ہم ان دونوں قسم کے لوگوں کو غلطی پر سمجھتے ہیں جو افراط اور تفریط کر رہے ہیں.۱ ۸؍فروری ۱۹۰۴ء حسب معمول حضرت حجۃ اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام سَیر کے لیے تشریف لائے.سلسلہ کلام مقدمات کے متعلق شروع ہوا.اور چندمنٹ کے بعد سلسلہ کلام کا رخ بدل گیا جس کو ہم اپنے الفاظ اور طرزپر مرتّب کرکے لکھتے ہیں.(ایڈیٹر) آخری فتح دعا سے ہو گی مَیں دیکھتا ہوں کہ یہ زمانہ۲ اس قسم کا آگیا ہے کہ انصاف اور دیانت سے کام نہیں لیا جاتا اور بہت ہی تھوڑے لوگ ہیں جن ۱ الحکم جلد ۸ نمبر ۶ مورخہ ۱۷؍ فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۵ ۲ البدر میں ہے.’’ زمانہ کی حالت آپ نے بتلائی کہ جس کو دیکھو رُو بدنیا ہے دین کی فکر اوراس کے لئے سوزوگداز ہرگز نہیں.دنیا کے کیڑے بنے ہوئے ہیں.‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر ۷ مورخہ۱۶؍فروری۱۹۰۴ءصفحہ۵) ۳ البدر میں یوں لکھا ہے.’’ عیسویت کے مہلک فتنہ کی نسبت آپ نے فر مایا کہ بہت غور اور فکرکے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اب صرف قلموں اور کا غذوں کا کام ہی نہیں ہے کہ وہ اس فتنہ کو فرو کرسکے.کتابیں ہم نے لکھیں تو اس کے مقابل پر انہوں نے بھی لکھ دیں لوگ اپنے اپنے نفس کی فکر میں اس قدر مصروف ہیں کہ ان کو مقابلہ کر نے کی فرصت ہی نہیں ہوتی اور جب انہوںنے مقابلہ ہی نہ کیا تو پھر حق کیسے کھلے اس لیے اب میرا ارادہ ہے کہ ایک لمبا سلسلہ دعا اور انقطاع کا شروع کیا جاوے نرے وعظ اور تبلیغ سے کیا ہوتا ہے انبیاء بھی جب وعظ اور تبلیغ سے تھک گئے
کے واسطے دلائل مفید ہوسکتے ہیں ورنہ دلائل کی پروا ہی نہیں کی جاتی اور قلم کام نہیں دیتا ہم ایک کتاب یا رسالہ لکھتے ہیں مخالف اس کے جواب میں لکھنے کو طیار ہو جاتے ہیں.۳ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ دعا سے آخری فتح ہو گی اور انبیاء علیہم السلام کا یہی طرز رہا ہے کہ جب دلائل اور حجج کام نہیں دیتے تو ان کا آخری حربہ دعا ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا وَ اسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ ( ابراہیم:۱۶) یعنی جب ایسا وقت آجاتا ہے کہ انبیاء ورسل کی بات لوگ نہیں مانتے تو پھر دعا کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے مخالف متکبّر وسرکش آخر نا مراد اور ناکام ہو جاتے ہیں.ایسا ہی مسیح موعود (علیہ الصلوٰۃ والسلام)کے متعلق جو یہ آیا ہے وَ نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًا (الکھف:۱۰۰) اس سے بھی مسیح موعود کی دعاؤںکی طرف اشارہ پایا جاتا ہے نزول ازآسمان کے یہی معنے ہیں کہ جب کوئی اَمر آسمان سے پیدا ہوتا ہے تو کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور اسے ردّ نہیں کرسکتا آخری زمانہ میں شیطان کی ذرّیّت بہت جمع ہو جائے گی کیونکہ وہ شیطان کا آخری جنگ ہے مگر مسیح موعود کی دعائیں اس کو ہلاک کر دیں گی.نوح کے زمانہ سے مناسبت اسی طرح نوح علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا جب حضرت نوحؑ تبلیغ کرتے کرتے تھک گئے تو آخر انہوں نے دعا کی تو نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طوفان آیا جس نے شریروں کو ہلاک کر دیا اور اس طرح پر فیصلہ ہو گیا آخر (بقیہ حاشیہ)اور دیکھا کہ ابھی فتنہ برقرار ہے تو پھر انہوں نے دعا کی طرف توجہ کی تا کہ توجہ باطنی سے فتنہ کو پاش پاش کیا جاوے جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فر ماتا ہے وَ اسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ ( ابراہیم:۱۶) یعنی جب رسولوں نے دیکھا کہ وعظ اور پند سے کچھ فائدہ نہ ہوا تو انہوں نے ہر ایک بات سے کنارہ کش ہوکر خدا کی طرف توجہ کی اور اس سے فیصلہ چاہا تو پھر فیصلہ ہو گیا.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۷مورخہ۱۶؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ ۵) ۱ البدر میں ہے.’’ راٹ عبرانی زبان میں پہاڑ کی چوٹی کو کہتے ہیں اور اَرٰی بمعنے میں نے دیکھ لیا.نوحؑ نے جب خشکی کی تلاش میں چاروں طرف نظر ماری اور پانی ہی پانی نظر آیا تو چونکہ کچھ پانی اتر چلا تھا اس لیے جودی پہاڑ کی چوٹی ان کو نظر آئی اور اسی وجہ سے اس کا نام ارارات پڑ گیا.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۷مورخہ۱۶؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ ۵)
ان کی کشتی ایک پہاڑ پر جاٹھہری جس کو اب اراراٹ کہتے ہیں اراراٹ کی اصل یہ ہے ارارات یعنی میں پہاڑ کی چوٹی کو دیکھتا ہوں۱ انہوں نے ایک پہاڑ کا سرا دیکھ کر کہا تھا اور اب اسی نام سے یہ مشہور ہو گیا اور بگڑکراراراٹ بن گیا یہ زمانہ بھی نوح علیہ السلام کے زمانہ سے مشابہ ہے خدا تعالیٰ نے میرا نام بھی نوح رکھا ہے اور وہی الہام جو کشتی کا نوحؑکو ہوا تھا یہاں بھی ہوا ہے اسی طرح پر اب خدا تعالیٰ نے فیصلہ کرنا چاہا ہے اور حقیقت میں اگر ایسا نہ ہوتا تو ساری دنیا دہریہ ہو جاتی اقبال اور کثرت نے دنیا کو اندھا کردیاہے.عیسائی مذہب کا خاتمہ اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ جو کہا گیا ہے بالکل سچ ہے انسان جب سلطنت اور حکومت کو دیکھتا ہے تو اس کے خوش کرنے کے لیے اور اس سے فائدہ اُٹھا نے کے واسطے وہی رنگ اختیار کرنے لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت عیسائیوں کی کثرت،ان کی قومی ثروت اور اقبال نے لوگوں کو خیرہ کردیا ہے اور ان وجوہات سے بہت سے لوگوں کو ادھر توجہ ہوگئی ہے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اس مذہب کا خاتمہ ہو جاوے اور اس کے لیے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے.عیسائی خود بھی محسوس کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ ان کے مذہب کو ہلاک کر دے گا.پادریوں کی نظر میں ہماری جماعت دل کو دل سے راہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ پادری جس قدر ہماری جماعت کو بُرا سمجھتے ہیں اور اس سے دشمنی کرتے ہیں وہ دوسرے مسلمانوں کو اس قدر بُرا نہیں سمجھتے.جہاں کہیں ہمارا ذکر ہو گالیاں دیتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ ان کی فطرت خود تسلیم کرتی ہے کہ یہ سلسلہ ان کو ہلاک کر دینے والا ہے جیسے بلّی کا منہ جب چوہا دیکھتا ہے حالانکہ اس نے پہلے کبھی اس پر حملہ نہ بھی کیا ہو فوراً ہی سمجھ جاتا ہے کہ یہ میری دشمن ہے.بکری نے کبھی شیر کو دیکھا بھی نہ ہو لیکن جونہی اسے نظر آجاوے وہ گھبرا کر کھانا پینا چھوڑ ۱البدر میں ہے.’’ ان لوگوں نے تاڑ لیا ہے کہ عیسائی مذہب کے دشمن اگر ہیں تو ہم ہی ہیں اَور کوئی فرقہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۷مورخہ۱۶؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ ۵)
سے دشمنی کرتے ہیں وہ دوسرے مسلمانوں کو اس قدر بُرا نہیں سمجھتے.جہاں کہیں ہمارا ذکر ہو گالیاں دیتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ ان کی فطرت خود تسلیم کرتی ہے کہ یہ سلسلہ ان کو ہلاک کر دینے والا ہے جیسے بلّی کا منہ جب چوہا دیکھتا ہے حالانکہ اس نے پہلے کبھی اس پر حملہ نہ بھی کیا ہو فوراً ہی سمجھ جاتا ہے کہ یہ میری دشمن ہے.بکری نے کبھی شیر کو دیکھا بھی نہ ہو لیکن جونہی اسے نظر آجاوے وہ گھبرا کر کھانا پینا چھوڑ دے گی اسی طرح پر عیسائی ہمارے سلسلہ کے کسی آدمی کو دیکھ کر ہی اس سے بیزار ہوجاتے ہیں۱ وہ جانتےہیں کہ ان سے کوئی امید ان کو نہیں ہے.ان کی فطرت ہی ان کو بتادیتی ہے.فطر کے معنے پھاڑنے کے ہیں اورفطرت سے یہ مراد ہے کہ انسان خاص طور پر پھاڑا گیا ہے.جب آسمان سے قوت آتی ہے تو نیک قوتیں پھٹنی شروع کردیتی ہیں.فرمایا.براہینِ احمدیہ میں جو یہ الہام ہے بڑا ہی پُرزور اور مبشر ہے وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَتْرُکَکَ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ یعنی خدا ایسا نہیں ہے جو تجھے چھوڑدے جب تک پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھادے.یہ الہام بڑا ہی مبشر ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ عظیم الشّان فیصلہ کرنا چاہتا ہے.کسر صلیب کے لئے دعا کی اہمیت اگرچہ یہ سچی بات ہے کہ جب سے عیسائیوں کا قدم آیا ہے مسلمانوں نے اپنی طرف سے کمی نہیں کی اور کسی نہ کسی حد تک ان کا مقابلہ کرتے رہے ہیں اور کتابیں اور رسالے لکھتے ہی رہے ہیں لیکن باوجود اس کے بھی ان کی جماعت بڑھتی ہی گئی ہے یہاںتک کہ اب شاید تیس لاکھ کے قریب مرتد ہو چکے ہیں اس لیے میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ کسر صلیب جانکاہ دعائوں پر موقوف ہے.دعا میں ایسی قوت ہے کہ جیسے آسمان صاف ہو اور لوگ تضرّع اور ابتہال کے ساتھ دعا کریں تو آسمان پر بدلیاں سی نمودار ہوجاتی ہیں اوربارش ہونے لگتی ہے.اسی طرح پر میں خوب جانتا ہوں کہ دعا اس باطل کو ہلاک کر دے گی اور لوگوں کو تو کوئی غرض نہیں ہے۱ کہ وہ دین کے لیے دعا کریں مگر میرے نزدیک بڑا چارہ دعا ہی ہے اور یہ بڑا خطرناک جنگ ہے جس میں جان جانے کا بھی خطرہ ہے.وَنِعْمَ مَا قِیْلَ.؎ اندریں وقت مصیبت چارہ ہائے بیکساں جز دعائے با مداد و گریہ اسحار نیست ۱ البدر میں ہے.’’ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگوں کو اس قسم کی دعا سے مطلب ہی کیا ہے کہ اس فتنہ اور بطلان کی استیصال کے لیے دعائیں کریں ان کی تو کُل دعائیں اپنے اپنے نفس کی ضروریات تک محدود ہیں حالانکہ اس زمانہ میں دعا ایک بڑا جنگ ہے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۷مورخہ۱۶؍فروری۱۹۰۴ء
؎ اندریں وقت مصیبت چارہ ہائے بیکساں جز دعائے با مداد و گریہ اسحار نیست پھر ان دعائوں کے لیے گوشہ نشینی کی بڑی ضرورت ہے.کئی دفعہ یہ بھی خیال آیا ہے کہ باغ میں کوئی الگ مکان دعائوں کے واسطے بنالیں.غرض یہ تو میں نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ محض قلم سے کچھ نہیں بنتا.۱ اغراضِ نفسانی نے انسان کو دبایا ہوا ہے بہت سے لوگ نوکری کی غرض سے عیسائی ہو جاتے ہیں اور بعض اور نفسانی غرض کی وجہ سے اور بعض لوگ گورنمنٹ کے تعلقات کی وجہ سے.آسائش کی حقیقی راہ اس طریق پر سچی راحت اور آسائش نہیں مل سکتی.مومن کو حقیقی راحت اور آسائش کے لیے رُوبخدا ہونا چاہیے.جو مومن آسائش کی زندگی چاہتے ہیں وہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کریں اور اس کے سوا کسی اور پر بھروسہ نہ کریں ورنہ یہ یقیناً یادرکھیں کہ خدا کو چھوڑ کر دوسروں پر بھروسہ کرنے والے کو سچا خیر خواہ نہ پائیں گے.مسیح اوّل اور مسیح آخر کی دعا مجھے خیال آتا ہے کہ حضرت مسیح نے جب دیکھا کہ صلیب کا واقعہ ٹلنے والا نہیں تو ان کو اس اَمر کا بہت ہی خیال ہوا کہ یہ موت لعنتی موت ہو گی پس اس موت سے بچنے کے لیے انہوں نے بڑی دعاکی.دلِ بریاں اور چشمِ گریاں سے انہوں نے دعا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی.آخر وہ دعا قبول ہوگئی چنانچہ لکھا ہے فَسُمِعَ لِتَقْوٰہُ ہم کہتے ہیں کہ جیسے پہلے مسیح کی دعاسُنی گئی ہماری بھی سُنی جاوے گی مگر ہماری دعا اور مسیح ۱ البدر سے.’’کیونکہ پادریوں وغیرہ کے پاس روپیہ بہت ہے اور لوگوں کو اغراض نے دبا رکھا ہے کسی نے نوکری کے لیے کسی نے کسی حاجت کے لیے اپنے آپ کو ان کا دستِ نگر بنا رکھا ہے اس لیے دلائل وغیرہ کا جو اثر دلوں پر ہونا چاہیے وہ نہیں ہوتا.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۷ مورخہ۱۶؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ ۵) ۲ البدر میں ہے.’’حدیثوں میں جو یہ مذکور ہے کہ جب کسی کو دجال کے مقابلہ کی طاقت نہ رہے گی اور ہر جگہ اس کا تسلّط ہوگا تو آخر کار مسیح دعا کرے گا اور اس دعا سے وہ ہلاک ہوگا.‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر ۸ مورخہ ۲۴؍ فروری ۱۹۰۴ءصفحہ ۲ )
مسیح کی دعا میں فرق ہے.اس کی دعا اپنی موت سے بچنے کے لیے تھی اور ہماری دعا دنیا کو موت سے بچانے کے لیے.(اَیَّدَکَ اللہُ بِنَصْـرِہٖ ) ہماری غرض اس دعا سے اعلائے کلمۃالاسلام ہے.احادیث میں بھی آیا ہے کہ آخر مسیح ہی کی دعا سے فیصلہ ہوگا.۲ دعا کے ساتھ دلائل کی اہمیت اگر چہ فیصلہ دعائوں سے ہی ہونے والا ہے.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ دلائل کو چھوڑ دیا جاوے.نہیں دلائل کا سلسلہ بھی برابر رکھنا چاہیے اور قلم کو روکنا نہیں چاہیے نبیوں کو خدا تعالیٰ نے اسی لیے اُولِي الْاَيْدِيْ وَالْاَبْصَارِ(صٓ:۴۶) کہا ہے کیونکہ وہ ہاتھوں سے کام لیتے ہیں.پس چاہیے کہ تمہارے ہاتھ اور قلم نہ رُکیں اس سے ثواب ہوتا ہے.۱ جہاں تک بیان اور لسان سے کام لے سکو کام لیے جائو اور جو جو باتیں تائید دین کے لیے سمجھ میں آتی جاویں انہیں پیش کئے جائو وہ کسی نہ کسی کو فائدہ پہنچائیں گی.میری غرض اور نیت بھی یہی ہے کہ جب وہ وقت آوے تو اپنے وقت کا ایک حصّہ اس کام کے لیے بھی رکھا جاوے.اصل بات یہ ہے کہ جب تبتّلِ تام اور انقطاعِ کلّی سے دعا کرے تو ایسے ایسے خارقِ عادت اور سماوی امور کھلتے ہیں اور سوجھتے ہیں کہ وہ دنیا پر حجّت ہو جاتے ہیں.اس لیے اس دعا کے وقت جو کچھ خدا تعالیٰ ان کے استیصال کے وقت دل میں ڈالے وہ سب پیش کیا جاوے.فرمایا کہ کھانسی جب شدت سے ہوتی ہے تو بعض وقت دم رُکنے لگتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جان کندن کی سی حالت ہے.چنانچہ اس شدت کھانسی میں مجھے اللہ تعالیٰ کی غناءِ ذاتی کا خیال گذرا اور میں سمجھتا تھا کہ اب گویا موت کا وقت قریب ہے.اس وقت الہام ہوا اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا اس کے یہ معنے سمجھائے گئے کہ ایساخیال اس وقت غلط ہے بلکہ اس وقت جب اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ کا نظارہ دیکھ لو.اس وقت تو کوچ ۱ البدر سے.’’ہاں یہ ضرور ہے کہ تدابیر پر بھروسہ نہ کرے.نظر خدا پر رکھے.‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر ۸ مورخہ ۲۴؍ فروری ۱۹۰۴ءصفحہ ۲ )
ضروری ہو جاتا ہے.سب کے لیے یہی اصول ہے کہ جب وہ کام کہ جس کے لیے اس کو بھیجا جاتا ہے ختم ہو جاتا ہے تو پھر وہ رُخصت ہوتا ہے ہر کسے را بہرکارے ساختند تو سچ ہے مگر سب آدمی اپنے اپنے کام اور غرض سے جس کے لیے وہ آئے ہیں واقف نہیں ہوتے.بعض کا اتنا ہی کام ہوتا ہے کہ چوپایوں کی طرح کھا پی لینا.وہ سمجھتے ہیں کہ اتنا گوشت کھانا ہے.اس قدر کپڑا پہننا ہے وغیرہ اور کسی بات کی ان کو پروا اور فکر ہی نہیں ہوتی.ایسے آدمی جب پکڑے جاتے ہیں تو پھر یک دفعہ ہی اُن کا خاتمہ ہو جاتا ہے.لیکن جو لوگ خدمتِ دین میں مصروف ان کے ساتھ نرمی کی جاتی ہے اس وقت تک کہ جب تک وہ اس کام اور خدمت کو پورا نہ کر لیں.درازیٔ عمر کا نسخہ انسان اگر چاہتا ہے کہ اپنی عمر بڑھائے اور لمبی عمر پائے تو اُس کو چاہیے کہ جہاں تک ہوسکے خالص دین کے واسطے اپنی عمر کو وقف کرے.یہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ سے دھوکا نہیں چلتا جو اللہ تعالیٰ کو دغا دیتا ہے وہ یاد رکھے کہ اپنے نفس کو دغا دیتا ہے وہ اس کی پاداش میں ہلاک ہو جاوے گا.....پس عمر بڑھانے کا اس سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ہے کہ انسان خلوص اور وفاداری کے ساتھ اعلاء کلمۃ الاسلام میں مصروف ہو جاوے اور خدمتِ دین میں لگ جاوے اور آج کل یہ نسخہ بہت ہی کارگر ہے کیونکہ دین کو آج ایسے مخلص خادموں کی ضرورت ہے.اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر عمر کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے یونہی چلی جاتی ہے.۱ البدر میں یہ واقعہ یوں درج ہے.’’ایک صحابی کو جنگ میں تیر لگا.وہ اپنی جان سے مایوس ہوئے.اسی وقت خدا سے دُعا مانگی اور کہا کہ مجھے عمر کا تو فکر نہیں ہے تھوڑی ہو یا بہت.مگر جن یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ستایا ہے.میں چاہتاتھا کہ اُن سے انتقام لوں.وہ اسی وقت اچھے ہو گئے اور پھر برابر زندہ رہے حتی کہ اُن یہودیوں سے انتقام لیا.خد اکی قدرت جب انتقام لے چکے تو اسی مقام سے خون جاری ہو گیا اور وہ فوت ہوگئے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۸مورخہ۲۴؍فروری۱۹۰۴ء
ایک صحابی کا ذکر ہے کہ اس کے ایک تیر لگا اور اس سے خون جاری ہو گیا.اس نے دعا کی کہ اے اللہ عمر کی تو مجھے کوئی غرض نہیں ہے.البتہ میں یہود کا انتقام دیکھنا چاہتا تھا جنہوں نے اس قدر اذیتیں اور تکلیفیں دی ہیں.لکھا ہے کہ اسی وقت اس کا خون بند ہو گیا جب تک کہ وہ یہود ہلاک نہ ہوئے اور جب وہ ہلاک ہو گئے تو خون جاری ہو گیا اور اس کا انتقال ہوگیا.۱ حقیقت میں سب امراض اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہیں.کوئی مرض اس کے حکم کے بغیر پیش دستی نہیں کرسکتا.اس لیے ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرے.یہی اقبال کی راہ ہے مگر افسوس ہے جن راہوں سے اقبال آتا ہے ان کو انسان بد ظنّی کی نظر سے دیکھتا ہے اور نحوست کی راہوں کو پسند کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آخر گرِجاتا ہے.۱،۲ ۹؍فروری ۱۹۰۴ء (قبل از عشاء ) صاحبزادہ عبد اللطیفؓ کا نمونہ عشاء سے پیشتر آپ نے مجلس فرمائی اور فرمایا کہ کمال کے ساتھ عیوب جمع نہیں ہوسکتے.اس زمانہ میں ۱ البدر میں مزید لکھا ہے.اس زمانہ میں مومن کا فرض ’’میرا مذہب یہ ہے کہ اگرچہ بہت لوگوں نے اس باطل کی تردید میں آزادانہ مضامین بھی لکھے ہیں مگر ابھی تک یہ حالت ہے جیسے سفید بیل کی کھال پر کوئی ایک بال سیاہ ہو کیونکہ قومی تعصّب نے گھر کیا ہو اہے.اگر کوئی نیک بخت انگریز ہو اور وہ اسلامی شعار کا قائل ہو تو اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرسکتا اور یہ فتنہ اس قدر بڑھ گیا ہو اہے کہ اگر کل درخت قلمیں بن جاویں تو بھی اُسے کفایت نہیں کرسکتیں.دُنیا کا وہ حصّہ جوکہ وحشیانہ زندگی بسر کرتا ہے چھوڑ کر باقی میں نصف کے قریب عیسائی ہیں.اب اس وقت ہر ایک مومن کا کام یہ چاہیے کہ جب تک دم میں دم ہے اس باطل مذہب کا مقابلہ کرتا رہے اور اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ نہ ہو تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۸مورخہ۲۴؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ ۲) ۲الحکم جلد ۸نمبر۶ مورخہ۱۷؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ ۵،۶
ایک عبد اللطیفؓ کا ہی نمونہ دیکھ لو کہ جس حالت میں اس نے جان جیسی عجیب شَے سے دریغ نہ کیا تو اب جان کے بعد اس پر کیا نکتہ چینی کرسکتے ہیں.خواہ کوئی ہزار پر دہ ڈالے مگر ان کی استقامت پر شک نہیں ہوسکتا.بیوی بچوں، مال وجاہ کی پر وا نہ کرنا اور یہاں سے جاکر ان میں سے کسی سے نہ ملنا ایسی استقامت ہے کہ سن کر لرزہ آتا ہے.دنیا میں بھی اگر ایک نوکر خدمت کرے اور حق وفا کا ادا کرے تو جو محبت اس سے ہو گی وہ دوسرے سے کیا ہوسکتی ہے جو صرف اس بات پر ناز کرتا ہے کہ میں نے کوئی اچک پنا نہیں کیا حالانکہ اگر کرتا تو سزا پاتا.اتنی بات سے حقوق قائم نہیں ہوسکتے.حقوق تو صرف صدق و وفا سے قائم ہوسکتے ہیں جیسے اِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰۤى (النجم:۳۸)۱ ۱۱؍فروری ۱۹۰۴ء (بوقتِ شام) حضرت سیّد احمد سرہندی علیہ الرحمۃ کا تذکرہ فرمایا.سیّد احمد صاحب سرہندی کا ایک خط ہے جس میں انہوں نے بتلایا ہے کہ اس قدر احمد مجھ سے پیشتر گزر چکے ہیں اور ایک آخری احمد ہے.پھر آپ نے اس کی ملاقات کی خواہش ظاہر کی ہے اور خود اس کے زمانہ سے پیشتر ہونے پر افسوس کیا ہے اور لکھا ہے یَا اَسَفًا عَلٰی لِقَائِہٖ.پھر فرمایا کہ ان کا ایک قول میرے نزدیک درست نہیں ہے.وہ کہتے ہیں کہ کرا مات اس وقت صادر ہوتی ہیں جب کہ سالک اِلَی اللہ کا صعود تو اچھا ہو مگر نزول اچھا نہ ہو اور اگر نزول بھی اچھا ہو تو پھر کرامات صادر نہیں ہوتیں.گویا کرامات کے صدور کا وہ ادنیٰ درجہ قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ غلط ہے جس قدر انبیاء آئے ہیں ان سے بارش کی طرح کرامات صادر ہوتی رہی ہیں.ان کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی پردہ پوشی کرتے ہیں اور خود ان کو اس کوچہ میں دخل نہیں تھا.فتوح الغیب کو اگر دیکھاجاوے توبہت سیدھے سادھے رنگ میں سلوک اور توحید کی راہ بتلائی ۱ البدر جلد ۳نمبر۸مورخہ۲۴؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ ۲
ہے.شیخ عبدالقادر جیلانی ؒقائل ہیں کہ جو شخص ایک خاص تعلق اور پیوند خدا سے کرتا ہے اس سے ضرور مکالمہ الٰہی ہوتا ہے.یہ کنایت ایک اور رنگ میں ان کے اپنے سوانح معلوم ہوتے ہیں جیسے جیسے خدا کا فضل ان پر ہوتا رہا اور وہ ترقی مراتب کرتے رہے ویسے ویسے بیان کرتے رہے.صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد کا نیک بچپن حضرت اقدسؑ کے صاحبزادہ میاں بشیر احمدصاحب اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے مسجد میں آگئے اور اپنے ابا جان کے پاس ہو بیٹھے اور اپنے لڑکپن کے باعث کسی بات کے یاد آجانے پر آپ دبی آواز کھِل کھلا کر ہنس پڑتے تھے اس پر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ مسجد میں ہنسنا نہ چاہیے.جب دیکھا کہ ہنسی ضبط نہیں ہوتی تو اپنے باپ کی نصیحت پر یوں عمل کیا کہ صاحبزادہ صاحب اسی وقت اُٹھ کر چلے گئے.۱ ۱۵؍فروری ۱۹۰۴ء کوئی آٹھ بجے رات کا وقت تھا کہ بمقام گورداسپور حضرت اقدس کے کمرہ میں چند احباب بیٹھے ہوئے تھے.حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃو السلام کا رُوئے سخن جناب ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خان صاحب احمدی انچارج پلیگ ڈیوٹی گورداسپور کی طرف تھا کہ تقویٰ کے مضمون پر حضرت اقدس نے ایک تقریر فرمائی.وہ تقریر اس وقت لکھی تو نہیں گئی مگر جو کچھ نوٹ اور یادداشت زبانی یاد رہ سکے ان کو عمل درآمد کے لئے درج اخبار کیا جاتا ہے.توکّل انسان کو چاہیے کہ تقویٰ کو ہاتھ سے نہ دیوے اور خدا پر بھروسہ رکھے تو پھر اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوسکتی.خدا پر بھروسہ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ انسان تدبیر کو ہاتھ سے ۱ البدر جلد ۳نمبر۸مورخہ۲۴؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ ۲،۳
چھوڑ دے بلکہ یہ معنے ہیں کہ تدبیر پوری کرکے پھر انجام کو خدا پر چھوڑے اس کا نام توکّل ہے.اگر وہ تدبیر نہیں کرتا اور صرف توکّل کرتا ہے تو اس کا توکّل پھوکا (جس کے اندر کچھ نہ ہو) ہوگا اور اگر نری تدبیر کرکے اس پر بھروسہ کرتا ہے اور خدا پر توکّل نہیں ہے تو وہ تدبیر بھی پھوکی (جس کے اندر کچھ نہ ہو) ہو گی.ایک شخص اونٹ پر سوار تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے دیکھا.تعظیم کے لیے نیچے اُترا اور ارادہ کیا کہ توکّل کرے اور تدبیر نہ کرے چنانچہ اُس نے اپنے اونٹ کا گھٹنا نہ باندھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر آیا تو دیکھا کہ اونٹ نہیں ہے واپس آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میں نے تو توکّل کیا تھا لیکن میرا اونٹ جاتا رہا آپ نے فرمایا کہ تو نے غلطی کی.پہلے اونٹ کا گُھٹنا باندھتا اور پھر توکّل کرتا تو ٹھیک ہوتا.تدبیر تدبیر سے مُراد وہ ناجائز وسائل نہیں ہیں جو کہ آج کل لوگ استعمال کرتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے احکام کے موافق ہر ایک سبب اورذریعہ کی تلاش کا نام تدبیرہے.ایسے ہی انسان کو اپنے نفس کے تزکیہ کے لیے تدبیر سے کام لینا چاہیے اور شیطان جو اس کے پیچھے ہلاک کرنے کو لگا ہے اس کو دور کرنے کے واسطے تدابیر بھی سوچنی چاہیے بلکہ صوفیا نے لکھا ہے کہ کسی سے فریب کرنا اگرچہ ناجائز ہے لیکن شیطان کے ساتھ یہ جائز ہے.غرضیکہ متقی بننے کے لیے دعا بھی کرو اورتدابیر بھی کرو.دعا سے خدا کا فضل ہوتا ہے لیکن اگر انسان نے تدابیرسے کچھ طیاری نہ کی ہوئی ہو تو وہ فضل کس کام آوے گا.اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک کسان اپنی زمین کی کلبہ رانی تو نہ کرے نہ اسے صاف کرے نہ سہاگہ وغیرہ پھیرے صرف دعا کرتا رہے کہ بارش ہو جاوے اور اناج طیار ملے تو اس کی دعا کس کام آوے گی؟دعا اسی وقت فائدہ دے گی جب وہ اوّل کلبہ رانی کرکے زمین کو طیار رکھے گا.عُجب اور رِیا عُجب اور رِیا بہت مہلک چیزیں ہیں ان سے انسان کو بچنا چاہیے انسان ایک عمل کرکے لوگوں کی مداح کا خواہاں ہوتا ہے.بظاہر وہ عمل عبادت وغیرہ کی صورت
میں ہوتا ہے جس سے خدا راضی ہو مگر نفس کے اندر ایک خواہش پنہاں ہوتی ہے کہ فلاں فلاں لوگ مجھے اچھا کہیں اس کانام رِیا ہے اور عُجب یہ کہ انسان اپنے عمل سے اپنے آپ کو اچھا جانے کہ نفس خوش ہو ان سے بچنے کی تدابیر کرنی چاہئیں کہ اعمال کا اجر ان سے باطل ہو جاتا ہے.اس مقام پر ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خان صاحب نے عرض کی کہ حضور شیطان سے فریب کی کوئی مثال بیان فرمائی جاوے.چنانچہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی ذکر میں مثال یوں بیان فرمائی کہ ایک مولوی ایک جگہ وعظ کررہے تھے انہوں نے ایک دینی خدمت کے واسطے کئی ہزار روپیہ چندہ جمع کرنا تھا.ان کی وعظ اور ضرورت دینی کو دیکھ کر ایک شخص اُٹھا اور دو ہزار روپیہ کی ایک تھیلی لاکر مولوی صاحب کے سامنے رکھ دی.مولوی صاحب نے اسی وقت مجلس میں اس کے سامنے اس کی تعریف کی کہ دیکھو یہ بڑا نیک بخت انسان ہے اس نے ابھی اپنا گھر جنت میں بنا لیا اور یہ ایسا ہے ویسا ہے.جب اس نے اپنی تعریف سنی تو اسی وقت گھر گیا اور جھٹ واپس آکر بآواز بلند اس نے کہا کہ مولوی صاحب اس روپے کے دینے میں مجھ سے غلطی ہوگئی ہے.اصل میں یہ مال میری والدہ کا ہے اور میں اس کی بے اجازت لے آیا تھا لیکن اب وہ مطالبہ کرتی ہے.مولوی صاحب نے کہا اچھا لے جائو.چنانچہ وہ شخص اسی وقت روپیہ اُٹھا کر لے گیا.یا تو لوگ اس کی تعریف کرتے تھے اور یا اسی وقت اس کی مذمت شروع کردی کہ بڑا بیوقوف ہے.روپیہ لانے سے اوّل کیوں نہ ماں سے دریافت کیا.کسی نے کہا جھوٹا ہے.روپیہ دے کر افسوس ہوا تو اب یہ بہانہ بنالیا وغیرہ وغیرہ جب مولوی صاحب وعظ کرکے چلے گئے تو رات کو دو بجے وہ شخص وہ روپیہ لے کر ان مولوی صاحب کے گھر گیا اور جگا کر ان کو کہا کہ اس وقت تم نے میری تعریف کرکے سارا اجرمیرا باطل کرنا چاہا.اس لیے میں نے شیطان کے وسوسوں سے بچنے کی یہ تدبیر کی تھی.اب یہ روپیہ تم لو مگرتم سے قسمیہ عہد لیتا ہوں کہ عمر بھر میرا نام کسی کے آگے نہ لیناکہ فلاں نے یہ روپیہ دیا.اب وہ مولوی حیران ہوا اور کہا کہ لوگ تو ہمیشہ لعنت کرتے رہیں گے اور تم کہتے ہو کہ میرا نام نہ لینا.اس نے کہا مجھے یہ لعنتیں منظور ہیں مگر رِیا سے بچنا
چاہتا ہوں.تو یہ رِیا اور عُجب بڑی بیماریاں ہیں.ان سے بچنا چاہیے اور بچنے کے لیے تدابیر بھی کرنی چاہئیں اور دعا بھی کرنی چاہیے.شیطان سے فریب کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کے گھر کو آگ لگے تو وہ اپنے دوسرے حصّے مکانات کے بچانے کے لیے ایک مکان کو خودبخود گراتا ہے.تدابیر انسان کو ظاہری گناہ سے بچاتی ہیں لیکن ایک کشمکش اندر قلب میں باقی رہ جاتی ہے اور دل ان مکروہات کی طرف ڈانواں ڈول ہوتا رہتا ہے ان سے نجات پانے کے لیے دعا کام آتی ہے کہ خدا تعالیٰ قلب پر ایک سکینت نازل فرماتا ہے.تقویٰ ہر ایک کامیابی کی جڑ تقویٰ اورسچا ایمان ہے اسی کے نہ ہونے سے گناہ صادر ہوتے ہیں مقدر جو انسان کا ہے وہ اسے مل کر رہتا ہے پھر نہیں معلوم کہ خلاف ِتقویٰ امور کی ضرورت کیوں در پیش آتی ہے ایک چور چوری کرکے اپنا مقدر حاصل کرنا چاہتا ہے اگر وہ چوری نہ کرتا تو بھی حلال ذریعہ سے وہ اسے مل کر رہتا اسی طرح ایک زانی زناکرکے عورتوں کی لذّات حاصل کرتا ہے اگر وہ زنا نہ کرے تو جس قدر عورتوں کی لذّات اس کے لئے مقدر ہیں وہ کسی نہ کسی طرح حلال ذرائع سے اسے مل کر رہتیں، لیکن سارا فساد ایمان کا نہ ہونا ہے اگرتقویٰ پر قدم ماریں اور ایمان پر قائم رہیں کبھی کسی کو تکلیف نہ ہو اور خدا تعالیٰ سب کی حاجت روا کرتا ہے.۱ ۱ البدر جلد ۳نمبر۹ مورخہ یکم ؍مارچ۱۹۰۴ء صفحہ ۲ ۲ البدر سے.’’اس لیے اندرونی پلیدی کا خیال رکھو کہ وہ تمہارے سارے قلب کو پلید نہ کر دیوے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۹مورخہ یکم مارچ۱۹۰۴ء صفحہ۳) ۳ البدر سے.’’ بیباک ہو کر خدا کے احکام کو توڑنا اور شوخی اور شرارت سے اوامرکا انکار کرنا یہ بڑی خباثتیں ہیں جن سے بچنا نہایت ضروری ہے ‘‘.(البدر جلد ۳نمبر۹مورخہ یکم مارچ۱۹۰۴ء صفحہ۳)
۲۰؍فروری۱۹۰۴ء (دربارِشام ) اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ انسان اگر اپنے نفس کی پاکیز گی اور طہارت کی فکر کرے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ کر گناہوں سے بچتا رہے تو اللہ تعالیٰ یہی نہیںکہ اس کو پاک کر دے گا بلکہ وہ اس کا متکفّل اور متولّی بھی ہو جائے گا اور ایسے خبیثات سے بچائے گا.۲ اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ( النور:۲۷) کے یہی معنے ہیں اندرونی معصیت، ریا کاری، عُجب، تکبّر، خوشامد، خود پسندی، بدظنی اور بدکاری وغیرہ وغیرہ خباثتوں سے بچنا چاہیے۳ اگر اپنے آپ کو ان خباثتوں سے بچاتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کو پاک ومطہّر کر دے گا.تقویٰ اور اس کے حصول کا طریق مگر ضروری اَمریہ ہے کہ پہلے یہ سمجھ لے کہ تقویٰ کیا چیز ہے اور کیوں کر حاصل ہوتا ہے؟ تقویٰ تو یہ ہے کہ باریک در باریک پلیدگی سے بچے اور اس کے حصول کا یہ طریق ہے کہ انسان ایسی کامل تدبیر کرے کہ گناہ کے کنارہ تک نہ پہنچے اور پھر نری تدبیرہی کو کافی نہ سمجھے بلکہ ایسی دعا کرے جواس کا حق ہے کہ گداز ہو جاوے بیٹھ کر، سجدہ میں، رکوع میں، قیام میں اور تہجد میں، غرض ہر حالت اور ہر وقت اسی فکرودعا میں لگا رہے کہ اللہ تعالیٰ گناہ اور معصیت کی خباثت سے نجات بخشے اس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے کہ انسان گناہ اور معصیت سے محفوظ اور معصوم ہو جاوے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں راست باز اور صادق ٹھہر جاوے.تدبیر اور دعا کا کامل اتحاد لیکن یہ نعمت نہ تو نری تدبیر سے حاصل ہوتی ہے اور نہ نری دعا سے بلکہ یہ دعا اور تدبیر دونوں کے کامل اتحاد سے حاصل ۱ البدر سے.’’ جیسے کہ خدا تعالیٰ نے تعلیم دی ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ جس کے یہ معنے ہیں کہ جو کچھ قویٰ خدا تعالیٰ نے انسان کو عطا کئے ہیں ان سے پورا کام لے کر پھر وہ انجام کو خدا کے سپردکرتا ہے اور خدا تعالیٰ سے عرض کرتا ہے کہ جہاں تک تو نے مجھے تو فیق عطا کی تھی اس حد تک تو میں نے اس سے کام لے لیا یہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے معنے ہیں اور پھر اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہہ کر خدا سے امداد چاہتا ہے کہ باقی مرحلوں کے لئے میں تجھ سے استمداد طلب کرتا ہوں.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۹مورخہ یکم مارچ۱۹۰۴ء صفحہ۳)
تدبیر اور دعا کا کامل اتحاد لیکن یہ نعمت نہ تو نری تدبیر سے حاصل ہوتی ہے اور نہ نری دعا سے بلکہ یہ دعا اور تدبیر دونوں کے کامل اتحاد سے حاصل ہوسکتی ہے جو شخص نری دعا ہی کرتا ہے اور تدبیر نہیں کرتا ہے وہ شخص گناہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کو آزماتا ہے ایسا ہی جو نری تدبیر کرتا ہے اور دعا نہیں کرتا وہ بھی شوخی کرتا اور خدا تعالیٰ سے استغنا ظاہر کرکے اپنی تجویز اور تدبیر اور زورِبازو سے نیکی حاصل کرنی چاہتا ہے لیکن مو من اور سچے مسلمان کا یہ شیوہ نہیں وہ تدبیر اور دعا دونوں سے کام لیتا ہے.پوری تدبیر کرتا ہے اور پھر معاملہ خدا پر چھوڑ کر دعا کرتا ہے اور یہی تعلیم قرآن شریف کی پہلی ہی سورۃ میں دی گئی ہے چنانچہ فرمایا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتـحۃ:۵)۱ جو شخص اپنے قویٰ سے کام نہیں لیتا ہے وہ نہ صرف اپنے قویٰ کو ضائع کرتا اور ان کی بے حرمتی کرتاہے بلکہ وہ گناہ کرتا ہے مثلاً ایک شخص ہے جو کنجروں کے ہاں جاتا ہے اور اسی بدصحبت میں اپنا دن رات بسر کرتا ہے اور پھر دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! مجھے گناہ سے بچا ایسا شوخ انسان خدا تعالیٰ سے مسخری کرتا ہے اور اپنی جان پر ظلم.اس سے اس کو کچھ فائدہ نہ ہوگا اور آخر یہ خیال کرکے کہ میری دعا سنی نہیں گئی وہ خدا سے بھی منکر ہو جاتا ہے.اس میں شک نہیں ہے کہ انسان بعض اوقات تدبیر سے فائدہ اٹھاتا ہے لیکن تدبیر پر کلّی بھروسہ کرنا سخت نادانی اور جہالت ہے جب تک تدبیر کے ساتھ دعا نہ ہو کچھ نہیں اور دعا کے ساتھ تدبیر نہ ہو تو کچھ فائدہ نہیں جس کھڑکی کی راہ سے معصیت آتی ہے پہلے ضروری ہے کہ اس کھڑکی کو بندکیا جاوے پھر نفس کی ۱ البدر سے.’’جو ذرائع معصیت کے ہیں ان کو ترک کرنا لازمی ہے ان ذرائع سے علیحدہ ہو نے کے بعد ایک کشاکش نفس میں رہتی ہے کہ اسے بار بار خیال اس بدی کے ارتکاب کا آتا ہے یہ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ ایک عرصہ اس میں گذار چکا ہے اس سے نجات پانے کاذریعہ دعا ہے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۹مورخہ یکم مارچ۱۹۰۴ءصفحہ۳) ۲ البدر سے.’’جَاهَدُوْا فِيْنَا کے یہی معنے ہیں کہ حصولِ تقویٰ کے لیے حتّی الوسع تدابیر کو کام میں لاوے اور پھر دوسری جگہ اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المؤمن:۶۱) کہہ کر بتلا دیا کہ جب تدابیر کر چکو تو پھر خدا سے دعا مانگو وہ قبول ہوگی.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۹مورخہ یکم مارچ۱۹۰۴ءصفحہ۳)
حقیقت میں اپنے کامل درجہ پر ایک موت ہے کیونکہ جب نفس کے سارے پہلوئوں سے مخالفت کرے گا تو نفس مَر جاوے گا.اسی لیے کہا گیا ہے مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَـمُوْتُوْا.نفس۲ تَوْسَنْ گھوڑے کی طرح ہوتا ہے اور جو لذّت تبتّل اور انقطاع میں ہوتی ہے اس سے بالکل ناآشنا ہوتا ہے.جب اس پر موت آجاوے گی تو چونکہ خلا محال ہے اس لیے دوسری لذّات جو تبتّل اور انقطاع میں ہوتی ہیں شروع ہو جائیں گی.یہی وہ بات ہے جس کی ہماری ساری جماعت کو ہر وقت مشق کرنی چاہیے.۳ جیسے بچے جب تختیوں پر بار بار لکھتے ہیں تو آخرخوش نویس ہو جاتے ہیں.وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا (العنکبوت:۷۰) میں مجاہدہ سے مراد یہی مشق ہے کہ ایک طرف دعا کرتا رہے دوسری طرف کامل تدبیر کرے.آخر اللہ تعالیٰ کا فضل آجاتا ہے اور نفس کا جوش وخروش دب جاتا اور ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور ایسی حالت ہوجاتی ہے جیسے آگ پر پانی ڈال دیاجاوے.بہت سے انسان ہیں جو نفسِ امّارہ ہی میں مبتلا ہیں.۱ البدر سے.’’ابھی تک بہت سے آدمی جماعت میں ایسے ہیں کہ تھوڑی سی بات بھی خلاف ِنفس سن لیتے ہیں تو ان کو جوش آجاتا ہے حالانکہ ایسے تمام جوشوں کو فروکرنا بہت ضروری ہے تا کہ حلم اور بردباری طبیعت میں پیدا ہو.دیکھا جاتا ہے کہ جب ایک ادنیٰ سی بات پر بحث شروع ہوتی ہے تو ایک دوسرے کو مغلوب کرنے کی فکر میں ہوتا ہے کہ کسی طرح میں فاتح ہو جاؤں ایسے موقع پر جوشِ نفس سے بچنا چاہیے اور رفعِ فساد کے لیے ادنیٰ ادنیٰ باتوں میں دیدہ دانستہ خودذلّت اختیار کر لینی چاہیے اس اَمر کی کوشش ہرگز نہ کرنی چاہیے کہ مقابلہ میں اپنے دوسرے بھائی کوذلیل کیا جاوے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۹ مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۳،۴) ۲ البدر میںیوں لکھا ہے.’’ یہ لفظ تم نے غلط لکھا ہے.‘‘ (مرتّب) ۳البدر میں ہے.’’ دیکھو اس نے بادشاہ ہو کر ایک غریب ملّاں کا دل نہ دکھانا چاہا.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۹ مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۴) ۴ البدر میں ہے.’’ اپنے بھائی پر فتح پانے کا خیال رعونت کی ایک جڑ ہے اور بڑی بھاری مرض ہے کہ اپنے ایک بھائی کے عیب کے مشتہر کرنے کی ترغیب دلاتی ہے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۹ مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۴)
اپنے بھائیوں کی پردہ پوشی کرو مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں باہم نزاعیں بھی ہوجاتی ہیں اور معمولی نزاع سے پھر ایک دوسرے کی عزّت پر حملہ کرنے لگتا ہے اور اپنے بھائی سے لڑتا ہے.یہ بہت ہی نا مناسب حرکت ہے.یہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک اگر اپنی غلطی کا اعتراف کرلے تو کیا حرج ہے.بعض آدمی ذرا ذرا سی بات پر دوسرے کی ذلّت کا اقرار کئے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتے.۱ ان باتوں سے پرہیز کرنا لازم ہے.خدا تعالیٰ کا نام ستّار ہے.پھر یہ کیوں اپنے بھائی پر رحم نہیں کرتا اور عفو اور پر دہ پوشی سے کام نہیں لیتا.چاہیے کہ اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرے اور اس کی عزّت وآبرو پر حملہ نہ کرے.ایک چھوٹی سی کتاب میں لکھا دیکھا ہے کہ ایک بادشاہ قرآن لکھا کرتا تھا ایک ملّا نے کہا کہ یہ آیت۲ غلط لکھی ہے بادشاہ نے اُس وقت اس آیت پر دائرہ کھینچ دیا کہ اس کو کاٹ دیا جائے گا.جب وہ چلا گیا تو اُس دائر ہ کو کاٹ دیا جب بادشاہ سے پوچھا کہ کیوں کیا تو اس نے کہا کہ دراصل وہ غلطی پر تھا مگر میں نے اس وقت دائرہ کھینچ دیا کہ اس کی دلجوئی ہو جاوے.۳ یہ بڑی رعونت کی جڑ، بیماری ہے کہ دوسرے کی خطا پکڑ کر اشتہار دے دیا جاوے.۴ ایسے امور سے نفس خراب ہو جاتا ہے اس سے پرہیز کرنا چاہیے.غرض یہ سب امور تقویٰ میں داخل ہیں اور اندرونی بیرونی امور میں تقویٰ سے کام لینے والا فرشتوں میں داخل کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں کوئی ۱ البدر میں ہے.’’یادرکھو بیعت کازبانی اقرار کچھ شَے نہیں ہے اللہ تعالیٰ تزکیہ نفس چاہتا ہے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۹ مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۴) ۲ البدر سے.’’ اس لیے اپنے نفسوں میں تبدیلی کرو اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ حاصل کرو.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۹مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۴) ۳ البدر سے.’’ خواہ کیسی ہی دشمنی ہو رفتہ رفتہ سب خودبخود اس کے تابع ہو جاویں گے اور بجائے حقارت کے اس کی عظمت کرنے لگ جاویں گے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۹مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۴) ۴البدر سے.’’ چھوٹی چھوٹی باتوں میں طول دینا اور بھائیوں کو رنج پہنچا نا بہت بُری بات ہے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۹مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۴)
سرکشی باقی نہیں رہ جاتی.تقویٰ حاصل کرو کیونکہ تقویٰ کے بعد ہی خدا تعالیٰ کی برکتیں آتی ہیں.متقی دنیا کی بَلائوں سے بچایا جاتا ہے.خدا ان کا پر دہ پوش ہو جاتا ہے جب تک یہ طریق اختیار نہ کیا جاوے کچھ فائدہ نہیں.ایسے لوگ میری بیعت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.۱ فائدہ ہو بھی تو کس طرح جب کہ ایک ظلم تو اندر ہی رہا.اگر وہی جوش، رعونت، تکبّر، عُجب، ریا کاری، سریع الغضب ہونا باقی ہے جو دوسروں میں بھی ہے تو پھر فرق ہی کیا ہے؟۲ سعید اگر ایک بھی ہو اور وہ سارے گائوں میں ایک ہی ہوتو لوگ کرامت کی طرح اس سے متاثر ہوں گے.نیک انسان جو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر نیکی اختیار کرتا ہے اس میں ایک ربّانی رُعب ہوتا ہے اور دلوں میں پڑ جاتا ہے کہ یہ باخدا ہے.۳ یہ بالکل سچی بات ہے کہ جو خدا کی طرف سے آتا ہے خدا تعالیٰ اپنی عظمت سے اس کو حصّہ دیتا ہے اور یہی طریق نیک بختی کا ہے.پس یاد رکھو کہ چھوٹی چھوٹی باتوں۴ میں بھائیوں کو دکھ دیناٹھیک نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمیع اخلاق کے مُتَمِّم ہیں اور اس وقت خدا تعالیٰ نے آخری نمونہ آپ کے اخلاق کا قائم کیا ہے.اس وقت بھی اگر وہی درندگی رہی تو پھر سخت افسوس اور کم نصیبی ہے.پس دوسروں پر عیب نہ لگائو کیونکہ بعض اوقات انسان دوسرے پر عیب لگا کر خود اس میں گرفتار ہو جاتا ہے اگر وہ عیب اس میں نہیں لیکن اگر وہ عیب سچ مچ اس میں ہے تو اس کا معاملہ پھر خدا سے ہے.بہت سے آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے بھائیوں پر معاً ناپاک الزام لگا دیتے ہیں.ان باتوں سے پرہیز کرو.بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچائو اور اپنے بھائیوں سے ہمدردی کرو.۱ ہمسایوں سے نیک سلوک کرو.اور اپنے بھائیوں سے نیک معاشرت کرو اور سب سے پہلے شرک سے بچو کہ یہ تقویٰ کی ابتدائی اینٹ ہے.۲ ۱ البدرمیں ہے.’’بردباری اختیار کرو.بیویوں سے عمدہ معاشرت کرو.ہمسایوں سے نیک سلوک کرو.‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر ۹ مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ءصفحہ ۴ ) ۲ الحکم جلد ۸نمبر۸مورخہ ۱۰؍مارچ۱۹۰۴ء صفحہ ۷،۸
۲۱؍فروری ۱۹۰۴ء (بوقتِ ظہر) ابتلا اور دشواریاں مقدمات کے تذکرہ پر حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ انبیاء ورسل کے سوانح پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ درمیان میں ہمیشہ مکروہات آجایا کرتے ہیں طرح طرح کی ناکامیاں پیش آتی ہیں.زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا (الاحزاب:۱۲) سے معلوم ہوتاہے کہ حددرجہ کی ناکامی کی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں لیکن یہ شکست اور ہزیمت نہیں ہوا کرتی.ابتلا میں مامور کا صبر واستقلال اور جماعت کی استقامت اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے وہ خود فرماتا ہے كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِيْ(المجادلۃ:۲۲)لفظ كَتَبَ سنّت اللہ پر دلالت کرتا ہے یعنی یہ خدا کی عادت ہے کہ وہ اپنے رسولوں کو ضرور ہی غلبہ دیا کرتا ہے.درمیانی دشواریاں کچھ شَے نہیں ہوتیں اگرچہ وہ ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْاَرْضُ (التوبۃ:۱۱۸) کا مصداق ہی کیوں نہ ہوں.پنجاب میں جو خدمت گورنمنٹ کی ہم سے ہوئی ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ہے جسمانی طور پر بھی دیکھ لو کہ مایوسی کی حالت میں ہمارے خاندان نے وقت پر امداد کی اور خود گورنمنٹ نے ایک مدّت دراز سے قبول کیا ہوا ہے کہ ہمارا خاندان اوّل درجہ پر سرکار دولتمدار انگریزی کا خیر خواہ ہے ۱۸۵۷ء میں جبکہ کل رعیت سرکار انگریزی سے منحرف تھی اس وقت میرے والد غلام مرتضیٰ صاحب نے بڑی خیر خواہی اور ہمدردی سے سرکار کی مدد کی پھر اب روحانی طور پر بھی ہم سے کوئی دقیقہ خیر خواہی اور ہمدردی کا فرو گذاشت نہیں ہوا لاکھ ہا روپیہ صرف کرکے ہم نے جہاد کے خیالات کو لوگوں کے دلوں سے محو کرنے کی کوشش کی ہے اور نہ صرف ہندوستان میں بلکہ غیر ممالک میں بھی ہماری اس کوشش کے نمونہ موجود ہیں حتی کہ اسی لئے ہم کافر ٹھہرائے گئے کیا یہ تھوڑی سی بات ہے اگر انصاف اور غور ہو تو ہمارے سلسلہ پر کسی قسم کی بد ظنّی کرنا سچائی کا خون کرنا ہے ہماری اس خدمت کا سلسلہ چالیس پچاس برس سے برابر جاری ہے اور کسی قسم کا قصور مطلق نہیں ہوا غور نہ کرنی اور شَے ہے مگر واقعات سے جو اَمر ثابت ہے وہ جھوٹ نہیں ہو سکتا وہ حق ہے.۱
(دربارِ شام) وبائوں اور بَلائوں کے آنے کا سبب موسمی بَلائوںاور وبائوں کے تذکرہ پر فرمایا.جب دنیا میں فسق وفجور پھیل جاتا ہے تو یہ وبائیں دنیا میں آتی ہیں.لوگ اللہ تعالیٰ سے لاپروا ہوجاتے ہیں تواللہ تعالیٰ بھی ان کی پروا نہیں کرتا.میں دیکھتا ہوں کہ ابھی ان شوخیوں اور شرارتوں میں کوئی فرق نہیں آیا، باوجودیکہ طاعون ایک کھاجانے والی آگ کی طرح بھڑک رہی ہے لیکن وہی مکروفریب اور بدکاری کے بازار گرم ہیں بلکہ ان میں زیادتی ہی نظر آتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی کیا مرضی ہے.اللہ تعالیٰ تھکتا نہیں.پہلے زمانہ میں بھی جب لوگ گناہ سے باز نہیں آئے تو زمین کے تختے پلٹ دئیے گئے ہیں اور شہروں کے نام ونشان مٹادئیے گئے ہیں.جب طاعون پہلے پہل پھیلا ہے تو لوگ سمجھتے تھے کہ یہ یونہی ایک اتفاقی بیماری ہے بہت جلد نابود ہو جائے گی لیکن جیسے یہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت جبکہ ابھی اس کا نام ونشان بھی نہ تھا مجھے اطلاع دی تھی کہ یہ وبا آنے والی ہے ویسے ہی ابھی یہ خوفناک عذاب بمبئی ہی میں پھیلا ہوا تھا جو مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ یہ وبا سارے پنجاب میں پھیل جائے گی.اس پر ناعاقبت اندیش لوگوں نے ہنسی اور ٹھٹھے اُڑائے.مگر اب دیکھ لو کوئی جگہ ایسی نہیں جو اس سے خالی ہو اور اگر کوئی جگہ ایسی ہے بھی تو اس کے اردگرد آگ لگی ہوئی ہے اس کے محفوظ رہنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہو چکا.حقیقت میں یہ بڑے ہی اندیشہ اور فکر کی بات ہے جبکہ کوئی علاج بھی اس کا کارگر نہیں ہوا اور زمینی تدابیر میں ناکامی ہوئی ہے تو پھر کس قدر ضروری ہے کہ لوگ سوچیں کہ یہ بَلا کیوں آئی ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے جب تک لوگ سچی توبہ اور رجوع اِلَی اللہ نہیں کرتے اور ان شوخیوں اور شرارتوں سے باز نہیں آتے جو خدا کی باتوں سے کی جاتی
ہیں یہ عذاب پیچھا چھوڑتا نظر نہیں آتا لیکن جب انسان توبہ اور استغفار کرتا ہے اور اپنے اندر ایک پاک تبدیلی کا نمونہ دکھاتا ہے تو پھر خدا بھی رجوع برحمت کرتا ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اسی طرح فسق وفجور کا بازار گرم ہے اور قِسم قِسم کے گناہ اس زمین پر ہورہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی عذاب الٰہی کی طیاریاں ہو رہی ہیں.پہلی کتابوں میں بھی اس وبا کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ قیامت کے قریب عام مَری پڑے گی سو اب وہ دن قریب آگئے ہیں اور مَری پڑرہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب زمانہ کا آخر ہے.اس بات کو مکرر یاد رکھو کہ جب بخل و حسد اور فسق وفجور کی زہریلی ہوا پھیل جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی محبت سرد ہوجاتی ہے اور جس طرح پر اللہ تعالیٰ سے ہراساں وترساں ہونا چاہیے وہ نہیں رہتا.یہ ہوا ایسی ہی ہوتی ہے جیسے بعض اوقات ہیضہ کی زہریلی ہوا پھیلتی ہے اور تباہ کرتی جاتی ہے اس وقت بعض تو ایسے ہوتے ہیں جو اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بعض جو بچ رہتے ہیں ان کا بھی یہ حال ہوتا ہے کہ صحت درست نہیں رہتی.ہاضمہ کا فتور یا اور اسی قسم کی خرابیاں ہوا سے متاثر ہو کرپیدا ہو جاتی ہیں.اسی طرح پر جب گناہ کی وبا پھیلتی ہے تو بعض تو اس میں بالکل ہلاک ہو جاتے ہیں اور جو بچ رہتے ہیں ان کی بھی روحانی صحت میں فرق آجاتا ہے.سو یہی حال اب ہورہا ہے.اکثر ہیں جو کھلے طور پر بے حیائیوں اور بدکاریوں میں مبتلا ہیں اور وہ تقویٰ اور خدا ترسی سے ہزاروں کوس دور جاپڑے ہیں اور جو رسمی طور پر دیندار کہلاتے ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ کتاب وسنّت سے الگ ہو رہے ہیں.اپنے خیال اور رائے سے جو جی میں آتا ہے کر گذرتے ہیں اور حقیقت اور مغز کو چھوڑ کر پوست اور ہڈیوں کو لیے بیٹھے ہیں.اس لیے خدا تعالیٰ نے اپنی سنّت کے موافق ایک عذاب بھیجا ہے کیونکہ وہ ایسی حالت میں قیامت سے پہلے اسی دنیا کو قیامت بنا دیتا ہے اور ایسی خوفناک صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں ۱ البدر میں ہے.’’اور آج سے ایک صدسال پہلے تلاش کرو تو ایک سوکتب بھی ان کی ایسی نہ ملیں گی جو تردید اسلام میں یہاں شائع ہوئی ہوں.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۹مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴ ) ۲ البدر سے.’’بعض دفعہ ایک ہی بار لاکھ لاکھ کتب چھا پ کر ان لوگوں نے مفت شائع کی ہیں.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۹مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴)
ہیں کہ زندگی قیامت کا نمونہ ہوجاتی ہے اور اب یہ وہی دن ہیں کیونکہ میں دیکھتا ہوںسچائی سے بجائے محبت کے بغض کیا جاتا ہے اور عملی حالتیں خراب ہوچکی ہیں.غلط اعتقادات پر ایسا زور دیا گیا ہے کہ حدّ اعتدال سے بہت تجاوز ہوگیا ہے اور اس حالت پر پہنچ گیا ہے جس کو اعتدا کہتے ہیں.اسلام پر عیسائیت کی یلغار ساری قوموں کو دیکھو کہ تیرہ سو برس سے بالکل خاموش اور چپ چاپ تھے اگرچہ اسلام کے ساتھ ان کی لڑائیاں بھی ہوتی رہیں مگر وہ شوخیاں اور شرارتیں جواب اسلام کے استیصال اور نا بود کرنے کے واسطے کی جاتی ہیں نہیں کی جاتی تھیں اور وہ مذہبی زہر نہ تھا جو آج ہے.پچاس برس پہلے اگر ان کتابوں کو تلاش کریں جو اسلام کے خلاف لکھی گئی تھیں تو شائد ایک۱ بھی نہ ملے لیکن اب اس قدر کتابیں، اخبارات اور رسالے، اشتہارات نکلتے ہیں کہ اگر ان کو جمع کیا جاوے تو ایک پہاڑ بن جاوے.بعض پرچے عیسائیوں کے کئی کئی لاکھ طبع ہوتے ہیں.۲ جن میں ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا ہے.ایسا مجدّد،مصلح اور پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ایسے وقت آیا جبکہ دنیا نجاست سے بھری ہوئی تھی اس وقت آپ نے دنیا کو پاک صاف کیا اور اس مُردہ عالم کو زندہ کیا.اس کی پاک شان میں وہ فحش گالیاں دی جاتی ہیں جو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر میں سے کبھی کسی کو نہیں دی گئیں.مجھے تعجب آتا ہے کہ ان کم بختوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو نشانہ بنایا ہے ایک عاجز ۱ البدر سے.’’ نصاریٰ کے اعتقاد کا تو یہ حال ہے.اب عملی حالت کی طرف نظر کرو کہ کنجریوں سے بدتر ہیں عفت وغیرہ کا نام ونشان نہیں شراب پانی کی طرح پی جاتی ہے کھلی زناکاری کتوں اور کتیوں کی طرح ہو رہی ہے اگر کفارے کے اثر کا پورا نقشہ دیکھنا ہو تو یورپ کے ملکوں کی سیر کی جاوے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۹مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴) ۲ البدر میں یوں لکھا ہے.’’پھر ان کے علاوہ ایک اَور فرقہ ہے جو اپنے آپ کو مہذّب کہتا ہے ان لوگوں نے دنیا کو خدا بنا رکھا ہے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۹مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴) ۳ البدر میں ہے.’’ فیوض اور برکات کا سر چشمہ علماء ہوتے ہیں جن کے ذریعہ سے عام مخلوق ہدایت پاتی ہے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۱۰مورخہ ۸؍ مارچ ۱۹۰۴ءصفحہ۳)
مجھے تعجب آتا ہے کہ ان کم بختوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو نشانہ بنایا ہے ایک عاجز ابن آدم کو خدا بنایا جاتا ہے اور بد عملی کو بے حیائی اور جرأت سے کیا جاتا ہے.اُمُّ الخبائث (شراب) پانی کی طرح پی جاتی ہے۱ مگر اس پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے پاک ومطہّر انسان کی پاک ذات پر حملے کرنے کے لیے زبان کشائی کرتے ہیں.ان کے ملکوں میں جاکر اگر کوئی عفت اور پارسائی کا نمونہ دیکھنا چاہے تو اسے معلوم ہوگا کہ کفّارہ کے کیا کیا برکات ان پر نازل ہوئے ہیں.جو۲ بڑے مہذّب کہلاتے ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ وہ ہمہ تن دنیا ہی کی طرف جھکے ہوئے ہیں اور ایسے سرنگوں دنیا کے سامنے ہوئے ہیں کہ انہوں نے دنیا ہی کو خدا سمجھ لیا ہے.ان کے نزدیک اِنْ شَاءَ اللہ کہنا بھی ہنسی کی بات ہےاور ان کے اثر سے ہزاروں لاکھوں انسان تباہ ہورہے ہیں اور توجہ اِلَی اللہ اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرنا خطرناک غلطی اور حماقت ہے.باوجودیکہ یہ حالت ان لوگوں کی ہو چکی ہے لیکن اسلام کے استیصال کے لیے وہ لاکھوں کروڑوں روپیہ پانی کی طرح بہارہے ہیں مگر یاد رکھو کہ اسلام ان کے مٹانے سے مٹ نہیں سکتا.اس کا محافظ خود اللہ تعالیٰ ہے.علماء اسلام کی حالت اب اسلام کی اندرونی حالت دیکھو.فیض کا چشمہ علماء۳تھے مگر ان کی حالت ایسی قابلِ رحم ہوگئی ہے کہ اس کے بیان کرنے سے بھی شرم آجاتی ہے.جس غلطی پر کوئی اڑ گیا ہے یا جو کچھ اس کے منہ سے نکل گیا ہے ممکن نہیں کہ وہ اسے چھوڑ دے.اس غلطی کو جس نے ظاہر کیا.جھٹ پٹ اسے کافر اور دجّال کا خطاب مل گیا.حالانکہ۱ صادق اور راست باز کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جہاں اسے کسی اپنی غلطی کا پتا ملا وہ اسے وہیں چھوڑ دیتا ہے اسے ضداور اصرار اپنی غلطی پر نہیں ہوتا.مختلف فرقہ بندیاں باہمی تحقیر،قرآن اور اسلام سے بےخبری صاف طور پر ان کی حالت کو بتارہی ہے.جو باتیں صرف دنیا تک ہیں ان کی سزا اوراثر بھی دنیا ہی تک محدودہے مگر جو امور عاقبت کے متعلق ہیں ان میں اگر سستی اور بے پروائی کی جاوے تو اس کا نتیجہ جہنم ہوتا ہے.۱البدر میں ہے.’’حالانکہ فاسق اور متقی میں یہی فرق ہوا کرتا ہے کہ متقی کو جب غلطی کا پتا لگ جاوے تو وہ اسے فوراً ترک کر دیتا ہے اور فاسق نہیں کرتا ہر ایک شخص یا قوم کی غلطیاں ایک حد تک معلوم ہو جاتی ہیں مگر ان کی غلطیوں اور خباثتوں کا کوئی انتہا نظر نہیں آتا ہے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۱۰مورخہ ۸؍ مارچ ۱۹۰۴ءصفحہ۳) ۲ البدرسے.’’دعویٰ توقرآن، حدیث اور خدا پر ایمان کا ہے مگر ان کے آگے جب یہ پیش کیا جاوے اور کہا جاوے کہ غلطی چھوڑ دوتو ایک بات کا بھی اثر نہیں ہوتا بھلابتلاؤ کہ ایک مومن کے لیے اس سے بڑھ کر اَور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اس کے آگے قر آن شریف پیش کیا جاوے، احادیث پیش کی جاویں، نشانات پیش کئے جاویں علاوہ اس کے عقل بھی کام کی شَے ہے اس سے بھی نیک وبد کی تمیز ہوتی ہے اس سے بھی سمجھا یا جاوے مگر ان کو کسی سے فائدہ نہیں پہنچتا.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۱۰مورخہ ۸؍ مارچ ۱۹۰۴ءصفحہ۳)
شرم آجاتی ہے.جس غلطی پر کوئی اڑ گیا ہے یا جو کچھ اس کے منہ سے نکل گیا ہے ممکن نہیں کہ وہ اسے چھوڑ دے.اس غلطی کو جس نے ظاہر کیا.جھٹ پٹ اسے کافر اور دجّال کا خطاب مل گیا.حالانکہ۱ صادق اور راست باز کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جہاں اسے کسی اپنی غلطی کا پتا ملا وہ اسے وہیں چھوڑ دیتا ہے اسے ضداور اصرار اپنی غلطی پر نہیں ہوتا.مختلف فرقہ بندیاں باہمی تحقیر،قرآن اور اسلام سے بےخبری صاف طور پر ان کی حالت کو بتارہی ہے.جو باتیں صرف دنیا تک ہیں ان کی سزا اوراثر بھی دنیا ہی تک محدودہے مگر جو امور عاقبت کے متعلق ہیں ان میں اگر سستی اور بے پروائی کی جاوے تو اس کا نتیجہ جہنم ہوتا ہے.میں بعض وقت ان لوگوں کی حالت دیکھ کر سخت حیران ہوجاتا ہوں اور خیال گذرتا ہے کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ پریقین نہیں۲ ورنہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ آیات ونشانات دیکھتے ہیں.ہم دلائل پیش کرتے ہیں مگر ان پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا مو من کے سامنے اگر اللہ تعالیٰ کا کلام پیش کیا جاوے وہ فوراً ڈر جاتا ہے اور جرأت سے اس کی تکذیب پر لب کشائی نہیں کرتا مگر ان کی عجب حالت ہے کہ ہم اپنی تائید میں سب سے اوّل تو یہ پیش کرتے ہیں کہ خدا نے مجھے مامور کیا ہے اور پھر اپنی تائید ِدعویٰ میں ہم آیاتِ قرآنیہ پیش کرتے ہیں لیکن یہ دونوں سے انکار کرتے ہیں اور پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت پیش کرتے ہیں اس سے ہی تر ساں ہو جاتے مگر اس کا بھی کچھ اثر نہیں ہوتا خدا تعالیٰ کے نشان دیکھتے ہیں مگر تکذیب کرتے ہیں عقلی دلائل کا اثر نہیں غرض جو طریق ایک راست باز کی شناخت کے ہوسکتے ہیں وہ سب پیش کئے جاتے ہیں لیکن ایک بھی نہیں مانتے.۱ البدر میں ہے.’’ مثنوی میں مولانا روم نے ایک قصہ لکھا ہے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۱۰مورخہ ۸؍ مارچ ۱۹۰۴ءصفحہ۳) ۲ البدر سے.’’اس نے کہا جس اسم اعظم کے ذریعے سے معجزات دکھا تے ہو وہی ان پر بھی پڑھ کر پھونک دوکہا کہ کئی مرتبہ پھونک چکا ہوں مگر ان پر اس کا بھی اثر نہیں ہے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۱۰مورخہ ۸؍ مارچ ۱۹۰۴ءصفحہ۳) ۳ البدر سے.’’ ہمارا یہ منشا ہرگز نہیں ہے کہ تجارت وغیرہ ذرائع معاش کو ترک کر دیا جاوے اور نہ ہم ان باتوں سے کسی کو منع کرتے ہیں.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۱۰مورخہ ۸؍ مارچ ۱۹۰۴ءصفحہ۳)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ لکھا ہے۱ کہ وہ ایک مرتبہ بھاگتے جاتے تھے کسی نے پوچھا کہ کیوں بھاگتے جاتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ جاہلوں سے بھاگتا ہوں.اس نے کہا ان پروہ اسمِ اعظم۲ کیوں نہیں پھونکتے انہوں نے کہا کہ وہ اسم اعظم بھی ان پر اثر نہیں کرتا.حقیقت میں جہالت بھی ایک خطرناک موت ہے مگر یہاں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیسا جہل ہے قرآن پڑھتے ہیں، تفسیر یں کرتے ہیں، حدیث کی سند رکھتے ہیں مگر جب ہم پیش کرتے ہیں تو انکار کر جاتے ہیں یہ نہ خود مانتے ہیں اور نہ اَوروں کو ماننے دیتے ہیں.یہ زمانہ ایسا آگیا ہے کہ انسان کی ہستی کی غرض وغایت کو بالکل بھلا دیا گیا ہے خود خدا انسانی خِلقت کی غرض تو یہ بتا تا ہے وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذّٰریٰت:۵۷) مگر آج عبودیت سے نکل کر نادان انسان خود خدا بننا چاہتا ہے اور وہ صدق و وفا، راستی اور تقویٰ جس کو خدا چاہتا ہے مفقود ہے بازار میں کھڑے ہو کر اگر نظر کی جاوے تو صدہا آدمی اِدھر سے آتے اُدھر چلے جاتے ہیں لیکن ان کی غرض اور مقصد محض دنیا ہے.خدا تعالیٰ کی خاطر امورِدنیا کی بجاآوری خدا تعالیٰ اس سے تومنع نہیں کرتا کہ انسان دنیا میں کام نہ کرے.۳ مگر بات یہ ہے کہ دنیا کے لئے نہ کرے بلکہ دین کے لیے کرے تو وہ موجب برکات ہو جاتا ہے مثلاً خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ بیویوں سے نیک سلوک کرو عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(النّسآء:۲۰) لیکن اگر انسان محض اپنی ذاتی اور نفسانی اغراض کی بنا پر وہ سلوک کرتا ہے تو فضول ہے اور وہی سلوک اگر اس حکمِ الٰہی کے واسطے ہے تومو جب برکات.میں دیکھتا ہوں کہ لوگ جوکچھ کرتے ہیں وہ محض دنیا کے لیے کرتے ہیں محبت دنیا ان سے کراتی ہے خدا کے واسطے نہیں کرتے اگراولاد کی خواہش کرے تواس نیت سے کرے وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا(الفرقان:۷۵) پر نظر کرکے کرے کہ کوئی ایسا بچہ پیدا ہو جائے جو اعلائے کلمۃُ الاسلام کا ذریعہ ہو جب ایسی پاک خواہش ہو تو اللہ تعالیٰ قادر ۱ البدر سے.’’ اور اس کے ان کاموں کا ثواب اسے ویسا ہی ملتا ہے جیسے نماز کا ثواب.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۱۰مورخہ ۸؍ مارچ ۱۹۰۴ءصفحہ۳)
ہے کہ زکریا کی طرح اولاد دے دے مگر میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی نظر اس سے آگے نہیں جاتی کہ ہمارا باغ ہے یااَور ملک ہے وہ اس کا وارث ہو اور کوئی شریک اس کو نہ لے جائے مگر وہ اتنا نہیں سوچتے کہ کمبخت جب تو مَرگیا تو تیرے لیے دوست دشمن اپنے بیگانے سب برابر ہیں.میں نے بہت سے لوگ ایسے دیکھے اور کہتے سنے ہیں کہ دعا کرو کہ اولاد ہو جائے جواس جائداد کی وارث ہو ایسا نہ ہو کہ مَرنے کے بعد کوئی شریک لے جاوے اولاد ہو جائے خواہ وہ بدمعاش ہی ہو یہ معرفت اسلام کی رہ گئی ہے.برخلاف اس کے مومن اگر مکان بناتا ہے تو اس میں بھی اس کی نیت دین ہی کی ہوتی ہے لباس، خوراک، اس کا پھر نا غرض ہر کام دین ہی کے واسطے ہوتا ہے.وہ خوراک کھاتا ہے مگر موٹا ہونے کے واسطے نہیں بلکہ اس طرح پر جیسے یکہ بان کچھ دور جا کر اپنے ٹٹو کو نہاری اور خوراک دیتے ہیں تاکہ وہ اگلی منزل چلنے کے واسطے طیار ہو جائے اور دَم نہ نکل جائے مومن کی غرض بھی خوراک سے یہی ہوتی ہے کیونکہ نفس کا بھی تو ایک حق ہوتا ہے اور اہل وعیال کا بھی اور پھر خدا تعالیٰ کا حق الگ ہے اگر نفس کے حق کی رعایت نہ ہو تو پھر وہ مَرجائے گا اور یہ جوابدہ ہے.پس یادر کھو کہ مومن کی غرض ہر آسائش، ہر قول وفعل، حرکت وسکون سے گو بظاہر نکتہ چینی ہی کا موقع ہو مگر دراصل عبادت ہوتی ہے.بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ جاہل اعتراض سمجھتا ہے مگر خدا کے نزدیک عبادت ہوتی ہے۱ لیکن اگر اس میں اخلاص کی نیت نہ ہو تو نماز بھی لعنت کا طوق ہو جاتی ہے.مو منوں کو كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا (الاعراف:۳۲) کا حکم دیا اور جو خدا کے لیے نماز نہیں پڑھتے ان کو وَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۠(الماعون:۵)فرمایا.كُلُوْا ایک اَمر ہے جب مومن اس ۱ البدر میں ہے.’’ کل اوامر کے بجالا نے کا ثواب ملتا ہے جس قدر کا موں کو خدا کے حکم سے اور ان کے موافق کرے گا ان سب کا اجر پاوے گا ورنہ باقی امور پر جو رِیا وغیرہ کے لیے کئے جاتے ہیں اگرچہ بظاہر ان کی صورت اوامر کے مطابق ہوتی ہے عذاب اور ویل ہیں.‘ ‘ (البدر جلد ۳نمبر۱۰مورخہ ۸؍ مارچ ۱۹۰۴ءصفحہ۳) ۲ البدر میں ہے.’’اب یہ زمانہ ہے کہ اس میں ریا کاری، عُجب، خود بینی، تکبّر، نخوت، رعونت وغیرہ صفاتِ رذیلہ تو ترقی کر گئے ہیں اور مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ وغیرہ صفاتِ حسنہ جو تھے وہ آسمان پر اُٹھ گئے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۱۰مورخہ ۸؍ مارچ ۱۹۰۴ءصفحہ۳)
کو اَمر سمجھ کر بجالاوے تو اس کا ثواب ہوگا.اسی طرح عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(النّسآء:۲۰) اَمر کی بجاآوری سے ثواب ہوتا ہے لیکن اگر ریا کاری سے نماز بھی ادا کرے تو پھر اس کے لیے ویل ہے.۱ احیاءِ دین کا سلسلہ اس وقت اسلام جس چیز کا نام ہے اس میں فرق آگیا ہے.تمام اخلاقِ ذمیمہ بھر گئے ہیں اور وہ اخلاص جس کا ذکر مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ (البینۃ:۶) میں ہوا ہے آسمان پر اُٹھ گیا ہے.۲ خدا کے ساتھ صدق، وفاداری، اخلاص، محبت اور خدا پر توکّل کالعدم ہوگئے ہیں.اب خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ پھر نئے سر سے ان قوتوں کو زندہ کرے وہ خدا جو ہمیشہ يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا(الـحدید:۱۸)کرتا رہاہے اس نے ارادہ کیا ہے اور اس کے لیے کئی راہیں اختیار کی گئی ہیں.ایک طرف مامور کو بھیج دیا ہے جو نرم الفاظ میں دعوت کرے اور لوگوں کو ہدایت کرے.دوسری طرف علوم وفنون کی ترقی ہے اور عقل آتی جاتی ہے اب وہ وحشیانہ حالت سکھوںکے زمانہ کی سی نہیں رہی اور لوگ سمجھنے لگے ہیں.ایک طرف اتمامِ حجّت کے لیے آسمان نشان ظاہر کر رہا ہے.چنانچہ جب کتاب نزول المسیح چھپ کر شائع ہوگی.اس وقت سب کو پتا لگ جائے گا کیونکہ اس میں ڈیڑھ سَو کے قریب ایسے نشانات لکھے ہیں جن کے ہزاروں لاکھوں گواہ موجود ہیں.اورپھر قہری نشانات کا سلسلہ بھی رکھا گیا ہے جن میں سے طاعون کا بھی ایک نشان ہے اور اب جو اس شدت سے پھیل رہی ہے کہ کبھی گذشتہ نسلوں نے نہ دیکھی ہوگی اور بہت سے لوگ ہیں جو ان نشانات اور آیات سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں کوئی دن نہیں جاتا کہ لوگ بذریعہ خطوط یا خود حاضر ہوکر داخل بیعت نہیں ہوتے اگرچہ ۱ یہاں تک کی ڈائری الحکم سے لی گئی ہے.اس کے بعد اسی تاریخ یعنی ۲۱ ؍فروری ۱۹۰۴ء کی ڈائری البدر سے درج کی جاتی ہے.کیونکہ الحکم میں بقیہ ڈائری کہیں درج نہیں.(مرتّب) ۲ الحکم جلد ۸ نمبر۸ مورخہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۸،۹
دنیا میں فسق وفجور اور شوخی وآزادی، خودروی بہت بڑھ گئی ہوئی ہے تاہم یہ لوگ جو ہمارے سلسلہ میں آتے ہیں یہ بھی اسی جماعت میں سے نکل نکل کر آتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سعید بھی انہی میں ملے ہوئے ہیں.خدا تعالیٰ ان لوگوں کو نکال لے گا اور ان کو سمجھ دے گا اور کچھ طاعون کا نشانہ ہو جائیں گے اسی طرح پر دنیا کا انجام ہوگا اور اتمامِ حجّت ہوگی.۱،۲ اس مقام پر جناب محمد ابراہیم خان صاحب بن حاجی موسیٰ خان برادر زادہ خان بہادر مراد خان مرحوم نے کراچی (علاقہ سندھ)کا ذکر کیا کہ وہاں کے لوگ بہت غافل ہیں اور ان کو ان باتوں کا علم ہی نہیں ہے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ مطلق جاہل سے انسان گھبرا جاتا ہے.بہرحال کچھ تو پڑھے لکھے وہاں ہیں اور انگریزی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے اگرچہ انگریزوں کی تعلیم کا مضراثر کتنا ہی کیوں نہ ہو مگرتاہم یہ فائدہ ضرور ہے کہ فہم میں وسعت اور باتوں کے سمجھنے کی استعداد پیدا ہوجاتی ہے اور ہمیں ایسے ہی آدمیوں کی ضرورت ہے.رفتہ رفتہ پیدا ہو ہی جاویں گے.وحشی لوگ جن کو کھانے پینے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے ان سے انسان کیا کلام کرسکتا ہے.اس تعلیم یافتہ گروہ پر اگرچہ دنیا کا حجاب ہے مگرتاہم سعید فطرت لوگ سمجھ سمجھ کر ہماری طرف آرہے ہیں.اب ہماری جماعت کا ایک حصّہ انہی میں سے ہے.ہم خود تو کسی کو یہاں بیٹھے ہوئے بلا نہیں رہے آخر خود ہی سمجھ کر آرہے ہیں.غرضیکہ فہم اور عقل والے پر بڑی امید ہوتی ہے.نرے ڈنگر (بیل)سے انسان نے کیا بات کرنی ہے.لوگوں کو کچھ ملانوں نے خراب کیا ہے کچھ جاہل فقیروں نے اور بعض لوگ لنگوٹی پوشوں کے معتقد ہوتے ہیں.کچھ ہی کیوں نہ ہو خدا کے کام رکا نہیں کرتے.اگر ایک شخص زمین پر باغ بناتا ہے تو اوّل دیکھ لیتا ہے کہ باغ کے قابل زمین ہے کہ نہیں.اگر اسے بنجر پاتا ہے تو صاف کرتا اور پھوڑتا اور ڈھیلوں کو توڑتا تاڑتا ہے تب باغ بناتا ہے.پس وہ مالک الملک جو کہ اب یہ باغ طیار کرنے لگا ہے آخر اس نے دیکھ لیا ہوگا کہ کچھ سعید طبائع بھی ہیں اسی تعلیم کی برکت سے کئی لوگ ہماری کتب کو دیکھ کر ہدایت پاگئے ہیں حالانکہ ابتدا میں سخت مخالف تھے.
خدا کے وعدے برحق ہیں ایک عقلمند بیشک گھبراہٹ میں پڑتا ہے کہ صلیبی فتنے اور کارروائیاں حددرجہ تک ترقی کر چکی ہیں ان کی کتابیں دور دورتک پھیل گئی ہیں.مجموعی حالت میں ان کی جان توڑ کوششوں کو دیکھا جاتا ہے تو ناامیدی ہو جاتی ہے کہ الٰہی ان کا استیصال کیسے ہوگا اور صفحہ زمین پر توحید کیسے پھیلے گی.کل اسباب اسلام کے ضعف کے موجود ہیں اور صلیب کا زور ہے مگر ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور اس کا ارادہ ہو کر رہتا ہے اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ(البقرۃ:۱۰۷) صرف ایک ہی بات ہے جو بھروسہ دلاتی ہے اگرچہ کیسے ہی مشکلات آپڑیں اور عقل فتوے دیوے کہ اب اسلام دوبارہ قائم نہیں ہوسکتا لیکن میں اس بات کو نہیں مانتا.جب خدا ارادہ کرتا ہے تو کرکے رہتا ہے اس قسم کی رائیں ہمیشہ ہوتی رہتی ہیں اور غلط بھی ثابت ہو رہی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس زمانہ میں مبعوث ہوئے کیا ان کی نسبت اہل الرائے کی یہ رائے تھی کون تھا جو یقین کرتا کہ ایک غریب (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس نہ قوت، نہ شوکت، نہ فوج، نہ مال ہے اور ہر طرف مخالفت ہے وہ کامیاب ہو کر رہے گا اور جو وعدے فتح اور نصرت اور اقبال مندی کے وہ دیتا ہے پورے ہو کر رہیں گے مگر باوجود اس نا امیدی کے پھر کیسی امید بند ھ گئی اور تمام وعدے پورے ہوگئے.اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ(المائدۃ:۴) کی گواہی مل گئی اور پھر اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ(النصـر:۲) کی سورۃ نازل ہوئی ایسے ہی ممکن ہے کہ کوئی ہماری جماعت کا یہ خیال کر بیٹھے کہ اس صلیبی جال کا ٹوٹنا محال ہے مگر میں سنا تا ہوں کہ خدا سب کچھ کرسکتا ہے ابھی اس کے پاس بہت سی راہیں ہوں گی جن سے یہ فتنہ مٹے گا اور ان کا ہمیں علم نہیں.ہمارا اس بات پر ایمان چاہیے کہ اس کے وعدے برحق ہیں اگرتمام اسباب اس کے منافی نظر آویں پھر بھی اس کا وعدہ سچا ہے اگر ایک آدمی بھی ہمارے ساتھ نہ ہو پھر بھی اس کا وعدہ سچا ہے.وعدہ اس کا کمزور ہوسکتا ہے جس کی قدرت اور اختیار کمزور ہو ہمارے خدا میں کوئی کمزوری نہیں ہے وہ بڑا قادر ہے اور اس کی حرکت جاری ہے ہماری جماعت کو چاہیے کہ اسی ایمان کو ہاتھ میں رکھے.
بعض وقت جماعت پر ابتلا بھی آتے ہیں اور تفرقہ پڑ جایا کرتا ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ مکہ، مدینہ، حبش کی طرف منتشر ہو گئے تھے لیکن آخر خدا تعالیٰ نے ان کو پھر ایک جاجمع کر دیا.ابتلا اس کی سنّت ہے اور ایسے زلزلے آتے ہیں کہ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ(البقرۃ:۲۱۵)کہنا پڑتا ہے اور بعض کا خیال اس طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ ممکن ہے وہ وعدے غلط ہوں مگر انجام کار خدا کی بات سچی نکلتی ہے.حقانیت ِاحمدیت یہ سلسلہ اپنے وقت پر آسمان سے قائم ہوا ہے اگر اور سب دلائل کو نظر انداز کر دیا جاوے تو صرف وقت ہی بڑی دلیل ہے صدی سے ۲۰ سال بھی گزر گئے خدا کا وعدہ قرآن شریف اور احادیث میں ہے کہ وہ مسیح صلیبی فتنہ کے وقت پیدا ہوگا اب ان فتنوں کا زور دیکھ لو.رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ۳۰ لاکھ مرتد موجود ہے حالانکہ اس سے پیشتر اگر اہلِ اسلام میں ایک مرتد ہوتا تو قیامت آجاتی.کیا اس وقت بھی خدا خبر نہ لے.پھر عملی حالت کو دیکھ لو کہ کس قدر ردّی ہے.نام کو تو مسلمان ہیں مگر کر تو ت یہ ہے کہ بھنگ چرس وغیرہ نشوں میں مبتلا ہیں کیا اب بھی وقت نہیں ہے عیسائی لوگ بھی منتظر ہیں اور یہی وقت بتلاتے ہیں اہلِ کشف نے بھی یہی لکھا ہے قرائن وعلامات بھی اسی کو بتلارہے ہیں اگر اس وقت خدا خبر نہ لیتا تو دنیا میں یا ضلالت ہوتی یا عیسویت جو قرآن پر اور اللہ پر ایمان لاتاہے اسے ماننا پڑتا ہے لیکن جو یہود کی طرح وقت کو ٹالنے والے ہیں وہ محروم رہتے ہیں.سوادِ اعظم کی حقیقت پھر ایک دلیل سوادِ اعظم کی پیش کرتے ہیں کہ وہ برخلاف ہے.نادان اتنا نہیں جانتے کہ مصلح تو اسی وقت آتا ہے جب لوگ بگڑ جاویں اب بگڑے ہوؤں کا اتفاق اور شہادت کیا حکم رکھتی ہے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں مسیح کو معراج میں مُردوں میں دیکھ آیا ہوں اور پھر قرآنِ شریف سے وفات ثابت ہے پس آنحضرت کا فعل اور خدا کا قول دونوں سے وفات ثابت ہے یحیٰیؑ تو مَر چکے ہیں ان کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ کو دیکھا ہے پس اتنی دیر تک جو مُردہ کے پاس بیٹھا رہا وہ کیسے زندہ ہوسکتا ہے علاوہ ازیں خدا فر ماتا ہے کہ بِلانظیر کے کوئی بات قبول نہ کرو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے لیے اس نے نظائر پیش کئے مسیح کی حیات کے لیے بھی کوئی نظیر ہونی چاہیے تھی.
