Language: UR
ملفوظات سے مراد حضرت بانی جماعت احمدیہ، مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا وہ پاکیزہ اور پُرمعارف کلام ہے جو حضورؑ نے اپنی مقدس مجالس میں یا جلسہ سالانہ کے اجتماعات میں اپنے اصحاب کے تزکیہ نفس، ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت، خداتعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرنے اور قرآن کریم کے علم و حکمت کی تعلیم نیز احیاء دین اسلام اور قیام شریعت محمدیہ کے لیے وقتاً فوقتاً ارشاد فرمایا۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَعَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یکم جنوری ۱۹۰۳ء بروز پنجشنبہ سالے کہ نکوست او بہارش پیدا ست ہدیۂ عید حضرت حجۃ اللہ علی الارض مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے عید کی مبارک صبح کو جو الہام بطور ہدیہ عید سنایا اس کے متعلق جو اشتہار شائع کیا گیا ہے اسے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں وَہُوَ ہٰذَا.بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ نَـحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ وحی الٰہی کی ایک پیشگوئی جو پیش از وقت شائع کی جاتی ہے چاہیے کہ ہر ایک شخص اس کو خوب یاد رکھے.اوّل.ایک خفیف خواب۱ میں جو کشف کے رنگ میں تھا مجھے دکھایا گیا کہ میں نے ایک لباس فاخرہ پہنا ہوا ہے اور چہرہ چمک رہا ہے.پھر و ہ کشفی حالت وحی الٰہی کی طرف منتقل ہو گئی چنانچہ وہ تمام فقرات ۱ فجر کی نماز کے وقت حضرت اقدسؑ نے تشریف لاتے ہی یہ رؤیا سنائی...فرمایا کہ ان کو آج ہی شائع کر دیا جاوے.(البدر جلد ۱ نمبر ۱۱ مورخہ ۹؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۵ )
اوّل.ایک خفیف خواب۱ میں جو کشف کے رنگ میں تھا مجھے دکھایا گیا کہ میں نے ایک لباس فاخرہ پہنا ہوا ہے اور چہرہ چمک رہا ہے.پھر و ہ کشفی حالت وحی الٰہی کی طرف منتقل ہو گئی چنانچہ وہ تمام فقرات وحی الٰہی کے جو بعض اس کشف سے پہلے اور بعض بعد میں تھے ذیل میں لکھے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں.یُبْدِیْ لَکَ الرَّحْـمٰنُ شَیْئًا.اَتٰی اَمْرُ اللہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ.بَشَارَۃٌ تَلَقَّاہَا النَّبِیُّوْنَ.ترجمہ.خدا جو رحمان ہے تیری سچائی ظاہر کرنے کے لئے کچھ ظہور میں لائے گا خدا کا اَمر آرہا ہے تم جلدی نہ کرو.یہ ایک خوشخبری ہے جو نبیوں کو دی جاتی ہے.صبح ۵ بجے کا وقت تھا یکم جنوری ۱۹۰۳ء و یکم شوال ۱۳۲۰ھ روز عید جب میرے خدا نے مجھے یہ خوشخبری دی.اس سے پہلے ۲۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اور وحی ہوئی تھی جو میری طرف سے حکایت تھی اور وہ یہ ہے.اِنِّیْ صَادِقٌ صَادِقٌ وَسَیَشْھَدُ اللّٰہُ لِیْ.ترجمہ.میں صادق ہوں صادق ہوں عنقریب خدا تعالیٰ میری گواہی دے گا.یہ پیشگوئیاں بآواز بلند پکار رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا اَمر میری تائید میں ظاہر ہونے والا ہے جس سے میری سچائی ظاہر ہو گی اور ایک وجاہت اور قبولیت ظہور میں آئے گی اور وہ خدا تعالیٰ کا نشان ہوگا تا دشمنوں کو شرمندہ کرے اور میری وجاہت اور عزّت اور سچائی کی نشانیاں دنیا میں پھیلا وے.نوٹ.چونکہ ہمارے ملک میں یہ رسم ہے کہ عید کے دن صبح ہوتے ہی ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجا کرتے ہیں سو میرے خدا وند نے سب سے پہلے یعنی قبل از صبح پانچ بجے مجھے اس عظیم الشان پیشگوئی کا ہدیہ بھیج دیا ہے.اس ہدیہ پر ہم اس کا شکر کرتے ہیں اور ناظرین کو یہ بھی خوشخبری دیتے ہیں کہ ہم عنقریب ان نشانوں کے متعلق بھی اشتہار شائع کریں گے جو اخیر دسمبر ۱۹۰۲ء تک گذشتہ سالوں میں ظہور میں آچکے ہیں.منہ المشتہر مرزا غلام احمد قادیانی یکم جنوری ۱۹۰۳ء ۱ ۱الحکم جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱
قادیان میں عید الفطر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لنگر خانہ میں نماز عید سے پیشتر احباب کے لئے میٹھے چاول طیار کروائے اور سب احباب نے تناول فرمائے....گیارہ بجے کے قریب خد اکابرگزیدہ جَرِیُّ ﷲِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَآءِ سادے لباس میں ایک چوغہ زیب تن کئے ہوئے مسجد اقصیٰ میں تشریف لایا جس قدر احباب تھے انہوں نے دوڑ دوڑ کر حضرت اقدس کی دست بوسی (کی) اور عید کی مبارک باد دی.اتنے میں حکیم نورالدین صاحب تشریف لائے اور آپ نے نماز عید کی پڑھائی اور ہر دو رکعت میں سورۃ فاتحہ سے پیشتر سات اور پانچ تکبیریں کہیں اور ہر تکبیر کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گوش مبارک تک حسب دستور اپنے ہاتھ اٹھائے.(بوقتِ ظہر) اس وقت حضرت اقدسؑ تشریف لائے تو کمر کے گرد ایک صافہ لپیٹا ہوا تھا.فرمایا کہ کچھ شکایت درد گردہ کی شروع ہو رہی ہے اس لئے میں نے باندھ لیا ہے ذرا غنودگی ہوئی تھی اس میں الہام ہوا ہے.’’تا عود صحت ‘‘ فرمایا کہ صحت تو اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے جب تک وہ ارادہ نہ کرے کیا ہوسکتا ہے.(بوقتِ عصر) ہمّت بلند رکھنی چاہیے عصرکے بعد حضورؑ نے مجلس فرمائی.سید ناصر شاہ صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ہمّت بلند رکھنی چاہیے انسان اگر دنیوی امور میں ہمّت ہار دے تو دینی امور میں بھی ہار دیتا ہے یہ عجیب چیز ہے کیونکہ وہ گواہی دیتی ہے کہ قویٰ ٹھیک ہیں جو لوگ کم ہمّت ہیں ان میں پست خیالی پیدا ہوجاتی ہے.مسجدوں کے ملّاں جو ہوتے ہیں ان کو دیکھو.ایک بار ہمارے میرزا صاحب (مرحوم) کے پاس یہاں کا ایک ملّاں شکایت لایا کہ ہمارے جو گھر باہم تقسیم ہوئے ہیں تو مجھے چھوٹے قد کے آدمیوں کے گھر ملے ہیں اور ان کے مَرنے سے بہت چھوٹا کفن ملا ہے یہاں تک حالت ان لوگوں
کی گر جاتی ہے کہ ایک ملّاں نے نماز جنازہ غلط پڑھائی جب کہا گیا تو جواب دیا کہ اس کی مشق نہیں رہی.غرض دنیا کے معاملہ میں ہمّت نہ کی تو دین میں بھی پست ہمتی پیدا ہو جاتی ہے.پیشہ ور نماز پڑھانے والے کے پیچھے نماز درست نہیں میرے نزدیک جو لوگ پیشہ کے طور پر نماز پڑھاتے ہیں ان کے پیچھے نماز درست نہیں وہ اپنی جمعرات کی روٹیوں یا تنخواہ کے خیال سے نماز پڑھاتے ہیں اگر نہ ملے تو چھوڑ دیں.معاش اگر نیک نیتی کے ساتھ حاصل کی جاوے تو عبادت ہی ہے جب آدمی کسی کام کے ساتھ موافقت کرے اور پکّا راہ اختیار کرے تو تکلیف نہیں ہوتی وہ سہل ہو جاتا ہے.(بوقتِ مغرب) تعبیر الرئویا ایک صاحب نے اپنا ایک خواب سنایا جس میں انہوں نے انگوٹھی دیکھی.تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ انگوٹھی سے مراد یہ ہے کہ انسان اسی حلقہ میں آجاتا ہے.اﷲ تعالیٰ کا تمثّل رئویا میں دیکھنا سید عبد القادر صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ اﷲتعالیٰ کو اپنی ماں کی شکل پر دیکھا۱ مگر میں نے (یعنی خود حضرت اقدس نے) ایک دفعہ اﷲ تعالیٰ کو اپنے باپ کی شکل پر دیکھا.یہ تمام خدا تعالیٰ کے تمثّلات ہوتے ہیں ورنہ وہ تو تجسّم سے پاک ہے.پیغمبر خدا نے ایک دفعہ خدا کا ہاتھ اپنے شانہ پر دیکھا.ایک الہام کی تشریح آج کے الہامات میں خدا نے فرمایا ہے یُبْدِیْ لَکَ الرَّحْـمٰنُ شَیْئًا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مخفی ہے جو کہ ظاہر ہوگا.خدا کے چھپانے۱ الحکم سے ’’اسی سلسلہ خواب میں ایک شخص نے اللہ تعالیٰ کا تمثّل بصورت حضرت مسیح موعودؑ دیکھنا بیان کیا اس پر حضرت حجۃ اللہنے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کے تمثّلات ہوتے ہیں.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲ )
میں بھی ایک عظمت ہوتی ہے اور خد اکا چھپانا ایسا ہے جیسے کہ جنّت کی نسبت فرمایا ہے فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ(السّجدۃ: ۱۸) (کہ کوئی جی نہیں جانتا کہ کیسی کیسی قُرَّۃُ اَعْیُنٍ ان کے لئے پوشیدہ رکھی گئی ہے) در اصل چھپانے میں بھی ایک قسم کی عزّت ہوتی ہے جیسے کھانا لایا جاتا ہے تو اس پر دستر خوان وغیرہ ہوتا ہے تو یہ ایک عزّت کی علامت ہوتی ہے مَا اُخْفِيَ لَهُمْ بھی دلالت کرتا ہے کہ میں تمہارے لئے کچھ ظاہر کروں گا یعنی کوئی شَے ہے کہ اس وقت چھپائی ہوئی ہے.جماعت نشانوں سے درست ہوگی میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت نصائح سے درست نہ ہوگی بلکہ نشانوںسے درست ہوگی.دہریت کی جڑ جب اندر ہوتی ہے تو قاعدہ کی بات ہے کہ اثر نہیں ہوا کرتا خدا کو خدا کے ہی ذریعے سے پہچان سکتے ہیں.دنیا میں جس شَے کی معرفت انسان کو حاصل ہو جاتی ہے تو اس کی عظمت بھی اس پر کھل جاتی ہے اس وقت وہ اس سے متاثر ہوتا ہے جیسے دریا میں اپنے آپ کو دیدہ دانستہ نہیں ڈالتا.شیر سامنے ہو تو اس کے مقابل نہیں جاتا جس جگہ سانپ کا خطرہ ہو وہاں نہیں گھستا اور ایک مقام پر بجلی پڑتی ہو تو وہاں سے بھاگتا ہے ایک طرف تو یہ لوگ دعویٰ امت کا کرتے ہیں دوسری طرف کر توت ایسے ہیں(کہ خدا پناہ دے) تو اس کے کیا معنے ہوئے؟ ایک الہام ایک میرا گذشتہ ایام کا الہام ہے یہاں ذکر کرنا یاد نہ رہا وہ یہ ہے.اِنِّیْ اَ نَا الصَّاعِقَۃُ مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے فرمایا کہ یہ اﷲ تعالیٰ کا نیا اسم ہے آج تک کبھی نہیں سنا حضرت اقدس نے فرمایا بے شک اسی طرح طاعون کی نسبت جو الہامات ہیں وہ بھی ہیں جیسے اُفْطِرُوَاَصُوْمُ یہ بھی کیسے لطیف الفاظ ہیں گویا خدا فرماتا ہے کہ طاعون کے متعلق میرے دو کام ہوں گے کچھ حصہ چپ رہوں گا یعنی روزہ رکھوں گا اور کچھ افطار کروں گا اور یہی واقعہ ہم چند سال سے دیکھتے ہیں شدت
گرمی اور شدت سردی کے موسم میں طاعون دب جاتی ہے گویا وہ اصوم کا وقت ہے اور فروری، مارچ، اکتوبر وغیرہ میں زور کرتی ہے وہ گویا افطار کا وقت ہوتا ہے اور اسی لطیف کلام میں سے ہے اِنِّیْ اَنَا الصَّاعِقَۃُ.نماز میں لذّت کے حصول کی شرائط ایک نے عرض کی کہ نماز میں لذّت کچھ نہیں آتی حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ نماز نماز بھی ہو.نماز سے پیشتر ایمان شرط ہے ایک ہندو اگر نماز پڑھے گا تو اسے کیا فائدہ ہوگا جس کا ایمان قوی ہوگا وہ دیکھے گا کہ نماز میں کیسی لذّت ہے اور اس سے اوّل معرفت ہے جو خدا کے فضل سے آتی ہے اور کچھ اس کی طینت سے آتی ہے جو محمود فطرت والے مناسب حال اس کے فضل کے ہوتے ہیں اور اس کے اہل ہوتے ہیں انہی پر فضل ہوا کرتا ہے ہاں یہ بھی لازم ہے کہ جیسے دنیا کی راہ میں کوشش کرتا ہے ویسے ہی خد اکی راہ میں بھی کرے.پنجابی میں ایک مثل ہے ’’جو منگے سو مَر رہے مَرے سو منگن جا.‘‘ دعا کی حقیقت لوگ کہتے ہیں کہ دعا کرو.دعا کرنا تو مَرنا ہوتا ہے اس (پنجابی مصرعہ) کے یہی معنے ہیں کہ جس پر نہایت درجہ کا اضطراب ہوتا ہے وہ دعا کرتا ہے دعا میں ایک موت ہے اور اس کا بڑا اثر یہی ہوتا ہے کہ انسان ایک طرح سے مَر جاتا ہے مثلاً ایک انسان ایک قطرہ پانی کا پی کر اگر دعویٰ کرے کہ میری پیاس بجھ گئی ہے یا اسے بڑی پیاس تھی تو وہ جھوٹا ہے ہاں اگر پیالہ بھر کر پیوے تو اس کی بات کی تصدیق ہوگی.پوری سوزش اور گدازش کے ساتھ ایک رنگ میں جب دعا کی جاتی ہے حتی کہ روح گداز ہو کر آستانہ الٰہی پر گر پڑتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے.اور الٰہی سنّت یہی ہے کہ جب ایسی دعا ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ یا تو اسے قبول کرتا ہے اور یا جواب دیتا ہے.خدا کا کلام فرمانا اس مقام پر سائل نے کہا کہ جواب کیسے دیتا ہے؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ بات کرکے بتلا دیتا ہے.سائل نے کہا کہ خدا کیسے بات کرتا ہے؟ فرمایا کہ خد اکے فرشتے کلام کرتے ہیں.اکثر دفعہ فرشتوں نے ہمارے ساتھ کلام کی ہے
مکالماتِ الٰہیہ میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کی زبان پر کلام جاری کر رہا ہے اور وہ ایسی طاقت اور شدت سے ہوتا ہے جیسے ایک فولادی میخ دھستی جاتی ہے ایسی لطافت ہوتی ہے کہ گویا خدا کا کلام ہے.نماز پڑھنے کا طریق نماز پڑھو، تدبرسے پڑھو اور ادعیہ ماثورہ کے بعد اپنی زبان میں دعا مانگنی مطلق حرام نہیں ہے جب گدازش ہو تو سمجھو کہ مجھے موقع دیا گیا ہے اس وقت کثرت سے مانگو اس قدر مانگو کہ اس نکتہ تک پہنچو کہ جس سے رقّت پیدا ہو جاوے.یہ بات اختیاری نہیں ہوتی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ترشحات پیدا ہوتے ہیں.اس کوچہ میں اوّل انسان کو تکلیف ہوتی ہے مگر ایک دفعہ چاشنی معلوم ہوگی تو پھر سمجھے گا جب اجنبیت جاتی رہے گی اور نظارہ قدرت الٰہی دیکھ لیوے گا تو پھر پیچھا نہ چھوڑے گا.قاعدہ کی بات ہے کہ تجربہ میں جب ایک دفعہ ایک بات تھوڑی سی آجاوے تو تحقیقات کی طرف انسان کی طبیعت میلان کرتی ہے اصل میں سب لذّات خدا کی محبت میں ہیں.ملعون لوگ (یعنی جو خدا سے دور ہیں ) جو زندگی بسر کرتے ہیں وہ کیا زندگی ہے.بادشاہ اور سلاطین کی کیا زندگیاں ہیں مثل بہائم کے ہیں.جب انسان مومن ہوتا ہے تو خود ان سے نفرت کرتا ہے.صادقوں کی صحبت میں آجائو دہلی کے جلسے میں جو لوگ بڑے شوق سے جاتے ہیں سوائے اس کے کہ وہاں بعض مسخ شدہ شکلوں کو دیکھیں اور کیا دیکھیں گے یہ لوگ ایسے دور دراز خیالات میں آکر پڑے ہیں کہ جب فرشتے آکر جان نکالیں گے تو اس وقت ان کو حسرت ہوگی.ایمان لانے اور خد اکی عظمت کے دل میں ہونے کی اوّل نشانی یہ ہے کہ انسان ان تمام کو مثل کیڑوں کے خیال کرے ان کو دیکھ کر دل میں نہ ترسے کہ یہ فاخرہ لباس پہن کر گھوڑوں پر سوار ہیں.در حقیقت ان لوگوں کی قسمت بد اور کتوں کی سی زندگی ہے (کہ مُردار دنیا پر دانت مار رہے ہیں).انسان کو اگر دیکھنے کی آرزو ہو تو ان کو دیکھے جو منقطعین ہیں اور خد اکی طرف آگئے ہیں اور خدا ان کو
زندہ کرتا ہے ان کی زیارت سے مصائب دور ہوتے ہیں جو شخص رحمت والے کے پاس آوے گا تو وہ رحمت کے قریب تر ہوگا اور جو ایک لعنتی کے پاس جاوے گا وہ لعنت کے قریب تر ہوگا.دنیا میں یہی بات غور کے قابل ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التّوبۃ: ۱۱۹) یعنی اے بندو! تمہارا بچائو اسی میں ہے کہ صادقوں کے ساتھ ہو جائو.پھر نماز کی حلاوت کے سوال پر فرمایا کہ نشوو نما رفتہ رفتہ ہوا کرتا ہے یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں آگئے اگر خدا نہ چاہتا تو آپ کیا کرتے؟ ممکن تھا کہ اوّل دلّی کی طرف جاتے تو وہاں سے سوائے لاف وگزاف کے کیا ساتھ لے جاتے یا چند ایک تماشہ شعبدہ بازی کے دیکھ لیتے.سائل نے عرض کی کہ میرا خیال تھا کہ آپ ضرور جلسہ دہلی میں ہوں گے آپ کا کمپ معہ اپنی جماعت کے الگ ہوگا.حضرت اقدس نے فرمایاکہ ہم ان باتوں سے ایسے متنفّر ہیں کہ ان کے خیمے ہمارے نزدیک بھی ہوں تو ہم یہ خواہش کریں کہ خدا جلد تر ان کو یہاں سے اٹھادے جیسے ایک مُردار جب پاس پڑا ہو تو اسے جلدی اٹھوادیتے ہیں کہ کہیں متعفّن ہو کر بیماری کا باعث نہ ہو.سائل نے عرض کی کہ اس سے پیشتر مجھے بہت شوق جلسہ کا تھا مگر اب دو تین دن سے ذرّہ خیال تک بھی نہیں ہے حضور کی زیارت کو دل چاہتا ہے.حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ حق یہی ہے.۱ رئویت ملائکہ پھر سائل نے عرض کی کہ کیا ہم فرشتہ کو دیکھ سکتے ہیں؟ حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ ہم ہر روز دیکھتے ہیں کبھی کشف میں، کبھی رئویا میں.ایک حالت رئویا کی ہوتی ہے وہ نیند میں ہوتی ہے اس میں بھی غیبتِ حس ہوتی ہے کہ انسان سو کر کہیں کا کہیں سیر کرتا ہے اور مکان اس کا بدلتا ۱ البدر جلد ۱ نمبر ۱۱ مورخہ ۹؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۵، ۸۶
ہے لیکن کشف میں مکان نہیں بدلتا.کبھی غنودگی میں ہوتا ہے اور کبھی بیداری میں اور باوجود غنودگی کے حصہ کے پھر بھی ہر ایک آواز کو سنتا ہے جانتا ہے کہ فلاں مکان میں مَیں ہوں ایک دفعہ میں نے فرشتوں کو انسان کی شکل پر دیکھایاد نہیں کہ دو تھے یا تین، آپس میں باتیں کرتے تھے اور مجھے کہتے تھے کہ تو کیوں اس قدر مشقّت اٹھاتا ہے اندیشہ ہے کہ بیمار نہ ہو جاوے میں نے سمجھا کہ یہ جو چھ ماہ کے روزے رکھے ہیں ان کی طرف اشارہ ہے.(اس مقام پر حضرت اقدس نے اپنا واقعہ مجاہدہ اور ششماہی روزہ کا بیان فرمایا جو کہ البدر نمبر ۱ میں زیر عنوان اُسوہ حسنہ کے درج ہے).فرمایا کہ ان روزوں کو میں نے مخفی طور پر رکھا بعض دفعہ اظہار میں سلبِ رحمت کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئے مخفی رکھنا اچھا ہوتا ہے چونکہ میں مامور تھا اس لئے کوئی مرض وغیرہ نہ ہوا ورنہ اگر کوئی اَور ہوتا اور اس قدر شدت اٹھاتا تو ضرور مسلول، مدقوق یا مجنون ہو جاتا.پھر ایک دفعہ مجھے ایک فرشتہ آٹھ یا دس سالہ لڑکے کی شکل پر نظر آیا اس نے بڑے فصیح اور بلیغ الفاظ میں کہا کہ خدا تمہاری ساری مرادیں پوری کرے گا.اسی طرح ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ ایک نالی شرقاً اور غرباً بہت لمبی صدہا میل تک کھدی ہوئی ہے اور اس کے اوپر بے شمار بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک بھیڑ کے سر پر ایک قصاب ہاتھ میں چُھری لئے ہوئے طیار بیٹھا ہے اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے جیسے حکم کا انتظار ہے میں اس وقت اس مقام پر ٹہل رہا ہوں اور ان کو دیکھ رہا ہوں ان کے نزدیک جا کر میں نے کہا قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُ كُمْ (الفرقان: ۷۸) انہوں نے اسی وقت چُھریاں پھیردیں کہ حکم ہوگیا.معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ خلیفہ جو ہوتا ہے وہ آسمان سے ہوتا ہے اس لئے میں نے جو آوازدی تو انہوں نے سمجھا کہ حکم ہو گیا اور جو آواز آسمان سے آنی تھی وہ میں نے کہی جب وہ بھیڑیں تڑپیں تو انہوں نے کہا کہ تم چیز کیا ہو میلاکھانے والی بھیڑیں ہی ہو.ان ایام میں ۷۰ ہزار آدمی ہیضہ سے مَراتھا ۱۸۸۲ء کا ذکرہے.لیکھرام کے متعلق کشف اس کے بعد حضرت اقدس نے لیکھرام کے متعلق کشف کا ذکر کیا جو کہ برکات الدعاء کے ٹائیٹل پیج پر چھپا ہوا ہے.
بعد ازیں فرمایا کہ ایک دفعہ میں نے اسی لیکھرام کے متعلق دیکھا کہ ایک نیزہ ہے اس کا پھل بڑا چمکتا ہے اور لیکھرام کا سر پڑا ہوا ہے اسے اس نیزے سے پرو دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ پھر یہ قادیان میں نہ آوے گا.(ان ایام میں لیکھرام قادیان میں تھا اور اس کے قتل سے ایک ماہ پیشتر کا یہ واقعہ ہے) فرمایا کہ یہ عجائبات ہیں ختم ہونے میں نہیں آتے لیکھرام کے قتل کے وقت جب تلاشی میں کاغذات دیکھے گئے تو اس میں بہت سے خط نکلے جن میں لکھا تھا کہ وہ خبیث مارا گیا ہے اچھا ہوا کہ پیشگوئی پوری ہوئی.اس میں جو پیشگوئی پوری کے الفاظ تھے وہ حکّام سے ہر ایک شک اور شبہ کو دور کرتے تھے.تنہا احمدیوں کے لئے ہدایت بعض احباب نے سوال کیا کہ کیا نماز تنہا پڑھ لیا کریں؟ فرمایا.ہاں الگ اور تنہا پڑھ لیا کرو.یہ سلسلہ خدا کا ہے وہ چاہتا ہے کہ ان سے الگ رہو عنقریب وہ وقت آتا ہے کہ خدا جماعت کر دیوے گا.۱ ۲؍جنوری ۱۹۰۳ء بروز جمعہ(بوقتِ سیر) ایک الہام فرمایا.رات مجھے الہام ہوا جَآءَنِیْ اٰئِلٌ وَاخْتَارَ وَ اَدَارَ اِصْبَعَہٗ وَاَشَارَ.یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنَ الْعِدَا وَیَسْطُوْ بِکُلِّ مَنْ سَطَا.آئل جبرائیل ہے فرشتہ بشارت دینے والا.(ترجمہ) آیا میرے پاس آئل اور اس نے اختیار کیا (یعنی چن لیا تجھ کو) اور گھمایا اس نے اپنی انگلی کو اور اشارہ کیا کہ خدا تجھےدشمنوں سے بچاوے گا اور ٹوٹ کر پڑے گا اس شخص پر جو تجھ پر اچھلا.فرمایا.آئل اصل میں ایالت سے ہے یعنی اصلاح کرنے والا جو مظلوم کو ظالم سے بچاتا ہے ۱ البدر جلد ۱ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۶؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۰
یہاں جبریل نہیں کہا آئل کہا.اس لفظ کی حکمت یہی ہے کہ وہ دلالت کرے کہ مظلوم کو ظالموں سے بچاوے اس لئے فرشتہ کا نام ہی آئل رکھ دیا پھر اس نے انگلی ہلائی کہ چاروں طرف کے دشمن اور اشارہ کیا کہ یَعْصِمُکَ اللہُ مِنَ الْعِدَا وغیرہ.یہ بھی اس پہلے الہام سے ملتا ہے اِنَّہٗ کَرِیْمٌ تَـمَشّٰی اَمَامَکَ وَعَادٰی مَنْ عَادٰی.وہ کریم ہے تیرے آگے آگے چلتا ہے جس نے تیری عداوت کی اس کی عداوت کی.چونکہ آئل کا لفظ لُغت میں مل نہ سکتا ہوگا یا زبان میں کم مستعمل ہوتا ہوگا اس لئے الہام نے خود اس کی تفصیل کر دی ہے.(یہ گذشتہ چند روز کا الہام ہے) جس طرح انبیاء کے صفات ہوتے ہیں اسی طرح ملائکہ کے بھی صفات ہوتے ہیں اور اِصْبَعُہٗ کے اجتہادی معنے جو کچھ ہم کریں اصل واقعہ تو اس وقت معلوم ہوگا جب وہ ظہور پذیر ہوگا.ایک نووارد صاحب۱نے عرض کی کہ کاش مجھے بھی جبرائیل دکھلایا جاتا.فرمایا.جب خدا آپ کو وہ آنکھیں عنایت کرے گا تو آپ بھی دیکھ لیں گے وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ(مریم: ۶۵) وہ تو خدا کے حکم سے نازل ہوتا ہے جب محمد حسین بٹالوی نے رسالہ کفر کا لکھا تھا اور لوگوں کو بھڑکایا تھا کہ یہ مسلمان نہیں.ان کے جنازہ نہ پڑھو مسلمانوں کے قبرستان میں ان کو دفن نہ کرو اس وقت لوگ بھڑکے اور ہماری مخالفت عام ہو گئی اور بغض و عداوت حد سے بڑھ گیا اس وقت میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ بھائی غلام قادر کی شکل پر ایک شخص آیا مگر فوراً مجھے معلوم کرایا گیا کہ یہ فرشتہ ہے میں نے کہا کہ تم کہاں سے آئے ہو؟ کہا جِئْتُ مِنَ الْـحَضْـرَۃِ۲ مَیں جناب باری سے آیا ہوں چونکہ وہاں بہت لوگ معلوم ہوتے تھے میں نے اس سے الگ ہو کر ایک بات کرنے ۱ الحکم میں نَو وارد کا لفظ نہیں بلکہ ابو سعید عرب صاحب کا نام لکھا ہے.البدر میں بھی صرف اسی مقام پر ’’نو وارد‘‘ لکھا ہے.آگے اس ڈائری میں عرب صاحب ہی لکھا ہے جس سے وضاحت ہوجاتی ہے کہ یہ نو وارد عرب صاحب ہی ہیں.(مرتّب) ( الحکم جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲ ) ۲ الحکم میں جِئْتُ مِنْ حَضْـرَۃِ الْوِتْرِ لکھا ہے.( الحکم جلد ۷ نمبر ۲ مورخہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۶ )
کی درخواست کی تو وہ علیحدہ ہو کر مجھے پوچھنے لگامیں نے کہا لوگ تو مجھ سے علیحدہ ہو گئے ہیں.کہا نہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں معاً میری حالتِ کشف جاتی رہی.حدیث کا مرتبہ فرمایا.سچی بات تو یہ ہے کہ اگر صرف حدیث کو مدار شریعت رکھا جاوے اور قرآن کو ترک کر دیا جاوے تو یہ ایک تباہی کا نشان ہے جو حدیثیں قرآن کے موافق ہیں ان کی تو عزّت کرو اور تعظیم کرو اور دوسری کو ترک کرو.قیامت کے روز حشرکیسے ہوگا عرب صاحب نے سوال کیا کہ قیامت کے دن لوگ جس طرح مَرتے ہیں اسی طرح اوّل و آخر نمبروار حاضر ہوں گے یا ایک دم تمام متقدمین و متأخرین اکٹھے اٹھیں گے.فرمایا.الگ الگ ثابت نہیں سب اکٹھے اٹھیں گے ماننا پڑتا ہے کہ ہمارا خدا بڑا قادر خدا ہے.دیکھو نطفہ کیا چیز ہے اور پھر اس سے کس طرح انسان کامل بن جاتا ہے ہر شخص جو خدا کو ماننے والا ہے سورج چاند وغیرہ اجسام کو دیکھ کر کیا وہ یہ بتلا سکتا ہے کہ کن چھکڑوں پر یہ اسباب آیا تھا اور ان کا مصالح کہاں سے آیا تھا یہی ماننا پڑے گا اور پڑتا ہے کہ اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ (یٰسٓ: ۸۳) پھر ہم کو ایسا ہی ماننا چاہیے کہ قیامت کے روز سب کو یک دم مقابلہ کرا دے گا اور جن حسرتوں میں مومن مَر گئے تھے اور ان کو معلوم نہ تھا کہ ہمارے مخالفوںکا کیا حال ہوا وہ ان کو دکھلا دیا جاوے گا کہ دیکھو اے راست باز بندو! یہ منکرین کا حال ہے تب ان راست بازوں کو لذّت آوے گی.پس خدا کو ہم مان ہی نہیں سکتے جب تک کہ اس کو صاحبِ مقدرت کلّی نہ مان لیں.پہلے اس کے کاموں کو دیکھو ہم سب کو ماننا پڑتا ہے کہ ان کا کوئی فاعل ہے پھر کیا وجہ کہ ایک حصہ میں اس کو مانتا اور ایک حصہ میں اس کا انکار کرتا اور شبہات میں پڑتا.یا تو پہلی دفعہ سے ہی انکار کرنا چاہیے یا بکلّی ماننا.خدا کی صفات اور کام غیر محدود ہیں کیا دنیا کی ہزار ہا مخلوق اس بات کی کافی دلیل نہیں کہ خدا بڑا قوی خدا ہے.
خدا تعالیٰ کی صفات اَبدی ہیں خدا کبھی معطّل نہیں ہوگا ہمیشہ خالق، ہمیشہ رازق، ہمیشہ ربّ، ہمیشہ رحمان، ہمیشہ رحیم ہے اور رہے گا میرے نزدیک ایسے عظیم الشان جبروت والے کی نسبت بحث کرنا گناہ میں داخل ہے خدا نے کوئی چیز منوانی نہیں چاہی جس کا نمونہ یہاں نہیں دیا.ہم لڑکپن میں ایسا کرتے تھے اور دیکھتے تھے کہ گلہری کو جب مار دیا جاوے تو وہ بے حس و حرکت ہو جاتی تھی مگر پھر اگر اس کے سر کو گوبر میں دیا جاوے تو وہ زندہ ہو جایا کرتی تھی اسی طرح مکھی.پھر یہ موت حقیقی موت نہیں ہوتی نیند اور غشی بھی موت ہی ہے.۱ قبر میں سوالات عرب صاحب نے سوال کیا کہ فرشتہ مَرنے کے بعد کس زبان میں سوال کرے گا؟ فرمایا.ہمیں انگریزی، فارسی، عربی ،اردو وغیرہ زبانوں میں الہام ہوتے ہیں.فرشتہ ہر زبان بول سکتا ہے.سوال کیا.کیا فرشتہ یہی سوال کرے گا مَنْ رَّبُّکَ وَمَنْ نَّبِیُّکَ.اگر یہی سوال ہو گا تو اس کے جواب یاد کر لئے جاویں تو وہاں پاس ہوسکتے ہیں.فرمایا.نہیں.یہ ایک ایمانی بات ہے یہی دو لفظ یاد کرکے دنیاوی امتحانوں کی طرح کبھی پاس نہیں ہوسکتا بلکہ انسان جس رنگ سے رنگین ہوگا وہی جواب اس کے منہ سے نکلے گا پھر لکھا ہے بِوَجْہٍ مِّنَ الْوُجُوْہِ قبر میں راحت یا رنج کا سامان مہیا کیا جاوے گا.حشر اجساد پھر عرب صاحب کے سوال پر فرمایا کہ مَرنے کے بعد مُردے کا تعلق زمین سے ضرور رہتا ہے.مومن کا تعلق ایک آسمان سے ہوتا ہے اور ایک زمین سے.اصل حساب و کتاب تو برزخ میں ہو جاوے گا مگر مقابلہ ۱ الحکم میں یہ عبارت یوں ہے.’’یہ موت حقیقی موت نہیں ہوتی غشی اور نیند کی سی حالت ہوتی ہے اور یہ بھی ایک قسم کی موت ہے یہ نمونہ ہے احیاءِ موتیٰ کا.‘‘ (الحکم جلد۷ نمبر ۲ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۶ )
کرانا باقی رہ جاوے گا وہ حشر کو ہوگا.ہزاروں انبیاء، دجال، کذّاب، کفار، ملعون وغیرہ وغیرہ خطاب پاتے گئے.قیامت میں اس لئے حشر ہوگا کہ ان کو عزّت کی کرسی پر بٹھا کر اور مکذّبوں کو ذلّت کا عذاب دے کر دکھلایا جاوے گا کہ دیکھوکون صادق اور کون کاذب تھا.سوال کیا کہ حشر کو جسم ہوگا یا نہیں اور یہی جسم ہوگا یا کوئی اَور؟ فرمایا.حشر میں جسم دیئے جاویں گے یہ نہیں کہ یہی ہوگا یا کوئی اَور.یہ مانی ہوئی بات ہے کہ تین سال کے بعد پہلا جسم انسانی ضائع ہو جاتا اور اس کا قائم مقام نیا آجاتا ہے پھر ہمارا ایمان ہے کہ ان کو بدن ملے گا مگر جس طرح اس علیم کے علم میں ہے.ہمارا اس پر ایمان ہے کہ وہ قادر ہے کہ اس بدن سے بھی کچھ حصہ اسے دے دے اور اس کے سوا اور جسم بھی عطا کرے سوائے ذاتِ باری کے کسی کی یہ صفت نہیں کہ ہمیشہ ابدی رہے اور یہ طاقت خدا ہی انسان کو دے گا کہ پھر وہ ابدی بن جاوے.۱ پھر سوال کیا کیوں یہ مرتبہ صرف انسان کو ہی ملے گا اور حیوانات کو نہیں دیا جاوے گا؟ فرمایا.اس پر ہم جھگڑ نہیں سکتے جیسے ایک شخص سخاوت کرتا ہے ایک فقیر کو وہ پیسہ دیتا ہے اور دوسرے کو روپیہ.مگر جس کو وہ پیسہ ملا ہے وہ حق نہیںرکھتا کہ جھگڑا کرے.بہشت والوں کو تو ابدی رہنا ہوگا اور حدیثوں میں بھی آیا ہے کہ دوزخی ہمیشہ اس میں نہیں رہیں گے.جیسے فرمایا یَاْتِیْ عَلٰی جَھَنَّمَ زَمَانٌ لَیْسَ فِیْـھَا اَحَدٌکیونکہ وہ بھی آخر خدا کے ہاتھ سے بنے ہوئے ہیں ان پر کوئی زمانہ ایسا آنا چاہیے کہ ان کو عذاب کی تخفیف دی جاوے.۱ الحکم میں یہ عبارت یوںہے.فرمایا.’’جسم تو ہوں گے مگر یہ نہیں لکھا کہ یہی یا اَور.تین سال کے بعد پہلا جسم تو رہتا نہیں اس کا قائم مقام نیا جسم آجاتا ہے پس ہمارا یہ ایمان ہے کہ ایک جسم دیا جاوے گا جیسا اس علیم کے علم میں ہے وہ قادر ہے کہ اس بدن سے بھی کچھ حصہ لے اور ضرور لے گا اور اس حصہ کو بھی جلالی رنگ میں غیر فانی کر دے.سوائے ذات باری تعالیٰ کے کسی دوسرے کی یہ صفت نہیں کہ ابد الآباد تک رہے انسان کو غیر فانی جسم جو دیا جاوے گا یہ خدا کا عطیہ ہوگا.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۶،۷)
کے لوگ تو حُسن سے فائدہ اُٹھاتے اور جو اُن سے کم درجہ پر ہوں وہ احسان سے فائدہ اُٹھا لیتے ہیں.لیکن جو ایسے ہی پلید طبع ہوں اُن کو اپنے جلال اور غضب سے متوجہ کیا ہے.یہودیوں کو مغضوب کہاہے او ران پر طاعون ہی پڑی تھی.خدا تعالیٰ نے سورۃفاتحہ میں یہودیوں کی راہ اختیار کرنے سے منع فرمایا.یا یوں کہو کہ طاعون کے عذابِ شدید سے ڈرایا ہے.شیطان بےباک انسان پرایساسوار ہے کہ وہ سُن لیتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے.اصل یہ ہے کہ جب تک جذبات اور شہوات پر ایک موت وارد ہو کر اُنہیں بالکل سرد نہ کردے خدا تعالیٰ پر ایمان لانا مشکل ہے.اب تو غضبِ الٰہی کے نمونے خطرناک ہیں ابھی تین مہینے باقی ہیں خدا جانے کیا ہونے والا ہے.مخالفین کے لیے لمحہ فکریہ مخالفوں کی خطرناک فحش تحریروں پر فرمایا کہ ہمارے اور اُن کے دل اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہیں.خدا تعالیٰ نیتوں کو خوب جانتا ہے اور ان افعا ل کو جو ہم کر رہے ہیں دیکھتا ہے.وہ خود فیصلہ کر دے گا او رسچائی پر اپنی مُہر کر دے گا.ہم کو تویہ تعجب آتاہے کہ اگر یہ لوگ تقویٰ اور خداترسی سے کام لیتے تو خوف کے محل اور مقام سے ڈر جاتے اور مخالفت میں اس قدر زبان درازی نہ کرتے.وہ دیکھتے کہ کیا وہ وقت نہیں آیا کہ مسیح موعود نازل ہو؟ کیا صلیب کا غلبہ نہیں؟ کیا اسلام کی توہین اور تضحیک نہیں کی جاتی؟ وہ دیکھتے کہ صدی میں سے انیس سال گذر گئے اور کوئی مدّعی کھڑانہ ہوا جو درماندہ اسلام کی حمایت کے لیے میدان میں آتا.پھر ضرورت اور وقت ہی پر اپنی نگاہ محدود نہ رکھتے اگر وہ غور کرتے تو اُن کو معلوم ہوتا کہ آسمان نے صاف شہادت دے دی اور کسوف خسوف ظاہر ہوگیا جو عظیم الشّان نشان مقرر ہو چکاتھا.تائیدی نشانوںکی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے وہ اُسے دیکھتے اور سلسلہ کی ترقیات پر غور کرتے اور سوچتے کہ کیا مفتری اسی طرح ترقی کیا کرتے ہیں؟ ان سب اُمور پر یکجائی نظر کے بعد تقویٰ کا تقاضاتو یہ تھا کہ اس قدر بیّن شواہد کے ہوتے ہوئے بھی اگر ان کی نگاہ تاریک تھی تو وہ خاموش ہو جاتے او رصبر سے انتظار کرتے کہ انجام کیا ہوتا ہے؟ مگر
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت اس ضمن میں فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا(التوبۃ: ۴۰)اس معیت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں اور گویا کل جماعت آپ کی آگئی.موسیٰ علیہ السلام نے یہ نہیں کہا بلکہ کہا اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ (الشعرآء: ۶۳)اس میں کیا سِرّ تھا کہ انہوں نے اپنے ہی ساتھ معیت کا اظہار کیا؟ اس میں یہ راز ہے کہ اﷲ جامع جمیع شیون کا ہے اور اسم اعظم ہے.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کے ساتھ اسم اعظم کی معیت مع تمام صفات کے پائی جاتی ہے لیکن موسیٰ علیہ السلام کی قوم شریر اور فاسق فاجر تھی.آئے دن لڑنے اور پتھر مارنے کو طیار ہو جاتی تھی اس لئے ان کی طرف معیت کو منسوب نہیں کیا بلکہ اپنی ذات تک اسے رکھاہے.اس سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور علوّ مدارج کا اظہار مقصود ہے.ایمان،عرفان میں کیسے تبدیل ہوتاہے فرمایا.۱ یہ پیشگوئیاں جو ہیں یہ ایمان کو قوی کرکے عرفان بنا دیتی ہیں.نری باتوں سے ایمان قوی نہیں ہوسکتا جب تک اس میں قوت کی شعاعیں نہ پڑیں اور یہ اﷲ تعالیٰ کے ان نشانات سے پیدا ہوتی ہیں.پس ان پیشگوئیوں کو خوب کان کھول کر سننا چاہیے دوسرے وقت جب یہ پوری ہوتی ہیں ۱ البدر سے.خدا تعالیٰ کے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اس سے زیادہ خدا کی کیا عنایت ہو سکتی ہے کہ ہر ایک موقع پر قبل از وقت بشارت دی جاتی ہے اور فتح اور نصرت کے وعدے کئے جاتے ہیں.خون کا مقدمہ جب مجھ پر بنایا گیا تو قبل از وقت اس کی اطلاع دی گئی اور پھر اس کے واقعات اور انجام سب کچھ بتایا گیا جن کی تفصیل ’’کتاب البریہ‘‘ میں ہے ایسی باتیں اس لئے ہوتی ہیں کہ جن کی ایمانی آنکھ کمزور ہے خدا تعالیٰ کی قدر توں کی شعاع ان کی بصارت کو جلا دیوے اور ایمان میں ترقی کریں.اس لئے جو کچھ سنایا جاوے اسے خوب یاد رکھنا چاہیے یا لکھ لینا چاہیے تا کہ یاد رہے.بعض آدمی میری باتوں کو سنتے ہیں مگر یاد نہیں رکھتے حالانکہ ان باتوں کے یاد رکھنے سے ایمان کو قوت ملتی ہے.‘‘ (البدر جلد ۱ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۶؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۲)
تو ایمان کی تقویت کا باعث ہو کر اس کو عرفان بنا دیتی ہیں.اس لئے جو اَمر پیشگوئی پر مشتمل ہو میں اس کو ضرور سنا دیا کرتا ہوں اور میری غرض اس سے یہی ہوتی ہے.یہ ایک نور بخشتی ہیں اور جب تک اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نور نازل نہ ہو انسان غلطی میں پڑا رہتا ہے.تعبیر الرؤیا ابو سعید عرب صاحب نے اپنی رئویا بیان کی کہ ایک کتّا پیار سے کاٹتا ہے اور پھر اس نے انڈا دیا جس کو انہوں نے توڑ ڈالا اور وہ بھاگ گیا.فرمایا.کتّا ایک برزخ ہے درندگی اور چرندگی میں.جب وہ محبت سے کاٹے تو محبت ہے اور کتّے سے مراد خفیف سا دشمن ہوتا ہے.اس کے انڈے سے مراد اس کی ذریت ہے جب اس کو توڑدیا تو گویا خفیف اور کمزور دشمن کی ذرّیت کو تلف کر دیا.توحید فرمایا.جس بادشاہ کے ہم زیر سایہ ہیں اس کو چھوڑ کر دوسروں کے پاس جانا یہ توہین ہے.بِئْسَ الْفَقِیْـرُ عَلٰی بَابِ الْاَمِیْـرِ.مولوی محمد حسین اور اس کا رجوع ابو سعید عرب صاحب نے اپنے ذوق سے بیان کیا کہ محمد حسین والی پیشگوئی یقیناً خدا کی طرف سے ہے.فرمایا کہ اس میں کیا شک ہے.زور کے ساتھ یہ دعویٰ کیا گیا ہے.کہ وہ رجوع کرے گا اور اﷲ تعالیٰ نے ایسا ہی مقدر کیا تھا.اصل میں محمد حسین زیر ک آدمی تھا مگر میں دیکھتا تھا کہ ابتدا سے اس میں ایک قسم کی خود پسندی تھی.پس اﷲ تعالیٰ نے چاہا کہ اس طرح پر اس کا تنقیہ کر دے یہ اس کے لئے استفراغ ہے.براہین میں ایک الہام درج ہے جس میں اس کا فرعون نام رکھا گیا ہے.اس نے بھی آخر یہی کہنا تھا کہ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِيْلَ (یونس: ۹۱) اس لئے اس کے لئے بھی اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْ کا وقت مقدر ہے.اس پر پوچھا گیا کہ وہ کیا اَمر ہے جس کی وجہ سے یہ آخری سعادت اس کے لئے مقدّر ہے.فرمایا.یہ تو اﷲہی بہتر جانتا ہے مگر اس نے ایک کام تو کیا ہے.براہین احمدیہ پر ریویو لکھا تھا اور وہ واقعی اخلاص سے لکھا تھا کیونکہ اس وقت اس کی یہ حالت تھی کہ بعض اوقات میرے جوتے اٹھا
کر جھاڑ کر آگے رکھ دیا کرتا تھا اور ایک بار مجھے اپنے مکان میں اس غرض سے لے گیا کہ وہ مبارک ہو جاوے اور ایک باراصرار کرکے مجھے وضو کرایا.غرض بڑا اخلاص ظاہر کیا کرتا تھا.کئی بار اس نے ارادہ کیا کہ میں قادیان ہی میں آکر رہوں.مگر میں نے اس وقت اسے یہی کہا تھا کہ ابھی وقت نہیں آیا.اس کے بعد اسے یہ ابتلا پیش آگیا.کیا تعجب ہے کہ اس اخلاص کے بدلے میں خدا نے اس کا انجام اچھا رکھا ہو.۱ اس پر ایک بھائی نے سوال کیاکہ حضور اب اسے کیسا سمجھیں.فرمایا.اب تو حکم حالت موجودہ ہی پر ہوگا.وہ دشمن ہی اس سلسلہ کا ہے.دیکھو! جب تک نطفہ ہوتا ہے اس کا نام نطفہ رکھتے ہیں گو اس کا انسان بن جاوے مگر جوں جوں اس کی حالتیں بدلتی جاتی ہیں اس کا نام بدلتا جاتا ہے.علقہ مضغہ وغیرہ ہوتا ہے.آخر اپنے وقت جا کر انسان بنتا ہے.یہی حال اس کا ہے.سردست تو وہ اس سلسلہ کا مخالف اور دشمن ہے اور یہی اس کو سمجھنا چاہیے.پھر اس ضمن میں فرمایا کہ سزا اور عذاب صرف کفر ہی کے باعث نہیں آتا.بلکہ فسق و فجور بھی عذاب کا موجب ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ ہمیشہ صادقوں ہی کی نصرت اور تائید کرتا ہے فرمایا.کبھی کوئی جھوٹ اس قدر چل نہیں سکتا.آخر دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بدی کرنے والے جھوٹے اور فریبی اپنے جھوٹ میں تھک کر رہ جاتے ہیں.۱ البدر میں مزید یوں لکھا ہے.’’یہ خدا تعالیٰ کے تقاضائے رحمت ہوتےہیں ایک کتاب میں میں نے دیکھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک شخص بہروپیا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کی شکل پر سوانگ بنایا کرتا تھا جس وقت سب قوم فرعون کی غرق ہوئی تو وہ بچا رہا.حضرت موسیٰ نے خدا تعالیٰ سے اس کا باعث دریافت کیا تو فرمایا کہ چونکہ یہ تیرے چہرے جیسا چہرہ بنایا کرتا تھا اس لئےہماری رحمت نے تقاضا نہ کیا کہ تیرے مثیل شکل کو غرق کریں.‘‘ (البدر جلد ۱ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۶؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۲)
پھر کیا کوئی ایسا مفتری ہوسکتا ہے جو برابر پچیس برس سے خدا پر افترا کر رہا ہو اور نہ تھکا ہو اور خد اکو بھی اس کے لئے غیرت نہ آوے.بلکہ اس کی تائید میں نشانات ظاہر کرتا رہے.یہ عجیب بات ہے ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا.خدا تعالیٰ ہمیشہ صادقوں ہی کی نصرت اور تائید کرتا ہے.دیکھو! یہ جو پیشگوئی ہے کہ میری عمر ۸۰ برس کے قریب ہوگی کیا کوئی مفتری اس قسم کی پیشگوئی کرسکتا ہے اور خصوصاً اس پر تیس برس گذر بھی گئے ہوں اور ایسا ہی اس وقت جب کوئی نہ جانتا تھا اور نہ یہاں آتا تھا یہ کہا یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍاور یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ کیا یہ مفتری کرسکتا ہے کہ ایسا کہے اور پھر خدا بھی ایسے مفتری کی پروا نہ کرے بلکہ اس کی پیشگوئی پوری کرنے کو دور دراز سے لوگ بھی اس کے پاس آتے رہیں اور ہر قسم کے تحائف اور نقد بھی آنے لگیں.اگر یہ بات ہو کہ مفتری کے ساتھ بھی ایسے معاملات ہوتے ہیں تو پھر نبوت سے ہی امان اٹھ جاوے.یہی نشانات ہیں جو ہماری جماعت کی محبت اور اخلاص میں ترقی کا باعث ہو رہے ہیں.مفتری اور صادق کو تو اس کے منہ ہی سے دیکھ کر پہچان سکتے ہیں.فرمایا.سچائی کا یہ بھی ایک نشان ہے کہ صادق کی محبت سعید الفطرت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے.احمق کو یہ راہ نہیں ملتی کہ نور کا حصہ لے.وہ ہر بات میں بدگمانی ہی سے کام لیتا ہے.فرمایا.ہم کو تکلّف اور تصنّع کی حاجت نہیں.خواہ کوئی ہماری و ضع سے راضی ہو یا ناخوش.ہمارا اپنا کوئی کام نہیں ہے.خدا کا اپنا کام ہے اور وہ خود کر رہا ہے.فرمایا.جب انسان خدا کو چھوڑ تا ہے تو پھر وہ مکائد پر بھروسا کرتا ہے.اپنی سچائی پر بصیرت فرمایا.اﷲ تعالیٰ ہم کو محجوب ہونے کی حالت میں نہ چھوڑے گا.وہ سب پر اتمام حجت کر دے گا.یاد رکھو سماوی اور ارضی آدمیوں میں فرق ہوتا ہے جو خدا کی طرف سے آتے ہیں.وہ خود ان کی عزّت کو ظاہر کرتا ہے اور ان کی سچائی کو روشن کرکے دکھاتا ہے اور جو اس کی طرف سے نہیں آتے اور مفتری ہوتے ہیں وہ آخر ذلیل ہو کر
تباہ ہو جاتے ہیں.پیشگوئیوں کے اسرار پیشگوئیوں کے متعلق فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے اور اس کا کلام بہرحال سچا ہے.ہاںیہ ہوتا ہے کہ کبھی وہ جسمانی رنگ میں پوری ہوتی ہیں کبھی روحانی رنگ میں.اور منہاجِ نبوت میں اس کے نظائر موجود ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھاکہ کچھ گائیں ذبح ہوتی ہیں تو وہ صحابہ کا ذبح ہونا تھا.اور آپ نے دیکھا کہ سونے کے کڑے پہنے ہوئے ہیں جو پھونک مارنے سے اُڑگئے.اس سے مراد جھوٹے پیغمبر تھے.پس خد اکا کلام کسی نہ کسی رنگ میں ضرور سچا ہے.جماعت کے ازدیادِ ایمان کے لئے نشانات کا ظہور فرمایا.اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ ہماری جماعت کا ایمان کمزور رہے.مہمان اگر نہ بھی چاہے تو بھی میزبان کا فرض ہے کہ اس کے آگے کھانا رکھ دے.اسی طرح پر اگرچہ نشانوں کی ضرورت کوئی بھی نہ سمجھے تب بھی اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کے ایمان کو بڑھانے کے لئے نشانات ظاہر کر رہا ہے.یہ بھی سچی بات ہے کہ جو لوگ اپنے ایمان کو نشانوں کے ساتھ مشروط کرتے ہیں وہ سخت غلطی کرتے ہیں.حضرت مسیحؑ کے شاگردوں نے مائدہ کا نشان مانگا تو یہی جواب ملا کہ اگر اس کے بعد کسی نے انکار کیا تو ایسا عذاب ملے گا جس کی نظیر نہ ہوگی.طالب کا ادب پس طالب کا ادب یہی ہے کہ وہ زیادہ سوال نہ کرے اور نشان طلب کرنے پر زور نہ دے.جو اس آداب کے طریق کو ملحوظ رکھتے ہیں خدا ان کو کبھی بے نشان نہیں چھوڑتا اور ان کو یقین سے بھر دیتا ہے.صحابہ کی حالت کو دیکھو کہ انہوں نے نشان نہیں مانگے مگر کیا خد انے ان کو بے نشان چھوڑا؟ ہرگز نہیں.تکالیف پر تکالیف اٹھائیں.جانیں دیں.اعداء نے عورتوں تک کو خطرناک تکلیفوں سے ہلاک کیا مگر نصرت ہنوز نمودار نہ ہوئی.آخر خدا کے وعدہ کی گھڑی آگئی اور ان کو کامیاب کر دیا اور دشمنوں کو ہلاک کیا.یہ سچی بات ہے کہ خدا صبر کرنے
والوں کے ساتھ ہوتا ہے.اگر وہ پہلے ہی دن سارے نشان ظاہر کر دے تو پھر ایمان کا کوئی ثواب اور نتیجہ ہی نہ ہو.عرفان آکر یقین سے تو بھر دیتا ہے مگر اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ ان ساری ترقیوں کی جڑ ایمان ہی ہے.اسی کے ذریعہ سے انسان بڑی بڑی منزلیں طے کرتا اور سیر کرتا ہے.سُبْحٰنَ الَّذِيْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ(بنیٓ اسـرآءیل: ۲) سے یہی پایا جاتا ہے کہ جب کامل معرفت ہوتی ہے تو پھر اس کو عجیب و غریب مقامات کی سیر کرائی جاتی ہے اور یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو ادب سے اپنی خواہشوں کو مخفی رکھتے ہیں.تمام منہاج نبوت اسی پر دلالت کرتا ہے.پہلے نشان بھی ظاہر نہیں ہوتے بلکہ ابتلا ہوتے ہیں.صدیقی فطرت حاصل کریں پس صدیقی فطرت حاصل کرنی چاہیے.انہوں۱ نے کون سا نشان مانگا تھا.شام سے مکہ کو آرہے تھے.راستہ ہی میں خبر ملی.وہیں یقین لے آئے.اس کی وجہ وہ معرفت تھی جو آپ کی تھی.معرفت بڑی عمدہ چیز ہے.جب انسان کسی کے حالات اور چال چلن سے پورا واقف ہو تو اس کو زیادہ تکلیف نہیں ہوتی.ایسے لوگوں کو معجزہ اور نشان کی کوئی حاجت ہی نہیں ہوتی.حضرت ابو بکر صدیق آپ کے حالات سے پورے واقف تھے.اس لئے سنتے ہی یقین کر لیا.تقویٰ اختیار کریں فرمایا.ہمیں جس بات پر اللہ تعالیٰ نے مامور کیا ہے.وہ یہی ہے کہ تقویٰ کا میدان خالی پڑا ہے تقویٰ ہونا چاہیے نہ یہ کہ تلوار اٹھائو، یہ حرام ہے.اگر تم تقویٰ کرنے والے ہوگے تو ساری دنیا تمہارے ساتھ ہوگی.پس تقویٰ پیدا کرو.جو لوگ شراب پیتے ہیں یا جن کے مذہب کے شعائر میں شراب جزواعظم ہے ان کو تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا.وہ لوگ نیکی سے جنگ کر رہے ہیں.پس اگر اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کو ایسی خوش قسمت دے اور انہیں توفیق دے کہ وہ بدیوں سے جنگ کرنے والے ہوں اور تقویٰ اور طہارت کے ۱ مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
میدان میں ترقی کریں یہی بڑی کامیابی ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز مؤثر نہیں ہوسکتی.اس وقت کل دنیا کے مذاہب کو دیکھ لو کہ اصل غرض تقویٰ مفقود ہے اور دنیا کی وجاہتوں کو خدا بنایا گیا ہے.حقیقی خدا چھپ گیا ہے اور سچے خدا کی ہتک کی جاتی ہے مگر اب خد اچاہتا ہے کہ وہ آپ ہی مانا جاوے اور دنیا کو اس کی معرفت ہو جو لوگ دنیا کو خدا سمجھتے ہیں وہ متوکّل نہیں ہوسکتے.(اس سیر میں سے ہم نے مضمون غیر کو نکال کر آپ ہی کی تقریر کے مختلف فقروں کو ایک جاجمع کر دیا ہے.ایڈیٹر) جماعت کی تعداد ظہر سے پہلے لودھیانہ سے آئے ہوئے احباب نے شرفِ نیاز حاصل کیا.قاضی خواجہ علی صاحب نے مولوی محمد حسین صاحب کی ملاقات کا ذکر کیا کہ میں نے ان کو کہا تھا کہ قادیان چلو.فرمایا.اگر وہ یہاں آجاوے تو اس کو اصل حالات معلوم ہوں اور ہماری جماعت کی ترقی کا پتا لگے وہ ابھی تک تین سو تک ہی کہتا ہے اور یہاں اب ڈیڑھ لاکھ سے بھی زیادہ تعداد بڑھ گئی ہے.اگر شبہ ہو تو گورنمنٹ کے حضور درخواست کرکے ہماری جماعت کی الگ مَردم شماری کرالیں.براہین احمدیہ میں جو لکھا تھا کہ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ.وَانْتَـھٰی اَمْرُ الزَّمَانِ اِلَیْنَا.اَلَیْسَ ھٰذَابِالْحَقِّ.اب دیکھیں کہ وہ وقت آیا ہے یا نہیں.گورنمنٹ پنجاب کی خدمت میں جو میموریل ستمبر ۱۸۹۹ء میں بھیجا گیا تھا.اس میں صاف اس اَمر کی پیشگوئی ہے کہ یہ جماعت تین سال میں ایک لاکھ ہو جائے گی اور وہ پوری ہو گئی.بہت سے لوگ ایسے ضعفاء و غرباء میں سے ہیں جو اس سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں مگر آنہیں سکتے.دنیا کے بارہ میں دیندار کا رویّہ فرمایا.دیندار آدمی دنیا داروں کی طرف رجوع کرنے میں اپنی ذلّت اور توہین سمجھتا ہے.ایک صحابی پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض تھے.اس وقت ایک بادشاہ نے اپنا سفیر اس کے پاس بھیجا اور چاہا کہ وہ اس کے پاس چلے آویں.صحابی نے اس خط کو لے کر تنور میں پھینک دیا اور رونا شروع کر دیا کہ
ایک طرف تو میری یہ حالت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہیں اور دوسری طرف میں یہاں تک گر گیا کہ ایک کافر میرے ایمان میں طمع کرنے لگا.مجھ سے ضرور کوئی سخت معصیت ہوئی ہے.جس قدر زیادہ دینداری اور خدا پرستی ہوگی اسی قدر اہلِ دنیا سے نفرت پیدا ہوگی.سلسلہ کی اشاعت ہم کو جس قدر تکالیف دی گئی ہیں اور جس قدر سبّ و شتم کیا گیا ہے.یہ ہماری تبلیغ کے لئے ایک ذریعہ ہو گیا ہے.جیسے جس قدر گرمی شدت سے ہو برسات بھی اسی نسبت سے زیادہ ہوتی ہے.عرب کے لوگ عیش وعشرت اور ناپاک خواہشوں اور فعلوں میں مستغرق تھے.انہیں مذہب اور مذہبی مباحثات سے کیا کام تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل یوں کھڑے ہو گئے جیسے کوئی بڑا عاشق مذہب دیندار ہوتا ہے.یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ اس شور سے ساری قوموں میں جلد جلد آپ کی دعوت پھیل جائے.انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تکالیف دیں مگر آخر وہی ہوا جو خدا کا منشا تھا.اسی طرح پر یہاں دیکھ لو کہ کس قدر زور شور سے مخالفت ہوئی اور ہو رہی ہے.بہت سے لوگ ہیں جو بدعات اور بدکاریوں میں مبتلا ہیں.اکثر ہیں جو کنجریوں کے پیر بنے ہوئے ہیں.اور بھنگ، چرس، مدک، تاڑی، گانجا، شراب وغیرہ پیتے ہیں یہ دہریہ ہوتے ہیں مگر کوئی ان سے تعرض نہیں کرتا.برخلاف اس کے ہماری اس قدر مخالفت کی جاتی ہے کہ ایک چھوٹے سے مسئلہ وفات و حیات مسیح پر وہ شور اٹھایا گیا جس کی حد نہیں رہی.قتل کے فتوے دیئے گئے.اس میں راز یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس سلسلہ کی اشاعت چاہتا ہے.(دربارِ شام) بیعت کے بعد طاعون کا ذکر ہوا جس پر حضرت اقدسؑ نے ایک لمبی تقریر طاعون کے متعلق فرمائی ہم کسی قدر تلخیص کے ساتھ اس کو ذیل میں لکھتے ہیں.تقویٰ کی ضرورت فرمایا.جب تک انسان تقویٰ میں ایسا نہ ہو جیسے اونٹ کو سُوئی کے ناکے سے نکالنا پڑے اس وقت تک کچھ نہیں ہوتا.جس قدر زیادہ تقویٰ اختیار کرتا ہے اسی قدر اﷲ تعالیٰ بھی توجہ فرماتا ہے.اگر یہ اپنی توجہ معمولی رکھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ بھی
معمولی توجہ رکھتا ہے.طاعون کا عذاب خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے غَضِبْتُ غَضْبًا شَدِیْدًایہ طاعون کے متعلق ہے اور پھر فرمایا اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَاَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ.اُفْطِرُ وَاَصُوْمُ.میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور اس کو ملامت کروں گا جو ملامت کرتا ہے.میں روزہ کھولوں گا بھی اور روزہ رکھوں گا بھی.یہ سب الہام طاعون کے متعلق ہیں.ملامت ایک دل کے ساتھ ہوتی ہے اور ایک زبان کے ساتھ.زبان کے ساتھ تو یہی ملامت ہے جو مخالف کرتے ہیں.لیکن دل کی ملامت یہ ہے کہ ان باتوں کی طرف توجہ نہ کرے جو ہم پیش کرتے ہیں اور ان پر عمل کے لئے طیار نہ ہو.روزہ رکھوں گا اور کھولوں گا.اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت تک گویا طاعون کا زور گھٹ جائے گا.یہ روزے کے دن ہوں گے اور ایک وقت ایسا ہوگا کہ اس میں کثرت سے ہوگی.اب دیکھا گیا ہے کہ کثرت سردی اور کثرت گرمی میں اس کی شدت اور تیزی رک جاتی ہے.لیکن بہاری موسم فروری،مارچ اور ستمبر، اکتوبر میں اس کا زور بڑھ جاتا ہے.مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دورے تھمنے والے نہیں ہیں خدا کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دورے شدید ہیں.زمین پر خدا تعالیٰ سے غفلت اور سستی پھیل گئی ہے.نیکیوں کی طرف توجہ نہیں رہی.ایسی صورت میں کیا اس کا علاج ڈاکٹری اصولوں سے ہوگا یا کوئی اور علاج اثر پذیر ہوسکے گا جب تک خدا کی مرضی نہ ہو؟ مت خیال کرو کہ ہمارا ملک یا شہریا گائوں ابھی تک محفوظ ہے.یہ کل دنیا کے لئے مامور ہو کر آئی ہے اور اپنے اپنے وقت پر ہر جگہ پھرے گی.اس کے دورے بڑے لمبے ہوتے ہیں.بعض وقت لوگ ان وجوہات کو نہیں سمجھ سکتے.لیکن یاد رکھو کہ جو کچھ ہو رہا ہے اﷲ تعالیٰ کے حکم اور اِیما سے ہو رہا ہے.اب اس کے وجوہ موٹے ہیں.بائیس برس پہلے خدا نے براہین میں مجھے اس کی خبر دی اور پھر متواتر وقتاً فوقتاً وہ اطلاع دیتا رہا.یہاں تک کہ جب ابھی پنجاب کے دو ضلعوں میں تھی تو اس نے مجھے بتایا کہ کل پنجاب اس کے اثر سے متاثر ہو جائے گا.اس وقت لوگوں نے اس پر ہنسی
کی مگر اب بتائیں کہ ان کی ہنسی کا کیا جواب ہوا؟ اجنبی لوگ اگر نہ مانیں تو نہ سہی مگر ہماری جماعت جو دن رات نشانا ت کو دیکھتی ہے اسے چاہیے کہ اپنی تبدیلی کرے.جو شخص امن کے زمانہ میں خدا سے ڈرتا ہے وہ بچایا جاتا ہے.ڈرنے والے زمانہ میں تو ہر ایک ڈرتا ہے جب سونٹا اٹھایا جاوے تو اس سے بھیڑ، بکری، کتّا، بلّی سب ڈرتے ہیں.انسان کی اس میں کون سی خوبی ہے یہ تو اس حالت میں ان سے جا ملا.ورنہ اس کی دانشمندی اور دوربینی کا یہ تقاضا ہونا چاہیے تھا کہ پہلے ہی سے ڈرتا.بعض گائوں میں سخت تباہی ہو چکی ہے یہاں تک کہ گھروں کے گھر مقفّل ہو گئے.جب زور سے پڑتی ہے تو پھر کھا جانے والی آگ کی طرح ہوتی ہے.ایک بار بلادِ شام میں پڑی تھی تو جانوروں تک کی صفائی اس نے کردی تھی.یہ بڑی خطرناک بلا ہے.اس سے بے خوف ہونا نادانی ہے.حقیقی ایمان ایک موت ہے.جب تک انسان اس موت کو اختیار نہ کرے.دوسری زندگی مل نہیں سکتی.تقویٰ کی اہمیت جو لوگ نری بیعت کرکے چاہتے ہیں کہ خدا کی گرفت سے بچ جائیں وہ غلطی کرتے ہیں.ان کو نفس نے دھوکا دیا ہے.دیکھو طبیب جس وزن تک مریض کو دوا پلانی چاہتا ہے اگر وہ اس حدتک نہ پیوے تو شفا کی امید رکھنی فضول ہے.مثلاً وہ چاہتا ہے کہ دس تولہ استعمال کرے اور یہ صرف ایک ہی قطرہ کافی سمجھتا ہے یہ نہیں ہوسکتا پس اس حد تک صفائی کرو اور تقویٰ اختیار کرو جو خدا کے غضب سے بچانے والا ہوتا ہے.اﷲ تعالیٰ رجوع کرنے والوں پر رحم کرتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا.انسان جب متقی ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے اور اس کے غیر میں فرقان رکھ دیتا ہے اور پھر اس کو ہر تنگی سے نجات دیتا ہے نہ صرف نجات بلکہ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ(الطّلاق: ۴).پس یاد رکھو جو خدا سے ڈرتا ہے خدا اس کو مشکلات سے رہائی دیتا ہے اور انعام و اکرام بھی کرتا ہے اور پھر متقی خد اکے ولی ہو جاتے ہیں.تقویٰ ہی اکرام کا باعث ہے کوئی خواہ کتنا ہی لکھا پڑھا ہوا ہو وہ اس کی عزّت و تکریم کا باعث نہیں اگر متقی نہ ہو.لیکن اگر ادنیٰ درجہ کا آدمی بالکل اُمّی ہو مگر متقی ہو وہ
معزز ہوگا.یہ دن خدا تعالیٰ کے روزہ کے ہیں.ان کو غنیمت سمجھواس سے پہلے کہ وہ اپنا روزہ کھولے تم اس سے صلح کر لو اور پاک تبدیلی کر لو.جنوری کا مہینہ باقی ہے فروری میں پھر وہی سلسلہ شروع ہونے والا ہے.ایسی بلائوں کا باعث صادق کی تکذیب ہوتی ہے اس لئے اور کوئی علاج کارگر نہیں ہوسکتا.بعض صحابہ بھی اس مرض سے مَرے ہیں لیکن وہ شہید ہوئے.جیسے لڑائیاں جو دشمنوں کی ہلاکت کا موجب تھیں ان میں مَرنے والے صحابہ بھی شہید ہوئے تھے جو نیک آدمی مَر جاتا ہے اس کو بشارتِ شہادت ملتی ہے جو بد آدمی مَرتا ہے اس کا انجام جہنم ہے.جو شخص نیکیوں میں ترقی کرتا اور خدا سے پناہ مانگتا رہتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کو بچا لیتا ہے.دیکھو! ایک لاکھ چوبیس ہزار یا کم وبیش واﷲ اعلم پیغمبر گذرے ہیں.مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی طاعون سے بھی ہلاک ہوا تھا؟ہرگز نہیں.یہ بلابھی مامور ہوتی ہے اور خدا کے حکم سے نازل ہوتی ہے.اس کی مجال نہیں کہ بِلا حکم کوئی کام کرے.(یہاں حضرت اقدس نے ہاتھی والی رئویا سنائی جو کئی مرتبہ شائع ہوئی) پھر فرمایا کہ اگرچہ آج کل کسی قدر امن ہے مگر میں ڈرتا ہوں کہ وہ وقت خطرناک زور کا قریب ہے اس لئے ہماری جماعت کو ڈرنا چاہیے.اگر کسی میں تقویٰ ہو جیسا کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے.تو وہ بچایا جائے گا.اس سلسلہ کو خدا نے تقویٰ ہی کے لئے قائم کیا ہے کیونکہ تقویٰ کا میدان بالکل خالی ہے.پس جو متقی بنیں گے ان کو معجزہ کے طور پر بچایا جائے گا.عرب صاحب نے پوچھا کہ جو لوگ حضور کو بُرا نہیں کہتے اور آپ کی دعوت کو نہیں سنا.وہ طاعون سے محفوظ رہ سکتے ہیں یا نہیں.فرمایا.میری دعوت کو نہیں سنا تو خدا کی دعوت تو سنی ہے کہ تقویٰ اختیار کریں.پس جو تقویٰ اختیار کرتا ہے وہ ہمارے ساتھ ہی ہے خواہ اس نے ہماری دعوت سنی ہو یا نہ سنی ہو کیونکہ یہی غرض ہے ہماری بعثت کی.اس وقت تقویٰ عنقا یا کبریت کی طرح ہو گیا ہے کسی کام میں خلوص نہیں رہا بلکہ ملونی ملی ہوئی ہے.خدا چاہتا ہے کہ اس ملونی کو جلا کر خلوص پیدا کرو.اس وقت ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الرّوم: ۴۲) کا نمونہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یورپ اور دیگر ممالک کی
بگڑی ہوئی حالتوں کا علم نہ تھا.خدا تعالیٰ کی وحی پر ایمان تھا اور اب عرفان کی حالت پیدا ہو گئی ہے جو چاہے ان ممالک میں جا کر دیکھ لے.۱ ۴؍جنوری ۱۹۰۳ء بروز یکشنبہ(بوقتِ سیر) طاعون کا حتمی علاج طاعون کے متعلق ذکر ہوا فرمایا کہ ہمارا علاج کوئی کان دھر کر سنتا نہیں ہے مگر بہرحال آخری علاج یہی ہے.لوگوں کی عادت ہو گئی ہے کہ ان کی نظر صرف اسباب پر رہتی ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ آسمان سے سب کچھ ہوتا ہے جب تک وہاں نہ ہو لے زمین پر کچھ نہیں ہوسکتا.دہریت کا آج کل طبائع میں بہت زور ہے.اخباروں میں ہمارے بتلائے ہوئے علاج پر ٹھٹھا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ طاعون کو خدا سے کیا تعلق.ایک بیماری ہے جس کا علاج ڈاکٹروں سے کرانا چاہیے.ایک صاحب نے بعض لوگوں کا یہ اعتراض پیش کیا کہ طاعون سے اکثر غریب ہی مَرتے ہیں مخالف اور امیر نہیں مَرتے.فرمایا کہ میرے الہاموں سے پایا جاتا ہے کہ ہم دور سے شروع ہوں گے.مکہ میں جب قحط پڑا تو اس میں بھی اوّل غریب لوگ ہی مَرے.لوگوں نے اعتراض کیا کہ ابو جہل جو اس قدر مخالف ہے وہ کیوں نہیں مَرا؟ حالانکہ اس نے تو جنگ بدر میں مَرنا تھا.یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک ابتلا ہوا کرتا ہے اور یہ اس کی عادت ہے اور پھر اس کے علاوہ یہ اس کی مخلوق ہے.اس کو ہر ایک کے نیک و بد کا علم ہے.سزا ہمیشہ مجرم کے لئے ہوا کرتی ہے غیر مجرم کے واسطے نہیں ہوتی.بعض نیک بھی اس سے مَرتے ہیں مگر وہ شہید ہوتے ہیں اور ان کو بشارت ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ سب کی نوبت آجاتی ہے.اب رسل بابا جو مَرا.کیا وہ امیروں میں سے نہ تھا.ہمارا بھی مخالف تھا.۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۲ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷ تا ۱۱
عذاب کی اقسام ایک نے سوال کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں طاعون کیوں نہ پڑی ان کا بھی انکار ہوا تھا.فرمایا.یہ ضرور نہیں ہے کہ خدا ہر وقت ایک ہی رنگ میں عذاب دیوے.قرآن شریف میں عذاب کی کئی اقسام بیان کی ہیں.جیسےقُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّ يُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ(الانعام: ۶۶) جنگ اور لڑائی وغیرہ کو بھی عذاب قرار دیا ہے.عذاب بہت اقسام کے ہوتے ہیں کیا خدا کے پاس عذاب کی ایک ہی قسم ہے؟ اور خدا کی عادت ہے کہ ہر نشان میں ایک پہلو اخفا کارکھتا ہے ورنہ وہ چاہے تو چُن چُن کر بڑے بدمعاش ہلاک کر دے سب لوگ ایک ہی دن میں سیدھے ہو جاویں.ایک الہام کی تشریح مولوی محمد احسن صاحب نے فرمایا کہ حضور اب اَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ کا الہام خوب پورا ہوا.حضور کے بتلائے ہوئے علاج پر لوگ کیا کیا باتیں بناتے تھے اور طریق ملامت ان لوگوں نے اختیار کیا ہوا تھا.خدا تعالیٰ نے ان کو اس ملامت کے بدلے میں کیسی ملامت کی ہے.جس ٹیکہ کو پیش کرکے ملامت کرتے تھے اب خود ہی اس سے کوسوں دور بھاگتے ہیں.پھر حضرت اقدس نے ایک مقام پر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں اسے (طاعون کو) کبھی بند نہ کروں گا جب تک توبہ نہ کریں.خدا تعالیٰ کا اصل مطلب تو طاعون سے افطار ہے (یعنی ہلاک کرنے کا) مگر پھر رحم آتا ہے تو روزہ رکھ لیتا ہے (یعنی درمیان میں وقفہ دے دیتا ہے) کہ لوگ اگر چاہیں تو تبدیلی کر لیں.لوگوں سے اگرچہ ہمیں ہمدردی ہے مگر چونکہ لوگ خدا سے غافل ہیں اس لئے اس کو یاد کرانے کے واسطے تنبیہ کی ضرورت ہے جیسے ایک لحاف کے اندر کا استر بھی میلا اور پلید ہو اور باہر کا ابرہ بھی ویسے ہی خراب ہو.اسی طرح اب اندرونی اور بیرونی دونوں حالتیں قابل اصلاح ہیں لوگوں کو یہ بات تعجب میں ڈال رہی ہے کہ کیا ایسا ہوگا کہ خدا اپنی ہستی کو منواوے یہ ان کی غلطی ہے وہ اپنے وجود کو ضرور منواوے گا.
آثار سے پتا لگتا ہے کہ جہاں جہاں طاعون پڑی ہوئی ہے ابھی تک لوگ اس سے متاثر نہیں ہوئے.ابھی کل امرتسر سے ایک اشتہار آیا ہے کہ تین سالہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور اس پر استہزا کیا ہے حالانکہ ان کو چاہیے تھا کہ وہ انتظار کرتے کہ ہم کیا لکھتے ہیں کم سے کم ہم سے دریافت ہی کر لیتے کہ ہم کیا کہتے ہیں.لوگوں کو بھی شرم نہیں آتی جو کہ ان کے گالیوں سے بھرے ہوئے اشتہار پڑھتے ہیں کیا مولویوں کی پاکیزگی کا یہی نمونہ ہے ان لوگوں کی بڑی کامیابی یہی ہے کہ ممبر پر چڑھ کر نثر اور نظم پڑھ دی.سمجھ میں نہیں آتا.بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے خود ہی توڑے تو توڑے.اشاعت کا بہتر طریق جہلم کے سفر پر فرمایا کہ میری طبیعت ہمیشہ شور اور غوغا سے جو کثرتِ ہجوم کے باعث ہوتا ہے متنفّر ہے ایسے لوگوں کے ساتھ مغز خوری کرنی بے فائدہ ہے وہی وقت انسان کسی علمی فکر میں صرف کرے تو خوب ہے خدا تعالیٰ نے ہماری اشاعت کا طریق خوب رکھا ہے.ایک جگہ بیٹھے ہیں نہ کوئی واعظ ہے نہ مولوی نہ لیکچرار جو لوگوں کو سناتا پھرے.وہ خود ہی ہمارا کام کر رہا ہے بیعت کرنے والے خود آرہے ہیں بڑے امن کا طریق ہے.۱ ۵؍جنوری ۱۹۰۳ء بروز دو شنبہ(بوقتِ ظہر) مذہبی آزادی اور جہاد کی حقیقت اس وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے تو کچھ سرحد کے لوگوں کی جہاد کے بارے میں غلط فہمی کا ذکر چل پڑا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ مذہبی امور میں آزادی ہونی چاہیے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ(البقرۃ: ۲۵۷) کہ دین میں کسی قسم کی زبردستی نہیں ہے.اس قسم کا فقرہ انجیل میں کہیں بھی نہیں ہے.لڑائیوں کی ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۱، ۲ مورخہ ۲۳، ۳۰ ؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲،۳
اصل جڑ کیا تھی.اس کے سمجھنے میں ان لوگوں سے غلطی ہوئی ہے.اگر لڑائی کا ہی حکم تھا تو تیرہ برس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو پھر ضائع ہی گئے کہ آپ نے آتے ہی تلوار نہ اٹھائی.صرف لڑنے والوں کے ساتھ لڑائیوں کا حکم ہے.اسلام کا یہ اصول کبھی نہیں ہوا کہ خود ابتداءِ جنگ کرے.لڑائی کا کیا سبب تھا اسے خود خدا نے بتلایا ہے کہ ظُلِمُوْا (الـحج:۴۰) خدا نے جب دیکھا کہ یہ لوگ مظلوم ہیں تو اب اجازت دیتا ہے کہ تم بھی لڑو.یہ نہیں حکم دیا کہ اب وقت تلوار کا ہے تم زبردستی تلوار کے ذریعہ لوگوں کو مسلمان کرو بلکہ یہ کہا کہ تم مظلوم ہو اب مقابلہ کرو.مظلوم کو تو ہر ایک قانون اجازت دیتا ہے کہ حفظِ جان کے واسطے مقابلہ کرے.ایسے خیالات کی اشاعت کا الزام پادریوں پر نہیں ہے بلکہ اسے خود ملّانوں نے اپنے اوپر پختہ کیا ہے خدا کا ہرگز یہ منشا نہیں ہے کہ ایک غافل شخص جسے دین کی حقیقت معلوم نہیں ہے اسے جبراً مسلمان کیا جاوے.اب ایک بنیا جس کی عمر پچاس یا ساٹھ سال کی ہے اور اسے دین کی خبر ہی نہیں تو اس کے گلے پر تلوار رکھ کر اس سے لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کہلانے سے کیا حاصل ہوگا؟ خدا تعالیٰ کا منشا ہے کہ غفلت چونکہ بہت ہو گئی ہے.اب دلائل سے سمجھادے اگر جہاد کرے بھی تو کس سے کرے؟ سب سے اول تو انہیں مسلمانوں سے کرنا چاہیے کہ جنہوں نے دین کو تباہ کر دیا ہے.صحابہ کرامؓ تو خد اکے فرشتے تھے.اور جب ناعاقبت اندیش لوگوں نے تلواریں اٹھائیں تو خدا نے ان کے ذریعہ ان کو سزائیں دلوائیں.مگر آج کل کے یہ لوگ کہ جن کی مثال ڈاکوئوں کی ہے کیا یہ خدا کے وکیل ہوسکتے ہیں؟ قرآن سے تو ثابت ہوتا ہے کہ کافر سے پہلے فاسق کو سزا دینی چاہیے.خدا نے اسی لئے چنگیز خان کو ان پر مسلّط کر دیا تھا تاکہ مماثلت پوری ہو جیسے یہودیوں پر بخت نصر کو متعین کر دیا تھا ویسے ہی ان پر چنگیز خان کو.اس کے وقت میں ایک بزرگ تھے ان کے پاس لوگ گئے کہ وہ دعا کریں.انہوں نے جواب دیا کہ تمہاری حرام کاریوں کی وجہ سے ہی تو چنگیز خان مسلّط ہواہے.قتل کے بعد سنا ہے کہ چنگیز خان نے اسلام کے علماء فضلاء کو بلا کر پوچھا کہ اسلام کیا ہے انہوں نے کہا کہ پنج وقتہ نماز ہے.کہنے لگا کہ یہ تو عمدہ بات ہے کہ اپنے کاروبار میں پانچ وقت دن میں خدا کو یاد کرنا.پھر انہوں نے زکوٰۃ بتلائی اس کی بھی تعریف کی.
تیسرے انہوں نے حج بتلایا اس کی اسے سمجھ نہ آئی.اس کے بیٹے کااسلام کی طرف رجوع تھا مگر آخر پوتا بالکل مسلمان ہو گیا.اسی طرح بخت نصر یہودیوں پر مسلّط ہوا تھا.مگر خدا نے اسے کہیں ملعون نہیں کہا ہے بلکہ عِبَادًا لَّنَا(بنیٓ اسـرآءیل: ۶) ہی کہا ہے.یہ خدا کا دستور ہے کہ جب ایک قوم فاسق فاجرہوتی ہے تو اس پر ایک اور قوم مسلّط کر دیتا ہے.(قبل از عشاء) تعبیر الرئویا اس وقت ایک صاحب نے ایک خواب سنائی جس میں ایک مُردہ نے ان کو ان کی موت کی خبر دی تھی اور یہ خواب بیعت سے پیشتر آئی تھی.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ جو بیعت کرتا ہے اس پر بھی ایک موت ہی آتی ہے.خوابوں میں موت سے مراد موت ہی نہیں ہوا کرتی اور بھی موت کے بہت سے معنے ہیں خدا کو کوئی نہیں پا سکتا جب تک اس کی اوّل زندگی پر موت نہ آوے.دریا کی تعبیر پر فرمایا کہ جو معارف اور علم رکھتا ہو اسے دریا سے بھی تعبیر کیا کرتے ہیں اور ابابیل سے مراد وہ جماعت اور لوگ جو کہ اس سے فیوض حاصل کرتے ہیں.پھر موت کے ذکر پر فرمایا کہ موت کے معنے رفعت درجات بھی لکھے ہیں اور صوفی کہتے ہیں کہ انسان نجات نہیں پاسکتا جب تک اس پر بہت موتیں نہ آویں حتی کہ وہ ایک زندگی کو ناقص محسوس کرکے پھر ایک اور نئی زندگی اختیار کرتا ہے.پھر اس پر موت ہوتی ہے.پھر اور ایک نئی زندگی اختیار کرتا ہے اور اسی طرح کئی موتیں اور کئی زندگیاں حاصل کرتا ہے.خوابوں کی اقسام ایک نے سوال کیا کہ خواب کے کتنے اقسام ہیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ تین قسمیں خوابوں کی ہوتی ہیں.ایک نفسانی اور ایک شیطانی اور ایک رحمانی.نفسانی جیسے بلّی کو
چھچھڑوں کے خواب.شیطانی وہ جس میں ڈرانا اور وحشت ہو.رحمانی خواب خدا کی طرف سے پیغام ہوتے ہیں اور ان کا ثبوت صرف تجربہ ہے.اور یہ خد اکی باتیں ہیں جو کہ اس دنیا سے بہت دور تر ہیں اگر ہم ان کے متعلق عقلی دلائل پر توجہ کریں تو نہ دوسرا ان سے سمجھ سکتا ہے نہ ہم سمجھا سکتے ہیں.یہ خدا کی ہستی کے نشان ہیں جو وہ غیب سے دل پر ڈالتا ہے اور جب دیکھ لیتے ہیں کہ ایک بات بتلائی گئی اور وہ پوری ہوئی تو پھر اس پر خود ہی اعتبار ہو جاتا ہے.اس عالم کے امور کا جو آلہ ہے وہ اسے شناخت نہیں کرسکتا.یہ روحانی امور ہیں.انہیں سے ان کو پہچانا جاوے تو سمجھ آتی ہے.اور خواب اپنی صداقت پر آپ ہی گواہی دیتے ہیں.خدائی امور ایسے ہی ہوتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آیا کرتے اور اگر وہ آجاویں تو پھر خدا بھی سمجھ میں آجاوے.ایک معجزانہ رئویا پھر اس کے بعد حضرت اقدس نے اپنے ایک خواب کا ذکر کیا جس میں آپ نے دیکھاکہ اﷲ تعالیٰ ایک حاکم کی صورت پر متمثّل ہوا ہے اور آپ نے کچھ احکام لکھ کر دستخط کرائے ہیں.آپ نے وہ تمام کاغذات دستخط کے واسطے حضرت احدیت میں پیش کئے.اس وقت اﷲ تعالیٰ ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور ایک دوات جس میں سرخ روشنائی تھی وہ پڑی تھی.اﷲ تعالیٰ نے قلم لے کر اس روشنائی سے لگائی مگر مقدار سے زیادہ روشنائی اس میں لگ گئی جیسے کہ دستور ہے کہ ایسی حالت میں قلم کو چھڑک دیا کرتے ہیں.اﷲ تعالیٰ نے بھی چھڑک دیا اور کاغذات پر بلا دیکھے دستخط کر دیئے اور اس وقت میرے پاس میاں عبد اﷲ سنوری اور حامد علی تھے.اور میں سویا ہوا تھا کہ یکایک انہوں نے جگایا کہ یہ سرخ قطرات کہاں سے آئے، دیکھا تو میرے کُرتے پر اور کسی جگہ پگڑی پر، کہیں پاجامہ پر پڑے ہوئے تھے.میرے دل میں اس وقت بڑی رقّت تھی کہ خدا تعالیٰ کا مجھ پر کس قدر احسان ہے اور فضل ہے کہ کاغذات کو بلا دیکھے اور پوچھے دستخط کر دیا ہے.اب کیا یہ حیرانی کی بات نہیں ہے کہ میں نے تو ایک معاملہ خواب میں دیکھا اور اس کے قطرات ظاہر میں کپڑوں پر پڑےجو کہ اب تک موجود ہیں اور دو شاہد بھی ہیں.
