Language: UR
ملفوظات سے مراد حضرت بانی جماعت احمدیہ، مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا وہ پاکیزہ اور پُرمعارف کلام ہے جو حضورؑ نے اپنی مقدس مجالس میں یا جلسہ سالانہ کے اجتماعات میں اپنے اصحاب کے تزکیہ نفس، ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت، خداتعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرنے اور قرآن کریم کے علم و حکمت کی تعلیم نیز احیاء دین اسلام اور قیام شریعت محمدیہ کے لیے وقتاً فوقتاً ارشاد فرمایا۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَعَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ۲ ؍ اپریل ۱۹۰۳ء (دربارِ شام) ایک الہام کے معنی فرمایا.اللہ تعالیٰ کا ہما رے ساتھ بھی عجیب معاملہ ہے.ہمارا یہ الہام کہ اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ ایک نئی طرزکا الہام ہے.ہم نے اب سے پہلے کسی الہامی عبارت میں اس قسم کے الفاظ نہیں دیکھے اس کے معنے جو ہما رے خیال میں آتے ہیں یہ ہیں کہ ایسا شخص بمنزلہ توحید ہی ہوتا ہے جو ایسے وقت میں مامور ہو کہ جب دنیا میں توحید الٰہی کی نہایت ہتک کی گئی ہو اور اسے نہایت ہی حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو.۱ ایسے وقت میں آنے والا توحید مجسم۲ ہوتا ہے ہرشخص اپنا ایک مقصد اور غایت مقرر کرتا ہے مگر اس شخص ۱البدرمیں مزید یہ فقرہ ہے.’’اور شرک کی عظمت اور قدر کی جاتی ہو.‘‘ (البدرجلد۲نمبر۱۲مورخہ ۱۰؍۱پریل ۱۹۰۳ءصفحہ۹۱) ۲البدر میں یہ مضمون یوں ہے.’’اس شخص مامور شدہ کو توحید کی پیاس ایسی لگائی جاتی ہے کہ وہ تمام اپنے اغراض اور مقاصد کو ایک طرف رکھ کر توحید کے قائم کرنے میں خود ایک مجسم توحید ہوجاتا ہے اس کے اُٹھنے بیٹھنے اور حرکت اور سکون اور ہر ایک قول و فعل میں توحید کی لَو اسے لگی ہوئی ہوتی ہے.‘‘ (البدرجلد۲نمبر۱۲ مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۳ءصفحہ۹۱)
ہے.ہم نے اب سے پہلے کسی الہامی عبارت میں اس قسم کے الفاظ نہیں دیکھے اس کے معنے جو ہما رے خیال میں آتے ہیں یہ ہیں کہ ایسا شخص بمنزلہ توحید ہی ہوتا ہے جو ایسے وقت میں مامور ہو کہ جب دنیا میں توحید الٰہی کی نہایت ہتک کی گئی ہو اور اسے نہایت ہی حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو.۱ ایسے وقت میں آنے والا توحید مجسم۲ ہوتا ہے ہرشخص اپنا ایک مقصد اور غایت مقرر کرتا ہے مگر اس شخص کا مقصودو مطلوب اللہ تعالیٰ کی توحید ہی ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کو اپنے طبعی جذبا ت اور مقاصد سے بھی مقدم کرلیتا ہے.اپنی ساری ضرورتوں کو پیچھے ڈال دیتا ہے.اسی طرح پرہر ایک شخص کا اپنے مقاصد کا ایک بت ہوتا ہے اور وہ اس تک پہنچنا چاہتا ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہوتا ہے کہ اس تک پہنچا دے یا اس کی عمر کا پہلے ہی خاتمہ کردے.وہ اپنے مال یا عزّت وآبرو، بال بچوں یا دوسری حوائج کے لیے تڑپتا ہے اور بے خود ہوتا ہے اور بسا اوقات لوگ انہیں مشکلات میں پڑکر خود کشی بھی کرلیتے ہیں مگر وہ شخص جو خدا کی طرف سے ما مور ہو کر آتا ہے اس کا یہی جوش خدا تعالیٰ کی توحید کے لئے ہو جاتا ہے اوراپنی نفسا نی خواہشوں کی بجائے خدا تعالیٰ کی توحید کے لیے مضطرب اور بے خود ہوتا ہے.۱ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے وقت میں یہ الفاظ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں کہ اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ کیو نکہ اللہ تعالیٰ کو اپنی توحید بہت ہی پیاری ہے.یہ توحید تھی جس کے واسطے اللہ تعالیٰ نے کبھی وبا کبھی قحط اور کبھی اپنے پیارے انبیاء علیہم السلام کے ہاتھ کی تلوار سے اس کے قیا م کے واسطے ہزاروں مشرک جانوں کو تباہ کر دیا.مکہ و مدینہ منورہ کے حالات بھی صرف اسی کی خاطر پیچیدہ ہوئے تھے.موسیٰ علیہ السلا م کا معاملہ بھی اسی توحید کے لیے تھا.۲ عقیدہ کی اہمیت عقیدہ ہی سے اعمال میں قوت آتی ہے جیسا قوی اور کامل عقیدہ ہو ویسے ہی اس کے مطابق اعمال صادر ہوں گے.اگر عقیدہ ہی زنگ آلو دہ اور کمزور اور مُردہ ہوگا تو پھر اعمال کی کیا توقع ہوسکتی ہے.اگرچہ ظاہر اعمال نماز روزہ میں تو تمام مسلمان باہم مشترک ہیں اور اکثر بجا لاتے ہیں.مگر پھر ان کے نتائج میں برکات کے اختلاف کا با عث جو ہے تو صرف یہی عقیدہ ہے جن کے عقائد عمدہ اور کامل ہوتے ہیں ان کے لیے نتائج عمدہ اور برکات کثرت سے نازل ہوتے ہیں مگر کمزور عقائد والے اپنے اعمال کی قوت پر تو نگاہ نہیں کرتے برکات کے نہ ملنے کی شکایت کرتے ہیں.۱البدر سے.’’کہ خدا کی خواہشات اس کی توحید اور عظمت اور جلال غالب آویں.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۱) ۲ البدر سے.’’طاعون وغیرہ قحط اور دیگر بَلائوں سے ملک کے ملک ہلاک ہوئے تو آخر توحید پیاری تھی تو یہ ہوا.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۱)
مگر پھر ان کے نتائج میں برکات کے اختلاف کا با عث جو ہے تو صرف یہی عقیدہ ہے جن کے عقائد عمدہ اور کامل ہوتے ہیں ان کے لیے نتائج عمدہ اور برکات کثرت سے نازل ہوتے ہیں مگر کمزور عقائد والے اپنے اعمال کی قوت پر تو نگاہ نہیں کرتے برکات کے نہ ملنے کی شکایت کرتے ہیں.عداوت کا فائدہ فرمایا.محبت اور عقیدت کی توجہ تو ایک جدا اَمر ہے مگر عداوت کی توجہ بھی بے فائدہ نہیں ہوتی بلکہ مفیدہو تی ہے.دیکھوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ کے زمانے میں آپ کے مقابل میں محبت اور عقیدت کی توجہ تو نہایت ہی کم بلکہ کچھ بھی نہ تھی مگر عداوت کی توجہ کامل طور سے تھی اور آخر یہی عداوت کی توجہ آپؐکی عام لوگوں اور عرب کے کناروں میں شہرت پہنچانے کا باعث ہوگئی ورنہ آپ کے پاس اس وقت اور کیا ذریعہ تھا جو اپنی دعوت کو اس طرح شائع کرتے.آپ کے واسطے اس وقت تبلیغ کا پہنچانا نہا یت مشکل تھا مگر خدا تعالیٰ نے یہ کام کیا کہ دشمنوں ہی کے ہاتھوں سے ایسا کرادیا.۱ اب موجودہ زما نے میں ہمارے دشمن بھی ایسا ہی کرتے ہیں اگرچہ اس وقت کی فوری حالت ایسی ہوتی ہے کہ ہماری جماعت کو ان لوگوں کی کارروائیوں سے رنج اور صدمہ ہوتا ہے مگر ان کی کارروائیوں کا انجام ہمارے مفید مطلب اور بخیر ہوتا ہے.اصل میں ان لوگوں کی گالیاں تو ایسی ہیں جیسے عورتیں شادی کے موقع پر لڑکے والوں کو دیتی ہیں.ان سے اس وقت کون ناراض ہوتا ہے؟ یہی مآل ان مخا لفوں کی گالیوں کا ہے.یہ گالیاں ہما رے مفید مطلب ہیں.یہ ہماری تبلیغ کا ذریعہ بنتی ہیں اور سعید اور شریف ان کی گالیوں ہی سے اندازہ کرلیتے ہیں کہ حق کس کے پاس ہے.اسی طرح پر ہماری جماعت ان میں سے ہی نکل کرآئی ہے اور دن بدن نکلتی آتی ہے.۱ البدر سے.’’آپ کے بعد مسیلمہ کذّاب وغیرہ بھی مدعی ہوئے مگر اُن کو کسی نے پوچھا بھی نہ.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۱)
طاعون۱ کے ذکر پر فرمایا کہ آج کل تو لوگ فر عون کی خصلت رکھتے ہیں کہ چا روں طرف سے خوف آیا تو ایمان لے آئے اور ما ن لیا.جب خوف جاتا رہا تو پھر مخالفت شروع کردی.۲ ۳؍اپریل ۱۹۰۳ء اقرار بیعت کے اثرات نما ز جمعہ کے بعد گردونواح کے لوگوں اور چند ایک دیگر احبا ب نے بیعت کی.بعد بیعت حضرت احمد مرسل مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذیل کی تقریر کھڑے ہو کر فرمائی.اس وقت تم لوگوں نے ا للہ تعالیٰ کے سامنے بیعت کا اقرارکیا ہے اور تمام گناہوں سے توبہ کی ہے اور خدا سے اقرار کیا ہے کہ کسی قسم کا گناہ نہ کریں گے.اس اقرار کی دوتاثیر یں ہوتی ہیں.یا تو اس کے ذریعہ انسان خدا تعالیٰ کے بڑے فضل کا وارث ہو جاتا ہے کہ اگر اس پر قائم رہے تو اس سے خدا راضی ہو جائے گا اور وعدہ کے موافق رحمت نازل کرے گا اور یا اس کے ذریعے سے خدا کا سخت مجرم بنے گا کیونکہ اگر اقرار کو توڑے گا توگو یا اس نے خدا کی توہین کی اور اہانت کی.جس طرح سے ایک انسان سے اقرار کیا جاتا ہے اور اسے بجا نہ لا یا جاوے تو توڑنے والا مجرم ہوتا ہے ایسے ہی خدا کے سامنے گناہ نہ کرنے کا اقرار کرکے پھر توڑنا خدا کے روبروسخت مجرم بنا دیتا ہے.آج کے اقرار اور بیعت سے یا تو رحمت کی ترقی کی بنیا د پڑگئی اور یا عذاب کی ترقی کی.اگر تم نے تمام باتوں میں خدا کی رضا مندی کو مقدم رکھا اور مدت درازکی تمام عادتوں کو بدل دیا تو یادرکھو کہ بڑے ثواب کے مستحق ہو.عادت کو چھوڑنا آسا ن بات نہیں.دیکھتے ہو کہ ایک افیمی یا جھوٹ بولنے والے کو جو عادت پڑگئی ہوئی ہوتی ہے اس کا بدلنا کس قدر مشکل ہوتا ہے.اسی لیے جو اپنی عادت کو خدا کے واسطے چھوڑتا ہے تو وہ بڑی بات کرتا ہے یہ نہ سمجھو کہ عادت چھوٹی ہویا بڑی ایک عرصہ تک انسان جب گناہ کرتا ہے تو اس کے قویٰ کو ایک عادت اس کے کرنے کی ہو جاتی ہے.تو کیا تمہارے نزدیک اسے چھوڑدینا کوئی چھوٹی بات ہے؟ جب تک کہ انسان کے اندر ہمت استقلا ل نہ ہو تب تک یہ دور نہیں ہوسکتی.ما سوااس کے ان عادتوں کے بدلنے میں ایک اور مشکل ہے کہ عادتوں کا پا بند آدمی عیال داری کے حقوق کی بجا آوری میں سست ہوا کرتا ہے مثلاً ایک افیمی ہے تووہ نشہ میں مبتلا ہو کر عیال داری کے لیے کیا کچھ کرے گا؟ اوراسی طرح بعض عادتیں اس قسم کی ہوتی ہیں کہ کنبہ اور اہل وعیال کے آدمی اس کے حامی ہوتے ہیں.اس کا چھوڑنا اور بھی دشوار تر ہوتا ہے.مثلاً ایک شخص بذریعہ رشوت کے روپیہ حا صل کرتا ہے عورتوں کو اکثر علم نہیں ہوتا وہ تواس کو اچھا جانے گی کہ میرا خاوند خوب روپیہ کما تا ہے تو وہ کب کوشش کرے گی کہ خاوند سے یہ عادت چھڑاوے تو ان عادتوں کو چھڑانے والا بجز اللہ تعالیٰ کی ذات کے کوئی نہیں ہوتا.باقی سب اس کے حا می ہوتے ہیں بلکہ ایک شخص جونما ز روزہ کو وقت پر ادا کرتا ہے اسے یہ لوگ سست کہتے ہیں کہ کام میں حرج کرتا ہے اور جو نما ز روزہ سے غافل رہ کر زمینداری کے کاموں میں مصروف رہے اسے ہشیار کہتے ہیں اس لیے میں کہتا ہوں کہ توبہ کرنی بہت مشکل کام ہے اور ان ایا م میں تو بہت سے مقابلہ آکر پڑے ہیں.ایک طرف عادتوں کو چھوڑنا دوسری طرف طاعون ایک بَلا کی طرح سرپرہے اس سے بچنا.اب دیکھو کون سی مشکل کو تم قبول کرسکتے ہو.رزق سے ڈرکر انسان کو کسی عادت کا پابندنہ ہونا چاہیے.اگر اس کا خدا پر ایمان ہے تو خدا رزاق ہے.اس کا وعدہ ہے جو تقویٰ اختیار کرتا ہے اس کا ذمہ وار میں ہوں مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق:۳،۴) یعنی باریک سے باریک گناہ جو ہے اسے خدا سے ڈرکرجوچھوڑے گا خدا ہر ایک مشکل سے اسے نجات دے گا.یہ اس لیے کہا ہے کہ اکثر لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم کیا کریں ہم تو چھوڑنا چاہتے ہیں مگر ایسی مشکلات آ کر پڑتی ہیں کہ پھر کرنا پڑ جاتا ہے.خدا وعدہ فرماتا ہے کہ وہ اسے ہرمشکل سے بچالے گا اور پھر آگے ہے يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق:۴) یعنی ایسی راہ سے اسے روزی دے گا کہ اس کے گما ن میں بھی وہ نہ ہو گی.ایسے ہی دوسرے مقام پر ہے وَ هُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ (الاعراف:۱۹۷) جیسے ماں اپنی اولاد کی والی ہوتی ہے ویسے ہی وہ نیکوں کا والی ہوتا ہے پھرفر ما تا ہے وَ فِي السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ (الذّٰریٰت:۲۳) یعنی جوکچھ تم کو وعدہ دیا گیا ہے اور تمہارا رزق آسمان پرہے.۱البدر سے.’’فرمایا کہ دابۃ الارض کے معنے قرآن شریف سے ہی معلوم کرنے چاہئیں.حضرت سلیمان علیہ السلام کے قصّے میں یہ لفظ آیا ہے وہاں کیڑے ہی کے معنے ہیں.پس معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مُراد ہاتھی وغیرہ جانور ہرگز نہیں ہے.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۱ ) ۲الحکم جلد ۷ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۳ءصفحہ ۹
ہے.خدا وعدہ فرماتا ہے کہ وہ اسے ہرمشکل سے بچالے گا اور پھر آگے ہے يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق:۴) یعنی ایسی راہ سے اسے روزی دے گا کہ اس کے گما ن میں بھی وہ نہ ہو گی.ایسے ہی دوسرے مقام پر ہے وَ هُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ (الاعراف:۱۹۷) جیسے ماں اپنی اولاد کی والی ہوتی ہے ویسے ہی وہ نیکوں کا والی ہوتا ہے پھرفر ما تا ہے وَ فِي السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ (الذّٰریٰت:۲۳) یعنی جوکچھ تم کو وعدہ دیا گیا ہے اور تمہارا رزق آسمان پرہے.جب انسان خدا پرسے بھروسا چھوڑتا ہے تودہریت کی رگ اس میں پیدا ہو جاتی ہے.خدا پر بھروسہ اور ایمان اس کا ہوتا ہے جواسے ہربا ت پرقادر جانتاہے.اب ایسا زمانہ ہے کہ جو توبہ کرنا چاہتے ہیں خدا ان باتوں کے لئے اپنے ہاتھوں سے ان کی مددکررہا ہے اس کی ذات رحمت سے بھری ہوئی ہے طاعون کے حملے بہت خوفناک ہوتے ہیں مگر اصل میں یہ رحمت ہے سختی نہیں ہے.ہزاروں لوگ ہوںگے جوکہ عبادت سے غافل ہوں گے.اگر اتنی حشپم نمائی خدا نہ کرے توپھرتولوگ بالکل ہی منکرہو جاویں.یہ تواس کا فضل ہے کہ سوئے ہوؤںکو ایک تازیا نہ سے جگا رہا ہے ورنہ اسے کیاپڑی ہے کہ کسی کوعذاب دیوے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے مَايَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَ اٰمَنْتُمْ(النّسآء:۱۴۸) کہ اگر تم میری راہ اختیار کروتو تم کو کیوں عذاب ہو.اس کی رحمت بہت وسیع ہے جیسے بچہ جب پڑھتا نہیں ہے تو اسے مارپڑتی ہے اس کا سِرّیہی ہے کہ اس کی آئندہ زندگی خرا ب نہ ہو اور وہ سدھرجاوے.اسی طرح اللہ تعالیٰ یہ عذاب اس لیے دیتا ہے کہ لوگ سدھرجاویں اور یہ اس کی رحمت کا تقاضا ہے.سچی توبہ کرو.بھلا دیکھوتوسہی اگربازار سے کوئی دوامثل شربت بنفشہ کے تم لاؤاور اصل دواتم کو نہ ملے بلکہ سڑاہواپرانا شیراتم کو دیا جاوے تو کیا وہ بنفشہ کے شربت کا کام دے گا؟ ہرگزنہیں اسی طرح سڑے ہوئے الفاظ جو زبان تک ہوں اور دل قبول نہ کرے وہ خدا تک نہیں پہنچتے.بیعت کرانے والے کو تو ثواب ہو جاتا ہے مگر کرنے والے کوکچھ حاصل نہیں ہوتا.
بیعت بیعت کے معنے ہیں بیچ دینا.جیسے ایک چیزبیچ دی جاتی ہے تواس سے کوئی تعلق نہیں رہتا.خریدار کا اختیار ہوتا ہے جو چاہے سوکرے.تم لوگ جب اپنا بیل دوسرے کے پاس بیچ دیتے ہو توکیا اسے کہہ سکتے ہو کہ اسے اس طرح نہ استعما ل کرنا.ہرگزنہیں.اس کا اختیار ہے جس طرح چاہے استعما ل کرے.اسی طرح جس سے تم بیعت کرتے ہو اگر اس کے احکام پرٹھیک ٹھیک نہ چلوتوپھرکوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتے.ہر ایک دوایاغذاجب تک بقدرشربت نہ پی جاوے فائدہ نہیں ہواکرتا.اسی طرح بیعت اگر پورے معنوں میں نہ ہو تووہ بیعت نہ ہو گی.خدا تعالیٰ کسی کے دھوکا میں نہیں آسکتا.اس کے ہاں نمبراور درجہ مقررہیں.اس نمبر اور درجہ تک توبہ ہو گی تو وہ قبول کرے گا جہاں تک طاقت ہے وہاں تک کوشش کرو پورے صالح بنو.عورتوں کونصیحت کرو.نمازروزہ کی تاکیدکرو.سوائے آٹھ سات دن کے جوعورتوں کے ہوتے ہیں اور جس میں نماز معاف ہے تمام نمازیں پوری پڑھیں روزے معاف نہیں ہیں ان کوپھراداکریں.انہی کمیوں کی وجہ سے کہا کہ عورتوں کا دین نا قص ہے.اپنے ہمسایہ اور محلہ والوں کوبھی نیکی کی تاکیدکرو.غافل نہ ہو.اگر علم نہ ہو تو واقف سے پوچھوکہ خدا کیا چاہتا ہے.مسلمانوں کی دینی حالت اس وقت مسلمانوں نے اپنے دین کو بدل دیا ہے جوخدا چاہتا تھا اسے بدل کراَور کااور بنا دیا ہے.اس وقت ایک شور برپا ہے.اگر کہا جاوے کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے ہیں اور عیسیٰ زندہ ہے توسب خوش ہوتے ہیں.مگر جب کہا جاوے کہ آنحضرتؐزندہ اور خاتم النبیین اور آپ کے بعدکوئی غیرنبی نہیں آنے والا توسب نا راض ہو جاتے ہیں.مسیحؑکو آنحضرتؐپرفضیلت نہ دو ہما رے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسے خدا نے سب سے آخرپیدا کیا ویسے ہی آخری درجے کے سب کمال آپ کو دئیے کوئی بھی خوبی کسی دوسرے نبی میں ایسی نہیں جوکہ آپ کو نہ دی گئی ہو.ع آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
کیا تم یہ قبول کرتے ہو کہ ایک کے ہاں بہت سے مہما ن ہوں تو ان میں سے ایک کو وہ مکلّف کھانا پلاؤ وغیرہ دیوے اور دوسرے کو معمولی کھانا شوربا یا روٹی وغیرہ.باقی مہما ن کہیں گے کہ کا ش کہ ہم اس گھرمیں مہما ن نہ ہوتے.اسی طرح ایک لاکھ چوبیس ہزارپیغمبر جو گذرے ہیں انہوں نے کیا گناہ کیا کہ جو فضیلت اور رتبہ عیسیٰ علیہ السلام کو دیا جاتا ہے ان میں سے ایک کو بھی وہ نہ ملا.ان سب کو فوت مانتے ہو اور ایک عیسیٰ کو زندہ اور و ہ بھی آسمان پر.قرآن فرماتا ہے رَبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا (طٰہٰ:۱۱۵) اور حضرت تو اس دعا کو برابرمانگتے رہے.آنحضرت کی عمر۶۳ برس کی ہوئی.دوسرے تمام پیغمبروں کو گھٹانا اور مسیح کو سب سے بڑھ کر فضیلت دینا ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کون سی فضیلت مسیح کو دوسروں پرہے؟ انہوں نے نہ ساری دنیا کی اصلا ح کا دعویٰ کیا.نہ کوئی دکھ آنحضرت کی طرح ان کو پہنچا.نہ مقابلہ کی نوبت آئی.نہ کوئی شکست اٹھانی پڑی.چندآدمی صرف ایمان لائے وہ بھی پکڑے گئے.اس کے مقابلہ میں آنحضرت کو دیکھو.آپ کا دعویٰ کل جہان کے لیے اور سخت سے سخت دکھ اور تکالیف آپ کو پہنچے.جنگیں بھی آپ نے کیں.ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ آپ کی زندگی میں موجود تھے پھر ان باتوں کے ہوتے ہوئے جو شخص آنحضرت کی شان میں کوئی ایسا کلمہ زبان پرلائے گا.جس سے آپ کی ہتک ہو وہ حرامی نہیں تواور کیا ہے؟ ان کم بختوں سے کوئی پوچھے کہ پھر تم محمد رسول اللہ کیوں کہتے ہو عیسیٰ رسول اللہ ہی کہو.اب تم کو چاہیے کہ جہاں تک ہوسکے آنحضرت کو عزّت دو.اگر تم یہ کہوکہ آنحضرت آسمان پرزندہ ہیں تو ہم آج مانتے ہیں مگر جس سے تم کو فیض اور فائدہ کچھ بھی حاصل نہ ہوا.اس کو جھوٹی فضیلت دینے سے تم کو کیا حاصل؟ تمام فیضوںکا سر چشمہ قرآن ہے، نہ انجیل نہ توریت.جو قرآن کو چھوڑکر ان کی طرف جھکتا ہے وہ مرتد اور کافر ہے.مگرجو قرآن کی طرف جھکتاہے وہ مسلمان ہے.کیا ان لوگوں کو شرم نہیں آتی کہ آنحضرت کو جب حفاظت پیش آئی تو خدا نے آپ کو غار میں جگہ دی اور عیسٰیؑ کو جب وہ موقع پیش آیا تو آسمان پر جابٹھایا.پھر آنحضرت کی عمر ۶۳ برس کی کہتے ہیں اور عیسٰیؑ کو اب تک زندہ مانتے ہیں.ان
تمام فیضوںکا سر چشمہ قرآن ہے، نہ انجیل نہ توریت.جو قرآن کو چھوڑکر ان کی طرف جھکتا ہے وہ مرتد اور کافر ہے.مگرجو قرآن کی طرف جھکتاہے وہ مسلمان ہے.کیا ان لوگوں کو شرم نہیں آتی کہ آنحضرت کو جب حفاظت پیش آئی تو خدا نے آپ کو غار میں جگہ دی اور عیسٰیؑ کو جب وہ موقع پیش آیا تو آسمان پر جابٹھایا.پھر آنحضرت کی عمر ۶۳ برس کی کہتے ہیں اور عیسٰیؑ کو اب تک زندہ مانتے ہیں.ان تمام باتوںکا آخری نتیجہ یہ ہے کہ عیسائیوںکا دین غالب ہے.آج مسلمان کم ہیں اور عیسائی زیادہ.اس کی وجہ یہی ہے کہ یہی دلائل بیان کرکے پادریوںنے مسلمانوں کو عیسائی بنایا ہے.خدا تو فرماتا ہے کہ عیسٰیؑ مَر گیا فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ کی آیت موجود ہے.اگر تمہارا مذہب قرآن ہے تو اس پر ایمان کیوںنہیں لاتے؟ آنحضرت کے واسطے خدا نے ہرگز نہ چاہا کہ باہر سے لوگ آویں.سورہ نور میں بھی وعدہ ہے کہ تمام خلیفہ اور امام تیری اُمّت میں سے آویں گے سو خدا نے وہ پورا کیا اور اسی طرح اب ہمیں مامور کیا.جیسے چودہ سو برس کے بعد موسیٰ کی امّت میں سے مسیح آیا تھا ویسے ہی چودہ سَو برس گذرنے کے بعد ہمیں بھیجا.وہ مسیح بھی صاحب شریعت نہ تھے توریت پر ان کا عمل تھا ایسے ہی ہم ہیں تاکہ مماثلت پوری ہو اور کوئی کمی نہ رہ جاوے.جیسی محبت خدا ہم سے کرتا ہے ویسی کسی اَور سے نہیں کرتا.اگر یہ خیال ہو کہ عیسیٰ کو خدا آسمان پر لے گیا.اس کو آج تک زندہ رکھا اور اس کو پھر لاوے گا تو پھر ساری محبت خدا کی عیسیٰ کے ساتھ چاہیے جو ان تمام باتوں کو غور سے دیکھے گا تو سمجھے گا کہ جو آپ کی شا ن ہے وہ اَور کسی نبی کی نہیں ہے جب تک تم آنحضرت کو ہر ایک خوبی میں افضل نہ جانوگے مسلمان نہ ہوگے بلکہ کرانی۱ ہوگے.یہ تو عقیدہ چاہیے اور نمازوں میں دعا کرو کہ خدا طاعون سے ہمیں بچا جولوگ ہنسی کرتے ہیں اور کہتے ہیں بڑے آدمی کیوں نہیں مَرتے وہ نا دان ہیں.خدا کا کام ہے آہستہ آہستہ پکڑنا.اس لیے غافل نہ بنو.تہجدوںمیں دعاکرو.پانچوںوقت کی نمازوںمیں دعاکرو.جب تمہارا گھر دعا سے بھر جاوے گا تو پھر ہرگزوَبانہ آوے گی اوراگر کوئی روک رکھو گے تو دعا کام نہ دے گی.خدا کے ساتھ معاملہ صاف رکھو گے تو خدا کا وعدہ ہے کہ وہ تم کو ضرور محفو ظ رکھے گا.۲ (دربارِ شام) حضرت عیسٰیؑ کی محبت میں غلو اور آنحضرتؐکی تو ہین بارہا ہمیں تعجب آتا ہے کہ کیوں یہ لوگ حضرت عیسیٰ سے بے جا محبت کرتے ہیں انہوںنے ان کا کیا دیکھا تھا جو ان پر ایسے شیداہیں کہ ان کو خدا ہی بنا دیا ہے.ایسے ان کی محبت میں اندھے ہوئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہ جن کا کلمہ پڑھتے ہیں ان کی توہین اپنی ہی زبان سے کرتے ہیں.توہین کیا ہوتی ہے یہی کہ ایک شخص جس میں اعلیٰ درجہ کے اوصاف ہوں ان کو نظرانداز کرکے ایک ایسے شخص کو اس سے بڑھ چڑھ کر متّصف باَوصاف کیا جاوے جس میں وہ اوصاف نہیں ہیں.تعزیرات میں توہین کی مثال کے نیچے یہ مثال لکھی ہے کہ ایک شخص کہے کہ زید اور بکر نے (جو درحقیقت چور تھے )چوری کی ہے مگر عمرو (جو ایک شریف آدمی ہے اور درحقیقت اس کی کوئی سازش اس چوری میں نہیں ) نے چوری نہیں کی اور نہ ہی اس کا اس میں کچھ تعلق ہے تو قانونـاً ایسا کہنے والا شخص عمرو کی توہین کرتا ہے اور وہ مجرم قرار دیا جاوے گا اور مستحقِ سزا ہوگا.۱(یعنی عیسائی.مرتّب ) ۲ البدر جلد ۲نمبر۱۲ مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۹۱تا ۹۳
کیا دیکھا تھا جو ان پر ایسے شیداہیں کہ ان کو خدا ہی بنا دیا ہے.ایسے ان کی محبت میں اندھے ہوئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہ جن کا کلمہ پڑھتے ہیں ان کی توہین اپنی ہی زبان سے کرتے ہیں.توہین کیا ہوتی ہے یہی کہ ایک شخص جس میں اعلیٰ درجہ کے اوصاف ہوں ان کو نظرانداز کرکے ایک ایسے شخص کو اس سے بڑھ چڑھ کر متّصف باَوصاف کیا جاوے جس میں وہ اوصاف نہیں ہیں.تعزیرات میں توہین کی مثال کے نیچے یہ مثال لکھی ہے کہ ایک شخص کہے کہ زید اور بکر نے (جو درحقیقت چور تھے )چوری کی ہے مگر عمرو (جو ایک شریف آدمی ہے اور درحقیقت اس کی کوئی سازش اس چوری میں نہیں ) نے چوری نہیں کی اور نہ ہی اس کا اس میں کچھ تعلق ہے تو قانونـاً ایسا کہنے والا شخص عمرو کی توہین کرتا ہے اور وہ مجرم قرار دیا جاوے گا اور مستحقِ سزا ہوگا.غرض تو ہین کے کئی پہلو ہوتے ہیں.حضرت عیسیٰ کی اتنی تعریف کی جاتی ہے کہ گویا ان پر جب مصیبت آئی تو خدا کو زمین پران کے بچاؤ کی کوئی راہ نظر نہ آئی اور ان کو آسمان پر اور پھر بھی دوسرے آسمان پر جا چھپا یا.با لمقابل آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم پر جب سخت مصائب اور شدائد آئے تو اللہ تعالیٰ نے نعوذبا للہ بقول مولویوں کے آپ کو بالکل بے مدد اور کس مپرس چھوڑدیا اور آپ کو ایک غار میں جو آسمان کے مقابل میں جس طرح وہ بلند یہ اسفل میں واقعہ تھی، پناہ میں دی.غار کی تعریف بھی کیا کہ بچھوؤں، سانپوں اور ہرقسم کے موذی حشرات الا رض کا گھر تھا.بھلا اب سوچویہ توہین نہیں تو کیا ہے؟ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ سرورکا ئنا ت فخر الاولین والآخرین اشرف الخلق تو امید وارہیں کہ ہم لمبی عمر پاویں مگر ان کو تو صرف تریسٹھ سال کی عمر دی جاتی ہے اور ان کے مقابل میں حضر ت عیسیٰ گویا اب تک زندہ ہیں اور دوہزاربرس کی ان کی عمر ہو چکی اور ان کی حالت میں کوئی تغیّر واقع نہیں ہوا.آپ رہتے تو دنیا کی اصلا ح کرتے جیسا کہ پہلا تجربہ بتا چکا ہے کہ ضرورہزاروں کی اصلا ح کرتے اگر اَور عمر پاتے.مگر بالمقابل حضرت عیسیٰ اتنی عمر میں نہ کوئی نیکی کرتے ہیں، نہ نماز ہے، نہ روزہ، نہ زکوٰۃ اور نہ کسی کی اصلا ح ہے.ان سے نہ کسی کو نفع ہے اور نہ وہ کسی سے کسی قسم کے ضرر کو دور کرسکتے ہیں
نیز پرانا گذشتہ تجربہ بھی اس اَمر کا کافی شاہد تھا کہ صرف با رہ آدمی مدت کی کوشش سے طیار کئے.آخر وہ بھی یوں الگ ہوئے کہ کسی نے لعنت کی اور کسی نے تیس روپے کے عوض دشمن کے ہاتھ میں دے دیا.پھر مَرنے کے بعد جب آنحضرتؐکی روح آسمان پر گئی تو پھر وہ حریف موجود تھے کہ وہ تو آسمان میں مع جسم عنصری تشریف رکھتے ہیں اور جنابؐکا جسم ہزاروں من مٹی کے نیچے پڑا ہے اور پھر اسی پرختم نہیں.آخرکا ر ان کی امت میں وہ پھر آویں گے اور چا لیس سال تک ان پر حکومت کریں گے اور ان سے بیعت لیں گے.بھلا غور تو کرو کہ یہ توہین نہیں تو اَور کیا ہے.پھر بات اور ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن شریف میں یہ وعدہ کرتا ہے کہ میں تیری اُمت میں سے تیری امت کی اصلا ح کے واسطے خلیفے بھیجتارہوں گا.مگر آخر اس وعدہ کا ذرا بھی پاس نہ کیا اور ایک ایسی قوم میں سے جس کے متعلق اس نے وعدہ کر لیا ہوا تھا کہ اس قوم پر میرا غضب نازل ہو چکا ہے میں ان پر کبھی کوئی روحانی اور جسمانی فضل اور نعمت ہرگزنازل نہ کروں گا مگر آخر کار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی وعدہ خلا فی فرما کراسے بھیجا اور اپنے قانون کو بھی توڑا.کیا یہ کوئی گوارا کرسکتا ہے کہ خدا پروعدہ خلافی عائد ہو.ہرگز نہیں اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ (اٰل عـمران:۱۰) ہماری تو یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ اسی عیسیٰ کو اتا ر کرکریں گے کیا؟ آخر ان کے قویٰ تو وہی ہوں گے جو پہلے تھے.پہلے کیا کیا تھا جو اَب کرلیں گے.ایک ذلیل سی معدودے چند ایک قوم تھی ان کی اصلا ح بھی نہ ہوئی.لکھا ہے کہ ایک دفعہ ان سے پانسو آدمی مرتد ہو گئے تھے.یہ لوگ اگر حضرت موسیٰ کے دوبا ر ہ آنے کی اُمید رکھتے تو کچھ موزوں بھی تھا کیونکہ وہ صاحبِ عظمت اور جبروت تو تھے ان میں شجا عت بھی تھی.اب یہ عیسیٰ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں.پھر مشکل یہ ہے کہ عادت کا جانا محال ہے ان کو مارکھا نے اور بزدلی کی عادت ہوگئی ہوئی تھی وہ اگر دجال سے جنگ کریں گے تو کس طرح؟ادھر ان مسلمانوں کی بھی یہ عادت ہو گئی ہے کہ
حضرت عیسیٰ ہی آویں گے.لکیر کے فقیر ہیں.با پ دا دااور مولوی جو اس بات کی تعلیم دیتے ہوئے خواہ قرآن شریف کے مخالف ہی ہو وہ اسی ہندوؤں کی گنگا کی طرح اس اعتقاد کونہ ترک کریں نہ کرنے کے خواہ کوئی دلیل ہو یا نہ ہو.ان لوگوں کو تو اپنے گھر کا حال بھی معلوم نہیں کہ ان کے اس اعتقاد نے اسلام کو کیسا ضعف پہنچایا ہے عیسائی جب کسی کو مرتد کرنے پر آتے ہیں تویہی حجت پکڑتے ہیں کہ تمہارا نبی مُردہ اور ہمارا زندہ اور آسمان پر موجود ہے.اب بتاؤ کہ ان دونوں میں سےکون اچھا اور خدا کا پیارا ہے اور یہ نکال کر دکھادیتے ہیں مسلمانوں ہی کی کتابوں سے اب قریباً ہر ایک فرقہ میں سے الگ الگ ملا جلا کر ۲۹ لاکھ کے قریب آدمی مرتد ہوچکا ہے.کیا سید اور کیا پٹھان کیا قریش اور کیا مغل.ہرقوم اس وبا میں ہلاک ہوتی ہے.ایسے ایسے لوگ جو فخر اسلام کہنے کے مستحق بن جانے کے قابل تھے وہ اب بے دین ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں اور پھر اسی پرابھی تمام نہیں بلکہ وہ جان سے مال سے عزّت وآبرو سے، عورتوں سے، لڑکیوں سے اس اَمر کے لیے کو شاں ہیں کہ کسی طرح دنیا سے اسلام کا نشان مٹادیں.بھلا اگر یہی وہ فتّان لوگ نہیں تواور کون ہوگا؟ اس قوم کا فتنہ تو ان مسلمانوں کے بناوٹی دجال کے فتنہ سے بھی کہیں بڑھ گیا.بھلا یہ بتاویں توسہی کہ اس قوم کی جس کا فتنہ دجال سے بھی زیادہ ہے خبر کہاں دی گئی ہے.قرآن شریف نے تواسی واسطے دجال کا نام نہیں لیا بلکہ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ کہا جس سے مُراد یہی قوم نصاریٰ ہے وَلَاالدَّجَّال کیوںنہ کہا.اصل اَمر یہی ہے کہ یہی وہ قوم ہے جس سے تمام انبیاء اپنی اپنی امت کو ڈراتے آئے ہیں.ان لوگوں کے خیالات کی بنا احادیث موضوعہ پر ہے جو قرآن شریف کی مہُر سے خالی ہیں.مگر ہم قرآن شریف کو ان احادیث کی خاطر چھوڑ نہیں سکتے.قرآن شریف بہرحال مقدم ہے.بھلا قرآن شریف کو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جمع کیا لکھوایا اور پھر نمازوں میں بار بار پڑھ کر سُنایا.کیا اگر احادیث بھی ویسی ہی ضروری ہیں تو ان میں سے بھی کسی کو اسی طرح جمع کیا اور بار بار سُنایا اور دَور کیا؟ ہرگز نہیں اور جب نہیں کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرضِ منصبی میں کوتاہی کی؟ ہرگز نہیں.بلکہ صحیح اَمر یہی ہے کہ قرآن شریف ہی آپ لائے تھے اور
اسی کے جمع کرنے کاآپ کو حکم تھا سو آپ نے کر دیا.اب احادیث میں سے وہ قابلِ عمل اور اعتقاد ہے.جس پر قرآن شریف کی مہر ہو کہ یہ اس کے خلاف نہیں.پھر اسی پر بس نہیں.قرآن شریف کہتاہے کہ عیسیٰ مَر گئے اور پھر دوبارہ قیامت تک وہ اس دنیا میں نہیں آئیں گے بلکہ آنے والا اُن کا مثیل ان کی خُو بُو لے کر آوے گا.جیسا کہ آیت قرآن شریف فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ میں صاف بیان ہے.تو ہینِ عیسٰیؑ کے اعتراض کا جواب پھر کہتے ہیں کہ سیدنا المسیح کی تو ہین کرتے ہیں.بھلا سوچو تو کہ ہم اگر اپنے پیغمبرسے ان جھوٹے اعتراضات کو جو نا فہمی اور کور چشمی سے کرکے مسیح کو آسمان پر زندہ بٹھاکر آنحضر ت پر کئے جاتے ہیں ان کے دور کرنے کے واسطے مسیحؑ کی اصلی حقیقت کا اظہار نہ کریں تو کیا کریں؟ ہم اگر کہتے ہیں کہ وہ زندہ نہیں بلکہ مَر گئےہیں جیسے دوسرے انبیاء بھی مَر گئے ہیں تو ان لوگوں کے نزدیک تو یہ بھی ایک قسم کی توہین ہوئی.ہم تو خدا کے بلائے بولتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ فرشتے آسمان پر کہتے ہیں.افترا کرنا تو ہمیں آتا نہیں اور نہ ہی افترا خدا کو پیارا ہے.اب خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ جس طرح آنحضرتؐکی کسر شا ن اورہتک کی گئی ضرور ہے کہ اس کا بدلہ لے لیا جاوے اور آنحضرتؐکے نور اور جلا ل کو دوبا رہ ازسرنوتازہ وشا داب کرکے دکھایا جاوے اور یہ اس مسیح کے بت کے ٹوٹنے اور اس کی موت کے ثابت ہونے میں ہے.پس ہم خدا کے منشا اور ارادے کے مطابق کرتے ہیں اب ان کی لڑائی ہم سے نہیں بلکہ خدا سے ہے.ان لوگوں نے تو حضر ت مسیحؑ کو خا صہ خدا بنایا ہوا ہے اور پھر کہلا تے ہیں موحد.ان کا اعتقادہے کہ وہ زندہ ہے قائم ہے عَلَی السَّمَآء.خَالِق، رَازِق، غیب دان، مُـحْیِی، مُـمِیْت ہے.بھلا اب بتاؤ کہ اگر یہ صفات خدا کی نہیں تو کس کی ہیں؟ بشریت تو ان صفات کی حا مل ہوسکتی نہیں.خدائی میں فرق ہی کیا رہا؟ یہ تو عیسائیوں کو مدددے رہے ہیں.پورے نہیں نیم عیسائی تو ضرور.اگر ہم ان کے عقائد ردّیہ کی تردید نہ کریں تو کیا کریں؟ پھر ہمیں ماننا پڑے گا کہ نعوذبا للہ اسلام، آنحضرتؐ، خدا
کی طرف سے پاک نبی اور قرآن شریف خدا کا کلام برحق نہیں.اور حضرت مسیحؑ زندہ نہیں بلکہ مَر کر کشمیر سرینگر محلہ خانیار میں مدفون ہیں.یہی سچا عقیدہ ہے.طلاق اور حلالہ ایک صاحب نے یہ سوال کیا کہ جو لوگ ایک ہی دفعہ تین طلاق لکھ دیتے ہیں ان کی وہ طلاق جائز ہو تی ہے یا نہیں؟ اس کے جواب میں فرمایا کہ قرآن شریف کے فرمودہ کی رُو سے تین طلاق دی گئی ہوںاور ان میں سے ہر ایک کے درمیان اتناہی وقفہ لکھا گیا جو قرآن شریف نے بتایا ہے تو ان تینوںکی عدت کے گذرنے کے بعداس خاوند کا کوئی تعلق اس بیوی سے نہیں رہتا.ہاں اگر کوئی اور شخص اس عورت سے عدت گزرنے کے بعد نکاح کرے اور پھر اتفاقاً وہ اس کو طلاق دیدے تو اس خاوند اوّل کو جائزہے کہ اس بیوی سے نکاح کرلے مگر اگر دوسرا خاوند، خاونداوّل کی خاطر سے یا لحاظ سے اس بیوی کو طلاق دے کہ تا وہ پہلا خاوند اس سے نکاح کرلے تو یہ حلالہ ہوتا ہے اور یہ حرام ہے.لیکن اگر تین طلاق ایک ہی وقت میں دی گئی ہوں تو اس خاوند کو یہ فائدہ دیا گیا ہے کہ وہ عدت کے گذرنے کے بعد بھی اس عورت سے نکاح کرسکتا ہے کیونکہ یہ طلاق ناجائز طلاق تھا اور اللہ و رسول کے فرمان کے موافق نہ دیا گیا تھا.دراصل قرآن شریف میں غور کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ خدا تعالیٰ کو یہ اَمر نہایت ہی ناگوار ہے کہ پُرانے تعلقات والے خاوند اور بیوی آپس کے تعلقات کو چھوڑکر الگ الگ ہو جائیں.یہی وجہ ہے کہ اس نے طلاق کے واسطے بڑے بڑے شرائط لگائے ہیں.وقفہ کے بعدتین طلاق کا دینااور ان کا ایک ہی جگہ رہناوغیرہ یہ امور سب اس واسطے ہیں کہ شاید کسی وقت ان کے دلی رنج دورہو کرآپس میں صُلح ہو جاوے.اکثر دیکھا جاتا ہے کہ کبھی کوئی قریبی رشتہ دار وغیرہ آپس میں لڑائی کرتے ہیں اور تازے جوش کے وقت میں حکام کے پاس عرضی پرچے لے کر آتے ہیں تو آخر دانا حکام اس وقت ان کو کہہ دیتے ہیں کہ ایک ہفتہ کے بعد آنا.اصل غرض ان کی صرف یہی ہوتی ہے کہ یہ آپس میں صلح کر لیں گے اور ان کے یہ جوش فرو ہوں گے تو پھر ان کی مخالفت باقی نہ
رہے گی.اسی واسطے وہ اس وقت ان کی وہ درخواست لینا مصلحت کے خلاف جانتے ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی مرداور عورت کے الگ ہونے کے واسطے ایک کافی موقع رکھ دیا ہے یہ ایک ایسا موقع ہے کہ طرفین کو اپنی بھلائی برائی کے سوچنے کا موقع مل سکتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ (البقرۃ:۲۳۰) یعنی دودفعہ کی طلاق ہونے کے بعدیا اسے اچھی طرح سے رکھ لیا جاوے یا احسان سے جداکردیا جاوے.اگر اتنے لمبے عرصے میں بھی ان کی آپس میں صلح نہیں ہوتی تو پھر ممکن نہیں کہ وہ اصلا ح پذیرہیں.وتر کیسے پڑھے جائیں ایک صاحب نے سوال کیا کہ وتر کس طرح پڑھنے چاہئیں.ایک اکیلا بھی جائزہے یا نہیں؟ فرمایاکہ اکیلا وتر تو ہم نے کہیں نہیں دیکھا.وترتین ہیں.خواہ دورکعت پڑھ کر سلام پھیر کر تیسری رکعت پڑھ لو.خواہ تینوں ایک ہی سلا م سے درمیان میں التحیا ت بیٹھ کرپڑھ لو.ایک وتر ٹھیک نہیں.مخا لفوں کو سلام کہنا ایک صاحب نے سوال کیا کہ حضور مخا لفوں سے جو ہمیں اور حضور کو سخت گالی گلوچ نکالتے ہیں اور سخت سست کہتے ہیں ان سے السلام علیکم لینا جائزہے یا نہیں؟ فرمایا.مومن بڑا غیرت مند ہوتا ہے کیا غیرت اس اَمر کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ توگالیاں دیں اور تم ان سے السلام علیکم کرو؟ ہاں البتہ خرید وفروخت جائزہے.اس میں حرج نہیں کیونکہ قیمت دینی اور مال لینا کسی کا اس میں احسان نہیں.مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ کی تفسیر ہمیں کئی بار اس آیت کی طرف توجہ ہوئی ہے اور اس میں سوچتے ہیں کہ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ (الانبیاء:۹۷).اس کا ایک تو یہ مطلب ہے کہ ساری سلطنتیں، ریاستیں اورحکومتیں ان سب کو یہ اپنے زیرکرلیں گے اور کسی کو ان کے مقابلے کی تا ب نہ ہو گی.دوسرے معنے یہ ہیں کہ حدب کے معنے ہیں بلندی، نسل کے معنے ہیں دوڑنا.یعنی بلندی پرسے دوڑجاویں گے کُلْ عمومیت کے معنےرکھتا ہے یعنی ہر قسم کی بلندی کو کود جاویں گے.بلندی پر
چڑھنا قوت اور جرأ ت کو چاہتا ہے.نہا یت بڑی بھاری اور آخری بلندی مذہب کی بلندی ہوتی ہے.سارے زنجیروں کوانسان توڑسکتاہے مگر رسم اور مذہب کی ایک ایسی زنجیر ہوتی ہے کہ اس کو کوئی ہمت والاہی توڑسکتا ہے.سوہمیں اس ربط سےیہ بھی ایک بشارت معلوم ہوتی ہے کہ وہ آخر کا راس مذہب اور رسم کی بلندی کو اپنی آزادی اور جرأت سے پھلانگ جاویں گے اور آخر کا راسلام میں داخل ہوتے جاویں گے اور یہی ضال کے لفظ سے بھی ٹپکتا ہے اور اس اَمر کی بنیادی اینٹ قیصرجرمن نے چنددن ہوئے ا پنا عقیدہ عیسویت کے متعلق ظاہر کرکے رکھ دی ہے.دجال کے ’’کانا‘‘ ہونے سے مُراد یہ جوحدیث شریف میں آیا ہے کہ دجال کانا ہوگا.ایک آنکھ بالکل نہ ہو گی اور دوسری میں گُل ہوگا.یہ ایک نہایت باریک استعارہ ہے.یعنی اس کی ایک آنکھ (قرآ ن کی آنکھ) تو بالکل نہ ہو گی.اس طرف سے تو وہ بالکل اندھا اور کا لمیّت ہوگا اور دوسری توریت والی سووہ بھی کانی ہو گی اس میں بھی گل ہوگا یعنی اس کی تعلیم پر بھی پورے طور سے کار بند نہ ہو نگے.چنا نچہ واقعہ نے کیسا صاف بتا دیا ہے کہ یہ اسی طرح ہے اورآنحضرتؐکی پیشگوئی کیسی صاف طور سے پوری ہوئی ہے.عیسویت کے ابطال کے واسطے تو ایک دانا آدمی کے لیے یہی کافی ہے کہ ان کے اس عقیدے پر نظر کرے کہ خدا مَر گیا ہے بھلا کوئی سوچے کہ کبھی خدا بھی مَرا کرتا ہے.اگر یہ کہیں کہ خدا کا روح نہیں بلکہ جسم مَرا تھا تو ان کا کفّارہ باطل جاتا ہے.۱ ۴؍اپریل ۱۹۰۳ء (بوقتِ سیر) طلاق ایک شخص کے سوال پر فرمایا کہ طلاق ایک وقت میں کامل نہیں ہوسکتی.طلاق میں تین طہرہو نے ضروری ہیں.فقہاء
نے ایک ہی مرتبہ تین طلاق دے دینی جائزرکھی ہے مگر ساتھ ہی اس میں یہ رعایت بھی ہے کہ عدت کے بعد اگر خاوند رجوع کرنا چاہے تو وہ عورت اسی خاوند سے نکاح کرسکتی ہے اور دوسرے شخص سے بھی کرسکتی ہے.قرآن کریم کی روسے جب تین طلاق دیدی جاویں تو پہلاخاوند اس عورت سے نکا ح نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ کسی اور کے نکا ح میں آوے اور پھر وہ دوسرا خاوند بلاعمداً اُسے طلاق دے دیوے.اگر وہ عمداً اسی لیے طلاق دے گا کہ اپنے پہلے خاوند سے و ہ پھر نکاح کر لیوے تویہ حرام ہوگا کیونکہ اسی کا نام حلالہ ہے جوکہ حرام ہے.فقہاء نے جو ایک دم کی تین طلاقوں کو جائز رکھا ہے اور پھر عدت کے گذرنے کے بعد اسی خاوند سے نکاح کا حکم دیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اوّل اسے شرعی طریق سے طلاق نہیں دی.قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کو طلاق بہت ناگوارہے کیونکہ اس سے میاں بیوی دونوں کی خانہ بربادی ہو جاتی ہے.اس واسطے تین طلاق اور تین طہر کی مدت مقررکی کہ اس عرصہ میں دونوں اپنا نیک وبد سمجھ کراگر صلح چاہیں توکرلیویں.نماز جنازہ فرمایا کہ اگر متوفّٰی بالجہر مکفّر اور مکذّب نہ ہو تواس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں.کیونکہ علّام الغیوب خدا کی پاک ذات ہے.فرمایا.جو لوگ ہمارے مکفّر ہیں اور ہم کو صریحاً گالیاں دیتے ہیں.ان سے السلام و علیکم مت لو اور نہ ان سے مل کرکھانا کھائو.ہاں خرید وفروخت جائز ہے اس میں کسی کا احسان نہیں.جو شخص ظاہر کرتا ہے کہ میں نہ ادھر کا اور نہ اُدھر کا ہوں اصل میں وہ بھی ہمارا مکذّب ہے اور جو ہمارا مصدّق نہیں اور کہتا ہے کہ میں ان کو اچھا جانتا ہوں وہ بھی مخالف ہے ایسے لوگ اصل میں منافق طبع ہوتے ہیں.ان کا یہ اصول ہوتا ہے کہ بامسلماں اللہ اللہ بابرہمن رام رام ان لوگوں کو خدا سے تعلق نہیں ہوتا.بظاہر کہتے ہیں کہ ہم کسی کا دل دکھانا نہیں چاہتے مگر یاد رکھو
کہ جو شخص ایک طرف کا ہوگا اس سے کسی نہ کسی کا دل ضرور دکھے گا.مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ فرمایا کہ میں نے اس آیت پربڑی غور کی ہے اس کے یہی معنے ہیں کہ ہر ایک بلندی سے دوڑیں گے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوصورتیں ہیں اوّل یہ کہ ہر ایک سلطنت پر غالب آجاویں گے.دوم یہ کہ بلندی کی طرف انسان قوت اور جرأت کے بغیر دوڑا ور چڑھ نہیں سکتا اور مذہب پر غالب آجا نا بھی ایک بلند ی ہی ہے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر وہ زمانہ بھی آوے گا کہ مذہب کے اوپر سے بھی گذر جاویں گے یعنی اپنے اس تثلیثی مذہب سے بھی عبور کر جاویں گے اور اس کو پاؤں کے نیچے مسل دیویں گے اور اسی سے ہمیں ان کے اسلام میں داخل ہو جانے کی بو آتی ہے.اب پہلی بات تو پوری ہو چکی ہے اب انشاء اللہ دوسری بات پوری ہو گی اور یہ باتیں خدا کے ارادہ کے ساتھ ہوا کرتی ہیں.جب خدا کی مشیت ہوئی تو ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور دلوں کو حسب استعداد صاف کرتے ہیں.تب یہ کام ہو اکرتے ہیں.آنحضرتؐکا خلق عظیم فرمایا.آنحضرت کے اخلاق کا نمونہ، ایک صوفی لکھتا ہے کہ آپ کے پاس ایک نصرانی ملاقات کو آیا.آپ نے اس کو اپنا مہمان کیا.رات کو کھانا اوربسترہ دیا مگر وہ کمبخت بہت کھا گیا.رات کو بد ہضمی ہوئی تو لحاف میں اس کا دست نکل گیا.اس لیے شرمندہ ہو کر صبح کو چوری چوری چل دیا.جب وہ دور نکل گیا تو آنحضرت کو معلوم ہوا کہ مہما ن چلا گیا ہے بستر دیکھا تو پا خانہ سے بھرا ہوا.آپ نے اسے اپنے ہاتھ سے دھونا شروع کیا.صحابہؓ نے ہرچند اصرار کیا کہ ہم دھوئیں مگر آپ نے فرمایا کہ وہ میرامہما ن تھا مجھے دھونے دو.ادھر راستہ میں نصرانی کو یاد آیا کہ وہ اپنے سونے کی صلیب بستر پر بھول آیا ہے.اسے لینے کے واسطے وہ واپس آیا.دیکھا تو آپ وہی نجاست بھرا لحاف اپنے ہاتھ سے دھو رہے ہیں.اس نظارہ کو دیکھ کر صلیبی ایمان پراس نے لعنت کی اور مسلمان ہو گیا.۱ ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰۵
(دربارِ شام ) رقّت کی لذّت طاعون کے متعلق باتیں ہوتی رہیں.ایک عرب صاحب۱ نووارد تھے.انہوں نے قرآن شریف سنایا اس کی لذّت اور رقّت کے متعلق باتیں ہوتی رہیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ دنیا میں ہزاروں لذّتیں ہیں مگر رقّت جیسی کوئی بھی لذّت نہیں.یہی ہے جس سے نماز اور عبادت کا مزہ آتا ہے اور پھر چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا.۲ ۵؍ اپریل۱۹۰۳ء کثرتِ عوارض کی وجہ ان مختلف امراض اور عوارض کے ذکر پر جو انسان کو لاحق ہوتے ہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قادر تھا کہ چند ایک بیماریاں ہی انسان کو لاحق کر دیتا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی امراض ہیں جن میں وہ مبتلاہوتا ہے اس قدر کثرت میں خدا تعالیٰ کی یہ حکمت معلوم ہوتی ہے تاکہ ہر طرف سے انسان اپنے آپ کو عوارضات اور امراض میں گھر اہو ا پا کر اللہ تعالیٰ سے ترساں و لرزاں رہے اور اسے اپنی بےثباتی کا ہردم یقین رہے اور مغرور نہ ہو اور غافل ہو کر موت کو نہ بھول جاوے اور خدا سے بے پروانہ ہو جاوے.مرا بمرگِ عدو جائے شادمانی نیست بعض مخالفین کے طاعون سے ہلاک ہونے کی خبر آئی.اس پر فرمایا کہ دشمن کی موت سے خوش نہیں ہونا چاہیے بلکہ عبرت حاصل کرنی چاہیے.ہر ایک شخص کا خدا تعالیٰ ۱ ایک عرب صاحب ملک مصر سے تشریف لائے ہوئے تھے اور قرآن شریف خوش الحانی سے پڑھتے تھے.حضرت اقدس نے ان کا قرآن شریف سن کر ان کے لب و لہجہ کو بہت پسند کیا اور قرآن شریف کی عظمت کے خیال سے ان کی تکریم کی.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰۵) ۲الحکم جلد ۷نمبر ۱۳ مورخہ ۱۰ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۱۴
سے الگ الگ حسا ب ہے سوہر ایک کو اپنے اعمال کی اصلاح اور جانچ پڑتال کرنی چاہیے.دوسروں کی موت تمہارے واسطے عبرت اور ٹھوکر سے بچنے کا با عث ہونی چاہیے نہ یہ کہ تم ہنسی ٹھٹھے میں بسر کرکے اور بھی خدا سے غافل ہوجائو.میں نے ایک جگہ توریت میں دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ اس میں فرماتا ہے کہ ایک وقت ہوتا ہے کہ جب میں ایک قوم کو اپنی قوم بنانی چاہتا ہوں تو اس کے د شمنوں کو ہلاک کرکے اسے خوش کرتا ہوں.مگر اُسی قوم کی بے اعتنائیوں سے ایک وقت پھر ایسا آجاتا ہے کہ اس کو تباہ کرکے اس کے دشمنوں کو خوش کرتا ہوں.کامیاب ہونے والے فرمایا.اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کی نظر میں نیک اور نمازی وغیرہ ہوتے ہیں مگر ان کا اندر بدیوں اور گناہوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا ظاہر وباطن یکساں ہوتا ہے وہ عنداللہ تقویٰ پرقدم مارنے والے ہوتے ہیں.مگر ان دونوں سے کامیاب ہونے والے وہی ہوتے ہیں جو عند اللہ متّقی اور خدا کی نظر میں نیک ہوتے ہیں اور ان پر خدا راضی ہوتا ہے صرف لاف زنی کام نہیں آسکتی.اس وقت دو قوموں کا آپس میں مقابلہ ہے.ایک توہما رے مخالف ہیں اور دوسری ہماری جماعت.اب خدا تعالیٰ دونوں کے دلوں کو دیکھتا اور ان کے اعمال سے آگا ہ ہے.وہی جانتا ہے کہ ہماری جماعت اس کی نگاہ میں کیسی ہے اور دشمن کیسے؟ اور وہ ان سے کہاں تک ناراض ہے پس ہر ایک کو چاہیے کہ اپنا حسا ب خودٹھیک کرلے چاہیے کہ دوسروں کا ذکر کرتے وقت تقویٰ سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ اپنے اعمال کا خیال ہو کہ کہاں تک ہم خدا کے منشا کو پورا کرنے والے ہیں یا صرف لافیں ہی لافیں ہیں.ابھی طاعون موقوف نہیں ہو گئی خدا جانے کب تک اس کا دورہ ہے اور اس نے کیا کچھ دکھا نا ہے.سات سال سے تو ہم برابردیکھتے ہیں کہ یوماً فیوماً بڑھتی ہی جاتی ہے اورپیچھے قدم نہیں ہٹاتی ہے.ہرسال پہلے کی نسبت سنا جاتا ہے کہ ترقی پر ہے.
نازک زمانہ زما نہ ایسا آیا ہو اہے کہ لوگ اپنے نفس کی اصلا ح کی طرف متوجہ ہوں.ہزارہا انعامات اور خدا تعالیٰ کے فضل کے نشانات ہیں اور عیش وعشرت میں زندگی بسر کرنے سے تو نفس کو شرم نہ آئی کہ خدا کا بھی حق ادا کرے مگر شاید اس قہری نشان کو دیکھ کر اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں.افسوس لوگ انعامات اور احسانا ت الٰہیہ سے توشرمندہ نہ ہوئے اب اس عذاب ہی سے ڈرکرسنور جاویں.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ایسے ایسے لوگ بھی موجود ہیں کہ مسلمان کہلا کر، مسلمانوں کی اولاد ہو کر اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح گالیاں دیتے ہیں جیسے چوڑھے چمار کسی کو نکالا کرتے ہیں.اللہ اور رسول سے ان کو بجز گالیوں کے اور کوئی تعلق ہی نہیں.بڑے گندہ دہن اور پرلے درجے کے عیاش، بدمعاش، بھنگی، چرسی، قمارباز وغیرہ بن گئے ہیں.اب ایسے لوگوں کی زجراورتوبیخ کے واسطے خدا جوش میں نہ آوے تو کیا کرے.خداغیور بھی ہے وہ شدید العقاب بھی ہے.ایسے لوگوں کی اصلاح بھلابجز عذاب اور قہرالٰہی کے نازل ہونے کے ممکن ہے؟ ہرگزنہیں.چونکہ بعض طبائع عذاب ہی سے اصلاح پذیرہو تی ہیں.اس لیے ہر ایک شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ۠ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ۠ (الاعراف:۳۵) جب عذاب الٰہی نازل ہو جاتا ہے توپھر وہ اپنا کام کرکے ہی جاتا ہے اور اس آیت سے یہ بھی استنباط ہوتا ہے کہ قبل ازنزول عذاب توبہ و استغفار سے وہ عذاب ٹل بھی جایا کرتا ہے استغفار کی حقیقت گناہ ایک ایسا کیڑا ہے جو انسان کے خون میں ملا ہوا ہے مگر اس کا علاج استغفار سے ہی ہوسکتا ہے.استغفارکیا ہے؟ یہی جو گناہ صادرہو چکے ہیں ان کے بدثمرات سے خدا محفوظ رکھے اور جو ابھی صادر نہیں ہوئے اور جوبالقوہ انسان میں موجود ہیں ان کے صدور کا ہی وقت نہ آوے اور اندر ہی اندر وہ جل بھن کرراکھ ہو جاویں.یہ وقت بڑے خوف کا ہے اس لیے توبہ و استغفار میں مصروف ہو اور اپنے نفس کا مطالعہ کرتے رہو.ہر مذہب وملّت کے لوگ اور اہل کتاب مانتے ہیں کہ صدقات وخیرات سے عذاب ٹل جاتا ہے
مگر قبل ازنزول عذاب.اور جب نازل ہو جاتا ہے تو ہرگز نہیں ٹلتا.پس تم ابھی سے استغفار کرو اور توبہ میں لگ جاؤ تا تمہاری باری ہی نہ آوے اور اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے.۱ ۶؍اپریل ۱۹۰۳ء (مجلس قبل از عشاء ) حقیقت دعا فرمایا کہ ہمارے دوستوں کو بعض وقت دعا کے متعلق ابتلا پیش آجاتے ہیں اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ ان کو دعا کی حقیقت سے اطلاع دی جاوے اور اسی لیے میں نے حقیقت الدعا کے نام سے ایک رسالہ لکھنا شروع کیا ہے مگر چونکہ طبیعت علیل رہی ہے اس لیے ختم نہیں کرسکا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام مدار دعا پر ہی تھا اور ہر ایک مشکل میں آپ دعا کرتے تھے.ایک روایت سے ثابت ہے کہ آپ کے گیارہ لڑکے فوت ہوگئے ہیں تو کیا آپ نے ان کے حق میں دعا نہ کی ہو گی؟ آج کل ایک عام غلط فہمی لوگوں کے دلوں میں پڑ گئی ہے اور یہ اس جہالت کے زمانے کی نشانی ہے اکثر لوگ کہا کرتے ہیں کہ فلاں بزرگ، فلاں اولیاء کی ایک پھونک مارنے سے صاحبِ کمال ہو گیا اور فلاںکے ہاتھ سے مُردے زندے ہوئے.بیعت اور توبہ چند ایک احباب نے جو کہ گوجرانوالہ کے ضلع سے حضرت اقدس کی ملاقات کے واسطے تشریف لائے تھے آپ سے ملاقات کی.ان سب نے بیعت کی.بعد بیعت ان کو حضرت اقدس نے نصیحت فرمائی.بیعت میں انسان زبان کے ساتھ گناہ سے توبہ کا اقرار کرتا ہے مگر اس طرح سے اس کا اقرار جائزنہیں ہوتا جب تک دل سے وہ اس اقرار کو نہ کرے.یہ خدا تعالیٰ کا بڑا فضل اور احسان ہے کہ جب سچے دل سے توبہ کی جاتی ہے تو وہ اسے قبول کرلیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ(البقرۃ:۱۸۷) یعنی میں توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہوں.خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ اس اقرار ۱ البدر جلد ۲نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰۶
کو جائز قرار دیتا ہے جو کہ سچے دل سے توبہ کرنے والا کرتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے اس قسم کا اقرار نہ ہوتا تو پھر توبہ کا منظورہو ناایک مشکل اَمر تھا.سچے دل سے جو اقرار کیا جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر خدا تعالیٰ بھی اپنے تمام وعدے پورے کرتا ہے جو اُس نے توبہ کرنے والوںکے ساتھ کئے ہیں اور اسی وقت سے ایک نور کی تجلّی اس کے دل میں شروع ہو جاتی ہے.جب انسان یہ اقرار کرتا ہے کہ میں تمام گُناہوں سے بچوں گا اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اگرچہ مجھے اپنے بھائیوں، قریبی رشتہ داروں اور سب دوستوں سے قطع تعلّق ہی کرنا پڑے مگر میں خدا تعالیٰ کو سب سے مقّدم رکھونگا اور اسی کے لئے اپنے تعلقات چھوڑتا ہوں.ایسے لوگوں پر خدا کا فضل ہوتا ہے کیونکہ انہی کی توبہ دلی توبہ ہوتی ہے.پھر جو لوگ دل سے دعا کرتے ہیں.خدا ان پر رحم کرتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ آسمان، زمین اور سب اشیاء کا خالق ہے ویسے ہی وہ توبہ کا بھی خالق ہے اور اگر اس نے توبہ کو قبول کرنا نہ ہوتا تو وہ اسے پیداہی نہ کرتا.گناہ سے توبہ کرنا کوئی چھوٹی بات نہیں.سچی توبہ کرنے والا خدا سے بڑے بڑے انعام پاتا ہے.یہ اولیا، قطب اور غوث کے مراتب اسی واسطے لوگوں کو ملے ہیں کہ وہ توبہ کرنے والے تھے اور خدا تعالیٰ سے ان کا پاک تعلق تھا اس واسطے ہرگز نہیں ہے کہ وہ منطق، فلسفہ اور دیگر علوم طبعیہ وغیرہ سے ماہر تھے.جو لوگ خدا تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہیں وہ ان بندوں میں داخل ہو جاتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ رحم کرتا ہے.اس شرط سے دین کو کبھی قبول نہ کرنا چاہیے کہ میں مالدار ہو جائوں گا.مجھے فلاں عہدہ مل جاوے گا.یاد رکھو کہ شرطی ایمان لانے والے سے خدا بیزار ہے.بعض وقت مصلحت الٰہی یہی ہوتی ہے کہ دنیا میں انسان کی کوئی مُراد حاصل نہیں ہوتی.طرح طرح کے آفات، بلائیں، بیماریاں اور نامُرادیاں لاحق حال ہوتی ہیں مگر ان سے گھبرانا نہ چاہیے.موت ہر ایک کے واسطے کھڑی ہے اگر بادشاہ ہو جاوے گا تو کیا موت سے بچ جاوے گا؟ غریبی میں بھی مَرنا ہے.بادشاہی میں بھی مَرنا ہے اس لیے سچی توبہ کرنے والے کو اپنے ارادوں میں دنیا کی خواہش نہ ملانی چاہیے.
خدا تعالیٰ کی یہ عادت ہرگزنہیں ہے کہ جو اس کے حضور عاجزی سے گر پڑے وہ اسے خائب وخاسر کرے اور ذلّت کی موت دیوے جو اس کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسی نظیر ایک بھی نہ ملے گی کہ فلاں شخص کا خدا سے سچا تعلق تھا اور پھر وہ نا مُراد رہا.خدا تعالیٰ بندے سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشیں اس کے حضور پیش نہ کرے اورخالص ہو کر اس کی طرف جھک جاوے جو اس طرح جھکتا ہے اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور ہر ایک مشکل سے خودبخود اس کے واسطے ر اہ نکل آتی ہے جیسے کہ وہ خود وعدہ فرماتا ہے مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق:۳،۴) اس جگہ رزق سے مُراد روٹی وغیرہ نہیں بلکہ عزّت، علم وغیرہ سب باتیں جن کی انسان کوضرورت ہے اس میں داخل ہیں.خدا تعالیٰ سے جو ذرّہ بھربھی تعلق رکھتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ (الزلزال:۸) ہمارے ملک ہندوستان میں نظام ا لدین صاحب اور قطب ا لدین صاحب اولیاء اللہ کی جو عزّت کی جاتی ہے وہ اسی لیے ہے کہ خدا سے ان کا سچا تعلق تھا اور اگر یہ نہ ہوتا تو تمام انسانوں کی طرح وہ بھی زمینوںمیں ہل چلاتے.معمولی کام کرتے.مگر خدا تعالیٰ کے سچے تعلق کی وجہ سے لوگ اُن کی مٹی کی بھی عزّت کرتے ہیں.خدا تعالیٰ اپنے بندوں کا حامی ہو جاتا ہے.دشمن چاہتے ہیں کہ ان کو نیست ونا بودکریں مگر وہ روز بروزترقی پا تے ہیں اور اپنے دشمنوں پر غالب آتے جاتے ہیں جیسا کہ اس کا وعدہ ہے كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِيْ (المجادلۃ:۲۲) یعنی خدا تعالیٰ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب رہیں گے اوّل اوّل جب انسان خدا تعالیٰ سے تعلق شروع کرتا ہے تو وہ سب کی نظروں میں حقیر اورذلیل ہوتا ہے مگر جوں جوں وہ تعلقات الٰہی میں ترقی کرتا ہے توںتوں اس کی شہرت زیادہ ہوتی ہے حتی کہ وہ ایک بڑابزرگ بن جاتا ہے جیسے خدا تعالیٰ بڑا ہے اسی طرح جو کوئی اس کی طرف زیادہ قدم بڑھا تا ہے وہ بھی بڑا ہو جاتا ہے حتی کہ آخرکا ر خدا کا خلیفہ بن جاتا ہے.
اس توبہ کو کھیل نہ خیال کرو اور یہ نہ کرو کہ اسے یہیں چھوڑجائو بلکہ اسے ایک اما نت اللہ تعالیٰ کی خیال کرو.توبہ کرنے والاخدا تعالیٰ کی اس کشتی میں سوارہوتا ہے جو کہ اس طوفا ن کے وقت اس کے حکم سے بنائی گئی ہے اس نے مجھے فرمایا ہے وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ اور پھریہ بھی فرمایا ہے اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ.يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ.جس طرح بادشاہ اپنی رعایامیں اپنے نائب کو بھیجتاہے پھر جو اس کا مطیع ہوتا ہے اسے بادشاہ کا مطیع سمجھا جاتا ہے ایسا ہی اللہ تعالیٰ بھی اپنے نائب دنیا میں بھیجتا ہے آج کی توبہ ایک بیج ہے جس کے ثمرات تمہارے تک ہی نہ ٹھہریں گے بلکہ اولاد تک بھی پہنچیں گے.سچے دل سے توبہ کرنے والوں کے گھر رحمت سے بھرجاتے ہیں.دنیوی لوگ اسباب پربھروسا کرتے ہیں مگراللہ تعالیٰ اس بات کے لیے مجبورنہیں ہے کہ اسباب کا محتاج ہو.کبھی چاہتا ہے تو اپنے پیاروں کے لیے بلااسباب بھی کام کردیتا ہے اور کبھی اسباب پیدا کرکے کرتا ہے اور کسی وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ بنے بنائے اسباب کو بگاڑدیتا ہے.غرض اپنے اعمال کو صاف کرو اور خدا تعالیٰ کا ہمیشہ ذکرکرو اورغفلت نہ کرو.جس طرح بھاگنے والاشکارجب ذراسُست ہو جاوے تو شکاری کے قابومیں آجا تاہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے ذکر سے غفلت کرنے والاشیطان کا شکار ہو جاتا ہے.توبہ کو ہمیشہ زندہ رکھواور کبھی مُردہ نہ ہونے دو.کیونکہ جس عضو سے کام لیا جاتا ہے وہی کام دے سکتا ہے اور جس کو بیکار چھوڑدیا جاوے پھر وہ ہمیشہ کے واسطے ناکا رہ ہو جاتا ہے.اسی طرح توبہ کو بھی محرک رکھوتاکہ وہ بیکار نہ ہو جاوے.اگر تم نے سچی توبہ نہیں کی تو وہ اس بیج کی طرح ہے جو پتھرپربویا جاتا ہے اور اگر وہ سچی توبہ ہے تو وہ اس بیج کی طرح ہے جو عمدہ زمین میں بویا گیا ہے اور اپنے وقت پر پھل لاتا ہے.آج کل اس توبہ میں بڑے بڑے مشکلات ہیں.اب یہاںسے جا کر تم کو بہت کچھ سننا پڑے گا اور لوگ کیا باتیں بنائیں گے کہ تم نے ایک مجذوم، کافر، دجال وغیرہ کی بیعت کی.ایسا کہنے والوں کے سامنے جوش ہرگز مت دکھانا.ہم تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر کے واسطے ما مور کئے گئے ہیں.اس لیے چاہیے کہ تم ان کے لیے دعا کرو کہ خدا ان کو بھی
ہدایت دے اور جیسے کہ تم کو امیدہے کہ وہ تمہاری باتوں کو ہرگز قبول نہ کریں گے تم بھی ان سے منہ پھیر لو.ہما رے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت، خدا کی عظمت کو مدنظر رکھنا اور پانچوں وقت کی نماز وںکو ادا کرنا.نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے جب نماز پڑھو تو اس میں دعا کرو اورغفلت نہ کرو اور ہر ایک بدی سے خواہ وہ حقوق الٰہی کے متعلق، خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو بچو.۱ ۷؍اپریل ۱۹۰۳ء (صبح کی سیر) صحابہؓ کی فضیلت فرمایا.لَا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ(النّور:۳۸) یہ ایک ہی آیت صحابہؓ کے حق میں کافی ہے کہ انہوں نے بڑی بڑی تبدیلیاں کی تھیں اور انگریز بھی اس کے معترف ہیں ان کی کہیں نظیرملنا مشکل ہے.با دیہ نشین لوگ اور اتنی بہادری اور جرأت تعجب آتا ہے.طاعون کا علاج طاعون کے علاج کے متعلق ذکر آنے پر فرمایا.مجھے سمجھ نہیں آتا کہ طاعون کا کوئی قطعی علاج ہو.اس کے زور کے وقت اور اس بیماری میں مبتلا شدیدکو اگر کوئی دوائی فائدہ کرے تب تو ما ن لیں.جب زہریلے موادنہایت تیزی سے پیداہو رہے ہوں اس وقت کسی دوائی کا عمل دکھلائو تو سہی.اس کا نسخہ تو محض اللہ تعالیٰ ہی ہے.نسیم توحید اب خدا کی طرف سے امیدہے کہ وہ دن قریب ہیں کہ ہمارا غلبہ ہو جاوے کیونکہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ لوگ توحید کی طرف رجوع کرتے جاتے ہیں عیسائیوں نے مسیح کی خدائی پراب اتنا زوردینا چھوڑدیا ہے.ہنودمیں آریہ توحید کی طرف مائل ہو رہے ہیں.پس یہ ایک ہو اچل پڑی ہے جب ان سب لوگوں نے اپنے اصول چھوڑدیئے ہیں تو ان کی تو خود کشی ہو رہی ہے.جیسے چھ مہینے کے بعد کھیتی کی حالت کچھ اور ہی ہو جاتی ہے اسی طرح ان لوگوں کے عقائدمیں ۱ البدر جلد ۲نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰۶،۱۰۷
بیّن فرق نظر آتا جاتا ہے.ایک اکیلے آدمی کا کام ہرگز نہیں کہ کسرِ صلیب کرسکے مگر ہاں جب خدا کا ارادہ اس کے ساتھ ہو تو ہر ملائک اس کی امدادمیں کام کرتے ہیں.نزوِل مامور جب مامور، مامور ہو کرآتا ہے تو بے شمار فرشتے اس کے ساتھ نازل ہوتے ہیں اور دلوںمیں اس کی طرح نیک اور پاک خیالات کو پیداکرتے ہیں (جیسے اس سے پہلے شیاطین بُرے خیالات پیدا کیاکرتے ہیں) اور یہ سب مامور کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ اسی کے آنے سے یہ تحریکیں پیداہوتی ہیں.اسی طرح فرمایا اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِالآیۃ.(القدر:۲،۳ ) خدا تعالیٰ نے مقدر کیا ہوا ہوتا ہے کہ مامور کے زمانہ میں ملائک نازل ہوں.کیا یہ کام بغیر امداد الٰہی کہیں ہو سکتا ہے؟ کیا یہ سمجھ میں آسکتاہے کہ ایک شخص خود بخود اُٹھے اور کسرِصلیب کر ڈالے.نہیں.ہاں اگر خدا اسے اُٹھاوے تو وہ سب کچھ کرسکتا ہے.یہ کسرِ صلیب اعزازاً اور اکراماًمسیح موعود کی طرف منسوب کی جاتی ہے ورنہ کرتا تو سب کچھ خدا ہے یہ باتیں عین وقت پر واقع ہوئی ہیں.قرآن سے بہ تصریح معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمانہ یہی یہی ہے جس کا نام خدا نے رکھا ہے سِتَّةِ اَيَّامٍ.چھٹے دن کے آخری حصہ میں آدم کا پیدا ہونا ضروری تھا براہین میں اسی کی طرف اشارہ ہے اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ.پھر فرمایا اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (الـحج:۴۸) آج سے پہلے جو ہزار برس گذرا ہے وہ باعتبار بداخلاقیوںاور بداعمالیوں کے تا ریکی کا زمانہ تھا کیونکہ وہ فسق و فجور کا زمانہ تھا اسی لیے آنحضرت نے خَیْـرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ کہہ کر تین سو برس کو مستثنٰی کر دیا ہے باقی ایک ہزار ہی رہ جاتا ہے ورنہ اس کے بغیر احادیث کی مطابقت ہو ہی نہیں سکتی اور اس طرح ہر پہلی کل کتابوں سے بھی مطابقت ہو جاتی ہے اور وہ بات بھی پوری ہوتی ہے کہ ہزار سال تک شیطان کھلا رہے گا یہ بات بھی کیسی پوری ہوتی ہے اور انگریز بھی اسی واسطے شور مچاتے ہیں کہ یہی زمانہ ہے جس میں ہمارے مسیح کو دوبا رہ آنا چاہیے.یہ مسئلہ ایسا مطابق آیا ہے کہ کوئی مذہب اس سے انکار کرہی نہیں سکتا.یہ ایک علمی نشان ہے جس سے کوئی گریز نہیں ہوسکتا.
کیسی پوری ہوتی ہے اور انگریز بھی اسی واسطے شور مچاتے ہیں کہ یہی زمانہ ہے جس میں ہمارے مسیح کو دوبا رہ آنا چاہیے.یہ مسئلہ ایسا مطابق آیا ہے کہ کوئی مذہب اس سے انکار کرہی نہیں سکتا.یہ ایک علمی نشان ہے جس سے کوئی گریز نہیں ہوسکتا.رؤیا کا اختتام ایک بھائی کے خواب بیان کرنے پر فرمایا کہ یہ خواب ایک عجیب بات پر ختم ہوا ہے.....شیطان انسان کو طرح طرح کے تمثلات سے دھوکا دینا چاہتا ہے مگر معلوم ہوا کہ تمہارا نتیجہ بہت اچھا ہے کیونکہ اس رئویا کا اختتام اچھی جگہ پرواقع ہوا ہے.ایسا اکثر ہوا کرتا ہے چنانچہ ایک اولیاء اللہ کا تذکرہ لکھا ہے کہ جب ان کا انتقال ہوا تو اُن کا آخری کلمہ یہ تھا کہ ابھی نہیں ابھی نہیں.ایک ان کا مرید یہ کلمہ سن کر سخت متعجب ہوا اور رات دن رو رو کر دعائیں مانگنے لگا کہ یہ کیا معاملہ ہے.ایک دن خواب میں ان سے ملاقات ہو گئی.دریافت کیا کہ یہ آخری لفظ کیا تھا اور آپ نے کیوں کہا تھا؟ جواب دیا کہ شیطان چونکہ موت کے وقت ہر ایک انسان پر حملہ کرتا ہے کہ اس کا نورِ ایمان آخیروقت پرچھین لے.اس لیے حسبِ معمول وہ میرے پاس بھی آیااور مجھے مرتدکرنا چاہا اور میںنے جب اس کا کوئی وار چلنے نہیں دیا تو مجھے کہنے لگا کہ تو میرے ہاتھ سے بچ نکلا.اس لیے میں نے کہا کہ ابھی نہیں ابھی نہیں یعنی جب تک میں مَرنہ جائوں مجھے تجھ سے اطمینان حاصل نہیں.ایک رئویا پھرفرمایا.آج رات مجھے بھی خواب آیا ہے نہ معلوم اس کے اصل مفہوم کیا ہیں میں نے اس کے لفظوں سے اجتہادی معنے نکالے ہیں.جیسا کہ میں کسی راستہ پر چلا جاتا ہوں.گھرکے لوگ بھی ساتھ ہیں اور مبارک احمد کو میں نے گود میں لیا ہو اہے بعض جگہ نشیب وفراز بھی آ جاتا ہے جیسے کہ دیوار کے برابر چڑھنا پڑتا ہے مگر آسانی سے اُتر چڑھ جاتا ہوں اور مبارک اسی طرح میری گود میں ہے.ارادہ ہے کہ ایک مسجدمیں جانا ہے.جاتے جاتے ایک گھر میں جا داخل ہوئے ہیں.گویا وہ گھر ہی مسجد موعود ہے جس کی طرف ہم جا رہے ہیں اندر جا کردیکھا ۱الحکم جلد۷نمبر۱۵ مورخہ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۶
ہے کہ ایک عورت بعمر۱۸سال سفیدرنگ وہاں بیٹھی ہے.اس کے کپڑے بھگوے رنگ کے ہیں مگر بہت صاف ہیں.جب اندر گئے ہیں توگھروالوں نے کہاہے کہ یہ احسن کی ہمشیرہ ہے اور یہیں خواب ختم ہو گئی.۱ استفساراوراُن کے جواب ۱ اہل بیت سے مُراد سوال.اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا(الاحزاب:۳۴) کس کی شان میں ہے؟ جواب.اگرقرآن شریف کودیکھاجاوے توجہاںیہ آیت ہے وہاںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوںہی کا ذکر ہے.سارے مفسراس پرمتفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُمہات المومنین کی صفت اس جگہ بیان فرماتا ہے دوسری جگہ فرما یاہے.اَلطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ (النور: ۲۷) یہ آیت چاہتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالے طیّبات ہوں.ہاں اس میں صرف بیبیاںہی شامل نہیں بلکہ آپ کے گھرکے رہنے والی ساری عورتیں شامل ہیں اور اس لیے اس میں بنت بھی داخل ہوسکتی ہے بلکہ ہے اور جب فاطمہ رضی اللہ عنہاداخل ہوئیں تو حسنین بھی داخل ہوئے.پس اس سے زیادہ یہ آیت وسیع نہیں ہوسکتی جتنی وسیع ہوسکتی تھی ہم نے کردی کیونکہ قرآن شریف ازواج کو مخاطب کرتا ہے اور بعض احادیث نے حضرت فاطمہ اور حسنینؓکو مطہرین میں داخل کیا ہے پس ہم نے دونوں کو یک جا جمع کر لیا.شیعہ نے ازواج مطہرات کو سبّ و شتم سے یاد کیا ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کو معلوم تھا کہ یہ لوگ ایسا کریں گے اس لیے قبل ازوقت ان کی برأت کردی.بعض مخالفین کا طاعون سے بچنا سوال ہوا کہ بعض مخالف کہتے ہیں ہم پر کیوںطاعون نہیں آتی؟ ۱ اس عنوان سے الحکم جلد۷ نمبر۱۵ صفحہ ۹ پر بعض سوال اور ان کے جوابات ایسے ہیں جو ۳؍اپریل ۱۹۰۳ء کی ڈائری میںالحکم میں اور ۴؍اپریل ۱۹۰۳ء کی ڈائری میں البدر میں چھپ چکے ہیں لہٰذا اُن کو چھوڑ کر باقی استفسار اور ان کے جواب یہاں درج کیے جاتے ہیں.(مرتّب)
ہے.اگر ان اعلیٰ کی سمجھ نہیں آتی تو پہلے ان چھو ٹے چھوٹے ملائک پر نظر ڈال کر دیکھو ملائکہ کا انکار انسان کو دہریہ بنا دیتا ہے.غرض اس قصہ میں اللہ تعالیٰ کو یہ دکھانا مقصود ہے کہ ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کی تابع ہے اگر اس سے انکار کیا جاوے تو پھرتو خدا تعالیٰ کا وجود بھی ثابت نہیں ہوسکتا.آخیر میں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز اور حکیم بیان کی ہے یعنی اس کا غلبہ قہری ایسا ہے کہ ہر ایک چیز اس کی طرف رجوع کر رہی ہے بلکہ جب خدا تعالیٰ کا قرب انسان حاصل کرتا ہے تو اس انسان کی طرف بھی ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے.جس کا ثبوت سو رۃالعادیات میں ہے عزیز، حکیم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا غلبہ حکمت سے بھر ا ہوا ہے نا حق کا دکھ نہیں ہے.۱ ۹؍اپریل ۱۹۰۳ء (صبح کی سیر) حق وباطل فرمایا.حق اپنے زور اور قوت سے چلتا اور اس کے ساتھ باطل بھی ضرور چلتا ہے لیکن باطل اپنی قوت اور طاقت سے نہیں چلتا بلکہ حق کے پرتو سے چلتا ہے کیونکہ حق چاہتا ہے کہ ساتھ ساتھ کچھ باطل بھی چلے تاکہ تمیز ہو.کاذبوں اور منکروں کے وجود سے بہت سی تحریکیں ہو جاتی ہیں.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے دن ہی سارامکہ اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا کہہ کرساتھ ہو لیتا تو پھر قرآن شریف کا نزول اسی دن بندہو جاتا اور وہ اتنی بڑی کتاب نہ ہوتی جس جس قدر زورسے باطل حق کی مخالفت کرتا اسی قدر حق کی قوت اور رفتار تیز ہوتی ہے.زمینداروں میں بھی یہ بات مشہور ہے کہ جتنا جیٹھ ہاڑ تپتا ہے اسی قدر ساون میں بارش زیادہ ہوتی ہے یہ ایک قدرتی نظارہ ہے حق کی جس قدرزور سے مخالفت ہو اسی قدر وہ چمکتا اور اپنی شوکت دکھاتا ہے.ہم نے خود آزما کردیکھاہے کہ جہاں جہاں ہماری نسبت زیادہ شور و غل ہوا ہے وہاں ایک ۱الحکم جلد۷نمبر۱۵ مورخہ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۹
خدا تعالیٰ نے جو ملائکہ کی تعریف کی ہے وہ ہر ایک ذرّہ ذرّہ پرصادق آسکتی ہے جیسے فرمایا اِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ (بنی اسـرآءیل:۴۵) ویسے ملائکہ کی نسبت فرمایا يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ(النحل:۵۱) ــاس کی تشریح نسیم دعوت میں خوب کردی ہے.ہر ایک ذرّہ ملائکہ میں داخل ہے.اگر ان اعلیٰ کی سمجھ نہیں آتی تو پہلے ان چھو ٹے چھوٹے ملائک پر نظر ڈال کر دیکھو ملائکہ کا انکار انسان کو دہریہ بنا دیتا ہے.غرض اس قصہ میں اللہ تعالیٰ کو یہ دکھانا مقصود ہے کہ ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کی تابع ہے اگر اس سے انکار کیا جاوے تو پھرتو خدا تعالیٰ کا وجود بھی ثابت نہیں ہوسکتا.آخیر میں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز اور حکیم بیان کی ہے یعنی اس کا غلبہ قہری ایسا ہے کہ ہر ایک چیز اس کی طرف رجوع کر رہی ہے بلکہ جب خدا تعالیٰ کا قرب انسان حاصل کرتا ہے تو اس انسان کی طرف بھی ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے.جس کا ثبوت سو رۃالعادیات میں ہے عزیز، حکیم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا غلبہ حکمت سے بھر ا ہوا ہے نا حق کا دکھ نہیں ہے.۱ ۹؍اپریل ۱۹۰۳ء (صبح کی سیر) حق وباطل فرمایا.حق اپنے زور اور قوت سے چلتا اور اس کے ساتھ باطل بھی ضرور چلتا ہے لیکن باطل اپنی قوت اور طاقت سے نہیں چلتا بلکہ حق کے پرتو سے چلتا ہے کیونکہ حق چاہتا ہے کہ ساتھ ساتھ کچھ باطل بھی چلے تاکہ تمیز ہو.کاذبوں اور منکروں کے وجود سے بہت سی تحریکیں ہو جاتی ہیں.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے دن ہی سارامکہ اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا کہہ کرساتھ ہو لیتا تو پھر قرآن شریف کا نزول اسی دن بندہو جاتا اور وہ اتنی بڑی کتاب نہ ہوتی جس جس قدر زورسے باطل حق کی مخالفت کرتا اسی قدر حق کی قوت اور رفتار تیز ہوتی ہے.زمینداروں میں بھی یہ بات مشہور ہے کہ جتنا جیٹھ ہاڑ تپتا ہے اسی قدر ساون میں بارش زیادہ ہوتی ہے یہ ایک قدرتی نظارہ ہے حق کی جس قدرزور سے مخالفت ہو اسی قدر وہ چمکتا اور اپنی شوکت دکھاتا ہے.ہم نے خود آزما کردیکھاہے کہ جہاں جہاں ہماری نسبت زیادہ شور و غل ہوا ہے وہاں ایک جماعت تیار ہو گئی اور جہاں لوگ اس بات کو سن کرخاموش ہو جاتے ہیں وہاں زیادہ ترقی نہیں ہوئی.فتح کے لئے اوّل لڑائی کا ہونا ضروری ہے اگر لڑائی نہ ہو تو فتح کا وجود کہاں سے آئے؟ پس اسی طرح اگر حق کی مخا لفت نہ ہو تو اس کی صداقت کس طرح کھلے؟ ۱الحکم جلد۷نمبر۱۵ مورخہ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۹
جماعت تیار ہو گئی اور جہاں لوگ اس بات کو سن کرخاموش ہو جاتے ہیں وہاں زیادہ ترقی نہیں ہوئی.فتح کے لئے اوّل لڑائی کا ہونا ضروری ہے اگر لڑائی نہ ہو تو فتح کا وجود کہاں سے آئے؟ پس اسی طرح اگر حق کی مخا لفت نہ ہو تو اس کی صداقت کس طرح کھلے؟ مرکزمیں نمازوںکا قصر نماز کے قصر کرنے کے متعلق سوال کیا گیا کہ جو شخص یہاں آتے ہیں وہ قصر کریں یا نہ؟ فرمایا.جو شخص تین دن کے واسطے یہاں آوے اس کے واسطے قصر جائز ہے میری دانست میں جس سفر میں عزم سفر ہو پھر خواہ وہ تین چار کوس ہی کا سفر کیوں نہ ہو اس میں قصر جائزہے.یہ ہماری سیر سفر نہیں ہے.ہاں اگر امام مقیم ہو تو اس کے پیچھے پوری ہی نماز پڑھنی پڑے گی.حکام کا دورہ سفر نہیں ہوسکتا.وہ ایسا ہے جیسے کوئی اپنے باغ کی سیر کرتا ہے.خواہ نخواہ قصر کرنے کا تو کوئی وجودنہیں.اگر دوروں کی وجہ سے انسان قصر کرنے لگے تو پھر یہ دائمی قصر ہوگا جس کا کوئی ثبوت ہما رے پاس نہیں ہے.حکا م کہاں مسافر کہلا سکتے ہیں.سعدیؒ نے بھی کہاہے.؎ منعم بکوہ و دشت وبیاباں غریب نیست ہرجاکہ رفت خیمہ زد و خوابگاہ ساخت نکاح پرباجا اور آتش بازی نکاح پرباجا بجانے اورآتش بازی چلانے کے متعلق سوال ہوا.فرمایا.ہما رے دین میں دین کی بنا یسر پر ہے عسرپرنہیں اور پھر اِنَّـمَاالْاَعْـمَالُ بِا لنِّیَّاتِ ضروری چیزہے باجوں کا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھا.اعلان نکاح جس میں فسق وفجورنہ ہو جائزہے بلکہ بعض صورتوں میں ضروری شَے ہے کیونکہ اکثر دفعہ نکاحوں کے متعلق مقدمات تک نوبت پہنچتی ہے اور پھر وراثت پراثر پڑتا ہے.اس لیے اعلان کرنا ضروری ہے مگر اس میں کوئی ایسا اَمرنہ ہو جو فسق و فجور کا موجب ہو.رنڈی کا تماشا، آتش بازی فسق وفجوراور اسراف ہے.یہ جائزنہیں.
با جے کے ساتھ اعلان پر پوچھا گیا کہ جب برات لڑکے والوں کے گھر سے چلتی ہے کیا اسی وقت سے با جا بجتا جاوے یا نکاح کے بعد؟ فرمایا.ایسے سوالات اورجزی دَر جزی نکالنابے فائدہ ہے.اپنی نیت کو دیکھو کہ کیا ہے اگر اپنی شان وشوکت دکھانا مقصود ہے تو فضول ہے اور اگر یہ غرض ہے کہ نکاح کا صرف اعلان ہو تو اگر گھر سے بھی باجا بجتا جاوے تو کچھ حرج نہیں ہے.اسلامی جنگوں میں بھی تو باجا بجتا ہے وہ بھی ایک اعلان ہی ہوتا ہے.نیک نیتی میں برکت ہے ایک زرگر کی طرف سے سوال ہوا کہ پہلے ہم زیوروں کے بنانے کی مزدوری کم لیتے تھے اور ملاوٹ ملادیتے تھے.اب ملاوٹ چھوڑ دی ہے اور مزدوری زیادہ مانگتے ہیں تو بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم مزدوری وہی دیں گے جو پہلے دیتے تھے تم ملاوٹ ملالو.ایسا کام ہم ان کے کہنے سے کریں یا نہ کریں؟ فرمایا.کھوٹ والا کام ہرگز نہیں کرنا چاہیے اور لوگوں کو کہہ دیا کرو کہ اب ہم نے توبہ کرلی ہے جو ایسا کہتے ہیں کہ کھوٹ ملادو وہ گناہ کی رغبت دلاتے ہیں.پس ایسا کام ان کے کہنے پر بھی ہرگز نہ کرو.برکت دینے والا خدا ہے اور جب آدمی نیک نیتی کے ساتھ ایک گناہ سے بچتا ہے تو خدا ضرور برکت دیتا ہے.مُردے اور اسقاط پھر سوال ہوا کہ ملّاں لوگ مُردہ کے پاس کھڑے ہو کر اسقاط کراتے ہیں کیا اس کا کوئی طریق جائز ہے؟ فرمایا.اس کا کہیں ثبوت نہیں ہے.مُلّائوں نے ماتم اور شادی میں بہت سی رسمیں پیدا کر لی ہیں.یہ بھی ان میں سے ایک ہے.مقد مات میں مصنوعی گواہ بنانا ایک مختار عدالت نے سوال کیا کہ بعض مقدمات میں اگرچہ وہ سچا اور صداقت پر ہی مبنی ہو مصنوعی گواہوں کا بنانا کیسا ہے؟ فرمایا.اوّل تو اس مقدمہ کے پیرو کار بنو جو بالکل سچاہو.یہ تفتیش کر لیا کرو کہ مقدمہ سچا ہے یا
جھوٹا.پھر سچ آپ ہی فروغ حاصل کرے گا.دوم گواہوں سے آپ کا کچھ واسطہ ہی نہیں ہونا چاہیے.یہ موکل کا کام ہے کہ وہ گواہ پیش کرے.یہ بہت ہی بُری بات ہے کہ خود تعلیم دی جاوے کہ چند گواہ تلاش کرلائو اور ان کو یہ بات سکھا دو.تم خود کچھ بھی نہ کہو.موکل خود شہادت پیش کرے خواہ وہ کیسی ہی ہو.ہر صحیح بات کا ا ظہار ضروری نہیں پھر سوال ہوا کہ بعض باتیں واقع میں صحیح ہوتی ہیں مگر مصلحتِ وقت اور قانون ان کے اظہار کا مانع ہوتا ہے تو کیا ہم لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ(البقرۃ:۲۸۴) کے موافق ظاہر کر دیا کریں؟ فرمایا.یہ بات اس وقت ہوتی ہے جب آدمی آزاد بالطبع ہو.دوسری جگہ یہ بھی تو فرمایا ہے لَاتُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ(البقرۃ:۱۹۶) قانون کی پابندی ضروری شَے ہے.جب قانون روکتا ہے تو رکنا چاہیے جب کہ بعض جگہ اخفائِ ایمان بھی کرنا پڑتا ہے توجہاں قانون بھی مانع ہو وہاں کیوں اظہار کیا جاوے؟ جس راز کے اظہار سے خانہ بربادی اور تباہی آتی ہو وہ اظہار کرنا منع ہے.نتائج نیت پر مترتّب ہوتے ہیں مکرر آتش بازی کے متعلق فرمایا کہ اس میں ایک جزو گندھک کا بھی ہوتا ہے اور گندھک وبائی ہوا صاف کرتی ہے.چنانچہ آج کل طاعون کے ایام میں مثلاً انار بہت جلد ہو اکو صاف کرتا ہے اگر کوئی شخص صحیح نیت اصلاحِ ہوا کے واسطے ایسی آتش بازی جس سے کوئی خطرہ نقصان کا نہ ہو چلاوے تو ہم اس کو جائز سمجھتے ہیں.مگر یہ شرط اصلاح نیت کے ساتھ ہو.کیونکہ تمام نتائج نیت پر مترتّب ہوتے ہیں.حدیث میں آیا ہے کہ صحابی نے گھر بنوایا اور آپؐکو مجبور کیا کہ آپؐاس میں قدم ڈالیں.آپ نے اس مکان کو دیکھا.اس کے ایک طرف کھڑکی تھی.آپ نے دریافت کیا کہ یہ کس لیے بنائی ہے؟ اس نے عرض کیا کہ ٹھنڈی ہوا کے آنے کے واسطے.آپ نے فرمایا کہ اگر تواذان سننے کے واسطے اس کی نیت رکھتا تو ہوا تو آہی جاتی اور تیری نیت کا ثواب بھی تجھے مِل جاتا.۱ ۱الحکم جلد۷نمبر۱۵ مورخہ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۱۰
(مجلس قبل از عشاء) توحید اور اسباب پرستی اوّل طاعون کے ٹیکہ کے متعلق بہت دیر تک گفتگو ہوتی رہی اس کے بعد توحید کا ذکر چل پڑا.فرمایا کہ توحید اس کا نام نہیں کہ صرف زبان سے اَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُـحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہہ لیا.بلکہ توحید کہ یہ معنے ہیں کہ عظمتِ الٰہی بخوبی دل میں بیٹھ جاوے اور اس کے آگے کسی دوسری شَے کی عظمت دل میں جگہ نہ پکڑے.ہر ایک فعل اور حرکت اور سکون کا مرجع اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کو سمجھا جاوے اور ہر ایک اَمر میں اسی پر بھروسہ کیا جاوے کسی غیر اللہ پر کسی قسم کی نظر اور توکّل ہرگز نہ رہے اور خدا کی ذات میں اور صفات میں کسی قسم کا شرک جائز نہ رکھا جاوے.اس وقت مخلوق پرستی کے شرک کی حقیقت تو کُھل گئی ہے اور لوگ اس سے بیزاری ظاہر کر رہے ہیں اس لئے یورپ وغیرہ تمام بلاد میں عیسائی لوگ ہر روز اپنے مذہب سے متنفر ہو رہے ہیں.چنانچہ روز مرّہ کے اخباروں، رسالوں اور اشتہاروں سے جو یہاں پڑھے جاتے ہیں اس بات کی تصدیق ہوتی ہے.الغرض مخلوق پرستی کو اب کوئی نہیں مانتا.ہاں اسباب پرستی کا شرک اس قسم کا شرک ہے کہ اس کو بہت لوگ نہیں سمجھتے.مثلاًکسان کہتا ہے کہ میں جب تک کھیتی نہ کروں گا اور وہ پھل نہ لائے گی تب تک گذارہ نہیں ہوسکتا.اسی طرح ہر ایک پیشہ والے کو اپنے پیشے پر بھروسہ ہے اور انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اگر ہم یہ نہ کریں تو پھر زندگی محال ہے.اس کا نام اسباب پرستی ہے اور یہ اس لئے ہے کہ خدا کی قدرتوں پر ایمان نہیں ہے پیشہ وغیرہ تو درکنار پانی، ہوا، غذا وغیرہ جن اشیاء پر مدارِزندگی ہے یہ بھی انسان کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے جب تک خدا تعالیٰ کا اذن نہ ہو.اسی لئے جب انسان پانی پیے تو اسے خیال کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی کو پیدا کیا ہے اور پانی نفع نہیں پہنچاسکتا جب تک خدا تعالیٰ کا ارادہ نہ ہو.خدا کے ارادے سے پانی نفع دیتا ہے اور جب خدا چاہتا ہے تو وہی پانی ضرر دیتا ہے.
لا ف وگزاف کا نام توحید نہیں مو لویوں کی طرف دیکھو کہ دوسروں کو وعظ کرتے ہیں اور آپ کچھ عمل نہیں کرتے اسی لیے اب ان کا کسی قسم کا اعتبا ر نہیں رہا ہے.ایک مو لوی کا ذکر ہے کہ وہ وعظ کر رہا تھا سامعین میں اس کی بیوی بھی موجود تھی انفاق، صدقہ، خیرات اور مغفرت کا وعظ اس نے کیا جس سے مؤثر ہو کر ایک عورت نے پاؤں سے ایک پازیب اتار کرواعظ صاحب کو دے دی جس پر واعظ صاحب نے کہا تو چاہتی ہے کہ تیرا دوسرا پاؤں دوزخ میں جلے؟ یہ سن کر اس نے دوسری بھی دے دی جب گھر میں آئے تو بیوی نے بھی اس وعظ پر عملدرآمد چاہا کہ محتاجوں کو کچھ دے مو لوی صاحب نے فرمایا کہ یہ باتیں سنا نے کی ہوتی ہیں کرنے کی نہیں ہوتیں اور کہا کہ اگر ایسا کام ہم نہ کریں تو گذارہ نہیں ہوتا انہیں کے متعلق یہ ضرب المثل خوب ہے.؎ واعظاں کیں جلوہ بر محراب ومنبر میکنند چوں بہ خلوت می روند آں کا ردیگر میکنند تعبیر رؤیا مُردہ کو کلمہ پڑھتے سننا یعنی دین کا دوبارہ سر سبز ہونا.بڑ یعنی بوہڑ کے درخت سے مُراد نصاریٰ کا دین ہے کہ جس کی عظمت اور سر کشی تو بہت ہے مگر پھل ندارد.۱ ۱۰؍ اپر یل ۱۹۰۳ء بعد از نماز جمعہ چند اشخاص نے بیعت کی جس پر حضرت اقدس نے ذیل کی تقریر فرمائی.بیعت ِتوبہ اس وقت جو تم بیعت کرتے ہو یہ بیعت توبہ ہے اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ جو کوئی توبہ کرے گا اس کے گناہ بخش دوں گا گناہ کے یہ معنے ہیں کہ انسان دیدہ دانستہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے اور ان تمام احکام کے برخلاف کرے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے اور ان باتوں کو کرے جن کے کرنے سے منع فرمایا ہے گناہ ایسی چیز ہے کہ جس کا نتیجہ اس دنیا میں بھی بد ملتا ہے اور آخرت میں بھی.۱ البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰۷،۱۰۸
جب انسان توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو فر اموش کر دیتا ہے اور تائب کو بے گناہ سمجھتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ تائب اپنی توبہ پر قائم رہے بہت لوگ ہیں کہ توبہ کر کے بھول جاتے ہیں مثلاًحج کرنے والے حج کرکے آتے ہیں اور واپس آکر چند دنوں کے بعد پھر سا بقہ بدیوں میں گرفتا ر ہو جاتے ہیں تو ان کے ایسے حج سے کیا فائدہ؟ خدا تعالیٰ گناہوں سے ہمیشہ بیزار ہے اس لیے انسان کو گناہ سے ہمیشہ بچنا چاہیے جو شخص اس بات پر قادر ہے کہ گناہ چھوڑ دے اور پھر نہ چھوڑے تو خدا تعالیٰ ایسے شخص کو ضرور پکڑے گا اگر تم چاہتے ہو کہ اس توبہ کے درخت سے پھل کھا ؤ اور تمہارے گھر وبا ؤں سے بچے رہیں تو چاہیے کہ سچی توبہ کرو.خدا تعالیٰ اپنی سنّت کو نہیں بد لا کرتا جیسے قرآن شریف میں ہے وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا (فاطر:۴۴) اور جو انسان ذرا سی بھی نیکی کرتا ہے تو خدا اسے ضائع نہیں کرتا اسی طرح جو ذرّہ بھر بدی کرتا ہے اس پر بھی خدا تعالیٰ مواخذ ہ کرتا ہے پس جب یہ حالت ہے تو گناہ سے بہت بچنا چاہیے.گناہ کی پروا نہ کرنی بعض لوگ گناہ کرتے ہیں اور پھر اس کی پروا نہیں کرتے گویا گناہ کو ایک شیریں شربت کی مثال خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے کوئی نقصان نہ ہوگا مگر یاد رکھیں کہ جیسے خدا تعالیٰ بڑا غفور اور رحیم ہے ویسے ہی وہ بڑا بے نیاز بھی ہے جب وہ غضب میں آتا ہے تو کسی کی پروا نہیں کرتا وہ فرماتا ہے وَلَا يَخَافُ عُقْبٰهَا (الشمس:۱۶) یعنی کسی کی اولاد کی بھی اسے پروا نہیں ہوتی کہ اگر فلاں شخص ہلاک ہوگا تو اس کے یتیم بے کس بچے کیا کریں گے آج کل دیکھو یہی حالت ہو رہی ہے آخر کار ایسے بچے پادریوں کے ہاتھ پڑ جاتے ہیں اس لیے گناہ کرکے کبھی بے پروا مت ہو اور ہمیشہ توبہ کرو.نماز اور دعا کا حق یہ مت خیال کرو کہ جو نماز کا حق تھا ہم نے ادا کر لیایا دعا کا جو حق تھا وہ ہم نے پورا کیا ہرگز نہیں دعا اور نماز کے حق کا ادا کرنا چھوٹی بات نہیں یہ تو ایک موت اپنے اوپر وارد کرنی ہے نمازاس بات کا نام ہے کہ جب انسان اسے ادا کرتاہو تو یہ محسوس کرے کہ اس جہان سے دوسرے جہان میں پہنچ گیاہوں.بہت سے لوگ ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ پر
موت اپنے اوپر وارد کرنی ہے نمازاس بات کا نام ہے کہ جب انسان اسے ادا کرتاہو تو یہ محسوس کرے کہ اس جہان سے دوسرے جہان میں پہنچ گیاہوں.بہت سے لوگ ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ پر الزام لگاتے ہیں اور اپنے آپ کو بَری خیال کرکے کہتے ہیں کہ ہم نے تو نماز بھی پڑھی اور دعا بھی کی ہے مگر قبول نہیں ہوتی یہ ان لوگوں کا اپنا قصور ہوتا ہے.نماز اور دعا، جب تک انسان غفلت اور کسل سے خالی نہ ہو تو وہ قبولیت کے قابل نہیں ہوا کرتی.اگر انسان ایک ایسا کھانا کھائے جو کہ بظاہر تو میٹھا ہے مگر اس کے اندر زہر ملی ہوئی ہے تو مٹھاس سے وہ زہر معلوم تو نہ ہوگا مگر پیشتر اس کے کہ مٹھاس اپنا اثر کرے زہر پہلے ہی اثر کرکے کام تمام کر دے گا یہی وجہ ہے کہ غفلت سے بھری ہوئی دعائیں قبول نہیں ہوتیں کیونکہ غفلت اپنا اثر پہلے کر جاتی ہے یہ بات بالکل نا ممکن ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا بالکل مطیع ہو اور پھر اس کی دعا قبول نہ ہو ہاں یہ ضروری ہے کہ اس کے مقررہ شرائط کو کامل طور پرادا کرے جیسے ایک انسان اگر دُور بین سے دور کی شَے نزدیک دیکھنا چاہے تو جب تک وہ دُوربین کے آلہ کو ٹھیک ترتیب پر نہ رکھے فائدہ نہیں اٹھا سکتا یہی حال نماز اور دعا کا ہے اسی طرح ہر ایک کام کی ایک شرط ہے جب وہ کامل طور پر ادا ہو تو اس سے فائدہ ہوا کرتا ہے اگر کسی کو پیاس لگی ہو اور پانی اس کے پاس بہت سا موجود ہے مگر وہ پیے نہ تو فائدہ نہیں اٹھا سکتا یا اگر اس میں سے ایک دو قطرہ پیے تو کیا ہوگا؟ پوری مقدار پینے سے ہی فائدہ ہوگا غرضیکہ ہر ایک کام کے واسطے خدا نے ایک حد مقرر کی ہے جب وہ اس حد پر پہنچتا ہے تو با برکت ہوتا ہے اور جو کام اس حد تک نہ پہنچیں تو وہ اچھے نہیں کہلا تے اور نہ ان میں برکت ہوتی ہے.عاجزی عاجز ی اختیار کرنی چاہیے عاجزی کا سیکھنا مشکل نہیں ہے اس کا سیکھنا ہی کیا ہے انسان تو خود ہی عاجز ہے اور وہ عاجزی کے لیے ہی پیدا کیا گیا ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذاریٰت:۵۷) تکبر وغیرہ سب بناوٹی چیزیں ہیں اگر وہ اس بناوٹ کو اتار دے تو پھراس کی فطرت میں عاجز ی ہی نظر آوے گی اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں امن رہے تو مناسب ہے کہ دعائیں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دعاؤں سے پر کرو جس گھر میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے خدا اسے برباد نہیں کیا کرتا لیکن جو سستی میں زندگی بسر کرتا ہے اسے آخر فرشتے بیدار کرتے ہیں.اگر تم ہر وقت اللہ کو یادرکھو گے تو یقین رکھو کہ اللہ کا وعدہ بہت پکا ہے وہ کبھی تم سے ایسا سلوک نہ کرے گا جیسا کہ فاسق فاجر سے کرتا ہے خدا کو کوئی ضرورت نہیں کہ تم کو عذاب دیوے بشرطیکہ تم ایمان لاؤاور شکر کرو.انسان کو عذاب ہمیشہ گناہ کے با عث ہوتا ہے خدا فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (الرّعد:۱۲) اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بد لتا جب تک وہ خود اپنے اندر تبدیلی نہ کرے جب تک انسان اپنے آپ کو صاف نہ کرے تب تک خدا عذاب کو دور نہیں کرتا ہے.
ہے وہ کبھی تم سے ایسا سلوک نہ کرے گا جیسا کہ فاسق فاجر سے کرتا ہے خدا کو کوئی ضرورت نہیں کہ تم کو عذاب دیوے بشرطیکہ تم ایمان لاؤاور شکر کرو.انسان کو عذاب ہمیشہ گناہ کے با عث ہوتا ہے خدا فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (الرّعد:۱۲) اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بد لتا جب تک وہ خود اپنے اندر تبدیلی نہ کرے جب تک انسان اپنے آپ کو صاف نہ کرے تب تک خدا عذاب کو دور نہیں کرتا ہے.یہ دنیا خود بخود نہیں ہے اس کے لیے ایک خالق ہے اور جو کچھ ہورہا ہے اس کی مرضی سے ہو رہا ہے بغیر اس کی رضا کے ایک ذرّہ حرکت نہیں کرسکتا جو اللہ تعالیٰ سے تر ساں رہے گا وہ خود محسوس کرے گا کہ اس میں ایک فرقان (فرق کرنے والی شَے دوسروں سے) پیدا ہو گیا ہے مگر شرط یہ ہے کہ شیطانی سیرت کا انسان نہ ہو.تکالیف تو نبیوں پر بھی آتی ہیں مگروہ عام لوگوں کی طرح نہیں بلکہ ان کے لیے وہ باعث برکت ہوتی ہیں.دغا باز آدمی کی نماز قبول نہیں ہوتی وہ اس کے منہ پر ماری جاتی ہے کیونکہ وہ دراصل نماز نہیں پڑھتا بلکہ خدا کو رشوت دینا چاہتا ہے مگر خدا کو اس سے نفرت ہوتی ہے کیونکہ وہ رشوت کو خود پسند نہیں کرتا.نماز کوئی ایسی ویسی شَے نہیں ہے بلکہ یہ وہ شَے ہے جس میں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ الخ (الفاتـحۃ:۶) جیسی دعا کی جاتی ہے اس دعا میں یہ بتلا یا گیا ہے کہ جو لوگ بر ے کام کرتے ہیں ان پر دنیا میں خدا کا غضب آتا ہے.الغرض اللہ تعالیٰ کوخوش کرنا چاہیے جو کام ہوتا ہے اس کے ارادے سے ہوتا ہے.چنانچہ طاعون بھی اسی کے حکم سے آئی ہے یہ دنیا سے رخصت نہ ہو گی جب تک ایک تغیر عظیم پیدا نہ کر لے جواس سے نہیں ڈرتا وہ بڑا بدبخت ہے اور اس کے استیصال کے لیے ایک ہی راہ ہے وہ یہ کہ اپنے آپ کو پاک کرو کیونکہ اگر پاک ہو کر مَر بھی جاوے گا تو بھی بہشت کو پہنچے گا.مَرنا تو سب نے ہے مومن نے بھی اور کافر نے بھی مگر مو من اور کافر کی موت میں خدا فرق کر دیتا ہے.دیکھو ان باتوں کو منتر جنتر نہ سمجھو اور یہ خیال نہ کرو کہ یو نہی فائدہ ہو جاوے گا جیسے کہ بھوکے کے سامنے روٹیوں کا انبا ر فائدہ نہیں دیتا جب تک کہ وہ نہ کھا وے اسی طرح آج کے اقرار کے مطابق
جب تک کوئی اپنے آپ کو گناہ سے نہ بچا وے گا اسے برکت نہ ہو گی یا درکھو کہ میں اس بات پر شاہد ہوں کہ میں نے تم کو سمجھا دیا ہے.اب تم کو چاہیے کہ برائیوں سے بچنے کے واسطے خدا تعالیٰ سے دعا کرو تا کہ بچے رہو.جو شخص بہت دعا کرتا ہے اس کے واسطے آسمان سے توفیق نازل کی جاتی ہے کہ گناہ سے بچے اور دعا کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گناہ سے بچنے کے لیے کوئی نہ کوئی راہ اسے مل جاتی ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا(الطّلاق:۳) یعنی جو امور اسے کشاں کشاں گناہ کی طرف لے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان امور سے بچنے کی توفیق اسے عطا فرماتا ہے.قرآن کو بہت پڑھنا چاہیے اور پڑ ھنے کی توفیق خدا سے طلب کرنی چاہیے کیونکہ محنت کے سوا انسان کو کچھ نہیں ملتا.کسان کو دیکھو کہ جب وہ زمین میں ہل چلا تا ہے اور قسم قسم کی محنت اٹھاتا ہے تب پھل حاصل کرتا ہے مگر محنت کے لیے زمین کا اچھا ہونا شرط ہے اسی طرح انسان کا دل بھی اچھا ہو سامان بھی عمدہ ہوسب کچھ کر بھی سکے تب جا کر فائدہ پاوے گا لَيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى (النجم:۴۰) دل کا تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط باندھنا چاہیے جب یہ ہوگا تو دل خود خدا سے ڈرتا رہے گا اور جب دل ڈرتا رہتا ہے تو خدا کو اپنے بندے پر خود رحم آ جاتا ہے اور پھر تمام بلاؤں سے اسے بچاتا ہے.گناہ سے بچو.نماز ادا کرو.دین کو دنیا پر مقدم رکھو.خدا کا سچا غلام وہی ہوتا ہے جو دین کو دنیا پر مقدم رکھتا ہے.لقاءِ الٰہی کا واسطہ قرآن اور آنحضرتؐہیں ہر ایک شخص کو خود بخود خدا سے ملاقات کرنے کی طاقت نہیں ہے اس کے واسطے، واسطہ ضرور ہے اور وہ واسطہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اس واسطے جو آپؐکو چھوڑتا ہے وہ کبھی بامُراد نہ ہوگا.انسان تو دراصل بندہ یعنی غلام ہے.غلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ مالک جو حکم کرے اسے قبول کرے اسی طرح اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض حاصل کرو تو ضرور ہے کہ اس کے غلام ہوجائو.قرآن کریم میں خدا فرماتا ہے قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ(الزّمر:۵۴) اس جگہ بندوں سے مُراد غلام ہی ہیں نہ کہ مخلوق.رسول کریمؐ کے بندہ ہونے
کے واسطے ضروری ہے کہ آپ پر درود پڑھو اور آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرو.سب حکموں پر کاربند رہو جیسے کہ حکم ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (اٰل عـمران:۳۲) یعنی اگر تم خدا سے پیار کرنا چاہتے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے فرمان بردار بن جائو اور رسول کریم کی راہ میں فنا ہوجائو تب خدا تم سے محبت کرے گا.جب لوگ بدعتوں پر عمل کرتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ کیا کریں دنیا سے چھٹکارا نہیں ملتا یا کہتے ہیں کہ ناک کٹ جاتی ہے.ایسے وقت میں گویا انسان خدا تعالیٰ کے اس فرمان کو چھوڑتا ہے جو رسول کریم کی اطاعت کا ہے اور خیال کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنابے فائدہ ہے.۱ ۱۱؍ اپریل ۱۹۰۳ء (صبح کی سیر ) دلیلِ صداقت فرمایا.جب ہمیں یہ الہام ہوا تھا وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَ وَحْيِنَا اس وقت تو ایک شخص بھی ہمارا مرید نہ تھا.اگر یہ سلسلہ من عند غیراللہ ہوتا تو آج تک الٰہی بخش کی طرح بیکار ہی پڑا رہتا.کیا یہ ثبوت کافی نہیں؟ الٰہی بخش تو میرے الہامات کے پیچھے پیچھے چلتا ہے.ایسا کیوں کرتا ہے کہ الہام ہمارے سالہا سال سے شائع ہوچکے ہیں ان کی اب نقل کرتا ہے.اصل میں جس طرح درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح حق اپنے انوار سے شناخت کیا جاتا ہے.اسی طرح یَا مَسِیْحَ الْـخَلْقِ عَدْوَانَا اس وقت سے چھپا ہوا اور شائع شدہ ہے جبکہ طاعون کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا اور اب آج طاعون کی وجہ سے لوگ آتے اور زبانِ حال سے کہتے ہیں یَا مَسِیْحَ الْـخَلْقِ عَدْوَانَا اور اکثر اپنے خطوں میں لکھتے ہیں.اب یاتو یہ ثابت کرو کہ یہ الہام ہمارا من گھڑت ہے اور ہم نے اپنی کوشش سے چند لوگوں کو اس کے مکمل کرنے کے واسطے ملا لیا ہے یا یہ قبول کرو کہ یہ جو دودواور چارچار سو آدمی یکدم بیعت کرتے ہیں یہ خدا کی تائید ہے.۱ البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰۸،۱۰۹
جس زور کے طاعون کی وجہ سے لوگ اس سلسلہ میں داخل ہورہے ہیں اس طرح کسی کو یقین چھوڑ وَہم بھی نہ تھا کیونکہ یہ الہام اس وقت کا ہے جب ا ن لوگوں کا نام ونشان بھی نہ تھا.اس لیے ان تمام ناموں کو محفوظ رکھا جاوے اور اگر ان لوگوں کا الگ رجسٹر نہ ہو تو رجسٹر بیعت ہی میں سُرخی کے ساتھ ان کو درج کیا جاوے.کنچنی کی مسجد میں نماز ایک شخص کے سوال پر فرمایا کہ کنچنی کی بنوائی ہوئی مسجد میں نماز درست نہیں ہے.طریقِ ادب سے بعید سوالات پھر ایک شخص نے پوچھا کیا قیامت کے دن بھی ہماری جماعت اسی طرح آپ کے آگے پیچھے ہوگی؟ فرمایا.یہ تفصیلیں نہیں ہوسکتی ہیں.ایسے سوال طریقِ ادب سے بعید ہیں.یہ بات اللہ تعالیٰ پر چھوڑو.حق کی چارہ جوئی سوال ہوا کہ مخالف ہم کو مسجد میں نمازپڑھنے نہیں دیتے حالانکہ مسجد میں ہمارا حق ہے.ہم ان سے بذریعہ عدالت فیصلہ کرلیں؟ فرمایا.ہاں اگر کوئی حق ہے تو بذریعہ عدالت چارہ جوئی کرو.فساد کرنا منع ہے.کوئی دنگہ فساد نہ کرو.مخالف کے گھر کی چیز کھانا سوال ہوا کہ کیا مخالفوں کے گھر کی چیز کھا لیویں یا نہ؟ فرمایا.نصاریٰ کی پاک چیزیں بھی کھا لی جاتی ہیں.ہندوؤں کی مٹھائی وغیرہ بھی ہم کھا لیتے ہیں پھر ان کی چیز کھا لینا کیا منع ہے.مخالف سے حسنِ معاشرت ہاں میں تو نماز سے منع کرتا ہوں کہ ان کے پیچھے نہ پڑھو.اس کے سوائے دنیاوی معاملات میں بے شک شریک ہو.احسان کرو، مروّت کرو اور ان کو قرض دو اور ان سے قرض لو اگر ضرورت پڑے اور صبرسے کام لو.شائد کہ اس سے سمجھ بھی جاویں.
نماز کی اہمیت ایک شخص نے عرض کی کہ میرے لیے دعا کرو کہ نماز کی توفیق اور استقامت ملے.فرمایا.حقیقت میں جو شخص نماز کو چھوڑتا ہے وہ ایمان کو چھوڑتا ہے اس سے خدا کے ساتھ تعلقات میں فرق آجاتا ہے.اس طرف سے فرق آیا تو معاً اُس طرف سے بھی فرق آجاتا ہے.سر پر ہاتھ رکھنا پھر اسی شخص نے عرض کی کہ میرے سر پر ہاتھ رکھو آپ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور اس طرح پر اخلاقِ فاضلہ کا ثبوت دیا.۱ (دربارِشام) تکمیلِ ایمان کا ذریعہ اصل میں ایمان کے کمالِ تام کا ذریعہ الہاماتِ صحیحہ اور پیشگوئی ہوتے ہیں.ایمان کبھی قصوں کہانیوں سے ترقی نہیں پکڑتے.عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ انسان جس مذہب میں پیدا ہوتا ہے.جس راہ ورسم کا پابند اپنے آباؤ اجداد کو پاتا ہے اکثر اسی کا پابند ہوا کرتا ہے.اگر ایک بت پرست کے گھر میں پیدا ہوا ہو تو بت پرستی ہی اس کا شیوہ ہوگا اور اگر ایک عیسائی کے ہاں اس نے تربیت پائی ہے تو وہی خُوبُو اس میں پائی جاوے گی.مگر اس کے مسائل اور اس کی بنیاد، عقائد کا بہت سا حصہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کی عقل وفہم میں کچھ بھی نہیں آیا ہوتا.صرف لکیر کا فقیر ہوتا ہے بچپن اور اوائل عمر میں تو کیا کوئی ان مذاہب کی حقیقت سے آگاہ ہوگا.عیسویت کے حامی تو اگر ان سے کوئی پوری تعلیم کا پورا جوان عاقل بالغ بھی ان کی تثلیث کے راز کو پوچھے تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ راز ہے جو ایشیائی دماغ کی بناوٹ کے لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے اور یہی حال بُت پرست کا ہے.اسلام کی حقانیت ہاں البتہ اسلام ایک دنیا میں ایسا مذہب ہے کہ جس کے عقائد ایسے ہیں کہ انسان ان کو سمجھ سکتا ہے اور وہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں.اسلام
کے مسائل ایسے ہیں کہ کسی خاص دماغ یا عقل کے واسطے خاص نہیں بلکہ وہ تمام دنیا کے واسطے یکساں ہیں اور ہر ایک کی سمجھ میں آسکتے ہیں.مگر وہ زندہ ایمان کہ جس سے انسان خدا کو گویا دیکھ لیتا ہے اور وہ نور جس سے انسان کی آنکھ کھل کر اس کو ایقانِ تام حاصل ہو جاوے وہ صرف الہام ہی پر منحصر ہے.الہام سے انسان کو ایک نور ملتا ہے جس سے وہ ہر تاریکی سے مبرّا ہوجاتا ہے اور ایک قسم کا اطمینان اورتسلی اسے ملتی ہے اس کا نفس اس دن سے خدا میں آرام پانے لگتا ہے اور ہر گناہ فسق فجور سے اس کا دل ٹھنڈا ہوتا جاتا ہے اس کا دل امید اور بیم سے بھر جاتا ہے اور خدا کی حقیقی معرفت کی وجہ سے وہ ہر وقت ترساں لرزاں رہتا ہے اور زندگی کو ناپائیدار جانتا اور اسفل لذات کی ہوس اور خواہش کو ترک کرکے خدا کی رضا کے حصول میں لگ جاتا ہے اور درحقیقت وہ اسی وقت گناہ کی آلودگی سے علیحدہ ہوتا ہے.جب تک تازہ نور انسان کو آسمان پر سے نہ ملے اور خدا کا مشاہدہ نہ ہو جاوے تب تک پورا ایمان نہیں ہوتا اور جب تک ایمان کمال درجہ تک نہ پہنچا ہو تب تک گناہ کی قید سے رہائی ناممکن ہے.بجز الہام کے ایمان کی تصویر لوگوں کے پاس ہوتی ہے.اس کی ماہیت سے لوگ بے بہرہ اور خالی محض ہوتے ہیں تعجب ہے کہ یورپ تو آج کل بہت سی ٹھوکریں کھا کر ان امور کو تسلیم کرتا جاتا ہے مگر ہمارے مولوی انکار وکفر میں غرق ہیں اگر الہام ہونے کا نام بھی لیا جاوے تو کفر کا فتویٰ تیار ہے.وحی کے نزول کا دعویٰ کرنے والا تو اکفر اور ضالّ و دجّال ہے.افسوس آتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کے کلام سے کیسے دور جاپڑے ہیں اور ان سے فہم قرآن چھین لیا گیا ہے.بھلا اگر خدا تعالیٰ نے اس امت کو اس شرف سے محروم ہی رکھنا تھا تو یہ دعا ہی کیوں سکھائی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتـحۃ:۶،۷) اس دعا سے تو صاف نکلتا ہے کہ یا الٰہی ہمیں پہلے منعم علیہم لوگوں کی راہ پر چلا اورجو ان کو الہامات ملے ہمیں بھی وہ انعامات عطا فرما.اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کون تھے؟خدا نے خود ہی فرما دیا ہے کہ نبی، صدیق، شہید، صالح لوگ تھے اوران کا برابر انعام یہی الہام اور وحی کا نزول تھا.بھلا اگر خدا نے اس دعا کا سچا نتیجہ جو ہے اس سے محروم ہی رکھنا تھا تو پھر کیوں ایسی دعا سکھائی؟ ہمیں
تعجب آتا ہے کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا.یہی تو ایک چیز تھی جو نہایت نازک اور روح کی غذا تھی.جو انسان اس کے حصول کا پیاسا نہیں.ممکن نہیں کہ اس کے اندر پاک تبدیلی آسکے اور جب تک انسان اس طرح خدا کا چہرہ نہ دیکھے اور اس کی سریلی آواز سے بہرہ ورنہ ہو.تب تک ممکن نہیں کہ گناہ کی زہر سے بچ سکے.خیر خود تو محروم اور بے نصیب تھے ہی مگر دوسروں کو جو اس قسم کے خیال رکھیں کہ خدا کسی سے ہمکلام ہوسکتا ہے کافر جانتے ہیں.وہ تو دوسروں کو کافر کہتے ہیں.مگر ہمیں خود ان کے ایمان کا خطرہ ہے کہ ان کا ایمان ہی کیا ہے جو اس نصیحتِ عظمیٰ سے محروم ہیں اور خدا کے حضور وہ دعا کے واسطے ہاتھ ہی کس طرح اُٹھا سکتے ہیں.خدا تعالیٰ تک پہنچانے کے ذرائع دو ہی چیزیں ہیں کہ جو خدا تک انسان کو پہنچا سکتی ہیں.دیدار جس کی موسیٰ نے بھی درخواست کی تھی اور وہ بھی الہام ہی کی وجہ سے تھی.کیونکہ جب انسان اس کی طرف ترقی پاتا ہے تو اَور اَور مدارج کی بھی اس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ ترقی کرنا چاہتا ہے.دوسری چیز خدا تک پہنچنے کی گفتار ہے اور یہ فضل خدا کا تو ایسا ہوا ہے کہ عورتوں تک بھی گفتار سے مشرف ہوتی رہی ہیں.حضرت موسیٰ کی ماں کو بھی ہمکلامی کا شرف حاصل تھا.حضرت عیسیٰ کے حواریوں کو بھی یہ نعمت ملی ہوئی تھی.خضرؑ کو بھی الہام ہوتا تھا تو کیا اسلام ہی ایسا گیا گذرا تھا اور خدا کی نظر میں گِرا ہوا تھا کہ اسے بنی اسرائیل کی عورتوں سے بھی پیچھے پھینک دیا؟ ان وہابیوں کا تو یہ اعتقاد ہے کہ آنحضرتؐکے بعد نہ صحابہ ؓ میں سے کسی کواور نہ بعد میں آئمہ میں سے کسی کو اَور نہ ہی بڑے بڑے خدا کے ولیوں مثلاًحضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ وغیرہ ان میں سے کسی کو بھی الہام نہیں ہوا.اور یہ سارے کے سارے ہی خشک مُلاّں تھے ان میں سے کسی کو بھی خدا کے مکالمے مخاطبے کا شرف نہ ملا ہوا تھا.ان کے ہاتھ میں بھی صرف قصّے کہانیاں ہی تھیں.لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ (الاحزاب:۴۱) کے معنے ہی ان کے نزدیک یہی ہیں کہ الہام کا دروازہ آپؐکے بعد ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا....اور آپ کے بعد آپ کی اُمّت سے یہ برکت کہ کسی کو مکالمات اور مخاطبات
ہوں بالکل اُٹھ گئی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہر صدی اس اَمر کی منتظر ہوتی ہے کہ اس اُمّت میں سے چند افراد یا کوئی ایک فرد ضرور خدا کی ہمکلامی سے مشرف ہوں گے اسلام پر سے گردو غبار کو دور کرکے پھر اسلام کے روشن چہرے کو چمکا کر دکھایا کریں ان لوگوں سے اگر پوچھا جاوے کہ تمہارے پاس سچائی کی دلیل ہی کون سی ہے؟ کوئی معجزات یا خارق عادت تمہارے پاس نہیں تو دوسروں کا حوالہ دے دیں گے خود خالی اور محروم ہیں.صحابہؓ آنحضرت کے پاس رہ کر اور آپ کی صحبت کی برکت سے آنحضرتؐکے ہی رنگ میں رنگین ہوگئے تھے اور ان کے ایمانوں کے واسطے آنحضرتؐکی پیشگوئیاں اور معجزات کثرت سے دیکھنے اور ہروقت مشاہدہ کرنے سے ان کے ایمانوں کا تزکیہ اور تربیت ہوتی گئی اور آخر کار ترقی کرتے کرتے وہ کمالِ تمام تک پہنچ کر آنحضرت کے رنگ میں رنگین ہوگئے مگر ان لوگوں کے ایمانوں کو مضبوط کرنے کے واسطے اگر ان سے پوچھا جاوے تو کیا ہے؟تیرہ ۱۳۰۰سوبرس کا حوالہ دیں گے کہ اس وقت یہ معجزات اور خارق عادت ظاہر ہوا کرتے تھے پیشگوئیاں بھی تھیں مگر اَب کچھ بھی نہیں.خیرِ اُمم مَیں نہیں سمجھتا کہ اگر خدا تعالیٰ نے اسے شرّالامم بنانا تھا تو اُس کانام قرآن شریف میں خَيْرَ اُمَّةٍ کر کے کیوں پکارا؟کیونکہ اس کی موجودہ حالت بقول مولویوں کے بد ترین معلوم ہوتی ہے.اندرونی بیرونی حملوں سے پاش پاش ہوا جاتا ہے.دجّال نے آکر ہر طرف سے گھیر لیا ہے اور پھر ایسے مصیبت کے وقت میں خدا نے اگر خبر گیری بھی کی تو ایک اَور دجّال بھیج دیا جو دین کا حامی ہونے کی بجائے بیخ کُن ہے اور ان کے لوگ ہزار مجاہدے اور ریاضت زہد و تعبد کریں مگر خدا سے مکالمے کا شرف کبھی انہیں نصیب نہیں اور ایسے گئے گذرے ہیں کہ دوسری امتوں کی عورتوں سے بھی درماندہ اور پس پا افتادہ ہیں.ان میں تو ایک موسوی شریعت کے خادم ہزاروں نبی آتے اور ایک ایک زمانے میں چار چار سو نبی بھی ہوتے رہے مگر اس اُمّت میں آنحضرتؐکی شریعت کا خادم ایک بھی صاحبِ الہام نہ آیا.گویا کہ سارے کا سارا باغ ہی بے ثمر رہ گیا.پہلے لوگوں کے باغ تو مثمر ہوئے مگر ان کے اعتقاد کے بموجب نعوذ باللہ آپؐکا باغ بھی بے برگ و بار ہوا.اگر ان لوگوں
معلوم ہوتی ہے.اندرونی بیرونی حملوں سے پاش پاش ہوا جاتا ہے.دجّال نے آکر ہر طرف سے گھیر لیا ہے اور پھر ایسے مصیبت کے وقت میں خدا نے اگر خبر گیری بھی کی تو ایک اَور دجّال بھیج دیا جو دین کا حامی ہونے کی بجائے بیخ کُن ہے اور ان کے لوگ ہزار مجاہدے اور ریاضت زہد و تعبد کریں مگر خدا سے مکالمے کا شرف کبھی انہیں نصیب نہیں اور ایسے گئے گذرے ہیں کہ دوسری امتوں کی عورتوں سے بھی درماندہ اور پس پا افتادہ ہیں.ان میں تو ایک موسوی شریعت کے خادم ہزاروں نبی آتے اور ایک ایک زمانے میں چار چار سو نبی بھی ہوتے رہے مگر اس اُمّت میں آنحضرتؐکی شریعت کا خادم ایک بھی صاحبِ الہام نہ آیا.گویا کہ سارے کا سارا باغ ہی بے ثمر رہ گیا.پہلے لوگوں کے باغ تو مثمر ہوئے مگر ان کے اعتقاد کے بموجب نعوذ باللہ آپؐکا باغ بھی بے برگ و بار ہوا.اگر ان لوگوں کا یہی دین اور ایمان ہے تو خدا دنیا پر رحم کرے اور لوگوں کو ایسے ایمان سے نجات دیوے.ایمان ایمان کی نشانی ہی کیا ہے اور اس کے معنے کیا ہیں یہی کہ مان لینااور پھر اس پر یقین آجانا.جب انسان ایک بات کو سچے دل سے مان لیتا ہے تو اس کا اس پر یقین ہوجاتا ہے اور اسی کے مطابق اس سے اعمال بھی سرزد ہوتے ہیں.مثلاً ایک شخص جانتا ہے کہ سنکھیا زہر ہوتا ہے اور اس کے کھانے سے انسان مَر جاتا ہے یا ایک سانپ جان کاہ دشمن ہوتا ہے جس کو کاٹتا ہے اس کی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں تو اس ایمان کے بعد نہ تو وہ سنکھیا کھاتا اور نہ ہی سانپ کی سوراخ میں اُنگلی ڈالتا.آج کل طاعون کے متعلق لوگوں کو ایمان ہے کہ اس کی لاگ سے انسان ہلاک ہوجاتا ہے.اسی واسطے جس مکان میں طاعون ہو اُس سے کوسوں بھاگتے ہیں اور چھوڑ جاتے ہیں غرض جس چیز پر ایمان کامل ہوتا ہے اس کے مطابق اس سے عمل بھی صادر ہوا کرتے ہیں.مگر کیا وجہ ہے کہ خدا موجود ہونے کا تو ایمان ہو اور جزا سزا کے دن کا ایمان ہو اور حساب کتاب یاد ہوتو پھر گناہ باقی رہ جاویں.یہ مسئلہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا.کیا خدا کا ایمان سانپ کے خوف سے بھی گیا گذرا ہے؟مومن ہونے کا دعویٰ ہے اور پھر بایں چوری، جھوٹ، زنا، بد نظری، شراب خوری، فسق فجور میں فرق نہیں نفاق اور ریا کاری کی تصدیق نہیں.زبانی ایمان کا دعویٰ ہے ورنہ عملی طور پر ایمان اور دین کچھ بھی چیز نہیں.ہم صاف مشاہدہ کرتے ہیں کہ انسان کو جس چیز کے مفید ہونے کا ایمان ہے اسے ہرگزہر گز ضائع نہیں کرتا کوئی امیراور کوئی غریب ہم نے نہیں دیکھا جو اپنے گھر سے اپنی جائیداد یا دولت کو جو اس کے پاس ہے باہر نکال پھینکتا ہو بلکہ ہم نے تو کسی کو ایک پیسہ بھی پھینکتے نہیں دیکھا.پیسہ تو کجا ایک سوئی بھی اگر کمائی ہوئی ٹوٹ جاوے تو اسے رنج ہوتا ہے کہ میرے کار آمد چیز تھی.مگر ایمان باللہ کی قدر ان لوگوں کی نظر میں اس سوئی کے برابر بھی نہیں اور نہ اس کا فائدہ ایک سوئی کے برابر لوگ جانتے ہیں.پس جب ایمان ایسا ہوتا ہے کہ ایک سوئی کے برابر بھی اس کی قدر ان میں نہیں ہوتی.تو اسی کے مطابق ان کو انسان سے نفع بھی نہیں پہنچتا اور نہ ان کو وہ کمال حاصل ہوتا ہے کہ خدا ان پر الہامات کے دروازے کھول دیوے.۱
الہامات کے دروازے کھول دیوے.۱ ۱۲؍اپر یل ۱۹۰۳ء (صبح کی سیر) بیماری کی افادیت بیماریوں کے ذکر پر فرمایا کہ بیماری کی شدت سے موت اور موت سے خدا یاد آتا ہے.اصل یہ ہے کہ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا ( النساء:۲۹) انسان چند روز کے لیے زندہ ہے.ذرّہ ذرّہ کا وہی مالک ہے جو حیّ وقیوم ہے.جب وقتِ موعود آجاتا ہے تو ہر ایک چیز السلام علیکم کہتی اور سارے قویٰ رخصت کرکے الگ ہو جاتے ہیں اور جہاں سے یہ آیا ہے وہیں چلا جاتا ہے.طاعون کا علاج طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ آسمانی علاج ابھی تک لوگوں نے غیر مفید سمجھا ہوا ہے.سچی توبہ اور تقوے کی طرف پورا رجوع نہیں کیا مگر یاد رکھیں کہ خد ارجوع کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا.رکوع وسجود میں قرآنی دعا کرنا مولوی عبد القادر صاحب لودہانوی نے سوال کیا کہ رکوع اور سجود میں قرآنی آیت یادعا کا پڑ ھنا کیسا ہے؟ فرمایا.سجدہ اور رکوع فروتنی کا وقت ہے اور خدا کا کلام عظمت چاہتا ہے ماسوائےاس کے حدیثوں سے کہیں ثابت نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رکوع یا سجود میں کوئی قرآنی دعا پڑھی ہو.رہن رہن کے متعلق سوال ہوا.آپ نے فرمایا کہ موجودہ تجاویز رہن جائز ہیں گذشتہ زمانہ میں یہ قانون تھا کہ اگر فصل ہوئی تو حکام زمینداروں سے معاملہ وصول کر لیا کرتے تھے اگر نہ ہوتی تو معاف ہو جاتا اور اب خواہ فصل ہو یا نہ ہو حکام اپنا مطالبہ وصول کر ہی لیتے ہیں پس چونکہ حکامِ وقت اپنا مطالبہ کسی صورت میں نہیں چھوڑتے تو اسی طرح یہ رہن بھی جائز رہا کیونکہ کبھی فصل ہوتی اور کبھی نہیں ہوتی تو دونوں
صورتوں میں مر تہن نفع ونقصان کا ذمہ وار ہے.پس رہن عدل کی صورت میں جائز ہے.آج کل گورنمنٹ کے معاملے زمینداروں سے ٹھیکہ کی صورت میں ہو گئے ہیں اور اس صورت میں زمینداروں کو کبھی فائدہ اور کبھی نقصان ہوتا ہے.تو ایسی صورت عدل میں رہن بے شک جائز ہے.جب دودھ والا جانور اور سواری کا گھوڑا رہن با قبضہ ہوسکتا ہے اور اس کے دودھ اور سواری سے مر تہن فائدہ اُٹھا سکتا ہے تو پھر زمین کا رہن تو آپ ہی حاصل ہو گیا.پھر زیور کے رہن کے متعلق سوال ہوا تو فرمایا.زیور ہو کچھ ہو جب کہ انتفا ع جائز ہے تو خواہ نخواہ تکلفات کیوں بناتے جاویں.اگر کوئی شخص زیور کو استعمال کرنے سے اس سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اس کی زکوٰۃبھی اس کے ذمہ ہے.زیور کی زکوٰۃ بھی فرض ہے چنانچہ کل ہی ہمارے گھر میں زیور کی زکوٰۃ ڈیڑھ سو روپیہ دیا ہے.پس اگر زیور استعمال کرتا ہے تو اس کی زکوٰۃ دے اگر بکری رہن رکھی ہے اور اس کا دودھ پیتا ہے تو اس کو گھاس بھی دے.۱ (دربارِ شام) خواب قضائِ معلّق ہوتے ہیں ایک خواب کی تعبیر میں فرمایاکہ خواب ہر ایک انسان کو عمر بھر میں کبھی مبشر اور کبھی وحشت ناک ضرور آتے ہیں.مگر وہی قضا مبرم اور فیصلہ کن نہیں ہوا کرتی.خدا تعالیٰ کی معرفت کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ قضا کبھی ٹل بھی جایا کرتی ہے.خواب کے حالات خواہ مبشر ہوں یا منذر، دونوں صورتوں میں قضاء معلّق کے رنگ میں ہوا کرتے ہیں.ان کے نتائج کے بَر لانے یاروکنے کے واسطے ضروری ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرے کہ اگر یہ اَمر میرے واسطے مفید اور تیری رضا کے بموجب ہے تو تُو اسے جیسا مجھے خواب میں مبشر دکھایا ہے ایسا ہی بشارت آمیز صورت میں پورا کر ورنہ منذر ہے تو اس کی خوفناک صورت سے اپنے آپ کو حفاظت میں رکھنے کے لیے بھی
استغفار اور توبہ کرتا رہے.قضائِ معلّق دعا سے ٹل سکتی ہے اہلِ علم خوب جانتے ہیں کہ قضا ٹل جایا کرتی ہے اس لیے انسان پوری تضرع خشوع، خضوع اور حضورِ قلب سے اور سچی عاجزی، فروتنی اور دردِ دل سے اُس سے دعا کرے.خواب میں دیکھے ہوئے معاملات کے متعلق خواہ وہ کسی رنگ میں ہوں.دونوں صورتوں میں دعا کی ضرورت ہے.ہمیں بارہا خیال آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کو بھی کوئی ایک وحشت ناک ہی معاملہ معلوم ہوا ہوگا کہ انہوں نے ساری رات دعا میں صرف کی اور نہایت درجے کے درد انگیز اور بلبلانے والے الفاظ سے خدا کے حضور دعا کرتے رہے.ممکن ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی تقدیر معلّق کو مبرم ہی خیال کر بیٹھے ہوں اور اسی وجہ سے ان کا یہ سارا اضطراب اور گھبراہٹ بڑھ گئی ہو اور اس درجے کا گداز اور رقّت ان میں اپنا آخری دم جان کر ہی پیدا ہوئی ہو.کیونکہ اکثر ایک تقدیر جو معلّق ہوا کرتی ہے ایسی باریک رنگ میں ہوتی ہے کہ اس کو سرسری نظر سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مبرم ہے.چنانچہ شیخ عبدالقادر صاحب جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنی کتاب فتوح الغیب میں لکھتے ہیں کہ میری دعا سے اکثر وہ قضا جو قضاءِ مبرم کے رنگ میں ہوتی ہے ٹل جاتی ہے اور ایسے بہت سے واقعات ہوچکے ہیں مگر ان کے اس اَمر کا جواب ایک اَور بزرگ نے دیا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ تقدیر معلّق ایسے طور سے واقع ہوتی ہے کہ اس کا پہچاننا کہ آیا معلّق ہے یا مبرم محال ہوجاتا ہے.اسے سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ مبر م ہے مگر درحقیقت ہوتی وہ تقدیر معلّق ہے اور وہ ایسی ہی تقدیریں ہوں گی جو شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کی دعا سے ٹل گئی ہوں کیونکہ تقدیر معلّق ٹل جایا کرتی ہے.غرض اہل اللہ نے اس اَمر کو خوب واضح طور سے لکھا ہے کہ قضا معلّق ٹل جایا کرتی ہے.حضر ت عیسیٰ پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی بڑی بھاری صعوبت اور مشکل کا وقت تھا کیونکہ ان کی اپنی ہی کتاب کے الفاظ بھی ایسے ہی ہیں کہ آخر میں فرمایا کہ سُـمِعَ لِتَقْوٰہُ یعنی تقدیر تو بڑی سخت تھی اور بڑی مصیبت کا وقت تھا مگر اس کی تقویٰ کی وجہ سے آخر کار اس کی دعا ضائع نہ گئی بلکہ سُنی گئی.یہ
عیسائی بد نصیب اس اَمر کی طرف تو نہیں خیال کرتے کہ اوّل تو خد ااور اس کا مَرنا یہ دونوں فقرے آپس میں کیسے متضاد پڑے معلوم ہوتے ہیں جب ایک کان میں یہ آواز ہی پڑتی ہے تو وہ چونک پڑتا ہے کہ ایں یہ کیا لفظ ہیں؟اور پھر ماسوا اس کے ایسے ایک شخص کو خدا بنائے بیٹھے ہیں کہ جس نے بخیال ان کے ساری رات یعنی چار پہر کا وقت ایک لغو اور بیہودہ کام میں جو اس کے آقا و مولیٰ کی منشا اور رضا کے خلاف تھا خواہ مخواہ ضائع کیا اور پھر ساری رات رویا اورایسے درد اور گداز کے الفاظ میں دعا کی کہ لوہا بھی موم ہو مگر ایک بھی نہ سُنی گئی.واہ! اچھا خدا تھا.پھر کہتے ہیں کہ اس وقت ان کی رُوح انسانی تھی نہ رُوح الوہیت.ہم پوچھتے ہیں کہ بھلا ان کی رُوح اگر انسانی تھی تو اس وقت ان کی الوہیت کی رُوح کہاں تھی؟ کیا وہ آرام کرتی تھی اور خوابِ غفلت میں غرقِ نوم تھی.خود بیچارے نے بڑے درد اور رقّت کے ساتھ چِلّا چِلّا کے دعا کی، حواریوں سے دعا کرائی مگر سب بے فائدہ تھی.وہاں ایک بھی نہ سنی گئی.آخر کار خدا صاحب یہودیوں کے ہاتھ سے ملکِ عدم کو پہنچے.کیسے قابلِ شرم اور افسوس ہیں ایسے خیالات.ہمارے آنحضرتؐپر بھی ایسا ہی ایک وقت مصیبت اور صعوبت کا آیا تھا اور اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء پر ایک ایسا مشکل اور نہایت درجے کی مصیبت کا ایک وقت ضرور آتا ہے.آنحضرتؐپر اُحد کا معاملہ کوئی تھوڑا معاملہ تھا؟ آخر کار وہاں شیطان بھی بول اُٹھا تھا کہ نعوذ باللہ آنحضرتؐمارے گئے اور ہوسکتا ہے کہ بعض صحابہ ؓنے بھی اس افراتفری میں ایسا خیال کیا ہو اور بعض صحابہؓ تو تتر بتر بھی ہوگئے تھے.آپؐایک گڑھے میں گِر پڑے تھے.وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا١ۚ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا(مریم:۷۲) سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ضرور انبیاء اور صلحاء کو بھی دنیا میں ایک ایسا وقت آتا ہے کہ نہایت درجے کی مصیبت کا وقت اور سخت جانکاہ مشکل ہوتی ہے اور اہل حق بھی ایک دفعہ اس صعو بت میں وارد ہوتے ہیں مگر خدا جلد تران کی خبر گیر ی کرتا اور ان کو اس سے نکال لیتا ہے اور چونکہ وہ ایک تقدیر معلّق ہوتی ہے اسی واسطے ان کی دعا ؤں اور ابتہال سے ٹل جایا کرتی ہیں.