یہ زمانہ اسلام کی بہار کا ہے.اگر ہم چُپ بھی کریں تو خدا باز نہ آوے گا اور اصل میں ہم کیا کرتے ہیں وہ تو سب کچھ خدا ہی کررہا ہے.ہم تو صرف اسی لیے بولتے اور لکھتے ہیں کہ ثواب ہو.اب اس کے فضل کا دروازہ کھل گیا ہے اور خدا نے جو ارادہ کر لیا ہے وہ ہو کر رہے گا.دیکھو نہ ہمارے واعظ ہیں نہ لیکچرار ہیں نہ انجمنیں ہیں مگر جماعت ترقی کر رہی ہے.ہزاروں نے صرف خواب کے ذریعہ سے بیعت کی.کوئی ان کو بتلانے اور سمجھانے والا نہ تھا.آخر خدا نے دستگیری کی.کیا ہماری طاقت تھی کہ ہم یہ سب کچھ کر لیتے؟یہ اسی کا ہاتھ ہے جو کر رہا ہے.صدق ایسی شَے ہے کہ انسان کے دل کے اندر جب گھر کر جاوے تو اس کا نکلنا مشکل ہے.جو لوگ ہمارے عقائد کو بعد تحقیق قبول کر لیتے ہیں تو جان سے زیادہ ان کو عزیز جانتے ہیں ایک نمونہ مولوی عبد اللطیف ہیں کہ ہزاروں مرید رکھتے تھے.ریاست ان کی تھی.دولت بھی بے شمار تھی.شاہی دستار بند تھے.سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر موت قبول کی.کیا یہ قوت اور برکت جھوٹ میں ہوسکتی ہے؟کیا بجز سچائی کے اور بھی کسی میں یہ طاقت ہے؟ یہاں(پنجاب میں) بھی بہت سے لوگ ہیں کہ صرف ایمان کے لیے تکلیف دیئے جاتے ہیں.قوم، برادری اور گائوں والے ان کو طرح طرح کی اذیت صرف اسی لیے دیتے ہیں کہ انہوں نے سچ کو قبول کیا ہے پس اگر خدا دلوں میں نہیں ڈالتا تو وہ ان مصائب کو کیوںکر برداشت کرتے ہیں یہاں تک کہ حقیقی باپ اور بھائی بھی ان لوگوں سے الگ ہو جاتے ہیں بعض ایسے ہیں کہ ۲؍ (دو آنے) روز محنت کرکے کماتے ہیں اور اس میں سے.؍ (دو پیسے) ہمیں چندہ دیتے ہیں.تہجد پڑھتے ہیں نمازوں کے پابند ہیں.خدا کے آگے تضرع اور ابتہال کرتے ہیں.اب سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ ان کو نورِایمان عطا کرے اور دلوں میں صدق ڈالے یہ سب کچھ کب حاصل ہوسکتا ہے.دیکھنے اور سمجھنے کے لیے تو ایک نشان کتاب براہین ہی بس ہے جیسے کہتے ہیں کہ ع حرفے بس است اگر درخانہ کس است سمجھ دار آدمی کے لیے ایک ہی بات کافی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے عمر کاوعدہ دیا.بتلائو کوئی کہہ ۱البدر جلد ۳نمبر۱۰مورخہ ۸؍ مارچ ۱۹۰۴ءصفحہ۳،۴
سکتا ہے کہ میں اتنے برس ضرور زندہ رہوں گا.پھر جتنے وعدے براہین میں تھے ان میں سے اکثر پورے ہوگئے ہیں اور کچھ ابھی باقی ہیں.اگر انسان کا کاروبار ہوتا تو اس قدر نصرت کب شاملِ حال ہوسکتی اور وہ وعدے اگر خدا کی طرف سے نہ تھے تو کیسے پورے ہوکر رہتے.پس وقت کو،زمانہ کو،ضلالت کو، اندرونی اور بیرونی حالت کو دیکھو تو خود پتا لگ جاتا ہے.مخالفوں سے ہم ناراض نہیں ہیں کیونکہ راستی کا مقابلہ جان توڑ کر ہوا کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھو کس قدر مقابلہ ہوا لیکن کیا مسیلمہ کی بھی مخالفت ہوئی.۱ ۲۲؍فروری۱۹۰۴ء (بوقتِ شام) مامورین کی زندگی میں ابتلا مقدمات کی نسبت آپ نے فرمایا کہ یہ ایک منجانب اللہ ابتلا تھا جو کہ پیش آگیا.سنّت اللہ اسی طرح سے ہے کہ مامورین کی زندگی یونہی اسی طرح آسائش سے نہیں گذرتی کہ وہ دنیا میں بےکار رہیں.پھر آپ نے مولویوں کی حالت پر فرمایا کہ ان لوگوں کے اعمال اور منبروں پر چڑھ چڑھ کر خطبے پڑھنے سے ہمیں تعجب آتا ہے کہ آخر ان کے اعمال کا نتیجہ کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال پر بھی زنگ ہوتا ہے جس سے انسان کے صحیح عقائد بھی نظر نہیں آسکتے.وفاتِ مسیح علیہ السلام اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ کتاب اللہ جس کا ایک ایک لفظ یقینی ہے وہ وفاتِ مسیح کو بیان کرتی ہے.احادیث کا اجماع بھی یہی ہے اگر کوئی زندہ ہوتا تو صحابہ ؓ کو اس سے بڑھ کر اور کیا رنج ہوتا کہ صاحبِ شریعت سرورِ انبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو زمین میں مدفون ہوں اور ایک نبی جو کہ صاحبِ شریعت نہیں اور موسوی شریعت کا تابع وہ آسمان پر زندہ موجود ہو اور اس امّت کے اختلاف مٹانے اورفیصلہ کرنے کے لیے وہی آسمان سے آوے.اب پوچھو کہ خاتم الانبیاء کون ہوا حضرت مسیح یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم؟ مگر پھر بھی یہ لوگ جو باز
نہیں آتے تو معلوم ہوا کہ شامتِ اعمال ہے.تقویٰ تو نہیں رہی تھی.عقلِ سلیم بھی ان میں نہیں رہی دنیوی عقل کے لیے تقویٰ کی ضرورت نہیں ہے مگر دین کے لیے ضرورت ہے.اس لیے یہ لوگ دین کی باتوں کو بھی نہیں سمجھتے.خدا تعالیٰ اسی کی طرف اشارہ کرکے فرماتا ہے لَا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۠(الواقعۃ:۸۰) یعنی اندر گھسنا تو درکنار مَس کرنا بھی مشکل ہے جب تک انسان مطہّر یعنی متقی نہ ہولے.احادیث میں مِنْکُمْ ہے،قرآن میں مِنْکُمْ ہے.پھر بغیر نظیر کے کوئی بات نہیں مانی جاتی.عیسائیوں نے جب مسیح کے بن باپ ہونے سے اس کی خدائی کا استدلال کیا تو خدا تعالیٰ نے نظیر بتلا کر ان کی بات کو ردّ کر دیا.فرمایا اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ( اٰل عـمران:۶۰)کہ اگر بن باپ ہونے سے انسان خدا ہوسکتا ہے تو آدم ؑ کی توماں بھی نہ تھی اسے خدا کیوں نہیں مان لیتے.پس جب نصاریٰ کی اس بات کو خدا نے ردّ کردیا تو اگر مسیح بھی واقعی آسمان پر زندہ ہوتا اور عیسائی اسے خدائی کی دلیل گردانتے تو اللہ تعالیٰ اس کا بھی ردّکرتا اور چند ایک نظائر پیش کرتا کہ فلاں فلاں اور نبی زندہ آسمان پر موجود ہیں.ہر ایک پہلو سے ان لوگوں پر اتمامِ حجّت ہو چکا ہے.اب یہ لوگ مصداق صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْيٌ کے ہیں.بھلا دیکھو تو جس حال میں کہ میں زندہ موجود ہوں کیا یہ ان کا حق نہ تھا کہ مجھ سے آکر سوال کرتے پوچھتے اور اپنے شکوک و شبہات پیش کرتے.میں نے بارہا لکھا کہ ان کے اخراجاتِ سفر دینے کو میں طیار ہوں یہاں آویں مکان بھی دوں گا حتی الوسع مہمان نوازی بھی کروں گا لیکن یہ لوگ اِدھر رخ نہیں کرتے.ہمیں کہتے ہیں کہ قرآن سے باہر ہیں حالانکہ قرآن ہی نے تو ہمیں اس کوچے میں کھینچا ہے صرف فرق اتنا ہے کہ ہمیں قرآن کے معنے وحی نے بتلائے ہیں.اس کے ہوتے ہوئے دیدہ دانستہ کیسے اپنی آنکھوں کو پھوڑ لیں.خدا تعالیٰ کا یہ فرض تھا کہ اگر عیسائی لوگ مسیح کی خدائی کے لیے خصوصیت پیدا کریں تو وہ اس کا ردّ کرتا جیسے آدم کی مثال بیان کی.کیا خدا کو اس خصوصیت کا علم نہ تھا کہ مسیح آسمان پر زندہ ہے پھر اس کا اس نے کیوں ردّ نہ کیا اس طرح سے قرآن پر حرف آتا ہے اگر مسیح آسمان پر زندہ ہوتا اور عیسائی لوگ اس
سے خدائی کی دلیل پکڑتے تو خدا ضرور بیان کرتا کہ فلاں فلاں انبیاء بھی آسمان پر زندہ موجود ہیں اس سے کوئی خدا نہیں بن سکتا جبکہ چالیس کروڑ انسان اسے آگے ہی خدا مان کر گمراہ ہو رہے ہیں تو تم نے ان کے ساتھ مل کر اور ہاں میں ہاں ملا کر اس کی خدائی پر اور مہر لگا دی.اس کا باعث صرف ان لوگوں کی بدعملی ہے کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اَور اورکھانے کے اَور.اور ایک ایک روپیہ لے کر فتوے بدل دیتے ہیں.اندرونی راست بازی بالکل نیست ونابود ہوگئی اور اب حدیث شریف کے موافق بالکل یہودی ہوگئے ہیں.یہ امید تو ہے نہیں کہ یہ لوگ ان سچائیوں کو مانیں ہاں ان کی ذرّیّت اگر مانے تو مانے.اس کے بعد آپ نے مقدمات کا تذکرہ کیا کہ ان کی ابتدا کیوںکر ہوئی.کس طرح اوّل کرم دین نے مولوی عبد الکریم صاحب کو بذریعہ خطوط اطلاع دی کہ مہر علی شاہ نے فیضی متوفّی کی کتاب سے سر قہ کیا ہے.اس کی اطلاع پر کتاب نزول المسیح لکھی گئی.پھر اس نے اپنے خطوط کے بر خلاف ایک مضمون سراج الاخبار میں لکھ کر سبّ وشتم کیا اور ان کو اپنی طرف منسوب کرنے سے انکار ی ہوا.اس طرح سے ہمارا چلتا کام بند ہوگیا.تنگ آکر حکیم صاحب نے دعویٰ کیا پھر کرم دین نے جہلم میں ہم پر ایک مقدمہ کیا وہ بڑا خطرناک مقدمہ تھا.اس کے متعلق میں نے اوّل ہی خوابات دیکھے تھے جو کہ شائع ہوچکے ہوئے تھے اور قبل از وقت اس میں کامیابی کی خبر بھی خدا سے پا کر ہم نے شائع کردی تھی.اس میں ہمیں کامیابی ہوئی.پھرکرم دین نے خودہم پر استغاثہ دائر کیا.وہ مقدمات ابھی چل رہے ہیں.منصف حاکم کو تو خود خبر نہیں ہوتی کہ انجام کار مقدمہ کی کیا صورت ہوگی.ہماری تائید تو ہمیشہ خدا سے ہوتی ہے ورنہ جمہوری طور پر تو حکّام کا میلان ہماری طرف کم ہی ہوتا ہے اور سوائے پروردگار کے اور کس کی ذات ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جاسکے.زمین پر کیسے ہی آثار نظر آویں مگر بار بار جو حکم آسمان سے آتا ہے کہ تَرٰى نَصْرًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ وہ آخر ہو کر رہے گا.؎ بنگر کہ خون ناحق پروانہ شمع را چندان امان نداد کہ شب راسحر کند ۱ ۲۳؍فروری۱۹۰۴ء (بوقتِ شب)
۲۳؍فروری۱۹۰۴ء (بوقتِ شب) ہر ایک معجزہ ابتلا سے وابستہ ہے مقدمہ کی موجودہ صورت پر حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ یہ ایک ابتلا ہے کوئی مامور نہیں آتا جس پر ابتلانہ آئے ہوں.مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قید کیا گیا اور کیا کیا اذیّت دی گئی.موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا سلوک ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محاصرہ کیا گیا مگر بات یہ ہے کہ عاقبت بخیر ہوتی ہے اگر خدا کی سنّت یہ ہوتی کہ مامورین کی زندگی ایک تنعُّم اور آرام کی ہو اور اس کی جماعت پلاؤ زردے وغیرہ کھاتی رہے تو پھر اَور دنیا داروں میں اور ان میں کیا فرق ہوتا پلاؤ زرد ے کھا کر حَـمْدًا لِلہِ وَشُکْرًا لِلہِ کہنا آسان ہے اور ہر ایک بے تکلّف کہہ سکتا ہے لیکن بات یہ ہے جب مصیبت میں بھی وہ اسی دل سے کہے.مامورین اور ان کی جماعت کو زلزلے آتے ہیں ہلاکت کا خوف ہوتا ہے طرح طرح کے خطرات پیش آتے ہیں كَذَّبُوْا کے یہی معنے ہیں دوسرے ان واقعات سے یہ فائدہ ہے کہ کچوں اور پکوں کا امتحان ہو جاتا ہے کیونکہ جو کچے ہوتے ہیں ان کا قدم صرف آسودگی تک ہی ہوتا ہے جب مصائب آئے تو وہ الگ ہو جاتے ہیں.میرے ساتھ یہی سنّت اللہ ہے کہ جب تک ابتلا نہ ہو تو کوئی نشان ظاہر نہیں ہوتا خدا کا اپنے بندوں سے بڑا پیار یہی ہے کہ ان کو ابتلا میں ڈالے جیسے کہ وہ فر ماتا ہے بَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ:۱۵۶،۱۵۷) یعنی ہر ایک قسم کی مصیبت اور دکھ میں ان کا رجوع خدا تعالیٰ ہی کی طرف ہوتا ہے خدا تعالیٰ کے انعامات انہی کو ملتے ہیں جواستقامت اختیار کرتے ہیں.خوشی کے ایام اگرچہ دیکھنے کو لذیذہوتے ہیں مگر انجام کچھ نہیں ہوتا رنگ رلیوں میں رہنے سے آخر خدا کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے خدا کی محبت یہی ہے کہ ابتلا میں ڈالتا ہے اوراس سے اپنے بندے کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے مثلاًکسریٰ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کا حکم نہ دیتا تو یہ معجزہ کہ وہ اسی رات ماراگیا کیسے ظاہر ہوتا اور اگر مکہ والے لوگ آپ کو نہ نکالتے تو فَتَحْنَا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے اس کا نام تک ان میں نہیں رہا صلیبی مذہب کس زور سے پھیل رہا ہے جس کا ذکر میں نے ابھی چند دن ہوئے کیا تھا پس جب یہ حال ہے تو عقائد کی درستی بہت ضروری شَے ہے سچا،صحیح اور خدا کی مرضی کے موافق یہی مسئلہ ہے کہ مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور اگر وہ زندہ ہیں تو قرآن شریف باطل ٹھہرتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت جو بہت عزّت کے قابل ہے یہ ہے کہ آپ اسے اموات میں یحیٰیؑ کے پاس دیکھ آئے اگر ان کی روح قبض نہیں ہوئی تھی تو دوسرے عالم میں کیسے چلے گئے قیام توحید کے لیے یہ مسئلہ بہت ضروری ہے کہ مسیح فوت ہو گئے اور جو اسے پورے یقین سے نہیں مانتا خطرہ ہے کہ وہ کہیں عیسائیت سے حصّہ نہ لے لے یا ایک دن عیسائی ہی نہ ہو جائے انسان اسی طرح مرتد ہواکرتا ہے کہ ایک ایک جزو چھوڑتا ہوا آخر کار کُل چھوڑ دیتا ہے دوسرے عقائد میں بہت اختلاف نہیں ہے صرف یہی عظیم الشّان بات ہے جوخدا نے بتلائی ہے کہ مسیحؑ فوت ہو گیا ہے.جو لوگ اس بارہ میں ہماری مخالفت کرتے ہیں ان کے ہاتھ میں بجز اقوال کے اور کچھ نہیں ہے اگر وہ کہیں کہ قرآن کے مخالف احادیث میں نزول کا لفظ موجود ہے تو جواب ہے کہ اوّل تو وہاں مِنَ السَّمَآءِ نہیں لکھا کہ وہ ضرورآسمان سے ہی آوے گا دوسرے احادیث تو مِنْکُمْ سے بھی بھری پڑی ہیں نزول اصل میں ا کرام اور جلال کا لفظ ہے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے لیے استعمال فرمایا ہے حتی کہ احادیث میں تو دجال کے لیے بھی نزول کا لفظ آیا ہے پھر کیا یہ سب آسمان سے آئے اور آویں گے.قرآن شریف سے یہی ثابت نہیں ہوتا کہ مسیح دوبارہ نہ آوے گا بلکہ یہ بھی کہ وہ مَرگیا جیسا کہ آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ (المائدۃ:۱۱۸)بتلا رہی ہے.دوسرا حصّہ یہ ہے کہ انسان صرف عقائد سے ہی نجات نہیں پاتا بلکہ اس کے ساتھ اعمالِ صالحہ کا ہونا بھی ضروری ہے خدا نے اس بات پر ہی کفایت نہیں کی کہ انسان کے لیے صرف لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ منہ سے کہہ دینا ہی کافی ہو ورنہ قرآن شریف اس قدر ضخیم کتاب نہ ہوتی ایک فقرہ ہی ہوتا.عقائد کی مثال ایک باغ کی ہے جس کے بہت عمدہ پھل اور پھول ہوں اور اعمالِ صالحہ وہ مصفّٰی پانی ہے جس کے ذریعے سے اس باغ کا قیام اور نشوونما ہوتا ہے ایک باغ خواہ کتنا ہی اعلیٰ درجہ کا کیوں نہ ہو لیکن اس کی
آبپاشی اگر عمدہ نہ ہو تو آخر خراب ہو جاوے گا اسی طرح اگر عقیدہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو لیکن عمل صالح اگر اس کے ساتھ نہ ہوگا تو شیطان آکر تباہ کر دے گا.تلاش کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تیسری صدی تک کُل اہلِ اسلام کا یہی مذہب رہا ہے کہ کُل نبی فوت ہو گئے ہیں چنانچہ صحابہ کرامؓ کا بھی یہی مذہب تھا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی.صحابہؓ کا اجماع ہوا حضرت عمرؓ وفات کے منکر تھے اور وہ آپ کو زندہ ہی مانتے تھے آخر ابو بکر ؓ نے آکر مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ( اٰل عـمران:۱۴۵) کی آیت سنائی تو حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہؓ کو آپ کی موت کا یقین آیا اور اگر صحابہ کرامؓ کا یہ عقیدہ ہوتا کہ کوئی نبی زندہ ہے توسب اٹھ کر ابو بکر ؓ کی خبر لیتے کہ ہمارا عقیدہ مسیح کی نسبت ہے کہ وہ زندہ ہے تُو کیسے کہتا ہے کہ سب نبی فوت ہو گئے.اور کیا وجہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نہ ہوں اگر بعض مَرتے اور بعض زندہ ہوتے تو کسی قسم کا افسوس نہ ہوتا مگرغر یب سے لے کرامیرتک سب مَرتے ہیں پھر مسیح کو کیسے زندہ مانا جاوے تیسری صدی کے بعد حیاتِ مسیح کا اعتقاد مسلمانوں میں شامل ہوا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ نئے نئے عیسائی مسلمان ہو کر ان میں ملتے گئے اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب ایک نئی قوم کسی مذہب میں داخل ہوتو اپنے مذہب کی رسوم اور بدعات جو وہ ہمراہ لاتی ہے اس کا کچھ حصّہ نئے مذہب میں مل جاتا ہے ایسے ہی عیسائی جب مسلمان ہوئے تو یہ خیال ہمراہ لائے اور رفتہ رفتہ وہ مسلمانوں میں پختہ ہو گیا ہاں جن لوگوں نے ہمارا زمانہ نہیں پایا نہ اس مسئلہ پر انہوں نے بحث کی وہ تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ(البقرۃ:۱۳۵) کے مصداق ہوئے لیکن اب جو ہمارے مقابلہ پر آئے اور اتمامِ حجّت ان پر ہوا وہ قابلِ اعتراض ٹھہر گئے ہیں اگر ان لوگوں کے اعمال صالحہ ہوتے تو یہ عقیدہ ان میں رواج نہ پاتا جب وہ چھوٹ گئے تو ایسے ایسے عقائد شامل ہو گئے.اعمالِ صالحہ کثرت سے بجالائیں پس جو شخص ایمان کو قائم رکھنا چاہتا ہے وہ اعمالِ صالحہ میں ترقی کرے یہ روحانی امورہیں اور اعمال کا اثرعقائد پر پڑتا ہے جن لوگوں نے بدکاری وغیرہ اختیار کی ہے ان کو دیکھو تو آخر معلوم ہوگا کہ ان کا خدا
پر ایمان نہیں ہے.حدیث شریف میں اسی لیے ہے کہ چور جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا اور زانی جب زناکرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا اس کے یہی معنے ہیں کہ اس کی بداعمالی نے اس کے سچے اور صحیح عقیدہ پر اثر ڈال کراسے ضائع کردیا ہے ہماری جماعت کو چاہیے کہ اعمالِ صالحہ کثرت سے بجا لاوے اگراس کی بھی یہی حالت رہی جیسے اَوروں کی تو پھر امتیاز کیا ہوا.اور خدا تعالیٰ کو ان کی رعایت اور حفاظت کی کیا ضرورت.خدا تعالیٰ اسی وقت رعایت کرے گا جب تقویٰ، طہارت اور سچی اطاعت سے اسے خوش کروگے.یاد رکھو کہ اس کا کسی سے کچھ رشتہ نہیں ہے محض لاف اور یاوہ گوئی سے کوئی بات نہیں بناکرتی.سچی اطاعت ایک موت ہے.جو نہیں بجالاتا وہ خدا تعالیٰ سے شطرنج بازی کرتا ہے کہ مطلب کے وقت تو خدا سے خوش ہوتا ہے اور جب مطلب نہ ہو تو ناراض ہو گیا مومن کا یہ دستور نہیں چاہیے.بھلا غور تو کرو کہ اگر خدا تعالیٰ ہر ایک میدان میں کامیابی دیتا رہے اور کوئی ناکامی کی صورت کبھی پیش نہ آوے تو کیا سب جہاں موحد نہیں ہوسکتا اور خصوصیت کیا رہے گی اسی لیے جو مصیبت میں وفا اور صدق رکھے گا خدا اسی سے خوش ہوگا.نماز کو سنوار کرادا کریں نماز ایسے نہ ادا کرو جیسے مرغی دانے کے لیے ٹھونگ مارتی ہے بلکہ سوزوگداز سے ادا کرو اور دعائیں بہت کیا کرو نماز مشکلات کی کنجی ہے ماثورہ دعاؤں اور کلمات کے سوا اپنی مادری زبان میں بھی بہت دعاکیا کرو تا اس سے سوز و گداز کی تحریک ہو اور جب تک سوز و گدازنہ ہو اسے ترک مت کرو کیونکہ اس سے تزکیہ نفس ہوتا ہے اور سب کچھ ملتا ہے چاہیے کہ نماز کی جس قدر جسمانی صورتیں ہیں ان سب کے ساتھ دل بھی ویسے ہی تابع ہو اگر جسمانی طور پر کھڑے ہو تو دل بھی خدا کی اطاعت کے لیے ویسے ہی کھڑا ہو اگر جھکوتودل بھی ویسے ہی جھکے اگر سجدہ کرو تو دل بھی ویسے ہی سجدہ کرے دل کا سجدہ یہ ہے کہ کسی حال میں خدا کو نہ چھوڑے جب یہ حالت ہو گی تو گناہ دور ہونے شروع ہو جاویں گے معرفت بھی ایک شَے ہے جو کہ گناہ سے انسان کو روکتی ہے جیسے جو شخص سم الفار،سانپ اور شیر کو ہلاک کرنے والا جانتا ہے تووہ ان کے نزدیک
ہے ماثورہ دعاؤں اور کلمات کے سوا اپنی مادری زبان میں بھی بہت دعاکیا کرو تا اس سے سوز و گداز کی تحریک ہو اور جب تک سوز و گدازنہ ہو اسے ترک مت کرو کیونکہ اس سے تزکیہ نفس ہوتا ہے اور سب کچھ ملتا ہے چاہیے کہ نماز کی جس قدر جسمانی صورتیں ہیں ان سب کے ساتھ دل بھی ویسے ہی تابع ہو اگر جسمانی طور پر کھڑے ہو تو دل بھی خدا کی اطاعت کے لیے ویسے ہی کھڑا ہو اگر جھکوتودل بھی ویسے ہی جھکے اگر سجدہ کرو تو دل بھی ویسے ہی سجدہ کرے دل کا سجدہ یہ ہے کہ کسی حال میں خدا کو نہ چھوڑے جب یہ حالت ہو گی تو گناہ دور ہونے شروع ہو جاویں گے معرفت بھی ایک شَے ہے جو کہ گناہ سے انسان کو روکتی ہے جیسے جو شخص سم الفار،سانپ اور شیر کو ہلاک کرنے والا جانتا ہے تووہ ان کے نزدیک نہیں جاتا ایسے ہی جب تم کو معرفت ہو گی تو تم گناہ کے نزدیک نہ پھٹکوگے اس کے لیے ضروری ہے کہ یقین بڑھا ؤ اور وہ دعا سے بڑھے گا اور نماز خود دعا ہے نماز کو جس قدر سنوار کرادا کرو گے اسی قدر گناہوں سے رہائی پاتے جاؤگے معرفت صرف قول سے حاصل نہیں ہوسکتی بڑے بڑے حکیموں نے خدا کو اس لیے چھوڑ دیا کہ ان کی نظر مصنوعات پر رہی اور دعا کی طرف توجہ نہ کی جیسا کہ ہم نے براہین میں ذکر کیا ہے مصنوعات سے تو انسان کوایک صانع کے وجود کی ضرورت ثابت ہوتی ہے کہ ایک فاعل ہونا چاہیے لیکن یہ نہیں ثابت ہوتا کہ وہ ہے بھی.’’ہو نا چاہیے‘‘ اَور شَے ہے اور ’’ہے‘‘ اَور شَے ہے.اس ’’ہے‘‘ کا علم سوائے دعا کے نہیں حاصل ہوتا، عقل سے کام لینے والے ’’ہے‘‘کے علم کو نہیں پاسکتے، اس لیے ہے خدارابخدا توان شناخت.لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ (الانعام:۱۰۴)کے یہی معنے ہیں کہ وہ صرف عقلوں کے ذریعہ سے شناخت نہیں کیا جاسکتا بلکہ خود جوذریعے (اس)نے بتلائے ہیں ان سے ہی اپنے وجود کو شناخت کرواتا ہے اور اس اَمر کے لیے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتـحۃ:۶) جیسی اور کوئی دعا نہیں ہے.اپنے بھائی کی غلطی دیکھ کر اس کے لئے دعا کرو صلاح تقویٰ، نیک بختی اور اخلاقی حالت کو درست کرنا چاہیے مجھے اپنی جماعت کا یہ بڑا غم ہے کہ ابھی تک یہ لوگ آپس میں ذراسی بات سے چِڑجاتے ہیں عام مجلس میں کسی کو احمق کہہ دینا بھی بڑی غلطی ہے اگر اپنے کسی بھائی کی غلطی دیکھو تو اس کے لیے دعا کرو کہ خدا اسے بچا لیوے یہ نہیں کہ منادی کرو جب کسی کا بیٹا بدچلن ہو تو اس کو سردست کوئی ضائع نہیں کرتا بلکہ اندر ایک گوشہ میں سمجھاتاہے کہ یہ بُرا کام ہے اس سے باز آجا.پس جیسے رفق، حلم اور ملائمت سے اپنی اولاد سے معاملہ کرتے ہو ویسے ہی آپس میں بھائیوں سے کرو جس کے اخلاق اچھے نہیں ہیں مجھے اس کے ایمان کا خطرہ ہے کیونکہ اس میں تکبّر کی ایک جڑہے اگر خدا راضی نہ ہو تو گویا یہ برباد ہو گیا پس جب اس کی اپنی اخلاقی حالت کا یہ حال ہے تواسے دوسرے کو کہنے کا کیا حق ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے۱ اس کا یہی مطلب ہے کہ اپنے نفس کو فراموش کرکے دوسرے کے عیوب کو نہ دیکھتا رہے بلکہ چاہیے کہ اپنے عیوب کو دیکھے چونکہ خود تو وہ پابندان امور کانہیں ہوتا اس لیے آخر کار لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصف:۳) کا مصداق ہو جاتا ہے.۱ البدر میں یہاں جگہ چھوٹی ہوئی ہے جو کاتب سے لکھنی رہ گئی ہے اور وہ آیت یہ معلوم ہوتی ہے (اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ )(البقرۃ : ۴۵) (مرتّب)
جب اس کی اپنی اخلاقی حالت کا یہ حال ہے تواسے دوسرے کو کہنے کا کیا حق ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے۱ اس کا یہی مطلب ہے کہ اپنے نفس کو فراموش کرکے دوسرے کے عیوب کو نہ دیکھتا رہے بلکہ چاہیے کہ اپنے عیوب کو دیکھے چونکہ خود تو وہ پابندان امور کانہیں ہوتا اس لیے آخر کار لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصف:۳) کا مصداق ہو جاتا ہے.تقویٰ حاصل کرنے کا طریق اخلاص اور محبت سے کسی کو نصیحت کرنی بہت مشکل ہے لیکن بعض وقت نصیحت کرنے میں بھی ایک پوشیدہ بغض اور کبر ملا ہوا ہوتا ہے اگر خالص محبت سے وہ نصیحت کرتے ہوتے تو خدا ان کو اس آیت کے نیچے نہ لاتا بڑا سعید وہ ہے جواوّل اپنے عیوب کو دیکھے ان کا پتا اس وقت لگتا ہے جب ہمیشہ امتحان لیتا رہے یادرکھو کہ کوئی پاک نہیں ہوسکتا جب تک خدا اسے پاک نہ کرے جب تک اتنی دعا نہ کرے کہ مَر جاوے تب تک سچی تقویٰ حاصل نہیں ہوتی اس کے لیے دعا سے فضل طلب کرنا چاہیے.اب سوال ہوسکتا ہے کہ اسے کیسے طلب کرنا چاہیے تواس کے لیے تدبیر سے کام لینا ضروری ہے جیسے ایک کھڑکی سے اگر بدبو آتی ہے تواس کا علاج یہ ہے کہ یااس کھڑکی کو بند کرے یا بدبودار شَے کو اٹھا کر دور پھینک دے پس کوئی اگرتقویٰ چاہتا ہے اور اس کے لیے تدبیر سے کام نہیں لیتا تووہ بھی گستاخ ہے کہ خدا کے عطا کردہ قویٰ کو بے کار چھوڑتا ہے ہر ایک عطاءِ الٰہی کو اپنے محل پر صرف کرنا اس کا نام تدبیر ہے جو ہر ایک مسلمان کا فرض ہے ہاں جو نری تدبیر پر بھروسہ کرتا ہے وہ بھی مشرک ہے اور اسی بَلا میں مبتلا ہو جاتا ہے جس میں یورپ ہے.تدبیر اور دعا دونوں کا پورا حق ادا کرنا چاہیے.تدبیر کرکے سوچے اور غور کرے کہ میں کیا شَے ہوں؟ فضل ہمیشہ خدا کی طرف سے آتا ہے ہزار تدبیر کرو ہرگز کام نہ آوے گی جب تک آنسونہ بہیں.سانپ کے زہر کی طرح انسان میں زہر ہے اس کا تریاق دعا ہے جس کے ذریعہ سے آسمان سے چشمہ جاری ہوتا ہے جو دعا سے غافل ہے وہ مارا گیا.ایک دن اور رات جس کی دعا سے خالی ہے وہ شیطان سے قریب ہوا.ہر روز دیکھنا چاہیے کہ جو حق
دعاؤں کا تھا وہ ادا کیا ہے کہ نہیں.نماز کی ظاہری صورت پر اکتفاکرنا نادانی ہے اکثر لوگ رسمی نماز ادا کرتے ہیں اور بہت جلدی کرتے ہیں جیسے ایک ناواجب ٹیکس لگا ہوا ہے جلدی گلے سے اتر جاوے بعض لوگ نماز تو جلدی پڑھ لیتے ہیں لیکن اس کے بعد دعا اس قدر لمبی مانگتے ہیں کہ نماز کے وقت سے دگنا تگنا وقت لے لیتے ہیں حالانکہ نماز تو خود دعا ہے جس کو یہ نصیب نہیں ہے کہ نماز میں دعا کرے اس کی نماز ہی نہیں.چاہیے کہ اپنی نماز کو دعا سے مثل کھانے اورسرد پانی کے لذیذ اور مزیدار کرلو ایسا نہ ہو کہ اس پر وَیْل ہو.فضائل نماز نمازخدا کا حق ہے اسے خوب ادا کرو اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی زندگی نہ برتو.وفا اور صدق کا خیال رکھو اگر ساراگھر غارت ہوتا ہو تو ہونے دو مگر نمازکو ترک مت کرو وہ کافر اور منافق ہیں جو کہ نماز کو منحوس کہتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ نماز کے شروع کرنے سے ہمارا فلاں فلاں نقصان ہوا ہے.نمازہرگز خدا کے غضب کا ذریعہ نہیں ہے جو اسے منحوس کہتے ہیں ان کے اندر خود زہر ہے جیسے بیمار کو شیر ینی کڑوی لگتی ہے ویسے ہی ان کو نماز کا مزا نہیں آتا یہ دین کو درست کرتی ہے.اخلاق کو درست کرتی ہے.دنیا کو درست کرتی ہے نماز کا مزا دنیا کے ہر ایک مزے پر غالب ہے.لذّات جسمانی کے لیے ہزاروں خرچ ہوتے ہیں اور پھر ان کا نتیجہ بیماریاں ہوتی ہیں اور یہ مفت کا بہشت ہے جواسے ملتا ہے قرآن شریف میں دوجنتوں کا ذکر ہے ایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذّت ہے.نماز خواہ نخواہ کا ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبودیت کو ربوبیت سے ایک ابدی تعلق اور کشش ہے اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لیے خدا تعالیٰ نے نماز بنائی ہے اور اس میں ایک لذّت رکھ دی ہے جس سے یہ تعلق قائم رہتا ہے جیسے لڑکے اور لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے اگر ان کے ملاپ میں ایک لذّت نہ ہو تو فساد ہوتا ہے ایسے ہی اگر نماز میں لذّت نہ ہو تو وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے دروازہ بند کرکے دعا کرنی چاہیے کہ وہ
نماز خواہ نخواہ کا ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبودیت کو ربوبیت سے ایک ابدی تعلق اور کشش ہے اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لیے خدا تعالیٰ نے نماز بنائی ہے اور اس میں ایک لذّت رکھ دی ہے جس سے یہ تعلق قائم رہتا ہے جیسے لڑکے اور لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے اگر ان کے ملاپ میں ایک لذّت نہ ہو تو فساد ہوتا ہے ایسے ہی اگر نماز میں لذّت نہ ہو تو وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے دروازہ بند کرکے دعا کرنی چاہیے کہ وہ رشتہ قائم رہے اور لذّت پیدا ہو جو تعلق عبودیت کا ربوبیت سے ہے وہ بہت گہرااور انوار سے پُر ہے جس کی تفصیل نہیں ہوسکتی جب وہ نہیں ہے تب تک انسان بہائم ہے اگر دوچار دفعہ بھی لذّت محسوس ہوجائے تواس چاشنی کا حصّہ مل گیا لیکن جسے دوچار دفعہ بھی نہ ملا وہ اندھا ہے مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى(بنی اسـرآءیل:۷۳ ) آئندہ کے سب وعدے اسی سے وابستہ ہیں ان باتوں کو فرض جان کرہم نے بتلادیا ہے.اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں تک محدودنہ رکھو متکبّر دو سرے کا حقیقی ہمدرد نہیں ہوسکتا.اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں تک ہی محدودنہ رکھو بلکہ ہر ایک کے ساتھ کرو.اگر ایک ہندو سے ہمدردی نہ کرو گے تو اسلام کے سچے وصایا اسے کیسے پہنچائو گے خدا سب کا ربّ ہے.ہاں مسلمانوں کی خصوصیت سے ہمدردی کرو اور پھر متقی اور صالحین کی اس سے زیادہ خصوصیت سے.مال اور دنیا سے دل نہ لگائو.اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ تجارت وغیرہ چھوڑ دو بلکہ دل بایار اوردست با کار رکھو.خدا کاروبار سے نہیں روکتا ہے بلکہ دنیا کو دین پر مقدم رکھنے سے روکتا ہے.اس لیے تم دین کو مقدم رکھو.۱ ۱ البدر میں یہ ڈائری یوں درج ہے.’’چند ایک احباب نے اپنی واپسی کی اشد ضروریات پیش کیں ان کو رخصت عطا فرمائی گئی لیکن عالی جناب محمدابراہیم خان صاحب شریف بن حاجی موسیٰ خان صاحب برادرزادہ خان بہادر مراد خان مرحوم آمدہ از کراچی کی رخصت طلبی پر حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’یہ چند دن اور رہیں ’’آمدن بارادت رفتن باجازت ‘‘اور اسی طرح جناب تفضل حسین صاحب پنشنر تحصیلدار رئیس اٹاوہ کی طرف مخاطب ہوکرفرمایا کہ ’’اب تو ان کو بھی فراغت ہے اور ایک عرصہ کے بعد آئے ہیں یہ بھی چنددن رہیں.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۱۱مورخہ ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۳) ۲ البدر سے.’’اس کے سواگذارہ نہیں ہے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۱۱مورخہ ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۳) ۳ البدر میں ہے.’’بعض صحابہ اور ان کی اولاد بھی طاعون سے فوت ہوئے تھے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۱۱مورخہ ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۳)
۲۷؍فروری ۱۹۰۴ء (دربارِشام ) آج اعلیٰ حضرت حُـجَّۃُ اللہِ عَلَی الْاَرْضِ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسجد کے بالائی حصّہ پر نماز مغرب اداکی اور بعد ادائے نماز مغرب شہ نشین پر اجلاس فرماہوئے چند مہمانوں نے اجازت روانگی حاصل کی بعض احباب خصوصاً سید تفضل حسین صاحب اٹاوی (جو گیارہ سال کے بعد آئے تھے )کو خطاب کرکے پیار سے فرمایا کہ آمدن بارادت رفتن باجازت.آپ تو سمجھتے ہی ہیں کہ کب تک آپ کو ٹھہرنا چاہیے.۱ اس سے پایا جاتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بڑی خواہش ہوتی ہے کہ احباب عرصہ تک رہ کر آپ کی پاک صحبت سے بہرہ اندوز ہوں.اسی ضمن میں طاعون کی شدت کا ذکر ہو گیا اس پر آپ نے سلسلہ کلام یوں شروع فرمایا.اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ صاف کرو حقیقت میں سچے مسلمان بننے کااب وقت آیا ہے۲ یقین بڑی چیز ہے اللہ تعالیٰ پر جس قسم کا یقین انسان کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے ویسا ہی معاملہ کرتا ہے پس ضروری اَمر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ صاف کروتا وہ بھی تم پر رحم کرے کیونکہ سچ یہی ہے.مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ.طاعون سے وفات احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہؓ بھی طاعون سے فوت ہوئے۳ لیکن ان کے لیے وہ شہادت تھی.مومن کے واسطے یہ شہادت ہی ہے پہلی امتوں پر رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ (البقرۃ:۶۰) تھی.صحابہؓ کس قدر اعلیٰ درجہ رکھتے تھے لیکن ان میں سے بھی اس کا نشانہ ہو گئے اس سے ان کے مومن ہونے میں کوئی شبہ نہیں.ابوعبیدہ بن الجراح جیسے صحابی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بڑے ہی عزیزتھے طاعون ہی سے شہید ہوئے تھے.طاعون سے مَرنا عام مومنوں کے لیے تو کوئی حرج نہیں البتہ جہاں انتظامِ الٰہی میں فرق آتا ہے وہاں خدا تعالیٰ ایسا معاملہ نہیں کرتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا کوئی مامور ومرسل طاعون کا شکار نہیں ہوسکتا اور نہ کسی اور خبیث
پہلی امتوں پر رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ (البقرۃ:۶۰) تھی.صحابہؓ کس قدر اعلیٰ درجہ رکھتے تھے لیکن ان میں سے بھی اس کا نشانہ ہو گئے اس سے ان کے مومن ہونے میں کوئی شبہ نہیں.ابوعبیدہ بن الجراح جیسے صحابی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بڑے ہی عزیزتھے طاعون ہی سے شہید ہوئے تھے.طاعون سے مَرنا عام مومنوں کے لیے تو کوئی حرج نہیں البتہ جہاں انتظامِ الٰہی میں فرق آتا ہے وہاں خدا تعالیٰ ایسا معاملہ نہیں کرتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا کوئی مامور ومرسل طاعون کا شکار نہیں ہوسکتا اور نہ کسی اور خبیث مرض سے ہلاک ہوتا ہے کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کے انتظام میں بڑانقص اور خلل پیدا ہوتا ہے پس انبیاء ورسل اور خدا کے مامور ان امراض سے بچائے جاتے ہیں اور یہی نشان ہوتا ہے.صحابہؓ کی خصوصیت پر ضمنی تذکرہ حضرت حکیم الامت نے عرض کی کہ حضور یہ ایک بڑی عجیب بات ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہؓ میں سے ایک بھی بہرہ نہ تھا.۱ اس پرامام الملّۃ نے فرمایا کہ چونکہ اس وقت خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہورہاتھا اور اس اَمر کی ضرورت تھی کہ صحابہؓ اسے سنیں اور روایت کرکے دوسروں تک پہنچائیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس نظام کو قائم رکھنے کے لیے صحابہؓ کواس بہرہ پن سے محفوظ رکھا ایسے وقت اگر آنکھ نہ ہو تو کام ہوسکتا ہے لیکن کان کے بغیر کام نہیں چل سکتا ان حقائق ومعارف کو جو خدا کا مرسل لے کر آتا ہے سننے کی بہت بڑی ضرورت ہوتی ہے.پہلے کلام کی طرف رجوع غرض یہ مقام ڈرنے کا ہے کیونکہ طاعون بڑی شدت کے ساتھ پھیل رہی ہے اور جو اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنا معاملہ صاف نہیں کرتا وہ بڑے خطرہ کی حالت میں ہے نفاق کام نہیں دے گا اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يَلْبِسُوْۤا اِيْمَانَهُمْ (الانعام:۸۳) بعض وقت انسان موجودہ حالت امن پر بھی بے خطر ہو جاتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ امن میں زندگی گذارتا ہوں مگر یہ غلطی ہے کیونکہ یہ تو معلوم نہیں ہے کہ سابقہ زندگی میں کیا ہوا ہے اور کیا کیا بے اعتدالیاں اور کمزوریاں ہو چکی ہیں اس واسطے مومن کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ کبھی بے خوف نہ ہو اور ہر وقت توبہ اور استغفار کرتا رہے کیونکہ استغفار سے انسان گذشتہ بدیوں کے بُرے نتائج سے بھی خدا کے فضل سے بچ رہتا ہے.یہ سچی بات ہے کہ توبہ اور استغفار۱ سے گناہ بخشے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے.اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ (البقرۃ:۲۲۳) ۱ البدر سے.’’ اللہ تعالیٰ میں یہ صفت مو من کے لیے بہت ہی مفید ہے کہ توبہ اور استغفار سے ان کے گناہ بخشے جاتے ہیں اگر یہ صفت نہ ہوتی تو پھر انسان کی بالکل تباہی ہو جاتی.یہ بہت ہی بڑی صفت ہے کہ اس کی بارگا ہ میں سچی توبہ کرنے سے انسان بالکل معصوم ہو جاتا ہے گویا اس نے کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہ تھا.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۱۱مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۳) ۲ البدر میں ہے.’’خدا کی ولایت کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اس کو کوئی ایسی احتیاج ہے جیسے ایک انسان کو دوست کی ہوتی ہے یا تھڑکر خدا کسی کو اپنا دوست بنا لیتا ہے بلکہ اس کے معنے فضل اور عنایت سے کسی کو اپنا بنا لینا ہے اور اس سے اس شخص کو فائدہ پہنچتا ہے نہ کہ خدا کو.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۱۱ مورخہ ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۳)
معلوم نہیں ہے کہ سابقہ زندگی میں کیا ہوا ہے اور کیا کیا بے اعتدالیاں اور کمزوریاں ہو چکی ہیں اس واسطے مومن کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ کبھی بے خوف نہ ہو اور ہر وقت توبہ اور استغفار کرتا رہے کیونکہ استغفار سے انسان گذشتہ بدیوں کے بُرے نتائج سے بھی خدا کے فضل سے بچ رہتا ہے.یہ سچی بات ہے کہ توبہ اور استغفار۱ سے گناہ بخشے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے.اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ (البقرۃ:۲۲۳) سچی توبہ کرنے والا معصوم کے رنگ میں ہوتا ہے پچھلے گناہ تو معاف ہو جاتے ہیں پھر آئندہ کے لیے خدا سے معاملہ صاف کرلے اس طرح پر خدا تعالیٰ کے اولیاء میں داخل ہو جائے گا اور پھر اس پر کوئی خوف وحزن نہ ہوگا جیسا کہ فرمایا ہے اِنَّ اَوْلِيَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ(یونس:۶۳) اولیاء اللہ خدا تعالیٰ نے ان کو اپنا ولی کہا ہے حالانکہ وہ بے نیاز ہے اس کو کسی کی حاجت نہیں اس لیے استثنا ایک شرط کے ساتھ ہے.وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ(بنی اسـرآءیل:۱۱۲) یہ بالکل سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ تُھڑک کر کسی کو ولی نہیں بناتا۲ بلکہ محض اپنے فضل اور عنایت سے اپنا مقرب بنالیتا ہے اس کو کسی کی کوئی حاجت نہیں ہے اس ولایت اور قرب کا فائدہ بھی اسی کو پہنچتا ہے.ہزاروں ہزار فوائد اور امور ہوتے ہیں جو اس کے لیے مفیدثابت ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں قبول کرتا ہے اور نہ صرف اس کی دعائیں قبول کرتا ہے بلکہ اس کے اہل وعیال، اس کے احباب کے لیے بھی برکات عطاکرتا ہے اور صرف یہاں تک ہی نہیں بلکہ ان مقاموں میں برکت دی جاتی ہے جہاں وہ ہوتے ہیں اور ان زمینوں میں برکت رکھی جاتی ہے اور ان کپڑوں میں برکت دی جاتی ہے جن میں وہ ہوتے ہیں.اصل یہ ہے کہ ولی اللہ بننا ہی مشکل ہے بلکہ اس مقام کا سمجھنا ہی دشوار ہوتا ہے کہ یہ کس حالت میں کہا جاوے گا کہ وہ خدا کا ولی ہے انسان انسان کے ساتھ ظاہرداری میں خوشامد کرسکتا ہے اور اس کو خوش کرسکتا ہے خواہ دل میں ان باتوں کا کچھ بھی اثر نہ ہو ایک ۱ البدر سے.’’وہ خوب جانتا ہے کہ ہر ایک کا اندرونہ کیسا ہے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۱۱ مورخہ ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۳)
یہ بالکل سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ تُھڑک کر کسی کو ولی نہیں بناتا۲ بلکہ محض اپنے فضل اور عنایت سے اپنا مقرب بنالیتا ہے اس کو کسی کی کوئی حاجت نہیں ہے اس ولایت اور قرب کا فائدہ بھی اسی کو پہنچتا ہے.ہزاروں ہزار فوائد اور امور ہوتے ہیں جو اس کے لیے مفیدثابت ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں قبول کرتا ہے اور نہ صرف اس کی دعائیں قبول کرتا ہے بلکہ اس کے اہل وعیال، اس کے احباب کے لیے بھی برکات عطاکرتا ہے اور صرف یہاں تک ہی نہیں بلکہ ان مقاموں میں برکت دی جاتی ہے جہاں وہ ہوتے ہیں اور ان زمینوں میں برکت رکھی جاتی ہے اور ان کپڑوں میں برکت دی جاتی ہے جن میں وہ ہوتے ہیں.اصل یہ ہے کہ ولی اللہ بننا ہی مشکل ہے بلکہ اس مقام کا سمجھنا ہی دشوار ہوتا ہے کہ یہ کس حالت میں کہا جاوے گا کہ وہ خدا کا ولی ہے انسان انسان کے ساتھ ظاہرداری میں خوشامد کرسکتا ہے اور اس کو خوش کرسکتا ہے خواہ دل میں ان باتوں کا کچھ بھی اثر نہ ہو ایک شخص کو خیر خواہ کہہ سکتے ہیں مگر حقیقت میں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ خیرخواہ ہے یا کیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ تو خوب جانتا ہے کہ اس کی اطاعت ومحبت کس رنگ سے ہے.پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ فریب اور دغانہیں ہوسکتا کوئی اس کو دھوکا نہیں دے سکتا۱ جب تک سچے اخلاص اور پوری وفا داری کے ساتھ یک رنگ ہوکر خدا تعالیٰ کا نہ بن جاوے کچھ فائدہ نہیں.یاد رکھو اللہ تعالیٰ کا اجتبا اور اصطفا فطرتی جو ہرسے ہوتا ہے ممکن ہے گذشتہ زندگی میں وہ کوئی صغائر یا کبائر رکھتا ہو لیکن جب اللہ تعالیٰ سے اس کا سچا تعلق ہو جاوے تو وہ کل خطائیں بخش دیتا ہے اور پھر اس کو کبھی شرمندہ نہیں کرتا نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت میں.یہ کس قدر احسان اللہ تعالیٰ کا ہے کہ جب وہ ایک دفعہ درگذر کرتا اور عفوفر ماتا ہے پھر اس کا کبھی ذکر ہی نہیں کرتا اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے پھر باوجود ایسے احسانوں اور فضلوں کے بھی اگر وہ منافقانہ زندگی بسر کرے تو پھر سخت بدقسمتی اور شامت ہے.صفائی قلب برکات اور فیوضِ الٰہی کے حصول کے واسطے دل کی صفائی کی بھی بہت بڑی ضرورت ہے.جب تک دل صاف نہ ہو کچھ نہیں.چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ دل پر نظر ڈالے تو اس کے کسی حصّہ یا کسی گوشہ میں کوئی شعبہ نفاق کا نہ ہو.جب یہ حالت ہو تو پھر الٰہی نظر کے ساتھ تجلّیّات آتی ہیں اور معاملہ صاف ہوجاتا ہے.اس کے لیے ایسا وفادار اور صادق ہونا چاہیے جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اپنا صدق دکھایا یا جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نمونہ دکھایا.جب انسان اس نمونہ پر قدم مارتا ہے تو وہ بابرکت آدمی ہوجاتا ہے.پھر دنیا کی زندگی میں کوئی ذلّت نہیں اٹھاتا اور نہ تنگی رزق کی مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے بلکہ اس پر خدا تعالیٰ کے فضل واحسان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور مستجاب الدعوات ہوجاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کو لعنتی زندگی۱ سے ہلاک نہیں کرتا بلکہ اس کا خاتمہ بالخیر کرتا ہے.مختصر یہ کہ جو خدا تعالیٰ سے سچا اور کامل تعلق رکھتا ہوتو خدا تعالیٰ اس کی ساری مرادیں پوری کردیتا ہے اسے نامراد نہیںرکھتا.۱ البدر میں ہے.’’تب خدا تعالیٰ اسے لعنتی موت سے محفوظ رکھتا ہے.‘‘(البدر جلد ۳نمبر۱۱ مورخہ ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۳)
ہے اسے نامراد نہیںرکھتا.اللہ تعالیٰ کی صفتِ قادرو کریم کا اقتضا اللہ تعالیٰ کی دو صفتیں بڑی قابلِ غور ہیں اور ان صفات پر ایمان لانے سے بھی امید وسیع ہوتی اور مومن کا یقین زیادہ ہوتا ہے.وہ صفات اس کے قادر اور کریم ہونے کے ہیں جب تک یہ دونوں باتیں نہ ہوں کوئی فیض نہیں ملتا ہے.دیکھو اگر کوئی شخص کریم تو ہو اور اس کے پاس ہو تو ہزاروں روپیہ دے دینے میں بھی اسے تامل اور دریغ نہ ہو لیکن اس کے گھر میں کچھ بھی نہ ہو تو اس کی صفتِ کریمی کاکیا فائدہ یا اس کے پاس روپیہ تو بہت ہو مگر کریم نہ ہو پھر اس سے کیا حاصل؟ مگر خدا تعالیٰ میں یہ دونوں باتیں ہیں.وہ قادر ہے اور کریم بھی ہے اور دونوں صفتوں میں بھی وہ وحدہ لا شریک ہے.پس جب ایسی قادر اور کریم ذات کے ساتھ کوئی کامل تعلق پیدا کرے تو اس سے بڑھ کر خوش قسمت کون ہوگا؟بڑا ہی مبارک اور خوش قسمت ہے وہ شخص جو اس کا فیصلہ کرے.سرمد نے کیا اچھا کہا ہے.؎ سرمد گلہ اختصار می باید کرد یک کار ازیں دوکار می باید کرد یاتن برضائے یار می باید کرد یا قطع نظر ز یار می باید کرد حقیقت میں اس نے سچ کہا ہے.بیمار اگر طبیب کی پوری اطاعت نہیں کرتا تو اس سے کیا فائدہ؟ایک عارضہ نہیں تو دوسرا اس کو لگ جاوے گا اور وہ اس طرح پر تباہ اور ہلاک ہوگا.دنیا میں اس قدر آفتوں سے انسان گھرا ہوا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہی کا فضل اس کے شاملِ حال نہ ہو اور اس کے ساتھ سچا تعلق نہ ہو تو پھر سخت خطرہ کی حالت ہے.پنجابی میں بھی ایک مصرعہ مشہور ہے.ع جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو یہ مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ ہی کا ترجمہ ہے.جب انسان خدا تعالیٰ کا ہوجاتا ہے تو پھر کچھ شک نہیں ساری دنیا اس کی ہو جاتی ہے مگر اس وقت بڑے بڑے مشکلات آکر پڑتے ہیں لوگ ہمارے سلسلہ کی مخالفت کے لیے کیا کیا کوشش نہیں
کرتے.ا س کی عدم ضرورت کے واسطے کہہ دیتے ہیں کہ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ہم نماز اور کلمہ نہیں پڑھتے؟ جو لوگ اس قسم کے اعتراض کرتے ہیں وہ آخر بے نصیب رہ جاتے ہیں.برکاتِ نماز کا حصول اس میں شک نہیں کہ نماز میں برکات ہیں مگر وہ برکات ہر ایک کو نہیں مل سکتے.نماز بھی وہی پڑھتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نماز پڑھاوے ورنہ وہ نماز نہیں نرا پوست ہے جو پڑھنے والے کے ہاتھ میں ہے اس کو مغز سے کچھ واسطہ اور تعلق ہی نہیں.اسی طرح کلمہ بھی وہی پڑھتا ہے جس کو خدا تعالیٰ کلمہ پڑھوائے.جب تک نماز اور کلمہ پڑھنے میں آسمانی چشمہ سے گھونٹ نہ ملے تو کیا فائدہ؟ وہ نماز جس میں حلاوت اور ذوق ہو اور خالق سے سچا تعلق قائم ہو کر پوری نیاز مندی اور خشوع کا نمونہ ہو اس کے ساتھ ہی ایک تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے جس کو پڑھنے والا فوراً محسوس کرلیتا ہے کہ اب وہ وہ نہیں رہا جو چند سال پہلے تھا.ابدال جب یہ تبدیلی اس کی حالت میں واقع ہوتی ہے اس وقت اس کا نام ابدال ہوتا ہے احادیث میں جوابدال آیا ہے اس سے یہی مراد لی گئی ہے کہ کامل انقطاع اور تبتّل کے ساتھ جب خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرکے اپنی حالت میں تبدیلی کرلے جیسے قیامت میں بہشتیوں میں تبدیلیاں ہوں گی کہ وہ چاند یا ستاروں کی مانند ہوں گے اسی طرح پر اسی دنیا میں بھی ان کے اندر ہونی ضروری ہے تاکہ وہ اس تبدیلی پر شہادت ہو.اسی لیے فرمایا ہے وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ(الرَّحـمٰن:۴۷)چو نکہ اس دنیا میں بھی ایک بہشت ہے جو مومن کو دیا جاتا ہے اس کے موافق ایک تبدیلی بھی یہاں ہوتی ہے اس کو ایک خاص قسم کارُعب دیا جاتا ہے جو الٰہی تجلّیّات کے پرتَو سے ملتا ہے نفسِ امّارہ کے جذبات سے اس کو روک دیا جاتا ہے اور نفسِ مطمئنّہ کی سکینت اور اطمینان اس کو ملتا ہے اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں یہاں تک کہ جیسے ابراہیم علیہ السلام کو کہا گیا قُلْنَا يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِيْمَ(الانبیاء:۷۰) اسی طرح پر اس کے لیے کہا جاتا ہے يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا اس آواز پر اس کے سارے جوشوں کو ٹھنڈ ا کر دیا جاتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ
میں ایک راحت اور اطمینان پا لیتا ہے اور ایک تبدیلی اس میں پیدا ہو جاتی ہے جب تک یہ تبدیلی نہ ہو نماز، روزہ، کلمہ، زکوٰۃ وغیرہ ارکان محض رسمی اور نمائشی طور پر ہیں.ان میں کوئی روح اور قوت نہیں ہے اور ایسا انسان خطرہ کی حالت سے نکل کرامن میں آجاتا ہے.یاد رکھو جب انسان کا وجود خدا کی محبت میں گم ہو جاوے اس وقت وہ جان لے کہ خدا سچی محبت رکھتا ہے کیونکہ دل را بدل رہے است مشہور ہے.اہل وعیال کا تہیّہ بہت سے لوگ ہیں جو اہل وعیال کا تہیّہ کرتے ہیں اور ان کے سارے ھمّ وغم اسی پر آکر ختم ہو جاتے ہیں کہ ان کی اولاد ان کے بعد ان کے مال واسباب اور جائیدادکی مالک اور جانشین ہو اگر انسان کی خواہش اسی حد تک محدود ہے اور وہ خدا کے لیے کچھ بھی نہیں کرتا تو یہ جہنمی زندگی ہے اس کو اس سے کیا فائدہ جب یہ مَر گیا تو پھر کیا دیکھنے آئے گا کہ اس کی جائیداد کا کون مالک ہوا ہے اور اس سے اس کو کیا آرام پہنچے گا اس کا تو قصّہ پاک ہو چکا اور یہ کبھی پھر دنیا میں نہیں آئے گا اس لیے ایسے ھمّ وغم سے کیا حاصل جو دنیا میں جہنمی زندگی کا نمونہ ہے اور آخرت میں بھی عذاب دینے والا.مُردوں کا واپس آنا قرآن شریف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مُردوں کے واپس نہ آنے کے دو وعدے ہیں ایک جہنمیوں کے لیے جیسے فرمایا حَرٰمٌ عَلٰى قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ(الانبیآء:۹۶) اَهْلَكْنٰهَا عذاب پر بھی آتا ہے اس سے پایا جاتا ہے کہ خراب زندگی کے لوگ پھر واپس نہیں آئیں گے اور ایسا ہی بہشتیوں کے لیے بھی آیا ہے.لَا يَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا(الکھف:۱۰۹) مسیح کا عدم رجوع دو ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور دونوں کا عدمِ رجوع ثابت ہے پر معلوم نہیں کہ مسیح کو کس طرح پر واپس لاتے ہیں.ان سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ مسیح کا پھر آنا فضول ہے اور جو شخص قرآنِ کریم کی اس شہادت اور پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم
ہوتا ہے کہ مسیح کا پھر آنا فضول ہے اور جو شخص قرآنِ کریم کی اس شہادت اور پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کو منظور نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مُردوں میں یحییٰ کے پاس دیکھ آئے ہیں اس پر بھی جو انکار کرتا ہے وہ خبیث ہے.اولاد اور دوسرے متعلّقین کی مناسب خبر گیری غرض جبکہ یہ ثابت ہے کہ پھر اس دنیا میں واپس آنا نہیں ہے اور یہاں سے سب قصّہ تمام کرکے جائیں گے اور پھر دنیا سے کوئی تعلق باقی نہ رہے گا تو املاک واسباب کا خیال کرناکہ اس کا وارث کوئی ہو، یہ شرکاء کے قبضہ میں نہ چلے جاویں فضول اور دیوانگی ہے ایسے خیالات کے ساتھ دین جمع نہیں ہو سکتا.ہاں یہ منع نہیں بلکہ جائز ہے کہ اس لحاظ سے اولاداور دوسرے متعلّقین کی خبرگیری کرے کہ وہ اس کے زیردست ہیں تو پھر یہ بھی ثواب اور عبادت ہی ہو گی اور خدا تعالیٰ کے حکم کے نیچے ہوگا جیسے فرمایا ہے وَ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيْمًا وَّاَسِيْرًا (الدّھر:۹) اس آیت میں مسکین سے مراد والدین بھی ہیں کیونکہ وہ بوڑھے اور ضعیف ہو کر بے دست وپا ہو جاتے ہیں اور محنت مزدوری کرکے اپنا پیٹ پالنے کے قابل نہیں رہتے اس وقت ان کی خدمت ایک مسکین کی خدمت کے رنگ میں ہوتی ہے اور اسی طرح اولاد جو کمزورہو تی ہے اور کچھ نہیں کرسکتی اگر یہ اس کی تربیت اور پرورش کے سامان نہ کرے تو وہ گویا یتیم ہی ہے پس ان کی خبرگیری اور پرورش کا تہیّہ اس اصول پر کرے تو ثواب ہوگا.۱ ۱لبدر سے.’’کہ اس کے بعد اس کے حق میںدعا کرے.‘‘ (البدر جلد۳نمبر۱۱ مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴) ۲ البدر سے.’’سوچ کر دیکھو کہ کتنے ایسے ہیں جو اس نیت اور ارادہ سے اولاد کی خواہش کرتے ہیں اور تہجدکے وقت اٹھ کر خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہیں کہ اے مولا تو ایسی اولاد دے جو متقی ہوتیری راہ میں جان دینے والی ہو.‘ ‘ (البدر جلد۳نمبر۱۱ مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴) ۳ البدر سے.’’رحم اور شفقت کی نظر سے یہ نیت بھی ہوسکتی ہے کہ ان کے لیے کچھ املاک چھوڑ جاؤں تا کہ ضائع نہ ہوں اور دربدربھیک نہ مانگتے پھریں یاافلاس سے تنگ آکر تبدیل مذہب نہ کرلیں اور اگر ان نیتوں سے باہر جاتا ہے تو دین سے باہر جاتا ہے اور ایمان کو تاریکی میں رکھ کر اس کے ثمرات اور برکات سے بے نصیب رہتا ہے.‘‘ (البدر جلد۳نمبر۱۱ مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴)
اصول پر کرے تو ثواب ہوگا.اور بیوی اسیر کی طرح ہے اگر یہ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(النسآء:۲۰)پر عمل نہ کرے تو وہ ایسا قیدی ہے جس کی کوئی خبر لینے والا نہیں ہے.غرض ان سب کی غوروپرداخت میں اپنے آپ کو بالکل الگ سمجھے اور ان کی پرورش محض رحم کے لحاظ سے کرے نہ کہ جانشین بنانے کے واسطے بلکہ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا (الفرقان:۷۵)کا لحاظ ہو کہ یہ اولاد دین کی خادم ہو۱ لیکن کتنے ہیں جو اولاد کے واسطے یہ دعا کرتے ہیں۲ کہ اولاد دین کی پہلوان ہو بہت ہی تھوڑے ہوں گے جو ایسا کرتے ہوں.اکثر تو ایسے ہیں کہ وہ بالکل بے خبر ہیں کہ وہ کیوں اولاد کے لیے یہ کوششیں کرتے ہیں اور اکثر ہیں جو محض جانشین بنانے کے واسطے اور کوئی غرض ہوتی ہی نہیں صرف یہ خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شریک یا غیر ان کی جائیداد کا مالک نہ بن جاوے مگر یادرکھو کہ اس طرح پر دین بالکل برباد ہو جاتا ہے.اولادکی خواہش غرض اولاد کے واسطے صرف یہ خواہش ہو کہ وہ دین کی خادم ہو.اسی طرح پر بیوی کرے تاکہ اس سے کثرت سے اولاد پیدا ہو اور وہ اولاد دین کی سچی خدمت گز ار ہو اور نیز جذبات نفس سے محفوظ رہے اس کے سوا جس قدر خیالات ہیں وہ خراب ہیں رحم اور تقویٰ مدّ ِنظر ہو تو بعض باتیں جائز ہو جاتی ہیں.۳ اس صورت میں اگر مال بھی چھوڑتا ہے اور جائیداد بھی اولاد کے واسطے چھوڑتا ہے تو ثواب ملتا ہے لیکن اگر صرف جانشین بنانے کا خیال ہے اور اس ۱ البدر سے.’’انسان کو چاہیے کہ ہر ایک کاروبار میں تَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا (المزّمل:۹) کا مصداق ہو یعنی ہر ایک کام کو اس طرح سے بجالاوے گو یا وہ خود اس میں نفسانی حظّ کوئی نہیںرکھتا صرف خدا تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی وجہ سے بجالارہا ہے اور اسی نیت سے مخلوق کے حقوق کوادا کرنا دین ہے ہر ایک بات اور کام کاآخری نقطہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی ہو نی چاہیے اگر دنیا کے لیے ہے تو خدا تعالیٰ کا غضب کماتا ہے.‘‘ (البدر جلد۳نمبر۱۱ مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴) ۲ البدر سے.’’ جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اَسْلَمْتُ کہہ دیا تھا ویسے ہی اطاعت اللہ تعالیٰ کی کی جاوے اور کسی غیر کو اس میں شریک نہ کیا جاوے.‘‘ (البدر جلد۳نمبر۱۱ مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴)
خدمت گز ار ہو اور نیز جذبات نفس سے محفوظ رہے اس کے سوا جس قدر خیالات ہیں وہ خراب ہیں رحم اور تقویٰ مدّ ِنظر ہو تو بعض باتیں جائز ہو جاتی ہیں.۳ اس صورت میں اگر مال بھی چھوڑتا ہے اور جائیداد بھی اولاد کے واسطے چھوڑتا ہے تو ثواب ملتا ہے لیکن اگر صرف جانشین بنانے کا خیال ہے اور اس نیت سے سب ھمّ وغم رکھتا ہے تو پھر گناہ ہے.اس قسم کے قصور اور کسر یں ہوتی ہیں جن سے تاریکی میں ایمان رہتا ہے لیکن جب ہر حرکت وسکون خدا ہی کے لیے ہو جاوے تو ایمان روشن ہو جاتا ہے اور یہی غرض ہر مسلمان مومن کی ہونی چاہیے کہ ہر کام میں اس کے خدا ہی مدّ ِنظر ہو.کھانے پینے عمارت بنانے دوست دشمن کے معاملات غرض ہر کام میں خدا تعالیٰ ملحوظ ہو توسب کاروبار عبادت ہو جاتا ہے لیکن جب مقصود متفرق ہوں پھر وہ شرک کہلاتا ہے مگر مومن دیکھے کہ خدا کی طرف نظر ہے یا اور قصد ہے.اگر اَور طرف ہے تو سمجھے کہ دور ہو گیا ہے صید نزدیک است دور انداختہ بات مختصر ہوتی ہے مگراپنی بد قسمتی سے لمبی بنا کر محروم ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف تبتّل۱ کرنا اور اس کو مقصود بنانا اہل وعیال کی خدمت اسی لحاظ سے کرناکہ وہ امانت ہے اس طرح پر دین محفوظ رہتا ہے کیونکہ اس میں خدا کی رضا مقصود ہوتی ہے لیکن جب دنیا کے رنگ میں ہو اور غرض وارث بنانا ہو تو اس طرح پر خدا کے غضب کے نیچے آجاتا ہے.سچا مسلم اولاد تو نیکوکاروں اور ماموروں کی بھی ہوتی ہے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد بھی دیکھو کس قدر کثرت سے ہوئی کہ کوئی گِن نہیں سکتامگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان کا خیال اور طرف تھا.بلکہ ہر حال میں خدا ہی کی طرف رجوع تھا اصل اسلام اسی کا نام ہے جوابراہیم کو بھی کہا کہ اَسْلِمْ۲ جب ایسے رنگ میں ہو جاوے تو وہ شیطان اور جذباتِ نفس سے الگ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ وہ خدا کی راہ میں جان تک کے دینے میں بھی دریغ نہ کرے اگر جاںنثار ی سے دریغ کرتا ہے تو خوب جان لے کہ وہ سچا مسلم نہیں ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ بے حد اطاعت ہو اور پوری عبودیت کا نمونہ دکھاوے یہاں تک کہ آخری امانت جان بھی دے دے اگر بخل کرتا ہے تو پھر سچامومن اور مسلم کیسے ٹھہر سکتا ہے لیکن اگر وہ جانبازی کرنے والا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کو بڑا ہی پیارا اور محبوب ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو جاتا ہے.صحابہؓ نے یہی کیا.انہوں نے اپنی جان کی پروا نہ کی۱ اور اپنے خون بہا دئیے.شہید بھی وہی ہوتا ہے جوجان دینے کا قصد کرتا ہے اگریہ نہیں تو پھر کچھ نہیں.۱ البدر سے.’’ خدا تعالیٰ اس کا تذکرہ فر ماتا ہے کہ ان میں سے بہتوں نے جان دے دی اور بعض ابھی تک منتظر ہیں.‘‘ (البدر جلد۳نمبر۱۱ مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴) ۲ البدر سے.’’دعا کرتے رہیں کہ خدا تعالیٰ شماتتِ اعداء سے بچاوے.‘‘ (البدر جلد۳نمبر۱۱ مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴) ۳ البدر سے.’’ اگر ان کے بعدانسان نے عمر پائی اور پھر بھی باز نہ آیا تو یہ بہت ہی بُری بات ہے گناہ بہت بُری شَے ہے جس قدر امراض جسمانی ہیں شاید اتنے ہی گناہ بھی ہیں اور امراض کی طرح بعض ایسے ہوتے ہیں کہ انسان کی جزو ہوتے ہیں.‘‘ (البدر جلد۳نمبر۱۱ مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴)
خوب جان لے کہ وہ سچا مسلم نہیں ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ بے حد اطاعت ہو اور پوری عبودیت کا نمونہ دکھاوے یہاں تک کہ آخری امانت جان بھی دے دے اگر بخل کرتا ہے تو پھر سچامومن اور مسلم کیسے ٹھہر سکتا ہے لیکن اگر وہ جانبازی کرنے والا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کو بڑا ہی پیارا اور محبوب ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو جاتا ہے.صحابہؓ نے یہی کیا.انہوں نے اپنی جان کی پروا نہ کی۱ اور اپنے خون بہا دئیے.شہید بھی وہی ہوتا ہے جوجان دینے کا قصد کرتا ہے اگریہ نہیں تو پھر کچھ نہیں.یہ چند کلمے ناگہانی آفات سے بچنے اور سچا مسلم بننے کے لیے ہیں اور اگر انسان ان پر عمل کرے تو طاعون سے بچانے کا یہ بھی ایک ذریعہ ہیں.بَلاؤں کے نزول کے وقت دعاؤں میں لگے رہیں یادرکھو قہر ِالٰہی کو کوئی روک نہیں سکتا وہ سخت چیز ہے خبیث قوموں پر جب نازل ہوا ہے تو وہ تباہ ہو گئی ہیں اس قہر سے ہمیشہ کامل ایمان بچاسکتا ہے ناقص ایمان بچا نہیں سکتا بلکہ کامل ایمان ہو تو دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں اور اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المؤمن:ـ۶۱) خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جو خلاف نہیں ہوتا کیونکہ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ( اٰل عـمران:۱۰)اس کا فرمان ہے.پس ایسے وقت میں کہ آفت نازل ہو رہی ہے ایک تو یہ چاہیے کہ دعائیں کرتے رہیں.۲ دوسرے صغائرکبائرسے جہاں تک ممکن ہو بچتے رہیں تدبیروں اور دعاؤں میں لگے رہیں گناہ کا زہر بڑا ۱ البدر سےـ.’’انسان کی ضرورتوں اور خواہشوں کی تو کوئی حدنہیں اور بعض لوگ انہی کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں اور ان کو خدا کو راضی کر نے اور گناہ سے بچنے کی دعا کا موقع ہی نہیں پیش آتا لیکن اصل بات یہ ہے کہ دنیا کے لیے جو دعا کی جاتی ہے وہ جہنم ہے دعا صرف خدا کو راضی کر نے اور گناہوں سے بچنے کی ہو نی چاہیے باقی جتنی دعائیں ہیں وہ خود اس کے اندر آجاتی ہیں.‘‘ (البدر جلد۳نمبر۱۱ مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴) ۲ البدر سے.’’ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ بڑی دعا ہے صراط مستقیم گویا خدا کو شناخت کرتا ہے اور اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کل گناہوں سے بچتا ہے اور صالحین میں داخل ہوتا ہے.‘‘ (البدر جلد۳نمبر۱۱ مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴)
بڑا خطرناک ہے اس کا مزا اسی دنیا میں چکھنا پڑتا ہے.گناہ دو طرح پر ہوتے ہیں.ایک گناہ غفلت سے ہوتے ہیں جو شباب میں ہو جاتے ہیں۳ دوسرے بیداری کے وقت میں ہوتے ہیں جب انسان پختہ عمر کا ہو جاتا ہے ایسے وقت میں جب گناہوں سے راضی نہیں ہوگا اور ہر وقت استغاثہ کرتا رہے گا تواللہ تعالیٰ اس پر سکینت نازل کرے گا اور گناہوں سے بچا لے گا.گناہوں سے پاک ہونے کے واسطے بھی اللہ تعالیٰ ہی کا فضل درکار ہے جب اللہ تعالیٰ اس کے رجوع اور توبہ کو دیکھتا ہے تو اس کے دل میں غیب سے ایک بات پڑجاتی ہے اور وہ گناہ سے نفرت کرنے لگتا ہے اور اس حالت کے پیدا ہونے کے لیے حقیقی مجاہدہ کی ضرورت ہے.وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت:۷۰) جو مانگتا ہے اس کو ضرور دیا جاتا ہے اسی لیے میں کہتا ہوں کہ دعا جیسی کوئی چیز نہیں.دنیا میں دیکھو کہ بعض خرگداایسے ہوتے ہیں کہ وہ ہر روز شورڈالتے رہتے ہیں ان کو آخر کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ تو قادر اور کریم ہے جب یہ اَڑ کر دعا کرتا ہے تو پالیتا ہے کیا خدا انسان جیسا بھی نہیں؟ قبولیتِ دعا کا راز یہ قاعدہ یادرکھو کہ جب دعا سے باز نہیں آتا اور اس میں لگا رہتا ہے تو آخر دعا قبول ہوجاتی ہے مگر یہ بھی یاد رہے کہ باقی ہر قسم کی دعائیں طفیلی ہیں اصل دعائیں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے واسطے کرنی چاہئیں باقی دعائیں خود بخود قبول ہو جائیں گی کیونکہ گناہ کے دور ہونے سے برکات آتی ہیں یوں دعاقبول نہیں ہوتی جو نری دنیا ہی کے واسطے ہو.۱ اس لیے پہلے خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے واسطے دعائیں کرے اور وہ سب سے بڑھ کر دعا اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ(الفاتـحۃ:۶)۲ ہے جب یہ دعا کرتا رہے گا تو وہ مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ کی جماعت میں داخل ہوگا جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے دریا میں غرق کر دیا ہے ان لوگوں ۱ البدر سے.’’ غرضیکہ خدا اس کا کفیل مثل ماں باپ کے ہو جاتا ہے اور جب خدا متولّی اور کفیل ہو تو کس قدر مزے کی بات ہے.‘‘ (البدر جلد۳نمبر۱۱ مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۵) ۲ الحکم جلد۸نمبر۸ مورخہ ۱۰ ؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۵تا۷
لوگوں کے زُمرہ میں جو منقطعین ہیں داخل ہو کر یہ وہ انعاماتِ الٰہی حاصل کرے گا جیسی عادت اللہ ان سے جاری ہے.یہ کبھی کسی نے نہیں سنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک راست باز متقی کو رزق کی ماردے بلکہ وہ تو سات پشت تک بھی رحم کرتا ہے قرآن شریف میں خضروموسیٰ کا قصّہ درج ہے کہ انہوں نے ایک خزانہ نکالا.اس کی بابت کہا گیا کہ اَبُوْهُمَا صَالِحًا(الکھف:۸۳)اس آیت میں ان کے والدین کا ذکر تو ہے لیکن یہ ذکر نہیں کہ وہ لڑکے خود کیسے تھے باپ کے طفیل سے اس خزانہ کو محفوظ رکھا تھا اور اس لیے ان پر رحم کیا گیا لڑکوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ ستاری سے کام لیا.توریت اور ساری آسمانی کتابوں سے پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ متقی کو ضائع نہیں کرتا اس لیے پہلے ایسی دعائیں کرنی چاہئیں جن سے نفسِ امّارہ نفسِ مطمئنّہ ہو جاوے.اور اللہ تعالیٰ راضی ہو جاوے.پس اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ (الفاتـحۃ:۶) کی دعائیں مانگو کیونکہ اس کے قبول ہونے پر جو یہ خود مانگتا ہے خدا تعالیٰ خود دیتا ہے.سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جب انسان سچی توبہ کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ یہ دیتا ہے.یہ دیتا ہے آخر کہتے ہیں کہ بیوی بھی دیتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب واقعات وہ اپنے بیان کرتے ہیں اور یہ ہے بالکل سچ کہ خدا تعالیٰ خود متعہدہو جاتا ہے اس کے موافق میرا بھی ایک الہام ہے.ہر چہ باید نو عروسی را ہماں ساماں کنم غرض۱ جب متولّی اور متکفّل خدا ہو تو پھر کیا ہی مزاآتا ہے.۲ استفسارات اور ان کے جوابات سوال اوّل.یا شیخ عبدالقادر جیلانی شَیْئًا لِلّٰہِ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ جواب.ہرگز نہیں یہ توحید کے برخلاف ہے.سوال ۲.جبکہ غائب اور حاضر دونوں کو خطاب کر لیتے ہیں پھر اس میں کیا حرج ہے؟
جواب.دیکھو بٹالہ میں لوگ زندہ موجود ہیں اگر ان کو یہاں سے آواز دو تو کیا وہ کوئی جواب دیتا ہے پھر بغداد میں سید عبدالقادر جیلانی کی قبر پر جا کر آواز دوتو کوئی جواب نہیں آئے گا.خدا تعالیٰ تو جواب دیتا ہے جیسا فرمایا اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المؤمن:۶۱) مگر قبروں والوں میں سے کون جواب دیتا ہے پھر کیوں ایسا فعل کرے جو توحید کے خلاف ہے.سوال۳.جب کہ یہ لوگ زندہ ہیں پھران کو مُردہ تو نہیں کہہ سکتے؟ جواب.زندگی ایک الگ اَمر ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہماری آواز بھی سن لیں.یہ ہم مانتے ہیں کہ یہ لوگ خدا کے نزدیک زندہ ہیں مگر ہم نہیں مان سکتے کہ ان کو سماع کی قوت بھی ہے حاضر ناظر ہو ناایک الگ صفت ہے جو خدا ہی کو حاصل ہے دیکھو ہم بھی زندہ ہیں مگر لاہور یا امرتسر کی آوازیں نہیں سن سکتے.خدا تعالیٰ کے شہید اور اولیاء اللہ بے شک خدا کے نزدیک زندہ ہوتے ہیں مگر ان کو حاضر ناظر نہیں کہہ سکتے.دعاؤں کے سننے والا اور قدرت رکھنے والا خدا ہی ہے اس کو یقین کرنا یہی اسلام ہے جو اس کو چھوڑتا ہے وہ اسلام کو چھوڑتا ہے پھر کس قدر قابل شرم یہ اَمر ہے کہ یا شیخ عبدالقادر جیلانی تو کہتے ہیں یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم، یا ابابکر، یا عمر نہیں کہتے البتہ یا علی کہنے والے ان کے بھائی موجود ہیں.یہ شرک ہے کہ ایک تخصیص بِلاوجہ کی جاوے.جب خدا کے سوا کسی چیز کی محبت بڑھ جاتی ہے تو پھر انسان صُمٌّ وَ بُكْمٌ ہو جاتا ہے جو اسلام کے خلاف ہے.اسلام توحید کے لیے آیا ہے جب توحید کے خلاف چلے تو پھر مسلمان کیسا؟ تعجب کی بات ہے کہ جن لوگوں کو یہ خدا کا حصّہ دار بناتے ہیں خود ان کو بھی یہ مقام توحید ہی کے ماننے سے ملا تھا.اگر وہ بھی ایسے ’’یا‘‘کہنے والے ہوتے تو ان کو یہ مقام ہرگز نہ ملتا بلکہ انہوں نے خدائے تعالیٰ کی اطاعت اختیار کی تب یہ رتبہ ان کو ملا.یہ لوگ شیعوں اور عیسائیوں کی طرح ایک قسم کا شرک کرتے ہیں.۱ سوال.مُردوں کو کن کن باتوں کا ثواب پہنچتا ہے.جواب.حدیث سے ثابت ہے کہ طعام کا ثواب اور دعا کا بھی پہنچتا ہے قرآن شریف کی تلاوت
کی نسبت میری نظر سے نہیں گذرا.ہاں جو قرآن شریف پر عامل ہوگا اس کی دعا زیادہ قبول ہوگی.سوال.مُردہ کا ختم وغیرہ جو کرایا جاتا ہے یہ جائز ہے کہ ناجائز.جواب.اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے صرف دعا اور صدقہ میّت کو پہنچتی ہے مومن کو چاہیے کہ نماز پنجگانہ ادا کرے اور رکوع سجود میں میّت کے لئے دعا کرے یہ طریق نہیں ہے کہ الگ کلام پڑھ کر بخشے.اب دیکھو لغت کا کلام منقول چلا آتا ہے کسی کا حق نہیں ہے کہ اپنی طرف سے معنے گھڑ لے ایسے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو اَمر ثابت ہو اس پر عمل کرنا چاہیے نہ کہ اپنی من گھڑت پر.سوال.السلام علیکم یا اہل القبور جو کہا جاتا ہے کیا مُردے سنتے ہیں.جواب.دیکھو وہ سلام کا جواب و علیکم السلام تونہیں دیتے.خدا تعالیٰ وہ سلام (جو ایک دعا ہے) ان کو پہنچا دیتا ہے.اب ہم جو آواز سنتے ہیں اس میں ہوا ایک واسطہ ہے.لیکن یہ واسطہ مُردہ اور تمہارے درمیان نہیں لیکن السلام علیکم میں خدا تعالیٰ ملائکہ کو واسطہ بنا دیتا ہے اسی طرح درود شریف ہے کہ ملائکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دیتے ہیں.سوال.ختم کی ریوڑیاں وغیرہ لے کر کھانی چاہئیں کہ نہ.جواب.ختم کا دستور بدعت ہے شرک نہیں ہے اس لئے کھا لینی جائز ہے لیکن ختم دینا دلوانا ناجائز ہے اور اگر کسی پیر کو حاضر ناظر جان کر اس کا کھانا دیا جاتا ہے وہ ناجائز.سوال.یہ جو لکھا ہے کہ مدینہ جا کر شیخ عبد القادر ؒ نے یَا حَبِیْبَ اللّٰہِ خُذْ بِیَدِیْ کہا.جواب.اوّل تو اس کی سند کیا پھر بعض وقت اہل اللہ کو مکاشفہ ہوتاہے اس میں خدا تعالیٰ اہلِ قبور سے باتیں کرا دیتا ہے مگر یہ خدا کا فضل ہوتا ہے.سوال.اگر امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہ پڑھی جاوے تو جائز ہے کہ نہیں.جواب.حدیث شریف میں اس کی بہت تاکید ہے بلکہ لکھا ہے کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں اگر جہری نماز ہے تو امام کے اوقاف میں پڑھ لیوے اور خفی ہے تو پیچھے پڑھ سکتا ہے اگرچہ نہ پڑھنے کو بھی جائز کہا ہے لیکن میرا مذہب تو یہی ہے سورہ فاتحہ ضرور امام کے پیچھے پڑھ لے.۱
۲۸؍فروری ۱۹۰۴ء (بوقتِ ظہر) تدبیر اور توکّل تدبیر اور توکّل پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وَفِي السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ(الذّٰریٰت:۲۳)سے ایک نادان دھوکا کھاتاہے اور تدابیر کے سلسلہ کو باطل کرتا ہے حالانکہ سورۃ جمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ (الـجمعۃ:۱۱) کہ تم زمین میں منتشر ہو جائو اور خدا کے فضل کی تلاش کرو.یہ ایک بہت ہی نازک معاملہ ہے کہ ایک طرف تدابیر کی رعایت ہو اور دوسری طرف توکّل بھی پورا ہو.اور اس کے اندر شیطان کو وساوس کا بڑا موقع ملتا ہے(بعض لوگ ٹھوکر کھا کر اسباب پرست ہوجاتے ہیں اور بعض خدا تعالیٰ کے عطا کردہ قویٰ کو بیکار محض خیال کرنے لگ جاتے ہیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ کو جاتے تو طیاری کرتے.گھوڑے، ہتھیار بھی ساتھ لیتے بلکہ آپ بعض اوقات دو دو زرہ پہن کر جاتے.تلوار بھی کمر سے لٹکاتے حالانکہ ادھر خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ(المآئدۃ:۶۸) بلکہ ایک دفعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تجویز فرمایا کہ اگر شکست ہو تو آپ کو جلد مدینہ پہنچا دیا جاوے.اصل بات یہ ہے کہ قوی الایمان کی نظر استغناء ِالٰہی پرہو تی ہے اور اسے خوف ہوتاہے کہ خدا کے وعدوں میں کوئی ایسی مخفی شرط نہ ہو جس کا اسے علم نہ ہو.جو لوگ تد ابیرکے سلسلہ کو بالکل باطل ٹھہراتے ہیں ان میں ایک زہریلا مادہ ہوتا ہے ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اگر بَلا آوے تو دیدہ دانستہ اس کے آگے جاپڑیں اور جس قدر پیشہ والے اور اہلِ حرفت ہیں وہ سب کچھ چھوڑچھاڑ کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاویں.بعض فقہی مسائل ایک شخص نے چند مسائل دریافت کئے وہ اوران کے جواب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دئیے ان کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں.(ایڈیٹرالبدر) سوال.میّت کے قل جو تیسرے دن پڑھے جاتے ہیں ان کاثواب اسے پہنچتا ہے یا نہیں؟ جواب.قل خوانی کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے (صدقہ)، دعا اور استغفار میّت کو پہنچتی ہے
ہاں یہ ضرور ہے کہ ملانوں کو اس سے ثواب پہنچ جاتا ہے سواگر اسے ہی مُردہ تصوّر کر لیا جاوے (اور واقعی ملّاں لوگ روحانیت سے مُردہ ہی ہوتے ہیں )تو ہم مان لیں گے.ہمیں تعجب ہے کہ یہ لوگ ایسی باتوں پر امید کیسے باندھ لیتے ہیں دین تو ہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا ہے اس میں ان باتوں کا نام تک نہیں.صحابہ کرامؓ بھی فوت ہوئے کیا کسی کے قل پڑھے گئے صدہا سال کے بعد اور بدعتوں کی طرح یہ بھی ایک بدعت نکل آئی ہوئی ہے.ایک طریق اسقاط کا رکھا ہے کہ قرآن شریف کو چکر دیتے ہیں یہ اصل میں قرآن شریف کی بے ادبی ہے انسان خدا سے سچا تعلق رکھنے والا نہیں ہوسکتا جب تک سب نظر خدا پر نہ ہو.سوال.ایک عورت تنگ کرتی ہے کہ سُودی روپیہ لے کر زیور بنا دو اور اس کا خاوند غریب ہے.جواب.وہ عورت بڑی نالائق ہے جو خاوند کو زیور کے لئے تنگ کرتی ہے اور کہتی ہے کہ سُود لےکربنادے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دفعہ ایسا واقعہ پیش آیا اور آپ کی ازواج نے آپ سے بعض دنیوی خواہشات کی تکمیل کا اظہار کیا تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ان کو یہ فقیرانہ زندگی منظور نہیں ہے تو تُو ان کو کہہ دے کہ آؤ تم کو الگ کر دوں انہوں نے فقیر انہ زندگی اختیار کی آخر نتیجہ یہ ہوا کہ وہی بادشاہ ہو گئیں وہ صرف خدا کی آزمائش تھی.سوال.ایک عورت اپنا مہرنہیں بخشتی.جواب.یہ عورت کا حق ہے اسے دینا چاہیے اوّل تو نکاح کے وقت ہی ادا کرے ورنہ بعد ازاں ادا کردینا چاہیے.پنجاب اور ہندوستان میں یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر اپنا مہر خاوند کو بخش دیتی ہیں.یہ صرف رواج ہے جو مروّت پر دلالت کرتا ہے.سوال.اور جن عورتوں کا مہر مچھر کی دومن چربی ہو وہ کیسے ادا کیا جاوے.
جواب.لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (البقرۃ:۲۸۷) اس کا خیال مہر میں ضرور ہونا چاہیے خاوند کی حیثیت کو مدّ ِنظر رکھنا چاہیے اگر اس کی حیثیت روپے کی نہ ہو تو وہ ایک لاکھ کا مہر کیسے ادا کرے گا اور مچھروں کی چربی تو کوئی مہر ہی نہیں یہ لَايُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (البقرۃ:۲۸۷) میں داخل ہے.سوال.میّت کے لیے فاتحہ خوانی کے لیے جو بیٹھتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں.جواب.یہ درست نہیں ہے بدعت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں کہ اس طرح صف بچھا کر بیٹھتے اور فاتحہ خوانی کرتے تھے.۱ ۶؍ مارچ ۱۹۰۴ء (دربارشام) نصیحت بعد البیعت ۶؍مارچ ۱۹۰۴ء کی شام کو اعلیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے دست مبارک پر چندا حباب نے بیعت کی جس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی.(ایڈیٹر) بیعت کو نبھائیں تم لوگوں نے اس وقت جو بیعت کی ہے اس کا زبان سے کہہ دینا اور اقرار کر لینا تو بہت ہی آسان ہے مگر اس اقرار ِبیعت کا نبھا نا اور اس پر عمل کرنا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ نفس اور شیطان انسان کو دین سے لاپروا بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ دنیا اور اس کے فوائد کو آسان اور قریب دکھا تے ہیں لیکن قیامت کے معاملہ کو دور دکھا تے ہیں جس سے انسان سخت دل ہو جاتا ہے اور پچھلا حال پہلے سے بدتربن جاتا ہے اس لیے یہ بہت ہی ضروری اَمر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کو راضی کرنا ہے تو جہاں تک کوشش ہوسکے ساری ہمّت اور توجہ سے اس اقرار کو نبھانا چاہیے اور گناہوں سے بچنے کے لیے کوشش کرتے رہو.
گناہوں کی حقیقت گناہ کیا چیزہے اللہ تعالیٰ کے خلافِ مرضی کرنا اور ان ہداتیوں کو جو اس نے اپنے پیغمبروں خصوصاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت دی ہیں توڑنا اور دلیری سے ان ہدایتوں کی مخالفت کرنا یہ گناہ ہے جبکہ ایک بندہ کو خدا تعالیٰ کی ہدایتوں کا علم دیا جاوے اور اس کو سمجھا دیا جاوے پھر اگروہ ان ہدایتوں کو توڑتا اور شوخی اور شرارت سے گناہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بہت ناراض ہوتا ہے اور اس ناراضگی کا یہی نتیجہ نہیں ہوتا کہ وہ مَرنے کے بعد دوزخ میں پڑے گا بلکہ اسی دنیا میں بھی اس کو طرح طرح کے عذاب آتے اور ذلّت اٹھانی پڑتی ہے.دنیاوی حکّام کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ایک قانون مشتہر کر دیتے ہیں اور پھر اگر کوئی ان کے احکام کو توڑتااور خلاف ورزی کرتا ہے تو پکڑاجاتا اورسزا پاتاہے لیکن دنیوی حکام کے عذاب سے اور ان کے قوانین واحکام کی خلاف ورزی کی سزا سے آدمی کسی دوسری عمل داری میں بھاگ جانے سے بچ بھی سکتا ہے اور اس طرح پیچھا چھڑا سکتا ہے مثلاً اگر انگریزی عمل داری میں کوئی خلاف ورزی کی ہے تو وہ فرانس یا کابل کی عمل داری میں بھاگ جانے سے بچ سکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے احکام وہدایات کی خلاف ورزی کرکے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے؟ کیونکہ یہ زمین وآسمان جو نظر آتا ہے یہ تو اسی کا ہے اور کوئی اور زمین وآسمان کسی اور کا کہیں نہیں ہے جہاں تم کو پناہ مل جاوے اس واسطے یہ بہت ضروری اَمرہے کہ انسان ہمیشہ خدا تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور اس کی ہداتیوں کے توڑنے یا گناہ کرنے پر دلیرنہ ہو کیونکہ گناہ بہت ہی بُری شَے ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا اور گناہ پر دلیری کرتا ہے تو پھر عادت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ اس جرأت ودلیری پر خدا تعالیٰ کا غضب آتا ہے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.۱ البدرسے.’’اور وہ جان لیوے کہ خدا کی ناراضگی ایک جہنمی زندگی ہے.‘‘ (البدر جلد۳نمبر۱۱مورخہ ۱۶؍مارچ۱۹۰۴ء صفحہ۶)
دو قسم کے دکھ دنیا میں دو قسم کے دکھ ہوتے ہیں بعض دکھ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان میں تسلّی دی جاتی ہے اور صبر کی توفیق ملتی ہے.فرشتے سکینت کے ساتھ اترتے ہیں اس قسم کے دکھ نبیوں اور راست بازوں کو بھی ملتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور ابتلا آتے ہیں جیسا کہ اس نے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ (البقرۃ:۱۵۶) میں فرمایا ہے ان دکھوں کا انجام راحت ہوتا ہے اور درمیان میں بھی تکلیف نہیں ہوتی کیونکہ خدا کی طرف سے صبر اور سکینت ان کو دی جاتی ہے مگر دوسری قسم دکھ کی وہ ہے جس میں یہی نہیں کہ دکھ ہوتا ہے بلکہ اس میں صبر وثبات کھو یا جاتا ہے اس میں نہ انسان مَرتا ہے نہ جیتا ہے اور سخت مصیبت اور بَلا میں ہوتا ہے یہ شامت ِاعمال کا نتیجہ ہوتا ہے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ (الشورٰی:۳۱) اور اس قسم کے دکھوں سے بچنے کا یہی طریق اور علاج ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے کیونکہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے اور اس زندگی میں شیطان اس کی تاک میں لگا رہتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس کو خدا سے دور پھینک دے اور نفس اس کو دھوکا دیتا رہتا ہے کہ ابھی بہت عرصہ تک زندہ رہنا ہے لیکن یہ بڑی بھاری غلطی ہے اگر انسان اس دھوکے میں آکر خدا تعالیٰ سے دور جاپڑے اور نیکیوں سے دستکش ہو جاوے.موت ہر وقت قریب ہے اور یہی زندگی دارالعمل ہے مَرنے کے ساتھ ہی عمل کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور جس وقت یہ زندگی کے دَم پورے ہوئے پھر کوئی قدرت اور توفیق کسی عمل کی نہیں ملتی خواہ تم کتنی ہی کوشش کرو مگر خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے واسطے کوئی عمل نہیں کرسکوگے اور ان گناہوں کی تلافی کا وقت جاتا رہے گا اور اس بدعملی کا نتیجہ آخر بھگتنا پڑے گا.خوش قسمت کون ہے خوش قسمت وہ شخص نہیں ہے جس کو دنیا کی دولت ملے اور وہ اس دولت کے ذریعہ ہزاروں آفتوں اور مصیبتوں کا مورد بن جائے بلکہ خوش قسمت وہ ہے جس کو ایمان کی دولت ملے اور وہ خدا کی ناراضگی اور غضب سے ڈرتا رہے۱ اور ہمیشہ اپنے آپ کو نفس اور شیطان کے حملوں سے بچاتا رہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی رضا کو وہ اس طرح پر
حاصل کرے گا.مگر یاد رکھوکہ یہ بات یو نہی حاصل نہیں ہوسکتی اس کے لیے ضروری ہے کہ تم نمازوں میں دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تم سے راضی ہو جاوے اور وہ تمہیں توفیق اور قوت عطافرماوے کہ تم گناہ آلود زندگی سے نجات پاؤ کیونکہ گناہوں سے بچنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کی توفیق شاملِ حال نہ ہو اور اس کا فضل عطا نہ ہو اور یہ توفیق اور فضل دعا سے ملتا ہے اس واسطے نمازوں میں دعا کرتے رہو کہ اے اللہ ہم کو ان تمام کاموں سے جو گناہ کہلاتے ہیں اور جو تیری مرضی اور ہدایت کے خلاف ہیں بچا اور ہر قسم کے دکھ اور مصیبت اور بَلا سے جو ان گناہوں کا نتیجہ ہے بچا اور سچے ایمان پر قائم رکھ آمین.کیونکہ انسان جس چیز کی تلاش کرتا ہے وہ اس کو ملتی ہے اور جس سے لاپروائی کرتا ہے اس سے محروم رہتا ہے جو ئندہ یا بندہ مثل مشہور ہے مگر جو گناہ کی فکر نہیں کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے ہیں وہ پاک نہیں ہوسکتے گناہوں سے وہی پاک ہوتے ہیں جن کو یہ فکر لگی رہتی ہے.اخلاقی گناہ بہت سے آدمی اس دنیا میں ایسے ہیں کہ ان کی زندگی ایک اندھے آدمی کی سی ہے کیونکہ وہ اس بات پر کوئی اطلاع ہی نہیں رکھتے کہ وہ گناہ کرتے ہیں یا گناہ کسے کہتے ہیں عوام تو عوام بہت سے عالموں فاضلوں کو بھی پتا نہیں لگتا کہ وہ گناہ کررہے ہیں حالانکہ وہ بعض گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں گناہوں کا علم جب تک نہ ہو اور پھر انسان ان سے بچنے کی فکر نہ کرے تو اس زندگی سے کوئی فائدہ نہ اس کو ہوتا ہے اور نہ دوسروں کو خواہ سوبرس کی عمر بھی کیوں نہ ہو جاوے لیکن جب انسان گناہ پر اطلاع پالے اور ان سے بچے تو وہ زندگی مفید زندگی ہوتی ہے مگر یہ ممکن نہیں ہے جب تک انسان مجاہدہ نہ کرے اور اپنے حالات اور اخلاق کو ٹٹولتا نہ رہے کیونکہ بہت سے گناہ اخلاقی ہوتے ہیں جیسے غصہ، غضب،کینہ، جوش، ریا، تکبّر، حسد اعلیٰ حضرت جب تقریر فرماتے فر ماتے اس مقام پر پہنچے تو ایک بھائی آپ کی پُر تاثیر تقریر سے متاثر ہوکر اٹھ کھڑا ہوا وہ کچھ عرض کرنا چاہتا تھا مگر پاس ادب سے وہ خاموش رہا جب حضرت تقریر کر چکے تو عرض کیاحضور مجھ میں غصّہ بہت ہے دعاکریں.فر مایا.’’اچھا دعا کریں گے‘‘ ( ایڈیٹر الحکم)
وغیرہ یہ سب بداخلاقیاں ہیں جو انسان کو جہنم تک پہنچا دیتی ہیں انہی میں سے ایک گناہ جس کا نام تکبّر ہے شیطان نے کیا تھا یہ بھی ایک بد خُلقی ہی تھی جیسے لکھا ہے اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ(البقرۃ:۳۵) اور پھر اس کا نتیجہ کیا ہوا وہ مردودِ خلائق ٹھہرا اور ہمیشہ کے لیے لعنتی ہوا.مگر یادرکھو کہ یہ تکبّر صرف شیطان ہی میں نہیں ہے بلکہ بہت ہیں جواپنے غریب بھائیوں پر تکبّر کرتے ہیں اور اس طرح پر بہت سی نیکیوں سے محروم رہ جاتے ہیں اور یہ تکبّر کئی طرح پر ہوتا ہے کبھی دولت کے سبب سے ،کبھی علم کے سبب سے اور کبھی حُسن کے سبب سے، کبھی نسب کے سبب سے غرض مختلف صورتوں سے تکبّر کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ وہی محرومی ہے اور اسی طرح پر بہت سے بُرے خُلق ہوتے ہیں جن کا انسان کو کوئی علم نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ کبھی ان پر غور نہیں کرتا اور نہ فکر کرتا ہے.انہیں بداخلاقیوں میں سے ایک غصّہ بھی ہے۱ جب انسان اس بداخلاقی میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ دیکھے کہ اس کی نوبت کہاں تک پہنچ جاتی ہے وہ ایک دیوانہ کی طرح ہوتا ہے اس وقت جواس کے منہ میں آتا ہے کہہ گذرتا ہے اور گالی وغیرہ کی کوئی پروا نہیں کرتا.اب دیکھو کہ اس ایک بد اخلاقی کے نتائج کیسے خطرناک ہو جاتے ہیں پھر ایسا ہی ایک حسدہے کہ انسان کسی کی حالت یا مال ودولت کو دیکھ کر کڑھتا اور جلتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ اس کے پاس نہ رہے اس سے بجز اس کے کہ وہ اپنی اخلاقی قوتوں کا خون کرتا ہے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتا پھر ایک بداخلاقی بخل کی ہے باوجودیکہ خدا تعالیٰ نے اس کو مقدرت دی ہے مگر یہ انسانوں پر رحم نہیں کرتا ہمسایہ خواہ ننگا ہو بھوکا ہو مگر اس کو اس پر رحم نہیں آتا.مسلمانوں کے حقوق کی پروا نہیں کرتا وہ بجز اس کے کہ دنیا میں مال ودولت جمع کرتا رہے اور کوئی کام دوسروں کی ہمدردی اور آرام کے لیے نہیںرکھتا حالانکہ اگر وہ چاہتا اور کوشش کرتا تواپنے قویٰ اور دولت سے دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتا تھا مگر وہ اس بات کی فکر نہیں کرتا.غرضیکہ طرح طرح کے گناہ ہیں جن سے بچنا ضروری ہے یہ تو موٹے موٹے گناہ ہیں جن کو گناہ ہی نہیں سمجھتا پھر زنا، چوری، خون وغیرہ بھی بڑے بڑے گناہ ہیں اور ہرقسم کے گناہوں سے
بچنا چاہیے.گناہوں سے بچنا گناہوں سے بچنا یہ تو ادنیٰ سی بات ہے اس لیے انسان کو چاہیے کہ گناہوں سے بچ کر نیکی کرے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت کرے جب وہ گناہوں سے بچے گا اور خدا کی عبادت کرے گا تواس کا دل برکت سے بھر جائے گا اور یہی انسان کی زندگی کا مقصد ہے.دیکھو اگر کسی کپڑے کو پاخانہ لگا ہوا ہو تو اس کو صرف دھوڈ النا ہی کوئی خوبی نہیں ہے بلکہ اسے چاہیے کہ پہلے اسے خوب صابن سے ہی دھوکر صاف کرے اور میل نکال کر اسے سفید کرے اور پھر اس کو خوشبو لگا کر معطّر کرے تاکہ جو کوئی اسے دیکھے خوش ہو اسی طرح پر انسان کے دل کا حال ہے وہ گناہوں کی گندگی سے نا پاک ہو رہا ہے اور گھنا ؤ نا اور متعفّن ہو جاتا ہے پس پہلے تو چاہیے کہ گناہ کے چرک کو توبہ واستغفار سے دھوڈالے اور خدا تعالیٰ سے توفیق مانگے کہ گناہوں سے بچتا رہے پھر اس کی بجائے ذکر الٰہی کرتا رہے اور اس سے اس کو بھرڈالے اس طرح پر سلوک کا کمال ہو جاتا ہے اور بغیر اس کے اس کی وہی مثال ہے کہ کپڑے سے صرف گندگی کو دھوڈالا ہے لیکن جب تک یہ حالت نہ ہو کہ دل کو ہر قسم کے اخلاقِ ردِّیہ و رذیلہ سے صاف کرکے خدا کی یاد کا عطر لگا وے اور اندر سے خوشبو آوے اس وقت تک خدا تعالیٰ کا شکوہ نہیں کرنا چاہیے لیکن جب اپنی حالت اس قسم کی بناتا ہے تو پھر شکوہ کا کوئی محل اور مقام ہی نہیں رہتا.آج کل وبا کے دن ہیں اس لیے لا پروا نہیں ہونا چاہیے سچی تبدیلی کرنی چاہیے بہت سے آدمی اعتراض کر دیتے ہیں کہ فلاں شخص نے بیعت کی تھی وہ مَر گیا مگر یہ اعتراض فضول ہے کیا وہ نہیں جانتے کہ صحابہؓ بھی جنگوں میں شریک ہو کر شہید ہو جاتے تھے حالانکہ وہی جنگ مخالفوں کے لیے بطور عذاب تھی لیکن اس سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ بیعت کے بعد اعمال کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ بیعت کے بعد حجّت پوری ہو جاتی ہے پھر اگر اپنی اصلاح اور تبدیلی نہیں کرتا تو سخت جوابدہ ہے پس ضرورت اس بات کی ہے کہ سچے مسلمان بنو تاکہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمہاری کوئی قدروقیمت ہو جو چیز کار آمد ہوتی ہے اسی کی قدر کی جاتی ہے.دیکھو! اگرتمہارے پاس ایک دودھ دینے والی بکری ہو جس
سے تمہارے بیوی بچے پرورش پاتے ہوں تو تم بھی اس کو ذبح کرنے کے لیے طیار نہیں ہو جاتے لیکن اگر وہ کچھ بھی دودھ نہ دے بلکہ نری چارہ دانہ کی چٹی ہو تو تم فوراً اس کوذبح کر لو گے.اسی طرح پر جو آدمی اللہ تعالیٰ کا سچا فرمانبردار، نیک کام کرنے والا اور دوسروں کو نفع پہنچانے والا نہ ہو اس وقت تک خدا تعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا بلکہ وہ اس بکری کی طرح ذبح کے لائق ہوتا ہے جو دودھ نہیں دیتی ہے اس لیے ضرورت اس اَمر کی ہے کہ تم اپنے آپ کو مفید ثابت کرو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے بندوں کو نفع پہنچاؤ.اعمالِ صالحہ کی ضرورت انسان سمجھتا ہے کہ نرا زبان سے کلمہ پڑھ لینا ہی کافی ہے یا نرا اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ کہہ دینا ہی کافی ہے مگر یادرکھو زبانی لاف گزاف کافی نہیں ہے.خواہ انسان زبان سے ہزار مرتبہ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ کہے یا سو مرتبہ ہر روز تسبیح پڑھے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ خدا نے انسان کو انسان بنایا ہے طوطا نہیں بنایا.یہ طوطا کا کام ہے کہ وہ زبان سے تکرار کرتا رہے اور سمجھے خاک بھی نہیں.انسان کا کام تویہ ہے کہ جو کچھ منہ سے کہتا ہے اس کو سوچ کر کہے اور پھر اس کے موافق عملدرآمد بھی کرے لیکن اگر طوطا کی طرح بولتا جاتا ہے تو یاد رکھو نری زبان سے کوئی برکت نہیں ہے جب تک دل اس کے ساتھ نہ ہو اور اس کے موافق اعمال نہ ہوں وہ نری باتیں سمجھی جائیں گی جن میں کوئی خوبی اور برکت نہیں کیونکہ وہ نرا قول ہے خواہ قرآن شریف اور استغفار ہی کیوں نہ پڑھتا ہو.خدا تعالیٰ اعمال چاہتا ہے اس لیے بار بار یہی حکم دیا کہ اعمالِ صالحہ کرو جب تک یہ نہ ہو خدا کے نزدیک نہیں جا سکتے.بعض نادان کہتے ہیں کہ آج ہم نے دن بھر میں قرآن ختم کر لیا ہے لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ اس سے کیا فائد ہ ہوا؟ نِری زبان سے تم نے کام لیا.مگر باقی اعضا کو بالکل بیکار چھوڑ دیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام اعضا اس لیے بنائے ہیں کہ ان سے کام لیا جاوے یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ بعض لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور قرآن ان پر لعنت کرتا ہے کیونکہ ان کی تلاوت نراقول ہی قول ہوتا ہے اور اس پر عمل نہیں ہوتا.جو شخص اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کے موافق اپنا چال چلن نہیں بناتا ہے وہ ہنسی کرتا ہے کیونکہ
پڑھ لینا ہی اللہ تعالیٰ کا منشا نہیں وہ تو عمل چاہتا ہے اگر کوئی ہر روز تعزیرات ہند کی تلاوت تو کرتا رہے مگر ان قوانین کی پابندی نہ کرے بلکہ ان جرائم کو کرتا رہے اور رشوت وغیرہ لیتا رہے توایسا شخص جس وقت پکڑا جاوے گا تو کیا اس کا یہ عذر قابل سماعت ہوگا کہ میں ہر روز تعزیرات کو پڑھا کرتا ہوں یا اس کو زیادہ سزا ملے گی کہ تو نے باوجود علم کے پھر جُرم کیا ہے اس لیے ایک سال کی بجائے چار سال کی سزا ہونی چاہیے.غرض نری باتیں کام نہ آئیں گی پس چاہیے کہ انسان پہلے اپنے آپ کو دکھ پہنچائے تا خدا تعالیٰ کو راضی کرے اگر وہ ایسا کرے گا تواللہ تعالیٰ اس کی عمر بڑھا دے گا اللہ تعالیٰ کے وعدوں میں تخلّف نہیں ہوتا اس نے جو وعدہ فرمایا ہے کہ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ (الرّعد:۱۸) یہ بالکل سچ ہے.عام طور پر بھی یہی قاعدہ ہے کہ جو چیز نفع رساں ہواس کو کوئی ضائع نہیں کرتا یہاں تک کہ کوئی گھوڑا بیل یا گائے بکری اگر مفید ہو اور اس سے فائدہ پہنچتا ہو کون ہے جو اس کو ذبح کر ڈالے، لیکن جب وہ ناکارہ ہو جاتا ہے اور کسی کام نہیں آسکتا تو پھر اس کا آخر ی علاج وہی ذبح ہے اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اگر اور نہیں تو دو چار روپیہ کو کھال ہی بک جائے گی اور گو شت بھی کام آجائے گا اسی طرح پر جب انسان خدا تعالیٰ کی نظر میں کسی کام کا نہیں رہتا اور اس کے وجود سے کوئی فائدہ دوسرے لوگوں کو نہیں ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا بلکہ خس کم جہاں پاک کے موافق اس کو ہلاک کر دیتا ہے غرض یہ اچھی طرح یادرکھو کہ نری لاف وگزاف اور زبانی قیل وقال کوئی فائدہ اور اثر نہیں رکھتی جب تک کہ اس کے ساتھ عمل نہ ہو اور ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضا سے نیک عمل نہ کئے جاویں جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف بھیج کر صحابہؓ سے خدمت لی.کیا انہوں نے صرف اسی قدر کافی سمجھا تھا کہ قرآن کو زبان سے پڑھ لیا یا اس پر عمل کرنا ضروری سمجھا تھا؟ انہوں نے تو یہاں تک اطاعت و وفا داری دکھا ئی کہ بکریوں کی طرح ذبح ہو گئے اور پھر انہوں نے جو کچھ پایا اور خدا تعالیٰ نے ان کی جس قدر قدر کی وہ پوشیدہ بات نہیں ہے.
فضل اور فیضان حاصل کرنے کا طریق خدا تعالیٰ کے فضل اور فیضان کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو کچھ کرکے دکھا ؤ ورنہ نکمّی شَے کی طرح تم پھینک دئیے جاؤ گے کوئی آدمی اپنے گھر کی اچھی چیزوں اور سونے چاندی کو باہر نہیں پھینک دیتا بلکہ ان اشیاء کو اور تمام کار آمد اور قیمتی چیزوں کو سنبھا ل سنبھال کر رکھتے ہو لیکن اگر گھرمیں کوئی چوہا مَرا ہوا دکھا ئی دے تو اس کو سب سے پہلے باہر پھینک دوگے.اسی طرح پر خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو ہمیشہ عزیز رکھتا ہے ان کی عمر دراز کرتا ہے اور ان کے کاروبار میں ایک برکت رکھ دیتا ہے وہ ان کو ضائع نہیں کرتا اور بے عزّتی کی موت نہیں مارتا لیکن جو خدا تعالیٰ کی ہدایتوں کی بے حرمتی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو تباہ کر دیتا ہے.اگر چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہاری قدر کرے تو اس کے واسطے ضروری ہے کہ تم نیک بن جاؤ تا خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر ٹھہرو جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کے حکموں کی پابندی کرتے ہیں وہ ان میں اور ان کے غیروں کے درمیان ایک فر قان رکھ دیتا ہے.یہی راز انسان کی برکت پا نے کا ہے کہ وہ بدیوں سے بچتا رہے ایسا شخص جہاں رہے وہ قابلِ قدر ہوتا ہے کیونکہ اس سے نیکی پہنچتی ہے وہ غریبوں سے سلوک کرتا ہے، ہمسایوں پر رحم کرتا ہے شرارت نہیں کرتا، جھوٹے مقدمات نہیں بناتا، جھوٹی گو اہیاں نہیں دیتا بلکہ دل کو پاک کرتا ہے اور خدا کی طرف مشغول ہوتا ہے اور خدا کا ولی کہلاتا ہے.اخلاقی کمزوریوں کو دور کریں خدا کا ولی بننا آسان نہیں بلکہ بہت مشکل ہے کیو نکہ اس کے لیے بدیوں کا چھوڑنا، بُرے ارادوں اور جذبات کو چھوڑنا ضروری ہے اور یہ بہت مشکل کام ہے.اخلاقی کمزوریوں اور بدیوں کو چھوڑنا بعض اوقات بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے ایک خونی خون کرنا چھوڑ سکتا ہے، چور چوری کرنی چھوڑ سکتا ہے لیکن ایک بداخلاق کو غصّہ چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے یا تکبّر والے کو تکبّر چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ اس میں دوسروں کو جو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے پھر خود اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی عظمت کے لیے اپنے آپ کو چھوٹا بنا دے گا خدا تعالیٰ اس کو خود بڑا بنا دے گا یہ یقیناً یادرکھو کہ کوئی بڑانہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ آپ کو چھوٹا نہ بنائے.یہ ایک ذریعہ ہے جس سے انسان کے دل پر ایک نور نازل ہوتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف کھینچا جاتا ہے جس قدر اولیاء اللہ دنیا میں گذرے ہیں اور آج لاکھوں انسان جن کی قدر و منزلت کرتے ہیں انہوں نے اپنے آپ کو ایک چیونٹی سے بھی کمتر سمجھا جس پر خدا تعالیٰ کا فضل ان کے شاملِ حال ہوا اور ان کو وہ مدارج عطا کئے جس کے وہ مستحق تھے.تکبّر، بخل، غرور وغیرہ بداخلاقیاں بھی اپنے اندر شرک کا ایک حصّہ رکھتی ہیں اس لیے ان بداخلاقیوں کا مرتکب خدا تعالیٰ کے فضلوں سے حصّہ نہیں لیتا بلکہ وہ محروم ہو جاتا ہے بر خلاف اس کے غربت وانکسار کرنے والا خدا تعالیٰ کے رحم کا مورد بنتا ہے.۱ الحکم جلد ۸نمبر۱۱مورخہ۳۱؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۳،۵ ۲نوٹ از مرتّب.الحکم کے اس پرچہ کے بعض صفحات پر تاریخ غلط در ج ہے.۳۱؍ مارچ کی بجائے ۱۷؍مارچ لکھا ہے اور ٹائٹل پیج پر بھی ایسا ہی ہے اور نیز نمبر ۱۱ کی بجائے نمبر ۹ لکھا ہے.