جماعت کی ترقی کا ایک نشان پھر وہ وقت کہ ایک دو آدمی ہمارے ساتھ تھے اور کوئی نہ تھا اور اب دیکھتے ہیں کہ جوق در جوق آرہے ہیں.یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ اور پھر صرف اتنی ہی بات نہیں بلکہ اس کے اوپر ایک اور حاشیہ لگا ہوا ہے کہ مخالفوں نے ناخنوں تک زور لگایا کہ لوگ آنے سے رکیں مگر آخر کار وہ فقرہ پورا ہو کر رہا.اب جو نیا شخص ہمارے پاس آتا ہے وہ اسی الہام کا ایک نشان ہوتا ہے.اجنبیت کی حالت میں انسان خد اکے کاموں سے نا آشنا ہوتا ہے.اب جیسے یہ ریل ہے کہ یہاں کے لوگوں کے نزدیک تو عام بات ہے اور کوئی تعجب اور حیرت کا مقام نہیں ہے مگر جہاں کہ دور دور آبادیوں میں یہ نہیں گئی اور نہ ان لوگوں نے اسے دیکھا ہے ان سے کوئی بیان کرے تو کب باور کریں گے کہ ایک سواری ہے کہ خود بخود چلتی ہے.نہ اس میں گھوڑا ہے نہ بیل نہ اور جانور.توجن کو ان خدائی امور کا تجربہ نہیں ان کی سمجھ میں نہیں آتے.نماز میں لذّت نہ آنے کی وجہ پھر اسی صاحب نے اعتراض کیا کہ بہت کوشش کی جاتی ہے مگر نماز میں لذّت نہیں آتی.فرمایا.انسان جو اپنے تئیں امن میں دیکھتا ہے تو اسے خدا کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے.حالتِ استغنا میں انسان کو خد ایاد نہیں آیا کرتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری طرف وہ متوجہ ہوتا ہے جس کے بازو ٹوٹ جاتے ہیں.اب جو شخص غفلت سے زندگی بسر کرتا ہے اسے خدا کی طرف توجہ کب نصیب ہوتی ہے.انسان کا رشتہ خدا کے ساتھ عاجزی اور اضطراب کے ساتھ ہے لیکن جو عقلمند ہے وہ اس رشتہ کو اس طرح سے قائم رکھتا ہے کہ وہ خیال کرتا ہے کہ میرا باپ دادا کہاں ہے اور اس قدر مخلوق کو ہر روز مَرتا دیکھ کر وہ انسان کی فانی حالت کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کی برکت سے اسے پتا لگ جاتا ہے کہ میں بھی فانی ہوں اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ جہان چھوڑ دیا جاوے گا.اور اگر وہ اس میں زیادہ مبتلا ہے تو اُسے اِسے چھوڑ نے کے وقت حسرت بھی زیادہ ہوگی اور یہ حسرت ایسی ہے کہ خواہ آخرت پر ایمان نہ ہی ہو تب بھی اس کا اثر ضرور ہوتا ہے اور اس سے امن اس وقت ملتا
ہے کہ جب فانی خوش حالی نہ ہو بلکہ سچی خوش حالی ہو.بعض آدمیوں کو بیماریوں سے بعض کو دوسری تکالیف سے خدا کی طرف رجوع ہوتا ہے.مادری زبان میں نماز اور دعائیں پھر سوال ہوا کہ اگر ساری نماز کو اپنی زبان میں پڑھ لیا جاوے تو کیا حرج ہے.فرمایا کہ خدا کے کلام کو اسی کی زبان میں پڑھنا چاہیے اس میں بھی ایک برکت ہوتی ہے خواہ فہم ہو یا نہ ہو اور ادعیہ ماثورہ بھی ویسے ہی پڑھے جیسے آنحضرتؐکی زبان مبارک سے نکلیں.یہ ایک محبت اور تعظیم کی نشانی ہے.باقی خواہ ساری رات دعا اپنی زبان میں کرتا رہے.انسان کو اوّل محسوس کرنا چاہیے کہ میں کیسے مصیبت زدہ ہوں اور میرے اندر کیا کیا کمزوریاں ہیں.کیسے کیسے امراض کا نشانہ ہوں اور موت کا اعتبار نہیں ہے.بعض ایسی بیماریاں ہیں کہ ایک آدھ منٹ میں ہی انسان کی جان نکل جاتی ہے.سوائے خدا کے کہیں اس کی پناہ نہیں ہے.ایک آنکھ ہی ہے جس کی تین سو امراض ہیں.ان خیالوں سے نفسانی زندگی کی اصلاح ہوسکتی ہے اور پھر ایسی اصلاح یافتہ زندگی کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک دریاسخت طغیانی پر ہے.مگر یہ ایک عمدہ مضبوط لوہے کے جہاز پر بیٹھا ہوا ہے اور ہوائے موافق اسے لے جارہی ہے.کوئی خطرہ ڈوبنے کا نہیں لیکن جو شخص یہ زندگی نہیںرکھتا اس کا جہاز بودا ہے.ضرور ہے کہ طغیانی میں ڈوب جاوے.عام لوگوں کی نماز تو برائے نام ہوتی ہے.صرف نماز کو اٹیرتے ہیں اور جب نماز پڑھ چکے تو پھر گھنٹوں تک دعا میں رجوع کرتے ہیں.مغفرتِ الٰہی ایک صاحب نے اٹھ کر عرض کی کہ جب تک حرام خوری وغیرہ نہ چھوڑے تب تک نماز کیا لذّت دیوے اور کیسے پاک کرے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ (ھود: ۱۱۵)بھلا جو اوّل ہی پاک ہوکر آیا اسے پھر نماز کیا پاک کرے گی.حدیث میں ہے کہ تم سب مُردہ ہو مگر جسے خدا زندہ کرے.تم سب بھوکے ہو مگر جسے خدا
کھلاوے.الخ.ایک طبیب کے پاس انسان اگر اوّل ہی صاف ستھرا اور مرض سے اچھا ہو کر آوے تو اس نے طبابت کیا کرنی ہے اور پھر خدا تعالیٰ کی غفوریت کیسے کام کرے.بندوں نے گناہ کرنے ہی ہیں تو اس نے بخشنے ہیں.ہاں ایک بات ضرور ہے کہ وہ گناہ نہ کرے جس میں سرکشی ہو ورنہ دوسرے گناہ جو انسان سے سرزد ہوتے ہیں اگر ان سے بار بار بذریعہ دعا کے خدا سے تزکیہ نفس چاہے گا تو اسے قوت ملے گی.بلاقوت اﷲ تعالیٰ کے ہرگز ممکن نہیں ہے کہ اس کاتزکیہ نفس ہو اور اگر ایسی عادت رکھے کہ جو کچھ نفس نے چاہا اسی وقت کر لیا تواس سے کوئی قوت نہیں ملے گی.قوت اس وقت ملے گی جب ان جوشوں کا مقابلہ کرے اور گناہ کی طاقت ہوتے ہوئے پھر گناہ نہ کرے ورنہ اگر اس وقت وہ گناہ سے باز آتا ہے جب کہ خدا تعالیٰ نے طاقتیں چھین لی ہیں تو اسے کیا ثواب ہوگا.مثلاً آنکھوں میں بینائی نہ رہی تو اس وقت کہے کہ اب میں غیر عورت کو نہیں دیکھتا تو یہ کیا بزرگی ہوئی.بزرگی تو اس وقت تھی کہ پیشتر اس کے کہ خدا اپنی دی ہوئی امانتیں واپس لیتا وہ ان کے بےمحل استعمال سے باز رہتا.معرفت کے بغیر گناہ نہیں چھوٹ سکتا اصل بات یہ ہے کہ خدا کی معیت کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا.خدا ہی کی معیت ہو تو تبدیلی ہوتی ہے اور پھر اس کی خواہشیں اَور اَور جگہ لگ جاتی ہیں اور خدا کی نافرمانی اسے ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے موت.بالکل ایک معصوم بچہ کی طرح ہو جاتا ہے.اس لئے جہاں تک ہوسکے کوشش کرے کہ دقیق در دقیق پرہیز گار ہو جاوے.جب نماز میں کوئی خطرہ پیش آوے.اس وقت سلسلہ دعا کا شروع کر دے یہ مشکلات اس وقت تک ہیں کہ جب تک نمونہ قدرتِ الٰہی کا نہیں دیکھتا.کبھی دہریہ ہو جاتا ہے کبھی کچھ.بار بار ٹھوکریں کھاتا ہے.جب تک خدا کی معرفت نہ ہو گناہ نہیں چھوٹ سکتا.دیکھو! جو لوگ جاہل ہیں ڈاکہ مارتے ہیں.چوریاں کرتے ہیں.لیکن جن کو علم ہے کہ اس سے ذلّت ہوگی.خواری ہوگی وہ ایسے کام کرتے شرماتے ہیں کیونکہ ان کی عظمت میں فرق آتا ہے.اس لئے ڈاکہ والوں کا یہ بھی علاج ہے کہ ان کی تعظیم کی جاوے اور ان کو بڑا آدمی بنا دیا جاوے
تاکہ پھر ان کو ڈاکہ مارتے شرم آوے.۱ ۶؍جنوری ۱۹۰۳ء (بوقتِ سیر) موت اوّل طاعون کا ذکر ہوتا رہا اور پھر موت کی حالت کا ذکر آیا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ بھی ایک وقت ہے جو انسان پر آتا ہے مگر یہاں آکر سب علوم ختم ہو جاتے ہیں اور کوئی کچھ نہیں بتلاتا.بعض احباب اپنے اپنے خواب سناتے رہے اور حضرت اقدس ان کی تعبیر فرماتے رہے چند ایک ان میں سے واقفیت عام کے لئے درج کی جاتی ہیں.تعبیر الرئویا خواب میں اپنا ختنہ کرنا.تقویٰ کا طریق اختیار کرنا ہے.اس سے مراد شہوات کا کاٹنا ہے.قیامت کی خبرسننا.اس سے مراد یہ ہے کہ دینداروں کی فتح ہوگی اور دشمنوں کو ذلّت کیونکہ قیامت کو بھی یہی ہونا ہے.قرآن شریف میں ہے فَرِيْقٌ فِي الْجَنَّةِ وَ فَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ (الشّوریٰ: ۸) اسی دن ہوگا دنیا کی رنگا رنگ کی وبائیں بھی قیامت ہی ہیں.طاعون کے بعد میرے الہام میں ہے یَاْتِیْ عَلٰی جَھَنَّمَ زَمَانٌ لَّیْسَ فِیْـھَا اَحَدٌ.یہ طاعون کی نسبت ہے.اسے بھی جہنم ہی کہا گیا ہے حالانکہ جہنم تو قیامت کو ہونا ہے.اس الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کارروائی ہولے گی تو پھر طاعون ایک دم چپ کرکے سو جاوے گی.پھر اس کے بعد یہ بھی فرمایا ہے يُغَاثُ النَّاسُ وَ يَعْصِرُوْنَپھر بارشیں ہوں گی.کشادگی ہوگی.فصلیں خوب پکیں گی.موتوں سے لوگ بچیں گے.اب اس وقت لوگوں کا دعائیں کرنا کہ یہ طاعون دور ہو بے فائدہ ہے.اس کی مثال ایسی ہے کہ جب ایک شخص پہر رات رہے ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۱، ۲ مورخہ ۲۳، ۳۰ ؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳، ۴
اٹھ کر دعا شروع کر دے کہ بہت جلد ابھی دن نکل آوے تو خواہ وہ کچھ ہی کرے مگر دن تو اپنے وقت پر ہی چڑھے گا.جائز امور میں اعتدال نیکی کے ذکر پر فرمایا کہ نیکی کی جڑ یہ بھی ہے کہ دنیا کی لذّات اور شہوات جو کہ جائز ہیں ان کو بھی حدّ ِاعتدال سے زیادہ نہ لیوے جیسا کہ کھانا پینا اﷲ تعالیٰ نے حرام تو نہیں کیا مگر اب اسی کھانے پینے کو ایک شخص نے رات دن کا شغل بنا لیا ہے.اس کا نام دین پر بڑھانا ہے ورنہ یہ لذّات دنیا کی اس واسطے ہیں کہ اس کے ذریعہ نفس کا گھوڑا جو کہ دنیا کی راہ میں ہے وہ کمزور نہ ہو.اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے یکہ والے جب لمبا سفر کرتے ہیں تو سات یا آٹھ کوس کے بعد وہ گھوڑے کی کمزوری کو محسوس کرکے اسے دَم (دِلا) دیتے ہیں اور نہاری وغیرہ کھلاتے ہیں تاکہ اس کا پچھلا تکان رفع ہو جاوے تو انبیاء نے جو حظّ دنیا کا لیا ہے وہ اسی طرح ہے کیونکہ ایک بڑا کام دنیا کی اصلاح کا ان کے سپرد تھا.اگر خدا کا فضل ان کی دستگیری نہ کرتا تو ہلاک ہو جاتے.اس واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی وقت عائشہؓ کے زانو پر ہاتھ مار کر فرماتے کہ اے عائشہ راحت پہنچا.مگر انبیاء کا یہ دستور نہ تھا کہ اس میں ہی منہمک ہو جاتے.انہماک بے شک ایک زہر ہے ایک بدمعاش آدمی جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہتا ہے کھاتا ہے.اسی طرح اگر ایک صالح بھی کرے تو خدا کی راہیں اس پر نہیں کھلتیں.جو خدا کے لئے قدم اٹھاتا ہے خدا کو اس کا ضرور پاس ہوتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہےاِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى (المآئدۃ: ۹) تنعُّم اور کھانے پینے میں بھی اعتدال کرنے کا نام ہی تقویٰ ہے.صرف یہی گناہ نہیں ہے کہ انسان زنا نہ کرے چوری نہ کرے بلکہ جائز امور میں بھی حدّ ِاعتدال سے نہ بڑھے.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اُسوۂ حسنہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے.آپ اندر ایک حجرہ میں تھے.حضرت عمر نے اجازت چاہی.آپ نے اجازت دی.حضرت عمر نے آکر دیکھا کہ صف کھجور کے
پتوں کی آپ نے بچھائی ہوئی ہے اور اس پر لیٹنے سے پیٹھ پر پتوں کے داغ لگے ہیں.گھر کی جائداد کی طرف حضرت عمر نے نظر کی تو دیکھا کہ ایک گوشہ میں تلوار لٹکی ہوئی ہے.یہ دیکھ کر ان کے آنسو جاری ہوگئے.آنحضرتؐنے پوچھا کہ عمر تو کیوں رویا؟ عرض کی کہ خیال آتا ہے کہ قیصرو کسریٰ جو کافر ہیں ان کے لئے کس قدر تنعم اور آپ کے لئے کچھ بھی نہیں.فرمایا.میرے لئے دنیا کا اسی قدر حصہ کافی ہے کہ جس سے میں حرکت کرسکوں.میری مثال یہ ہے جیسے ایک مسافر سخت گرمی کے دنوں میں اونٹ پر جا رہا ہو اور جب سورج کی تپش سے وہ بہت تنگ آوے تو ایک درخت کو دیکھ کر اس کے نیچے ذرا آرام کر لیوے اور جونہی کہ ذرا پسینہ خشک ہو پھر اٹھ کر چل پڑے.تو یہ اسوۂ حسنہ ہے جو کہ اسلام کو دیا گیا ہے.دنیا کو اختیار کرنا بھی گناہ ہے اور مومن کی زندگی اضطراب کے ساتھ گذرتی ہے.پر ہماری دو آنکھیں ہیں اور کیا کچھ دیکھ رہی ہیں اور کوئی فولاد وغیرہ کی بنی ہوئی نہیں ہیں.ذرا بینائی جاتی رہے تو پھر اپنی ہستی کا اندازہ ہو جاتاہے اور جب اندھا ہوا تو موت ہی ہے.تو دنیا کی زندگی کا بھی یہی حساب ہے.دنیوی زندگی ناقابل اطمینان ہے مومن کو اس زندگی پر ہرگز مطمئن نہ ہونا چاہیے.اتنی بلائیں اس زندگی میں ہیں کہ شمار نہیں.ایک بیماری ہوتی ہے کہ انسان کا پاخانہ کا راستہ بند ہو جاتا ہے اور منہ کے راستہ پاخانہ آتا ہے اور اس کا نام ایلاؤس ہے پھر اسی طرح گردہ اور مثانہ کی بیماریاں ہیں کہ رنگا رنگ کے سرخ، سبز اور سیاہ پتھر بن جاتے ہیں اور ان کا کوئی خاص سبب بھی کیا بیان ہوسکتا ہے بلکہ امراء لوگ جو کہ عمدہ غذا اور نفیس پانی استعمال کرتے ہیں انہی کو ایسے امراض ہوتے ہیں.اگر دو شخص ایک ہی جگہ رہتے ہوں.ایک ہی قسم کی ان کی خورونوش ہو.پھر ایک ان میں سے ایسے عوارضات میں مبتلا ہو جاتا ہے دوسرا نہیں ہوتا.اسی لئے طب کی نسبتکہتے ہیں کہ یہ ظنی علم ہے.علل مادیہ میں یہ لوگ اسباب کی تحقیق کرتے ہیں مگر اس کا بھی سبب بتلادیں کہ جب الہام ہونے لگتا ہے یا کشف تو اس وقت نیند سی آنے لگتی
ہے.اس کے کیا اسباب ہیں.ان لوگوں کا دستور ہے کہ جب ان کو ایک بات کا سبب معلوم نہ ہو تو اس سے انکار کر بیٹھتے ہیں اور اسی لئے وحی اور الہام کے منکر ہیں.یہ علوم بے انتہا ہیں.جب تک بے اعتدالیوں کا حصہ دور نہ کرے اس سے واقف نہیں ہوسکتا.اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى (النّٰزعٰت: ۴۱) جو خواہش جائز اپنے مقام اعتدال سے بڑھ جاوے.اس کا نام ھوٰی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک رئویا کوئی تیس سال کا عرصہ گذرا میں نے ایک دفعہ خواب دیکھاکہ بٹالہ کے مکانات میں ایک حویلی ہے.اس میں ایک سیاہ کمبل پر میں بیٹھا ہوں اور لباس بھی کمبل ہی کی طرح پہنا ہوا ہے.گویا کہ دنیا سے الگ ہوا ہوں.اتنے میں ایک لمبے قد کا شخص آیا اور مجھے پوچھتا ہے کہ میرزا غلام احمد، غلام مرتضیٰ کا بیٹا کہاں ہے.میں نے کہا میں ہوں.کہنے لگا کہ میں نے آپ کی تعریف سنی ہے کہ آپ کو اسرار دینی اور حقائق اور معارف میں بہت دخل ہے.یہ تعریف سُن کر ملنے آیا ہوں.مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا.اس پر اس نے آسمان کی طرف منہ کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور بہہ کر رخسار پر پڑتے تھے.ایک آنکھ اوپر تھی اور ایک نیچے اور اس کے منہ سے حسرت بھرے یہ الفاظ نکل رہے تھے.’’ تہید ستان عشرت را‘‘ اس کا مطلب میں نے یہ سمجھا کہ یہ مرتبہ انسان کو نہیں ملتا جب تک کہ وہ اپنے اوپر ایک ذبح اور موت وارد نہ کرے.اس مقام پر عرب صاحب نے حضرت کا یہ شعر پڑھا.جس میں یہ کلمہ منسلک تھا کہ ’’ میخواہد نگار من تہیدستان عشرت را‘‘ حضرت نے فرمایا کہ میں نے پھر اس کلمہ کو اس مصرعہ میں جوڑ دیا کہ یاد رہے.(آئینہ کمالات اسلام میں اس پر ایک نظم لکھی ہوئی ہے) ۱ ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۳ مورخہ ۶؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸، ۱۹
(دربارِ شام)۱ عربی تصانیف کی اہمیت عربی تصانیف کے متعلق اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ اگر یہ سلسلہ نہ ہوتا تو یہ سب مولوی ہماری جماعت کو نظر استخفاف سے دیکھتے اور کہتے کہ یہ لوگ جاہل ہیں.مگر اب خود ہی بولنے کے لائق نہیں رہے.اسی سلسلہ کلام میں ابو سعید عرب صاحب نے عرض کیا کہ اگرچہ میں نے حضور کی تصنیفات کو مطالعہ نہیں کیا مگر میرا ایمان ہے کہ حضور بالکل سچے ہیں اور مسیح اور مہدی کا دعویٰ حق ہے.مگر دوسرے لوگوں سے کلام کرنے کے لئے میں چاہتا ہوں کہ حضور کی زبان مبارک سے مسیح موعود ہونے کا ثبوت سنوں.حضرت اقدس نے اس کے جواب میں جو کچھ فرمایا.ہم اس کو اختصار کے طور پر لکھیں گے کیونکہ اس مضمون کے متعلق بسط کے ساتھ کلمات طیبات میں بھی ایک مضمون چھپ رہا ہے.بہرحال آپ نے فرمایا.مسیح موعود ہونے کا ثبوت قرآن پر تدبّر سے نظر کرنے والے کو معلوم ہوگا کہ دوسلسلوں کا مساوی ذکر ہے.اوّل وہ سلسلہ جو موسیٰ سے شروع ہو کر مسیح علیہ السلام پر ختم ہوتا ہے.اور دوسرا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوتا ہے یہ اس شخص پر ختم ہونا چاہیے جو مثیل مسیح ہو.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ہیں اِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ....الاٰیۃ (المزّمل: ۱۶) اور پھر سورۃ نور میں وعدہ استخلاف فرمایا کہ جس طرح پر موسوی سلسلہ ہو گذرا ہے اسی طرح پر محمدی سلسلہ بھی ہوگا تاکہ دونو سلسلوں میں بموجب آیات قرآنی باہم مطابقت اور موافقت تامہ ہو.چنانچہ جب کہ موسوی سلسلہ آخر عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہوا ضروری تھا کہ محمدی سلسلہ کا خاتم بھی عیسیٰ موعود ہوتا.ان دونو سلسلوں کا باہم تقابل مرایا متقابلہ کی ۱ چونکہ اس دن کی شام کی ڈائری البدر کی نسبت الحکم میں زیادہ مفصل اور مربوط ہے.اس لئے شام کی ڈائری الحکم سے یہاں درج کی گئی ہے.(مرتّب)
طرح ہے یعنی جب دوشیشے ایک دوسرے کے بالمقابل رکھے جاتے ہیں تو ایک شیشہ کا دوسرے میں انعکاس ہوتا ہے.خاتم النبّییّن صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت اور اس تقابل سلسلہ سے یہ بھی بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ آخری سلسلہ کا آخری موعود کس شان کا ہوگا کیونکہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ آخر آنے والا عظیم الشان ہوتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النَّبیّین ٹھہرے.اگر یہ قاعدہ اور سنّت نہ ہوتی.تو پھر معاذ اﷲ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی عزّت اور عظمت باقی انبیاء سابقین پر نہ ہوتی لیکن چونکہ اﷲ تعالیٰ کی مصلحت دنیا میں عظیم الشّان اصلاح چاہتی تھی اس لئے مناسب یہی تھا کہ ان سب سے بڑھ کر آپ کی عظمت دکھاوے تاکہ آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہو.دنیاوی حکام بھی جب ایسی مصلحت رکھ لیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ خدا اس مصلحت کو مدّ ِنظر نہ رکھتا.کبھی حکامِ دنیا پسند نہیں کرتے کہ آخر میں کسی نالائق کو بھیج دیں اور کہہ دیں کہ گویہ نالائق ہے مگر اس کی بات مان لو.اب ایک شخص جو کل دنیا کی اصلاح کے لئے آنے والا تھا کب ہوسکتا تھا کہ وہ ایک معمولی انسان ہوتا! جس قدر انبیاء علیہم السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آئے وہ سب ایک ایک خاص قوم کے لئے آئے تھے.اس لئے کہ ان کی شریعت مختص القوم اور مختص الزمان تھی.مگر ہمارے نبی وہ عظیم الشان نبی ہیں جن کے لئے حکم ہوا کہ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (الانبیآء: ۱۰۸) قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا(الاعراف: ۱۵۹).اس لئے جس قدر عظمتیں آپ کی بیان ہوئی ہیں.مصلحت الٰہیہ کا بھی یہی تقاضا تھا کیونکہ جس پر ختم نبوت ہونا تھا اگر وہ اپنے کمالات میں کوئی کمی رکھتا توپھر وہی کمی آئندہ امت میں رہتی.کیونکہ جس قدر کمالات اﷲ تعالیٰ کسی نبی میں پیدا کرتا ہے اسی قدر اس کی امت میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور جس قدر کمزور تعلیم وہ لاتا ہے اتنا ہی ضعف اس کی امت میں نمودار ہو جاتا ہے چنانچہ یہی وجہ تھی کہ جس عظمت اور شان کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا.اسی عظمت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ
تقابل میں بھی وہی عظمت دکھاتا.اور ہم ظاہر طور پر دیکھتے ہیں کہ دونوں تعلیموں میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے جیسے کہ قرآن شریف حقائق اور معارف سے بھرا ہوا ہے توریت، انجیل بالکل ان سے خالی ہے.ان کی کل تعلیم قصص کے رنگ میں ہے اور قرآن شریف علوم کا خزانہ ہے.ان دونوں سلسلوں کا اقتضاء اس وجہ سے بھی تھا کہ چونکہ اسحاق ؑاور اسماعیل ؑدونوں بھائی تھے اور دونوں میں برکات کی تقسیم مساوی تھیں.تصفیہ تقسیم تب ہی ہوتا کہ دونوں سلسلوں میں باہم تطابقت اور عین موافقت ہوتی.اسماعیل ؑ کی اولاد میں اﷲ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان نبی مبعوث فرمایا جس کی امت کو كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (اٰل عـمران: ۱۱۱) کہا کہ تم تمام امتوں سے بہتر ہو کیونکہ وہ لوگ جن کو شریعت قصہ کے رنگ میں ملی تھی وہ دماغی علوم کی کتاب و شریعت کے ماننے والوں کے کب برابر ہوسکتے ہیں.پہلے صرف قصص پر راضی ہو گئے اور ان کے دماغ اس قابل نہ تھے کہ حقائق و معارف کو سمجھ سکتے.مگر اس امت کے دماغ اعلیٰ درجہ کے تھے اسی لئے شریعت اور کتاب علوم کا خزانہ ہے جو علوم قرآن مجید لے کر آیا ہے وہ دنیا کی کسی کتاب میں پائے نہیں جاتے.اور جیسے شریعت کے نزول کے وقت وہ اعلیٰ درجہ کے حقائق و معارف سے لبریز تھی ویسے ہی ضروری تھا کہ ترقی علوم و فنون سب اسی زمانہ میں ہوتا.بلکہ کمال انسانیت بھی اسی میں پورا ہوا.قرآن شریف حقیقی علوم کا جامع ہے اس مقام پر عرب صاحب نے سوال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتر بھی یونان وغیرہ میں علوم کا چرچا تھا.فرمایا.علوم سے مراد دنیوی علوم نہیں ہے اور نہ ہیں.ان ارضی علوم سے کچھ تعلق نہیں.علوم حقیقی وہی ہوتے ہیں جو انبیاء لے کر آتے ہیں.اور ارضی اور سفلی علوم جو دنیا کے لوگ سمجھتے ہیں.جیسے تار، ریل، غبارہ یا کلوں کی ایجاد وغیرہ یہ کھیلیں ہیں اور ارضی چیزیں ہیں جو جونہی انسان مَر جاتا ہے اس کے ساتھ ہی فنا ہو جاتی ہیں مگر وہ علوم جو انبیاء لے کر آتے ہیں وہ مَرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں ان کو کبھی فنا نہیں.ان علوم سے مراد خدا کے علوم ہیں (پھر اسی سلسلہ میں اصل مطلب کی طرف رجوع
کرکے فرمایا) یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف جو علوم لے کر آیا ہے وہ دنیا کی کسی اور کتاب میں پائے نہیں جاتے ہیں.توریت میں کسی علوم کا ذکر نہیں اور انجیل میں نشان تک بھی نہیں پایا جاتا.قرآن کریم کی عظمت کے بڑے بڑے دلائل میں سے یہ بھی ہے کہ اس میں عظیم الشان علوم ہیں جو توریت و انجیل میں تلاش کرنے ہی عبث ہیں اور ایک چھوٹے اور بڑے درجہ کا آدمی اپنے اپنے فہم کے موافق ان سے حصہ لے سکتا ہے.توریت کو دیکھو کہ ہستی باری تعالیٰ اور قیامت کے متعلق ایک بھی فقرہ اس میں نہیں ہے ادھر قرآن شریف کو دیکھو کہ ہستی باری تعالیٰ اور قیامت کے کیسے دلائل بھرے ہوئے ہیں اور پھر عقلی اور نقلی دونو طرح کے ثبوت ہیں.قرون اُولیٰ میں صرف نقل ہی نقل تھی.پھر یہود، نصاریٰ، آریہ، برہمو، نیچری غرض سب فرقوں کا ردّ اس میں موجود ہے.غرض قرآن شریف ایک اکمل اور اتم کتاب ہے.اﷲ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ خلقت میں علوم حاصل کرنے کے دماغ موجود ہوگئے ہیں تو اس نے قرآن جیسی کتاب بھیج دی.موسوی سلسلہ اور محمدی سلسلہ میں مطابقت غرض یہ سلسلہ موسوی سلسلہ سے کسی صورت میں کم نہ رہا.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک تو مماثلت اور مطابقت میں فرمایا کہ بدی کا حصہ بھی تم کو ویسے ہی ملے گا جیسے یہود کو ملا اور اس سلسلہ کی نسبت بار بار ذکر ہوا کہ آخیر تک اس کی عظمت قائم رکھے گا.سورۃ فاتحہ میں بھی اس کا ذکر ہے جب کہ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ (الفاتـحۃ: ۷) فرمایا.مغضوب سے مراد یہودی ہیں.اب قابل غور یہ اَمر ہے کہ یہودی کیسے مغضوب ہوئے.انہوں نے پیغمبروں کو نہ مانا اور حضرت عیسیٰ کا انکار کیا توضرور تھا کہ اس امت میں بھی کوئی زمانہ ایسا ہوتا اور ایک مسیح آتا جس سے یہ لوگ انکار کرتے اور وہ مماثلت پوری ہوتی ورنہ کوئی ہم کو بتائے کہ اگر اسلام پر ایسا زمانہ کوئیآنے والا ہی نہ تھا اور نہ کوئی مسیح آنا تھا پھر اس دعائے فاتحہ کی تعلیم کا کیا فائدہ تھا.قرآن شریف کی مختلف آیات کے جمع کرنے سے اور پھر ان پر یکجائی نظر کرنے سے صاف پتا لگتا ہے کہ آنے والا مسیح ضرور اس امت میں سے ہوگا اور حدیث بھی اس کی شرح کرتی ہے اور کہتی
ہے کہ وہ اس امت میں سے ہوگا.غرض اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان سلسلوں میں بالکل مطابقت ہے.اور محمدیؐ سلسلہ میں آنے والا خاتم الخلفاء مسیح کے رنگ پر ہوگا.حدیثوں میں بھی یہی آیا ہے کہ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ یعنی وہ امام تم ہی میں سے ہوگا.مسیح موعود کس قوم سے ہوگا؟ سوال ہوا کہ مسیح کس قوم سے ہوگا؟ فرمایا.مہدی کی بابت تو مختلف روایات ہیں.مگر مسیح کی بابت نہیں لکھا کہ وہ کس قوم سے ہوگا اور یہ لطف کی بات ہے کہ چونکہ کسی قوم کا ذکر نہیں ہے اور مسلمانوں کا خیال تھا کہ وہ اوپر سے آنے والا ہے.اس لئے اس دعویٰ میں آج تک کسی کو جرأت نہیں ہوئی کہ افترا سے کام لیتا.مہدی کاذب ہونے کے دعوے جو بہت لوگوں نے کئے اس کی وجہ یہی تھی کہ اس کی قوم کا ذکرتھا.جہاں جس کو گنجائش ملی.اس نے پائوں جما کر دعویٰ کردیا.مسیح ناصری شارح توریت اور مسیح موعود شارح قرآن ہے پوچھا گیا کہ عیسائی لوگ توریت کو نہیں مانتے.انجیل کو ہی مانتے ہیں.فرمایا.انجیل میں ہرگز کوئی شریعت نہیں ہے بلکہ توریت کی شرح ہے اور عیسائی لوگ توریت کو الگ نہیں کرتے جیسے مسیح توریت کی شرح بیان کرتے تھے.اسی طرح ہم بھی قرآن شریف کی شرح بیان کرتے ہیں.جیسا کہ وہ مسیحؑ، موسٰیؑسے چودہ سو برس بعد آئے تھے.اسی طرح ہم بھی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودھویں صدی میں آئے ہیں.مغضوب اورضالّ ایک شخص نے سوال کیا.بعض مخالف کہتے ہیں ہم بھی تو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ (الفاتـحۃ:۶)کہتے ہیں ہم کو یہودی اور مغضوب کیوں کہا جاتا ہے؟ فرمایا کہ یہودی بھی تو ہدایت اب تک طلب کر رہے ہیں اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَمانگ
رہے ہیں اور توریت پڑھتے ہیں پھر گمراہ کیوں ہیں؟ خلیفہ کے معنے عرب صاحب نے خلیفہ کے معنے دریافت کئے.فرمایا.خلیفہ کا معنے جانشین کے ہیں جو تجدید دین کرے.نبیوں کے زمانہ کے بعد جو تاریکی پھیل جاتی ہے اس کو دور کرنے کے واسطے جو ان کی جگہ آتے ہیں.انہیں خلیفہ کہتے ہیں.بنی اسرائیل کے انبیاء موسوی شریعت کے تابع تھے مثلاً گذشتہ انبیاء میں جو خلیفہ ہوئے وہ وہ تھے جو مقاصد توریت کے کھول کر بیان کیا کرتے تھے ورنہ تعلیم سب کی ایک ہی تھی.یہود کو جو توریت میں یہ تعلیم دی تھی کہ دانت کے بدلے دانت اور آنکھ کے بدلے آنکھ.مگر توریت کا اس عدل سے وہ مطلب نہ تھا جو یہودی لوگ اپنی جھوٹی روایتوں اور حدیثوں کی بنا پر اصل اخلاق کو دور کرکے ظاہری شریعت کے پیچھے لگ گئے کہ اگر ظاہر شریعت پر عمل نہ کریں گے تو گنہگار ٹھہریں گے اور عفو گویا بالکل نہ کرنا چاہیے.حالانکہ اس سے خدا تعالیٰ پر حرف آتا ہے کہ وہ کیوں عفو کی عادت ترک کر بیٹھا.ہاں یہ سچ ہے کہ بنی اسرائیل چار سو برس کی غلامی کی وجہ سے فرعونیوں کے ساتھ تعلقات رکھتے تھے جو ظالمانہ طبیعت رکھتے تھے.اس لئے بہت سے مفاسد ان میں پیدا ہو گئے تھے اور چال چلن خراب ہو گیا تھا.اس ظالمانہ عادات کی بیخ کنی کے لئے عدل کے رنگ میں یہ تعلیم ان کو دی گئی تھی مگر انہوں نے اس کو الٹا سمجھا ورنہ ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اخلاق کا وہ حصہ جو عفو کہلاتا ہے بالکل زائل کر دیا گیا تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ یہ لوگ بڑے سخت دل ہو گئے چنانچہ جب حضرت عیسیٰ ؑمبعوث ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ یہودیوں کی سخت دلی بہت بڑھی ہوئی ہے اور وہ کئی قسم کے فسق و فجور میں مبتلا تھے اس لئے انہوں نے آکر عفو کی تعلیم دی اور اخلاق کی تجدید کی.یہ کہنا کہ انجیل ہی میں اخلاق بھرے ہوئے ہیں سخت غلطی ہے.کیا پہلے نبیوں کی کتابیں جو ستّر سے زیادہ ہیں وہ سب اخلاقی تعلیم سے خالی ہیں؟ ہرگز نہیں.مسیح نے کوئی نئی تعلیم نہیں دی اور نہ نئی شریعت پیش کی.یہودی اب تک کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام نے جو کچھ لیا ہمارے ہی صحیفوں سے لیا ہے.چنانچہ ایک یہودی
نے ایک کتاب لکھی ہے اور اس نے بتایا ہے کہ کون کون سے فقرے عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی کسی کتاب سے لئے ہیں.سچی تعلیم کی علامت غرض سچی تعلیم کی نشانی یہ ہے کہ وہ انبیاء کی تعلیم سے مشابہ ہو.ان کا اصول ایک ہی ہوتا ہے اور اختلاف تب ہوتا ہے کہ اصول میں ہو.ورنہ فروع میں اگر کوئی اختلاف ہو تو وہ اختلاف نہیں کہلاتا اور اگر فروع میں اختلاف بھیہو تو اس کی مثال ایسی ہے کہ گرمیوں میں اور کپڑا ہوتا ہے سردیوں میں اور.فروعات میں تبدیلیاں ضرور ہوا کرتی ہیں.ایسا ہی مثلاً ایک زمانہ تھا کہ شراب جیسی خبیث چیز کو لوگ بے دھڑک پیتے تھے اور پھر وہ زمانہ آپ کا آگیا کہ اس کی بیخ کنی کی جاوے.حضرت دانیال کو کہا گیا کہ آپ شراب پئیں تاکہ آپ کا چہرہ سرخ ہو جاوے اور بادشاہِ وقت کا حکم ہے کہ جس کا چہرہ سرخ نہ ہوگا.وہ مارا جاوے گا اس پر آپ نے فرمایا کہ تم لوگ شراب پیو مگر میں ساگ پات کھاتا ہوں اور دیکھنا کہ کس کا چہرہ زیادہ سرخ ہوتا ہے.چنانچہ جب آپ آئے تو سب سے زیادہ آپ کا چہرہ سرخ تھا.مسیح نے تورات کی شریعت بحال رکھی پوچھا گیا کہ مسیحؑ نے اپنے شاگردوں کو شریعت کے ماننے کا کیوں حکم نہ دیا؟ فرمایا کہ وہ خود شریعت کو مانتے تھے اور شاگردوں کو ماننے کے لئے فرمایا.اگر ان کے وقت میں شریعت منسوخ ہو گئی ہوتی تو یہ کیوں فرماتے کہ فریسی اور فقیہ جو موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں وہ جو کہیں سو کرو اور جو وہ کریں وہ نہ کرو.اس سے صاف معلوم ہوا کہ شریعت توریت کی بحال تھی اور انجیل میں بذاتِ خود کوئی شریعت نہیں تھی.مسیح موعود ہونے کا ذکر قرآ ن میں عرب صاحب نے سوال کیا کہ مسیح موعود کے متعلق قرآن میں کہاں کہاں ذکر ہے؟ فرمایا.سورۃ فاتحہ.سورہ نور.سورہ تحریم وغیرہ میں.سورۃ فاتحہ میں تو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ(الفاتـحۃ:۶) سورۃ نور میں وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ...الاٰیۃ (النّور:۵۶) سورۃ تحریم
میں جہاں مومنوں کی مثالیں بیان کی ہیں.ان میں فرمایا وَ مَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِيْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا(التحریم:۱۳).مقامِ مریمیّت فرمایا.اﷲ تعالیٰ نے مومنوں کو اس میں دو قسم کی عورتوں سے مثال دی ہے.اوّل فرعون کی بیوی سے اور ایک مریم سے.پہلی مثال میں یہ بتایا ہے کہ ایک مومن اس قسم کے ہوتے ہیں جو ابھی اپنے جذبات نفس کے پنجہ میں گرفتار ہوتے ہیں اور ان کی بڑی آرزو اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ خد اان کو اس سے نجات دے.یہ مومن فرعون کی بیوی کی طرح ہوتے ہیں کہ وہ بھی فرعون سے نجات چاہتی تھی مگر مجبور تھی.لیکن جو مومن اپنے تئیں تقویٰ اور طہارت کے بڑے درجہ تک پہنچاتے ہیں اور احصانِ فرج کرتے ہیں تو پھر خدا تعالیٰ ان میں عیسیٰ کی روح نفخ کر دیتا ہے.نیکی کے یہ دو مرتبے ہیں جو مومن حاصل کرسکتا ہے مگر دوسرا وہ بہت بڑھ کر ہے کہ اس میں نفخ روح ہو کر وہ عیسیٰ بن جاتا ہے یہ آیت صاف اشارہ کرتی ہے کہ اس امت میں کوئی شخص مریم صفت ہوگا کہ اس میں نفخ روح ہو کر عیسیٰ بنا دیا جاوے گا.اب کوئی عورت تو ایسی ہے نہیں اور نہ کسی عورت کے متعلق پیشگوئی ہے.اس لئے صاف ظاہر ہے کہ اس سے یہی مراد ہے کہ اس امت میں ایک ایسا انسان ہوگا جو پہلے اپنے تقویٰ و طہارت اور احصان و عفت کے لحاظ سے صفتِ مریمیّت سے موصوف ہوگا اور پھر اس میں نفخ روح ہو کر صفات عیسوی پیدا ہوں گی.اب اس کی کیفیت اور لطافت براہین احمدیہ سے معلوم ہوگی کہ پہلے میرا نام مریم رکھا.پھر اس میں روح صدق نفخ کرکے مجھے عیسیٰ بنایا.مومنوں کی جو یہ دو مثالیں بیان کی گئی ہیں.وہ اس آیت۱ سے بھی معلوم ہوتی ہیں.۱ الحکم میں اس آیت کا ذکر رہ گیا ہے.مگر البدر میں اس کی تفصیل دی ہے جو درج ذیل ہے.’’امت کی دو ہی قسم ہیں.ایک فرعون کی بیوی اور دوسرے مریم بنت عمران اور اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے مِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ١ۚ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ١ۚ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَيْرٰتِ (فاطر: ۳۳) ظالم سے مراد وہ لوگ ہیں جو کہ نفس امارہ کے تابع ہیں کہ جس راہ پر نفس نے ڈالا اسی راہ پر چل پڑے اور وہ صُمٌّۢ بُكْمٌ (البقرۃ: ۱۹) کی طرح ہوتے ہیں اور ان کی مثال بہائم کی ہے.اس لئے کسی مد میں نہیں آسکتے اور یہ کثرت سے ہوتے ہیں.پھر ان کے
پھر اس کے متعلق آپ نے جو فرمایا.بارہا الحکم میں درج ہوا ہے.آخر اس لطیفہ پر اس کو ختم کردیا کہ مریم صفات والے کے لئے ضرور ہے کہ وہ عیسویت کے رنگ میں تبدیل ہو جاوے.اگر اس آیت میں صرف مریم کا لفظ ہوتا تو بہت سے افراد ہوسکتے تھے.مگر خدا تعالیٰ نے احصان فرج اور نفخِ روح کی قید لگا کر بتا دیا ہے کہ ایک ہی شخص ہوگا.یہ ایک استعارہ تھاجو کسی کی سمجھ میں نہ آیا.اس کے لئے یہی وقت مقدر تھا.پھر عجیب تربات یہ ہے کہ مریم، نفخ روح اور میرا نام عیسیٰ رکھنے کے الہاموں میں صرف نویا دس ماہ کا فاصلہ ہے جو کہ مدت حمل ہے.ان تمام ترقیات کا سلسلہ خدا کے ہاتھ میں ہے.کسی کو کیا خبر ہے کہ کس طرح ایک بیج زمین کے اندر کیا کیا بن کر آخر کار ایک پتّا بن جاتا ہے.۱ ٍ ۷؍جنوری ۱۹۰۳ء ظاہر وباطن میں اسلام کا نمونہ اختیار کرنا چاہیے حضرت اقدس حسب دستور سیر کے لئے تشریف لائے اور روانہ ہوتے ہی عرب صاحب نے انگریزی قطع وضع پر کچھ ذکر چھیڑا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ انسان کو جیسے باطن میں اسلام دکھلانا چاہیے ویسے ہی ظاہر میں بھی دکھلانا چاہیے.ان لوگوں کی طرح نہ ہونا چاہیے کہ جنہوں نے آج کل علیگڑھ میں تعلیم پا کر کوٹ پتلون وغیرہ سب کچھ ہی انگریزی لباس اختیار کر لیا ہے حتی کہ وہ پسند کرتے ہیں کہ ان کی عورتوں کی وضع بھی انگریزی عورتوں کی طرح ہو (بقیہ حاشیہ) بعد نفس لوامہ والے جو کہ فرعون کی بیوی ہیں.یعنی ان کو نفس ہمیشہ ملامت کرتا رہتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ امارہ سے ان کو آزادی ملے یہ کم ہوتے ہیں اور پھر ان سے کم نفس مطمئنّہ والے یعنی مریم بنت عمران.جس زمانے کا وعدہ خدا نے کیا ہوا تھا ضرور تھا کہ اس میں ایک نفس مریم کی طرح ہوتا اور اس زمانے میں خدا نے فیہ میں ضمیر مذکر کی استعمال کی ہے تاکہ اشارہ اس طرف ہو کہ ایک مَرد ہوگا جو صفات مریمیّت حاصل کرکے عیسیٰ ہوگا.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۳ مورخہ ۶؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰) ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۳مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۸تا ۱۰
اور ویسے ہی لباس وغیرہ وہ پہنیں.جو شخص ایک قوم کے لباس کو پسند کرتا ہے تو پھر وہ آہستہ آہستہ اس قوم کو اور پھر ان کے دوسرے اوضاع و اطوار اور حتی کہ مذہب کو بھی پسند کرنے لگتا ہے.اسلام نے سادگی کو پسند کیا ہے اور تکلّفات سے نفرت کی ہے.چُھری کانٹے سے کھانے پر فرمایا کہ شریعت اسلام نے چُھری سے کاٹ کر کھانے سے تو منع نہیں کیا.ہاں تکلف سے ایک بات یا فعل پر زور ڈالنے سے منع کیا ہے.اس خیال سے کہ اس قوم سے مشابہت نہ ہو جاوے ورنہ یوں تو ثابت ہے کہ آنحضرتؐنے چُھری سے گوشت کاٹ کر کھایا.اور یہ فعل اس لئے کیا کہ تا امت کو تکلیف نہ ہو.جائز ضرورتوں پر اس طرح کھانا جائز ہے.مگر بالکل اس کا پابند ہونا اورتکلف کرنا (اور کھانے کے دوسرے طریقوں کو حقیر جاننا )منع ہے کیونکہ پھر آہستہ آہستہ انسان کی نوبت تتبع کی یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ ان کی طرح طہارت کرنا بھی چھوڑ دیتا ہے.مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْـھُمْ سے مراد یہی ہے کہ التزاماً ان باتوں کو نہ کرے ورنہ بعض وقت ایک جائز ضرورت کے لحاظ سے کر لینا منع نہیں ہے جیسے کہ بعض دفعہ کام کی کثرت ہوتی ہے اور بیٹھے لکھتے ہوتے ہیں تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ کھانا میز پر لگا دو اور اس پر کھا لیتے ہیں اور صف پر بھی کھالیتے ہیں.چارپائی پر بھی کھالیتے ہیں.تو ایسی باتوں میں صرف گذارہ کو مد نظر رکھنا چاہیے.تشبیہ کے معنے اس حدیث میں یہی ہیں کہ اس لکیر کو لازم پکڑ لینا.ورنہ ہمارے دین کی سادگی تو ایسی شَے ہے کہ جس پر دیگر اقوام نے رشک کھایا ہے اور خواہش کی ہےکہ کاش ان کے مذہب میں یہ ہوتی اور انگریزوں نے اس کی تعریف کی ہے اور اکثر اصول ان لوگوں نے عرب سے لے کر اختیار کئے ہیں مگر اب رسم پرستی کی خاطر وہ مجبور ہیں.ترک نہیں کرسکتے.داڑھی رکھنا انبیاء کا طریق ہے پھر عرب صاحب نے داڑھی کی نسبت دریافت کیا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ انسان کے دل کا خیال ہے بعض انگریز تو داڑھی اور مونچھ سب منڈوا دیتے ہیں وہ اسے
خوبصورتی خیال کرتے ہیں اور ہمیں اس سے ایسی سخت کراہت آتی ہے کہ سامنے ہو تو کھانا کھانے کو جی نہیں چاہتا.داڑھی کا جو طریق انبیاؤوں اور راست بازوں نے اختیار کیا ہے وہ بہت پسندیدہ ہے.البتہ اگر بہت لمبی ہو جاوے تو کٹوا دینی چاہیے.ایک مشت رہے.خدا نے یہ ایک امتیاز مَرد اور عورت کے درمیان رکھ دیا ہے.اُسترے کی مضرّت ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب نے عرض کی کہ حضور آج کل ایک کتاب پلیگ گائڈ چھپی ہے وہ کل ڈاکٹروں کے پاس روانہ کی گئی اس میں ایک ہدایت ہے کہ ان طاعون کے ایام میں داڑھی ہرگز نہ منڈوانی چاہیے.کیونکہ اگر ذرا بھی زخم ہوا.تو طاعونی مادہ اس پر بہت جلد اثر کرتا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ استروں سے بھی بعض وقت زہر اور آتشک کے امراض پیدا ہو جاتے ہیں.اس لئے ہمیشہ استرے کے استعمال کرنے میں بہت احتیاط لازم ہے اور استرے کا استعمال منہ پر تو بہت خطرناک ہے.ہاں غیر مناسب بال جیسا کہ بعض رخسار پر ہوتے ہیں یا داڑھی کے زوائد وغیرہ یہ سب کاٹ دینے چاہئیں (نہ کہ منڈوانے).پیشگوئی کی تفہیم میں احتیاط پھر حضرت اقدس نے عرب صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایاکہ رات کو جو آپ نے سوال کیا تھا وہ بے شک بہت ضروری تھا.کیونکہ ایسے ملکوں میں جہاں لوگ ناواقف ہیں سمجھانے کے لئے ضرور علم چاہیے.پھر اس مضمون کا مختصر خلاصہ حضرت نے اعادہ فرمایا کہ جو گذشتہ شب میں ہم درج کر چکے ہیں اور اس پر یہ ایزادی فرمائی کہ پیشگوئیوں کے بارے میں یہ خیال ہرگز نہ کریں کہ وہ ایسی کھلی کھلی ہوں کہ نام لے لے کر بتلایا جاوے ورنہ پھر یہی سوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوسکتا ہے اور ویسے ہی ثبوت کی ضرورت
آنحضرتؐکے دعاوی پر آپڑتی ہے.کیونکہ خدا نے توریت میں یہ تو ذکر کیا کہ آخری زمانہ میں ایک نبی ہوگا اور پھر یہ کہ تمہارے بھائیوں میں سے ہوگا.مگر یہ تصریح نہ کی کہ اسماعیل کی نسل میں ہوگا حالانکہ یہود کا بھی یہی خیال رہا کہ بنی اسرائیل سے ہوگا ورنہ کیا خدا تعالیٰ قادر نہ تھا کہ آپ کا نام آپ کے باپ کا نام، آپ کے شہر کا نام سب کچھ پہلے بتلا دیتا اور کسی کو کوئی وجہ شک کی نہ رہتی.مگر ایسے الفاظ تھے کہ ان سے اہل یہود نے فائدہ اٹھالیا.اور ان کا ابھی تک یہی مذہب ہے کہ تمہارے بھائیوں میں سے مراد یہی ہے کہ وہ بنی اسرائیل سے ہوگا.دوسری جگہ جہاں اہل یہود نے ٹھوکر کھائی ہے وہ الیاس والا مقدمہ ہے کہ انہوں نے یوحنا کو الیاس نہ مانا.غرض اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمام امور پر یکجائی نظر ڈالے اور مومن اور متقی آدمی ہو تو پھر اسے ثبوت ملتا ہے کہ ایک طرف تو قرآن اور احادیث اور سابقہ کتب ہمارے ساتھ ہیں اور ایک طرف صدہا نشان جو کہ ظاہر ہو چکے ہیں اور ان میں سے ایک سو پچاس کا ذکر نزول المسیح میں ہے.غرض یہ سنّت اﷲ ہے کہ نشانوں سے صادق شناخت کیا جاتا ہے.یہود کے لئے ابتلا کا مقام اور سچی بات یہی ہے کہ اگر وہ ہم پر اعتراض کریں تواوّل حضرت عیسٰیؑاور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور صداقت کا ثبوت پیش کریں.پھر ان سے جو کمی رہ جاوے گی وہ ہم پوری کردیویں گے.یہودیوں کو دوبار حیرت کا مقام پیش آیا.ایک تو مسیح علیہ السلام کے وقت کہ جب انہوں نے پوچھا کہ تجھ سے پیشتر آنے والا الیاس کہاں ہے؟ تو جواب دیا کہ وہ یوحنا ہے چاہو قبول کرو چاہو قبول نہ کرو اور دوسرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کہ آپ بنی اسماعیل میں سے ہوئے.بعل زبول اور مسیح کو بھی دیوانہ کہا گیا تھا چنانچہ ان کا نام منکروں نے بعل زبول رکھا تھا.بعل کے معنے رئیس اور زبول کے معنے مکھیاں جو کہ گندگی پر بیٹھتی ہیں یعنی کُل گندگیوں کا سردار.یہ ان کی سخت غلطی تھی اور مخالفت کی وجہ سے اسے کہتے تھے جیسے آنحضرتؐکو ساحر اور مجنون کہتے تھے.
قرآن کریم سے اس زمانہ کی خبر ریل وغیرہ کے ذکر پر فرمایا کہ اس زمانے میں خدا نے ہماری جماعت کو فائدہ پہنچایا ہے کہ سفر کو بہت آرام ہے ورنہ کہاں سے کہاں ٹھوکریں کھاتا ہوا انسان ایک دوسرے مقام پر پہنچتا تھا.مدراس جہاں سیٹھ عبد الرحمان ہیں اگر کوئی جاتا تو گرمیوں میں روانہ ہوتا تو سردیوں میں پہنچتا تھا.اس زمانے کی نسبت خدا نے خبرد ی ہے وَ اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ(التّکویر: ۸)کہ جب ایک اقلیم کے لوگ دوسرے اقلیم والوں کے ساتھ ملیں گے.۱ وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ(التّکویر: ۱۱) یعنی اس وقت خط و کتابت کے ذریعہ عام ہوں گے اور کتب کثرت سے دستیاب ہوسکیں گی.وَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ(التّکویر: ۵) اس وقت اونٹنیاں بے کار ہوں گی.ایک زمانہ تھا کہ یہاں ہزارہا اونٹ آیا کرتے مگر اب نام و نشان بھی نہیں ہے اور مکہ میں بھی اب نہ رہیں گے.ریل کے جاری ہونے کی دیر ہے.کسوف و خسوف اور شقّ القمر پھر عرب صاحب نے کسوف وخسوف رمضان کی نسبت دریافت کیا کہ اس کا ذکر آپ کی کتب میں بھی ہے کہ نہیں؟ فرمایا کہ یہ ایک پرانا نشان چلا آتا تھا جو کہ اس وقت پورا ہوا ہے.براہین احمدیہ میں اس کا ذکر استعارہ کے طور پر اس طرح ہے وَ اِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَ يَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ یہ میرا الہام بھی ہے اور بعض محدّثین کا مذہب یہ بھی ہے کہ شقُّ القمر بھی ایک قسم خسوف میں سے تھا.(مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے حوالہ دیا کہ عبد اﷲ ابن عباس کا بھی یہی مذہب ہے) اور شاہ عبد العزیز بھی یہی کہتے ہیں اور ہمارا اپنا مذہب بھی یہی ہے کہ از قسم خسوف تھا.کیونکہ بڑے بڑے علماء اس طرف گئے ہیں.طوفانِ نوح نوح علیہ السلام کے طوفان کی نسبت فرمایاکہ قرآن سے یہ ثابت نہیں ہے کہ کل زمین کی آبادی کو اس وقت تباہ کر دیا تھا.۱ البدر جلد ۲ نمبر ۳ مورخہ ۶؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۱
صرف نوح کی قوم پر تباہی آئی تھی.مماثلت کی حقیقت ایک شخص نے سوال کیا کہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جب مسیح ناصری کے آنے سے ختم نبوت ٹوٹتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت سے ختم نبوت نہیں ٹوٹتی؟ فرمایا کہ مسیح کا یہ دعویٰ کہاں ہے کہ جس طرح ہم اپنے آپ کو امت محمدیہ میں اور پھر آنحضرتؐکی اتباع میں فنا شدہ کہتے ہیں انہوں نے بھی کہا ہو.وہ تو حضرت موسیٰ کی شریعت پر عمل کرنے والے تھے اور مماثلت کا سلسلہ چاہتا ہے کہ کوئی اور ہی آوے وہ نہ آویں.مماثلت کے یہ معنے نہیں ہیں کہ بالکل اس کا عین ہو.جیسے کسی کو شیر کہیں تو اب اس کے لئے دم تجویز کریں اور پھر گوشت کا کھانا بھی.خدا کے کلام میں استعارات ہوا کرتے ہیں مثلاً کسی کو کہا جاوے کہ اس نے ایک رکابی چاولوں کی کھائی تو اس کے یہ معنے نہ ہوں گے کہ وہ رکابی کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کرکے کھاگیا.مماثلت میں صرف بعض پہلوئوں میں تشابہ ہوتا ہے جیسے آنحضرتؐکو مثیلِ موسیٰ کہا کہ جیسے موسیٰ نے اپنی قوم کو فرعون سے چھڑایا آنحضرتؐنے بھی اپنی قوم کو طاغوت اور بتوں سے رہائی دلوائی.مشابہت میں ہو بہو عین نہیں ہوتا.ورنہ وہ تو پھر حقیقت ہوگی نہ کہ مشابہت.قادیان عرب صاحب نے ادھر ادھر غیر آبادی کو دیکھ کر عرض کی کہ یہ صرف حضور ہی کا دم ہے کہ جس کی خاطر اس قدر انبوہ ہے ورنہ اس غیر آباد جگہ میں کون اور کب آتا.فرمایا کہ اس کی مثال مکہ کی ہے کہ وہاں بھی عرب لوگ دور دراز جگہوں سے جا کر مال وغیرہ لاتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر کھاتے ہیں.اسی کی طرف اشارہ ہے اس سورۃ میں لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ اٖلٰفِهِمْ.(قریش:۲) ایک اعتراض کا جواب لوگوں کے اس اعتراض پر کہ جو شخص لا وارث مَر جاتا ہے اس کے وارث میرزا صاحب ہو جاتے ہیں اور اس طرح سے بہت ملک املاک جمع کرتے جاتے ہیں.فرمایا کہ والد صاحب ایسے دنیاوی کاموں میں مجھے مامور کر دیا کرتے تھے اور ان کے حکم اور
رضا مندی کے لئے اکثر مجھے عدالتوں وغیرہ میں بھی جانا پڑتا تھا.جب سے والد صاحب فوت ہو گئے ہیں کیا کسی نے دیکھا ہے کہ ہم نے ان باتوں میں سے کوئی حصہ لیا ہے.حالانکہ ہمیں حق پہنچتا ہے کہ اگر چاہیں تو لیویں.(بین المغرب و العشاء) سیرت مسیح موعود کی چند باتیں حضور نے نماز ادا کرکے مجلس کی اور ایک دو مختلف ذکروں کے بعد میاں احمد دین صاحب از گوجرانوالہ نے عرض کی کہ اگر جناب ٹھیک ٹھیک پتر یہاں سے روانگی کا فرما دیں تو کچھ کھانے پینے کا انتظام کرکے گوجرانوالہ پر حاضر رہوں.خدا کے برگزیدہ نے فرمایا کہ ہمیں تو خدا ہی لے جاتا ہے.اسی کے حکم سے جانا ہے.ابھی کیا معلوم کس وقت روانہ ہونا ہے.انسان بہت عاجز اور ہیچ ہے.خدا ہی کے ساتھ وہ جاتا ہے اور خدا ہی کے ساتھ وہ آتا ہے.دیگر احباب نے عرض کی کہ ایک اور صاحب نے راستہ کی خوراک کا انتظام کر لیا ہے اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ دل میں جو اخلاص ہے اس کا ثواب آپ پالیویں گے.کیونکہ اب دعوت آپ کی طرف سے تو پیش ہو گئی.علالت طبع پر فرمایا کہ اب دو تین دن سیر بند رہے گی.کیونکہ آج کل بارشیں نہیں ہوئیں.اس لئے راستہ میں خاک بہت اڑتی ہے اور اسی سے میں بیمار بھی ہو گیا تھا.ایک صاحب نے کہا کہ چونکہ لوگ حضور کے آگے آگے چلتے ہیں.اس لئے خاک بہت اڑ کرآپ پر پڑتی ہے.لیکن اس مجسم رحم انسان نے جواب دیا کہ نہیں.بارش کے نہ ہونے سے یہ تکلیف ہے.(اﷲ اﷲ کیا رحم ہے اور حسن ظن ہے کہ اپنے احباب کو ہرگز ملزم نہیں ٹھہراتے )
سلسلہ کی تصنیفات تصنیفات کے ذکر پر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ ہمارے مخالف ہزاروں ہی ہیں اور ان کے مقابل میں ہماری جماعت بہت قلیل ہے.مگر ہماری طرف سے جس قدر تازہ بتازہ کتابیں کثرت سے نکل رہی ہیں.ان کی طرف سے معدودے چند بھی نہیں نکلتیں اور کوئی نکلتی بھی ہے تو اس میں گالیاں ہی ہوتی ہیں جو ان کے لئے شرم کی جگہ ہے.یہود اور نصاریٰ کی افراط اور تفریط یہود اور عیسائیوں کی نسبت فرمایا کہ ان دونوں کی ضدیں ہیں.ایک نے بڑھا دیا ہے ایک نے گھٹا دیا ہے.ان کی مثال رافضیوں اور خارجیوں سے خوب ملتی ہے.جیسے یہودی کے آگے عیسائی نہیں ٹھہرتے ایسے ہی خارجی کے آگے رافضی نہیں ٹھہرتا.۱ ۸؍جنوری ۱۹۰۳ء بروز پنجشنبہ جماعت کے لئے ضروری نصائح نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد جناب شیخ نور احمد صاحب پلیڈر ایبٹ آباد اور سید عابد علی شاہ صاحب بدوملہی اور ایک اور صاحب نے بیعت کی.بعد بیعت کے حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ اس پُر آشوب زمانہ میں جب کہ ہر طرف ضلالت، غفلت اور گمراہی کی ہوا چل رہی ہے وہ تقویٰ اختیار کریں.دنیا کا یہ حال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے احکام کی عظمت نہیں ہے.حقوق اور وصایا کی پروا نہیں ہے.دنیا اور اس کے کاموں میں حد سے زیادہ انہماک ہے.ذرا سا نقصان دنیا کا ہوتا دیکھ کر دین کے حصے کو ترک کر دیتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے حقوق ضائع کر دیتے ہیں.جیسے کہ یہ سب باتیں مقدمہ بازیوں اور شرکاء کے ساتھ تقسیم حصص میں دیکھی جاتی ہیں.لالچ کی نیت سے ایک دوسرے سے پیش آتے ہیں.نفسانی جذبات کے مقابلہ میں بہت کمزور ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۴مورخہ ۱۳؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۶
ہوئے ہوئے ہیں.اس وقت تک کہ خد انے ان کو کمزور کر رکھا ہے گناہ کی جرأت نہیں کرتے مگر جب ذرا کمزوری دفع ہوئی اور گناہ کا موقع ملا تو جھٹ اس کے مرتکب ہوتے ہیں.آج اس زمانہ میں ہر ایک جگہ تلاش کر لو تو یہی پتا ملے گا کہ گویا سچا تقویٰ بالکل اٹھ گیا ہوا ہے اور سچا ایمان بالکل نہیں ہے.لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور ہے کہ ان کا (سچا تقویٰ اور ایمان ) تخم ہرگز ضائع نہ کرے.جب دیکھتا ہے کہ اب فصل بالکل تباہ ہونے پر آئی ہے تو اور فصل پید اکر دیتا ہے.وہی تازہ بتازہ قرآن موجود ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کہا تھا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر: ۱۰) بہت سا حصہ احادیث کا بھی موجود ہے اور برکات بھی ہیں مگر دلوں میں ایمان اور عملی حالت بالکل نہیں ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے اسی لئے مبعوث کیا ہے کہ یہ باتیں پھر پیدا ہوں.خدا نے جب دیکھا کہ میدان خالی ہے تو اس کے الوہیت کے تقاضا نے ہرگز پسند نہ کیا کہ یہ میدان خالی رہے اور لوگ ایسے ہی دور رہیں اس لئے اب ان کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ ایک نئی قوم زندوں کی پیدا کرنا چاہتا ہے اور اسی لئے ہماری تبلیغ ہے کہ تقویٰ کی زندگی حاصل ہو جاوے.صرف ترکِ شر کافی نہیں آدمی کئی قسم کے ہیں بعض ایسے کہ بدی کرکے پھر اس پر فخر کرتے ہیں.بھلا یہ کون سی صفت ہے کہ جس کے اوپر ناز کیا جاوے.شر سے اس طرح پرہیز کرنا نیکی میں داخل نہیں ہے اور نہ اس کا نام حقیقی نیکی ہے کیونکہ اس طرح تو جانور بھی سیکھ سکتے ہیں.میاں حسین بیگ تاجر ایک شخص تھا اس کے پاس ایک کتّا تھا وہ اسے کہہ جاتا کہ روٹی کو دیکھتا رہ تو وہ روٹی کی حفاظت کرتا.اسی طرح ایک بلّی کو سنا ہے کہ اسے بھی ایسے ہی سکھایا ہوا تھا.جب بعض لوگوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے امتحان کرنا چاہا.اور ایک کوٹھڑی کے اندر حلوہ، دودھ اور گوشت وغیرہ ایسی چیزیں رکھ کر جس پر بلّی کو ضرور لالچ آوے اس بلّی کو وہاں چھوڑ کر دروازہ کو بند کر دیا کہ دیکھیں اب وہ ان اشیاء میں سے کھاتی ہے کہ نہیں.پھر جب ایک دو دن بعد کھول کر دیکھا تو ہر ایک شَے اسی طرح پڑی تھی اور بلّی مَری ہوئی تھی اور اس نے کسی شَے کو ہلایا تک بھی نہ تھا.اس لئے اب شرم کرنی چاہیے کہ انہوں نے حیوان ہو کر انسان کا حکم ایسا مانا اور یہ انسان
ہو کر خدا کے حکم کو نہیں مانتا.نفس کو تنبیہ کرنے کے واسطے ایسی ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور بہت سے وفادار کتّے بھی موجود ہیں مگر افسوس اس کے لئے ہے کہ جو کتّے جتنا مرتبہ بھی نہیںرکھتا تو بتلاوے کہ پھر وہ خدا سے کیا مانگتا ہے؟ انسان کو تو خدا نے وہ قویٰ عطا کئے ہیں کہ اور کسی مخلوق کو عطا نہیں کئے.شر سے پرہیز کرنے میں تو بہائم بھی اس کے شریک ہیں.بعض گھوڑوں کو دیکھا ہے کہ چابک آقا کے ہاتھ سے گر پڑی تو منہ سے اٹھا کر اسے دیتے ہیں اور اس کے کہنے سے لیٹتے ہیں اور بیٹھتے ہیں اور اٹھتے ہیں اور پوری اطاعت کرتے ہیں تو یہ انسان کا فخر نہیں ہوسکتا کہ چند گنے ہوئے گناہ ہاتھ پائوں وغیرہ دیگر اعضا کے جو ہیں ان سے بچا رہے.جو لوگ ایسے گناہ کرتے ہیں وہ تو بہائم سیرت ہیں جیسے کتوں بلیوں کا کام ہے کہ ذرا برتن ننگا دیکھا تو منہ ڈال لیا اور کوئی کھانے کی شَے ننگی دیکھی تو کھا لی.تو ایسے انسان کتّے بلّی کے سے ہی ہوتے ہیں انجام کار پکڑے جاتے ہیں.جیل خانوں میں جاتے ہیں جا کر دیکھو تو ایسے مسلمانوں سے زندان بھرے ہوئے ہیں.؎ حضرت انساں کہ حد مشترک را جامع است می تواند شد مسیحا می تواند شد خرے دنیا کےلئے کوشش حدّ ِاعتدال تک ہو تو اب یہ موقع ہے اور خدا تعالیٰ کی لہروں کے دن ہیں یعنی جیسے بعض زمانہ خد اکی رحمت کا ہوتا ہے کہ اس میں لوگ قوت پاتے ہیں ایسے ہی یہ وقت ہے.ہم یہ نہیں کہتے کہ بالکل دنیا کے کاروبار چھوڑ دیوے بلکہ ہمارا منشا یہ ہے کہ حدّ اعتدال تک کوشش کرے اور دنیا کو اس نیت سے کماوے کہ وہ دین کی خادم ہو مگر یہ ہرگز روا نہیں ہے کہ اس میں ایسا انہماک ہو جاوے کہ دین کا پہلو ہی بھول ہی جاوے نہ روزہ کی خبر ہے نہ نماز کی.جیسے کہ آج کل لوگوں کی حالت دیکھی جاتی ہے.مثال کے طور پر دلی کا جلسہ ہی اب دیکھ لو کہ جہاں کہتے ہیں کہ پندرہ لاکھ آدمی جمع ہوا ہے.میراتصور تو یہی ہے کہ وہ سارے دنیا پرست ہیں.حدیث میں آیا ہے کہ سب سے زیادہ خدا سے نفرت دلانے والے سلاطین ہی ہیں کیونکہ یہ مثل ایک بڑی دیوی کے ہوتے ہیں جس قدر ان کا
قرب زیادہ ہوتا ہے.اتنا ہی قلب سخت ہوتا ہے.ہم کسی کو تجارت سے منع نہیں کرتے کہ وہ بالکل ترک کر دیوے مگر یہ کہتے ہیں کہ وہ ذرا سوچیں اور دیکھیں کہ ان کے باپ دادا کہاں ہیں؟ بڑے بڑے عزیز انسان کے ہوا کرتے ہیں اور کس طرح وہ ان کے ہاتھوں میں ہی اٹھ جایا کرتے ہیں اور موت کس طرح آپس میں تفرقہ ڈال دیتی ہے.؎ سال دیگر را کہ می داند حساب یا کجا رفت آں کہ با ما بود پار اب طاعون کی بلا سروں پر ہے کہتے ہیں کہ اس کی میعاد ستّر ستّر برس ہوا کرتی ہے اور اس کے آگے کوئی حیلہ پیش نہیں جاتا سب فضول ہوا کرتے ہیں اور اسی لئے آئی ہے کہ خد اکے وجود کو منوا دیوے.سو اس کا وجود برحق ہے اور خد اکی بلا سے سوائے خدا کے کوئی بچا نہیں سکتا.سچی تقویٰ اختیار کرو کہ خدا تعالیٰ تم سے راضی ہو.جب شریر گھوڑے کی طرح انسان ہوتا ہے تو ماریں کھاتا ہے اور جو خاص لوگ ہیں وہ اشارہ سے چلتے ہیں جیسے سدھا ہوا گھوڑا اشارہ سے چلتا ہے ان کو وحی اور الہام ہوتے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ وحی کے معنے اشارہ کے بھی لکھے ہیں.مگر جب مار کھانے کا زمانہ گذرجاتا ہے تو پھر وحی کا زمانہ آتا ہے اور یہ بات ضروری ہے کہ یہ مرحلہ سہولت سے طے نہیں ہوتا.کیونکہ تقویٰ ایسی شَے نہیں ہے جو کہ صرف منہ سے انسان کو حاصل ہو جاوے بلکہ یہ کہ شیطانی گناہ کا کوئی حصہ دار ہے.اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ذرا سی شیرینی رکھ دیں تو بے شمار چیونٹیاں اس پر آجاتی ہیں.یہی حال شیطانی گناہوں کا ہے اور اسی سے انسانی کمزوری کا حال معلوم ہوتا ہے.اگر خدا چاہتا تو ایسی کمزوری نہ رکھتا.ہر طاقت کا سرچشمہ خدا تعالیٰ ہے مگر خدا تعالیٰ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اس بات کا علم ہو کہ ہر ایک طاقت کا سرچشمہ خد اہی کی ذات ہے.کسی نبی یا رسول کو یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنے پاس سے طاقت دے سکے اور یہی طاقت جب خدا کی طرف سے انسان کو ملتی ہے تو اس میں تبدیلی ہوتی ہے اس کے حاصل کرنے کے واسطے
ضروری ہے کہ دعا سے کام لیا جاوے اور نماز ہی ایک ایسی نیکی ہے کہ جس کے بجا لانے سے شیطانی کمزوری دور ہوتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے.اور شیطان چاہتا ہے کہ انسان اس میں کمزور رہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس قدر اصلاح اپنی کرے گا وہ اسی ذریعہ سے کرے گا.پس اس کے واسطے پاک صاف ہونا شرط ہے.جب تک گندگی انسان میں ہوتی ہے اس وقت تک شیطان اس سے محبت کرتا ہے.دعا کے آداب خدا تعالیٰ سے مانگنے کے واسطے ادب کا ہونا ضروری ہے اور عقلمند جب کوئی شَے بادشاہ سے طلب کرتے ہیں تو ہمیشہ آداب کو مد نظر رکھتے ہیں.اسی لئے سورۂ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے کہ کس طرح مانگا جاوے اور اس میں دکھایا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ یعنی سب تعریف خد اکو ہی ہے جو رب ہے سارے جہان کا.الرَّحْمٰنِ یعنی بلا مانگے اور سوال کئے کے دینے والااور الرَّحِيْمِ یعنی انسان کی سچی محنت پر ثمراتِ حسنہ مرتّب کرنے والا ہے.مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ جزا سزا اسی کے ہاتھ میں ہے.چاہے رکھے چاہے مارے.اور جزا وسزا آخرت کی بھی ہے اور اس دنیا کی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے جب اس قدر تعریف انسان کرتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ کتنا بڑا خد اہے جو کہ رب ہے.رحمٰن ہے.رحیم ہے.اب تک اسے غائب مانتا چلا آرہا ہے اور پھر اسے حاضر ناظر جان کر پکارتا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ یعنی ایسی راہ جو کہ بالکل سیدھی ہے اس میں کسی قسم کی کجی نہیں ہے.ایک راہ اندھوں کی ہوتی ہے کہ محنتیں کرکرکے تھک جاتے ہیں اور نتیجہ کچھ نہیں نکلتا اور ایک وہ راہ کہ محنت کرنے سے اس پر نتیجہ مرتّب ہوتا ہے.پھر آگے صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تونے انعام کیا اور وہ وہی صـراط المستقیم ہے جس پر چلنے سے انعام مرتّب ہوتے ہیں.پھر غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ نہ ان لوگوں کی راہ جن پر تیرا غضب ہوا.اور وَ لَا الضَّآلِّيْنَ اور نہ ان کی جو دور جا پڑے ہیں.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ سے کل دنیا اور دین کے کاموں کی راہ مراد ہے.مثلاً ایک طبیب
جب کسی کا علاج کرتا ہے تو جب تک اسے ایک صراط مستقیم ہاتھ نہ آوے علاج نہیں کرسکتا.اسی طرح تمام وکیلوں اور ہر پیشہ اور علم کی ایک صراط مستقیم ہے کہ جب وہ ہاتھ آجاتی ہے تو پھر کام آسانی سے ہوجاتا ہے.اس مقام پر ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ انبیاء کو اس دعا کی کیوں ضرورت تھی وہ تو پیشتر ہی سے صراط مستقیم پر ہوتے ہیں؟ تلمیذ الرحمٰن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ یہ دعا ترقی مراتب اور درجات کے لئے طلب کرتے ہیں بلکہ یہ اِهْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ توآخرت میں مومن بھی مانگیں گے کیونکہ جیسے اﷲ تعالیٰ کی کوئی حد نہیں ہے اسی طرح اس کے پاس درجات اور مراتب کی ترقی کی بھی کوئی حد نہیں ہے.۱ تقویٰ کی حقیقت (پھر اصل مضمون تقویٰ پر فرمایا کہ) متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلفِ حقوق، ریا، عُجب، حقارت، بخل کے ترک میں پکا ہو تو اخلاق رذیلہ سے پرہیز کرکے ان کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے.(اس کے لئے حضرت اقدس کی تصنیف اسلام کی فلاسفی اور کشتی نوح مطالعہ کرنی چاہیے) لوگوں سے مروّت، خوش خلقی، ہمدردی سے پیش آوے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا وفا اور صدق دکھلاوے.خدمات کے مقام محمود تلاش کرے.ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں.وہی اصل متقی ہوتے ہیں (یعنی اگر ایک ایک خُلق فرداً فرداً کسی میں ہو تو اسے متقی نہ کہیں گے جب تک بحیثیت مجموعی اخلاقِ فاضلہ اس میں نہ ہوں) اور ایسے ہی شخصوں کے لئے لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ(البقرۃ: ۶۳)ہے.اور اس کے بعد ان کو کیا چاہیےکہ اﷲ تعالیٰ ایسوں کا متولّی ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ فرماتا ہے وَ هُوَ يَتَوَلَّى ۱ الحکم میں یہ عبارت یوں ہے.’’چونکہ اللہ تعالیٰ غیر محدود ہے اس کے فیضان و فضل بھی غیر منقطع ہیں.اس لئے وہ ان غیر محدود فضلوں کے حاصل کرنے کے لئے اس دعا کو مانگتے تھے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۳ مورخہ ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲ )
الصّٰلِحِيْنَ(الاعراف: ۱۹۷) حدیث شریف میں آیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں.ان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں.ان کے کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتے ہیں.ان کے پائوں ہو جاتا ہے جس سے وہ چلتے ہیں اور ایک اور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لئے طیار رہو.اور ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی بچہ اس کا چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے.نماز کی اہمیت خدا کی رحمت کے سر چشمہ سے فائدہ اٹھانے کا اصل قاعدہ یہی ہے اورخدا تعالیٰ کا یہ خاصّہ ہے کہ جیسے اس (انسان) کا قدم بڑھتا ہے ویسے ہی پھر خد اکا قدم بڑھتا ہے.خدا تعالیٰ کی خاص رحمتیں ہر ایک کے ساتھ نہیں ہوتیں اور اسی لئے جن پر یہ ہوتی ہیں ان کے لئے وہ نشان بولی جاتی ہیں.(اس کی نظیر دیکھ لو) کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے دشمنوں نے کیا کیا کوششیں آپ کی ناکامیابی کے واسطے کیں مگر ایک پیش نہ گئی حتی کہ قتل کے منصوبے کئے مگر آخر ناکامیاب ہی ہوئے.خدا تعالیٰ یہ تجویز پیش کرتا ہے (اس خاص رحمت کے حصول کے واسطے جو اخلاق وغیرہ حاصل کئے جاویں تو) ان امروں کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جاوے نہ کہ ہمارے سامنے.اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت اور عظمت کا سلسلہ جاری رکھیں اور اس کے لئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی شَے نہیں ہے.کیونکہ روزے تو ایک سال کے بعد آتے ہیں.اور زکوٰۃ صاحبِ مال کو دینی پڑتی ہے مگر نماز ہے کہ ہر ایک (حیثیت کے آدمی) کو پانچوں وقت ادا کرنی پڑتی ہے اسے ہرگز ضائع نہ کریں.اسے بار بار پڑھو اور اس خیال سے پڑھو کہ میں ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑا ہوں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کر لیوے.اُسی حالت میں بلکہ اسی ساعت میں بلکہ اُسی سیکنڈمیں.کیونکہ دوسرے دنیاوی حاکم تو خزانوں کے محتاج ہیں اور ان کو فکر ہوتی ہے کہ خزانہ خالی نہ ہو جاوے اور ناداری کا ان کو فکر لگا رہتا ہے مگر خدا تعالیٰ کا خزانہ ہر وقت بھرا بھرایا ہے.جب اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو صرف یقین کی حاجت ہوتی ہے کہ اسے اس اَمر پر
یقین ہو کہ میں ایک سمیع، علیم اور خبیر اور قادر ہستی کے سامنے کھڑا ہوا ہوں اگر اسے مہر آجاوے تو ابھی دے دیوے.بڑی تضرع سے دعا کرے.ناامید اور بدظن ہرگز نہ ہووے اگر اس طرح کرے تو (اس راحت کو) جلدی دیکھ لیوے گا اور خدا تعالیٰ کے اَور اَور فضل بھی شاملِ حال ہوں گے اور خود خدا بھی ملے گا تو یہ طریق ہے جس پر کاربند ہونا چاہیے مگر ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے لاپروا ہے اور خدا تعالیٰ بھی اس سے لاپروا ہے.ایک بیٹا اگر باپ کی پروا نہ کرے اور ناخلف ہو تو باپ کو اس کی پروا نہیں ہوتی تو خد اکو کیوں ہو.دعا اور ابتلا ایک صاحب نے عرض کی کہ بلعم باعور کی دعا کیوں قبول ہوئی تھی؟ فرمایا.وہ ابتلا تھا دعا نہ تھی آخر وہ مارا ہی گیا.دعا وہ ہوتی ہے جو کہ خدا کے پیارے کرتے ہیں ورنہ یوں تو خدا تعالیٰ ہندوئوں کی بھی سنتا ہے اور بعض ان کی مرادیں پوری ہو جاتی ہیں مگر ان کا نام ابتلا ہے دعا نہیں ہے مثلاً اگر خدا سے کوئی روٹی مانگے تو کیا نہ دے گا؟ اس کا وعدہ ہے مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا (ھود: ۷) کتّے بلّی بھی تو اکثر پیٹ پالتے ہیں اور کیڑوں مکوڑوں کو بھی رزق ملتا ہے مگر اصْطَفَيْنَا (فاطر: ۳۳)کا لفظ خاص موقعوں کے لئے ہے.مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت یہاں تک تقریر حضرت اقدس نے مبائعین کے واسطے کی جن میں سے ایک توشیخ نور احمد پلیڈر اور دوسرے عابد علی شاہ صاحب بدوملہی تھے.اس کے بعد حضور انور نے پھر ابوسعید عرب صاحب کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ نے جو ثبوت مسیحیت کے دعویٰ کے بارے میں پوچھا تھا یہ بہت ضروری بات تھی اور اس کو خوب یاد رکھنا چاہیے.اگر آپ سے کوئی ان ممالک (ملک برہما) میں پوچھے کہ ہماری صداقت کا کیا ثبوت ہے تو مختصر طور پر یہی جواب دینا چاہیے کہ وہی ثبوت ہے جو کہ موسٰی اور عیسیٰ علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے ہونے کا ہے تمام انبیاء کی صداقت کے دو ہی ثبوت ہوتے ہیں.اوّل.کتب سابقہ میں ان کا ذکر مگر وہ استعارہ کے رنگ میں ضرور ہوتا ہے اور اس میں ایک پہلو ٹھوکر کا
بھی ہوتا ہے جیسے یہود کو دھوکا لگا ہے کہ آنحضرتؐکو تو بنی اسرائیل میں سے آنا چاہیے تھا بنی اسماعیل میں سے کیوں ہوئے اور پھر اسی طرح مسیحؑ کے وقت الیاس کے منتظر رہے.ان معاملوں میں اب تک جھگڑتے ہیں اور یہ سب ان کی بکواس ہے.اسی طرح ہمارا ذکر کتب سابقہ میں ہے.اگر کوئی ہم سے بھی اسی طرح بکواس سے جھگڑا کرے تو انہی میں سے ہوگا.دوسرا ثبوت نشانات ہیں جن سے بہت صفائی سے استنباط ہوتا ہے وہی ثبوت ہمارے ساتھ بھی ہے اور جس قاعدہ سے خدا تعالیٰ نے یہ نشانات دکھلائے ہیں اگر اسی طرح شمار کریں تو یہ بیس لاکھ سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں.کیونکہ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ اور یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ کے تحت میں آکر ہر ایک شخص جو ہمارے پاس آتا ہے اور ہر ایک ہدیہ اور نذر جو پیش ہوتی ہے ایک ایک نشان الگ الگ ہے مگر ہم نے صرف نشان ایک سو پچاس نزول المسیح میں درج کئے ہیں جس کے ہزارہا گواہ موجود ہیں.پھر دیکھو کہ یہ کس وقت کی خبر ہے.قرآن کی نصوص، حدیث کی اخبار اور مکاشفات اور رؤیا وغیرہ سب ہماری تائید میں ہے، پھر اس کے علاوہ خدا تعالیٰ کے نشانات.پھر زمانہ کی موجودہ ضرورت یہ سب ثبوت پیش کرنے کے قابل ہیں.اس وقت خدا کا منشا ہے کہ لوگوں کو غلطیوں سے نکالے اور تقویٰ پر قائم کرے.خدا تعالیٰ جس جس کو چاہے گا بلا تا جاوے گا.یہ اس کی طرف سے ایک دعوت ہے جو بلایا جاتا ہے اسے فرشتے کھینچ کھینچ کر لے آتے ہیں.۱ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۳ء مولوی ثناء اﷲ صاحب کا قادیان آنا عصر کے وقت خدا کے برگزیدہ حضرت مسیح موعودؑکو یہ خبر ہوئی کہ مولوی ثناء اﷲ امرتسری قادیان ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخہ ۱۳؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۶تا ۲۹
حضرت نے فرمایا کہ صبح کو دیا جائے گا.قاصد نے پوچھا کہ میں آکر جواب لے جائوں یا آپ بذریعہ ڈاک روانہ کریں گے.حضرت اقدس نے فرمایا.خواہ تم لے جائو خواہ ثناء اﷲ آکر لے جائے.پھر آپ نے قاصد کا نام پوچھا.اس نے کہا محمد صدیق.۱ ۱۱؍جنوری ۱۹۰۳ء بروز یکشنبہ مولوی ثناء اﷲ کے رقعہ کا جواب فجر کی نماز کو جب حضرت اقدس تشریف لائے تو قبل از نماز آپ نے وہ رقعہ جو مولوی ثناء اﷲ صاحب کے رقعہ کے جواب میں تحریر فرمایاتھا.احباب کو سنایا.وہ رقعہ یہ تھا.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ از طرف عایذ باﷲ الصمد غلام احمد عافاہ اﷲ واید بخدمت مولوی ثناء اﷲ صاحب.آپ کا رقعہ پہنچا.اگر آپ لوگوں کی صدق دل سے یہ نیت ہو کہ اپنے شکوک و شبہات پیشگوئیوں کی نسبت یا ان کے ساتھ اور امور کی نسبت بھی جو دعویٰ سے تعلق رکھتے ہوں، رفع کراویں تو یہ آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہوگی اور اگرچہ میں کئی سال ہوئے کہ اپنی کتاب انجام آتھم میں شائع کر چکا ہوں کہ میں اس گروہ مخالف سے ہرگز مباحثات نہ کروں گا کیونکہ اس کا نتیجہ بجز گندی گالیوں اور اوباشانہ کلمات سننے کے اور کچھ نہیں ہوا مگر میں ہمیشہ طالب حق کے شبہات دور کرنے کے لئے طیار ہوں.اگر چہ آپ نے اب بھی اس رقعہ میں دعویٰ تو کر دیا ہے کہ میں طالب حق ہوں مگر مجھے تأمل ہے کہ اس دعوے پر آپ قائم رہ سکیں.کیونکہ آپ لوگوں کی عادت ہے کہ ایک بات کو کشاں کشاں بے ہودہ اور اَور مباحثات کی طرف لے آتے ہیں اور میں خدا تعالیٰ کے سامنے وعدہ ۱ البدر جلد ۱نمبر ۱۲ مورخہ ۱۶؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۳
کر چکا ہوں کہ ان لوگوں سے مباحثات ہرگز نہیں کروں گا.سو وہ طریق جو مباحثات سے بہت دور ہے وہ یہ ہے کہ آپ اس مرحلہ کو صاف کرنے کے لئے اوّل یہ اقرار کریں کہ آپ منہاج نبوت سے باہر نہیں جاویں گے.اور وہی اعتراض کریں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یا حضرت عیسٰیؑ پر یا حضرت موسٰی پر یا حضرت یو نسؑ پر عائد نہ ہوتا ہو اور حدیث اور قرآن کی پیشگوئیوں پر زد نہ ہو.دوسری شرط یہ ہوگی کہ آپ زبانی بولنے کے ہرگز مجاز نہ ہوں گے.صرف آپ مختصر ایک سطر یا دوسطر تحریر دے دیں کہ میرا یہ اعتراض ہے.پھر آپ کو عین مجلس میں مفصل جواب سنایا جائے گا.اعتراض کے لئے لمبا لکھنے کی ضرورت نہیں ایک سطر یا دو سطر کافی ہیں.تیسری یہ شرط ہوگی کہ ایک دن میں صرف ایک ہی آپ اعتراض پیش کریں گے کیونکہ آپ اطلاع دے کر نہیں آئے.چوروں کی طرح آگئے اور ہم ان دنوں میں بباعث کم فرصتی اور کام طبع کتاب کے تین گھنٹہ سے زیادہ خرچ نہیں کرسکتے.یاد رہے یہ ہرگز نہ ہوگا کہ عوام کالانعام کے روبرو آپ واعظ کی طرح ہم سے گفتگو شروع کر دیں بلکہ آپ نے بالکل منہ بند رکھنا ہوگا.جیسے صُمٌّۢ بُكْمٌ.یہ اس لئے کہ تا گفتگو مباحثہ کے رنگ میں نہ ہو جاوے.اوّل صرف ایک پیشگوئی کی نسبت سوال کریں.میں تین گھنٹہ تک اس کا جواب دے سکتا ہوں اور ایک ایک گھنٹہ کے بعد آپ کو متنبہ کیا جائے گاکہ اگر ابھی تسلّی نہیں ہوئی تو اور لکھ کر پیش کرو.آپ کا کام نہیں ہوگا کہ اس کو سناویں ہم خود پڑھ لیں گے.مگر چاہیے کہ دو تین سطر سے زیادہ نہ ہو.اس طرز میں آپ کا کچھ حرج نہیں ہے کیونکہ آپ تو شبہات دور کرانے آئے ہیں.یہ طریق شبہات دور کرانے کا بہت عمدہ ہے.میں بآواز بلند لوگوں کو سنادوں گا کہ اس پیشگوئی کی نسبت مولوی ثناء اﷲ صاحب کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا ہے اور اس کا یہ جواب ہے.اس طرح تمام وساوس دور کر دیئے جاویں گے لیکن اگر چاہو کہ بحث کے رنگ میں آپ کو بات کا موقع دیا جاوے تو یہ ہرگز نہیں ہوگا.۱۴؍جنوری ۱۹۰۳ء تک میں اس جگہ ہوں.بعد میں ۱۵؍ جنوری ۱۹۰۳ء کو ایک مقدمہ پر جہلم جائوں گا.سو اگرچہ بہت کم فرصتی ہے.لیکن ۱۴؍جنوری تک تین گھنٹہ تک آپ کے لئے
خرچ کرسکتا ہوں.اگر آپ لوگ کچھ نیک نیتی سے کام لیویں تو یہ ایسا طریق ہے کہ اس سے آپ کو فائدہ ہوگا.ورنہ ہمارا اورآپ لوگوں کا آسمان پر مقدمہ ہے خود خدا تعالیٰ فیصلہ کرے گا.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی.سوچ کر دیکھ لو کہ یہ بہتر ہوگا کہ آپ بذریعہ تحریر جو سطر دو سطر سے زیادہ نہ ہوایک ایک گھنٹہ کے بعد اپنا شبہ پیش کرتے جائیں گے اور میں وہ وسوسہ دور کرتا جائوں گا.ایسے ہی صدہا آدمی آتے ہیں اور وسوسہ دور کرا لیتے ہیں.ایک بھلا مانس شریف آدمی ضرور اس بات کو پسند کرے گا.اس کو اپنے وساوس دور کرانے ہیں اور کچھ غرض نہیں لیکن وہ لوگ جو خدا سے نہیں ڈرتے ان کی تو نیتیں ہی اور ہوتی ہیں.میرزا غلام احمد (مہر) اور فرمایا کہ یہ طریق بہت امن کا ہے.اگر یہ نہ کیا جاوے تو بدامنی اور بد نتیجہ کا اندیشہ ہے.پھر فرمایا کہ ایک رئویا ابھی فجر کو میں نے ایک خواب دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے.اس کے ایک طرف کچھ اشتہار ہے اور دوسری طرف ہماری طرف سے لکھا ہوا ہے جس کا عنوان یہ ہے بَقِیَّۃُ الطَّاعُوْنِ.اس کے بعد فجر کی نماز ادا ہوئی تو حضرت اقدس نے قلم دوات طلب فرمائی اور کہا کہ کچھ تھوڑا سا اور اس رقعہ پر لکھنا ہے.اتنے میں مولوی ثناء اﷲ صاحب کے قاصد پھرآموجود ہوئے اور جواب طلب کیا.حضرت نے فرمایا کہ ابھی لکھ کر دیا جاتا ہے.پھر بقیہ حصہ آپ نے لکھ کر اپنے خدام کے حوالہ کیا کہ اس کی نقل کرکے روانہ کردو.وہ حصہ رقعہ کا یہ ہے.بالآخر اس غرض کے لئے اب آپ اگر شرافت اور ایمان رکھتے ہیں تو قادیان سے بغیر تصفیہ کے خالی نہ جاویں.دو قسموں کا ذکر کرتا ہوں (۱) اوّل چونکہ میں انجام آتھم میں خد اسے قطعی عہد کر چکا
ہوں کہ ان لوگوں سے کوئی بحث نہیں کروں گا.اس وقت پھر اسی عہد کے مطابق قسم کھاتا ہوں کہ میں زبانی آپ کی کوئی بات نہیں سنوں گا.صرف آپ کو یہ موقع دیا جاوے گا کہ آپ اوّل ایک اعتراض جو آپ کے نزدیک سب سے بڑا اعتراض کسی پیشگوئی پر ہوایک سطر یا دو سطر یا حد تین سطر تک لکھ کر پیش کریں جس کا یہ مطلب ہو کہ یہ پیشگوئی پوری نہ ہوئی اور منہاج نبوت کی رو سے قابل اعتراض ہے اور پھر چپ رہیں اور میں مجمع عام میں اس کا جواب دوں گا جیسا کہ مفصل لکھ چکا ہوں.پھر دوسرے دن دوسری پیشگوئی اسی طرح لکھ کر پیش کریں.یہ تو میری طرف سے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس سے باہر نہیں جائوں گا اور کوئی زبانی بات نہیں سنوں گا اور آپ کی مجال نہیں ہوگی کہ ایک کلمہ بھی زبانی بول سکیں اور(۲) آپ کو بھی خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اگر آپ سچے دل سے آئے ہیں تو اس کے پابند ہو جاویں اور ناحق فتنہ و فساد میں عمر بسر نہ کریں.اب ہم دونوں میں سے ان دونوں قسموں سے جو شخص اعراض کرے گا اس پر خدا کی لعنت ہو اور خدا کرے کہ وہ اس لعنت کا پھل بھی اپنی زندگی میں دیکھ لے.آمین.سو میں اب دیکھوں گا کہآپ سنّت نبویہ کے موافق اس قسم کو پوری کرتے ہیں یا قادیان سے نکلتے ہوئے اس لعنت کو ساتھ لے جاتے ہیں.اور چاہیے کہ اوّل آپ مطابق اس عہد مؤکدبقسم کے آج ہی ایک اعتراض دو تین سطر کا لکھ کر بھیج دیں اور پھر وقت مقرر کرکے مسجد میں مجمع کیا جاوے گا اور آپ کو بتلا یا جاوے گا اور عام مجمع میں آپ کے شیطانی وساوس دور کر دیئے جاویں گے.‘‘ رقعہ دے کر آپ تشریف لے گئے اور اندر سے حضور نے کہلا بھیجا کہ رقعہ وہاں ان کو جا کر سنا دیا جاوے اور پھر ان کے حوالے کر دیا جاوے.تھوڑے عرصہ کے بعد پھر مولوی ثناء اﷲ صاحب کی طرف سے جواب الجواب آیا.۱ یہ نا معقول اور اصل بحث سے بالکل دور جواب سن کر حضرت اقدس کو بہت رنج ہوا اور آپ نے فرمایا کہ ہم نے جو اسے خدا کی قسم دی تھی اس سے فائدہ اٹھاتا یہ نظر نہیں آتا.اب خد اکی لعنت لے کر ۱ البدر جلد ۱نمبر ۱۲ مورخہ ۱۶؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۳، ۹۴
واپس جانا چاہتا ہے.جس بات کو ہم بار بار لکھتے ہیں کہ ہم مباحثہ نہیں کرتے جیسے کہ ہم انجام آتھم میں اپنا عہد دنیا میں شائع کر چکے ہیں.تو اب اس کا منشا ہے کہ ہم خدا کے اس عہد کو توڑدیویں.یہ ہرگز نہ ہوگا اور پھر اس رقعہ میں کس قدر افترا سے کام لیا گیا ہے کیونکہ جب ہم اسے اجازت دیتے ہیں کہ ہر ایک گھنٹہ کے بعد وہ دو تین سطریں ہماری تقریر پر اپنے شبہات کی لکھ دیوے تو اس طرح سے خواہ اس کی ایک دن میں تیس سطور ہو جاویں ہم کب گریز کرتے ہیں اور خواہ ایک ہی پیشگوئی پر وہ ہم سے دس دن تک سنتا رہتا اور اپنے وساوس اسی طرز سے پیش کرتا رہتا.اسے اختیار تھا.پھر ایک دوسرا جھوٹ یہ بولا ہے کہ لکھتا ہے کہ آپ مجمع پسند نہیں کرتے.بھلا ہم نے کب لکھا ہے کہ ہم مجمع پسند نہیں کرتے بلکہ ہم تو عام جلسہ چاہتے ہیں کہ تمام قادیان کے لوگ اور دوسرے بھی جس قدر ہوں جمع ہوں تاکہ ان لوگوں کی بے ایمانی کھلے کہ کس طرح یہ لوگوں کو فریب دے رہے ہیں.اگر اسے حق کی طلب ہوتی تو اسے ہمارے شرائط ماننے میں کیا دیر تھی مگر یہ بےنصیب واپس جاتا نظر آتا ہے.پھر حضور انور نے مولوی محمد احسن صاحب کو حکم دیا کہ آپ اس کا جواب لکھ دیں مجھے فرصت نہیں.میں کتاب لکھ رہا ہوں.یہ کہہ کر حضور تشریف لے گئے اور مولانا مولوی محمد احسن صاحب نے جو جواب اس رقعہ کا تحریر فرمایا اس کے بعد کوئی جواب ثناء اللہ صاحب کی طرف سے نہ آیا اور وہ دُم دبا کر قادیان سے چلے گئے.۱ ۱۲؍جنوری ۱۹۰۳ء بروز دوشنبہ(بوقتِ ظہر) اﷲ تعالیٰ کے راستے میں زمین دینے کا ایک طریق اس وقت ایک شخص نے حضرت اقدس سے عرض کی کہ میرے پاس کچھ زمین ہے.مگر ایک عرصہ سے اس کی آبادی کی کوشش کرتا ہوں لیکن کوئی کامیابی نہیں ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۱، ۲ مورخہ ۲۳، ۳۰ ؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲
ہوتی.اس لئے اب ارادہ ہے کہ اسے خدا کے نام پر احمدیہ مشن کی خدمت میں وقف کردوں.شاید اﷲ تعالیٰ اس میں آبادی کر دیوے اور وہ دین کی راہ میں کام آوے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ آپ کی نیت کا ثواب تو خدا تعالیٰ آپ کو دے گا لیکن آپ خود وہاں جا کر آبادی کریں اور اخراجات کاشت وغیرہ نکال کر پھر جو کچھ اس میں سے بچا کرے وہ اﷲ کے نام پر اس سلسلہ میں دے دیا کریں.۱ ۱۳؍جنوری ۱۹۰۳ء بروز سہ شنبہ(نماز فجر کے وقت) ابو سعید عرب صاحب نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ چونکہ جناب نے جمعرات کو روانہ ہونا ہے اور آدمی زیادہ ہوں گے اس لئے ریلوے کمروں کو ریزرو کروا لینے سے آرام ہوگا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہاں.یہ امر مناسب ہے کہ تکلیف نہ ہو.عرب صاحب نے تجویز کی کہ سیکنڈ کلاس کی نسبت میرا یہ خیال ہے کہ اگر کسی مقام پر کوئی اور احباب ملنے آویں یا ہمراہ بیٹھیں تو وہ بیٹھ نہ سکیں گے اور بعض وقت کوئی انگریز صاحب بھی آجاویں تو ان کو روکا نہیں جاتا.اللہ اللہ خدا کے برگزیدوں کو دنیاوی کاروبار سے کس قدر بے خبری ہوتی ہے.فرمایا.ہم تو اس گاڑی میں بیٹھیں گے جس میں پاخانہ ہو.عرب صاحب نے کہا کہ حضور سیکنڈ کلاس میں بھی جائے ضرور ہوتا ہے اور چونکہ آپ بڑے آدمی ہیں اور ایک فرقہ کے لیڈر ہیں جناب کو ضرور فسٹ کلاس یا سیکنڈ کلاس میں بیٹھنا چاہیے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ جانے دو ہمیں تو اس پاخانہ والی گاڑی (انٹر میڈیٹ )میں بیٹھنے کی عادت ہے.الٰہی جماعتوں میں ارتداد خاکسار ایڈیٹر نے مولوی جمال الدین صاحب سیّد والہ کی طرف سے عرض کی کہ ایک حافظ نے ان کو بلا کر بہت ناجائز ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخہ ۱۳؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۹
دھمکیاں دی ہیں اور کچھ آدمی جو بیعت میں داخل تھے ان کو بہکا کر بیعت سے توبہ کروائی ہے.مولوی صاحب نے درخواست کی ہے کہ دعا کی جاوے کہ خد اان کو نیچا دکھاوے.فرمایاکہ مرتد ہونا یہ بھی ایک سنّت اﷲ ہے.موسٰی کے وقت میں بھی مرتد ہوئے.آنحضرتؐکے وقت بھی مرتد ہوئے اور عیسٰیؑکے وقت کا تو ارتداد ہی عجیب ہے.خدا کا وعدہ ہے کہ اگر ایک جائے گا تو وہ اس کے بدلے میں ایک جماعت دےدے گا.مواہب الرحمٰن کی اشاعت چونکہ آج کل رات دن ایک عربی کتاب برائے تبلیغ زیر طبع ہے اور اس کے پروف وغیرہ دیکھے جانے میں صرف اس لئے کمال احتیاط سے کام لیا جاتا ہے کہ فرقہ مولویوں نے اب ہر ایک قسم کی بددیانتی غلط بیانی کو حضرت میرزا صاحب کے مقابلے میں جائز رکھا ہوا ہے.پروف کی صحت پر فرمایا کہ ان لوگوں کو کیا علم ہے کہ ہم کس طرح راتوں کو کام کر کرکے کتابیں چھپواتے ہیں اور پھر اگر پریس مین کی ذرا سی غلطی رہ جاوے تو ان لوگوں کو اعتراض کا موقع مل جاتا ہے حالانکہ خود محمد حسین نے میرے سامنے ایک دفعہ اشاعت السنہ کی چھپوائی پر اعتراف کیا کہ ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں.لیکن اب ان لوگوں کی حالت مسخ شدہ ہے کہاں سے کہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے.(بوقتِ ظہر) کمرہ گرم کرنے کے متعلق ہدایت قبل از نماز حضرت اقدس نے سید فضل شاہ صاحب کو یہ کہا کہ آپ کا کمرہ بہت تاریک رہتا ہے اور اس میں نم بھی زیادہ معلوم ہوتی ہے.آج کل وبائی دن ہیں.رعایت اسباب کے لحاظ سے ضروری ہے کہ وہاں آگ وغیرہ جلا کر مکان گرم کر لیا کریں.(بوقتِ مغرب) کتاب مواہب الرحمٰن اس وقت حضرت اقدس تشریف لائے تو کتاب زیر طبع کی نسبت فرمایا کہ امید ہے کہ یہ معجزہ کی طرح پھرے گی اور دلوں میں داخل ہوگی.اوّل و آخر کے سب مسائل
اس میں آگئے ہیں.خدا کی قدرت ہے.دیر کا باعث ایک یہ ہو جاتا ہے کہ لغات جو دل میں آتے ہیں پھر ان کو کتب لغت میں دیکھنا پڑتا ہے.میرا دل اس وقت گواہی دیتا ہے کہ اندر فرشتہ بول رہا ہے.جب محمد علی صاحب لکھتے ہوں گے تو ان کا بھی ایسا ہی حال ہوگا کیونکہ وہ بھی ہماری تائید میں ہی ہے.رات آدھی رات جب تک مضمون ختم نہ ہولے جاگتا رہوں گا.۱ ۱۴؍جنوری ۱۹۰۳ء بروز چہار شنبہ(بوقتِ فجر) حضرت اقدس نے تشریف لا کر فرمایا کہ میں کتاب تو ختم کر چکا ہوں.رات آدھی رات تک بیٹھا رہا.نیت تو ساری رات کی تھی مگر کام جلدی ہی ہو گیا.اس لئے سو رہا.اس کا نام مواہب الرحـمٰن رکھا ہے.(بوقتِ ظہر) ایک سَقّا کی وفات اور اس پر الہام کا انطباق ایک سقہ جو کہ حضرت اقدس کے ہاں پانی بھراکرتا تھا وہ ایک ناگہانی موت سے مَر گیا.اور اسی دن اس کی شادی تھی.اس کی موت پر آپ نے فرمایا کہ مجھے خیال آیا کہقُتِلَ خَیْبَۃً وَّزِیْدَ ھَیْبَۃً جو وحی ہوئی تھی وہ اسی کی طرف اشارہ ہے.۲ ۱۵؍جنوری ۱۹۰۳ء بروز پنجشنبہ(بوقتِ فجر) خدا کے کام کے لئے جاگنا جہاد ہے خدا کے برگزیدہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آکر فرمایا کہ رات تین بجے تک جاگتا رہا تو کاپیاں اور پروف صحیح ہوئے.مولوی عبدالکریم صاحب کی ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخہ ۱۳؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۹ ۲ البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخہ ۲۰؍ فروری۱۹۰۳ء صفحہ ۳۴
طبیعت علیل تھی وہ بھی جاگتے رہے.وہ اس وقت تشریف نہیں لا سکیں گے.یہ بھی ایک جہاد ہی تھا.(رات کو انسان کو جاگنے کا اتفاق تو ہوا کرتا ہے مگر کیا خوش وہ وقت ہے جو خد اکے کام میں گذارے ) ایک صحابی کا ذکر ہے کہ وہ جب مَرنے لگے تو روتے تھے.ان سے پوچھا گیا کہ کیا موت کے خوف سے روتے ہو؟ کہا موت کا کوئی خوف نہیں مگر یہ افسوس ہے کہ یہ وقت جہاد کا نہیں ہے.جب میں جہاد کیا کرتا تھا اگر اس وقت یہ موقع ہوتا تو کیا خوب تھا.فرمایا کہ میرے اعضا توبے شک تھک جاتے ہیں مگر دل نہیں تھکتا.وہ چاہتا ہے کہ کام کئے جائو.مولوی ثناء اﷲ کا ذکر بابو شاہ دین صاحب نے ثناء اﷲ کے آنے کا ذکر کیا فرمایا کہ آخر لعنت لے کر چلا گیا اور جو منصوبہ وہ گھڑکے لایا تھا اس میں اسے کامیابی نہ ہوئی.ہم نے اس کا ذکر اور جواب وغیرہ اس عربی کتاب میں کر دیا ہے.اب جہلم سے واپس آکر بشرط فرصت اردو میں لکھیں گے.۱ ۱۵؍جنوری ۱۹۰۳ء ۲ کو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بوقتِ سیر مندرجہ ذیل تقریر فرمائی.(ایڈیٹر) دعا اور اس کے آداب دعا بڑی عجیب چیز ہے مگر افسوس یہ ہے کہ نہ دعا کرانے والے آداب دعا سے واقف ہیں اور نہ اس زمانہ میں دعا کرنے والے ان طریقوں سے واقف، جو قبولیت دعا کے ہوتے ہیں.بلکہ اصل تو یہ ہے کہ دعا کی حقیقت ہی سے ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخہ ۲۰؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۴ ۲ ایڈیٹر صاحب الحکم کو ’’۱۵؍ جنوری ۱۹۰۳ء‘‘ کی تاریخ لکھنے میں سہو ہوا ہے یا کاتب کی غلطی سے یہ تاریخ لکھی گئی ہے.در اصل حضور علیہ السلام کی یہ تقریر جو حضور نے سیر کے دوران فرمائی کسی اور گذشتہ تاریخ کی ہے.۱۵؍ جنوری ۱۹۰۳ء کی نہیں.’’الحکم‘‘اور’’ البدر ‘‘ دونو سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ۸؍جنوری سے ۲۷؍جنوری ۱۹۰۳ء تک
بالکل اجنبیت ہو گئی ہے.بعض ایسے ہیں جو سرے سے دعا کے منکر ہیں.اور جو دعا کے منکر تو نہیں ان کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ چونکہ ان کی دعائیں بوجہ آداب الدعا سے ناواقفیت کے قبول نہیں ہوتی ہیں کیونکہ دعا اپنے اصلی معنوں میں دعا ہوتی ہی نہیں اس لئے وہ منکرین دعا سے بھی گری ہوئی حالت میں ہیں.ان کی عملی حالت نے دوسروں کو دہریت کے قریب پہنچا دیا ہے.دعا کے لئے سب سے اوّل اس اَمر کی ضرورت ہے کہ دعا کرنے والا کبھی تھک کر مایوس نہ ہو جاوے اور اﷲ تعالیٰ پر یہ سوء ظن نہ کر بیٹھے کہ اب کچھ بھی نہیں ہوگا.بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ اس قدر دعا کی گئی ہے کہ جب مقصد کا شگوفہ سر سبز ہونے کے قریب ہوتا ہے دعا کرنے والے تھک (بقیہ حاشیہ) سیر ملتوی رہی.’’الحکم‘‘ میں ۷؍ جنوری کی سیر کی جو ڈائری چھپی ہے.اس میں تو ذکر نہیں لیکن البدر میں سیر کی ڈائری میں صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ حضور نے فرمایا کہ ’’اب دو تین دن سیر بند رہے گی کیونکہ آج کل بارشیں نہیں ہوئیں.اس لئے راستہ میں خاک بہت اڑتی ہے اور اسی سے میں بیمار بھی ہوگیا تھا.‘‘(البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخہ ۱۳؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۶ ) اس کے بعد ۲۴؍ جنوری کو مغرب کے بعد جب حضور علیہ السلام مجلس میں تشریف فرما ہوئے تو فرمایا.’’اب بارش ہونے کی وجہ سے گردو غبار کم ہوگیا ایک دو دن ذرا باہر ہو آویں (یعنی سیر کو جایا کریں).‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخہ ۲۰؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۶) اس سے معلوم ہوگیا کہ اس عرصہ میں حضور علیہ السلام سیر کے لئے تشریف نہیں لے گئے اور جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے.’’الحکم‘‘ اور ’’البدر‘‘ دونو میں اس عرصہ میں سیر کا کوئی ذکر نہیں اور نہ سیر کی کوئی ڈائری ہے.حالانکہ باقی اوقات کی ڈائریاں ان ایام کی موجود ہیں.نیز ان ایام میں حضور علیہ السلام کتاب ’’مواہب الرحمٰن‘‘ کی تصنیف میں بے حد مصروف تھے.۱۴؍ جنوری کو فجر کی نماز کے وقت حضور نے فرمایا ’’میں کتاب تو ختم کر چکا ہوں.رات آدھی رات تک بیٹھا رہا.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخہ ۲۰؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۴ ) اور ۱۵؍جنوری کو فجر کی نماز کے وقت تشریف لائے تو فرمایا ’’رات تین بجے تک جاگتا رہا تو کاپیاں اور پروف صحیح ہوئے.‘‘ اور پھر فرمایا کہ ’’میرے اعضا تو بے شک تھک جاتے ہیں مگر دل نہیں تھکتا.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخہ ۲۰؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۴ ) نیز (الحکم جلد ۷ نمبر ۵ مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳ ) اور پھر اسی روز ظہر کے وقت ظہر و عصر کی نمازیں جمع ادا فرما کر حضور جہلم کےلئے روانہ ہوئے.یہ سب قرائن بتا تے ہیں کہ ۱۵؍ جنوری ۱۹۰۳ء کو حضور سیر کےلئے تشریف نہیں لے گئے.یہ ڈائری یقیناً کسی گذشتہ تاریخ کی ہے جس پر سہواً ۱۵؍ جنوری ۱۹۰۳ء کی تاریخ لکھی گئی ہے.( مرتّب) گئے ہیں.