شیخ رحمت اللہ صاحب کی دعا شیخ رحمت اللہ صاحب کی دوکان کو آگ لگنے کا اندیشہ ہوا تو انہوں نے ننگے سراور ننگے پاؤں سجدے میں گر کر دعا کی تو معاً دعا کرتے کرتے خدا نے ہوا کا رخ بدل دیا اور امن امن کی آواز آگئی اور ہر طرح سے اطمینان ہو گیا.ملائکہ کی حقیقت اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ ہوا، پانی، آگ وغیرہ بھی ایک طرح کے ملائکہ ہی ہیں ہاں بڑے بڑے ملائکہ وہ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے نام لیا مگر اس کے سوا باقی اشیاء مفید بھی ملائکہ ہی ہیں چنا نچہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے اس کی تصدیق ہوتی ہے جہاں فرماتا ہے کہ وَ اِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ الـخ(بنی اسـرآءیل:۴۵) یعنی کل اشیاء خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہیں.تسبیح کے معنے یہی ہیں کہ جو خدا ان کو حکم کرتا ہے اور جس طرح اس کا منشا ہوتا ہے وہ اسی طرح کرتے ہیں اور ہر ایک اَمر اس کے ارادے اور منشا سے واقع ہوتا ہے اتفاقی طور سے دنیا میں کوئی چیز نہیں اگر خدا تعالیٰ کا ذرّہ ذرّہ پر تصرف تام اور اقتدار نہ ہو تو وہ خدا ہی کیا ہوا اور دعاکی قبولیت کی اس سے کیا امید ہوسکتی ہے.درحقیقت یہی ہے کہ وہ ہو اکو جد ھر چاہے اور جب چاہے چلا سکتا ہے اور جب ارادہ کرے بند کرسکتا ہے اسی کے ہاتھ میں پانی اور پا نیوں کے سمند ر ہیں جب چاہے جوش زن کر دے اور جب چاہے سا کن کر دے وہ ذرّہ ذرّہ پر قادر اور مقتد ر خدا ہے اس کے تصرف سے کوئی چیز باہر نہیں وہ جنہوں نے دعا سے انکار ہی کر دیا ہے ان کو بھی یہی مشکلات پیش آئے ہیں کہ انہوں نے خدا کو ہر ذرّہ پر قادر مطلق نہ جانا اور اکثر واقعات کو اتفاقی مانا اتفاق کچھ بھی نہیں بلکہ جو ہوتا ہے اور اگر پتّا بھی درخت سے گرتا ہے تو وہ بھی خدا کے ارادے اور حکمت سے گرتا ہے اور یہ سب ملائکہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے اشارے سے کام کرتے ہیں اور ان کی خدمت میں لگائے جاتے ہیں جو خدا کے سچے فرمانبردار اور اسی کی رضا کے خواہاں ہوتے ہیں جو خدا کا بن جاتا ہے اسے خدا سب کچھ عطا کرتا ہے.جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیر ا ہو مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ
پھر ایسے مرتبے کے بعد انسان کو وہ رعیّت ملتی ہے کہ باغی نہیں ہوتی دنیوی بادشاہوں کی رعیّت تو باغی بھی ہو جاتی ہے مگر ملائکہ کی رعیّت ایک ایسی رعیّت ہے کہ وہ باغی نہیں ہوتی.۱ ۱۳؍اپریل ۱۹۰۳ء (دربارِ شام ) ایک رؤیا حضرت اقدس نے مند رجہ ذیل خواب سنایا جو گذشتہ شب کو آیا تھا.فرمایا کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا بحرِ زخار کی طرح دریا ہے جو سانپ کی طرح بل پیچ کھاتا مغرب سے مشرق کو جا رہا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے سمت بدل کر مشرق سے مغرب کو الٹا بہنے لگا ہے.طاعون کا زور فرمایا کہ اب تو وہ زمانہ طاعون نے دکھانا شروع کر دیا ہے جس طرح مدینہ منورہ میں یہودی قتل ہوئے تھے تو ایک بڑا شخص زندہ رکھا گیا تھا اس نے پوچھا کہ فلاں شخص کا کیا حال ہوا فلاں کا کیا حال ہوا غرض جس کے متعلق اس نے دریافت کیا اسی کے متعلق جواب ملا کہ وہ سب قتل کئے گئے تو پھر اس نے کہا کہ لوگوں کے مارے جانے کے بعد میں نے زندہ رہ کر کیا بنانا ہے مجھے بھی زندگی کی ضرورت نہیں سوآج کل طاعون وہ حال دکھا رہا ہے.اکثر دیکھا جاتا ہے کہ انسان لمبی عمر کے بھی خواہشمند ہوتے ہیں مگر جب دوست اور تعلق دار ہی نہ رہے تو اس عمر کا ہونا بھی ایک وبا ل ہو جاتا ہے ایسی حالت دیکھ کر انسان ایسی لمبی عمر کی بھی آرزو نہیں کرسکتا کیو نکہ انسان دوستوں اور رشتہ داروں کے بغیر رہ سکتا ہی نہیں.انسان اور پر ندہ ایک جانور آج کل کے مو سم میں شام کے بعد مسجد مبارک کے شہ نشین احباب پر حملہ کیا کرتا ہے اس کے متعلق فرمایا کہ کوئی ایسی تدبیر کی جاوے کہ ایک دفعہ یہ اس جگہ پکڑا جاوے پھر ہم اسے چھوڑہی دیں گے مگر ایک دفعہ پکڑا جانے سے اتنا تو ضرور ہوگا کہ پھر وہ کبھی آئندہ اس جگہ اس طرح حملہ کرنے کا ارادہ نہ کرے گا.
ہر جانور کا یہ قاعدہ ہے اور اس کے اندر ایک خاصیت ہے کہ جس جگہ سے اسے ایک دفعہ ٹھو کر لگتی ہے اور مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اس جگہ کا پھر وہ کبھی قصد نہیں کرتا مگر صرف انسان ہی ایک ہے جو باوجود اشرف المخلوقات ہونے کے ان پر ندوں وغیرہ سے بھی گرا ہوا ہے کہ جہاں سے اسے مصائب پہنچتے ہیں اور ضرر اور نقصان اٹھاتا ہے اس کی طرف بھاگنے کا حریص ہوتا ہے ہو شیا ر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس نافرمانی کو ترک کرتا ہے بلکہ جذبا ت نفس کا مطیع ہو کر پھر اسی کام کو کرنے لگتا ہے جس سے ایک بار ٹھوکر کھا چکا ہو.۱ ۱۴؍ اپریل ۱۹۰۳ء (صبح کی سیر) صادق کے ساتھ ایک کشش نازل ہوتی ہے فرمایا.صادق کی بعثت کے ساتھ ہی آسمان سے اس کے واسطے ایک کشش نازل ہوا کرتی ہے جو دلوں کو ان کی استعدادوں کے مطابق کشش کرتی اور ایک قوم بنا دیتی ہے اس سے تمام سعید روحیں صادق کی طرف کھینچی چلی آتی ہیں.دیکھو ایک شخص کو دوست بنا کر اس کو اپنے منشا کے موافق بنانا ہزار مشکل رکھتا ہے اور اگر ہزاروں روپے خرچ کرکے بھی کسی کوصادق وفادار دوست بنانے کی کوشش کی جاوے تو بھی معرض خطر میں ہی پڑنا ہے اور پھر آخر کار اس خیال کے بر عکس نتیجہ نکلتا ہے مگر ادھر اب لاکھوں ہیں کہ غلا موں کی طرح سچے فرمانبردار، وفادار، صدق ووفا کے پتلے خود بخود کھینچے چلے آتے ہیں۲ اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ اس اَمر کی اطلاع آج سے بائیس۲۲ برس پیشتر جب اس کی ایک بھی مثال قائم نہ ہوئی تھی دی گئی چنا نچہ الہام ہے کہ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ تمام دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کشش کا نزول ہے.سعید تو دوستی کے رنگ میں چلے آتے ہیں مگر شقی بھی اس حصے سے محروم نہیں ان میں مخالفت کا جوش شعلے مار رہا ہے جب کہیں ہمارا نام بھی ان کے سامنے آ جاتا ہے تو سانپ کی طرح بل پیچ کھاتے اور بیخود ہو کر مجنونوں کی طرح گالی گلوچ تک آجاتے ہیں ورنہ بھلا دنیا میں ہزاروں فقیر، لنگوٹی پوش، بھنگی، چرسی، کنجر، بد معاش، بدعتی وغیرہ ہزاروں پھر تے ہیں مگر ان کے لیے کسی کو جوش نہیں آتا اور کسی کے کان پر جوں نہیں چلتی وہ چاہیں بد مذہبیاں اور بے دینیاں کریں پھر بھی ان سے مست ہی ہو رہے ہیں اس کی وجہ بھی صرف یہی ہے کہ وہ چونکہ روحانیت سے خالی ہیں اس واسطے ان کے واسطے کسی کو کشش نہیں.۱ ۱ الحکم جلد۷ نمبر۱۴ مورخہ۱۷؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۷ ۲ البدر سے.’’جس طرح انسان کا جسم ایک ہیکل کی طرح بنا کر اس میں خدا نے روح پھونکی ہے ویسے ہی ایک کشش بھی دلوں میں دی ہے جو کہ ان کو کھینچ کر یہاں لا رہی ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۷؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۹)
کشش نازل ہوا کرتی ہے جو دلوں کو ان کی استعدادوں کے مطابق کشش کرتی اور ایک قوم بنا دیتی ہے اس سے تمام سعید روحیں صادق کی طرف کھینچی چلی آتی ہیں.دیکھو ایک شخص کو دوست بنا کر اس کو اپنے منشا کے موافق بنانا ہزار مشکل رکھتا ہے اور اگر ہزاروں روپے خرچ کرکے بھی کسی کوصادق وفادار دوست بنانے کی کوشش کی جاوے تو بھی معرض خطر میں ہی پڑنا ہے اور پھر آخر کار اس خیال کے بر عکس نتیجہ نکلتا ہے مگر ادھر اب لاکھوں ہیں کہ غلا موں کی طرح سچے فرمانبردار، وفادار، صدق ووفا کے پتلے خود بخود کھینچے چلے آتے ہیں۲ اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ اس اَمر کی اطلاع آج سے بائیس۲۲ برس پیشتر جب اس کی ایک بھی مثال قائم نہ ہوئی تھی دی گئی چنا نچہ الہام ہے کہ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ تمام دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کشش کا نزول ہے.سعید تو دوستی کے رنگ میں چلے آتے ہیں مگر شقی بھی اس حصے سے محروم نہیں ان میں مخالفت کا جوش شعلے مار رہا ہے جب کہیں ہمارا نام بھی ان کے سامنے آ جاتا ہے تو سانپ کی طرح بل پیچ کھاتے اور بیخود ہو کر مجنونوں کی طرح گالی گلوچ تک آجاتے ہیں ورنہ بھلا دنیا میں ہزاروں فقیر، لنگوٹی پوش، بھنگی، چرسی، کنجر، بد معاش، بدعتی وغیرہ ہزاروں پھر تے ہیں مگر ان کے لیے کسی کو جوش نہیں آتا اور کسی کے کان پر جوں نہیں چلتی وہ چاہیں بد مذہبیاں اور بے دینیاں کریں پھر بھی ان سے مست ہی ہو رہے ہیں اس کی وجہ بھی صرف یہی ہے کہ وہ چونکہ روحانیت سے خالی ہیں اس واسطے ان کے واسطے کسی کو کشش نہیں.۱ آنحضرتؐکے زمانہ بعثت میں ہزاروں ہزار لوگ اپنے کاروبا ر چھوڑ کر بھی آپؐکی مخالفت کے لیے کمربستہ ہوئے اپنے مالوں کا جانوں کا نقصان منظورکیا اور آنحضرت کی مخالفت کے لیے دن رات تدبیروں اور منصوبوں میں کوشاں ہوئے مگر دوسری طرف مسیلمہ تھا ادھر کسی کو توجہ نہ تھی اس کی مخالفت کے واسطے کسی کے کان بھی کھڑے نہ ہوئے.آنحضرتؐکے واسطے جس طرح گھر گھر میں پھوٹ اور جدائی ہوتی تھی مسیلمہ کے واسطے ہرگز نہ ہوئی.غرض صادق کے واسطے ہی ایک کشش ہوتی ہے جو دلوں کے ولولوں کو اُبھارتی اور جوش میں لاتی ہے سعیدوں کے ولولے سعادت اور شقیوںکے شقاوت کے رنگ میں پھل لاتے ہیں.شقی چونکہ اسی فطرت کے ہوتے ہیں.اسی واسطے ان کے واسطے کشش بھی اُلٹے رنگ میں ثمرات لاتی ہے.۲ (دربارِ شام ) تشبّہ بالکفّار ایک شخص نے پوچھا کہ کیا ہندوؤں والی دھوتی باندھنی جائز ہے یا نہیں؟اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ تشبّہ بالکفّار تو کسی بھی رنگ میں جائز نہیں.اب ہندو ماتھے پر ایک ٹیکہ سا لگاتے ہیں کوئی وہ بھی لگا لے یا سر پر بال تو ہر ایک کے ہوتے ہیں مگر چند بال بودی کی شکل میں ہندو رکھتے ہیں اگر کوئی ویسے ہی رکھ لیوے تو یہ ہرگز جائز نہیں۱ مسلمانوں کو اپنے ہر ایک چال میں وضع قطع میں غیرت مندانہ چال رکھنی چاہیے ہمارے آنحضرتؐتہ بند بھی باندھا کرتے تھے اور سرا ویل بھی خریدنا آپ کا ثابت ہے جسے ہم پاجامہ یا تنبی کہتے ہیں ان میں سے جو چاہے پہنے.علاوہ ازیں ٹوپی، کُڑتہ،چادر اور پگڑی بھی آپؐکی عادت مبارک تھی.جو چاہے پہنے کوئی حرج نہیں.ہاں البتہ اگر کسی کو کوئی نئی ضرورت در پیش آئے تو اسے چاہیے کہ ان میں ایسی چیز کو اختیار کرے جو کفار سے تشبیہ نہ رکھتی ہو اور اسلامی لباس سے نزدیک تر ہو.۲ جب ایک شخص اقرار کرتا ہے کہ میں ایمان لایا تو پھر اس کے بعد وہ ڈرتا کس چیز سے ہے اور وہ کون سی چیز ہے جس کی خواہش اب اس کے دل میں باقی رہ گئی ہے.کیا کفار کی رسوم و عادات کی؟اب اسے ڈر چاہیے تو خدا کا اور اتباع چاہیے تو محمدؐ رسول اللہ کی.کسی ادنیٰ سے گناہ کو خفیف نہ جاننا چاہیے بلکہ صغیرہ ہی سے کبیرہ بن جاتے ہیں.اور صغیرہ ہی کا اصرار کبیرہ ہے.۳ ۱البدر میں مزید لکھا ہے.’’ مگر ہمارے لئے ہر ایک طرف سے کوشش ہے کہ یہ کاروبار رُکے مگر وہ بڑھتا جاتا ہے کیونکہ ان لوگوں کی فطرت الٹی ہے اس لیے اُن کو کشش بھی اُلٹی ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۹ ) ۲الحکم جلد ۷ نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۷
لگا لے یا سر پر بال تو ہر ایک کے ہوتے ہیں مگر چند بال بودی کی شکل میں ہندو رکھتے ہیں اگر کوئی ویسے ہی رکھ لیوے تو یہ ہرگز جائز نہیں۱ مسلمانوں کو اپنے ہر ایک چال میں وضع قطع میں غیرت مندانہ چال رکھنی چاہیے ہمارے آنحضرتؐتہ بند بھی باندھا کرتے تھے اور سرا ویل بھی خریدنا آپ کا ثابت ہے جسے ہم پاجامہ یا تنبی کہتے ہیں ان میں سے جو چاہے پہنے.علاوہ ازیں ٹوپی، کُڑتہ،چادر اور پگڑی بھی آپؐکی عادت مبارک تھی.جو چاہے پہنے کوئی حرج نہیں.ہاں البتہ اگر کسی کو کوئی نئی ضرورت در پیش آئے تو اسے چاہیے کہ ان میں ایسی چیز کو اختیار کرے جو کفار سے تشبیہ نہ رکھتی ہو اور اسلامی لباس سے نزدیک تر ہو.۲ جب ایک شخص اقرار کرتا ہے کہ میں ایمان لایا تو پھر اس کے بعد وہ ڈرتا کس چیز سے ہے اور وہ کون سی چیز ہے جس کی خواہش اب اس کے دل میں باقی رہ گئی ہے.کیا کفار کی رسوم و عادات کی؟اب اسے ڈر چاہیے تو خدا کا اور اتباع چاہیے تو محمدؐ رسول اللہ کی.کسی ادنیٰ سے گناہ کو خفیف نہ جاننا چاہیے بلکہ صغیرہ ہی سے کبیرہ بن جاتے ہیں.اور صغیرہ ہی کا اصرار کبیرہ ہے.۳ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے ایسی فطرت ہی نہیں دی کہ ان کے لباس یا پوشش سے فائدہ اُٹھائیں.سیالکوٹ سے ایک دوبا رانگریزی جوتا آیا.ہمیں اس کا پہننا ہی مشکل ہوتا تھا کبھی ادھر کا ادھر اور کبھی ۱ البدر میںہے.’’مثلاً کوئی مسلمان ہندوئوں کی طرح بودی وغیرہ رکھ لیوے تو اگرچہ قرآن اور حدیث میں اس کا کہیں ذکر صریح نہیں ہے مگر چونکہ کفار سے اس میںمشابہت پائی جاتی ہے اس لیے اس سے پرہیز چاہیے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۹ ) ۲ البدر میںہے.’’مسلمانوں کا پیرایہ اختیار کرنا عمدہ بات ہے.اس سے انسان مسلمان ثابت ہوتا ہے.حتی الوسع دوسروں کو اعتراض کا موقع نہ دینا چاہیے جو لباس اسلام کا ہے اسی میں تقویٰ ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۹ ) ۳ البدر سے.’’حتی الوسع اپنے آپ کو ایسے لباس سے بچانا چاہیے کہ جس سے مشابہت کفار ہوجاتی ہے.جب لباس کفار کا ہے تو دوسرے انسان کو وہ کافر ہی نظر آوے گا.یہ انسان کی فطرت ہے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر اصرار کرتا ہے تو آخر کار بڑی بڑی باتوں پر آجاتا ہے مگر جب مسلمان کہلاتا ہے تو اسے کفار کے لباس کی کیا ضرورت ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۹ )
بائیں کا دائیں.آخر تنگ آکر سیاہی کا نشان لگایا گیا کہ شناخت رہے مگر اس طرح بھی کام نہ چلا.آخر میں نے کہا کہ یہ میری فطرت ہی کے خلاف ہے کہ ایسا جوتا پہنوں.دو راستوں میں سے کس کو اختیار کرے اسی صاحب نے سوال کیا کہ اگر ایک شخص جاتا ہو اور ایک جگہ پر دو راہ جمع ہو جائیں.ایک دائیں اور دوسرا بائیں.تو کس راہ کی طرف جاوے؟ فرمایا کہ اس سے اگر تمہاری مُراد بھی جسمانی راہ ہے تو پھر اس راہ جاوے جس میں اس کی صحت نیت اور کوئی فساد نہیں اور اگر جانتا ہے کہ ادھر بدبو اور عفو نت ہے اور یا کنجروں اور فاسقوں، خدا و رسول کے دشمنوںکے گھرہیں تو اس راہ کو چھوڑ دے.غرض صحتِ نیت کا خیال کرلے اور فساد کی راہ سے پرہیز بکلی کرے.۱ بے ایمانی کیسے پیدا ہوتی ہے ایک اَور سوال کیا کہ بے ایمانی کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ فرمایا کہ بے ایمانی خدا کی معرفت نہ ہونے اور ایمان کے کامل درجہ تک نہ پہنچنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.ادھورا ایمان اس کی وجہ ہوتی ہے.ختم نبوت سے مُراد ایک اَور صاحب نے سوال کیا کہ حضور جب سلسلہ موسوی اور سلسلہ محمدی میں مماثلت ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس سلسلے کے خادم تو نبی کہلائے مگر ادھر اس طرح کوئی بھی نبی نہ کہلایا؟ فرمایا کہ مشابہت میں ضروری نہیں کہ مشبّہ اور مشبَّہ بہٖ بالکل آپس میں ایک دوسرے کے عین ہوں اور ان کا ذرا بھی آپس میں خلاف نہ ہو.اب ہم جو کہتے ہیں کہ فلاں شخص تو شیر ہے.تو اب اس میں ۱ البدر سے.’’فرمایا.اگر سوال کا تعلق ظاہری راستوں سے ہے تو جو راستہ عافیت کا ہو اُدھر سے جاوے.مثلاً ایک راستہ میں مفسد لوگ کنجر وغیرہ آباد ہیں یا شراب خوری ہوتی ہے تو اس کو چھوڑ دیوے اور اگر باطنی راستوں سے سوال کا تعلق ہے تو بھی وہی راستہ اختیار کرے جس میں صلاح اور تقویٰ ہو.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۹ )
کیا بھلا ضروری ہے کہ اس شخص کے جسم پر لمبے لمبے بال بھی ہوں.چار پائوں بھی ہوں اور دُم بھی ہو اور وہ جنگلوں میں شکار بھی کرتا پھرے؟ بلکہ جس طرح مِنْ وَجْہٍ تشابہ ہوتا ہے ویسا ہی مِنْ وَجْہٍ مخالف بھی ہونا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ تو ہمیں ہی فرمایا ہے.جو اعلیٰ درجہ کی خیر اور برکات تھے وہ اسی امت میں جمع ہوئے ہیں.آنحضرتؐکا زمانہ ایسے وقت تک پہنچ گیا ہوا تھا کہ دماغی اور عقلی قویٰ پہلے کی نسبت بہت کچھ ترقی کر گئے تھے.اس زمانے میں تو ایک گونہ جہالت تھی.اب کوئی کہے کہ اس طرح بھی تشابہ نہ ہوا تو یہ اس کا کہنا درست نہ ہوگا.نبوت جو اللہ تعالیٰ نے اب قرآن شریف میں آنحضرتؐکے بعد حرام کی ہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اب اس امت کو کوئی خیر و برکت ملے ہی گی نہیں اور نہ اس کو شرفِ مکالمات اور مخاطبات ہوگا.بلکہ اس سے مُراد یہ ہے کہ آنحضرتؐکی مُہر کے سوائے اب کوئی نبوت نہیں چل سکے گی.اس امت کے لوگوں پر جو نبی کا لفظ نہیں بولا گیا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ حضرت موسٰی کے بعد تو نبوت ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ ابھی آنحضرتؐجیسے عالی جناب، اولوالعزم صاحبِ شریعت کامل آنے والے تھے.اسی وجہ سے ان کے واسطے یہ لفظ جاری رکھا گیا.مگر آنحضرتؐکے بعد چونکہ ہر ایک قسم کی نبوت بجز آنحضرتؐکی اجازت کے بند ہوچکی تھی اس واسطے ضروری تھا کہ اس کی عظمت کی وجہ سے وہ لفظ نہ بولا جاتا.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ (الاحزاب:۴۱) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جسمانی طور سے آپؐکی اولاد کی نفی بھی کی ہے اور ساتھ ہی روحانی طور سے اثبات بھی کیاہے کہ روحانی طور سے آپ باپ بھی ہیں اور رُوحانی نبوت اور فیض کا سلسلہ آپ کے بعد جاری رہے گا اور وہ آپ میں سے ہو کر جاری ہوگا نہ الگ طور سے.وہ نبوت چل سکے گی جس پر آپ کی مُہر ہوگی.ورنہ اگر نبوت کادروازہ بالکل بند سمجھا جاوے تو نعوذ باللہ اس سے تو انقطاعِ فیض لازم آتا ہے اور اس میں تو نحوست ہے اور نبیؐ کی ہتک شان ہوتی ہے.گویا اللہ تعالیٰ نے اس اُمّت کو یہ جو کہا کہ كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ یہ جھوٹ تھا نعوذباللہ.اگر یہ معنے کیے جاویں کہ آئندہ کے واسطے نبوت کا دروازہ ہر طرح سے بند ہے تو پھر خیر الامۃ کی بجائے شرالامم ہوئی یہ اُمت.جب اس کو اللہ تعالیٰ سے مکالمات اورمخاطبات کا شرف بھی
فرمایا کہ مشابہت میں ضروری نہیں کہ مشبّہ اور مشبَّہ بہٖ بالکل آپس میں ایک دوسرے کے عین ہوں اور ان کا ذرا بھی آپس میں خلاف نہ ہو.اب ہم جو کہتے ہیں کہ فلاں شخص تو شیر ہے.تو اب اس میں کیا بھلا ضروری ہے کہ اس شخص کے جسم پر لمبے لمبے بال بھی ہوں.چار پائوں بھی ہوں اور دُم بھی ہو اور وہ جنگلوں میں شکار بھی کرتا پھرے؟ بلکہ جس طرح مِنْ وَجْہٍ تشابہ ہوتا ہے ویسا ہی مِنْ وَجْہٍ مخالف بھی ہونا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ تو ہمیں ہی فرمایا ہے.جو اعلیٰ درجہ کی خیر اور برکات تھے وہ اسی امت میں جمع ہوئے ہیں.آنحضرتؐکا زمانہ ایسے وقت تک پہنچ گیا ہوا تھا کہ دماغی اور عقلی قویٰ پہلے کی نسبت بہت کچھ ترقی کر گئے تھے.اس زمانے میں تو ایک گونہ جہالت تھی.اب کوئی کہے کہ اس طرح بھی تشابہ نہ ہوا تو یہ اس کا کہنا درست نہ ہوگا.نبوت جو اللہ تعالیٰ نے اب قرآن شریف میں آنحضرتؐکے بعد حرام کی ہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اب اس امت کو کوئی خیر و برکت ملے ہی گی نہیں اور نہ اس کو شرفِ مکالمات اور مخاطبات ہوگا.بلکہ اس سے مُراد یہ ہے کہ آنحضرتؐکی مُہر کے سوائے اب کوئی نبوت نہیں چل سکے گی.اس امت کے لوگوں پر جو نبی کا لفظ نہیں بولا گیا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ حضرت موسٰی کے بعد تو نبوت ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ ابھی آنحضرتؐجیسے عالی جناب، اولوالعزم صاحبِ شریعت کامل آنے والے تھے.اسی وجہ سے ان کے واسطے یہ لفظ جاری رکھا گیا.مگر آنحضرتؐکے بعد چونکہ ہر ایک قسم کی نبوت بجز آنحضرتؐکی اجازت کے بند ہوچکی تھی اس واسطے ضروری تھا کہ اس کی عظمت کی وجہ سے وہ لفظ نہ بولا جاتا.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ (الاحزاب:۴۱) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جسمانی طور سے آپؐکی اولاد کی نفی بھی کی ہے اور ساتھ ہی روحانی طور سے اثبات بھی کیاہے کہ روحانی طور سے آپ باپ بھی ہیں اور رُوحانی نبوت اور فیض کا سلسلہ آپ کے بعد جاری رہے گا اور وہ آپ میں سے ہو کر جاری ہوگا نہ الگ طور سے.وہ نبوت چل سکے گی جس پر آپ کی مُہر ہوگی.ورنہ اگر نبوت کادروازہ بالکل بند سمجھا جاوے تو نعوذ باللہ اس سے تو انقطاعِ فیض لازم آتا ہے اور اس میں تو نحوست ہے اور نبیؐ کی ہتک شان ہوتی ہے.گویا اللہ تعالیٰ نے اس اُمّت کو یہ جو کہا کہ كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ یہ جھوٹ تھا نعوذباللہ.اگر یہ معنے کیے جاویں کہ آئندہ کے واسطے نبوت کا دروازہ ہر طرح سے بند ہے تو پھر خیر الامۃ کی بجائے شرالامم ہوئی یہ اُمت.جب اس کو اللہ تعالیٰ سے مکالمات اورمخاطبات کا شرف بھی نصیب نہ ہوا تو یہ تو كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ ہوئی اور بہائم سیرت اسے کہنا چاہیے نہ کہ خیر الامم.اور پھر سورۃ فاتحہ کی دعا بھی لغو جاتی ہے.اس میں جو لکھایا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ(الفاتـحۃ:۶،۷) تو سمجھنا چاہیے کہ ان پہلوں کے پلائو زردے مانگنے کی دعا سکھائی ہے اور ان کی جسمانی لذّات اور انعامات کے مورث ہونے کی خواہش کی گئی ہے؟ ہرگز نہیں اور اگر یہی معنے ہیں تو باقی رہ ہی کیا گیا جس سے اسلام کا علو ثابت ہووے.اس طرح تو ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ آنحضرتؐکی قوتِ قدسی کچھ بھی نہ تھی اور آپ حضرت موسٰی سے مرتبے میں گِرے ہوئے تھے کہ ان کے بعد تو ان کی اُمّت میں سے سینکڑوں نبی آئے مگر آپ کی اُمّت سے خدا کو نفرت ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ مکالمہ بھی نہ کیا کیونکہ جس کے ساتھ محبت ہوتی ہے آخر اس سے کلام تو کیاہی جاتا ہے.نہیں بلکہ آنحضرتؐکی نبوت کا سلسلہ جاری ہے مگر آپ میں سے ہوکر اور آپ کی مہر سے اور فیضان کا سلسلہ جاری ہے کہ ہزاروں اس اُمّت میں سے مکالمات اور مخاطبات کے شرف سے مشرف ہوئے اور انبیاء کے خصائص ان میں موجود ہوتے رہے ہیں.سینکڑوں بڑے بڑے بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے ایسے دعوے کئے.چنانچہ حضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہی کی ایک کتاب فتوح الغیب کو ہی دیکھ لو.ورنہ اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے کہ مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسـرآءیل:۷۳) اگر خدا نے خود ہی اس اُمّت کو اَعْمٰى بنایا تھا تو عجب ہے خود ہی اسے اَعْمٰى بنایا اور خود ہی اَعْمٰى کے واسطے زجر اور توبیخ ہے کہ آخر ت میں بھی اَعْمٰى ہوگی.اس اُمّت بیچاری کے کیا اختیار.اس کی مثال تو ایسی ہے کہ ایک شخص کسی کو کہے کہ اگر تو اس مکان سے گر جاوے گا تو تجھے قید کر دیا جاوے گا مگر پھر اسے خود ہی دھکا دے دے.گویا نبوت کا سلسلہ بند کرکے فرمایا کہ تجھے مکالمات اورمخاطبات سے بے بہرہ کیا گیا اور توبہائم کی طرح زندگی بسر کرنے کے واسطے بنائی گئی اور دوسری طرف کہتا ہے کہ مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسـرآءیل:۷۳) اب بتائو کہ اس متناقض کا کیا جواب ہے؟ ایک طرف تو کہا کہ خیراُمّت اور دوسری جگہ کہہ دیا کہ تو اَعْمٰى ہے آخرت میں بھی اَعْمٰى ہوگی.نعوذ باللہ.کیسے غلط عقیدے بنائے گئے ہیں.
کہا کہ خیراُمّت اور دوسری جگہ کہہ دیا کہ تو اَعْمٰى ہے آخرت میں بھی اَعْمٰى ہوگی.نعوذ باللہ.کیسے غلط عقیدے بنائے گئے ہیں.اور اگر کوئی باہر سے اس کی اصلاح کے واسطے آگیاتو بھی مشکل.اس اُمّت کے نبی کی ہتکِ شان اورقوم کی بھی ناک کٹی ہوئی کہ اس میں گویا کوئی بھی اس قابل نہیں کہ اصلاح کرنے کے قابل ہوسکے اور کسی کو یہ شرف مکالمہ عطا نہیں کیا جاسکتا اور اس پر بس نہیں بلکہ آنحضرتؐپر اعتراض آتا ہے کہ ایسے بڑے نبی ہو کر ان کی اُمّت ایسی کمزور اور گئی گزری ہے.ایسا نہیں.بلکہ بات یوں ہے کہ آنحضرتؐکے بعد بھی آپ کی اُمّت میں بھی نبوت ہے اور نبی ہیں مگر لفظ نبی کا بوجہ عظمتِ نبوت استعمال نہیں کیا جاتا لیکن برکات اور فیوض موجود ہیں.خدا کو پانے کی راہ ایک شخص نے سوال کیا کہ وہ کیا راہ ہے جس سے انسان خدا کو پاسکے؟ فرمایا.جو لوگ برکت پاتے ہیں ان کی زبان بند اور عمل ان کے وسیع اور صالح ہوتے ہیں.پنجابی میں کہاوت ہے کہ کہنا ایک جانور ہوتا ہے اس کی بدبُو سخت ہوتی ہے اور کرنا خوشبو دار درخت ہوتا ہے.سو ایسا ہی چاہیے کہ انسان کہنے کی نسبت کرکے بہت کچھ دکھائے.صرف زبان کام نہیں آتی.بہت سے ہوتے ہیں جو باتیں بہت بناتے ہیں اور کرتے ہیں نہایت سست اور کمزور ہوتے ہیں.صرف باتیں جن کے ساتھ روح نہ ہو وہ نجاست ہوتی ہیں.بات وہی برکت والی ہوتی ہے جس کے ساتھ آسمانی نور ہو اورعمل کے پانی سے سرسبز کی گئی ہو.اس کے واسطے انسان خود بخود ہی نہیں کرسکتا.چاہیے کہ ہر وقت خدا سے دعا کرتا رہے اور درد و گداز سے، سوز سے اس کے آستانہ پر گرا رہے اور اس سے توفیق مانگے ورنہ یاد رکھے کہ اندھا مَرے گا.دیکھو! جب ایک شخص کو کوہڑ کا ایک داغ پیدا ہوجاوے تو وہ اس کے واسطے فکر مند ہوتا ہے اور دوسری باتیں اسے بھول جاتی ہیں.اسی طرح جس کو رُوحانی کوہڑ کا پتا لگ جاوے اسے بھی ساری باتیں بھول جاتی ہیں اور وہ سچے علاج کی طرف دوڑتا ہے مگر افسوس کہ اس سے آگاہ بہت تھوڑے ہوتے ہیں.
یہ سچ ہے کہ انسان کے واسطے یہ مشکل ہے کہ وہ سچی توبہ کرے ایک طرف سے توڑ کر دوسری طرف جوڑنا نہایت مشکل ہوتا ہے.ہاں مگر جسے خدا توفیق دے.ہاں ادب سے، حیا سے، شرم سے اُس سے دعا اور التجا کرنی چاہیے کہ وہ توفیق عطا کرے اور جو ایسا کرتے ہیں وہ پابھی لیتے ہیں اور ان کی سُنی بھی جاتی ہے.صرف باتونی آدمی مفید نہیں ہوتا.کپڑا جتنا سفید ہوتا ہے اور پہلے اس پر کوئی رنگ نہیں دیا جاتا اتنا ہی عمدہ رنگ اس پر آتا ہے.پس تو اس طرح اپنے آپ کو پاک کرو تا تم پر خدائی رنگ عمدہ چڑھے.اہلِ بیت جو ایک پاک گروہ اور بڑا عظیم الشان گھرانا تھا.اس کے پاک کرنے کے واسطے بھی اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا (الاحزاب:۳۴) میں بھی ان سے ناپاکی اور نجاست کو دور کروں گا اور خود ہی ان کو پاک کیا تو بھلا اور کون ہے جو خود بخود پاک صاف ہونے کی توفیق رکھتا ہو.پس لازمی ہے کہ اس سے دعا کرتے رہو اور اسی کے آستانہ پر گرے رہوساری توفیقیں اسی کے ہاتھ میں ہیں.۱ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۳ء (صبح کی سیر ) محمدؐی سلسلہ میں موسوی سلسلہ کی طرح نبی کیوں نہیں آئے؟ فرمایا.رات کے سوال کا یہ حصہ کہ جب مماثلت ہے موسوی اورمحمدی سلسلوں میں تو محمدی سلسلے میں موسوی سلسلے کی طرح نبی کیوں نہ آئے؟ یہ حصہ ایسا ہے جس سے ایک انسان کو دھوکا لگ سکتا ہے.لہٰذا ہم اس کے متعلق زیادہ تشریح کر دیتے ہیں.اوّل تو وہی بات کہ مماثلت کے لیے ضروری نہیں کہ دوسرے کا وہ عین ہو.مشُبّہ اور مُشَبَّہ بِہٖ میں ضرور فرق ہوتا ہے.ایک خوبصورت انسان کو چاند سے مشابہت دے دیتے ہیں.مگر چاہیے کہ اس میں ایسے انسان کا ناک نہ ہو.کان نہ ہوں.صرف ایک گول سفید چمکیلا سا ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۸،۹
کہ جب مماثلت ہے موسوی اورمحمدی سلسلوں میں تو محمدی سلسلے میں موسوی سلسلے کی طرح نبی کیوں نہ آئے؟ یہ حصہ ایسا ہے جس سے ایک انسان کو دھوکا لگ سکتا ہے.لہٰذا ہم اس کے متعلق زیادہ تشریح کر دیتے ہیں.اوّل تو وہی بات کہ مماثلت کے لیے ضروری نہیں کہ دوسرے کا وہ عین ہو.مشُبّہ اور مُشَبَّہ بِہٖ میں ضرور فرق ہوتا ہے.ایک خوبصورت انسان کو چاند سے مشابہت دے دیتے ہیں.مگر چاہیے کہ اس میں ایسے انسان کا ناک نہ ہو.کان نہ ہوں.صرف ایک گول سفید چمکیلا سا ٹکڑا ہو.اصل بات یہ ہے کہ مشابہت کے واسطے بعض حصے میں مشابہت ضرور ہوتی ہے.۱ دیکھیے حضرت موسیٰ سے آنحضرتؐکو مشابہت ہے اور اس میں صرف اعلیٰ جزو یہی ہے کہ حضرت موسٰی نے ایک قوم کو جو فرعون کے ماتحت غلامی میں مبتلا تھی اور ان کے حالات گندہ ہوگئے تھے وہ خدا کو بھول گئے تھے اور ان کے خیالات اور ہمتیں پست ہوگئی تھیں.موسٰی نے اس قوم کو فرعون سے نجات دلائی اور ان کو خدا سے تعلق پیدا کرنے کے قابل بنادیا.اسی طرح آنحضرتؐنے بھی ایک قوم کو بتوں کی غلامی اور راہ ورسم کی قید سے نجات دلائی اور اپنے دشمن کو فرعون کی طرح ہلاک و برباد کیا.یہ مشابہت تھی۲ ا گر غور سے دیکھا جاوے تو ہمارے نبی کریمؐ کو آپ کے بعد کسی دوسرے کے نبی نہ کہلانے سے شوکت ہے اور حضرت موسٰی کے بعد اور لوگوں کے بھی نبی کہلانے سے ان کی کسرِ شان.کیونکہ حضرت موسٰی بھی ایک نبی تھے اور ان کے بعد ہزاروں اور بھی نبی آئے تو ان کی نبوت کی خصوصیت اور عظمت کوئی نہیں ثابت ہوتی.برعکس اس کے آنحضرتؐکی ایک عظمت اور آپ کی نبوت کے لفظ کا پاس اور ادب کیا گیا ہے کہ آپ کے بعد کسی دوسرے کو اس نام سے کسی طرح بھی شریک نہ کیا گیا.۱ البدر میں ہے.’’ مماثلت میں عین ہونا ضروری نہیں کیونکہ اگر بالکل وہی ہوگیا تو پھر وہی چیز ہوئی نہ کہ مثال اس لیے کچھ نہ کچھ فرق ہونا ضروری ہے.جیسے کسی کو اگر شیر کہا جاوے تو یہ ضرور نہیں کہ وہ کچا گوشت بھی کھاتا ہو اور اُس کے ایک دُم بھی ہو اور جنگلوں میں رہتا ہو وغیرہ وغیرہ.صرف بعض صفات شجاعت وغیرہ میں اس کی مماثلت ہوگی.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۷ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۹ ) ۲ البدر میں ہے.’’مشا بہت میں مِن وجہٍ مخالفت چاہیے اور مِن وجہٍ مطابقت اور اس اُمّت میں جو مراتب خدا تعالیٰ نے رکھے ہیں وہ موسوی سلسلہ سے بہت زیادہ ہیں.اگر اسی کے برابر ہوتے تو پھر فضلیت کیا ہوتی.پھر جس قدرعلوم کی کثرت اور وسعت اس وقت اس اُمّت میں ہے کیا وہ موسوی اُمّت میں تھی؟ چونکہ خدا تعالیٰ کا ارادہ تھا کہ اور کوئی شریعت اب آ نحضرتؐکے بعد نہ ہوگی اس لیے آپ کو وہ علوم اور الفاظ دیئے کہ کسی کو پھر نئی شریعت کی ضرورت ہی نہ پڑے.خاتم النّبیّین کی آیت بتلا رہی ہے کہ جسمانی نسل کا انقطاع ہے نہ کہ رُوحانی نسل کا.اس لیے جس ذریعہ سے وہ نبوت کی نفی کرتے ہیں اسی سے نبوت کا اثبات ثابت ہے.آنحضرتؐکی چونکہ کمال عظمت خدا تعالیٰ کو منظو ر تھی اس لیے لکھ دیا کہ آ ئندہ نبوت آپ کی اتباع کی مہر سے ہوگی اور اگر یہ معنے ہوں کہ نبوت ختم ہے تو اس سے خدا تعالیٰ کے فیضان کے بخل کی بُو آتی ہے.ہاں یہ معنے ہیں کہ ہر ایک قسم کا کمال آنحضرتؐپر ختم ہوا اور پھر آئندہ آپ کی مُہر سے وہ کمال آپ کی اُمّت کو ملا کریں گے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۷ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۹ )
اور عظمت کوئی نہیں ثابت ہوتی.برعکس اس کے آنحضرتؐکی ایک عظمت اور آپ کی نبوت کے لفظ کا پاس اور ادب کیا گیا ہے کہ آپ کے بعد کسی دوسرے کو اس نام سے کسی طرح بھی شریک نہ کیا گیا.اگرچہ آنحضرتؐکی اُمّت میں ہزاروں بزرگ نبوت کے نور سے منور تھے اورہزاروںکو انوارِ نبوت کا حصہ عطا ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہوتا ہے مگر چونکہ آنحضرتؐکا نام خاتم الانبیاء رکھا گیا تھا اس لیے خدا نے نہ چاہا کہ کسی دوسرے کو بھی یہ نام دے کر آپ کی کسرِ شان کی جاوے.آنحضرتؐکی اُمّت میں سے ہزار ہا انسانوں کو نبوت کا درجہ ملا اور نبوت کے آثار اور برکات ان کے اندر موجزن تھے مگر نبی کا نام ان پر صرف شانِ نبوت آنحضرتؐاور سدِّبابِ نبوت کی خاطر ان کو اس نام سے ظاہر اً ملقب نہ کیا گیا.۱ مگر دوسری طرف چونکہ آنحضرتؐکے فیوض اور رُوحانی برکات کا دروازہ بند بھی نہ کیا گیا تھا اور نبوت کے انوار جا ری بھی تھے جیسا کہ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ (الاحزاب:۴۱) سے نکلتا ہے کہ آنحضرتؐکی مُہر اور اذن سے اور آپ کے نور سے نُورِنبوت جاری بھی ہے اور یہ سلسلہ بند بھی نہیں ہوا۲ یہ بھی ضروری تھا کہ اسے ظاہراً بھی شائع کیا جاوے تاکہ موسوی سلسلے کے نبیوں کے ساتھ ۱ البدر سے.’’لیکن اگر اس اُمّت میں کوئی بھی نبی نہ پُکارا جاتا تو مماثلت موسوی کا پہلو بہت ناقص ٹھہرتا اور مِنْ وَجْہٍ اُمّت موسوی کو ایک فضیلت ہوجاتی اس لیے یہ خطاب آنحضرتؐنےخود اپنی زبان مبارک سے ایک شخص کو دے دیا جس نے مسیح ابنِ مریم ہوکر دنیا میں آنا تھا.کیونکہ اس جگہ دو پہلو مدِّ نظر تھے.ایک ختمِ نبوت کا، اُسے اس طرح نبھایا کہ جو نبی کے لفظ کی کثرت موسوی سلسلہ میں تھی اُسے اُڑا دیا.دوسری مشابہت اُسے اس طرح سے پورا کیا کہ ایک کو نبی کا خطاب دے دیا.تکمیل مشابہت کے لیے اس لفظ کا ہونا ضروری تھا سو پورا ہو گیا اور جو مصلحت یہاں مد نظر تھی وہ موسوی سلسلہ میں نہیں تھی کیونکہ موسٰی خاتمِ نبوت نہیں تھے.‘‘
اگرچہ آنحضرتؐکی اُمّت میں ہزاروں بزرگ نبوت کے نور سے منور تھے اورہزاروںکو انوارِ نبوت کا حصہ عطا ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہوتا ہے مگر چونکہ آنحضرتؐکا نام خاتم الانبیاء رکھا گیا تھا اس لیے خدا نے نہ چاہا کہ کسی دوسرے کو بھی یہ نام دے کر آپ کی کسرِ شان کی جاوے.آنحضرتؐکی اُمّت میں سے ہزار ہا انسانوں کو نبوت کا درجہ ملا اور نبوت کے آثار اور برکات ان کے اندر موجزن تھے مگر نبی کا نام ان پر صرف شانِ نبوت آنحضرتؐاور سدِّبابِ نبوت کی خاطر ان کو اس نام سے ظاہر اً ملقب نہ کیا گیا.۱ مگر دوسری طرف چونکہ آنحضرتؐکے فیوض اور رُوحانی برکات کا دروازہ بند بھی نہ کیا گیا تھا اور نبوت کے انوار جا ری بھی تھے جیسا کہ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ (الاحزاب:۴۱) سے نکلتا ہے کہ آنحضرتؐکی مُہر اور اذن سے اور آپ کے نور سے نُورِنبوت جاری بھی ہے اور یہ سلسلہ بند بھی نہیں ہوا۲ یہ بھی ضروری تھا کہ اسے ظاہراً بھی شائع کیا جاوے تاکہ موسوی سلسلے کے نبیوں کے ساتھ آپ کی اُمّت کے لوگ بھی مماثلت کے پورا کرنے میں صاف طور سے نبی اللہ کالفظ فرما دیا اور اس طرح سے دونوں امور کا لحاظ نہایت حکمت اور کمال لطافت سے رکھ لیا گیا.ادھر یہ کہ آنحضرتؐکی کسرِ شان بھی نہ ہو اور اُدھر موسوی سلسلے سے مماثلت بھی پوری ہوجاوے.تیرہ سو برس تک نبوت کے لفظ کا اطلاق تو آپؐکی نبوت کی عظمت کے پاس سے نہ کیا اور اس کے بعد اب مدت دراز کے گذرنے سے لوگوں کے چونکہ اعتقاد اس اَمر پرپختہ ہوگئے تھے کہ آنحضرتؐہی خاتم الانبیاء ہیں اور اب اگر کسی دوسرے کا نام نبی رکھا جاوے تو اس سے آنحضرت کی شان میں کوئی فرق بھی نہیں آتا اس واسطے اب نبوت کا لفظ مسیح کے لیے ظاہراً بھی بول دیا.یہ ٹھیک اسی طرح سے ہے جیسے آپؐنے پہلے فرمایا تھا کہ قبروں کی زیارت نہ کیا کرو اور پھر فرما دیا تھا کہ اچھا اب کر لیا کرو.پہلے منع کرنا بھی حکمت رکھتا تھا کہ لوگوں کے خیالات ابھی تازہ تازہ بت پرستی سے ہٹے تھے تا پھر وہ اسی عادت کی طرف عود نہ کریں.پھر جب دیکھا کہ اب ان کے ایمان کمال کو پہنچ گئے ہیں اور کسی قسم کے شرک و بدعت کو ان کے ایمان میں راہ نہیں تو اجازت دے دی.بالکل اسی طرح یہ اَمر ہے.پہلے تیرہ ۱۳۰۰سو برس اس عظمت کے واسطے نبوت کا لفظ نہ بولااگر چہ صفتی رنگ میں صفتِ نبوت اور انوارِ نبوت موجود تھے اور حق تھا کہ ان لوگوں کو نبی کہا جاوے مگر خاتم الانبیاء کی نبوت کی عظمت کے پاس کی وجہ سے وہ نام نہ دیا گیا.مگر اب وہ خوف نہ رہا تو آخری زمانہ میں مسیح موعود کے واسطے نبی اللہ کا لفظ فرمایا.آپ کے جانشینوں اور آپ کی اُمّت کے خادموں پر صاف صاف نبی اللہ بولنے کے واسطے دو اُمور مدِّ نظر رکھنے ضروری تھے.اوّل عظمت آنحضرتؐاور دوم عظمتِ اسلام.سو آنحضرتؐکی عظمت کے پاس کی وجہ سے ان لوگوں پر ۱۳۰۰ برس تک نبی کا لفظ نہ بولا گیا تاکہ آپ کی ختم نبوت کی ہتک نہ ہو کیونکہ اگر آپؐکے بعد ہی آپ کی امت کے خلیفوں اور صلحاء لوگوں پر نبی کا لفظ بولا جانے لگتا جیسے حضرت موسیٰ کے بعد کے لوگوں پر بولا جاتا رہا تو اس میں آپ کی ختم نبوت کی ہتک تھی اور کوئی عظمت نہ تھی سو خدا نے ایسا کیا کہ اپنی حکمت اور لطف سے آپؐکے بعد ۱۳۰۰ برس تک اس لفظ کو آپ کی امت پر سے اٹھا دیا تا آپ کی نبوت کی عظمت کا حق ادا ہو جاوے اور پھر چونکہ اسلام کی عظمت چاہتی تھی کہ اس میں بھی بعض ایسے افراد ہوں جن پر آنحضرت کے بعد لفظ نبی اللہ بولا جاوے اور تا پہلے سلسلہ سے اس کی مماثلت پوری ہو.آخری زمانہ میں مسیح موعود کے واسطے آپ کی زبان سے نبی اللہ کا لفظ نکلوادیا اور اس طرح پر نہایت حکمت اور بلاغت سے دو متضاد باتوں کو پورا کیا اور موسوی سلسلہ کی مماثلت بھی قائم رکھی اور عظمت اور نبوت آنحضرتؐبھی قائم رکھی.۱ (بقیہ حاشیہ)وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰)کے کیا معنی ہوئے؟‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۷ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۹ )
اگرچہ آنحضرتؐکی اُمّت میں ہزاروں بزرگ نبوت کے نور سے منور تھے اورہزاروںکو انوارِ نبوت کا حصہ عطا ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہوتا ہے مگر چونکہ آنحضرتؐکا نام خاتم الانبیاء رکھا گیا تھا اس لیے خدا نے نہ چاہا کہ کسی دوسرے کو بھی یہ نام دے کر آپ کی کسرِ شان کی جاوے.آنحضرتؐکی اُمّت میں سے ہزار ہا انسانوں کو نبوت کا درجہ ملا اور نبوت کے آثار اور برکات ان کے اندر موجزن تھے مگر نبی کا نام ان پر صرف شانِ نبوت آنحضرتؐاور سدِّبابِ نبوت کی خاطر ان کو اس نام سے ظاہر اً ملقب نہ کیا گیا.۱ مگر دوسری طرف چونکہ آنحضرتؐکے فیوض اور رُوحانی برکات کا دروازہ بند بھی نہ کیا گیا تھا اور نبوت کے انوار جا ری بھی تھے جیسا کہ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ (الاحزاب:۴۱) سے نکلتا ہے کہ آنحضرتؐکی مُہر اور اذن سے اور آپ کے نور سے نُورِنبوت جاری بھی ہے اور یہ سلسلہ بند بھی نہیں ہوا۲ یہ بھی ضروری تھا کہ اسے ظاہراً بھی شائع کیا جاوے تاکہ موسوی سلسلے کے نبیوں کے ساتھ آپ کی اُمّت کے لوگ بھی مماثلت کے پورا کرنے میں صاف طور سے نبی اللہ کالفظ فرما دیا اور اس طرح سے دونوں امور کا لحاظ نہایت حکمت اور کمال لطافت سے رکھ لیا گیا.ادھر یہ کہ آنحضرتؐکی کسرِ شان بھی نہ ہو اور اُدھر موسوی سلسلے سے مماثلت بھی پوری ہوجاوے.تیرہ سو برس تک نبوت کے لفظ کا اطلاق تو آپؐکی نبوت کی عظمت کے پاس سے نہ کیا اور اس کے بعد اب مدت دراز کے گذرنے سے لوگوں کے چونکہ اعتقاد اس اَمر پرپختہ ہوگئے تھے کہ آنحضرتؐہی خاتم الانبیاء ہیں اور اب اگر کسی دوسرے کا نام نبی رکھا جاوے تو اس سے آنحضرت کی شان میں کوئی فرق بھی نہیں آتا اس واسطے اب نبوت کا لفظ مسیح کے لیے ظاہراً بھی بول دیا.یہ ٹھیک اسی طرح سے ہے جیسے آپؐنے پہلے فرمایا تھا کہ قبروں کی زیارت نہ کیا کرو اور پھر فرما دیا تھا کہ اچھا اب کر لیا کرو.پہلے منع کرنا بھی حکمت رکھتا تھا کہ لوگوں کے خیالات ابھی تازہ تازہ بت پرستی سے ہٹے تھے تا پھر وہ اسی عادت کی طرف عود نہ کریں.پھر جب دیکھا کہ اب ان کے ایمان کمال کو پہنچ گئے ہیں اور کسی قسم کے شرک و بدعت کو ان کے ایمان میں راہ نہیں تو اجازت دے دی.بالکل اسی طرح یہ اَمر ہے.پہلے تیرہ ۱۳۰۰سو برس اس عظمت کے واسطے نبوت کا لفظ نہ بولااگر چہ صفتی رنگ میں صفتِ نبوت اور انوارِ نبوت موجود تھے اور حق تھا کہ ان لوگوں کو نبی کہا جاوے مگر خاتم الانبیاء کی نبوت کی عظمت کے پاس کی وجہ سے وہ نام نہ دیا گیا.مگر اب وہ خوف نہ رہا تو آخری زمانہ میں مسیح موعود کے واسطے نبی اللہ کا لفظ فرمایا.آپ کے جانشینوں اور آپ کی اُمّت کے خادموں پر صاف صاف نبی اللہ بولنے کے واسطے دو اُمور مدِّ نظر رکھنے ضروری تھے.اوّل عظمت آنحضرتؐاور دوم عظمتِ اسلام.سو آنحضرتؐکی عظمت کے پاس کی وجہ سے ان لوگوں پر ۱۳۰۰ برس تک نبی کا لفظ نہ بولا گیا تاکہ آپ کی ختم نبوت کی ہتک نہ ہو کیونکہ اگر آپؐکے بعد ہی آپ کی امت کے خلیفوں اور صلحاء لوگوں پر نبی کا لفظ بولا جانے لگتا جیسے حضرت موسیٰ کے بعد کے لوگوں پر بولا جاتا رہا تو اس میں آپ کی ختم نبوت کی ہتک تھی اور کوئی عظمت نہ تھی سو خدا نے ایسا کیا کہ اپنی حکمت اور لطف سے آپؐکے بعد ۱۳۰۰ برس تک اس لفظ کو آپ کی امت پر سے اٹھا دیا تا آپ کی نبوت کی عظمت کا حق ادا ہو جاوے اور پھر چونکہ اسلام کی عظمت چاہتی تھی کہ اس میں بھی بعض ایسے افراد ہوں جن پر آنحضرت کے بعد لفظ نبی اللہ بولا جاوے اور تا پہلے سلسلہ سے اس کی مماثلت پوری ہو.آخری زمانہ میں مسیح موعود کے واسطے آپ کی زبان سے نبی اللہ کا لفظ نکلوادیا اور اس طرح پر نہایت حکمت اور بلاغت سے دو متضاد باتوں کو پورا کیا اور موسوی سلسلہ کی مماثلت بھی قائم رکھی اور عظمت اور نبوت آنحضرتؐبھی قائم رکھی.۱ عورت نبیّہ نہیں ہوسکتی سوال.کیا کوئی عورت نبیّہ ہوسکتی ہے؟ فرمایا.نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (النسآء:۳۵) اور وَ لِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ (البقرۃ: ۲۲۹) عورتیں اصل میں مَردوں کی ہی ذیل میں ہوا کرتی ہیں.جب صاحبِ درجہ اور صاحبِ مرتبہ کے واسطے ایک دروازہ بند کردیا گیا تو یہ بیچاری ناقصات العقل کس حساب میں ہیں؟ ۲ ۱۶؍اپریل ۱۹۰۳ء ایک نیا نکتہ بعد از نماز مغرب حضرت اقدس ؑ نے اس تقریر کا اعادہ فرمایا جو کہ مورخہ ۱۵ ؍اپریل کی سَیر میں درج ہوچکی ہے اس کی تکمیل میں ایک نئی بات یہ ذکر فرمائی کہ اس وقت میں اُمت موسوی کی طرح جو مامور اور مجدّدین آئے ان کا نام نبی ۳ رکھا گیا تو اس میں یہ حکمت تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ختمِ نبوت میں فرق نہ آوے (جس کا مفصل ذکر قبل ازیں گذر چکا ہے)اور اگر کوئی نبی نہ آتا تو پھر مماثلت میں فرق نہ۱ آتا.اس لیے اللہ تعالیٰ نے آدم، ابراہیم، نوح اور موسیٰ وغیرہ میرے نام رکھے حتی کہ آخر کار جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَ نْبِیَآءِ کہا.گویا اس سے سب اعتراض رفع ہوگئے اورآپ کی اُمت میں ایک آخری خلیفہ ایسا آیا جو موسیٰ کے تمام خلفاء کا جامع تھا.۲
۱ البدر میں ہے.’’محی الدین ابنِ عربی نے لکھا ہے کہ نبوت تشریعی جائز نہیں دوسری جائز ہے.مگر میرا اپنا مذہب یہ ہے کہ ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہے صرف آنحضرتؐکے انعکاس سے جو نبوت ہو وہ جائز ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۷ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۱۰۲ ) ۲ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷ـ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۹،۱۰ ۳ سہو کتابت ہےغالباً ’’نبی نہ رکھا گیا ‘‘ ہونا چاہیے.(مرتّب)
اس وقت میں اُمت موسوی کی طرح جو مامور اور مجدّدین آئے ان کا نام نبی ۳ رکھا گیا تو اس میں یہ حکمت تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ختمِ نبوت میں فرق نہ آوے (جس کا مفصل ذکر قبل ازیں گذر چکا ہے)اور اگر کوئی نبی نہ آتا تو پھر مماثلت میں فرق نہ۱ آتا.اس لیے اللہ تعالیٰ نے آدم، ابراہیم، نوح اور موسیٰ وغیرہ میرے نام رکھے حتی کہ آخر کار جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَ نْبِیَآءِ کہا.گویا اس سے سب اعتراض رفع ہوگئے اورآپ کی اُمت میں ایک آخری خلیفہ ایسا آیا جو موسیٰ کے تمام خلفاء کا جامع تھا.۲ ۱۷ ؍اپریل ۱۹۰۳ء (دربارِ شام) انجیل کی تعلیم ناقابلِ عمل ہے کالجوں اور مدرسوں۳ میں انجیل پڑھانے کے متعلق ذکر ہوتے ہوئے فرمایاکہ ہمیں تو تعجب آتا ہے کہ یہ لوگ انجیل کو پیش کس خیال سے کرتے ہیں.اس کی تعلیم تو انسانی فطرت ہیکے خلاف پڑی ہوئی ہے اَور تو اَور ایک درخت کی طرح مثال خیال کرو اور اس کی مختلف شاخوں کو انسان کے مختلف قویٰ.انسان اس بات پر مجبور ہے کہ وہ مختلف اوقات پر مختلف قویٰ سے کام لیوے کیونکہ اس کی فطرت میں اس کی پیدائش کے وقت سے ایسا ہی رکھا گیا ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ایک انسان کو ایک وقت ایک بجا اور با محل غضب ہوتو اس کی جگہ حلم کرے اور ہمیشہ ایک قوت سے کام لے دوسرے قویٰ کے ظہور کا موقع ہی نہ آوے.اگر ایسا ہی خدا نے کرنا تھا تو اتنے مختلف قویٰ کیوں انسان کو دیئے؟ اگر صرف ایک عفو اور حلم ہی دیتا باقی قویٰ سے جب کام لینا ہی گناہ تھا تو وہ عطا کیوں کئے؟ نہیں ایسا نہیں بلکہ انسان کی انسانیت اور اخلاق فاضلہ ہی اسی میں ہیں کہ محل اور موقع کے مطابق اپنے قویٰ کا بھی اظہار کرے ورنہ اس میں اور حیوانوں میں مابہ الامتیاز کیا ہوا؟ ۱ سہو کتابت ہے غالباً’’نہ ‘‘ زائد ہے.(مرتّب) ۲ البدر جلد ۲ نمبر ۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ءصفحہ ۱۱۳ ۳ البدر میں لکھا ہے.’’ دو گریجوایٹ لاہور سے حضرت اقدس کی ملاقات کو تشریف لائے تھے.اُن کی آمد پر عیسویت کے متعلق ذکر چل پڑا.اس پر حضرت اقدس نے عیسویت کی تعلیم کے متعلق فرمایا کہ انسان اس کے قویٰ اور اخلاق کی مثال ایسی ہے جیسے ایک درخت ہو اور اس کی بہت سی شاخیں ہوں اور سب اسی لیے ہوتی ہیں کہ پھل دیویں.ایسے ہی انسان کو جو اخلاق دیئے گئے ہیں اُن کے استعمال کے مختلف موقعے ہوتے ہیں.کبھی حلم کی قوت ہوتی ہے مگر وقت اس کے استعمال کا نہیں ہوتا.مصلحت اس سے کام لینے کا تقاضا نہیں کرتی.ایسے ہی غضب کا حال ہے جس قدر قویٰ انسان لے کر آیا ہے حکمتِ الٰہی کا بھی تقاضا ہے کہ وہ اپنے اپنے محل پر استعمال ہوں ورنہ پھر خدا تعالیٰ کا فعل عبث ٹھیرتا ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۱۱۳)
ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ ہزاروں انسان ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی اصلاح ہی سزا اور چشم نمائی پر منحصر ہوتی ہے.لڑکے جو استادوں کے پاس تعلیم پاتے ہیں ان کو بھی کچھ نہ کچھ چشم نمائی کرنی پڑتی ہے.اگروہ ہمیشہ اور ہر خطا پر عفو ہی کرتے رہیں تو لڑکا خراب ہوجاتا ہے.ایسی تعلیم اب یہ لوگ کرتے ہی کیوں ہیں؟ انہیں تو چاہیے تھا کہ اسے چھپاتے یہ تو زمانہ ہی ایسا تھا کہ اس کی تعلیم کو لوگوں سے پوشیدہ رکھتے.اگر کوئی انجیل پوچھتا بھی تو کہہ دیتے کہ انجیل فلاں الماری میں بھول گئی ہے اور آج وہاں رہ گئی ہے کل دیں گے اور اس طرح پر روز ٹلاتے رہتے.کیونکہ انجیلی تعلیم موجودہ زمانہ میں اس قابل ہی نہیں ہے کہ اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھا جاوے.ہم پوچھتے ہیںکہ کیا کبھی کوئی ایسا شخص بھی ہے جس نے اس تعلیم پر عمل کر کے دکھایاہو.کسی پادری اور عیسائی کو جب یہ بات حاصل نہیں تو اور کوئی کیا کرے گا.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود مسیح نے بھی انجیل کی تعلیم کے موافق عمل کر کے نہیں دکھایا اور ان کا عمل ثابت نہیں ہے اور بیچارے کس شمار میں ہیں.اگر یہ تعلیم صحیح ہے تو چاہیے تھا کہ عیسائی لوگ اب بھی کرتہ مانگنے والے کو چادر دے دیتے اور ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیر دیتے مگر ہم کو افسوس سے ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ تکلّف اور تصنّع سے بھی برائے نام کسی نے اس پر عمل کر کے نہ دکھایا.کوئی تو انجیل کی عزّت رکھنے والا ہوتا.برخلاف اس کے ایسا دیکھا گیا ہے کہ اگر ذرا سی بات بھی مشنریوں کے خلاف مزاج ہوئی ہے تو عدالت تک پہنچاتے ہیں اور ہر طرح سے کوشش کرتے ہیں کہ سزا دلائی جاوے.مگر قرآن شریف اس کے مقابلے میں کیا تعلیم دیتا ہے.فرماتا ہے جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا١ۚ فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ (الشورٰی:۴۱) یعنی بدی کی سزا اسی قدر بدی ہے لیکن اگر کوئی معاف کر دے اور اس عفو میں اصلاح مدِّ نظر ہو بگاڑ نہ ہو تو ایسے شخص کو خدا سے اجر ملے گا.دیکھو قرآن شریف نے انجیل کی طرح ایک پہلو پر زور نہیں دیا بلکہ محل اور موقع کے موافق عفو یا سزا کی کارروائی کرنے کاحکم دیا ہے.عفو غیر محل نہ ہو.ایسا عفو نہ ہوکہ اس کی وجہ سے کسی مجرم کو زیادہ جرأت اور دلیری بڑھ جاوے اور وہ اَور بھی گناہ اور شرارت میں ترقی کرے.غرض دونوں پہلوئوں کو مدِّ نظر رکھا ہے.اگر عفو سے اس کی عادتِ بد جاتی رہے تو عفو کی تعلیم ہے اَور اگر اصلاح سزا میں ہوتو سزا۱ دینی چاہیے اَور پھر اگر قرآن شریف کی اور باقی تعلیموں کو بھی زمانہ کے ساتھ مطابق کرنا چاہیں تو اور کوئی تعلیم اس کا مقابلہ نہ کرسکے گی.
رکھا ہے.اگر عفو سے اس کی عادتِ بد جاتی رہے تو عفو کی تعلیم ہے اَور اگر اصلاح سزا میں ہوتو سزا۱ دینی چاہیے اَور پھر اگر قرآن شریف کی اور باقی تعلیموں کو بھی زمانہ کے ساتھ مطابق کرنا چاہیں تو اور کوئی تعلیم اس کا مقابلہ نہ کرسکے گی.مسیح موعودؑ کے دعاوی کا انحصار نشانات پر ہوگا فرمایا.قرآن شریف نے جو فرمایا ہے اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ١ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ(النّمل:۸۳) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود ؑ جس کے وقت کے متعلق یہ پیشگوئی ہے اس کے دعاوی کا بہت بڑا انحصار اور دارومدار نشانات پر ہوگا اور خدا نے اسے بھی بہت سے نشانات عطا فرمارکھے ہوں گے کیونکہ یہ جو فرمایا کہ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ یعنی اس عذاب کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے نشانات کی کچھ بھی پروا نہ کی اور ان کو نہ مانا اس واسطے ان کویہ سزا ملی ہے.ان نشانات سے مُراد صرف مسیح موعود کے نشانات ہیں ورنہ یہ اَمر تو ٹھیک نہیں کہ گناہ تو زید کرے اور اس کی سزا عمرو کو ملے جو اس سے تیرہ سوسال بعد آیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اگر لوگوں نے نشانات دیکھے اور ان سے انکار کیا تو اس انکار کی سزا تو ان کو اسی وقت مِل گئی اور وہ تباہ اور برباد ہوگئے اور اگر آیت سے وہی نشانات مُراد ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ظاہر ہوئے تھے تو اب ہزاروں لاکھوں مسلمان ایسے ہیں کہ اگر ان سے پوچھا بھی جاوے کہ بتاؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کون کون سے نشانات ظاہر ہوئے تو ہزاروں میں سے شاید کوئی ہی ایسا نکلے جس کو اس طرح پر آپؐکے نشانات کا علم ہو ورنہ عام طور سے اب مسلمانوں کو خبر تک بھی نہیں کہ وہ نشانات کیا تھے اور کس طرح خدا نے آپ کی تائید میں ان کو ظاہر فرمایا مگر کیا اس لاعلمی سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ لوگ سارے کے سارے ان نشانات سے منکر ہیں اور ان کو وہ نہیں مانتے حالانکہ وہ مومن بھی ہیں.اگر ان کو علم ہو تو وہ مانے بیٹھے ہیں ان کو ۱ البدر سے.’’ایک ہی پہلو اختیارکرنا اور حلم اور عفو پر زور دینا اور وقت اور مصلحت کو نہ دیکھناکس قدر خلافِ عقل ہے.عقل ہمیں دکھلاتی ہے کہ ہزارہا انسان ہیں جو کہ سزا کے ذریعہ ہدایت یاب ہوتے ہیں.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱۳)
تُكَلِّمُهُمْ١ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ(النّمل:۸۳) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود ؑ جس کے وقت کے متعلق یہ پیشگوئی ہے اس کے دعاوی کا بہت بڑا انحصار اور دارومدار نشانات پر ہوگا اور خدا نے اسے بھی بہت سے نشانات عطا فرمارکھے ہوں گے کیونکہ یہ جو فرمایا کہ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ یعنی اس عذاب کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے نشانات کی کچھ بھی پروا نہ کی اور ان کو نہ مانا اس واسطے ان کویہ سزا ملی ہے.ان نشانات سے مُراد صرف مسیح موعود کے نشانات ہیں ورنہ یہ اَمر تو ٹھیک نہیں کہ گناہ تو زید کرے اور اس کی سزا عمرو کو ملے جو اس سے تیرہ سوسال بعد آیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اگر لوگوں نے نشانات دیکھے اور ان سے انکار کیا تو اس انکار کی سزا تو ان کو اسی وقت مِل گئی اور وہ تباہ اور برباد ہوگئے اور اگر آیت سے وہی نشانات مُراد ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ظاہر ہوئے تھے تو اب ہزاروں لاکھوں مسلمان ایسے ہیں کہ اگر ان سے پوچھا بھی جاوے کہ بتاؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کون کون سے نشانات ظاہر ہوئے تو ہزاروں میں سے شاید کوئی ہی ایسا نکلے جس کو اس طرح پر آپؐکے نشانات کا علم ہو ورنہ عام طور سے اب مسلمانوں کو خبر تک بھی نہیں کہ وہ نشانات کیا تھے اور کس طرح خدا نے آپ کی تائید میں ان کو ظاہر فرمایا مگر کیا اس لاعلمی سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ لوگ سارے کے سارے ان نشانات سے منکر ہیں اور ان کو وہ نہیں مانتے حالانکہ وہ مومن بھی ہیں.اگر ان کو علم ہو تو وہ مانے بیٹھے ہیں ان کو کوئی انکار نہیں.ان لوگوں کے متعلق تو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات نہ ماننے کا لفظ لا سکتے ہی نہیں کیونکہ انہوں نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی نبوت کی تفاصیل سمیت مان لیا ہوا ہے وہ انکار کیسے کرسکتے ہیں اور دیگر مذاہب کے لوگوں پر وہ نشانات اب حجت نہیں کیونکہ انہوں نے وہ دیکھے نہیں ہیں جنہوں نے دیکھ کر انکار کیا تھا وہ ہلاک ہوچکے موجودہ زمانے کے لوگوں نے آپ کے نشانات دیکھے ہی نہیں تو وہ اس انکار کی وجہ سے ہلاک کیسے ہوسکتے ہیں؟ پس معلوم ہوا کہ ان نشانات سے مُراد مسیح موعودؑ ہی کے نشانات ہیں جن کے انکار کی وجہ سے عذاب کی تنبیہ ہے اور خدا کا غضب ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے مسیح موعود کے نشانات سے انکار کیا ہے اور یہ خدائی فیصلہ ہے جس کو ردّ نہیں کر سکتا.یہ نصِّ صریح ہے اس بات پر کہ طاعون مسیح موعود ؑ کے انکار کی وجہ سے آئی ہے.۱ ۱۸؍اپریل ۱۹۰۳ء (بوقتِ سیر) حضور کا دعویٰ نووارد مہمانوں میں سے ایک نے سوال کیا کہ آپ کا دعویٰ کیا ہے؟ فرمایا.ہمارا دعویٰ مسیح موعود کا ہے جس کے کل عیسائی اور مسلمان منتظر ہیں وہ مَیں ہوں.پھر پوچھا کہ اس کے دلائل کیا ہیں؟ فرمایا کہ اب وقت تھوڑا ہے.سوال تو انسان چند منٹوں میں کر لیتا ہے مگر بعض اوقات جواب کے لیے چند گھنٹے درکار ہوتے ہیں.جب تک ہر ایک پہلو سے نہ سمجھایا جاوے تو بات سمجھ نہیں آیا کرتی اس لیے آپ کتابیں دیکھیں یا پھر کافی وقت ہوتو بیان کر دیئے جاویں گے.خاتم النّبیّین کی تشریح دوسرے صاحب نے سوال کیا کہ خاتم نبوت کی شرح کیا ہے؟ اس کے جواب میں حضرت اقدس نے اپنا وہی مذہب بیان کیا ۱الحکم جلد ۷ نمبر ۱۵ مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ءصفحہ ۳
(جو ۱۵؍اپریل کی ڈائری میں آچکا ہے.) اور یہ فرمایا.قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ( اٰل عـمران:۳۲) جو جس سے پیار کرتا ہے تو اس سے کلام بغیر نہیں رہ سکتا.اسی طرح خدا جس سے پیار کرتا ہے تو اس سے بلا مکالمہ نہیں رہتا.آنحضرت کی اتباع سے جب انسان کو خدا پیار کرنے لگتا ہے تو اس سے کلام کرتا ہے.غیب کی خبریں اس پر ظاہر کرتا ہے.اسی کانام نبوت ہے.(مجلس قبل از عشاء) معرفت کی راہ فرمایا.خدا کی معرفت کی راہ بہت باریک اور تنگ ہے.اس لیے اس کا مشاہدہ انسان پر مشکل ہے.ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ اسباب کے ڈھیر کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور اسی لیے انسان اس پر مائل ہوجاتا ہے مگر تاہم ایک حصہ امراض کا انسان کو ایسا لگا ہوا ہے کہ طبیب ہاتھ ملتے ہی رہ جاتے ہیں اور کچھ پیش نہیں جاتی.کیا دینداری اختیار کرنے سے مصیبت آتی ہے؟ بعض دنیا دار اعتراض کرتے ہیں کہ دینداری اختیار کی تو مصیبت آئی.مگر وہ بہت جھوٹے ہوتے ہیں.دیندارپر اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس کے ثواب اور معرفت کا موجب ہوتی ہے اور دنیا دا رپر جو مصیبت آتی ہے وہ اس کی لعنت کا موجب ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مصیبت پڑی مگر کیا ہی پیاری مصیبت تھی کہ جیسے جیسے وہ بڑھتی جاتی ویسے ہی زور سے قرآن نازل ہوتا جاتا.وہ دَور گو جلدی ختم ہوگیا یعنی صرف حضرت معاویہ تک ہی رہا.مگر نہ وہ رہے اور نہ یہ.ہاں سعید گروہ کے آثار قیامت تک رہے اور شقی کا نام بھی ندارد.کاش کہ ابو جہل کبھی زندہ ہوکر آتا تو دیکھتا کہ جس کو وہ حقیر اور ذلیل خیال کرتا تھا خدا نے اس کی کیا شان بنائی ہے.مشرق اور مغرب تک کہاں کہاں بلاد اسلامیہ پھیلے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو صحابہ ؓ فوت ہوئے انہوں نے تو وہ ترقیات نہ دیکھیں مگر جنہوں نے حضرت عمر ؓ کا زمانہ پایا انہوں نے دیکھ لیں.اگر ابوجہل وغیرہ کو معلوم ہوتا کہ یہ عروج ہوگا تو مثل غلاموں کے آنحضرتؐکے ساتھ ہوجاتے.۱ ۱البدر جلد ۲ نمبر ۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۱۱۳، ۱۱۴
۱۸؍ اپریل کی شام کو حضرت اقدس نے فرمایا کہ میں لیٹا ہوا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب نظر کے آگے سے پھر گئے پھر یہ لفظ الہام ہوئے.سَاُخْبِرُہٗ فِیْ اٰخِرِ الْوَقْتِ اَنَّکَ لَسْتَ عَلَی الْـحَقِّ.۱ حضرت اقدس نے بعد نماز مغرب ایک ذکر پر فرمایا کہ اخبار میں ایک حصہ نظم کا لگا تار ہونا چاہیے اور وہ ہمارے سلسلہ کے متعلق ہوا کرے.۲ ۲۰؍اپریل ۱۹۰۳ء (صبح کی سیر) حُبابِ ہستی فرمایا.مجھے ہمیشہ تعجب آتا ہے کہ باوجود اس قدر بے بنیاد ہستی کے انسان دنیا میں بنیادیں قائم کرتا ہے صرف ایک دم کی آمدو شدہے اَور کچھ بھی نہیں.پھر یہ سلسلہ خدا نے کیسا رکھا ہے کہ جو شخص یہاں سے رخصت ہوجاوے اس کو اجازت نہیں کہ واپس آکر وہاں کی خبر ہی بتلا جاوے.اس سے حکماء اور فلاسفر اور دانایانِ زمان سب عاجز ہیں ہاں اسی قدر پتا ملتا ہے جو خدا کی کلام نے بتایاہے.آدمی جو مَرتا ہے اکثر اپنے بڑے بڑے تعلقات اور عزیز اور پیارے رشتہ دار چھوڑ جاتا ہے مگر معاً انتقال کے بعد ان سے کچھ تعلق نہیں رہتا.آج کل یورپ کو ہر ایک بات کی تلاش ہے.چنانچہ امریکہ میں ایک شخص سے معاہدہ ہوا (جو واجب القتل تھا)کہ جب اس کاسر کاٹا جاوے تواس کو بہت بلند آواز سے پکارا جاوے تو میں آنکھ سے اشارہ کروں گا.چنانچہ جب سر کاٹا گیا تو بڑے زور سے آوازیں دی گئیں مگر کچھ حرکت نہ ہوئی.سچ ہے ع آنرا کہ خبر شد خبرش باز نیامد جو کچھ خدا نے فرمایا ہے وہی سچ ہے ہاں موت اور نیند کو آپس میں مشابہت ہے.۱البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰۹ ۲البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ضمیمہ اخبار البدر
احیاء موتیٰ احیاءِ موتیٰ کے بارے میں سوال ہونے پر فرمایا کہ اس میں ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ اعجازی طور بھی احیاء موتیٰ نہیں ہوتا بلکہ یہ عقیدہ ہے کہ وہ شخص دوبارہ دنیا کی طرف رجوع نہیں کرتا.مبارک احمد کی حیات اعجازی ہے.اس میں کوئی بحث نہیں کہ جس شخص کی باقاعدہ طور پر فرشتہ جان قبض کر لے اور زمین میں دفن بھی کیا جاوے وہ پھر کبھی زندہ نہیں ہوتا.شیخ سعدی نے خوب کہا ہے.؎ واہ کہ گر مُردہ باز گر دیدے درمیاں قبیلہ و پیوند ردّ میراث سخت تر بُودے وارثان را ز مَرگ خویشاوند خدا تعالیٰ نے بھی فرمایا فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ (الزمر:۴۳) حقیقتِ کشف کشف کیا ہے اسی بیداری کے ساتھ کسی اور عالم کا تداخل ہو جاتا ہے.اس میں حواس کے معطل ہونے کی ضرورت نہیں.دنیا کی بیداری بھی ہوتی اور ایک عالمِ غیبو بیّت بھی ہوتا ہے یعنی حالت بیداری ہوتی اور اسرارِ غیبی بھی نظر آتے.قتلِ انبیاء قتلِ انبیاء پر سوال ہونے پر فرمایا.توریت میں لکھا ہے کہ جھوٹا نبی قتل کیا جاوے گا.اس کا فیصلہ یہ ہے کہ اگر قرآن کی نصِ صریح سے پایا جاوے یا حدیث کے تواتر سے ثابت ہو کہ نبی قتل ہوتے رہے ہیں تو پھر ہم کو اس سے انکار نہیں کرنا پڑے گا.بہر حال یہ کچھ ایسی بات نہیں کہ نبی کی شان میں خلل انداز ہو کیونکہ قتل بھی شہادت ہوتی ہے مگر ہاں ناکام قتل ہو جانا انبیاء کی علامات میں سے نہیں.یہ مصالح پر موقوف ہے کہ ایک شخص کے قتل سے فتنہ بر پا ہوتا ہے تو مصلحتِ الٰہی نہیں چاہتی کہ اس کو قتل کرا کر فتنہ بر پا کیا جاوے.جس کے قتل سے ایسا اندیشہ نہ ہو اس میں حرج نہیں.حدیث قر آن سے باہر نہیں پھر فرمایا.جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان فرمایا ہے وہی کچھ حدیث میں.ہاں بعض۱ باتوں کا استنباط ایسا اعلیٰ ۱ البد ر میں یہ عبارت یوں ہے.’’ہاں یہ بات ہے کہ بعض لوگوں کواس بات کا علم نہیں ہوتا کہ آنحضرتؐنے فلاں بات
حدیثوں نے کیا ہے کہ دوسرے گو اس کو سمجھ نہیں سکتے ورنہ حدیث قرآن سے باہر نہیں.خدا نے قرآن کانام رکھا ہے مُفَصَّلًا.اس پر ایمان ہونا چاہیے بعض تفاسیر سوائے انبیاء کے اَور کی سمجھ میں نہیں آتیں.پھر اس طرح حدیث میں قرآن سے زائد کچھ نہیں.۱ بلاتاریخ متّقی ہر وقت تیار رہتا ہے ہر رات حاملہ عورت کی طرح ہوتی ہے جیسے وہاں معلوم نہیں کہ کیا پیدا ہو، نہیں معلوم صبح کو کیا نتیجہ پیدا ہو.اس لیے متقی اپنے اوقات کو ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ ہر وقت طیار رہتا ہے یہ جان کر کہ معلوم نہیں کس وقت آواز پڑ جاوے.نبوتِ مسیح موعود نبوت کا لفظ ہمارے الہامات میں دوشرطیںرکھتا ہے اوّل یہ اس کے ساتھ شریعت نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ بواسطہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.ملائکہ کا وجود جو لوگ ملائک سے انکار کرتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں ان کو اتنا معلوم نہیں کہ دراصل جس قدر اشیاء دنیا میں موجود ہیں ذرّہ ذرّہ پر ملائکہ کا اطلا ق ہوتا ہے اور میںیہی سمجھتا ہوں کہ بغیراس کے اذن کے کوئی چیز اپنا اثر نہیں کرسکتی یہاں تک کہ پانی کا ایک قطرہ بھی اندر نہیں جا سکتا اور نہ وہ موثر ہوسکتا ہے وَ اِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ (بنی اسـرآءیل:۴۵) کے یہی معنے ہیں اور رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ کے بھی یہی معنے ہیں یہی اسلام اور ایمان ہے اس کے سوا بد بودار چیز ہے.(بقیہ حاشیہ)قرآن کے کس مقام سے استنباط کی ہے تو ان کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن میں نہیں ہے اور اصل بات یہ ہے کہ سب کچھ قرآن سے ہی لیا گیا ہے مگر اس باریک در باریک استنباط کا ان لوگو ںکو علم نہیں ہوتا خدا نے قرآن کو کتاب مفصل کہا ہے تو اس پر ایمان ہونا چاہیے بعض استنباط سوائے انبیاء کے دوسرے کو سمجھ ہی نہیں آیا کرتے.اس پر مو لوی محمد احسن صاحب نے کہا کہ جیسے اب اس وقت مسیح موعودؑ اور اس زما نہ کے فتن کی خبر حضور نے سورۃفاتحہ سے استنبا ط کرکے بتلائی ہے آج تک کس کو خبر تھی کہ یہ سب کچھ قرآن میں ہے.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ءصفحہ ۱۱۴) ۱الحکم جلد ۷نمبر ۱۵ مورخہ ۲۴ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲
موت موت کا مضمون بہت ہی موثر مضمون ہے اگر یہ انسان کے اندر چلا جاوے تو انسان بدیوں سے بچنے کی بہت کوشش کرے.ابراہیم اَدہم اور شاہ شجاع جیسے بادشاہوں پر اسی مضمون نے اثر کیا تھا جو سلطنتیں چھوڑ کر فقیر ہو گئے.خَلق اور اَمر جو چیز عِلل اور اسباب سے پیدا ہوتی ہے وہ خَلق ہے اور جو محض.کُنْ سے ہو وہ اَمر ہے چنا نچہ فرمایا ہے اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ (یٰسٓ:۸۳ ) عالم اَمر میں کبھی تو قف نہیں ہوتا خلق سلسلہ علل ومعلول کا محتاج ہے جیسے انسان کے بچہ پیدا ہونے کے لیے نطفہ ہو پھر دوسرے مراتب اور طبعی اور طبابت کے قواعد کے نیچے ہوتا ہے مگر اَمر میں یہ نہیں ہوتا ہے.۱ ۲۱؍اپریل ۱۹۰۳ء (بوقتِ سیر) وحی والہام کشف فرمایا کہ جب سماع۲ کے ذریعہ سے کوئی خبر دی جاتی ہے تواسے وحی کہتے ہیں اور جب رویت کے ذریعہ سے کچھ بتلا یا جاوے تواسے کشف کہتے ہیں اسی طرح میں نے دیکھا ہے کہ بعض وقت ایک ایسا اَمر ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق صرف قوت ِشا مہ سے ہوتا ہے مگر اس کا نام نہیں رکھ سکتے جیسے یوسفؑ کی نسبت حضرت یعقوبؑکو خوشبو آئی تھی اِنِّيْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ(یوسف:۹۵) اور کبھی ایک اَمر ایسا ہوتا ہے کہ جسم اسے محسوس کرتا ہے گویا کہ حواس خمسہ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنی باتیں اظہار کرتا ہے.۱
اور جب رویت کے ذریعہ سے کچھ بتلا یا جاوے تواسے کشف کہتے ہیں اسی طرح میں نے دیکھا ہے کہ بعض وقت ایک ایسا اَمر ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق صرف قوت ِشا مہ سے ہوتا ہے مگر اس کا نام نہیں رکھ سکتے جیسے یوسفؑ کی نسبت حضرت یعقوبؑکو خوشبو آئی تھی اِنِّيْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ(یوسف:۹۵) اور کبھی ایک اَمر ایسا ہوتا ہے کہ جسم اسے محسوس کرتا ہے گویا کہ حواس خمسہ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنی باتیں اظہار کرتا ہے.۱ دہریت ہندوستان اور یورپ کی دہریت میں فرق ہے.یورپ کے دہریہ اس خدا کے منکر ہیں جو مصنوعی ہے اور عیسائی لوگ وہاں اس کو دہریہ کہتے ہیں جوکہ مسیح کو خدا نہ مانے اور اب فسق و فجور نے بھی اثر ڈالا ہے.لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ یہ سب اثر کفّارہ پرستی کا ہے.تو اب وہ کیسے مانیں.قضا عمری ایک صاحب نے سوال کیاکہ یہ قضا عمری کیا شَے ہے جو کہ لوگ عید الاضحی کے پیشتر جمعہ کو ادا کرتے ہیں.فرمایاکہ میرے نزدیک یہ فضول باتیں ہیں.ان کی نسبت وہی جواب ٹھیک ہے جو کہ حضرت علیؓ نے ایک شخص کو دیا تھا جبکہ ایک شخص ایک ایسے وقت نماز ادا کررہا تھا جس وقت میں نماز جائز نہیں.اس کی شکایت حضرت علی ؓ کے پاس ہوئی تو آپ نے اسے جواب دیا کہ میں اس آیت کا مصداق نہیں بننا چاہتا اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يَنْهٰى عَبْدًا اِذَا صَلّٰى (العلق:۱۰، ۱۱) یعنی تونے دیکھا اس کو جو ایک نماز پڑھتے بندے کو منع کرتا ہے.نماز جورہ جاوے اس کا تدارک نہیں ہوسکتا ہاں روزہ کا ہوسکتا ہے.۱ الحکم میں زیادہ تفصیل سے یوں لکھا ہے.’’غرض تمام حواسِ خمسہ سے وحی ہوتی ہے اور ملہم کو قبل ازوقت بذریعہ وحی ان باتوں کی اطلا ع دی جاتی ہے.مثنوی رومی میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک دفعہ چندقیدی آنحضرت کے پاس پابجولان آئے ان قید یوں نے خیال کیا کہ آنحضرت ہمیں اس حال میں دیکھ کر بہت خوش ہوں گے.آپ نے فرمایا کہ نہیں یہ خیال تمہارا غلط ہے.جس وقت تم لوگ گھوڑوں پر سوار اور نا ز ونعمت میں بآرام چلتے تھے میں تواس وقت تمہیں پا بہ زنجیر دیکھ رہا تھا.اب مجھے تمہارے دیکھنے کی کیا خوشی ہے؟ پھر مطلب یہ ہے کہ الہام کے ساتھ عموماً کشوف بھی ہوا کرتے ہیں.اشتہار تبلیغ میں مَیں نے اپنا ایک خواب درج کیا ہے.کیا دیکھتا ہوں کہ میں اپنے باغ میں سے سیر کرکے نکلا ہوں دیکھا کہ کچھ سوار گھوڑوں پر باغ میں داخل ہوئے.میں نے سمجھا کہ یہ اس کو پامال کر دیں گے میں بھی ان کے عقب میں جا داخل ہوا ہوں.کیا دیکھتا ہوں کہ سب کہیں نظر نہیں آتے جب وسط باغ میں گیا ہوں تو دیکھا کہ سب کے سر اور ہاتھ اور پاؤں کٹے ہوئے ہیں اور کھال اتا ری ہوئی ہے.میں نے رقّت میں آکر اور رو کر خدا سے دعا کی ہے کہ یا اللہ یہ تیرا ہی کام تھا میں اکیلا ان کا مقابلہ کیا کرسکتا تھا.تو فوراً تعبیر بتلائی گئی کہ سر کا کٹنا غرور اور تکبر کا ٹوٹنا ہے.ہاتھوں کا کٹنا یعنی انسان اپنے ہاتھوں سے اپنے بچاؤ اور دشمن کے قتل کی مدد لیتا ہے گو یا ان کے اسباب ِامدادکٹ گئے پاؤں سے انسان بھاگ سکتا ہے یعنی اب کوئی صورت ِمفر نہیں.کھال زینت اور پردہ ہوتا ہے یعنی ان تیرے مخالفوں کی زینت جاتی رہی اور پردہ دری ہو گئی.یہ اب پورا ہو رہا ہے پس ہر جگہ مَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَسے ہی کام چلتا ہے.‘‘ (الحکم جلد ۷نمبر ۱۵ مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲ )
فرمایاکہ میرے نزدیک یہ فضول باتیں ہیں.ان کی نسبت وہی جواب ٹھیک ہے جو کہ حضرت علیؓ نے ایک شخص کو دیا تھا جبکہ ایک شخص ایک ایسے وقت نماز ادا کررہا تھا جس وقت میں نماز جائز نہیں.اس کی شکایت حضرت علی ؓ کے پاس ہوئی تو آپ نے اسے جواب دیا کہ میں اس آیت کا مصداق نہیں بننا چاہتا اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يَنْهٰى عَبْدًا اِذَا صَلّٰى (العلق:۱۰، ۱۱) یعنی تونے دیکھا اس کو جو ایک نماز پڑھتے بندے کو منع کرتا ہے.نماز جورہ جاوے اس کا تدارک نہیں ہوسکتا ہاں روزہ کا ہوسکتا ہے.اور جو شخص عمداًسال بھر اس لیے نماز کو ترک کرتا ہے کہ قضا عمری والے دن ادا کرلوں گا وہ تو گنہگار ہے اور جو شخص نادم ہو کر توبہ کرتا ہے اور اس نیت سے پڑھتا ہے کہ آئندہ نماز ترک نہ کروں گا تو اس کے لیے حرج نہیں.۱ ہم تو اس معاملہ میں حضرت علیؓ ہی کا جواب دیتے ہیں.نماز کے بعد دعا سوال ہوا کہ نماز کے بعد دعا کرنی یہ سنّت اسلام آئی ہے یا نہیں؟ فرمایا.ہم انکار نہیں کرتے.آنحضرت نے دعا مانگی ہوگی مگر ساری نماز دعا ہی ہے اور آج کل دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نماز کو جلدی جلدی ادا کرکے گلے سے اتارتے ہیں.پھر دعائوں میں اس کے بعد اس قدر خشوع خضوع کرتے ہیں کہ جس کی حد نہیں اور اتنی دیر تک دعا مانگتے رہتے ہیں کہ مسافر دومیل تک نکل جاوے.بعض لوگ اس سے تنگ بھی آجاتے ہیں تو یہ بات معیوب ہے.خشوع خضوع اصل جزو تو نماز کی ہے وہ اس میں نہیں کیا جاتا اور نہ اس میں دعا مانگتے ہیں.اس طرح سے وہ لوگ نماز کو منسوخ کرتے ہیں.انسان نماز کے اندر ہی ماثورہ دعائوں کے بعد اپنی زبان میں دعا مانگ سکتا ہے.سُنّت صحیحہ معلوم کرنے کا طریق جب اسلام کے فرقوں میں اختلاف ہے تو سنّتِ صحیحہ کیسے معلوم ہو؟اس کے جواب میں فرمایا کہ قرآن شریف،احادیث اور ایک قوم کے تقویٰ طہارت اور سنّت کو جب آپس میں ملایا جاوے تو پھر پتا لگ جاتا ہے کہ اصل سنّت کیا ہے.۱ الحکم سے.’’اگر ندامت کے طور پر تدارک مافات کرتا ہے تو پڑھنے دو.کیوںمنع کرتے ہو.آخر دعا ہی کرتا ہے.ہاں اس میں پست ہمتی ضرور ہے.پھر دیکھو منع کرنے سے کہیں تم بھی اس آیت کے نیچے نہ آجائو.‘‘ (الحکم جلد ۷نمبر ۱۵ مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲ )
قرآن شریف،احادیث اور ایک قوم کے تقویٰ طہارت اور سنّت کو جب آپس میں ملایا جاوے تو پھر پتا لگ جاتا ہے کہ اصل سنّت کیا ہے.نماز اور قرآن شریف کا ترجمہ جاننا ضروری ہے اس پر مولانا مولوی محمد احسن صاحب نے فرمایا کہ لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ (النساء:۴۴) سے ثابت ہے کہ انسان کو اپنے قول کا علم ہونا ضروری ہے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ جن لوگوں کو ساری عمر میں تَعْلَمُوْا نصیب نہ ہو ان کی نماز ہی کیا ہے.مزکّی کی ضرورت ایک عورت کا ذکرکرتے ہیں کہ نماز پڑھا کرتی تھی.ایک دن اس نے پوچھا کہ درود میںجو صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ آتا ہے اس کے کیا معنے ہیں.خاوند نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے رسول تھے اس پر اس نے تعجب کیا اور کہا کہ ہائے ہائے میں ساری عمربیگانہ مرد کا نام لیتی رہی(یہ حالت آج کل اسلام اور مسلمانوں کی ہے اور پھر اس پر کہا جاتا ہے کہ ایک مزکّی نفس انسان کی ضرورت نہیں ہے) قرآن کا صرف ترجمہ کافی ہے کہ نہیں فرمایا.ہم ہرگز فتویٰ نہیں دیتے کہ قرآن کا صرف ترجمہ پڑھا جاوے.اس سے قرآن کا اعجاز باطل ہوتا ہے جو شخص یہ کہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ قرآن دنیا میں نہ رہے بلکہ ہم تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جو دعائیں رسول اللہ نے مانگی ہیں وہ بھی عربی میں پڑھی جاویں دوسرے جو اپنی حاجات وغیرہ ہیں ماثورہ دعا کے علاوہ وہ صرف اپنی زبان میں مانگی جاویں.ایک شخص نے کہا کہ حضور حنفی مذہب میں صرف ترجمہ پڑھ لینا کافی سمجھاگیا ہے.فرمایا کہ اگر یہ امام اعظم کا مذہب ہے تو پھر ان کی خطا ہے.صدقہ اور ہدیہ میں فرق صدقہ میں ردّ ِبَلا ملحوظ ہوتی ہے اور یہ صدق سے نکلا ہے کیونکہ اس کے عملدرآمد میں انسان اللہ تعالیٰ کو صدق صفا دکھلاتا ہے اور میرا خیال ہے کہ ہد یہ ہدایت سے نکلا ہو کہ آپس میں محبت بڑھے.
بعد وفات میّت کو کیا شَے پہنچتی ہے فرمایا کہ دعا کا اثر ثابت ہے یا ایک روایت میں ہے کہ اگر میّت کی طرف سے حج کیا جاوے تو قبول ہوتا ہے اور روزہ کا ذکر بھی ہے.ایک شخص نے عرض کی کہ حضور یہ جو ہے لَيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى (النجم:۴۰) فرمایا کہ اگر اس کے یہ معنے ہیں کہ بھائی کے حق میں دعا نہ قبول ہو تو پھر سورۃ فاتحہ میں اِهْدِنَا کی بجائے اِھْدِنِیْ ہوتا.(مجلس قبل از عشاء ) اسباب پر نظر ایک شخص کی موت کا ذکر ہوا.اس کا باعث بیان ہوا کہ فلاں مرض اور اسباب تھے.فرمایا کہ جب انسان یہیں آکر ٹھہر جاوے کہ فلاں باعث موت کا ہے اور آگے نہ چلے تو ایسی باتیں معرفت کی روک ہیں اوراس سے نظر اسباب تک ہی رہتی ہے.لَوْلَا الْاِ کْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ فرمایا.جب طاعون کی آگ بھڑک رہی ہے تو اب کوئی سوچے کہ ایک مفتر ی کہہ سکتا ہے کہ لَوْلَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ کیا ممکن نہ تھا کہ وہ خود ہی مَر جاوے اور طاعون کا شکا ر ہو.اس وقت قادیان مثلِ مکہ ہے کہ اس کے اردگر دلوگ ہلاک ہو رہے ہیں اور یہاں خدا کے فضل سے بالکل امن ہے مکہ کی نسبت بھی ہے يُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ (العنکبوت:۶۸)کہ لوگ اس کے گرد ونواح سے اچک لیے جاویں گے لَوْلَا الْاِکْرَامُ سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس سر زمین سے راضی نہیں ہے اور مجھے یہ بھی الہام ہوا ہے مَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِيْهِمْ.قنوت آج کل چونکہ وبا کا زور ہے اس لیے نمازوں میں قنوت پڑ ھنا چاہیے.۱ ۱ البدر جلد۲ نمبر۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱۴،۱۱۵
(بوقتِ شام) شام کو اسمائے مبائعین کی اشاعت پر خود حضرت اقدس نے ایک تقریر فرما کر ہم کو متنبہ کیا ہے اگرچہ اس تقریر کے تمام نصائح صرف ہماری اپنی ہی ذات سے تعلق رکھتے ہیں مگر چونکہ وہ ایک عام نصیحت بھی ہے اس کا خلاصہ ہم فائدہ عام کی خاطر درج کئے بغیر نہیں رہ سکتے.فرمایا کہ اس سے پیشتر بیعت کرنے والوں کے نام اخباروں میں چھپا کرتے تھے مگر اب نظر نہیں آتے اور ان لوگوں نے اس التزام کو چھوڑ دیا ہے اگر ان کی اخباروں سے ہمارے سلسلہ کی اتنی بھی امداد نہ ہوئی تو پھر یہ کس کام کے.پھر تو صرف دنیا ہی دنیا ہے کہ اسی کے کمانے کے واسطے یہ سب کاروبار ہوا.اگرچہ یہ مشکل اَمر ہے کہ کاموں میں انسان کو اخلاص حاصل ہو اور محض خدا کی رضا کو مدّ ِنظر رکھ کر صرف دین کے واسطے ان کو کیا جاوے مگر تاہم اگر ملونی ہی ہو تو بھی کچھ حصہ دین کا مل ہی جاتا ہے اور بالکل دنیا داری کی مد سے وہ کام نکل جاتا ہے بیعت کے نام یکجا چھپے ہوئے ہونے سے اس سلسلہ کا ایک رعب اور ایک اثر ہوتا ہے مخالف اور مکذبین کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کوششوں کا کیا انجام ہے اور یہ ایک بڑا نشانِ الٰہی ہے.یہ ان لوگوں سے بڑی غلطی ہوئی ہے کہ اس کی اشاعت کو ترک کر دیا ہے.اب توبہ کریں اور آئندہ ایسا نہ کریں.ایک صفحہ پورا اخبار میں بیعت کے ناموں کے واسطے ہونا چاہیے.لکھتے لکھتے جو ان لوگوں نے بند کر دیا یہ ان کی سستی ہے.قاعدہ کی بات ہے کہ انسان سست ہوتا ہوتا بہت دور تک چلا جاتا ہے اس لئے آئندہ اس کی اصلاح کریں یہ شیطانی وساوس ہوتے ہیں ہمیشہ ان کا خیال رکھنا چاہیے.۱ ۲۲؍ اپریل ۱۹۰۳ء (بوقتِ سیر) گوشت خوری آریوں کے مسئلہ گو شت خوری پر ذکر چلا فرمایا کہ انسانی زندگی کے واسطے دوسری اشیاء کی ہلا کت لا زمی پڑ ی ہوئی ہے.مثلاً ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ضمیمہ اخبار البدر
دیکھو ریشم جب ہی حاصل ہوتا ہے جب ریشم کے کیڑے مَریں پھر شہد کی مکھی کب چاہتی ہے کہ اس کا شہد لیا جاوے اکثر جونکیں خون پی کر مَر جاتی ہیں پھر ہوا میں کیڑے ہیں جو سانس سے مَرتے ہیں جب یکجا ئی نظر سے خدائی کے کل دائرے کو دیکھا جاوے تو پھر سمجھ میں آتا ہے کہ دنیا میں سلسلہ آکل اور ما کول کا برابر جا ری ہے اور اس کے بغیر دنیا رہ ہی نہیں سکتی کہ بعض کی جان لی جاوے ورنہ اس طرح تو پھر کدودانہ وغیرہ کیڑے جو پیٹ میں پیدا ہوتے ہیں ان کو بھی نہ ما رنا چاہیے.ایک شخص نے کہا کہ حضور آریہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جوانسان کی طاقت سے باہر اَمر ہے اس میں اس پر الزام نہیں.فرمایا کہ طا قت سے باہر تو وہ کہا جاوے گا جس کا تعلق انسانی زندگی سے نہ ہو اور جو اس کے اندر ہے وہ سب طاقت میں ہوگا خدا تعالیٰ کا ہی یہ منشا ہے کہ انسا نی حفاظت کے واسطے بہت جانوں کو لیا جاوے پھر فطرت انسانی میں بعض قویٰ ایسے ہیں کہ اگر گوشت نہ کھایا جاوے توان کا نشوونما ہو ہی نہیں سکتا شجاعت پیدا ہی نہیں ہوتی اس لیے سکھ وغیرہ اقوام جو گوشت خورہیں وہ نسبتاً شجاعت بہت زیادہ رکھتے ہیں.اس پر اعتراض کیا گیا کہ بنگالی گو شت خور ہیں مگر وہ ایسے بہادر نہیں ہوتے.فرمایاکہ ایسی حالتوں میں قوموں کی مجموعی حالت کو دیکھا کرتے ہیں کہ کس قدر اقوام گو شت خور ہیں اور کس قدر نہیں پھر مقابلۃً دیکھا جاوے کہ کون سی اقوام شجاعت میں بڑ ھ کر ہیں.(مجلس قبل از عشاء) احمدیوں کی اقسام فرمایا.ہمارے مر یدوں کے بھی کئی قسم کے طبقہ ہیں ایک تو طاعونی ہیں جوطاعون سے ڈر کر اور اس سے بچنے کی نیت سے اب آرہے ہیں۱ دوسرے قمری اور شمسی ہیں جو کہ قمر اور شمس کا گرہن دیکھ کر داخل بیعت ہوئے.کچھ خوابی ہیں کہ بذریعہ خواب کے ان کی راہنما ئی کی گئی۲ بعض عقلی ہیں کہ انہوں نے عقل سے کام لے کر بیعت کی.بعض نقلی ہیں کہ احادیث آثار وغیرہ و دیگر امور کو پورے ہوتے دیکھ کر ایمان لائے اور ابھی شا ئداَور بھی چند قسمیں ہوں.۱ الحکم میں ہے.’’ایک طاعونی جماعت ہے یعنی وہ جماعت جو طاعون کے نشان کو دیکھ کر اس سلسلہ میں داخل ہوئی ہے اور یہ جماعت کثرت کے ساتھ بڑھ رہی ہے.‘‘ (الحکم جلد۷ نمبر۱۶مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۳ءصفحہ ۸) ۲ الحکم میںہے.’’ یہ گروہ بھی بڑا بھاری گروہ ہے.‘‘ (الحکم جلد۷ نمبر۱۶ مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۸)
کہ احادیث آثار وغیرہ و دیگر امور کو پورے ہوتے دیکھ کر ایمان لائے اور ابھی شا ئداَور بھی چند قسمیں ہوں.ہمارا نقارہ فرمایا کہ اَعدا کا وجود ہمارا نقارہ ہے یہ انہی کی مہر بانی ہے کہ تبلیغ کرتے رہتے ہیں مثنوی میں ایک ذکر ہے کہ ایک دفعہ ایک چور ایک مکان کو نقب لگا رہا تھا ایک شخص نے اوپر سے دیکھ کر کہا کہ کیا کرتا ہے چور نے کہا کہ نقارہ بجارہاہوں اس شخص نے کہا کہ آواز تو نہیں آتی چور نے جواب دیا کہ اس نقارہ کی آواز صبح کو سنا ئی دیوے گی اور ہر ایک سنے گا ایسے ہی یہ لوگ شور مچا تے ہیں اور مخالفت کرتے ہیں تو لوگوں کو خبر ہو تی رہتی ہے.فلسفہ جدیدہ کا فائدہ فلسفہ جدیدہ نے اگرچہ نقصانات بھی پہنچائے ہیں مگر ایک صورت میں یہ مفید بھی ہواہے کہ بہت سی غیر معقول باتوں سے دلوں میں نفرت دلادی ہے مثلاًیہ فرقہ شیعہ کہ جن کی اصلاح کی کبھی امید نہ تھی مگر اس فلسفہ سے مؤثر ہو کر وہ بھی راہ راست پر آتے جاتے ہیں.صلحاء واتقیاء سے محبت میں غلو نہ کیا جائے ایک شخص کے اس سوال پر کہ اولیاء اللہ سے محبت رکھی جاوے کہ نہ؟ فرمایا کہ ہم اس کے مخالف نہیں ہیں کہ صلحاء اور اتقیاء اور ابرار سے محبت رکھی جاوے مگر حد سے گذر جانا حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کو مقدم رکھنا یہ مناسب نہیں ہے جیسے کہ گذشتہ ایام میں بعض شیعہ کی طرف سے ایک کتاب شائع ہوئی اس میں لکھا تھا کہ صرف امام حسین ؑکی شفاعت سے تمام انبیاء نے نجات پائی.حالانکہ یہ بالکل غلط ہے اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسر شان ہے.اس سے تو ثابت ہوا کہ خدا نے غلطی کی کہ آنحضرتؐپر قرآن نازل کیا اور حسین پر نہ کیا.۱ ۱ البدر جلد۲نمبر۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱۵ ۲الحکم میں ہے.’’فرمایا کہ ہمارا ایمان ہے کہ بزرگوں اور اہل اللہ کی تعظیم کرنی چاہیے لیکن حفظِ مراتب بڑی ضروری شَے ہے.ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ حد سے گذر کر خود ہی گنہگار ہوجائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا دوسرے نبیوں کی ہتک ہو جائے وہ شخص جوکہتا ہے کہ کُل انبیاء علیہم السلام حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی امام حسینؓہی کی شفاعت سے نجات پائیںگے اس نے کیا غلو کیا ہے جس سے سب نبیوں کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک
ازدیادِ ایمان ایمان کی نعت یہی ہے کہ خدائی نصرتوں کو انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ لے.جب وہ خدا کی نصرتوں کو دیکھتا ہے تب اس کا ایمان بڑھتا ہے اور معرفت اور بصیرت کی آنکھ کھلنے لگتی ہے.جب تک خدا تعالیٰ کی نصرتوں کی چمک نظر نہیں آتی اس وقت یہ حالت تذبذب میں رہتا ہے لیکن جب ان کی چمکار نظر آ جاتی ہے اس وقت سینہ کی غلاظتیں دور ہو جاتی ہیں اور اندر ایک صفائی اور نور نظر آتا ہے.وہ حالت ہوتی ہے جب اس کے لیے کہا جاتا ہے اِتَّقُو ا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللہِ.عابد کامل سے عبادت کا ساقط ہو جانا اہل اللہ کہتے ہیں کہ جب انسان عابد کامل ہو جاتا ہے اس وقت اس کی ساری عبادتیں ساقط ہو جاتی ہیں.پھر خود ہی اس جملہ کی شرح کرتے ہیں کہ اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز روزہ معاف ہو جاتا ہے نہیں بلکہ اس سے یہ مطلب ہے کہ تکالیف ساقط ہو جاتی ہیں یعنی عبادات کو وہ ایسے طور پر ادا کرتا ہے جیسے دونوں وقت روٹی کھاتا ہے.وہ تکالیف مدرک الحلاوت اور محسوس اللذّات ہو جاتی ہیں.پس ایسی حالت پیدا کرو کہ تمہاری تکالیف ساقط ہو جائیں اور پھر خدا تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل اور نہی سے بچنا فطرتی ہو جاوے.جب انسان اس مقام پر پہنچتا ہے تو گویا ملائکہ میں داخل ہو جاتا ہے جو يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ کے مصداق ہیں.ثوابِ عبادت ضائع ہونے کا مطلب سیّد عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آدمی عارف اور عابد ہو جاتا ہے تو اس کی عبادت کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے.پھر خود ہی اس کی تشریح کرتے ہیں کہ اس کے یہ معنے ہیں کہ ہر نیکی کا اجر نقد پا لیتے ہیں یعنی جب نفسِ امّارہ بدل کر مطمئنہ ہو جاتا ہے تو وہ تو جنّت میں پہنچ گیا.جو کچھ پانا تھا پالیا.اس لحاظ سے ثواب نہیں رہتا.مگر بات اصل یہ ہے کہ ترقیات کا سلسلہ جاری رہتا ہے.(بقیہ حاشیہ) ہوتی ہے.مگر میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ان لوگوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی تعریف میں تو اس قدر غلو کیا ہے.مگر امام حسن رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے وقت ان لوگوں سے ایسا دلی جوش صادر نہیں ہوتا.اس کی وجہ معلوم نہیں کیا ہے؟ شائد یہی باعث ہوکہ انہوں نے حضرت معاویہ کی بیعت کرلی تھی.(الحکم جلد۷ نمبر۱۶مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۸)
عبادت کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے.پھر خود ہی اس کی تشریح کرتے ہیں کہ اس کے یہ معنے ہیں کہ ہر نیکی کا اجر نقد پا لیتے ہیں یعنی جب نفسِ امّارہ بدل کر مطمئنہ ہو جاتا ہے تو وہ تو جنّت میں پہنچ گیا.جو کچھ پانا تھا پالیا.اس لحاظ سے ثواب نہیں رہتا.مگر بات اصل یہ ہے کہ ترقیات کا سلسلہ جاری رہتا ہے.عربی میں الہامات کی کثرت کی وجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اِتباع کے سوا اگر ہم کسی اور راستہ پر چلتے تو ہماری کثرتِ الہام کسی دوسری زبان میں ہوتی.مگرجب کہ اسی خدا، اسی کی کتاب اور اسی نبی کے اتباع پر ہم چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہم کیوں عربی زبان میں مثل لانے کی تحّدی نہ کریں؟ حقیقی جنّت مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب میں کسی کتاب کا مضمون لکھنے بیٹھتا ہوں اور قلم اٹھاتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی اندر سے بول رہا ہے اور میں لکھتا جاتا ہوں.اصل یہ ہے کہ یہ ایک ایسا سلسلہ ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کو سمجھا بھی نہیں سکتے.خدا تعالیٰ کا چہرہ نظر آجاتا ہے اور میرا ایمان تو یہ ہے کہ جنّت ہو یا نہ ہو.خدا تعالیٰ پر پورا یقین ہونا ہی جنّت ہے.۱ ۲۳ ؍اپریل ۱۹۰۳ء (دربارِ شام) مسیح کا مقام رُوْحٌ مِّنْهُ ایپی فینی میں کسی ہندو نے ایک مضمون شائع کردیا ہے کہ قرآن شریف میں حضرت مسیحؑ کی نسبت روح اللہ کا لفظ آیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ سب سے افضل ہیں اس پر حضرت حجۃ اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیحؑ کو رُوْحٌ مِّنْهُ فرمانے سے اصلی مطلب یہ ہے کہ تا ان تمام اعتراضات کا جواب دیا جاوے جو ان کی ولادت کے متعلق کئے جاتے ہیں.یاد رکھو ولادت دو قسم کی ہوتی ہے ایک ولادت تو وہ ہوتی ہے کہ اس میں روح الٰہی کا جلوہ ہوتا ہے اور ایک وہ ہوتی ہے کہ اس میں شیطانی حصہ ہوتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں بھی آیا ہے کہ وَ شَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ (بنی اسـرآءیل:۶۵) یہ شیطان کو خطاب ہے.غرض خدا تعالیٰ نے رُوْحٌ مِّنْهُ فرما کر یہودیوں کے اس اعتراض کو ردّ کیا ہے جو وہ نعوذباللہ حضرت مسیحؑ کی ولادت کو ناجائز ٹھہراتے تھے رُوْحٌ مِّنْهُ کہہ کر صاف کردیا کہ ان کی ولادت پاک ہے.۱الحکم جلد۷نمبر۱۶مورخہ۳۰؍اپریل۱۹۰۳ء صفحہ ۵
ولادت پاک ہے.یہودی تو ایسے بیباک اور دلیر تھے کہ ان کے منہ پر بھی ان کی ولادت پر حملہ کرتے تھے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ وہ مَسِّ شیطان سے پاک ہے اس میں بھی اسی کی تصدیق ہے ورنہ تمام انبیاء اور صلحاء مَسِّ شیطان سے پاک ہوتے ہیں.حضرت مسیحؑ کی کوئی خصوصیت نہیں.ان کی صراحت اس واسطے کی ہے کہ ان پر ایسے ایسے اعتراض ہوئے اور کسی نبی پر چونکہ اعتراض نہیں ہوئے اس لیے ان کے لیے صراحت کی ضرورت بھی نہ پڑی دوسرے نبیوں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایسے الفاظ ہوتے تو یہ بھی ایک قسم کی توہین ہے کیونکہ اگر ایک مسلّم و مقبول نیک آدمی کی نسبت کہا جاوے کہ وہ تو زانی نہیں یہ اس کی ایک رنگ میں ہتک ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوتو خود اہل مکہ تسلیم کر چکے ہوئے تھے کہ وہ مَسِّ شیطان سے پاک ہے تب ہی تو آپ کا نام انہوں نے امین رکھا ہوا تھا اور آپ نے ان پر تحدّی کیا کہفَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا (یونس:۱۷) پھر کیا ضرورت تھی کہ آپ کی نسبت بھی کہا جاتا.یہ الفاظ حضرت مسیحؑ کی عزّت کو بڑھانے والے نہیں ہیں.ان کی براءت کرتے ہیں اور ساتھ ہی ایک کلنک کا بھی پتا دے دیتے ہیں کہ ان پر الزام تھا.یاد رکھو کہ کلمہ اور روح کا لفظ عام ہے.حضرت مسیحؑ کی کوئی خصوصیت اس میں نہیں ہے يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ (الاعراف:۱۵۹) اب اللہ تعالیٰ کے کلمات تو لا انتہا ہیں اور ایسا ہی صحابہ کی تعریف میں آیا ہے اَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ(المجادلۃ:۲۳)پھرمسیحؑ کی کیا خصوصیت رہی؟حضرت مسیحؑ کی ماں کی نسبت جو صدیقہ کا لفظ آیا ہے یہ بھی دراصل رفع الزام ہی کے لیے آیا ہے یہودی جو معاذ اللہ ان کو فاسقہ فاجرہ ٹھہراتے تھے.قرآن شریف نے صدیقہ کہہ کر ان کے الزاموں کو دور کیا ہے کہ وہ صدیقہ تھیں.اس سے کوئی خصوصیت اور فخر ثابت نہیں ہوتا اور نہ عیسائی کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں بلکہ ان کو تو یہ امور پیش بھی نہیں کرنے چاہئیں.۱
۲۴؍ اپریل ۱۹۰۳ء (مجلس قبل ازعشاء) ایک اعتراض کا جواب کسی نے اعتراض کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ کیوں کوئی احمدی طاعون سے فوت ہوتا ہے؟ فرمایا کہ یہ ان لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ انجام کو نہیں دیکھتے.آنحضرت کے وقت جب ایک طرف کافر مَرتے ہوں گے اور ایک طرف صحابہؓ بھی.تو لوگ اعتراض تو کرتے ہوں گے کہ مَرتے تو وہ بھی ہیں پھر فرق کیا؟اس لیے ہمیشہ انجام کو دیکھنا چاہیے.ایک وہ وقت تھا کہ آنحضرت اکیلے تھے اور کوئی ساتھ نہ تھا ہر ایک مقابلہ کے لیے طیار ہوتا.اب ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر طاعون سے ہمارے مرید مَرتے جاتے ہیں تو پھر ہماری ترقی کیوں ہوتی جاتی ہے؟اور ان کی جمعیت کیوں گھٹتی جاتی ہے؟یہ اعتراض تو پھر سب پیغمبروں پر ہوگا اور ہم نے تو اس لیے کشتی نوح میں لکھ دیا تھا کہ اگر عافیت کا پہلو نسبتاً ہماری طرف ہے تو ہم سچے اور موت تو سب کو آتی ہے اس سے کس کو انکار ہے.طاعون کو جو ایک طرف شہادت اور ایک طرف عذاب کہا جاتا ہے.اس کے یہی معنے ہیں کہ اس کے ذریعے سے جس فریق کے لیے برکات ظاہر ہورہے ہیں ان کے لیے تو شہادت اور رحمت ہے اور جن کے لیے برکات ظاہر نہ ہوں اور کمی ہوتی جاوے ان کے لیے عذاب ہے.ہم کو اس سے دو فائدے ہیں اور ان کو دو نقصان ہیں اور پھر ہم بیس سال سے براہین میں یہ پیشگوئی عذاب کی شائع کرچکے ہیں.خدا نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ ان کافروں کو جس طرح چاہے عذاب دیوے.پھر جب ان لوگوں کو وہ عذاب ایک جنگ کے رنگ میں نازل ہوا تو کفار کے ساتھ صحابہؓ کیوں اس میں حصہ لیتے رہے؟یہ اَمر اس لیے ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایک پہلو اِخفا اور ایمان بالغیب کا بھی رہے.ہندوئوں کا بانگ دلوانا آج کل طاعون کی کثرت کے وقت اکثر سکھوں اور ہندوئوں کے گائوں میں یہ علاج کیا جاتا ہے کہ اذان نماز بڑے زور اور کثرت سے
ہر ایک گھر میں دلائی جاتی ہے اس کی نسبت ایک شخص نے حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ یہ فعل کیسا ہے؟ فرمایا کہ اذان سراسر اللہ تعالیٰ کا پاک نام ہے ہمیں تو علیؓ کا جواب یاد آتا ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ میں اس اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يَنْهٰى عَبْدًا اِذَا صَلّٰى (العلق:۱۰، ۱۱) کا مصداق ہونا نہیں چاہتا.ہمارے نزدیک بانگ میں بڑی شوکت ہے اور اس کے دلوانے میں حرج نہیں (حدیث میں آیا ہے کہ اس سے شیطان بھاگتا ہے)۱ ۲۵؍ اپریل ۱۹۰۳ء (دربارِ شام) الہام يٰۤاَرْضُ ابْلَعِيْ مَآءَكِ وَ يٰسَمَآءُ اَقْلِعِيْ ۲ مولوی محمد حسین صاحب کے ذکر پر فرمایا کہ ۳ اصل میں اگر کوئی صاف دل اور بے تعصب ہو کر ہمارے دلائل سنے تو اس کو معلوم ہوجاوے کہ درحقیقت ہم حق پر ہیں.ہمارا ان کا اختلاف ہی کیا ہے.وفات مسیح علیہ السلام مسیحؑ کی حیات ممات کا بڑا مسئلہ ہے اور یہ ایسا صاف ہے کہ اس میں زیادہ بحث کی ضرورت نہیں پڑتی.شروع سے یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے اور وفاتِ مسیحؑ اکثر اکابران ملت کا مذہب ہے.صحابہؓ کا یہی مذہب تھا.۱ البدر جلد۲نمبر ۱۵مورخہ یکم مئی۱۹۰۳ء صفحہ۱۱۶ ۲یہ الہام اور اس کی تشریح البدر میں ۲۷؍ اپریل کی ڈائری کے بعد درج ہے.دیکھئے صفحہ ۹۴ پر’’طاعون کے متعلق ایک تازہ الہام.‘‘(مرتّب) (البدر جلد۲نمبر ۱۵مورخہ یکم مئی۱۹۰۳ء صفحہ۱۱۷) ۳البدر میں لکھا ہے.’’مقدمات کی نسبت ذکر ہوا.فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں ہم کو فتح دی ہے براہین میں یہ الہام موجود ہے.‘‘ (البدر جلد۲نمبر ۱۵مورخہ یکم مئی۱۹۰۳ء صفحہ۱۱۶)
احیاءِ موتٰی رہا حضرت عیسیٰ کا احیاءِ موتٰی.اس میں روحانی احیاءِ موتٰیکے تو ہم بھی قائل ہیں اور ہم مانتے ہیں کہ روحانی طور پر مُردے زندہ ہوا کرتے ہیں اور اگر یہ کہو کہ ایک شخص مَر گیا اور پھر زندہ ہوگیا.یہ قرآن شریف یا احادیث سے ثابت نہیں ہے اور ایسا ماننے سے پھر قرآن شریف اور احادیث نبوی گویا ساری شریعت اسلام ہی کو ناقص ماننا پڑے گا کیونکہ رَدُّ الْمَوْتٰی کے متعلق مسائل نہ قرآن شریف میں ہیں نہ حدیث نے کہیں ان کی صراحت کی ہے.اور نہ فقہ میں کوئی بات اس کے متعلق ہے.غرض کسی نے بھی اس کی تشریح نہیں کی.اس طرح پر یہ مسئلہ بھی صاف ہے.۱ خلق طیر پھر ان کا جانور بنانا ہے سواس میں بھی ہم اس بات کے تو قائل۲ ہیں کہ روحانی طور سے معجزہ کے طور پر درخت بھی ناچنے لگ جاوے تو ممکن ہے مگر یہ کہ انہوں نے چڑیاں بنادیں اور انڈے بچے دے دئیے اس کے ہم قائل نہیں ہیں اور نہ قرآن شریف سے ایسا ثابت ہے.ہم کیا کریں ہم اس طور پر ان باتوں کو مان ہی نہیں سکتے جس طرح پر ہمارے مخالف کہتے ہیں.کیونکہ قرآن شریف صریح اس کے خلاف ہے اور وہ ہماری تائید میں کھڑا ہے اور دوسری طرف بار بار کثرت کے ساتھ ہمیں الہام الٰہی کہتا ہے قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُؤْمِنُوْنَ.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ.اب ان الہامات کے بعد ہم اور کس کی بات سنیں؟ اور وہ کون ہے جس کی آواز خدا کی ان آوازوں کے بعد ہمارے دل کو لے سکے؟ مولوی محمد حسین صاحب نے تو خود لکھ دیا ہے کہ اہل کشف اور ولی الہام کے رو سے احادیث کی صحت کر لیتے ہیں.۱ البدر میں ہے.’’فرمایا.ہم اعجازی احیاء کے قائل ہیں مگر یہ بات بالکل ٹھیک نہیں ہے کہ ایک مُردہ اس طرح زندہ ہوا ہو کہ وہ پھر اپنے گھر میں آیا اور رہا اور ایک اور عمر اس نے بسر کی اگر ایسا ہوتا تو قرآن ناقص ٹھہرتا ہے کہ اس نے ایسے شخص کی وراثت کے بارے میں کوئی ذکر نہ کیا اور اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المائدۃ:۶) کیا ہوا.‘‘ (البدر جلد۲نمبر ۱۵مورخہ یکم مئی۱۹۰۳ء صفحہ۱۱۶) ۲ البدر میں ہے.’’فرمایا.اسی طرح ہم چڑیوں کو مانتے ہیں کہ وہ بھی ٹاپنے لگ گئی ہوں اور چڑیاں کیا شَے ہیں ہم تو یہ بھی مانتے ہیں کہ ایک درخت بھی ٹاپنے لگے.مگر پھر بھی وہ خدا کی چڑیوں کی طرح ہرگز نہیں ہوسکتیں کہ جس سے تشابہ فی الخلق لازم آجاوے بڑی بات قابل فیصلہ وفات مسیح ہے.‘‘(البدر جلد۲نمبر ۱۵مورخہ یکم مئی۱۹۰۳ء صفحہ۱۱۶)
بنادیں اور انڈے بچے دے دئیے اس کے ہم قائل نہیں ہیں اور نہ قرآن شریف سے ایسا ثابت ہے.ہم کیا کریں ہم اس طور پر ان باتوں کو مان ہی نہیں سکتے جس طرح پر ہمارے مخالف کہتے ہیں.کیونکہ قرآن شریف صریح اس کے خلاف ہے اور وہ ہماری تائید میں کھڑا ہے اور دوسری طرف بار بار کثرت کے ساتھ ہمیں الہام الٰہی کہتا ہے قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُؤْمِنُوْنَ.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ.اب ان الہامات کے بعد ہم اور کس کی بات سنیں؟ اور وہ کون ہے جس کی آواز خدا کی ان آوازوں کے بعد ہمارے دل کو لے سکے؟ مولوی محمد حسین صاحب نے تو خود لکھ دیا ہے کہ اہل کشف اور ولی الہام کے رو سے احادیث کی صحت کر لیتے ہیں.بعض احادیث ائمہ اہلِ حدیث کے نزدیک موضوع ہوتی ہیں اور اہل کشف بذریعہ کشف ان کو صحیح قرار دیتے ہیں اور وہ حق پر ہوتے ہیں.اب وہ خود ہی بتاویں کہ ہم کیا کریں.کیا ہم خدا تعالیٰ کے الہام کو مانیں یا کسی دوسرے کے قیل وقال کو؟ براہین احمدیہ موجود ہے اور وہ دشمنوں دوستوں سب کے ہاتھ میں ہے اس میں اس وقت سے ۲۵ سال پہلےکی وہ وہ پیشگوئیاں اور وعدے بھرے ہوئے ہیں جن کا اس وقت نام ونشان بھی نہ تھا.اور وہ اب بڑے زور شور سے اپنے سچے معنوں میں پوری ہو رہی ہیں کیا کوئی آدمی ایسی نظیر بتا سکتا ہے کہ کسی کاذب کو ایسے سامان ملے ہوں کہ پہلے اتنا عرصہ دراز اس نے پیشگوئیاں کی ہوں اور وہ پھر ہماری طرح پوری ہوئی ہوں اور وہ کامیاب ہو گیا ہو.۱،۲ ۲۶؍اپریل ۱۹۰۳ء (بوقتِ سیر) خدا تعالیٰ اور انبیاء کا علم مساوی نہیں ہوتا فرمایا کہ خدا کے علم کے ساتھ بشر کا علم مساوی نہیں ہوسکتا.اس لیے انبیاء سے اجتہاد میں غلطیاں واقع ہوتی رہی ہیں اور پھر جب خدا نے اس پر اطلاع دی تو ان کو علم ہوا.یہودیوں کو مسیحؑ کے وقت یہی مغالطہ ہوا انہوں نے کہا کہاںدائود کی بادشاہت قائم ہوئی اور یہی دعویٰ آخر کار رخنہ کا موجب ہوا.اگر پیغمبر پر ہر ایک تفصیل کھول دی جاتی تو پھر ہر ایک پیغمبر کو یہ علم ہوتا کہ میرے بعد فلاں پیغمبر آوے گا اور موسیٰ علیہ السلام کو علم ہوتا کہ میرے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے حالانکہ ان کا یہی خیال ہوگا کہ آپ بنی اسرائیل سے ہوں گے.اسی طرح آئندہ کے امور بعض وقت ایک نبی پر منکشف کئے جاتے ہیں مگر تفصیلی علم نہیں دیا جاتا.پھر جب ان کا وہ وقت آتا ہے تو خود بخود حقیقت کھل جاتی ہے.ہم کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو حَکم ہو کر آئے تھے تو کیا آپ نے یہود کی کل باتیں تسلیم کرلی تھیں؟ ۱ الحکم جلد۷نمبر ۱۶ مورخہ ۳۰ ؍اپریل۱۹۰۳ء صفحہ۸ ۲ البدرمیں ۲۵؍ اپریل کی ڈائری میں مندرجہ ذیل دو باتیں لکھی ہیں جو الحکم میںنہیں حالانکہ الحکم کی باقی ڈائری مفصل ہے مگر معلوم ہوتا ہے یہ دو باتیں وہاں رہ گئی ہیں.البدر میںہے.نرمی فرمایا.’’ نرمی اس بات کا نام نہیں ہے کہ دوسرا اگر مقابل پر نرمی کرتا رہا تو تم بھی کرتے رہو اور جب اس نے ذرا تیور بدلے تو تم نے بھی بدل لیے بلکہ جب فریق مقابل سختی کرے اور اس وقت تم نرمی کرو تو اس کا نام نرمی ہوگا.عمر کا اثر انسان پر فرمایاکہ عمر کا بھی اثر انسان کے اخلاق اور عادات پر پڑتا ہے چالیس سال تک انسان بہت سی بیہودگیاں کرتا ہے.اس کے بعد جب انحطاط شروع ہوتا ہے تو ساتھ ہی خیالات کا بھی انحطاط شروع ہوتا ہے اور ایک تغیر عظیم انسان کے اندر ہوتاہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱۶ )
یہودیوں کو مسیحؑ کے وقت یہی مغالطہ ہوا انہوں نے کہا کہاںدائود کی بادشاہت قائم ہوئی اور یہی دعویٰ آخر کار رخنہ کا موجب ہوا.اگر پیغمبر پر ہر ایک تفصیل کھول دی جاتی تو پھر ہر ایک پیغمبر کو یہ علم ہوتا کہ میرے بعد فلاں پیغمبر آوے گا اور موسیٰ علیہ السلام کو علم ہوتا کہ میرے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے حالانکہ ان کا یہی خیال ہوگا کہ آپ بنی اسرائیل سے ہوں گے.اسی طرح آئندہ کے امور بعض وقت ایک نبی پر منکشف کئے جاتے ہیں مگر تفصیلی علم نہیں دیا جاتا.پھر جب ان کا وہ وقت آتا ہے تو خود بخود حقیقت کھل جاتی ہے.ہم کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو حَکم ہو کر آئے تھے تو کیا آپ نے یہود کی کل باتیں تسلیم کرلی تھیں؟ (مجلس قبل از عشاء ) دینی غیرت ایک مقام کے چند ایک احباب آریوں کے ایک ایسے جلسے میں گئے تھے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پاک تعلیم پر ناجائز اور فحش سے بھرے ہوئے نا معقول حملے ہو رہے تھے اس پر حضرت اقدس نے نا راضگی کا اظہا کیا کہ یہ لوگ ایسی محفلوں میں کیوں جاتے ہیں؟ اور جب ایسے ذکر اذ کار شروع ہوں تو کیوں نہیں اٹھ کر چلے آتے؟ ہماری رائے میں ہمارے احباب کو یہ طریق اختیار کرنا چاہیے کہ وہ اپنی ہفتہ وار کمیٹی میں ایسی باتوں کی تردید کیا کریں اور بذریعہ اشتہار کے ان تمام لوگوں کو مدعو کیا کریں جو کہ اعتراض کرتے ہیں یہ طریق نہایت امن اور عمدہ تبلیغ حق کا ہے اور غیرت دینی کے بہت اقرب ہے.نبوت کا اقرار اور انکار اعتراض.ایک شخص کی طرف سے یہ سوال پیش ہواکہ مرزا صاحب اپنی تصنیفات میں کہیں نبوت کی نفی کرتے ہیں اور کہیں جواز.جواب.فرمایا.یہ اس کی غلطی ہے ہم اگر نبی کا لفظ اپنے لیے استعمال کرتے ہیں تو ہم ہمیشہ وہ مفہوم لیتے ہیں جو کہ ختمِ نبوت کا مخل نہیں ہے اور جب اس کی نفی کرتے ہیں تووہ معنے مُراد ہوتے ہیں جو ختمِ نبوت کے مخل ہیں.