اور شور مچا تا ہے کہ اس کو تو ایک لفظ بھی صحیح بو لنا نہیں آتا.غرض مختلف قسمیں تکبّر کی ہوتی ہیں اور یہ سب کی سب انسان کو نیکیوں سے محروم کر دیتی ہیں اور لوگوں کو نفع پہنچانے سے روک دیتی ہیں ان سب سے بچنا چاہیے.کا مل تبدیلی کی ضرورت مگر ان سب سے بچنا ایک موت کو چاہتا ہے جب تک انسان اس موت کو قبول نہیں کرتا خدا تعالیٰ کی برکت اس پر نازل نہیں ہوسکتی اور نہ خدا تعالیٰ اس کا متکفل ہوسکتا ہے اور اگر انسان پورے درجہ کی صفائی نہیں کرتا اور کامل تبدیلی نہیں کرتا تو اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ اس دیوار میں سُوئی کے برابر شگا ف کر دیں خواہ ایسے سوراخ دس ہزار بھی کیوں نہ ہوں لیکن ان سوراخوں کے ذریعہ سے وہ روشنی اندر نہیں آجائے گی جو کُل مکان کو خوب روشن اور منور کر دے لیکن جب ایک اچھا روشن دان اس میں کھولا جائے تو اُس سے کافی روشنی اندر آئے گی اور سارے مکان کو منور کر دے گی.اسی طرح پر جب تک تم سچے دل سے مسلمان ہو کر پوری تبدیلی نہیں کرتے اور دل کا دروازہ اللہ تعالیٰ کی طرف کامل طور پر نہیں کھولو گے اس وقت تک خدا تعالیٰ کا وہ نور جو اندر داخل ہوکر ایک سکینت اور اطمینان بخشتا ہے اور جو بدیوں اور بُرائیوں کا امتیاز عطا کرتا ہے نازل نہیں ہوتا اور سچے مسلمان بننے کا موقع نہیں ملتا ہے اور جب تک سچا مسلمان نہیں ہوتا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں سے جو سچے مومنوں اور متقیوں سے اس نے کئے ہیں کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور چونکہ ان وعدوں سے اسے حصّہ نہیں ملتا اور وہ خود محروم رہتا ہے اس لیے شکایت کر بیٹھتا ہے کہ سچے مسلمانوں سے کیا وعدے ہوئے ہیں میری دعا تو قبول نہیں ہوتی لیکن وہ کمبخت نہیں سوچتا کہ میں سچا مسلمان تو ہوا ہی نہیں پھر ان وعدوں کا ایفا کس طرح چاہوں.اس کی مثال اس بیمار کی سی ہے جس نے ابھی پوری صحت تو حاصل نہیں کی اور نہ تندرستوں کی طرح اس کے قویٰ میں طاقت آئی ہے مگر وہ کہتا ہے کہ مجھے تندرستوں کی طرح بھوک نہیں لگتی اور میں چل پھر نہیں سکتا تو اسے یہی کہا جائے گا کہ ابھی تو پوراتندرست نہیں ہوا جب تک تندرست نہ ہو تندرستوں کے لوازمات تجھے کیوں کر حاصل ہو جاویں پس اسی طرح پر جب تک کہ
ایک شخص سچا مسلمان نہ بن جاوے اسے اللہ تعالیٰ کی کوئی شکایت نہیں کرنی چاہیے لیکن میں یقیناً جانتا ہوں کہ جب ایک شخص سچا مسلمان بن جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ پر پورا ایمان لاتا ہے اور اپنے اعمال کو اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کے ماتحت کر لیتا ہے وہ یقیناً یقیناً ان وعدوں کو پورا پا تا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص اور مو من بندوں سے کئے ہیں.وہ اپنی جان پر ان وعدوں کو پوراہوتا ہوا پا تا ہے.اصل یہ ہے کہ سچا مسلمان بننا ہی تو مشکل ہے.سچا مسلمان بننا اور اونٹ کا سُوئی کے ناکے سے نکلنا ایک ہی بات ہے.جب تک یہ نفس اونٹ کی طرح موٹا ہے یہ اس میں سے نکل نہیں سکتا.لیکن جب دعا اور تضرّع کے ساتھ نفس کو مار لیتا ہے اور وہ جسم جو عارضی طور پر اس پر چڑھا ہوا ہوتا ہے دُور ہو جاتا ہے تو یہ لطیف ہو کر اس میں سے نکل جاتا ہے اس کے لیے ضرورت ہے دعاکی، پس ہر وقت دعا کرتا رہے کیونکہ دعا تو ایک ایسی چیز ہے جو ہر مشکل کو آسان کر دیتی ہے دعا کے ساتھ مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہو جاتا ہے لوگوں کو دعا کی قدر وقیمت معلوم نہیں وہ بہت جلد ملول ہو جاتے ہیں اور ہمّت ہار کر چھوڑ بیٹھتے ہیں.حالانکہ دعا ایک استقلال اور مداومت کو چاہتی ہے جب انسان پوری ہمّت سے لگا رہتا ہے تو پھر ایک بدخُلقی کیا ہزاروں بد خلقیوں کو اللہ تعالیٰ دور کر دیتا ہے اور اسے کامل مومن بنا دیتا ہے لیکن اس کے واسطے اخلاص اور مجاہدہ شرط ہے جو دعا ہی سے پیدا ہوتا ہے.یادرکھو نری بیعت سے کچھ نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ اس رسم سے راضی نہیں ہوتا جب تک کہ حقیقی بیعت کے مفہوم کو ادا نہ کرے اس وقت تک یہ بیعت بیعت نہیں نری رسم ہے اس لیے ضروری ہے کہ بیعت کے حقیقی منشا کو پورا کرنے کی کوشش کرو یعنی تقویٰ اختیار کرو.قرآنِ شریف کو خوب غور سے پڑھو اور اس پر تدبّر کرو اور پھر عمل کرو کیونکہ سنّت اللہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نرے اقوال اور باتوں سے کبھی خوش نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے کے واسطے ضروری ہے کہ اس کے احکام کی پیروی کی جاوے اور اس کی نواہی سے بچتے رہو اور یہ ایک ایسی صاف بات ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بھی نری باتوں سے خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ بھی خدمت ہی سے خوش ہوتا ہے.سچے مسلمان اور جھوٹے مسلمان میں یہی فرق ہوتا ہے کہ جھوٹا مسلمان باتیں بناتا ہے کرتا کچھ نہیں اور اس کے مقابلہ میں حقیقی مسلمان
عمل کرکے دکھاتا ہے باتیں نہیں بناتا.پس جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ میرا بند ہ میرے لیے عبادت کر رہا ہے اور میرے لیے میری مخلوق پر شفقت کرتا ہے تو اس وقت اپنے فرشتے اس پر نازل کرتا ہے اور سچے اور جھوٹے مسلمان میں جیسا کہ اس کا وعدہ ہے فرقان رکھ دیتا ہے.گناہ دُور کرنے کا طریق اصل غرض انسان کی پیدا ئش کی یہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرے اور ان باتوں سے جو گناہ کہلا تے ہیں بچتا رہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ گناہوں اور بدیوں سے بچے لیکن ان کے دور کرنے کا کیا طریق ہے؟ یادرکھو کہ ہر گناہ اور بدی نری اپنی کوشش سے دور نہیں ہوسکتے جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے شاملِ حال نہ ہو پس اس کے واسطے ضرورت ہے کہ گناہوں کے ترک کرنے کے لیے اس قدر تدبیر کرے جو تدبیر کا حق ہے.اور اس قدر دعا کرے جو دعا کا حق ہے.تدبیر کے لیے چاہیے کہ گناہوں کو یادرکھو کہ فلاں فلاں بات گناہ کی ہے اس سے بچنے کی کوشش کرو.رات دن ان بدیوں کو دُور کرنے کی فکر میں لگے رہو اور ان اسباب پر غور کرو جو ان بدیوں کا باعث ہوتے ہیں اگر ان بدیوں کا موجب بد صحبت ہے تو اس صحبت کو چھوڑ دو اور اگر خُلقِ بد اس کا باعث ہے تو اس خُلق کو چھوڑ دو.ہرایک چیز کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے اور اسے چھوڑ نہیں سکتا جب تک کہ اس سبب کو نہ چھوڑ دے.ہاں یہ بھی سچ ہے کہ بعض وقت انسان ان اسباب اور وجوہ کو چھوڑنا چاہتا ہے لیکن وہ عاجز ہو جاتا ہے اور اسے چھوڑنا چاہتا ہے لیکن اس کے چھوڑنے میں قادر نہیں ہوسکتا ایسی صورت میں دعا سے کام لینا چاہیے اور خدا تعالیٰ سے توفیق مانگے تا وہ اسے اس گناہ کی زندگی سے رہائی دے.یاد رکھو گناہ کی زندگی سے موت اچھی ہے کیونکہ گناہ کی زندگی مجرما نہ زندگی ہے اگر اس پر موت وارد نہ ہو تو یہ سلسلہ لمبا ہو جاتا ہے لیکن جب موت آ جاتی ہے تو کم از کم گناہ کا سلسلہ لمبا تو نہیں ہوتا.اس سے یہ مراد نہیں کہ انسان خودکشی کر لیوے بلکہ انسان کو چاہیے کہ اس زندگی کو اس قدر قبیح خیال کرکے اس سے نکلنے کے لیے کوشش کرے اور دعا سے کام لے کیونکہ جب وہ حق تدبیر ادا کرتا ہے اور پھر سچی دعاؤں سے کام لیتا ہے تو آخر اللہ تعالیٰ اس کو نجات دے دیتا ہے اور وہ گناہ کی زندگی سے نکل
آتا ہے کیونکہ دعا بھی کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ وہ بھی ایک موت ہی ہے جب اس موت کو انسان قبول کر لیتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کو مجرما نہ زندگی سے جو موت کا مو جب ہے بچا لیتا ہے اور اس کو ایک پاک زندگی عطا کرتا ہے.دعا کیا ہے اور کس طرح کرنی چاہیے بہت سے لوگ دعا کو ایک معمولی چیز سمجھتے ہیں سویادرکھنا چاہیے کہ دعا یہی نہیں کہ معمولی طور پر نماز پڑھ کر ہاتھ اٹھا کر بیٹھ گئے اور جو کچھ آیا منہ سے کہہ دیا اس دعا سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ یہ دعا نری ایک منتر کی طرح ہوتی ہے نہ اس میں دل شریک ہوتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں پر کوئی ایمان ہوتا ہے.یادرکھو دعا ایک موت ہے اور جیسے موت کے وقت اضطراب اور بے قراری ہوتی ہے اسی طرح پر دعا کے لیے بھی ویسا ہی اضطراب اور جوش ہونا ضروری ہے اس لیے دعا کے واسطے پورا پورا اضطراب اور گدازش جب تک نہ ہو تو بات نہیں بنتی.پس چاہیے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نہایت تضرّع اور زاری وابتہال کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی مشکلات کو پیش کرے اور اس دعا کو اس حد تک پہنچاوے کہ ایک موت کی سی صورت واقع ہو جاوے اس وقت دعا قبولیت کے درجہ تک پہنچتی ہے.یہ بھی یاد رکھو کہ سب سے اوّل اور ضروری دعا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف کرنے کی دعا کرے ساری دعاؤں کا اصل اور جُز یہی دعا ہے کیونکہ جب یہ دعا قبول ہو جاوے اور انسان ہر قسم کی گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک صاف ہو کر خدا تعالیٰ کی نظر میں مطہّر ہو جاوے تو پھر دوسری دعائیں جو اس کی حاجات ضروریہ کے متعلق ہوتی ہیں وہ اس کو مانگنی بھی نہیں پڑتی ہیں وہ خود بخود قبول ہوتی چلی جاتی ہیں.بڑی مشقّت اور محنت طلب یہی دعا ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاوے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں متقی اور راست باز ٹھہرایا جاوے یعنی اوّل اوّل جو حجاب انسان کے دل پر ہوتے ہیں ان کا دور ہونا ضروری ہے جب وہ دور ہو گئے تو دوسرے حجابوں کے دور کرنے کے واسطے اس قدر محنت اور مشقّت کرنی نہیں پڑے گی کیونکہ خدا تعالیٰ کا فضل اس کے شاملِ حال ہو کر
ہزاروں خرابیاں خود بخود دور ہونے لگتی ہیں اور جب اندر پاکیزگی اور طہارت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا ہو جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ خود بخود اس کا متکفّل اور متولّی ہوتا ہے اور اس سے پہلے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی کسی حاجت کو مانگے اللہ تعالیٰ خود اس کو پورا کر دیتا ہے.یہ ایک باریک سِر ہے جواس وقت کھلتا ہے جب انسان اس مقام پر پہنچتا ہے اس سے پہلے اس کی سمجھ میں آنا بھی مشکل ہوتا ہے لیکن یہ ایک عظیم الشّان مجاہدہ کا کام ہے کیونکہ دعا بھی ایک مجاہدہ کو چاہتی ہے جو شخص دعا سے لاپروائی کرتا ہے اور اس سے دور رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا اور اس سے دور ہو جاتا ہے.جلدی اور شتاب کاری یہاں کام نہیں دیتی خدا تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے جو چاہے عطا کرے اور جب چاہے عنایت فرمائے.سائل کا کام نہیں ہے کہ وہ فی الفور عطا نہ کئے جانے پر شکایت کرے اور بد ظنی کرے بلکہ استقلال اور صبرسے مانگتا چلا جاوے.دنیا میں بھی دیکھو کہ جو فقیر اڑ کر مانگتے ہیں اور خواہ اس کو کتنی ہی جھڑ کیاں دو اور جتنا چاہو گُھرکو مگر وہ مانگتے چلے جاتے ہیں اور اپنے مقام سے نہیں ہٹتے یہاں تک کہ کچھ نہ کچھ لے ہی مَرتے ہیں اور بخیل سے بخیل آدمی بھی ان کو کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور ہو جاتا ہے.اسی طرح پر انسان جب اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتا ہے اور بار بار مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ تو کریم رحیم ہے وہ کیوں نہ دے؟ دیتا ہے اور ضرور دیتا ہے مگر مانگنے والا بھی ہو.انسان اپنی شتاب کاری اور جلد بازی کی وجہ سے محروم ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بالکل سچا ہے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المؤمن:۶۱) پس تم اس سے مانگو اور پھر مانگو اور پھر مانگو جو مانگتے ہیں ان کو دیا جاتا ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ دعا ہو نری بک بک نہ ہو اور زبان کی لاف زنی اور چرب زبانی ہی نہ ہو.ایسے لوگ جنہوں نے دعا کے لیے استقامت اور استقلا ل سے کام نہیں لیا اور آداب دعا کو ملحوظ نہیں رکھا جب ان کو کچھ ہاتھ نہ آیا تو آخر وہ دعا اور اس کے اثر سے منکر ہو گئے اور پھر رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ سے بھی منکر ہو بیٹھے کہ اگر خدا ہوتا تو ہماری دعا کو کیوں نہ سنتا.ان احمقوںکو اتنا معلوم نہیں کہ خدا تو ہے مگرتمہاری دعائیں بھی دعائیں ہوتیں پنجابی زبان میں ایک ضرب المثل ہے جو دعا کے مضمون کو خوب
ادا کرتی ہے اور وہ یہ ہے جو منگے سو مَر رہے مَرے سومنگن جا یعنی جو مانگنا چاہتا ہے اس کو ضروری ہے کہ ایک موت اپنے اوپر وارد کرے اور مانگنے کا حق اسی کا ہے جو اوّل اس موت کو حاصل کر لے حقیقت میں اسی موت کے نیچے دعا کی حقیقت ہے.اصل بات یہ ہے کہ دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انتہائی درجہ کے اضطرار تک پہنچ جاتی ہے جب انتہائی درجہ اضطرار کا پیدا ہوجاتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی قبولیت کے آثار اور سامان بھی پیدا ہو جاتے ہیں.پہلے سامان آسمان پر کئے جاتے ہیں اس کے بعد وہ زمین پر اثر دکھا تے ہیں.یہ چھوٹی سی بات نہیں بلکہ ایک عظیم الشان حقیقت ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس کو خدائی کا جلوہ دیکھنا ہو اُسے چاہیے کہ دعا کرے.۱ ان۲ آنکھوں سے وہ نظر نہیں آتا بلکہ دعا کی آنکھوں سے نظر آتا ہے کیونکہ اگر دعا کے قبول کرنے والے کا پتا نہ لگے تو جیسے لکڑی کو گھن لگ کر وہ نکمّی ہو جاتی ہے ویسے ہی انسان پکار پکار کر تھک کر آخر دہریہ ہو جاتا ہے ایسی دعا چاہیے کہ اس کے ذریعہ ثابت ہو جاوے کہ اس کی ہستی بر حق ہے جب اس کو یہ پتا لگ جاوے گا تو اس وقت وہ اصل میں صاف ہوگا یہ بات اگرچہ بہت مشکل نظر آتی ہے لیکن اصل میں مشکل بھی نہیں ہے بشرطیکہ تدبیر اور دعا دونوں سے کام لیو ے جیسے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتـحۃ:۵) کے معنوں میں (ابھی تھوڑے دن ہوئے ) بتلایا گیا ہے.نماز پوری پڑھو، صدقہ اور خیرات دو تو پوری نیّت سے دو کہ خدا راضی ہو جاوے اور توفیق طلب کرتے رہو کہ رِیاکاری، عُجب وغیرہ زہریلے اثر جس سے ثواب اور اجر باطل ہوتا ہے دور ہو جاویں اور دل اخلاص سے بھر جاوے.خدا پر بد ظنّی نہ کرو وہ تمہارے لیے ان کاموں کو آسان کر سکتا ہے وہ رحیم کریم ہے ۱ الحکم جلد ۸ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۷ ؍اپریل ۱۹۰۴ءصفحہ ۳تا ۶.نوٹ.الحکم کے اس پرچہ میں بھی غلطی سے ۲۴؍اپریل کی تاریخ درج ہے جو دراصل ۱۷ ؍اپریل ہے.(مرتّب ) ۲ یہ مضمون جو گذشتہ مضمون کے تسلسل میں ہے البدر سے لیا گیا ہے کیونکہ الحکم میں درج ہونے سے رہ گیا ہے.(مرتّب)
باکریماں کار ہا دشوارنیست.اگر پیچھے لگے رہو گے تو اسے رحم آہی جاوے گا.خدا یابی سے محروم رہنے کے اسباب بہت لوگ ہیں کہ سیدھی نیت سے طلب نہیں کرتے تھوڑا طلب کرکے تھک جاتے ہیں.دیکھو اگر ایک زمین میں چالیس ہاتھ کھو دنے سے پانی نکلتا ہے تو تین چار ہاتھ کھود کر جو شکایت کرے کہ پانی نہیں نکلا اسے تم کیا کہو گے اس قسم کے بد قسمت انسان ہوتے ہیں کہ وہ دو چار دن دعا کرکے کہتے ہیں کہ ہمیں پتا کیوں نہ لگا اور اس طرح ایک دنیا گمراہ ہو گئی ہے وظیفہ اور مجاہدے کرتے رہے مگر جس حد تک کھودنے سے پانی نکلنا تھا اس حد تک نہ کھو دایعنی نہ پہنچے تو خدا کی ذات سے منکر ہو گئے اور آخر کار خلقت کا رجوع اپنی طرف دیکھ کر ٹھگ بن گئے اس کا باعث یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ کی طرف جس رفتار سے چلنا چاہیے تھا اس رفتار سے نہ چلے اور اس کے عطا کردہ دوسرے قویٰ اور اعضا سے کام نہ لیا اور طوطے کی طرح وظیفوں پر زور لگاتے رہے آخر کار لعنتی ہو گئے.؎ گر نہ باشد بدوست راہ بردن شرط عشق است در طلب مُردن اس کے یہ معنے ہیں کہ اس کی راہ پر چلا جاوے یہاں تک کہ مَر جاوے وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ( الـحجر:۱۰۰) کے یہی معنے ہیں وہ موت جب آتی ہے تو ساتھ ہی یقین بھی آ جاتا ہے موت اور یقین ایک ہی بات ہے.غرض کہ اس کمزوری اور کسل نے لوگوں کو خدا یابی سے محروم کر دیا ہے کہ پورا حق تلاش کا ادا نہ کیا.راستہ میں چھلکا مل گیا اسی پر راضی ہو گئے اور دو کانداربن گئے.راست بازوں کے لباس اطاعت، عبادت، خدمت میں اگر صبرسے کام لو تو خدا کبھی ضائع نہ کرے گا اسلام میں ہزاروں ہوئے ہیں کہ لوگوں نے صرف ان کے نور سے ان کو شناخت کیا ہے ان کو مکاروں کی طرح بھگوے کپڑے یا لمبے چو غے اور خاص خاص متمیّز کرنے والے لباس کی ضرورت نہیں ہے اور نہ خدا کے راست بازوں نے ایسی وردیاں پہنی ہیں.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی خاص ایسا لباس نہ تھا جس سے آپ لوگوں میں متمیّز ہوسکتے بلکہ ایک دفعہ ایک شخص نے ابوبکرؓ کو پیغمبر جان کر ان سے مصافحہ کیا اور تعظیم وتکریم کرنے لگا
آخر ابو بکرؓ اٹھ کر پیغمبر ِخدا صلی اللہ علیہ وسلم کو پنکھا جھلنے لگ گئے اور اپنے قول سے نہیں بلکہ فعل سے بتلا دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہیں میں تو خادم ہوں.جب انسان خدا کی بندگی کرتا ہے تو اسے رنگ دار کپڑے پہننے، ایک خاص وضع بنانے اور مالا وغیرہ لٹکا کر چلنے کی کیا ضرورت ہے ایسے لوگ دنیا کے کتّے ہوتے ہیں خدا کے طالبوں کو اتنی ہوش کہاں کہ وہ خاص اہتمام پوشاک اور وردی کا کریں.وہ تو خلقت کی نظروں سے پوشیدہ رہنا چاہتے ہیں.بعض بعض کو خدا تعالیٰ اپنی مصلحت سے باہر کھینچ لاتا ہے (کہ اپنی الوہیت کا ثبوت دیوے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز خواہش نہ تھی کہ لوگ آپ کو پیغمبر کہیں اور آپ کی اطاعت کریں اور اسی لیے ایک غار میں جو قبرسے زیادہ تنگ تھی جا کر آپ عبادت کیا کرتے تھے اور آپ کا ہرگز ارادہ نہ تھا کہ اس سے باہر آویں آخر خدا نے اپنی مصلحت سے آپ کو خود باہر نکالا اور آپ کے ذریعے سے دنیا پر اپنے نور کو ظاہر کیا.انبیاء.تلا میذ الرحمٰن انبیاء تلامیذ الرحمٰن ہوتے ہیں ان کا کوئی مرشد وغیرہ نہیں ہوتا وہ دنیا سے بالکل فانی ہوتے ہیں وہ ہرگز اپنا اظہار نہیں چاہتے مگر خدا ان کو زبردستی باہر لاتا ہے.انسان کیا وہ تو فرشتوں سے بھی اخفا چاہتے ہیں اور ان کی فطرت ہی اس قسم کی بنی ہوئی ہوتی ہے وہ خدا کے نزدیک زندہ ہوتے ہیں لیکن جن کو دنیا کا خیال ہوتا ہے اور چاہتے ہیں کہ لوگ ان کو اچھا جانیں وہ خدا کے نزدیک مُردار ہوتے ہیں اور ہزاروں قسم کی تصنّعا ت سے ان کو کام لینا پڑتا ہے.وہ شیطان ہوتے ہیں ان سے دور رہنا چاہیے.وہ لوگ جن کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے وہ اَور ہیں نہ کہ یہ.پس یادرکھو کہ زبان سے خدا کبھی راضی نہیں ہوتا اور بغیر ایک موت کے کوئی اس کے نزدیک زندہ نہیں ہوتا جس قدر اہل اللہ ہوتے ہیں سب ایک موت قبول کرتے ہیں اور جب خدا ان کو قبول کرتا ہے تو زمین پر بھی ان کی قبولیت ہوتی ہے پہلے خدا تعالیٰ خاص فرشتوں کو اطلاع دیتا ہے کہ فلاں بندے سے میں محبت کرتا ہوں اور وہ سب اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں حتی کہ اس کی محبت زمین کے پاک دلوںمیں ڈالی جاتی ہے اور وہ اسے قبول کرتے ہیں.جب تک ان لوگوں میں سے
کوئی نہیں بنتا تب تک وہ پیتل اورتانبا ہے اور اس قابل نہیں کہ اس کا قدر کیا جاوے.سچوں کی مخالفت یادرکھو خدا کے بندوں کا انجام کبھی بد نہیں ہوا کرتا اس کا وعدہ كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِيْ (المجادلۃ:۲۲) بالکل سچا ہے اور یہ اسی وقت پورا ہوتا ہے جب لوگ اس کے رسولوں کی مخالفت کریں فریبی مکّاروں سے دنیا مخالفت نہیں کیا کرتی کیونکہ دنیا دنیا سے مل جاتی ہے لیکن جسے خدا بر گز یدہ کرے اس کی مخالفت ہونی ضروری ہے سچے کے بعد ایک بڑے طو فان کے بعد لوگ ملا کرتے ہیں اور عقلمندلوگ جان جاتے ہیں کہ اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو اتنی مخالفت پر کیسے کامیاب ہوتا یہ سب امور مخالفت وغیرہ خدا کی طرف سے ہوتے ہیں اور اس میں وہ اپنے بندے کا صبر دیکھتا ہے اور دکھلا تا ہے کہ دیکھو جن کو میں انتخاب کرتا ہوں وہ کیسے بہادر ہیں کیونکہ جھوٹے کے لیے پانچ چھ دشمن ہی کافی ہوتے ہیں لیکن ان کے مقابلہ پر ایک دنیا دشمن ہوتی ہے اور پھر یہ غالب آتے ہیں.ایک جھوٹا تحصیلدار اگر ایک گاؤں میں جاوے اور ایک ادنیٰ سا آدمی بھی یہ کہہ دے کہ مجھے اس کی تحصیلداری میں شک ہے تو آخر کار وہ اسی دن وہاں سے کھسک جاوے گا کہ میرا پول کھل گیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں چور ہوں جھوٹے کی استقامت کچھ نہیں ہوتی لیکن خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی استقامت کا فوق الکرامت نمونہ دکھاتا ہے اور اسے دیکھ دیکھ کر لوگ تنگ آجاتے ہیں اور آخر کار بول اٹھتے ہیں کہ یہ سچوں کی استقامت ہے.سچائی پر اگر ہزار گردوغبار ڈالا جاوے پھر بھی وہ باہر نکل کر اپنا جلوہ دکھائے گی.نصائح فتنہ کی بات نہ کرو، شر نہ کرو، گالی پر صبر کرو، کسی کا مقابلہ نہ کرو، جو مقابلہ کرے اس سے سلوک اور نیکی سے پیش آؤ، شیریں بیا نی کا عمدہ نمونہ دکھلاؤ، سچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا راضی ہو اور دشمن بھی جان لیوے کہ اب بیعت کرکے یہ شخص وہ نہیں رہا جو کہ پہلے تھا مقدمات میں سچی گواہی دو، اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہیے کہ پورے دل، پوری ہمّت اور ساری جان سے راستی کا پا بندہو جاوے.دنیا ختم ہونے پر آئی ہوئی ہے.اس کے بعد آپ نے کسوف خسوف اور طاعون کا ذکر کیا ہےکہ ایک آسمانی نشان ہے اور ایک
زمینی پھر تاکید فرمائی کہ خدا سے معاملہ صاف رکھو.۱ ملفوظات حضرت امام الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام جو کہ آپ نے مارچ کے آخر نصف حصّہ میں فرمائے.(ایڈیٹر بدر) صبر اور تقویٰ کے نتائج اگر دیکھنے ہوں تو سورہ یوسف کو غور سے مطا لعہ کرو کہ جسے بھائیوں نے غلام بناکر فروخت کیا تھا آخر کار خدا نے اسے تخت پر بٹھا دیا.گناہ کی طاعون اور اس کاعلاج اس وقت جب کہ بدی کمال انتشار پر ہے اور اس کی ہوا ہی چلی ہوئی ہے اس سے الگ ہونا بھی ایک مرد کا کام ہے ہر ایک میں یہ طاقت نہیں کہ جوانمردی سے اس سے الگ ہو جاوے جب انسان ہر کس و ناکس کو فسق وفجور میں مبتلا دیکھتا ہے تو اس کا اثر اس کے قلب پرپڑتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ سب دنیا جو ایسا کرتی ہے تو یہ کوئی بُری بات نہیں اس لیے بدی کی طرف میلان ہو جاتا ہے اس پر خدا کا بڑافضل ہے جس کی یہ آنکھ کھلے اور وہ بدی کو بدی جان کر الگ ہو.اس وقت جیسے طاعون پھیلی ہے اور سوائے خدا کے خاص فضل کے نجات نہیں اسی طرح گناہ کی طاعون ہے اور اس سے بچنے کے لیے بھی خدا کے فضل کی ضرورت ہے جیسے جسمانی حالت اور قویٰ میں دیکھا جاتا ہے کسی کی کوئی قوت کمزور ہوتی ہے اور کسی کی کو ئی.یہی حال گناہوں کا ہے کہ بعض انسان خاص گناہوں کے ترک پرتو قادر ہوتے ہیں اور دوسرے گناہوں کے ترک میں کمزور.پس جس گناہ کے چھوڑ نے میں جو اپنے آپ کو کمزور پاوے اس کو نشا نہ بناکر دعا کرے تو اسے فضلِ خدا سے قوت عطا ہو گی.سنّتِ الٰہی یہی ہے کہ ابتداکا فروں کی ہوتی چلی آئی ہے اور انجام کا رمتقی فر یق کامیاب ہوتا رہا ہے.۱ البدر جلد ۳نمبر ۱۱ مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴ءصفحہ۸،۱۱
صحابہ کرامؓ کی مراتب شنا سی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مراتب پر گفتگو ہوتے ہوئے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو کچھ اسلام کا بنا ہے وہ اصحابِ ثلاثہ سے ہی بنا ہے.حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جوکچھ کیا ہے وہ اگرچہ کچھ کم نہیں مگر ان کی کارروائیوں سے کسی طرح صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خفت نہیں ہوسکتی کیونکہ کامیابی کی پٹری(بنیاد) تو صدیق اکبرؓ نے ہی جمائی تھی اور عظیم الشان فتنہ کو انہوں نے ہی فرو کیا تھا ایسے وقت میں جن مشکلات کا سامنا حضرت ابو بکرؓ کو پڑا وہ حضرت عمرؓ کو ہرگز نہیں پڑا.پس صدیقؓ نے رستہ صاف کر دیا تو پھر اس پر عمرؓ نے فتوحات کا دروازہ کھولا.آخر عمر میں ایمان سلامت لے جانے کے لیے نہ علم کی ضرورت ہے اور نہ کسی اَور شَے کی.استغفار بہت کرنی چاہیے اورنماز میں، اٹھتے بیٹھتے ،ہر حال میں دعا میں مصروف رہنا چاہیے.اسلام اس بات کا نام ہے کہ قرآن شریف کی اِ تباع سے خدا کو راضی کیا جاوے.۱ ۲۹؍مارچ ۱۹۰۴ء باہر سے آنے والوں کا حق چند ایک احباب بیرون جات سے آئے ہوئے تھے اور حضرت اقدس کے قریب بیٹھنے کے لیے ایک دوسرے پر گرے پڑے تھے کہ حضرت اقدسؑ نے قادیانی احباب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ ان لوگوں کو جگہ دو.نئے آدمیوں کی تو خدا تعالیٰ نے اوّل ہی سے سفارش کر رکھی ہے جیسے براہین میں یہ الہام موجود ہے کہ کثرت سے لوگ تیرے پاس آویں گے توان سے تنگ دل نہ ہو نا.استقامت بعد ازاں چند احباب نے بیعت کی جس پر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذیل کی تقریر ایک ایسے شخص کے سوال پر فرمائی جس نے حضور سے استقامت کے لیے ۱ البدر جلد ۳ نمبر ۱۵ مورخہ ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۳
دعا کی در خواست کی تھی فرمایا کہ استقامت خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے ہم نے دعا کی ہے اور کریں گے لیکن تم بھی خدا تعالیٰ سے استقامت کی توفیق طلب کرو.استقامت کے یہ معنے ہیں کہ جو عہد انسان نے کیا ہے اسے پورے طور پر نبھاوے یاد رکھو کہ عہد کرنا آسان ہے مگر اس کا نبھانا مشکل ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ باغ میں تخم ڈالنا آسان مگر اس کے نشوونما کے لیے ہر ایک ضروری بات کو ملحوظ رکھنا اور آبپاشی کے اوقات پر اس کی خبر گیری کرنی مشکل ہے.ایمان بھی ایک پودا ہے جسے اخلاص کی زمین میں بو یا جاتا ہے اور نیک اعمال سے اس کی آبپاشی کی جاتی ہے اگر اس کی ہر وقت اور موسم کے لحاظ سے پوری خبر گیری نہ کی جاوے توآخرکار تباہ اور برباد ہو جاتا ہے.دیکھو باغ میں کیسے ہی عمدہ پودے تم لگاؤ لیکن اگر لگا کر بھول جا ؤ اور اسے وقت پر پانی نہ دو یا اس کے گرد باڑ نہ لگا ؤ تو آخر کار نتیجہ یہی ہوگا کہ یا تو وہ خشک ہوجاویں گے یا ان کو چورلے جاویں گے.ایمان کا پودا اپنے نشوونما کے لیے اعمالِ صالحہ کو چاہتا ہے اور قرآن شریف نے جہاں ایمان کا ذکر کیا ہے وہاں اعمالِ صالحہ کی شرط لگا دی ہے کیونکہ جب ایمان میں فساد ہوتا ہے تو وہ ہرگز عند اللہ قبولیت کے قابل نہیں ہوتا جیسے غذا جب با سی ہو یا سڑ جاوے تو اسے کوئی پسند نہیں کرتا اسی طرح ریا، عُجب، تکبّر ایسی باتیں ہیں کہ اعمال کو قبولیت کے قابل نہیں رہنے دیتیں کیونکہ اگر اعمال نیک سرزد ہوئے ہیں تو وہ بند ے کے اپنی طرف سے نہیں بلکہ خاص خدا کے فضل سے ہوئے ہیں.پھر اس میں اس کا کیا تعلق کہ وہ دوسروں کو خوش کرنے کے لیے ان کو ذریعہ ٹھہراتا ہے یا اپنے نفس میں خود ہی ان سے کبر کرتا ہے جس کا نام عُجب ہے خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا (النّسآء:۲۹) یعنی انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے اور اس میں بذاتِ خود کوئی قوت اور طاقت نہیں ہے جب تک خدا تعالیٰ خود نہ عطا فرماوے اگر آنکھیں ہیں اور تم ان سے دیکھتے ہو یا کان ہیں اور تم ان سے سنتے ہو یا زبان ہے اور تم اس سے بو لتے ہو تو یہ سب خدا کا فضل ہے کہ یہ سب قویٰ اپنا اپناکام کر رہے ہیں وگرنہ اکثر لوگ مادرزاد اندھے یا بہرے یا گو نگے پیدا ہوتے ہیں بعض بعد پیدائش کے دوسرے حوادثات سے ان نعمتوں سے محروم ہو جاتے ہیں مگرتمہاری آنکھیں بھی نہیں
دیکھ سکتیں جب تک روشنی نہ ہو اور کان نہیں سن سکتے جب تک ہوا نہ ہو پس اس سے سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ دیا گیا ہے جب تک آسمانی تائید اس کے ساتھ نہ ہو تب تک تم محض بے کار ہو.ایک بات کو تم کتنے ہی صدقِ دل سے قبول کرو مگر جب تک فضلِ الٰہی شاملِ حال نہیں تم اس پر قائم نہیں رہ سکتے.احمدیت بیعت توبہ اور بیعت تسلیم جو تم نے آج کی ہے اور اس میں جو اقرار کیا ہے اسے سچے دل سے بہت مضبوط پکڑواور پختہ عہد کرو کہ مَرتے دم تک تم اس پر قائم رہو گے سمجھ لو کہ آج ہم نفس کی خودرویوں سے باہر آگئے ہیں اور جو جو ہدایت ہو گی اس پر عمل کرتے رہیں گے.ہم کوئی نئی ہدایت یا نیا دین یا نیا عمل نہیں لائے ہدایت بھی وہی ہے دین بھی وہی ہے عمل بھی وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دے گئے ہیں کوئی نیا کلمہ تم کو تلقین نہیں کیا جاتا اور نہ کوئی نیا خاتم النّبییّن بنایا جاتا ہے ہاں اس پر سوال ہوتا ہے کہ جب نئی بات کوئی نہیں تو پھر فرق کیا ہوا اور ایک جماعت کیوں طیار ہو رہی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا نے جو ارادہ کیا تھا کہ وہ ایک مسیح موعود بناکر بھیجے گا اور وہ اس وقت آوے گا جب کہ دنیا سخت تا ریکی میں ہو گی ہر طرف سے کفر کے حملے ہوں گے اسلام کو ہرایک پہلو سے نقصان پہنچانے کی کوشش ہو گی تواس کے آنے کے دو فائدے ہوں گے.ایک فائدہ تو یہ ہے کہ یہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ اسلام بد عات سے پورا حصّہ لے چکا ہے ہر ایک بدعت (تیسری) صدی (ہجری) سے شروع ہو کر چودھویں صدی تک کمال کو پہنچ گئی اور پوری دجالی صورت پیدا ہو گئی ہے.حدیثیں بلند آواز سے اس زمانہ کی نسبت خبر دے رہی ہیں جیسے ایک حمل کی مدّت نوماہ ہوتی ہے اس مناسبت سے تیسری صدی کے بعد جیسے نوصد سال گذرگئے تو خدا نے ایک مامور کو مبعوث کیا کہ ان بدعات اور مفاسد کو دور کرے کیونکہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فر مودہ کے مطابق لَیْسُوْا مِنِّیْ وَلَسْتُ مِنْھُمْ کے مصداق ہو گئے تھے اور اسلام کاصرف نام ہی نام ان کی زبانوں پر رہ گیا تھا جیسے ایک باغ کے عمدہ عمدہ بو ٹوں کو دوسرے خراب بوٹے اور گھاس وغیرہ پیدا ہو کر دبا لیتے ہیں ایسے ہی ردّی گھاس اور بوٹے اسلام کے باغ میں ہوگئے تھے اور اس کا حقیقی نشوونما اورآب وتاب بالکل جاتی رہی تھی.مکّار درویش، گدی نشین اور فقیر وغیرہ اس ردّی گھاس کی طرح ہیں
جو کہ برائے نام تو مسلمان ہیں لیکن اصل میں دشمنِ اسلام ہیں خود ان کا قول تھا کہ مسیح اور مہدی چودہویں صدی کے سر پر ہوگا وہ پورا ہو گیا پھر طاعون بھی نشان تھا وہ بھی پورا ہو گیا نئی سواری جسے ریل کہتے ہیں یہ بھی نشانی تھی جو کہ چلتی دیکھتے ہو.سورج اور چاند کا گرہن بھی ماہ رمضان میں ہو گیا.ایک بڑی بدعت جس کی مثال جانوروں میں سے ہاتھی کی مثال ہے یہ پڑگئی تھی کہ نصاریٰ کا زور ہو گیا اور اسلام پر حملے شروع ہوئے ۳۰ لاکھ سے زیادہ مسلمان مُرتد ہو چکے.کیا یہ ممکن تھا کہ اسلام کے قادرمطلق خدا کو چھوڑکر ایک عاجز انسان اور پھر میّت کو خدا مانا جاوے.کیا کسی کی عقل وفکر میں یہ بات آسکتی تھی مگرتا ہم لوگ اس دھوکا میں آگئے.اس کا باعث عیسائیوں کی شرارت ہی نہیں بلکہ مسلمانوں نے بھی ایک بڑا حصّہ اس کا اس طرح سے لیا ہوا ہے کہ مسیح کو تو آسمان پر زندہ مانااور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زیر زمین دفن شدہ تسلیم کیا اوراس طرح سے ہر ایک پہلو اور بات میں یہ خود عیسائیوں کی مدد کر رہے ہیں اور ان کا ایک دستِ بازو بنے ہوئے ہیں.اوّل تو قرآن شریف کے برخلاف ایک بات کرتے ہیں اور پھر وہ بات جس سے عیسائیوں کو تقویت ہو قرآن شریف پیش کرتے ہیں کہ اس میں اس کا آسمان پر اُٹھایا جانا لکھا ہے حالانکہ قرآن شریف تو بڑے زور سے اس کی وفات ثابت کرتا ہے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ (المآئدۃ:۱۱۸) اور قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ(اٰل عـمران: ۱۴۵) اور اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ كِفَاتًا (المرسلات:۲۶) وغیرہ بہت سی آیات ہیں جن سے وفات ثابت ہوتی ہے پھر کمبخت نادان ایک اور بات کہتے ہیں کہ صرف مسیح اور اس کی ماں مَسِّ شیطان سے پاک ہیں.یہ اصل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینی ہے کہ ایک بنی اسرائیل کی عورت مریم تو مَسِّ شیطان سے پاک ہو اور نعوذبا للہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پاک نہ ہوں اگر یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں ہوتے اور یہ بات کہتے تو پھر دیکھتے کہ اس بے ادبی کی کیا سزا پا تے.مسیح اور مریم کو مَسِّ شیطان سے پاک قرار دینے کی وجہ اصل بات یہ ہے کہ حضرت مسیح اور ان کی
ماں مریم پر یہود کا اعتراض تھا.مسیح کو وہ لوگ ناجائز ولادت کا الزام لگاتے اور مریم کو زانیہ کہتے تھے قرآنِ شریف کا کام ہے کہ انبیاء پر سے اعتراضات کو رفع کرے اس لیے اس نے مریم کے حق میں زانیہ کے بجائے صدیقہ کا لفظ رکھا اور مسیح کو مَسِّ شیطان سے پاک کہا اگر ایک محلہ میں صرف ایک عورت کا تبریہ کیا جاوے اور اس کی نسبت کہا جاوے کہ وہ بدکار نہیں ہے تو اس سے یہ التزام لازم نہیں آتا کہ باقی کی سب ضرور بدکار ہیں صرف یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس پر جو الزام ہے وہ غلط ہے یا اگر ایک آدمی کو کہا جاوے کہ وہ بھلا مانس ہے تو اس کے یہ معنے ہرگز نہیں ہوتے کہ باقی کے سب لوگ بھلے مانس نہیں بلکہ بدکار ہیں.اسی طرح یہ ایک مقدمہ تھا کہ مسیح اور اس کی ماں پر الزام لگائے گئے تھے خدا نے شہادت دی کہ وہ الزاموں سے بَری اور پاک ہیں.کیا عدالت اگر ایک ملزم کو قتل کے مقدمہ میں بَری کر دے تو اس سے یہ لازم آوے گا کہ باقی کے سب لوگ اس شہر کے ضرور قاتل اور خونخوار ہیں غرضیکہ اس قسم کی بدعات اور فساد پھیلے ہوئے تھے جن کے دور کرنے کے لیے خدا نے ہمیں مبعو ث کیا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ تقویٰ، طہارت، خدا کی طرف رجوع، خدا کی محبت اور ہر بدکاری کے وقت اس کے خوف اور عظمت کو مدّ ِنظر رکھ کر کنارہ کش ہونا یہ باتیں اٹھ گئی تھیں اور اسلام صرف برائے نام رہ گیا تھا.اب خدا نے چاہا ہے کہ سچی پا کیز گی حاصل ہو.عقائد کا اثر اعمال پر اسلام کے دو حصّہ ہیں ایک تو یہ کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جاوے اور اس کے احسانوں کے بدلے میں اس کی پوری اطاعت کی جاوے ورنہ خدا تعالیٰ جیسے محسن و مربی سے جو روگردانی کرتا ہے وہ شیطان ہے.دوسرا حصّہ یہ ہے کہ مخلوق کے حقوق شناخت کرے اور کماحقہٗ اس کو بجا لاوے جن قوموں نے موٹے موٹے گناہ جیسے زنا، چوری، غیبت، جھوٹ وغیرہ اختیار کئے آخر وہ ہلاک ہو گئیں اور بعض قومیں صرف ایک ایک گناہ کے ارتکاب سے ہلاک ہوتی رہیں مگر چونکہ یہ اُمّت ِمر حومہ ہے اس لیے خدا تعالیٰ اسے ہلاک نہیں کرتا ورنہ کوئی معصیت ایسی نہیں ہے جو یہ نہیں کرتے بالکل ہندوؤں کی طرح ہو گئے ہیں ہر ایک نے الگ معبود بنا لیے ہیں عیسیٰ کو مثل خدا کے حیّ وقیوم مانا جاتا ہے
پرندوں کااسے خالق مانا جاتا ہے بات یہ ہے کہ عقیدے اچھے ہوتے ہیں تو انسان سے اعمال بھی اچھے صادر ہوتے ہیں.دیکھو ہندوؤں نے ۳۳ کروڑ دیوتا بنائے تو آخر نیوگ وغیرہ جیسے مسائل کو بھی ماننے لگ گئے اور ذرّہ ذرّہ کو خدا مان لیا اس نیوگ اور حرامکا ری کی کثرت کا باعث یہی اعتقاد کا نقص ہے جو انسان سچا اور بے نقص عقیدہ اختیار کرتا ہے اور خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا تو اس سے اعمال خود بخود ہی اچھے صادر ہوتے ہیں اور یہی باعث ہے کہ جب مسلمانوں نے سچے عقائد چھوڑ دئیے تو آخر دجّال وغیرہ کو خدا ماننے لگ گئے کیونکہ دجّال میں تمام صفات خدائی کے تسلیم کرتے ہیں.پس جب اس میں تمام صفات خدائی کے مانتے ہو تو جو اسے خدا کہے اس کا اس میں کیا قصور ہوا خود ہی تو تم خدائی کا چارج دجال کو دیتے ہو.پروردگار چاہتا ہے کہ جیسے عقائد درست ہوں ویسے ہی اعمالِ صالحہ بھی درست ہوں اور ان میں کسی قسم کا فساد نہ رہے اس لیے صراطِ مستقیم پر ہونا ضروری ہے خدا نے بار بار مجھے کہا ہے کہ اَلْـخَیْـرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ اس کی تعلیم ہے کہ خدا وحدہٗ لا شریک ہے اور جو قرآن نے کہا ہے وہ بالکل سچ ہے.جماعت اور امام کی ضرورت اور ایک ضروری بات یہ ہے کہ تقویٰ میں ترقی کرو.ترقی انسان خود نہیں کرسکتا تھا جب تک ایک جماعت اور ایک اس کا امام نہ ہو اگر انسان میں یہ قوت ہوتی کہ وہ خود بخود ترقی کرسکتا تو پھر انبیاء کی ضرورت نہ تھی تقویٰ کے لیے ایک ایسے انسان کے پیدا ہونے کی ضرورت ہے جو صاحبِ کشش ہو اور بذریعہ دعا کے وہ نفسوں کو پاک کرے.دیکھو اس قدر حکماء گذرے ہیں کیا کسی نے صالحین کی جماعت بھی بنائی، ہرگز نہیں.اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ صاحب ِکشش نہ تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے بنادی.بات یہ ہے کہ جسے خدا تعالیٰ بھیجتا ہے اس کے اندر ایک تریاقی مادہ رکھاہوا ہوتا ہے پس جو شخص محبت اور اطاعت میں اس کے ساتھ ترقی کرتا ہے تواس کے تریاقی مادہ کی وجہ سے اس کے گناہ کی زہر دور ہوتی ہے اور فیض کے ترشحات اس پر بھی گرنے لگتے ہیں اس کی نماز معمولی نماز نہیں ہوتی یادرکھو کہ اگر موجودہ ٹکروں والی نماز ہزار برس بھی پڑھی جاوے تو ہرگز فائدہ نہ ہوگا.نماز ایسی شَے ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمان انسان پر جھک پڑتا ہے نماز کا حق ادا کرنے والا یہ خیال کرتا ہے کہ
میں مَر گیا اور اس کی روح گداز ہو کر خدا کے آستانہ پر گر پڑی ہے اگر طبیعت میں قبض اور بد مزگی ہو تو اس کے لیے بھی دعا ہی کرنی چاہیے کہ الٰہی تو ہی اسے دور کر اور لذّت اور نور نازل فرما جس گھر میں اس قسم کی نماز ہو گی وہ گھر کبھی تباہ نہ ہوگا.حدیث شریف میں ہے کہ اگر نوحؑ کے وقت میں یہ نماز ہوتی تو وہ قوم کبھی تباہ نہ ہوتی.حج بھی انسان کے لیے مشروط ہے روزہ بھی مشروط ہے زکوٰۃ بھی مشروط ہے مگر نماز مشروط نہیں سب ایک سال میں ایک ایک دفعہ ہیں مگر اس کا حکم ہر روز پا نچ دفعہ ادا کرنے کا ہے اس لیے جب تک پوری پوری نماز نہ ہو گی تو وہ برکات بھی نہ ہوں گے جو اس سے حاصل ہوتے ہیں اور نہ اس بیعت کا کچھ فائدہ حاصل ہوگا.اگر بھوک یا پیاس لگی ہو تو ایک لقمہ یا ایک گھونٹ سیری نہیں بخش سکتا پوری خوراک ہو گی تو تسکین ہو گی اسی طرح ناکارہ تقویٰ ہرگز کام نہ آوے گی.خدا تعالیٰ انہیں سے محبت کرتا ہے جواس سے محبت کرتے ہیںلَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (اٰلِ عمران:۹۳) کے یہ معنے ہیں کہ سب سے عزیز شَے جان ہے اگر موقع ہو تو وہ بھی خدا کی راہ میں دےدی جاوے.نماز میں اپنے اوپر جو موت اختیار کرتا ہے وہ ہی بِرّ کو پہنچتا ہے.۱ ۱۶؍اپریل ۱۹۰۴ء طاعون زدہ کی نماز جنازہ حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک صاحب کا خط حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سنایا.جس میں راقم خط نے طاعون زدہ کی نماز جنازہ ادا کرنے کے بارے میں استفسار کیا تھا.نیز طاعون کے مریضوں سے ہمدردی اور خبر گیری کے متعلق آپ کا ارشاد چاہا تھا.اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جنازہ پڑھنا چاہیے اور ہمدردی بھی کرنی چاہیے لیکن شریعت کے حکم کے موافق اپنے بچاؤ کا بھی ضرور خیال رکھیں.جنازہ کی نماز فرض کفایہ ہے.اگر لوگ گھر بھر کا ایک آدمی بھی شامل ہو جاوے تو کافی ہے سب کی طرف سے ادا ہوجاتی ہے.لیکن اگر کوئی ایسی میّت ہو کہ اس سے تعفّن اور
بد بو آتی ہو تو چاہیے کہ فاصلہ سے اس کا جنازہ پڑھیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ(البقرۃ:۱۹۶) غائبانہ جنازہ پڑھنا جو شریعت میں روا رکھا گیا ہے تو آخر کسی مصلحت کی بنا پر ہے.اس لیے خاص خاص صورتوں میں غائبانہ بھی ادا کر سکتے ہیں.رؤیا فجر کے وقت فرمایا کہ ہم نے ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک سڑک ہے جس پر کوئی کوئی درخت ہے اور ایک مقام دارہ (فقرا کے تکیہ وغیرہ) کی طرح ہے.میں وہاں پہنچا ہوں.مفتی محمد صادق میرے ساتھ تھے دو چار اَور دوست بھی ہمراہ تھے لیکن ان کے نام اور وہ حصّہ خواب کا بھول گیا ہوں آخر سڑک کے کنارہ آیا تو ایک مکان دیکھا جو کہ میرا یہ (سکونتی) مقام معلوم ہوتا ہے لیکن چاروں طرف پھرتا ہوں.ا س کا دروازہ نہیں ملتا اور جہاں دروازہ تھا وہاں ایک پختہ عمارت کی دیوار معلوم ہوتی ہے فجّو (فضل النساء) سفید کپڑے پہنے بیٹھی ہے اور اس کے ساتھ فجا (فضل) بھی ہے لیکن فجے کی ایک انگلی پر خفیف سا زخم ہے جس سے وہ روتا ہے.فجے نے آکر ایک ستون جیسی دیوار کو صرف ہاتھ ہی لگایا ہے کہ وہاں ایک دروازہ بڑی پھاٹک کی طرح ایسے کھل گیا ہے جیسے ایک پینچ کے دبانے سے کل دار دروازے کھل جاتے ہیں جب اس دروازہ کے اندر داخل ہوا تو کسی نے کہا کہ یہ دروازہ فضل الرّحمٰن نے کھول دیا ہے.متعدی امراض کے لگنے کے معنے حدیث میں ایک کا مرض دوسرے کو نہ لگنے کے یہ معنے ہیں کہ بدوں اذنِ الٰہی کے وہ مرض دوسرے میں سرایت نہیں کرتا.اس پر حضرت حکیم نور الدین صاحب نے فرمایا کہ ماسٹر عبد الرحمٰن صاحب نَو مسلم نے خواب میں دیکھا کہ طاعون کے کیڑے ہوا میں ملے ہوئے تیر رہے ہیں اور وہ ان کو آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اس اثنا میں ان کیڑوں نے کہا کہ ہم ہوا میں تو ملے ہوئے ہیں لیکن بلا اذن اللہ تعالیٰ کے ہم کسی کو کچھ نہیں کہتے.دھونی وغیرہ کا ثبوت حدیث شریف سے حضرت مولانا نور الدین صاحب نے فرمایا کہ صحابہ کا دستور تھا کہ ہر روز عود و چرائتہ، گوگل و لوبان قسط وغیرہ جلاتے تھے.اہلِ اسلام نے اس عمل کو بالکل ترک کر دیا ہے.حالانکہ اس
سے بہت سے زہریلے امراض کا دفعیہ ہوتا رہتا ہے مسجد میں بھی دھونی دی جاتی تھی.نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز اپنے کپڑوں کو تین بار عُود کی دھونی دے لیتے تھے.ایسے ہی حدیث شریف میں ہے کہ راتوں کو پانی کے برتن ڈھک رکھو اگر ڈھکنا نہ ہو تو ایک لکڑی ہی بسم اللہ کہہ کر برتن پر رکھ دو.اور ہر ایک کام کو بسم اللہ کہہ کر شروع کرو.مگر آج کل ان باتوں پر عمل تو کیا ہنسی اور تمسخر کیا جاتا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ اب تو یہ حال ہے کہ جمعہ کے دن بھی خوشبو وغیرہ نہیں لگاتے.تربد یا کسٹرائل پر جس قدر ایمان ہے اتنا بسم اللہ پر نہیں ہے.جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ظہر کی نماز پڑھ کر تشریف لے جا رہے تھے کہ آپ کا ذہن مبارک طاعون کے علاج کی طرف منتقل ہوا اور اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ۠ کو مدّ ِنظر رکھ کر آپ نے تجویز فرمایا کہ آتشک وغیرہ کے زہر کے لئے جو ادویہ سمّ الفار، دار چکتہ، رسکپور، شنگرف وغیرہ دی جاتی ہیں وہی طاعون میں استعمال کر کے تجربہ کیا جاوے.چنانچہ حکیم نور الدین صاحب سے آپ نے ارشاد فرمایا کہ ان اشیاء کا جوہر اڑا کر اور کونین ملا کر گولیاں بنائی جاویں.اور مریضوں پر تجربہ کیا جاوے.ادویہ کے اجزا اور ترکیب کو حکیم نور الدین صاحب کی رائے پر چھوڑ دیا گیا.یاد رہے کہ یہ نسخہ الہامی نہیں ہے.۱ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۴ء کامیابی کی موت کو موت نہیں کہا کرتے لوگوں کے اس اعتراض پر کہ احمدی لوگ کیوں طاعون سے مَرتے ہیں.فرمایا کہ صحابہ (رضی اللہ عنہم) بھی جنگوں میں تلواروں سے قتل ہوتے تھے لیکن جب کامیابی ہوجاتی تو
ان کی موت کو موت نہیں سمجھا جاتا تھا اور آخر نتیجہ یہ نکلتا کہ کوئی صحابی فوت نہیں ہوا کیونکہ انجام پر ان کی تعداد بہت بڑھ گئی جس سے فوت شدہ کی تعداد کو کوئی مناسبت ہی نہ رہی.موت سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ جماعت کم ہو اور جب جماعت زیادہ ہو جاوے تو پھر اس کا نام موت کیسے ہوا.دیکھ لو کہ معترض کافر تو عرب میںکوئی نہ رہا.سب مَر کھپ گئے لیکن سب عرب صحابیوں سے بھر گیا.اسی طرح انجام پر دیکھ لینا کہ ہمیں کس قدر کامیابی ہوتی ہے.۱ ۱۹؍اپریل ۱۹۰۴ء ایک رؤیا کے بعد الہام ہوا مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا (اس الہام کو سناتے وقت حضور نے فرمایا کہ) دیکھو اس مسجد پر بھی یہی الہام لکھا ہوا ہے جو ۲۵ برس کے قریب کا ہے.۱۹؍اپریل کو فرمایا کہ میں اپنی جماعت کے لیے اور پھر قادیان کے لیے دعا کر رہا تھا تو یہ الہام ہوا زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا.پس پیس ڈال ان کو خوب پیس ڈالنا.فرمایا میرے دل میں آیا کہ اس پیس ڈالنے کو میری طرف کیوں منسوب کیا گیا ہے اتنے میں میری نظر اس دعا پر پڑی جو ایک سال ہوا بیت الدعا پر لکھی ہوئی ہے اور وہ دعا یہ ہے.یَارَبِّ فَاسْـمَعْ دُعَائِیْ وَمَزِّقْ اَعْدَآءَکَ وَ اَعْدَائِیْ وَ اَنْـجِزْ وَعْدَکَ وَانْصُـرْ عَبْدَکَ وَاَرِنَا اَیَّامَکَ وَشَھِّرْلَنَا حِسَامَکَ وَلَا تَذَرْ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ شَـرِیْرًا.اس دعا کو دیکھنے اور اس الہام کے ہونے سے معلوم ہوا کہ یہ میری دعا کی قبولیت کا وقت ہے.پھر فرمایا کہ ہمیشہ سے سنّت اللہ اسی طرح پر چلی آتی ہے کہ اس کے ماموروں کی راہ میں جو لوگ روک ہوتے ہیں ان کو ہٹا دیا کرتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کے بڑے فضل کے دن ہیں ان کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان اور یقین بڑھتا ہے کہ وہ کس طرح ان امور کو ظاہر کر رہا ہے.
پھر فرمایا کہ اس کے بعد رؤیا ہوئی کہ میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عورت قرآن پڑھنے لگی ہے میں نے اس سے کہا کہ صفحہ کا پہلا لفظ کھول کر بتاؤ میں اس سے تفاؤل لینا چاہتا ہوں.اس نے قرآن شریف کھولا تو صفحہ کے سر پر لکھا ہوا تھا غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ.فرمایا یہ بشارت ہے.۱ دعا کی توفیق بھی خدا سے ہی ملتی ہے باوجود اس کے کہ انسان اپنے نفس کے اندر اختیار اور قدرت کا ایک مادہ پاتا ہے مگر پھر بھی وہ الٰہی قدرت کے تصرّفات سے باہر نہیں ہے اور اسے ہروقت اس بات کی ضرورت ہے کہ تمام قوتوں اور قدرتوں کا سر چشمہ جو اللہ کریم کی ذات ہے وہ اس سے قوت طلب کرے اس طلب کرنے میں بھی اسے خدا تعالیٰ کے فضل کی خاص ضرورت ہے.بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں کہ انسان ایک ضرورت کو محسوس کرتا ہے جانتا ہے کہ اس کے لیے دعا کرنی چاہیے، لیکن باوجود اس علم اور قدرت کے وہ دعا نہیں کرتا اور اسے اس کے لیے انشراحِ صدر حاصل نہیں ہوتا.بعض لوگ اس باریک سِر اور تصرّفاتِ الٰہی کو مدّ ِنظر نہ رکھ کر دعا پر اعتراض کرتے ہیں ان کے ایسے اعتراضات پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر دعا اپنے اختیار میں ہوتی تو انسان جو چاہتا کر لیتا اسی لیے ہم نہیں کہہ سکتے کہ فلاں دوست یا رشتہ دارکے حق میں ضرور فلاں بات ہو ہی جاوے گی.بعض وقت باوجود سخت ضرورت محسوس کرنے کے دعا نہیں ہوتی اور دل سخت ہو جاتا ہے چونکہ اس کے سِرّ سے لوگ واقف نہیں ہوتے اس لیے گمراہ ہو جاتے ہیں.اس پر ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر جفّ القلم والی (یعنی مسئلہ تقدیر جس رنگ میں سمجھاگیا ہے ) بات ٹھیک ہے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کے علم میں سب ضرور ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ خدا تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ فلاں کام ضرور ہی کردیوے.اگر ان لوگوں کا یہی اعتقاد ہے کہ جو کچھ ہونا تھا وہ سب کچھ ہو چکا اور ہماری محنت اور کوشش بے سُودہے تودردِسر کے وقت علاج کی طرف کیوں رجوع کرتے ہیں؟ پیاس کے لیے ٹھنڈا پانی کیوں پیتے ہیں؟ بات یہ ہے کہ انسان کے تردّد۲ پر بھی کچھ نہ کچھ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے.۱الحکم جلد ۸ نمبر ۱۳ مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۱ ۲تردّد بمعنے کوشش، جدوجہد(مرتّب)
دعا عمدہ شَے ہے اگرتوفیق ہو تو ذریعہ مغفرت کا ہو جاتی ہے اور اسی کے ذریعہ سے رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ مہربان ہو جاتا ہے.دعا کے نہ کرنے سے اول زنگ دل پرچڑھتا ہے پھر قساوت پیدا ہوتی ہے پھر خدا سے اجنبیت، پھر عداوت، پھرنتیجہ سلب ِایمان ہوتاہے.جس مہدی کو لوگ مانتے ہے وہ شکی ہے اور اس کی نسبت احادیث میں بہت تعارض ہے لیکن ہمارا دعویٰ اُس مہدی کا ہے جس کی نسبت کوئی شک نہیں.خدا بڑا رحیم کریم ہے اگر لوگ رات دن تضرّع کریں.خیرات اور صدقات دیں تو شاید وہ رحم کرکے اس عذاب سے ان کو نجات دے.اگر جماعت متفق ہوکر تضرّع کی طرف متوجہ ہو تو اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے.ہمارا آخری حصّہ عمر کا ہے اور ہمیشہ تجربہ ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ ہی غالب ہوتا ہے وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ (یوسف:۲۲) یوسف علیہ السلام کا قصّہ ہی دیکھو کہ سب بھائی مصیبت زدہ ہوکر اُسی کے سامنے پیش ہوتے لیکن اسے شناخت نہیں کرسکتے.اگر یہ ہمارا مقدمہ ایک انسانی کاروبار ہوتا تو سب سے اوّل بیزارہونے والا اس سے میں ہوتا مگر جبکہ اس کے قدم قدم پر خدا کا الہام ہوتاہے تو معلوم ہوتا ہے اسی کی طرف سے ایک اَمر ہے.فرمایا.رابعہ بصری کو اسی دن غم ہوتا تھا.جس دن خدا کی راہ میں انہیں کوئی غم نہ ہوتا.مومن کسی نہ کسی ابتلا میں ضرور رہتا ہے ؎ یار سے چھیڑ چلی جائے اسد نہ سہی وصل تو حسرت ہی سہی زندگی بڑھانے کے لیے ایسے کام کرنے چاہئیں جو خدا کی راہ میں ہوں.وہ احمق ہیں جو دنیا کو معشوق ومحبوب بنالیتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ آخر اسے کام کیا آنا ہے.۱
(شام) زندگی کی اصل غرض ـِِ’’زندگی کے فیشن سے بہت دور جا پڑے ہیں ‘‘.یہ الہام آج اعلیٰ حضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہوا تھا.اس پر فرمایا کہ زندگی کی اصل غرض اور مقصود تو اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے مگر اس وقت میں دیکھتا ہوں کہ عام طور پر لوگ اس غرض اور مقصود کو فر اموش کر چکے ہیں اور کھانے پینے اور حیوانوں کی طرح زندگی بسر کرنے کے سوااَور کوئی مقصود نہیں رہا ہے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ دنیا کو پھر اس کی زندگی کی غرض سے آگا ہ کرے اور یہ فناء ِقہری اس کو رجوع کرائے گی.خوف ِخدا اس لیے ہرایک شخص کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف کرے اور اللہ تعالیٰ کاخوف اس کو بہت سی نیکیوں کا وارث بنائے گا.جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہی اچھا ہے کیونکہ اس خوف کی وجہ سے اس کو ایک بصیرت ملتی ہے جس کے ذریعہ وہ گناہوں سے بچتا ہے.بہت سے لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور انعام اور اکرام پر غور کرکے شرمندہ ہوجاتے ہیں اوراس کی نافر مانی اور خلاف ورزی سے بچتے ہیں لیکن ایک قسم لوگوں کی ایسی بھی ہے جو اس کے قہر سے ڈر تے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ اچھا اور نیک تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی پرکھ سے اچھا نکلے.بہت لوگ ہیں جو اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ہم متقی ہیں مگر اصل میں متقی وہ ہے جس کا نام اللہ تعالیٰ کے دفتر میں متقی ہو.اس وقت اللہ تعالیٰ کے اسم ستّار کی تجلّی ہے.لیکن قیامت کے دن جب پردہ دری کی تجلّی ہو گی اس وقت تمام حقیقت کُھل جائے گی.اس تجلّی کے وقت بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو آج بڑے متقی اور پرہیز گار نظر آتے ہیں قیامت کے دن وہ بڑے فاسق فاجر نظر آئیں گے.اس کی وجہ یہ ہے کہ عملِ صالحہ ہماری اپنی تجویز اور قرار داد سے نہیں ہوسکتا.اصل میں اعمالِ صالحہ وہ ہیں جس میں کسی نوع کاکوئی فساد نہ ہو کیونکہ صالح فساد کی ضد ہے.جیسے غذا طیّب اس وقت ہوتی ہے کہ وہ نہ کچی ہو نہ سڑی ہوئی ہو اور نہ کسی ادنیٰ درجہ کی جنس کی ہو بلکہ ایسی ہو جو فوراً جزوِ بدن ہو جانے والی ہو.اسی طرح پر
ضروری ہے کہ عملِ صالح میں بھی کسی قسم کا فساد نہ ہو یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو اورپھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے موافق ہو اور پھر نہ اس میں کسی قسم کا کسل ہو، نہ عُجب ہو، نہ ریا ہو، نہ وہ اپنی تجویز سے ہو، جب ایسا عمل ہو تو وہ عملِ صالح کہلاتا ہے اور یہ کبریتِ احمر ہے.شیطان سے بچنا شیطان انسان کو گمراہ کرنے کے لیے اور اس کے اعمال کو فاسد بنانے کے واسطے ہمیشہ تاک میں لگا رہتا ہے.یہاں تک کہ وہ نیکی کے کاموں میں بھی اس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے اور کسی نہ کسی قسم کا فساد ڈالنے کی تدبیریں کرتا ہے.نماز پڑ ھتا ہے تو اس میں بھی رِیاوغیرہ کوئی شعبہ فساد کاملا ناچاہتا ہے.ایک امامت کرانے والے کو بھی اس بَلا میں مبتلا کرنا چاہتا ہے پس اس کے حملہ سے کبھی بے خوف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کے حملے فاسقوں فاجروں پر تو کھلے کھلے ہوتے ہیں وہ تو اس کا گویا شکار ہیں لیکن زاہدوں پر بھی حملہ کرنے سے وہ نہیں چوکتا اور کسی نہ کسی رنگ میں موقع پاکر ان پر بھی حملہ کر بیٹھتا ہے.جولوگ خدا کے فضل کے نیچے ہوتے ہیں اور شیطان کی باریک در باریک شرارتوں سے آگا ہ ہوتے ہیں وہ تو بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں لیکن جو ابھی خام اور کمزور ہوتے ہیں وہ کبھی کبھی مبتلا ہو جاتے ہیں.ریا اور عُجب وغیرہ سے بچنے کے واسطے ایک ملامتی فرقہ ہے جواپنی نیکیوں کو چھپاتا ہے اور سیّئات کو ظاہر کرتا رہتا ہے وہ اس طرح پرسمجھتے ہیں کہ ہم شیطان کے حملوں سے بچ جاتے ہیں مگر میرے نزدیک وہ بھی کامل نہیں ہیں.ان کے دل میں بھی غیر ہے اگر غیر نہ ہوتا تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے.انسان معرفت اور سلوک میں اس وقت کامل ہوتا ہے جب کسی نوع اور رنگ کا غیر ان کے دل میں نہ رہے اور یہ فرقہ انبیاء علیہم السلام کا ہوتا ہے یہ ایسا کامل گروہ ہوتا ہے کہ اس کے دل میں غیر کا وجود بالکل معدوم ہوتا ہے.محبت ذاتی کا مقام اصل بات یہ ہے کہ غیر کے وجود کو کالعدم سمجھنا یہ بھی اختیار ی نہیں ہے کیونکہ یہ حالت عشقیہ ہے جو از خود پیدا نہیں ہوسکتی بلکہ اس کی جڑمحبت ذاتی ہے جب محبت ذاتی کے مقام پر انسان پہنچتا ہے تو پھر یہ عشقیہ حالت پیدا ہو کر غیر کے وجود کو جلا دیتی ہے اور پھر کسی کے مدح وذم یاعذاب وثواب کی بھی پروا نہیں ہوتی.
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی اپنی مدح بھی سن لیا کرتے تھے لیکن اس سے یہ سمجھ لیناکہ آپ کو اس مدح کی پروا ہوتی تھی سخت غلطی ہے آپ کوان باتوں کا کوئی احساس نہیں ہوتا تھا اور کوئی اثر اس کا آپ پر نہیں ہوسکتا تھا.ایک محلِ مدح ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے کو ہلاک کر دیتا ہے لیکن آپ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ وہ تعلق اور رشتہ تھا کہ کسی دوسرے کی سمجھ میں بھی نہیں آسکتا تھا پس آپ کسی انسان کی مدح سے کیا خوش ہوسکتے تھے.ایسا ہی ذم کاحال ہے آپ تو اللہ تعالیٰ کی محبت ِذاتی میں فناہو چکے تھے خارجی احساس باقی ہی نہیں رہا تھا اس لیے سارے مقام ختم چکے تھے.اصل بات یہ ہے کہ یہی وہ مقام ہے جومقامِ امن کہلاتا ہے زاہد خشک کی مدح کرنے والا اس کو ہلاک کرسکتا ہے کیونکہ وہ اس مدح سے خوش ہو کر اپنے وجود کو بھی کوئی شَے سمجھنے لگتا ہے اور اپنے اعمال پر ایک ناز کرنے لگتا ہے مگر یاد رکھو کہ یہ مراتب بھی وہبی ہیں کوشش سے نہیں ملتے اورانسان کامل اسی مقام پر ہوتا ہے.صوفی کہتے ہیں کہ جب تک محبت ِذاتی نہ ہو جاوے ایسی محبت کہ بہشت اور دوزخ پر بھی نظر نہ ہو اس وقت تک کامل نہیں ہوتا اس سے پہلے اس کا خدا بہشت اور دوزخ ہوتے ہیں لیکن جب وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو پھر اس کے لیےاِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ(حٰمٓ السَّجدۃ:۴۱) کا حکم ہوتا ہے کیونکہ ان کی رضا خدا کی رضا ہوتی ہے جب تک یہ حال نہ ہو اندیشہ ہوتا ہے کہ نیکی ضائع نہ ہو جاوے.ذاتی محبت والے سے اگر اس کی غرض پوچھی جاوے کہ تو کیوں خدا کی عبادت کرتا ہے تووہ کچھ بھی بتا نہیں سکتا کیونکہ اسے کوئی ذاتی غرض محسوس ہی نہیں ہوتی بلکہ اگر اس کے لیے دوزخ کی وعید بھی ہو کہ تواگر عبادت کرے گا تودوزخ ملے گا تب بھی وہ رک نہیں سکتا کیونکہ اس کے رگ وریشہ میں اللہ تعالیٰ ہی کی عظمت اور محبت ہوتی ہے وہ بے اختیار ہو کر اس کی طرف کھچا چلا جاتا ہے اسے نہیں معلوم کہ کیوں کھچا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ نہ وہ ثواب وعذاب کی پروا کرتا ہے اور نہ مدح وذمّ کا اثر اس پر ہوتا ہے انبیاء ورسل اسی مقام پر ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مخالفت اور خطرناک مصائب اور مشکلات ان کو اپنے کام سے ہٹا نہیں سکتے.میں اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں اس مقام کو سمجھتا ہوں.یہ ایسا دارالامان ہے کہ شیطان اس جگہ نہیں آسکتا ایک زاہد بعض وقت مغضوب کے زُمرہ میں آسکتا ہے لیکن
جو اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے مقام پر پہنچ گیا وہ محفوظ ہو گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ محبت ِذاتی کی آگ غیر کے وجود کو مطلقاً جلا دیتی ہے اور اس کو امن میں داخل کر دیتی ہے استجابتِ دعا بھی اسی مقام پر ہوتا ہے یہ ایسا اَرفع اور اعلیٰ مقام ہے کہ اس کی تصریح بھی نہیں ہوسکتی یہ ایک کیفیت ہے جو دوسرے کو اچھی طرح سمجھا بھی نہیں سکتے.یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے گِلہ کر نے سے بھی انسان کافر ہو جاتا ہے چونکہ وہ ان تعلقات سے محض نا آشنا ہوتا ہے جو انبیاء ورسل اور اللہ تعالیٰ میں ہوتے ہیں اس لیے کسی ایسے اَمر کو جو ہماری سمجھ اور دانش سے بالا تر اور بالا تر ہے، اپنی عقل کے پیمانہ سے نا پنا صریح حماقت ہے مثلاً آدم علیہ السلام کا گلہ کرنے لگے کہ انہوں نے درخت ِممنوع کا پھل کھایا.یا عَبَسَ وَ تَوَلّٰى کو لے بیٹھے.ایسی حرکت آداب الرسل کے خلاف ہے اور کفر کی حد تک پہنچا دیتی ہے.چونکہ خدا تعالیٰ ان کا محبوب ہوتا ہے بعض اوقات وہ کسی بات پر گویا روٹھ جاتا ہے.وہ باتیں عام قانون جرائم و ذنوب سے الگ ہوتی ہیں.۳۰ سال کے قریب کا عرصہ ہوتا ہے کہ ایک مقرب فرشتہ کو میں نے دیکھا جس نے مجھے ایک توت کی چھڑی ماری.پھر میں نے اس کو دیکھا کہ کرسی پر بیٹھ کر رونے لگا.یہ ایک نسبت بتائی ہے کہ جیسے بعض اوقات والدہ بچہ کو مارتی ہے پھر رقّت سے خود ہی رونے لگتی ہے یہ ایک لطیف استعارہ ہے جو مجھ پر ظاہر کیا گیا ہے.نبی اور خدا کا تعلق میری سمجھ میں بھی نہیں آتا کہ ان تعلقات کوجو انبیاء ورسل اور اللہ تعالیٰ میں ہوتے ہیں کس طرح ظاہر کیا جاوے.یہ تعلقات ایسے شدید اور گہرے ہوتے ہیں کہ بجز کامل الایمان ہونے اور اس کو چہ سے آشنا ہونے کے ان کی سمجھ آہی نہیں سکتی.اس لیے صوفیوں نے لکھا ہے کہ ان کے افعال اور اعمال عام قانون جرائم وذنوب سے الگ ہوتے ہیں ان کو اس ضمن ذنوب میں ذکر کرنا بھی سلبِ ایمان کا موجب ہوجاتا ہے کیونکہ ان کا حساب تعلقات کا ہے ذنبِ محمدی کی کیفیت کو کوئی کیا سمجھ سکتا ہے؟ عام طور پر عاشق و معشوق کے تعلقات کو کوئی نہیں سمجھ سکتا اور یہ تعلقات تو اس سے بھی لطیف تر ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار احمق حقیقت سے ناآشنا استغفار کے لفظ پر اعتراض کرتے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ جس قدر
یہ لفظ پیارا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اندرونی پاکیزگی پر دلیل ہے وہ ہمارے وہم و گمان سے بھی پرے ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عاشقِ رضا ہیں اور اس میں بڑی بلند پروازی کے ساتھ ترقیات کررہے ہیں جب اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تصوّر کرتے ہیں اور اظہارِ شکر سے قاصر پاکر تدارک کرتے ہیں.یہ کیفیت ہم کس طرح ان عقل کے اندھوں اور مجذوم القلب لوگوں کو سمجھائیں ان پروارد ہو تو وہ سمجھیں.جب ایسی حالت ہوتی ہے احسانات ِالٰہیہ کی کثرت آکر اپنا غلبہ کرتی ہے تو روح محبت سے پُر ہو جاتی ہے اور وہ اچھل اچھل کر استغفار کے ذریعہ اپنے قصورِ شکر کا تدارک کرتی ہے.یہ لوگ خشک منطق کی طرح اتنا ہی نہیں چاہتے کہ وہ قویٰ جن سے کوئی کمزوری یا غفلت صادر ہوسکتی ہے وہ ظاہر نہ ہوں.نہیں وہ ان قویٰ پر تو فتح حاصل کئے ہوئے ہوتے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تصور کرکے استغفار کرتے ہیں کہ شکر نہیں کرسکتے.یہ ایک لطیف اور اعلیٰ مقام ہے جس کی حقیقت سے دوسرے لوگ نا آشنا ہیں اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے حیوانات گدھے وغیرہ انسانیت کی حقیقت سے بے خبر اور ناواقف ہیں.اسی طرح پر انبیاء ورسل کے تعلقات اور ان کے مقام کی حقیقت سے دوسرے لوگ کیا اطلاع رکھ سکتے ہیں.یہ بڑے ہی لطیف ہوتے ہیں اور جس جس قدر محبت ذاتی بڑھ جاتی ہے اسی قدر یہ اور بھی لطیف ہوتے جاتے ہیں دیکھو حضرت یوسفؑ نے صرف یہی کہا تھا کہ تم بادشاہ سے میرا ذکر بھی کرنا صرف اتنی بات پر ایک عرصہ تک زندان میں رہنا پڑا حالانکہ عام نظرمیں یہ ایک معمولی سی بات ہوسکتی ہے مگر نہیں ان تعلقات ِمحبت کے منافی تھی.غرض یہ ایک لطیف سِر ہے جس پر ہر ایک مطلع نہیں ہوسکتا.یہی ایک مقام ہے جس کی طلب ہر ایک کو کرنی چاہیے.بر کریماں کار ہا دشوار نیست۱
۲۰؍اپریل ۱۹۰۴ء شام کے وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلوس فرمایا تو الہامات ذیل بیان کئے.الہامات.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْـزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْـزِلَۃِ عَرْشِیْ.عرش عرش پر آپ نے فرمایا کہ یہ لفظ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلیّات جمالی و جلالی کا اتم مظہر عرش ہے اور مسیح موعود اتم مظہر صفاتِ جمالیہ کا ہے جو کہ اس وقت ظاہر ہو رہی ہیں.اور اس لیے کل انبیاء کے ناموں سے مجھے خطاب کیا گیا ہے تاکہ ان کے کل صفات کا مظہر تام میں ہوجاؤں.خدا تعالیٰ کی صفات محیی و ممیت برابر کام میں زور سے لگے ہوئے ہیں ایک طرف تو لوگ زندہ ہو رہے ہیں اور ایک طرف مَر رہے ہیں.پس چونکہ ان ایام میں خدا کی صفات اپنی پوری تجلّی سے کام کر رہی ہیں اس مناسبت کے لحاظ سے عرش کہا گیا ہے.عرش کے مخلوق اور غیر مخلوق ہونے کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ عرش ایسی شَے ہے کہ نہ وہ مخلوق ہے اور نہ غیر مخلوق بلکہ خدا تعالیٰ کی تجلّیّات کا اعلیٰ مقام جو دونوں جہانوں میں ہو سکتا ہے وہ عرش کا مقام ہے.جو مخلوق کہتے ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں اور جو غیر مخلوق قرار دیتے ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں جو اس کو بذاتِ خود تسلیم کرتے ہیں لیکن ہمارا یہ مذہب نہیں ہے کیونکہ اگر مخلوق کہا جاوے تو پھر محدود اورمجسّم ہوگا.اگر غیر مخلوق ہو تو خدا کی خالقیت سے باہر رہتا ہے حالانکہ خدا تعالیٰ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ہے پس جیسے میرے الہامات ہیں اُخْطِیْ وَ اَصُوْمُ۱ اور اُفْطِرُ وَاَصُوْمُ وغیرہ کلامِ الٰہی بطور استعارہ کے آئے ہیں ویسے ہی یہ بھی ایک استعارہ ہے اور قرآن شریف سے ثابت ہے کہ کلامِ الٰہی میں استعارات ہوا کرتے ہیں پھر کیوں نہ کہا جاوے کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی کنہ کو حوالہ بخدا کرتے ہیں.میرا یہی عقیدہ ہے کہ عرش اصل میں مخلوق اور غیر مخلوق کی بحث سے باہر ہے اور اعلیٰ درجہ کی ایک تجلّی ہے.۱یہ اُصِیْبُ ہے غلطی سے اَصُوْمُ لکھا گیا ہے.(مرتّب)
اب زمانہ ہے کہ فہم میں اسرار کھلتے جاویں جیسے آسمان سے آنے کا سرّ انہی ایّام میں کھلا ہے.یہ زمانہ افترا کا نہیں ہوسکتا خدا پر افترا کرنا لعنتی کا کام ہوتا ہے.کیا لوگ اتنا بھی خیال نہیں کرتے کہ اس قدر عرصہ دراز گذر گیا اور ہم کبھی الہام کے بیان کرنے سے فارغ نہیں رہے.پس ممکن ہے کہ ایک آدمی ہر روز نیا افترا کرے اور خدا کو بھی علم ہو کہ وہ مفتری ہے اور وہ مہلت دے در حالیکہ اس کی زندگی میں ایک ایسا زمانہ بھی آتا ہے کہ ٹڈی کی طرح لوگ مَرتے جاتے ہیں.چاروں طرف موتوں سے گھرے ہوئے ہیں.کیا مفتری کی اتنی حفاظت ہو سکتی ہے.کیا خدا کا فضل و کرم ایک مفتری کے اس طرح شاملِ حال ہوسکتا ہے.کیا وہ یہ افترا کر سکتا ہے کہ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.بات یہ ہے کہ بظاہر کتنے ہی مذاہب کیوں نہ ہوں لیکن اصل میں دہریت کی باریک رگ اپنا کام کر رہی ہے اگر دہریت نہ ہوتی تو یہ عیسائیت بھی اس قدر نہ پھیلتی.گناہ تو درکنار اب تو خدا کے ساتھ مقابلہ ہے.ایک مذنب بھی کبھی اپنے کئے پر پشیمان ہوتا ہے.لیکن یہ لوگ خطا پر خطا کرتے ہیں اور پشیمانی پاس نہیں پھٹکتی.اسی کا نام دہریت ہے.۱ ۲۱؍ اپریل ۱۹۰۴ء (دربار شام) وبائوں کا عذاب جب دنیا میں فسق و فجور پھیل جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے لوگ دور جا پڑتے ہیں اور اس سے لاپروا ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ا ن کی پروا نہیں کرتا ہے ایسی صورت میں پھر اس قسم کی وبائیں بطورعذاب نازل ہوتی ہیں ان بَلائوں اور وبائوںکے بھیجنے سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ دنیاپر اللہ تعالیٰ کی توحید اور عظمت ظاہر ہو اور فسق وفجور سے لوگ نفرت کرکے نیکی اور را ستبازی کی طرف توجہ کریں اور خدا تعالیٰ کے مامور کی طرف جو اس
وقت دنیا میں موجود ہوتا ہے توجہ کریں.اس زمانہ میں بھی فسق و فجور کے سیلاب کا بند ٹوٹ گیا ہے.را ست بازی، تقویٰ، عفت اور خداترسی اور خدا شناسی بالکل اُٹھ گئی تھی.دین کی باتوں پر ہنسی کی جاتی تھی.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق جو اس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کی زبان پر کیا تھا کہ مسیح موعود کے وقت دنیا میں مَری بھیجوں گا اس طاعون کو اصلاحِ خلق کے لیے مسلّط کیا ہے.طاعون کو بُرا کہنا بھی گناہ ہے یہ تو خدا تعالیٰ کا ایک مامور ہے.جیسا کہ میں نے ہاتھی والی رؤیا میں دیکھا تھا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ بعض دیہات بالکل برباد ہو گئے ہیں اور ہر جگہ یہ آفت برپا ہے تو بھی ان شوخیوں، شرارتوں اور بیباکیوں میں فرق نہیں آیا جو اس سے پہلے بھی تھیں مکروفریب، ریاکاری بدستور پھیلی ہوئی ہے.۱ ۲۳؍اپریل ۱۹۰۴ء ایک شخص نے حفاظتِ طاعون کے لیے دعا کی درخواست کی.فرمایا کہ اوّل اپنے اعمال درست کرو.پھر دعا کا اثر ہوگا.مکر اللہ مکر اللہ کے یہی معنے ہیں کہ انسان کی باریک در باریک تدابیر اور تجاویز پر آخرکار خدا کی تجاویز غالب آجاویں اور انسان کو ناکامی ہو.اگر کوئی کتاب اللہ سے اس فلاسفی کو نہیں مانتا تو دنیا میں بھی اس کی نظیر موجود ہے اوراس کے ا سرار پائے جاتے ہیں چور کیسی باریک در باریک تدابیر کے نیچے اپناکام اور اپنی حفاظت کرتا ہے لیکن گورنمنٹ نے جوتجاویز باریک در باریک اس کی گرفتاری کی رکھی ہیں آخر وہ غالب آجاتی ہیں تو خدا کیوں نہ غالب آوے.رعایتِ اسباب ضروری ہے اگر چہ سوائے اِذْنِ الٰہی کے کچھ نہیں ہوتا مگرتا ہم احتیاط کرنی ضروری ہے کیونکہ اس کے لیے بھی حکم ہی ہے.احادیث میں جو متعدی امراض کے ایک دوسرے سے لگ جانے کی نفی ہے اس کے بھی یہی معنے ہیں ورنہ کیسے ہوسکتا ہے
کہ امور مشہودہ اور محسوسہ کا انکار کیا جاوے.اس سے کوئی یہ نہ دھوکا کھا وے کہ ہمارا اعتقاد قال اللہ اور قال الرسول کے برخلاف ہے ہرگز نہیں، بلکہ ہم تو قرآن شریف کی اس آیت پر عمل کرتے ہیں وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ(ھود : ۱۱۴) رعایتِ اسباب کرنی قدیم سنّت انبیاء کی ہے جیسے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنگ میں جاتے تو خَود و زرہ وغیرہ پہنتے اور خندق کھودتے.بیماری میں دوائیں استعمال کرتے.اگر کوئی ترک ِاسباب کرتا ہے تو وہ خدا کا امتحان کرتا ہے جو کہ منع ہے.سخت دل ہر ایک فاسق سے بدتر ہوتا ہے اور وہ خدا سے اَبعدہوتا ہے جو ٹیڑھی راہ اختیار کرتا ہے وہ بِلا تلخی دیکھنے کے مَرتا نہیں.۱ ۲۵؍اپریل ۱۹۰۴ء (بوقتِ شام) خوارقِ عادت امور شام کے وقت اس اَمر کا ذکر ہو رہا تھا کہ خدا تعالیٰ کہاں تک اپنے بندہ کی نصرت اور حفاظت کرتا ہے اس پر حضور نے ایک اپنا واقعہ سنایا.فرمایا کہ مَیں ایک دفعہ زحیرِقولنج کے عارضہ میں مبتلا ہو گیا (پیچش جس کے ساتھ قولنج بھی ہو) نوبت یہاں تک پہنچی کہ زندگی سے بالکل مایوسی ہوگئی اور گھر کے سب لوگ اپنی طرف سے مجھے مُردہ تصور کر بیٹھے حتی کہ سورہ یٰسٓ بھی سنا دی گئی اور رونے کے لیے اردگر د چٹائیاں بچھا دیں لیکن مجھے دراصل ہوش تھی اور میں سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا لیکن چونکہ سخت تپش اور جلن تھی اس لیے بول نہ سکتا تھا میں نے خیال کیا کہ اگر میں زندہ بھی رہا تو اس قسم کی صعوبت اور موت کی تلخی پھر بھی دیکھنی پڑے گی کہ اسی اثنامیں مجھے الہام ہوا.وَاِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِشِفَآءٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ اور تسبیح پڑھنے کا حکم دیا گیا میں تسبیح پڑھ پڑھ کر شکم پر اور درد کی جگہ پر ہاتھ پھیرتا تھا ایک سکینت حاصل ہوتی جاتی تھی اور درد واَلم وغیرہ رفع ہوتا جاتا تھا یہاں تک کہ اس سے بالکل آرام ہو گیا.فرمایا.خوارقِ عادات کا علم اور ہے اور یہ امور بہت ہی دقیق در دقیق ہیں.معمولی زندگی اور
اسباب پرستی کی زندگی دہریت کی رگ سے اصل میں ملی ہوئی ہوتی ہے حقیقی اور اصل زندگی یہی ہے کہ خدا پر ایمان حاصل ہو جاوے ایمان قوی اسی وقت ہوتا ہے جب خصوصیت کے ساتھ خوارقِ عادت اَور کثرت سے ہوں.ہماری خواہش یہ ہے کہ الٰہی تجلّیّات ظاہر ہوں جیسے کہ موسیٰ نے اَرِنِيْ کہا تھا ورنہ ہمیں تو بہشت کی ضرورت ہے اور نہ کسی اَور شَے کی.۱ ۲۸ ؍اپریل ۱۹۰۴ء (بعد دوپہر) امن است درمکانِ محبّت سرائے ما اور ایک خواب میں معلوم ہوا کہ طاعون تو گئی مگر بخار رہ گیا.۲ اس الہام کو سناتے وقت فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ محبت بھی ایک نار ہوتی ہے اور طاعون بھی ایک نار ہے.اس لئے دو نار ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی ہیں.اسی لئے معبّرین نے بھی لکھا ہے کہ جو شخص دیکھے کہ کہ اس کے دل سے شعلہ نار بھڑکتا ہے وہ عاشق ہو جائے گا.عشق کو بھی نار کہتے ہیں.پس اگر اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی اور عشق پیدا ہوجاوے اور اس کے ساتھ وفاداری، اخلاص ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو محفوظ کر لے گا.۳ مومن کی نظر اعمالِ صالحہ پر ہونی چاہیے ایک نوجوان نے اپنے کچھ رؤیا اور الہامات سنا نے شروع کئے جب وہ سنا چکا تو آپ نے فرمایا.مَیں تمہیں نصیحت کے طورپر کہتا ہوںاسے خوب یاد رکھو کہ ان خوابوں اور الہامات پر ہی نہ رہو البدرجلد ۳نمبر ۱۸،۱۹ مورخہ۸،۱۶ ؍مئی ۱۹۰۴ءصفحہ ۳،۴ ۲ غیر معمولی پرچہ الحکم جلد ۸ نمبر ۱۳ مورخہ ۲۸؍اپریل ۱۹۰۴ء ۳ الحکم جلد ۸ نمبر ۱۴، ۱۵ مورخہ ۳۰؍ اپریل ، ۱۰ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۳
بلکہ اعمالِ صالحہ میں لگے رہو بہت سے الہامات اور خواب سنیرو پھل کی طرح ہوتے ہیں جو کچھ دنوں کے بعد گر جاتے ہیں اور پھر کچھ باقی نہیں رہتا ہے.اصل مقصد اور غرض اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا اور بے ریا تعلق، اخلاص اوروفاداری ہے جو نرے خوابوں سے پوری نہیں ہوسکتی مگر اللہ سے کبھی بے خوف نہیں ہونا چاہیے جہاں تک ہوسکے صدق واخلاص وترک ِریا وترکِ منہیات میں ترقی کرنی چاہیے اور مطالعہ کرتے رہو کہ ان باتوں پر کس حدتک قائم ہو اگر یہ باتیں نہیں ہیں تو پھر خوابات اور الہامات بھی کچھ فائدہ نہیں دیں گے.بلکہ صوفیوں نے لکھاہے کہ اوائل سلوک میں جو رؤیا یا وحی ہو اس پر توجہ نہیں کرنی چاہیے وہ اکثر اوقات اس راہ میں روک ہو جاتی ہے انسان کی اپنی خوبی اس میں تو کوئی نہیں کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جووہ کسی کو کوئی اچھی خواب دکھاوے یا کوئی الہام کرے.اس نے کیا کیا؟ دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہت وحی ہواکرتی تھی لیکن اس کا کہیں ذکر بھی نہیں کیا گیا کہ اس کو یہ الہام ہوا یہ وحی ہوئی بلکہ ذکر اگر کیا ہے تو اس بات کا کہ اِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰۤى(الـنجم:۳۸) وہ ابراہیم جس نے وفاداری کا کامل نمونہ دکھا یا.یا یہ کہ يٰۤاِبْرٰهِيْمُ۠ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا١ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ(الصّٰفٰت:۱۰۵،۱۰۶) یہ بات ہے جوانسان کو حاصل کرنی چاہیے اگر یہ پیدا نہ ہو تو پھر رؤیا والہام سے کیا فائدہ؟ مومن کی نظر ہمیشہ اعمال صالحہ پر ہوتی ہے اگر اعمالِ صالحہ پر نظر نہ ہو تو اندیشہ ہے کہ وہ مکر اللہ کے نیچے آجائے گا.ہم کو تو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کریں اور اس کے لیے ضرورت ہے اخلاص کی، صدق ووفاکی،نہ یہ کہ قیل وقال تک ہی ہماری ہمّت وکوشش محدود ہو جب ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ بھی برکت دیتا ہے اور اپنے فیوض وبرکات کے دروازے کھول دیتا ہے اور رؤیا اور وحی کو القاءِ شیطانی سے پاک کردیتا ہے اور اضغاث اَحلام سے بچالیتا ہے پس اس بات کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے کہ رؤیا اور الہام پر مدارِ صلاحیت نہیں کرنا چاہیے.بہت سے آدمی دیکھے گئے ہیں کہ ان کو رؤیا اور الہام ہوتے رہے لیکن انجام اچھا نہیں ہوا جواعمالِ صالحہ کی صلاحیت پر موقوف ہے.اس تنگ دروازہ سے جو صدق ووفا کا دروازہ ہے گذرنا آسان نہیں.ہم کبھی ان باتوں سے فخر نہیں کرسکتے کہ رؤیا یا الہام ہونے لگے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہیں اور مجاہدات سے دستکش
ہو رہیں اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا وہ تو فر ماتا ہے لَيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى (النّجم:۴۰) اس لیے ضرورت اس اَمر کی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی راہ میں وہ مجاہدہ کرے اور وہ کام کرکے دکھلا وے جو کسی نے نہ کیا ہو اگر اللہ تعالیٰ صبح سے شام تک مکالمہ کرے تو یہ فخر کی بات نہیں ہو گی کیونکہ یہ تو اس کی عطا ہو گی.دھیان یہ ہوگا کہ خود ہم نے اس کے لیے کیا کیا؟ بلعم کتنا بڑا آدمی تھا مستجاب الدعوات تھا اس کو بھی الہام ہوتا تھا لیکن انجام کیسا خراب ہوا اللہ تعالیٰ اسے کتّے کی مثال دیتا ہے اس لیے انجام کے نیک ہونے کے لیے مجاہدہ اور دعا کرنی چاہیے اور ہر وقت لرزاں ترساں رہنا چاہیے.مومن کو اعتقاد صحیح رکھنا اور اعمال صالحہ کرنے چاہئیں اور اس کی ہمّت اور سعی اللہ تعالیٰ کی رضا اور وفاداری میں صرف ہونی چاہیے.مومن کی صحیح رؤیا کی تعبیر یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق ہو اس کے اوامر نواہی اور وصایا میں پورا اتر ے اور ہر مصیبت وابتلا میں صادق مخلص ثابت ہو.یادر کھو ابتلا بھی دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک ابتلا شریعت کے اوامر و نواہی کا ہوتا ہے دوسرا ابتلا قضا وقدر کا ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ....الاٰیۃ (البقرۃ:۱۵۶) پس اصل مرد میدان اور کامل وہ ہوتا ہے جو ان دونوں قسم کی ابتلاؤں میں پورا اترے بعض اس قسم کے ہوتے ہیں کہ اوامر و نواہی کی رعایت کرتے ہیں لیکن جب کوئی ابتلا مصیبت قضا و قدر کا پیش آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکوہ کرتے ہیں.ایسا ہی بعض فقیر دیکھے گئے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں نفس کشی کی اس قدر مشق ہے کہ سارے دن میں صرف ایک مرتبہ سانس لیتے ہیں لیکن وہ ابتلا کے وقت بہت ہی بودے اور کمزور ثابت ہوتے ہیں.قوی وہی ہے جواعتقاد صحیح رکھتاہو.اعمال صالحہ کرنے والا ہو اور مصائب وشدائد میں پورا اتر نے والا ہو اور یہی جوانمردی ہے جب تک عبودیت میں پورا اور کامل نہیں رؤیا یا الہامات پر اس کا فخر بے جاہے کیونکہ اس میں اپنی کوئی خوبی نہیں بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اور اس اَمر میں کامیابی کے لیے ایک زمانہ دراز چاہیے جلدی کبھی نہیں کرنی چاہیے جیسے کوئی شخص درخت لگا تا ہے تو پہلے اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ایک
بکری بھی منہ مارکر اسے کھا سکتی ہے پھر اگر وہ اس سے بچے تو مختلف قسم کی آندھیاں اس پر چلتی ہیں اور اس کو اکھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اگر وہ ان میں بھی بچ رہے تو پھر کہیں جا کر اسے پھول لگتے ہیں اور پھر وہ پھول بھی ہوا سے گرتے ہیں اور کچھ بچتے ہیں آخر الا مر پھل لگتا ہے اور اس پر بھی بہت سی آفتیں آتی ہیں کچھ یونہی گر جاتے ہیں اور کچھ آندھیوں میں تباہ ہوتے ہیں۱ جو پکتے ہیں اور کھانے کے کام آتے ہیں.اسی طرح پر ایمانی درخت کا حال ہے اس سے پھل کھانے کے لیے بھی بہت سی صعوبتیںاور مشکلات میں ثابت قدم رہنا ضروری ہے.صوفی بھی اسی لیے کہتے ہیں کہ جب تک موت نہ آوے زندگی حاصل نہیں ہوتی.قرآنِ شریف نے صحابہؓ کی تعر یف کرتے ہوئے فرمایا ہے مِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ(الاحزاب:۲۴) یعنی بعض صحابہؓ میں سے ایسے ہیں جو اپنی جان دے چکے ہیں اور بعض ابھی منتظر ہیں.جب تک اس مقام پر انسان نہیں پہنچتا بامراد نہیں ہوسکتا.دو قسم کے آدمی دراصل جان سلامت لے جاتے ہیں ایک وہ جودین العجائز رکھتے ہیں یعنی جیسے ایک بڑھیا عورت ایمان لاتی ہے کہ اللہ ایک، محمدؐ برحق ہے وہ اسرارِ شریعت کی تہہ تک پہنچنے کی ضرورت نہیں سمجھتی ہے.اور ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو سلوک کی راہ اختیار کرتے ہیں بڑے بڑے خونخوار دشت وبیابان ان کی راہ میں آتے ہیں مگر وہ ہزاروں مو تیں برداشت کرکے پہنچ جاتا ہے اس کی جوانمردی اور ہمّت قابلِ تعریف ہے.لیکن ایک اَور گروہ ہوتا ہے جو نہ تو دین العجائز اختیار کرتا ہے اور نہ اس راہ کو اختیار کرکے انجام تک پہنچا تا ہے بلکہ اس دشت خونخوار میں پڑ کر راستہ ہی میں ہلاک ہو گیا.ایسے لوگ وہی ہوتے ہیں جو مَکْرُ اللہ کے نیچے آجاتے ہیں غرض اس راہ کا طے کرنا بہت ہی مشکل ہے اس کے لیے چاہیے کہ دعا میں مشغول ہو اور قرآن شریف کو پڑھ کر دیکھتے رہو کہ آیا اس کے حکموں پر چلتے ہو یا نہیں.جس حکم پر نہیں چلتے اس پر چلنے کے لیے مجاہدہ کرو اور خدا تعالیٰ سے دعا مانگو کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے.۱ الحکم میں آگے یہ الفاظ ہیں.’’کچھ جانور کھا جاتے ہیں آخر تھوڑے ہوتے ہیں جو پکتے ہیں.‘‘ (الحکم جلد۸ نمبر ۱۶ مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۴ءصفحہ ا)
غرض اعمالِ صالحہ بڑی چیز ہے.قرآن شریف کو دیکھ لو جہاں ایمان کا ذکر کیا ہے اسے اعمالِ صالحہ سے وابستہ کیا ہے اس میں متوجہ ہو کہ خدا تعالیٰ راضی ہو جاوے جب تک یہ بات نہ ہو کچھ نہیں.۱ ۲۹؍ اپریل ۱۹۰۴ء (بوقتِ شام) اَلطَّرِیْقَۃُ کُلُّھَا اَدَبٌ ایک شخص نو مسلم چکڑالوی کے خیالات کا متبع آیا ہوا تھا اس نے نشان دیکھنا چاہا حضر ت حجۃ اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے سوال کو طریق ادب وطالب کے خلاف پا کر اسے حکم دیا تھا کہ تم واپس چلے جاؤ اس پر اس نے ایک معافی نا مہ پیش کیا اس پر حضرت حجۃ اللہ نے فرمایا.یہ بات محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے کہ کوئی بات کسی کو سمجھا دے لیکن اسے سمجھ دیتا ہے جو ادب کے طریق پر سچا طالب ہو کر تلاش کرتا ہے اَلطَّرِیْقَۃُ کُلُّھَا اَدَبٌ.خدا تعالیٰ کا یہ سچا وعدہ ہے کہ جو شخص صدقِ دل اور نیک نیتی کے ساتھ اس کی راہ کی تلاش کرتے ہیں وہ ان پر ہدایت ومعرفت کی راہیں کھول دیتا ہے جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں ہم میں ہو کر سے یہ مراد ہے کہ محض اخلاص اور نیک نیتی کی بنا پر خدا جُوئی اپنا مقصد رکھ کر لیکن اگر کوئی استہزا اور ٹھٹھے کے طریق پر آزمائش کرتا ہے وہ بدنصیب محروم رہ جاتا ہے پس اسی پاک اصول کی بنا پر اگرتم سچے دل سے کوشش کرو اور دعا کرتے رہو تو وہ غفور الرحیم ہے لیکن اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی پروا نہیں کرتا وہ بے نیاز ہے.صبر و استقلال کی ضرورت دنیا فناکا مقام ہے اس لیے ضروری ہے کہ انسان اس فانی مقام پر دلدادہ نہ ہو بلکہ آخرت کی فکر کرے جو اَبدی ہے اور یہ اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لاوے اور اس کی مرضی کو مقدم کرکے اس پر چلے اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی کومقدم نہیں کرتا اور اس پر نہیں چلتا تو پھر اللہ تعالیٰ اس کی کوئی پروا نہیں کرتا جیسے
ہزاروں لاکھوں کیڑے مَر جاتے ہیں یہ بھی مَر جاتا ہے اور اس کا کوئی خیال نہیں ہوتا لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کرتا ہے اور دعاؤں سے کام لیتا ہے اور تھکتا نہیں تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اس پر اپنی راہ کے دروازے کھول دیتا ہے یہی اصول یہاں بھی ہے کیونکہ مجھے اس خدا نے مامور کرکے بھیجا ہے پس اگر کوئی یہاں آتا ہے اس لیے کہ وہ شعبدہ بازی دیکھے اور پھونک مار کر ولی بنا دیا جاوے تو ہم صاف کہتے ہیں کہ ہم پھونک مار کرولی نہیں بنا تے.جو شخص جلد بازی سے کام لیتا ہے وہ خدا تعالیٰ کو آزماتا ہے خدا اس کی پروا نہیں کرتا تو مجھے اس کی کیا پروا.اتنا ہی نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ خدا غفور الرحیم ہے بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ماننا چاہیے کہ وہ غنی بھی ہے.اگر ساری دنیا اتقیٰ قلب لے کر آوے تو اس کی الوہیت کی شان ایک ذرّہ بھر بھی بڑھ نہ جاوے گی اور اگراتقیٰ نہ ہو تو اس سے کچھ کم نہ ہوگا.اس لیے طالب ِصادق کا پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ یہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات غنی بے نیاز ہے اس کو حاجت اس اَمر کی نہیں کہ میں اس کی طرف رجوع کروں بلکہ مجھے حاجت اور ضرورت ہے کہ اس کی طرف رجوع کروں اور اس کے آستا نہ الو ہیت پر گروں جب انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ خدا کو میری حاجت نہیں مجھے خدا کی حاجت ہے تو اس میں ایک طلبِ صادق کا جوش پیدا ہوتا ہے اور وہ خدا کی طرف رجوع کرنے لگتا ہے.پس اگر کوئی میرے پاس آتا ہے تواسے بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ میرا کام تو صرف پہنچا دینا ہے منوا دینا میرا کام نہیں.اگر کوئی اپنی بھلائی اور بہتری چاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے ایک دن مَرنا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور جانا ہے تواس کا فرض ہونا چاہیے کہ صبر اور صدق کے ساتھ اس راہ کو تلاش کرے اور گھبرائے اور تھکے نہیں لیکن جب کوئی حد سے زیادہ شرارت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی باتوں پر ہنسی کرتا اور انہیں ٹھٹھے میں اڑانا چاہتا ہے تواس کا علاج اس نے اَور رکھا ہوا ہے اب بھی یہی ہو رہا ہے اور ہونے والا ہے.کتوں اور کیڑوں کی طرح لوگ مَر رہے ہیں اور مَریں گے.دیکھو دس روپیہ کا مقدمہ بھی ہو تو انسان اپنی عقل پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ دوسروں سے مشورہ لیتا ہے اور ان پر بھروسہ کرتا ہے پھر وکیل تلاش کرتا ہے وکیل بھی اعلیٰ درجہ کا پھر حکّام رس لوگوں کی تلاش
کرتا ان کی خوشامد کرتا اور جائز و ناجائز وسائل کے استعمال سے بھی نہیں چوکتا.جب ایک تھوڑی سی متاع کے لیے وہ اس قدر جدوجہد اور کوشش کرتا ہے پھر اسے شرم کرنی چاہیے کہ دین کے لیے اس کا دسواں حصّہ بھی سعی نہیں کرتا اور چاہتا ہے کہ اسرار دین اس پر کھل جاویں اور وہ دَم زَدن میں ولی بن جاوے.چند منٹ کے لیے ایک شخص ہماری مجلس میں آکر بیٹھتا ہے اور باہر نکل کر فتویٰ دیتا ہے کہ میں نے سب کچھ سمجھ لیا ہے یہ سب کچھ دکا نداری ہے ہم ایسے فتووں اور ایسی راؤں کی کیا پروا کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی وحی اور الہام کے مقابلہ میں جو روشن نشانوں اور دلائل کے ساتھ ہو رہا ہے ایسی بےسروپا راؤں اور فتووں کی کیا وقعت ہوسکتی ہے مگر ایسی رائے دینے والوں کو مَرنے کے بعد پتا لگ جاوے گا کہ ان کے فتووں کی کیا حقیقت ہے؟ اس وقت سارے پردے اور حجاب اٹھ جاویں گے اور حقیقت کھل جاوے گی.میں دنیا کی حالت پر سخت تعجب اور افسوس کرتاہوں کہ اگر کسی کو کہہ دیا جاوے کہ تجھے جذام کا اندیشہ ہے تو وہ طبیب تلاش کرتا ہے اور نسخے پر نسخہ استعمال کرتا چلا جاتا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کی بیماری کے لیے تو یہ جدوجہد کی جاتی ہے پر اس کے مقابلہ میں دین کے لیے کوئی فکر اور کوشش نہیں کی جاتی.جو ئندہ یا بندہ ایک عام مثل ہے مگر اس کے لیے یہ بھی تو ضروری ہے کہ جو سچی تلاش اور طلب کا حق ہے وہ ادا کرے.یہ تو نہیں کہ ایک شخص آتا ہے اور پو چھتا ہے کہ مجھے کوئی نشان دکھادو میں شام کو واپس جانا چاہتا ہوں ایسی جلدبازی اور اقتراح خدا کو پسند نہیں ہے.دیکھو زمیندار کس قدر محنت کرتا ہے راتوں کو اٹھ اٹھ کر سخت سے سخت زمین میں ہل چلا تا ہے پھر تخم ریزی کرتا ہے آبپاشی کرتا ہے اور حفاظت کرتا ہے تب جا کر کہیں پھل اٹھاتا ہے.یہ کوشش اور محنت دنیا کے لیے تو ہے جو آج ہے کل نہ ہو گی مگر دین کے لیے کچھ بھی نہیں.چونکہ نفس میں خباثت ہوتی ہے اور تلاشِ حق مطلوب نہیں ہوتی اس لیے جلد فیصلہ کر لیتا ہے کہ میں نے سمجھ لیا ہے.یہ بے انصافی اور ظلم نہیں تو کیا ہے؟ مگر یہ سچ ہے وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ(البقرۃ:۵۸) ایک شخص جو کنواں کھودنے لگا ہے وہ اگر دوچار ہاتھ کھود کر شکایت کرے کہ پانی نہیں نکلا تو کیا اس کو احمق نہ کہا جاوے گا اور ملامت نہ ہو گی کہ ابھی تو اس حدتک پہنچا تو ہے ہی نہیں جہاں پانی نکلتا ہے ابھی سے
شکایت کرتا ہے یہ تو تیرا اپنا ہی قصور اور نا دانی ہے.ہر ایک اَمر کے لیے ایک قانون قدرت اور وقت ہے خواہ وہ اَمر دینی ہو یا دنیوی.پھر دنیوی امور میں تو ان قوانین قدرتیہ کو نگاہ رکھتا ہے لیکن دینی امور میں آکر عقل ماری جاتی ہے اورجلدی کرکے ایک دم میں سب کچھ چاہتا ہے یہ جلدباز اور شتاب کار لوگ جب خدا تعالیٰ کے ماموروں کے پاس جاتے ہیں تو وہاں بھی اس شتاب کاری سے کام لیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ ایک پھونک مار کر ان کو آسمان پر چڑھادے.ایسے نشان مانگتے ہیں کہ ایمان ایمان ہی نہ رہے اگر کوئی شخص چاند یا سورج پر ایمان لا وے تو بتاؤ اس کو اس ایمان سے کیا فائدہ اور ثواب ہوگا.ایمان تو یہ ہوتا ہے کہ من وجہٍ محجوب ہو اور من وجہٍ منکشف اگر ایمان کی حد سے بڑھ کر ہوتا تو پھر ثواب ہی نہ ملتا ثواب کا وعدہ اسی صورت میں ہے کہ عقلمندآدمی عقلِ صحیح سے کام لے کر قرائن قویہ کو پاکر سمجھ لیتا ہے کہ یہ حق ہے لیکن اگر اس طریق کو چھوڑتا ہے تو وہ پھر کسی ثواب کا مستحق نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر ایسا ہی حجاب اٹھ جاوے کہ آفتاب کی طرح ایک شَے روشن ہو جاوے تو کون احمق ہوگا جو کہے کہ اب آفتاب نہیں اور دن چڑھا ہوا نہیں ہے اگر ایسا انکشاف ہو تو پھر کافر اور مومن میں کیا فرق ہوا.مومن تو کہتے ہی اس کو ہیں جو من وجہٍ محجوب پر ایمان لے آتا ہے.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسی بات پر صدیق کہلائے.پس قانونِ قدرت یہی ہے جو شخص جلد بازی کرتا ہے اور صبر اور استقلال کے ساتھ کوشش نہیں کرتا اور حسنِ ظن سے کام نہیں لیتا وہ ہمارا کیا بگاڑے گا اپنی ہی شقاوت کا نشانہ ہوگا.اس لئے ایسی ہی مثال ہے کہ ایک بیمار کسی طبیب کے پاس آوے اور طبیب اس کی مرض کی تشخیص کر کے کہے کہ تجھے دو مہینے تک میرے پاس رہ کر علاج کرنا پڑے گا مگر وہ کہے کہ نہیں دو مہینے تک تو میں رہ نہیں سکتا تم ابھی کوئی قطرہ ایسا دو کہ یہ ساری مرض جاتی رہے.ایسا جلدباز مریض کیا خاک فائدہ اٹھائے گا وہ تو اپنا ہی نقصان کرے گا اس کے لیے قانون قدرت تو بدل نہیں جاوے گا وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا(الفتح:۲۴) پس یہ بڑی بدبختی ہے کہ دنیا کے کاموں میں عقل سے کام لیتا ہے لیکن دین کے کاموں میں عقل کوبیکار اور معطّل کر دیتا ہے.یہ خطرناک مرض ہے اس کاعلاج یہی ہے کہ کثرت سے استغفار کرتا رہے.
نیک صحبت میں رہے اور دعاؤں میں لگا رہے اگر یہ نہیں کرتا تووہ ہلاک ہو جاوے گا.اللہ تعالیٰ اس کی کچھ بھی پروا نہیں کرتا لیکن جو صدق دل اور نیک نیتی کے ساتھ خدا کی طرف قدم اٹھاتا ہے اور اس راہ میں تھکتا اور گھبراتا نہیں دعاؤں میں لگا رہتا ہے امیدہے کہ وہ ایک دن گوہر مقصود کو پالے.۱ اپریل کے آخری ایام مامور اور نشان نمائی سنّت اللہ سے ناواقف ہونا بھی ایک موت ہے کیونکہ اس جہالت کی وجہ سے بعض اوقات انسان خدا تعالیٰ کے ماموروں اور برگزیدوں کے سامنے ایسی جرأت اور شوخی کر بیٹھتا ہے جو اسے قبولِ حق سے محروم کردیتی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اس کی دستگیری نہ کرے تو وہ ہلاک ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور بعض اوقات ایسے لوگ بھی آجاتے ہیں چنانچہ اواخر اپریل میں ایک نومسلم یہاں آیا اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور بڑی دلیری سے نشان بینی کی درخواست کی جس پر حضرت اقدس نے فرمایا.ہر ایک مامور کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ ڈالا جاتا ہے وہ اس کی مخالفت نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور یہی بالکل سچ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو دنیا میں مامور کرکے بھیجتا ہے تواس کی تائید میں خارقِ عادت نشان بھی ظاہر کرتا ہے چنانچہ اس جگہ بھی اس نے میری تائید کے لیے بہت سے نشان ظاہر کئے ہیں جن کو لاکھوں انسانوں نے دیکھا ہے وہ اس پر گواہ ہیں.تاہم میں اپنے خدا پرکامل یقین رکھتا ہوں کہ اس نے انہیں نشانوں پرحصر نہیں کیا اور آئندہ اس سلسلہ کو بند نہیں کیا.وقتاً فوقتاًوہ اپنے ارادہ سے جب چاہتا ہے نشان ظاہر کرتا ہے.ایک طالبِ حق کے لیے وہ نشان تھوڑے نہیں ہیں مگر اس پر بھی اگردل شہادت نہ دے کہ ایک شخص واقعی طالبِ حق ہے اور صدقِ نیت سے وہ نشان کا خواہشمند ہے تو ہم اس کے لیے توجہ کرسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں کہ کوئی اَمر ظاہر کر دے لیکن اگر یہ بات نہ ہو اور خدا تعالیٰ کے پہلے نشانوں کی بے قدری کی الحکم جلد ۸نمبر ۱۸ مورخہ۳۱ ؍مئی ۱۹۰۴ءصفحہ ۲، ۳
جاوے اور انہیں ناکافی سمجھا جاوے تو توجہ کے لیے جوش پیدا نہیں ہوتا اور ظہورِ نشان کے لیے ضروری ہے کہ اس میں توجہ کی جاوے اور اقبال اِلَی اللہ کے لیے جوش ڈالا جاوے اور یہ تحریک اس وقت ہوتی ہے جب ایک صادق اور مخلص طلب گار ہو.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ نشان عقلمندوں کے لیے ہوتے ہیں ان لوگوں کے و اسطے نشان نہیں ہوتے جو عقل سے کوئی حصّہ نہیں رکھتے ہیں.ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے نشانات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے.ہدایت محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے اگر اللہ تعالیٰ کی توفیق شاملِ حال نہ ہو اور وہ فضل نہ کرے تو خواہ کوئی ہزاروں ہزار نشان دیکھے ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور کچھ نہیں کرسکتا.پس جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ نشانات گذشتہ سے اس نے کیا فائدہ اٹھایا ہے ہم آ ئندہ کے لیے کیا امید رکھیں.نشانات کا ظاہر ہونا یہ ہمارے اختیار میں تو نہیں ہے اور نشانات کوئی شعبدہ باز کی چابکد ستی کا نتیجہ تو نہیں ہوتے.یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور مرضی پر مو قوف ہے وہ جب چاہتا ہے نشان ظاہر کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے فائدہ پہنچاتا ہے.اس وقت جوسوال نشان نمائی کا کیا جاتا ہے اس کے متعلق میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہی ڈالا ہے کہ یہ اقتراح اسی قسم کا ہے جیسا ابو جہل اور اس کے امثال کیا کرتے تھے انہوں نے کیا فائدہ اٹھایا؟ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر نشان صادر نہیں ہوئے تھے.اگر کوئی ایسا اعتقاد کرے تو وہ کافر ہے.آپؐکے ہاتھ پر لا انتہا نشان ظاہر ہوئے مگر ابوجہل وغیرہ نے ان سے کچھ فائدہ نہ اُٹھایا.اسی طرح پر یہاں نشان ظاہر ہو رہے ہیں جو طالبِ حق کے لیے ہر طرح کافی ہیں.لیکن اگر کوئی فائدہ نہ اٹھانا چاہے اور ان کو ردّی میں ڈالا جائے اور آئندہ خواہش کرے اس سے کیا امید ہوسکتی ہے؟ وہ خدا تعالیٰ کے نشانات کی بے حرمتی کرتا ہے اور خود اللہ تعالیٰ سے ہنسی کرتا ہے.طریقِ ادب طریقِ ادب تو یہ ہے کہ پہلے کتابوں کو دیکھا جاتا اور دیانتداری اور خدا ترسی سے ان میں غور کیا جاتا وہ نشانات جو ان میں درج کئے گئے ہیں ان پر فکر کی جاتی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص سلیم دل لے کر میری کتابوں کو پڑھے گا اور ان نشانوں پر
غور کرے گا تو اس کا دل بول اُٹھے گا کہ یہ انسانی طاقت سے باہر ہے کہ ایسے جلیل القدر نشان دکھا سکے لیکن ان کتابوں کو دیکھا نہیں جاتا اور تقویٰ سے کام نہیں لیا جاتا پھر شوخی سے کہا جاتا ہے کہ نشان دکھا ئو اگر یہ ضروری ہوتا کہ ہر شخص کے لیے ایک جُدا نشان ہو اور پھر ایک لمبا اور لا انتہا سلسلہ شروع ہو جاوے.ہر ایک شخص آکر کہے کہ پہلا نشان میرے لیے کافی نہیں ہے.مجھے کوئی اور نشان دکھایا جاوے.جو اس قسم کی جرأت کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کو آزماتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس کے لئے ہدایت بھی نہیں ہے کیونکہ اس سے صریح بُو آتی ہے کہ خدا کے پہلے نشانوں کو وہ حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے.نشانوں کی ایک حد ہوتی ہے اور ان کی شناخت کے لیے ایک قوتِ شامہ دی جاتی ہے جو وہ قوت نہیںرکھتا ہے جس سے اس کو پہچانے اس کے سامنے خواہ کتنے ہی نشان ظاہر ہوں وہ کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.اسلام کی سچائی پر یوں تو ہر زمانہ میں لاکھوں تازہ بہ تازہ نشان ہوتے ہیں مگر کیا یہ نشان بجائے خود کم ہے کہ جس توحید کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اور جس شرک وبدعت کو آپ نے دور کیا ہے دنیا میں کبھی کسی مذہب نے نہیں کیا.ایک عقلمند کے لیے تو یہ نشان ایسا عظیم الشّان ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی لیکن ایک غبی اس سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.اسلام کی سچائی پر یوں تو ہر زمانہ میں لاکھوں تازہ بتازہ نشان ہوتے ہیں مگر کیا یہ نشان بجائے خود کم ہے کہ جس توحید کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اور جس شرک و بدعت کو آپ نے دور کیا ہے دنیا میں کبھی کسی مذہب نے نہیں کیا.ایک عقل مند کے لئے تو یہ نشان ایسا عظیم الشّان ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی لیکن ایک غبی اس سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.مفتری مہلت نہیں پاسکتا ایک ولی اللہ ذات کے قصاب تھے ایک شخص ان کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں تب مانتا ہوں اگر آپ کوئی نشان دکھائیں.انہوں نے اس کو کیا عمدہ جواب دیا ہے کہ باوجودیکہ تیرا خیال ہے کہ ہم ایسے ہیں اور پھر باوصف ایسے گنہگار ہونے کے تُو دیکھتا ہے کہ ہم اب تک غرق نہیں ہو گئے.اسی طرح پر ہم بھی کہتے ہیں کہ کیا
یہ نشان ہمارا کم ہے کہ ہم کو مفتری کہاجاتا ہے لیکن پچیس سال سے بھی زیادہ سے یہ سلسلہ چلا آتا ہے اور دن بہ دن اس کی ترقی ہو رہی ہے اور ہم غرق نہیں ہو گئے.دانشمند اگر خدا ترس دل لے کر سوچے تو اس کے لیے یہ بھی کوئی چھوٹا سا نشان نہیں ہے.یہ جو کہہ دیتے ہیں کہ بہت سے مفتری بچ گئے ہیں یہ محض افترا ہے.اللہ تعالیٰ کے کلام میں خلاف نہیں ہوسکتا.کبھی کوئی مفتری مہلت نہیں پا سکتا ورنہ پھر خدا تعالیٰ کے راست بازوں اور مفتریوں میں فرق کرنا مشکل ہو جائے گا.خدا تعالیٰ کی سلطنت میں اندھیر نہیں ہے.اس دنیا کی سلطنت میں اگر کوئی شخص مصنوعی چپڑاسی بھی بن جاوے تو فی الفور پکڑا جاتا اور اسے عبرتناک سزا دی جاتی ہے تو یہ کیوںکر ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکومت میں ایسا اندھیر ہو کہ کوئی شخص خدا کا مامور ہونے کا مدّعی ہو اور جھوٹے الہام خود ہی بناکر خلق اللہ کو گمراہ کرے اور اللہ تعالیٰ اس کی پروانہ کرے بلکہ اس کی تائید میں نشان بھی ظاہر کر دے اور اس کی پیشگوئیوں کو بھی پورا کرکے دکھا وے.کیایہ حیرت انگیزاور تعجب کی جگہ نہیں،ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا.خدا تعالیٰ کبھی کسی مفتری کو مہلت نہیں دیتا.پس اس اصول پر ہمارا اب تک قائم رہنا اور اس سلسلہ کا نشوونما پانا اور دن بدن ترقی کرنا بھی چھوٹی سی بات نہیں ہے.اگر کوئی خدا تر سی سے اس پر غور کرے تو اس کے لیے یہ کم نشان نہیں ہے مگر جس شخص کو ہزاروں دوسرے نشان فائدہ نہیں پہنچا سکے اور ان سے اُس نے کوئی سبق نہیں سیکھا آئندہ اس سے کیااُمید ہوسکتی ہے؟ عیسائیت کا مستقبل فرمایا.عیسائی مذہب کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہے.عیسائی مذہب اپنی جگہ آدم زاد کی خدائی منوانی چاہتا ہے اور ہمارے نزدیک وہ اصل اور حقیقی خدا سے دور پڑے ہوئے ہیں.ہم چاہتے ہیں کہ ان عقائد کی (جو حقیقی خدا پرستی سے دور پھینک کر مُردہ پرستی کی طرف لے جاتے ہیں ) کافی تردید ہو اور دنیا آگاہ ہوجاوے کہ وہ مذہب جو انسان کو خدا بناتا ہے خدا کی طرف سے نہیں ہوسکتا اور بظاہر اسباب عیسائی مذہب کی اشاعت اور ترقی کے جو اسباب ہیں وہ اسباب پرست انسان کو کبھی یقین نہیں دلاتے کہ اس مذہب کا استیصال ہو جاوے گا لیکن ہم اپنے خدا پر یقین رکھتے ہیں کہ اس نے ہم کو اس کی اصلاح کے لیے بھیجا ہے اور یہ
میرے ہاتھ پر مقدر ہے کہ میں دنیا کو اس عقیدہ سے رہائی دوں.پس ہمارا فیصلہ کرنے والا یہی اَمر ہوگا.یہ باتیں لوگوں کی نظر میں عجیب ہیں مگر میں یقین رکھتا ہوں کہ میرا خدا قادر ہے.میں اصل میں دیکھتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ مامور کے آنے کا کیا مدعا ہوتا ہے اور میں اس اَمر کو بھی خوب جانتا ہوں کہ اس کا دعویٰ بناوٹ اور تکلّف سے نہیں ہوتا.وہ جو کچھ کہتا ہے دنیا اپنی جگہ سمجھتی ہے کہ شائد یہ اپنی شہرت کے لیے کرتا اور کہتا ہے مگر میں جانتا ہوں کہ وہ دنیا کی تعریف اور شہرت سے بالکل مستغنی ہوتا ہے وہ مجبور کیا جاتا ہے کہ باہر دنیا میں نکلے ورنہ اگر یہ سوزش اور گدازش جو اسے مامور کرکے خلق اللہ کی بہتری اوربہبودی کی لگا دی جاتی اسے نہ لگائی جاتی تو وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ تنہائی میں اپنی زندگی بسر کرے اور کوئی اس کو نہ جانے لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی ایسے انسان کو منتخب کرتا ہے جو اس کے منشا کے موافق کام کرسکتا ہے تو وہ اسے اس حجرہ سے باہر لاتا ہے اور پھر اس کو عظیم الشان استقلال اور ثباتِ قدم عنایت کرتا ہے.دنیا اور اس کی مخالفتوں کی اسے کوئی پروا نہیں ہوتی.وہ ہر ایک قسم کی تکالیف اور مصائب میں بھی قدم آگے بڑھاتا اور اپنے مقصد کو ہاتھ سے نہیں دیتا.میں اپنے دل کو دیکھتا ہوں کہ با لطبع وہ شہرت اور باہر آنے سے متنفّر تھا لیکن میں کیا کروں خدا تعالیٰ نے مجھے اپنی خدمت کے لیے چُن لیا اور باہر نکال دیا.اب خواہ کوئی کچھ بھی کہے میں اس کی پروا نہیں کرسکتا اور اگر میں کسی کی تعریف یا مذمّت کی پروا کروں تو اس کے یہی معنے ہیں کہ میں خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کو بھی اپنے پہلو میںرکھتا ہوں.میں دیکھتا ہوں کہ جس کام کے لیے اس نے مقرر کیا ہے اس کے حسبِ حال جوش اور سوزش بھی میرے سینہ میں پیدا کر دی ہے میں بیان نہیں کرسکتا کہ اس ظلمِ صریح کو دیکھ کر جو ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا ہے میرے دل میں کس قدر درد اور جوش پیدا ہوتا ہے.ہزاروں ہزار انسان ہیں جو اپنے اہل وعیال اور دوسری حاجتوں کے لیے دعائیں کرتے اور تڑپتے ہیں مگر میں سچ کہتا ہوں کہ میرے لیے اگر کوئی غم ہے تو یہی ہے کہ نوعِ انسان کو اس ظلمِ صریح سے بچائوں کہ وہ ایک عا جز انسان کو خدا بنانے میں مبتلا ہو رہی ہے اور اس سچے اور حقیقی خدا کے سامنے ان کو پہنچا ئوں جو قادر اور مقتدر خدا ہے.
میری فطرت میں کسی اَور اَمر کے لیے کوئی مَیلان ہی نہیں رکھا گیا اور نہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اور کسی چیز کی حاجت میرے لیے رہنے دی ہے اس لیے میری بڑی دعا اور آرزو یہی ہے کہ میں اس باطل کا استیصال دیکھ لوں جو خدا تعالیٰ کی مسند پر ایک عاجز انسان کو بٹھایا جاتا ہے اور حق ظاہر ہو جاوے.میں اس جوش اور درد کو جو مجھے اس حق کے اظہار کے لیے دیا گیا ہے بیان کرنے کے واسطے الفاظ نہیں پاتا.اگر یہ بھی مان لیا جاوے کہ کوئی اور مسیح بھی آسمان سے اُترنے والا ہے تو بھی میں اپنے دل پر نظر کرکے کہہ سکتا ہوں کہ جو گدازش اور جوش مجھے اس مذہب کے لیے دیا گیا ہے کبھی کسی کو نہیں دیا گیا.مجھے بشارت دی گئی ہے کہ یہ عظیم الشان بوجھ جو میرے دل پر ہے اللہ تعالیٰ اس کو ہلکا کر دے گا اور ایک حیّ وقیوم خدا کی پرستش ہونے لگے گی.وہ خدا جو ہماری ہزاروں دعائیں قبول کرتا ہے کبھی ہوسکتا ہے کہ وہ دعائیں جو اس کے جلال اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بز رگی کے اظہار کے لیے ہم کرتے ہیں قبول نہ کرے؟ نہیں وہ قبول کرتا ہے اور کرے گا.ہاں یہ سچ ہے کہ جس قدر عظیم الشان مرحلہ اور مقصد ہو اسی قدر وہ دیر سے حا صل ہوتا ہے.چونکہ یہ عظیم الشان کام ہے اس لیے اس کے حسبِ منشا ہونے میں بھی ایک وقت اور مہلت مطلوب ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اب وہ وقت قریب آرہاہے اور اس کی خوشبو دار ہوا ئیں آرہی ہیں اور مجھے معلوم ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری ان دعاؤں کو جو میں ایک عرصہ دراز سے کر رہا ہوں قبول کر لیا ہے.جس قدر دل بےساختہ ان ہموم وغموم میں مبتلا ہوں اسی قدر اضطراب پیدا ہو تو یاد رکھنا چاہیے کہ قبولیت کی طیاری آسمان پر ہوتی ہے کیونکہ جب تک قبولیت کی طیاری آسمان پر نہ ہو وہ خشو ع خضوع اور درد و جوش جو حقیقی اضطراب کو پیدا کرتا ہے پیدا نہیں ہوسکتا.لیکن اس وقت جو میں اس اضطراب اور کرب و قلق کو دل میں پاتا ہوں مجھے کامل یقین ہوتا ہے کہ مصنوعی خدا کے خاتمہ کا وقت آگیا ہے.اس وقت ان باتوں پر ایمان لانا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے اورکوئی نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کیوںکر ہوسکتا ہے مگر ایک وقت آتا ہے کہ لوگ ان باتوں کو دیکھ لیں گے.میں اپنے قادر خدا پر پورا یقین رکھتا
ہوں کہ جس بات کے لیے اُس نے میرے دل میں یہ جوش اور اضطراب ڈالا ہے وہ اس کو ضائع نہیں کرے گا اور زیادہ دیر تک دنیا کو تا ریکی میں نہیں رہنے دے گا.جو لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان نہیں لاتے یا نہیں لائے ہیں ان کے نزدیک بے شک یہ انہونی باتیں ہیں مگر جو شخص اس کی عجیب در عجیب قدرتوں اور طاقتوں کے تماشے دیکھ چکا ہو اور جس کی اپنی ذات پر ہزار ہا نشان صادر ہو چکے ہوں ہاں جس نے خود اس کی آوازیں سنی ہوں وہ کیوںکر کہہ سکتا ہے کہ یہ مشکل ہے یایہ انہونی ہے؟ کبھی نہیں.وہ پکار کر انکار کرنے والے کو کہتا ہے اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ(البقرۃ:۱۰۷) جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ یہ مشکل ہے کہ مصنوعی خدا پر موت آوے انہوں نے اللہ تعالیٰ کو مانا نہیں وہ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ (الانعام:۹۲) کے پورے مصداق ہیں.دنیا میں اگر کوئی ابتلا پیدا ہوتا ہے تو اس کے مصالحہ اور اسباب کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.اس وقت دنیا بہت تاریکی میں پھنسی ہوئی ہے اور اس کو مُردہ پرستی نے ہلاک کر ڈالا ہے لیکن اب خدا نے ارادہ کر لیا ہے کہ وہ دنیا کو اس ہلاکت سے نجات دے اور اس تا ریکی سے اس کو روشنی میں لاوے.یہ کام بہتوں کی نظروں میں عجیب ہے مگر جو یقین رکھتے ہیں کہ خدا قادر ہے وہ اس پر ایمان لاتے ہیں.وہ خدا جس نے ایک کُن کے کہنے سے سب کچھ کر دیا کیا قادر نہیں کہ اپنے قدیم ارادہ کے موافق ایسے اسباب پیدا کرے جو لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کو دنیا تسلیم کر لے.سلسلہ کی مخالفت اور نشان نمائی کے مطالبات مجھے ان لوگوں پر سخت تعجب اور افسوس آتا ہے جو عالم کہلاتے ہیں.مولوی اور صوفی بنتے ہیں.وہ دیکھتے ہیں کہ اسلام کی کیا حالت ہو رہی ہے.ہر طرف سے اس پر حملے ہو رہے ہیں اور اسلام ایک سخت ضعف اور کمزوری کی حالت میں ہے اس وقت چاہیے تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو مدّ ِنظر رکھ کر اس وقت وہ خود منتظر ہوتے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت اسلام کی حمایت اور نصرت کے لیے کیا سامان کرتا ہے اور خدا کی نصرت کا استقبال کرتے مگر افسوس ہے کہ وہ عیسائیوں کے حملوں کو دیکھتے ہیں جو وہ اسلام پر کرتے ہیں.مسلمانوں کی عام حالت کو دیکھتے ہیں
لیکن آسمان سے کسی مدد کے نزول کے لیے ان کے دل نہیں پگھلتے.وہ انتظار کی بجائے خدا تعالیٰ کے قائم کر دہ سلسلہ پر ہنسی کرتے اور ٹھٹھے مارتے ہیں اور اس کو تباہ کرنے کے منصوبے سوچتے ہیں لیکن وہ یاد رکھیں کہ ان منصوبوں سے خدا تعالیٰ کا کوئی مقابلہ کرسکتا ہے؟خدا تعالیٰ نے خود جس کام کا ارادہ فرمایا ہے وہ تو ہو کر رہے گا.ان کی اس منصوبہ بازی اور خطرناک مخالفت کو دیکھ کر مجھے بھی ان پر رحم آتا ہے کہ ان کی حالت ایسی نازک ہو گئی ہے کہ یہ اپنی بیماری اور کمزوری کو بھی محسوس نہیں کرسکتے ورنہ بات کیا تھی؟خدا تعالیٰ نے ہر طرح کے سامان ان کے سمجھنے اور سوچنے کے لیے مہیا کر دئیے تھے.وقت پُکار پُکار کر مصلح کی ضرورت بتاتا ہے اور پھر جس قدر نشان اور آیات صحائف انبیاء اور قرآن شریف اور احادیث کی رو سے اس وقت کے لیے مقرر تھے وہ ظاہر ہو چکے.نصوصِ قرآنیہ اور حدیثیہ برابر تائید کرتے ہیں، عقل شہادت دیتی ہے اور آسمانی نشان بجائے خود مؤیّد ہیں مگر یہ عجیب لوگ ہیں کہ نشان دیکھتے ہیں اور منہ پھیر کر کہہ دیتے ہیں کہ کوئی نشان دکھاؤ.میں ایسے لوگوں کو کیا کہوں بجز اس کے کہ تم خدا تعالیٰ کے فعل کو حقارت اور تعجب کی نظر سے دیکھتے ہو جو نشان پہلے اُس نے ظاہر کئے ہیں کیا تم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اس کی طرف سے نہیں ہیں؟ کیا وہ نشان انسانی طاقت کے اندر ہیں اور کوئی ان کا مقابلہ کرسکتا ہے کیا منہاجِ نبوت پر وہ نشان ایک شخص کی تسلّی کے لیے کافی نہیں ہیں جو نئے نشان مانگے جاتے ہیں خدا سے ڈرو اور اس سے مقابلہ نہ کرو.یہ تو ظلم صریح ہے کہ اس کی آیات کی ایسی بےقدری کرو کہ ان کو تسلیم ہی نہ کرو.پہلے یہ فیصلہ کرو کہ آیا خدا نے کوئی نشان دکھایا ہے یا نہیں اگر دکھایا ہے اسی طرح پر جو وہ انبیاء کے وقتوں میں دکھاتا آیا ہے تو سعادت مند بن کر اسے قبول کرو اور اس نعمت کی قدر کرو.اگر کوئی نشان نہیں دکھایا گیا ہے تو مانگو بےشک مانگو میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ قادر خدا نشان پر نشان دکھائے گا لیکن میں جانتا ہوں کہ اس نے ہزاروں نشان ظاہر کئے مگر ان لوگوں نے ان کو استہزا کی نظر سے دیکھا اور کافرِ نعمت ہو کر ٹال دیا اور پھر کہتے ہیں کہ اور دکھاؤ یہ اقتراح مناسب نہیں ہے.خدا تعالیٰ کامل طور پر اتمامِ حجّت کرتا ہے اور اب طاعون کے ذریعہ کر رہا ہے کیونکہ جن لوگوں نے رحمت کے نشانوں سے فائدہ نہیں اُٹھایا وہ اب غضب کے نشانوں کو دیکھ لیں.