جس کا نتیجہ ناکامی اور نامرادی ہو گیا ہے اور اس نامرادی نے یہاں تک بُرا اثر پہنچایا ہے کہ پھر دعا کی تاثیرات کا انکار شروع ہوا.اور رفتہ رفتہ اس درجہ تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ پھر خد اکا بھی انکار کر بیٹھتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ اگر خدا ہوتا اور وہ دعائوں کو قبول کرنے والا ہوتا تو اس قدر عرصہ دراز تک جو دعا کی گئی ہے کیوں قبول نہ ہوئی؟ مگر ایسا خیال کرنے والا اور ٹھوکر کھانے والا انسان اگر اپنے عدم استقلال اور تلوّن کو سوچے تو اسے معلوم ہو جائے کہ یہ ساری نامرادیاں اس کی اپنی ہی جلد بازی اور شتاب کاری کا نتیجہ ہیں جن پر خدا کی قوتوں اور طاقتوں کے متعلق بدظنی اور نامراد کرنے والی مایوسی بڑھ گئی.پس کبھی تھکنا نہیں چاہیے.دعا کی ایسی ہی حالت ہے جیسے ایک زمیندار باہر جا کر اپنے کھیت میں ایک بیج بو آتا ہے.اب بظاہر تو یہ حالت ہے کہ اس نے اچھے بھلے اناج کو مٹی کے نیچے دبا دیا.اس وقت کوئی کیا سمجھ سکتا ہے کہ یہ دانہ ایک عمدہ درخت کی صورت میں نشو و نما پا کر پھل لائے گا.باہر کی دنیا اور خود زمیندار بھی نہیں دیکھ سکتا کہ یہ دانہ اندر ہی اندر زمین میں ایک پودہ کی صورت اختیار کر رہا ہے.مگر حقیقت یہی ہے کہ تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانہ گل کر اندر ہی اندر پودا بننے لگتا ہے اور طیار ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کا سبزہ اوپر نکل آتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اس کو دیکھ سکتے ہیں.اب دیکھو! وہ دانہ جس وقت سے زمین کے نیچے ڈالا گیا تھا دراصل اسی اشاعۃ سے وہ پودا بننے کی تیاری کرنے لگ گیا تھا.مگر ظاہر بین نگاہ اس سے کوئی خبر نہیں رکھتی اور اب جب کہ اس کا سبزہ باہر نکل آیاتو سب نے دیکھ لیا.لیکن ایک نادان بچہ اس وقت یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس کو اپنے وقت پر پھل لگے گا.وہ یہ چاہتا ہے کہ کیوں اسی وقت اس کو پھل نہیں لگتا مگر عقلمند زمیندار خوب سمجھتا ہے کہ اس کے پھل کا کون سا موقع ہے.وہ صبرسے ان کی نگرانی کرتا اور غور پرداخت کرتا رہتا ہے اور اس طرح پر وہ وقت آجاتا ہے کہ جب اس کو پھل لگتا اور وہ پک بھی جاتا ہے.یہی حال دعا کا ہے اور بعینہٖ اسی طرح دعا نشوونما پاتی اور مثمر بثمرات ہوتی ہے.جلدباز پہلے ہی تھک کر رہ جاتے ہیں اور صبر کرنے والے مآل اندیش استقلال کے ساتھ لگے رہتے ہیں اور اپنے مقصد کو پالیتے ہیں.
قبولیت دعا کے لئے صبر اور محنت کی ضرورت یہ سچی بات ہے کہ دعا میں بڑے بڑے مراحل اور مراتب ہیں جن کی ناواقفیت کی وجہ سے دعا کرنے والے اپنے ہاتھ سے محروم ہو جاتے ہیں.ان کو ایک جلدی لگ جاتی ہے اور وہ صبر نہیں کرسکتے حالانکہ خدا تعالیٰ کے کاموں میں ایک تدریج ہوتی ہے.دیکھو! یہ کبھی نہیں ہوتا کہ آج انسان شادی کرے تو کل کو اس کے گھر بچہ پیدا ہو جاوے حالانکہ وہ قادر ہے جو چاہے کرسکتا ہے مگر جو قانون اور نظام اس نے مقرر کر دیا ہے وہ ضروری ہے.پہلے نباتات کی نشوونما کی طرح کچھ پتا ہی نہیں لگتا.چار مہینے تک کوئی یقینی بات نہیں کہہ سکتا.پھر کچھ حرکت محسوس ہونے لگتی ہے اور پوری میعاد گذرنے پر بہت بڑی تکالیف برداشت کرنے کے بعد بچہ پیدا ہو جاتا ہے.بچہ کا پیدا ہونا ماں کا بھی ساتھ ہی پیدا ہونا ہوتا ہے.مَرد شاید ان تکالیف اور مصائب کا اندازہ نہ کرسکیں جو اس مدت حمل کے درمیان عورت کو برداشت کرنی پڑتی ہیں.مگر یہ سچی بات ہے کہ عورت کی بھی ایک نئی زندگی ہوتی ہے.اب غور کرو کہ اولاد کے لئے پہلے ایک موت خود اس کو قبول کرنی پڑتی ہے.تب کہیں جا کر وہ اس خوشی کو دیکھتی ہے.اسی طرح پر دعا کرنے والے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ تلون اور عجلت کو چھوڑ کر ساری تکلیفوں کو برداشت کرتا رہے اور کبھی بھی یہ وہم نہ کرے کہ دعا قبول نہیں ہوئی.آخر آنے والا زمانہ آجاتا ہے.اور دعا کے نتیجہ کے پیدا ہونے کا وقت پہنچ جاتا ہے جب کہ گویا مراد کا بچہ پید اہوتا ہے.دعا کو پہلے ضروری ہے کہ اس مقام اور حدتک پہنچایا جاوے جہاں پہنچ کر وہ نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے.جس طرح پر آتشی شیشے کے نیچے کپڑا رکھ دیتے ہیں اور سورج کی شعائیں اس شیشہ پر آکر جمع ہوتی ہیں اور ان کی حرارت و حدّت اس مقام تک پہنچ جاتی ہے جو اس کپڑے کو جلا دے.پھر یکایک وہ کپڑا جل اٹھتا ہے.اس طرح پر ضروری ہے کہ دعا اس مقام تک پہنچے جہاں اس میں وہ قوت پیدا ہو جاوے کہ نامرادیوں کو جلادے اور مقصد مراد کو پورا کرنے والی ثابت ہو جاوے ع پیدا است نگارا را کہ بلند است جنابت
مدت دراز تک انسان کو دعائوں میں لگے رہنا پڑتا ہے.آخر خدا تعالیٰ ظاہر کر دیتا ہے.میں نے اپنے تجربہ سے دیکھا ہے اور گذشتہ راست بازوں کا تجربہ بھی اس پر شہادت دیتا ہے کہ اگر کسی معاملہ میں دیر تک خاموشی کرے تو کامیابی کی امید ہوتی ہے لیکن جس اَمر میں جلد جواب مل جاتا ہے وہ ہونے والا نہیں ہوتا.عام طور پر ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ ایک سائل جب کسی کے دروازہ پر مانگنے کے لئے جاتا ہے اور نہایت عاجزی اور اضطراب سے مانگتا ہے اور کچھ دیر تک جھڑکیاں کھا کر بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا اور سوال کئے ہی جاتا ہے تو آخر اس کو بھی کچھ شرم آہی جاتی ہے خواہ کتنا ہی بخیل کیوں نہ ہو پھر بھی کچھ نہ کچھ سائل کو دے ہی دیتا ہے.تو کیا دعا کرنے والے کو کم از کم ایک معمولی سائل جتنا استقلال بھی نہیں ہونا چاہیے؟ اور خدا تعالیٰ جو کریم ہے اور حیارکھتا ہے جب دیکھتا ہے کہ اس کا عاجز بندہ ایک عرصہ سے اس کے آستانہ پر گرا ہوا ہے تو کبھی اس کا انجام بد نہیں کرتا.اگر انجام بد ہو تو اپنے ظن سے ہوتا ہے جیسے ایک حاملہ عورت چار پانچ ماہ کے بعد کہے کہ اب بچہ کیوں پیدا نہیں ہوتا اور اس خواہش میں کوئی مسقط دوا کھالے تو اس وقت کیا بچہ پیدا ہوگا یا ایک مایوسی بخش حالت میں وہ خود مبتلا ہوگی؟اسی طرح جو شخص قبل ازوقت جلدی کرتا ہے وہ نقصان ہی اٹھاتا ہے اور نہ نرا نقصان بلکہ ایمان کو بھی صدمہ پہنچاتا جاتا ہے.بعض ایسی حالت میں دہریہ ہو جاتے ہیں.ہمارے گائوں میں ایک نجار تھا.اس کی عورت بیمار ہوئی اور آخر وہ مَر گئی.اس نے کہا کہ اگر خدا ہوتا تو میں نے اتنی دعائیں کیں تھیں وہ قبول ہو جاتیں اور میری عورت نہ مَرتی اور اس طرح پر وہ دہریہ ہو گیا.لیکن سعید اگر اپنے صدق اور اخلاص سے کام لے تو اس کا ایمان بڑھتا ہے اور سب کچھ ہو بھی جاتا ہے زمین کی دولتیں خدا تعالیٰ کے آگے کیا چیز ہیں.وہ ایک دم میں سب کچھ کرسکتا ہے.کیا دیکھا نہیں کہ اس نے اس قوم کو جس کو کوئی جانتا بھی نہ تھا بادشاہ بنا دیا.اور بڑی بڑی سلطنتوں کو ان کا تابع فرمان بنا دیا اور غلاموں کو بادشاہ بنا دیا.انسان اگرتقویٰ اختیار کرے اور خدا تعالیٰ کا ہو جاوے تو دنیا میں اعلیٰ درجہ کی زندگی ہو مگر شرط یہی ہے کہ صادق اور جواں مَرد ہو کر دکھائے.دل متزلزل نہ ہو اور اس میں کوئی آمیزش ریاکاری اور شرک کی نہ ہو.
ابراہیم علیہ السلام میں وہ کیا بات تھی جس نے اس کو ابو الملت اور ابو الحنفاء قرار دیا اور خدا تعالیٰ نے اس کو اس قدر عظیم الشان برکتیں دیں کہ شمار میں نہیں آسکتیں وہ یہی صدق اور اخلاص تھا.دیکھو! ابراہیم علیہ السلام نے بھی ایک دعا کی تھی کہ اس کی اولاد میں سے عرب میں ایک نبی ہو.پھر کیا وہ اسی وقت قبول ہو گئی؟ ابراہیم ؑ کے بعد ایک عرصہ دراز تک کسی کو خیال بھی نہیں آیا کہ اس دعا کا کیا اثر ہوا.لیکن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی صورت میں وہ دعا پوری ہوئی اور پھر کس شان کے ساتھ پوری ہوئی.عبادات میں جسم اور روح کی شمولیت ضروری ہے ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیںرکھتا.جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں.اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سکھادیتے ہیں اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں.لیکن یہ تکالیف ان کو کوئی نور نہیں بخشتیں اور نہ کوئی سکینت اور اطمینان ان کو ملتا ہے بلکہ اندرونی حالت ان کی خراب ہوتی ہے.وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کو اندر سے کم تعلق ہوتا ہے اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا.اسی لئے قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ نے یہ فرمایا لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى(الـحج: ۳۸) یعنی اﷲ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے.حقیقت میں خدا تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ مغز چاہتا ہے.اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے تو پھر قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اسی طرح نماز روزہ اگر روح کا ہے تو پھر ظاہر کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ یہ بالکل پکی بات ہے کہ جو لوگ جسم سے خدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں ان کو روح نہیں مانتی اور اس میں وہ نیاز مندی اور عبودیت پیدا نہیں ہوسکتی جو اصل مقصد ہے اور جو صرف جسم سے کام لیتے ہیں روح کو اس میں شریک نہیں کرتے وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں اور یہ جوگی اسی قسم کے ہیں.روح اور جسم کا
باہم خدا تعالیٰ نے ایک تعلق رکھا ہوا ہے اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے.مثلاً اگر ایک شخص تکلف سے رونا چاہے تو آخر اس کو رونا آہی جائے گا اور ایسا ہی جو تکلف سے ہنسنا چاہے اسے ہنسی آہی جاتی ہے.اسی طرح پر نماز کی جس قدر حالتیں جسم پر وارد ہوتی ہیں مثلاً کھڑا ہونا یا رکوع کرنا.اس کے ساتھ ہی روح پر بھی اثر پڑتا ہے اور جس قدر جسم میں نیاز مندی کی حالت دکھاتا ہے اسی قدر روح میں پیدا ہوتی ہے.اگرچہ خد انرے سجدہ کو قبول نہیں کرتا مگر سجدہ کو روح کے ساتھ ایک تعلق ہے اس لئے نماز میں آخر ی مقام سجدہ کا ہے.جب انسان نیاز مندی کے انتہائی مقام پر پہنچتا ہے تو اس وقت وہ سجدہ ہی کرنا چاہتا ہے.جانوروں تک میں بھی یہ حالت مشاہدہ کی جاتی ہے.کتّے بھی جب اپنے مالک سے محبت کرتے ہیں تو آکر اس کے پائوں پر اپنا سر رکھ دیتے ہیں اور اپنی محبت کے تعلق کا اظہار سجدہ کی صورت میں کرتے ہیں.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ جسم کو روح کے ساتھ خاص تعلق ہے ایسا ہی روح کی حالتوں کا اثر جسم پر نمودار ہو جاتا ہے.جب روح غمناک ہو تو جسم پر بھی اس کے اثر ظاہر ہوتے ہیں اور آنسو اور پژمُردگی ظاہر ہوتی ہے.اگر روح اور جسم کا باہم تعلق نہیں تو ایسا کیوں ہوتا ہے؟دوران خون بھی قلب کا ایک کام ہے مگر اس میں بھی شک نہیں کہ قلب آبپاشی جسم کے لئے ایک انجن ہے.اس کے بسط اور قبض سے سب کچھ ہوتا ہے.غرض جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں برابر چلتے ہیں.روح میں جب عاجزی پید اہو تی ہے پھر جسم میں بھی پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے جب روح میں واقعی عاجزی اور نیاز مندی ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہر ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی جسم پر ایک الگ اثر پڑتا ہے تو روح بھی اس سے متاثر ہو ہی جاتی ہے.اس لئے ضروری ہے کہ جب خدا تعالیٰ کے حضور نماز میں کھڑے ہو تو چاہیے کہ اپنے وجود سے عاجزی اور ارادت مندی کا اظہار کرو.اگر چہ اس وقت یہ ایک قسم کا نفاق ہوتا ہے.مگر رفتہ رفتہ اس کا اثر دائمی ہو جاتا ہے اور واقعی روح میں وہ نیا زمندی اور فروتنی پیدا ہونے لگتی ہے.
ہے اور لذّت کا معیار بھی الگ ہے.ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اشد درجہ کی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے مگر وہ اس تکلیف کو بھی لذّت ہی سمجھ لیتا ہے.دیکھو ٹرانسوال۱ میں جو لوگ لڑتے ہیں باوجود یکہ ان میں جانیں جاتی ہیں اور عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوتے ہیں مگر قومی حمیت اور پاسداری ان کو ایک لذّت اور سرور کے ساتھ موت کے منہ میں لے جارہی ہے.۲ ان کو قومی حمیت اور پاسداری موت کے منہ میں خوشی کے ساتھ لے جاتی ہے.ادھر قوم ان کی محنتوں اور جانفشانیوں کی قدر کر رہی ہے جب کہ اغراض قومی متحد ہیں.پھر ان کی محنتوں کی قدر کیوں ہوتی ہے؟ ان کے دکھ اور تکالیف کی وجہ سے.ان کی محنت اور جانفشانی کے باعث.غرض ساری لذّت اور راحت دکھ کے بعد آتی ہے.اسی لئے قرآن شریف میں یہ قاعدہ بتایا ہے اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا( الم نشـرح: ۷) اگر کسی راحت سے پہلے تکلیف نہیں تو وہ راحت راحت ہی نہیں رہتی.اسی طرح پر جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو عبادت میں لذّت نہیں آتی.ان کو پہلے اپنی جگہ سوچ لینا ضروری ہے کہ وہ عبادت کے لئے کس قدر دکھ اور تکالیف اٹھاتے ہیں.جس جس قدر دکھ اور تکالیف انسان اٹھائے گا.وہی تبدیل صورت کے بعد لذّت ہو جاتا ہے.میری مراد ان دکھوں سے یہ نہیں کہ انسان اپنے آپ کو بے جا مشقتوں میں ڈالے اور مالا یطاق تکالیف اٹھانے کا دعویٰ کرے.ہرگز نہیں.عبادات میں تکلیف برداشت کرنے کی حقیقت قرآن شریف میں لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا(البقرۃ: ۲۸۷) آیا ہے اور رہبانیت اسلام میں نہیں ہے جس میں پڑ کر انسان اپنے ہاتھ سکھا لے یا اپنی دوسری قوتوں کو بے کار چھوڑدے یا اور قسم قسم کی تکلیف شدیدہ میں اپنی جان کو ڈالے.عبادت کے لئے دکھ اٹھانے سے ہمیشہ یہ مراد ہوتی ہے کہ انسان ان کاموں سے رکے جو عبادت کی لذّت کو دور کرنے والے ہیں اور ان سے رکنے میں اوّلاً ایسی ضرور تکلیف محسوس ہوگی.اور خدا تعالیٰ کی نارضامندیوں سے ۱ اس وقت ٹرانسوال کی جنگ جاری تھی.(ایڈیٹر الحکم) ۲ الحکم جلد ۷ نمبر ۸ مورخہ ۲۸؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱ تا ۳
پرہیز کرے.مثلاً ایک چور ہے تو اس کو ضروری ہے کہ وہ چوری چھوڑے بدکار ہے تو بدکاری اور بدنظری چھوڑے.اسی طرح نشوں کا عادی ہے تو ان سے پرہیز کرے.اب جب وہ اپنی محبوب اشیاء کو ترک کرے گا تو ضروری ہے کہ اوّل اوّل سخت تکلیف اٹھاوے مگر رفتہ رفتہ اگر استقلال سے وہ اس پر قائم رہے گا تو دیکھ لے گا کہ ان بدیوں کے چھوڑنے میں جو تکلیف اس کو محسوس ہوتی ہے وہی تکلیف اب ایک لذّت کا رنگ اختیار کرتی جاتی ہے کیونکہ ان بدیوں کے بالمقابل نیکیاں آتی جائیں گی اور ان کے نیک نتائج جو سکھ دینے والے ہیں وہ بھی ساتھ ہی آئیں گے یہاں تک کہ وہ اپنے ہر قول و فعل میں جب خدا تعالیٰ ہی کی رضا کو مقدم کرلے گا اور اس کی ہر حرکت و سکون اﷲ ہی کے اَمر کے نیچے ہوگی تو صاف اور بیّن طور پر وہ دیکھے گا کہ پورے اطمینان اور سکینت کا مزہ لے رہا ہے.یہ وہ حالت ہوتی ہے جب کہا جاتا ہے لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ (البقرۃ: ۶۳).اسی مقام پر اﷲ کی ولایت میں آتا ہے اور ظلمات سے نکل کر نور کی طرف آجاتا ہے.یاد رکھو کہ جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے اپنی محبوب چیزوں کو جو خد اکی نظر میں مکروہ اور اس کے منشا کے مخالف ہوتی ہیں چھوڑ کر اپنے آپ کو تکالیف میں ڈالتا ہے تو ایسی تکالیف اٹھانے والے جسم کا اثر روح پر بھی پڑتا ہے اور وہ بھی اس سے متاثر ہو کر ساتھ ہی ساتھ اپنی تبدیلی میں لگتی ہےیہاں تک کہ کامل نیاز مندی کے ساتھ آستانہ الوہیت پر بے اختیار ہو کر گر پڑتی ہے یہ طریق ہے عبادت میں لذّت حاصل کرنے کا.تم نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ ہیں جو اپنی عبادت میں لذّت کا یہ طریق سمجھتے ہیں کہ کچھ گیت گا لئے یا باجے بجا لئے اور یہی ان کی عبادت ہوگی.اس سے دھوکا مت کھائو.یہ باتیں نفس کی لذّت کا باعث ہوں تو ہوں مگر روح کے لئے ان میں لذّت کی کوئی چیز نہیں.ان سے روح میں فروتنی اور انکساری کے جو ہر پیدا نہیں ہوتے اور عبادت کا اصل منشا گم ہو جاتا ہے.طوائف کی محفلوں میں بھی ایک آدمی ایسا مزا حاصل کرتا ہے تو کیا وہ عبادت کی لذّت سمجھی جاتی ہے؟ یہ باریک بات ہے جس کو دوسری قومیں سمجھ ہی نہیں سکتیں ہیں کیونکہ انہوں نے عبادت کی اصل غرض اور غایت کو سمجھا ہی نہیں.
اسلام میں رہبانیت پسندیدہ نہیں قرآن شریف سے پہلے دو قومیں تھیں.ایک براہمہ کہلاتی تھی جو رہبانیت کو پسند کرتی تھی اور اپنی زندگی کا اصل منشا یہی سمجھ بیٹھے ہوئے تھے.عیسائی قوم میں بھی ایسے لوگ ہوتے تھے جو راہب ہونا پسند کرتے تھے اور ہوتے تھے.رومن کتھولک عیسائیوں میں اب تک ایسے لوگ موجود ہیں اور یہ طریق ان میں جاری ہے کہ وہ راہبانہ زندگی بسر کرتے ہیں.مگر اب ان کی رہبانیت اس حد تک ہی ہے کہ وہ شادی نہیں کرتے ورنہ ہر طرح عیش و عشرت اور آرام کے ساتھ کوٹھیوں میں رہتے اور مکلّف لباس پہنتے اور عمدہ کھانے کھاتے ہیں اورجس قسم کی زندگی وہ بسر کرتے ہیں عام لوگ جانتے ہیں.مگر میری مراد رہبانیت سے اس وقت یہی ہے کہ وہ فرقہ جو اپنے آپ کو تعذیب بدن میں ڈالتا تھا اور دوسرا فرقہ ان کے مقابل وہ تھا جواباحت کی زندگی بسر کرتا تھا.اسلام جب آیاتو اس نے ان دونو کو ترک کیا اور صراط مستقیم کو اختیار کیا.اس نے بتایا کہ انسان نہ رہبانیت اختیار کرے جس سے وہ نفس کُش ہو جاوے اور خدا تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں کو بالکل بےکار چھوڑ دے اور اس طرح پر ان اخلاق فاضلہ کے حصول سے محروم ہو جاوے جو ان قوتوں کے اندر ودیعت کئے گئے ہیں کیونکہ یہ سچی بات ہے کہ جس قدر قوتیں انسان کود ی گئی ہیں یہ سب کی سب دراصل اخلاقی قوتیں ہیں.غلطی استعمال کی وجہ سے یہ اخلاق بداخلاقیوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں.اس لئے اسلام نے رہبانیت سے منع کیا اور فرمایا لَا رَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ.اباحت اسلام چونکہ انسان کی کامل تربیت چاہتا ہے اور اس کی ساری قوتوں کا نشوونما اس کا مقصد ہے.اس لئے اس نے جائز نہ رکھا کہ وہ طریق اختیار کیا جاوے جو انسان کی بے حرمتی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی توہین کرنے والاٹھہر جاوے اور پھر اسلام کا منشا یہ ہے کہ وہ انسان کو افراط تفریط کی راہوں سے اس اعتدال کی راہ پر چلاوے جو صراط مستقیم ہے.اس لئے اس نے اباحت کے مسئلہ کی بھی تردید کی یہ دوسرا فرقہ تھا جو قرآن شریف سے پہلے موجود تھا.وہ سب کچھ جائز سمجھتا تھا اور آزادی اور بے قیدی میں اپنی زندگی بسر کرتا تھا.ساری راحتوں اور لذتوں کی
معراج سمجھتا تھا.مگر اسلام نے اس کو رد کیا اور انسان کو بے قید بنانا نہ چاہا کہ وہ نہ نماز کی ضرورت سمجھے نہ روزہ کی.غرض کسی پابندی کے نیچے ہی نہیں رہے اور ایک وحشی جانور کی طرح مارا مارا پھرے.اب تک بھی یہ لوگ موجود ہیں.وجودی مذہب جو بدقسمتی سے پھیلا ہوا ہے دراصل ایک اباحتی فرقہ ہے اور نماز روزہ کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتا اور ممنوعات اور محرمات سے پرہیز نہیں کرتا.اس لئے اسلام نے یہ بھی جائز نہ رکھا.عقیدہ کفارہ کے نقصانات رہبانیت اور اباحت انسان کو اس صدق اور وفا سے دور رکھتے تھے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے.اس لئے ان سے الگ رکھ کر اطاعت الٰہی کا حکم دے کر صدق اور وفا کی تعلیم دی جو ساری روحانی لذتوں کی جاذب ہیں.یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جو شخص کسی سہارے پر چلتاہے وہ سست الوجود اور کاہل ہوتا ہے جیسے بچے اپنے والدین کی سرپرستی کے نیچے اپنی فکر معاش یا ضروریات کے پیدا کرنے سے کاہل اور لاپروا ہوتے ہیں.یا عیسائی لوگ جس طرح پر اعمال میں مستعد نہیں ہوسکتے کیونکہ کفارہ کا مسئلہ جب ان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ مسیح نے ان کے سارے گناہ اٹھالئے.پر سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کون سی چیز ہوسکتی ہے جو ان کو اعمال کی طرف متوجہ کرے.اعمال کا مدعا تو نجات ہے اور یہ ان کو بلا مشقت ومحنت صرف خونی مسیح پر اتنا ایمان رکھنے سے (کہ وہ ہمارے لئے مَر گیا.ہمارے گناہوں کے بدلہ لعنتی ہوا) مل جاتی ہے تو اب نجات کے سوا اور کیا چاہیے؟ پھر ان کو اعمال حسنہ کی ضرورت کیا باقی رہی.اگر کفارہ پر ایمان لا کر بھی نجات کا خطرہ اور اندیشہ باقی ہے تو یہ اَمر دیگر ہے کہ اعمال کئے جائیں لیکن اگر نجات خونِ مسیح کے ساتھ ہی وابستہ ہے تو کوئی عقلمند نہیں مان سکتا کہ پھر ضرورت اعمال کی کیا باقی ہے؟ روافض بھی سہارے ہی پر چلتے ہیں اور اپنی جگہ عیسائیوں کی طرح امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں.ان کے نزدیک اگر اعمال کی کوئی ضرورت ہے تو فقط اتنی کہ ان کے مصائب کو یاد کرکے آنکھوںسے آنسوں گرا لئے یا کچھ سینہ کوبی کرلی.سارے اعمال حسنہ کی
روح یہی اشک باری اور سینہ کوبی ہے.مگر میں نہیں سمجھتا کہ اس کو نجات سے کیا تعلق؟ اس لئے میں یہ تعلیم کبھی دینا نہیں چاہتا اور نہ اسلام نے دی کہ تم اپنے گناہوں کی گٹھڑی کسی دوسرے کی گردن پر لاد دو اور خود اباحت کی زندگی بسر کرنےلگو.قرآن شریف نے صاف فیصلہ کر دیا ہے لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى(الانعام: ۱۶۵) ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور نہ دنیا میں اس کی کوئی نظیر خدا تعالیٰ کے عام قانون قدرت میں ملتی ہے.کبھی نہیں دیکھا جاتا کہ زید مثلاً سنکھیا کھالیوے اور اس سنکھیا کا اثر بکر پر ہو جاوے اور وہ مَر جاوے.یا ایک مریض ہو اور وہ دوسرے آدمی کے دوا کھالینے سے اچھا ہو جاوے بلکہ ہر ایک بجائے خود متاثر ہوگا.پھر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ایک شخص ساری عمر گناہ کرتا رہے اور دلیری کے ساتھ خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرتا رہے اور لکھ دے کہ میرے گناہوں کا بوجھ ایک دوسرے شخص کی گردن پر ہے جو شخص ایسی امید کرتا ہے وہ ع دماغ بیہدہ پخت و خیال باطل بست کا مصداق.پس اسلام کسی سہارے پر رکھنا نہیں چاہتا کیونکہ سہارے پر رکھنے سے ابطال اعمال لازم آجاتا ہے.لیکن جب انسان سہارے کے بغیر زندگی بسر کرتا ہے اور اپنے آپ کو ذمہ وار ٹھہراتا ہے اس وقت اس کو اعمال کی ضرورت پڑتی ہے اور کچھ کرنا پڑتا ہے اسی لئے قرآن شریف نے فرمایا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشّمس: ۱۰) فلاح وہی پاتا ہے جو اپنا تزکیہ کرتا ہے خود اگر انسان ہاتھ پائوں نہ ہلائے تو بات نہیں بنتی.شفاعت کا فلسفہ مگر اس سے یہ ہرگز نہ سمجھنا چاہیے کہ شفاعت کوئی چیز نہیں.ہمارا ایمان ہے کہ شفاعت حق ہے.اور اس پر یہ نص صریح ہےوَصَلِّ عَلَيْهِمْ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ(التّوبۃ: ۱۰۳) سَكَنٌ لَّهُمْ یہ شفاعت کا فلسفہ ہے یعنی جو گناہوں میں نفسانیت کا جوش ہے وہ ٹھنڈا پڑ جاوے.شفاعت کا نتیجہ یہ بتایا ہے کہ گناہ کی زندگی پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور نفسانی جوشوں اور
جذبات میں ایک برودت آجاتی ہے جس سے گناہوں کا صدور بند ہو کر ان کے بالمقابل نیکیاں شروع ہو جاتی ہیں.پس شفاعت کے مسئلہ نے اعمال کو بے کار نہیں کیا بلکہ اعمال حسنہ کی تحریک کی ہے.شفاعت اور کفارہ میں فرق شفاعت کے مسئلہ کے فلسفہ کو نہ سمجھ کر احمقوں نے اعتراض کیا ہے اور شفاعت اور کفارہ کو ایک قرار دیا.حالانکہ یہ ایک نہیں ہوسکتے ہیں.کفارہ اعمال حسنہ سے مستغنی کرتا ہے اور شفاعت اعمال حسنہ کی تحریک.جو چیز اپنے اندر فلسفہ نہیں رکھتی ہے وہ ہیچ ہے.ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ اسلامی اصول اور عقائد او راس کی ہر تعلیم اپنے اندر ایک فلسفہ رکھتی ہے اور علمی پیرایہ اس کے ساتھ موجود ہے جو دوسرے مذاہب کے عقائد میں نہیں ملتا.شفاعت اعمال حسنہ کی محرک کس طرح پر ہے؟ اس سوال کا جواب بھی قرآن شریف ہی سے ملتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ وہ کفارہ کا رنگ اپنے اندر نہیں رکھتی جو عیسائی مانتے ہیں.کیونکہ اس پر حصر نہیں کیا جس سے کاہلی اور سستی پیدا ہوتی بلکہ فرمایا اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ(البقرۃ:۱۸۷) یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں تجھ سے سوال کریں کہ وہ کہاں ہے تو کہہ دے کہ میں قریب ہوں.قریب والا تو سب کچھ کرسکتا ہے.دور والا کیا کرے گا؟ اگر آگ لگی ہوئی ہو تو دور والے کو جب تک خبر پہنچے اس وقت تک تو شاید وہ جل کر خاک سیاہ بھی ہو چکے.اس لئے فرمایا کہ کہہ دو کہ میں قریب ہوں.پس یہ آیت بھی قبولیت دعا کا ایک راز بتاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت پر ایمان کامل پیدا ہو اور اسے ہر وقت اپنے قریب یقین کیا جاوے اور ایمان ہو کہ وہ ہر پکار کو سنتا ہے.بہت سی دعائوں کے رد ہونے کا یہ بھی سر ہے کہ دعا کرنے والا اپنی ضعیف الایمانی سے دعا کو مسترد کرالیتا ہے.اس لئے یہ ضروری ہے کہ دعا کو قبول ہونے کے لائق بنایا جاوے کیونکہ اگر وہ دعا خدا تعالیٰ کی شرائط کے نیچے نہیں ہے تو پھر اس کو خواہ سارے نبی بھی مل کر کریں تو قبول نہ ہوگی اور کوئی فائدہ اور نتیجہ اس پر مترتب نہیں ہوسکے گا.اب یہ بات سوچنے کے قابل ہے کہ ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا صَلِّ عَلَيْهِ
ِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ(التّوبۃ: ۱۰۳) تیری صلوٰۃ سے ان کو ٹھنڈ پڑ جاتی ہے اور جوش و جذبات کی آگ سرد ہو جاتی ہے.دوسری طرف فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ ( البقرۃ: ۱۸۷) کا بھی حکم فرمایا.ان دونوں آیتوں کے ملانے سے دعا کرنے اور کرانے والے کے تعلقات، پھر ان تعلقات سے جو نتائج پیدا ہوتے ہیں ان کا بھی پتا لگتا ہے کیونکہ صرف اسی بات پر منحصر نہیں کر دیا کہ آنحضرتؐکی شفاعت اور دعا ہی کافی ہے اور خود کچھ نہ کیا جاوے اور نہ یہی فلاح کا باعث ہوسکتا ہے کہ آنحضرتؐکی شفاعت اور دعا کی ضرورت ہی نہ سمجھی جاوے.غرض نہ اسلام میں رہبانیت ہے نہ بے کار نشینی کا سبق.بلکہ ان افراط اور تفریط کی راہوں کو چھوڑ کر وہ صراطِ مستقیم کی ہدایت کرتا ہے نہ یہ چاہا ہے کہ تعذیب جسم کے اصولوں کو اختیار کرو اور اپنے آپ کو مشکلات میں ڈال لو اور نہ یہ کہ سارا دن کھیل اور کود اور تماشوں اور شکار میں گذارو یا ناول خوانی میں بسر کرو اور رات کو سو کر یا عیاشی میں.۱ خد اتعالیٰ کا قرب پانے کی راہ خدا تعالیٰ کے قرب حاصل کرنے کی راہ یہ ہے کہ اس کے لئے صدق دکھایا جائے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو قرب حاصل کیا تو اس کی وجہ یہی تھی.چنانچہ فرمایا ہے اِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰۤى (النّجم: ۳۸) ابراہیم ؑ وہ ابراہیمؑ جس نے وفاداری دکھائی.خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری اور صدق اور اخلاص دکھانا ایک موت کو چاہتا ہے جب تک انسان دنیا اور اس کی ساری لذتوں اور شوکتوں پر پانی پھیر دینے کو طیار نہ ہو جاوے اور اس کی ہر ذلّت اور سختی اور تنگی خدا کے لئے گوارا کرنے کو طیار نہ ہو یہ صفت پیدا نہیں ہوسکتی.بُت پرستی یہی نہیں کہ انسان کسی درخت یا پتھر کی پرستش کرے بلکہ ہر ایک چیز جو اﷲ تعالیٰ کے قرب سے روکتی اور اس پر مقدم ہوتی ہے وہ بُت ہے اور اس قدر بُت انسان اپنے اندر رکھتا ہے کہ اس کو پتا بھی نہیں لگتا کہ میں بُت پرستی کر رہا ہوں.پس جب تک خالص خدا تعالیٰ ہی کے لئے نہیں ہو جاتا اور اس کی راہ میں ہر مصیبت کو برداشت کرنے کے لئے طیار نہیں ہوتا صدق اور اخلاص کا رنگ پیدا ہونا مشکل ہے.ابراہیم علیہ السلام کوجو یہ خطاب ملا کیا یہ یونہی مل گیا تھا؟ نہیں.۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۹ مورخہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱ تا ۳
اِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰۤى کی آواز اس وقت آئی جب کہ وہ بیٹے کی قربانی کے لئے طیار ہو گیا.اﷲ تعالیٰ عمل کو چاہتا اور عمل ہی سے راضی ہوتا ہے اور عمل دکھ سے آتا ہے.لیکن جب انسان خدا کے لئے دکھ اٹھانے کو طیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اس کو دکھ میں بھی نہیں ڈالتا.دیکھو! ابراہیم علیہ السلام نے جب اﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے اپنے بیٹے کو قربان کر دینا چاہا اور پوری تیاری کر لی تو اﷲ تعالیٰ نے اس کے بیٹے کو بچا لیا.وہ آگ میں ڈالے گئے لیکن آگ ان پر کوئی اثر نہ کرسکی.اﷲ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف اٹھانے کو طیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ تکالیف سے بچا لیتا ہے.ہمارے ہاتھ میں جسم تو ہے روح نہیں ہے.لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ روح کا تعلق جسم سے ہے اور جسمانی امور کا اثر روح پر ضرور ہوتا ہے اس لئے یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہیے کہ جسم سے روح پر کوئی اثر نہیں پڑتا.جس قدر اعمال انسان سے ہوتے ہیں وہ ایسی مرکب صورت سے ہوتے ہیں.الگ جسم یا اکیلی روح کوئی نیک یابد عمل نہیں کرتی.یہی وجہ ہے جزا وسزا میں بھی دونوں کے متعلقات کا لحاظ رکھا گیا ہے.بعض لوگ ایسے راز کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اعتراض کر دیتے ہیں کہ مسلمانوں کا بہشت جسمانی ہے.حالانکہ وہ اتنا نہیں جانتے کہ جب اعمال کے صدور میں جسم ساتھ تھا توجزا کے وقت الگ کیوں کیا جاوے؟ غرض یہ ہے کہ اسلام نے ان دونوں طریقوں کو جو افراط اور تفریط کے ہیں کہیں چھوڑ کر اعتدال کی راہ بتائی ہے.یہ دونوں خطرناک باتیں ہیں ان سے پرہیز کرنا چاہیے.مجرد تعذیبِ جسم سے کچھ نہیں بنتا اور محض آرام طلبی سے بھی کوئی نتیجہ پیدا نہیں ہوتا.ولایت کا مقام ایک مرتبہ ایک شخص میرے پاس نور محمد نام ٹانڈہ سے آیا تھا.اس نے کہا کہ غلام محبوب سبحانی نے ولی ہونے کا سر ٹیفکیٹ دے دیا ہے.اب ولایت کا معیار یہی رہ گیا ہے کہ غلام محبوب سبحانی یا کسی نے سر ٹیفکیٹ دے دیا.حالانکہ ولایت ملتی نہیں جب تک انسان خدا کے لئے موت اختیار کرنے کے لئے طیار نہ ہو جاوے.دنیامیں بہت سے لوگ اس قسم کے ہیں جن کو کچھ بھی معلوم نہیں کہ وہ دنیا میں کیوں آئے ہیں؟ حالانکہ یہی پہلا سوال ہے جس کو اسے حل کرنا چاہیے.خود شناسی کے بعد خدا شناسی پیدا ہوتی ہے جب وہ اپنے فرائض کو سمجھتا
ہے اور مقاصد زندگی پر غور کرتاہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ میری زندگی کی غرض خدا شناسی ہے اور اس پر ایمان لاتا اور اس کی عبادت کرتا ہے.تب وہ فرائض کو ادا کرتا اور نوافل کو شناخت کرتا ہے.وہ روحانیت جو ایمان کے بعد پیدا ہوتی ہے اب اسے تلاش کرو کہ کہاں ہے؟ نہ مولویوں میں ہے نہ راگ سننے والے صوفیوں میں.یہ گو سالہ صورت ہیں.روحانیت سے بے خبر ہو کر ہزار سال تک بھی اگر نعرے مارتے رہیں تو کچھ نہیں بنتا.یہ لحوم اور دماء ہیں تقویٰ نہیں، پھر لحوم اور دماء اﷲ تعالیٰ کو کیسے پہنچ سکتا ہے؟ روح و جسم کا تعلق ابدی ہے دہریہ روح کا ہی انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی چیز ہے ہی نہیں.اور پھر کہتے ہیں کہ حشر اجساد کوئی چیز نہیں.یہاں روح تعلیم پا کر آئندہ کیا کرے گا.یہ خیالی باتیں ہیں ان میں معقولیت نہیں ہے.اگر روح کوئی چیز نہیں ہے تو پھر یہ کیابات ہے کہ جسم پر جو فعل واقع ہوتے ہیں ان کا اثر اندرونی قوتوں پر بھی پڑتا ہے.مثلاً اگر مقدم الرأس پر چوٹ لگ جائے تو اس فساد کے ساتھ انسان مجنون ہو جاتا ہے یا حافظہ جاتا رہتا ہے.مجنونوں کی روح تو وہی ہیں.نقص تو جسم میں ہے.جسم کا اگر اچھا انتظام نہ رہے تو روح بے کار ہو جاتا ہے وہ بدوں جسم کسی کام کا نہیں ہے اس لئے ہمیشہ جسم کا محتاج ہے جس کا انتظام عمدہ ہو روحانی حالت بھی اچھی ہوگی.چھوٹے بچہ میں کیوں اتنی سمجھ نہیں ہوتی کہ وہ عواقب الامور کو سمجھ سکے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان میں ابھی قویٰ کا نشوونما کامل نہیں ہوا ہوتا.اسی طرح پیٹ میں جو نطفہ جاتا ہے کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ روح اس کے ساتھ کہاں سے چلی جاتی ہے.اس کے ساتھ ہی دراصل ایک مخفی قوت چلی جاتی ہے جو انبساط اور نشاط کا باعث ہوتی ہے.اسی طرح اناج میں بھی وہی کیفیت چلی آتی ہے.اسی کی طرف مولوی رومی نے اشارہ کرکے کہا ہے.؎ ہفت صد ہفتاد قالب دیدہ ام ہمچو سبزہ بارہاروئیدہ ام نا فہم اور کوڑ مغز لوگوں نے اس شعر کو تناسخ پر حمل کر لیا ہے اور کہتے ہیں اس سے تناسخ ثابت ہوتا ہے
مگر ان کو معلوم نہیں کہ یہ دراصل تغیرات نطفہ کی طرف اِیما ہے.یعنی جن جن تغیرات سے نطفہ طیار ہوتا ہے اس کو اس شعر میں ظاہر کیا گیا ہے.شائد بہت تھوڑے آدمی ایسے ہوں گے جن کو یہ معلوم ہو کہ نطفہ بہت سے تغیرات سے بنتا ہے.جس اناج سے نطفہ بنا ہے نطفہ کی حالت میں آنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ نے اس کو بہت سے تغیرات میں ڈالا ہے اور پھر اس کو محفوظ رکھا ہے کیونکہ وہ درحقیقت نطفہ ہے.اپنے وقت پر وہ پیسا بھی جاتا ہے اور اس سے روٹی بھی طیار کی جاتی ہے لیکن وہ محفوظ کا محفوظ چلا آتا ہے.آج کل نطفہ کے متعلق جو تحقیقات ہوئی ہے تو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس میں کیڑے ہوتے ہیں یہ ایک الگ اَمر ہے.لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اصل میں وہ ایک قوت ہے جو برابر محفوظ چلی آتی ہے ممکن ہے کہ جو کچھ ڈاکٹروں نے سمجھا ہو وہ اسی قوت کو سمجھا ہو.ہر اناج کے ساتھ انسانیت کا خاصّہ نہیں بلکہ وہ جوہرِ قابل الگ ہی ہے اور اس کو وہی کھاتا ہے جس کے لئے وہ مقدر ہوتا ہے اور وہ اسی دن کے لئے مقدر ہوتا ہے.وہ نطفہ جس میں روحانیت کی جز ہے بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ مضغہ علقہ وغیرہ چھ حالتوں میں سے گذرتا ہے اور ان چھ تغیرات کے بعد ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ (المومنون: ۱۵)کا وقت آتا ہے اب اس آخری تبدیلی کو نشاءِآخری کہا ہے یہ نہیں کہا ثُمَّ اَنْزَلْنٰہُ رُوْحًا اٰخَرَ.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ باہر سے کوئی چیز نہیں آتی.اب اس کو خوب غور سے سوچو تو معلوم ہوگا کہ روح کا جسم کے ساتھ کیسا ابدی تعلق ہے.پھر یہ کیسی بے ہودگی ہے جو کہا جاوے کہ جسم کا روح کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے.یہ کس قدر زبردست ثبوت روح کی ہستی کا ہے.اس کو کوئی معمولی نگاہ سے دیکھے تو اور بات ہے لیکن معقولیت اور فلسفہ سے سوچے تو اس سے انکار نہیں کرسکتا.اسی طرح ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ دنیا میں کبھی کوئی شخص کامیاب نہیں ہوا جو جسم اور روح دونوں سے کام نہ لے.اگر روح کوئی چیز نہیں تو ایک مُردہ جسم سے کوئی کام کیوں نہیں ہوسکتا؟ کیا اس کے سارے اعضا اور قویٰ موجود نہیں ہوتے.اب یہ بات کیسی صفائی کے ساتھ سمجھ میں آتی ہے کہ روح اور جسم کا تعلق جب کہ ابدی ہے.پھر کیوں کسی ایک کو بے کار قرار دیا جاوے.
دعا کے قوانین دعا کے لئے بھی یہی قانون ہے کہ جسم تکالیف اٹھائے اور روح گداز ہو اور پھر صبر اور استقلال سے اﷲ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لا کر حسنِ ظن سے کام لیا جاوے.۱ ہر یک کام کے لئے زمانہ ہوتا ہے اور سعید اس کا انتظار کرتے ہیں.جو انتظار نہیں کرتا اور چشم زدن میں چاہتا ہے کہ اس کا نتیجہ نکل آوے وہ جلدباز ہوتا ہے اور بامراد نہیں ہوسکتا.میرے نزدیک یہ بھی ممکن ہے اور ہوتا ہے کہ دعا کے زمانہ میں ابتلا کے طور پر اور بھی ابتلا آجاتے ہیں.جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے آئے تو ان کو پہلے مصر میں فرعون نے یہ کام دیا ہوا تھاکہ وہ آدھے دن اینٹیں پاتھا کریں اور آدھےدن اپنا کام کیا کریں.لیکن جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو نجات دلانے کی کوشش کی تو پھر شریروں کی شرارت سے بنی اسرائیل کا کام بڑھا دیا گیا اور انہیں حکم ملا کہ آدھے دن تم اینٹیں پاتھاکرو اور آدھے دن گھاس لایا کرو.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب یہ حکم ملا اور انہوں نے بنی اسرائیل کو سنایا تو وہ بڑے ناراض ہوئے اور کہا کہ موسیٰ! خدا تم کو وہ دکھ دے جو ہم کو ملا ہے اور بھی انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو بددعائیں دیں مگر موسیٰ علیہ السلام نے ان کو یہی کہا کہ تم صبر کرو.تورات میں یہ سارا قصہ لکھا ہے کہ جوں جوں موسیٰ علیہ السلام انہیں تسلّی دیتے تھے وہ اور بھی افروختہ ہوتے تھے.آخر یہ ہوا کہ مصر سے بھاگ نکلنے کی تجویز کی گئی اور مصر والوں کے کپڑے اور برتن وغیرہ جو لئے تھے وہ ساتھ ہی لے آئے.جب حضرت موسٰی قوم کو لے کر نکل آئے تو فرعون نے اپنے لشکر کو لے کر ان کا تعاقب کیا.بنی اسرائیل نے جب دیکھا کہ فرعونیوں کا لشکر ان کے قریب ہے تو وہ بڑے ہی مضطرب ہوئے چنانچہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ اس وقت وہ چلّائے اور کہا اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَ(الشُّعرآء: ۶۲)اے موسیٰ ہم تو پکڑے گئے مگر موسیٰ علیہ السلام نے جو نبوت کی آنکھ سے انجام کو دیکھتے تھے انہیں یہی جواب دیا كَلَّا اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ(الشُّعرآء: ۶۳) ہرگز نہیں.میرا رب میرے ساتھ ہے.۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱، ۲
تورات میں لکھا ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کیا مصر میں ہمارے لئے قبریں نہ تھیں اور یہ اضطراب اس وجہ سے پیدا ہوا کہ پیچھے فرعون کا لشکر اور آگے دریائے نیل تھا وہ دیکھتے تھے کہ نہ پیچھے جا کر بچ سکتے ہیں اور نہ آگے جا کر مگر اﷲ تعالیٰ قادر مقتدر خدا ہے.دریائے نیل میں سے انہیں راستہ مل گیا اور سارے بنی اسرائیل آرام کے ساتھ پار ہو گئے.مگر فرعونیوں کا لشکر غرق ہو گیا.سید احمد خاں صاحب اس موقع پر لکھتے ہیں کہ یہ جوار بھاٹا تھا.مگر ہم کہتے ہیں کچھ ہو اس میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا کہ یہ عظیم الشان معجزہ تھا جو ایسے وقت پر اﷲ تعالیٰ نے ان کے لئے راہ پیدا کردی اور یہی متقی کے ساتھ ہوتا ہے کہ ہر ضیق سے اسے نجات اور راہ ملتی ہے يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا (الطّلاق: ۳).دعا اور ابتلا غرض ایسا ہوتا ہے کہ دعا اور اس کی قبولیت کے زمانہ کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلا پر ابتلا آتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلا بھی آجاتے ہیں جو کمر توڑ دیتے ہیں مگر مستقل مزاج سعید الفطرت ان ابتلائوں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعد نصرت آتی ہے.ان ابتلائوں کے آنے میں ایک سِرّ یہ بھی ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے.کیونکہ جس جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی اور یہ دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہیں.پس کبھی گھبرانا نہیں چاہیے اور بے صبری اور بے قراری سے اپنے اﷲ پر بد ظن نہیں ہونا چاہیے.یہ کبھی بھی خیال کرنا نہیں چاہیے کہ میری دعا قبول نہ ہوگی یا نہیں ہوتی.ایسا وہم اﷲ تعالیٰ کی اس صفت سے انکار ہو جاتا ہے کہ وہ دعائیں قبول فرمانے والا ہے.قبولیت دعا کے سلسلہ میں ایک نکتہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک اَمر کے لئے دعا کرتا ہے.مگر وہ دعا اس کی اپنی نا واقفی اور نادانی کا نتیجہ ہوتی ہے.یعنی ایسا اَمر خدا سے چاہتا ہے جو اس کے لئے کسی صورت سے مفید اور نافع نہیں ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی دعا کوتو ردّ نہیں کرتا لیکن کسی اور صورت میں پورا کر دیتا ہے مثلاً ایک زمیندار جس کو ہل چلانے کے لئے بیل کی ضرورت ہے.وہ بادشاہ سے جا کر ایک اونٹ کا سوال کرے اور
بادشاہ جانتا ہے کہ اس کو دراصل بیل دینا مفید ہوگا اور وہ حکم دیدے کہ اس کو ایک بیل دے دو وہ زمیندار اپنی بیوقوفی سے یہ کہہ دے کہ میری درخواست منظور نہیں ہوئی تو یہ اس کی حماقت اور نادانی ہے لیکن اگر وہ غور کرے تو اس کے لئے یہی بہتر تھا.اس طرح پر اگر ایک بچہ آگ کے سرخ انگارے کو دیکھ کر ماں سے مانگے تو کیا مہربان اور شفیق ماں یہ پسند کرے گی کہ اس کو آگ کے انگارے دیدے؟ غرض بعض اوقات دعا کی قبولیت کے متعلق ایسے امور بھی پیش آتے ہیں.جو لوگ بے صبری اور بدظنی سے کام لیتے ہیں وہ اپنی دعا کو رد کرالیتے ہیں.اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کی قبولیت کے زمانہ میں اور بھی درازی ہو جاتی ہے.بنی اسرائیل اسی وجہ سے چالیس برس تک ارض مقدس میں داخل ہونے سے محروم ہو گئے کہ ذرا ذرا سی بات پر شوخیوں سے کام لیتے تھے.میں کہتا ہوں کہ جس طرح بنی اسرائیل سے غلامی کے دنوں میں وعدے کئے گئے تھے.اسی طرح پر اس امت کے لئے بھی ایک مماثلت ہے.ان پر بھی ایک غلامی کا زمانہ آنے والا تھا اور اب وہی حالت غلامی کی ہے کیونکہ ہر پہلو اور ہر رنگ میں مسلمانوں کی حالت تنزل میں ہے اسی مماثلت کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ نے مسیح موعود کی تبلیغ کا زمانہ چالیس سال تک رکھا ہے.جس طرح پر موسیٰ علیہ السلام نے وہ زمین نہ پائی بلکہ یشوع بن نون لے گیا اسی طرح پر قبولیت کی ارض مقدس ان مولویوں کے نصیب معلوم نہیں ہوتی جو آئے دن مخالفت اور شرارت میں بڑھتے جاتے ہیں اور نہیں سوچتے کہ ان کو کیا کہا گیا تھا.کیا تعلیم ملی تھی اور اب انہوں نے اس پر کس حد تک عمل کیا ہے.قرآن شریف کے نصوص پر میرے دعویٰ کو پرکھیں مجھے بڑی ہی حیرت اور بڑا ہی تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ مسلمان کہلاتے ہیں.یہ قرآن شریف کو پڑھتے ہیں.یہ احادیث کے درس دیتے اور مسلمانوں کے لیڈر اور سرگروہ بنتے ہیں.دین کے اصول سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کے مدعی ہیں مگر میرے معاملہ میں ان ساری باتوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ پروا نہیں کرتے کہ قرآن شریف کے نصوص کی بنا پر
میرے دعوے کو سوچیں اور میری نسبت کوئی رائے دیتے ہوئے اس بات کا لحاظ رکھیں کہ ہم جو کہتے ہیں خدا تعالیٰ کے خوف سے کہتے ہیں یا اپنے نفسانی اغراض اور جوشوں کو درمیان رکھ کر کہتے ہیں.اگر خدا ترسی اور تقویٰ سے کام لیتے تو لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ(بنیٓ اسـرآءیل: ۳۷) پر عمل کرتے اور جب تک میری کتابوں کو پورے طور پر نہ پڑھ لیتے اور میرے پاس رہ کر میرے طرزِ عمل کو نہ دیکھ لیتے کوئی رائے نہ دیتے.مگر انہوں نے قبل ازمَرگ واویلا شروع کردیا اور خدا تعالیٰ کے کلام اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں کی کچھ بھی پروا نہ کی.ان سب کو پس پشت ڈال دیا.کم از کم تقویٰ کا طریق تو یہ تھا کہ وہ میرے دعویٰ کو سن کر فکر کرتے اور جھٹ پٹ انکار نہ کردیتے.کیونکہ میں نے ان کو یہ کہا تھا کہ خدا نے مجھے مامور کیا ہے.خدا نے مجھے بھیجا ہے.وہ دیکھتے ہیں کہ کیا جس شخص نے اپنا آنا خدا کے حکم سے بتایا ہے وہ خد اکی نصرتیں اور تائیدیں بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے یا نہیں.مگر انہوں نے نشان پر نشان دیکھے اور کہا کہ جھوٹے ہیں.انہوں نے نصرت پر نصرت اور تائید پر تائید دیکھی لیکن کہہ دیا کہ سحر ہے.میں ان لوگوں سے کیا امید رکھوں جو خدا تعالیٰ کے کلام کی بے حرمتی کرتے ہیں.خدا کے کلام کے ادب کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس کا نام سنتے ہی یہ ہتھیار ڈال دیتے مگر یہ اور بھی شرارت میں بڑھے.اب خود دیکھ لیں گے کہ انجام کس کے ہاتھ ہے.میں دیکھتا ہوں کہ میرے بلانے کے دراصل یہی لوگ محرک ہوئے ہیں اور میری بعثت کے اسباب میں سے یہ بڑا سبب ہیں.مسلمانوں کے مرتد ہونے کا باعث مولوی ہیں کیونکہ جس قدر لوگ نصرانی اور بے دین ہوئے ہیں وہ دراصل مولویوں کا قصور ہے.جب کسی نے ان سے سوال کیا اور کوئی بات ان سے پوچھی تو انہوں نے جھٹ پٹ یہی فتویٰ دے دیا کہ یہ واجب القتل ہے، کافر ہو گیا، بے دین ہو گیا، اس کو مار ڈالو.اعتراض کرنے والوں نے جب یہ حالت دیکھی تو انہوں نے یہی سمجھا کہ اسلام کے عقائد فی الحقیقت ایسے ہی کمزور اوربودے ہیں کہ وہ معقولیت کے آگے نہیں ٹھہر سکتے.پس انہوں نے یہی بہتر سمجھا کہ
یسے دین کو چھوڑ دیں.ہزاروں ہزار لوگ پائے جاتے ہیں جن کے مرتد ہونے کی وجہ یہی مولوی ہوگئے ہیں.یہ بات کہ وہ سوال کیوں کرتے ہیں بڑی سہل ہے.یہ لوگ تیرہ سو برس کے بعد چونکہ پیدا ہوئے ہیں.اس قدر بُعد زمانہ کی وجہ سے گویا یہ تاریکی کا زمانہ کہنا چاہیے.اس لئے ان کو حق حاصل ہے کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے پوچھیں لیکن سوال کرنے پر انہوں نے جو اخلاق ان مولویوں کے دیکھے انہوں نے ان کو گمراہ کر دیا.چاہیے تو یہ تھا کہ ان کو معذور اور واجب الرحم سمجھ کر نرمی سے پیش آتے اور ان کو سمجھاتے.مگر اُلٹا انہوں نے ان کو اسلام سے بیزار کر دیا.ایسی حالت میں اﷲ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اسلام کی تعلیم کی خوبیاں ظاہر کروں اور پھر ان خوبیوں کا عملی ثبوت اور اس کی تاثیروں کو دکھائوں.مسیح موعود کے دو کام پس اس وقت ہمارے دو کام ہیں.اول یہ کہ ان نشانوں کے ساتھ جو اﷲ تعالیٰ دکھا رہا ہے یہ ثابت کیا جاوے کہ مجیب اور ناطق خدا ہمارا ہی ہے جو ہماری دعائوں کو سنتا اور ان کے جواب دیتا ہے اور دوسرے مذاہب کے لوگ جو خدا پیش کرتے ہیں وہ اَلَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمْ قَوْلًا(طٰہٰ: ۹۰) کا مصداق ہو رہا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ بوجہ ان کے کفر اور بے دینی کے ان کی دعائیں مَا دُعٰٓـؤُا الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ (الرّعد: ۱۵) کی مصداق ہو گئی ہیں.ورنہ اﷲ تعالیٰ تو سب کا ایک ہی ہے.مگر ان لوگوں نے اس کی صفات کو سمجھا ہی نہیں ہے.پس یاد رکھو کہ ہمارا خدا ناطق خدا ہے.وہ ہماری دعائیں سنتاہے.ہماری جماعت کا خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہونا چاہیے ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہونا چاہیے اور ان کو شکر کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو یونہی نہیں چھوڑ دیا.بلکہ ان کی ایمانی قوتوں کو یقین کے درجہ تک بڑھانے کے واسطے اپنی قدرت کے صدہا نشان دکھائے ہیں.کیا کوئی تم میں سے ایسا بھی ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ایک بھی ایسا نہیں جس کو ہماری صحبت میں رہنے کا موقع ملا ہو اور اس نے خدا تعالیٰ کا تازہ بتازہ نشان اپنی آنکھ
سے نہ دیکھا ہو.ہماری جماعت کے لئے اسی بات کی ضرورت ہے کہ ان کا ایمان بڑھے.خدا تعالیٰ پر سچا یقین اور معرفت پیدا ہو.نیک اعمال میں سستی اور کسل نہ ہو.کیونکہ اگر سستی ہو تو پھر وضو کرنا بھی ایک مصیبت معلوم ہوتی ہے چہ جائیکہ وہ تہجد پڑھے.اگراعمال صالحہ کی قوت پیدا نہ ہو اور مسابقت علی الخیرات کے لئے جوش نہ ہو تو پھر ہمارے ساتھ تعلق پیدا کرنا بے فائدہ ہے.تعلیم کے موافق عمل کرنے کی نصیحت ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اپنی ہمّت اور کوشش کے موافق اس پرعمل کرتا ہے.لیکن جو محض نام رکھا کر تعلیم کے موافق عمل نہیں کرتا وہ یاد رکھے کہ خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو ایک خاص جماعت بنانے کا ارادہ کیا ہے اور کوئی آدمی جو دراصل اس جماعت میں نہیں ہے محض نام لکھانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا.اس پر کوئی نہ کوئی وقت ایسا آجاوے گا کہ وہ الگ ہو جائے گا.اس لئے جہاں تک ہوسکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے ماتحت کرو جو دی جاتی ہے.اعمال پروں کی طرح ہیں.بغیر اعمال کے انسان روحانی مدارج کے لئے پرواز نہیں کرسکتا اور ان اعلیٰ مقاصد کو حاصل نہیں کرسکتا جو ان کے نیچے اﷲ تعالیٰ نے رکھے ہیں.پرندوں میں فہم ہوتا ہے.اگر وہ اس فہم سے کام نہ لیں تو جو کام ان سے ہوتے ہیں نہ ہوسکیں.مثلاً شہد کی مکھی میں اگر فہم نہ ہو تو وہ شہد نہیں نکال سکتی اور اسی طرح نامہ بر کبوتر جو ہوتے ہیں.ان کو اپنے فہم سے کس قدر کام لینا پڑتا ہے.کس قدر دور دراز کی منزلیں وہ طے کرتے ہیں.اور خطوط کو پہنچاتے ہیں.اسی طرح پر پرندوں سے عجیب عجیب کام لئے جاتے ہیں.پس پہلے ضروری ہے کہ آدمی اپنے فہم سے کام لے اور سوچ لے کہ جو کام میں کرنے لگا ہوں یہ اﷲ تعالیٰ کے احکام کے نیچے اور اس کی رضا کے لئے ہے یا نہیں؟ جب یہ دیکھ لے اور فہم سے کام لے تو پھر ہاتھوں سے کام لینا ضروری ہوتا ہے سستی اور غفلت نہ کرے.ہاں یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ تعلیم صحیح ہو.کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تعلیم صحیح ہوتی ہے لیکن انسان اپنی نادانی اور جہالت سے
یا کسی دوسرے کی شرارت اور غلط بیانی کی وجہ سے دھوکا میں پڑجاتا ہے.اس لئے خود خالی الذہن ہو کر تحقیق کرنی چاہیے.قرآنی قَسموں کا فلسفہ مثلاً میں نے دیکھا ہے کہ آریہ اور عیسائی اعتراض کر دیتے ہیں کہ قرآن شریف میں قسمیں کیوں کھائی ہیں؟ اور پھر اپنی طرف سے حاشیہ چڑھا کر اس کو عجیب عجیب اعتراضوں کے پیرایہ میں پیش کرتے ہیں.حالانکہ اگر ذرا بھی نیک نیتی اور فہم سے کام لیا جاوے تو ایسا اعتراض بیہودہ اور بے سود معلوم دیتا ہے کیونکہ قسموں کے متعلق دیکھنا یہ ضروری ہوتا ہے کہ قسم کھانے کا اصل مفہوم اور مقصد کیا ہوتا ہے؟ جب اس کی فلاسفی پر غور کر لیاجاوے تو پھر یہ خود بخود سوال حل ہو جاتا ہے اور زیادہ رنج اٹھانے کی نوبت ہی نہیں آتی.عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ قسم کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ قسم بطور قائم مقام گواہ کے ہوتی ہے اور یہ مسلّم بات ہے کہ عدالت جب گواہ پر فیصلہ کرتی ہے تو کیا اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ جھوٹ پر فیصلہ کرتی ہے یا قسم کھانے والے کی قسم کو ایک شاہد صادق تصور کرتی ہے؟ یہ روز مرہ کی بات ہے.جہالت اور تعصب سے اعتراض کرنا اَور بات ہے لیکن حقیقت کو مد نظر رکھ کر کوئی بات کہنا اَور.اب جب کہ یہ عام طریق ہے کہ قسم بطور گواہ کے ہوتی ہے.پھر یہ کیسی سیدھی بات ہے کہ اسی اصول پر قرآن شریف کی قسموں کو دیکھ لیا جاوے کہ وہاں اس سے کیا مطلب ہے.اﷲ تعالیٰ نے جہاں کوئی قسم کھائی ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ نظری امور کے اثبات کے لئے بدیہی کو گواہ ٹھہراتا ہے.جیسے فرمایاوَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ.وَ الْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ.اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ (الطّارق: ۱۲ تا ۱۴) اب یہ بھی ایک قسم کا محل ہے.نادان قرآن شریف کے حقائق سے ناواقف اور نابلد اپنی جہالت سے یہ اعتراض کر دیتا ہے کہ دیکھو زمین کی یا آسمان کی قسم کھائی ہے لیکن اس کو نہیں معلوم کہ اس قسم کے نیچے کیسے کیسے معارف موجود ہیں.اصل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ وحی الٰہی کے دلائل اور قرآن شریف کی حقانیت کی شہادت پیش کرنی
چاہتا ہے اور اس کو اس طرز پر پیش کیا ہے.۱ اب اس قسم کی قَسم پر اعتراض کرنا بجز ناپاک فطرت یا بلید الطبع انسان کے دوسرے کا کام نہیں کیونکہ اس میں تو عظیم الشان صداقت موجود ہے.صحیفہ فطرت کی عام شہادت کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ کلام الٰہی اور نزول وحی کی حقیقت بتانی چاہتا ہے.سماء کے معنی بادل کے بھی ہیں جس سے مینہ برستا ہے.آسمان اور زمین میں ایسے تعلقات ہیں جیسے نر و مادہ میں ہوتے ہیں.زمین میں بھی کنوئیں ہوتے ہیں لیکن زمین پھر بھی آسمانی پانی کی محتاج رہتی ہے.جب تک آسمان سے بارش نہ ہو زمین مُردہ سمجھی جاتی ہے اور اس کی زندگی اس پانی پر منحصر ہے جو آسمان سے آتا ہے.اسی واسطے فرمایا ہے اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا(الـحدید: ۱۸) اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب آسمان سے پانی برسنے میں دیر ہو اور امساک باراں ہو تو کنوئوں کا پانی بھی خشک ہونے لگتا ہے اور ان ایام میں دیکھا گیا ہےکہ پانی اتر جاتا ہے.لیکن جب برسات کے دن ہوں اور مینہ برسنے شروع ہوں تو کنوؤں کا پانی بھی جوش مار کر چڑھتا ہے کیونکہ اوپر کے پانی میں قوت جاذبہ ہوتی ہے اب براہموں سوچیں کہ اگر آسمانی پانی نازل ہونا چھوڑ دے تو سب کنوئیں خشک ہو جائیں.اسی طرح پر ہم یہ مانتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک نور قلب ہر ایک انسان کو دیا ہے اور اس کے دماغ میں عقل رکھی ہے جس سے وہ برے بھلے میں تمیز کرنے کے قابل ہوتا ہے.لیکن اگر نبوت کا نور آسمان سے نازل نہ ہو اور یہ سلسلہ بند ہو جاوے تو دماغی عقلوں کا سلسلہ جاتا رہے اور نور قلب پر تاریکی پیدا ہو جاوے اور وہ بالکل کام دینے کے قابل نہ رہے کیونکہ یہ سلسلہ اسی نور نبوت سے روشنی پاتا ہے.جیسے بارش ہونے پر زمین کی روئید گیاں نکلنی شروع ہو جاتی ہیں اور ہر تخم پیدا ہونے لگتا ہے اسی طرح پر نور نبوت کے نزول پر دماغی اور ذہنی عقلوں میں ایک صفائی اور نورِ فراست میں ایک روشنی پیدا ہوتی ہے.اگرچہ یہ علیٰ قدرِ مراتب ہوتی ہے اور استعداد کے موافق ہر شخص فائدہ اٹھاتا ہے.خواہ وہ اس اَمر کو محسوس کرے یا نہ کرے لیکن یہ سب کچھ ہوتا اسی نور نبوت کے طفیل ہے.۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱ تا ۳
نزول وحی کی ضرورت کا ثبوت غرض اس قسم میں نزول وحی کی ضرورت کو ایک عام مشاہدہ کی رو سے ثابت کیا ہے کہ جیسے آسمانی پانی کے نہ برسنے کی وجہ سے زمین مَرجاتی اور کنوئوں کا پانی خشک ہونے لگتا ہے یہی قانون نزول وحی کے متعلق ہے.رَجْعٌ پانی کو کہتے ہیں.حالانکہ پانی زمین پر بھی ہوتا ہے لیکن آسمان کوذَاتِ الرَّجْعِ کہا ہے.اس میں یہ فلسفہ بتایا ہے کہ اصلی آسمانی پانی ہی ہے.چنانچہ کہا ہے.؎ باراں کہ در لطافت طبعش دریغ نیست در باغ لالہ روید و در شورہ بوم خس جو کیفیت بارش کے وقت ہوتی ہے وہی نزول وحی کے وقت.دو قسم کی طبیعتیں موجود ہوتی ہیں.ایک تو مستعد ہوتی ہیں اور دوسری بلید.مستعد طبیعت والے فوراً سمجھ لیتے ہیں اور صادق کا ساتھ دے دیتے ہیں لیکن بلید الطبع نہیں سمجھ سکتے اور وہ مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں.دیکھو! مکہ معظمہ میں جب وحی کا نزول ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا تعالیٰ کا کلام اترنے لگا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ابو جہل ایک ہی سرزمین کے دوشخص تھے.ابوبکرؓ نے تو کوئی نشان بھی نہ مانگا اور مجرد دعویٰ سنتے ہی اٰمَنَّا کہہ کر ساتھ ہو لیا.مگر ابو جہل نے نشان پر نشان دیکھے مگر تکذیب سے باز نہ آیا اور آخر خدا تعالیٰ کے قہر کے نیچے آکر ذلّت کے ساتھ ہلاک ہوا.غرض خدا تعالیٰ کی وحی ہر قسم کی طبیعتوں کو باہر نکال دیتی ہے.طیّب اور خبیث میں امتیاز کرکے دکھا دیتی ہے.وہ بہار کا موسم ہوتا ہے.اس وقت ممکن نہیں کہ کوئی تخم شگفتگی کے لئے نہ نکلے.لیکن جو کچھ ہوگا وہی بر آمد ہوگا.نیک اور سعید الفطرت اپنی جگہ پر نمودار ہوتے ہیں اور خبیث الگ.اور اس سے پہلے وہ ملے جلے ہوئے ہوتے ہیں جیسے گندم اور بھگاٹ کے دانے ملے ہوئے تو رہتے ہیں لیکن جب زمین سے نکلتے ہیں تو دونوں الگ نظر آتے ہیں.مالک گندم کی حفاظت کرتا اور بھگاٹ کو نکال کر باہر پھینکتا ہے.پس نزول وحی کے ثبوت کے لئے اﷲ تعالیٰ نے یہ مشاہدہ پیش کیا ہے جس کو نادان
اپنی نادانی اور جہالت سے اعتراض کے رنگ میں پیش کرتا ہے حالانکہ اس میں ایک عظیم الشان فلسفہ رکھاہوا ہے.اسی لئے وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ.وَ الْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ (الطّارق: ۱۲ تا ۱۳) کہہ کر فرمایا اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ (الطّارق: ۱۴).اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ جو کلام الٰہی کے لئے بولا گیا ہے یہ ایک نظری اَمر تھا.اس کے ثبوت کے لئے بدیہی اَمر کو پیش کیا ہے.جیسے امساکِ باراں کے وقت ضرورت ہوتی ہے مینہ کی اسی طرح پر اس وقت لوگ روحانی پانی کو چاہتے ہیں.زمین بالکل مَرچکی ہے.یہ زمانہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ(الرّوم: ۴۲) کا ہو گیا ہے جنگل اور سمندر بگڑ چکے ہیں.جنگل سے مراد مشرک لوگ اور بحر سے اہل کتاب ہیں.جاہل و عالم بھی مراد ہوسکتے ہیں.غرض انسانوں کے ہر طبقہ میں فساد واقع ہو گیا ہے جس پہلو اور جس رنگ میں دیکھو دنیا کی حالت بدل گئی ہے.روحانیت باقی نہیں رہی اور نہ اس کی تاثیریں نظر آتی ہیں.اخلاقی اور عملی کمزوریوں میں ہر چھوٹا بڑا مبتلا ہے.خدا پرستی اور خد اشناسی کا نام و نشان مٹا ہوا نظر آتا ہے.اس لئے اس وقت ضرورت ہے کہ آسمانی پانی اور نور نبوت کا نزول ہو اور مستعد دلوں کو روشنی بخشے.خدا تعالیٰ کا شکر کرو اس نے اپنے فضل سے اس وقت اس نور کو نازل کیا ہے مگر تھوڑے ہیں جو اس نور سے فائدہ اٹھاتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کی بنا پر دلائل عقلیہ اور نشانات بیّنہ سے اس سلسلہ کی صداقت کو ظاہر کر رہا ہے.تعلیم کو اگر انسان دیکھے تو صاف معلوم ہوسکتا ہے کہ سچی تعلیم یہی تعلیم ہے جس کو عقلمند قبول کریں گے.اسلامی تعلیم ہی ایک ایسی تعلیم ہے کہ جس کو عدل کہتے ہیں.اس تعلیم میں ایک کشش موجود ہے.اﷲ تعالیٰ (اسلام اور عیسائی تعلیمات کی رو سے) سورۃ فاتحہ میں جس خدا کو پیش کیا ہے دنیا کا کوئی مذہب اسے پیش نہیں کرتا.عیسائیوں نے جو خدا دکھایا ہے اس کے مقابلہ میں ہم کہتے ہیں لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُوْلَدْ (الاخلاص: ۴) ہے.ہاں اگر مریم کے پیٹ میں واقعی خدا آگیا تھا تو چاہیے تھا کہ وہ پیٹ ہی میں مریم کو وعظ کرتے اور ایک لمبا لیکچر دیتے جس کو دوسرے لوگ بھی سن لیتے تو اس خارق عادت لیکچر کو
سن کر سارے شبہات دور ہو جاتے اور خواہ نخواہ ماننا پڑتا بلکہ اور بھی خدائی کا ثبوت ملتا.اگر پیٹ ہی میں معجزے دکھانے شروع کر دیتے تو اور بھی معاملہ صاف ہو جاتااور خواہ نخواہ ماننا پڑتا.مگر بجائے اس کے کہ اس کی الوہیت کی کوئی عظمت ثابت ہوتی ہر پہلو سے اس کا نقص اور کمزوری ہی ثابت ہوتی ہے.مریم کے نکاح سے تین قَسمیں توڑی گئیں مریم کا نکاح حمل میں کیا گیا جو شرعاً جائز نہ تھا اور ایک نکاح سے تین قسمیں توڑی گئیں.یعنی ماں نے عہد کیا تھا کہ نکاح نہ کروں گی اور خود مریم نے بھی عہد کیا ہوا تھا.اور ان ساری باتوں کے علاوہ ایک اور اعتراض ہے جس کا جواب عیسائی نہیں دے سکتے.عیسائی مذہب میں دوسری شادی منع ہے لیکن یوسف کی پہلی بیوی تھی اَور بھی اس قسم کے اعتراض ہیں.یہودیوں کی کتابوں کو پڑھو وہ کیا حقیقت بیان کرتے ہیں اور ہم کو تو ایسے اعتراض کرتے ہوئے بھی افسوس اور حیا مانع ہوتے ہیں.پادری عمادالدین نے اپنی کتابوں میں راحاب، تمر اور بنتِ سبع کی بابت لکھا ہے کہ وہ اچھے چال چلن کی عورتیں نہ تھیں.وہ لکھتا ہے کہ خدا وند نے یہ کیا کیا کہ ایسے خاندان میں جنم لیا.پھر خود ہی جواب دیتا ہے کہ وہ ایسا کریم ہے کہ ایسے لوگوں میں بھی جنم لینے سے دریغ نہیں کیا.مگر ایک دانشمند غور کرے کہ یہ کیسی وسعت اخلاق ہے.اسلام کا پیش کردہ خدا لیکن ہمارا خدا لَمْ يَلِدْ ہے اور کس قدر خوشی اور شکر کا مقام ہے کہ جس خدا کو ہم نے مانا اور اسلام نے پیش کیا ہے وہ ہر طرح کامل اور قدوس ہے اور کوئی نقص اس میں نہیں.دو خوبیاں کامل طور پر اﷲ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں اور ساری صفات ان کو بیان کرتی ہیں.چنانچہ اوّل یہ کہ اس میں ذاتی حسن ہے اور اس کے متعلق لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ(الشّورٰی: ۱۲)فرمایا.قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ(الاخلاص: ۲) فرمایا اور کہا کہ وہ الصَّمَدُ ہے، بےنیاز ہے، نہ وہ کسی کا بیٹا ہے نہ اس کاکوئی بیٹا ہے.نہ کوئی اس کا ہمتا اور ہمسر ہے.قرآن شریف کو غور سے پڑھو تو معلوم ہوگا کہ جا بجا اس کا حسن دکھایا گیا ہے.