نیوگ اور طلاق میں سے کو ن سااَمر کا نشنس کے خلاف ہے طلاق پر آریوں کے اعتراض سن کر فرمایا کہ اگر طلاق ایسا اَمر ہوتا جوکہ کانشنس کے خلاف ہے تو پھر دیگر اقوام بھی اسے بجانہ لا تیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی ایسی قوم نہیں ہے جو ضرورت کے وقت عورت کو طلاق نہ دیتی ہو لیکن اگر نیوگ بھی ایسا ہی ہے تو آریوں کو چاہیے کہ اپنی قوم کے معزز اور برگزیدہ کئی سوممبر انتخاب کریں کہ جن کی اولاد نہ ہو اور پھر وہ اپنی عورتوں سے نیوگ کراویں اور شائع کریں کہ فلاں فلاں صاحب اپنی عورت سے نیوگ کرواتے ہیں جب تک وہ یہ نمونہ نہ دکھلا ویں تب تک بحث فضول ہے اور جب وہ ایسا کریں تو پھر ہم کو ان پر کچھ افسوس نہ ہوگا ہمارا اعتراض اس وقت تک ہے جب تک وہ اسے عملی طور پر قوم میں نہیں دکھلا تے اسی طرح اگر وہ بالمقابل چاہیں توہم اہل اسلام کے رؤسا اور معزز لوگوں کی ایسی فہرست طیار کردیویں گے جنہوںنے معقول وجوہات پر اپنی بیویوں کو طلاق دی ہے.وجوہِ طلاق احمدی جماعت میں سے ایک صاحب نے اپنی عورت کو طلاق دی.عورت کے رشتہ داروں نے حضرت کی خدمت میں شکایت کی کہ بے وجہ اور بے سبب طلاق دی گئی ہے.مرد کے بیانوں سے یہ بات پائی گئی کہ اگر اسے کوئی ہی سزا دی جاوے مگر وہ اس عورت کو بسانے پر ہرگز آمادہ نہیں ہے عورت کے رشتہ داروں نے جو شکایت کی تھی ان کا منشا تھا کہ پھر آبادی ہو اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ عورت مرد کا معاملہ آپس میں جو ہوتا ہے اس پر دوسرے کو کامل اطلاع نہیں ہوتی بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی فحش عیب عورت میں نہیں ہوتا مگر تاہم مزاجوں کی نا موافقت ہوتی ہے جو کہ باہمی معاشرۃ کی مخل ہوتی ہے ایسی صورت میں مرد طلاق دے سکتا ہے.بعض وقت عورت گو ولی ہو اور بڑی عابد اور پرہیز گار اور پاکدامن ہو اور اس کو طلاق دینے میں خاوند کو بھی رحم آتا ہو بلکہ وہ روتا بھی ہو مگر پھر بھی چونکہ اس کی طرف سے کراہت ہوتی ہے اسی لیے وہ طلاق دے سکتا ہے مزاجوں کا آپس میں موافق نہ ہونا یہ بھی ایک شرعی اَمر ہے اس لیے ہم اب اس میں دخل نہیں دے سکتے جو ہوا سوہوا.مہر کا جو جھگڑا ہووہ آپس میں فیصلہ کر لیا جاوے.۱
عورت مرد کا معاملہ آپس میں جو ہوتا ہے اس پر دوسرے کو کامل اطلاع نہیں ہوتی بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی فحش عیب عورت میں نہیں ہوتا مگر تاہم مزاجوں کی نا موافقت ہوتی ہے جو کہ باہمی معاشرۃ کی مخل ہوتی ہے ایسی صورت میں مرد طلاق دے سکتا ہے.بعض وقت عورت گو ولی ہو اور بڑی عابد اور پرہیز گار اور پاکدامن ہو اور اس کو طلاق دینے میں خاوند کو بھی رحم آتا ہو بلکہ وہ روتا بھی ہو مگر پھر بھی چونکہ اس کی طرف سے کراہت ہوتی ہے اسی لیے وہ طلاق دے سکتا ہے مزاجوں کا آپس میں موافق نہ ہونا یہ بھی ایک شرعی اَمر ہے اس لیے ہم اب اس میں دخل نہیں دے سکتے جو ہوا سوہوا.مہر کا جو جھگڑا ہووہ آپس میں فیصلہ کر لیا جاوے.۱ ۲۷؍اپریل ۱۹۰۳ء ( بوقتِ سیر) ضرورت حَکم جب مدت درازگذر جاتی ہے اور غلطیاں پڑ جاتی ہیں تو خدا ایک حََکم مقرر کرتا ہے جو ان غلطیوں کی اصلاح کرتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیحؑ کے سات سو برس بعدآئے اس وقت ساتویں صدی میں ضرورت پڑی تو کیا اب چودہویں صدی میں بھی ضرورت نہ پڑتی اور پھر جس حال میں کہ ایک ملہم ایک صحیح حدیث کو وضعی اور وضعی کو صحیح بذریعہ الہام کے قرار دے سکتا ہے اور یہ اصول ان لوگوں کا مسلّم ہے تو پھر حَکَم کو کیوں اختیار نہیں ہے؟ ایک حدیث کیا اگر وہ ایک لاکھ حدیث بھی پیش کریں توان کی پیش کب چل سکتی ہے؟ اَلْعِزَّۃُ لِلّٰہِ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ذکر پر فرمایا کہ انہوں نے لکھا تھا کہ ہم ہی نے اونچا کیا تھا اور ہم ہی اسے نیچا گرادیں گے مگر ہم پو چھتے ہیں کہ انہوں نے چڑ ھا نے کے لیے کیا کوشش کی تھی ہم پر تو سوائے خدا کے کسی کاذرّہ بھر بھی احسان نہیں ہاں اب گرانے کے لیے انہوں نے بہت کوشش کی اور جتنی اس نے کی اور کسی نے مطلق نہیں کی مگر خدا کے آگے کس کی پیش چلتی ہے.اس کے بعد مو لوی صاحب کی شہادت قتل کے مقدمہ میں اور وہاں کر سی وغیرہ مانگنے کا ذکر ہوتا رہا اس پر حضرت نے فرمایا کہ قلوب میں عظمت ڈالنا خدا کا کام ہے علماء دین کے واسطے ظاہر ی بلندی چاہنی عیب میں داخل ہے قلوب میں عظمت ڈالنی انسانی ہاتھ کا کام نہیں ہے یہ ایک کشش ہوتی ہے جو کہ خدا کے ارادہ سے ہوتی ہے ہم کیا کر رہے ہیں جو ہزارہا آدمی کھچے چلے آتے ہیں یہ سب خدا کی کشش ہے ان لوگوں کی علمیت اور حکمت دانا ئی ان کے کچھ کام نہ آئی.مثنوی میں ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک شخص دولت مند تھا مگر بچا رے کی عقل کم تھی وہ کہیں جانے لگا تواس نے گدھے پر بورے میں ایک طرف جواہرڈالے اوروزن کو برابر کرنے کے واسطے ایک طرف اتنی ریت ڈال دی آگے چلتے چلتے اسے ایک شخص دانشمند ملا مگر کپڑے پھٹے ہوئے، بھوک کا مارا ہوا سر پرپگڑی نہیں اس نے اس کو مشورہ دیا کہ تو نے ان جواہرات کو نصف نصف کیوں نہ دونوں طرف ڈالا اب نا حق جانور کو تکلیف دے رہا ہے اس نے جواب دیا کہ میں تیری عقل نہیں برتتا تیری عقل کے ساتھ نحوست ہے بلکہ میں تجھ بد بخت کا مشورہ بھی قبول نہیں کرتا.
جو ہزارہا آدمی کھچے چلے آتے ہیں یہ سب خدا کی کشش ہے ان لوگوں کی علمیت اور حکمت دانا ئی ان کے کچھ کام نہ آئی.مثنوی میں ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک شخص دولت مند تھا مگر بچا رے کی عقل کم تھی وہ کہیں جانے لگا تواس نے گدھے پر بورے میں ایک طرف جواہرڈالے اوروزن کو برابر کرنے کے واسطے ایک طرف اتنی ریت ڈال دی آگے چلتے چلتے اسے ایک شخص دانشمند ملا مگر کپڑے پھٹے ہوئے، بھوک کا مارا ہوا سر پرپگڑی نہیں اس نے اس کو مشورہ دیا کہ تو نے ان جواہرات کو نصف نصف کیوں نہ دونوں طرف ڈالا اب نا حق جانور کو تکلیف دے رہا ہے اس نے جواب دیا کہ میں تیری عقل نہیں برتتا تیری عقل کے ساتھ نحوست ہے بلکہ میں تجھ بد بخت کا مشورہ بھی قبول نہیں کرتا.فروتنی انسان کو چاہیے کہ جب کہیں جاوے توسب سے نیچی جگہ اپنے لیے تجویز کرے اگر وہ کسی اَور جگہ کے لائق ہوگا تو میزبان خود اسے بلا کر جگہ دے گا اور اس کی عزّت کرے گا.عوام الناس کی کم فہمی عوام الناس کی کم فہمی پر فرمایاکہ جن لوگوں کے دل میں کجی ہے وہ متشابہات کی طرف جاتے ہیں جن لوگوں نے حضرت موسٰی اورعیسیٰؑ اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول نہ کیا انہوں نے آیات ِبیّنہ سے فائدہ نہیں اٹھایا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک حبشی عورت سے نکا ح کیا تو لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ اگر یہ منجانب اللہ ہوتا تو حبشن سے نکا ح نہ کرتا اس ذرا سی بات پران کے تمام معجزات کو نظر انداز کر دیا.(مجلس قبل ازعشاء) مُعَبِّـر کی رائے کااثر تعبیر پر نہیں پڑتا ایک شخص نے سوال کیا کہ جب خواب بیان کیا جاتا ہے تو یہ بات مشہور ہے کہ سب سے اوّل جو تعبیر مُعَبِّـر کرے وہی ہوا کرتی ہے اور اسی بنا پر یہ کہا جاتا ہے کہ ہر کس وناکس کے سامنے خواب بیان نہ کرنا چاہیے.فرمایا.جو خواب مبشر ہے اس کا نتیجہ انذار نہیں ہوسکتا اور جو منذر ہے وہ مبشر نہیں ہوسکتا اس لیے یہ بات غلط ہے کہ اگر مبشر کی تعبیر کوئی مُعَبِّـر منذر کی کرے تووہ منذر ہو جاوے گا اور منذر مبشر ہو جاوے گا
ہاں یہ بات درست ہے کہ اگر کوئی منذر خواب آوے توصدقہ خیرات اور دعا سے وہ بَلا ٹل جاتی ہے.تفاؤل کسی کے نام سے بطور تفاؤل کے فال پر سوال ہوا.فرمایا کہ یہ اکثر جگہ صحیح نکلتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تفاؤل سے کام لیا ہے ایک دفعہ مَیں گورداسپور مقدمہ پر جارہاتھا اور ایک شخص کو سزا ملنی تھی میرے دل میں خیال تھا کہ اسے سزا ہو گی یا نہیں کہ اتنے میں ایک لڑکا ایک بکری کے گلے میں رسی ڈال رہا تھا اس نے رسی کا حلقہ بنا کر بکری کے گلے میں ڈالا اور زور سے پکارا کہ وہ پھس گئی وہ پھس گئی میں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ اسے سزا ضرور ہو گی چنا نچہ ایسا ہی ہوا.اسی طرح ایک دفعہ سیر کو جارہے تھے اور دل میں پگٹ کا خیال تھا کہ بڑا عظیم الشان مقابلہ ہے دیکھئے کیا نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک شخص غیر از جماعت نے راستہ میں کہا السلام علیکم.میں نے اس سے نتیجہ یہ نکالا کہ ہماری فتح ہو گئی.طاعون کے متعلق ایک تازہ الہام قُلْنَا يٰۤاَرْضُ ابْلَعِيْ مَآءَكِ وَ يٰسَمَآءُ اَقْلِعِيْ.اس الہام کے متعلق جہاں تک میری رائے ہے وہ یہ ہے کہ یہ عام شہروں اور دیہات کے متعلق نہیں اور نہ اس سے دوام منع ثابت ہوتا ہے.غالباًیہی ہے کہ بعض دیہات اور شہروں میں جن کی نسبت خدا کاارادہ ہے چند مہینوں تک طاعون بند رہے اور پھر جہاں خدا وندقدیر چاہے پھر پھوٹ پڑے اور یہ بکلی بند نہیں ہوگی جب تک وہ ارادہ بکمال وتمام پورا نہ ہو جاوے جوآسمان پر قرار پایا ہے اور ضرور ہے کہ زمین اپنے مواد نکالتی رہے جب تک کہ خدا کا ارادہ اپنے کمال کو نہ پہنچے.مرزا غلام احمد ایک الہام مورخہ ۲۷؍اپریل ۱۹۰۳ء کی شام کو فرمایا.رَبِّ اِنِّیْ مَظْلُوْمٌ فَانْتَصِـرْ۱
۲۸؍اپر یل ۱۹۰۳ء (بوقتِ ظہر) مہندی اور وسمہ مہندی اور وسمہ کی نسبت ذکر ہوا.حضور نے فرمایا کہ اکثر اکابراس طرف گئے ہیں کہ وسمہ نہ لگانا چاہیے یا مہندی لگا ئی جاوے یا وسمہ اور مہندی ملا کر.۱ ۲۹؍اپریل ۱۹۰۳ء (مجلس قبل ازعشاء) ناپائیدار زندگی ایک شخص کی نئی ایجاد پر ذکر آیاکہ اس کی ایجاد بہت مقبول ہوئی ہے اور اس کے ذریعے سے وہ لاکھ ہا روپیہ اب کماوےگا.فرمایا کہ دنیا چندروزہ ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ دولت آوے گی اور ان کی نظر یہاں تک ہی محدو درہتی ہے لیکن اگر زندگی نہ ہوئی تو کیا فائدہ؟ لوگوں کا دستور ہے کہ ہر ایک پہلو پر نظر نہیں ڈالتے.۲ ایک الہام اِنَّا نَرِثُ الْاَرْضَ نَاْکُلُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا.۳ ۳۰؍اپر یل ۱۹۰۳ء (بوقتِ سیر ) ایک الہام فرمایا کہ مجھے الہام ہوا مگر اس کا آخری حصہ یاد ہے دوسرے الفاظ یاد نہیں رہے جو الفاظ یاد ہیں وہ یہ ہیں فِیْہِ خَیْرٌ وَّ بَرَکَۃٌ اس کا ترجمہ بھی بتلا یا گیا ’’ اس میں تمام دنیا کی بھلائی ہے ‘‘ ۱،۲البدر جلد۲ نمبر۱۶مورخہ ۸؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۱۲۱ ۳ البدر جلد۲ نمبر۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۱۱۷
حج نہ کرنے پر اعتراض کا جواب مخالفوں کے اس اعتراض پر کہ حضرت مرزا صاحب حج کیوں نہیں کرتے.فرمایا.کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ جو خدمت خدا نے اوّل رکھی ہے اس کو پس انداز کرکے دوسرا کام شروع کر دیوے یہ یادرکھنا چاہیے کہ عام لوگوں کی خدمات کی طرح ملہمین کی عادت کام کرنے کی نہیں ہوتی وہ خدا کی ہدایت اور راہنمائی سےہر ایک اَمر کو بجا لاتے ہیں اگرچہ شرعی تمام احکام پر عمل کرتے ہیں مگر ہر ایک حکم کی تقدیم وتاخیر الٰہی ارادہ سے کرتے ہیں اب اگر ہم حج کو چلے جاویں تو گویا اس خدا کے حکم کی مخالفت کرنے والے ٹھہریں گے اور مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا ( اٰل عـمران:۹۸) کے بارے میں کتاب حجج الکرامہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو حج سا قط ہے حالانکہ اب جو لوگ جاتے ہیں ان کی کئی نمازیں فوت ہوتی ہیں مامورین کا اوّل فرض تبلیغ ہوتا ہے آنحضرتؐ ۱۳ سال مکہ میں رہے آپؐنے کتنی دفعہ حج کئے تھے؟ ایک دفعہ بھی نہیں کیا تھا.حضرت عیسیٰ کی بے باپ پیدائش سوال.کیا قرآن میں کوئی صریح آیت ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیحؑ بلاباپ کے پیدا ہوئے تھے؟ جواب.فرمایا کہ یحییٰ اور عیسیٰ علیہ السلام کے قصہ کوایک جاجمع کرنا اس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ جیسے یحییٰ علیہ السلام کی پیدا ئش خوارق طریق سے ہے۱ ویسے ہی مسیحؑ کی بھی ہے پھر یحییٰ علیہ السلام کی پیدا ئش کا حال بیان کرکے مسیحؑ کی پیدا ئش کا حال بیان کیا ہے یہ ترتیب قرآنی بھی بتلاتی ہے کہ ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف ترقی کی ہے یعنی جس قدر معجزنما ئی کی قوت یحییٰ کی پیدا ئش میں ہے اس سے بڑھ کر مسیح کی پیدا ئش میں ہے اگر اس میں کوئی معجزانہ بات نہ تھی تو یحییٰ کی پیدا ئش کا ذکر کرکے کیوں ساتھ ہی مریم کا ذکر چھیڑدیا؟ اس سے کیا فائدہ تھا؟ یہ اسی لیے کیا کہ تأویل کی گنجائش نہ رہے ان دونوں بیانوں کا ایک جا ذکر ہونا اعجازی اَمر کو ثابت کرتے ہیں اگر یہ نہیں ہے تو گویا قرآن تنزل پر آتا ہے جو کہ اس کی شان کے برخلاف ہے.پھر اس کے علاوہ یہ بھی فرمایا کہ اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ (اٰل عـمران:۶۰) اگر مسیحؑ بنا باپ کے نہ تھا تو آدم سے مماثلت کیا ہوئی اور وہ کیا اعتراض مسیحؑ پر تھا جس کا یہ جواب دیا گیا؟ توار یخی بات بھی یہ ہے کہ یہود آپ کی پیدا ئش کو اسی لیے ناجائز قرار دیتے تھے کہ آپ کا باپ کوئی نہ تھا اس پر خدا نے یہود کو جواب دیا کہ آدم بھی تو بلا باپ پیدا ہوا تھا بلکہ بلا ماں بھی بہ اعتبار واقعات کے جواعتراض ہوا کرتے ہیں ان سے جواب کو دیکھنا چاہیے اور اگر کوئی اسے خلاف قانون قدرت قرار دیتا ہے تو اوّل قانون قدرت کی حد بست دکھلا وے.۱ ۱ ’’ یعنی حضرت زکریا علیہ السلام بہت ہی بوڑھے تھے اور ان کی بیوی بانجھ تھی.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر ۱۸مورخہ ۱۷ مئی۱۹۰۳ء صفحہ ۲)
جواب.فرمایا کہ یحییٰ اور عیسیٰ علیہ السلام کے قصہ کوایک جاجمع کرنا اس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ جیسے یحییٰ علیہ السلام کی پیدا ئش خوارق طریق سے ہے۱ ویسے ہی مسیحؑ کی بھی ہے پھر یحییٰ علیہ السلام کی پیدا ئش کا حال بیان کرکے مسیحؑ کی پیدا ئش کا حال بیان کیا ہے یہ ترتیب قرآنی بھی بتلاتی ہے کہ ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف ترقی کی ہے یعنی جس قدر معجزنما ئی کی قوت یحییٰ کی پیدا ئش میں ہے اس سے بڑھ کر مسیح کی پیدا ئش میں ہے اگر اس میں کوئی معجزانہ بات نہ تھی تو یحییٰ کی پیدا ئش کا ذکر کرکے کیوں ساتھ ہی مریم کا ذکر چھیڑدیا؟ اس سے کیا فائدہ تھا؟ یہ اسی لیے کیا کہ تأویل کی گنجائش نہ رہے ان دونوں بیانوں کا ایک جا ذکر ہونا اعجازی اَمر کو ثابت کرتے ہیں اگر یہ نہیں ہے تو گویا قرآن تنزل پر آتا ہے جو کہ اس کی شان کے برخلاف ہے.پھر اس کے علاوہ یہ بھی فرمایا کہ اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ (اٰل عـمران:۶۰) اگر مسیحؑ بنا باپ کے نہ تھا تو آدم سے مماثلت کیا ہوئی اور وہ کیا اعتراض مسیحؑ پر تھا جس کا یہ جواب دیا گیا؟ توار یخی بات بھی یہ ہے کہ یہود آپ کی پیدا ئش کو اسی لیے ناجائز قرار دیتے تھے کہ آپ کا باپ کوئی نہ تھا اس پر خدا نے یہود کو جواب دیا کہ آدم بھی تو بلا باپ پیدا ہوا تھا بلکہ بلا ماں بھی بہ اعتبار واقعات کے جواعتراض ہوا کرتے ہیں ان سے جواب کو دیکھنا چاہیے اور اگر کوئی اسے خلاف قانون قدرت قرار دیتا ہے تو اوّل قانون قدرت کی حد بست دکھلا وے.۱ یکم مئی۱۹۰۳ء (دربارِ شام) ایک رئویا فرمایا کہ ایک رئو یا تھی تو وحشت ناک مگر اللہ تعالیٰ نے ٹال ہی دیا.دیکھا کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ بیل کو میدان میں ذبح کریں گے.مگر عملی کارروائی نہ ہوئی.ذبح نہ ہوا کہ جاگ آگئی.آنحضرت کی قبر میں مسیح موعود کے دفن ہونے کا سرّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ مسیح موعود کی قبر میری قبر میں ہو گی.اس پر ہم نے سوچا کہ یہ کیا سِر ہے تو معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہر ایک قسم کی دُوری اور دُوئی کو دور کرتا ہے اور اس سے اپنے اور مسیح موعود کے وجود میں ایک اتحاد کا ہونا ثابت کیا ہے اور ظاہر کردیا ہے کہ کوئی شخص باہر سے آنے والا نہیں ہے بلکہ مسیح موعود کاآنا گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا آنا ہے جو بروزی رنگ رکھتا ہے.اگر کوئی اور شخص آتا تو اس سے دُوئی لازم آتی اور عزّتِ نبوی کے تقاضے کے خلاف ہوتا.بروز میں دُوئی نہیں ہوتی اگر کوئی غیرشخص آجاوے توغیرت ہوتی ہے لیکن جب وہ خود ہی آوے تو پھر غیرت کیسی! اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر ایک شخص
آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھے اور پاس اس کی بیوی بھی موجود ہو تو کیا اس کی بیوی آئینہ والی تصویر کو دیکھ کر پردہ کرے گی اور اس کو یہ خیال ہوگا کہ کوئی نا محرم شخص آگیا ہے اس لیے پردہ کرنا چاہیے اور یا خاوند کو غیرت محسوس ہو گی کہ کوئی اجنبی شخص گھر میں آگیا ہے اور میری بیوی سامنے ہے نہیں بلکہ آئینہ میں انہیں خاوند بیوی کی شکلوں کا بروز ہوتا ہے اور کوئی اس بروز کو غیر نہیں جانتا اور نہ ان میں کسی قسم کی دُوئی ہوتی ہے.یہی حالت مسیح موعود کی آمد کی ہے وہ کوئی غیر نہیں اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہے اور کسی نئی تعلیم یا شریعت کو لے کر آنے والا نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی کا بروز اور آپ کی ہی آمد ہے جس وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے آنے سے کوئی غیرت دا منگیر نہیں ہوئی بلکہ اس کو اپنے ساتھ ملا یا ہے اور یہی سِر ہے آپ کے اس ارشاد میں کہ وہ میری قبر میں دفن کیا جاوے گا یہ اَمر غایت اتحاد کی طرف رہبری کرتا ہے اگر اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر تعریف کرکے بھی جو قرآن شریف میں کی گئی ہے اور آپ کو خاتم الانبیاء ٹھہرا کر بھی پھر کبھی اور آپ کے بعد نبوت کے تخت پر بٹھا دیتا تو آپ کی کس قدر کسرِشان ہوتی اور اس سے نعوذباللہ یہ ثابت ہوتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی بہت ہی کمزور ہے کہ آپ سے ایک شخص بھی ایسا تیار نہ ہوسکا جو آپ کی اُمّت کی اصلاح کرسکتا اس سے نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسرِشان ہوتی بلکہ یہ اَمر جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے منا فی غیرت بھی ہوتا ہر شخص میں دنیا کے ادنیٰ ادنیٰ معاملات کے لیے غیرت ہوتی ہے تو کیا انبیاء علیہم السلام میں خدائی تعلقات میں بھی غیرت نہیں؟ معاذاللہ اس قسم کے کلمات کفر کے کلمات ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو وہ بھی میری ہی اطاعت کرتے اس سے کیا مُراد تھی؟ یہی کہ آپ کی نبوت کے زمانہ میں اَور کوئی دوسرا نبی نہیں آسکتا تھا.ایسا ہی جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آپ نے تورات کا ایک ورق دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سرخ ہو گیا اس کی وجہ کیا تھی؟ یہی غیرت تھی جس سے چہرہ سرخ ہو گیا تھا حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب آنحضرتؐکو دیکھا تو حضرت عمرؓ کو مخاطب کرکے کہا کہ
اے عمر ؓ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کو نہیں دیکھتا یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے وہ کا غذ اپنے ہاتھ سے پھینک دیا اور اس طرح پر غیرت ِنبوی کاادب کیا بھلا جب ایک چھوٹی سی بات کے لیے آپ کا چہرہ غیرت سے سرخ ہو گیا تھا تو کیا اگر وہی مسیحؑ جو بنی اسرائیل کا آخری رسول تھا اگر آپ کی اُمّت کی اصلاح اور آپ کی ختمِ نبوت کی مہر کو توڑ نے کے واسطے آجاوے گا تو آپ کو غیرت نہ آئے گی؟ اور کیا خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدرہتک کرنی چاہتا ہے؟ افسوس ہے یہ لوگ مسلمان کہلا کر اور آپ کا کلمہ پڑھ کر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین کرتے ہیں اور آپ کو خاتم النّبیّین مان کر پھر آپ کی مہر کو توڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر بھی الزام لگاتے ہیں کہ وہ پسند کرتا ہے کہ اس قدر تعریفوں کے بعد جو قرآن شریف میں آپ کی کی گئی ہیں آپ سے یہ سلوک کرے معاذاللہ.ایک غلو کا جواب شیعہ لوگوں کے ذکر پر فرمایاکہ ہمیں ان لوگوں کی حالت پر رحم آتا ہے کہ اگر حضرت حسینؓکی ایسی ہی شان اور عظمت تھی جو یہ بیان کرتے ہیں اورکل نبیوں کی نجات ان کی ہی شفا عت سے ہوئی ہے تو پھر تعجب ہے کہ قرآن شریف میں آپ کا نام ایک مر تبہ بھی اللہ تعالیٰ نے نہ لیا.زیدؓ جو ایک معمولی صحابی تھے ان کا نام تو قرآن نے لے لیا مگر امام حسینؓ کا جو ایسے جلیل القدر منجی اور کل انبیاء علیہم السلام کے شفیع تھے ان کا نام بھی قرآن شریف نے نہ لیا.کیا قرآن شریف کو بھی ان سے کچھ عداوت تھی؟ اگر کوئی یہ کہے کہ قرآن شریف میں (جیسا کہ شیعہ کہہ دیتے ہیں.ایڈیٹر) تحریف ہو گئی ہے۱ اور آپ کا نام بھی محرف مبدل ہو گیا ہوگا تو یہ الزام بھی ان ہی کی گردن پر ہے کیونکہ جن کی طرف یہ تحریف منسوب کی جاتی ہے ان کی وفات کے بعد جناب علیؓ تو زندہ تھے اور وہ اپنے وقت کے مقتدر خلیفہ تھے شیر خدا تھے جب ان کو یہ معلوم تھا کہ اس قرآن میں تحریف کی گئی ہے تو کیوں انہوں نے اس ۱ البدر سے.’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت کب تقاضا کرتی ہے کہ آپ کی کُرسی پر دوسرا بیٹھے اللہ تعالیٰ آپ کی تعریف کرے اور آپ کا درجہ بلند کرکے آپ کو ہر طرح کے سُکھ اور آرام کا مالک بنا دے اور آخر میں آکر یہ دکھ دیوے کہ آپ کی کُرسی پر غیر کو بیٹھا دیوے یہ کبھی نہیں ہوسکتا.‘‘ (البدر جلد۲نمبر ۱۶مورخہ ۸؍مئی۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲۲)
کو درست نہ کیا؟ ان کو چاہیے کہ اصل قرآن شریف کی اشاعت کرتے اوراس کو درست کر دیتے، لیکن جبکہ انہوں نے بھی یہی قرآن رکھا اور اپنا صحیح اور درست قرآن شائع نہ کیا تو یہ الزام بھی ان کے اپنے ہی سررہا ان کا حق تھا اور ان پر فرض تھا کہ جب اصل قرآن شریف گم کر دیا گیا تھا تواس وقت تو بھلا وہ خوف کے مارے کچھ نہ کرسکتے تھے مگر ان کی وفات کے بعد توان کو موقع تھا کہ لوگوں میں اس اَمر کا اعلان کر دیتے کہ اصل قرآن شریف یہ ہے اور جو تمہارے پاس ہے وہ محرّف مبدّل ہو گیا ہے مگر جب انہوں نے ایسا نہیں کیا تو پھر یہ الزام ان پر رہا.۱ ھُوَشَعْنَا براہین میں یہ ایک الہام حضرت اقدس کا درج ہے یہ ایک عبرانی لفظ ہے جس کے معنے ہیں ’’نجات دے ‘‘ فرمایا کہ یَامَسِیْحَ الْـخَلْقِ عَدْوَانَا کا مضمون اس سے ملتا جلتا ہے.مامور کی اطاعت کا معیار فرمایا کہ ایک مامور کی اطاعت اس طرح ہونی چاہیے کہ اگر ایک حکم کسی کو دیاجاوے تو خواہ اس کے مقابلہ پر دشمن کیسا ہی لالچ اور طمع کیوں نہ دیوے یا کیسی ہی عجز اور انکساری اور خوشا مد درآمد کیوں نہ کرے مگر اس حکم پر ان باتوں میں سے کسی کو بھی تر جیح نہ دینی چاہیے اور کبھی اس کی طرف التفات نہ کرنی چاہیے.سیرت اور خصلت اس قسم کی چاہیے کہ جس سے دوسرے آدمی پر اثر پڑے اور وہ سمجھے کہ ان لوگوں میں واقعی طور پر اطاعت کی روح ہے صحابہ کرام کی زندگی میں ایک بھی ایسا واقعہ نہ ملے گا کہ اگر کسی کو ایک دفعہ اشارہ بھی کیا گیا ہے تو پھر خواہ بادشاہ وقت نے ہی کتنا ہی زور کیوں نہ لگا یا مگر اس نے سوائے اس اشارہ کے اور کسی کی کچھ ما نی ہو.اطاعت پوری ہو تو ہدایت پوری ہوتی ہے ہماری جماعت کے لوگوں کو خوب سن لینا چاہیے اور خدا سے توفیق طلب کرنی چاہیے کہ ہم سے کوئی ایسی حرکت نہ ہو.۲ ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۰ ؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳ ۲ البدرجلد ۲ نمبر ۱۶ مورخہ ۸ ؍مئی ۱۹۰۳ءصفحہ ۱۲۲،۱۲۳
جن ایام میں شناخت کے آثار نہ تھے تو ذاتی نقصان اپنا یہ کیا کہ نور کو کھو بیٹھے اور اس وقت یہ اَمر مخفی اور مستور تھاتوریویو لکھے اور رائے ظاہر کی اب یہ وقت آیا تھا کہ وہ اپنے ریویو پر فخر کرتا کہ دیکھو جو باتیں میں نے اوّل کہی تھیں وہ آج پوری ہو رہی ہیں اور میری اس فراست کے شواہد پیدا ہو گئے ہیں مگر افسوس کہ اب وہ اپنی فراست کے خود ہی دشمن ہو گئے ہم نے کون سی بات نئی کی ہے جس حکم کے وہ لوگ منتظر ہیں بھلا ہم پوچھتے ہیں کیا اس نے آکر ہر ایک رطب ویا بس کو قبول کر لینا ہے اور وہ وحی کی پیروی کرے گا یاکہ ان مختلف مو لو یوں کی؟ اگر اس نے آکر انہی کی ساری باتیں قبول کر لینی ہیں تو پھر اس کا وجود بیہودہ ہے.۱ (دربارِشام) دعا کے جواب میں ایک الہام فرمایا.آج ہم نے عام طور پر بہت سے بیماروں کے لیے دعا کی تھی جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ ’’آثار صحت‘‘ یہ نہیں معلوم کہ کس شخص کے متعلق ہے دعا عام تھی.ہدایت مجاہدہ اور تقویٰ پر منحصر ہے فرمایا کہ جو شخص محض اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس کی راہ کی تلاش میں کوشش کرتا ہے اور اس سے اس اَمر کی گرہ کشائی کے لیے دعائیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کے موافق (وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰)یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر کوشش کرتے ہیں ہم اپنی راہیں ان کو دکھا دیتے ہیں) خود ہاتھ پکڑ کر راہ دکھا دیتا ہے اور اسے اطمینانِ قلب عطا کرتا ہے اور اگر خود دل ظلمت کدہ اور زبان دعا سے بوجھل ہو اور اعتقاد شرک وبدعت سے ملوث ہو تو وہ دعا ہی کیا ہے اور وہ طلب ہی کیا ہے جس پر نتائج حسنہ مترتّب (نہ) ہوں.جب تک انسان پاک دل اورصدق و خلوص سے تمام ناجائز رستوں اور اُمیدوں کے دروازوں کو اپنے اوپر بند کرکے خدا تعالیٰ ہی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اس وقت تک وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اورتائید اسے ملے لیکن جب وہ اللہ تعالیٰ ہی کے دروازہ پر گرتا اور اسی سے دعا کرتا ہے تو اس کی یہ حالت جاذبِ نصرت اور رحمت ہوتی ہے.خدا تعالیٰ آسمان سے انسان کے دل کے کونوں میں جھانکتا ہے اور اگر کسی کونے میں بھی کسی قسم کی ظلمت یا شرک و بدعت کا کوئی حصہ ہوتا ہے تو اس کی دعائوں اور عبادتوں کو اُس کے منہ پر اُلٹا مارتا ہے اور اگر دیکھتا ہے کہ اس کا دل ہر قسم کی نفسانی اغراض اور ظلمت سے پاک صاف ہے تو اس کے واسطے رحمت کے دروازے کھولتا ہے اور اسے اپنے سایہ میں لے کر اُس کی پرورش کا خود ذمہ لیتا ہے.
شرک و بدعت کا کوئی حصہ ہوتا ہے تو اس کی دعائوں اور عبادتوں کو اُس کے منہ پر اُلٹا مارتا ہے اور اگر دیکھتا ہے کہ اس کا دل ہر قسم کی نفسانی اغراض اور ظلمت سے پاک صاف ہے تو اس کے واسطے رحمت کے دروازے کھولتا ہے اور اسے اپنے سایہ میں لے کر اُس کی پرورش کا خود ذمہ لیتا ہے.اس سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے اور اس پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ آتے ہیں اور وہ صاحب اغراض ہوتے ہیں.اگر اغراض پورے ہوگئے تو خیر ورنہ کدھر کا دین اور کدھر کا ایمان.۱ لیکن اگر اس کے مقابلہ میں صحابہ ؓ کی زندگی میں نظر کی جاوے تو ان میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں آتا انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا.ہماری بیعت تو بیعت توبہ ہی ہے لیکن ان لوگوں کی بیعت تو سر کٹانے کی بیعت تھی.ایک طرف بیعت کرتے تھے اور دوسری طرف اپنے سارے مال و متاع، عزّت وآبرو اور جان و مال سے دست کش ہوجاتے تھے گویا کسی چیز کے بھی مالک نہیں ہیں اور اس طرح پر ان کی کل امیدیں دنیا سے منقطع ہوجاتی تھیں.ہر قسم کی عزّت و عظمت اور جاہ و حشمت کے حصول کے ارادے ختم ہوجاتے تھے.کس کو یہ خیال تھا کہ ہم بادشاہ بنیں گے یا کسی ملک کے فاتح ہوں گے.یہ باتیں ان کے وہم و خیال میں بھی نہ تھیں بلکہ وہ تو ہر قسم کی امیدوں سے الگ ہوجاتے تھے اور ہر وقت خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر دکھ اور مصیبت کو لذّت کے ساتھ برداشت کرنے کو تیار ہو جاتے تھے یہاں تک کہ جان تک دے دینے کو آمادہ رہتے تھے، ان کی اپنی تو یہی حالت تھی کہ وہ اس دنیا سے بالکل الگ اور منقطع تھے.لیکن یہ الگ اَمر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی عنایت کی اور ان کو نوازا اور ان کو جنہوں نے اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیاتھا اس کو ہزار چند کر دیا.۱ البدرمیںہے.’’اغراضِ نفسانی شرک ہوتے ہیں وہ قلب پر حجاب لاتے ہیں.اگر انسان نے بیعت بھی کی ہوئی ہوتو پھر بھی اس کے لیے یہ ٹھوکر کا باعث ہوتے ہیں.ہمارا سلسلہ تو یہ ہے کہ انسان نفسانیت کو ترک کرکے توحید خالص پر قدم مارے، سچی طلب حق کی ہو ورنہ جب وہ اصل مطلوب میں فرق آتا دیکھے گا تواُسی وقت الگ ہوجاوے گا.کیا صحابہ کرام ؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی واسطے قبول کیا تھا کہ مال ودولت میں ترقی ہو.‘‘ (البدر جلد۲نمبر ۱۶مورخہ ۸؍مئی۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲۳)
صحابہؓ کی مثالی زندگی دیکھئے حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال ومتاع خدا کی راہ میں دے دیا اور آپ کمبل پہن لیاتھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس پر انہیں کیا دیا تمام عرب کا انہیں بادشاہ بنا دیا اور اسی کے ہاتھ سے اسلام کو نئے سرے زندہ کیا اور مرتدعرب کو پھر فتح کرکے دکھا دیا اور وہ کچھ دیا جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا غرض ان لوگوں کے صدق ووفا اور اخلاص ومروّت ہر مسلمان کے لیے قابل اسوہ ہے.صحابہؓ کی زندگی ایک ایسی زندگی تھی کہ تمام نبیوں میں سے کسی نبی کی زندگی میں یہ مثال نہیں پائی جاتی اور آپ ؐکے صحابہؓ کے مقابلہ میں حضرت مسیحؑ کے حواری تو بہت ہی گری ہوئی حالت میں نظر آتے ہیں ان میں وہ جوش، صدق ووفا جو ایک مرید کو اپنے مر شد کے لیے ہونا چاہیے پایا ہی نہیں جاتا بلکہ مصیبت کے وقت سب کے سب بھاگ گئے اور جو پاس رہ گیا اس نے لعنت بھیجنی شروع کر دی.اصل بات یہ ہے کہ جب تک انسان اپنی خواہشوں اور اغراض سے الگ ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور نہیں آتا ہے وہ کچھ حاصل نہیں کرتا بلکہ اپنا نقصا ن کرتا ہے لیکن جب وہ تمام نفسانی خواہشات اور اغراض سے الگ ہو جاوے اور خالی ہاتھ اور صافی قلب لے کر خدا کے حضور جاوے تو خدا اس کو دیتا ہے اور خدا اس کی دستگیری کرتا ہے.مگر شرط یہی ہے کہ انسان مَرنے کو تیار ہو جاوے اور اس کی راہ میں ذلّت اور موت کو خیر باد کہنے والا بن جاوے.اہل صدق ووفا کے لیے قبولیت وعظمت دیکھو دنیا ایک فانی چیز ہے مگر اس کی لذّت بھی اسی کو ملتی ہے جواس کو خدا کے واسطے چھوڑتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کا مقرب ہوتا ہے خدا تعالیٰ دنیا میں اس کے لیے قبولیت کو پھیلا دیتا ہے یہ وہی قبولیت ہے جس کے لئے دنیادار ہزاروں کوششیں کرتے ہیں کہ کسی طرح کوئی خطاب مل جاوے یا کسی عزّت کی جگہ یا دربار میں کر سی ملے اور کر سی نشینوں میں نام لکھا جاوے.غرض تمام دنیوی عزّتیں اسی کو د ی جاتی ہیں اور ہر دل میں اسی کی عظمت اور قبولیت ڈال دی جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کے لیے سب کچھ چھوڑنے اور کھونے پر آما دہ ہو جاتے ہیں نہ صرف آما دہ بلکہ چھوڑدیتے ہیں.غرض یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے واسطے کھونے والوں کو سب کچھ دیا جاتا ہے۱ اور وہ نہیں مَرتے ہیں جب تک وہ اس سے کئی چند نہ پا لیں جو انہوں نے خدا کی راہ میں دیا ہے خدا تعالیٰ کسی کا قرض اپنے ذمہ نہیںرکھتا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ ان باتوں کو ماننے والے اور ان کی حقیقت پر اطلاع پا نے والے بہت ہی کم لوگ ہیں.
چھوڑدیتے ہیں.غرض یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے واسطے کھونے والوں کو سب کچھ دیا جاتا ہے۱ اور وہ نہیں مَرتے ہیں جب تک وہ اس سے کئی چند نہ پا لیں جو انہوں نے خدا کی راہ میں دیا ہے خدا تعالیٰ کسی کا قرض اپنے ذمہ نہیںرکھتا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ ان باتوں کو ماننے والے اور ان کی حقیقت پر اطلاع پا نے والے بہت ہی کم لوگ ہیں.ہزاروں اہل صدق ووفا گذرے ہیں مگر کسی نے نہ دیکھا ہوگا اور نہ کسی نے سنا ہوگا کہ وہ ذلیل وخوار ہوتے ہوں دنیوی امور میں اگر وہ نہایت درجہ کی ترقی کرتے تو زیادہ سے زیادہ تین چار آنے کی مزدوری کر لیتے اور کسمپرس اور گمنا م لوگوں میں سے ہوتے مگر جب انہوں نے اپنے آپ کو خدا کی راہ میں لگایا تو خدا نے ان کو ایسا کیا کہ تمام دنیا میں نام آور بن گئے اور ان کی عزّت وعظمت دلوں میں بٹھا ئی گئی اور اب ان کے نام ستاروں کی طرح چمکتے ہیں.دنیوی عظمت اور عزّت بھی بذریعہ دین ہی حاصل ہوتی ہے پس مبارک وہی ہے جو دین کو مقدم کرے۲ دیکھو ایک جو نک کی نسبت بیل کو اور ایک بیل کی نسبت انسان کو اور انسانوں میں خواص کو اللہ تعالیٰ نے لذات اور حظوظ دئیے ہوئے ہیں اور خواص کو خاص قویٰ لذتوں کے ملتے ہیں.اسی طرح جو لوگ خدا کے مقرّب ہو کر خواص بنتے ہیں تو ان کو دنیوی لذائذ وغیرہ بھی اعلیٰ درجہ کے ہوتے ہیں۳ ایک پنجابی شعر ہے جو بالکل کلام الٰہی کے موافق اسی کا گویا تر جمہ ہے کہ جے توں میرا ہورہیں سب جگ تیرا ہو ۱البدرمیںہے.’’زمینی گورمنٹوں کے لیے جو ذرا سا کچھ گنواتا ہے ان کو اجر ملتا ہے تو جو خدا کے لیے گوائے کیا اُسے اجر نہ ملے گا.‘‘ (البدر جلد۲نمبر ۱۶ مورخہ ۸؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲۳) ۲ البدر میں ہے.’’لوگ اسباب پر گرتے ہیں.ایمان نہیں ہوتا.اسی لیے دکھ اٹھاتے ہیں.ٹھوکریں کھاتے ہیں.‘‘ (البدر جلد۲نمبر ۱۶مورخہ ۸ ؍مئی۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲۳) ۳البدر میں ہے.’’پس جو انسان، خواص انسان ہیں.وہ اسی طرح ان لذّات میں زیادہ لذّت پاتے ہیں.اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دنیوی تمام لذّات میں خواص کا ہی حصّہ زیادہ ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر۱۶ مورخہ ۸ ؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲۳)
پس خدا تعالیٰ کے خاص بند ے بننے کی کوشش کرنی چاہیے.۱،۲ ۳؍ مئی ۱۹۰۳ء (بوقتِ سیر) خواب کی اقسام ایک نو وارد صاحب نے سوال۳ کیا کہ خواب کیا شَے ہے؟ میرے خیال میں تو یہ صرف خیالات انسانی ہیں حقیقت میں کچھ نہیں.فرمایا کہ خواب کی تین قسمیں ہیں.نفسانی.شیطانی.رحمانی نفسانی جس میں انسان کے اپنے نفس کے خیالات ہی متمثّل ہو کر آتے ہیں جیسے بلی کو چھچھڑوں کے خواب.شیطا نی وہ جس میں شیطا نی اور شہوانی جذبا ت ہی نظر آویں.رحما نی وہ جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبریں دی جاتی ہیں اور بشارتیں دی جاتی ہیں.سوال۴ کیا کسی بدکار آدمی کو بھی نیک خواب آتی ہے؟ جواب.فرمایا کہ ایک بدکار آدمی کو بھی نیک خواب آجاتی ہے کیونکہ فطرتاً کوئی بد نہیں ہوتا خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذّاریٰت:۵۷) تو جب عبادت کے واسطے سب کو پیدا کیا ہے.سب کی فطرت میں نیکی بھی رکھی ہے اور خواب....نبوت کا حصہ بھی ہے اگر یہ نمونہ ہر ایک کو نہ دیا جاتا تو پھر نبوت کے مفہوم کو سمجھنا تکلیف مالا یطاق ہوجاتا.اگر کسی کو علمِ غیب بتلایا جاتا وہ ہرگز نہ سمجھ سکتا.بادشاہِ مصر جو کہ کافر تھا اسے سچی خواب آئی مگر آج کل سچی خواب کا انکار دراصل خدا کا انکار ہے اور اصل میں خدا ہے اورضرور ہے.اسی کی طرف سے بشارتیں ہوتی ہیں اور نیک خوابیں آتی ہیں اور وہ پوری بھی ہوتی ہیں جس قدر انسان صدق اور راستی میں ترقی کرتا ہے ویسے ہی نیک اور مبشر رئویا بھی آتے ہیں.۱ البدر میں مزید یوں لکھا ہے.’’مجھے خواب میں دو دفعہ پنجابی مصرے بتلائے گئے ہیں ایک تو یہی جو بیان ہوا.(’’جے تو ں میرا ہورہیںسب جگ تیرا ہو‘‘مُراد ہے.مرتّب) اور ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ ایک وسیع میدان ہے اس میں ایک مجذوب (جس میں محبت الٰہی کا جذبہ ہو) میری طرف آرہا ہے.جب میرے (قریب) پہنچا تو اُس نے یہ پڑھا.عشق الٰہی وسّے مُنہ پر ولیاں ایہہ نشانی (ولیوں کی یہ نشانی ہے کہ عشقِ الٰہی منہ پر برس رہا ہوتا ہے.‘‘) (البدر جلد ۲ نمبر۱۶مورخہ ۸ ؍مئی ۱۹۰۳ءصفحہ ۱۲۳ ) ۲ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۰؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳،۱۴ ۳،۴ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۹ میں صفحہ ۲ پر یہ سوال اور اُن کے جواب بغیر تاریخ کے ’’استفسار اور ان کے جواب‘‘ کے زیر عنوان درج ہیں.(مرتّب)
بتلایا جاتا وہ ہرگز نہ سمجھ سکتا.بادشاہِ مصر جو کہ کافر تھا اسے سچی خواب آئی مگر آج کل سچی خواب کا انکار دراصل خدا کا انکار ہے اور اصل میں خدا ہے اورضرور ہے.اسی کی طرف سے بشارتیں ہوتی ہیں اور نیک خوابیں آتی ہیں اور وہ پوری بھی ہوتی ہیں جس قدر انسان صدق اور راستی میں ترقی کرتا ہے ویسے ہی نیک اور مبشر رئویا بھی آتے ہیں.حُسنِ عقیدت کیسے حاصل ہو سوال.میں ایک مسلمان ہوں اور مسلمانوں کی اولاد ہوں عام طور پر دنیا کو دیکھ کر حسن عقیدت کسی پر پیدا نہیں ہوتی.یہاں کے لوگوں کا طرز زندگی دیکھ کر چاہتا ہوں کہ حسن عقیدت ہو مگر پھر نہیں ہوتی اس کی کیا وجہ اور کیا علاج ہے؟ جواب.فرمایا کہ انسان ہمیشہ تجارب سے نتیجہ نکالتا ہے اور عقل انسانی بھی بذریعہ تجارب کے ترقی کرتی رہتی ہے مثلاً انسان جانتا ہے کہ اَنب کے درخت کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور بعض درخت کے پھل کڑوے ہوتے ہیں تو اس تجربہ کثیر سے اسے ایک فہم حاصل ہو جاوے گا کہ آنب کے پھل ضرور شیریں ہوتے ہیں اسی طرح چونکہ تجربہ آج کل یہی ہوتا ہے کہ دنیا میں فسق وفجور اور مکروفریب کا سلسلہ بڑھا ہوا ہے اسی لیے اس کا خیال بند ھ جاتا ہے کہ ہر ایک فریبی اور مکار ہی ہے سابقہ تجارب اسے تعلیم دیتے ہیں کہ....ایسا ہی ہونا چاہیے اسی وجہ سے حسن عقیدت کی جگہ بد عقیدگی پیدا ہوتی ہے اور اسی لیے لوگ انبیاء پر بھی سوء ظن رکھتے آئے ہیں.مو سٰی کی وفات کو ۲ہزار برس گذر چکے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معبوث ہوئے اور اس زما نے میں بہت سے جھوٹے معجزات دکھا نے والے اور دعویٰ کرنے والے پیدا ہوئے تھے لوگوں کو ان کا تجربہ تھا اور اسی حالت میں یک لخت ایک صادق بھی آگیا.آخر ان کو اس صادق کو بھی وہی کہنا پڑا جو ان جھوٹے مد عیوں کے حق میں کہتے تھے یعنی اِنَّ هٰذَا لَشَيْءٌ يُّرَادُ(صٓ:۷) کہ یہ تو دوکانداری ہے غرضیکہ انسان تجارب کے ذریعے سے بھول رہے ہیں خدا کے بندوں کی معرفت کا ہونا یہ خدا کا خاص فضل ہے وہی معرفت دے تو پتا لگتا
ہے دعا بہت کرے دعا کے سوا چا رہ نہیں ہاں یہ اَمرضروری ہے کہ استغنا نہ کرے کہ نیک اور بد کو ایک جیسا جان لیوے اور کہے کہ جیسے برے درخت ہوتے ہیں ویسے ہی اچھے بھی ہوتے ہیں.یہ ایک قاعدہ اپنی طرف سے ہرگز نہ بنانا چاہیے بلکہ نفس کو یہ سمجھا نا چاہیے کہ اچھے بھی ضرورہیں جب شیطان کا گروہ اس قدر دنیا میں موجود ہے تو کیا وجہ ہے کہ خدا کا گروہ بالکل ہی دنیا میں موجود نہ ہوخدا سے دعا کرتا رہے کہ آنکھیں ملیں.آج کل واقعہ میں علماء کی یہی حالت ہے.؎ واعظاں کیں جلوہ بر محراب ومنبر میکنند چوں بخلوت مے روندآں کار دیگر میکنند حافظ نے بھی اسی مضمون کا ایک شعر لکھا ہے.ع توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمتر میکنند اور غور سے دیکھا جاوے تو سچے کے بغیر جھوٹ کی کچھ روشنی ہی نہیں ہوتی اگر آج سچا سوناچا ندی نہ ہو تو جھوٹے سونے چاندی سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے.انبیاء و مامورین کی عظمت و صداقت جس قدر انبیاء ہوئے ہیں سب اکراہ سے آگے ہوئے ہیں.گروہوں اور مجلسوں سے ان کی طبیعت متنفر ہوتی ہے.انبیاء میں انقطاع اور اخلاص کا مادہ بہت ہوتا ہے.ان کی بڑی آرزو ہوتی ہے کہ لوگ ان کی طرف رجوع نہ کریں مگر چونکہ خدا نے فطرت ایسی دی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ بڑے بڑے کام کریں.اس لیے ان کی عظمت جس قدر دنیا میں پھیلتی ہے وہ مکائدسے ہرگز نہیں پھیلتی بلکہ خود خدا پھیلاتا ہے.ان کے مقابل کے کل مکائد پاش پاش ہو جاتے ہیں.ان کے کام میں اعجاز اور پیشگوئیاں بے نظیر ہوتی ہیں اگر معجزات نہ ہوں تو طبائع پر بہت مشکلات پڑتے کیسی ہی طبیعت کثیف ہو مگر ان کو دیکھ کر لوگ حیرت زدہ ہوجاتے ہیں.ایک مخالف کا میرے پاس خط آیا کہ میں آپ کا مخالف ہوں مگر آج کل مجھے یہ حیرانی ضرور ہے کہ اگر آپ جھوٹے ہیں تو اس قدر کامیابی اور ترقی کیوں ہے.دنیا میں وہ انسان اندھا ہے جو مختصر تجارب سے نتیجہ نکالتا ہے مگر سچا نتیجہ اس وقت نکلتا ہے جب
ابتدا میں سمجھ آ جاتا کہ اسلام سچا مذہب ہے.مخالف کا جنازہ ایک صاحب نے پوچھا۱ کہ ہمارے گاؤں میں طاعون ہے اور اکثرمخالف مکذّب مَرتے ہیں ان کا جنازہ پڑھا جاوے کہ نہ؟ فرمایا کہ یہ فرض کفایہ ہے اگر کنبہ میں سے ایک آدمی بھی چلا جاوے تو ہو جاتا ہے مگر اب یہاں ایک تو طاعون زدہ ہے کہ جس کے پاس جانے سے خدا روکتا ہے دوسرے وہ مخالف ہے.خواہ مخواہ تد اخل جائز نہیں ہے.خدا فر ماتاہے کہ تم ایسے لوگوں کو بالکل چھوڑدو اگر وہ چاہے گا توان کو خود دوست بناوے گا یعنی مسلمان ہو جاویں گے خدا نے منہاج نبوت پر اس سلسلہ کو چلا یا ہے مداہنہ سے ہرگز فائدہ نہ ہوگا بلکہ اپنا حصہ ایمان کا بھی گواؤگے.(مجلس قبل ازعشاء) توبہ کادروازہ بند ہونا طاعون پر ذکر ہوا کہ بعض مقامات بالکل تباہ ہوگئے ہیں مگر پھر بھی وہاں کے لوگوں کی فسق فجور کی وہی حالت ہے کوئی تبدیلی پاک نظر نہیں آتی فرمایا کہ سمجھ الٹی ہے توبہ کے دروازہ بند ہونے کے ایک یہ معنے بھی ہیں.لَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ یہ ایک حضرت اقدس کا پرانا الہام ہے جو مسجد کے اوپر کے حصے میں لکھا ہوا تھا اور عمارتوں کے تغیر وتبدل کے وقت وہ نوشتہ قائم نہ رہ سکا.فرمایا کہ اسے پھر لکھوایا جاوے اور نہیں معلوم کہ اس کے معنے کس قدر وسیع ہیں.حضرت اقدس نے خواب میں دیکھا تھا کہ فرشتے اسے سبز روشنائی سے لکھ رہے ہیں.۲ ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۹ میں صفحہ ۲ پر یہ سوال اور اُن کے جواب بغیر تاریخ کے ’’استفسار اور ان کے جواب‘‘ کے زیر عنوان درج ہیں.(مرتّب) ۲البدر جلد ۲ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۵؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲۹،۱۳۰
۴؍مئی ۱۹۰۳ء (بوقتِ سیر) اکرامِ ضیف مہمانوں کے انتظام مہمان نوازی کی نسبت ذکر ہوا.فرمایا.میر اہمیشہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو بلکہ اس لیے ہمیشہ تاکید کرتا رہتا ہوں کہ جہاں تک ہوسکے مہمانوں کو آرام دیا جاوے مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے.اس سے پیشتر میں نے یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاتا تھا مگر جب سے بیماری نے ترقی کی اور پرہیز ی کھانا کھانا پڑا تو پھر وہ التزام نہ رہا ساتھ ہی مہمانوں کی کثرت اس قدر ہوگئی کہ جگہ کافی نہ ہوتی تھی اس لیے بمجبوری علیحدگی ہوئی ہماری طرف سے ہر ایک کو اجازت ہے کہ اپنی تکلیف کو پیش کر دیا کرے بعض لوگ بیمار ہوتے ہیں ان کے واسطے الگ کھانے کا انتظام ہوسکتا ہے.۱ (دربارِ شام ) رسوم وعادات فرمایا کہ۲ عادات اور رسوم کا قلع قمع کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے اور یہی ایک حجاب ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۵ ؍مئی ۱۹۰۳ءصفحہ ۱۳۰ ۲ البدر میں لکھا ہے کہ ’’ایک نوجوان مولوی صاحب کا نپور سے تعلیم پاکر اپنے وطن ڈیرہ غازی خان کی طرف جارہے تھے کہ بعض تحریکات سے ان کو یہ خیال ہوا کہ تحقیق کے لیے قادیان بھی آویں.چنانچہ وہ تشریف لائے اور اُن کی ملاقات حکیم نورالدین صاحب سے ہوئی.حکیم صاحب نے ان کو کہا کہ آپ بہت استغفار کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اَمرِ حق ظاہر کردیوے.بعد از نماز مغرب حکیم صاحب نے ان کی ملاقات حضرت اقدس ؑ سے کرائی اور عرض کی کہ یہ بعض امور کے جواب طلب کرنا چاہتے ہیں.اس پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ ’’ انسان نے بعض باتیں بطور رسم وعادت کے اختیار کی ہوئی ہوتی ہیں.ان کا چھوڑنا مشکل ہوتا ہے.رسمی خیالات کا وہ پابند ہوتا ہے جب تک انکا قلع قمع نہ کیاجاوے تو حقیقت سمجھ میں نہیں آتی.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر۱۷مورخہ ۱۵؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳۰)
ہزاروں انوار سے محروم بھی رکھتا ہے ورنہ ہمارا معاملہ تو نہایت ہی صاف اور کھلاکھلا ہے کیسے ہی دلائل اور براہین سے ایک اَمر کو مدلّل کرکے کیوں نہ بیان کیا جاوے عادت ورسم کا پا بندضرور اس کے ماننے میں پس وپیش کرے گا اور جب تک وہ اس حجاب کو پھا ڑ کر باہر نہ نکلے اسے حق لینا نصیب ہی نہیں ہوتا.آنحضرتؐکی صداقت کیسی اجلٰی اور اصفٰی تھی مگر ان کے دعوے کے وقت بھی عیسائی راہبوں اور یہودی مولویوں نے جو عادت اور رسم کے پا بند تھے ہزاروں عذر تراشے اور آپ کو صادق کہنے کی بجائے کاذب کا خطاب دیا گویا رسم اور عادت کی ظلمت نے ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈالاہواتھا کہ وہ نور کو ظلمت کہتے تھے ورنہ آپ کے معجزات، بیّنات اور فیوض اس قدر کامل اور اعلیٰ تھے کہ کسی کوان سے انکار ممکن نہ تھا.۱ تسلی پانے کے تین طریق اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہر ایک قسم دلائل اور بینات ہمارے واسطے جمع کر دئیے ہیں انسان کے تسلی پانے کے تین ہی طریق ہوا کرتے ہیں.(۱) اوّل نقلی دلائل.سو وہ قرآن شریف کے نصوص سے ثابت ہیں کیونکہ جو شخص قرآن شریف کو کلام الٰہی مانتا ہے اسے تو اس بن چارہ نہیں بلکہ اس کاایمان ہی کلام ِالٰہی کے بغیر ناقص ہے.۲ نقلی دلائل کا دوسرا حصہ احادیث ہیں سوان میں سے وہ احادیث قابل پذیرائی ہیں جو قرآن شریف کے معارض نہ ہوں کیونکہ جو حدیث قرآن شریف کے مخالف معارض ہو.وہ ردّی ہے ۱ البدر میں ہے.’’کیا باعث ہوسکتا ہے کہ ایک نبی کامل اور لاثانی آوے اور پھر نہ مانا جاوے؟ماں باپ سے جو ایک عادت بخل کی چلی آتی ہے وہ اَمرِ حق کو سمجھنے نہیں دیا کرتی.اب اس وقت بھی طریق تسلی اختیار کرنے میں یہی مشکلات پڑےہیں.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر۱۷مورخہ ۱۵؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳۰،۱۳۱) ۲ البدر میں ہے.’’جس کو خدا پر یقین ہے اور وہ قرآن کو خدا کا کلام جانتا ہے وہ ایک آیت سن کر کب دلیری کرے گا کہ اس کی تکذیب کرے.صریح نص سے انکار مشکل ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر۱۷ مورخہ ۱۵؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳۱)
قرآن شریف کے معارض نہ ہوں کیونکہ جو حدیث قرآن شریف کے مخالف معارض ہو.وہ ردّی ہے اور قبول کرنے کے لائق نہیں مثلاً قرآن شریف بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ حضرت موسٰی سے پہلے ہوئے ہیں مگر اگر حدیث میں یہ ہو کہ حضرت موسٰی حضرت ابراہیمؑ سے پہلے ہوئے ہیں تو وہ بالکل ردّی ہے اور ماننے کے لائق نہیں یا ایسی ہی اگر اور کوئی مخالفت صریح قرآن شریف کی کوئی حدیث کرے تو وہ بھی اس ذیل میں داخل ہے.احادیث میں احتمال صدق اور کذب دونوں طرح کا ہے کیونکہ احادیث تو قرآن شریف کی طرح اس وقت رسول اللہ نے جمع نہیں کیں اور نہ ہی ان کا قرآن شریف کی طرح کوئی نام رکھا ہے بلکہ آپ سے قریباً اڑھائی سو برس بعد جمع ہوئی ہیں غرض ان کے صدق کذب کا معیار قرآن شریف ہے پس جواحادیث قرآن شریف کے معارض نہیں وہ ماننے کے لائق ہیں.یہ جو۷۳ فر قے بن گئے ہیں یہ بھی توان احادیث کے نتائج میں سے ایک نتیجہ ہے.جب لوگوں کی توجہ قرآن شریف سے ہٹ گئی اور احادیث کو قرآن شریف پر قاضی جانا تو یہاں تک نو بت پہنچی.(۲) دوسرا ذریعہ عقل ہے جس سے انسان حق کو پہچان سکتا ہے چنانچہ قرآن شریف میں مجرمین کے الفاظ درج ہیں کہ.لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْۤ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ (الملک:۱۱) سواگر ان لوگوں سے سوال کیا جاوے کہ کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ کوئی شخص زندہ بجسمہ العنصری آسمان پر چلا جاوے اور دوہزار برس تک وہیں بیٹھا رہے اور کسی قسم کی ضروریات اور عوارض اسے نہ لگیں کیا کوئی عقل ہے جواس خصوصیت کو مان سکے؟بھلا ان لوگوں سے پوچھا جاوے کہ اس خصوصیت کی جو تم نے حضرت عیسٰیؑ میں مانی ہے کیا وجہ ہے یہ تو ایک قسم کا باریک شرک ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (الانبیاء ـ:۸) اللہ تعالیٰ انسان کو متوجہ کرتا ہے کہ ہر ایک اَمر میں نظائر ضروری ہیں.جس چیز میں نظیر نہیں وہ چیز خطرناک ہے آج کل جس طرح کا ہمارا جھگڑا ہے اسی قسم کا ایک جھگڑا پہلے بھی اہل کتاب میں گذرچکا ہے اور وہ الیاس کا معاملہ تھا ان کی کتابوں میں لکھا تھا کہ مسیحؑ آسمان سے نہیں نازل ہوگا جب تک ایلیا آسمان سے دوبارہ نہ آلے.اسی
بنا پر جب حضرت مسیحؑ آئے اور انہوں نے یہود کو ایمان کی دعوت کی تو انہوں نے صاف انکار کیا کہ ہمارے ہاں مسیحؑ کی علامت یہ ہے کہ اس سے پہلے ایلیا آسمان سے دوبارہ نازل ہوگا مگر حضرت مسیحؑ نے اس کی یہی تاویل کی تھی کہ یہی شخص یعنی یوحنا (یحییٰ) ہی الیاس اور یہ اس کی (الیاس) خو بو لے کر آیا ہے اسی کو ایلیا مان لو.وہ آسمان سے دوبارہ نہیں آوے گا جس نے آنا تھا وہ آچکا.چاہو مانو چاہو نہ مانو.غرض حضرت عیسیٰ پر بھی یہ ایک مصیبت پڑ چکی تھی اور ان کا فیصلہ ہمارے اس مقدمہ کے لیے ایک دلیل ہوسکتا ہے اگر حضرت عیسٰیؑ یہود کے مقابل میں حق پر تھے تو ہمارا معاملہ بھی صاف ہے ورنہ پہلے حضرت عیسٰیؑ کی نبوت کا انکار کریں بعد میں ہمارا معاملہ آئے گا.اگر واقعی طور پر ان یہودیوں کی طرح یہ یہودی بھی حق پر ہیں تو پھر اوّل تو حضرت عیسٰیؑ کی نبوت کا ثبوت نہیں توان کا آسمان سے آنا کجا؟ پس یاتو یہ مسلمان اس بات کو مان لیں کہ آسمان پر کوئی شخص زندہ نہیںجایا کرتا اورنہ ہی وہ دوبارہ واپس آیا کرتے ہیں اور وہ اسی قاعدے کے مطابق حضرت عیسیٰ کو دوسرے انبیاء کی طرح وفات پائے ہوئے مان لیں اور یا حضرت عیسٰیؑ کی نبوت سے انکار کریں اور اس طرح پر ان کی آمد کے متعلق تمام امیدوں سے ہاتھو دھولیں غرض ان کی منفرد اور خاص قسم کی زندگی ایک خطرناک قسم کا شرک ہے غرض دوسری قسم کے دلائل عقلی تھے سوان کے رُو سے بھی یہ قوم ملزم ہے.۱ (۳) تیسرا ذریعہ ایک صادق کی شناخت کااس کے ذاتی نشانات اور خارق عادت پیشگوئیاں ہوتی ہیں اور منہاج نبوت پر پرکھی جاتی ہیں سواس قسم کے دلائل بھی اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بہت جمع کر دئیے ہیں کیا زمینی، کیا آسمانی، کیا مکانی، کیا زمانی، ہر قسم کے نشانات اس نے خود ہمارے لیے ظاہر فرمائے ہیں.آنحضرت کی اکثر پیشگوئیوں کا ظہور بھی ہو چکا ہے آسمان نے ہمارے لیے گواہی دی زمین ہمارے واسطے شہادت لائی اور ہزاروں خارق عادت ظہور میں آچکے ہیں.زمانہ ہے سووہ خود زبانِ حال سے چلّا رہا ہے کہ ضرور کوئی آنا چاہیے قوم کے ۷۳ فرقے ہوگئے ہیں یہ خودایک حَکم کو ۱الحکم جلد۷ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶
چاہتے ہیں ان تمام فرقوں میں ایسے ایسے اختلاف پڑے ہیں کہ ایک دوسرے کو تکفیر کے فتوے لگائے جاتے ہیں اور ارتداد کا جرم ان میں سے ہر ایک کی گردن پر سوارہے حنفی وہابیوں کو اور وہابی حنفیوں کو جہنمی بتا تے ہیں شیعہ ان سب کو راہ راست سے بھٹکے ہوئے کہتے ہیں.خارجی ہیں سووہ شیعہ کی جان کے دشمن ہیں غرض ہر ایک فرقہ دوسروں کے خون کا پیاسا ہے اب ان میں سے اختلاف کے دور کرنے کے واسطے جو حَکم آوے گا کیا وہ ان کی مساوی باتوں کو مان لے گا؟اگر ایسا کرے گا تو دوسرا ناراض ہو جاوے گا.یہاں ہر ایک فرقہ یہی چاہتا ہے کہ میری اگر ساری باتیں وہ نہ مانے گا تو وہ خدا کی طرف سے نہ ہوگا.غرض ہر ایک نے اس کے صدق کا معیار اس کے تمام عقائد کو مان لینا مقرر کیا ہوا ہے مگر کیا وہ ایسا ہی کرے گا؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ ہر ایک راستی کا حامی اور ناراستی کا دشمن ہوگا اگر ایسا نہیں تووہ حَکم ہی کس کام کا ہوا؟ اور ایسے کی ضرورت ہی کیا ہے اس کے وجود سے عدم بہتر ہے.اصل مشکل یہ ہے کہ ان بےچارے لوگوں کی عادت ہی ہو گئی ہے اور بچپن سے کان میں ہی یہی پڑتا آیا ہے کہ وہ اس طرح آسمان سے ایک مینار پر اترے گا پھر سیڑھی مانگے گا اور دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر وہ نیچے اتر ے گا پس آتے ہی نہ بھلی نہ بری کفار کو تہ تیغ کرکے ان کے اموال واملاک سب مسلمانوں کے حوالے کرے گا وغیرہ وغیرہ.ان باتوں کو جو مدتوں سے سادہ لوح پر کندہ ہو گئی ہیں دور کریں تو کس طرح؟ وہ بےچارے معذور ہیں یہ مشکلات ہیں اور ان کادور ہونا بجز خدا تعالیٰ کی خشیت کے ہرگز ممکن نہیں.(قرآن نے) تَوَفَّیْتَنِیْ فرمایا اور بخاری نے اپنا مذہب اور اس آیت کے معنے بیان کر دئیے کہ مُتَوَفِّيْكَ.مُـمِیْتُکَ تو پھر اس کے بعد خواہ نخواہ ان کو زندہ آسمان پر بٹھا نا ان لوگوں کی کیسی غلطی ہے وہ بے چارہ توخود بھی دہائی دیتا ہے کہ یہ لوگ میرے مَرنے کے بعد بگڑے ہیں بھلا اب ہمیں کوئی بتادے کہ یہ لوگ ابھی بگڑے ہوئے ہیں یا نہیں.اگر یہ بگڑے ہیں تو مسیح وفات پا چکے ہیں ورنہ ان کے تثلیث کفار ے اور علاوہ اعتقادات پر ایمان لاؤ اور آنحضرتؐکی نبوت کا انکار کرو....یہ جواللہ تعالیٰ
نے سورۃ فاتحہ میں فرمایا ہے کہ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ(الفاتـحۃ:۷)اس میں ہم نے غور کیا تومعلوم ہوتا ہے کہ آنے والے شخص میں دو قسم کی صفات کی ضرورت ہے اوّل تو عیسوی صفات اور دوسرے محمدی صفات کی کیونکہ مَغْضُوْبِ عَلَیْـہِمْ سے مُراد یہود اور اَلضَّآلِّیْنَ سے مُراد نصاریٰ ہیں جب یہود نے شرارت کی تھی تو حضرت عیسٰیؑ ان کے واسطے آئے تھے جب نصاریٰ کی شرارت زیادہ بڑھ گئی تو آنحضرتؐتشریف آور ہوئے تھے اور یہاں خدا تعالیٰ نے دونوں کا فتنہ جمع کیا اندرونی یہود اور بیرونی نصاریٰ جن کے لیے آنے والا بھی آنحضرت کا کامل بروزاور حضرت عیسیٰؑ کا پورا نقشہ ہونا چاہیے تھا.حَکم کا مقام حَکم کے سامنے کسی کی پیش ہی کیا جاتی ہے اور اس سے ان کی بحث ہی کیا.یہ زمینی وہ آسمانی.یہ نا قابل محض، وہ ہر وقت خدا سے تعلیم پاتا.یہ لوگ ہمیں رطب ویابس احادیث اور اقوال کا انبار پیش کرکے ہرانا چاہتے ہیں مگر یہ کیا کریں ہمیں تو تیس سال ہوئے کہ خود خدا ہر وقت تازہ الہامات سے خبر دیتا ہے کہ یہ اَمرِ حق ہے جو تو لایا ہے تیرے مخالف نا حق پر ہیں ہم اب کیا کریں ان لوگوں کی مانیں یا آسمان سے خدا کی مانیں.سوچنے والے کے واسطے کافی ہے کہ صدی کا سر بھی گذرگیا ہے اور تیرھویں صدی تو اسلام کے واسطے سخت منحوس صدی تھی ہزاروں مرتد ہو گئے یہود خصلت بنے اور جو ظاہر میں مرتد نہیں اگر باریک نظر سے دیکھا جاوے تووہ بھی مرتد ہیں ان کے رگ وریشے میں دجّال نے اپنا تسلّط کیا ہوا ہے پوشاک تک ان کی بدل گئی ہے تو دل ہی نہ بدلے ہوں گے.صرف بعض خوف سے یا بعض اَور وجوہات سے اظہار نہیں کرتے ورنہ ہیں وہ بھی مرتد اپنے دین کی خبر نہ ہوئی دوسروں کے زیراثر ہوئے تواب ارتداد میں کَسرہی کون سی باقی رہ گئی اگر اب بھی ان کا مہدی اور مسیح نہیں آیا تو کب آئے گا؟ جب اسلام کا نام ہی دنیا سے اٹھ جاوے گا اور یہ بیڑاہی غرق ہو جاوے گا.افسوس کہ قوم آنکھیں بند کئے پڑی ہے اور اسے اپنی حالت سے بھی خبر نہیں.فقط۱ ۱ الحکم جلد ۷نمبر ۱۸ مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۳ءصفحہ۲
۵؍مئی ۱۹۰۳ء (بوقتِ سیر ) قبولِ حق کے لئے دعا کرتے رہنا چاہیے نو وارد صاحب نے بیان کیا کہ رات کو میں نے خواب دیکھا کہ میں آپ سے سوال کر رہا ہوں کہ اگر آپ کو عیسیٰ علیہ السلام تسلیم کیا جاوے اور ہم اس اَمر میں غلطی میں ہوں تو پھر آپ ذمہ دار ہیں.فرمایا کہ اگر ہم نے یہ بار اپنے ذمہ نہ لیا ہوتا تو کئی لاکھ انسانوں کی دعوت کیسے کرتے؟ بلکہ خود خدا نے یہ ذمہ داری لی ہے.جو ہم سے انکار کرتا ہے تو پھر اسے تمام سلسلہ نبوت سے انکار کرنا پڑے گا.مسیح علیہ السلام آئے تو اس کو نہ مانا اور یہ حجّت پیش کی کہ اس سے پیشتر الیاس نے آنا ہے.حضرت مسیحؑ نے یہی جواب دیا کہ الیاس کی طبیعت اور خُو پر یحییٰ آ گیا ہے اور یہی الیاس کا آنا ہے.غرض کہ اگر میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں تو پھر وہ نشان کیسے ظاہر ہوتے ہیں جو کہ مسیح کے لیے مقرر تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو یہود کا یہی اعتراض تھا کہ وہ بنی اسرائیل میں ہوگا.خدا اس کا جواب دیتا ہے کہ یہ اس کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے ہر ایک وقت پر عقلمند تو مانتے رہے اور بیوقوف ہمیشہ ضد کرتے رہے کہ سب باتیں پوری ہو لیں تو مانیں گے.غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ سے مُراد مولوی ہیں کیونکہ ایسی باتوں میں اوّل نشانہ مولوی ہی ہوا کرتے ہیں.دنیا داروں کو تو دین سے تعلق ہی کم ہوتا ہے جب سے یہ سلسلہ نبوت کا جاری ہے یہ اتفاق کبھی نہیں ہوا کہ مولویوں کے پاس جس قدر ذخیرہ رطب و یابس کا ہو وہ حرف بحرف پورا ہوا ہو.دیکھ لو ان ہی باتوں سے اب تک یہودیوں نے نہ مسیحؑکو مانا نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو.حق کو قبول کرنا ایک نعمتِ الٰہی ہے یہ ہر ایک کو نہیں ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۵؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳۱
ملاکرتی اس لیے ہمیشہ دعا کرنی چاہیے کہ خدا اسے قبول کرنے کی توفیق عطا کرے.۱ ۶؍مئی۱ ۱۹۰۳ء (بوقتِ سیر) پیشگوئیوں میں ہمیشہ استعارات ہوتے ہیں نووارد صاحب نے دریافت کیا کہ گھنگھرو والے بالوں سے کیا مُراد ہے؟ فرمایا کہ احادیث ایک ظنّی شَے ہے یہ ہرگز ثابت نہیں ہے کہ جو آنحضرتؐکے منہ سے نکلا ہو وہی ضبط ہوا ہو معلوم نہیں کہ اصل لفظ کیا ہو پیشگو ئیوں میں ہمیشہ استعارات ہوتے ہیں اور پھر یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ جب خبروں میں کوئی ایسی خبر موجود ہو جو ثابت شدہ واقعہ کے برخلاف ہو تواسے بہرحال ردّ کرنا پڑے گا.اس وقت جو فتنہ موجود ہے تم اس کی نظیر کسی زمانہ سابقہ میں دکھاؤ کہ کبھی ہوا ہے؟ پھر سب سے بڑا فتنہ تو یہ ہے اور ادھر دجّال کا فتنہ بڑا رکھا گیا ہے اور دجّال کے معنے بھی لغت سے معلوم ہو گئے تواب شک کی کون سی جگہ باقی رہ گئی ہے؟ پھر ہم کہتے ہیں کہ اگر استعارات صرف دجّال کے معاملہ میں ہوتے اور کسی جگہ نہ ہوتے تو بھی کسی کو کلام ہوتا کہ تم کیوں تاویل کرتے ہو مگر دیکھنے سے پتا لگتا ہے کہ خود قرآن شریف اور نیز احادیث بھی استعارات سے بھرے پڑے ہیں اور نہ اس اَمر کی ضرورت تھی کہ ہر ایک استعا رہ کی حقیقت کھولی جاوے کیا آج تک دنیا کے سب امور کسی نے جان لیے ہیں جواس اَمر پر زور دیا جاتا ہے کہ ایک ایک لفظ کی حقیقت بتلاؤ.دستور ہے کہ موٹے موٹے امور کو انسان سمجھ کر باقی کواسی پر قیاس کر لیتا ہے
توفّی تو فی کا لفظ صرف انسانوں پر ہی آیا ہے دیگر حیوا نات پر استعمال نہیں ہوا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت دہریہ طبع لوگ بھی تھے جو کہ حشر ونشر کے قائل نہ تھے ان کا اعتقاد تھا کہ کوئی شَے انسان کی باقی نہیں رہتی اس لفظ کو استعمال کرکے اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا کہ روح کو ہم اپنی طرف قبض کر لیتے ہیں وہ باقی رہتی ہے قرآن اور حدیث میں جہاں کہیں یہ لفظ آیا وہاں معنے قبض روح کے ہیں اس کے سوا اور کوئی معنے نہیں ہوتے.۱ تحصیل حاصل؟ سوال.جب ایک شخص نے ایک بات تحصیل کی ہے تو دوبارہ اسی کے تحصیل کرنے سے کیا حاصل ہے؟ جواب.ہم اس اصول کو لَا نُسْلِمُ کہتے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہے قرآن میں لکھا ہے.اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى (الاعراف:۱۷۳) یعنی جب روحوں سے خدا نے سوال کیا کہ میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ تو وہ بولیں کہ ہاں! تواب سوال ہوسکتا ہے کہ روحوں کو علم تو تھا پھر انبیاء کو خدا نے کیوں بھیجا گویا تحصیل حاصل کرائی یہ اصل میں غلط ہے ایک تحصیل پھیکی ہوتی ہے ایک گا ڑھی ہوتی ہے دونوں میں فرق ہوتا ہے وہ علم جو کہ نبیوں سے ملتا ہے اس کی تین اقسام ہیں.علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین اس کی مثال یہ ہے جیسے ایک شخص دور سے دھواں دیکھے تو اسے علم ہوگا کہ وہاں آگ ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جہاں آگ ہوتی ہے وہاں دھواں بھی ہوتا ہے اور ہر ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں.یہ بھی ایک قسم کا علم ہے جس کا نام علم الیقین ہے مگر اور نز دیک جا کر وہ اس آگ کو آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے تو اسے عین الیقین کہتے ہیں.پھر اگر اپنا ہاتھ اس آگ پر رکھ کر اس کی حرارت وغیرہ کو بھی
دیکھ لیوے تو اسے کوئی شبہ اس کے بارے میں نہ رہے گا اورا س طرح سے جو علم اسے حا صل ہوگا اس کا نام حق الیقین ہوگا.اب کیا ہم اسے تحصیل حا صل کہہ سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں! ۲،۳ (دربارِ شام) نزولِ وحی کا طریق فرمایا کہ وحی کا قاعدہ ہے کہ ا جمالی رنگ میں نازل ہوا کرتی ہے اور اس کے ساتھ ایک تفہیم ہوتی ہے مثلاًجب آنحضرتؐکو نماز پڑھنے کا حکم ہوا ہے تو ساتھ کشفی رنگ میں نماز کا طریق اس کی رکعات کی تعداد، اوقات نماز وغیرہ کشفی رنگ میں بتا دیا گیا تھا.علیٰ ہذ االقیاس.جو اصطلاح اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے اس کی تفصیل اور تشریح کشفی رنگ میں ساتھ ہوتی ہے جن لوگوں کو وہ اس وحی کے منشا سے آگا ہ کرتا ہے اور اس کو دوسرں کے دلوں میں داخل کرتا ہے جب سے دنیا ہے وحی کا یہی طرز چلا آیا ہے اور کل انبیاء کی وحی اسی رنگ کی تھی.وحی کشفی تصویروں یا تفہیم کے سوا کبھی نہیں ہوئی اور نہ وہ اجمال بجز اس کے کسی کی سمجھ میں آسکتا ہے.۱ مُدّ میں پیشگوئی کے مطابق تباہی مُدّ سے خبر آئی ہے کہ اس جگہ آبادی کچھ اُوپر دوسو آدمی کی ہے اور اب تک ایک سوتین آدمی مَر چکے ہیںاور ابھی چار پانچ روز مَرتے ہیں.اس پر حضرت اقدس نے حکم دیا ہے کہ اخباروں میں مُدّ کے متعلق پیشگوئی مندرجہ قصیدہ اعجاز احمدیہ کو شائع کرکے دکھائیں اور مولوی ثناء اللہ وغیرہ کو آگا ہ کریں کہ وہی الفاظ جن پر وہ مقدمہ بنوانا چاہتا تھا خدا تعالیٰ اب پوری کر رہا ہے.اب لوگ سو چیں کہ وہ حق تھا یا نہیں.۲ ۱ البدر سے.’’جب سے دنیا شروع ہے وحی سوائے کشفی حالت کے ہوتی ہی نہیں ہے.ورنہ پھر یہ اعتراض ہو گا کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خائن تھے یا اپنی طرف سے بناکر بتلا دیا کرتے تھے؟ بلکہ جس طرح خدا تعالیٰ ان کے دل میں ڈالتا تھا وہ دوسرے کے دل میں ڈال دیتے.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر۱۸ مورخہ ۲۲؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۱۳۷ ) ۲ الحکم جلد۷نمبر۱۸ مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۲
۷؍مئی ۱۹۰۳ء (قبل از عشاء) عورتوں کے حقوق فرمایا کہ عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی.مختصر الفاظ میں وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ (البقرۃ: ۲۲۹) ہر ایک قسم کے حقوق بیان فرما دیئے.یعنی جیسے حقوق مَردوں کے عورتوں پر ہیں ویسے ہی عورتوں کے مَردوں پر بھی ہیں بعض لوگوں کا حال سنا جاتا ہے کہ ان بچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں.گالیاں دیتے، حقارت کی نظر سے دیکھتے اور پردہ کے حکم کو ایسے ناجائز طریق سے کام میں لاتے ہیں کہ گویا وہ زندہ در گور ہوتی ہیں.چاہیے کہ عورتوں سے انسان کا دوستانہ طریق اور تعلق ہو.اصل میں انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں اگر ان سے اس کے تعلقات اچھے نہیں تو پھر خدا سے کس طرح ممکن ہے کہ صلح ہو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرنے والا ہی تم میں سے بہترین ہے.۱ ۸ ؍مئی ۱۹۰۳ء (مجلس قبل از عشاء) محمد حسین بٹالوی اور قرآن کریم کی بے ادبی ’’یہ ظاہری تُک بندی تومسیلمہ نے بھی کر لی تھی اس میں قرآن شریف کی خصوصیت کیا ہے.‘‘یہ ایک کلمہ ہے جو کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اوّل المکفّرین کی قلم سے قرآن کریم کی شان ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۸ مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲،البدر جلد ۲ نمبر۱۸ مورخہ ۲۲؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۱۳۷
میں نکلا ہے.اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایاکہ اس سے بڑھ کر کیا بے ادبی ہو گی کہ قرآن شریف کی آیا ت کو جوکہ ہر ایک پہلو اور ہر ایک رنگ کیا بلحاظ ظاہر اور کیا بلحاظ باطن کے معجزہ ہے.تُک بندی کہا جاتا ہے.جیسے قرآن شریف کا باطن معجزہ ہے ویسے اس کے ظاہر الفاظ اور ترتیب بھی معجزانہ ہے.اگر ہم اس کے ظاہر کو معجزہ نہ مانیں تو پھر باطن کے معجزہ ہونے کی دلیل کیا ہو گی؟ ایک انسان کا اگر ظاہر ہی گندہ ناپاک اور خبیث ہوگا تو اس کی رُوحانی حالت کیسے اچھی ہوسکتی ہے؟ عوام الناس اور موٹی نظر والوں کے واسطے تو ظاہری خوبی ہی معجزہ ہوسکتی ہے اور چونکہ قرآن ہر ایک قسم کے طبقہ کے لوگوں کے واسطے ہے اس لیے ہر ایک رنگ میں یہ معجزہ ہے.مامور من اللہ کی عداوت کا نتیجہ کفر تک پہنچا دیتا ہے.۱ ۹؍مئی ۱۹۰۳ء (بوقتِ سیر ) وباکے علاقے سے نکلنا عام لوگوں کا خیال ہے کہ وبا سے بھاگنا نہ چاہیے یہ لوگ غلطی کرتے ہیں.آنحضرتؐنے فرمایا ہے کہ اگر وبا کا ابتدا ہو تو بھاگ جانا چاہیے اور اگر کثرت سے ہو تو پھر نہیں بھاگنا چاہیے.جس جگہ وبا ابھی شروع نہیں ہوئی تب تلک اس حصہ والے اس کے اثر سے محفوظ ہوتے ہیں اور ان کا اختیار ہوتا ہے کہ اس سے الگ ہو جاویں اور توبہ اور استغفار سے کام لیویں.جماعت ِاحمدیہ اور طاعون یہ اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے کہ نشان بھی ہوتے ہیں اور ان میں التباس بھی ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ مانگا ۱البدر جلد ۲نمبر۱۸ مورخہ ۲۲؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۱۳۷، ۱۳۸ ۲ الحکم میں مزیدلکھا ہے.’’آخر جولڑائیا ں ہوئیں وہ بھی تو نشان ہی تھے اور وہ منکروں اور کافروں کے لئے عذاب لیکن اب سوال یہ ہے کہ صحابہ ؓ میں سے کوئی بھی ان لڑائیوں میں نہیں مارا گیا؟ ‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴ ؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۹ )
گیا تو کہا کہ خدا قادر ہے خواہ آسمان سے نشان دکھلاوے یا بعض کو بعض سے جنگ کرا کر نشان دکھاوے.۲ چنانچہ جنگوں میں صحابہؓ بھی قتل ہوئے بعض کمزور ایمان والوں نے اعتراض کیا کہ اگر یہ عذاب ہے تو ہم میں سے لوگ کیوں مَرتے ہیں اس پر خدا نے فرمایا اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ١ؕ وَ تِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ الـخ( اٰل عـمران:۱۴۱) پس اگر ہماری جماعت میں سے کوئی بھی نہ مَرے اور کل قومیں مَرتی رہیں تو کل دنیا ایک ہی دفعہ راہ راست پر آجاوے اوربجز اسلام کے اور کوئی مذہب دنیا پر نہ رہے حتی کہ گو رنمنٹوں کو بھی مسلمان ہونا پڑے.۱ اور یہی سِر تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ بھی فوت ہوئے تھے.ہاں سلا متی کا حصہ نسبتاً ہماری طرف زیادہ رہے گا براہین احمدیہ میں بھی لکھا ہے اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يَلْبِسُوْۤا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اب خدا جانے کہ کون ظلم سے خالی ہے کسل اور غفلت بھی ظلم ہے مگر تاہم دعا کرنا ضروری ہے اس جماعت کا قطعاً محفوظ رہنا یہ الفاظ کہیں ہم نے نہیں لکھے اور نہ یہ سنّت اللہ ہے اگر ایسا ہو تو پھر تو اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ہو جاتا ہے جب سے انبیاء پیدا ہوئے ہیں ایسا کبھی نہیں ہوا احمقوں کوان بھیدوں کی خبر نہیں خدا کا وعدہ نسبتاً حفاظت کا ہے نہ کہ کلیۃً۲ پھر یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ اگر ہماری جماعت کا ایک مَرتا ہے تو اس کے بد لے تین سَو آجاتے ہیں.انجام ہمیشہ متقیوں کے واسطے ہی ہوتا ہے اگر خدا تعالیٰ ایسا کھلاکھلا فرق کر دیوے تو میں نہیں جانتا کہ مذہبی اختلاف ایک ذرّہ بھر ۱ الحکم میں مزیدلکھا ہے.’’ اور بجز اسلام کے اور کوئی مذہب ہی نہ رہے حالانکہ ایسا نہیں ہو گا.دوسرے مذاہب بھی قیامت تک باقی رہیں گے.خدا تعالیٰ نشانوں میں قیامت کا نمونہ دکھا نا نہیں چاہتا اور نہ کبھی ایسا ہوا بلکہ اُن میں کسی حد تک فنا ضرور ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ صحابہ ؓ میں سے بھی بعض ان جنگوں میں شہید ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تکلیف پہنچی لیکن انجام نے دکھایا کہ آنحضرتؐکا نشان کیسا عظیم الشان تھا.اسی طرح پر یہاں بھی ہے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴ ؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۹ ) ۲ الحکم سے.’’ اس لیے دُعا کرتے رہنا چاہیے کیونکہ بالکلیہ حفاظت کا وعدہ کہیں نہیں ہے بلکہ الہامات میں استثنا کے الفاظ قریباً موجود ہیں اس جماعت کے قطعاً محفوظ رہنے کا وعدہ نہیں بلکہ نسبتاًہے اور سنّت اللہ بھی یہی ہے.دیکھنا یہ چاہیے کہ طاعون سے کون گھٹتا اور کون بڑھتا ہے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴ ؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۹ )
بھی رہ جاوے حالانکہ اس اختلاف کا قیامت تک ہونا ضروری ہے.بعض لوگ ہماری جماعت میں سے بھی غلطی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی نہ مَرے گا یہ ان کو مغالطہ لگا ہے ایسا ہرگز ہو نہیں سکتا اگرچہ ایک حد تک خدا نے وعدے کئے ہوئے ہیں مگر ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جماعت سے مطلقاً کوئی بھی نشانہ طاعون نہ ہو.یہ بات ہماری جماعت کو خوب یادرکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہرگز نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی بھی نہ مَرے گا.ہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ (الرعد:۱۸) پس جو شخص اپنے وجود کو نا فع الناس بناویں گے ان کی عمریں خدا زیادہ کرے گا خدا تعالیٰ کی مخلوق پر شفقت بہت کرو اور حقوق العباد کی بجاآوری پورے طور پر بجالانی چاہیے.نوحؑ اور مسیح موعود کے حالات کا فرق اعتراض ہوا کہ نوحؑ کی کشتی میں چڑھنے والے سب کے سب طوفان سے محفوظ رہے تھے تو کیا وجہ ہے جو لوگ یہاں بیعت میں ہیں وہ محفوظ نہ رہیں.جواب.فرمایا کہ ہمارا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ کے قدم برقدم ہے نوحؑ کے وقت ایمان کا دروازہ بند ہو چکا تھا اور اس وقت کوئی التباس ایمان کا نہ تھا مگر اب ہے نوحؑ کے وقت یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ اب قوم تو ضرور ہلاک ہونے والی ہے خواہ ایمان لاوے خواہ نہ لاوے مگر آنحضرت کے وقت مہلت دی گئی کہ جو توبہ کرے گا وہ بچ جاوے گا.چنا نچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عین قتل کے وقت فرمایا کہ اگر کوئی ایمان لاوے تو تلوار روک لی جاوے مگر نوحؑ کی قوم کے واسطے تھا کہ صرف کشتی والے بچائے جاویں گے باقی سب تباہ اور ہلاک ہوں گے وہ صورت خاص اور الگ تھی اور اعتراض تو خود نوحؑ پر بھی تھا کہ اس نے کہا تھا کہ میرے اہل بچے رہیں گے مگر پھر بھی مخالفوں کو یہ کہنے کی گنجائش رہی کہ نوحؑ اپنے بیٹے کو نہ بچا سکا.معلوم ہوتا ہے کہ نوحؑ کو بھی شبہ پیدا ہوا تھا تب ہی تو ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے زجر ہوا.پھر دیکھو باوجود نبی ہونے کے ان کو دھوکا لگا اور یہ معاملہ اس
طرح سے ہوا کہ مخالف تو درکنار خود نوحؑ کو ہی شکوک پیدا ہو گئے.خدا تعالیٰ اپنے رعب اور خوف کو دور نہیں کرنا چاہتا اگر آج وہ کھلا وعدہ دے دے کہ جماعت میں سے کوئی نہ مَرے گا تو پھر اس کا خوف دلوں میں نہ رہے جہاں خاص گھر کا اس نے وعدہ کیا ہے کہ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ وہاں بھی ایک فقرہ ساتھ رکھ دیا ہے کہ اِلَّا الَّذِیْنَ عَلَوْ ابِاسْتِکْبَارٍ.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا رجوع کب ہوگا؟ فرمایا کہ دیکھو بچہ جب پیٹ میں ہوتا ہے تو اگرچہ زندہ ہوتا ہے مگر تاہم خوشی پر ہنس نہیں سکتا اور تکلیف پر رو نہیں سکتا.بلاؤ تو بو لتا نہیں ہے مگر جب باہر آتا ہے تو اس کو حواس مل جاتے ہیں.ہنستا بھی ہے روتا بھی ہے بلانے سے بو لتا بھی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اوّل زندگی جو کہ پیٹ میں تھی وہ اصلی اور حقیقی زندگی نہ تھی حواس اس میں نہ تھے جب خدا ایک بات ڈالتا ہے تو حواس آجاتے ہیں.یہی حال مولوی محمد حسین صاحب کا ہے جب خدا کی طرف سے کوئی بات دل میں ڈالی جاوے گی تو اسی وقت تبدیلی ہو جاوے گی.جو بلائے جاتے ہیں وہ آتے ہیں اور جو بلائے نہیں جاتے وہ کفر میں ترقی کرتے ہیں اگر قرآن شریف نہ آتا تو ابو جہل اعلیٰ درجہ کے لوگوں میں شمار ہوتا.اسی طرح صدہا آدمیوں کو ہم صلحاء سمجھتے ہیں مگر جب ان کے سامنے حق پیش کیا گیا اور انہوں نے انکار کیا تو معلوم ہوا کہ خدا کے نزدیک ان میں صلاحیت نہ تھی کسی کے باطن کا کسی کو کیا علم ہے؟ مگر حق پیش کرنے پر حقیقت کھل جاتی ہے کہ خدا کی آواز سننے والے کون ہیں اور اس سے انکار کر نے والے کون؟ ایک غیر معمولی مجلس کل سے اکسڑا اسسٹنٹ کمشنر صاحب گورداسپور سے دورہ پر اور تحصیلدار صاحب بٹالہ سے مینا ر کی تعمیر کے ملا حظہ کے واسطے تشریف لائے ہوئے تھے حضرت اقدسؑ جب سیر سے واپس تشریف لائے تو کوئی آد ھ گھنٹہ کے بعد ہر دو عہدہ دار صاحبان نے حضرت اقدس سے ملاقات کی طاعون پر ذکر اذکار ہوتے رہے اور مینار کے متعلق بھی تحصیلدار
صاحب نے چند امور استفسار کئے اس موقع پر جو کچھ حضر ت اقدس نے ارشاد فرمایا اسے ہم یکجائی طور پر درج کر دیتے ہیں.(ایڈیٹر) طاعون طاعون کے تجربہ کے سوال پر فرمایا کہ اس کے تجربہ کا موقع ابھی بہت ہے حکماء نے لکھا ہے کہ اس کا دورہ ستّر ستّر برس تک ہوا کرتا ہے بڑے بڑے حکماء نے پچاس ساٹھ برس تک اس کے دور ہ کا مشاہدہ لکھا ہے لیکن خدا جانے کہ بعد میں اس کے کیا تجارب ہوں.یہ کہنا کہ تجربہ ہوا ہے کہ کھلی ہوا میں اس کے کیڑے زیادہ ہوتے ہیں ٹھیک نظر نہیں آتا کیونکہ علاقہ بمبئی میں اس نے سب سے پہلے زیادہ حصہ شہر بمبئی کا ہی پسند کیا تھا شاید یہ بات بعد میں بدل جائے.ہم اس رائے کو اس وقت قبول کرتے ہیں جب طاعون کی رفتار بھی اسے قبو ل کرے جیسے حکام کے دورہ ہوتے ہیں اسی طرح اس کے بھی دورہ ہوتے ہیں کسی جگہ پر عود کرتی ہے اور کسی جگہ نہیں لیکن اس پر بھی زور نہیں دیا جاسکتا شاید ایک ہی جگہ بار بار آجاوے پہلا تجربہ یہ ہے کہ انہوں نے لکھا ہے کہ یہ اپنی عمر پوری کرکے خود بخود ہی چھوڑ جاتی ہے.طاعون کا باعث سوال ہوا کہ طاعون کا اصل باعث کیا ہے؟ فرمایا کہ مَیں اس مجلس میں اس کا ذکر اس لیے پسند نہیں کرتا کہ مذہبی رنگ کے مسائل کو لوگ کم سمجھتے ہیں حقیقت میں جو لوگ خدا پر ایمان لائے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ اس کی نافرمانی کا نتیجہ ہے.قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان اپنی عقل پر بہت بھروسہ کرتا ہے تو ہر شَے کا انکارکر دیتا ہے حتی کہ خدا سے بھی منکر ہو جاتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ آج کل کے جنٹلمین دینی بات کرنے والے کو بیوقوف کہہ دیتے ہیں لیکن یقین ہے کہ اب زمانہ خود بخود مؤدّب ہو جاوے گا.نرے ارضی اسباب ہی اس طاعون کے موجد نہیں ہیں آخر اس کے کیڑے کسی پیدا کرنے والے کی وجہ سے ہی پیدا ہوئے ہیں اور وہ زمانہ قریب ہے کہ لوگوں کو اس کی ہستی کا پتا لگ جاوے گا.ابھی تک لوگوں کو عبرت کامل نہیں ہوئی ہے.طاعون کی گذشتہ چال سے پتا لگتا ہے کہ اوّل عوام پر پھر خواص پر پھر ملوک پر حملہ کرتی ہے اور اس کے اصل اسباب کا معمہ تو خدا خود ہی کھولے گا میں نے اس کی خبرآج سے ۲۲ سال پیشتر دی ہے پھر سات سال کے بعد دی پھر اس وقت دی جب کہ ایک دوضلعوں میں یہ تھی.قرآن میں، انجیل میں، دانیال نبی کی کتاب میں اس کا ذکر ہے غرضیکہ قبل از وقت ہم اس کی نسبت کھل کر بات نہیں کرتے کیونکہ اس پرہنسی کی جاوے گی جب خدا تعالیٰ اس کا پورا دورہ خود ختم کرے گا تو اس وقت آپ ہی لوگوں کو پتا لگ جائے گا.
پھر ملوک پر حملہ کرتی ہے اور اس کے اصل اسباب کا معمہ تو خدا خود ہی کھولے گا میں نے اس کی خبرآج سے ۲۲ سال پیشتر دی ہے پھر سات سال کے بعد دی پھر اس وقت دی جب کہ ایک دوضلعوں میں یہ تھی.قرآن میں، انجیل میں، دانیال نبی کی کتاب میں اس کا ذکر ہے غرضیکہ قبل از وقت ہم اس کی نسبت کھل کر بات نہیں کرتے کیونکہ اس پرہنسی کی جاوے گی جب خدا تعالیٰ اس کا پورا دورہ خود ختم کرے گا تو اس وقت آپ ہی لوگوں کو پتا لگ جائے گا.اطباء نے لکھا ہے کہ جب موسم جاڑے یا گرمی کی طرف حرکت کرتا ہے تواس وقت یہ زیادہ ہوتی ہے مگر ابھی تو موسم اتنی شدت گر می کا نہیں ہے لیکن اگر مئی کے گذرنے پر یہی حال رہا تو شاید یہ قاعدہ بھی ٹوٹ جاوے مگر اصل بات کا علم تو خدا تعالیٰ ہی کوہے.اکثر جگہ چو ہے کثرت سے مَرتے ہیں تو وہاں طاعون کا اندیشہ ہوتا ہے مگر خدا کے فضل سے ہمارے گھر میں دو بلیاں ہیں اور وہ کوئی چو ہا نہیں چھوڑ تیں شاید یہ بھی خدا کی طرف سے ایک علاج ہو.طاعون کا حقیقی علاج سوال ہوا کہ پھر اس کا علاج کیا ہے؟ فرمایا.ہماراتو یہ مذہب ہے کہ بجز تقویٰ طہارت اور رجوع الی اللہ کے اور کوئی چارہ نہیں گو لوگ اسے دیوانہ پن سمجھتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ یہ دنیا خود بخود نہیں ہے ایک خالق اور مدبّر کے ماتحت یہ چل رہی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ زمین پر پاپ اور گناہ بہت ہو گیا ہے تو وہ تنبیہ نازل کرتا ہے اور جب رجوع الی اللہ ہو تو پھر اسے اٹھا لیتا ہے لیکن دیکھا جاتا ہے کہ لوگ بہت بیباک ہیں اور ان کو ابھی تک کچھ پروا نہیں ہے.مینارۃ المسیح کی غرض سوال ہوا کہ مینار کیوں بنوایا جاتا ہے؟ فرمایا کہ اس مینار کی تعمیر میں ایک یہ بھی برکت ہے کہ اس پر چڑھ کر خدا کا نام لیا جاوے گا اور جہاں خدا کا نام لیا جاتا ہے وہاں برکت ہوتی ہے.چنانچہ آج کل اسی لیے سکھوں نے بھی اذانیں دلوائی ہیں اور مسلمانوں کو اپنے گھروں میں بلا کر قر آن پڑھوایا ہے.پھر
اس کے اوپر ایک لالٹین بھی نصب کی جاوے گی.جس کی روشنی دُور دُور تک نظر آوے گی.سُنا گیا ہے کہ روشنی سے بھی طاعونی مواد کا دفعیہ ہوتا ہے اور ایک گھنٹہ بھی اس پر لگایا جاوے گا.اس کی بلندی کی نسبت ہم کہہ نہیں سکتے ابھی سر مایہ نہیں ہے.سر مایہ پر دیکھا جاوے گا کہ کس قدر بلند ہوگا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ لوگ اس پر چڑھ کر چارپائیاں بچھا ویں گے کیونکہ ایک تو وہ مخروطی شکل کا ہوگا اور گھنٹہ کی وجہ سے اسے بند رکھا جاوے گا کہ لوگ چڑھ کر اسے خراب نہ کر دیویں.مجھے حیرت ہے کہ یہاں کے ہندوؤں کے ساتھ ہم نے آج تک برادرانہ برتاؤ رکھا ہے اور یہ لوگ ہمارے مینار کی تعمیر پر اس قدر جوش و خروش ظاہر کر رہے ہیں.اس مسجد کو ہمارے مرزا صاحب (والد صاحب)نے سات ۷۰۰سو روپیہ کو خریدا تھا اور اس مینار کی تعمیر میں صرف مسجدہی کے لیے مفید بات نہیں ہے بلکہ عوام کو بھی فائدہ ہے.یہ خیال کہ اس سے بے پر دگی ہو گی یہ بھی غلط ہے.اب ہمارے سامنے ڈپٹی شنکرداس صاحب کاگھر ہے اوراس قدر اونچاہے کہ آدمی اُوپر چڑھے تو ہمارے گھر میں اس کی نظر برابر پڑتی ہے تو کیااب ہم کہیں کہ اسے گرادیا جاوے؟ بلکہ ہم کو چاہیے کہ اپنا پر دہ خود کر لیویں.ان لوگوں کو چاہیے تھا کہ مذہبی امور میں ہم سے دلبستگی ظاہر کرتے اور اس اَمر میں ہماری امداد کرتے اگر یہ لوگ اپنا معبد بلند کرنا چاہیں تو کیا ہم اسے روک سکتے ہیں؟ یہ خیال کہ مسجد یہاں ہو اور مینار کہیں باہر ہو ایک قسم کی ہنسی ہے اور اس وقت قبولیت کے قابل ہے کہ اوّل مسجد باہر نکال دی جاوے پھر مینار بھی باہر ہو جاوے گا اور یہ قبر ہمارے مرزا صاحب کی ہے انہوں نے نزول۱ سے زمین خرید کر اس مسجد کو تعمیر کرایا تھا اور اپنی موت سے ۲۲ دن پہلے اپنی اس قبر کا نشان بتلایا کہ اس جگہ ہو.مجھے ان لوگوں پر بار بار افسوس آ تا ہے کہ ہمارے دل میں تو ان کی ہمدردی ہے.بیماریوں میں ہم ان کا علاج کرتے ہیں.ہر ایک ان کی مصیبت میں شریک ہوتے ہیں.انہی سے پوچھا جاوے کہ کبھی ان کے مذہبی معاملات میں مَیں نے ان سے نقیض کی ہے؟ ۱ نقل مطابق اصل
دنیاوی معاملات تو الگ ہوتے ہیں لیکن مذہبی معاملات میں شرافت کا بر تاؤ ہو اکرتا ہے.ان کو لازم تھا کہ ایسی باتیں نہ کرتے جو آپس کی شکر رنجی کا موجب ہوتیں.اس مینار کی بنیاد پر گیارہ سو روپیہ خرچ آیا ہے اور تین برس سے اس کا ابتدائی کام شروع ہے چنانچہ ’’الحکم‘‘میں اس کا اعلان موجود ہے اگر ہماراچار ہزار روپیہ کا نقصان ہو اور پھر ان کو یہ روپیہ مل جاوے تو بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ خیر ہمسائیوں کو فائدہ پہنچا.لیکن ابھی تو مینار خیالی پلاؤ ہے جوں جوں روپیہ آوے گا بنتا رہے گا جب وہ مکمل ہو جاوے اور پھر کوئی اعتراض کی بات ہو تو اعتراض ہوسکتا ہے.میں ایسا فعل کیوں کرنے لگاجس سے اَوروں کو بھی نقصان ہو اور مجھے بھی.ہماری پردہ داری سب سے اعلیٰ ہے.اگر کوئی مینار پر چڑھے گا تو جیسے اَوروں کے گھر میں نظر پڑسکتی ہے ویسی ہی ہمارے گھر میں بھی پڑ سکتی ہے تو کیا ہم گوارا کریں گے کہ یہ بات ہو؟ بہرحال جب یہ بن جاوے گا تو لوگ سمجھ لیویں گے کہ ان کو اس سے کس قدر فائدہ ہے.۱ بلا تاریخ اچھوتا نکتہ عبادت اور احکامِ الٰہی کی دو شاخیں ہیں.تعظیم لِاَمْرِاللہ اور ہمدردی مخلوق.میں سوچتا تھا کہ قرآن شریف میں تو کثرت کے ساتھ اور بڑی وضاحت سے ان مراتب کو بیان کیا گیا ہے مگر سورۃ فاتحہ میں ان دونوں شقوں کو کس طرح بیان کیا گیا ہے میں سوچتا ہی تھا کہ فی الفور میرے دل میں یہ بات آئی کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ(الفاتـحۃ:۲تا۴) سے ہی یہ ثابت ہوتا ہے یعنی ساری صفتیں اور تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں جو رب العالمین ہے یعنی ہر عالم میں، نطفہ میں، مضغہ وغیرہ میں سارے عالموں کا ربّ ہے.پھر رَحْـمٰن ہے پھر رَحِیْم ہے اورمٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ہے اب اس کے بعد اِيَّاكَ نَعْبُدُ جو کہتا ہے تو ۱البدرجلد ۲ نمبر ۱۸ مورخہ۲۲ ؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۱۳۸، ۱۳۹
گویا اس عبادت میں وہی ربوبیت.رحمانیت، رحیمیت، مالکیت یوم الدین کی صفات کا پر تو انسان کو اپنے اندر لینا چاہیے کیونکہ کمال عابد انسان کا یہی ہے کہ تَـخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللہِ میں رنگین ہو جاوے پس اس صورت میں یہ دونوں اَمر بڑی وضاحت اور صفائی سے بیان ہوئے ہیں.بلا تاریخ معجزات کے تین اقسام فرمایا.معجزات تین اقسام کے ہوتے ہیں.(۱) دعائیہ (۲) ارہاصیہ (۳) قوتِ قدسیہ ارہاصیہ میں دعا کو دخل نہیں ہوتا قوتِ قدسیہ کے معجزات ایسے ہوتے ہیں جیسے رسول اللہ نے پانی میں انگلیاں رکھ دیں اور لوگ پانی پیتے رہے یا ایک تلخ کوئیں میں اپنا لب گرِادیا اور اس کا پانی میٹھا ہو گیا.مسیحؑ کے معجزات میں بھی یہ رنگ پایا جاتا ہے خود ہم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.مسیح کے معجزات کے متعلق جو ہم نے عمل الترب کا ذکر کیا ہے اس سے مُراد یہ ہے کہ وہ جو قوتیں اللہ تعالیٰ نے خلقی طو رپر انسان کی فطرت میں ودیعت کی ہیں وہ توجہ سے سرسبز ہوتی ہیں.رہی یہ بات کہ مسیح کے معجزات کو مکروہ کہا ہے یہ ایسی بات ہے کہ بعض اوقات ایک اَمر جائز ہوتا ہے اور دوسرے وقت نہیں.۱ بلاتاریخ۲ تکمیل ہدایت اور تکمیل اشاعتِ ہدایت جب ہم اس ترتیب کو دیکھتے ہیں کہ ایک طرف تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دو مقصد ہی بیان فرمائے ہیں تکمیل ہدایت اور تکمیل اشاعت ہدایت اور اوّل الذکر تکمیل ۱الحکم جلد ۷ نمبر ۱۹ مورخہ۲۴ ؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۳ ۲ یہ ملفوظات بھی ’’ الحکم‘‘ میں بلاتا ریخ شذرات کی صورت میں درج ہیں.(مرتّب)
چھٹے دن یعنی جمعہ کے دن ہو گی.اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ ( المآئدۃ:۴) اسی دن نازل ہوئی اور دوسری تکمیل کے لیے بالا تفاق مانا گیا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ہو گی چنا نچہ سب مفسروں نے بالاتفاق تسلیم کیا ہے جبکہ پہلی تکمیل چھٹے دن ہوئی تو دوسری تکمیل بھی چھٹے دن ہی ہو گی اور قرآن شریف میں ایک دن ایک ہزار برس کا ہوتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ مسیح موعود چھٹے ہزار میں ہوگا.بلاتاریخ ۱ بہترین دعا بہترین دعا وہ ہوتی ہے جو جامع ہو تمام خیروں کی اور مانع ہو تمام مضرات کی.اس لیے اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا میں آدم ؑ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کل منعم علیہم لوگوں کے انعامات کے حصول کی دعا ہے اور غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ میں ہر قسم کی مضرتوں سے بچنے کی دعا ہے.چونکہ مغضوب سے مُراد یہود اور ضالین سے مُراد نصاریٰ بالاتفاق ہیں تو اس دعا کی تعلیم کا منشا صاف ہے کہ یہودیوں نے جیسے بے جا عداوت کی تھی مسیح موعود کے زمانہ میں مولوی لوگ بھی ویسا ہی کریں گے اور حدیثیں اس کی تائید کرتی ہیں یہاں تک کہ وہ یہودیوں کے قدم بہ قدم چلیں گے.بلاتاریخ روح القدس کے فرزند اَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ (البقرۃ:۲۵۴) میں مسیحؑ کی کوئی خصوصیت نہیں ہے روح القدس کے فر زند تمام وہ سعادتمند اور راستباز ہیں جن کی نسبت اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ (الـحجر:۴۳) وارد ہے قرآن کریم سے دو قسم کی مخلوق ثابت ہوتی ہے اوّل وہ جو روح القدس کے فرزندہیں دوسرے وہ جو شیطان کے فرزندہیں پس اس میں مسیحؑ کی کوئی خصوصیت نہیں.۱ یہ ملفوظات بھی ’’الحکم‘ ‘ میں بلاتاریخ شذرات کی صورت میں درج ہیں.(مرتّب )
بلاتاریخ دوزخ دائمی نہیں ہمارا ایمان یہی ہے کہ دوزخ میں ایک عرصہ تک آدمی رہے گا پھر نکل آئے گا.گویا جن کی اصلاح نبوت سے نہیں ہوسکی ان کی اصلاح دوزخ کرے گا حدیث میں آیا ہے یَاْتِیْ عَلٰی جَھَنَّمَ زَمَانٌ لَّیْسَ فِیْـھَا اَحَدٌ یعنی دوزخ پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس میں کوئی متنفس نہیں ہوگا اور نسیم صبا اس کے دروازوں کو کھٹکھٹائے گی.۱ بلاتاریخ۲ استفسار اور ان کے جواب سوال.کبھی نماز میں لذّت آتی ہے اور کبھی وہ لذّت جاتی رہتی ہے اس کا کیا علاج ہے؟ جواب.ہمت نہیں ہارنی چاہیے بلکہ اس لذّت کے کھوئے جانے کو محسوس کرنے اور پھر اس کو حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہیے جیسے چور آوے اور وہ مال اُڑا کر لے جاوے تو اس کا افسوس ہوتا ہے اور پھر انسان کوشش کرتا ہے کہ آئندہ کو اس خطرہ سے محفوظ رہے.اس لیے معمول سے زیادہ ہو شیا ری اور مستعدی سے کام لیتا ہے.اسی طرح پر جو خبیث نماز کے ذوق اور اُنس کو لے گیا ہے تو اس سے کس قدر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے؟ اور کیوں نہ اس پر افسوس کیا جاوے؟ انسان جب یہ حالت دیکھے کہ اس کا اُنس و ذوق جاتا رہا ہے تو وہ بے فکر اور بے غم نہ ہو نماز میں بے ذوقی کا پیدا ہونا ایک سارق کی چوری اور روحانی بیماری ہے جیسے ایک مریض کے مُنہ کا ذائقہ بدل جاتا ہے تو وہ فی الفور علاج کی فکر کرتا ہے.اس طرح پر جس کا روحانی مذاق بگڑ جاوے اس کو بہت جلد اصلاح ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۲۰ مورخہ ۳۱؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۳ ۲ یہ ملفوظات بھی ’’الحکم‘ ‘ میں بلاتاریخ شذرات کی صورت میں درج ہیں.’’استفسار اور ان کے جواب ‘‘ کے عنوان سے الحکم میں جو ملفوظات بلاتاریخ درج ہوتے ہیں.بعض دفعہ تو البدر کی ڈائری سے پتا لگ جاتا ہے کہ کس تاریخ کے ہیں لیکن بعض دفعہ البدر کی ڈائری سے بھی ان کی تاریخ کا پتا نہیں چلتا تو بلا تاریخ درج کر دیئے جاتے ہیں.(مرتّب )
کی فکر کرنی لازم ہے.یاد رکھو انسان کے اندر ایک بڑا چشمہ لذّت کا ہے جب کوئی گناہ اس سے سر زد ہوتا ہے تو وہ چشمہ لذّت مکدّر ہو جاتا ہے اور پھر لذّت نہیں رہتی.مثلاًجب ناحق گالی دے دیتا ہے یا ادنیٰ ادنیٰ سی بات پر بدمزاج ہو کر بدزبانی کرتا ہے تو پھر ذوق نماز جاتا رہتا ہے.اخلاقی قویٰ کو لذّت میں بہت بڑا دخل ہے.جب انسانی قویٰ میں فرق آئے گا تو اس کے ساتھ ہی لذّت میں بھی فرق آجاوے گا.پس جب کبھی ایسی حالت ہو کہ اُنس اور ذوق جو نماز میں آتا تھا وہ جاتا رہا ہے تو چاہیے کہ تھک نہ جاوے اور بے حوصلہ ہو کر ہمت نہ ہارے بلکہ بڑی مستعدی کے ساتھ اس گمشدہ متاع کو حاصل کرنے کی فکر کرے اور اس کا علاج ہے توبہ، استغفار، تضرّع، بے ذوقی سے ترک نمازنہ کرے بلکہ نماز کی اور کثرت کرے.جیسے ایک نشہ باز کو جب نشہ نہیں آتا تو وہ نشہ کو چھوڑنہیں دیتا بلکہ جام پر جام پیتا جاتا ہے یہاں تک کہ آخر اس کو لذّت اور سرور آجاتا ہے.پس جس کو نماز میں بے ذوقی پیدا ہو اس کو کثرت کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے اور تھکنا مناسب نہیں آخر اسی بےذوقی میں ایک ذوق پیدا ہو جاوے گا.دیکھو پانی کے لئے کس قدر زمین کو کھودنا پڑتا ہے جو لوگ تھک جاتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں جو تھکتے نہیں وہ آخر نکال ہی لیتے ہیں.اس لیے اس ذوق کو حاصل کرنے کے لیے استغفار، کثرت نمازودعا،مستعدی اور صبر کی ضرورت ہے.بہترین وظیفہ سوال.بہترین وظیفہ کیا ہے؟ جواب.نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الٰہی ہے استغفار ہے اور درود شریف، تمام وظائف اور اَوراد کا مجموعہ یہی نماز ہے اور اس سے ہر ایک قسم کے غم وہم دور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر ذرا بھی غم پہنچتا تو آپ نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے اور اس لیے فرمایا ہے اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ(الرعد:۲۹) اطمینان، سکینتِ قلب کے لیے نماز سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں.لوگوں نے قِسم قِسم کے ورد اور وظیفے اپنی طرف سے بنا کر لوگوں کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے اور ایک نئی
شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مقابلہ میں بنادی ہوئی ہے.مجھ پر تو الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے مگر میں دیکھتا ہوں اور حیرت سے دیکھتا ہوں کہ انہوں نے خود شریعت بنائی ہے اور نبی بنے ہوئے ہیں اور دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں ان وظائف اور اَورادمیں دنیا کو ایسا ڈالا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی شریعت اور احکام کو بھی چھوڑ بیٹھے ہیں.بعض لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ اپنے معمول اور اَوراد میں ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ نمازوں کا بھی لحاظ نہیں رکھتے.میں نے مولوی صاحب سے سُنا ہے کہ بعض گدی نشین شاکت مت والوں کے منتر اپنے وظیفوں میں پڑھتے ہیں.میرے نزدیک سب وظیفوں سے بہتر وظیفہ نماز ہی ہے.نماز ہی کو سنوار سنوار کر پڑھنا چاہیے اور سمجھ سمجھ کر پڑ ھو اور مسنون دعاؤں کے بعد اپنے لیے اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو اس سے تمہیں اطمینان قلب حاصل ہوگا اور سب مشکلات خدا چاہے گا تو اسی سے حل ہو جائیں گی.نماز یاد الٰہی کا ذریعہ ہے.اس لیے فرمایا ہے اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ (طٰہٰ:۱۵) قبرستان میں جانا سوال.قبرستان میں جانا جائز ہے یا ناجائز؟ جواب.نذر ونیاز کے لیے قبروں پر جانا اور وہاں جا کر منتیں مانگنا درست نہیں ہے ہاں وہاں جاکر عبرت سیکھے اور اپنی موت کو یاد کرے تو جائز ہے.قبروں کے پختہ بنانے کی ممانعت ہے البتہ اگر میّت کو محفوظ رکھنے کی نسبت سے ہو تو حر ج نہیں ہے یعنی ایسی جگہ جہاں سیلاب وغیرہ کا اندیشہ ہو اور اس میں بھی تکلفات جائز نہیں ہیں.۱ ۱۰؍مئی ۱۹۰۳ء (صبح کی سیر) مامور کا زمانہ ایک قیامت ہوتا ہے فَرِيْقٌ فِي الْجَنَّةِ وَ فَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ (الشورٰی:۸) خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ جیسے ایک طرف بغض وحسد کرنے والے ہمارے دشمن موجود ہیں.ویسے ہی ان کے بالمقابل وہ لوگ بھی ہیں جو کہ اسی تحریک ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۲۰ مورخہ ا۳مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۹
سے راہ راست کی طرف آجاتے ہیں.مامور کا زمانہ بھی ایک قیامت ہے.جیسے لوگ یوم جزا کے دن دو فریقوں میں تقسیم ہو جاویں گے یعنی فَرِيْقٌ فِي الْجَنَّةِ وَ فَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ (الشورٰی:۸) ایسے ہی مامور کی بعثت کے وقت بھی دو فریق ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ (اٰل عـمران:۵۶) جیسے تقریباً سات سو برس پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کہا گیا اور مسیح علیہ السلام کے وقت پورا ہو اویسا ہی آپ کے تیرہ سو برس بعد چودھویں صدی میں ہمارے زمانہ میں پورا ہو رہا ہے.ابلیس ملائکہ میں سے نہ تھا فرمایا کہ۱ اہل عرب اس قسم کے استثنا کرتے ہیں.صرف و نحو میں بھی اگر دیکھا جاوے تو ایسے استثنا بکثرت ہوا کرتے ہیں اور ایسی نظیریں موجود ہیں جیسے کہا جاوے کہ میرے پاس ساری قوم آئی مگر گدھا.اس سے یہ سمجھنا کہ ساری کی ساری قوم جنس حمار میں سے تھی غلط ہے.كَانَ مِنَ الْجِنِّ کے بھی یہ معنے ہوئے کہ وہ فقط ابلیس ہی قوم جنّ میں سے تھا ملائکہ میں سے نہیں تھا ملائک ایک الگ پاک جنس ہے اور شیطان الگ.ملائکہ اور ابلیس کا راز ایسا مخفی در مخفی ہے کہ بجز اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا کے انسان کو چارہ نہیں.اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو اقتدار و توفیق نہیں دی مگروسوسہ اندازی میں وہ محرک ہے جیسے ملائکہ پاک تحریکات کے محرک ہیں ویسے ہی شیطان ناپاک جذبات کا محرک ہے.ملائکہ کی منشا ہے کہ انسان پاکیزہ ہو، مطہر ہو اور اس کے اخلاق عمدہ ہوں اور اس کے بالمقابل شیطان چاہتا ہے کہ انسان گندہ اور ناپاک ہو.اصل بات یہ ہے کہ قانون الٰہی ملائکہ وابلیس کی تحریکات کا دوش بدوش چلتا ہے لیکن آخر کار ارادہ الٰہی غالب آجاتا ہے.گویا پس پردہ ایک جنگ ہے جو خود بخود جاری رہ کر آخر قادر ومقتدر حق کا ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۱۸ مورخہ ۲۲؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴۰ میں ہے کہ ’’ سوال ہواکہ ابلیس ملائکہ سے تھایا کون؟‘‘ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا.(مرتّب) ۲ البدر سے.’’جیسے انڈے کے بیچ میں روح آتی ہے اور بعض وقت بچہ بیچ میں ہی مَر کر رہ جاتا ہے اور روح نکل جاتی ہے.لیکن معلوم کسی کو نہیں ہوتی پس یہ راز ہوتے ہیں.‘‘(البدر جلد ۲ نمبر ۱۸ مورخہ ۲۲ ؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴۰)
غلبہ ہو جاتا ہے اور باطل کی شکست.مجہول الکنہ اشیاء چار چیزیں ہیں جن کی کنہ وراز کو معلوم کرنا انسان کی طاقت سے بالا تر ہے.اوّل اللہ جَلَّ شَانُہٗ،دوم روح،سوم ملائکہ، چہارم ابلیس.جو شخص ان چہاروں میں سے خدا تعالیٰ کے وجود کا قائل ہے اور اس کی صفاتِ الوہیت پر ایمان رکھتا ہے ضرور ہے کہ وہ ہر سہ اشیاء رُوح و ملائکہ و ابلیس پر ایمان لائے مثلاً رُوح جیسے انسان کے اندر داخل ہوتی معلوم نہیں ہوتی ویسے ہی اس میں سے خارج ہوتی بھی معلوم نہیں۲ ہوتی.انسان کو ہر حال میں رضاء الٰہی پر چلنا چاہیے اور کار خانہ الٰہی میں دخل در معقولات نہیں دینا چاہیے.تقویٰ اور طہارت، اطاعت ووفا میں ترقی کرنی چاہیے اور یہ سب باتیں تب ممکن ہیں جب انسان کامل ایمان اور یقین سے ثابت قدم رہے اور صدق واخلاص اپنے مولا کریم سے دکھلائے اور وہ باتیں جو علم الٰہی میں مخفی ہیں اس کے کنہ کے معلوم کرنے میں بے سُود کوشش نہ کرے۱ مثلاًہلیلہ قبض کو دور کرتی ہے اور سم الفار ہلاک کرتا ہے اب کیا ضرورت پڑی ہے کہ بے فائدہ اس دھت میں بھاگے پھرے کہ کون سی شَے ہے جو یہ اثر کرتی ہے.طبیب کا کام ہے کہ ان کے خواص کو معلوم کرے اور یہ سوال کہ کیوں یہ خواص پیدا ہو گئے حوالہ بخدا کرے جو شخص ہر ایک چیز کے خواص وماہیت دریافت کرنے کے پیچھے لگ جاتا ہے وہ نادانی سے کارخانہ ربّی اور اس کے منشا سے بالکل ناواقف ونابلد ہے.ملائکہ اور شیطان اگر کوئی کہے کہ شیطان وملائکہ دکھلاؤ تو کہنا چاہیے کہ تمہارے اندر یہ خواص کہ بیٹھے بٹھائے آناً فاناًبدی کی طرف متوجہ ہو جانا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی ذات سے بھی منکر ہو جانا اور کبھی نیکی میں ترقی کرنا اور انتہا درجہ کی انکساری و فروتنی وعجز ونیاز میں گِر جانا یہ اندرونی کششیں جو تمہارے اندر موجود ہیں ان سب کے محرک جو قویٰ ہیں وہ ان دوالفاظ ۱ البدر سے.’’ انسان کو ان باتوں کی کنہ دریافت کر نے میں نہ پڑنا چاہیے تقویٰ اور اطاعت میں ترقی کر نی چاہیے تواس طرح خدا خود اس کی تسلی کردے گا.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۸ مورخہ ۲۲؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴۰)
ملک وشیطان کے وجود میں مجسم ہیں.سعادت اس میں ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لایا جاوے اور اس کو حاضروناظر یقین کیا جاوے اور اس کی عین موجودگی کا تصوّر دل میں رکھ کر ہر ایک بدی اور ناراستی سے پرہیز کیا جاوے.یہی بڑی دانش و حکمت ہے اور یہی معرفت ِالٰہی کا سیراب کرنے والا شیریں سوتہ ہے جس سے اور جس کے لیے اہل اللہ ایک ریگستان کے پیاسے کی طرح آگے بڑھ کر خوش مزگی سے پیتے ہیں اور یہی وہ آبِ کوثر ہے جو مولائے کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے اپنے اولیاء اصفیا کو پلاتا ہے.مومن چونکہ خدا تعالیٰ کی معرفت کا محتاج ہے اور ہر کوئی اس کی طرف نظر اُٹھائے دیکھ رہا ہے اس لیے خدا تعالیٰ نے بھی یہ دروازہ پورے طور پر کھولا ہوا ہے جوں جوں انسان اس راہ میں کوشش کرے گا توں توں درِ رحمت اس پر کھلتا جاوے گا.دنیا میں بے انت ایسی چیزیں ہیں جس کی ہمیں خبر بھی نہیں پر ایسی چیزوںکے دریافت کے لئے سرگردان ہونا کون سی عقلمندی ہے.....کون سی چیز ہے جس کی تحقیق انسان نے پورے طور سے کر لی.جوچیز اللہ جَلَّ شَانُہٗ نے انسان کے لیے چنداں مفید نہیں سمجھی وہ پورے طور پر انسان پر منکشف بھی نہیں ہوتی پس جو ہر ایک چیز کو دریافت کرنا چاہتا ہے وہ خدا بننا چاہتا ہے.جس راہ پر انسان پہنچ نہیں سکتا چاہیے کہ اسے چھوڑ دے.انسان کو جو کچھ دیا گیا ہے اس پر قانع رہے اگر یہ توقع رکھے کہ آسمان کے درخت کا پھل آوے تو میں کھاؤں حالانکہ اس کا ہاتھ وہاں پہنچ بھی نہیں سکتا تو وہ مجنون ہے ہاں جب اللہ تعالیٰ اس کی فطرت میں یہ قویٰ پیدا کر دے کہ آسمان تک پہنچ سکے توکچھ مضائقہ نہیں کہ وہ آسمان ہی کے پھل بھی کھاوے.گناہ سے کیسے بچ سکتے ہیں گناہ سے انسان کیسے بچ سکتا ہے اس کا علاج یہ تو بالکل نہیں کہ عیسائیوں کی طرح ایک کے سر میں درد ہو تو دوسرا اپنے سر میں پتھر مار لے اور پہلے کا درد سر دور ہو جاوے دراصل انسان کا حدِاعتدال سے گزر جانا ہی گناہ کا
موجب ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ بات پھر عادت میں داخل ہو جاتی ہے اور یہ سوال کہ یہ عادت کیوں کر دور ہوسکتی ہے؟ اکثر لوگوں کا اعتقاد ہے کہ یہ عادت دور نہیں ہوسکتی اور عیسائیوں کا تو پختہ یقین وایمان ہے کہ عادت یا فطرت ثانی ہرگز دور نہیں ہوسکتی اور نہ بدل سکتی ہے.مسیح کے کفّارہ کو مان کر بھی یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ انسان گناہ سے بالطبع نفرت کرنے لگ جائے.نہیں البتہ اس کفّارہ کے طفیل اُخروی عذاب سے نجات پا جائے گا.یہی اعتقاد ہے جو رکھنے سے انسان خلیع الرسن ہو کر بدکاریوں اور ناسزا وار اُمور میں دل کھول کر ترقی کرتا ہے.قابلِ توجہ ہماری جماعت کو اس پر توجہ کرنی چاہیے کہ ذرا سا گناہ خواہ کیسا ہی صغیر ہ ہوجب گردن پر سوار ہو گیا تو رفتہ رفتہ انسان کو کبیرہ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے.طرح طرح کے عیوب مخفی رنگ میں انسان کے اندر ہی اندر ایسے رَچ جاتے ہیں کہ اس سے نجات مشکل ہو جاتی ہے.فروتنی اور عاجزی انسان جو ایک عاجز مخلوق ہے اپنے تئیں شامتِ اعمال سے بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے.کبر اور رعونت اس میں آجاتی ہے اللہ کی راہ میں جب تک انسان اپنے آپ کو سب سے چھوٹا نہ سمجھے چھٹکارا نہیں پاسکتا.کبیر نے سچ کہا ہے.؎ بھلا ہوا ہم نیچ بھلے ہر کو کیا سلام جے ہوتے گھر اُونچ کے ملتا کہاں بھگوان یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم چھوٹے گھر میں پیدا ہوئے.اگر عالی خاندان میں پیدا ہوتے تو خدا نہ ملتا.جب لوگ اپنی اعلیٰ ذات پر فخر کرتے تو کبیر اپنی ذات با فندہ۱ پر نظر کرکے شکر کرتا.پس انسان کو چاہیے کہ ہر دم اپنے آپ کو دیکھے کہ میں کیسا ہیچ ہوں میری کیا ہستی ہے ہر ایک انسان خواہ کتنا ۱ البدر میں ہے.’’ جب لوگ اپنی اپنی ذات پر فخر کرتے تو کبیر اپنی قوم چمار پر نظر کرکے شکر کرتا.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر۱۸مورخہ ۲۲؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴۰) ۲ اس کے آگے البدر میں مزید لکھا ہے.’’ اور قوتیں توانسان کی کبھی کبھی غلبہ کرتی ہیں مگر رعونت اور نخوت ہر وقت اس پر سوا ر ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۸ مورخہ ۲۲؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴۰)
ہی عالی نسب ہو مگر جب وہ اپنے آپ کو دیکھے گا بہر نہج وہ کسی نہ کسی پہلو میں بشرطیکہ آنکھیںرکھتا ہو تمام کائنات سے اپنے آپ کوضرور با لضرور ناقابل وہیچ جان لے گا انسان جب تک ایک غریب وبیکس بڑھیا کے ساتھ وہ اخلاق نہ برتے جو ایک اعلیٰ نسب عالی جاہ انسان کے ساتھ برتتا ہے یا برتنے چاہیے اور ہر ایک طرح کے غرور، رعونت وکبرسے اپنے آپ کو نہ بچا وے وہ ہرگز ہرگز خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہیں ہوسکتا.۲ دعا جس قدر نیک اخلاق ہیں تھوڑی سی کمی بیشی سے وہ بداخلاقی میں بدل جاتے ہیں.اللہ جَلَّ شَانُہٗ نے جودروازہ اپنی مخلوق کی بھلائی کے لیے کھولا ہے وہ ایک ہی ہے یعنی دعا.جب کوئی شخص بکا و زاری سے اس دروازہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ مولائے کریم اس کو پاکیزگی وطہارت کی چادر پہنا دیتا ہے اور اپنی عظمت کا غلبہ اس پر اس قدر کردیتا ہے کہ بے جا کا موںاور ناکارہ حرکتوں سے وہ کوسوں بھاگ جاتا ہے.کیا سبب ہے کہ انسان باوجود خدا کو نہ ماننے کے بھی گناہ سے پرہیز نہیں کرتا؟ درحقیقت اس میں ایک دہریت کی رگ ہے اور اس کو پورا پورا یقین و ایمان اللہ پر نہیں ہوتا ورنہ اگر وہ جانتا کہ کوئی خدا ہے جو حساب و کتاب لینے والا ہے اور ایک آن میں اس کو تباہ کرسکتا ہے تو وہ کیسے بدی کرسکتا ہے اس لیے حدیث شریف میں وارد ہے کہ کوئی چور چوری نہیں کرتا درآنحالیکہ وہ مومن ہے اور کوئی زانی زنا نہیں کرتا درآنحا لیکہ وہ مومن ہے.بدکرداریوں سے نجات اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جبکہ یہ بصیرت اور معرفت پیدا ہو کہ خدا کا غضب ایک ہلاک کرنے والی بجلی کی طرح گرتا اور بھسم کرنے والی آگ کی طرح تباہ کر دیتا ہے تب عظمت الٰہی دل پر ایسی مستولی ہو جاتی ہے کہ سب افعال بد اندر ہی اندر گداز ہو جاتے ہیں.نجات پس نجات معرفت میں ہی ہے معرفت ہی سے محبت بڑھتی ہے اس لیے سب سے اوّل معرفت کا ہونا ضروری ہے.محبت کے زیادہ کرنے والی دو چیز یں ہیں حسن اور احسان جس شخص کو اللہ جَلَّ شَانُہٗ کا حُسن اور احسان معلوم نہیں وہ کیا محبت کرے گا؟ چنا نچہ اللہ تعالیٰ ۱الحکم جلد ۷ نمبر ۲۰ مورخہ ۳۱؍مئی ۱۹۰۳ءصفحہ ۱۳، ۱۴
کرے گا؟ چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ (الاعراف:۴۱) یعنی کفّار جنّت میں داخل نہ ہوں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے گذر نہ جائے.مفسرین اس کا مطلب ظاہر ی طور پر لیتے ہیں مگر میں یہی کہتا ہوں کہ نجات کے طلبگار کو خدا کی راہ میں نفس کے شتر بے مہار کو مجاہدات سے ایسا دبلا کر دینا چاہیے کہ وہ سوئی کے ناکہ میں سے گذر جائے جب تک نفس دنیوی لذائذ و شہوانی حظوظ سے موٹا ہوا ہوا ہے تب تک یہ شریعت کی پاک راہ سے گذر کر بہشت میں داخل نہیں ہوسکتا.دنیوی لذّات پر موت وارد کرو اور خوف وخشیت الٰہی سے دبلے ہو جاؤ تب تم گذرسکو گے اور یہی گذرنا تمہیں جنّت میں پہنچا کر نجات اخروی کا موجب ہوگا.۱ (مجلس قبل ازعشاء ) پابندی رسوم کا اثر ایمان پر فرمایا.قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ( اٰل عـمران:۳۲) اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کا ایک یہی طریق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی فرمانبرداری کی جاوے.دیکھا جاتا ہے کہ لوگ طرح طرح کی رسومات میں گرفتار ہیں کوئی مَر جاتا ہے توقِسم قِسم کی بدعات اور رسومات کی جاتی ہیں حالانکہ چاہیے کہ مُردہ کے حق میں دعا کریں.رسومات کی بجاآوری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف مخالفت ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ہتک بھی کی جاتی ہے اور وہ اس طرح سے کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو کافی نہیں سمجھا جاتا اگر کافی خیال کرتے تو اپنی طرف سے رسومات کے گھڑنے کی کیوں ضرورت پڑتی.فرمایا کہ انسان کی وہ غلطی تو معاف ہوسکتی ہے جو کہ یہ نادانی سے کرتا ہے مثلاً آنحضرت کے زمانہ کے بعدفیج اعوج کے زمانہ میں طرح طرح کی غلطیاں پھیل گئیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ مسیحؑ فوت نہیں ہوئے اور اسی جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر موجود ہیں.