میں بڑی صفائی سے کہہ رہا ہوں کہ تم نے جو اسلام کو قبول کیا ہے کون سا معجزہ اس کا دیکھا تھا.جس قدر معجزات اسلام کے تم بیان کرو گے وہ سماعی ہوں گے تمہارے چشم دید نہیں لیکن یہاں تو وہ باتیں موجود ہیں جن کے دیکھنے والے ایک دو نہیں بلکہ لاکھوں انسان ہیں.جو ابھی زندہ موجود ہیں.دو گواہوںسے ایک شخص پھانسی پا سکتا ہے لیکن تعجب کی بات ہے کہ یہاں لاکھوں انسان موجود ہیں جو ان نشانوں کے گواہ ہیں اور ان کی شہادت کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے اس سے بڑھ کر ظلم اور حق کا خون کیا ہوگا.اگر خدا تر سی اور حق پسندی غرض ہے اور جس مطلب کے لیے ہندو مذہب کو چھوڑ کر۱ اسلام قبول کیاہے توایسے اقتراحوں سے کیا حا صل؟یہ سعادتمندی کی راہ نہیں.یہ تو ہلاکت کی راہ ہے کیونکہ جو اس قدر نشانات کے ہوتے ہوئے بھی پھر کہتا ہے کہ مجھے نشان دکھاؤ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کافر ہی مَرے گا.ہماری موت کے بعد اگر کوئی کہتا تو البتہ اسے معذور سمجھ لیتے کہ اس کے سامنے جو نشانات ہیں وہ منقولی ہیں اور ان پر صدیاں گزر گئی ہیں مگر اس وقت تو ہم زندہ موجود ہیں.اور ان نشانات کو دیکھنے والے بھی زندہ موجود ہیں پھر کہا جاتا ہے کہ نشان دکھاؤ.ایسی ہی حالت ہو گی جب حضرت مسیح کو کہنا پڑا ہوگا کہ اس زمانہ کے حرامکار مجھ سے نشان مانگتے ہیں.حقیقت میں انسان جب دیکھتا ہوا نہیں دیکھتا اور سنتا ہوا نہیں سنتا تو اس کی حالت بہت خطرناک ہوتی ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ جب تم اس وقت اس قدرآیات اللہ کے ہوتے ہوئے بھی انکار کرتے ہو اور جدید نشان کے طلب گار ہو تو پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کے ماننے کی تمہارے پاس کیا دلیل ہے؟ اسے ذرا بیان تو کرنا چاہیے یا اگر ان کو صرف حُسنِ ظنّ کے طور پر سُن کر مان لیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس وقت ان تازہ آیات کا انکار کیا جاتا ہے اور ان میں شک کیا جاتا ہے.کیوں ان کو تسلیم نہیں کیا جاتا.ہاں بے شک یہ دیکھ لو کہ آیا وہ بشری طاقتوں کے اندر ہیں یا ان سے بڑ ھ کر ہیں اور منہاجِ نبوت پر ہیں یا نہیں.۲ 1سائل نو مسلم تھا.(مرتّب) ۲الحکم جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخہ ۱۷؍ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۲،۳
رؤیت کا انکار کرناکتنا بڑا ظلم ہے.ہزاروں ہزار نشان خدا تعالیٰ نے اپنے بندہ کی تصدیق کے لیے ظاہر کئے اور ان کے دیکھنے والے موجود ہیں.مگر افسوس کی بات ہے کہ ان کو ردّکر دیا جاتا ہے اور جدید نشانوں کی خواہش کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ وہ اور نشانات دکھلاوے لیکن سنّت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ ایسے اقتراح کرنے والے اور اپنے ایمان کو مشروط کرنے والے ٹھو کر کھا جاتے ہیں.پچھلے نشانوں کو ترک کرکے آئندہ کے لیے سوال کرنا آیات اللہ کی بے حر متی اور خدا تعالیٰ کے حضور سُوءِ ادبی ہے.اللہ تعالیٰ تو فر ماتا ہے کہ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ (ابراھیم:۸)اگرتم میری نعمت کاشکر کروگے تو میں اُسے بڑھاؤں گا اور پھر فرمایا وَ لَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ(ابراھیم:۸) اور اگر انکار اور کفر کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے.اب بتا ؤ کہ ان آیاتِ الٰہی کی تکذیب اور ان کو چھوڑ کر جدید کی طلب اور اقتراح یہ عذابِ الٰہی کو مانگناہے یا کیا؟ سلسلہ کی تائید میں عظیم نشانات کا ظہور دیکھو! میں سچ کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی آیات کی بے ادبی مت کرو اور انہیں حقیر نہ سمجھو کہ یہ محرومی کے نشان ہیں اور خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا.ابھی کل کی بات ہے کہ لیکھرام خدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشا ن نشان کے موافق مارا گیا.کروڑوں آدمی اس پیشگوئی کے گواہ ہیں خود لیکھرام نے اسے شہرت دی وہ جہاں جاتا اسے بیان کرتا.یہ نشان اسلام کی سچائی کے لیے اس نے خود مانگا تھا اور اس کو سچے اور جھوٹے مذہب کے لیے بطور معیار قائم کیا تھا آخر وہ خود اسلام کی سچائی اور میری سچائی پر اپنے خون سے شہادت دینے والاٹھہرا.اس نشان کو جھٹلا نا اور اس کی پروا نہ کرنا یہ کس قدر بےانصافی اورظلم ہے پھر ایسے کھلے کھلے نشان کا انکار کرنا تو خود لیکھرام بننا ہے اور کیا؟ مجھے بہت ہی افسوس ہوتا ہے کہ جس حال میں خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا ہے کہ اس نے ہر قوم کے متعلق نشانا ت دکھائے جلالی اور جمالی ہر قسم کے نشان دئیے گئے پھر ان کو ردّی کی طرح پھینک دینایہ تو بڑی ہی بدبختی اور اللہ تعالیٰ کے غضب کا مورد بننا ہے.جو آیا ت اللہ کی پروا نہیں کرتا وہ یادرکھے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا خدا تعالیٰ کی طرف سے جو نشان ظاہر ہوتے ہیں وہ ایسے ہوتے ہیں کہ ایک عقلمند
خدا ترس ان کو شناخت کر لیتا ہے اور ان سے فائدہ اٹھاتا ہے لیکن جو فراست نہیںرکھتا اور خدا کے خوف کو مدّ ِنظر رکھ کر اس پر غور نہیں کرتا وہ محروم رہ جاتا ہے کیونکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ دنیا دنیا ہی نہ رہے اور ایمان کی وہ کیفیت جو ایمان کے اندر موجود ہے نہ رہے ایسا خدا تعالیٰ کبھی نہیں کرتا اگر ایسا ہوتاتو یہودیوں کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ حضرت مسیح کا انکار کرتے.موسیٰ علیہ السلام کا انکار کیوںہوتا اور پھر سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر تکالیف کیوں برداشت کرنی پڑتیں.خدا تعالیٰ کی یہ عادت ہی نہیں کہ وہ ایسے نشان ظاہر کرے جو ایمان بالغیب ہی اُٹھ جاوے.ایک جاہل وحشی سنّت اللہ سے ناواقف تو اس چیز کو معجزہ اور نشان کہتا ہے جو ایمان بالغیب کی مدّ سے نکل جاوے مگر خدا تعالیٰ ایسا کبھی نہیں کرتا.ہماری جماعت کے لیے اللہ تعالیٰ نے کمی نہیں کی کوئی شخص کسی کے سامنے کبھی شرمند ہ نہیں ہوسکتا جس قدر لوگ اس سلسلہ میں داخل ہیں ان میں سے ایک بھی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا.براہین احمدیہ کو پڑھو اور اس پر غور کرو اس زمانہ کی ساری خبریں اس میں موجود ہیں.دوستوں کے متعلق بھی ہیں اور دشمنوں کے متعلق بھی.اب کیا یہ انسانی طاقت کے اندر ہے کہ تیس برس پہلے جب ایک سلسلہ کا نام ونشان بھی نہیں اور خوداپنی زندگی کا بھی پتا نہیں ہوسکتا کہ میں اس قدر عرصہ تک رہوں گا یا نہیں ایسی عظیم الشّان خبریں دے اور پھر وہ پوری ہو جائیں نہ ایک نہ دو بلکہ ساری کی ساری.براہین احمدیہ احمدی لوگوں کے گھروں میں بھی ہے عیسائیوں، آریوں اور گورنمنٹ تک کے پاس موجود ہے اور اگر خدا کا خوف اور سچ کی تلاش ہے تو میں کہتا ہوں کہ براہین کے نشانات پر ہی فیصلہ کرلو.دیکھو! اس وقت جب کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور کوئی یہاں آتا بھی نہیں تھا ایک آدمی بھی میرے ساتھ نہ تھا اس جماعت کی جو یہاں موجود ہے خبر دی اگر یہ پیشگوئی خیالی اور فرضی تھی تو پھر آج یہاں اتنی بڑی جماعت کیوں ہے اور جس شخص کو قادیان سے باہر ایک بھی نہیں جانتا تھا اور جس کے متعلق براہین میں کہا گیا تھا فَـحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ آج کیا وجہ ہے کہ وہ ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ عرب، شام، مصر سے نکل کر یورپ اور امر یکہ تک دنیا اس کو شناخت کرتی ہے.اگر یہ خدا کا کلام نہیں تھا
اور خدا کے منشا کے خلاف ایک مفتری کا منصوبہ تھا تو خدا نے اس کی مدد کیوں کی؟ کیوں اس کے لیے ایسے سامان اور اسباب پیدا کر دئیے؟ کیا یہ سب میں نے خود بنالیے ہیں اگر اللہ تعالیٰ اسی طرح پر کسی مفتری کی تائید کیا کرتا ہے تو پھر راست بازوں کی سچائی کا معیار کیا ہے؟ تم خود ہی اس کا جواب دو.سورج اور چاند کو رمضان میں گرہن لگناکیا یہ میری اپنی طاقت میں تھا کہ میں اپنے وقت میں کر لیتا اور جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سچے مہدی کا نشان قرار دیا تھا اور خدا تعالیٰ نے اس نشان کو میرے دعوے کے وقت پورا کر دیا اگر میں اس کی طرف سے نہیں تھا تو کیا خدا تعالیٰ نے خود دنیا کو گمراہ کیا؟ اس کا سوچ کر جواب دینا چاہیے کہ میرے انکار کا اثر کہاں تک پڑتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور پھر خدا تعالیٰ کی تکذیب لازم آتی ہے.اسی طرح پر اس قدر نشانات ہیں کہ ان کی تعداد دو چار نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں تک ہے تم کس کس کا انکار کرتے جاؤگے؟ اسی براہین میں یہ بھی لکھا ہے یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ اب تم خود آئے ہو تم نے ایک نشان پورا کیا ہے اس کا بھی انکار کرو اگر اس نشان کو جو تم نے اپنے آنے سے پورا کیا ہے مٹا سکتے ہو تو مٹاؤ.میں پھر کہتا ہوں کہ دیکھو آیا ت اللہ کی تکذیب اچھی نہیں ہوتی اس سے خدا تعالیٰ کا غضب بھڑکتا ہے میرے دل میں جو کچھ تھا میں نے کہہ دیا ہے اب ماننا نہ ماننا تمہارا اختیار ہے.اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں صادق ہوں اور اسی کی طرف سے آیا ہوں.۱ ۲؍مئی ۱۹۰۴ء دعا ہی خدا شناسی کا ذریعہ ہے ایک رئیس کا یہ خیال سن کر کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ دعا سے مشکل حل ہوتی ہے ان کو بہت ہی کمزور کرنے والا ہے.آپؑنے فرمایا کہ جو دعا سے منکر ہے وہ خدا سے منکر ہے صرف ایک دعا ہی ذریعہ خدا شناسی کا ہے.اور اب وقت لحکم جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخہ ۳۱؍ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۲
آگیا ہے کہ اس کی ذات کو طوعاً و کرہاً مانا جاوے.اصل میں سب جگہ دہریت ہے.آجکل کی محفلوں کا یہ حال ہے کہ دعا، توکل اور انشاء اللہ کہنے پر تمسخر کرتے ہیں.ان باتوں کو بیوقوفی کہا جاتا ہے ورنہ اگر خدا سے ان کو ذرا بھی اُنس ہوتا تو اس کے نام سے کیوں چڑتے؟ جس کو جس سے محبت ہوتی ہے وہ ہیر پھیر سے کسی نہ کسی طرح سے محبوب کانام لے ہی لیتا ہے.اگر ان کے نزدیک خدا کوئی شَے نہیں ہے تو اب موت کا دروازہ کھلا ہے اسے ذرا بند کر کے تو دکھلاویں.تعجب ہے کہ ہمیں جس قدر اس کے وجود پر امیدیں ہیں اسی قدر وہ دوسرا گروہ اس سے ناامید ہے.اصل میں خدا کے فضل کی ضرورت ہے.اگر وہ دل کے قفل نہ کھولے تو اور کون کھول سکتا ہے.اگر وہ چاہے تو ایک کتّے کو عقل دے سکتا ہے کہ اس کی باتوں کو سمجھ لیوے اور انسان کو محروم رکھ سکتا ہے.طاعون کو گالی دینا منع ہے طاعون کو سبّ و شتم کرنا منع ہے کیونکہ وہ تو مامور ہے.ہاں خدا سے صلح کرنی چاہیے کہ وہ اسے ہٹالیوے.۱ ۴؍مئی ۱۹۰۴ء خدا تعالیٰ کی وحی پر کامل ایمان آج دن کو مولوی محمد علی صاحب.ایم.اےمینجر وایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجنـز کی طبیعت علیل ہوگئی اور دردِ سر اور بخار کے عوارض کو دیکھ کر مولوی صاحب کو شبہ گذرا کہ شاید طاعون کے آثار ہیں.جب اس بات کی خبر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہوئی تو آپ فوراً مولوی صاحب کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میرے دار میں ہو کر اگر آپ کو طاعون ہو تو پھر اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ الہام اور یہ سب کاروبار گویا عبث ٹھہرا.آپ نے نبض دیکھ کر ان کو یقین دلایا کہ ہرگز بخار نہیں ہے.پھر تھرما میٹر لگا کر دکھایا کہ پارہ اس حد تک نہیں ہے، جس سے بخار کا شبہ ہو اور فرمایا کہ میرا تو خدا کی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسے اس کی کتابوں پر ہے.البدر جلد ۳ نمبر ۱۸،۱۹ مورخہ ۸،۱۶؍مئی ۱۹۰۴ءصفحہ ۴
نے اس نشان کو میرے دعوے کے وقت پورا کر دیا اگر میں اس کی طرف سے نہیں تھا تو کیا خدا تعالیٰ نے خود دنیا کو گمراہ کیا؟ اس کا سوچ کر جواب دینا چاہیے کہ میرے انکار کا اثر کہاں تک پڑتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور پھر خدا تعالیٰ کی تکذیب لازم آتی ہے.اسی طرح پر اس قدر نشانات ہیں کہ ان کی تعداد دو چار نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں تک ہے تم کس کس کا انکار کرتے جاؤگے؟ اسی براہین میں یہ بھی لکھا ہے یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ اب تم خود آئے ہو تم نے ایک نشان پورا کیا ہے اس کا بھی انکار کرو اگر اس نشان کو جو تم نے اپنے آنے سے پورا کیا ہے مٹا سکتے ہو تو مٹاؤ.میں پھر کہتا ہوں کہ دیکھو آیا ت اللہ کی تکذیب اچھی نہیں ہوتی اس سے خدا تعالیٰ کا غضب بھڑکتا ہے میرے دل میں جو کچھ تھا میں نے کہہ دیا ہے اب ماننا نہ ماننا تمہارا اختیار ہے.اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں صادق ہوں اور اسی کی طرف سے آیا ہوں.۱ ۲؍مئی ۱۹۰۴ء دعا ہی خدا شناسی کا ذریعہ ہے ایک رئیس کا یہ خیال سن کر کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ دعا سے مشکل حل ہوتی ہے ان کو بہت ہی کمزور کرنے والا ہے.آپؑنے فرمایا کہ جو دعا سے منکر ہے وہ خدا سے منکر ہے صرف ایک دعا ہی ذریعہ خدا شناسی کا ہے.اور اب وقت آگیا ہے کہ اس کی ذات کو طوعاً و کرہاً مانا جاوے.اصل میں سب جگہ دہریت ہے.آجکل کی محفلوں کا یہ حال ہے کہ دعا، توکل اور انشاء اللہ کہنے پر تمسخر کرتے ہیں.ان باتوں کو بیوقوفی کہا جاتا ہے ورنہ اگر خدا سے ان کو ذرا بھی اُنس ہوتا تو اس کے نام سے کیوں چڑتے؟ جس کو جس سے محبت ہوتی ہے وہ ہیر پھیر سے کسی نہ کسی طرح سے محبوب کانام لے ہی لیتا ہے.اگر ان کے نزدیک خدا کوئی شَے نہیں ہے تو اب موت کا دروازہ کھلا ہے اسے ذرا بند کر کے تو دکھلاویں.تعجب ہے کہ ہمیں جس قدر اس کے وجود پر امیدیں ہیں اسی قدر وہ دوسرا گروہ اس سے ناامید ہے.اصل میں خدا کے فضل کی ضرورت ہے.
اگر وہ دل کے قفل نہ کھولے تو اور کون کھول سکتا ہے.اگر وہ چاہے تو ایک کتّے کو عقل دے سکتا ہے کہ اس کی باتوں کو سمجھ لیوے اور انسان کو محروم رکھ سکتا ہے.طاعون کو گالی دینا منع ہے طاعون کو سبّ و شتم کرنا منع ہے کیونکہ وہ تو مامور ہے.ہاں خدا سے صلح کرنی چاہیے کہ وہ اسے ہٹالیوے.۱ ۴؍مئی ۱۹۰۴ء خدا تعالیٰ کی وحی پر کامل ایمان آج دن کو مولوی محمد علی صاحب.ایم.اےمینجر وایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجنـز کی طبیعت علیل ہوگئی اور دردِ سر اور بخار کے عوارض کو دیکھ کر مولوی صاحب کو شبہ گذرا کہ شاید طاعون کے آثار ہیں.جب اس بات کی خبر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہوئی تو آپ فوراً مولوی صاحب کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میرے دار میں ہو کر اگر آپ کو طاعون ہو تو پھر اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ الہام اور یہ سب کاروبار گویا عبث ٹھہرا.آپ نے نبض دیکھ کر ان کو یقین دلایا کہ ہرگز بخار نہیں ہے.پھر تھرما میٹر لگا کر دکھایا کہ پارہ اس حد تک نہیں ہے، جس سے بخار کا شبہ ہو اور فرمایا کہ میرا تو خدا کی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسے اس کی کتابوں پر ہے.حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ ان دنوں لوگوں کو اور بعض جماعت کے آدمیوںکو بھی طرح طرح کے شکوک و شبہات پیش آرہے ہیں اس لیے میرا ارادہ ہے کہ ایک رسالہ لکھ کر اصل حقیقتِ بیعت اور الہامات سے اطلاع دی جاوے جس سے لوگوں کو معلوم ہو کہ بعض لوگ بیعت میں داخل ہو کر کیوں طاعون سے مَرتے ہیں؟ ایک نشان فرمایا کہ ان دنوں ایک دفعہ میری بغل میں ایک گلٹی نکل آئی.میں نے اسے مخاطب ہو کر کہا ۱ البدر جلد ۳ نمبر ۱۸،۱۹ مورخہ ۸،۱۶؍مئی ۱۹۰۴ءصفحہ ۴
کہ تُو کون ہے جو مجھے ضرر دے سکے اور خدا کے وعدہ کو ٹال سکے.تھوڑے عرصہ میں وہ خود بخود ہی بیٹھ گئی.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے فرمایا.مدّت کا یہ میرا الہام ہے کہ ’’آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.‘‘ یہ ویسے ہی ہے جیسے حدیث شریف میں ہے کہ بعض بہشتی بطور سیر دوزخ کو دیکھنا چاہیں گے اور اس میں اپنا قدم رکھیں گے تو دوزخ کہے گی کہ تو نے تو مجھے بھی سرد کر دیا.یعنی بجائے اس کے کہ دوزخ کی آگ اسے جلاتی خادموں کی طرح آرام دہ ہوجاوے گی.عادت اللہ یہی ہے کہ دو ناریں(دو آگ) ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں.محبت الٰہی بھی ایک نار ہے اور طاعون کو بھی نار لکھا ہے.لیکن ان میں سے ایک تو عذاب ہے اور دوسری انعام ہے، اسی لیے طاعون کی نار کی ایک خاص خصوصیت خدا تعالیٰ نے رکھی ہے.اس میں آگ کو جو غلام کہا گیا ہے میرا مذہب اس کے متعلق یہ ہے کہ اسماء اور اعلام کو ان کے اشتقاق سے لینا چاہیے.غلام غلمہ سے نکلا ہے جس کے معنے ہیں کسی شَے کی خواہش کے واسطے نہایت درجہ کا مضطرب ہونا یا ایسی خواہش جو کہ حد سے تجاوز کر جاتی ہے اور انسان پھر اس سے بیقرار ہوجاتا ہے اور اسی لیے غلام کا لفظ اس وقت صادق آتا ہے جب انسان کے اندر نکاح کی خواہش جوش مارتی ہے پس طاعون کا غلام اور غلاموں کی غلام کے بھی یہی معنے ہیں کہ جو شخص ہم سے ایک ایسا تعلق اور جوڑ پیدا کرتا ہے جو کہ صدق و وفا کے تعلقات کے ساتھ حد سے تجاوز ہوا ہو اور کسی قسم کی جدائی اور دوئی اس کے رگ و ریشہ میں نہ پائی جاتی ہو اسے وہ ہرگز کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی اور جو ہمارا مرید الٰہی محبت کی آگ سے جلتا ہوگا اور خدا کو حقیقی طور پر پالینے کی خواہش کمال درجہ پر اس کے سینہ میں شعلہ زن ہوگی اسی پر بیعت کا لفظ حقیقی طور پر صادق آوے گا یہاں تک کہ کسی قسم کے ابتلا کے نیچے آکر وہ ہرگز متزلزل نہ ہو بلکہ اور قدم آگے بڑھاوے.لیکن جبکہ لوگ ابھی تک اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر وہ ابتلا میں آجاتے ہیں اور اعتراض کرنے لگتے ہیں تو پھر وہ اس آگ سے کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں.
بیعت کی حقیقت بیعت کا لفظ ایک وسیع معنی رکھتا ہے اور اس کا مقام ایک انتہائی تعلق کا مقام ہے کہ جس سے بڑھ کر اور کسی قسم کا تعلق ہو ہی نہیں سکتا.بعض لوگ ایسے ہیں کہ وہ ہمارے نور کی پوری روشنی میں نہیں ہیں.جب تک انسان کو ابتلا کی برداشت نہ ہو اور ہر طرح سے وہ اس میں ثابت قدمی نہ دکھا سکتا ہو تب تک وہ بیعت میں نہیں ہے.پس جو لوگ صدق و صفا میں انتہائی درجہ تعلق پر پہنچے ہوئے ہیں خدا تعالیٰ ان کو امتیاز میں رکھتا ہے طاعون کے ایام میں جو لوگ بیعت کرتے ہیں وہ سخت خطرناک حالت میں ہیں کیونکہ صرف طاعون کا خوف ان کو بیعت میں داخل کرتا ہے.جب یہ خوف جاتا رہا تو پھر وہ اپنی پہلی حالت پر عود کر آویں گے.پس اس حالت میں ان کی بیعت کیا ہوئی؟۱ ۸؍مئی ۱۹۰۴ء طاعون کا نشان اور جماعت احمدیہ حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام گورداسپور تھے.ہمارے مکرم خلیفہ رجب الدین صاحب تاجر برنج لاہور بھی شرفِ نیاز کے لیے آئے ہوئے تھے.خلیفہ صاحب ایک روشن خیال اور ذی فہم آدمی ہیں وہ لاہور کے حالات ذکر کرتے رہے کہ وہاں کے مسلمانوں کی عجیب حالت ہو رہی ہے.ہراتوار کو زیارتیں نکال کر باہر لے جاتےہیں.اور اس فعل کو دفعیہ طاعون کے لیے کافی سمجھتے ہیں.مسلمانوں کی اس حالت پر خلیفہ صاحب افسوس کر رہے تھے اور اپنے مختلف حالات سناتے رہے.آخر آپ نے عرض کیا.خلیفہ صاحب.طاعون میں بعض مقامات پر جو ہمارے احباب مَرتے ہیں اور لوگ اعتراض کرتے ہیں.اس کا کیا جواب دیا جاوے؟ حضرت اقدس.اصل بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی مامور کو دنیا میں بھیجتا ہے تو سنّت اللہ یہی ہے کہ تنبیہ کے لیے کوئی نہ کوئی عذاب بھی بھیجتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب اس کی مخالفت
حد سے بڑھ جاتی ہے اور شوخی اور شرارت میں اہلِ دنیا بہت ترقی کر جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے بکلّی دور جا پڑتے ہیں.وہ عذاب اگرچہ سرکش منکرین کے لیے ہوتا ہے مگر سنّت اللہ یہی ہے کہ مامور کے بعض متبعین بھی شہید ہوجاتے ہیں وہ عذاب اَوروں کے لیے عذاب ہوتا ہے مگر ان کے لیے باعثِ شہادت.چنانچہ قرآن شریف صاف طور پر بتاتا ہے کہ کفار جو بار بار عذاب مانگتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ تم پر عذاب بصورت جنگ نازل ہوگا.آخر جب وہ سلسلہ عذاب کا شروع ہوا اور کفار کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائیاں ہونے لگیں تو کون کہہ سکتا ہے کہ ان جنگوں میں صحابہؓ شہید نہیں ہوئے، حالانکہ یہ مسلّم بات ہے کہ وہ تو کفار پر عذاب تھا اور خاص ان کے ہی لیے آیا تھا مگر صحابہؓ کو بھی چشمِ زخم پہنچا اور بعض جو علمِ الٰہی میں مقدر تھے شہید ہوگئے.جن کی بابت خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ(البقرۃ:۱۵۵) بَلْ اَحْيَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَ (اٰلِ عـمران:۱۷۰) یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کیے جاویں ان کو مُردے مت کہو بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک زندہ ہیں اور اسی جگہ ان کی نسبت فرمایا فَرِحِيْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ (اٰلِ عـمران:۱۷۱) اب بتاؤ کہ وہ جنگ ایک ہی قسم کا تھا لیکن وہ کفار کے لیے عذاب تھا مگر صحابہؓ کے لیے باعثِ شہادت.اسی طرح پر اب بھی حالت ہے لیکن انجام کار دیکھنا چاہیے کہ طاعون سے فائدہ کس کو رہتا ہے ہم کو یا ہمارے مخالفین کو.اس وقت معلوم ہوگا کہ کون کم ہوئے اور کون بڑھے.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت خدا کے فضل سے غیر معمولی طور پر بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ طاعون ہی ہے.بعض ایسے لوگوں کی درخواستیں بیعت کے واسطے آئی ہیں جو طاعون میں مبتلا ہو کر لکھتے ہیں کہ اس وقت مجھے طاعون ہوا ہوا ہے اگر زندہ رہا تو پھر آکر بھی بیعت کر لوں گا فی الحال تحریری کرتا ہوں.طاعون کے ذریعہ سے کئی ہزار آدمی اس سلسلہ میں شامل ہوئے ہیں.خلیفہ صاحب.وہ جنگ تو اعلاءِ کلمۃ اللہ کے لیے تھا.حضرت اقدس.یہ طاعون بھی اعلاءِ کلمۃ اللہ کے لیے ہی ہے.خدا تعالیٰ نے دو نشان مسیح موعود کی ۱ الحکم جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخہ ۳۱؍ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۳
سچائی کے لیے زمینی اور آسمانی اَور بہت سے نشانوں کے سوا مقرر کئے تھے.آسمانی نشان تو کسوف و خسوف کا تھا جو رمضان کے مہینہ میں واقع ہوگیا جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا.دوسرا زمینی نشان طاعون کا تھا وہ بھی پورا ہوگیا.ابھی طاعون کا پنجاب میں نام و نشان بھی نہ تھا جب میں نے اس کی خبر دی تھی اس وقت شتاب کار لوگوں نے جلد بازی کی اور خدا تعالیٰ کے اس بزرگ نشان کو ہنسی میں اڑانا چاہا مگر اب گو وہ زبان سے اقرار نہ کریں مگر ان کے دلوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ پیشگوئی جو طاعون کے متعلق تھی پوری ہوگئی.اس نشان سے اعلاءِ کلمۃ اللہ اس طرح پر ہوگا کہ لوگ آخر جب اس کو عذابِ الٰہی سمجھ کر اس کے موجبات پر غور کریں گے اور فسق و فجور اور شرارت و استہزا چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی طرف آئیں گے اور سمجھ لیں گے کہ خدا حق ہے تو اس سے اعلاءِ کلمۃ اللہ ہوگا یا نہیں؟ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے یہ طاعون ہمارے لیے کام کر رہی ہے.اگر اس گروہ میں ایک شہید ہوجاتا ہے تو اس کے قائم مقام ہزار آتے ہیں.یہ نادانوں کا شبہ فضول ہے کہ کیوں مَرتے ہیں.ہم کہتے ہیں صحابہؓ جنگ میں کیوں شہید ہوتے تھے؟ کسی مولوی سے پوچھو کہ وہ جنگ عذاب تھی یا نہیں؟ ہرایک کو کہنا پڑے گا کہ عذاب تھی.پھر ایسا اعتراض کیوں کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جا پڑتا ہے لیکن اگر کوئی کہے کہ پھر نشان مشتبہ ہوجاتا ہے ہم کہتے ہیں کہ نہیں نشان مشتبہ نہیںہوتا اس واسطے کہ انجام کار کفار کا ستیاناس ہوگیا اور ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا اور اسلام ہی اسلام نظر آتا تھا چنانچہ آخر اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا (النّصـر:۲،۳) کا نظارہ نظر آگیا.اسی طرح پر طاعون کا حال ہے.اس وقت لوگوں کو تعجب معلوم ہوتا ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں لیکن ایک وقت آتا ہے جب طاعون اپنا کام کر کے چلی جائےگی اس وقت معلوم ہوگا کہ اس نے کس کو نفع پہنچایا اور کون خسارہ میں رہے گا.یہ اس زمانہ کے لیے ایک عظیم الشّان نشان ہے جس کا ذکر سارے نبی کرتے چلے آئے ہیں اور طاعون سے اس قدر جلد ی لوگ حق کی طرف آرہے ہیں کہ پہلے نہیں آئے تھے.
خلیفہ صاحب.حضور! کیا ایسے لوگ مامون ہوجائیں گے؟ حضرت اقدس.اس میں کیا شک ہے کہ وہ امن میں تو ہوگئے.اگر اس سلسلہ میں ہو کر ان میں سے کوئی مَر بھی جاوے تو وہ شہادت ہوگی اور خدا کے مامور پر ایمان لانے کا یہ فائدہ تو حاصل ہوگیا.میں نے جس قدر طاعون کے متعلق کھول کھول بیان کیا ہے کسی نے نہیں کیا.متواتر میں اس پیشگوئی کو شائع کرتا رہا اور خدا تعالیٰ نے مختلف رنگوں میں مختلف اوقات میں اس کے متعلق مجھ پر کھولا اور میں نے لوگوں کو سنایا یَا مَسِیْحَ الْـخَلْقِ عَدْوَانَا بہت پرانا الہام ہے جو چھپ کر شائع ہوچکا ہے.پھر وہ سیاہ پودوں والی رؤیا اور ہاتھی والی رؤیا.غرض یہ طاعون خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آئی ہے اور اپنا کام کر رہی ہے.بعض لوگ شرارت سے کہتے ہیں کہ یہ طاعون ان کی شامتِ اعمال سے آئی ہے.یہ تو وہی بات ہے جیسے حضرت موسٰی کو الزام دیا تھا.مگر کوئی ان سے پوچھے کہ یہ عجیب بات ہے کہ شامتِ اعمال سے تو ہماری آئی ہے اور ہماری حفاظت کو خدا تعالیٰ ایک نشان قرار دیتا ہے اور مَر رہے ہیں دوسرے.اس وقت ایک خاص تبدیلی کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ کا غضب بھڑکا ہوا ہے.جو اب بھی تبدیلی نہیں کرتے خدا تعالیٰ ان کی پروا نہیں کرے گا اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْاسی طاعون کے متعلق میرا الہام ہے.۱ بخاری میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے مومن کی جان لینے میں تردّد ہوتا ہے.اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ مومن کو یکدفعہ نہیں پکڑتا ہے پھر اس کے ساتھ نرمی کرتا ہے پھر پکڑتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے یہ حالت گویا تردّد سے مشابہ ہے.پہلی کتابوں میں بھی اس قسم کے الفاظ آئے ہیں کہ خدا پچھتایا.میرے الہام میں بھی اُفْطِرُ وَاَصُوْمُ اسی رنگ کے الفاظ ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ جس مومن کے وجود میں خلق اللہ کا نفع ہو اور اس کی موت شماتت کا باعث ہو وہ کبھی طاعون سے نہیں مَرے گا.میں جانتا ہوں اور قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ابھی تک کوئی ایسا آدمی طاعون سے نہیں مَرا جس کو میںپہچانتا ہوں یا وہ مجھے پہچانتا ہو جو شناخت کا
حق ہے.مامورین کا خاص نشان امام اور پیشوا وہی ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے اذن اور حکم سے مامور ہو کر آوے.اس میں اللہ تعالیٰ ایک جذب کی قوت رکھ دیتا ہے جس کی وجہ سے سعادت مند روحیں خواہ وہ کہیں ہوں اس کی طرف کھچی چلی آتی ہیں.جذب کا پیدا ہونا اپنے اختیار میں نہیں ہے بناوٹ سے یہ بات پیدا نہیں ہوسکتی.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جو لوگ خدا کی طرف سے مامور ہوکر آتے ہیں وہ اس بات کے حریص اور آرزو مند نہیں ہوتے کہ لوگ ان کے گرد جمع ہوں اور اس کی تعریفیں کریں بلکہ ان لوگوں میں طبعاً مخفی رہنے کی خواہش ہوتی ہے اور وہ دنیا سے الگ رہنے میں راحت سمجھتے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مامور ہونے لگے تو انہوں نے بھی عذر کیا.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غار میں رہا کرتے تھے وہ اس کو پسند کرتے تھے مگر اللہ تعالیٰ خود ان کو باہر نکالتا ہے اور مخلوق کے سامنے لاتا ہے.ان میں ایک حیا ہوتی ہے اور ایک انقطاع ان میں پایا جاتا ہے.چونکہ وہ انقطاع تعلقات صافی کو چاہتا ہے اس لیے وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک لذّت اور سرور پاتے ہیں لیکن وہی انقطاع اور صفائی قلب اللہ تعالیٰ کی نظر میں ان کو پسندیدہ بنا دیتی ہے اور وہ ان کو اصلاحِ خلق کے لیے برگزیدہ کر لیتا ہے.جیسے حاکم چاہتا ہے کہ اسے کارکن آدمی مل جاوے اور جب وہ کسی کارکن کو پالیتا ہے تو خواہ وہ انکار بھی کرے مگر وہ اسے منتخب کر ہی لیتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو مامور کرتا ہے وہ ان کے تعلقاتِ صافیہ اور صدق و وفا کی وجہ سے انہیں اس قابل پاتا ہے کہ انہیں اپنی رسالت کا منصب سپرد کرے.یہ بالکل سچی بات ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر ایک قسم کا جبر کیا جاتا ہے.وہ کوٹھڑیوں میں بیٹھ کر عبادت کرتے ہیں اور اسی میں لذّت پاتے ہیں اور چاہتے ہیںکہ کسی کو ان کے حال پر اطلاع نہ ہو مگر اللہ تعالیٰ جبراً ان کو کوٹھڑی سے باہر نکالتا ہے پھر ان میں ایک جذب رکھتا ہے اور ہزارہا مخلوق طبعاً ان کی الحکم جلد ۸ نمبر ۱۹، ۲۰ مورخہ ۱۰،۱۷؍جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۱،۲
طرف چلی آتی ہے.اگر فریب ہی کا کام ہو تو پھر وہ سر سبز کیوں ہو.پیر اور گدی نشین آرزو رکھتے ہیں کہ لوگ ان کے مرید ہوں اور ان کی طرف آویں مگر مامور اس شہرت کے خواہشمند نہیں ہوتے ہاں وہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ مخلوقِ الٰہی اپنے خالق کو پہچانے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرلے.وہ اپنے دل میں بخوبی سمجھتے ہیں کہ ہم کچھ چیز ہی نہیں ہیں.خدا تعالیٰ بھی ان کو ہی پسند کرتا ہے کیونکہ جب تک ایسا مخلص نہ ہو کام نہیں کر سکتا ہے.رِیاکار جو خدا کی جگہ اپنے آپ کو چاہتے ہیں وہ کیا کر سکتے ہیں اس لیے خدا ان کو پسند کرتا ہے کیونکہ وہ دنیا کے آسائش و آرام کے آرزو مند نہیں ہوتے.رِیاکاری ایک بہت بڑا گند ہے جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ریاکار انسان فرعون سے بھی بڑھ کر شقّی اور بد بخت ہوتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کو نہیں چاہتے بلکہ اپنی عزّت اور عظمت منوانا چاہتے ہیں لیکن جن کو خدا پسند کرتا ہے وہ طبعاً اس سے متنفّر ہوتے ہیں ان کی ہمّت اور کوشش اسی ایک اَمر میں صرف ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کا جلال ظاہر ہو اور دنیا اس سے واقف ہو.وہ ایسی حالت میں ہوتے ہیں اور پسند کرتے ہیں کہ دنیا ان کو نہ پہچان سکے مگر ممکن نہیں ہوتا کہ دنیا ان کو چھوڑ سکے کیونکہ وہ دنیا کے فائدہ کے لیے آتے ہیں.ان لوگوں کے جو دشمن اور مخالف ہوتے ہیں ان سے بھی ایک فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نشانات ان کے سبب سے ظاہر ہوتے ہیں اور حقائق و معارف کھلتے ہیں.ان کی چھیڑ چھاڑ سے عجیب عجیب انوار ظاہر ہوتے ہیں اگر ابوجہل وغیرہ نہ ہوتے تو قرآن شریف کے تیس سیپارے کیوںکر ہوتے؟ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سی فطرت والے ہی اگر سب ہوتے تو ایک دم میں وہ مسلمان ہوجاتے.ان کو کسی نشان اور معجزہ کی حاجت ہی نہ ہوتی.پس ہم ان مخالفوں کے وجود کو بھی بے مطلب نہیں سمجھتے.ان کی چھیڑ چھاڑ اللہ تعالیٰ کو غیرت دلاتی ہے اور اس کی نصرت اور تائیدات کے نشانات ظاہر ہوتے ہیں.غرض خدا کے ماموروں کا یہ خاص نشان ہوتا ہے کہ وہ اپنی پرستش کرانا نہیں چاہتے جس طرح پر وہ لوگ جو پیر بننے کے خواہشمند ہیں چاہتے ہیں.اگر کوئی شخص اپنی پوجا کرائے تو کیا وجہ ہے کہ دوسرے انسان کے بچے اس پوجا کے مستحق نہ ہوں؟ میںسچ کہتا ہوں کہ ایک مرید اس مرشد سے ہزار درجہ اچھا ہے جو مکر کی
گدی پر بیٹھا ہوا ہو کیونکہ مرید کے اپنے دل میں کھوٹ اور دغا نہیں ہے.خدا تعالیٰ اخلاص کو چاہتا ہے.ریا کاری پسند نہیں کرتا ہے.۱ ۹؍مئی ۱۹۰۴ء (بمقام گورداسپور) طاعون کا عذاب ایک ہندو رئیس کے بعض استفسارات کے جوابات حضرت اقدس حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام درختوں کے سایہ میں حسب معمول تشریف فرما تھے کہ دینانگر کے دو ہندو رئیس آپ کی زیارت کو تشریف لائے.ان کے ساتھ اور بھی چند آدمی تھے.انہوں نے نہایت ادب اور احترام کے ساتھ سلام عرض کیا اور پھر طاعون کی مصیبت کا رونا رونا شروع کیا اور کہا کہ بڑا اختلاف مذاہب کا ہوگیا ہے.ا س پر حضرت اقدس نے فرمایا.اس زمانہ میں نرا اختلافِ مذاہب ہی نہیں رہا.اختلافِ مذاہب کے سوا لوگوں نے خدا تعالیٰ کو بالکل چھوڑ دیا ہے اس لیے خدا تعالیٰ نے اپنی سنّت کے موافق یہ عذاب نازل کیا ہے.کیونکہ دنیا میں فسق و فجور بہت بڑھ گیا ہے.شرارتوں اور چالاکیوں کی کوئی حد نہیں رہی ہے.طاعون کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے بھیجا ہے جو اس کے نوکر کی طرح ہے.خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر تو ایک پتّا اور ذرّہ بھی حرکت نہیں کر سکتا.یہ اور بد بختی ہے کہ باوجودیکہ طاعون ایک خطرناک ڈرانے والا ہے مگرا س پر بھی خدا کی طرف توجہ نہیں کرتے اور خدا کی باتوں کو ہنسی اور ٹھٹھے میں اڑاتے ہیں.خدا سے نہیں ڈرتے اور دل پاک و صاف نہیں کرتے ہیں.خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ جب تک اہل دنیا اپنی اصلاح اور تبدیلی نہیں کریں گے اس وقت تک اس عذاب کو نہیں اٹھائے گا.میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کو اس طرف بھی بالکل توجہ نہیں ہے.جب کسی گاؤں یا شہر میں بیماری پڑتی ہے تو چند روز کے لیے ایک خوف پیدا ہوتا ہے
مگر وہ خوف بھی اللہ تعالیٰ کے واسطے نہیں اور نہ ایسا کہ اس کے ذریعہ کوئی اصلاح کریں بلکہ موت کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ہم بھی مَر نہ جاویں اور یہ جائیداد اور اسباب کسی دوسرے کے قبضہ میں نہ چلا جاوے.یونہی ذرا سا وقفہ ہوتا ہے پھر وہی شرارت اور شوخی اور نہیں ڈرتے کہ اس کے دورے بہت لمبے ہوتے ہیں.رئیس.جناب! بظاہر زمانہ اچھا بھی معلوم ہوتا ہے.اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ بھگتی وغیرہ بھی کرتے ہیں.حضرت اقدس.دل نہیں ہیں جو کچھ ہے پوست ہی پوست ہے.ظاہر داری کے طور پر اگر کچھ کیا جاتا ہے تو کیا جاتا ہے.دل والی روح ہی اَور ہوتی ہیں.ان کی آنکھیں صاف ہوتی ہیں.ان کی زبان صاف ہوتی ہے.ان کے چال چلن میں ایک خاص امتیاز ہوتا ہے.وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے لرزاں ترساں رہتے ہیں.نری زبان درازی سے کوئی اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتا.مجازی حکّام کو جو اصل حالات سے ناواقف ہیں کوئی خوش کر لیوے مگر اللہ تعالیٰ کی نظر تو دل پر ہے اور وہ دل کے مخفی در مخفی خیالات تک کو جانتا ہے.پس جب تک انسان سچے دل سے خدا تعالیٰ کی طرف نہیں آتا ریاکاری اور ظاہرداری سے کچھ نہیں بنتا.خدا تعالیٰ سچی تبدیلی چاہتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ابھی وہ پیدا نہیں ہوئی جب لوگ تبدیلی کریں گے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کچھ حصّہ بھی لوگوں کا درست ہو جاوے گا تو اللہ تعالیٰ رحم کرے گا.یہ تو اور بھی چالاکی ہے کہ لوگوں کے سامنے نیک بنتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑا متقی اور خدا ترس ظاہر کرتے ہیں اور اندرونی طور پر بڑی بڑی خرابیاں ان میں موجود ہوتی ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کے ظاہری بحث و مباحثہ میں ہزاروں مذہب پیدا ہوگئے ہیں مگر خدا تعالیٰ دیکھتا ہے کہ اس کے ساتھ معاملہ کیسا ہے؟ اگر اللہ تعالیٰ سے معاملہ صاف نہ ہو تو یہ چالاکیاں اور بھی خدا کے غضب کو بھڑکاتی ہیں.چاہیے تو یہ کہ انسان خدا کے ساتھ معاملہ صاف کرے اور پوری فرمانبرداری اور اخلاص کےساتھ اس کی طرف رجوع کرے اور اس کے بندوں کو بھی کسی قسم کی اذیت نہ دے.ایک شخص گیروی کپڑے پہن کر یا سبز لباس کر کے فقیر بن سکتا ہے اور دنیا دار اس کو فقیر بھی سمجھ لیتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ تو اس کو خوب جانتا ہے کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے اور وہ کیا کر رہا ہے.پس طاعون کا اصل اور صحیح علاج یہی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں سے توبہ کرے اور
اُس کی حد بندیوں کو نہ توڑے اور اس کی مخلوق کے ساتھ رحم کرے.بد معاملگی نہ کرے اور یہ سب کام اخلاص کے ساتھ کرے لوگوں کو دکھانے کی نیت سے نہ کرے.اگر اس قسم کی کوئی تبدیلی کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ رحم کے ساتھ اس پر نظر کرے گا.رئیس.جناب لوگ باہر جاتے ہیں اور اس کو بھی مفید سمجھتے ہیں مگر مولوی لوگ مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم گھروں سے نکلنے میں خدا کے ساتھ شرک کرتے ہو.مولویوں کے ایسے فتوے دینے سے بھی بہت سے لوگ ہلاک ہوئے ہیں.حضرت اقدس.اللہ تعالیٰ تو علاج سے منع نہیں کرتا ہے.علاج بھی اسی نے رکھے ہیں.فرمایا.لوگ دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے واسطے قسم قسم کے منصوبے کرتے ہیں اور ریاکاریوں سے کام لیتے ہیں.مگر جب تک خدا تعالیٰ کسی کو منتخب اور برگزیدہ نہ کرے کچھ نہیں ہوسکتا.دیکھو کسی کو بھوک پیاس لگتی ہے تو وہ روٹی کھاتا ہے یا پانی پیتا ہے.اسی طرح پر بیماریوں کے علاج بھی ہیں اور اشیاء میں خواص بھی اسی کے رکھے ہوئے ہیں.یہ مولویوں کی غلطی ہے جو ایسا کرتے ہیں اور لوگوں کو تباہ کرتے ہیں.خدا تو منع کرتا ہے کہ انسان عذاب کی جگہ پر نہ رہے لیکن ہاں جب بیماری شدت کے ساتھ پھیل جاوے تو یہ مناسب نہیں کہ انسان اس گاؤں یا شہر سے نکل کر کسی دوسرے گاؤں یا شہر میں جاوے اور یہ اس لیے منع ہے کہ جو لوگ وبازدہ گاؤں سے نکلتے ہیں وہ متاثر آب و ہوا سے نکل کر دوسری جگہ کو متاثر کرتے ہیں اور پھر بیمار ہو کر مَر جاتے ہیں.ایسا ہی یہ بھی منع ہے کہ جہاں وبا پڑی ہوئی ہو وہاں بھی کوئی آدمی تندرست جگہ سے نہ جاوے لیکن یہ کبھی منع نہیں ہے کہ لوگ اپنے گھروں سے نکل کر باہر کھلے میدانوں میں اور کھیتوں میں نہ جاویں یہ بلکہ ضروری ہے اور اس سے عموماً فائدہ پہنچتا ہے.جہاں طاعون ہو فوراً اس گھر کو خالی کر دینا چاہیے اور باہر کھیتوں یا کھلے میدانوں میں بے شک چلے جاؤ بلکہ ایسا کرنا ضروری ہے.رئیس.جناب تعجب ہی ہے کہ خدا کے ہوتے ہوئے یہ غضب ہو رہا ہے.حضرت اقدس.یہ خدا تعالیٰ کی باتیں ہیں ان میں دخل نہیں دینا چاہیے.خدا نے تو خود دنیا پر
صفائی نہیں کرتے.سچی تبدیلی کا ارادہ نہیں معلوم ہوتا.ورنہ پھر وہی شوخی اور بے باکی کیوں نظر آرہی ہے.اگر سچی تبدیلی ہو تو ممکن نہیںکہ طاعون نہ ہٹ جائے.تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف جب میں کہتا ہوں کہ سچی تبدیلی کرو اور استغفار کرو.خدا تعالیٰ سے صلح کرو تو میری ان باتوں پر ہنسی کرتے ہیں اور ٹھٹھے اڑاتے ہیں اور اب خود بھی دعا ہی اس کا علاج بتاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ طاعون ان کے ہی سبب سے آیا ہے کیونکہ انہوںنے جھوٹے دعوے کئے تھے.مجھے ان کی اس بات پر بھی تعجب اور افسوس آتا ہے کہ میں تو جھوٹے دعوے کر کے سلامت بیٹھا ہوں حالانکہ بقول ان کے طاعون میرے ہی سبب سے آیا ہے اور مجھے ہی حفاظت کا وعدہ دیا جاتا ہے.یہ عجیب معاملہ ہے.یہ بات تو ان عدالتوں میں بھی نہیں ہوتی کہ صریح ایک مجرم ہو وہ چھوڑ دیا جاوے اور بے گناہ کو پھانسی دے دی جاوے.پھر کیا خدا تعالیٰ کی خدائی ہی میں یہ اندھیر اور ظلم ہے کہ جس کے لیے طاعون بھیجا جاوے وہ تو محفوظ رہے اورا س کو سلامتی کا وعدہ دیا جاوے اور وہ ایک نشان ہو اور دوسرے لوگ مَرتے رہیں.میں کہتا ہوں اسی ایک بات کو لے کر کوئی شخص انصاف کرے اور بتاوے کہ کیا ہوسکتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر افترا کرے وہ سلامت رہے اور اس کو یہ وعدہ دیا جائے کہ تیرے گھر میں جو ہوگا وہ بھی بچایا جاوے گا اور دوسروں پر چُھری چلتی رہے؟ یہ تو وہی شیعوں کی سی بات ہے.وہ کہتے ہیں کہ نبوت دراصل حضرت علیؓ کو ملنی تھی اور انہیں کے واسطے جبریل لائے تھے مگر غلطی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی اور تئیس سال تک برابر یہ غلطی چلی گئی اور اس کی اصلاح نہ ہوئی.ایسا ہی اب بھی غلطی لگ گئی.جن کی حفاظت کرنی تھی وہ تو مَر رہے ہیں اور جو حفاظت کے لائق نہ تھے ان کی حفاظت کا وعدہ ہوگیا!!! بھلا اس قسم کی باتوں پر کوئی تسلی پا سکتا ہے.طاعون سے معجزانہ حفاظت ایک امرتسری ملّا کا ذکر آیا کہ وہ کہتا ہے کہ ایک سال گذر گیا تو کیا ہوا.ابھی آگے دیکھنا چاہیے.فرمایا.وہ تو ایک سال کا کہتا ہے ہم تو یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ بالکل سچا الحکم جلد ۸ نمبر ۱۹، ۲۰ بابت ۱۰،۱۷؍جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۲،۳
ہے اور اس کے دورے تو ستّر ستّر سال تک ہوتے ہیں.وہ منتظر رہیں اور دیکھیں کیا ہوتا ہے.ہم بھی ان کےساتھ انتظار کرتے ہیں.وہ ہماری نسبت اگر کوئی خبر خدا سے پاچکے ہیں تو شائع کر دیں.ہم کو تو جو کچھ خدا نے بتایا ہے ہم نے تو اس کو شائع کر دیا ہے اور دنیا کو معلوم ہوگیا ہے.وہ صبر کے ساتھ اب انجام تک دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے.یہ لوگ ہماری نسبت طرح طرح کی گردشیں چاہتے ہیں.وہ آخر ان پر ہی لوٹ کر پڑتی ہیں.ایک بٹالوی مولوی نے ایک مرتبہ کہا کہ قادیان میں طاعون پڑی ہوئی ہے اور خود اُن کو بھی گلٹی نکلی ہوئی ہے.یہ ان کی امانی ہیں.کیا گلٹی اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر نکل سکتی ہے؟ جب تک آسمان پر ایک تغیّر نہ ہو زمین پر کچھ نہیںہو سکتا.ان دنوں جب قادیان میں طاعون پڑی ہوئی تھی ہم خدا تعالیٰ کی قدرت کا عجیب نظارہ دیکھ رہے تھے.ہمارے گھر کے ادھر ادھر سے چیخیں آتی تھیں اور ہمارا گھر درمیان میں اس طرح تھا جیسے سمندر میں کشتی ہوتی ہے.اُس نے محض اپنے فضل و کرم سے اسے محفوظ رکھا جیسا اس نے فرمایا تھا اور آئندہ بھی ہم اس کے فضل و کرم سے یقین رکھتے ہیں کہ وہ ہماری حفاظت فرمائے گا.ہندوؤں کے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا اس کے بعد ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا ہندوؤں کے ہاتھ کا کھانا درست ہے؟ فرمایا.شریعت نے اس کو مباح رکھا ہے.ایسی پابندیوں پر شریعت نے زور نہیں دیا بلکہ شریعت نے تو قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا(الشّمس: ۱۰) پر زور دیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آرمینیوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں کھا لیتے تھے اور بغیر اس کے گذارہ بھی تو نہیں ہوتا ہے.تسبیح شماری ایک شخص نے تسبیح کے متعلق پوچھا کہ تسبیح کرنے کے متعلق حضور کیا فرماتےہیں؟ فرمایا.تسبیح کرنے والے کا اصل مقصود گنتی ہوتا ہےا ور وہ اس گنتی کو پورا کرنا چاہتا ہے.اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ یا تو وہ گنتی پوری کرے اور یا توجہ کرے اور یہ صاف بات ہے کہ گنتی کو پوری کرنے کی فکر کرنے والا سچی توبہ کر ہی نہیں سکتا ہے.انبیاء علیہم السلام اور کاملین لوگ
جن کو اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذوق ہوتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں فنا شدہ ہوتے ہیں انہوں نے گنتی نہیں کی اور نہ اس کی ضرورت سمجھی.اہلِ حق تو ہر وقت خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں.ان کے لیے گنتی کا سوال اور خیال ہی بیہودہ ہے.کیا کوئی اپنے محبوب کا نام گن کر لیا کرتا ہے؟ اگر سچی محبت اللہ تعالیٰ سے ہو اور پوری توجہ اِلَی اللہ ہو تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ پھر گنتی کا خیال پیدا ہی کیوں ہوگا.وہ تو اسی ذکر کو اپنی روح کی غذا سمجھے گا اور جس قدر کثرت سے کرے گا زیادہ لطف اور ذوق محسوس کرے گا اور اس میں اور ترقی کرے گا لیکن اگر محض گنتی مقصود ہوگی تو وہ اسے ایک بیگار سمجھ کر پورا کرنا چاہے گا.۱ نماز کے بعد تسبیح حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بمقام گورداسپور احاطہ کچہری میں ایک صاحب نے پوچھا کہ بعد نماز تسبیح لے کر ۳۳ مرتبہ اللہ اکبروغیرہ جو پڑھا جاتا ہے.آپ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ حسبِ مراتب ہوا کرتا تھا اور اسی حفظِ مراتب نہ کرنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو مشکلات پیش آئی ہیں اور انہوں نے اعتراض کر دیا ہے کہ فلاں دو احادیث میں باہم اختلاف ہے.حالانکہ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ وہ تعلیم بلحاظ محل اور موقع کے ہوتی تھی مثلاً ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ نیکی کیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہے کہ اس میں یہ کمزوری ہے کہ ماں باپ کی عزّت نہیں کرتا.آپ نے فرمایا کہ نیکی یہ ہے کہ تو ماں باپ کی عزّت کر.اب کوئی خوش فہم اس سے یہ نتیجہ نکال لے کہ بس اور تمام نیکیوں کو ترک کر دیا جاوے یہی نیکی ہے.ایسا نہیں.اسی طرح پر تسبیح کے متعلق بات ہے.قرآن شریف میں تو آیا ہے وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (الانفال: ۴۶) اللہ کا بہت ذکر کرو تا کہ تم فلاح پاؤ.اب یہ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا نماز کے بعد ہی ہے تو ۳۳ مرتبہ تو کثیر کے اندر نہیں آتا.پس یاد رکھو کہ ۳۳ مرتبہ والی بات حسب مراتب ہے ورنہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو سچے ذوق اور لذّت سے یاد کرتا ہے، اسے شمار سے
کیا کام.وہ تو بیرون از شمار یاد کرے گا.ایک عورت کا قصّہ مشہور ہے کہ وہ کسی پر عاشق تھی.اس نے ایک فقیر کو دیکھا کہ وہ تسبیح ہاتھ میں لیے ہوئے پھیر رہا ہے.اس عورت نے اس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے.اس نے کہا کہ میں اپنے یار کو یاد کرتا ہوں.عورت نے کہا کہ یار کو یاد کرنا اور پھر گِن گِن کر.درحقیقت یہ بات بالکل سچی ہے کہ یار کو یاد کرنا ہو تو پھر گِن گِن کر کیا یاد کرنا ہے اور اصل بات یہی ہے کہ جب تک ذکرِ الٰہی کثرت سے نہ ہو وہ لذّت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھا گیا ہے حاصل نہیں ہوتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ۳۳ مرتبہ فرمایا ہے وہ آنی اور شخصی بات ہوگی، کوئی شخص ذکر نہ کرتا ہوگا تو آپؐنے اسے فرما دیا کہ ۳۳ مرتبہ کر لیا کر.اور یہ جو تسبیح ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں یہ مسئلہ بالکل غلط ہے.اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے آشنا ہو تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ آپؐنے کبھی ایسی باتوں کا التزام نہیں کیا.وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا تھے.انسان کو تعجب آتا ہے کہ کس مقام اور درجہ پر آپ پہنچے تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیںکہ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے.رات کو جو میری آنکھ کھلی تومیں نے آپؐکو اپنے بستر پر نہ پایا.مجھے خیال گذرا کہ کسی دوسری بیوی کے گھر میں ہوں گے.چنانچہ میں نے سب گھروں میں دیکھا مگر آپؐکو نہ پایا.پھر میں باہر نکلی تو قبرستان میں دیکھا کہ آپ سفید چادر کی طرح پر زمین پر پڑے ہوئے ہیں اور سجدہ میں گرے ہوئے کہہ رہے ہیں سَـجَدَ لَکَ رُوْحِیْ وَ جَنَانِیْ.اب بتاؤ کہ یہ مقام اور مرتبہ ۳۳ مرتبہ کی دانہ شماری سے پیدا ہو جاتا ہے.ہرگزنہیں.جب انسان میں اللہ تعالیٰ کی محبت جوش زن ہوتی ہے تو اس کا دل سمندر کی طرح موجیں مارتا ہے.وہ ذکر الٰہی کرنے میں بے انتہا جوش اپنے اندر پاتا ہے اور پھر گِن کر ذکر کرنا تو کفر سمجھتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ عارف کے دل میں جو بات ہوتی ہے اور جو تعلق اپنے محبوب و مولا سے اسے ہوتا ہے وہ کبھی روا رکھ سکتا ہی نہیںکہ تسبیح لے کر دانہ شماری کرے.کسی نے کہا ہے من کا منکا صاف کر.انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کو صاف کرے اور خد اتعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرے.تب وہ
کیفیت پیدا ہوگی اور وہ ان دانہ شماریوں کو ہیچ سمجھے گا.تعداد رکعات پھر پوچھا گیا کہ نمازوں میں تعداد رکعات کیوں رکھی ہے؟فرمایا.اس میں اللہ تعالیٰ نے اور اسرار رکھے ہیں.جو شخص نماز پڑھے گا وہ کسی نہ کسی حد پر تو آخر رہے گا ہی اور اسی طرح پر ذکر میں بھی ایک حد تو ہوتی ہے لیکن وہ حد وہی کیفیت اور ذوق و شوق ہوتا ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے.جب وہ پیدا ہو جاتی ہے تو وہ بس کر جاتا ہے.دوسرے یہ بات حال والی ہے قال والی نہیں.جو شخص اس میں پڑتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے.اصل غرض ذکرِ الٰہی سے یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا رہے اس طریق پر وہ گناہوں سے بچا رہے گا.تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک تاجر نے ستّر ہزار کا سودا لیا اور ستّر ہزار کا دیا مگر وہ ایک آن میں بھی خدا سے جدا نہیں ہوا.پس یاد رکھو کہ کامل بندے اللہ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا لَا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ (النّور:۳۸) جب دل خدا کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں.اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے، کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا.اسی طرح پر جو لوگ خدا کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں.وہ کسی حال میں بھی خدا کو فراموش نہیں کرتے.یہی وجہ ہے کہ صوفی کہتے ہیں کہ عام لوگوں کے رونے میں اتنا ثواب نہیں ہے جتنا عارف کے ہنسنے میں ہے.وہ بھی تسبیحات ہی ہوتی ہیں کیونکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے عشق اور محبت میں رنگین ہوتا ہے.یہی مفہوم اور غرض اسلام کی ہے کہ وہ آستانہءِ الوہیت پر اپنا سر رکھ دیتا ہے.۱ ۱۶؍مئی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور اعلیٰ حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام احاطہ کچہری میں رونق افروز تھے.وقتاً فوقتاً جو کچھ آپ نے فرمایا ہدیہ ناظرین ہے.(ایڈیٹر الحکم)
دنیا کی مشکلات اور تلخیاں دنیا کی تلخیوں اور عام ناکامیوں پر فرمایاکہ مثنوی میں لکھا ہے.؎ دشت دنیا جزدد و جز دام نیست جز بخلوت گاہِ حق آرام نیست فرمایا.دنیا کی مشکلات اور تلخیاں بہت ہیں.یہ ایک دشت پُر خار ہے.اس میں سے گذرنا ہرشخص کا کام نہیں ہے.گذرنا تو سب کو پڑتا ہے لیکن راحت اور اطمینان کے ساتھ گذر جانا یہ ہر ایک شخص کو میسر نہیں آسکتا.یہ صرف ان لوگوں کا حصّہ ہے جو اپنی زندگی کو ایک فانی اور لاشَے سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے لیے اسے وقف کر دیتے ہیں اور اس سے سچا تعلق پیدا کر لیتے ہیں.ورنہ انسان کے تعلقات ہی اس قسم کے ہوتے ہیںکہ کوئی نہ کوئی تلخی اس کو دیکھنی پڑتی ہے.بیوی اور بچے ہوں تو کبھی کوئی بچہ مَر جاتا ہے تو صدمہ برداشت کرتا ہے.لیکن اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہو تو ایسے ایسے صدمات پر ایک خاص صبر عطا ہوتا ہے جس سے وہ گھبراہٹ اور سوزش پیدا نہیں ہوتی جو ان لوگوں کو ہوتی ہے جن کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.پس جو لوگ اللہ تعالیٰ کے منشا کو سمجھ کر اس کی رضا کے لیے اپنی زندگی کو وقف کرتے ہیں.وہ بے شک آرام پاتے ہیں ورنہ ناکامیاں اور نامرادیاں زندگی تلخ کر دیتی ہیں.ایک کتاب میں ایک عجیب بات لکھی ہے کہ ایک شخص سڑک پر روتا ہوا چلا جا رہا تھا.راستہ میں ایک ولی اللہ اس سے ملے.انہوں نے پوچھا کہ تو کیوں روتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میرا دوست مَر گیا ہے.اس نے جواب دیا کہ تجھ کو پہلے سوچ لینا چاہیے تھا.مَرنے والے کے ساتھ دوستی ہی کیوں کی؟ دنیا عجیب مشکلات کا گھر ہے.بیوی بچوں کے نہ ہونے سے بھی غم ہوتا ہے اور اگر ہوں تب بھی مشکلات پیدا ہوتے ہیں.ان کی ضروریات کے پورا کرنے کے لیے بعض نادان انسان عجیب عجیب مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے اور صراط مستقیم سے ہٹ کر ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مال بہم پہنچاتا ہے اور پھر اور مشکلات میں پھنستا ہے.ایک فقیر ننگ دھڑنگ جس کے پاس ستر پوشی کےسوا اور کوئی کپڑا تک نہ تھا خوش و خرم کھیلتا کودتا جا رہا تھا.کسی سوار نے اس سے پوچھا کہ سائیں صاحب آپ
ایسے خوش کیوں ہیں؟ اس نے کہا کہ جس کی مرادیں حاصل ہو جائیں وہ خوش ہوتا ہے یا نہیں؟ سوار نے کہا کہ تیری ساری مرادیں کس طرح پوری ہوگئی ہیں؟ اس نےکہا کہ جب خواہشیں چھوڑ دیں تو مرادیں پوری ہوگئیں.بات بالکل ٹھیک ہے.انسان دو طرح ہی خوش ہو سکتا ہے یا تو حصولِ مُراد کے ساتھ یا ترکِ مُراد کے ساتھ اور ان میں سہل طریق ترکِ مُراد کا ہے.اصل بات یہ ہے کہ سب کی زندگی تلخ ہے بجز اس کے جو اس دنیا کے علاقوں سے الگ ہے.یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات بادشاہوں نے بھی ان تلخیوں اور ناکامیوں سے عاجز آکر خود کشی کر لی ہے.لذّات دنیا کی مثال دنیا کی لذّت خارش کی طرح ہے.ابتداء ً لذّت آتی ہے.پھر جب کھجلاتا رہتا ہے تو زخم ہو کر اس میں سے خون نکل آتا ہے یہاں تک کہ اس میں پیپ پڑ جاتی ہے اور وہ ناسور کی طرح بن جاتا ہے اور اس میں درد بھی پیدا ہوجاتا ہے.حقیقت یہی ہے کہ یہ گھر بہت ہی ناپائیدار اور بے حقیقت ہے.مجھے کئی بار خیال آیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی مُردے کو اختیار دیدے کہ وہ پھر دنیا میں چلا جاوے تو وہ یقیناً توبہ کر اٹھے کہ میں اس دنیا سے باز آیا.خدا تعالیٰ پرسچا ایمان ہو تو انسان ان مشکلاتِ دنیا سے نجات پا سکتا ہے کیونکہ وہ درد مندوں کی دعاؤں کو سن لیتا ہے مگر اس کے لیے یہ شرط ہے کہ دعائیں مانگنے سے انسان تھکے نہیں تو کامیاب ہوگا اور اگر تھک جاوے گا تو نری ناکامی نہیں بلکہ ساتھ بے ایمانی بھی ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے بدظن ہو کر سلبِ ایمان کر بیٹھے گا.مثلاً ایک شخص کو اگر کہا جاوے کہ تو اس زمین کو کھود خزانہ نکلے گا مگر وہ دوچار پانچ ہاتھ کھودنے کے بعد اسے چھوڑ دے اور دیکھے کہ خزانہ نہیں نکلا تو وہ اس نامُرادی اور ناکامی پر ہی نہ رہے گا بلکہ بتانے والے کو بھی گالیاں دے گا حالانکہ یہ اس کی اپنی کمزوری اور غلطی ہے جو اس نے پورے طور پر نہیں کھودا.اسی طرح جب انسان دعا کرتا ہے اور تھک جاتا ہے تو اپنی نامُرادی کو اپنی سستی اور غفلت پر تو حمل نہیں کرتا بلکہ خدا تعالیٰ پر بد ظنّی کرتا ہے اور آخر بے ایمان ہوجاتا ہے ۱ الحکم جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۲،۳ و البدر جلد ۳ نمبر ۲۰، ۲۱ مورخہ ۲۴؍مئی و یکم جون ۱۹۰۴ءصفحہ ۹،۱۰
اور آخر دہریہ ہوکر مَرتا ہے.نیم ملّاں خطرہ ایمان جہاں حضور بیٹھے ہوئے تھے وہاں سامنے ایک آم کا درخت تھا جس کو کچے پھل لگے ہوئے تھے.ان کو دیکھ کر فرمایا.دیکھو اس آم کو پھل لگا ہوا ہے مگر یہ کچا پھل ہے اگر کوئی اس کو کھانے بیٹھ جاوے اور اس کو ہی اصل مقصد سمجھ لے تو بجز اس کے کہ اس کے کھانے سے پھنسیاں وغیرہ نکل آویں کچھ فائدہ نہیں ہوگا.اسی طرح پر نیم ملّاں خطرہ ایمان والی مثال سچ ہے.نارسیدہ منزل کا کچے پھل کی طرح ہوتا ہے.وہ جو کسی کو بات سنائے گا تو اسے گمراہ کرے گا اور اگر خود کرے گا تو آپ گمراہ ہوگا.خدا تعالیٰ کی راہ میں جب تک انسان بہت سی مشکلات اور امتحانات میں پورا نہ اترے وہ کامیابی کا سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کر سکتا.اسی لیے فرمایا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ(العنکبوت:۳) کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ محض اتنی ہی بات پر راضی ہو جاوے کہ وہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہ جاویں.ایسے لوگ جو اتنی بات پر اپنی کامیابی سمجھتے ہیں وہ یاد رکھیں انہیں کے لیے دوسری جگہ آیا ہے وَ مَا هُمْ بِـمُؤْمِنِيْنَ(البقرۃ:۹) اور ایسا ہی ایک جگہ فرمایا قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا١ؕ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا (الـحجرات:۱۵) یعنی تم یہ نہ کہو کہ ایماندار ہوگئے بلکہ یہ کہو کہ ہم نے مقابلہ چھوڑ دیا ہے اور اطاعت اختیار کر لی ہے.بہت سے لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں.کامل ایماندار بننے کے لیے مجاہدات کی ضرورت ہے اور مختلف ابتلاؤں اور امتحانوں سے ہو کر نکلنا پڑتا ہے.؎ گویند سنگ لعل شود در مقام صبر آرے شود و لیک بخونِ جگر شود فوٹو گرافی منشی نظیر حسین صاحب نے سوال کیا کہ میں فوٹو کے ذریعہ تصویریں اتارا کرتا تھا.اور دل میں ڈرتا تھا کہ کہیں یہ خلافِ شرع نہ ہو لیکن جناب کی تصویر دیکھ کر یہ وہم جاتا رہا.فرمایا.
اِنَّـمَا الْاَعْـمَال بِالنِّیَّاتِ.ہم نے اپنی تصویر محض اس لحاظ سے اتروائی تھی کہ یورپ کو تبلیغ کرتے وقت ساتھ تصویر بھیج دیں کیونکہ ان لوگوں کا عام مذاق اس قسم کا ہوگیا ہے کہ وہ جس چیز کا ذکر کرتے ہیں ساتھ ہی اس کی تصویر دیتے ہیں جس سے وہ قیافہ کی مدد سے بہت سے صحیح نتائج نکال لیتےہیں.مولوی لوگ جو میری تصویر پر اعتراض کرتے ہیں وہ خود اپنے پاس روپیہ پیسہ کیوں رکھتے ہیں کیا ان پر تصویریں نہیں ہوتی ہیں؟ اسلام ایک وسیع مذہب ہے.اس میں اسلام کا مدار نیّات پر رکھتا ہے.بدر کی لڑائی میں ایک شخص میدانِ جنگ میں نکلا جو اِترا کر چلتا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو یہ چال بہت بُری ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.وَ لَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا(بنی اسـرآءیل:۳۸) مگر اس وقت یہ چال خدا تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہے کیونکہ یہ اس کی راہ میں اپنی جان تک نثار کرتا ہے اور اس کی نیت اعلیٰ درجہ کی ہے.غرض اگر نیت کا لحاظ نہ رکھا جاوے تو بہت مشکل پڑتی ہے.اسی طرح پر ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جن کا تہ بند نیچے ڈھلکتا ہے وہ دوزخ میں جاویں گے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ سن کر رو پڑے کیونکہ ان کا تہ بند بھی ویسا تھا.آپؐنے فرمایا کہ تُو ان میں سے نہیں ہے.غرض نیت کو بہت بڑا دخل ہے اور حفظِ مراتب ضروری شَے ہے.منشی نظیر حسین صاحب.میں خود تصویر کشی کرتا ہوں.اس کے لیے کیا حکم ہے؟ فرمایا.اگر کفر اور بُت پرستی کو مدد نہیں دیتے تو جائز ہے.آجکل نقوش و قیافہ کا علم بہت بڑھا ہوا ہے.۱ بِلا تاریخ ۱ الحکم جلد ۸ نمبر ۱۹، ۲۰ مورخہ ۱۰،۱۷؍جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۱
اہل اللہ اور رِیا حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں نے حضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھا کہ کیا کبھی ممکن ہو سکتا ہے کہ آپ میں بھی ریا آوے؟اس پر فرمایا.کبھی چڑیا خانہ گئے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں.فرمایا.دیکھو! وہاں شیر، چیتے اور دوسرے حیوانات ہوتے ہیں.کبھی یہ خیال وہاں جا کر دل میں آسکتا ہے کہ ان کے سامنے لمبی لمبی نمازیں پڑھیں؟ کبھی یہ خیال وہاں جا کر رِیاکار سے رِیاکار کے دل میں بھی نہیں آسکتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خوب جانتا ہے کہ یہ حیوانات ہماری جنس سے تو نہیں ہیں تو پھر رِیا کہاں رہی.ریا تو ہم جنسوں سے ہوتی ہے تو اہل اللہ کس سے رِیا کریں.ان کے سامنے دوسرے لوگوں کی وہی مثال ہے جیسے چڑیا خانہ میں جانور بھرے ہوئے ہیں.اپنے الہامات پر کامل ایمان مولانا موصوف نے فرمایا کہ ایک دن کی مجھے بات یاد ہے کہ کسی نے ذکر کیا کہ منشی الٰہی بخش اور اس کا ترجمان منشی عبد الحق کہتا ہے کہ الہام وہ ہے جو پورا ہوجاوے اور جو نہ ہووے وہ شیطانی کام ہے.حضرت نے فرمایا کہ مکہ معظمہ میں داخل ہو کر اگر خدا تعالیٰ کی قسم دی جاوے تو میں کہوں گا کہ میرے الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں لیکن جس شخص نے خیالی طور پر دعویٰ کیا ہو وہ ہرگز یہ جرأت نہیں کر سکتا.کبھی وہ شخص جو کامل یقین رکھتا ہے اور وہ جو مشکوک ہے برابر ہو سکتےہیں؟ عہد دوستی مولانا موصوف نے کہا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس نے خاص طور پر مجھے مخاطب کر کے فرمایا.’’میرے خُلق کی پیروی کر‘‘ میں نے عرض کی کہ دعا کرو.
فرمایا کہ اگر کسی نے ایک بار میرے ساتھ عہد دوستی باندھا ہو تو مجھے اس قدر اس کی رعایت ہوتی ہے کہ اگر اس نے شراب پی ہوئی ہو تو بھی میں بِلا خوف لَوْمَۃَ لَائِمٍ اسے اٹھا لاؤں گا.یعنی جب تک وہ خود ترک نہ کرے ہم خود نہ چھوڑیں گے.پس اگر کوئی اپنے بھائیوںکو ترک کرے گا وہ سخت گنہگار ہوگا.اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ مولانا موصوف کہتے ہیںکہ ایک مرتبہ حضرت اقدس نے فرمایا کہ مومن، مومن کبھی نہیں ہوسکتا جب تک کہ کفر اس سے مایوس نہ ہو جاوے.فتح مسیح کو ایک بار ہم نے رسالہ بھیجا.اس پر اس نے لکیریں کھینچ کر واپس بھیج دیا اور لکھا کہ جس قدر دل آپ نے دکھایا ہے کسی اور نے نہیں دکھایا.دیکھو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن نے خود اقرار کر لیا کہ ہمارا دل دکھا.پس ایسی مضبوطی ایمان میں پیدا کرو کہ کفر مایوس ہوجاوے کہ میرا قابو نہیں چلتا.اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ (الفتح: ۳۰)کے یہ معنے بھی ہیں.قبولیت دعا کی شرط طاعون کا ذکر تھا.کثرتِ اموات پر ذکر کرتے کرتے فرمایا.دعائیں کرتے رہو.بجز اس کے انسان مَکْرُ اللہ سے بچ نہیں سکتا.مگر دعاؤں کی قبولیت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے، تو دعاؤں میں کوئی اثر نہیں رہتا.خدا تعالیٰ کی شناخت کا وقت فرمایا.اس وقت دنیا میں خدا تعالیٰ کا وجود ثابت ہو رہا ہے، اگرچہ لوگ برائے نام خدا تعالیٰ کے قائل تھے مگر اصل بات یہ ہے کہ ایک قسم کی دہریت پھیل رہی تھی اور خدا تعالیٰ سے بکلّی دور جا پڑے ہیں مگر اب وقت آگیا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں.خدا تعالیٰ کے اوامر و نواہی کو توڑنا اس سے بڑھ کر خباثت کیا ہوگی.یہ تو اس کا مقابلہ ہے.۱
۲۰؍مئی ۱۹۰۴ء (بمقام گورداسپور ) حضرت مسیح موعودؑ کی ایک تقریر کا خلاصہ.یہ تقریر حضرت اقدسؑ نے بمقام گورداسپور ۲۰؍مئی ۱۹۰۴ء کو بعد نمازِ عصر کی تھی.تحریک کا باعث چند احبابحیدر آباد دکن کے تھے جنہوں نے اس دن حضورؑ سے شرف بیعت حاصل کیا تھا.نومبائعین کو نصائح آپ نے جو مجھ سے آج تعلق بیعت کیا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ کچھ بطور نصیحت چند الفاظ تمہیں کہوں.یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کی زندگی کا کچھ اعتبار نہیں اگر کوئی شخص خدا پر ایمان رکھے اور پھر قرآن کریم پر غور کرے کہ خدا تعالیٰ نے کیا کچھ قرآن کریم میں فرمایا ہے تو وہ شخص دیوانہ وار دنیا کو چھوڑ خدا تعالیٰ کا ہوجاوے.یہ بالکل سچ کہا گیا ہے کہ دنیا روزے چند عاقبت باخداوند.اب خدا کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ جوشخص خدا کی طرف آنا چاہتا ہے اور فی الواقع اس کا دل ایسا نہیں کہ اس نے دین کو دنیا پر مقدم کیا ہو تو وہ خدا کے نزدیک قابلِ سزا ٹھہرتا ہے.ہم اس دنیا میں دیکھتے ہیںکہ اس کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے جب تک کافی حصّہ اپنا ان کی طلب میں خرچ نہ کر دیں وہ مقاصد حاصل ہونے ناممکن ہیں.مثلاً اگر طبیب ایک دوائی اور اس کی ایک مقدار مقرر کر دے اور ایک بیمار وہ مقدار دوائی کی تو نہیں کھاتا بلکہ تھوڑا حصّہ اس دوائی کا استعمال کرتا ہے تو اس کو کیا فائدہ اس سے ہوگا؟ ایک شخص پیاسا ہے تو ممکن نہیںکہ ایک قطرہ پانی سے اس کی پیاس دور ہو سکے.اسی طرح جو شخص بھوکا ہے وہ ایک لقمہ سے سیر نہیں ہوسکتا.اسی طرح خدا تعالیٰ یا اس کے رسول پر زبانی ایمان لے آنا یا ایک ظاہراً رسم کے طور پر بیعت کر لینا بالکل بے سُود ہے.جب تک انسان پوری طاقت سے خدا تعالیٰ کی راہ میں نہ لگ جاوے.نفس کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ انسان پورے طور پر وہ حصّہ لے جو روحانی زندگی کے لیے ضروری ہے.صرف یہ خیال کہ میں مسلمان ہوں کافی نہیں.میں نصیحت کرتا ہوں کہ آپ نے جو تعلق مجھ سے پیدا کیا ہے (خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈالے) اس کو بڑھانے اور مضبوط کرنے کی فکر میں ہر وقت لگے رہیں لیکن یاد رہے کہ صرف
اقرار ہی کافی نہیں جب تک عملی رنگ سے اپنے آپ کو رنگین نہ کیا جاوے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ(العنکبوت:۳) یعنی کیا انسانوں نے گمان کر لیا ہے کہ ہم صرف اٰمَنَّا ہی کہہ کر چھٹکارا پالیں گے اور کیا وہ آزمائش میں نہ ڈالے جاویں گے.سو اصل مطلب یہ ہے کہ یہ آزمائش اسی لیے ہے کہ خدا تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا ایمان لانے والے نے دین کو ابھی دنیا پر مقدم کیا ہے یا نہیں.آج کل اس زمانہ میں جب لوگ خدا کی راہ کو اپنے مصالح کے برخلاف پاتےہیں یا بعض جگہ حکّام سے ان کو کچھ خطرہ ہوتا ہے تو وہ خدا کی راہ سے انکار کر بیٹھتے ہیں ایسے لوگ بے ایمان ہیں.وہ نہیں جانتے کہ فی الواقع خدا ہی احکم الحاکمین ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ خدا کی راہ بہت دشوار گذار ہے اور یہ بالکل سچ ہے کہ جب تک انسان خدا کی راہ میں اپنی کھال اپنے ہاتھ سے نہ اتار لے تب تک وہ خدا کی نگاہ میںمقبول نہیں ہوتا.ہمارے نزدیک بھی ایک بےوفا نوکر کسی قدر و منزلت کے قابل نہیں.جو نوکر صدق اور وفا نہیں دکھلاتا وہ کبھی قبولیت نہیں پاتا.اسی طرح جنابِ الٰہی میں وہ شخص پرلے درجہ کا بے ادب ہے جو چند روزہ دنیوی منافع پر نگاہ رکھ کر خدا کو چھوڑتا ہے.بیعت کی حقیقت بیعت سے مُراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے.اس سے مُراد یہ ہے کہ ہم نے اپنی جان آج خدا کے ہاتھ بیچ دی.یہ بالکل غلط ہے کہ خدا کی راہ میں چل کر انجام کار کوئی شخص نقصان اٹھاوے.صادق کبھی نقصان نہیں اٹھا سکتا.نقصان اسی کا ہے جو کاذب ہے.جو دنیا کے لیے بیعت کو اور عہد کو جو اللہ تعالیٰ سے اس نے کیا ہے توڑ رہا ہے.وہ شخص جو محض دنیا کے خوف سے ایسے امور کا مرتکب ہو رہا ہے.وہ یاد رکھے کہ بوقتِ موت کوئی حاکم یا بادشاہ اسے نہ چھڑا سکے گا.اس نے احکم الحاکمین کے پاس جانا ہے جو اس سے دریافت کرے گا کہ تو نے میرا پاس کیوں نہیں کیا؟ اس لیے ہر مومن کے لیے ضروری ہے کہ خدا جو مَلِكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ہے اس پر ایمان لاوے اور سچی توبہ کرے.اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اَمر بھی یونہی حاصل نہیںہوتا ہے.خدا ہی یہ اَمر دل میں بٹھائے تو بیٹھ سکتا ہے.سو اس کے لیے دعا بکار ہے.جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدق سے قدم اٹھاتا ہے اس کو عظیم الشان طاقت اور خارقِ عادت قوت دی
جاتی ہے.مومن کے دل میں ایک جذب ہوتا ہے کہ جس قوتِ جاذبہ کے ذریعہ وہ دوسروں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.میں تمہیں سمجھ سکتا اگر تم میں جذبِ محبت خدا کی راہ میں کافی ہو تو پھر کیوں لوگ تمہاری طرف نہ کھنچے آویں اور کیوں نہ تم میں ایک مقناطیسی طاقت نہ ہو جاوے.دیکھو! قرآن میں سورۃ یوسف میں آیا ہے وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ١ۚ وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ (یوسف:۲۵) یعنی جب زلیخا نے یوسف کا قصد کیا یوسف بھی زلیخا کا قصد کرتا اگر ہم حائل نہ ہوتے.اب ایک طرف تو یوسف جیسا متقی ہے اور اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ نبی زلیخاکی طرف مائل ہو ہی چکا تھا اگر ہم نہ روکتے.اس میں سِر یہ ہے کہ انسان میں ایک کششِ محبت ہوتی ہے.زلیخا کی کششِ محبت اس قدر غالب آئی تھی کہ اس کشش نے ایک متقی کو بھی اپنی طرف کھینچ لیا.سو جائے شرم ہے کہ ایک عورت میںجذب اور کشش اس قدر ہو کہ اس کا اثر ایک مضبوط دل پر ہو جاوے اور ایک شخص جو مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس میں جذبِ محبتِ الٰہی اس قدر نہ ہو کہ لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آویں.یہ عذر قابلِ پذیرائی نہیں کہ زبان میں یا وعظ میں اثر نہیں.اصلی نقص قوتِ جاذبہ میں ہے.جب تک وہ کامل نہیں تب تک زبانی خالی باتوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا.وفاتِ مسیح اور ہمارے مسائل سو وہ بھی بالکل صاف ہیں.مثلاً قرآن شریف کی یہ آیتفَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ(المآئدۃ:۱۱۸) اس میں ایک جواب اور ایک سوال ہے.خدا تعالیٰ مسیح علیہ السلام سے پوچھے گا کہ کیا تو نے لوگوں کو ایسی تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لینا تو وہ جواب میں عرض کریں گے کہ بارِ خدایا جب تک میں زندہ رہا اور ان میں رہا میں نے تو ان کو ایسی تعلیم نہیں دی البتہ جب تو نے مجھ کو مار دیا تو پھر تو ہی ان کا نگران حال تھا.مجھے کوئی علم نہیںکہ میرے پیچھے انہوں نے کیا کیا.یہ کیسی موٹی بات ہے کہ خود مسیح اپنی وفات کا اقرار کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ اگر عیسائی بگڑے تو میری وفات کے بعد بگڑے.جب تک میں ان میں زندہ رہا تب تک وہ صحیح عقیدے پر قائم تھے.اب اگر عیسائی بگڑ گئے ہیں تو بالضرور مسیح مَر چکا ہے اور اگر مسیح آج تک نہیں مَرا تو عیسائی بھی نہیں بگڑے اور اگر عیسائی نہیں بگڑے تو بالضرور عقیدہ
سوال ہے.خدا تعالیٰ مسیح علیہ السلام سے پوچھے گا کہ کیا تو نے لوگوں کو ایسی تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لینا تو وہ جواب میں عرض کریں گے کہ بارِ خدایا جب تک میں زندہ رہا اور ان میں رہا میں نے تو ان کو ایسی تعلیم نہیں دی البتہ جب تو نے مجھ کو مار دیا تو پھر تو ہی ان کا نگران حال تھا.مجھے کوئی علم نہیںکہ میرے پیچھے انہوں نے کیا کیا.یہ کیسی موٹی بات ہے کہ خود مسیح اپنی وفات کا اقرار کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ اگر عیسائی بگڑے تو میری وفات کے بعد بگڑے.جب تک میں ان میں زندہ رہا تب تک وہ صحیح عقیدے پر قائم تھے.اب اگر عیسائی بگڑ گئے ہیں تو بالضرور مسیح مَر چکا ہے اور اگر مسیح آج تک نہیں مَرا تو عیسائی بھی نہیں بگڑے اور اگر عیسائی نہیں بگڑے تو بالضرور عقیدہ الوہیت مسیح بھی درست ہے.پھر مسیح کا یہ کہہ دینا کہ مجھے تو ان کے بگڑنے کا علم نہیںجیسے کہ اسی آیت سے پایا جاتا ہے.کیا یہ جواب ان کا جھوٹا نہیں ہوگا اگر ان کا دوبارہ دنیا میں آنا درست ہے.کیونکہ سوال و جواب قیامت کو ہوگا.اور اگر انہوں نے دوبارہ دنیا میں آکر چالیس سال رہنا ہےا ور عیسائیوں اور کفار کو قتل کر کے اسلام کو پھیلا نا ہے تو بالضرور انہوں نے عیسائیوں کی بگڑی ہوئی حالت کو دیکھ لیا ہے اور اس بگڑی ہوئی حالت کو دیکھ کر وہ دوبارہ اس دنیا سے تشریف لے جاویں گے تو پھر حضرت مسیح کا یہ جواب دینا خد اکے حضور میں دروغ بیانی ہے.کیا وہ احکم الحاکمین نہ کہے گا کہ تُو تو دوبارہ دنیا میں گیا اور تو نے دیکھ لیا کہ میری امت بگڑ چکی تھی.ایک مجازی حاکم کے آگے غلط بیانی، دروغِ حلفی کے جرم کا خطرناک ارتکاب ہے چہ جائیکہ ایک عالم الغیب حاکم کی جناب میں ایسی دروغ بیانی کی جاوے توگویا اس آیت نے بڑی صفائی کے ساتھ ایک طرف مسیح کی وفات کو ثابت کر دیا اور دوسری طرف ان کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کا بطلان کر دیا.اس کے مقابل جب ہم حدیثوں پر غور کرتے ہیں تو وہاں سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے.حضرت رسالت مآبؐنے فرمایا اور یہ متفق علیہ حدیث ہے کہ میں نے حضرت مسیحؑ کو حضرت یحیٰیؑ کے ساتھ دیکھا.حضرت یحییٰ کا مَر جانا اور ان کا اس جماعت میں داخل ہونا جن کی قبض روح ہوچکی ہے ثابت شدہ اَمر ہے.اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مسیح بِلا قبض روح و انتقال کرنے کے ایک ایسے شخص کا جلیس ہو جو دنیا سے مَر چکا ہے.اب ایک طرف قولِ خدا اور دوسری طرف رؤیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وفات مسیحؑ اور ان کا دوبارہ دنیا میں واپس نہ آنا قطعی ثابت ہوگیا.اب بھی یہ لوگ اگر عقیدہ حیات مسیحؑ سے باز نہ آویں تو یہی سمجھا جاوے گا کہ سچی ہدایت اور سعادت صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.ان کے حال پر تو پھر سعدی کا یہ قول صادق آتا ہے.؎ آنکس کہ بقرآں و خبر زد نہ دہد ایں است جوابش کہ جوابش نہ دہی آنے والا مسیح امتی ہوگا رہا یہ کہ آنے والا کون ہے اس کا فیصلہ بھی قرآن و حدیث نے کر دیا ہے.سورۃ نور نے صاف طور پر بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء اس امت میں سے ہوں گے.بخاری اور مسلم کا بھی یہی مذہب ہے کہ آنے والا مسیح اس امت میں سے ہوگا.اب ایک طرف قرآن و حدیث بنی اسرائیلی مسیح کی موت اور اس کے دوبارہ نہ آنے کو بیان کرتے ہیں.دوسری طرف یہی قرآن و حدیث آنے والے مسیح کو اسی اُمّت میں سے ٹھہراتے ہیں تو پھر اب انتظار کس بات کا ہے.