پھر دوسری کشش احسان کی ہے.عیسائیوں نے خدا کے احسان کا کیا نمونہ دکھایا یہی کہ اپنے بچہ کو پھانسی دے دیا.مولوی صاحب (مولوی نورالدین صاحب) ذکر کیا کرتے ہیں کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو کہہ رہا تھا کہ خدا نے اس جہان کو کیسا پیار کیا کہ اپنا بیٹا پھانسی دے دیا.لڑکا یہ سن کر ڈر گیا اور بھاگ گیا اور جب اس سے بھاگنے کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے یہی کہا کہ جب خدا نے یہ حرکت کی تو تجھ سے کیا امید ہوسکتی ہے.انسان خدا سے محبت کرتا ہے تو پھر اس کو سب سے مقدم کر لیتا ہے.ہزاروں بھیڑیں بکریاں موجود ہیں.اگر محبت کا یہی نشان ہے اور مارنے والے عزیز ہوتے ہیں تو کیا یہ چیزیں خد اکو انسان سے عزیز ترین ہوتی ہیں؟ مگر ایسا نہیں.لاکھوں چیزیں انسان کے لئے وہ ہلاک کرتا ہے.پانی میں کیڑے رکھے ہوئے ہوتے ہیں.یہ بھی خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کیونکہ بسیط چیزیں ہلاک کر دیتی ہیں.غرض یہ اصل صحیح نہیں ہے جو سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ جس چیز سے پیار کرتا ہے اس کو ہلاک کرتا ہے.سچا خدا جس سے پیار کرتا ہے اس کی تائید کرتا ہے کیونکہ وہ خدا فرماتا ہےكَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ (المجادلۃ:۲۲) عیسائی اپنے خدا کی نسبت ایسا نمونہ پیش نہیں کرتے اور حقیقت میں نہیں ہے.کیونکہ مسیح کا اپنا نمونہ یہ ہے کہ دشمنوں کے ہاتھوں سے سخت ذلیل ہوئے اور اس وقت وہ خود اگر خدا تھے یا خدا کے بیٹے تھے تو دشمنوں کو خطرناک ذلّت پہنچنی چاہیے تھی مگر بظاہر دشمن کامیاب ہو گئے اور انہوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑھا ہی دیا.لیکن ہمارا خدا ایسا نہیں ہے اس نے اپنے رسولوں کی ہرمیدان میں نصرت کی اور کامیاب کیا.اب دوسرے مذہب اس کا نمونہ کہاں سے لائیں.یہ یاد رکھو کہ ہمارا خدا کسی کو پھانسی دینا نہیں چاہتا جس قدر کام کریں گے اس میں عزّت پائیں گے.اس نے ہمارے قویٰ کو بے کار نہیں رکھا.بقول سعدی ؎ حقا کہ با عقوبت دوزخ برابر است رفتن بپائے مَردی ہمسایہ در بہشت خدا نے چاہا ہے کہ تم زنانہ سیرت نہ بنو بلکہ مَرد بنو.اب کیسی بات ہے.کیسے احسان کئے ہیں کہ ہم پر حقائق و معارف کے خزانے کھولے ہیں.کسی کے سامنے ہمیں اس نے شرمندہ نہیں کیا.عیسائی
کیسے شرمندہ ہوتے ہیں.آریوں کو کیسے شرمندہ ہونا پڑتا ہے.کیا کوئی عیسائی فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ ہمار ے خداوند کی تین دادیاں نانیاں بدکار تھیں.الغرض انسان یا حسن کا گرویدہ ہوتا ہے یا احسان کا اور کامل طور پر یہ اسلام نے اﷲ تعالیٰ کی نسبت بیان کئے ہیں.سورۃ فاتحہ میں پہلے حسن و احسان ہی کو دکھایا ہے اور اگر ان سے انسان اس کی طرف رجوع نہیں کرتا تو پھر تیسری صورت غضب کی بھی ہے.اس لئےغَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ(الفاتحۃ: ۷) کہہ کر ڈرایا ہے لیکن مبارک وہی شخص ہے جو اس کے حسن اور احسان سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کے احکام کی پیروی کرتا ہے.اس سے خد اقریب ہوجاتا ہے اور دعائوں کو سنتا ہے.عقل روح کی صفائی سے پیدا ہوتی ہے یاد رکھو کہ عقل روح کی صفائی سے پیدا ہوتی ہے.جس جس قدر انسان روح کی صفائی کرتا ہے اسی اسی قدر عقل میں تیزی پیدا ہوتی ہے اور فرشتہ سامنے کھڑا ہو کر اس کی مدد کرتا ہے مگر فاسقانہ زندگی والے کے دماغ میں روشنی نہیں آسکتی.تقویٰ اختیار کرو تقویٰ اختیار کرو کہ خدا تمہارے ساتھ ہو.صادق کے ساتھ رہو کہ تقویٰ کی حقیقت تم پر کھلے اور تمہیں توفیق ملے.یہی ہمارا منشا ہے اور اسی کو ہم دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں.۱ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء (دوران سفر جہلم بمقام لاہور) آپؑپا پیادہ سٹیشن کو روانہ ہوئے.راستہ میں مولوی محمد احسن صاحب امروہی کے استفسار پر فرمایا کہ رات کو کثرت سے بار بار یہ الہام ہوا ہے اُرِیْکَ بَرَکَاتٍ مِّنْ کُلِّ طَرْفٍ یعنی میں ہر ایک جانب سے تجھے اپنی برکتیں دکھائوں گا.۲ ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۲ مورخہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱ تا ۳ ۲ البدر جلد ۲ نمبر ۱، ۲ مورخہ ۲۳، ۳۰ ؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹
۱۷ ؍جنوری ۱۹۰۳ء (حضرت حجۃ اللہ جہلم میں ) ایک الہام کی تشریح ۱۷ ؍جنوری ۱۹۰۳ء کو کچہری جانے سے پیشتر اعلیٰ حضرت نے ہمارےمحترم مخدوم جناب خان محمد عجب خان صاحب آف زیدہ کو خطاب کرکے فرمایا کہ آپ نے رخصت لی ہے ہمارے پاس بھی رہنا چاہیے خان صاحب نے دارالامان آنے کا وعدہ کیا اورتھوڑی دیر کے بعد پوچھاکہ اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ پر لوگ اعتراضات کرتے ہیں.اس کا کیا جواب دیا جاوے؟ فرمایا.اَنْتَ مِنِّیْ تو بالکل صاف ہے اس پر کسی قسم کا اعتراض اور نکتہ چینی نہیں ہوسکتی میرا ظہور محض اللہ تعالیٰ ہی کے فضل سے ہے اور اسی سے ہے.دوسرا حصہ اس الہام کا کسی قدر شرح طلب ہے سو یاد رکھنا چاہیے کہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جیسا قرآن شریف میں بار بار اس کا ذکر ہوا ہے وحدہٗ لاشریک ہے نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے نہ صفات میں نہ افعالِ الٰہیہ میں.سچی بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمانِ کامل اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک انسان ہر قسم کے شرک سے پاک نہ ہو.توحید تب ہی پوری ہوتی ہے کہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کو کیا باعتبار ذات اور کیا باعتبار صفات اور افعال کے بے مثل مانے.نادان میرے اس الہام پر تو اعتراض کرتے ہیں اور سمجھتے نہیں کہ اس کی حقیقت کیا ہے لیکن اپنی زبان سے ایک خدا کا اقرار کرنے کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کی صفات دوسرے کے لیے تجویز کرتے ہیں جیسے حضرت مسیح علیہ ا لسلا م کو محیی اور ممیت مانتے ہیں، عالم الغیب مانتے ہیں، حیُّ القیوم مانتے ہیں.کیا یہ شرک ہے یا نہیں؟ یہ خطرناک شرک ہے جس نے عیسائی قوم کو تباہ کیا ہے اوراب مسلمانوں نے اپنی بد قسمتی سے ان کے اس قسم کے اعتقادوں کو اپنے اعتقادات میں داخل کر لیا ہے پس اس قسم کے صفات جو اللہ تعالیٰ کے ہیں کسی دوسرے انسان میں خواہ وہ نبی ہو یا ولی تجویزنہ کرے اور اسی طرح
خدا تعالیٰ کے افعال میں بھی کسی دوسرے کو شریک نہ کرے.دنیا میں جو اسباب کا سلسلہ جاری ہے بعض لوگ اس حد تک اسباب پرست ہوجاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں.توحید کی اصل حقیقت تو یہ ہے کہ شرک فی الاسباب کا بھی شائبہ باقی نہ رہے.خواص الاشیاء کی نسبت کبھی یہ یقین نہ کیا جاوے کہ وہ خواص ان کے ذاتی ہیں بلکہ یہ ماننا چاہیے کہ وہ خواص بھی اللہ تعالیٰ نے ان میں ودیعت رکھے ہیں.جیسے تُربد اسہال لاتی ہے یا سمّ الفار ہلاک کرتا ہے.اب یہ قوتیں اور خواص ان چیزوں کے خود بخود نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں رکھے ہوئے ہیں.اگر وہ نکال لے تو پھرنہ تُربد دست آور ہوسکتی ہے اور نہ سنکھیا ہلاک کرنے کی خاصیت رکھ سکتا ہے اور نہ اسے کھا کر کوئی مَر سکتا ہے.غرض اسباب کے سلسلہ کو حدِّ اعتدال سے نہ بڑھاوے اور صفات وافعالِ الٰہیہ میں کسی کوشریک نہ کرے تو توحید کی حقیقت اس میں متحقق ہوگی اوراُ سے موحّد کہیں گے.لاکن اگر وہ صفات و افعالِ الٰہیہ کو کسی دوسرے کے لیے تجویز کرتا ہے تو وہ زبان سے گو کتنا ہی توحید ماننے کا اقرارکرے وہ موحّد نہیں کہلا سکتا.ایسے موحد تو آریہ بھی ہیں جو اپنی زبان سے کہتے ہیں کہ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں لیکن باوجود اس اقرار کے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ روح اور مادہ کو خدا نے پیدا نہیں کیا.وہ اپنے وجود اور قیام میں اللہ تعالیٰ کے محتاج نہیں ہیں گویا اپنی ذات میں ایک مستقل وجود رکھتے ہیں.اس سے بڑھ کر اور کیا شرک ہوگا.اسی طرح پر بہت سے لوگ ہیں جو شرک اور توحیدمیں فرق نہیں کرسکتے.ایسے افعال اور اعمال ان سے سر زد ہوتے ہیں یا وہ اس قسم کے اعتقاد ات رکھتے ہیں جن میں صاف طور پرشرک پایا جاتا ہے مثلاً کہہ دیتے ہیں کہ اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو ہم ہلاک ہوجاتے یا فلاں کام درست نہ ہوتا.پس انسان کو چاہیے کہ اسباب کے سلسلہ کو حدّ اعتدال سے نہ بڑھاوے اور صفت و افعالِ الٰہیہ میں کسی کو شریک نہ کرے.انسان میں جو قوتیں اور ملکے اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں ان میں وہ حد سے نہیں بڑھ سکتے مثلاً آنکھ اس نے دیکھنے کے لیے بنائی ہے اور کان سننے کے لیے، زبان بولنے اور ذائقہ کے لیے.اب یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کانوں سے بجائے سننے کے دیکھنے کا کام لے اور زبان سے بولنے اور چکھنے کی
بجائے سننے کا کام لے.ان اعضا اور قویٰ کے افعال اور خواص محدود ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے افعال اور صفات محدود نہیں ہیں اور وہ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ(الشورٰی:۱۲)ہے.غرض یہ توحید تب ہی پوری ہوگی جب اللہ تعالیٰ کو ہر طرح سے وحدہٗ لا شریک یقین کیا جاوے اور انسان اپنی حقیقت کو ہا لکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت سمجھ لے.کہ نہ میں اورنہ میری تدابیر اور اسباب کچھ چیز ہیں.رعایتِ اسباب بھی ضروری ہے اس سے ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید ہم استعمالِ اسباب سے منع کرتے ہیں یہ صحیح نہیں ہے ہم اسباب کے استعمال سے منع نہیں کرتے بلکہ رعایتِ اسباب بھی ضروری ہے کیونکہ انسانی بناوٹ بجائے خود اس رعایت کو چاہتی ہے لیکن اسباب کا استعمال اس حد تک نہ کرے کہ ان کو خدا کا شریک بناوے بلکہ ان کو بطورخادم سمجھے جیسے کسی کو بٹالہ جانا ہو تو وہ یکّہ یا ٹٹو کرایہ کرتا ہے تو اصل مقصد اس کا بٹالہ پہنچنا ہے نہ وہ ٹٹو یا یکّہ.پس اسباب پر کُلّی بھروسا نہ کرے یہ سمجھے کہ ان اسباب میں اللہ تعالیٰ نے کچھ تاثیریں رکھی ہیں اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہے تو وہ تاثیریں بے کار ہوجائیں اور کوئی نفع نہ دیں.اسی کے موافق ہے جو مجھے الہام ہوا ہے رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ.اسباب پرستی شرک ہے بُت پرستوں کا شرک تو موٹا ہوتا ہے کہ پتھر بنا کر پو جا کرتے ہیں یا کسی درخت یا اور شَے کی پرستش کرتے ہیں اس کو تو ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ باطل ہے یہ زمانہ اس قسم کی بُت پرستی کا نہیں ہے بلکہ اسباب پرستی کا زمانہ ہے اگر کوئی بالکل ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہے اور سُست ہو جاوے تو اس پر تو خدا کی لعنت ہوتی ہے لیکن جو اسباب کو خدا بنا لیتا ہے وہ بھی ہلاک ہو جاتا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ اس وقت یو رپ دو شرکوں میں مبتلا ہے ایک تو مُردہ کی پرستش کرر ہا ہے اور جو اس سے بچے ہیں اورمذہب سے آزاد ہو گئے ہیں وہ اسباب کی پرستش کر رہے ہیں اور اس طرح پر یہ اسباب پرستی مرض دِق کی طرح لگی ہوئی ہے اور یورپ کی تقلید نے اس ملک کے نو جوانوں اورنو تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی ایسی مرض میں مبتلا کر دیا ہے وہ اب سمجھتے ہی نہیں ہیں کہ ہم اسلام سے باہر جا رہے ہیں اور خدا پرستی کو چھوڑ کر اسباب پرستی کے دِق
میں مبتلا ہو رہے ہیں.یہ دِق دور نہیں ہوسکتی اور اس کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا جب تک انسان کے دل میں خدا کی ایک نالی نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کے فیض اور اثر کو اس تک پہنچاتی ہے اور یہ نا لی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان ایک منکسرالنفس ہو جاوے اوراپنی ہستی کو بالکل فانی سمجھ لے جس کو فنا نظری کہتے ہیں.فناکی حقیقت فناکی دو قسمیں ہیں.ایک فنا حقیقی ہوتی ہے جیسے وجودی مانتے ہیں کہ سب خدا ہی ہیں یہ تو بالکل باطل اور غلط ہے اور یہ شرک ہے لیکن دوسری قسم فنا کی فنا نظری ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا شدید اور گہراتعلق ہوکہ اس کے بغیر ہم کچھ چیز ہی نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ کی ہستی ہی ہستی ہو باقی سب ہیچ اور فانی ہو.یہ فناءِ اتمّ کا درجہ توحید کے اعلیٰ مرتبہ پر حاصل ہوتا ہے اور توحید کامل ہی اس درجہ پر ہوتی ہے.جو انسان اس درجہ پر پہنچتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں کچھ ایسا کھو یاجاتا ہے کہ اس کا اپنا وجود بالکل نیست و نابود ہو جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے عشق اور محبت میں ایک نئی زندگی حاصل کرتا ہے جیسے ایک لوہے کا ٹکڑا آگ میں ڈالا جاوے اور وہ اس قدر گرم کیا جاوے کہ سُرخ آگ کے انگارے کی طرح ہو جاوے.۱ اُس وقت وہ لوہا آگ ہی کی ہم شکل ہوجاتا ہے.اسی طرح پر جب ایک راست باز بندہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور وفاداری کے اعلیٰ درجہ پر پہنچ کر فنا فی اللہ ہوجاتا ہے اور کمال درجہ کی نیستی ظہور پاتی ہے اس وقت وہ ایک نمونہ خدا کا ہوتا ہے اور حقیقی طور پر وہ اس وقت کہلاتا ہے.اَنْتَ مِنِّیْ یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جو دعا سے ملتا ہے.یاد رکھو دعا جیسی کوئی چیز نہیں ہے اِس لیے مومن کاکام ہے کہ ہمیشہ دعا میں لگا رہے اور اس استقلال اور صبر کے ساتھ دعا کرے کہ اس کو کمال کے درجہ پر پہنچاوے.اپنی طرف سے کوئی کمی اور دقیقہ فروگذاشت نہ کرے اور اس بات کی بھی پروا نہ کرے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا بلکہ ؎ گر نباشد بدوست راہ بُردن شرطِ عشق است درطلب مُردن جب انسان اس حد تک دعا کو پہنچاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس دعا کا جواب دیتا ہے جیسا کہ اُس نے ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۳۶ مورخہ ۳۰؍ ستمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۲
نے وعدہ فرمایا ہے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن:۶۱) یعنی تم مجھے پکارو میں تمہیں جواب دوں گا اور تمہاری دعا قبول کروں گا.حقیقت میں دعا کرنا بڑا ہی مشکل ہے.جب تک انسان پورے صدق ووفا کے ساتھ اور صبر اور استقلال سے دعا میں لگا نہ رہے تو کچھ فائدہ نہیں ہوتا.بہت سے لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں جو دعا کرتے ہیں مگر بڑی بے دِلی اور عجلت سے چاہتے ہیں کہ ایک ہی دن میں اُن کی دعامثمر بہ ثمرات ہو جاوے حالانکہ یہ اَمر سنّت اللہ کے خلاف ہے اس نے ہر کام کے لئے اوقات مقرر فر مائے ہیں اور جس قدر کام دنیا میں ہو رہے ہیں وہ تدریجی ہیں.اگرچہ وہ قادر ہے کہ ایک طُرفۃ العین میں جو چاہے سو کر دے اور ایک کُنْ سے سب کچھ ہو جاتا ہے.مگر دنیا میں اُس نے اپنا یہی قانون رکھا ہے.اس لیے دعا کرتے وقت آدمی کو اس کے نتیجہ کے ظاہر ہونے کے لیے گھبرانا نہیں چاہیے.اپنی زبان میں دعا کرنے کی حکمت یہ بھی یاد رکھو دعا اپنی زبان میں بھی کرسکتے ہو بلکہ چاہیے کہ مسنون اَدعیہ کے بعد اپنی زبان میں آدمی دعا کرے کیونکہ اس زبان میں وہ پُورے طور پر اپنے خیالات اور حالات کا اظہار کرسکتا ہے اِس زبان پر وہ قادر ہوتاہے.دعا نماز کا مغز اور رُوح ہے اور رسمی نماز جب تک اس میں رُوح نہ ہو کچھ نہیں اور رُوح کے پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ گریہ و بکا اور خشوع و خضوع ہو اور یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی حالت کو بخوبی بیان کرے اور ایک اضطراب اور قلق اس کے دل میں ہو اور یہ بات اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک اپنی زبان میں انسان اپنے مطالب کو پیش نہ کرے.غرض دعا کے ساتھ صدق اور وفا کو طلب کرے اور پھر اللہ تعالیٰ کی محبت میں وفاداری کے ساتھ فنا ہو کر کامل نیستی کی صورت اختیار کرے اس نیستی سے ایک ہستی پیدا ہوتی ہے جس میں وہ اِس بات کا حقدار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے کہے کہ اَنْتَ مِنِّیْ.اصل حقیقت اَنْتَ مِنِّیْکی تو یہ ہے اور عام طور پر ظاہر ہی ہے کہ ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم سے ہے.اب اس کے بعد ایک اور حصہ اس الہام کا ہے جو وَاَنَا مِنْکَ ہے پس اس کی حقیقت سمجھنے کے واسطے
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایسا انسان جو نیستی کے کامل درجہ پر پہنچ کر ایک نئی زندگی اور حیات ِ طیبہ حاصل کر چکا ہے اور جس کو خدا تعالیٰ نے مخاطب کرکے فرمایا ہے اَنْتَ مِنِّيْ.جو اس کے قرب اور معرفتِ الٰہی کی حقیقت سے آشنا ہونے کی دلیل ہے اور یہ انسان خدا تعالیٰ کی توحید اور اُس کی عزّت و عظمت اورجلال کے ظہور کاموجب ہو اکرتاہے.وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ایک عینی اور زندہ ثبوت ہوتا ہے اس رنگ سے اور اس لحاظ سے گویا خدا تعالیٰ کا ظہور اس میں ہوکر ہوتا ہے.اور خدا تعالیٰ کے ظہور کا ایک آئینہ ہوتا ہے.اس حالت میں جب ان کا وجود خدا نما آئینہ ہو.اللہ تعالیٰ ان کے لیے یہ کہتا ہے وَاَنَا مِنْکَ.ایسا انسان جس کو اَنَا مِنْکَ کی آواز آتی ہے اُس وقت دنیا میں آتا ہے جب خدا پرستی کا نام و نشان مِٹ گیا ہوتا ہے.اس وقت بھی چونکہ دنیا میں فسق و فجور بہت بڑھ گیا ہے اور خدا شناسی اور خدا رسی کی راہیں نظر نہیں آتی ہیں اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور محض اپنے فضل و کرم سے اُس نے مجھ کو مبعوث کیا ہے تا میں ان لوگوں کوجواللہ تعالیٰ سے غافل اور بے خبر ہیں اس کی اطلاع دوں اور نہ صرف اطلاع بلکہ جو صدق اور صبر اور وفاداری کے ساتھ اس طرف آئیں انہیں خدا تعالیٰ کو دکھلا دوں.اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے مجھے مخاطب کیا اور فرمایا اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ.اعتراض پیدا ہونے کی وجہ اعتراض کرنے کو کیا ہے جب طبیعت میں فساد اور ناپاکی ہو تو وہ نیکی کی طرف کب آنا پسند کرتی ہے بلکہ خلافِ طبع سمجھ کر اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے.میرے اس الہام کی سچائی کا ثبوت اس پر اعتراض ہی ہیں.اگر خدا تعالیٰ کا انکار اور دہریت بڑھی ہوئی نہ ہوتی تو کیوں اعتراض کیا جاتا.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس وقت خدا تعالیٰ کا پاک اور خوشنما چہرہ دنیا کو نظر نہ آتا تھااور وہ اب مجھ میں ہو کر نظر آئے گا اور آرہا ہے کیونکہ اُس کی قدرتوں کے نمونے اور عجائبات ِ قدرت میرے ہاتھ پر ظاہر ہورہے ہیں.جن کی آنکھیں کھلی ہیں وہ دیکھتے ہیں مگر جو اندھے ہیں وہ کیوں کر دیکھ سکتے ہیں اللہ تعالیٰ اس اَمر کو محبوب رکھتا ہے کہ وہ شناخت کیا جاوے اور اُس کی شناخت کی یہی راہ ہے کہ مجھے
شناخت کرو۱ یہی وجہ ہے کہ میرا نام اس نے خلیفۃ اللہ رکھا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ کُنْتُ کَنْـزًا مَّـخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ اس میں آدم میرا نام رکھاہے.یہ حقیقت اس الہام کی ہے.اب اس پر بھی کوئی اعتراض کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ خود اس کو دکھاوے گا کہ وہ کہاں تک حق پر ہے.۲ حضرت اقدس ؑ جہلم میں حضرت حجۃ اللہ علی الارض مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃوالسلام جب مقدمہ کرم الدین میں جہلم تشریف لائے تھے اور ضلع جہلم اور اس کے گردو نواح کی مخلوق آپ کی زیارت کے لیے کثیر التعداد جمع ہوئی تھی اور جہلم کی کچہری کے احاطے میں آدم زاد ہی آدم زاد نظر آتا تھا جس کی تصدیق جہلم کے اخبار نے بھی کی تھی اور جہلم کی کل مخلوق اور احکام بھی اس اَمرکو جانتے ہیں.اس روز ۱۷ ؍ جنوری ۱۹۰۳ء کو احاطہ عدالت میں آپ کرسی پر تشریف فرما تھے اور ارد گرد مریدان باصفا نہایت ادب کے ساتھ حلقہ زن تھے اور ہزاروں انسان کا مجمع موجود تھا ہمارے محترم مخدوم جناب خان محمد عجب خان آف زیدہ بھی آپ کی کرسی کے پاس ایڈیٹر الحکم کے پہلو بہ پہلو بیٹھے ہوئے تھے اس وقت جناب خان محمد عجب خان صاحب آف زیدہ نے جو اس قدرہجوم اور رجوع مخلوق کا دیکھا اور حضرت اقدس کے چہرہ پر نگاہ کی تو خوشی اور اخلاص کے ساتھ ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور اپنی سعادت اور خوش قسمتی کو یاد کرکے (کہ اِس وقت اُس عظیم الشان انسان کے قدموں میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہے جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کہا اورجس کا آنا اپنا آنا فرمایا ہے )عرض کیا کہ حضور! میرا دل چاہتا ہے کہ میں جناب کے دستِ مبارک کو بوسہ دوں.اس پر حضرت حجۃ اللہ نے نہایت ہی شفقت کے ساتھ اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور خان صاحب موصوف نے بہت ہی ۱ اس جگہ ایڈیٹرالحکم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مندرجہ ذیل شعر درج کیا ہے جو بہت بر محل ہے.وَلِلّٰہِ دَرُّکَ ؎ آں خدائے کہ ازو اہل جہاں بےخبر اند بر من او جلوہ نمود است گر اہلی بپذیر (مرتّب) ۲ الحکم جلد ۷نمبر ۳۷ مورخہ ۱۰ ؍کتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱،۲
متأثر اوررِقت ِقلب کے ساتھ آپ کے دستِ مبارک کو بوسہ دیا اس پرحضرت حجۃ اللہ نے مؤثر تقریرفرمائی.بلند ہمتی فرمایا.ہمّت نہیں ہار نی چاہیے.ہمّت اخلاقِ فاضلہ میں سے ہے اور مومن بڑا بلند ہمّت ہوتا ہے ہر وقت خدا تعالیٰ کے دین کی نصرت اور تائید کے لیے طیار رہناچاہیے اور کبھی بزدلی ظاہر نہ کرے بزدلی منافق کا نشان ہے.مومن دلیر اور شجاع ہوتا ہے مگر شجاعت سے یہ مراد نہیں ہے کہ اس میں موقع شناسی نہ ہو موقع شناسی کے بغیر جو فعل کیا جاتا ہے وہ تہوّر ہوتا ہے مومن میں شتاب کاری نہیں ہوتی بلکہ وہ نہایت ہو شیاری اور تحمل کے ساتھ نصرتِ دین کے لیے طیار رہتا ہے اور بزدل نہیں ہوتا.انسان سے کبھی ایسا کام ہو جاتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کو ناراض کر دیتا ہے اور کبھی ناپسند کر دیتا ہے مثلاً کسی سائل کو اگر دھکادیا تو سختی کا موجب ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والا فعل ہوتا ہے اور اسے توفیق نہیں ملے گی کہ وہ اس کو کچھ دے سکے لیکن اگر نرمی یا اخلاق سے پیش آوے گا اور خواہ اسے پیالہ پانی ہی کا دیدے تو ازالۂ قبض کا موجب ہو جاوے گا.قبض وبسط انسان پر قبض اور بسط کی حالت آتی ہے.بسط کی حالت میں ذوق اور شوق بڑ ھ جاتا ہے اور قلب میں ایک انشراح پیدا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف توجہ بڑھتی ہے.نمازوں میں لذّت اور سرور پیدا ہوتا ہے لیکن بعض وقت ایسی حالت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ذوق اور شوق جاتا رہتا ہے اور دل میں ایک تنگی کی سی حالت ہو جاتی ہے.جب یہ صورت ہو تو اس کا علاج یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور پھر درود شریف بہت پڑھے.نماز بھی بار بار پڑھیں.قبض کے دور ہونے کا یہی علاج ہے.حقیقی علم علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں ہے بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہوتاہے اور خشیت الٰہی پیدا ہوتی ہے.جیسا کہ قرآن شریف میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓـؤُا (فاطر:۲۹) اگر علم
سے اللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہوتی تو یاد رکھو کہ وہ علم ترقی معرفت کا ذریعہ نہیں ہے.۱ ایمان کے لئے مناسبت شرط ہے قرآن شریف سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جب تک انسان کی فطرت میں سعادت اور ایک مناسبت نہ ہو ایمان پیدا نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ کے مامور اور مُر سل اگرچہ کھلے کھلے نشان لے کر آتے ہیں مگر اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ ان نشانوں میں ابتلا اور خِفا کے پہلو بھی ضرور ہوتے ہیں.سعید جو باریک بین اور دور بین نگاہ رکھتے ہیں اپنی سعادت اور مناسبتِ فطرت سے ان اُمور کو جو دوسروں کی نگاہ میں مخفی ہوتے ہیں دیکھ لیتے ہیں اور ایمان لے آتے ہیں لیکن جو سطحی خیال کے لوگ ہوتے ہیں اور جن کی فطرت کو سعادت اور رُشد سے کوئی مناسبت اورحصّہ نہیں ہوتا وہ انکار کرتے ہیں اور تکذیب پر آمادہ ہو جاتے ہیں جس کا بُرا نتیجہ ان کو برداشت کرنا پڑتا ہے.دیکھو! مکہ معظمہ میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا تو ابو جہل بھی مکّہ ہی میں تھا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی مکّہ ہی کے تھے لیکن ابو بکر ؓ کی فطرت کو سچائی کے قبول کرنے کے ساتھ کچھ ایسی مناسبت تھی کہ ابھی آپ شہر میں بھی داخل نہیں ہوئے تھے راستہ ہی میں جب ایک شخص سے پوچھا کہ کوئی نئی خبرسنائو اور اُس نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو اسی جگہ ایمان لے آئے اور کوئی معجزہ اور نشان نہیں مانگا اگرچہ بعد میں بے انتہا معجزات آپ نے دیکھے اور خود ایک آیت ٹھہرے.لیکن ابو جہل نے باوجود یکہ ہزاروں ہزار نشان دیکھے لاکن وہ مخالفت اور انکار سے باز نہ آیا اور تکذیب ہی کرتا رہا.اِس میں کیا سِرّ تھا.پیدائش دونوں کی ایک ہی جگہ کی تھی ایک صدیق ٹھہرتا ہے اور دوسرا جوابو الحکم کہلاتا تھا وہ ابو جہل بنتا ہے.اس میں یہی راز تھا کہ اس کی فطرت کو سچائی کے ساتھ کوئی مناسبت ہی نہ تھی غرض ایمانی امور مناسبت پر ہی منحصرہیں.جب مناسبت ہوتی ہے تو وہ خود معلّم بن جاتی ہے اور امورِحقّہ کی تعلیم دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اہلِ مناسبت کا وجود بھی ایک نشان ہوتا ہے.۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۲۱ مورخہ ۱۰؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱، ۲
میں بصیرت اور یقین کے ساتھ کہتا ہوں اور میں وہ قوت اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور مشاہدہ کرتا ہوں مگر افسوس میں اس دنیا کے فرزندوں کو کیوں کر دکھا سکوں کہ وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے ہیں کہ وہ وقت ضرور آئے گا کہ خدائے تعالیٰ سب کی آنکھ کھول دے گا اور میری سچائی روزروشن کی طرح دنیا پر کھل جائے گی لیکن وہ وقت وہ ہوگا کہ توبہ کا دروازہ بند ہوجاوے گا اور پھر کوئی ایمان سُود مند نہ ہوسکے گا.میرے پاس وہی آتا ہے جس کی فطرت سلیم ہے میرے پاس وہی آتا ہے جس کی فطرت میں حق سے محبت اور اہلِ حق کی عظمت ہوتی ہے.جس کی فطرت سلیم ہے وہ دور سے اس خو شبوکو جوسچائی کی میرے ساتھ ہے سُو نگھتا ہے اور اسی کشش کے ذریعہ سے جو خدا تعالیٰ اپنے ماموروں کو عطا کرتا ہے میری طرف اس طرح کھچے چلے آتے ہیں جیسے لوہا مقناطیس کی طرف جاتا ہے لیکن جس کی فطرت میں سلامت روی نہیں ہے اور جو مُردہ طبیعت کے ہیں ان کو میری باتیں سُرور دہ نہیں معلوم ہوتی ہیں وہ ابتلا میں پڑتے ہیں اور انکار پر انکاراورتکذیب پر تکذیب کرکے اپنی عاقبت کو خراب کرتے ہیں اور اس بات کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے کہ ان کا انجام کیا ہونے والا ہے.میری مخالفت کرنے والے کیا نفع اُٹھائیں گے.کیا مجھ سے پہلے آنے والے صادقوں کی مخالفت کرنے والوں نے کوئی فائدہ کبھی اُٹھایا ہے؟ اگر وہ نامراد اور خاسر رہ کر اس دنیا سے اُٹھے ہیں تو میرا مخالف اپنے ایسے ہی انجام سے ڈر جاوے کیونکہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں صادق ہوں.میرا انکاراچھے ثمرات نہیں پیدا کرے گا.مبارک وہی ہیں جو انکار کی لعنت سے بچتے ہیں اور اپنے ایمان کی فکر کرتے ہیں.جو حُسن ظنّی سے کام لیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ماموروں کی صحبت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں ان کا ایمان ان کو ضائع نہیں کرتا بلکہ برومند کرتا ہے.میں کہتا ہوں کہ صادق کی شناخت کے لیے بہت مشکلات نہیں ہیں.ہر ایک آدمی اگر انصاف اورعقل کوہاتھ سے نہ دے اور خدا کا خوف مدّ ِنظر رکھ کر صادق کو پرکھے تو وہ غلطی سے بچا لیا جاتا ہے لیکن جو تکبّر کرتا ہے اور آیات اللہ کی
تکذیب اور ہنسی کرتا ہے اس کو یہ دولت نصیب نہیں ہوتی ہے.سلسلہ احمدیہ کے قیام کی غرض یہ زمانہ کیسا مبارک زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان پُر آشوب دنوں میں محض اپنے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لیے یہ مبارک ارادہ فرمایا کہ غیب سے اسلام کی نصرت کا انتظام فرمایا اور ایک سلسلہ کو قائم کیا.میں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوںجو اپنے دل میں اسلام کے لیے ایک درد رکھتے ہیں اور اس کی عزّت اور وقعت ان کے دلوں میں ہے وہ بتائیں کہ کیا کوئی زمانہ اس زمانہ سے بڑھ کر اسلام پر گذرا ہے جس میں اس قدر سبّ وشتم اور توہین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گئی ہو اور قرآن شریف کی ہتک ہوئی ہو؟ پھر مجھے مسلمانوں کی حالت پر سخت افسوس اور دلی رنج ہوتا ہے اور بعض وقت میں اس درد سے بے قرار ہو جاتا ہوں کہ ان میں اتنی حِس بھی باقی نہ رہی کہ اس بے عزّتی کو محسوس کر لیں.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ بھی عزّت اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھی جو اس قدر سبّ وشتم پر بھی وہ کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتا اور ان مخالفینِ اسلام کے منہ بند کرکے آپ کی عظمت اور پاکیزگی کو دنیا میں پھیلاتا جب کہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں تو اس توہین کے وقت اس صلوٰۃ کا اظہار کس قدر ضروری ہے اور اس کا ظہور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کی صورت میں کیا ہے.مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآنِ شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھائوںاور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیا ت اور نشانات کے اس قدر لوگ گواہ ہیں کہ اگر ان کو ایک جگہ جمع کیا جاوے تو ان کی تعداد اس قدر ہو کہ روئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے.اِس قدر ضرورتیں اس سلسلہ کی سچائی کی موجود ہیں کہ ان سب کو بیان کر نابھی آسان نہیں.چونکہ اسلام کی سخت توہین کی گئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی تو ہین کے لحاظ سے اس سلسلہ کی عظمت کو دکھایا ہے.
میں ہمیشہ انکساری اور گمنامی کی زندگی پسند کرتا ہوں کم فہم لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ میں اپنے مدارج کو حدسے بڑھاتا ہوں.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میری طبیعت اور فطرت میں ہی یہ بات نہیں کہ میں اپنے لئے کسی تعریف کا خواہشمند پائوں اور اپنی عظمت کے اظہار سے خوش ہوں.میں ہمیشہ انکساری اور گمنامی کی زندگی پسند کرتا رہا لیکن یہ میرے اختیار اور طاقت سے باہر تھا کہ خدا تعالیٰ نے خود مجھے باہر نکالا اور جس قدر میری تعریف اور بزرگی کا اظہار اس نے اپنے پاک کلام میں جو مجھ پر نازل کیا گیا ہے کیا یہ ساری تعریف اور بزرگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہے.احمق اس بات کو نہیں سمجھ سکتا مگر سلیم الفطرت اور باریک نگاہ سے دیکھنے والا دانشمند خوب سوچ سکتا ہے کہ اس وقت واقعی ضروری تھا کہ جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر ہتک کی گئی ہے اور عیسائی مذہب کے واعظوں اور منادوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ اُس سید الکو نین کی شان میں گستاخیاں کی ہیں اور ایک عاجز مریم کے بچے کو خدا کی کُرسی پر جا بٹھایا ہے.اللہ تعالیٰ کی غیرت نے آپؐکا جلال ظاہر کرنے کے لیے یہ مقدر کیا تھاکہ آپ کے ایک ادنیٰ غلام کو مسیح ابن مریم بنا کے دکھا دیا.جب آپ کی اُمّت کا ایک فرد اتنے بڑے مدارج حاصل کرسکتا ہے تو اس سے آپ کی شان کا پتا لگ سکتا ہے.پس یہاں خدا تعالیٰ نے جس قدر عظمت اس سلسلہ کی دکھائی ہے اور جو کچھ تعریف کی ہے یہ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی عظمت اور جلال کے لیے ہے مگر احمق ان باتوں سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.ظہو ر علاماتِ مسیح موعود ؑ اس وقت صدی میں سے بیس سال گذرنے کوہیں اور آخری زمانہ ہے چودھویں صدی ہے کہ جس کی بابت تمام اہلِ کشف نے کہا کہ مسیح موعود چودھویں صدی میں آئے گا وہ تمام علامات اور نشانات جو مسیح موعود کی آمد کے متعلق پہلے سے بتائے گئے تھے ظاہر ہوگئے.آسمان نے کسوف وخسوف سے اورزمین نے طاعون سے شہادت دی ہے اور بہت سے سعادت مندوں نے ان نشانات کو دیکھ کر مجھے قبول کیا اور پھر اوربھی
بہت سے نشانات ان کی ایمانی قوت کو بڑھانے کے واسطے خدا تعالیٰ نے ظاہر کیے اور اس طرح پر یہ جماعت دن بدن بڑھ رہی ہے۱ کوئی ایک بات ہوتی تو شک کرنے کا مقام ہوسکتا تھا مگر یہاں تو خدا تعالیٰ نے ان کو نشان پر نشان دکھائے اور ہر طرح سے اطمینان اور تسلّی کی راہیں دکھائیں لیکن بہت ہی کم سمجھنے والے نکلے.میں حیران ہوتا ہوں کہ کیوں یہ لوگ جو میرا انکار کرتے ہیں ان ضرورتوں پر نظر نہیں کرتے جو اس وقت ایک مصلح کے وجود کی داعی ہیں؟ مسلمانوں کی حالت وہ دیکھیں کہ روئے زمین پر مسلمانوں کی کیا حالت ہے؟ کیا کسی پہلو سے بھی کوئی قابلِ اطمینان صورت دکھائی دیتی ہے شان وشوکت کی حالت تو سلطنت کی صورت میں نظر آسکتی ہے.مسلمانوں کی سب سے بڑی سلطنت اس وقت روم کی سلطنت ہے لیکن اس کی حالت کو دیکھ لو وہ بتیس دانتوں میں زبان ہورہی ہے اور آئے دن کسی نہ کسی خرخشہ اور مخمصہ میں مبتلا رہتی ہے.علمی حالت کے لحاظ سے سب رو رہے ہیں کہ مسلمان پیچھے رہے ہوئے ہیں اور نِت نئی مجلسیں اور کمیٹیاں قائم ہوتی ہیں کہ مسلمانوںکی علمی حالت کی اصلاح کی جاوے.دُنیوی لحاظ سے تو یہ حالت اور دینی پہلو کے لحاظ سے تو بہت ہی گری ہوئی حالت ہے کوئی بدعت اور فعل شنیع نہیں ہے جس کے مرتکب مسلمان نہ پائے جاتے ہوں.اعمالِ صالحہ کی بجائے چند رسوم باقی رہ گئے ہیں.جیل خانوں کو جاکر دیکھو تو زیادہ مجرم مسلمان دکھائی دیں گے کس کس بات کا ذکر کیا جاوے مسلمانوں کی حالت اس وقت بہت ہی گری ہوئی ہے اور ان پر آفات پر آفات نازل ہورہے ہیں.مگر کیا مسلمان ابھی چاہتے ہیں کہ وہ اَور پیسے جاویں.اس سے بڑھ کر ان کی ذلیل حالت کیا ہوگی کہ وہ پاک دین جو بے نظیر دولت ان کے پاس تھی اور ایمان جیسی نعمت وہ کھو بیٹھے ہیں.اورمسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے والے عیسائی ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے اور اسلام کا مضحکہ اُڑاتے ہیں اور یا اگرکھلے طورپر عیسائی نہیں ہوئے تو عیسائیوں ۱ اس مقام تک حضرت اقدس ابھی پہنچے تھے کہ خان عجب خان صاحب جو رقّتِ قلب کے ساتھ چشم پُر آب تھے اپنے پُر جوش لہجہ میں بول اُٹھے کہ ’’وجودِ جناب خود شہادت است ‘‘(ایڈیٹر)
کے علوم فلسفہ و طبعی سے متاثر ہوکر مذہب کو ایک بےضرورت اور بےفائدہ شَے سمجھنے لگ گئے ہیں.یہ آفتیں ہیں جو اسلام پر آرہی ہیں اور میں نہایت درداور افسوس سے سنتا ہوں کہ اس پر بھی کہا جاتا ہے کہ کسی مصلح کی ضرورت نہیں؟ حالانکہ زمانہ خود پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اس وقت ضرورت ہے کہ کوئی شخص آوے اور وہ اصلاح کرے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ خدا تعالیٰ اس وقت کیوں خاموش رہتا جب کہ اُس نے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ( الـحجر: ۱۰) خود فرمایا ہے.اسلام پر ایساخطرناک صدمہ پہنچا ہے کہ ایک ہزار سال قبل تک اس کا نمونہ اور نظیر موجود نہیں ہے.یہ شیطان کا آخری حملہ ہے اور وہ اس وقت ساری طاقت اور زور کے ساتھ اسلام کو نابود کرنا چاہتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کو پورا کیا ہے اور مجھے بھیجا ہے تا میں ہمیشہ کے لیے اس کا سر کُچل دوں.سلسلہ میں داخل ہونے کی ضرورت جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ حاجت نہیں ہے ہم نماز و روزہ کرتے ہیں وہ جاہل ہیں انہیں معلوم نہیں ہے کہ یہ سب اعمال ان کے مُردہ ہیں اُن میں روح اور جان نہیں اور وہ آنہیں سکتی جب تک وہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ کے ساتھ پیوند نہ کریں اور اس سے وہ سیراب کرنے والا پانی حاصل نہ کریں.تقویٰ اس وقت کہاں ہے؟ رسم وعادت کے طور پر مومن کہلانا کچھ فائدہ نہیں دیتا جب تک کہ خدا کو دیکھانہ جاوے اور خدا کو دیکھنے کے لیے اور کوئی راہ نہیں ہے.اس سفر میں حضرت حجۃاللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام کو کھانسی اور نزلہ کی شکایت تھی.یہاں تک پہنچ کر پھر کھانسی کی شکایت ہوئی اس پر آپ نے فرمایا کہ میں چاہتا تھا کہ لوگوں کو کچھ سنائوں مگر کھانسی کی وجہ سے روک ہوتی ہے.غرض اس وقت اسی قدر ضرورتیں داعی ہیں کہ ان کے بیان کرنے کے لیے بہت بڑا وقت چاہیے اور پھر اس قدر نشانات ظاہر ہوئے ہیں کہ ان کی بھی ایک بہت بڑی ضخیم کتاب طیار ہوتی ہے میں نے ایک شعر میں ان دونوں باتوں کو جمع کرکے کہا ہے.؎ آسماں بارد نشاں الوقت مے گوید زمیں ایں دوشاہد از پئے تصدیقِ ایستادہ اند ۱ ۱ الحکم جلد۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱تا ۳
سلسلہ کی مخالفت خان عجب خان صاحب.ایک بار میں پادریوں کے اعتراضوں سے بہت ہی تنگ ہوگیا وہ میرے لڑکپن کا زمانہ تھا.اس وقت میں نے دعا کی کہ اے اللہ! اسلام کو غالب کر.خدا کا شکر ہے کہ وہ وقت اب آگیا مگر مجھے افسوس ہے کہ اس نصرت کے وقت لوگ مخالفت کرتے ہیں.حضرت اقدس.یہ بالکل سچ ہے عیسائیوں نے اسلام کو نیست ونابود کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.جس جس طرح سے ان کا قابو چلا انہوں نے اسلام کے شجر پر تبر چلایا ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ آپ اس کا محافظ اور ناصر تھا اس لیے وہ اپنے ارادوں میں مایوس اور نامراد ہوئے.اور یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ اس وقت (جب ایسی حالت ہورہی تھی اور یہ، اسلام کی اس قدر مخالفت کی جاتی تھی اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے یہ سلسلہ عظمتِ رسوم۱ کو قائم کرنے کے واسطے کھڑا کیا اور اس کی تائید اور نصرت ہر ایک پہلو سے کی ) وہ بجائے اس کے کہ اس سلسلہ کی قدر کرتے اور اس پیاسے کی طرح جس کو ٹھنڈے اور برف آب پانی کا پیالہ مل جاوے شکر کرتے، انہوں نے مخالفت شروع کی اور اسی طریق پر جو ہمیشہ سے سنّت اللہ چلی آتی ہے ہنسی اور استہزا سے کام لیا.خدا تعالیٰ کے نشانوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا اور ان سے منہ پھیر لیا.مجھے ان لوگوں کی حالت پر رحم اور افسوس آتاہے کہ یہ کیوں غور نہیں کرتے اور منہاجِ نبوت پر اس سلسلے کی سچائی کو نہیں سمجھتے.صداقت کے دلائل وہ دیکھتے کہ اس قدر نصرتیں اور تائیدیں جو اللہ تعالیٰ کر رہا ہے کیا یہ کسی مفتری اور کذاب کوبھی ملی سکتی ہیں؟ ہرگز نہیں.کوئی شخص نصرتِ الٰہی کے بغیر اس قدر دعویٰ کب کرسکتا ہے.کیا وہ تھکتا نہیں؟ اور پھر اللہ تعالیٰ مفتری کے لیے اس قدر غیرت نہیں دکھاتا کہ اسے ہلاک کرے؟ بلکہ اس کو مہلت دیتا جاتا ہے اور نہ صرف مہلت بلکہ اُس کی پیشگوئیوں کو بھی سچا کر دیتا ہے اور دوسرے لوگوں کے مقابلے میں جو اس کی مخالفت کرتے ہیں اسی کی تائید کرتا ہے اور اسی کو فتح دیتا ہے.انسانی حکومت کے مقابلہ میں اگر کوئی شخص افترا کرتا ہے اور ۱ سہو ہے ’’اسلام ‘‘ ہونا چاہیے.(مرتّب)
جھوٹی حالت بنا کر کہے کہ میں عہدہ دار ہوں تو وہ پکڑا جاتا ہے اور اس کو سخت سزا دی جاتی ہے لیکن کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ایک مفتری اللہ تعالیٰ پر افترا کرتا جاوے اور پھر نشان بھی دکھاتا جاوے اور اسے کوئی نہ پکڑے.براہینِ احمدیہ کی اشاعت کو بیس برس کے قریب ہوئے.یہ وہ زمانہ تھا جب کہ گائوں میں بھی ہم کوکوئی شناخت نہیں کرتا تھا.گائوں والے موجود ہیں.خود مولوی محمد حسین جس نے اس کتاب پر ریویو لکھا ہے زندہ موجود ہے اُس سے پوچھو کہ اس وقت کیا حال تھا.ایسے وقت خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ فوج درفوج لوگ تیرے پاس آئیں گے.یَاْ تُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ دور دراز سے تیرے پاس لوگ آئیں گے اور تحائف آئیں گے.اور پھر یہ بھی کہا لوگوں سے تھکنا مت.اب کوئی سوچے اور دیکھے کہ خدا تعالیٰ کے یہ وعدے کس طرح پر پورے ہوئے ہیں.ان فہرستوں کو گورنمنٹ کے پاس دیکھ لے جو آنے والے مہمانوں کی مرتّب ہوکر ہفتہ وار جاتی ہیں اور ڈاک خانہ اور ریل کے رجسٹروں کی پڑتال کرے جس سے پتا لگے گا کہاں کہاں سے تحائف اور روپیہ آرہا ہے اور قادیان میں بیٹھ کر دیکھیں کہ کس قدر ہجوم اور انبوہ مخلوق کا ہوتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی طرف سے بشارت اور قوت نہ ملے تو انسان تھک جاوے اور ملاقاتوں سے گھبرا اُٹھے.مگر جیسے اُس نے یہ الہام کیا کہ گھبرانا نہ ویسے ہی قوت بھی عطا کی کہ گھبراہٹ ہوتی ہی نہیں اور ایسا ہی انگریزی، اردو،عربی، عبرانی میں بہت سے الہامات ہوئے جو اُس وقت سے چھپے ہوئے موجود ہیں اور پورے ہورہے ہیں.اب خدا ترس دل لے کر میرے معاملہ پر غور کرتے تو ایک نور ان کی رہبری کرتا اور خدا کی رُوح ان پر سکینت اور اطمینان کی راہیں کھول دیتی.وہ دیکھتے کے کیا یہ انسانی طاقت کے اندر ہے جو اس قسم کی پیشگوئی کرے؟ انسان کو اپنی زندگی کے ایک دم کا بھروسا نہیں ہوسکتا تو یہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ تیرے پاس دور دراز سے مخلوق آئے گی اور ایسے زمانے میں خبر دیتا ہے جب کہ وہ محجوب ہے اور اس کو کوئی اپنے گائوں میں بھی شناخت نہیں کرتا.پھر وہ پیشگوئی پوری ہوتی ہے اس کی مخالفت میں ناخنوں تک زور لگایا جاتا ہے اور اس کے تباہ کرنے اور معدوم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی مگراللہ تعالیٰ اس کو برومند کرتا اور ہر نئی مخالفت پر اس کو عظیم الشان
ترقی بخشتا ہے.کیایہ خدا کے کام ہیں یا انسانی منصوبوں کے نتیجے؟ اصل یہی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں اور لوگوں کی نظروں میں عجیب.مولویوں نے مخالفت کے لیے جہلا کو بھڑ کایا اور عوام کو جوش دلایا، قتل کے فتوے دیئے، کُفر کے فتوے شائع کئے اور ہر طرح سے عام لوگوں کو مخالفت کے لئے آمادہ کیا مگر کیا ہوا؟ اللہ تعالیٰ کی نصرتیں اور تائیدیں اَور بھی زور کے ساتھ ہوئیں.اُسی کے موافق جو اُس نے کہا تھا کہ ’’دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا مگر خدا تعالیٰ اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا.‘‘ مہدئ منتظر جو مولوی مخالفت کے لیے شورمچاتے اور لوگوں کو بھڑکاتے ہیں یہی پہلے منبروں پر چڑھ کر رو رو کر دعائیں کیا کرتے اور کہا کرتے تھے کہ اب مہدی کا وقت آگیا لیکن جب آنے والا مہدی آیا تو یہی شور مچانے والے ٹھہرے اور اسی مہدی کو مُضِل اور ضال، دجّال کہا اور یہاں تک مخالفت کی کہ اپنے خیال میں عدالتوں تک پہنچا کر اس سلسلہ کو بند کرنا چاہا مگر کیا وہ جو خدا کی طرف سے آیا ہے وہ ان لوگوں کی مخالفت سے رُک سکتا ہے اور بند ہوسکتا ہے؟ کیا یہ خدا تعالیٰ کا نشان نہیں؟ اگر یہ اب بھی نہیں مانتے توآدم سے لے کر اس وقت تک کوئی نظیر دو کہ اس طرح پر بیس برس پہلے ایک آنے والے زمانہ کی خبر دی اور پھر ایسی حالت میں کہ لوگوں نے اس پیشگوئی کو روکنے کی بہت کوشش کی وہ پیشگوئی پوری ہوگئی اور لوگوں کا کثرت کے ساتھ رجوع ہوا.کیایہ نشان کم ہے؟ اس کی نظیر دکھائو.پھر احادیث میں پڑھتے تھے کہ مہدی کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں کسوف خسوف ہوگا اور جب تک یہ نشان پورا نہیں ہوا تھا اس وقت تک شورمچاتے تھے کہ یہ نشان پورا نہیں ہوا لیکن اب ساری دنیا قریباً گواہ ہے کہ یہ نشان پورا ہوا.یہاں تک کہ امریکہ میں بھی ہوا اور دوسرے ممالک میں بھی پورا ہوا.اور اب وہی جو اس نشان کو آیاتِ مہدی میں سے ٹھہراتے تھے اس کے پورے ہونے پر اپنے ہی منہ سے اس کی تکذیب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حدیث ہی قابلِ اعتبار نہیں.اللہ تعالیٰ ان کی حالت پر رحم کرے.میری مخالفت کی یہ لعنت پڑتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی
پیشگوئی کی بھی تکذیب کر بیٹھتے ہیں.پھر مسیح موعود کے وقت کا ایک نشان طاعون کا تھا.انجیل، توریت میں بھی یہ نشان موجود تھا اور قرآن شریف سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشان مسیح موعودؑ کا خدا تعالیٰ نے ٹھہرایا تھا چنانچہ فرمایا وَ اِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا (بنیٓ اسـرآءیل:۵۹) یہ باتیں معمولی نہیں ہیں بلکہ غور سے سمجھنے کے لائق ہیں اور اب دیکھ لو کہ کیا طاعون ملک میں پھیلی ہوئی ہے یا نہیں؟ اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا.میں نے جب طاعون کے پھیلنے کی پیشگوئی کی تو ملک میں اس کی ہنسی کی گئی اور اس پر ٹھٹھا کیا گیا.لیکن اب ملک کی حالت اور طاعونی اموات کے نقشوں کو پڑھ کر بتائیں کہ کیا یہ پیشگوئی پُوری ہوئی ہے یا نہیں؟ یہ وہ باتیں ہیں جو سمجھنے کے لائق ہیں اور ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے.ایسا اعتراض کرنا کہ ہم اس وقت تسلیم کریں گے جب مغرب کی طرف سے آفتاب نکل آوے گا اس قسم کے اعتراض تو کفار ہمیشہ سے نبیوں پر کرتے آئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ماموروں کوایسی باتیں مخالفوں سے سننی پڑی تھیں.اصل بات یہ ہے کہ اگر اس قسم کی باتیں ہوں تو پھر قیامت کا نمونہ ہوجاوے اور اس دنیا کو وہ قیامت بنانا نہیں چاہتا.ایمان بالغیب بھی کوئی چیز ہے اگر ایسا ہو تو پھر ایمان ایمان نہیں رہتا مثلاً اگر کوئی شخص سورج پر ایمان لاوے تو بتائو یہ ایمان اس کوکیا نفع دے گا؟ ایمان ہمیشہ اسی صورت اور حالت میں مفید اور نتیجہ خیز ہوتا ہے جب اس میں کوئی پہلو خِفا کا بھی ہو لیکن جب کھلی بات ہوتو پھر وہ مفید نہیں ہوتا.اوّلین کا مقام دیکھو! اگر کوئی شخص پہلی رات کے چاند کو دیکھ کربتاوے تو اُس کی تیز بینی کی تو تعریف ہو گی لیکن اگر چودھویں رات کے چاند کو جو بدر ہوتا ہے دیکھ کر شور مچاوے کہ میں نے چاند کو دیکھ لیا ہے اس کو تو سوائے مجنوں کے اور کوئی خطاب نہیں ملے گا.اسی طرح پر ایمان میں فراست اور تقویٰ سے کام لینا چاہیے.اور قرائن قویہ کو دیکھ کر تسلیم کر لینا مومن کا کام ہے ورنہ جب بالکل پردہ برانداز معاملہ ہو گیا ہے اور سارے گو شہ کھل گئے اس وقت ایک خبیث سے خبیث انسان کو بھی اعتراف کرناپڑے گا.میں اس سوال پربار بار اس لئے زور دیتا
ہوںکہ لوگوں کو معلوم نہیں کہ نشانوں کی فلاسفی کیاہے؟ یہ یادرکھنا چاہیے جیسامیں نے ابھی کہا ہے خدا تعالیٰ کبھی قیامت کا نظارہ یہاں قائم نہیں کرتا اور وہ غلطی کرتے ہیں جو ایسے نشان دیکھنے چاہتے ہیں یہ محرومی کے لچھن ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور کتاب لے آئیں تو آپ نے یہی جواب دیا قُلْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا(بنیٓ اسـرآءیل:۹۴) پو رے انکشاف کے بعد ایمان لا کر کسی ثواب کی اُمید رکھنا غلطی ہے.اگر کوئی مٹھی کھول دی جاوے اور پھر کوئی بتاوے کہ اس میں فلاں چیز ہے تو اس کی کوئی قدر نہ ہو گی.پس پہلے تقویٰ سے تو کام لو اور قرائن کو دیکھو کہ ثواب اسی میں ہے جب ساری باتیں کھل گئیں تو پھر کیا؟ جو اس انتظار میں رہے کہ یہ دیکھوں اور وہ دیکھوں وہ ہمیشہ ایمان اور ثواب کے دائرہ سے خارج رہے ہیں.دیکھو! اللہ تعالیٰ نے بعض کا نام سابق، مہاجر اور انصار رکھا ہے اور ان کو رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ (التوبۃ:۱۰۰) میں داخل کیا ہے یہ وہ لوگ تھے جو سب سے پہلے ایمان لائے اور جو بعد میں ایمان لائے ان کا نام صرف ناس رکھا ہے جیسا فرما یا اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ.وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا (النّصـر:۲،۳) یہ لوگ جو اسلام میں داخل ہوئے اگرچہ وہ مسلمان تھے مگر ان کو مراتب نہیں ملے جو پہلے لوگوں کو دئیے گئے.اور پھر مہاجرین کی عزّت سب سے زیادہ تھی کیونکہ وہ لوگ اس وقت ایمان لائے جب ان کو کچھ معلوم نہ تھا کہ کامیابی ہو گی یا نہیں بلکہ ہر طرف سے مصائب اور مشکلات کا ایک طوفان آیا ہوا تھا اور کفر کا ایک دریا بہتا تھا.خاص مکہ میں مخالفت کی آگ بھڑک رہی تھی اور مسلمان ہونے والوں کو سخت اذیتیں اور تکلیفیں دی جاتی تھیں مگر انہوں نے ایسے وقت میں قبول کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بڑی بڑی تعریفیں کیں اور بڑے بڑے انعامات اور فضلوں کا وارث ان کو بنایا.پس ہر ایک کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو اس بات کا انتظار کرتا ہے کہ فلاں وقت آئے گا اور انکشاف ہوگا تو مان لیں
گے وہ کسی ثواب کی امید نہ رکھیں ایسا تو ضرور ہوگا کہ اللہ تعالیٰ سب حجاب دور کر دے گا اور اس معاملہ کو آفتاب کی طرح کھول کر دکھا دے گا مگر اس وقت ماننے والوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا.پیغمبروں کو ماننے والوں میں ثواب اَوَّلُوْن کو سب سے بڑھ کر ملا ہے اور انکشاف کا زمانہ تو ضرور آتا ہے لیکن آخر ان کا نام ناس ہی ہوتا ہے.(اس مقام پر مولانا مولوی سیّد محمد احسن صاحب امروہی نے عرض کیا کہ مَتٰى هٰذَا الْفَتْحُ کے جواب میں یہی کہاکہ تمہارا ایمان اُس دن فائدہ نہ دے گا ).فرمایا.بے شک اس بات کوسمجھنا سعادت ہے جس نے اوّل زمانہ میں نہیں پایا اُس کی کوئی قابلیت اور خوبی نہیں.لیکن جب خدا نے کھول دیا اس وقت تو پتھر اور درخت بھی بولتے ہیں.زیادہ قابلِ قدر وہ شخص ہے جو اوّل قبول کرتا ہے جیسے حضرت ابو بکر ؓ نے قبول کیا آپ نے کوئی معجزہ نہیں مانگا اور آپ کے منہ سے ابھی نہیں سنا تھا کہ ایمان لے آئے.لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ اپنی تجارت پر گئے ہوئے تھے اور جب سفر سے واپس آئے تو ابھی مکہ میں نہیں پہنچے تھے کہ راستہ میں کوئی ایک شخص آپ کو ملا اور اس سے مکہ کے حالات پوچھے.اُس نے کہا کہ اور تو کوئی تازہ خبر نہیں.سب سے بڑھ کرتازہ خبریہی ہے کہ تمہارے دوست نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے.حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ سن کر کہا کہ اگر اُس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو وہ سچاہے.اب غور سے دیکھو کہ حضرت ابو بکرؓ نے اس وقت کوئی نشان یا معجزہ نہیں مانگا بلکہ سنتے ہی ایمان لے آئے اور دعویٰ خود آنحضرتؐکے منہ سے بھی نہیں سنا بلکہ ایک اور شخص کی زبانی سنا ہے اور فوراً تسلیم کر لیا.یہ کیسا زبردست ایمان ہے روایت بھی آنحضرتؐکے نام سے سن کر اُس میں جھوٹ کا احتمال نہیں سمجھا.۱ دیکھو! حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کوئی نشان نہیں مانگا.یہی وجہ تھی کہ آپ کا نام صدیق ہوا.سچائی سے بھرا ہوا.صرف منہ دیکھ کر ہی پہچان لیا کہ یہ جھوٹا نہیں ہے.پس صادقوں کی شناخت اور ان ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱تا ۳
کا تسلیم کرنا کچھ مشکل امر تو نہیں ہوتا.ان کے نشانات ظاہر ہوتے ہیں لیکن کو رباطن اپنے آپ کو شبہات اور خطرات میں مبتلا کر لیتے ہیں.وہ لوگ بڑے ہی بد قسمت ہوتے ہیں جو انتظار ہی میں اپنی عمر گذار دیتے ہیں اور پردہ برانداز ثبوت چاہتے ہیں.ان کو معلوم نہیں کہ جیسا خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے انکشاف کے بعد ایمان نفع نہیں دیتا.نفع میں وہی لوگ ہوتے ہیں اور سعادت مند وہی ہیں جو مخفی ہونے کی حالت میں شناخت کرتے ہیں.دیکھو! جب تک لڑائی جاری ہوتی ہے اس وقت تک فوجوں کو تمغے ملتے ہیں اور خطاب ملتے ہیں لیکن جب امن ہوجاوے اس وقت اگر کوئی فوج چڑھائی کرے تو یہی کہا جائے گا کہ یہ لُوٹنے کو آئے ہیں.شیطان کی آخری جنگ یہ زمانہ بھی رُوحانی لڑائی کا ہے.شیطان کے ساتھ جنگ شروع ہے.شیطان اپنے تمام ہتھیاروں اور مکروں کو لے کر اسلام کے قلعہ پر حملہ آور ہو رہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسلام کو شکست دے مگر خدا تعالیٰ نے اس وقت شیطان کی آخری جنگ میں اُس کو ہمیشہ کے لئے شکست دینے کے لئے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.مبارک وہ جو اس کو شناخت کرتا ہے اب تھوڑا زمانہ ہے ابھی ثواب ملے گا لیکن عنقریب وقت آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کی سچائی کو آفتاب سے بھی زیادہ روشن کر دکھائے گا.وہ وقت ہوگا کہ ایمان ثواب کا موجب نہ ہوگا اور توبہ کا دروازہ بند ہونے کا مصداق ہوگا.اس وقت میرے قبول کرنے والے کو بظاہر ایک عظیم الشان جنگ اپنے نفس سے کرنی پڑتی ہے.وہ دیکھے گا کہ بعض اوقات اس کو برادری سے الگ ہونا پڑے گا.اُس کے دُنیوی کا روبار میں روک ڈالنے کی کوشش کی جاوے گی اُس کو گالیاں سننی پڑیں گی لعنتیں سنے گا مگر ان ساری باتوں کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ملے گا.لیکن جب دوسرا وقت آیا اور اس زور کے ساتھ دنیا کا رجوع ہو اجیسے ایک بلند ٹیلہ سے پانی نیچے گرتا ہے اور کوئی انکارکرنے والا ہی نظر نہ آیا اُس وقت اقرار کس پایۂ کا ہوگا اس وقت ماننا شجاعت کا کام نہیں.ثواب ہمیشہ دُکھ ہی کے زمانہ میں ہوتا ہے.حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرکے ا گر مکہ کی نمبرداری چھوڑ دی تو اللہ تعالیٰ نے اُس کو ایک دنیا کی
بادشاہی دی.پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کمبل پہن لیاا ور ہر چہ باداباد ماکشتی درآب انداختیم کا مصداق ہو کر آپ کو قبو ل کیاتو کیا خدا تعالیٰ نے ان کے اجر کا کوئی حصہ باقی رکھ لیا؟ ہرگز نہیں.جو خدا تعالیٰ کے لئے ذرا بھی حرکت کرتا ہے وہ نہیں مَرتا جب تک اس کا اجر نہ پا لے.حرکت شرط ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی طرف معمولی رفتار سے آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے.ایمان یہ ہے کہ کچھ مخفی ہو تو مان لے.جو ہلال کو دیکھ لیتا ہے تیز نظر کہلاتا ہے لیکن چودھویں رات کے چاند کو دیکھ کر شور مچانے والا دیوانہ کہلائے گا.حضرت شہزادہ عبد اللطیف کابلی کا مقام اس موقع پر مولانا مولوی عبداللطیف صاحب کابلی نے عرض کی کہ حضور! میں نے ہمیشہ آپ کو سورج ہی کی طرح دیکھا ہے کوئی اَمر مخفی یا مشکوک مجھے نظر نہیں آیا پھر مجھے کوئی ثواب ہوگا یانہیں.فرمایا.آپ نے اس وقت دیکھا جب کوئی نہ دیکھ سکتا تھا.آ پ نے اپنے آپ کو نشانہ ابتلا بنادیا اور ایک طرح سے جنگ کے لیے طیار کر دیا.اب بچ جانا یہ خدا کا فضل ہے.ایک شخص جو جنگ میں جاتا ہے اس کی شجاعت میں تو کوئی شبہ نہیں اگر وہ بچ جاتا ہے اور اسے کوئی گزند نہیں پہنچتا تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.اسی طرح آپ نے اپنے آپ کو خطرات میں ڈال دیا اور ہر دکھ اور ہر مصیبت کو اس راہ میں اُٹھانے کے لیے طیار ہوگئے اس لیے اللہ تعالیٰ آپ کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا.مخالفوں کا ساحر کہنا خان عجب خان صاحب.حضور پشاور میں میرے مخالف لوگ جمع ہوئے اور اُنہوں نے میرے والد سے کہا کہ اس کو منع کرو.میں نے ان کو یہی جواب دیا کہ میں نے جس صداقت کو دیکھ لیا ہے اور خدا کے فضل سے سمجھ لیا ہے اب اسے سچائی سمجھ کر میں کیوں کر چھوڑ سکتا ہوں.اگر اب چھوڑوں تو مجھ سے بڑھ کر خطا کار اور زیاں کار کون ہوگا کیونکہ مجھ پر حجت پوری ہوچکی ہے.اس پر اُنہوں نے اَور تو کچھ نہ کہا صرف یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ جادو گر ہے فرمایا.جادو گرکہلانا قدیم سے انبیاء علیہم السلام کی سنّت چلی آتی ہے.ہم کو اگر کسی نے جادو گر کہا تو اُسی سنّت کو پورا کیا.