(اس مقام پر حضرت اقدس نے مسیح کی وفات کے دلائل مختصراً جامع طور پر بیان فرمائے ) اور پھر ان کے بعد ایک تقریر اس مضمون پر فرمائی کہ ہماری جماعت سے کیوں بعض لوگ طاعون سے مَر جاتے ہیں.اور فرمایا کہ ہمیشہ انجام پر نظر چاہیے آخر کار مومن ہی کامیاب ہوتا ہے اور پھر ایک التباس بھی ہوتا ہے کہ جس پر ہر ایک کو ایمان لا ناچاہیے اگر التباس نہ ہو تو ایمان ایمان نہیں ہوسکتابعض کام تو اس لیے کئے جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت پوری ہو جاوے اور بعض اس لیے ظہور میں آتے ہیں کہ انسان تدبر کریں اگر التباس نہ ہوتا تو تدبر کرنے والوں کو ثواب کیسے حاصل ہوتا اور ایمان کے کیامعنے ہوتے.اگر موت صرف ہمارے دشمنوں کے واسطے ہی ہو تو پھر کون بیوقوف ہے جو کہ ظاہری موت کو دیکھ کر مسلمان نہ ہو جاوے یوں تو لوگ بیشک خدا کے سوا اَوروں کی عبادت کرتے ہیں مثلاً بعض ہندو قبروں کی بھی پوجا کرتے ہیں تو جب ایسے لوگ دیکھ لیویں کہ عافیت تو صرف خدا کے ایک ماننے والوں کے پاس ہے تو ان کو ایمان سے کون سی شَے روک سکتی ہے؟۱ ۱۴؍مئی ۱۹۰۳ء (بوقت ِظہر) نجات کے واسطے اعمال کی ضرورت ہے ایک ذکر پر فرمایا کہ صدق اور عاجزی کام آتی ہے مگر یہ کسی کا اختیار نہیں ہے کہ کسی کو ہاتھ ڈال کر سیدھا کر دیوے ہر ایک انسان کی نجات کے واسطے اس کے اپنے اعمال کا ہونا ضروری ہے بوستان میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک بادشاہ نے ایک اہل اللہ کو کہا کہ میرے لیے دعا کرو کہ میں اچھا ہو جاؤں اس نے جواب دیا کہ میرے ایک کی دعا کیا کام کرے گی جبکہ ہزاروں بے گناہ قیدی تیرے لیے بددعا کرتے ہیں اس نے یہ سن کر تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا.(مجلس قبل ازعشاء) ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۹؍مئی ۱۹۰۳ءصفحہ ۱۴۵
فرمایا کہ اس وقت صدہا فرقہ ہیں اگر ایک الٰہی فرقہ بھی ہو گیا تو کیا حرج ہے؟ خدا معلوم کیوں ان لوگوں نے شور مچا رکھا ہے....ہمارا خدا بائیس برس سے زیادہ سے ہماری امداد کر رہا ہے اور ان لوگوں کی کچھ پیش نہ گئی بد دعا کرتے کرتے ان کے ناک بھی گھس گئے اور ہمیں تجربہ ہے کہ ہمارا وہی خدا ہے جس کی کلام ہم پر نازل ہوتی ہے اب اس کے مقابل پر ان کے ظنّیات کس کام کے ہیں؟ جس حَکم کے وہ منتظر ہیں آخر اس نے بھی آکر ایک ہی فرقہ بنانا ہے ان کی باتوں کا اکثر حصہ آکر وہ ردّ ہی کرے گا تو ہی ایک فرقہ بنا سکے گا پھر کیوں تقویٰ اجازت نہیں دیتا کہ ان کی باتیں ردّ کی جاویں؟ کتاب اللہ ہمارے ساتھ ہے حدیث بھی پکّی سے پکّی ہمارے ساتھ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیحؑ کو مُردوں میں معراج کی رات میں دیکھ کر آئے ادھر خدا کی قولی شہادت ادھر آنحضرت کی فعلی شہادت کہ مسیحؑ فوت ہو گئے.قاعد ہ کی بات ہے کہ محبت اور ایمان کے لیے اسباب ہوتے ہیں مسیحؑ کی زندگی پر نظر کرو تو معلوم ہوگا کہ ساری عمر دھکے کھاتے رہے صلیب پر چڑھنا بھی مشتبہ رہا ادھر ایک لمبا سلسلہ عمراور سوانح کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھو کہ کیسے نصرت الٰہی شامل رہی ہر ایک میدان میں آپ کو فتح ہوئی کوئی گھڑی یاس کی آپ پر گذری ہی نہیں یہاں تک کہ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ (الفتـح:۲) کا وقت آگیا ان تمام نصرتوں میں کوئی حصہ بھی حضرت مسیح کا نظر نہیں آتا اس سے صاف ثابت ہے کہ محبت آنحضرت کی خدا سے زیادہ ہو نہ کہ مسیح کی کیونکہ آنحضرت پر اللہ تعالیٰ کے انعامات بکثرت ہیں اور اس لیے صرف آنحضرت کی یہ شان ہوسکتی ہے کہ وہ آسمان پر زندہ ہوں جو شخص نظارہ قدرت زیادہ دیکھتا ہے وہی زیادہ فریفتہ ہوا کرتا ہے.اور اب اگر مسیحؑ آویں بھی تواس میں اسلام کی اور خود مسیحؑ کی بے عزّتی ہے اسلام کی بے عزّتی اس طرح کہ کہنا پڑے گا کہ خاتم النّبیّین کے بعد ایک اور پیغمبر اسرائیلی آیا اور مسیحؑ کی بے عزّتی اس طرح کہ ان کو آکر انجیل چھوڑنی پڑے گی.۱ ۱البدر جلد ۲ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۹؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴۶
۱۸؍مئی ۱۹۰۳ء (مجلس قبل ازعشاء) قرآن کی ایک پیشگوئی کا پورا ہو نا اِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا(بنی اسـرآءیل:۵۹) کوئی ایسا گاؤں نہیں مگر روز قیامت سے پہلے پہلے ہم اس کو ہلاک کرکے رہیں گے یا اس کو سخت عذاب دیویں گے قرآن میں یہ ایک پیشگوئی ہے.فرمایا کہ یہ اب پنجاب پر بالکل صادق آرہی ہے بعض گاؤں تواس سے بالکل تباہ ہوگئے ہیں اور بعض جگہ بطور عذاب کے طاعون جا کر پھر ان کو چھوڑ دیتی ہے.قوم کی حالت امریکہ اور یورپ کے بلاد میں حضرت مسیحؑ کی نسبت جوایک انقلاب عظیم خیالات میں ہورہا ہے اور جس کا ذکر ہم ’’البدر‘‘ کے ایک آرٹیکل بعنوان ’’کسر صلیب کا دروازہ کھل گیا ہے ‘‘ کر چکے ہیں اس پر ذکر ہوتے ہوئے فرمایاکہ لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْۤ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ(الملک:۱۱) سے معلوم ہوتا ہے کہ سماع اور عقل انسان کو ایمان کے واسطے جلد تیار کر دیتی ہے.ہماری قوم میں نہ سماع ہے نہ عقل ہے.دل میں یہی ٹھانی ہوئی ہے کہ تردید کریں پیشگوئیوں کو جھوٹا ثابت کریں نص اور اخبار کی تکذیب کریں.کشوف وغیرہ جو اولیائے کرام کے ہماری تائید میں ہیں ان سب کو جھوٹا کہہ دیں.غرضیکہ یہ سماع کا حال ہے.اب عقل کا سن لوکہ نظائر پیش نہیں کرسکتے کہ کوئی اس اَمر کا ثبوت دیں کہ سوائے مسیح کے اور بھی کچھ آدمی زندہ آسمان پر گئے ایک بات کو دیکھ کر دوسری کو پیدا کرنااس کا نام عقل ہے سواس کو انہوں نے ہاتھ سے دے دیا ہے دونوں طریق (سماع اور عقل ) قبولِ حق کے تھے سووہ دونوں کھو بیٹھے مگر یہ لوگ (اہل امریکہ و یورپ) غور کرتے ہیں اگرچہ سب نہیں کرتے مگر ایسے پائے تو جاتے ہیں جو کرتے ہیں جس حال میں کہ وہ مانتے ہیں کہ مسیحؑ کے دوبارہ آنے کا زمانہ یہی ہے اور اس کی موت کے بھی قائل ہیں تودیکھ لو کہ وہ لوگ کس قدر
قریب ہیں.اس قوم کا اقبال اب بڑھ رہا ہے اور مسلمانوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ دن بدن گرتے جاتے ہیں اور وہ منتظر ہیں کہ مسیحؑ اور مہدی ؑ آتے ہی تلوار اٹھا لیوے گا اورخون کی ندیاں بہادے گا.کمبخت دیکھتے نہیں کہ مسلمانوں کے پاس نہ تو فنونِ حرب ہیں نہ ان کے پاس ایجاد کی طاقت ہے نہ استعمال کی استعداد ہے.جنگی طاقت نہ بحری ہے نہ بری تو یہ زمانہ ان کے منشا کے موافق کیسے ہوسکتا ہے اورنہ خدا کا یہ ارادہ ہے کہ جنگ ہو، کیا تعجب ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں کو یہ سمجھ دے دیوے کیونکہ فہم، دماغ اور اقبال کے ایام انہیں کے اچھے ہیں اصل علم وہی ہے جو خدا کے پاس ہے زمانہ وہی ہے جس کا وعدہ تھا مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ نکمے، فاسق، فاجراور کاہل بھی ہیں تو پھر بجز اس کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ خدا اسی گروہ میں سے ایسے پیدا کر دے کہ وہ خود ہی سمجھ جاویں.خدا تعالیٰ کو توپ اور بندوق کی کیا حاجت ہے اس نے بندوں میں ہدایت پھیلانی ہے یا ان کو قتل کرنا ہے؟ زمانہ کی موجودہ حالت خود دلالت کرتی ہے کہ یہ زمانہ علمی رنگ کا ہے اگر کسی کو مارمار کر سمجھا ؤ بھی تووہ بات دل میں نہیں بیٹھتی لیکن اگر دلائل سے سمجھایا جاوے تو وہ دل پر تصرف کرکے اس میں دھس جاتی ہے اور انسان کو سمجھ آ جاتی ہے.آنحضرت کے زمانہ کی حالت اور تھی اس وقت لوہے سے اور طرح کام لیا گیا تھا اب ہم بھی لوہے سے ہی کام لے رہے ہیں مگر اور طرح سے کہ لوہے کے قلموں سے رات دن لکھ رہے ہیں.میری رائے یہی ہے کہ تلوار کی اب کوئی ضرورت نہیں.عیسائی بھی جہالت میں ڈوبے ہیں اور مسلمان بھی.حکمت الٰہی چاہتی ہے کہ رفق اور محبت سے سمجھایا جاوے مثلاً ایک ہندو ہے اگر دس بیس مسلمان ڈنڈے لے کر اس کے پیچھے پڑجاویں تووہ ڈر کے مارے لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ تو کہہ دے گا لیکن اس کا کہنا ایسا بودا ہوگا کہ بالکل مفید نہیں ہوسکتا اور رفق اور محبت سے سمجھا یا جاوے تووہ دل میں جم جاوے گا حتی کہ اگر اس کو زندہ آگ میں بھی پھونک دوتو بھی وہ اس کے کہنے سے باز نہ آوے گا.اَسْلَمْنَا(الـحجرات:۱۵) ہمیشہ لاٹھی سے ہوتا ہے اور اٰمَنَّا اس وقت ۱البدر جلد ۲ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۹ ؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴۶،۱۴۷
ہوتا ہے جب خدا دل میں ڈال دے.ایمان کے لوازم اَور ہوتے ہیں اور اسلام کے اَور، اسی لیے خدا نے اس وقت ایسے لوازم پیدا کئے کہ جن سے ایمان حاصل ہو مسلمان تو اپنی موجودہ حالت کے لحاظ سے خود اس قابل ہیں کہ انہی سے جہاد کیا جاوے اب تو وہ زمانہ ہے کہ بچوں کی طرح دین کی باتیں لوگوں کو سمجھا ئی جاویں.۱ ۱۹؍مئی ۱۹۰۳ء (بعد نماز فجر) ایک رؤیا اور الہام حضرت اقدس نے فرمایا کہ ۱۲ بجے کے قریب میں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ کوئی کہتا ہے کہ یہ فتح ہو گئی.بار بار اسے تکرار کرتا ہے گویا کہ بہت سی فتوحات کی طرف اشارہ ہے.اس کے بعد طبیعت وحی کی طرف منتقل ہوئی اور الہام ہوا.مجموعہ فتوحات.(مجلس قبل از عشاء ) اپنی صداقت پر گفتگو فرماتے رہے اور اس اَمر پر ذکر فرمایا کہ خدا جھوٹے سے اتنا عرصہ دراز یارانہ نہیں لگایا کرتا اگر ہم مفتری ہوتے تو آج تک تباہ اور ہلاک ہو جاتے.۱البدر جلد ۲ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۹؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴۷ ۲البدر میں ہے.’’حضرت اقدس نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ (الطلاق:۴) اس کے یہ معنے ہیں کہ مومن جوبات یقین سے کہے وہ پوری ہوجاتی ہے لفظوں کی پابندی اس میں ضروری نہیں ہے ہاں انسان کو یہ آیت قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشمس:۱۰) ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ گناہ سے بچا رہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۵؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۳)
بیّنات ومتشابہات پیشگوئیوں کے ہمیشہ دو حصے ہو اکرتے ہیں اور آدمؑ سے اس وقت تک یہی تقسیم چلی آرہی ہے کہ ایک حصہ متشابہات کا ہوا کرتا ہے اور ایک حصہ بیّنات کا.اب حدیبیہ کے واقعات کو دیکھا جاوے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تو سب سے بڑھ کر ہے مگر علم کے لحاظ سے میں کہتا ہوں کہ آپ کا سفر کرنا دلالت کرتا تھا کہ آپ کی رائے اسی طرف تھی کہ فتح ہو گی.نبی کی اجتہادی غلطی جائے عار نہیں ہوا کرتی.اصل صورت جو معاملہ کی ہوتی ہے وہ پوری ہوکر رہتی ہے انسان اور خدا میں یہی توفرق ہے.۱ ۲۵؍مئی ۱۹۰۳ء (دربارِ شام ) تزکیہ نفس ایک استفسار کے جواب میں کہ آج کل کے پیراور گدی نشین وظائف وغیرہ مختلف قسم کے اَوراد بتاتے ہیں.آپ کا کیا ارشاد ہے؟ فرمایا کہ مومن جو بات سچے یقین سے کہے وہ ضرور مؤثر ہوتی ہے۲ کیونکہ مومن کا مطہر قلب اسرار الٰہی کا خزینہ ہے جو کچھ اس پاک لوح انسانی پر منقّش ہوتا ہے وہ آئینہ خدا نما ہے.مگر انسان جب ضعفِ ۱ البدر سے.’’جب انسان گناہ کر لیتا ہے اور وہ اس کی کوئی پروا نہیں کرتا تو دل سخت ہوجاتا ہے اور جب دل سخت ہوجاوے تو پاک نہیں ہوا کرتا جب تک کہ پھر نرم نہ ہو اور نرم نہیں ہوتا جب تک کہ نمازوں میں دعائیں نہ کرے.انسان توبہ پر توبہ کرکے توڑ دیتا ہے اور اس پر کاربند نہیں ہوسکتا جب تک خدا تعالیٰ ساتھ نہ ہو.اس پر قدرتی طور پر یہ سوال ہوتا ہے کہ پھر گناہ کا علاج کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ سچی خشوع اور خضوع پیدا کرو اور اپنی دعائوں کو انتہا تک پہنچائو.انبیاء علیہم السلام بھی دُعائیں ہی کیا کرتے تھے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۵؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۳) ۲البدر میں ہے.’’اگر یہ خدا تعالیٰ کے لشکر کی طرف جھک جاوے اور اس سے مدد طلب کرے تو اس گناہ سے بچایا جاتا ہے جو کہ شیطان کے لشکر کی وجہ سے اس سے سر زد ہونا ہوتا ہے اور اگر خدا کے لشکر کی مدد حاصل نہیں کرتا تو شیطان کے لشکر میں پھنس جاتا ہے.‘‘(البدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۵؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۳) ۳البدر میں ہے.’’اول یہ کہ انسان خود کوشش کرے لیکن یہ کوشش ناکافی ہوا کرتی ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۵؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۳)
ضعفِ بشریت سے سہوو گناہ کر بیٹھتا ہے اور پھر ذرّہ بھی اس کی پروا نہیں کرتا تو دل پر سیاہ زنگ بیٹھ جاتا اور رفتہ رفتہ قلب انسانی کہ خشیتِ الٰہی سے گداز اور شفاف تھا سخت اور سیاہ ہوتا جاتا ہے.۱ مگر جونہی انسان اپنی مرضِ قلب کو معلوم کرکے اس کی اصلاح کے در پے ہوتا ہے اور شب وروز نماز میں دعائیں، استغفار وزاری وقلق جاری رکھتا ہے اور اس کی دعائیں انتہاکو پہنچتی ہیں تو تجلیاتِ الٰہی اپنے فضل کے پانی سے اس ناپاکی کو دھو ڈالتی ہیں اور انسان بشرطیکہ ثابت قدم رہے ایک قلب لے کر نئی زندگی کا جامہ پہن لیتا ہے گویا کہ اس کا تولد ثانی ہوتا ہے.دو زبر دست لشکر ہیں جن کے درمیان انسان چلتا ہے ایک لشکر رحمٰن کا دوسرا شیطان کا.اگر یہ لشکر رحمن کی طرف جھک جاوے اور اس سے مدد طلب کرے تو اس سے بحکمِ الٰہی مدد دی جاتی ہے اور اگر شیطان کی طرف رجوع کیا تو گناہوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے.۲ پس انسان کو چاہیے کہ گناہ کی زہریلی ہوا سے بچنے کے لئے رحمٰن کی حفاظت میں ہوجاوے.وہ چیز جو انسان اور رحمٰن میں دُوری اور تفرقہ ڈالتی ہے وہ فقط گناہ ہی ہے جو اس سے بچ گیا اس نے اللہ تعالیٰ کی گود میں پناہ لی.دراصل گناہ سے بچنے کے لیے دوہی طریق ہیں.اوّل یہ کہ انسان خود کوشش کرے.۳ دوسرے اللہ تعالیٰ سے جو زبردست مالک و قادر ہے استقامت طلب کرے یہاں تک کہ اسے پاک زندگی میسر آوے اور یہی تزکیہ نفس کہلاتا ہے.۱ اَورادو وَظائف اور بندوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انعامات و اکرامات ہوتے ہیں وہ محض اللہ پاک کے فضل و کرم سے ہی ہوتے ہیں.پیروں، فقیروں، صوفیوں گدی نشینوں کے خود تراشیدہ درود، وظائف، طریق و رسومات سب فضول بدعات ہیں جو ۱ البدر میں ہے.’’اسی کا نام تزکیہ نفس ہے جب یہ ہوجاتا ہے تو انسان فلاح پاتا ہے اور اپنے سلوک کا انتہا کر دیتا ہے اس کے علاوہ اَور جو انعامات اور اکرامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آدمی کو ملتے ہیں وہ سب اس کے فضل سے مل سکتے ہیں.جیسے بنیا ہر روز اپنی کتاب پر حساب لکھتا ہے اور اسے کبھی نہیں بھولتا.اسی طرح مومن کو چاہیے کہ ہر وقت اپنا حساب یاد رکھے اور جب گناہ سر زد ہو تو اس سے کشتی کرے اور ہر وقت اس فکر میں رہے کہ گناہ سے بچایا جاوے اس طریق سے انسان گناہ سے بچ سکتا ہے.‘‘(البدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۵؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۳)
ہرگزہر گز ماننے کے قابل نہیں.اگر یہ لوگ کل معاملات دنیوی و دینی کو ان خود ساختہ بد عات سے بھی درست کرسکتے ہیں تو یہ ذرا ذرا سی بات پر کیوں تکرار کرتے لڑتے جھگڑتے حتی کہ سرکاری عدالتوں میں جائز و ناجائز حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں.یہ سب باتیں در اصل وقت کا ضائع کرنا اور خدا داد دماغی استعدادوں کا تباہ کرنا ہے.انسان اس لیے نہیں بنایا گیا کہ لمبی تسبیح لے کر صبح و شام تمام لوازمات و حقوق کو تلف کرکے بے تو جہگی سے سبحان اللہ سبحان اللہ میں لگا رہے.اپنا اوقاتِ گرامی بھی تباہ کرے اور خود اپنے قویٰ کو تباہ کرے اور اَوروں کے تباہ کرنے کے لیے شب وروز کوشاں رہے.اللہ تعالیٰ ایسی معصیت سے بچاوے.الغرض یہ سب باتیں سُنّتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑنے سے پیدا ہوئیں.یہ حالت ایسی ہے جیسے پھوڑا کہ اندر سے تو پیپ سے بھرا ہوا ہے اور باہر سے شیشے کی طرح چمکتا ہے.زبان سے تو وِرد و وظائف کرتے ہیں اور اندرونے بدکاری و گناہ سے سیاہ ہوئے ہوئے ہیں.انسان کو چاہیے کہ سب کچھ خدا سے طلب کرے.جب وہ کسی کو کچھ دے دیتا ہے تو اس کی بلند شان کے خلاف ہے کہ واپس لے.تزکیہ وہی ہے جو انبیاء علیہم الصلوٰۃو السلام کے ذریعہ دنیا میں سکھایا گیا، پیدا کیا گیا.یہ لوگ اس سے بہت دور ہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں سارے دن میں چار دفعہ دم لیتا ہوں بعض فقط ایک یا دو دفعہ اس سے لوگ ان کو ولی سمجھ بیٹھتے ہیں اور ایسی واہیات دم کشی کو باعثِ فخر سمجھتے ہیں.حالانکہ فخر کے قابل یہ بات ہے کہ انسان مرضیاتِ الٰہی پر چل کر اپنے پیغمبر نبی کریمؐ سے صلح و آشتی پیدا کرے جس سے کہ وہ انبیاء کا وارث کہلائے اور صلحاء وابدال میں داخل ہو.اسی توحید کو پکڑے اور اس پر ثابت قدم رہے اللہ تعالیٰ اپنا غلبہ و عظمت اس کے دل پر بٹھادے گا.وظیفوں کے ہم قائل نہیں.یہ سب منتر جنتر ہیں جو ہمارے ملک کے جوگی ہندو سنیاسی کرتے
ہیں جو شیطان کی غلامی میں پڑے ہوئے ہیں.البتہ دعا کرنی چاہیے خواہ اپنی ہی زبان میں ہو.سچے اضطرا ب اور سچی تڑپ سے جناب الٰہی میں گداز ہوا ہو ایسا کہ وہ قادر الحی القیوم دیکھ رہا ہے.جب یہ حالت ہوگی تو گناہ پر دلیری نہ کرے گا جس طرح انسان آگ یا اور ہلاک کرنے والی اشیاء سے ڈرتا ہے ویسے ہی اس کو گناہ کی سوزش سے ڈرنا چاہیے.گناہگار زندگی انسان کے لیے دنیا میں مجسم دوزخ ہے جس پر غضبِ الٰہی کی سموم چلتی اور اس کو ہلاک کر دیتی جس طرح آگ سے انسان ڈرتا ہے اسی طرح گناہ سے ڈرنا چاہیے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی آگ ہے ہمارا مذہب یہی ہے کہ نماز میں رو رو کر دعائیں مانگو تا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے فضل کی نسیم چلائے دیکھو شیعہ لوگ کیسے راہِ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں حسین حسین کرتے مگر احکامِ الٰہی کی بے حرمتی کرتے ہیں.حالانکہ حسین کو بھی بلکہ تمام رسُولوں کو استغفار کی ایسی سخت ضرورت تھی جیسے ہم کو.چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النّبیّین کا فعل اس پر شاہد ہے.کون ہے جو آپ سے بڑھ کر نمونہ بن سکتا ہے.۱ ۲۷؍مئی ۱۹۰۳ء (بوقتِ ظہر) ایک صاحب نے عرض کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تو خدائے واحد پر لوگوں کا ایمان نہ تھا اس لئے بیعت کی ضرورت تھی مگر اب تو سب خدا کو مانتے ہیں پھر بیعت کی کیا ضرورت ہے؟ فرمایا کہ اب بھی توحیدکہاں ہے اس کا نام و نشان نہیں ہے جس طرح منافق صرف زبان سے کہہ چھوڑتے کہ ہم ایمان لائے ایسے ہی اب برائے نام خدا کا لفظ زبان پر آجاتا ہے جس کے اندر کوئی حقیقت نہیںہوتی کفر اور فسق کی زندگی بسر کر رہے ہیں.نجاست سے بھرا ہوا دل لوگوں کا ہے خود اگر اپنے دل ہی سے شہادت لو تو معلوم ہوگاکہ خدا سے کہاں تک تعلق ہے اور سچی توحید کہاں ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۵؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۴
ہے.نزول اور بعثت کا فرق جب زمانہ کی پلیدی حد درجہ تک پہنچتی ہے تو آسمان سے جو تائید یافتہ آتا ہے.اس پر نزول کا لفظ بولا جاتا ہے اور جب زمانہ کچھ سدھرا ہوا ہو تو بعثت کا لفظ اس کے موزوں ہوتا ہے.(قبل از عشاء) الہام فرمایا کہ یہ الفاظ الہام ہوئے ہیں.مگر معلوم نہیں کہ کس کی طرف اشارہ ہے.’’بلا نازل یا حادث یا‘‘ یاد نہیں رہا کہ یا کے آگے کیا تھا.رؤیا کا معاملہ بھی عجیب ہے پیچ در پیچ بات ہوتی ہے اور الگ الگ رنگ ہوتا ہے.صحابہ کرام کی شہادت کو آنحضرتؐنے گائیوں کے ذبح ہونے کے رنگ میں دیکھا.حالانکہ خدا اس بات پر بھی قادر تھا کہ خواب میں خاص صحابہ ہی کو دکھلا دیتا.شیطان سے مُراد فرمایا.شیطان سے مُراد مجسم شَے ہی نہیں ہوتی جیسے آج کل کے لوگ شیطان کے لفظ سے خیال کرتے ہیں کہ وہ کوئی لباس بھی پہنتا ہوگا بلکہ اس سے مُراد شیطانی وساوس ہوتے ہیں یا کوئی شریر النفس آدمی.۱ ۲۸؍ مئی ۱۹۰۳ء ۱۵؍ مئی ۱۹۰۳ء کو کالج تعلیم الاسلام کا افتتاحی جلسہ ہونا تھا مگر چونکہ حضرت اقدسؑ کی طبیعت ناساز تھی اور آپ شریک جلسہ نہ ہو سکتے تھے اس لئے وہ تاریخ ملتوی کر دی گئی لیکن گذشتہ ایام سے آپ کی ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۵؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۴ ۲ البدر میں اس سے پہلے یہ ذکر ہے کہ ’’بعد ادائے نماز مغرب حضرت اقدس نے ماہ ربیع الاوّل ۱۳۲۱ ہجری المقدس کا ماہ مبارک دیکھا اور پھر اس پر فرمایا کہ ’’ہر مہینہ اپنے اندر خیر اور شر کے لوازم رکھتا ہے اس لیے دعا کرنی چاہیے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۵؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۵)
طبیعت رو بصحت تھی اس لئے آج کی تاریخ اس جلسہ کے لئے مقرر کی گئی ساڑھے چھ بجے کے بعد احاطہ سکول میں جلسہ کا انتظام ہوا اور ہر ایک پروفیسر اور مدرس اور لڑکے کی آنکھ خدا کے محبوب اور برگزیدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد آمد پر لگی ہوئی تھی کہ اس اثنا میں مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے آکر اطلاع دی کہ حضرت اقدس نے مجھے ایک پیغام دے کر روانہ کیا ہے اور وہ اس طرح سے ہے کہ میں نے حضرت خلیفۃ اللہ علیہ السلام کی خدمت میں تشریف آوری کے واسطے عرض کی تھی آپ نے فرمایا کہ میں اس وقت بیمار ہوں حتی کہ چلنے سے بھی معذور ہوں لیکن وہاں حاضر ہونے سے بہت بہتر کام یہاں کر سکتا ہوں کہ ادھر جس وقت افتتاح کا جلسہ شروع ہوگا میں بیت الدعا میں جا کر دعا کروں گا.۱ (دربارِ شام) مولوی۲ محمد علی صاحب ایم.اے نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ عیسائیوں کی طرف سے بھی ایک میگزین سہ ماہی رسالہ نکلنا شروع ہوا ہے.اس میں پادری صاحب نے لکھا ہے کہ مسلمان عیسائیت اس لیے قبول نہیں کرتے کہ ان کے دل سخت اور گناہ آلودہ ہیں.عیسائیت اور اسلام فرمایاکہ جب انسان تعصب اور فاسقانہ زندگی سے اندھا ہوجاتا ہے تو اسے حق اور باطل میں فرق نظر نہیں آتا.ہر ایک حلال کو حرام اور ۱ البدر میں مزید لکھا ہے.’’شراب جو اُمّ الخبائث ہے اسے حلال سمجھا گیا ہے.اس سے انسان خشوع خضوع سے جو کہ اصل جزو اسلام ہے بالکل بے خبر ہوجاتا ہے.ایک شخص جو کہ رات دن نشہ میں رہتا ہے ہوش اس کے بجا ہی نہیں ہوتے تو اسے دوسری بدیوں کے ارتکاب میں کیا رکاوٹ ہوسکتی ہے؟ موقع موقع پر ہر ایک بات مثل زنا.چوری.قمار بازی وغیرہ کر سکتا ہے.ہماری شریعت نے قطعاً اس کو بند کر دیا ہے اور یہاں تک لکھ دیا ہے کہ یہ شیطان کے عمل سے ہے تاکہ خدا کا تعلق ٹوٹ جاوے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۵؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۵) ۲ نوٹ از ایڈیٹر.اس موقع پر حضرت حکیم الامت نے ایک قصہ سنایا کہ جب انہوں نے ایک شاکت مت
والے.۲ حضرت اقدس نے پھر اپنی تقریر کو شروع کیا اور فرمایا کہ یورپ اور اسلامی ممالک کا موازنہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ ایک شریف آدمی جب خلافِ واقعہ بات سنتا ہے اور پھر اس پر اصرار کرتا ہے تو دل میں سخت رنجیدہ ہوتا ہے.ہمارا سوال تو یہ ہے کہ پادری صاحب سے پوچھا جاوے کہ گناہ سے تمہاری کیا مُراد ہے؟ آیا زنا،چوری، فریب، قتل، قمار بازی، شراب نوشی تمہارے نزدیک گناہ میں داخل ہیں یا نہیں.اگر ہیں تو کیا یورپ کی حالت اسلامی ممالک کی حالت سے بہتر ہے یا ابتر یا مساوی.صغائر کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے.مثلاً ایک شخص بد نظری میں مبتلا ہے.ممکن ہے کہ اس عورت کو خبر ہی نہ ہو جس پر بد نظری کرتا ہے.لیکن ایک شخص جو زنا کرتا، شراب پیتا ہے اس کی خبر ایک دنیا کو ہوگی.ان جرائم کا اس قدر زور ہے کہ چھپائے سے چھپ سکتا ہی نہیں.قمار بازی میں اتلافِ حقوق ہوتا ہے.شراب نوشی کے ساتھ دوسرے گناہ مثل زنا،قتل وغیرہ لازمی پڑے ہوئے ہیں جہاں تک ہمیں مجرموں کے حالات سے شہادت ملتی ہے وہ یہ ہے کہ شراب سے زنا ترقی کرتا ہے.چنانچہ شراب نوشی میں اس وقت یورپ اوّل درجہ پر ہے اور زنامیں بھی اوّل نمبر پر.اب دیکھئے کہ پردہ کی رسم ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ جیسا کتاب اللہ نے بتایا ہے اور تجارب نے اس کی تصدیق کی ہے سچا تزکیہ نفس جو مجاہدات سے پیدا ہوتا ہے وہ پردہ سے ہی حاصل ہوتا ہے.مومنوں کے تین طبقے ہیں.ایک وہ جو ٹھوکر کھانے کے لائق ہوتے ہیں.۱البدر میں ہے.’’ اور تیسرے درجہ والے دور کے ستاروں کی طرح ہیں اس لیے بلحاظ کثر ت کے خدا کے قانون نے چاہا کہ پر دہ کی رسم عا م ہو.تجا رب اور نظا ئر بھی بتلا رہے ہیں.یو رپ اور امر یکہ اور فرانس کی سیر کرو تو پتا لگے گا.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۰مورخہ ۵؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۵) ۲ الحکم جلد ۷نمبر ۲۲ مورخہ ۱۷؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷
دوسرے وہ جو میانہ رَو.کسی ٹھوکر سے بچتے اور ڈرتے رہتے ہیں.تیسرے وہ جو ہر ایک ٹھوکر سے ایسے بچ کر نکل جاتے ہیں جیسے کہ سانپ اپنی کینچلی سے.وہ ہر ایک خیر کے لئے دوڑتے اور ہر ایک شر سے بھاگتے ہیں.جن لوگوں نے اپنے تزکیہ کا خیال نہیں کیا وہ بالضرور بے پردگی سے ٹھوکر کھا سکتے ہیں.عورتوں کو ان سے پردہ کرنا چاہیے.مثل مشہور ہے کہ ع خر بستہ بہ گرچہ دزد آشنا است قسم اوّل ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ.دوم مُقْتَصِدٌ.سوم سَابِقٌۢ بِالْخَيْرٰتِ ان مختلف مدارج و مراتب کے اشخاص کیسے یکساں سلوک کے لائق ہیں؟کیا عیسائی بتا سکتے ہیں کہ ان میں سب پاکباز ہیں.شرابی نہیں، زانی نہیں.اگر پردہ ہوتا تو ان جرائم کی نوبت کیوں آتی ہزار ہا ولد الحرام کیوں پیدا ہوتے.تجربہ بتا رہا ہے اوّل قسم کے لوگ بکثرت ہیں.۱ اس لیے ان سے حتی الوسع پردہ کرنے کے لیے شریعت نے مجبور کیا کہ پردہ کی رسم ہو.شرابی آدمی کو طعن و تشنیع کا فکر ہے نہ ڈنڈے کا خوف.اس لیے عیسائیوں کا اسلام پذیر ہونا محالات سے ہے.۲ ۲۹ ؍مئی ۱۹۰۳ء (دربارِ شام ) آج حضرت اقدس نے بہت سے احباب کی بیعت کے بعد تقریر فرمائی.فرمایاکہ نومبایعین کو نصائح اب تم لوگ جو بیعت میں داخل ہوئے ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ تم نے عہد کیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عہد
تمہارا اللہ کے ساتھ ہے جہاں تک ممکن ہو اس عہد پرمضبوط رہنا چاہیے نمازوروزہ، حج وزکوٰۃ امور شرعی کا پابند رہنا چاہیے اور ہر ایک برائی اور شائبہ گناہ سے اجتناب کرنا چاہیے.ہماری جماعت کو ایک پاک نمونہ بن کر د کھانا چاہیے زبانی لاف وگزاف سے کچھ نہیں بنتا جب تک انسان کچھ کرکے نہ دکھائے.تم دیکھتے ہو کہ طاعون سے کس قدر لوگ ہلاک ہو رہے ہیں گھروں کے گھر برباد ہو رہے ہیں اور ابھی تک معلوم نہیں کہ یہ تبا ہی کب تک جا ری رہے طاعون لوگوں کی بد اعمالی کے سبب غضب الٰہی کی صورت میں بھیجی جاتی ہے یہ بھی ایک طرح کی رسول ہے.جو اس کام کو کر رہی ہے ہزاروں ہیں جو اپنے سامنے ہلاک شدہ لوگوں کے پشتے پر پشتے دیکھتے ہیں.خاندان کے خاندان تباہ ہو گئے ہزاروں لاکھوں بچے بے پدر، لاکھوں خاندان بے ٹھکا نہ ہو گئے جہاںیہ پڑی ہے بے نام و نشان اس جگہ کو کر دیا بعض گھروں میں کیا محلوں اور گا ؤں میں کوئی آباد ہونے والا ۱ البدر میں ہے.’’عیسائیوں کی لگاتار یہ کوشش ہے کہ کسی طرح اسلام کا نا م زمین سے مٹ جا وے اور اب خدا چاہتا ہے کہ از سرِ نو اسلام کو زندہ کر ے.سا بقہ کتب میں ان باتوں کا ذکر تھا کہ مسلمانوں کو ایک ز حمت اندرونی ہو گی ایمان اٹھ جا وے گا دنیا کے کیڑے ہو جاویں گے جو محبت خدا سے چاہیے وہ دنیا سے کریں گے.دوستی محبت میل ملاپ سب دنیا کے واسطے ہو گا.دوسری بَلا اور آفت یہ ہو گی کہ ایک انسان کی پرستار عیسائی قوم ان کو گمرا ہ کر نے پر کمر بستہ ہو گی سو تم دیکھتے ہو کہ انہوں نے مکر کا جا ل کیسا پھیلایا ہے.شہر بہ شہر ان کے پادری موجود ہیں.عورتیں ہر جگہ پھر تی ہیں گاؤں میں چھاؤنیاں ڈا لی ہوئی ہیں ان کا ارادہ ہے کہ ایک مسلمان بھی دنیا میں نہ رہے.من گھڑت باتیں بناکر آنحضرتؐکی بے اد بیا ں کرتے ہیں اور رات دن اس کوشش میں ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلما نوں کے دل بیزار ہوں.حا ل کے مسلمان جن کی مت ما ری گئی ہے.بد قسمتی سے اندھے ہو گئے ہیں.وہی بات کرتے ہیں کہ اسلام کو فا ئد ہ نہ پہنچے اور عیسائیوں کو پہنچے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۶۳ برس کہتے ہیں اور مسیح کو قیامت تک زندہ ما نتے ہیں پھر یہ کہ آخر ی ز ما نہ میں وہی آو ے گا.حَکم اور قاضی بھی وہی ہو گا.دوسری بات یہ مانتے ہیں کہ وہ خالق بھی ہے.جانور اس نے بنائے مُردہ اس سے زندہ ہو گئے.غرض کہ اس قسم کی باتوں سے عیسائیوں کی اس قدر تائید کرتے ہیں کہ ان میں اور عیسائیوں میں صرف انیس اور بیس کا فرق رہ جاتا ہے.جس قدر باتیں یہ مسیحؑ کی نسبت کرتے ہیں ویسی ایک بھی آنحضرتؐکی نسبت نہیں کرتے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۰مورخہ ۵؍ جو ن ۱۹۰۳ء صفحہ۱۵۶)
نہیں رہا.انسانوں سے گذر کر حیوانوں کو تباہ کیا.گویا یہ بات کہ انسان کے گناہ سے تمام زمین لعنتی ہو گئی.اب گویا اہل زمین کیا چر ند، کیا پر ند انسان کی بد کاری کے بد لے پکڑے جا رہے ہیں.لوگوں میں با وجود اس کے کہ سخت سے سخت عذاب میں مبتلا ہیں.مگر ویسے ہی رعونت و کبرسے مخمور پھر تے ہیں موت کا خوف دل سے اٹھ گیا اللہ تعالیٰ کی عزّت کا پاس دل میں نہیں رہا عوام تو عوام خواص کا یہ حال ہے کہ دنیا پرستی میں سخت جکڑے ہوئے ہیں خدا کا نام فقط زبان پر ہی ہے.اندرونہ بالکل اللہ تعالیٰ کی محبت وخشیت سے خالی ہے.۱ وفات ِمسیحؑ مسیح کی وفات کا کیا معاملہ تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ (المائدۃ:۱۱۸) بخاری میں مُتَوَفِّيْكَ کے معنے صاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی مُـمِیْتُکَ ۱ البدر سے.’’ ایک طرف نہ ان میں تقویٰ الٰہی نہ طہارت.ایک طر ف عیسائی غالب آگئے کئی لاکھ ر سا لہ ہر ما ہ عیسائیوں کی طرف سے نکلتے ہیں جن میں افترا، عیب شماری اورہتک ِاسلام کے مضامین ہوتے ہیں جس حالت میں خدا نے اسلام کی نسبت کہا کہ وہ قیامت تک زندہ مذہب ہو گا وہ اسلام کی اس حالت کو کیسے دیکھے.اگر اب بھی وہ مجدّد نہ بھیجے حا لا نکہ سوسال صدی کے گذرگئے ۲۰ سال اور بھی اوپر ہوئے تو اب اندازہ کر لو کہ اور ایک صد سال تک اسلام کا کیا حا ل ہو گا؟ ۱۰۰ برس بعد مجدّد آنے میں یہ حکمت ہے کہ ایک سو سال کے گذر نے تک پہلے علم والے گذر جاتے ہیں اور اپنی باتیں اپنے سا تھ قبر میں لے جاتے ہیں.اگر نئے علوم پھر خدا نہ بتلا دے تو حق کیسے قائم رہے؟ چونکہ علم میں فرق آجاتا ہے اس لیے آسمان پر ایک نئی بنیا د ڈا لی جاتی ہے.تم دیکھتے ہو کہ صدی گذرگئی اور اس پر ۲۰ برس اور بھی گذرگئے اب خدا نے ایک سلسلہ قائم کیا اور مجھے مسیح موعود بنایا.یہ بات بنا وٹی نہیں ہے اس کے واسطے نشا نیا ں ہیں.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۵؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ۱۵۶) ۲ البدر سے.’’لکھا ہوا تھا کہ چاند اور سورج کا گرہن ما ہ رمضا ن میں ہو گا ویسے ہی ہوا پھر طاعون لکھی تھی کتابوں سے معلو م ہوتا ہے کہ اس کی عمر ستر ستر بلکہ پچہتر برس کی ہوتی ہے ابھی توکے آمدی اور کے پیر شدی کا معاملہ ہے یہ خدا کی آفت ہے فیصلہ کرکے چھوڑے گی سب انبیاء نے اس کی خبر دی ہے.قرآن شریف میں اس کا ذکر ہے جیسے کہ لکھا ہے اِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا (بنی اسـرآءیل:۵۹)‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۵؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ۱۵۶)
آیا حدیث کے فرمو دہ کے مطابق چودہویں صدی کے سر پر مجدّد آیا مگر انہوں نے قبو ل نہ کیا ہزاروں طرح کے حیلے دنیا نے کئے، طرح طرح کی شرارتیں و منصوبے تجویز کئے مگر اللہ تعالیٰ کا جیسا کہ وعدہ تھا اپنے زور آور حملوں سے سچا ئی ظاہر کرتا رہا.عیسائی لوگ زہرناک کیڑے کی طرح اسلام کے درخت کی جڑ کو کاٹ رہے ہیں۱ مگر علماء کو ذرا بھی خیال نہیں بلکہ اپنے خیالات سے کہ مسیحؑ ز ند ہ آسمان پر ہے اور دو با رہ قیامت سے پہلے آئے گا مدد دے رہے ہیں ان کی لگا تار کوشش یہی ہے کہ اسلام کا نام تک مٹ جائے اور یہ اپنے فاسد عقائد سے ان کو مدد دے رہے ہیں.دیکھ لو کہ پادریوں نے شہر بہ شہر گاؤں بہ گاؤں مکرو تزویر کا جال پھیلایا ہوا ہے عورتوں اور بچوں تک کمربستہ ہیں کہ کسی طرح ایک عاجزہ کے بیٹے کو خدا بنا کر منوادیں کئی کروڑ کتابیں ردّ ِاسلام میں بنا کر مفت تقسیم کر دیں اس پر بھی مسلمانوں کو غیرت نہ آئی کیا وہ خدا جو کہتا ہے اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر:۱۰).کیا وہ غلط کہتا ہے؟ کیا اسلام کی وہ ابھی حالت نہیں ہوئی جو کسی مصلح ومجدّد کی ضرورت پیدا کرے طرح طرح کے زمینی و آسمانی نشان پورے ہو چکے مگر وہ اب تک منکر ہیں آج تک ۲۹ لاکھ مسلمان مرتد ہوگئے ہیں.ایک وہ زمانہ تھا کہ اگر ایک شخص مرتد ہوجاتا تھا تو قیامت برپا ہوجاتی تھی جس قدر مسلمان باقی ہیں وہ بھی عیسائیت کے قریب قریب ہی ہیں اگر سو سال تک ایسی ہی حالت رہتی تو اسلام کا نام و نشان زمین سے مٹ جاتا....لیکن خدا تعالیٰ کا شکر اور احسان ہے کہ اس نے عین ضرورت کے وقت مجھے مسیح موعود کرکے بھیجا.یہ بات۱ کوئی بنا وٹی نہیں صدہا نشان خرق عادت کے طور پر آسمان و زمین پر میری تصدیق کے لیے ظاہر ہوئے اور ہو رہے ہیں۲ چنانچہ طاعون بھی ایک نشان ہے جس کی بابت کل انبیاء خبر دیتے رہے.۱ البدر میں ہے.’’اگر چہ مقابلہ کے وقت اصحا بؓ بھی شہید ہوئے تھے مگر اسلام تو ان کے سا تھ شہید نہ ہو جاتا تھا ہر روز ترقی اسلام کی ہوتی کفا ر آخر کار گھٹتے گھٹتے ایسے معدوم ہو گئے کہ ان کا نا م و نشا ن نہ رہا.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۵؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ۱۵۶)
چنا نچہ قرآن شریف میں لکھا ہے اِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْمُعَذِّبُوْهَا (بنی اسـرآءیل:۵۹) کوئی بستی اور کوئی گا ؤں ایسا نہ ہوگا کہ جسے ہم قیامت سے پہلے خطرناک عذاب میں مبتلا نہ کر دیں گے یا ہلاک نہ کردیں گے.غرض کہ یہ منذر نشان ہے کسوف و خسوف کا نشان لوگوں نے ہنستے ہوئے دیکھا اور طاعون کا نشان روتے ہوئے.احمدیوں کا طاعون سے مَرنا بعض نادان اعتراض کرتے ہیں کہ تمہارے آدمی کیوں مَرتے ہیں ان نا دانوں کو اتنا معلوم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی جب لوگ عذاب کا معجزہ مانگتے تھے تو ان کو تلوار کا معجزہ ملا اور یہ بھی ایک قسم کا عذاب تھا.چنانچہ۱ کئی صحا بہؓ بھی تلوار سے شہید ہوئے مگر کیا ابو بکرؓ وعمرؓ جیسے بھی ہلاک ہوئے؟ اللہ تعالیٰ نے جس جس انسان کے دماغ یا ہاتھ سے کوئی اپناکام لینا ہے وہ تو بچ ہی رہے اور با لمقابل جتنے ۱البدر میں یہ مضمون یو ں بیا ن ہوا ہے.’’ ہر نبی کے سا تھ ایسا ہوا کہ مقابلہ کے وقت جہاں کفار مَرتے رہے اس کی جمعیت میں سے بھی کچھ مَرتے رہے حضرت مو سٰی کی جنگ میں اگر ایک طرف کنعانی مَرتے تو ایک طرف اسرائیلی بھی مَرتے.اگر خدا ایسی کھلی کھلی بات کر دے کہ اندھے بھی فرق کریں تو پھر ایک بھی کافر نہ رہے سو ٹے کا سانپ اگر بنا دیا تو اس سے لوگوں کو کیا؟ مگر جان کے بچنے کا علاج اگر ان کو ملتا ہوتو ایمان لا نے سے کون با ہر رہتا ہے.تمام یورپ اور امریکہ بھی جلد ہی داخل اسلام ہو جاویں.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۵؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ۱۵۶) ۲ البدر سے.’’ اپنے وجود کو جس قدر کار آمد بنا وے گا اسی قدر اس کی حفاظت ہو گی.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۰مورخہ ۵؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ۱۵۶) ۳ البدر میں ہے.’’ جب انسان ایک بدی کرتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا نے اس سے منع کیا ہے تو وہ دہریہ ہوتا ہے.خدا کی عظمت اور جلال اس کے دل میں نہیں ہوتا.ایسا شخص خدا کی حفاظت میں نہیں ہے وہ جب چاہے اُسے مار دے یا ایسی بَلا میں اُسے ڈال دے کہ نہ زندوں میں ہواور نہ مُردوں میں،لیکن جو شخص خدا کی عظمت دل میںرکھتا ہے اور اس کی نافرمانی سے ڈرتا ہے تو قبل اس کے کہ وہ کسی مصیبت میں پڑے خدا کی نظر میں ہوتا ہے اور وہ اُسے محفوظ رکھتا ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۱مورخہ ۱۲؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ۱۶۱)
رئیسِ کفا ر تھے ان سب کاٹھکانہ جہنم ہوا اور ان کے صغیر و کبیر سب کے سب ہلاک ہو گئے.اگر ایک شخص کا ایک پیسہ چوری ہوگیا ہے اور دوسرے کا تمام گھر بار لوٹا گیا ہے تو کیا وہ آدمی جس کا تمام گھر بار لو ٹا گیا پیسہ والے کو کہہ سکتا ہے کہ تم اور میں برابر ہیں؟ بھلا سوچو تو سہی کہ اگر ۷۰برس تک ہمارا کوئی آدمی ہلاک نہ ہو تو ایسا کوئی آدمی ہے جو ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے سے رکا رہے؟ مگر اللہ تعالیٰ کو یہ اَمر منظور نہیں ہے اور نہ کبھی ایسا ہوا.ایمان کی حالت ہی کا پوشیدہ ہونا ضروری ہے جب تک ہماری جماعت تقویٰ اختیار نہ کرے نجات نہیں پا سکتی خدا تعالیٰ اپنی حفاظت میں نہ لے گا یہی سبب ہے کہ بعض ان صحا بہ میں سے جن جن سے بڑے بڑے کام لینے تھے وہ سب سخت سے سخت خطروں میں بھی بچائے گئے دوسروں کو خدا نے جلد اٹھا کر بہشت میں داخل کیا.جاہل کو حقیقت معلوم نہیں ہوتی جو بات منہ میں آئی کہہ دی ہر ایک نبی کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے جہاں کفا ر مَرتے تھے وہاں اصحا ب میں سے بھی کوئی نہ کوئی مَر جاتا تھا اگر خدا تعالیٰ کھلاکھلا نشان مثلاً سوٹے کا سانپ کر دے۱ تو نیک وبد میں فرق کیا رہے گا؟ تمام یورپ وامر یکہ داخل اسلام ہو جاویں گے مگر خدا تعالیٰ نے ہمیشہ امتیاز رکھا ہے صحابہ کرامؓ کو خدا تعالیٰ نے توحید پھیلانے کے لیے پیدا کیا اور انہوں نے توحیدپھیلائی اب بھی خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ توحید پھیلے جو آوے گا وہ خدا کی رحمت سے محروم نہ رہے گا مگر چاہیے کہ اپنے وجود کو وہ مفید بنا وے۲ اللہ تعالیٰ خود ان کی حفاظت کرے گا زبان سے خدا خدا کہنا مگر عمل سے خدا سے بیگانگی ایک طرح کا دہریہ پن ہی ہے.۳ ۱ البدر سے.’’ مگر جو دُنیا میں اس قدر غرق ہے کہ گویا اس نے بیعت ہی نہیں کی اور اُسے ملنے کی فرصت ہی نہیں کیا وہ ان لوگوں کے برابر ہوسکتا ہے جو باربار آکر ملتے رہتے ہیں.‘‘(البدر جلد ۲ نمبر ۲۱ مورخہ ۱۲؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ۱۶۱) ۲ البدر سے.’’بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ مسلمان ہوکر پادریوں سے تعلق رکھتے ہیں.بعض ہندوئوں سے رکھتے ہیں.خدا فرماتا ہے کہ پھر وہ انہی میں سے ہیں.یہ باتیںہیں ان کو یاد رکھو اور خدا سے عمل کی توفیق طلب کرو.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۱ مورخہ ۱۲؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ۱۶۱) ۳ الحکم جلد ۷ نمبر ۲۲ مورخہ ۱۷؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷ ، ۱۸ ۴ البدر جلد ۲نمبر ۲۱ مورخہ ۱۲ جو ن ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶۱
گھروں کو ذکر اللہ سے معمور کرو.صدقہ و خیرات دو.گناہوں سے بچو.اللہ رحم کرے جو لوگ بیعت کرکے چلے جاتے ہیں اور پھر شکل بھی نہیں دکھلاتے ان کے لیے دعا کیا ہو جب ہمیں وہ یاد تک بھی نہیں رہتے.بار بار ملو اور تعلق محبت بڑھائو.جو بار بار آتا ہے اس کی ذرا سی تکلیف سے دعا کا خیال آجاتا ہے مگر جو لوگ دنیا کے معاملات میں مستغرق رہتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں گویا انہوں نے بیعت ہی نہیں کی.۱ یاد رکھو اور عمل کرو جو جس سے پیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے.۲،۳ ۳۰؍مئی ۱۹۰۳ء (مجلس قبل از عشاء ) ایک صاحب کے مقدمہ کی تاریخ عنقریب تھی.وہ دعا کروانے کے واسطے آئے تو حضرت اقدس نے فرمایاکہ چار پانچ دن یہاں رہو اور ہر روز ملاقات کرو کہ دعا کی تحریک ہو.یہ نہ خیال کرو کہ پیچھے نقصان ہوگا.سب کچھ خدا کرتا ہے اسباب پر نظر نہ رکھو.ہم یہ نہیں کہتے کہ رعایت اسباب ہی چھوڑ دو.بلکہ یہ کہ یہ نہ خیال کرو کہ فلاں بات ہوتو ہی یہ ہوگا.جیسے کہ روٹی کھانی پانی پینا منع نہیں ہے.مگر اس پر یہ بھروسہ کرناکہ اس سے زندگی ہے یہ منع ہے.کئی آدمی روٹی کھاتے ہیں.ادھر سُول(درد) ہو ا اور جان گئی.پانی پیا اور ہیضہ سے مَر گئے ان پر بھروسہ کرنا یہ شرک ہے.اسباب وہی بہم پہنچاتا ہے.ریاست کپور تھلہ سے خبر آئی کہ بعض لوگوں نے ایک مشورہ کرکے اس اَمر کا منصوبہ بنانا چاہا ہے کہ وہاں کی احمدی جماعت کے بعض ممبروں کو ایذا دیویں.اس پر فرمایا.وَ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ( اٰل عـمران:۵۶) یہ اس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ فتنہ فساد ہو.دعا کی جاوے گی.ایک شخص نے عرض کی کہ سارے گائوں میں مَیں ایک اکیلا آپ کا مرید ہوں.فرمایاخدا پر بھروسہ کرو.خدا پر بھروسہ کرنے ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۲۱ مورخہ ۱۲ ؍اجون ۱۹۰۳ءصفحہ ۱۶۲
والا اکیلا نہیں ہوتا.۴ یکم، ۲، ۳؍جون ۱۹۰۳ء مقدمہ ہمیشہ سیدھا کرنا چاہیے ان تاریخوں میں کوئی بات قابلِ نوٹ نہیں ہے.ایک بار مقدمات کے ذکر پر فرمایا کہ مقدمہ ہمیشہ سیدھا کرنا چاہیے جب معلوم ہو کہ ازروئے قانون بھی صاف طور پر ہمارا حق ثابت ہے اور ازروئے شریعت بھی تو ابتدا کرنی چاہیے ورنہ پیچ در پیچ بات ہو تو کبھی مقدمہ کی طرف نہ جانا چاہیے.۱ ۴؍جون ۱۹۰۳ء (مجلس قبل ازعشاء) ایک رؤیا فرمایا.دو یا تین بجے رات کو میں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک جگہ پر مع چند ایک دوستوں کے گیا ہوں وہ دوست وہی ہیں جورات دن پاس رہتے ہیں ایک ان میں مخالف بھی معلوم ہوتا ہے اس کاسیاہ رنگ،لمباقد اور کپڑے چرکیں ہیں.آگے جاتے ہوئے تین قبریں نظر آئی ہیں ایک قبر کو دیکھ کر میں نے خیال کیا کہ والد صاحب کی قبر ہے اور دوسری قبریں سامنے نظر آئیں میں ان کی طرف چلا اس قبرسے کچھ فاصلہ پر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ صاحبِ قبر (جسے میں نے والد کی قبرسمجھا تھا ) زندہ ہو کر قبر پر بیٹھا ہوا ہے غور سے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اور شکل ہے والد صاحب کی شکل نہیں مگر خوب گورا رنگ، پتلابدن،فربہ چہرہ ہے میں نے سمجھا کہ اس قبر میں یہی تھا اتنے میں اس نے آگے ہاتھ بڑھا یا کہ مصافحہ کرے میں نے مصافحہ کیا اور نام پوچھا تواس نے کہا نظام الدین پھر ہم وہاں سے چلے آئے.آتے ہوئے میں نے اسے پیغام
دیا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور والد صاحب کو السلام علیکم کہہ چھوڑنا.راستہ میں مَیں نے اس مخالف سے پوچھا کہ آج جو ہم نے یہ عظیم الشان معجزہ دیکھا کیا اب بھی نہ مانوگے؟تواس نے جواب دیا کہ اب تو حد ہو گئی.اب بھی نہ مانوں تو کب مانوں......مُردہ زندہ ہو گیا ہے اس کے بعد الہام ہوا سَلِیْمٌ حَامِدٌ مُسْتَبْشِـرًا کچھ حصہ الہام کا یاد نہیں رہا.والد کا زندہ ہونا یا کسی اور مُردہ کا زندہ ہوناکسی مُردہ اَمر کا زندہ ہونا ہے میں نے اس سے یہ بھی سمجھا کہ ہمارا کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال ظاہر ہونے کا موجب اور والدین کے رفع درجات کا بھی موجب ہے.شرطی طلاق فرمایا کہ اگر شرط ہو کہ فلاں بات ہو تو طلاق ہے اوروہ بات ہو جائے تو پھر واقعی طلاق ہوجاتی ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ اگر فلاں پھل کھاؤں تو طلاق ہے اور پھر وہ پھل کھا لے تو طلاق ہو جاتی ہے.۱ ۵؍جون ۱۹۰۳ء (مجلس قبل ازعشاء ) ایک رکعت میں قرآن ختم کرنا ذکر ہوا کہ ایک رکعت میں بعض لوگ قرآن کو ختم کرنا کمالات میں تصور کرتے ہیں اور ایسے حافظوں اور قاریوں کو اس اَمر کا بڑا فخر ہوتا ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ ۱ الحکم سے.’’گناہ سچی توبہ سے دور ہوجاتا ہے.سچی توبہ عصمت وحفاظت کا پاک جامہ پہناتی ہے ‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴ ؍جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴ ) ۲ الحکم سے.’’تاہر ایک غفلت و کسل سے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴ ؍جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴ ) ۳ البدر جلد ۲ نمبر ۲۲ مورخہ ۱۹؍ جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶۹ ۴ البدر جلد۲ نمبر۲۲ مورخہ ۱۹ ؍جون ۱۹۰۳ءصفحہ ۱۶۹
یہ گناہ ہے اور ان لوگوں کی لاف زنی ہے جیسے دنیا کے پیشہ والے اپنے پیشہ پر فخر کرتے ہیں ویسے ہی یہ بھی کرتے ہیں.آنحضرت نے اس طریق کو اختیار نہ کیا.حالانکہ اگر آپ چاہتے تو کرسکتے تھے مگر آپ نے چھوٹی چھوٹی سورتوں پر اکتفا کی.انعامات کی اُمّ پھر فرمایا کہ ہر ایک شَے کی ایک اُمّ ہوتی ہے میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ کے جو انعامات ہیں ان کی اُمّ کیا ہے؟ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ ان کی اُمّ اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن :۶۱) ہے کوئی انسان بدی سے بچ نہیں سکتا جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو پس اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ فرماکر یہ جتلا دینا کہ عاصم وہی ہے اسی کی طرف تم رجوع کرو.استغفار کی حقیقت گناہ جو انسان سے صادر ہوتا ہے اگر انسان یقین سے توبہ کرے۱ تو خدا بخش دیتا ہے.پیغمبر ِخدا جو ستر بار استغفار کرتے تھے حالانکہ ایک دفعہ کے استغفار سے گذشتہ گناہ معاف ہوسکتے تھے پس اس سے ثابت ہے کہ استغفار کے یہ معنے ہیں کہ خدا آئند ہ ہر ایک غفلت اور گناہ۲ کو دبائے رکھے اس کا صدور بالکل نہ ہو.فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْ (النجم:۳۳) سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ معصوم اور محفوظ ہونا تمہارا کام نہیں ہے ۱ الحکم میں یہ مضمون یوں بیان ہوا ہے.’’انبیاء کے ماننے کے مختلف طریق ہیں بعض ایسے اشخاص ہیں جو رؤیائے صادقہ کے ذریعے ایمان لاتے ہیں اور بعض دلائل عقلی و نقلی کے ذریعہ اور بعض پیغمبروں اور ماموروں کے اخلاقِ فاضلہ دیکھ کر.الغرض ایمان لانے کے مختلف طریق ہیں مگر سب کو ایک ہی تنگ راہ سے گذارنا بہت ہی مشکل ہے.بلکہ ہر ایک فردِ بشر کے الگ الگ مذاق کی رعایت رکھنا ضروری ہے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴ ؍جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴ ) ۲ الحکم سے.’’بعض آپ کی جود و سخا دیکھ کر ہی ایمان لائے اور بعض اَور اَور محامدو محاسن مشاہدہ کرکے.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وجود پاک میں تمام انبیاء علیہم السلام کے محامدوں کے جامع تھے جس کے سبب سے آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہلائے اس لیے آپ پر ایمان لانیوالے بھی ہر ایک مختلف طور و طریق کو دیکھ کر آپ کے پیچھے ہولیے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴ ؍جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴ )
خدا کا ہے.ہرایک نور اور طاقت آسمان سے ہی آتی ہے.۳ ۶؍ جون ۱۹۰۳ء طبابت کا پیشہ ڈاکٹری کے امتحان کا ذکر تھا اس پر فرمایا کہ پاس کے خیال میں مستغرق ہوکر اپنی صحت کو خراب کرلینا ایک مکروہ خیال ہے.اوّل زمانہ کے لوگ علم اس لیے حاصل کرتے تھے کہ توکّل اور رضائے الٰہی حاصل ہو.اور طبابت تو ایسا فن ہے کہ اس میں پاس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جب ایک طبیب شہرت پاجاتاہے تو خواہ فیل ہو مگر لوگ اس کی طرف رجوع کرتے ہیں.تحصیلِ دین کے بعد طبابت کا پیشہ بہت عمدہ ہے.۴ ۱ الحکم میں یہ عبارت یوں بیان ہوئی ہے.’’اس نے کہا کہ پہلے آپ کا نام مبارک مجھے تمام ناموں سے زیادہ مذموم معلوم ہوتا تھا مگر اب تمام ناموں سے زیادہ محمود وپیارا معلوم ہوتا ہے اور اس شہر کو جس میں آپ رہتے ہیں میں حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا مگر اب یہی محبوب ترین نظر آتا ہے.یہ کیا بات تھی جس نے اس شخص کو گرویدہ بنا لیا؟ یہ حضور علیہ السلام کی توجہ کااثر تھا.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴ ؍جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴ ) ۲ صحابہ ؓ کے اخلاص کا ذکر الحکم میں ان الفاظ میں ہے.’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات کو دیکھ کر سن کرتعجب آتا ہے کہ انہوں نے نہ گرمی دیکھی اور نہ سردی اور نہ عزّت اور نہ آبرو.سب دنیوی فخر و ناز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر خاک میں ملا دیا.ہر ایک ذلّت آپ کی نافرمانبرداری میں اور ہر ایک عزّت آپ کی اطاعت میں ہی دیکھی.بھیڑ و بکری کی طرح آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ذبح ہوگئے.کوئی قوم کوئی مذہب دنیا میں ہے جو سچی قربانی کی مثال صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بڑھ کر دکھا سکے؟ جان دے کر سچا اخلاص دکھانا اسی کو کہتے ہیں.ان کے نفس بالکل کدورتِ دنیا سے پاک ہوچکے تھے جیسے کوئی گھر سے نکل کر ڈیوڑھی پر کھڑا ہو کر سفر کے لیے تیار ہوتا ہے ویسے ہی وہ دنیا کو چھوڑ کر آخرت کے واسطے تیار تھے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴ ؍جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴، ۱۵)
۷؍جون ۱۹۰۳ء (مجلس قبل ازعشاء) ایمان لانے کے مختلف طریق ایک شخص نے حضرت اقدس کی بیعت کی نسبت کچھ بشارات خدا تعالیٰ سے پائی تھیں وہ حضرت اقدس کی خدمت میں تحریر کرکے روانہ کی تھیں حضرت اقدس نے ان کو سن کر فرمایا کہ جو لوگ فطری امور کی استعدا دنہیں رکھتے اللہ تعالیٰ ان کو بذریعہ رؤیا کے سمجھا دیتا ہے.آنحضرت کے معجزات میں سے بھی یہ بات تھی کہ لوگ رؤیا دیکھتے اور بعض وہ تھے جو کہ آپ کے جودوسخا کو دیکھ کر ایمان لائے اور پھر آپ نے سب کو ایک ہی راہ سے گذرانا.یہ ایک مشکل کام ہے کہ ہر ایک کی رعایت بھی مدنظر رہے اور پھر ایک ہی راہ سے سب کو گذارا جاوے.۱ آپ پر ایمان لا نے کے مختلف طریق تھے بعض اخلاق دیکھ کر ایمان لائے تھے۲ غرضیکہ آدم سے لے کر آنحضرت تک جس قدر طریق جمع ہوسکتے تھے وہ سب آپ میں جمع تھے یہ بھی ایک مجموعہ جمع کرنے کے قابل ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کے طریق کیا کیا تھے.آنحضرت کے آثار میں سے ایک توجہ کا بھی حصہ ہے کہ جو لوگ قسی القلب تھے وہ بھی کھچے چلے آتے تھے ایک دفعہ ایک بادشاہ ثمامہ کو باندھا گیا آپ اس کے حالات ہر روز دریافت کرتے ۱ الحکم سے.’’جو لوگ اللہ کے لیے کچھ کھوتے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ پالیتے ہیں.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴ ؍جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵) ۲ الحکم سے ’’ مگر چونکہ انہوں نے پورے اخلاص سے اپنے اتنے کچھ اندوختہ کو راہِ مولا میں قربان کیا.اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے اجر میں آپ کو قیصرو کسریٰ کے خزائن کا مالک کر دیا.سب کچھ کامل ایمان و سچے اخلاص سے ملتا ہے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴ ؍جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵) ۳ الحکم میں یہ عبارت یوں ہے.’’ اللہ تعالیٰ ہر ایک مومن پر طرح طرح کے ابتلا اور آزمائش لاتا ہے کسی کو جنگ میں آزمانے سے، کسی کو روپیہ پیسہ سے، کسی کو بیٹے کے قربان کر نے سے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴ ؍جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵)
جاویں گے غلط ہے آنحضرت کے زمانہ میں ابو بکرؓ وغیرہ کے املاک ہی کیا تھے؟ ایک ایک دو دو سویا کچھ زیادہ روپیہ کسی کے پاس ہوگا مگر اس۲ کا اجر ان کو یہ ملا کہ خدا نے بادشاہ کر دیا اور قیصرو کسریٰ کے وارث ہوگئے.مگر خدا کی غیرت یہ نہیں چاہتی کہ کچھ حصہ خدا کا ہو اور کچھ شیطان کا اور توحید کی حقیقت بھی یہی ہے کہ غیر ازخدا کا کچھ بھی حصہ نہ ہو.توحید کا اختیار کرنا تو ایک مَرنا ہے لیکن اصل میں یہ مَرنا ہی زندہ ہونا ہے.مومن جب توبہ کرتا ہے اور نفس کو پاک صاف کرتا ہے تو خوف ہوتا ہے کہ میں تو جہنم میں جا رہا ہوں کیونکہ تکالیف کا سامنا ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ اسے ہر طرح سے محفوظ رکھتا ہے یہ موت مختلف طریق سے مومنوں پر وارد ہوتی ہے کسی کو لڑائی سے کسی کو کسی طرح سے۳ جیسے ابراہیم علیہ السلام نے جنگ نہ کی تو آپ کو لڑکے کی قربانی کرنی پڑی.یہ بات قابل افسوس ہے کہ خدا پر امید رکھے اور ایک اور بھی حصہ دار ہو.قرآن میں بھی لکھا ہے کہ حصہ سے خدا راضی نہیں ہوتا بلکہ فرماتا ہے کہ حصہ داری سے جو حصہ انہوں نے خدا کا کیا ہوتا ہے وہ بھی خدا انہی کا کر دیتا ہے کیونکہ غیرت احدیّت حصہ داری کو پسند نہیں کرتی.یہی وجہ ہے کہ انبیاء باوجود غریب، یتیم اور بے کس اور بلا اسباب ہونے کے اور پھر بموجب قانون دنیا کے بے ہنر ہونے کے آگے سے آگے قدم بڑھا تے ہیں اور یہ سب سے پہلا ثبوت خدا کی خدائی کا ہے۱ اسی لیے ان کے مخالف حیران ہو جاتے ہیں کبھی کچھ کہتے ہیں کبھی کچھ جو شخص بڑا جاہل اور ان کے تقدس سے بے خبر ہوتا ہے وہ بھی کم ازکم ان کی دانائی کا قائل ہوتا ہے جیسے عیسائی لوگ آنحضرت کی پیشگوئیاں پوری ہوتی دیکھ کر کہتے ہیں کہ وہ بہت دانا آدمی تھا.۱ البدر جلد ۲ نمبر ۲۲ مورخہ ۱۹ ؍جون ۱۹۰۳ءصفحہ۱۶۹، ۱۷۰ ۲ الحکم میں ہے.’’حالانکہ موسیٰ علیہ السلام بلحاظ شریعت منزلہ حق پر تھے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴ ؍جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵)
توبہ ہی طاعون کا علاج ہے طاعون کے علاج کی نسبت فرمایا کہ بجز اس کے کہ توبہ ہو اور سب تجاویز جواس کے علاج کے لیے سوچی جاویں.خدا کے ساتھ مقابلہ ہے کوئی تجویز ہو، ناکافی ہے جب تک خدا سے صلح نہ ہو.۲ ۱۱؍جون ۱۹۰۳ء (مجلس قبل ازعشاء) حقیقت اور معرفت فرمایا کہ درحقیقت خدا تعالیٰ نے تنگی کسی بات میں نہیں رکھی جو ئندہ یابندہ ہوتا ہے.۳ فرمایا کہ دوشخص برابر نہیں ہوسکتے ایک وہ جو حقیقت پر پہنچتا ہے اور ایک وہ جو معرفت تک۴ جیسے رویت اور سماع برابر نہیں ہوسکتے ویسے ہی یہ بھی برابر نہیں ہے جو عارف ہے اور ۱ الحکم میں ہے.’’قانون قدرت ہمیں اس قانون کے رواج کا نشان دیتا ہے.قرآن کریم اوردیگر کسی شریعت آسمانی نے بھی یہی جائز رکھا اور عقل انسانی بھی اسی قتل حفظ ماتقدم کے لیے سبق دیتی ہے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴ ؍جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵) ۲ الحکم میں ہے.’’ دراصل اہل باطن کے لیے وہ بھی ایک شریعت ہوتی ہے جس کی بجا آوری ان پر فرض ہوتی ہے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴ ؍جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵) ۳ الحکم سے.’’شریعت ظاہری وہ ہے کہ جس میں اُمور دُنیا کا پورا پورا انصرام اہتمام کیا گیا ہے تاکہ اس کے انتظام میں بلحاظ ظاہر کے کوئی بات خلاف طریق ظاہر نہ ہو.شریعت باطنی وہ ہے کہ بعض امور ظاہری جو بادی النظر میں کامل طور پر ظہور پذیر نہیں ہوسکتے الہام و کشوف سے ظاہر اور رواج دیئے جاتے ہیں.شریعت ظاہری کی طرح اہلِ کشف پر احکام نازل ہوتے ہیں.جوبعض امور کے حقائق پر مشتمل ہوتے ہیں اور جب تک ملہم اُن کی بجا آوری میںبدل و جاں کوشش نہ کرے ممکن نہیں کہ اندرونی اصلاح کماحقہ حقیقتاً ہوسکے اور یہ امور جو اہل ِ کشف پر نازل ہوتے ہیں شریعت کے دراصل مخالف نہیں ہوتے بلکہ بعض حقائق کی تکمیل ہوتی ہے مثلاً کہا جاتا ہے وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرۃ:۱۹۶) جان بوجھ کر اپنے آپ کو ہلاکت میںنہ ڈالو.مگر ایک شخص کو حکم ہوتا ہے کہ تو اپنے بچے کو دریا میں ڈال دے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں کو حکم ہوا.یا دریا چیر کر نکل جا جیسے خود موسیٰ علیہ السلام کو یا مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر اور آپ کرنے لگ گئے.یہ امور شریعت سے وراء الوریٰ ہوتے ہیں جن کو اہلِ حق ہی سمجھتے ہیں اور وہی اُن کو بجا لاتے ہیں.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴ ؍جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ )
نمونہ قدرت دیکھ چکا ہے اور ایک دوسرا جس کے پاس کوئی نظیر نہیں کہ جسے پیش کرسکے صرف ظنّی امور پاس ہیں وہ کیسے برابر ہوں.خدا کی صفات کا علم ہونا ضروری ہے ایک ہندو کا ذکر ہوا کہ وہ کہتا ہے کہ سب مذہب نجات یافتہ ہیں اور آپ مسیح بھی سچے ہیں وہ اپنے خیال کی تائید میں یہ شعر پیش کرتا ہے.؎ ذات پات نہ پوچھے کو جو ہر کو بھجے سو ہر کا ہو فرمایا.یہ بات تو ٹھیک ہے کہ جو خدا کی عبادت اور اطاعت کرے وہی اس کا ہوسکتا ہے مگر اس بات کا تو پتا ہونا چاہیے کہ آیا خدا کو پوج رہا ہے یا شیطان کو؟ کیا وہ کسی اور کا پجاری ہو کر خدا کا ہوسکتا ہے؟ اس لیے اوّل خدا کی صفات کا علم ہونا ضروری ہے.۱ ۱۲؍جون ۱۹۰۳ء ( مجلس قبل ازعشاء) موسٰی کا خضر کے قتل پر اعتراض کرناکیوں درست نہ تھا؟ سوال.ایک صاحب نے سوال کیا کہ توریت میں حکم تھا کہ کوئی نفس بلا کسی نفس کے بدلہ قتل نہ کیا جائے تو پھر خضرؑ نے کیوں اس جان کو قتل کیا اور موسیٰ نے جواس پر سوال کیا تو اسے کیوں خلاف ادب جانا گیا؟ موسٰی نے تورات کے رُو سے سوال کیا تھا.۲ جواب.فرمایا.مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ ( المائدۃ:۳۳) کے ساتھ آگے اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ( المائدۃ:۳۳) بھی لکھا ہے فساد کا لفظ وسیع ہے جو شَے کسی زمانہ میں فساد کا مو جب ہوسکتی ہے وہ آیندہ زمانہ میں قتل ِنفس کا موجب بھی ہوسکتی ہے.حشرات الا رض کو ہم دیکھتے ہیں کہ سینکڑوں ہزاروں روز مارے جاتے ہیں اس لیے کہ وہ کسی کی ایذا کا موجب نہ ہوں چنا نچہ لکھا ہے کہ قَتْلُ الْمُوْذِیِّ قَبْلَ الْاِیْذَآءِ تو ہر ایک موذی شَے کا قتل اس کے ایذا کے دینے سے
قبل جائز ہوتا ہے حالانکہ اس موذی نے ابھی کوئی قتل وغیرہ کیا نہیں ہوتا۱ شریعت اور الہامی اور کشفی امور الگ الگ ہیں اس لیے ان کو شریعت کے ظاہری الفاظ کے تابع نہ کرنا چاہیے.وحی الٰہی کا معاملہ ہی اَور ہوتا ہے اس کی ایک دو نظیریں نہیں بلکہ ہزار ہا نظائر ہیں بعض وقت ایک ملہم کو الہام کے رُو سے ایسے احکام بتلائے جاتے ہیں کہ شریعت کے رُو سے ان کی بجاآوری درست نہیں ہوتی مگر جسے بتلائے جاتے ہیں اسے ان کا بجالا نا فرض ہوتا ہے اور عدم بجاآوری میں اسے موت نظر آتی ہے اور سخت گناہ ہوتا ہے حالانکہ شریعت اسے گناہ قرار ہی نہیں دیتی یہ تمام باتیں مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا کے تحت میں ہوتی ہیں.ایک جاہل تو ان کو شریعت کے مخالف قراردے گا اور اعتراض کرے گا مگر وہ اس کی بیوقوفی ہو گی وہ بھی اصل میں ایک شریعت ہی ہے.۲ جب سے دنیا چلی آئی ہے یہ دونوں باتیں ساتھ ساتھ چلی آتی ہیں یعنی ایک تو ظاہر شریعت ۳جو کہ دنیا کے امور کے واسطے ہوتی ہے اور ایک وہ امور جو کہ ازروئے کشف والہام کے ایک مامور پر نازل ہوتے ہیں اور اسے حکم ہوتا ہے کہ یہ کرو بظاہر گو وہ شریعت کے مخالف ہو مگر اصل میں بالکل مخالف نہیں ہوتا.مثلاً دیکھ لو کہ ازروئے شریعت کے تو دیدہ دانستہ اپنی جان ۱ الحکم میں یہ عبارت یوں ہے.’’ اس سوال کا جواب کہ موسیٰ علیہ السلام نے اعتراض کرنے میں کیو ں جُرأت کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان ادب اسرارِ الٰہی کے دریافت کرنے میں ایک عظیم الشان نبی کے ذریعہ سکھایا کہ جب وہ نبی صاحبِ شریعت باوجود عالی مرتبہ ہونے کے اسرار الٰہی میں ادب کی طرف راہبر کئے گئے تو تم اُمتی ہوکر بہت ڈر کر قدم رکھو.یہ ایسے امور ہیں کہ ظاہری شریعت کو تو منسوخ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مگر دراصل وہ شریعت کے اسرار ہوتے ہیں جس کی کنہ دراز کو معلوم کرنا انسان کا کام نہیں.جب تک کہ وہ علام الغیوب اپنے فضل و کرم سے خود مطلع نہ کرے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴ ؍جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵، ۱۶) ۲ الحکم سے.’’واجب القتل نہ ٹھیرا اورنہ قصاص لازم آیا اس لیے کہ وہ مامور تھا.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴ ؍جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶ ) ۳ الحکم میں ہے.’’پیمانہ شریعت ظاہری سے ہر ایک اَمر کو ماپنا غلطی ہوتی ہے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴ ؍جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶ ) ۴ البدر جلد ۲نمبر ۲۲ مورخہ ۱۹ ؍جون ۱۹۰۳ءصفحہ ۱۷۰،۱۷۱
کو ہلاکت میں ڈالنامنع ہے وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرۃ:۱۹۶) مگر ایک شخص کو حکم ہوتا ہے کہ تو دریا میں جا اور چیر کر نکل جا تو کیا وہ اس کی نافرمانی کرے گا؟بھلا بتلائو تو سہی کہ حضرت ابراہیمؑ کا عمل کہ بیٹے کو ذبح کرنے لگ گئے کون سا شریعت کے مطابق تھا؟ کیا یہ کہیں شریعت میں لکھا ہے کہ خواب آوے تو سچ مچ بیٹے کو اُٹھ کر ذبح کرنے لگ جاوے؟مگر وہ ایسا عمل تھا کہ ان کے قلب نے اسے قبول کرکے تعمیل کی.پھر دیکھو.موسٰی کی ماں تو نبی بھی نہ تھی مگر اُس نے خواب کے رُو سے موسیٰ کو دریا میں ڈال دیا.شریعت کب اجازت دیتی ہے کہ اس طرح ایک بچہ کو پانی میں پھینک دیا جاوے.بعض امور شریعت سے وراء الورا ہوتے ہیں اور وہ اہل حق سمجھتے ہیں جوکہ خاص نسبت خدا تعالیٰ سے رکھتے ہیں اور وہی ان کو بجالاتے ہیں.ورنہ اس طرح تو خدا پر اعتراض ہوتا ہے کہ وہ لغو امور کا حکم کرتا ہے حالانکہ خدا کی ذات اس سے پاک ہے.اس کا سِر وہی جانتے ہیں جو خدا سے خاص تعلق رکھتے ہیں.ایسے امور میں جلد بازی سے کام نہ لینا چاہیے.خدا تعالیٰ نے یہ قصے اس لیے درج کئے ہیں کہ انسان ادب سیکھے.ایک مرید کا ادب اپنے مرشد کے ساتھ یہ بھی ہے کہ اس پر اعتراض نہ کیا جاوے اور اس کے افعال واعمال پر اعتراض کرنے میں مستعجل نہ ہو.جو علم خدا نے اسے (مرشدکو)دیا ہوتا ہے.اس کے رُو سے خبر ہی نہیں ہوتی ورنہ اس طرح کی مخالفت کرنے سے کہیں سلبِ ایمان کی نوبت نہ آجاوے.۱ البدر سے.’’ جب ایک برتن کو مانج کر صاف کردیا جاتا ہے پھر اس پر قلعی ہوتی ہے اور پھر نفیس اور مصفّا کھانا اس میں ڈالا جاتا ہے.یہی حالت ان کی تھی.اگر انسان اسی طرح صاف ہو اور اپنے آپ کو قلعی دار برتن کی طرح منور کرے تو خدا تعالیٰ کے انعامات کا کھانا اس میں ڈال دیا جاوے.لیکن اب کس قدر انسان ہیں جو ایسے ہیں اور آیت قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشّمس:۱۰) کے مصداق ہیں.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۶ ؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷۷ ) ۲ البدر میں ہے.’’اگر کوئی طاعون سے مَر جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ وہ تو مرید تھا وہ کیو ں مَرا؟ اب دیکھ لو کہ اس زمانہ میں اور اُس زمانہ میں کس قدر فرق ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۶ ؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷۷ )
شریعت کا ایک رنگ ظاہر پر ہے اور ایک محبت الٰہیہ پر ہے کہ جن سے خدا کے خاص تعلق ہوتے ہیں ان پر کشف ہوتے ہیں ایسے امور ان سے صادر ہوتے ہیں کہ لوگوں کو اعتراض کا موقع ملتا ہے.موسٰی پر اعتراض کیا کہ حبشن کیوں کی؟ آخر اس حرکت سے خدا کا غضب ان پر شروع ہوا اور جذام کے آثار نمودار ہوئے دوسرے گناہوں میں تو عذاب دیر سے آتا ہے مگر ان میں فوراً شروع ہو جاتا ہے.سائل نے عرض کی کہ موسٰی نے پھر کیوںجرأت کی حالانکہ وہ نبی تھے؟ فرمایا کہ اسی لیے تو یہ قصّہ لکھا ہے کہ وہ نبی تھا اور تم تو اُمتی ہو تم کو تو اور بھی ڈر کر قدم رکھنا چاہیے.یہ اس طرح کے امور ہوتے ہیں کہ ظاہری شریعت کو منسوخ کر دیتے ہیں.۱ مولانا روم نے ایسی ہی ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک طبیب نے ایک کنیز کو ایسے طریق سے ہلاک کر دیا کہ پتا نہ لگا.مسہل وغیرہ ایسی ادویہ دیتا رہا کہ وہ کمزور ہو ہو کر مَر گئی.تو پھر اس پر لکھا ہے کہ اس پر قتل کا جرم۲ نہ ہوگا کیونکہ وہ تومامور تھا.اس نے اپنے نفس سے اسے قتل نہیں کیا بلکہ اَمر سے کیا.اسی طرح ملک الموت جو خدا جانے کس قدر جانیں روز ہلاک کرتا ہے کیا اس پر مقدمہ ہوسکتا ہے؟ وہ تو مامور ہے اسی طرح ابدال بھی ملائکہ کے رنگ میں ہوتے ہیں.خدا ان سے کئی خدمات لیتا ہے.پیمانہ شریعت سے ہر ایک اَمر کو ناپنا غلطی ہوتی ہے.۳،۴ ۱ البدر میں ہے.’’اس میں شک نہیں کہ دنیا ایسا ہی مقام ہے کہ انسان کو اُس میں دُکھ اور مصیبت پیش آتی ہے مگر اُن کا تعلق خدا سے ایسا ہوتا ہے کہ اس دُکھ اور مصیبت میں ایک راحت نظرآتی ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۶ ؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷۷ )
۱۴؍جون ۱۹۰۳ء (دربارِ شام) اللہ تعالیٰ سے سچارشتہ فرمایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بڑے سیدھے سادے تھے جیسے کہ ایک بر تن قلعی کراکر صاف اور ستھرا ہو جاتا ہے ایسے ہی ان لوگوں کے دل تھے جو کلام الٰہی کے انوار سے روشن اور کدورات نفسانی کے زنگ سے بالکل صاف تھے گویا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشّمس:۱۰) کے سچے مصداق تھے.۱ مجھے خوب معلوم ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت میں کثرت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ اگر ہماری دنیا کو کسی طرح سے کوئی جنبش آئی تو ہم کدھر جاویں گے مگر تعجب تو یہ ہے کہ ایک طرف تو ہمارے ہاتھ پر اقرار کرتے ہیں کہ ہم دنیا پر دین کو مقدم سمجھیں گے اور دوسری طرف دنیا اور مافیہا میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ دنیا کی خاطر ہر ایک دینی نقصان برداشت کرنا گوارا کرتے ہیں.ذرا سا کوئی کنبہ میں بیمار ہو جاوے یا بیل بکری ہی مَر جاوے تو جھٹ بول اُٹھتے ہیں کہ ہیں یہ کیا ہو ا؟ ہم تو مرزا صاحب کے مُر ید تھے ہمارے ساتھ کیوں یہ حادثہ واقعہ ہوا.۲ حالانکہ یہ خیال ان کا خام ہے وہ اس سچے رشتے سے جو اللہ تعالیٰ سے باندھنا چاہیے ناواقف ہیں.بر کا تِ الٰہی انسان پر اس وقت نازل ہوتے ہیں جب خدا سے مضبوط رشتہ باندھا جاوے.جیسے رشتہ داروں کو آپس میں رشتہ کا پاس ہوتا ہے ویسا ہی اللہ تعالیٰ کو اپنے بندہ کے رشتہ کا جو وہ اس پاک ذات کے ساتھ ہے سخت پاس ہوتا ہے.وہ مولا کریم اس کے لیے غیرت کھاتا ہے اور اگر کوئی دکھ یا ۱ البدر میں یوں لکھا ہے.’’مومن کی تعریف یہ ہے کہ خیرات اور صدقہ وغیرہ جو کہ خدا نے اس پر فرض تو نہیں کئے مگر وہ اپنی ذاتی محبت سے ان کو بجا لاتا ہے اس وقت اس کا ایک خاص تعلق خدا سے ہوتا ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۶؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷۷) ۲ البدر میں ہے.’’قرآن شریف میں بھی لکھا ہے کہ مومن اور غیر مومن میں ہمیشہ فرقان ہوتا ہے.مگر ایک کم بخت جلد باز خدا کے فرقان کو پسند نہیں کرتا بلکہ نفس کے فرقان کو پسند کرتا ہے.غلام کا کام یہ ہے کہ وہ ہر وقت عبودیت کے
مصیبت اس کو پہنچتا ہے تو وہ بندہ اپنے لیے راحت جانتا ہے.۱ الغرض کوئی دکھ اس رشتہ کو توڑتا نہیں اور نہ کوئی سُکھ اس کو دوبالا کرتا ہے.ایک سچا تعلق وحقیقی عشق عبد ومعبود میں قائم ہو جاتا ہے اگر ہماری جماعت میں چالیس آدمی بھی ایسے مضبوط رشتہ کے جو رنج وراحت، عسر ویسر میں خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم کریں، تو ہم جان لیں کہ ہم جس مطلب کے لیے آئے تھے وہ پورا ہو چکا اور جو کچھ کرنا تھا وہ کر لیا.کیسی سوچنے کی بات ہے کہ صحابہ کرامؓ کے تعلقات بھی تو آخر دنیا سے تھے ہی جائیدادیں تھیں، مال تھا، زر تھا.مگر ان کی زندگی پرکس قدر انقلاب آیا کہ سب کے سب ایک ہی دفعہ دستبردار ہو گئے اور فیصلہ کر لیا کہ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (الانعام:۱۶۳) ہمارا سب کچھ اللہ ہی کے لئے ہے.اگر اس قسم کے لوگ ہم میں ہو جاویں تو کون سی آسمانی برکت اس سے بزرگ تر ہے؟ بیعت کرنا صرف زبانی اقرار ہی نہیں بلکہ یہ تو اپنے آپ کو فروخت کر دینا ہے خواہ ذلّت ہو نقصان ہو کچھ ہی کیوں نہ ہو کسی کی پر وانہ کی جاوے.مگر دیکھو اب کس قدر ایسے لوگ ہیں جو اپنے اقرار کو پورا کرتے ہیں.بلکہ خدا تعالیٰ کو آزمانا چاہتے ہیں پس یہی سمجھ رکھا ہے کہ اب ہمیں مطلقاً کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونی چاہیے اور ایک پُر امن زندگی بسرہو حالانکہ انبیاؤں، قطبوں پر مصائب آئے اور وہ ثابت قدم رہے مگر یہ ہیں کہ ہر ایک تکلیف سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں.بیعت کیا ہوئی (بقیہ حاشیہ) لیے تیار رہے اور کسی مصیبت کی پروا نہ کرے مگر ایک پاجی سرکش عبودیت سے تو انکار کرتا ہے اور خدا کو اپنا محکوم بنانا چاہتا ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۶؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷۸) ۱الحکم میں ایسا ہی درج ہے مگر دراصل یہ لفظ محبوبات معلوم ہوتا ہے.چنانچہ البدر میں بھی محبوبات ہی لکھا ہے.(مصحح) ۲البدر کے الفاظ یہ ہیں.’’بہت کا یہ بھی خیال ہوگا کہ کیا ہم انقطاع الی اللہ کرکے اپنے آپ کو تباہ کر لیویں؟ مگر یہ ان کو دھوکا ہے کوئی تباہ نہیں ہوتا.حضرت ابو بکر ؓ کو دیکھ لو اُس نے سب کچھ چھوڑا پھر وہی سب سے اوّل تخت پر بیٹھا.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۶؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷۸) ۳ الحکم جلد ۷ نمبر ۲۴ مورخہ ۳۰ ؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰، ۱۱
گویا خدا تعالیٰ کو رشوت دینی ہوئی.حالانکہ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ(العنکبوت:۳) یعنی کیا یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ یہ فقط کلمہ پڑ ھ لینے پر ہی چھوڑ دئیے جاویں گے اور ان کو ابتلاؤں میں نہیں ڈالا جاوے گا.پھر یہ لوگ بلاؤں سے کیسے بچ سکتے ہیں.ہر ایک شخص کو جو ہمارے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے جان لینا چاہیے کہ جب تک آخرت کے سرمایہ کا فکر نہ کیا جاوے کچھ اور نہ بنے گا اور یہ ٹھیکہ کرنا کہ ملک الموت میرے پاس سے نہ پھٹکے، میرے کنبہ کا نقصان نہ ہو، میرے مال کا بال بیکا نہ ہو، ٹھیک نہیں ہے.خود شرط وفا دکھلاوے اور ثابت قدمی وصدق سے مستقل رہے.اللہ تعالیٰ مخفی راہوں سے اس کی رعایت کرے گا اور ہر ایک قدم پر اس کا مددگار بن جاوے گا.انسان کو صرف پنجگانہ نماز اور روزوں وغیرہ وغیرہ احکام کی ظاہری بجا آوری پر ہی ناز نہیں کرنا چاہیے.نماز پڑھنی تھی پڑھ لی، روزے رکھنے تھے رکھ لیے، زکوۃ دینی تھی دے دی وغیرہ وغیرہ مگر نوافل ہمیشہ نیک اعمال کے مُتمم و مُکمِّل ہوتے ہیں اور یہی تر قیات کا موجب ہوتا ہے.مومن کی تعریف یہ ہے کہ خیرات وصدقہ وغیرہ جو خدا نے اس پر فرض ٹھہرایا ہے۱ بجا لاوے اور ہر ایک کا رخیر کے کرنے میں اس کو ذاتی محبت ہو اور کسی تصنع و نمائش و رِیَا کو اس میں دخل نہ ہو.یہ حالت مومن کی اس کے سچے اخلاص اور تعلق کو ظاہر کرتی ہے اور ایک سچا اور مضبوط رشتہ اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ پیدا کر دیتی ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ اُس کی زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور اس کے کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ کام کرتا ہے.الغرض ہر ایک فعل اُس کا اور ہر ایک حرکت و سکون اس کا اللہ ہی کا ہوتا ہے.اس وقت جو اس سے دشمنی کرتاہے وہ خدا سے دشمنی کرتا ہے اور پھر فر ماتا ہے کہ میں کسی بات میں اس قدر تردّد نہیں کرتا جس قدر کہ اس کی موت میں.قرآن شریف میں لکھا ہے کہ مومن اور غیر مومن میں ہمیشہ فرق رکھ۲ دیا جاتا ہے.غلام کو چاہیے کہ ہر وقت رضاءِ الٰہی کو ماننے اور ہر ایک رضا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں دریغ نہ کرے.
کون ہے جو عبودیت سے انکار کرکے خدا کو اپنا محکوم بنانا چاہتا ہے؟ تعلقات الٰہی ہمیشہ پاک بندوں سے ہو اکرتے ہیں جیسا کہ فرمایا ہے اِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰۤى (النجم:۳۸) لوگوں پر جو احسان کرے ہرگز نہ جتلاوے.جوابراہیم کے صفات رکھتا ہے ابراہیم بن سکتا ہے.ہر ایک گناہ بخشنے کے قابل ہے مگر اللہ تعالیٰ کے سوااور کو معبود وکار ساز جاننا ایک ناقابل عفو گناہ ہے اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ (لقمان:۱۴) لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ (النساء:۴۹) یہاں شرک سے یہی مُراد نہیں کہ پتھروں وغیرہ کی پرستش کی جاوے بلکہ یہ ایک شرک ہے کہ اسباب کی پرستش کی جاوے اور معبودات۱ دنیا پر زور دیا جاوے اسی کا نام ہی شرک ہے اور معاصی کی مثال تو حُقہ کی سی ہے کہ اس کے چھوڑدینے سے کوئی دقّت ومشکل کی بات نظر نہیں آتی مگر شرک کی مثال افیم کی ہے کہ وہ عادت ہو جاتی ہے جس کا چھوڑنا محال ہے.بعض کا یہ خیال بھی ہوگا کہ انقطاع الیٰ اللہ کرکے تباہ ہو جاویں؟ مگر یہ سراسر شیطانی وسوسہ ہے.اللہ کی راہ میں برباد ہونا آباد ہونا ہے.اس کی راہ میں مارا جانا زندہ ہونا ہے.کیا دنیا میں ایسی کم مثالیں اور نظیریں ہیں کہ جو لوگ اس کی راہ میں قتل کئے گئے ہلاک کئے گئے ان کے زندہ جاوید ہونے کا ثبوت ذرّہ ذرّہ زمین میں ملتا ہے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ہی دیکھ لو کہ سب سے زیادہ اللہ کی راہ میں برباد کیا اَور سب سے زیادہ دیا گیا.چنانچہ تاریخ اسلام میں پہلا خلیفہ حضرت ابو بکر ہی ہوا.۲،۳ ۱۵ ؍جون ۱۹۰۳ء (مجلس قبل از عشاء ) بیویوں سے حُسنِ معاشرت بار ہا دیکھا گیا اور تجر بہ کیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص خفیف عذرات پر عورت سے قطع تعلق کرنا چاہتا ہے تو یہ اَمر حضرت مسیح موعودؑ کے ملال کا موجب ہوتا ہے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص سفر میں تھا اور اس نے اپنی بیوی کو لکھا کہ اگر وہ بدیدن خط جلدی اس کی طرف روانہ نہ ہو گی تو اسے طلاق دے دی جاوے گی.سناگیا ہے کہ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا تھا کہ
جو شخص اس قدر جلدی قطع تعلق کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو ہم کیسے اُمید کرسکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اس کا پکّا تعلق ہے.ایسا ہی ایک واقعہ اب چند دنوں سے پیش تھا کہ ایک صاحب نے اوّل بڑے چاہ سے ایک شریف لڑکی کے ساتھ نکاح ثانی کیا مگر بعد ازاں بہت سے خفیف عذر پر دس ماہ کے اندر ہی انہوں نے چاہا کہ اس سے قطع تعلق کر لیا جاوے اس پر حضرت اقدسؑ کو بہت سخت ملال ہوا اور فرمایا کہ مجھے اس قدر غصہ ہے کہ میں اسے برداشت نہیں کرسکتا اور ہماری جماعت میں ہو کر پھر یہ ظالمانہ طریق اختیار کرنا سخت عیب کی بات ہے.چنانچہ دوسرے دن پھر حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ وہ صاحب اپنی اس نئی یعنی دوسری بیوی کو علیحدہ مکان میں رکھیں جو کچھ زوجہ اوّل کو دیویں وہی اسے دیویں ایک شب اُدھر رہیں تو ایک شب اِدھر رہیں اور دوسری عورت کوئی لونڈی غلام نہیں ہے بلکہ بیوی ہے اسے زوجہ اوّل کا دستِ نگر کرکے نہ رکھا جاوے.ایسا ہی ایک واقعہ اس سے پیشتر کئی سال ہوئے گزر چکا ہے کہ ایک صاحب نے حصولِ اولاد کی نیت سے نکاح ثانی کیا اور بعد نکاح رقابت کے خیال سے زوجہ اوّل کو جو صدمہ ہوا اور نیز خانگی تنازعات نے ترقی پکڑی تو انہوں نے گھبرا کر زوجہ ثانی کو طلاق دے دی.اس پر حضرت اقدس نے ناراضگی ظاہر فرمائی.چنانچہ اور خاوندنے پھر اس زوجہ کی طرف میلان کرکے اسے اپنے نکاح میں لیا اور وہ بیچاری بفضل خدا اس دن سے اب تک اپنے گھر میں آباد ہے.گر می کا موسم اور اشتیاق زیارت اور کلام کے سننے میں احباب کے مِل مِل کر بیٹھنے پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ مکان کو وسیع کر دیوے تو یہ شکایت رفع ہو.ہر ایک شخص تقاضائے محبت سے آگے آتا ہے اور جگہ ہوتی نہیں.۱ البدرجلد۲نمبر۲۳مورخہ۲۶؍جون۱۹۰۳ء صفحہ۱۷۸
عبودیت کا سِرّاور استغفار چند ایک احباب نے بیعت کی.اس پر حضرت اقدس نے ان کو نصیحت فرمائی کہ خدا کا منشا ہے کہ انسان توبہ نصوح کرے اور دعا کرے کہ اس سے گناہ سر زد نہ ہو.نہ آخرت میں رسواہو نہ دنیا میں.جب تک انسان سمجھ کر بات نہ کرے اور تذلّل اس میں نہ ہو تو خدا تک وہ بات نہیں پہنچتی.صوفیوں نے لکھا ہے کہ اگر چالیس دن گزر جاویں اور خدا کی راہ میں رونا نہ آوے تو دل سخت ہو جاتا ہے تو سختی قلب کا کفّارہ یہی ہے کہ انسان رو دے.اس کے لیے محر کات ہوتے ہیں انسان نظر ڈال کر دیکھے کہ اس نے کیا بنایا ہے اور اس کی عمر کا کیا حال ہے.دیگر گذشتگان پر نظر ڈالے پھر انسان کا دل لرزاں وتر ساں ہوتا ہے.جو شخص دعویٰ سے کہتا ہے کہ میں گناہ سے بچتا ہوں وہ جھوٹا ہے جہاں شیر ینی ہوتی ہے وہاں چیونٹیاں ضرور آتی ہیں اسی طرح نفس کے تقاضے تو ساتھ لگے ہی ہیں ان سے نجات کیا ہوسکتی ہے؟ خدا کے فضل اور رحمت کا ہاتھ نہ ہو تو انسان گناہ سے نہیں بچ سکتا نہ کوئی نبی نہ ولی اور نہ ان کے لیے یہ فخر کا مقام ہے کہ ہم سے گناہ صادر نہیں ہوتا بلکہ وہ ہمیشہ خدا کا فضل مانگتے تھے اور نبیوں کے استغفار کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ خدا کے فضل کا ہاتھ ان پر رہے ورنہ اگر انسان اپنے نفس پر چھوڑا جاوے تو وہ ہرگز معصوم اور محفوظ نہیں ہوسکتا اَللّٰھُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَایَایَ اور دوسری دعائیں بھی استغفارکے اس مطلب کو بتلاتی ہیں.عبودیت کا سِرّ یہی ہے کہ انسان خدا کی پناہ کے نیچے اپنے آپ کو لے آوے جو خد اکی پناہ نہیں چاہتا ہے وہ مغرور اور متکبر ہے.۱ ۱۸؍جون ۱۹۰۳ء (بوقتِ ظہر) ۱ البدرجلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۶؍ جون ۱۹۰۳ء ۱۷۸،۱۷۹
ہمارے مخدوم مولانا عبدالکریم صاحب جو کہ عرصہ قریب پانچ سال سے حضرت اقدس کے مبارک قدموں میں جاگزیں ہیں ان کو ایک شادی کی تقریب پر شمولیت کے واسطےایک دو احباب سیالکوٹ سے تشریف لائے تھے مگر خدا تعالیٰ نے جو عشق اور محبت مولوی صاحب کو حضرت اقدسؑ کے ساتھ عطا کیا ہے وہ ایک پل کے واسطے بھی ان مبارک قدموں سے جدائی کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اس کا اثر یہ ہے کہ جب کوئی احمدی بھائی قادیان آکر پھر رخصت طلب کرتے ہیں تو مولوی صاحب کی ان کو یہی نصیحت ہوتی ہے کہ اس مقام کو اتنی جلدی نہ چھوڑو.دیکھو تمہارے اوقات دنیوی کا روبار میں کس قدر گذرتے ہیں اگر اس کا ایک عشرِ عشیر بھی تم دین کے واسطے یہاں گذارو تو تم کو پتا لگے اور آنکھ کھلے کہ یہاں کیا ہے جو ہمیں ایک پل کے واسطے علیحدہ نہیں ہونے دیتا غرضیکہ مولوی صاحب موصوف نے سیالکوٹ جانے سے انکار کیا اور وہی بات اس وقت حضرت اقدس کے سامنے پیش ہوئی.حضرت اقدس نے فرمایا کہ قادیان دارالامان اس مقام کو خدا تعالیٰ نے امن والا بنایا ہے اور متواتر کشوف والہامات سے ظاہر ہوا ہے کہ جو اس کے اندر داخل ہوتا ہے وہ امن میں ہوتا ہے.تو اب ان ایام میں جبکہ ہر طرف ہلاکت کی ہوا چل رہی ہے اور گو کہ طاعون کا زور اب کم ہے مگر سیالکوٹ ابھی تک مطلق اس سے خالی نہیں ہے.اس لیے اس جگہ کو چھوڑ کر وہاں جانا خلافِ مصلحت ہے.آخر کار تجویز یہ قرار پائی کہ جن صاحب کی شادی ہے وہ اور لڑکی کی طرف سے اس کا ولی ایک شخص وکیل ہو کر یہاں قادیان میں آجاویں اور یہاں نکاح ہو.حضرت صاحب کی دعا بھی ہو گی اور خود مولوی عبدالکریم صاحب کیا بلکہ حضرت اقدسؑ بھی اس تقریب سے نکاح میں شامل ہو جاویںگے.کیا اچھا ہو کہ کل احمدی احباب اس تجویز پر عملدرآمد کریںاور جب کبھی کسی کا نکاح ہونا ہو اور خدا تعالیٰ نے ان کو استطاعت دی ہو کہ سفر خرچ برداشت کر کے یہاں پہنچ سکیں تو وہ نکاح یہاں قادیان ہی میں ہوا کرے.۱ البدر جلد ۲نمبر۲۴ مورخہ ۳؍جولائی ۱۹۰۳ءصفحہ۱۸۵
جس لڑکے کے رشتہ کی یہ تقریب تھی اس کا رشتہ اوّل ایک ایسی جگہ ہوا ہوا تھا جو کہ حضرت کی بیعت میں نہیں تھے اور جب یہ رشتہ قائم ہوا تھا تواس وقت لڑکا بھی شاملِ بیعت نہ تھا جب لڑکے نے بیعت کی تولڑکی والوں نے اس لیے لڑکی دینے سے انکار کر دیا کہ لڑکا مرزائی ہے.اس ذکر پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ اوّل اوّل یہ لوگ ایک دوسرے کو کافر کہتے تھے سنّی وہابیوں کی اور وہابی سنّی کی تکفیر کرتا تھا مگر اب اس وقت سب نے موافقت کر لی ہے اور سارا کفر اکٹھا کرکے گویا ہم پر ڈال دیا ہے.۱ ۱۹؍جون ۱۹۰۳ء ریل کی پیشگوئی قرآن شریف میں جمعہ کی نماز سے پیشتر تھوڑی دیر حضرت اقدس نے مجلس کی.ریل وغیرہ کی ایجاد سے جو فوائد بنی نوع انسان کو پہنچے ہیں ان کا ذکر ہوتا رہا.اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ انسانی صنعتوں کا انحصار خدا تعالیٰ کے فضل پر ہے.ریل کے واسطے قرآن شریف میں دو اشارے ہیں.اوّل.اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (التکویر:۸) دوم.اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (التکویر:۵) عشار حمل دار اونٹنی کو کہتے ہیں.حمل کا ذکر اس لیے کیا تاکہ معلوم ہو جاوے کہ یہ قیامت کا ذکر نہیں ہے.صرف قرینہ کے واسطے یہ لفظ لکھا ہے ورنہ ضرورت نہ تھی.اگر پیشگوئیوں کا صدق اس دنیا میں نہ کھلے تو پھر اس کافائدہ کیا ہوسکتا ہے اور ایمان کو کیا ترقی ہو؟بیوقوف لوگ ہر ایک پیشگوئی کو صرف قیامت پر لگاتے ہیں اور جب پوچھو تو کہتے ہیں کہ اس دنیا کی نسبت کوئی پیشگوئی قرآن شریف میں نہیں ہے.۱
۲۵؍جون ۱۹۰۳ء ربوبیتِ تامہ رات کو بعد از نماز عشاء چند مستورات نے بیعت کی.حضرت اقدس نے ان کو ایک جامع وعظ فرمایا.جس قدر حصہ اس کا قلمبند ہوا وہ ہدیہ ناظرین ہے.اس سے مطلب یہ ہے کہ قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی پرورش ضرور ہوتی ہے.دیکھو بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو کس طرح خدا تعالیٰ اس کے ناک، کان وغیرہ غرض اس کے سب اعضا بناتا ہے اور اس کے دو ملازم مقرر کرتا ہے کہ وہ اس کی خدمت کریں.والدین بھی جو مہربانی کرتے ہیں اور پرورش کرتے ہیں وہ سب پرورشیں بھی خدا تعالیٰ کی پرورشیں ہوتی ہیں.بعض لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے سوا اَوروں پر بھروسہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں اگر فلاں نہ ہوتا تو میں ہلاک ہوجاتا.میرے ساتھ فلاں نے احسان کیا.وہ نہیں جانتا کہ یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (الفلق:۲) میں اس خدا تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں جس کی تمام پرورشیں ہیں.رَبّ یعنی پرورش کنندہ وہی ہے اس کے سوا کسی کا رحم اور کسی کی پرورش نہیں ہوتی حتی کہ جو ماں باپ بچے پر رحمت کرتے ہیں دراصل وہ بھی اسی خدا کی پرورشیں ہیں اور بادشاہ جو رعایا پر انصاف کرتا ہے اور اس کی پرورش کرتا ہے وہ سب بھی اصل میں خدا تعالیٰ کی مہربانی ہے.ان تمام باتوں سے اللہ تعالیٰ یہ سکھلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے برابر کوئی نہیں سب کی پرورشیں اسی کی ہی پرورشیں ہوتی ہیں بعض لوگ بادشاہوں پر بھروسہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں نہ ہوتا تو میں تباہ ہو جاتا اور میرا فلاں کام فلاں بادشاہ نے کر دیا وغیرہ وغیرہ یادرکھو ایسا کہنے والے کافر ہوتے ۱ اس جگہ البدر کے ڈائری نویس نے نوٹ دیا ہے کہ ’’مَیںاسے نوٹ نہ کرسکا اور نہ یاد رکھ سکا.‘‘ عبارت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس ؑ کے صحیح الفاظ قلمبند نہیں کیے جاسکے.مثلاً ’’پتھر اونچا ہوگیا ‘‘ کے الفاظ درست نہیں.’’پتھر سرک گیا‘‘ ہونا چاہیے.حضور نے حدیث کا مشہور واقعہ بیان فرمایا جسے ڈائری نویس صاحب اچھی طرح قلمبند نہیں کرسکے.(مرتّب)
ہیں انسان کو چاہیے کہ کافر نہ بنے مومن بنے اور مومن نہیں ہوتا جب تک کہ دل سے ایمان نہ رکھے کہ سب پرورشیں اور رحمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں.انسان کو اس کا دوست ذرّہ بھی فائدہ نہیں دے سکتا جب تک کہ خدا تعالیٰ کا رحم نہ ہو.اسی طرح بچے اور تمام رشتہ داروں کا حال ہے اللہ تعالیٰ کا رحم ہونا ضروری ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دراصل میں ہی تمہاری پرورش کرتا ہوں جب خدا تعالیٰ کی پرورش نہ ہو تو کوئی پرورش نہیں کرسکتا دیکھو جب خدا تعالیٰ کسی کو بیمار ڈال دیتا ہے تو بعض دفعہ طبیب کتنا ہی زور لگاتے ہیں مگر وہ ہلاک ہو جاتا ہے.طاعون کے مرض کی طرف غور کرو سب ڈاکٹر زور لگا چکے مگر یہ مرض دفع نہ ہوا.اصل یہ ہے کہ سب بھلائیاں اسی کی طرف سے ہیں اور وہی ہے کہ جو تمام بدیوں کو دور کرتا ہے.پھر فرماتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (الفاتـحۃـ:۲) سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور تمام پرورشیں تمام جہان پر اسی کی ہیں.الرحـمٰن وہی ہے جس کی رحمتیں بے بدلہ ہیں مثلاً انسان کا کیا عذرتھا اگر اللہ تعالیٰ اسے کتّا بنا دیتا تو کیا یہ کہہ سکتا تھا کہ اے اللہ تعالیٰ میرا فلاں عمل نیک تھا اس کا بدلہ تو نے نہیں دیا.الرحیم اس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیک عمل کے بدلہ نیک نتیجہ دیتا ہے جیسا کہ نماز پڑھنے والا روزہ رکھنے والا صدقہ دینے والا دنیا میں بھی رحم پاوے گا اور آخرت میں بھی چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ(التوبۃ:۱۲۰)اور دوسری جگہ فرماتا ہے مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ(الزلزال:۸،۹) یعنی اللہ تعالیٰ کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا جوکوئی ذرّہ سی بھی بھلائی کرتا ہے ۱ البدرجلد ۲ نمبر ۲۴ مورخہ ۳؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸۵،۱۸۶ ۲ البدر میں لکھا ہے کہ ’’ چند ایک احباب نے بیعت کی اس پر حضرت اقدس ؑ نے ذیل کی مختصر تقریر فرمائی.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۴ مورخہ ۳؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸۶) ۳ البدر میں ہے کہ ’’ایک سوال پر فرمایا.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۴ مورخہ ۳؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸۶)
وہ اس کا بدلہ پالیتا ہے.ایک یہودی نے کسی شخص کو کہا کہ میں تجھے جادوسکھلا دوں گا شرط یہ ہے کہ تو کوئی بھلائی نہ کرے جب دنوں کی تعدا د پوری ہو گئی اور جادو نہ سیکھ سکاتو یہودی نے کہا کہ تو نے ان دنوں میں ضرور کوئی بھلائی کی ہے.جس کی وجہ سے تو نے جادو نہیں سیکھا اس نے کہا کہ میں نے کوئی اچھا کام نہیں کیا سوائے اس کے کہ راستہ میں سے کانٹا اٹھایا اس نے کہا بس یہی تو ہے.جس کی وجہ سے تو جادو نہ سیکھ سکا.تب وہ بولا پھر خدا تعالیٰ کی بڑی مہربانیاں ہیں کہ اس نے ذرّہ سی نیکی کے بدلہ بڑے بھاری گناہ سے بچالیا.اور ہمیں اس خدا تعالیٰ کی ہی پرستش کرنی چاہیے جو کہ ذرّہ سے کام کا بھی اجر دیتا ہے.خدا وہ ہے کہ انسان اگر کسی کو پانی کا گھونٹ بھی دیتا ہے تو وہ اس کا بدلہ دیتا ہے دیکھو ایک عورت جنگل میں جارہی تھی رستہ میں اس نے ایک پیاسے کتّے کو دیکھا اس نے اپنے بالوں سے رسّہ بناکر کہوہ (کنوئیں) سے پانی کھینچ کراس کتّے کو پلا یا جس پر رسول کریم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے عمل کو قبول کر لیا ہے وہ اس کے تمام گناہ بخش دے گا اگرچہ وہ تمام عمر فاسقہ رہی ہے.ایک اور قصہ بیان کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تین آدمی پہاڑ پر پھنس گئے تھے وہ اس طرح کہ انہوں نے پہاڑ کی غار میں ٹھکا نا لیا تھا جبکہ ایک پتھر سامنے سے آگرا اور رستہ بند کر لیا تب ان ۱ البدر میں اس کے آگے مزید یوں لکھا ہے.’’ اس میں اللہ تعالیٰ انسان کو عبرت دیتا ہے کہ دیکھو جب آگ تک اس کی فرمانبردار ہے تو انسان کو کہاں تک فرمانبردا ر ہونا چاہیے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۴ مورخہ ۳؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸۶) ۲ البدر میں ہے.’’جب انسان دیر تک ان حکموں پر کار بند رہتا ہے تو اس پر بھی وہ زمانہ آجاتا ہے کہ کہا جاتا ہے قُلْنَا يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا (الانبیاء:۷۰) یعنی تو جو مصیبتوں میں جل رہا تھا تو اب ٹھنڈا ہو جا اور اس آگ کی طرح فرمانبردار ہوجا.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۴ مورخہ ۳؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸۶) ۳ الحکم جلد۷ نمبر۲۵مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ۱۵ ۴ الحکم میں ہے.’’ حدیث شریف میں آیا ہے.وَمِنْ حُسْنِ الْاِسْلَامِ تَرْکُ مَالَا یَعْنِیْہِ پیچ در پیچ غیر مفید امور کو ترک کر دینا بھی اسلام کی خوبی ہے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ )
تینوں نے کہا کہ اب تو نیک کام ہی بچا ئیں گے چنانچہ ایک نے کہا کہ ایک دفعہ میں نے مزدور لگائے تھے مزدوری کے وقت ان میں سے ایک مزدور کہیں چلا گیا میں نے بہت ڈھونڈا آخر نہ ملا پھر میں نے اس کی مزدوری سے کوئی بکری خرید ی اور اس طرح چند سال تک ایک بڑا گلہ ہو گیا پھر وہ آیا اس نے کہا کہ میں نے ایک دفعہ آپ کی مزدوری کی تھی اگر آپ دیں تو عین مہربانی ہو گی میں نے اس کا تمام مال اس کے سپرد کر دیا اے اللہ اگر تجھے میرا یہ نیک عمل پسند ہے تو میری مشکل آسان کر اتنے میں تھوڑا پتھر اونچا ہو گیا.پھر دوسرے نے اپنا قصہ بیان کیا۱ اور پھر بولا کہ اے اللہ اگر میری یہ نیکی تجھے پسند ہے تو میری مشکل آسان کر پھر پتھر ذرا اور اونچا ہو گیا.پھرتیسرے نے کہا کہ میری ماں بوڑھی تھی ایک رات کو اس نے پانی طلب کیا میں جب پانی لا یا تو وہ سو چکی تھی میں نے اس کو نہ اٹھایا کہ کہیں اس کو تکلیف نہ ہو اور وہ پانی لیے تمام رات کھڑا رہا.صبح اٹھی تو اسے دے دیا.اے اللہ اگر تجھے میری یہ نیکی پسند ہے تو مشکل کو دور کر پھر اس قدر پتھر اونچا ہو گیا کہ وہ سب نکل گئے اس طرح پر اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو نیکی کا بدلہ دیا.۱ ۲۶؍جون ۱۹۰۳ء (دربارِشام) ایمان کے ساتھ عمل ضروری ہے فرمایا.۲ اسلام کادعویٰ کرنا اور میرے ہاتھ پر بیعت توبہ کرنا ۱ نقل مطابق اصل.الحکم میں یہ الفاظ ہیں.’’قرآن شریف میں جو ترکیب ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے استمرار پر دلالت کرتی ہے.‘‘(الحکم جلد ۷ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ ) ۲ الحکم سے.’’پس آدم علیہ السلام سے پہلے مخلوق ضرور تھی.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ ) ۳ الحکم میں سے.’’کوئی آدمی نہ بچا ہو.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ )
کوئی آسان کام نہیں ہے.کیونکہ جب تک ایمان کے ساتھ عمل نہ ہو کچھ نہیں.منہ سے دعویٰ کرنا اور عمل سے اس کاثبوت نہ دینا خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کا ناہے اور اس آیت کا مصداق ہوجانا ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(الصّف:۳،۴) یعنی اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے ہو.یہ اَمر کہ تم وہ باتیں کہو جن پر تم عمل نہیں کرتے خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑے غضب کا موجب ہیں.پس وہ انسان جس کو اسلام کا دعویٰ ہے یا جو میرے ہاتھ پر توبہ کرتا ہے اگر وہ اپنے آپ کو اس دعویٰ کے موافق نہیں بناتا اور اس کے اندر کھوٹ رہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے بڑے غضب کے نیچے آجاتا ہے اس سے بچنا لازم ہے.اَمرِشرعی اور اَمرِکونی فرمایا.۳ اوامر کی دو قسمیں ہوتی ہیں.ایک اَمر شرعی ہوتا ہے جس کے برخلاف انسان کرسکتا ہے.دوسرے اوامر کونی ہوتے ہیں جس کا خلاف ہو ہی نہیں سکتا.جیسا کہ فرمایا قُلْنَا يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِيْمَ(الانبیآء:۷۰) اس میں کوئی خلاف نہیں ہوسکتا.چنانچہ آگ اس حکم کے خلاف ہرگز نہ کرسکتی تھی.۱ انسان کو جو حکم اللہ تعالیٰ نے شریعت کے رنگ میں دئیے ہیں جیسے اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ (البقرۃ:۴۴) نماز کو قائم رکھو.یا فرمایا وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ (البقرۃ:۴۶) ان پر جب وہ ایک عرصہ تک قائم رہتا ہے تو یہ احکام بھی شرعی رنگ سے نکل کر کونی رنگ اختیار کرلیتے ہیں اور پھر وہ ان احکام کی خلاف ورزی کر ہی نہیں سکتا.۲،۳ ۱ الحکم میں سے.’’پردہ پوشی کی ہوئی ہے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶ ) ۲ البدر جلد۲ نمبر۲۴مورخہ ۳؍جولائی۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸۶، ۱۸۷
۲۸؍جون ۱۹۰۳ء ( مجلس قبل ازعشاء) کیا آدم کے وقت دوسرے انسان موجود تھے ایک صاحب نے سوال کیا کہ آدم علیہ السلام جو خلیفہ بن کر آئے تو اس وقت کون سی قوم موجود تھی جس کے وہ خلیفہ تھے؟ اور اگر کوئی قوم موجود تھی تو پھر حوّا ان کی زوجہ کی نئی پیدائش کی ضرورت نہ تھی.اسی موجودہ قوم میں سے وہ نکاح کرسکتے تھے.اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ حدیث شریف میں ہے کہ بہت سے پیچ درپیچ جو امور غیر مفید ہوں ان کو انسان ترک کردے.۴ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً (البقرۃ:۳۱) سے استنباط ایسا ہوسکتا ہے کہ پہلے سے اس وقت کوئی قوم موجود ہو اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فر ماتا ہے وَالْجَآنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ(الـحجر:۲۸) ایک قوم جان بھی آدم سے پہلے موجود تھی.بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ سے خالق ہے اور یہی حق ہے کیونکہ اگر خدا کو ہمیشہ سے خالق نہ مانیں تو اس کی ذات پر (نعوذباللہ) حرف آتا ہے اور ماننا پڑے گا کہ آدم ؑسے پیشتر خدا تعالیٰ معطل تھا لیکن چونکہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کی صفات کو قدیمی بیان کرتا ہے اسی لیے اس حدیث کامضمون راست ہے.قرآن میں جو کوئی ترکیب ہے وہ ان صفات کے استمرار پردلالت کرتی ہیں،۱ لیکن اگر آدمؑ سے ابتدائے خلق ہوتی اور اس سے پیشتر نہ ہوتی تو پھر یہ نحوی ترکیب قرآن میں نہ ہوتی.۲ باقی رہی لڑکیوں کی بات کہ ان کے موجود ہوتے حوّا کی پیدائش کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس طرح سمجھنا چاہیے کہ ممکن ہے کہ جس مقام پر آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ہو وہاں کے لوگ کسی عذابِ الٰہی سے ایسے تباہ ہوگئے ہوں کہ آدمی نہ بچا ہو.۳ دنیا میں یہ سلسلہ جاری ہے کہ کوئی مقام بالکل تباہ ہو جاتا ہے.کوئی غیر آبادآباد ہو جاتا ہے کوئی برباد شدہ پھر ازسر نو آباد ہوتا ہے.چنانچہ دیکھ لو
کہ ابھی تک یورپ والے ٹکریں ماررہے ہیں کہ شاید قطب شما لی میں کوئی آبادی ہو اور تلاش کر کرکے معلوم کر رہے ہیں کہ کون سے قطعاتِ زمین اوّل آباد تھے اور پھر تباہ ہو گئے.پس ایسی صورت میں ان مشکلات میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ ایمان لانا چاہیے کہ خدا تعالیٰ ربّ، رحـمٰن، رحیم، مالک یوم الدین ہے اور ہمیشہ سے ہی ہے.جاندار ایک تو تکوّن سے پیدا ہوتے ہیں اور ایک تکوین سے.ممکن ہے کہ آدم کی پیدائش کے وقت اَور مخلوقات ہو اور اس کی جنس سے نہ ہو یا اگر ہو بھی تو اس میں کیا ہرج ہے کہ قدرت نمائی کے لیے خدا تعالیٰ نے حوّا کو بھی ان کی پسلی سے پیدا کردیا.جب انسان بیعت کرتا ہے تو سب اَمرونہی اسے ماننے چاہئیں اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان چاہیے.خدا تعالیٰ ہر طرح پر قادر ہے.ممکن ہے کہ ایک قوم موجود ہو اور اس کے ہوتے وہ اَور قوم پیدا کردیوے یا ایک قوم کو ہلاک کرکے اَور پیدا کردے.موسٰی کے قصہ میں بھی ایک جگہ ایسا واقعہ بیان ہوا ہے آدم ؑ کے وقت بھی خدا سابقہ قوموں کو ہلاک کر چکا تھا.پھر جب آدمؑ کو پیدا کیا تواَور قوم بھی پیدا کردی.خلیفہ کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ایک قوم ضرورپہلے سے موجود ہو.ایساہوسکتا ہے کہ ایک اَورقوم کو پیدا کرکے پہلی قوم کا خلیفہ اسے قرار دیا جاوے اورآدم اس کے مورثِ اعلیٰ ہوں کیونکہ خدا کی ذات ازلی ابدی ہے اس پر تغیر نہیں آتا.مگر انسان ازلی ابدی نہیں ہے اس پر تغیر آتا ہے میرے الہام میں بھی مجھے آدم کہا گیا ہے.جب روحانیت پر موت آجاتی ہے یعنی اصل انسانیت فوت ہو جاتی ہے تواللہ تعالیٰ بطور آدم کے ایک اَور کو پیدا کرتا ہے اور اس طرح سے ہمیشہ سے آدم پیدا ہوتے رہتے ہیں اگرقدیم سے یہ سلسلہ ایسا نہ ہو تو پھر ماننا پڑے گا کہ ۵ یا ۶ ہزار برس سے خداہے قدیم سے نہیں ہے یا یہ کہ اوّل وہ معطّل تھا.یہ خدا کی عادت ہے کہ بعض قرون کو ہلاک کرتا ہے.دیکھو نوحؑ کے وقت ایک زمانہ کو ۱ البدر جلد۲ نمبر۲۴مورخہ ۳؍جولائی ۱۹۰۳ءصفحہ ۱۸۷
ہلاک کر دیا.اس لیے ممکن ہے، ممکن کیا بلکہ یقین ہے کہ نوحؑ کی طرح اس وقت سابقہ قوموں کو ہلاک کر دیا اور پھر ایک نئی پیدائش کی.اگر یہ ہلاکت کا سلسلہ نہ ہو تو پھر زمین پر اس قدرآبادی ہو کہ رہنا محال ہو جاوے.یہ قبریں ہی ہیں جنہوں نے یہ پردہ پوشی کی ہے.۱،۲ ۳۰؍ جون ۱۹۰۳ء (مجلس قبل ازعشاء) بیعت کے بنیادی لوازم چند ایک نَووارداحباب نے بیعت کی.ان میں سے چند ایک نے عرض کی کہ حضرت جی.ہم قرآن پڑھے ہوئے نہیں ہیں فرمایا کہ موٹے موٹے گناہوں کو تو جانتے ہو ان سے بچو.چوری نہ کرو، زنانہ کرو، ظلم نہ کرو، کسی کا مال یا زمین نہ دباؤ، جھوٹ مت بولو، شرک مت کرو.حدیث شریف سے ثابت ہے کہ اَھْلُ الْـجَنَّۃِ بُلْہٌ کہ جنّت میں جانے والے سادے ہوتے ہیں.جو بہت پڑھے ہوئے ہیں اور عمل نہیں کرتے ان کی سخت مذمت کی گئی ہے اور ان پر خدا نے لعنت بھی کی تھی.غریب لوگ پا نصد برس پیشتر بہشت میں داخل ہوں گے.غریبی خوش قسمتی ہے.خدا کوپہچانو کہ جس کی طرف تم نے جانا ہے اور شرک سے پرہیز کرو.اسباب پر بھروسہ کرنے سے بچو کہ یہ بھی ایک شرک ہے.جو آدمی چالاکی سے گناہ کرتا ہے اور باز نہیں آتا تو آخر خدا کا قہر ایک دن اسے ہلاک کرتا ہے لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ کے معنے یہی ہیں کہ خدا کے سوا اَور کسی کی پوجا نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں.۱ ابو لہب کے گھر مُراد ہے.(مرتّب)
اپنی عورتوں کو نصیحتیں کرو، رشوتیں نہ لونہ دو، تکبر، گھمنڈ، غرور ان سب باتوں سے بچو، خدا کے غریب اور عاجز بندے بن جاؤ.صبر اور عفو ایک نے سوال کیا کہ اگر کوئی دشمن نقصان دیوے تو پھر بدلہ لیویں کہ نہ؟ فرمایا کہ صبر کرو کہ یہ وقت صبر کا ہے.جو صبر کرتا ہے خدا اسے بڑھاتا ہے.انتقام کی مثال شراب کی طرح ہے کہ جب تھوڑی تھوڑی پینے لگتا ہے تو بڑھتی جاتی ہے حتی کہ پھر وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا اورحد سے بڑھتا ہے اسی طرح انتقام لیتے لیتے انسان ظلم کی حد تک پہنچ جاتا ہے.ایسی مجلس سے اُٹھ جانا چاہیے جہاں بُرا کہا جاتا ہو سوال ہوا کہ اگرآپ کو کوئی بُرا کہے تو ہم کیسے صبر کرسکتے ہیں؟ فرمایا کہ جوش کے وقت اپنے آپ کو سنبھالنا چاہیے.دُکھ تو ہوتا ہے مگر انسان ثواب پا تا ہے.اگر کوئی ہمیں بُرا کہتا ہو تو وہاں سے اُٹھ گئے یا الگ ہو گئے.نہ سُناکہ جس سے جوش آوے اور فساد ہووے.فساد سے بچنا چاہیے سوال ہوا کہ مسجد میں نماز نہیں پڑھنے دیتے اور اس مسجدمیں ہمارا حصہ ہے.فرمایا کہ سفید زمین پر ایک حد کرلی وہی مسجد ہو جاتی ہے مگر فساد اچھا نہیں.اگر تم دشمن سے بدلہ نہ لو اور اسے خدا کے حوالہ کردو تو وہ خود نپٹ لیوے گا.دیکھو ایک بچہ کے دشمن کا مقابلہ ماںباپ کیا کرتے ہیں.اسی طرح جو خدا کے دروازہ پر گرتا ہے تو خدا خوداس کی رعایت کرتا ہے اور اسے ضرر دینے والے کو تباہ کر دیتا ہے.۱ یکم جولائی ۱۹۰۳ء (دربارِ شام ) ۱الحکم جلد۷ نمبر۲۵مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ۱نیز البدر جلد ۲ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۹۳، ۱۹۴
ایک فقہی مسئلہ ایک لڑکی کے دوبھائی تھے اور ایک والدہ.ایک بھائی اور والدہ ایک لڑکے کے ساتھ اس لڑکی کے نکاح کے لیے راضی تھے.مگر ایک بھائی مخالف تھا.وہ اَور جگہ رشتہ پسندکرتا تھا اور لڑکی بھی بالغ تھی.اس کی نسبت مسئلہ دریافت کیا گیا کہ اس لڑکی کا نکاح کہاں کیا جاوے.حضرت اقدسؑ نے دریافت کیا کہ وہ لڑکی کس بھائی کی رائے سے اتفاق کرتی ہے؟ جواب دیا گیا کہ اپنے اس بھائی کے ساتھ جس کے ساتھ والدہ بھی متفق ہے.فرمایا کہ پھر وہاں ہی اس کارشتہ ہو جہاں لڑکی اور اس کا بھائی دونوں متفق ہیں.آنحضرتؐکا ابولہب کے لڑکوں سے رشتہ کرنا پھر نکاحوں پر ذکر چل پڑا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لڑکیوں کے رشتے ابولہب سے۱ کر دئیے تھے حالانکہ وہ مشرک تھا مگر اس وقت تک نکاح کے متعلق وحی کانزول نہ ہوا تھا.چونکہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر توحید غالب تھی اس لیے دخل نہ دیتے تھے اور قومیت کے لحاظ سے بعض امور کو سرانجام دیتے اس لیے ابولہب کو لڑکی دے دی تھی.رسول کو علمِ غیب نہیں ہوتا رسول عالم الغیب ہوتا ہے کہ نہیں؟ اس پر فرمایا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب ہوتاتوآپ زینب کا نکاح زید سے نہ کرتے کیونکہ بعد کو جُدائی نہ ہوتی اور اسی طرح ابولہب سے بھی رشتہ نہ کرتے.۱ معلوم ہوتا ہے یہ لفظ ’’صرف ‘‘ نہیں بلکہ ’’جب ‘‘ہے.جو طباعت کی غلطی کی وجہ سے ’’صرف ‘‘ چھپ گیا ہے چنانچہ الحکم میں جب ہی لکھا ہے.الحکم میں ہے.’’ جب ایک دفعہ آنحضرتؐنے سرمنڈوایا تو آدھے سر کے کٹے ہوئے بال ایک شخص کو دے دیئے اور آدھے دوسرے حصّہ کے باقی اصحاب کو بانٹ دیئے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰ ) ۲ الحکم میں ہے.’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات جبہ شریف دھو کر مریضوں کو بھی پلایا کرتے تھے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰ )
مسیح موعودعلیہ السلام کا مقامِ ماموریت میں ایک مرد ہوں کہ خدا میرے ساتھ گفتگو کرتا ہے اور اپنے خاص خزانہ سے مجھے تعلیم دیتا ہے اور اپنے ادب سے میری تادیب فر ماتا ہے.وہ اپنی مجھ پر وحی بھیجتا ہے میں اس کی وحی کی پیروی کرتا ہوں.ایسی صورت میں مجھے کون سی ایسی ضرورت ہے کہ میں اس کی راہ کو ترک کرکے دوسری متفرق راہیں اختیار کروں؟ جو کچھ آج تک میں نے کہاہے اسی کے اَمر سے کہا ہے اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں ملایا.اور نہ اپنے خدا پر میں نے کوئی افترا باندھا ہے.مفتری کا انجام ہلاکت ہے پس اس کاروبار پر تعجب کرنے کا کون سا مقام ہے اس قادر مطلق خدا کے کاروبار پر تعجب نہ کرو کیونکہ اس نے تو زمین وآسمان کو پیدا کیا.وہ جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے اور کسی کو مجال نہیں کہ اس سے پوچھے کہ یہ کیا کیا.میرے پاس خدا تعالیٰ کی بہت سی شہادتیں ہیں.اس نے میرے لیے بڑے بڑے نشان دکھلائے ہیں اور اس کی وحی کردہ غیبی خبروں میں جواس نے مجھے دیں ایسے ایسے راز ہیں کہ انسان کی عقل کو ان تک رسائی نہیں ہے پس اس لیے چاہیے کہ طاعون کے بارے میں ہمارے ساتھ جھگڑا نہ کریں اور اس شخص کی طرح نہ ہوویں جس کے دل کو خدا نے غافل کردیا اور اس نے اپنے اسباب کو اپنا خدا قرار دے لیا.(کیا ان کو اس بات کی خبر نہیں ہے) کہ ہر ایک سبب کا انتہا آخر کار ہمارے خدا تک ہی ہے اور تھوڑی دور تک چل کر اسباب کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور صرف اَمرِ خالص ۱ البدر جلد۲ نمبر۲۶مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ءصفحہ۲۰۱ ۲ الحکم سے.’’۵؍جولائی ۱۹۰۳ء دربارِ شام‘‘ احمدی کون ہے؟ (اپنے الفاظ میں) حضور علیہ السلام معمول کے موافق شہ نشین پر جلوس فرماہوئے اورذیل کی تقریر فرمائی.مجھے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت میں چند ہ دینے والے بہت تھوڑے ہیں.آئے دن صدہا آدمی بیعت کرکے چلے جاتے ہیں لیکن دریافت کرنے پر بہت ہی کم تعداد ایسے اشخاص کی ہے جو متواتر ماہ بماہ چندہ دیتے ہیں.