آنے والا مسیح اس امت میں سے ہوگا.اب ایک طرف قرآن و حدیث بنی اسرائیلی مسیح کی موت اور اس کے دوبارہ نہ آنے کو بیان کرتے ہیں.دوسری طرف یہی قرآن و حدیث آنے والے مسیح کو اسی اُمّت میں سے ٹھہراتے ہیں تو پھر اب انتظار کس بات کا ہے.نشانات اب علامات کو بھی دیکھ لیا جاوے.صدی کے سر پر مجدّد کا آنا سب نے تسلیم کیا ہے اور یہ بھی مانا ہے کہ مسیح بطور مجدّد صدی کے سر پر آوے گا.صدی میں سے بائیس سال گذر گئے اور اس وقت تک مجدّد نظر نہ آیا.آخر اس صدی کے سر پر جس مجدّد نے آنا تھا وہ کہاں ہے؟ کسوف و خسوف کا نشان مہدی کا نشان کسوف و خسوف تھا جو رمضان میںہونا تھا.اس کسوف و خسوف پر بھی آٹھ سال گذر گئے.مہدی نہ آیا.اگر یہ کہا جاوے کہ نشان تو ہو گیا لیکن صاحبِ نشان بعد میں آوے گا تو یہ عقیدہ بڑا فاسد ہے اور قسم قسم کے فسادات کی بنا ہے.اگر ایک زمانہ کے بعد اکٹھے بیس انسان مہدویت کے مدّعی ہو جاویں تو پھر ان میں کون فیصلہ کرے گا؟ ضرور ہے صاحبِ نشان نشان کے ساتھ ہو.یہ لوگ منبروں پر چڑھ کر صدی کے سرے کو اور کسوف و خسوف کو یاد کیا کرتے اور روتے تھے لیکن جب وہ وقت آیا تو یہی لوگ دشمن بن گئے.حدیث کے مطابق تمام نشان واقع ہوگئے لیکن یہ لوگ اپنی ضد سے باز نہیں آتے.کسوف و خسوف کا عظیم الشان نشان ظاہر ہوگیا لیکن خدا کے اس نشان کی قدر نہ کی گئی.طاعون کا نشان اسی طرح کل انبیاء کی کتب سابقہ اور قرآن و حدیث میں ایک اَور بَلا کی طرف اشارہ تھا جو کسوف و خسوف کے آسمانی نشان کے بعد آنے والی تھی اور وہ طاعون ہے جو وہ بھی مسیح کے زمانہ سے وابستہ تھی.یہ ایک خطرناک مصیبت ہے جس کی طرف ہر ایک اولو العزم نبی نے بالتصریح یا بالاجمال اشارہ کیا ہے.طاعون آگئی.لاکھوں انسان تباہ ہو گئے اور نہ معلوم کب تک اس کی تباہی چلتی رہے گی لیکن جس موعود کے زمانہ کی شناخت کا یہ نشان ہے اسے اب تک ان لوگوں نے نہ پہچانا.اسی طرح زمین و آسمان نے شہادت دی لیکن ان شہادتوں کو ردّی ۱ (از ریویو) البدر جلد ۳ نمبر ۳۰ مورخہ ۸؍ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۳،۴
سمجھا گیا.خدا غیور ہے اور وہ اپنی غیرت دکھلائے گا.ایک مجازی حاکم عدول حکمی پسند نہیں کرتا تو وہ احکم الحاکمین غیور خدا کب اس عدول حکمی کو بِلا سزا چھوڑے گا.نئی سواری کا نشان ایک اور نشان اس زمانہ کا وہ نئی سواری تھی جس نے اونٹوں کو بیکار کر دینا تھا.قرآن نے وَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ(التکویر:۵) (جب اونٹنیاں بیکار ہوجاویں گی) کہہ کر اس زمانہ کا پتا بتلایا.حدیث نے مسیح کے نشان میں یوں کہا لَیُتْـرَکُنَّ الْقِلَاصُ فَلَایُسْعٰی عَلَیْـھَا.پھر یہ نشان کیا پورا نہ ہوا؟ حتی کہ اس سر زمین میں بھی جہاں آج تک اونٹنی کی سواری تھی اور بغیر اونٹنیوں کے گذارہ نہ تھا وہاں بھی اس سواری کا انتظام ہوگیا ہے اور چند سالوں میں اونٹوں کی سواری کا نام و نشان نہیں ملے گا.اونٹنیاں بیکار ہوگئیں.مقرر کردہ نشان پورے ہوگئے لیکن جس کا یہ نشان تھا وہ پہچانا نہ گیا.کیا یہ امور بھی میرے اختیار میں تھے کہ ایک طرف تو میں دعویٰ کروں اور دوسری طرف یہ نشان پورے ہوتے جاویں.کیا آسمانی نظام پر بھی میرا دخل ہے جو کسوف اور خسوف موعود کو پیدا کر لیتا یا میرے ہاتھ کوئی ایسے مواد ہیں جن سے زمین پر موعود طاعون پیدا ہوگئی یا حج کا روکنا جو یہ بھی مسیح کا نشان تھا کیا یہ بھی میرے اشارہ سے ہوا؟ اسی طرح بیسیوں نشان زمانہ مسیح کے ساتھ وابستہ تھے وہ سب پورے ہوگئے.خدا تعالیٰ نے کون سی حجّت کو ان پر پورا نہیں کیا لیکن ان کا انکار ابھی اسی طرح ہے.اصل بات یہ ہے کہ زمانہ میں دہریت پھیلی ہوئی ہے جو خفیہ خفیہ سب دلوں پر اثر کر رہی ہے.خشیتِ الٰہی دن بدن مفقود ہو رہی ہے.کان رکھتے ہیں پر سن نہیں سکتے.آنکھیں رکھتے ہیں پر نہیں دیکھتے.دل رکھتے ہیں پر نہیں سمجھتے.یہی وجہ ہے کہ انکار ہے.واِلّا معاملہ تو بہت ہی صاف تھا.میری کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کس قدر اتمامِ حجّت کی گئی ہے.اب ان کے پاس کوئی جواب نہیں.خدا نے قوی دلائل سے ان کا رگ و ریشہ کاٹ دیا ہے.لیکن یہ نہیں دیکھتے.شناخت مامور کے تین طریق ایک مامور کی شناخت کے تین طریق ہیں.نقل،عقل، تائیداتِ سماوی.اب دیکھنا چاہیے کہ یہ تینوں امور اس
سلسلہ کے مؤید ہیں.دانیال اور دیگر انبیاءنے تو اس کے آنے کا زمانہ مقرر کر دیا ہے.حتی کہ صدی اور سال بھی مقرر کر دیا ہے.تمام عیسائیوں میں ایک قسم کی گھبراہٹ پیدا ہوئی ہے کیونکہ کتبِ سابقہ کے مطابق مسیح کی آمد کا وقت آچکا ہے اور مسیح ابھی تک آیا نہیں.اس لیے بعض علماء اخیر مجبور ہو کر اس طرف گئے ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی سے مُراد کلیسیا کی ترقی ہے جو ہوچکی ہے.۱ اسی طرح ہماری کتب کے مطابق بھی بعثتِ مسیح کا یہی زمانہ ہے.حجج الکرامہ والے نے لکھا ہے کہ کُل اہلِ کشوف اسی طرف گئے ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی کے لیے چودھویں صدی مقرر ہے.شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی اسی زمانہ کے لیے اسے چراغ الدین کہا ہے.غرضیکہ ہر ایک بزرگ نے جو زمانہ مقرر کیا ہے وہ چودھویں صدی سے آگے نہیں گیا اگرچہ ان میں کچھ اختلاف ہے.چودھویں صدی میں لطیف اشارہ اس طرف تھا کہ دینِ اسلام چودھویں رات کے چاند کی طرح اس زمانہ میں چمک اٹھے گا.جس طرح چاند کا کمال چودھویں رات کو ہوتا ہے اسی طرح اسلام کا کمال کُل دنیا میں چودھویں صدی میں ظاہر ہوگا.تیرھویں صدی کی تاریکی ان لوگوں میں ضرب المثل ہے.بعض کہتے ہیں کہ اس صدی کے علماء سے بھیڑیوں نے بھی نجات مانگی تھی.یہ لوگ چودھویں صدی کے منتظر تھے لیکن جب صدی آگئی تو اپنی بد بختی کے باعث انکار کر گئے.اسی طرح قرآن میں ذکر ہے وَ لَمَّا جَآءَهُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ١ۙ وَ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ۠ عَلَى الَّذِيْنَ كَفَرُوْا١ۖۚ فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ(البقرۃ:۹۰) اہلِ کتاب منتظر تھے کہ پیغمبر کے آنے پر وہ اس کے ساتھ مل کر کفار سے جنگ کریں گے، لیکن جب پیغمبر آیا تو انکار پر آمادہ ہوگئے.عقل کے نزدیک بھی زمانہ مسیح کا یہی معلوم ہوتا ہے.اسلام اس قدر کمزور ہوگیا ہے کہ ایک وقت ایک شخص کے مرتد ہوجانے پر اس میں شور پڑ جاتا تھا لیکن اب لاکھوں مرتد ہوگئے.رات دن مخالفت اسلام میں کتب تصنیف ہو رہی ہیں.اسلام کی بیخ کنی کے واسطے طرح طرح کی تجاویز ہو رہی ہیں.عقل پسند نہیں کرتی کہ جس خدا نے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر:۱۰) کا وعدہ دیا ہے وہ اس وقت اسلام کی حفاظت نہ کرے اور خاموش رہے.یہ زمانہ کس قسم کی مصیبت کا
اسلام پر ہے کہ شرفا کی اولاد دشمنِ اسلام ہو کر گرجاؤں میں چلے گئے اور کھلے طور پر رسول اکرمؐ کی توہین ہو رہی ہے.ہر ایک قسم کی گالی اور سبّ و شتم میں ان کو یاد کیا جاتا ہے.ان تمام امور کو بہ ہیئت مجموعی اگر دیکھا جائے تو عقل کہتی ہے کہ یہی وقت خدا کی تائید کا ہے اور میں تم کو سچ کہتا ہوں کہ اگر یہ سلسلہ قائم نہ ہوتا تو اسلام برباد ہوچکا تھا.سو خدا کے وجود کا یہ بھی ایک نشان ہے کہ عین ضرورت کے وقت خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا اور عین مصیبت کے وقت اسلام کو سنبھالا.تائیدات سماوی بھی اگر دیکھی جاویں تو یہاں بھی ایک بڑا خزانہ ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہزار ہا نشان میرے ہاتھ پر ظاہر کئے.اگر میں ان تمام نشانوں کو جمع کروں جو ہر روز مَیں اور میرے ساتھ رہنے والے دیکھتے ہیں تو ان کی تعداد لاکھ کے قریب ہوجاتی ہے.قطع نظر اس کے صرف براہین احمدیہ کے بعض الہامات کو دیکھا جاوے چوبیس برس ہوئے کہ یہ کتاب تصنیف ہوئی جو اس وقت مکہ ، مدینہ، مصر، بخارا، لنڈن اور ایسا ہی ہندوستان کے ہر ایک حصّہ میں پہنچ گئی.کئی ایک پادریوں اور دیگر مخالفینِ اسلام کے گھروں میں پہنچ گئی.اب اس کتاب میں مثلاً لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے ارشاد ہے کہ اس وقت تو اکیلا ہے اور تیرے ساتھ کوئی نہیں لیکن ایک وقت آوے گا کہ لوگ تیرے پاس دور دور سے آویں گے.(يَاْتُوْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ) تو لوگوں میں پہچانا جاوے گا اور تیری شہرت کی جاوے گی.تیری امداد اور تائید کو دور دور سے لوگ آویں گے.پھر کہا کہ لوگ کثرت سے آویں گے اور تو ان سے نرمی اور اخلاق سے پیش آنا.ان کی ملاقات سے مت گھبرانا.(وَلَاتُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰهِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ) پھر آخر کار فرمایا اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ وَانْتَـھٰی اَمْرُ الزَّمَانِ اِلَیْنَا.اَلَيْسَ هٰذَا بِالْحَقِّ.یعنی جب خدا کی فتح اور نصرت آوے گی اور زمانہ کا اَمر ہماری طرف منتہی ہوگا تو اس وقت کہا جاوے گا کہ کیا یہ سلسلہ حق نہیں؟ اب لاہور اور امرتسر کے لوگ اور ایسا ہی پنجاب کے لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ براہین کی اشاعت کے وقت مجھے کوئی جانتا نہیں تھا.حتی کہ قادیان میں بہت کم لوگ ہوں گے جو مجھے پہچانتے ہوں گے.پھر یہ اُمور کس طرح پورے ہو رہے ہیں.اگرچہ یہ پیشگوئیاں بدرجہ اتم ابھی پوری نہیں ہوئیں لیکن جس قدر ان الہامات کا ظہور ہو رہا ہے وہ طالبِ حق
کے لیے کافی ہے.اب کیا یہ میری بناوٹ ہے کہ ایک انسان آج سے چوبیس سال پہلے آجکل کے واقعات کا نقشہ کھینچ سکتا ہے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ ہزارہا مخلوق کا مرجع ہوگا خصوصاً جبکہ ایک مدّت تک ان امور کا ظہور نہ ہوا.جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ امور کسی فراست کا نتیجہ نہیں ہو سکتے.ان امور کو دیکھ کر میں کہہ سکتا ہوں کہ جس قدر نشانات خدا تعالیٰ نے میری تائید میں ظاہر کئے وہ اپنی تعداد اور شوکت میں ایسے ہیں کہ بجز حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کل انبیاء و مرسلین سے ایسے ثابت نہیں ہوئے لیکن اس میں میرا کیا فخر ہے یہ سب کچھ تو اس پاک نبی کی فضیلت ہے جس کی امت میں ہونے کا مجھے فخر حاصل ہے.پھر میں کہتا ہوں کہ آج کل کے پیر زادوں اور سجادہ نشینوں کو آزما لو.کسی پادری یا کسی مذہب کے سر گروہ کو میرے مقابل میں لاؤ.خدا تعالیٰ نشان نمائی میں بالضرور اس کو میرے مقابل شرمندہ اور ذلیل کرے گا.یہاں تو نشانوں کا دریا بہہ رہا ہے.میرے دوست اس الہام سے خوب واقف ہیں جو دس بارہ سال ہوئے خدا تعالیٰ نے فرمایا اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ وَ اِنِّیْ مُعِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِعَانَتَکَ اس ایک الہام کو کس قدر مواقع اور محل پر میرے دوستوں نے پورے ہوتے دیکھا.کس طرح لوگوں نے میری اہانت اور تذلیل کے لیے بیڑے اٹھائے اور کس طرح وہ خود ہی ذلیل اور خوار ہوگئے.اس کی ایک مثال نہیں بلکہ کئی ایک مثالیں ہیں.ہاں یہ ضرور ہے کہ ان نشانات کو دیکھ کر بھی لوگ ابھی گمراہ ہیں.سو بات یہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ سے دو گروہ چلے آئے ہیں ایک سعید دوسرا شقی.ابوجہل نے ہزاروں نشان دیکھے لیکن وہ کافر ہی رہا.سو اس صورت میں مومن کے لیے ضرور ہے کہ وہ دعا میں لگ جاوے.صرف بیعت پر قناعت نہ کریں آپ نے جو آج مجھ سے بیعت کی ہے.یہ تخم ریزی کی طرح ہے.چاہیے کہ آپ اکثر مجھ سے ملاقات کریں اور اس تعلق کو مضبوط کریں جو آج قائم ہوا ہے.جس شاخ کا تعلق درخت سے نہیں رہتا وہ آخر کار خشک ہو کر گر جاتی ہے.جو شخص زندہ ایمان رکھتا ہے وہ دنیا کی پروا نہیں رکھتا.دنیا ہر طرح
مل جاتی ہے.دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والا ہی مبارک ہے لیکن جو دنیا کو دین پر مقدم رکھتا ہے وہ ایک مُردار کی طرح ہے جو کبھی سچی نصرت کا منہ نہیں دیکھتا.یہ بیعت اس وقت کام آسکتی ہے جب دین کو مقدم کرلیا جاوے اور اس میں ترقی کرنے کی کوشش ہو.بیعت ایک بیج ہے جو آج بویا گیا.اب اگر کوئی کسان صرف زمین میں تخم ریزی پر ہی قناعت کرے اور پھل حاصل کرنے کے جو جو فرائض ہیں ان میں سے کوئی ادا نہ کرے.نہ زمین کو درست کرے اور نہ آبپاشی کرے اور نہ موقع بہ موقع مناسب کھاد زمین میں ڈالے نہ کافی حفاظت کرے تو کیا وہ کسان کسی پھل کی امید کر سکتا ہے ہرگز نہیں.اس کا کھیت بالضرور تباہ اور خراب ہوگا.کھیت اسی کا رہے گا جو پورا زمیندار بنے گا.سو ایک طرح کی تخم ریزی آپ نے بھی آج کی ہے.خدا جانتا ہے کہ کس کے مقدر میں کیا ہے لیکن خوش قسمت وہ ہے جو اس تخم کو محفوظ رکھے اور اپنے طور پر ترقی کے لیے دعا کرتا رہے.مثلاً نمازوں میں ایک قسم کی تبدیلی ہونی چاہیے.نماز میں حضور اور لذّت پیدا کرنے کا طریق میں دیکھتا ہوں کہ آج کل لوگ جس طرح نماز پڑھتے ہیں وہ محض ٹکریں مارنا ہے.ان کی نماز میں اس قدر بھی رقّت اور لذّت نہیں ہوتی جس قدر نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا میں ظاہر کرتے ہیں.کاش یہ لوگ اپنی دعائیں نماز میںہی کرتے.شاید ان کی نمازوں میں حضور اور لذّت پیدا ہوجاتا.اس لیے میں حکماً آپ کو کہتا ہوں کہ سرِ دست آپ بالکل نماز کے بعد دعا نہ کریں اور وہ لذّت اور حضور جو دعا کے لیے رکھا ہے، دعاؤں کو نماز میں کرنے سے پیدا کریں.میرا مطلب یہ نہیں کہ نماز کے بعد دعا کرنی منع ہے.لیکن میں چاہتا ہوں کہ جب تک نماز میں کافی لذّت اور حضور پیدا نہ ہو نماز کے بعد دعا کرنے میں نماز کی لذّت کو مت گنواؤ.ہاں جب یہ حضور پیدا ہوجاوے تو کوئی حرج نہیں.سو بہتر ہے نماز میں دعائیں اپنی زبان میں مانگو.جو طبعی جوش کسی کی مادری زبان میں ہوتا ہے وہ ہرگز غیر زبان میں پیدا نہیں ہوسکتا.سو نمازوں میں قرآن اور ماثورہ دعاؤں کے بعد اپنی ضرورتوں کو برنگِ دعا اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے آگے پیش کرو تاکہ آہستہ آہستہ تم کو
حلاوت پیدا ہوجائے.سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا کی رضامندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہوجاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتا ہے.ہماری دعا یہ ہونی چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کر دیتےہیں دور کر دے اور اپنی رضامندی کی راہ دکھلائے.دنیا میں مومن کی مثال اس سوار کی ہے کہ جو جنگل میں جا رہا ہے اور راہ میں بسبب گرمی اور تکانِ سفر کے ایک درخت کے نیچے سستانے کے لیے ٹھہر جاتا ہے لیکن ابھی گھوڑے پر سوار ہے اور کھڑا کھڑا گھوڑے پر ہی کچھ آرام لے کر آگے اپنے سفر کو جاری رکھتا ہے لیکن جو شخص اس جنگل میں گھر بنالے وہ ضرور درندوں کا شکار ہوگا.مومن دنیا کو گھر نہیں بناتا اور جو ایسا نہیں خدا اس کی پروا نہیں کرتا نہ خدا کے نزدیک دنیا کو گھر بنانے والے کی عزّت ہے.خدا مومن کی عزّت کرتا ہے.نوافل کی حقیقت حدیث میں آیا ہے کہ مومن نوافل کے ساتھ خدا کا قرب حاصل کرلیتا ہے.نوافل سے مراد یہ ہے کہ خدمت مقرر کردہ میں زیادتی کی جاوے.ہر ایک خیر کے کام میں دنیا کا بندہ تھوڑا سا کر کے سست ہوجاتا ہے لیکن مومن زیادتی کرتا ہے.نوافل صرف نمازسے ہی مختص نہیں بلکہ ہر ایک حسنات میں زیادتی کرنا نوافل ادا کرنا ہے.مومن محض خدا کی خوشنودی کے لیے ان نوافل کی فکر میں لگا رہتا ہے.اس کے دل میں ایک درد ہے جو اسے بے چین کرتا ہے اور وہ دن بدن نوافل و حسنات میں ترقی کرتا جاتا ہے اور بالمقابل خدا بھی اس کے قریب ہوتا جاتا ہے حتی کہ مومن اپنی ذات کو فنا کر کے خدا کے سایہ تلے آتا جاتا ہے.اس کی آنکھ خدا کی آنکھ، اس کے کان خدا کے کان ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ کسی معاملہ میں خدا کی مخالفت نہیں کرتا.ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس کی زبان خدا کی زبان اور اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہوجاتا ہے.مومن کا مقام پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے کسی بات میں اس قدر تردّد نہیں ہوتا جس قدر مومن کی جان نکالنے میں تردّد ہوتا ہے.یوں تو خدا کی ذات سب تردّدات سے پاک ہے لیکن یہ فقرہ جو فرمایا تو مومن کے اکرام کے لیے فرمایا.اب دوسرے لوگ کیڑے مکوڑوں کی ۱ (از ریویو ) البدر جلد ۳ نمبر ۳۱ مورخہ ۱۶؍ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۵،۶
طرح مَر جاتے ہیں لیکن مومن کا معاملہ دگر گوں ہے.مجھے یہ سمجھ آتی ہے کہ جو صلحاء اور انبیاء کی زندگی آئے دن طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا رہتی ہے اور بعض وقت ان کو خوفناک امراض لاحق ہوجاتے ہیں جیسے کہ ہمارے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت تھی.یہ اس تردّد کا اظہار ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے گویا اللہ تعالیٰ اس سے معاملہ ایسا کرتا ہے اور خوفناک بیماریوں سے اسے نجات دے کر ظاہر کردیتا ہے کہ وہ اسے معمولی انسانوں کی طرح ضائع نہیں کرتا.قرآن اور حدیث سے ثابت ہے کہ مومن کی ہر ایک چیز بابرکت ہوجاتی ہے جہاں وہ بیٹھتا ہے وہ جگہ دوسروں کے لیے موجب برکت ہوتی ہے.اس کا پس خوردہ اَوروں کے لیے شفا ہے.حدیث میں آیا ہے کہ ایک گنہگار خدا تعالیٰ کے سامنے لایا جاوے گا.خدا تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تو نے کوئی نیک کام کیا؟ وہ کہے گا کہ نہیں.پھر خدا تعالیٰ اس کو کہے گا کہ فلاں مومن کو تو ملا تھا.وہ کہے گا خداوند میں ارادتاً تو کبھی نہیں ملا وہ خود ہی ایک دن مجھے راستہ میں مل گیا.خدا تعالیٰ اسے بخش دے گا.پھر ایک اور موقع پر حدیث میں آیا ہے کہ خدا تعالیٰ فرشتوں سے دریافت کرے گا کہ میرا ذکر کہاں پر ہو رہا ہے؟ وہ کہیں گے کہ ایک حلقہ مومنین کا تھا جہاں دنیا کے ذکر کا نام و نشان بھی نہ تھا.البتہ ذکر الٰہی آٹھوں پہر ہو رہا ہے.ان میں ایک دنیا پرست شخص تھا.اللہ تعالیٰ فرماوے گا کہ میں نے اس دنیا دار کو اس ہم نشینی کے باعث بخش دیا اِنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ.بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ جہاں ایک مومن امام ہو اس کے مقتدی پیش ازیں کہ وہ سجدہ سے سر اٹھاوے بخش دیئے جاتے ہیں.مومن وہ ہے کہ جس کے دل میں محبتِ الٰہی نے عشق کے رنگ میں جڑ پکڑ لی ہو.اس نے فیصلہ کر لیا ہو کہ وہ ہر ایک تکلیف اور ذلّت میں بھی خدا کا ساتھ نہ چھوڑے گا.اب جس نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کب کسی کا کانشنس کہتا ہے کہ وہ ضائع ہوگا کیا کوئی رسول ضائع ہوا؟ دنیا ناخنوں تک ان کو ضائع کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن وہ ضائع نہیں ہوتے جو خدا کے لیے ذلیل ہو وہی انجام کار عزّت و جلال کا تخت نشین ہوگا.ایک ابو بکرؓ ہی کو دیکھو جس نے سب سے پہلے ذلّت قبول کی اور
سب سے پہلے تخت نشین ہوا.اس میں کچھ شک نہیں کہ پہلے کچھ نہ کچھ دکھ اٹھانا پڑتا ہے کسی نے سچ کہا ہے.؎ عشق اوّل سرکش و خونی بود تا گریزد ہرکہ بیرونی بود عشقِ الٰہی بے شک اوّل سرکش و خونی ہوتا ہے تاکہ نااہل دور ہوجاوے.عاشقانِ خدا تکالیف میں ڈالے جاتےہیں.۱ قسم قسم کے مالی اور جسمانی مصائب اٹھاتے ہیں اور اس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کے دل پہچانے جاویں.خدا تعالیٰ نے یہ اَمر مقرر کر دیا ہے کہ جب تک کوئی پہلے دوزخ پر راضی نہ ہو جاوے بہشت میں نہیں جاتا.بہشت دیکھنا اسی کو نصیب ہوتا ہے جو پہلے دوزخ دیکھنے کو تیار ہوتا ہے.دوزخ سے مراد آئندہ دوزخ نہیں بلکہ اس دنیا میں مصائب شدائد کا نظارہ مراد ہے.اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ کافر کے لیے دوزخ بہشت کے رنگ میں اور مومن کے لیے بہشت دوزخ کے رنگ میں متمثّل کیا جاتا ہے.کافر جو دنیا کا طالب ہے دنیا میں منہمک ہو کر سگِ دنیا ہو جاتا ہے.مومن ایک عاشق ہے جو دنیا کو طلاق دے کر ہر ایک تکلیف سہنے کو تیار ہوتا ہے اور فی الواقع یہ عشق ہی ہے جو اسے ہر قسم کی تکلیف سہنے کے لیے آمادہ کر دیتا ہے.مومن کا رنگ عاشق کا رنگ ہوتا ہے اور وہ اپنے عشق میں صادق ہوتا ہے اور اپنے معشوق یعنی خدا کے لیے کامل اخلاص اور محبت اور جان فدا کرنے والا جوش اپنے اندر رکھتا ہے اور تضرع اور ابتہال اور ثابت قدمی سے اس کے حضور میں قائم ہوتا ہے.دنیا کی کوئی لذّت اس کے لیے لذّت نہیں ہوتی.اس کی روح اسی عشق میں پرورش پاتی ہے.معشوق کی طرف سے استغنا دیکھ کر وہ گھبراتا نہیں.اس طرف سے خاموشی اور بے التفاتی بھی معلوم کر کے وہ کبھی ہمّت نہیں ہارتا بلکہ ہمیشہ قدم آگے ہی رکھتا ہے اور دردِ دل زیادہ سے زیادہ پیدا کرتا جاتا ہے.ان دونوں چیزوں کا ہونا ضروری ہے کہ مومن عاشق کی طرف سے محبتِ الٰہی میں پورا استغراق ہو.عشق کمال ہو.محبت میں سچا جوش اور عہد عشق میں ثابت قدمی ایسی کوٹ کوٹ کے بھری ہو کہ جس کو کوئی صدمہ جنبش میں لا نہ سکے اور معشوق کی طرف سے کبھی کبھی بے پروائی اور خاموشی ہو.درد دو قسم کا موجود ہو.ایک تو وہ جو اللہ تعالیٰ کی محبت کا درد ہو.دوسرا وہ جو کسی کی مصیبت پر دل میں درد
اٹھے اور خیر خواہی کے لیے اضطراب پیدا ہو.اور اس کی اعانت کے لیے بے چینی پیدا ہو.خدا تعالیٰ کی محبت کے لیے جو اخلاص اور درد ہوتا ہے اور ثابت قدمی اس کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے، وہ انسان کو بشریت سے الگ کر کے الوہیت کے سایہ میں لا ڈالتا ہے.جب تک اس کی حد تک درد اور عشق نہ پہنچ جائے کہ جس میں غیر اللہ سے محویت حاصل ہوجائے اس وقت تک انسان خطرات میں پڑا رہتا ہے.ان خطرات کا استیصال بغیر اس اَمر کے مشکل ہوتا ہے کہ انسان غیر اللہ سے بکلّی منقطع ہو کر اسی کا ہوجائے اور اس کی رضا میں داخل ہونا بھی محال ہوتا ہے اور اس کی مخلوق کے لیے ایسا درد ہونا چاہیے جس طرح ایک نہایت ہی مہربان والدہ اپنے ناتواں پیارے بچے کےلیے دل میں سچا جوشِ محبت رکھتی ہے.اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لیے محویت کی ضرورت خدا تعالیٰ ایک تعلق چاہتا ہے اور اس کے حضور میں دعا کرنے کے لیے تعلق کی ضرورت ہے.بغیر تعلق کے دعا نہیں ہوسکتی.پہلے بزرگوں کی بھی اسی قسم کی باتیں چلی آئی ہیں کہ جن سے دعا کرنے والوں کو دعا کرانے سے پہلے تعلق ثابت کرنے کی تاکید کی.خواہ نخواہ بازار میں چلتے ہوئے کسی بے تعلق کو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ تو میرا دوست ہے اور نہ ہی اس کے لیے دردِ دل ہی ہوتا ہے اور نہ ہی جوش دعا پیداہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ سے تعلق اس طرح نہیں ہوسکتا کہ انسان غفلت کاریوں میں مبتلا بھی رہے اور صرف منہ سے دم بھرتا رہے کہ میں نے خدا سے تعلق پیدا کر لیا ہے.اکیلے بیعت کا اقرار اور سلسلہ میں نام لکھ لینا ہی خدا سے تعلق پر کوئی دلیل نہیں ہو سکتی.اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لیے ایک محویت کی ضرورت ہے.ہم بار بار اپنی جماعت کو اس بات پر قائم ہونے کےلیے کہتے ہیں کیونکہ جب تک دنیا کی طرف سے انقطاع اور اس کی محبت دلوں سے ٹھنڈی ہو کر اللہ تعالیٰ کے لیے فطرتوں میں طبعی جوش اور محویت پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ثبات میسر نہیں آسکتا.بعض صوفیوں نے لکھا ہے کہ صحابہؓ جب نمازیں پڑھا کرتے تھے تو انہیں ایسی محویت ہوتی تھی کہ جب فارغ ہوتے تو ایک دوسرے کو پہچان بھی نہ سکتے تھے.جب انسان کسی
اور جگہ سے آتا ہے تو شریعت نے حکم دیا ہے کہ وہ آکر السلام علیکم کہے.نماز سے فارغ ہوتے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کے کہنے کی حقیقت یہی ہے کہ جب ایک شخص نے نماز کا عقد باندھا اور اللہ اکبر کہا تو وہ گویا اس عالَم سے نکل گیا اور ایک نئے جہان میں جا داخل ہوا.گویا ایک مقامِ محویت میں جا پہنچا.پھر جب وہاں سے واپس آیا تو السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہہ کر آن ملا.لیکن صرف ظاہری صورت کافی نہیں ہوسکتی جب تک دل میں اس کا اثر نہ ہو چھلکوں سے کیا ہاتھ آسکتا ہے.محض صورت کا ہونا کافی نہیں.حال ہونا چاہیے.علّتِ غائی حال ہی ہے.مطلق قال اور صورت جس کے ساتھ حال نہیں ہوتا وہ تو الٹی ہلاکت کی راہیں ہیں.انسان جب حال پیدا کرلیتا ہے اور اپنے حقیقی خالق و مالک سے ایسی سچی محبت اور اخلاص پیدا کر لیتا ہے کہ یہ بے اختیار اس کی طرف پرواز کرنے لگتا ہے اور ایک حقیقی محویت کا عالم اس پر طاری ہوجاتا ہے تو اس وقت اس کیفیت سے انسان گویا سلطان بن جاتا ہے اور ذرّہ ذرّہ اس کا خادم بن جاتا ہے.مجھے تو اللہ تعالیٰ کی محبت نے ایسی محویت دی تھی کہ تمام دنیا سے الگ ہو بیٹھا تھا.تمام چیزیں سوائے اس کے مجھے ہرگز بھاتی نہ تھیں.میں ہرگز ہرگز حجرہ سے باہر قدم رکھنا نہیں چاہتا تھا.میں نے ایک لمحہ کے لیے بھی شہرت کو پسند نہیں کیا.میں بالکل تنہائی میں تھا اور تنہائی ہی مجھ کو بھاتی تھی.شہرت اور جماعت کو جس نفرت سے میں دیکھتا تھا اس کو خدا ہی جانتا ہے.میں تو طبعاً گمنامی کو چاہتا تھا اور یہی میری آرزو تھی خدا نے مجھ پر جبر کر کے اس سے مجھے باہر نکالا.میری ہرگز مرضی نہ تھی مگر اس نے میری خلافِ مرضی کیا کیونکہ وہ ایک کام لینا چاہتا تھا.اس کام کے لیے اس نے مجھے پسند کیا اور اپنے فضل سے مجھ کو اس عہدہ جلیلہ پر مامور فرمایا.یہ اسی کا اپنا انتخاب اور کام ہے.میرا اس میں کچھ دخل نہیں.میں تو دیکھتا ہوں کہ میری طبیعت اس طرح واقع ہوئی ہے کہ شہرت اور جماعت سے کوسوں بھاگتی ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ کس طرح شہرت کی آرزو رکھتے ہیں.میری طبیعت اور طرف جاتی تھی لیکن خدا مجھے اور طرف لے جاتا تھا.میں نے بار بار دعائیں کیں کہ مجھے گوشہ میں ہی رہنے دیا جاوے.مجھے میری خلوت کے حجرے میں ہی چھوڑ دیا جائے لیکن بار بار یہی حکم ہوا کہ
اس سے نکلو اور دین کا کام جو اس وقت سخت مصیبت کی حالت میں تھا اس کو سنوارو.انبیاء کی طبیعت اسی طرح واقع ہوتی ہے کہ وہ شہرت کی خواہش نہیں کیا کرتے کسی نبی نے کبھی شہرت کی خواہش نہیں کی.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خلوت اور تنہائی کو ہی پسند کرتے تھے.آپ عبادت کرنے کے لیے لوگوں سے دور تنہائی کی غار میں جو غارِ حرا تھی چلے جاتے تھے.یہ غار اس قدر خوفناک تھی کہ کوئی انسان اس میں جانے کی جرأت نہ کر سکتا تھا لیکن آپ نے اس کو اس لیے پسند کیا ہوا تھا کہ وہاں کوئی ڈر کے مارے بھی نہ پہنچے گا.آپ بالکل تنہائی چاہتے تھے.شہرت کو ہرگز پسند نہیں کرتے تھے.مگر خدا کا حکم ہوا يٰۤاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ(المدّثر:۲،۳) اس حکم میں ایک جبر معلوم ہوتا ہے اور اسی لیے جبر سے حکم دیا گیا کہ آپ تنہائی کو جو آپ کو بہت پسند تھی اب چھوڑ دیں.بعض لوگ بیوقوفی اور حماقت سے یہی خیال کرتے ہیں کہ گویا میں شہرت پسند ہوں.میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ میں ہرگز شہرت پسند نہیں.خدا نے جبر سے مجھ کو مامور کیا ہے میرا اس میں قصور کیا ہے اور وہی گواہ ہے کہ میں شہرت پسند نہیں ہوں.میں تو دنیا سے ہزاروں کوسوں بھاگتا تھا.حاسد لوگوں کی نظر چونکہ زمین اور اس کی اشیاء تک ہی محدود ہوتی ہے اور وہ دنیا کے کیڑے ہیں اور شہرت پسند ہوتے ہیں ان کو اس خلوت گزینی اور بےتعلقی کی کیفیت ہی معلوم نہیں ہو سکتی.ہم تو دنیا کو نہیں چاہتے.اگر وہ چاہیں اور اس پر قدرت رکھتے ہیں تو سب دنیا لے جائیں ہمیں ان پر کوئی گِلہ نہیں.ہمارا ایمان تو ہمارے دل میں ہے نہ دنیا کے ساتھ.ہماری خلوت کی ایک ساعت ایسی قیمتی ہے کہ ساری دنیا اس ایک ساعت پر قربان کرنا چاہیے.اس طبیعت اور کیفیت کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا.مگر ہم نے خدا کے اَمر پر جان و مال و آبرو کو قربان کر دیا ہے.جب اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں تجلّی کرتا ہے تو پھر وہ پوشیدہ نہیں رہتا.عاشق اپنے عشق کو خواہ کیسے ہی پوشیدہ کرے مگر بھید پانے والے اور تاڑنے والے قرائن اور آثار اور حالات سے پہچان ہی جاتے ہیں.عاشق پر وحشت کی حالت نازل ہو جاتی ہے.اداسی اس کےسارے وجود پر چھا جاتی ہے.الگ قسم کے خیالات اور حالات اس کے ظاہر ہو جاتے ہیں.وہ اگر ہزاروں پردوں میں چھپے اور اپنے آپ کو چھپا لے مگر چھپا نہیں رہتا.سچ کہا ہے.۱ (از ریویو ) البدر جلد ۳ نمبر ۳۲ مورخہ ۲۴؍ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۳،۴
ع عشق و مشک را نتوان نہفتن جن لوگوں کو محبتِ الٰہی ہوتی ہے وہ اس محبت کو چھپاتے ہیں جس سے ان کے دل لبریز ہوتے ہیں بلکہ اس کے افشا پر وہ شرمندہ ہوتے ہیں کیونکہ محبت اور عشق ایک راز ہے جو خدا اور اس کے بندہ کے درمیان ہوتا ہے اور ہمیشہ راز کا فاش ہونا شرمندگی کا موجب ہوتا ہے.کوئی رسول نہیں آیا جس کا راز خدا سے نہیں ہوتا.اسی راز کو چھپانے کی خواہش اس کے اندر ہوتی ہے مگر معشوق خود اس کو فاش کرنے پر جبر کرتا ہے اور جس بات کو وہ نہیں چاہتے وہی ان کوملتی ہے جو چاہتے ہیں ان کو ملتا نہیں اور جو نہیں چاہتے ان کو جبراً ملتا ہے.جب تک انسان ادنیٰ حالت میں ہوتا ہے اس کے خیالات بھی ادنیٰ ہی ہوتے ہیں اور جس قدر معرفت میں گرا ہوا ہوتا ہے اسی قدر محبت میں کمی ہوتی ہے.معرفت سے حسنِ ظن پیدا ہوتا ہے.ہرشخص میں محبت اپنے ظن کی نسبت سے ہوتی ہے.اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ سے یہی تعلیم ملتی ہے.صادق عاشق جو ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ پر حسنِ ظن رکھتا ہے کہ اس کو کبھی نہیں چھوڑے گا.خدا تو وفاداری کرنا پسند کرتا ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ انسان صدق دکھلاوے اور اس پر ظن نیک رکھے کہ تا وہ بھی وفا دکھلائے مگر یہ لوگ کب اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں.یہ تو اپنی ہوا و ہوس کے بتوں کے آگے جھکتے رہتے ہیں اور ان کی نظر دنیا تک ہی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کو کریم و رحیم نہیں سمجھتے.اس کے وعدوں پر ذرّہ ایمان نہیں رکھتے.اگر اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر ایمان رکھتے کہ وہ کریم و رحیم ہے تو وہ بھی ان پر رحمت اور وفا کے ثبوت نازل کرتا.؎ گر وزیر از خدا بترسیدے ہمچناں کز ملک ملک بودے اللہ تعالیٰ سے بد ظنّی مت کرو شر بد ظنّی سے پیدا ہوتا ہے.قرآن شریف کو اوّل سے آخر تک پڑھنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ سے بد ظنّی مت کرو.اللہ کا ساتھ نہ چھوڑو.اسی سے مدد مانگو.اللہ تعالیٰ ہر میدان میں مومن کی مدد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں میدان میں تیرے ساتھ ہوں وہ اس کے لیے ایک فرقان پیدا کر دیتا ہے جو اس کے
وعدوں پر بھروسہ نہیں کرتا وہ بد ظنّی کرتا ہے جو شخص خدا سے نیک ظن کرتا ہے وہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے بد ظنّی کرتا ہے وہ مجبور ہوتا ہے کہ اپنےلیے کوئی دوسرا معبود بنائے اور شرک میں مبتلا ہوجاتا ہے.جب انسان اس بات کو سمجھتا ہے کہ خدا کریم و رحیم ہے اور اس بات پر ایمان صدق دل سے لاتا ہے کہ اس کے وعدہ ٹلنے کے نہیں تو وہ اس پر جان فدا کرتا ہے اور درپردہ خدا سے عشق رکھتا ہے.ایسا انسان خدا کا چہرہ اسی دنیا میں دیکھ لیتا ہے.طرح طرح سے اس کی مدد کرتا ہے اور اپنے انعامات اس پر نازل کرتا ہےا ور اس کو تسلّی بخشتا ہے اور محبت اور وفا کا چہرہ دکھاتا ہے لیکن بے وفا غدار ہمیشہ محروم رہتا ہے.۱ ۲۱؍مئی ۱۹۰۴ء (بمقام گورداسپور ) طاعون اور الہام اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ بوقت ایک بجے بمقام کچہری گورداسپور درخت جامن کے نیچے بیٹھے ہوئے حکیم نور محمد صاحب نے ذکر کیا کہ ایک شخص نے مجھ سے دریافت کیا تھا کہ آپ لوگ احمدی جماعت کے جو یہ کہتے ہیں کہ طاعون سے ہم بچے رہیں گے اس کی وجہ کیا ہے.حکیم صاحب نے اس کے جواب میں جو کچھ اس نے تقریر کی تھی وہ سنائی پھر اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَ اِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا(بنی اسـرآءیل:۵۹) یعنی طاعون کا عذاب دو طرح پر ہوگا کوئی بستی اس سے خالی نہیں رہے گی.بعض تو ایسی ہوں گی کہ جن کو ہم بالکل ہلاک کر دیں گے یعنی وہ اجڑ کر بالکل غیر آباد ہو جائیں گی اور ویرانہ اور تھِہ(اجڑے ہوئے کھنڈرات) ہو جائیں گی.ان کا کوئی نشان بھی ۱البدر جلد ۳ نمبر ۲۵ مورخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۳
نہ رہے گا.لوگ تلاش کرتے پھریں گے کہ اس جگہ فلاں بستی آباد تھی.لیکن پھر بھی پتا نہ ملے گا.گویا طاعون وہاں جاروب دےکر اس کو دنیا سے صاف کر دے گی اور کوئی آثار اس کے نہ چھوڑے گی.بعض قریئے ایسے ہوں گے کہ جن کو کم و بیش عذاب کر کے چھوڑ دیا جائے گا.اور صفحہءِ دنیا سے ان کا نام نہ مٹایا جائے گا صرف سرزنش کے طور پر کچھ عذاب ان میں نازل کیا جائے گا اور تازیانہ کر کے عذاب ہٹا لیا جائے گا.دوسرے بہت سے شہر فنا ہوں گے مگر وہ فنا نہ ہوں گے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قادیان کو اسی قسم میں شامل کیا ہے اور اس الہام اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ سے مراد یہی ہے کہ اور بستیوں کی طرح ہمارے گاؤں کو طاعون جارف بالکل تباہ نہ کرے گی کہ لوگ تلاش کرتے پھریں کہ کہاں قادیان واقع تھی.اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ ان بستیوں کی طرح خدا اس کو تباہ نہ کرے گا بلکہ یہ بچی رہے گی اِلّا بطور تازیانہ کچھ سزا دے کر اس کو بچا لیا جائے گا.ہم نے بار بار مجلسوں میں بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ سے یہ مراد ہے کہ خدا نے اس قریہ کو پناہ دے دی ہے کہ وہ طاعون جارف سے بچی رہے اور بالکل فنا نہ ہو.خدا نےیہ وعدہ نہیںکیا کہ باوجود گنہگار ہونے کے اللہ تعالیٰ بغیر عذاب کے چھوڑ دے.ایک طرف تو قرآن میں یہ لکھا ہے کہ طاعون سے کوئی بستی خالی نہیں رہے گی اور طاعون کی وجہ صرف یہی ہے جو اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ کے الہام سے ظاہر ہے یعنی جب لوگوں نے اپنے افعال اور اعمال سے غضبِ الٰہی کے جوش کو بھڑکایا اور بد عملیوں سے اپنی حالتوں کو ایسا بد ل لیا کہ خوفِ خدا اور تقویٰ و طہارت کی ہر ایک راہ کو چھوڑ دیا اور بجائے اس کے طرح طرح کے فسق و فجور کو اختیار کر لیا اور خدا پر ایمان سے بالکل ہاتھ دھو دیا.دہریت اندھیری رات کی طرح دنیا پرمحیط ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کے نورانی چہرے کو ظلمت کے نیچے دبا دیا تو خدا نے اس عذاب کو نازل کیا تا لوگ خدا کے چہرے کو دیکھ لیں اور اس کی طرف رجوع کریں.بعض بستیاں مُهْلِكُوْهَا میں داخل ہو کر بالکل فنا ہو جائیں گی اور بعض مُعَذِّبُوْهَا میں داخل ہوں گی، لیکن خالی کوئی نہ رہے گی.قادیان مُهْلِكُوْهَا میں داخل نہ ہوگی.یہی مراد الہام اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ سے ہے.گناہوں کی سرزنش کرنے کے لیے خدا نے یہاں بھی طاعون نازل فرمائی.خدا تو
فرماتا ہے کہ لَوْ لَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمَقَامُ.یعنی قادیان مُهْلِكُوْهَا میں داخل کر دیا جاتا لیکن صرف تمہاری تکریم اور تعظیم سے اس کو مُهْلِكُوْهَا میں داخل نہیں کیا گیا جو بچے ہیں اور جو بچیں گے وہ تمہارے اکرام کی وجہ سے بچیں گے.یہ تو قرآن کے بالکل مخالف ہے کہ قادیان عذاب طاعون سے بالکل محفوظ رہے.ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ(الرّعد:۱۲) دوسری طرف اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ کے اگر یہ معنے ہوںکہ قادیان بالکل بچ گئی تو ان دونوں کے درمیان تضاد واقع ہوتا ہے.دو ضدیں جمع نہیں ہوسکتیں.ہم نے کبھی اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ کے یہ معنی نہیں سمجھے طاعون تو دنیا کی ہر ایک بستی میں آئے گی.یہ بھی عجیب بات ہے کہ جہاں کسی نے دعویٰ کیا کہ فلاں مقام میں طاعون نہیں تو اسی جگہ وہ ظاہر ہوجاتی ہے.دہلی والوں نے بڑے زور سے لکھا تھا کہ دو وجوہ سے وہاں طاعون نہیں آتی اور نہ آئے گی.ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہاں کے لوگ بہت صفائی رکھتے ہیں.دوسرے مچھروں کا وہاں نہ ہونا.اب گزٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی طاعون آگئی.لاہور کی نسبت کہا جاتا تھا کہ اس کی سر زمین میں ایسے اجزا ہیںکہ اس میں طاعونی کیڑے زندہ نہیں رہ سکتے لیکن وہاں بھی طاعون نے آن ڈیرا ڈالا ہے.ابھی لوگوں کو معلوم نہیں ہے لیکن سالہاسال کے بعد لوگ دیکھیں گے کہ کیا ہوگا.کئی لوگ اور دیہات بالکل تباہ ہوجائیں گے.دنیا سے ان کا نام و نشان مٹ جائے گا اور ان کے آثار تک باقی نہ رہیں گے.لیکن یہ حالت کبھی قادیان پر وارد نہ ہوگی.یہ ایک لمبی بیماری ہے عمروں تک چلی جاتی ہے.بڑے بڑے قطعے اسی نے برباد کر کے جنگل کر دیئے.شہروں کے شہر ویرانے بنا دیئے.سینکڑوں کوس ایسے غیر آباد کئے کہ جانور بھی زندہ نہ رہے.اس کے آگے تو بڑے بڑے شہر بھی کچھ حقیقت نہیں رکھتے.بڑے سے بڑے آباد شہر کو بھی اگر چاہے تو دو تین دن میں صاف کر سکتی ہے.۱
۳۱؍مئی ۱۹۰۴ء تقریر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام بمقام گورداسپور.بحاضری مولوی الٰہی بخش صاحب وغیرہ آمدہ از بنارس جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور آتا ہے تو لوگ عموماً اس کی طرف سے بے پروائی کرتے ہیں اور اکابر اور علماء تو خصوصیت سے اس کی طرف توجہ کرنا عیب سمجھتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ غنی ہے اور مرسل اور مامور چونکہ ایک خدمت پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مقرر ہوتے ہیں وہ بھی بے پروا ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو دنیا کا محتاج نہیں سمجھتے بلکہ جیسے وہ ذاتِ الٰہی کا مظہر ہوتے ہیں ایسے ہی اسی ذات سے غنا کا حصّہ بھی لیتے ہیں.ہر ایک شخص جو مامور بن کر دنیا میں خدا کی طرف سے آتا ہے اس کو ایک خاص قسم کی ہمّت اور حوصلہ عطا کیا جاتا ہے اور عزم میں ایک بے روک جزم اور استقلال عطا کیاجاتا ہے.یہ لوگ بڑا حوصلہ رکھتے ہیں.ہم اپنی طرف سے کسی پر اثر نہیں ڈال سکتے.انسان تو ایک انسان پر اثر نہیں ڈال سکتا.یہ محض اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ ہزارہا بلکہ لاکھوں آدمیوں کو کھینچے لیے آتا ہے.یہاں کسی بناوٹ کی کوئی ضرورت نہیں.چوبیس برس سے زیادہ ہوئے ہیں کہ خدا نے مجھے الہام کیا تھا کہ یَنْصُـرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْـھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ.یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.وَلَا تُصَعِّرْ لِـخَلْقِ اللہِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ.یعنی ہم لوگوں کے دل میں وحی کر دیں گے اور وہ تیری مدد کریں گے بڑے بڑے دور دراز راہوں سے تیرے پاس لوگ آئیں گے تم خلق کے ہجوم سے جو تیرے گرد جمع ہوگی تنگ مت آنا اور لوگوں سے تھکنا مت.یہ ایسے وقت کی باتیں ہیں جب میں بالکل گمنام تھا اور کوئی آدمی میرے ساتھ نہ تھا.میرے گاؤں سے باہر
کوئی بھی مجھے جانتا نہ تھا اور کوئی انسان اس بات پر یقین نہیں لا سکتا کہ ایسی کشش لوگوں کو ہوگی کہ وہ قادیان جیسی گمنام بستی میں دور دراز سے کھینچے ہوئے چلے آئیں گے سو ہم دیکھ رہے ہیں کہ خدا کے کلمات کس طرح صفائی سے پورے ہو رہے ہیں.ایسے ایسے علاقوں سے لوگ آتے ہیں کہ جہاں ہمارے وہم و گمان میںبھی ہماری تبلیغ کا نام و نشان نہیں ہوتا اور اس عقیدت اور اخلاص سے آتے ہیں کہ ہم کو ان کے اخلاص و عقیدت پر رشک آتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہوا ہے کہ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ.وَانْتَـھٰی اَمْرُ الزَّمَانِ اِلَیْنَا.اَلَيْسَ هٰذَا بِالْحَقِّ.یعنی عنقریب ایک زمانہ آنے والا ہے کہ تجھے اللہ تعالیٰ نصرت اور فتح دے گا اور ہماری طرف زمانہ کا اَمر انتہا پاوے گا تو اس وقت کہا جائے گا کیا یہ سچ نہیں.یعنی اس سلسلہ کی صداقت پر زمانہ گواہی دے اٹھے گا.ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ لوگ تیری ترقی کے روکنے کی کوشش کریں گے لیکن ہم تیری مدد کریں گے اور دشمن تیری راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالیں گے مگر ہم ان کو دور کریں گے اور وہ تیرے نابود کرنے کے منصوبے کریں گے.سو ہم دیکھتے ہیں کہ چوبیس برس کی پیشگوئیاں پوری ہو رہی ہیں.ہر ایک شخص جو ہمارے پاس آتا ہے وہ اس پیشگوئی کو پورا کرتا ہے.ہمارا سارا دار و مدار دعا پر ہے ہمارا تو سارا دار و مدار ہی دعا پر ہے.دعا ہی ایک ہتھیار ہے جس سے مومن ہر کام میں فتح پا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے مومن کو دعا کرنے کی تاکید فرمائی ہے بلکہ وہ دعا کا منتظر رہتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو خاص فضل سے قبول فرماتا ہے.دعا سے انسان ہر ایک بَلا اور مرض سے بچ جاتا ہے.ہم نے ایک دفعہ ایک اخبار پڑھا تھا کہ ایک تھانیدار کے ناخن میں پنسل کا ایک ٹکڑا کسی طرح سے چبھ گیا.پنسل میں کچھ زہر بھی ہوتا ہے.تھوڑی دیر میں اس کے ہاتھ میں ورم ہونا شروع ہوگیا.بڑھتے بڑھتے وَرم اس قدر بڑھ گیا کہ کہنی تک جا پہنچا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویاسہ چند بوجھ ہوگیا ہے.فوراً ڈاکٹر کو بلایا گیا.ڈاکٹر نے کہا کہ اس کے بازو میں زہر اثر کر گیا ہے.تم اگر اس کو کٹا دینے
پر راضی ہو تو جان بچ جائے گی ورنہ نہیں.وہ تھانیدار کٹانے پر راضی نہ ہوا.اس کے بعد تھوڑے ہی عرصہ میں وہ مَر گیا.ہمارے بھی ایک دفعہ اسی طرح ناخن میں پنسل لگ گئی.ہم سیر کرنے گئے تو دیکھا کہ ہمارے ہاتھ میں بھی وَرم ہونا شروع ہو گیا ہے تو ہمیں وہ قصہ یاد آگیا.میں نے اسی جگہ سے دعا شروع کردی.گھر پہنچنے تک برابر دعا ہی کرتا رہا تو دیکھتا کیا ہوں کہ جب میں گھر پہنچا تو وَرم کا نام و نشان تک بھی نہ تھا.پھر میں نے لوگوں کو دکھایا اور سارا قصہ بیان کیا.اسی طرح ایک دفعہ میرے دانت کو سخت درد شروع ہوگیا.میں نے لوگوں سے ذکر کیا تو اکثر نے صلاح دی کہ اس کو نکلوا دینا بہتر ہے.میں نے نکلوانا پسند نہ کیا اور دعا کی طرف رجوع کیا تو الہام ہوا وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ.اس کے ساتھ ہی مرض کو بالکل آرام ہوگیا.اس بات کو قریباً پندرہ سال ہوگئے ہیں.خدا تعالیٰ صالحین کا متولّی ہوتا ہے اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے ایمان کے موافق اسباب سے نفرت ہوجاتی ہے.جس قدر ایمان کامل ہوتا ہے اسی قدر اسباب سے نفرت ہوتی جاتی ہے.حقیقت میں دیکھا گیا ہے کہ دنیا بڑے دھوکے میں پڑی ہوئی ہے.جن باتوں کو اپنی ترقی کے ذرائع سمجھی بیٹھی ہے اصل میں وہی ذلّت کا موجب ہوتی ہیں.دنیاوی عزّت بڑھانے اور عروج و مالداری حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کے فریب و دجل اور دھوکے استعمال کرتے ہیں اور طرح طرح کی بے ایمانیوں سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.انہیں مکّاریوں کو اپنی مرادوں کا ذریعہ سمجھے ہوئے ہیں یہاں تک کہ بڑے فخر سے اپنی کامیابیوںکا دوستوں میں ذکر کرتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی یہی تعلیم کرتے ہیں لیکن اگر نظر انصاف اور معرفت سے دیکھا جاوے تو ان کے یہ طریق کوئی راحت نہیں بخشتے.جب پوچھو تو شاکی اور نالاں ہی نظر آتے ہیں اور کبھی راحت اور طمانیت ان کے حال سے ظاہر نہیں ہوتی.طمانیت کی رؤیت بجز فضلِ خدا کے نہیں ہوتی.جب تک انسان اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان نہیں رکھتا اور اس کے وعدوں پر سچا یقین نہیں کرتا اور ہر ایک مقصود کا دینے والا اسی کو نہیں
سمجھتا اور کامل صلاح اور تقویٰ اختیار نہیں کرلیتا تو اس وقت تک وہ حقیقی راحت دستیاب نہیں ہوسکتی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ هُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ(الاعراف:۱۹۷) یعنی جو صلاحیت اختیار کرتے ہیں خدا ان کا متولّی ہوجاتا ہے.انسان جو متولّی رکھتا ہے اس کے بہت بوجھ کم ہوجاتے ہیں.بہت ساری ذمہ داریاں گھٹ جاتی ہیں.بچپن میں ماں بچے کی متولّی ہوتی ہے تو بچے کو کوئی فکر اپنی ضروریات کا نہیں رہتا.وہ خود ہی اس کی ضروریات کی کفیل ہوتی ہے.اس کے کپڑوں اور کھانے پینے کے خود ہی فکر میں لگی رہتی ہے.اس کی صحت قائم رکھنے کا دھیان اسی کو رہتا ہے.اس کو نہلاتی اور دھلاتی ہے اور کھلاتی اور پلاتی ہے.یہاں تک کہ بعض وقت اس کو مار کرکھانا کھلاتی اور پانی پلاتی اور کپڑا پہناتی ہے.بچہ اپنی ضرورتوں کو نہیں سمجھتا بلکہ ماں ہی اس کی ضرورتوں کو خوب سمجھتی اور ان کو پورا کرنے کے خیال میں لگی رہتی ہے.اسی طرح جب ماں کی تولّیت سے نکل آئے تو انسان کو بالطبع ایک متولّی کی ضرورت پڑتی ہے.طرح طرح سے اپنے متولّی اور لوگوں کو بناتا ہے جو خود کمزور ہوتے ہیں اور اپنی ضروریات میں غلطاں ایسے ہوتے ہیں کہ دوسرے کی خبر نہیں لے سکتے.لیکن جو لوگ ان سب سے منقطع ہوکر اس قسم کا تقویٰ اور اصلاح اختیار کرتے ہیں ان کا وہ خود متولّی ہوجاتا ہے اور ان کی ضروریات اور حاجات کا خود ہی کفیل ہوجاتا ہے.انہیں کسی بناوٹ کی ضرورت ہی نہیں رہتی.وہ اس کی ضروریات کو ایسے طور سے سمجھتا ہے کہ یہ خود بھی اس طرح نہیں سمجھ سکتا اور اس پر اس طرح فضل کرتا ہے کہ انسان خود حیران رہتا ہے.گر نہ ستانی بہ ستم مے رسد والی نوبت ہوتی ہے.لیکن انسان بہت سے زمانے پالیتا ہے جب اس پر ایسا زمانہ آتا ہے کہ خدا اس کا متولّی ہوجائے یعنی اس کو خدا کی تولّیّت حاصل کرنے سے پہلے کئی متولّیوں کی تولّیّت سے گذرنا پڑتا ہے.جیسا کہ خدا فرماتا ہے قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ اِلٰهِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ١ۙ۬ الْخَنَّاسِ الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ(النّاس:۲تا۷) پہلے حاجت ماں باپ کی پڑتی ہے پھرجب بڑا ہوتا ہے تو بادشاہوں اور حاکموں کی حاجت پڑتی ہے پھر جب اس سے آگے قدم بڑھاتا ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ جن کو میں
نے متولّی سمجھاہوا تھا وہ خود ایسے کمزور تھے کہ ان کو متولّی سمجھنا میری غلطی تھی کیونکہ انہیں متولّی بنانے میں نہ تو میری ضروریات ہی حاصل ہو سکتی تھیں اور نہ ہی وہ میرے لیے کافی ہو سکتے تھے.پھر وہ خدا کی طرف رجوع کرتا ہے اور ثابت قدمی دکھانے سے خدا کو اپنا متولّی پاتا ہے اس وقت اس کو بڑی راحت حاصل ہوتی ہے اور ایک عجیب طمانیت کی زندگی میں داخل ہوجاتا ہے.خصوصاً جب خدا کسی کو خود کہے کہ میں تیرا متولّی ہوا تو اس وقت جو راحت اور طمانیت اس کو حاصل ہوتی ہے وہ ایسی حالت پیدا کرتی ہے کہ جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا.یہ حالت تمام تلخیوں سے پاک ہوتی ہے.دنیاوی حالتوں میں انسان تلخی سے خالی نہیں ہوسکتا.دشتِ دنیا کانٹوں اور تلخیوں سے بھری ہوئی ہے.؎ دشت دنیا جز در و جز دام نیست جز بخلوت گاہِ آرام نیست جن کا اللہ تعالیٰ متولّی ہوجاتا ہے.وہ دنیا کے آلام سے نجات پا جاتے ہیں اور ایک سچی راحت اور طمانیت کی زندگی میں داخل ہوجاتےہیں.ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ(الطلاق:۳،۴) جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہر ایک بَلا اور اَلم سے نکال لیتا ہے اور اس کےرزق کا خود کفیل ہوجاتا ہے اور ایسے طریق سے دیتا ہے کہ جو وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا.دنیا میں کئی قسم کے جرائم ہوتے ہیں.بعض جرائم قانون کی حد میں آسکتے ہیں اور بعض قانون کی حد میں بھی نہیں آسکتے.گناہ، خون اور نقب زنی وغیرہ جب کرتا ہے تو ان کی سزا قانون سے پاسکتا ہے.لیکن جھوٹ وغیرہ جو معمولی طور پر بولتا ہے یا بعض حقوق کی رعایت نہیں رکھتا وغیرہ ایسی باتیں ہوتی ہیں جن کے لیے قانون تدارک نہیں کرتا لیکن اللہ تعالیٰ کے خوف سے اور اس کو راضی کرنے کے لیے جو شخص ہر ایک بدی سے بچتا ہے اس کو متقی کہتے ہیں.یہ وہی متقی ہے جس کی آج عدالت میں بحث تھی.ایک مولوی عدالت میںاز طرف کرم دین مستغیث گواہ تھا اور اس پر جرح تھی.اثنائے جرح میں اس نے بحلف بیان کیا کہ ایک شخص زنا بھی کرے، جھوٹ بولے یا خیانت کرے، دغا دے، فریب کرے وغیرہ وغیرہ تو پھر بھی وہ متقی ہی رہتا ہے.اللہ تعالیٰ تو متقی کے لیے وعدہ کرتا ہے کہ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ
يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا (الطلاق:۳) یعنی جو اللہ تعالیٰ کے لیے تقویٰ اختیار کرتا ہے تو ہر مشکل سے اللہ تعالیٰ اس کو رہائی دے دیتا ہے لوگوں نے تقویٰ کے چھوڑنے کے لیے طرح طرح کے بہانے بنا رکھے ہیں.بعض کہتے ہیں کہ جھوٹ بولے بغیر ہمارے کاروبار نہیں چل سکتے اور دوسرے لوگوں پر الزام لگاتے ہیں کہ اگر سچ کہا جائے تو وہ لوگ ہم پر اعتبار نہیں کرتے.پھر بعض لوگ ایسے ہیں جوکہتے ہیںکہ سُود لینے کے بغیر ہمارا گذارہ نہیں ہو سکتا.ایسے لوگ کیوںکر متقی کہلا سکتے ہیں.خدا تعالیٰ تو وعدہ کرتا ہے کہ میں متقی کو ہر ایک مشکل سے نکالوں گا اور ایسے طور سے رزق دوں گا جو گمان اور وہم میں بھی نہ آسکے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے جو لوگ ہماری کتاب پر عمل کریں گے ان کو ہر طرف سے اوپر سے اور نیچے سے رزق دوں گا.پھر فرمایا ہے کہ وَ فِي السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ (الذّٰ رِیٰت:۲۳) جس کا مطلب یہی ہے کہ رزق تمہارا تمہاری اپنی محنتوں اور کوششوں اور منصوبوں سے وابستہ نہیں.وہ اس سے بالاتر ہے.یہ لوگ ان وعدوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور تقویٰ اختیار نہیں کرتے.جو شخص تقویٰ اختیار نہیں کرتا وہ معاصی میں غرق رہتا ہے اور بہت ساری رکاوٹیں اس کی راہ میں حائل ہوجاتی ہیں.لکھا ہے کہ ایک ولی اللہ کسی شہر میں رہتے تھے انکی ہمسائگت میں ایک دنیا دار بھی رہتا تھا.ولی ہر روز تہجد پڑھا کرتا تھا.ایک دفعہ دنیا دار کےدل میںخیال آیا کہ یہ شخص جو ہر روز تہجد پڑھا کرتا ہے میں بھی تہجد پڑھوں.غرض یہی ارادہ مصمّم کر کے وہ ایک رات اٹھا اور تہجد کی نماز پڑھی.اس کو تہجد پڑھنے سے اس قدر تکلیف ہوئی کہ کمر میں درد شروع ہوگیا.اس ولی اللہ کو خبر ملی کہ رات ان کے دنیا دار ہمسایہ نے تہجد کی نماز پڑھی تھی تو اس کے سبب سے اس کے کمر درد ہونے لگا ہے.وہ عیادت کے لیے آیا اور اس سے حال پوچھا.دنیا دار نے کہا کہ میں آپ کو دیکھا کرتا تھا کہ آپ ہر رات تہجد پڑھتے ہیں.میرے خیال میں بھی آیا کہ میں بھی تہجد پڑھوں سو آج رات میں تہجد پڑھنے اٹھا اور یہ مصیبت مجھ پر آگئی.اس نے جواب میں کہا کہ تجھے اس فضول سے کیا؟ پہلے چاہیے تھا کہ تو اپنے آپ کو صاف کرتا اور پھر تہجد کا ارادہ کرتا.اللہ تعالیٰ کی اجابت بھی متقین کے لیے ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ(المآئدۃ:۲۸) درحقیقت جب تک انسان تقویٰ اختیار نہ کرے اس وقت
تک اللہ تعالیٰ اس کی طرف رجوع نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ کی ذات میں بے نظیر صفات ہیں جو لوگ اس کی راہ پر چلتے ہیں.انہیں کو اس سے اطلاع ملتی ہے اور وہی اس سے مزہ پاتے ہیں.خدا سے رشتہ میں اس قدر شیرینی اور لذّت ہوتی ہے کہ کوئی پھل ایسا شیریں نہیںہوتا.خدا تعالیٰ سے جلدی کوئی شخص خبر گیراں نہیں ہوسکتا.پھر جس کا خدا متولّی ہوجاتا ہے اس کو کئی فائدے ہوتےہیں.ایک تو وہ طمانیت کی زندگی میں داخل ہوجاتا ہے اور وہ راحت پاتا ہے جو کسی دنیا دار کو نصیب ہونا ناممکن ہے اور ایسی لذّت پاتا ہے جو کہیں دوسری جگہ نصیب نہیں ہوسکتی اور اس کا متولّی ایسا زبردست ثابت ہوتا ہے کہ ہرایک مشکل سے بہت جلدی نکالتا اور خبر گیری کرتا ہے.یہ لوگ بالکل بے ہودہ جھگڑوں میں پڑے ہوئے ہیں.جھوٹی باتوں کی پیروی کرتے ہیں.نماز اگر پڑھتے ہیں تو ریا کے لیے پڑھتے ہیں وہ نماز جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلائی تھی وہ نہیں پڑھتے.یہ وہ نماز ہے جس کے پڑھنے سے انسان ابدال میں داخل ہو جاتا ہے.گناہ اس کےدور ہوجاتے ہیں.دعائیں قبول ہوتی ہیں.انسان خدا کا قرب حاصل کرلیتا ہے.اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ (العنکبوت:۳) لوگ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ صرف منہ سے کہہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں کافی ہے اور کوئی امتحانی مشکل پیش نہ آئے گی.یہ بالکل غلط خیال ہے.اللہ تعالیٰ مومن پر ابتلا بھیج کر امتحان کرتا ہے.تمام راست بازوں سے خدا کی یہی سنّت ہے وہ مصائب اور شدائد میں ضرور ڈالے جاتے ہیں.انقطاع اِلَی اللہ مصائب بھی دو قسم کے ہوتےہیں.ایک تو وہ مصائب ہیں جو زیرِسایہ شریعت ہوتے ہیں.انسان احکام کی تعمیل کے لیے انقطاع حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس طرف ہر ایک دنیاوی تعلق میں جو کشش ہے وہ اس کو اپنی طرف کھینچتی ہے.بیوی، بچے، دوست، دنیاداری کی رسوم کے تعلقات چاہتے ہیں کہ ہماری کشش اس پر ایسی ہو کہ وہ ہماری طرف کھنچا چلا آوے اور ہم میں ہی محو رہے.تعمیل احکام کی کشش ان سے انقطاع کا تقاضا کرتی ہے.ان سب کا چھوڑنا ایک موت کا سامنا ہوتا ہے.۱البدر جلد ۳ نمبر ۲۵ مورخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۳تا۶
ہمارا یہ مطلب تو نہیں کہ ان سب کو اس طرح چھوڑے کہ ان سے کوئی تعلق ہی نہ رکھے.ایک طرف بیوی بیواؤں کی طرح ہو جائے اور بچے یتیموں کی طرح ہوجائیں.قطع رحم ہوجائے بلکہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ بیوی بچوں کا پورا تعہد کرے.ان کی پرورش پورے طور سے کرے اور حقوق ادا کرے.صلہ رحم کرے لیکن دل ان میں اور اسباب دنیا میں نہ لگاوے.دل بایار دست بکار رہے اگرچہ یہ بات بہت نازک ہے مگر یہی سچا انقطاع ہے جس کی مومن کو ضرورت ہے.وقت پر خدا کی طرف ایسا آجاوے کہ گویا وہ ان سے کورا ہی تھا.حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نسبت لکھتے ہیںکہ حضرت امام حسینؓصاحب نے ایک دفعہ سوال کیا کہ آپ مجھے محبت کرتے ہیں.حضرت علیؓ نے فرمایا.ہاں.پھر پوچھا آپ اللہ سے محبت رکھتے ہیں حضرت علیؓ نے فرمایا.ہاں.حضرت حسین علیہ السلام نے اس پر بڑا تعجب کیا اور کہا کہ ایک دل میں دو محبتیںکس طرح جمع ہوسکتی ہیں پھر حضرت حسین علیہ السلام نے کہا کہ وقت مقابلہ پر آپ کس سے محبت کریں گے.فرمایا اللہ سے.غرض انقطاع ان کے دلوں میں مخفی ہوتا ہے اور وقت پر ان کی محبت صرف اللہ کے لیے رہ جاتی ہے.مولوی عبد اللطیف صاحب نے عجیب نمونہ انقطاع کا دکھلایا.جب انہیں گرفتار کرنے آئے تو لوگوں نے کہا کہ آپ گھر سے ہو آویں.آپ نے فرمایا میرا ان سے کیا تعلق ہے.خدا سے میرا تعلق ہے سو اس کا حکم آن پہنچا ہے.میں جاتا ہوں.ہر چیز کی اصلیت امتحان کے وقت ظاہر ہوتی ہے.اصحاب رسول اللہ سب کچھ رکھتے تھے.زن و فرزند اور اموال اور اقارب سب کچھ ان کے موجود تھے.عزّتیں اور کاروبار بھی رکھتے تھے مگر انہوں نے اس طرح شہادت کو قبول کیا کہ گویا ایک شیریں پھل انہیں میسر آگیا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کے لیے موت کو پسند کرتے.ایک طرف تعہد حقوقِ عیال و اطفال میں کمال دکھایا اور دوسری طرف ایسا انقطاع کہ گویا وہ بالکل کورے تھے.یہاںتک کہ اللہ تعالیٰ کے لیے موت کو پسند کرتے کبھی نامَردی نہ دکھاتے بلکہ آگے ہی قدم رکھتے.ایسی محبت سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جان دیتے تھے کہ بیوی بچوں کو بَلا جیسی سمجھتے تھے.اگر بیوی بچے مزاحم ہوں تو ان کو دشمن سمجھتے تھے اور یہی معنے انقطاع کے ہیں.آجکل کے
ہمارا یہ مطلب تو نہیں کہ ان سب کو اس طرح چھوڑے کہ ان سے کوئی تعلق ہی نہ رکھے.ایک طرف بیوی بیواؤں کی طرح ہو جائے اور بچے یتیموں کی طرح ہوجائیں.قطع رحم ہوجائے بلکہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ بیوی بچوں کا پورا تعہد کرے.ان کی پرورش پورے طور سے کرے اور حقوق ادا کرے.صلہ رحم کرے لیکن دل ان میں اور اسباب دنیا میں نہ لگاوے.دل بایار دست بکار رہے اگرچہ یہ بات بہت نازک ہے مگر یہی سچا انقطاع ہے جس کی مومن کو ضرورت ہے.وقت پر خدا کی طرف ایسا آجاوے کہ گویا وہ ان سے کورا ہی تھا.حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نسبت لکھتے ہیںکہ حضرت امام حسینؓصاحب نے ایک دفعہ سوال کیا کہ آپ مجھے محبت کرتے ہیں.حضرت علیؓ نے فرمایا.ہاں.پھر پوچھا آپ اللہ سے محبت رکھتے ہیں حضرت علیؓ نے فرمایا.ہاں.حضرت حسین علیہ السلام نے اس پر بڑا تعجب کیا اور کہا کہ ایک دل میں دو محبتیںکس طرح جمع ہوسکتی ہیں پھر حضرت حسین علیہ السلام نے کہا کہ وقت مقابلہ پر آپ کس سے محبت کریں گے.فرمایا اللہ سے.غرض انقطاع ان کے دلوں میں مخفی ہوتا ہے اور وقت پر ان کی محبت صرف اللہ کے لیے رہ جاتی ہے.مولوی عبد اللطیف صاحب نے عجیب نمونہ انقطاع کا دکھلایا.جب انہیں گرفتار کرنے آئے تو لوگوں نے کہا کہ آپ گھر سے ہو آویں.آپ نے فرمایا میرا ان سے کیا تعلق ہے.خدا سے میرا تعلق ہے سو اس کا حکم آن پہنچا ہے.میں جاتا ہوں.ہر چیز کی اصلیت امتحان کے وقت ظاہر ہوتی ہے.اصحاب رسول اللہ سب کچھ رکھتے تھے.زن و فرزند اور اموال اور اقارب سب کچھ ان کے موجود تھے.عزّتیں اور کاروبار بھی رکھتے تھے مگر انہوں نے اس طرح شہادت کو قبول کیا کہ گویا ایک شیریں پھل انہیں میسر آگیا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کے لیے موت کو پسند کرتے.ایک طرف تعہد حقوقِ عیال و اطفال میں کمال دکھایا اور دوسری طرف ایسا انقطاع کہ گویا وہ بالکل کورے تھے.یہاںتک کہ اللہ تعالیٰ کے لیے موت کو پسند کرتے کبھی نامَردی نہ دکھاتے بلکہ آگے ہی قدم رکھتے.ایسی محبت سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جان دیتے تھے کہ بیوی بچوں کو بَلا جیسی سمجھتے تھے.اگر بیوی بچے مزاحم ہوں تو ان کو دشمن سمجھتے تھے اور یہی معنے انقطاع کے ہیں.آجکل کے رہبانوں کی طرح نہیں کہ بالکل بیوی بچے سے تعلق چھوڑ دے اور سارے جہاں سے ایک طرف ہوجائے.آسمان پر رہبانیت کے انقطاع کی کچھ قدر نہیں.صوفی منقطعین بھی نمونے دکھاتے رہے ہیں کہ بازن و فرزند اور با خدا رہے ہیں پھر جب وقت آیا تو زن و فرزند کو چھوڑا، اللہ تعالیٰ کی طرف ہوگئے.وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف منقطع ہوتے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حال دیکھئے کیا انقطاع کا نمونہ ان سے ظاہر ہوا.جو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ضائع کرنا چاہتا ہے اللہ اس کو ضائع نہیں کرتا اور اس کا نشان دنیا سے معدوم نہیں کرتا.میرا مطلب یہ ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ایسا اخلاص ظاہر کریں اور اس قدر کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوجائے دوست دوست سے راضی نہیں ہوسکتا جب تک اس کے لیے وفاداری ظاہر اور ثابت نہ ہو.کسی کے دو خدمتگار ہوں ایک وفادار اور مخلص ثابت ہو اور اپنے فرائض کو نہ رسم و رواج اور دباؤ سے بلکہ پوری محبت اور وفاداری اور اخلاص سے ادا کرے اور دوسرا ایسا ہو جو بے دلی سے اور رسمی طور پر کچھ کام کرے تو ان میں سے مالک اسی پہلے پر راضی ہوگا اور اسی کی باتوںکوسنے گا اور اسی پر اعتبار کرے گا اور وفادار ہی کو پیار کرے گا.فیجِ اعوج کے زمانہ میں تعصّب بڑھ گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ عَادَا وَلِیًّا لِیْ فَعَادَا اِلَیَّ.ان لوگوں کو یہ خیال نہیں کہ ان کے تعصّب نے ان کو خدا سے بالکل دور کر دیا ہے.ایک زمانہ آنے والا ہے کہ جس قدر ہم لوگ ہیں وہ سب نہ ہوں گے.رسمی نمازوں سے خدا راضی نہیں ہوتا.دنیا کے دوست بھی صرف الفاظ سے نہیں بنتے اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے.اسلام کا لفظ ہی مسلمان بناتا ہے.اس کا مطلب یہی ہے کہ وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور حکموں پر گردن جھکائی جاوے.یہ لقب کسی اور ملّت کو نہیں دیا گیا.اس اُمّت پر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے.اسلام جس بات کو چاہتا ہے وہ اسی جگہ سے اسلام کے ذریعہ سے حاصل ہوجاتا ہے.وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ(الرحـمٰن:۴۷) خدا کے دیدار کے واسطے اسی جگہ سے حواس ملتے ہیں.مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى(بنی اسـرآءیل:۷۳) جو یہاں خدا نہیں دیکھتا وہ وہاں بھی نہیں دیکھ سکے گا.۱
یکم جون۱۹۰۴ء (قبل از شام) دعا دعا کی مثال ایک چشمہ شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھا ہوا ہے وہ جب چاہے اس چشمہ سے اپنے آپ کو سیراب کر سکتا ہے.جس طرح ایک مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح مومن کا پانی دعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا.اس دعا کا ٹھیک محل نماز ہے جس میں وہ راحت اور سرور مومن کو ملتا ہے کہ جس کے مقابل ایک عیاش کا کامل درجہ کا سرور جو اسے کسی بد معاشی میں میسر آسکتا ہے ہیچ ہے.بڑی بات جو دعا میں حاصل ہوتی ہے وہ قربِ الٰہی ہے.دعا کے ذریعہ ہی انسان خدا کے نزدیک ہوجاتا اور اسے اپنی طرف کھینچتا ہے.جب مومن کی دعا میں پورا اخلاص اور انقطاع پیدا ہوجاتا ہے تو خدا کو بھی اس پر رحم آجاتا ہے اور خدا اس کا متولّی ہوجاتا ہے.اگر انسان اپنی زندگی پر غور کرے تو الٰہی تولّی کے بغیر انسانی زندگی قطعاً تلخ ہوجاتی ہے.دیکھ لیجئے کہ جب انسان حد بلوغت پر پہنچتا ہے اور اپنے نفع نقصان کو سمجھنے لگتا ہے تو نامُرادیوں ناکامیابیوں اور قسما قسم کے مصائب کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے.وہ ان سے بچنے کے لیے طرح طرح کی کوششیں کرتا ہے.دولت کے ذریعہ، اپنے تعلق حکّام کے ذریعہ، قسما قسم کے حیلہ و فریب کے ذریعہ وہ بچاؤ کے راہ نکالتا ہے، لیکن مشکل ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہو.بعض وقت اس کی تلخ کامیوں کا انجام خود کشی ہوجاتی ہے.اب اگر ان دنیا داروں کے غموم و ہموم اور تکالیف کا مقابلہ اہل اللہ یا انبیاء کے مصائب کے ساتھ کیا جاوے تو انبیاء علیہم السلام کے مصائب بمقابل اوّل الذّکر جماعت کے مصائب بالکل ہیچ ہیں.لیکن یہ مصائب و شدائد اس پاک گروہ کو رنجیدہ یا محزون نہیں کر سکتے.ان کی خوشحالی اور سرور میں فرق نہیں آتا کیونکہ وہ اپنی دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی تولّی میں پھر رہے ہیں.استقامت ایک معجزہ ہے دیکھو اگر ایک شخص کا ایک حاکم سے تعلق ہو اور مثلاً اس حاکم نے اسے اطمینان بھی دیا ہو کہ وہ اپنے مصائب کے وقت اس
سے استعانت کرسکتا ہے تو ایسا شخص کسی ایسی تکلیف کے وقت جس کی گرہ کشائی اس حاکم کے ہاتھ میںہے عام لوگوں کے مقابل کم درجہ رنجیدہ اور غمناک ہوتا ہے تو پھر وہ مومن جس کا اس قسم کا بلکہ اس سے بھی زیادہ مضبوط تعلق احکم الحاکمین سے ہو وہ کب مصائب و شدائد کے وقت گھبراوے گا.انبیاء علیہم السلام پر جو مصیبتیں آتی ہیں اگر ان کا عشر عشیر بھی ان کے غیر پر وارد ہو تو اس میں زندگی کی طاقت باقی نہ رہے.یہ لوگ جب دنیا میں بغرضِ اصلاح آتے ہیں تو ان کی کُل دنیا دشمن ہوجاتی ہے.لاکھوں آدمی ان کے خون کے پیاسے ہوتے ہیں لیکن یہ خطرناک دشمن بھی ان کے اطمینان میں خلل انداز نہیں ہوسکتے.اگر ایک شخص کا ایک دشمن بھی ہو تو وہ کسی لمحہ بھی اس کے شر سے امن میں نہیں رہتا چہ جائیکہ ملک کا ملک ان کا دشمن ہو اور پھر یہ لوگ باامن زندگی بسر کریں ان تمام تلخ کامیوں کو ٹھنڈے دل سے برداشت کر لیں.یہ برداشت ہی معجزہ و کرامت ہے.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی استقامت ان کے لاکھ معجزوں سے بڑھ کر ایک معجزہ ہے.کُل قوم کا ایک طرف ہونا.دولت،سلطنت، دنیوی وجاہت، حسینہ جمیلہ بیویاں وغیرہ سب کچھ کے لالچ قوم کا اس شرط پر دینا کہ وہ اعلائے کلمۃ اللہ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ سے رک جاویں لیکن ان سب کے مقابل جناب رسالت مآب کا قبول کرنا اور فرمانا کہ میں اگر اپنے نفس سے کرتا تو یہ سب باتیں قبول کرتا میں تو حکم خدا کے ماتحت یہ سب کچھ کر رہا ہوں اور پھر دوسری طرف سب تکالیف کی برداشت کرنا یہ ایک فوق الطاقت معجزہ ہے.یہ سب طاقت اور برداشت اس دعا کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے جو مومن کو خدا نے عطا کی ہے.ان لوگوں کی دردناک دعا بعض وقت قاتلوں کے سفّاکانہ حملہ کو توڑ دیتی ہے.حضرت عمرؓ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لیے جانا آپ لوگوں نے سنا ہوگا.ابوجہل نے ایک قسم کا اشتہار قوم میں دے رکھا تھا کہ جو جناب رسالت مآب کو قتل کرے گا وہ بہت کچھ انعام و اکرام کا مستحق ہوگا.حضرت عمرؓ نے مشرف باسلام ہونے سے پہلے ابوجہل سے معاہدہ کیا اور قتلِ حضرت کے لیے آمادہ ہوگیا.اس کو کسی عمدہ وقت کی تلاش تھی.دریافت پر اسے معلوم ہوا کہ حضرت نصف شب کے ۱الحکم جلد ۸ نمبر ۱۹،۲۰ مورخہ ۱۰،۱۷؍ جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۶
وقت خانہ کعبہ میں بغرض نماز آتے ہیں.یہ وقت عمدہ سمجھ کر حضرت عمرؓ سرِ شام خانہ کعبہ میں جاچھپے.آدھی رات کے وقت جنگل میں سے لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کی آواز آنی شروع ہوئی.حضرت عمرؓ نے ارادہ کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گریں تو اس وقت قتل کروں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درد کے ساتھ مناجات شروع کی اور سجدہ میں اس طرح حمد الٰہی کا ذکر کیا کہ حضرت عمر کا دل پسیج گیا.اس کی ساری جرأت جاتی رہی اور اس کا قاتلانہ ہاتھ سست ہوگیا.نماز ختم کر کے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر کو چلے تو ان کے پیچھے حضرت عمرؓ ہوگئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آہٹ پاکر دریافت کیا اور معلوم ہونے پر فرمایا کہ اے عمر کیا تو میرا پیچھا نہ چھوڑے گا.حضرت عمرؓ بد دعا کے ڈر سے بول اٹھے کہ حضرت میں نے آپ کے قتل کا ارادہ چھوڑ دیا.میرے حق میں بد دعا نہ کیجئے گا چنانچہ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ وہ پہلی رات تھی جب مجھ میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی.سو میرے نزدیک شقُّ القمر کا معجزہ ایسا زبردست معجزہ نہیں جیسے رسول پاکؐکی استقامت ایک معجزہ ہے.اس میں شک نہیں کہ ضرورتِ وقت کے لحاظ سے انبیاء علیہم السلام معجزہ دکھلاتے ہیں اور وہ نور و ہدایت اپنے اندر رکھتے ہیں لیکن ان سب معجزات سے بڑھ کر استقامت ایک معجزہ ہے.آج چوبیس سال مجھ پر گذر گئے جب میں نے دعویٰ وحی و الہام کیا.جو لوگ میرے پاس رات دن بیٹھتے ہیں وہ دیکھتے ہیں اور گواہ اس بات کے ہیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ ہر روز مجھے اپنے کلام سے مشرف کرتا ہے اور کس طرح جو مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے وہ پورا ہوتا ہے.اب کیا میں ہر روز افترا کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ بھی اس قدر صابر ہے کہ ایسے مفتری کو مہلت دے رہا ہے.پیغمبر صاحب کو تو یہ حکم کہ اگر تو ایک افترا مجھ پر باندھتا تو میں تیری رگ گردن کاٹ دیتا جیسے کہ آیت لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْل لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ(الـحاقۃ: ۴۵تا۴۷) سے ظاہر ہوتا ہے اور یہاں چوبیس سال سے روزانہ افترا خدا پر ہو اور خدا اپنی سنّتِ قدیمہ کو نہ برتے.بدی کرنے میں اور جھوٹ بولنے میں کبھی مداومت اور استقامت نہیں ہوتی.آخر کار انسان دروغ کو چھوڑ ہی دیتا ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ ملفوظات ۲۳؍ ستمبر ۱۹۰۳ء کی ڈائری میں چھپ چکے ہیں.
ہے لیکن کیا میری ہی فطرت ایسی ہو رہی ہے کہ میں چوبیس سال سے اس جھوٹ پر قائم ہوں اور برابر چل رہا ہوں اور خدا تعالیٰ بھی بالمقابل خاموش ہے اور بالمقابل ہمیشہ تائیدات پر تائیدات کر رہا ہے.پیشگوئی کرنا یا علم غیب سے حصّہ پانا کسی ایک معمولی ولی کا بھی کام نہیں یہ نعمت تو اس کو عطا ہوتی ہے جو حضرتِ احدیت مآب میں خاص عزّت اور وجاہت رکھتا ہے.اب دیکھ لیا جاوے کہ خدا تعالیٰ نے کس قدر پیشگوئیاں میرے ہاتھ پر پوری کیں.براہین احمدیہ اور اس میں جو میرے آئندہ حالات درج ہیں ان کو دیکھا جاوے اور پھر میرے آج کل کے حالات کو دیکھا جاوے کہ وہ تمام کس طرح پورے ہوئے پھر جو جو نشانات مسیح موعود کے زمانہ کے آثار ہیں موجود ہیں وہ کس طرح اس زمانہ میں پورے ہوگئے.رمضان میں کسوف خسوف کا ہونا، ریل کا جاری ہوکر اونٹنیوں کا حجاز میں بھی بند ہوجانا، طاعون کا نمودار ہونا یہ سب علامات ہیں جو زمانہ مہدی کے ساتھ مختص ہیں یہ خدا نے کیوں پورے کیے؟ کیا ایک کذّاب اور مفتری علی اللہ کی رونق افزائی کے لیے جو چوبیس سال سے برابر افترا باندھ رہا ہے.آخر میں میں یہ وصیت کرتا ہوں کہ عمر کا کوئی بھروسہ نہیں.یہ وقت ہے اس کو غنیمت سمجھا جاوے.یہ خدا تعالیٰ کے نشان ہیں.ا ن سے منہ موڑنا خدا تعالیٰ کی حکم عدولی ہے.دیکھو! ایک مجازی حاکم کا پیادہ اگر آجاوے اور پیادہ جس حکم کو لاتا ہے اس کی پروا نہ کی جاوے تو پھر یہ حکم عدولی کیسے بد نتائج پیدا کرتی ہے چہ جائیکہ خدا تعالیٰ کی حکم عدولی.دنیا میں جب کبھی کوئی خدا کا مرسل آوے گا وہ انسان ہی ہوگا.اس کے اوضاع و اطوار انسانوں والے ہی ہوں گے آخر فرشتہ کو تو نہیں آنا.یہ لوگ اس کے لوازم انسانیت سے گھبرا جاتےہیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے ایک حجاب ہے جو اس کے جامہء نبوت کو چھپائے ہوئے ہے لیکن یہ حجاب ضروری ہے جس میں ہر ایک نبی مستور ہوتا ہے.مبارک ہے وہ جو اس حجاب کے اندر اس شخص کو دیکھ لے.۱ ابتدائے جون ۱۹۰۴ء (بمقام گورداسپور)
تعدّد ازدواج.مقصد اور حدود ایک احمدی صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ تعدد ازواج میں جو عدل کا حکم ہے کیا اس سے یہی مراد ہے کہ مَرد بحیثیت اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (النسآء:۳۵) کے خود ایک حاکم عادل کی طرح جس بیوی کو سلوک کے قابل پاوے ویسا سلوک اس سے کرے یا کچھ اور معنے ہیں.حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ محبت کو قطع نظر بالائے طاق رکھ کر عملی طور پر سب بیویوں کو برابر رکھنا چاہیے.مثلاً پارچہ جات، خرچ خوراک، معاشرت حتی کہ مباشرت میں بھی مساوات برتے.یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوا رہنا پسند کرے.خدا تعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہے وہی ان کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے.ایسے لذّات کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے تلخ زندگی بسر کر لینی ہزارہا درجہ بہتر ہے.تعدّد ازواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو صرف اس لیے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بچا رہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے کہ اگر انسان اپنے نفس کا میلان اور غلبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہو تو زنا سے بچنے کے لیے دوسری شادی کر لے لیکن پہلی بیوی کے حقوق تلف نہ کرے.تورات سے بھی یہی ثابت ہے کہ اس کی دلداری زیادہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصّہ اس نے اس کے ساتھ گذارا ہوا ہوتا ہے اور ایک گہرا تعلق خاوند کا اس کے ساتھ ہوتا ہے.پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہاںتک کرنی چاہیے کہ اگر کوئی ضرورت مَرد کو ازدواجِ ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر ان اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لیے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے.اس قدر ذکر ہوا تھا کہ ایک صاحب نے اٹھ کر عرض کی کہ البدر۱ اور الحکم اخباروں میں تعدّد ازواج
کی نسبت جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ذمہ دوسرا نکاح حضور نے فرض کر دیا ہے.آپؑنے فرمایا کہ ہمیں جو کچھ خدا تعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بِلا کسی رعایت کے بیان کرتے ہیں.قرآن شریف کا منشا زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کو تقویٰ پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مِثل اولاد صالحہ کے حاصل کرنے اور خویش و اقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہواور اپنی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کر لو لیکن اگر ان میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہوگا.اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے.دل دکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں جب والدین ان کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالہ کرتےہیں تو خیال کرو کہ کیا امیدیں ان کے دلوں میں ہوتی ہیں اور جن کا اندازہ انسان عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النّسآء:۲۰) کے حکم سے ہی کر سکتا ہے.اگر انسان کا سلوک اپنی بیوی سے عمدہ ہو اور اسے ضرورتِ شرعی پیداہوجاوے تو اس کی بیوی اس کے دوسرے نکاحوں سے ناراض نہیں ہوتی.ہم نے اپنے گھر میں کئی دفعہ دیکھا ہے کہ وہ ہمارے نکاح والی پیشگوئی کے پورا ہونے کے لیے رو رو کر دعائیں کرتی ہیں.اصل بات یہ ہے کہ بیویوں کی ناراضگی کا بڑا باعث خاوند کی نفسانیت ہوا کرتی ہے اور اگر ان کو اس بات کا علم ہو کہ ہمارا خاوند صحیح اغراض اور تقویٰ کے اصول پر دوسری بیوی کرنا چاہتا ہے تو پھر وہ کبھی ناراض نہیں ہوتیں.فساد کی بنا تقویٰ کی خلاف ورزی ہوا کرتی ہے.خدا کے قانون کو اس کے منشا کے بر خلاف ہرگز نہ برتنا چاہیے اور نہ اس سے ایسا فائدہ اٹھانا چاہیے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سِپَر بن جاوے.یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیّت ہے.خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہو بلکہ تمہاری غرض ہر ایک اَمر میں تقویٰ ہو.اگر شریعت کو سِپَر بنا کر شہوات کی اتباع کے لیے بیویاں کی جاویں گی تو سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہوگا کہ دوسری قومیں اعتراض کریں کہ مسلمانوں کو بیویاںکرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں.زنا کا نام ہی
گناہ نہیں بلکہ شہوات کا کھلے طور پر دل میں پڑ جانا گناہ ہے.دنیاوی تمتع کا حصّہ انسانی زندگی میں بہت ہی کم ہونا چاہیے تاکہ فَلْيَضْحَكُوْا قَلِيْلًا وَّ لْيَبْكُوْا كَثِيْرًا (التوبۃ:۸۲)یعنی ہنسو تھوڑا اور روؤ بہت کا مصداق بنو لیکن جس شخص کی دنیاوی تمتع کثرت سے ہیں اور وہ رات دن بیویوں میں مصروف ہے.اس کو رقّت اور رونا کب نصیب ہوگا.اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک خیال کی تائید اور اتباع میں تمام سامان کرتے ہیں اور اس طرح سے خدا تعالیٰ کے اصل منشا سے دور جاپڑتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اگرچہ بعض اشیاء جائز تو کردی ہیں، مگر اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ عمر ہی اس میں بسر کی جاوے.خدا تعالیٰ تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا(الفرقان: ۶۵) کہ وہ اپنے ربّ کے لیے تمام تمام رات سجدہ اور قیام میں گذارتے ہیں.اب دیکھو رات دن بیویوں میں غرق رہنے والا خدا کے منشا کے موافق رات کیسے عبادت میں کاٹ سکتا ہے.وہ بیویاں کیا کرتا ہے گویا خدا کے لیے شریک پیدا کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں اور باوجود ان کے پھر بھی آپ ساری ساری رات خدا کی عبادت میں گذارتے تھے.ایک رات آپؐکی باری عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی.کچھ حصّہ رات کا گذر گیا تو عائشہؓ کی آنکھ کھلی دیکھا کہ آپ موجود نہیں.اسے شبہ ہوا کہ شاید آپ کسی اور بیوی کےہاں گئے ہوں گے اس نے اٹھ کر ہر ایک کے گھر میں تلاش کیا مگر آپؐنہ ملے.آخر دیکھا کہ آپؐقبرستان میں ہیں اور سجدہ میں رو رہے ہیں.اب دیکھو کہ آپؐ زندہ اور چاہتی بیوی کو چھوڑ کر مُردوں کی جگہ قبرستان میں گئے اور روتے رہے تو کیا آپؐکی بیویاں حظِّ نفس یا اتباعِ شہوت کی بنا پر ہو سکتی ہیں؟ غرض کہ خوب یاد رکھو کہ خدا کا اصل منشا یہ ہے کہ تم پر شہوات غالب نہ آویں اور تقویٰ کی تکمیل کے لیے اگر ضرورتِ حقّہ پیش آوے تو اور بیوی کر لو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمتع دنیاوی کا یہ حال تھا کہ ایک بار حضرت عمرؓ آپؐسے ملنے گئے.ایک لڑکا بھیج کر اجازت چاہی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے.جب حضرت عمرؓ اندر آئے تو آپؐاٹھ کر بیٹھ گئے.حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ مکان سب خالی پڑا ہے اور کوئی زینت کا سامان اس میں نہیں ہے.ایک کھونٹی پر تلوار لٹک
ہے کہ اِنَّـمَا الْاَعْـمَالُ بِالنِّیَّاتِ.انسان کے ہر عمل کا مدار اس کی نیت پر ہے.کسی کےدل کو چیر کر ہم نہیں دیکھ سکتے.اگر کسی کی یہ نیت نہیں ہے کہ زیادہ بیویاں کر کے عورتوں کی لذّات میں فنا ہو بلکہ یہ ہے کہ اس سے خادمِ دین پیدا ہوں تو کیا حرج ہے لیکن یہ اَمر بھی مشروط بشرائط بالا ہے.مثلاً اگر ایک شخص کی چار بیویاں ہوں اور ہر سال ہر ایک سے ایک ایک اولاد ہو تو چار سال میں سولہ بچے ہوں گے مگر بات یہ ہے کہ لوگ دوسرے پہلو کو ترک کر دیتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ صرف ایک پہلو پر ہی زور دیا جاوے حالانکہ ہمارا یہ منصب ہرگز نہیں ہے.قرآن شریف میں متفرق طور پر تقویٰ کا ذکر آیا ہے.لیکن جہاں کہیں بیویوں کا ذکر ہے وہاں ضرور ہی تقویٰ کا بھی ذکر ہے.ادائیگی حقوق ایک بڑی ضروری شَے ہے اسی لیے عدل کی تاکید ہے.اگر ایک شخص دیکھتا ہے کہ وہ حقوق کو ادا نہیں کر سکتا یا اس کی رجولیت کے قویٰ کمزور ہیں یا خطرہ ہو کہ کسی بیماری میں مبتلا ہوجائے تو اسے چاہیے کہ دیدۂ ودانستہ اپنے آپ کو عذاب میں نہ ڈالے.تقویٰ یعنی شرعی ضرورت جو اپنے محل پر ہو اگر موجود ہو تو پہلی بیوی خود تجویز کرتی ہے کہ خاوند اور نکاح کر لے.آخری نصیحت ہماری یہی ہے کہ اسلام کو اپنی عیاشیوں کے لیے سِپَر نہ بناؤ کہ آج ایک حسین عورت نظر آئی تو اسے کر لیا.کل اور نظر آئی تو اسے کر لیا.یہ تو گویا خدا کی گدی پر عورتوں کو بٹھانا اور اسے بھلا دینا ہوا.دین تو چاہتا ہے کہ کوئی زخم دل پر ایسا رہے جس سے ہر وقت خدا تعالیٰ یاد آوے ورنہ سلبِ ایمان کا خطرہ ہے.اگر صحابہ کرامؓ عورتیں کرنے والے اور انہیں میں مصروف رہنے والے ہوتے تو اپنے سر جنگوں میں کیوں کٹواتے حالانکہ ان کا یہ حال تھا کہ ایک کی انگلی کٹ گئی تو اسے مخاطب ہو کے کہا کہ تو ایک انگلی ہی ہے اگر کٹ گئی تو کیا ہوا مگر جو شب و روز عیش و عشرت میں مستغرق ہے وہ کب ایسا دل لا سکتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں میں اس قدر روتے اور قیام کرتے کہ آپؐکے پاؤں پر ورم ہو جاتا.صحابہؓ نے عرض کی کہ خدا تعالیٰ نے آپؐکے تمام گناہ بخش دیئے ہیں پھر اس قدر مشقّت اور رونے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا.کیا میں خدا کا شکر گذار بندہ نہ ہوں.۱ البدر جلد ۳ نمبر ۲۶ مورخہ ۸؍جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۲،۳
۴؍جون ۱۹۰۴ء نماز اصل میں دعا ہے ایک شخص کے سوال پر فرمایا کہ نماز اصل میں دعا ہے.نماز کا ایک ایک لفظ جو بولتا ہے وہ نشانہ دعا کا ہوتاہے.اگر نماز میں دل نہ لگے تو پھر عذاب کے لیے تیار رہے کیونکہ جو شخص دعا نہیں کرتا وہ سوائے اس کے کہ ہلاکت کے نزدیک خود جاتا ہے اور کیا ہے.ایک حاکم ہے جو بار بار اس اَمر کی ندا کرتا ہے کہ میں دکھیاروں کا دکھ اٹھاتا ہوں.مشکل والوں کی مشکل حل کرتا ہوں.میں بہت رحم کرتا ہوں.بیکسوں کی امداد کرتا ہوں لیکن ایک شخص جو کہ مشکل میں مبتلا ہے اس کے پاس سے گذرتا ہے اور اس کی ندا کی پروا نہیں کرتا نہ اپنی مشکل کا بیان کر کے طلب امداد کرتا ہے تو سوائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اور کیا ہوگا.یہی حال خدا تعالیٰ کا ہے کہ وہ تو ہر وقت انسان کو آرام دینے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ کوئی اس سے درخواست کرے.قبولیتِ دعا کے لیے ضروری ہے کہ نا فرمانی سے باز رہے اور دعا بڑے زور سے کرے کیونکہ پتھر پر پتھر زور سے پڑتا ہے تب آگ پیدا ہوتی ہے.اِلٰى رَبِّكَ يَوْمَىِٕذِ ا۟لْمُسْتَقَرُّ(القیامۃ:۱۳) اس آیت کو قیامت پر چسپاں کرنا غلطی ہے کیونکہ اس دن تو خدا کی طرف رجوع کرنا کسی کام نہ آوے گا بلکہ یہ اس زمانہ کی حالت ہے کہ طاعون کے بارے میں خواہ کوئی حیلہ حوالہ کریں ہرگز کام نہ آوے گا.آخر مستقر خدا تعالیٰ ہی ہوگا.لوگ جب اس کو مانیں گے تب وہ اس سے رہائی دے گا.اَيْنَ الْمَفَرُّ(القیامۃ:۱۱) بھی اسی پر چسپاں ہے کیونکہ دوسرے آفات میں تو کوئی نہ کوئی مفرّ ہوتا ہے مگر طاعون میں کوئی مفرّ نہیں ہے.صرف خدا کی پناہ ہی کام آوے گی.خدا تعالیٰ کی طرف ظلم کبھی منسوب نہیں ہوسکتا جو صادق ہوگا وہ ضرور اپنے صدق سے نفع پاوے گا.یہ وہی دن ہیں جن کی نسبت کہا گیا ہے هٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُهُمْ (المآئدۃ:۱۲۰) ۱ لبدر جلد ۳ نمبر ۲۵ مورخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ نیز الحکم جلد ۸ نمبر ۲۳،۲۴ مورخہ ۱۷،۲۴؍جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۲
۱۵؍جون ۱۹۰۴ء حقیقی تہذیب صنعت و حرفت میں دسترس حاصل کرنے، سیروسیاحت میں قوم کے افراد کو مشغول رہنے.لنڈن ہو آنے، مشینوں میں ترقی کرنے وغیرہ کو آجکل تہذیب کے نام سے نامزد کیا جاتا ہے.اور جب کسی قوم میں یہ باتیں ہوں تو اسے ایک مہذّب قوم کہتے ہیں یہ ذکر ایک صاحب نے حضرت اقدسؑ کی مجلس میں آج کیا.اس پر آپؑنے فرمایا کہ جس قوم میں راستی کا پیار نہیں.اعمال میں للّٰہیت نہیں اور ریاکاری اور خود پسندی ان کا شیوہ ہے اسے مہذّب نہیں کہہ سکتے.تہذیب کے اصول اخلاص، صدق اور توحید ہیں.وہ سوائے اسلام کے اور کسی دوسرے مذہب میں نہیں مل سکتے.عیسائیوں کو اَخلاق کا بڑا ناز ہے مگر ان کی جو بات دیکھو اسی میں گناہ ہے.کوئی عمل ہو اس میں ریاکاری ضرور ہے حالانکہ خُلق وہ ہے جو لِلہ ہو.خدا کی عظمت، اس پر ایمان اور نوعِ انسان کی خدمت یہ باتیں خُلق کی ہیں لیکن یہاں خدا کی جگہ تو ایک یسوع نامی کو دے دی گئی ہے اور مخلوق کے ساتھ جو معاملہ ہے وہ ظاہر ہے.بات یہ ہے کہ جب خدا کو شناخت ہی نہیں کیا تو اس پر نظر رکھ کر کسی کی خدمت کیا کر سکتے ہیں.سچے خُلق کا برتاؤ بہت مشکل ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ ہر ایک قویٰ کو بر محل برتا جاوے اور خدا سے ڈر کر وہ اپنی حد پر رہیں لیکن ایمان کے سوا یہ باتیں حاصل نہیں ہوتیں.ثواب اس کو ملا کرتا ہے جو خدا سے ڈر کر گناہ کو چھوڑتا ہے یا اس کو راضی کرنے کی محنت برداشت کر کے ایک نیکی کو کرتا ہے اور جب تک یہ نیت نہیں ہوتی تب تک ہرگز ثواب نہیں ملتا اگرچہ وہ کام بذاتِ خود نیک ہی ہو.ہندو لوگ بتوں کی خاطر کیا کیا کرتے ہیں.کتنی محنتیں اٹھاتے ہیں مگر سب کی سب رائیگاں جاتی ہیں.۱ البدر جلد ۳ نمبر ۲۵ مورخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۶
۱۹؍جون ۱۹۰۴ء (بوقتِ ظہر) متقی کون ہے؟ ایک مولوی صاحب جن کے والد بزرگوار احمدی جماعت میں داخل تھے اور بقضائے الٰہی فوت ہوگئے.علاقہ گوجرانوالہ سے تشریف لائے ہوئے تھےان کو حضرت اقدس سے ارادت حاصل نہ تھی اور نہ اپنے والد مرحوم کو صراطِ مستقیم پر سمجھتے تھے.چند احباب کی تحریک سے وہ بحث و مباحثہ کی غرض لے کر یہاں آئے تھے.حضرتِ اقدس کے رو برو تو ان کی کوئی کلام ہم نے نہ سنی.حضرت مولوی نور الدین صاحب سے البتہ کلام کرتے رہے.جس میں نووارد مولوی صاحب نے یہ کہا کہ ہمارے نزدیک بہت سے متقی ہیں کہ جنہوںنے مرزا صاحب کو نہیں مانا اور چونکہ ہم ان کو متقی اور راستباز تسلیم کرتے ہیں، اس لیے ہم بھی نہیں مانتے.حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب نے اس کا جواب یہ دیا کہ اگر کوئی ایسا شخص ہے کہ جو ضد اور تعصّب وغیرہ سے تو پاک ہے اور سچی ارادت سے حق کا طالب ہے اور اس لیے کسی شخص کو متقی مان کر اس کی تقلید سے وہ حضرت امام علیہ السلام کا منکر ہے تو میرے نزدیک وہ اس وقت تک معذور ہے جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس پر حقیقت کو واضح نہ کر دے کیونکہ مؤاخذہ کے لیے ضروری ہے کہ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ(البقرۃ:۲۵۷) ہو.اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے لِيَـهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَيِّنَةٍ وَّ يَحْيٰى مَنْ حَيَّ عَنْۢ بَيِّنَةٍ(الانفال:۴۳) جو ہلاک ہو وہ بھی بیّن آیات دیکھ کر ہلاک ہو اور جو زندہ ہو وہ بھی بیّن آیات دیکھ کر زندہ ہو.نو وارد مولوی صاحب نے چاہا کہ اس کی تصدیق حضرت مرزا صاحب سے کرائی جاوے، اس لیے جناب حکیم صاحب نے بوقتِ ظہر اس مسئلہ کو حضرت امام علیہ السلام کی خدمت بابرکت میں عرض کیا جس پر آپؑنے فرمایا کہ اس قسم کا سوال حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہوا تھا تو انہوں نے جواب دیا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ (طٰہٰ :۵۳) ایسے ہی ہم بھی کہتے ہیںکہ ان کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.وہ جیسے جیسے سمجھے گا ویسا معاملہ اس سے کرے گا.ہاں کوئی آدمی کسی کو متقی کیوںکر یقین کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے لَا تُزَكُّوْۤا
اَنْفُسَكُمْ(النّجم:۳۳) اور فرماتا ہے هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى(النّجم:۳۳) اور فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ہی عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(المآئدۃ:۸) ہے.ہاں مامور مِنَ اللہ کے متّقی ہونے اور نہ ہونے کے نشانات بیّن ہوتے ہیں نہ اوروں کے.بعد نماز مغرب مغرب کی نماز کے بعد جب حضرت امام علیہ السلام شہ نشین پر جلوہ افروز ہوئے تو سید احمد شاہ صاحب سندھی نے آپ سے نیاز حاصل کی اور پوچھا کہ متقی کسے کہہ سکتے ہیں.فرمایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے اور آپؐنے دعویٰ کیا تو اس وقت بھی لوگوں کی نظروں میں بہت سے یہودی عالم متقی اور پرہیز گار مشہور تھے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ خدا کے نزدیک بھی متقی ہوں.خدا تعالیٰ تو ان متقیوں کا ذکر کرتا ہے جو اس کے نزدیک تقویٰ اور اخلاص رکھتے ہیں.جب ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ سنا لوگوں میں جو ان کی وجاہت تھی اس میں فرق آتا دیکھ کر رعونت سے انکار کر دیا اور حق کو اختیار کرنا گوارا نہ کیا.اب دیکھو کہ لوگوں کے نزدیک تو وہ بھی متقی تھے مگر ان کا نام حقیقی متقی نہیں تھا.حقیقی متقی وہ شخص ہے کہ جس کی خواہ آبرو جائے ہزار ذلّت آتی ہو، جان جانے کا خطرہ ہو، فقر و فاقہ کی نوبت آئی ہو تو وہ محض اللہ تعالیٰ سے ڈر کر ان سب نقصانوں کو گوارا کرے لیکن حق کو ہرگز نہ چھپاوے.متقی کے یہ معنے جیسے آجکل کے مولوی عدالتوں میں بیان کرتے ہیں ہرگز نہیں ہیں کہ جو شخص زبان سے سب مانتا ہو خواہ اس کا عمل در آمد اس پر ہو یا نہ ہو اور وہ جھوٹ بھی بول لیتا ہو، چوری بھی کرتا ہو تو وہ متقی ہے.تقویٰ کے بھی مراتب ہوتے ہیں اور جب تک کہ یہ کامل نہ ہوں تب تک انسان پورا متقی نہیں ہوتا.ہر ایک شَے وہی کار آمد ہوتی ہے جس کا پورا وزن لیا جاوے.اگر ایک شخص کو بھوک اور پیاس لگی ہے تو روٹی کا ایک بھورا اور پانی کا ایک قطرہ لے لینے سے اسے سیری حاصل نہ ہوگی اور نہ جان کو بچا سکے گا جب تک پوری خوراک کھانے اور پینے کی اسے نہ ملے.یہی حال تقویٰ کا ہے کہ جب تک انسان اسے پورے طور پر
ہرایک پہلو سے اختیار نہیں کرتا تب تک وہ متقی نہیں ہو سکتا اور اگر یہ بات نہیںتو ہم ایک کافر کو بھی متقی کہہ سکتے ہیں کیونکہ کوئی نہ کوئی پہلو تقویٰ کا (یعنی خوبی) اس کے اندر ضرور ہوگی.اللہ تعالیٰ نے محض ظلمت تو کسی کو پیدا نہیں کیا.مگر تقویٰ کی یہ مقدار اگر ایک کافر کے اندر ہو تو اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.کافی مقدار ہونی چاہیے جس سے دل روشن ہو.خدا راضی ہو اور ہر ایک بدی سے انسان بچ جاوے.بہت سے ایسے مسلمان ہیں کہ جو کہتے ہیں کیا ہم روزہ نہیں رکھتے.نماز نہیں پڑھتے وغیرہ وغیرہ.مگر ان باتوں سے وہ متقی نہیں ہو سکتے.تقویٰ اور شَے ہے.جب تک انسان خدا کو مقدم نہیں رکھتا اور ہر ایک لحاظ کو خواہ برادری کا ہو خواہ قوم کا، خواہ دوستوں اور شہر کے رؤسا کا خدا سے ڈر کر نہیں توڑتا اور خدا کے لیے ہر ایک ذلّت برداشت کرنے کو طیار نہیں ہوتا تب تک وہ متقی نہیں ہے.قرآن شریف میں جو بڑے بڑے وعدے متقیوں کے ساتھ ہیں وہ ایسے متقیوں کا ذکر ہے جنہوں نے تقویٰ کو وہاں تک نبھایا جہاں تک ان کی طاقت تھی.بشریت کے قویٰ نے جہاں تک ان کا ساتھ دیا برابر تقویٰ پر قائم رہے حتی کہ ان کی طاقتیں ہار گئیں اور پھر خدا سے انہوں نے اور طاقت طلب کی جیسے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتـحۃ:۵) سے ظاہر ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ یعنی اپنی طاقت تک تو ہم نے کام کیا اور کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ یعنی آگے چلنے کے لیے اور نئی طاقت تجھ سے طلب کرتے ہیں جیسے حافظ نے کہا ہے.؎ ما بدان منزل عالی نتوانیم رسید ہان اگر لطفِ شما پیش نہد گامے چند پس خوب یاد رکھو کہ خدا کے نزدیک متقی ہونا اور شَے ہے اور انسانوں کے نزدیک متقی ہونا اور شَے.مسیح علیہ السلام کے وقت جو مخالفوں کے جتھے وغیرہ بنتے تھے اس کا باعث بھی یہی تھا کہ جو عالِم لوگ یہود کے نزدیک مسلّم تھے اور متقی پرہیز گار تسلیم کئے جاتے تھے وہ مخالف تھے اگر وہ مخالف نہ ہوتے تو جتھے وغیرہ نہ بنتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی یہی حال تھا.عُجب، بخل، ریا، نمود اور وجاہت کی پاسداری وغیرہ باتیں تھیں جنہوں نے حق کی قبولیت سے ان کو روکے رکھا.غرضیکہ تقویٰ مشکل شَے ہے جسے اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے تو اس کے علامات بھی ساتھ ہی رکھ دیتا ہے.