قرآن شریف اور حدیث کا مرتبہ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ہم تو قرآن شریف پیش کرتے ہیں جس سے جادوبھاگتا ہے اس کے بالمقابل کوئی باطل اور سحر ٹھہر نہیں سکتا.ہمارے مخالفوں کے ہاتھ میں کیا ہے جس کو وہ لیے پھرتے ہیں.یقیناً یاد رکھو کہ قرآن شریف وہ عظیم الشان حربہ ہے کہ اُس کے سامنے کسی باطل کو قائم رہنے کی ہمّت ہی نہیں ہوسکتی.یہی وجہ ہے کہ کوئی باطل پرست ہمارے سامنے اور ہماری جماعت کے سامنے نہیں ٹھہرتا اور گفتگو سے انکار کر دیتا ہے.یہ آسمانی ہتھیار ہے جو کبھی کُند نہیں ہوسکتا.ہمارے اندرونی مخالف اُس کو چھوڑ کر الگ ہوگئے ہیں ورنہ اگر قرآن شریف کی رُو سے یہ فیصلہ کرنا چاہتے تو ان کو اس قدر مصیبتیں پیش نہ آتیں.ہم خدا تعالیٰ کا پیارا اور یقینی کلام قرآن شریف پیش کرتے ہیں اور وہ اس کے جواب میں قرآن سے استدلال نہیں کرتے.ہمارا مذہب یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو مقدم کرو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا.جو قرآن شریف کے خلاف ہو ہم نہیں مان سکتے خواہ وہ کسی کا کلام ہو.اللہ تعالیٰ کے کلام پر ہم کسی کی بات کوتر جیح کس طرح دیں.ہم احادیث کی عزّت کرتے ہیں اور اپنے مخالفوں سے بھی بڑھ کر احادیث کو واجب العمل سمجھتے ہیں لیکن یہ سچ ہے کہ ہم دیکھیں گے کہ وہ حدیث قرآن شریف کے کسی بیان کے متعارض یا متخالف نہ ہو.اور محدثین کی اپنی وضع کردہ اُصولوں کی بنا پر اگر کوئی حدیث موضوع بھی ٹھہرتی ہو لیکن قرآن شریف کے مخالف نہ ہو بلکہ اس سے قرآن کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے تب بھی ہم اس کو واجب العمل سمجھتے ہیں اور اس اَمر کا پاس کریں گے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے.لیکن اگر کوئی حدیث ایسی پیش کی جاوے جو قرآن شریف کے مخالف ہو تو ہم کوشش کریں گے کہ اُس کی تاویل کرکے اس مخالفت کو دور کریں لیکن اگر وہ مخالفت دور نہیں ہوسکتی تو پھر ہم کو وہ حدیث بہرحال چھوڑنی پڑے گی کیونکہ ہم اس پر قرآن کو چھوڑ نہیں سکتے.اس پر بھی ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ وہ تمام احادیث جو اس معیار پر صحیح ہیں وہ ہمارے ساتھ ہیں.بخاری اور مسلم میرے د عویٰ کی تائید اور تصدیق کرتے ہیں جیسے قرآن شریف نے فرمایا کہ مسیح
مَر گئے اسی طرح بخاری اور مسلم نے تصدیق کی اور اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ (اٰل عـمران:۵۶) کے معنے اِنِّيْ مُـمِیْتُکَ کیے.جیسے قرآن شریف سے یہ ثابت ہوتاہے کہ بنی اسماعیل کو اسی طرح شرف عطاہوا جیسے بنی اسرائیل کوبزرگی دی تھی ویسے ہی احادیث سے یہ پایا جاتا ہے.ان لوگوں پر جو انکار کرتے ہیں افسوس ہے.ان کو رسم اور عادت نے خراب کردیا ہے ورنہ یہ میرا معاملہ ایسا مشکل اور پچیدہ نہ تھا جو سمجھ میں نہ آتا.قرآن شریف سے ثابت، احادیث سے ثابت، دلائل عقلیہ سے ثابت اور پھر تائیداتِ سماویہ اس کی مصدق، اور ضرورت زمانہ اس کی مؤیّد.باوجود اس کے بھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ حق پر نہیں.قرآن و سنّت کی خلاف ورزی غور کرکے دیکھو کہ جب یہ لوگ خلافِ قرآن و سنّت کہتے ہیں کہ حضرت عیسٰیؑ زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں تو پادریوں کو نکتہ چینی کا موقع ملتا ہے اور وہ جھٹ پٹ کہہ اُٹھتے ہیں کہ تمہارا پیغمبر مَر گیا اور معاذ اللہ وہ زمینی ہے.حضرت عیسیٰ زندہ اور آسمانی ہے اور اس کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین کرکے کہتے ہیں کہ وہ مُردہ ہے.سوچ کر بتائو کہ وہ پیغمبر جو افضل الرسل اور خاتم الانبیاء ہے ایسا اعتقاد کرکے اس کی فضلیت اور ختمیت کویہ لوگ بٹّہ نہیں لگاتے؟ ضرور لگاتے ہیں اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا ارتکاب کرتے ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ پادریوں سے جس قدر تو ہین ان لوگوں نے اسلام کی کرائی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومُردہ کہلایا ہے اسی کی سزا میں یہ نکبت اور بد بختی ان کے شاملِ حال ہورہی ہے.ایک طرف تو منہ سے کہتے ہیں کہ وہ افضل الانبیاء ہے اور دوسری طرف یہ اقرار کر لیتے ہیں کہ ۶۳ سال کے بعد مَرگئے اور مسیح اب تک زندہ ہے اور نہیں مَرا حالانکہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا (النسآء:۱۱۴) پھر کیا یہ ارشادِ الٰہی غلط ہے؟ نہیں یہ بالکل درست اور صحیح ہے وہ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مُردہ ہیں.اس سے بڑھ کر کوئی کلمہ توہین کانہیں ہوسکتا.حقیقت یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسی فضیلت ہے جوکسی نبی میں نہیں ہے.میں اس کو عزیزرکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کی حیات کو جو شخص بیان نہیں کرتا وہ میرے نزدیک کافر ہے.کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس نبی کی اُمّت کہلاتے ہیں اسی کو معاذ اللہ مُردہ کہتے ہیں اور اسی نبی کو جس کی اُمّت کا خاتمہ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ (البقرۃ:۶۲) پر ہوا ہے اس کو زندہ کہا جاتا ہے.حضرت عیسیٰ کی قوم یہودی تھی اور اس کی نسبت خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ(البقرۃ:۶۲).اب قیامت تک ان کو عزّت نہ ملے گی.اب اگر حضرت عیسیٰ پھر آگئے تو پھر گویا ان کی کھوئی ہوئی عزت بحال ہوگئی اور قرآن شریف کا یہ حکم باطل ہوگیا.جس پہلو اور حیثیت سے دیکھو جو کچھ وہ مانتے ہیں اس پہلو سے قرآن کریم کا ابطال اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین لازم آتی ہے.پھر تعجب ہے کہ یہ لوگ مسلمان کہلا کر ایسے اعتقادات رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ تو یہود کے لیے فتویٰ دیتا ہے کہ ان میں نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا اور وہ ذلیل ہوگئے پھر ان میں زندہ نبی کیسے آسکتا ہے؟ ایک مسلمان کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ جب اس کے سامنے قرآن شریف پیش کیا جاوے تو وہ انکار کے لیے لب کشائی نہ کرے مگر یہ قرآن سنتے ہیں اور پڑھتے ہیں وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں جاتا ورنہ کیا یہ کافی نہ تھا کہ قرآن شریف میں صاف فرمایا ہے يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ (اٰلِ عـمران:۵۶) اور اس سے بڑھ کر خود حضرت مسیح کااپنا اقرار موجود ہے فَلَمَّاتَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ (المائدۃ:۱۱۸) اور یہ قیامت کا واقعہ ہے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال ہوگا کہ کیا تُونے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا بنائو؟ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تک میں ان میں زندہ تھا میں نے تو نہیں کہا اور میں وہی تعلیم دیتا رہا جو تو نے مجھے دی تھی لیکن جب تو نے مجھے وفات دے دی اس وقت تو ہی ان کا نگہبان تھااب یہ کیسی صاف بات ہے.اگر یہ عقیدہ صحیح ہوتا کہ حضرت مسیح کو دنیا میں قیامت سے پہلے آنا تھاتو پھر یہ جواب ان کا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟اُن کو تو کہنا چاہیے تھا کہ میں دنیا میں جب دوبارہ گیا تو اس وقت صلیب پرستی کا زور تھا اور میری الوہیت اور ابنیت پر بھی شور مچا ہوا تھا مگر میں نے جاکر صلیبوں کو توڑا اورخنزیروں کو قتل کیا اور تیری
توحید کو پھیلایا.نہ یہ جواب دیتے کہ جب تو نے مجھے وفات دے دی اس وقت تو خود نگران تھا.کیا قیامت کے دن حضرت مسیح جھوٹ بولیں گے؟ ان عقائد کی شناخت کہاں تک بیان کی جاوے جس پہلو اور مقام سے دیکھو قرآن شریف کی مخالفت نظر آوے گی.پھر یہ اَمر بھی قابل لحاظ ہے کہ دیکھا جاوے حضرت مسیح آسمان پر جاکر کہاں بیٹھے ہیں؟ تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ وہاں جا کر یحییٰ علیہ السلام کے پاس بیٹھے ہیں اور یحییٰ علیہ السلام بالاتفاق وفات یافتہ ہیں.پھر مُردوں میں زندہ کا کیا کام ہے؟ غرض کہاں تک بیان کروں ایک غلطی ہو تو آدمی بیان کرے یہاں تو غلطیاں ہی غلطیاںبھری پڑی ہیں.باوجود ان غلطیوں کے تعصّب اور ضِدّ بڑھی ہوئی ہے اور اس ضد کے سبب سچ کے قبول کرنے میں عذر کر رہے ہیں.ہاں جس جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا ہوا ہے اور اس کے حصہ میں سعادت ہے وہ سمجھ رہاہے اور اس طرف آتا جاتا ہے.حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے نیکی چاہتا ہے اس کے دل میں واعظ پیدا کر دیتا ہے جب تک دل میں واعظ نہ ہو کچھ نہیں ہوتا.اگر خدا کے قول کے خلاف کوئی قول ہوتو خدا کو اس خلافِ قول کے ماننے میں کیا جواب دے گا.احادیث کی تصحیح و تغلیط بذریعہ کشف احادیث کے متعلق خود یہ تسلیم کر چکے ہیں.خصوصاً مولوی محمدحسین اپنے رسالہ میں شائع کر چکا ہے کہ اہلِ کشف احادیث کی صحت بذریعہ کشف کرلیتے ہیں اور اگر کوئی حدیث محدّثین کے اُصولوں کے موافق صحیح بھی ہوتو اہلِ کشف اسے موضوع قرار دے سکتے ہیں اور موضوع کو صحیح ٹھہرا سکتے ہیں.۱ جس حال میں اہلِ کشف احادیث کی صحت کے اس معیار کے پابند نہیں جو محدّثین نے مقرر کیا ہے بلکہ وہ بذریعہ کشف ان کی صحیح قراردادہ احادیث کو موضوع ٹھہرانے کا حق رکھتے ہیں تو پھر جس کو حَکم ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۰؍ اگست ۱۹۰۲ء صفحہ ۱تا۳
بنایا گیا ہے کیا اس کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا؟ خدا تعالیٰ جو اُس کا نام حَکم رکھتا ہے یہ نام ہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ سارا رطب ویابس جو اُس کے سامنے پیش کیا جاوے گا تسلیم نہیں کرے گا بلکہ بہت سی باتوں کو ردّ کر د ے گا اور جو صحیح ہوں گی ان کے صحیح ہونے کا وہ فیصلہ دے گا ورنہ حَکم کے معنے ہی کیا ہوئے.جب اس کی کوئی بات ماننی ہی نہیں تو اُس کے حَکم ہونے سے فائدہ کیا؟ مسیح موعود بطور حَکم و عدل حَکَم کا لفظ صاف ظاہر کرتاہے کہ اس وقت اختلاف ہوگا اور ۷۳ فرقے موجود ہوں گے اورہر فرقہ اپنے مسلّمات کو جو اُس نے بنا رکھے ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ جھوٹے ہیں یا خیالی، چھوڑنا نہیں چاہتا بلکہ ہر ایک اپنی جگہ یہ چاہے گا کہ اس کی بات ہی مانی جاوے اور جو کچھ وہ پیش کرتا ہے وہ سب تسلیم کرلیا جاوے ایسی صورت میں اس حَکم کو کیا کرنا ہوگا.کیا وہ سب کی باتیں مان لے گا یا یہ کہ بعض ردّکرے گا اور بعض کو تسلیم کرے گا.غیر مقلّد تو راضی نہیں ہوگا جب تک اس کی پیش کردہ احادیث کا سارا مجموعہ وہ نہ مان لے اور ایسا ہی حنفی، معتزلہ، شیعہ وغیرہ کُل فرقے تو تب ہی اُس سے راضی ہوں گے کہ وہ ہر ایک کی بات تسلیم کرے اور کوئی بھی ردّ نہ کرے اور یہ ناممکن ہے.اگر یہ ہو کہ کوٹھڑی میں بیٹھا رہے گا اور اگر شیعہ اس کے پاس جاوے گا تو اندر ہی اندر مخفی طور پر اسے کہہ دے گا کہ تو سچا ہے اور پھر سُنّی اُس کے پاس جاوے گا تو اُس کو کہہ دے گا کہ تُو سچا ہے.اور اسی طرح پر جو اس کے پاس جاوے گا اس کو کہہ دے گا کہ تو سچا ہے تو پھر تو بجائے حَکم ہونے کے وہ پکا منافق ہوا اور بجائے وحدت کی رُوح پھونکنے کے اور سچا اخلاص پیدا کرنے کے وہ نفاق پھیلانے والا ٹھہرا.مگر یہ بالکل غلط ہے.آنے والا موعود حَکَم واقعی حَکَم ہوگا.اُس کا فیصلہ قطعی اور یقینی ہوگا.اس کے فیصلہ میں ایک ہے نہیں.ایک نقل مشہور ہے کہ کسی عورت کی دو لڑکیاں تھیں ایک بیٹ میں بیاہی ہوئی تھی اور دوسری بانگر میں، اور وہ ہمیشہ یہ سوچتی رہتی تھی کہ دو میں سے ایک ہے نہیں.اگر بارش زیادہ ہوگئی تو بیٹ والی نہیں ہے اور اگر نہ ہوئی تو بانگر والی نہیں ہے.یہی حال حَکَم کے آنے پر ہونا چاہیے.وہ خود ساختہ اور موضوع
باتوں کو ردّ کر دے گا اور سچ کو لے گا.یہی وجہ ہے کہ اس کانام حَکَم رکھا گیا ہے.اسی لیے آثار میں آیا ہے کہ اُس پر کُفر کا فتویٰ دیا جاوے گا کیونکہ وہ جس فرقہ کی باتوں کو ردّ کرے گا وہی اُس پر کُفر کا فتویٰ دے گا.یہاں تک کہاہے کہ مسیح موعود کے نزول پر ایک شخص اُٹھ کر کھڑا ہوگا اور منبر پر چڑھ کر کہے گا اِنَّ ھٰذَاالرَّجُلَ غَیَّرَ دِیْنَنَا اس شخص نے ہمارے دین کو بدل دیا ہے.اس سے بڑھ کر اَور کیا ثبوت اس اَمر کا ہوگا کہ وہ بہت سی باتوں کو ردّ کر دے گا جیسا کہ اُس کا منصب اُس کو اجازت دے گا.غرض اس بات کو سرسری نظر سے ہرگز نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ غور کرنا چاہیے کہ حَکَم عدل کا آنا اور اس کا نام دلالت کرتا ہے کہ وہ اختلاف کے وقت آئے گا اور اس اختلاف کو مٹائے گا.ایک کو ردّ کرے گا اور اندرونی غلطیوںکی اصلاح کرے گا.وہ اپنے نورِ فراست اور خدا تعالیٰ کے اعلام والہام سے بعض ڈھیروں کے ڈھیر جلادے گا اور پکی اور محکم باتیں رکھ لے گا.جب یہ مسلّم اَمر ہے تو پھر مجھ سے یہ اُمید کیوں کی جاتی ہے کہ میں ان کی ہربات مان لوں قطع نظر اس کے کہ وہ غلط اور بیہودہ ہے.اگر میں ان کا سارا رطب ویابس مان لوں تو پھر میں حَکَم کیسے ٹھہر سکتا ہوں؟ یہ ممکن ہی نہیں.کشفِ حقیقت کے لئے اللہ تعالیٰ سے توفیق چاہیں افسوس یہ لوگ دل رکھتے ہیں پھر سوچتے نہیں، آنکھیں رکھتے ہیں مگردیکھتے نہیں، کان رکھتے ہیں پر سنتے نہیں.ان کے لئے بہترین راہ اب یہی ہے کہ وہ رو رو کر دعائیں کریں اور میرے متعلق کشف الحقیقت کے لئے اللہ تعالیٰ ہی سے توفیق چاہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص محض احقاقِ حق کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے گا وہ میرے معاملہ کی سچائی پر خدا تعالیٰ سے اطلاع پائے گا اور اُس کا زنگ دور ہو جائے گا.بجزاللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جو دلوں کو کھولے اور کشفِ حقائق کی قوت عطا کرے.اسلام اس وقت مصیبت کی حالت میں ہے اور وہ ایک فناشدہ قوم کی حالت اختیار کر چکا ہے.ایسی حالت اور صورت میں ان لوگوں پر مجھے رونا آتاہے جو کہتے ہیں کہ اسلام کی اس تباہ شدہ حالت کی اصلاح کے لئے کسی مصلح کی ضرورت نہیں.یہ
لوگ بیمار ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہلاک ہو جائیں ایسے بیماروں سے بڑھ کرکون واجب الرحم ہوسکتا ہے جو اپنی بیماری کو صحت سمجھے.یہی وہ مرض ہے جس کو لاعلاج کہنا چاہیے.اور ان لوگوں پر اور بھی افسوس ہے جو خود حدیثیں پڑھتے اور پڑ ھاتے تھے کہ ہرصدی کے سر پر مجدّد آیا کرتا ہے لیکن اس چودھویں صدی کے مجدّد کا انکار کردیا اور نہیں بتاتے کہ اس صدی پر جس میں سے بیس سال گذر گئے کوئی مجدّد آیا ہے یا نہیں؟ خود پتا نہیں دیتے اور آنے والے کا نام دجّال رکھتے ہیں.کیا اسلام کی اس خستہ حالی کامداوا اللہ تعالیٰ نے یہی کیا کہ بجائے ایک مصلح اور مَردِ خدا کے بھیجنے کے ایک کافر اور دجّال کو بھیج دیا؟ یہ لوگ ایسے اعتقادرکھ کر خدا تعالیٰ، اس کی پاک کتاب قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے ہیں.خدا ان پر رحم کرے.اس وقت تقویٰ بالکل اُٹھ گیاہے.اگر مُلاّنوں کے پاس جائیں تو وہ اپنے ذاتی اور نفسانی اغراض کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں.مسجدوں کو دوکانوں کا قائم مقام سمجھتے ہیں.اگر چار روز روٹیاں بند ہوجائیں تو کچھ تعجب نہیں کہ نماز پڑھنا پڑھانا ہی چھوڑدیں.اس دین کے دو ہی بڑے حصے تھے ایک تقویٰ دوسرے تائیدات سماویہ.مگر اب دیکھا جاتا ہے کہ یہ باتیں نہیں رہیں.عام طورپرتقویٰ نہیں رہااور تائیداتِ سماویہ کا یہ حال ہے کہ خود تسلیم کر بیٹھے ہیں کہ مدّت ہوئی ان میں نہ کوئی نشانات ہیں نہ معجزات اور نہ تائیداتِ سماویہ کا کوئی سلسلہ ہے.جلسہ مذاہب میں مولوی محمد حسین نے صاف طورپر اقرار کیا تھا کہ اب معجزات اور نشانات دکھانے والا کوئی نہیں اور یہ ثبوت ہے اس اَمر کا کہ تقویٰ نہیں رہی کیونکہ نشانات تومتقی کو ملتے ہیں.اللہ تعالیٰ دین کی تائید اور نصرت کرتا ہے مگر وہ نصرت تقویٰ کے بعد آتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات اور معجزات اسی لئے عظیم الشان قوت اور زندگی کے نشانات ہیں کہ آپ سَیِّدُ الْمُتَّقِیْن تھے.آپ کی عظمت اورجلال کا خیال کرکے بھی انسان حیران رہ جاتا ہے.اب پھر اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ آپ کاجلال دوبارہ ظاہرہو اورآپ کے اسمِ احمدؐ کی تجلّی دنیا میں پھیلے اور اسی لئے اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.یہ سلسلہ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے اور اس کی غرض اللہ تعالیٰ کی توحیداور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال ظاہر کرنا
ہے اس لیے کوئی مخالف ہاتھ اس کو گزند نہیں پہنچا سکتا.حیا تِ مسیح کا عقیدہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ماننے سے شرک پیدا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ اُس کو پسند نہیں کرتا اور آنحضرت کی عظمت توحید ہی سے ظاہر ہوتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ مسیحؑ کی موت کے پر دہ کو اُ ٹھا دے اور عالم کودکھادے کہ در حقیقت حضرت مسیح عام انسانوں کی طرح تھے ان میں کوئی خصوصیت اور الُوہیت نہ تھی و ہ و فات پا گئے.اور جیسے جسمانی طور پر آپ مَر گئے روحانی طور پر بھی عیسائی مذہب مَرگیا اور اُس میں کوئی قبولیت اور شرف کا نشان باقی نہیں.ایک بھی عیسائی نہیں جو کھڑا ہو کر دعویٰ سے کہہ سکے کہ میں ان زندہ آثار اورنشانات سے جو زندہ مذہب کے ہیں اسلام کا مقابلہ کرسکتا ہوں.چالیس کروڑ انسان جو مختلف اغراضِ نفسانی کی بنا پر یا اَور وجو ہات سے اس کو خدا بنا رہے ہیں.وہ وقت آتا ہے کہ اس کی خدائی سے توبہ کریں گے اوراس کو عام انسانوں میں جگہ دیں گے.مسلمانوں پر افسوس ہے جنہوں نے عیسائیوں کی ہاں میں ہاں ملائی ہے اور اس کوخدا بنانے میں مدد دی.عیسائی کھلے طور پرخدا مانتے ہیں اور یہ لوگ خدائی کے صفات دیتے ہیں ان کی ویسی ہی مثال ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ فلاںآدمی مَرگیا ہے لیکن دوسرا یہ کہے کہ ا بھی مَرا تو نہیں مگر بدن سرد ہے اور نبض بھی نہیں چلتی اور حرکت بھی نہیں تو کیا وہ مُردہ نہ ہوگا؟ یہی حال حضرت عیسیٰ کی خدائی کے متعلق ہے.خدائی کے صفات ان میں تسلیم کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم خدا نہیں مانتے.اب غیرت مند مسلمان سوچ کر جواب دیں کہ جب حضرت عیسٰیؑ کوخالق مانا جاتاہے، محیی مانا جاتاہے، غیب دان مانا جاتا ہے، شافی مانا جاتا ہے، حیّ مانا جاتا ہے تو اور کیا باقی رہا.غرض مسلمانوں کی حالت بہت نازک ہو گئی ہے اور وہ سوچتے نہیں.اس وقت اگر اورنشانات اور تائیدات ہمارے دعویٰ کی مصدّق اور مؤیّدنہ ہوتیں تب بھی وقت ایساتھا کہ وہ زبر دست ضرورت بتا تا ہے.خدا تعالیٰ ہی ان کی آنکھیں کھولے تو بات بنے گی.۱ ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۷؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۱، ۲
۱۸ ؍جنوری ۱۹۰۳ء تقدیرمعلّق وتقدیرمُبرم تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے.ایک کانام معلّق ہے اور دوسری کو مُبرم کہتے ہیں اگر کوئی تقدیرمعلّق ہو تو دعا اور صدقات اس کو ٹلا دیتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس تقدیرکو بدل دیتا ہے اور مُبرم ہونے کی صورت میں وہ صدقات اور دعااس تقدیرکے متعلق کچھ فائدہ نہیں پہنچاسکتی.ہاں وہ عبث اور فضول بھی نہیں رہتی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے.وہ اس دعا اور صدقات کااثر اور نتیجہ کسی دوسرے پیرایہ میں اس کو پہنچادیتا ہے.بعض صورتوں میں ایسابھی ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی تقدیر میں ایک وقت تک توقف اور تاخیر ڈال دیتا ہے.قضاءِ معلّق ا ورمُبرم کا ماخذ اور پتا قرآنِ کریم ہی سے ملتاہے.گو یہ الفاظ نہیں.مثلاً قرآن میں فرمایا ہے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المؤمن:۶۱) دعا مانگو میں قبول کروں گا.اب یہاں سے معلوم ہوتاہے کہ دعا قبول ہوسکتی ہے اور دعا سے عذاب ٹل جاتا ہے اور ہزار ہا کیا، کُل کام دعا سے نکلتے ہیں.یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کُل چیزوںپر قادرانہ تصرّف ہے وہ جوچاہتا ہے کرتاہے اس کے پوشیدہ تصرّفات کی لوگوں کو خواہ خبرہو یا نہ ہو مگر صد ہاتجربہ کا روں کے وسیع تجربے اور ہزارہا دردمندوں کی دعاؤں کے صریح نتیجے بتلارہے ہیں کہ اس کا ایک پوشیدہ اورمخفی تصرّف ہے.وہ جوچاہتاہے محو کرتا ہے اور جو چاہتاہے اثبات کرتا ہے.ہمارے لئے یہ ضروری اَمرنہیں کہ ہم اس کی تہہ تک پہنچنے اوراس کی کنہ اور کیفیت کو معلوم کرنے کی کوشش کریں جب کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ایک شَے ہونے والی ہے اس لیے ہم کو جھگڑے اور بحث میں پڑنے کی کچھ حاجت نہیں.خدا تعالیٰ نے انسان کی قضاء وقدر کو مشروط بھی رکھا ہے جو توبہ خشوع وخضوع سے ٹل سکتی ہیں.جب کسی قسم کی تکلیف اورمصیبت انسان کو پہنچتی ہے تووہ فطرتاً اور طبعاًاعمالِ حسنہ کی طرف رجوع کرتا ہے.اپنے اندر ایک قلق اور کرب محسوس کرتاہے جو اسے بیدار کرتا اور نیکیوںکی طرف کھنچے لیے جاتاہے اور گناہ سے ہٹاتا
ہے.جس طرح پر ہم ادویات کے اثرکو تجربہ کے ذریعہ سے پا لیتے ہیں اسی طرح پر ایک مضطرب الحال انسان جب خدائے تعالیٰ کے آستانہ پر نہایت تذلّل اور نیستی کے ساتھ گرتا ہے اور رَبِّیْ رَبِّیْ کہہ کر اس کو پکارتا اوردعائیں مانگتا ہے تو وہ رؤیائے صالحہ یاالہامِ صحیح کے ذریعہ سے ایک بشارت اورتسلّی پالیتا ہے.میں نے اپنے ساتھ بارہا اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ دیکھا ہے کہ جب میں نے کرب وقلق سے کوئی دعا مانگی اللہ تعالیٰ نے مجھے رئویا کے ذریعہ سے آگاہی بخشی.ہاں قلق اور اضطرار اپنے بس میں نہیں ہوتا.اس کا انشا بھی فعلِ الٰہی ہے.حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب صبر اور صدق کے ساتھ دعا انتہا کو پہنچے تو وہ قبول ہوجاتی ہے.دعا، صدقہ اور خیرات سے عذاب کاٹلناایک ایسی ثابت شدہ صداقت ہے جس پر ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کااتفاق ہے اور کروڑہا صلحاء واتقیاء اور اولیاء اللہ کے ذاتی تجربے اس اَمر پر گواہ ہیں.نماز کی لذّت اور سرور نماز کیا ہے؟ یہ ایک خاص دعا ہے.مگر افسوس ہے کہ لوگ اس کو بادشاہوں کا ٹیکس سمجھتے ہیں.نادان اتنا نہیں جانتے کہ بھلا خدائے تعالیٰ کو ان باتوں کی کیا حاجت ہے اس کی غناءِ ذاتی کو اس بات کی کیا حاجت ہے کہ انسان دعا اور تسبیح اور تہلیل میں مصروف ہو.بلکہ اس میں انسان کا اپنا ہی فائدہ کہ وہ اس طریق سے اپنے مطلب کو پہنچ جاتا ہے.مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ آجکل عبادت اور تقویٰ اور دینداری سے محبت نہیں ہے اس کی وجہ ایک عام زہریلا اثر رسم کا ہے.اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت سرد ہورہی ہے اور عبادت میں جس قسم کا مزا آنا چاہیے وہ مزا نہیں آتا.دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس میں لذّت اور ایک خاص حظّ اللہ تعالیٰ نے رکھا نہ ہو.جس طرح پر ایک مریض ایک عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ چیزکا مزہ نہیں اُٹھا سکتا اور وہ اسے تلخ یا بالکل پھیکا سمجھتا ہے اسی طرح سے وہ لوگ جو عبادتِ الٰہی میں حظّ اور لذّت نہیں پاتے ان کو اپنی بیماری کا فکر کرنا چاہیے.کیونکہ جیسا میں نے ابھی کہا ہے دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس میں خدائے تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی لذّت نہ رکھی ہو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عبادت کے لئے پیدا
ہے.جس طرح پر ہم ادویات کے اثرکو تجربہ کے ذریعہ سے پا لیتے ہیں اسی طرح پر ایک مضطرب الحال انسان جب خدائے تعالیٰ کے آستانہ پر نہایت تذلّل اور نیستی کے ساتھ گرتا ہے اور رَبِّیْ رَبِّیْ کہہ کر اس کو پکارتا اوردعائیں مانگتا ہے تو وہ رؤیائے صالحہ یاالہامِ صحیح کے ذریعہ سے ایک بشارت اورتسلّی پالیتا ہے.میں نے اپنے ساتھ بارہا اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ دیکھا ہے کہ جب میں نے کرب وقلق سے کوئی دعا مانگی اللہ تعالیٰ نے مجھے رئویا کے ذریعہ سے آگاہی بخشی.ہاں قلق اور اضطرار اپنے بس میں نہیں ہوتا.اس کا انشا بھی فعلِ الٰہی ہے.حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب صبر اور صدق کے ساتھ دعا انتہا کو پہنچے تو وہ قبول ہوجاتی ہے.دعا، صدقہ اور خیرات سے عذاب کاٹلناایک ایسی ثابت شدہ صداقت ہے جس پر ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کااتفاق ہے اور کروڑہا صلحاء واتقیاء اور اولیاء اللہ کے ذاتی تجربے اس اَمر پر گواہ ہیں.نماز کی لذّت اور سرور نماز کیا ہے؟ یہ ایک خاص دعا ہے.مگر افسوس ہے کہ لوگ اس کو بادشاہوں کا ٹیکس سمجھتے ہیں.نادان اتنا نہیں جانتے کہ بھلا خدائے تعالیٰ کو ان باتوں کی کیا حاجت ہے اس کی غناءِ ذاتی کو اس بات کی کیا حاجت ہے کہ انسان دعا اور تسبیح اور تہلیل میں مصروف ہو.بلکہ اس میں انسان کا اپنا ہی فائدہ کہ وہ اس طریق سے اپنے مطلب کو پہنچ جاتا ہے.مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ آجکل عبادت اور تقویٰ اور دینداری سے محبت نہیں ہے اس کی وجہ ایک عام زہریلا اثر رسم کا ہے.اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت سرد ہورہی ہے اور عبادت میں جس قسم کا مزا آنا چاہیے وہ مزا نہیں آتا.دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس میں لذّت اور ایک خاص حظّ اللہ تعالیٰ نے رکھا نہ ہو.جس طرح پر ایک مریض ایک عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ چیزکا مزہ نہیں اُٹھا سکتا اور وہ اسے تلخ یا بالکل پھیکا سمجھتا ہے اسی طرح سے وہ لوگ جو عبادتِ الٰہی میں حظّ اور لذّت نہیں پاتے ان کو اپنی بیماری کا فکر کرنا چاہیے.کیونکہ جیسا میں نے ابھی کہا ہے دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس میں خدائے تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی لذّت نہ رکھی ہو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عبادت کے لئے پیدا
عبادتِ الٰہی سے لذّت نہیں پا سکتا.عورت اورمَرد کا جوڑا تو باطل اور عارضی جوڑا ہے.میں کہتا ہوں حقیقی ابدی اور لذّت مجسم جو جوڑا ہے وہ انسان اور خدائے تعالیٰ کا ہے.مجھے سخت اضطراب ہوتا اور کبھی کبھی یہ رنج میری جان کو کھانے لگتا ہے کہ ایک دن اگر کسی کو روٹی یا کھانے کا مَزا نہ آئے، طبیب کے پاس جاتا اورکیسی کیسی منتیں اور خوشامدیں کرتا اور روپیہ خرچ کرتا اور دُکھ اُٹھاتا ہے کہ وہ مَزا حاصل ہو.وہ نا مر د جو اپنی بیوی سے لذّت حاصل نہیں کرسکتابعض اوقات گھبرا گھبراکر خود کشی کے ارادے تک پہنچ جاتا ہے اور اکثر موتیں اس قسم کی ہو جاتی ہیں.مگر آہ! وہ مریضِ دل وہ نا مَردکیوں کوشش نہیں کرتاجس کو عبادت میں لذّت نہیں آتی اس کی جان کیوں غم سے نڈھال نہیں ہو جاتی؟دُنیا اور اس کی خوشیوں کے لئے تو کیا کچھ کرتا ہے مگر ابدی اور حقیقی راحتوں کی وہ پیاس اور تڑپ نہیں پا تا.کس قدر بے نصیب ہے.کیسا ہی محروم ہے! عارضی اور فانی لذتوں کے علاج تلاش کرتا ہے اور پا لیتا ہے.کیا ہوسکتا ہے کہ مستقل اور ابدی لذّت کے علاج نہ ہوں؟ ہیں اور ضرورہیں.مگر تلاشِ حق میں مستقل اور پویہ قدم در کار ہیں قرآنِ کریم میں ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے صالحین کی مثال عورتوںسے دی ہے.اس میں بھی سِر اور بھید ہے.ایمان لانے والے کو آسیہ اور مریم سے مثال دی ہے.یعنی خدائے تعالیٰ مشرکین میں سے مومنوں کو پیدا کرتا ہے.بہرحال عورتوں سے مثال دینے میں دراصل ایک لطیف راز کا اظہار ہے یعنی جس طرح عورت اور مَرد کا باہم تعلّق ہوتا ہے اسی طرح پر عبو دیت اور ربوبیت کا رشتہ ہے.اگر عورت اور مَرد کی باہم موافقت ہو اور ایک دوسرے پر فر یفتہ ہو تووہ جوڑا ایک مبارک اور مفید ہوتا ہے ورنہ نظامِ خانگی بگڑ جاتا ہے اور مقصود بالذّات حاصل نہیں ہوتا ہے.مَرد اور جگہ خراب ہوکر صدہا قسم کی بیماریاں لے آتے ہیں.آتشک سے مجذوب ہوکر دنیا میں ہی محروم ہوجاتے ہیں.اور اگر اولاد ہوبھی جائے تو کئی پُشت تک یہ سلسلہ چلا جاتا ہے اور اُدھر عورت بے حیائی کرتی پھرتی ہے اور عزّت وآبرو کو ڈبوکر بھی سچی راحت حاصل نہیں کرسکتی.غرض اس جوڑے سے الگ ہوکر کس قدر بد نتائج اور فتنے پیدا ہوتے ہیں.اسی طرح پر انسان روحانی جوڑے سے الگ ہوکر مجذوب اور مخذول ہوجاتا ہے دُنیاوی
جوڑے سے زیادہ رنج ومصائب کا نشانہ بنتا ہے جیسا کہ عورت اور مَرد کے جوڑے سے ایک قسم کی بقا کے لیے حظّ ہے اسی طرح پر عبودیت اور ربوبیت کے جوڑے میں ایک ابدی بقا کے لیے حظّ موجود ہے.صوفی کہتے ہیں کہ یہ حظّ جس کو نصیب ہو جائے وہ دنیا اور مافیہا کے تمام حظوظ سے بڑ ھ کر تر جیح رکھتا ہے.اگر ساری عمر میں ایک بار بھی اُس کو معلوم ہوجائے تو وہ اس میں ہی فنا ہوجائے.لیکن مشکل تو یہ ہے کہ دنیا میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اس راز کو نہیں سمجھا اور ان کی نمازیں نری ٹکریں ہیں اور اوپرے دل کے ساتھ ایک قسم کی قبض اور تنگی سے صرف نشت وبرخاست کے طور پر ہوتی ہیں.مجھے اور بھی افسوس ہوتا ہے کہ جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ صرف اس لیے نمازیں پڑھتے ہیں کہ وہ دنیا میں معتبر اور قابلِ عزّت سمجھے جائیں اور پھر اس نماز سے یہ بات ان کو حاصل بھی ہوجاتی ہے یعنی وہ نمازی اور پرہیز گا ر کہلاتے ہیں پھر کیوں ان کو یہ کھا جانے والا غم نہیں لگتا کہ جب جھوٹ موٹ اور بے دلی کی نماز سے ان کو یہ مرتبہ حاصل ہوسکتا ہے تو کیوں ایک سچے عابد بننے سے ان کو عزّت نہ ملے گی اور کیسی عزّت ملے گی.غرض میں دیکھتا ہوں کہ لوگ نمازوں میں غافل اور سُست اسی لیے ہوتے ہیں کہ ان کو اس لذّت اور سُرور سے اطلاع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے نماز کے اندر رکھا ہے اور بڑی بھاری وجہ کسل کی یہی ہے.پھر شہروں اور گائوں میں تو اور بھی سُستی اور غفلت ہوتی ہے.سو پچاسواں حصہ بھی تو پوری مستعدی اور سچی محبت سے اپنے مولا حقیقی کے حضور سر نہیں جھکاتے، پھر سوال یہی ہوتا ہے کیوں ان کو اس لذّت کی اطلاع نہیں اور نہ کبھی اس مزے کو انہوں نے چکھا.اَور مذاہب میں ایسے احکام نہیں ہیں.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے کاموں میں مبتلا ہوتے ہیں اور مؤذن اذان دے دیتا ہے.پھر وہ سننا بھی نہیں چاہتے.گویا ان کے دل دُکھتے ہیں.یہ لوگ بہت ہی قابلِ رحم ہیں.بعض لوگ یہاں بھی ایسے ہیں کہ ان کی دوکانیں دیکھو تومسجد کے نیچے ہیں مگر کبھی جاکر کھڑے بھی تو نہیں ہوتے.پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دعا مانگنی
چاہیے کہ جس طرح اور پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذتیں عطا کی ہیں نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزا چکھا دے، کھا یا ہوا یاد رہتا ہے.دیکھو! اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سُرور کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ اسے خوب یاد رہتا ہے اور پھر اگر کسی بد شکل اور مکروہ ہیئت کو دیکھتا ہے تو اس کی ساری حالت اس کے بالمقابل مجسم ہوکر سامنے آجاتی ہے.ہاں اگر کوئی تعلق نہ ہوتو کچھ یاد نہیں رہتا.اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نماز ایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اُٹھ کر سردی میں وضو کرکے خوابِ راحت چھوڑ کر اور کئی قسم کی آسائشوں کو چھوڑ کر پڑھنی پڑتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ اسے بیزاری ہے وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا.اس لذّت اور راحت سے جو نماز میں ہے اس کو اطلاع نہیں ہے.پھر نماز میں لذّت کیوں کر حاصل ہو.میں دیکھتا ہوں کہ ایک شرابی اور نشہ باز انسان کو جب سُرور نہیں آتا تو وہ پے در پے پیتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو ایک قسم کا نشہ آجاتا ہے.دانشمند اور زیرک انسان اس سے فائد ہ اُٹھا سکتا ہے اور وہ یہ کہ نماز پر دوام کرے اور پڑھتا جاوے یہاں تک کہ اس کو سُرور آجائے اور جیسے شرابی کے ذہن میں ایک لذّت ہوتی ہے جس کاحا صل کرنا اس کا مقصود بالذّات ہوتا ہے اسی طرح سے ذہن میں اور ساری طاقتوں کا رجحان نماز میں اسی سُرورکو حاصل کرنا ہو اور پھر ایک خلوص اور جوش کے ساتھ کم از کم اس نشہ باز کے اضطراب اور قلق و کرب کی مانند ہی ایک دعا پید اہوکر وہ لذّت حاصل ہوتو میں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ یقیناً یقیناً وہ لذّت حاصل ہوجائے گی.پھر نماز پڑھتے وقت ان مفاد کا حاصل کرنا بھی ملحوظ ہو جو اُس سے ہوتے ہیں اور احسان پیشِ نظر رہے اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ(ہود:۱۱۵) نیکیاں بدیوں کو زائل کردیتی ہیں.پس ان حسنات کو اور لذّات کو دل میں رکھ کر دعا کرے کہ وہ نماز جو صدیقوں اور محسنوں کی ہے وہ نصیب کرے.یہ جو فرمایا ہے کہ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ.یعنی نیکیاں یا نماز بدیوں کودُور کرتی ہے یا دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں مگر نہ رُوح اور راستی کے ساتھ.وہ صرف رسم اور عادت کے
طور پر ٹکریں مارتے ہیں.اُن کی رُوح مُردہ ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کا نام حسنات نہیں رکھا اور یہاںجو حسنات کا لفظ رکھا اور الصلوٰۃ کا لفظ نہیں رکھا باوجود یکہ معنی وہی ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ تا نماز کی خوبی اور حُسن وجمال کی طرف اشارہ کرے کہ وہ نماز بدیوں کو دور کرتی ہے جو اپنے اندر ایک سچائی کی رُوح رکھتی ہے اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے وہ نماز یقیناً یقیناً بُرائیوںکو دور کردیتی ہے.نماز نشست و برخاست کا نام نہیں.نماز کا مغز اور رُوح وہ دعا ہے جو ایک لذّت اور سُرور اپنے اندر رکھتی ہے.ارکانِ نماز دراصل روحانی نشست وبر خا ست کے اظلا ل ہیں.انسان کو خدائے تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہونا پڑتا ہے اور قیام بھی آ داب خد متگا ر ان میں سے ہے.رکوع جو دوسرا حصہ ہے بتلاتا ہے کہ گویا طیا ری ہے کہ وہ تعمیل حکم کو کس قدر گر دن جھکا تا ہے.اور سجدہ کمال ادب اور کمال تذلّل اور نیستی کو جو عبادت کا مقصو د ہے ظاہر کرتا ہے.یہ آداب اور طرق ہیں جو خدا تعالیٰ نے بطور یاد داشت کے مقرر کر دیئے ہیں.اور جسم کو باطنی طریق سے حصہ دینے کی خاطر ان کو مقرر کیا ہے.علاوہ ازیں باطنی طریق کے اثبات کی خاطر ایک ظاہری طریق بھی رکھ دیا ہے.اب اگرظاہری طریق میں (جو اندرونی اورباطنی طریق کا ایک عکس ہے )صرف نقال کی طرح نقلیں اُتاری جائیں اور اسے ایک بارِ گراں سمجھ کر اُ تا ر پھینکنے کی کوشش کی جاوے تو تم ہی بتلائو اس میں کیا لذّت اور حظّ آ سکتا ہے.اور جب تک لذّت اور سرور نہ آئے اُ س کی حقیقت کیوں کر متحقق ہو گی اور یہ اس وقت ہوگا جب کہ روح بھی ہمہ نیستی اور تذلّل تام ہو کر آستانہ الوہیت پر گرے اور جو زبان بولتی ہے روح بھی بولے.اس وقت ایک سرور اور نور اور تسکین حاصل ہو جاتی ہے.میں اس کو اور کھول کر کہنا چاہتا ہوں کہ انسان جس قدر مراتب طے کرکے انسان ہوتا ہے.یعنی کہاں نطفہ بلکہ اس سے بھی پہلے نطفہ کے اجزا یعنی مختلف قسم کی اغذیہ اور ان کی ساخت اور بناوٹ پھر نطفہ کے بعد مختلف مدارج کے بعد بچہ پھر جوان، بوڑھا.غرض ان تمام عالموں میں جو اس پر مختلف اوقات میں گذرے ہیں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا معترف ہو اور وہ نقشہ ہر آن اس کے ذہن میں کھچا رہے تو بھی وہ اس قابل ہوسکتا ہے کہ ربوبیت کے مدِّمقابل میں اپنی عبودیت کو ڈال دے.غرض مدّعا
یہ ہے کہ نمازمیں لذّت اور سرور بھی عبودیت اور ربوبیت کے ایک تعلق سے پیدا ہوتا ہے جب تک اپنے آپ کو عدم محض یا مشابہ بالعدم قرار دے کر جو ربوبیت کا ذاتی تقاضا ہے نہ ڈال دے اس کا فیضان اور پر تَو اس پر نہیں پڑتا.اور اگر ایسا ہو تو پھر اعلیٰ درجہ کی لذّت حاصل ہوتی ہے جس سے بڑ ھ کر کوئی حظّ نہیں ہے اس مقام پر انسان کی رُوح جب ہمہ نیستی ہو جاتی ہے تو وہ خدا کی طرف ایک چشمہ کی طرح بہتی ہے اورما سوی اللہ سے اسے انقطاع ہو جاتا ہے اس وقت خدائے تعالیٰ کی محبت اس پر گرتی ہے.اس اتصال کے وقت ان دوجو شوں سے جو اوپر کی طرف سے ربوبیت کا جوش اور نیچے کی طرف سے عبودیت کا جوش ہوتا ہے.ایک خاص کیفیت پیداہو تی ہے اس کا نام صلوٰۃ ہے جوسیّئا ت کو بھسم کر جاتی اور اپنی جگہ ایک نور اور چمک چھوڑ دیتی ہے جو سالک کو راستے کے خطرات اور مشکلات کے وقت ایک منور شمع کا کام دیتی ہے.اور ہر قسم کے خس وخاشاک اور ٹھو کرکے پتھروں اور خاروخس سے جو اس کی راہ میں ہوتے ہیں آگا ہ کرکے بچاتی ہے اور یہی وہ حالت ہے جب کہ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ(العنکبوت:۴۶)کا اطلاق اس پر ہوتا ہے کیونکہ اُس کے ہاتھ میں نہیں.اُس کے شمعدانِ دل میں ایک روشن چراغ رکھا ہوا ہوتا ہے اور یہ درجہ کامل تذلّل، کامل نیستی اور فروتنی اور پوری اطاعت سے حاصل ہوتا ہے پھر گناہ کا خیال اسے آ کیوں کرسکتا ہے اور انکار اس میں پیدا ہی نہیں ہوسکتا.فحشاء کی طرف اس کی نظر اُٹھ ہی نہیں سکتی غرض اسے ایسی لذّت ایسا سرور حاصل ہوتا ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اسے کیوں کربیان کروں.پھر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ نماز جو اپنے اصلی معنوں میں نماز ہے دعا سے حاصل ہوتی ہے غیر اللہ سے سوال کرنا مؤمنانہ غیرت کے صریح اور سخت مخالف ہے.کیوں کر یہ مرتبہ دعا کا اللہ ہی کے لئے ہے جب تک انسان پورے طور پر حنیف ہو کر اللہ تعالیٰ ہی سے سوال نہ کرے اور اسی سے نہ مانگے.سچ سمجھو کہ حقیقی طور پر وہ سچا مسلمان اور سچا مومن کہلانے کا مستحق نہیں.اسلام کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اس کی تمام طاقتیں اندرونی ہوں یا بیرونی سب کی سب اللہ تعالیٰ ہی کے آستانہ پر گری ہوئی ہوں.جس طرح پر ایک بڑا انجن بہت سی کَلوں کو چلاتا ہے.پس اسی طور پر جب تک
انسان اپنے ہر کام اور ہر حرکت و سکون تک کو اسی انجن کی طاقت عظمیٰ کے ماتحت نہ کر لیوے وہ کیوں کر اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا قائل ہوسکتا ہے؟ اور اپنے آپ کواِنِّيْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ (الانعام:۸۰) کہتے وقت واقعی حنیف کہہ سکتا ہے؟ جیسے مُنہ سے کہتا ہے دل سے بھی اُدھر کی طرف متوجہ ہو تو لا ریب وہ مسلم ہے.وہ مومن اور حنیف ہے لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا غیر اللہ سے سوال کرتا ہے اور ادھر بھی جھکتا ہے وہ یاد رکھے کہ بڑا ہی بد قسمت اور محروم ہے کہ اس پر وہ وقت آجانے والا ہے کہ وہ زبانی اور نمائشی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھک سکے.ترکِ نماز کی عادت اور کسل کی ایک وجہ یہ ہے کیونکہ جب انسان غیر اللہ کی طرف جھکتا ہے تو روح اور دل اس کی طرف جھکتا ہے تو روح اور دل کی طاقتیں (اس درخت کی طرح جس کی شاخیں ابتداءً ایک طرف کر دی جائیں اور پر ورش پالیں) ادھر ہی جھکتا ہےاور خدائے تعالیٰ کی طرف سے ایک سختی اور تشدد اس کے دل میں پیداہو کر اسے منجمد اور پتھر بنا دیتا ہے.جیسے وہ شاخیں پھر دوسری طرف مڑ نہیں سکتیں.اسی طرح پر وہ دل اور رُوح دن بدن خدائے تعالیٰ سے دور ہوتے جاتے ہیں.پس یہ بڑی خطرناک اور دل کو کپکپا دینے والی بات ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے سے سوال کرے.اسی لیے نماز کا التزام اور پابندی بڑی ضروری چیز ہے تاکہ اوّلًاوہ ایک عادت راسخہ کی طرح قائم ہو اور رجوع الی اللہ کا خیال ہو.پھر رفتہ رفتہ وہ وقت آجاتا ہے کہ انقطاعِ کلّی کی حالت میں انسان ایک نور اور ایک لذّت کا وارث ہو جاتا ہے.میں اس اَمرکو پھر تاکید سے کہتا ہوں.افسوس ہے مجھے وہ لفظ نہیں ملتے جس میں میں غیر اللہ کی طرف رجوع کرنے کی بُرا ئیاں بیان کرسکوں.لوگوں کے پاس جا کر منت و خوشامد کرتے ہیں.یہ بات خدائے تعالیٰ کی غیرت کو جوش میں لاتی ہے (کیونکہ یہ تو لوگوں کی نماز ہے)پس وہ اس سے ہٹتا اور اُسے دور پھینک دیتاہے.میں موٹے الفاظ میں اس کو بیان کرتا ہوں گو یہ اَمر اس طرح پر نہیں ہے مگر فوراً سمجھ میں آ سکتا ہے کہ جیسے ایک مَردِ غیورکی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ وہ اپنی بیوی کو کسی غیر کے ساتھ تعلق پیداکرتے
ہوئے دیکھ سکے اور جس طرح پر وہ مر د ایسی حالت میں اس نابکار عورت کو واجب القتل سمجھتا بلکہ بعض اوقات ایسی وارداتیں ہو جاتی ہیں ایسا ہی جوش اور غیرت الوہیت کی ہے.جب عبو دیت اور دعا خاص اسی ذات کے مدّ مقابل ہیں وہ پسند نہیں کرسکتا کہ کسی اور کو معبود قرار دیا جائے یا پکارا جائے.پس خوب یاد رکھو اور پھریاد رکھو! کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے.نماز اور توحید کچھ ہی ہو (کیونکہ توحید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے) اسی وقت بے برکت اور بے سُود ہوتی ہے جب اس میں نیستی اور تذلّل کی رُوح اورحنیف دل نہ ہو!!سنو! وہ دعا جس کے لئے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المؤمن:۶۱) فرمایا ہے اس کے لئے یہی سچی رُوح مطلوب ہے اگر اس تضرّع اور خشوع میں حقیقت کی رُوح نہیں تو وہ ٹیں ٹیں سے کم نہیں ہے.پھر کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسباب کی رعایت ضروری نہیں ہے؟ یہ ایک غلط فہمی ہے.شریعت نے اسباب کو منع نہیں کیا ہے.اور سچ پوچھو تو کیا دعا اسباب نہیں ہے؟ یااسباب دعا نہیں؟ تلاش اسباب بجائے خود ایک دعا ہے او ردعا بجائے خود عظیم الشان اسباب کا چشمہ!!! انسان کی ظاہری بناوٹ اس کے دو ہاتھ دو پاؤں کی ساخت ایک دوسرے کی امداد کا رہنما ہے.جب یہ نظارہ خود انسان میں موجود ہے پھر کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ وہ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى (المائدۃ: ۳ ) کے معنے سمجھنے میں مشکلات کو دیکھے ہاں میں یہ کہتا ہوں کہ تلاش اسباب بھی بذریعہ دعا کرو.امداد باہمی میں نہیں سمجھتا کہ جب میں تمہارے جسم کے اندر اللہ تعالیٰ کا ایک قائم کردہ سلسلہ اور کامل رہنما سلسلہ دکھاتا ہوں تم اس سے انکار کرو.اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اور بھی صاف کرنے اور وضاحت سے دنیا پر کھول دینے کے لیے انبیاء علیہم السلام کا ایک سلسلہ دنیا میں قائم کیا.اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا اور قادر ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی قسم کی امداد کی ضرورت ان رسولوں کو باقی نہ رہنے دے مگر پھر بھی ایک وقت ان پر آتا ہے کہ و ہ مَنْ اَنْصَارِيْۤ اِلَى اللّٰهِ (اٰل عـمران:۵۳) کہنے پر مجبور ہوتے ہیں.کیا وہ ایک ٹکر گدا فقیر کی طرح بولتے ہیں، نہیں مَنْ اَنْصَارِيْۤ اِلَى اللّٰهِ کہنے کی بھی ایک شان ہوتی ہے.وہ دنیا کو رعایت اسباب سکھانا چاہتے ہیں جو دعا کا ایک شعبہ ہے ورنہ
اللہ تعالیٰ پر ان کو کامل ایمان اس کے وعدوں پر پورا یقین ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا (المؤمن:۵۲) ایک یقینی اور حتمی وعدہ ہے میں کہتا ہوں کہ بھلا اگر خدا کسی کے دل میں مدد کا خیال نہ ڈالے تو کوئی کیوںکر مدد کرسکتا ہے.اصل بات یہی ہے کہ حقیقی معاون و ناصر وہی پاک ذات ہے جس کی شان ہے نِعْمَ الْمَوْلٰى وَ نِعْمَ الْوَكِيْلُ وَ نِعْمَ النَّصِيْرُ.دنیا اور دنیا کی مددیں ان لوگوں کے سامنے کا لمیّت ہوتی ہیں اور مُردہ کیڑے کے برابر بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں لیکن دنیا کو دعا کا ایک موٹا طریق بتلانے کے لیے وہ یہ راہ بھی اختیارکرتے ہیں.وہ حقیقت میں اپنے کاروبار کا متولّی خدا تعالیٰ ہی کو جانتے ہیں اور یہ بات بالکل سچ ہے وَھُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ (الاعراف:۱۹۷).اللہ تعالیٰ ان کو مامور کر دیتاہے کہ وہ اپنے کاروبار کو دوسروںکے ذریعے سے ظاہر کریں.ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مقامات پر مدد کا وعظ کرتے تھے اسی لیے کہ وہ وقت نصرت الٰہی کا تھا.اس کو تلاش کرتے تھے کہ وہ کس کے شاملِ حال ہوتی ہے.یہ ایک بڑی غور طلب بات ہے.دراصل مامور من اللہ لوگوںسے مدد نہیں مانگتا بلکہ مَنْ اَنْصَارِيْۤ اِلَى اللّٰهِ کہہ کر وہ اس نصرتِ الٰہیہ کا استقبال کرنا چاہتا ہے اور ایک فرطِ شوق سے بے قراروں کی طرح اس کی تلاش میں ہوتا ہے.نادان اور کوتا ہ اندیش لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں سے مدد مانگتا ہے بلکہ اس طرح پر اس شان میں وہ کسی دل کے لیے جو اس نصرت کا مو جب ہوتا ہے ایک برکت اور رحمت کا موجب ہوتا ہے.پس مامور من اللہ کی طلب امداد کا اصل سِرّ اور راز یہی ہے جو قیامت تک اسی طرح پر رہے گا.اشاعتِ دین میں مامور من اللہ دوسروں سے امداد چاہتے ہیں مگر کیوں؟ اپنے ادائے فرض کے لئے تاکہ دلوں میں خدا تعالیٰ کی عظمت کو قائم کریں ورنہ یہ تو ایک ایسی بات ہے کہ قریب بہ کفر پہنچ جاتی ہے اگر غیر اللہ کو متولّی قرار دیں اور ان نفوسِ قدسیہ سے ایسا امکان محالِ مطلق ہے.میں نے ابھی کہا ہے کہ توحید تبھی پوری ہوتی ہے کہ کل مرادوں کا معطی اور تمام امراض کا چارہ اور مداوا وہی ذات واحد ہو لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کے معنے یہی ہیں.صوفیوں نے اس میں اِلٰہٌ کے لفظ سے محبوب، مقصود، معبود مراد لی ہے بے شک اصل اور سچ یونہی ہے جب تک انسان کامل طور پر کار بند نہیں ہوتا اس میں اسلام
کی محبت اور عظمت قائم نہیں ہوتی.اور پھر میں اصل ذکر کی طرف رجو ع کرکے کہتا ہوں کہ نماز کی لذّت اور سرور اسے حاصل نہیں ہوسکتا.مداراسی بات پر ہے کہ جب تک برے ارادے، ناپاک اور گندے منصوبے بھسم نہ ہوں انانیت اور شیخی دور ہو کر نیستی اور فروتنی نہ آئے خدا کا سچابندہ نہیں کہلا سکتا.عبودیتِ کاملہ کے سکھانے کے لیے بہترین معلّم اور افضل ترین ذریعہ نماز ہی ہے.میں تمہیں پھر بتلاتا ہوں کہ اگر خدائے تعالیٰ سے سچا تعلق، حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو تو نمازپر کار بند ہو جائو اور ایسے کاربند نہ ہو کہ نہ تمہارا جسم نہ تمہاری زبان بلکہ تمہاری روح، تمہاری روح کے ارادے اور جذبے سب کے سب ہمہ تن نماز ہو جائیں.عصمتِ انبیاء کا ملنا عصمتِ انبیاء کا یہی راز ہے یعنی نبی کیوں معصوم ہوتے ہیں؟ تو اس کا یہی جواب ہے کہ وہ استغراقِ محبت الٰہی کے باعث معصوم ہوتے ہیں.مجھے حیرت ہوتی ہے جب ان قوموں کو دیکھتا ہوں جو شرک میں مبتلا ہیں جیسے ہندوجو قسم قسم کے اصنام کی پرستش کرتے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے عورت اور مَردکے اعضا مخصوصہ تک کی پرستش بھی جائز کر رکھی ہے اور ایسا ہی وہ لوگ جو ایک انسانی لاش یعنی یسوع مسیح کی پرستش کرتے ہیں اس قسم کے لوگ مختلف صورتوں سے حصولِ نجات یا مکتی کے قائل ہیں مثلاًاوّل الذکر یعنی ہندو گنگااشنان اور تیرتھ یاترا اور ایسے ایسے کفّاروں سے گناہ سے موکش چاہتے ہیں اور عیسیٰ پرست عیسائی مسیح کے خو ن کو اپنے گناہوں کا فدیہ قرار دیتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ جب تک نفسِ گناہ موجود ہے وہ بیرونی صفائی اور خارجی معتقدات سے راحت یا اطمینان کا ذریعہ کیوں کر پاسکتے ہیں جب تک اندر کی صفائی اور باطنی تطہیر نہیں ہوتی.ناممکن ہے کہ انسان سچی پاکیزگی اور طہارت جو انسان کو نجات سے ملتی ہے پا سکے.ہاں اس سے ایک سبق لو جس طرح پر دیکھو بدن کی میل اور بد بو بدوں صفائی کے دور نہیں ہوسکتی اور جسم کو ان آنے والے خطرناک امراض سے بچا نہیں سکتی اسی طرح پر ر وحانی کدورات اور میل جو دل پر ناپاکیوں اور قسم قسم کی بے باکیوں سے جم جاتی ہے دور نہیں ہوسکتی جب تک توبہ کا مصفّا اور پاک پانی نہ دھو ڈالے.جسمانی سلسلہ میں ایک فلسفہ جس طرح پر موجود ہے اسی طرح پر روحانی سلسلہ میں
ایک فلسفہ رکھا ہوا ہے.مبارک ہیں وہ لوگ جو اس پر غور کرتے ہیں اور سوچتے ہیں.گناہ کی حقیقت اور اس سے بچنے کے ذرائع میں اس مقام پر یہ بات بھی جتلانا چاہتا ہوں کہ گناہ کیوں کر پیدا ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب عام فہم الفاظ میں یہی ہے کہ جب غیر اللہ کی محبت انسانی دل پر مستولی ہوتی ہے تو وہ اس مصفّا آئینہ پر ایک قسم کا زنگ سا پیدا کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ بالکل تا ریک ہو جاتا ہے اور غیریت اپنا گھر کرکے اسے خدا سے دور ڈال دیتی ہے اور یہی شرک کی جڑہے.لیکن جس قلب پر اللہ تعالیٰ اور صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اپنا قبضہ کرتی ہے وہ غیرت کو جلا کر اسے صرف اپنے لیے منتخب کر لیتی ہے پھر اس میں ایک استقامت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اصل جگہ پر آجاتی ہے عضو کے ٹوٹنے اورپھر چڑھنے میں جس طرح سے تکلیف ہوتی ہے لیکن ٹوٹا ہوا عضو کہیں زیادہ تکلیف دیتا ہے جو اسے صرف مکرر چڑھنے سے عارضی طور پر ہوتی ہے اور پھر ایک راحت کا سامان ہوجاتی ہے لیکن اگر وہ عضو اسی طرح ٹوٹا رہے تو ایک وقت آجاتا ہے کہ اس کو بالکل کاٹنا پڑتا ہے اسی طرح سے استقامت کے حصول کے لیے اوّلًا ابتدائی مدارج اور مراتب پر کسی قدر تکلیف اور مشکلات بھی پیش آتی ہیں لیکن اس کے حاصل ہونے پر ایک دائمی راحت اور خوشی پیدا ہو جاتی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ ارشاد ہوا فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ( ھود:۱۱۳) تو لکھاہے کہ آپ کے کوئی سفید بال نہ تھا پھر سفید بال آنے لگے تو آپ نے فرمایا مجھے سور ئہ ہودنے بوڑھا کر دیا.غرض یہ ہے کہ جب تک انسان موت کا احساس نہ کرے وہ نیکیوں کی طرف جھک نہیں سکتا.میں نے بتلایا ہے کہ گناہ غیر اللہ کی محبت دل میں پیدا ہونے سے پیدا ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ دل پر غلبہ کر لیتا ہے ـ.پس گناہ سے بچنے اور محفوظ رہنے کے لیے یہ بھی ایک ذریعہ ہے کہ انسان موت کو یاد رکھے اور خدائے تعالیٰ کے عجائباتِ قدرت میں غور کرتا رہے کیونکہ اس سے محبت الٰہی اور ایمان بڑھتا ہے اور جب خدائے تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا ہو جائے تووہ گناہ کو خود جلا کر بھسم کر جاتی ہے ـ.دوسرا ذریعہ گناہ سے بچنے کا احساسِ موت ہے.اگر انسان موت کو اپنے سامنے رکھے تو وہ ان
بدکاریوںاور کوتاہ اندیشیوں سے بازآجائے اورخدا تعالیٰ پر اسے ایک نیاایمان حاصل ہو اور اپنے سابقہ گناہوںپر توبہ اور نادم ہونے کا موقع ملے.انسان عاجزکی ہستی کیا ہے؟ صرف ایک دم پر انحصار ہے.پھر کیوںوہ آخرت کا فکر نہیں کرتا اور موت سے نہیں ڈرتا اور نفسانی اور حیوانی جذبات کا مطیع اور غلام ہو کر عمرضائع کر دیتا ہے.میں نے دیکھاہے کہ ہندوؤںکو بھی احساسِ موت ہوا ہے.بٹالہ میں کشن چندنام ایک بھنڈاری ستّر یا بہتّر برس کی عمر کا تھا.اس وقت اس نے گھربار سب کچھ چھوڑدیا اور کانشی میں جا کر رہنے لگا اور وہاں ہی مَر گیا.یہ صرف اس لیے کہ وہاں مَرنے سے اس کی موکش ہو گی مگر یہ خیال اس کا باطل تھا.لیکن اس سے اتنا تو مفید نتیجہ ہم نکال سکتے ہیں کہ اس نے احساسِ موت کیا اور احساسِ موت انسان کو دنیاکی لذّات میں بالکل منہمک ہونے سے اور خدا سے دور جا پڑنے سے بچا لیتا ہے.یہ بات کہ کانشی میں مَرنا مکتی کا باعث ہوگا یہ اسی مخلوق پرستی کا پردہ تھا جو اس کے دل پر پڑاہواتھا مگر مجھے تو سنحت افسوس ہوتا ہے جب کہ میں دیکھتا ہوںکہ مسلمان ہندوؤںکی طرح بھی احساسِ موت نہیں کرتے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھوصرف اس ایک حکم نے کہ فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ نے ہی بوڑھا کر دیا.کس قدر احساسِ موت ہے.آپ کی یہ حالت کیوںہوئی صرف اس لئے کہ تاہم اس سے سبق لیں.ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اور مقدس زندگی کی اس سے بڑھ کر اَور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہاد ی کامل اور پھر قیامت تک کے لیے اور اس پر کُل دنیا کے لیے مقرر فرمایا.مگر آپ کی زندگی کے کل واقعات ایک عملی تعلیمات کامجموعہ ہے جس طرح پر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی قولی کتاب ہے اور قانونِ قدرت اس کی فعلی کتاب ہے اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ز ندگی بھی ایک فعلی کتاب ہے جو گویا قرآن کریم کی شرح اور تفسیر ہے.میرے تیس سال کی عمر میں ہی سفید بال نکل آئے تھے اور مرزا صاحب مرحوم میرے والد ابھی زندہ ہی تھے.سفید بال بھی گویا ایک قسم کا نشانِ موت ہوتا ہے جب بڑھاپا آتا ہے جس کی نشانی یہی سفید بال ہیں تو انسان سمجھ لیتا ہے کہ مَرنے کے دن اب قریب ہیں.مگر افسوس تو یہ ہے کہ اس وقت بھی انسان کو فکر نہیں لگتا.مومن تو ایک چڑیا اور اور جانور وںسے بھی اخلاق فاضلہ سیکھ سکتاہے کیونکہ خدائے تعالیٰ
کی کھلی ہوئی کتاب اس کے سامنے ہوتی ہے.دنیا میں جس قدر چیزیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں وہ انسان کے لیے جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی راحتوں کے سامان ہیں.میں نے حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کے تذکرے میں پڑھا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے.میں نے مراقبہ بلّی سے سیکھا ہے.اگر انسان نہایت پُرغور نگاہ سے دیکھے تو اسے معلوم ہوگا کہ جانور کھلے طور پر خُلق رکھتے ہیں.میرے مذہب میں سب چرند و پرند ایک خُلق ہیں اور انسان اس کے مجموعہ کا نام ہے یہ نفس جامع ہے اور اسی لیے عالم صغیر کہلاتا ہے کہ کل مخلوق کے کمال انسان میں یکجائی طور پر جمع ہیں اور کل انسانوں کے کمالات بہیئت مجموعی ہمارے رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہیں اور اسی لیے آپ کل دنیا کے لیے مبعوث ہوئے اور رَحْمَةٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ کہلائے.اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ (القلم: ۵) میں بھی اسی مجموعہ کمالات انسانی کی طرف اشارہ ہے اسی صورت میں عظمت ِاخلاق محمدی کی نسبت غور کرسکتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ آپ پر نبوت کاملہ کے کمالات ختم ہوئے یہ ایک مسلّم بات ہے کہ کسی چیز کا خاتمہ اس کی علّتِ غائی کے اختتام پر ہوتا ہے.جیسے کتاب کے جب کُل مطالب بیان ہوجاتے ہیں تو اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے اسی طرح پر رسالت اور نبوت کی علّتِ غائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوئی اور یہی ختمِ نبوت کے معنے ہیں.کیونکہ یہ ایک سلسلہ ہے جو چلاآیا ہے اور کامل انسان پرآکر اس کاخاتمہ ہوگیا.استقامت ہی انسان کا اسمِ اعظم ہے میں یہ بھی بتلادینا چاہتا ہوں کہ استقامت جس پر میں نے ذکر چھیڑا تھا وہی ہے جس کو صوفی لوگ اپنی اصطلاح میں فنا کہتے ہیں اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ(الفاتـحۃ: ۶) کے معنے بھی فنا ہی کے کرتے ہیں.یعنی رُوح، جوش اور ارادے سب کے سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہو جائیں اور اپنے جذبات اور نفسانی خواہشیں بالکل مَر جا ئیں.بعض انسان جو اللہ تعالیٰ کی خواہش اور ارادے کو اپنے ارادوں اور جوشوں پر مقدم نہیں کرتے وہ اکثر دفعہ دنیا ہی کے جوشوںاور ارادوںکی ناکامیوں میں اس دنیا سے اُٹھ جاتے ہیں.ہمارے بھائی صاحب مر حوم مرزا غلام قادر کو مقدمات میں بڑی مصروفیت رہتی تھی اور ان میں وہ یہاں تک منہمک اور محو رہتے تھے کہ آخر ان ناکامیوں نے ان کی
صحت پر اثر ڈالا اور وہ انتقال کر گئے اور بھی بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو اپنے ارادوںکو خدا پر مقدم کرتے ہیں.آخر کار اس تقدیم ہوائے نفس میں بھی وہ کامیاب نہیں ہوتے اور بجائے فائدہ کے نقصان عظیم اُٹھاتے ہیں.اسلام پر غور کرو گے تو معلوم ہوگا کہ ناکامی صرف جھوٹے ہونے کی وجہ سے پیش آتی ہے.جب خدائے تعالیٰ کی طرف سے التفات کم ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہوتا ہے جو اس کو نا مراد اور ناکام بنا دیتا ہے.خصوصاً ان لوگوں کو جوبصیرت رکھتے ہیں جب وہ دنیا کے مقاصد کی طرف اپنے تمام جوش اور ارادے کے ساتھ جھک جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو نا مراد کر دیتا ہے.لیکن سعیدوں کو وہ پاک اصول پیشِ نظر رہتا ہے جو احساسِ موت کا اصول ہے.وہ خیال کرتا ہے کہ جس طرح ماں باپ کا انتقال ہو گیا ہے یا جس طرح پر اور کوئی بزرگِ خاندان فوت ہو گیا ہے اسی طرح پر مجھ کو ایک دن مَرنا ہے اور بعض اوقات اپنی عمر پر خیال کرکے کہ بڑ ھا پا آگیا اور موت کے دن قریب ہیں خدائے تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے.بعض خاندان ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں عمریں علی العموم ایک خاص مقدار تک مثلاً۵۰ یا ۶۰ تک پہنچتی ہیں.بٹالہ میں میاں صاحب کا جو خاندان ہے اُس کی عمریں بھی علی العموم اسی حد تک پہنچتی ہیں.اس طرح پر اپنے خاندان کی عمروں کا اندازہ اور لحاظ بھی انسان کو احساسِ موت کی طرف لے جاتا ہے.غرض یہ بات خوب ذہن نشین رہنی چاہیے کہ آخر ایک نہ ایک دن دنیا اور اس کی لذتوں کو چھوڑنا ہے تو پھر کیوں انسان اس وقت سے پہلے ہی ان لذّات کے ناجائز طریقِ حصول چھوڑ دے.موت نے بڑے بڑے راست بازوں اور مقبولوں کو نہیں چھوڑا اور وہ نوجوانوں یا بڑے سے بڑے دولت مند اور بزرگ کی پروا نہیں کرتی پھر تم کو کیوں چھوڑنے لگی.پس دنیا اور اس کی راحتوں کو زندگی کے منجملہ اسباب سے سمجھو اور خدائے تعالیٰ کی عبادت کا ذریعہ.سعدی نے اس مضمون کو یُوں ادا کیا ہے.؎ خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است تو معتقد کہ زیستن از بہر خوردن است یہ نہ سمجھو کہ خدا ہم سے خواہ مخواہ خوش ہوجائے اور ہم اپنے احتظاظ میں رہیں مگر ایسے اندھوں کو اگر خدا کی طرف سے ہی پروانہ آجائے تو وہ ان لذتوں کو جوجسمانی خواہشوں اور ارادوں کی پیروی میں سمجھتے
ہیں نہ چھوڑیں گے اور ان کو اس لذّت پر جو ایک مومن کو خدا میں ملتی ہے ترجیح دیں گے.خدائے تعالیٰ کا پروانہ موجود ہے جس کانام قرآن شریف ہے جو جنّت اور ابدی آرام کا وعدہ دیتا ہے مگر اس کی نعمتوں کے وعدہ پر چنداں لحاظ نہیں کیا جاتا اور عارضی اور خیالی خوشیوں اور راحتوں کی جستجو میں کس قدر تکلیفیں غافل انسان اُٹھاتا اور سختیاں برداشت کرتا ہے مگر خدائے تعالیٰ کی راہ میں ذرا سی مشکل کو دیکھ کر بھی گھبرا اُٹھتا اور بد ظنی شروع کر دیتا ہے.کاش وہ ان فانی لذتوں کے مقابلہ میں ان اَبدی اور مستقل خوشیوں کا اندازہ کرسکتا.ان مشکلات اور تکا لیف پر فتح پانے کے لیے ایک کامل اور خطا نہ کرنے والا نسخہ موجود ہے جو کروڑ ہاراست بازوں کا تجربہ کردہ ہے.وہ کیا؟ وہ وہی نسخہ ہے جس کو نماز کہتے ہیں.نماز کیا ہے؟ ایک قسم کی دعا ہے جو انسان کو تمام برائیوں اور فواحش سے محفوظ رکھ کر حسنات کا مستحق اور انعام الٰہیہ کا مورد بنا دیتی ہے.کہا گیا ہے کہ اللہ اسم اعظم ہے اللہ تعالیٰ نے تمام صفات کو اس کے تابع رکھا ہے.اب ذرا غور کرو.نماز کی ابتدا اذان سے شروع ہوتی ہے.اذان اَللّٰہُ اَکْبَرُ سے شروع ہوتی ہے.یعنی اللہ کے نام سے شروع ہو کر لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ یعنی اللہ ہی پر ختم ہوتی ہے.یہ فخر اسلامی عبادت کو ہی ہے کہ اس میں اوّل اور آخر میں اللہ تعالیٰ ہی مقصود ہے نہ کچھ اَور.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی عبادت کسی قوم اور ملّت میں نہیں ہے.پس نماز جو دعا ہے اور جس میں اللہ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسم اعظم ہے مقدم رکھا ہے.ایسا ہی انسان کا اسمِ اعظم استقامت ہے.اسم اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں.اللہ تعالیٰ نے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ میں اس کی طرف ہی اشارہ فرمایا ہے اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا کہ اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا (حٰمٓ السجدۃ:۳۱ ) یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے نیچے آگئے اور اس کے اسمِ اعظم استقامت کے نیچے جب بیضہ بشریت رکھا گیا.پھر اس میں اس قسم کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے کہ ملائکہ کا نزول اس پر ہوتا ہے اور کسی قسم کا خوف و حزن ان کو نہیں رہتا.میں نے کہا ہے کہ استقامت بڑی چیز ہے.استقامت سے
کیا مراد ہے؟ ہر ایک چیز جب اپنے عین محل اور مقام پر ہو وہ حکمت اور استقامت سے تعبیر پاتی ہے.مثلًادور بین کے اجزا کو اگرجُدا جُدا کرکے ان کو اصل مقامات سے ہٹا کر دوسرے مقام پر رکھ دیں وہ کام نہ دے گی.غرض وَضْعُ الشَّیْءِ فِیْ مَـحَلِّہٖ کا نام استقامت ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہو کہ ہیئت طبعی کا نام استقامت ہے.پس جب تک انسانی بناوٹ کو ٹھیک اسی حالت پر نہ رہنے دیں اور اسے مستقیم حالت میں نہ رکھیں وہ اپنے اندر کمالات پیدا نہیں کرسکتی.دعا کا طریق یہی ہے کہ دونوں اسمِ اعظم جمع ہوں.اور یہ خدا کی طرف جاوے کسی غیر کی طرف رجوع نہ کرے خواہ وہ اس کی ہوا وہوس ہی کا بُت کیوں نہ ہو جب یہ حالت ہوجائے تو اس وقت اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المؤمن:۶۱) کا مزا آجاتا ہے.پس میں چاہتا ہوں کہ آپ استقامت کے حصول کے لیے مجاہدہ کریں اور ریاضت سے اسے پائیں کیونکہ وہ انسان کو ایسی حالت پر پہنچا دیتی ہے جہاں اُس کی دعا قبولیت کا شرف حاصل کرتی ہے.اس وقت بہت سے لوگ دنیا میں موجود ہیں جو عدم قبولیتِ دعا کے شاکی ہیں.لیکن میں کہتا ہوں کہ افسوس تو یہ ہے کہ جب تک وہ استقامت پیدا نہ کریں دعا کی قبولیت کی لذّت کو کیوں کر پاسکیں گے.قبولیتِ دعا کے نشان ہم اسی دنیا میں پاتے ہیں.استقامت کے بعد انسانی دل پر ایک برودت اور سکینت کے آثار پائے جاتے ہیں.کسی قسم کی بظاہر ناکامی اور نامُرادی پر بھی دل نہیں جلتا.لیکن دعا کی حقیقت سے ناواقف رہنے کی صورت میں ذراذرا سی نامرادی بھی آتشِ جہنّم کی ایک لپٹ ہوکر دل پر مستولی ہوجاتی ہے اور گھبرا گھبرا کر بے قرار کئے دیتی ہے.اسی کی طرف ہی اشارہ ہے نَارُ اللّٰهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِيْ تَطَّلِعُ عَلَى الْاَفْـِٕدَةِ(الھمزۃ ـ:۷،۸) بلکہ حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ تپ بھی نارِ جہنّم ہی کا ایک نمونہ ہے.اُمّت میں سلسلہ مجدّدین اب یہاں ایک اور بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پاجانا تھا اس لیے ظاہری طور پر ایک نمونہ اور خدا نمائی کا آلہ دنیا سے اُٹھنا تھا.اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک آسان راہ رکھ دی کہ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ (اٰل عـمران:۳۲) کیونکہ محبوب اللہ مستقیم ہی ہوتا
ہے.زیغ رکھنے والا کبھی محبوب نہیں بن سکتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی ازدیاد اور تجدید کے لیے ہر نماز میں درود شریف کا پڑھنا ضروری ہوگیا تاکہ اس دعا کی قبولیت کے لیے استقامت کا ایک ذریعہ ہاتھ آئے.یہ ایک مانی ہوئی بات ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ظلّی طور پر قیامت تک رہتا ہے.صوفی کہتے ہیں کہ مجدّدین کے اسماء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہی ہوتے ہیں.یعنی ظلّی طور پر وہی نام ان کو کسی ایک رنگ میں دیا جاتا ہے.شیعہ لوگوں کا یہ خیال کہ ولایت کا سلسلہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر ختم ہوگیا محض غلط ہے.اللہ تعالیٰ نے جو کمالات سلسلہ نبوت میں رکھے ہیں، مجموعی طور پر وہ ہادیٔ کامل پر ختم ہوچکے.اب ظلّی طور پر ہمیشہ کے لیے مجدّدِ دین کے ذریعہ سے دنیا پر اپنا پرتَو ڈالتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو قیامت تک رکھے گا.مَیں پھر کہتا ہوں کہ اس وقت بھی خدائے تعالیٰ نے دنیا کو محروم نہیں چھوڑا اور ایک سلسلہ قائم کیا ہے.ہاں اپنے ہاتھ سے اس نے ایک بندہ کو کھڑا کیا اور وہ وہی ہے جو تم میں بیٹھا ہوا بول رہا ہے.اب خدا تعالیٰ کے نزولِ رحمت کا وقت ہے.دعائیں مانگو.استقامت چاہو اور درود شریف جو حصولِ استقامت کا ایک زبر دست ذریعہ ہے بکثرت پڑھو.مگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن اور احسان کو مدّ نظر رکھ کر اور آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لیے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قبولیتِ دعا کا شیریں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا.قبولیت دعا کے ذرائع قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں.اوّل اِنْ.كُنْتُمْ.تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠.دوم يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا(الاحزاب:۵۷) تیسرا موہبتِ الٰہی.اللہ تعالیٰ کا یہ عام قانون ہے کہ وہ نفوسِ انبیاء کی طرح دنیا میں بہت سے نفوسِ قدسیہ ایسے پیدا کرتا ہے جو فطرتاً استقامت رکھتے ہیں.یہ بات بھی یاد رکھو کہ فطرتاً انسان تین قسم کے ہوتے ہیں ایک فطرتاًظالم لنفسہٖ دوسرے مقتصدیعنی کچھ نیکی سے بہرہ ور اور کچھ برائی سے آلودہ.سوم بُرے کاموں سے متنفر اور سابق بالخیرات.پس یہ
آخری سلسلہ ایسا ہوتا ہے کہ اجتبا اوراصطفا کے مراتب پر پہنچتے ہیں اور انبیاء علیہم السلام کا گروہ ایسے پاک سلسلہ میں سے ہوتا ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری ہے.دنیا ایسے لوگوں سے خالی نہیں.بعض لوگ دعا کی در خواست کرتے ہیں کہ میرے لئے دعا کرو مگر افسوس ہے کہ وہ دعا کرانے کے آداب سے واقف نہیں ہوتے.عنایت علی نے دعا کی ضرورت سمجھی اور خواجہ علی کو بھیج دیا کہ آپ جاکر دعا کرائیں.کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا جب تک دعا کرانے والااپنے اندر ایک صلاحیت اوراتباع کی عادت نہ ڈالے دعا کارگر نہیں ہوسکتی.مریض اگر طبیب کی اطاعت ضروری نہیں سمجھتا ممکن نہیں کہ فائدہ اُٹھا سکے.جیسے مریض کو ضروری ہے کہ استقامت اور استقلال کے ساتھ طبیب کی رائے پرچلے تو فائدہ اُٹھائے گا.ایسے ہی دعا کرانے والے کے لئے آداب اور طریق ہیں.تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک بزرگ سے کسی نے دعا کی خواہش کی.بزرگ نے فرمایا کہ دودھ چاول لائو.وہ شخص حیران ہوا.آخر وہ لایا.بزرگ نے دعا کی اور اس شخص کا کام ہو گیا.آخر اسے بتلایا گیا کہ یہ صرف تعلق پیدا کرنے کے لئے تھا.ایسا ہی باوافرید صاحب کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ ایک شخص کا قبالہ گم ہوا اور وہ دعا کے لئے آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے حلوہ کھلائو اور وہ قبالہ حلوائی کی دو کان سے مل گیا.ان باتوں کے بیان کرنے سے میرا یہ مطلب ہے کہ جب تک دعا کرنے والے اور کرانے والے میں ایک تعلق نہ ہو متاثر نہیں ہوتی.غرض جب تک اضطرار کی حالت پیدا نہ ہو اور دعا کرنے والے کا قلق دعا کرانے والے کا قلق نہ ہو جائے کچھ اثرنہیں کرتی.بعض اوقات یہی مصیبت آتی ہے کہ لوگ دعا کرانے کے آداب سے واقف نہیں ہوتے اور دعا کا کوئی بیّن فائد ہ محسوس نہ کرکے خدائے تعالیٰ پر بدظن ہو جاتے ہیں اور اپنی حالت کو قابلِ رحم بنالیتے ہیں.بالآخر میں کہتا ہوں کہ خود دعا کرو یا دعا کرائو.پاکیزگی اور طہارت پیدا کرو.استقامت چاہو اور توبہ کے ساتھ گر جائو کیونکہ یہی استقامت ہے.اس وقت دعا میں قبولیت، نماز میں لذّت پیدا ہو گی.ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ.۱ ۱ (منقول از ٹریکٹ بعنوان ’’حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدۃ الوجود پر ایک خط‘‘ مرتّبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ)
۲۰ ؍جنوری ۱۹۰۳ء بروز سہ شنبہ(بوقتِ عصر) نشانات کی کثرت فرمایا کہ خدا تعالیٰ کیسے تاڑ تاڑ نشان دکھلارہا ہے.ہم ابھی عدالت میں پیش بھی نہ ہوئے تھے اور نہ کسی کو معلوم تھا کہ انجام کیا ہوگا لیکن مواہب الر حمٰن میں لکھا ہواتھا کہ کرم دین کا مقدمہ خارج ہو جاوے گا اور وہ ۱۵ تاریخ سے ہی تقسیم ہو رہی تھی بلکہ بعض ہمارے دوستوں نے کرم دین کو دکھلابھی دیا کہ تمہارے مقدمہ کی نسبت یہ کچھ لکھا ہے.(مجلس قبل از عشاء) فرمایا.کھانسی کا زور ہو گیا ہے.ایک رئویا اس کے بعد آپ نے ایک رئویا دریائے نیل والی سنائی جو کہ البدر جلد ۲ صفحہ۷ پر شائع ہو چکی ہے (وہاں غلطی سے ۱۹ تاریخ لکھی ہے اصلاح کر لی جاوے)۱ سراج الاخبار جہلم کی دروغ بیانی اس کے بعد سراج الاخبار کی دروغ بیانی کا ذکر ہوتا رہا کہ اس نے لکھا ہے کہ جہلم میں جس قدر ہجوم لوگوں کا البدر جلد۲ نمبر او۲ مورخہ ۲۳،۳۰؍جنوری۱۹۰۳ء صفحہ ۷ میں یہ رئویا یوں درج ہے کہ ’’میں مصر کے دریائے نیل پر کھڑا ہوں اور میرے ساتھ بہت سے بنی اسرائیل ہیں اور میں اپنے آپ کو موسیٰ سمجھتا ہوں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھاگے چلے آتے ہیں.نظر اُٹھا کر پیچھے دیکھا تو معلوم ہوا کہ فرعون ایک لشکر کثیر کے ساتھ ہمارے تعاقب میں ہے اور اس کے ساتھ بہت سامان مثل گھوڑے وگاڑیوں و رتھوں کے ہے وہ ہمارے بہت قریب آگیا ہے.میرے ساتھی بنی اسرائیل بہت گھبرائے ہوئے ہیں اور اکثر ان میں سے بےدل ہو گئے ہیں اور بلند آواز سے چلّاتے ہیں کہ اے موسیٰ! ہم پکڑے گئے تو میں نے بلند آواز سے کہا كَلَّا اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ اتنے میں میں بیدار ہو گیا اور زبان پر یہی الفاظ جاری تھے‘‘ نوٹ.الحکم جلد ۷ نمبر ۴ صفحہ ۱۵ پر بھی یہ رئویا ۱۹ ؍جنوری کی ہی بیان شدہ لکھی ہے اور البدر جلد ۲ نمبر ۱،۲ صفحہ ۷ پر بھی ۱۹ ؍جنوری کی بیان کی گئی ہے لیکن البدر جلد ۲ نمبر ۵ صفحہ ۳۴ میں لکھا ہے کہ یہ رئویا حضور نے ۲۰؍جنوری کی شام کی مجلس میں بیان فرمائی تھی.پہلے غلطی سے۱۹؍جنوری کی تاریخ لکھی گئی ہے واللہ اعلم بالصواب ( مرتّب).
کا تھا وہ صرف میاں کرم دین کے لئے تھا.حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ جب وہ جہلم میں نالش کرنے گیا تھا تو کس قدر گروہ تھا؟ پھر وہ چندہ وغیرہ جمع کرتا رہا تو کس قدر گروہ تھا اور جہلم میں جو کئی سو آدمیوں نے بیعت کی وہ کس کی کی؟ وغیرہ وغیرہ.مسٹر پگٹ مفتی محمد صادق صاحب نے ایک انگریزی اخبار سنایا جس میں مسٹر پگٹ کا حال تھا.فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ایسے کاذب مدعی پیداہوئے تھے جو کہ بہت جلد نابود ہوئے یہی حال اس کا ہوگا اس کے متعلق الہام ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ.۱ ۲۱؍جنوری۱۹۰۳ء (مجلس قبل ازعشاء) حضرت اقدس نے حسب دستور نماز مغرب ادا فرما کر مجلس فرمائی ما سٹر عبدالرحمٰن صاحب نومسلم نے ایک مضمون ایک اشتہار کا حضرت اقدس کو پڑھ کر سنایا جو کہ ان تمام نو مسلموں کی طرف سے جو کہ حضرت اقدس کے دست مبارک پر مشر ف باسلام ہوئے ہندو اور آریہ کے سر بر آوردہ ممبروںکی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے.اس میں انہوں نے استدعاکی ہے کہ اگر ان کے نزدیک یہ نو مسلم جماعت مذہب اسلام کے قبول کرنے میں غلطی پر ہے تو وہ ان کے پیش کردہ معیار صداقت (جو کہ حضرت اقدس کے مضامین مباہلہ و مقابلہ سے اخذ شدہ ہیں ) کے رو سے حضرت میرزا صاحب سے فیصلہ کرکے ان کا غلطی پر ہونا ثابت کردیویں.حضرت اقدس نے اس تجویزکو پسند فرمایا اور کہا کہ مذہب کی غرض یہی نہیں ہے کہ صرف آئندہ جہان میں خدا سے فائدہ حاصل ہو بلکہ اس موجودہ جہان میں بھی خدا سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے.ان لوگوں کے صرف دعوے ہی دعوے ہیں کوئی کام توکّل اور تقویٰ کا ان سے ثابت نہیں ہوتا.مصیبت پڑے تو ہر ایک ناجائز کام کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں.۱ البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخہ ۲۰ ؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۴
مصدّق کے پیچھے نماز عجب خان صاحب۱ تحصیلدار نے حضرت اقدس سے استفسار کیا کہ اگر کسی مقام کے لوگ اجنبی ہوں اور ہمیں علم نہ ہو کہ وہ احمدی جماعت میں ہیں یا نہ تو ان کے پیچھے نماز پڑھی جاوے یا کہ نہ؟ فرمایا.ناواقف امام سے پوچھ لو ا گر وہ مصدّق ہو تو نماز اس کے پیچھے پڑھی جاوے ورنہ نہیں.اللہ تعالیٰ ایک جماعت الگ بنانا چاہتا ہے اس لیے اس کے منشا کی کیوں مخالفت کی جاوے جن لوگوں سے وہ جدا کرنا چاہتا ہے باربار ان میں گھسنا یہی تو اس کی منشا کے مخالف ہے.ایک احمدی کے فرائض پھر تحصیلدار صاحب نے پوچھا کہ اپنے مقام پر جاکر ہمارا بڑا کام کیا ہونا چاہیے؟ فرمایا کہ ہماری دعوت کو لوگوں کو سنایا جاوے.ہماری تعلیم سے ان کو واقف کیا جاوے.تقویٰ اور توحید اور سچا اسلام ان کو سکھایا جاوے.رئویا کے ذریعہ ہدایت اس کے بعد تین احباب نے بیعت کی.بیعت کے بعد ان میں سے ایک صاحب نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ میں ایک شریر آدمی تھا اور مجھ کو جھوٹے دعوے کرنے اور لوگوں کے حقوق چھین لینے اور ضبط کرنے کی خوب مشق الحکم میں اس ڈائری پر ۲۰؍جنوری ۱۹۰۳ء کی تاریخ درج ہے جو سہو معلوم ہوتا ہے.۲۰ کا ہندسہ بھی پورا روشن نہیں بلکہ مٹا مٹا سا ہے.البدر میں ۲۰، ۲۱، ۲۲ سب تاریخوں کی مسلسل الگ الگ ڈائری موجود ہے.الحکم میں اگر اس ڈائری کو ۲۰؍کی سمجھا جائے تو ۲۱ ؍کی کوئی ڈائری وہاں درج نہیں.قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ دراصل یہ ۲۱ ؍جنوری کی ہی ڈائری ہے جس پر الحکم میں سہو کتابت یا سہو طباعت سے ۲۰؍جنوری کی تاریخ لکھی گئی ہے.واللہ اعلم بالصواب.بہرحال الحکم کی اس ڈائری میں خان عجب خان صاحب کا استفسار اور حضرت اقدس ؑ کا جواب یُوں درج ہے ’’جناب خان عجب خان صاحب آف زیدہ کے استفسار پر کہ بعض اوقات ایسے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے جو اس سلسلہ سے اجنبی اور ناواقف ہوتے ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھ لیا کریں یا نہیں؟ فرمایا.’’اوّل تو کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں لوگ واقف نہ ہوں اور جہاں ایسی صورت ہوکہ لوگ ہم سے اجنبی اور ناواقف ہوں تو ان کے سامنے اپنے سلسلہ کو پیش کرکے دیکھ لیا اگرتصدیق کریں تو ان کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو ورنہ ہرگز نہیں اکیلے پڑھ لو.خدا تعالیٰ اس وقت چاہتا ہے کہ ایک جماعت طیار کرے پھر جان بُوجھ کر ان لوگوں میں گُھسنا جن سے وہ الگ کرنا چاہتا ہے منشاءِ الٰہی کی مخالفت ہے.‘‘ (الحکم جلد ۷نمبر ۵ مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۱۳ )
تھی اور دوسرے بھی جس قدر معاصی مثل شراب وغیرہ تھے ان تمام میں مَیں مبتلا تھا.چند دن ہوئے کہ میں نے ایک ہندو سے اسی طرح ظلم کیا اور اس کے حقوق ضبط کئے رات کو جب میں سویا تو خواب میں کیا دیکھتا ہوں وہی ہندو میرے ساتھ کلام کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ یا تو خدا تجھے ہدایت کرے یا تجھے اس دنیا سے اٹھالیوے تاکہ ہم لوگ تیرے مظالم سے نجات پاویں اس کے بعد وہ نظر سے غائب ہو گیا اور میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک شعلہ نور کاگرا اور جس مکان میں مَیں تھا اس دروازے کی طرف آیا.میں اٹھ کر اسے دیکھنے لگا تودیکھا کہ حضور (حضرت مسیح موعودؑ) کی شکل کا ایک آدمی ہے.میں نے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ کیا تو نام نہیں جانتا؟ اس کے بعد کہا کہ اب بس کر بہت ہوئی ہے پھر میں نے نام پوچھا تو بتلایا ’’میرزاغلام احمد قادیانی ‘‘ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور میں اپنے افعال اور کردار پر نادم ہوں اور اب اسی خواب کے ذریعہ آپ کے پاس آیا ہوں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ تم کو خدا نے خبردار کیا ہے کہ اپنی حالت بدل دو اور سمجھو کہ ایک دن موت آنی ہے.خدا کا دستور ہے کہ وہ گنہگار کو بلا سزا دیئے نہیں چھوڑتا.توبہ کرنے سے گناہ بخشے جاتے ہیں خدا تعالیٰ بہت ہی رحم کرنے والا ہے مگر سزا بھی بہت دینے والا ہے.تمہاری فطرت میں کوئی نیکی ہوگی ورنہ عام طور پر اللہ تعالیٰ کی یہ عادت نہیں ہے کہ اس طرح سے خبر دیوے اس لیے اپنی زندگی کو بدلواور عادتوں کو ٹھیک کرو.پھر اس تائب نے عرض کی کہ میرا ایک مقدمہ چودہ صد روپے کا داخل دفتر ہوگیا ہے مگر اس میں میرا حق بہت تھوڑاہے اب اسے برآمد کرائوں کہ نہ؟ فرمایا.مدعا علیہ سے مل کر صلح کر لو.۱ ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخہ ۲۰ ؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۳۴، ۳۵
۲۲؍جنوری ۹۰۳ ۱ء بروزپنجشنبہ(بوقتِ ظہر) فاسد خیالات کا علاج ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں ایک عریضہ گذرانا.جس میں یہ تحریر تھا کہ وہ ہر طرف افلاس سے گھِرا ہوا ہے اور ایسے ایسے خیالات اس کے دماغ میں آتے ہیں جن سے اسے موت بہتر معلوم ہوتی ہے اور حضرت اقدس سے اس کا علاج چاہا تھا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ایسے خیالات کا علاج یہی ہوا کرتا ہے کہ آہستہ آہستہ خوفِ خدا پیدا ہوتا جاوے اور کچھ آرام کی صورت بنتی جاوے۱ گھبرانے کی بات نہیں ہے رفتہ رفتہ ہی دورہوں گے.جو گندے خیالات بے اختیار دل میں پیدا ہوتے ہیں ان سے انسان خدا کی د رگاہ میں مواخذ ہ کے قابل نہیں ہوا کرتابلکہ ایسے شیطانی خیالوں کی پیروی سے پکڑاجاتاہے ۲ وہ خیالات جو کہ اندر پیدا ہوتے ہیں وہ انسانی طاقت سے باہر اور مرفوع القلم ہیں.بے صبری نہ چاہیے.جلدی سے یہ بات طے نہیں ہوا کرتی.وقت آوے گاتو دور ہوں گی.توبہ استغفار میں لگے رہیں اور اعمال میں اصلاح کریں.ایسے خیالات کا تخم زندگی کے کسی گذشتہ حصہ میں بویا جاتا ہے تو پیدا ہوتے ہیں اور جب دور ہونے لگتے ہیں تو یکدفعہ ہی دور ہو جاتے ہیں خبر بھی نہیں ہوتی جیسے ہچکی کی بیماری کہ جب جانے لگے تو ایک دم ہی چلی جاتی ہے اور پتا نہیں لگتا.گھبرانے سے اَور آفت پیداہوتی ہے.آرام سے خدا سے مدد مانگے.خدا کی بارگا ہ کے سب کام آرام ہی سے ہوتے ہیں.جلدی وہاں منظور نہیں ہوتی ہے اور نہ کوئی ایسی مرض ہے کہ جس کا علاج وہاں نہ ہو.ہاں صبرسے لگا رہے اور خدا کی آزمائش نہ کرے.جب خدا کی آزمائش الحکم میں ہے.’’ فرمایا ایسے خیالات کا علاج خدا تعالیٰ کا خوف ہے جب یہ پیدا ہو جاوے تو پھر آہستہ آہستہ کوئی صورت ِاطمینان نکل آتی ہے.‘‘ (الحکم جلد ۷نمبر۵ مورخہ۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۱۳ ) ۲الحکم میں یہ فقر ہ یوں ہے.’’گندے خیالات جو انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ان سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جاتا.البتہ جب ان پر عزم کر لیا جاوے تو وہ قابلِ مؤاخذہ ہو جاتے ہیں.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۵ مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۱۳)
کرتا ہے تو خود آزمائش میں پڑتا ہے اور نوبت ہلاکت تک آجاتی ہے.صحابہ کرامؓ کا بے نظیر نمونہ جہلم کے مقدمہ کی نسبت فرمایا کہ خدا کی طرف سے جو معلوم ہوتا ہے وہ ہو کر ہی رہتا ہے.اسباب کیا شَے ہیں کچھ بھی نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری راہ میں جاؤ گے تو مُرٰغَمًا كَثِيْرًا پائو گے.صحتِ نیت سے جو قدم اٹھاتا ہے خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے بلکہ انسان اگر بیمار ہو تو اس کی بیماری دور ہو جاتی ہے.صحابہؓ کی نظیر دیکھ لو دراصل صحابہ کرام ؓ کے نمونے ایسے ہیں کہ کل انبیاء کی نظیر ہیں.خدا کو تو عمل ہی پسند ہیں.انہوں نے بکریوں کی طرح اپنی جان دی اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے نبوت کی ایک ہیکل آدم سے لے کر چلی آتی تھی اور سمجھ نہ آتی تھی مگرصحابہ کرامؓنے چمکاکر دکھلا دی اور بتلا دیا کہ صدق اور وفا اسے کہتے ہیں.حضرت عیسیٰ کا تو حال ہی نہ پوچھو.موسٰی کو کسی نے فروخت نہ کیا مگر عیسیٰ کو ان کے حواریوں نے تیس روپے لے کر فروخت کر دیا.قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ حواریوں کو عیسیٰ علیہ السلام کی صداقت پر شک تھا جبھی تو مائدہ مانگااور کہا وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا(المآئدۃ:۱۱۴) تاکہ تیرا سچا اور جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزولِ مائدہ سے پیشتر ان کی حالت نَعْلَمَ کی نہ تھی پھر جیسی بے آرامی کی زندگی انہوں نے بسر کی اس کی نظیر کہیں نہیں پائی جاتی.صحابہ کرامؓکا گروہ عجیب گروہ، قابلِ قدر اور قابل پیروی گروہ تھا.ان کے دل یقین سے بھر گئے ہوئے تھے جب یقین ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ اوّل مال وغیرہ دینے کو جی چاہتا ہے پھر جب بڑھ جاتا ہے تو صاحبِ یقین خدا کی خاطر جان دینے کو طیار ہو جاتا ہے.(بوقتِ مغرب و عشاء) مقدمہ بازی کے اوپر ذکرچلا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ اب اس وقت دنیا کا یہ حال ہے کہ لوگوںنے خدا کا کوئی خانہ خالی نہیں رکھا.گذشتہ کارروائی کو یہ لوگ خیال نہیں کرتے اور نہ تجربہ کرتے ہیں.کیا کسی کو خیال تھا مقدمہ جہلم کا یہ نتیجہ ہوگا.پھر جس خدا نے قبل ازوقت بتلایا اور ہم نے دو صد سے زیادہ کتب چھاپ کر فیصلہ سے پیشتر شائع کردیں جس میں
ذکر تھا کہ اس مقدمہ میں ہماری فتح ہے وہی خدا اب بھی ہمارے ساتھ ہے.؎ ہر بلا کیں قوم راحق دادہ است زیر آں گنجِ کرم بنہادہ است خدا کی معرفت ضروری ہے ایک اخبار کی نسبت ذکر ہوا کہ مقدمہ کا نتیجہ قبل از وقت شائع کرنا دور اندیشی پر دلالت نہیں کرتا.فرمایا کہ جب یہ لوگ خدا کے قائل نہیں تو الہام کے کب قائل ہوں گے؟ ان لوگوں کو بے عقل بھی نہیں کہنا چاہیے بلکہ ان میں نور ایمان نہیں ہے کیا وہ کسی ایسے مفتری و کذّاب کی نظیرپیش کرسکتے ہیں کہ اس کی مخالفت پر ناخنوں تک زور لگایا گیا ہو اور ہمیشہ قبل از وقت اپنے افترا شائع کرتا رہا ہو اور پھر وہ اپنے وقت پر پورے ہوتے رہے ہوں بتلاویں تو سہی جس شدّ ومد سے ہم نے خبریں قبل از وقت پیش کی ہیں کسی اور نے بھی کیں ہیں.ان لوگوں کے اعمال کا کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک خدا پر یقین نہ ہو.خدا کی معرفت ضروری ہے کوئی آسمانی اَمر ان کے نزدیک عظمت کے قابل نہیں ہے تعجب آتا ہے کہ ایک طرف طاعون کا یہ حال ہے اور ایک طرف دلوں کی یہ سختی.کوئی اور برتن ہو تو انسان اس میں ہاتھ ڈال کر صاف بھی کرلے مگر ان کے دلوں کے برتن جن کے اندر زنگار بھرا ہوا ہے کیسے صاف ہوں.عجب معاملہ ہے جس قدر ہمیں ان پر حسرت ہوتی ہے اسی قدر ان کو نفرت اور بغض اور جوش بڑھتا ہے.جیسے کوئی آدمی جس کا معدہ بلغم یا صفراسے بھرا ہوا ہو تو اسے کھانا کھانے سے تنفر ہوتا ہے کہ وہ کھانے کا نام سن کر بھی برداشت نہیں کرسکتا اور اس کا جی بیزار ہوتا ہے یہی حال ان کا ہے سچی بات کا نام تک نہیں سن سکتے کس کس کی شکایت کریں سب ایک ہی ہیں.مجھے خوب یاد ہے کہ جب سے یہ الہام ہوا ہے.’’دنیا میں ایک نذیر آیا مگر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدااسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.‘‘ اب اس کا مفہوم کہ زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا قابلِ غورہے.بیوقوف جانتے ہیں کہ یہ کاروبارمصنوعی کیسے چل سکتا ہے؟ ہمارے دیکھتے ہوئے ہزاروں چل بسے لیکن ان لوگوں کے نزدیک اب سب کچھ جائز ہو گیا ہے کل خوبیاں جو کہ صادقوں کے لیے تجویزکرتے تھے اب سب کاذبوں کو دے دی ہیں اور ایسے
تہیدست ہوئے ہیں کہ کوئی خوبی صادق کی بیان کر ہی نہیں سکتے.ایک مبشر رئویا ۱ بعض متفرق رئویاسے معلوم ہوتا ہے کہ ابتلا کے دن ہیں.رات کو میں نے دیکھا ایک بڑا زلزلہ آیا مگر اس سے کسی عمارت وغیرہ کا نقصان نہیں ہوا.۲ ۲۳؍جنوری ۱۹۰۳ء بروز جمعہ (بوقتِ عصر ) ہمیں کسی وکیل کی ضرورت نہیں اس وقت ایک عرب کی طرف سے ایک خط حضرت کی خدمت میں آیا جس میں لکھا تھا کہ اگر آپ ایک ہزار روپے مجھے بھیج کر اپنا وکیل یہاں مقرر کردیویں تو میں آپ کے مشن کی اشاعت کروں گا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کو لکھ دو ہمیں کسی وکیل کی ضرورت نہیں ایک ہی ہمارا وکیل ہے جو عرصہ بائیس سال سے اشاعت کر رہا ہے اس کے ہوتے ہوئے اور کی کیا ضرورت ہے اور اس نے کہہ بھی رکھا ہے اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ.(قبل از عشاء) حضرت اقدس نے عجب خان صاحب تحصیلدار سے استفسار فرمایا کہ آپ کی رخصت کس قدر ہے.انہوںنے جواب دیا کہ چار ماہ.فرمایا کہ آپ کوتو پھر بہت دیریہاںرہناچاہیے تاکہ پوری واقفیت ہو.۱ الحکم میں ہے.ایک مبشر رئویا.فرمایا.’’میں نے دیکھا کہ زارِروس کا سونٹا میرے ہاتھ میں آگیا ہے وہ بڑا لمبا اور خوبصورت ہے پھر میں نے غور سے دیکھا تو وہ بندوق ہے اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بندوق ہے بلکہ اس میں پوشیدہ نالیاں بھی ہیں گویابظاہرسونٹامعلوم ہوتاہے اور وہ بندوق بھی ہے.اور پھر دیکھا کہ خوارزم بادشاہ جو بوعلی سیناکے وقت میں تھا اس کی تیرکمان میرے ہاتھ میں ہے.بو علی سینابھی پاس ہی کھڑاہے اوراس تیر کمان سے میں نے ایک شیرکو بھی شکار کیا.‘‘ (الحکم جلد۷ نمبر۴مورخہ۳۱ ؍جنوری۱۹۰۳ءصفحہ۱۵) ۲ البدر جلد۲ نمبر ۵مورخہ ۲۰ ؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۵،۳۶
عجب حیرت ہوتی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ یہاںتازہ بتازہ سامان تقویٰ کے جماعت کے واسطے طیار کر رہا ہے اُس طرف(یعنی منکرین کی طرف)اس کا کوئی نشان بھی نہیں ہے یہ لوگ الہام اور تقویٰ سے دور ہوتے جاتے ہیں اگر اب ان سے پوچھا جاوے کہ اہل حق کی کیا علامات ہیں؟ تو ہرگز نہیں بتلا سکتے اور نہ اس بات پر قادر ہوسکتے ہیں کہ صادق اور کاذب کے درمیان کوئی مابہ الامتیاز قائم کریں.ہماری مخالفت میں یہ حالت ہے کہ جو کچھ صادق کے لئے خدا نے مقرر کیا تھا اب ان کے نزدیک گویا کاذب کو دے دیا گیا ہے.جس قدر نکتہ چینیاں بیان کرتے ہیں وہ تمام پیغمبروں پر صادق آئی ہیں.کمتر تقویٰ ان کے لیے یہ تھاکہ خاموش رہتے اگر ہم کاذب ہوتے تو رفتہ ر فتہ خود تباہ ہوجاتے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ(بنیٓ اسـرآءیل : ۳۷)۱ یہاںعلم سے مراد یقین ہے اب ان کی وہی مثال ہے لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا(الاعراف:۱۸۰ ).مقدمہ جہلم پر جو بعض خلاف واقعہ باتیں اخبارات نے لکھی تھیں ان پر فرمایا کہ اس شور وغوغا کا جواب بجزخاموشی کے اور کیا ہے اُفَوِّضُ اَمْرِيْۤ اِلَى اللّٰهِ.اس کے بعد ایک شخص نے کھڑے ہو کر عر ض کی کہ میرے باپ اور قوم کے واسطے ہدایت کی دعا کی جاوے حضرت اقدس نے اسی وقت دست مبارک اٹھا کر دعا کی اور کل حاضرین مجلس بھی شریک ہوئے.حضرت کی خدمت میں ایک شخص کی شکایت ہوئی کہ یہ دعویٰ تو بیعت کا کرتا ہے مگر اس کی زبان سے بعض ایسے کلمات نکلتے ہیں جس سے کوئی خصوصیت حضور کے دعاوی کی تصدیق کی معلوم نہیں ہوتی.فرمایا.ایسے مشکوک الحال آدمی کا رکھنا اچھا نہیں.مگر جب اس نے معذرت کی اور کہا کہ یہ اَمر غلطی سے ایسا سمجھاگیا ہے تو فرمایا.ایسی باتوں سے انسان بیعت سے خارج ہو جاتا ہے ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے اور اسے معاف کرد یا.۲ الحکم میں اس آیت کی تشریح بزبان فارسی یہ لکھی ہے.’’مُراد از علم یقین است.ظنون را علم نمے گویند.ایناں اتبا عِ ظن میکنند اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَيْـًٔا (یونس :۳۷).‘‘ (الحکم جلد۷ نمبر۵ مورخہ۷؍فروری۱۹۰۳ء صفحہ۱۴ ) ۲ البدرجلد ۲ نمبر۵ مو ر خہ ۲۰ ؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۶
۲۴؍جنوری ۱۹۰۳ء بر وز شنبہ(قبل از عشاء) فرمایاکہ اب بارش ہونے کی وجہ سے گردوغبار کم ہو گیا.ایک دودن ذرا باہر ہو آویں.( یعنی سیر کوجایا کریں) کر م دین کے مقدمہ کے حالات پر فرمایا.زمینی سلطنت تو صرف آسمانی سلطنت کے اظلال و آثار ہیں.بغیر آسمان کے یہ سلطنت کیا کرسکتی ہے.انسان بھی کیا عجیب شَے ہے.اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ صدق و صفا میں ترقی کرے تو نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ.ورنہ اگر ظلمت میں گرے تو اس درجہ تک گرتا ہے کہ کوئی حصہ تقویٰ کا اس کے قول و فعل و اخلاق میں باقی نہیں رہتا سب ظلمت ہی ظلمت ہو جاتا ہے.فرما یا.آج ایک کشف میں دکھایا گیا تَفْصِیْلُ مَا صَنَعَ اللہُ فِیْ ھٰذَا الْبَاْسِ بَعْدَ مَا اَشَعْتُہٗ فِی النَّاسِ.اس کے بعد الہامی صورت ہو گئی اور زبان پر یہی جاری تھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقدمہ کے متعلق جو قبل ازوقت پیشگوئی کے رنگ میں بتلایا تھا آپ اس کی تفصیل ہو گی.فرمایا کہ جہلم سے واپسی پر یہ الہام ہوا تھا اَفَانِیْنُ اٰیَاتٍ.ثناء اللہ کے ذکر پر فرمایا کہ اگر اس کی نیت نیک ہوتی تو ہمارا پیش کر دہ طریق ضرور قبول کرتا.ہماری نیک نیتی تھی کہ ہم نے اس کے لیے ایسی راہ تجو یزکی کہ امن قائم کرے، حق ظاہر ہو جاوے.لوگوں میں اشتعال اور فساد نہ ہو اور عوام الناس کوفائدہ بھی پہنچ جاوے.اگر اس کے دل میں تقویٰ ہوتی تو ضرور مان لیتا اور ہم نے عام اجازت دی تھی کہ ہر گھنٹہ کے بعد پھر اپنے شکوک و شبہات پیش کر دیوے خواہ اس طرح ایک ماہ تک کرتا رہتا اور اس طرح نیک نیتی سے اگر کوئی اپنی تشفّی چاہے تو ہم اسے چھ ماہ تک اپنے پاس رکھ سکتے ہیں اور اس کا سب بوجھ برداشت کرسکتے ہیں مگر ان لوگوں کی نیت درست نہیں ہوتی اس لئے
راضی نہیں ہوتے.اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں مطلق نہیں.دل ٹیٹرھے ہو گئے ہیں.مَردم شماری میں خلاف واقعہ رپورٹ مولوی عبدالکریم صاحب نے بیان کیا کہ سول ملٹر ی گز ٹ میں چونکہ حسب دستور مَردم شماری پر ریمارک لکھا جا رہا ہے انہوں نے اس غلطی کو شائع کر دیا ہے کہ احمدیہ فرقہ کا بانی مر زا غلام احمد ہے اس نے اول ابتدا چوڑھوں سے کی اور پھر ترقی کرتے کرتے اعلیٰ طبقہ کے آد می اس کے پیرو ہوگئے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ اس کی بہت جلد تردید ہونی چاہیے یہ تو ہماری عزّت پر بہت سخت حملہ کیا گیا ہے.چنانچہ اسی وقت حکم صادرہوا کہ ایک خط جلدتر انگریزی زبان میں چھاپ کر گورنمنٹ اور مَردم شماری کے سپرنٹنڈنٹ کے پاس بھیجا جاوے تاکہ اس غلطی کا ازالہ ہو اور لکھا جاوے کہ گورنمنٹ کو معلوم ہوگا کہ چوڑھے ایک جرائم پیشہ قوم ہے ان سے ہمارا کبھی بھی تعلق نہیں ہوا.ایک شخص نامی مرزا امام الدین قادیان میں ہے جس کی ہم سے ۳۰ برس سے زیادہ سے عد او ت چلی آتی ہے اور کوئی میل ملاپ اس کا اور ہمارا نہیں ہے.اس کا تعلق چوڑھوں سے رہا اور اب بھی ہے.تو ایک فریق جو کہ ہمارا دشمن ہے اور اس کا تعلق چوڑھوں سے ہے اس کے عادات اور چال چلن کو ہم پر تھاپ دینا سخت درجہ کی دل آزاری ہماری اور ہماری جماعت کی ہے.اور یہ عزت پر سخت حملہ ہے اور ایک بڑی مکروہ کارروائی ہے جو کہ سرزد ہوئی ہے.چوڑھے تو درکنار ہمیں تو ایسے لوگوں سے بھی تعلق نہیں ہے جو کہ ادنیٰ درجہ کے مسلمان اور رذیل صفات رکھتے ہیں.ہماری جماعت میں عمدہ اور اعلیٰ درجہ کے نیک چال چلن کے لوگ ہیں.اوروہ سب حسنہ صفات سے متصف ہیں.اور ایسے ہی لوگوں کو ہم ساتھ رکھتے ہیں.گورنمنٹ کو چاہیے کہ صاحب ضلع گورداسپور۱ سے اس اَمر کی تحقیقات کرائے اور عدل سے کام لے کر اس آلودگی کو ہم سے دور کرے.ہم خود امام الدین کو اسی لیے نفرت سے دیکھتے ہیں کہ اس کا ایسی قوم سے تعلق ہے.پنجاب میں یہ مسلّم اَمر ہے کہ جس شخص کے ز یاد ہ تر تعلقات چوڑھوں سے ہوں اس کا چال چلن ۱ مراد ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور (مرتّب)
اچھا نہیں ہوا کرتا.اسی لیے گورنمنٹ کا فرض ہے کہ اس غلطی کا ازالہ کرے.۱ ۲۵؍جنوری ۱۹۰۳ء بروز یک شنبہ(قبل از عشاء) عشاء کے وقت آپؑنے یہ تجویز کی کہ بیعت کا رجسٹر بالکل اطمینان کی صورت میں نہیں معلوم ہوتا.اس لیے اب آئندہ اس کے فارم چھپواکر ایسی طرح سے رکھا جاوے کہ جب چاہیں فوراً تعداد مل جاوے اور اپنی جماعت کی تعداد معلوم کرنے کے واسطے مَردم شماری کا محتاج نہ ہونا پڑے.کیونکہ اگر سب بیعت کنندگان کے نام محفوظ ہوں تو ان کو ضروری ضروری باتیں پہنچائی جاسکتی ہیں.۲ ۲۶؍جنوری ۱۹۰۳ء بروز دو شنبہ(بوقتِ ظُہر) حضور نے تشریف لا کر مولوی محمد احسن صاحب امروہی کو فرمایا کہ مَیں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ آپ میرے سامنے جائفل اور ایک گانٹھ نہیں معلوم سپاری کی یا سونٹھ کی پیش کرکے کہتے ہیں کہ یہ کھانسی کا علاج ہے.اس کے دیکھنے کے بعد مجھے دوگھنٹہ تک کھانسی سے بالکل آرام رہا حالانکہ اس سے پیشتر مجھے کھانسی دم نہ لینے دیتی تھی.مولوی عبدالکریم صاحب نے بیان کیا کہ رات کو میں نے خواب دیکھا کہ سلطان احمد (حضور کے لڑکے) آئے ہوئے ہیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ میرے گھر میں ایک ایسی ہی خواب آئی تھی اس کی وہی تعبیر بتلائی جو آپ نے سمجھی یعنی خدا کی طرف سے کوئی نشان ظاہر ہوگا.سُلطان سے مُراد براہین اور نشان ہوا کرتا ہے.۱ البدرجلد ۲ نمبر ۵ مورخہ ۲۰؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۶،۳۷ ۲ البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخہ ۲۰؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۷
(بوقتِ عصر) حضرت اقدس نے تھوڑی دیر مجلس کی اور ثناء اللہ کے قادیان میں آنے کا ذکر ہوتا رہا.آپ نے فرمایا کہ ہم نے تو اسے بہت وسعت دی تھی جس قدر چاہتا ہر ہر گھنٹہ کے بعد تین چار سطریں لکھ کر پیش کیا کرتا اور اگر اسے بیان کرنے کی نوبت دی جاتی تھی تو بھی اس کی شامت تھی کہ اسے بہرحال جھوٹ سے کام لینا پڑتا.اخبار والوں اور عوام الناس کی شرارتوں اور خلافِ واقعہ بیانات کی نسبت فرمایا کہ اب ہماری جماعت کو چپ ہی رہنا چاہیے.کچھ جواب نہ دیویں.خدا ہی ان لوگوں سے سمجھے گا.تعجب ہے کہ ثناء اللہ نے بالکل لیکھرام والی چال اختیار کی ہے جس کی غرض مباحثہ سے اظہارِ حق نہ ہو اس سے مباحثہ کرنا لا حاصل ہے.یہ کاروبار اب زمین پر نہیں رہا بلکہ آسمان پر ہے.(قبل از عشاء) حضرت اقدس مولوی عبداللطیف خان صاحب سے اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر کرتے رہے اور پھر اپنے چند ایک رؤیا بتلائے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ عدالت کی جو کارروائی جیسے زمین پر جاری ہے ویسا ہی طریق خدا تعالیٰ نے بھی اختیا رکیاہوا ہے.منجملہ ان کے ایک خواب تو وہ بیان کی جس میں سُرخی کے چھینٹے آپ کے لباس مبارک پر پڑے تھے.۱ حالانکہ وہ واقعہ آپ نے خواب میں دیکھا تھا.اور ایک خواب آپ نے یہ بیان کیا کہ مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں ہوں.میں منتظر ہوں کہ میرا مقدمہ بھی ہے اتنے میں جواب ملا اِصْبِرْ سَنَفْرُغُ یَا مِرْزَا.پھر میں ایک دفعہ کیا دیکھتا ہوں کہ میں کچہری میں گیا ہوں.دیکھا تو اللہ تعالیٰ ایک حاکم کی صورت پر کرسی پر بیٹھا ہوا ہے اور ایک طرف ایک سر رشتہ دار ہے کہ ہاتھ میں ایک مِثل لیے ہوئے ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخہ ۲۰؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۷
پیش کررہا ہے.حاکم نے مِثل اُٹھا کر کہا کہ مرزا حاضر ہے تو میں نے باریک نظر سے دیکھا کہ ایک کُرسی اس کے ایک طرف خالی پڑی ہوئی معلوم ہوئی.اُس نے مجھے کہا کہ اس پر بیٹھو اور اس کی مثل ہاتھ میں لی ہوئی ہے.اتنے میں میں بیدار ہوگیا.پھر فرمایا کہ جس طرح میرے کرتے والی خواب ہے جس پر سُرخ روشنائی کے چھینٹے پڑے تھے ویسے ہی ایک خواب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ہے کہ ایک دفعہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ جنّت کے باغوں میں سے ایک سیب آپ نے لیاہے.پھر اسی وقت بیدار ہوئے تو دیکھا کہ وہ سیب ہاتھ میں ہی ہے.ایمان کی حالت فرمایاکہ کوئی خدا پر ایمان نہیںرکھتا جب تک کہ وہ خود نشان نہ دیکھے یا اس کی صحبت میں رہے جو کہ ان نشانوں کو دیکھنے والا ہے.خدا تعالیٰ اگر چاہے تو ان سب مخالفوں کو ایک دَم میں ہی ہلاک کر دیوے مگر پھر ہم اور ہمارا سلسلہ بھی ساتھ ہی ختم ہوجاتا ہے.مخالفین کا شور و غوغا دراصل عمر کو بڑھاتا ہے.خدا تعالیٰ بے شک سب کچھ کرے گا ان کو ذلیل وخوار بھی کرے گا لیکن وہ مالک ہے خواہ ایک دم کر دے خواہ رفتہ رفتہ کرے.خدا تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرت ہے کہ جب ایک شخص کو اپنی طرف سے بھیجتا ہے تو خود بخود دو گروہ بن جاتے ہیں.ایک شقی اور ایک سعید.مگر یہ زمانہ گاہے گاہے یہ وہ زمانہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنا چہرہ دکھانا چاہتا ہے.دوسرا زمانہ شکوک وشبہات کا ہوتا ہے.۱ ختم نبوت فرمایا اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ(الـجمعۃ:۴) کے قائم مقام توریت کی ایک آیت تھی جس سے مسیح اسرائیلی کا گروہ مراد تھا اور یہاں اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ سے ہمارا گروہ.الحکم میں یہ عبارت یوںدرج ہے.فرمایا.’’عجب قدرت الٰہی ہے کہ جب ایک شخص کو مامور کرکے بھیجتا ہے تو خود بخود سعید اور شقی دو گروہ بن جاتے ہیں.یہ وقت ہوتا ہے کہ خدا اپنا چہرہ دکھاتا ہے ورنہ اس سے پہلے جو زمانہ ہوتا ہے وہ شکوک و شبہات کا ہوتاہے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۵ مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴)
انجیل کے ذکر پر فرمایا کہ عیسائی لوگ جو حضرت عیسیٰ کو خاتم نبوت کہتے ہیں اور الہام کا دروازہ بند کرتے ہیں حالانکہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ مسیح کے بعد ایک یوحنا گذرا ہے جس نے نبوت کی اور اس کے مکاشفات کی ایک الگ کتاب انجیلوں میں ہمیشہ ساتھ رکھتے ہیں.ختم نبوۃ پر محیی الدین ابن عربی کا یہی مذہب ہے کہ تشریعی نبوت ختم ہو چکی ورنہ ان کے نزدیک مکالمہ الٰہی اور نبوۃ میں کوئی فرق نہیں ہے اس میں علماء کو بہت غلطی لگی ہے.خود قرآن میں النّبیّین جس پر ال پڑا ہے موجود ہے.اس سے مراد یہی ہے کہ جو نبوت نئی شریعت لانے والی تھی وہ اب ختم ہوگئی ہے.ہاں اگر کوئی شخص کسی نئی شریعت کا دعویٰ کرے تو کافر ہے اور اگر سرے سے مکالمہ الٰہی سے انکار کیا جاوے تو پھر اسلام تو ایک مُردہ مذہب ہوگا اور اس میں اور دوسرے مذاہب میں کوئی فرق نہ رہے گا کیونکہ مکالمہ کے بعد اَور کوئی ایسی بات نہیں رہتی کہ وہ ہوتو اسے نبی کہا جاوے.نبوت کی علامت مکالمہ ہے لیکن اب اہلِ اسلام نے جو یہ اپنا مذہب قرار دیا ہے کہ اب مکالمہ کا دروازہ بند ہے.اس سے تو یہ ظاہر ہے کہ خدا کا بڑا قہر اسی اُمّت پر ہے.۱ اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتـحۃ: ۶،۷) کی دعا ایک بڑا دھوکا ہو گی اور اُس کی تعلیم کا کیا فائدہ ہوا گویا یہ عبث تعلیم خدا نے دی.نبوت کے واسطے کثرت مکالمہ شرط ہے ہاں نبوت کے واسطے کثرت مکالمہ شرط ہے یہ نہیں کہ ایک دو فقرہ گا ہ گاہ الہام ہوئے بلکہ نبوت کے مکالمہ میں ضروری ہے کہ اس کی کیفیت صاف ہو اور کثرت سے ہو.الحکم میں یہ عبارت یوں ہے.’’مکالمہ الٰہی کا اگر انکار ہو تو پھر اسلام ایک مُردہ مذہب ہوگا.اگر یہ دروازہ بھی بند ہے تو اس اُمّت پر قہر ہوا، خیر الامم نہ ہوئی اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ دعا بے سود ٹھہری.تعجب ہے کہ یہود تو یہ اُمّت بن جاوے اور مسیح دوسروں سے آوے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۵ مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴ )
(بعد از عشاء ) نماز پڑھ کر حضرت اقدس نے کھڑے ہو کر مکالمہ نبوت پر یہ تقریر کی اور مثال دے کر فرمایا کہ جب تک کہ یہ فرق نہ ہو تب تک کیسے پتا لگ سکتا ہے.اب دیکھو جس کے پاس ایک دو روپیہ ہوں اور اُدھر بادشاہ ہے کہ اس کے پاس خزانے بھرے ہوئے ہیں تو ان دونوں میں فرق ہوگا کہ نہیں؟ اگرچہ زردار وہ بھی ہے اور بادشاہ بھی ہے مگر جس کے پاس ایک دو روپے ہوں اسے بادشاہ کوئی نہ کہے گا.اسی طرح فرق تو کثرت کا ہے اور اس کے ساتھ کیفیت اور کمیت کا بھی.نبوت کا مکالمہ اس قدر اجلٰی اور اصفٰی ہوتا ہے کہ ہر ایک بشریت اسے برداشت نہیں کرسکتی مگر وہ جو اصطفا کے درجہ تک ہو فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ (الـجنّ:۲۷،۲۸).اللہ تعالیٰ اپنی رضا مندی اس طرح سے بار بار ظاہر کرتا ہے کہ اول ایک اَمر کو خواب میں دکھاتا ہے پھر اسے کشف میں.پھر اس کے مطلق وحی ہوتی ہے اور پھر وحی کی تکرار ہوتی رہتی ہے حتی کہ وہ اَمر غیب اس کے لیے مشہودہ اور محسوسہ امور میں داخل ہوجاتا ہے اور جس قدر تکرار ایک ملہم کے نفس میں ہوتا ہے اسی قدر تکرار اس کے مکالمہ میں ہوا کرتا ہے اور اصفٰی اور اجلٰی مکالمہ انہی لوگوں کا ہوتا ہے جو اعلیٰ درجہ کا تزکیہ نفس کرتے ہیں اس لیے تقویٰ اور طہارت کی بہت ضرورت ہے.اسی لیے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ( فاطر: ۳۳) ہم نے کتاب کا وارث اپنے بندوں میں سے ان کو بنایا جن کو ہم نے چُن لیا.یعنی ان لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جیسے ایک مکان کی کُل کھڑکیاں کھلی ہیں کہ کوئی گوشہ تاریکی کا اُس میں نہیں اور روشنی خوب صاف اور کھلی آرہی ہے.اسی طرح ان کے مکالمہ کا حال ہوتا ہے کہ انہیں اور اجلٰی اور کثرت سے ہوتا ہے.جیسے ایک تیل ادنیٰ قسم کا ہوتا ہے کہ دُھواں اور بدبُو بہت دیتا ہے.دوسرے اُس سے اچھا.یہی فرق مکالمہ کی کیفیت اور کثرت اور صفائی میں ہوتا ہے.کیا ایک لوٹہ کو حق پہنچتا ہے کہ اپنے اندر تھوڑا سا پانی رکھ کر کہے کہ میں بھی سمندر ہوں کیونکہ اس میں بھی پانی ہی ہوتا ہے.حالانکہ کس قدر فرق ہے سمندر میں جو پانی کی کثرت ہوتی ہے اس کو لوٹے سے کیا نسبت؟ پھر اس میں موتی، سیپ اور ہزار ہا قسم کے جانور ہوتے ہیں.