کا مرتبہ رہ جاتا ہے کہ جسے کسی طرح ہم سبب کی طرف منسوب نہیں کرسکتے اور صرف خدا تعالیٰ کی (بقیہ حاشیہ)جو شخص اپنی حیثیت وتوفیق کے موافق اس سلسلہ کی چند پیسوں سے امداد نہیںکرتا اس سے اور کیا توقع ہوسکتی ہے اور اس سلسلہ کو اس کے وجود سے کیا فائدہ؟ ایک معمولی انسان بھی خواہ کتنی ہی شکستہ حالت کا کیوں نہ ہو جب بازار جاتا ہے تو اپنی قدرکے موافق اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ لاتا ہے تو پھر کیا یہ سلسلہ جو اپنی عظیم الشان اغراض کے لیے اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے اس لائق بھی نہیں کہ وہ اس کے لیے چند پیسے بھی قربان کرسکے؟ دنیا میں آج کل کون سا سلسلہ ہوا ہے یا ہے جو خواہ دنیوی حیثیت سے ہے یاد ینی بغیر مال چل سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر ایک کام اس لیے کہ عالم ِاسباب میں ہے اسباب سے ہی چلایا جاتا ہے پر کس قدربخیل ومُمسِک وہ شخص ہے کہ جو ایسے عالی مقصد کی کامیابی کے لیے ادنیٰ چیزمثل چند پیسے خرچ نہیں کرسکتا.ایک وہ زمانہ تھا کہ الٰہی دین پرلوگ اپنی جانوں کو بھیڑ بکری کی طرح نثار کرتے تھے مالوں کا تو کیا ذکر، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک سے زیادہ دفعہ اپناکُل گھر بار نثار کیا حتی کہ سوئی تک کو بھی گھر میں نہ رکھا اور ایسا ہی حضرت عمرؓ نے اپنی بساط و انشراح کے موافق اور عثمانؓ نے اپنی طاقت وحیثیت کے موافق، علیٰ ہذاالقیاس علیٰ قدرمراتب تمام صحابہ اپنی جانوں اور مالوں سمیت اس دین الٰہی پر قربان کرنے کے لیے طیار ہوگئے.ایک وہ ہیں کہ بیعت تو کر جاتے ہیں اور اقرار بھی کرجاتے ہیں کہ ہم دنیا پر دین کو مقدم کریں گے مگر مدد و امداد کے موقع پر اپنی جیبوں کو دبا کر پکڑ رکھتے ہیں.بھلا ایسی محبت دنیا سے کوئی دینی مقصد پاسکتا ہے؟اور کیا ایسے لوگوں کا وجود کچھ بھی نفع رساں ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ(اٰل عـمران:۹۳) جب تک تم اپنی عزیز ترین اشیاء اللہ جلشانہٗ کے راہ میں خرچ نہ کرو تب تک تم نیکی کو نہیں پاسکتے.اس وقت ہماری جماعت قریباً تین لاکھ کے ہے اگر ایک ایک پیسہ ہی اس سلسلہ کی امداد مثل لنگر ومدرسہ وغیرہ امداد میں دیں تو لاکھوں پیسے ہوسکتے ہیں.قطرہ قطرہ بہم شود دریا ایک ایک بوند پانی سے دریا بن جاتا ہے تو کیا ایک ایک پیسہ سے ہزار ہاروپیہ نہیں بن سکتا اور کیا سلسلہ کی ضروریات پوری نہیں ہوسکتیں؟ اگر ایک شخص چارروٹیاں کھا تا ہے آدھی بھی اگر روٹی بچالے تو بھی اس عہد سے عہدہ برآہوسکتا ہے.البتہ یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ اکثر لوگوں کو اب تک کہا بھی نہیں جاتا کہ ہمارے سلسلہ کے لیے کسی چندہ کی ضرورت تھی بہت سے لوگ رو رو کر بیعت کرکے جاتے ہیں.اگر ان کو کہا جاوے تو ضرور وہ چندہ دیویں مگر ترغیب دینا ضروری ہے.پس میں تم میں سے ہر ایک کو جو حاضر یا غائب ہے تاکید کرتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کو چندہ سے باخبر کرو اور ہرایک کمزور بھائی کو بھی چندہ میں شامل کرو یہ موقع ہاتھ آنے کا نہیں.کیسا یہ زمانہ برکت کا ہے کہ کسی سے جانیں مانگی نہیں
ذات ہی باقی رہ جاتی ہے اور اسباب بالکل منقطع ہو جاتا ہے.اسباب تو صرف چند قدموں تک ساتھ دیتا ہے اس کے بعد خدا تعالیٰ کی غیر مدرک اور غیر مرئی خالص قدرت ہوتی ہے یہ ایک ایسا پوشید ہ خزانہ ہے کہ جس کی حد اور انتہا ہی نہیں ہے اور ایسا دریا ہے کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے اور ایک ایسا دشت ہے کہ جوطے ہونے میں نہیں آتا.یہ کہناکہ قدرت خالص اللہ تعالیٰ کی بے کار ہو جاتی ہے اورصرف اسباب رہ جاتے ہیں بڑی بے انصافی ہے.کیا تم کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ خدا نے آدم ؑ اور عیسٰیؑ کو کیسے پیدا کیا تھا؟ اور موسٰی کے لیے کس طرح دریا کو شگا ف کیا کہ جس سے موسٰی تو دریا سے سلامت گذرگئے اور فرعون غرق ہو گیا اب تم ہی جواب دو کہ وہ کون سی کشتی تھی جس پر بیٹھ کر موسٰی دریا سے گذرے.خدا تعالیٰ نے اس قصہ کو قرآن کریم میں بے فائدہ نہیں ذکرکیا ہے بلکہ اس میں بڑے بڑے معارف اور حقائق ہیں تاکہ تم کو اس بات کا علم ہو کہ اس پاک ذات اللہ تعالیٰ کی قدرت اسباب میں مقیّد نہیں ہے اور تمہارے ایمان ترقی کریں.آنکھیں کھلیں اور شکوک وشبہات رفع ہوں اور تم کو یہ شناخت حاصل ہو کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے کہ اس پر کسی قسم کا کوئی دروازہ مسدود نہیں ہے.اس کی قدرتوں کی کوئی انتہا نہیں ہے جو شخص اس کی وسعتِ قدرت سے منکر ہو کر اسباب کے احاطہ میں اسے مقیّد کرتا ہے تو سمجھو کہ صدق کے مقام سے وہ گرپڑا پس اگر کوئی شخص حکمِ خدا وندی سے اسباب کو ترک کرتا ہے تم اسے بُرا مت کہو اورخدا تعالیٰ کے قانون کو ایک تنگ وتاریک دائرہ میں محدودمت کرو.۱ ۴؍جولائی ۱۹۰۳ء (مجلس قبل ازعشاء) (بقیہ حاشیہ)جاتیں اور یہ زمانہ جانوں کے دینے کا نہیں بلکہ فقط مالوں کے بقدراستطاعت خرچ کرنے کا ہے.اس لیے ہر ایک شخص تھوڑا تھوڑا جو وہ لنگر اور مدرسہ اور دیگر ضروری مدّوں میں دے سکتا ہے دے.وہ آدمی جو تھوڑا تھوڑا چندہ دے مگر باقاعدہ اس سے بہتر ہے جو زیادہ دے مگر گاہے دے.‘‘ (الحکم جلد۷ نمبر۲۵مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۸)
تعویذاور دَم ایک شخص نے مسئلہ استفسار کیا کہ تعویذ کا بازووغیرہ مقامات پر باندھنا اور دم وغیرہ کرنا جائز ہے کہ نہیں؟ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جناب مولاناحکیم نورالدین صاحب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایاکہ احادیث میں کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ نہیں؟ حکیم صاحب نے عرض کی کہ لکھا ہے کہ خالدبن ولیدجب کبھی جنگوں میں جاتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک جو کہ آپ کی پگڑی میں بندھے ہوتے آگے کی طرف لٹکا لیتے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف۱ ایک دفعہ صبح کے وقت ساراسرمنڈوایا تھا توآپ نے نصف سرکے بال ایک خاص شخص کودے دیئے اور نصف سرکے بال باقی اصحاب میں بانٹ دیئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جبہ مبارک کو دھو دھو کر مریضوں کو بھی پلاتے تھے۲ اور مریض اس سے شفایاب ہوتے تھے.ایک عورت نے ایک دفعہ آپ کا پسینہ بھی جمع کیا یہ تمام اذکار سن کر حضرت اقدس نے فرمایا کہ پھر اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ بہرحال اس میں کچھ بات ضرور ہے جو خالی ازفائدہ نہیں ہے اور تعویذوغیرہ کی اصل بھی اس سے نکلتی ہے.بال لٹکائے تو کیا اور تعویذباندھا تو کیا میرے الہام میں جو ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.آخر کچھ تو ہے تبھی وہ برکت ڈھونڈیں گے مگر ان تمام باتوں میں تقاضائے محبت کا بھی دخل ہے.عظیم الشان انسانوں کے صغائر پر نظر کرنے کا ذکر ہوا.فرمایا کہ صدق ووفا میں جوعظیم الشان انسان ہوتے ہیں ان کے صغائر کا ذکر کرنے سے سلبِ ایمان ہو جاتا ہے.خدا تو ان صغائر کو عفوکر دیتا ہے اور ان کے کارناموں کی عظمت اس قدر ہوتی ہے کہ اس کے مقابلہ میں صغائر کا ذکر کرتے ہی شرم آتی ہے اسی لیے وہ رفتہ رفتہ ایسے معدوم ہو جاتے ہیں کہ پھر ان کا نام ونشان ہی نہیں رہتا.۱ ۱ البدر جلد۲ نمبر۲۶مورخہ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰۱،۲۰۲
۸؍ جولائی ۱۹۰۳ء (دربارِ شام ) غیر مومن کی ماتم پرسی مرزا امام الدین جو اپنے آپ کو ہدایت کنندہ قوم لال بیگیاں مشہور کرتا اور حضرت مسیح موعود کے سخت ترین دشمنوں سے تھا، ۶ ؍جولائی کو فوت ہو گیا.چنانچہ اس کے جنازہ پر رسمی طور پر ہمارے معززو مکرم دوست سیّد محمد علی شاہ صاحب بھی چلے گئے اور جنازہ پڑھ لینے کے پیچھے آپ کو اپنے اس عمل پر تاسّف ہوا اور آپ نے ذیل کا توبہ نامہ شائع کیا جو ہم ناظرین الحکم کی دلچسپی کے لیے درج کرتے ہیں کہ مَیں بذریعہ توبہ نامہ ہذا اس اَمر کو شائع کرتا ہوں کہ میں نے سخت غلطی کی ہے اور وہ یہ کہ میں نے غلطی سے مرزا امام الدین کا جو ۶؍جولائی کو فوت ہوا ہے اور جس نے اپنی کتابوں میں ارتداد کیا ہے جنازہ پڑھا.پس میں بذریعہ اشتہار ہذایہ توبہ نامہ شائع کرتا ہوں اور ظاہر کرتا ہوں کہ میں امام الدین اور ان لوگوں سے بیزار ہوں جو اس کے جنازہ میں شامل ہوئے اور بالآ خر میں دعائے جنازہ واپس لیتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے اپنے اس گناہ کی مغفرت چاہتا ہوں.خاکسار محمدعلی شاہ اس پر (حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے) فرمایا کہ کوئی شخص کسی بات پر نازنہ کرے.فطرت انسان سے الگ نہیں ہوا کرتی جس فطرت پر انسان اوّل قدم مارتا ہے پھر وہ اس سے الگ نہیں ہوتا یہ بڑے خوف کا مقام ہے حُسنِ خاتمہ کے لیے ہر ایک کو دعا کرنی چاہیے.عمر کا اعتبار نہیں ہر شَے پر اپنے دین کو مقدم رکھو.زمانہ ایسا آگیا ہے کہ پہلے تو خیالی طورپر اندازہ عمر کا لگایا جاتا تھا مگر اب تو یہ بھی مشکل ہے دانشمند کو چاہیے کہ ضرور موت کا انتظام کرے.میں اتنی دیر سے اپنی برادری سے الگ ہوں میرا کسی نے کیا بگاڑ دیا.خدا تعالیٰ کے مقابل پر کسی کو
معبود بنانا نہیں چاہیے.۱ ایک غیر مومن کی بیمار پُرسی اور ماتم پُرسی تو حُسن اخلاق کا نتیجہ ہے لیکن اس کے واسطے کسی شعائرِ اسلام کو بجا لا ناگناہ ہے مومن کا حق کافر۲ کو دینا نہیں چاہیے اور نہ منافقانہ ڈھنگ اختیار کرنا چاہیے.خدا تعالیٰ کی ذات گو مخفی ہے مگر اس کے انوار ظاہر ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مخفی نہیں.سب نبیوں سے زیادہ کامیاب نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے کامیابی اور خوشی کی موت تمام نبیوں سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.موسیٰ بھی کامیاب ہوئے لیکن موت نے ان کو بھی سفر میں ہی آگھیرا.دل میں تمنا ہوگی کہ اس سر زمین میں پہنچوں مگر وہ پوری نہ ہوئی.مسیحؑ کی موت پر خیال کیا جاوے تو اس میں غائت درجہ کی ناکامی ہے.کل ۱۲حواری تھے کسی کو بہشت کی کنجیاں ملنے کا وعدہ تھا وہ نہ ملیں.ایک نے تیس روپیہ نقد لے کر گرفتار کروادیا.دُوسرے نے لعنت بھیجی.۳ اگر یہ مان بھی لیں ۴ حضرت عیسیٰ آسمان پر ہی چڑھ گئے تو بھی روتے ہی گئے ہوں گے خوشی اور کامیابی کی موت تو نصیب نہ ہوئی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا میں آنا اور پھر وہاں سے رخصت ہونا قطعی دلیل آپ کی نبوت پر ہے.آئے آپ اُس وقت جبکہ زمانہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ (الرّوم:۴۲) کا مصداق تھا اور ضرورت ایک نبی کی تھی.ضرورت پر آنا ۱ البدر سے.’’ایک دانشمند کے لیے ضرور ہے کہ موت کا انتظام کرے.خدا تو موجود ہے.اس کے لیے بھی کچھ فکر چاہیے.ہم اس قدر عرصہ سے اپنی برادری سے الگ ہیں.ہمارا کسی نے کیا بگاڑ لیا جو اَور کسی کا برادری بگاڑ لے گی مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ (الطّلاق:۴) خدا کے مقابلہ پر کسی کو معبود نہ بنانا چاہیے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰۲ ) ۲ البدر میں ہے.’’مومن کا حق غیر مومن کو نہ دینا چاہیے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰۳ ) ۳ البدر میں ہے.’’ایک نے استاد پر لعنت کی.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰۳ ) ۴ البدر میں ہے.’’بفرضِ محال اگر مان لیا جاوے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰۳ )
بھی ایک دلیل ہے اور آپ اس وقت دنیاسے رخصت ہوئے جب اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ (النّصـر:۲) کا آوازہ دیا گیا.اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آپ کس قدر عظیم الشان کامیابی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو نے اپنی آنکھ سے دیکھ لیا کہ فوج در فوج لوگ داخل ہورہے ہیں.فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ (النّصـر:۴) یعنی وہ رب جس نے اس قدر کامیابی دکھلائی اس کی تسبیح وتحمید کر اور اور انبیاء پر جو انعامات پوشیدہ رہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کھول دیئے گئے اور رحمت کے تمام امور اجلٰی کر دیئے کوئی بھی مخفی نہ رکھا.اس حمد کا ثبوت اس آخری وقت پر آکر دیا.احمد۱ کے معنے بھی حمد کرنے والا.دنیا میں کوئی آدمی بھی ایسا نہیں آیا جو اتنی بڑی کامیابی اپنے ساتھ رکھتا ہو.لذّت و سرور کی موت اگر ہوئی ہے تو فقط آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی ہوئی ہے اور دوسرے کسی نبی کو بھی میسر نہیں ہوئی.یہ خدا کا فضل ہے اس لیے آپ کی عصمت کا یہ ایک بڑا ثبوت ملتا ہے.جیسے طبیب اسے کہتے ہیں جو علاج کرکے مریض کو اچھا کرکے دکھلا دیوے ویسے ہی لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ سے ہر ایک روحانی مرض کا علاج کرکے آپ نے دکھلایا اور اس لیے دوسری تمام نبوتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ ہی معلوم ہوتی ہیں.ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا (المائدۃ:۴) آج کافر نااُمید ہوگئے گویا آپ کو کامیابی کے اس اعلیٰ نقطہ تک پہنچا دیا کہ کافر نامُراد ہوگئے.کیا انجیل میں اس کے مقابل کوئی آیت ہے ہرگزنہیں.مسیح علیہ السلام کو تو فقط ایک یہودیوں کی اصلاح سپرد تھی اور یہ کوئی مشکل کام البدر میں ہے.’’اسی حمد کا ثبوت اب اس آخری وقت میں آکر دیا ہے کہ ایک احمد آیا.احمد کے معنی ہیں ’’حمد کرنے والا‘‘ کوئی بھی ایسا آدمی نہیں ہے جو ثابت کرے کہ اس قدر کامیابی کسی اور کو ہوئی ہو.خوشی، پوری مُراد مندی اور لذّت کی موت اگر حاصل ہوئی ہے تو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی ہے اور کسی نبی کو ہرگز نہیں ہوئی.یہ خدا کا فضل ہے.اس سے پتا لگتا ہے کہ نفس ایسا پاک تھا کہ خدا کا اس قدر فضل ہوا اور آپؐکی عصمت کا یہ ایک بڑا ثبوت ہے.‘‘ (البدرجلد ۲ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷ ؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰۳ )
نہ تھا مگر ضعف۱ کی بات ہے کہ کوئی بات بھی پوری نہ ہوئی.اوّل اس کو بادشاہت کا وعدہ دیا تو پھر کہہ دیا کہ وہ آسمانی بادشاہت ہے.ایلیا کی بات پیش کی تو وہ ایسی کہ خود یحییٰ نے ایلیا ہونے سے انکار کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح علیہ السلام کا مقابلہ پھر دیکھئے کہ مسیحؑ کی گرفتاری کے لیے آدمی آگئے.دو گھنٹہ کے اندر ہی اندر آپ کو گرفتار کر لیا اور گرفتا ر کرنے والوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لیے کسریٰ کے سپاہی آئے تو آنحضرتؐنے ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور پھر دوسرے دن صبح کو آپ ان کو جواب دیتے ہیں کہ آج تمہارا خداوند مارا گیا اور میرے خدا نے اس کے لیے شیروَیہ۲ کو اس پر مسلّط کر دیا.اب دونوں نبیوں کا مقابلہ کرلو.جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے کسریٰ ہلاک ہوگیا.اس طرح سے لازم تھا کہ مسیح کی گرفتاری کے وقت کم از کم موٹے موٹے چھ سات آدمی مارے جاتے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا سے خدا کا ارادہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رُعب جمایا جاوے گا.ایک آدمی کے دو خدمت گارہوں کہ ایک تو رات دن خدمت کرتاہے اور تنخواہ بھی لیتا ہے مگر گالی گلوچ بھی کھاتا رہے اور اَور مکروہات بھی دیکھتا ہے.ایک اَور ہے کہ بظاہر کام تو نہیں کرتا لیکن قرب اس کا بہت ہے.ہر وقت آقا رحمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.تو اِس سے اُس کے اور آقا کے اندرونی تعلقات کا پتا لگتا ہے کہ کس قدر بڑھے ہوئے ہیں یہی حال مسیحؑ کا ہے ان کی زندگی کیسی تلخی سے گزری ہے.گالی وغیرہ آپ کھا تے رہے اورنصرت وفتح آنحضرتؐکے شامل حال ہونا صداقت کی بڑی بھاری دلیل ہے.۳ البدر میں یہ فقرہ یوں لکھا ہے.’’مگر قسمت کی بات ہے کہ مسیحؑ کی کوئی بات بھی پوری نہ ہوئی.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷ ؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰۳) ۲ البدر میں ہے.’’ تمہارا خدا وند آج رات کو مارا گیا اور میرے خدا نے اسی کے بیٹے شیروَیہ کو اس پر مسلط کردیا.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷ ؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰۳) ۳ البدر میں ہے.’’یہی حال مسیحؑکا ہے کہ اُن کی زندگی کیسی تلخی سے گذری ہے.گالی وغیرہ آپ کھاتے رہے.
مسیح کی قوم یہود تو آپ کے بھائی ہی تھے.مسیحؑ بھی تورات کو مانتے تھے مگر پھر بھی ذرا سی بات پر اس قدر مخالفت ہوئی کہ انہوں نے سولی پر چڑھایا اور ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جہاں دشمن اور پھر کامیابی پر کامیابی ملی حتی کہ آپ کے خلفاء کو بھی کامیابی ہوئی.۱ ٍ ۹؍جولائی ۱۹۰۳ء (دربارِ شام ) قبرِمسیح علیہ السلام بعض عیسائی اخباروں نے مسیحؑ کی قبر واقعہ کشمیر کے متعلق ظاہر کیا ہے کہ یہ قبر مسیح کی نہیں بلکہ ان کے کسی حواری کی ہے.اس تذکرہ پر آپ نے فرمایاکہ اب تو ان لوگوں نے خود اقرارکر لیا ہے کہ اس قبر کے ساتھ مسیحؑ کا تعلق ضرور ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ ان کے کسی حواری کی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ مسیحؑ کی ہے.اب اس قبر کے متعلق یہ تاریخی صحیح شہادت ہے کہ وہ شخص جو اس میں مدفون ہے وہ شہزادہ نبی تھا اور قریباً انیس سو برس سے مدفون ہے.عیسائی کہتے ہیں کہ یہ شخص مسیحؑ کا حواری تھا اب ان پر ہی سوال ہوتا ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ ثابت کریں کہ مسیحؑ کا کوئی حواری شہزادہ نبی کے نام سے بھی مشہور تھا اور وہ اس طرف آیا تھا اور یہ یقیناً ثابت نہیں ہوسکتا.پس اس صورت میں بجز اس بات کے ماننے کہ یہ مسیح علیہ السلام کی ہی قبر ہے اور کوئی چارہ نہیں.۲ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۳ء (مجلس قبل از عشاء ) نشانات کی ضرورت نشانات کی ضرورت پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے ورنہ دیکھا جاتا ہے کہ اس وقت کیا ہو رہا (بقیہ حاشیہ )اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شاملِ حال کس طرح تائیدات الٰہیہ رہیں.دنیا ہو یا آخرت خدا کے فضل شامل حال ہونا صداقت کی بڑی دلیل ہے.‘‘ (البدرجلد ۲ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷ ؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰۳ ) ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰ ،۱۱ ۲الحکم جلد ۷ نمبر ۲۶مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۹
ہے.نماز روزہ وغیرہ سب لحاظ داری ہے.حقیقی نیکی کو لوگ جانتے نہیں کہ کیا شَے ہے.خدا کے خوف سے کسی شَے کو ترک کرنا یا لینا بالکل جاتا رہا ہے.غرضیکہ اس وقت بڑی بحث آ پڑی ہے.اگر خدا تعالیٰ مدد نہ کرے اور نشانات نہ دکھلائے تو پھر دہریہ کو فتح حاصل ہوتی ہے اور اس وقت صرف اس کی ہستی کا ثبوت ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کی غیرت کے ثبوت کی بھی ضرورت ہے.بعض لوگ تو نو گاڈ کہہ رہے ہیں بعض اس کے لیے ایک بیٹا تجویز کررہے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت بھی ایسی ضرورت آپڑی تھی.اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے وقت کہا کہ اگر تو اس جماعت کو ہلاک کر دے گا تو پھر تیری پرستش کرنے والا دنیا میں کوئی نہ رہے گا.یہی حال اس وقت ہے.پس اگر مہدی اور مسیحؑ کا یہ زمانہ نہیں تو اور کس وقت کا انتظار ہے.آنے والے نے تو صدی کے سر پر آنا تھا.اب بیس سال سے بھی زیادہ گذر گئے.زمانہ کی موجودہ حالت سے پتا لگتا ہے کہ اب آخری فیصلہ خدا تعالیٰ کا ہے.۱ ۱۱؍جولائی ۱۹۰۳ء (دربارِ شام) تمباکو ع عیب مے جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو تمباکو کے مضرات پر ایک مختصر مضمون پڑھا گیا.۲ جس میں کل امراض کو تمباکو کا نتیجہ قرار دیا گیا تھا اور تمباکو کی مذمت میں بہت مبالغہ کیا گیا تھا.اس کوسن کر حضرت حجۃ اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی کلام اور مخلوق کی کلام میں کس قدر فرق ہوتاہے۳ شراب کے مضار اگر بیان کئے ہیں ۱ البدر جلد۲ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷؍جولائی۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰۳،۲۰۴ ۲ البدر میں ہے.’’تمباکو کے مضر ات کے متعلق ایک انگریزی ٹریکٹ مجلس میں پڑھا جارہا تھا.‘‘ (البدرجلد ۲ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴ ؍جولائی ۱۹۰۳ءصفحہ ۲۰۹ ) ۳ البدر میں ہے.’’خدا تعالیٰ اگر کسی شَے کے نقصانات بیان کرتا ہے تو ساتھ ہی منافع بھی بیان کرتا ہے.‘‘ (البدرجلد ۲ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴ ؍جولائی ۱۹۰۳ءصفحہ ۲۰۹ )
تو اس کا نفع بھی بتادیا ہے اور پھر اس کو روکنے کے لیے یہ فیصلہ کردیا کہ اس کا ضرر نفع سے بڑھ کر ہے.دراصل کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس میں کوئی نہ کوئی نفع نہ ہو مگر مخلوق کے کلام کی یہی حالت ہوتی ہے.اب دیکھ لو.اس نے اس کے مضرات ہی مضرات بتائے ہیں.کسی ایک نفع کا بھی ذکر نہیں کیا.۱ تمباکو کے بارے میں اگرچہ شریعت نے کچھ نہیں بتایا لیکن ہم اس کو مکروہ جانتے ہیں اور ہم یقین کرتے ہیں کہ اگر یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوتا تو آپ نہ اپنے لیے اور نہ اپنے صحابہ کے لیے کبھی اس کو تجویز کرتے بلکہ منع کرتے.غریب کو بد قسمت نہیں سمجھنا چاہیے فرمایاکہ غربا نے دین کا بہت بڑا حصہ لیا ہے بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہے جن سے امراء محروم رہ جاتے ہیں وہ پہلے تو فسق وفجوراور ظلم میں مبتلا ہوتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں صلاحیت تقویٰ اور نیاز مندی غربا کے حصہ میں ہوتی ہے پس غربا کے گروہ کو بدقسمت خیال نہیں کرنا چاہیے بلکہ سعادت اور خدا کے فضل کا بہت بڑا حصہ اس کو ملتا ہے.۲ یادر کھو حقوق کی دو قسمیں ہیں ایک حق اللہ دوسرے حق العباد.حق اللہ میں بھی امراء کو دقت پیش آتی ہے۳ اور تکبر اور خود پسندی ان کو محروم کر دیتی ہے مثلاً نماز کے وقت ایک غریب کے پاس کھڑا ہونا بُرا۴ معلوم ہوتا ہے.ان کو اپنے پاس بٹھانہیں سکتے اور اس طرح پر وہ حق اللہ سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ مساجد تو دراصل بیت المساکین ہوتی ہیں.اور وہ البدر میں ہے.’’لیکن مخلوق کی کلام کو دیکھو کہ نقصانات کے بیان کرنے میں کس قدر مبالغہ کیا ہے اور تمباکو کے نفع کا نام تک بھی نہیں لیا.‘‘ (البدرجلد ۲ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴ ؍جولائی ۱۹۰۳ءصفحہ ۲۰۹ ) ۲البدر میں ہے.’’خدا کے ان پر بڑے فضل اور اکرام ہیں.‘‘ (البدرجلد ۲ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴ ؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰۹ ) ۳ البدرمیں ہے.’’حق اللہ میں بھی امراء لوگ ہنسی اختیار کرتے ہیں.‘‘ (البدرجلد ۲ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴ ؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰۹ ) ۴ البدر میں ہے.’’عار معلوم ہوتا ہے.‘‘ (البدرجلد ۲ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴ ؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰۹ )
ان میں جانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں اور اسی طرح وہ حق العباد میں خاص خاص خدمتوں میں حصہ نہیں لے سکتے.غریب آدمی تو ہر ایک قسم کی خدمت کے لیے تیار رہتا ہے وہ پاؤں دبا سکتا ہے پانی لا سکتا ہے کپڑے دھوسکتا ہے یہاں تک کہ اس کو اگر نجاست پھینکنے کا موقع ملے تو اس میں بھی اسے دریغ نہیں ہوتا لیکن امراء ایسے کاموں میں ننگ وعار سمجھتے ہیں اور اس طرح پر اس سے بھی محروم رہتے ہیں غرض امارت بھی بہت سی نیکیوں کے حاصل کرنے سے روک دیتی ہے (الا ماشاء اللہ.ایڈیٹر) یہی وجہ ہے جو حدیث میں آیا ہے کہ مساکین پانچ سو برس اوّل جنّت میں جاویں گے.۱ ۱۲؍ جو لائی ۰۳ ۱۹ء (بعد نماز ِعصر) خواتین کو نصائح جو کہ حضرت اقدسؑ نے ۱۲؍ جو لائی ۰۳ ۱۹ء کو اندرون خانہ بوقت بین العصر والمغرب فرمایا تھا اور دروازہ سے باہر دیوار کی اوٹ میں کھڑے ہو کرقلمبند کیا گیا.چونکہ اکثر بچگا ن بھی عورتوں کے ہمراہ تھے جو اکثر شور کرکے سلسلہ تسامع کو توڑ دیتے تھے اس لیے جہاں تک بشریت کی استعد اد نے موقع دیا.اس کو بلفظہ نوٹ کیا گیا ہے.(ایڈیٹر) اگر چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوسکتا مگر تاہم آپ کی بیویاں سب کام کر لیا کرتی تھیں جھاڑو بھی دے لیا کرتی تھیں اور ساتھ اس کے عبادت بھی کرتی تھیں.چنانچہ ایک بیوی نے اپنی حفاظت کے واسطے ایک رسّہ لٹکا رکھا تھا کہ عبادت میں اُونگھ نہ آوے.عورتوں کے لیے ایک ٹکڑا عبادت کا خاوندوں کا حق ادا کرنا ہے اور ایک ٹکڑا عبادت کا خدا کا شکر بجالا نا ہے خدا کا شکر کرنا اورخدا کی تعریف کرنی یہ بھی عبادت ہے دوسرا ٹکڑا عبادت کا نماز کو ادا کرنا ہے.کوئی شخص نواب تھا صبح کو نماز کے لیے نہیں اُٹھتا تھا ایک مولوی نے اسے وعظ سنایا اس پر نواب نے اپنے خادم کو کہا کہ مجھ کو صبح کو اُٹھا دینا خادم نے دو تین مرتبہ اس کو جگا یا جب ایک مرتبہ جگایا تو اس نے دوسری طرف کروٹ بدل لی.جب دوبارہ اس طرف ہو کر جگا یا پھر اَور طرف ہو گیا جب ۱الحکم جلد۷نمبر۲۶مورخہ۱۷؍جولائی۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲
تیسری مرتبہ جگایا تو اس نے اُٹھ کر اس کو خوب مارا اور کہا کم بخت جب ایک مرتبہ نہیں اُٹھا تو تجھے معلوم نہ ہوا کہ ابھی نہ اُٹھوں گا پھر کیوں جگایا؟ اور اتنا مارا کہ وہ بے چارا بے ہوش ہو گیا.آپ ہی تو مولوی سے وعظ سن کر اس کو کہا تھا کہ مجھ کو اُٹھا دینا پھر جب اس نے جگا یا تو اس بچارے کی شامت آئی.اس کی وجہ یہ ہے کہ جس کے پاس بہت ساحصہ جاگیر کا ہوتا ہے وہ ایسے غافل ہو جاتے ہیں کہ حق اللہ کا ان کو خیال نہیں آتا.امراء میں بہت سا حصہ تکبر کا ہوتا ہے جس کی وجہ سے عبادت نہیں کرسکتے اور نہ دوسرا حصہ خلقت کی خدمت کاان سے ادا ہوتا ہے خلقت کی خدمت کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی غریب آدمی سلام کرتا ہے تو بھی برا مناتے ہیں ایسا ہی عورتوں کا حال ہے کوئی چھوٹی عورت آوے تو چاہیے کہ بڑی کو سلام کرے.یہ دوٹکڑے شریعت کے ہیں حق اللہ اور حق العباد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھو کہ کس قدر خدمات میں عمر کو گذارا.اور حضرت علیؓ کی حالت کو دیکھو کہ اتنے پیوند لگائے کہ جگہ نہ رہی.حضرت ابوبکرؓ نے ایک بڑھیا کو ہمیشہ حلوہ کھلانا وطیرہ کر رکھا تھا.غور کرو کہ یہ کس قدر التزام تھا کہ جب آپ فوت ہو گئے تو اس بڑھیا نے کہا کہ آج ابوبکرؓ فوت ہو گیا اس کے پڑوسیوں نے کہا کہ کیا تجھ کو الہام ہوا یا وحی ہوئی؟ تو اس نے کہا نہیں آج حلوالے کر نہیں آیا اس واسطے معلوم ہو اکہ فوت ہو گیا (یعنی زندگی میں ممکن نہ تھاکہ کسی حالت میں بھی حلوانہ پہنچے) دیکھو کس قدر خدمت تھی ایسا ہی سب کو چاہیے کہ خدمت ِخلق کرے.ایک بادشاہ اپنا گذارہ قرآن شریف لکھ کر کیا کرتا تھا.اگر کسی کو کسی سے کراہت ہووے اگرچہ کپڑے سے ہو یا کسی اور چیز سے ہو تو چاہیے کہ وہ اس سے الگ ہو جاوے مگر روبرو ذکر نہ کرے کہ یہ دل شکنی ہے اور دل کا شکستہ کرنا گناہ ہے اگر کھاناکھانے کو کسی کے ساتھ جی نہیں کرتا تو کسی اور بہانہ سے الگ ہو جاوے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْتَاتًا (النّور:۶۲) مگر اظہار نہ کرے.یہ اچھا نہیں اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو.اسی لیے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا.اسی طرح چاہیے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کوہنسی نہ کریں اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے.
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے پاس جو آؤ گے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے.بلکہ سوال یہ ہوگا کہ تمہارا عمل کیا ہے.اسی طرح پیغمبر خدا نے فرمایا ہے اپنی بیٹی سے کہ اے فاطمہؓ خدا ذات کو نہیں پوچھے گا.اگر تم کوئی برا کام کرو گی تو خدا تم سے اس واسطے درگذر نہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو.پس چاہیے کہ تم ہر وقت اپناکام دیکھ کرکیا کرو.اگر کوئی چوڑھا اچھا کام کرے گا تو وہ بخشا جاوے گا اور اگر سید ہو کر کوئی برا کام کرے گا تو وہ دوزخ میں ڈالا جاوے گا.حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے واسطے دعا کی وہ منظور نہ ہوئی.حدیث میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام قیامت کو کہیں گے کہ اے اللہ تعالیٰ میں اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھ نہیں سکتا.مگر اس کو پھر بھی رسہ ڈال کر دوزخ کی طرف گھسیٹ کر ذلّت کے ساتھ لے جاویں گے (یہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے ہے کہ پیغمبرکی سفارش بھی کارگر نہ ہوگی) کیونکہ اس نے تکبر کیا تھا.پیغمبروں نے غریبی کو اختیار کیا.جو شخص غریبی کو اختیار کرے گا وہ سب سے اچھا رہے گا.ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے غریبی کو اختیار کیا.کوئی شخص عیسائی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.حضرت نے اس کی بہت تواضع خاطر داری کی.وہ بہت بھوکا تھا.حضرت نے اس کو خوب کھلایا کہ اس کا پیٹ بہت بھر گیا.رات کو اپنی رضائی عنایت فرمائی.جب وہ سو گیا تو اس کو بہت زور سے دست آیا کہ وہ روک نہ سکا اور رضائی میں ہی کردیا.جب صبح ہوئی تو اس نے سوچا کہ میری حالت کو دیکھ کر کراہت کریں گے شرم کے مارے وہ نکل کر چلا گیا.جب لوگوں نے دیکھا تو حضرت سے عرض کی کہ جو نصرانی عیسائی تھا وہ رضائی کو خراب کر گیا ہے.اس میں دست پھرا ہوا ہے.حضرت نے فرمایا کہ وہ مجھے دو تاکہ میں صاف کروں.لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت آپ کیوں تکلیف اُٹھاتے ہیں.ہم جو حاضر ہیں ہم صاف کردیں گے.حضرت نے فرمایا کہ وہ میرا مہمان تھا اس لیے میرا ہی کام ہے اور اُٹھ کر پانی منگا کر خود ہی صاف کرنے لگے.وہ عیسائی جبکہ ایک کوس نکل گیا تو اس کو یاد آیا کہ اس کے پاس جو سونے کی صلیب تھی وہ چارپائی پر بھول آیا ہوں.اس لیے وہ واپس آیا تو دیکھا کہ حضرت اس کے پاخانہ کو رضائی پر سے خود صاف کر رہے ہیں.اس کو ندامت آئی اور کہا کہ اگر میرے پاس یہ ہوتی تو میں کبھی اس کو نہ دھوتا.اس سے معلوم ہوا کہ ایسا شخص کہ جس میں اتنی بے نفسی ہے وہ خدا تعالیٰ کی
طرف سے ہے.پھر وہ مسلمان ہوگیا.کہتے ہیں کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب لڑکوں کی طرف راستہ میں دیکھا کرتے تھے تو اتنی شفقت کیا کرتے تھے کہ وہ لڑکے سمجھا کرتے کہ یہ ہمارا باپ ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فر ماتا ہے کہ جو عورتیں کسی اَور قسم کی ہوںان کودوسری عورتیں حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں اور نہ مرد ایسا کریں کیونکہ یہ دل دُکھا نے والی بات ہے ورنہ اللہ تعالیٰ اس سے مواخذہ کرے گا.یہ بہت بری خصلت ہے یہ ٹھٹھا کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت بُرا معلوم ہوتا ہے.لیکن اگر کوئی ایسی بات ہو جس سے دل نہ دُکھے وہ بات جائز رکھی ہے جہاں تک ہوسکے ان باتوں سے پرہیز کرے اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ عمل والے کو میں کس طرح جز ادوں گا.فَاَمَّا مَنْ طَغٰى وَ اٰثَرَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا فَاِنَّ الْجَحِيْمَ هِيَ الْمَاْوٰى (النّٰزعٰت:۳۸تا ۴۰) جو شخص میرے حکموں کو نہیں مانے گا میں اس کوبہت بُری طرح سے جہنّم میں ڈالوں گا اور ایسا ہوگا کہ آخر جہنّم تمہاری جگہ ہو گی.وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَاْوٰى (النّٰزعٰت:۴۱،۴۲) اور جوشخص میری عدالت کے تخت کے سامنے کھڑاہونے سے ڈرے گا اور خیال رکھے گا تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کاٹھکا نا جنّت میں کروں گا قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤى اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰى وَ مَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّهٗ يَزَّكّٰۤى اَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرٰى (عبس: ۲تا ۵)اس سورۃ کے نازل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت کے پاس چند قریش کے بڑے بڑے آدمی بیٹھے تھے آپ ان کو نصیحت کر رہے تھے کہ ایک اندھا آگیا.اس نے کہا کہ مجھ کو دین کے مسائل بتلا دو.حضرت نے فرمایا کہ صبر کرو اس پر خدا نے بہت غصہ کیا آخر آپ اس کے گھر گئے اور اسے بُلا کر لائے اور چادربچھا دی اور کہا کہ تو بیٹھ اس اندھے نے کہا کہ میں آپ کی چادر پر کیسے بیٹھوں؟ آپ نے وہ چادر کیوں بچھا ئی تھی؟ اس واسطے کہ خدا کو راضی کریں.تکبر اورشرارت بُری بات ہے ایک ذراسی بات سے ستّر برس کے عمل ضائع ہو جاتے ہیں.لکھا ہے کہ ایک شخص عابد تھا وہ پہاڑ پر رہا کرتا تھا اور مدّت سے وہاں بارش نہ ہوئی تھی ایک روزبارش ہوئی تو پتھروں پراور روڑیوں پر بھی ہوئی تو اس کے دل میں اعتراض پیدا ہو اکہ ضرورت تو بارش کی کھیتوں اور باغات کے واسطے ہے
یہ کیا بات ہے کہ پتھروں پرہوئی.یہی بارش کھیتوںپر ہوتی تو کیا اچھا ہوتا اس پر خدا نے اس کا سارا ولی پُنا چھین لیا آخر وہ بہت ساغمگین ہوا اور کسی اَور بزرگ سے استمداد کی توآخر اس کوپیغام آیا کہ تو نے اعتراض کیوں کیا تھا تیری اس خطاپر عتاب ہوا ہے اس نے کسی سے کہا کہ ایسا کر کہ میری ٹانگ میں رسّہ ڈال کر پتھروں پر گھسیٹتا پھر اس نے کہا کہ ایسا کیوں کروں؟ اس عابد نے کہا کہ جس طرح میں کہتا ہوں اسی طرح کرو.آخر اس نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ اس کی دونوں ٹانگیں پتھروں پر گھسیٹنے سے چھل گئیں.تب خدا نے فرمایا کہ بس کر اب معاف کردیا.اب دیکھو کہ لوگ کتنے اعتراض کرتے ہیں ذرا زیادہ بارش ہو جاوے تو کہتے ہیں کہ ہم کو ڈبونے لگ گیا ہے اور ذراتوقّف بارش میں ہو توکہتے ہیں کہ اب ہم کو مارنے لگا ہے یہ اعتراض کیسے بُرے ہوتے ہیں دیکھو تقویٰ کیسا گم ہو گیا ہے اگر ایک دو آنے رستے میں مل جاویں تو جلدی سے اُٹھالیتا ہے اور پھر اس کو کسی سے نہیں کہتا حالانکہ تقویٰ کا کام یہ تھا کہ اس کو سب کو سناتا اور جس کے ہوتے اس کے حوالہ کرتا.پھر کہتے ہیں کہ بارش نہیں ہوتی بارش کیسےہو؟ اللہ تعالیٰ بہت سے گناہ تو معاف ہی کر دیتا ہے اگر زیادہ بارش ہو تو دوہائی دیتے ہیں اگر دھوپ زیادہ ہو تو بھی دوہائی دیتے ہیں ان سب حالتوں میں انسان تقویٰ سے خالی ہوتا ہے پس چاہیے کہ صبر کرے اگر صبر نہ کرے تو پھر کافر ہو کر تو روٹی کھانی حرام ہے انسان کو چاہیے کہ کبھی خدا پر اعتراض نہ کرے.دیکھو ہمارے پیغمبرِ خدا کے ہاں۱۲ لڑکیاں ہوئیں آپ نے کبھی نہیں کہا کہ لڑکا کیوں نہ ہوا اور جب کوئی غم ہوتا تو اِنَّا لِلّٰهِ ہی کہتے رہے اب اگر کسی کا لڑکا مَر جاوے تو برس برس تک روتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کشائش دیوے تو تعریف کرتے ہیں مگر ذراسختی آجاوے تو فوراً پھر جاتے ہیں.ایک شخص کی یہاں بیوی فوت ہو گئی وہ فوراً دہریہ ہوگیا.انسان کو چاہیے کہ علاقہ خدا کے ساتھ ایسا رکھے کہ کبھی سختی آوے تو توڑنا نہ پڑے گویا کبھی نہیں آئی.حضرت ایوب ؑ کتنے صابر تھے کہ خدا تعالیٰ نے شیطان سے کہا کہ دیکھ میرا بندہ کتنا صابر ہے.اس نے کہا کہ کیوں نہ ہو بکریاں بہت ہیں آرام سے کھاتا پیتا ہے خدا نے فرمایا کہ میں نے تجھ کو اس کی بکریوں پر مسلّط کیا اس نے سب کو فناکردیا اور حضرت ایوبؑ کے
خادم نے خبر پہنچائی کہ تمہاری بکریاں سب مَرگئیں آپ نے فرمایا کہ تو یوں کیوں کہتا ہے کہ میری بکریاں مَرگئیں وہ تو خدا کی تھیں اس نے اپنی امانت واپس لے لی.پھر شیطان سے خدا نے فرمایاکہ دیکھ میرا بندہ ایوبؑکیسا صابر ہے اس نے کہا کہ ہاں اس کو یہ خیال ہے کہ اُونٹ بہت سے ہیں بکریاں فناہو گئیں تو کیا ہو گیا ان سے سب طرح کے کام چل سکتے ہیں.خدا نے فرمایا کہ میں نے تجھ کو اونٹوں پر بھی مسلّط کیا پھر سب اونٹ فنا ہو گئے اور اسی طرح خادم نے خبردی تو حضرت ایوبؑ نے وہی کہا کہ میرے نہیں تھے یہ تو خدا کے دیئے تھے اس نے واپس لے لیے پھر کیا افسوس ہے.پھر شیطان سے خدا نے فرمایا کہ دیکھا میرا بندہ کیسا صابر ہے.اس نے کہاکہ اس کے دل میں تقویت ہے کہ گائیاں بہتیری ہیں ان سے سب کچھ حاصل ہوسکتا ہے آخر ان پر بھی اسی طرح شیطان کو مسلّط کیا گیا.وہ بھی فنا ہو گئیں اور حضرت ایوبؑ نے صبر کیا.پھر خدا نے فرمایا تو شیطان نے جواب دیا کہ اس کے پاس فرزند بہتیرے ہیں دل میں جانتا ہے کہ کیا ہوا یہ جیتے ہیں تو پھر بہت سامال اکٹھا ہو جاوے گا خدا نے اس کے فرزند وںکو بھی وفات دے دی.پھر شیطان نے کہا کہ خدا یا اس کی تندرستی بہت ہے اس کو اس کی بدولت سب کچھ مل سکتا ہے آخر یہ ہوا کہ نہایت بیمار ہو گئے اور تندرستی بھی جاتی رہی مگر صبر کیا اور پھر خدا نے شیطان سے کہا کہ دیکھا میرا بندہ کیسا صابر ہے.شیطان چُپ ساہو گیا مگر ان کی بیوی جو ہمیشہ کھانا پکایا کرتی تھی شیطان اس کو راستہ میں ملا اور ایک بڈھی کی شکل میں اس سے کہا کہ تیرا خاوند ایسا ہے ایسا ہے تو اس کی کیوں خدمت کرتی ہے اس نے یہ بات حضرت ایوبؑ سے کہی انہوں نے کہا کہ وہ تو شیطان تھا تو نے اس کی بات کیوں میرے پاس کہی مَیں اچھا ہو کر تجھ کو سَو بید ماروں گا.پھر خدا کی رحمت ہوئی تو ایوب علیہ السلام کے پاس فرشتہ آیا اور اپنے پاؤں مار کر ایک چشمہ نکالا اس میں نہانے کے واسطے کہا حضرت ایوبؑاس میں نہا کر اچھے ہو گئے اور پھر بیوی کی طرف متوجہ ہوئے تو چونکہ آپ نے قسم کھائی تھی اللہ تعالیٰ نے سمجھایا کہ بیوی تمہاری بے قصور ہے صرف ایک جھاڑو بجائے َسوبیدکے اس کے بدن سے چھو دوتا کہ قسم جھوٹی نہ ہووے.اب دیکھو کہ کتنا صابر ہونا ان کا ثابت ہوا ان کا قصہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں باوجودیکہ
صدہا سال گذرگئے تھے نقل کیا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ فر ماتا ہےکہ وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ (البقرۃ:۱۵۶) کبھی ہم تم کو نہایت فقروفاقہ سے آزمائیں گے اور کبھی تمہارے بچے مَرجاویں گے تو جو لوگ مومن ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کا ہی مال تھا ہم بھی تو اسی کے ہیں.پس خدا تعالیٰ فر ماتا ہے کہ انہی لوگوں نے جو صبر کرتے ہیں میرے مطلب کو سمجھاہے ان پر میری بڑی رحمتیں ہیں جن کا کوئی حدوحساب نہیں تو دیکھوکہ یہ باتیں ہیں ان پر عمل کرنا چاہیے غریب آدمی کے ساتھ تکبّر کے ساتھ پیش نہیں آنا چاہیے.۱ (مجلس قبل ازعشاء) ارتدادعن الاسلام کا ذکر عبد الغفور نامی ایک شخص کے آریہ مذہب اختیار کرنے پر فرمایا کہ اس طرح کے ارتداد سے اسلام کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچتا.یکجائی نظر سے دیکھنا چاہیے کہ آیا اسلام ترقی کر رہا ہے یا تنزّل.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت جو بعض لوگ مرتد ہو جاتے تھے تو کیا ان سے اسلام کو نقصان پہنچتا تھا؟ ہرگز نہیں بلکہ میرا خیال ہے کہ یہ پہلوانجام کارا سلام کو ہی مفید پڑتا ہے اور اس طرح سے اہل اسلام کے ساتھ اختلاط کی ایک راہ کھلتی ہے.اور جب خدا تعالیٰ نے ایک جماعت کی جماعت اسلام میں داخل کرنی ہوتی ہے تو ایسا ہوا کرتا ہے کہ اہل اسلام میں کچھ ادھر چلے جاویں.خدا کے کام بڑے دقیق اور اسرارسے بھرے ہوئے ہوتے ہیں ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آیا کرتے.۲ ۱۳؍جولائی۱۹۰۳ء (بعد نماز ِعصر) حضرت اقدس کا عورتوںکو وعظ وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاوَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ(الطلاق:۳،۴) یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ ۱ البدرجلد۲نمبر۲۷ مورخہ۲۴؍جولائی۱۹۰۳ءصفحہ ۲۱۰، ۲۱۱ نیز الحکم جلد۷نمبر۲۶ مورخہ۱۷؍جولائی۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵،۱۶ ۲البدرجلد۲نمبر۲۷ مورخہ۲۴؍جولائی۱۹۰۳ءصفحہ ۲۰۹
سے ڈرتا رہے گا اس کو اللہ ایسے طور سے رزق پہنچائے گا کہ جس طور سے معلوم بھی نہ ہوگا.رزق کا خاص طور سے اس واسطے ذکر کیا کہ بہت سے لوگ حرام مال جمع کرتے ہیں اگر وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل کریں اور تقویٰ سے کام لیویں تو خدا خود ان کو رزق پہنچاوے اسی طرح اللہ تعالیٰ فر ماتا ہےکہ وَ هُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ (الاعراف:۱۹۷) جس طرح پر ماں بچے کی متولّی ہوتی ہے اسی طرح پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں صالحین کا متکفّل ہوتا ہوں.اللہ تعالیٰ اس کے دشمنوں کو ذلیل کرتا ہے اور اس کے مال میں طرح طرح کی برکتیں ڈال دیتا ہے.انسان بعض گناہ عمداًبھی کرتا ہے اوربعض گناہ اس سے ویسے بھی سرزد ہوتے ہیں.جتنے انسان کے عضوہیں ہر ایک عضو اپنے اپنے گناہ کرتا ہے انسان کا اختیار نہیں کہ بچے.اللہ تعالیٰ اگر اپنے فضل سے بچاوے تو بچ سکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے گناہ سے بچنے کے لیے یہ آیت ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتـحۃ:۵) جو لوگ اپنے ربّ کے آگے انکسار سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی عاجزی منظور ہو جاوے تو ان کا اللہ تعالیٰ خود مدد گا ر ہو جاتا ہے.کوئی شخص عابد بہت دعا کرتا تھا کہ یا اللہ تعالیٰ مجھ کو گناہوں سے آزادی دے اس نے بہت دعا کرنے کے بعد سوچا کہ سب سے زیادہ عاجزی کیوں کر ہو.معلوم ہوا کہ کتّے سے زیادہ عاجز کوئی نہیں تو اس نے اس کی آواز سے رونا شروع کیا کسی اَور شخص نے سمجھا کہ مسجدمیں کتّا آگیا ہے ایسا نہ ہو کہ کوئی میرا برتن پلید کردیوے تو اس نے آکر دیکھا تو عابد ہی تھا کتّا کہیں نہ دیکھا.آخر اس نے پوچھا کہ یہاں کتّا رورہاتھا.اس نے کہا کہ میں ہی کتّا ہوں پھر پوچھا کہ تم ایسے کیوں رو رہے تھے؟ کہا کہ خدا کو عاجزی پسند ہے اس واسطے میں نے سوچا کہ اس طرح میری عاجزی منظور ہو جاوے گی.حضرت ابراہیمؑ نے اپنے لڑکے کے واسطے دعاکی کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاوے اسی طرح انسان کو چاہیے کہ دعا کرے بہت سے شخص ایسے ہوتے ہیں کہ کسی گناہ سے نہیں بچتے لیکن اگر ان کو کوئی شخص بے ایمان یا کچھ اَور کہہ دیوے تو بڑے جوش میں آتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو کوئی گناہ نہیں کرتے پھر ہم کو یہ کیوں کہتا ہے.اس طرح انسان کو معلوم نہیں کہ کیا کیا گناہ اس سے سرزد
ہوتے ہیں پس اس کو کیا خبر ہے کہ کیا کچھ لکھا ہوا ہے پس انسان کو چاہیے کہ اپنے عیبوں کو شمار کرے اور دعا کرے پھر اللہ تعالیٰ بچاوے تو بچ سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مجھ سے دعا کرومَیں مانوں گا.اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المؤمن:۶۱).دعا اور صحبت صالحین دو چیزیں ہیں ایک تو دعا کرنی چاہیے.دوسرا طریق یہ ہے کہ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ(التوبۃ:۱۱۹) راست بازوں کی صحبت میں رہو تاکہ ان کی صحبت میں رہ کرکے تم کو پتا لگ جاوے کہ تمہارا خدا قادر ہی بینا ہے، سننے والا ہے، دعائیں قبول کرتا ہے اور اپنی رحمت سے بندوں کو صدہانعمتیں دیتا ہے جو لوگ ہر روز نئے گناہ کرتے ہیں وہ گناہ کو حلوے کی طرح شیریں خیال کرتے ہیں ان کو خبر نہیں کہ یہ زہر ہے کیونکہ کوئی شخص سنکھیا جان کر نہیں کھا سکتا کوئی شخص بجلی کے نیچے نہیں کھڑا ہوتا اور کوئی شخص سانپ کے سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈالتا اور کوئی شخص کھانا شکی نہیں کھا سکتا اگرچہ اس کو کوئی دوچار روپے بھی دے.پھر باوجود اس بات کے جو یہ گناہ کرتا ہے کیا اس کو خبر نہیں ہے.پھر کیوں کرتا ہے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کا دل مضریقین نہیں کرتا اس واسطے ضرور ہے آدمی پہلے یقین حاصل کرے.جب تک یقین نہیں غور نہیں کرے گا اور کچھ نہ پائے گا بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے پیغمبروں کا زمانہ بھی دیکھ کر ان کو ایمان نہ آیا اس کی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے غور نہیں کی.دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا (بنی اسـرآءیل:۱۶) ہم عذاب نہیں کیا کرتے جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیویں اور وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْيَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوْا فِيْهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًا(بنی اسـرآءیل:۱۷) پہلے امراء کو اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے وہ ایسے افعال کرتے ہیں کہ آخراُن کی پاداش میں ہلاک ہو جاتے ہیں غرضیکہ ان باتوں کویاد رکھو اور اولاد کی تربیت کرو، زنا نہ کرو، کسی شخص کا خون نہ کرو، اللہ تعالیٰ نے ساری عبادتیں ایسی رکھی ہیں جو بہت عمدہ زندگی تک پہنچاتی ہیں عہد کرو اور عہد کو پورا کرو.....اگر تکبر کروگی تو تم کو خدا ذلیل کرے گا.یہ ساری باتیں بُری ہیں.۱ ۱ البدر جلد۲نمبر۲۸مورخہ۳۱؍جولائی۱۹۰۳ء صفحہ ۲۱۷ ، ۲۱۸
شام کے وقت بوجہ دوران سرحضرت اقدسؑ نے نمازِمغرب کے نوافل بیٹھ کرادا کئے.بعد ازاں آندھی اور بارش کے آثار نمودار ہوئے اور تجویز ہوئی کہ نماز عشاء جمع کرلی جاوے چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طبیعت ناساز تھی اس لیے تشریف لے گئے مگر تاہم باجماعت نماز کا اس قدر آپ کو خیال تھا کہ تاکید فرمائی کہ تکبیرزور سے کہی جاوے کہ میں اندر سُن لوں اور باجماعت نماز ادا ہو جاوے.۱ ۱۴؍ جولائی۱۹۰۳ء خدا تعالیٰ سچادوست ہے فرمایا کہ دعویٰ مومن اور مسلم ہونے کا آسان ہے مگرجو سچے طور پر خدا کا ساتھ دیوے تو خدا اس کا ساتھ دیتا ہے.ہر ایک دل کواس قسم کی سچائی کی توفیق نہیں ملاکرتی یہ صرف کسی کسی کا دل ہوتا ہے.دیکھا جاتا ہے کہ دوست بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں.بعض زن مزاج کہ وفا نہیں کرتے اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ حق دوستی کو وفاداری کے ساتھ پورا ادا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ وفا دار دوست ہے اسی لیے تو وہ فرماتا ہے وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ (الطّلاق:۴) کہ جو خدا کی طرف سے پورے طور پر آگیا اور اعدا وغیرہ کسی کی پروانہ کی فَهُوَ حَسْبُهٗ تو پھر خدا تعالیٰ اس کے ساتھ پوری وفا کرتا ہے.ایک پیشگوئی عنقریب ایسا ہوگا کہ شریر لوگ جو رعب داب رکھتے ہیں وہ کم ہوتے جاویں گے.گذشتہ چند ایام میں سخت گرمی تھی اور آج بفضل خدا بارش ہو جانے کی وجہ سے ٹھنڈ ہو گئی تھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی بارش کے ہو جانے سے درخت دھوئے دھائے نظر آرہے تھے آسمان، بادل اور ہر ایک درودیوار نے بارش کی وجہ سے ایک خاص رنگ وروپ حاصل کیا تھا اس پر خدا کے برگزیدہ اور مجسم شکر انسان نے فرمایا کہ خدا کے تصر فات بھی کیسے ہیں ابھی کل کیا تھا اورآج کیا ہے.۱البدر جلد۲نمبر۲۷مورخہ۲۴؍جولائی۱۹۰۳ء صفحہ ۲۱۰
ایک مومن اوردنیا دار کی موت میں فرق جس کا دل مُردہ ہو وہ خوشی کا مدار صرف دنیا کو رکھتا ہے مگر مومن کو خدا سے بڑھ کر اَور کوئی شَے پیاری نہیں ہوتی.جس نے یہ نہیں پہچاناکہ ایمان کیا ہے اور خدا کیا ہے وہ دنیا سے کبھی آگے نکلتے ہی نہیں ہیں.جب تک دنیا ان کے ساتھ ہے تب تک تو سب سے خوشی سے بولتے ہیں بیوی سے بھی خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں مگر جس دن دنیا گئی تو سب سے ناراض ہیں.منہ سوجا ہوا ہے ہر ایک سے لڑائی ہے گلہ ہے شکو ہ ہے حتی کہ خدا سے بھی ناراض ہیں تو پھر خدا ان سے کیسے راضی رہے وہ بھی پھر ناراض ہو جاتا ہے.مگر بڑی بشارت مومن کو ہے.يٰۤاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ ارْجِعِيْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً (الفجر:۲۸،۲۹) اے نفس جو کہ خدا سے آرام یافتہ ہے تو اپنے ربّ کی طرف راضی خوشی واپس آ.اس خوشی میں ایک کافر ہرگز شریک نہیں ہے.رَاضِيَةً کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنی مُرادات کوئی نہیںرکھتا کیونکہ اگر وہ دنیا سے خلافِ مُرادات جاوے تو پھر راضی تو نہ گیا اسی لیے اس کی تمام مُراد خدا ہی خدا ہوتا ہے اس کے مصداق صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں کہ آپ کو یہ بشارت ملی.اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ (النصـر:۲)اور اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المائدۃ:۴)بلکہ مومن کی خلافِ مرضی تو اس کی نزع (جان کنی ) بھی نہیں ہو اکرتی ایک شخص کا قصہ لکھا ہے کہ وہ دعا کیا کرتا تھا کہ میں طوس میں مَروں لیکن ایک دفعہ وہ ایک اَور مقام پر تھا کہ سخت بیمار ہوااور کوئی امیدزیست کی نہ رہی تواس نے وصیت کی کہ اگر میں یہاں مَر جاؤں تو مجھے یہودیوںکے قبرستان میں دفن کرنا اسی وقت سے وہ روبصحت ہو ناشروع ہو گیا حتی کہ بالکل تندرست ہو گیا.لوگوں نے اس کی وصیت کی وجہ پوچھی تو کہا کہ مومن کی علامت ایک یہ بھی ہے کہ اس کی دعا قبول ہو.اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المؤمن:۶۱) خدا کا وعدہ ہے میری دعا تھی کہ طوس میں مَروں جب دیکھا کہ موت تو یہاں آتی ہے تو اپنے مومن ہونے پر مجھ کو شک ہوا اس لیے میں نے یہ وصیت کی کہ اہل اسلام کو دھوکا نہ دوں غرضیکہ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً صرف مومنوں کے لیے ہے.دنیا میں بڑے بڑے مالداروں
کی موت سخت نامُرادی سے ہوتی ہے.دنیا دار کی موت کے وقت ایک خواہش پیدا ہوتی ہے اور اسی وقت اسے نزع ہوتی ہے یہ اس لیے ہوتا ہے کہ خدا کا ارادہ ہوتا ہے کہ اس وقت بھی اسے عذاب دیوے اور اس کی حسرت کے اسباب پیداہو جاتے ہیں تاکہ انبیاء کی موت جو کہ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً کی مصداق ہوتی ہے اس میں اور دنیا دار کی موت میں ایک بیّن فرق ہو.دنیا دار کتنی ہی کوشش کرے گا مگر اس کی موت کے وقت حسرت کے اسباب ضرور پیش ہوجاتے ہیں غرضیکہ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً کی موت مقبولین کی دولت ہے اس وقت ہر ایک قسم کی حسرت دور ہو کر ان کی جان نکلتی ہے.راضی کا لفظ بہت عمدہ ہے اور ایک مومن کی مُرادیں اصل میں دین کے لیے ہواکرتی ہیں خدا کی کامیابی اور اس کے دین کی کامیابی اس کااصل مدّعا ہوا کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بہت ہی اعلیٰ ہے کہ جن کو اس قسم کی موت نصیب ہوئی.۱ ۱۶؍جولائی۱۹۰۳ء (بعد نمازِ عصر) نظر نظر کا فرق سلطان محمود سے ایک بزرگ نے کہا کہ جو کوئی مجھ کو ایک دفعہ دیکھ لیوے اس پر دوزخ کی آگ حرام ہو جاتی ہے.محمود نے کہا یہ کلام تمہارا پیمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کرہے.ان کو کفار ابولہب، ابوجہل وغیرہ نے دیکھا تھا ان پر دوزخ کی آگ کیوں حرام نہ ہوئی.اس بزرگ نے کہا کہ اے بادشاہ کیا آپ کو علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ (الاعراف:۱۹۹) اگر دیکھا اور جھوٹا کاذب سمجھا تو کہاں دیکھا؟ حضرت ابوبکر ؓ نے، فاطمہ ؓ۲نے، حضرت عمرؓ نے اور دیگر اصحابؓ نے آپ کو دیکھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے آپ کو قبول کرلیا.دیکھنے والا اگر محبت اور اعتقاد کی نظر سے دیکھتا ہے تو ضرور اثر ہوجاتا ہے اور جوعداوت اور دشمنی کی نظر سے دیکھتا تو اسے ایمان حاصل نہیں ہواکرتا.۱ البدر جلد۲ نمبر۲۸ مورخہ ۳۱؍جولائی۱۹۰۳ء صفحہ ۲۱۸ ۲ ممکن ہے خدیجہ فرمایاہو.(مرتّب)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر کوئی میرے پیچھے نماز ایک مرتبہ پڑھ لیوے تو وہ بخشا جاتا ہے.اس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جو لوگ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ کے مصداق ہو کر نماز کو آپ کے پیچھے ادا کرتے ہیں تو وہ بخشے جاتے ہیں.اصل میں لوگ نماز میں دنیا کے۱ رونے روتے رہتے ہیں اور جو اصل مقصود نماز کا قرب الی اللہ اور ایمان کا سلامت لے جانا ہے اس کی فکر ہی نہیں حالانکہ ایمان سلامت لے جانا بہت بڑا معاملہ ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب انسان اس واسطے روتا ہے کہ مجھ کو باایمان اللہ تعالیٰ دنیا سے لے جاوے تو خدا تعالیٰ اس کے اوپر دوزخ کی آگ حرام کرتا ہے اور بہشت ان کو ملے گا جو اللہ تعالیٰ کے حضور میں حصول ایمان کے لئے روتے ہیں.مگر یہ لوگ جب روتے ہیں تو دنیا کے لیے روتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ ان کو بھلادے گا.اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاذْكُرُوْنِيْۤ۠ اَذْكُرْكُمْ(البقرۃ:۱۵۳)تم مجھ کو یاد رکھو میں تم کو یاد رکھوں گا یعنی آرام اَور خوشحالی کے وقت تم مجھ کو یاد رکھو اور میرا قرب حاصل کرو تاکہ مصیبت میں تم کو یاد رکھوں.یہ ضروریاد رکھنا چاہیے کہ مصیبت کا شریک کوئی نہیں ہوسکتا.اگر انسان اپنے ایمان کو صاف کرکے اور دروازہ بند کرکے رووے بشرطیکہ پہلے ایمان صاف ہو تو وہ ہرگزبے نصیب اور نامُراد نہ ہوگا.حضرت دائود ؑفرماتے ہیں کہ میں بڈھا ہوگیا مگر میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ جو شخص صالح ہو اور باایمان ہو پھر اس کو دشواری پیش ہو اور اس کی اولاد بے رزق ہو.پھر دوسری جگہ فرماتا ہے وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰى...الـخ(الکھف:۶۱)اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت موسٰی وعظ فرما رہے تھے کسی نے پوچھا کہ آپ سے کوئی اور بھی علم میں زیادہ ہے تو انہوں نے کہاکہ مجھے معلوم نہیں.اللہ تعالیٰ کو یہ بات ان کی پسند نہ آئی (یعنی یوں کہتے کہ خدا کے بندے بہت سے ہیں جو ایک سے ایک علم میں زیادہ ہیں )اور حکم ہوا کہ تم فلاں طرف چلے جائو جہاں تمہاری مچھلی زندہ ہو جائے گی وہاں تم کو ایک علم والا شخص ملے گا.پس جب وہ ادھر گئے تو ایک جگہ ۱البدر جلد ۲ نمبر ۲۸ مورخہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۱۸
مچھلی بھول گئے.جب دوبارہ تلاش کرنے آئے تو معلوم ہوا کہ مچھلی وہاں نہیں ہے.وہاں ٹھیر گئے تو ایک ہمارے بندہ سے ملاقات ہوئی.اس کو موسیٰ نے کہا کہ کیا مجھے اجازت ہے کہ آپ کے ساتھ رہ کر علم اور معرفت سیکھوں؟ اس بزرگ نے کہا کہ اجازت دیتا ہوں مگر آپ بد گمانی سے بچ نہیں سکیں گے کیونکہ جس بات کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی اور سمجھ نہیں دی جاتی تو اس پر صبر کرنا مشکل ہوتا ہے.کیونکہ جب دیکھا جاتا ہے کہ ایک شخص ایک موقع پر بے محل کام کرتا ہے تو اکثر بد ظنّی ہوجاتی ہے.پس موسٰی نے کہا کہ میں کوئی بد ظنّی نہ کروں گا اور آپ کا ساتھ دوں گا.اس نے کہا کہ اگر تو میرے ساتھ چلے گا تو مجھ سے کسی بات کا سوال نہ کرنا.پس جب چلے تو ایک کشتی پر جا کر سوار ہوئے.( پھر یہاں پر حضرت اقدس نے حضرت موسیٰ کا وہ تمام قصہ ذکر کیا جو کہ سورہ کہف میں مذکور ہے.پھر اس دیوار کے خزانہ کی نسبت فرمایا کہ)اس کو اس واسطے درست کردیا کہ وہ دو یتیم بچوں کے کام آوے.اس واسطے یہ کام کیا.معلوم ہوتا ہے کہ ان بچوں نے کوئی نیک کام نہ کیا تھا مگر ان کے باپ کے نیک بخت اور صالح ہونے کے باعث خدا نے ان بچوں کی خبر گیری کی.دیکھو کہاں یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے واسطے اس کی اولاد کا اس قدر خیال رکھا اور کہاں یہ کہ انسان غرق ہوتا چلا جاتا ہے اور تباہ ہوتا چلا جاتا ہے.خدا تعالیٰ پروا نہیں کرتا.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ خدا سے ہر حال میں تعلق رکھتے ہیں.تو خدا ان کو ضائع ہونے سے بچا لیتا ہے.دیکھو ایک انسان کے دن بر گشتہ ہیں.کام اس کے خراب ہیں مگر خدا رحم نہیں کرتا.تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ قابل رحم ہی نہیں ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کو انسان پر بڑا رحم ہے.ہزاروں گناہ بخشتا ہے.جب انسان بہت تعلق خدا کے ساتھ پیدا کرتا ہے اور سب طرح سے اسی کا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِعْـمَلْ مَاشِئْتَ فَاِنِّیْ غَفَرْتُ لَکَ یعنی جو تیری مرضی ہو کئے جا مَیں نے تجھے سب کچھ بخش دیا.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ (حٰمٓ السجدۃ:۴۱) یعنی جو چاہو سو کئے جائو.پس یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تو بڑا مہر بان اور رحیم ہے اور بہت رحم سے معاملہ کرتا ہے.
فرمایا وہ خدا جو کہ عرصہ سے مخفی چلاآتاتھا اب نقاب اُٹھا کر چہرہ دکھا رہا ہے.کیا آج تک کسی نے ایسا بولتا خدا دیکھا تھا جیسے کہ اب رات دن بول رہا ہے.موجودہ زمانہ کے گدی نشین جو کہ دینی ضرورتوں سے غافل ہیں.ان کے ذکر پر فرمایا کہ اگر پیغمبر خدا یونہی ایک فقیر کی طرح گدی پر بیٹھے رہتے.تو صریح کامیابی جو کہ آپ نے دنیا میں دیکھ لی کیسے نظر آتی.طاعون۱ کا ظاہر ہونا بھی خدا کی رحمت ہے.رَحْمَةٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ(الانبیآء:۱۰۸) اس وقت آنحضرت پر صادق آتا ہے کہ جب آپ ہر ایک قسم کے خُلق سے ہدایت کو پیش کرتے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپؐنے اخلاق، صبر، نرمی اور نیز مار، ہر ایک طرح سے اصلاح کے کام کو پورا کیا اور لوگوں کو خدا کی طرف توجہ دلائی.مال دینے میں، نرمی برتنے میں، عقلی دلائل اور معجزات کے پیش کرنے میں آپ نے کوئی فرق نہیں رکھا.اصلاح کا ایک طریق مار بھی ہوتا ہے کہ جیسے ماں ایک وقت بچے کو مارسے ڈراتی ہے وہ بھی آپ نے برت لیا.تو مار بھی ایک خدا کی رحمت ہے کہ جو آدمی اَور کسی طریق سے نہیں سمجھتے خدا ان کو اس طریق سے سمجھاتا ہے کہ وہ نجات پاویں.خدا تعالیٰ نے چار صفات جو مقرر کی ہیں جو کہ سورہ فاتحہ کے شروع میں ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چاروں سے کام لے کر تبلیغ کی ہے.مثلاًپہلے رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ یعنی عام ربوبیت ہے تو آیت مَاۤاَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (الانبیآء:۱۰۸)اس کی طرف اشارہ کرتی ہے.پھر ایک جلوہ رحمانیت کا بھی ہے کہ آپ کے فیضان کا بدل نہیں ہے.ایسی ہی دوسری صفات.۲ ۱ یہاں سے لے کر اخیر تک جو مضمون البدر میں ہے.۱۶ جولائی کی ڈائری میں درج ہے.یہی مضمون الفاظ کے ردو بدل کے ساتھ الحکم میں ۲۱ جولائی کی ڈائری میں درج ہے.غالباً دو ڈائری نویس صاحبان میں سے کسی ایک سے سہو ًا ایسا ہوگیا ہے.یعنی یا تو ۱۶ جولائی کی ڈائری غلطی سے ۲۱ جولائی کی ڈائری میں درج کر دی گئی ہے اور یا ۲۱؍جولائی کی ڈائری سہواً ۱۶ جولائی کی ڈائری میں درج ہوگئی ہے.واللہ اعلم (مرتّب) ۲ البدر جلد۲نمبر۲۹مورخہ۷؍اگست۱۹۰۳ء صفحہ۲۲۵،۲۲۶
۲۱؍جولائی ۱۹۰۳ء ایک استفسار اور اس کا جواب ایک شخص نے سوال کیا کہ ریلی بردرس وغیرہ کارخانوں میں سرکاری سیر ۸۰ روپیہ کا دیتے ہیں اور لیتے ۸۱روپےکا ہیں.کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا.جن معاملات بیع وشرا میں مقدمات نہ ہوں.فساد نہ ہوں.تراضی فریقین ہو اور سر کار نے بھی جرم نہ رکھاہو.عرف میں جائز ہو.وہ جائز ہے.ہدایت کے مختلف ذرائع مامور جب دنیا میں اصلاح اور اشاعت ہدایت کے لیے آتے ہیں تو وہ ہر طرح سے سمجھاتے ہیں.آخری علاج اور راہ سختی بھی ہے.دنیا میں بھی یہی طریق جاری ہے کہ ابتداءً واوّلاً نرمی کے ساتھ سمجھایا جاتا ہے.پھر اس کی خوبیاں اور مفاد بتا کر شوق دلایا جاتا ہے.آخر جب کسی طرح نہیں مانتے تو سختی ہوتی ہے.جیسے ماں ایک وقت بچہ کو مار سے ڈراتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قدر طریق عقل تبلیغ اور ہدایت کی تجویز کرسکتی ہے اختیار کئے یعنی اوّل ہر قسم کی نرمی سے،رفق،صبر اور اخلاق سے،عقلی دلائل اور معجزات سے کام لیا اور آخر الامر جب ان لوگوں کی شرارتیں اور سختیاں حدسے گذر گئیں تو اللہ تعالیٰ نے پھر اسی رنگ میں ان پرحجّت پوری کی اور سختی سے کام لیا.یہی حال اب ہو رہا ہے.خدا تعالیٰ نے دلائل سے سمجھایا.نشانات دکھائے اور آخراب طاعون کے ذریعہ متوجہ کررہا ہے اور ایک جماعت کو اس طرف لا رہا ہے.فرمایا.سورہ فاتحہ میں جواللہ تعالیٰ کی صفات اربعہ بیان ہوئی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان چاروں صفات کے مظہر کامل تھے.مثلاً پہلی صفت رب العالمین ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بھی مظہر ہوئے.جبکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (الانبیآء:۱۰۸) جیسے رب العالمین عام ربوبیت کو چاہتا تھا.اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض وبرکات
اور آپ کی ہدایت و تبلیغ کل دنیا اور کل عالموں کے لیے قرار پائی.پھر دوسری صفت رحمٰن کی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس صفت کے بھی کامل مظہر ٹھیرے کیونکہ آپ کے فیوض وبرکات کا کوئی بدل اور اجر نہیں.مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ (الفرقان:۵۸) پھر آپ رحیمیت کے مظہر ہیں آپؐنے اور آپؐکے صحابہؓ نے جو محنتیں اسلام کے لیے کیں اور ان خدمات میں جو تکالیف اٹھائیں وہ ضائع نہیں ہوئیں بلکہ ان کا اجردیا گیا اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن شریف میں رحیم کالفظ بولا ہی گیا ہے پھر آپ مالکیت یوم الدین کے مظہر بھی ہیں اس کی کامل تجلّی فتح مکّہ کے دن ہوئی ایسا کامل ظہور اللہ تعالیٰ کی ان صفات اربعہ کا جو اُمّ الصفات ہیں اَور کسی نبی میں نہیں ہوا.۱ ۲۳؍جولائی ۱۹۰۳ء ایک رؤیا فرمایا کہ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک آنب ہے جسے میں نے تھوڑا ساچُو سا تو معلوم ہوا کہ وہ تین پھل ہیں جب کسی نے پوچھا کہ کیا پھل ہیں تو کہا کہ ایک آنب ہے ایک طوبا۲اور ایک اَور پھل ہے.اسلام سے ارتداد کی وجہ اسلام سے ارتداد کی وجہ پر ذکر ہوتے ہوئے فرمایا کہ جب ایک قوم کا غلبہ اور اقبال ہوتا ہے تو خود غرض آدمی اغراض کے واسطے اس کے ساتھ ہو جاتا ہے.۳ ۱الحکم جلد ۷ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۰؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۹،۲۰ ۲الحکم میں ’’طوبیٰ ‘‘ لکھا ہے.(الحکم جلد ۷ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۰ ؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰ ) ۳البدر جلد۲ نمبر۲۹ مورخہ ۷؍اگست۱۹۰۳ء صفحہ ۲۲۶
۲۴؍جولائی ۱۹۰۳ء ( دربارِشام) قبروں پر چڑھاوے ایک بھائی نے عرض کی کہ حضور بکرا وغیرہ جانور جو غیر اللہ تھانوں اور قبروں پر چڑھائے جاتے ہیں پھر وہ فروخت ہو کر ذبح ہوتے ہیں کیا ان کا گوشت کھانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.شریعت کی بنا نرمی پر ہے سختی پر نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ (البقرۃ:۱۷۴) سے یہ مُراد ہے کہ جوان مندروں اور تھانوں پر ذبح کیا جاوے یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جاوے اس کا کھانا تو جائز نہیں ہے لیکن جو جانور بیع وشرا میں آجاتے ہیں اس کی حلّت ہی سمجھی جاتی ہے زیادہ تفتیش کی کیا ضرورت ہوتی ہے.۱ دیکھو حلوائی وغیرہ بعض اوقات ایسی حرکات کرتے ہیں کہ ان کا ذکر بھی کراہت اور نفرت پیدا کرتا ہے لیکن ان کی بنی ہوئی چیزیں آخر کھاتے ہی ہیں.آپ نے دیکھا ہوگا کہ شیرینیاں طیار کرتے ہیں اور میلی کچیلی دھوتی میں بھی ہاتھ مارتے جاتے ہیں اور جب کھانڈ طیار کرتے ہیں تو اس کو پاؤں سے ملتے ہیں چوڑھے چمار گُڑ وغیرہ بناتے ہیں اور بعض اوقات جوٹھے رس وغیرہ ڈال دیتے ہیں اور خدا جانے کیا کیا کرتے ہیں ان سب کو استعمال کیا جاتا ہے.اس طرح پر اگر تشدّد ہو تو سب حرام ہو جاویں اسلام نے مالا یطاق تکلیف نہیں رکھی ہے بلکہ شریعت کی بنا نرمی پر ہے.اس کے بعد سائل مذکور نے پھر اسی سوال کی اَور باریک جزئیات پر سوال شروع کئے.فرمایا.اللہ تعالیٰ نے لَا تَسْـَٔلُوْا عَنْ اَشْيَآءَ (المائدۃ:۱۰۲) بھی فرمایا ہے بہت کھودنا اچھا نہیں ہوتا.متقیوں کو اللہ تعالیٰ ابتلاؤں سے بچاتا ہے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ متقی کو البدر میں مزید لکھا ہے.’’کیو نکہ اب جگن ناتھ وغیرہ مقامات پر لاکھوں حیوان چڑھتے ہیں اور روز مرّہ فروخت ہوکر ذبح ہوتے ہوں گے.اگر اُن کا کھانا حرام ہوتو پھر تو تکلیف مالا یطاق ہے.‘‘ (البدرجلد ۲ نمبر ۲۹ مورخہ ۷؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۶ ۲۲ )
ایسی مشکلات میں نہیں ڈالتا.۱ اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ (النّور:۲۷) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ متقیوں کو اللہ تعالیٰ خود پاک چیزیں بہم پہنچاتا ہے اور خبیث چیزیں خبیث لوگوںکے لیے ہیں اگر انسان تقویٰ اختیار کرے اور باطنی طہارت اور پاکیزگی حاصل کرے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پاکیزگی ہے.تو وہ ایسے ابتلاؤں سے بچا لیا جاوے گا.ایک بزرگ کی کسی بادشاہ نے دعوت کی اور بکری کا گوشت بھی پکایا اور خنزیر کا بھی.اور جب کھانا رکھا گیا تو عمداً سور کا گوشت اس بزرگ کے سامنے رکھ دیا اور بکری کا اپنے اور اپنے دوستوں کے آگے.جب کھانا رکھا گیا اور کہا کہ شروع کرو تو اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ پر بذریعہ کشف اصل حال کھول دیا انہوں نے کہاٹھیرو یہ تقسیم ٹھیک نہیں اور یہ کہہ کر اپنے آگے کی رکا بیاں ان کے آگے اور ان کے آگے کی اپنے آگے رکھتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھتے جاتے تھے کہ اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ.الآیۃ.غرض جب انسان شرعی امور کو ادا کرتا ہے اور تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے اور بُری اور مکروہ باتوں سے اس کو بچالیتا ہے.اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيْ (یوسف:۵۴)کے یہی معنے ہیں.۲ ۲۵؍جولائی۱۹۰۳ء ( دربارِ شام ) ایک الہام فرمایا.کل مجھے الہام ہوا تھا اَلْفِتْنَۃُ وَالصَّدَ قَاتُ فرمایا کہ اب الہام بھی اسے کیا کہیں.ایسی صاف اور واضح وحی ہوتی ہے کہ کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش بالکل نہیں رہتی.شاذونادر ہی کوئی ایسی وحی ہو تو ہو ورنہ ہر وحی میں پیشگوئی ضرور ہوتی ہے.۱ البدر میں ہے.’’اور متقی کو تو کسی قسم کی تکلیف پیش نہیں آتی اور اسے حلال روزی پہنچانے کی ذمہ داری خود خدا نے لی ہے اور اس نے یہ وعدہ بھی فرمایا ہے کہ اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ (النّور:۲۷) (البدرجلد ۲ نمبر ۲۹ مورخہ ۷؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۶ ۲۲ ) ۲ الحکم جلد۷نمبر۲۹ مورخہ ۱۰؍اگست۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰
تقویت ِایمان کی ضرورت تقویت ِایمان کی بڑی ضرورت ہے بغیر ایمان کے اعمال مثل مُردہ کے ہوتے ہیں.ایمان ہو تو انسان کو وہ معرفت حاصل ہوتی ہے جس سے وہ آسمان کی طرف مصعود ہوتا ہے اور اگر یہ نہ ہو تو نہ برکات حاصل ہوتے ہیں نہ خوشی حاصل ہوتی ہے.خدا کو دیکھنے کے بعد جب کوئی عمل کیا جاوے تو جو اس عمل کی شان ہو گی کیا ویسی کسی دوسرے کی ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں.جس قدر امراض عمل کی کمزوری اور تقویٰ کی کمزوری کے دیکھے جاتے ہیں ان سب کی اصل جڑ معرفت کی کمزوری ہے.۱ ایک کیڑے کی بھی معرفت ہوتی ہے تو انسان اس سے ڈرتا ہے پھر اگر خدا کی معرفت ہو تو اس سے کیوں نہ ڈرے؟ غرضیکہ معرفت کی بڑی ضرورت ہے.میں دیکھتا ہوں کہ اگرچہ ہماری جماعت تو بڑھ رہی ہے لیکن ابھی پوست ہی بڑھتا ہے اگر مغز بڑھے تو بات ہے.بار بار خیال آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا ہی قوت قدسیہ ہے کہ آپ پر ایمان لا کر صحابہ کرام ؓ نے یک دفعہ ہی دنیا کا فیصلہ کر دیا.جان سے بڑھ کر کیا شَے ہوتی ہے اپنے خون سے دین پر مہر یں لگا دیں اب لوگ بیعت کرتے ہیں تو دیکھا جاتا ہے کہ ساتھ ہی مخفی اغراض دنیا ۱ الحکم میں ہے.’’ ایمان کے ساتھ عمل کی ضرورت ہے ورنہ ایمان بدوں عمل مُردہ ہے اور جب تک عمل نہ ہو وہ ثمرات اور نتائج پیدا نہیں ہوتے جو اعمال کے ساتھ وابستہ ہیں.مگر اعمال کی قوت اور توفیق معرفت اور یقین سے پیدا ہوتی ہے جس قدر یہ قوت بڑھتی ہے اسی قدر اعمالِ صالحہ کی توفیق ملتی ہے اور وہ برکات حاصل ہوتی ہیں جن سے انسان آسمان کی طرف اُٹھا یاجاتاہے.اگر یہ بات نہ ہوتو یقین کے ثمرات پیدا نہیں ہوتے جس قدر انسان شک وشبہ میں اور غفلت میں ہے اسی قدر اس کا ایمان کمزور ہے اور اس ایمان کے موافق اس کے اعمال کمزور.جس قدر امراض عمل کی کمزوری اور تقویٰ کی کمزوری سے پیدا ہوتے ہیں اس کی اصل جڑ معرفت کی کمی اور کمزوری ہے.ورنہ معرفت تو ایک ایسی لذیذ شَے ہے کہ یہ جس قدر بڑھتی ہے اسی قدر عمل کی طاقت ملتی ہے.ایک کیڑے کی معرفت بھی ہو تو انسان اُس سے ڈرتا ہے.اسے علم ہوکہ چیونٹی کے کاٹنے سے درد ہوتا ہے تو اس سے بھی ڈرتا ہے.اور اس کے ضرر سے بچتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کی معرفت ہوتو کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ اس سے نہ ڈرے.اصل یہی معرفت ہے جس کے بغیر کوئی خوشی اور برکت حاصل نہیں ہوسکتی.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۰ ؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ
کے بھی لاتے ہیں کہ فلاں کام دنیا کا ہو جاوے.یہ ہو جاوے.یہ سچ ہے کہ جو مومن ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ ہر ایک مشکل کو اس کی آسان کر دیتا ہے مگر سب سے اوّل معرفت ضروری ہے پھر خدا تعالیٰ خود اس کی ہر ایک ضرورت کا کفیل ہوگا.۱ ۲۶؍جولائی ۱۹۰۳ء مسیح موعود کے زمانہ میں درازیٔ عمر کا راز احادیث میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں عمریں لمبی ہو جائیں گی.اس سے یہ مُراد نہیں ہے کہ موت کا دروازہ بالکل بند ہو جائے گا اور کوئی شخص نہیں مَرے گا.بلکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مالی، جانی نصرت میں اس کے مخلص احباب ہوں گے اور خدمت دین میں لگے ہوئے ہوں گے ان کی عمریں درازکردی جائیں گی.اس واسطے کہ وہ لوگ نفع رساں وجود ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے وَ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ (الرّعد:۱۸).یہ اَمر قانونِ قدرت کے موافق ہے کہ عمریں درازکر دی جائیں گی.اس زمانہ کو جو دراز کیا ہے یہ بھی اس کی رحمت ہے اور اس میں کوئی خاص مصلحت ہے.(اس پر حضرت حکیم الامت نے عرض کیا کہ مسلمانوں میں سب سے پہلا مجدّد عمربن عبد العزیز کو تسلیم کیا ہے وہ کل دو۲ برس تک زندہ رہے ہیں.) زاں بعد حضرت حجۃ اللہ نے پھر اپنے سلسلہ کلام میں فرمایاکہ محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے آج تک ہم کو محفوظ رکھا ہے اور جماعت کو ترقی دے رہاہے اور اس کے ازدیادِ ایمان اور معرفت کے لیے حجج وبراہین ظاہر کررہا ہے یہاں تک کہ کوئی پہلو تاریکی میں نہیں رہنے دیا.۱ البدر۲ جلدنمبر۲۹ مورخہ ۷؍اگست ۱۹۰۳ ءصفحہ ۲۲۶ ۲یعنی بعد از خلافت دو برس زندہ رہے.(مرتّب)
سلسلہ احمدیہ ہمارے سلسلہ کے لیے منہاجِ نبوت ایک زبردست آئینہ ہے.جاہل اس پر اگر اپنی کم سمجھی سے اعتراض کرے تو منہاج نبوت اس کے منہ پر طمانچہ مارتا ہے جو بات ہو نہار ہوتی ہے اس کے نشانات اور آثار خود بخود نظر آنے لگتے ہیں جو کام اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اس کی تکمیل کی ہوائیں چل رہی ہیں اور دو طرح سے وہ ہو رہا ہے ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ ہم کو توفیق دے رہا ہے کہ ہماری طرف سے دن رات کوشش جاری ہے اور اشاعت اور تبلیغ کی راہیں کھلتی جاتی ہیں تائیدات الٰہیہ شامل حال ہوتی جاتی ہیں.دوسری طرف۱ خود ہمارے مخالفوں کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں.اور ان میں ہی ایسے لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو اپنے مذہب کو چھوڑتے جاتے ہیں اور اس کی برائیاں بیان کررہے ہیں گویا وہ اپنے مذہب وملّت کی عمارت کو يُخْرِبُوْنَ بُيُوْتَهُمْ بِاَيْدِيْهِمْ (الـحشـر:۳) کے مصداق ہو کر خود ہی مسمار کررہے ہیں.فرمایا.اللہ تعالیٰ جب تک اپنا چہرہ نہ دکھلالے ہرگز نہیں چھوڑے گا کیونکہ یقین کی ترقی کا سچا ذریعہ یہی ہے.دوزخ کے سات دروازے فرمایا.چند روز سے جو مستورات میں وعظ کا سلسلہ جاری ہے ایک روز یہ ذکر آگیا کہ دوزخ کے سات دروازے ہیں اور بہشت کے آٹھ.اس کا کیا سِر ہے تو ایک دفعہ ہی میرے دل میں ڈالا گیا کہ اصول جرائم بھی سات ہی ہیں اور نیکیوں کے اُصول بھی سات.بہشت کا جو آٹھواں دروازہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کا دروازہ ہے.دوزخ کے سات دروازوں کے جو اُصول جرائم سات ہیں ان میں سے ایک بد ظنّی ہے.بدظنّی کے ذریعہ بھی انسان ہلاک ہوتا ہے اور تمام باطل پرست بدظنی سے گمراہ ہوئے ہیں.دوسرا اصول تکبّر ہے.تکبّر کرنے والا اہل حق سے الگ رہتا ہے اور اسے سعادت مندوں کی ۱ البدر میں ہے.’’دوسرے یہ کہ ان کی کوششوں کا وبال الٹ کر انہی پر پڑتا ہے اور وہ يُخْرِبُوْنَ بُيُوْتَهُمْ بِاَيْدِيْهِمْ (الـحشـر:۳) کا خود مصداق ہورہے ہیں.‘‘ (البدرجلد ۲ نمبر ۲۹ مورخہ ۷؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۷ ۲۲ )
طرح اقرار کی توفیق نہیں ملتی.تیسرا اصول جہالت ہے یہ بھی ہلاک کرتی ہے.چوتھا اصول اتباع ھویٰ ہے.پانچواں کورانہ تقلید ہے.غرض اسی۱ طرح پر جرائم کے سات اصول ہیں اور یہ سب کے سب قرآن شریف سے مستنبط ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ نے ان دروازوں کا علم مجھے دیا ہے.جو گناہ کوئی بتائے وہ ان کے نیچے آجاتا ہے.کورانہ تقلید اور اتباع ھویٰ کے ذیل میں بہت سے گناہ آتے ہیں.جنّت کی نعماء اسی طرح ایک دن میں نے بیان کیا کہ دوزخیوں کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ ان کو زَقُّوْم کھانے کو ملے گا اور بہشتیوں کو اس کے بالمقابل دودھ اور شہد کی نہریں اور قِسم قِسم کے پھل بیان کئے گئے ہیں.اس کا سِر کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں بالمقابل بیان ہوئی ہیں.بہشت کی نعمتوں کا ذکر ایک جگہ کرکے یہ بھی فرمایا ہے كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا١ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِيْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا (البقرۃ:۲۶) تو اس میں رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ سے یہ مُراد نہیں کہ دنیا کے آم، خربوزے اور دوسرے پھل اور دنیا کا دودھ اور شہد ان کو یاد آجائے گا نہیں بلکہ اصل یہ ہے کہ مومن جو اخلاص اور محبت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور اس ذوق شوق سے جو لذّت ان کو محسوس ہوتی ہے تو بہشت کی نعمتوں اور لذتوں کے حاصل ہونے پر وہ لذّت ان کو یاد آجائے گی کہ اس قسم کی لذّت بخش نعمتیں ہمارے رب سے پہلے بھی ملتی رہی ہیں.چونکہ بہشتی زندگی اسی عالم سے شروع ہوتی ہے اس لیے ان نعمتوں کا ملنا بھی یہیں سے شروع ہو جاتا ہے.ورنہ بہشت کی نعمتوں کے بارہ میں تو آیا ہے کہ نہ ان کو کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا.تو ان دنیوی پھلوں سے ان کا رشتہ کیا ہوا؟ ایمان اور اعمال کی مثال قرآن شریف میں درختوں سے دی گئی ہے.ایمان کو درخت بتایا ہے ۱ معلوم ہوتا ہے کہ باقی دو اُصول ڈائری نویس قلمبند نہیں کرسکے.(مرتّب)
اور اعمال اس کی آبپاشی کے لیے بطور نہروں کے ہیں.جب تک اعمال سے ایمان کے پودہ کی آبپاشی نہ ہو اس وقت تک وہ شریں پھل حاصل نہیں ہوتے.بہشتی زندگی والا انسان خدا کی یاد سے ہر وقت لذّت پاتا ہے اور جو بد بخت دوزخی زندگی والا ہے تو وہ ہر وقت اس دنیا میں زَقُّوْم ہی کھا رہا ہے اس کی زندگی تلخ ہوتی ہے.۱ مَعِيْشَةً ضَنْكًا(طٰہٰ:۱۲۵)بھی اسی کا نام ہے جو قیامت کے دن زَقُّوْم کی صورت پرمتمثل ہوجائے گی.غرض دونوں صورتوں میں باہم رشتے قائم ہیں.۲ ۲۹؍جولائی ۱۹۰۳ء (بوقتِ نماز ظہر) نجات برادر م ڈاکٹرمرزایعقوب بیگ صاحب پروفیسر میڈیکل کالج لاہور نے آج لاہور کو جانا تھا.انہوں نے لاہور آریہ سماج کے اس اشتہار کا ذکر کیا جو انہوں نے مسئلہ نجات پر مباحثہ کے لیے شائع کیا ہے،اس پر حضرت حجۃ اللہ نے مختصراً نجات کے متعلق یہ تقریر بیان فرمائی.اس کا ماحصل یہ ہے.(ایڈیٹر) فرمایا.نجات کے متعلق جو عقیدہ قرآن شریف سے مستنبط ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ نجات نہ تو صوم سے ہے نہ صلوٰۃ سے نہ زکوٰۃ اور صدقات سے بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے جس کو دعا حاصل کرتی ہے.اسی لیے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ(الفاتـحۃ:۶) کی دعا سب سے اوّل تعلیم فرمائی ہے کیونکہ جب یہ دعا قبول ہو جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتی ہے جس سے اعمال صالحہ کی توفیق ملتی ہے کیونکہ جب انسان کی دعا جو سچے دل اور خلوص نیت سے ہو قبول ہوتی ہے تو پھر نیکی اور اس کے شرائط ساتھ خود ہی مرتّب ہو جاتے ہیں.اگر نجات کو محض اعمال پر منحصر کیا جاوے اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور دعا کو محض بے حقیقت سمجھا ۱ البدر میں ہے.’’مختلف حیل سے کماکر تلخ زندگی بسر کرتا ہے.وہی کمائی اسے قیامت کے دن زَقُّوْم کی شکل میں متمثل ہو کر ملے گی.‘‘ (البدرجلد ۲ نمبر ۲۹ مورخہ ۷؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۷ ۲۲ ) ۲ الحکم جلد۷نمبر۳۰ مورخہ ۱۷؍ اگست ۱۹۰۳ءصفحہ ۱۰
جاوے جیسا کہ آریہ سماج کا عقیدہ ہے تو یہ ایک باریک شرک ہے.کیونکہ اس کا مفہوم دوسرے لفظوں میں یہ ہوگا کہ انسان خو دبخود نجات پاسکتا ہے اور اعمال اس کے اپنے اختیار میں ہیں جن کو وہ خود بخود بجا لاتا ہے تو اس صورت میں نجات کی کلید انسان ہی کے اپنے ہاتھ میں ہوئی اور خدا سے نجات کا کچھ تعلق اور واسطہ نہ ہوا گویا وہ خود کوئی چیز نہ ہوا.اور اس کا عدم وجود برابر ٹھہرا(معاذاللہ) مگر نہیں ہمارا یہ مذہب نہیں ہے.ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ نجات اس کے فضل سے ملتی ہے اور اسی کا فضل ہے جو اعمال صالحہ کی توفیق دی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کا فضل دعا سے حاصل ہوتا ہے لیکن وہ دعا جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتی ہے وہ بھی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی.انسان کا ذاتی اختیار نہیں کہ وہ دعا کے تمام لوازمات اور شرائط محویت،توکّل، تبتّل، سوزوگداز وغیرہ کو خود بخود مہیا کرے جب اس قسم کی دعا کی توفیق کسی کو ملتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی جاذب ہو کر ان تمام شرائط اور لوازم کو حاصل کرتی ہے جو اعمال صالحہ کی رُوح ہیں ہمارا نجات کے متعلق یہی مذہب ہے.چو نکہ نجات کوئی مصنوعی اور بناوٹی بات نہیں کہ صرف زبان سے کہہ دینا اس کے لیے کافی ہو کہ نجات ہو گئی اس لیے اسلام نے نجات کا معیار یہ رکھا ہے کہ اس کے آثار اور علامات اسی دنیا۱ میں شروع ہو جائیں اور بہشتی زندگی حاصل ہو، لیکن یہ صرف اسلام ہی کو حاصل ہے باقی دوسرے مذاہب نے جو کچھ نجات کے متعلق بیان کیا ہے وہ یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مُبْطِل ہے بلکہ فطرتِ انسانی کے خلاف اور عقلی طور پر بھی ایک بیہودہ اَمر ثابت ہوتا ہے وہ نجات ایسی ہے کہ جس کا کوئی اثر اور نمونہ اس دنیا میں ظاہر نہیں ہوتا.اس کی مثال اس پھوڑے کی سی ہے جو باہر سے چمکتاہے اور اس کے اندر پیپ ہے.نجات یافتہ انسان کی حالت ایسی ہونی چاہیے کہ اس کی تبدیلی نمایاں طور پر نظر آوے اور دوسرے تسلیم کرلیں کہ واقعی اس نے نجات پالی ہے اور خدا نے اس کو قبول کر لیا ہے لیکن کیا کوئی عیسائی جو خونِ مسیحؑ ۱البدر میں ہے.’’نجات کا اثر یہ ہے کہ اسی دنیا میں اس شخص کو بہشتی زندگی نصیب ہو.مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی آسـراءیل:۷۳).‘‘ (البدرجلد ۲ نمبر ۲۹ مورخہ ۷؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۷ ۲۲ )
کو نجات کا اکیلا ذریعہ سمجھتا ہے کہہ سکتا ہے کہ اس نے نجات پالی ہے اور نجات کے آثار وعلامات اس میں پائے جاتے ہیں.مسیحؑ کے صلیب ملنے تک تو شائد ان کی حالت کسی قدر اچھی ہو مگر بعد تو ہردوسرا دن پہلے سے بدترہوتا گیایہاں تک کہ اب تو فسق وفجورکے سیلاب کا بند ٹوٹ گیا.کیا یہ نجات کے آثار ہیں؟ آریوں کو بھی فضل سے کوئی تعلق نہیں وہ تو دست خود دہانِ خود کے مصداق ہیں اور ان کے پرمیشر نے تو ابھی کچھ بھی نہیں کیا کسی کو نجات کامل مل ہی نہیں سکتی اور وہ تمام نجاست کے کیڑے علاوہ ان کیڑوں مکوڑوں کے جو موجود ہیں سب انسان ہیں جن کو نجات حاصل نہیں ہوئی تو بتاؤ کہ وہ اَور کسی کو کیا نجات دے گا.جب اس قدر کثیر اور بے شمار تعداد ابھی باقی ہے.آریوں کی دعا بھی تر میم کے قابل ہے کیونکہ ان کی مکتی سے مُراد جاودانی مکتی نہیں ہوتی بلکہ ایک محدود وقت تک انسان جو نوں سے نجات پاتا ہے اور چونکہ روحیں محدود ہیں اور نئی روح پر میشر پیدا نہیں کرسکتا مجبوراً ان نجات یافتہ کو نکال دیتا ہے پس جب ان کے پر میشر نے جاودانی مکتی ہی نہیں دینی تو دعا بھی تر میم کرکے یوں مانگنی چاہیے کہ اے پر میشر تو جو دائمی مکتی دینے کے قابل نہیں ہے تو ایک خاص وقت تک مجھے نجات دے اور پھر دھکا دے کر اسی دارالمِحَن دنیا میں بھیج دے اور فطرت بھی بدل ڈال کہ اس میں جاودانی نجات کا تقاضا ہی نہ رہے.مجھے تعجب ہے کہ یہ لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ انسانی فطرت کا تقاضا جاودانی نجات کا ہے نہ عارضی کا اور عارضی نجات والا جس کو یقین ہو کہ وہ پھر انہیں تلخیوں میں بھیجا جاوے گا کب خوشی حاصل کرسکتا ہے ایسے پر میشر پر انسان کیا بھروسہ اور امید رکھ سکتا ہے.بقول شخصے ؎ تو بخویشتن چہ کردی کہ بماکنی نظیری حقاکہ واجب آمد ز تو احتراز کردن ۱ ۱ الحکم جلد۷نمبر۳۰ مورخہ ۱۷؍اگست۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰، ۱۱
۳۰؍جولائی ۱۹۰۳ء صداقت کا ایک معیار فرمایا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو کس کو معلوم تھا کہ آپ کے ہاتھ سے اسلام سمندر کی طرح دنیا میں پھیل جاوے گا اور جب آپ نے دعویٰ کیا تو وہی تین چار آدمی آپ کے ہمراہ تھے جو کہ مسلمان ہوئے تھے اور ابوجہل وغیرہ آپ کو کیسے ذلیل اور حقیر خیال کرتے تھے لیکن اب اگر وہ زندہ ہوں تو ان کو پتا لگے کہ جسے وہ حقیر اور ذلیل خیال کرتے تھے خدا نے اس کی کیا عزّت کی ہے.اعدا کی ذلّت اور اپنی کامیابی پر فرمایا کہ اس کے متعلق حال میں پیشگوئی جو ہوئی ہے اگرچہ وہ ایک رنگ میں پوری ہو گئی ہے تاہم اسے پوری ہوئی کہنا ہماری غلطی ہے.خدا جانے خدا کا کیا منشا ہے اصل حد ایسی پیشگوئیوںکی وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ (اٰل عمران:۵۶) ہے جو کہ بہت سے اسباب کو چاہتا ہے.دنیا میں حق پسند بہت تھوڑے ہیں اور اقبال پسند بہت زیادہ.اس لیے اللہ تعالیٰ بہت سے صاحبِ اقبال کو اپنے برگزیدوں کے ساتھ کردیا کرتا ہے تاکہ عوام الناس ان کے ذریعہ سے ہدایت پاویں کیونکہ عوام الناس میں حق پسندی اور عمیق عقل کم ہوتی ہے اس لیے وہ بڑے بڑے آدمیوں کو دیکھ کر ان کے ذریعہ داخل ہوتے اور ہدایت پاتے ہیں.۱ ۳۱ ؍جولائی ۱۹۰۳ء اَسماء الٰہیہ کی تجلیات بعض زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے اسمِ ضال کی تجلی ہوتی ہے اور بعض زمانہ میں اسمِ ہادی کی تجلی.نیک اور خدا ترس لوگ جس اسم کی تجلی ہوتی ہے اس ۱البدرجلد۲نمبر۳۰ مورخہ ۱۴؍اگست۱۹۰۳ء صفحہ۲۳۳ نیزالحکم جلد۷نمبر۳۱ مورخہ ۲۴؍اگست۱۹۰۳ء صفحہ ۱
اس کے نیچے آتے ہیں اور اپنے رنگ میں اس سے استفادہ کرتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ صوفی ابن الوقت ہوتا ہے اسم ضال کی تجلی کا زمانہ گذر چکا اور اب اسمِ ہادی کی تجلی کا وقت آیا ہے.اسی واسطے خودبخود طبیعتوں میں اس کفر اور شرک سے ایک بیزاری پیدا ہو رہی ہے جو عیسائی مذہب نے پھیلایا تھا ہرطرف سے خبریں آرہی ہیں کہ دنیا میں ایک شور مچ گیا ہے اور وہ وقت آگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید دنیا میں پھیلے اور وہ شناخت کیا جاوے.اس کی طرف اشارہ کرکے براہین احمدیہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کُنْتُ کَنْـزًا مَـخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ اور پھر ایک جگہ فرمایا ہے.اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ.جن لوگوں کو کچھ بھی تعلق نہیں ہے وہ بھی مانتے ہیں کہ یہ زمانہ انقلابات کا زمانہ ہے.ہر قسم کے انقلابات ہو رہے ہیں اوریہ سب انقلاب ایک آنے والے زمانہ کی خبر دیتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال کامل طور پر ظاہر ہوگا.اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو اس قوم میں فسق وفجور پیدا ہو جاتا ہے فاسق چونکہ زنانہ مزاج ہوتے ہیں اور فسق کی بنیاد ریت پر ہوتی ہے اس لیے وہ جلد تباہ ہوتے ہیں ذرا سامقابلہ ہو اور سختی پڑے تو برداشت کی طاقت نہیں رکھتے.براہین میں نزو لِ مسیح کا عقیدہ درج کرنے کی حقیقت ایک شخص نے سوال۱ کیا کہ براہین احمدیہ میں مسیحؑ کے دوبارہ آنے کا اقرار درج ہے خدا تعالیٰ نے پہلے ہی کیوں ظاہر نہ کردیا؟ فرمایا.جب اللہ تعالیٰ نے ہم کو بتایا ہم نے ظاہر کردیا اور یہی ہماری سچائی کی دلیل ہے اگر منصوبہ بازی ہوتی تو ایسا کیوں لکھتے؟ مگر ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس براہین میں میرا نام عیسٰی بھی رکھا گیا ہے.اس کی بنیاد براہین سے پڑی ہوئی ہے اور علاوہ بریں سنّت اللہ اسی طرح پر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس سال سے پہلے کیوں نبوت کا دعویٰ نہ کر دیا؟ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام مامور ہونے سے پہلے یو سف نجار کے ساتھ بڑھئی کا کام ہی کرتے رہے.۱یہ سوال اور اس کا جواب ’’البدر ‘‘ نے یکم اگست کی ڈائری میں درج کیا ہے.(مرتّب)
غرض جب تک حکم نہیں ہوتا اعلان نہیں کرتے.دیکھو جب تک شراب کی حرمت کا حکم نہیں ہوا تھا اس کی حرمت بیان نہیں کی گئی.۱ اسی طرح ہواکرتا ہے جب خدا تعالیٰ نے ہم پر کھول دیا ہم نے دعویٰ کردیا.بغیر اس کی اطلاع اور اذن کس طرح ہوسکتا تھا؟ پس یادرکھو کہ ہر ایک نبی کو جب تک وحی نہ ہو وہ کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ہر ایک چیز کی اصل حقیقت تو وحی الٰہی سے ہی کھلتی ہے یہی وجہ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوا مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَ لَا الْاِيْمَانُ(الشورٰی:۵۳) یعنی تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا چیز ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ کی وحی آپ پر ہوئی تو پھر اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ (یونس:۱۰۵) آپ کو کہنا پڑا اسی طرح آپ کے زمانہ وحی سے پیشتر مکہ میں بُت پرستی اور شرک، فسق وفجور ہوتا تھا لیکن کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ وحی الٰہی کے آنے سے پہلے بھی آپ نے ان بتوں کے خلاف وعظ کیا اور تبلیغ کی تھی لیکن جب فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ(الـحجر:۹۵)کا حکم ہو اتو پھر ایک سیکنڈ کی بھی دیر نہیں کی اور ہزاروں مشکلات اور مصائب کی بھی پروا نہیں کی.بات یہی ہے کہ جب کسی اَمر کے متعلق وحی الٰہی آجاتی ہے تو پھر مامور اس کے پہنچانے میں کسی کی پروا نہیں کرتے اور اس کا چھپانا اسی طرح شرک سمجھتے ہیں جس طرح وحی الٰہی سے اطلاع پانے کے بغیر کسی اَمر کی اشاعت شرک سمجھتے ہیں.اگر وہ اس بات کو جس کی اطلاع وحی الٰہی کے ذریعہ سے نہیں ملی بیان کرتا ہے تو گویا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے وہ سوجھتا ہے جو خدا کو بھی نہیں سوجھتا اور اس گستاخی سے وہ مشرک ہو جاتا ہے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہ تمام باتیں جو قرآن شریف میں درج ہیں قرآن شریف کے نزول سے پہلے ہی بیان کر دیتے تو پھر قرآن شریف کی کیا ضرورت رہ جاتی.غرض جو کچھ ہم پر خدا نے ۱ البدر میں ہے.’’ابتدا میں بعض صحابہ کرامؓ نے شراب پی ہوئی ہوتی تھی اور نماز پڑھ لیتے تھے.لیکن آنحضرتؐنے کسی کو منع نہیں کیا.جب تک کہ آیت کریمہلَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى (النساء:۴۴) نہ نازل ہوئی.‘‘ (البدرجلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۲۳۴)
کھولا اور جب کھولا ہم نے بیان کردیا.۱،۲ یکم اگست ۱۹۰۳ء گناہ پر مواخذہ کی وجہ ایک دوست کے تحریر ی سوال پر کہ اللہ تعالیٰ شرک کو کیوں معاف نہیں کرتا اور گناہ پر مواخذہ کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا.گناہوںکے مواخذہ کے متعلق یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا سنّت اللہ میں یہ داخل ہے یا نہیں؟ وہ ہمیشہ سے مواخذہ کرتا آیا ہے.۳ گناہ خواہ ازقسم صغائر ہوں یا کبائراس کا مواخذہ ضرور ہوتا ہے اور انسان ہے اور انسان خوداپنی فطرت میں غور کرے کہ کیا وہ اپنے ماتحتوں اور متعلقین سے کوئی مواخذہ کرتا ہے یا نہیں جب ان سے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور وہ کوئی خطاکرتے ہیں.یہ فطرتی نقش اس بات پر ایک حجت اور گواہ ہے اور یہ بات کہ شرک کو نہیں بخشتا اگر ایک ایک گناہ پر سوال ہو تو پھر بہت بڑی وسعت دے کر اس سوال کو یوں کہنا پڑے گا کہ وہ ہر قسم کے گناہ کیوں معاف نہیں کر دیتا.سزا دیتا ہی کیوں ہے؟ یہ غلطی ہے پہلی امتوںپر گناہوں کے باعث عذاب آئے اور اب بھی اللہ تعالیٰ اسی طرح البدر میں ہے.’’غرضیکہ رسول وہی کام کرتا ہے جس کا حکم دیا جاتا ہے.جیسے خدا فرماتا ہے فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ(الـحجر:۹۵) جس کا حکم نہ دیا جائے اس کے بر خلاف کچھ کہنا یا کرنا گستاخی ہے.(پس یہی وجہ تھی کہ مسیح کے آسمان پر زندہ ہونے کا جو عقیدہ عامہ اہلِ اسلام میں رائج تھا.اُسے کتاب میں لکھ دیا گیا اور جب وحی الٰہی نے اُسے غلط ثابت کیا وہ غلطی ظاہر کردی گئی.) ‘‘ (البدرجلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۴ ؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۲۳۴ ) ۲ الحکم جلد ۷ نمبر ۳۱ مورخہ ۲۴ ؍اگست ۱۹۰۳ءصفحہ ۱، ۲ ۳ البدر میں ہے.’’فرمایا کہ اگر شرک کو اللہ تعالیٰ بخش دے تو پھر زانی اور ہر ایک فاسق فاجر کو بھی بخش دینا چاہیے اور پھر اس میں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ آیا اللہ تعالیٰ گناہوں کا بدلہ دیتا ہے کہ نہیں اور گناہوں کے بارے میں پہلی اُمتوں سے اللہ تعالیٰ نے کیا سلوک کیا تو اس کے جواب میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اکثر اُمتوں کو گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے عذاب دئے گئے تو پھر شرک جیسے گناہ کی سزا کیوں نہ دی جائے.‘‘ (البدرجلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۳۳)
گناہوں کا مواخذہ کرتا ہے.ہاں ہمارا یہ مذہب ہرگز نہیں ہے کہ گناہ گاروں کو ایسی سزا ابدی ملے گی کہ اس سے پھر کبھی نجات ہی نہ ہو گی بلکہ ہمارا یہ مذہب ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم گناہ گاروں کو بچالے گا اور اسی لیے قرآن شریف میں جہاں عذاب کا ذکر کیا ہے وہاں فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ(ھود:۱۰۸) فرمایا ہے.گناہ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک بندوں کے اور ایک خدا کے.جیسے چوری ہے یہ عبدکا گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی چوری شرک ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو چُرا کر دوسرے کو دیتا ہے چونکہ یہ ایک بڑی زبردست ہستی کی چوری ہے اس لیے اس کی سزا بھی بہت ہی بڑی ملتی ہے.جو لوگ اس قسم کے سوال کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے قانون اور مرضی کے ماتحت رکھنا چاہتے ہیں کہ جس گناہ کو یہ چاہیں اسے بخش دے اور جس کو نہ چاہیں اسے نہ بخشے اس طرح پر کیسے ہوسکتا ہے؟ یہاں دنیا میں اس کا نمونہ نہیں تو آخرت میں کیسے؟ کوئی وائسر ائے کو لکھ دے کہ فلاں مجرم کو سزا نہ دی جائے اور تعزیرات ہند کو موقوف کر دیا جاوے تو کیا ایسی درخواست منظور ہوسکتی ہے؟ کبھی نہیں.اس طرح پر تو اباحت کی بنیاد رکھی جاتی ہے کہ جو چاہوسو کرو.۱ ایمان بالرسل کی ضرورت پھر اسی خط میں ایک دوسراسوال یہ بھی تھا کہ کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے کے بغیر نجات نہیں ہوسکتی؟ اس پر فرمایا کہ رسول وہ ہوتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور احسانات ہوتے ہیں پس جو شخص اس کا انکار کرتا ہے وہ بہت خطرناک جرم کا مرتکب ہوتا ہے.کیونکہ وہ شریعت کے سارے سلسلہ کو باطل کرنا چاہتا ہے اور حلّت حرمت کی قید اٹھا کر اباحت کا مسئلہ پھیلانا چاہتا ہے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیسے نجات کا مانع نہ ہو؟ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو لا انتہا برکات اور فیوض لے کر آیا ہے اس کا انکار البدر میں ہے.’’پھر جس حال میںیہاں قانون میںان کی دخل اندازی نہیں ہوسکتی تو خدا تعالیٰ کے قانون میں وہ کیوں تغیر و تبدل چاہتے ہیں؟‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۳۳ )
ہو اور پھر نجات کی امید؟ اس کا انکار کرنا ساری بدکاریوں اور بدمعاشیوں کو جائز سمجھتا ہے کیونکہ وہ ان کو حرام ٹھہراتا ہے.۱،۲ ۲؍اگست ۱۹۰۳ء (دربارِ شام) درازی عمرکا اصل گُر ہمارے مکرم مخدوم ڈاکٹر سید ستار شاہ صاحب نے اپنی رخصت کے ختم ہونے پر عرض کی کہ میں صبح جاؤں گا.فرمایا.خط وکتابت کا سلسلہ قائم رکھنا چاہیے.ڈاکٹر صاحب نے عرض کی کہ حضور! میرا ارادہ بھی ہے کہ اگر زندگی باقی رہی تو انشاء اللہ بقیہ حصہ ملازمت پورا کرنے کے بعد مستقل طور پر یہاں ہی رہوں گا.فرمایا.یہ سچی بات ہے کہ اگر انسان تو بۃ النصوح کرکے اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی زندگی وقف کر دے اور لوگوں کو نفع پہنچاوے تو عمر بڑھتی ہے.اعلاء کلمۃ الاسلام کرتا رہے اور اس بات کی آرزو رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید پھیلے.اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان مولوی ہو یا بہت بڑے علم کی ضرورت ہے بلکہ اَمربالمعروف اور نہی عن المنکرکرتا رہے.یہ ایک اصل ہے جو انسان کو نافع الناس ۱ البدر میں ہے.’’رسول وہ ہوتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے احسانات و انعامات ہزار ہا ہوتے ہیں تو جو شخص اس کا انکار کرتا ہے وہ بڑا گناہ کرتا ہے اور اصل میں جو شخص کہ رسول اللہ کا انکار کرتا ہے دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتا ہے کہ ہر ایک حرام حلال ہے.شراب بھی جائز ہے زنا بھی جائز ہے جھوٹ بھی جائز ہے گویا سب صغائر و کبائرجائز ہیں کیونکہ رسول اللہ ان سب سے منع کرتے ہیں اور وہ جب ان کا انکار کرتا ہےتو ان کی تعلیم کا بھی انکار کرتا ہے یہ کب ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ایک حکم کو تسلیم کرے لیکن جو وہ حکم لایا اس سے انکار کرے تو پھر وہ حکم کیسے حکم رہ سکتا ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۳۳ ،۲۳۴) ۲ الحکم جلد ۷ نمبر ۳۱ مورخہ ۲۴ ؍اگست ۱۹۰۳ءصفحہ ۲
بناتی ہے اور نافع الناس ہونا درازی عمر کا اصل گُر ہے.۱ فرمایا.تیس۳۰ سال کے قریب گذرے کہ میں ایک بارسخت بیمار ہوا.۲ اور اس وقت مجھے الہام ہوا اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ.اس وقت مجھے کیا معلوم تھا کہ مجھ سے خلق خدا کو کیا کیا فوائد پہنچنے والے ہیں لیکن اب ظاہر ہوا کہ ان فوائد اور منافع سے کیا مُراد تھی.غرض جو کوئی اپنی زندگی بڑھانا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ نیک کاموں کی تبلیغ کرے اور مخلوق کو فائدہ پہنچاوے.جب اللہ تعالیٰ کسی دل کو ایسا پاتا ہے کہ اس نے مخلوق کی نفع رسانی کا ارادہ کر لیا ہے تو وہ اسے توفیق دیتا اور اس کی عمر دراز کرتا ہے.جس قدر انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کی مخلوق کے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہے اسی قدر اس کی عمر دراز ہوتی اور اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا اس کی زندگی کی قدر کرتا ہے لیکن جس قدر وہ خدا تعالیٰ سے لا پروا اور لا ابالی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا.انسان اگر اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی زندگی وقف نہ کرے اور اس کی مخلوق کے لیے نفع رساں نہ ہو تویہ ایک بے کار اور نکمی ہستی ہو جاتی ہے بھیڑ، بکری بھی پھر اس سے اچھی ہے جو انسان کے کام تو آتی ہے لیکن یہ جب اشرف المخلوقات ہو کر اپنی نوع انسان کے کام نہیں آتا تو پھر بدترین مخلوق ہو جاتا ہے اسی کی طرف اشارہ کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ ثُمَّ رَدَدْنٰهُ البدرمیں ہے.’’زندگی کے لمبا کرنے کا ایک ہی گُر ہے اور وہ یہ ہے جیسے کہ قرآن شریف میں لکھا ہے وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ جو شَے انسان کو زیادہ فائدہ رساں ہوتی ہے وہ زمین میں بہت دیر قائم رہتی ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۳۴ ) ۲ البدر میں ہے.’’قریب ۳۰ سال کا عرصہ گزرا ہے کہ ایک دفعہ مجھے سخت بخار چڑھا یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ اب آخری دم ہے اور جب میرا یہ خیال قریب قریب یقین کے ہوگیا تو تفہیم ہوئی اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲
َسْفَلَ سٰفِلِيْنَ(التّین:۵،۶) میں گرایا جاتا ہے۱ پس یہ سچی بات ہے کہ اگر انسان میں یہ نہیں ہے کہ وہ خدا کے اوامر کی اطاعت کرے اور مخلوق کو نفع پہنچاوے تو وہ جانوروں سے بھی گیا گذرا ہے اور بدترین مخلوق ہے.کامیابی کی موت بھی درازیٔ عمر ہے اس جگہ ایک اَور سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگ جو نیک اور برگزیدہ ہوتے ہیں چھوٹی عمر میں بھی اس جہان سے رخصت ہوتے ہیں۲ اور اس صورت میں گویا یہ قاعدہ اَور اصل ٹوٹ جاتا ہے.مگر یہ ایک غلطی اور دھوکا ہے دراصل ایسا نہیں ہوتا.یہ قاعدہ کبھی نہیں ٹوٹتا مگر ایک اور صورت پر درازیٔ عمر کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ زندگی کا اصل منشا اور درازیٔ عمر کی غایت تو کامیابی اور بامُراد ہونا ہے.پس جب کوئی شخص اپنے مقاصد میں کامیاب اور بامُراد ہو جاوے اور اس کو کوئی حسرت اور آرزو باقی نہ رہے اور مَرتے وقت نہایت اطمینان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو تو وہ گویا پوری عمر حاصل کرکے مَرا ہے اور درازی عمر کے مقصد کو اس نے پالیاہے.اس کو چھوٹی عمر میں مَرنے والا کہنا سخت غلطی اور نادانی ہے.البدر میں ہے.’’قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَیہ بھی اس کی طرف اشارہ کرتی ہے مخلوق کو فائدہ رسانی کے بعد اور خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے سے انسان پر یہ کلمہ کہ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ صادق آتا ہے اور اگر وہ یہ نہیں کرتا ہے تو اَسْفَلَ السَّافِلِیْن ہی میں ردّ کیا جاتا ہے اگر انسان میں یہ باتیں نہیں ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے اوامر کی اطاعت کرے اور مخلوق کو فائدہ پہنچاوے تو پھر کتّے، بھیڑ، بکری، وغیرہ جانوروں میں اور اس میں کیا فرق ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۳۴ ) ۲ البدر سے.’’اگر انسان خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری میں مَر جائے تو جانے کہ اس نے بڑی عمر حاصل کر لی ہے کیونکہ بڑی عمر کا اصل مدعا جو یہ تھا کہ مخلوق کو فائدہ پہنچا کر اور خدا کے اوامر کی اطاعت کر کے اپنے مولیٰ کو راضی کرے وہ اس نے حاصل کر لیا اور مَرتے وقت اس کے دل میں کوئی حسرت نہیں رہی.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۳۴ )
صحابہ میں بعض ایسے تھے جنہوں نے بیس۲۰ بائیس برس کی عمر پائی مگر چونکہ ان کو مَرتے وقت کوئی حسرت اور نامُرادی باقی نہ رہی بلکہ کامیاب ہو کر اُٹھے تھے اس لیے انہوں نے زندگی کا اصل منشا حاصل کر لیا تھا.نیت حسنہ کی اہمیت اگر انسان نیکی نہ کرسکے تو کم از کم نیکی کی نیت تو رکھے کیونکہ ثمرات عموماًنیتوں کے موافق ملتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ دنیوی حکام بھی اپنے قوانین میں نیت پر بہت بڑا مدار رکھتے ہیں اور نیت کو دیکھتے ہیں.اسی طرح پر دینی امور میں بھی نیت پر ثمرات مرتّب ہوتے ہیں.پس اگر انسان نیکی کرنے کا مصمم ارادہ رکھے اور نیکی نہ کرسکے تب بھی اسے اس کا اجر مل جاوے گا اور جو شخص نیکی کی نیت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو توفیق بھی دے دیتا ہے اور توفیق کا ملنا یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے دیکھا گیا ہے اور تجربہ سے دیکھا گیا ہے کہ انسان سعی سے کچھ نہیں کرسکتا.نہ وہ صلحاء، سعداء وشہداء میں داخل ہوسکتا ہے اور نہ اور برکات اور فیوض کو پا سکتا ہے.غرض ع نہ بزور و نہ بزاری نہ بزرمے آید بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ گوہر مقصود ملتا ہے اور حصول فضل کا اقرب طریق دعا ہے.دعا کے لوازمات اور دعا کامل کے لوازمات یہ ہیں کہ اس میں رقّت ہو.اضطراب اور گدازش ہو.جو دعا عاجزی، اضطراب اور شکستہ دلی سے بھری ہوئی ہو وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لاتی ہے اور قبول ہو کر اصل مقصد تک پہنچاتی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ یہ بھی خدائے تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اور پھر اس کا علاج یہی ہے کہ دعا کرتا رہے، خواہ کیسی ہی بے دلی اور بے ذوقی ہو لیکن یہ سیر نہ ہو.تکلّف اور تصنّع سے کرتا ہی رہے.اصلی اور حقیقی دعا کے واسطے بھی دعا ہی کی ضرورت ہے.بہت سے لوگ دعا کرتے ہیں اور ان کا دل سیر ہوجاتا ہے وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ کچھ نہیں بنتا.مگر ہماری نصیحت یہ ہے کہ اس خاک پیزی ہی میں برکت ہے کیونکہ آخر گوہر مقصود اسی سے نکل آتا ہے
اور ایک دن آ جاتا ہے کہ جب اس کا وہ دل زبان کے ساتھ متفق ہو جاتا ہے۱ اور پھر خود ہی وہ عاجزی اور رقّت جو دعا کے لوازمات ہیں پیدا ہوجاتے ہیں.جو رات کو اٹھتا ہے خواہ کتنی ہی عدم حضوری اور بے صبری ہو لیکن اگر وہ اس حالت میں بھی دعا کرتا ہے کہ الٰہی دل تیرے ہی قبضہ و تصرّف میں ہے تُو اس کو صاف کر دے اور عین قبض کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے بسط چاہے تو اس قبض میں سے بسط نکل آئے گی اور رقّت پیدا ہوجائے گی.یہی وہ وقت ہوتا ہے جو قبولیت کی گھڑی کہلاتا ہے.وہ دیکھے گا کہ اس وقت روح آستانہ الوہیت پر پانی کی طرح بہتی ہے اور گویا ایک قطرہ ہے جو اوپر سے نیچے کی طرف گرتا ہے.مسیح علیہ السلام کی مضطر بانہ دعا میں نے خیال کیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا واقعہ بھی عجیب ہے اور وہ حالت دعا کا ایک صحیح نقشہ ہے.اصل بات یہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ کی بد قضاء وقدر مقدر تھی اور وہ قبل از وقت ان کو دکھائی گئی تھی اور انہوں نے بھی یہی سمجھا تھا کہ اس سے رہائی محال ہے اور پہلے نبیوں نے بھی ایسا ہی سمجھا تھا اور آثار بھی ایسے ہی نظر آتے تھے.اسی واسطے انہوں نے بڑی بے کلی اور اضطراب کے ساتھ دعا کی.انجیل میں اس کا نقشہ خوب کھینچ کر دکھایا ہے.پس ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی قضاء وقدر کو جو موت کے رنگ میں مقدر تھی غشی کے ساتھ بدل دیا اور ان کی دعا سنی گئی چنانچہ انجیل کے مطالعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں لکھا ہے فَسُمِعَ لِتَقْوٰہُ کہ اس کی دعا اس کے تقویٰ کے باعث سنی گئی اور خدا نے تقدیر ٹال دی اور موت غشی سے بدل گئی.اصل بات یہ ہے کہ اگر عیسائیوں کے کہنے کے موافق مان لیا جاوے کہ مسیحؑ صلیب پر مَر گیا تو اس البدر سے.’’اور اگر دعا کو دل نہ چاہے اور پورا خشوع خضوع دعا میں حاصل نہ ہو تو اس کے حصول کے واسطے بھی دعا کرے اور اس بات سے ابتلا میں نہ پڑے کہ میری دعا تو صرف زبان پر ہی ہوتی ہے دل سے نہیں نکلتی.دعا کے جو لفظ ہوتے ہیں ان کو زبان سے ہی کہتا رہے.آخر استقلال اور صبر سے ایک دن دیکھ لے گا کہ زبان کے ساتھ اس کا دل بھی شامل ہوگیا ہے اور عاجزی وغیرہ لوازمات دعا میں پیدا ہوجائیں گے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۳۴ )
موت کو لعنتی ماننا پڑے گا جس کا کوئی جواب عیسائیوں کے پاس نہیں بلکہ عیسائیوں پر ایک اور مصیبت بھی آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ پھر ان کو ماننا پڑے گا کہ مسیحؑ کی یہ دعا بھی جو اس نے باغ میں ساری رات رو رو کر کی تھی قبول نہیں ہوئی اور ان میں اور چوروں میں جو ان کے ساتھ صلیب پر لٹکائے گئے تھے کیا فرق ہوا؟انہوں نے بھی تو صلیب پر مَرنے سے بچنے کے لیے دعا کی تھی اور انہوں نے بھی کی.نہ ان کی قبول ہوئی اور نہ ان کی.مگر ہمارا یہ مذہب نہیں ہے.جیسے ہمارے نزدیک مسیحؑ کی موت لعنتی موت نہ تھی جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے ویسے ہی یہ بھی ہمارا اعتقاد ہے کہ ان کی دعا قبول ہوئی اور وہ صلیب پر سے زندہ اُتر آئے.ایک نکتہ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک باریک سِر ہوتا ہے جس کو ہر ایک شخص نہیں سمجھ سکتا.انبیاء علیہم السلام پر اس قسم کے ابتلا اور قضاء وقدر آیا کرتے ہیں.جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام پربھی آیا اور دوسرے نبیوں پر بھی کسی نہ کسی رنگ میں آتے ہیں اور یہ ایک تجلی ہوتی ہے جس کو دوسرے لوگ موت سمجھتے ہیں مگر یہ موت دراصل ایک زندگی کا دروازہ ہوتی ہے.باب الموت صوفی کہتے ہیں کہ ہر ایک شخص کو جو خدا تعالیٰ سے ملنا چاہے ضروری ہے کہ وہ باب الموت سے گذرے.مثنوی میں اس مقام کے بیان کرنے میں ایک قصہ نقل کیا ہے.(یہاں حضرت نے وہ قصہ بیان کیا۱) پس یہ سچی بات ہے کہ نفس امّارہ کی تاروں میں البدر میں یہ قصہ بھی لکھا ہے کہ ’’ ایک شخص کےپاس ایک طوطا تھا جب وہ شخص سفر کو چلا تو اس نے طوطے سے پوچھا کہ تو بھی کچھ کہہ.طوطے نے کہا کہ اگر تو فلاں مقام پر گزرے تو ایک بڑا درخت ملے گا اس پر بہت سے طوطے ہوں گے ان کو میرا یہ پیغام پہنچا دینا کہ تم بڑے خوش نصیب ہو کہ کھلی ہوا میں آزادانہ زندگی بسر کرتے ہو اور ایک میں بے نصیب ہوں کہ قید میں ہوں.وہ شخص جب اس درخت کے پاس پہنچا تو اس نے طوطوں کو وہ پیغام پہنچایا.ان میں سے ایک طوطا درخت سے گرا اور پھڑک پھڑک کر جان دے دی.اس کو یہ واقعہ دیکھ کر کمال افسوس ہوا کہ اس کے ذریعہ سے ایک جان ہلاک ہوئی.مگر سوائے صبر کے کیا چارہ تھا.جب سفر سے وہ واپس آیا تو اس نے اپنے طوطے کو سارا واقعہ سنایا اور اظہارِ غم کیا.یہ سنتے ہی وہ طوطا بھی جو پنجرہ میں تھا پھڑکا اور پھڑک پھڑک کر جان دے دی.یہ واقعہ دیکھ کر اس شخص کو اور بھی افسوس
جو یہ جکڑا ہوا ہے اس سے رہائی بغیر موت کے ممکن ہی نہیں.مقام اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ اسی موت کی طرف اشارہ کرکے قرآن شریف میں فرمایا ہے وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ (الـحجر:۱۰۰)اس جگہ یقین سے مُراد موت بھی ہے یعنی انسان کی اپنی ہواوہوس پر پوری فنا طاری ہو کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت رہ جاوے اور وہ یہاں تک ترقی کرے کہ کوئی جنبش اور حرکت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی نہ ہو.۱ سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ موت انسان پر وارد ہو جاتی ہے تو سب عبادتیں ساقط ہو جاتی ہیں.۲ اور پھر خود ہی سوال کرتے ہیں کہ کیا انسان اباحتی ہوجاتا ہے اور سب (بقیہ حاشیہ )ہوا کہ اس کے ہاتھ سے دو خون ہوئے.آخر اس نے طوطے کو پنجرہ سے نکال کر باہر پھینک دیا تو وہ طوطا جو پنجرہ سے مُردہ سمجھ کر پھینک دیا تھا اڑ کر دیوار پر جا بیٹھا اور کہنے لگا کہ در اصل نہ وہ طوطا مَرا تھا اور نہ میں.میں نے تو اس سے راہ پوچھی تھی کہ اس قید سے آزادی کیسے حاصل ہو؟ سو اس نے مجھے بتایا کہ آزادی تو مَر کر حاصل ہوتی ہے پس میں نے بھی موت اختیار کی تو آزاد ہوگیا.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۳۵ ) ۱ البدر میں ہے.’’اس پنجرہ سے بھی وہ نہیں نکل سکتا جب تک کہ موت کو قبول نہ کرے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۳۵ ) ۲البدر سے.’’اس پر ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ کیا ایسی موت کے آنے کے بعد انسان عبادت نہ کرے اور بےشک بدیوں میں مبتلا رہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس موت کے بعد یعنی جیسا کہ انسان نفس امّارہ سے جنگ کرکے اس پر غالب آجاتا ہے اور فتح پالیتا ہے تو پھر عبادت اور نیک اعمال کا بجا لانا اس کے لیے ایک طبعی اَمر ہوتا ہے جیسے انسان بلا تکلّف میٹھی میٹھی مزہ دار چیزیں کھاتا رہتا ہے اور اسے لذّت آتی رہتی ہے.ایسے ہی بلا تکلّف نیک اعمال اس سے سر زد ہوتے رہتے ہیں اور اس کی تمام لذّت اور خوشی خدا تعالیٰ کی عبادت میں ہوتی ہے اور جب تک وہ نفس سے جنگ کرتا رہتا ہے تبھی تک اسے ثواب بھی ملتا ہے لیکن جب اس نے موت حاصل کر لی اور نفس پر فتح پالی تو پھر تو جنّت میں داخل ہوگیا اب ثواب کاہے کا؟ یہی وہ جنّت ہے جو انسان کو دنیا میں حاصل ہوتی ہے اور قرآن شریف میں دو جنتوں کا بیان ہے جیسے کہ لکھا ہے وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ(الرّحـمٰن: ۴۷) یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس کے لیے دو جنتیں ہیں ایک دنیا میں اور ایک آخرت میں.دنیا والی جنّت وہ ہے جو کہ اس درجہ کے بعد انسان کو حاصل ہوجاتی ہے اور اس مقام پر پہنچ کر انسان کی اپنی کوئی مشیت نہیں رہتی بلکہ خدا تعالیٰ
کچھ اس کے لیے جائز ہو جاتا ہے؟ پھر آپ ہی جواب دیا ہے کہ یہ بات نہیں کہ وہ اباحتی ہو جاتا ہے بلکہ بات اصل یہ ہے کہ عبادت کے اثقال اس سے دور ہو جاتے ہیں اور پھر تکلّف اور تصنّع سے کوئی عبادت وہ نہیں کرتا بلکہ عبادت ایک شیریں اور لذیذ غذا کی طرح ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی نافر مانی اور مخالفت اس سے ہوسکتی ہی نہیں اور خدا تعالیٰ کا ذکر اس کے لیے لذّت بخش اور آرام دہ ہوتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں کہا جاتا ہے.اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ (حٰمٓ السجدۃ:۴۱) اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ نواہی کی اجازت ہو جاتی ہے.نہیں بلکہ وہ خود ہی نہیں کرسکتا اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ کوئی خصی ہو اور اس کو کہا جاوے کہ تو جو مرضی ہے کر وہ کیا کرسکتا ہے؟ اس سے فسق وفجور مُراد لیناکمال درجہ کی بے حیائی اور حماقت ہے یہ تو اعلیٰ درجہ کا مقام ہے جہاں کشف ِحقائق ہوتا ہے.صوفی کہتے ہیں اسی کے کمال پر الہام ہوتا ہے اس کی رضااللہ تعالیٰ کی رضا ہو جاتی ہے اس وقت اسے یہ حکم ملتا ہے.پس اثقالِ عبادت اس سے دور ہو کر عبادت اس کے لیے غذاشیریں کا کام دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ هٰذَا الَّذِيْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ(البقرۃ:۲۶ ) فرمایا گیا ہے.گناہ سے نجات کیسے ہو؟ فرمایا.گناہ سے نجات محض خدا تعالیٰ کے فضل اور تصرّف سے ملتی ہے جب وہ تصرّف کرتا ہے اور دل میں وعظ پیدا ہو جاتا ہے تو پھر ایک نئی قوت انسان کو ملتی ہے جو اس کے دل کو گناہ سے نفرت دلاتی ہے اور نیکیوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے.ایمان کے لئے ابتلا ضروری شَے ہے ایک شخص نے اپنی تکالیف اور ابتلاؤں کا ذکر کیا.فرمایا.جب اللہ تعالیٰ کسی آسمانی سلسلہ کو قائم کرتا ہے تو ابتلا اس کی جزو ہوتے ہیں جواس سلسلہ میں داخل ہوتا ہے ضروری ہوتا ہے کہ اس پر (بقیہ حاشیہ ) کی مشیت اس کی اپنی مشیت ہوتی ہے اور جیسے ایک انسان کو خصی کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ زناکاری وغیرہ حرکات کا مرتکب ہی نہیں ہوسکتا ویسے ہی یہ شخص خصی کر دیا جاتا ہے اور اس سے کوئی بدی نہیں ہوسکتی.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۳۵ )
کوئی نہ کوئی ابتلا آوے تاکہ اللہ تعالیٰ سچے اور مستقل مزاجوں میں امتیاز کر دے اور صبر کرنے والوں کے مدارج میں ترقی ہو.ابتلا کا آنا بہت ضروری ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ(العنکبوت:۳) کیا لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ وہ صرف اتناکہنے پر ہی چھوڑ دئیے جاویں کہ ہم ایمان لائے اور ان پر کوئی ابتلا نہ آوے ایسا کبھی نہیں ہوتا خدا تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے کہ وہ غداروں اور کچوں کو الگ کر دے پس ایمان کے بعد ضروری ہے کہ انسان دکھ اٹھاوے بغیر اس کے ایمان کا کچھ مزا ہی نہیں ملتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو کیا کیا مشکلات پیش آئیں اور انہوں نے کیا کیا دکھ اٹھائے.آخر ان کے صبر پر اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑے بڑے مدارج اور مراتب عالیہ عطا کئے انسان جلد بازی کرتا ہے اور ابتلاآتاہے تواس کو دیکھ کر گھبرا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ دنیا ہی رہتی ہے۱ اور نہ دین ہی رہتا ہے مگر جو صبر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہوتا ہے اور ان پر انعام واکرام کرتا ہے.اس لیے کسی ابتلا پر گھبرا نا نہیں چاہیے ابتلا مومن کو اللہ تعالیٰ کے اور بھی قریب کر دیتا ہے اور اس کی وفاداری کو مستحکم بنا تاہے لیکن کچے اور غدارکو الگ کر دیتا ہے.ایک شخص نے ذکر کیا کہ میرا ایک ساتھی تھا مگر اسے جماعت میں داخل ہونے کے بعد کچھ تکالیف پہنچیں تو وہ الگ ہوگیا.فرمایا.تم شکر کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اس ابتلا سے بچا لیا.ایک وہ زمانہ تھا کہ تلواروں سے ڈرایا جاتا تھا اور وہ لوگ اس کے مقابلہ پر کیا کرتے تھے.خدائے تعالیٰ سے دعائیں مانگتے اور کہتے رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ(البقرۃ:۲۵۱) مگر آج کل تو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ تلوار سے نہیں ڈرا یا جاتا.اصل یہ ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ ۱ البدر میں یہ عبارت یوں ہے.’’انسان چونکہ جلد باز ہوتا ہے اس لیے خدا کے ابتلا سے وہ گھبرا جاتا ہے مگر وہ نہیں جانتا کہ صبر کے کیا کیا ثمرات ہیں جو اسے ملنے والے ہیں اس لیے صبر کرنا بہت ضروری ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۳۵ )
اس سلسلہ میں رہنے کے لائق نہیں پا تا ان کو الگ کر دیتا ہے وہ ایمان کے بعد مرتد اس لیے ہوتے ہیں کہ قیامت کو جب وہ اپنے رفیق کو جنّت میں دیکھیں تو ان کی حسرت اور بھی بڑھے.اس وقت وہ کہیں گے کا ش ہم اپنے رفیق کے ساتھ ہوتے.اپنی ہی کمزوری ہے جو ذرا ذرا سی بات پر یہ لوگ گھبراجاتے ہیں ورنہ اگر اللہ تعالیٰ کو اپنا رازق سمجھ لیں اور اس پر ایمان رکھیں تو ایک جرأت اور دلیری پیدا ہو جاتی ہے پس ساری باتوں کا خلاصہ یہی ہے کہ صبر اور استقلال سے کام لینا چاہیے اور خدا تعالیٰ سے ثبات قدم کی دعا مانگتے رہو.کسی کا مرتد ہو جاناکچھ میرے سلسلہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ منہاج نبوت کے ساتھ یہ بات لازمی ہے.نبیوں کے سلسلے میں یہ نظیریں ملتی ہیں.ہم کو کوئی افسوس نہیں البتہ ایسے لوگوں پر رحم آتا ہے کیونکہ ان کو دو چند عذاب ہوگا اس لیے کہ وہ ایمان لا کر مرتد ہوئے اور پھر بہشت کے پاس پہنچ کرواپس ہوئے یہ حسرت کا عذاب ہوگا.مشکلات سے مت ڈرو خدا کی راہ میں ہر دکھ اور مصیبت اور بے عزّتی اٹھانے کے لیے طیار رہو تا خدا تعالیٰ تمہارے مصائب کو دور کرے اور تمہاری آبرو کا خود محافظ ہو.مومن وہی ہوتا ہے جو خدا کے ساتھ وفا دار ہوتا ہے جب ایمان لے آیا پھر کسی کی دھمکی کی کیا پروا ہے تم نے دین کو دنیا پر مقدم کیا ہے اور یہ اقرار کر چکے ہو جب انسان خدا کے لیے وطن، احباب اور ساری آسائشوں کو چھوڑ تا ہے وہ اس کے لیے سب کچھ مہیا کرتا ہے اب چاہیے کہ صادقوں کی طرح ثابت قدم رہے کیونکہ خدا تعالیٰ صادق کا ساتھ دیتا ہے اور اس کو بڑے بڑے درجے عطا کرتا ہے خدائے تعالیٰ اس وقت صادقوں کی جماعت طیار کر رہا ہے جو صادق نہیں وہ آج نہیں کل چلا جائے گا اور اس سلسلہ سے الگ ہو کر رہے گا مگر صادق کو خدا ضائع نہیں کرے گا.۱،۲ ۱ البدر میں مزید یہ بھی لکھا ہے.’’مخالفوں کے پیچھے نماز نہ پڑھو کیونکہ وہ جان بوجھ کر دشمنی کرتے ہیں اور حق کے خلاف کرتے ہیں جماعت کے امام کو تو مومن ہونا چاہیے اور یہ الٹے مکفر ہیں پس یہ کیسے مستحق ہیں کہ امام بنیں.اگر یہ جائز ہوتا کہ (بقیہ اگلے صفحہ پر) ۲الحکم جلد ۷ نمبر ۳۱ مورخہ ۲۴ ؍اگست ۱۹۰۳ءصفحہ ۲تا ۴
۳؍ اگست ۱۹۰۳ء (دربارِ شام) دعا کے اثر اور قبولیت کو توجہ کے ساتھ تعلق ہے امر یکہ سے جناب مفتی محمدصادق صاحب کے ذریعہ ایک ڈاکٹرکی بیوی نے اپنے کسی عارضہ کے لیے دعا کی درخواست کی تھی آپ نے فرمایا کہ اس کو جواب میں لکھا جاوے کہ اس میں شک نہیں کہ دعاؤں کی قبولیت پر ہمارا ایمان ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے قبول کرنے کا وعدہ بھی فرمایا ہے مگر دعاؤں کے اثر اور قبولیت کو توجہ کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے اور پھر حقوق کے لحاظ سے دعا کے لیے جوش پیدا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا حق سب پر غالب ہے اس وقت دنیا میں شرک پھیلا ہوا ہے اور ایک عاجز انسان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کیا جاتا ہے اس لیے فطرتی طور پر ہماری توجہ اس طرف غالب ہو رہی ہے کہ دنیا کو اس شرک سے نجات ملے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت قائم ہو اس کے سوا دوسری طرف ہم توجہ کر ہی نہیں سکتے.اور یہ بات ہمارے مقاصد اور کام سے دور ہے کہ اس کو چھوڑ کر دوسری طرف توجہ کریں بلکہ اس میں ایک قسم کی معصیت کا خطرہ ہوتا ہے.ہاں یہ میرا ایمان ہے کہ بیماروں یا مصیبت زدوں کے لیے توجہ کی جاوے تو اس کا اثر ضرور ہوتا ہے بلکہ ایک وقت یہ اَمر بطور نشان کے بھی مخالفوں کے سامنے پیش کیا گیا اور کوئی مقابلہ میں نہ آیا اس وقت میری ساری توجہ اسی ایک اَمر کی طرف ہو رہی ہے کہ یہ مخلوق پرستی دور ہو اور صلیب ٹوٹ جاوے اس لیے ہر کام کی طرف اس وقت میں توجہ نہیں کرسکتا.خدا نے مجھے اسی طرف متوجہ کر دیا ہے کہ یہ شرک جو پھیلا ہوا ہے اور حضرت عیسٰیؑ کو خدا بنایا گیا ہے اس کو نیست ونا بود کر دیا جاوے.یہ جوش سمندر کی طرح میرے دل میں ہے اسی لیے ڈوئی کو لکھا ہے کہ وہ مقابلہ کے لیے نکلے پس تم صبر کرو (بقیہ حاشیہ )مسلمانوں کی نماز کا امام کافر و منافق ہو تو پھر صحابہ کرام نے کیوں مخالفوں کے پیچھے نماز نہ پڑھی.جس حال میںیہ لوگ ہمیں نہیں مانتے تو پھر ہمارے مکفّر و مکذّب ہی ہیں.خواہ کہیں خواہ نہ کہیں.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۳۵ )
جب تک کہ ایک دعا کا فیصلہ ہو جاوے اس کے بعد ایسے امور کی طرف بھی اللہ تعالیٰ چاہے تو توجہ ہوسکتی ہے لیکن دعا کرانے والے کے لیے یہ بھی ضرور ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرے اور اللہ تعالیٰ سے صلح کرے اپنے گناہوں سے توبہ کرے.پس جہاں تک ممکن ہو تم اپنے آپ کو درست کرو اور یہ یقیناً سمجھ لو کہ انسان کا پرستا ر کبھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا.مسیحؑ کی زندگی کے حالا ت پڑھو تو صاف معلوم ہوگا کہ وہ خدا نہیں ہے اس کو اپنی زندگی میں کس قدر کوفتیں اور کلفتیں اٹھانی پڑیں اور دعا کی عدم قبولیت کا کیسا برا نمونہ اس کی زندگی میں دکھایا گیاہے خصوصاً باغ والی دعا جو ایسے اضطراب کی دعا ہے وہ بھی قبول نہ ہوئی اور وہ پیا لہ ٹل نہ سکا.بس ایسی حالت میں مقدم یہ ہے کہ تم اپنی حالت کو درست کرو اور انسان کی پرستش چھوڑ کر حقیقی خدا کی پرستش کرو.۱ بلاتاریخ آسمانی نزول سے مُراد مسیح کے آسمانی نزول سے یہ مُراد ہے کہ اس کے ساتھ آسمانی اسباب ہوں گے اور اس کا تعلق سماوی علوم سے ہوگا اور ایسا ہی فرشتوں کے کندھے پر ہاتھ رکھنے سے مُراد ہے.یہ ایک اعلیٰ درجہ کا لطیفہ تھا جس کو کم فہم لوگوں نے ایک چھوٹی اور موٹی سی بات بنا لیا ہے جو صحیح نہیں.فرمایا.دشمن کی دشمنی بھی ایک وقعت رکھتی ہے.ہزاروں شُہد ے فقیر پھر تے ہیں.مگر کوئی ان کو نہیں پو چھتا اور نہ ان کا مقابلہ کرتا ہے مگر ہمارے مقابلہ میں ہر قسم کے حیلے کئے جاتے ہیں اور ہر ایک پہلو سے کوشش کی جاتی ہے کہ ہم کو نقصان پہنچا یا جاوے اور وہ اس مقابلہ کے لیے ہزاروں روپیہ بھی خرچ کر چکے ہیں ان کی مخالفت بھی ان نشانا ت کا جو ظاہر ہورہے ہیں ایک روک بن جاتی ہے.۲ ۱الحکم جلد ۷ نمبر ۳۷ مورخہ ۱۰ ؍اکتوبر۱۹۰۳ءصفحہ ۲ ۲ الحکم جلد ۷ نمبر ۳۷ مورخہ ۱۰ ؍اکتوبر۱۹۰۳ءصفحہ ۲
۶؍ اگست ۱۹۰۳ء (دربارِ شام ) جنون کے اسباب فرمایا کہ دوقوتیں انسان کو مُنْجِر بہ جنون کر دیتی ہے ایک بدظنّی اور ایک غضب جبکہ افر اط تک پہنچ جاویں ایک شخص کا حال سناکہ وہ نماز پڑھا کرتا تھا کہ اوّل ابتدا جنون کی اس طرح سے شروع ہوئی کہ اسے نماز کی نیت کرنے میں شبہ پیدا ہونے لگا اور جب پیچھے اس امام کے کہا کرے تو امام کی طرف انگلی اٹھا دیا کرے پھر اس کی تسلی اس سے نہ ہوئی تو امام کے جسم کو ہاتھ لگا کر کہا کرے کہ ’’ پیچھے اس امام کے ‘‘ پھر اور ترقی ہوئی تو ایک دن امام کو دھکا دے کر کہا کہ ’’ پیچھے اس امام کے ‘‘پس لازم ہے کہ انسان بد ظنّی اور غضب سے بہت بچے سوائے راستبازوں کے باقی جس قدر لوگ دنیا میں ہوتے ہیں ہر ایک کچھ نہ کچھ حصہ جنون کا ضروررکھتا ہے جس قدر قویٰ ان کے ہوتے ہیں ان میں ضرور افراط تفریط ہوتی ہے اور اس سے جنون ہوتا ہے.غضب اور جنون میں فرق یہ ہے کہ اگر سرسری دورہ ہو تو اسے غضب کہتے ہیں اور اگر وہ مستقل استحکام پکڑ جاوے تواس کا نام جنون ہے.جنّت میں چا ندی کا ذکر کیوں ہے چا ندی پر ذکر ہوا فرمایا کہ چا ندی کے بیچ میں ایک جوہرِ محبت ہے اس لیے یہ زیادہ مرغوب ہوتی ہے.اکثر لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ جنّت کی نعماء میں چا ندی کے برتنوں کا ذکر ہے حالانکہ اس سے بیش قیمت سونا ہے.وہ لوگ اس راز کو جو کہ خدا تعالیٰ نے چا ندی میں رکھا ہے نہیں سمجھے.جنّت میں چونکہ غِلّ اور کینہ اور بُغض وغیرہ نہیں ہوگا اور آپس میں محبت ہو گی اور چونکہ چا ندی میں جوہرِ محبت ہے اس لیے اس نسبت با طنی سے جنّت میں اسی کو پسند کیا گیا ہے.اس میں جوہرِ محبت ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ اگر طرفین میں لڑائی ہو تو چا ندی دے دینے سے صلح ہو جاتی ہے اور کدورت دور ہو جاتی ہے.کسی کی نظر عنایت حاصل کرنی ہو تو چا ندی پیش کی جاتی ہے.علوم یا تو
قیاس سے معلوم ہوتے ہیں اور یا تجربہ سے.چا ندی کے اس اثر کا پتا تجربہ سے لگتا ہے.خواب میں اگر ایک کسی مسلمان کو چا ندی دے تو اس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ اسے اسلام سے محبت ہے اور وہ مسلمان ہو جاوے گا.کثرتِ شراب خوری کا نتیجہ اکثر دفعہ جب تک ایک شَے کی کثرت نہ ہو تو اس کے خواص کا پتا نہیں لگتا.شراب کی کثرت جو اس وقت یورپ وغیرہ میں ہے اگر یہ نہ ہوتی تو اس کے بدنتائج کیسے ظاہر ہوتے جس سے اس وقت دنیا پناہ پکڑنا چاہتی ہے اور اس کی کثرت سے اسلام اور پیغمبرِاسلام کی خوبی کھلتی ہے جنہوں نے ایسی شَے کو منع اور حرام فرمایا.اگر مسیحؑ کی مقصود بالذّات زمین ہی تھی کہ آخر عمر میں انہوںنے زمین پر ہی آنا تھا تو پھر اتنا عرصہ آسمان پر رہنے سے کیا فائدہ؟ یہی وقت زمین پر بسر کرتے کہ لوگوں کو ان کی ذات اور تعلیم سے فائدہ ہوتا اور قوم گمراہی سے بچی رہتی.۱ ۸ ؍اگست ۱۹۰۳ء اعلائے کلمۃ الاسلام اہلِ اسلام کی موجودہ حالت پر فرمایاکہ جب تک ان لوگوں میں اعلائے کلمۃ اللہ کا خیال تھا اور اس کو انہوں نے اپنا مقصود بنایا ہو اتھا جب تک ان کی نظریں خدا پر تھیں خدا تعالیٰ بھی ان کی نصرت کرتا تھا، مگر بعد ازاں جب اغراض بدل گئے تو خدا نے بھی چھوڑ دیا اورا ب ان کی نظر انسانوں پر ہے.سلطنتوں کی بھی یہی حالت ہے کہ اعلائے کلمۃ الاسلام کا کسی کو خیال نہیں ہے خود روم میں ردِّ نصاریٰ میں ایک چھوٹا سارسالہ بھی نہیں لکھا جا سکتا.یہ خیال بالکل غلط ہے کہ سلطان محافظ حرمین ہے بلکہ حر مین خود محافظ سلطان ہیں.۱البدرجلد ۲ نمبر ۳۱ مورخہ ۱ ۲؍اگست۱۹۰۳ءصفحہ۲۴۱
فرمایا کہ انسان کے اندر جو نور اور شعاع اعلائے کلمۃ الاسلام کا ہوتا ہے وہ انسان کو اپنی طرف کھینچتا رہتا ہے.۹ ؍اگست۱۹۰۳ء (دربارِ شام) حقوق العباد بیمار پُرسی اور کسی میّت کی تجہیز وتکفین کی نسبت ذکر ہوا.حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ہماری جماعت کو اس بات کا بہت خیال چاہیے کہ اگر ایک شخص فوت ہو جاوے تو حتی الوسع سب جماعت کو اس کے جنازہ میں شامل ہونا چاہیے اور ہمسایہ کی ہمدردی کرنی چاہیے.یہ تمام باتیں حقوق العباد میں داخل ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ جس تعلیم اور درجہ تک خدا تعالیٰ پہنچانا چاہتا ہے اس میں ابھی بہت کمزوری ہے صرف دعویٰ ہی دعویٰ نہ ہونا چاہیے کہ ہم ایمان دار ہیں بلکہ اس ایمان کو طلب کرنا چاہیے جسے خدا چاہتا ہے.بھائیوں کے حقوق اور ہمسایوں کے حقوق کو شناخت کرناکوئی آسان کام نہیں ہے.زبان سے کہہ لیناکہ ہم جانتے ہیں بے شک آسان ہے مگر سچی ہمدردی اور اخوت کو برت کر دکھلانا مشکل ہے.اصل بات یہ ہے کہ تمام حرکات، اعمال و افعال کے لیے ایمان مثل ایک انجن کے ہے.جب ایمان ہوتا ہے تو سب حقوق خود بخود نظر آتے جاتے ہیں اور بڑے بڑے اعمال اور ہمدردی خودہی انسان کرنے لگتا ہے.ایمان کا تخم آہستہ آہستہ ترقی کرتا ہے لیکن یہ ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتا.۱ ۱۰؍اگست ۱۹۰۳ء (دربارِ شام ) گنڈے اور تعویذ کی تاثیرات شام کے وقت ایک صاحب نے گنڈے، تعویذات کی تاثیرات کی نسبت استفسار کیا حضرت اقدس نے ۱البدرجلد ۲ نمبر ۳۱ مورخہ ۱ ۲؍اگست۱۹۰۳ءصفحہ۲۴۲
فرمایا کہ ان کا اثرہو نا تو ایک دعویٰ بلا دلیل ہے.اس قسم کے علاج تصورات کے مدّ میں آجاتے ہیں کیونکہ تصورات کو انسان پر اثر اندازی میں بڑا اثر ہے.اس سے ایک کو ہنسا دیتے ہیں ایک کو رُلادیتے ہیں اور کئی چیزیں جوکہ واقعی طور پر موجود نہ ہوں دوسروں کو دکھلادیتے ہیں اور بعض امراض کا علاج ہوتا ہے.اکثر اوقات تعویذوں سے فائدہ بھی نہیں ہوتاتو آخر تعویذ دینے والے کو کہنا پڑتا ہے کہ اب میری پیش نہیں چلتی.اُمّت ِمرحومہ یہ اُمّت ِمرحومہ اس واسطے بھی کہلاتی ہے کہ ان ٹھوکروں سے بچ جاوے جو کہ اس سے پہلی اُمتوں کو پیش آئی ہیں.۱ ۱۱ ؍اگست ۱۹۰۳ء (دربارِ شام ) جان الیگز ینڈر ڈوئی مسٹر ڈوئی مدعی الیاس جس کو حضرت اقدس نے مقابلہ پر بُلایا ہے اب کثرت سے اس کا چر چا امریکہ اور انگلستان کی اخباروں میں اس مقابلہ پر ہو رہا ہے اور ہندوستان سے باہر کل عیسائی دنیا نے اس مقابلہ کو مذاہب کی سچائی کا حقیقی معیار قرار دیا ہے حتی کہ دہریہ منش انسان جوکہ ان ممالک میں رہتے ہیں ان کے ایمان کے لیے بھی اس مقابلہ دعا نے ایک راہ کھول دی ہے اور جس عدل اور انصاف پر یہ مقابلہ حضرت اقدس نے مبنی رکھا ہے اس کی شہادت خود یورپ اور امریکہ نے ان الفاظ میں دی ہے کہ اس مقابلہ میں مرزا صاحب نے کوئی پہلو رعایت کا اپنے لیے نہیں رکھا کہ جس سے ڈوئی کو انکار کرنے کی گنجائش ہو.آج کل وہی اخباریں پڑھی جاتی ہیں ان اخباروں کو سن کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام نے فرمایا کہ یہ ہمارا مقابلہ صرف مسٹر ڈوئی ہی سے نہیں ہے بلکہ تمام عیسائیوں کے مقابلہ پر ہے اور یہ بھی ایک طریق ہے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کسرِ صلیب کرے گا.حدیثوں میں آیا ہے کہ آنے والے مسیح ۱البدرجلد ۲ نمبر ۳۱ مورخہ ۱ ۲؍اگست۱۹۰۳ء صفحہ۲۴۲
کے خادم فرشتے ہوں گے.ان الفاظ سے اس کی کمزوری نکلتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پاس زمینی ہتھیار نہ ہوں گے بلکہ جو کام زمینی ہتھیاروں سے ہوتا ہے وہ دعا کے ذریعہ سے آسمان کے فرشتے خود کرتے رہیں گے.مشکوٰۃ میں یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں عیسائیوں کے ساتھ کوئی شخص مقابلہ نہ کرسکے گا مگر ہاں مسیح موعود دعاؤں سے مقابلہ کرے گا سو اب وہ مقابلہ آپڑا ہو اہے جس سے اسلام اور عیسائیت کا فیصلہ ہوسکتا ہے.۱ ۱۴؍اگست ۱۹۰۳ء (دربارِ شام) قادیان میں ایک عیسائی کی آمد ایک عیسائی گل محمد نامی جوکہ غالباً دوچار سال سے مذہب عیسوی میں داخل ہیں اور بنوں کے باشندے ہیں اور آج کل لاہور کے ڈیوینیٹی کالج میں قیام پذیر ہیں مذہبی تحقیقات کی غرض سے ۱۴؍اگست ۱۹۰۳ء کو قادیان آکر اُسی دن بعد از نماز مغرب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت اقدس نے پہلے ان سے معمولی حالات سکونت وغیرہ کے متعلق دریافت کئے جس کے بعد عیسائی صاحب نے اپنے مقصد کا اظہار کیا.حضرت نے فرمایا کہ آپ کتنی مدت یہاں ٹھیریں گے؟ اس کا جواب گل محمد صاحب نے یہ دیا کہ میں تو کل ہی چلا جاؤں گا.جس پر حضرت اقدس اور سب سامعین کو نہایت حیرانی ہوئی.حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑے زور کے ساتھ اصرار سے کہا کہ آپ یہاں دو تین ہفتہ تک ٹھہریں.یہ مذہبی معاملہ ہے جس کا نتیجہ کفر یا ایمان ہے اس میں ایسی جلد بازی مناسب نہیں اور نہیں تو آپ کم از کم ایک ہفتہ ہی ٹھہریں اور مذہبی امور دریافت کریں ہم حتی الوسع آپ کو سمجھاتے رہیں گے.حضرت نے یہاں تک بھی فرمایا کہ ہم ہر طرح سے آپ کے مکان، خوراک وغیرہ کا بندوبست کرتے ہیں بلکہ یہاں رہنے میں آپ ۱ البدرجلد ۲ نمبر ۳۲ مورخہ ۲۸؍اگست۱۹۰۳ءصفحہ۴۹ ۲
کا کچھ مالی نقصان ہے تو وہ بھی دینے کو طیار ہیں اور اگر آپ کی کچھ ملازمت اور تنخواہ ہے تو اس عرصہ کے لیے وہ بھی دے دیں گے.مگر گل محمد نے ایسی ’’نہیں‘‘ پکڑی کہ کوئی بات منظور نہ کی اور یہی کہا کہ کل میں ضرور چلا جاؤں گا.اسی وقت آپ میرے ساتھ سوال و جواب کر لیں حضرت نے اس اَمر کو نامنظور کیا اور بہت سمجھا یا کہ یہ مذہبی معاملہ ہے ہم اس میں ایسی جلد بازی ہرگز نہیں کرسکتے اور نہ ہم اس اَمر کی پر وا رکھتے ہیں کہ آپ باہر جا کر لوگوں کو کیا کچھ کہیں گے یا سنائیں گے.اگر آپ کو حق کی طلب ہے تو آپ چند روز ہمارے پاس ٹھہر جائیں بلکہ یہ بھی فرمایا کہ اگر آپ کا حرج ہے تو ہم دو چار روپیہ روز تک بھی دینے کو طیار ہیں.مگر گل محمد صاحب نے کوئی بات نہ مانی اور کہا کہ اچھا میں پھر آؤں گا مگر صرف چار دن کے لیے.حضرت نے فرمایا کہ کم از کم دس دن ضروری ہیں.مگر جب گل محمد صاحب نے کہا کہ میں چار دن سے زائد بالکل نہیں ٹھہر سکتا تو بالآخر حضرت نے چار دن ہی منظور فرمائے اور گل محمد صاحب کی درخواست پر اسی وقت ایک عہد نامہ تحریر ہو اجو ذیل میں درج کیا جاتا ہے.نقل عہد نامہ منجانب گل محمد عیسائی گل محمد صاحب کی تحریک کے مطابق جو اجازت ان کو یہاں قادیان آنے کے لیے شیخ عبدالرحمٰن صاحب نے تحریر کی تھی کہ وہ اپنے مشکلات مذہبی کے حل کرنے کے لیے قادیان حضرت اقدس کے پاس آسکتے ہیں اس کے مطابق وہ یہاں آکر ۱۴؍اگست ۱۹۰۳ء کو بعد نماز مغرب حضرت صاحب کے پاس آئے مگر چونکہ انہوں نے فرمایا کہ مجھے کل ہی واپس جانا ہے اور وہ زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے اور حضرت صاحب بھی گورداسپور جانے کے سبب سے ان کوزیادہ وقت نہیں دے سکتے اس لیے یہ قرار پایا کہ گل محمد صاحب ابتدائی ہفتہ اکتوبر ۱۹۰۳ء میں چار دن کے لیے یہاں آئیں اور اپنا ایک سوال تحریری پیش کریں جس کا
جواب حضرت مرزا صاحب تحریری دیں گے اور اس جواب کے بعد اگر گل محمد صاحب کی تشفی نہ ہو تو اسی سوال کے متعلق کچھ اور دریافت کرسکتے ہیں جس کا جواب حضرت صاحب دیں گے اور یہی سلسلہ چار دن تک رہے گا.اس سوال و جواب کے شرائط یہ ہیں کہ ہر روز پانچ گھنٹہ اس پر خرچ ہوں گے یعنی ہر ایک فریق کے لیے اڑھائی گھنٹے اور جس فریق کو ایک دن میں اڑھائی گھنٹے سے کم وقت ملنے کا موقع ملے وہ اتنا ہی وقت دوسرے دن لے سکے گا لیکن چوتھے دن کی شام کو بہرحال یہ اَمر ختم ہوگا سوائے اس کے کہ ان چار دنوں کے اندر کوئی فر یق کسی وجہ سے جو معمولی حوائج اور ضروریات کے علاوہ ہو پورا وقت نہ دے سکے تو اس کے لیے ضروری ہوگا کہ اس وقت کو چار دن کے بعد پورا کرے اور اگر چار دن کے اندر ہی مثلاً پہلے ہی دن حضرت صاحب فرما دیں کہ جو ہم نے کہنا تھا کہہ چکے اور اب زیادہ اور کچھ نہیں کہنا توگل محمد صاحب کو اختیار ہوگا کہ اسی وقت چلے جاویں.گل محمد صاحب کی طرف سے صرف ایک ہی سوال پیش ہوگا خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو اور فر یقین کو اختیار نہ ہوگا کہ ایک دوسرے کے وقت میں کسی کی بات کو قطع کریں.(دستخط حضرت میرزا غلام احمد صاحب) دوسرے کاغذ پر ہوئے ( گل محمد ) ۱۵؍اگست ۱۹۰۳ ء (دربارِ شام) لعنتِ خدا سے مُراد فرمایا.خدا کے نزدیک لعنت وہ نہیں ہوتی جو کہ عام لوگوں کے نزدیک ہوتی ہے بلکہ خدا کی لعنت سے مُراد دنیا اور آخرت کی لعنت ہے (یعنی ہر)دو کی ذلّت ہے.قرآن کس طرح سے مصدِّق انجیل ہے؟ فرمایا کہقرآن شریف انجیل کی تصدیق قول سے نہیں کرتا بلکہ فعل سے کرتا ہے کیونکہ جو حصہ انجیل کی تعلیم کا قرآن کے اندر شامل ہے اس پر قرآن نے عملدرآمد کرو اکے دکھلا دیا ہے اور اسی لیے ہم اسی حصہ انجیل کی تصدیق کرسکتے ہیں جس کی قرآن کریم نے تصدیق کی.ہمیں کیا
معلوم کہ باقی کا رطب ویابس کہاں سے آیا.ہاں اس پر یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ پھر آیت وَ لْيَحْكُمْ اَهْلُ الْاِنْجِيْلِ (المآئدۃ:۴۸) میں جو لفظ انجیل عام ہے اس سے کیا مُراد ہے وہاں یہ بیان نہیں ہے کہ انجیل کا وہ حصہ جس کا مصدق قرآن ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں الانـجیل سے مُراد اصل انجیل اور توریت ہے جو قرآن کریم میں درج ہو چکیں.اگر یہ نہ مانا جاوے تو پھر بتلایا جاوے کہ اصلی انجیل کون سی ہے کیونکہ آج کل کی مروّجہ انا جیل تو اصل ہو نہیں سکتیں ان کی اصلیت کس کو معلوم ہے اور یہ بھی خود عیسائی ما نتے ہیں کہ اس کا فلاں حصہ الحاقی ہے.پھر ایک اور بات دیکھنے والی ہے کہ انجیل میں سے عیسٰیؑ کی موت اور بعد کے حالات اور توریت میں موسٰی کی موت کا حال درج ہے تو کیا اب ان کتابوں کا نزول دونوں نبیوں کی وفات کے بعد تک ہوتا رہا؟ اس سے ثابت ہے کہ موجودہ کتب اصل کتب نہیں ہیں اور نہ اب ان کا میسر آنا ممکن ہے.۱ ۱۶؍ اگست ۱۹۰۳ء (دربارِ شام) سوال.اگر ایسی خبر کوئی مشہور ہو کہ مرزا جی فوت ہو گئے ہیں تو کیا اس الہام کی بنا پر جو کہ حضور کو ۸۰ سال کے قریب عمر کے لیے ہوا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نہیں یہ خبر بالکل جھوٹی ہے؟ جواب فرمایا کہ ہاں تم کہہ سکتے ہو کیونکہ یہ الہام تو کتابوں اور اشتہاروں میں درج ہو چکاہے.۲ ۱۷؍اگست ۱۹۰۳ء (سفرگورداسپور) سفر سے پہلے نمازوں کا جمع کرنا آج ظہر اورعصر کی نماز جمع کرکے حضرت اقدس گورداسپور کے لیے روانہ ہوئے آپ کے ہمراہ ۱البدرجلد ۲ نمبر ۳۲ مورخہ ۲۸؍اگست۱۹۰۳صفحہ۲۴۹،۲۵۰ ۲البدرجلد ۲ نمبر ۳۲ مورخہ ۲۸؍اگست۱۹۰۳ءصفحہ۲۵۰
صاحبزادہ میاں بشیر الدین محمود بھی تھے.سٹیشن۱ کے قریب جو سرائے تھی اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نزول فرمایا.مغرب اور عشاء کی نمازیں یہاں جمع کرکے پڑھی گئیں.لَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْۤ اَنْفُسُكُمْ۲ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نماز ادا فرما رہے تھے اور آپ کی طبیعت نا سا زتھی کہ نمازکے اندر طبیعت میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اگر انگور ملیں تو وہ کھائے جاویں مگر چونکہ نزدیک و دور ان کا ملنا محال تھا اس لیے کیا ہوسکتا تھا کہ اس اثنامیں ایک صاحب جناب حکیم محمد حسین صاحب ساکن بلب گڑھ ضلع دہلی جو کہ حضرت اقدس کے مخلص خدا م سے ہیں قادیان سے واپس ہو کر حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے ایک ٹوکر ی انگوروں اور دوسرے ثمرات مثل انار وغیرہ کی حضرت کی خدمت میں پیش کی اور بیان کیا کہ مجھے علم نہ تھا کہ حضور بٹا لہ تشریف لائے ہیں.میں قادیان چلا گیا وہاں معلوم ہوا تو اسی وقت میں واپس ہوا اور یہ پھل حضور کے لیے ہیں.۳ ۱۸؍ اگست ۱۹۰۳ء ایک رؤیا فجر کو اٹھ کر حضرت اقدس نے نماز باجماعت ادا کی چونکہ سفر کی تکان تھی اور رات کو بباعث سفر کے نیند بھی پوری نہ آئی تھی اس لیے بعض جانثار اصحاب نے درخواست کی کہ حضور علیحدہ ایک کمرہ میں آرام فرمالیں تاکہ بے خوابی سے طبیعت ناساز نہ ہو.اس لیے آپ نے تھوڑی دیر آرام فرمایا اور پھر اٹھ کر فرش پر جلو ہ افروز ہوئے اور یہ رؤیا بیان کی کہ ایک خوان میرے آگے پیش ہوا ہے اس میں فا لودہ معلوم ہوتا ہے اور کچھ فیر نی بھی رکا بیوں میں ہے.میں نے کہا کہ چمچہ لا ؤ تو کسی نے کہا کہ ہر ایک کھانا عمدہ نہیں ہوتا سوائے فیرنی اور فا لودہ کے.۱بٹالہ کا اسٹیشن مُراد ہے.(مرتّب) ۲یہ ڈائری نویس کے نوٹ معلوم ہوتے ہیں.واللہ اعلم (مرتّب) ۳ البدرجلد ۲ نمبر ۳۲ مورخہ ۲۸؍اگست۱۹۰۳ءصفحہ۲۵۰،۲۵۱
اس کے بعد آپ نے خدا کا کلام جو کہ آپ پر ہوا سنایا فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تسلّی ہر ایک بات میں خدا تعالیٰ کا سلسلہ تسکین کا چلا آتا ہے جس سے ان لوگوں کا ردّ ہوتا ہے جو ان مقدموں پر اعتراض کرتے ہیں (یعنی۱ اگر یہ مقدمات خدا تعالیٰ کی رضا مندی کا موجب اور دین کی تائید کا باعث نہ ہوتے تو پھر خدا تعالیٰ ان کے متعلق بشارت کیوں دیتا) فرمایا کہ بعض کوتاہ اندیش ہی اعتراض کرتے ہیں ورنہ اگر ہم مقدمہ باز ہوتے تو جس وقت ڈگلس صاحب نے کہا تھا کہ تم مقدمہ کرو تو ہم اس وقت کر دیتے اور ایک تھیلا بھرا ہوا ہمارے پاس ہے جس میں گندی سے گندی گالیاں دی گئی ہیں اگر ہم چاہتے تو ان پر مقدمہ کرتے لیکن ہم نے محض لِلہ صبر کیا ہوا ہے.فرمایا.وہ جو زمین، آسمان کا مالک ہے جب وہ تسلی دیوے تو انسان کس قدر تسلی پاتا ہے.خدا کا کلام صیغہ واحد اور جمع میں خدا تعالیٰ جب توحید کے رنگ میں بولے تو وہ بہت ہی پیار اور محبت کی بات ہوتی ہے اور واحدکا صیغہ محبت کے مقام پر بولا جاتا ہے.جمع کا صیغہ جلا لی رنگ میں آتا ہے جہاں کسی کو سزا دینی ہوتی ہے.۲ بلاتاریخ ۳ کتاب کے ساتھ استا د کی ضرورت بعض احباب آمدہ از لاہور نے عبد اللہ چکڑالوی صاحب کے خیالات اور اعتقادات کا ذکر کیا.۱ یہ ڈائری نویس کے نوٹ معلوم ہوتے ہیں.واللہ اعلم (مرتّب) ۲البدرجلد ۲ نمبر ۳۲ مورخہ ۲۸؍اگست۱۹۰۳ءصفحہ۲۵۱ ۳ ان ملفوظات کے شروع میں ایڈیٹر صاحب’’البدر‘‘ نے یہ نوٹ دیا ہے کہ ’’گذشتہ اشاعت سے آگے سلسلہ کے لئے دیکھو اخبار ۳۲ جلد ۲ صفحہ ۱‘‘ نمبر ۳۲ میں ۱۱؍تا ۱۸؍ اگست کی ڈائریاں چھپی ہیں مگر ان میں سے کسی ڈائری کے آخر میں ’’باقی آئندہ ‘‘کے الفاظ درج نہیں جس سے پتا چلے کہ یہ ملفوظات فلاں ڈائری کے تسلسل میں ہیں.(مرتّب)
اس پر حضور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حَکم اور عدل نے فرمایا کہ ہر ایک شَے کے لیے استا د کی ضرورت ہے ورنہ تم دیکھ لو جس قدر تصانیف ہر ایک فن اور علم کے متعلق موجود ہیں کیا مصنّفین نے اپنی طرف سے کوئی بخل رکھا ہے ہر ایک بات کی بڑی بڑی تفصیل کی ہے اگر بخل کا ظن ہوسکتا ہے تو ایک پر ہوگا دو پر ہوگا نہ لاکھوں پر مگر تاہم دیکھا گیا ہے کہ علم کا خاصہ ہی یہی ہے کہ بلا استاد کے نہیں آتا اور نبی بھی ایک استاد ہوتا ہے جو کہ خدا کی کلام کو سمجھا کر اس پر عمل کرنے کا طریق بتلا تا ہے دیکھو میں الہام بیان کرتا ہوں تو ساتھ ہی تفہیم بیان کر دیتا ہوں اور یہ عادت نہ انسانوں میں دیکھی جاتی ہے نہ خدا میں کہ ایک علمی بات بیان کرکے پھر اسے عملدرآمد میں لا نے کے واسطے نہ سمجھا وے.جو استا د کا محتاج نہیں ہے وہ ضرور ٹھو کر کھاوے گا.جیسے طبیب بلا استاد کے طبابت کرے تو دھوکا کھا وے گا ایسے ہی جو شخص بلا توصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اگر خود بخود قرآن سمجھتا ہے تو ضرور دھوکا کھا وے گا.مفتری کا انجام فرمایا.مفتری تھک جاتا ہے اور اس کا پول خود لوگوں پر ظاہر ہو جاتا ہے اور یا اسےذلّت دامنگیر ہوتی ہے کیونکہ روز بروز کیسے افترا کرسکتا ہے.افترا جیسی کچی شَے کوئی نہیں ہوتی حتی کہ شیشہ بھی اتناکچا نہیں ہوتا جس قدر افترا ہوتا ہے اور چونکہ مفتری کے بیان میں قوت ِجاذبہ نہیں ہوتی اس لیے اس کی بد بو بہت جلد پھیل جاتی ہے.قتل انبیاء کا مسئلہ ایک صاحب نے سوال کیا کہ توریت میں جھوٹے نبی کی یہ علا مت لکھی ہے کہ وہ قتل کیا جاوے اور ادھر ایسی عبارتیں بھی ہیں کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض نبی قتل ہوئے تو پھر وہ علا مت کیسے صحیح ہوسکتی ہے؟ فرمایا.راستباز کی یہی نشانی ہے کہ جس مطلب کے لیے خدا نے اسے پیدا کیا جب تک وہ پورا نہ ہو لے یا کم ازکم اس کے پورا ہونے کی ایسی بنیا د نہ ڈال دے کہ اسے تنزل نہ ہو تب تک وہ نہ مَرے.مگر ایک کذّاب سے یہ بات کب ہوسکتی ہے قتل سے مُراد یہ ہے کہ اس قتل میں ناکامی اور نامُرادی ساتھ نہ ہو اور جب ایک انسان اپنا کام پورا کر چکے تو پھر خود مَر جاوے تو کیا یا کسی کے ہاتھ
سے مارا جاوے تو کیا.موت توبہر حال آنی ہی ہے کسی صورت میں آگئی اس میں کیا حرج ہے اور کامیابی کی موت پر کسی کو تعجب بھی نہیں ہوا کرتا اور نہ دشمن کو خوشی ہوتی ہے.قرآن شریف کے صریح الفاظ سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ خدا تعالیٰ نے قتل نبی حرام کیاہو بلکہ آنحضرتؐکی نسبت لکھا ہے اَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ ( اٰل عـمران:۱۴۵) جس سے قتل انبیاء کا جواز معلوم ہوتا ہے اب جنگوں کے بیچ میں ہزاروں افسر مارے جاتے ہیں لیکن اگر ان کی موت کامیابی اور فتح اور نصرت کی ہو تو اس پر کوئی رنج نہیں کرتا بلکہ خوشی کرتے ہیں اور جو خدا کے اہل ہوتے ہیں ان کا قتل تو ان کے لیے زندگی ہے کہ اپنے قائمقام ہزاروں چھوڑ جاتے ہیں.آنحضرتؐکی آمد اس وقت ہوئی کہ زمانہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ (الروم:۴۲) کا مصداق تھا اور گئے اس وقت جبکہ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ (النصـر:۲) کی سند آپ کو مل گئی پس اگر آپؐکو کامیابی نہ ہوتی لیکن آپ کسی کے ہاتھ سے قتل بھی نہ ہوئے تو اس سے کیا فائدہ تھا؟ اور یہ کون سا مقام فخر کا ہے.ہاں جب ایک شخص سلطنت قائم کرتا ہے اور اپنے قائمقام مظفر ومنصور چھوڑتا ہے تو کیا پھر دشمن کی خوشی کا موجب ہوسکتا ہے؟ بڑی سے بڑی ذلّت یہ ہے کہ ناکا می اور نا مُرادی کی موت آوے پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کامیابی کی حالت میں قتل کئے جاتے تو اس سے آپ کی شان میں کیاحرف آسکتا تھا؟ یہ بھی لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دی گئی تھی آپ کی موت میں اس زہر کا بھی دخل تھا مگر ہم کہتے ہیں کہ جب آپ کی موت ایسی حالت میں ہوئی کہ کافر اس بات سے نا امید ہو گئے کہ ان کا دین پھر عود کرے گا تو ایسی حالت میں اگر آپ زہر یا قتل سے مَرتے تو کون سی قابل اعتراض بات تھی؟ دین تو تباہ نہیں ہوسکتا تھا.غرضیکہ توریت میں جس قتل کا ذکر ہے تو اس سے نامُرادی اور ناکامی کی موت مُراد ہے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام قریبی رشتہ دار تھے یحییٰ کے قتل ہو جانے سے دین پر کوئی تبا ہی نہ آسکتی تھی اگر یحییٰ قتل ہوئے تو پھر عیسیٰؑ ان کی جگہ کھڑے ہوگئے.لیکن یہ بھی یادر کھنا چاہیے کہ یحییٰ کوئی صاحب شریعت نہ تھے.ہوسکتا ہے کہ یہ وعدہ توریت کا صاحب شریعت کے لیے ہو.انگریزوں اور سکھوں کی لڑائیاںہو تی رہیں سکھ لوگ ان میں
اکثر انگریزوں کوقتل کرتے رہے لیکن اب جس حالت میں کہ انگریز فاتح اور بادشاہ ہیں تو کیا سکھ یہ فخرکرسکتے ہیں کہ ہم نے اس قدر انگریزوں کو قتل کیا.یہ کوئی جگہ فخر کی نہیں ہے کیونکہ آخر میدان انگریزوں کے ہاتھ رہا.زندہ وہ ہوتا ہے جس کا سکہ چلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کروڑہا مسلمان موجود ہیں اور ابو جہل کے بعد اس کا تابع کوئی نہیں بلکہ اس کی اولاد ہونے کا کوئی نام نہیں لیتا تو کیا اب ابو جہل کی طرف سے کوئی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ ہم نے مسلمانوں کو فلاں جگہ شکست دی تھی یا کوئی بیوقوف اگر یہ کہے کہ ہوا کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مَر گئے اور ابو جہل بھی تو یہ اس کی غلطی ہے مقابلہ تو کامیابی سے ہوتا ہے ابو جہل کا نام ندارد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تو تخت موجود ہے.انبیاء کو خدا ذلیل نہیں کیا کرتا انبیاء کی قوتِ ایمانی یہ ہے کہ خدا کی راہ میں جان دے دینا وہ اپنی سعادت جانیں.اگر کوئی موسیٰ علیہ السلام کے قصہ پر نظر ڈال کر اس سے یہ نتیجہ نکالے کہ وہ ڈرتے تھے تو یہ بالکل فضول اَمر ہے (اور اس ڈر سے یہ مُراد ہرگز نہیں کہ ان کو جان کی فکر تھی بلکہ ان کو یہ خیال تھا کہ منصب رسالت کی بجاآوری میں کہیں اس کا اثر برا نہ پڑے.) میرے نزدیک مومن وہی ہے کہ اگر اس نے خدا کی راہ میں جان نہ دی ہو تو وہ روحانی طور پر ضرور جان دے کر شہید ہو چکا ہو پس اگر موسٰی کو جان کا ہی خوف تھا تواس سے (اگر یہ افواہ سچ ہے کہ شہزادہ پیر مولوی عبداللطیف خان صاحب سنگسار کرکے مارے گئے ہیں ) عبداللطیف صاحب ہی اچھے رہے جنہوں نے ایمان نہ دیا اور جان دیدی پس ہماراتو یہی خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو اس وقت یہ خیال ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ میں نامُراد مارا جاؤں اور فرض رسالت ادا نہ ہو.اگر کسی بات میں شر ہو تو یہ عادت اللہ نہیں ہے کہ مجھے وہ اطلاع نہ دے.مہمان نو ازی آپ نے منتظمان باورچی خانہ کو تاکید کی کہ آج کل موسم بھی خراب ہے اور جس قدر لوگ آئے ہوئے ہیں یہ سب مہمان ہیں اور مہمان کا اکرام کرنا چاہیے اس لیے کھانے وغیرہ کا انتظام عمدہ ہو اگر کوئی دودھ مانگے دودھ دو چا ئے مانگے چائے دو کوئی بیمار ہو تو اس کے موافق الگ کھانا اسے پکادو.