سچی بات یہ ہے کہ حق جب ظاہر ہو تو جو اسے خواہ نخواہ ردّ کرتا ہے اور دلائل، معقولات، منقولات اور خدا تعالیٰ کے نشانوں کو ٹالتا جاوے وہ کب متقی ہو سکتا ہے.۱ متقی کو تو ترساں اور لرزاں ہونا چاہیے.کیا دنیا میں ایسا ہوا ہے کہ چوبیس سال سے برابر ایک انسان رات کو منصوبہ بناتا ہے اور صبح کو خدا کی طرف لگا کر کہتا ہے کہ مجھے یہ وحی یا الہام ہوا اور خدا اس سے مؤاخذاہ نہیں کرتا.اس طرح سے تو دنیا میں اندھیر پڑ جاوے اور مخلوق تباہ ہو جاوے.متقی تو ایک ہی بات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور یہاں تو ہزاروں ہیں.زمانہ الگ پکار رہا ہے.احادیث مِنْکُمْ مِنْکُمْ کہہ رہی ہیں.سورہ نور میں بھی مِنْکُمْ لکھا ہے.قساوتِ قلبی اور بہائم کی طرح جو زندگی بسر ہو رہی ہے وہ الگ بتا رہی ہے.صدی کے سر پر کہتے تھے کہ مجدّد آتا ہے.اب ۲۲ سال بھی ہوچکے.کسوف و خسوف بھی ہولیا.طاعون بھی آگئی.حج بھی بند ہوا.ان سب باتوں کو دیکھ کر اگر اب بھی یہ لوگ نہیں مانتے تو ہم کیوںکر جانیں کہ ان میں تقویٰ ہے.ہم نے بار بار کہا کہ آؤ اور جن باتوں کا تم کو سوال کرنے کا حق پہنچتا ہے وہ پوچھو.ہاں یہ نہیں ہوگا کہ قرآن شریف تو کچھ کہے اور تم کچھ کہو اور ایسے اقوال پیش کرو جو اس کے مخالف ہوں.مسیح کا نزولِ جسمانی آسمان سے مانتے ہیں حالانکہ وہ جب صحیح ہوسکتا ہے جبکہ صعود اوّل ہو.قرآن مسیح کی وفات بیان کرتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ چھت پھاڑ کر آسمان پر چلا گیا.کیا تقویٰ اس بات کا نام ہے کہ یقین کو ترک کر کے توہمات کی اتباع کی جاوے.سچے تقویٰ کا پتا قرآن سے ملتا ہے کہ دیکھ لیوے کہ تقویٰ والوں نے کیا کیا کام کیے.دعا کے ذریعہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو مذکورہ بالا تقریر کے بعد ایک صاحب نے عرض کی کہ حضور بعض احمدی بھائی ایسے ہیں نے بیعت کی ہوئی ہے اور اخلاص بھی رکھتے ہیں مگر بعض اقوال اور حرکات ان سے بیجا ظاہر ہوتی ہیں.بعض ان میں سے احادیث کے قائل نہیں.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا.اصل بات یہ ہے کہ سب لوگ ایک طبقہ کے نہیں ہوتے.خدا تعالیٰ بھی قرآن شریف میں مومنوں البدر جلد ۳ نمبر ۲۲،۲۳ مورخہ ۸،۱۶؍ جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۲ نیز الحکم جلد ۸ نمبر ۲۲ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰
مومنوں کے طبقات بیان کرتا ہے.مِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ١ۚ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ١ۚ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَيْرٰتِ (فاطر:۳۳) کہ بعض ان میں سے اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض میانہ رو اور بعض سبقت کرنے والے.دوسری یہ بات ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی تو ترقی آہستہ آہستہ ہی کی تھی.ایمان میں بھی اور عمل میں بھی.لکھا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ایک صحابی سے آپ نے ایک ٹکڑا زمین کا (مسجد)۱ بنانے کے لیے طلب کیا.اس نے عذر کیا اور کہا کہ مجھ کو آپ درکار ہے.اب یہ کس قدر گناہ کی بات تھی کہ خدا کا رسول مسجد کے لیے زمین طلب کرے اور یہ باوجود مرید ہونے کے اپنی نفسانی ضرورت کو دین کی ضرورت پر ترجیح دیتا ہے لیکن آخر وہی صحابہؓ تھے کہ جنہوں نے اللہ کے لیے اپنے سر کٹوائے.ترقی ہمیشہ رفتہ رفتہ ہوتی ہے.ایک سال انسان کچھ کرتا ہے، دوسرے سال کچھ لیکن اگر بدظنّی کریں تو اس کی مثال یہ ہوگی کہ ایک مریض ہمارے پاس آتا ہے جوکہ طرح طرح کے امراض میں مبتلا ہے اور ہم اسے ایک دو دن دوا دے کر نکال دیں اور پورے طور پر لگ کر اس کا علاج نہ کریں.ہمارا کام تو رات دن ان کے لیے دعا، تضرّع اور ابتہال میں لگا رہنا ہے.مبلّغین کا یہ کام نہیں ہوتا کہ ہر ایک بات پر چڑ کر لوگوں سے متنفّر ہوتے رہیں.ابھی یہ لوگ قابلِ رحم ہیں اور خدا تعالیٰ ان کی اصلاح کے سامان کر رہا ہے.علاوہ ازیں سب ایک درجہ کے نہیں ہوتے.صحابہؓ میں سے بعض اس درجہ کے تھے کہ عنقریب نبی کے مقام پر پہنچ جاویں اور بعض ادنیٰ درجہ کے جیسے دریا میں موتی بھی ہوتا ہے اور مونگا بھی اور سیپ بھی اور دوسری اشیاء مثل سونا اور دوسرے حیوانات کے، ایسا ہی جماعت کا حال ہوتا ہے.ہماری جماعت کو چاہیے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لیے دعا کریں لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کر کے دور سلسلہ چلاتے ہیں تو گناہ کرتے ہیں.کون سا ایسا عیب ہے جو کہ دور نہیں ہو سکتا.اس لیے ہمیشہ دعا کے ذریعہ سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہیے.سجد کا لفظ اصل میں موجود نہیں.معلوم ہوتا ہے کہ کاتب سے رہ گیا ہے.بعد کے فقرات اس کی وضاحت کر دیتے ہیں
حکایت ایک صوفی کے دو مرید تھے ایک نے شراب پی اور نالی میں بیہوش ہو کر گرا.دوسرے نے صوفی سے شکایت کی.اس نے کہا تو بڑا بے ادب ہے کہ اس کی شکایت کرتا ہے اور جاکر اٹھا نہیں لاتا.وہ اسی وقت گیا اور اسے اٹھا کر لے چلا.کہتے تھے کہ ایک نے تو بہت شراب پی لیکن دوسرے نے کم پی کہ اسے اٹھا کر لے جارہا ہے.صوفی کا مطلب یہ تھا کہ تو نے اپنے بھائی کی غیبت کیوں کی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غیبت کا حال پوچھا تو فرمایا کہ کسی کی سچی بات کا اس کی عدم موجودگی میں اس طرح سے بیان کرنا کہ اگر وہ موجود ہو تو اسے بُرا لگے غیبت ہے اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے اور تو بیان کرتا ہے تو اس کا نام بہتان ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا١ؕ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا(الـحجرات:۱۳) اس میں غیبت کرنے کو ایک بھائی کے گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس آیت سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ جو آسمانی سلسلہ بنتا ہے ان میں عیب کرنے والے بھی ضرور ہوتے ہیں اور اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر یہ آیت بے کار جاتی ہے.اگر مومنوں کو ایسا ہی مطہّر ہونا تھا اور ان سے کوئی بدی سر زد نہ ہوتی تو پھر اس آیت کی کیا ضرورت تھی؟ بات یہ ہے کہ ابھی جماعت کی ابتدائی حالت ہے.بعض کمزور ہیں جیسے سخت بیماری سے کوئی اٹھتا ہے.بعض میں کچھ طاقت آگئی ہے.پس چاہیے کہ جسے کمزور پاوے اسے خفیہ نصیحت کرے.اگر نہ مانے تو اسکے لیے دعا کرے اور اگر دونوں باتوں سے فائدہ نہ ہو تو قضا و قدر کا معاملہ سمجھے.جب خدا نے ان کو قبول کیا ہوا ہے تو تم کو چاہیے کہ کسی کا عیب دیکھ کر سردست جوش نہ دکھلایا جاوے ممکن ہے کہ وہ درست ہو جاوے.قطب اور ابدال سے بھی بعض وقت کوئی عیب سرزد ہوجاتا ہے بلکہ لکھا ہے کہ اَلْقُطُبُ قَدْ یَزْنِیْ کہ قطب سے بھی زنا ہو جاتا ہے.بہت سے چور اور زانی آخر کار قطب اور ابدال بن گئے.جلدی اور عجلت سے کسی کو ترک کر دینا ہمارا طریق نہیں ہے.کسی کا بچہ خراب ہو تو اس کی اصلاح کے لیے وہ پوری کوشش کرتا ہے.ایسےہی اپنے کسی بھائی کو ترک نہ کرنا چاہیے بلکہ اس کی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہیے.قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو بلکہ وہ فرماتا ہے
تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَ تَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ(البلد:۱۸) کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں.مرحـمہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لیے دعا بھی کی جاوے.دعا میں بڑی تاثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابلِ افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا.عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہیے جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لیے رو رو کر دعا کی ہو.سعدی نے کہا ہے.؎ خدا داند بپوشد ہمسایہ نداند و خروشد خدا تو جان کر پردہ پوشی کرتا ہے، مگر ہمسایہ کو علم نہیں ہوتا اور شور کرتا پھرتا ہے.خدا کا نام ستّار ہے.تمہیں چاہیے کہ تَـخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللہِ بنو.ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو بلکہ یہ کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو کیونکہ کتاب اللہ میں جیسا آگیا ہے تو یہ گناہ ہے کہ اس کی اشاعت اور غیبت کی جاوے.شیخ سعدیؒ کے دو شاگرد تھے.ایک ان میں سے حقائق و معارف بیان کیا کرتا تھا اور دوسرا جلا بھنا کرتا تھا.آخر پہلے نے سعدیؒ سے بیان کیا کہ جب میں کچھ بیان کرتا ہوں تو دوسرا جلتا ہے اور حسد کرتا ہے.شیخ نے جواب دیا کہ ایک نے راہ دوزخ کی اختیار کی کہ حسد کیا اور تُو نے غیبت کی.غرض یہ کہ سلسلہ چل نہیں سکتا جب تک رحم، دعا، ستّاری اور مرحمہ آپس میں نہ ہو.۱ ۲۱؍جون ۱۹۰۴ء منکر وفاتِ مسیح سے قسم کن الفاظ میں لی جائے حضرتِ اقدس کے ایک مخلص حواری نے عرض کی کہ وزیر آباد میں ایک حافظ صاحب ہیں.وہ اس بات پر آمادہ ہیں کہ وہ قسم کھا کر کہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام اسی جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر زندہ موجود ہیں.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ جو شخص دلیری کر کے شوخی کی راہ سے فتنہ ڈالتا ہے خدا اس سے خود سمجھ لیتا ہے.اگر اس کو قسم کھانی ہے البدر جلد ۳ نمبر ۲۶ مورخہ ۸؍جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۴ نیز الحکم جلد ۸ نمبر ۲۳، ۲۴ مورخہ ۱۷،۲۴جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۹، ۱۰
ہے تو تین باتوں کی قسم کھائے.ایک تو یہ کہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ میں سے مسیح کی وفات ہرگز ثابت نہیں ہوتی اور یہاں تَوَفَّيْتَنِيْکے وہ معنے ہرگز نہیں ہیںجو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اس لفظ کے معنے کئے جاتےہیں.دوسری یہ بات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح کو معراج کی شب میں ان تمام انبیاء کی طرح نہیں دیکھا جو کہ وفات پاچکے ہیں بلکہ دوسرے انبیاء کی ارواح کے خلاف حضرت مسیح کو معراج کی شب میں اس ہیئت اور شکل میں پایا جس سے ان کا بجسدِ عنصری زندہ ہونا ثابت ہوتا ہے.تیسری یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر صحابہؓ کا اجماع جو آیت مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ(اٰلِ عـمران:۱۴۵) کے ان معنوں پر ہوا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتر جس قدر نبی گذرے وہ سب فوت ہوچکے ہیں یہ بات غلط ہے کیونکہ ان تین باتوں میں اللہ تعالیٰ کا قول، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت اور صحابہؓ کا اجماع سب آجاتا ہے.پس ان تین باتوں پر وہ قسم کھاوے.اور چوتھی بات یہ بھی ملا لے کہ ہم مفتری ہیں اور ۲۴ سال سے جو الہامات ہم سنا رہے ہیں یہ خدا تعالیٰ پر افترا باندھتے ہیں.اور قسم میں یہ بھی کہے کہ اگر اس میں مَیں نے کوئی بد نیتی کی ہے یا ایسی بات بیان کی ہے جو کہ میرے ذہن میں نہیں ہے تو اس کا وبال مجھ پر نازل ہو.فرمایا.اگر یہ لوگ منہاجِ نبوت کو معیار ٹھہرا دیں تو آج فیصلہ ہوتا ہے.اس مقام پر نواب محمد علی خان صاحب نے عرض کی کہ ایک شخص نے مجھ سے حضور کے بارے میں بحث کرنی چاہی.میں نے اسے کہا کہ اول تم سب کتابیں حضرت مرزا صاحب کی مطالعہ کرو اگر اس میں سمجھ نہ آئے تو ایک ماہ قادیان چل کر رہو اور وہاں مرزا صاحب کے حالات وغیرہ کو آنکھ سے دیکھو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری رہنمائی کرے.بعض دفعہ موت ہی انسان کے حق میں اچھی ہوتی ہے فرمایاکہ اگر ہمارا کوئی مرید طاعون سے مَر جاتا ہے
تو اس پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ خدا کے کلام میں یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ صرف بیعت کرنے والا ہی اس سے محفوظ رہے گا بلکہ اس نے ایک دفعہ مجھے مخاطب کر کے فرمایااَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يَلْبِسُوْۤا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ یعنی بقدر دعویٰ کے ایمان میں کسی قسم کا ظلم نہ ہو.خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری وفا، پورا صدق اور اخلاص کا معاملہ ہو اور اس کی شناخت کامل ہو تو وہ شخص اس آیت کا مصداق ہو سکتا ہے.لیکن یہ ایسی بات ہے کہ جس کو سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جان سکتا کہ آیا فلاں شخص میں پورا صدق و اخلاص ہے کہ نہیں.بعض وقت ایک انسان کے حق میں موت ہی اچھی ہوتی ہے کہ خدا اسے اس ذریعہ سے آئندہ لغزش سے بچا لیتا ہے.(جیسے بعض کافروں کے حق میں زندگی اس لیے بہتر ہوتی ہے کہ ان کو آئندہ ایمان نصیب ہوجاتا ہے.ایسے ہی بعض مومن کے حق میں موت اس لیے بہتر ہوتی ہے کہ اگر وہ زندہ رہتا تو کافر ہوجاتا) کہ اس کا خاتمہ کفر پر نہ ہو.یہ طاعون اس قسم کی ہے جیسے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے عذاب کا وعدہ تھا لیکن پھر صحابہ کرامؓ نے بھی آخر اس سے حصّہ لیا اور اکثر شہید ہوئے.کفر کا استیصال ان کی شہادت کا ثبوت ہے پس اسی طرح یہاں بھی استیصالِ کفر ہوگا.صد حسین است در گریبانم ایک صاحب نے جو کہ بیعت شدہ ہیں عرض کی کہ بعض لوگ صرف اس لیے بیعت سے پرہیز کرتے ہیںکہ حضور نے حضرت حسینؓ سے بڑے ہونے کا دعویٰ کیا ہے.جیسے کہ یہ شعر مذکورہ بالا ہے ایک شخص نے مجھ پر بھی یہ اعتراض کیا مگر چونکہ مجھے اس کی حقیقت معلوم نہ تھی اس لیے میں ساکت ہوگیا.فرمایا کہ اوّل انسان کو اطمینان قلب ہونا چاہیے کہ آیا جس کو میں نے قبول کیا ہے وہ راستباز ہے کہ نہیں.مختصر کیفیت اس کی یہ ہے کہ جب انسان ایک دعویٰ کا مصدّق ہوتا ہے.اور دعویٰ بھی ایسا ہو کہ اس کی بنا پر کوئی اعتراض نہ قائم ہوتا ہو تو اس قسم کے شکوک کا دروازہ خود ہی بند ہو جاتا ہے مثلاً میرا دعویٰ ہے کہ میں وہ مسیح ہوں جس کا وعدہ قرآن شریف اور حدیث میں دیا گیا ہے.اب جب تک کوئی میرے اس دعویٰ کا مصدّق نہیں ہے تب تک اس کو حق ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ نیک آدمی کے مقابل پر بھی
وہ ہم پر اعتراض کرے لیکن اگر کوئی بیعت کر کے دعویٰ کی تصدیق کرتا ہے کہ میں ہی سچا ہوں تو وہ پھر اعتراض کیوں کرتا ہے.(اسے چاہیے تھا کہ بیعت سے پیشتر اس بات کا اطمینان حاصل کرتا کہ آیا آپ سچے ہیں کہ نہیں) اس قسم کے معترضین سے سوال کرنا چاہیے کہ جس مسیح کے وہ منتظر ہیں آیا وہ ان کے نزدیک از روئے اعتقاد حسینؓسے افضل ہے کہ نہیں؟ اگر وہ اسے افضل قبول کرتا ہے تو پھر ہم تو کہتے ہیں کہ ہم وہی ہیں پہلے ہمارا وہی ہونا فیصلہ کرے پھر اعتراض خود بخود رفع ہو جاوے گا.یاد رکھو کہ خدا کے فیوض بے انتہا ہیں جو ان کو محدود کرتا ہے وہ اصل میں خدا کو محدود کرتا ہے اور اس کی کلام کو عبث قرار دیتا ہے.وہی بتلاوے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ(الفاتـحۃ:۶،۷) میں جب وہ انہیں کمالات اور انعامات کو طلب کرتا ہے جو کہ سابقین پر ہوئے تو اب ان کومحدود کیسے مانتا ہے اگر وہ محدود ہیں اور بقول شیعہ بارہ امام تک ہی رہے تو پھر سورۃ فاتحہ کو نماز میں کیوں پڑھتا ہے.وہ تو اس کے عقیدہ کے خلاف تعلیم کر رہی ہے اور خدا کو ملزم گردانتی ہے کہ ایک طرف تو وہ خود ہی کمالات کو بارہ امام تک ختم کرتا ہے اور پھر لوگوںکو قیامت تک ان کے طلب کرنے کی تعلیم دیتا ہے.دیکھو مایوس ہونا مومن کی شان نہیں ہوتی اور ترقیات اور مراتب قرب کی کوئی حد بست نہیں ہے.یہ بڑی غلطی ہے کہ کسی فرد خاص پر ایک بات قائم کر دی جاوے.خدا تعالیٰ نے جیسا خاص طور پر ذکر کر دیا اور احادیث میں آگیا کہ فلاں زمانہ میں مسیح موعود ہوگا اور اس کی علامات، اس کا کام، اس کے حالات سب بتلا دیئے تو اب ہم سے یہ سوال کیوں ہوتا ہے کہ تم حسینؓ سے افضل کیوں بنتے ہو.کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں فرمایا ہے کہ مسیح موعود حسینؓ سے افضل نہ ہوگا بلکہ کمتر ہوگا.ایسے معترضوں کو تم یہ جواب دو کہ ہم تو مسیح موعود مان چکے ہیں.اب تم اس اَمر کا ثبوت دو کہ آیا وہ امام حسینؓ سے کم ہوگا یا برابر یا افضل بجز توہمات کے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے.جیسے ایک لاہوری شیعہ نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر کُل انبیاء نے صرف حسینؓ کی وجہ سے ہی نجات پائی ہے.خدا تعالیٰ کا جو معاملہ میرے ساتھ ہے اور وہ میرے ساتھ کلام کرتا ہے ایسا کوئی الہام حسینؓ کا
تو پیش کرو.میں تو اپنی وحی پر ویسے ہی ایمان لاتا ہوں جیسے کہ قرآن شریف اور توریت کے کلامِ الٰہی ہونے پر.زیادہ سے زیادہ یہ لوگ امام حسینؓکی فضیلت میں بعض ظنّی احادیث پیش کریں گے اور میں وہ پیش کرتا ہوں کہ جو یقینی ہے اور پھر خدا کا کلام ہے.بطور تنزل کے میں اگر مان لوں کہ حسینؓکے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا مکالمہ ویسا ہی تھا جیسے کہ میرے ساتھ ہے تو پھر ان کے الہامات کا اور میرے الہامات کا مقابلہ کرو اور دیکھو کہ بڑھ چڑھ کر کس کا کلام ہے.اور اگر تم میرے الہامات کو ظنّی مانتے ہو تو امام حسینؓکے الہامات تو پہلے ہی سے ظنّی ہیں.پس دونوں ظنّی الہاموں کا مقابلہ کر کے دیکھ لو.خدا نے جو مراتب میرے بیان کیے ہیں مثلاً (اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْـزِلَۃِ عَرْشِیْ.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمنْـزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْـزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْـزِلَۃِ اَوْلَادِیْ.اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ) کیا امام حسینؓکے یہی مراتب بیان ہوئے ہیں؟ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں نہ امام حسینؓکا نام لیا اور نہ یزید کا.اگر ذکر کیا ہے تو زید کا ذکر کیا ہے.یا بعض مفسروں نے ایک صحابی سجل کا لکھا ہے جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے.اس طرح سے دو صحابہ کا ذکر قرآن شریف میں ہوا ہے اور جو ہمیں مفتری سمجھتا ہے اورمفتری سمجھ کر پھر یہ اعتراض کرتا ہے تو اوّل وہ ہمارے افترا پر بحث کرے کہ آیا افترا ہے کہ نہیں.۱، ۲ ۳۰؍جون۱۹۰۴ء (بمقام گورداسپور) طعام اہل کتاب امریکہ اور یورپ کی حیرت انگیز ایجادات کا ذکر ہو رہا تھا.اسی میں یہ ذکر بھی آگیا کہ دودھ اور شوربا وغیرہ جو کہ ٹینوں میں بند ہو کر ولایت سے آتا ہے البدر جلد ۳ نمبر ۲۲،۲۳ مورخہ ۸،۱۶؍جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۳،۴ ۲.’’شاید کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ ۲۱؍جون کی ڈائری ۸،۱۶؍جون کے پرچہ میں کیسے شائع ہوگئی تو واضح ہو کہ پرچہ دیر کے بعد شائع ہوا جیسا کہ ایڈیٹر صاحب کی طرف سے ڈائری کے آخر میں یہ نوٹ موجود ہے.’’کاتب کی مشکلات بدستور موجود ہونے کی وجہ سے اخبار میں دیر ہو رہی ہے ان مشکلات کو اپنی ذاتی مشکلات جان کر امید ہے کہ ناظرین رنجیدہ خاطر نہ ہوں گے.‘‘(خاکسار مرتّب)
بہت ہی نفیس اور ستھرا ہوتا ہے اور ایک خوبی ان میں یہ ہوتی ہے کہ ان کو بالکل ہاتھ سے نہیں چُھوا جاتا.دودھ تک بھی بذریعہ مشین کے دوہا جاتا ہے.اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا.چونکہ نصاریٰ اس وقت ایک ایسی قوم ہوگئی ہے جس نے دین کی حدود اور اس کے حلال و حرام کی کوئی پروا نہیں رکھی اور کثرت سے سؤر کا گوشت ان میں استعمال ہوتا ہے اور جو ذبح کرتے ہیں اس پر بھی خدا کا نام ہرگز نہیں لیتے بلکہ جھٹکے کی طرح جانوروں کے سر جیسا کہ سنا گیا ہے علیحدہ کر دیئے جاتے ہیں.اس لیے شبہ پڑ سکتا ہے کہ بسکٹ اور دودھ وغیرہ جو ان کے کارخانوں کے بنے ہوئے ہوں ان میں سؤر کی چربی اور سؤر کے دودھ کی آمیزش ہو.اس لیے ہمارے نزدیک ولائتی بسکٹ اور اس قسم کے دودھ اور شوربے وغیرہ استعمال کرنے بالکل خلافِ تقویٰ اور ناجائز ہیں.جس حالت میں کہ سؤر کے پالنے اور کھانے کا عام رواج ان لوگوں میں ولایت میں ہے تو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ دوسری اشیائے خوردنی جو کہ یہ لوگ تیار کر کے ارسال کرتے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حصّہ اس کا نہ ہوتا ہو.’’اس پر ابو سعید صاحب المعروف عرب صاحب تاجر برنج رنگون نے ایک واقعہ حضرت اقدس کی خدمت میں یوں عرض کیا کہ رنگون میں بسکٹ اور ڈبل روٹی بنانے کا ایک کارخانہ انگریزوں کا تھا.وہ ایک مسلمان تاجر نے قریب ڈیڑھ لاکھ روپے کے خرید لیا.جب اس نے حساب و کتاب کی کتابوں کو پڑتال کر کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ سؤر کی چربی بھی اس کارخانہ میں خریدی جاتی رہی ہے.دریافت پر کارخانہ والوں نے بتلایا کہ ہم اسے بسکٹ وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر یہ چیزیں لذیذ نہیں ہوتیں اور ولایت میں بھی یہ چربی ان چیزوں میں ڈالی جاتی ہے.اس واقعہ کے سننے سے ناظرین کومعلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا خیال کس قدر تقویٰ اور باریک بینی پر تھا، لیکن چونکہ ہم میں سے بعض ایسے بھی تھے جن کو اکثر سفر کا اتفاق ہوا ہے اور بعض بھائی افریقہ وغیرہ دور دراز امصار و بِلاد میں اب تک موجود ہیں جن کو اس قسم کے دودھ اور بسکٹ وغیرہ کی ضرورت پیش آسکتی ہے، اس لیے ان کو بھی مدّ ِنظر رکھ کر دوبارہ اس مسئلہ کی نسبت دریافت کیا گیا اور نیز اہلِ ہنود کے کھانے کی نسبت عرض کیا گیا کہ یہ لوگ بھی اشیاء کو بہت غلیظ رکھتے ہیں اور ان کی کڑاہیوں کو اکثر کتّے
چاٹ جاتے ہیں.‘‘ اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک نصاریٰ کا وہ طعام حلال ہے جس میں شبہ نہ ہو اور از روئے قرآن مجید کے وہ حرام نہ ہو.ورنہ اس کے یہی معنے ہوں گے کہ بعض اشیاء کو حرام جان کر گھر میں تو نہ کھایا مگر باہر نصاریٰ کے ہاتھ سے کھا لیا.اور نصاریٰ پر ہی کیا منحصر ہے اگر ایک مسلمان بھی مشکوک الحال ہو تو اس کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے.مثلاً ایک مسلمان دیوانہ ہے اور اسے حرام و حلال کی خبر نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کے طعام یا طیار کردہ چیزوں پر کیا اعتبار ہو سکتا ہے.اسی لیے ہم گھر میں ولایتی بسکٹ نہیں استعمال کرنے دیتے بلکہ ہندوستان کی ہندو کمپنی کے منگوایا کرتے ہیں.عیسائیوں کی نسبت ہندوؤں کی حالت اضطراری ہے کیونکہ یہ کثرت سے ہم لوگوں میں مل جل گئے ہیں اور ہر جگہ انہیں کی دوکانیں ہوتی ہیں.اگر مسلمانوں کی دوکانیں موجود ہوں اور سب شَے وہاں ہی سے مل جاوے تو پھر البتہ ان سے خوردنی اشیاء نہ خریدنی چاہئیں.علاوہ ازیں میرے نزدیک اہلِ کتاب سے غالباً مراد یہودی ہی ہیں کیونکہ وہ کثرت سے اس وقت عرب میں آباد تھے اور قرآن شریف میں بار بار خطاب بھی انہیں کو ہے.اور صرف توریت ہی کتاب اس وقت تھی جو کہ حلّت اور حرمت کے مسئلے بیان کر سکتی تھی اور یہود کا اس پر اس اَمر میں جیسے عملدرآمد اس وقت تھا ویسے ہی اب بھی ہے انجیل کوئی کتاب نہیں ہے.اس پر ابو سعید صاحب نے عرض کی کہ اہل الکتاب میں کتاب پر الف لام بھی اس کی تخصیص کرتا ہے جس سے یہ مسئلہ اور بھی واضح ہوگیا.دجّال شخص واحد بھی ہو سکتا ہے ہمارے محترم بھائی خواجہ کمال الدین صاحب نے عرض کی کہ دجّال کے متعلق جو کچھ حضور نے بیان فرمایا ہے وہ بالکل حق ہےلیکن ایک دن میرے ذہن میں یہ بات گذری کہ دجّال ایک شخص واحد بھی گذرا ہے اور اس وقت جو دجّال موجود ہے وہ اس کا ظِل اور اثر ہے کیونکہ موجودہ عیسویت دراصل وہ عیسویت نہیں ہے جو حضرت مسیح نے تعلیم کی بلکہ یہ پولوس کا مذہب ہے جس نے ہر ایک حرام کو حلال کر دیا اور کفارہ وغیرہ کے
مسئلہ کی بدعت ایجاد کی اور اس کی ایک آنکھ ہی تھی.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اس کا حُلیہ بیان کیا ہے ممکن ہے کہ مکاشفہ میں آپؐکو وہی دکھایا گیا ہو اور اس کے متّبعین نے ہی یہ تمام ایجادیں کی ہیں جس کو دجّال کی صنعت اور کارناموں کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا.ہاں ایسا بھی ہو سکتا ہے.تقدیر معلَّق و مبرم صدقات و خیرات سے بَلا کے ٹلنے کا ذکر ہوا.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہاں یہ بات ٹھیک ہے.اس پر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ تقدیر کے دو حصّے کیوں ہیں تو جواب یہ ہے کہ تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ بعض وقت سخت خطرناک صورتیں پیش آتیں ہیں اور انسان بالکل مایوس ہوجاتا ہے لیکن دعا و صدقات و خیرات سے آخر کار وہ صورت ٹل جاتی ہے.پس آخر یہ ماننا پڑتا ہے کہ اگر معلّق تقدیر کوئی شَے نہیں ہے او جو کچھ ہے مبرم ہی ہے تو پھر دفعِ بَلا کیوں ہوجاتا ہے؟ اور دعا و صدقہ و خیرات وغیرہ کوئی شَے نہیں ہے.بعض ارادے الٰہی صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ انسان کوایک حد تک خوف دلایا جاوے اور پھر صدقہ و خیرات جب وہ کرے تو وہ خوف دور کردیا جاوے.دعا کا اثر مثل نر و مادہ کے ہوتا ہے کہ جب وہ شرط پوری ہو اور وقت مناسب مل جاوے اور کوئی نقص نہ ہو تو ایک اَمر ٹل جاتا ہے اور جب تقدیر مُبرم ہو تو پھر ایسے اسباب دعا کی قبولیت کے بہم نہیں پہنچتے.طبیعت تو دعا کو چاہتی ہے مگر توجہ کامل میسر نہیں آتی اور دل میں گداز پیدا نہیں ہوتا.نماز سجدہ وغیرہ جو کچھ کرتا ہے اس میں بد مزگی پاتا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انجام بخیر نہیں اور تقدیر مُبرم ہے.۱ اس مقام پر ایک نے عرض کی کہ جب نواب محمد علی خان صاحب کا صاحبزادہ سخت بیمار ہوا تھا تو ۱الحکم سے.’’صدقہ.صدق سے لیا گیا ہے.جب کوئی خدا کی راہ میں صدقہ دیتا ہے تو معلوم ہوا کہ خدا سے صدق رکھتا ہے.دوسرا دعا.دعا کے ساتھ قلب پر سوز و گداز اور رقّت پیدا ہوتی ہے.دعا بھی ایک قربانی ہے.صدق اور دعا اگر یہ دو باتیں میسر آجاویں تو اکسیر ہیں.‘‘ (الحکم جلد ۸ نمبر ۲۲ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۴ءصفحہ ۱۲)
جناب کو اس قسم کا الہام ہوا کہ تقدیر مبرم ہے اور موت مقدر ہے.لیکن پھر حضور کی شفاعت سے وہ تقدیر مبرم ٹل گئی.آپ نے فرمایا کہ سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی لکھتے ہیں کہ بعض وقت میری دعا سے تقدیر مبرم ٹل گئی ہے.اس پر شارح شیخ عبد الحق محدث دہلی نے اعتراض کیا ہے کہ تقدیر مبرم تو ٹل نہیں سکتی پھر اس کے کیا معنے ہوئے.آخر خود ہی جواب دیا ہے کہ تقدیر مبرم کی دو اقسام ہیں ایک مبرم حقیقی اور ایک مبرم غیرحقیقی.جو مبرم حقیقی ہے وہ تو کسی صورت سے ٹل نہیں سکتی ہے جیسے کہ انسان پر موت تو آتی ہے.اب اگر کوئی چاہے کہ اس پر موت نہ آوے اور یہ قیامت تک زندہ رہے تو یہ نہیں ٹل سکتی.دوسری غیر حقیقی وہ ہے جس میں مشکلات اور مصائب انتہائی درجہ تک پہنچ چکے ہوں اور قریب قریب نہ ٹلنے کے نظر آویں.اس کا نام مجازی طور پر مبرم رکھا گیا ہے ورنہ حقیقی مبرم تو ایسی ہے کہ اگر کُل انبیاء بھی مل کر دعا کریں کہ وہ ٹل جاوے تو وہ ہرگز نہیں ٹل سکتی.فرمایا کہ صبح کو یہ فقرہ الہام ہوا.’’خدا تیری ساری مرادیں پوری کر دے گا.‘‘ رؤیا میں فرشتے دیکھنا فرشتوں پر ذکر چل پڑا کہ یہ خواب میں ہمیشہ خوبصورت لڑکوں کی صورت و شکل میں نظر آتے ہیں.اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے چند ایک سابقہ رؤیا بیان فرمائے جن کو ہم اس نیت سے درج کر دیتے ہیں کہ ان میں سے اگر کوئی شائع نہیں ہوا تو اب ہو جائے.(۱).ایک فرشتہ ایک چبوترہ پر بیٹھا ہے اور ایک عجیب روٹی نان کی مثل چمکتی ہوئی اس کے ہاتھ میں ہے.وہ روٹی بہت ہی عمدہ اور اعلیٰ قسم کی نظر آتی ہے.مجھے وہ روٹی دے کر کہتا ہے کہ یہ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ کے درویشوں کے لیے ہے.اس رؤیا کو عرصہ قریباً ۳۰ سال کا ہوگیا ہوگا.(۲) فرمایا.ایک فرشتہ کو میں نے ۲۰ برس کے نوجوان کی شکل میں دیکھا.صورت اس کی مثل انگریزوں کے تھی اور میز کرسی لگائے ہوئے بیٹھا ہے.میں نے اس سے کہا کہ آپ بہت ہی
خوبصورت ہیں.اس نے کہا ہاں میں درشنی آدمی ہوں.یہ رؤیا کوئی ۲۵ برس کا ہوگا.۱ رجوع کا صحیح وقت نزولِ بَلا سے پہلے ہوتا ہے عادت اللہ یہی ہے کہ جب انسان امن کے زمانہ میں ہو اور وہ گذر جاوے اور اس اثنا میں کوئی رجوع خدا کی طرف حقیقی اور اخلاص سے نہ کیا ہو تو پھر خطرناک زمانہ میں واویلا شور مچانا اس کے کام نہیں آیا کرتے.یہ تو وہی فرعون کی مثال ہوئی کہ جب ڈوبنے لگا تو کہا کہ اب میں موسیٰ اور ہارون کے خدا پر ایمان لایا.مشکل یہ ہے کہ دنیا داروں کو ان کے اپنے سلسلوں اور پیچ در پیچ معاملات سے ہرگز فرصت نہیں ہے کہ وہ روح کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں اور خدا کا خوف بھی محسوس کریں.اگر کچھ خوف ہے تو گورنمنٹ کا اور امید ہے تو اسباب سے یا اپنے مکر و فریب سے.اس زمانہ میں جو توکّل کا نام لے وہ دیوانہ اور مخبوطُ الحواس ہے.اس کا نام مسلوبُ العقل رکھا جاتا ہے.یہ انسان کی خوش قسمتی ہے کہ قبل از نزولِ بَلا وہ تبدیلی کر لے لیکن اگر کوئی تبدیلی نہیں کرتا اور اس کی نظر اسباب اور مکر و حیلہ پر ہے تو سوائے اس کے کہ وہ اپنے ساتھ گھر بھر کو تباہ کر دے اور کیا انجام بھوگ سکتا ہے کیونکہ مرد گھر کا کشتی بان ہوتا ہے اگر وہ ڈوبے گا تو کشتی بھی ساتھ ہی ڈوبے گی.اسی لیے کہا اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (النّسآء:۳۵) اسی کی رَستگاری کے ساتھ اس کے اہل و عیال کی رَستگاری ہے اور وَلَا يَخَافُ عُقْبٰهَا(الشّمس: ۱۶) سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کو ان کے پسماندوں کی کوئی پروا نہیں ہے.اس وقت اس کی بے نیازی کام کرتی ہے.۲ ۱ الحکم سے.’’اس سلسلہ کی بنیاد سے پہلے میں نے دیکھا.جب مرزا صاحب فوت ہوئے ہیں.میں اصل مکان موجودہ سلطان احمد والے میں ایک دالان میں بیٹھا ہوں.مغربی کوٹھڑی سے ایک برقع پوش عورت نکلی اور مجھے کہنے لگی.میں اس گھر سے جانے کو تھی مگر تیرے واسطے رہ گئی.جوان عورت اگر خواب میں دیکھی جاوے تو اس سے مراد دنیا کے اقبال اور فتوحات ہوتے ہیں خواہ کسی قوم کی ہو.‘‘ (الحکم جلد ۸ نمبر ۲۲ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۲) ۲البدر جلد ۳ نمبر ۲۷ مورخہ ۱۶؍ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۳،۴
۳؍جولائی ۱۹۰۴ء (بمقام قادیان شریف) غربا کی دلجوئی شام کا وقت تھا.بعد نماز مغرب مختلف بِلاد سے جو لوگ زیارت اور بیعت سے شرف یاب ہونے کے لیے آئے ہوئے تھے.مثل پروانہ حضرت پر گر رہے تھے.اکثر حصّہ ان میں سے دیہات والوں کا تھا.جگہ کی تنگی اور مردمان کی کثرت دیکھ کر بعض نے کہا کہ لوگو پیچھے ہٹ جاؤ حضرت جی کو تکلیف ہوتی ہے.اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ کس کو کہا جاوے کہ تم پیچھے ہٹو جو آتا ہےاخلاص اور محبت لے کر آتا ہے.سینکڑوں کوس کے سفر کر کے یہ لوگ آتے ہیں صرف اس لیے کہ کوئی دم صحبت حاصل ہو اور انہیں کی خاطر خدا تعالیٰ نے سفارش کی ہے اور فرمایا ہے وَ لَا تُصَعِّرْلِخَلْقِ اللّٰهِ وَلَا تَسْئَمْ مِنَ النَّاسِ.یہ صرف غریبوں کے حق میں ہے کہ جن کے کپڑے میلے ہوتے ہیں اور ان کو چنداں علم بھی نہیں ہوتا خدا تعالیٰ کا فضل ہی ان کی دستگیری کرتا ہے کیونکہ امیر لوگ تو عام مجلسوں میں خود ہی پوچھے جاتے ہیں اور ہر ایک ان سے بااخلاق پیش آتا ہے اس لیے خدا تعالیٰ نے غریبوں کی سفارش کی ہے جو بیچارے گمنام زندگی بسر کرتے ہیں.بہت تجسّس کرنا جائز نہیں ایک شخص نے سوال کیا کہ ہمارے شہر میں وجودی فرقہ کے لوگ کثرت سے ہیں اور ذبیحہ وغیرہ انہیںکے ہاتھ سے ہوتا ہے کیا اس کا کھانا حلال ہے کہ نہیں؟ فرمایاکہ بہت تجسّس کرنا جائز نہیں ہے.موٹے طور پر جو انسان مشرک یا فاسق ہو اس سے پرہیز کرو.عام طور پر اس طرح تجسّس کرنے سے بہت سی مشکلات در پیش آتی ہیں.جو ذبیحہ اللہ کا نام لے کر کیا جاوے اور اس میں اسلام کے آداب مدّ ِنظر ہوں وہ خواہ کسی کا ہو جائزہے.
وجودی فرقہ کی بِنا اس کے بعد فرمایا کہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وجودی پیدا کہاں سے ہوئے.قرآن شریف اور اسلام میں تو ان کا پتا نہیںملتا مگر غور سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو صرف دھوکا لگا ہوا ہے.جو راست باز اکابر گذرے ہیں وہ اصل میں فنائے نظری کے قائل تھے.اس کے یہ معنے ہیںکہ انسان ہر ایک فعل اور حرکت اور سکون میں توجہ اللہ کی طرف رکھے اور اس قدر فانی اس میں ہو کہ گویا اور کسی شَے کی قدرت اور حرکت بذاتہ ٖ اسے نظر نہ آوے.ہر ایک شَے کو فانی جان لے اور اس قدر تصرّفِ الٰہی اسے نظر آوے کہ بِلا ارادہ الٰہی کے اور کچھ نہیں ہو رہا.اسی مسئلہ میں غلطی واقع ہو کر آخر فنا وجودی تک نوبت آگئی اور یہ کہنے لگے کہ سوائے خدا کے اور کوئی شَے نہیں ہے اپنے آپ کو بھی خدا ماننے لگے.اس خیال سے یہ مذہب پھیلا ہے کہ فناءِ نظری کے شوق میں اولیاء اللہ سے کچھ ایسے کلمات نکلے ہیں کہ جن کی الٹی تاویل کر کے یہ وجودی فرقہ بن گیا ہے.فناءِ نظری تک انسان کا حق ہے کہ محبوب میں اور اپنے آپ میں کوئی جدائی نہ سمجھے اور ؎ من تو شدم تو من شدی.من تن شدم تو جاں شدی تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری کا مصداق ہو کیونکہ محبّ اور محبوب کا علاقہ فناءِ نظری کا تقاضا کرتا ہے اور یہ ہر ایک سالک کی راہ میں ہے کہ وہ محبوب کے وجود کو اپنا وجود جانتا ہے لیکن فنا وجودی ایک من گھڑت بات ہے جیسے ذوق و شوق ، محبت صدق اور وفا اور اعمال صالحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے.فناءِ نظری کی مثال وہی ہے جو ماں اور بچے کی ہے کہ اگر کوئی بچے کو مکی مارے تو درد ماں کو ہوتا ہے.سخت تعلق جومحبت کا ہے یہ اس سے بھی درد ناک ہے اور یہ ایک سچی اور حقیقی محبت ہوتی ہے لیکن وجودی کا مدّعا جھوٹا ہے یہ وہ کرے جو خدا پر محیط ہو.وجودی چونکہ ترکِ ادب کا طریق اختیار کرتا ہے اس لیے طاعت، محبت، عبادتِ الٰہی سے محروم رہتا ہے.۱ ۱ البدر جلد ۳ نمبر ۲۷مورخہ ۱۶؍ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۴ نیز الحکم جلد ۸ نمبر ۲۵،۲۶ مورخہ ۳۱؍جولائی و ۱۰؍ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۱
۸؍جولائی ۱۹۰۴ء (احاطہ عدالت گورداسپور) دنیوی تکالیف اور مصائب کی تلافی فرمایا.جن کو اللہ تعالیٰ دنیا میں تکالیف دیتا ہے اور جو لوگ خود خدا کے لیے دکھ اٹھاتے ہیں.ان دونوں کو خدا تعالیٰ آخرت میں بدلہ دے گا.دنیا تو چلنے کا مقام ہے رہنے کا نہیں.اگر کوئی شخص سارے سامان خوشی کے رکھتا ہے تو خوشی کا مقام نہیں.یہ سب آرام اور دکھ تو ختم ہونے والے ہیں اور اس کے بعد ایک ایسا جہان آنے والا ہے جو دائمی ہے.جو لوگ اس مختصر جہاں میں انسانی بناوٹ میں فرق اور کمی بیشی دیکھ کر دوسرے جنم کے گناہوں اور عملوں پر محمول کر لیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں.وہ یہ معلوم نہیں کرتے کہ آخرت کا ایک بڑا جنم آنے والا ہے اور جن کو خدا تعالیٰ نے پیدائش میں کوئی نقص عطا کیا ہے اور جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود بخود خدا کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے دکھوں میں ڈال دیا ہے ان دونوں کو وہاں چل کر اس کا بدلہ ملے گا.یہ جہان تو تخمریزی کا جہان ہے اور ایسے موقع حاصل کرنے کے واسطے ہے جن سے خدا راضی ہو.بعض لوگ اپنے عملوں سے خدا کو راضی کرتے اور بعض اپنے آپ کو تکالیف میں ڈال کر خدا کو راضی کرتے ہیں.ایک شخص کے دو خدمتگار ہیں.ایک کو وہ ایسے کام اور سفر پر روانہ کرتا ہے کہ جہاں اس کو سواری مل سکتی اور راستہ بھی سایہ دار اور ٹھنڈا ہے اور ہر طرح کا آرام ہے.دوسرے خدمتگار کو ایسی طرف روانہ کرتا ہے جس راستہ میں نہ تو اس کو سواری مل سکتی ہے اور نہ سایہ ہے بلکہ پیدل چلنا اور سخت گرمی اور دھوپ اور لُو کا سامنا ہے.مگر وہ جانتا ہے کہ جس کو جتنی تکلیف ہوگی اس کو اتنا ہی بدلہ اور عوضِ خدمت دوں گا.پس پھر ان دونوں خدمتگاروں کو اپنے سفر پر کیا اعتراض ہے.اسی طرح لنگڑے، اندھے، اپاہج، غریب، فقیر وغیرہ لوگ جو خدا تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں ان کو جب کہ اس آخری جہان میں چل کر بدلہ ملنا ہے تو کیا ضرورت ہے کہ ہم گونا گوں جنم مان لیں اور اس بڑے اور حقیقی جنم سے اعراض کریں.جو دکھ اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں وہ تو ثواب حاصل کرنے کو دیئے ہیں.
جبکہ وہ رحم کرنے والا ہے تو کسی کو کسی طرح اور کسی کو کسی طرح بدلہ دیتا اور دیتا رہے گا.پس اپاہج اور اندھے وغیرہ کو اپنی ان نقائص ِخلقت کا بدلہ قیامت میں مل جاوے گا.پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص شاہی گھر میں پیدا ہوا ہے اور سارے سامان عیش و نشاط مہیا ہیں پر وہ باریک در باریک دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہے اور وہ شخص جو گدائی اور فقیری حیثیت میں بھیک مانگتا پھرتا ہے ایسے سُکھوں میں ہو کہ جو اس امیر زادے کو کبھی میسر نہیں.پھر کیا کہیں دولت والے کو یہ حکم دیا ہے کہ اس سے عیاشی کر بلکہ یہ حکم دیا ہے کہ غریب بھائی کی طرح عبادت کر.بہرحال یہ دنیا چند روزہ ہے انسان کیا سمجھتا ہے کہ میری عمر کس قدر ہے.عقیدہ تناسخ جنم کی شکی بات کو قبول کرنا عقل کا کام ہرگز نہیں.انسان جب پیدا ہوتا اور اپنی عمر طبعی پوری کر کے مَر جاتا ہے تو کبھی کسی نے اس شخص کو اس جہان میں واپس آتے ہوئے نہیں دیکھا.مثلاً بڑے بڑے عالِم اور فاضِل مَر جاتے ہیں تو انہوں نے واپس آکر کبھی نہیں بتلایا کہ میں نے پچھلے جنم میں فلاں علم حاصل کیا تھا.ہزاروں جنم پائے اور علم و عمل حاصل کرتا رہا.مگر جب واپس آیا وہ پہلے علم و عمل ضائع ہوتے رہے.جس طرح وہ واپس آکر سب علوم بھلا دیتا بلکہ یہاں کا پہلا آنا بھی اس کو یاد نہیں رہتا تو وہ وہاں کیا یاد رکھے گا اور نجات کس طرح حاصل کرے گا.جو لوگ تناسخ کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ مکتی گیان سے ہوگی مگر کروڑ دفعہ کے جنم سے ایک حرف تک ان کو یاد نہیں رہتا اور جب آتا ہے خالی ہاتھ ہی آتا ہے کچھ تو ساتھ لاوے.اگر کچھ بھی ساتھ نہیں لاتا تو گیان کیا ہوا.غرض جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کے ہاتھ پاؤں سرد ہوگئے ہیں.دَم بند ہوگیا ہے.آنکھیں پتھرا گئی ہیں اور روح رخصت ہوگیا ہے اسی طرح تم اس کے واپس آنے کا ثبوت پیش کرو تو ہم مان لیتے ہیں.واپس آنے کا ثبوت تو یہی تھا کہ اپنے کسی گیان کو ساتھ لے آتا.مگر یہ بیہودہ خیال ہے کہ وہ کسی گیان کو ساتھ لاوے.پس بغیر ثبوت کے ہم کیسے مان سکتے ہیں.بڑا مولوی اور بڑا پنڈت بن کر اس جگہ سے رخصت ہوا تھا واپس آکر کچھ بھی یاد نہیں.جب وہاں جاکر سب کچھ بھول آتا ہے
تو کس طرح معلوم ہو کہ یہ دوسرا جنم لے کر آیا ہے.اگر صرف اس کمی بیشی کو پورا کرنے کے واسطے جنم ماننا ہے تو ہم یوں کیوں نہ مان لیں کہ جس طرح یہاں تکلیف اٹھاتا ہے اسی طرح۱ وہ خدا تعالیٰ اس کو اعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ عطا نہیں کر سکتا مثلاً دیانند مَر گیا ہے۲ آجاوے تو ہم اس کو اس طرح شناخت کر سکیں گے کہ ستیارتھ پرکاش یا وید کا کچھ حصّہ ہمیں پڑھ کر سنا دیوے.پڑھا ہوا آدمی تو اگر بھینس کی شکل میں بھی آجاوے تو چاہیے کہ وہ بھینس بھی طوطے کی طرح بولے.ہاں صوفیوں نے بھی یہ لکھا ہے.؎ ہمچو سبزہ بارہا روئیدہ ام ہفت صد ہفتاد قالب دیدہ ام مگر اس کے کچھ اور معنے ہیں.یعنی جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف ترقی کرنے لگتا ہے تو پہلے اس کی حالت بہت ابتر ہوتی ہے جس طرح ایک بچہ آج پیدا ہوا ہے تو اس میں صرف دودھ چوسنے ہی کی طاقت ہوتی ہے اور کچھ نہیں.پھر جب غذا کھانے لگتا ہے تو آہستہ آہستہ غصہ، کینہ، خود پسندی، نخوت علیٰ ہذا القیاس سب باتیں اس میں ترقی کرتی جاتی ہیں اور دن بدن جوں جوں اس کی غذائیت بڑھتی جاتی ہے شہوات اور طرح طرح کے اخلاقِ ردیّہ اور اخلاقِ فاضلہ زور پکڑتے جاتےہیں اور اسی طرح ایک وقت پر اپنے پورے کمال انسانی پر جا پہنچتا ہے اور یہی اس کے جسمانی جنم ہوتے ہیں.یعنی کبھی کتے، کبھی سؤر، کبھی بندر، کبھی گائے، کبھی شیر وغیرہ جانوروں کے اخلاق اور صفات اپنے اندر پیدا کرتا جاتا ہے گویا کل مخلوقات الارض کی خاصیت اس کے اندر ہوتی جاتی ہے.اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ سلوک کا راستہ چاہے گا تو یہ ساری خاصیتیں اس کو طے کرنی پڑیں گی اور یہی تناسخ اصفیا نے مانا ہے اور اس کا اسلام اور ان کا قرآن بھی اقراری ہے.غالباً یہی تناسخ ہنود میں بھی تھا مگر بے علمی سے دھوکا لگ گیا اور سمجھ الٹی ہوگئی.مگر دنیا میں جس بات کو کوئی شخص مان بیٹھا ہے وہ اس کو چھوڑ نہیں سکتا ۱ البدرمیں یہ فقرہ یوں درج ہے.’’اسی طرح کیا وہ خدا تعالیٰ اس کو اعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ عطا نہیں کر سکتا.‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر ۲۷ مورخہ ۱۶؍جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۷) ۲ البدر میں ہے.’’اگر آجاوے.‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر ۲۷ مورخہ ۱۶؍جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۷)
ورنہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ راستی کو دریافت کر کے ناراستی کو چھوڑ دیتے مگر یہاں ضد، تعصّب اور ہٹ دھرمی ماننے نہیں دیتی.مکھیاں شہد بناتیں، ریشم کا کیڑا ریشم بناتا، موتی کا کیڑا موتی بناتا، بیل، گھوڑے، گائے، جونک وغیرہ ہر ایک چیز انسان کے واسطے فائدہ مند ہے.اگر سب چیزیں اتفاقی ہیں اور خدا تعالیٰ نے حکمت سے پیدا نہیں کیں تو پھر ایک وقت پر اپنا جنم پورا کر کے کُل گائیں، کُل مکھیاں، کُل گھوڑے وغیرہ سب جانور انسان بن جانے چاہئیں تو پھر یہ چیزیں اور نعمتیں ایک وقت آنے پر دنیا سے نابود ہوجانی چاہئیں مگر جب تک انسان موجود ہے ان چیزوں کی اشد ضرورت ہے.پانی اور ہوا میں بھی کیڑے ہیں.پھلوں اور اناجوں میں بھی کیڑے ہیں.جن کے بغیر انسان کبھی زندہ نہیں رہ سکتا.پس یا تو تناسخ مانو یا خدا کی حکمت مانو مگر چونکہ انسان کا ان چیزوں کے سوائے گذارہ ہرگز نہیں ہوسکتا ہے معلوم ہو اکہ یہ ساری پیدائش حکمتِ الٰہی پر مبنی ہے.والسلام۱ ۱۸؍جولائی ۱۹۰۴ء (بمقام گورداسپور) كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ مہر نبی بخش المعروف عبد العزیز نمبردار بٹالہ نے عرض کیا کہ میں علاقہ بار سے صرف اس خیال پر آیا ہوں کہ ایک تفسیر قرآن لکھوں جس سے لوگوں کے شکوک اور غلط معانی کی اصلاح کروں.اگر آپ مجھے امداد دیں تو میں موجودہ ثابت شدہ فلسفہ کے مطابق ترجمہ کر کے دکھلاؤں.فرمایا.ہمارا مشرب تو کسی سے نہیں ملتا.ہم تو جو کچھ خدا سے پاتے ہیں خواہ اس کو عقل اور فلسفہ مانے یا نہ مانے ہم اس کو ضرور مانتے اور اس پر ایمان لاتے ہیں البتہ اہلِ عقل سے جو لوگ عقل کی پیروی کرتے ہیں وہ آپ کی اس بات پر توجہ کریں تو خوب ہے.آپ مولوی نور الدین صاحب سے مشورہ لیں.آجکل تراجم کثرت سے شائع ہو رہے ہیں کہ مروّجہ فلسفہ کی پیروی میں شائع ہوتے ہیں مگر ہمارا مذہب یہ نہیں ہے.پر میں تم کو ایک نصیحت کرتا ہوں اس کو ضرور غور سے سن لو.اگر خدا تعالیٰ ۱ الحکم جلد ۸ نمبر ۲۲ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۲
نے تم سے کوئی ایسا عظیم الشان کام لینا ہوتا تو تمہارا رِئَۃ۱ اور دماغ اچھا بناتا مگر یہ مصلحتِ الٰہی ہے کہ وہ اچھا نہیں بنایا گیا بلکہ کمزور بنایا گیا ہے.ع ہر کسے را بہر کارے ساختند تم اپنے آپ کو خوش باش رکھو اور خدا کی منشا کے خلاف نہ کرو.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ(بنی اسـرآءیل:۸۵) ہر ایک شخص کرتا اور کر سکتا ہے، مگر اپنی بناوٹ پر.مثلاً ایک شخص کو تھوڑا ہی صدمہ دیکھ کر غشی لاحق ہو جاتی ہے.اب اس کو میدانِ جنگ میں تلوار دے کر بھیجا جاتا ہے کیا وہ صرف بندوقوں کی آوازیں سن کر ہی نہ مَر جاوے گا.میں نے خود قادیان میں ایک شخص کو دیکھا ہے کہ اگر وہ بکرا ذبح ہوتا ہوا دیکھ لیتا تو اس کو غش ہو جاتا تو اگر قصاب کا کام اس کے سپرد کیا جاتا تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا؟ آپ ارادہ کرتے ہیں اختلاف مٹانے کا اور دماغ اور رِئَۃ آپ کا بہت خراب ہے.ایسا نہ ہو کہ بیماری مہلک ہو کر تمہارے اپنے اندر ہی اختلاف پیدا ہوجاوے.انسانی قویٰ تو بیشک ہر شخص کو ملے ہیں مگر مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ دھوکا نہیں کھاتا.پس آپ پر اس محنت کا پہلے بد اثر ہوچکا ہے آپ کم سے کم پہلے تمام ڈاکٹروں سے دریافت کر لیں کہ آپ اس محنت کے قابل ہیں یا نہیں.میں تو بمصداق اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَـمَنٌ کے ایک امین اور مشفق ناصح ہو کر آپ کو صلاح دیتا ہوں کہ آپ کے قویٰ ایسے نہیں کہ اس محنت کو برداشت کر سکیں.دوزخ کے سات دروازے ہیں اور بہشت کے آٹھ جس رنگ سے اللہ تعالیٰ چاہے یقین عطا فرما دیوے.صحابہ کرامؓ نے علوم فلسفہ وغیرہ کہاں پڑھے تھے.جو اسرارِ الٰہی طبعیات اور فلسفہ وغیرہ میں بھرے پڑے ہیں جو شخص ان سب کو طے کرنا چاہتا ہے وہ جاہل اور بے نصیب رہے گا.مثلاً آگ گرم اور مہلک ہے.اس بات کو تو ہر شخص دریافت کر سکتا ہے پر جب اس کے دل میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ کیوں گرم ہے اور کیوں مہلک ہے تو یہاں فلسفہ ختم ہوجاوے گا.پس اسرارِ الٰہیہ کو حد تک کوئی نہیں پہنچا سکتا.؎ تو کارِ زمین کے نکو ساختی کہ با آسمان نیز پرداختی ۱ رِئَۃ پھیپھڑے کو کہتے ہیں (مرتّب)
پہلے ضرور ہے کہ اپنے گھر اور نفس کی صفائی کرو بعد میں لوگوں کی طرف توجہ کرنا.دنیا میں چار موٹی باتیں ماننے کے قابل ہیں.ملا۱ئکہ، رو۲حِ انسانی اور اس کا بقا بعد از مَرگ.جِنّا۳ت کا وجود.خدا۴ تعالیٰ کا وجود.لوگوں نے سب سے پہلے جِنّات کا انکار کیا.پھر ملائکہ کا.پس دو باتوں کو اڑا کر اپنی اور خدا کی روح کے قائل ہو بیٹھے یعنی کچھ کرنا اور کچھ نہ کرنا اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَ تَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ(البقرۃ:۸۶) اس میں پھر دہریوں نے ہی کمال کیا ہے کہ کچھ بھی نہ مانو اور سب کا انکار کرو.منشی صاحب مذکور نے سوال کیا کہ قرآن کریم میں بہت سارے لفظ زائد ہوتے ہیں اور ان کے معنے نہیں کیے جاتے ایسا نہیں ہونا چاہیے.فرمایا.قرآن کریم بلکہ ہر زبان میں قرائن ہوتے ہیں اور یہ ایسے بہت سارے محاورے ہوتے ہیں.آپ کو صرف و نحو سے واقفیت نہیں.منشی صاحب نے کہا کہ میں نے صرف و نحو کو خوب پڑھا ہے.فرمایا.موجودہ مروّجہ صرف و نحو ناقص ہے اور آپ نے صرف و نحو کو کمال تک بھی نہیں پہنچایا.ہرایک زبان کا ایک خاص محاورہ ہوتا ہے جب تک انسان کی مادری زبان نہ ہو یا اس زبان میں اتنا کمال نہ ہو کہ مشبہ بہ مادری ہو جاوے تب تک وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا.پس اس اَمر کو واقفانِ زبان سے دریافت کرو اور دیکھو قومی محاورات میں کوئی اہلِ علم اعتراض نہیں کر سکتا.پھر سوال کیا کہ بعض لفظ لکھنے میں آتے اور پڑھنے میں نہیں آتے.فرمایا.انگریزی زبان ہی کو لے لو اس میں بھی بہت ایسے لفظ ہیں جو لکھنے میں تو آتے پر پڑھنے میں نہیں آتے.میں پھر بھی کہوں گا کہ آپ کو صرف و نحو کی واقفیت بالکل نہیں.یہ باتیں عمر کھا کے حاصل ہوتی ہیں.آپ کی عمر اس وقت آرام چاہتی ہے اور خیال آپ کو یہ لگ گیا ہے.پھر مجھے اس بات کا بھی ڈر ہے کہ کہیں آپ یہ نہ کہہ دیں کہ مجھے قرآن کی خدمت سے روک دیا ہے.بہرحال میں تو
پھر بھی یہی کہوں گا اور بطور نصیحت کہوں گا کہ راحت سے زندگی بسر کرو.آپ کا رِئَۃ بہت خراب ہے کوئی مہلک بیماری نہ ہو جاوے.ہاں ان لوگوں کے واسطے دعا کر چھوڑو کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دیوے اور قرآن سمجھنے کی ہر ایک کو توفیق دیوے.مخلوق کے تم ٹھیکیدار نہیں.اپنے آپ کو مشکلات میں نہ ڈالو اور نہ تمہارے قویٰ خدا تعالیٰ نے اس لائق بنائے ہیں.میں تو ہمیشہ آپ کو یہی کہوں گا اور یہی نصیحت کروں گا.آئندہ آپ کو اختیار ہے.والسلام ۱ عرش کی حقیقت عرش کے متعلق سوال ہوا.آپ نے اپنی تقریر کے اس حصّہ کا اعادہ فرمایا جو کہ قبل ازیں کئی دفعہ شائع ہو چکی ہے.اورفرمایا کہ عرش کی نسبت مخلوق اور غیر مخلوق کا جھگڑا عبث ہے.احادیث سے اس کا جسم کہیں ثابت نہیں ہوتا.ایک قسم کے عُلُوّ کے مقام کا اظہار عرش کے لفظ سے کیا گیا ہے اگر اسے جسم کہو تو پھر خدا کو بھی مجسم کہنا چاہیے یاد رکھنا چاہیے کہ اس کو عُلُوّ جسمانی نہیں کہ جس کا تعلق جہات سے ہو بلکہ یہ روحانی عُلُوّ ہے.عرش کی نسبت مخلوق اور غیر مخلوق کی بحث بھی ایک بدعت ہے جو کہ پیچھے ایجاد کی گئی.صحابہؓ نے اس کو مطلق نہیں چھیڑا تو اب یہ لوگ چھیڑ کر نافہم لوگوں کو اپنے گلے ڈالتے ہیں.لیکن عرش کے اصل معنے اس وقت سمجھ میں آسکتے ہیں جبکہ خدا تعالیٰ کے دوسرے تمام صفات پر بھی ساتھ ہی نظر ہو.۲ ۲۱؍جولائی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور ترکِ گناہ ایسی ہوا چلی ہے کہ گناہ کا چھوڑنا عیب خیال کرتے ہیں اور جب کوئی گناہ کو چھوڑنا چاہتا ہے تو اسے ایک حسرت ہوتی ہے کہ اب یہ ہاتھ سے گیا.اگر خدا کی عظمت کو مدّ ِنظر رکھ کر بھی گناہ کیا جاوےتو بھی اس کا بوجھ ہلکا ہوجاوے لیکن اس کا خیال کسے ہے.۳ ۱ الحکم جلد ۸ نمبر ۲۳،۲۴ مورخہ ۱۷،۲۴؍جولائی ۱۹۰۴ءصفحہ ۱۶ ۲،۳الحکم جلد ۸ نمبر ۲۵،۲۶ مورخہ ۳۱؍جولائی ،۱۰؍اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۴
۲۵؍جولائی ۱۹۰۴ء (بمقام گورداسپور) تعظیمِ قبلہ سوال ہوا کہ اگر قبلہ شریف کی طرف پاؤں کر کے سویا جاوے تو جائز ہےکہ نہیں؟ فرمایا کہ یہ ناجائز ہے کیونکہ تعظیم کے برخلاف ہے.سائل نے عرض کی کہ احادیث میں اس کی ممانعت نہیں آئی.فرمایا کہ یہ کوئی دلیل نہیں ہے.اگر کوئی شخص اسی بنا پر کہ حدیث میں ذکر نہیں ہے اور اس لیے قرآن شریف پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوا کرے تو کیا یہ جائز ہو جاوے گا؟ ہرگز نہیں.وَ مَنْ يُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ(الـحجّ:۳۳).سکھ مذہب اور عیسائیت شام کو بعد از نماز مغرب دو نوجوان اکاؤنٹنٹ جنرل آفس لاہور کے کلارک جن میں سے ایک صاحب مسلمان تھے اور ایک عیسائی.حضرت کی ملاقات کے لیے تشریف لائے، چونکہ مسلمان صاحب کا تعارف جناب مفتی محمد صادق صاحب سپرنٹنڈنٹ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے تھا.اس لیے مفتی صاحب نے ان کو حضرت اقدس سے انٹروڈیوس کیا.مختصر حالات کے استفسار کے بعد حضورؑ عیسائی نوجوان کی طرف متوجہ ہوئے.معلوم ہوا کہ اوّل یہ سکھ مذہب کے تھے اور ان کے والدعیسائی تھے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ آجکل اگر دنیا کے خدا گنے جاویں تو ایک ضمیمہ کتاب طیار ہوتی ہے، لیکن تعجب ہے کہ سکھ جیسے مذہب کو چھوڑ کر جس میں تو حید کی تعلیم ہے آپ نے عیسائی مذہب کو کیسے پسند کیا.اس کے بعد متفرق طور پر مزاج پرسی وغیرہ ہوتی رہی.اور بر وقت رخصت حضور نے فرمایا کہ ہمیں آپ کی ملاقات سے بہت خوشی ہوئی ہے.افسوس ہے کہ قیام بہت تھوڑا ہے.۱ ۲۶؍جولائی ۱۹۰۴ء (بمقام گورداسپور) ۱الحکم جلد ۸ نمبر ۲۵،۲۶ مورخہ ۳۱؍جولائی ،۱۰؍اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۴
۲۶؍جولائی ۱۹۰۴ء (بمقام گورداسپور) اکرامِ ضیف اعلیٰ حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مہمان نوازی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اعلیٰ اور زندہ نمونہ ہیں.جن لوگوں کو کثرت سے آپ کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ کسی مہمان کو (خواہ وہ سلسلہ میں داخل ہو یا نہ داخل ہو) ذراسی بھی تکلیف حضور کو بے چین کر دیتی ہے.مخلصین احباب کے لیے تو اور بھی آپ کی روح میں جوش شفقت ہوتا ہے.اس اَمر کے اظہار کے لیے ہم ذیل کا ایک واقعہ درج کر دیتے ہیں.میاں ہدایت اللہ صاحب احمدی شاعر لاہور پنجاب جو کہ حضرت اقدس کے ایک عاشق صادق ہیں.اپنی اس پیرانہ سالی میں بھی چند دنوں سے گورداسپور آئے ہوئے تھے.آج انہوں نے رخصت چاہی.جس پر حضرت اقدس نے فرمایاکہ آپ جا کر کیا کریں گے؟ یہاں ہی رہیے اکٹھے چلیں گے.آپ کا یہاں رہنا باعث برکت ہے اگر کوئی تکلیف ہو تو بتلا دو اس کا انتظام کر دیا جاوے.پھر اس کے بعد آپ نے عام طور پر جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ چونکہ آدمی بہت ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ کسی کی ضرورت کا علم (اہل عملہ کو) نہ ہو.اس لیے ہرایک شخص کو چاہیے کہ جس شَے کی اسے ضرورت ہو وہ بِلا تکلّف کہہ دے.اگر کوئی جان بوجھ کر چھپاتا ہے تو وہ گنہگار ہے.ہماری جماعت کا اصول ہی بے تکلّفی ہے.بعد ازیں حضرت اقدس نے میاں ہدایت اللہ صاحب کو خصوصیت سے سید سرور شاہ صاحب کے سپرد کیا کہ ان کی ہر ایک ضرورت کو وہ بہم پہنچاویں.۱ الحکم جلد ۸ نمبر ۲۵،۲۶ مورخہ ۳۱؍جولائی ،۱۰؍اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۴
بِلا تاریخ۱ کوئی نسخہ حکمی نہیں ہمارے گھر مرزا صاحب (عالی جناب مرزا غلام مرتضیٰ خان صاحب مرحوم) پچاس برس تک علاج کرتے رہے.وہ اس فن طبابت میں بہت مشہور تھے مگر ان کا قول تھا کہ کوئی حکمی نسخہ نہیں ملا.حقیقت میں انہوں نے سچ فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی ذرّہ جو انسان کے اندر جاتا ہے کوئی اثر نہیں کر سکتا.حکّام اور برادری سے سلوک ایک شخص نے پوچھا کہ حکّام اور برادری سے کیسا سلوک کریں؟ فرمایا.ہر ایک سے نیک سلوک کرو.حکّام کی اطاعت اور وفاداری ہر مسلمان کا فرض ہے.وہ ہماری حفاظت کرتے ہیں اور ہر قسم کی مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے.میں اس کو بڑی بے ایمانی سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری سچے دل سے نہ کی جاوے.برادری کے حقوق ہیں ان سے بھی نیک سلوک کرنا چاہیے.البتہ ان باتوں میں جو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے خلاف ہیں ان سے الگ رہنا چاہیے.ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو اور خدا تعالیٰ کی کُل مخلوق سے احسان کرو.قبولیتِ دعا کے آثار جب اللہ تعالیٰ کا فضل قریب آتا ہے تو وہ دعا کی قبولیت کے اسباب پہنچا دیتا ہے.دل میں ایک رقّت اور سوز و گداز پیدا ہوجاتا ہے، لیکن جب دعا کی قبولیت کا وقت نہیں ہوتا تو دل میں اطمینان اور رجوع پیدا نہیں ہوتا.طبیعت پر کتنا ہی زور ڈالو مگر طبیعت متوجہ نہیں ہوتی.اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی خدا تعالیٰ اپنی قضا و قدر منوانا چاہتا ہے اور کبھی دعا قبول کرتا ہے.اس لیے میں تو جب تک اذنِ الٰہی کے آثار نہ پالوں قبولیت کی کم امید کرتا ۱ ایڈیٹر صاحب الحکم نے ’’پرانی نوٹ بک میں سے کچھ ‘‘ کے زیر عنوان یہ ملفوظات درج کئے ہیں.ان پر کوئی تاریخ درج نہیں.معلوم ہوتا ہے مختلف تاریخوں کے ہیں.(خاکسار مرتّب)
ہوں اور اس کی قضا و قدر پر اس سے زیادہ خوشی کے ساتھ جو قبولیت دعا میں ہوتی ہے راضی ہوجاتا ہوں، کیونکہ اس رضا بالقضا کے ثمرات اور برکات اس سے بہت زیادہ ہیں.خدا تعالیٰ اعمالِ صالحہ کو چاہتا ہے اللہ تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا.وہ تو روحانیت اور مغز کو قبول کرتا ہے.اس لیے فرمایالَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى (الـحج:۳۸) اور دوسری جگہ فرمایا اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ(المآئدۃ:۲۸) حقیقت میں یہ بڑی نازک جگہ ہے.یہاں پیغمبر زادگی بھی کام نہیں آسکتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بھی ایسا ہی فرمایا.قرآن شریف میں بھی صاف الفاظ میں فرمایااِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ(الـحجرات:۱۴) یہودی بھی تو پیغمبر زادے ہیں.کیا صدہا پیغمبر ان میںنہیں آئے تھے مگر اس پیغمبر زادگی نے ان کو کیا فائدہ پہنچایا.اگر ان کے اعمال اچھے ہوتے تو وہ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ (البقرۃ:۶۲) کے مصداق کیوں ہوتے.خدا تعالیٰ تو ایک پاک تبدیلی کو چاہتا ہے.بعض اوقات انسان کو تکبّر نسب بھی نیکیوں سے محروم کر دیتا ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ میں اسی سے نجات پالوں گا جو بالکل خیال خام ہے.کبیر کہتا ہے کہ اچھا ہوا ہم نے چماروں کے گھر جنم لیا.ع کبیر اچھا ہوا ہم نیچ بھلے سب کو کریں سلام خدا تعالیٰ وفاداری اور صدق کو پیار کرتا ہے اور اعمالِ صالحہ کو چاہتا ہے.لاف و گزاف اسے راضی نہیں کر سکتے.رفع عیسیٰ علیہ السلام فرمایا.قرآن شریف تو رفع اختلاف کے لیے آیا ہے.اگر ہمارے مخالف رَافِعُكَ اِلَيَّ کے یہ معنے کرتے ہیں کہ مسیح جسم سمیت آسمان پر چڑھ گیا تو وہ ہمیں یہ بتائیں کہ کیا یہود کی یہ غرض تھی؟ اور وہ یہ کہتے تھے کہ مسیح آسمان پر نہیں چڑھا؟ ان کا اعتراض تو یہ تھا کہ مسیح کا رفع اِلَی اللہ نہیں ہوا.اگر رَافِعُكَ اِلَيَّ اس اعتراض کا جواب نہیں تو پھر
چاہیے کہ اس اعتراض کا جواب دیا اور دکھایا جاوے.مرکز میں آنے کی اصل غرض دین ہو ایک مرتبہ کسی نے کہا کہ میں تجارت کے لیے یہاں آنا چاہتا ہوں.فرمایا.یہ نیت ہی فاسد ہے اس سے توبہ کرنی چاہیے.یہاں تو دین کے واسطے آنا چاہیے اور اصلاح عاقبت کے خیال سے یہاں رہنا چاہیے.نیت تو یہی ہو اور اگر پھر اس کے ساتھ کوئی تجارت وغیرہ یہاں رہنے کے اغراض کو پورا کرنے کے لیے ہو تو حرج نہیں ہے.اصل مقصد دین ہو نہ دنیا.کیا تجارتوں کے لیے شہر موزوں نہیں؟ یہاں آنے کی اصل غرض کبھی دین کے سوا اور نہ ہو.پھر جو کچھ حاصل ہو جاوے وہ خدا کا فضل سمجھو.ہمدردی خلائق بنی نوع انسان کی ہمدردی خصوصاً اپنے بھائیوں کی ہمدردی اور حمایت پر نصیحت فرماتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا کہ میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں.میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو میں تو یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں.یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے.اگر تم کچھ بھی اس کے لیے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو.اپنے تو درکنار میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو.لا اُبالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہیے.ایک مرتبہ میں باہر سیر کو جا رہا تھا.ایک پٹواری عبد الکریم میرے ساتھ تھا.وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے.راستہ میں ایک بڑھیا کوئی ۷۰ یا ۷۵ برس کی ضعیفہ ملی.اس نے ایک خط اسے پڑھنے کو کہا مگر اس نے اس کو جھڑکیاں دے کر ہٹا دیا.میرے دل پر چوٹ سی لگی.اس نے وہ خط مجھے دیا.میں اس کو لے کر ٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا اس پر اسے بہت شرمندہ ہونا پڑا کیونکہ ٹھہرنا تو پڑا
اور ثواب سے بھی محروم رہا.سلسلہ کا مستقبل مجھے بڑے ہی کشف صحیح سے معلوم ہوا ہے کہ ملوک بھی اس سلسلہ میں داخل ہوں گے.یہاں تک کہ وہ ملوک مجھے دکھائے بھی گئے ہیں.وہ گھوڑوں پر سوار تھے.اور یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں تجھے یہاں تک برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اللہ تعالیٰ ایک زمانہ کے بعد ہماری جماعت میں ایسے لوگوں کو داخل کرے گا اور پھر ان کے ساتھ ایک دنیا اس طرف رجوع کرے گی.۱ آدابِ دعا دعا میں جس قدر بیہودگی ہوتی ہے اسی قدر اثر کم ہوتا ہے.یعنی اس کی استجابت ضروری نہیں سمجھی جاتی.مثلاً ایک شخص ہے کہ اس کا گذارہ ایک دو روپیہ روزانہ میں بخوبی چل سکتا ہے لیکن وہ پچاس روپیہ روزانہ طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا سوال بیہودہ ہوگا.یہ ضروری اَمر ہے کہ ضرورتِ حقّہ اللہ تعالیٰ کے آگے پیش کی جاوے.جب کسی کی مصیبت کا خط آتا ہے اور اس میں دعا کی درخواست ہوتی ہے تو دیکھا گیا ہے کہ دل خوب لگ کر دعا کرتا ہے لیکن دوسری بیہودہ درخواستوں میں اس قدر دل نہیں لگتا.عام لوگ جو آجکل دفع طاعون کے لیے دعا مانگتے ہیں اس پر آپ نے فرمایا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ اپنی ذات کو منوانا چاہتا ہے.نری دعا سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے جب تک کہ عقائد کی اصلاح نہ ہو.ایسی دعائیں کیا بُت پرست نہیں مانگتے پھر اُن میں اور اِن میں فرق کیا ہوا؟ بلکہ مجھے خیال آتا ہےکہ وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ(البقرۃ:۱۸۷) کے یہی معنے ہیںکہ اگر سوال ہو کہ خد اکا علم کیوںکر ہوا تو جواب یہ ہے کہ اسلام کا خدا بہت قریب ہے.اگر کوئی اسے سچے دل سے بلاتا ہے تو وہ جواب دیتا ہے.دوسرے فرقوں کے خدا قریب نہیں ہیں بلکہ اس قدر دور ہیں کہ ان کا پتا ہی ندارد.اعلیٰ سے اعلیٰ غرض عابد اور پرستار کی یہی ہے کہ اس کا قرب حاصل ہو اور یہی ذریعہ ہے جس سے اس کی ہستی پر یقین حاصل ہوتا ہے.اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ(البقرۃ:۱۸۷) لحکم جلد ۸ نمبر ۲۵،۲۶ مورخہ ۳۱؍جولائی ،۱۰؍اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۳
دَعَانِ(البقرۃ:۱۸۷) کے بھی یہی معنے ہیں کہ وہ جواب دیتا ہے گونگا نہیں ہے.دوسرے تمام دلائل اس کے آگے ہیچ ہیں.کلام ایک ایسی شَے ہے جو کہ دیدار کے قائم مقام ہے.عذاب اور فسق ایک تحصیلدار صاحب نے گورداسپور میں عرض کی کہ تجربہ ہوا ہے کہ خاص طاعون کے دنوں میں فسق بڑھ جاتا ہے.چنانچہ ایک گھر میں پے در پے طاعون کی موتیں ہوتی رہیں اور اس کے ساتھ ہی دیوار بہ دیوار ایک شخص ایک ہفتہ زنا کاری میں مبتلا رہا.فرمایا کہ قرآن شریف سے بھی ایسا ثابت ہے جیسے کہ اَمَرْنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوْا فِيْهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًا (بنی اسـرآءیل:۱۷) یعنی جب اس قسم کے عذاب نازل ہوتے ہیں تو فاسقوں کو ڈھیل دی جاتی ہے کہ وہ جی بھر کر فسق کر لیں.پھر ان کو ایک ہی دفعہ ہلاک کر دیا جاتا ہے.لذّات دنیوی میں انہماک خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافر وہ ہیں جو حیاتِ دنیا پر راضی ہوگئے اور اطمینان پاگئے ہیں.خدا کی طرف حرکت کی ضرورت کو وہ بالکل محسوس ہی نہیں کرتے فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا(الکھف:۱۰۶) میں گناہ کا ذکر نہیں ہے اس کا باعث صرف یہ ہے کہ ان لوگوں نے دنیا کی خواہشوں کو مقدم رکھا ہوا تھا.ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ دنیا کا حظّ پاچکے.وہاں بھی گناہ کا ذکر نہیں بلکہ دنیا کی لذّات جن کو خدا تعالیٰ نے جائز کیا ہے ان میں منہمک ہوجانے کا ذکر ہے.اس قسم کے لوگوں کا مرتبہ عند اللہ کچھ نہ ہوگا اور نہ ان کو کوئی عزّت کا مقام دیا جائے گا.شیریں زندگی اصل میں ایک شیطان ہے جو کہ انسان کو دھوکا دیتی ہے.مومن تو خود مصیبت خریدتا ہے.ورنہ اگر وہ مداہنہ برتے تو ہر طرح آرام سے رہ سکتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر اس طرح کرتے تو اس قدر جنگیں کیوں ہوتیں لیکن آپؐنے دین کو مقدم رکھا اس لیے سب دشمن ہوگئے.حُسنِ نیت سوال.ملازمت پیشہ لوگوں کو عبادت کا بڑا کم وقت ملتا ہے اور وہ دینی خدمات سے بھی محروم رہتے ہیں.بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی آرام میں گذرتی ہے.تلخ زندگی
کا ان کو موقع ہی نہیں آتا.فرمایا کہ وہ بھی ایک تلخی کا حصّہ ہے کیونکہ معاش کے لیے کرتا ہے اس لیے عبادت کا ثواب پاتا ہے.نیک نیتی سے اگر انسان چلے اور نیت یہ ہو کہ بال بچوں کی پرورش اس لیے کرتا ہوں کہ وہ خادمِ دین ہوں تو اس پر بھی اسے ثواب ملتا ہے.نبی اور اجتہادی غلطی انبیاء کے دشمنوں کے دو گروہ ہوتے ہیں ایک وہ جو کہ ان کے مکذّب ہوتے ہیں.دوسرے وہ جو ان کو خدا مانتے ہیں.اہلِ اسلام کا عقیدہ جو مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے کا ہے وہ اسی قسم کا ہے کہ یہ لوگ ان کے مکذّب تو نہیں ہیں لیکن ان کو خدا ضرور مانتے ہیں کہ ہر ایک اس کی صفت میں اسے شریک کیا ہوا ہے حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ بعض وقت نبی کو اجتہاد اور تفہیمِ الہام میں غلطی ہو جاتی ہے.یہ غلطی اگر احکامِ دین کے متعلق ہو تو ان کو فوراً متنبہ کیا جاتا ہے لیکن دوسرے امور میں ضروری نہیں کہ وہ اطلاع دیئے جاویں.پس اس لیے یہ بات ممکن ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے دوبارہ آنے کے بارے میں جو الہامات ہوئے خود انہوں نے بھی اسے حقیقی معنوں پر حمل کر لیا ہو کیونکہ ان کا مخطی ہونا تو ثابت ہے.اس لیے انجیلوں میں ان کا یہ فقرہ نقل ہوا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اس زمانہ کے لوگ زندہ ہوں گے کہ میں دوبارہ آجاؤں گا.اس قسم کی اجتہادی غلطی کا امکان ہرایک نبی سے ہے.اب دیکھو کہ مسیح علیہ السلام سے تو ایک اجتہادی غلطی ہوئی لیکن دوسروں کو کس قدر وبال آیا.اگر ان مسلمانوں کو یہ سمجھ ہوتی تو وہ دوسرے نبیوں سے ان کو کیوں زیادہ مرتبہ دیتے.مسلمانوں پر یہ بات لازم نہیں ہے کہ وہ انجیل کے الفاظ پر ضرور اَڑیں.مسیح علیہ السلام کو یہ خاص عزّت دیں کہ وہ مخطی نہیں یہ تو اسلام سے خارج ہونا ہے.چند فقہی مسائل سفر گورداسپور میں نماز کے متعلق ذیل کے مسائل میری موجودگی میں حل ہوئے.(ڈائری نویس) (۱) ایک مقام پر دو جماعتیں نہ ہونی چاہئیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت اقدس ابھی وضو فرما
رہے تھے اور مولانا مولوی محمد احسن صاحب بوجہ علالت طبع نماز کے لیے کھڑے ہوگئے.ان کا خیال تھا کہ میں معذور ہوں الگ پڑھ لوں مگر چند ایک احباب ان کے پیچھے مقتدی بن گئے اور جماعت ہوگئی.جب حضرت اقدس کو علم ہوا کہ ایک جماعت ہوچکی ہے اور اب دوسری ہونے والی ہے.تو آپ نے فرمایا کہ ایک مقام پر دو جماعتیں ہرگز نہ ہونی چاہئیں.(۲) ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضور اقدس اپنی کوٹھڑی میں تھے اور ساتھ ہی کوٹھڑی میں نماز ہونے لگی.آدمی تھوڑے تھے.ایک ہی کوٹھڑی میں جماعت ہو سکتی تھی.بعض احباب نے خیال کیاکہ شاید حضرت اقدس اپنی کوٹھڑی میں ہی نماز ادا کر لیں گے، کیونکہ امام کی آواز وہاں پہنچتی ہے.اس پر آپؑنے فرمایا کہ جماعت کے ٹکڑے الگ الگ نہ ہونے چاہئیں بلکہ اکٹھی پڑھنی چاہیے.ہم بھی وہاں ہی پڑھیں گے یہ اس صورت میں ہونا چاہیے جبکہ جگہ کی قلّت ہو.(۳) ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب گورداسپور میں مقیم تھے اور احمدی جماعت نزیل قادیان بہ باعث سفر میں ہونے کے نماز جمع۱ کر کے ادا کرتی تھی.ڈاکٹر صاحب نے مسئلہ پوچھا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ مقیم پوری نماز ادا کریں.وہ اس طرح ہوتی رہی کہ جماعت کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نماز ادا کرتے.جماعت دو رکعت ادا کرتی لیکن ڈاکٹر صاحب باقی کی دو رکعت بعد از جماعت ادا کر لیتے.ایک دفعہ حضرت اقدس نے دیکھ کر کہ ڈاکٹرصاحب نے ابھی دو رکعت ادا کرنی ہے فرمایاکہ ٹھہر جاؤ.ڈاکٹر صاحب دو رکعت ادا کر لیویں.پھر اس کے بعد جماعت دوسری نماز کی ہوئی.ایسی حالت جمع میں سنّت اور نوافل نہیں ادا کیے جاتے.(۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے ہوئے تھے.آپ نے پانی مانگا.جب پانی آیا تو اسے سہو ہے اصل میں ’’قصر ‘‘ ہو نا چاہیے.(مرتّب)
بیٹھ کر آپ نے پیا اور بھی کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ پانی وغیرہ آپ ہمیشہ بیٹھ کر ہی پیتے ہیں.۱ ۷؍اگست۱۹۰۴ء (بمقام قادیان.بوقتِ شام) صوفیا کا ملامتی فرقہ اور ریاء شام کی نماز کے بعدچند ایک احباب نے بیعت کی.ان میں ایک صاحب ایسے تھے جو کہ اپنے زمانہ جہالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت الفاظی سے یاد کرتے اور بہت ہی بُرا بھلا کہتے تھے.وہ اپنی ان خطاؤں کی معافی حضرت اقدس علیہ السلام سے طلب کرتے تھے.آپ فرماتے تھے کہ توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ سب گناہ بخش دیتا ہے.اس اثنا میں اس تائب کا دل اپنے گناہوں کو یاد کرکے بھر آیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گیا.روتا جاتا تھا اور گناہوں کی مغفرت کی دعا بھی کرتا جاتا تھا.اس کی اس حالت کو جناب حکیم نور الدین صاحب نے دیکھ کر عرض کی کہ ایسے ہی مذنب ہیں جن کے گناہ خدا بخش دیتا ہے.اس پر سلسلہ کلام چل پڑا اور حضرت اقدس نے ذیل کی تقریر شروع کی.فرمایا کہ ذنوبی آدمی کو اسی لیے قرب بخشتے ہیں بشرطیکہ ساتھ توبہ اور استغفار بھی ہو اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خطا اور صغائر میں انبیاء کو بھی شریک کر دیا ہے تاکہ قرب الٰہی کے مراتب میں وہ ترقی کر سکیں.فرقہ ملامتی کو میں پسند نہیں کرتا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے مقابلہ پر غیر کے وجود کو بڑا خیال کرتے ہیں اور اپنے اعمالِ صالحہ کو پوشیدہ رکھ کر مخلوق کی نظروں میں متہم (جائے تہمت) ہونا چاہتے ہیں.یہ ان کی غلطی ہے.دوسرے وجود کو تو لاشَے خیال کرنا چاہیے اور کسی کے ضرر اور نفع پر نظر ہرگز نہ رکھنی چاہیے.نہ کسی کی مدح سے پھولے اور دل میں خوش ہو اور نہ کسی کی ذم سے رنجیدہ خاطر ہو.سچے موحد وہی ہوتے ہیں جو خدا کے سوا کسی دوسرے وجود کو کوئی شَے خیال نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ فرقہ ملامتی اس توحید سے گراہوا ہے.خدا تعالیٰ نے مومنوں کی صفت فرمائی ہے لَا يَخَافُوْنَ لبدر جلد ۳ نمبر ۲۹ مورخہ یکم اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۳،۴
لَوْمَةَ لَآىِٕمٍ(المآئدۃ:۵۵)کہ وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں خوف کھاتے اور صرف اپنے مولا کی رضا مندی کو مقدم رکھتے ہیں.مومن ایک لاپروا انسان ہوتا ہے.اسے صرف خدا کی رضا مندی کی حاجت ہوتی ہے اور اسی کی اطاعت کو وہ ہردم مدّ ِنظر رکھتا ہے کیونکہ جب اس کا معاملہ خدا سے ہے تو پھر اسے کسی کے ضرر اور نفع کا کیا خوف ہے.جب انسان خدا تعالیٰ کے بالمقابل کسی دوسرے کے وجود کو دخل دیتا ہے تو ریا اور عُجب وغیرہ معاصی میں مبتلا ہوتا ہے.یاد رکھو کہ یہ دخل وہی ایک زہر ہے اور کلمہ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کے اوّل جز لَاۤ اِلٰهَ میں اس کی بھی نفی ہے کیونکہ جب انسان کسی انسان کی خاطر خدا کے ایک حکم کی بجاآوری سے قاصر رہتا ہے تو آخر اسے خدا کی کسی صفت میں شریک کرتا ہے تبھی تو قاصر رہتا ہے اس لیے لَاۤ اِلٰهَ کہتے وقت اس قسم کے معبودوں کی بھی نفی کرتا ہے.صوفیوں نے اس قسم کے ملامتی لوگوں کے بہت سے قصے لکھے ہیں.امام غزالی(علیہ الرحمۃ) نے بھی لکھا ہے کہ آجکل کے فقراء ریا کار ہوتے ہیں.تن کی آسانی کو مدّ ِنظر رکھ کر موٹے جھوٹے کپڑے تو پہنتے نہیں اس لیے باریک کپڑوں کو گیرو یا سبز رنگ لیتے ہیں اور ان کے جُبّے پہن کر اپنے کو فقراء مشہور کرتے ہیں.مقصود ان کا یہ ہوتا ہے کہ لوگوں سے متمیز ہوں اور عوام النّاس خصوصیت سے ان کی طرف دیکھیں.پھر روزہ داروں کا ذکر لکھا ہے کہ کوئی روزہ دار مولوی کسی کے ہاں جاوے اور اسے مقصود ہو کہ اپنے روزہ کا اظہار کرے تو مالکِ خانہ کے استفسار پر بجائے اس کے کہ سچ بولے کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے اس کی نظر وں میں بڑا نفس کش ثابت کرنے کے لیے جواب دیا کرتے ہیں کہ مجھے عذر ہے.غرضیکہ اس طرح کے بہت سے مخفی گناہ ہوتے ہیں جو اعمال کو تباہ کرتے رہتے ہیں.کبر اور نخوت امراء کو کبر اور نخوت لگے رہتے ہیں جو کہ ان کے عملوں کو کھاتے رہتے ہیں.اس لیے بعض غریب آدمی جن کو اس قسم کے خیالات نہیںہوتے وہ سبقت لے جاتے ہیں.غرضیکہ ریا وغیرہ کی مثال ایک چوہے کی ہے جو کہ اندر ہی اندر اعمال کو کھاتا رہتا ہے.خدا تعالیٰ
بڑا کریم ہے لیکن اس کی طرف آنے کے لیے عجز ضروری ہے.جس قدر انانیت اور بڑائی کا خیال اس کے اندر ہوگا خواہ وہ علم کے لحاظ سے ہو، خواہ ریاست کے لحاظ سے، خواہ مال کے لحاظ سے، خواہ خاندان اور حسب نسب کے لحاظ سے تو اسی قدر پیچھے رہ جاوےگا.اسی لیے بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ سادات میں سے اولیاء کم ہوئے ہیں کیونکہ خاندانی تکبّر کا خیال ان میں پیدا ہوجاتا ہے.قرونِ اُولیٰ کے بعد جب یہ خیال پیدا ہوا تو یہ لوگ رہ گئے.اس قسم کے حجاب انسان کو بے نصیب اور محروم کر دیتے ہیں بہت ہی کم ہیں جو ان سے نجات پاتے ہیں.امارت اوردولت بھی ایک حجاب ہوتا ہے.امیر آدمی کو کوئی غریب سے غریب اور ادنیٰ آدمی السلام علیکم کہے تو اسے مخاطب کرنا اور وعلیکم السلام کہنا اس کو عار معلوم ہوتا ہے اور خیال گذرتا ہے کہ یہ حقیر اور ذلیل آدمی کب اس قابل ہے کہ ہمیں مخاطب کرے.اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ غریب امیروں سے پانصد سال پیشتر جنت میں جاویں گے.ہمیں معلوم نہیں کہ اس حدیث کے معانی کیا ہیں لیکن ہم ان الفاظ پر ایمان لاتے ہیں.اس کا ایک باعث یہ بھی ہے کہ غریبوں کا تزکیہ نفس قضا و قدر نے خود ہی کیا ہوتا ہے.حصولِ فضل کی راہیں یاد رکھو کہ خدا کے فضل کے حاصل کرنے کے دو راہ ہیں.ایک تو زہد نفس کشی اور مجاہدات کا ہے اور دوسرا قضا و قدر کا.لیکن مجاہدات سے اس راہ کا طے کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ اس میں انسان کو اپنے ہاتھ سے اپنے بدن کو مجروح اور خستہ کرنا پڑتا ہے.عام طبائع بہت کم اس پر قادر ہوتی ہیں کہ وہ دیدہ و دانستہ تکلیف جھیلیں لیکن قضاو قدر کی طرف سے جو واقعات اور حادثات انسان پر آکر پڑتے ہیں وہ ناگہانی ہوتےہیں اور جب آپڑتے ہیں تو قہر درویش برجان درویش ان کو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے جو کہ اس کے تزکیہ نفس کا باعث ہوجاتا ہے جیسے شہداء کو دیکھو کہ جنگ کے بیچ میں لڑتے لڑتے جب مارے جاتےہیں تو خدا کے نزدیک کس قدر اجر کے مستحق ہوتے ہیں.یہ درجاتِ قرب بھی ان کو قضا و قدر سے ہی ملتے ہیں.ورنہ اگر تنہائی میں ان کو اپنی گردنیں کاٹنی پڑیں تو شاید بہت تھوڑے ایسے نکلیں جو شہید ہوں.
اسی لیے اللہ تعالیٰ غرباکو بشارت دیتا ہے وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ :۱۵۶،۱۵۷) اس کا یہی مطلب ہے کہ قضا و قدر کی طرف سے ان کو ہر ایک قسم کے نقصان پہنچتےہیں اور پھر وہ جو صبر کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ کی عنائتیں اور رحمتیں ان کے شاملِ حال ہوتی ہیں کیونکہ تلخ زندگی کا حصّہ ان کو بہت ملتا ہے لیکن امراء کو یہ کہاں نصیب.امیروں کا تو یہ حال ہے کہ پنکھا چل رہا ہے.آرام سے بیٹھے ہیں.خدمتگار چائے لایا ہے اگر اس میں ذرا سا قصور بھی ہے خواہ میٹھا ہی کم یا زیادہ ہے تو غصّہ سے بھر جاتےہیں.خدمتگار کو ناراض ہوتے ہیں.بہت غصّہ ہو تو مارنے لگ جاتے ہیں حالانکہ یہ مقام شکر کا ہے کہ ان کو ہل جوتنا نہیں پڑا.کاشتکاری کے مصائب برداشت نہیں کیے.چولہے کے آگے بیٹھ کر آگ کے سامنے تپش کی شدت برداشت نہیں کی اور پکی پکائی شَے محض خدا کے فضل سے سامنے آگئی ہے.چاہیے تو یہ تھا کہ خدا کے احسانوں کو یاد کر کے رطب اللّسان ہوتے لیکن اس کےسارے احسانوں کو بھول کر ایک ذرا سی بات پر سار اکیا کرایا رائیگاں کر دیتے ہیں حالانکہ جیسے وہ خدمتگار انسان ہے اور اس سے غلطی اور بھول ہو سکتی ہے ویسے ہی وہ (امیر) بھی تو انسان ہے.اگر اس خدمتگار کی جگہ خود یہ کام کرتا ہوتا تو کیا یہ غلطی نہ کرتا.پھر اگر ماتحت آگے سے جواب دے تو اس کی اور شامت آتی ہے اور آقا کے دل میں رہ رہ کر جوش اٹھتا ہے کہ یہ ہمارے سامنے کیوں بولتا ہے اور اسی لیے وہ خدمتگار کی ذلّت کے در پے ہوتاہے.حالانکہ اس کا حق ہے کہ وہ اپنی غلطی کی تلافی کے لیے زبان کشائی کرے.اسی پر مجھے ایک بات یاد آئی ہے کہ سلطان محمود کی (یا ہارون الرشید کی) ایک کنیز تھی.اس نے ایک دن بادشاہ کا بسترا جو کیا تو اسے گد گدا اور ملائم اور پھولوں کی خوشبو سے بسا ہوا پاکر اس کے دل میں آیا کہ میں بھی لیٹ کر دیکھوں تو سہی اس میں کیا آرام حاصل ہوتا ہے.وہ لیٹی تو اسے نیند آگئی.جب بادشاہ آیا تو اسے سوتا پاکر ناراض ہوا اور تازیانہ کی سزا دی.وہ کنیز روتی بھی جاتی اور ہنستی بھی جاتی.بادشاہ نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ روتی تو اس لیے ہوں کہ ضربوں سے درد ہوتی ہے اور ہنستی اس لیے ہوں کہ
میں چند لمحہ اس پر سوئی تو مجھے یہ سزا ملی اور جو اس پر ہمیشہ سوتے ہیں ان کو خدا معلوم کس قدر عذاب بھگتنا پڑے گا.غربت ایک کیمیا ہے پس غریبوں کو ہرگز بے دل نہ ہونا چاہیے.ان کا قدم آگے ہی ہے لیکن وہ کوشش کریں کہ تھوڑی بہت جو کسر ہے وہ نکال دیویں کیونکہ بعض وقت ان لوگوں سے غریبی میں بھی بڑے بڑے گناہ صادر ہو جاتے ہیں.صبر نہیں کرتے خدا کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں.معاش کی قلّت ہو تو چوری، ڈاکہ اور دوسرے جرائم شروع کر دیتے ہیں.ایسی حالتوں میں صبر کرنا چاہیے اور خدا کی نافرمانی کی طرف ہرگز مائل نہ ہونا چاہیے.غربت اور کم رزقی در اصل انسان کو انسان بنانے کے لیے بڑی کیمیا ہے بشرطیکہ اس کے ساتھ اور قصور نہ ہوں.جیسے مالداروں میں تکبّر اور نخوت وغیرہ پیدا ہو کر ان کے اعمال کو تباہ کر دیتے ہیں ویسے ہی ان میں بے صبری موجب ہلاکت ہوتی ہے.اگر غریب لوگ صبر سے کام لیں تو ان کو وہ حاصل ہو جو اور لوگوں کو مجاہدہ سے حاصل نہیں ہو سکتا.خدا نے اصل میں بڑا احسان کیا ہے کہ انبیاء کے ساتھ غریبی کا حصّہ بھی رکھ دیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بکریاں چرایا کرتے تھے.موسٰی نے بکریاں چرائیں.کیا امراء یہ کام کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایک جنگل میں ہوا.وہاں کچھ پھل دار درخت تھے چند ایک صحابی جوکہ ہمراہ تھے وہ ان کا پھل توڑ کر کھانے لگے تو آپؐنے فرمایا کہ فلاں درخت کا پھل کھاؤ بہت شیریں ہے.صحابہؓ نے پوچھا کہ یا حضرت آپ کو کیسے علم ہے.فرمایا کہ جب میں بکریاں چرایا کرتا تھا تو اس جنگل میں بھی آیا کرتا اور ان پھلوں کو کھایا کرتا تھا.اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ تجویز نہیںکیا کہ انبیاء شاہی خاندان سے ہوں ورنہ تکبّر اور نخوت کا کچھ نہ کچھ حصّہ ان میں ضرور رہ جاتا اور پھر نبوت کے بھی دو حصّے کر دیئے.ایک مصائب اور شدائد کا اور دوسرا فتح و نصرت کا.انبیاء کی زندگی کے ان دو حصوں میں بھی الٰہی حکمت تھی.ایک تو یہی تھی کہ ان کے اخلاق میں ترقی ہو اور سچی بات یہی ہے کہ جوں جوں نبوت کا زمانہ گذرتا ہے اور واقعات اور حادثات کی صورت بدلتی جاتی ہے انبیاء کی اخلاقی حالت بھی
ترقی کرتی جاتی ہے.ابتدا میں ممکن ہے کہ غصّہ وغیرہ زیادہ ہو اس لیے نبی کی زندگی کا آخری حصّہ بہ نسبت پہلے کے بلحاظ اخلاق کے بہت ترقی یافتہ ہوتا ہے.اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ ابتدا میں ان کے اخلاق عام لوگوں سے ترقی یافتہ نہیں ہوتے بلکہ یہ مراد ہے کہ اپنے دائرہ نبوت میں وہ آخری حصّہ عمر میں بہت مؤدّب ہوتے ہیں ورنہ ان کی ابتدائی زندگی کا حصّہ بھی اخلاق میں تو کُل لوگوں سے اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ نبی اگر شدائد اور مصائب سے امن میں رہے تو ان کی صبر کی قوت کا پتا لوگوںکو کیسے معلوم ہو.پھر بہت سے اخلاقِ فاضلہ اس قسم کے ہیں کہ وہ صرف نزول مصائب پر ہی حاصل ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا تعالیٰ کا بڑا فضل و احسان تھا کہ آپؐکو دونوں موقع عطا کیے.ہر ایک نبی کا یہ کام نہیںکہ وہ ہر ایک رتبہ کے لوگوں کو ایک کامل نمونہ اخلاق کا پیش کرسکے.فقیر، غریب اور امیر وغیرہ ہر ایک اس کے چشمہ سے مساوی سیراب ہوں.یہ صرف آنحضرتؐکی ہی ذات سے ہے جس نے کل ضرورتوں کو پورا کر کے دکھایا.تعلیم کے ساتھ اُسوہ کی ضرورت فرقہ چکڑالوی نے بھی یہاں ہی ٹھوکر کھائی ہے.اس نے یہ نہیں سمجھا کہ بغیر نمونہ کے دوسرا انسان اتباع کیسے پوری کر سکتا ہے.اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ (اٰلِ عـمران:۳۲) کہہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک طبقہ کے انسان کو مخاطب کیا ہے کہ ہر ایک قسم کا سبق مجھ سے لو.اور ظاہر ہے کہ جب تک ایک اُسوہ سامنے نہ ہو.انسان عملدرآمد سے قاصر رہتا ہے.ہر ایک قسم کے کمال کے حصول کے لیے نمونہ کی ضرورت ہے.انسانی طبائع اسی قسم کی واقع ہوئی ہیں کہ وہ صرف قول سے مؤثر نہیں ہوتیں جب تک اس کے ساتھ فعل نہ ہو.اگر صرف قول ہو تو صدہا اعتراض لوگ کرتے ہیں.دین کی باتوں کو سن کر کہا کرتے ہیں کہ یہ سب باتیں کہنے کی ہیں کون ان کو بجا لا سکتا ہے.یونہی بنا چھوڑی ہیں.اور ان اعتراضوں کا ردّ نہیں ہوسکتا جب تک ایک انسان عمل کر کے دکھانے والا نہ ہو.
دعا کے آداب دعا کے لیے انسان کو اپنے خیال اور دل کو ٹٹولنا چاہیے کہ آیا اس کا میلان دنیا کی طرف ہے یا دین کی طرف یعنی کثرت سے وہ دعائیں دنیاوی آسائش کے لیے ہیں یا دین کی خدمت کے لیے.پس اگر معلوم ہو کہ اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہوئے اسے دنیاوی افکار ہی لاحق ہیں اور دین مقصود نہیں تو اسے اپنی حالت پر رونا چاہیے.بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ کمر باندھ کر حصول دنیا کے لیے مجاہدے اور ریاضتیں کرتے ہیں.دعائیں بھی مانگتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طرح طرح کے امراض لاحق ہوجاتے ہیں.بعض مجنون ہوجاتے ہیں.لیکن سب کچھ دین کے لیے ہو تو خدا ان کو کبھی ضائع نہ کرے.قول اور عمل کی مثال دانہ کی ہے اگر کسی کو ایک دانہ دیا جاوے اور وہ اسے لے جا کر رکھ چھوڑے اور استعمال نہ کرے تو آخر اسے پڑے پڑے گھن لگ جاوے گا.ایسے ہی اگر قول ہو اور اس پر عمل نہ ہو تو آہستہ آہستہ وہ قول بھی نہ رہے گا.اس لیے اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہیے.۱ ۹؍اگست ۱۹۰۴ء بمقام قادیان اپنی نیک نیت میں فرق نہ لاؤ بعض لوگوں کے ایک مسجد کے تنازعہ پر آپ نے فرمایا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ زیادہ بزرگ تم میں سے وہ ہے جو تقویٰ میں زیادہ ہے.جیسے قرآن شریف میں ہے اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ (الـحجرات:۱۴) اور متقیوں کے صفات میں سے ہے کہ وہ بالغیب ایمان لاتے ہیں نمازیں پڑھتے ہیں اور مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ(البقرۃ:۴) یعنی علم، مال اور دوسرے قوائے ظاہری اور باطنی جو کچھ دیا ہے سب کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف کرتے ہیں.ایسے لوگوں کے لیے خدا نے بڑے بڑے وعدے انعام کے کئے ہیں.انسان ایک کارِ خیر کے لیے جب نیت کرتا ہے تو اس کو چاہیے کہ پھر اس میں کسی قسم کا فرق نہ لاوے اگر کوئی دوسرا جو اس میں حصّہ لینے والا تھا یا نہ تھا، مزاحم ہو اور بد دیانتی کرے تو بھی اوّل الذّکر کو چاہیے ۱ البدر جلد ۳ نمبر ۳۱ مورخہ ۱۶؍ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۳،۴
چاہیے کہ وہ کسی قسم کا تغیر اپنے ارادہ میں نہ کرے.اس کو اس کی نیت کا اجر ملے گا اور دوسرا اپنی شرارت کی سزا پاوے گا.دنیا میں لوگوں کو ایک یہ بھی بڑی غلطی لگی ہے کہ دوسرے سے مقابلہ کے وقت یا اس کی نیت میں فرق آتا دیکھ کر اپنی نیت کو جو خیر پرمبنی ہوتی ہے بدل دیا جاتا ہے.اس طرح سے بجائے ثواب کے عذاب حاصل ہوتا ہے.یاد رکھو کہ جوشخص خدا کے لیے نقصان روا نہیں رکھتا وہ عند اللہ کسی اجر کا بھی مستحق نہیں.خدا کے لیے تو جان تک دریغ نہ کرنی چاہیے.پھر زمین وغیرہ کیا شَے ہے.جس قدر کوئی دکھ اٹھانے کے لیے تیار ہوگا اتنا ہی اسے ثواب ملے گا.اگر کوئی شخص یہ اصول اختیار نہیں کرتا تو اس نے ابھی تک ہمارے سلسلہ کا مطلب اورمقصود ہی نہیں جانا.جو لوگ اس جماعت میں داخل ہیں اگر وہ عام لوگوں کے سے اخلاق، مروّت اور ہمدردی برتتے ہیں تو ان میں اور دوسرے لوگوں سے کیا فرق ہوا.شریر کی شرارت کو شریر کے حوالہ کرو اور اپنے نیک جوہر دکھاؤ تب تمیز ہوگی.دنیاوی تنازعات کے وقت مالی نقصان برداشت کرنے اور جودِ نفس سے کام لینے کے سوا چارہ نہیں ہوا کرتا اور نہ انسان کو ہمیشہ اس قسم کے مواقع ہاتھ آتے ہیں کہ وہ فطرت کے یہ نیک جوہر دکھا سکے.اس لیے اگر کوئی ایسا موقع ہاتھ آجاوے تو اسے غنیمت خیال کرنا چاہیے.مساجد کی اہمیت اور برکات اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے.یہ خانہ خدا ہوتا ہے.جس گاؤں یاشہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہوگئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی.اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہیے پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا لیکن شرط یہ ہے کہ قیامِ مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو.محض لِلہ اسے کیا جاوے.نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہرگز دخل نہ ہو تب خدا برکت دے گا.یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرصّع اور پکی عمارت کی ہو بلکہ صرف زمین روک لینی چاہیے اور وہاں مسجد کی حد بندی کر دینی چاہیے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر وغیرہ ڈال دو کہ بارش وغیرہ سے آرام ہو.
خدا تعالیٰ تکلّفات کو پسند نہیں کرتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چند کھجوروں کی شاخوں کی تھی اور اسی طرح چلی آئی پھر حضرت عثمانؓنے اس لیے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا اپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا.مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمانؑاور عثمانؓکا قافیہ خوب ملتا ہے.شاید اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا.غرضیکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہیے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے اور جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز باجماعت ادا کیا کریں.جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے.پراگندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہیے اور ادنیٰ ادنیٰ سی باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں.نفسِ لوّامہ مولوی تاج محمود صاحب ساکن لالیاں نے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مصافحہ کیا اور نماز میں سرور اور لذّت کے لیے دعا کی درخواست کی.فرمایا کہ دعا کرتے رہو اور کراتے رہو.ایک کارڈ روزانہ لکھ دیاکرو کہ دعا یاد آجایا کرے.طبیعت پر جبر کر کے جو کام کیا جاتا ہے ثواب اسی کاہوتا ہے اور اسی کا نام نفسِ لوّامہ ہے کہ طبیعت آرام کرنا چاہتی ہے اور محبوبات نفسانی کی طرف کھچی جاتی ہے مگر وہ بزور اسے مغلوب کر کے خدا کے احکام کے ماتحت چلاتا ہے اس لیے اجر پاتا ہے.ثواب کی حد نفسِ لوّامہ تک ہی ہے اور اسے ہی خدا نے پسند کیا ہے.چنانچہ قرآن شریف میں قَسم بھی نفسِ لوّامہ کی ہی خدا نے کھائی ہے.مطمئنّہ کی نہیں کھائی کیونکہ مطمئنّہ میں جاکر ثواب نہیں رہتا کیونکہ وہاں کوئی کشاکشی اور جنگ نہیں.وہ تو امن کی حالت ہے.سونے چاندی اور ریشم کا استعمال عرض کی گئی کہ چاندی وغیرہ کے بٹن استعمال کئے جاویں؟ فرمایا کہ۳،۴ ماشہ تک تو حرج نہیں، لیکن زیادہ کا استعمال منع ہے.اصل میں سونا چاندی عورتوں کی زینت کے لیے جائز رکھا ہے.ہاں علاج کے طور پر ان کا استعمال منع نہیں.جیسے کسی شخص
کو کوئی عارضہ ہو اور چاندی سونے کے برتن میں کھانا طبیب بتلاوے تو بطور علاج کے صحت تک وہ استعمال کر سکتا ہے.ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.اسے جوئیں بہت پڑی ہوئی تھیں.آپؐنے حکم دیا کہ تو ریشم کا کرتہ پہنا کر اس سے جوئیں نہیں پڑتیں (ایسے ہی خارش والے کے لیے ریشم کا لباس مفید ہے).سُود سُود کی بابت پوچھا گیا کہ بعض مجبوریاں لاحقِ حال ہو جاتی ہیں.فرمایا کہ اس کا فتویٰ ہم نہیں دے سکتے.یہ بہرحال ناجائز ہے.ایک طرح کا سُود اسلام میںجائز ہے یہ کہ قرض دیتے وقت کوئی شرط وغیرہ کسی قسم کی نہ ہو اور مقروض جب قرضہ ادا کرے تو مروّت کے طور پر اپنی طرف سے کچھ زیادہ دے دیوے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے.اگر دس روپے قرض لیے تو ادائیگی کے وقت ایک سو تک دے دیا کرتے.سُود حرام وہی ہے جس میں عہد معاہدہ اور شرائط اوّل ہی کر لی جاویں.۱ ۲۱؍اگست ۱۹۰۴ء (بمقام لاہور.احاطہ میاں چراغ دین و سراج دین و معراج دین رئیسان لاہور) ظہر کے وقت حضرت اقدس تشریف لائے اور نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد احباب کی درخواست پر آپ ایک کرسی پر رونق افروز ہوئے.میاں فیروز الدین صاحب نے آگے بڑھ کر نیاز حاصل کی.حضرت اقدس نے چند نصائح فرماتے ہوئے تقریر کا سلسلہ یوں شروع کیا.تمام گناہوں سے بچنے کا ذریعہ خوفِ الٰہی ہے دیکھو! یاد رکھنے کا مقام ہے کہ بیعت کے چند الفاظ جو زبان سے کہتے ہوکہ میں گناہ سے پرہیز کروں گا یہی تمہارے لیے کافی نہیں ہیں اور نہ صرف ان کی تکرار سے خدا راضی ہوتا ہے بلکہ خدا کے نزدیک تمہاری اس وقت قدر ہوگی جبکہ دلوں میں تبدیلی اور خدا کا خوف لبدر جلد ۳ نمبر ۳۲ مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۸
ہو.ورنہ ادھر بیعت کی اور جب گھر میں گئے تو وہی بُرے خیالات اور حالات رہے تو اس سے کیا فائدہ.یقیناً مان لو کہ تمام گناہوں سے بچنے کے لیے بڑا ذریعہ خوفِ الٰہی ہے اگر یہ نہیں ہے تو ہرگز ممکن نہیں کہ انسان ان سب گناہوں سے بچ سکے جو کہ اسے مصری پر چیونٹیوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں.مگر خوف ہی ایک ایسی شَے ہے کہ حیوانات کو بھی جب ہو تو وہ کسی کا نقصان نہیں کر سکتے.مثلاً بلّی جو کہ دودھ کی بڑی حریص ہے جب اسے معلوم کہ اس کے نزدیک جانے سے سزا ملتی ہے یا پرندوں کو جب علم ہو کہ اگر یہ دانہ کھایا تو جال میں پھنسے اور موت آئی تو وہ اس دودھ اور دانہ کے نزدیک نہیں پھٹکتے.اس کی وجہ صرف خوف ہے.پس جبکہ لا یعقل حیوان بھی خوف کے ہوتے ہوئے پرہیز کرتے ہیں تو انسان جو عقلمند ہے اسے کس قدر خوف اور پرہیز کرنا چاہیے.یہ اَمر بہت ہی بدیہی ہے کہ جس موقع پر انسان کو خوف پیدا ہوتا ہے اس موقع پر وہ جرم کی جرأت ہرگز نہیں کرتا.مثلاً طاعون زدہ گاؤں میں اگر کسی کو جانے کو کہا جاوے تو کوئی بھی جرأت کر کے نہیں جاتا حتی کہ اگر حکّام بھی حکم دیویں تو بھی ترسان اور لرزاں جاوے گا اور دل پر یہ ڈر غالب ہوگا کہ کہیں مجھ کو بھی طاعون نہ ہو جاوے اور وہ کوشش کرے گا کہ مفوّضہ کام کو جلد پورا کر کے وہاں سے بھاگے.پس گناہ پر دلیری کی وجہ بھی خدا کے خوف کا دلوں میں موجود نہ ہونا ہے لیکن یہ خوف کیوںکر پیدا ہو.اس کے لیے معرفتِ الٰہی کی ضرورت ہے.جس قدر خدا تعالیٰ کی معرفت زیادہ ہوگی اسی قدر خوف زیادہ ہوگا.ع ہر کہ عارف تر است ترساں تر اس اَمر میں اصل معرفت ہے اور اس کا نتیجہ خوف ہے.معرفت ایک ایسی شَے ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے انسان ادنیٰ ادنیٰ کیڑوں سے بھی ڈرتا ہے.جیسے پسو اور مچھر کی جب معرفت ہوتی ہے تو ہر ایک ان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے.پس کیا وجہ ہے کہ خدا جو قادرِ مطلق ہے اور علیم اور بصیر ہے اور زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہے اس کے احکام کے برخلاف کرنے میں یہ اس قدر جرأت کرتا ہے.اگر سوچ کر دیکھو گے تومعلوم ہو گا کہ معرفت نہیں.اللہ تعالیٰ کی معرفت طلب کرو بہت ہیں کہ زبان سے تو خدا کا اقرار کرتے ہیں لیکن اگر ٹٹول کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ ان کے اندر دہریت ہے
کیونکہ دنیا کے کاموں میں جب مصروف ہوتےہیں تو خدا کے قہر اور اس کی عظمت کو بالکل بھول جاتے ہیں.اس لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ تم لوگ دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے معرفت طلب کرو.بغیر اس کے یقین کامل ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا.وہ اسی وقت حاصل ہوگا جبکہ یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے.گناہ سے بچنے کے لیے جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو اور ساتھ ہی ساتھ دعا بھی کرتے رہو اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضاو قدر کی طرف سے انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں جب تک خدا کی مدد ساتھ نہ ہو ہرگز رہائی نہیں ہوتی.نماز جوکہ پانچ وقت ادا کی جاتی ہے اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر وہ نفسانی جذبات اور خیالات سے اسے محفوظ نہ رکھے گا تب تک وہ سچی نماز ہرگز نہ ہوگی.نماز کے معنے ٹکریں مار لینے اور رسم اور عادت کے طور پر ادا کرنے کے ہرگز نہیں.نماز وہ شَے ہے جسے دل بھی محسوس کرے کہ روح پگھل کر خوفناک حالت میں آستانہ الوہیت پر گر پڑے.جہاںتک طاقت ہے وہاں تک رقّت کے پیدا کرنے کی کوشش کرے اور تضرع سے دعا مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دور ہوں.اسی قسم کی نماز بابرکت ہوتی ہے اور اگر وہ اس پر استقامت اختیار کرے گا تو دیکھے گا کہ رات کو یا دن کو ایک نور اس کے قلب پر گرا ہے اور نفسِ امّارہ کی شوخی کم ہوگئی ہے.جیسے اژدہا میں ایک سمِّ قاتل ہے.اسی طرح نفسِ امّارہ میں بھی سمِّ قاتل ہوتا ہے اور جس نے اسے پیدا کیا اسی کے پاس اس کا علاج ہے.کبھی یہ دعویٰ نہ کرو کہ میں پاک صاف ہوں جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.فَلَاتُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْ(النّجم:۳۳) کہ تم اپنے آپ کو مزکّٰی مت کہو.وہ خود جانتا ہے کہ تم میں سے متقی کون ہے.جب انسان کے نفس کا تزکیہ ہوجاتا ہے تو خدا اس کا متولّی اور متکفّل ہوجاتا ہے اور جیسے ماں بچے کو گود میں پرورش کرتی ہے اسی طرح وہ خدا کی گود میں پرورش پاتا ہے اور یہی حالت ہے کہ خدا کا نور اس کے دل پر گر کر کل دنیاوی اثروں کو جلا دیتا ہے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر
محسوس کرتا ہے، لیکن ایسی حالت میں بھی اسے ہرگز مطمئن نہ ہونا چاہیے کہ اب یہ طاقت مجھ میں مستقل طور پر پیدا ہوگئی ہے اور کبھی ضائع نہ ہوگی.جیسے دیوار پر دھوپ ہو تو اس کے یہ معنے ہرگز نہیں ہوتے کہ یہ ہمیشہ ایسی ہی روشن رہے گی اسی پر لوگوں نے ایک مثال لکھی ہے کہ دیوار جب دھوپ سے روشن ہوئی تو اس نے آفتاب کو کہا کہ میں بھی تیری طرح روشن ہوں.آفتاب نے کہا کہ رات کو جب میں نہ ہوں گا تو پھر تو کہاں سے روشنی لے گی.اسی طرح انسان کو جو روشنی عطا ہوتی ہے وہ بھی مستقل نہیں ہوتی بلکہ عارضی ہوتی ہے اور ہمیشہ اسے اپنے ساتھ رکھنے کے لیے استغفار کی ضرورت ہے انبیاء جو استغفار کرتے ہیں اس کی بھی یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ ان باتوں سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کو خطرہ لگا رہتا ہے کہ نور کی جو چادر ہمیں عطا کی گئی ہے ایسا نہ ہو کہ وہ چھن جاوے.استغفار کی حقیقت نادان لوگ لاعلمی کی وجہ سے یہ کہتے اور فخر کرتے ہیں کہ مسیح استغفار نہ کرتا تھا.حالانکہ یہ بات کسی قسم کے ناز کی نہیں بلکہ رونے اور افسوس کرنے کی ہے کہ اگر وہ استغفار نہ کرتا تھا تو گویا اس نور سے بالکل محروم تھا جو کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدوں کو عطا کیا کرتا ہے.کوئی نبی جس قدر زیادہ استغفار کرنے والا ثابت ہوگا اسی قدر اس کا درجہ بڑا اور بلند ہوگا لیکن جس کو یہ حالت حاصل نہیں تو وہ خطرہ میں ہے اور ممکن ہے کہ کسی وقت اس سے وہ چادر حفاظت کی چھین لی جاوے کیونکہ نبیوں کو بھی وہ مستعار طور پر ملتی ہے اور وہ پھر استغفار کے ذریعہ اسے مدامی طور پر رکھتے ہیں.بات یہ ہے کہ اصل انوار تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں اور نبی ہو یا کوئی اور، سب خدا سے انہیں حاصل کرتے ہیں.سچے نبی کی یہی علامت ہے کہ وہ اس روشنی کی حفاظت بذریعہ استغفار کے کرے.استغفار کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ موجودہ نور جو خدا سے حاصل ہوا ہے وہ محفوظ رہے.اور زیادہ اور ملے.اسی کی تحصیل کے لیے پنجگانہ نماز بھی ہے تاکہ ہر روز دل کھول کھول کر اس روشنی کو خدا سے مانگ لیوے جسے بصیرت ہے وہ جانتا ہے کہ نماز ایک معراج ہے اور وہ نماز ہی کی تضرع اور ابتہال سے بھری ہوئی دعا ہے جس سے یہ امراض سے رہائی پا سکتا ہے.وہ لوگ بہت بیوقوف ہیں جو دوری ڈالنے والی تاریکی کا علاج نہیں کرتے.
بیعت کی غرض میرے پاس اکثر خطوط آتے ہیں مگر ان میں یہی لکھا ہوتاہے کہ میرے املاک کے لیے یا اولاد کے لیے دعا ہو.فلاں مقدمہ ہے یا فلاں مرض ہے وہ اچھا ہو جاوے لیکن مشکل سے کوئی خط ایسا ہوتاہے جس میں ایمان یا ان تاریکیوں کے دور ہونے کے لیے درخواست کی گئی ہو.بعض خطوط میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اگر مجھے پانسو روپیہ مل جاوے تو میں بیعت کر لوں.بیوقوفوں کو اتنا خیال نہیں کہ جن باتوں کو ہم چھوڑانا چاہتے ہیں وہی ہم سے طلب کی جاتی ہیں.اسی لیے میں اکثر لوگوں کی بیعت سے خوف کرتا ہوں کیونکہ سچی بیعت کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں.بعض تو ظاہری شروط لگاتے ہیں جیسے کہ اوپر ذکر ہوا اور بعض لوگ بعد بیعت کے ابتلا میں پڑ جاتے ہیں جیسے کسی کا لڑکا مَرگیا تو شکایت کرتا ہے میں نے تو بیعت کی تھی یہ صدمہ مجھے کیوں ہوا؟ اس نادان کو یہ خیال نہیں آتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باوجود کہ پیغمبر تھے مگر آپؐکے گیارہ لڑکے فوت ہوگئے اور کبھی شکایت نہ کی کہ خداوندا تو نے تو مجھے پیغمبر بنایا تھا میرے بچے کیوں مار دیئے؟ غرضیکہ یاد رکھوکہ دین کو دنیا سے ہرگز نہ ملانا چاہیے اور بیعت اس نیت سے ہرگز نہ کرنی چاہیے کہ میں بادشاہ ہی بن جاؤں گا یا ایسی کیمیا حاصل ہو جاوے گی کہ گھر بیٹھے روپیہ بنتا رہے گا.اللہ تعالیٰ نے ہمیں تو اس لیے مامور کیا ہے کہ ان باتوں سے لوگوں کو چھڑا دیویں.ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جو لوگ صدق اور وفا سے خدا کی طرف آتے ہیں اور اس کے لیے ہر ایک دکھ اور مصیبت کو سر پر لیتے ہیں تو خدا ان کو اور ان کی اولاد کو ہرگز ضائع نہیں کرتا.حضرت داؤد علیہ السلام کہتے ہیںکہ میں بوڑھا ہوگیا لیکن کبھی نہیں دیکھا کہ صالح آدمی کی اولاد ضائع ہوئی ہو.خدا تعالیٰ خود اس کا متکفّل ہوتا ہے.لیکن ابتدا میں ابتلا کا آنا ضروری ہے تاکہ کھوٹے اور کھرے کی شناخت ہوجاوے.؎ عشق اوّل سرکش و خونی بود تاگریزد ہر کہ بیرونی بود دوسرے ابتلا اس لیے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو دکھلاوے کہ جو ہماری طرف آنے والے ہیں وہ کیسے مستقل مزاج اور جفا کش ہوتے ہیں کہ مار پر مار کھاتے ہیں لیکن منہ نہیں پھیرتے اور
جب وہ ثابت قدم نکل آتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ان سے وہی سنّت برتتا ہے جو کہ منعم علیہ گروہ سے برتنی چاہیے.خدا سے زیادہ پیار اور رحم اور محبت کرنی کوئی نہیں جانتا.لیکن اخلاص ضروری ہے.کوئی دل سے اس کا ہو.پھر دیکھے کہ آیا مخلص کی دست گیری اور کفالت اس کی خوبی ہے کہ نہیں لیکن جو اسے آزماتا ہے وہ خود آزمایا جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اسلام لایا.بعد ازاں اندھا ہوگیا اور کہنے لگا کہ اسلام قبول کرنے سے یہ آفت مجھ پر آئی ہے.اس لیے کافر ہوگیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بہت سمجھایا لیکن نہ مانا حالانکہ اگر وہ مسلمان رہتا تو خدا تو اس بات پر قادر تھا کہ اسے دوبارہ بینائی بخش دیتا لیکن کافر ہو کر دنیا سے تو اندھاتھا دین سے بھی اندھا بن گیا.مجھے فکر ہے کہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو کہ خدا کو آزماتے ہیں.ایسا نہ ہو کہ وہ خود آزمائے جاویں.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو مجھ پر ایمان لاوے اوّل وہ مصائب کے لیے تیار رہے مگر یہ سب کچھ اوائل میں ہوتا ہے.اگر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر فضل کر دیتا ہے کیونکہ مومن کے لیے دو حالتیں ہیں.اوّل تو یہ کہ جب ایمان لاتا ہے تو مصائب کا ایک دوزخ اس کے لیے تیار کیا جاتا ہے جس میں اسے کچھ عرصہ رہنا پڑتا ہے اور اس کے صبر اور استقلال کا امتحان کیا جاتا ہے اور جب وہ اس میں ثابت قدمی دکھاتا ہے تو دوسری حالت یہ ہے کہ اس دوزخ کو جنت سے بدل دیا جاتا ہے جیسے کہ بخاری میں حدیث ہے کہ مومن بذریعہ نوافل کے اللہ تعالیٰ سے یہاں تک قرب حاصل کرتا ہے کہ وہ اس کی آنکھ ہوجاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے اور کان ہوجاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے اور ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں ہوجاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کی زبان ہوجاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہےا ور ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بِالْـحَرْبِ کہ جو شخص میرے ولی کی عداوت کرتا ہے وہ جنگ کے لیے تیار ہو جاوے.اس قدر غیرت خدا کو اپنے بندے کے لیے ہوتی ہے.پھر دوسری جگہ فرماتا ہے کہ مجھے کسی شَے میں اس قدر تردّد نہیں ہوتا جس قدر کہ مومن
کی جان لینے میں ہوتا ہے اور اسی لیے وہ کئی دفعہ بیمار ہوتا ہے اور پھر اچھا ہوجاتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی جان لینا چاہتا ہے مگر اسے مہلت دے دیتا ہے کہ اور کچھ عرصہ دنیا میں رہ لیوے.جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے.تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو.اخلاقِ حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو اور بےجا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو.میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے.تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہوجاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں.ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصّہ نہیں ہوتا.اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقّت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے.ہر ایک جماعت کی اصلاح اوّل اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے.چاہیے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بد گوئی کرے تو اس کے لیے دردِ دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے.جیسے دنیا کے قانون ہیںویسے خدا کا بھی قانون ہے جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑتی تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے.پس جب تک تبدیلی نہ ہوگی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں.خدا تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو.اگر تم ان صفاتِ حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے.لیکن مجھے افسوس ہے کہ جماعت کا ایک حصّہ ابھی تک ان اخلاق میں کمزور ہے.ان باتوں سے صرف شماتتِ اعدا ہی نہیں ہے بلکہ ایسے لوگ خود بھی قرب کے مقام سے گرائے جاتے ہیں.خُلق کی اصلاح ممکن ہے یہ سچ ہے کہ سب انسان ایک مزاج کے نہیںہوتے.اسی لیے قرآن شریف میں آیا ہے كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ (بنی اسـرآءیل:۸۵)
بعض آدمی ایک قسم کے اخلاق میں اگر عمدہ ہیں تو دوسری قسم میں کمزور.اگر ایک خُلق کا رنگ اچھا ہے تو دوسرے کا بُرا.لیکن تاہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اصلاح ناممکن ہے.خُلق سے ہماری مراد شیریں کلامی ہی نہیں بلکہ خَلق اور خُلق دو الفاظ ہیں.آنکھ، کان، ناک وغیرہ جس قدر اعضا ظاہری ہیں جن سے انسان کو حسین وغیرہ کہا جاتا ہے.یہ سب خَلق کہلاتے ہیں اور اس کے مقابل پر باطنی قویٰ کا نام خُلق ہے.مثلاً عقل، فہم، شجاعت، عفت، صبر وغیرہ اس قسم کے جس قدر قویٰ سرشت میں ہوتے ہیں وہ سب اسی میں داخل ہیں اور خُلق کو خَلق پر اس لیے ترجیح ہے کہ خَلق یعنی ظاہری جسمانی اعضا میں اگر کسی قسم کا نقص ہو تو وہ ناقابل علاج ہوتا ہے.مثلاً ہاتھ اگر چھوٹا پیدا ہوا ہے تو اس کو بڑا نہیں کر سکتا لیکن خُلق میں اگر کوئی کمی بیشی ہو تو اس کی اصلاح ہو سکتی ہے.ذکر کرتے ہیں کہ افلاطون کو علم فراست میں بہت دخل تھا اور اس نے دروازہ پر ایک دربان مقرر کیا ہوا تھا.جسے حکم تھا کہ جب کوئی شخص ملاقات کو آوے تو اوّل اس کا حُلیہ بیان کرو.اس حُلیہ کے ذریعہ وہ اس کے اخلاق کا حال معلوم کر کے پھر اگر قابل ملاقات سمجھتا تو ملاقات کرتا ورنہ ردّ کر دیتا.ایک دفعہ ایک شخص اس کی ملاقات کو آیا.دربان نے اطلاع دی.اس کے نقوش کا حال سن کر افلاطون نے ملاقات کا انکار کر دیا.اس پر اس شخص نے کہلا کر بھیجا کہ افلاطون سے کہہ دو کہ جو کچھ تم نے سمجھا ہے بالکل درست ہے مگر میں نے قوت مجاہدہ سے اپنے اخلاق کی اصلاح کر لی ہے.اس پر افلاطون نے ملاقات کی اجازت دے دی.پس خُلق ایسی شَے ہے جس میں تبدیلی ہو سکتی ہے.اگر تبدیلی نہ ہو سکتی تو یہ ظلم تھا لیکن دعا اور عمل سے کام لو گے تب اس تبدیلی پر قادر ہو سکو گے.عمل اس طرح سے کہ اگر کوئی شخص مُمسک ہے تو وہ قدرے قدرے خرچ کرنے کی عادت ڈالے اور نفس پر جبر کرے.آخر کچھ عرصہ کے بعد نفس میں ایک تغیر عظیم دیکھ لے گا اور اس کی عادت امساک کی دور ہو جاوے گی.اخلاق کی کمزوری بھی ایک دیوار ہے جو خدا اور بندے کے درمیان حائل ہو جاتی ہے.