اگر اس پر اعتراض ہوکہ اَور لوگوں کو کیوں خوابیں آتی ہیں جو کہ سچی بھی نکلتی ہیں حتی کہ ہندوئوں میں بھی اور فاسق سے فاسق گروہ کنجروں میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ بعض اوقات ان کی خوابیں سچی نکلی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نبوت کے سلسلہ کی تائید ہو.کیونکہ اگر ایسے حواس عالم میں نہ ہوتے تو پھر اَمرنبوت مشتبہ ہوجاتا ایک نابینا آفتاب کو کیسے شناخت کرسکتا ہے؟ وہی شناخت کرے گا جسے کچھ بینائی ہو چونکہ خدا کو منظور تھا کہ اتمامِ حجت ہو اس لیے یہ خواب کا سلسلہ سب جگہ رکھ دیا ہے تاکہ قبولیت کا مادہ ہر ایک جگہ موجود رہے اور ان کو انکار نہ کرنے دیوے.لیکن جو مادہ نبی کا ہوتا ہے اس کی شان اَور ہوتی ہے اور اسے موہبت اور بہت سی مَوتوں کے بعد طیار کیاجاتا ہے.۱ ۲ ۲۷ ؍جنوری ۱۹۰۳ء (بوقتِ سیر) حضرت اقدس نے مخالفین کی نسبت فرمایا کہ میں نے اب ان سے اعراض کر لیا ہے کیونکہ جواب تو اس کے لیے ہوتا ہے جس میں کوئی ذرّہ تقویٰ کا ہو مگر جس حال میں کہ ان کے پاس اب سبّ و شتم ہی ہے تو اب حوالہ بخدا.کیا اچھا طریق امن کا ہم نے پیش کیا ہے کہ شرافت سے آکر اپنے شبہات دور کراویں.ہمارے مہمان خانہ میں خواہ چھ ماہ رہیں ہم دعوت دیویں گے مگر جو شخص اوّل سے ہی عزم بالجزم کرکے آتا ہے کہ شرارت سے باز نہ آوے گا اسے ہم کیا کریں.میرا ہمیشہ ہی خیال ہوتا ہے کہ کوئی گروہ نیک نیتی سے آوے اور مستفید ہو.ازالہ شبہات کی نیت ہو.ہار جیت کا خیال نہ ہو.نیک نیتی تو عجیب شَے ہے کہ اس کی فوراً بُو آجاتی ہے اور جب جواب کافی ملے تو نیک نیت تو اسی وقت اس کی خوشبو پا کر بحث سے دستبردار ہوجاتا ہے.اور ہم خاص پیشگو ئیوں پر بھی حصر نہیں رکھتے.کوئی پہلو اس سلسلہ کا لے لیویں.ہم ازالہ شبہات ۱ الحکم میں ہے.فرمایا.’’ہمارے الہامات میں جو نبی آیا ہے تو یہ شرطیں رکھتا ہے.اول یہ کہ نئی شریعت نہیں لایا دوسرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے ہے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۵ مورخہ ۷؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴ ) ۲ البدر جلد ۲ نمبر ۶ مورخہ ۲۷؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۲
کردیویں گے.اگر گذشتہ پیشگوئیوں کے پہلو کو نہ لیویں تو خدا تعالیٰ قادر ہے کہ آئندہ اَور نشانات دکھلادیوے.راستہ میں فرمایا کہ کل جو خواب مولوی محمد احسن صاحب کے دوا بتلانے کی نسبت بیان کیا تھا میں نے اُسی کے مطابق رات کو جائفل اور سونٹھ منہ میں رکھا.اب کھانسی کو اس سے بہت فائدہ معلوم ہوتا ہے.۱ ۲۸؍جنوری ۱۹۰۳ء مورخہ ۲۷ و ۲۸؍جنوری کے درمیان جو رات تھی.اس میں رات کو ایک بجے حضرت اقدسؑ مولانا مولوی محمد احسن صاحب امروہی کی کوٹھڑی میں تشریف لائے.دروازہ بند تھا.آپ نے کھٹکھٹایا مولوی صاحب نے لاعلمی سے پوچھا کہ کون ہے؟ حضرت اقدس نے جواب دیا کہ ’’مَیں ہوں غلام احمد ‘‘۲ آپ کے دستِ مبارک میں لالٹین تھی آپ نے اندر داخل ہوکر فرمایا کہ اس وقت مجھے اوّل ایک کشفی صورت میں خواب کے ذریعہ سے دکھلایا گیا ہے کہ میرے گھر میں (یعنی اُمّ المومنین) کہتے ہیں کہ اگر میں فوت ہوجائوں تو میری تجہیز و تکفین آپ خود اپنے ہاتھ سے کرنا.اس کے بعد مجھے ایک بڑا منذر الہام ہوا ہے غَاسِقُ اللہِ.مجھے اس کے یہ معنے معلوم ہوئے ہیں کہ جو بچہ میرے ہاں پیدا ہونے والا ہے وہ زندہ نہ رہے گا.اس لیے آپ بھی دعا میں مشغول ہوں اور باقی احباب کو بھی اطلاع دے دیویں کہ دعائوں میں مشغول ہوں.۳ (مجلس قبل از عشاء) الہام غَاسِقُ اللہِکی شرح غَاسِقُ اللہِ الہام کی شرح آپ نے فرمائی اور فرمایا کہ غاسق عربی میں تاریکی کو کہتے ہیں جو کہ بعد زوال شفق اوّل رات ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۶ مورخہ ۲۷؍فروری ۱۹۰۳ءصفحہ ۴۳ ۲ ’’اس وقت اس اخلاق نے مولوی صاحب کے دل پر کیا اثر کیا ہوگا اس کا اندازہ ناظرین خود کرلیویں ‘‘(نوٹ از ایڈیٹر البدر) ۳البدر جلد ۲ نمبر ۱،۲ مورخہ ۲۳،۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷،۸حاشیہ
چاند کو ہوتی ہے اور اسی لیے یہ لفظ قمر پر بھی اس کی آخری راتوں میں بولا جاتا ہے جب کہ اس کا نور جاتا رہتا ہے اور خسوف کی حالت میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے.قرآن شریف میں مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ (الفلق:۴) کے یہ معنے ہیں مِنْ شَـرِّ ظُلْمَۃٍ اِذَا دَخَلَ یعنی ظلمت کی برائی سے جب وہ داخل ہو.میں نے اس سے پیشتر یہ خیال کیا تھا کہ چونکہ عنقریب گھر میں وضع حمل ہونے والا ہے تو شاید مولود کی وفات پر یہ لفظ دلالت کرتا ہے مگر بعد میں غور کرنے سے معلوم ہوا کہ اس سے مراد ابتلا ہے.اجتہادی امور ایسے ہی ہوا کرتے ہیں کہ اوّل خیال کسی اَور طرف چلا جاتا ہے.غرض یہ کہ اس کے معنے ہوئے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی اَمر بطور ابتلا کے ہے اور اس سے جماعت کا ابتلا مراد نہیں ہے بلکہ منکرین کا جو کہ جہالت، نادانی، افترا سے کام لیتے ہیں.آدم ؑ سے لے کر آخر تک اللہ تعالیٰ کی یہی عادت ہے کہ دشمنوں کو بھی ان کی افترا وغیرہ کے لیے ایک موقع دیتا ہے.چنانچہ بعض وقت کوئی شکست بھی ہو جایا کرتی ہے قرآن شریف میں اس کا ذکر ہے اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ١ؕ وَ تِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (اٰل عـمران:۱۴۱).خدا تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کو فرماتا ہے کہ اگر تم کو کوئی زخم پہنچا ہے تو تم نے بھی اپنے مخالفین کا ستیا ناس کر دیا ہواہے.اگر ہمارا یہ کاروبار قلم کا نہ ہوتا بلکہ تلوار سے کام لیتے تو آخر ہمیں بھی کوئی نہ کوئی شکست ہونی ہی تھی.یہ موقع افترا کے خدا تعالیٰ دشمنوں کو اس لیے دیتا رہتا ہے کہ مقدمہ جلد ختم نہ ہو اور یہ سنّت اللہ ہے.اب غور سے دیکھا جاوے تو اُحد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل میں فتح تھی.مگر دشمن کو فضیلت سے کیا مطلب اسے تو موقع چاہیے.ادھر آتھم کا مقدمہ ادھر مقابلہ پر لیکھرام کا قتل.ان کی مثال ٹھیک اُحد اور بدر کی لڑائی تھی.كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِيْهِ١ۙۗ وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوْا(البقرۃ:۲۱) منافقوں کا کام ہے مگر یہ لوگ قَامُوْا میں داخل ہیں.احتیاط سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے.تاریکی جب خدا کی طرف منسوب ہوتو دشمن کی آنکھ میں ابتلا کا موقع اس سے مراد ہوتا ہے اور اس لیے اس کو غَاسِقُ اللہِ کہتے ہیں.اس کے بعد حضرت اقدس نے گھر کے حالات سنائے کہ رات کو ان کو بہت تکلیف تھی.آخر خدا نے آرام دے دیا مگر میرا ایمان اور یقین ہے کہ یہ تمام
کام دعائوں نے ہی کیا ہے.عورتوں کے لیے یہ ولادت کا وقت ایک پہلو سے موت اور ایک پہلو سے زندگی ہوتی ہے گویا ولادت کے وقت ان کی اپنی بھی ایک نئی ولادت ہوتی ہے.گھر میں بھی رات کو ایک خواب دیکھا کہ بچہ ہوا ہوا ہے تو اُنہوں نے مجھے کہا کہ میری طرف سے بھی نفل پڑھنا اور اپنی طرف سے بھی.پھر ڈاکٹرنی کو کہا کہ ذرا اسے لو تو اُس نے جواب دیا کہ لوں کسے وہ تو مُردہ ہے.تو انہوں نے کہا کہ اچھا پھر مبارک کا قدر قائم رہے گا.میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ لڑکی اصل میں زندہ بدست مُردہ ہی ہوا کرتی ہے.ایک الہام اور ایک خواب آج صبح کو الہام ہوا سَاُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَـجَبًا اس کے بعد تھوڑی سی غنودگی میں ایک خواب بھی دیکھا کہ ایک چوغہ سنہری بہت خوبصورت ہے.میں نے کہا کہ عید کے دن پہنوں گا.اس الہام میں عجب کا لفظ بتلاتا ہے کہ کوئی نہایت ہی مؤثر بات ہے.میں نے یہی سمجھا کہ چونکہ رات کو بہت منذر الہام ہوا تھا وہ تو پورا ہو گیا ہے.اب اللہ تعالیٰ اس کے بالمقابل بشارت دیتا ہے.کیسی رحیم کریم ذات ہے.خواب اور ان کی تعبیر یں رات میں نے ایک اَور خواب بھی دیکھا کہ میں جہلم میں ہوں اور سنسار چند صاحب کے کمرے میں ہوتا ہوا آگے کوٹھی کے ایک اَور کمرہ کی طرف جا رہا ہوں.رئویا کے معاملات میں انسانی عقل بالکل اندھی ہے لڑکی دیکھے تو لڑکا ہوتا ہے.اسی لیے معبروں نے باب بالعکس کا بھی باندھا ہے.ہمارے مخالف تمام باتوں کو ظواہر پر حمل کر لیتے ہیں.ورنہ وہ خدا کی عجیب در عجیب باتوں کو دیکھیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص قولنج کی بیماری میں مبتلا تھا اسے خواب میں کسی نے دیکھا کہ وہ مَر گیا ہے.میں نے اس کی تعبیر کی کہ وہ اچھا ہو جاوے گا آخر وہ اچھا ہوگیا.مقدمات کے ذکر پر فرمایا کہ حاکم بیچارے کیا کریں وہاں تو خدا پکڑ کر سب کچھ کرواتا ہے اصل میں خدا ہی خدا ہے وہ جب
کوئی بات دل میں ڈالتا ہے تو دلوں کو ایسا پکڑتا ہے کہ باز اس طرح چڑیا کو پکڑ نہیں سکتا.اصل سلطنت اُسی کی سلطنت ہے.کیسے سے کیسا دشمن ہو مگر وہ اس کو بھی پکڑ لیتا ہے.رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ بالکل ٹھیک ہے لوگ ملائکہ سے تعجب کرتے ہیں.میرے نزدیک تو یہ سب ملائک ہیں.ورنہ لقمہ جو اندر ڈالا جاتا ہے اگر وہ نہ چاہے تو کب ہضم ہوسکتا ہے.بغیر کامل تصرّف کے خدا کی خدائی چل سکتی ہی نہیں اِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ (بنیٓ اسـرآءیل: ۴۵) کے یہی معنے ہیں.اسلام اور ایمان وہی ہے جو اس حد تک پہنچے اور اسی کو چھوڑ چھاڑ کر اب صرف رسم اور عادت رہ گئی ہے.جن کی یہ حالت ہے ان کو دعائوں میں کیا مزا آسکتا ہے.۱ عقیدہ وحدت الوجود جالندھر سے ایک صاحب تشریف لائے ہوئے تھے انہوں نے عرض کی کہ وہاں وجودیوں کا بہت زور ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ اصل میں ان لوگوں کا اباحتی رنگ ہے.دہریوں میں اور ان میں بہت کم فرق ہے ان کی زندگی بے قیدی کی زندگی ہوتی ہے.خدا کے حدود اور فرائض کابالکل فرق نہیں کرتے.نشہ وغیرہ پیتے ہیں، ناچ رنگ دیکھتے ہیں.زنا کو اُصول سمجھتے ہیں.ایک دفعہ ایک وجود ی میرے پاس آیا اور کہا کہ میں خدا ہوں.اُس نے ہاتھ آگے بڑھایا ہوا تھا میں نے اُس کے ہاتھ پر زور سے چٹکی کاٹی حتی کہ اس کی چیخ نکل گئی تو میں نے کہا کہ خدا کو درد بھی ہوا کرتا ہے اور چیخ بھی نکلا کرتی ہے؟ پھر نووارد صاحب نے بیان کیا کہ وہ کہا کرتے ہیں کہ انسان کو خدا نے اپنی صورت پر بنایا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ توریت میں یہ ذکر ہے اس کامطلب یہ ہے کہ تَـخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللہِ یعنی خدا نے چاہا کہ انسان خدا کے اخلاق پر چلے.جیسے وہ ہر ایک عیب اور بدی سے پاک ہے یہ بھی پاک ہو.جیسے اس میں عدل، انصاف اور علم کی صفت ہے وہی اس میں ہو اس لیے اس خُلق کو احسن تقویم کہا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۶ مورخہ ۲۷؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۳
الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ(التّین: ۵) جو انسان خدائی اخلاق اختیار کرتے ہیں وہ اس آیت سے مُراد ہیں اور اگر کُفر کرے تو پھر اَسْفَلَ السَّافِلِیْنَ اس کی جگہ ہے.وجودیوں سے جب بحث کا اتفاق ہو تو اوّل ان سے خدا کی تعریف پوچھنی چاہیے کہ خدا کسے کہتے ہیں؟ اور اس میں کیا صفات ہیں.وہ مقرر کرکے پھر ان سے کہنا چاہیے کہ اب ان سب باتوں کا تم اپنے اندر ثبوت دو.یہ نہیں کہ جو وہ کہیں وہ سنتے چلے جائو اور ان کے پیچ میں آجائو بلکہ سب سے اوّل ایک معیار خدائی قائم کرنا چاہیے بعض ان میں سے کہا کرتے ہیں کہ ابھی ہمیں خدا بننے میں کچھ کسر ہے تو کہنا چاہیے کہ تم بات نہ کرو جو کامل ہو گذرا ہے اسے پیش کرو.یہ ایک ملحد قوم ہے.تقویٰ، طہارت، صحتِ نیت، پابندی احکام بالکل نہیں.تلاوتِ قرآن نہیں کرتے ہمیشہ کافیاں پڑھتے ہیں.اسلام پر یہ بھی ایک مصیبت ہے کہ آج کل جس قدر گدی نشین ہیں وہ تمام قریب قریب اس وجودی مشرب کے ہیں.سچی معرفت اور تقویٰ کے ہرگز طالب نہیں ہیں.اسی مذہب میں دو شَے خدا کے بہت مخالف پڑی ہیں ایک تو کمزوری دوسری ناپاکی.یہ دونوںخدا میں نہیں ہیں اور سب وجودیوں میں پائی جاتی ہیں.لُطف کی بات ہے کہ جب کسی وجودی کو کوئی بیماری سخت مثل قولنج وغیرہ کے ہو تو اس وقت وہ وجودی نہیں ہوا کرتا.پھر اچھا ہو جاوے تو یہ خیال آیا کرتا ہے کہ میں خدا ہوں.۱ ۲۹؍جنوری ۱۹۰۳ء پنجشنبہ(بوقتِ سیر) جھوٹ چونکہ آج کل اس الٰہی سلسلہ کے دشمنوں کی عام عادت ہوگئی ہے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ جھوٹ جیسا لعنتی کام اَورکوئی نہیں اور پھر خصوصاً وہ جھوٹ جو کہ آبرو، عزّت وغیرہ پر ہوتا ہے جس پیٹ سے ایسی ایسی باتیں نکلا کرتی ہیں اسے نفس کہتے ہیں.دشمن کی آبرو داری اس کے بعد اسی آبرو کے مضمون پر حضرت اقدس نے اپنے خون کے مقدمہ میں ایک واقعہ بیان کیا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ۱ البدر جلد ۲نمبر ۷ مورخہ ۶ ؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۹
ہر ایک کی آبرو حتی کہ اپنے دشمن کی آبروداری کا بھی کسی قدر خیال ہے آپ نے ارشاد فرمایا کہ اسی قتل کے مقدمہ میں ہمارے ایک مخالف گواہ کی وقعت کو عدالت میں کم کرنے کی نیت سے ہمارے وکیل نے چاہا کہ اس کی ماں کا نام دریافت کرے مگر میں نے اسے سوال کرنے سے روکا اور کہا کہ ایسا سوال نہ کرو جس کا جواب وہ مطلق دے ہی نہ سکے اور ایسا داغ ہرگز نہ لگائو جس سے اسے مفرّ نہ ہو.حالانکہ ان ہی لوگوں نے میرے پر جھوٹے الزام لگائے.جھوٹا مقدمہ بنایا.افترا باندھے اور قتل اور قید میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا.میری عزّت پرکیا کیا حملے کر چکے ہوئے تھے.اب بتلائو کہ میرے پر کون سا خوف ایسا طاری تھا کہ میں نے اپنے وکیل کو ایسا سوال کرنے سے روک دیا.صرف بات یہ تھی کہ میں اس بات پر قائم ہوں کہ کسی پر ایسا حملہ نہ ہو کہ واقعی طور پر اس کے دل کو صدمہ دیوے اور اسے کوئی راہ مفرّ کی نہ ہو.۱ اس پر ایک مخلص خادم نے عرض کی کہ حضور میرا دل تو اب بھی خفا ہوتا ہے کہ یہ سوال کیوں اس پر نہ کیا گیا؟ آپ نے فرمایا کہ میرے دل نے گوارا نہ کیا.اُس نے پھر کہا کہ یہ سوال ضرور ہونا چاہیے تھا آپ نے فرمایا کہ خدا نے دل ہی ایسا بنایا ہے تو بتلائو میں کیا کروں.ایک صاحب آمدہ از جالندھر نے عرض کی کہ حضور وہاں شحنہ ہند نے بہت سے آدمیوں کو روک رکھا ہے اس کا کیا علاج کریں.فرمایا.صبر کرو.ایسا ہی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں لوگ تو آپ کی مذمت کیا کرتے تھے۱ مگر آپ ہنس کر فرمایا کرتے کہ ان کی مذمت کو کیا کروں میرا نام تو خدا نے اوّل ہی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) رکھ دیا ہوا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ نے مجھے بھی الہام کیا جو کہ آج سے بائیس برس پیشتر کا براہین میں الحکم میں یہ مضمون یوں درج ہے.’’حضور نے فرمایا کہ ہم اس اَمر کو نہایت مکروہ سمجھتے ہیں کہ کسی کی نسبت وہ اعتراض کیا جائے جس کی اصلاح اس کے امکان وقدرت میں نہیں ‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر۶ مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۵ ) ۲الحکم میں ہے.آپ کو نعوذ باللہ مُذَمَّمْ کہا کرتے تھے.(الحکم جلد ۷ نمبر۶ مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۵ )
چھپا ہوا ہے.یَـحْمَدُکَ اللہُ۱ یعنی خدا تیری تعریف کرتا ہے.جھوٹ ایسی شَے ہے کہ آخر ایک دن پر آکر انسان اس سے تھک جاتا ہے.پھر اگر خدا توفیق دیوے تو توبہ کرتا ہے ورنہ اسی طرح نامراد مَر جاتا ہے.(بوقتِ ظہر ) پتھری کے اخراج کا نسخہ اس وقت آپؑنے تشریف لا کر تھوڑی دیر مجلس کی.بعض وقت مثانہ سے جو کنکروغیرہ تکلیف دے کر پیشاب کی طرح نکلتے ہیں ان کی نسبت فرمایا کہ نربسی ۳ رتی اور وائنم اپی کاک کا استعمال اس کے واسطے بہت مفید ہے اور چاول وغیرہ لیسدار اشیاء کا استعمال نہ کرنا چاہیے.یہی لیس منجمد ہو کر کنکر بن جاتی ہے.پھر فرمایاکہ میرے والد صاحب کو بھی یہ مرض رہی ہے وہ صِبر کی گولیاں استعمال کیا کرتے تھے.بہت مفید ہیں اس میں صِبر ، سہاگہ، بزر النج، فلفل اور دار فلفل وغیرہ ادویہ ہوتی ہیں.(بوقتِ عصر) اس وقت ایک خط کے ذریعے سے خبر ملی کہ جہلم میں اب پھر کرم دین کا ارادہ مقدمہ کا ہے اور وہ نگرانی کرانا چاہتا ہے.حضرت اقدس نے فرمایاکہ گھبرانا نہ چاہیے یہ تو خدا کے عجائبات ہیں.؎ ہر بلا کیں قوم راحق دادہ است زیر آں گنج کرم بنہادہ است فرمایا.صبح کو ایک الہام ہوا تھا میرا ارادہ ہوا کہ لکھ لوں.پھر حا فظہ پر بھروسا کرکے نہ لکھا.آخر وہ ایسا بھولا کہ ہر چند یاد کیا مطلق یاد نہ آیا.دراصل یہی بات ہے مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَااَوْ مِثْلِھَا(البقرۃ:۱۰۷).۱الحکم میں ہے.’’ یَـحْمَدُکَ اللہُ مِنْ عَرْشِہٖ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے عرش سے تیری حمد، تعریف کرتا ہے.‘‘ (البدر جلد ۷ نمبر ۶ مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۵ )
(قبل از عشاء) جہلم سے مقدمہ کے فیصلہ کی نقل منگوائی گئی تھی.اس وقت وہ حضرت اقدس سنتے رہے.کسی نے کہا کہ اس پر ہم نالش کرسکتے ہیں.حضرتؑنے فرمایا کہ ہم نالش نہیں کرتے یہ تواسرار الٰہی ہیں ایک برس سے خدا نے اس مقدمہ کو مختلف پیرائوں میں ظاہر کیا ہے.اب کیا معلوم کہ وہ اس کے ذریعے سے کیا کیا اظہار کرے گا.معلوم ہوتا ہے کہ یہ فعل مقدر خدا کی طرف سے تھا.قانون کے ذکر پر فرمایا کہ واضعانِ قانون نے بڑی دانشمندی سے کام لیا ہے کہ مذہبی امور کو دنیاوی اُمور سے الگ رکھا ہے.کیونکہ مذہبی عالم کی باتوں کا دارومدار تو آخرت کے متعلق ہوتا ہے نہ کہ دنیا کے متعلق.مقدمات کے فیصلوں کی نسبت فرمایاکہ میرا اپنا اُصول یہ ہے کہ بد تر سے بدتر انسان بھی اگر مقدمہ کرے تو اس میں تصرّف اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے اس سے فیصلہ لکھوا تا ہے.انسان پر بھروسا شرک ہے بلکہ اگر ایک بھیڑیئے کے پاس بھی مقدمہ جاوے تو اس کو خدا سمجھ عطا کر دے گا.۱ ۳۰؍جنوری ۱۹۰۳ء بروزجمعہ ( بوقتِ عصر ) اس وقت آپ نے آکر ارشاد فرمایا کہ جو الہام مجھ کو بھول گیا تھا آ ج یا دکیا ہے اور وہ یہ ہے اِنَّ اللہَ مَعَ عِبَادِہٖ یُوَاسِیْکَ.یعنی اللہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے اور تیری غمخواری کرے گا.۲ ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۷ مورخہ ۶ ؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۹،۵۰ ۲ البد ر جلد ۲ نمبر ۷ مورخہ ۶؍ مارچ ۱۹۰۳ءصفحہ ۵۰
۳۱ ؍جنو ری ۱۹۰۳ء ( بوقتِ عصر۱) جہلم سے خبر آئی کہ کر م دین نے حضرت اقدس پر ایک اور مقدمہ مواہب الر حمٰن کے بعض الفاظ کی بنا پر کیا ہے.فرما یا.اب یہ ان لوگوں کی طرف سے ابتدا ہے کیا معلوم کہ خدا تعالیٰ ان کے مقابلہ میں کیا کیا تدبیر اختیار کرے گا.یہ استغاثہ ہم پر نہیں اللہ تعالیٰ پر ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مقدمات کرکے تھکانا چاہتے ہیں.الہام اِنَّ اللہَ مَعَ عِبَادِہٖ یُوَاسِیْکَ اسی کے متعلق اجتہادی طور پر معلوم ہوتا ہے اور ایسا ہی الہام سَاُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَـجَبًا.خدا زور آور حملوں سے سچائی ظاہر کر دے گا فرمایا.ہما ری جماعت ایمان تو لاتی ہے مگر اصل میں مدار ایمان نشانوں پر ہوتا ہے.اگرچہ انسان محسوس نہ کرے مگر اس کے اندر بعض کمزوریاں ضرور ہوتی ہیں اور جب تک وہ کمزوریاں دور نہ ہوں اعلیٰ مراتبِ ایمانی نہیں مل سکتے اور یہ کمزوریاں نشانات ہی کے ذریعہ دور ہوتی ہیں اور اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اپنے نشانوں سے ان کمزوریوں کو دور کرے اور جماعت اپنے ایمان میں ترقی کرے اب وہ وقت آگیا ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرٌ (الـحج:۴۰) کا نمونہ دکھائے.اللہ تعالیٰ کی نظر سے صادق اور کاذب، خائن اور مظلوم پوشیدہ نہیں ہیں اب ضروری ہے کہ سب گروہ متفق ہو کر میرے استیصال کے درپے ہوں جیسے جنگ احزاب میں ہوئے تھے جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب خدا تعالیٰ نے چاہا ہے.میں نے جو خواب میں دیکھا کہ دریائے نیل کے کنارہ پر ہوں اور بعض چلّائے کہ ہم پکڑے گئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسا وقت بھی آوے جب جماعت کو کوئی یاس ہو مگر میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا زور آور حملوں سے ۱ الحکم میں درج نہیں کہ یہ ڈائری کس وقت کی ہے لیکن البدر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عصر کے وقت کی ڈائری ہے.(ملاحظہ ہو البدر جلد ۲ نمبر ۷ مورخہ ۶؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۵۰ )
سچائی ظاہر کر دے گا.اس وقت یہ پورے زور لگائیں گے تاکہ قتل کے مقدمہ کی حسرتیں نہ رہ جائیں کہ کیوں چھوٹ گیا.یہ لوگ ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے جو خدا کی طرف سے میں پیش کرتا ہوں مگر وہ دیکھ لیں گے کہ اِکْرَامًا عَـجَبًا کیسے ہوتا ہے.(دربارِ شام) شوقِ تبلیغ فرمایا.سردست بیس جلد مواہب الرحمٰن کی مجلد کرا کر مصر کے اخبار نویسوں کو بھیجی جاویں اور اگر میری مقدرت میں ہوتا تو میں کئی ہزارمجلد کرا کر بھیجتا.فرمایا.یہاں کے لوگوں کا تو یہ حال ہے.شاید مصر کے لوگ ہی فائدہ اُٹھا لیں.جس قدر سعید روحیں خدا کے علم میں ہیں وہ ان کو کھینچ رہا ہے.جماعت کو نصائح بیعت کے بعد ایک شخص نے اپنے گاؤں میں کثرت طاعون کا ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی.فرمایا.میں تو ہمیشہ دعا کرتا ہوں مگر تم لوگوں کو بھی چاہیے کہ ہمیشہ دعا میں لگے رہو نماز یں پڑھو اور توبہ کرتے رہو.جب یہ حالت ہو گی تو اللہ تعالیٰ حفاظت کرے گااور اگر سارے گھر میں ایک شخص بھی ایسا ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کے با عث سے دوسر وں کی بھی حفاظت کرے گا.کوئی بَلا اور دکھ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے سوا نہیں آتا اور وہ اس وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور مخالفت کی جاوے.ایسے وقت پر عام ایمان کام نہیں آتا بلکہ خاص ایمان کام آتا ہے.جو لوگ عام ایمان رکھتے ہیں وہ ان بلاؤں سے حصہ لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی پروا نہیں کرتا مگر جو خاص ایمان رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع کرتا ہے اور آپ ان کی حفاظت کرتا ہے مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ.بہت سے لوگ ہیں جو زبان سے لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کا اقرار کرتے ہیں اوراپنے اسلام اور ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کے لیے دکھ نہیں اٹھاتے.کوئی دکھ یا تکلیف یا مقدمہ آجاوے تو فوراً خدا کوچھوڑنے کو طیار ہو جاتے ہیں اور اس کی نافرمانی کر بیٹھتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی کوئی پروا نہیں کرتا
مگر جو خاص ایمان رکھتا ہو اور ہر حال میں خدا کے ساتھ ہو اور دکھ اٹھانے کو طیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اس سے دکھ اٹھا لیتا ہے اور دو مصیبتیں اس پر جمع نہیں کرتا.دکھ کا اصل علاج دکھ ہی ہے اور مومن پر دو بلائیں جمع نہیں کی جاتیں.ایک وہ دکھ ہے جو انسان خدا کے لیے اپنے نفس پر قبول کرتا ہے اور ایک وہ بلائے ناگہانی، اس بَلا سے خدا بچا لیتا ہے.پس یہ دن ایسے ہیں کہ بہت توبہ کرو.اگرچہ ہر شخص کو وحی یا الہام نہ ہو مگر دل گواہی دے دیتا ہے کہ خدا اسے ہلاک نہ کرے گا.دنیا میں دو دوستوں کے تعلقات ہوتے ہیں.ایک دوست دوسرے دوست کا مرتبہ شناخت کرلیتا ہے کیونکہ جیسا وہ اس کے ساتھ ہے ویسا ہی وہ بھی اس کے ساتھ ہوگا.دل کودل سے راہ ہوتی ہے.محبت کے عوض محبت اور دغا کے عوض میں دغا.خدا تعالیٰ کے ساتھ معاملہ میں اگر کوئی حصہ کھوٹ کا ہوگا تو اسی قدر ادھر سے بھی ہوگا.مگر جو اپنا دل خدا سے صاف رکھے اور دیکھے کہ کوئی فرق خدا سے نہیں ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس سے کوئی فرق نہ رکھے گا.انسان کا اپنا دل اس کے لیے آئینہ ہے وہ اس میں سب کچھ دیکھ سکتا ہے.پس سچا طریق دُکھ سے بچنے کا یہی ہے کہ سچے دل سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو اور وفاداری اور اخلاص کا تعلق دکھائو اور اس راہِ بیعت کو جو تم نے قبول کی ہے سب پر مقدم کرو کیونکہ اس کی بابت تم پوچھے جائو گے.جب اس قدر اخلاص تم کو میسر آجاوے تو ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ تم کو ضائع کرے.ایسا شخص سارے گھر کو بچا لے گا.اصل یہی ہے اس کو مت بھولو.نری زبان میں برکت نہیں ہوتی کہ بہت سی باتیں کرلیں.اصل برکت دل میں ہوتی ہے اور وہی برکت کی جڑ ہے.زبان سے تو کروڑہا مسلمان کہلاتے ہیں جن لوگوں کے دل خدا کے ساتھ مستحکم ہیں اور وہ اس کی طرف وفا سے آتے ہیں خدا بھی ان کی طرف وفا سے پیش آتا ہے اور مصیبت اور بلا کے وقت ان کو الگ کر لیتا ہے.یاد رکھو یہ طاعون خودبخود نہیں آئی بلکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے جو اپنے وقت پر آئی ہے اب جو کھوٹ اور بےوفائی کا حصہ رکھتا ہے وہ بلا اور وبا سے بھی حصہ لے گا مگر جو ایسا حصہ نہیںرکھتا خدا اسے محفوظ رکھے گا.مَیں اگر کسی کے لیے دعا کروں اور خدا کے ساتھ اس کا معاملہ صاف نہیں ہے وہ اس سے سچا تعلق
نہیںرکھتا تو میری دعا اُس کو کیا فائدہ دے گی.لیکن اگر وہ صاف دل ہے اور کوئی کھوٹ نہیںرکھتا تو مَیری دعا اس کے لیے نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ ہوگی.زمینداروں کو دیکھا جاتا ہے کہ دو دو پیسے کی خاطر خدا کو چھوڑ دیتے ہیں.وہ نہیں جانتے کہ خدا انصاف اور ہمدردی چاہتا ہے اور وہ پسند کرتا ہے کہ لوگ فسق، فحشاء اور بے حیائی سے باز آویں جو ایسی حالت پیدا کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے فرشتے ان کے ساتھ ہوتے ہیں مگر جب دل میں تقویٰ نہ ہو اور کچھ حصہ شیطان کا بھی ہو تو خدا شراکت پسند نہیں کرتا اور وہ سب چھوڑ کر شیطان کا کر دیتا ہے کیونکہ اس کی غیرت شرکت پسند نہیں کرتی.پس جو بچنا چاہتا ہے اس کو ضروری ہے کہ وہ اکیلا خدا کا ہو مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ خدا تعالیٰ نے کبھی کسی صادق سے بے وفائی نہیں کی ہے.ساری دنیا بھی اگر اُس کی دشمن ہو اور اس سے عداوت کرے تو اُس کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتی.خدا بڑی طاقت ہے اور قدرت والا ہے اور انسان ایمان کی قوت کے ساتھ اس کی حفاظت کے نیچے آتا اور اس کی قدرتوں اور طاقتوں کے عجائبات دیکھتا ہے پھر اس پر کوئی ذلّت نہ آوے گی.یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ زبردست پر بھی زبر دست ہے بلکہ اپنے اَمر پر بھی غالب ہے سچے دل سے نمازیں پڑھو اور دعائوں میں لگے رہو اور اپنے سب رشتہ داروں اور عزیزوں کو یہی تعلیم دو پُورے طور پر خدا کی طرف ہو کر کوئی نقصان نہیں اُٹھاتا.نقصان کی اصل جڑ گُناہ ہے.ساری عزّتیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں.دیکھو! بہت سے ابرار اخیار دنیا میں گذرے ہیں.اگر وہ دنیادار ہوتے تو ان کے گذارے ادنیٰ درجہ کے ہوتے اور کوئی ان کو پوچھتا بھی نہیں.مگر وہ خدا کے لیے ہوئے اور ساری دنیا کو ان کی طرف کھینچ لایا.خدا تعالیٰ پر سچا یقین رکھو اور بدظنی نہ کرو.جب اِس کی بدبختی سے خد اپر بدظنی ہوتی ہے تو پھر نہ نماز درست ہوتی ہے نہ روزہ نہ صدقات.بدظنی ایمان کے درخت کو نشو و نما ہونے نہیں دیتی بلکہ ایمان کا درخت یقین سے بڑھتا ہے.میں اپنی جماعت کو باربار اسی لیے نصیحت کرتا ہوں کہ یہ موت کا زمانہ ہے.اگر سچے دل سے ایمان لانے کی موت کو اختیار کرو گے تو ایسی موت سے زندہ ہو جائو گے اور ذلّت کی موت سے
بچائے جائو گے.مومن پر دو موتیں جمع نہیں ہوتیں ہیں.جب وہ سچے دل سے اور صدق اور اخلاص کے ساتھ خدا کی طرف آتا ہے پھر طاعون کیا چیز ہے؟ کیونکہ صدق اور وفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کا ہونا یہ بھی ایک موت ہے جو ایک قسم کی طاعون ہے مگر اس طاعون سے ہزار ہادرجہ بہتر ہے کیونکہ خدا کا ہونے سے نشانہ طعن تو ہونا ہی پڑتا ہے پس جب مومن ایک موت اپنے اوپر اختیارکر لیوے تو پھر دوسری موت اس کے آگے کیا شَے ہے؟ مجھے بھی الہام ہوا تھا کہ آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.ہر مومن کا یہی حال ہوتا ہے اگر وہ اخلاص اور وفاداری سے اس کا ہوجاتا ہے تو خدا اس کا ولی بنتا ہے لیکن اگر ایمان کی عمارت بوسیدہ ہے تو پھر بے شک خطرہ ہوتا ہے.ہم کسی کے دل کا حال تو جانتے ہی نہیں.سینہ کا علم تو خدا کو ہی ہے مگر انسان اپنی خیانت سے پکڑاجاتا ہے.اگر خدا تعالیٰ سے معاملہ صاف نہیں تو پھر بیعت فائدہ دے گی نہ کچھ اَور، لیکن جب خالص خدا ہی کا ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اس کی خاص حفاظت کرتا ہے.اگرچہ وہ سب کا خدا ہے مگر جو اپنے آپ کو خاص کرتے ہیں ان پر خاص تجلی کرتا ہے.اور خدا کے لیے خاص ہونا یہی ہے کہ نفس بالکل چکنا چور ہوکر اس کا کوئی ریزہ باقی نہ رہ جاوے اس لیے میں بار بار اپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ بیعت پر ہرگز ناز نہ کرو.اگر دل پاک نہیں ہے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا کیا فائدہ دے گا جب دل دور ہے جب دل اور زبان میں ا تفا ق نہیں اور پھر میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر منافقانہ اقرار کرتے ہیں تو یادرکھو ایسے شخص کو دو ہر ا عذاب ہوگا مگر جو سچا اقرار کرتا ہے اس کے بڑے بڑے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اس کو ایک نئی زندگی ملتی ہے.میں تو زبان ہی سے کہتا ہوں دل میں ڈالنا یہ خدا کا کام ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھانے میں کیا کسر باقی رکھی تھی؟ مگر ابو جہل اور اس کے امثال نہ سمجھے آپ کو اس قدر فکر اور غم تھا کہ خدا نے خود فرمایالَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ(الشعرآء:۴) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر ہمدردی تھی.آپ چاہتے تھے کہ وہ ہلاک ہونے سے بچ جاویں مگر وہ بچ نہ سکے.حقیقت میں معلّم اور واعظ کا تواتنا ہی فرض ہے کہ وہ بتاوے.دل کی کھڑکی تو خدا ہی کے فضل سے کھلتی
ہے.نجات اسی کو ملتی ہے جو دل کا صاف ہے.جو صاف دل نہیں وہ اُچکّا اور ڈاکو ہے.خدا تعالیٰ اسے بری طرح ما ر تا ہے.اب یہ طاعون کے دن ہیں ابھی تو ابتدا ہے.؎ ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ آخر کی خبر نہیں مگر جوابتدائی حالت میں اپنے آپ کو در ست کریں گے وہ خدا کی ر حمت کا بہت بڑا حق رکھتے ہیں مگر جو لوگ صاعقہ کی طرح دیکھ کر ایمان لاویں گے ممکن ہے کہ ان کی توبہ قبول نہ ہو یا توبہ کا موقع ہی نہ ملے.ابتدا والے ہی کا حق بڑا ہوتا ہے.قاعدہ کے موافق ۱۵ یا ۲۰ دن اَور طاعون کے روزہ کے ہیں اور آرام کی شکل نظر آتی ہے مگر وقت آتا ہے کہ پھر روزہ کھولنے کا زمانہ شروع ہوگا.اب خدا کے سوا کوئی عاصم نہیں ہے.ایماندار قبول نہیں کرسکتا کہ خدا کے ارادہ کے خلاف کوئی بچ سکتا ہے.فائدہ اور ا من کی ایک ہی راہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسا جھکے کہ خود محسوس کرلے کہ اب میں وہ نہیں رہا ہوں اور مصفّٰی قطرہ کی طرح ہو جاوے.مخالفت کی شدت خدا کی قدرت ہے کہ جوں جوں طاعون کا زمانہ قریب آتا جاتا ہے شور اور مفسدہ مخالفت کا بڑھتا جاتا ہے ان کو ذرا بھی خدا کا خوف نہیں ہے.فرمایا.آج مجھے خیال آیا کہ شاید یَاْتِیْ عَلَیْکَ زَمَنٌ کَمِثْلِ زَمَنِ مُوْسٰی والا الہام اور محاصرہ والی حدیث اسی طرح پوری ہو کہ مقدمات کثرت سے کردیں جیسے حضرت مو سیٰ کے سامنے نیل سے اور پیچھے لشکر فرعون سے محصور ہو گئے تھے اور ایسی خوفناک صورتیں پیدا ہوں کہ بعض کمزورطبیعت والے چلّائیں کہ ہم پکڑے گئے.اس لئے خدا نے ایسے کمزوروں کو پہلے سے تسلّی دے دی کہ یہ مضبوط اور قوی دل ہو جائیں.براہین احمدیہ میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے کہ ایک وقت ناخنوں تک زور لگائیں گے اس وقت خدا تیر ے ساتھ ہوگا وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.اب خدا تعالیٰ نے جو دن مقرر کیے ہوئے ہیں وہ اگر نہ آویں تو ثواب کیسے ملے.براہین میں اَور بھی بعض خوفناک صور تیں مذکور ہیں اور انجام کار وہی ہوگا جس کی خدا نے خبر دی ہے اور ارادہ فرمایا ہے.
ایک الہام فرمایا.۳۰؍ جنوری ۱۹۰۳ء کی صبح کو جو الہام ہوا تھا لَایَـمُوْتُ اَحَدٌ مِّنْ رِّجَالِکُمْ۱ اس کے معنی ابھی نہیں کھلے.مگر یہاں حقیقی معنی تو موت کے نہیں ہوسکتے کیونکہ انبیاء پر بھی یہ آئی ہے.غالباً اور کوئی معنی ہوں گے.۲ یکم فروری ۱۹۰۳ء امتحا ن کے وقت جماعت کو استقامت کی بہت دعا کرنی چاہیے آپؑنے فرمایا کہ یہ وقت جماعت کے امتحان کا ہے.دیکھیں کون ساتھ دیتا ہے اور کون پہلوتہی کرتا ہے.اس لیے ہمارے بھائیوں کو استقامت کی بہت دعاکر نی چاہیے اور انفاق فی سبیل اللہ کے لیے وسیع حوصلہ ہو کر مال و زر سے ہر طرح سے امداد کے لیے طیار ہونا چاہیے.ایسے ہی وقت ترقی درجات کے ہوتے ہیں.ان کو ہاتھ سے نہ گنوانا چاہیے.۳ البدر میں مذکورہ الہام کی تشریح کرتے ہوئے کچھ مزید فقرے درج ہیں وہاں لکھا ہے.’’عشاء سے قبل حضرت اقدس نے یہ الہام سنایا.’’ لَا یَـمُوْتُ اَحَدٌ مِّنْ رِّجَالِکُمْ اور فرمایا کہ اس کے حقیقی معنے کہ تمہارے رجال میں کوئی نہ مَرے گا تو ہو نہیں سکتے کیونکہ موت تو انبیاء تک کو آتی ہے اور نہ قیامت تک کسی نے زندہ رہنا ہے مگر اس کے مفہوم کا پتا نہیں ہے.شاید کوئی اور معنےہوںـ.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۳ مو رخہ ۶ ؍فروری ۱۹۰۳ءصفحہ ۲۴) ۲ الحکم جلد ۷ نمبر ۶ مورخہ ۱۴؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۵ تا ۷ ۳الحکم میں فروری کی ڈائری بغیر تاریخ کے درج ہے.البدر میں درج شدہ یکم فروری کی ڈائری کے مضمون سے اس کی مطابقت ظاہر کرتی ہے کہ یہ ڈائری یکم فروری کی ہے.لکھا ہے.فرمایا.’’ براہین میں یہ بھی الہام ہے اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ وَتَمَّتْ کَلِمَاتُ رَبِّکَ وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ.ہماری جماعت پر بھی ایک فتنہ ہے.صحابہ پر بھی فتنہ ہوا.مگر فتنہ کا پتا نہیں کہ کون سا فتنہ ہے اور کس راہ کا ہے.مگر جب انسان خدا کا ہو جاوے
یکم فروری کو ایک دوسال کا الہام آپ نے اس کے متعلق سنایا.بَلِیَّۃٌ مَّالِیَۃٌ.یعنی مالی ابتلا.۱ ۲؍فروری ۱۹۰۳ء ۲؍فروری کو سیر میں حضرت اقدس نے یہ الہامات سنائے جو کہ آپ کو رات کو ہوئے.سَنُنَجِّیْکَ.سَنُعْلِیْکَ.اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ.سَاُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَـجَبًا.سَـمِعَ الدُّعَا.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.دُعَاءُکَ مُسْتَجَابٌ.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ.وَاُصَلِّیْ وَاَصُوْمُ.وَاُعْطِیْکَ مَا یَدُوْمُ.۲ (بوقتِ ظہر) ایک رئویا حضرت احمد مُرسل یزدانی علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے ایک رؤیا ظہر کے وقت سنائی وہ یہ ہے کہ میں نے میرزا خدا بخش صاحب کو دیکھا ہے کہ ان کے کُرتے کے ایک دامن پر لہو کے داغ ہیں.پھر اَور داغ ان کے گریبان کے نزدیک بھی دیکھے ہیں.میں اس وقت کہتا ہوں کہ یہ ویسے ہی نشان ہیں جیسے کہ عبداللہ سنوری صاحب کو جو کُرتہ دیا گیا ہے اس پر تھے.۳ ۳؍ فروری ۱۹۰۳ء مورخہ۳؍فروری ۱۹۰۳ء کو سیر میں حضرت اقدس نے یہ الہام سنائے.اُصَلِّیْ وَ اَصُوْمُ.اَسْھَرُ وَ اَنَامُ.وَاَجْعَلُ لَکَ اَنْوَارَ الْقُدُوْمِ.وَاُعْطِیْکَ مَا یَدُوْمُ.(بقیہ حاشیہ)تو پھر جان و مال اورآبرو کیا شَے ہے کچھ نہیں سمجھنا چاہیے.یہی تین چیزیں انسان کو عزیز ہوتی ہیں.‘‘ فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ (العنکبوت:۳) فرمایا.ایک پُرانا الہام بَلِیَّۃٌ مَّالِیَۃٌ ہےشاید وہ ان ایام کے لیے تھا.(الحکم جلد ۷نمبر ۶ مورخہ ۱۴ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷ ) ۱ البدر جلد ۲نمبر۳ مورخہ ۶؍فروری ۱۹۰۳ءصفحہ ۲۴ ۲ البدرجلد ۲ نمبر ۳ مورخہ ۶؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۳ ۳ البدر جلد ۲نمبر۳ مورخہ ۶؍فروری ۱۹۰۳ءصفحہ ۲۴
اس کا ایک اور فقرہ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا.مورخہ۴؍ فروری کی سیر میں آپ نے یاد آنے پر بتلایا.۱ مورخہ ۳؍ فروری کو حضرت اقدس نے یہ الہام سیر میں سنایا جو کہ درج ہونے سے رہ گیا تھا بَرَزَ مَا عِنْدَ ھُمْ مِّنَ الرِّمَاحِ (جس قدر تیر ان کے پاس تھے وہ اب نکال لئے گئے).۲ ۴؍ فروری ۱۹۰۳ء مورخہ ۴؍فروری ۱۹۰۳ء کو آپ نے سیر میں فرمایا رات کو یہ الہام ہوا ہے.ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ.۳ ۵؍فروری ۱۹۰۳ء اپنی جماعت کے لئے ایک بہت ضروری نصیحت آج کل زمانہ بہت خراب ہو رہا ہے قسم قسم کی شرک، بدعت اور خرابیاںپیدا ہو گئی ہیں.بیعت کے وقت جو اقرار کیا گیا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.یہ اقرار خدا کے سامنے اقرار ہے.اب چاہیے کہ اس پر موت تک خوب قائم رہو ورنہ سمجھو کہ بیعت نہیں کی اور اگر قائم رہو گے تو اللہ تعالیٰ دین، دنیا میں برکت دے گا.اپنے اللہ کے منشا کے موافق پوری پوری تقویٰ اختیار کرو.زمانہ نازک ہے.قہر الٰہی نمودار ہو رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق اپنے آپ کو بنا لے گا وہ اپنی جان اور اپنی آل واولادپر رحم کرے گا.دیکھو! انسان روٹی کھاتا ہے جب تک سیری کے موافق پوری مقدارنہ کھاوے تو اس کی بھوک نہیں جاتی.اگر وہ ایک بھورہ روٹی کا ۱ البدرجلد ۲ نمبر ۳ مورخہ ۶؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۳ ۲ البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخہ ۱۳؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۲۵ ۳ البدرجلد ۲ نمبر ۳ مورخہ ۶؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۳
کھا لیوے تو کیا وہ بھوک سے نجات پائے گا؟ ہرگزنہیں.اور اگر وہ ایک قطرہ پانی کا اپنے حلق میں ڈالے تو وہ قطرہ اسے ہرگز بچا نہ سکے گا بلکہ باوجود اس قطرے کے وہ مَرے گا.حفظِ جان کے واسطے وہ قدر ِ محتاط جس سے زندہ رہ سکتا ہے جب تک نہ کھاوے اور نہ پیوے نہیں بچ سکتا.یہی حال انسان کی دینداری کا ہے جب تک اس کی دینداری اس حد تک نہ ہو کہ سیری ہو بچ نہیں سکتا.دینداری، تقویٰ، خدا کے احکام کی اطاعت کواس حد تک کرنا چاہیے جیسے روٹی اور پانی کو اس حد تک کھاتے اور پیتے ہیں جس سے بھوک اور پیاس چلی جاتی ہے.خوب یاد رکھنا چاہیے کہ خدا کی بعض باتوں کو نہ ماننا اس کی سب باتوں کو ہی چھوڑدینا ہوتا ہے اگر ایک حصہ شیطان کا ہو اور ایک خدا کا تو خدا کہتا ہے کہ سب ہی شیطان کا ہے.اللہ تعالیٰ حصہ داری کو پسند نہیں کرتا.یہ سلسلہ اس کا اسی لیے ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف آوے.اگرچہ خدا کی طرف آنا بہت مشکل ہوتا ہے اور ایک قسم کی موت ہے مگر آخر زندگی بھی اسی میں ہے.جو اپنے اندر سے شیطانی حصہ نکال کر باہر پھینک دیتا ہے وہ مبارک انسان ہوتا ہے اور اس کے گھر اور نفس اور شہر سب جگہ اس کی برکت پہنچتی ہے.لیکن اگر اس کے حصہ میں ہی تھوڑا آیا ہے تو وہ برکت نہ ہو گی جب تک بیعت کا اقرار عملی طور پر نہ ہو بیعت کچھ چیز نہیں ہے.جس طرح سے ایک انسان کے آگے تم بہت سی باتیں زبان سے کرو مگر عملی طور پر کچھ بھی نہ کرو تو وہ خوش نہ ہوگا.اسی طرح معاملہ خدا کا ہے وہ سب غیرت مندوں سے زیادہ غیرت مند ہے.کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ایک تو تم اس کی اطاعت کرو پھر ادھر اس کے دشمنوں کی بھی اطاعت کرو اس کانام تو نفاق ہے.انسان کو چاہیے کہ اس مرحلہ میں زید و بکر کی پروا نہ کرے.مَرتے دم تک اس پر قائم رہو.بدی کی دو قسمیں ہیں.ایک خدا کے ساتھ شرک کرنا.اس کی عظمت کو نہ جاننا.اُس کی عبادت اوراطاعت میں کسل کرنا.دوسری یہ کہ اس کے بندوں پر شفقت نہ کرنی.ان کے حقوق ادانہ کرنے.اب چاہیے کہ دونوں قسموں کی خرابی نہ کرو.خدا کی اطاعت پر قائم رہو.جو عہد تم نے بیعت میں کیا ہے اس پر قائم رہو خدا کے بندوں کو تکلیف نہ دو.قرآن کو بہت غور سے پڑھو.اس پر عمل کرو.ہر ایک
قسم کے ٹھٹھے اور بیہودہ باتوں اور مشرکانہ مجلسوں سے بچو.پانچوں وقت نماز کو قائم رکھو.غرضیکہ کوئی ایسا حکمِ الٰہی نہ ہو جسے تم ٹال دو.بدن کو بھی صاف رکھو اور دل کو ہر ایک قسم کے بے جا کینے، بغض، حسد سے پاک کرو.یہ باتیں ہیں جو خد اتم سے چاہتا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ کبھی کبھی آتے رہو.جب تک خدا نہ چاہے کوئی آدمی بھی نہیں چاہتا.نیکی کی توفیق وہی دیتا ہے.دو عمل ضرور خیال رکھو.ایک دعا.دوسرے ہم سے ملتے رہنا تاکہ تعلق بڑھے اور ہماری دعا کا اثر ہو.ابتلا سے کوئی خالی نہیں رہتا.جب سے یہ سلسلہ انبیاء اور رُسل کا چلا آرہا ہے جس نے حق کو قبول کیا ہے اس کی ضرور آزمائش ہوتی ہے.اسی طرح یہ جماعت بھی خالی نہ رہے گی گردو نواح کے مولوی کوشش کریں گے کہ تم اس راہ سے ہٹ جا ئو.تم کو کفر کے فتوے دیویں گے لیکن یہ سب کچھ پہلے ہی سے اسی طرح ہوتا چلا آیا ہے لیکن اس کی پروا نہ کرنی چاہیے جوانمرد ی سے اس کا مقابلہ کرو.ثابت قدمی دکھائو پھر بیعت کنندگان نے منکرین کے ساتھ نماز پڑھنے کو پوچھا.حضرت نے فرمایا کہ ان لوگوں کے ساتھ ہرگز نہ پڑھو اکیلے پڑھ لو.جو ایک ہوگاوہ جلد دیکھے گا کہ ایک اور اس کے ساتھ ہو گیا ہے.ثابت قدمی دکھائو.ثابت قدمی میں ایک کشش ہوتی ہے.اگر کوئی جماعت کا نہ ہو تو نماز اکیلے پڑھو مگر جو اس سلسلہ میں نہیں اس کے ساتھ ہرگز نہ پڑھو، ہرگز نہ پڑھو.جو ہمیں زبان سے بُرا نہیں کہتا وہ عملی طور سے کہتا ہے کہ حق کو قبول نہیں کرتا.ہاں ہر ایک کو سمجھاتے رہو.خدا کسی نہ کسی کو ضرور کھینچ لیوے گا.جو شخص نیک نظر آوے سلام و علیک اس سے رکھولیکن اگر وہ شرارت کرے تو پھر یہ بھی ترک کر دو.۱ ۸؍فروری ۱۹۰۳ء مورخہ ۸؍فروری کو آپ نے سیر میں فجر کا الہام سنایا ’’حَرْبٌ مُّھَیَّجَۃٌ‘‘ (جوش سے بھری ہوئی لڑائی).۱ البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخہ ۱۳؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۳۱
فرمایا کہ اس کا اشارہ یا تو مقدمہ کی شاخوں کی طرف معلوم ہوتا ہے یا آریہ سماج کو جو اشتہار نومسلموں نے دیا ہے اس سے جوش میں آکر وہ لوگ کچھ گندی گالیاں وغیرہ دیویں.چنانچہ شام کو ایک اشتہار آریوں کی طرف سے نکل آیا جس میں ایسے ہی گندے الفاظ تھے اور اصل معنوں پر کوئی معقول بات نہ تھی اس پر آپ نے فرمایا کہ چونکہ الہام کے بعد نیا معاملہ یہی پیش آیا ہے ہم الہام کو اس پر چسپاں کرتے ہیں.خدا نے اس کے مقابلہ پر کیا سامان رکھے ہیں ہمیں اس کی خبر نہیں.ارادہ الٰہی پر تقدم بے ادبی ہے اور اسی لئے اس کے مقابل پر غضب سے بھرا ہوا اشتہار نکالنا درست نہیں اس میں نفس کے رگ و ریشے ہوں گے اس کے لئے جو راہ خدا نکالے وہ ٹھیک ہوگی.۱ ۱۰ ؍فروری ۱۹۰۳ء یہ وقت دعا اور تضرّع کا ہے حضرت اقدس نے فرمایا ہے کہ وہ اخبارات جو کہ آپ کی مخالفت میں ہمیشہ خلاف واقعہ باتیں درج کرتے ہیں اور گند اور فحش بیانی ان کا کام ہے ان کو ہرگز نہ لیا جاوے اور نہ ان کے مقابلے پر اشتہار وغیرہ دیا جاوے.یہ ان کو ایک اور موقع گند بکنے کا دیتا ہے.یہ وقت دعا اور تضرّع کا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم میں اور ہماری قوم میں فیصلہ کر دے.۲ ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخہ ۱۳ فروری ۱۹۰۳ءصفحہ ۲۵ ۲ البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخہ ۱۳؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۵
۱۱؍فروری ۱۹۰۳ء بروز چہار شنبہ عرش کے متعلق ایک صاحب نے سوال کیا کہ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ (الاعراف:۵۵)کے کیا معنے ہیں اور عرش کیا شَے ہے؟ عرش کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونے کی بحث عبث ہے فرمایا کہ اس کے بارے میں لوگوں کے مختلف خیالات ہیں کوئی تو اسے مخلوق کہتا ہے اور کوئی غیر مخلوق لیکن اگر ہم غیر مخلوق نہ کہیں تو پھر استویٰ باطل ہوتا ہے.اس میں شک نہیں ہے کہ عرش کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونے کی بحث ہی عبث ہے.یہ ایک استعارہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اعلیٰ درجے کی بلند ی کو بیان کیا ہے یعنی ایک ایسا مقام جو کہ ہر ایک جسم اور ہر ایک نقص سے پاک ہے اور اس کے مقابلہ پر یہ دنیا اور تمام عالم ہے کہ جس کی انسان کو پوری پوری خبر بھی نہیں ہے.ایسے مقام کو قدیم کہا جا سکتا ہے.لوگ اس میں حیران ہیں اور غلطی سے اسے ایک مادی شَے خیال کرتے ہیں.اور قدامت کے لحاظ سے جو اعتراض لفظ ثُمَّ کا آتا ہے تو بات یہ ہے کہ قدامت میں ثُمَّ آ جاتا ہے جیسے قلم ہاتھ میں ہوتا ہے تو جیسے قلم حرکت کرتا ہے ویسے ہاتھ حرکت کرتا ہے مگر ہاتھ کو تقدم ہوتا ہے.آریہ لوگ خدا کی قدا مت کے متعلق اہل اسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ ا ن کا خدا چھ سات ہزار برس سے چلا آتا ہے یہ ان کی غلطی ہے.اس مخلوق کودیکھ کر خدا کی عمر کا اندازہ کرنا نا دانی ہے.ہمیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ آدم سے اوّل کیا تھا اور کس قسم کی مخلوق تھی.اس وقت کی بات وہی جانے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ(الرحـمٰن:۳۰) وہ اور اس کی صفات قدیم ہی سے ہیں مگر اس پر یہ لازم نہیں ہے کہ ہر ایک صفت کا علم ہم کو دے دیوے اور نہ اس کے کام اس دنیا میں سما سکتے ہیں.خدا کے کلام میں دقیق نظر کرنے سے پتا لگتا ہے کہ وہ ازلی اور ابدی ہے اور مخلوقات کی ترتیب اس کے ازلی ہونے کی مخالف نہیں ہے اور استعارات کو ظاہر پر حمل کرکے مشہودات پر لانا بھی ایک نادانی ہے اس کی صفت ہے لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ١ٞ وَ هُوَ يُدْرِكُ
الْاَبْصَارَ(الانعام:۱۰۴) ہم عرش اور استویٰ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی حقیقت اور کنہ کو خدا کے حوالے کرتے ہیں.جب دنیا وغیرہ نہ تھی عرش تب بھی تھا جیسے لکھا ہے كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ (ھود:۸).عرش ایک مجہول الکُنہ اَمر اور خدا تعالیٰ کی تجلیات کی طرف اشارہ ہے اس کے متعلق خوب سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ایک مجہول الکُنہ اَمر ہے اور خدا کی تجلیات کی طرف اشارہ ہے وہ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ چاہتی تھی اس لیے اوّل وہ ہوکر اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ ہوا.اگرچہ توریت میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے مگر وہ اچھے الفاظ میں نہیں ہے اور لکھا ہے کہ خدا ماندہ ہوکر تھک گیا.اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک انسان کسی کام میں مصروف ہوتا ہے تو اس کے چہرہ اور خط و خال وغیرہ اور دیگر اعضا کا پورا پورا پتا نہیں لگتا مگر جب وہ فارغ ہو کر ایک تخت یا چارپائی پر آرام کی حالت میں ہوتو اس کے ہر ایک عضو کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں.اسی طرح استعارہ کے طور پر خدا کی صفات کے ظہور کو ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ سے بیان کیاہے کہ آسمان اور زمین کے پیدا کرنے کے بعد صفاتِ الٰہیہ کا ظہور ہوا.صفات اس کے ازلی ابدی ہیں مگر جب مخلوق ہوتو خالق کو شناخت کرے اور محتاج ہوں تو رازق کو پہچانیں.اسی طرح اس کے علم اور قادر ِ مطلق ہونے کا پتا لگتا ہے ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ خدا کی اس تجلی کی طرف اشارہ ہے جو خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کے بعد ہوئی.اسی طرح اس تجلی کے بعد ایک اور تجلی ہوگی جب کہ ہر شَے فنا ہوگی.پھر ایک اَور تیسری تجلی ہوگی کہ احیائے اموات ہوگا.غرضیکہ یہ ایک لطیف استعارہ ہے جس کے اندر داخل ہونا روا نہیں ہے.صرف ایک تجلی سے اسے تعبیر کرسکتے ہیں.قرآن شریف سے پتا لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے عرش کو اپنی صفات میں داخل کیا ہے جیسے ذُوالْعَرْشِ الْمَجِیْدُ (البروج:۱۶) گویا خدا تعالیٰ کے کمالِ علوّ کو دوسرے معنوں میں عرش سے بیان کیا ہے اور وہ کوئی مادی اور جسمانی شَے نہیں ہے ورنہ زمین اور آسمان وغیرہ کی طرح عرش کی پیدائش کا ذکر بھی ہوتا.اس لیے شُبہ گذرتا ہے کہ ہے تو شَے مگر غیر مخلوق اور یہاں سے دھوکا کھا کر آریوں کی طرف انسان چلا جاتا ہے کہ جیسے وہ خدا کے وجود کے علاوہ اَور اشیاء کو غیر مخلوق مانتے ہیں
ویسے ہی یہ عرش کو ایک شَے غیر مخلوق جُزاَز خدا ماننے لگتا ہے.یہ گمراہی ہے.اصل میں یہ کوئی شَے خدا کے وجود سے باہر نہیں ہے جنہوں نے اسے ایک شَے غیر مخلوق قرار دیا وہ اسے اتم اور اکمل نہیں مانتے اور جنہوں نے مادی مانا وہ گمراہی پر ہیں کہ خدا کو ایک مجسم شَے کا محتاج مانتے ہیں کہ ایک ڈولہ کی طرح فرشتوں نے اسے اُٹھایا ہوا ہے.وَلَا يَـُٔوْدُهٗ حِفْظُهُمَا(البقرۃ:۲۵۶).چار ملائک کا عرش کو اُٹھانا یہ بھی ایک استعارہ ہے.ربّ.رحمٰن.رحیم اورمالک یوم الدین یہ صفات ِالٰہی کے مظہر ہیں اور اصل میں ملائکہ ہیں اور یہی صفات جب زیادہ جوش سے کام میں ہوں گے تو ان کو آٹھ ملائک سے تعبیر کیا گیا ہے جو شخص اسے بیان نہ کرسکے وہ یہ کہے کہ ایک مجہول الکُنہ حقیقت ہے ہمارا اس پر ایمان ہے اور حقیقت خدا کے سپرد کرے.اطاعت کا طریق یہی ہے کہ خدا کی باتیں خدا کے سپرد کرے اور ان پر ایمان رکھے.اور اس کی اصل حقیقت یہی ہے کہ خدا کی تجلّیات ثلاثہ کی طرف اشارہ ہے.كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ کی کنہ خدا ہی کو معلوم ہے كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ یہ بھی ایک تجلی تھی اور ماء کے معنے یہاںپانی بھی نہیں کرسکتے.خدا معلوم کہ اس کے نزدیک ماء کے کیا معنے ہیں.اس کی کنہ خدا کو معلوم ہے.جنّت کے نعماء پر بھی ایسا ہی ایمان ہے.وہاں یہ تو نہ ہوگا کہ بہت سی گائے بھینسیں ہوں گی اور دُودھ دوہ کر حوض میں ڈالا جاوے گا.خدا فرماتا ہے کہ وہ اشیاء ہیں جو نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سنیں اور نہ زبان نے چکھیں نہ دل میں ان کے فہم کا مادہ ہے.حالانکہ ان کو دُودھ اور شہد وغیرہ ہی لکھا ہے جو کہ آنکھوں سے نظر آتا ہے اور ہم اسے پیتے ہیں.اسی طرح کئی باتیں ہیں جوکہ ہم خود دیکھتے ہیں مگر نہ تو الفاظ ملتے ہیں کہ ان کو بیان کرسکیں نہ اُس کے بیان کرنے پر قادرہیں.یہ ایسی باتیں ہیں کہ اگر ان کو مادی دنیا پر قیاس کریں تو صدہا اعتراضات پیدا ہوتے ہیں.مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسـرآءیل:۷۳) سے ظاہر ہے کہ دیدار کا وعدہ یہاں بھی ہے مگر ہم اسے جسمانیات پر نہیں حمل کرسکتے.۱ ۱ البدر جلد۲ نمبر ۵ مورخہ ۲۰؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۷،۳۸
۱۳؍فروری ۱۹۰۳ء صدقہ اور دعا سے بَلاٹل جاتی ہے بعدادائیگی جمعہ گر دونواح کے لوگوں نے بیعت کی اور حضرت اقدس نے ان کو ایک مختصر تقریر نماز روزہ کی پابندی اور ہر ایک ظلم وغیرہ سے بچنے پر فرمائی کہ اپنے گھروں میں عورتوں، لڑکیوں اور لڑکوں سب کو نیکی کی نصیحت کریں اور جیسے درختوں اور کھیتوں کو اگر پورا پانی نہ دیا جاوے تو وہ پھل نہیں لاتے.اسی طرح جب تک نیکی کا پانی دل کو نہ دیا جاوے تووہ بھی انسان کے لیے کسی کام کا نہیں ہوتا.جو نیک بن جاتا ہے اس پر یہ بَلا طاعون نہیں پڑتی.موت تو سب کو آتی ہے اور اس کا دروازہ بند نہیں ہوتا.مگر جن موتوں میں ایک قہر کی بو ہوتی ہے وہ نہیں ہوتیں.ہنسی اور ٹھٹھے کی مجلسوں سے پرہیز کی تاکید فرمائی.انبیاء کی وصیت یاد دلائی کہ صدقہ اور دعا سے بَلا ٹل جاتی ہے اگر پیسہ پاس نہ ہو تو ایک بوکہ (ڈول) پانی کا کسی کو بھر دویہ بھی صدقہ ہے اپنے مال اور بدن سے کسی کی خدمت کر دینی یہ بھی صدقہ ہے.۱ (دربارِ شام) ایک نووارداور حضرت اقدس علیہ السلام ۱۳؍فروری ۱۹۰۳ء کو ایک ڈاکٹر صاحب۲ لکھنو سے تشریف لائے بقول ان کے وہ بغدادی الاصل ہیں اور اب عرصہ سے لکھنو میں مقیم ہیں.ان کے چند احباب نے ان کو حضرت حجۃ اللہ علیہ السلام کی خدمت میں بغرض دریافت حال بھیجا ہے چنانچہ وہ بعد مغرب حضرت اقدس علیہ السلام کے حضور حاضر ہوئے اور شرفِ ملاقات حاصل کیا جو کچھ گفتگو آپ سے ہوئی ہم اس کو ذیل میں درج کرتے ہیں.(ایڈیٹر ) حضرت اقدس.آپ کہاں سے آئے ہیں؟ نووارد.میں اصل رہنے والا بغداد کا ہوں مگر اب عرصہ سے لکھنو میں رہتا ہوں اور یہاں ہی میں نے اپنے تعلقات پیدا کر لیے ہیں.وہاں کے چند آدمیوں نے مجھے مستعد کیا کہ قادیان جاکر کچھ حالات دیکھ آئیں.۱ البدر جلد ۲ نمبر ۶ مو رخہ ۲۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۴ ۲ البدر میں اس نووارد کانام محمد یوسف درج ہے.(البدر جلد ۲نمبر ۶ مورخہ ۲۷ ؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۴ )
اپنے تعلقات پیدا کر لیے ہیں.وہاں کے چند آدمیوں نے مجھے مستعد کیا کہ قادیان جاکر کچھ حالات دیکھ آئیں.حضرت اقدس.امرتسر میں آپ کتنے دن ٹھہرے؟ نووارد.پانچ چھ روز.حضرت اقدس.کیا کام تھا؟ نووارد.محض یہاں کے حالات کا معلوم کرنا اور راستہ وغیرہ کی واقفیت حاصل کرنا.حضرت اقدس.کیا آپ کچھ عرصہ یہاں ٹھہریں گے؟ نووارد.کل جائوں گا.حضرت اقدس.آپ دریافت حالات کے لیے آئے اور کل جائیں گے اس سے کیا فائدہ ہوا؟ یہ تو صرف آپ کو تکلیف ہوئی.دین کے کام میں آہستگی سے دریافت کرنا چاہیے تاکہ وقتاً فوقتاً بہت سی معلومات ہوجائیں.جب وہاں آپ کے دوستوں نے آپ کو منتخب کیا تھا تو آپ کو یہاں فیصلہ کرنا چاہیے.جب آپ ایک ہی رات کے بعد چلے جائیں گے تو آپ کیا رائے قائم کرسکیں گے؟ اب ہم نماز پڑھ کر چلے جائیں گے.آپ کو کوئی موقع ہی نہ ملا.اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التوبۃ:۱۱۹) کہ صادقوں کے ساتھ رہو یہ معیت چاہتی ہے کہ کسی وقت تک صحبت میں رہے کیونکہ جب تک ایک حد تک صحبت میں نہ رہے وہ اسرار اور حقائق کُھل نہیں سکتے.وہ اجنبی کا اجنبی رہے گا اور بیگانہ ہی رہتا ہے اور کوئی رائے قائم کرنے کے قابل نہیں ہوسکتا.نووارد.میں جو پوچھوں گا اس کا آپ جواب دے دیں.اس سے ایک رائے قائم ہوسکتی ہے.جن لوگوں نے مجھے بھیجا ہے انہوں نے تقیہ۱ تو کیا نہیں کہ جاکر کیا دیکھوں.آپ چونکہ ہمارے مذہب میں ہیں اور آپ نے ایک دعویٰ کیا ہے اس کا دریافت کرنا ہم پر فرض ہے.۱ اغلباً یہ لفظ تقید ہے جو سہو کتابت سے تقیہ لکھا گیا ہے البدر میں اس کا ذکر یوں ہے کہ ’’اگر چہ وہ لوگ جن کی طرف سے میں آیا ہوں آپ کا ذکر ہنسی اور تمسخر سے کرتے ہیں مگر میرا یہ خیال نہیں ہے‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۶مورخہ ۲۷ ؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۴ )
حضرت اقدس.بات یہ ہے کہ مذاق تمسخر صحتِ نیت میں فرق ڈالتا ہے اور ماموروں کے لیے تو یہ سنّت چلی آئی ہے کہ لوگ ان پر ہنسی اور ٹھٹھا کرتے ہیں مگر حسرت ہنسی کرنے والوں ہی پر رہ جاتی ہے.چنانچہ قرآن شریف میں فرمایا ہے يٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۠(یٰسٓ:۳۱) ناواقف انسان نہیں جانتا کہ اصل حقیقت کیا ہے؟ وہ ہنسی اور مذاق میں ایک بات کو اڑانا چاہتا ہے مگر تقویٰ ہے جو اسے راہِ حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے.میرا دعویٰ ایسا دعویٰ نہیں رہاجو اَب کسی سے مخفی ہو.اگر تقویٰ ہو تو اس کے سمجھنے میں بھی اب مشکلات باقی نہیں رہیں.اس وقت صلیبی غلبہ حد سے بڑھا ہوا ہے اور مسلمانوں کا ہر اَمر میں انحطاط ہورہا ہے.ایسی حالت میں تقویٰ کا یہ تقاضا ہے اور وہ یہ سبق دیتا ہے کہ تکذیب میں مستعجل نہ ہو.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت یہود نے جلدی کی اور غلطی کھائی اور انکار کر بیٹھے نتیجہ یہی ہوا کہ خدا کی لعنت اور اس کے غضب کے نیچے آئے.ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت عیسائیوں اور یہودیوں نے غلطیاں کھائیں اور انکار کر دیا اور اس نعمت سے محروم رہے جو آپ لے کر آئے تھے.تقویٰ کا یہ لازمہ ہونا چاہیے کہ ترازو کی طرح حق و انصاف کے دونوں پلّے برابر رکھے.اسی طرح اب ایسا یہ زمانہ آیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے یہ سلسلہ قائم کیا تو اسی طرح مخالفت کا شوراُٹھا جیسے شروع سے ہوتا آیا ہے، یہی مولوی جو اَب منکر ہیں اور کُفر کے فتوے دیتے ہیں میرے مبعوث ہونے سے پہلے یہ لوگ منبروں پر چڑھ کر بیان کیا کرتے تھے کہ تیرھویں صدی بہت خراب ہے جس سے بھیڑیوں نے بھی پناہ مانگی ہے اور اب چودھویں صدی آئی ہے جس میں مسیح اور مہدی آئے گا اور ہمارے دکھوں کا علاج ہوگا یہاں تک کہ اکثر اکابرانِ اُمّت نے آنے والے کو سلام کی وصیت کی اورسب نے یہ تسلیم کیا کہ جس قدر کشوف اہل اللہ کے ہیں وہ چودھویں صدی سے آگے نہیں جاتے ہیں مگر جب وہ وقت آیا اور آنے والا آگیا تو وہی زبانیں انکار اور سبّ وشتم کے لیے تیز ہوگئیں.تقویٰ کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر وہ تسلیم کرنے میں سب سے اوّل نہ ہوتے تو انکار کے لیے بھی تو جلدی نہیں کرنی چاہیے تھی کم از کم تصدیق اور تکذیب کے دونوں پہلو برابر رکھتے.ہم یہ نہیں کہتے کہ بدوں
نصوصِ قرآنیہ وحدیثیہ اور دلائل قویہ عقلیہ یا تائیداتِ سماویہ کے مان لیں.مگر ہم یہ افسوس سے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ مسلمان جن کو قرآن شریف میں سورۃ فاتحہ کے بعد ہیهُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠(البقرۃ:۲) سکھایا گیاتھا اور جن کو یہ تعلیم دی گئی تھی اِنْ اَوْلِيَآؤُهٗۤ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ (الانفال:۳۵) اور جن کو بتایا گیا تھا اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ (المآئدۃ:۲۸) ان کو کیا ہو گیا کہ انہوں نے اس معاملہ میں اس قدر جلد بازی سے کام لیا اور تکفیر اور تکذیب کے لیے دلیر ہو گئے.ان کا فرض تھا کہ وہ میرے دعاوی اور دلائل کو سنتے اور پھر خدا سے ڈر کر ان پر غور کرتے.کیا ان کی جلد بازی سے پتا لگ سکتا ہے کہ انہوں نے تقویٰ سے کام لیا ہے جلد بازی اور تقویٰ کبھی دونوں اکٹھے نہیں ہوسکتے.نبیوں کو اللہ تعالیٰ نے یہی کہا فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ(الاحقاف:۳۶) پھر عام لوگوں کو کس قدر ضرورت تھی کہ وہ تقویٰ سے کام لیتے اور خدا سے ڈرتے.باوجودیکہ علماء کی اگر میرے دعویٰ سے پہلے کی کتابیں دیکھی جاتی ہیں تو ان سے کس قدر انتظار اور شوق کا پتا لگتا ہے گویا وہ تیرھویں صدی کے علامات سے مضطرب اور بے قرار ہو رہے ہیں مگر جب وقت آیا تو اوّل الکافرین ٹھہرتے ہیں.وہ جانتے تھے کہ ہمیشہ کہتے آتے تھے کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدّد اصلاح فساد کے لیے آتا ہے اور ایک رُوحانی طبیب مفاسدِ موجودہ کی اصلاح کے لیے بھیجا جاتا ہے.اب چاہیے تو یہ تھا کہ صدی کا سر پا کر وہ انتظار کرتے.ضرورت کے لحاظ سے ان کو مناسب تھا کہ ایسے مجدّد کا انتظار کرتے جو کسر صلیب کے لیے آتا کیونکہ اس وقت سب سے بڑا فتنہ یہی ہے.ایک عام آدمی سے بھی اگر سوال کیا جاوے کہ اس وقت بڑا فتنہ کون سا ہے؟ تو وہ یہی جواب دے گا کہ پادریوں کا.۳۰ لاکھ کے قریب تو اسی ملک سے مرتد ہو گیا.اسلام وہ مذہب تھا کہ ا گر ایک بھی مرتد ہوتا تو قیامت آ جاتی اسلام کیا اور ارتداد کیا؟ ایک طرف اس قدر لوگ مرتد ہو گئے دوسری طرف اسلام کے خلاف جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کو جمع کریں تو کئی پہاڑ بنتے ہیں بعض پرچے ایسے ہوتے ہیں کہ کئی کئی لاکھ شائع ہوتے ہیں اور ان میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا.بتائو ایسی حالت اور صورت میں اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الحجر:۱۰) کا وعدہ کہاں گیا؟اس نے وہ گالیاں
سید المعصومین کی نسبت سنیں جن سے دنیا میں لرزہ پڑگیا مگر اسے غیرت نہ آئی اور کوئی آسمانی سلسلہ اس نے قائم نہ کیا؟کیا ایسا ہوسکتا تھا.جب چنداں بگاڑ نہ تھا تو مجدّد آتے رہے اور جب بگاڑ حد سے بڑھ گیا تو کوئی نہ آیا.سوچو تو سہی! کیا عقل قبول کرتی ہے کہ جس اسلام کے لیے یہ وعدے اور غیرت خدا نے دکھائے جس کے نمونے صدرِ اسلام میں موجود ہیں تو اب ایسا ہوا کہ نعوذ باللہ مَر گیا.اب اگر پادری یا دوسرے مذاہب کے لوگ پو چھیں کہ کیا نشان ہے اس کی سچائی کا تو بتائو قصہ کے سوا کیا جواب ہے.جیسے ہندو کوئی پشتک پیش کر دیتے ہیں ویسے ہی یہ چند ورق لے کر آگے ڈال سکتے ہیں؟ بڑی بات یہ کہ معجزات کے لیے چند حدیثیں پیش کر دیں مگر کوئی کب مان سکتا ہے کہ ڈیڑھ سو برس بعد کے لکھے ہوئے واقعات صحیح ہیں.مخالف پر حجت کیوں کر ہو؟ وہ تو زندہ خدا اور زندہ معجزہ کو مانے گا.اس وقت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اور خرابیوں کے علاوہ اسلام کو بھی مُردہ مذہب بتایا جاتا ہے حالانکہ نہ وہ کبھی مُردہ۱ ہوگا.خدا تعالیٰ نے اس کی زندگی کے ثبوت میں آسمان سے نشان دکھائے.کسوف خسوف بھی ہوا.طاعون بھی آئی.حج بھی بند ہوا.وَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (التکویر:۵) کے موافق ریلیں بھی جاری ہوئیں.غرض وہ نشان جو اس زمانہ کے لیے رکھے تھے پورے ہوئے مگر یہ کہتے ہیں ابھی وہ وقت نہیں آیا.ماسوا اس کے وہ نشان ظاہر کیے جن کے گواہ نہ صرف ہماری جماعت کے لوگ ہیں بلکہ ہندو اور عیسائی بھی گواہ ہیں اور اگر وہ دیانت امانت کو نہ چھوڑیں تو ان کو سچی گواہی دینی پڑے گی.میں نے بارہا کہا ہے کہ صادق کی شناخت کے تین بڑے معیار ہیں.اوّل نصوص کو دیکھو.پھر عقل کو دیکھو کہ کیا حالت موجودہ کے موافق کسی صادق کو آنا چاہیے یا نہیں؟ تیسرا کیا اس کی تائید میں کوئی معجزات اور خوارق بھی ہیں؟ مثلًاپیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دیکھتے ہیں کہ توریت انجیل میں بشارات ۱البدر میں ہے.’’ لیکن اسلام نہ مُردہ ہے اور نہ مُردہ مذہب ہو گا ـــ‘‘.(البدر جلد ۲ نمبر۶ مورخہ ۲۷ ؍فروری ۱۹۰۳ءصفحہ ۴۵ ) ترتیب عبارت کے لحاظ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ’’نہ وہ مُردہ ہے نہ کبھی مُردہ ہو گا ‘‘ ہونا چاہیے.معلوم ہوتا ہے اس فقرہ کا پہلا حصہ سہواً رہ گیا ہے.(مرتّب)
موجود ہیں.یہ تو نصوص کی شہادت ہے اور عقل اس واسطے مؤید ہے کہ اس وقت بحروبر میں فساد تھا گویا نبوت کا ثبوت ایک نص تھا دوسری ضرورت تیسری وہ معجزات جوآپ سے صادر ہوئے.اب اگر کوئی سچے دل سے طا لب حق ہو تو اس کو یہی باتیں یہاں دیکھنی چاہئیں اور ان کے موافق ثبوت لے.اگر نہ پائے تو تکذیب کا حق اسے حاصل ہے اور اگر ثابت ہو جائیں اور وہ پھر بھی تکذیب کرے تو میری نہیں کل انبیاء کی تکذیب کرے گا.نو وارد.اگر ان ضروریات موجودہ کی بنا پرکوئی اور دعویٰ کرے کہ میں عیسیٰ ہوں تو کیا فرق ہوگا؟ حضرت اقدس.یہ فرضی بات ہے ایسے شخص کا نام لیں.اگر یہی بات ہے کہ ایک کاذب بھی کہہ سکتا ہے تو پھر آپ اس اعتراض کا جواب دیں کہ اگر مسیلمہ کذّاب کہتا کہ توریت اور انجیل کی بشارت کا مصداق میں ہوں تو آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے لیے کیا جواب دیں گے؟ نو وارد.میں نہیں سمجھا.حضرت اقدس.میرا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کا یہ اعتراض صحیح ہوسکتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت بھی تو بعض جھوٹے نبی موجود تھے جیسے مسیلمہ کذّاب، اسود عنسی.اگر وہ یہ کہتے کہ انجیل اور توریت میں جو بشارات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود ہیں جن کے موافق یہ کہتے کہ یہ بشارات میرے حق میں ہیں تو کیا جواب ہوسکتا تھا؟ نو وارد.میں اس کو تسلیم کرتا ہوں.حضرت اقدس.یہ سوال اس وقت ہوسکتا تھا جب ایک ہی جزوپیش کرتا مگر میں تو کہتا ہوں کہ میری تصدیق میں دلائل کا ایک مجموعہ میرے ساتھ ہے.نصوصِ قرآنیہ حدیثیہ میری تصدیق کرتے ہیں ضرورتِ موجودہ میرے وجود کی داعی اور وہ نشان جو میرے ہاتھ پر پورے ہوئے ہیں وہ الگ میرے مصدّق ہیں.ہر ایک نبی ان امور ثلاثہ کو پیش کرتا رہا ہے اور میں بھی یہی پیش کرتا ہوں.پھر کس کو انکار کی گنجائش ہے.اگر کوئی کہتا ہے کہ یہ میرے لیے ہے تو اسے میرے مقابلہ میں پیش کرو.