اس کے۱ بعد عدالت کا وقت قریب آگیا اور حضرت اقدس اور دیگر احباب کھانا وغیرہ تناول فرماکر عدالت کو روانہ ہوئے.۲ ۲۰؍ اگست ۱۹۰۳ء (بوقتِ شام) مامور کی دشمنی فرمایا کہ دشمنی دشمنوں کی یہ بھی ایک قبولیت ہوتی ہے اور منجانب اللہ نصیب ہوتی ہے.رسول کا عالم الغیب ہونا اکثر لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ رسول عالم الغیب ہوتے ہیں چنانچہ بعض تو حضرت مسیح موعودؑ کی نسبت یہ خیال رکھتے ہیں کہ ان کا دعویٰ عالم الغیب ہونے کا ہے.اس پر آپ نے فرمایا کہ یہ ان لوگوں کی غلطی ہے عالم الغیب ہونا اَور شَے ہے اور مؤیّدمن اللہ ہونا اَور شَے ہے.۳ ۲۱؍اگست ۱۹۰۳ء (دربارِ شام) وحی منقطع ہو گئی ہے یا برابر جا ری ہے ایک صاحب نے سوال کیا کہ انقطاعِ وحی کی نسبت جو حکم آچکا ہے تو پھر اب وحی کیوں ہوئی اور آج تک سوائے جناب کے اور کسی نے کیوں صاحبِ وحی ہونے کا دعویٰ نہ کیا؟ حضرت اقدس.اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ آج تک کسی نے دعویٰ نہ کیا؟ سائل.جہاں تک میری معلومات ہیں وہاں تک میں نے نہیںدیکھا؟ حضرت اقدس.آپ کی معلومات تو چند ایک کتابیں حدیث کی اور اَور دوسری ہوں گی اس سے ۱یہ ملفوظات ۱۸؍ یا ۱۹؍ اگست ۱۹۰۳ء کے ہیں.ان دنوں حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف فرما تھے اور انہی ایام کی یہ ڈائری ہے جیسا کہ فقرہ سے معلوم ہوتا ہے.(مرتّب) ۲البدر جلد ۲ نمبر ۳۳ مورخہ ۴؍ ستمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۵۷، ۲۵۸ ۳ البدرجلد ۲ نمبر ۳۳ مورخہ ۴؍ستمبر۱۹۰۳ء صفحہ۲۵۸
کیا پتا لگتا ہے اگر اس میں الف لام کی رعایت نہ کی جاوے تو پھر اس سے بہت سے فساد لازم آویں گے اور انسان ضلالت میں جا پڑے گا یہ اَمرضروری ہے کہ وحی شریعت اور وحی غیر شریعت میں فرق کیا جاوے بلکہ اس امتیاز میں تو جانوروں کو جو وحی ہوتی ہے اس کو بھی مد نظر رکھا جاوے بھلا آپ بتلاویں کہ قرآن شریف میں جو یہ لکھا ہے کہ وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ (النّحل:۶۹)تو اب آپ کے نزدیک شہد کی مکھی کی وحی ختم ہو چکی ہے یا جاری ہے؟ سائل.جاری ہے.حضرت اقدس.جب مکھی کی وحی اب تک منقطع نہیں ہوئی تو انسانوں پر جو وحی ہوتی ہے وہ کیسے منقطع ہوسکتی ہے.ہاں یہ فرق ہے کہ ال کی خصوصیت سے اس وحی شریعت کو الگ کیا جاوے ورنہ یوں تو ہمیشہ ایسے لوگ اسلام میں ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے جن پر وحی کا نزول ہو.حضرت مجدّد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ صاحب بھی اس وحی کے قائل ہیں اور اگر اس سے یہ مانا جاوے کہ ہر ایک قسم کی وحی منقطع ہو گئی ہے تو یہ لازم آتا ہے کہ امور مشہودہ اور محسوسہ سے انکار کیا جاوے.اب جیسے کہ ہمارا اپنا مشاہدہ ہے کہ خدا کی وحی نازل ہوتی ہے پس اگر ایسے شہود اور احسا س کے بعد کوئی حدیث اس کے مخالف ہو تو کہا جاوے گا کہ اس میں غلو ہے خود غزنوی والوں نے ایک کتاب حال میں لکھی ہے جس میں عبداللہ غزنوی کے الہامات درج کئے ہیں.پھر جس حال میں یہ سلسلہ مو سوی سلسلہ کے قدم بقدم ہے اور موسوی سلسلہ میں برابر وحی جاری رہی حتی کہ عورتوں کو ہوتی رہی تو کیا وجہ ہے کہ محمدی سلسلہ میں وہ بند ہو.کیا اس اُمّت کے ا خیار ان عورتوں سے بھی گئے گذ رے ہوئے؟ علاوہ اس کے اگر وحی نہ ہو تو پھر اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتـحۃ :۶،۷) کے کیا معنے ہوں گے.کیا یہاں انعام سے مُراد گو شت پلاؤ وغیرہ ہے یا کہ خلعتِ نبوت اور مکالمہ الٰہی وغیرہ جو کہ انبیاؤں کو عطا ہوتا رہا.غرضیکہ معرفت تام انبیاؤں کو سوائے وحی کے حاصل نہیں ہوسکتی جس غرض کے لیے انسان اسلام قبول کرتا ہے اس کا مغز یہی ہے کہ اس کے اتباع سے وحی
ملے اور پھر اگر وحی منقطع ہوئی مانی بھی جاوے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی منقطع ہوئی نہ اس کے اظلال اور آثار بھی منقطع ہوئے.مسئلہ بروز سائل.بروز کسے کہتے ہیں؟ حضرت اقدس.جیسے شیشہ میں انسان کی شکل نظر آتی ہے حالانکہ وہ شکل بذات ِخود الگ قائم ہوتی ہے اس کا نام بروز ہے اس کا سِر سورہ فاتحہ میں ہی ہے جیسے کہ لکھا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ(الفاتـحۃ:۶،۷) تمام مفسروں نے مغضوب سے مُراد یہود اور ضالین سے مُراد نصاریٰ لیے ہیں اور پھر یہ آیت ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰٓىِٕفَ فِي الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ(یونس:۱۵) اور آیت وَيَسْتَخْلِفَكُمْ۠ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ(الاعراف:۱۳۰) یہ آیتیں بھی اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں.ایک ان میں سے اہل اسلام کی نسبت ہے اور ایک یہود کی نسبت پس مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ہر طرح کا انعام کروں گا اور پھر دیکھوں گا کہ کس طرح شکر کرتے ہو.اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اہل یہود کو کون سی بڑی مصیبت تھی تو وہ دو بڑی مصیبتیں ہیں ایک یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا گیا اور ایک یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا گیا.پس مماثلت کے لحاظ سے مسلمانوں کے لیے بھی وہی دو انکار لکھے تھے مگر وہاں شمار میں الگ الگ دو وجود تھے اور یہاں نام الگ الگ ہیں مگر وہ وجود جس میں ان دونوں کا بروز ہوا ایک ہی ہے.ایک بروز عیسوی اور ایک محمدی اور صرف نام کے لحاظ سے اہل اسلام یہود کے بروز اسی طرح سے قرار پائے کہ انہوں نے مسیح اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر دیا اور وہ مماثلت پوری ہو گئی اور آیا ت سے ثابت ہوتا ہے کہ اس اُمّت میں بروزی طور پر وہی کر توت یہودیوں والی پوری ہونی تھی اور یہ اس طرف اشارہ کرتی تھیں کہ آنے والا دورنگ لے کر آوے گا.اسی لیے مہدی اور مسیح کے زمانہ کی علامات ایک ہی ہیں اوران دونوں کا فعل بھی ایک ہی.۱ ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۳۳ مورخہ ۴؍ستمبر۱۹۰۳ءصفحہ۲۵۸،۲۸۹
۲۲؍اگست ۱۹۰۳ء اشاعت ِفحش سے بچیں عام طور پر ایک مرض لوگوں میں دیکھی جاتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مرد یا عورت کی نسبت یہ بیان کرے کہ وہ بدکار ہے یا اس کا دوسرے سے تعلق بدکاری کا ہے تو چونکہ نفس ایسے معلومات کی وسعت سے لذّت پاتا ہے اس لیے اس راوی کے بیان پر بلا تحقیق یہ خیال کر لیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ بالکل سچا ہے اور اسے شہرت دینے میں سعی کی جاتی ہے اور اس طرح سے نیک مرد اور نیک عورتوں کی نسبت نا پاک خیال لوگوں کے دلوں میں متمکن ہو جاتے ہیں اور جن کی شہرت ہوتی ہے ان کے دلوں پر اس سے کیا صدمہ گذرتا ہے اس کو ہر ایک محسوس نہیں کرسکتا.اسی لیے خدا تعالیٰ نے ایسی شہرت دینے والوں کے لیے اَسی درّے سزا مقرر فرمائی ہے.اس مضمون کے متعلق حضرت اقدس نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اپنی پاک کلام میں شہرت دینے والوں کے لیے بشرطیکہ وہ اسے ثابت نہ کرسکیں اَسی درّے سزا رکھی ہے.یہ اس لیے کہ جو شہرت دیتا ہے اسے اس مقدمہ میں مدعی گردانا گیا ہے اور اسی سے چار گواہ طلب کئے گئے ہیں کہ اگر وہ سچا ہے تو اپنے علاوہ چار گواہ رویت کے لاوے.یہ غلطی ہے کہ ایسے شخص کو بھی گواہوں میں شمار کیا جاوے.۱ ۲۴؍ اگست ۱۹۰۳ء ایک رؤیا حضرت اقدس نے ایک رؤیا بوقتِ عصر سنا یا.فرمایا کہ مَیں نے دیکھا کہ ایک بلی ہے اور گویا کہ ایک کبوتر ہمارے پاس ہے وہ اس پر حملہ کرتی ہے.بار بار ہٹا نے سے باز نہیں آتی تو آخر میں نے اس کا ناک کا ٹ دیا ہے اور خون بہہ رہا ہے پھر بھی باز نہ آئی تو میں نے اسے گردن سے پکڑکے اس کا منہ زمین سے رگڑنا شروع کیا بار بار رگڑتا ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۳۳ مورخہ ۴؍ستمبر۱۹۰۳ءصفحہ۲۵۹
رگڑتا تھا لیکن پھر بھی سر اٹھا تی جاتی تھی تو آخر میں نے کہا کہ آؤ اسے پھا نسی دیدیں.۱ ۳۱؍اگست ۱۹۰۳ء مسلمانوں کے ادبار کا باعث اہل اسلام کے ادبار اور ان کے تنزل کا ذکر ہوا فرمایا کہ اس کا باعث خود ان کی شامت ِاعمال ہے کیونکہ زمین پر کچھ نہیں ہوتا جبکہ اوّل آسمان پر نہ ہو لے.اکثر لوگ حکام کی سختی اور ظلم کی شکایت کیا کرتے ہیں لیکن اگر یہ لوگ خود ظالم نہ ہوں تو خدا ان پر کبھی ظالم حاکم مسلط نہ کرے زمانہ کی حالت کا اندازہ اسی سے کر لو کہ ہم ہزاروں روپے دینے کو طیار ہیں کہ کوئی جماعت آکر یہاں رہے.ہم ان کی مہمان نوازی کریں اور حتی الوسع ہر ایک قسم کا آرام دیویں اور وہ شر افت سے اپنے شکو ک وشبہات پیش کریں اور قرآن اور احادیث ِصحیحہ سے ہماری باتیں سنیں اور پھر سمجھیں اور غور کریں کہ جو کچھ عقیدہ اسلام کے متعلق انہوں نے اختیار کیا ہوا ہے اس سے کس قدر فساد اورہتک اسلام کی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لازم آتی ہے اور عیسائیوں کو کس قدر مدد ملتی ہے مگر ان لوگوں کو پروا نہیں ہے گھر بیٹھے ہی دو دوپیسہ کی کتابیں بناکر جو کچھ جھوٹ اور افترا چاہتے ہیں لکھ دیتے ہیں.( جب مذہب کے بارے میں اس قدر بے پروائی ہے تو کیوں ان پرادبار نہ آوے) اللہ تعالیٰ پر ایمان لا نے کی حقیقت ایک صاحب نے سوال کیا کہ قرآن شریف میں جو یہ لکھا ہے کہ خواہ کوئی یہودی ہو خواہ صابی ہو خواہ کوئی نصرانی ہو تو جو کوئی اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان لاوے تو اسے حزن نہ ہوگا تو اس صورت میں اکثر ہندو لوگ بھی اس بات کے مستحق ہیں کہ وہ نجات پاویں کیونکہ وہ رسول اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اگرچہ عمل نہیں کرتے اور ان کی تعظیم کرتے ہیں.فرمایا.اللہ پر ایمان لا نے کے معنے آپ نے کیا سمجھے ہوئے ہیں.کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ جو ۱ البدرجلد ۲ نمبر ۳۴ مورخہ ۱۱؍ستمبر۱۹۰۳ءصفحہ۲۶۵
عیسٰیؑپر ایمان لاوے وہ ہی اللہ پر ایمان لانے والا ہے؟ اللہ پر ایمان لا نے کے یہ معنے ہیں کہ اسے ان تمام صفات سے مو صوف مانا جاوے جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے مثلاً رب، رحمٰن، رحیم تمام محامد والا، رسولوں کا بھیجنے والا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنے والا اب آپ ہی بتلا ویں کہ قرآن شریف میں لفظ اللہ کے یہ معنے ہیں کہ نہیں؟ پھر جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا قرآن کو نہیں مانتا تو اس نے کیا اس اللہ کو مانا جسے قرآن نے پیش کیا ہے.جیسے گلاب کے پھول سے خوشبو دور کردی جاوے تو پھر وہ گلاب کا پھول پھول نہیں رہتا اور اسے پھینک دیتے ہیں پس اسی طرح اللہ کو ماننے والا وہی ہوگا جو اسے ان صفات کے ساتھ ما نے جو قرآن نے بیان کئے ہیں.سائل.لیکن بعض ہندو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرتے ہیں اگرچہ برائے نام ہندو ہیں اور عمل بھی ہندوؤں والے تو یہاں چونکہ لفظ ایمان کا ہے کہ جو ایمان لاوے تو پھر وہ مستحق ہیں کہ نہیں کہ ان پر خوف اور حزن نہ ہو.فرمایا کہ اقرار اسی وقت صحیح ہوسکتا ہے جبکہ انسان اس پر عمل بھی کرے اگر انسان نماز روزہ وغیرہ کا اقرار تو کرتا ہے مگر فعل ایک دن بھی بجانہیں لاتا تواس کا نام اقرار نہ ہوگا اگر آپ کے ساتھ ایک شخص کئی اقرار کرے کہ میں یہ کروں گا وہ کروں گا لیکن عملی طور پر ایک بھی پورا نہ کرے تو کیا تم اس کے اقرار کو اقرار کہو گے؟ عذاب کی حقیقت سائل.چونکہ اس کا اقرار زبان سے تو ہے اس لیے عذاب میں تو ضرور اسے رعایت چاہیے.فرمایا.ہمارا مذہب یہ ہے کہ دنیا میں جو عذاب ملتے ہیں وہ ہمیشہ شوخیوں اور شرارتوں سے ملتے ہیں انبیاؤں اور مامورین کے جس قدر منکر گذرے ہیں ان پر عذاب اسی وقت نازل ہوا جبکہ ان کی شرارت اور شوخی حد سے تجاوز کر گئی اگر وہ لوگ حد سے تجاوز نہ کرتے تو اصل گھر عذاب کا آخرت ہے ورنہ اس طرح سے دیکھ لو کہ ہزاروں کافر ہیں جو کہ اپنے کاروبار کرتے ہیں اور پھر کفر پر ہی مَرتے ہیں مگر دنیا میں کوئی عذاب ان کو نہیں ملتا.اس کی وجہ یہی ہے کہ مامور من اللہ کے مقابلے پر آکر شوخی اور
شرارت میں حد سے نہیں بڑھتے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آخرت میں بھی ان کو عذاب نہ ہوگا دنیاوی عذاب کے لیے ضروری ہے کہ انسان تکذیب ِمرسل، استہزاء اور ٹھٹھے میں اور ایذا میں حد سے بڑھے اور خدا کی نظر میں ان کا فساد، فسق اور ظلم اور آزار نہایت درجہ پر پہنچ گیا ہو.اگر ایک کافر مسکین صورت رہے گا اور اس کو خوف دامنگیر ہوگا تو گو وہ اپنی مذہبی ضلالت کی وجہ سے جہنم کے لائق ہے مگر عذاب دنیوی اس پر نازل نہ ہوگا.اگر کفار مکہ چپ چا پ اور اخلاق سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش آتے تو یہ عذاب ان کو جو ملا ہرگز نہ ملتا ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَفَسَقُوْا فِيْهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًا (بنی اسـرآءیل:۱۷) کہ جب کسی بستی کے ہلاک کرنے کا ارادہ الٰہی ہوتا ہے تو اس وقت ضرور وہاں کے لوگ بدکاریوں میں حد اعتدال سے نکل جاتے ہیں.پھر ایک اور جگہ ہے وَ مَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرٰۤى اِلَّا وَ اَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ (القصص:۶۰) جس سے ثابت ہے کہ کوئی بستی نہیں ہلاک ہوتی مگر اس حالت میں کہ جب اس کے اہل ظلم پر کمر بستہ ہوں.فسق کے معنے حد سے تجاوز کرنے کے ہیں.اب دیکھو ہزاروں ہندو ہیں مگر ما نتے نہیں انکار کرتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ سب کو چھوڑ کر لیکھرام کے پیٹ میں چھری چلی؟ اس کی وجہ اس کی زبان تھی کہ جب اس نے اسے بیباکانہ کھولا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سبّ وشتم کرنے میں حد سے بڑھ گیا اور ایک مدّ ِمقابل بن کر خود نشان طلب کیا تو وہی اس کی زبان چھری بن کر اس کی جان کی دشمن ہو گئی.غرضیکہ اصل گھر عذاب کا آخرت ہے اور دنیا میں عذاب شوخی، شرارت میں حد سے تجاوز کرنے سے آتا ہے ہندوؤں میں بھی یہ بات مشہور ہے کہ پرمیشر اور عت کا بیر ( دشمنی ) ہے.عت کے معنے حد درجہ تک ایک بات کو پہنچا دینا (عت کا لفظ عربی ہے جیسے قرآن شریف میں عُتُوٍّ ہے ).تفاوت وطبقات ِعذاب مَیں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ عذاب یکساں سب کو ہو کفر سب ایک جیسے نہیں ہوتے تو عذاب کیسے ایک جیسا سب کو ہو
بعض کافر ایسے ہیں کہ ایسے پہاڑوں میں رہتے ہیں کہ وہاں اب تک رسالت کی خبر نہیں اسلام کی خبر نہیں تو ان کا کفرابو جہل والا کفر تو نہ ہوگا جس حال میں ایک نہایت درجے کا شریر اور مکذّب باوجود علم کے پھر انکار کرتا ہے.تو اس کے عذاب اور دوسرے کے عذاب میں جو اس قدر شرارت نہیں کرتے ضرور فرق ہونا چاہیے، لیکن ان طبقات عذاب کی کہ( یہ کس قدر ہیں اور کس طرح سے ان کی تقسیم ہے) اس کی ہمیں خبر نہیں اس کا علم خدا کو ہے ہاں چونکہ خدا پر ظلم منسوب نہیں ہوسکتا اس لیے طبقات کا ہونا ضروری ہے.ہمارا مذہب احادیث کی نسبت ذکر ہوا اس پر حضرت اقدس نے اپنا مذہب بتلا یا جو کہ اکثر دفعہ شائع ہو چکا ہے کہ سب سے مقدم قرآن ہے اس کے بعد سنّت اس کے بعد حدیث.اور حدیث کی نسبت فرمایا کہ اگر ضعیف سے ضعیف حدیث بھی بشرطیکہ وہ قرآن کے معارض نہ ہو تو اس پر ضرور عمل کرنا چاہیے.کیونکہ جس حال میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جاتی ہے تو یہ ادب اور محبت کا تقاضا ہونا چاہیے کہ اس پر عملدرآمد ہو اور ہمارا یہ مدعا ہرگز نہیں کہ ائمہ دین کی ان کوششوں کو جو محض دین کے لیے انہوں نے کیں ضائع کر دیویں.ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ جس حال میں کوئی بات ان کی یا کوئی حدیث ہی باوجود تا ویلات کے بھی قرآن شریف سے مطا بقت نہ کھا وے تو پھر قرآن کو مقدم رکھ کر اسے ترک کر دیا جاوے کیونکہ جب ضدین جمع ہوں گی تو ایک کو تو ضرور ترک کرنا پڑے گا اس صورت میں تم قرآن کو ترک مت کرو اور اس کے غیر کو ترک کردو.مثلاً ایک مسئلہ وفات ِمسیح کا ہی ہے جس حال میں قرآن شریف سے وفات ثابت ہے تو اب ہم اس دوسری حدیث کو جو اس کے مخالف ہو یا کسی کے قول کو کیوں ما نیں؟ آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ(المائدۃ:۱۱۸) میں دو باتیں خدا تعالیٰ نے بیان کی ہیں ایک تو مسیحؑ کی وفات دوسرے اس کے دنیا میں آنے کی نفی کی ہے کیونکہ اگر وہ قیامت سے پیشتر دنیا میں دوبارہ آچکا ہے تو اس کا كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ کہنا غلط ہے اس صورت میں یا تو
ؑ جھوٹے ہوں گے یا نعوذباللہ جھوٹ کا الزام خدا پر آوے گا تو ایسی صورت میں ہم قرآن کو مقدم رکھیں گے جس نے وفات کو بڑے بیّن طور پر ثابت کر دیا ہے.عورتوں کے لئے جمعہ کا استثنا ایک صاحب نے عورتوں پر جمعہ کی فرضیت کا سوال کیا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ اس میں تعامل کو دیکھ لیا جاوے اور جو اَمر سنّت اور حدیث سے ثابت ہے اس سے زیادہ ہم اس کی تفسیر کیا کرسکتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جب مستثنیٰ کر دیا ہے تو پھر یہ حکم صرف مَردوں کے لئے ہی رہا.احتیاطی نماز اہل اسلام میں سے بعض ایسے بھولے بھالے بھی ہیں کہ جمعہ کے دن ایک تو جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں پھر اس کے بعد اس احتیاط سے کہ شاید جمعہ ادا نہ ہوا ہو.ظہر کی نماز بھی پوری ادا کرتے ہیں اس کا نام انہوں نے احتیاطی رکھا ہے اس کے ذکر پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ غلطی ہے اور اس طرح سے کوئی نماز بھی نہیں ہوتی کیونکہ نیت میں اس اَمر کا یقین ہونا ضروری ہے کہ میں فلاں نماز ادا کرتا ہوں اور جب نیت میں شک ہوا تو پھر وہ نماز کیا ہوئی؟۱ یکم ستمبر ۱۹۰۳ء (دربارِ شام) ایک رؤیا فرمایا کہ آج خواب میں ایک فقرہ منہ سے یہ نکلا فیئر مین FAIR MAN خدا شنا سی کا واحد ذریعہ فرما یا.خدا کی شناخت کے واسطے سوائے خدا کی کلام کے اور کوئی ذریعہ نہیں ہے ملاحظہ مخلوقات سے انسان کو یہ معرفت حاصل نہیں ہوسکتی اس سے صرف ضرورت ثابت ہوتی ہے پس ایک شَے کی نسبت ضرورت کا ثابت ہونا اَور اَمر ہے اور واقعی طور پر اس کا موجود ہونا اَور اَمر ہے یہی وجہ ہے کہ حکماء متقدمین سے جو لوگ ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۳۴ مورخہ ۱۱؍ستمبر۱۹۰۳ءصفحہ۶۵ ۲، ۲۶۶
محض قیاسی دلائل کے پا بند رہے ہیں اور ان کی نظر صرف مخلوقات پر رہی انہوں نے اس میں بہت بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں اور کامل یقین ان کوجو ہے کے مرتبہ تک پہنچاتا ہے نصیب نہ ہوا یہ صرف خدا کا کلام ہے جو یقین کے اعلیٰ مراتب تک پہنچاتا ہے.خدا کا کلام تو ایک طور سے خدا کا دیدا رہے اور یہ شعر اس پر خوب صادق آتا ہے.؎ نہ تنہا عشق از دیدار خیزد بسا کیں دولت از گفتار خیزد خدا تعالیٰ قادر ہے کہ جس شَے میں چاہے طاقت بھر دیوے پس اپنے دیدار والی طاقت اس نے اپنی گفتار میں بھردی ہے.انبیاء نے اسی گفتار پر ہی تو اپنی جانیں دے دی ہیں.کیا کوئی مجازی عاشق اس طرح کرسکتا ہے؟ اس گفتار کی وجہ سے کوئی نبی اس میدان میں قدم رکھ کر پھر پیچھے نہیں ہٹا اور نہ کوئی نبی کبھی بے وفا ہوا ہے.جنگ ِاحد کے واقعہ کی نسبت لوگوں نے تاویلیں کی ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ خدا کی اس وقت جلالی تجلی تھی اور سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی کو برداشت کی طاقت نہ تھی اس لیے آپ وہاں ہی کھڑے رہے اور باقی اصحاب کا قدم اکھڑ گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جیسے اس صدق وصفا کی نظیر نہیں ملتی جو آپ کو خدا سے تھا ایسا ہی ان الٰہی تائید ات کی نظیر بھی کہیں نہیں ملتی جو آپ کے شاملِ حال ہیں مثلاً آپ کی بعثت اور رخصت کا وقت ہی دیکھ لو.مسیح کا آسمان پر جانا بار بار خیال آتا ہے کہ اگر مسیحؑ آسمان پر گئے تو کیوں گئے؟ یہ ایک بڑا تعجب خیز اَمر ہے کیونکہ جب زمین پر ان کی کارروائی دیکھی جاتی ہے تو بے ساختہ ان کا آسمان پر جانا اس شعر کا مصداق نظر آتا ہے.؎ تو کارِ زمیں را نکو ساختی کہ باآسماں نیز پرداختی گویا یہ شعر بالکل اس واقعہ کے لیے شاعر کے منہ سے نکلا ہے کوئی پوچھے کہ انہوں نے آسمان پر جا کر آج تک کیا بنایا اگر زمین پر رہتے تو لوگوں کو ہدایت ہی کرتے مگر اب دو ہزاربرس تک جو ان کو آسمان پر بٹھاتے ہیں تو ان کی کارروائی کیا دکھلا سکتے ہیں.جو بات ہم کہتے ہیں اور جس کی تائید میں
قرآن اور حدیث بھی ہمارے ساتھ ہے وہ ان کی شانِ نبوت کے ساتھ خوب چسپاں ہوتی ہے کہ جب ان لوگوں نے حضرت مسیحؑ کو نہ مانا تو آپ دوسرے نبیوں کی طرح دوسرے ملک میں ہجرت کرکے چلے گئے.اور پھر ایسے فرضی اوصاف ان کے لیے وضع کرتے ہیں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک اور ہجو ہو کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار نے سوال کیا کہ آپ آسمان پر چڑھ کر بتلاویں تو آپ نے یہ معجزہ ان کو نہ دکھلا یا اور سُبْحَانَ رَبِّيْ (بنی اسـرآءیل :۹۴) کا جواب دیا گیا اور یہاں بلادرخواست کسی کافر کے خود خدا تعالیٰ مسیحؑ کو آسمان پر لے گیا تو گویا خدا تعالیٰ نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی نظروں میں ہیٹا کرانا چاہا کیا وہ خدا اَور تھا اور یہ اَورتھا؟ اگرچہ لوگ ہمیں ایسی باتوں سے کافر دجال وغیرہ کہتے ہیں مگر یہ ہمارا فخر ہے کیونکہ قرآن کی تائید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت قائم کرنے کے لیے یہ خطابات ہمیں ملتے ِہیں.؎ بعد از خدا بعشقِ محمد مخمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم مسئلہ تقدیر آریہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن شریف میں لکھا ہے خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ (البقرۃ:۸) کہ خدا نے دلوں پر مہر کر دی ہے تو اس میں انسان کا کیا قصور ہے؟ یہ ان لوگوں کی کوتاہ اندیشی ہے کہ ایک کلام کے ما قبل اور ما بعد پر نظر نہیں ڈالتے ورنہ قرآن شریف نے صاف طور پر بتلایا ہے کہ یہ مہر جو خدا کی طرف سے لگتی ہے یہ دراصل انسانی افعال کا نتیجہ ہے کیونکہ جب ایک فعل انسان کی طرف سے صادر ہوتا ہے تو سنّت اللہ یہی ہے کہ ایک فعل خدا کی طرف سے بھی صادر ہو جیسے ایک شخص جب اپنے مکان کے دروازے بند کر دے تو یہ اس کا فعل ہے اور اس پر خدا کا فعل یہ صادر ہوگا کہ اس مکان میں اندھیرا کر دے کیونکہ روشنی اندر آنے کے جوذریعے تھے وہ اس نے خود اپنے لیے بند کر دیئے.اسی طرح اس مہر کے اسباب کا ذکر خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں دوسری جگہ کیاہے جہاں لکھا ہے فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ ( الصّف:۶) کہ جب انہوں نے کجی اختیار کی تو خدا نے ان کو کج کر دیا.اسی کا نام مہر ہے لیکن ہمارا خدا ایسا نہیں کہ پھر اس مہر کو دور نہ کرسکے
چنانچہ اس نے اگر مہر لگنے کے اسباب بیان کئے ہیں تو ساتھ ہی وہ اسباب بھی بتلا دیئے ہیں جن سے یہ مہر اٹھ جاتی ہے جیسے کہ یہ فرمایا ہے فَاِنَّهٗ كَانَ لِلْاَوَّابِيْنَ۠ غَفُوْرًا(بنی اسـرآءیل: ۲۶) لیکن کیا آریوں کا پرمیشر ایسا ہے کہ تناسخ کی رو سے جو مہر وہ ایک انسان پر لگا تا ہے پھر اسے اٹھا سکے؟ گناہ کا یہ نتیجہ ضرور ہوتا ہے کہ وہ دوسرے گناہ کی انسان کو جرأ ت دلا تا ہے اور اس سے قساوت قلبی پیدا ہوتی ہے حتی کہ گناہ انسان کو مرغوب ہو جاتا ہے لیکن ہمارے خدا نے تو پھر بھی توبہ کے دروازے کھولے ہیں کہ اگر کوئی شخص نا دم ہو کر خدا کی طرف رجوع کرے تو وہ بھی رجوع کرتا ہے مگر آریوں کے لیے یہ کہاں نصیب؟ ان کا پرمیشر جو مہر لگا تا ہے اسے اکھا ڑ نے پر تو وہ خود بھی قادر نہیں ہے پس اس میں مسئلہ تقدیر کا اعتراض آریوں پر ہے نہ کہ اہل اسلام پر.تو بہ ایک موت ہے ہاںتوبہ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ انسان زبان سے توبہ توبہ کہہ لیو ے بلکہ ایک شخص تائب اس وقت کہا جاتا ہے کہ گذشتہ حالت پر سچے دل سے نادم ہو کر آئندہ کے لیے وعدہ کرتا ہے کہ پھر یہ کام نہ کرے گا اور اپنے اندر تبدیلی کرتا ہے اور جن شہوات، عادات وغیرہ کا وہ عادی ہوتا ہے ان کو چھوڑتا ہے اور وہ تمام یار دوست اور گلی کوچے اسے ترک کرنے پڑتے ہیں کہ جن کا معا صی کی حالت میں اس سے تعلق تھا گویا توبہ ایک موت ہے جو وہ اپنے اوپر وارد کرتا ہے جب ایسی حالت میں وہ خدا کی طرف رجوع کرتا ہے تو پھر خدا بھی اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور یہ اس لیے ہے کہ گناہ کے ارتکاب میں ایک حصہ قضا وقدر کا ہے کہ بعض اندرونی اعضا اور قویٰ کی ساخت اسی قسم کی ہوتی ہے کہ انسان سے گناہ سرزد ہو.پس اس لیے ضروری تھا کہ ارتکابِ معاصی میں جس قدر حصہ قضاوقدر کا ہے اس میں خدا تعالیٰ رعایت دیوے اور اس بندے کی توبہ قبول کرے اور اسی لیے اس کا نام توّاب ہے.۱ ۱ البدرجلد ۲ نمبر ۳۴ مورخہ ۱۱؍ستمبر۱۹۰۳ء صفحہ۲۶۶،۲۶۷
۳؍ستمبر ۱۹۰۳ء ایک رؤیا اور الہام فرما یا.اسہال آنے سے میری طبیعت میں کچھ کمزوری پیدا ہو گئی.ایک تھوڑی سی غنودگیمیں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے دونوں طرف دو آدمی پستولیں لیے کھڑے ہیں اس اَثنا میں مجھے الہام ہوا.فِیْ حِفَاظَۃِ اللہِ۱ بلا تاریخ ۲ اسم اعظم ایک دن بوقتِ ظہر فرمایا کہ ہیضہ کے لیے ہم تو نہ کوئی دوا بتلا تے ہیں نہ نسخہ صرف یہ بتلا تے ہیں کہ راتوں کو اٹھ کر دعا کریں اور اسم اعظم رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُـرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ اس کی تکرار نماز کے رکوع سجود وغیرہ میں اور دوسرے وقتوں میں کریں یہ خدا نے اسمِ اعظم بتلا یا ہے.۳ ۹؍ستمبر ۱۹۰۳ء وبائی امراض کا الہامی علاج فر مایا.مجھے الہام ہوا.سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ پھر چو نکہ بیماری وبائی کابھی خیال تھا اس کا علاج خدا تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ اس کے ان ناموں کا ورد کیا جاوے یَا حَفِیْظُ.یَا عَزِیْزُ.یَا رَفِیْقُ.رفیق خدا تعالیٰ کا نیانام ہے جو کہ اس سے پیشتر اسمائے باری تعالیٰ میں کبھی نہیں آیا.۱،۲ ۱ البدرجلد ۲ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۸؍ستمبر۱۹۰۳ءصفحہ۲۸۰ ۲ یہ ڈائری ۴؍ تا ۸؍ ستمبر ۱۹۰۳ء میں سے کسی دن کی ہے.(مرتّب) ۳ البدرجلد ۲ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۸؍ستمبر۱۹۰۳ء صفحہ ۲۸۰
جو کہ اس سے پیشتر اسمائے باری تعالیٰ میں کبھی نہیں آیا.۱،۲ بلا تاریخ فرمایا.بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں فلاں مقام پر کیوں طاعون نہ آئی یہ ان کی غلطی ہے.اصل علامت اس زمانہ کی جس میں مسیح اور مہدی نے آنا ہے طاعون ہے اس میں یہ شرط کوئی نہیں لکھی کہ وہ ضرور ہر جگہ پڑے.جس شخص کو ہمارا علم ہوگا وہ تو فائدہ اٹھائے گا مگر یہ ضرور نہیں کہ ہر ایک کو ہمارا علم ہو ممکن ہے کہ بعض مقامات ایسے ہوں کہ ابھی تک ان کو اس اَمر کی خبر بھی نہیں کہ ہمارا یہ دعویٰ ہے.خدا تعالیٰ کا کلام ایک ایک لفظ سچا ہے اور خدا تعالیٰ متقین کے ساتھ ہوتا ہے.بڑی نشانی ہماری صداقت کی یہ ہے کہ ایک دنیا ہماری مخالفت میں ہو اور بلحاظ مال و زر و تعداد کے وہ ہم سے بڑھ چڑھ کر ہوں مگر پھر ان کو کامیابی نصیب نہ ہو اور ہم غالب ہو جاویں.یہ بات پیشگوئی کے رنگ میں پوری ہوتی ہے.اور اگر پیشگوئی نہ بھی ہوتی تو بھی یہ معرکہ تعجب انگیز تھا کہ باوجود اس کثرت کے اور جوش کے مخالفوں کی کُل بندوقیں خطا جاویں.مگر ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ اس علیم اور خبیر خدا تعالیٰ نے اوّل ہی بتلا دیا تھا کہ باوجود اس قدر مخالفت اور تمام باتوں کے یہ جماعت بڑھ جاوے گی.موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا سانپ بن جانا اس زمانہ کے لحاظ سے ایک راز تھا ورنہ اسی طرح کے تماشہ تو آج کل ہوتے ہیں اور جب تک کہ کسی کو خود نہ بتلایا جاوے تب تک وہ انسان تعجب میں رہتا ہے اسی طرح سے وہ معاملہ ایک تھوڑے زمانہ کا اعجاز تھا اب اس کی حقیقت کیا سمجھ میں آسکتی ہے مگر اس وقت ایک وسیع وقت لوگوں کو دیا گیا ہے کہ وہ خوب سوچیں اور سمجھیں.ایک طرح سے ہمارے مخالف قابلِ رحم بھی ہیں انہوں نے اپنی ہانڈی سب پکالی مگروہ سڑ گئی لیکن ۱ الحکم میں ہے.’’اللہ تعالیٰ کے اسم رفیق کے استعمال کا یہ جدید اسلوب ہے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۳۶ مورخہ ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵) ۲ البدر جلد ۲ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۸؍ستمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۸۰
گلی نہیں.ایک گروہ ان کا راتوں کو اٹھ کر دعائیں مانگتا رہا مگر ایک نہ سنی گئی.انسان کا جس قدر معاملہ خدا سے صاف ہوگا اسی قدر فہم بھی صاف ہوگا.ہر ایک سفر میں استخارہ مسنون ضرور کر لینا چاہیے.۱ ۱۴؍ستمبر ۱۹۰۳ء ضرورت کے لئے تصویر کا جواز ایک احمدی صاحب نے سوال کیا کہ گاؤں کے لوگ اس لیے تنگ کرتے ہیں کہ آپ نے تصویر کھچوائی ہے اس کا ہم ان کو کیا جواب دیویں؟ فرمایا کہ انسان جب دنیاوی ضرورتوں کے لیے ہر وقت پیسہ روپیہ وغیرہ جیب میںرکھتا ہے جن پر تصویر بنی ہوئی ہوتی ہے تو پھر دینی ضرورت کے لیے تصویر کا استعمال کیوں روا نہیں ہوسکتا.ان لوگوں کی مثال لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصّف:۳) کی ہے کہ خود تو ایک فعل کرتے ہیں اور دوسروں کو اسے معیوب بتلا تے ہیں اگر ان لوگوں کے نزدیک تصویر حرام ہے تو ان کو چاہیے کہ کل مال وزر باہر نکال کر پھینک دیں اور پھر ہم پر اعتراض کریں اور یہ ملّاں لوگ جو بڑھ بڑ ھ کر باتیں کرتے ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ ایک پیسہ کو تو وہ ہاتھ سے چھوڑ نہیں سکتے.۲ ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۳ء جذب اور کشش سچے مذہب کی علامت ہیں بعض احباب کی طرف سے یہ درخواست ہوئی کہ آریوں کی طرف متوجہ ہونا چاہیے کہ یہ بہت بڑھتے جاتے ہیں.فرمایا کہ انہوں نے کیا ترقی کرنی ہے.وہ مذہب ترقی کرتا ہے جس میں کچھ روحانیت ہوتی ہے ۱ البدرجلد ۲ نمبر ۳۵ مورخہ۱۸؍ستمبر۱۹۰۳ء صفحہ۲۸۰ ۲البدرجلد ۲ نمبر ۳۶ مورخہ۲۵؍ستمبر۱۹۰۳ء صفحہ۲۸۱
نہ ان میں روحانیت ہے اور نہ وہ کشش مقناطیسی ہے جس سے ایک قوم ترقی کرسکتی ہے وہ ایک خاص کشش ہوتی ہے جو کہ انبیاء علیہم السلام کو دی جاتی ہے اور تمام پا کیزہ دلوں کو وہ محسوس ہوتی ہے اور جو اس سے مؤثر ہوتے ہیں وہ ایک فوق العادت زندگی کا نمونہ دکھلا تے ہیں اور ہیروں کے ٹکڑوں کی طرح اس کشش کی چمک نظر آتی ہے اور جس کو وہ کشش عطا ہوتی ہے وہ الٰہی طاقتوں کا سر چشمہ ہوتا ہے اور خدا کی نادر اور مخفی قدرتیں جو عام طور پر ظاہر نہیں ہوتیں، ایسے شخص کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہیں اور اسی کشش سے ان کو کامیابی ہوتی ہے.دنیا میں جس قدر انبیاء آئے ہیں کیا وہ دنیا کے سارے مکروفریب اور فلسفے سے پورے واقف ہو کر آتے ہیں جس سے وہ مخلوق پر غالب ہوتے ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ ان میں ایک کشش ہوتی ہے جس سے لوگ ان کی طرف کھچے چلے آتے ہیں اور جب دعا کی جاتی ہے وہ کشش کے ذریعہ سے زہر یلے مادہ پر جو لوگوں کے اندر ہوتا ہے اثر کرتی ہے اور اس روحانی مریض کو تسلی اور تسکین بخشتی ہے یہ ایک ایسی بات ہے جو کہ بیان میں ہی نہیں آسکتی اور اصل مغز شریعت کا یہی ہے کہ وہ کشش طبیعت میں پیدا ہو جاوے.سچی تقویٰ اور استقامت بغیر اس صاحبِ کشش کی موجودگی کے پیدا نہیں ہوسکتے اور نہ اس کے سوا قوم بنتی ہے یہی کشش ہے جو کہ دلوں میں قبولیت ڈالتی ہے.اس کے بغیر ایک غلام اور نو کر بھی اپنے آقا کی خاطر خواہ فر ماں برداری نہیں کرسکتا اور اسی کے نہ ہونے کی وجہ سے نوکر اور غلام جن پر بڑے انعام و اکرام کئے گئے ہوں آخرکار نمک حرام نکل جاتے ہیں.بادشاہوں کی ایک تعداد کثیر ایسے غلاموں کے ہاتھ سے ذبح ہوتی رہی لیکن کیا کوئی ایسی نظیر انبیاء میں دکھلا سکتا ہے کہ کوئی نبی اپنے کسی غلام یا مرید سے قتل ہوا ہے مال اور زر اور کوئی اَور ذریعہ دل کو اس طرح سے قابو نہیں کر سکتا جس طرح سے یہ کشش قابو کرتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ کیا بات تھی کہ جس کے ہونے سے صحابہؓ نے اس قدر صدق دکھایا اور انہوں نے نہ صرف بت پرستی اور مخلوق پرستی ہی سے منہ موڑا بلکہ درحقیقت ان کے اندر سے دنیا کی طلب ہی مسلوب ہو گئی اوروہ خدا کو دیکھنے لگ گئے وہ نہایت سر گر می سے خدا کی راہ میں ایسے فدا تھے کہ گویا ہر ایک ان میں سے ابراہیم تھا.انہوں نے کا مل اخلاص سے خدا کا جلال ظاہر کرنے کے لیے وہ کام کیے جس کی نظیر بعد اس کے
کبھی پیدا نہیں ہوئی اور خوشی سے دین کی راہ میں ذبح ہونا قبول کیا بلکہ بعض صحابہؓ نے جو یک لخت شہادت نہ پائی تو ان کو خیال گذرا کہ شاید ہمارے صدق میں کچھ کسر ہے جیسے کہ اس آیت میں اشارہ ہے مِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ( الاحزاب:۲۴) یعنی بعض تو شہید ہو چکے تھے اور بعض منتظر تھے کہ کب شہادت نصیب ہو.اب دیکھنا چاہیے کہ کیا ان لوگوں کو دوسروں کی طرح حوائج نہ تھے اور اولاد کی محبت اور دوسرے تعلقات نہ تھے.مگر اس کشش نے ان کو ایسا مستانہ بنا دیا تھا کہ دین کو ہرایک شَے پر مقدم کیا ہوا تھا.اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ(الشعراء:۴) کی تفسیر میں ایک نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال پیدا ہوا ہوگا کہ مجھ میں شاید وہ کامل کشش نہیں ہے ورنہ ابو جہل راہ راست پر آ جاتا پھر وہ خود ہی اس کا جواب دیتا ہے کہ آپ میں کشش تو کا مل تھی لیکن بعض فطرتیں ہی ایسی ہو جاتی ہیں کہ وہ اس قابل نہیں رہتیں کہ نور کو قبول کریں اس لیے ایسے لوگوں کا محروم رہنا ہی اچھا ہوتا ہے.دنیا اور ما فیہا پر دین کو مقدم کر لینا بغیر کشش الٰہی کے پیدا نہیں ہوسکتا.جن لوگوں میں یہ کشش نہیں ہوتی وہ ذرا سے ابتلا سے تبدیل مذہب کر لیتے ہیں اور حکومت کے دباؤ سے فوراً ہاں میں ہاں ملانے لگ جاتے ہیں مسیلمہ کذاب کے ساتھ ایک لاکھ تک ہو گئے تھے مگر چو نکہ اس میں وہ کشش نہ تھی اس لیے آخر کار سب کے سب فنا ہو گئے.غرضیکہ کسی کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل یہی ہے کہ اس کو کشش دی جاوے اور یہی بڑا معجزہ ہے جوکہ لکھو کھہا انسانوں کو اس کا گرویدہ اور جاں نثار بنا دیتی ہے کسی ایک کو اپنا گرویدہ کرنا محال ہوتا ہے کوئی کرکے دیکھے تو حال معلوم ہوسینکڑوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں مگر آخر کار دل شکنی ہی ہوتی ہے چہ جائیکہ ایک عالم کو اپنا گرویدہ کر لیا جاوے یہ بغیر اس کشش کے حاصل نہیں ہوتا جو خدا سے عطا ہو.بادشاہوں کے رعب اور دھمکیاں اور ایک دنیا بھر کا اس کے مقابلہ پر آ جانا یہ سب اس کشش کے گروید وں کو تذبذب میں نہیں پڑنے دیتیں.ابھی تک ان آریوں کو پتا ہی نہیں ہے کہ سچی تقویٰ کیا شَے ہے یہ اس وقت پتا لگتا ہے کہ جب اوّل وہ اپنی بیماری کو سمجھیں جب تک ایک انسان اپنے آپ کو بیمار نہیں خیال کرتا تو وہ علاج کیا
کراوے گا.تز کیہ نفس ایک ایسی شَے ہے کہ وہ خود بخود نہیں ہوسکتا اس لیے خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَلَاتُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى(النجم:۳۳) کہ تم یہ خیال نہ کرو کہ ہم اپنے نفس یا عقل کے ذریعہ سے خود بخود مزکّی بن جاویں گے.یہ بات غلط ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کون متقی ہے....جہالت ایک ایسی زہر ہے کہ جیسے انسان چنگا بھلا پھرتا ہوا فوراً ہیضہ وغیرہ سے ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کے پیشتر گمان بھی نہیں ہوتا کہ میں مَر جاؤں گا ایسے ہی جہالت ہلاک کر دیتی ہے اس کا علاج بلا انبیاء کے نہیں ہوسکتا.ان کی صحبت میں رہنے سے انسان کے اندر وہ قوت پیدا ہوتی ہے کہ جس سے اسے اپنے مرض کا پتا لگتا ہے ورنہ خشک لفاظی اور چرب زبانی سے انسان کو یہ بات حاصل نہیں ہوسکتی.صرف یہ کہناکہ ہم نے زنا نہیں کیا چوری نہیں کی اس سے تزکیہ نفس نہیں پایا جاتا اور نہ اس کا نام سچی پا کیز گی ہے.یہ ایک ایسی شَے ہے کہ اس پر عمل کرنا تو درکنا ر سمجھنا ہی مشکل ہے جسے خدا چاہتا ہے عطا کرتا ہے یہ تو ایک قسم کی موت ہے جو انسان کو اپنے نفس پروا ر د کرنی پڑتی ہے.۱ ۲۳؍ستمبر۱۹۰۳ء (بو قت صبح بمقام گورداسپور) ایک رؤیا مَیں نے ایک قلم لکھنے کے واسطے اٹھا ئی ہے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس کی ایک زبان ٹو ٹی ہوئی ہے تو میں نے کہا کہ محمد افضل نے جو پَر(نب) بھیجے ہیں ان میں سے ایک لگا دو وہ پَر تلاش کئے جارہے ہیں کہ اس اَثنا میں میری آنکھ کھل گئی.۲ کثرت ِاولاد سے جماعت کو بڑھائیں مفتی فضل الرحمن صاحب احمدی قادیانی نے ذیل کے ملفوظات حضرت امام الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مجھے پہنچائے ہیں.۲۳؍ ستمبر ۱۹۰۳ء کی علی الصبح کوجب مفتی صاحب موصوف نے حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کے ہاں فرزند ارجمند کی ولادت کی خبر حضرت امام الزمان علیہ السلام کوگوردا سپور میں جا کر پہنچا ئی تو ۱البدرجلد ۲ نمبر ۳۶ مورخہ۲۵؍ستمبر۱۹۰۳ءصفحہ۲۸۱،۲۸۲ ۲ البدرجلد ۲ نمبر ۳۷ مورخہ۲؍اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۹۰
آپ نے فرمایا.مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کیونکہ اس سے پیشتر مولوی صاحب کو اولاد کا بہت صدمہ پہنچا ہوا ہے میرا جی چاہتا ہے کہ اس کا نام عبد القیوم رکھا جاوے.پھر فرمایا کہ میرا تو یہی جی چاہتا ہے کہ میری جماعت کے لوگ کثرت ازدواج کریں اور کثرت ِاولاد سے جماعت کو بڑھا ویں مگر شرط یہ ہے کہ پہلی بیویوں کے ساتھ دوسری بیوی کی نسبت زیادہ اچھا سلوک کریں تاکہ اسے تکلیف نہ ہو دوسری بیوی پہلی بیوی کو اسی لیے نا گوار معلوم ہوتی ہے کہ وہ خیال کرتی ہے کہ میری غور و پرداخت اور حقوق میں کمی کی جاوے گی مگر میری جماعت کو اس طرح نہ کرنا چاہیے اگرچہ عورتیں اس بات سے ناراض ہوتی ہیں مگر میں تو یہی تعلیم دوں گا ہاں یہ شرط ساتھ رہے گی کہ پہلی بیوی کی غور وپرداخت اور اس کے حقوق دوسری کی نسبت زیادہ توجہ اور غور سے ادا ہوں اور دوسری سے اسے زیادہ خوش رکھا جاوے ورنہ یہ نہ ہو کہ بجائے ثواب کے عذاب ہو.عیسائیوں کو بھی اس اَمر کی ضرورت پیش آئی ہے اور بعض دفعہ پہلی بیوی کو زہر دے کر دوسری کی تلاش سے اس کا ثبوت دیا ہے.یہ تقویٰ کی عجیب راہ ہے مگر بشرطیکہ انصاف ہو اور پہلی کی نگہداشت میں کمی نہ ہو.۱ ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۳ء روحانیت اور پاکیزگی کی ضرورت آپ نے ایک ذکرپر فرمایا کہ کوئی دنیا کا کاروبار چھوڑ کر ہمارے پاس بیٹھے تو ایک دریا پیشگوئیوں کا بہتا ہوا دیکھے جیسے کہ کل قلم والی پیشگوئی پوری ہوئی ہے.روحانیت اور پا کیز گی کے بغیر کوئی مذہب چل نہیں سکتا قرآن شریف نے بتلا یا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پیشتر دنیا کی کیا حالت تھی يَاْكُلُوْنَ كَمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ(مـحمد:۱۳) پھر جب انہی لوگوں نے اسلام قبول کیا تو فرماتا ہے يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا(الفرقان :۶۵) ۱ البدرجلد ۳ نمبر ۷ مورخہ۱۶؍فروری۱۹۰۴ء صفحہ۱۱
جب تک آسمان سے تریاق نہ ملے تو دل درست نہیں رہتا انسان آگے قدم رکھتا ہے مگر وہ پیچھے پڑتا ہے قدسی صفات اور فطرت والا انسان ہو تو وہ مذہب چل سکتا ہے اس کے بغیر کوئی مذہب ترقی نہیں کر سکتا ہے اور اگر کرتا بھی ہے تو پھر قائم نہیں رہ سکتا.۱ ۲۹؍ستمبر ۱۹۰۳ء (دربارِ شام) بیعت کی غرض بیعت لینے کے بعد حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی.ہر ایک شخص جو میرے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اس کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی بیعت کی کیا غرض ہے؟ کیا وہ دنیا کے لیے بیعت کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے؟ بہت سے ایسے بد قسمت انسان ہوتے ہیں کہ ان کی بیعت کی غایت اور مقصود صرف دنیا ہوتی ہے.ورنہ بیعت سے ان کے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی اور وہ حقیقی یقین اور معرفت کانور جو حقیقی بیعت کے نتائج اور ثمرات ہیں ان میں پیدا نہیں ہوتاان کے اعمال میں کوئی خوبی اور صفائی نہیں آ تی نیکیوں میں ترقی نہیں کرتے گناہوں سے بچتے نہیں ایسے لوگوں کو جو دنیا کو ہی اپنا اصل مقصود ٹھہراتے ہیں یادرکھنا چاہیے کہ دنیا روزے چند آخر کار با خداوند یہ چند روزہ دنیا تو ہر حال میں گذرجاوے گی خواہ تنگی میں گذرے خواہ فراخی میں.مگر آخرت کا معاملہ بڑا سخت معاملہ ہے وہ ہمیشہ کا مقام ہے اور اس کا انقطاع نہیں ہے پس اگر اس مقام میں وہ اسی حالت میں گیا کہ خدا تعالیٰ سے اس نے صفائی کرلی تھی اور اللہ تعالیٰ کا خوف اس کے دل پر مستولی تھا اور وہ معصیت سے توبہ کرکے ہر ایک گناہ سے جس کو اللہ تعالیٰ نے گناہ کرکے پکارا ہے بچتا رہا تو خدا کا فضل اس کی دستگیری کرے گا اور وہ اس مقام پر ہوگا کہ خدا اس سے راضی ہوگا اور وہ اپنے رب سے ۱البدرجلد ۲ نمبر ۳۷ مورخہ۲؍اکتوبر ۱۹۰۳ءصفحہ۲۹۰
راضی ہوگا.اور اگر ایسا نہیں کیا بلکہ لاپرواہی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی ہے تو پھر اس کا انجام خطرناک ہے.اس لیے بیعت کرتے وقت یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کہ بیعت کی کیا غرض ہے اور اس سے کیا فائدہ حاصل ہوگا اگر محض دنیا کی خاطر ہے تو بے فائدہ ہے لیکن اگر دین کے لیے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہے تو ایسی بیعت مبارک اور اپنی اصل غرض اور مقصد کو ساتھ رکھنے والی ہے جس سے ان فوائد اور منا فع کی پوری امید کی جاتی ہے جو سچی بیعت سے حاصل ہوتے ہیں ایسی بیعت سے انسان کو دو بڑے فا ئدے حاصل ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور حقیقی توبہ انسان کو خدا تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اوراس سے پا کیز گی اور طہارت کی توفیق ملتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ(البقرۃ:۲۲۳) یعنی اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور نیز ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو گناہوں کی کشش سے پاک ہونے والے ہیں توبہ حقیقت میں ایک ایسی شَے ہے کہ جب وہ اپنے حقیقی لوازمات کے ساتھ کی جاوے تو اس کے ساتھ ہی انسان کے اندر ایک پا کیز گی کا بیج بو یا جاتا ہے جو اس کو نیکیوں کا وارث بنا دیتا ہے یہی باعث ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہوتا ہے کہ گویا اس نے کوئی گناہ نہیں کیا یعنی توبہ سے پہلے کے گناہ اس کے معاف ہو جاتے ہیں اس وقت سے پہلے جو کچھ بھی اس کے حالات تھے اور جو بے جا حرکات اور بے اعتدالیاں اس کے چال چلن میں پائی جاتی تھیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو معاف کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک عہد صلح باندھا جاتا ہے اور نیا حساب شروع ہوتا ہے پس اگر اس نے خدا تعالیٰ کے حضور سچے دل سے توبہ کی ہے تو اسے چاہیے کہ اب اپنے گناہوں کا نیا حساب نہ ڈالے اور پھر اپنے آپ کو گناہ کی ناپاکی سے آلودہ نہ کرے بلکہ ہمیشہ استغفار اور دعاؤں کے ساتھ اپنی طہارت اور صفائی کی طرف متوجہ رہے اور خدا تعالیٰ کو راضی اور خوش کرنے کی فکر میں لگا رہے اور اپنی اس زندگی کے حالات پر نا دم اور شرمساررہے جو توبہ کے زمانہ سے پہلے گذری ہے.انسان کی عمر کے کئی حصے ہوتے ہیں اور ہر ایک حصہ میں کئی قسم کے گناہ ہوتے ہیں مثلاً ایک حصہ
جوانی کا ہوتا ہے جس میں اس کے حسبِ حال جذبات کسل وغفلت ہوتی ہے پھر دوسری عمر کا ایک حصہ ہوتا ہے جس میں دغا، فریب، ریا کاری اور مختلف قسم کے گناہ ہوتے ہیں.غرض عمر کا ہر ایک حصہ اپنی طرز کے گناہ رکھتا ہے.پس یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور وہ توبہ کرنے والے کے گناہ بخش دیتا ہے اور توبہ کے ذریعہ انسان پھر اپنے رب سے صلح کرسکتا ہے.دیکھو انسان پر جب کوئی جرم ثابت ہو جائے تو وہ قابل ِسزاٹھہر جاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَنْ يَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ الآیۃ(طٰہٰ:۷۵) یعنی جو اپنے رب کے حضور مجرم ہو کر آتا ہے اس کی سزا جہنم ہے وہاں نہ وہ جیتا ہے نہ مَرتا ہے.یہ ایک جرم کی سزا ہے اور جو ہزاروں لاکھوں جرموں کا مرتکب ہو اس کا کیا حال ہوگا لیکن اگر کوئی شخص عدالت میں پیش ہو اوربعد ثبوت اس پر فردقرارداد جرم بھی لگ جاوے اوراس کے بعد عدالت اس کو چھوڑ دے تو کس قدر احسان عظیم اس حاکم کا ہوگا.اب غور کرو کہ یہ توبہ وہی بریت ہے جو فرد قرار داد جرم کے بعد حاصل ہوتی ہے توبہ کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ پہلے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے.اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھے کہ کس قدر گناہوں میں وہ مبتلا تھا اور ان کی سزا کس قدر اس کو ملنے والی تھی جو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے معاف کر دی.پس تم نے جو اَب توبہ کی ہے چاہیے کہ تم اس توبہ کی حقیقت سے واقف ہو کر ان تمام گناہوں سے بچو جن میں تم مبتلا تھے اور جن سے بچنے کا تم نے اقرار کیا ہے ہر ایک گناہ خواہ وہ زبان کا ہو یا آنکھ کا یا کان کا غرض ہر اعضا کے جدا جدا گناہ ہیں ان سے بچتے رہو کیونکہ گناہ ایک زہر ہے جو انسان کو ہلاک کر دیتی ہے گناہ کی زہر وقتاًفوقتاً جمع ہوتی رہتی ہے اور آخر اس مقدار اور حد تک پہنچ جاتی ہے جہاں انسان ہلاک ہو جاتا ہے پس بیعت کا پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ یہ گناہ کے زہر کے لیے تر یاق ہے.اس کے اثر سے محفوظ رکھتی ہے اور گناہوں پر ایک خطِ نسخ پھیر دیتی ہے.دوسرا فائدہ اس توبہ سے یہ ہے کہ اس توبہ میں ایک قوت واستحکام ہوتا ہے جو مامور من اللہ کے
ہاتھ پر سچے دل سے کی جاتی ہے.انسان جب خود توبہ کرتا ہے تو وہ اکثر ٹوٹ جاتی ہے.بار بار توبہ کرتا اور بار بار توڑتا ہے مگر مامور من اللہ کے ہاتھ پر جو توبہ کی جاتی ہے جب وہ سچے دل سے کرے گا تو چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے موافق ہو گی وہ خدا خود اسے قوت دے گا اور آسمان سے ایک طاقت ایسی دی جاوے گی جس سے وہ اس پر قائم رہ سکے گا.اپنی توبہ اور مامور کے ہاتھ پر توبہ کرنے میں بھی فرق ہے کہ پہلی کمزور ہوتی ہے دوسری مستحکم.کیونکہ اس کے ساتھ مامور کی اپنی توجہ، کشش اور دعائیں ہوتی ہیں جو توبہ کرنے والے کے عزم کو مضبوط کرتی ہیں اور آسمانی قوت اسے پہنچاتی ہیں جس سے ایک پاک تبدیلی اس کے اندر شروع ہو جاتی ہے اور نیکی کا بیج بویا جاتا ہے جو آخر ایک بار دار درخت بن جاتا ہے.پس اگر صبر اور استقامت رکھوگے تو تھوڑے دنوں کے بعد دیکھو گے کہ تم پہلی حالت سے بہت آگے گزر گئے ہو.غرض اس بیعت سے جو میرے ہاتھ پر کی جاتی ہے دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ گناہ بخشے جاتے ہیں اور انسان خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق مغفرت کا مستحق ہوتا ہے.دوسرے مامور کے سامنے توبہ کرنے سے طاقت ملتی ہے اور انسان شیطانی حملوں سے بچ جاتا ہے.یاد رکھو اس سلسلہ میں داخل ہونے سے دنیا مقصود نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو.کیونکہ دنیا تو گزر نے کی جگہ ہے وہ تو کسی نہ کسی رنگ میں گزر جائے گی.ع شبِ تنور گذشت و شبِ سمور گذشت دنیا اور اس کے اغراض اور مقاصد کو بالکل الگ رکھو.ان کو دین کے ساتھ ہرگز نہ ملاؤ کیونکہ دنیا فنا ہونے والی چیز ہے اور دین اور اس کے ثمرات باقی رہنے والے.دنیا کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے تم دیکھتے ہو کہ ہر آن اور ہر دم میں ہزاروں موتیں ہوتی ہیں.مختلف قسم کی وبائیں اور امراض دنیا کا خاتمہ کر رہی ہیں کبھی ہیضہ تباہ کرتا ہے.اب طاعون ہلاک کر رہی ہے.کسی کو کیا معلوم ہے کہ کون کب تک زندہ رہے گا.جب موت کا پتا نہیں کہ کس وقت آجاوے گی پھر کیسی غلطی اور بیہودگی ہے کہ اس سے غافل رہے اس لیے ضروری ہے کہ آخرت کی فکر کرو جو آخرت کی فکر کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اس
پر رحم کرے گا.اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب انسان مومن کامل بنتا ہے تو وہ اس کے اور اس کے غیر میں فرق رکھ دیتا ہے اس لیے پہلے مومن بنو اور یہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ بیعت کی خالص اغراض کے ساتھ جو خدا ترسی اور تقویٰ پر مبنی ہیں دنیا کے اغراض کو ہرگز نہ ملاؤ، نمازوں کی پا بندی کرو اور توبہ واستغفار میں مصروف رہو نوعِ انسان کے حقوق کی حفاظت کرو اور کسی کو دکھ نہ دو راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی کرو تو اللہ تعالیٰ ہر قسم کا فضل کر دے گا.عورتوں کو بھی اپنے گھروں میں نصیحت کرو کہ وہ نماز کی پابندی کریں اور ان کو گلہ شکوہ اور غیبت سے رو کو.پاکبازی اور راستبازی ان کو سکھاؤ.ہماری طرف سے صرف سمجھانا شرط ہے اس پر عملدرآمد کرنا تمہارا کام ہے.پانچ وقت اپنی نمازوں میں دعا کرو اپنی زبان میں بھی دعا کرنی منع نہیں ہے.نماز کا مزا نہیں آتا ہے جب تک حضور نہ ہوا ور حضورِ قلب نہیں ہوتا ہے جب تک عا جزی نہ ہو.عاجزی جب پیدا ہوتی ہے جو یہ سمجھ آجاوے کہ کیا پڑھتا ہے اس لیے اپنی زبان میں اپنے مطالب پیش کرنے کے لیے جوش اور اضطراب پیدا ہوسکتا ہے مگر اس سے یہ ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے کہ نماز کو اپنی زبان ہی میں پڑھو، نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ مسنون ادعیہ اور اذکار کے بعد اپنی زبان میں بھی دعا کیا کرو ورنہ نماز کے ان الفاظ میں ِخدا نے ایک برکت رکھی ہوئی ہے نماز دعا ہی کا نام ہے اس لیے اس میں دعا کرو کہ وہ تم کو دنیا اور آخرت کی آفتوں سے بچا وے اور خاتمہ با لخیر ہو۱ اپنے بیوی بچوں کے لیے بھی دعا کرو نیک انسان بنو ہر قسم کی بدی سے بچتے رہو.۲ ۳۰؍ ستمبر ۱۹۰۳ء ہمیشہ موت کو یادرکھو ابو سعید صاحب احمدی نے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کی کہ میں دو تین یوم کے بعد واپس رنگون جانے والا ہوں.حضور سے درخواست
ہے کہ میرے حق میں دعا فرماویں.آپ نے فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ دعا کروں گا دنیا ایسے ہی تفرقہ کی جگہ ہے ہمیشہ موت کو یادرکھو چند روز زندگی ہے اس پر نازاں نہ ہونا چاہیے جو راستی پر ہو اور خدا پر بھروسہ کرنے والا ہو تو خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے.۱،۲ ۴؍اکتوبر ۱۹۰۳ء (بوقتِ ظہر ) حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام ظہر کی نماز ادا کرکے تشریف لے جا رہے تھے کہ سیٹھ احمددین صاحب آمدہ از جہلم نے عرض کی کہ گذشتہ ایام میں ایک شخص بیعت کرکے گیا ہے مگر وہ کہتا ہے کہ میری علمی معلومات بہت کم ہیں اور مجھے آپ کے دعاوی کے دلائل اب تک معلوم نہیں ہوئے اس لیے میرے لیے دعا فرمائی جاوے اس پر آپ نے سیٹھ صاحب کو مختصر دلائل اپنے دعاوی پر سنائے کہ اس شخص کو سمجھا دئیے جاویں.اور نیز یہ بھی فرمایا کہ خدائی کے مستحق اگر ہوسکتے تھے تو ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوسکتے تھے.کیونکہ آپ کا نہ کوئی بھائی تھا نہ بہن حا لا نکہ عیسٰیؑ کے اور بھائی اور بہن تھے.ان کمبخت مسلمانوں کو اتنا خیال نہیں آتا کہ عیسٰیؑ کے پا نچ بھائی اور دو بہنیں تھیں جو کہ مریم کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھیں پس کیا وجہ ہے کہ مریم کو خدا ؤں کی ماں اور مسیحؑ کے بھائیوں کو خدا نہ کہا جاوے.مرکز میں آکر پختگی حا صل کریں ہمیں بہت افسوس ہے کہ بعض لوگ کچے ہی آ تے ہیں اور کچے ہی چلے جاتے ہیں حالانکہ یہ ان کا فرض ہے ۱ یہ ڈائری بعینہٖ انہی الفاظ میںالحکم جلد ۷ نمبر ۳۸ صفحہ ۲ مورخہ ۱۷؍ اکتوبر میں یکم اکتوبر کی لکھی ہے.غالب قیاس یہ ہے کہ ’’الحکم‘‘ کو غلطی لگی ہے کیونکہ ’’البدر ‘‘نے لکھا ہے کہ یکم اکتوبر کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بوجہ علالت طبع تشریف نہیں لائے.واللہ اعلم بالصواب (مرتّب) ۲ البدرجلد ۲ نمبر ۳۸ مورخہ۹؍اکتوبر ۱۹۰۳ءصفحہ۲۹۸
کہ یہاں آکر چند روز رہیں اور اپنے شبہات پیش کرکے پختگی حاصل کریں تو پھر ان سے دوسرے مخالف اور عیسائی ایسے بھاگیں گے جیسے لَا حَوْلَ سے شیطان بھاگتا ہے.تعجب ہے کہ لوگ کس طرح شیطان کے بہکا نے میں آجاتے ہیں مگر یہ سب ایمان کی کمزوری کا باعث ہوتا ہے.بھلا مومن کیا اور شیطان کا بہکا ناکیا.معلوم ہوتا ہے کہ جو بہکتا ہے وہ خود شیطان ہے ورنہ سوچ کر دیکھا جاوے کہ اب ہمارے مخالفوں کے ہاتھ میں کیا رہ گیا ہے.یہ لوگ چاہتے ہیں کہ جو کچھ رطب ویا بس ان کے ہاتھ میں ہے وہ ایک ایک حرف پورا ہو حا لا نکہ نہ کبھی ایسا ہوا ہے اور نہ ہوگا یہودیوں کی احادیث اس قدر تھیں کہ وہ نہ حضرت عیسیٰ پر حرف بحرف پوری ہوئیں اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اسی لیے بہتوں نے ٹھوکر کھا ئی مگر بعض یہودی جو مسلمان ہو گئے تو اس کی یہ وجہ تھی کہ جس قدر حصہ ان احادیث کا پورا ہو گیا انہوں نے اس کو سچا مان لیااور جو نہ پورا ہوا اس کو رطب و یا بس جان کر چھوڑدیا یا ان کے اور معنے کر لئے.اگر وہ ایسا نہ کرتے تو پھر ان کو اسلام نصیب نہ ہوتا اور پھر اس کے علاوہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار وبرکات بھی دیکھے.ہر ایک قوم کے پاس کچھ سچی کچھ جھوٹی کچھ صحیح اور کچھ غلط روایات ہوتی ہیں.اگر انسان اسی بات پر اڑ جاوے کہ سب کی سب پوری ہوں تواس طرح سے کوئی شخص مان نہیں سکتا.حَکَم کے یہی معنے ہیں کہ ان میں سے سچی اور جھوٹی کو الگ کرکے دکھا دیوے.ہر ایک جو بیعت کرتاہے اسے واجب ہے کہ ہمارے دعویٰ کو خوب سمجھ لیوے ورنہ اسے گناہ ہوگا.
(دربارِ شام)۱ موت سے بڑ ھ کر کون ناصح ہوسکتا ہے ؟ موت اور اس کی تلخیوں کا ذکر چل پڑا اس پر حضرت اقدس نے فرمایا.انسان۲ ان موتوں سے عبرت نہیں پکڑتا حالانکہ اس سے بڑھ کر اور کون نا صح ہوسکتا ہے جس قدر انسان مختلف بلاد اور ممالک میں مَرتے ہیں اگر یہ سب جمع ہو کر ایک دروازہ سے نکلیں تو کیسا عبرت کا نظارہ ہوتا ہے.پھر مختلف امراض اس اس قسم کے ہیں کہ اس میں انسان کی پیش نہیں جاتی.ایک دفعہ ایک شخص میرے پاس آیا اس نے بیان کیا کہ میرے پیٹ میں رسولی پیدا ہوئی ہے اور وہ دن بدن بڑھ کر پاخانہ کے راستہ کو بند کرتی جاتی ہے.جس ڈاکٹر کے پاس میں گیا ہوں وہ یہی کہتا ہے کہ اگریہ مرض ہمیں ہوتی تو ہم بندوق مار کر خود کشی کر لیتے آخر وہ بے چارہ اسی مرض سے مَرگیا.بعض لوگ ایسے مسلول ہوتے ہیں کہ ایک ایک پیا لہ پیپ کا اندر سے نکلتا ہے ایک دفعہ ایک مریض آیا اس کی یہی حالت تھی صرف اس کا پو ست ہی رہ گیا تھا اور وہ سمجھدار بھی تھا مگر تاہم وہ یہی خیال کرتا تھا کہ میں زندہ ر ہوں گا.’الحکم‘‘ نے ڈائری پر ۳؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء کی تاریخ لکھی ہے جو درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ’’البدر‘‘ نے یکم تا ۳ ؍اکتوبر کے متعلق مندرجہ ذیل نوٹ شائع کیا ہے.’’یکم اکتوبر ۱۹۰۳ء کو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام مغرب و عشاء کی نماز باجماعت میں شامل نہیں ہوئے.نصیب اعدا آپ کی طبیعت بیمار تھی.۲،۳؍ اکتوبر کو کوئی ذکر قابل ابلاغ ناظرین نہیں ہوا.۳؍اکتوبر ۱۹۰۳ء کو پھر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام بوجہ علالت طبع شامل جماعت مغرب و عشاء نہ ہو سکے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۳۸ مورخہ ۹؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۹۸)(مرتّب) ۲ الحکم میں اس سے پہلے یہ عبارت بھی ہے.’’قاعدہ کی بات ہے کہ انسان کو جو چیز مضر ہوتی ہے ایک دوبار کے تجربہ اور مشاہدہ کے بعد اس کو چھوڑ دیتا ہے لیکن ہر روز موت کی وارداتیں ہوتی ہیں اور جنازے نکلتے ہیں مگر ان موتوں سے یہ عبرت حاصل نہیں کرتا.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۳۸ مورخہ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳)
انسان کی سخت دلی اصل میں امیدوں پر ہوتی ہے.لیکن انبیاء کی یہ حالت نہیں ہوتی.جس قدر انبیاء ہوئے ہیں سب کی یہ حالت رہی ہے کہ اگر شام ہوئی ہے تو صبح کو ان کو امید نہیں کہ ہم زندہ رہیں گے اور اگر صبح ہوئی ہے تو شام کی امید نہیں کہ ہم زندہ رہیں گے.جب تک انسان کا یہ خیال نہ ہو کہ میں ایک مَرنے والا ہوں تب تک وہ غیر اللہ سے دل لگانا چھوڑ نہیں سکتا اور آخر اس قسم کے افکار میں جان دیتا ہے مَرنے کے وقت کا کسی کو کیا علم ہوتا ہے موت تو نا گہانی آ جاتی ہے اگر کوئی غورکرے تو اسے معلوم ہو کہ یہ دنیا اور اس کا مال و متاع اور حظّ سب فانی اور جھوٹے ہیں آخر کار وہ یہاں سے تہی دست جاوے گا اور اصل مطلوب جس سے وہ خوش رہ سکتا ہے وہ خدا سے دل لگانا ہے اور گناہ کی دلیری سے آزاد رہنا.کہنے کو یہ آسان ہے اور ہر ایک زبان سے کہہ سکتا ہے کہ میرا دل خدا سے لگا ہوا ہے مگر اس کا کرنا مشکل ہے.ایک دوکاندار کو دیکھو کہ وہ وزن تو کم تولتا ہے مگر زبان سے صوفیانہ کافیاں ایسی گاتا جاوے گا کہ دوسرے کو معلوم ہو یہ بڑا خدا رسیدہ ہے.ایسی حالت میں لفظ اور باتیں تو زبان سے نکلتی ہیں مگر دل ان کی تکذیب کرتا ہے.سجادہ نشینوں کو ایسے قصے یاد ہوتے ہیں کہ دوسرا انسان سن کر گرویدہ ہو جاتا ہے حالانکہ خود ان کا عمل درآمدان پر مطلق نہیں ہوتا.مگر تاہم ایسے انسان بھی ہوتے ہیں کہ وہ بات کو سمجھ لیتے ہیں اور اس دنیا اور ما فیہا کا چھوڑ نا ان پر آسان ہوتا ہے جیسے کہ ابراہیم ادھم وغیرہ بادشاہ ہوئے ہیں کہ انہوں نے سلطنت کو ترک کر دیا.جب خوفِ الٰہی ان کے قلب پر غالب ہوا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب دنیا اور یہ خوف ایک جا جمع نہیں ہوسکتے اس لیے دنیا کو چھوڑ دیا.جب ایک شخص ایک نا پا ئدا ر لذّت میں مصروف ہو تو جب اسے چھوڑے گا اسی قدر اسے رنج ہوگا.دنیا سے دل لگانے سے دل سیاہ ہو جاتا ہے اور آئندہ نیکی کی مناسبت اس سے نہیں رہتی.مسلمانوں میں اگرچہ فاسق فاجر بادشاہ بھی گذرے ہیں مگر ایسے بھی بہت ہیں کہ انہوں نے پاکبازی اور راستی اختیار کی.۱ ۱ البدرجلد ۲ نمبر ۳۸ مورخہ۹؍اکتوبر ۱۹۰۳ءصفحہ۲۹۸،۲۹۹
۵؍ اکتو بر ۱۹۰۳ء (دربار ِشام ) ایک عیسائی سے گفتگو وہ تمام اخبارات جو کہ ردّ نصاریٰ کے بارے میں یورپ اور امر یکہ سے آئے تھے پڑھے جانے کے بعد میاں گل محمد صاحب ۱نے حضرت اقدس کو اپنی طرف مخاطب کیا اور کہا کہ میں آپ کے کہنے کے مطابق آیا ہوں.حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ ہم نے تو آپ کو بذریعہ تا راور خط کے منع کر دیا تھا کہ آپ نہ آویں.علا لتِ طبع اور ایک ضروری کام میں مصروفیت کی وجہ سے فرصت نہیں.اب آپ آگئے ہیں تو مجھے آپ کے آنے کی خوشی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ کوئی تحقیق کے واسطے میرے پاس آوے.زمانہ دن بدن راستی اختیار کرتا جاتا ہے عیسائی مذہب کی تردید اور کسر صلیب کے لئے جو کچھ مجھے خدا نے عطا کیا ہے اس کو بتلانے کو میں ہروقت طیار ہوں لیکن دوسرے موقع پر جب آپ آویں گے تو جیسے آپ کا حق ہوگا کہ سوال کریں ویسا ہی میرا حق ہوگا کہ ایک سوال کروں اور وہ سوال صرف مسیح کی الو ہیت تثلیث اور چال چلن کی نسبت ہوگا لیکن جیسے میں نے اس سوال کو مشخص کر دیا ہے.ویسے ہی آپ کو لازم ہے کہ آپ بھی اپنے سوال کومشخص کر دیویں کہ طیاری کا موقع مل جاوے.گل محمد صاحب.ہاں آپ بھی ایک سوال کریں جیسے مجھے تلاشِ حق کی ضرورت ہے ویسے ہی آپ پر ضروری ہے کہ آپ اظہار ِحق کریں.حضرت اقدس.یہ آپ سچ کہتے ہیں مگر میرے اظہار ِحق کی شہادت تو یو رپ اور امر یکہ دے رہا ہے.ابھی آپ کے سامنے اخبارات پڑھے گئے ہیں.گل محمد صاحب.لیکن ایک بات ضروری ہے کہ اگر میں دوسرے موقع پر آؤں اور آپ کو پھر فرصت نہ ہو تو چونکہ میں ایک غریب آدمی ہوں اس لیے آمد ورفت کا خرچہ آپ پرہوگا.۱ عیسائی (مرتّب)
حضرت اقدس.اگر غریب ہو تو آمدورفت کا کرایہ ہم دے دیا کریں گے اگر ہم اس طرح بوجہ نہ ہونے فر صت کے سو دفعہ واپس کریں گے تو سودفعہ کرایہ دیویں گے.میاں گل محمد صاحب نے کرایہ اس دفعہ کا طلب کیا اور اسی وقت ان کی غربت کا خیال کرکے ان کی درخواست پر (تین) روپیہ ان کو دے دیئے گئے ان باتوں پر بعض احباب میں چر چاہوا تو میاں گل محمد صاحب نے حضرت اقدس کو مخاطب ہو کر کہا.گل محمد صاحب.آپ تو تمسخر کرتے ہیں.حضرت اقدس.یہ یادرکھیے.ہمارے کام محض لِلہ ہیں.یہاں تمسخر اور مذاق نہیں ہے ہم تو ہرایک بار اپنے اوپر ڈالتے ہیں.اگرتمسخر ہوتا تو یہ زیر باری کیوں اختیار کرتے اور تین روپیہ آپ کو دے دیتے بلکہ تلاشِ حق کے لیے تو کوئی لنڈن سے بھی چل کر آوے تو ہم اس کا کرایہ دینے کو طیار ہیں.۱ ۶؍ اکتو بر ۱۹۰۳ء آج کے دن میاں گل محمد صاحب نے پھر ایک حجت کھڑی کی اور حضرت اقدس کی تحریر لینے کی کوشش کی تاکہ لاہور میں وہ پیش کرسکیں چونکہ حضرت اقدس کتاب تذکرۃ الشہادتین کی تصنیف میں مصروف تھے اور آپ کو بالکل فرصت نہ تھی آپ نے مفتی محمد صادق صاحب کو جنہوں نے میاں گل محمد صاحب سے ملاقات اور گفتگو میں کمال انٹرسٹ لیا تھا فرمایا کہ وہ جواب دیویں مگر میاں گل محمد صاحب کس کی مانتے تھے.آخر ان کے بڑے اصرار سے حضرت اقدس نے پھر ان کو ایک تحریر دی جس کی نقل ہم ذیل میں کرتے ہیں.(ایڈ یٹر) نقل رقعہ منجانب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بنام میاں گل محمد صاحب عیسائی بشرط خیر وعافیت اور نہ پیش آنے کسی مجبوری کے میری طرف سے یہ وعدہ ہے کہ اگر ۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۳ء ۱ البدرجلد ۲ نمبر ۳۹ مورخہ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۰۵
کے بعد میاں گُل محمد صاحب اس بات کی مجھے اطلاع دیں کہ وہ قادیان میں آنے کے لیے طیار ہیں تو میں ان کوبُلا لوں گا تا جو سوال کرنا ہووہ کریں.سوال صرف ایک ہوگا اورفریقین کے لیے جواب اور جواب الجواب دینے کے لیے چار دن کی مہلت ہو گی اور انہی چار دنوں کے اندر میرا بھی حق ہوگا کہ یسُوع مسیح اور اس کی خدائی کی نسبت یا انجیل اور تورات کے تناقص کی نسبت جو عیسائیوں کے موجودہ عقیدہ سے پیدا ہوتا ہے کوئی سوال کروں.ایسا ہی ان کا حق ہوگا کہ وہ جواب دیں.پھر میرا حق ہوگا کہ جواب الجواب دوں.اور یہ اَمر ضروری ہوگا کہ میاں گُل محمد صاحب قادیان سے جانے سے پہلے مجھے اطلاع دیں کہ وہ اسلام یا قرآن شریف پر کیا اعتراض کرنا چاہتے ہیں تا ہم بھی دیکھیں کہ واقعی وہ اعتراض ایسا ہے کہ یسوع مسیح کی انجیل یا اس کے چال چلن یا اس کے نشانوں پر وارد نہیں ہوتا.گو مجھے بہت افسوس ہے کہ ایسے لوگوں کو مخاطب کروں کہ ا ب بھی اور اس زمانہ میں اُس شخص کو جس کے انسانی ضعف اُس کی اصل حقیقت کو ظاہر کر رہے ہیں خدا کرکے مانتے ہیں.مگر ہمارافر ض ہے کہ ذلیل سے ذلیل مذہب والوں کو بھی ان کے چیلنج کے وقت رد نہ کریں اس لیے ہم رد نہیں کرتے.بالآخر یہ ضروری ہے کہ وہ اپنا صحیح اور پورا پتا لکھ کر مجھے دیں تا میرے جواب کے پہنچنے میں کوئی دقّت پیش نہ آوے یعنی لاہور میں کہاں اور کس محلہ میں رہتے ہیں اور پورا پتا کیا ہے مکرّر یہ کہ آپ کے اطمینان کے لیے جیسا کہ رات کو آپ نے تقاضا کیا تھا میں یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ میرے لکھنے پر قادیان میں آویں اور میری کسی مجبوری سے بغیر مباحثہ کے واپس جاویں تو میں دو طرفہ آپ کو لاہور کا کرایہ دوں گا اور جو رات کو آپ کو مبلغ تین روپے دئیے گئے ہیں.اس میں آپ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ کسی حرجہ کی رُوح سے آپ کا یہ حق تھا کیونکہ جس حالت میں ہم نے اپنی گرہ سے خرچ اُٹھا کر آپ کو روکنے کے لیے لاہور میں تار بھیج دیا تھا اور تین خط بھی بھیجے پھر اس صورت میں آپ کا یہ نقصان آپ کے ذمہ تھا مگر میں نے محض مذہبی مروّت کے طور پر آپ کو تین روپے دئیے ورنہ کچھ آپ کا حق نہ تھا.ایسا ہی اس وقت تک کہ آپ کی نیّت میں کوئی صر یح تعصب مشاہدہ نہ کروں ایسا ہی ہر ایک دفعہ بغیر آپ کے کسی حق کے
کرایہ دے سکتا ہوں محض ایک نادار خیال کرکے نہ کسی اور وجہ سے.الراقم خاکسار میرزا غلام احمد ۶؍اکتوبر ۱۹۰۳ء یہ رقعہ لے کر پھر بھی میاں گُل محمد کو قرار نہ آیا اور جبکہ ظہر کے وقت حضرت اقدس تشریف لائے تو کہنے لگے جو الفاظ میں ایزاد کرانا چاہتا ہوں وہ کر دو مگر خدا کے مسیح نے اسے مناسب نہ جانا اور آخر میاں گُل محمد صاحب رخصت ہوئے.۱ ۱۴؍ اکتو بر ۱۹۰۳ء (دربارِ شام ) دنیا کی تلخیاں شام کے وقت ایک مختصر تقریر دنیا کی تلخیوں پر فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے.تعجب ہے کہ انسان اس (دنیا) میں راحت اور آرام طلب کرتا ہے حالانکہ اس میں بڑی بڑی تلخیاں ہیں.خویش واقارب کو ترک کرنا دوستوں کا جدا ہو نا.ہر ایک محبوب سے کنارہ کشی کرنا.البتہ آرام کی صورت یہی ہے کہ خدا کے ساتھ دل لگایا جاوے جیسے کہا ہے کہ جز بخلوت گاہِ حق آرام نیست انسان ایک لحظہ میں خوشی کرتا ہے تو دوسرے لحظہ میں اسے رنج ہوتا ہے لیکن اگر رنج نہ ہو تو پھر خوشی کا مزا نہیں آتا جیسے کہ پانی کا مزا اسی وقت آتا ہے جبکہ پیاس کا درد محسوس ہواس لیے درد مقدم ہے.۲ ۱۵؍ اکتو بر ۱۹۰۳ء (دربارِ شام ) شام کے وقت ایک صاحب نے ایک بیگم صاحبہ کا پیغام آکر دیا کہ وہ کہتی ہیں کہ اگر میرا فلاں فلاں البدرجلد ۲ نمبر ۳۹ مورخہ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۰۵،۳۰۶ ۲ البدرجلد ۲ نمبر ۳۹ مورخہ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ۳۰۶
کام ہو جاوے تو میرا سب جان ومال آپ پر قر بان ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی قسم کی شرط نہ کرنی چاہیے اور نہ خدا تعالیٰ رشوت چاہتا ہے ہم بھی دعا کریں گے اور ان کو بھی چاہیے کہ عجز وانکسار سے اس کی با رگا ہ میں دعا کریں.قر آن شریف وحدیث کا مقام حضرت اقدس نے قرآن شریف اور حدیث کے ذکر پر فرمایا کہ اگر صرف احادیث پر انحصار کیا جاوے اور قرآن کریم سے اس کی صحت نہ کی جاوے تو اس کی مثال ایسی ہو گی جیسے ایک انسان کے سر کو کاٹ دیا جاوے اور صرف بال ہاتھ میں رکھ لیے جاویں اور کہا جاوے کہ یہی انسان ہے.حالانکہ بال کی زینت اور خوبی اسی وقت ہے جبکہ انسان کے ساتھ ہوں ایسے ہی حدیث اسی وقت کوئی شَے اور قابل اعتماد ہوسکتی ہے جبکہ قرآن شریف اس کے ساتھ ہو.احادیث کے اوپر نہ تو خدا کی مہر ہے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور قرآن شریف کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر:۱۰) اسی لیے ہمارا یہ مذہب ہے کہ قرآن شریف سے معارض نہ ہونے کی حالت میں ضعیف سے ضعیف حدیث پر بھی عمل کیا جاوے.لیکن اگر کوئی قصہ جو کہ قرآن شریف میں مذکور ہے اور حدیث میں اس کے خلاف پایا جاوے مثلاً قرآن میں لکھا ہے کہ اسحاقؑ ابراہیم ؑ کے بیٹے تھے اور حدیث میں لکھا ہوا ہو کہ وہ نہیں تھے تو ایسی صورت میں حدیث پر کیسے اعتماد ہوسکتا ہے.مسیح موعود کی نسبت ان کا یہ خیال کہ وہ اسرائیلی مسیح ہوگا بالکل غلط ہے قرآن شریف میں صاف لکھا ہے کہ وہ تم میں سے ہوگا جیسے سورہ نور میں ہے وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ (النّور: ۵۶) پھر بخاری میں بھی مِنْكُمْ ہی ہے پھر مسلم میں بھی مِنْكُمْ ہی صاف لکھا ہے.ان کمبختوں کو اس قدر خیال نہیں آتا اگر اسی مسیح نے پھر آنا تھا تو مِنْكُمْ کی بجائے مِنْ بَنِیْ اِسْـرَاءِ یْلَ لکھا ہوتا.اب قرآن شریف اور احادیث تو پکار پکار کر مِنْكُمْ کہہ رہے ہیں مگر ان لوگوں کا دعویٰ مِنْ بَنِیْ اِسْـرَاءِ یْلَ کا ہے سوچ کر دیکھو کہ قرآن کو چھوڑ یں یا ان کو.۱ ۱البدرجلد ۲ نمبر ۳۹ مورخہ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۰۶
اکتو بر ۱۹۰۳ء دعا اور صبر ورضا کے مقامات اس سے بڑ ھ کر انسان کے لیے فخر نہیں کہ وہ خدا کا ہو کر رہے جو اس سے تعلق رکھتے ہیں وہ ان سے مساوات بنا لیتا ہے.کبھی ان کی مانتا ہے اور کبھی اپنی منواتا ہے ایک طرف فر ماتا ہے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن:۶۱) دوسری طرف فرماتا ہے وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ (البقرۃ:۱۵۶) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک مقام دعا کا نہیں ہوتا نَبْلُوَنَّکُمْ کے موقع پر اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ:۱۵۷) کہنا پڑے گا یہ مقام صبر اور رضا کے ہوتے ہیں لوگ ایسے موقع پر دھوکا کھا تے ہیں اور کہتے ہیں کہ دعا کیوں قبول نہیں ہوتی.ان کا خیال ہے کہ خدا ہماری مٹھی میں ہے جو جب چاہیں گے منوا لیویں گے بھلا امام حسین علیہ السلام پر جوابتلا آیا تو کیا انہوں نے دعا نہ مانگی ہو گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قدر بچے فوت ہوئے تو کیا آپ نے دعا نہ کی ہو گی بات یہ ہے یہ مقام صبر اور رضا کے تھے.۱۹؍ اکتو بر ۱۹۰۳ء توبہ کی حقیقت آریہ لوگ جو توبہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ پر میشر صرف توبہ کرنے سے گناہ بخشتا ہے اور ان بد اعمالیوں کے نتائج نہیں ملتے جو اس نے کئے اس لیے یہ انصاف سے بعید ہے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان لوگوں کو توبہ کی حقیقت کا علم نہیں.توبہ اس بات کا نام نہیں ہے کہ صرف منہ سے توبہ کا لفظ کہہ دیا جاوے بلکہ حقیقی توبہ یہ ہے کہ نفس کی قربانی کی جاوے.جو شخص توبہ کرتا ہے وہ اپنے نفس پر انقلاب ڈالتا ہے گویا دوسرے لفظوں میں وہ مَر جاتا ہے.خدا کے لیے جو تغیر عظیم انسان دکھ اُٹھا کر کرتا ہے تو وہ اس کی گذشتہ بد اعمالیوں کا کفارہ ہوتا ہے.جس قدر ناجائز ذرائع معاش کے اس نے اختیار کئے ہوئے ہوتے ہیں ان کو وہ ترک کرتا ہے.عزیز دوستوں اور یاروں سے جدا ہوتا ہے.