وحدتِ جمہوری اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہے کہ تمام انسانوں کو ایک نفسِ واحد کی طرح بنادے.اس کا نام وحدتِ جمہوری ہے جس سے بہت سے انسان بحالت مجموعی ایک انسان کے حکم میں سمجھا جاتا ہے.مذہب سے بھی یہی منشا ہوتا ہے کہ تسبیح کے دانوں کی طرح وحدتِ جمہوری کے ایک دھاگہ میں سب پروئے جائیں.یہ نمازیں باجماعت جو کہ ادا کی جاتی ہیں وہ بھی اسی وحدت کے لیے ہیں تاکہ کل نمازیوں کا ایک وجود شمار کیا جاوے اور آپس میں مل کر کھڑے ہونے کا حکم اس لیے ہے کہ جس کے پاس زیادہ نور ہے وہ دوسرے کمزور میں سرایت کرکے اسے قوت دیوے.حتی کہ حج بھی اسی لیے ہے.اس وحدت جمہوری کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے کی ابتدا اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے کی ہے کہ اوّل یہ حکم دیا کہ ہر ایک محلہ والے پانچ وقت نمازوں کو باجماعت محلہ کی مسجد میں ادا کریں تاکہ اخلاق کا تبادلہ آپس میںہو اور انوار مل ملا کر کمزوری کو دور کر دیں اور آپس میں تعارف ہو کر اُنس پیدا ہوجاوے.تعارف بہت عمدہ شَے ہے کیونکہ اس سے اُنس بڑھتا ہے جو کہ وحدت کی بنیاد ہے حتی کہ تعارف والا دشمن ایک ناآشنا دوست سے بہت اچھا ہوتا ہے کیونکہ جب غیر ملک میں ملاقات ہو تو تعارف کی وجہ سے دلوں میں اُنس پیدا ہوجاتا ہے.وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ کینہ والی زمین سے الگ ہونے کے باعث بغض جو کہ عارضی شَے ہوتا ہے وہ تو دور ہو جاتا ہے اور صرف تعارف باقی رہ جاتا ہے.پھر دوسرا حکم یہ ہے کہ جمعہ کے دن جامع مسجد میں جمع ہوں کیونکہ ایک شہر کے لوگوں کا ہر روز جمع ہونا تو مشکل ہے.اس لیے یہ تجویز کی کہ شہر کے سب لوگ ہفتہ میں ایک دفعہ مل کر تعارف اور وحدت پیدا کریں.آخر کبھی نہ کبھی تو سب ایک ہوجاویں گے.پھر سال کے بعد عیدین میںیہ تجویز کی کہ دیہات اور شہر کے لوگ مل کر نماز ادا کریں تاکہ تعارف اور اُنس بڑھ کر وحدتِ جمہوری پیداہو.پھر اسی طرح تمام دنیا کے اجتماع کے لیے ایک دن عمر بھر میں مقرر کر دیا کہ مکہ کے میدان میں سب جمع ہوں.غرضیکہ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ آپس میں اُلفت اور اُنس ترقی پکڑے.افسوس کہ ہمارے مخالفوں کو اس بات کا علم نہیں کہ اسلام کا فلسفہ کیسا پکا ہے.دنیوی حکّام کی طرف سے جو احکام
پیش ہوتے ہیں ان میں تو انسان ہمیشہ کےلیے ڈھیلا ہو سکتا ہے لیکن خدا کے احکام میں ڈھیلا پن اور اس سے بکلّی روگردانی کبھی ممکن ہی نہیں کون سا ایسا مسلمان ہے جو کم از کم عیدین میں بھی نماز نہ ادا کرتا ہو.پس ان تمام اجتماعوں کا یہ فائدہ ہے کہ ایک کے انوار دوسرے میں اثر کر کے اسے قوت بخشیں.صحبتِ صادقین نفس اور اخلاق کی پاکیزگی حاصل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ صحبتِ صادقین بھی ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے کہكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التوبۃ:۱۱۹) یعنی تم خدا کے صادق اور راست باز لوگوں کی صحبت اختیار کرو تاکہ ان کے صدق کے انوار سے تم کو بھی حصّہ ملے.جو مذاہب کہ تفرقہ پسند کرتے ہیں اور الگ الگ رہنے کی تعلیم دیتے ہیں وہ یقیناً وحدتِ جمہوری کی برکات سے محروم رہتے ہیں.اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تجویز کیا کہ ایک نبی ہو جو کہ جماعت بناوے اور اخلاق کے ذریعہ آپس میں تعارف اور وحدت پیدا کرے.آدابِ دعا درستی اخلاق کے بعد دوسری بات یہ ہے کہ دعا کے ذریعہ سے خدا کی پاک محبت حاصل کی جاوے.ہر ایک قسم کے گناہ اور بدی سے دور رہے اور ایسی حالت میسّر ہو کہ جس قدر اندرونی آلودگیاں ہیں ان سب سے الگ ہو کر ایک مصفَّا فطرۃ کی طرح بن جاوے.جب تک یہ حالت میسّر نہ ہوگی تب تک خطرہ ہی خطرہ ہے لیکن دعا کے ساتھ تدابیر کو نہ چھوڑے کیونکہ اللہ تعالیٰ تدبیر کو بھی پسند کرتا ہے اور اسی لیے فَالْمُدَبِّرٰتِ۠ اَمْرًا(النّٰزعٰت:۶) کہہ کر قرآن شریف میں قَسم بھی کھائی ہے.جب وہ اس مرحلہ کو طے کرنے کے لیے دعا بھی کرے گا اور تدبیر سے بھی اس طرح کام لے گا کہ جو مجلس اور صحبت اور تعلقات اس کو حارج ہیں ان سب کو ترک کر دے گا اور رسم، عادت اور بناوٹ سے الگ ہو کر دعا میں مصروف ہوگا تو ایک دن قبولیت کے آثار مشاہدہ کر لے گا.یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ کچھ عرصہ دعا کرکے پھر رہ جاتے ہیں اور شکایت کرتے ہیںکہ ہم نے اس قدر دعا کی مگر قبول نہ ہوئی حالانکہ دعا کا حق تو ان سے ادا ہی نہ ہوا تو قبول کیسے ہو.اگر ایک شخص کو بھوک لگی ہو یا سخت پیاس ہو اور وہ صرف ایک دانہ یا ایک قطرہ لے کر شکایت کرے کہ مجھے سیری حاصل نہیں ہوئی تو کیا اس کی شکایت بجا ہوگی؟ ہرگز نہیں.جب تک وہ
پوری مقدار کھانے اور پینے کی نہ لے گا تب تک کچھ فائدہ نہ ہوگا.یہی حال دعا کا ہے.اگر انسان لگ کر اسے کرے اور پورے آداب سے بجا لاوے.وقت بھی میسّر آوے تو امید ہے کہ ایک دن اپنی مراد کو پالیوے.لیکن راستہ میں ہی چھوڑ دینے سے صدہا انسان مَر گئے (گمراہ ہوگئے) اور صدہا ابھی آئندہ مَرنے کو تیار ہیں.ایک من پیشاب میںایک قطرہ پانی کا کیا شَے ہے جو اسے پاک کرے.اسی طرح وہ بد اعمالیاں جن میں لوگ سر سے پاؤں تک غرق ہیں ان کے ہوتے ہوئے چند دن کی دعا کیا اثر دکھا سکتی ہے.پھر عُجب، خود بینی، تکبّر اور ریا وغیرہ ایسے امراض لگے ہوئے ہوتے ہیں جو عمل کو ضائع کر دیتے ہیں.نیک عمل کی مثال ایک پرند کی طرح ہے اگر صدق اور اخلاص کے قفس میں اسے قید رکھو گے تو وہ رہے گا ورنہ پرواز کر جاوے گا اور یہ بجز خدا کے فضل کے حاصل نہیںہو سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا (الکھف:۱۱۱) عملِ صالح سے یہاں یہ مراد ہے کہ اس میں کسی قسم کی بدی کی آمیزش نہ ہو.صلاحیت ہی صلاحیت ہو.نہ عُجب ہو، نہ کبر ہو، نہ نخوت ہو، نہ تکبّر ہو، نہ نفسانی اغراض کا کوئی حصّہ ہو، نہ رُو بخلق ہو حتی کہ دوزخ اور بہشت کی خواہش بھی نہ ہو صرف خدا کی محبت سے وہ عمل صادر ہو.جب تک دوسری کسی قسم کی غرض کو دخل ہے تب تک ٹھوکر کھائے گا اور اس کا نام شرک ہے کیونکہ وہ دوستی اور محبت کس کام کی جس کی بنیاد صرف ایک پیالہ چائے یا دوسری خالی محبوبات تک ہی ہے.ایسا انسان جس دن اس میں فرق آتا دیکھے گا اسی دن قطع تعلق کر دے گا.جو لوگ خدا سے اس لیے تعلق باندھتے ہیں کہ ہمیں مال ملے یا اولاد حاصل ہو یا ہم فلاں فلاں امور میں کامیاب ہو جاویں ان کے تعلقات عارضی ہوتے ہیں اور ایمان بھی خطرہ میں ہے جس دن ان کے اغراض کو کوئی صدمہ پہنچا اسی دن ایمان میں بھی فرق آجاوے گا.اس لیے پکا مومن وہ ہے جو کسی سہارے پر خدا کی عبادت نہیں کرتا.راست باز کی علامت راست بازوں کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ مصیبت سے ان کو چڑ ہوتی ہے اور جب ایسے موقع پر شیطان دخل دے کر ان کو بہکانا
چاہتا ہے تب ان کی غیرت جوش مارتی ہے اور بجائے اس کے کہ ان کا قدم پیچھے ہٹے وہ آگے بڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیطان ہمیںپیچھے ہرگز نہیں ڈال سکتا.شیطان بھی ایسے موقع پر ہر ایک قسم کے منصوبے اس کی لغزش کے لیے پیش کرتا ہے.مال، اولاد، عزّت، آبرو، خلقت کی ملامت، طعن و تشنیع وغیرہ سب نقصانوں سے ڈراتا ہے لیکن وہ اوّل ہی سے دل میں فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم ان نقصانوں کی کچھ پروا نہ کریں گے.آخر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شیطان ان کے نزدیک ایک مخنث سے بھی کمتر ہوتا ہے.لیکن جس کا دعویٰ تو ایمان کا ہوتا ہے اور دماغ میں اغراضِ نفسانی بھرے ہوئے ہوتے ہیں تو شیطان بڑی آسانی سے اپنا تسلّط اس پر بٹھاتا ہے اور جس راستے چاہتا ہے چلاتا ہے.خوب یاد رکھو کہ سفلی خواہشات سے شیطان کا مقابلہ ہرگز نہ ہو سکے گا.شیطان کے وجود کا ثبوت ممکن ہے کہ بعض لوگ یہاں ایسے ہوں کہ جو شیطان کے وجود ہی سے منکر ہوں لیکن میں کہتا ہوں کہ اس کے وجود سے انکار بھی نادانی ہے.کیا وہ مشاہدہ نہیں کرتے کہ انسان میں دو قوتیں موجود ہیں.بیٹھے بیٹھے ایک لہر اس کے دل میں آتی ہے کہ نیکی کروں اور اکثر اوقات وہ اس کا ایسا پابند ہوجاتا ہے کہ بلا اس کے تقاضا ادا کئے کے رہ ہی نہیں سکتا.اور اسی طرح کبھی اس کے دل میں ایسی لہر آتی ہے جو کہ بدی کی طرف رغبت دلاتی ہے اور وہ گھر سے اٹھ کر کنجروں کی طرف چلا جاتا ہے.پس یہ قوتیں ہیں جن میں سے بدی کے محرک کا نام شیطان رکھ لو.انسان کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ ابتدائی مراحل میں ہر ایک شَے کی حقیقت کو سمجھ لیوے.جیسے جیسے بتدریج اس کی معرفت ترقی کرتی ہے.ویسے ویسے وہ باریک در باریک امور کو سمجھتا جاتا ہے.آسمان کے ستاروں کو دیکھو کہ وہ اوّل سوائے نقطوں کے اور کچھ معلوم نہیں ہوتے مگر جب اُنہی نقطوں کو دُور بینوں سے دیکھا جاوے تو کس قدر عجائبات معلوم ہوتے ہیں اور سابقہ معرفت اس کے آگے ہیچ نظر آتی ہے اور انسان کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے کہ میں نے ان کو نقطہ کیوں سمجھا.ایسے ہی شیطان اور فرشتے کے وجود کا حال ہے کہ ان کو اوّل نقطوںکی طرح ماننا پڑتا ہے اور پھر اس دور بین سے جو انبیاء لے کر آتے ہیں دیکھا جاوے تو ان کی اصل حقیقت
معلوم ہوتی ہے.یہ تو جملہ معترضہ تھا جو کہ درمیان میں آگیا.عورتوں کی اصلاح کی ضرورت پھر میں اصل مطلب کو بیان کرتا ہوں کہ اگر تم اپنی اصلاح چاہتے ہو تو یہ بھی لازمی اَمر ہے کہ گھر کی عورتوں کی اصلاح کرو.عورتوں میں بُت پرستی کی جڑ ہے کیونکہ ان کی طبائع کا میلان زینت پرستی کی طرف ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بُت پرستی کی ابتدا انہی سے ہوئی ہے.بزدلی کا مادہ بھی ان میں زیادہ ہوتا ہے کہ ذرا سی سختی پر اپنی جیسی مخلوق کے آگے ہاتھ جوڑنے لگ جاتی ہے، اس لیے جو لوگ زن پرست ہوتے ہیں رفتہ رفتہ ان میںبھی یہ عادتیں سرایت کر جاتی ہیں.پس بہت ضروری ہے کہ ان کی اصلاح کی طرف متوجہ رہو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (النّسآء:۳۵) اور اسی لیے مرد کو عورتوں کی نسبت قویٰ زیادہ دیئے گئے ہیں.اس وقت جو نئی روشنی کے لوگ مساوات پر زور دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہیں ان کی عقلوں پر تعجب آتا ہے.وہ ذرا مردوں کی جگہ عورتوں کی فوجیں بنا کر جنگوں میں بھیج کر دیکھیں تو سہی کہ کیا نتیجہ مساوی نکلتا ہے یا مختلف.ایک طرف تو اسے حمل ہے اور ایک طرف جنگ ہے وہ کیا کر سکے گی؟ غرضیکہ عورتوں میں مَردوں کی نسبت قویٰ کمزور ہیں اور کم بھی ہیں.اس لیے مرد کو چاہیے کہ عورت کو اپنے ماتحت رکھے.پردہ کی اہمیت یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی یہ لوگ زور دے رہے ہیں لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں.یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے.جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا ان کی اخلاقی حالت کو اندازہ کرو.اگر اس کی آزادی اور بے پردگی سے ان کی عفت اور پاک دامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں.لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے.بد نظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہوجانا انسان کا خاصّہ ہے.پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیںتو آزادی میںکیا کچھ نہ ہوگا.مردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام
گھوڑے کی طرح ہوگئے ہیں.نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین ہے.دنیاوی لذّات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے.پس سب سے اوّل ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہلے مَردوں کی اخلاقی حالت درست کرو اگر یہ درست ہو جاوے اور مَردوں میں کم از کم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے مغلوب نہ ہوسکیں تو اس وقت اس بحث کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں.ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پرزور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گویا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے.ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ کسی بات کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے.کم از کم اپنے کانشنس سے ہی کام لیں کہ آیا مَردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے پردہ ان کے سامنے رکھا جاوے.قرآن شریف نے (جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اورکمزوریوں کو مدّ ِنظر رکھ کر حسبِ حال تعلیم دیتا ہے) کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ يَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ(النّور:۳۱) کہ تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہیں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں.یہ وہ عمل ہے جس سے ان کے نفوس کا تزکیہ ہوگا.فروج سے مراد شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اور اس میں اس اَمر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سنا جاوے.پھر یاد رکھو کہ ہزار در ہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے آخر کار انسان کو ان سے رکنا ہی پڑتا ہے.(تعدّدِ ازواجی اور طلاق کے مسئلہ پر غور کرو.) ع ہرچہ دانا کند نادان لیک بعد از خرابی بسیار ہمیں افسوس ہے کہ آریہ صاحبان بھی بے پردگی پر زور دیتے ہیں اور قرآن شریف کے احکام کی مخالفت چاہتے ہیں.حالانکہ اسلام کا یہ بڑا احسان ہندوؤں پر ہے کہ اس نے ان کو تہذیب سکھلائی اور اس کی تعلیم ایسی ہے جس سے مفاسد کا دروازہ بند ہوجاتا ہے.مثل مشہور ہے.خر بستہ بہ گرچہ دزد آشنا است یہی حالت مرد اور عورت کے تعلقات کی ہے کہ اگرچہ کچھ ہی کیوں نہ ہو لیکن تاہم فطری
جوش اور تقاضے بعض اس قسم کے ہوتے ہیں کہ جب ان کو ذرا سی تحریک ہوئی تو جھٹ حد اعتدال سے ادھر ادھر ہوگئے.اس لیے ضروری ہے کہ مرد اور عورت کے تعلقات میں حد درجہ کی آزادی وغیرہ کو ہرگز نہ دخل دیا جاوے.ذرا اپنے دلوں میں غور کرو کہ کیا تمہارے دل راجہ رامچندر اور کرشن وغیرہ کی طرح پاک ہوگئے ہیں پھر جب وہ پاک دلی تم کو نصیب نہیں ہوئی تو بے پردگی کو رواج دے کر بکریوں کو شیروں کے آگے کیوں رکھتے ہو.ہٹ اور ضد اور تعصّب اور چِڑ وغیرہ سے تم لوگ دیدہ و دانستہ اسلام کے ان پاکیزہ اصولوں کی مخالفت کیوں کرتے ہو جن سے تمہاری عفت برقرار رہتی ہے.عقل تو اس بات کا نام ہے کہ انسان کو نیک بات جہاں سے ملے وہ لے لیوے کیونکہ نیک بات کی مثال سونے اور ہیرے اور جواہر کی ہے اور یہ اشیاء خواہ کہیں ہوں آخر وہ سونا وغیرہ ہی ہوں گی.اس لیے تم کو لازم ہے کہ اسلام کے نام سے چڑ کر تم نیکی کو ترک نہ کرو ورنہ یاد رکھو کہ اسلام کا تو کچھ حرج نہیں ہے اگر اس کا ضرر ہے تو تم ہی کو ہے.ہاں اگر تم لوگوں کو یہ اطمینان ہے کہ سب کے سب بھگت بن گئے ہو اور نفسانی جذبات پر تم کو پوری قدرت حاصل ہے اور قوائے پرمیشر کی رضا اور احکام کے برخلاف بالکل حرکت نہیں کرتے تو پھر ہم تم کو منع نہیں کرتے.بیشک بے پردگی کو رواج دو لیکن جہاں تک میرا خیال ہے ابھی تک تم کو وہ حالت نصیب نہیں اور تم میں سے جس قدر لوگ لیڈر بن کر قوم کی اصلاح کے در پے ہیں.ان کی مثال سفید قبر کی ہے جس کے اندر بجز ہڈیوں کے اور کچھ نہیں کیونکہ انکی صرف باتیں ہی ہیں.عمل وغیرہ کچھ نہیں.نفسِ انسانی کی چار حالتیں اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفس انسان پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کی حد سے بچا رہے کیونکہ ابتدا میں اس کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بدیوں کی طرف جھکا پڑتا ہے اور ذرا سی بھی تحریک ہو تو بدی پر ایسے گرتا ہے جیسے کئی دنوں کا بھوکا آدمی کسی لذیذ کھانے پر.یہ انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کرے اور اس کی اصلاح کی حالتوں کے لحاظ
سے اس کے چار نام مقرر کئے گئے ہیں.اوّل اوّل نفس زکیہ ہوتا ہے کہ جس کو نیکی بدی کی کوئی خبر نہیں ہوتی اور یہ حالت طفلگی تک رہتی ہے.پھر نفسِ امّارہ ہوتا ہے کہ بدیوں کی طرف ہی مائل رہتا ہے اور انسان کو طرح طرح کے فسق و فجور میں مبتلا کرتا ہے اور اس کی بڑی غرض یہی ہوتی ہے کہ ہر وقت بدی کا ارتکاب ہو.کبھی چوری کرتا ہے.کوئی گالی دے یا ذرا خلافِ مرضی کام ہو تو اسے مارنے کو تیار ہوجاتا ہے.اگر شہوت کی طرف غلبہ ہو تو گناہوں اور فسق و فجور کا سیلاب بہہ نکلتا ہے.دوسرا نفسِ لوّامہ ہے کہ اس میں بدیاں بالکل دور تو نہیں ہوتیں مگر ہاں ایک پچھتاوا اور حسرت و افسوس مرتکب اپنے دل میں محسوس کرتا ہے اور جب بدی ہو جاوے تو اس کے دل میں نیکی سے اس کا معاوضہ کرنے کی خواہش ہوتی ہے اور تدبیر کرتا ہے کہ کسی طرح گناہ سے بچے اور دعا میں لگتا ہے کہ زندگی پاک ہوجاوے اور ہوتے ہوتے جب یہ گناہ سے پوتر ہوجاتا ہے تو اس کا نام مطمئنّہ ہوجاتا ہے اور اس حالت میں وہ بدی کو ایسی ہی بدی سمجھتا ہے جیسے کہ خدا بدی کو بدی سمجھتا ہے.بات یہ ہے کہ دنیا اصل میں گناہ کا گھر ہے جس میں سر کشیوں میں پڑ کر انسان خدا کو بھلا دیتا ہے.نفسِ امّارہ کی حالت میں تو اس کے پاؤں میں زنجیریں ہی زنجیریں ہوتی ہیں اور لوّامہ میں کچھ زنجیریں پاؤں میں ہوتی ہیں اور کچھ اتر جاتی ہیں مگر مطمئنہ میں کوئی زنجیر باقی نہیں رہتی سب کی سب اتر جاتی ہیں اور وہی زمانہ انسان کا خدا کی طرف پکے رجوع کا ہوتا ہے اور وہی خدا کے کامل بندے ہوتے ہیں جو کہ نفسِ مطمئنّہ کے ساتھ دنیا سے علیحدہ ہوویں اور جب تک وہ اسے حاصل نہ کرلے تب تک اسے مطلق علم نہیں ہوتا کہ جنت میں جاوے گا یا دوزخ میں.پس جبکہ انسان بِلا حصولِ نفسِ مطمئنّہ کے نہ پوری پاکیزگی حاصل کر سکتا ہے اور نہ جنت میں داخل ہو سکتا ہے تو اب خواہ آریہ ہوں یا عیسائی کون سی عقلمندی ہے کہ قبل اس کے کہ یہ نفس حاصل ہو وہ بھیڑیوں اور بکریوں کو اکٹھا چھوڑ دیویں.کیا ان کو امید ہے کہ وہ پاک اور بے شر زندگی بسر کر لیں گے.یہ ہے سِر اسلامی پردہ کا.اور میں نے خصوصیت سے اسے ان مسلمانوں کے لیے بیان کیا ہے جن کو اسلام کے احکام اور حقیقت کی خبر نہیں اور مجھے امید ہے کہ آریہ لوگ اس سے بہت کم مستفید ہوں گے کیونکہ ان کو تو اسلام کی ہر ایک بھلی بات سے چڑ ہے.
مسیح موعود کو ماننے کی ضرورت اس قدر تقریر ہو چکی تھی کہ اس اثنا میں خلیفہ رجب الدین صاحب نے بلند آواز سے لاہور کی پبلک کی طرف سے حضرت مرزا صاحب کو ماننے کی ضرورت کا سوال پیش کیا.اگرچہ بعض لوگوں کو یہ دخل اس لیے ناگوار ہوا کہ خدا کا فرستادہ نورِ فراست سے جس ضرورت کو محسوس کر کے کلام فرما رہا تھا اس کی توجہ ادھر سے پھیر دی گئی.لیکن ہمارے نزدیک یہ تحریک بھی مصالح ایزدی سے باہر نہیں.آپ نے فرمایا کہ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ میں نے بہت سی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ سے یہ بات سمجھا دی ہوئی ہے کہ میں وہ مسیح ہوں جس کا ذکر اور وعدہ اجمالاً قرآن میں اور تفصیلاً احادیث میں پایا جاتا ہے اور جو لوگ اسے نہیں مانتے قرآن شریف کی رو سے ان کا نام فاسق ہے اور احادیث سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو اس مسیح کو نہیں مانتا وہ گویا مجھے نہیں مانتا اور جو اس کی معصیّت کرتا ہے گویا میری معصیّت کرتا ہے.لوگ مخلوق کو دھوکا دیتے ہیں اور غلطیوں میں ڈالتے ہیں کہ ہم نے کوئی نیا کلمہ یا نماز تجویز کی ہے.ایسے افتراؤں کا میں کیا جواب دوں.اسی قسم کے افتراؤں سے وہ ایک عاجز انسان مسیح علیہ السلام کو تین خدا بنا بیٹھے ہیں.دیکھو ہم مسلمان ہیں اور امت محمدیؐ ہیں اور ہمارے نزدیک نئی نماز بنانی یا قبلہ سے رو گردانی کفر ہے.کل احکام پیغمبری کو ہم مانتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے حکم کو ٹالنا بھی بد ذاتی ہے.اور ہمارا دعویٰ قال اللہ اور قال الرسول کے ماتحت ہے.اتباعِ نبویؐ سے الگ ہو کر ہم نے کوئی کلمہ یا نماز یا حج یا ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد نہیں بنائی.ہمارا کام یہ ہے کہ اس دین کی خدمت کریں اور اس کو کل مذاہب پر غالب کر کے دکھا دیں.قرآن شریف کی اور احادیث کی جو پیغمبر خدا سے ثابت ہیں اتباع کریں.ضعیف سے ضعیف حدیث بھی بشرطیکہ وہ قرآن شریف کے مخالف نہ ہو ہم واجب العمل سمجھتے ہیں اور بخاری اور مسلم کو بعد کتاب اللہ اَصَحُّ الکتب مانتے ہیں.اور دوسری یہ بات یاد رکھو کہ مجھے کبھی بھی یہ خواہش نہیں ہوئی کہ لوگ مجھے مانیں بلکہ مجھے تو ان
جماعتوں سے ہمیشہ سے نفر ت ہے اور اگر میں ملتا ہوں یا ان لوگوں میں آکر بیٹھتا ہوں تو اپنی مرضی سے ہرگز نہیں ملتا بلکہ اللہ تعالیٰ مجھے مجبور کرتاہے اور کہتا ہے کہ تو ایسا کر.ایسی حالت میں بتلاؤ اگر میں اس کی بات نہ مانوں تو کیا کروں.میں تو رات دن وحی کے نیچے کام کرتا ہوں.میں تو یہ کہتا ہوں کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پختہ طور سے مانو.آپ کو ماننا یہ ہے کہ آپ کے وصایا پر عملدرآمد کیا جاوے اور انہی میں سے یہ بات بھی ہے کہ جب وہ مسیح موعود (علیہ السلام) آوے تو تم سب اس کے ساتھ ہو جانا.میرے ماننے کی مثال یہ ہے جیسے ایک آقا نوکر کو کہے کہ فلاں شخص میرا میزبان۱ ہے تم اسے لاکر کھانا کھلاؤ اور ہر طرح کی تعظیم اور تکریم کرو لیکن نوکر اس کے جواب میں یہ کہے کہ میں تو صرف آپ کو مانتا ہوں.مجھے کسی دوسرے کی تعظیم و تکریم سے غرض نہیں ہے اور نہ اس کی خواہش ہے.تو اب سوچ کر دیکھو کہ کیا اس نے اپنے آقا کو مانا.ہرگز نہیں مانا کیونکہ جس بات میں وہ راضی ہوتا ہے اس کے کرنے سے تو اسے انکار ہے.پس یاد رکھو کہ تم لوگ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقی طور پر اسی وقت مانو گے جبکہ آپ کے احکام اور وصایا کو مانو گے.جس نے آخری حکم کو توڑا اس نے سارے حکموں کو توڑا.سوچو تو سہی کہ اگر ایک شخص تمام عمر نماز، روزہ ادا کرے، لیکن آخری وقت بجائے لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کے رام رام کہے تو کیا وہ نماز روزہ اس کے کام آوے گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرما دیا کہ اس اُمّت کی دو دیواریں ہیں ایک مَیں اور ایک مسیح اور اس کے درمیان آپ نے فیجِ اعوج فرمایا ہے جن کی نسبت ارشاد ہے کہ وہ نہ مجھ سے ہیں اور نہ میں ان سے ہوں.پس جبکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے ایک ٹیڑھا گروہ قرار دیتے ہیں تو ہم ان کی باتوں کو کیوں قبول کر لیں.اس موقع پر ایک وزیر آبادی متعصب مولوی نے مداخلت کی اور ٹیڑھی راہ اختیار کر کے بےجا سوال اور کلام شروع کیا.اوّل تو حضرت اقدس اسے حلیمی سے سمجھاتے رہے مگر جب معلوم ہوا کہ اس کی غرض رفع شکوک و شبہات نہیں صرف مناظرہ کا ایک اکھاڑہ قائم کرنا چاہتا ہے تو اس سے اعراض کیا اور فرمایا کہ مباحثہ کتابت کی غلطی ہے ’’مہمان‘‘ہونا چاہیے.(مرتّب)
مباحثہ کا دروازہ تو ہم بند کر چکے ہیں.اب اس میں پڑنا پسند نہیں کرتے.اس پر بعض مفسد طبائع نے شور کرنا شروع کیا.آخر مصلحتِ وقت دیکھ کر مولوی صاحب کو بےجا مداخلت سے روکا گیا اور جب وہ باز نہ آئے تو ان کو جبراً احاطہ سے باہر کر دیا گیا.اس اثنا میں جو کلام حضور علیہ السلام نے فرمایا اسے ہم یکجائی طور پر درج کرتے ہیں.فرمایاکہ مسیح اور مہدی کی ضرورت شکوک کے رفع کے لیے اگر کوئی راستی اور سچی نیت سے آوے تو ہم اسے سمجھا سکتے ہیں اور اب تو زمانہ ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ایک معلّم کی طرح سمجھا رہا ہے.یہ اس کی عادت میں داخل ہے کہ جب دنیا میں گناہ اور بے ایمانی بڑھ جاوے اور ردّی اخلاق اور ردّی عادات ترقی پکڑ جاویں تو ایک شخص کو اصلاح کے لیے مامور کرے.اسلام اس وقت دو آفتوں کے ماتحت ہے.ایک اندرونی.دوسری بیرونی.اندرونی خود عالموں کا اختلاف اور مسلمانوں کا دنیا کی طرف میلان.اور بیرونی وہ آفت جو عیسائیت کی وجہ سے ہے.پس کیا ابھی تمہارے نزدیک مہدی اور مسیح کی ضرورت نہ تھی.تیس دجّال پھر ایک اعتراض یہ پیش کرتے ہو کہ اس امت میں تیس۳۰ دجّال آنے والے ہیں.اے بد قسمتو! کیا تمہارے لیے دجّال ہی رہ گئے کہ اگر ایک کے آنے سے ایمان کے تباہ ہونے میں کوئی کسر رہ جاوے تو پھر دوسرا، تیسرا اور چوتھا حتی کہ تیس۳۰ دجّال آویں تاکہ ایمان کا نام و نشان نہ رہے.اس طرح تو موسیٰ علیہ السلام کی اُمّت ہی اچھی رہی کہ جس میں پے در پے چار سو نبی آیا.پھر موسیٰ علیہ السلام کے وقت تو عورتوں سے بھی خدا نے کلام کیا.کیا اُمّتِ محمدیہؐ کے مرد بھی اس قابل نہ ہوئے کہ خدا ان سے ہم کلام ہوتا.پھر یہ بتلاؤ کہ یہ اُمّتِ مرحومہ کس طرح ہوئی اس کا نام تو بد نصیب ہونا چاہیے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرہ سو برس گذر گئے اور جس قدر فیوض اور برکات تھے وہ سب سماع کے حکم میں آگئے.اب اگر خدا ان کو تازہ کر کے نہ دکھائے تو صرف قصّہ کہانی کے رنگ میں ان کو کون مان سکتا ہے جبکہ تازہ طور پر خدا کی مدد نہیں، نصرت نہیں تو خدا کی
حفاظت کیا ہوئی.حالانکہ اس کا وعدہ ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر:۱۰) طاعون اور احمدی جب متعصب مولوی صاحب نے طاعون کا ذکر کیا کہ آپ کے مرید کیوں مَرتے ہیں اور اس کا علاج کیا ہے وغیرہ وغیرہ.تو آپ نے فرمایا کہ کسوف و خسوف کا علاج بھی کچھ سوچا ہے.اس وقت بحث تو نشانوں کی ہے نہ کہ علاج کی.ہاں جو کامل طور پر مجھ کو قبول کرتا ہے وہ ضرور محفوظ رہے گا لیکن اس کا مجھے علم نہیں کہ وہ کون ہے.میں کسی کے سینہ کو چیر کر نہیں دیکھتا.صحابہ کرامؓ کا بھی ایک گروہ طاعون سے شہید ہوا تھا.مگر دیکھ لو کہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما طاعون سے ہرگز نہیں فوت ہوئے.خدا تعالیٰ نے بھی اپنے بندوں میں امتیاز رکھا ہے.جیسے کہ فرمایا ہے.فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَيْرٰتِ (فاطر:۳۳) جماعت سے خطاب اس کے بعد آپ نے جماعت کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ ضروری بات یہ ہے کہ تم لوگ ان باتوں کی طرف متوجہ نہ ہو اور تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرو.تمہارا معاملہ اور حساب خدا سے الگ ہے اور مخالف لوگوں کا حساب الگ ہے.جنہوں نے قسم کھائی ہے کہ کیسی ہی سچی بات کیوں نہ ہو مگر وہ قبول نہ کریں گے.اللہ تعالیٰ بھی ان کی نسبت یہی فرماتا ہے کہ یہ لوگ قیامت کو ہی قبول کریں گے.ان کی بناوٹ ہی اسی قسم کی ہے کہ عمدہ شَے یا بات جو پیش کی جاوے وہ ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اگر بدبو دار بات ہو تو خوش ہوتے ہیں.قرآن شریف، احادیث اور عقلی دلائل اور نشان پیش کئے مگر یہ لوگ ان کی پروا نہیں کرتے.صرف ایک بات کو نشانہ بناتے ہیں.پس جبکہ خدا نے نہ چاہا کہ ایک مذہب ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں.مگر جن لوگوں کو خدا نے فہمِ سلیم عطا کیا ہے ان کو چاہیے کہ وہ شکر کریں کیونکہ فائدہ اٹھانے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کو خدا نے خود پاک کیا.نشاناتِ صداقت ابھی ہماری جماعت کے بہت سے لوگ چھپے ہوئے ہیں ظاہراً وہ ہم سے الگ ہیں لیکن دراصل ہم میں سے ہیں.ہمیں خود ان کا علم نہیں لیکن
امید ہے کہ اپنے اپنے وقت پر وہ آجاویں گے.خود لاہور میں ایک شخص نے ملاقات کی اور کہا کہ میں آپ کو گالیاں دیا کرتا تھا معاف کرو اب میرے شکوک رفع ہو گئے ہیں اور ہزاروں خطوط اس قسم کے آئے ہیں کہ میں اوّل ابوجہل تھا.اب توبہ کرتا ہوں.بعضوں نے بذریعہ خواب کے مانا اور اکثر کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کشف میں یا خواب میں کہا کہ تم قبول کر لو.جو لوگ بُغض کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ خدا کی تیز دھار کو روک لیویں مگر وہ کسی کے روکنے سے رک نہیں سکتی.اگر انسانی کاروبار ہوتا تو آج تک کب کا تباہ ہو جاتا.مجھے دعویٰ کئے ہوئے چوبیس۲۴ برس سے زیادہ عرصہ گذر گیا.کیا ایک مفتری کو اس قدر مہلت مل سکتی ہے کہ اگر کسی کو عقل، فہم اور موت کا ڈر ہو تو وہ براہین کے وقت کو دیکھے کہ جو پیشگوئیاں اس میں ہیں وہ کیسے پوری ہو کر رہیں لیکن بات یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دے اور وہ دل کے تالے نہ کھولے تو کس طرح سمجھ میں آوے.کوئی بتاوے تو سہی کہ جب سے دنیا ہوئی ہے کسی مفتری نے اس قسم کی پیشگوئی بھی کی ہے.خدا سے خوف کرنے والے کے لیے تو ایک ہی نشان کافی ہو سکتا ہے.لیکن ان لوگوں نے اس قدر کثیر نشانوں سے بھی فائدہ نہ اٹھایا.غرض مدعا یہ ہے کہ یہ تمام باتیں ان لوگوں کے لیے ہیں جو ہدایت قبول کرتے ہیں نہ کہ منکروں کے لیے جن کے واسطے اللہ کا قانون اور ہے.تم خدا سے پناہ مانگو کہ ان کے لیے جو قانون ہے اس میں تم کو داخل نہ کرے.ہمیشہ نیک دل خدا کی رحمت سے فائدہ اٹھاتے ہیں.یہ نہ خیال کرو کہ یہ لوگ مذہب میں پکے ہیں.بڑے بز دل ہوتے ہیں.قہر الٰہی کا ذرا نہیں مقابلہ کر سکتے.لیکن یاد رکھیں کہ یہ ایسا زمانہ ہے جس کے لیے سب نبیوں کی پیش گوئیاں ہیں اور جیسے مختلف نہریں مل کر ایک دریا بن کر بہہ نکلتی ہیں اسی طرح ان پیش گوئیوں کا سیلاب بہہ نکلے گا اور آدمؑ، موسٰی، ابراہیمؑ وغیرہ پیغمبروں نے جو کچھ کہا وہ سب پورا ہو کر رہے گا.بعض رحمت کے نشان بھی ہوں گے مگر ان سے انہی کو حصّہ ملے گا جو عاجز، فروتن اور خائف اور تائب ہوں گے اور جو منکر ہیں وہ قہری نشان سے حصّہ لیں گے.اگرچہ یہ لوگ اس وقت انکار کو نہیں چھوڑتے اور صرف ماں باپ یا جاہل لوگوں سے سن سنا کر غلط عقائد پر
اڑے ہوئے ہیں لیکن خدا تعالیٰ زبردستی سب کچھ چھڑا دے گا.زبردست سے لڑنا نادانی ہے.اگر یہ کاروبار انسان کی طرف سے ہوتا تو کب کا تباہ ہوجاتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ ہم پر افترا کرتا تو ہم اس کی شاہ رگ کاٹ دیتے.پھر کیا وجہ ہے کہ اگر میں خدا پر افترا کرتا ہوں اور تھوڑی مدّت نہیں بلکہ تیس سال کے قریب ہو چلا کہ ہمیشہ اس کی طرف سے وحی لوگوں کو سناتا ہوں اور وہ جانتا بھی ہے کہ میں جھوٹا ہوں لیکن میری تائید کرتا ہے اور ہلاک نہیں کرتا.وہ کیسا خدا ہے کہ ایک جھوٹے سے اتفاق کر بیٹھا ہے اور ہزاروں نشان اس کی تائید میں دکھاتا ہے.نئی سواری بھی اس کے لیے نکالی.کسوف و خسوف بھی اس کے لیے ماہِ رمضان میں کیا.طاعون بھی بھیجی.گویا خدا نے جان کر دھوکا دیا اور جو کام دجّال نے کرنا تھا وہ خود آپ کیا تاکہ مخلوق تباہ ہو.ذرا سوچو کیا خدا کے لیے یہ جائز ہوسکتا ہے کہ ایک کذّاب، مفتری اور دجّال کی وہ اس قدر مدد کرے اور مولوی لوگ جو خود کو اس کا مقرّب جانتے ہیں ان کی دعا ہرگز قبول نہ ہو.جو لڑائی یہ لوگ لڑ رہے ہیں وہ مجھ سے نہیں بلکہ خدا سے ہے.میں تو کچھ شَے نہیں ہوں.خدا سے لڑائی والا کبھی بابرکت نہیں ہوسکتا.میں تو اس بات کو کہتے ہوئے ڈرتا ہوں اور مجھے لرزہ پڑتا ہے کہ افترا ہو اور خدا چپ کر کے بیٹھا رہے.اگر ان کے نزدیک یہ افترا ہے تو چاہیے کہ دعا کریں کہ خدا اسے نیست کر دے یا دعا کرکے حضرت مسیحؑ کو آسمان سے اتاریں.عیسائی محققین نے بھی آخر کار مسیحؑ کے آسمان سے آنے سے تنگ آکر اور میعاد گذرتی دیکھ کر فیصلہ کر دیا ہے کہ کلیسا کو مسیح مان لو.یہی مسیح کا نزول ہے.ان کو بھی آخر کار نزول کو استعارہ کے رنگ میں ہی ماننا پڑا.احادیث پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ تمام خلفاء اس اُمّت میں سے ہوں گے.قرآن شریف بھی یہی کہہ رہا ہے اور سب جگہ مِنْكُمْ کا لفظ موجود ہے مگر نامعلوم کہ ان لوگوں نے مِنْ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ کہاں سے بنا لیا.کیا یہ تھوڑا نشان ہے کہ نہ کوئی واعظ ہے نہ لیکچرار اور ہماری ترقی برابر ہو رہی ہے.بھلا اگر ان کو طاقت ہے تو روک دیں.اللہ تعالیٰ خود لوگوں کو ادھر رجوع دلا رہا ہے.مصر سے بھی بیعت کی درخواست آئی.یورپ میں تحریک ہے.امریکہ میں تحریک ہے.میں پھر جماعت کو تاکید کرتا ہوںکہ تم لوگ ان کی مخالفتوں سے غرض نہ رکھو.تقویٰ طہارت میں ترقی کرو تو
اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہوگا اور ان لوگوں سے وہ خود سمجھ لیوے گا.وہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ( النـحل:۱۲۹) اور خوب یاد رکھو کہ اگر تقویٰ اختیار نہ کرو گے اور اس نیکی سے جسے خدا چاہتا ہے کثیر حصّہ نہ لو گے تو اللہ تعالیٰ سب سے اوّل تم ہی کو ہلاک کرے گا کیونکہ تم نے ایک سچائی کو مانا ہے اور پھر عملی طور سے اس کے منکر ہوتے ہو.اس بات پر ہرگز بھروسہ نہ کرو اور مغرور مت ہو کہ بیعت کر لی.جب تک پورا تقویٰ نہ اختیار کرو گے ہرگز نہ بچو گے.خدا کا کسی سے رشتہ نہیں نہ اس کو کسی کی رعایت منظور ہے.جو ہمارے مخالف ہیں وہ بھی اسی کی پیدائش ہیں اور تم بھی اسی کی مخلوق ہو.صرف اعتقادی بات ہرگز کام نہ آوے گی جب تک تمہارا قول اور فعل ایک نہ ہو.ان لوگوں کی حالتوں پر غور کرو کہ جب توفّی کا لفظ مسیح کے لیے آوے تو اس کے معنے آسمان پر جانے کے کرتےہیں.اور جب وہی لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال ہو تو اس کے معنے وفات پانے کے کرتے ہیں.پس خدا چاہتا ہے کہ عملی راستی دکھاؤ تا وہ تمہارے ساتھ ہو.رحم، اخلاق، احسان، اعمالِ حسنہ، ہمدردی اور فروتنی میں اگر کمی رکھو گے تو مجھے معلوم ہے اور بار بار میں بتلا چکا ہوں کہ سب سے اوّل ایسی ہی جماعت ہلاک ہوگی.موسیٰ علیہ السلام کے وقت جب اس کی اُمّت نے خدا کے حکموں کی قدر نہ کی تو باوجودیکہ موسیٰ ان میں موجود تھا مگر پھر بھی بجلی سے ہلاک کئے گئے.پس اگر تم بھی ویسے کرو گے تو میری موجودگی کچھ کام نہ آوے گی.اب ہم ان لوگوں کو کہاں تک سمجھائیں.بہت سی کتابیں چھپ چکی ہیں اور ان کے لیے کافی اتمامِ حجت ہو چکا ہے.حضرت یوسف علیہ السلام پر توفّی کا استعمال کریں تو اس کے معنے موت کے ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وہ لفظ آوے تو اس کے معنے موت کے ہوں.ساحرین موسیٰ کے لیے وہی لفظ آوے تو معنے موت کے ہوں.لیکن جب مسیح پر بولا جاوے تو اس کے معنے آسمان پر جانا کرتے ہیں.یہ لوگ خدا کو کیا جواب دیویں گے.کیا یہی ان کی محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے اور یہ کیسی دلیری اور شوخی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مبارک جس کی دنیا کو
ضرورت تھی وہ تو تیرہ سو برس گذرے کہ خاک میں دفن ہو اور آپؐ۶۳ برس کی عمر میں فوت ہو جاویں اور مسیح اب تک آسمان پر.کوئی بتلادے کہ وہاںکیا کر رہا ہے.اس کا وعدہ تھا کہ میں بنی اسرائیل کی طرف آیا ہوں اور کتنی قومیں بنی اسرائیل کی باقی تھیں کہ آسمان پر جا بیٹھا اور وعدہ بھی پورا نہ کیا اور پھر عقل، نقل اور کتاب اللہ کے برخلاف ہے.یہ سب دلائل ہیں جو کہ ایک مومن کے لیے کافی ہیں اور بجز اس کے کہ عیسیٰ کو فوت شدہ مانا جاوے اور کوئی ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت کو محفوظ رکھنے کا نہیں ہے میں تو اس شخص سے بہت خوش ہوں کہ جس نے کتاب حیاتُ النّبی لکھی ہے اور اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور پیغمبر کو زندہ کہے وہ کافر ہے کیونکہ آخر محبت کی کچھ بھی تو علامت چاہیے.بعض نئے نئے لوگوں نے جو عیسائیوں میں سے اسلام میں داخل ہوئے حضرت عمرؓ کو یہ بات کہی ہوگی کہ عیسیٰ اب تک زندہ ہے تب ہی تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ہرگز یہ باور نہ کیا کہ آپ فوت ہوگئے بلکہ ایسا کہنے والے کو قتل کرنے کے لیے آمادہ ہوئے.آخر جب حضرت ابوبکرؓ نے آکر اس مسئلہ کو حل کیا کہ سب نبی فوت ہوگئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہوئے تب ان کو اعتبار آیا.اب عیسائیت کا اثر غالب آگیا ہے اور جو محبت مسلمانوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چاہیے تھی وہ نہیں رہی.ہزاروں رسالے اور اخبار نکالتے ہیں لیکن کسی نے آج تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کا رسالہ نہ نکالا.پس اب خدا چاہتا ہے کہ آپؐکی عزّت کو دنیا میں قائم کرے.کئی کروڑ کتب اسلام کے ردّ میں لکھی گئیں کیا اب بھی خدا کو لازم نہ تھا کہ کوئی ذریعہ قائم کر کے آپؐکی عزّت کو ظاہر کرے.ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نبی مانتے ہیں اور سب سے اشرف جانتے ہیں اور ہرگز گوارا نہیں کرتے کہ کوئی عمدہ بات کسی اور کی طرف منسوب کی جاوے.جب کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی معجزہ طلب کیا کہ آسمان پر چڑھ کر دکھا دیں تو آپؐنے فرمایا سُبْحَانَ رَبِّيْ اور انکار کر دیا.دوسری طرف حضرت مسیح کو خدا آسمان پر لے جاوے، یہ کیسے ہو سکتا ہے.ہم قرآن سے کیا بلکہ کل کتابوں سے دکھا سکتے ہیں کہ جس قدر اخلاق اور خوبیاں کُل انبیاء میں تھیں وہ سب کی سب
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع تھیں.كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا (النّسآء : ۱۱۴) اسی کی طرف اشارہ ہے.پس اگر آسمان پر جانا کوئی فضیلت ہوسکتی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کب باہر رہ سکتے تھے.آخر یہ لوگ پچھتاویں گے کہ ان باتوں کو ہم نے کیوں نہ مانا.یہ لوگ ایک وار تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کرتے ہیں کہ ایک معجزہ آسمان پر جانے کا لوگوں نے مانگا مگر خدا نے آپ کی پروا نہ کی اور عیسیٰ کو یہ عزّت دی کہ اسے آسمان پر اٹھا لیا اور دوسرا حملہ خود خدا پر کرتے ہیں کہ اس نے اپنی قوت خلق سے مسیح کو بھی کچھ دے دی جس سے تشابہ الخلق ہوگیا.جواب دیتے ہیں کہ خدا نے خود مسیح کو یہ قدرت دی تھی.اے نادانو!اگر خدائی نے تقسیم ہونا تھا تو کیا اس کے حصّہ گیر عیسیٰ ہی رہ گئے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں نہ حصّہ ملا.۱ اس قدر تقریر ہوچکی تھی کہ بعض جان نثاروں نے بہت وقت گذر جانے کی درخواست کی تاکہ آپ کی طبیعت کو زیادہ صدمہ نہ ہو اور سلسلہ تقریر ختم ہو جاوے.چنانچہ حضور نے دعا پر اسے ختم کیا.۲۸؍اگست ۱۹۰۴ء (بمقام لاہور.سات بجے صبح) (حضرت اقدس کی تقریر جو ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مجمع کے درمیان آپ نے فرمائی) توبہ کا دن جمعہ اور عیدین سے بھی بہتر اور مبارک ہے سب صاحب یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں ایسے دن مقرر کئے ہیں کہ وہ دن بڑی خوشی کے دن سمجھے جاتے ہیں اور ان میں اللہ تعالیٰ نے عجیب عجیب برکات رکھی ہیں منجملہ ان دنوں کے ایک جمعہ کا دن ہے یہ دن بھی بڑا ہی مبارک ہے.لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑکو جمعہ ہی کو پیدا کیا اور اسی دن ان کی توبہ منظور ہوئی تھی اور بھی بہت سی برکات اور خوبیاں اس دن کی ماثور ہیں.ایسا ہی اسلام میں دو عیدیں ہیں.ان دونوں دنوں کو بھی بڑی خوشی کے دن مانا گیا ہے اور ان میں بھی عجیب عجیب برکات رکھی ہیں.لیکن یاد رکھو کہ یہ دن
بے شک اپنی اپنی جگہ مبارک اور خوشی کے دن ہیں لیکن ایک دن ان سب سے بھی بڑھ کر مبارک اور خوشی کا دن ہے مگر افسوس سے دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نہ تو اس دن کا انتظار کرتے ہیں اور نہ اس کی تلاش.ورنہ اگر اس کی برکات اور خوبیوں سے لوگوں کو اطلاع ہوتی یا وہ اس کی پروا کرتے تو حقیقت میں وہ دن ان کے لیے بڑا ہی مبارک اور خوش قسمتی کا دن ثابت ہوتا اور لوگ اسے غنیمت سمجھتے.وہ دن کون سا دن ہے جو جمعہ اور عیدین سے بھی بہتر اور مبارک دن ہے؟ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ دن انسان کی توبہ کا دن ہے جو ان سب سے بہتر ہے اور ہر عید سے بڑھ کر ہے.کیوں؟ اس لیے کہ اس دن وہ بد اعمال نامہ جو انسان کو جہنم کے قریب کرتا جاتا ہے اور اندر ہی اندر غضبِ الٰہی کے نیچے اسے لارہا تھا دھو دیا جاتا ہے اور اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتےہیں.حقیقت میں اس سے بڑھ کر انسان کے لیے اور کون سا خوشی اور عید کا دن ہوگا جو اسے ابدی جہنم اور ابدی غضبِ الٰہی سے نجات دے دے.توبہ کرنے والا گنہگار جو پہلے اللہ تعالیٰ سے دور اور اس کے غضب کا نشانہ بنا ہوا تھا اب اس کے فضل سے اس کے قریب ہوتا اور جہنم اور عذاب اس سے دور کیا جاتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ(البقرۃ:۲۲۳) بےشک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوںکو دوست رکھتا ہے اور ان لوگوں سے جو پاکیزگی کے خواہاں ہیں پیار کرتا ہے.اس آیت سے نہ صرف یہی پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی توبہ کے ساتھ حقیقی پاکیزگی اور طہارت شرط ہے.ہرقسم کی نجاست اور گندگی سے الگ ہونا ضروری ہے.ورنہ نری توبہ اور لفظ کے تکرار سے تو کچھ فائدہ نہیں ہے.پس جو دن ایسا مبارک دن ہو کہ انسان اپنی بدکرتوتوں سے توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا عہد صلح باندھ لے اور اس کے احکام کے لیے اپنا سر خم کر دے تو کیا شک ہے کہ وہ اس عذاب سے جو پوشیدہ طور پر اس کے بد عملوں کی پاداش میں تیار ہو رہا تھا بچایا جاوے گا اور اس طرح وہ وہ چیز پالیتا ہے جس کی گویا اسے توقع اور امید ہی نہ رہی تھی.تم خود قیاس کر سکتے ہو کہ ایک شخص جب کسی چیز کے حاصل کرنے سے بالکل مایوس ہوگیا ہو اور اس ناامیدی اور یاس کی حالت میں وہ اپنے مقصود کو پالے تو اسے کس قدر خوشی حاصل ہوگی.
اس کا دل ایک تازہ زندگی پائے گا.یہی وجہ ہے کہ احادیث میں اس کا ذکر کیا گیا ہے.احادیث اور کتب سابقہ سے یہی پتا لگتا ہے کہ جب انسان گناہ کی موت سے نکل کر توبہ کے ذریعہ نئی زندگی پاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی زندگی سے خوش ہوتا ہے.حقیقت میں یہ خوشی کی بات تو ہے ہی کہ انسان گناہوں کے نیچے دبا ہو اور ہلاکت اور موت ہر طرف سے اس کے قریب ہو.عذابِ الٰہی اس کے کھا جانے کو تیار ہو کہ وہ یکایک ان بدیوں اور بدکاریوں سے جو اس بُعد اور ہجر کا موجب تھیں توبہ کر کے خدا تعالیٰ کی طرف آجاوے وہ وقت خدا تعالیٰ کی خوشی کا ہوتا ہے اور آسمان پر ملائکہ بھی خوشی کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی بندہ تباہ اور ہلاک ہو بلکہ وہ تو چاہتا ہے کہ اگر اس کے بندہ سے کوئی غلطی اور کمزوری ظاہر ہوئی ہے پھر بھی وہ توبہ کر کے امن میں داخل ہو.پس یاد رکھو کہ وہ دن جب انسان اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے بہت مبارک دن ہے اور سب ایام سے افضل ہے.کیونکہ وہ اس دن نئی زندگی پاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قریب کیا جاتا ہے اور اسی لحاظ سے یہ دن (جس میں تم میں سے بہتوں نے اقرار کیا ہے کہ میں آج اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں اور آئندہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے گناہوں سے بچتا رہوں گا) یومِ توبہ ہے.اور اللہ تعالیٰ کے وعید کے موافق میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر ایک شخص کے جس نے سچے دل سے توبہ کی ہے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے اور وہ اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ کے نیچے آگیا ہے.گویا کہہ سکتے ہیں کہ اس نے کوئی گناہ نہیںکیا.مگر ہاں میں پھر کہتا ہوں کہ اس کے لیے یہ شرط ہے کہ حقیقی پاکیزگی اور سچی طہارت کی طرف قدم بڑھایا جاوے اور یہ توبہ نری لفظی توبہ ہی نہ ہو بلکہ عمل کے نیچے آجاوے.یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے کہ کسی کے گناہ بخش دیئے جاویں بلکہ ایک عظیم الشان اَمر ہے.دیکھو! انسانوں میں اگر کوئی کسی کا ذرا سا قصور اور خطا کرے تو بعض اوقات اس کا کینہ پشتوں تک چلا جاتا ہے وہ شخص نسلاً بعد نسلٍ تلاشِ حریف میں رہتا ہے کہ موقع ملے تو بدلہ لیا جاوے لیکن اللہ تعالیٰ بہت ہی رحیم و کریم ہے.انسان کی طرح سخت دل نہیں جو ایک گناہ کے بدلے میں کئی نسلوں تک پیچھا نہیں چھوڑتا اور تباہ کرنا چاہتا ہے مگر وہ رحیم کریم خدا ستّر برس کے گناہوں کو ایک کلمہ سے ایک لحظہ
میں بخش دیتا ہے.یہ مت خیال کرو کہ وہ بخشنا ایسا ہے کہ اس کا فائدہ کچھ نہیں.نہیں وہ بخشنا حقیقت میں فائدہ رساں اور نفع بخش ہے اور اس کو وہ لوگ خوب محسوس کر سکتے ہیں جنہوں نے سچے دل سے توبہ کی ہو.نزولِ بَلا کا فلسفہ بہت سے لوگ اس اَمر سے غافل ہیں کہ انسان پر جو بَلائیں آتی ہیں وہ بِلاوجہ یونہی آجاتی ہیں یا ان کے نزول کو انسان کے اعمال سے کوئی تعلق نہیں ہے.ایسا خیال بالکل غلط ہے.یہ خوب یاد رکھو کہ ہر بَلا جو اس زندگی میں آتی ہے یا جو مَرنے کے بعد آئے گی جس کا ہمیں یقین ہے.اس کی اصل جڑ گناہ ہی ہے کیونکہ گناہ کی حالت میں انسان اپنے آپ کو ان انوار اور فیوض سے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں پرے ہٹا دیتا ہے اور اس اصل مرکز سے جو حقیقی راحت کا مرکز ہے ہٹ جاتا ہے.اس لیے تکلیف کا آنا اس حالت میں اس پر ضروری ہے.یہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ انبیاء اور راستبازوں پر بعض اوقات بَلائیں آجاتی ہیں اور وہ بھی مصائب اور شدائد میں ڈالے جاتے ہیں لیکن یہ گمان کرنا کہ وہ مصائب اور بَلائیں کسی گناہ کی وجہ سے آتی ہیں.خطرناک غلطی اور گناہ ہے.ان بَلاؤں میں جو خدا کے راستبازوں اور پیارے بندوں پر آتی ہیں اور ان بَلاؤں میں جو خدا تعالیٰ کے نافرمانوں اور خطاکاروں پر آتی ہیں زمین آسمان کا فرق ہے اس لیے کہ ان کے اسباب بھی مختلف ہیں.نبیوں اور راستبازوں پر جو بَلائیں آتی ہیں ان میں ان کو ایک صبر جمیل دیا جاتا ہے جس سے وہ بَلا اور مصیبت ان کے لیے مُدرِکُ الحلاوت ہو جاتی ہے.وہ اس سے لذّت اٹھاتےہیں اور روحانی ترقیوں کے لیے ایک ذریعہ ہوجاتی ہیں کیونکہ ان کے درجات کی ترقی کے لیے ایسی بلاؤں کا آنا ضروری ہے جو ترقیات کے لئے زینہ کا کام دیتی ہیں.جو شخص ان بَلاؤں میں نہیں پڑتا اور ان مصیبتوں کو نہیں اٹھاتا وہ کسی قسم کی ترقی نہیں کر سکتا.دنیا کے عام نظام میں بھی تکالیف اور مشقتوں کا ایک سلسلہ ہے جس میں سے ہر ایسے شخص کو جو ترقی کا خواہاں ہے گذرنا پڑتا ہے لیکن ان تکالیف اور شاقہ محنتوں میں باوجود تکالیف کے ایک لذّت
ہوتی ہے جو اسے کشاں کشاں آگے لیے جاتی ہے.برخلاف اس کے وہ مصیبت اور تکالیف جو انسان کی اپنی بد کرداری کی وجہ سے اس پر آتی ہے وہ وہ مصیبت آتی ہے جس میں ایک درد اور سوزش ہوتی ہے جو اس کی زندگی اس کے لیے وبال جان کر دیتی ہے وہ موت کو ترجیح دیتا ہے مگر نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ مَرکر بھی ختم نہیں ہوگا.غرض بَلاؤں کے نزول میں ہمیشہ سے قانون قدرت یہی ہے کہ جو بَلائیں شامتِ اعمال کی وجہ سے آتی ہیں وہ الگ ہیں اور خدا کے راستبازوں اور پیغمبروں پر جو بَلائیں آتی ہیں وہ ان کی ترقی درجات کے لیے ہوتی ہیں.بعض جاہل جو اس راز کو نہیں سمجھتے وہ جب بَلاؤں میں مبتلا ہوتے ہیں تو بجائے اس کے کہ اس بَلا سے فائدہ اٹھائیں اور کم از کم آئندہ کے لیے مفید سبق حاصل کریں اور اپنے اعمال میں تبدیلی پیدا کریں کہہ دیتے ہیں کہ اگر ہم پر مصیبت آئی تو کیا ہوا نبیوں اور پیغمبروں پر بھی تو آجاتی ہیں حالانکہ ان بَلاؤں کو انبیاء کی مشکلات اور مصائب سے کوئی نسبت ہی نہیں.جہالت بھی کیسی بُری مرض ہے کہ انسان اس میں قیاس مع الفارق کر بیٹھتا ہے.یہ بڑا دھوکا واقع ہوتا ہے جو انسان تمام انبیاء کی مشکلات کو عام لوگوں کی بَلاؤں پر حمل کر لیتا ہے.پس خوب یاد رکھو کہ جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے انبیاء اور دوسرے اخیار و ابرار کی بَلائیں محبت کی راہ سے ہیں.خدا تعالیٰ ان کو ترقی دیتا جاتا ہے اور یہ بَلائیں وسائل ترقی میں سے ہیں لیکن جب مفسدوں پر آتی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو اس عذاب سے تباہ کرنا چاہتا ہے.وہ بَلائیں ان کے استیصال اور نیست و نابود کرنے کا ذریعہ ہوجاتی ہیں.یہ ایسا فرق ہے کہ دلائل کا محتاج نہیں ہے کیونکہ جب اچھے آدمی جو اللہ تعالیٰ کو مقدم کر لیتے ہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کیوں کرتے ہیں.بہشت اور دوزخ ان کے دل میں نہیں ہوتا اور نہ بہشت کی خواہش یا دوزخ کا ذکر ان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا محرک ہوتا ہے بلکہ وہ طبعی جوش اور طبعی محبت سے اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے اور اس کی اطاعت میں محو ہوتے ہیں.ان پر جب کوئی بَلا آتی ہے تو وہ خود محسوس کر لیتےہیں کہ یہ از راہ محبت ہے.وہ دیکھتے ہیں کہ ان بَلاؤں کے ذریعہ ایک چشمہ کھولا جاتا ہے جس سے وہ
سیراب ہوتے ہیں اور ان کا دل لذّت سے بھر جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت ایک فوارہ کی طرح جوش مارنے لگ جاتی ہے.تب وہ چاہتے ہیں کہ یہ بَلا زیادہ ہو تاکہ قربِ الٰہی زیادہ ہو اور رضا کے مدارج جلد طے ہوں.غرض الفاظ وفا نہیں کرتے جو اس لذّت کو بیان کر سکیں جو اخیار و ابرار کو ان بَلاؤں کے ذریعہ آتی ہے.یہ لذّت تمام سفلی لذتوں سے بڑھی ہوئی ہے اور فوق الفوق لذّت ہوتی ہے.یہ مصیبت کیا ہے؟ ایک عظیم الشان دعوت ہے جس میں قسم قسم کے انعام و اکرام اور پھل اور میوے پیش کیے جاتے ہیں.خدا اس وقت قریب ہوتا ہے.فرشتے ان سے مصافحہ کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے مکالمہ کا شرف عطا کیا جاتا ہے اور وحی اور الہام سے اس کو تسلی اور سکینت دی جاتی ہے.لوگوں کی نظر میں یہ بَلاؤں اور مصیبتوں کا وقت ہے مگر در اصل اس وقت اللہ تعالیٰ کے فیضان اور فیوض کی بارش کا وقت ہوتا ہے.سفلی اور سطحی خیال کے لوگ اس کو سمجھ نہیں سکتے.میں سچ سچ کہتا ہوںکہ یہ بَلاؤں اور غموں ہی کا وقت ہے جس میں مزا آتا ہے اور راحت ملتی ہے کیونکہ خدا جو انسان کا اصل مقصود ہے.اس وقت اپنے بندے کے بہت ہی قریب ہوتا ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ قرآن جو دیا گیا ہے.غم کی حالت میں دیا گیا ہے.پس تم بھی اس کو غم کی حالت میں پڑھو.غرض میں کہاں تک بیان کروں کہ ان بَلاؤں میں کیا لذّت اور مزا ہوتا ہے اور عاشقِ صادق کہاں تک ان سے محظوظ ہوتا ہے.مختصر طور پر یاد رکھو کہ ان بَلاؤں کا پھل اور نتیجہ جو ابرار اور اخیار پر آتی ہیں جنّت اور ترقی درجات ہے اور وہ بَلائیں اور غم جو مفسدوں اور شریروں پر آتے ہیں ان کی وجہ شامتِ اعمال اور تاریک زندگی ہے اور اس کا نتیجہ جہنم اور عذابِ الٰہی ہے پس جو شخص آگ کے پاس جاتا ہے ضرور ہے کہ وہ اس کی سوزش سے حصّہ لے اور اسے محسوس کرے اور اسے دکھ پہنچے.لیکن جو ایک باغ میں جاتا ہے یقینی اَمر ہے کہ اس کے پھلوں اور پھولوں کی خوشبو سے اور اس خوبصورت نظارہ کے مشاہدہ سے لذّت پاوے.
شامتِ اعمال کی وجہ سے آنے والی بَلاؤں کا علاج اب واضح رہے کہ جس حال میں وہ بَلائیں جو شامتِ اعمال کی وجہ سے آتی ہیں اور جن کا نتیجہ جہنمی زندگی اور عذابِ الٰہی ہے ان بَلاؤں سے جو ترقی درجات کے طور پر اخیار و ابرار کو آتی ہیں الگ ہیں تو کیا کوئی ایسی صورت بھی ہے جس سے انسان اس عذاب سے نجات پاوے.اس عذاب اور دکھ سے رہائی کی بجز اس کے کوئی تجویز اور علاج نہیں ہے کہ انسان سچے دل سے توبہ کرے.جب تک سچی توبہ نہیں کرتا یہ بَلائیں جو عذابِ الٰہی کے رنگ میں آتی ہیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑ سکتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو نہیں بدلتا جو اس بارے میں اس نے مقرر فرما دیا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ(الرّعد : ۱۲) یعنی جب تک کوئی قوم اپنی حالت میں تبدیلی پیدا نہیں کرتی اللہ تعالیٰ بھی اس کی حالت نہیں بدلتا.خدا تعالیٰ ایک تبدیلی چاہتا ہے اور وہ پاکیزہ تبدیلی ہے.جب تک وہ تبدیلی نہ ہو عذابِ الٰہی سے رستگاری اور مخلصی نہیں ملتی.یہ خدا تعالیٰ کا ایک قانون اور سنّت ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوتی کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے ہی یہ فیصلہ کر دیا ہے وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا(الاحزاب:۶۳) سنّت اللہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی.پس جو شخص چاہتا ہے کہ آسمان میں اس کے لیے تبدیلی ہو یعنی وہ ان عذابوں اور دکھوں سے رہائی پائے جو شامتِ اعمال نے اس کے لیے طیار کئے ہیں اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی کرے.جب وہ خود تبدیلی کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق جو اس نے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ میں کیا ہے اس کے عذاب اور دکھ کو بدلا دیتا ہے اور دکھ کو سکھ سے تبدیل کر دیتا ہے.جب انسان کے اندر تبدیلی کرتا ہے تو اس کے لیے ضرور نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو بھی دکھاتا پھرے.وہ رحیم کریم خدا جو دلوں کا مالک ہے اس کی تبدیلی کو دیکھ لیتا ہے کہ یہ پہلا انسان نہیں ہے اس لیے وہ اس پر فضل کرتا ہے.تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک شخص نماز روزہ اور دوسرے اشغال اذکار سے ریا کیا کرتا تھا تاکہ لوگ اسے ولی سمجھیں لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام لوگ اسے ریاکار سمجھتے تھے یہاں تک کہ بچے بھی جس راستہ
سے وہ گذرتا تھا اس کو ریاکار اور فریبی کہا کرتے تھے.ایک عرصہ تک اس کی حالت ایسی ہی رہی.آخر اس نے سوچا کہ اس طریق سے کوئی فائدہ تو نہیں ہوا بلکہ حالت بدتر ہی ہوئی ہے اس لیے اس کو چھوڑ دینا چاہیے.پس اس نے چھوڑ دیا اور ملامتی فرقہ کا سا طریق اختیار کر لیا.مسلمانوں میں ملامتی ایک فرقہ ہے جو اپنی نیکیوں کو چھپاتا ہے اور بدیوں کو ظاہر کرتا ہے تاکہ لوگ انہیں بُرا کہیں.اسی طرح پر وہ اپنی نیکیوں کو چھپانے لگا اور اندر ہی اندر اللہ تعالیٰ سے سچی محبت کرنے لگا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لکھا ہے کہ جس کوچہ سے گذرتا عام لوگ اور بچے بھی اسے کہتے کہ بڑا نیک ہے، ولی ہے، بزرگ ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا مشک اور عطر کی طرح ہے جو کسی طرح پر چھپ نہیں سکتا یہی تاثیریں ہیں سچی توبہ میں.جب انسان سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے.پھر اسے نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے.اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.خدا اس کے دوستوں کا دوست اور اس کے دشمنوں کا دشمن ہوجاتا ہے اور وہ تقدیر جو شامتِ اعمال سے اس کے لیے مقرر ہوتی ہے وہ دور کی جاتی ہے.اس اَمر کے دلائل بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ انسان اپنی اس مختصر زندگی میں بَلاؤں سے محفوظ رہنے کا کس قدر محتاج ہے اور چاہتا ہے کہ ان بَلاؤں اور وباؤں سے محفوظ رہے جو شامتِ اعمال کی وجہ سے آتی ہیں اور یہ ساری باتیں سچی توبہ سے حاصل ہوتی ہیں.پس توبہ کے فوائد میں سے ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا حافظ اور نگران ہوجاتا ہے اور ساری بَلاؤں کو خدا دور کر دیتا ہے اور ان منصوبوں سے جو دشمن اس کے لیے تیار کرتے ہیں ان سے محفوظ رکھتا ہے اور اس کا یہ فضل اور برکت کسی سے خاص نہیں بلکہ جس قدر بندے ہیں خدا تعالیٰ کے ہی ہیں.اس لیے ہر ایک شخص جو اس کی طرف آتا ہے اور اس کے احکام اور اوامر کی پیروی کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی ہوگا جیسے وہ شخص جو توبہ کر چکا ہے.وہ ہرایک سچی توبہ کرنے والے کو بَلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے.پس یہ توبہ جو آج اس وقت کی گئی ہے یہ مبارک اور عید کا دن ہے.اور یہ عید ایسی عید ہے جو کبھی میسر نہیں آئی ہوگی.
ایسا نہ ہو کہ تھوڑے سے خیال سے ماتم کا دن بنا دو.عید کے دن اگر ماتم ہو تو کیسا غم ہوتا ہے کہ دوسرے خوش ہوں اور اس کے گھر ماتم ہو.موت تو سب کو ناگوار معلوم ہوتی ہے لیکن جس کے گھر عید کے دن موت ہو وہ کس قدر ناخوش گوار ہوگی.قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان ایک نعمت کی قدر نہیں کرتا وہ ضائع ہوجاتی ہے.دیکھو جن چیزوں کی تم قدر کرتے ہو ان کو صندوقوں میں بڑی حفاظت سے رکھتے ہو.اگر ایسا نہ کرو تو وہ ضائع ہو جاتی ہے.اسی طرح اس مال کا جو ایمان کا مال ہے چور شیطان ہے اگر اس کو بچا کر دل کے صندوقوں میں احتیاط سے نہ رکھو گے تو چور آئے گا اور لے جائے گا.یہ چور بہت ہی خطرناک ہے.دوسرے جو چور اندھیری راتوں میں آکر نقب لگاتے ہیں وہ اکثر پکڑے جاتے ہیں اور سزا پاتے ہیں لیکن یہ چور ایسا ہے کہ اس کی عمر نہیں ہے اور ابھی پکڑا نہ جائے گا.یہ اس وقت آتاہے جب گناہ کی تاریکی پھیل جاتی ہے کیونکہ چور اور روشنی میں دشمنی ہے.جب انسان اپنا منہ خدا کی طرف رکھتا ہے اور اسی کی طرف رجوع اور توجہ کرتا ہے تو وہ روشنی میں ہوتا ہے اور شیطان کو کوئی موقع اپنی دستبرد کا نہیں ملتا.پس کوشش کرو کہ تمہارے ہاتھوں میں ہمیشہ روشنی رہے.اگر غفلت بڑھ گئی تو یہ چور آئے گا اور سارا اندوختہ لے جائے گا اور برباد ہوجاؤ گے.اس لیے اس اندوختہ کو احتیاط اور اپنی راستبازی اور تقویٰ کے ہتھیاروں سے محفوظ رکھو.یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کے ضائع ہونے سے کچھ حرج نہ ہو بلکہ اگر یہ اندوختہ جاتا رہا تو ہلاکت ہے اور ہمیشہ کی زندگی سے محروم ہوجاؤ گے.تنبیہ و انذار یاد رکھو یہ طاعون کے دن ہیں.معلوم نہیں ستمبر کے آخر اور اکتوبر کے شروع میں کیا ہو؟ جہاں تک خدا نے مجھ پر ظاہر کیا ہے میں دیکھتا ہوں کہ بہت خطرناک دن آنے والے ہیں.اس لیے ہر ایک شخص جو چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہے وہ اسی وقت سے طیاری کرے.جب تک غضبِ الٰہی نازل نہیں ہوتا اور اس کے آثار نمودار نہیں ہوتے تو ہر شخص واجب الرحم ہوتا ہے لیکن جب آثار نمودار ہو جاویں پھر عذاب نہیں ٹلتا.بہت سے لوگ بیباک اور جرأت کرنے والے ہوتے ہیں.وہ شوخی سے کہہ دیتے ہیں کہ صدہا وبائیں بَلائیں
اور ہیضے وغیرہ آتے ہیں.ایسا ہی طاعون بھی ہے لیکن یہ ان کی بد بختی اور شقاوت ہے جو ایسی جرأت پیدا ہوتی ہے وہ نہیں جانتے کہ یہ بُرے دنوں کی نشانی ہے.جب بَلائیں دنیا میں آتی ہیں اور دنیا کو تباہ کرتی ہیں تو شامتِ اعمال سے ہی آتی ہیں.ہمیشہ سے گناہ ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ ان صورتوں میں ہی عذاب اور بَلا آئی ہے اور ان گناہوں کے بدلے میں سزا دی گئی ہے.پھر یہ شوخی اچھی نہیں.اس کا نتیجہ بہت ہی بُرا ہے.یہ وقت تو ایسا ہے کہ خدا سے صلح کرو اور پاک تبدیلی کرو.نہ یہ کہ شوخی و شرارت سے پیش آؤ.یاد رکھو یہ طاعون ایک خطرناک عذابِ الٰہی ہے جو اس وقت نازل ہوا ہے اس کو حقیر مت سمجھو.اس کا انجام اچھا نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی کتابوں میں یہ ایک نشان مقرر کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ کے نشانوں کو جو شخص حقارت سے دیکھتا ہے وہ نقصان اٹھاتا ہے.میں کھول کھول کر بیان کرتا ہوں کہ اس عذاب سے مخلصی کے لیے سچی توبہ اور پاک تبدیلی کی ضرورت ہے اور بجز اس کے چارہ نہیں.پس اسی وقت سے اس کے لیے طیاری کرو.شوخیوں اور شرارتوں سے باز آجاؤ.مسیح موعود کے زمانہ کے دو بڑے نشان میں یہ بات بھی بیان کرنی چاہتا ہوں کہ مسیح موعودؑ کے زمانہ کے بہت سے نشانوں میں سے دو بڑے نشان ہیں جن میں سے ایک آسمان پر ظاہر ہوگا اور دوسرا زمین پر.آسمان کا نشان تو یہ تھا کہ اس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں مقررہ تاریخوں پر سورج اور چاند گرہن ہوگا.چنانچہ کئی سال گذرے یہ نشان پورا ہوگیا اور نہ صرف اس ملک میں بلکہ دوسری مرتبہ امریکہ میں بھی پورا ہوا.دوسرا نشان یہی طاعون کا نشان تھا جو زمینی ہے.یہ نشان بدن پر لرزہ ڈال دینے والا نشان ہے.کئی سال سے یہ بَلا اس ملک میں نازل ہو رہی ہے مگر میں افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ ابھی تک غفلت اور بد مستی اسی طرح ترقی پر ہے.میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر اس طاعون کی اس قدر شدت ہو جائے گی کہ دس میں سے سات مَر جائیں گے اور بعض
بستیاں بالکل تباہ اور برباد ہوجائیں گی.جہاں تک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے میں دیکھتا ہوں کہ ابھی بہت خطرناک دن آنے والے ہیں.اس لیے میں ہر ایک کو جو سنتا ہے کہتا ہوں کہ دیکھو اس وقت ہر ایک نفس کو چاہیے کہ اپنے نفس، اپنے بیوی بچوں اور دوستوں پر رحم کرے.میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ رجوع کرنے والوں پر اپنا فضل کر دیتا ہے اور یہ عذاب ٹل سکتا ہے.پس چاہیے کہ ہر شخص کوشش کرے اور سچی توبہ اور پاک تبدیلی کے ساتھ خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگے.ایک اعتراض کا جواب بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ہمارے سلسلہ میں سے بھی بعض آدمی طاعون سے مَرگئے ہیں.ایسے معترضین کو یاد رکھنا چاہیے کہ موت تو ہر نفس کے لیے مقرر ہے اور ایک نہ ایک دن سب کو مَر جانا ہے اور طاعون سے صحابہؓ میں سے بھی بعض شہید ہوگئے تھے.غرض موت سے تو چارہ نہیں.امیر، غریب، ہندو، مسلمان، زن و مرد سب مَرتے ہیں لیکن کسی موت پر اتنا رحم نہیں آتا جیسا اس موت پر کہ گھر کا گھر تباہ ہوجائے اور قفل لگ جاوے.اس لیے اوّل نسبت قائم کرو کہ ایسی موتیں کن لوگوں میں ہوئی ہیں.اس کے سوا یہ بھی یاد رکھو کہ ہماری جماعت میں داخل ہونے والوں کا صحیح علم کہ ان کے ایمان کس درجہ تک ہیں اللہ تعالیٰ ہی کو ہے.اب دو لاکھ سے بھی زیادہ جماعت ہے ہمیں علم نہیں کہ کس حد تک کس کا ایمان ہے.البتہ قیاسی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض کامل الایمان ہیں اور بعض اوسط درجہ کا ایمان رکھتے ہیں اور بعض ابھی ناقص درجہ پر ہیں.مومنوں کے تین درجے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَيْرٰتِ (فاطر:۳۳) یعنی تین قسم کے مومن ہوتے ہیں.ایک تو ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ہوتے ہیں.ان میں گناہ کی آلائش موجود ہوتی ہے.بعض میانہ رو اور بعض سراسر نیک ہوتے ہیں.اب ہمیں کیا معلوم ہے کہ کون کس درجہ اور مقام پر ہے.ہر ایک شخص کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ الگ معاملہ ہے.جیسا کوئی اس سے تعلق رکھتا ہے ویسا ہی وہ اس سے معاملہ کرتا ہے جو لوگ کامل الایمان ہیں میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اسے امتیاز دے گا کیونکہ مومن اور کافر
کے درمیان ایک فرقان رکھا جاتا ہے.قرآن شریف میں مومن سے یہ مراد نہیں ہے کہ صرف زبان تک ہی اس کی قیل و قال محدود ہو اور صبح وہ ایمان کا کام کرے تو شام کو کفر کا کرے.ایک لقمہ وہ تریاق کا کھا لیتا ہے اور دوسرا زہر کا بھی کھا لیتا ہے.ایسے شخص کو وہ فرقان اور امتیاز جو مومن کے لیے مقرر کیا گیا ہے نہیں دیا جاتا.تم خود ہی سوچ لو کہ وہ مریض جو پرہیز نہیں کرتا ہے خواہ اس کو کیسے ہی شفا بخش نسخے دئیے جاویں اور وہ کتنے ہی مجرب کیوں نہ ہوں لیکن اگر وہ پرہیز نہیں کرتا تو وہ نسخے اس کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے.پس یہی حال بیعت کا ہے.اگر کوئی شخص بیعت تو کرتا ہے لیکن شرائط بیعت کو پورا نہیں کرتا اور اپنے اندر پاک تبدیلی جو بیعت کا اصل مقصد ہے نہیں کرتا وہ اپنے لیے وبال جان ہوجاتا ہے.ہاں کامل الایمان اکسیر ہے.اس کے ساتھ فرقان رکھا جاتا ہے.اگر یہ امتیاز نہ ہوتا تو دنیا تباہ ہوجاتی اور خدا تعالیٰ پر ایمان مشکل ہوجاتا.اس قسم کے نشانوں سے ہی اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان پیدا ہوتا ہے.احمدی جماعت اور طاعون اب میں پھر اس اعتراض کی طرف توجہ کرتا ہوں جو کہتے ہیں کہ ہماری جماعت میں سے بعض آدمی طاعون سے مَرے ہیں.اس بات کو خوب غور سے یاد رکھو کہ صحابہؓ میں سے جو بعض طاعون سے شہید ہوئے وہ ان کے لیے عذاب نہ تھی بلکہ صحابہؓ کا گروہ بڑھا اور ان کے لیے موجب شہادت ہوئی.دوسروں کے لیے وہی طاعون تباہی اور بربادی کا باعث ہوئی.یہی فرق ہے اگر کسی مومن کو طاعون ہو جاوے وہ اس کے لیے شہادت ہے اور دوسروں کے لیے تباہی کا موجب.بایں ہمہ جیسا میں نے پہلے بیان کیا ہے مومن اور غیر مومن میں ایک اَمر فارق ہوتا ہے.اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی مومن کے ساتھ ایسے معاملات ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس کو ایک بیّن امتیاز عطا کرتا ہے اور اس کو تباہ کرنا نہیں چاہتا.اس کی وہی مثال ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر بھی مصیبت آتی ہے اور دوسروں پر بھی جو ان کے مخالف ہوتے ہیں.انبیاء علیہم السلام بڑھتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں اور دوسرے تباہ اور ذلیل ہوتے ہیں.پس دہریوں کی طرح دھوکا مت کھاؤ.وہاں اور رنگ ہے اور یہاں اور رنگ ہے.
طاعون کی خبر آج سے نہیں ۲۳ برس سے براہین احمدیہ میں شائع ہوچکی ہوئی ہے اور اس لیے یہ معمولی نظر سے دیکھنے کے قابل نہیں ہے بلکہ یہ عظیم الشان قہری نشان ہے.غرض طاعون نے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا بلکہ فائدہ ہی دیا ہے.اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی ضرور کہتا ہوں کہ ایمان کے طبقات ہیں جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں.اس لیے ان طبقات کے لحاظ سے جو شخص کامل الایمان ہے وہ نافع النّاس وجود ہے.تبلیغ دین کرنے والا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابلِ قدر ہے وہ طاعون سے ضرور بچایا جائے گا.بعض آدمی جن کی ایمانی حالت کمزور ہوتی ہے اور وہ اس درجہ پر نہ پہنچے ہوئے ہوں جہاں اللہ تعالیٰ کسی کو مومن کہتا ہے اور ان کی ضرورت بھی کم ہو پھر ان میں سے کوئی اگر فوت ہوجاوے تو اس میں کیا حرج ہے.میں یہ خوب جانتا ہوں کہ ایمان کے درجات ہیں اور ہر درجہ پر برکت ملتی ہے لیکن ان میں باہم فرق ضرور ہوتا ہے.دیکھو اس وقت آفتاب کی روشنی ہے.آنکھیں کھلی ہیں ہر ایک چیز دور و نزدیک کی صاف اور واضح نظر آتی ہے.جب آفتاب کی سلطنت ختم ہوجائے گی تو رات آئے گی.اس وقت عالَم ہی اَور ہوگا.اگرچہ اس وقت چاند یا ستاروں کی روشنی ہوگی مگر ان روشنیوں میں زمین آسمان کا فرق ہوگا.ایسا ہی ایمان کے مراتب میں فرق صریح ہے.ایمان بھی ایک روشنی ہے جس جس درجہ پر ایمان پہنچتا ہے اسی مرتبہ کے موافق روشنی اور پھل پاتا ہے.جو چاہتا ہے کہ عمر زیادہ ہو اور اس قہری نشان میں ایک امتیاز پیدا کرے اس کو لازم ہے کہ وہ کامل الایمان ہو اور اپنے وجود کو قابل قدر بناوے اور اس کی یہی صورت ہے کہ لوگوں کو نفع پہنچاوے اور دین کی خدمت کرے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ(الرّعد:۱۸) یہ خوب یاد رکھو کہ عمر کھانے پینے سے لمبی نہیں ہو سکتی بلکہ اس کی اصل راہ وہی ہے جو میں نے بیان کی ہے.بہت سے لوگ ہیں جو صرف کھانے پینے کو ہی زندگی کی غرض و غایت سمجھتے ہیں.حالانکہ زندگی کی یہ غرض نہیں.سعدی کہتا ہے.؎ خوردن برائے زیستن و ذکر کرد ن است تو معتقد کہ زیستن از بہر خوردن است جب انسان کا ایک اصول ہو جاوے کہ زیستن از بہر خوردن است اس وقت اس کی نظر خدا پر
نہیں رہتی بلکہ وہ دنیا کے کاروبار اور تجارت ہی میں منہمک ہوجاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ اور رجوع کا خیال بھی نہیں رہتا.اس وقت اس کی زندگی قابل قدر وجود نہیں ہوتی.ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُ كُمْ(الفرقان:۷۸) یعنی میرا رب تمہاری پروا کیا رکھتا ہے اگر تم اس کی بندگی نہ کرو.مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ اس ملک میں ہیضہ کی خطرناک وبا پڑی تھی اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک کشف کے ذریعہ یہ نظارہ دکھایا تھا.میں نے دیکھا کہ ایک بڑا میدان ہے اور اس میں ایک بہت بڑی لمبی نالی ہے.جس پر قصابوں نے بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور چھریاں ان کی گردنوںپر رکھی ہوئی ہیں.وہ آسمان کی طرف منہ کر کے دیکھ رہے ہیں گویا آسمانی حکم کا انتظار کرتے ہیں.میں پاس ہی ٹہل رہا ہوں اتنے میں میں نے یہ آیت پڑھی قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُ كُمْ یہ آیت سنتے ہی انہوں نے چھریاں پھیر دیں اور بھیڑیں تڑپنے لگیں.ان کو تڑپتے دیکھ کر وہ قصاب بولے کہ تم کیا ہو؟ گُوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو.غرض اس کے بعد ہیضہ کی وہ خطرناک وبا پڑی.پس جو انسان اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتا اس کا رتبہ اور قدر نجاست خور بھیڑ سے زیادہ نہیں ہوتا.دلائل صداقت بالآخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میری نسبت جو مخالف لوگ مخالفت کرتے ہیں اور میرا انکار کرتے ہیں اگر وہ دعائیں کرتے اور خدا تعالیٰ سے میری نسبت کشف حقائق چاہتے تو ان کی آنکھیں کھل جاتیں مگر افسوس ہے کہ انہوں نے مخالفت میں حد سے زیادہ حصّہ لیا اور میرے دعاوی پر نہ غور کی اور نہ میری کتابوں کو پڑھا اور نہ میری باتوں کو تعصّب سے خالی ہو کر سنا.وہ مجھے دجّال اور مفتری تو کہتے ہیں مگر وہ اس اَمر پر غور نہیں کرتے کہ کیا دجّال اور مفتری بھی اس قسم کی کامیابی حاصل کیا کرتے ہیں.یاد رکھو کہ اگر یہ انسان کا اپنا سلسلہ ہوتا تو کبھی کا تباہ ہو جاتا کیونکہ اس کے تباہ کرنے میں ہر طرف سے مخالفانہ کوشش ہو رہی ہے اور جب خدا تعالیٰ کے بھی خلاف ہوتا تو وہ بھی اس کا دشمن تھا.پھر کیا وجہ ہے کہ یہ بجائے تباہ ہونے کے ترقی کر رہا ہے؟اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے انسانی کاروبار نہیں ہے.تم جانتے ہو کہ میرا یہ
دعویٰ آج نہیں ہوا ہے بلکہ چوبیس سال سے میں دعویٰ کر رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہم کلام ہوتا ہے اور اس نے مجھے مامور کیا ہے.انسانی گورنمنٹ میں اگر کوئی شخص جھوٹا ملازم سرکار بنے تو وہ فوراً پکڑا جاتا ہے اور سزا پاتا ہے.تو یہ کیسا اندھیر ہے کہ خدا تعالیٰ کی گورنمنٹ میں ایک شخص مامور ہونے کا مدّعی ہے اور بجائے اس کے کہ وہ پکڑا جاتا اور تباہ کیا جاتا اسے ترقی مل رہی ہے.کوئی بتاوے کیا جھوٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ ہوتا ہے.براہین احمدیہ چھپی ہوئی موجود ہے.اس شہر میں اس کے بہت سے نسخے ہوں گے.اس کو پڑھو اور دیکھو کہ جو کچھ اس میں درج ہے کیا آج بہت سی باتیں ان میں سے پوری نہیں ہو چکیں؟ اور کیا کوئی منصوبہ باز کر سکتا ہے کہ اس قدر عرصہ دراز پہلے جبکہ اپنی زندگی کا بھی اعتبار نہیں ہوتا ایک بات کہے اور پھر اتنے عرصہ کے بعد جس میں ایک بچہ پیدا ہو کر بھی صاحبِ اولاد ہو سکتا ہے وہ پوری ہو جاوے.میں جانتا ہوں کہ اسی شہر میں ایسے لوگ بھی ہیں جو جانتے ہیں کہ اس زمانہ میں مجھے جاننے والے کتنے تھے.میں سچ کہتا ہوں کہ میں ایک گمنامی کی حالت میں تھا.سال بھر میں بھی کبھی ایک خط نہ آتا تھا لیکن اس گمنامی کے زمانہ میں علیم و خبیر خدا نے مجھے خبر دی جو براہین احمدیہ میں موجود ہے کہ ایک زمانہ آنے والا ہے جبکہ فوج در فوج لوگ تیرے پاس آئیں گے.میں لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لاؤں گا اور مالی نصرتیں بھی آئیں گی اور دنیا میں تیری شہرت ہو جائے گی جیسے لکھا ہے فَـحَانَ اَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ اور پھر فرمایا یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ اور یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.اور پھر فرمایا لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَسْئَمْ مِنَ النَّاسِ یعنی اب وقت آگیا ہے کہ تُو لوگوں میں شناخت کیا جاوے اور تیری مدد کی جاوے.تیرے پاس دور دور راہوں سے لوگ آئیں گے اور دور دراز جگہوں سے تجھے تحائف اور مالی نصرتیں آئیں گی.اور پھر فرمایا کہ تیرے پاس کثرت سے مخلوق آئے گی اس لیے تو تحمل سے ان کو قبول کرنا اور ان کی کثرت سے تھک نہ جانا.
غرض اس قسم کے بہت سے الہامات ہیں جو نہ صرف عربی زبان میں ہوئے بلکہ فارسی میں ہوئے اردو میں ہوئے اور انگریزی میں بھی ہوئے جس کو میں جانتا بھی نہیں اور ایک لمبا سلسلہ ان الہامات اور پیشگوئیوںکا چلا گیا ہے اور جہاں براہین ختم ہوتی ہے وہاں یہ الہام ہوا.دنیامیں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.مجھے حیرت آتی ہے جب میں ان لوگوں کے منہ سے سنتا ہوں کہ کوئی نشان دکھاؤ.ان نشانات پر وہ غور نہیں کرتے اور ان کو حقیر سمجھتے ہیں افسوس! اور اَور نشان مانگتے ہیں.میں یقین کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ قادر ہے.وہ نشان پر نشان دکھا رہا ہے لیکن یہ دانشمندی اور تقویٰ کا طریق نہیں ہے کہ پہلے نشانوں کو چھوڑ دیا جائے.ان نشانوں کو سرسری نظر سے نہ دیکھو.مولوی محمد حسین صاحب وہ شخص ہیں کہ ان سے بڑھ کر کسی نے عداوت کا نمبر نہیں لیا.انہوں نے بنارس تک پھر کر کفر کا فتویٰ حاصل کیا.اور ہر قسم کی مخالفت میں انہوں نے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا اور کوئی کسر نہیں چھوڑی.اب باوجود اس مخالفت کے اس کو قسم دے کر پوچھو کہ جب تم نے براہین احمدیہ پر ریویو لکھا اور یہ پیشگوئیاں اور نشان اس میں موجود تھے اس وقت ہمارا کیا حال تھا.کہاں تک میری شہرت تھی اور کس قدر لوگوں کو تعلق تھا.اور کیا اب ان الہامات کے موافق یہ نشانات جو پورے ہوئے ہیں آپ بنائے گئے ہیں؟ اس وقت موجود تھے یا نہیں؟ اور انہوں نے پڑھے تھے یا نہیں؟ اگر پڑھے تھے تو پھر سچ سچ کہو کہ ایسے زمانہ میں جب یہ دعا سکھاتا ہے رَبِّ لَا تَذَرْنِيْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ اور اس میں آپ گواہی دیتا ہے کہ میں اکیلا ہوں.وہ الہامات جو جماعت کی ترقی اور میری قبولیت کے متعلق ہیں عظیم الشان نشان ہیں یا نہیں؟ اگر تعصّب اور سخت دل مانع نہ ہو تو اقرار کرنا پڑے گا.پھر اسی براہین میں یہ بھی موجود ہے کہ علماء ممانعت کریں گے کہ ترقی نہ ہو لیکن میں ترقی دوں گا.اور پھر سب لوگ جانتے ہیں اور ہر روز دیکھتے ہیں کہ کس قدر مخالفت ہو رہی ہے اور کیا اس مخالفت سے یہ سلسلہ رک گیا یا اس نے ترقی کی؟ اگر کوئی ایسی نظیر دنیا میں موجود ہے اور کوئی شخص
ایسی کتاب پیش کر سکتا ہے جس میں ایک عرصہ پہلے ایسی پیشگوئیاں درج ہوں اور وہ پوری ہوئی ہوں.یقیناً یاد رکھو کہ کسی مفتری یا کذّاب سے ایسا سلوک نہیں کیا جاتا اور اس قدر مہلت اور فرصت اسے نہیں دی جاتی.اگر کوئی ایسا مفتری یا کذّاب پیش کیا جاوے تو ہم قبول کر لیں گے.پھر ایسی مخالفت کے متعلق یہ خبر بھی دی گئی تھی کہ ہر مخالفت کرنے والا اپنے منصوبوں اور تجویزوں میں ناکام اور نامراد رہے گا.خواہ وہ مولوی ہو یا فقیر ہو یا امیر ہو، کوئی ہو اور اب تک واقعات نے اس اَمر کو سچا ثابت کر دکھایا ہے اور میں کھلے دل سے بیان کرتا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کی ان پیشگوئیوں اور ان مکالمات پر جو میرے ساتھ ہوتے ہیں ایسا ہی یقین رکھتا ہوں جیسا کہ خدا کی دوسری کتابوں پر ایمان لاتا ہوں.اس نے یہ بھی مجھے فرمایا ہے کہ میں تجھے بہت برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.وہ زمانہ خواہ کبھی آنے والا ہو لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ اسی طرح ہوگا.اس زمانہ کے لوگ دیکھیں گے یا ان کے بیٹے یا ان کے بیٹے.غرض یہ ہوگا ضرور.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایک نقطہ یا شوشہ نہ ٹلے گا.غرض یہ نشانات ہیں جن پر غور کرنا چاہیے اور ٹھنڈے دل سے سوچو کہ مفتری کو یہ تائیدیں نہیں ملا کرتیں.پھر بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم نشانات کو کیا کریں قرآن شریف کے خلاف مسائل پیش کیے جاتے ہیں.مجھے ایسا کہنے والوں پر بھی افسوس آتا ہے کہ اگر ان کا قرآن شریف پر ایمان ہوتا تو ہرگز ایسی بات نہ کہتے کیونکہ ہم نے بارہا ظاہر کیا ہے اور کتابوں میں شائع کیا ہے کہ ہم قرآن شریف پر ایمان لاتے ہیں اگر کوئی شخص ایک آیت کا بھی انکار کرے وہ گمراہ اور جہنمی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرے وہ کافر ہے مگر کیا کروں یہ لوگ بنی اسرائیل کی طرح جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا، نہیں مانتے اور انکار کرتے ہیں.مجھ میں اور ان میں یہی اختلاف ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آیت يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ(اٰلِ عـمران:۵۶) کی ترتیب جو قرآن شریف میں ہے صحیح نہیں ہے مگر میں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے کلام کی نسبت ایسا اعتقاد رکھنا یا گمان کرنا خطرناک بے ادبی اور شوخی ہے.میں کہتا ہوں کہ اس آیت کی ترتیب صحیح ہے اور اسی
لیے اس کے یہ معنے ہیں کہ اے عیسیٰ میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں.مگر یہ لوگ اس ترتیب کو غلط (معاذ اللہ) ٹھہراتے ہیں.اور کہتے کہ رَافِعُكَ اِلَيَّ کی جگہ رَافِعُكَ اِلَی السَّمَآءِ الثَّانِیَۃِ چاہیے اور اس کے بعد مُتَوَفِّيْكَ چاہیے.گویا کہ ان کے اعتقاد کے موافق خدا تعالیٰ کو غلطی لگی.اس نے کہنا تو یہ تھا يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ رَافِعُكَ اِلَی السَّمَآءِ الثَّانِیَۃِ وَمُتَوَفِّيْكَ اور کہہ دیا یہ جو آیت میں درج ہے.اب میں قرآن کو چھوڑتا ہوں اور اس کے خلاف کہتا ہوں یا یہ خود کرتے اور کہتے ہیں.انصاف سے بولو اگر یہ تحریف نہیں تو کیا ہے.اسی پر مجھے کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن کے خلاف ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ قرآن کی تحریف ہے جس سے یہودیوں پر لعنت پڑی اور وہ سؤر اور بندر بنے.یہودی جو تحریف کرتے تھے ان کے متعلق بھی یہی فرمایا ہے يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ (النّسآء:۴۷) اور جب تم بھی اسی قسم کی تحریف کرتے ہو تو قرآن شریف پر تمہارا اچھا ایمان ہے.میں زور سے کہتا ہوں کہ کیا وہ دل خدا ترس ہے اور اس میں تقویٰ کا حصّہ ہے جو خدا تعالیٰ کے کلام میں تصرّف کرنا چاہتا ہے.اگر تم سچے ہو اور تحریف نہیں کرتے تو پھر وہ حدیث صحیح پیش کرو جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ رَافِعُكَ اِلَيَّ کی بجائے رَافِعُكَ اِلَی السَّمَآءِ الثَّانِیَۃِ چاہیے اور یہ متوفّی سے پہلے ہے.قرآن شریف میں جو لکھا ہوا ہے وہ غلط ہے اور تم سن رکھو کہ ہرگز ہرگز کوئی شخص ایسی حدیث صحیح پیش کرنے پر قادر نہ ہوگا.جس قدر صاحب یہاں موجود ہیں آخر ہوش و حواس رکھتے ہیں وہ انصاف سے کہیں کہ اگر کوئی شخص تمسک کو الٹ پلٹ کرتا ہے تو وہ جعلسازی کا مرتکب ہوتا ہے یا نہیں اور وہ اس جعلسازی کی سزا میں جیل میں بھیجا جاتا ہے.پھر یہ اندھیر کیوں روا رکھا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو الٹ پلٹ کیا جاوے.خدا سے ڈرو یہ بہت خطرناک دلیری ہے.ہاں اگر صحیحین میں کوئی حدیث درج ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح پر فرمایا ہے تو پیش کرو ہم مان لیں گے.لیکن اگر تم پیش نہ کرو اورنہیں کر سکو گے تو یہ تقویٰ کے خلاف ہے کہ خود کہہ دو اور دوسری غلطیوں کو قرآن شریف کی
شرح بنالو.ہم بار بار تم سے پوچھیں گے کہ بخاری یا مسلم میں دکھاؤ کہ اس میں لکھا ہے کہ رَافِعُكَ اِلَی السَّمَآءِ الثَّانِیَۃِ پڑھا کرو.دیکھو! ان باتوں پر غور کرو.میرا یہ مدّعا نہیں کہ ہر ایک شخص محض اس وجہ سے کہ وہ میرے ساتھ عداوت رکھتا ہے اور تعصّب نے اس کے جوش کو بڑھا دیا ہے بے اختیار بول اٹھے.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا کہ میں محض خدا تعالیٰ کے لیے کہتا ہوں.انسان کی جھوٹی منطق کبھی ختم نہیں ہوتی ہے.اس لیے میں مقابلہ کرنے کے لیے نہیں آیا ہوں لیکن میں اپنے دل میں مخلوق کی ہمدردی اور بھلائی کے لیے ایک جوش رکھتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا ہے، اس لیے سچے دل سے کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے اپنے پاک کلمات سے مجھے خبر دی ہے.مت سمجھو کہ میں بیہودہ طور پر کہتا ہوں بلکہ سچ مچ یہی بات ہے.پس جلد بازی نہ کرو کہ جلدی صحیح نتیجہ پر پہنچنے سے روک دیتی ہے.میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ اپنے سینے اور دل کو تھام نہیں سکتے اور یہ مرض کثرت سے پھیل گیا ہے کہ مخالفت کی وجہ سے حق بات پر بھی غور نہیں کرتے اور یونہی کوئی بات سنی منہ پر جھاگ آجاتی ہے اور پھر جو زبان پر آتا ہے کہہ دیتے ہیں مگر یاد رکھو یہ اَمر تقویٰ کے خلاف ہے.متقی کی زبان ڈرتی ہے کہ بغیر سوچے سمجھے کوئی بات منہ سے نکالے.میرا معاملہ اگر سمجھ میں نہیں آتا تو طریق تقویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگو تاکہ وہ خود تم پر اصل حقیقت کھول دے.خدا تعالیٰ کے کلام کی بے حرمتی نہ کرو ورنہ طریق نجات بھول جانے کا اندیشہ ہے.آج وقت ہے بصیرت سے کام لو.قرآن شریف قانونِ آسمانی اور نجات کا ذریعہ ہے اگر ہم اس میں تبدیلی کریں تو یہ بہت ہی سخت گناہ ہے.تعجب ہوگا کہ ہم یہودیوں اور عیسائیوں پر بھی اعتراض کرتے ہیں اور پھر قرآن شریف کے لیے وہی روا رکھتے ہیں.مجھے اور بھی افسوس اور تعجب آتا ہے کہ وہ عیسائی جن کی کتابیں فی الواقع محرف مبدل ہیں وہ تو کوشش کریں کہ تحریف ثابت نہ ہو اور ہم خود تحریف کرنے کی فکر!!! دیکھو افترا کرنے والا خبیث اور موذی ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کے کلام میں تحریف کرنا یہ بھی
فترا ہے اس سے بچو.عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا مسئلہ غرض قرآن شریف کی یہ آیت صاف طور پر مسیح کی وفات کا وعدہ دیتی ہے اور جس قدر وعدے اس آیت میں رَافِعُكَ اِلَيَّ سے شروع ہو کر آخر تک ہیں.وہ ہمارے مخالف بھی مانتے ہیں کہ پورے ہو گئے حالانکہ وہ سب بعد وفات ہیں.پھر وفات کا انکار کیوں کیا جاتا ہے.علاوہ بریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخبر صادق ہیں جو مسلمان کہلا کر بھی آپ پر ایمان نہیں لاتا اور آپؐکو مخبر صادق تسلیم نہیں کرتا وہ بڑی بد ذاتی کرتا ہے.آپ نے تو فرمایا ہے کہ میں نے مسیح کو دوسرے آسمان پر یحییٰ کے پاس دیکھا ہے.اب کیا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت ہے یا نہیں.اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام در حقیقت وفات یافتہ نہ تھے بلکہ زندہ تھے تو پھر اس سوال کا کیا جواب ہے کہ ایک وفات یافتہ سے کیا تعلق ہے؟ ان کی تو روح بھی ابھی قبض نہیںہوئی تھی.ادنیٰ فہم کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ مُردے کے پاس تو مُردہ ہی ہو سکتا ہے.پھر یہ کیا ہوا کہ مُردہ کے پاس زندہ جا بیٹھا.یہ صرف اپنی ہی غلطی ہے ورنہ سچ یہی ہے کہ حضرت مسیح بھی مَر کر ہی یحییٰ علیہ السلام کے پاس گئے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے قول سے یعنی قرآن شریف سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل یعنی رؤیت سے ثابت کر دیا.جواس قول اور فعل کو نہیں مانتا اسے پھرمیں کیا کہوں.ان دو گواہوں کے بعد اور کس گواہ کی حاجت ہے.پھر یہاں تک ہی بات نہیں خود حضرت مسیحؑکا تو صاف اقرار بھی موجود ہے اور اس آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ (المآئدۃ:۱۱۸) سے تو اس سارے قضیہ کا فیصلہ ہی ہو جاتا ہے.اس آیت سے پہلی آیتوں میں اس بات کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیحؑسے قیامت کے دن سوال کرے گا کہ کیا تُو نے کہا تھا کہ میری ماں کو اور مجھ کو خدا بنا لو.حضرت عیسیٰ اپنی بریت میں عرض کریں گے کہ میری کیا مجال تھی جو میں ایسی تعلیم دیتا.میں تو جب تک ان میں رہا ان کو تیری توحید ہی کی تعلیم دیتا رہا جو تو نے مجھے دی تھی لیکن جب تُو نے مجھ کو وفات دے دی پھر تو ان پر نگران تھا.
اب غور کا مقام ہے کہ اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ میں جو وعدہ تھا وہ اس آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ سے پورا ہوتا ہے.ماسوا اس کے یہ آیت حضرت مسیحؑکی موت اور ان کی دوبارہ آمد کے متعلق ایک فیصلہ کن آیت ہے اور یہ اس قرآن کی آیت ہے جس کا حرف حرف محفوظ ہے اور جس کی حفاظت کا ذمہ دار خود اللہ تعالیٰ ہے جب کہ اس نے فرمایا ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر:۱۰) افسوس مسلمانوں نے اس کتاب کی قدر نہیں کی!!! اس آیت میں مسیحؑنے اپنی بریت دو صورتوں سے کی ہے.اوّل تو یہ کہ میری زندگی میں عیسائی نہیں بگڑے کیونکہ میں ان کو توحید کی تعلیم دیتا رہا.دوم جب مجھے وفات دے دی مجھے کچھ خبر نہیں.اب غور طلب اَمر یہ ہے کہ حضرت مسیح ابھی تک زندہ ہی ہیں تو صاحبو! پھر ان کے اس اقرار کے موافق یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ابھی تک عیسائی بگڑے بھی نہیں اور جو تعلیم وہ پیش کرتے ہیں وہ صحیح ہے حالانکہ یہ واقعات صحیح کے خلاف ہے.عیسائی ضرور بگڑ چکے ہیں.صاحبو! اگر مسلمانوں کے اس خیالی عقیدہ زندہ آسمان پر جانے کو لے کر اور اس آیت کے موافق عیسائی مسلمانوں پر اعتراض کریں کہ ہماری تعلیم تمہارے اقرار کے موافق بگڑی نہیں ہے تو کیا جواب ہو سکتا ہے؟ کیونکہ یہ اَمر تو حضرت مسیحؑکی زندگی سے وابستہ ہے اور زندگی تسلیم ہے تو پھر دوسری تعلیموں کے انکار کےلیے کیا عذر ہے!!! میں سچ کہتا ہوں کہ مسلمانوں کی خیر اسی میںہے کہ وہ قرآن شریف پر ایمان لاویں اور وہ یہی ہے کہ مسیحؑکی وفات پر ایمان لاویں.دوسری بات جو اس آیت میں فیصلہ کی گئی ہے وہ ان کی دوبارہ آمد کا مسئلہ ہے.مسلمانوں میں غلطی سے یہ عقیدہ مشہور ہوگیا ہے جس کی کوئی اصل نہیں کہ وہی مسیح ابن مریم دوبارہ آسمان سے نازل ہوں گے اور چالیس برس تک اس دنیا میں رہیں گے.صلیبوں کو توڑیں گے اور کافروں سے جنگ کریں گے وغیرہ وغیرہ.اب غور کا مقام ہے کہ ایک نبی صادق کی نسبت یہ عقیدہ رکھنا کہ اس نے جھوٹ بولا یہ تو بے ایمانی ہے.ایک شخص اگر عدالت کے سامنے جھوٹ بولے تو وہ حلف دروغی کی سزا پاتا ہے.پھر علیم و خبیر
عالم الغیب خدا کے حضور قیامت کے دن کسی نبی کو جھوٹ بولنے کی جرأت کب ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں.لیکن یہ عقیدہ جو میں نے ابھی بیان کیا ہے تسلیم کر لیا جاوے اور اس کو صحیح مانا جاوے تو پھر قرآن شریف چھوڑنا پڑے گا اور حضرت مسیح کو معاذ اللہ خدا تعالیٰ کے حضور قیامت کے دن جھوٹ بولنے والا قرار دینا پڑے گا کیونکہ اگر یہ سچ ہے کہ وہی مسیح اتر آئے گا تو پھر خدا تعالیٰ کے سامنے ان کا یہ جواب کہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ صحیح نہیں کیونکہ ان کو تو اس وقت یہ کہنا چاہیے کہ چالیس سال تک آسمان سے اتر کر پھر زمین پر رہا اور میں نے جنگیں کیں، صلیبیں توڑیں اور شریروںکو مارا.کفار کو مسلمان کیا حالانکہ ان کے جواب میں ان باتوں میں سے کسی کا کوئی اثر نہیں پایا جاتا.پھر خدا کے واسطے سوچ کر جواب دو کیا تم یہ تجویز نہ کرو گے کہ حضرت مسیح نے معاذ اللہ جھوٹ بولا اور کیا یہ نبی کی شان ہے کہ خدا کے سامنے جھوٹ بولے؟ جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے اور قرآن پر حملہ کرتا ہے وہ بد ذات اور جہنمی ہے.ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ملعون ہیں جو رسمی بات کے لیے قرآن شریف پر حملہ کرتے ہیں.پس یہ آیت مسیح کی وفات اور ان کی دوبارہ آمد کے متعلق قول فیصل ہے.اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ وفات پاچکےہیں اور وہ دوبارہ نازل نہیں ہوں گے اور قرآن شریف سچا اور حضرت مسیحؑکا جواب بھی سچا ہے.ہاں یہ اَمر کہ آنے والے مسیح سے پھر کیا مراد ہے تو یاد رکھو کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا اور اپنی تائیدوں، نصرتوں اور نشانوں کے ساتھ اسے ثابت کیا وہ یہی ہے کہ آنے والا اسی امت کا ایک فرد کامل ہے اور خدا تعالیٰ کی کھلی کھلی وحی نے ظاہر کیا ہے کہ وہ آنے والا میں ہوںجو چاہے قبول کرے.میرا یہ دعویٰ نرا دعویٰ نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ زبردست ثبوت ہیں جو ایک سلیم الفطرت اور متقی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں.مامور کی صداقت ثابت کرنے کے تین ذرائع یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ جب کسی مامور کو بھیجتا ہے تو تین ذریعوں سے اس سچائی کو ثابت کرتا اور اتمامِ حجّت کرتا ہے.اوّل.نصوص کے ذریعہ یعنی پہلی شہادتوں سے اتمامِ حجّت کرتا ہے.