(ان فقرات کو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایسے جوش سے بیان کیا کہ وہ الفاظ میں ادا ہی نہیں ہو سکتا نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں نووارد صاحب بالکل خاموش ہو گئے اور پھر چند منٹ کے بعد انہوں نے اپنا سلسلہ کلام یوں شروع کیا.) نو وارد.عیسیٰ علیہ السلام کے لئے جو آیا ہے کہ وہ مُردوں کو زندہ کرتے تھے کیا یہ صحیح ہے؟۱ حضرت اقدس.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو آیا ہے کہ وہ مثیلِ موسیٰ تھے کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپؐنے عصا کا سانپ بنایا ہو.کافر یہی اعتراض کرتے رہے فَلْيَاْتِنَا بِاٰيَةٍ كَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ (الانبیاء:۶) معجزہ ہمیشہ حالتِ موجودہ کے موافق ہوتا ہے.پہلے نشانات کافی نہیں ہوسکتے اور نہ ہر زمانہ میں ایک ہی قسم کے نشان کافی ہوسکتے ہیں.نو وارد.اس وقت آپ کے پاس کیا معجزہ ہے؟ حضرت اقدس.ایک ہو تو میں بیان کروں.ڈیڑھ سو کے قریب نشان میں نے اپنی کتاب میں لکھے ہیں جن کے ایک لاکھ کے قریب گواہ ہیں اور ایک نوع سے وہ نشانات ایک لاکھ کے قریب ہیں.نو وارد.عربی میں آپ کا دعویٰ ہے کہ مجھ سے زیادہ فصیح کوئی نہیں لکھ سکتا.حضرت اقدس.ہاں.البدر نے اس پر یہ نوٹ دیا ہے.’’چونکہ سائل کا مطلب اس سوال سے یہ تھا کہ آپ جو مسیح موعود ہونے کے مدعی ہیں تو کس قدر مُردہ زندہ کیے.اس لیے آپؑنے فرمایاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مثیلِ موسیٰ کہا گیا تو آپ بتلایئے کہ آنحضرت نے کس قدر عصا کے سانپ بنائے؟ اور کون سے دریائے نیل پر آپ کا گذر ہوا؟ اور کب اور کس قدر جُوئیں، مینڈکیں اور خون آپ کے زمانہ میں آسمان سے برسا کیونکہ جب آپ مثیلِ موسیٰ تھے تو پھر آپ کے نزدیک تو تمام نشان موسیٰ والے آنحضرت ؐسے ظاہر ہوتے تو وہ مثیلِ موسیٰ ہوتے.کفار نے بھی اس قسم کا سوال آپ سے کیا تھا فَلْيَاْتِنَا بِاٰيَةٍ كَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ (الانبیآء:۶) جیسے موسیٰ اور عیسیٰ کو معجزات دیئے گئے ویسے ہی تم بھی دکھائو لیکن آنحضرت ؐ نے ویسا نشان نہ دکھایا وجہ اس کی یہ تھی کہ معجزات ہمیشہ حالتِ موجودہ کے موافق ہوتے ہیں جیسے زمانہ کی ضرورت کا تقاضا ہوتا ہے ویسے ہی خوارقِ عادات ہر ایک مرسل من اللہ لے کر آتا ہے‘‘ (البدر جلد ۲نمبر۶ مورخہ ۲۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۴۵ )
نو وارد.بے ادبی معاف.آپ کی زبان سے قاف ادا نہیں ہوسکتا.حضرت اقدس.یہ بیہودہ باتیں ہیں.۱ میں لکھنؤ کا رہنے والا تو نہیں ہوں کہ میرا لہجہ لکھنوی ہو.میں تو پنجابی ہوں.حضرت مو سیٰ پر بھی یہ اعتراض ہو اکہ لَا يَكَادُ يُبِيْنُ(الزخرف:۵۳) اور احادیث میں مہدی کی نسبت بھی آیا ہے کہ اس کی زبان میں لکنت ہو گی.(اس مقام پر ہمارے ایک مخلص مخدوم کو یہ اعتراض حسنِ ارادت کی وجہ اور غیرتِ عقیدہ کے سبب سے ناگوار گذرا.اور وہ سُوئِ ادبی کو برداشت نہ کرسکے.انہوں نے کہا کہ یہ حضرت اقدسؑ کا ہی حوصلہ ہے.اس پر نو وارد صاحب کو بھی طیش سا آگیا اور انہوں نے بخیال خویش یہ سمجھا کہ انہوں نے غصّہ سے کہا ہے اور کہا کہ میں اعتقاد نہیںرکھتا اور حضرت اقدس سے مخاطب ہو کر کہا کہ استہزا اورگالیاں سننا انبیاء کا ورثہ ہے.) حضرت اقدس.ہم ناراض نہیں ہوئے یہاں تو خاکساری ہے.نو وارد.میں تو لٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِيْ (البقرۃ:۲۶۱) کی تفسیر چاہتا ہوں.حضرت اقدس.میں آپ سے یہی توقع رکھتا ہوں مگر اللہ جلّشانہ نے اطمینان کا ایک ہی طریق نہیں رکھا.موسیٰ علیہ السلام کو اور معجزات دیئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اور معجزات دیئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور قسم کے نشان بخشے.میرے نزدیک وہ شخص کذّاب ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ میں خدا کی طرف سے آیا ہوں اور کوئی معجزہ اور تائیدات اپنے ساتھ نہ رکھتا ہو.مگر یہ بھی میرا مذہب نہیں کہ معجزات ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں اورمیں اس کا قائل نہیں کیونکہ قرآن شریف سے یہ اَمر ثابت نہیں کہ ہر اقتراح کا جواب دیا جاتا ہے.مداری۲ کی طرح یہ بھی نہیں ہوسکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیے گئے کہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور وہاں سے کتاب لے آئیں یا یہ کہ تمہارا سونے کا گھر ہو یا یہ کہ مکہ میں نہر آجاوے مگر ان کا جواب کیا ملا؟ یہی هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا(بنیٓ اسـرآءیل:۹۴).انسان کو مؤدب باَدب انبیاء ہو ناچاہیے.خدا تعالیٰ ۱البدر میں ہے.’’یہ ایک بیہودہ اعتراض ہے‘‘ (البدر جلد۲ نمبر ۶ مورخہ ۲۷ ؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۵ ) ۲ البدر میں ہے.’’معجزات مداری کا کھیل نہیں کہ جو کچھ اس سے مانگا اس نے جھٹ ٹوکرے یا تھیلے میں سے نکال کر دکھا دیا.‘‘ (البدر جلد۲ نمبر ۷ مورخہ ۶ ؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۵۱ )
جو کچھ دکھاتا ہے انسان اس کی مثل نہیں لا سکتا میری تائید میں ایک نوع سے ڈیڑھ سو اور ایک نوع سے ایک لاکھ نشانات ظاہر ہوئے ہیں.۱ حضرت اقدس.اچھا کیا آپ نے دو تین روز کا مصمم ارادہ کر لیا ہے؟ نو وارد.کل کچھ عرض کروں گا.حضرتؑ.میں چاہتا ہوں کہ آپ جودور دراز سے آئے ہیں کچھ واقفیت ضرور ہونی چاہیے.کم از کم تین دن آپ رہ جائیں.میں یہی نصیحت کرتا ہوں اور اگر اور نہیں تو آمدن بارادت ورفتن باجازت ہی پر عمل کریں.نو وارد.میں نے یہاں آکر اوّل دریافت کر لیا تھا کہ کوئی اَمر شرک کا نہیں.اس لیے میں ٹھہر گیا کیونکہ شرک سے مجھے سخت نفرت ہے.حضرت اقدس نے پھر جماعت کو خطاب کرکے فرمایا کہ میرے اصول کے موافق اگر کوئی مہمان آوے اور سبّ وشتم تک بھی نوبت پہنچ جاوے تو اس کو گوارا کرنا چاہیے کیونکہ وہ مریدوں میں تو داخل نہیں ہے.ہمارا کیا حق ہے کہ اس سے وہ ادب اور ارادت چاہیں جو مرید وں سے چاہتے البدر میں ہے.’’سو ایسے نشان ہم نے نزول المسیح میں لکھے ہیں اور ایک طریق سے دیکھا جاوے تو یہ نشان کئی لاکھ موجود ہیں.آپ ایک دو دن ٹھہریں اور دیکھ لیویں.‘‘ محمد یو سف صاحب.اجی جناب میں ٹھیر کر کیا کروں گا.اکیلا آدمی ہوں اور یہاں یہ جوش و خروش.میں ڈرتا تو کسی سے نہیں مگر ایسا ہی لگتا ہے تو میں ابھی تار دے کر اپنے دوستوں کو بُلالیتا ہوں.نا ظرین پر واضح ہو کہ اس اثناء میں جب کہ ہمارے جو شیلے احمدی بھائی نے ان نئے سائل کو غیرت مندانہ جواب دیا تھا تو حضرت اقدس نے ان کو چُپ کروادیا تھا.پھر محمد یوسف صاحب کے اس اعتراض پر فر مایا.حضرت اقدس.یہ تقاضائے محبت ہے کچھ اور نہیں.محبت میں ایسا ہوا کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی اس کی نظیر دیکھی جاتی ہے کہ ابو بکر ؓجیسا شخص جو کہ غایت درجہ کا مؤدب تھا جب اس کے سامنے ایک عرب کے سر بر آوردہ شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کو ہاتھ لگا کر کہا کہ تو نے ان مختلف لوگوں کا جتھا بناکر جو عرب کی قوم کا مقابلہ کرنا چاہا یہ غلطی ہے تو حضرت ابو بکر ؓنے اس وقت بڑے غصّہ میں آکر اُسے کہا اُمْصُصْ بِبَظْرِ اللَّاتِ (یہ عرب میں ایک گالی ہوتی ہے )آپ کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ کس قدر نقصان برداشت کرکے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں.محبت ہے جس نے بٹھایا ہوا ہے.آپ نو وارد اور یہ قابلِ احترام.(البدر جلد ۲ نمبر ۷ مورخہ ۶ ؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۵۱ )
ہیں.یہ بھی ہم ان کا احسان سمجھتے ہیں کہ نرمی سے باتیں کریں.۱ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ زیارت کرنے والے کا تیرے پر حق ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر مہمان کو ذرا سا بھی رنج ہو تو وہ معصیت میں داخل ہے.اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ ٹھہریں.چونکہ کلمہ کا اشتراک ہے جب تک یہ نہ سمجھیں جو کہیں ان کا حق ہے.۲ ۱۴؍فروری ۱۹۰۳ء ( صبح کی سیر) چونکہ نو وارد صاحب کو پوری طرح تبلیغ کرنا حضرت حجۃ اللہ کا منشاتھا لہٰذا سیر میں بھی اس کو خطاب کرکے آپ نے سلسلہ تقریر شروع فرمایا(ایڈیٹر)۳ مامور کے آنے پر دو گروہ ہو جاتے ہیں میں نے بہت غور کیا ہے کہ جب کوئی مامور آتا ہے تو دو گروہ خودبخود ہو جاتے ہیں البدر میں ہے.فرمایا.’’ اگر کوئی مہمان آوے اور سبّ وشتم تک بھی اس کی نوبت پہنچے تو تم کو چاہیے کہ چپ کر رہو جس حال میں کہ وہ ہمارے حالات سے واقف نہیں ہے نہ ہمارے مُریدوں میں وہ داخل ہے تو کیا حق ہے کہ ہم اس سے وہ ادب چاہیں جو ایک مرید کو کرنا چاہیے.یہ بھی ان کا احسان ہے کہ نرمی سے بات کرتے ہیں.خدا کرے کہ ہماری جماعت پر وہ دن آوے کہ جو لوگ محض نا واقف ہیں اگر وہ آویں تو بھائیوں کی طرح سلوک کریں.بھلا ان لوگوں کو کیا پڑی ہے کہ تکلیف اُٹھا کر کچی سڑک پر دھکے کھاتے آتے ہیں.پیغمبر خدا فرماتے ہیں کہ زیارت کرنے والے کا حق ہے کہ جو چاہے کہے.ہمارے لیے تلخی کرنامعصیت ہے ان کو اسی لیے ٹھہراتا ہوں کہ یہ غلطی رفع ہو.بھائیوں کی طرح سلوک کیا کرو اور پیش آیا کرو.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۷ مورخہ ۶ ؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۵۱ ) ۲ الحکم جلد۷ نمبر ۷ مورخہ ۲۱؍فروری۱۹۰۳ءصفحہ ۳تا۵ ۳ البدر میں سلسلہ تقریر شروع کرنے سے پہلے مندرجہ ذیل مکالمہ کا ذکر ہے.حضرت اقدس تشریف لائے تو آتے ہی آپ نے محمد یوسف صاحب نووارد مہمان سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ نے توقّف کا ارادہ کر لیا ہے؟ محمد یوسف صاحب.آج تو ضرور ہی ٹھہروں گا.حضرت اقدس.ہم آپ کو کتابیں دے دیں گے خود بھی دیکھنا اوروں کو بھی دکھانا.(البدر جلد ۲ نمبر ۷ مورخہ ۶؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۵۱ )
ایک موافق دوسرا مخالف اور یہ بات بھی ہر ایک عقل سلیم رکھنے والا جانتا ہے کہ اس وقت ایک جذب اور ایک نفرت پیدا ہو جاتی ہے یعنی سعید الفطرت کھچے چلے آتے ہیں اور جو لوگ سعادت سے حصہ نہیں رکھتے ان میں نفرت بڑھنے لگتی ہے.یہ ایک فطرتی بات ہے.اس میں کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا.طبیب اس اَمر کو بخو بی سمجھ سکتا ہے کہ اس سے وہی شخص فائدہ اُٹھا سکتا ہے جو اوّل اپنے مرض کو شناخت کرے اور محسوس کرے کہ میں بیمار ہوں اور پھر یہ شناخت کرے کہ طبیب کون ہے؟ جب تک یہ دو باتیں پیدا نہ ہوں وہ اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.یہ بھی یاد رہے کہ مرض دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک مرض مختلف ہوتا ہے جیسے قولنج کا درد یعنی جو محسوس ہوتا ہے اور ایک مستوی جیسے برص کے داغ کہ ان کا کوئی درد اور تکلیف بظاہر محسوس نہیں ہوتی.انجام خطرناک ہوتا ہے مگر انسان ایسی صورتوں میں ایک قسم کا اطمینان پا تا ہے اور اس کی چنداں فکر نہیں کرتا.اس لیے ضروری ہے کہ انسان اوّل اپنے مرض کو شناخت کرے اور اسے محسوس کرے پھر طبیب کو شناخت کرے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی معمولی حالت پر راضی ہو جاتے ہیں.۱ ّّیہی حال اس وقت ہو رہا ہے.اپنی حالت پر خوش ہیں اور کہتے ہیں کہ مہدی کی کیا ضرورت ہے حالانکہ خدا دانی اور معرفت سے بالکل خالی ہو رہے ہیں.البدر میں یہ مضمون یوں درج ہے.امراض کی دو قسمیں بیان کرنے کے بعد لکھا ہے.’’اسی طرح انسان کی حالت ہے وہ دُنیا میں آتا ہے.برص کی طرح اُسے امراض لگے ہوئے ہوتے ہیں اُسے اس بات کا علم نہیں ہو تا.سب سے اوّل اُسے یہ چاہیے کہ مرض کو دریافت کرے جس میں وہ مبتلا ہے بہت لوگ ہیں کہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور کلمہ گو بھی ہیں مگر وہ مسیح کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتے.بات یہ ہے کہ اسلام میں داخل ہونا ایک مشکل اَمر ہے اور خدادانی کوئی منہ کی بات نہیں.جب سچے طور سے انسان کو آنکھ (عطا) کی جاتی ہے اس وقت اس کو خدا کا خوف اور خشیت پیدا ہوتی ہے.کبائر تو موٹے گناہ ہیں جن کو ہر ایک جانتا ہے لیکن صغائر مثل چیونٹیوں کے انسان کو چمٹے ہوئے ہیں.ان کا ترک کرنا ایک مشکل اَمر ہے.ایک نئی تبدیلی جب تک انسان کے اندر نہ ہو تب تک اُسے اُن کا علم ہی نہیں ہو تا.جب یہ ہو تو وہ محسوس کرتا ہے کہ میں ایک اَور اورنیا انسان ہو ں.اس وقت تک اس کی ترقی طلب بھی نہیں ہوتی.یہ اس وقت ہوتی ہے جب اس کے دل میں یہ خیا ل پیدا ہو کہ میں گناہوں سے بچوں.‘‘ ( البدر جلد۲ نمبر ۷ مو ر خہ ۶؍مارچ ۳ ۱۹۰ء صفحہ ۵۱،۵۲)
خدا دانی اور معرفت بہت مشکل ہے.ہر چیز اپنے لوازمات کے ساتھ آتی ہے پس جہاں خدادانی آتی ہے اس کے ساتھ ہی ایک خاص معرفت اور تبدیلی بھی آ جاتی ہے کبائر اور صغائر جو چیونٹیوں کی طرح ساتھ لگے ہوئے ہیں خدا کی معرفت کے ساتھ ہی وہ دور ہونے لگتے ہیں یہاں تک کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ اب میں وہ نہیں بلکہ اَور ہوں.خدادانی میں جب ترقی کرنے لگتا ہے تو گناہ سے بیزاری اور نفرت پیدا ہو جاتی ہے یہاں تک کہ اطمینان کی حالت میں پہنچ جاتا ہے.نفس کی تین قسمیں نفس تین قسم کے ہوتے ہیں ایک نفسِ امّارہ ایک لوّامہ اور تیسرا مطمئنّہ.پہلی حالت میں تو صُمٌّۢ بُكْمٌ ہوتا ہے کچھ معلوم اور محسوس نہیں ہوتا کہ کدھر جا رہا ہے امّارہ جدھر چاہتا ہے لے جاتا ہے.اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہو تو معرفت کی ابتدائی حالت میں لوّامہ کی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور گناہ اور نیکی میں فرق کرنے لگتا ہے.گناہ سے نفرت کرتا ہے مگر پوری قدرت اور طاقت عمل کی نہیں پاتا.نیکی اور شیطان سے ایک قسم کا جنگ ہوتا رہتا ہے.یہاں تک کہ کبھی یہ غالب ہوتا اور کبھی مغلوب ہوتا ہےلیکن رفتہ رفتہ وہ حالت آجاتی ہے کہ یہ مطمئنّہ کے رنگ میں آ جاتا ہے اور پھر گناہوں سے نری نفرت ہی نہیں ہوتی بلکہ گناہ کی لڑائی میں یہ فتح پا لیتا ہے اور ان سے بچتا ہے اور نیکیاں اس سے بلا تکلّف صادر ہونے لگتی ہیں.پس اس اطمینان کی حالت پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے لوّامہ کی حالت پیدا ہو اور گناہ کی شناخت ہو.گناہ کی شناخت حقیقت میں بہت بڑی بات ہے جو اُس کو شناخت نہیں کرتا اس کا علاج نبیوں کے پاس نہیں ہے.۱ نیکی کا پہلا دروازہ اسی سے کھلتا ہے اوّل اپنی کو رانہ زندگی کو سمجھے اور پھر بُری مجلس اور بُر ی صحبت کو چھو ڑکر نیک مجلس کی قدر کرے اس کا یہی کام ہونا چاہیے کہ جہاں بتایا جاوے کہ اس کے مرض کا علاج ہوگا وہ اس طبیب کے پاس رہے اور جو کچھ وہ اس کو بتاوے اس پر عمل کرنے کے لیے ہمہ تن طیار ہو.دیکھو! بیما ر جب کسی طبیب کے پاس جاتا ہے تو یہ البدر سے.’’یہ بات غلط ہے کہ کسی نبی یا ولی کے پاس جانے سے ایک دم میں ہی ایک پُھونک سے سب کچھ ہوجاتا ہے اور وہ ہدایت پاتا ہے.ہدایت تو اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے یہ نہ نبی کا کام ہے نہ کسی اَور کا‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۷ مورخہ ۶ ؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵۲)
نہیں ہوتا کہ وہ طبیب کے ساتھ ایک مباحثہ شروع کر دے بلکہ اس کا فرض یہی ہے کہ وہ اپنامرض پیش کرے اور جو کچھ طبیب اس کو بتائے۱ اس پر عمل کرے اس سے وہ فا ئد ہ اُٹھائے گا.اگراُس کے علاج پر جر ح شروع کر دے تو فائدہ کس طرح ہوگا.انسان کی پید ائش کی علّتِ غائی انسان کا فرض ہے کہ اس میں نیکی کی طلب صادق ہو اور وہ اپنے مقصدِ زندگی کو سمجھے.قرآن شریف میں انسان کی زندگی کا مقصدیہ بتا یا گیا ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذاریات :۵۷ ) یعنی جنّ اور انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں.جب انسان کی پیدائش کی علّتِ غائی یہی ہے تو پھر چاہیے کہ خدا کو شناخت کریں.جب کہ انسان کی پیدائش کی علّتِ غائی یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرے اور عبادت کے واسطے اوّل معرفت کا ہونا ضروری ہے.جب سچی معرفت ہو جاوے تب وہ اس کی خلاف مرضی کو ترک کرتا اور سچا مسلمان ہو جاتا ہے.جب تک سچا علم پیدا نہ ہو کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں ہوتا.دیکھو! جن چنروں کے نقصان کو انسان یقینی سمجھتا ہے ان سے بچتا ہے مثلاً سمّ الفارہے جانتا ہے کہ یہ زہر ہے اس لیے اس کو استعمال کرنے کے لیے جرأت اور دلیری نہیں کرتا کیونکہ جانتا ہے کہ اس کا کھانا موت کے منہ میں جانا ہے.ایسا ہی کسی زہر یلے سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالتا یا طاعون والے گھر میں نہیں ٹھہرتا اگرچہ جانتا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے منشا سے ہوتا ہے تاہم وہ ایسے مقامات میں جانے سے ڈرتا ہے اب سوال یہ ہے کہ پھر گناہ سے کیوں نہیں ڈرتا؟۲ انسان کے اندر بہت سے گناہ ایسی قسم کے ہیں کہ وہ معرفت کی خوردبین کے سوا نظر ہی نہیں آتے.جُوں جُوں معرفت بڑھتی ہے انسان گناہوں سے واقف ہوتا جاتا ہے بعض صغائر ایسی قسم کے ۱ البدر سے.’’اگر علاج اچھا ہو تو اس کے پاس رہے ورنہ نہیں.کیا اگر ایک بچہ ابتداہی میں اُستاد سے الف پر بحث کرے کہ یہ الف کیوں ہے تو وہ کیا حاصل کرے گا یہ تو بدبختی کی نشانی ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۷ مورخہ ۶ ؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۵۲ ) ۲ البدر سے.’’صرف یہی ہے کہ اس کو یقین نہیں ہے اور اس کو اس بات کا مطلق علم نہیں کہ گناہ مُہلک ہے‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۷ مورخہ ۶ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۵۲ )
ہوتے ہیں کہ وہ ان کو نہیں دیکھتا لیکن معرفت کی خوردبین ان گناہوں کو دکھا دیتی ہے.غرض اوّل گناہ کا علم عطا ہوتا ہے.پھر وہ خدا جس نے مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ(الزلزال:۸) فرمایا اس کو عرفان بخشتا ہے، تب وہ بندہ خدا کے خوف میں ترقی کرتا اور اس پاکیزگی کو پالیتا ہے جو اس کی پیدائش کا مقصد ہے.جماعت کے قیام کی غرض اس سلسلہ سے خدا تعالیٰ نے یہی چاہا ہے اور اس نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ تقویٰ کم ہوگیا ہے.بعض تو کھلے طور پر بے حیائیوں میں گر فتار ہیں اور فسق وفجور کی زندگی بسر کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ایک قسم کی ناپاکی کی ملونی اپنے اعمال کے ساتھ رکھتے ہیں مگر انہیں نہیں معلوم کہ اگر اچھے کھانے میں تھوڑا سا زہر پڑ جاوے تو وہ سارا زہریلا ہوجاتا ہے اور بعض ایسے ہیں جو چھوٹے چھوٹے ریاکاری وغیرہ جن کی شاخیں باریک۱ ہیں ان میں مبتلا ہوجاتے ہیں.اب اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا ہے کہ دنیا کو تقویٰ اور طہارت کی زندگی کا نمونہ دکھائے.اسی غرض کے لیے اس نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے.وہ تطہیر چاہتا ہے اور ایک پاک جماعت بنانا اس کامنشا ہے.ایک پہلو تو میری بعثت اور ماموریت کا یہ ہے.دوسرا پہلو کسرِ صلیب کا ہے.کسرِ صلیب کے لیے جس قدر جوش خدا نے مجھے دیا ہے اس کا کسی دوسرے کو علم نہیں ہوسکتا.صلیبی مذہب نے جو کچھ نقصان عورتوں مَردوں اور جوانوں کو پہنچایا ہے اس کا اندازہ مشکل ہے.۲ ہر پہلو سے اسلام کو البدر سے.’’ایک وہ ہیں جوکہ باریک گناہوں کے مرتکب ہیں.اگرچہ ظاہری طور پر ایک انسان سمجھتا ہے کہ یہ بڑے دیندار ہیں لیکن عُجب اور ریا اور باریک باریک معاصی میں مبتلا ہیں جوکہ عارفانہ خردبین سے نظر آتے ہیں ‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۷مورخہ ۶؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۵۲ ) ۲البدر سے.’’ پادریوں کا فتنہ کس قدر ہے.کیا کچھ نقصان انہوں نے اسلام کو پہنچایا ہے.۳۰ لاکھ سے زیادہ مسلمان ان کے ہاتھوں پر مُرتد ہوچکے ہیں.ہر گائوں میں ہر ہر محلہ میں انہوں نے ڈیرہ لگایا ہے.کروڑہارسالہ جات اور کتابیں اسلام کی تردید میں ان کی طرف سے نِکل کر مفت شائع ہوتی ہیں اور یہ اس قسم کے فتنے ہیں کہ اس کی نظیر شروع سے لے کر اب تک کسی زمانہ میں نہیں ملتی اور ان کے حملے مختلف طور پر ہیں.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۷مورخہ ۶ ؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۵۲ )
کمزور کرنا چاہتے ہیں.کوئی ڈاکٹر ہے تو وہ طبابت کے رنگ میں یا صدقات و خیرات کے رنگ میں عہدہ دار ہو تب ولیم میور کی طرح اپنے رنگ میں.غرض صدہا شا خیں ہیں جو اسلام کے استیصال کے لیے انہوں نے اختیار کر رکھی ہیں.یہ دل سے چاہتے ہیں کہ ایک فرد بھی اسلام کا نام لینے والا باقی نہ رہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوماننے والا کوئی نہ ہو.ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں جن میں ان کے جوش کو بیان کرسکیں.ایسی حالت میں خدا تعالیٰ نے مجھے وہ جوش کسرِ صلیب کے لیے دیا ہے کہ دنیا میں اس وقت کسی اَور کو نہیں دیا گیا.پھر کیا یہ جوش بدوں خدا کی طرف سے مامور ہوکر آنے کے پیدا ہوسکتا ہے؟ جس قدر توہین اللہ تعالیٰ کی اور اس کے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی ہے کیا ضرور نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ جو غیور ہے آسمان سے مدد کرتا.غرض ایک طرف تو یہ صلیبی فتنہ انتہا کو پہنچا ہو اہے.دوسری طرف صدی ختم ہوگئی.تیسری طرف اسلام کا ہر پہلو سے ضعیف ہونا کسی طرف نظر اُٹھا کر دیکھو طبیعت کو بشاشت نہیں ہوتی.ایسی صورت میں ہم چاہتے ہیں کہ پھر خدا کا جلال ظاہر ہو.مجھے محض ہمدردی سے کلام کرنا پڑتا ہے ورنہ میں جانتا ہوں کہ غائبانہ میری کیسی ہنسی کی جاتی ہے اور کیا کیا افترا ہوتے ہیں.مگر جو جوش خدا نے مجھے ہمدردی مخلوق کا دیا ہوا ہے وہ مجھے ان باتوں کی کچھ بھی پروا نہیں کرنے دیتا.میں تو خدا کو خوش کرنا چاہتا ہوں نہ لوگوں کو.اس لیے میں ان کی گالیوں اور ٹھٹھوں کی کچھ پروا نہیں کرتا.میں دیکھتا ہوں کہ میرا مولا میرے ساتھ ہے.ایک وقت تھا کہ ان راہوں میں مَیں اکیلا پھرا کرتا تھا.اس وقت خدا نے مجھے بشارت دی کہ تو اکیلا نہ رہے گا بلکہ تیرے ساتھ فوج درفوج لوگ ہوں گے اور یہ بھی کہا کہ تو ان باتوں کو لکھ لے اور شائع کر دے کہ آج تیری یہ حالت ہے پھر نہ رہے گی.میں سب مقابلہ کرنے والوں کو پست کرکے ایک جماعت کو تیرے ساتھ کر دوں گا.وہ کتاب موجود ہے مکّہ معظمہ میں بھی اس کا ایک نسخہ بھیجا گیا تھا.بخارا میں بھی اور گورنمنٹ میں بھی.اس میں جو پیشگوئیاں ۲۲ سال پیشتر چھپ کر شائع ہوئی ہیں وہ آج پوری ہو رہی ہیں.کون ہے جو ان کا انکار کرے.ہندو، مسلمان اور
عیسائی سب گواہی دیں گے کہ یہ اس وقت بتایا گیا تھا جب میں اَحَدٌ مِّنَ النَّاسِ تھا.اس نے مجھے بتایا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ تیری مخالفت ہوگی مگر میں تجھے بڑھائوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اب ایک آدمی سے پونے دو لاکھ تک تو نوبت پہنچ گئی دوسرے وعدے بھی ضرور پورے ہوں گے.لیکھرام کے متعلق نشان پھر آریوں کے مقابل میں ایک نشان مجھے دیا گیا جو لیکھرام کے متعلق تھا وہ اسلام کا دشمن تھا اور گندی گالیاں دیا کرتا اور پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتا تھا.یہاں قادیان آیا اور اس نے مجھ سے نشان مانگا.میں نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی چنانچہ میں نے اس کو شائع کردیا اور یہ کوئی مخفی بات نہیں.کُل ہندوستان اس کو جانتا ہے کہ جس طرح قبل از وقت اس کی موت کا نقشہ کھینچ کر دکھایا گیا تھا اسی طرح وہ پورا ہو گیا.اس کے علاوہ اور بہت سے نشانات ہیں جو ہم نے اپنی کتابوں میں درج کیے ہیں اور اس پر بھی ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا خدا تھکنے والا خدا نہیں.وہ تکذیب کرنے والوں کے لیے ہروقت طیار ہے.میں نے پنجاب کے مولویوں اور پادریوں کو ایسی دعوت کی ہے کہ وہ میرے مقابل میں آکر ان نشانات کو جو ہم پیش کرتے ہیں فیصلہ کرلیں.اگر ان کو نہ مانیں تو دعا کرسکتا ہوں اور اپنے خدا پر یقین رکھتا ہوں کہ اور نشان ظاہر کر دے گا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ وہ صدق نیت سے اس طرف نہیں آتے بلکہ لیکھرامی حیلے کرتے ہیں۱ مگر خدا تعالیٰ کسی کی حکومت کے نیچے نہیں ہے.میں بار بار یہی کہتا ہوں کہ پہلے ان خوارق کو جو پیش کرتا ہوں دیکھ لو اور منہاجِ نبوت پرسوچو.اگر پھر بھی تکذیب کے لیے جرأت کرو گے تو خدا کی غیرت کے لیے زیادہ جنبش ہو گی اوروہ قادر ہے کہ کوئی اَمر انسانی طاقت سے بالاتر ظاہر کرے.لیکھرام کی نسبت جب پیشگوئی کی گئی تھی تو اس نے بھی میرے لیے ایک پیشگوئی کی تھی اور یہ شائع کردیا تھا کہ تین سال کے اندر ہیضہ سے ہلاک ہوجاوے ۱ البدر سے.’’ یہ لوگ جو اس طرح کے سوال کرتے ہیں کہ زمین کو اُلٹ کر دکھادو.ٹکڑے ٹکڑے کردو.اس طرح کے سوالات تو کفار آنحضرتؐپر کیا کرتے تھے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۷ مورخہ ۶ ؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵۳ )
گامگر اب دیکھو کہ اس کی ہڈیوں کا بھی کہیں نشان پایا جاتا ہے.مگر میں خدا کے فضل سے اسی طرح زندہ ہوں.یہ امور ہیں اگر حق پسند تأنی اور توقف سے ان میں غور کرے تو فائدہ اٹھا سکتا ہے مگر نرے بحث کرنے والے جلدباز کو کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.۱ منجملہ میرے نشانوں کے طاعون کا بھی ایک نشان ہے اس وقت میں نے خبر دی تھی جب کہ ابھی کوئی نام و نشان بھی اس کا پایا نہ جاتا تھا اور یہ بھی الہام ہوا تھا کہ یَا مَسِیْحَ الْـخَلْقِ عَدْوَانَا اب دیکھ لو کہ یہ وبا خطرناک طور پر پھیلی ہوئی ہے اور گائوں کے گائوں اس طرف رجوع کر رہے ہیں اور توبہ کرتے جاتے ہیں کیا یہ باتیں انسانی طاقت کے اندر ہیں؟ یہی امور ہیں جو خارق عادت کہلاتے ہیں.تجدید دین کی ضرورت نووارد.کیا یہ ضروری ہے کہ ہر صدی پر مجدّد ہونا چاہیے.۲ حضرت اقدس.ہاں یہ تو ضروری ہے کہ ہر صدی کے سر پر مجدّد آئے.بعض لوگ اس بات کو سن کر پھر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب کہ ہر صدی پر مجدّد آتا ہے تو پھر تیرہ صدیوں کے مجدّدوں کے نام بتائو.میں اس کا پہلا جواب یہ دیتا ہوں کہ ان مجدّدوں کے نام بتانامیرا کام نہیں یہ سوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کرو جنہوں نے فرمایا ہے کہ ہر صدی پر مجدّد ۱ البدر سے.’’ یہ اُمور جو ایک صالح اور شریف کے واسطے قابلِ غور ہیں بشرطیکہ وہ اپنے نفس کا علاج کرانے والا ہو.اس کو یہ موقع نہیں ہے کہ بحث کرے.اسے خیال کرنا چاہیے کہ خدا کا ایک قہری نشان موت(طاعون) سر پر ہے کسی کو کیا علم کہ اس نے کہاں تک سَیر کرنا ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۷ مورخہ ۶؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵۳ ) ۲ البدر میں نووارد کے اس سوال سے پہلے ایک اَور سوال اور اس کا جواب منجانب سیّد نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام یوں درج ہے.محمد یوسف صاحب.یہ امور تو سب ٹھیک ہیں اور آپ کوئی اَمر خلافِ واقعہ قرآن نہیں کہتے ہیں لیکن میں صرف اپنی عقل کے موافق رفع شکوک چاہتا ہوں اور جہالت سے متنفر ہوں.حضرت اقدس.دیکھئے ایک طریق وکلاء کا ہوتا ہے کہ اُن کو حق ناحق سے غرض نہیں ہوتی جس فریق کا مقدمہ لے لیا ہے اب اسی کی بات کرتے ہیں اور ایک خیال انسان کے اندر ہوتا ہے جس سے وہ خوشبو اور بدبو کا پتا لے لیتا ہے.وہ ایک قسم کا نُور ہوتا ہے جس سے انسان معصیت سے بچا رہتا ہے.اب ان عیسائی آریہ وغیرہ پر دیکھا گیا ہے کہ سب اپنے مذہب کی پچ کرتے ہیں ورنہ اُن کے پاس کوئی دلائل حقانیت کے نہیں ہیں.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۷ مورخہ ۶؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵۳ )
آتا ہے اس حدیث کو تمام اکابرنے تسلیم کر لیا ہے.شاہ ولی اللہ صاحب بھی اس کو مانتے ہیں کہ یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے اور حدیث کی کتابیں جوموجود ہیں ان میں یہ حدیث پائی جاتی ہے کسی نے کبھی اس کوپھینک نہ دیا اور نہ کہا کہ یہ حدیث نکال دینی چاہیے جب کہ یہ بات ہے تو پھر مجھ سے فہرست کیوں مانگی جاتی ہے.میرا یہ مذہب ہے کہ عدم علم سے عدم شَے لازم نہیں آتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو منسوب ہو اگر وہ قرآن شریف کے بر خلاف نہ ہو تو میں اس کو مانتا ہوں.خود ہی ان لوگوں سے پو چھو کہ کیا یہ حدیث جھوٹی ہے؟ تو اسے پہلے نکالو اور اگر شکی ہے تو پھر تقویٰ کا تقاضا تو یہ ہے کہ کم از کم اس حدیث کی رو سے مجھے بھی شکی ہی مان لو عجیب بات ہے حدیث کو شکی کہو اور مجھے کذّاب! یہ تو تقویٰ کا طریق نہیں.اگر بفرض محال جھوٹی ہے تو پھر جان بوجھ کر جھوٹ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا لعنتی کا کام ہے.سب سے پہلا کام تو علماء کا یہ ہونا چاہیے کہ اس کو نکال ڈالیں مگر میں یقین دلا تا ہوں کہ یہ حدیث جھوٹی نہیں، صحیح ہے.یہ عام طور پر مشہور ہے کہ ہر صدی پر مجدّد آتا ہے.نواب صدیق حسن خان وغیرہ نے ۱۳ مجدّد گن کر بھی د کھائے ہیں مگر میں اس کی ضرورت نہیں سمجھتا.اس حدیث کی صحت کا یہ معیار نہیں بلکہ قرآن اس کی صحت کا گواہ ہے.یہ حدیث اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الـحجر:۱۰) کی شرح ہے صدی ایک عام آدمی کی عمر ہوتی ہے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ سو سال بعد کوئی نہ رہے گا جیسے صدی جسم کو مارتی ہے اسی طرح ایک روحانی موت بھی واقع ہوتی ہے اس لیے صدی کے بعد ایک نئی ذُرّیت پیدا ہو جاتی ہے.جیسے اناج کے کھیت اب دیکھتے ہیں ہرے بھرے ہیں ایک وقت میں بالکل خشک ہوں گے پھر نئے سرے سے پیدا ہو جا ئیں گے.اس طرح پر ایک سلسلہ جاری رہتا ہے.پہلے اکابرسو سال کے اندر فوت ہو جاتے ہیں اس لیے خدا تعالیٰ ہر صدی پر نیا انتظام کر دیتا ہے جیسا رزق کا سامان کرتا ہے پس قرآن کی حمایت کے ساتھ یہ حدیث تواتر کا حکم رکھتی ہے.کپڑا پہنتے ہیں تو اس کی بھی تجدید کی ضرورت پیدا ہوتی ہے.اسی طریق پر نئی ذُرّیت کو تازہ
کرنے کے لئے سنّت اللہ اسی طرح جاری ہے کہ ہر صدی پر مجدّد آتا ہے.غرض مجھ سے ایک حدیث کے موافق گذشتہ مجدّدوں کا مؤاخذہ نہیں ہوسکتا.میں اپنی صدی کا ذمہ وار ہوں.ہاں چونکہ میں اس حدیث کو صحیح سمجھتا ہوں اور قرآن شریف کی حمایت سے صحیح مانتا ہوں پس اگر یہ لوگ اس حدیث کو جھوٹا کہہ دیں اور حدیث کی کتابوں سے نکال دیں پھر میں خدا سے دعا کروں گا اور یقیناً وہ میری دعا کو سنے گا اور میں کشف سے نام بھی بتا دوں گا.لیکن اگر یہ حدیث خود ان کے مسلّمات کے موافق ہی جھوٹی نہیں اور نہیں ہے تو پھر خد اسے ڈرو اور لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ( بنیٓ اسـرآءیل:۳۷ ) پر عمل کرو اور بیہودہ حیلے اور حجتیں نہ تراشو.یہ حدیث جن کتابوں میں درج ہے اور باوجود جھوٹی ہونے کے اس کو رکھا گیا ہے تو پھر کیوں نہیں بابا نانک کے شبد ان میں داخل کر لیتے اور موضوعات کے مجموعہ میں لکھ لیتے.پس کسی صورت میں یہ مؤاخذہ مجھ سے نہیں ہوسکتا.ہزاروں اولیاء گذر چکے ہیں تو کیا مجھے لازم ہے کہ میں ان کی بھی فہرست دوں.یہ خدا تعالیٰ کا ہی علم ہے.ہاں خد ا نے مجھ پر ظاہر کر دیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور قرآن شریف اس کی تصدیق کرتا ہے.عجیب بات یہ ہے کہ مسیح موعود بقو ل نواب صدیق حسن خان صاحب کے صدی کے سر پر ہوگا اور یہ بھی وہ کہتاہے کہ چودھویں صدی سے آگے نہ ہوگا مگر اب تو اس صدی سے بیس سال گذر گئے.پانچواں حصہ صدی کاگذر چکا اگر اب تک بھی نہیں آیا تو پھر سو سال تک ا نتظا ر کرتے ر ہیں.اس صدی میں اسلام اہل صلیب سے کچلا جاوے گا.جب پچاس سال میں یہ حال ہو گیا ہے کہ تیس لاکھ آدمی مرتد ہو چکے ہیں اور جیسی جیسی شوکت بڑھتی ہے ان کی شوخی بڑھتی گئی ہے.یہاں تک کہ امہات المؤمنین جیسی گند ی کتاب شائع کی گئی.انجمن حمایت الاسلام لا ہو ر نے اس کے خلاف گورنمنٹ کے پاس میموریل بھیجا.اس کے میموریل سے پہلے مجھے الہام ہو چکا تھا کہ یہ میمو ر یل بھیجنا بے فائدہ ہے چنانچہ میرے دوستوں کو جو یہاں رہتے ہیں اور ان کو بھی جو دوسرے شہروںمیں ہیں معلوم تھا کہ یہ میں نے الہام قبل از وقت ان کو بتادیا تھا آخر وہی ہوا اور گورنمنٹ نے اس پر کوئی کارروائی انجمن کے حسبِ منشا نہ کی.مہدی اور جہاد بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسا مہدی آنا چاہیے جو جہاد کا فتویٰ دے اور انگریزوں اور دوسری غیر قوموں سے لڑائی کرے.میں کہتا ہوں یہ
بھی غلط ہے اور حدیث سے بھی پایا جاتا ہے کہ آنے والا موعود یَضَعُ الْـحَرْبَ کرکے دیکھائے گا یعنی لڑائیوں کو موقوف کرے گا.دیکھو! ہر چیز کے عنوان پہلے ہی سے نظر آجاتے ہیں.جیسے پھل سے پہلے شگوفہ نکل آتا ہے اگر اللہ تعالیٰ کا یہی منشا ہوتا کہ مہدی آکر جہاد کرتا اور تلوار کے زور سے اسلام کی حمایت کرتا تو چاہیے تھا کہ مسلمان فنون حربیہ اور سپہ گری میں تمام قوموں سے ممتاز ہوتے اور فوجی طاقت بڑھی ہوئی ہوتی مگر اس وقت یہ طاقت تو اسی قوم کی بڑھی ہوئی ہے اور فنونِ حرب کے متعلق جس قدر ایجادات ہو رہی ہیں وہ یورپ میں ہو رہی ہیں نہ کسی اسلامی سلطنت میں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ منشا ہرگز نہیں ہے اور یَضَعُ الْـحَرْبَ کی پیشگوئی کو پوری کرنے کے واسطے یہی ہونا بھی چاہیے تھا دیکھو! مہدی سوڈانی وغیرہ نے جب مخالفت میں ہتھیار اٹھائے تو خدا تعالیٰ نے کیسا ذلیل کیا یہاںتک کہ اس کی قبر بھی کھدوائی گئی اور ذلّت ہوئی اس لیے کہ خدا کے منشا کے خلاف تھا.مہدی موعود کا یہ کام ہی نہیں ہے بلکہ وہ تواسلام کو اس کی اخلاقی اور علمی وعملی اعجازات سے دلوں میں داخل کرے گا اور اس اعتراض کو دور کرے گا جو کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلایا گیا وہ ثابت کر دکھائے گا کہ اسلام ہمیشہ اپنی عملی سچائیوں اور برکات کے ذریعہ پھیلاہے.ان تمام باتوںسے انسان سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا منشا تلوار سے کام لینا ہوتا تو فنونِ حرب اسلام والوں کے ہاتھ میں ہوتے اسلامی سلطنتوں کی جنگی طاقتیں سب سے بڑھ کر ہوتیں اگرچہ حقیقی خبر تو خدا تعالیٰ سے وحی پانے والوں کو ملتی ہے مگر مومن کو بھی ایک فراست ملتی ہے اور وہ علامات و آثار سے سمجھ لیتا ہے کہ کیا ہونا چاہیے جب عیسائی قوموں کے مقابل آتے ہیں تو زک اُٹھاتے ہیں اور ذلّت کا منہ دیکھتے ہیں کیا اس سے پتا نہیں لگتا کہ خدا کا منشا تلوار اٹھانے کا نہیں ہے یہ اعتراض صحیح نہیں غلط ہے.مسیح موعود کا یہی کام ہے کہ وہ لڑائیوں کو بند کر دے کیونکہ یَضَعُ الْـحَرْبَ اس کی شان میں آیا ہے کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو باطل کر دے گا؟ معاذاللہ.قرآن شریف سے بھی ایسا ہی پایا جاتا ہے کہ اس وقت لڑائی نہیں ہونی چاہیے.کیا یہ ہوسکتا ہے کہ جب دل اعتراضوں سے بھرے
ہوئے ہوں تو ان کو قتل کردیا جاوے یا تلوار دکھا کر مسلمان کیا جاوے وہ اسلام ہوگا یا کفر جو ان کے دل میں اس وقت پیدا ہوگا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگیں محض دفاعی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مذہب کے لیے تلوار نہیں اُٹھائی بلکہ اتمامِ حجت کے بعد جس طرح پر خدا نے چاہا منکروں کو عذاب دیا.وہ جنگیں دفاعی تھیں.تیرہ برس تک آ پ ستائے جاتے رہے اور صحابہ ؓنے جانیں دیں.انہوں۱ نے نشان پر نشان دیکھے اور انکار کرتے رہے آ خرخدا تعالیٰ نے ان کو جنگوں کی صورت میں عذاب سے ہلاک کیا.اس زمانہ میں طاعون ہے.جوں جوں تعصب بڑھے گا طاعون بڑھے گا.قرآن شریف میں اس کی بابت خبردی گئی ہےوَ اِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا.(بنیٓ اسـرآءیل:۵۹) پس اگر میں خدا کی طرف سے ہوں اور وہ بہتر جانتا ہے کہ میں اسی کی طرف سے ہوں تو اس کے وعدے پورے ہو کر رہیں گے جو بشارت کی پیشگوئیوں کو نہیں مانتے تو اس طاعون کی پیشگوئی کو دیکھ لیں.سعادت سے انہیں کو حصہ ملتا ہے جو دور سے بَلا کو دیکھتا ہے.خدا تعالیٰ پر تَقَوُّل کرنے والا ہلاک ہو جاتا ہے صادق کے لیے خدا تعالیٰ نے ایک اور نشان بھی قرار دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا اگر تو مجھ پر تَقَوُّل کرے تو میں تیر ا داہنا ہاتھ پکڑ لوں.اللہ تعالیٰ پر تَقَوُّل کرنے والامفتری فلاح نہیں پا سکتا بلکہ ہلاک ہو جاتا ہے اور اب پچیس سال کے قریب عرصہ گذرا ہے کہ خدا تعالیٰ کی وحی کو میں شائع کر رہا ہوں.اگر افترا تھاتو اس تَقَوُّل کی پاداش میں ضروری نہ تھا کہ خدا اپنے وعدہ کو پورا کرتا بجائے اس کے کہ وہ مجھے پکڑتا اس نے صدہا نشان میری تائید میں ظاہر کیے اور نصرت پر نصرت مجھے دی.کیا مفتریوں کے ساتھ یہی سلوک ہوا کرتا ہے؟ اور دجالوں کو ایسی ہی نصرت ملا کرتی ہے؟ کچھ تو سوچو.ایسی نظیر کوئی پیش کرو اور میں ۱یعنی منکروں
دعویٰ سے کہتا ہوں ہرگز نہ ملے گی.ہاں یہ میں جانتا ہوں کہ طبیب تو مریض کو کلورو فارم سُنگھا کر بھی دوائی اندر پہنچا سکتا ہے.روحانی طبابت میں یہ نہیں ہے بلکہ باتوں کو مؤثر بنانا اور دل میں ڈالنا خدا تعالیٰ کا کام ہے وہ جب چاہتا ہے تو شوخی کو دور کرکے خود اندر ایک واعظ پیدا کر دیتا ہے.نو وارد.میں اہل اسلام کی زیادتی پر تعجب کرتا ہوں.آپ کے کلمات میں میں کوئی وجہ کفر کی نہیں دیکھتا.حضر ت اقدس.آ پ کتابیں بھی دیکھ لیں تا کوئی شک آپ کو باقی نہ رہے کہ کون سے ایسے کلمات ہیں جو قال اللہ اور قال الرسول کے خلاف ہیں.میں ان کے کفر کی پروا نہیں کرتا.ضرور تھا کہ ایسا ہی ہوتا کیونکہ ان کے ہی آثار میں لکھا ہوا تھا کہ مسیح موعود جب آئے گا تو اس پر کفر کے فتوے دیئے جاویں گے یہ پیشگوئیاں کیسے پوری ہوتیں؟ یہ تو اپنے ہاتھ سے پوری کر رہے ہیں.مجدّد صاحب اور نواب صدیق حسن صاحب کہتے ہیں کہ جب وہ آئے گا تو علماء مخالفت کریں گے اور محی الدین ابن عربی نے لکھا ہے کہ جب وہ آئے گا تو ایک شخص اٹھ کر کہے گا اِنَّ ھٰذَا الرَّجُلَ غَیَّرَ دِیْنَنَا.اب جب کہ پہلے سے یہ باتیں ہیں تو ہم خوش ہوتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے ہاتھ سے پورا کر رہے ہیں.اب جب کہ یہ باتیں پہلے سے یہ ہیں کہ یہ بھی صداقت کا نشان ہے اس لیے ہم ان باتوں کی کچھ پروا نہیں کرتے.یہ جو کہتے ہیں کہ آسمان سے مسیح آئے گا وہ ا تنا نہیں دیکھتے کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ مسیح علیہ السلام وفات پا گئے.۱ آخر میں فرمایا کہ اگر وہ صحابہؓ کا سا مذاق اورمحبت ہوتی جو صحابہؓ کے دل میں تھی تو یہ عقیدہ نہ رکھتے کہ وہ زندہ ہیں.حضرت عیسیٰ کو خالق بھی نہ مانتے اور غیب دان بھی.خدا تعالیٰ ان فسا دوں کو روا نہیں رکھتا اور اس نے چاہا ہے کہ اصلا ح کرے.ہمارا کام اللہ کے لیے ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کا یہ کاروبار ہے ۱ یہاں حضرت اقدس نے آیت شریفہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ اور حدیث معراج سے استدلال کرکے ایک جامع تقریر فرمائی جو ہم بارہا شائع کر چکے ہیں.اور اپنے وجود پر سورۂ نُور سے استدلال فرمایا اور ایسا ہی مسیح کی قبر کشمیر کے متعلق بیان فرماتے رہے اور وفاتِ مسیح پر صحابہؓ کے اجماع کا ذکر فرمایا.(ایڈیٹر).
اور اسی کا ہے تو کسی انسان کی طاقت میں نہیں کہ اس کو تباہ کرسکے اور کوئی ہتھیار اس پر چل نہیں سکتا لیکن اگر انسان کا ہے تو پھر خود ہی تباہ ہوسکتا ہے انسان کو زور لگانے کی بھی کیا حاجت ہے.(دربارِ شا م ) نووارد صاحب کی وجہ سے تحریک تو ہو رہی تھی اس لیے بعد ادائے نماز مغرب حضرت حجۃ اللہ نے ایک مختصر سی جامع تقریر فرمائی.جس کا ہم فقط خلاصہ دیتے ہیں.حقیقت اسلام فرمایا.لوگ حقیقت اسلام سے بالکل دو ر جا پڑے ہیں.اسلام میں حقیقی زندگی ایک موت چاہتی ہے جو تلخ ہے لیکن جو اس کو قبول کرتا ہے آخر و ہی زندہ ہوتا ہے.حدیث میں آیا ہے کہ انسان دنیا کی خو اہشوں اور لذتوں کو ہی جنّت سمجھتا ہے حالانکہ وہ دوزخ ہے اور سعید آدمی خدا کی راہ میں تکالیف کو قبول کرتا ہے اور وہی جنّت ہوتی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا فانی ہے اور سب مَرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں آخر ایک وقت آ جاتا ہے کہ سب دوست آشنا عزیز واقارب جدا ہو جاتے ہیں.اس وقت جس قدر ناجائز خوشیوں اور لذتوں کو راحت سمجھتا تھا وہ تلخیوں کی صورت میں نمودار ہو جاتی ہیں.سچی خوشحالی اور راحت تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی اور تقویٰ پر قائم ہونا گویا زہر کا پیا لہ پینا ہے متّقی کے لیے خدا تعالیٰ ساری راحتوں کے سامان مہیا کر دیتا ہے مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ(الطلاق:۳،۴) پس خوشحالی کا اصول تقویٰ ہے لیکن حصولِ تقویٰ کے لیے نہیں چاہیے کہ ہم شرطیں باندھتے پھریں.تقویٰ اختیار کرنے سے جو مانگو گے وہ ملے گا.خدا ر حیم وکریم ہے.تقویٰ اختیار کرو جو چاہو گے وہ دے گا.جس قدر اولیاء اللہ اور اقطاب گذرے ہیں انہوں نے جو کچھ حاصل کیا تقویٰ ہی سے حاصل کیا.اگر وہ تقویٰ اختیار نہ کرتے تو وہ بھی دنیا میں معمولی انسانوں کی حیثیت سے زندگی بسر کرتے.دس بیس کی نوکری کر لیتے یا کوئی اور حرفہ یا پیشہ اختیار کر لیتے اس سے زیادہ کچھ نہ ہوتا.مگر اب جو عروج ان کو ملا اور جس قدر شہرت اور عزّت انہوں نے پائی یہ سب تقویٰ ہی کی بدولت تھی.
انہوں نے ایک موت اختیار کی اور اس زندگی کے بدلہ میں پائی.عبادت اللہ تعالیٰ کی محبتِ ذاتی سے رنگین ہو کر کرو میں دوزخ اور بہشت پر ایمان لاتا ہوں کہ وہ حق ہیں اور ان کے عذاب اور اکرام اور لذائذ سب حق ہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ انسان خدا کی عبادت دوزخ یا بہشت کے سہارے سے نہ کرے بلکہ محبت ذاتی کے طور پر کرے.دوزخ بہشت کا انکار مَیںکفر سمجھتا ہوں اور اس سے یہ نتیجہ نکالنا حماقت ہے بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ عبادت اللہ تعالیٰ کی محبتِ ذاتی سے رنگین ہو کر کرے جیسے ماں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے کیا اس امید پر کہ وہ اسے کھلائے گا.نہیں بلکہ وہ جانتی ہی نہیں کہ کیوں اس کی پرورش کر رہی ہے یہاں تک کہ اگر بادشاہ اس کو حکم دے دے کہ تو اگر اس بچہ کی پرورش نہ کرے گی اور اس سے یہ بچہ مَر بھی جاوے تو تجھ کو کوئی سزا نہ دی جاوے گی بلکہ انعام ملے گا تو کیا وہ اس حکم سے خوش ہوگی یا بادشاہ کو گالیاں دے گی.یہ محبت ذاتی ہے اسی طرح خدا کی عبادت کرنی چاہیے نہ کہ کسی جزا و سزا کے سہارے پر.محبت ذاتی میں اغراض فوت ہوجاتے ہیں اور خدا تو وہ خدا ہے جو ایسا رحیم و کریم ہے کہ جو اس کا انکار کرتے ہیں ان کو بھی رزق دیتا ہے.کیا سچ کہا ہے.؎ دوستاں را کجا کنی محروم تو کہ بادشمناں نظر داری جب وہ دشمنوں کو محروم نہیں کرتا تو دوستوں کو کب ضائع کر سکتا ہے.حضرت داؤد علیہ السلام کا قول ہے کہ میں جوان تھا اب بوڑھا ہوگیا ہوں مگر میں نے متّقی کو کبھی ذلیل و خوار نہیں دیکھا اور نہ اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے دیکھا.یہ اخلاص کا نتیجہ ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ اسی دنیا میں ظاہر کرتا ہے اور اخلاص ایک کیمیا ہے اور اگر اس میں اور باتیں نکالیں تو اس پاکیزہ اور مصفّٰی چشمہ کو گندے چھینٹوں سے ناپاک کر دیتے ہیں.وہ خود ہماری حاجتوں سے آگاہ اور واقف ہے اور خوب جانتا ہے.کہتے ہیں ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میںجلا دینے کی کوشش کی گئی اس وقت ان کے پاس فرشتے آئے اور کہا کہ تمہیں کوئی حاجت ہے؟ تو ابراہیم علیہ السلام نے ان کو یہی جواب دیا کہ بَلٰى وَ لٰكِنْ اِلَیْکُمْ فَلَا
یعنی ہاںحاجت تو ہے لیکن تمہاری طرف نہیں.ایسے مقام پر دعا بھی منع ہوتی ہے اور انبیاء علیہم السلام اس مقام کو خوب سمجھتے ہیں.ع گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی غرض اصل غرض انسان کی محبتِ ذاتی ہونی چاہیے.اس سے جو کچھ اطاعت اور عبادت ہوگی وہ اعلیٰ درجہ کے نتائج اپنے ساتھ رکھے گی.ایسے لوگ خدا کے مبارک بندے ہوتے ہیں وہ جس گھر میں ہوں وہ گھر مبارک اور جس شہر میں ہوں وہ شہر مبارک.اس کی برکت سے بہت سی بلائیں دور ہوجاتی ہیں اس کی ہر حرکت و سکون اس کے در و دیوار پر خدا کی برکت اور رحمت نازل ہوتی ہے.میں اسی راہ کو سکھانا چاہتا ہوں.اسی غرض کے لیے خدا نے مجھے مامور کیا ہے.یقیناً یاد رکھو کہ پوست کام نہیں آتا بلکہ مغز کی ضرورت ہے.لکھا ہے کہ ایک یہودی سے کسی مسلمان نے کہا کہ تو مسلمان ہوجا.کہا کہ میں تیرے قول کو تیرے فعل سے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.میںنے اپنے بیٹے کا نام خالد رکھا تھا حالانکہ شام تک میں اس کو قبر میں بھی دفن کر آیا.نام کچھ حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتا جب تک کام نہ ہو.اسی طرح پر خدا تعالیٰ مغز اور حقیقت کو چاہتا ہے.رسم اور نام کو پسند نہیں کرتا.جب انسان سچے دل سے سچے اسلام کی تلاش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس کو اپنی راہیں دکھا دیتا ہے جیسے فرمایا وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت:۷۰) خدا تعالیٰ بخیل نہیں.اگر انسان مجاہدہ کرے گا تو وہ یقیناً اپنی راہ کو ظاہر کر دے گا.ہماری مخالفت میں افترا کرتے اور گالیاں دیتے ہیں.اگر تقویٰ سے کام لیتے.اگر زمانہ کی اندرونی بیرونی ضرورتیں ان کی رہنمائی نہ کر سکتی تھیں تو خدا تعالیٰ کی جناب میں تضرّع اور ابتہال سے کام لیتے اور رو رو کر دعائیں مانگتے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی کر دیتا اور حق کھول دیتا.مومنِ حقیقی، مسیح کے وقت وہی ہوگا جو اس کا تابع ہوگا.اگر میں صادق ہوں اور ضرور ہوں تو پھر آپ سمجھ لیں کہ میرے مکذّب کا کیا حال ہے.نو وارد.آپ میرے لیے دعا کریں.حضرت اقدس.دعا تو میں ہندو کے لیے بھی کرتا ہوں مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ اَمر مکروہ ہے کہ
اس کا امتحان کیا جاوے میں دعا کروں گا.آپ وقتاً فوقتاً یاد دلاتے رہیں اگر کچھ ظاہر ہوا تو اس سے بھی اطلاع دوں گا مگر یہ میرا کام نہیں.خدا تعالیٰ چاہے تو ظاہر کرے.وہ کسی کے منشا کے ماتحت نہیں ہے بلکہ وہ خدا ہے اور غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ ہے.ایمان کو کسی اَمر سے وابستہ کرنا منع ہے.مشروط بشرائط ایمان کمزور ہوتا ہے.نیکی میں ترقی کرنا کسی کے اختیار میں نہیں ہے.ہمدردی کرنا ہمارا فرض ہے.اس کے لیے شرائط کی ضرورت نہیں.ہاںیہ ضروری ہوگا کہ آپ ہنسی ٹھٹھے کی مجلسوں سے دور رہیں.یہ وقت رونے کا ہے نہ ہنسی کا.اب آپ جائیں گے موت حیات کا پتا نہیں.دو تین ہفتہ تک تو سچے تقویٰ سے دعائیں مانگو کہ الٰہی مجھے معلوم نہیں تو ہی حقیقت کو جانتا ہے مجھے اطلاع دے.اگر صادق ہے تو اس کے انکار سے ہلاک نہ ہو جاؤں اور اگر کاذب ہے تو اس کی اتباع سے بچا.اللہ تعالیٰ چاہے تو اصل اَمر کو ظاہر کر دے گا.نووارد.میں سچ عرض کرتا ہوں کہ میں بہت بُرا ارادہ کر کے آیا تھا کہ میں آپ سے استہزا کروں اور گستاخی کروں مگر خدا نے میرے ارادوں کو رد کردیا.میں اب اس نتیجہ پر پہنچاہوں کہ جو فتویٰ آپ کے خلاف دیا گیا ہے وہ بالکل غلط ہے اور میں زور دے کر نہیں کہہ سکتا کہ آپ مسیح موعود نہیں ہیں بلکہ مسیح موعود ہونے کا پہلو زیادہ زور آور ہے اور میں کسی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ آپ مسیح موعود ہیں.جہاں تک میری عقل اور سمجھ تھی میں نے آپ سے فیض حاصل کیا ہے اور جو کچھ میں نے سمجھا ہے میں ان لوگوں پر ظاہر کروں گا جنہوں نے مجھے منتخب کر کے بھیجا ہے.کل میری اَور رائے تھی اور آج اور ہے.آپ جانتے ہیں کہ اگر ایک پہلوان بغیر لڑنے کے زیر ہوجائے تو وہ نامَرد کہلائے گا.اس لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ بدوں اعتراض کیے تسلیم کر لیتا.چونکہ میں معتمد ان لوگوں کا ہوں جنہوں نے مجھے بھیجا ہے اس لیے میں نے ہر ایک بات کو بغیر دریافت کیے ماننا نہیں چاہا.دعا کے لیے میںنے جو لکھا تھا دنیا کی خواہش سے نہیں لکھا تھا.میں اس دادا کا پوتاہوں جس کے ہندوستان میں اڑھائی سو مرید ہیں.مگر میں آزاد طبیعت کا آدمی ہوں اور اس میں انصاف ہے.
نیکی ضائع نہیں ہوتی حضرت اقدس.اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ادنیٰ سی نیکی بھی ہو تو اس کا ثمرہ دیتا ہے.میں نے ایک کتاب میں نقل دیکھی ہے کہ ایک شخص نے اپنے ہمسایہ آتش پرست کو دیکھا کہ چند روز کی برسات کے بعد وہ اپنے کوٹھے پر جانوروں کو دانے ڈال رہا تھا.میں نے اس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے؟ اس نے کہا کہ جانوروں کو دانے ڈال رہا ہوں.میں نے کہا کہ تیرا عمل بے کار ہے.اس گبر نے اس کو کہا کہ اس کا ثمرہ مجھے ملے گا.پھر وہی بزرگ کہتے ہیں کہ جب دوسرے سال مَیں حج کرنے کو گیا تو دیکھا وہی گبر طواف کر رہا ہے اس نے مجھے پہچان کر کہا کہ ان دانوں کا ثواب مجھے ملا یا نہیں؟ ایسا ہی ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک صحابیؓ نے پوچھا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں سخاوت کی تھی یا رسول اللہ مجھے اس کا ثواب ملے گا یا نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی سخاوت نے تو تجھے مسلمان کیا.ہزاروں آدمی بغیر دیکھے گالیاں دینے کو تیار ہوجاتے ہیں لیکن جب دیکھتے ہیں اور آتے ہیں تو وہ ایمان لاتے ہیں.میرا یہ مذہب نہیں کہ انسان صدق اور اخلاص سے کام لے اور وہ ضائع ہوجاوے.پھر حضرت حجۃ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کا قصہ بیان کیا جو کئی بار ہم نے الحکم میں درج کیا ہے اور اس بات پر آپ نے تقریر کو ختم کیا.؎ مَردانِ خدا خدا نہ باشند لیکن از خدا جُدا نہ باشند ۱ ۱۵ ؍فروری ۱۹۰۳ء ایک نووارد اور حضرت اقدس علیہ السّلام (بوقتِ سیر) اعلیٰ حضرت حجۃ اللہ علی الارض مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو یہ مقصود تھا کہ جس طرح ممکن ہو ۱ الحکم جلد ۷نمبر ۷ مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۵ تا ۹
اس شخص کو پُورے طور پر تبلیغ ہو جاوے اس لیے اس کی ہر بات اور ہر ایک اعتراض کو نہایت توجہ سے سن کر اس کا مبسوط جواب فرماتے آج جب آپ سَیر کو تشریف لے چلے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قصہ سے سلسلہ تقریر شروع ہوا رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتٰى (البقرۃ:۲۶۱) رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتٰى کی لطیف تفسیر فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قصہ پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت آپ سے بھی بڑھی ہوئی تھی یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کو ثابت کرتی ہے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ ارشاد ہوا اَوَلَمْ تُـؤْمِنْ کیا تو اس پر ایمان نہیں لاتا؟ اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کا جواب یہی دیا کہ بَلٰی ہاں میں ایمان لاتا ہوں مگر اطمینانِ قلب چاہتا ہوں لیکن آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا سوال نہ کیا اور نہ ایسا جواب دینے کی ضرورت پڑی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ پہلے ہی سے ایمان کے انتہائی مرتبہ اطمینان اور عرفان پر پہنچے ہوئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اَدَّبَنِیْ رَبِّیْ فَاَحْسَنَ اَدَبِیْ تو یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کو ثابت کرتی ہے.ہاں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھی ایک خوبی اس سے پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ سوال کیا اَوَلَمْ تُـؤْمِنْ تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں اس پر ایمان نہیںرکھتا بلکہ یہ کہا کہ ایمان تورکھتا ہوں مگر اطمینان چاہتا ہوں.پس جب ایک شخص ایک شرطی اقتراح پیش کرے اور پھر یہ کہے کہ میں اطمینانِ قلب چاہتا ہوں تو وہ اس سے استدلال نہیں کرسکتا کیونکہ شرطی اقتراح پیش کرنے والا تو ادنیٰ درجہ بھی ایمان کا نہیں رکھتا بلکہ وہ تو ایمان اور تکذیب۱ کے مقام پر ہے اور تسلیم کرنے کو مشروط بہ اقتراح کرتا ہے.پھر وہ کیوں کر کہہ سکتا ہے کہ میں ابراہیم ؑ کی طرح اطمینانِ قلب چاہتا ہوں.ابراہیم ؑ نے تو ترقی ایمان ۱ سہو کتابت معلوم ہوتا ہے.فقرہ یوں ہونا چاہیے ’’بلکہ وہ تو ایمان اور تکذیب کے درمیانی مقام پر ہے.‘‘لفظ ’’درمیانی ‘‘ چھوٹا ہو امعلوم ہوتا ہے.(مرتّب)
چاہی ہے انکار نہیں کیا اور پھر اقتراح بھی نہیں کیا بلکہ احیائے موتیٰ کی کیفیت پوچھی ہے اور اس کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیا ہے.یہ نہیں کہا کہ اس مُردہ کو زندہ کرکے دکھا یا یُوں کر اور پھر اس کا جواب جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہ بھی عجیب اور لطیف ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو چار جانور لے ان کو اپنے ساتھ ہلالے یہ غلطی ہے جو کہا جاتا ہے کہ ذبح کر لے کیونکہ اس میں ذبح کرنے کا لفظ نہیں بلکہ اپنے ساتھ ہلالے جیسے لوگ بٹیر یا تیتر یا بلبل کو پالتے ہیں اور اپنے ساتھ ہلالیتے ہیں پھر وہ اپنے مالک کی آواز سنتے ہیں اور اُ س کے بلانے پر آجاتے ہیں.اسی طرح پر حضرت ابراہیمؑ کو احیاء اماتت سے انکار نہ تھا بلکہ وہ یہ چاہتے تھے کہ مُردے خدا کی آواز کس طرح سنتے ہیں اس سے انہوں نے سمجھ لیا کہ ہر چیز طبعاً اور فطرتاً اللہ تعالیٰ کی مطیع اور تابع فرمان ہے.سب انبیاء کے وصفی نام آنحضرتؐکو دیئے گئے نووارد.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن شریف میںایسا فرمایا ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل فرمایا.حضرت اقدس.میں قرآن شریف سے یہ استنباط کرتا ہوں کہ سب انبیاء کے وصفی نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے کیونکہ آپؐتمام انبیاء کے کمالاتِ متفرقہ اور فضائلِ مختلفہ کے جامع تھے اور اسی طرح جیسے تمام انبیاء کے کمالات آپ کو ملے قرآن شریف بھی جمیع کتب کی خوبیوں کا جامع ہے چنانچہ فرمایا فِیْھَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ (البیّنۃ:۴) اور مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ(الانعام:۳۹) ایسا ہی ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے کہ تمام نبیوں کا اقتدا کر.یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اَمر دو قسم کا ہوتا ہے.ایک اَمر تو تشریعی ہوتا ہے جیسے یہ کہا کہ نماز قائم کرو یا زکوٰۃ دو وغیرہ.اور بعض اَمر بطور خَلق ہوتے ہیں جیسے يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِيْمَ (الانبیاء:۷۰) یہ اَمر جو ہے کہ تو سب کی اقتدا کر یہ اَمر بھی خلقی اور کونی ہے یعنی تیری فطرت کو حکم دیا کہ وہ کمالات جوجمیع انبیاء علیہم السلام میں متفرق طور پر موجود تھے اس میں یکجائی طور پر موجود ہوں اور گویا اس کے ساتھ ہی وہ کمالات اور خوبیاں آپ کی ذات میں جمع ہوگئیں.
آیت خاتم النّبیّین کا حقیقی مفہوم چنانچہ ان خوبیوں اور کمالات کے جمع ہونے ہی کا نتیجہ تھاکہ آپ پر نبوت ختم ہوگئی اور یہ فرمایا کہ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ (الاحزاب:۴۱) ختم نبوت کے یہی معنے ہیں کہ نبوت کی ساری خوبیاں اور کمالات تجھ پر ختم ہوگئے اور آئندہ کے لیے کمالاتِ نبوت کا باب بند ہوگیا کہ کوئی نبی مستقل طور پر نہ آئے گا.نبی عربی اور عبرانی دونوں زبانوں میں مشترک لفظ ہے جس کے معنے ہیں خدا سے خبر پانے والا اور پیشگوئی کرنے والا.جولوگ براہ راست خدا سے مکالمہ کرتے اور اس سے خبریں پاتے تھے وہ نبی کہلاتے تھے اور یہ گویا اصطلاح ہوگئی تھی مگر اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو بند کر دیا ہے اور مُہر لگا دی ہے کہ کوئی نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مُہر کے بغیر نہیں ہوسکتا.جب تک آپ کی اُمّت میں داخل نہ ہو اور آپ کے فیضان سے مستفیض نہ ہو وہ خدا سے مکالمہ کا شرف نہیں پا سکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں داخل نہ ہو.اگر کوئی ایسا ہے کہ وہ بدوں اس اُمت میں داخل ہونے اور آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پانے کے بغیر کوئی شرفِ مکالمہ الٰہی حاصل کرسکتا ہے تو اسے میرے سامنے پیش کرو.آیت خاتم النبّیّین حضرت عیسیٰ ؑکے دوبارہ نہ آنے پر زبردست دلیل ہے یہی ایک آیت زبردست دلیل ہے اس اَمر پر جو ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ دوبارہ نہیں آویں گے بلکہ آنے والا اس اُمت میں سے ہوگا کیونکہ وہ نبی ہوں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شحص نبوت کا فیضان حاصل کرسکتا ہی نہیں جب تک وہ آنحضر تؐسے استفاضہ نہ کرے جو صاف لفظوں میں یہ ہے کہ آپ کی اُمت میں داخل نہ ہو.اب خاتم النبّیّین والی آیت تو صریح روکتی ہے پھر وہ کس طرح آسکتے ہیں.یا ان کو نبوت سے معزول کرو اور ان کی یہ ہتک اور بے عزّتی روا رکھو اور یایہ کہ پھر ماننا پڑے گا کہ آنے والا اسی اُمت میں سے ہوگا.نبی کی اصطلاح مستقل نبی پر
بولی جاتی تھی مگر اب خاتم النبّیّین کے بعد یہ مستقل نبوت رہی ہی نہیں.اسی لیے کہا ہے.؎ خارقے کز ولی مسموع است معجزہ آں نبی متبوع است پس اس بات کو خوب غور سے یاد رکھو کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کو نبوت کا شرف پہلے سے حاصل ہے تو کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ پھر آئیں اور اپنی نبوت کو کھو دیں.یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مستقل نبی کو روکتی ہے.البتہ یہ اَمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو بڑھانے والا ہے کہ ایک شخص آپ ہی کی اُمت سے آپ ہی کے فیض سے وہ درجہ حاصل کرتا ہے جو ایک وقت مستقل نبی کو حاصل ہوسکتا تھا.لیکن اگر وہ خود ہی آئیں تو پھر صاف ظاہر ہے کہ پھر اس خاتم الانبیاء والی آیت کی تکذیب لازم آتی ہے اور خاتم الانبیاء حضرت مسیح ٹھہریں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا بالکل غیر مستقل ٹھہر جاوے گا کیونکہ آپؐپہلے بھی آئے اور ایک عرصہ کے بعد آپ رخصت ہوگئے اور حضرت مسیح آپؐسے پہلے بھی رہے اور آخر پر بھی وہی رہے.غرض اس عقیدہ کے ماننے سے کہ خود ہی حضرت مسیح آنے والے ہیں بہت سے مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور ختم نبوت کا انکار کرنا پڑتا ہے جو کفر ہے.اس کے علاوہ قرآن شریف کی ایک اَور آیت بھی جو صاف طور پر مسیح کی آمدِ ثانی کو روکتی ہے اور وہ وہی آیت ہے جو کل بھی میں نے بیان کی تھی یعنی فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ (المائدۃ:۱۱۸) اگر حضرت مسیح قیامت سے پہلے دنیا میں آئے تھے اور چالیس برس تک رہ کر انہوں نے کفّار اور مشرکین کو تباہ کیا تھا جیساکہ اعتقاد رکھا جاتا ہے.پھر کیا خدا تعالیٰ کے سامنے ان کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ یا یہ کہنا چاہیے تھا کہ میں نے تو کافروں اور مشرکوں کو ہلاک کیا اور ان کو جا کر اس شرک سے نجات دی کہ تم مجھ کو اور میری ماں کو خدا نہ بنائو.اس آیت پر خوب غور کرو.یہ ان کی دوبارہ آمد کو قطعی طور پر ردّ کرتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ختمِ نبوت والی آیت بھی ان کو دوبارہ آنے نہیں دیتی.اب یا تو قرآن شریف کا انکار کرو یا اگر اس پر ایمان ہے تو پھر اس باطل خیال کو چھوڑنا پڑے گا اور اس سچائی کو قبول کرنا پڑے گا جو میں لے کر آیا ہوں.