برادری اور قوم کو اسے خدا کے واسطے ترک کرنا پڑتا ہے جب اس کا صدق کمال تک پہنچ جاتا ہے تو وہی ذات پاک تقاضا کرتی ہے کہ اس قدر قر بانیاں جو اس نے کی ہیں وہ اس کے اعمال کے کفارہ کے لیے کافی ہوں.اہل اسلام میں اب صرف الفاظ پرستی رہ گئی ہے اور وہ انقلاب جسے خدا چاہتا ہے وہ بھول گئے ہیں اس لیے انہوں نے توبہ کو بھی الفاظ تک محدود کر دیا ہے لیکن قرآن شریف کا منشا یہ ہے کہ نفس کی قربانی پیش کی جاوے مَنْ قَضٰى نَحْبَهٗ (الاحزاب:۲۴) دلالت کرتا ہے کہ وہ توبہ یہ ہے جو انہوں نے کی اور مَنْ يَّنْتَظِرُ بتلاتا ہے کہ وہ یہ توبہ ہے جو انہوں نے کرکے دکھلانی ہے اور وہ منتظر ہیں.جب انسان خدا کی طرف بکلی آجاتا ہے اور نفس کی طرف کو بکلی چھوڑ دیتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کا دوست ہو جاتا ہے تو کیا وہ پھر دوست کو دوزخ میں ڈال دے گا؟ نَحْنُ اَوْلِیَآءُ اللّٰہِ۱ سے ظاہر ہے کہ اَحِبَّاء کو دوزخ میں نہیں ڈالتے.۲۰؍ اکتو بر ۱۹۰۳ء ایک رؤیا شام کے وقت حضرت اقدس نے ذیل کی رؤیا بیان فرمائی کہ ایک بڑا تخت مربع شکل کا ہندوؤں کے درمیان بچھا ہوا ہے جس پرمَیں بیٹھا ہوا ہوں ایک ہندو کسی کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ کرشن جی کہاں ہیں؟ جس سے سوال کیا گیا وہ میری طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ یہ ہے پھر تمام ہندو روپیہ وغیرہ نذرکے طور پر دینے لگے اتنے ہجوم میں سے ایک ہندو بولا ہے کر شن جی رودّر گو پال (یہ ایک عرصہ دراز کی رؤیا ہے ) ۱ ڈائری نویس یا کاتب کی غلطی معلوم ہوتی ہے مضمون کے لحاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗ١ؕ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ(المآئدۃ:۱۹) سے استدلال فرمایا ہوگا کہ ’’احباء کو دوزخ میں نہیں ڈالتے.‘‘واللہ اعلم بالصواب (مرتّب)
۲۱؍ اکتو بر ۱۹۰۳ء امامت نہ کرانے کی وجہ امامت نماز کی نسبت ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور کس لیے نماز نہیں پڑھا تے؟ فرمایا کہ حدیث میں آیا ہے کہ مسیح جو آنے والا ہے وہ دوسروں کے پیچھے نماز پڑھے گا.۱ ۲۲؍ اکتو بر۱۹۰۳ء ایک آسڑیلوی نو مسلم کے استفسارات کے جوابات ایک یورپین صاحب بہمراہی میاں معراج الدین عمر و حکیم نور محمد صاحب احمدی عصر کے وقت قادیان پہنچ گئے جہاں قادیانی احمدی احباب نے بڑے تپاک سے ان کا استقبال کیا.نماز مغرب میں وہ جماعت کے ساتھ شامل ہوئے بعد ادائیگی نماز میاں معراج الدین صاحب عمر نے ان کو حضرت اقدس سے انٹر وڈیوس کیا اور ان کے مزید حالات سے یوں اطلاع دی کہ یہ ایک صاحب ہیں جو کہ آسٹریلیا سے آئے ہیں ۷ سال سے مشرف با سلام ہیں اخبارات میں بھی آپ کا چر چا رہا ہے آسٹریلیا سے یہ لنڈن گئے اور وہاں سفیرِروم سے انہوں نے ارادہ ظاہر کیا کہ اسلامی علوم سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہوں.سفیرِ روم نے ان کو کہا کہ تم قاہر ہ (دارالسلطنت)مصر میں جاؤ مگرتا ہم مشورہ کے طور پر لارڈ سٹینلے نے ان کو مشورہ دیا کہ تمہارا یہ مدعا بمبئی میں حاصل ہوگا.یہ وہاں پھر تے ہوئے کلکتہ آئے.راستہ میں ایک رؤیا دیکھی اور اس جگہ سے لاہور آئے.جہاں کہ انہوں نے حضور کا تذکرہ سنا اب زیارت کے لیے یہاں حاضر ہوئے.اب ہم ذیل میں وہ گفتگو درج کرتے ہیں جو کہ نومسلم صاحب اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درمیان ہوئی.مشرف باسلام ہو کر ان کا نام محمد عبد الحق رکھا گیا تھا.۱ البدرجلد ۲ نمبر ۴۱ ،۴۲ مورخہ۲۹؍اکتوبر ، ۸؍ نومبر ۱۹۰۳ءصفحہ ۳۲۱،۳۲۲
کا نام محمد عبد الحق رکھا گیا تھا.ذیل کی گفتگو جوکہ محمد عبد الحق صاحب اور حضرت اقدس کے مابین ہوئی.اس کے ترجمان خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر بی.اے تھے.محمد عبد الحق صاحب.میں جہاں کہیں پھرتا رہا ہوں میرا واسطہ ایسے مسلمانوں سے رہا ہے جو کہ یا تو خودانگر یزی جانتے تھے اوربا لمشافہ مجھ سے گفتگو کرتے تھے اور یا بذریعہ تر جمان کے ہم اپنے مطالب کا اظہار کرتے تھے میں نے ایک حد تک لوگوں کے خیالات سے فائدہ اُٹھایا اور بیرونی دنیا میں جو اہلِ اسلام ہیں ان کے کیا حا لات اور خیالات ہیں.اس کے تعارف کی آرزو رہی.رُوحانی طور سے جو میل جول ایک کو دوسرے سے ہوسکتا ہے اس کے لیے زبان دانی کی ضرورت نہیں ہے اوراس رُوحانی تعلق سے انسان ایک دوسرے سے جلد مستفید ہوسکتا ہے.حضرت مسیح موعود.ہمارے مذہبِ اسلام کے طریق کے موافق روحانی طریق صرف دعا اور توجہ ہے لیکن اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے وقت چاہیے کیونکہ جب تک ایک دوسرے کے تعلقات گاڑھے نہ ہوں اور دلی محبت کا رشتہ قائم نہ ہو جائے تب تک اس کا اثر محسوس نہیں ہوتا.ہدایت کا طریق یہی دعا اور توجہ ہے.ظاہری قیل وقال اور لفظوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا.محمد عبد الحق صاحب.میری فطرت اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ رُوحانی اتحاد کو پسند کرتی ہے میں اسی کا پیاسا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس سے بھر جاؤں.جس وقت سے میں قادیان میں داخل ہوا ہوں.میں دیکھتا ہوں کہ میرا دل تسلی پاگیا ہے اور اب تک جس جس سے میری ملاقات ہوئی ہے مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سے میرا دیرینہ تعارف ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام.خدا کا قانونِ قدرت ہے کہ ہر ایک رُوح ایک قالب کو چاہتی ہے جب وہ قالب طیار ہوتا ہے تو اس میں نفخ رُوح خو دبخود ہو جاتا ہے.آپ کے لیے یہ ضروری اَمر ہے کہ جو حقیقت خدا نے مجھ پر کھولی ہے اُس سے آہستہ آہستہ آگاہی پالیویں.عام اہلِ اسلام میں جس قدر عقائد اشاعت پائے ہوئے ہیں ان میں بہت سی غلطیاں ہیں اور یہ غلطیاں
ان میں عیسائیوں کے میل جول سے آئی ہیں لیکن اب خدا چاہتا ہے کہ اسلام کا پاک اور منور چہرہ دنیا کو دکھلاوے.رُوحانی ترقی کے لیے عقیدہ کی صفائی ضروری ہے.جس قدر عقیدہ صاف ہوگا اسی قدر ترقی ہو گی.دعا اور توجہ کی ضرورت اس اَمر میں اسی لیے ہوتی ہے کہ بعض لوگ غفلت کی وجہ سے محجوب ہوتے ہیں اور بعض کو تعصب کی وجہ سے حجاب حائل ہوتا ہے اور بعض اس لیے حجاب میں رہتے ہیں کہ اہلِ حق سے ان کو ارادت نہیں ہوتی مگر جب تک خدا دستگیری نہ کرے یہ حجاب دور نہیں ہوتے.پس اس لیے توجہ اور دعا کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ حجاب دور ہوں.جب سے یہ سلسلہ نبوت کا قائم ہے تب سے یہ اسی طرح چلا آتا ہے کہ ظاہری قیل وقال اس میں کچھ نہیں بناتی ہمیشہ توجہ اور دعا سے لوگ مستفید ہوتے ہیں.دیکھو ایک زمانہ وہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تن تنہا تھے مگر لوگ حقیقی تقویٰ کی طرف کھچے چلے آتے تھے حالانکہ اب اس وقت لاکھوں مولوی اور واعظ موجود ہیں.لیکن چونکہ دیانت نہیں، وہ رُوحانیت نہیں اس لیے وہ اثر اندازی بھی ان کے اندر نہیں ہے.انسان کے اندر جو زہریلا مواد ہوتا ہے وہ ظاہری قیل وقال سے دور نہیں ہوتا.اس کے لیے صحبت صالحین اور ان کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے فیض یافتہ ہونے کے لیے ان کے ہمرنگ ہونا اور جو عقائد صحیحہ خدا نے ان کو سمجھائے ہیں ان کو سمجھ لینا بہت ضروری ہے.جب آپ کو اس بات کا علم ہو جاوے گا کہ فلاں فلاں عقائد ہیں جس میں عامہ اہلِ اسلام کا اور ہمارا اختلاف ہے تو پھر آپ کی طاقت (اثر اندازی)بڑھ جاوے گی اور آپ اس رُوحانیت سے مستفید ہوں گے جس کی تلاش میں آپ ہیں.محمد عبد الحق صاحب.مجھے ہمیشہ اس اَمر کی تلاش رہی ہے کہ رُوحانی اتحاد اور اُنس کسی سے حاصل ہو اور اسی لیے میں جہاں کہیں پھرتا رہا ہوں ہمیشہ قدرتی نظاروں سے بطور تفاؤل کے سبق حاصل کرتا رہا ہوں.اسی طرح آج میں دیکھتا ہوں کہ میرا آنا اور نئے چاند کا پیدا ہونا (آج شعبان کا چاند نظر آیا تھا)ایک ساتھ ہے.چاند کے ابتدائی دن چونکہ ترقی اور حصولِ کمال کے ہوتے ہیں جیسے جیسے یہ ترقی
کرے گا اور کمال کو پہنچے گا ویسے ہی میں بھی ترقی اور کمال کو پہنچوں گا(بشرطیکہ قادیان میں مستقل قیام رہا)میرے وہم اور گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ میں آج ہی ایسے موقع پر یہاں وارد ہوں گا جبکہ نئے چاند کا ظہور ہوگا.کلکتہ میں جو خط بعض لوگوں نے مجھے دئیے اگر میں ان پر عملدر آمد کرتا تو کہیں کا کہیں ہوتا مگر یہاں آکر مجھے معلوم ہو اکہ جن لوگوں کی تلاش میں مَیں ہوں وہ لوگ یہی ہیں رنگون میں مَیں نے آپ کے حالا ت سنے اور چند ایک تصانیف بھی دیکھی تھیں مگر مجھے آپ کا پتا معلوم نہ ہوا اور نہ یہ امید تھی کہ اس قدر جلد میں یہاں پہنچ جا ؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام.ان باتوں سے فراست تو گواہی دیتی ہے کہ آپ ہماری شرائط کے موافق ہو ں گے اور خدا چاہے تو اثر بھی قبول کرسکیں گے لیکن یادرکھو کہ سنّت اللہ یوں ہے کہ دو باتیں اگر ہوں تو انسان حصول فیض میں کامیاب ہوتا ہے ایک یہ کہ وقت خرچ کرکے صحبت میں رہے اور اس کے کلام کو سنتا رہے اور اثنائے تقریر یا تحریر میں اگر کوئی شبہ یا دغد غہ پیدا ہو تو اسے مخفی نہ رکھے بلکہ انشراحِ صدر سے اسی وقت ظاہر کرے تاکہ اسی آن میں تدارک کیا جاوے اور وہ کا نٹا جو دل میں چبھا ہے نکالا جاوے تاکہ وہ اس کے ساتھ روحانی توجہ سے استفادہ حاصل کرسکے.ایک بات یہ کہ صبرسے صحبت میں رہے اور ہر ایک بات توجہ سے سنے اور شبہ کو مخفی نہ رکھے کیونکہ اس کا اخفا زہر کی طرح مہلک اثررکھتا ہے جو کہ اندر ہی اندر سرایت کرکے ہلاک کر دیتا ہے اور اکثر آدمی اس سے ہلاک ہو جاتے ہیں.۱ دوسری بات یہ ہے کہ جب آسمان سے ایک نیا انتظام ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی ما مورآتا ہے اور چونکہ اس کا فعل یہی ہوتا ہے کہ ہر ایک فرقہ کی غلطی نکالے اس لیے سب لوگ اس کے دشمن ہو جاتے ہیں اور ہر طرح سے اذیت اور تکلیف دینے کی کوشش کرتے ہیں تو جب کوئی اس کے سلسلہ میں داخل ہوتا ہے تو اسے بھی یہ تمام دکھ برداشت کرنے پڑتے ہیں دشمنوں کے خطرناک حملے اس پر بھی ہوتے ہیں.ہر ایک دوست اور اپنا بیگانہ دشمن ہو جاتا ہے اور جس جس پر اسے امید ہوتی ہے وہ تمام خاک ۱ البدرجلد ۲ نمبر ۴۰ مورخہ۲۳؍اکتوبر ۱۹۰۳ءصفحہ۳۱۸
میں ملتی ہے نا امیدی اور ما یو سی کی سخت دشوار گذارراہ میں داخل ہونا پڑتا ہے جس قدر امیدیں عزّت اور آبرو اور جا ہ اور منزلت کے حصول کی لوگوں سے اس نے باندھی ہوتی ہے ان سب پر پانی پھر جاتا ہے.جیسا کہ دنیا کی یہ قدیمی سنّت چلی آئی ہے ان تمام ناامیدیوں اور مایوسیوں کے لیے طیار رہنا اور ان کا برداشت کرنا ضروری ہے.انسان اگر شیر دل ہو کر ان کا مقابلہ کرے تو ٹھہر سکتا ہے ورنہ دیکھاگیا ہے کہ لوگ شوق سے اس میدا ن میں داخل ہوتے ہیں مگر جب یہ تمام بوجھ ان پر پڑتے ہیں تو آخر کار دنیا کی طرف جھک جاتے ہیں.ان کا قلب اس نقصان کو جو دنیا اور اس کے اہل سے پہنچتا ہے برداشت نہیں کرسکتا اس لیے ان کا انجام ان کے اوّل سے بھی بدتر ہوتا ہے.تو یہ اَمر ضروری ہے کہ دنیا کا لعن طعن برداشت کرکے اور ہر طرح سے ناامیدیوں کے لئے طیار ہو کر اگر داخل سلسلہ ہو تو حق کو جلد پا وے گا اور جو کچھ اسے ابتدا میں چھوڑ نا پڑے گا وہ سب آخر کار اللہ تعالیٰ اسے دید ے گا ایک تخم جس کے لیے مقدر ہے کہ وہ پھل لا وے اور بڑا درخت بنے ضرور ہے کہ اوّل چند دن مٹی کے نیچے دبا رہے تب وہ درخت بن سکے گا اس لیے صبر ضروری ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو گرا دے پھر قدرت الٰہی اسے اٹھا وے جس سے اس کا نشوونما ہو.مسڑ وب پہلی دفعہ اسی طرح ہماری طرف جھکے مگر پیچھے وہ قائم نہ رہ سکے اب وہ تمام باتوں کا اعتراف کرتے ہیں.محمد عبدالحق صاحب.بذریعہ خط وکتا بت مسڑ وب سے میری ملاقات ہے اور میں ان کو اس وقت سے جانتاہوں جبکہ وہ ہندوستان میں آئے اور ان کے حالات سے خوب واقف ہوں اور جو شرائط اپنے سلسلہ میں داخل ہونے کے آپ نے بیان کئے ہیں میں انہی کو اسلام کی شرائط خیال کرتا ہوں.جو مسلمان ہوگا اس کے لیے ان تمام باتوں کا نشا نہ ہونا ضروری ہے آپ کے ساتھ ملنے سے جو نقصانات مجھ کو ہوسکتے ہیں اکثر مسلمان لوگوں نے اوّل ہی سے مجھے ان کی اطلا ع دی ہے اور باوجود اس اطلاع اور علم کے میں یہاں آیا ہوں.حضرت اقدسؑ.ہمارے اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم ایک سادہ زندگی بسر کرتے ہیں وہ تمام تکلّفات جو کہ آج کل یو رپ نے لوازمہ زندگی بنا رکھے ہیں ان سے ہماری مجلس پاک ہے
رسم وعادت کے ہم پا بند نہیں ہیں.اس حد تک ہر ایک عادت کی رعا یت رکھتے ہیں کہ جس کے ترک سے کسی تکلیف یا معصیت کا اندیشہ ہو باقی کھانے پینے اور نشست وبر خاست میں ہم سادہ زندگی کو پسند کرتے ہیں.محمد عبد الحق صاحب.جب سے میں اسلام میں داخل ہوا ہوں اور روحانیت سے حصہ لیا ہے میں سادگی سے محبت کرتا ہوں اسی لیے اگر یہاں رہوں تو مجھے تکلیف نہ ہو گی دنیا میں مَیں نے جس قدر سفر کیا ہے اس سے مجھے تجربہ ہوا ہے کہ سادہ زند گی والا اور گوشہ نشین انسان بہت آرام سے زندگی بسر کرتا ہے.۱ ۲۳؍اکتو بر ۱۹۰۳ء محمد عبدالحق صاحب کی طرف سے میاں معراج الدین صاحب عمر نے بیان کیا کہ آج یہ صاحب حضرت حکیم نورالدین صاحب سے قرآن کریم کے کچھ معانی سنتے رہے ہیں اور ان کو سن کر ان کی یہ رائے قرار پائی ہے کہ اس قسم کے تر جمہ کی بڑی ضرورت ہے اکثر لوگوں نے دوسرے ترجموں سے دھوکا کھا یا ہے اور ان کی خواہش ہے کہ حضور کی طرف سے ایک تر جمہ شائع ہو.حضرت مسیح موعودؑ.میرا خود بھی یہ ارادہ ہے کہ ایک تر جمہ قرآن شریف کا ہمارے سلسلہ کی طرف سے نکلے.محمد عبد الحق صاحب.اس کی ضرورت کو یورپین لوگوں میں مجھ سے زیادہ کوئی اور محسوس نہیں کرسکتا.سب آدمی میری طرح متلاشی حق ہیں اور حق کو بہت جد وجہد سے در یافت کرنے کے بعد پھر ان غلط ترجموں کے ذریعہ سے ضلالت کی طرف جانا پڑتا ہے.حضرت مسیح موعودؑ.صرف قر آن کا تر جمہ اصل میں مفید نہیں جب تک اس کے ساتھ تفسیر نہ ہو مثلاً غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ (الفاتـحۃ:۷) کی نسبت کسی کو کیا سمجھ آسکتا ہے کہ اس سے ۱ البدرجلد ۲ نمبر ۴۱،۴۲ مورخہ۲۹؍اکتوبر و۸ ؍نو مبر۱۹۰۳ءصفحہ۳۲۴، ۳۲۵
مُراد یہود نصاریٰ ہیں جب تک کہ کھول کر نہ بتلایا جاوے اور پھر یہ دعا مسلمانوں کو کیوں سکھلائی گئی.اس کا یہی منشا تھا کہ جیسے یہودیوں نے حضرت مسیحؑ کا انکار کرکے خدا کا غضب کما یا ایسے ہی آخری زمانہ میں اس امت نے بھی مسیح موعود کا انکار کرکے خدا کا غضب کمانا تھا اسی لیے اوّل ہی ان کو بطور پیشگوئی کے اطلا ع دی گئی کہ سعید روحیں اس وقت غضب سے بچ سکیں.محمد عبد الحق صاحب.مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ (النسآء:۱۵۸) کی نسبت بیان کیا کہ عوام اہل اسلام اور بعض تفاسیر میں اس کی نسبت لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ایک اور آدمی مسیح کی شکل کا بن گیا اسے پھا نسی دی گئی اور مسیح آسمان پر چلا گیا.....حضر ت مسیح موعودؑ.اس کا سمجھنا بہت آسان ہے عام محاورہ زبان میں اگر یہ کہا جاوے کہ فلاں مصلوب ہوا یا پھا نسی دیا گیا تو اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ صلیب پر اس کی جان نکل گئی.اگر کوئی مجرم پھا نسی پر لٹکا یاجاوے مگر اس کی جان نہ نکلے اور زندہ اتار لیا جاوے تو کیا اس کی نسبت پھانسی دیا گیا یا مصلوب کا لفظ بولا جاوے گا؟ ہرگز نہیں بلکہ اس کی نسبت یہ الفاظ بو لنے ہی جرم ہو ں گے مصلوب اسے کہتے ہیں کہ جس کی جان صلیب پر نکل جاوے اور جس کی جان نہ نکلے اسے مصلوب نہیں کہتے خواہ وہ صلیب پر چڑھا کر اتار لیا گیا ہو یہودی زندہ موجود ہیں ان سے دریافت کر لو آیا مصلوب کے یہ معنے ہیں جو ہم کرتے ہیں یا وہ جو ہمارے مخالف کرتے ہیں پھر محاورہ زبان کو بھی دیکھنا چاہیے.مَا صَلَبُوْهُ کے ساتھ ہی مَا قَتَلُوْهُ رکھ دیا کہ بات سمجھ میں آجاوے کہ صلیب سے مُراد جان لینی تھی جو کہ نہیں لی گئی اور صلیبی قتل وقوع میں نہیں آیا.شُبِّهَ لَهُمْ (النسآء:۱۵۸) کے معنے ہیں مشبہ با لمصلوب ہو گیا.اس میں ان لوگوں کا یہ قول کہ کوئی اور آدمی مسیحؑ کی شکل بن گیا تھا بالکل باطل ہے.عقل بھی اسے قبول نہیں کرتی اور نہ کوئی روایت اس کے با رے میں صحیح موجود ہے.بھلا سوچ کر دیکھو کہ اگر کوئی اور آدمی مسیح کی شکل بن گیا تھا تو وہ دو حال سے خالی نہ ہوگا یا تو مسیح کا دوست ہوگا یا اس کا دشمن.اگر دوست ہوگا تو یہ اعتراض ہے کہ جس لعنت سے خدا نے مسیحؑ کو بچانا چاہاوہ اس کے دوست کو کیوں دی؟ اس سے خدا ظا لم ٹھہرتا ہے اور اگر وہ دشمن تھا تو اسے کیا ضرورت تھی.کہ وہ مسیح کی جگہ
پھانسی ملتا اس نے دوہائی دی ہو گی اور چلا یا ہوگا کہ میرے بیوی بچوں سے پو چھومیرا فلاں نام ہے اور میں مسیح نہیں ہوں.پھر اکثر موجودہ آدمیوں کی تعداد میں سے بھی ایک آدمی کم ہو گیا ہوگا جس سے معاً پتا لگ سکتا ہے کہ یہ شخص مسیح نہیں غرضیکہ ہر طرح سے یہ خیال باطل ہے اور شُبِّهَ لَهُمْ (النسآء:۱۵۸) سے مُراد مشبہ با لمصلوب ہے.محمد عبدالحق صاحب.یہ خیال یورپ میں ایک انقلاب ِعظیم پیدا کرے گا کیونکہ وہاں لوگوں کو دھوکا دیا گیا ہے اور کچھ کا کچھ سمجھایا گیا ہے.حضرت مسیح موعودؑ.عام لوگ جو بیان کرتے ہیں یہ منشا قرآنِ کریم کا ہرگز نہیں ہے اور اس سے لوگوں کودھو کا لگا ہے.محمد عبدالحق صاحب.اسلام کے عقائد ہم تک عیسائیوں کے ذریعے پہنچے ہیں اور اسلام کا اصل چہرہ دیکھنے کے واسطے میں باہر نکلا ہوں.حضرت مسیح موعودؑ.یہ خدا کا بڑا فضل ہے اور خوش قسمتی آپ کی ہے کہ آپ ادھر آنکلے یہ بات واقعی سچ ہے کہ جو مسلمان ہیں یہ قرآن شریف کو بالکل نہیں سمجھتے لیکن اب خدا کا ارادہ ہے کہ صحیح معنے قرآن کے ظاہر کرے خدا نے اسی لیے مجھے مامور کیا اور میں اس کے الہام اوروحی سے قرآن شریف کو سمجھتا ہوں.قرآن شریف کی ایسی تعلیم ہے کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں آسکتا اور معقولا ت سے ایسی پُر ہے کہ ایک فلا سفر کو بھی اعتراض کا موقع نہیں ملتا مگر ان مسلمانوں نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا ہے اور اپنی طرف سے ایسی ایسی باتیں بناکر قرآن شریف کی طرف منسوب کرتے ہیں جس سے قدم قدم پر اعتراض وار د ہوتا ہے اور ایسے دعاوی اپنی طرف سے کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں نہیں ہے اور وہ سراسر اس کے خلاف ہیں مثلاً اب یہی واقعہ صلیب کا دیکھو کہ اس میں کس قدر افترا سے کام لیا گیا ہے اور قرآن کریم کی مخالفت کی گئی ہے اور یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے اور قرآن کے بھی برخلاف ہے.اس کے بعد حضرت اقدس نے لفظ توفی کی نسبت سمجھا یا کہ اس میں اہل اسلام نے کیاٹھو کر کھائی
ہے اور بتلا یا کہ صرف مسیح کے واقعہ میں اس کے معنے اٹھا لینے کے کرتے ہیں.حالانکہ اسی قرآن میں اور جہاں کہیں یہ لفظ آیا ہے اور لغت اور دوسری کتب عربیہ سب جگہ اس کا تر جمہ موت کرتے ہیں.محمد عبدالحق صاحب.یہ ضروری کام ہے جو کہ آپ نے اختیار کیا ہے اور اس کی ضرورت نہ صرف اہل اسلام کو ہے بلکہ عیسائیوں کو بھی بہت ہے.مجھے قادیان میں آنے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ سلسلہ بہت ہی مفید ہے اور ابتدا سے میری یہ خواہش ہے کہ اس قدر عظیم الشان کام کے واسطے جیسے کہ یہ ہے خدا تعالیٰ مجھے بھی ایک ہتھیار بنا دے اور اس میں سے مجھے بھی حصہ ملے.حضرت مسیح موعودؑ.ہم ہمیشہ دعا کرتے ہیں اور ہماری ہمیشہ سے یہ آرزو ہے کہ یورپین لوگوں میں سے کوئی ایسا نکلے جو اس سلسلہ کے لیے زندگی کا حصہ وقف کرے لیکن ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کہ کچھ عرصہ صحبت میں رہ کر رفتہ رفتہ وہ تمام ضروری اصول سیکھ لیوے جن سے اہل اسلام پر سے ہرایک داغ دور ہوسکتا ہے اور وہ تمام قوت اور شوکت سے بھرے ہوئے دلائل سمجھ لیوے جن سے یہ مرحلہ طے ہوسکتا ہے.تب وہ دوسرے ممالک میں جا کر اس خدمت کو ادا کرسکتا ہے.اس خدمت کے برداشت کرنے کے لیے ایک پاک اور قوی روح کی ضرورت ہے جس میں یہ ہو گی وہ اعلیٰ درجہ کا مفید انسان ہوگا اور خدا کے نزدیک آسمان پر ایک عظیم الشا ن انسان قرار دیا جاوے گا.محمد عبدالحق صاحب.میں کل یہاں سے رخصت ہوں گا اور ایک ضروری خدمت کو سرانجام دینے کے لیے جو کہ بنی نوع انسان کی خدمت پر مبنی ہے آخر دسمبرتک ہندوستان کے مختلف مقامات پر دورہ کروں گا.وہ آسڑ یلیا میں ہندوستا نی تا جروں کی بندش کوآزاد کرانے کی تجویز ہے.اس دورہ کے بعد پھر میں دیکھوں گا کہ میں کون سی راہ اختیار کروں.حضرت مسیح موعودؑ.قرآن شریف کی تفسیر تو اپنے وقت پر ہو گی لیکن اگر خدا آپ کے دل میں ڈالے اور آپ یہاں آکر رہیں تو قرآن شریف کے اس حصہ کی تفسیر سردست کر دی جاوے جن پر ہرایک غیر مذہب نے کم فہمی سے اعتراض کئے ہیں یا اہل اسلام نے ان کے سمجھنے میں غلطی کھا ئی ہے.اوّل اس کی فہرست طیار کر لی جاوے گی اور وہ بہت بڑی نہ ہو گی کیونکہ ایک ہی اعتراض کو ہر ایک فرقہ
نے بار بار تکرا ر سے بیان کیا ہے اس لیے وقتاً فوقتاً اگر اس کی حقیقت آپ کے ذہن نشین کر دی جاوے تو اس حصہ کی تفسیر ہو جاوے اور اس کے ذریعہ سے یورپ میں ہر ایک اعتراض کا جواب دیا جا سکے اور اس طرح سے جو دھوکا اہل یورپ کو لگا ہے وہ نکل جاوے گا.۱ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۳ء ظہر کے وقت حضرت اقدس نے یہ تقریر فرمائی.ترکِ دنیا کی اہمیت جو شخص دنیا کو ردّ نہیں کرسکتا وہ ہمارے سلسلہ کی طرف نہیں آ سکتا.دیکھو حضرت ابو بکرؓ نے سب سے اوّل دنیا کو ردّ کیا اور آپ کی آخری پوشاک یہی تھی کہ کمبل پہن کر آپ آحاضر ہوئے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب سے اوّل تخت پر جگہ دی.وجہ اس کی یہی تھی کہ آپ نے سب سے اوّل فقر اختیار کیا تھا خدا تعالیٰ کی ذات پاک ہے کہ کسی کا قرضہ اپنے ذمہ نہیں رکھتی.اوائل میں نقصان ضرور ہوتے ہیں.دوستوں یاروں کے تعلقات قطع کرنے پڑتے ہیں لیکن ان سب کا بدلہ آخر کار دیتاہے.ایک چوڑھے اور چمار کی خاطر جب ایک کام کیا جاوے اور تکلیف برداشت کی جاوے تو وہ اپنے ذمہ نہیںرکھتا تو پھر خدا کس لیے اپنے ذمہ رکھے.وہ آخر کار سب کچھ دے دیتا ہے.بار ہا ہم نے سمجھایا ہے کہ جس شخص کو اَور اَور اغراض سوائے دین کے ہیں وہ ہمارے سلسلہ میں داخل نہیں ہوسکتا.دو کشتیوں میں پائوں رکھ کر پار اُترنا مشکل ہے اسی لیے جو ہمارے پاس آوے گا وہ مَر کر آوے گا لیکن خدا اس کی قدر کرے گا اور وہ نہ مَرے گا جب تک کہ دنیا میں کامیابی نہ دیکھ لے گا.جو کچھ برباد کرکے آوے گا خدا اسے سب کچھ پھردے گا.لیکن ایک دنیا دار قدم نہیں اُٹھا سکتا.اصل بات یہ ہے کہ انسان خود ہی غداری کرتا ہے کہ نام تو خدا کی طرف آنے کا کرتا ہے اور اس کی نظر اہل دنیا کی طرف ہوتی ہے.۱ البدرجلد ۲ نمبر ۴۱،۴۲ مورخہ۲۹؍اکتوبر، ۸ ؍نو مبر۱۹۰۳ءصفحہ۳۲۲،۳۲۳
جو قدر اس سلسلہ میں داخل ہونے کی اس وقت ہے وہ بعد ازاں نہ ہوگی.مہاجرین وغیرہ کی نسبت قرآن شریف میں کیسے کیسے الفاظ آئے ہیں جیسے رضی اللہ عنہم.لیکن جو لوگ فتح کے بعد داخل ہوئے کیا ان کو بھی یہ کہا گیا؟ہر گز نہیں.ان کا نام ناس رکھا گیا اور لوگوں سے بڑھ کر کوئی خطاب ان کو نہ ملا.خدا کے نزدیک عزّتوں اور خطابوں کے یہی وقت ہوتے ہیں کہ جب اس سلسلہ میں داخل ہونے سے برادری،رشتہ دار وغیرہ سب دشمن جان ہو جاتے ہیں.خدا تعالیٰ شرک کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ کچھ حصہ اس کا ہو اور کچھ غیر کا بلکہ ایک جگہ فرماتا ہے کہ اگرتم کچھ مجھ کو دینا چاہتے ہو اور کچھ بتوں کو تو سب کا سب بتوں کودے دو.اس وقت کا تخم بویا ہوا ہرگز ضائع نہیں ہوگا.کیا آج تک کے تجربہ نے ان لوگوں کو بتلا نہیں دیا کہ یہ پودا ضائع ہونے والا نہیں.قرآن شریف،احادیثِ صحیحہ اور نشاناتِ آسمانی سب ہماری تائید میں ہیں اور بیّن طور پر سب کچھ ثابت ہو گیا ہے.اب جو اس سے فائدہ نہ اُٹھاوے وہ موردِ غضب الٰہی ہے.خدا غفور اور کریم،حنان اور منان ہے مگر یہ انسان کی شوخی اور بد بختی ہے کہ اس کے مائدہ کو وہ ردّ کرتا ہے اور غضب کا مستحق ہو جاتا ہے اگر یہ انسان کا کاروبار ہوتا تو کب کا تباہ ہو جاتا.انسان کو خدا کا خوف اور ڈر رکھنا چاہیے اور برادری اور رسوم سے ڈر کر خدا کی راہ کو ترک نہ کرنا چاہیے.جب انسان کا مدد گار اور معاون خداہو جاتا ہے تو پھر اسے کوئی کمی نہیں.خداداری چہ غم داری.اس قدر انبیاء جو آئے ہیں کیا خدا نے ان سے کسی قسم کی دغا کی ہے جو اَب کسی سے کرے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کچھ ہوا.ہر وقت جان کا خطرہ تھا.ہر ایک طرف سے دھمکی ملتی تھی مگر کیا لوگوں نے اور قوم اور برادری نے آپ کو تباہ کردیا؟ہرگز نہیں.بلکہ وہ خود تباہ ہوئے اور آج کوئی ایک بھی نہیں جو اپنے آپ کو ابو جہل کی اولاد بتلاتا ہو مگر آنحضرت ؐ کے نام لیوا اور آپ کی اولاد سے دنیا بھری پڑی ہے.۱ ۱ البدرجلد ۲ نمبر ۴۱، ۴۲ مورخہ ۲۹ ؍اکتوبر ، ۸؍نومبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۲۳
۳۰؍اکتوبر۱۹۰۳ء طاعون کا نشان مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد حضرت اقدس حسب دستور شہ نشین پر جلوہ افروز ہوئے اور طاعون کا ذکر ہوا.اس پر آپ نے فرمایاکہ خدا تعالیٰ نے اگرچہ جماعت کو وعدہ دیا ہے کہ وہ اسے اس بلا سے محفوظ رکھے گا.مگر اس میں بھی ایک شرط لگی ہوئی ہے کہ لَمْ يَلْبِسُوْۤا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ (الانعام:۸۳)کہ جو لوگ اپنے ایمانوں کو ظلم سے نہ ملاویں گے وہ امن میں رہیں گے پھر دار کی نسبت وعدہ دیا تو اس میں بھی شرط رکھ دی ہے کہ اِلَّاالَّذِیْنَ عَلَوْا بِالْاِسْتِکْبَارِاس میں عَلَوْا کے لفظ سے مُراد یہ ہے کہ جس قسم کی اطاعت انکساری کے ساتھ چاہیے وہ بجا نہ لاوے.جب تک انسان حُسنِ نیتی جس کو حقیقی سجدہ کہتے ہیں بجا نہ لاوے تب تک وہ دار میں نہیں ہے اور مومن ہونے کا دعویٰ بے فائدہ ہے.لَمْ يَلْبِسُوْۤا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ میں شرک سے یہ مُراد نہیں ہے کہ ہندوؤں کی طرح پتھروں کے بتوں یا اَور مخلوقات کو سجدہ کیا بلکہ جو شخص ماسوی اللہ کی طرف مائل ہے اور اس پر بھروسہ کرتا ہے حتی کہ دل میں جو منصوبے اور چالاکیاں رکھتا ہے ان پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ بھی شرک ہے.حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کا حال بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ان کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ بتلاؤ اللہ تعالیٰ سے معاملہ کیسے ہوا تو انہوں نے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا عمل لایا ہے.میں نے کہا اَور عمل تو کوئی نہیں ہے صرف یہ ہے کہ میں نے عمر بھر شرک نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تو نے یوم اللبن کے دن بھی شرک نہ کیا تھا کہ دُودھ پی کر کہا کہ اس سے پیٹ میں درد ہوئی ہے گویا دودھ کو خدا سمجھ لیا تھا اور خدا پر سے جو حقیقی فاعل ہے نظر اُٹھ گئی تھی.نفسانی جذبات ہزاروں قسم کے ہیں جو کہ انسان کو لگے ہوئے ہیں ان کو دیکھا جاوے تو سَر سے لے کر پاؤں تک ظلم ہی ظلم ہے.سَر تکبر اور گھمنڈ کی جگہ ہے آنکھ بُرے خیالات کا مقام ہے.غضب کی نظر سے بھی انسان اسی سے دوسرے کو دیکھتا ہے.کان بے جاباتیں سنتے ہیں زبان بُری باتیں بولتی ہے.گردن اکڑتی ہے صدورمیں کِن کِن بُری باتوں کی خواہش ہوتی ہے.نیچے کا طبقہ بھی کچھ کم نہیں ہے فسق وفجور میں جہان اسی کے باعث مبتلا ہے.پاؤں بھی بے جا مقامات پر چل کر جاتے ہیں غرض یہ ایک لشکر اور جماعت ہے جسے سنبھال کر رکھنا انسان کا کام ہے اور یہ بڑی بات ہے.ایک طرف تو خدا نے کشتی کا حوالہ دیا ہے کہ جو اس میں چڑھے گا وہ نجات پاوے گا اور ایک طرف حکم دیا ہے وَلَاتُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا (ھود:۳۸) یہاں بھی ظلم کی نسبت ہی فرمایا کہ جو لوگ ظالم ہیں تو ان کی نسبت بات ہی نہ کر.
ہے.گردن اکڑتی ہے صدورمیں کِن کِن بُری باتوں کی خواہش ہوتی ہے.نیچے کا طبقہ بھی کچھ کم نہیں ہے فسق وفجور میں جہان اسی کے باعث مبتلا ہے.پاؤں بھی بے جا مقامات پر چل کر جاتے ہیں غرض یہ ایک لشکر اور جماعت ہے جسے سنبھال کر رکھنا انسان کا کام ہے اور یہ بڑی بات ہے.ایک طرف تو خدا نے کشتی کا حوالہ دیا ہے کہ جو اس میں چڑھے گا وہ نجات پاوے گا اور ایک طرف حکم دیا ہے وَلَاتُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا (ھود:۳۸) یہاں بھی ظلم کی نسبت ہی فرمایا کہ جو لوگ ظالم ہیں تو ان کی نسبت بات ہی نہ کر.خوف الٰہی اور تقویٰ بڑی برکت والی شَے ہے انسان میں اگر عقل نہ ہو مگریہ باتیں ہوں تو خدا اسے اپنے پاس سے برکت دیتا ہے اور عقل بھی دے دیتا ہے جیسے کہ فر ماتا ہے يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا (الطلاق:۳) اس کے یہی معنے ہیں کہ جس شَے کی ضرورت اسے ہو گی اس کے لیے وہ خود راہ پیدا کر دے گا بشرطیکہ انسان متقی ہو، لیکن اگرتقویٰ نہ ہوگا تو خواہ فلا سفر ہی ہو وہ آخر کار تباہ ہوگا.دیکھو کہ اسی ہندوستان پنجاب میں کس قدر عالم تھے مگر ان کے دلوں میں اور زبانوں میں تقویٰ نہ رہا.محمد حسین کی حالت دیکھو کہ کیسی گندی اور فحش باتیں اپنے رسالہ اشاعۃ السنّہ میں لکھتا رہا.اگرتقویٰ ہوتی تو وہ کب ایسی باتیں لکھ سکتا تھا.اس کے بعد چند احباب نے بیعت کی اور بعد بیعت حضرت اقدس نے ایک طویل تقریر فرمائی جو کہ ذیل میں درج ہے.حقیقت بیعت اور اس سے فیض پانے کی راہ یہ بیعت جو ہے اس کے معنے اصل میں اپنے تئیں بیچ دینا ہے اس کی برکات اور تاثیرات اسی شرط سے وابستہ ہیں جیسے ایک تخم زمین میں بویا جاتا ہے اس کی ابتدائی حالت یہی ہوتی ہے کہ گویا وہ کسان کے ہاتھ سے بویا گیا اور اس کا کچھ پتا نہیں کہ اب وہ کیا ہوگا لیکن اگر وہ تخم عمدہ ہوتا ہے اور اس میں نشوونما کی قوت موجود ہوتی ہے تو خدا کے فضل سے اور اس کسان کی سعی سے وہ اوپر آتا ہے اور ایک دانہ کا ہزار دانہ بنتا ہے.اسی طرح سے انسان بیعت کنندہ
کو اوّل انکساری اور عجزاختیار کرنی پڑتی ہے اور اپنی خودی اور نفسانیت سے الگ ہونا پڑتا ہے تب وہ نشوونما کے قابل ہوتا ہے.لیکن جو بیعت کے ساتھ نفسانیت بھی رکھتا ہے اسے ہرگز فیض حاصل نہیں ہوتا.صوفیوں نے بعض جگہ لکھا ہے کہ اگر مرید کو اپنے مرشد کے بعض مقامات پر بظاہر غلطی نظر آوے تو اسے چاہیے کہ اس کا اظہار نہ کرے اگر اظہار کرے گا تو حبطِ عمل ہو جاوے گا (کیو نکہ اصل میں وہ غلطی نہیں ہوتی صرف اس کے فہم کا اپنا قصور ہوتا ہے )اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دستور تھا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اس طرح سے بیٹھتے تھے جیسے سرپر کوئی پرندہ ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے انسان سر اوپر نہیں اُٹھا سکتا یہ تمام ان کا ادب تھا کہ حتی الوسع خود کبھی کوئی سوال نہ کرتے.ہاں اگر باہر سے کوئی نیا آدمی آکر کچھ پو چھتا تو اس ذریعہ سے جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلتا وہ سن لیتے صحابہ بڑے متادّب تھے اس لیے کہا ہے کہ اَلطَّرِیْقَۃُ کُلُّھَا اَدَبٌ.جو شخص ادب کی حدود سے باہر نکل جاتا ہے تو پھر شیطان اس پر دخل پاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کی نوبت ارتداد کی آجاتی ہے اس ادب کومدِنظر رکھنے کے بعد انسان کو لازم ہے کہ وہ فارغ نشین نہ ہو.ہمیشہ توبہ استغفار کرتا رہے اور جو جو مقامات اسے حاصل ہوتے جاویں ان پر یہی خیال کرے کہ میں ابھی قابل اصلاح ہوں اور یہ سمجھ کر کہ بس میراتزکیہ نفس ہو گیا وہاں ہی نہ اَڑ بیٹھے.منافق کون ہے یاد رکھو منافق وہی نہیں ہے جو ایفائے عہد نہیں کرتا یا زبان سے اخلاص ظاہر کرتا ہے مگر دل میں اس کے کفر ہے بلکہ وہ بھی منافق ہے جس کی فطرت میں دورنگی ہے.اگرچہ وہ اس کے اختیار میں نہ ہو.صحابہ کرامؓ کو اس دورنگی کا بہت خطرہ رہتا تھا ایک دفعہ حضرت ابوہریرہؓ رو رہے تھے تو ابوبکرؓ نے پوچھا کہ کیوں روتے ہو؟ کہا کہ اس لیے روتا ہوں کہ مجھ میں نفاق کے آثار معلوم ہوتے ہیں.جب میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا ہوں تو اس وقت دل نرم اور اس کی حالت بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے مگر جب ان سے جُدا ہوتا ہوں تو وہ حالت نہیں رہتی.ابوبکرؓ نے فرمایا کہ یہ حالت تو میری بھی ہے پھر دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کل ماجرا بیان کیا.آپ نے فرمایا کہ تم منافق نہیں ہو.انسان کے دل میں قبض
اور بسط ہوا کرتی ہے جو حالت تمہاری میرے پاس ہوتی ہے اگر وہ ہمیشہ رہے تو پھر فرشتے تم سے مصافحہ کریں.تو اب دیکھو کہ صحابہ کرامؓ اس نفاق اور دورنگی سے کس قدر ڈرتے تھے.جب انسان جرأت اور دلیری سے زبان کھولتا ہے تو وہ بھی منافق ہوتا ہے.دین کی ہتک ہوتی سنے اور وہاں کی مجلس نہ چھوڑے یا ان کو جواب نہ دے تب بھی منافق ہوتا ہے.اگر مومن کی سی غیرت اور استقامت نہ ہو تب بھی منافق ہوتا ہے جب تک انسان ہر حال میں خدا کو یاد نہ کرے تب تک نفاق سے خالی نہ ہوگا اور یہ حالت تم کو بذریعہ دعا کے حاصل ہو گی.ہمیشہ دعا کرو کہ خدا اس سے بچاوے.جو انسان داخل سلسلہ ہو کر پھر بھی دورنگی اختیار کرتا ہے تو وہ اس سلسلہ سے دور رہتا ہے.اس لیے خدا تعالیٰ نے منافقوں کی جگہ اَسْفَلُ السَّافِلِیْن رکھی ہے کیونکہ ان میں دورنگی ہوتی ہے اور کافروں میں یک رنگی ہوتی ہے.گریہ وزاری کی اہمیت صوفیوں نے لکھا ہے کہ اگر چا لیس دن تک رونا نہ آوے تو جانو کہ دل سخت ہوگیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَلْيَضْحَكُوْا قَلِيْلًا وَّ لْيَبْكُوْا كَثِيْرًا (التوبۃ:۸۲) کہ ہنسو تھوڑااور روئو بہت مگر اس کے برعکس دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ہنستے بہت ہیں.اب دیکھو کہ زمانہ کی کیا حالت ہے.اس سے یہ مُراد نہیں کہ انسان ہر وقت آنکھوں سے آنسو بہاتا رہے بلکہ جس کا دل اندر سے رو رہا ہے وہی روتا ہے.انسان کو چاہیے کہ دروازہ بند کرکے اندر بیٹھ کر خشوع اور خضوع سے دعا میں مشغول ہو اور بالکل عجز ونیاز سے خدا کے آستانہ پر گر پڑے تاکہ وہ اس آیت کے نیچے نہ آوے جو بہت ہنستا ہے وہ مومن نہیں.اگر سارے دن کا نفس کا محاسبہ کیا جاوے تو معلوم ہو کہ ہنسی اور تمسخر کی میزان زیادہ ہے اور رونے کی بہت کم ہے.بلکہ اکثر جگہ بالکل ہی نہیں ہے.اب دیکھو کہ زندگی کس قدر غفلت میں گذر رہی ہے اور ایمان کی راہ کس قدر مشکل ہے گویا ایک طرح سے مَرنا ہے اور اصل میں اسی کا نام ایمان ہے.
ایمان کی حقیقت جب لوگوں کو تبلیغ کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں.کیا ہم نماز نہیں پڑھتے.کیا ہم روزہ نہیں رکھتے.ان لوگوں کو حقیقت ایمان کا علم نہیں ہے.اگر علم ہوتا تو وہ ایسی باتیں نہ کرتے.اسلام کا مغز کیا ہے اس سے بالکل بے خبر ہیں.حالانکہ خدا کی یہ عادت قدیم سے چلی آئی ہے کہ جب مغز اسلام چلا جاتا ہے تو اس کے از سر نو قائم کرنے کے واسطے ایک کو مامور کرکے بھیج دیتا ہے تاکہ کھائے ہوئے اور مَرے دل پھر زندہ کئے جاویں مگر ان لوگوں کی غفلت اس قدر ہے کہ دلوں کی مُردگی محسوس نہیں کرتے خدا تعالیٰ فرماتا ہے بَلٰى ١ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ وَ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ(البقرۃ:۱۱۳) یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے اور نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لیے قائم ہو جاوے گویا اس کے قویٰ خدا تعالیٰ کے لیے مَر جاتے ہیں گویا وہ اس کی راہ میں ذبح ہو جاتا ہے جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اس اسلام کا نمونہ دکھلایا کہ ارادہ الٰہی کی بجاآوری میں اپنے نفس کو ذرّہ بھی دخل نہ دیا اور ایک ذرا سے اشارہ سے بیٹے کو ذبح کرنا شروع کردیا.مگر یہ لوگ اسلام کی اس حقیقت سے بے خبر ہیں.جو کام ہیں ان میں ملونی ہوتی ہے.اگر کوئی ان میں سے رسالہ جاری کرتا ہے تو اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ روپیہ کماوے بال بچے کا گذارہ ہو.ابھی حال میں ایک شخص کا خط آیا ہے لکھتا ہے کہ میں نے عبد الغفور کے مرتد ہونے پر اس کی کتاب ترک اسلام کے جواب میں ایک رسالہ لکھنا شروع کیا ہے.امداد فرماویں.ان لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ اسلام کیا شَے ہے.خدا کی طرف سے کوئی نفخ روح اس میں نہیں لیکن رسالہ لکھنے کو طیار ہے.ایسے شخص کو چاہیے تھا کہ اوّل تزکیہ نفس کے لئے خود یہاں آتا اور پوچھتا اور اوّل خود اپنے اسلام کی خبر لیتا،لیکن عقل،دیانت اور سمجھ ہوتی تو یہ کرتا.مقصود تو اپنی معاش ہے اور رسالہ کو ایک بہانہ بنایا ہے.ہر ایک جگہ یہی بدبو آتی ہے کہ جو کام ہے خدا کے لیے نہیں بیوی بچوں کے لیے ہے.جو خدا کا ہو جاتا ہے تو خدا اس کا ہو جاتا ہے اور اس کی تائیدیں اور نصرت کا ہاتھ خود اس کے کاموں سے معلوم ہو جاتی ہیں اور آخر کار انسان مشاہدہ کرتا ہے کہ ایک غیب کا ہاتھ ہے جو اسے ہر میدان
میں کامیاب کررہا ہے.انسان اگر اس کی طرف چل کر آوے تو وہ دوڑکر آتا ہے اور اگر وہ اس کی طرف تھوڑا سا رجوع کرے تو وہ بہت رجوع ہوتا ہے.وہ بخیل نہیں ہے سخت دل نہیں ہے.جو کوئی اس کا طالب ہے تو اس کا اوّل طالب وہ خود ہوتا ہے.لیکن انسان اپنے ہاتھوں سے اگر ایک مکان کے دروازے بند کردیوے تو کیا روشنی اس کے اندر جاوے گی؟ہرگز نہیں.یہی حال انسان کے قلب کا ہے.اگر اس کا قول و فعل خدا کی رضا کے موافق نہ ہوگا اور نفسانی جذبات کے تلے وہ دبا ہوا ہوگا تو گویا دل کے دروازے خود بند کرتا ہے کہ خدا کا نور اور روشنی اس میں داخل نہ ہو،لیکن اگر وہ دروازوں کو کھولے گا تو معاًنور اس کے اندر داخل ہوگا.ابدال،قطب اور غوث وغیرہ جس قدر مراتب ہیں یہ کوئی نماز اور روزوں سے ہاتھ نہیں آتے.اگر ان سے یہ مل جاتے تو پھر یہ عبادات تو سب انسان بجا لاتے ہیں.سب کے سب ہی کیوں نہ ابدال اور قطب بن گئے.جب تک انسان صدق و صفاکے ساتھ خدا کا بندہ نہ ہوگا.تب تک کوئی درجہ ملنا مشکل ہے.جب ابراہیم کی نسبت خدا تعالیٰ نے شہادت دی وَ اِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰۤى (النجم:۳۸) کہ ابراہیم وہ شخص ہے جس نے اپنی بات کو پورا کیا.تو اس طرح سے اپنے دل کو غیر سے پاک کرنا اور محبت ِ الٰہی سے بھر نا، خدا کی مرضی کے موافق چلنا اور جیسے ظل اصل کا تابع ہوتا ہے ویسے ہی تابع ہوناکہ اس کی اور خدا کی مرضی ایک ہو کوئی فرق نہ ہو.یہ سب باتیں دعا سے حاصل ہوتی ہیں.نماز اصل میں دعا کے لئے ہے کہ ہر ایک مقام پر دعا کرے لیکن جو شخص سویا ہوا نماز ادا کرتا ہے کہ اسے اس کی خبر ہی نہیں ہوتی تو وہ اصل میں نماز نہیں.جیسے دیکھاجاتا ہے کہ بعض لوگ پچاس پچاس سال نماز پڑھتے ہیں، لیکن ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا حالانکہ نماز وہ شَے ہے کہ جس سے پانچ دن میں رُوحانیت حاصل ہو جاتی ہے.بعض نمازیوں پر خدا نے لعنت بھیجی ہے جیسے فر ماتا ہے فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۠(الماعون:۵) ویل کے معنے لعنت کے بھی ہوتے ہیں.پس چاہیے کہ ادائیگی نمازمیں انسان سُست نہ ہو اور نہ غافل ہو.ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ ایک موت اختیار کرے.نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اللہ تعالیٰ کو سب شَے پر مقدّم رکھے.بہت سی ریا کاریوں اور بیہودہ
باتوں سے انسان تباہ ہو جاتا ہے پوچھا جاوے تو لوگ کہتے ہیں کہ برادری کے بغیر گذارہ نہیں ہوسکتا.ایک حرام خور کہتا ہے کہ بغیر حرام خوری کے گذارہ نہیں ہوسکتا.جب ہر ایک حرام گذارہ کے لیے انہوں نے حلال کر لیا تو پوچھو کہ خدا کیا رہا؟ اور تم نے خدا کے واسطے کیا کیا؟ ان سب باتوں کو چھوڑنا موت ہے جو بیعت کرکے اس موت کو اختیار نہیں کرتا تو پھر یہ شکایت نہ کرے کہ مجھے بیعت سے فائدہ نہیں ہوا.جب ایک انسان ایک طبیب کے پاس جاتا ہے تو جو پرہیز وہ بتلاتا ہے اگر اسے نہیں کرتا تو کب شفا پا سکتا ہے، لیکن اگر وہ کرے گا تو یوماً فیوماً ترقی کرے گا یہی اصول یہاں بھی ہے.جنّت کی حقیقت کوئی بات سوائے خدا کے فضل کے حاصل نہیں ہوسکتی اور جسے اس دنیا میں فضل ہوگا اسے ہی آخرت میں بھی ہوگا جیسے کہ خدا تعالیٰ فر ماتا ہے مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى(بنی اسـرآءیل:۷۳) اسی لیے یہ ضروری ہے کہ ان حواس کے حصول کی کوشش اسی جہان میں کرنی چاہیے کہ جس سے انسان کو بہشتی زندگی حاصل ہوتی ہے اور وہ حواس بلا تقویٰ کے نہیں مل سکتے.ان آنکھوں سے انسان خدا کو نہیں دیکھ سکتا، لیکن تقویٰ کی آنکھوں سے انسان خدا کو دیکھ سکتا ہے.اگر وہ تقویٰ اختیار کرے گا تووہ محسوس کرے گا کہ خدا مجھے نظر آرہاہے اور ایک دن آوے گا کہ خود کہہ اُٹھے گا کہ میں نے خدا کو دیکھ لیا اسی بہشتی زندگی کی تفصیل جو کہ متقی کو اسی دنیا میں حاصل ہوتی ہے قرآن شریف میں ایک اورجگہ بھی پائی جاتی ہے جیسے لکھا ہے كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا١ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِيْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ(البقرۃ:۲۶) جب وہ عالم آخرت میں ان درختوں کے ان پھلوں سے جو دنیا کی زندگی میں ہی ان کو مل چکے تھے پائیں گے تو کہہ دیویں گے کہ یہ تو وہ پھل ہیں جو کہ ہمیں اوّل ہی دئیے گئے تھے کیونکہ وہ ان پھلوں کو ان پہلے پھلوں سے مشابہ پاویں گے.اس سے یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دنیا میں جو نعمتیں مثل دودھ، شہد، گھی اور انار اور انگور وغیرہ انہوں نے کھائی ہیں وہی ان کو وہاں جنّت میں ملیں گے اور وہاں ان چیزوں کے مہیّا کرنے کے لیے بہت سے باغات، درخت، مالی اور بیل وغیرہ اور گائے بھینسوں کے ریوڑ ہوں گے اور درختوں پر شہد کی مکھیوں کے چھتے ہوں گے جن سے شہد اُتا ر کر اہل جنّت کو دیا
جاوے گا یہ سب غلط خیال ہیں اگر جنّت کی یہی نعمت ہے جو ان کو دنیا میں ملتی رہی اور آخرت میں بھی ملے گی تو مومنوں اور کافروں میں کیا فر ق رہا؟ ان سب چیزوں کے حاصل کرنے میں تو کافر اور مشرک بھی شریک ہیں پھر اس میں بہشت کی خصوصیت کیا ہے؟ لیکن قرآن شریف اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ بہشت کی نعمتیں ایسی چیزیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کسی کان نے سنیں اور نہ دلوں میں گذریں اور ہم دنیا کی نعمتوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ سب آنکھوں نے دیکھیں، کانوں نے سنیں اور دل میں گذریـ ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ ان جنتی نعمتوں کا تمام نقشہ جسمانی رنگ پر ظاہر کیا گیا ہے مگر وہ اصل میں اَور امور ہیں ورنہ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ(البقرۃ:۲۶) کے کیا معنے ہوں گے اس کے وہی معنے ہیں جو کہ مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى(بنی اسـرآءیل:۷۳) کے ہیں.دوسرے مقام پر قرآن شریف فر ماتا ہے وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ(الرحـمٰن:۴۷) جو شخص خدا تعالیٰ سے خائف ہے اور اس کی عظمت اور جلال کے مرتبہ سے ہرا ساںہے اس کے لیے دو بہشت ہیں ایک یہی دنیا اور دوسری آخرت.جو شخص سچے اور خالص دل سے نقشِ ہستی کو اس کی راہ میں مٹا کر اس کے متلاشی ہوتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں تو اس میں ان کو ایک قسم کی لذّت شروع ہو جاتی ہے اور ان کو وہ روحانی غذائیں ملتی ہیں جو روح کو روشن کرتی اور خدا کی معرفت کو بڑھاتی ہیں ایک جگہ پر شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب انسان عارف ہو جاتا ہے تو اس کی نماز کا ثواب مارا جاتا ہے.اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اس کی نماز اب بارگاہ ِالٰہی میں قبول نہیں ہوتی بلکہ یہ معنے ہیں کہ چونکہ اب اسے لذّت شروع ہو گئی ہے تو جو اجراس کا عنداللہ تھا وہ اب اسے دنیا میں ملنا شروع ہو گیا ہے جیسے ایک شخص اگر دودھ میں برف اور خوشبو وغیرہ ڈال کر پیتا ہے تو کیا کہہ سکتے ہیں کہ اسے ثواب ملے گا کیونکہ لذّت تو اس نے اس کی یہیں حاصل کر لی.خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور کسی عمل کی قبولیت اَور شَے ہے اور ثواب اَور شَے ہے.ہر ایک لفظ اپنے اپنے مقام کے لیے چسپاں ہوتا ہے اسی لحاظ سے شیخ عبدالقادر صاحب نے فرمایا کہ عارف کی نماز کا ثواب مارا جاتا ہے.جو اہل حال ہوتا ہے وہ اپنی جگہ پوری بہشت میں ہوتا ہے اور جب انسان کو خدا سے پوراتعلق ہو جاتا ہے تو
اغلال اور اثقال جس قدر بوجھ اس کی گردن میں ہوتے ہیں وہ سب اٹھائے جاتے ہیں وہ لذّت جو خدا کی طرف سے اس کی عبادت میں حاصل ہوتی ہے وہ اَور ہے اور جو اکل وشرب اور جماع وغیرہ میں حاصل ہوتی ہے وہ اَور ہے لکھا ہے کہ اگر ایک عارف دروازہ بند کرکے اپنے مولا سے راز ونیاز کر رہا ہو تو اسے اپنی عبادت اور اس راز ونیاز کے اظہار کی بڑی غیرت ہوتی ہے اور وہ ہرگز اس کا افشاپسند نہیں کرتا اگر اس وقت کوئی دروازہ کھول کر اندر چلا جاوے تو وہ ایسا ہی نادم اور پشیمان ہوتا ہے جیسے زانی زناکرتا پکڑا جاتا ہے جب اس لذّت کی حد کو انسان پہنچ جاتا ہے تواس کا حال اَور ہوتا ہے اور اسی حالت کو یاد کرکے وہ جنّت میں کہے گا کہ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ(البقرۃ:۲۶) بہشتی زندگی کی بنیاد یہی دنیا ہے بعد مَرنے کے جب انسان بہشت میں داخل ہوگا تو یہی کیفیت اور لذّت اسے یاد آوےگی.تو اسی بات کا طالب ہر ایک کو ہونا چاہیے.نیکی کیا ہے؟ گناہوں کا چھوڑنا تو کوئی بڑی بات نہیں ہے یہ ایک ذلیل کام ہے اگر کوئی کہے کہ میں چوری نہیں کرتا، زنا نہیں کرتا، خون نہیں کرتا یا اور فسق وفجور نہیں کرتا تو کوئی خوبی کی بات نہیں اور نہ خدا پر یہ احسان ہے کیونکہ اگر وہ ان باتوں کا مرتکب نہیں ہوتا تو ان کے بدنتائج سے بھی وہی بچا ہوا ہے.کسی کو اس سے کیا؟ اگر چوری کرتا گرفتار ہوتا سزا پاتا.اس قسم کی نیکی کو نیکی نہیں کہا کرتے.ایک شخص کا ذکر ہے کہ ایک کے ہاں مہمان گیا بےچارے میزبان نے بہت تواضع کی تو مہمان آگے سے کہنے لگا کہ حضرت آپ کا کوئی احسان مجھ پر نہیں ہے احسان تو میرا آپ پر ہے کہ آپ اتنی دفعہ باہر آتے جاتے ہیں اور کھانا وغیرہ طیار کروانے اور لانے میں دیر لگتی ہے.میں پیچھے اکیلا بااختیار ہوتا ہوں چاہوں تو گھر کو آگ لگا دوں یا آپ کا اور نقصان کر چھوڑوں تو اس میں آپ کا کس قدر نقصان ہوسکتا ہے.تو یہ میرا اختیار ہے کہ میں کچھ نہیں کرتا.ایسا خیال ایک بد آدمی کا ہوتا ہے کہ وہ بدی سے بچ کر خدا پر احسان کرتا ہے اس لیے ہمارے نزدیک ان تمام بدیوں سے بچناکوئی نیکی نہیں ہے بلکہ نیکی یہ ہے کہ خدا سے پاک تعلقات قائم کئے جاویں اور اس کی محبت ذاتی رگ وریشہ میں سرایت کر جاوے
جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى(النحل:۹۱) خدا کے ساتھ عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یا دکرکے اس کی فرماںبرداری کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو اور اسے پہچانواوراس پر ترقی کرنا چاہو تو درجہ احسان کا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کی ذات پرایسا یقین کر لیناکہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے اور جن لوگوں نے تم سے سلوک نہیں کیا ان سے سلوک کرنا.اور اگر اس سے بڑھ کر سلوک چاہو تو ایک اور درجہ نیکی کا یہ ہے کہ خدا کی محبت طبعی محبت سے کرو.نہ بہشت کی طمع نہ دوزخ کا خوف ہو.بلکہ اگر فرض کیا جاوے کہ نہ بہشت ہے نہ دوزخ ہے تب بھی جوشِ محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے.ایسی محبت جب خدا سے ہو تو اس میں ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے اور کوئی فتور واقع نہیں ہوتا اور مخلوقِ خدا سے ایسے پیش آؤکہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو.یہ درجہ سب سے بڑھ کر ہے کیونکہ احسان میں ایک مادہ خود نمائی کا ہوتا ہے اور اگر کوئی احسان فراموشی کرتا ہو تو محسن جھٹ کہہ اٹھتا ہے کہ میں نے تیرے ساتھ فلاں احسان کئے لیکن طبعی محبت جو کہ ماں کو بچے کے ساتھ ہوتی ہے اس میں کوئی خودنمائی نہیں ہوتی بلکہ اگر ایک بادشاہ ماں کو یہ حکم دیوے کہ تو اس بچہ کو اگر مار بھی ڈالے تو تجھ سے کوئی باز پُرس نہ ہوگی تو وہ کبھی یہ بات سننی گوارانہ کرے گی اور اس بادشاہ کو گالی دے گی.حالانکہ اسے علم بھی ہو کہ اس کے جوان ہونے تک میں نے مَر جانا ہے مگر پھر بھی محبت ذاتی کی وجہ سے وہ بچہ کی پرورش کو ترک نہ کرے گی.اکثر دفعہ ماں باپ بوڑھے ہوتے ہیں اور ان کو اولاد ہوتی ہے تو ان کی کوئی امید بظاہر اولاد سے فائدہ اٹھانے کی نہیں ہوتی لیکن باوجود اس کے پھر بھی وہ اس سے محبت اور پرورش کرتے ہیں.یہ ایک طبعی اَمر ہوتا ہے جو محبت اس درجہ تک پہنچ جاوے اسی کا اشارہ اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى(النحل:۹۱) میں کیا گیا ہے کہ اس قسم کی محبت خدا کے ساتھ ہونی چاہیے.نہ مراتب کی خواہش نہ ذلّت کا ڈر.جیسے آیت لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا(الدھر:۱۰)سے ظاہر ہے غرضیکہ یہ باتیں ہیں جن کو یاد رکھنا چاہیے.۱ ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخہ ۱۶؍ نومبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۳۳تا۳۳۵
یکم نومبر۱۹۰۳ء تہجد کی نماز کا طریق عبد العزیز صاحب سیالکوٹی نے لائل پور میں یہ مسئلہ بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز اس طرح سے جیسا کہ اب تعامل اہل اسلام ہے بجا نہ لاتے بلکہ آپ صرف اُٹھ کر قرآن پڑھ لیاکرتے اور ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا کہ یہی مذہب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلا م کا ہے....حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی خدمت میں بوساطت منشی نبی بخش صاحب اور مولوی نورالدین صاحب یہ اَمر تحقیق کے لیے پیش کیا گیا جس پر حضرت امام الزمان علیہ السلام نے مفصلہ ذیل فتویٰ دیا کہ میر ایہ ہرگز مذہب نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ کر فقط قرآن شریف پڑھ لیا کرتے اور بس.میں نے ایک دفعہ یہ بیان کیا تھا کہ اگر کوئی شخص بیمار ہو یا کوئی اَور ایسی وجہ ہو کہ وہ تہجد کے نوافل ادا نہ کرسکے تو وہ اُٹھ کر استغفار، درودشریف اور الحمدشریف ہی پڑھ لیا کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ نوافل ادا کرتے.آپ کثرت سے گیارہ رکعت پڑھتے آٹھ نفل اور تین وتر آپ کبھی ایک ہی وقت میں ان کو پڑھ لیتے اور کبھی اس طرح سے ادا کرتے کہ دو رکعت پڑھ لیتے اور پھر سوجاتے اور پھر اُٹھتے اور دو رکعت پڑھ لیتے اور سوجاتے.غرض سوکر اور اُٹھ کر نوافل اسی طرح ادا کرتے جیسا کہ اب تعامل ہے اور جس کو اب چودھویں صدی گذررہی ہے.۱ ۱البدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخہ ۱۶؍ نومبر ۱۹۰۳ء صفحہ۳۳۵ م
۴؍نومبر۱۹۰۳ء (بوقتِ ظہر) تقریر حضرت اقدس علیہ السلام حضرت اقدس امام صادق علیہ الصلوٰۃو السلام بوقتِ ظہر حسبِ معمول اندر سے مسجد مبارک میں تشریف لائے اور مسند کو زیب نشست بخش کر مولوی برہان الدین صاحب جہلمی سے مخاطب ہو کر دریافت فرمایا کہ۱ آپ کے چہرہ پر آثار پژ مُردگی و پریشانی وحیرانی کیسے نظر آرہے ہیں؟ عرض کی کہ حضور وجہ تو صرف یہی ہے کہ اب دوسرا کنارہ یعنی جہانِ ثانی نظر آرہاہے کیونکہ بوجہ پیرانہ سالی کے اب عالمِ آخرت کا ہی خیال رہتا ہے.گنتی ہی کے دن اب باقی سمجھنے چاہئیں مزید برآں عارضہ ضعف اور بھی اس کے سریع الوقوع ہونے پر شاہد ہے اور ضعف کا یہ باعث ہے کہ ابتدا میں کچھ مراقبہ و نفی واثبات کا کسی قدر شغل رکھا ہے جس سے یہ عارضہ ضعف لاحق حال ہو گیا ہے.یہ سُن کر حضرت اقدس نے ایک معانی خیز اور پُر معارف لب ولہجہ کے ساتھ فرمایا کہ بقیہ ایّام زندگی قادیان میں گذاریں جب یہ حالت ہے تب تو ضرور ہی ان تمام عارضی تحیرات کو یکسو رکھ کر صرف ایک ہی آستانہ بار گاہ ِایزدی پر نظر رکھنی چاہیے کیونکہ ہر ایک سعادت کیش ومتلاشی حق رُوح کا یہی مامن اور یہی ملجاوماویٰ ہے اور چونکہ یہ مسلّمہ اَمر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے مقرّب کے پاس رہنا گویا ایک طرح سے خود خدا تعالیٰ کے پاس رہنا ہوتا ہے اس واسطے اب آپ کو باقی ایام زندگی اس جگہ قادیان میں ۱یہ تقریر مولوی برہان الدین صاحب کو مخاطب فرما کر فرمائی اور اس تقریر کے نوٹ چوہدری الٰہ داد خانصاحب کلرک صدر شاہ پور نے لئے اور بعد ازاں ان نوٹوں کو اپنے الفاظ میں مرتّب کر کے موقع بہ موقع حضرت اقدس علیہ السلام کے اشعار بھی چسپاں کئے.(مرتّب)
گذارنے چاہئیں اور یہاں آکر ڈیرا لگا دینا چاہیے اور اس شعر پر کار بند ہو ناچاہیے.؎ چو کار عمر ناپید است بارے این اولیٰ کہ روز واقعہ پیش نگار خود باشم یہاں تو مقولہ’’ یک دَرگیر ومحکم گیر‘‘ پر عمل کرنا ضروری ولازمی ہے ہر ایک کے لیے مناسب وواجب ہے کہ حسب استطاعت اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرکے پوری سعی کرے تاکہ ٹھیک وقت پر سفر منزل محبوب حقیقی کے لیے طیاری کرسکے بغیر جوش محبت کے اس راہ پر قدم مارنا بڑا مشکل ہے اور ساتھ ہی اس پر استقلال واستقامت ضروری ہے جب یہ اَمر حاصل ہو جاوے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جذب القلوب کا عمل بتدریج خود بخود شروع ہو جاوے گا جس سے صادقین کی محبت کی توفیق ملے گی اور اس صیقل تعشقِ الٰہی سے زنگا ر آئینہ دل محوہو کر تزکیہ نفس وتطہیرِقلب نصیب ہوگا.مگرتلاشِ حق کا بیج بونا مقدم ہے جس سے صدق وصفا کا پُر ثمر نخل پیدا ہوتا ہے اور محبت ذات ربّانی کی آب پاشی سے نشوونماپاتا ہے.؎ بمنزلِ جانان رسد ہمان مردے کہ ہمہ دم درتلاش او دوان باشد آپ اپنی پہلی حالت کو یاد کریں جبکہ آغازسال ۱۸۸۶ء میں صرف حِسْبَۃً لِّلّٰہِ کا جوش آپ کو کشاں کشاں یہاں لایا تھا اور آپ پا پیادہ افتاں خیزاں اس قدر دور فاصلہ سے پہلے قادیان پہنچے تھے اور جب ہم کو اس جگہ نہ پایا تو اسی بیتابی وبیقراری کے جوش میں تگاپو کرکے پیدل ہی ہمارے پاس ہوشیار پور جاپہنچے تھے اور جب وہاں سے واپس ہونے لگے تو اس وقت ہم سے جُدا ہونا آپ کو بڑا شاق گذرتا تھا اب تو ایسا وقت آگیا ہے کہ آپ کو آگے ہی قدم مارنا چاہیے نہ یہ کہ الٹا تساہل وتکاہل میں پڑیں.اب تو زمانہ بزبانِ حال کہہ رہا ہے اور نشا نات وعلامات سماوی بآواز دہل پکاررہے ہیں کہ ؎ چنیں زمانہ چنیں دور ایں چنیں برکات تو بے نصیب روی وہ چہ این شقا باشد فلک قریب زمیں شد ز بارش برکات کجاست طالبِ حق تایقین فزا باشد
غرض کہ پوری مستعدی و ہمت سے استقلال دکھلاویں.یہ آثار پژمُردگی ہمیں بر محل معلوم نہیں ہوتے.یہاں کا رہنا تو ایک قسم کا آستانہ ایزدی پر رہنا ہے.اس حوض کوثر سے وہ آب حیات ملتا ہے کہ جس کے پینے سے حیاتِ جاودانی نصیب ہوتی ہے جس پر ابدالآباد تک موت ہرگز نہیں آسکتی.اچھی طرح کمر بستہ ہوکر پورے استقلال سے اس صراط مستقیم کے راہ رو بنیں اور ہر قسم کی دنیوی روکاوٹوں اور نفسانی خواہشات کی ذرّہ پروا نہ کرکے اللہ تعالیٰ کے صادق مامور کی پوری معیت کریں تاکہ حکم كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ(التوبۃ:۱۱۹) کی فرمانبرداری کا سنہری تمغہ آپ کو حاصل ہو.یاد رکھیں کہ راستی وصداقت کے فرزندہمیشہ جاہ وجلال کے تاجِ زرّیں کے وارث ہو اکرتے ہیں.راستبازی کے حاسد دشمنوں کا جو انجام ہوا کرتا ہے وہ بھی پوشیدہ نہیں.؎ بسوزدآنکہ نہ سوزد بصدق در رہ یار بمیرد آنکہ گریزندہ از فنا باشد معلوم نہیں کہ آپ کو جہلم سے کیوں اُنس ہے حالانکہ اس کی میم نسبتی کو حذف کرنے کے بعد تو جہل ہی جہل رہ جاتا ہے.بھلا فہم وذکا کو جہل سے کیا نسبت؟ مولوی صاحب نے عرض کی کہ حضور! واقعی یہ تو سچ ہے کہ جہلم بمعنی جہل مَن ہی ہے آخری میم نسبتی ہے.فرمایا کہ جب یہ حال ہے تو ایسے جہل کو ترک کرنا چاہیے.وہاں کی رہائش کو یہاں کی رہائش پر کسی طرح بھی ترجیح نہیں ہوسکتی.پھر اس حالت میں مامور من اللہ کی صحبت نہایت ضروری بلکہ مغتنمات سے ہے.خوش قسمت وہ جن کو یہ نعمت ِغیر متر قبہ نصیب ہو.جو شخص سب کچھ چھوڑ کر اس جگہ آکر آباد نہیں ہوتا یا کم از کم ایسی تمنّا دل میں نہیں رکھتا اس کی حالت کی نسبت مجھے بڑا اندیشہ ہے کہ مبادا وہ پاک کرنے والے تعلقات میں ناقص نہ رہے.اپنے گھروں،وطنوں اور املاک کو چھوڑ کر میری ہمسائیگی کے لیے قادیان میں بود وباش کرنا ’’اصحاب الصفہ‘‘ کا مصداق بننا ہے.اور یہ تو ایک ابتدائی مرحلوں میں سے ہے ورنہ مَردانِ خدا کو تو اگر اس سے بھی صد ہا درجہ بڑھ کر
دشواریوں و مصیبتوں کا سامنا ہو.تاہم وہ ان کی کچھ پروا نہیں کرتے بلکہ وفور جذبہ عشقِ محبوب حقیقی سے آگے ہی قدم مارتے ہیں اور اپناتمام دھن، من،تن اسی راہ میں صرف کردینے کو عین اپنی سعادت و خوش قسمتی سمجھتے ہیں اوریہی ان کا مقصود بالذّات ہوتا ہے کہ دنیوی علائق کے جالوں کو توڑ کر اور اس کے پھندوں سے مخلصی پاکر اس جمیع محامد کی جامع ذات ستودہ صفات کے آستانہ سراپا برکت خیز پر پہنچنے کا شرف حاصل کریں.؎ نتابد ازرہِ جانانِ خود سر اِخلاص اگرچہ سیل مصیبت بزور ہا باشد براہِ یارِ عزیز از بلا نہ پرھیزد اگرچہ در رہِ آن یار اژدہا باشد بدولتِ دو جہاں سر فرو نمے آرند بعشق یار دل زارِ شان دوتا باشد مَیں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ در حقیقت مُولِ استقامت یہی ہے.کلام مجید میں ہے الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا (حٰمٓ السجدۃ:۳۱) یعنی جو اللہ تعالیٰ کی طرف آجاتے ہیں وہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہی راستہ پر نہیں آتے بلکہ اس صراط مستقیم پر استقامت بھی دکھلاتے ہیں.نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ تطہیر وتنویرِ قلوب کی منزلیں طے کرلیتے ہیں اور بعد انشراحِ صدر کے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو حاصل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان کو اپنی خاص نعمتوں سے متمتع فرماتا ہے.محبت وذوقِ الٰہی ان کی غذاہوجاتی ہے.مکالمہ الٰہی، وحی، الہام وکشف وغیرہ انعاماتِ الٰہی سے مشرف و بہرہ مند کئے جاتے ہیں.درگاہ ربّ العزّت سے طمانیت وسکینت ان پر اُترتی ہے.حُزن ومایوسی ان کے نزدیک تک نہیں پھٹکتی.ہر وقت جذبہ محبت و ولولہ عشق الٰہی میں سر شاررہتے ہیں گویا لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ (البقرۃ:۱۱۳) کے پورے مصداق ہو جاتے ہیں.ما درَّ ماقال ؎ کلید این ہمہ دولت محبت است ووفا خوشا کسیکہ چنین دولتش عطا باشد غرض استقامت بڑی چیز ہے.استقامت ہی کی بدولت تمام گروہ انبیاء ہمیشہ مظفر ومنصور و بامُراد ہوتا چلا آیاہے.ذات تقدس مآ ب باری تعالیٰ کے ساتھ ایک خالص ذاتی تعلق وگہرا پیوند قائم کرنا چاہیے جب یہ تعلق پورا قائم ہو جاوے پھر ہر ایک قسم کے خوف وخطر سے انسان محفوظ ومطمئن ہو جاتا
ہے اور انشراح صدر کے بعد تمام بوجھ ہلکے ہو جاتے ہیں.ایسا کیوں ہوتا ہے؟ صرف اس لیے کہ ان کو’’ہر کہ در ایزدی یافت بازبردرِدیگر نتافت‘‘ پر حق الیقین ہو جاتا ہے اور اس کی پُر ثمر تاثیرات ان کے لوحِ قلب پر منقّش ہو جاتی ہیں اور ان کے رگ وریشہ میں سرایت کرگئی ہوتی ہیں اور بوجہ استیلائے محبت وتعشقِ الٰہی وشہودو عظمت وجلال ذات کبریائی ان کے قلب ِسلیم کا یہی ورد ہو جاتا ہے.؎ نہ از چینم حکایت کن نہ از روم کہ دارم دلستانے اندرین بوم چو روئے خوب او آید بیادم فراموشم شود موجود و معدوم آپ اپنے سارے جسم وجان روح ورواں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہو جاویں.پھر خدا تعالیٰ خود بخود تم سب کا حافظ وناصر معین وکار ساز ہو جاوے گا.چاہیے کہ انسان کے تمام قویٰ آنکھ، کان، دل، دماغ، دست وپا جملہ متمسک باللہ ہو جاویں.ان میں کسی قسم کا اختلاف نہ رہے اسی میں تمام کامیابیاں ونصرتیں ہیں یہی اصل مراقبہ ہے اسی سے حرارت قلبی وروحانیت پیدا ہوتی ہے اور اسی کی بدولت ایمانِ کا مل نصیب ہوتا ہے.سب سے اوّل تو انسان کو اپنا مرض معلوم کرنا چاہیے جب تک مرض کی تشخیص نہ ہو علاج کیا ہو سکتا ہے ؟اللہ تعالیٰ کے ساتھ اطمینان نہ پانا یہی خطرناک مرض ہے یہ وہ حالت ہے جبکہ انسان نفسِ امّارہ کے زیرِحکم چل رہا ہوتا ہے.اس وقت صرف محرکات بدی یعنی شیطان ہی کی اس پر حکومت ہوتی ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ سے دور افتادہ ہلاک ہونے والی ناپاک روحوں کا اس پر اثر ہوتا ہے.اس سے ذرا اُوپر انسان ترقی کرتا ہے تو اس وقت اس کا اپنے نفس کے ساتھ ایک جہاد شروع ہو جاتا ہے اس کی ایسی حالت کا نام لوامہ ہے اس وقت اگرچہ محرکات بدی سے اس کو پوری مخلصی نہیں ہوتی مگر محرکات ِنیکی یعنی ملائکہ کی پاک تحریکات کی تاثیریں بھی اس پر موثر ہونے لگ جاتی ہیں ان نیک تحریکات کی قوت وطاقت سے نفسِ امّارہ سے اس کی ایک قسم کی کُشتی ڈٹ جاتی ہے اور ان کی مدد سے تحریکاتِ بدی پرغلبہ پاتے پاتے زینہ ترقی پر چڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور اگر فضلِ ایزدی شامل حال ہو تو بتدریج ترقی کرتا جاتا ہے.آخر کار اس نفس لوّامہ کی کُشتی جیت لینے پر تمام تحریکات ِبدی کو
مغلوب کر لیتا ہے اور اس مرحلہ سے اُوپر چڑھنے پر وہ ناپاک روحوں کی بری تحریکات کے نتائج بد سے بالکل محفوظ ہو کر امن الٰہی میں آجاتا ہے اس حالتِ کامیابی وظفر مندی وفائزالمرامی کا نام مطمئنہ ہے.اس وقت وہ ذات باری تعالیٰ سے آرام یافتہ ہوتا ہے اور اسی منزل پر پہنچ کر سالک کا سلوک ختم ہو جاتا ہے.تمام تکلّفات اٹھ جاتے ہیں اور بلحاظ مدارج روحانیت کے یہی جدوجہد کی انتہااور اس کامقصود ذاتی ہوتا ہے اس گوہر مقصود کے حصول پر وہ پورا کامیاب وفائزالمرام ہو جاتا ہے.ہماری بعثت کی علّتِ غائی بھی تو یہی ہے کہ رستہ منزل جاناں کے بھولے بھٹکوں، دل کے اندھوں، جذام ضلالت کے مبتلاؤں، ہلاکت کے گڑھے میں گرنے والے کو رباطنوں کو صراط مستقیم پر چلا کروصالِ ذات ذوالجلال کا شیریں جام پلا یا جاوے اور عرفانِ الٰہی کے اس نقطہ انتہائی تک ان کو پہنچایا جاوے تاکہ ان کو حیاتِ ابدی و راحت دائمی نصیب ہو اور جوارِرحمتِ ایزدی میں جگہ لے کر مست وسرشار رہیں.ہماری معیت اور صحابت کی پاک تا ثیرات کے ثمراتِ حسنہ بالکل صاف ہیں.ہاں ان کے ادراک کے لئے فہم رسا چاہیے ان کے حصول کے لیے رشدوصفاچاہیے ساتھ ہی استقامت کے لیے اتّقاچاہیے ورنہ ہماری جانب سے تو چار دانگ عالم کے کانوں میں عرصہ سے کھول کھول کر منادی ہو رہی ہے کہ ؎ بیآمدم کہ رہ صدق را درخشانم بدلستان برم آنرا کہ پارسا باشد کسیکہ سایۂ بال ہماش سودنداد ببایدش کہ دو روزے بظل ما باشد گلے کہ روئے خزان را گہے نخواہد دید بباغ ماست اگر قسمتت رسا باشد ہم نے تو اس مائدہ الٰہی کو ہر کس وناکس کے آگے رکھنے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا مگر آگے ان کی اپنی قسمت! ’’وَ مَا عَلَیْنَااِلَّا الْبَلٰغُ.‘‘ مسیح موعودؑ کی مخالفت اس سے تھوڑا زمانہ پہلے بڑے بڑے علماء لکھ گئے تھے کہ مہدی موعودو مسیح مسعود کی آمد کا زمانہ بالکل قریب ہے بلکہ بعض نے اس کی تائید میں اپنے اپنے مکاشفات بھی لکھے تھے جب اس نعمت کا وقت آیا تو تمام یہودی سیرتوں نے اس کے قبول کرنے سے اعراض کر دیا ہے اور صرف انکار پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ تکذیب پر ایسے تلے ہوئے ہیں
کہ جس کا کوئی حد و حساب نہیں.مخالفت کا کوئی پہلوچھوڑنہیں رکھا.ہر دجالیت ویہودیت کو عمل میں لایا جا رہاہے.ہر وقت فساد وشرارت کا بازار گرم کیا ہوا ہے.کون سا ایذاوتکلیف دہی کا راہ ہے جس پر وہ نہیں چلے.ہماری تخریب واستیصال کے لیے کون سا میدان تدبیر ہے جو ان کی اسپان مخالفت کی دوڑ دھوپ سے بچ رہا ہے.استہزاء وتضحیک کا کون سا پہلو باقی چھوڑاگیا ہے.يٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَايَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۠(یٰسٓ:۳۱) مگر ان کی یہ فتنہ پر دازیاں وگر بہ مکاریاں کچھ بھی عند اللہ وقعت نہیں رکھتیں چہ جائیکہ ان کو کبھی کامیابی کا منہ دیکھنا بھی نصیب ہو.؎ چراغے را کہ ایزد بر فروزد ہر آنکس تف زند ریشش بسوزد سچ پو چھو تو ان کی یہ مخالفتیں ہماری مزرعہ کامیابی کے لئے کھاد کا کام دے رہی ہیں کیونکہ اگر مخالفوں سے میدان صاف ہو جاوے تو اس میدان کے مَردانِ کار زار کے جوہر کس طرح ظاہر ہوں اور انعاماتِ الٰہی کی غنیمت سے ان کو کس طرح حصہ نصیب ہو اور اگر اعداء کی مخالفت کا بحرِموّاج پایاب ہو جاوے تو اس کے غوّاصوں کی کیا قدر ہو اور وہ بحرِ معانی کے بے بہا گوہر کو کس طرح حاصل کرسکیں.مادرّ قال ؎ گر نبو دے در مقابل روئے مکروہ وسیاہ کس چہ دانستے جمال شاہد گلفام را گر نیفتادی بخصمے کاردر جنگ ونبرد کے شدی جوہر عیاں شمشیر خوں آشام را اس مخالفت کا کوئی ایسا ہی سِر معلوم ہوتا ہے وَاِلَّا ان کی مخالفت کے ارادے عنداللہ کیا قدر رکھتے ہیں.اس ذات قادرِ مطلق کا تو صاف حکم ہے اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ (المائدۃـ:۵۷) اور اس جنگ و جدال کا آخری انجام بھی بتا دیا ہے کہ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ ( الاعراف:۱۲۹) مگر افسوس کہ باایں ہمہ کوتاہ اندیش نہیں سمجھتے حالانکہ اس نصرت ِالٰہی وتائیدایزدی کا انہیں مشاہدہ وتجربہ بھی ہوتا رہتا ہے اور ان کی مذلّت وخسران ونامُرادی کا انجام بھی کوئی پوشیدہ نہیں ہے کیوں نہ ہو.؎ خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے جب آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے وہ بنتی ہے ہوا اور ہر خسِ راہ کو اُڑاتی ہے وہ ہو جاتی ہے آگ اور ہر مخالف کو جلاتی ہے
قطع نظر ان یبوست مجسم مولویوں و خشک ملا نوں کے موجودہ زمانہ کے فقرا کا گروہ بھی کچھ کم نہیں ہے ان میں ریا کاری وذاتی اغراض کی ایک زہر ہوتی ہے جوآخر کار ان کو ہلاک کر ڈالتی ہے ان کا ہر ایک قول وفعل وعمل ان کی نفسانی اغراض کے تابع ہوتا ہے اور اس میں کوئی نہ کوئی نہاں درنہاں ذاتی غرض مرکوزِ خاطر ہوتی ہے.مثلاً خواہش مسخرات وطلب ِدنیا وجاہ طلبی وغیرہ وغیرہ تاکہ لوگ ان کی طرف رجوع کریں اور ان کی دنیوی عزّت ومال ومتاع میں ترقی ہو جس سے اپنے نفسِ امّارہ کو خوش رکھیں.یہ ایسا سمِّ قاتل ہے کہ اس کا انجام ہلاکت ہے بعض ان میں سے زمین کھود کر چلّہ کرتے ہیں نہ یہ حکمِ الٰہی ہے اور نہ سنّتِ طریق نبوی.ریاکا ری ومکّاری کا خودتراشیدہ ایک خاصہ ڈھنگ ہے تاکہ لوگوں کو دامِ تزویر میں لا یا جاوے اور یہی ان کی دلی غرض ہوتی ہے ان کے ایسے عملوںکی مثال میدانی سراب جیسی ہے کہ دور سے تو خوش نما مصفَّا پانی دکھائی دیتا ہے مگر نزدیک جانے پر اس کی اصل حقیقت کھل جاتی ہے کہ وہ تو صرف آنکھوں کو دھوکا ہی دھوکا تھا.اس وقت تشنگانِ آبِ زلال کو بجز حسرت وپشیمانی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا ایسے ریا کا روں کو جہنم سے حصہ ملتا ہے کیونکہ حق تعالیٰ سے وہ بالکل بیگا نے اور کوچہ یار حقیقی سے بالکل نا آشنا ہوتے ہیں وہ معرفت الٰہی میں دل کے مُردہ اور تن بگور ہوتے ہیں شائد ایسوں ہی کے لیے یہ خطاب ہے.؎ کاملان حیّ اند ہم زیر زمین تو بگوری با حیات این چنین ان کی موت کی حالت عوام کالانعام سے بد تر ہوتی ہے کیونکہ عوام تو سید ھے پن سے جیسا ان کو سمجھ میں آتا ہے ایسا ہی عمل کر لیتے ہیں.ان کی طبیعت میں کوئی تکلّف نہیں ہوتا بالکل سادگی سے دین العجائز پر چلتے ہیں مگر موجودہ فقرا کا گروہ تو عمداً اغراض نفسانی کو ملحوظ خاطر رکھ کر ان تمام ریا کاری کے کاموں کو ایک مزوِّرانہ طلسمات کے رنگ میں ظاہر کر رہا ہے.انہیں عاقبت کی کچھ پروا نہیں.؎ مناز باکلۂ سبز و خرقۂ پشمین کہ زیرِ دلق ملمع فریب ہا باشد سو ہماری جماعت کو چاہیے کہ ایسے تصنّعات سے اپنے آپ کو بچاویں اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے
راہ اور سنّت نبوی پر محکم قدم رکھ کر چلیں تا کہ منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے ان کو کوئی روک حائل نہ ہو اور یہ چند روزہ زندگی رائیگاں نہ جاوے جو آخرت میں سخت ندامت، ذلّت وحسرت کا باعث ہووے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دیوے کہ وہ محض اِبْتِغَآءً لِمَرْضَاتِ اللّٰہِ کی غرض سے راہِ مستقیم پر چل کر منزلِ مقصود پر پہنچ جاویں اور تخلیق انسانی کے اصل مدعا کو پورا کریں.آمین ثم آمین (۴؍نومبر۱۹۰۳ء) (نوٹ.باستثنائے ایک شعر کے جو سر عنوان درج ہے باقی اشعار مندرجہ مضمون ہذا اعلیٰ حضرت اقدس جناب امام صادق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اثنائے تقریر میں نہیں فرمائے تھے مگر چونکہ بجز ایک شعر ؎ بمنزلِ جاناں رسد ہماں مردے کہ ہمہ دم در تلاشِ اودوان باشد کے جو بوقتِ تحریر مضمون ہذاکے بے ساختہ روانی طبع سے احقرکے منہ سے نکل گیا ہے باقی ماندہ اکثر اشعار نے خود حضرت اقدس ہی کی زبان گوہر فشان سے جنم لیا ہوا ہے اور ان مواقعات پر چسپاں بھی تھے اس واسطے مناسب مواقع پر لکھ دئیے گئے ہیں بذاتِ خود بھی یہ حقائق معارف کا ایک خزینہ ہیں وثوق کامل ہے کہ ان کا ان مواقعات مناسبہ پر چسپاں ہونا بفضلہٰ تعالیٰ بہت سے سعید فطرت و راستی پسند طبائع کو تکشیف حقائق وتلخیص دقائق میں مدد دے گا.جس سے ان کو احقاقِ حق وابطالِ باطل کی توفیق ملے گی اللہ کرے ایسا ہی ہو.آمین ثم آمین.والسلام.۵؍نومبر ۱۹۰۳ء.امام صادق علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کمترین خادم احقرالعباد الٰہ داد احمدی کلارک ضلع شاہ پور حال وار د قادیان )۱ ۵؍نومبر ۱۹۰۳ء اولیاء اصفیاء پر مصائب کی وجہ فرمایا کہ آج کل ہندوستان سے ایک عورت آئی ہوئی ہیں (ان کے خاوند بھی آئے ہوئے تھے)وہ اکثر سوال کرتی رہتی ہیں اور میں ان کو سمجھایا کرتا ہوں.ایک ۱البدر جلد۲ نمبر۴۵ مورخہ یکم دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۵۲ تا ۳۵۴ نیز الحکم جلد ۷نمبر۴۴، ۴۵ مورخہ ۳۰؍نومبر،۱۰؍دسمبر ۱۹۰۳ءصفحہ۷،۸
دن سوال کیا کہ اولیاؤں اور پیغمبروں پر بڑی بڑی مصیبت آتی ہے اور وہ ہمیشہ مصیبت کا نشانہ بنے رہتے ہیں.تومیں نے جواب دیا کہ یہ بات غلط ہے اور قرآن شریف کے بھی بالکل بر خلاف ہے.خدا کے اولیاؤں اور نبیوں پر تو ہمیشہ اس کے انعامات ہوتے ہیں وہ ان کا ہر مقام میں حافظ وناصر ہوتا ہے پھر ان پر مصیبت کے کیا معنے؟عملی طور پر دیکھ لو کہ حضرت موسٰی کو کیا کامیابی حاصل ہوئی.ان کا دشمن غرقاب کیا گیا اور موسٰی کو ان پر فتح حاصل ہوئی.پھر دائودؑ کو دیکھ لو.عیسٰیؑ کو دیکھو کہ ان کے دشمن ہمیشہ ذلیل وخوار ہوتے رہے اور یہ سب کامیاب ہوتے رہے.ہمارے پیغمبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو عروج حاصل ہوا کیا اس کی نظیر مل سکتی ہے؟ہرگز نہیں.ہرگزہرگز یہ لوگ فقر و ذلّت کے مصداق نہیں ہوتے.اَلدُّنْیَا سِـجْنٌ لِّلْمُؤْمِنِ میں اگر سجن کے معنی نسبتی کریں کہ اہل اللہ کو جو کچھ جنّت میں ملے گا اس کے مقابلے میں یہ دنیا سجن ہے تو ٹھیک ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اپنے اولیاء کو کبھی عذاب نہیں کرتے بلکہ اس دلیل سے یہود ونصاریٰ کے دعویٰ کی تردید کرتا ہے ان دونوں نے دعویٰ کیا تھا کہ قَالَتِ الْيَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗ کہ ہم خدا کے پیارے اور بمنزلہ اس کی اولاد کے ہیں تواس کا جواب خدا تعالیٰ نے یہ دیا قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ (المائدۃ:۱۹) کہ اگرتم خدا کے پیارے اور بمنزلہ اس کی اولاد کے ہو تو پھر تمہاری شامتِ اعمال پر تم کو وہ دکھ اور تکالیف کیوں دیتا ہے؟ پس اس سے ثابت ہے کہ جو خدا کے پیارے ہوتے ہیں ان کو دنیا میں دکھ نہیں ہوتا اور وہ ہر ایک قسم کے عذاب سے محفوظ ہوتے ہیں (اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُمْ) پس اگر اس کے پیاروں کو عذاب ہوتا رہے تو پھر کافروں میں اور ان میں کیا فرق ہوا؟انبیاء پر اگر کوئی واقعہ مصیبت کے رنگ میں آتا ہے تو اس سے خدا تعالیٰ کا یہ منشا ہوتا ہے کہ ان کے اخلاق کو وہ دنیا پر ظاہر کرے کہ جو ہماری طرف سے آتے ہیں اور ہمارے ہو جاتے ہیں وہ کن اخلاق فاضلہ کے صاحب ہوتے ہیں.امام حسینؑ پر بھی ایسا واقعہ گذرا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایسے واقعات گذرے مگر صبر اور استقلال اور خدا تعالیٰ کی رضا کو کس طرح مقدم رکھ کر بتلایا.انسان کے اخلاق ہمیشہ دو رنگ میں ظاہر ہوسکتے ہیں یا ابتلا کی حالت میں اور یا انعام کی
حالت میں.اگر ایک ہی پہلوہو اوردوسرا نہ ہو تو پھر اخلاق کا پتا نہیں مل سکتا.چونکہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق مکمل کرنے تھے.اس لیے کچھ حصہ آپ کی زندگی کا مکّی ہے اور کچھ مدنی.مکہ کے دشمنوں کی بڑی بڑی ایذا رسانی پر صبر کا نمونہ دکھایا اور باوجود ان لوگوں کے کمال سختی سے پیش آنے کے پھر بھی آپ ان سے حلم اور بردباری سے پیش آتے رہے اور جو پیغام خدا کی طرف سے لائے تھے اس کی تبلیغ میں کوتاہی نہ کی.پھر مدینہ میں جب آپ کو عروج حاصل ہوا اور وہی دشمن گرفتار ہو کر پیش ہوئے تو ان میں سے اکثروں کو عفو کردیا.باوجود قوتِ انتقام پانے کے پھر انتقام نہ لیا.مولوی عبد اللطیف صاحب کا نمونہ صبر و استقلال اب حال میں مولوی عبداللطیف صاحب شہید مرحوم کا نمونہ دیکھ لو کہ کس قدر صبر اور استقلال سے انہوں نے جان دی ہے ایک شخص کو بار بار جان جانے کا خوف دلا یا جاتا ہے اور اس سے بچنے کی امید دلائی جاتی ہے کہ اگرتو اپنے اعتقاد سے بظاہر توبہ کر دے تو تیری جان نہ لی جاوے گی مگر انہوں نے موت کو قبول کیا اور حق سے رُوگردانی پسند نہ کی.اب دیکھو اور سوچو کہ اسے کیا کیا تسلی اور اطمینان خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہوگا کہ وہ اس طرح پر دنیا ومافیہاپر دیدہ دانستہ لات مارتا ہے اور موت کو اختیار کرتا ہے اگر وہ ذرا بھی توبہ کرتے تو خدا جانے امیرنے کیا کچھ اس کی عزّت کرنی تھی مگر انہوں نے خدا کے لیے تمام عزّتوں کو خاک میں ملایا اور جان دینی قبول کی.کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ آخر دم تک اور سنگساری کے آخری لمحہ تک ان کو مہلت توبہ کی دی جاتی ہے اور وہ خوب جانتے تھے کہ میرے بیوی بچے ہیں لاکھ ہا روپے کی جائداد ہے دوست یار بھی ہیں ان تمام نظاروں کو پیش چشم رکھ کر اس آخری موت کی گھڑی میں بھی جان کی پروا نہ کی.آخر ایک سروراور لذّت کی ہواان کے قلب پر چلتی تھی جس کے سامنے یہ تمام فراق کے نظارے ہیچ تھے.اگر ان کو جبراً قتل کر دیا جاتا اور جان کے بچانے کا موقع نہ دیا جاتا تو اور بات تھی.مجبوراً تو ایک عورت کو بھی انسان قتل کرسکتا ہے مگر ان کو بار بار موقع دیا گیا باوجود اس مہلت ملنے کے پھر موت اختیار کرنی بڑے ایمان کو چاہتی ہے.اولیاء اللہ کی ایک خصلت ہوتی ہے کہ وہ موت کو پسند کرتے ہیں سوانہوں نے ظاہر کی.
ہمارے کام کا انسان ہمارے کام کا وہ انسان ہوسکتا ہے جبکہ ایک مدّت اور نہیں تو کم ازکم ایک سال ہماری مجلس میں رہے اور تمام ضروری امور کو سمجھ لیوے اور ہم اطمینان پاجاویں کہ تہذیب نفس اسے حاصل ہو گئی ہے تب وہ بطور سفیر وغیرہ کے یورپ وغیرہ ممالک میں جاسکتا ہے مگرتہذیب ِنفس مشکل مرحلہ ہے پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھنا آسان مگر یہ مشکل.دینی تعلیم کے لیے بہت علوم کی ضرورت نہیں ہوتی.طہارت ِقلب اَور شَے ہے خدا ایک نور جب دل میں پیدا کردیتا ہے تو اس سے علوم خود حاصل ہوتے جاتے ہیں.۱ ۱۰؍ نومبر ۱۹۰۳ء (بوقت ِظہر) اپنے آپ کو ہر آن خدا تعالیٰ کا محتاج سمجھو شیخ فضل الٰہی صاحب سوداگر رئیس صدر بازار راولپنڈی جن کو بابو شاہ دین صاحب نے حضرت اقدس سے انٹروڈیوس کیا اور جناب محمد رمضان صاحب ٹھیکیدار جہلم اور چند دیگر اصحاب نے بیعت کی.بعد بیعت حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذیل کی تقریر فرمائی.مذہب یہی ہے کہ انسان خوب غور کرے اور دیکھے اور عقل سے سوچے کہ وہ ہر آن میں خدا کا محتاج ہے اور اسی کی طرف عجزسے آئے انسان کی جان پر، مال پر، آبرو پر بڑے بڑے مصائب اور حملے ہوتے ہیں لیکن سوائے خدا کے اور کوئی نجات دینے والا نہیں ہوتا اور ان مو قعوں پر ہر ایک قسم کا فلسفہ خو دبخود شکست کھا جاتا ہے جن لوگوں نے ایسے اصولوں پر قائم ہونا چاہا ہے کہ جس میں وہ خدا کی حاجت کو تسلیم نہیں کرتے.حتی کہ’’انشاء اللہ‘‘ بھی زبان سے نکالنا ان کے نزدیک معیوب ہے مگر پھر بھی جب موت کا وقت آتا ہے تو ان کو اپنے خیالات کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے.بات یہ ہے کہ ہر آن میں اور اپنے ہر ایک ذرّہ کے قیام کے لیے انسان کو خدا کی حاجت اور ضرورت ہے اور اگر وہ انانیت سے نکل کر غور سے دیکھے تو تجربہ سے اسے خود پتا لگ جاتا ہے کہ وہ کس قدر غلطی پہ تھا اپنے ۱البدر جلد ۲نمبر۴۵ مورخہ یکم دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۵۴ ،۳۵۵
آپ کو ہر آن واحد میں خدا کا محتاج جاننا اور اس کے آستانہ پر سر رکھنا یہی اسلام ہے اور اگر کوئی مسلمان ہو کر اسلام کے طریق کو اختیار نہیں کرتا اور اس پر قدم نہیں مارتا تو پھر اس کا اسلام ہی کیا ہے؟ اسلام نام ہے خدا کے آگے گردن جھکا دینے کا.ذرا سوچ کر دیکھو کہ اگر انسان کو ایک سوئی نہ ملے تو اس کا کس قدر حرج ہوتا ہے تو پھر کیا خدا کا وجود ایسا ہوسکتا ہے کہ اس کی ضرورت انسان کو نہ ہو اور اس کے وجود کے بغیر وہ زندہ رہ سکے.جب تک انسان کو صحت، مال، اقتدار حاصل ہوتا ہے تب تک تو اس کایہ مذہب ہوتا ہے کہ اسباب پر توکّل اور بھروسہ نہ کرے اور اپنے آپ کو خدا کا محتاج نہ جانے،لیکن جب مصائب اور مشکلات آکر پڑتے ہیں تو اس وقت یہ مذہب خود بخود بدلنا پڑتا ہے.اسی لیے جو لوگ مصائب اور شدائد کا نشانہ رہتے ہیں ان کا مذہب ہی اور ہوتا ہے.وہ دیکھتے ہیں کہ ایک ایسے وجود کی ضرورت ہے جو طاقت والا ہو اور ہمیں پناہ دے سکے.ایک صاحب محمد رمضان ہوتے تھے وہ خدا کے قائل نہ تھے مگر جب مرض الموت نے آکر ان کو پکڑا تو آخر اپنا مذہب بدلا اور اس وقت کہتے تھے کہ اگر ایک دفعہ مجھے تندرستی حاصل ہو جاوے تو میں پھر کبھی خدا کے وجود سے منکر نہ ہوں گا.اس لیے انسان کو لازم ہے کہ ہمیشہ غفلت سے پرہیز کرے اور اس ذات پر نظر رکھے جس کے بغیر ایک ذرّہ کا قیام بھی مشکل ہے.لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کے یہی معنے ہیں کہ انسان اس کی طرف بار بار رجوع کرے اور اس کے مقابلے پر کسی اور وجود اور شَے کو متصرّف اور مقتدر نہ جانے.جو شخص ایک بکری رکھتا ہے تو اس سے اسی وقت مستفید ہوتا ہے دودھ حاصل کرتا ہے لیکن جس نے خدا کا نام لے کر اس کی ضرورت کو بالکل محسوس نہ کیا اور نظر استخفاف سے اسے دیکھا اور ایک فرضی بت کی طرح اس کے وجود کو سمجھا تو خدا کو اس شخص کی کیا پروا ہے.انسان پر جو انقلابات آتے ہیں وہ اس ہستی کی ضرورت کو خود ثابت کرتے ہیں.اس جماعت میں داخل ہو کر اوّل تغیر زندگی میں کرنا چاہیے کہ خدا پر ایمان سچا ہو کہ وہ ہر مصیبت میں کام آتا ہے.پھر اس کے احکام کو نظر خفت سے ہرگز نہ دیکھا جاوے بلکہ ایک ایک حکم کی تعظیم کی جاوے اور عملاًاس
بعض لوگ اس سے تمسخر کرتے ہیں اور آج کل بہت لوگ نام کے مسلمان ہیں جو کہ ارکانِ نماز کی بجاآوری کو ایک بیہودہ حرکت کہتے ہیں لیکن ایک مومن کو ہرگز لازم نہیں کہ ان باتوں اور ہنسی اور استہزا سے وہ اس کی ادائیگی کو ترک کرے.لوگوں کے ایسے خیالات اور خدا کے احکام کو نظر استخفاف کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ عذاب کو چاہتا ہے.ان لوگوں کی زندگی مُردوں کی سی ہے.انبیاء کے سلسلہ پر کہ جس کے ذریعہ سے ایمان حاصل ہوتا ہے ان کو ایمان نہیں ہے.مگر ہم سچی اور حقیقی رؤیت سے گواہی دیتے ہیں کہ خدا بر حق ہے اور سلسلہ انبیاء کا برحق ہے.مَرنے پر ان لوگوں کو پتا لگے گا کہ جنّت اور دوزخ سب کچھ جس سے آج یہ منکر ہیں بر حق ہے.رعایتِ اسباب جب سے آزادی کے خیالات اور تعلیم نے دلوں اور دماغوں میں جگہ لی ہے اُس وقت سے بہت بگاڑپھیلاہے.خیالات ایسے پراگندہ ہوگئے ہیں کہ شریعت کو خود تر میم کر لیا ہے.دنیا کو اپنا مقصود بنا رکھا ہے.شریعت نے ایک حد تک رعایتِ اسباب کی اجازت دی ہے.مثلاً اگر ایک قطعہ زمین کا ہو اور اسے کاشت نہ کیا جاوے تو اس کی نسبت سوال ہوگا کہ کیوں کاشت نہ کیا؟مگر بہ ہمہ وجوہ اسباب پر سرنگوں ہونا اور اسی پر بھروسہ کرنا اور خدا پر توکّل چھوڑ دینا یہ شرک ہے اور گویا خدا کی ہستی سے انکار.رعایت اسباب اس حد تک کرنی چاہیے کہ شرک لازم نہ آوے.ہمارا مذہب یہ ہے کہ ہم رعایتِ اسباب سے منع نہیں کرتے مگر اس پر بھروسہ کرنے سے منع کرتے ہیں.دل بایار اور دست باکار والی بات ہونی چاہیے لیکن حال میں دیکھا جاتا ہے کہ زبانوں پر تو سب کچھ ہے توکّل بھی ہے.توحید بھی ہے مگر دل میں مقصود بالذّات صرف دنیا کو بنا رکھاہے.رات دن اسی خیال میں ہیں کہ مال بہت سا مل جاوے.عزّت دنیا میں حاصل ہو.یہ لوگ یہ خیال نہیں کرتے کہ ہم زہر کھا رہے ہیں جس نے ہلاک کر دینا ہے.ہماری شریعت اور ہمارا دین دنیا میں کوشش کرنے سے نہیں روکتے صرف اتنی بات ہے کہ دین کو مقدم رکھ کراگر کوشش کرے تو تلاش اسباب جرم نہیں ہے ہاں ایسے طور پر جسے خدا نے حرام ٹھہرایا ہے نہ ہو.جیسے کہ رشوت اور ظلم وغیرہ سے روپیہ کمایا جاتا ہے.اگر خدا کی راہ میں صرف کرنے،اولاد پر
خرچ کرنے اور صدقات وغیرہ کے لیے تلاش اسباب کی جائے تو حرج نہیں کیونکہ مال بھی تو ذریعہ قرب الٰہی ہوتا ہے مگر خدا کو بالکل چھوڑدینا اور بالکل اسباب کا ہو رہنا یہ ایک جذام ہے اور جب تک کہ قبض روح نہ ہوجاوے اس کی خبر نہیں ہوتی.خدا سے ڈرنا اور تقویٰ اختیار کرنا یہ بڑی نعمت ہے جسے حاصل کرنا چاہیے اور متکبر گردن کش نہ ہونا چاہیے.حقیقی اخلاق اخلاق دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ ہیں جو آج کل کے نو تعلیم یافتہ پیش کرتے ہیں کہ ملاقات وغیرہ میں زبان سے چاپلوسی اور مداہنہ سے پیش آتے ہیں اور دلوں میں نفاق اور کینہ بھرا ہوا ہوتا ہے.یہ اخلاق قرآن شریف کے خلاف ہیں.دوسری قسم اخلاق کی یہ ہے کہ سچی ہمدردی کرے.دل میں نفاق نہ ہو اور چاپلوسی اور مداہنہ وغیرہ سے کام نہ لے جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى(النحل:۹۱) تو یہ کامل طریق ہے اور ہر ایک کامل طریق اور ہدایت خدا کے کلام میں موجود ہے جو اس سے روگردانی کرتے ہیں وہ اور جگہ ہدایت نہیں پا سکتے.اچھی تعلیم اپنی اثر اندازی کے لیے دل کی پاکیزگی چاہتی ہے جو لوگ اس سے دور ہیں اگر عمیق نظر سے ان کو دیکھو گے تو ان میں ضرور گند نظر آئے گا.زندگی کا اعتبار نہیں ہے.نماز،صدق و صفا میں ترقی کرو.۱ بلا تاریخ ایمان کی حقیقت ایمان اس بات کو کہتے ہیں کہ اس حالت میں مان لینا جبکہ ابھی علم کمال تک نہیں پہنچا اور شکوک اورشبہات سے ہنوز لڑائی ہے.پس جو شخص ایمان لاتا ہے یعنی باوجود کمزوری اور نہ مہیا ہونے کل اسباب یقین کے اس بات کو اغلب احتمال کی وجہ سے قبول کرلیتا ہے وہ حضرتِ احدیت میں صادق اور راستباز شمار کیا جاتا ہے اور پھر اس کو موہبت کے طور پر معرفت تامہ حاصل ہوتی ہے اور ایمان کے بعد عرفان کا جام اس کو پلایا جاتا ہے.اس لیے ایک مرد ۱ البدر جلد ۲نمبر۴۶ مورخہ ۸؍ دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۶۲، ۳۶۳
متقی رسولوں اور نبیوں اور مامورین من اللہ کی دعوت کو سن کر ہر ایک پہلو پر ابتداء اَمر میں ہی حملہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ حصہ جو کسی مامور من اللہ کے ہونے پر بعض صاف اور کھلے کھلے دلائل سے سمجھ آجاتا ہے.اسی کو اپنے اقرار اور ایمان کا ذریعہ ٹھہرا لیتا ہے اور وہ حصہ جو سمجھ میں نہیں آتا اس میں سنّت صالحین کے طور پر استعارات اور مجازات قرار دیتا ہے اور اس طرح تنا قض کو درمیان سے اُٹھا کر صفائی اور اخلاص کے ساتھ ایمان لے آتا ہے تب خدا تعالیٰ اس کی حالت پر رحم کرکے اور اس کے ایمان پر راضی ہوکر اور اس کی دعائوں کو سن کر معرفت تامہ کا دروازہ اس پر کھولتا ہے اور الہام اور کشوف کے ذریعہ سے اور دوسرے آسمانی نشانوں کے وسیلہ سے یقین کامل تک اس کو پہنچاتا ہے،لیکن متعصّب آدمی جو عناد سے پُر ہوتا ہے ایسا نہیں کرتا اور نہ وہ ان اُمور کو جو حق کے پہچاننے کا ذریعہ ہوسکتے ہیں تحقیر اور توہین کی نظر سے دیکھتا ہے اور ٹھٹھے اور ہنسی میں ان کو اُڑادیتا ہے اور وہ امور جو ہنوز اس پر مشتبہ ہیں ان کو اعتراض کرنے کی دستاویز بناتا ہے اور ظالم طبع لوگ ہمیشہ ایسا ہی کرتے رہے ہیں.آیاتِ بینات،محکمات اور آیات متشابہات چنانچہ ظاہر ہے کہ ہر ایک نبی کی نسبت جو پہلے نبیوں نے پیشگوئیاں کیںان کے ہمیشہ دو حصے ہوتے رہے ہیں.ایک بینات اور محکمات جن میں کوئی استعارہ نہ تھا اور کسی تاویل کی محتاج نہ تھیں اور ایک متشابہات جو محتاجِ تاویل تھیں اور بعض استعارات اور مجازات کے پردے میں محجوب تھیں.پھر ان نبیوں کے ظہور اور بعثت کے وقت جو ان پیشگوئیوں کے مصداق تھے دو فریق ہوتے رہے ہیں.ایک فریق سعیدوںکا جنہوں نے بینات کو دیکھ کر ایمان لانے میں تاخیر نہ کی اور جو حصہ متشابہات کا تھا اس کو استعارات اور مجازات کے رنگ میں سمجھ لیا.آئندہ کے منتظر رہے۱ اور اس طرح پر حق کو پالیا اور ٹھوکر نہ کھائی.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بھی ۱ پیشگوئیوں میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ تمام باتیں ایک ہی وقت میں پوری ہو جائیں.بلکہ تدریجاً پوری ہوتی رہتی ہیں اور ممکن ہے کہ بعض باتیں ایسی بھی ہوں کہ اس مامور کی زندگی میں پوری نہ ہوں اور کسی دوسرے کے ہاتھ سے جو اس کے متبعین میں سے ہو پوری ہوجائیں.
ایسا ہی ہوا.پہلی کتابوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت دوطور کی پیشگوئیاں تھیں ایک یہ کہ وہ مسکینوں اور عاجزوںکے پیرایہ میں ظاہر ہوگا اور غیر سلطنت کے زمانہ میں آئے گا اور دائود کی نسل سے ہوگا اور حلم اور نرمی سے کام لے گا اور نشان دکھلائے گا اور دوسری قسم کی یہ پیشگوئیاں تھیں کہ وہ بادشاہ ہوگا اور بادشاہوں کی طرح لڑے گا اور یہودیوں کو غیر سلطنت کی ماتحتی سے چھوڑا دے گا اور اس سے پہلے ایلیاء نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا اور جب تک ایلیاء نبی دوبارہ دنیا میں نہ آوے وہ نہیں آئے گا.پھر جب حضرت عیسٰیؑ نے ظہور فرمایا تو یہود دو فریق ہوگئے.ایک فریق جو بہت ہی کم اور قلیل التعداد تھا.اس نے حضرت مسیحؑ کو دائود کی نسل سے پا کر اور پھر ان کی مسکینی اور عاجزی اور راستبازی دیکھ کر اور پھر آسمانی نشانوں کو ملا حظہ کرکے اور نیز زمانہ موجودہ کو دیکھ کر کہ وہ ایک نبی مصلح کو چاہتی ہے اور پہلی پیشگوئیوں کے قرار داد وقتوں کا مقابلہ کرکے یقین کر لیا کہ یہ وہی نبی ہے جس کا اسرائیل کی قوم کو وعدہ دیا گیا تھا.سو وہ حضرت مسیح پر ایمان لائے اور ان کے ساتھ ہو کر طرح طرح کے دُکھ اُٹھائے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک اپنا صدق ظاہر کیا لیکن جو بد بختوںکا گروہ تھا اُس نے کھلی کھلی علامتوں اور نشانوں کی طرف ذرّہ التفات نہ کیا.یہاں تک کہ زمانہ کی حالت پربھی ایک نظر نہ ڈا لی اورشریرانہ حجت بازی کے ارادے سے دوسرے حصے کو جو متشابہات کا حصہ تھااپنے ہاتھ میں لے لیا اور نہایت گستا خی سے اس مقدس کو گالیاں دینی شروع کیں اور اس کا نام ملحد اور بے دین اور کافر رکھا اور یہ کہا کہ یہ شخص پاک نوشتوں کے اُلٹے معنے کرتا ہے اور اس نے نا حق ایلیاہ نبی کے دوبارہ آنے کی تا ویل کی ہے اور نصِّ صریح کو اس کے ظاہر سے پھیرا ہے اور ہمارے علماء کو مکار اور ریا کار کہتا ہے اور کتب مقدسہ کے اُلٹے معنے کرتا ہے اور نہایت شرارت سے اس بات پر زور دیا کہ نبیوں کی پیشگوئیوں کا ایک حرف بھی صادق نہیں آتا وہ نہ بادشاہ ہو کر آیا اور نہ غیر قوموں سے لڑا اور نہ ہم کو ان کے ہاتھ سے چھوڑایا اور نہ اس سے پہلے ایلیاء نبی نازل ہوا پھر وہ مسیح موعود کیوں کر ہو گیا.غرض ان بد قسمت شریروں نے سچائی کے انوار اور علامات پر نظر ڈالنا نہ چاہا اور جو حصہ متشابہات کاپیشگوئیوں میں تھا اس کو ظاہر پر حمل کرکے بار بار پیش کیا.یہی ابتلا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کے وقت میں اکثر یہودیوں کو پیش آیا.انہوں نے بھی اپنے اسلاف کی عادت کے موافق نبیوں کی پیشگوئیوں کے اس حصہ سے فائدہ اُٹھانا نہ چاہا جو بیّنات کا حصہ تھا اور متشابہات جو استعارات تھے اپنی آنکھ کے سامنے رکھ کر یا تحریف شدہ پیشگوئیوں پر زور دے کر اس نبی کریم کی دولت ِاطاعت سے جو سیّدالکونین ہے محروم رہ گئے اور اکثر عیسائیوں نے بھی ایسا ہی کیا.انجیل کی کھلی کھلی پیشگوئیاںہمارے صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تھیں.ان کو تو ہاتھ تک نہ لگا یا اور جو سنّت اللہ کے موافق پیشگوئیوں کا دوسرا حصہ یعنی استعارات اور مجازات تھے ان پر گر پڑے اس لئے حقیقت کی طرف راہ نہ پا سکے، لیکن ان میں سے وہ لوگ جو حق کے طالب تھے اور جو پیشگوئیوں کی تحریر میں طرزوعادتِ الٰہی ہے اس سے واقف تھے انہوں نے انجیل کی ان پیشگوئیوں سے جو آنے والے بزرگ نبی کے بارے میں تھیں فائدہ اُٹھایا اور مشرف با اسلام ہوئے اور جس طرح یہود میں سے اس گروہ نے جو حضرت عیسٰیؑ پر ایمان لائے تھے پیشگوئیوں کے بیّنات سے دلیل پکڑی تھی اور متشابہات کو چھوڑ دیا تھا ایسا ہی ان بزرگ عیسائیوں نے بھی کیا اور ہزار ہا نیک بخت انسان ان میں سے اسلام میں داخل ہوئے.غرض ان دونوں قوموں یہود و نصاریٰ میں سے جس گروہ نے متشابہات پر جم کر انکار پر زور دیا اور بینات پیشگوئیوں سے جو ظہور میں آئیں فائد ہ نہ اٹھایا ان دونوں گروہ کا قرآن شریف میں جا بجا ذکر ہے اور یہ ذکر اس لئے کیا گیا کہ تاان کی بد بختی کے ملاحظہ سے مسلمانوں کو سبق حاصل ہو اور اس بات سے متنبہ رہیں کہ یہود نصاریٰ کی مانند بیّنات کو چھوڑ کر اور متشابہات میں پڑکر ہلاک نہ ہو جائیں اور ایسی پیشگوئیوں کے بارے میں جو مامور من اللہ کے لئے پہلے سے بیان کی جاتی ہیں اُمید نہ رکھیں کہ وہ اپنے تمام پہلوئوں کے رُو سے ظاہری طور پر ہی پوری ہوں گی بلکہ اس بات کے ماننے کے لئے طیار رہیں کہ قدیم سنّت اللہ کے موافق بعض حصے ایسی پیشگوئیوں کے استعارات اور مجازات کے رنگ میں بھی ہوتے ہیں اور اسی رنگ میں وہ پوری بھی ہو جاتی ہیں مگر غافل اور سطحی خیال کے انسان ہنوز انتظار میں لگے رہتے ہیں کہ گویا ابھی وہ باتیں پوری نہیں ہوئیں بلکہ آئندہ ہوں گی.جیسا کہ یہود ابھی تک اس بات کو روتے ہیں کہ ایلیاء نبی دوبارہ دنیا میں
آئے گا اور پھران کا مسیح موعود بڑے بادشاہ کی طرح ظاہر ہوگا اور یہودیوں کو امارت اور حکومت بخشے گا حالانکہ یہ سب باتیں پوری ہو چکیں اور اس پر انیس سو برس کے قریب عرصہ گزر گیا اور آنے والا آبھی گیا اور اس دنیا سے اُٹھا یا بھی گیا.۱ محکم اور متشابہ پیشگو ئیاں یہ بات نہایت کار آمد اور یاد رکھنے کے لائق تھی کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مامور ہو کر آتے ہیں خواہ وہ رسول ہوں یا نبی یا محدث اور مجدّد.ان کی نسبت جو پہلی کتابوں میں یا رسولوں کی معرفت پیشگوئیاں کی جاتی ہیں ان کے دو حصے ہوتے ہیں.ایک وہ علامات جو ظاہر ی طور پر وقوع میں آتی ہیں اور ایک متشابہات جو استعارات اور مجازات کے رنگ میں ہوتی ہیں.پس جن کے دلوں میں زیغ اور کجی ہوتی ہے وہ متشابہات کی پیروی کرتے ہیں اور طالب صادق بیّنات اور محکمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں.یہود اور عیسائیوں کو یہ ابتلا پیش آچکے ہیں پس مسلمانوں کے اولو الابصار کو چاہیے کہ ان سے عبرت پکڑیں اور صرف متشابہات پر نظر رکھ کر تکذیب میں جلدی نہ کریں اور جوباتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے کھل جائیں ان سے اپنی ہدایت کے لیے فائدہ اٹھاویں.یہ تو ظاہر ہے کہ شک یقین کو رفع نہیں کرسکتا.پس پیشگوئیوں کا وہ دوسرا حصہ جو ظاہری طور پر ابھی پورا نہیں ہو اوہ ایک اَمر شکی ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ایلیاء کے دوبارہ آنے کی طرح وہ حصہ استعارات یا مجاز کے رنگ میں پورا ہو گیا ہو مگر انتظار کرنے والا اس غلطی میں پڑا ہو کہ وہ ظاہری طور پر کسی دن پورا ہوگا اور یہ بھی ممکن ہے کہ بعض احادیث کے الفاظ محفوظ نہ رہے ہوں کیونکہ احادیث کے الفاظ وحی متلوکی طرح نہیں اور اکثر احادیث احاد کا مجموعہ ہیں اعتقادی اَمر تو الگ بات ہے جو چاہو ا عتقاد کرو مگر واقعی اور حقیقی فیصلہ یہی ہے کہ احاد میں عندالعقل امکان تغیر الفاظ ہے.چنانچہ ایک ہی حدیث جو مختلف طریقوں اور مختلف راویوں سے پہنچتی ہے اکثر ان کے الفاظ اور ترتیب میں بہت سافرق ہوتا ہے حالانکہ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی منہ سے نکلی ہے.پس صاف سمجھ آتا ہے کہ چونکہ اکثر راویوں کے الفاظ اور طرزِبیان جُدا جُدا ۱ البدر جلد۲نمبر۴۷ مورخہ ۱۶؍دسمبر۱۹۰۳ء صفحہ۳۷۲
ہوتے ہیں اس لیے اختلاف پڑ جاتا ہے اور نیز پیشگوئیوں کے متشابہات کے حصہ میں یہ بھی ممکن ہے کہ بعض واقعات پیشگوئیوں کے جن کا ایک ہی دفعہ ظاہر ہونا امید رکھا گیا ہے وہ تدریجاًظاہر ہوں یا کسی اَور شخص کے واسطے سے ظاہر ہوں جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی کہ قیصر وکسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں آپ کے ہاتھ پر رکھی گئی ہیں حالانکہ ظاہر ہے کہ پیشگوئی کے ظہور سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے تھے اور آنجناب نے نہ قیصر اور کسریٰ کے خزانہ کو دیکھا اور نہ کنجیاں دیکھیں مگر چونکہ مقدر تھا کہ وہ کنجیاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملیں کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وجود ظلّی طور پر گویا آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی تھا اس لیے عالم وحی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ قرار دیا گیا.خلاصہ کلام یہ کہ دھوکا کھانے والے اسی مقام پر دھوکا کھاتے ہیں وہ اپنی بد قسمتی سے پیشگوئی کے ہر ایک حصہ کی نسبت یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ظاہری طور پر ضرور پورا ہوگا اور پھر جب وقت آتا ہے اور کوئی مامور من اللہ آتا ہے تو جو جو علامتیں اس کے صدق کی نسبت ظاہر ہو جائیں ان کی کچھ پروا نہیں رکھتے اور جو علامتیں ظاہری صورت میں پوری نہ ہوں یا ابھی ان کا وقت نہ آیا ہو ان کو بار بار پیش کرتے ہیں.ہلاک شدہ اُمتیں جنہوں نے سچے نبیوں کو نہیں مانا ان کی ہلاکت کا اصل موجب یہی تھا اپنے زعم میں تو وہ لوگ اپنے تئیںبڑے ہو شیار جانتے رہے ہیں مگر ان کے اس طریق نے قبول حق سے ان کو بے نصیب رکھا.یہ عجیب ہے کہ پیشگوئیوں کی نافہمی کے بارے میں جو کچھ پہلے زمانہ میں یہود اور نصاریٰ سے وقوع میں آیا اور انہوں نے سچوں کو قبول نہ کیا ایسا ہی میری قوم مسلمانوں نے میرے ساتھ معاملہ کیا.یہ تو ضروری تھا کہ قدیم سنّت اللہ کے موافق وہ پیشگوئیاں جو مسیح موعود کے بارے میں کی گئیں وہ بھی دوحصوں پر مشتمل ہوتیں ایک حصہ بیّنات کا جو اپنی ظاہر صورت پر واقع ہونے والا تھا اور ایک حصہ متشابہات کا جو استعارات اور مجازات کے رنگ میں تھا لیکن افسوس کہ اس قوم نے بھی پہلے خطاکار لوگوں کے قدم پر قدم مارا اور متشابہات پراَڑ کر ان بیّنات کو ردّ کر دیا جو نہایت صفائی سے پوری ہو گئی تھیں حالانکہ شرط تقویٰ یہ تھی کہ پہلی قوموں کے ابتلاؤں کو یاد کرتے.متشابہات پر زور نہ مارتے اور
بیّنات سے یعنی ان باتوں اور ان علا متوں سے جو روز روشن کی طرح کھل گئی تھیں فائدہ اُٹھاتے مگر وہ ایسا نہیں کرتے بلکہ جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی وہ پیشگوئیاں پیش کی جاتی ہیں جن کے اکثر حصے نہایت صفائی سے پورے ہو چکے ہیں تو نہایت لاپرواہی سے ان سے منہ پھیر لیتے ہیں اور پیشگوئیوں کی بعض باتیںجو استعارات کے رنگ میں تھیں پیش کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حصہ پیشگوئیوں کا کیوں ظاہری طور پر پورا نہیں ہوا اور بایں ہمہ جب پہلے مکذبوں کا ذکر آوے جنہوں نے بعینہٖ ان لوگوں کی طرح واقع شدہ علامتوں پر نظر نہ کی اور متشابہات کا حصہ جو پیشگوئیوں میں تھا اور استعارات کے رنگ میں تھا اس کو دیکھ کر کہ وہ ظاہری طور پر پورا نہیں ہوا حق کو قبول نہ کیا تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم ان کے زمانہ میں ہوتے تو ایسا نہ کرتے حالانکہ اب یہ لوگ ایسا ہی کررہے ہیں جیسا کہ ان پہلے مکذبوں نے کیا.جن ثابت شدہ علامتوں اور نشانوں سے قبول کرنے کی روشنی پیدا ہوسکتی ہے ان کو قبول نہیں کرتے اور جو استعارات اور مجازات اور متشابہات ہیں ان کو ہاتھ میں لیے ہوئے پھر تے ہیں اور عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ یہ باتیں پوری نہیں ہوئیں حالانکہ سنّت اللہ کی تعلیم ِطریق کے موافق ضرور تھا کہ وہ باتیں اس طرح پوری نہ ہوتیں جس طرح ان کا خیال ہے یعنی ظاہری اور جسمانی صورت پر بے شک ایک حصہ ظاہری طور پر اور ایک حصہ مخفی طور پر پورا ہو گیا، لیکن اس زمانہ کے متعصّب لوگوں کے دلوں نے نہیں چاہا کہ قبول کریں وہ تو ہر ایک ثبوت کو دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں.وہ خدا کے نشانوں کو انسان کی مکاری خیال کرتے ہیں.جب خدائے قدوس کے پاک الہاموں کو سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ انسان کا افترا ہے مگر اس بات کا جواب نہیں دے سکتے کہ کیا کبھی خدا پر افترا کرنے والے کو مفتریات کے پھیلانے کے لیے وہ مہلت ملی جو سچے ملہموں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی؟ کیا خدا نے نہیں کہا کہ الہام کا افترا کے طور پر دعویٰ کرنے والے ہلاک کئے جائیں گے اور خدا پر جھوٹ بو لنے والے پکڑے جائیں گے؟ یہ تو توریت میں بھی ہے کہ جھوٹا نبی قتل کیا جائے گا اور انجیل میں بھی ہے کہ جھوٹا جلد فنا ہوگا اور اس کی جماعت متفرق ہو جائے گی.کیا کوئی ایک نظیر بھی ہے کہ جھوٹے مُلہم نے جو خدا پر افترا کر نے والا تھا ایامِ افترا میں وہ عمر پائی جواس عاجز کو ایامِ دعوتِ الہام
میں ملی؟ بھلا اگر کوئی نظیرہے تو پیش تو کرو میں نہایت پُر زور دعویٰ سے کہتا ہوں کہ دنیا کی ابتدا سے آج تک ایک نظیر بھی نہیں ملے گی.پس کیا کوئی ایسا ہے کہ اس محکم اور قطعی دلیل سے فائدہ اٹھاوے اور خدا تعالیٰ سے ڈرے؟ میں نہیں کہتا کہ بت پرست عمر نہیں پاتے یا دہریہ یا انا الحق کہنے والے جلد پکڑے جاتے ہیں کیونکہ ان غلطیوں اور ضلالتوں کی سزا دینے کے لیے دوسرا عالم ہے لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ جو شخص خدا تعالیٰ پر الہام کا افترا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ الہام مجھ کو ہوا حالانکہ جانتا ہے کہ وہ الہام اس کو نہیں ہوا وہ جلد پکڑا جاتا ہے اور اس کی عمر کے دن بہت تھوڑے ہوتے ہیں قرآن اور انجیل اور تورات نے یہی گواہی دی ہے عقل بھی یہی گواہی دیتی ہے اور اس کے مخالف کوئی منکر کسی تاریخ کے حوالہ سے ایک نظیر بھی پیش نہیں کرسکتا اور نہیں دکھلا سکتا کہ کوئی جھوٹا الہام کا دعویٰ کرنے والا پچیس برس تک یا اٹھارہ برس تک جھوٹے الہام دنیا میں پھیلاتا رہا اور جھوٹے طور پر خدا کا مقرب اور خدا کا مامور اور خدا کافرستادہ اپنا نام رکھا اور اس کی تائید میں سالہائے دراز تک اپنی طرف سے الہامات تراش کر مشہور کرتا رہا اور پھر وہ باوجودان مجرمانہ حرکات کے پکڑانہ گیا.کیا ا مید کی جاتی ہے کہ کوئی ہمارا مخالف اس سوال کا جواب دے سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.ان کے دل جانتے ہیں کہ وہ ان سوالات کے جواب دینے سے عاجز ہیں مگر پھر بھی انکار سے باز نہیں آتے.بلکہ بہت سے دلائل سے ان پر حجت واردہو گئی مگر وہ خواب ِغفلت میں سورہے ہیں.۱ ۹؍دسمبر۱۹۰۳ء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معجزانہ طور پر آگ سے بچایا جانا جماعت میں سے ایک ہمارے مکرم دوست نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں ڈالے جانے کے ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۴۸ مورخہ ۲۴ ؍دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۸۲، ۳۸۳
متعلق دریافت کیا کہ آریہ اس پر اعتراض کرتے ہیں اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ان لوگوں کے اعتراض کی اصل جڑ معجزات اور خوارق پر نکتہ چینی کرنا ہے ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے دعویٰ کرتے ہیں اور اسی لیے خدا تعالیٰ نے ہمیں مبعوث کیا ہے کہ قرآن کریم میں جس قدر معجزات اور خوارق انبیاء کے مذکور ہوئے ہیں ان کو خود دکھا کر قرآن کی حقانیت کا ثبوت دیں ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر دنیا کی کوئی قوم ہمیں آگ میں ڈالے یا کسی اَور خطرناک عذاب اور مصیبت میں مبتلا کرنا چاہے تو خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق ضرور ہمیں محفوظ رکھے گا.بعد اس کے خدا تعالیٰ کے تصرفات اور اپنے بندوں کو عجیب طرح ہلاکت سے نجات دینے کی مثالیں دیتے رہے.مسیح موعود علیہ السلام کی معجزانہ حفاظت اور اسی کے ضمن میں فرمایا.ایک دفعہ کا ذکر ہے جب میں سیالکوٹ میں تھا.ایک مکان میں مَیں اور چند آدمی بیٹھے ہوئے تھے بجلی پڑی اور ہمارا سارا مکان دُھوئیں سے بھر گیا اور اس دروازہ کی چوکھٹ جس کے متصل ایک شخص بیٹھا ہوا تھا ایسی چیری گئی جیسے آرے سے چیری جاتی ہے.مگر اس کی جان کو کچھ بھی صدمہ نہ پہنچا لیکن اسی دن بجلی تیجا سنگھ کے شوالہ پر بھی پڑی اور ایک لمبا راستہ اس کے اندر کو چکر کھا کر جاتا تھا جہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا وہ تمام چکر بجلی نے بھی کھائے اور جا کر اس پر پڑی اور ایسا جلایا کہ بالکل ایک کوئلے کی شکل اُسے کر دیا پھر یہ خدا کا تصرف نہیں تو کیا ہے کہ ایک شخص کو بچالیا اور ایک کو مار دیا.خدا نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور اس پر ہمارا ایمان ہے وہ وعدہ وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ کا ہے.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے پس اسے کوئی مخالف آزما لے اور آگ جلا کر ہمیں اس میں ڈال دے.آگ ہرگز ہم پر کام نہ کرے گی اور وہ ضرور ہمیں اپنے وعدہ کے موافق بچالے گا،لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ ہم خود آگ میں کودتے پھریں.یہ طریق انبیاء کا نہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے
وَلَاتُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرۃ:۱۹۶) پس ہم خود آگ میں دیدہ دانستہ نہیں پڑتے بلکہ یہ حفاظت کا وعدہ دشمنوں کے مقابلہ پر ہے کہ اگر وہ آگ میں ہمیں جلانا چاہیں تو ہم ہرگز نہ جلیں گے.اس لیے میرا ایمان تو یہ ہے کہ ہمیں تکلّف اور تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیسے خدا کے باطنی تصرّفات ہیں ویسے ہی ظاہری بھی ہم مانتے ہیں بلکہ اسی لیے خدا نے اوّل ہی سے الہام کردیا ہوا ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.بجز اس طریق کے کہ خدا خود ہی تجلی کرے اور کوئی دوسرا طریق نہیں ہے جس سے اس کی ذات پر یقین کامل حاصل ہو لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ (الانعام:۱۰۴) سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ ابصار پر وہ آپ ہی روشنی ڈالے تو ڈالے.ابصار کی مجال نہیں ہے کہ خود اپنی قوت سے اسے شناخت کرلیں.ان دنوں میں گھر میں کس قدر تکلیف رہی گھر بھر بیماری میں مبتلا تھا لیکن اس نے اوّل ہی تسلی دے دی تھی ع خوش باش کہ عاقبت نکو خواہد بود آریوں کی خدمتِ اسلام آریوں کی زبان درازیاں ہمیں کیا نقصان پہنچا سکتی ہیں.ان کے مذہب کی حالت تو افاقۃ الموت ہی معلوم ہوتی ہے.طبیبوں نے مانا ہے کہ ایسا ہوا کرتا ہے جب ایک شخص مَرنے کے قریب ہوتا ہے بعض اوقات اُٹھ کر بیٹھ جایا کرتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ تندرست ہے مگر معاً موت آدباتی ہے.سو ان کا شور وشر بھی ایسا ہی ہے.جس مذہب میں روحانیت اور خدا سے صافی تعلق نہیں ہوتا وہ بہت جلد تباہ ہوجاتا ہے.آریوں کی شوخی اور اس جوش وخروش سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زبان درازیوں اور شوخیوں کا بہت جلد خاتمہ ہوگا.جب موسم بہار ہوتا ہے تو بہت سے کیڑے پیدا ہوتے ہیں پھر جب ان کو پَر لگتے ہیں تو وہ بہت جلد ہلاک ہوجاتے ہیں.اسی طرح اب خدا کے فضل سے اسلام کے لیے موسم بہار ہے ضرور ہے کہ جب ایسے کیڑے پیدا ہوں.اب ان کو پَر لگ گئے ہیں پس یہ بھی تھوڑی مدت کے مہمان ہیں اور اگر ذرااور غور سے دیکھا جاوے اور ان کی سبّ وشتم کو الگ کردیا جاوے تو ایک طرح
سے انہوں نے خدمت اسلام کی ہے.کیونکہ زمانہ فیج اعوج تھا اور مولویوں وغیرہ سے کب یہ بات ہونی تھی کہ اس قدرہندوئوں سے بت پرستی وغیرہ ترک کرواتے.ان لوگوں نے جو ہزاروں دیویوں اور بتوں کو ترک کیا ہے یہ خدمت اسلام ہی ہے.ذرا روحانیت ان میں آئی تو فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے.پہلے زمانوں میں جب ہندو مسلمان ہوتے تھے وہ در حقیقت انتشارِروحانیت کا زمانہ تھا اس لیے گمراہ رہے.ا ب جب روحانیت ان میں پیدا ہوئی اور حق کو انہوں نے شناخت کرلیا تو بڑی شرح صدر اور زور سے اسلام میں داخل ہوں گے.یاد رکھو ایسے لوگوں سے ہرگز نہ ڈرنا چاہیے.ڈرنا ایسے شخص سے چاہیے جس میں روحانیت ہو اس لیے کہ اس کا حملہ خدا کا حملہ ہوتا ہے.یَکْسِـرُ الصَّلِیْبَ کے معنے یکسر الصلیب کے یہ معنے نہیں ہیں کہ مسیح آکر اپنے ہاتھ سے صلیبوں کو توڑتا پھرے گا بلکہ کسر صلیب میں یہ بات داخل ہے اور ہر ایک اسے بے تکلف سمجھ سکتا ہے کہ اس زمانہ میں کسر صلیب کے سامان خود مہیا ہوجاویں گے.اس کام کو ایک انسان (مسیح)کی طرف منسوب کرنامیرے نزدیک شرک ہے.مطلب یہ ہے کہ مسیح موعود ایسے زمانے کا آدمی ہوگا جس میں یہ سامان موجود ہوں گے اور وہ اس وقت موجود ہیں.درحقیقت صلیب کا کا سر مسیح موعود نہ ہوگا بلکہ خود خدا ہوگا.اور یہ خیال بھی غلط ہے کہ کوئی عیسائی دنیا میں نہ رہے گا اسلام ہی اسلام ہوگا جبکہ خدا تعالیٰ خود قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ ان کا وجود قیامت تک رہے گا.مطلب یہ ہے کہ نصاریٰ کا مذہب ہلاک ہوگا اور عیسائیت نے جو عظمت دلوں پر حاصل کی ہے وہ نہ رہے گی.۱ ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۴۷ مورخہ ۱۶ ؍دسمبر ۱۹۰۳ءصفحہ ۳۷۳، ۳۷۴
۱۱؍دسمبر ۱۹۰۳ء خلقِ طیور اور احیائِ موتیٰ کی حقیقت شام کے بعد حضرت مولوی نور الدین صاحب نے عرض کیا کہ دھرمپال (نو آریہ)نے خلقِ طیور پر اور احیائِ موتیٰ پر بھی اعتراض کیا ہے.اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اصل میں خلقِ طیور اور احیائِ موتیٰ پر ہمارا یہ ایمان نہیں ہے کہ اس سے ایسے پرندے مُراد ہیں جن کا ذبح کرکے گوشت بھی کھایا جاسکے اور نہ احیائے موتیٰ سے یہ مطلب ہے کہ حقیقی مُردہ کا احیاء کیا گیا بلکہ مُراد یہ ہے کہ خلقِ طیور اس قسم کا تھا کہ حد اعجاز تک پہنچا ہوا تھا اور احیائِ موتیٰ کے یہ معنے ہیں کہ (۱) روحانی زندگی عطا کی جاوے (۲) یہ کہ بذریعہ دعا ایسے انسان کو شفا دی جاوے کہ وہ گویا مُردوں میں شمار ہوچکا ہو جیسا کہ عام بول چال میں کہا جاتا ہے کہ فلاں تو مَر کر جیا ہے.لیکن ان باتوں کو لکھنے کی کیا ضرورت ہے بلکہ ان سے صاف طور سے پوچھا جاوے کہ آیا تم لوگ صورتِ اعجاز کے قائل ہو یا نہیں؟پس اگر وہ منکر ہیں تو ان کو چاہیے کہ اشتہار دے دیں اور بہت صاف لفظوں میں دیں پھر شاید اللہ تعالیٰ کوئی اور کرشمہ قدرت دکھاوے.اگرچہ ایک دفعہ وہ ان کو قائل بھی کر چکا ہے.ہم ان کی یہ باتیں فرداًفرداً نہیں سنتے کہ عصائے موسٰی کیا تھا اور خلقِ طیور کیا تھا وغیرہ وغیرہ.معجزہ نمائی کا دعویٰ خدا کا فضل ہمارے شاملِ حال ہے اور وہ ہر وقت ہماری تائید کے لیے طیار ہے.وہ صورتِ اعجاز کا انکار شائع کردیں پھر خدا کی تائید دیکھ لیویں.قرآن کریم میں جس قدر معجزات آگئے ہیں.ہم ان کے دکھانے کو زندہ موجود ہیں خواہ قبولیتِ دعا کے متعلق ہوں خوا ہ اور رنگ کے.معجزہ کے منکر کا یہی جواب ہے کہ اس کو معجزہ دکھایا جاوے اس سے بڑھ کر اور کوئی جواب نہیں ہوسکتا.۱ البدر جلد ۲ نمبر ۴۷ مورخہ ۱۶ ؍دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ۳۷۴
۱۲؍دسمبر ۱۹۰۳ء الہام اِنِّیْ حِـمَی الرَّحْمٰنِ (میں خدا کی باڑ ہوں)فرمایا.یہ خطاب میری طرف ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اَعدا طرح طرح کے منصوبے کرتے ہوویں گے ایک شعر بھی اس مضمون کا ہے.؎ اے آنکہ سوئے من بدویدی بصد تبر از باغبان بترس کہ من شاخ مثمرم بعث بعد الموت حضرت مولانانورالدین صاحب نے خدمت والا میں عرض کی کہ عُزیر کے قصہ کی بابت ایک دفعہ حضور نے ارشاد فرمایا تھا کہ وہ واقعہ بعث بعد الموت میں انہوں نے دیکھا.اس پر آپ نے فرمایاکہ مَرنے کے بعد ایک بعث ہوتا ہے جیسے کہ حدیث میں ایک شخص کا ذکر ہے کہ وہ خدا سے بہت ڈرتا تھا لیکن خدا کی قدرتوں کا اسے علم نہ تھا.تو اس نے وصیت کی کہ جب میں مَر جائوں تو مجھے جلا دینا اور میری خاک کو دریا میں ڈال دینا (تا کہ میرے اجزا ایسے منتشر ہو جاویں کہ پھر جمع نہ ہوسکیں) جب وہ مَرگیا تو اس کے ورثا نے ایسا ہی کیا،لیکن خدا نے اسے عالمِ برزخ میں پھر زندہ کیا اور پوچھا کہ کیا تو اس بات کو نہ جانتا تھا کہ ہم تیرے اجزا کو ہر ایک مقام سے جمع کرسکتے ہیں اور تجھے ہماری قدرتوں کا علم نہ تھا.اس نے بیان کیا کہ چونکہ مجھے اپنے گناہوں کی سزا کا خوف تھا اس لیے میں نے یہ تجویز کی تھی.آخر اس خوف کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اسے بخش دیا.تو یہ بھی ایک قسم کی بعثت ہے جو کہ قبل قیامت ہوتی ہے.اسی خیال پر میں نے کہا ہوگا.مَرنے کے بعد ایک ایسی حالت میں بھی انسان پڑتا ہے کہ اسے اپنے وجود کی خبر نہیں ہوتی.یہ ایک نوم کی قسم سے ہوتی ہے.مولوی عبد اللطیف صاحب نے جو شہادت سے اوّل یہ کہا تھا کہ چھ دن بعد زندہ ہو جائوں گا.اس کے معنے بھی یہ ہوسکتے ہیں کہ چھ دن بعد میری بعثت ہوگی.یہ ہمارا ایمان ہے.