دوم.نشانات کے ذریعہ جو اس کی تائید میں اور اس کے لیے ظاہر کیے جاتے ہیں.سوم.عقل کے ذریعہ.بعض اوقات یہ تینوں ذریعے جمع ہوجاتے ہیں اور اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ سب ذریعے میری سچائی کو ثابت کر رہے ہیں.پس نصوص کے لیے یاد رکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بخاری اور مسلم میں جس آنے والے کی خبر دی ہے اس کے لیے یہی فرمایا ہے کہ وہ اسی اُمّت میں سے ہوگا.چنانچہ بخاری اور مسلم میں مِنْكُمْ کا لفظ موجود ہے کہیں بھی نہیں فرمایا کہ مِنْ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ اور قرآن شریف میں سورۂ نور میں استخلاف کے وعدہ میں بھی مِنْكُمْ ہی فرمایا ہے.اب بتاؤ کہ قرآن اور حدیث کے نصوص آنے والے کو اسی اُمّت سے ٹھہراتے ہیں یا باہر سے لاتے ہیں اور قرآن شریف یہی زمانہ مسیح موعود کے آنے کا ٹھہراتا ہے.دوم نشانات.وہ نشانات جو میری تائید میں ظاہر ہو چکےہیں اور جو میرے ہاتھ پر پورے ہوئے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کے زندہ گواہ اس وقت لاکھوں انسان موجود ہیں.میں نے اپنی کتاب نزول المسیح میں ڈیڑھ سو کے قریب نشان لکھے ہیں اور بعض کا میں نے ابھی ذکر بھی کیا ہے تاہم وہ نشان جو میرے لیے ظاہر ہوئے وہ بھی تھوڑے نہیں ہیں اور انسانی طاقت میں یہ نہیں کہ وہ ان باتوں کو اپنے لیے خود جمع کر لے.قرآن شریف سے ثابت ہے کہ مسیح موعود اس وقت آئے گا جب چھ ہزار سال کا دور ختم ہوگا اور عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک وہ وقت آگیا ہے.پھر قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے اور احادیثِ صحیحہ اس کی تصدیق کرتی ہیں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ایک نئی سواری پیدا ہوگی جس سے اونٹ بیکار ہوجائیں گے.جب کہ قرآن شریف میں ہے وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ(التّکویر:۵) اور حدیث صحیح میں ہے وَلَیُتْرَکَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْہَا.اب آپ لوگ جانتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بھی ریل تیار ہو رہی ہے.اس عظیم الشان پیشگوئی
کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک اخبار والے نے لکھا ہے کہ مکہ مدینہ والے بھی یہ نظارہ دیکھ لیں گے کہ اونٹوں کی قطاروں کی بجائے ریل گاڑی وہاں چلے گی.قرآن شریف میں جو فرمایا وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (التّکویر:۵) اس کے متعلق نواب صدیق حسن خاں نے لکھا ہے کہ عشار حاملہ اونٹنی کو کہتے ہیں اس لیے یہ لفظ اللہ تعالیٰ نے اختیار فرمایا تاکہ یہ سمجھ آجاوے کہ اسی دنیا کے متعلق ہے کیونکہ حاملہ ہونا تو اسی دنیا میں ہوتا ہے.اسی طرح نہروں کا نکالے جانا.چھاپے خانوں کی کثرت اور اشاعت کتب کے ذریعوں کا عام ہونا اس قسم کے بہت سے نشان ہیں جو اس زمانہ سے مخصوص تھے اور وہ پورے ہوگئے ہیں.ایسا ہی کسوف و خسوف کا نشان جو رمضان میں ہوا یہ حدیث اکمال الدین اور دار قطنی میں موجود ہے.پھر حج کا بند ہونا بھی نشان تھا وہ بھی پورا ہوا.ایک ستارہ نکلنے کی نشانی تھی وہ بھی نکل چکا.طاعون کا نشان تھا وہ بھی پورا ہوگیا.غرض میں کہاں تک بیان کرتا جاؤں یہ ایک لمبا سلسلہ ہے.طالب حق کے لیے اسی قدر کافی ہے.پھر تیسرا ذریعہ عقل ہے اگر عقل سے کام لیا جاوے اور زمانہ کی حالت پر نظر کی جاوے تو صاف طور پر ضرورت نظر آتی ہے.غور سے دیکھو اسلام کی حالت کیسی کمزور ہوگئی ہے.اندرونی طور پر تقویٰ طہارت اٹھ گئی ہے.اوامر و احکامِ الٰہی کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور ارکانِ اسلام کو ہنسی میں اڑایا جاتا ہے اور بیرونی طور پر یہ حالت ہے کہ ہر قسم کے معترض اس پر حملہ کر رہے ہیں اور اپنی جگہ کوشش کرتے ہیں کہ اس کا نام و نشان مٹا دیں.غرض جس پہلو سے دیکھو اسلام کمزور ہوگیا ہے.وہ اسلام جس میں ایک بھی مرتد ہوجاتا تو قیامت آجاتی اس میں تیس لاکھ آدمی مرتد ہوچکا ہے.کیا ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر:۱۰) پورا نہ ہوتا؟ اگر اب اسلام کی خبر نہ لی جاتی تو پھر اور کون سا وقت آنے والا تھا؟
ع پس از آنکہ من نہ مانم بچہ کار خواہی آمد کیا خدا تعالیٰ اس وقت نصرت کرے گا جب یہ نام مٹ جائے گا؟ ایک طرف حدیث میں یہ وعدہ کہ ہر صدی پر مجدّد آئے گا مگر اس وقت جو عین ضرورت کا وقت ہے کوئی مجدّد نہ آئے؟ تعجب ہے تم کیا کہہ رہے ہو! حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تو وہ زمانہ کہ اس میں متواتر نبی آتے رہے اور یہ اُمّت جو خیر الامّت کہلاتی ہے اور خاتم الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُمّت ہے.باوجود اُمّتِ مرحومہ کہلانے کے اس میں جب آئے تو دجّال آئے اور پھر ایک دو نہیں تیس دجّال.گویا خدا کو خطرناک دشمنی ہے.وہ اس کو ایسا تباہ کرنا چاہتا ہے کہ نام و نشان نہ رہے.افسوس! میری مخالفت میں یہ لوگ ایسے اندھے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور شوخی اور بے ادبی کرنے سے باز نہیں آتے.اس کو عملی طور پر وعدوں کا قرار دیتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک شان کرتے ہیں.وفاتِ مسیح علیہ السلام دیکھو! میں کھول کر کہتا ہوں کہ تم اپنے نفسوں پر رحم کرو.اس پیغمبر کی شان میں جو افضل الرسل ہے یہ بے ادبی نہ کرو کہ حضرت مسیح کو اس سے افضل قرار دو.کیا تم نہیںجانتے کہ آپؐکی وفات پر صحابہؓکی کیا حالت ہوئی تھی.وہ دیوانہ وار پھرتے تھے.آپؐکی زندگی ان کو ایسی عزیز تھی کہ حضرت عمرؓ نے تلوار کھینچ لی تھی کہ اگر کوئی آپ کو مُردہ کہے گا تو میں اس کا سر اڑا دوں گا.اس شور پر حضرت ابوبکرؓ آئے اور انہوں نے آگے بڑھ کر آپؐکی پیشانی پر بوسہ دیا کہ آپؐپر خدا دو موتیں جمع نہ کرے گا اور پھر یہ آیت پڑھی مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (اٰلِ عـمران: ۱۴۵) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک رسول ہیں.آپؐسے پہلے جس قدر رسول آئے ہیں سب وفات پاگئے ہیں.صحابہؓ نے جب اس آیت کو سنا تو انہیں ایسا معلوم ہوا کہ گویا یہ آیت اب اتری ہے.انہوں نے معلوم کیا کہ آپؐکے مقابلہ میں کوئی اور زندہ نہیں ہے.تم میں وہ عشق اور محبت نہیں جو صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی ورنہ تم یہ کبھی روانہ رکھتے کہ مسیح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل زندہ کہتے.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر صحابہؓ کے سامنے اس وقت کوئی کہتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو ان میں سے
ایک بھی زندہ نہ رہتا وہ اس قدر آپؐکے عشق اور محبت میں فنا شدہ تھے.حسان بن ثابتؓنے اس موقع پر ایک مرثیہ لکھا ہے جس میں وہ کہتے ہیں.کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرٗ مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ یعنی اے میرے پیارے نبی تُو تو میری آنکھوں کی پتلی تھا اور میرے دیدوں کا نور تھا پس میں تو تیرے مَرنے سے اندھا ہوگیا.اب تیرے بعد میں دوسروں کی موت کا کیا غم کروں.عیسٰیؑ مَرے یا موسٰی مَرے، کوئی مَرے.مجھے تو تیرے ہی مَرنے کا غم تھا.صحابہؓ کی تو یہ حالت تھی مگر اس زمانہ میں اپنے منہ سے اقرار کرتے ہیں کہ نہیں افضل الانبیاء وفات پاگئے اور حضرت مسیح زندہ ہیں.افسوس مسلمانوں کی حالت کیا سے کیا ہو گئی.میں خوب جانتا ہوں اور اس واقعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ کا پہلا اجماع مسیح کی وفات ہی پر ہوا تھا.پھر ان کے خلاف کرنا یہ کون سی عقلمندی اور تقویٰ ہے.میں یہ مانتا ہوں کہ یہ غلطیاں امتدادِ زمانہ کی وجہ سے ہیں.تقویٰ نہیں رہا.جہالت بڑھ گئی ہے.رو بحق ہونا کم ہوگیا ہے.راہِ راست محجوب ہوگیا ہے اور یہی امور ہیں جو میری ضرورت کے داعی ہیں.میں آخر میں پھرکہتا ہوں کہ ان باتوں پر غور کرو.اپنے گھروں میں جا کر تنہائی میں سوچو کہ تم چاہتے ہو کہ اسلام اَور سو سال تک آفتوں کا نشانہ بنا رہے اگر اب تک کوئی نہیں آیا توپھر صدی کا سر تو چلا گیا.بائیس برس گذر چکے.اب اور سو سال تک انتظار کرو.لیکن یاد رکھو کہ اگر مجھے قبول نہ کرو گے تو پھر تم کبھی بھی آنے والے موعود کو نہیں پاؤ گے.میں نے اتنی باتیں کی ہیں.بعض مخالفوں کو فائدہ کی بجائے جوش آئے گا اور وہ ہار جیت کی طرف توجہ کریں گے یہ نہیں کہ رو رو کر دعائیں کریں اور اللہ تعالیٰ سے توفیق اور مدد چاہیں.میری یہی نصیحت ہے کہ تقویٰ کو ہاتھ سے نہ دو اور خدا ترسی سے ان باتوں پر غور کرو اور تنہائی میں سوچو اور آخر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ وہ دعائیں سنتا ہے.۱
بِلا تاریخ (بمقام لاہور) صبح سے شام تک خاص و عام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے لئے تشریف لاتے....عام پبلک کے علاوہ بعض فقرا بھی آتے اور کھڑے ہو کر نعرے لگاتے.ایک ان میں سے سبز پوش صاحب جو کہ ریشمی کرتہ یا چوغہ زیبِ تن کئے ہوئے اور ایک مخمل کی ٹوپی جس پر گوٹہ کناری سے کلمہ شریف اور کچھ اور عبارتیں لکھی ہوئی تھیں.سر پر دھرے ہوئے تشریف لائے اور ملاقات کیخواہش ظاہر کی.حضور کی خدمت میں پہنچ کر اس نے سوال کیا کہ عاشق ہو یا معشوق.آپ نے فرمایا کہ ہم نے سب کچھ کتابوں میں لکھ دیا ہے.وہاں دیکھ لو.اس پر اس نے سوال کیا کہ جو کچھ کتابوں میں لکھا ہے کیا وہ سب سچ ہے؟ آپ نے فرمایا.ہاں.اس پر اس نے درخواست کی کہ اسے تحریر فرما دیجئے.آپ نے حکم دیا کہ ایک ہفتہ کے بعد آنا.ہم لکھ دیویں گے.چنانچہ ایک ہفتہ کے بعد جب وہ سائیں صاحب ۲۸؍تاریخ کو تشریف لائے تو آپ نے یہ عبارت لکھ کر اور اپنی مہر ثبت کر کے ان کے حوالے کی.بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر جو جھوٹوں پر لعنت کرتا ہے یہ گواہی دیتا ہوں کہ جو کچھ میں نے دعویٰ کیا ہے.یا جو کچھ اپنے دعویٰ کی تائید میں لکھا ہے.یا جو میں نے الہامِ الٰہی اپنی کتابوں میں درج کئے ہیں.وہ سب صحیح ہے سچ ہے اور درست ہے.والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ الراقم خاکسار مرزا غلام احمد۱ ۱ الحکم جلد ۸ نمبر ۳۱ مورخہ ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۱تا۶
۲۸؍اگست ۱۹۰۴ء (بمقام لاہور) بیعت کے بعد جماعت کے لوگ مصافحہ کے لئے اُمنڈ پڑے.چونکہ ایسے انبوہ میں دوست دشمن کی تمیز ہونی مشکل تھی اس لئے چند جان نثاروں نے پولیس کو ایما کیا کہ سختی سے لوگوں کو پراگندہ کر دیا جاوے اور خود ایک حلقہ باندھ کر اس روحانی گروہ کے سالار قافلہ کے گرد کھڑے ہوگئے کہ کوئی گزند کسی قسم کا نہ پہنچے.لوگوں سے درشتی ہوتی دیکھ کر آخر کار بنی نوع انسان کے سچے ہمدرد اور غمگسار مرسل من اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نہ رہا گیا اور آپ نے فرمایا کہ ہماری جماعت کے بعض لوگ بعض پر سختی کر رہے ہیں جو کہ ہمیں پسند نہیں.اس لئے ان کو اور پولیس کو منع کر دیا جاوے کہ درشتی سے پیش نہ آویں میں تو کہتا ہوںکہ وَلَا تُصَعِّرْ لِـخَلْقِ اللہِ کا الہام جو ہوا تھا وہ آج ہی کے روز کے لئے ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنا چاہتے ہیں ان کو سختی سے روکا جاتا ہے.پس میں چاہتا ہوں کہ کسی کو روکا نہ جاوے اور سب کو اجازت دی جاوے کہ وہ ملاقات کریں.۱ ۲؍ستمبر۱۹۰۴ء (بمقام لاہور) ایک رو ح پَرور مجلس کی روئیداد بعد نماز جمعہ حضرتِ اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام زائرین اور مشتاقانِ زیارت کے اصرار و خواہش پر اجلاس فرما ہوئے.حاضرین میں سے ہر ایک دوسرے سے پہلے آگے بڑھنا چاہتا تھا ان کے بڑھے ہوئے جوشِ زیارت اور شوقِ ارادت میں انتظام کا ہونا کوئی آسان اَمر نہ تھا.دھکے پر دھکا کھاتے تھے اور آگے بڑھتے جاتے ۱البدر جلد ۳ نمبر ۳۳ مورخہ یکم ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۱
تھا کہ اس مجمع پر نگاہ ڈالنے سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا پتا لگتا تھا اور صاف سمجھ میں آتا تھا کہ یہ جذب اور کشش کسی مفتری اور کذّاب کو نہیں دیا جاتا.آپ خاموش بیٹھے تھے کہ خاکسار ایڈیٹر الحکم نے ایک ارادت مند کی طرف سے عرض کیا کہ وہ کچھ سنانا چاہتا ہے.فرمایا.ہاں سنا دو.اس پر اس شخص نے نہایت پُر درد اور پُر جوش لہجہ میں بزبانِ پنجابی کچھ اشعار سنائے جن میں حضرت حجۃ اللہ کی بعثت، آپ کی صداقت پر بحث تھی اور بالآخر اہلِ لاہور کو خطاب تھا کہ دیکھو! مسیح موعود تمہارے گھر مہمان ہو کر آیا ہے.تمہارا فرض تو یہ ہے کہ تم اس کا اکرام کرو اور نہ یہ کہ سبّ و شتم سے کام لو.مہمانوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک مناسب نہیں.اور پھر طاعون کے زور آور حملوں سے ڈرایا تھا.یہ نظم بہت ہی مؤثر اور رقّت خیز تھی جس کو سن کر اکثر حاضرین رو رہے تھے.نظم ختم ہوجانے کے بعد حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذیل کی تقریر فرمائی.(ایڈیٹر) پیدائش انسانی کی غرض تمام مسلمان جو یہاں اکٹھے ہوئے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ہر ایک کی غرض دین ہے.یہ میںجانتا ہوں کہ کوئی تھوڑا جوش رکھتا ہے کوئی زیادہ لیکن کچھ نہ کچھ غرض دین کی رکھتا ضرور ہے.یقیناً سمجھو کہ ہر شخص اپنے اندازہ کے موافق عمر کا ایک حصّہ کھا چکا ہے.بڑی عمر ہوگئی ہے تب بھی تھوڑے دن باقی ہیں اور تھوڑی ہے تب بھی تھوڑے ہی باقی ہیں کیونکہ گذرنے والے زمانہ کو ہمیشہ تھوڑا خیال کیا جاتا ہے.پس یاد رکھو کہ انسان جو اس مسافر خانہ میں آتا ہے اس کی اصل غرض کیا ہے؟ اصل غرض انسان کی خلقت کی یہ ہے کہ وہ اپنے ربّ کو پہچانے اور اس کی فرمانبرداری کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ(الذّٰرِیٰت:۵۷) میں نے جنّ اور انس کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں.مگر افسوس کی بات ہے کہ اکثر لوگ جو دنیا میں آتے ہیں بالغ ہونے کے بعد بجائے اس کے کہ اپنے فرض کو سمجھیں اور اپنی زندگی کی غرض اور غایت کو مدّ ِنظر رکھیں وہ خدا کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور دنیا کا مال اور اس کی عزّتوں کے ایسے دلدادہ ہوتے ہیں کہ خدا کا حصّہ بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے دل میں تو ہوتا ہی نہیں.وہ دنیا ہی میںمنہمک اور فنا
ہوجاتے ہیں.انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ خدا بھی کوئی ہے ہاں! اس وقت پتا لگتا ہے جب قابض ارواح آکر جان نکال لیتا ہے.پس اس دھوکا سے خبردار رہو.ایسا نہ ہو کہ مَرنے کا وقت آجاوے اور تم خالی کے خالی ہی رہو.یہ شعر اچھا کہا ہے.؎ مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار مباش ایمن از بازیٔ روزگار یک دفعہ ہی پیامِ موت آجاتا ہے اور پتا نہیں لگتا.انسانی ہستی بہت ہی ناپائیدار ہے.ہزار ہامرضیں لگی ہوئی ہیں.بعض ایسی ہیںکہ جب دامن گیر ہو جاتی ہیں تو اس جہان سے رخصت کر کے ہی رخصت ہوتی ہیں.جبکہ حالت ایسی نازک اور خطرناک ہے تو ہر شخص کافرض ہے کہ وہ اپنے خالق اور مالک خدا سے صلح کرلے.اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے اور مسلمانوں نے جس خدا کو مانا ہے وہ رحیم، کریم، حلیم، توّاب اور غفار ہے.جو شخص سچی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اس کے گناہ بخش دیتا ہے.لیکن دنیا میں خواہ حقیقی بھائی بھی ہو یا کوئی اور قریبی عزیز اور رشتہ دار ہو وہ جب ایک مرتبہ قصور دیکھ لیتا ہے پھر وہ اس سے خواہ باز بھی آجاوے مگر اسے عیبی ہی سمجھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کیسا کریم ہے کہ انسان ہزاروں عیب کر کے بھی رجوع کرتا ہے تو بخش دیتا ہے.دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے بجز پیغمبروں کے (جو خدا تعالیٰ کے خُلق میں رنگے جاتے ہیں) جو چشم پوشی سے اس قدر کام لے بلکہ عام طور پر تو یہ حالت ہے جو سعدی نے کہا ہے.ع خدا داند و بپوشد و ہمسایہ نداند و بخروشد پس غور کرو کہ اس کے کرم اور رحم کی کیسی عظیم الشان صفت ہے.یہ بالکل سچ ہے کہ اگر وہ مؤاخذہ پر آئے تو سب کو تباہ کر دے.لیکن اس کا کرم اور رحم بہت ہی وسیع ہے اور اس کے غضب پر سبقت رکھتا ہے.اسلام اور دوسرے مذاہب میں خدا کا تصوّر یہ دین یعنی اسلام جو سچا مذہب ہے اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
ذریعہ ہم کو ملا ہے اس کی سچائی کی یہ زبردست علامت ہے کہ انسانی ضمیر اور فطرت جس قسم کا خدا چاہتی ہے قرآن کریم نے ویسا ہی خدا پیش کیا ہے یعنی اس قسم کے صفات سے متّصف اسے بیان کیا ہے.لیکن چونکہ مقابلہ کے بغیر کسی کی خوبی اور عمدگی کا پتا نہیں لگ سکتا.اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کسی قدر مقابلہ دوسرے مذاہب سے کیا جاوے.اگرچہ ہمارا یہ مذہب ہے اور قرآن شریف سے ایسا ہی ثابت ہوتا ہے کہ کُل عالَم کا ایک ہی خدا ہے.لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مثلاً ہندوؤں کا خدا تو اس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ وہ خدا جو اپنے خیالات اور عقائد کے موافق ہندوؤں نے پیش کیا ہے یا عیسائی جس قسم کا تسلیم کرتے ہیں.نعوذ باللہ یہ کبھی بھی خیال نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کسی اور خدا کی مخلوق ہیں.غرض جب ہم اس خدا کا مقابلہ ان خداؤں سے (جو دوسرے لوگوں نے پیش کیے ہیں) کرتے ہیں تو صاف طور پر اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ خدا جو قرآن شریف نے یا اسلام نے پیش کیا ہے وہی حقیقی خدا ہے.مثلاً اسی مسئلہ عفو گناہ کے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے.خواہ انسان کتنے ہی گناہ کرے لیکن جب سچے دل سے توبہ کرلے اور آئندہ کے لیے گناہوں سے باز آجاوے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا اور اس کے گناہ بخش دیتا ہے لیکن اس کے بالمقابل ہندوؤں نے جس خدا کو پیش کیا ہے وہ اس کے متعلق ہمیںیہ بتاتے ہیں کہ وہ ایسا خدا ہے کہ وہ ایک گناہ کے بدلے کروڑوں جُونوں میں ڈالتا ہے اور جوئیں، پسّو،مچھر، درند، چرند یہاں تک کہ پانی اور ہوا کے کیڑے یہ سب انسان ہی ہیں جو اپنی شامتِ اعمال کی وجہ سے سزائیں بھگتنے کے واسطے ان جونوں میں آئے ہوئے ہیں.دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ جس قدر مخلوقات انسان کے سوا نظر آتی ہیں وہ سب انسان کے گناہوں کے طفیل ہے اور خدا تعالیٰ کو (معاذ اللہ) اب تک ان پر کوئی رحم نہیں آتا اور وہ ایسا سخت دل پرمیشر ہے کہ وہ رحم کر ہی نہیں سکتاجب یہ عقیدہ رکھا جائے گا کہ ہر ایک گناہ کی سزا میں ضرور کئی کروڑ جونوں میں جانا پڑے گا تو گناہ کی معافی اور رحم اور کرم پرمیشر میں کہاں پایا گیا؟ کیونکہ جونوں کے اس چکر سے تو کبھی نجات ہی نہیں ہے حالانکہ فطرتِ انسانی ایک ایسا خدا چاہتی ہے جو انسانی کمزوریوں پر رحم کرتا ہو اور انسان.
کے نادم اور تائب ہونے پر اس کے قصوروں کو معاف کر دے کیونکہ خود انسان میں بھی یہ وصف ایک حد تک پایا جاتا ہے.پھر تعجب کی بات ہوگی کہ انسان تو توبہ اور معافی پر قصور معاف کر دے اور خدا تعالیٰ ایسا کینہ توز (معاذ اللہ ) ہو کہ اسے کسی طرح رحم ہی نہ آوے؟ یہ خیال بالکل غلط اور باطل ہے بلکہ صحیح اعتقاد وہی ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے کہ خدا تعالیٰ بڑا ہی کریم اور رحیم ہے اور وہ سچے رجوع اور حقیقی توبہ پر گناہ بخش دیتا ہے.اس کے بالمقابل عیسائی جو کچھ پیش کرتے ہیں وہ اور بھی عجیب ہے.وہ خدا تعالیٰ کو رحیم تو مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ رحیم ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیںکہ رحم بِلامبادلہ نہیں کر سکتا جب تک بیٹے کو پھانسی نہ دے لے اس کا رحم کچھ بھی نہیں کر سکتا.تعجب اور مشکلات بڑھ جاتی ہیں.جب اس عقیدہ کے مختلف پہلوؤوں پر نظر کی جاتی ہے اور پھر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو پھانسی بھی دیا لیکن یہ نسخہ رحم پھر بھی خطا ہی گیا.سب سے اوّل تو یہ کہ یہ نسخہ اس وقت یاد آیا جب بہت سی مخلوق گناہ کی موت سے تباہ ہوچکی اور ان پر کوئی رحم نہ ہوسکا کیونکہ پہلے کوئی بیٹا پھانسی پر نہ چڑھا اور علاوہ بریں اگرچہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ زید کے سرمیں درد ہو اور بکر اپنا سر پتھر سے پھوڑے اور یہ سمجھا جاوے کہ اس نسخہ سے زید کو آرام ہو جاوے گا لیکن اس کو بفرضِ محال مان کر بھی اس نسخہ کا جو اثر ہوا ہے وہ تو بہت ہی خطر ناک ہے.جب تک یہ نسخہ استعمال نہیں ہوا تھا اکثر لوگ نیک تھے اور توبہ اور استغفار کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلنے کی کوشش کرتے تھے.مگر جب یہ نسخہ گھڑا گیا کہ ساری دنیا کے گناہ خدا بیٹے کے پھانسی پانے کے ساتھ معاف ہوگئے تو اس سے بجائے اس کے کہ گناہ رکتا، گناہ کا ایک اور سیلاب جاری ہوگیا اور وہ بند جو اس سے پہلے خدا کے خوف اور شریعت کا لگا ہوا تھا ٹوٹ گیا.جیسا کہ یورپ کے حالات سے پتا لگتا ہے کہ اس مسئلہ نے وہاں کیا اثر کیا ہے اور فی الحقیقت ہونا بھی یہی چاہیے تھا پھر جب یہ باتہے اور حالت ایسی ہے تو ہم کیوںکر تسلیم کریں کہ وہ خدا جو اس رنگ میںدنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے وہ حقیقی خدا ہے.اس قسم کی غلط تعلیمیں دنیا میں جاری ہوچکی ہیں اور حقیقی خدا کا چہرہ چھپا ہوا تھا جو اللہ تعالیٰ نے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا.آپؐنے آکر دنیا کے سامنے وہ خدا پیش کیا جو انسانی کانشنس اور فطرت چاہتی ہے اور اس کا پورا پورا بیان خدا تعالیٰ کی سچی کتاب قرآن مجید میں ہے.مسلمانوں سے خصوصی خطاب میں اس وقت دوسرے لوگوں کو جو مسلمان نہیںہیں الگ رکھ کر صرف ان لوگوں کے متعلق کچھ کہوں گا جو مسلمان ہیں اور انہیں سے خطاب کروں گا.يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا( الفرقان:۳۱) یاد رکھو قرآن شریف حقیقی برکات کا سر چشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے.یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن شریف پر عمل نہیں کرتے ہیں.عمل نہ کرنے والوں میںسے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے.یہ لوگ تو بہت دور پڑے ہوئے ہیں لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ خدا کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے.اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے.ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں.پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کی کلام سے ایسے غافل اور لاپروا ہیں ان کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفّٰی اور شیریں اور خنک ہے اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفا ہے، یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میںمبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا تو یہ اس کی کیسی بد قسمتی اور جہالت ہے.اسے تو چاہیے تھا کہ وہ اس چشمہ پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اس کے لُطف و شِفا بخش پانی سے حظّ اٹھاتا.مگر وہ باوجود علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر.اور اس وقت تک اس سے دور رہتا ہے جو موت آکر خاتمہ کر دیتی ہے.اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے.مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیوں اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہیے.مگر نہیں اس کی پروا بھی نہیں کی جاتی.ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم اور ایما سے اس طرف بلاوے تو اسے کذّاب
اور دجّال کہا جاتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا قابلِ رحم حالت اس قوم کی ہوگی!!! مسلمانوں کو چاہیے تھا اور اب بھی ان کے لیے یہی ضروری ہے کہ وہ اس چشمہ کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں.اس کی قدر یہی ہے کہ اس پر عمل کریں.اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح ان کی مصیبتوں اور مشکلات کو دور کر دیتا ہے.کاش! مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے یہ ایک نیک راہ پیدا کر دی ہے اور وہ اس پر چل کر فائدہ اٹھائیں.یقیناً یاد رکھو کہ جو شخص سچے دل سے اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اس کی پاک کتاب پر عمل کرتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو لاانتہا برکات سے حصّہ دیتا ہے.ایسی برکات اسے دی جاتی ہیں جو اس دنیا کی نعمتوں سے بہت ہی بڑھ کر ہوتی ہیں.ان میں سے ایک عفو گناہ بھی ہے کہ جب وہ رجوع کرتا اور توبہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے.دوسرے لوگ اس نعمت سے بالکل بے بہرہ ہیں اس لیے کہ وہ اس پر اعتقاد ہی نہیں رکھتے کہ توبہ سے گناہ بھی بخشے جایا کرتے ہیں.ان میں سے بعض تو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ہم کو جونوں میں جانا پڑے گا اور معافی نہیں مل سکتی.عیسائیوں کے اصول کے موافق مسیح کے خون پر ایک بار ایمان لا کر اگر گناہ ہوجاوے تو پھر صلیب مسیح کوئی فائدہ نہیں دے سکتی کیونکہ مسیح دو مرتبہ صلیب پر نہیں چڑھے گا.تو کیا یہ بات صاف نہیں ہے کہ ان دونوں کے لیے بخشے جانے اور نجات کی راہ بند ہے کیونکہ صدورِ گناہ تو رک نہیں سکتا.اگر خدا تعالیٰ کی کسی نعمت کا شکر نہ کرے تو یہ بھی گناہ ہے اور غفلت کرے تو یہ بھی گناہ ہے اور ان گناہوں پر بھی جونوں میں جانا پڑے گا یا مسیح کو دوبارہ صلیب نہیں دیا جاوے گا، اس لیے کلّی طور پر مایوس ہونا پڑے گا مگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ تعلیم نہیں دی.ان کے لیے ہر وقت توبہ کا دروازہ کھلا ہے.جب انسان اس کی طرف رجوع کرے اور اپنے پچھلے گناہوں کا اقرار کر کے اس سے خواستگار معافی ہو اور آئندہ کے لیے نیکیوں کا عزم کرے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دیتا ہے.سچی توبہ اور رجوع اِلَی اللہ کی نصیحت اس لیے میں کہتا ہوں کہ میری باتوں کو متوجہ ہو کر سنو.ایسا نہ ہو کہ یہ باتیں صرف تمہارے کان
تک ہی رہ جائیں اور تم ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھاؤ اور یہ تمہارے دل تک نہ پہنچیں.نہیں بلکہ پوری توجہ سے سنو اور ان کو دل میں جگہ دو اور اپنے عمل سے دکھاؤ کہ تم نے ان کو سر سری طور پر نہیں سنا اور ان کا اثر اسی آن تک نہیں بلکہ گہرا اثر ہے.اس بات کو بخوبی یاد رکھو کہ گناہ ایسی زہر ہے جس کے کھانے سے انسان ہلاک ہوجاتا ہے اور نہ صرف ہلاک ہی ہوتا ہے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے سے رہ جاتا ہے اور اس قابل نہیں ہوتا کہ یہ نعمت اس کو مل سکے.جس جس قدر گناہ میں مبتلا ہوتا ہے اسی اسی قدر خدا تعالیٰ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ روشنی اور نور جو خدا تعالیٰ کے قرب میں اسے ملتی تھی اس سے پَرے ہٹتا جاتا ہے اور تاریکی میں پڑ کر ہر طرف سے آفتوں اور بَلاؤں کا شکار ہوجاتا ہے.یہاں تک کہ سب سے زیادہ خطرناک دشمن شیطان اس پر اپنا قابو پالیتا ہے اور اسے ہلاک کر دیتا ہے.لیکن اس خطرناک نتیجہ سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک سامان بھی رکھا ہوا ہے.اگر انسان اس سے فائدہ اٹھائے تو وہ اس ہلاکت کے گڑھے سے بچ جاتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کے قرب کو پاسکتا ہے.وہ سامان کیا ہے؟ رجوع اِلَی اللہ یا سچی توبہ.خدا تعالیٰ کا نام توّاب ہے.وہ بھی رجوع کرتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ انسان جب گناہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے دور ہوجاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس سے بعید ہوتا ہے.لیکن جب انسان رجوع کرتا ہےیعنی اپنے گناہوں سے نادم ہو کر پھر خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے تو اس کریم رحیم خدا کا رحم اورکرم بھی جوش میں آتا ہے اور وہ اپنے بندہ کی طرف توجہ کرتا ہے اور رجوع کرتا ہے.اس لیے اس کا نام توّاب ہے.پس انسان کو چاہیے کہ اپنے ربّ کی طرف رجوع کرے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع برحمت کرے.شامتِ اعمال انسان جس قدر مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوتا ہے اور دنیا میں اس پر آفتیں آتی ہیں.یہ سب شامتِ اعمال ہی سے آتی ہیں.میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ لوگ ایک دھوکا میں پڑ جاتے ہیں کہ ہم پر اگر مصیبتیں آئیں تو کیا ہوا؟ انبیاء علیہم السلام پر بھی مصیبتیں آتی ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ انبیاء علیہم السلام کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے ان کی
مصائب اور مشکلات کو کوئی نسبت نہیں.انبیاء علیہم السلام کی مصائب میں لذّت ہوتی ہے.وہ قربِ الٰہی کے بڑھانے کا موجب ہوتی ہیں.ان سے محبت بڑھتی ہے اور ان کا فوق العادت استقلال اور رضا و تسلیم اعلیٰ درجہ کی معرفت کا باعث بنتی ہے.برخلاف اس کے یہ مصیبتیں اور بَلائیں وبائیں جو گناہ کی شامت سے آتی ہیں ان میں درد اور تکلیف کے علاوہ خدا سے بُعد ہوتا ہے اور ایک تاریکی چھا جاتی ہے.آخر بالکل تباہی اور بربادی ہوجاتی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک زہر ہے.زہر کھا کر کوئی بچ نہیں سکتا.پس گناہ کی زہر کھا کر یہ توقع کرنا کہ وہ بچ جائے گا خطرناک غلطی ہے.یقیناً یاد رکھو جو گناہ سے باز نہیں آتا وہ آخر مَرے گا اور ضرور مَرے گا.اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور رسل کو اسی لیے بھیجا اور اپنی آخری کتاب قرآن مجید اس لیے نازل فرمائی کہ دنیا اس زہر سے ہلاک نہ ہو بلکہ اس کی تاثیرات سے واقف ہوکر بچ جاوے.قدیم سے سنّت اللہ اسی طرح پر چلی آئی ہے کہ جب دنیا پر گناہ کی تاریکی پھیل جاتی ہے اور انسانوں میں عبودیت نہیں رہتی اور عبودیت اور الوہیت کا باہمی رشتہ ٹوٹ جاتا ہے.انسان سرکشی اور بغاوت اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے اس کی آگاہی اور تنبیہ کے لیے اپنا ایک مامور بھیج دیتا ہے وہ دنیا میں آکر اہلِ دنیا کو اس خطرناک عذاب سے ڈراتا ہے جو ان کی شرارتوں اور شوخیوں کی وجہ سے آنے والا ہوتا ہے اور ان کو اس زہر سے جو گناہ کی زہر ہے بچانا چاہتا ہے جو سعید الفطرت ہوتے ہیں وہ اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں اور سچی توبہ کر کے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن شریر النفس اپنی شرارتوں میں ترقی کرتے اور اس کی باتوں کو ہنسی ٹھٹھے میں اڑا کر خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکاتے ہیں اور آخر تباہ ہوجاتے ہیں.خدا تعالیٰ سے سچا تعلق عبودیت ہو آجکل یہی زمانہ آیا ہوا ہے.خدا تعالیٰ کے ساتھ جو سچا تعلق عبودیت کا ہونا چاہیے اور جو محبت اپنے خالق سے ضروری ہے وہ کہاں ہے؟ ہر ایک شخص اپنی جگہ غور کرے اور اپنے نفس پر قیاس کر کے دیکھے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کے تعلقات کس قدر ہیں آیا وہ دنیا اور اس کی شان و شوکت کو اپنا معبود سمجھتا ہے یا حقیقی خدا کو معبود مانتا ہے؟ اس کے تعلقات اپنے نفس، اہل و عیال اور دوسری مخلوق
کے ساتھ کس قسم کے ہیں؟ ان میں خدا تعالیٰ کا خوف کس درجہ تک ہے؟ ان باتوں پر جب آپ غور کریں گے اور خالی الذہن ہو کر غور کریں گے تو صاف معلوم ہوجائے گا کہ یہ وہ وقت آیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ کوئی رشتہ اور پیوند لوگوں نے رکھا ہی نہیں ہے.اکثر ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کے وجود اور ہستی ہی کا یقین نہیں رکھتے اور جو بعض مانتےہیں کہ خدا ہے ان کا ماننا نہ ماننا برابر ہو رہا ہے کیونکہ وہ تقوَی اللہ اور خَشْیَۃُ اللہ جو خدا تعالیٰ پر ایمان لانے سے پیدا ہوتی ان میں پائی نہیں جاتی.گناہ سے نفرت اور احکامِ الٰہی کی پابندی اور نواہی سے بچنا نظر نہیں آتا.پھر کیوںکر تسلیم کر لیا جاوے کہ یہ لوگ فی الحقیقت خدا تعالیٰ پر ایمان لائے ہوئے ہیں.۱ اور ماسوا اس کے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ جب تک کامل اور پورا تعلق نہ ہو وہ برکات اور فیوض جو اس تعلق کے لازمی نتائج ہیں حاصل نہیں ہوتے.اس کی مثال ایسی ہے کہ جہاں ایک پیالہ پانی کا پی کر سیر ہونا ہو وہاں ایک قطرہ کہاں تک مفید ہوسکتا ہے اور تشنہ لبی کو بجھا سکتا ہے اور جہاں دس تولہ دوا کھانی ہو وہاں ایک چاول یا ایک رَتی سے کیا ہوگا؟ اسی طرح پر جب تک انسان پورے طور پر خدا تعالیٰ کا مطیع اور وفادار بندہ نہیں بنتا اور کامل نیکی نہیں کرتا اس وقت تک اس کے انوار و برکات ظاہر نہیں ہوتے.ادھوری اور ناتمام باتوں سے بعض اوقات ٹھوکر لگتی ہے.ایک شخص نیکی کو اس کے کمال تک تو پہنچاتا نہیں اور اس سے ان ثمرات کی توقع کرتا ہے جو اس کے درجہ کمال پر پیدا ہوتےہیں اور جب وہ نہیں ملتے تو اس سچی اور پاک تعلیم سے بد ظن ہونے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ کچھ بھی نہیں.بہت سے لوگ اس طرح پر بھی گمراہ ہوئے ہیں لیکن میں یقیناً کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے جو تعلیم پیش کی ہے اور جس طریق پر نیکی کی راہیں بتائی ہیں ان پر اور اس درجہ تک عامل ہونے سے انسان وہ تمام کمالات اور برکات حاصل کر سکتا ہے جن کا وعدہ دیا گیا ہے.۱حاشیہ از ایڈیٹر.( وَ لِلہِ دَرُّ مَنْ قَالَ) ؎ از عمل ثابت کن آن نورے کہ در ایمان تست دل چو دادی یوسفے را راہِ کنعان را گزین (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
اسی پاک تعلیم کی سچی اور کامل پیروی سے ولی اللہ اور ابدال بنتے ہیں.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ولی اللہ یا ابدال بننے کے لیے کوئی خاص راہ ہے جو قرآن شریف میں نہیں ہے.وہ سخت نادان اور غلطی پر ہیں.یہی وہ راہ ہے جس سے یہ درجے بھی حاصل ہوتے ہیں.ولی یا ابدال کیا کرتے ہیں؟ یہی کہ وہ سچی تبدیلی کر لیتے ہیں اور قرآن شریف کی تعلیم کا سچا متبع اپنے آپ کو بناتے ہیں اور نیکی کو اس حد اور درجہ تک کرتے ہیں جو اس کے کمالات کے لیے مقرر ہے.یہی نماز، روزہ، زکوٰۃ، صدقات وغیرہ وہ بھی بجا لاتے ہیں، لیکن ان میں اور دوسرے لوگوں میں اس قدر فرق ہے کہ وہ اس حد تک ان اعمالِ صالحہ کو بجا لاتے ہیں کہ ان میں ایک قوت اور طاقت آجاتی ہے اور ان سے وہ افعال سر زد ہوتے ہیں جو دوسروں کی نظر میں خوارق ہوتے ہیں.اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ وہ اعمالِ صالحہ کو پورے طور پر بجا لاتے ہیں.پس جو شخص پوری نیکی کرتا ہے اور اس کو ادھورا اور ناقص نہیں چھوڑتا اور قرآن شریف کی تعلیم کا پورا پابند اپنے آپ کو بنا لیتا ہے وہ یقیناً ولی اور ابدال ہوجاتا ہے جو چاہے بن سکتا ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ اسکے واسطے بڑی دعاؤں کی ضرورت ہے.اور دعا کی تعلیم بھی قرآن شریف کی تعلیم ہے.جس کے لیے جا بجا ہدایت کی گئی ہے بلکہ اس کا شروع ہی دعا سے ہوا ہے.اس بات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جیسے اگر کسی شخص کو زندہ رکھنا مقصود ہے تو ضرور ہے کہ اس کو پوری غذا دی جاوے.چند دانوں پر اس کی زندگی کی امید کرنا خیال خام ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ میں زندگی حاصل کرنے کے لیے پوری نیکیوں کا کرنا ضروری ہے جو اس طریق کو چھوڑتا ہے وہ آج نہیں کل مَرجاوے گا.قرآن شریف نے اسی اصل کو بتایا ہے جو زیادہ حظّ اٹھانا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ زیادہ توجہ کرے.جماعت احمدیہ کے لیے خصوصی نصائح ہماری جماعت (جس سے مخالف بُغض رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ جماعت ہلاک اور تباہ ہوجاوے) کو یاد رکھنا چاہیے کہ میں اپنے مخالفوں سے باوجود ان کے بُغض کے ایک بات میں اتفاق رکھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ یہ جماعت گناہوں سے پاک ہو اور اپنے
چال چلن کا عمدہ نمونہ دکھاوے وہ قرآن شریف کی تعلیم پر سچی عامل ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں فنا ہوجاوے.ان میں باہم کسی قسم کا بُغض و کینہ نہ رہے.وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری اور سچی محبت کرنے والی جماعت ہو.لیکن اگر کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر بھی اس غرض کو پورا نہیں کرتا اور سچی تبدیلی اپنے اعمال سے نہیں دکھاتا وہ یاد رکھے کہ دشمنوں کی اس مراد کو پورا کر دے گا.وہ یقیناً ان کے سامنے تباہ ہوجاوے گا.خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کا رشتہ نہیں اور وہ کسی کی پروا نہیں کرتا.وہ اولاد جو انبیاء کی اولاد کہلاتی تھی یعنی بنی اسرائیل جن میں کثرت سے نبی اور رسول آئے اور خدا تعالیٰ کے عظیم الشّان فضلوں کے وہ وارث اور حقدار ٹھہرائے گئے تھے لیکن جب اس کی روحانی حالت بگڑی اور اس نے راہِ مستقیم کو چھوڑ دیا.سر کشی اور فسق و فجور کو اختیار کیا.نتیجہ کیا ہوا؟ وہ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ ( البقرۃ: ۶۲) کی مصداق ہوئی.خدا تعالیٰ کا غضب ان پر ٹوٹ پڑا اور ان کا نام سؤر اور بندر رکھا گیا.یہاں تک وہ گر گئے کہ انسانیت سے بھی ان کو خارج کیا گیا.یہ کس قدر عبرت کا مقام ہے.بنی اسرائیل کی حالت ہر وقت ایک مفید سبق ہے.اسی طرح یہ قوم جس کو خدا نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے وہ قوم ہے کہ خدا تعالیٰ اس پر بڑے بڑے فضل کرے گا لیکن اگر کوئی اس جماعت میں داخل ہو کر خدا تعالیٰ سے سچی محبت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور کامل اتباع نہیں کرتا وہ چھوٹا ہو یا بڑا کاٹ ڈالا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے غضب کا نشانہ ہوگا.پس تمہیں چاہیے کہ کامل تبدیلی کرو اور جماعت کو بد نام کرنے والے نہ ٹھہرو.خاندانی تفاخر بعض نادان ایسے بھی ہیں جو ذاتوں کی طرف جاتے ہیں اور اپنی ذات پر بڑا تکبّر اور ناز کرتے ہیں.بنی اسرائیل کی ذات کیا کم تھی؟ جن میں نبی اور رسول آتے تھے لیکن کیا ان کی اس اعلیٰ ذات کا کوئی لحاظ خدا تعالیٰ کے حضور ہوا جب اس کی حالت بدل گئی.ابھی میں نے کہا ہے کہ ان کا نام سؤر اور بندر رکھا گیا اور اسے اس طرح پر انسانیت کے دائرہ سے خارج کر دیا.میں نے دیکھا ہے کہ بہت لوگوں کو یہ مرض لگا ہوا ہے خصوصاً سادات اس مرض میں بہت مبتلا ہیں کہ وہ دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں اور اپنی ذات پر ناز کرتے ہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں
کہ خدا تعالیٰ کا قُرب حاصل کرنے کے لیے ذات کچھ بھی چیز نہیں ہے اور اسے ذرا بھی تعلق نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو سیّد وُلدِ آدم اور افضل الانبیاء ہیں.انہوںنے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے صاف طور پر فرمایا کہ اے فاطمہؓ !تو اس رشتہ پر بھروسہ نہ کرنا کہ میں پیغمبر زادی ہوں.قیامت کو یہ ہرگز نہیں پوچھا جاوے گا کہ تیرا باپ کون ہے وہاں تو اعمال کام آئیں گے.میں یقیناً جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے قُرب سے زیادہ دور پھینکنے والی اور حقیقی نیکی کی طرف آنے سے روکنے والی بڑی بات یہی ذات کا گھمنڈ ہے کیونکہ اس سے تکبّر پیدا ہوتا ہے اور تکبّر ایسی شَے ہے کہ وہ محروم کر دیتا ہے.علاوہ ازیں وہ اپنا سارا سہارا اپنی غلط فہمی سے اپنی ذات پر سمجھتا ہے کہ میں گیلانی ہوں یا فلاں سیّد ہوں.حالانکہ وہ نہیں سمجھتا کہ یہ چیزیں وہاںکام نہیں آئیں گی.ذات اور قوم کی بات تو مَرنے کے ساتھ ہی الگ ہو جاتی ہے.مَرنے کے بعد اس کا کوئی تعلق باقی رہتا ہی نہیں.اس لیے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں یہ فرماتا ہے مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ(الزلزال:۹) کوئی برا عمل کرے خواہ کتنا ہی کیوں نہ کرے اس کی پاداش اس کو ملے گی.یہاں کوئی تخصیص ذات اور قوم کی نہیں کی اور پھر دوسری جگہ فرمایا ہے اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ (الـحجرات:۱۴) اللہ تعالیٰ کے نزدیک مکرم وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.پس ذاتوں پر ناز اور گھمنڈ نہ کرو کہ یہ نیکی کے لیے روک کا باعث ہوجاتا ہے.ہاں ضروری یہ ہے کہ نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرو.خدا تعالیٰ کے فضل اور برکات اسی راہ سے آتے ہیں.میں خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت اور ہم جو کچھ ہیں اسی حال میں اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت ہمارے شاملِ حال ہوگی کہ ہم صراطِ مستقیم پر چلیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اور سچی اتباع کریں.قرآن شریف کی پاک تعلیم کو اپنا دستورُ العمل بناویں اور ان باتوں کو ہم اپنے عمل اور حال سے ثابت کریں نہ صرف قال سے.اگر ہم اس طریق کو اختیار کریں گے تو یقیناً یاد رکھو کہ ساری دنیا بھی مل کر ہم کو ہلاک کرنا چاہے تو ہم ہلاک نہیں ہو سکتے.اس لیے کہ خدا ہمارے ساتھ ہوگا.لیکن اگر ہم خدا تعالیٰ کے نافرمان اور اس سے قطع تعلق کر چکے ہیں تو ہماری ہلاکت کے لیے
کسی کو منصوبہ کرنے کی ضرورت نہیں.کسی مخالفت کی حاجت نہیں.وہ سب سے پہلے خود ہم کو ہلاک کر دے گا.ہمیشہ سے سنّت اللہ اسی طرح پر چلی آئی ہے.جب بنی اسرائیل نے خدا تعالیٰ کی نافرمانی اختیار کی اور اس نے گناہ کیا خدا تعالیٰ نے اس قوم کو ہلاک کیا حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پیغمبر ان میں موجود تھے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہ سے سخت بیزار اور متنفّر ہے.وہ کبھی پسند نہیں کر سکتا کہ ایک شخص بغاوت کرے اور اس کو سزا نہ دی جاوے.یہ بات بھی خوب یاد رکھو کہ گنہگار خدا تعالیٰ پر ایمان اور یقین نہیں رکھتا.اگر ایمان رکھتا تو ہرگز گناہ کرنے کی جرأت نہ کرتا.حدیث میں جو آیا ہے کہ چوری کرنے والا یا زانی یا بدکار اپنے فعل کے وقت مومن نہیں ہوتا.اس کا بھی یہی مطلب ہے کیونکہ سچا ایمان تو گناہ سے دور کرتاہے اور شیطان کی کُشتی میں وہ شیطان پر غالب آجاتا ہے لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص علانیہ بدکاری میں مبتلا ہے اور دوسری خطاکاریوں سے باوجودیکہ ان کی بُرائی سے آگاہ ہے باز نہیں آتا تو پھر بجز اس کے اور کیا کہنا پڑے گا کہ وہ خدا پر ایمان نہیں رکھتا.اگر ایمان رکھتا تو کیوں ان بدیوں سے نہ بچتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خدا گناہ سے سخت بیزار ہے اور اس کا نتیجہ بہت ہی بُرا اور تکلیف دِہ ہے.انسانی نفس کے مراتب نفس کی تین حالتیں ہیں یا یہ کہو کہ نفس تین رنگ بدلتا ہے.بچپن کی حالت میں نفس زکیہ ہوتا ہے.یعنی بالکل سادہ ہوتا ہے.اس عمر کے طے کرنے کے بعد پھر نفس پر تین حالتیں آتی ہیں سب سے اوّل جو حالت ہوتی ہے اس کا نام نفسِ امّارہ ہے.اس حالت میں انسان کی تمام طبعی قوتیں جوش زن ہوتی ہیں اور اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے دریا کا سیلاب آجاوے اس وقت قریب ہے کہ غرق ہو جاوے.یہ جوشِ نفس ہر قسم کی بے اعتدالیوں کی طرف لے جاتا ہے.لیکن پھر اس پر ایک حالت اور بھی آجاتی ہے جس کا نام نفسِ لوّامہ ہے.اس کا نام لوّامہ
لیے رکھا گیا ہے کہ وہ بدی پر ملامت کرتا ہے اور یہ حالت نفس کی روا نہیں رکھتی کہ انسان ہر قسم کی بےاعتدالیوں اور جوشوں کا شکار ہوتا چلا جاوے جیسا کہ نفسِ امّارہ کی صورت میں تھا بلکہ نفسِ لوّامہ اسے بدیوں پر ملامت کرتا ہے.یہ سچ ہے کہ نفسِ لوّامہ کی حالت میں انسان بالکل گناہ سے پاک اور بَری نہیں ہوتا مگر اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ اس حالت میں انسان کی شیطان اور گناہ کے ساتھ ایک جنگ ہوتی رہتی ہے.کبھی شیطان غالب آجاتا ہے اور کبھی وہ غالب آجاتا ہے.مگر نفسِ لوّامہ والا خدا تعالیٰ کے رحم کا مستحق ہوتا ہے اس لیے کہ وہ بدیوں کے خلاف اپنے نفس سے جنگ کرتا رہتا ہے اور آخر اسی کشمکش اور جنگ و جدل میں اللہ تعالیٰ اس پر رحم کر دیتا ہے اور اسے وہ نفس کی حالت عطا ہوتی ہے جس کا نام مطمئنّہ ہے یعنی اس حالت میں انسان شیطان اور نفس کی لڑائی میں فتح پاکر انسانیت اور نیکی کے قلعہ کے اندر آکر داخل ہوجاتا ہے اور اس قلعہ کو فتح کر کے مطمئن ہوجاتا ہے.اس وقت یہ خدا پر راضی ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ اس پر راضی ہوتا ہے.کیونکہ یہ پورے طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت میں فنا اور محو ہوجاتا ہے.اور خد اتعالیٰ کی مقادیر کے ساتھ اس کو پوری صلح اور رضا حاصل ہوتی ہے.چنانچہ فرمایا يٰۤاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ ارْجِعِيْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ وَ ادْخُلِيْ جَنَّتِيْ(الـفجر:۲۸تا۳۱) یعنی اے نفس آرام یافتہ جو خدا سے آرام پاگیا ہے اپنے خدا کی طرف واپس چلا آ.تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی.پس میرے بندوں میں مل جا اور میرے بہشت کے اندر آجا.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سچا رجوع اس وقت ہوتا ہے جبکہ خدا تعالیٰ کی رضا سے رضاءِ انسانی مل جاوے.یہ وہ حالت ہے جہاں انسان اولیاء اور ابدال اور مقرّبین کا درجہ پاتا ہے.یہی وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ سے مکالمہ کا شرف ملتا ہے اور وحی کی جاتی ہے اور چونکہ وہ ہرقسم کی تاریکی اور شیطانی شرارت سے محفوظ ہوتا ہے.ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رضا میں زندہ ہوتا ہے.اس لیے وہ ایک ابدی بہشت اور سرور میں ہوتا ہے.انسانی ہستی کا مقصد اعلیٰ اور غرض اسی مقام کا حاصل کرنا ہے اور یہی وہ مقصد ہے جو اسلام کے لفظ میں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے کیونکہ اسلام
سے سچی مُراد یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع اپنی رضا کر لے.بلند تر مراتب پانے کے لیے دعا کی ضرورت ہے مگر سچ یہ ہے کہ یہ مقام انسان کی اپنی قوت سے نہیں مل سکتا.ہاں اس میں کلام نہیں کہ انسان کا فرض ہے کہ وہ مجاہدات کرے.لیکن اس مقام کے حصول کا اصل اور سچا ذریعہ دعا ہے.انسان کمزور ہے جب تک دعا سے قوت اور تائید نہیں پاتا.اس دشوار گذار منزل کو طے نہیں کر سکتا.خود اللہ تعالیٰ انسان کی کمزوری اور اس کے ضعف حال کے متعلق ارشاد فرماتا ہے خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا (النسآء:۲۹) یعنی انسان ضعیف اور کمزور بنایا گیا ہے پھر باوجود اس کی کمزوری کے اپنی ہی طاقت سے ایسے عالی درجہ اور اَرفع مقام کے حاصل کرنے کا دعویٰ کرنا سرا سر خام خیالی ہے.اس کے لیے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے.دعا ایک زبردست طاقت ہے جس سے بڑے بڑے مشکل مقام حل ہو جاتےہیں اور دشوار گذار منزلوں کو انسان بڑی آسانی سے طے کر لیتا ہے کیونکہ دعا اس فیض اور قوت کے جذب کرنے والی نالی ہے جو اللہ تعالیٰ سے آتا ہے.جو شخص کثرت سے دعاؤں میں لگا رہتا ہےوہ آخر اس فیض کو کھینچ لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو کر اپنے مقاصد کو پالیتا ہے.ہاں نری دعا خدا تعالیٰ کا منشا نہیں ہے بلکہ اوّل تمام مساعی اور مجاہدات کو کام میں لائے اور اس کے ساتھ دعا سے کام لے.اسباب سے کام لے.اسباب سے کام نہ لینا اور نری دعا سے کام لینا یہ آدابُ الدّعا سے نا واقفی ہے اور خدا تعالیٰ کو آزمانا ہے اور نرے اسباب پر گر رہنا اور دعا کو لاشَے محض سمجھنا یہ دہریت ہے.یقیناً سمجھو کہ دعا بڑی دولت ہے.جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا اس کے دین اور دنیا پر آفت نہ آئے گی.وہ ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہے جس کے ارد گرد مسلح سپاہی ہروقت حفاظت کرتے ہیں.لیکن جو دعاؤں سے لا پروا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو خود بے ہتھیار ہے اور اس پر کمزور بھی ہے اور پھر ایسے جنگل میں ہے جو درندوں اور موذی جانوروں سے بھرا ہوا ہے.وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی خیر ہرگز نہیں ہے.ایک لمحہ میں وہ موذی جانوروں کا شکار ہوجائے گا اور اس کی ہڈی بوٹی نظر نہ آئے گی.اس لیے یاد رکھو کہ انسان کی بڑی سعادت اور اس کی حفاظت کا اصل
ذریعہ ہی یہی دعا ہے.یہی دعا اس کے لیے پناہ ہے اگر وہ ہر وقت اس میں لگا رہے.قرآنی نصائح کا مغز یہ بھی یقیناً سمجھو کہ یہ ہتھیار اور نعمت صرف اسلام ہی میں دی گئی ہے.دوسرے مذاہب اس عطیہ سے محروم ہیں.آریہ لوگ بھلا کیوں دعا کریں گے جبکہ ان کا یہ اعتقاد ہے کہ تناسخ کے چکر میں سے ہم نکل ہی نہیں سکتے ہیں اور کسی گناہ کی معافی کی کوئی امید ہی نہیں ہے.ان کو دعا کی کیا حاجت اور کیا ضرورت اور اس سے کیا فائدہ؟ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آریہ مذہب میں دعا ایک بے فائدہ چیز ہے اور پھر عیسائی دعا کیوں کریں گے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ دوبارہ کوئی گناہ بخشا نہیں جائے گا کیونکہ مسیح دوبارہ تو مصلوب ہو ہی نہیں سکتا.پس یہ خاص اکرام اسلام کے لیے ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ اُمّت مرحومہ ہے لیکن اگر آپ ہی اس فضل سے محروم ہو جاویں اور خود ہی اس دروازہ کو بند کر دیں تو پھر کس کا گناہ ہے؟ جب ایک حیات بخش چشمہ موجود ہے اور ہر وقت اس میں سے پانی پی سکتا ہے پھر اگر کوئی اس سے سیراب نہیں ہوتا ہے تو خود طالب موت اور تشنہ ہلاکت ہے.اس صورت میں تو چاہیے کہ اس پر منہ رکھ دے اور خوب سیراب ہو کر پانی پی لیوے.یہ میری نصیحت ہے جس کو میں ساری نصائح قرآنی کا مغز سمجھتا ہوں.قرآن شریف کے تیس۳۰ سپارے ہیں اور وہ سب کے سب نصائح سے لبریز ہیں.لیکن ہر شخص نہیں جانتا کہ ان میں سے وہ نصیحت کون سی ہے جس پر اگر مضبوط ہوجاویں اور اس پر پورا عملدرآمد کریں تو قرآن کریم کے سارے احکام پر چلنے اور ساری منہیات سے بچنے کی توفیق مل جاتی ہے.مگر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ کلید اور قوت دعا ہے.دعا کو مضبوطی سے پکڑ لو.میں یقین رکھتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ پھر اللہ تعالیٰ ساری مشکلات کو آسان کر دے گا.لیکن مشکل یہ ہے کہ لوگ دعا کی حقیقت سے ناواقف ہیں اور وہ نہیں سمجھتے کہ دعاکیا چیز ہے؟ دعا یہی نہیں ہے کہ چند لفظ منہ سے بڑ بڑا لیے یہ تو کچھ بھی نہیں.دعا اور دعوت کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کو اپنی مدد کے لیے پکارنا اور اس کا کمال اور مؤثر ہونا اس وقت ہوتا ہے جب انسان کمال دردِ دل اور قلق اور سوز کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اس کو پکارے ایسا کہ اس کی روح پانی کی طرح گداز ہو کر
آستانہ الوہیت کی طرف بہہ نکلے یا جس طرح پر کوئی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور وہ دوسرے لوگوں کو اپنی مدد کے لیے پکارتا ہے تو دیکھتے ہو کہ اس کی پکار میں کیسا انقلاب اور تغیر ہوتا ہے.اس کی آواز ہی میں وہ درد بھرا ہوا ہوتا ہے جو دوسروں کے رحم کو جذب کرتا ہے.اسی طرح وہ دعا جو اللہ تعالیٰ سے کی جاوے اس کی آواز ، اس کا لب و لہجہ بھی اور ہی ہوتا ہے.اس میں وہ رقّت اور درد ہوتا ہے جو الوہیت کے چشمہ رحم کو جوش میں لاتا ہے.اس دعا کے وقت آواز ایسی ہو کہ سارے اعضا اس سے متأثر ہو جاویں اور زبان میں خشوع خضوع ہو.دل میں درد اور رقّت ہو.اعضا میں انکسار اور رجوع اِلَی اللہ ہو اور پھر سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم پر کامل ایمان اور پوری امید ہو.اس کی قدرتوں پر ایمان ہو.ایسی حالت میں جب آستانہ الوہیت پر گرے گا نامُراد واپس نہ ہوگا.چاہیے کہ اس حالت میں بار بار حضورِ الٰہی میں عرض کرے کہ میں گنہگار اور کمزور ہوں تیری دستگیری اور فضل کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا تُو آپ رحم فرما اور مجھے گناہوں سے پاک کر کیونکہ تیرے فضل و کرم کے سوا کوئی اور نہیں ہے جو مجھے پاک کرے.جب اس قسم کی دعا میں مداومت کرے گا اور استقلال اور صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور تائید کا طالب رہے گا تو کسی نا معلوم وقت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نُور اور سکینت اس کے دل پر نازل ہوگی جو دل سے گناہ کی تاریکی دور کرے گی اور غیب سے ایک قوت عطا ہوگی جو گناہ سے بیزاری پیدا کر دے گی اور وہ ان سے بچے گا.اس حالت میں دیکھے گا کہ میرا دل جذبات اور نفسانی خواہشوں کا ایسا اسیر اور گرفتار تھا کہ گویا ہزاروں ہزار زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا جو بے اختیار اسے کھینچ کر گناہ کی طرف لے جاتے تھے اور یا یک دفعہ وہ سب زنجیر ٹوٹ گئے ہیں اور آزاد ہوگیا ہے اور جیسے پہلی حالت میں گناہ کی طرف ایک رغبت اور رجوع تھا اس حالت میں وہ محسوس اور مشاہدہ کرے گا کہ وہی رغبت اور رجوع اللہ تعالیٰ کی طرف ہے.گناہ سے محبت کی بجائے نفرت اور اللہ تعالیٰ سے وحشت اور نفرت کی بجائے محبت اور کشش پیدا ہوگی.یہ ایک زبردست صداقت ہے جو اسلام میں موجود ہے اس کا انکار ہرگز نہیں ہو سکتا اس لیے کہ اس کا زندہ ثبوت ہر زمانہ میں موجود رہتا ہے.میں دعویٰ سے کہتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں
اگر انسان اس اَمر کو سمجھ لے اور وہ دعا کے راز سے آگاہ ہو جاوے تو اس میں اس کی بڑی ہی سعادت اور نیک بختی ہے اور اس صورت میں سمجھو کہ گویا اس کی ساری ہی مرادیں پوری ہوگئی ہیں.ورنہ دنیا کے ھمّ و غم تو اس قسم کے ہیں کہ انسان کو ہلاک کر دیتے ہیں.رُو بخدا ہوجاؤ جو شخص رو بدنیا ہوتا ہے وہ تھوڑی دور چل کر رہ جاتا ہے کیونکہ نامُرادیاں اور ناکامیاں آخر آکر ہلاک کر دیتی ہیں لیکن جو شخص ساری قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ رُو بخدا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ ہی کے لیے اس کی سب حرکات و سکنات ہوتی ہیں تو خدا تعالیٰ دنیا کو بھی ناک سے پکڑ کر اس کا خادم بنا دیتا ہے.اگرچہ اس حالت میں بہت فرق ہوتا ہے.دنیا دار تو دنیا کا دیوانہ ہوتا ہے لیکن یہ رُو بخدا شخص جس کی دنیا خادم کی جاتی ہے دنیا اور اس کی لذّتوں میں کوئی لذّت نہیں پاتا بلکہ ایک قسم کی بد مزگی ہوتی ہے کیونکہ وہ لُطف اور ذوق دنیا کی طرف نہیں ہوتا بلکہ کسی اور طرف ہو جاتا ہے.انسان جب خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے اور ساری راحت اور لذّت اللہ تعالیٰ ہی کی رضا میں پاتا ہے تو کچھ شک نہیں دنیا بھی اس کے پاس آجاتی ہے مگر راحت کے طریق اور ہوجائیں گے.وہ دنیا اور اس کی راحتوں میں کوئی لذّت اور راحت نہیں پاتا.اسی طرح پر انبیاء اور اولیاء کے قدموں پر دنیا کو لا کر ڈال دیا گیا ہے مگر ان کو دنیا کا کوئی مزا نہیں آیا کیونکہ ان کا رخ اور طرف تھا.یہی قانون قدرت ہے جب انسان دنیا کی لذّت چاہتا ہے تو وہ لذّت اسے نہیں ملتی لیکن جب خدا تعالیٰ میں فنا ہو کر دنیا کی لذّت کو چھوڑتا ہے اور اس کی آرزو اور خواہش باقی نہیں رہتی تو دنیا ملتی ہے مگر اس کی لذّت باقی نہیں رہتی.یہ ایک مستحکم اصول ہے اس کو بھولنا نہیں چاہیے.خدا یابی کے ساتھ دنیا یابی وابستہ ہے.خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرے گا اسے تمام مشکلات سے نجات ملے گی اور ایسے طور پر اسے رزق دے گا کہ اسے علم بھی نہ ہوگا.یہ کس قدر برکت اور نعمت ہے کہ ہر قسم کی تنگی اور مشکل سے آدمی نجات پاجاوے اور اللہ تعالیٰ اس کے رزق کا کفیل ہو لیکن یہ بات جیسا کہ خود اس نے فرمایا تقویٰ کے ساتھ وابستہ ہے اور کوئی اَمر اس کے ساتھ نہیں بتایا کہ دنیوی مکر و فریب سے
باتیں حاصل ہوں گی.اللہ تعالیٰ کے بندوں کی علامات میں سےیہ بھی ایک علامت ہے کہ وہ دنیا سے طبعی نفرت کرتے ہیں.پس جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوجاوے اور دنیا اور آخرت کی راحت اسے مل جاوے وہ یہ راہ اختیار کرے.اگر اس راہ کو تو چھوڑتا ہے اور اَور راہیں اختیار کرتا ہے تو پھر ٹکریں مار کر دیکھ لے کہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا.بہت سے لوگ ہوں گے جن کو یہ نصیحت بُری لگے گی اور وہ ہنسی کریں گے لیکن وہ یاد رکھیں کہ آخر ایک وقت آجائے گا کہ وہ ان باتوں کی حقیقت کو سمجھیں گے اور پھر بول اٹھیں گے کہ افسوس ہم نے یونہی عمر ضائع کی لیکن اس وقت کا افسوس کچھ کام نہ دے گا.اصل موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور پیغامِ موت آجائے گا.میں پھر کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کی فکر کرو کیونکہ اگر خدا تعالیٰ مہربان ہوجاوے تو ساری دنیا مہربان ہوجاتی ہے لیکن اگر وہ ناراض ہو تو پھر کوئی بھی کام نہیں آسکتا.جب اس کا غضب آگیا تو دنیا میں کوئی مہربان نہ رہے گا خواہ کیسا ہی مکر و فریب کرے.تسبیحیں ڈالے.بھگوے اور سبز کپڑے پہنے مگر دنیا اس کو حقیر ہی سمجھے گی.اگر چند روز دنیا دھوکا کھا بھی لے تو بھی آخر اس کی قلعی کھل جائے گی اور اس کا مکر و فریب ظاہر ہو جائے گا لیکن جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے دنیا اس کی کتنی ہی مخالفت کرے وہ اپنی مخالفت اور منصوبوں میں کامیاب نہ ہوگی.اس کو گالیاں دے، لعنتیں بھیجے لیکن ایک وقت آجائے گا کہ وہی دنیا اس کی طرف رجوع کرے گی اور اس کی سچائی کا اعتراف اسے کرنا پڑے گا.میں سچ کہتا ہوں کہ اللہ جس کا ہو جاتا ہے دنیا بھی اس کی ہوجاتی ہے.ہاں یہ صحیح ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں ابتداء ً اہلِ دنیا ان کے دشمن ہوجاتے ہیں اور اسے قسم قسم کی تکلیفیں دیتے اور اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں.کوئی پیغمبر اور مرسل نہیں آیا جس نے دکھ نہ اٹھایا ہو.مکّار، فریبی، دکاندار اس کا نام نہ رکھا گیا ہو مگر باوجود اس کے کہ کروڑ ہا بندوں نے اس پر ہر قسم کے تیر چلانے چاہے، پتھر مارے، گالیاں دیں انہوں نے کسی بات کی پروا نہیں کی.کوئی اَمر ان کی راہ میں روک نہیں ہوسکا.وہ دنیا کو خدا تعالیٰ کی کلام سناتے رہے اور وہ پیغام جو
لے کر آئے تھے اس کے پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.ان تکلیفوں اور ایذا رسانیوں نے جو نادان دنیا داروں کی طرف سے پہنچیں ان کو سست نہیں کیا بلکہ وہ اور تیز قدم ہوتے یہاں تک کہ وہ زمانہ آگیا کہ اللہ تعالیٰ نے وہ مشکلات ان پر آسان کر دیں اور مخالفوں کو سمجھ آنے لگی اور پھر وہی مخالف دنیا ان کے قدموں پر آگری اور ان کی راست بازی اور سچائی کا اعتراف ہونے لگا.دل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں وہ جب چاہتا ہے بدل دیتا ہے.تبلیغ کی مشکلات یقیناً یاد رکھو تمام انبیاء کو اپنی تبلیغ میں مشکلات آئی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو سب انبیاء علیہم السلام سے افضل اور بہتر تھے یہاں تک کہ آپ پرسلسلہ نبوت اللہ تعالیٰ نے ختم کر دیا یعنی تمام کمالاتِ نبوت آپ پر طبعی طور پر ختم ہوگئے.باوجود ایسے جلیل الشان نبی ہونے کے کون نہیں جانتا کہ آپؐکو تبلیغ رسالت میں کس قدر مشکلات اور تکالیف پیش آئیں اور کفار نے کس حد تک آپؐکو ستایا اور دکھ دیا.اس مخالفت میں اپنی ہی قوم اور چچا اور دوسرے بزرگ سب سے بڑھ کر حصّہ لینے والے تھے.آپؐکی مصیبتوں اور تکلیفوں کا زمانہ اتنا لمبا ہوا کہ تیرہ برس تک اپنی قوم سے ہر قسم کے دکھ اٹھاتے رہے.اس حالت میں کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص کامیاب ہوگا کیونکہ ہر طرف مخالفت کا بازار گرم تھا اور خود اپنے رشتہ دار ہی تشنہ خون ہو رہے تھے.جدّی اور برادری کے لوگوں نے جب قبول نہ کیا تو اَوروں کو اور بھی مشکلات پیش آگئے.غرض اس طرح پر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مصیبتوں کا زمانہ دراز ہوگیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس قسم کے مشکلات پیش نہیں آئے کیونکہ حضرت موسٰی کی قوم بنی اسرائیل نے ان کو فوراً قبول کر لیا تھا اس لیے قوم کی طرف سے کوئی دکھ اورمصیبت یا روک ان کو پیش نہیں آئی لیکن برخلاف اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ہی قوم سے مشکلات اور انکار کا مرحلہ پیش آیا.پھر ایسی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابیاں کیسی اعلیٰ درجہ کی ثابت ہوئی ہیں جو آپ کے کمالات اور فضائل کا سب سے بڑھ کر ثبوت ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اللہ تعالیٰ کے اِذن و اَمر سے تبلیغ شروع کی تو پہلے ہی آپؐکو یہ مرحلہ پیش آیا کہ قوم نے انکار
کیا.لکھا ہے کہ جب آپؐنے قریش کی دعوت کی اور سب کو بلا کر کہا کہ میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں اس کا جواب دو یعنی میں اگر تمہیں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑی بھاری فوج پڑی ہوئی ہے اور وہ اس گھات میں بیٹھی ہوئی ہے کہ موقع پاکر تمہیں ہلاک کر دے تو کیا تم باور کرو گے.سب نے بالاتفاق کہا کہ بیشک ہم اس بات کوتسلیم کریں گے اس لیے کہ تو ہمیشہ سے صادق اور امین ہے.جب وہ یہ اقرار کر چکے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو میں سچ کہتا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کا پیغمبر ہوں اور تم کو آنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں.اتنی بات کہنی تھی کہ سب آگ ہو گئے اور ایک شریر بول اٹھا.تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْیَوْمِ.افسوس جو بات ان کی نجات اور بہتری کی تھی نا عاقبت اندیش قوم نے اس کو ہی بُرا سمجھا اور مخالفت پر آمادہ ہوگئے.اب اس کے بالمقابل موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو دیکھو بنی اسرائیل باوجودیکہ ایک سخت دل قوم تھی لیکن انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ پر فوراً ہی اس کو قبول کر لیا اور اس طرف موسیٰ علیہ السلام سے افضل کو قوم نے تسلیم نہ کیا اور مخالفت کے لیے تیار ہوگئے.مصائب کا سلسلہ شروع ہوگیا.آئے دن قتل کے منصوبے ہونے لگے اور یہ زمانہ اتنا لمبا ہوگیا کہ تیرہ برس تک برابر چلا گیا.تیرہ برس کا زمانہ کم نہیں ہوتا.اس عرصہ میں آپؐنے جس قدر دکھ اٹھائے ان کا بیان بھی آسان نہیں ہے.قوم کی طرف سے تکالیف اور ایذا رسانی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جاتی تھی اور ادھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر اور استقلال کی ہدایت ہوتی تھی اور بار بار حکم ہوتا تھا کہ جس طرح پہلے نبیوں نے صبر کیا ہے تو بھی صبر کر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کمال صبر کے ساتھ ان تکالیف کو برداشت کرتے تھے اور تبلیغ میں سست نہ ہوتے تھے بلکہ قدم آگے ہی پڑتا تھا اور اصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر پہلے نبیوں کا سا نہ تھا کیونکہ وہ تو ایک محدود قوم کے لیے مبعوث ہو کر آئے تھے اس لیے ان کی تکالیف اور ایذارسانیاں بھی اسی حد تک محدود ہوتی تھیں.۱ لیکن اس کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر بہت ہی بڑا تھا کیونکہ سب سے اوّل تو اپنی ہی قوم آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالف ہوگئی اور ایذا رسانی
کے دَر پے ہوئی اور پھر عیسائی بھی دشمن ہوگئے.جب ان کو سنایا گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف ایک خدا کے بندے اور رسول تھے تو ان کو آگ لگ گئی کیونکہ وہ تو ان کو خدا بنائے بیٹھے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر حقیقت کھول دی.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انسان جس کو خدا بنا لیتا ہے اور اپنا معبود مانتا ہے.اس کا ترک کرنا آسان نہیں ہوتا بلکہ پھر اس کو چھوڑنا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے.عیسائیوںکا یہ اعتقاد پختہ ہوگیا ہوا تھا اس لیے جب انہوں نے سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مصنوعی خد اکو انسان بنا دیا تو وہ دشمن جان بن گئے اور اسی طرح پر یہودیوں میں بہت سی مشرکانہ رسومات پیدا ہوگئی تھیں اور وہ حضرت مسیح کا بالکل انکار کرتے تھے.جب ان کو متنبہ کیا گیا تو وہ بھی مخالفت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے.وہ تو حضرت مسیح کو معاذ اللہ مکّار اور کذّاب کہتے تھے.بالمقابل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بتایا کہ تم ان کو کذّاب کہنے میں خود کذّاب ہو.وہ خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ نبی ہے.اس کے علاوہ ان کی مخالفت کی ایک بڑی بھاری وجہ یہ ہوئی کہ وہ اپنی بے وقوفی اور کم فہمی سے یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ خاتم الانبیاء بنی اسرائیل میں سے آئے گا کیونکہ توریت میں جیسا کہ سنّت اللہ ہے آخری نبی کے متعلق جو پیشگوئی ہے وہ ایسے الفاظ میں ہے جس سے ان کو یہ شبہ پیدا ہوگیا تھا وہاں لکھا ہے کہ تمہارے بھائیوں میں سے.وہ اس سے مراد بنی اسرائیل ہی لیے بیٹھے تھے حالانکہ اس سے مراد بنی اسماعیل تھی.پس جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ سنا کہ وہ خاتم الانبیاء ہیں تو ان کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیااور جو کچھ وہ توریت کی اس پیشگوئی کے موافق سمجھے بیٹھے تھے وہ غلط قرار دیا گیا.اس سے ان کے آگ لگی اور وہ مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے.پیشگوئیوں کے متعلق سنّت اللہ اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں میں سنّت اللہ یہی ہے کہ ان میں اخفا اور ابتلا کا بھی ایک پہلو ہوتا ہے کیونکہ اگر یہ پہلو نہ رکھا جاوے تو پھر کوئی اختلاف ہی نہ رہے اور سب کا ایک ہی مذہب ہوجاتا.مگر خدا تعالیٰ نے امتیاز کے لیے ایسا ہی چاہا ہے کہ پیشگوئیوں میں ایک ابتلا کا پہلو رکھ دیتا ہے.کوتاہ اندیش
ظاہر پرست اس پر اَڑ جاتے ہیں اور اصل مقصد سے دور جا پڑتے ہیں.اسی طرح پر ان یہودیوں کو یہ مشکل پیش آئی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق شک میں پڑ گئے.اگر تورات میں وہ پیشگوئی صاف الفاظ میں ہوتی کہ آنے والا نبی بنی اسماعیل میں سے ہوگا اور اس کا نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہوگا.اس کے باپ کا نام عبد اللہ بن عبد المطلب ہوگا اور اس کی ماں کا نام آمنہ ہوگا تو یہودی کیوںکر انکار کرتے؟ مگر ان کی بد قسمتی سے پیشگوئی میں ایسی صراحت نہ تھی.وہاں لکھا تھا کہ تیرے بھائیوں میں سے وہ اس سے مراد بنی اسرائیل ہی سمجھتے رہے.ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت بھی یہودیوں کو ٹھوکر لگی تھی.ملاکی نبی کی کتاب میں حضرت مسیح کے آنے سے پہلے ایلیا کے آنے کی پیشگوئی درج ہے.جب حضرت مسیح آگئے اور انہوںنے دعویٰ کیا تو یہودی مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے کہ پہلے الیاس کا آنا ضروری ہے.اس لیے وہ انکار کرنے لگے چنانچہ انہوں نے خود حضرت مسیح سے یہی سوال کیا کہ الیاس کا آنا جو مسیح سے پہلے ضروری ہے وہ کہاں ہے؟ حضرت مسیح نے کہا کہ آنے والا الیاس آگیا ہے یعنی وہ یوحنا ابن زکریا کے رنگ میں آیا ہے چاہو تو قبول کرو مگر یہ بات ان کی تسلّی کا موجب کیوںکر ہو سکتی تھی.وہ اس بات پر اڑے رہے کہ وہاں کسی مثیل کے آنے کی خبر تو دی نہیں گئی وہاں تو خود ایلیا کے آنے کا وعدہ ہے.اس بِنا پر وہ انکار کرتے رہے اور دکھ اور تکلیفیں بھی پہنچاتے رہے یہاں تک کہ اب بھی یہودی یہی یقین رکھتے ہیں.میرے پاس ایک فاضل یہودی کی کتاب ہے.اس نے اس مسئلہ پر ایک لمبی بحث کی ہے اور کہا ہے کہ ہم اس مسیح کو کیوںکر قبول کر سکتے تھے جبکہ اس سے پہلے ایلیا نہیں آیا.یہ شخص جو یسوع مسیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کا دعویٰ بناوٹی اور جھوٹا ہے کیونکہ وہ ایلیا کے دوبارہ آنے کی جھوٹی تاویل کرتا ہے.ہم اس کے خالہ زاد بھائی یحییٰ کو کیوںکر ایلیا سمجھ لیں پھر وہ لوگوں کے سامنے اپیل کرتا ہے کہ ہم کس طرح پر اس شخص کے دعویٰ کو تسلیم کر لیں جبکہ ہمیں یہ خبر دی گئی تھی کہ پہلے ایلیا آئے گا.اس میں کسی مثیل کا وعدہ نہیں کیا گیا.آخر میں کہتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ قیامت کو ہم سے سوال کرے گا کہ کیوں اس مسیح کو قبول نہیں کیا تو ہم ملاکی نبی کی کتاب کھول کر اس کے سامنے رکھ دیں گے
اس قسم کے مشکلات ان لوگوں کو کیوں پیش آئے؟ اس کی وجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں پر غور نہیں کیا اور ظاہر الفاظ پر اَڑے رہے.اسی قسم کے مشکلات اس وقت مسلمانوں کو پیش آئے ہیں لیکن اگر غور کیا جاوے تو ان کے سامنے تو کوئی نظیر اور فیصلہ موجود نہ تھا لیکن ان کے سامنے تو دوبارہ آنے کا مقدمہ فیصل شدہ موجود ہے جو خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عدالت سے فیصل ہو چکا ہے.انہوں نے تاویل کر کے بتا دیا تھا کہ دوبارہ آنے والے شخص سے مراد وہی نہیں ہوتا.پھر کس قدر افسوس ہے ان پر کہ یہ اس فیصلہ سے فائدہ نہیں اٹھاتے لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ حُـجْرٍ وَّاحِدٍ مَّرَّتَیْنِ.یہودیوں کو جس پتھر سے ٹھوکر لگی اور وہ لعنتی ہوگئے اسی پتھر سے یہ ٹھوکر کھاتے ہیں.یہودی اس وقت دنیا میں موجود ہیں.ان کی کتابیں موجود ہیں.ان سے دریافت کر لو کہ کیا ان کا یہ عقیدہ تھا یا نہیں کہ مسیح سے پہلے الیاس آئے گا اور ملاکی نبی کی کتاب میں یہ پیشگوئی درج ہے یا نہیں؟ اور پھر عیسائیوں سے پوچھو اور انجیل میں اس فیصلہ کو پڑھو جو مسیح نے خود کیا ہے.مومن تو دوسرے کی مصیبت سے عبرت پکڑتا ہے لیکن ان مسلمانوں نے اس سے کیا سبق سیکھا؟ یہودی عقیدہ ہے جس کی وجہ سے یہودی واصل جہنم ہوئے اب کیا یہ بھی یہی چاہتے ہیں؟ میں حیران ہوتا ہوں کہ ان عقلوں کو کیا ہوگیا؟ اگر حضرت مسیح کا وہ فیصلہ جو انہوں نے الیاس کے دوبارہ آنے کے متعلق کیا ہے صحیح نہیں ہے تو پھر مجھے جواب دیں کہ حضرت مسیح سچے پیغمبر کیوںکر ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ اس میں تو کوئی کلام اور شبہ ہی نہیں کہ ان کے آنے سے پیشتر ایلیا کا آنا ضروری تھا اور ایلیا آسمان سے نہیں آیا.پھر حضرت مسیحؑکیوںکر سچے نبی ٹھہریں گے؟ اس عقیدہ فاسدہ سے یہی نہیں کہ یہودیوںکی طرح حضرت عیسٰیؑ کی رسالت سے انکار کرنا پڑے گا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت بھی معاذ اللہ ہاتھ سے جائے گی کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آمد اور بعثت حضرت مسیحؑکے بعد ہے اور جب ابھی تک مسیحؑبھی نہیں آیا تو پھر اسلام کیوںکر صحیح ہوگا؟ سوچو اور غور کرو کہ تمہاری ذرا سی ٹھوکر کا اثر کہاں تک پہنچتا ہے
سنو اصل حقیقت یہی ہے اور سچا فیصلہ وہی ہے جو حضرت مسیحؑنے کر دیا تھا.اس سے منہ پھیرنا اچھا نہیں ہے.فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(الانبیآء:۸) غرض انبیاء علیہم السلام کو اپنی تبلیغ کی راہ میں بہت سی مشکلات ہوتی ہیں اور ان کے مصائب میں سے یہ بھی بڑی مصیبت ہے کہ جس قدر دیر نبی کی کامیابی میں ہوگی اسی قدر ھمّ و غم اس کا پڑے گا.میں ان مشکلات سے الگ نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو بھی منہاجِ نبوت پر قائم کیا ہے.جماعت میں شامل ہونے والوں کے لیے نصائح ہماری جماعت کے لیے بھی اسی قسم کے مشکلات ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مسلمانوں کو پیش آتے تھے.چنانچہ نئی اور سب سے پہلی مصیبت تو یہی ہے کہ جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو معاً دوست، رشتہ دار اور برادری الگ ہوجاتی ہے یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اور بھائی بہن بھی دشمن ہوجاتے ہیں.السلام علیکم تک کے روادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنا نہیں چاہتے.اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں.میں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے.تم انبیاء و رسل سے زیادہ نہیں ہو.ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئیں اور یہ اسی لیے آتی ہیں کہ خدا تعالیٰ پر ایمان قوی ہو اور پاک تبدیلی کا موقع ملے.دعاؤں میں لگے رہو.پس یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء و رُسل کی پیروی کرو اور صبر کے طریق کو اختیار کرو.تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا.وہ دوست جو تمہیں قبولِ حق کی وجہ سے چھوڑتا ہے وہ سچا دوست نہیں ہے.ورنہ چاہیے تھا کہ تمہارے ساتھ ہوتا.تمہیں چاہیے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خد اتعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کر لی ہے ان سے دنگہ یا فساد مت کرو بلکہ ان کے لیے غائبانہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے.تم
اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے.دیکھو میں اس اَمر کے لیے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہرقسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو.بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو.بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بڑے جوش کے ساتھ مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا ہے جو مفسدانہ طریق ہو جس سے سننے والوں میں اشتعال کی تحریک ہو لیکن جب سامنے اسے نرم جواب ملتا ہے اور گالیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاتا تو خود اسے شرم آجاتی ہے اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہونے لگتا ہے.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو.صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے نکلتا ہے.صبر ہی ہے جو دلوں کو فتح کر لیتا ہے.یقیناً یاد رکھو کہ مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے.اس طریق کو میں ہرگز پسند نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے بلکہ میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ یہاں تک اس اَمر کی تائید کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس جماعت میں ہو کر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یاد رکھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے.نہایت کار اشتعال اورجوش کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں تو اس معاملہ کو خدا کے سپرد کر دو.تم اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے.میرا معاملہ خدا پر چھوڑ دو.تم ان گالیوں کو سن کر بھی صبر اور برداشت سے کام لو.تمہیںکیا معلوم ہے کہ میں ان لوگوں سے کس قدر گالیاں سنتا ہوں.اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گندی گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط آتے ہیں اور کھلے کارڈوں میں گالیاں دی جاتی ہیں.بے رنگ خطوط آتے ہیں جن کا محصول بھی دینا پڑتا ہے اور پھر جب پڑھتے ہیں تو گالیوں کا طومار ہوتا ہے.ایسی فحش گالیاں ہوتی ہیں کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ کسی پیغمبر کو بھی ایسی گالیاں نہیں دی گئی ہیں.اور میں اعتبار نہیں کرتا کہ ابوجہل میں بھی ایسی گالیوں کا مادہ ہو لیکن یہ سب کچھ سننا پڑتا ہے.جب میں صبر کرتا ہوں تو تمہارا فرض ہے کہ تم بھی صبر کرو.
درخت سے بڑھ کر تو شاخ نہیں ہوتی.تم دیکھو کہ یہ کب تک گالیاں دیں گے.آخر یہی تھک کر رہ جائیں گے.ان کی گالیاں ان کی شرارتیں اور منصوبے مجھے ہرگز نہیں تھکا سکتے.اگر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو بیشک میں ان کی گالیوں سے ڈر جاتا لیکن میں یقیناً جانتا ہوں کہ مجھے خدا نے مامور کیا ہے پھر میں ایسی خفیف باتوں کی کیا پروا کروں.یہ کبھی نہیں ہوسکتا.تم خود غور کرو کہ ان کی گالیوں نے کس کو نقصان پہنچایا ہے ان کو یا مجھے؟ ان کی جماعت گھٹی ہے اور میری بڑھی ہے.اگر یہ گالیاں کوئی روک پیدا کر سکتی ہیں تو دو لاکھ سے زیادہ جماعت کس طرح پیدا ہوگئی.یہ لوگ ان میں سے ہی آئے ہیں یا کہیں اَور سے؟ انہوںنے مجھ پر کفر کے فتوے لگائے لیکن اس فتویٰ کفر کی کیا تاثیر ہوئی؟ جماعت بڑھی اگر یہ سلسلہ منصوبہ بازی سے چلایا گیا ہوتا تو ضرور تھا کہ اس فتویٰ کا اثر ہوتا اور میری راہ میں وہ فتویٰ کفر بڑی بھاری روک پیدا کر دیتا.لیکن جو بات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو انسان کا مقدور نہیں ہے کہ اسے پامال کرسکے.جو کچھ منصوبے میرے مخالف کئے جاتے ہیں پہچان کرنے والوں کو حسرت ہی ہوتی ہے.میں کھول کر کہتا ہوں کہ یہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیں ایک عظیم الشان دریا کے سامنے جو اپنے پورے زور سے آرہا ہے اپنا ہاتھ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اس سے رک جاوے مگر اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ رک نہیں سکتا.یہ ان گالیوں سے روکنا چاہتےہیں مگر یاد رکھیںکہ کبھی نہیں رکے گا.کیا شریف آدمیوں کا کام ہے کہ گالیاں دے.میں ان مسلمانوں پر افسوس کرتا ہوں کہ یہ کس قسم کے مسلمان ہیں جو ایسی بیباکی سے زبان کھولتےہیں.میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایسی گندی گالیاں میں نے تو کبھی کسی چوڑھے چمار سے بھی نہیں سنی ہیں جو ان مسلمان کہلانے والوں سے سنی ہیں.ان گالیوں میں یہ لوگ اپنی حالت کا اظہار کرتے ہیں اور اعتراض۱ کرتے ہیں کہ وہ فاسق و فاجر ہیں.خدا تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور ان پر رحم کرے.(آمین) ایسے گالیاں دینے والے خواہ ایک کروڑ ہوں خدا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے.یہ جانتے ہیں کہ ایک
پیسہ کا کارڈ ہی ضائع ہوگا مگر نہیں جانتے کہ اس پیسہ کے نقصان کے ساتھ نامہ اعمال بھی سیاہ ہوجائے گا.پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ گالیاں دی کیوں جاتی ہیں.کیا صرف اس لیے کہ میں کہتا ہوں قرآن شریف کو نہ چھوڑو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب نہ کرو.غضب کی بات ہے کہ قرآن شریف میں لکھا ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے اور پھر زمین پر نہیں آئیں گے مگر یہ ماننے میںنہیں آتے اور اس عقیدۂ مخالفت قرآن شریف پر اَڑتے ہیں.اگر میں نہ آیا ہوتا اور خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم نہ کیا ہوتا تو یہ جو کچھ چاہتے کہتے کیونکہ ان کو بیدار کرنے والا اور آگاہ کرنے والا ان میںموجود نہ تھا.لیکن اب جب کہ خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے اور میں وہی ہوں جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حَکم قرار دیا ہے تو پھر میرے فیصلہ پر چُون و چَرا کرنا ان کا حق نہیں تھا.طریق تقویٰ تو یہ تھا کہ میری باتوں کو سنتے اور غور کرتے انکار کے لیے جلدی نہ کرتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میرے آنے کے بعد ان کا حق نہیں ہے کہ یہ زبان کھولیں کیونکہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور حَکم ہو کر آیا ہوں.۱ ابھی بہت زمانہ نہیں گذرا کہ مقلّد غیر مقلّدوں کی غلطیاں نکالتے اور وہ ان کی غلطیاں ظاہر کرتے اور اس طرح پر دوسرے فرقے آپس میں درندوں کی طرح لڑتے جھگڑتے تھے.ایک دوسرے کو کافر کہتے اور نجس بتاتے تھے.اگر کوئی تسلّی کی راہ موجود تھی تو پھر اس قدر اختلاف اور تفرقہ ایک ہی قوم میں کیوں تھا؟ غلطیاں واقع ہو چکی تھیں اور لوگ حقیقت کی راہ سے دور جا پڑے تھے.ایسے اختلاف کے وقت ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ خود فیصلہ کرتا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور ایک حَکم ان میںبھیج دیا.اب بتاؤ کہ میں نے کیا زیادتی کی ہے یا کیا قرآن شریف سے کم کر دیا ہے جو میری مخالفت کے لیے اس قدر جوش پیدا ہوا ہوا ہے.۱ اس مقام پر پہنچ کر حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز اور تقریر میں ایک خاص جلال اور شوکت تھی جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، آپؐکی عظمت جو آپ کے دل میں ہے معلوم ہوتی تھی.تقریر میں غیر معمولی زور تھا اور وہ پُر زور دریا کی طرح بہہ رہی تھی.پورے طور پر ہم قادر نہیںہو سکے کہ اس حصّہ کو قلمبند کر سکیں تاہم جس قدر کوشش اور سعی سے ہوسکا قلمبند کیا ہے.(ایڈیٹر الحکم)
یہ سچ ہے کہ اس وحی کی بِنا پر جو خدا تعالیٰ کی کامل اور مجید کتاب کی شرح میں ہے میں نے کہا کہ مسیحؑمَر گیا ہے لیکن اس کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے؟ کیوں یہ قرآن شریف کو غور سے نہیں پڑھتے.کیا ان کو شرم نہیں آتی ہے کہ یہ مسلمان کہلاتے ہیں.موحّد کہلاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو افضل الانبیاء اور خیر البشر تسلیم کرتے ہیں.لیکن جب وہی لفظ توفّی کا آپؐپر آتا ہے تو اس کے معنے موت کرتے ہیں اور جب مسیح پر آتا ہے تو زندہ مع جسم آسمان پر اٹھائے جاتے ہیں.ان کی غیرت کو کیا ہوا؟ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی ہتک کیوں روا رکھتے ہیں کیا قرآن شریف میں نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ۠ (یونس:۴۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہیں آیا اور وہی لفظ مسیح کے لیے مُتَوَفِّيْكَ اور فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ میں آیا ہے.پھر یہ کیا ہوگیا کہ ایک جگہ کچھ اَور معنے اور ایک جگہ کچھ اَور.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کمزور نبی سمجھا ہے جو انہیں زمین میں دفن کرتے ہیں اور مسیحؑکو آسمان پر چڑھاتے ہیں!!! اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہوتی تو آپؐکے جلال اور شوکت کے لیے غیرت ہے تو کیوں نہیں کہہ دیتے کہ وہ بھی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں.تب میں بھی سمجھ لیتا کہ یہ مسیحؑکی خصوصیت نہیں ٹھہراتے مگر موجودہ حالت میں میرا دل گوارا نہیں کر سکتا کہ میں قرآن شریف کے ایسے معنے کروں جو خود قرآن شریف اور لغت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کے خلاف ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی ہتکِ شان کا باعث ہوں.میں سچ کہتا ہوں کہ جس شخص نے یہ لکھا ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نہیں وہ کافر ہے وہ سچ کہتا ہے.اس خصوصیت کے پیدا کرنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ تیس۳۰ لاکھ مرتد ہوگیا.خدا کے واسطے اس قدر ظلم نہ کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور رتبہ کو گھٹایا جاوے جو اس عقیدہ سے برابر گھٹتی ہے کہ وہ تو زمین میں دفن کئے گئے اور مسیحؑآسمان پر اٹھایا گیا.مسیحؑہرگز زندہ نہیں رہا.وہ مَرگیا جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا کہ يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ (اٰل عـمران:۵۶) اور خود مسیحؑنے اقرار کر لیا کہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ (المآئدۃ:۱۱۸).میں پھر کہتا ہوں کہ عیسائیوں کو اعتراض کا موقع نہ دو.میری باتوں کو سنو اور غور سے سنو اور پھر
اپنی جگہ پر جاکر سوچو!!!۱ ۳؍ستمبر۱۹۰۴ء (بمقام لاہور) مذہبی رواداری کی تعریف حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تیسری تقریر جوحضور نے بارہ ہزار سے زائد آدمیوں کے مجمع میں حاضرین کی بےحد خواہش سے کی.(ایڈیٹر) میں آپ سب صاحبوں کا شکر کرتا ہوں کہ آپ نے نہایت صبر اور خاموشی کے ساتھ میرے لیکچر کو سنا.میں ایک مسافر آدمی ہوں اور کل صبح انشاء اللہ چلا جاؤں گا.لیکن میں اس شکر اور خوشی کو ساتھ لے جاؤں گا اور یاد رکھوں گا کہ باوجود اختلاف رائے کے ( کہ جس کی وجہ سے عموماً جوش پیدا ہوجاتا ہے) آپ نے نیکی اور نیک اخلاقی اور آہستگی سے میرے مضمون کو سنا.میں یہ جانتا ہوں اور خودمحسوس کرتا ہوں کہ مدّت کے خیالات کو چھوڑنا سہل اور آسان نہیں ہوتا خواہ وہ کتنے ہی غلط کیوں نہ ہوں.یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے کہ انسان اپنے اندر علمی یا عملی تبدیلی کر سکے لیکن جو اخلاق آپ نے دکھائے ہیں وہ نہایت ہی قابل تعریف ہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے عام طور پر یہ اجتماعی رنگ دکھایا ہے وہ ایسا وقت اور زمانہ بھی لاوے کہ دلوں میں بھی اتحاد اور اجتماع ہو.اس ملک کو تفرقہ نے بہت نقصان پہنچایا ہے.ایک زمانہ تھا کہ اس ملک کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں بہت بڑا اتحاد اور اتفاق تھا اور باوجود اختلاف مذاہب بھی ان میں قابلِ قدر میل ملاپ تھا مگر اس زمانہ میں فرق آگیا اور خدا کرے کہ یہ دور ہو جائے.یاد رکھو کہ یہ تنگ دلی اور تنگ ظرفی کا نشان ہے کہ انسان اختلاف شریعت و مذہب کی وجہ سے اخلاق کو بھی چھوڑ دے.اختلافِ رائے اَور چیز ہے اور اخلاق اَور.یہ انسانی اخلاق کی خوبی اور کمال ہے کہ باوجود اختلاف رائے کے اخلاقی کمزوری نہ دکھائے.آج کے جلسہ نے مجھے ایک تازہ
امید دلائی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے تو یہ میل جول ترقی کرے گا.میں خوب جانتا ہوں کہ جب تک طبیعت میں یہ استعداد نہیں ہوتی کہ کوئی شخص صبر اور خوش خُلقی سے ایک مخالف رائے کو سن سکے وہ ایسی رائے کو سن کر چپ نہیں رہ سکتا.اسی لیے یہ خاموشی اور صبر مجھے امید دلاتا ہے کہ اچھے نتیجے پیدا ہوں گے.یہ بھی خوبی کی بات ہے کہ جب مخالف رائے کو سنے تو فوراً جواب دینے کو تیار نہ ہوجائے کیونکہ یہ تو محض ہار جیت کی خواہش ہوگی لیکن اس رائے کے صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے لیے اس پر صبر سے فکر کرنا چاہیے.اس سے علم و حکمت پیدا ہوتی ہے اور علم و حکمت ایک ایسا خزانہ ہے جو تمام دولتوں سے اشرف ہے.دنیا کی تمام دولتوں کو فنا ہے لیکن علم و حکمت کو فنا نہیں ہے.پس جو جلدی نہیں کرتا بلکہ فکر کرتا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ اے اللہ اگر میں غلطی پر ہوں تو مجھے بصیرت اورمعرفت عطا کر وہ اس حکمت کے خزانہ کو محفوظ رکھتا ہے.پس میں چاہتا ہوں کہ آپ صاحبان اس خزانہ کے حاصل کرنے اور محفوظ رکھنے کی کوشش کریں.میں آپ صاحبوں کی خدمت میں ادب، عجز اور تواضع سے عرض کرتا ہوں کہ یہ جو کچھ سنایا گیا ہے آپ اس پر توجہ کریں تاکہ میری محنت ضائع نہ ہو.جو کچھ میری قلم سے نکلا ہے اور میرے دوست مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھا ہے میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کسی کی دل آزاری یا استخفافِ مذہب کی نیت سے نہیں لکھا بلکہ خدا گواہ ہے اور اس سے بہتر کون گواہ ہوسکتا ہے کہ میں نے سچے دل سے لکھا ہے اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لیے لکھا ہے اور میں جانتا ہوں.ع سخن کز دل برون آید نشیند لاجرم بر دل چونکہ فرصت بہت کم ہے.ممکن ہے کہ بعض نے نہ سنا ہو اس لیے ہم نے چھپوا دیا ہے اور بشرط گنجائش مل سکتا ہے.پس اس کو پڑھ کر توجہ کریں اور مذہبی مخالفت کو عام مخالفت کا ذریعہ نہ بناویں.مذہب تو اس لیے ہوتا ہے کہ اخلاق وسیع ہوں جیسے خدا کے اخلاق وسیع ہیں.کوئی ہزاروں گالیاں اسے دے وہ اس پر پتھر نہیں برسا دیتا.پس اسی طرح حقیقی مذہب والا تنگ ظرف نہیں ہو سکتا.تنگ ظرف خواہ ہندو ہو یا مسلمان یا عیسائی وہ دوسرے بزرگوں کو بھی بدنام کرتا ہے.میں اس سے
منع نہیں کرتا کہ اختلاف مذہب بیان نہ کرو.بیشک نیک نیتی سے اختلاف بیان کرو.مگر اس میں تعصّب اور کینہ کا رنگ نہ ہو.ہندوؤں اور مسلمانوں کے تعلقات دو چار سال سے نہیں بلکہ صدہا سال سے چلے آتے ہیں.اس لیے خدا کرے کہ بہت سے دلوں میں جوش ڈال دے کہ جو ان تعلقات کو دُور نہ ہونے دیں.یہ بھی یاد رکھو کہ مذہب صرف قیل و قال کا نام نہیں بلکہ جب تک عملی حالت نہ ہو کچھ نہیں.خدا اس کو پسند نہیں کرتا.جس قدر بزرگ اسلام میں یا ہندوؤں میں اوتار وغیرہ گذرے ہیں ان کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے عمل سے ان سچائیوں کو جن کا وہ وعظ کرتے تھے ثابت کر دکھایا ہے.قرآن شریف میں بھی یہی تعلیم ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ (المآئدۃ:۱۰۶) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اپنے آپ کو درست کرو.جس شخص کے اندر خود روشنی اور نور نہیں ہے وہ اگر زبان سے کام لے گا تو وہ مذہب کو بچوں کا کھیل بنا دے گا اور حقیقت میں ایسے ہی مصلحوں سے ملک کو نقصان پہنچا ہے.ان کی زبان پر تو منطق اور فلسفہ جاری رہتا ہے مگر اندر خالی ہوتا ہے.مصلح کی صفات خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نہایت خیر خواہی سے کہہ رہا ہوں خواہ کوئی میری باتوں کو نیک ظنّی سے سنے یا بد ظنّی سے مگر میںکہوں گا کہ جو شخص مصلح بننا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ پہلے خود روشن ہو اور اپنی اصلاح کرے.دیکھو یہ سورج جو روشن ہے پہلے اس نے خود روشنی حاصل کی ہے.میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ ہر ایک قوم کے معلّم نے یہی تعلیم دی ہے لیکن اب دوسرے پر لاٹھی مارنا آسان ہے لیکن اپنی قربانی دینا مشکل ہوگیا ہے.پس جو چاہتا ہے کہ قوم کی اصلاح کرے اور خیر خواہی کرے وہ اس کو اپنی اصلاح سے شروع کرے.قدیم زمانہ کے رِشی اور اَوتار جنگلوں اور بنوں میں جا کر اپنی اصلاح کیوں کرتے تھے وہ آجکل کے لیکچراروں کی طرح زبان نہ کھولتے تھے جب تک خود عمل نہ کر لیتے تھے.یہی خدا تعالیٰ کے قُرب اور محبت کی راہ ہے.جو شخص دل میں کچھ نہیں رکھتا اس کا بیان کرنا پرنالہ کے پانی کی طرح ہے جو جھگڑے پیدا کرتا ہے اور جو نورِ معرفت اور عمل سے بھر کر بولتا ہے وہ بارش کی طرح ہے جو رحمت سمجھی
جاتی ہے.اس وقت میری نصیحت یاد رکھیں آج کے بعد آپ مجھے یہاں نہ دیکھیں گے اور میں نہیں جانتا کہ پھر موقع ہو یا نہ ہو لیکن ان تفرقوں کو مٹانے کی کوشش کرو.میری نسبت خواہ آپ کا کچھ ہی خیال ہولیکن یہ سمجھ کر کہ ؎ مرد باید کہ گیرد اندر گوش در نوشت است پند بر دیوار میری نصیحت پر عمل کرو جو شخص خود زہر کھا چکا ہے وہ دوسروں کی زہر کا کیا علاج کرے گا.اگرعلاج کرتا ہے تو خود بھی مَرے گا اور دوسروں کو بھی ہلاک کرے گا کیونکہ زہر اس میں اثر کر چکا ہے اور اس کے حواس چونکہ قائم نہیں رہے اس لیے اس کا علاج بجائے مفید ہونے کے مضر ہوگا.غرض جس قدر تفرقہ بڑھتا جاتا ہے اس کا باعث وہی لوگ ہیں جنہوںنے زبانوں کو تیز کرنا ہی سیکھا ہے.دوسرے مذاہب کی حیثیت یہ بھی یاد رکھو کہ میرا یہ مذہب نہیںکہ اسلام کے سوا سب مذاہب بالکل جھوٹےہیں.میںیہ یقین رکھتا ہوںکہ وہ خدا جو تمام مخلوق کا خدا ہے وہ سب پر نظر رکھتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ وہ ایک ہی قوم کی پروا کرے اور دوسروں پر نظر نہ کرے.ہاں یہ سچ کہ حاکم کے دَورے کی طرح کبھی کسی قوم پر وہ وقت آجاتا ہے اور کبھی کسی پر.میں کسی کے لیے نہیں کہتا.خدا تعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظاہر کیا ہے کہ راجہ رامچندر اور کرشن جی وغیرہ بھی خدا کے راستباز بندے تھے اور اس سے سچا تعلق رکھتے تھے.میں اس شخص سے بیزار ہوں جو ان کی نِندیا یا توہین کرتا ہے.اس کی مثال کنوئیںکے مینڈک کی سی ہے جو سمندر کی وسعت سے ناواقف ہے.جہاں تک ان لوگوں کے صحیح سوانح معلوم ہوتے ہیں اس سے پایا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے خدا کی راہ میں مجاہدات کیے اور کوشش کی کہ اسی راہ کو پائیں جو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی حقیقی راہ ہے.پس جس شخص کا یہ مذہب ہو کہ وہ راستباز نہ تھے وہ قرآن شریف کے خلاف کہتا ہے کیونکہ اس میں فرمایا ہے اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ(فاطر:۲۵) یعنی کوئی قوم اور اُمّت ایسی نہیں گذری جس میں کوئی نذیر نہ آیا ہو.میں بابا نانک صاحب کو بھی خدا پرست سمجھتا ہوں اور کبھی پسند نہیںکرتا کہ ان کو بُرا کہا جائے.میں ان کو ان لوگوں میں سے سمجھتا ہوں جن کے دل میں
خد اتعالیٰ اپنی محبت آپ بٹھا دیتاہے.پس ان لوگوں کی پیروی کرو اور دل کو روشن کرو.پھر دوسروںکی اصلاح کے لیے زبان کھولو.اس ملک کی شائستگی اور خوش قسمتی کا زمانہ تب آئے گا جب نِری زبان نہ ہو گی بلکہ دل پر دارو مدار ہوگا.پس اپنے تعلقات خد اتعالیٰ سے زیادہ کرو.یہی تعلیم سب نبیوں نے دی ہے او ریہی میری نصیحت ہے.اگر درخانہ کس است حرفے بس است.۱ الحکم جلد 8 نمبر 31 مورخہ 17/ ستمبر 1904ء صفحہ 7
ترجمہ فارسی عبارات مندرجہ ملفوظات جلد نمبر ۶ از صفحہ نمبر ترجمہ فارسی ۱ دنیا کے کام کسی نے پورے نہیں کئے.۴ اگر تُو لوگوں کے مرتبہ کا دھیان نہیں رکھتا تو تُو بے دین ہے.۱۴ آسمان کا حکم میں زمین تک پہنچاتا ہوں.اگر میں اسے سنوں اور لوگوں کو نہ سناؤں تو اسے کہاں لے جاؤں.۱۸ اس نور کو جو تیرے ایمان میں ہے اپنے عمل سے ثابت کر.جب تُو نے یوسف کو دل دیا تو کنعان کا راستہ بھی اختیار کر.۴۰ سنی سنائی بات آنکھوں دیکھی جیسی کیسے ہو سکتی ہے؟ ۵۲ اس مصیبت کے وقت (ہم ) غریبوں کا علاج سوائے صبح کی دعا اور سحری کے رونے کے اور کچھ نہیں.۵۴ ہر شخص کو کسی نہ کسی کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے.۸۰ ایک ہی لفظ کافی ہے اگر کوئی گھر میں ہو.۸۳ دیکھئے پروانہ کے خون ناحق نے شمع کو اتنی مہلت نہ دی کہ رات کو صبح میں بدل لے.۸۸ خد اکو خدا کی ہستی سے پہچانا جا سکتا ہے.
۹۱ ہاتھ کام میں اور دل یار میں لگا ہونا چاہیے.۹۲ آنا ارادت پر موقوف ہے اور جانا اجازت پر.۹۶ سرمد گلہ مختصر کر دینا چاہیے ان دونوں کاموں میں سے ایک کام کرنا چاہیے.۹۶ یا تو اپنا آپ محبوب کی خوشی میں لگا دینا چاہیے یا پھر محبوب سے دھیان ہٹا لینا چاہیے.۹۸ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے.۱۰۴ نئی شادی کے لئے جو کچھ چاہیے وہ سامان میں مہیا کروں گا.۱۲۵ جوانمردوں کےلئے کوئی کام مشکل نہیں ہوتے.۱۲۵ اگرچہ محبوب تک رسائی پانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو پھر بھی، عشق کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی تلاش میں جان لڑا دی جائے.۱۴۵ جوانمردوں کے لئے کوئی کام مشکل نہیں ہوتے.۱۵۰ ہمارے محبت بھرے مکان میں ہر طرح سے امن ہے.۱۸۷ یہ دنیا کا جنگل درندوں اور پھندوں سے خالی نہیں بارگاہِ الٰہی کی تنہائی کے سوا کہیں امن نہیں.۱۸۹ کہتے ہیں صبر کرنے (یعنی لمبا عرصہ گزرنے )سے پتھر لعل بن جاتا ہے ہاں بن جاتا ہے لیکن خونِ جگر پی کر.۱۹۶ تو جس شخص سے قرآن و حدیث (بیان کرنے )سے رہائی نہ پاسکے اس کا (صحیح ) جواب یہ ہے کہ اسے جواب نہ دے.۲۰۵ شروع میں عشق بہت منہ زور اور خونخوار ہوتا ہے تا وہ شخص جو صرف تماشائی ہے بھا گ جائے.
۲۰۸ کیونکہ عشق اور مشک کو چھپایا نہیں جاسکتا.۲۰۹ اگر وزیر خدا سے اس طرح ڈرتا جیسے بادشاہ سے ڈرتا ہے تو فرشتہ بن جاتا.۲۱۷ یہ دنیا کا جنگل درندوں اور پھندوں سے خالی نہیں بارگاہِ الٰہی کی تنہائی کے سوا کہیں امن نہیں.۲۲۰ ہاتھ کام میں اور دل یار میں لگا ہونا چاہیے.۲۳۶ ہم اس عالی بارگاہ تک نہیں پہنچ سکتے سوائے اس کے کہ تُو خود مہربانی سے چند قدم آگے بڑھ آئے.۲۴۰ خدا جانتے ہوئے بھی پردہ پوشی کرتا ہے ہمسایہ نہیں جانتا اور غُل مچاتا ہے.۲۴۲ سینکڑوں حسین میرے گریبان کے اندر ہے.۲۵۱ میں تُو بن گیا تُو میں بن گیا میں تن بنا تُو جان بن گیا.تا بعد میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ میں کوئی اور ہوں اور تُو کوئی اور ہے.۲۵۴ میں بار بار نباتات اور ہریاؤں کی شکل میں اُگا ہوں میں سات سو ستّر یعنی بے شمار سانچوں سے گزرا ہوں.۲۵۶ ہر شخص کو کسی نہ کسی کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے.۲۵۶ کیا تُو نے زمینی کاموں کو درست کر لیا ہے، کہ آسمانی کاموں کی طرف بھی متوجہ ہو گیا ہے.۲۷۸ جو زیادہ واقف ہو وہی زیادہ ڈرتا ہے.۲۸۱ شروع میں عشق بہت منہ زور اور خونخوار ہوتا ہے تا وہ شخص جو صرف تماشائی ہے بھا گ جائے.
۲۹۰ عقلمند جو کچھ کرتا ہے، بیوقوف بھی آخر وہی کرتا ہے لیکن بہت خواری اُٹھانے کے بعد.۲۹۰ اگر چور سے جان پہچان ہو، گدھے کو باندھ کر رکھنا بہتر ہے.۳۱۴ کھانا زندہ رہنے اور عبادت کرنے کی خاطرہے تُو سمجھتا ہے کہ زندگی محض کھانے پینے کے لئے ہے.۳۲۶ جب میں ہی نہ رہوں تو اس کے بعد تیرا آنا بے کارہے.۳۳۱ بے ثبات زندگی پر بھروسہ نہ رکھو زمانہ کی چالوں سے بے فکر مت رہو.۳۳۱ خدا جانتے ہوئے بھی پردہ پوشی کرتا ہے ہمسایہ نہیں جانتا اور غُل مچاتا ہے.۳۳۸ اس نور کو جو تیرے ایمان میں ہے اپنے عمل سے ثابت کر جب تُو نے یوسف کو دل دیا تو کنعان کا راستہ بھی اختیار کر.۳۶۰ بات جو (کسی ) دل سے نکلتی ہے وہ (دوسروں کے)دل میں بیٹھ جاتی ہے.۳۶۲ آدمی کو چاہیے کہ کان میں ڈال لے، اگرچہ وہ نصیحت دیوار پر ہی کیوں نہ لکھی ہو.۳۶۳ ایک ہی لفظ کافی ہے اگر کوئی گھر میں ہو.