خارقِ عادت امور کا مشاہدہ فرمایا کہ اسی طرح ہم ہر ایک خوارقِ عادت اَمر پر ایمان لاتے ہیں اور اس اَمر کی ضرورت نہیں کہ اُس کی تفصیل بھی معلوم ہو.بعض وقت ایک آواز آتی ہے لیکن کوئی کلام کرنے والا معلوم نہیں ہوتا.اس وقت حیرانی ہوتی ہے تو اس وقت کیا کیا جاوے؟آخر ایمان لانا پڑتا ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ ایسے اُمور میں آکر انسان کو عرفان سے پھر ایمان کی طرف عود کرنا پڑتا ہے.حال میں ایک اخبار میں دیکھا گیا کہ ایک شخص نے کہا کہ میں نے ایک ایسی ہانڈی کا پکا ہوا سالن کھایا ہے جو کہ میری پیدائش سے تیس برس پیشتر کی پکی ہوئی تھی.جب انسان ہواوغیرہ سے محفوظ رکھ کر ایک شَے کو اس قدر عرصہ دراز سے محفوظ رکھ سکتا ہے تو اگر خدا رکھے تو کیا بعید ہے.اگر یہ لوگ خوارقِ عادت کی جزئیات پر اعتراض کرتے ہیں تو ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے تو شاید ۳۰۰ معجزات ہوں گے.ہم ان کے ایسے لاکھوں خوارقِ عادت پیش کرکے اعتراض کرسکتے ہیں ان کا کیا جواب دیں گے؟ ہم تو ان باتوں کو ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی قدرت کے تصرّفات دیکھتے ہیں.یہ کہاں تک اعتراض کریں گے خدا شناسی کا مزا یہی ہے کہ ہر ایک قسم کی قدرت کا جلوہ نظر آوے.آریوں کی حالت آریوں کے خدا کی مثال تو ایسی ہے جیسے کہ کسی کے ہاتھ میں ہڈی ہوتی ہے خدا کی قدرتوں پر ان کو ایمان نہیں ہے اور جب یہ نہ ہوا تو پھر اس سے نہ خوف ہوانہ طمع نہ محبت نہ عبادت.ان کے لیے یہ جواب کافی ہے کہ جیسے ایک اندھے آدمی کے نزدیک ہرایک رئویت قابلِ اعتراض ہوتی ہے ویسے ہی وہ بھی ان باتوں کے محسوس کرنے سے معذور ہیں کیونکہ ہر ایک شَے کی حِس الگ الگ ہے.جیسے آنکھ کی حِس ہے.تو اس سے کان کوئی فائدہ نہیں پا سکتا اور ناک کی حِس کو آنکھ نہیں شناخت کرسکتی ایسے ہی ایک انسان جو کہ اعلیٰ قسم کے قویٰ لے کرآیا ہے اور اسے امور مَا وراء العقل کو محسوس کرنے کی قوت دی گئی ہے تو جو وہ دیکھتا ہے اگر دوسرے نہ دیکھیں تو سوائے اعتراض کے اور کیا کرسکتے ہیں؟آریوں کی مشابہت اس شخص سے ہوسکتی ہے جس کی ایک آنکھ یا کان نہ ہو اور وہ دوسرے کی آنکھ کان دیکھ کر اعتراض کرے.وہ لوگ
ان باتوں سے محروم ہیں اس لیے اعتراض کرتے ہیں.۱ ۲۰؍ دسمبر ۱۹۰۳ء (بوقتِ ظہر ) خدمتِ دین میں آنے والی موت حکیم آل محمد صاحب تشریف لائے اور حضرت اقدس علیہ السلام سے نیاز حاصل کیا اور عرض کی کہ امروہہ میں میرا یہی کام رہا ہے کہ اس سلسلہ الٰہی کی تبلیغ کروں اور اسی خدمت میں میری جان نِکل جاوے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ اس سے بڑھ کر اور کیا دینی خدمت ہوگی مَرنا تو ہر ایک نے ہی ہے اور اس جان نے ایک دن اس قالب کو چھوڑ نا ضرور ہے مگر کیا عمدہ وہ موت ہے جو خدمتِ دین میں آوے.(بعد نماز مغرب) بے صبری سے ابتلا پیش آتا ہے ایک نوجوان صاحب نے آکر حضرت اقدس سے ملاقات کی اور عرض کی کہ میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں اگر اجازت ہو.حضرت اقدس نے فرمایاکہ کہو.تب انہوں نے ایک رئویا اپنی سنائی جو کہ عرصہ اڑھائی سال کا ہوا دیکھی تھی.اس میں ان کو بتلایا گیا تھا کہ حضرت عیسٰیؑ آگئے ہوئے ہیں اور وہ مرزا قادیان والا ہے.پھر اس کی تائید میں انہوں نے اور چند خوابیں دیکھی تھیں وہ بھی سنائیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ ایک دوسرے کی تائید میں ہیں.اس اثناء میں جوشیلے نوجوان یہ بھی بول اُٹھے کہ جب تک میرا دل تسلی نہ پکڑے گا.نہ مانوں گا اور بیعت ۱البدر جلد ۲ نمبر ۴۸ مورخہ ۲۴ ؍دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۸۳
بیعت نہ کروں گا.چونکہ ان کلمات سے خدا کے انعامات واکرام کی ناقدر شناسی متر شح ہوتی تھی.اس پر خدا کے برگزیدہ نے فرمایا.خدا کی قدیم سے عادت ہے کہ صابروں کے سب کام وہ آپ کرتا ہے اور بے صبری سے ابتلا پیش آتا ہے.ہماری شریعت میں طلبِ اسباب حرام نہیں ہے ان پر بھروسہ اور توکّل ضرور حرام ہے اس لیے کوشش کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہیے.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں قسم کھاتا ہے فَالْمُدَبِّرٰتِ۠ اَمْرًا (النّٰزِعٰت:۶) ماسوااس کے خدا پر توکّل اور دعا کرنے سے برکت حاصل ہوتی ہے.سعید آدمی جلدباز نہیں ہوتا اور نہ وہ خدا سے جلد بازی کرتا ہے خدا کا قانونِ قدرت ہے کہ ہر ایک اَمر بتدریج ہوتا ہے.آج تم تخم ریزی کرو تووہ آہستہ آہستہ ایک دانہ سے ایک درخت بن جاوے گا.آج اگر رحم میں نطفہ پڑے تو وہ آخر نو ماہ میں جاکر بچہ بنے گا خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر کرنے والوں کو بے حساب بدلہ دیاجاوے گا.سنّت اللہ کی اتباع انسان کو کرنی چاہیے.جب تک خدا خود رُشد اور ہدایت نہ دے تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا.مومنوں کے طبقات انبیاء کی صحبت میں کس کس قدر لوگ رہتے تھے مگر سب ایک وقت ایمان نہیں لائے.کوئی کسی وقت کوئی کسی وقت.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص تھا اس نے آپ کا مبارک زمانہ دیکھا مگر ایمان نہ لایا.پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا زمانہ دیکھا پھر بھی ایمان نہ لایا.اس سے وجہ پوچھی گئی تو بتلایا کہ کچھ میرے شبہات باقی تھے اور کچھ آثار پورے ہونے والے تھے چونکہ اب وہ پورے ہوئے ہیں اس لیے اب میں ایمان لایا ہوں.لیکن یہ اس کی غلطی تھی.خدا نے مومنوں کے مختلف طبقات پیدا کئے ہیں لیکن ان میں سے وہ لوگ بہت تعریف کے قابل ہیں جو کسی راستباز کو چہرہ دیکھ کر شناخت کر لیتے ہیں.ایمان لانے والے تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں ایک تو وہ جو چہرہ دیکھ کر ایمان لاتے ہیں دوسرے وہ جو نشان دیکھ کر مانتے ہیں.تیسرا ایک ارذل گروہ جب ہر طرح سے غلبہ حاصل ہوجاتا ہے
اور کوئی وجہ ایمان بالغیب کی باقی نہیں رہتی تو اس وقت ایمان لاتے ہیں جیسے فرعون کہ جب غرق ہونے لگا تو اس وقت اقرار کیا.عمر کا اعتبار نہیں ہے غافل رہ کر اس بات کی انتظار کرنی کہ خدا خود خبر دیوے یہ نادانی ہے اب تو خود وقت ہی ایسا ہے کہ انسان خود سمجھ سکتا ہے.دیکھنا چاہیے کہ اسلام کی کیا حالت ہے.کیا ظاہری اور کیا باطنی طور پر صلیبی مذہب غالب ہوگیاہے تو کیا اب ان وعدوں کے رُو سے جو کہ قرآن میں ہیں یہ وقت نہ تھا کہ خدا اپنے دین کی مدد کرتا.اس کے علاوہ مدعی اور اس کے دعویٰ کے دلائل کو دیکھے اور غور کرے.جو پیاسا ہے وہ دور رہ کر کنوئیں سے یہ کہے کہ پانی میرے منہ میں خود بخود آجاوے یہ نادانی ہے اور ایسا شخص خدا کی بے ادبی کرتا ہے.متّقی کی تعریف تقویٰ اس بات کا نام ہے کہ جب وہ دیکھے کہ میں گناہ میں پڑتا ہوں تو دعا اور تدبیر سے کام لیوے ورنہ نادان ہوگا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق:۳،۴) کہ جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے وہ ہر ایک مشکل اور تنگی سے نجات کی راہ اس کے لیے پیدا کردیتاہے.متقی درحقیقت وہ ہے کہ جہاں تک اس کی قدر ت اور طاقت ہے وہ تدبیر اور تجویز سے کام لیتا ہے جیسا کہ قرآن شریف کے شروع میں اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے الٓمّٓ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ١ۛۖۚ فِيْهِ١ۛۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ (البقرۃ:۲تا۴) ایمان بالغیب کے یہ معنے ہیں کہ وہ خدا سے اَڑ نہیں باندھتے بلکہ جو بات پردہ غیب میں ہوا س کو قرائن مرجحہ کے لحاظ سے قبول کرتے ہیں اور دیکھ لیتے ہیں کہ صدق کے وجوہ کذب کے وجوہ پر غالب ہیں.یہ بڑی غلطی ہے کہ انسان یہ خیال رکھے کہ آفتاب کی طرح ہر ایک ایمانی اَمر اس پر منکشف ہو جاوے.اگر ایسا ہو تو پھر بتلائو کہ اس کے ثواب حاصل کرنے کا کون سا موقع ملا؟ کیا ہم اگر آفتاب کو دیکھ کر کہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے تو ہم کو ثواب ملتا ہے؟ ہرگز نہیں.کیوں؟صرف اس لئے کہ اس میں غیب کا پہلو کوئی بھی نہیں لیکن جب ملائکہ، خدا اور قیامت وغیرہ پر ایمان لاتے ہیں تو ثواب ملتا ہے.اس کی یہی وجہ ہے کہ
ان پر ایمان لانے میں ایک پہلو غیب کا پڑا ہو اہے.ایمان لانے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ اخفا بھی ہو اور طالب حق چند قرائنِ صدق کے لحاظ سے ان باتوں کو مان لے.اور مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ (البقرۃ:۴) کے یہ معنے ہیں کہ جو کچھ ہم نے ان کو عقل، فکر، فہم، فراست اور رزق اور مال وغیرہ عطا کیا ہے اس میں سے خدا کی راہ میں اس کے لئے صرف کرتے ہیں یعنی فعل کے ساتھ بھی کوشش کرتے ہیں.پس جو شخص دعا اور کوشش سے مانگتا ہے وہ متقی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ(الفاتـحۃ:۵)یاد رکھو کہ جو شخص پوری فہم اور عقل اور زور سے تلاش نہیں کرتا وہ خدا کے نزدیک ڈھونڈنے والا نہیں قرار پاتا اور اس طرح سے امتحان کرنے والا ہمیشہ محروم رہتا ہے، لیکن اگر وہ کوششوں کے ساتھ دعا بھی کرتا ہے اور پھر اسے کوئی لغزش ہوتی ہے تو خدا اسے بچاتا ہے اور جو آسانی تن کے ساتھ دروازہ پر آتا ہے اور امتحان لیتا ہے تو خدا کو اس کی پروا نہیں ہے.ابو جہل وغیرہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت تو نصیب ہوئی اور وہ کئی دفعہ آپ کے پاس آیا بھی لیکن چونکہ آزمائش کے لئے آتا رہا اس لئے گر گیا اور اسے ایمان نصیب نہ ہوا.بیعت ہم پر احسان نہیں اگر کوئی شخص بیعت کرکے یہ خیال کرتا ہے کہ ہم پر احسان کرتا ہے تو یاد رکھے کہ ہم پر کوئی احسان نہیں بلکہ یہ خدا کا اس پر احسان ہے کہ اس نے یہ موقع اس کے نصیب کیا.سب لوگ ایک ہلاکت کے کنارہ پر پہنچے ہوئے تھے.دین کا نام ونشان نہ تھا اور تباہ ہو رہے تھے.خدا نے ان کی دستگیری کی (کہ یہ سلسلہ قائم کیا) اب جو اس مائدہ سے محروم رہتا ہے وہ بے نصیب ہے لیکن جو اس کی طرف آوے.اسے چاہیے کہ اپنی پوری کوشش کے بعد دعا سے کام لیوے.جو شخص اس خیال سے آتا ہے کہ آزمائش کرے کہ فلاں سچاہے یا جھوٹا وہ ہمیشہ محروم رہتا ہے.آدم ؑ سے لے کر اس وقت تک کوئی ایسی نظیر نہ پیش کرسکو گے کہ فلاں شخص فلاں نبی کے پاس آزمائش کے لئے آیااور پھر اسے ایمان نصیب ہواہو.پس چاہیے کہ خدا کے آگے رووے اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر گریہ وزاری کرے کہ خدااُسے حق دکھاوے.
دلیلِ صداقت وقت خود ایک نشان ہے اور وہ بتلارہا ہے کہ اس وقت ایک مصلح کی ضرورت ہے.اب وقت آزمائش اور امتحان کا ہرگز نہیں ہے.اگر کوئی نہیں مانتا تو بتلائے کہ ہمارا کیا بگاڑتا ہے.مکہ میں اگر صد ہا آدمی انکار کرکے تباہ ہوئے تو بتلائو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا بگاڑ لیا.ایک مرتد ہوتا تو خدا سو اور لے آتا کیا یہ غور کی بات نہیں کہ اگر ہمارا کار خانہ خدائی نہ ہوتا تو یہ آج تک کب کا تباہ ہو جاتا.ایک وہ وقت تھا کہ میں اکیلا پھر تا تھا اور اب وہ وقت ہے کہ دو لاکھ سے زیادہ آدمی میرے ساتھ ہیں.آج سے ۲۲،۲۳ برس پیشتر اس نے بتلایا جوکہ براہین میں درج ہے کہ میں تجھے کامیاب کروں گااور لاکھوں آدمیوں کو تیرے ساتھ کروں گا.اس کتاب کو لے کر دیکھو اور پڑھو اور پھر سوچو کہ کیا یہ انسان کا فعل ہے کہ اس قدر دراز زمانہ پیشتر ایک خبر کو درج کرے اور پھر اس قدر مخالفت ہو اور وہ بات پوری ہو کر رہے پس جوشخص خدا کے اس فعل پر ایمان نہیں لاتا وہ بد بخت مَرے گا.نشان نمائی کا مطالبہ کرنے والے نشان دیکھنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو لیکھرامی کہ شوخی اور شرارت کرتے ہیں اور خدا کی باتوں پر ہنسی اور تمسخر ان کا کام ہوتا ہے ایسے جہنم واصل ہوتے ہیں جیسے کہ لیکھرام ہوا.اور ایک وہ کہ سنّت نبوی کے موافق نشان چاہتے ہیں کہ دنیا کی حیثیت بھی بنی رہے اور نشان بھی ظاہر ہو یہ نہیں کہ قیامت کا نمونہ ان کے لیے ظاہر ہو اور خدا تعالیٰ تمام کائنات کو زیر و زبر کر دے (اس صورت میں جب وہ خود مَر ہی جاوے گا تو نشان کون دیکھے گا)ایمان کی حد یہی ہے کہ عقل بھی خرچ ہو اور انسان فہم وفراست سے کام لے کر قرائنِ مُرجحہ کو دیکھے.نہ یہ چاہے کہ سب کچھ انکشاف ہو جاوے.تو پھر اسے ثواب کس بات کا؟ وہ تو ایمان ہی نہیں ہے جس میں پردہ نہیں ہے اس لیے خدا فرماتا ہے کہ جو لوگ نشانوں کو دیکھ کر ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان نفع نہ دے گا.انسان من وجہ دیکھے کہ زمانہ کی ضرورت کیا تقاضا کرتی ہے.وہ ایک مصلح کو چاہتی ہے کہ نہیں.پھر ان وعدوں پر نظر ڈالے جو نصرت اور تائید کے خدا نے ہم سے قبل از وقت کئے اوروہ سب پورے ہوئے.غرضیکہ ان سب باتوں پر جب یکجائی نظر کرکے پھر بھی کوئی نہیں مانتا تو وہ کبھی نہ مانے گا.ایسے ضدّی لوگوں کو حضرت عیسٰیؑ نے بھی کہا کہ حرامکارلوگ معجزہ طلب کرتے ہیں مگر ان کو کوئی معجزہ نہ دیا جاوے گا.پس ایسی باتوں سے ڈرنا چاہیے.آبائی تقلید اور رسم اور عقائد کی پابندی کا ڈر نہ ہونا چاہیے یہ کوئی شَے نہیں ہیں.نہ اُن سے انسان کو تسلی ملتی ہے.وہ نور جو آسمان سے نازل ہوتا ہے وہ حقیقی تسلی دیتا ہے.۱
سب باتوں پر جب یکجائی نظر کرکے پھر بھی کوئی نہیں مانتا تو وہ کبھی نہ مانے گا.ایسے ضدّی لوگوں کو حضرت عیسٰیؑ نے بھی کہا کہ حرامکارلوگ معجزہ طلب کرتے ہیں مگر ان کو کوئی معجزہ نہ دیا جاوے گا.پس ایسی باتوں سے ڈرنا چاہیے.آبائی تقلید اور رسم اور عقائد کی پابندی کا ڈر نہ ہونا چاہیے یہ کوئی شَے نہیں ہیں.نہ اُن سے انسان کو تسلی ملتی ہے.وہ نور جو آسمان سے نازل ہوتا ہے وہ حقیقی تسلی دیتا ہے.۱ ۲۱؍دسمبر ۱۹۰۳ء تقریر کی اہمیت بعد نماز عید الفطر ظہر کے وقت جب حضرت اقدس مسجد میں تشریف لائے تو بعض احباب نے ذکر کیا کہ گورداسپور میں چند ایک شخص ایسے ہیں جن کو بڑا اشتیاق حضور کی زبان مبارک سے دعویٰ کے دلائل سننے کا ہے.اس پر آپ نے فرمایاکہ اگر کوئی تقریب نکل آئی تو انشاء اللہ وہاں ایک مجمع کرکے بیان کر دیئے جاویں گے اصل ذریعہ تبلیغ کا تقریرہی ہے اور انبیاء اس کے وارث ہیں.اب انگریزوں نے اسی کی تقلید کی ہے.بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں ان کا طریق تعلیم یہی ہے کہ تقریروں کے ذریعہ سے تعلیم دی جاتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعض وقت اس قدر لمبی تقریر فرماتے تھے کہ صبح سے لے کر عشاء تک ختم نہ ہوتی تھی.درمیان میں نمازیں آجاتیں تو آپ ان کو ادا کرکے پھر تقریر شروع کردیتے تھے.مامورین سے غریب لوگ ہی فائدہ اُٹھاتے ہیں اپنے مخالفین اور طبقہ امراء و رؤساء کے متعلق فرمایاکہ میرا خیال ہے کہ اکثر اُن میں سے بد نصیب ہی مَریں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کس قدر بادشاہ تھے جو اس وقت آپ کے معاصرین سے تھے لیکن ان کو قبولیت کی توفیق عطا نہیں ہوئی.پھر خدا تعالیٰ نے ان کے بعد غریبوں کو بادشاہ کیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۴۸ مورخہ ۲۴ ؍دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۸۳، ۳۸۴
میرا خیال ہے کہ اکثر اُن میں سے بد نصیب ہی مَریں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کس قدر بادشاہ تھے جو اس وقت آپ کے معاصرین سے تھے لیکن ان کو قبولیت کی توفیق عطا نہیں ہوئی.پھر خدا تعالیٰ نے ان کے بعد غریبوں کو بادشاہ کیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے.ہمارے متبعین پر بھی ایک زمانہ ایسا آوے گا کہ عروج ہی عروج ہوگا لیکن یہ ہمیں خبر نہیں کہ ہمارے دور میں ہویا ہمارے بعد ہو.خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سو یہ بات ابھی پوری ہونے والی ہے.یہ لوگ اگر اس وقت سمجھ بھی لیویں تو بھی جو اِن کی خود تراشیدہ مصلحتیں ہیں وہ قبولیت کی اجازت نہیں دیتیں.یہ خدا کی سنّت ہے کہ اوّل گروہ غربا کو اپنے لیے منتخب کیا کرتا ہے اور پھر انہی کو کامیابی اور عروج حاصل ہوا کرتا ہے.کوئی نبی نہیں گذرا کہ وہ (ظاہری حیثیت سے بھی) دنیا میں ناکامیاب رہا ہو.ہمیں اس اَمر سے ہرگز تعجب نہیں کہ ہمارے متبعین امیر نہ ہوں گے.امیر تو یہ ضرور ہوں گے لیکن افسوس اس بات سے آتا ہے کہ اگر یہ دولت مند ہوگئے تو پھر انہی لوگوں کے ہمرنگ ہوکر دین سے غافل نہ ہوجاویں اور دنیا کو مقدم کرلیں.جب تک کمزوری اور غریبی ہوتی ہے تب تک تقویٰ بھی انسان کے اندر ہوتا ہے.صحابہؓ کی بھی اوّل یہی حالت تھی.پھر جب کڑوڑہا مسلمان ہوگئے اور تموّل وغیرہ ان میں آگیا توخبیث بھی آکر شامل ہوگئے.ہم بھی خدا کا شکر کرتے ہیں کہ ہماری جماعت کی تعداد غربا میں ترقی کررہی ہے.(بعد نماز مغرب) مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی بعد ادائیگی نماز مغرب حضرت اقدس نے جلسہ فرمایا.تھوڑی دیر کے بعد جناب نواب محمد علی خان صاحب کے صاحبزادہ زریں لباس سے ملبّس حضور کی خدمت میں نیاز مندانہ طریق پر حاضر ہوئے.آپ نے اُن کو اپنے پاس جگہ دی.ان کو اس ہیئت میں دیکھ کر خدا کے برگزیدہ نے بڑی سادگی سے جناب نواب صاحب سے دریافت کیا کہ ان کی کیا رسم ادا ہونی ہے؟ نواب صاحب نے جواب دیا کہ آمین ہے.اس اثناء میں ایک سروپا کا تھال آیا اور وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روبرو دھرا گیا.چند لمحہ کے بعد پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ اب آگے کیا ہونا ہے.عرض کی گئی کہ اسے دستِ مبارک لگا دیا جاوے اور دعا فرمائی جاوے.چنانچہ حضور نے ایسا ہی کیا اور پھر فوراً تشریف لے گئے.۱ ۱ البدر جلد ۳ نمبر ۲ مورخہ ۸ ؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۲
۲۳؍دسمبر۱۹۰۳ء اسوئہ عبد اللطیف کا اتباع فرمایا کہ عبد اللطیف صاحب ایک اسوہ چھوڑ گئے ہیں جس کی اتباع جماعت کو چاہیے.صحبت کی اہمیت ایک انگریز کا ذکر تھا جو کہ اپنی عقیدت حضرت اقدسؑ کے ساتھ اظہار کرتا تھا اور کہتا تھاکہ میرا ارادہ ہے کہ کشمیر میں ایک بڑا ہوٹل بنائوں اور وہاں ہر ملک و دیار کے لوگ جو سیر وسیاحت کے لیے آتے ہیں ان کو تبلیغ کروں.حضرت اقدس نے فرمایاکہ ہمیں اس سے دنیاداری کی بو آتی ہے.اگر اسے سچا اخلاص خدا کے ساتھ ہے اور اس کی غرض تحصیلِ دینی ہے تو اوّل یہاں آکر رہے.سنّت اللہ کے آگے عقل کی بھی کچھ پیش نہیں چلتی.عقل تو یہی چاہتی تھی کہ فی الفور ان باتوں کو مان لیا جاوے جو ہم نے پیش کی ہیں مگر سنّت اللہ نہ چاہتی تھی.کسی فرقہ میں شامل ہونے کے لیے سچا جوش اسی وقت پیدا ہوتا ہے جبکہ اوّل کامل وجوہات دل میں جانشین ہوں.اس کے بعد پھر وہ شخص ہر ایک بات کو قبول کرلیتا ہے.صحابہ کرامؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے اور بڑے بڑے نقصان برداشت کئے.اُن کو اس بات کا علم تھا کہ صحبت سے جو بات حاصل ہونی ہے وہ اَور طرح ہرگز حاصل نہ ہو گی.حسنِ ظن بھی اگرچہ عمدہ شَے ہے.مگر افراط تک اسے پہنچانا غلطی ہے ہمارے حصہ کا جو یورپین ہوگا ہم خود اسے پہچان لیں گے کہ یہ ہے.عجائباتِ قدرت دکھلانے کے لیے ضروری ہے کہ مخالفت بھی ہو اور روکنے والے بھی ہوں کیونکہ بغیر اس کے خدا کی قدرت کے ہاتھ کا پتا کیسے لگ سکتا ہے.۱ ۱ البدر جلد ۳ نمبر ۲ مورخہ ۸ ؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۱۲
۲۴؍دسمبر ۱۹۰۳ء ایک معجزہ یہ ایک معجزہ ہے اور بڑی خوبی کا معجزہ ہے بشرطیکہ انصاف سے اس پر نظر کی جاوے کہ آج سے ۲۳ یا ۲۴ برس پیشتر کی کتاب براہین احمدیہ تصنیف شدہ ہے اور اس کی جلدیں اسی وقت کی ہر ایک مذہب اور ملّت کے پاس موجود ہیں یورپ بھی بھیجی گئی امریکہ میں بھی بھیجی گئی لنڈن میں اس کی کا پی موجود ہے اس میں بڑی وضاحت سے یہ لکھا ہوا موجود ہے کہ ایک زمانہ آنے والا (ہے) کہ لوگ فوج در فوج تمہارے ساتھ ہوں (گے) حالانکہ جب یہ کلمات لکھے اور شائع کئے گئے تھے اس وقت فرد واحد بھی میرے ساتھ نہ تھا.اس وقت خدا نے ایک دعا سکھلائی جو کہ بطور گواہ اس میں لکھی ہوئی ہے رَبِّ لَا تَذَرْنِيْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ(الا نبیاء:۹۰) خدا تعالیٰ کا اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ تو اکیلا ہے اور پھر تاکید کی کہ تو مخلوق کی ملاقات سے تھکنا مت اور چیں بجبیں نہ ہونا تو اب غور کرنے کی جاہے کہ کیا یہ کسی انسان کا اقرار ہوسکتا ہے اور پھر ایک زبان میں نہیں بلکہ چار زبانوں میں یہ الہام فوج در فوج لوگوں کے ساتھ ہونے کا ہے انگریزی، اردو، فارسی، عربی میں.بڑے بڑے گواہ اگرچہ ہمارے مخالف ہیں، موجود ہیں محمدحسین بھی زندہ ہے یہاں کے لوگ بھی جانتے ہیں کیا وہ بتلا سکتے ہیں کہ اس وقت کون کون ہمارے ساتھ تھا بلکہ وہ ایک گم زمانہ تھا کوئی مجھے نہ جانتا تھا اب دیکھو کہ وہ بات کیسی پوری ہوئی ہے حالانکہ ہر فرقہ اور ملت کے لوگوں نے ناخنوں تک مخالفت میں زور لگایا اور ہماری ترقی اور کامیابی کو روکنا چاہا لیکن ان کی کوئی پیش نہ گئی اوراس مخالفت کا ذکر بھی اسی کتاب براہین میں موجود ہے اب بتلاویں کہ کیا یہ معجزہ ہے کہ نہیں؟ ہم ان سے نظیر طلب کرتے ہیں کہ آدمؑ سے لے کر اس وقت تک وہ کسی ایسے مفتری کی خبردیویں کہ اس نے افترا علی اللہ کیا ہو اور اس پر مصر رہ کر ۲۴یا ۲۵ سال کا زمانہ پایا ہو.یہ ایک بڑانشان اور معجزہ ہے اسے عقلمندوں اور اہل الرائے کو دکھلاؤ اور ان کے سامنے پیش کرو کہ وہ اس کی نظیر پیش کریں کہ اس طرح کی پیشگوئی ہو اور باوجود اس قدر مخالفت کے پھر پوری ہو جاوے ایک
طالب ِحق کے لیے یہ معجزہ کافی ہے.۱ ۲۵؍دسمبر۱۹۰۳ء اِکرامِ ضیف شام کے وقت بہت سے احباب بیرون جات سے آئے ہوئے تھے آپ نے میاں نجم الدین صاحب مہتمم لنگر خانہ کو بلوا کرتاکید اً فرمایا کہ دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں اس لیے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو.سردی کا موسم ہے.چاء پلاؤاور تکلیف کسی کو نہ ہو.تم پر میرا حُسنِ ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو ان سب کی خوب خدمت کرو اگر کسی کو گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کردو.دینی علوم کی تحصیل کے لئے تقویٰ اور طہارت کی ضرورت ہے جب تک خدا کی طرف سے روشنی نہ ہو تب تک انسان کو یقین نہیں ملتا.اس کی باتوں میں تناقض ہوگا دینی اور دنیاوی علوم میں یہ فرق ہے کہ دنیاوی علوم کی تحصیل اور ان کی باریکیوں پر واقف ہونے کے لیے تقویٰ طہارت کی ضرورت نہیں ہے ایک پلید سے پلید انسان خواہ کیسا ہی فاسق و فاجر ہو، ظالم ہو، وہ ان کو حاصل کرسکتا ہے چوڑھے چماربھی ڈگریاں پا لیتے ہیں، لیکن دینی علوم اس قسم کے نہیں ہیں کہ ہر ایک ان کو حاصل کرسکے ان کی تحصیل کے لیے تقویٰ اور طہارت کی ضرورت ہے جیسے کہ خدا تعالیٰ فر ماتا ہے لَا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۠ (الواقعۃ:۸۰)پس جس شخص کو دینی علوم حاصل کرنے کی خواہش ہے اسے لازم ہے کہ تقویٰ میں ترقی کرے جس قدر وہ ترقی کرے گا اسی قدر لطیف دقائق اور حقائق اس پر کھلیں گے.تقویٰ کا مرحلہ بڑا مشکل ہے اسے وہی طے کرسکتا ہے جو بالکل خدا کی مرضی پر چلے جو وہ چاہے وہ ۱ البدر جلد ۳ نمبر ۲ مورخہ ۸ ؍جنوری ۱۹۰۴صفحہ ۱۲،۱۳
کرے اپنی مرضی نہ کرے بناوٹ سے کوئی حاصل کرنا چاہے تو ہرگز نہ ہوگا.اس لیے خدا کے فضل کی ضرورت ہے اور وہ اسی طرح سے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو دعا کرے اور ایک طرف کوشش کرتا رہے خدا تعالیٰ نے دعا اور کوشش دونوں کی تاکید فرمائی ہے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المؤمن:۶۱) میں تودعا کی تاکید فرمائی ہے اور جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت:۷۰) میں کوشش کی.جب تک تقویٰ نہ ہوگی اولیاء الرحمٰن میں ہرگز داخل نہ ہوگا اور جب تک یہ نہ ہوگا حقائق اور معارف ہرگز نہ کھلیں گے قرآن شریف کی عروس اسی وقت پردہ اٹھاتی ہے جب اندرونی غبار دور ہو جاتا ہے مگر افسوس ہے کہ جس قدر محنت اور دعا دنیوی امور کے لیے ہوتی ہے خدا کے لیے اس قدر بالکل نہیں ہوتی اگر ہوتی ہے تو عام رسمی رواجی الفاظ میں کہ صرف زبان پر ہی و ہ مضمون ہوتا ہے نہ کہ دل میں اپنے اپنے نفس کے لیے توبڑے سوز اور گدازش سے دعائیں کرتے ہیں کہ قرض سے خلاصی ہو یا فلاں مقدمہ میں فتح ہو یا مرض سے نجات ملے مگر دین کے لیے ہرگز وہ سوز و گدازش نہیں ہوتی.دعا صرف لفظوں کا نام نہیں کہ موٹے اور عمدہ عمدہ لفظ بول لیے بلکہ یہ اصل میں ایک موت ہے.اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المؤمن:۶۱) کے یہی معنے ہیں کہ انسان سوزوگدازش میں اپنی حالت موت تک پہنچاوے مگر جاہل لوگ دعا کی حقیقت سے ناواقف اکثر دھوکا کھاتے ہیں جب کوئی خوش قسمت انسان ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ دنیا اور اس کے افکار کیا شَے ہے اصل بات تو دین ہے اگر وہ ٹھیک ہو اتو سب ٹھیک ہے.ع شب تنور گذشت و شب سمور گذشت یہ خواہ تنگی سے گذرے خواہ فراخی سے اور وہ آخرت کا فکر کرتا ہے.کوئی پاک نہیں بن سکتا جب تک خدا نہ بناوے.جب خدا کے دروازہ پر تذلّل اور عجزسے اس کی روح گرے گی تو خدا اس کی دعا قبول کرے گا اور وہ متقی بنے گا اور اس وقت وہ اس قابل ہوسکے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو سمجھ سکے اس کے بغیر جو کچھ وہ دین دین کرکے پکارتا ہے اور عبادت وغیرہ کرتا ہے وہ ایک رسمی بات اور خیالات ہیں کہ آبائی تقلید سے سن سناکر بجالا تا ہے کوئی حقیقت اور روحانیت اس کے اندر نہیں ہوتی.
لیلۃ القدر کے معنے اور اس میں عمل کی قدر اس سے پیشتر بھی میں نے لکھا ہے کہ ہم لیلۃ القدر کے دونوں معنوں کو مانتے ہیں ایک وہ جو عرف عام میں ہے کہ بعض راتیں ایسی ہوتی ہیں کہ خدا تعالیٰ ان میں دعائیں قبول کرتا ہے اور ایک اس سے مُراد تاریکی کے زمانہ کی ہے جس میں عام ظلمت پھیل جاتی ہے حقیقی دین کا نام ونشان نہیں رہتا ہے اس میں جو شخص خدا کے سچے متلاشی ہوتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں وہ بڑے قابل قدر ہوتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک بادشاہ ہو اور اس کا ایک بڑا لشکر ہو.دشمن کے مقابلے کے وقت سب لشکر بھاگ جاوے اور صرف ایک یا دو آدمی وفادار اس کے ساتھ رہ جاویں اور انہیں کے ذریعہ سے اسے فتح حاصل ہو تو اب دیکھ لو کہ ان ایک یادو کی بادشاہ کی نظر میں کیا قدر ہوگی.پس اس وقت جبکہ ہر طرف دہریت پھیلی ہوئی ہے کوئی تو قول سے اور کوئی عمل سے خدا کا انکار کر رہا ہے.ایسے وقت میں جو خدا کا حقیقی پرستار ہوگا وہ بڑا قابلِ قدر ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بھی لیلۃ القدر کا زمانہ تھا اس وقت کی تاریکی اور ظلمت کی بھی کوئی انتہانہ تھی ایک طرف یہود گمراہ.ایک طرف عیسائی گمراہ.ادھر ہندوستان میں دیوتا پرستی.آتش پرستی وغیرہ.گویا سب دنیا میں بگاڑ پھیلا ہوا تھا اس وقت بھی جبکہ ظلمت انتہا تک پہنچ گئی تھی تو اس نے تقاضا کیا تھا کہ ایک نور آسمان سے نازل ہو.سو وہ نور جو نازل ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات تھی.قاعدہ کی بات ہے کہ جب ظلمت اپنے کمال کو پہنچتی ہے تو وہ نور کو اپنی طرف کھینچتی ہے.جیسے کہ جب چاند کی ۲۹؍تاریخ ہو جاتی ہے اور رات بالکل اندھیری ہوتی ہے تو نئے چاند کے نکلنے کا وقت ہوتا ہے تو اس زمانہ کو بھی خدا نے لیلۃالقدر کے نام سے موسوم کیاہے جیسے کہ فرماتا ہے اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ (القدر:۲) اسی طرح جب نور اپنے کمال کو پہنچتا ہے توپھروہ گھٹنا شروع ہوتا ہے جیسے کہ چاند کو دیکھتے ہو اور اسی طرح سے یہ قیامت تک رہے گا کہ ایک وقت نور کا غلبہ ہوگا اور ایک وقت ظلمت کا.
خدا شناسی کی ضرورت یہ دنیا چند روزہ ہے اور ایسا مقام ہے کہ آخر فناہے.اندرہی اندر اس فناکا سامان لگاہوا ہے وہ اپناکام کر رہا ہے مگر خبر نہیں ہوتی اس لیے خدا شناسی کی طرف قدم جلد اٹھاناچاہیے.خدا کا مزا اسے آتا ہے جو اسے شناخت کرے اور جو اس کی طرف صدقِ وفا سے قدم نہیں اُٹھاتا اس کی دعا کھلے طور پر قبول نہیں ہوتی.اور کوئی نہ کوئی حصہ تاریکی کا اسے لگا ہی رہتا ہے.اگر خدا کی طرف ذراسی حرکت کروگے تو وہ اس سے زیادہ تمہاری طرف حرکت کرے گا،لیکن اوّل تمہاری طرف سے حرکت کا ہونا ضروری ہے.یہ خام خیالی ہے کہ بلا حرکت کئے کے اس سے کسی قسم کی توقع رکھی جاوے یہ سنّت اللہ اسی سے جاری ہے کہ ابتدا میں انسان سے ایک فعل صادر ہوتا ہے.پھر اس پر خدا تعالیٰ کا ایک فعل نتیجۃً ظاہر ہوتا ہے.اگر ایک شخص اپنے مکان کے کل دروازے بند کر دے گا تو یہ بند کرنا اس کا فعل ہوگا.خدا کا فعل اس پر یہ ظاہر ہوگا کہ اس مکان میں اندھیرا ہو جاوے گا لیکن انسان کو اس کوچہ میں پڑ کر صبرسے کام لینا چاہیے.بعض لوگ شکایت کیا کرتے ہیں کہ ہم نے سب نیکیاں کیں.نماز بھی پڑھی روزے بھی رکھے.صدقہ خیرات بھی دیا مجاہدہ بھی کیا مگر ہمیں وصول کچھ نہیں ہوا.تو ایسے لوگ شقی ازلی ہوتے ہیں کہ وہ خدا کی صفتِ ربوبیت پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ انہوں نے سب اعمال خدا کے لیے کئے ہوتے ہیں.اگر خدا کے لیے کوئی فعل کیا جاوے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ضائع ہو اور خدا تعالیٰ اس کا اجر اسی زندگی میں نہ دیوے.اسی وجہ سے اکثر لوگ شکوک وشبہات میں رہتے ہیں اور ان کو خدا کی ہستی کا کوئی پتا نہیں لگتا کہ ہے بھی کہ نہیں.ایک پارچہ سِلا ہوا ہو تو انسان جان لیتا ہے کہ اس کے سینے والا ضرور کوئی ہے.ایک گھڑی ہے وقت دیتی ہے.اگر جنگل میں بھی انسان کو مل جاوے تو وہ خیال کرے گا کہ اس کا بنانے والا ضرور ہے.پس اسی طرح خدا کے افعال کو دیکھو کہ اس نے کس کس قسم کی گھڑیاں بنارکھی ہیں اور کیسے کیسے عجائباتِ قدرت ہیں ایک طرف تو اس کی ہستی کے عقلی دلائل ہیں.ایک طرف نشانات ہیں وہ انسان کو منوا دیتے ہیں کہ ایک عظیم الشان قدرتوں والا خدا موجود ہے وہ پہلے اپنے برگزیدہ پر اپنا ارادہ ظاہر فرمایا کرتا ہے اور یہی بھاری شَے ہے جو انبیاء لاتے ہیں اور جس کا نام
پیشگوئی ہے.ایک انسان کاغذ کا کبوتر بنا کر دکھلاوے تو اس کی نظیر دوسرے ایسے کام اور بھی کرکے دکھا دیتے ہیں اور اسے اعجاز میں شمار نہیں کیا جاتا.مگر پیشگوئی کا میدان وسیع ہے.اس کی نظیر پیدا کرنا انسان کاکام نہیں.ہزار ہزار برس پیشتر اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو اپنے ارادہ سے اطلاع دیتا ہے اور پھر وہ بات اپنے وقت پر پوری ہوکر رہتی ہے.مثلاً براہین کی ہی پیشگوئیوں کو دیکھو کہ جس قدر مخالفت ہورہی ہے.مقدمات ہوئے.گورنمنٹ تک نوبت پہنچی.یہ سب اوّل سے اس میں درج ہیں اور پھر کامیابی،فتح اور نصرت کی بھی خبر اوّل سے ہی دے دی.کوئی سوچ کر بتلادے کہ اس میں کیا فریب اور شعبدہ ہے.۲۳، ۲۴سال پیشتر کی چھپی ہوئی یہ کتاب ہے.کوئی بتلا سکتا ہے کہ ہمارے پاس اس وقت کون کون ہوتا تھا.اگر اہل الرائے کے نزدیک یہ ایک انسانی فعل ہے اور خدا کا نہیں ہے تو وہ اس کی نظیر پیش کریں لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتے.جبکہ یہ حال ہے تو پھر اسے کیوں خدا کا کلام نہ کہا جاوے.جس قدر لوگ ہماری صحبت میں رہنے والے ہیں ان میں کوئی اُٹھ کر بتلاوے کہ کیا کوئی ایسا فردِ بشر بھی ہے کہ اس نے کوئی نشان نہ دیکھا ہو.ہمارے پر سلطنت ایسے لوگوں کی ہے جو سچے اور کامل خدا سے بالکل بے خبر ہیں.دنیاوی امور میں اس قدر مصروفیت ہے کہ دین سے بالکل غافل رہے اور وہی فلسفہ کا زور.اس لیے دہریت ان میں آگئی.اب ہمارا بڑا کام یہ ہے کہ نئے سرے سے بنیاد ڈالیں اور ان کو دکھا دیویں کہ خدا ہے.ہر ایک ہمارے پاس کسی نہ کسی ضرورت کے لیے آتا ہے مگر اصل میں بڑی ضرورت خداشناسی کی ہے.اسی کے نہ ہونے سے گناہ ہوتا ہے.کتّا ایک ذلیل سے ذلیل جانور ہے مگر اس سے خوف زدہ ہو کر وہ راہ چھوڑ دیتا ہے اسی طرح جس راہ میں اسے علم ہو کہ سانپ یا بھیڑ یا ہے تو اسے چھوڑ دیتا ہے.جب وہ ادنیٰ ترین جانوروں سے ڈرتا ہے تو کیا خدا کے وجود کا اسے اتنا بھی خوف نہیں ہے کہ اس سے دور ہو کر گناہ سے باز رہے.زہر اس کے سامنے ہوتو اسے نہیں کھائے گا لیکن گناہ کو دیدہ دانستہ کرلےگا.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے وجود پر یقین نہیں ہے.حالانکہ مشاہدہ کرتا ہے کہ اس نے ایک جہنم یہاں بھی طیار کررکھا ہے کہ جب کوئی بدکاری کرتا
ہے تو اس کی سزا بھی ساتھ ہی پاتا ہے.جس کسی کی جہنمی زندگی ہے وہ خوب محسوس کر لے گا.سچی بات یہ ہے کہ جرائم پیشہ کو وہ کبھی نہیں چھوڑتا جو شخص دلیری اور چالاکی سے گناہ کرتا ہے اس کا انجام بد ہوتا ہے.یہ تو جسمانی طور پر گناہ کی سزا ہے لیکن روحانی طور پر بھی جو شخص خدا کو نہیں پہچا نتا وہ جہنم ہی ہے.بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ حیوانوں کی طرح کھاپی لیا اور عورتوں کے پاس ہوآیا.اگر اسی کا نام زندگی ہے تو بتلائو کہ حیوانوں میں اور اس میں کیا فرق ہے اور حیوانوں سے زائد قویٰ عقل وفکروغیرہ کے خدا نے اسے کیوں دیئے.جو لوگ ان قویٰ سے کام نہیں لیتے ان کو خدا تعالیٰ اَضَل از اَنْعام قرار دیتا ہے.یہ اس لیے کہ اس نے قویٰ کو معطل کردیا.بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ انسان کو حقیقی طور پر معلوم ہو جاوے کہ خدا ہے.جس قدر جرائم، معاصی اور غفلت وغیرہ ہوتی ہے ان سب کی جڑ خدا شناسی میں نقص ہے.اسی نقص کی وجہ سے گناہ میں دلیری ہوتی ہے.بدی کی طرف رجوع ہوتا ہے.اور آخر کار بد چلنی کی وجہ سے آتشک کی نوبت آتی ہے پھر اس سے جذام ہوتا ہے جس سے نوبت موت تک پہنچتی ہے.حالانکہ اگر بدکارآدمی بدکاری میں لذّت حاصل نہ کرے تو خدا اسے لذّت اَور طریق سے دےدے گا یا اس کے جائز وسائل بہم پہنچا دے گا.مثلاً اگر چور چوری کرنا ترک کر دے تو خدا اسے مقدر رزق ایسے طریق سے دے دے گا کہ حلال ہو اور حرامکار حرامکاری نہ کرے تو خدا نے اس پر حلال عورتوں کا دروازہ بند نہیں کردیا.اسی لیے بد نظری اور بدکاری سے بچنے کے لیے ہم نے اپنی جماعت کو کثرتِ ازدواجی کی بھی نصیحت کی ہے کہ تقویٰ کے لحاظ سے اگر وہ ایک سے زیادہ بیویاں کرنا چاہیں تو کرلیں مگر خدا کی معصیت کے مرتکب نہ ہوں.پھر گناہ کرکے جو شخص ایمان کا دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا ہے.۱ ۱ البدر جلد ۳ نمبر ۲ مورخہ ۸ ؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۱۳،۱۴
۲۶؍دسمبر۱۹۰۳ء صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کی شہادت کا درجہ صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کی نسبت حضرت اقدس نے فرمایاکہ وہ ایک اسوئہ حسنہ چھوڑگئے ہیں اور اگر غورسے دیکھا جاوے تواس کا واقعہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے واقعہ سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے کیونکہ وہ تو مقیدنہ تھے نہ ان کو زنجیریں ڈالی گئی تھیں صرف ایک قسم کا جنگ تھا امام حسین کے ساتھ بھی کچھ فوج تھی اگر ان کے آدمی مارے گئے تو آخر ان کے آدمیوں نے بھی تو یزید کے آدمیوں کو مارا اور نہ جان کے بچانے کا کوئی موقع ان کو ملا مگر یہاں عبداللطیف صاحب مقید تھے زنجیریں ان کے ہاتھ پاؤں میں پڑی ہوئی تھیں مقابلہ کرنے کی ان کو قوت نہ تھی اور بار بار جان کے بچانے کا موقع دیا جاتا تھا یہ اس قسم کی شہادت واقع ہوئی ہے کہ اس کی نظیر ۱۳ سو سال میں ملنی محال ہے.عام معمولی زندگی کا چھو ڑنا محال ہوا کرتا ہے حالانکہ ان کی زندگی ایک تنعم کی زندگی تھی مال، دولت، جاہ وثروت سب کچھ موجود تھا اور اگر وہ امیر کا کہنا مان لیتے تو ان کی عزّت اَور بڑھ جاتی مگر انہوں نے ان سب پر لات مار کر اور دیدہ دانستہ بال بچوں کو کچل کر موت کو قبول کیا.انہوں نے بڑا تعجب انگیز نمونہ دکھلا یا ہے اور اس قسم کے ایمان کو حاصل کرنے کی کوشش ہر ایک کو کرنی چاہیے جماعت کو چاہیے کہ اسی کتاب (تذکرۃ الشہادتین) کو بار بار پڑھیں اور فکر کریں اور دعا کریں کہ ایسا ہی ایمان حاصل ہو.مو منوں کے دوگروہ ہوتے ہیں ایک تو جان کو فدا کرنے والے اور دوسرے جو ابھی منتظر ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہماری جماعت کے بہت سے لوگوں میں سے وہ ۱۴ اچھے ہیں جو کہ قید میں ہیں.۱ ابھی بہت ساحصہ ایسا ہے جو کہ صرف دنیا کو چاہتا ہے حالانکہ جانتے ہیں کہ مَر جانا ہے اور ۱ صاحبزادہ سیّد عبداللطیف صاحب کی شہادت کے بعد چودہ آدمی اس وجہ سے بادشاہ کا بل نے قید کر دئیے کہ وہ کہتے تھے کہ صاحبزادہ صاحب پر ظلم ہوا اور صاحبزادہ صاحب حق پر تھے.(مرتّب)
موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے مگر پھر بھی دنیا کا خیال بہت ہے.اس سر زمین (پنجاب ) میں بزدلی بہت ہے بہت کم ایسے آدمی ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں اکثر خیال بیوی بچوں کا رہتا ہے دو دوآنہ پر جھوٹی گواہی دیتے ہیں مگر اس کے مقابلہ پر سر زمین کا بل میں وفا کا مادہ زیادہ معلوم ہوتا ہے.اسی لیے وہ لوگ قرب الٰہی کے زیادہ مستحق ہیں (بشرطیکہ ما مورمن اللہ کی آواز کو گوشِ دل سے سنیں) خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اسی لیے ابراہیمؑ کی تعریف کی ہے جیسے کہ فرمایا ہے اِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰۤى (النجم:۳۸)کہ اس نے جو عہد کیا اسے پورا کرکے دکھایا.لوگوں کا دستور ہے کہ حالت تنعّم میں وہ خدا سے بر گشتہ رہتے ہیں اور جب مصیبت اور تکلیف پڑتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں مانگتے ہیں اور ذرا سے ابتلا سے خدا سے قطع تعلق کر لیتے ہیں خدا کو اس شرط پر ماننے کے لیے طیار ہیں کہ وہ ان کی مرضی کے برخلاف کچھ نہ کرے.حالانکہ دوستی کا اصول یہ ہے کہ کبھی اپنی اس سے منوائے اور کبھی اس کی آپ مانے اور یہی طریق خدا نے بھی بتلایا ہے ایک جگہ تو فرماتا ہے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن:۶۱)کہ تم مانگو تو میں دوں گا یعنی تمہاری بات مانوں گا اور دوسری جگہ اپنی منوا تا ہے اور فرماتا ہے وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ....الـخ (البقرۃ:۱۵۶) مگر یہاں آج کل لوگ خدا تعالیٰ کو مثل غلام کے اپنی مرضی کے تابع کرنا چاہتے ہیں.حالانکہ غوث، قطب، ابدال اور اولیاء وغیرہ جس قدر لوگ ہوئے ہیں ان کو یہ سب مراتب اسی لیے ملے کہ خدا تعالیٰ کی مرضی کو اپنی مرضی پر مقدم رکھتے چلے آئے چونکہ افغانستان کے لوگوں میں یہ مادہ وفا کا زیادہ پایا جاتا ہے اس لیے کیا تعجب ہے کہ وہ لوگ ان لوگوں (اہل پنجاب) سے آگے بڑھ جاویں اور گوئے سبقت لے جاویں اور یہ پیچھے رہ جاویں کیونکہ وہ لوگ اپنے عہد کے اس قدر پا بند ہیں کہ جان تک کی پروا نہیں کرتے نہ مال کی نہ بیوی کی نہ بچے کی جس کا نمونہ ابھی مولوی عبداللطیف صاحب نے دکھادیا ہے.۱ سلسلہ احمدیہ کے قیام کی غرض اعلیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تقریر پُرتاثیر جو ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۳ء کو بعد نماز ظہر مسجد اقصیٰ میں آپ نے البدر جلد ۳ نمبر ۲ مورخہ ۸ ؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۵
کھڑے ہو کر فرمائی.میں نے اس واسطے چند کلمات کے بیان کرنے کی ضرورت سمجھی ہے کہ چونکہ موت کا اعتبار نہیں ہے اور کوئی شخص اپنی نسبت یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ میری زندگی کس قدر ہے اور کتنے دن باقی ہیں اس لیے مجھے یہ اندیشہ بار بار پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہماری جماعت میں سے کوئی ناواقف ہو تو وہ واقف ہو جائے کہ اس سلسلہ کے قائم کرنے سے اللہ تعالیٰ کی کیا غرض ہے؟اور ہماری جماعت کو کیا کرنا چاہیے تو یہ سخت غلطی ہوگی اور یہ بھی غلطی ہے کہ کوئی اتناہی سمجھ لے کہ رسمی طور پر بیعت میں داخل ہونا ہی نجات ہے اس لیے ضرورت پڑی ہے کہ میں اصل غرض بتاؤں کہ خدا تعالیٰ کیا چاہتا ہے؟ سب لوگ یادر کھو کہ رسمی طور پر بیعت میں داخل ہونا یا مجھ کو امام سمجھ لینا اتنی ہی بات نجات کے واسطے ہرگز کافی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے وہ زبانی باتوں کو نہیں دیکھتا.نجات کے واسطے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا ہے وہی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اوّل سچے دل سے اللہ تعالیٰ کو وحدہٗ لا شریک سمجھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبیؐ یقین کرے اور قرآن شریف کو کتاب اللہ سمجھے کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ قیامت تک اب اور کوئی کتاب یا شریعت نہ آئے گی یعنی قرآن شریف کے بعد اب کسی کتاب یا شریعت کی ضرورت نہیں ہے.دیکھو خوب یاد رکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الا نبیاء ہیں یعنی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نئی شریعت، نئی کتاب نہ آئے گی نئے احکام نہ آئیں گے.یہی کتاب اور یہی احکام رہیں گے جو الفاظ میری کتاب میں نبی یا رسول کے میری نسبت پائے جاتے ہیں اس میں ہرگز یہ منشا نہیں ہے کہ کوئی نئی شریعت یا نئے احکام سکھائے جاویں بلکہ منشا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ضرورت حقّہ کے وقت کسی کو مامور کرتا ہے تو ان معنوں سے کہ مکالمات ِالٰہیہ کا شرف اس کو دیتا ہے اور غیب کی خبریں اس کو دیتا ہے اس پر نبی۱ کا لفظ بولا جاتا ہے اور وہ مامور نبی کا خطاب پاتا ہے یہ معنے نہیں ہیں کہ نئی شریعت دیتا ہے یاوہ ۱ البدر میں ہے.’’ مکا لمات الٰہیہ کا شرف اسے دیتا ہے اور غیب کی خبریں اسے بتلاتا ہے اس لحاظ سے اس مامور پر بھی نبی کا لفظ بولا جاتا ہے.‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر ۳ مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۲)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو نعوذباللہ منسو خ کرتا ہے بلکہ یہ جو کچھ اسے ملتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سچی اور کامل اتباع سے ملتا ہے اور بغیر اس کے مل سکتا ہی نہیں.ہاں یہ ضروری ہے کہ جب زمانہ میں گناہ کثرت سے ہوتے ہیں اور اہل ِدنیا ایمان کی حقیقت نہیں سمجھتے اور ان کے پاس پوست یا ہڈی رہ جاتی ہے اور مغزاور لب نہیں رہتا ایمانی قوت کمزور ہوجاتی ہے اور شیطانی تسلط اور غلبہ بڑھ جاتا ہے ایمانی ذوق اور حلاوت نہیں رہتی ایسے وقتوں میں عادت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک کامل بندہ کو جو خدا تعالیٰ کی سچی اطاعت میں فناشدہ اور محوہوتا ہے اپنے مکالمہ کا شرف بخش کر بھیجتا ہے اور اب اس وقت اس نے مجھے مامور کرکے بھیجا ہے کیونکہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں الٰہی محبت بالکل ٹھنڈی ہو گئی ہے۱ اگرچہ عام نظر میں یہ دیکھا جاتا ہے لوگ لَاۤاِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کے بھی قائل ہیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی زبان سے تصدیق کرتے ہیں.بظاہر نمازیں بھی پڑھتے ہیں روزے بھی رکھتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ روحانیت بالکل نہیں رہی اور دوسری طرف ان اعمال صالحہ کے مخالف کام کرنا ہی شہادت دیتا ہے کہ وہ اعمال اعمالِ صالحہ کے رنگ میں نہیں کئے جاتے بلکہ رسم اور عادت کے طور پر کئے جاتے ہیں کیونکہ ان میں اخلاص اور روحانیت کا شمہ بھی نہیں ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ ان اعمالِ صالحہ کے برکات اور انوار ساتھ نہیں ہیں.خوب یادرکھو کہ جب تک سچے دل سے اور روحانیت کے ساتھ یہ اعمال نہ ہوں کچھ فائدہ نہ ہوگا اور یہ اعمال کام نہ آئیں گے.اعمال صالحہ اسی وقت اعمال صالحہ کہلاتے ہیں جب ان میں کسی قسم کا فساد نہ ہو صلاح کی ضد فساد ہے صالحہ وہ ہے جو فساد سے مبرّا منزّہ ہو جن کی نمازوں میں فساد ہے اور نفسانی اغراض چھپے ہوئے ہیں ان کی نمازیں اللہ تعالیٰ کے واسطے ہرگز نہیں ہیں اور وہ زمین سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں جاتی ہیں کیونکہ ان میں اخلاص کی روح نہیں اور روحانیت سے خالی ہیں.بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سلسلہ کی کیا ضرورت ہے؟ کیا ہم البدر میں اس کے بعد ایک مزیدفقرہ یہ ہے کہ ’’اور اس کی جگہ دنیا نے لے لی ہے‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر ۳ مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۲)
نمازروزہ نہیں کرتے ہیں وہ اس طرح پر دھوکا دیتے ہیں اور کچھ تعجب نہیں کہ بعض لوگ جو ناواقف ہوتے ہیں ایسی باتوں کو سن کر دھوکا کھا جاویں اور ان کے ساتھ مل کر یہ کہہ دیں کہ جس حالت میں ہم نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور وِردوظائف کرتے ہیں پھر کیوں یہ پھوٹ ڈال دی.یاد رکھو کہ ایسی باتیں کم سمجھی اور معرفت کے نہ ہونے کا نتیجہ ہے.میرا اپناکام نہیں ہے یہ پھوٹ اگر ڈال دی ہے تو اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہے جس نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے کیونکہ ایمانی حالت کمزور ہوتے ہوتے یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ ایمانی قوت بالکل معدوم ہی ہو گئی ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ حقیقی ایمان کی روح پھونکے جو اس سلسلہ کے ذریعہ سے اس نے چاہا ہے.ایسی صورت میں ان لوگوں کا اعتراض بے جااور بیہودہ ہے.پس یادرکھو کہ ایسا وسوسہ ہرگز ہرگز کسی کے دل میں نہیں آنا چاہیے اور اگر پورے غور اور فکر سے کام لیا جاوے تو یہ وسوسہ آہی نہیں سکتا.غور سے کام نہ لینے کے سبب ہی سے وسوسہ آتا ہے جو ظاہری حالت پر نظر کرکے کہہ دیتے ہیں کہ اور بھی مسلمان ہیں اس قسم کے وسوسوں سے انسان جلد ہلاک ہو جاتا ہے.میں نے بعض خطوط اس قسم کے لوگوں کے دیکھے ہیں جو بظاہر ہمارے سلسلہ میں ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم سے جب یہ کہا گیا کہ دوسرے مسلمان بھی بظاہر نماز پڑھتے ہیں اور کلمہ پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں اور نیک معلوم ہوتے ہیں پھر اس نئے سلسلہ کی کیا حاجت ہے؟ یہ لوگ باوجودیکہ ہماری بیعت میں داخل ہیں ایسے وسوسے اور اعتراض سن کر لکھتے ہیں کہ ہم کو اس کا جواب نہیں آیا.ایسے خطوط پڑھ کر مجھے ایسے لوگوں پر افسوس اور رحم آتا ہے کہ انہوں نے ہماری اصل غرض اور منشا کو نہیں سمجھا.وہ صرف دیکھتے ہیں کہ رسمی طور پر یہ لوگ ہماری طرح شعائرِاسلام بجالاتے ہیں اور فرائض الٰہی ادا کرتے ہیں حالانکہ حقیقت کی روح ان میں نہیں ہوتی اس لیے یہ باتیں اور وساوس سحر کی طرح کام کرتے ہیں وہ ایسے وقت نہیں سوچتے کہ ہم حقیقی ایمان پیدا کرنا چاہتے ہیں جو انسان کو گناہ کی موت سے بچا لیتا ہے اور ان رسوم وعادات کے پیرولوگوں میں وہ بات نہیں ان کی نظر ظاہر پر ہے حقیقت پر نگاہ نہیں.ان کے ہاتھ میں چھلکا ہے جس میں مغزنہیں.
مامور کے وقت کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے یاد رکھو اور سمجھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کیا یہود تورات کو چھوڑبیٹھے تھے اور اس پر ان کا عمل نہ تھا؟ ہرگز نہیں یہودی تو اب تک بھی تورات کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں.ان کی قربانیاں اور رسوم آج بھی اسی طرح ہوتی ہیں جیسے اس وقت کرتے تھے وہ برابر آج تک بیت المقدس کو اپنا قبلہ سمجھتے ہیں اور اسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں.ان کے بڑے بڑے عالم اور احبار بھی اس وقت موجود تھے اس وقت پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور کتاب اللہ کی کیا ضرورت پڑی تھی؟دوسری طرف عیسائی قوم تھی ان میں بھی ایک فرقہ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کو مانتا تھا پھر کیا وجہ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اور کتاب اللہ کو بھیجا؟ یہ ایک سوال ہے جس پر ہمارے مخالفوں اور ایسا اعتراض کرنے والوں کو غور کر ناچاہیے اگرچہ یہ ایک باریک مسئلہ ہے لیکن جو لوگ غور اور فکر کرتے ہیں ان کے لیے باریک نہیں ہے.یاد رکھو اللہ تعالیٰ روح اور روحانیت پر نظر کرتا ہے وہ ظاہری اعمال پر نظر اور نگاہ نہیں کرتا وہ ان کی حقیقت اور اندرونی حالت کو دیکھتا ہے کہ ان اعمال کی تہہ میں خود غرضی اور نفسانیت ہے یا اللہ تعالیٰ کی سچی اطاعت اور اخلاص مگر انسان بعض وقت ظاہری اعمال کو دیکھ کر دھوکا کھاجاتا ہے.جس کے ہاتھ میں تسبیح ہے یاوہ تہجدو اشراق پڑھتا ہے بظاہر ابرار واخیار کے کام کرتا ہے تو اس کو نیک سمجھ لیتا ہے مگر خدا تعالیٰ کو تو پوست۱ پسند نہیں.یہ پوست اور قشرہے اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا اور کبھی راضی نہیں ہوتا جب تک وفاداری اور صدق نہ ہو بے وفاآدمی کتّے کی طرح ہے جو مُردار دنیا پر گرے ہوئے ہوتے ہیں وہ بظاہر نیک بھی نظر آتے ہیں لیکن افعال ذمیمہ ان میں پائے جاتے ہیں اور پوشیدہ بدچلنیاں ان میں پائی جاتی ہیں ۱ البدر میں ہے.’’ایک انسان تو اس سے دھوکا کھا سکتا ہے مگر خدانہیں کھا سکتا کیونکہ اس کی نظر پوست پر نہیں ہے وہ توروحانیت کو چاہتا ہے جوکہ مغزہے نہ کہ قشر کو.‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر۳ مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۴ءصفحہ ۳)
جونمازیں ریا کاری سے بھری ہوئی ہوں، نمازوں کو ہم کیا کریں اور ان سے کیا فائد ہ؟۱ حقیقی نماز نماز اس وقت حقیقی نماز کہلاتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ سے سچا اور پاک تعلق ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اطاعت میں اس حد تک فنا ہو اور یہاں تک دین کو دنیا پر مقدم کرلے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان تک دے دینے اور مَرنے کے لئے طیار ہو جائے جب یہ حالت انسان میں پیدا ہو جائے اس وقت کہا جائے گا کہ اس کی نماز نماز ہے مگر جب تک یہ حقیقت انسان کے اندر پیدا نہیں ہوتی اور سچا اخلاص اور وفاداری کا نمونہ نہیں دکھلاتا اس وقت تک اس کی نمازیں اور دوسرے اعمال بے اثر ہیں.بہت سی مخلوق ایسی ہے کہ لوگ ان کو مومن اور راست باز سمجھتے ہیں مگر آسمان پر ان کا نام کافر ہے.۲ اس واسطے حقیقی مومن اور راستباز وہی ہے جس کا نام آسمان پر مومن ہے.دنیا کی نظرمیں خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ کہلاتا ہو.حقیقت میں یہ بہت ہی مشکل گھاٹی ہے کہ انسان سچا ایمان لاوے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ کامل اخلاص ا وروفاداری کا نمونہ دکھلاوے.جب انسان سچا ایمان لاتا ہے تو اس کے بہت سے نشانات ہو جاتے ہیں.قرآن شریف نے سچے مومنوں کی جو علامات بیان کی ہیں وہ ان میں پائی جاتی ہیں.ان علامات میں سے ایک بڑی علامت جو حقیقی ایمان کی ہے وہ یہی ہے کہ جب انسان دُنیاکو پائوں کے نیچے کچل کر اس سے اس طرح پر ۱ البدر میں ہے.ـ’’اگر ان کی آرزوئیں اور مُرادیں پوری ہوتی رہیں تو وہ خدا کو مانتے رہیں گے اور اگر نہ پوری ہوں تو پھر اس سے ناراض اور شکایت کا دفتر کھلاہو ا ہے تو جن کی یہ حالت ہے اور ان میں صدق ووفا نہیں ہے خدا ان کی نمازوں کو کیا کرے وہ خدا کے نزدیک ہرگز نمازی نہیں ہیں اور ان کی نمازیں سوائے اس کے کہ زمین پر ٹکریں ماریں اور کچھ حکم نہیں رکھتیں‘‘.(البدر جلد ۳ نمبر۳ مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۳ ) ۲ البدر میں ہے.’’بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ مخلوق کے نزدیک راستباز ہیں، متقی ہیں، نیک بخت ہیں لیکن ان کا تعلق خدا سے صاف نہیں ہے اور وہ محویت اور دین کا تقدم دنیا پر جو خدا چاہتا ہے ان میں نہیں ہے.اس لیے خدا کے نزدیک وہ کافر ہیں.سچے ایمانداروں کی جو علامات ہیں اگر اُن سے تم اُن کو پر کھو تو ایک بھی اُن میں نظر نہ آوے گی.‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر۳ مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۳ )
الگ ہو جاتا ہے جیسے سانپ اپنی کینچلی سے باہر آجاتا ہے.اس طرح پر جب انسان نفسانیت کی کینچلی سے باہر آجاتا ہے تو وہ مومن ہوتا ہے اور ایمان کامل کے آثار اس میں پائے جاتے ہیں.چنانچہ فرمایا ہے اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ(النحل:۱۲۹) یعنی بےشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو تقویٰ سے بھی بڑھ کر کام کرتے ہیں یعنی محسنین ہوتے ہیں.حقیقی نیکی تقویٰ کے معنی ہیں بدی کی باریک راہوں سے پرہیز کرنا.مگر یاد رکھونیکی اتنی نہیں ہے اگر ایک شخص کہے کہ میں نیک ہوں اس لیے کہ میں نے کسی کا مال نہیں لیا، نقب زنی نہیں کی، چوری نہیں کرتا، بد نظری اور زنا نہیں کرتا.ایسی نیکی عارف کے نزدیک ہنسی کے قابل ہے کیونکہ اگر وہ ان بدیوں کا ارتکاب کرے اور چوری یا ڈاکہ زنی کرے تو وہ سزا پائے گا.پس یہ کوئی نیکی نہیں کہ جو عارف کی نگاہ میں قابل قدر ہوبلکہ اصلی اور حقیقی نیکی یہ ہے کہ نوعِ انسان کی خدمت کرے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں کامل صدق اور وفا داری دکھلائے اور اس کی راہ میں جان تک دے دینے کو طیار ہو.اسی لیے یہاں فرمایا ہے اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو بدی سے پرہیز کرتے ہیں اور ساتھ ہی نیکیاں بھی کرتے ہیں.یہ خوب یاد رکھو کہ نرا بدی سے پرہیز کرناکوئی خوبی کی بات نہیں جب تک اُس کے ساتھ نیکیاں نہ کرے.بہت سے لوگ ایسے موجود ہوں گے جنہوں نے کبھی زنا نہیں کیا، خون نہیں کیا، چوری نہیں کی، ڈاکہ نہیں مارا اور باوجود اس کے نہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوئی صدق ووفا کا نمونہ انہوں نے دکھایا یا نوعِ انسان کی کوئی خدمت نہیں کی اور اس طرح پر کوئی نیکی نہیں کی.پس جاہل ہوگا وہ شخص جو ان باتوں کو پیش کرکے اسے نیکو کاروں میں داخل کرے کیونکہ یہ تو بد چلنیاں ہیں صرف اتنے خیال سے اولیاء اللہ میں داخل نہیں ہو جاتا۱ بد چلنی کرنے والے چوری یا خیانت کرنے والے، رشوت لینے ۱ البدر میں یہ فقرہ یوں ہے.’’خدا نے کبھی اس بات کو پسند نہیں کیا کہ صرف بد چلنی نہ کرنے والا اس کے اولیاء میں داخل ہوا ہو.‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر۳مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۳)
والے کے لیے عادت اللہ میں ہے کہ اسے یہاں سزا دی جاتی ہے وہ نہیں مَرتا جب تک سزا نہیں پالیتا.یادرکھو کہ صرف اتنی ہی بات کا نام نیکی نہیں ہے.تقویٰ ادنیٰ مرتبہ ہے اس کی مثال تو ایسی ہے جیسے کسی برتن کو اچھی طرح سے صاف کیا جاوے تاکہ اس میں اعلیٰ درجہ کا لطیف کھانا ڈالا جائے اب اگر کسی برتن کو خوب صاف کرکے رکھ دیا جائے لیکن اس میں کھانا نہ ڈالا جائے تو کیا اس سے پیٹ بھر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.کیا وہ خالی برتن طعام سے سیر کر دے گا؟ ہرگز نہیں اسی طرح پر تقویٰ کو سمجھو.تقویٰ کیا ہے نفسِ امّارہ کے برتن کو صاف کرنا.۱ نفس کی تین حالتیں نفس کو تین قسم پر تقسیم کیا ہے نفسِ امّارہ، نفسِ لوّامہ، نفسِ مطمئنہ.ایک نفسِ زکیہ بھی ہوتا ہے مگر وہ بچپن کی حالت ہے.جب گناہ ہوتا ہی نہیں اس لیے اس نفس کو چھوڑ کربلوغ کے بعد تین نفسوں ہی کی بحث کی ہے.نفسِ امّارہ کی وہ حالت ہے جب انسان شیطان اور نفس کا بندہ ہوتا ہے اور نفسانی خواہشوں کا غلام اور اسیرہو جاتا ہے جو حکم نفس کرتا ہے اس کی تعمیل کے واسطے اس طرح طیار ہو جاتا ہے جیسے ایک غلام دست بستہ اپنے مالک کے حکم کی تعمیل کے لیے مستعد ہوتا ہے اس وقت یہ نفس کا غلام ہو کر جووہ کہے یہ کرتا ہے وہ کہے خون کر.تویہ کرتا ہے.زناکہے، چوری کہے، غرض جو کچھ بھی کہے سب کے لئے طیار ہوتا ہے کوئی بدی، کوئی برا کام ہو جو نفس کہے یہ غلاموں کی طرح کر دیتا ہے یہ نفس امّارہ کی حالت ہے اور یہ وہ شخص ہے جو نفس امّارہ کا تابع ہے.اس کے بعد نفس لوّامہ ہے یہ ایسی حالت ہے کہ گناہ تو اس سے بھی سرزد ہوتے رہتے ہیں مگر وہ نفس کوملامت بھی کرتا رہتا ہے اور اس تدبیر اور کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اسے گناہ سے نجات مل جائے جو لوگ نفس لوّامہ کے ماتحت یا اس حالت میں ہوتے ہیں وہ ایک جنگ کی حالت میں ہوتے ہیں یعنی ۱ البدر میں ہے.’’تقویٰ تو صرف نفس الامّارہ کے برتن کو صاف کرنے کانام ہے اور نیکی وہ کھانا ہے جو اس میں پڑنا ہے اور جس نے اعضا کو قوت دے کر انسان کو اس قابل بنانا ہے کہ اس سے نیک اعمال صادر ہوں اور وہ بلند مراتب قرب الٰہی کے حاصل کرسکے.‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر۳مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۳)
شیطان اور نفس سے جنگ کرتے رہتے ہیں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نفس غالب آکر لغزش ہو جاتی ہے اور کبھی خود نفس پر غالب آجاتے اور اس کو دبالیتے ہیں.یہ لوگ نفسِ امّارہ والوں سے ترقی کرجاتے ہیں.نفسِ امّارہ والے انسان اور دوسرے بہائم میں کوئی فرق نہیں ہوتا جیسے کتّا یا بلی جب کوئی برتن ننگا دیکھتے ہیں تو فوراً جا پڑتے ہیں اور نہیں دیکھتے کہ وہ چیز ان کا حق ہے یا نہیں.اسی طرح پر نفسِ امّارہ کے غلام انسان کو جب کسی بدی کا موقع ملتا ہے تو فوراً اسے کر بیٹھتا ہے اور طیار رہتا ہے اگر راستہ میں دوچار روپے پڑے ہوں تو فی الفور ان کے اُٹھانے کو طیار ہوجاوے گا اور نہیں سوچے گا کہ اس کو ان کے لینے کا حق ہے یا نہیں مگر لوّامہ والے کی یہ حالت نہیں.وہ حالت جنگ میں ہے جس میں کبھی نفس غالب کبھی وہ، ابھی کامل فتح نہیں ہوئی.مگرتیسری حالت جو نفسِ مطمئنّہ کی حالت ہے یہ وہ حالت ہے جب ساری لڑائیوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور کامل فتح ہو جاتی ہے اسی لیے اس کانام نفسِ مطمئنّہ رکھا ہے یعنی اطمینان یافتہ۱ اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر سچا ایمان لاتا ہے اور یقین کرتا ہے کہ واقعی خدا ہے.نفسِ مطمئنّہ کی انتہائی حد خدا پر ایمان ہوتا ہے کیونکہ کامل اطمینان اور تسلی اسی وقت ملتی ہے جب اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہو.یقیناً سمجھو کہ ہر ایک پاکبازی اور نیکی کی اصلی جڑ خدا پر ایمان لانا ہے جس قدر انسان کا ایمان باللہ کمزور ہوتا ہے اسی قدر اعمالِ صالحہ میں کمزوری اور سستی پائی جاتی ہے لیکن جب ایمان قوی ہو اور اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام صفاتِ کاملہ کے ساتھ یقین کر لیا جائے اسی قدر عجیب رنگ کی تبدیلی انسان کے اعمال میں پیدا ہو جاتی ہے خدا پر ایمان رکھنے والاگناہ پر قادر نہیں ہوسکتا.کیونکہ یہ ایمان اس کی نفسانی قوتوں اور گناہ کے اعضا کو کاٹ دیتا ہے.دیکھو اگر کسی کی آنکھیں نکال دی جاویں تو وہ آنکھوں سے بدنظری کیونکر کرسکتا ہے اور آنکھوں کا گناہ کیسے کرے گا اور اگر ایسا ہی ہاتھ کاٹ دئیے جاویں یا شہوانی قویٰ کاٹ دیئے جاویں.پھر وہ گناہ جو ان اعضا سے متعلق ہیں کیسے کرسکتا ہے؟ ٹھیک اسی طرح پر ۱ البدر میں ہے.’’ اس کا نام نفس مطمئنّہ اس لیے ہے کہ یہ اطمینان یافتہ ہو جاتا ہے.انسان کے ہر ایک قویٰ پر اس کا قابو ہو جاتا ہے اور طبعی طور پر اس سے نیکی کے کام سرزد ہوتے ہیں.‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر۳مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۳)
جب ایک انسان نفسِ مطمئنّہ کی حالت میں ہوتا ہے تو نفسِ مطمئنّہ اسے اندھا کردیتا ہے اور اس کی آنکھوں میں گناہ کی قوت نہیں رہتی.وہ دیکھتا ہے پھر نہیں دیکھتا.کیونکہ آنکھوں کے گناہ کی نظر سلب ہو جاتی ہے.وہ کان رکھتا ہے مگر بہرہ ہوتا ہے اور وہ باتیں جو گناہ کی ہیں نہیں سن سکتا.اسی طرح پر اس کی تمام نفسانی اور شہوانی قوتیں اور اندرونی اعضا کاٹ دیئے جاتے ہیں.اس کی ان ساری طاقتوں پر جن سے گناہ صادر ہوسکتا تھا ایک موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ بالکل ایک میّت کی طرح ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ ہی کی مرضی کے تابع ہوتا ہے.وہ اس کے سوا ایک قدم نہیں اُٹھا سکتا.یہ وہ حالت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کامل اطمینان اسے دیا جاتا ہے.یہی وہ مقام ہے جو انسان کا اصل مقصود ہونا چاہیے اور ہماری جماعت کو اسی کی ضرورت ہے اور اطمینانِ کامل کے حاصل کرنے کے واسطے ایمانِ کامل کی ضرورت ہے.پس ہماری جماعت کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان حاصل کریں.اصلاحِ نفس کا سچا ذریعہ، صحبت صَا دقین یاد رکھو.اصلاحِ نفس کے لیے نری تجویزوں اور تدبیروں سے کچھ نہیں ہوتا ہے جو شخص نری تدبیروں پر رہتا ہے وہ نامُراد اور ناکام رہتا ہے کیونکہ وہ اپنی تدبیروں اور تجویزوں ہی کو خدا سمجھتا ہے.اس واسطے وہ فضل اور فیض جو گناہ کی طاقتوں پر موت وارد کرتا ہے اور بدیوں سے بچنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی قوت بخشتا ہے وہ انہیں نہیں ملتا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے آتا ہے جو تدبیروں کا غلام نہیں تھا.انسانی تدبیروں اور تجویزوں کی ناکامی کی مثال خود خدا تعالیٰ نے دکھائی ہے یہودیوں کو توریت کے لیے کہا کہ اس میں تحریف وتبدیل نہ کرنا اور بڑی بڑی تاکیدیں اس کی حفاظت کی ان کو کی گئیں لیکن کم بخت یہودیوں نے تحریف کر دی.اس کے بالمقابل مسلمانوں کو کہا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر:۱۰) یعنی ہم نے اس قرآن مجید کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں پھر دیکھ لو کہ اس نے کیسی حفاظت فرمائی ایک لفظ اور نقطہ تک پس وپیش نہ ہوا اور کوئی ایسا نہ کرسکا کہ اس میں تحریف تبدیل کرتا صاف ظاہر ہے کہ جو کام خدا کے ہاتھ سے ہوتا
ہے وہ بڑا ہی بابرکت ہوتا ہے اور جو انسان کے اپنے ہاتھ سے ہو وہ با برکت نہیں ہوسکتا.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ جب تک خدا کا فضل اور اسی کے ہاتھ سے نہ ہو تو کچھ نہیں ہوتا.پس محض اپنی سعی اور کوشش سے طہارت ِنفس پیدا ہو جاوے یہ خیال باطل ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ پھر انسان کوشش نہ کرے اور مجاہدہ نہ کرے.نہیں بلکہ کوشش اورمجاہدہ ضروری ہے اور سعی کرنا فرض ہے خدا تعالیٰ کا فضل سچی محنت اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا اس واسطے ان تمام تدابیر اور مساعی کو چھوڑنا نہیں چاہیے جو اصلاح نفس کے لیے ضروری ہیں مگر یہ تجاویزاور تدابیر اپنے نفس اور خیال سے پیدا کی ہوئی نہیں ہونی چاہئیں بلکہ ان تدابیر کو اختیار کرنا چاہیے جن کو خود اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے اور جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکے دکھائی ہیں.آپ کے قدم پر قدم مارواور پھر دعاؤں سے کام لو.تم نا پاکی کے کیچڑ میں پھنسے ہوئے ہو مگر خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر صرف تدبیروں سے صاف چشمہ تک نہیں پہنچ سکتے جو طہارت کا موجب بنے.بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں اور اپنی تدبیروں پر بھروسہ کرتے ہیں وہ احتیاطیں کرتے کرتے خود مبتلا ہو جاتے ہیں اور پھنس جاتے ہیں.اس واسطے کہ خدا کا فضل ان کے ساتھ نہیں ہوتا اور ان کی دستگیری نہیں کی جاتی.خدا تعالیٰ کو چھوڑ کراپنی تجویز اور خیال سے اگر کوئی اصلاحِ نفس کرنے کا مدعی ہو وہ جھوٹا ہے.اصلاح نفس کی ایک راہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے.كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ(التوبۃ:۱۱۹) یعنی جو لوگ قولی، فعلی، عملی اور حالی رنگ میں سچائی پر قائم ہیں ان کے ساتھ رہو اس سے پہلے فر مایا يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ (التوبۃ:۱۱۹)یعنی ایمان والو!تقویٰ اللہ اختیار کرو اس سے یہ مُراد ہے کہ پہلے ایمان ہو پھر سنّت کے طور پر بدی کی جگہ کو چھوڑ دے اور صادقوں کی صحبت میں رہے صحبت کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے جو اندر ہی اندر ہوتا چلا جاتا ہے.اگر کوئی شخص ہر روز کنجر یوں کے ہاں جاتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ کیا میں زناکرتا ہوں؟ اس سے کہنا چاہیے کہ ہاں تو کرے گا اور وہ ایک نہ ایک دن اس میں مبتلا ہو جاوے گا کیونکہ صحبت میں تا ثیر ہوتی ہے اسی طرح پر جو شخص شراب خانہ میں جاتا ہے خواہ وہ کتنا ہی پرہیز
کرے اور کہے کہ میں نہیں پیتا ہوں لیکن ایک دن آئے گا کہ وہ ضرور پیے گا.پس اس سے کبھی بے خبر نہیں رہنا چاہیے کہ صحبت میں بہت بڑی تاثیر ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اصلاحِ نفس کے لیے كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ کا حکم دیا ہے جو شخص نیک صحبت میں جاتا ہے خواہ وہ مخالفت ہی کے رنگ میں ہو لیکن وہ صحبت اپنا اثر کئے بغیر نہ رہے گی اور ایک نہ ایک دن وہ اس مخالفت سے باز آجائے گا.ہم افسوس سے کہتے ہیں کہ ہمارے مخالف اسی صحبت کے نہ ہونے کی وجہ سے محروم رہ گئے اگر وہ ہمارے پاس آ کر رہتے ہماری باتیں سنتے تو ایک وقت آجاتا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کی غلطیوں پر متنبہ کر دیتا اور وہ حق کو پالیتے لیکن اب چونکہ اس صحبت سے محروم ہیں اور انہوں نے ہماری باتیں سننے کا موقع کھو دیا ہے اس لیے کبھی کہتے ہیں کہ نعوذباللہ یہ دہریئے ہیں شراب پیتے ہیں زانی ہیں اور کبھی یہ اتہام لگاتے ہیں کہ نعوذباللہ پیغمبرِخدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین کرتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں ایسا کیوں کہتے ہیں؟ صحبت نہیں اور یہ قہر الٰہی ہے کہ صحبت نہ ہو.لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صلح حدیبیہ کی ہے تو صلح حدیبیہ کے مبارک ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کو آپ کے پاس آنے کا موقع ملا اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں تو ان میں صدہا مسلمان ہو گئے جب تک انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں نہ سنی تھیں ان میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک دیوار حائل تھی جو آپؐکے حسن وجمال پر ان کو اطلاع نہ پا نے دیتی تھی اور جیسا دوسرے لوگ کذاب کہتے تھے (معاذاللہ) وہ بھی کہہ دیتے تھے اور ان فیوض وبرکات سے بے نصیب تھے جو آپؐلے کر آئے تھے اس لیے کہ دور تھے لیکن جب وہ حجاب اٹھ گیا اور پاس آکر دیکھا اور سنا تو وہ محرومی نہ رہی اور سعیدوں کے گروہ میں داخل ہوگئے.اسی طرح پر بہتوں کی بدنصیبی کا اب بھی یہی باعث ہے.جب ان سے پوچھا جاوے کہ تم نے ان کے دعویٰ اور دلائل کو کہاںتک سمجھا ہے توبجز چند بہتانوں اور افتراؤں کے کچھ نہیں کہتے جو بعض مفتری سنادیتے ہیں اور وہ ان کو سچ مان لیتے ہیں اور خود کوشش نہیں کرتے کہ یہاں آکرخود تحقیق کریں اور ہماری صحبت میں رہ کر دیکھیں.اس سے ان کے دل سیاہ ہو جاتے ہیں اور وہ حق کو نہیں پاسکتے لیکن اگر
وہ تقویٰ سے کام لیتے تو کوئی گناہ نہ تھا کہ وہ آ کر ہم سے ملتے جلتے رہتے اور ہماری باتیں سنتے رہتے حالانکہ عیسائیوں اور ہندوؤں سے بھی تو ملتے ہیں اور ان کی باتیں سنتے ہیں ان کی مجلسوں میں جاتے ہیں پھر کون سا اَمر مانع تھا جو ہمارے پاس آنے سے انہوں نے پرہیز کیا.غرض یہ بڑی ہی بدنصیبی ہے اور انسان اس کے سبب محروم ہو جاتا ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا تھا كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ(التوبۃ:۱۱۹) اس میں بڑانکتہ معرفت یہی ہے کہ چونکہ صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے اس لیے ایک راستباز کی صحبت میں رہ کر انسان راستبازی سیکھتا ہے اور اس کے پاس انفاس کا اندر ہی اندر اثر ہونے لگتا ہے جو اس کو خدا تعالیٰ پر ایک سچا یقین اور بصیرت عطا کرتا ہے اس کی صحبت میں صدق دل سے رہ کر وہ خدا تعالیٰ کی آیات اور نشانات کو دیکھتا ہے جو ایمان کے بڑھانے کے ذریعے ہیں.۱ جب انسان ایک راستبازاور صادق کے پاس بیٹھتا ہے تو صدق اس میں کام کرتا ہے لیکن جو راستبازوں کی صحبت کو چھوڑ کر بدوں اور شریروں کی صحبت کو اختیار کرتا ہے تو ان میں بدی اثر کرتی جاتی ہے.اسی لیے احادیث اور قرآن شریف میں صحبت ِبد سے پرہیز کرنے کی تاکید اور تہدید پائی جاتی ہے اور لکھا ہے کہ جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت ہوتی ہو اس مجلس سے فی الفور اٹھ جاؤورنہ جو اہانت سن کر نہیں اٹھتا اس کا شمار بھی ان میں ہی ہوگا.صادقوں اور راستبازوں کے پاس رہنے والا بھی ان میں ہی شریک ہوتا ہے اس لیے کس قدر ضرورت ہے اس اَمر کی کہ انسان كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ کے پاک ارشاد پر عمل کرے.حدیث شریف میں آیاہے کہ اللہ تعالیٰ ملائکہ کو دنیا میں بھیجتا ہے وہ پاک لوگوں کی مجلس میں آتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں تواللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا.وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک مجلس دیکھی ہے جس میں تیرا ذکرکررہے تھے مگر ایک شخص ان میں سے نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ نہیں وہ بھی ان میں ہی سے ہے کیونکہ اِنَّـھُمْ قَوْمٌ لَّا یَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صادقوں ۱ الحکم جلد ۸ نمبر۱ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۲تا۴
کی صحبت سے کس قدر فائدے ہیں سخت بدنصیب ہے وہ شخص جو صحبت سے دور رہے.مقامِ نفس مطمئنّہ غرض نفس مطمئنّہ کی تاثیروں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اطمینان یافتہ لوگوں کی صحبت میں اطمینان پاتے ہیں.امّارہ والے میں نفس امّارہ کی تا ثیریں ہوتی ہیں اور لوّامہ والے میں لوّامہ کی تاثیریں ہوتی ہیں اور جوشخص نفس مطمئنّہ والے کی صحبت میں بیٹھتا ہے.اس پر بھی اطمینان اور سکینت کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں اور اندر ہی اندر اسے تسلی ملنے لگتی ہے.مطمئنّہ والے کو پہلی نعمت یہ دی جاتی ہے کہ وہ خدا سے آرام پاتا ہے جیسے فرمایا ہے يٰۤاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ ارْجِعِيْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً(الفجر:۲۸،۲۹)یعنی اے خدا تعالیٰ میں آرام یافتہ نفس اپنے رب کی طرف آجا وہ تجھ سے راضی اورتو اس سے راضی.اس میں ایک باریک نکتہ معرفت ہے جو یہ کہا کہ خدا تجھ سے راضی تو خدا سے راضی.بات یہ ہے کہ جب تک انسان اس مرحلہ پرنہیں پہنچتا اور لوّامہ کی حالت میں ہوتا ہے اس وقت تک خدا تعالیٰ سے ایک قسم کی لڑائی رہتی ہے یعنی کبھی کبھی وہ نفس کی تحریک سے نا فر مانی بھی کر بیٹھتا ہے لیکن جب مطمئنّہ کی حالت پر پہنچتا ہے تو اس جنگ کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے صلح ہو جاتی ہے اس وقت وہ خدا سے راضی ہوتا ہے اور خدا اس سے راضی ہو جاتا ہے کیونکہ وہ لڑائی بھڑائی بالکل جاتی رہتی ہے.یہ بات خوب یاد رکھنی چاہیے کہ ہر شخص خدا تعالیٰ سے لڑائی رکھتا ہے بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتا ہے اور بہت سی امانی اور امیدیںرکھتا ہے لیکن اس کی وہ دعائیں نہیں سنی جاتی ہیں یا خلاف اُمید کوئی بات ظاہر ہوتی ہے تو دل کے اندر اللہ تعالیٰ سے ایک لڑائی شروع کر دیتاہے.خدا تعالیٰ پر بدظنّی اور اُ س سے ناراضگی کا اظہار کرتا ہے لیکن صالحین اور عباد الرحمٰن کی کبھی اللہ تعالیٰ سے جنگ نہیں ہوتی کیونکہ وہ رضا با لقضا کے مقام پر ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ حقیقی ایمان اس وقت تک پیدا ہو ہی نہیں سکتا جب تک انسان اس درجہ کو حاصل نہ کرے کہ خدا کی مرضی اس کی مرضی ہو جاوے دل میں کوئی کدورت اور تنگی محسوس نہ ہو بلکہ شرح صدر کے ساتھ اس کی ہرتقدیر اور قضا کے سامنے کو طیار ہو.اس آیت میں رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً کا لفظ اسی کی طرف اشارہ کر رہا
ہے.یہ رضا کا اعلیٰ مقام ہے جہاں کوئی ابتلا باقی نہیں رہتا.دوسرے جس قدر مقامات ہیں وہاں ابتلا کا اندیشہ رہتا ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ سے بالکل راضی ہو جاوے اور کوئی شکوہ شکایت نہ رہے اس وقت محبت ذاتی پیدا ہو جاتی ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ سے محبت ذاتی پیدا نہ ہو تو ایمان بڑے خطرہ کی حالت میں ہے لیکن جب ذاتی محبت ہو جاتی ہے تو انسان شیطان کے حملوں سے امن میں آجاتا ہے.اس ذاتی محبت کو دعا سے حاصل کرنا چاہیے جب تک یہ محبت پیدا نہ ہو انسان نفسِ امّارہ کے نیچے رہتا ہے اور اس کے پنجہ میں گرفتا ر رہتا ہے اور ایسے لوگ جو نفسِ امّارہ کے نیچے ہیں ان کا قول ہے کہ ’’ایہہ جہاں مٹھا تو اگلہ کن ڈٹھا‘‘ یہ لوگ بڑی خطرناک حالت میں ہوتے ہیں اور لوّامہ والے ایک گھڑی میں ولی اور ایک گھڑی میں شیطان ہو جاتے ہیں.ان کا ایک رنگ نہیں رہتا کیونکہ ان کی لڑائی نفس کے ساتھ شروع ہوتی ہے جس میں کبھی وہ غالب اور کبھی مغلوب ہوتے ہیں تا ہم یہ لوگ محلِ مدح میں ہوتے ہیں کیونکہ ان سے نیکیاں بھی سرزد ہوتی ہیں اور خوفِ خدا بھی ان کے دل میں ہوتا ہے لیکن نفسِ مطمئنّہوالے بالکل فتح مند ہوتے ہیں اور وہ سارے خطروں اور خوفوں سے نکل کر امن کی جگہ میں جا پہنچتے ہیں وہ اس دارالامان میں ہوتے ہیں جہاں شیطان نہیں پہنچ سکتا.لوّامہ والا جیسا کہ میں نے کہا ہے دارالامان کی ڈیوڑھی میں ہوتا ہے اور کبھی کبھی دشمن بھی اپنا وار کر جاتا ہے اور کوئی لاٹھی مارجاتا ہے اس لئے مطمئنّہ والے کو کہا ہے فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ وَ ادْخُلِيْ جَنَّتِيْ(الفجر:۳۰،۳۱) یہ آواز اس وقت آتی ہے جب وہ اپنے تقویٰ کو انتہائی مرتبہ پر پہنچا دیتا ہے.تقویٰ کے دو درجے ہیں.بدیوں سے بچنا اور نیکیوں میں سر گرم ہو نا.یہ دوسرا مرتبہ محسنین کا ہے.اس درجہ کے حصول کے بغیر اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہوسکتا اور یہ مقام اور درجہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل ہی نہیں ہوسکتا.جب انسان بدی سے پرہیزکرتا ہے اور نیکیوں کے لیے اس کا دل تڑپتا ہے اور و ہ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی دستگیری کرتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے دارالامان میں پہنچا دیتا ہے اور فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ کی آواز اسے آ جاتی ہے یعنی تیری جنگ اب ختم ہو چکی ہے اور میرے ساتھ تیری صلح اور آشتی ہو چکی ہے اب آمیرے بندوں میں داخل ہو جو صِرَاطَ الَّذِيْنَ
اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے( الفاتـحۃ:۷) مصداق ہیں اور رُوحانی وراثت سے جن کو حصہ ملتا ہے میری بہشت میں داخل ہو جا.یہ آیت جیسا کہ ظاہر میں سمجھتے ہیں کہ مَرنے کے بعد اسے آواز آتی ہے آخرت پر ہی موقوف نہیں بلکہ اسی دنیا میں اسی زندگی میں یہ آواز آتی ہے.اہلِ سلوک کے مراتب رکھے ہوئے ہیں ان کے سلوک کا انتہائی نقطہ یہی مقام ہے جہاں ان کا سلوک ختم ہو جاتا ہے اور وہ مقام یہی نفسِ مطمئنّہکا مقام ہے.اہلِ سلوک کی مشکلات کو اللہ تعالیٰ اُٹھا دیتاہے اور ان کو صالحین میں داخل کردیتا ہے جیسا فرمایا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصّٰلِحِيْنَ(العنکبوت:۱۰) یعنی جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ہم ان کو ضرور ضرور صالحین میں داخل کر دیتے ہیں.اس پر بعض اعتراض کرتے ہیں کہ اعمال صالحہ کرنے والے صالحین ہوتے ہیں پھر ان کو صالحین میں داخل کرنے سے کیا مُراد ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ اس میں ایک لطیف نقطہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو بیان فرماتا ہے کہ صلاحیت کی دو قسم ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ انسان تکالیف شاقہ اُٹھا کر نیکیوں کا بوجھ اٹھاتا ہے.نیکیاں کرتا ہے لیکن ان کے کرنے میں اسے تکلیف اور بوجھ معلوم ہوتا ہے اور اندر نفس کے کشاکش موجود ہوتی ہے اور جب وہ نفس کی مخالفت کرتا ہے تو سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے لیکن جب وہ اعمالِ صالحہ کرتا اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے جیسا کہ اس آیت کا منشا ہے اس وقت وہ تکالیف شاقّہ اور محنتیں جو خود نیکیوں کے لیے برداشت کرتا ہے اُٹھ جاتی ہیں اور طبعی طور پر وہ صلاحیت کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۱ اور وہ تکالیف تکالیف نہیں رہتی ہیں اور نیکیوں کو ایک ذوق اور لذّت سے کرتا ہے اور ان دونوں میں یہی فرق ہوتا ہے کہ پہلا نیکی کرتا ہے مگرتکلیف اور تکلّف سے اور دوسرا ذوق اور لذّت سے.وہ نیکی اس کی غذاہو جاتی ہے جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا.۱ البدر میں ہے.’’اعضا اور قویٰ کی یہ فطرت ہوجاتی ہے کہ ان سے نیک اعمال صادر ہوں.‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر ۳ مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۵) ۲ الحکم جلد ۸ نمبر ۲ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱،۲
اور وہ تکلّف اور تکلیف جو پہلے ہوتی تھی اب ذوق وشوق اور لذّت سے بدل جاتی ہے یہ مقام ہوتا ہے صالحین کا جن کے لیے فرمایا لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصّٰلِحِيْنَ اس مقام پر پہنچ کر کوئی فتنہ اور فساد مومن کے اندر نہیں رہتا.نفس کی شرارتوں سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اس کے جذبات پر فتح پا کر مطمئن ہو کر دارالامان میں داخل ہو جاتا ہے.ابتلا اور امتحان ایمان کی شرط ہے اور اس سے آگے فرمایا ہے وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَاِذَاۤ اُوْذِيَ فِي اللّٰهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰهِ (العنکبوت:۱۱) اور بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو زبانی تو ایمان کے دعوے کرتے ہیں اور مومن ہونے کی لاف وگزاف مارتے رہتے ہیں مگر جب معرضِ امتحان وابتلا میں آتے ہیں تو ان کی حقیقت کھل جاتی ہے.اس فتنہ وابتلا کے وقت ان کا ایمان اللہ تعالیٰ پر ویسا نہیں رہتا بلکہ شکایت کرنے لگتے ہیں اسے عذابِ الٰہی قرار دیتے ہیں.حقیقت میں وہ لوگ بڑے ہی محروم ہیں.جن کو صالحین کا مقام حاصل نہیں ہوتا.کیونکہ یہی تو وہ مقام ہے جہاں انسان ایمانی مدارج کے ثمرات کو مشاہدہ کرتا ہے اور اپنی ذات پر ان کا اثر پاتا ہے اور نئی زندگی اسے ملتی ہے لیکن یہ زندگی پہلے ایک موت کو چاہتی ہے اور یہ انعام و برکات امتحان وابتلا کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں.یہ یاد رکھو کہ ہمیشہ عظیم الشان نعمت ابتلا سے آتی ہے اور ابتلا مومن کے لیے شرط ہے جیسے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ(العنکبوت:۳)یعنی کیا لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ وہ اتنےہی کہہ دینے پرچھوڑدیئے جاویں کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہ جاویں.ایمان کے امتحان کے لیے مومن کو ایک خطرناک آگ میں پڑنا پڑتا ہے مگر اس کا ایمان اس آگ سے اس کو صحیح سلامت نکال لاتا ہے اور وہ آگ اس پر گلزار ہو جاتی ہے.مومن ہو کر ابتلا سے کبھی بے فکر نہیں ہونا چاہیے اور ابتلا پر زیادہ ثباتِ قدم دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور حقیقت میں جو سچا مومن ہے ابتلا میں اس کے ایمان کی حلاوت اور لذّت اور بھی بڑھ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کے عجائبات پر اس کا ایمان بڑھتا ہے اور وہ پہلے سے بہت زیادہ خدا کی طرف توجہ کرتا اور دعائوں سے فتحیاب اجابت چاہتا ہے.
یہ افسوس کی بات ہے کہ انسان خواہش تو اعلیٰ مدارج اور مراتب کی کرے اور ان تکالیف سے بچنا چاہے جو ان کے حصول کے لیے ضروری ہیں.یقیناً یاد رکھو کہ ابتلا اور امتحان ایمان کی شرط ہے اس کے بغیر ایمان، ایمانِ کامل ہوتا ہی نہیں اور کوئی عظیم الشان نعمت بغیر ابتلا ملتی ہی نہیں ہے.دنیا میں بھی عام قاعدہ یہی ہے کہ دنیوی آسائشوں اور نعمتوں کے حاصل کرنے کے لیے قسم قسم کی مشکلات اور رنج وتعب اُٹھانے پڑتے ہیں.طرح طرح کے امتحانوں میں سے ہو کر گذرناپڑتا ہے تب کہیں جا کر کامیابی کی شکل نظر آتی ہے اور پھر بھی وہ محض خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے پھر خدا تعالیٰ جیسی نعمت عظمیٰ جس کی کوئی نظیر ہی نہیں یہ بدُوں امتحان کیسے میسر آسکے.پس جو چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو پاوے اسے چاہیے کہ وہ ہر ایک ابتلا کے لیے طیار ہو جاوے جب اللہ تعالیٰ کوئی سلسلہ قائم کرتا ہے جیسا کہ اس وقت اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے تو جو لوگ اس میں اولاً داخل ہوتے ہیں ان کو قسم قسم کی تکالیف اٹھانی پڑتی ہیں ہر طرف سے گالیاں اور دھمکیاں سننی پڑتی ہیں.کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ.یہاں تک کہ ان کو کہا جاتا ہے کہ ہم تم کو یہاں سے نکال دیں گے یا اگرملازم ہے تو اس کے موقوف کرانے کے منصوبے ہوتے ہیں جس طرح ممکن ہوتا ہے تکلیفیں پہنچائی جاتی ہیں اور اگر ممکن ہو تو جان لینے سے دریغ نہیں کیا جاتا ایسے وقت میں جو لوگ ان دھمکیوں کی پروا کرتے ہیں اور امتحان کے ڈرسے کمزوری ظاہر کرتے ہیں یاد رکھو خدا تعالیٰ کے نزدیک ان کے ایمان کی ایک پیسہ بھی قیمت نہیں ہے کیونکہ وہ ابتلا کے وقت خدا سے نہیں انسان سے ڈرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت وجبروت کی پروا نہیں کرتا وہ بالکل ایمان نہیں لایا کیونکہ دھمکی کو اس کے مقابلہ میں وقعت دیتا اور ایمان چھوڑنے کو طیار ہو جاتاہے.۱ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صالحین میں داخل ہونے سے محروم ہو جاتا ہے یہ خلاصہ اور مفہوم ہے اس آیت کا وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا ۱ البدر میں ہے.’’ ابتلا کے وقت جو شخص انسان سے ڈرتا ہے اس کی کچھ بھی قیمت نہیں ہوتی وہ دھمکی دینے والے کو گویا اپنا رب خیال کرتا ہے اور اس کے خوف سے ایمان چھوڑنے کو طیار ہوتا ہے تو اب بتلاؤ کہ کیاایمان ہوا؟‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر۳ مورخہ ۱۶ ؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۵ )
بِاللّٰهِ فَاِذَاۤ اُوْذِيَ فِي اللّٰهِ (العنکبوت:۱۱).جماعت کو استقلال اور ہمت کی تلقین ہماری جماعت کو یادرکھنا چاہیے کہ جب تک وہ بزدلی کو نہ چھوڑے گی اور استقلال اور ہمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ہر ایک راہ میں ہر مصیبت ومشکل کے اٹھانے کے لیے طیار نہ رہے گی وہ صالحین میں داخل نہیں ہوسکتی.تم نے اس وقت خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ کے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے.اس لیے ضروری ہے کہ تم دکھ دئیے جاؤ.تم کو ستایا جاتا ہے.گالیاں سننی پڑتی ہیں قوم اور برادری سے خارج کرنے کی دھمکیاں ملتی ہیں.جو جو تکالیف مخالفوں کے خیال میں آسکتی ہیں اس کے دینے کو وہ موقع ہاتھ سے نہیں دیتے لیکن اگرتم نے ان تکالیف اور مشکلات اور ان موذیوں کو خدا نہیں بنایا بلکہ اللہ تعالیٰ کو خدا ماناہے تو ان تکالیف کو برداشت کرنے پرآمادہ رہو اور ہر ابتلا اور امتحان میں پورے اترنے کے لیے کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ سے اس کی توفیق اور مدد چاہو تو میں تمہیں یقیناً کہتا ہوںکہ تم صالحین میں داخل ہو کر خدا جیسی عظیم الشان نعمت کو پاؤگے اور ان تمام مشکلات پر فتح پاکر دارالامان میں داخل ہو جاؤگے.صاحبزادہ عبداللطیف کی شہادت صاحبزادہ عبداللطیف شہیدکی شہادت کا واقعہ تمہارے لیے اسوئہ حسنہ ہے.تذکرۃ الشہادتین کو بار بار پڑھو اور دیکھو کہ اس نے اپنے ایمان کا کیسا نمونہ دکھایا ہے.اس نے دنیا اور اس کے تعلقات کی کچھ بھی پروا نہیں کی بیوی یا بچوں کا غم اس کے ایمان پر کوئی اثر نہیں ڈال سکا.دنیوی عزّت اور منصب اور تنعم نے اس کو بزدل نہیں بنایا.اس نے جان دینی گوارا کی مگر ایمان کو ضائع نہیں کیا عبداللطیف کہنے کو مارا گیا یا مَر گیا مگر یقیناً سمجھو کہ وہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مَرے گا اگرچہ اس کو بہت عرصہ صحبت میں رہنے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن اس تھوڑی مدت میں جو وہ یہاں رہا اس نے عظیم الشان فائدہ اٹھایا.اس کو قسم قسم کے لالچ دئیے گئے کہ اس کا مرتبہ ومنصب بدستور قائم رہے گا مگر اس نے اس عزّت افزائی اور دنیوی مفاد کی کچھ بھی پروا نہیں کی ان کو ہیچ سمجھا یہاں تک کہ جان جیسی عزیز شَے کو
جو انسان کو ہوتی ہے اس نے مقدم نہیں کیا بلکہ دین کو مقدم کیا جس کا اس نے خدا کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.میں بار بار کہتا ہوں کہ اس پاک نمونہ پر غور کرو کیونکہ اس کی شہادت یہی نہیں کہ اعلیٰ ایمان کا ایک نمونہ پیش کرتی ہے بلکہ یہ خدا تعالیٰ کا عظیم الشان نشان ہے جو اور بھی ایمان کی مضبوطی کا موجب ہوتا ہے کیونکہ براہین احمدیہ میں ۲۳ برس پہلے سے اس شہادت کے متعلق پیشگوئی موجود تھی وہاں صاف لکھا ہے شَاتَانِ تُذْبَـحَانِ وَکُلُّ مَنْ عَلَیْـھَافَانٍ کیا اس وقت کوئی منصوبہ ہوسکتا تھا کہ ۲۳ یا ۲۴ سال بعد عبدالرحمٰن اور عبداللطیف افغانستان سے آئیں گے اور پھر وہ وہاں جا کر شہید ہوںگے.وہ دل لعنتی ہے جو ایسا خیال کرے.یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو عظیم الشان پیشگوئی پر مشتمل ہے اور اپنے وقت پر آکر یہ نشان پورا ہو گیا.۱ اس سے پہلے عبدالرحمٰن جو مولوی عبداللطیف شہید کا شاگر د تھا سابق امیر نے قتل کرایا محض اس وجہ سے کہ وہ اس سلسلہ میں داخل ہے اور یہ سلسلہ جہاد کے خلاف ہے اور عبدالرحمٰن جہاد کے خلاف تعلیم افغانستان میں پھیلاتا تھا اور اب اس امیر نے مولوی عبداللطیف کو شہید کرادیا.یہ عظیم الشان نشان جماعت کے لیے ہے اس پیشگوئی کے معنے اب مخالفوں سے پو چھو کہ کیا یہ پیشگوئی صریح الفاظ میں نہیں ہے؟ اور کیا اب یہ پوری نہیں ہو گئی ہے؟ کیونکہ انگریزوں کے ملک میں تو کوئی کسی کو بے گناہ ذبح نہیں کرتا ہے اس لیے یہاں تو اس کا وقوع نہیں ہونا تھا اور علاوہ بریں ہماری تعلیم ایسی تعلیم نہیں تھی کہ کوئی اس کو پکڑسکے بلکہ یہ تعلیم توامن کے پھیلانے والی ہے پھر یہ پیشگوئی کیسے پوری ہوتی؟ اس لیے خدا تعالیٰ نے اس نشان کے پوراکرنے کے لیے کابل کی سرزمین کو مقدر کیا ہوا تھا اور آخر ۲۴ سال کے بعد یہ پیشگوئی ٹھیک اسی طرح پوری ہوئی جس طرح پہلے فرمایا گیا تھا اس سے آگے اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْـًٔا وَّ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ(البقرۃ:۲۱۷) یہ ایک قسم کی تسلی ہے یعنی جب ایسا معاملہ البدر سے.’’ براہین احمدیہ میں اس کی نسبت پیشگوئی موجودتھی اور یہ وہ کتاب ہے جو آج سے ۲۳، ۲۴ برس قبل ہر ایک جگہ اور ہر ایک فرقہ اور ملّت حتی کہ امریکہ یورپ وغیرہ میں شائع ہو چکی ہے اور موجود ہے.جو لوگ خدا کے وجود سے انکار کرتے ہیں وہ بتلاویں کہ اگر خدا تعالیٰ کی ذات موجود نہیں تواس واقعہ کی خبر اس قدر عرصہ دراز پیشتر ہونی اور اس کا اسی طرح واقعہ ہونا اس کے کیا معنے ہیں؟‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۳ مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۴ءصفحہ۵)
ہو تو غم نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو تم پسند کرتے ہو اور وہ اچھی نہیں ہوتی ہیں اور بہت سی ایسی ہوتی ہیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو اور وہ درحقیقت تمہارے لیے مفید ہوتی ہیں.یہ خدا تعالیٰ کا ارشاد بالکل سچ۱ ہے اورمَیں یقیناً جانتا ہوںکہ اب وقت آنے والا ہے کہ اس کی شہادت کی حکمت نکلنے والی ہے اور میں نے سنا ہے کہ اس وقت چودہ آدمی قید کئے گئے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ عبداللطیف کو ناحق شہید کرایا گیا ہے اور یہ ظلم ہواہے وہ حق پر تھا.اس پرامیر نے ان آدمیوں کو قید کردیا ہے اور ان کے وارثوں کو کہا ہے کہ وہ ان کو سمجھائیں کہ ایسے خیالات سے وہ باز آجائیں مگر وہ موت کو پسند کرتے ہیں اور اس یقینی بات کو وہ چھوڑ نا نہیں چاہتے اگر عبداللطیف شہید نہ ہوا ہوتا تو یہ اثر کس طرح پیدا ہوتا اور یہ رعب کس طرح پرپڑتا.یقیناً سمجھو کہ خدا تعالیٰ نے کسی بڑی چیز کا ارادہ کیا ہے اور اس کی بنیاد عبداللطیف کی شہادت سے پڑی ہے اگر مولوی عبداللطیف زندہ رہتے تودس بیس برس تک زندہ رہتے آخرموت آ جاتی اورموت آنی ہے اس سے تو آدمی بچ نہیں سکتا مگر یہ موت موت نہیں یہ زندگی ہے اور اس سے مفید نتیجے پیدا ہونیوالے ہیں اور یہ مبارک بات ہے.دشمن بھی اگر خبیث نہ ہو تو براہین احمدیہ کی پیشگوئی کو پڑھ کر اور اس کے اس طرح پر پوری ہونے کو دیکھ کراس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ اگر مفتری ہے اور رات کو جھوٹاالہام بناکر سنادیتا ہے تو یہ اثراستقامت کیوں ہوا اور ۲۳ یا۲۴ سال کے بعد ایک بات جو بطور ۱ البدرمیں یہ حصہ زیادہ مفصل لکھا ہے.’’چو نکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ اس خون سے مجھ پراور کل جماعت پر ایک بڑا صدمہ گذرے گا اس لیے پھر اس سے آگے وہ تسلی دیتا ہے کہ اس مصیبت اور اس سخت صدمہ سے تم غمگین اور اداس مت ہو.خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے وہ دو کے عوض ایک قوم تمہارے پاس لائے گا وہ اپنے بندے کے لیے کافی ہے.کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر ایک شَے پر قادر ہے ان کی شہادت میں حکمتِ الٰہی ہے.بہت امور ہیں جو تم چاہتے ہو کہ وقوع میں آویں حالانکہ ان کا واقع ہونا تمہارے لیے اچھا نہیں اور بہت ہیں جو تم چاہتے ہو کہ واقع نہ ہوں حالانکہ ان کا واقع ہونا تمہارے لیے اچھا ہوتا ہے سووہ حکمتِ الٰہی عنقریب ظاہر ہو گی اور معلوم ہو گا کہ اس خون میں کس قدر برکات ہیں.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۳ مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۵)
پیشگوئی شائع کی گئی تھی کیوں پوری ہو جاتی ہے؟۱ اس قدر عرصہ دراز تک تو انسان کو اپنی زندگی کی بھی امید نہیں ہوسکتی اور پھر اس کے ماننے والوں میں اس قدر استقامت اور قوت ہے کہ بیوی بچوں تک کی پروا نہیں کرتا، مال اور جان کا خیال تک بھی نہیں کرتا.ایمان جیسی دولت پر سب کچھ قربان کرنے کو طیار ہو جاتا ہے.ایک اہل بصیرت اس سے نتیجہ نکالنے میں غلطی نہیں کرے گا کہ یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کے منشا ہی کے ماتحت ہے.ایک سلسلہ جو خود اس نے قائم کیا ہے اور آپ جس نے ایک نشان دیا ہے اسی نے وہ قوت اورا ستقامت اس شہید کو عطا کی تاکہ اس کی شہادت اس سلسلہ کی سچائی پر زبردست دلیل اور گواہ ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا ہے اب یہ نشان ہزاروں لاکھوں انسانوں کے لیے ہدایت اور ترقی ایمان کا مو جب ہوگا اور خدا چاہے تو اس کے آثار ابھی سے نظر آنے لگے ہیں.اَلْاِسْتِقَامَۃُ فَوْقَ الْکَرَامَۃِ مشہور بات ہے عبداللطیف کے اس استقلال اور اس استقامت سے بہت بڑا فائدہ ان لوگوں کا ہوگا جو اس واقعہ پرغور کریں گے چونکہ یہ موت بہت سی زندگیوں کا موجب ہونے والی ہے اس لیے یہ ایسی موت ہے کہ ہزاروں زندگیاں اس پر قربان ہیں.پھر اس پیشگوئی میں كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ جو فرمایا ہے یہ دشمنوں کے لئے ہے کہ تمہیں بھی کبھی مَرنا ہی ہے موت تو کسی کو نہیں چھوڑے گی.پھر عبداللطیف کی موت پر جو موت نہیں بلکہ زندگی ہے تم کیوں خوش ہوتے ہو.آخر تمہیں بھی مَرنا ہے.عبد اللطیف کی موت تو بہتوں کی زندگی کا باعث ہوگی مگرتمہاری جان اکارت جائے گی اور کسی ٹھکانے نہ لگے گی.مولوی عبداللطیف کی شہادت اور استقامت کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوا کہ ۲۳یا۲۴برس سے ایک پیشگوئی براہین میں موجود تھی جو پوری ہوگئی اور یہ ہماری جماعت کے ایمان کو ترقی دینے کا ۱ البدر میں ہے.’’ہم اگر مفتری تھے تو اس قدر استقامت ان میں کیوں آگئی؟ کیا کبھی سنا ہے کہ ایک مفتری کا مرید ہو کر پھر کسی نے اس طرح سے جان دی ہو حالانکہ بار باران کو جان بچانے کا موقع بھی دیا گیا.اَلْاِسْتِقَامَۃُ فَوْقَ الْکَرَامَۃِ یہ بھی ہمارے سچے ہو نے کی ایک دلیل ہے.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۳ مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۵)
موجب ہوگی.اس کے سوا اب یہ خون اُٹھنے لگا ہے اور اس کا اثر پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے جو ایک جماعت کو پیدا کر دے گا.۱ یہ خون کبھی خالی نہیں جائے گا.اللہ تعالیٰ اس کے مصالح اور حکمتوں کو خوب جانتا ہے لیکن جہاں تک پیشگوئی کے الفاظ پر غور کرتا ہوں اس میں عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْـًٔا وَّ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ.ایک ہی بڑی تسلی اور اطمینان کی بات ہے کہ جس سے صاف پایا جاتا ہے کہ اس خون کے بہت بڑے بڑے نتائج پیدا ہونے والے ہیں.میں جانتا ہوں اور اس پر افسوس بھی کرتا ہوں کہ جس قسم کا نمونہ صدق اور وفا کا عبد اللطیف نے دکھلایا ہے.اس قسم کے ایمان کے لیے میرا کانشنس فتویٰ نہیں دیتا کہ ایسے لوگ میری جماعت میں بہت ہیں.اس لیے میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سب کو اس قسم کا اخلاص اور صدق عطا کرے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کریں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان کو عزیز نہ سمجھیں.بزدلی کو دور کرو میں ابھی جماعت میں بزدلی کو دیکھتا ہوں اور جب تک یہ بزدلی دور نہ ہو اور عبد اللطیف کا سا ایمان پیدا نہ ہو.یقیناً یاد رکھو کہ وہ اس سلسلہ میں داخل نہیں ہے بلکہ وہ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ (البقرۃ:۱۰) میں داخل ہے.مومنوں میں وہ اس وقت داخل ہوں گے جب وہ اپنی نسبت یہ یقین کرلیں گے کہ ہم مُردے ہیں.صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب دشمنوں کے مقابلہ پر جاتے تھے وہ ایسے معلوم ہوتے تھے کہ گویا گھوڑوں پر مُردے سوار ہیں اور وہ سمجھتے تھے کہ اب ہم کو موت ہی اس میدان سے الگ کرے گی.اللہ تعالیٰ لاف وگزاف کو پسند نہیں کرتا وہ دل کی اندرونی حالت کو دیکھتا ہے کہ اس میں ایمان کا کیا رنگ ہے.جب ایمان قوی ہو تو استقامت اور استقلال پیدا ہوتا ہے اور پھر انسان اپنی جان ومال کو ہرگز اس ایمان کے مقابلہ میں عزیز نہیں رکھ سکتا اور استقامت ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہوتا،لیکن جب استقامت ہوتی ہے تو پھر انعامات الٰہیہ کا دروازہ کُھلتا ہے دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں مکالمات الٰہیہ کا شرف بھی دیا جاتا ہے یہاں تک کہ استقامت والے سے خوارق کا صدور ۱ الحکم جلد ۸ نمبر۳ مورخہ ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۴ءصفحہ ۱،۲
ہونے لگتا ہے.ظاہری حالت اگر اپنی جگہ کوئی چیز ہوتی اور اس کی قدروقیمت ہوتی تو ظاہرداری میں تو سب کے سب شریک ہیں عام مسلمان نمازوں میں ہمارے ساتھ شریک ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک شرف اور بزرگی اندرونہ سے ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے فرمایا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور بزرگی ظاہری نمازاور اعمال سے نہیں ہے بلکہ اس کی فضیلت اور بزرگی اس چیز سے ہے جو اس کے دل میں ہے.حقیقت میں یہ بات بالکل صحیح ہے کہ شرف اورعُلُوّ دل ہی کی بات سے مخصوص ہے مثلاًایک شخص کے دو خدمتگار ہوں اور ان میں سے ایک خدمت گار تو ایسا ہو جو ہر وقت حاضر رہے اور بڑی جانفشانی سے ہر ایک خدمت کے کرنے کو حاضر اور طیار رہے اور دوسرا ایسا ہے کہ کبھی کبھی آجاتا ہے.ان دونوں میں بہت بڑافرق ہے جو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے آقا بھی خوب جانتا ہے کہ یہ محض ایک مزدور ہے جو دن پورے ہو جانے پر تنخواہ لینے والا ہے اور اسی کے لیے کام کرتا ہے اب صاف ظاہر ہے کہ اس کے نزدیک قدروقیمت اور محبت اسی سے ہو گی جو محنت اور جانفشانی سے کام کرتا ہے نہ کہ اس مزدور سے.اخلاص اور وفاداری پس یاد رکھو کہ وہ چیز جو انسان کی قدر و قیمت کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑھاتی ہے وہ اس کا اخلاص اور وفاداری ہے جو وہ خدا تعالیٰ سےرکھتا ہے ورنہ مجاہدات خشک سے کیا ہوتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دیکھا گیا ہے کہ ایسے ایسے لوگ بھی مجاہدات کرتے تھے جو چھت سے رسہ باندھ کر (اپنے) آپ کو ساری رات جاگنے کے لیے لٹکارکھتے تھے لیکن کیا وہ ان مجاہدات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہو گئے تھے؟ ہرگز نہیں.نامرد، بزدل، بے وفا جو خدا تعالیٰ سے اخلاص اور وفاداری کا تعلق نہیںرکھتا بلکہ دغا دینے والا ہے وہ کس کام کا ہے اس کی کچھ قدر وقیمت نہیں ہے.ساری قیمت اور شرف وفا سے ہوتا ہے.ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو شرف اور درجہ ملا وہ کس بنا پر ملا؟قرآن شریف نے فیصلہ کر دیا ہے.اِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰۤى(النجم:۳۸) ابراہیم وہ جس نے ہمارے ساتھ وفاداری کی.آگ میں ڈالے
گئے مگر انہوں نے اس کو منظور نہ کیا کہ وہ ان کافروںکو کہہ دیتے کہ تمہارے ٹھاکروں کی پوجا کرتا ہوں.خدا تعالیٰ کے لیے ہر تکلیف اور مصیبت کو برداشت کرنے پر آمادہ ہو گئے خدا تعالیٰ نے کہا کہ اپنی بیوی کو بے آب ودانہ جنگل میں چھوڑآ.انہوں نے فی الفوراس کو قبول کر لیا ہر ایک ابتلا کو انہوں نے اس طرح پر قبول کر لیا کہ گویا عاشق اللہ تھا.درمیان میں کوئی نفسانی غرض نہ تھی.اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتلا پیش آئے.خویش واقارب نے مل کر ہر قسم کی ترغیب دی کہ اگر آپ مال ودولت چاہتے ہیں تو ہم دینے کو طیار ہیں اور اگر آپ بادشاہت چاہتے ہیں تو اپنا بادشاہ بنا لینے کو طیار ہیں اگر بیویوں کی ضرورت ہے تو خوبصورت بیویاں دینے کو موجود ہیں۱ مگر آپ کا جواب یہی تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے شرک کے دور کرنے کے واسطے مامور کیا ہے جو مصیبت اور تکلیف تم دینی چاہتے ہو دے لو میں اس سے رک نہیں سکتا کیونکہ یہ کام جب خدا نے میرے سپردکیا ہے پھر دنیا کی کوئی ترغیب اور خوف مجھ کو اس سے ہٹا نہیں سکتا.آپ جب طائف کے لوگوں کو تبلیغ کرنے گئے توان خبیثوں نے آپ کے پتھر مارے جس سے آپ دوڑتے دوڑتے گر جاتے تھے لیکن ایسی مصیبتوں اور تکلیفوں نے آپ کو اپنے کام سے نہیں روکا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صادقوں کے لیے کیسی مشکلات اور مصائب کا سامنا ہوتا ہے اور کیسی مشکل گھڑیاں ان پر آتی ہیں مگر باوجود مشکلات کے ان کی قدرشناسی کا بھی ایک دن مقررہوتا ہے اس وقت ان کا صدق روزِروشن کی طرح کھل جاتا ہے اور ایک دنیا ان کی طرف دوڑتی ہے.عبداللطیف کے لیے وہ دن جو اس کی سنگساری کا دن تھا کیسا مشکل تھا وہ ایک میدان میں سنگساری کے لیے لایا گیا اور ایک خلقت اس تماشا کو دیکھ رہی تھی مگر وہ دن اپنی جگہ کس قدر، قدروقیمت رکھتا ہے.اگر اس کی باقی ساری زندگی ایک طرف ہو اور وہ دن ایک طرف، تو وہ دن قدروقیمت میں بڑھ جاتا ہے زندگی کے یہ دن بہرحال گذر ہی جاتے ہیں اور اکثر بہائم کی زندگی کی طرح گذرتے ہیں لیکن مبارک وہی دن ہے جو خدا تعالیٰ کی محبت و وفا میں گذرے.فرض کرو کہ ایک شخص کے پاس ۱ البدر سے.’’ مگر اس وعظ اور تبلیغ سے بازآؤ.‘‘ (البدر جلد ۳نمبر۳ مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۴ءصفحہ۶)
لطیف اور عمدہ غذائیں کھانے کے لیے اور خوبصورت بیویاں اور عمدہ عمدہ سواریاں سوار ہونے کورکھتا ہے بہت سے نوکر چاکر ہر وقت خدمت کے لیے حاضر رہتے ہیں مگر ان سب باتوں کا انجام کیا ہے؟ کیا یہ لذتیں اور آرام ہمیشہ کے لیے ہیں؟ ہرگز نہیں ان کا انجام آخر فنا ہے.مردانہ زندگی یہی ہے کہ اس زندگی پر فرشتے بھی تعجب کریں.وہ ایسے مقام پر کھڑا ہو کہ اس کی استقامت، اخلاص اور وفاداری تعجب خیز ہو.خدا تعالیٰ نامرد کو نہیں چاہتا.اگر زمین وآسمان بھی ظاہری اعمال سے بھر دیں لیکن ان اعمال میں وفانہ ہو تو ان کی کچھ بھی قیمت نہیں.کتاب اللہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جب تک انسان صادق اور وفادار نہیں ہوتا اس وقت تک اس کی نماز یں بھی جہنم ہی کولے جانے والی ہوتی ہیں.جب تک پورا وفا دار اور مخلص نہ ہو ریا کاری کی جڑاندر سے نہیں جاتی ہے لیکن جب پورا وفادار ہوجاتا ہے اس وقت اخلاص اور صدق آتا ہے اور وہ زہریلا مادہ نفاق اور بزدلی کا جوپہلے پایا جاتا ہے دور ہو جاتا ہے.صدق اور خدمت کا آخری موقع اب وقت تنگ ہے میں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی جوان یہ بھروسہ نہ کرے کہ اٹھارہ یا انیس سال کی عمر ہے اور ابھی بہت وقت باقی ہے.تندرست اپنی تندرستی اور صحت پر نازنہ کرے اسی طرح اور کوئی شخص جو عمدہ حالت رکھتا ہے وہ اپنی وجاہت پر بھروسہ نہ کرے زمانہ انقلاب میں ہے یہ آخری زمانہ ہے.اللہ تعالیٰ صادق اور کاذب کو آزمانا چاہتا ہے اس وقت صدق ووفا کے دکھانے کا وقت ہے اور آخری موقع دیا گیا ہے.یہ وقت پھر ہاتھ نہ آئے گا یہ وہ وقت ہے کہ تمام نبیوں کی پیشگوئیاں یہاں آکر ختم ہو جاتی ہے اس لیے صدق اور خدمت کا یہ آخری موقع ہے جو نوعِ انسان کو دیاگیا ہے اب اس کے بعد کوئی موقع نہ ہوگا بڑا ہی بد قسمت وہ ہے جو اس موقع کو کھو دے.نرا زبان سے بیعت کا اقرار کرناکچھ چیز نہیں ہے بلکہ کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگو کہ وہ تمہیں صادق بناوے اس میں کاہلی اور سستی سے کام نہ لو بلکہ مستعد ہو جاؤ اور اس تعلیم پر جو میں پیش کر چکا ہوں عمل کرنے کے لیے کوشش کرو اور اس راہ پر چلو جو میں نے پیش کی ہے.عبداللطیف کے
نمونہ کو ہمیشہ مد نظر رکھو کہ اس سے کس طرح پر صادقوں اور وفاداروں کی علامتیں ظاہر ہوئی ہیں.یہ نمونہ خدا تعالیٰ نے تمہارے لیے پیش کیا ہے.ہمیشہ ملتے رہو.یہ دنیا چند روزہ ہے.ایک دن آتا ہے کہ نہ ہم ہوں گے نہ تم اور نہ کوئی اَور، اور یہ سب جنگل ویرانہ ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ کی کیا حالت ہو گئی ہر ایک حالت میں تبدیلی ہے پس اس تبدیلی کو مد نظر رکھو اور آخری وقت کو ہمیشہ یادرکھو آنے والی نسلیں آپ لوگوں کا منہ دیکھیں گی اور اسی نمونہ کو دیکھیں گی.اگرتم پورے طور پر اپنے آپ کو اس تعلیم کا عامل نہ بناؤ گے تو گویا آنے والی نسلوں کو تباہ کروگے.انسان کی فطرت میں نمونہ پرستی ہے وہ نمونہ سے بہت جلد سبق لیتا ہے.ایک شرابی اگر کہے کہ شراب نہ پیو یا ایک زانی کہے کہ زنا نہ کرو، ایک چور دوسرے کو کہے کہ چوری نہ کرو توان کی نصیحتوں سے دوسرے کیا فائدہ اٹھائیں گے بلکہ وہ توکہیں گے کہ بڑا ہی خبیث ہے وہ جو خود کرتا ہے اور دوسروں کو اس سے منع کرتا ہے جو لوگ خود ایک بدی میں مبتلا ہو کراس کا وعظ کرتے ہیں وہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں.دوسروں کو نصیحت کرنے والے اور خودعمل نہ کرنے والے بے ایمان ہوتے ہیں اور اپنے واقعات کو چھوڑجاتے ہیں ایسے واعظوںسے دنیا کو بہت بڑا نقصان پہنچتا ہے.ایک مولوی کا ذکر ہے کہ اس نے ایک مسجد کا بہانہ کرکے ایک لاکھ روپیہ جمع کیا ایک جگہ وہ وعظ کر رہاتھا.اس کے وعظ سے متاثر ہو کر ایک عورت نے اپنی پازیب اتار کراس کو چندہ میں دے دی مولوی صاحب نے کہا کہ اے نیک عورت کیا تو چاہتی ہے کہ تیرا دوسراپاؤں جہنم میں جاوے.اس نے فی الفور دوسری پازیب بھی اتارکراسے دے دی.مولوی صاحب کی بیوی بھی اس وعظ میں موجود تھی اس کااس پر بھی بڑا اثرہوا اور جب مولوی صاحب گھر میں آئے تو دیکھا کہ ان کی عورت روتی ہے اور اس نے اپنا سارا زیور مولوی صاحب کو دے دیا کہ اسے بھی مسجد میں لگا دو.مولوی صاحب نے کہا کہ تو کیوں ایسا روتی ہے یہ تو صرف چندہ کی تجویز تھی اور کچھ نہ تھا.
غرض ایسے نمونوں سے دنیا کو بہت بڑانقصان پہنچا ہے ہماری جماعت کو ایسی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے.تم ایسے نہ بنو ،چاہیے کہ تم ہر قسم کے جذبات سے بچو.ہر ایک اجنبی جو تم کو ملتا ہے وہ تمہارے منہ کو تاڑتا ہے اور تمہارے اخلاق، عادات، استقامت، پابندی احکام الٰہی کو دیکھتا ہے کہ کیسے ہیں اگر عمدہ نہیں تو وہ تمہارے ذریعہ ٹھو کرکھاتا ہے بس ان باتوں کو یادرکھو.(تَمَّ کَلَامُہُ الْمُبَارَکُ)۱ ۲۸؍دسمبر۱۹۰۳ء دلائل الخیرات اور دیگر وظائف کی نسبت امام الوقت کی رائے ایک صاحب۲ آمدہ از امروہہ نے دریافت کیا کہ دلائل الخیرات جو ایک کتاب وظیفوں کی ہے اگر اسے پڑھا جاوے تو کچھ حرج تو نہیں؟ کیونکہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درودشریف ہی ہے اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تعریف جابجا ہے.فرمایا کہ انسان کو چاہیے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے اور خود بھی خدا سے وہی چاہے جو اس دعا میں چاہا گیا ہے اور جہاں عذاب کا مقام آوے تواس سے پناہ مانگے اور ان بداعمالیوں سے بچے جس کے باعث وہ قوم تباہ ہوئی.بلا مدد وحی کے ایک بالائی منصوبہ جو کتاب اللہ کے ساتھ ملاتا ہے وہ اس شخص کی ایک رائے ہے جو کہ کبھی باطل بھی ہوتی ہے اور ایسی رائے جس کی مخالفت احادیث میں موجود ہو وہ محدثات میں داخل ہو گی.رسم اور بدعات سے پرہیز بہتر ہے اس سے رفتہ رفتہ شریعت میں تصرّف شروع ہو جاتا ہے.بہتر طریق یہ ہے کہ ایسے وظائف میں جو وقت اس نے صرف کرنا ہے وہی قرآن شریف کے تدبّر میں لگا و ے.دل کی اگر سختی ۱ الحکم جلد ۸ نمبر۴ مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۴ءصفحہ ۱،۲ ۲ الحکم میں ان کا نام قاضی آل احمد صاحب رئیس امروہہ لکھا ہے (مرتّب)
ہو تو اس کے نرم کرنے کے لیے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی بار بار پڑھے جہاں جہاں دعا ہوتی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمتِ الٰہی میرے بھی شاملِ حال ہو.قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چنتا ہے.پھر آگے چل کر اور قسم کا چُنتا ہے.پس چاہیے کہ ہر ایک مقام کے مناسبِ حال فائدہ اُٹھاوے.اپنی طرف سے الحاق کی کیا ضرورت ہے ورنہ پھر سوال ہوگا کہ تم نے ایک نئی بات کیوں بڑھائی؟ خدا کے سوا اور کس کی طاقت ہے کہ کہے فلاں راہ سے اگر سورئہ یٰس پڑھو گے تو برکت ہو گی ورنہ نہیں.قرآن شریف سے اعراض کی صورتیں قرآن شریف سے اعراض کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک صوری اور ایک معنوی.صوری یہ کہ کبھی کلام الٰہی کو پڑھا ہی نہ جاوے جیسے اکثر لوگ مسلمان کہلاتے ہیں مگر وہ قرآن شریف کی عبارت تک سے بالکل غافل ہیں اور ایک معنوی کہ تلاوت تو کرتا ہے مگر اس کی برکات وانوار و رحمت الٰہی پر ایمان نہیں ہوتا.پس دونوں اعراضوں میں سے کوئی اعراض ہو اس سے پرہیز کرنا چاہیے.امام جعفرؑ کا قول ہے واللہ اعلم کہاں تک صحیح ہے کہ میں اس قدر کلام الٰہی پڑھتا ہوں کہ ساتھ ہی الہام شروع ہو جاتا ہے مگر بات معقول معلوم ہوتی ہے کیونکہ ایک جنس کی شَے دوسری شَے کو اپنی طرف کشش کرتی ہے.اب اس زمانہ میں لوگوں نے صد ہا حاشیے چڑھائے ہوئے ہیں.شیعوں نے الگ سنّیوں نے الگ.ایک دفعہ ایک شیعہ نے میرے والد صاحب سے کہا کہ میں ایک فقرہ بتلاتا ہوں وہ پڑھ لیا کرو تو پھر طہارت اور وضو وغیرہ کی ضرورت نہیں ہو گی.اسلام میں کفر، بدعت، الحاد، زندقہ وغیرہ اسی طرح سے آئے ہیں کہ ایک شخصِ واحد کے کلام کو اس قدر عظمت دی گئی جس قدر کہ کلام الٰہی کو دی جانی چاہیے تھی.صحابہ کرامؓاسی لیے احادیث کو قرآن شریف سے کم درجہ پر مانتے تھے.ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فیصلہ کرنے لگے تو ایک بوڑھی عورت نے اُٹھ کر کہا.حدیث میں یہ لکھا ہے.تو آپ ؓ نے فرمایا کہ میں ایک بڑھیا کے لیے کتاب اللہ کو ترک نہیں کرسکتا.اگر ایسی ایسی باتوں کو جن کے ساتھ وحی کی کوئی مدد نہیں وہی عظمت
دی جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ مسیح کی حیات کی نسبت جو اقوال ہیں ان کو بھی صحیح مان لیا جاوے حالانکہ وہ قرآن شریف کے بالکل مخالف ہیں.۱ ۱ البدر جلد ۳ نمبر۴ مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۲ نیز الحکم جلد ۸ نمبر۴ مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۲
ترجمہ فارسی عبارات مندرجہ ملفوظات جلد پنجم از صفحہ نمبر ترجمہ فارسی ۷ وہ تمام خوبیاں جو حسینوں میں پائی جاتی ہیں وہ سب تیری ذات میں ہیں.۳۰ میں نے سب کو خدا کی طرف متوجہ دیکھا اور ان سب کے اوپر اے خدا میں نے تمہیں دیکھا.۳۲ کوئی امیر پہاڑ جنگل اور بیابان میں اجنبی نہیں ہوتا جہاں جاتا ہے خیمہ لگا کر اپنا دربار سجا لیتا ہے.۳۶ وہ واعظ جو محراب و منبر پر دکھائی دیتے ہیں جب خلوت میں جاتے ہیں تو اس کے الٹ کام کرتے ہیں.۷۲ جسے (ذات الٰہی کا ) پتا چل گیا پھر اس کا اپنا پتا نہیں ملتا.۷۳ بڑا غضب ہو اگر کوئی فوت شدہ شخص ، اپنے قبیلہ اور رشتہ داروں میں واپس آجائے.۷۳ وارثوں کے لئے ترکہ کا واپس کرنا اپنے عزیزوں کی موت سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوگا.۱۰۸ وہ واعظ جو محراب و منبر پر دکھائی دیتے ہیں جب خلوت میں جاتے ہیں تو اس کے الٹ کام کرتے ہیں.۱۰۸ توبہ کی تلقین کرنے والے خود کیوں کم توبہ کرتے ہیں.
۱۰۹ بہت سے شیطانوں کی شکل انسانوں جیسی ہوتی ہے پس ہر کسی کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دے دینا چاہیے ۱۵۳ اگر چور سے جان پہچان ہو، گدھے کو باندھ کر رکھنا بہتر ہے.۲۰۱ ہر چیز میں نقص اور عمدگی دونوں ہوتےہیں.۲۲۸ تو نے دوستوں سے کون سا اچھا سلوک کیا ہے کہ ہمارے ساتھ بھی کرے گا، بخدا تجھ سے بچ رہنا لازم ہے.۲۳۷ وہ نہ طاقت سے ، نہ رونے سے، نہ مال سے ہاتھ آسکتا ہے.۲۶۸ عشق صرف دیکھنے سے ہی پیدا نہیں ہوتا بہت دفعہ یہ سعادت کلام سننے سے حاصل ہوتی ہے ۲۶۸ کیا تو نے زمینی کاموں کو درست کر لیا ہے، کہ آسمانی کاموں کی طرف بھی متوجہ ہو گیا ہے.۲۶۹ خدا کے بعد میں محمدؐ کے عشق میں سرشار ہوں.اگر یہی کفر ہے تو بخدا میں سخت کافر ہوں.۲۷۸ دنیا چند روزہ ہے بالآخر خدا تعالیٰ سے ہی کام پڑتا ہے.۲۸۱ تنور(پر سونے )والی رات بھی گذر گئی اور سمور (پہن کر سونے )والی رات بھی گزر گئے.۲۹۰ بارگاہ الٰہی کی تنہائی کے سوا کہیں امن نہیں.۳۱۷ جب عمر کا معاملہ پوشیدہ ہے تو بہتر ہے کہ میں موت کے آنے کے دن محبوب کے سامنے ہوں.
از صفحہ نمبر
۳۲۰ جب مجھے اس کا حسین چہرہ یاد آتا ہے تو مجھے حاضر و غائب سب بھول جاتے ہیں.۳۲۱ میں اس لئے آیا ہوں کہ صدق کی راہ کو روشن کروں اور دلبر کے پاس اسے لے چلوں جو نیک و پار سا ہے.۳۲۱ وہ شخص جسے بال ہما نے بھی فائدہ نہ دیا ہو اسے چاہیے کہ دودن ہمارے زیر سایہ رہے.۳۲۱ وہ پھول جو کبھی خزاں کا منہ نہیں دیکھے گا وہ ہمارے باغ میں ہے اگر تیری قسمت یاور ہو.۳۲۲ جس چراغ کو اللہ تعالیٰ روشن کرے جو شخص اس پر پھونک مارے گا اس کی داڑھی جل جائے گی.۳۲۲ اگر مقابلہ میں بد شکل اور سیاہ رو نہ ہوتا تو کیونکر کوئی گل اندام معشوق کا حسن پہچان سکتا.۳۲۲ اگر دشمن سے لڑائی اور جنگ واقع نہ ہوتی تو خون پینے والی تلوار کا جوہر کیونکر ظاہر ہوتا.۳۲۳ کامل لوگ تو زمین کے نیچے بھی زندہ ہیں تو ایسی زندگی کے ساتھ بھی قبر میں ہے.۳۲۳ سبز کلاہ اور اونی خرقہ پر ناز نہ کر کہ نمائشی گدڑی کے نیچے بہت سے فریب ہوتے ہیں.۳۲۴ محبوب کی بارگاہ میں وہی شخص پہنچ سکتا ہے جو ہر لمحہ اس کی تلاش میں لگا رہے.
۳۴۲ اے وہ جو میری طرف سینکڑوں کلہاڑے لے کر دوڑا ہے باغبان سے ڈر کیونکہ میں ایک پھلدار شاخ ہوں.۳۵۴تنور(پر سونے )والی رات بھی گذر گئی اور سمور (پہن کر سونے )والی رات بھی گزر گئے.