یہ پکی بات ہے کہ آنے والا اسی اُمّت سے ہوگا اور حدیث عُلَمَاءُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَآءِ بَنِیْٓ اِسْـرَآءِیْلَ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص مثیلِ مسیح بھی تو ہو.اگرچہ محدّثین اس حدیث کی صحت پر کلام کرتے ہیں مگر اہلِ کشف نے اس کی تصدیق کی ہے اور قرآن شریف خود اس کی تائید کرتا ہے.محدّثین نے اہلِ کشف کی یہ بات مانی ہوئی ہے کہ وہ اپنے کشف سے بعض احادیث کی صحت کرلیتے ہیں جو محدّثین کے نزدیک صحیح نہ ہوں اور ایسا ہی بعض کو غیر صحیح قرار دے سکتے ہیں.یہ حدیث اہلِ کشف نے جن میں روحانیت اور تصفیہ قلب ہوتا ہے صحیح بیان کی ہے.اور جیسا میں نے کہا ہے کہ قرآن شریف بھی اس کا مصداق ہے کیونکہ اس حدیث سے بھی سلسلہ موسوی کی طرح ایک سلسلہ کے قائم ہونے کی تصدیق ہوتی ہے اور قرآن شریف بھی سلسلہ موسویہ کے بالمقابل ایک سلسلہ قائم کرتا ہے.اسی کی طرف علاوہ اور آیات قرآنی کے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ بھی اشارہ کرتا ہے یعنی جو پہلے نبیوں کو دیا گیا ہے ہم کو بھی عطا کر.حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سلسلہ چودہ سو برس تک رکھا گیا تھا.جب اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو نابود کرنا چاہا اور اس قوم کو ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ ( اٰلِ عمران : ۱۰۳)کا مصداق بنا دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کر کے یہ کہا کہ اِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا ( المزّمل : ۱۶ ) یعنی یہ سلسلہ موسوی سلسلہ کے بالمقابل ہے اور یہ عمارت موسوی عمارت کے مقابلہ پر ہے.جیسے اس میں اخیار ہیں ویسے ہی اس میں بھی اخیار ہیں.ایسا ہی اشرار بھی بالمقابل پائے جاتے ہیں یہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ اگر کسی یہودی نے ماں سے زنا کیا ہوگا تو تم میں سے بھی ایسے ہوں گے اور اگر کوئی سوسمار کے بل میں گھسا ہوگا تو مسلمان بھی گھسیں گے.یہ کیسی مشابہت اور مماثلت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہے اب تعجب ہے مسلمانوں پر کہ وہ یہ تو روا رکھتے ہیں کہ اس امت میں سے یہود بن جاویں اور یہ پسند نہیں کر سکتے کہ اس امت میں سے کوئی مسیح بھی ہوجاوے.موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی میں مسیح کو بھیجا گیا تھا اسی مماثلت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ اس امت میں بھی اس صدی پر مسیح آئے تا کہ اس
امت کا فضل ظاہر ہووے.اولیاء اللہ کے کشوف بھی اسی پر دلالت کرتے ہیں اور جو نشانات اس وقت کے لیے رکھے ہوئے تھے وہ بھی اپنے اپنے وقت پر پورے ہوگئے.واقع شدنی امور ہوجاتے ہیں جو نہیں ہونے والے ہوتے وہ نہیںہوتے.اگر علماء کے معنے سچے ہوتے تو جو کچھ انہوں نے مانا ہوا تھا اس میں سے کچھ تو پورا ہوتا.اعانت اسلام کا زمانہ تو یہی تھا پھر کیا وجہ ہے کہ خدا نے بقول ان کے کچھ بھی نہ کیا.انگریزوں کا تسلّط مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ ( الانبیآء : ۹۷ ) کا مصداق ہوگیا اور وَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ(التکویر : ۵)کے موافق اونٹنیاں بے کار ہوگئیں جو اس آخری زمانہ کا ایک نشان ٹھہرایا گیا تھا.عشار حاملہ اونٹنیوں کو کہتے ہیں یہ لفظ اس لیے اختیار کیا گیا ہے تا یہ وہم نہ رہے جیسا بعض لوگ کہتے ہیں کہ قیامت کے متعلق ہے قیامت میں تو حمل نہ ہوگا اور بے کار ہونا یہاں تو الگ رہا مکہ مدینہ کے درمیان بھی ریل تیار ہو رہی ہے.اخبارات نے بھی اس آیت اور مسلم کی حدیث سے استنباط کر کے مضامین لکھے ہیں.پس یہ اور دوسرے نشان تو پورے ہو گئے مَیں اگر صادق نہیں ہوں تو دوسرے مدعی کا نشان بتاؤ اور اس کا ثبوت دیکھو.بات یہ ہے کہ افترا اور کذب کی عمر نہیں ہوا کرتی یہ جلد فنا ہو جاتے ہیں، مفتری کے ہلاک کرنے کے لیے خارجی قوت اور زور کی حاجت ہی نہیں ہوتی، خود ان کا افترا ان کو ہلاک کر دیتا ہے اور مفتری کے مقابل میں کبھی جوش نہیں ہوتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل جس قدر جوش ہوا کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ مسیلمہ کذّاب اور اسود عنسی کے مقابل بھی ہوا تھا.صادق مدعی کے خلاف ہی شیطان جوش دکھاتا ہے صادق کے مقابل اس کے لیے جوش ہوتا ہے کہ شیطان سمجھتا ہے کہ اب مجھے ہلاک کیا جاوے گا اور وہ اس سے ناراض ہوتا ہے اس لیے جہاں تک ممکن ہو وہ ان کی مخالفت میں زور لگاتا ہے اور یہ جوش پھیل جاتا ہے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بھی بہت سے آدمیوں نے دعوے کیے تھے مگر اب کوئی ان کا نام بھی نہیں لے سکتا.اسی طرح ہوتا رہا ہے کہ صادق کے مقابل میں بعض کاذب مدعی بھی ہوتے رہے ہیں مگر کسی مقابلہ کے لیے اس قدر
جوش نہیں دکھا یا گیا جو صادق کے لیے دکھایا جاتا ہے.اس لیے کہ مفتری تو شیطان کے منشا کے موافق ہوتا ہے اسی لیے وہ اس کے خلاف جنگ کرنی نہیں چاہتا اور صادق کے سینہ پر پتھر ہوتا ہے اس کو تباہ کرنے کے لئے زور لگاتا ہے مگر آخر خود ہی شیطان اس کے جنگ میں ہلاک کیا جاتا ہے.ابوجہل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل کس قدر زور لگایا یہاںتک کہ مباہلہ بھی کر لیا اور یہ دعا کی کہ جو شخص ہم میں سے کاذب ہے اور جو پھوٹ ڈالتا ہے اس کو ہلاک کر.چنانچہ خود اسی روز ہلاک ہوگیا.یاد رکھو کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا جو اس کے آنے سے ایک پھوٹ نہ پڑی ہو.اس کو اصلاح کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ایک پھوٹ پڑے.کیونکہ جس شخص کا جوڑ یا ہڈی اپنی جگہ پر نہ رہے تو وہ اسے اتار کر نئے سر سے لگاتا ہے.اکثر مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ آریوں عیسائیوں کو دشمن بنا لیا ہے مگر ان کومعلوم نہیں جو خدا کی طرف سے آتا ہے وہ ضرور اپنے دشمن بنا لیتا ہے کیونکہ اس کو پاک جماعت تیار کرنی پڑتی ہے جن میں سچی تقویٰ و طہارت ہو اور سچی اخوت ہو.مگر سفلی زندگی کے عادی نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک صلاحیت قائم ہو وہ دنیا سے دل لگا کر خدا تعالیٰ کی طرف سے غافل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں.؎ اب تو آرام سے گذرتی ہے عاقبت کی خبر خدا جانے یہی ان کا مذہب اور مشرب ہوتاہے حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ مُردار زندگی کیا چیز ہے.انسان اگر خدا تعالیٰ سے قوت پاوے تو وہ اس مُردار زندگی سے مَرنا بہتر سمجھے گا.دنیا کے دوست مطلب کے دوست ہوتے ہیں.حقیقی محبت اور اخوت خدا تعالیٰ میں ہو کر ملتی ہے.ان لوگوں کو دیکھو جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر توبہ کی کیا ان کے باہم تعلقات نہ تھے؟ لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت میں آنکھ کھلی تو پھر یہاں تک متأثر ہوئے کہ نہ بیٹے کو بیٹا سمجھا نہ باپ کو باپ بلکہ وہ تعلقات بالکل قطع ہوگئے اور سارے تعلقات خدا میں ہو کر قائم ہوئے.خدا کے لیے دشمن ہو جاتے.دنیا کی دولتیں جس میں خدا درمیان نہیں ہوتا وفاداری سے نہیں نباہ سکتے.اسی طرح اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری جماعت میں جب کوئی داخل ہوتا ہے تو اس کے اپنے متعلقین میں
اگر خدا تعالیٰ ہدایت نہ کرے ایک شور قیامت برپا ہوجاتا ہے ورنہ بعض گہرے تعلقات رکھنے والوں کو قطع تعلق کرنا پڑا ہے.دنیا انسان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی یاد رکھو دنیا انسان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی.یہ اس کی اپنی کمزوری ہے کہ اپنے جیسی مخلوق کو نافع یا ضار سمجھتا ہے نفع اور ضرر اللہ ہی سے ملتا ہے.ہماری مراد اس سے یہ ہے کہ انسان معرفت کی آنکھ سے خدا کو شناخت کرلے.جب تک عملی طور پر خدا شناسی کو ثابت کر کے نہ دکھائے تو دہریہ ہے.جھوٹ کے تمام شعبوں سے پرہیز کرو میں نے غور کیا ہے قرآن شریف میں کئی ہزار حکم ہیں ان کی پابندی نہیں کی جاتی ادنیٰ ادنیٰ سی باتوں میں خلاف ورزی کر لی جاتی ہے.یہاں تک دیکھا جاتا ہے کہ بعض جھوٹ تو دوکاندار بولتے ہیں اور بعض مصالحہ دار جھوٹ بولتےہیں حالانکہ خدا تعالیٰ نے اس کو رجس کے ساتھ رکھا ہے.مگر بہت سے لوگ دیکھے ہیں کہ رنگ آمیزی کر کے حالات بیان کرنے سے نہیں رکتے اور اس کو کوئی گناہ بھی نہیں سمجھتے.ہنسی کے طور پر بھی جھوٹ بولتے ہیں.انسان صدیق نہیں کہلا سکتا جب تک جھوٹ کے تمام شعبوں سے پرہیز نہ کرے.گناہ کے چھوڑنے کا طریقہ انسان جب فسق و فجور میں پڑ جاتا ہے تو پھر ان لذّات کو کیسے چھوڑ سکتا ہے.اس کے چھوڑنے کی ایک ہی راہ ہے کہ گناہ کی معرفت انسان کو ہو اور یہ معلوم ہوجاوے کہ اللہ تعالیٰ گناہ پر سزا دیتا ہے.حیوان بھی جب معرفت پیدا کر لیتا ہے کہ یہ کام کروں گا تو سزا ملے گی تو وہ بھی اس سے بچتا ہے.کتّے کو بھی اگر ایک چھڑی دکھائی جائے تو وہ بھاگتا ہے اور دہشت زدہ ہوجاتا ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ انسان انسان ہو کر خدا سے اتنا بھی نہ ڈرے جتنا ایک حیوان سوٹے سے ڈرتا ہے.بھیڑیئے کے پاس اگر بکری باندھ دی جاوے تو وہ گھاس نہیں کھا سکتی.کیا اس بھیڑیئے جتنی دہشت بھی خدا کی نہیں ہے؟ انسان کے پیدا ہونے کی غرض اور غایت تو یہ ہے کہ وہ سچا ایمان پیدا کرے.اگر یہ ایمان وہ
پیدا نہیں کرتا تو پھر اپنی پیدائش کو عبث سمجھتا ہے اور اگرا س مجلس میں وہ ایمان نہیں ہے تو اس پر حرام ہے کہ دوسری مجلس کو تلاش نہ کرے.خدا نے مجھے اسی لیے مامور کیا ہے کہ تقویٰ پیدا ہو اور خدا پر سچا ایمان جو گناہ سے بچاتا ہے پیدا ہو.خدا تعالیٰ تاوان نہیں چاہتا بلکہ سچا تقویٰ چاہتا ہے.میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ توبہ کرتے وقت گواہ رکھ لیتا تھا.میں نے اس سے پوچھا کہ تو ایسا کیوں کرتا ہے؟ اس نے کہا.میں نے اس لیے یہ کیا ہے کہ شاید اس توبہ کو توڑتے وقت اس گواہ سے ہی کچھ شرم آجائے لیکن آخر دیکھا کہ وہ ان کی بھی پروا نہ کر کے توبہ توڑتا کیونکہ اصل شرم تو خدا تعالیٰ سے ہونی چاہیے.جب خدا سے نہیں ڈرتا اور شرم کرتا تو اور کسی سے کیا کرے گا.ایسے لوگوں کی وہی مثال ہے.؎ چہ خوش گفت درویش کوتاہ دست کہ شب توبہ کرد و سحر گاہ شکست مامور کی دعاؤں کا اثر جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں ان کو سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ میں ان کے لیے دعا کرتا ہوں.دعا ایسی چیز ہے کہ خشک لکڑی کو بھی سر سبز کر سکتی ہے اور مُردہ کو زندہ کر سکتی ہے.اس میں بڑی تاثیریں ہیں جہاں تک قضاء و قدر کے سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے کوئی کیسا ہی معصیت میں غرق ہو دعا اس کو بچا لے گی.اللہ تعالیٰ اس کی دستگیری کرے گا اور وہ خود محسوس کر لے گا کہ میں اب اَور ہوں.دیکھو! جو شخص مسموم ہے کیا وہ اپنا علاج آپ کر سکتا ہے اس کا علاج تو دوسرا ہی کرے گا.اس لیے اللہ تعالیٰ نے تطہیر کے لیے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور مامور کی دعائیں تطہیر کا بہت بڑا ذریعہ ہوتی ہیں.اسم اعظم دعا کرنا اور کرانا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.دعا کے لیے جب درد سے دل بھر جاتا ہے اور سارے حجابوں کو توڑ دیتا ہے اس وقت سمجھنا چاہیے کہ دعا قبول ہوگئی یہ اسم اعظم ہے.اس کے سامنے کوئی اَن ہونی چیز نہیں ہے.ایک خبیث کے لیے جب دعا کے ایسے اسباب میسر آجائیں تو یقیناً وہ صالح ہوجاوے اور بغیر دعا کے وہ اپنی توبہ پر بھی قائم نہیں رہ سکتا.بیمار اور محجوب اپنی دستگیری آپ نہیں کر سکتا.سنّت اللہ کے موافق یہی ہوتا ہے کہ جب دعائیں انتہا تک پہنچتی ہیں تو ایک شعلہ نور کا اس کے دل پر گرتا ہے جو اس کی ساری خباثتوں کو جلا کر تاریکی دور کر
دیتا اور اندر ایک روشنی پیدا کرتا ہے.یہ طریق استجابت دعا کا رکھا ہے.ضرور ہے کہ انسان پہلے حالتِ بیماری کو محسوس کرے اور پھر طبیب کو شناخت کرے سعید وہی ہے جو اپنے مرض اور طبیب کو شناخت کرتا ہے.اس وقت دنیا کی حالت بگڑی ہوئی ہے.جن باتوں پر خدا نے چاہا تھا کہ قائم ہوں ان کو چھوڑا گیا ہے.باہر سے وہ ایک پھوڑے کی طرح نظر آتے ہیں جو چمکتا ہے مگر اس کے اندر پیپ ہے یا قبر کی طرح ہیں کہ جس کے اندر بجز ہڈیوں کے کچھ نہیں.ایسا ہی حال اخلاقی حالتوں کا ہے غیظ و غضب میں آکر گندی گالیاں دینے لگتا ہے اور اعتدال سے گذر جاتا ہے.نفس مطمئنّہ کی حالت والا ہی بڑ ا سعید اور با مراد ہے اصل مد عا تو یہ ہونا چاہیے کہ انسان نفس مطمئنّہ حاصل کرے.نفس تین قسم کے ہیں.امّارہ.لوّامہ.مطمئنّہ.بہت بڑا حصہ دنیا کا نفسِ امّارہ کے نیچے ہے.اور بعض جن پر خدا کا فضل ہوا ہے وہ لوّامہ کے نیچے ہیں یہ لوگ بھی سعادت سے حصہ رکھتے ہیں.بڑا بدبخت وہ ہے جو بدی کو محسوس ہی نہیں کرتا یعنی جو امّارہ کے ماتحت ہیں.اور بڑاہی سعید اور بامراد وہ ہے جو نفسِ مطمئنّہ کی حالت میں ہے.نفس مطمئنّہ کو ہی خدا نے فرمایا يٰۤاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ ارْجِعِيْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً (الفجر:۲۷تا۲۹) یعنی اے وہ نفس جو اطمینان یافتہ ہے.اس حالت میں شیطان کے ساتھ جو جنگ ہوتی ہے اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور خطاب کے لائق تو مطمئنّہ ہی ٹھہرایا ہے.اور اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مطمئنّہ کی حالت میں مکالمہ الٰہی کے لائق ہو جاتا ہے.خدا کی طرف واپس آ، کے معنی یہی نہیں کہ مَر جا بلکہ لوّامہ اور امّارہ کی حالت میں جو خدا تعالیٰ سے ایک بُعد ہوتا ہے مطمئنّہ کی حالت میں وہ مہجوری نہیں رہتی اور کوئی غبا ر باقی نہ رہ کر غیب کی آواز اس کو بلاتی ہے.تو مجھ سے راضی اور میں تجھ سے راضی، یہ رضا کا انتہائی مقام ہوتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب میرے بندوں میں داخل
ہو جا.اللہ تعالیٰ کے بند ے دنیا ہی پر ہوتے ہیں مگر دنیا ان کو نہیں پہچانتی.دنیا نے آسمانی بندوں سے دوستی نہیں کی وہ ان سے ہنسی کرتی ہے.وہ الگ ہی ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی رِدا کے نیچے ہوتے ہیں.غرض جب ایسی حالت اطمینان میں پہنچتا ہے تو الٰہی اکسیر سےتانباسونا ہو جاتا ہے.وَ ادْخُلِيْ جَنَّتِيْ اور تو میری بہشت میں داخل ہوجا.بہشت ایک ہی چیز نہیں بلکہ فرمایا وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ(الرحمٰن:۴۷) خد اسے ڈر نے والے کے لیے دو بہشت ہیں.۱ (قبل ازظہر) ایک صاحب گو ڑ گانوہ سے تشریف لائے ہوئے تھے.حضرت سے شرف بیعت حاصل کیا.بعد از بیعت حضرت اقدس نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ مسنو ن طور سے خدا کا فضل تلاش کرو ہماری طرف سے تو آپ کو یہی نصیحت ہے کہ مسنون طور سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرو.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کرکے یہ اَمر صاف طور پر بیان کر دیا ہے کہ ان کی پیروی کے سوا کوئی راہ اس کی رضا جوئی کی باقی نہیں ہے.جو خدا کے فضل کا جویاں ہو اسی دروازہ کو کھٹکھٹائے.اس کے لیے کھولا جائے گا.بجزاس دروازہ کے تمام دروازے بند ہیں.نبوت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو چکی.شریعت قرآن شریف کے بعد ہرگز نہیں آئے گی.انسان کو کشوف اور وحی اور الہام کا بھی طا لب نہ ہونا چاہیے بلکہ یہ سب تقویٰ کا نتیجہ ہیں.جب جڑ ٹھیک ہو گی تو اس کے لو ازم بھی خود بخود آجا ئیں گے.دیکھو! جب سورج نکلتا ہے تو دھوپ اور گر می جو اس کا خاصّہ ہیں خود بخود ہی آجاتے ہیں.اسی طرح جب انسان میں تقویٰ آ جاتا ہے تو اس کے لوازم بھی اس میں ضرور آجاتے ہیں.دیکھو! جب کوئی دوست کسی کے ملنے کے واسطے جاوے تو اس کو یہ امید تو نہ رکھنا چاہیے کہ میں اس کے پاس جاتا ہوں کہ وہ مجھے پلاؤ، زردے اور قورمے اور قلچے کھلائے گا اور میری خاطر تواضع کرے گا.نہیں بلکہ صادق دوست کی ملاقات کی خواہش ہوتی ہے ۱ الحکم جلد۷ نمبر ۸ مو ر خہ ۲۸ ؍فروری ۱۹۰۳ءصفحہ۳ تا ۶
بجز اس کے اور کسی کھانے یا مکان یا خدمت کی پروا اور خیال بھی نہیں ہوتا مگر جب وہ اپنے صادق دوست کے پاس جو اس سے مہجور تھا جاتا ہے تو کیا وہ اس کی خاطرداری کا کوئی دقیقہ باقی بھی اٹھا رکھتا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ جہاں تک اس سے بن پڑتا ہے وہ اپنی طاقت سے بڑ ھ کر بھی اس کی تواضع کے واسطے مکلّف سامان کرتا ہے.غرض یہی حال روحانیت اور اس دوست اعلیٰ کی ملاقات کا ہے.الہامات یا کشوف وغیرہ خبروں کے سہارے والا ایمان، ایمان کامل نہیں.وہ کمزور ایمان ہے جو کسی چیز کا سہارا ڈھونڈتا ہے.انسان کی غرض اور اصل مد ار صرف رضاءِ الٰہی اور وصول الی اللہ چاہیے.آگے جب یہ اس کی رضا حاصل کر لے گا تو خدا تعالیٰ اس کو کیا کچھ نہ دے گا.خودا س اَمر کی درخواست کرنا سوءِ ادب ہے.دیکھو! اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہےقُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ(اٰل عـمران:۳۲)خدا کے محبوب بننے کے واسطے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی ایک راہ ہے اور کوئی دوسری راہ نہیں کہ تم کو خدا سے ملاوے.انسان کا مدعا صرف اس ایک واحد لا شریک خدا کی تلاش ہونا چاہیے شرک اور بدعت سے اجتناب کرنا چاہیے رسوم کا تابع اور ہوا وہوس کا مطیع نہ بننا چاہیے.دیکھو! میں پھر کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی راہ کے سوا اور کسی طرح انسان کامیاب نہیں ہوسکتا.ہمارا صرف ایک ہی رسولؐ اور ایک ہی کتاب ہے ہمارا صرف ایک ہی رسول ہے.اور صرف ایک ہی قرآن شریف اس رسول پر نازل ہواہے جس کی تابعداری سے ہم خدا کو پاسکتے ہیں.آج کل فقراء کے نکالے ہوئے طریقے اور گدی نشینوں اور سجادہ نشینوں کی سیفیاں اور دعائیں اور درود وظائف یہ سب انسان کو مستقیم راہ سے بھٹکانے کا آلہ ہیں.سو تم ان سے پرہیز کرو.ان لوگوں نے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے خا تم الا نبیاء ہونے کی مہر کو توڑنا چاہا ہے گویا اپنی الگ ایک شریعت بنا لی ہے.تم یاد رکھو کہ قرآن شریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فر مان کی پیروی اور نماز روزہ وغیرہ جو مسنون طریق
ہیں ان کے سوا خدا کے فضل اور برکات اور رحمت کے دروازے کھولنے کی اور کوئی کنجی ہے ہی نہیں.بھولا ہوا ہے وہ جو اِن راہوں کو چھو ڑ کر کوئی نئی را ہ نکالتا ہے.ناکام مَرے گا وہ جو اللہ اور رسول کے فرمودہ کا تابعدار نہیں بلکہ اَور اَور راہوں سے اسے تلاش کرتا ہے.ہر قسم کے گناہوں سے بچو دیکھو! گناہ کبیر ہ بھی ہیں ان کو تو ہر ایک جانتا ہے اور اپنی طاقت کے موافق نیک انسان ان سے بچنے کی کوشش بھی کرتا ہے مگر تم تمام گناہوں سے کیا کبائر اور کیا صغائر سب سے بچو کیونکہ گناہ ایک زہر ہے جس کے استعمال سے زندہ رہنا محال ہے.گناہ ایک آگ ہے جو روحانی قویٰ کو جلا کر خاک سیاہ کر دیتی ہے.پس تم ہر قسم کے کیا صغیرہ کیا کبیرہ سب اندرونی بیرونی گناہوں سے بچو.آنکھ کے گناہوں سے، ہاتھ کے گناہوں سے، کان ناک اور زبان اور شرمگاہ کے گناہوں سے بچو.غرض ہر عضو کے گناہ کے زہر سے بچتے رہو اور پرہیز کرتے رہو.نما ز گناہوں سے بچنے کا آلہ ہے نما ز بھی گناہوں سے بچنے کا ایک آلہ ہے.نماز کی یہ صفت ہے کہ یہ انسان کو گناہ اور بد کا ری سے ہٹا دیتی ہے سو تم ویسی نماز کی تلاش کرو اور اپنی نماز کو ایسی بنانے کی کوشش کرو.نماز نعمتوں کی جان ہے.اللہ تعالیٰ کے فیض اسی نماز کے ذر یعہ سے آتے ہیں سواس کو سنوار کر ادا کرو تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کے وارث بنو.ہمارا طریق نرمی ہے یہ بھی یاد رکھو کہ ہمارا طریق نرمی ہے.ہماری جماعت کو چاہیے کہ اپنے مخا لفوں کے مقابل پر نرمی سے کام لیا کریں تمہاری آواز تمہارے مقابل کے آواز سے بلند نہ ہو.اپنی آواز اور لہجہ کو ایسا بناؤ کہ کسی دل کو تمہاری آواز سے صدمہ نہ ہووے.ہم قتل اور جہاد کے واسطے نہیں آئے بلکہ ہم تو مقتولوں اور مُردہ دلوں کو زندہ کرنے اور ان میں زندگی کی روح پھو نکنے کو آئے ہیں.تلو ار سے ہمارا کا روبا رنہیں اور نہ یہ ہماری ترقی کا ذریعہ ہے ہمارا مقصد نرمی سے ہے اور نرمی سے اپنے مقا صد کی تبلیغ ہے.غلام کووہی کرنا چاہیے جو
اس کا آقا اس کو حکم کرے.جب خدا نے ہمیں نرمی کی تعلیم دی ہے تو ہم کیوں سختی کریں.ثوا ب تو فرماں برداری میں ہوتا ہے.اور دین تو سچی اطاعت کا نام ہے نہ یہ کہ اپنے نفس اور ہواوہوس کی تابعد اری سے جوش دکھاویں.مغلو ب الغضب غلبہ ونصرت سے محروم ہوتا ہے یاد رکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آ جاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں.وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلدی طیش میں آکر آپے سے باہر ہو جاتا ہے.گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹھ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کیے جاتے ہیں.غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہوسکتے.جو مغلو ب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے.اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دیئے جاتے.غضب نصف جنون ہے اور جب یہ زیادہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہوسکتا ہے.ہماری جماعت کو چاہیے کہ کُل ناکردنی افعال سے دور رہا کریں.وہ شا خ جو اپنے تنے اور درخت سے سچا تعلق نہیں رکھتی وہ بے پھل رہ جایا کرتی ہے.سو دیکھو! اگر تم لوگ ہمارے اصل مقصد کو نہ سمجھو گے اور شرائط پر کار بند نہ ہوگے تو ان وعدوں کے وارث تم کیسے بن سکتے ہو جو خدا نے ہمیں دیئے ہیں.نصیحت کا پیرایہ جسے نصیحت کرنی ہو اُسے زبان سے کرو.ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرایہ میں ادا کرنے سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہے اور دوسرے پیرایہ میں دوست بنا دیتی ہے پس جَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ ( النحل:۱۲۶ ) کے موافق اپنا عمل درآمد رکھو.اسی طر ز کلام ہی کا نام خدا نے حکمت رکھا ہے.چنانچہ فرماتا ہے يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَآءُ(البقرۃ:۲۷) مگر یا درکھو کہ جیسے یہ باتیں حر ام ہیں ویسے ہی نفا ق بھی حرام ہے.اس بات کا بھی خیال رکھنا کہ کہیں پیرایہ ایسا نہ ہو جاوے کہ اس کا رنگ نفاق سے مشابہ ہو.موقع کے موافق ایسی کارروائی کرو جس سے اصلاح ہوتی ہو.تمہاری نرمی ایسی نہ ہو کہ نفاق بن جاوے اور تمہارا
غضب ایسا نہ ہو کہ بَارُوْت کی طرح جب آگ لگے تو ختم ہونے میں نہیں آتی.بعض لوگ تو غصہ سے سودائی ہو جاتے ہیں اور اپنے ہی سر میں پتھر مار لیتے ہیں.اگرہمیں کوئی گالی دیتا ہے تو بھی صبر کرو.میں سمجھتا ہوں کہ جب کسی کے پیرو مرشد کو گالیاں دی جاویں یا اس کے رسول کے متعلق ہتک آمیز کلمے کہے جاویں تو کیساجوش ہوتا ہے مگر تم صبرکرو اورحلم سے کلام کرو.مسلوب الغضب بن جائو ایسا نہ ہو کہ تمہارا اس وقت کا غصہ کوئی خرابی پیدا کردے جس سے سارا سلسلہ بدنام ہو یا کوئی مقدمہ بنے جس سے سب کو تشویش ہو.سب نبیوں کو گالیاں دی گئی ہیں.یہ انبیاء کا ورثہ ہے.ہم اس سے کیوں کر محروم رہ سکتے تھے ایسے بن جائو کہ گویا مسلوب الغضب ہو.تم کو گویا غضب کے قویٰ ہی نہیں دیئے گئے.دیکھو! گر کچھ بھی تاریکی کا حصہ ہے تونور نہیں آئے گا.نور اور ظلمت جمع نہیں ہوسکتے.جب نور آجائے گا تو ظلمت نہیں رہے گی.تم اپنے سارے ہی قویٰ کو پورے طور سے اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار ی میں لگاؤ اور جوجو کمی کسی قوت میں ہو اسے اس پان والے کی طرح جو گندے پان تلاش کرکے پھینک دیتا ہے اپنی گندی عادات کو نکال پھینکو اور سارے اعضا کی اصلاح کر لو یہ نہ ہو کہ نیکی کرو اور نیکی میں بدی ملادو.توبہ کرتے رہو.استغفار کرو.دعا سے ہر وقت کام لو.ولی اللہ ولی کیا ہوتے ہیں یہی صفات تو اولیاء کے ہوتے ہیں.ان کی آنکھ، ہاتھ، پاؤں غرض کوئی عضو ہو.منشاءِ الٰہی کے خلاف حرکت نہیں کرتے.خدا کی عظمت کا بوجھ ان پر ایسا ہوتا ہے کہ وہ خدا کی زیارت کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جا سکتے پس تم بھی کوشش کرو.خدا بخیل نہیں.ع ہر کہ عارف تر است تر ساں تر (دربارِ شا م ) قرآن شریف کی ایک برکت ایک شخص نے عر ض کی کہ حضور میرے واسطے دعا کی جاوے کہ میری زبان قرآن شریف اچھی طرح ادا کرنے لگے.قرآن شریف ادا کرنے کے قابل نہیں اور چلتی نہیں.میری زبان کھل جاوے.فرمایا کہ تم صبرسے قرآن شریف پڑھتے جاؤ.اللہ تعالیٰ تمہاری زبان کو کھول دے گا.
غضب ایسا نہ ہو کہ بَارُوْت کی طرح جب آگ لگے تو ختم ہونے میں نہیں آتی.بعض لوگ تو غصہ سے سودائی ہو جاتے ہیں اور اپنے ہی سر میں پتھر مار لیتے ہیں.اگرہمیں کوئی گالی دیتا ہے تو بھی صبر کرو.میں سمجھتا ہوں کہ جب کسی کے پیرو مرشد کو گالیاں دی جاویں یا اس کے رسول کے متعلق ہتک آمیز کلمے کہے جاویں تو کیساجوش ہوتا ہے مگر تم صبرکرو اورحلم سے کلام کرو.مسلوب الغضب بن جائو ایسا نہ ہو کہ تمہارا اس وقت کا غصہ کوئی خرابی پیدا کردے جس سے سارا سلسلہ بدنام ہو یا کوئی مقدمہ بنے جس سے سب کو تشویش ہو.سب نبیوں کو گالیاں دی گئی ہیں.یہ انبیاء کا ورثہ ہے.ہم اس سے کیوں کر محروم رہ سکتے تھے ایسے بن جائو کہ گویا مسلوب الغضب ہو.تم کو گویا غضب کے قویٰ ہی نہیں دیئے گئے.دیکھو! گر کچھ بھی تاریکی کا حصہ ہے تونور نہیں آئے گا.نور اور ظلمت جمع نہیں ہوسکتے.جب نور آجائے گا تو ظلمت نہیں رہے گی.تم اپنے سارے ہی قویٰ کو پورے طور سے اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار ی میں لگاؤ اور جوجو کمی کسی قوت میں ہو اسے اس پان والے کی طرح جو گندے پان تلاش کرکے پھینک دیتا ہے اپنی گندی عادات کو نکال پھینکو اور سارے اعضا کی اصلاح کر لو یہ نہ ہو کہ نیکی کرو اور نیکی میں بدی ملادو.توبہ کرتے رہو.استغفار کرو.دعا سے ہر وقت کام لو.ولی اللہ ولی کیا ہوتے ہیں یہی صفات تو اولیاء کے ہوتے ہیں.ان کی آنکھ، ہاتھ، پاؤں غرض کوئی عضو ہو.منشاءِ الٰہی کے خلاف حرکت نہیں کرتے.خدا کی عظمت کا بوجھ ان پر ایسا ہوتا ہے کہ وہ خدا کی زیارت کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جا سکتے پس تم بھی کوشش کرو.خدا بخیل نہیں.ع ہر کہ عارف تر است تر ساں تر (دربارِ شا م ) قرآن شریف کی ایک برکت ایک شخص نے عر ض کی کہ حضور میرے واسطے دعا کی جاوے کہ میری زبان قرآن شریف اچھی طرح ادا کرنے لگے.قرآن شریف ادا کرنے کے قابل نہیں اور چلتی نہیں.میری زبان کھل جاوے.فرمایا کہ تم صبرسے قرآن شریف پڑھتے جاؤ.اللہ تعالیٰ تمہاری زبان کو کھول دے گا.
قرآن شریف میں یہ ایک برکت ہے کہ اس سے انسان کا ذہن صاف ہوتا اور زبان کھل جاتی ہے بلکہ اطباء بھی اس بیما ری کااکثر یہ علاج بتا یا کرتے ہیں.۱ ۱۶؍فروری ۱۹۰۳ء ۱۶؍فروری کی صبح کو سیر کے وقت فرمایا پرسوں یا ترسوں ایک الہام ہوا تھا وہ یہ ہے.’’اے ازلی ابدی خدا بیڑیوں کو پکڑ کے آ‘‘۲ ۱۷؍فروری ۱۹۰۳ء ۱۷؍فروری ۱۹۰۳ء کو فجر کا الہام حضرت اقدس نے سیر میں سنایا.’’یَوْمُ الْاِثْنَیْنِ وَفَتْحُ الْـحُنَیْنِ ‘‘ قرآن شریف میں بھی لفظ حنین کا آیا ہے جیسے کہ پارہ ۱۰ رکوع ۱۰ میںہے لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ١ۙ وَّ يَوْمَ حُنَيْنٍ١ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْـًٔا وَّضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَ.ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِيْنَ.۳ ۱۹؍فروری ۱۹۰۳ء ۱۹؍ فروری کو بوقتِ سیر فرمایا کہ کل ۱۸؍ فروری کو یکایک مرض کا دورہ ہوگیا اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے.اسی حالت ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۹ مو رخہ ۱۰ ؍ما رچ ۱۹۰۳ءصفحہ ۷ تا۹ ۲ الحکم جلد ۷ نمبر ۷ مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶ ۳ البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخہ ۲۰؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۹
میں ایک الہام ہوا جس کا صرف ایک حصہ یاد رہا.چونکہ بہت تیزی کے ساتھ ہوا تھا جیسے بجلی کوندتی ہے اس لیے باقی حصہ محفوظ نہ رہا وہ یہ ہے وَ یُبْقِیْکَ اس کا ترجمہ بھی اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی بتایا اور وہ یہ ہے تا بدیر ترا خواہد داشت.۱ ۲۲ ؍فروری ۱۹۰۳ء کچھ حصہ رات کو آرام ضرور کرنا چاہیے ایک مخلص کی بد خوابی کے تذکرہ پر فرمایا.دیکھو! قرآن شریف سورہ مزّمل میں صاف تاکید ہے کہ انسان کو کچھ حصہ رات آرام بھی کرنا چاہیے.اس سے دن بھر کی کوفت اور تکان دور ہو کر قویٰ کو اپنا حرج شدہ ما دہ بہم پہنچانے کا وقفہ مل جاتا ہے.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل یعنی سنّت بھی اسی کے مطابق ثابت ہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ اُصَلِّیْ وَ اَنُوْمُ.اصل میں انسان کی مثال ایک گھوڑے کی سی ہے.اگر ہم ایک گھوڑے سے ایک دن اس کی طاقت سے زیادہ کام لیں اور اسے آرام کرنے کا وقفہ ہی نہ دیں تو بہت قریب ایسا وقت ہوگا کہ ہم اس کے وجود کو ہی ضائع کرکے تھوڑے فائدہ سے بھی محروم ہو جائیں گے نفس کو گھوڑے سے مناسبت بھی ہے.بہترین وظیفہ سیالکوٹ کے ضلع کا ایک نمبردار تھا.اس نے بیعت کرنے کے بعد پوچھا کہ حضور اپنی زبان مبارک سے کوئی وظیفہ بتا ویں.فرمایا کہ نمازوں کو سنوار کر پڑھو کیونکہ ساری مشکلات کی یہی کنجی ہے اور اسی میں ساری لذّات اور خزانے بھرے ہوئے ہیں.صدق دل سے روزے رکھو.صدقہ و خیرات کرو.درود اور استغفار پڑھا کرو.اپنے رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو.ہمسایوں سے مہربانی سے پیش آئو.بنی نوع بلکہ حیوانوں پر بھی رحم کرو اور ان پر بھی ظلم نہ چاہیے.خدا سے ہر وقت حفاظت چاہتے رہو کیونکہ ناپاک اور نامراد ہے وہ دل جو ہر وقت خدا کے آستانہ پر نہیں گرا رہتا وہ محروم کیا جاتا ہے.دیکھو! اگر خدا ہی ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۷ مو ر خہ ۲۱؍ــفروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶
میں مبتلا ہوجاوے تو اس حالت میں اب اس خاوند کو کیا کرنا چاہیے کیا اسی بیوی پر قناعت کرے؟ ایسی مشکلات کے وقت وہ کیا تدبیر پیش کرتے ہیں.یا بھلا اگر وہ کسی قسم کی بد معاشی زنا وغیرہ میں مبتلا ہوگئی تو کیا اب اس خاوند کی غیرت تقاضا کرے گی کہ اسی کو اپنی پُر عصمت بیوی کا خطاب دےرکھے؟ خدا جانے یہ اسلام پر اعتراض کرتے وقت اندھے کیوں ہو جاتے ہیں.یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ مذہب ہی کیا ہے جو انسانی ضروریا ت کو ہی پورا نہیں کرسکتا.اب ان مذکو رہ حا لتوں میں عیسویت کیا تدبیر بتاتی ہے؟ قرآن شریف کی عظمت ثابت ہوتی ہے کہ انسانی کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کا پہلے سے ہی اس نے قا نو ن نہ بنا دیا ہو.اب تو انگلستا ن میں بھی ایسی مشکلات کی وجہ سے کثرت ازدواج اور طلاق شروع ہوتا جاتا ہے.ابھی ایک لارڈ کی بابت لکھا تھا کہ اس نے دوسری بیوی کر لی آخر اسے سزا بھی ہوئی مگر وہ امریکہ میں جا رہا.غور سے دیکھو کہ انسان کے واسطے ایسی ضرورتیں پیش آتی ہیں یا نہیں کہ یہ ایک سے زیادہ بیویاں کرے جب ایسی ضرورتیں ہوں اور ان کا علاج نہ ہو تو یہی نقص ہے جس کے پورا کرنے کو قرآن شریف سی اتم اکمل کتاب بھیجی ہے.شراب کی مضرت اسی اثنامیں شراب کا ذکر شروع ہو گیا.کسی نے کہا کہ اب تو حضور شراب کے بسکٹ بھی ایجا د ہوئے ہیں.فرمایا.شراب تو انسانی شرم، حیا، عفت، عصمت کا جانی دشمن ہے.انسانی شر افت کو ایسا کھو دیتی ہے کہ جیسے کتّے، بلّے، گدھے ہوتے ہیں.اس کو پی کر بالکل انہی کے مشابہ ہو جاتا ہے.اب اگر بسکٹ کی بلا دنیا میں پھیلی تو ہزاروں ناکردہ گناہ بھی ان میں شامل ہو جایا کریں گے.پہلے تو بعض کو شرم وحیا ہی روک دیتی تھی.اب بسکٹ لیے اور جیب میں ڈال لیے.بات یہ ہے کہ دجال نے اپنی کوششوں میں تو کمی نہیں رکھی کہ دنیا کو فسق وفجور سے بھرد ے مگر آگے خدا کے ہاتھ میں ہے جو چاہے کرے.اسلام کی کیسی عظمت معلوم ہوتی ہے ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے اسلام پر کوئی اعتراض کیا.اس سے شراب کی بد بو آئی.اس کو حد ما ر نے کا حکم دیا گیا کہ شراب پی کر اسلام پر
اعتراض کیا مگر اب تو کچھ حد وحسا ب نہیں.شراب پیتے ہیں، زنا کرتے ہیں، غرض کوئی بدی نہیں جو نہ کرتے ہوں مگر بایں ہمہ پھر اسلام پر اعتراض کرنے کو طیار ہیں.۱ ۲۳؍فروری ۱۹۰۳ء (ظہر سے پہلے) بنی اسر ائیل اور ان کے مثیل فرمایا.جس طرح اللہ تعالیٰ نے فضائل میں اس قوم اسلام کو اُمّت مو سیٰ کا مثیل بنایا ہے ایسے ہی رذائل بھی کُل وہ اس قوم میں جمع ہیں جو ان میں پائے جاتے تھے.یہ قوم تو یہود کے نقش قدم پر ایسی چلی ہے جیسے کوئی اپنے آقا ومو لیٰ مطا ع رسول کی پیروی کرتا ہے.یہود کے واسطے قرآن شریف میں حکم تھا کہ وہ دود فعہ فساد کریں گے اور پھر ان کی سزا دہی کے واسطے اللہ تعالیٰ اپنے بندے ان پر مسلط کرے گا.چنانچہ بخت نصر اور طیطوس دو نو نے ان لوگوں کو بُری طرح سے ہلاک کیا اور تباہ کیا.اس کی مماثلت کے لیے اس قوم میں نمونہ موجود ہے کہ جب یہ فسق وفجور میں حد سے نکلنے لگے اور خدا کے احکام کی ہتک اور شعائر اللہ سے نفرت ان میں آگئی اور دنیا اور اس کی زیب وزینت میں ہی گم ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اسی طرح ہلا کو چنگیز خاں وغیرہ سے برباد کرایا.لکھا ہے کہ اس وقت یہ آسمان سے آواز آتی تھی اَیُّـھَاالْکُفَّارُ اقْتُلُوا الْفُجَّارَ غرض فاسق فاجر انسان خدا کی نظر میں کافر سے بھی ذلیل اور قابل نفرین ہے.اگر کوئی کتاب قرآن شریف کے بعد نازل ہونے والی ہوتی تو ضرور ان لوگوں کے نام بھی اسی طرح عِبَادًا لَّنَا میں داخل کئے جاتے.یہ بھی لکھا ہے کہ آخر کار بخت نصر یا اس کی اولاد بُت پرستی وغیرہ سے باز آکر واحد خدا پر ایمان لائی ہے اسی طرح ادھر بھی چنگیز خاں کی اولاد مسلمان ہو گئی.غرض خدا نے مماثلت میں طَابِقُ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ والا صاف معاملہ کرکے دکھا دیا ہے.۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۸ مو ر خہ ۲۸؍ــفروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴،۱۵
عا دل گورنمنٹ بعض بادشاہوں کی معدلت گستری کے متعلق ذکر ہوا.آپ نے فرمایا کہ ہما ری گورنمنٹ، ہم نے اسے غور سے دیکھا ہے کہ نازک معاملات میں بھی بلاتحقیق کے کوئی کارگذاری نہیں کرتی.بغاوت جیسے خطرناک معاملات میں تو بلا تحقیق اور فردجرم اور ثبوت کے سوا گرفت کی نہیں جاتی.تو دوسرے معاملات میں بھلا کہاں ایسا کرنے لگی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اَور حکّامِ وقت ہیں کہ ان کے نزدیک انسان تو گاجر مولی کی طرح بنے ہوئے ہیں کسی نے شکایت کی بس پکڑا اور قتل کردیا.کوئی ضرورت نہیں کہ ثبوت کافی بہم پہنچایا جاوے یا کوئی لمبی تحقیقات کی جاوے.دیکھئے ہمارا مقدمہ پادری والا بھی تو ایک بغاوت کے ہی رنگ میں تھا کیونکہ ایک پادری نے جو ان کے مذہب کا لیڈرا ور گرو مانا جاتا تھا اس نے ظاہر کیا تھا کہ گویا ہم نے اس کے قتل کا منصوبہ کیا ہے اور پھر اس پر بڑ ے بڑے اَور پادریوں کی سفارشیں بھی تھیں مگر بلا تحقیق کے ایک قدم بھی نہ اٹھایا گیا اور آخر کار قوم کی پروا نہ کرکے ہمیں بری کیاگیا.غرض یہ بھی ہم پر خدا کا ایک فضل ہے کہ ایسی عا دل گورنمنٹ کے ماتحت ہیں.(دربارِ شا م) مسیحؑ کی آمدِ ثانی امریکہ کے ایک انگریز کا اشتہار سنایا گیا جس میں اس نے لکھا ہے کہ مسیحؑ کی دوبارہ آمد وقت کایہی وقت ہے.وہ کل نشانات پورے ہوگئے جو آمد ِثانی کے پیش خیمہ تھے اور اس نے اس بیان کو بڑے بشپوں اور فلاسفروں کی شہادتوں سے قوی کیا ہے.حضر ت اقدس نے فرمایا کہ اصل میں ان کی یہ بات کہ مسیحؑ کی آمد ثانی کا وقت یہی ہے اور اس کے آنے کے تمام نشانات پورے ہو گئے ہیں بالکل ہمارے منشا کے مطابق ہے اور راستی بھی اسی میں ہے ان کی وہ بات جو حق ہو اور جہاں تک وہ راستی کی حمایت میں ہو اسے ردّ نہ کرنا چاہیے.یہ لوگ ایک طرح سے ہماری خدمت کر رہے ہیں.اس ملک میں جہاں ہماری تبلیغ بڑی محنت اور صرفِ کثیر سے بھی پوری طرح سے کما حقہ نہیں
پہنچ سکتی.وہاں یہ ہماری اس خدمت کو مفت اچھی طرح سے پورا کر رہے ہیں.انہوں نے وقت کی تشخیص تو بالکل راست کی ہے.مگر نتائج نکالنے میں سخت غلطی کرتے ہیں جو آنے والے کی انتظار آسمان سے کرتے ہیں.ہر سچے نبی کے ساتھ کوئی نہ کوئی جھوٹا نبی بھی آتا ہے اب آئے دن سنا جاتا ہے کہ کسی نے دعویٰ کیا ہے کہ میں ہی مسیح ہوں جو آنے والا تھا یا میں مہدی ہوں جس کا انتظار کیا جاتا تھا.یہ کچھ ہمارے لیے مضر نہیں ہیں یہ تو ہماری صداقت کو اور بھی دوبالا کرکے دکھاتا ہے کیونکہ مقابلہ کے سوا کسی کی بھلائی یا برائی کا پورا اظہار نہیں ہوسکتا.یہ لوگ دعویٰ کرتے اور چند روز پانی اور جھاگ والا معاملہ کرکے دنیا سے ر خصت ہو جاتے یا پاگل خانہ کی سیر کو روا نہ کئے جاتے ہیں.یہ ہماری صداقت پر مہر ہیں.ہر نبی کے ساتھ کوئی نہ کوئی جھوٹا نبی بھی آتا ہے چنانچہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں چار شخص ایسے تھے.اسی طرح اس زمانہ کے لیے بھی لکھا تھا کہ بہت سے جھوٹے نبی آویں گے سو یہ لوگ خود ہی اس پیشگوئی کو پورا کرتے ہیں بھلا کوئی بتاوے کہ وہ مہدی سوڈانی اب کہاں ہے؟ یا پیرس کا مسیح کیا ہو ا؟ انجام نیک صرف صادق ہی کا ہوتا ہے.سارے جھوٹے اور مصنوعی آخر تھک کر رہ جاتے یا ہلاک ہو جاتے ہیں اور جھوٹھ کے انجام کا پتا دوسر وں کے لیے بطور عبرت کے چھو ڑجاتے ہیں.۶؍ما رچ لیکھر ا م کے قتل کا دن لاہور کے آریہ پترکا نے لکھا ہے کہ ہمارا شہید ما رچ کی ۶ کو ایک بزدل مسلمان کے ہاتھ سے مارا گیا تھا اس دن کی یادگار قائم کرنی چاہیے کہ وہ دن بڑا متبرک جاننا چاہیے.اس پر آپ نے فرمایا کہ اصل میں ہمارے یہاں کے آریہ بھول گئے.ان کو بھی چاہیے تھا کہ ۶؍مارچ کا دن جلسہ کے واسطے مقرر کرتے اور ان لوگوں کو تو خصوصیت سے اس دن کی تعظیم کرنی چاہیے کیونکہ لیکھر ام اصل میں اس جگہ سے یہ تبرک لے گیا تھا.
تمباکو نوشی کی مضرت ایک شخص نے امریکہ سے تمباکو نوشی کے متعلق اس کے بہت سے مجرب نقصان ظاہر کرتے ہوئے اشتہار دیا.اس کو آپ نے سنا.فرمایا کہ اصل میں ہم اس لیے اسے سنتے ہیں کہ اکثر نو عمر لڑکے، نوجوان تعلیم یافتہ بطور فیشن ہی کے اس بلا میں گرفتار و مبتلا ہو جاتے ہیں تا وہ ان باتوں کو سن کر اس مضر چیزکے نقصا نا ت سے بچیں.فرمایا.اصل میں تمباکو ایک دھواں ہوتا ہے جو اندرونی اعضا کے واسطے مضر ہے اسلام لغو کاموں سے منع کرتا ہے اور اس میں نقصان ہی ہوتا ہے لہٰذااس سے پرہیزہی اچھا ہے.پیشگو ئیاں ہستی با ری تعالیٰ کے متعلق معرفت بخشتی ہیں اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت جس طرح سے پیشگوئی دلاتی ہے ایسا اور کوئی سچا علم نہیں.معرفت کو زیادہ کرنے کا صرف یہی ایک طریق ہے.ہماری نسبت بھی اللہ تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں فرمایا ہے.کہ تیری صداقت کو پیشگوئی کے ذریعہ سے ظاہر کروں گا.پنڈت دیانند اور نیوگ مجھے ایک دفعہ یہ خیال آیا کہ کیا وجہ تھی کہ دیانند نے بے حیائی اور بے غیرتی کا مسئلہ نکالا.جسے کوئی شریف آریہ بھی بطیب خاطر پسند نہیں کرتا.بلکہ اس کا نام سن کر گردن نیچی کرلیتا ہے او ر چاہِ ندامت میں غرق ہو جاتا ہے تو میری سمجھ میں آیا کہ چونکہ وہ شخص بغیر بیوی کے تھا اس واسطے وہ سا رے اخلاق جو بیوی کے ہونے سے وابستہ ہیں ان سب سے وہ محروم تھا.غیرت اور حمیّت بھی ایک بیوی والے شخص کا ہی حصہ ہے چونکہ وہ بیوی سے محروم تھا اس واسطے وہ نیوگ کی خرابی کو محسوس نہیں کرسکا اور نہ سمجھا کہ اس طرح سے میں ہزاروں شریف لوگوں کے گلے پر چُھری پھیرتا ہوں.یہی وجہ تھی ورنہ اگر اس کے عیا ل ہوتے وہ ہرگز ایسی بے غیرتی کو روا نہ رکھتا.اب بھی بہت سے شریف آریہ ہیں جو اسے گلے پڑا ڈھول سمجھ کر ہی صرف زبان سے مان لیتے ہیں ورنہ عملدرآمد بہت کم ہے.۱ ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۸مورخہ ۲۸؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵،۱۶
۲۷؍فروری۱۹۰۳ء (قبل از عصر) مو لو ی عبد الکریم صاحب نے عر ض کی کہ حضور اردو کتابوں کا تو کبھی بھی پر وف نہیں آتا.اردو میں پنجابی الفاظ کا استعمال فرمایا.اردوکیا بھیجنا ہوتا ہے وہ تو صاف ہوتا ہے.ہاں بعض نادان اتنا اکثر اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ اردو میں پنجابی ملا دیتے ہیں مگر یہ ان کی غلطی ہے.ایک شخص نے میری طرف سے کسی ایسے ہی معترض کو جواب دیا کہ تم انصاف کرو کہ ا گر وہ اردو میں پنجابی کے الفاظ ملا دیتے ہیں تو غضب کیا ہوا؟ ان کی ملکی اور مادری زبان ہے اس کا کیا حق نہیں؟ جب وہ انگریزی یا عربی اور دوسرے کی زبان کا کوئی لفظ اردو میں ملاتے ہیں تو تم اعتراض نہیں کرتے مگر جب کوئی پنجابی کا لفظ مل جاوے تو اعتراض کرتے ہو.شرم توکرو یہ اگر تعصب نہیں تو کیا ہے.(دربا ر شا م ) اپنا بوجھ خود اٹھائیں ایک شخص نے خط لکھا تھا کہ حضور مجھے کر ایہ بھیجا جاوے.میں حاضر خدمت ہوں گا.فرمایا.مَنْ جَرَّبَ الْمُجَرَّبَ حَلَّتْ بِہِ النَّدَامَۃُ ہم نے بار بار ایسے لوگوں کا تجربہ کر لیا ہے کہ ان میں اخلاص اور نیک نیتی نہیں ہوتی تو کیا ضرورت ہے کہ اس طرح پر روپیہ ضائع کیا جاوے وہی روپیہ دینی کام میں خرچ ہوگا.کیا ایسا شخص جو معزز ہے وہ ہمارے حا فظ معین الدین سے بھی گیا گذرا ہے یہ بھی ہمیں قریباً پندرہ یا بیس روپے دے چکا ہے کبھی دو آنے اور کبھی ایک آنہ ماہوار دیتا ہے.تو ایسے بیکس شخص جب لنگر اور دیگر اخراجات کے واسطے کچھ دے سکتے ہیں.تو وہ شخص کیوں اپنا بوجھ نہیں سنبھال سکتا؟ اور شریعت نے تو بوجھ بھی نہیں ڈا لا.حج کی توفیق نہ ہو تو حج بھی ساقط ہو جاتا ہے اسی طرح اس جگہ بھی گھر بیٹھے بٹھائے بیعت ہوسکتی ہے صرف ایک پیسہ کا کارڈ صرف ہوتاہے.
رات کی فضیلت فرمایا.میں نہیں سمجھتا کہ رات اور دن میں فرق ہی کیا ہے.صرف نورا ور ظلمت کا فرق ہے سو وہ نور تو مصنوعی بھی بن سکتا ہے بلکہ رات میں تو یہ ایک برکت ہے.خدا نے بھی اپنے فیضان عطا کرنے کا وقت رات ہی رکھا ہے چنانچہ تہجد کا حکم رات کو ہے.رات میں دوسری طرفوں سے فراغت اور کش مکش سے بے فکری ہوتی ہے اچھی طرح دلجمعی سے کام ہوسکتا ہے رات کو مُردہ کی طرح پڑے رہنا اور سونے سے کیا حاصل؟ انسان کی خوش قسمتی اگر ہوسکے تو دین کی خدمت کرنی چاہیے اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کیا ہے کہ انسان کا وقت، وجود، قویٰ، مال، جان خدا کے دین کی خدمت میں خرچ ہو.ہمیں تو صرف مرض کے دورہ کا اندیشہ ہوتا ہے.ورنہ دل یہی کرتا ہے کہ ساری ساری رات کئے جاویں.ہماری تو قریباً تمام کتابیں امراض وعوارض میں ہی لکھی گئی ہیں ازالہ اوہا م کے وقت میں بھی ہم کو خارش تھی.قریباً ایک برس تک وہ مرض رہاتھا.منشّی اشیا کا استعما ل عمر کو گھٹا دیتا ہے اللہ اللہ.کیا ہی عمدہ قر آنی تعلیم ہے کہ انسان کی عمر کو خبیث اور مضر اشیاء کے ضرر سے بچا لیا.یہ منشّی چیزیں شراب وغیرہ انسان کی عمر کو بہت گھٹا دیتی ہیں.اس کی قوت کو برباد کر دیتی ہیں اور بڑھاپے سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہیں.یہ قرآنی تعلیم کا احسان ہے کہ کروڑوں مخلوق ان گناہ کے امراض سے بچ گئے جو ان نشہ کی چیزوں سے پیدا ہوتی ہیں.قادیان کے آریہ سماج کے جلسہ پر جو آریہ آئے تو ان کی گندہ دہنوں اور گالی گلو چ کا کسی نے حضرت ا قد س کی خدمت میں ذکر کیا.زبان کی تہذیب کا ذریعہ فرمایا کہ انسانی زبان کی چُھری تو رک سکتی ہی نہیں جب خدا کاخو ف کسی دل میں نہ ہو.انسانی زبان کی بے با کی اس اَمر کی دلیل ہے کہ اس کا دل سچے تقویٰ سے محروم ہے.زبان کی تہذیب کا ذریعہ صرف خوفِ الٰہی
اور سچا تقویٰ ہے.ان کی گالیوں پر ہمیں کیا افسوس ہو.انہوں نے تو نہ خدا کو سمجھا اور نہ حق العباد کو.ان کو خبر ہی نہیں کہ زبان کس چیز سے رُکتی ہے.تما م قوت اور توفیق خدا ہی کو ہے اور اس کی عنایت اور نصرت سے ہی انسان کچھ لکھ پڑھ سکتا ہے.شاید اس کتاب کے خاتمہ کے لکھے جانے سے اس قوم کی قوت وہمّت اور دلائل کا خاتمہ ہو جاوے.صاد ق کی مخالفت کا راز میں نے کل سو چا کہ اس میں کیا حکمت ہے کہ جب کوئی صادق خدا کی طرف سے آتا ہے تو اس کو لوگ کتوں کی طرح کاٹنے کو دوڑتے ہیں.اس کی جان، اس کا مال، اس کی عزّت وآبر و کے درپے ہو جاتے ہیں.مقدمات میں اس کو کھینچتے ہیں.گورنمنٹ کو اس سے بد ظن کرتے ہیں غرض ہر طرح سے جس طرح ان سے بن پڑتا ہے اور تکلیف پہنچا سکتے ہیں اپنی طرف سے کوئی کسر باقی نہیں رکھتے.ہر پہلو سے اس کے استیصال کرنے پر آما دہ اور ہر ایک کما ن سے اس پر تیر ما ر نے کو کمر بستہ ہوتے ہیں.چاہتے ہیں کہ ذبح کر دیں اور ٹکڑ ے ٹکڑ ے کرکے قیمہ کر دیں.ادھر تویہ جوش اٹھتا ہے مگر دوسری طرف اس کے پاس ہزار در ہزار لوگ آتے ہیں.شرک و بدعت میں مبتلا ہوتے اور حق اللہ انسان کو دیا جاتا ہے مگر ان میں مولویوں کو اس اَمر کی پروا نہیں ہوتی.ہزاروں کنجراور لنگو ٹی پو ش فقیر بنتے اور خلق اللہ کو گمراہ کرتے ہیں مگر ان لوگوں کو قتل اور کفر کا فتو یٰ کوئی نہیں دیتا ان کی ہر حرکت بدعت اور شرک سے پُر ہوتی ہے.ان کا کوئی کام ایسا نہیں ہوتا جو سراسر اسلام کے خلاف نہ ہو.مگر ا ن پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا.ان کے لیے کسی دل میں جوش نہیں اٹھتا غرض اس میں میں سوچتا تھا کہ کیا حکمت ہے تو میری سمجھ میں آیا کہ اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے کہ صادق کا ایک معجزہ ظاہر کرے کہ باوجود اس قسم کی ممانعت کے اور دشمن کے تیروتبر کے چلانے کے صادق بچایا جاتا اور اس کی روز افزوں ترقی کی جاتی ہے خدا کا ہاتھ اسے بچا تا اور اس کو شاداب و سرسبز کرتا ہے.خدا کی غیرت نہیں چاہتی کہ کاذب کو بھی اس معجزہ میں شریک کرے.اسی واسطے اس کی طرف سے دنیا کے دلوں کو بے پروا کر دیتا ہے.گویا اس جھوٹے کی کسی کو یہ پروا نہیں ہوتی.اس کا وجود دلوں کو تحریک نہیں دے سکتا.مگر برخلاف اس کے صادق کا
وجود تباہ ہونے والے دلوں کو بے قرار اور بے چین کرکے ایک رنگ میں ایک طرح سے خبر دیتا ہے اور ان کے دل بے قرار ہوتے ہیں.کیونکہ دل اندر ہی اندر جانتے ہیں کہ یہ شخص ہمارا کا روبار تباہ کرنے آیا ہے.اس واسطے نہایت اضطراب کی وجہ سے اس کے ہلاک کرنے کو اپنے تمام ہتھیا روں سے دوڑتے ہیں مگر اس کا خدا خود محافظ ہوتا ہے.خدا خود اس کے واسطے طاعون کی طرح واعظ بھیجتا اور اس کے دشمنوں کے واعظوں پر اسے غلبہ دیتا ہے.وہ خدا کے واعظ کا مقابلہ نہیں کرسکتے.اب دیکھئے کہ اتنے لوگ جو ہر جمعہ کو جن کی نوبت اکثر پچاس ساٹھ تک پہنچ جاتی ہے ان کو کون بیعت کے لیے لاتا ہے؟ یہی طاعون کا ڈنڈاہے جو ان کو ڈرا کر ہماری طرف لے آتا ہے ورنہ کب جا گنے والے تھے اسی فر شتہ نے ان کو جگا یا ہے.۱ ۲۸ ؍فروری ۱۹۰۳ء (دربارِ شام) دربارِ شام میں آریہ لوگوں میں سے چند لوگ حضرت اقدس کی زیارت کے واسطے آئے.حضرت نے پوچھا آ پ بھی اس جلسہ کی تقریب پر آئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ حضور ہم لوگ تو اصل میں یہ بات سن کر آئے ہیں کہ آپ کا بھی لیکچر ہوگا ورنہ ہماری اس جگہ آنے کی چنداں خواہش نہ تھی.حضر ت اقدس نے فرمایا کہ مذہبی مباحثات کے آداب اصل بات یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر قوم میں کچھ شریف لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا مقصد کسی بےجا حقارت یا کسی کو بےجا گالی گلوچ دینا یا کسی قوم کے بزرگوں کو بُرا بھلا کہنا ان کا مقصد نہیں ہوتا.مگر ہم تو جو کام کرتے ہیں وہ خدا کے حکم اور اس کی اجازت اور اس کے اشارہ سے کرتے ہیں.اس نے ہمیں اس قسم کے زبانی مبا حثا ت سے رو ک دیا ہوا ہے چنانچہ ہم کئی سال ہوئے کہ کتاب انجام آتھم میں اپنا یہ معاہدہ شائع بھی کر چکے ہیں اور ہم نے خدا سے عہد کیا ہے کہ زبانی مباحثات کی مجالس میں نہ جاویں گے.۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۹ مورخہ ۱۰؍مارچ ۳ ۱۹۰ء صفحہ ۹،۱۰
آپ جانتے ہیں کہ ایسے مجمعوں میں مختلف قسم کے لوگ آتے ہیں.کوئی تو محض جاہل اور دھڑے بندی کے خیال پر آتے ہیں کوئی اس واسطے کہ تا کسی کے بزرگوں کو گالی گلو چ دے کر دل کی ہوس پوری کرلیں اور بعض سخت تیز طبیعت کے لوگ ہوتے ہیں.سو جہاں اس قسم کا مجمع ہوا یسی جگہ جاکر مذہبی مباحثات کرنا بڑا نازک معاملہ ہے.کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ جب دو شخص مقابل میں کھڑے ہوتے ہیں جب تک وہ یہ ثابت کرکے نہ دکھادیں کہ دوسرا مذہب بالکل غلطی پر ہے اور اس میں صداقت اور روحانیت کا حصہ نہیں وہ مُردہ ہے اور خدا سے اسے تعلق نہیں ہے تب تک اس کو اپنے مذہب کی خوبصورتی دکھانی مشکل ہوتی ہے کیونکہ یہ دوسرے کے معائب کا ذکر کرناہی پڑے گا.جو غلطیاںہیں اس میں اگر ان کا ذکر نہ کیا جاوے تو پھر اظہارِ حق ہی نہیں ہوتاتو ایسی باتوں سے بعض لوگ بھڑک اٹھتے ہیں.وہ نہیں برداشت کرسکتے.طیش میں آکر جنگ کرنے کو آمادہ ہوتے ہیں لہٰذا ایسے موقع پر جانا مصلحت کے خلاف ہے اور مذہبی تحقیقات کے واسطے ضروری ہے کہ لوگ ٹھنڈے دل اور انصاف پسند طبیعت لے کر ایک مجلس میں جمع ہوں.ایسا ہو کہ ان میں کسی قسم کے جنگ و جدال کے خیالات جوش زن نہ ہوں تو بہتر ہو.پھر ایسی حالت میں ایک طرف سے ایک شخص اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور جہاں تک وہ بول سکتا ہے بولے پھر دوسری طرف سے جانب مقابل بھی اسی طرح نرمی اور تہذیب سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اسی طرح بار بار ہوتا رہے مگر افسوس کہ ابھی تک ہمارے ملک میں اس قسم کے متحمل لوگ اور صبر اور نرم دِلی سے تحقیق کرنے والے نہیں ہیں ابھی ایسا وقت نہیں آیا ہاں امید ہے کہ خدا جلدی ایسا وقت لے آوے گا ہم نے تو ایسا ارادہ بھی کیا ہے کہ یہاں ایک ایسا مکان تیار کرایا جاوے جس میں ہر مذہب کے لوگ آزادی سے اپنی اپنی تقریریں کرسکیں.درحقیقت اگر کسی اَمر کو ٹھنڈے دل اور انصاف کی نظر اور بردباری سے نہ سناجاوے تو اس کی سچی حقیقت اور تہ تک پہنچنے کے واسطے ہزاروں مشکلات ہوتے ہیں.دیکھئے ایک معمولی چھوٹاسا مقدمہ ہوتا ہے تو اس میں جج کس طرح طرفین کے دلائل، ان کے عذر وغیرہ کس ٹھنڈے دل سے سنتا ہے اور پھر کس طرح سوچ بچار کر پوری تحقیقات کے بعد فیصلہ کرتا
ہے بعض اوقات سال ہی گذرجاتے ہیں جب دنیا کے مقدمات کا یہ حال ہے تو دین کے مقدمات کا کیوں کر دو چار یا دس باراں منٹ میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے.سائل کو سوال کرنا تو آسان ہے مگر جواب دینے والے کو جو مشکلات ہوتی ہیں ان کا اندازہ کرنا مشکل ہے.ایک شخص اعتراض کر دیوے کہ نظامِ شمسی کے متعلق اور ستاروں اور زمین کے متعلق حالات مجھے بتا دو اور جتنے وقت میں مَیں نے سوال کیا ہے اتنا ہی تمہیں وقت دیا جاتا ہے کہ اتنے وقت کے اندر اندر جواب دو.ورنہ تم جھوٹے ہو.اب صاف عیاں ہے کہ جواب دینے والا کیا کرے.وہ جب تک کئی جز کی کتاب نہ لکھے تب تک جواب پورا نہ ہونا ہوا.غرض اس طرح کی مشکلات ہیں جو ہمیں درپیش ہیں.یہ وجو ہ ہیں جو ہمیں ان جلسوں میں جانے سے روکتے ہیں.تلا شِ حق کے آدا ب اگر سائل ایسا کرے کہ لو صاحب میں نے سوال کیا ہے تم جب تک اس کا جواب کامل کرو میں خاموش ہوں تو جواب دینے والے کو بھی مزہ آوے.اصل میں جو باتیں خدا کے لیے ہوں اور جو دل خدا کی رضا کے واسطے ایسا کرتا ہے اور اس کا دل سچے تقویٰ سے پُر ہے وہ تو کبھی ایسا کرتا نہیں.مگر آج کل زبان چُھری کی طرح چلتی ہے اور صرف ایک حجت بازی سے کام کیا جاتا ہے خدا کے لیے ایسا ہوگا تو وہ باتیں اور وہ طرز ہی اور ہوتا ہے جو دل سے نکلتاہے وہ دل ہی پر جا کر بیٹھتا ہے.حق جُو کے سوال کی بھی ہم کو خوشبو آ جاتی ہے.حق جُو ہو تو اس کی سختی میں بھی ایک لذّت ہوتی ہے.اس کا حق ہوتا ہے کہ جو اَمر اس کی سمجھ میں نہیں آیا اس کے متعلق اپنی تسلّی کرائے اور جب تک اس کی تسلّی نہ ہو وے اور پورے دلائل نہ مل جاویں تب تک بے شک وہ پوچھے ہمیں بُرا نہیں لگتا.بلکہ ایسا شخص تو قابلِ عزّت ہوتا ہے جو باتیں خدا کے لیے ہوتی ہیں وہ کہاں اور نفسانی ڈھکو نسلے کہاں؟ اعتراض کرنے میں جلدی نہ کرو میں نے اپنی جماعت کو بھی بارہا سمجھایا کہ کسی پر اعتراض کرنے میں جلدی نہ کرو.ہر پرانا مذہب اصل میں خدا ہی کی طرف سے تھا مگر زمانہ دراز گذرنے کی وجہ سے اس میں غلطیاں پڑگئی ہیں.ان کو
آہستگی اور نرمی سے دور کرنے کی کوشش کرو کسی کو پتھر کی طرح اعتراض کا تحفہ نہ دو.ہم دیکھتے ہیں کہ آج ایک کپڑا بازار سے لے کر سلایا جاتا اور پہنا جاتا ہے چند روز کے بعد وہ پرانا ہو جاتا اور اس میں تغیر آکر کچھ اَور کا اَور ہی ہو جاتا ہے.سچے مذہب کی علا ما ت اسی طرح پر انے مذہب میں بھی صداقت کی جڑ ضرور ہے.خدا راستی کے ساتھ ہوتا ہے اور سچا مذہب اپنے اندر زندہ نشان رکھتا ہے کیونکہ درخت اپنے پھلوں سے شناخت ہوتا ہے.گورنمنٹ جو اس وراء الو راء ہستی کا ایک نہایت کمزور سا ظِل ہے اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی نظر میں صادق کیسے عزیز اور معتبر ہوتے ہیں وہ افسر یا ملازم جن کو گورنمنٹ نے خود کسی جگہ کا حاکم مقرر فرمایا ہوتا ہے وہ کس دلیری سے کام کرتا ہے اور ذرا بھی پو شید گی پسندنہیں کرتا.مگر وہ ایک مصنو عی ڈپٹی کمشنر یا تھا نہ دار وغیرہ جو جعلی طور پر کسی جگہ خود بخود حاکم بن کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں کیا وہ گورنمنٹ کے سامنے ہوسکتے ہیں؟ جب گورنمنٹ کو یہ پتا لگے گا اس کو ذلیل کرے گی اور وہ ہتھکڑی لگ کر جیل خانہ میں یا اور سزا ملے گی.یہی حال ہے مذہبی راستی کا.جو خدا کی نظر میں صادق ہوتا ہے اس میں خدا کے نشان اور جرأت اور صداقت کے آثار ہوتے ہیں وہ ہر وقت زندہ ہوتا ہے اوراس کی عزّت ہوتی ہے.متّقی کا مقام اصل میں خدا سے ڈرنے والے کو تو بڑے بڑے مشکلات ہوتے ہیں.انسان پاک صاف تو جب جا کر ہوتا ہے کہ اپنے ارادوں کو اور اپنی باتوں کو بالکل ترک کرکے خدا کے ارادوں کو اسی کی رضا کے حصول کے واسطے فنا فی اللہ ہو جاوے.خودی اور تکبر اور نخوت سب اس کے اندر سے نکل جاوے.اس کی آنکھ ادھر دیکھے جد ھر خدا کا حکم ہو.اس کے کان ادھر لگیں جدھر اس کے آقا کا فرمان ہو.اس کی زبان حق وحکمت کے بیان کرنے کو کھلے.اس کے بغیر نہ چلے جب تک اس کے لیے خدا کا اذن نہ ہو اس کا کھانا، پہننا، سونا، پینا، مباشرت وغیرہ کرنا سب اس واسطے ہو کہ خدا نے حکم دیا ہے اس واسطے نہ کھائے کہ بھوک لگی ہے بلکہ اس لیے کہ خدا کہتا ہے.غرض جب تک مَرنے سے پہلے مَر کر نہ دکھاوے تب تک اس درجہ تک نہیں پہنچتا کہ متّقی ہو.
پھر جب یہ خدا کے واسطے اپنے اوپر موت وارد کرتا ہے خدا کبھی اسے دوسری موت نہیں دیتا.میں نیک دل انسان کو دور سے پہچا ن لیتا ہوں آج کل دیکھا جاتا ہے کہ جب لَبْ کھولا جاتا ہے.تو ان کی باتوں میں سے سوائے ہنسی ٹھٹھے اور دل دکھانے والے کلمات کے کچھ نکلتا ہی نہیں جو کچھ کسی برتن میں ہوتا ہے وہی باہر نکلتا ہے.ان کی زبانیں ان کے اندرون پر گواہی دیتی ہیں.میں تو نیک دل انسان کو دوری سے پہچان لیتا ہوں جو شخص پاک کردار سلیم دل لے کر آتا ہے میں تو اسی کے دیکھنے کا شوق رکھتا ہوں.اس کی تو گالی بھی بُری معلوم نہیں ہوتی.مگر افسوس کہ ایسے پاک دل بہت کم ہیں.صبر اور حلم کا نمونہ ایک آریہ صاحب بو لے کہ ا صل میں حضور جاہل تو دو ہی قومیں ہیں.آپ بُرا نہ مانیں تو میں عرض کر دوں.اوّل تو سکھ لوگ دوسرے یہ ہمارے مسلمان بھائی.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ دیکھئے ایک سمجھنے والے کے لیے جاہل سے زیادہ اور کیا گالی ہوسکتی ہے.کسی شخص کو اس کے منہ پر جاہل کہنا بہت سخت گالی ہے مگر سوچو تو کیا ان حاضرین میں سے کوئی ایک بھی بولا ہے؟ کیا اب بھی تمہیں اس مجلس کی نرمی اور تہذیب پر کچھ شک ہے؟ بہت ہیں ہمارے منہ پر گالیاں دے جاتے مگر ان میں سے ایک کی بھی مجال نہیں ہوتی کہ دم ما ر کر اس کو کچھ بھی کہہ جاوے.ہم ان کو دن رات صبر کی تعلیم دیتے ہیں.نرمی اور حلم سکھا تے ہیں.یہ وہ قوم نہیں کہ آپ کے اس اصول کے مصداق بن سکے.ہاں ہم البتہ عوام مسلمان لوگوں کے ذمہ وار نہیں ہیں ہم تب مانیں اگر کسی آریہ لوگوں کے مجمع میں اس طرح کہہ دیں تم جاہل ہو اور وہ صبر کر رہیں اور ایک کی بجائے ہزارنہ سنائیں تو.مسلمان کے اخلاق آپ نے مسلمانوں کو نہیں دیکھا اور نہ ہی آپ نے ان کے اخلاق دیکھے ہیں.ان کا اور ان آریوں کا اگر مقابلہ کیا جاوے تو بکری اور
بھیڑیئے کا معاملہ نظر آوے.عوام جو ہمارے زیر اثر نہیں ہیں ان کا ہم ذمہ نہیں لیتے.گالی اور جوش دلانے والے الفاظ سن کر صبر کرنا مَردوں کا کام ہوتا ہے.اگر کوئی ایسا کرکے دکھا دے تو ہم جانیں.نرمی ہی مشکل ہے سختی تو ہر ایک شخص کرسکتا ہے.خدا تعالیٰ عمر کو کم وبیش کرسکتا ہے کسی صاحب نے بیان کیا کہ آریوں نے لیکچر میں کہا کہ خدا عمر کو کم وبیش نہیں کرسکتا ہے.فرمایا.ہماراتو اعتقادہے کہ وہ ہر چیزپر قا درہے.وہ عمر کو کم بھی کرسکتا ہے اور زیادہ بھی کرسکتا ہے يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَآءُ وَ يُثْبِتُ( الرّعد:۴۰ ) اگر ایسا نہیں ہوتا وہ کیوں مَرتے ہوئے انسان سے صدقات کر اتے ہیں اور کیوں علاج معا لجہ کراتے ہیں؟ بلکہ عیسائیوں کا بھی یہی اعتقاد ہے ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک شخص کی پندرہ دن کی عمر باقی رہ گئی تھی دعا سے پندرہ سال ہو گئے.اصل بات یہ ہے کہ یہ قوم نبوت کی را ہ سے بالکل محروم ہونے کی وجہ سے اس راہ اور علم سے جاہل مطلق ہے اسی وجہ سے ایسے ایسے اعتراض کرتے ہیں.روحانیت سے بے بہر ہ ہونے کی وجہ سے ہے ورنہ ایسے اعتراض ہرگز نہ کرتے.مادر زاداندھے کو آنکھیں کیوں کر دیں.۱ یکم مارچ ۱۹۰۳ء (صبح کی سیر ) حضر ت نواب محمد علی خان صاحب کے متعلق ایک الہام نواب صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آج رات ایک کشف میں آپ کی تصو یر ہمارے سامنے آئی اور اتنا لفظ الہام ہوا حجۃ اللہ، یہ اَمر کوئی ذاتی معاملات سے تعلق نہیںرکھتا.اس کے متعلق یوں تفہیم ہوئی کہ چونکہ آپ اپنی برادر ی اور قوم میں سے اور سو سائٹی میں سے الگ ہو کر آئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام حجۃ اللہ رکھا یعنی آپ ان پر حجت ہوں گے.قیامت کے دن کو ان کو کہا جاوے گا کہ فلاں شخص نے تم سے نکل کر اس صداقت کو پرکھا اور مانا.۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۹ مورخہ ۱۰ ؍ ما رچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰،۱۱
تم نے کیوں ایسا نہ کیا؟ یہ بھی تم میں سے ہی تھا اور تمہاری طرح کا ہی انسان تھا چونکہ خدا تعالیٰ نے آپ کا نام حجۃ اللہ رکھا.آپ کو بھی چاہیے کہ آپ ان لوگوں پر تحریر سے تقریر سے ہر طرح سے حجت پوری کر دیں.۱ اصل میں اس ساری قوم کی حالت قابل رحم ہے عیش وعشرت میں گم ہیں دنیا کے کیڑے بنے ہوئے ہیں اور فنا فی یورپ ہیں.خدا سے اور آسمان سے کوئی تعلق نہیں.جب خدا کسی کو ایسی قوم میں سے نکالتا اور اس کی اصلا ح کرتا ہے تو اس کا نام اس قوم پرحجت رکھتا ہے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَجِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِيْدًا ( النِّسآء:۴۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا تھا.اس نے کچھ کہا تھا تو آپ نے فرمایا بس کر.اب تو میں اپنی ہی اُمّت پر گواہی دینے کے قابل ہو گیا ہوں.مجھے فکر ہے کہ میری امت کو میری گواہی کی وجہ سے سزا ملے گی.کلمۃ اللہ کی حقیقت حضر ت عیسٰیؑ کو اللہ تعالیٰ نے کلمۃ اللہ خصوصیت سے کیوں کہا.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی ولادت پر لوگ بڑے گندے اعتراض کرتے تھے اس واسطہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان الزاموں سے بری کرنے کے لیے فرمایا کہ وہ تو البدر میں یکم مارچ۱۹۰۳ء کی سیر کے دوران کا ایک اَور ذکرہے جو الحکم میں نہیں.لکھاہے.عورتوں سے حُسنِ معاشرت ’’مستورات کا ذکر چل پڑا.ان کے متعلق احمدی احباب میں سے ایک سربرآوردہ ممبر کا ذکر سنایا کہ ان کے مزاج میں اوّل سختی تھی.عورتوں کو ایسا رکھا کرتے تھے جیسے زندان میں رکھا کرتے ہیںاور ذرا وہ نیچے اترتیں تو ان کو مارا کرتے لیکن شریعت میں حکم ہے عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النِّسآء:۲۰) نمازوں میں عورتوں کی اصلاح اور تقویٰ کے لیے دعا کرنی چاہیے.قصاب کی طرح برتائو نہ کرے کیونکہ جب تک خدا نہ چاہے کچھ نہیں ہوسکتا مجھ پر بھی بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیںکہ عورتوں کو پھراتے ہیں.اصل میں بات یہ ہے کہ میرے گھر میں ایک ایسی بیماری ہے کہ جس کا علاج پھرانا ہے جب ان کی طبیعت زیادہ پریشان ہوتی ہے تو بدیں خیال کہ گناہ نہ ہو کہا کرتا ہوں کہ چلو پھرالائوں اَور بھی عورتیں ہمراہ ہوتی ہیں.پھر خدا تعالیٰ کے مکالمہ اور مخاطبہ کی نسبت ذکر پر فرمایا کہ ’’مجازی عدالتوں کی طرف سے جو ایک لقب انسان کو ملتا ہے تو اسے کتنا فخر ہوتا ہے.ستارئہ ہند لقب وغیرہ بھی ملتے ہیں تو کیا اب حقیقت میں ان لوگوں میں وہ خواص ہوتے ہیں؟جو لقب ان کو ملتا ہے صرف استعارہ ہوتے ہیں.‘‘ (البدر جلد۲نمبر۸ مو رخہ ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵۷ )
کلمۃاللہ ہیں.۱ ان کی ماں بھی صدیقہ ہے یعنی بڑی پاکباز اور عفیفہ ہے ورنہ یوں تو کلمۃ اللہ ہر شخص ہے ان کی خصوصیت کیا تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلمے اتنے ہیں کہ وہ ختم نہیں ہوسکتے انہی اعتراضوں سے ہی بری کرنے کے واسطے اللہ تعالیٰ نے ان کو کہا کہ وہ شیطان کے مَس سے پاک ہیں ورنہ کیا دوسرے انبیاء شیطان کے ہاتھ سے مَس شدہ ہیں؟ جو نعوذبا للہ دوسرے الفاظ میں یوں ہے کہ ان پر شیطان کا تسلط ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ شیطان کو کسی معمولی انسان پر بھی تسلّط نہیں ہوتا تو انبیاء پر کس طرح ہوسکتا ہے؟ اصل وجہ صرف یہی تھی کہ ان پر بڑے اعتراض کئے گئے تھے.اسی واسطے ان کی بریت کااظہار فرمایا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ (البقرۃ: ۱۰۳) کوئی کہے کہ کیا انبیاء بھی کافر ہوا کرتے ہیں؟ نہیں ایسا نہیں.لوگوں نے ان پر اعتراض کیا تھا کہ وہ بُت پرست ہو گئے تھے ایک عورت کے لیے.اس اعتراض کا جواب دیا یہی حال ہے حضرت عیسیٰؑ کے متعلق.۲ اس دن کی سیر کے دوران ایک اور ذکر بھی ہوا جوالبد ر میں یوں درج ہے.چو نکہ آج کے دن بھی آریہ سماج کا جلسہ تھا اور کثرت سے لوگ اس جلسہ میں شامل ہوئے تھے کہ حضرت میرزا صاحب کی زیارت ہو گی.مگر جب ان کو معلوم ہو اکہ مباحثہ کی خبر غلط شائع کی گئی ہے تو اب وہ لوگ حضرت کی زیارت کے لیے بعض تو مسجد میں آتے رہے اور بعض سیر میں آکرملے ان میں سے بعض نے پھر در خوا ست کی کہ آپ جلسہ میں آکر کچھ گفتگو کریں.گالی او ر بر محل بات میں فرق حضرت اقدس نے فرمایا کہ مذہبی باتوں کو علمی رنگ میں بیان کرنا چاہیے اور یہ جب ۱ البدر سے.ــ’’ایک شخص نے سوال کیا کہ حضرت مسیح کو کلمہ کہا گیاہے.فرمایا.ان کو کلمہ اس لیے کہا گیا تھا کہ یہودان کو ناجائزولادت قرار دیتے تھے ورنہ کیادوسرے انبیاء کلمتہ اللہ نہ تھے؟اسی طرح مریم علیہا السلام کو صدیقہ کہا گیا.اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اَور عورتیں صدیقہ نہ تھیں.یہ بھی اسی لیے کہا کہ یہودی ان پر تہمت لگاتے تھے توقرآن نے اس تہمت کو دورکیا.‘‘ (البدر جلد۲نمبر۸ مو رخہ ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵۷ ) ۲ الحکم جلد ۷ نمبر ۹ مورخہ ۱۰ ؍ ما رچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱،۱۲
ہو سکتا ہے کہ جب انسان کو گیان حاصل ہو ورنہ بلاسوچے سمجھے کہہ دینے سے کچھ نتیجہ نہیں نکلا کرتا.ہر ایک مذہب میں کھلی کھلی بات اور گیا ن کی بات بھی ہوتی ہے جب تک انسان نفس کو صاف کرکے بات نہ کرے تو ٹھیک پتا نہیں لگتا.آج کل ہار جیت کو مدّ ِنظر رکھ کر لوگ بات کرتے ہیں.اس سے فساد کا اندیشہ ہوتا ہے.بار بار جہا د،طلاق، کثرت ازدواج کو پیش کیا جاتا ہے حا لا نکہ ان کے بزرگ سب یہ باتیں کرتے آئے ہیں.یہاں کے آریہ ہمیشہ میرے پاس آتے ہیں اور سوال وجواب بھی ہوتا ہے لیکن آپس میں ناراضگی کبھی نہیں ہوتی بعض بات اپنے محل پر چسپاں کہی جاتی ہے لوگ اسے غلط فہمی سے گالی خیال کر لیتے ہیں ان کو یہ علم نہیں ہوتا کہ گالی اور بر محل بات میں فرق کرسکیں.بات یہ ہے کہ جب انسان پرانے عقیدے پر جما ہوا ہوتا ہے تو اس کے عقیدے کو جب دوسرا بیان کرتا ہے تو اسے گالی خیال کرتا ہے.اس موقع پر ایک ہندونے کہا کہ آپ نے بعض جگہ گالیاں دی ہوئی ہیں.فرمایا کہ کوئی ایسی بات پیش کرو جو اپنے محل پر چسپاں نہیں ہے.اس لیے میں کہتا ہوں کہ زبانی تقریریں اچھی نہیں ہیں.اور تحریر پیش کرتا ہوں کہ ہر ایک پڑھ کراپنی اپنی جگہ پر رائے قائم کرلے اور جو اس کا جی چاہے کہے.چنانچہ اس موقع پر حضرت اقدس نے اس ہند وکو تحفہ آریہ یعنی ’’ نسیم دعوت‘‘ نئی تصنیف دی کہ تم اسے دیکھو اور بتلاؤ کون سی بات ہے جو اپنے محل پر چسپاں نہیں ہے.۱ (قبل ازظہر) حضر ت اقدس کی زیارت کے لیے کاشی رام ویدلا ہو ر سے اور بعض اور لوگ تشریف لائے.حضرت اقدس نے مخاطب کرکے ان کو فرمایا.اختلاف مذہب کی حکمت اختلاف مذاہب کا جو خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت عملی سے رکھا ہے یہ بھی ایک عمدہ چیزہے.اس سے انسانوں کی عقل بڑھتی ۱ البدر جلد۲نمبر۸ مو رخہ ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵۷
ہے دنیا میں اگر کسی معاملہ میں اتفاق بھی کرتے ہیں تو اس کی باریک درباریک جزئیوں تک پہنچنا محال ہو جاتا ہے اور جزئی در جزئی نکلتی چلی آتی ہے.تبادلہ خیالات کے لیے مجمعوں میں تقریریں کرنی بھی اچھی چیز ہیں لیکن ابھی تک ہمارے ملک میں ایسے مہذب لوگ بہت ہی کم ہیں بلکہ نہیں ہیں جو آرام اور امن کے ساتھ اپنی مخا لف رائے ظاہر کر سکیں.میں نے خود یہ چاہا تھا اور میرا ارادہ ہے کہ قادیان میں ایک جگہ ایسی بنا ویں جہاں مختلف لوگ مذاہب کے جمع ہو کر ا پنے اپنے مذہب کی صد اقت اور خوبیوں کو آزادی سے بیان کرسکیں.میں دیکھتا ہوں کہ اگر اظہار حق کے لیے مبا حثے اور تقریریں ہوں تو بہت اچھی بات ہے مگر تجربہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ ان میں فتنہ وفسا د کا مظنّہ ہوتا ہے اس لیے میں نے ان مبا حثوں کو چھوڑدیا ہے ممکن ہے دو چار آدمی ایسے بھی ہوں جو صبر اور نرمی کے ساتھ اپنے مخالف کی بات سن لیں لیکن کثرت ایسے لوگوں کی ہوگی جو عوام الناس میں سے ہوتے ہیں اور وہ اپنے مخالف کے منہ سے ایک لفظ بھی اپنے مذہب کے خلاف نہیں سن سکتے خواہ وہ کتنا ہی نرم کیوں نہ ہو.چونکہ جب مخالف بیان کرے گا تو کوئی نہ کوئی لفظ اس کے منہ سے ایسا نکل سکتا ہے جو اس کے فریق مخالف کی غلطی کے اظہار میں ہوگا اور اس سے عوام میں جوش پھیل جاتا ہے ایسی جگہ تو تب امن رہ سکتا ہے جب سمجھانے والا اور سمجھنے والا اس طرح بیٹھیں کہ جیسے با پ بیٹے میں کوئی برائی دیکھتا ہے اور اس کو سمجھاتا ہے تو وہ نرمی اور صبرسے اس کو سن لیتا ہے ایسی محبت کی کشش سے البتہ فائدہ ہوتا ہے غیظ وغضب کی حالت میں یہ امید رکھناکہ کوئی فائدہ ہو خام خیال ہے.ہندواور مسلمانوں کے با ہم تعلقات میں ابتری اب مشکل آکر یہ پڑی ہے کہ ایک تودین کا اختلاف ہی ہے پھر اس پر احقاقِ حق لوگوں کی غرض نہیں رہی بلکہ بغض و عناد میں اس قدر ترقی کی گئی ہے کہ اپنے فریق مخالف کا نام بھی ادب یا عزّت سے لینا گناہ سمجھا جاتا ہے میںـ دیکھتا ہوں کہ بڑی بے ادبی اور گستاخی سے بات کرتے ہیں پہلے ہندو مسلمانوں میں ایسے تعلقات تھے کہ برادری کی طرح رہتے
تھے اب ایسا تفرقہ پیدا ہوا ہے کہ وہ اندرونی کشش جو ایک دوسرے میں تھی باقی نہیں رہی ہے بلکہ تعصب اور دشمنی بڑھ گئی ہے پس جب کہ کوئی حصہ انس اور کشش کا ہی باقی نہ ہو اور ہار جیت مقصو د ہو تو پھر اظہار حق کس طرح ہوسکتا ہے.اظہارِ حق کے لئے ضروری امور اظہار حق کے واسطے یہ ضروری اَمر ہے کہ تعصب سے اندر خالی ہو اور بغض اور عناد نہ ہو.ست است کے نرنے کے لیے بحث کا تو نام بھی درمیا ن میں نہیں آنا چاہیے بلکہ اس کو چاہیے کہ بحث کو چھوڑ دے.میں یہ بھی مانتا ہوں اور یہی میرا مذہب ہے کہ ایک اور غلطی میں لوگ پڑے ہوئے ہیں کسی مذہب پر حملہ کرتے وقت وہ اتنا غور نہیں کرتے کہ جو حملہ ہم کرتے ہیں اس مذہب کی کتاب میں بھی ہے یا نہیں؟ مسلّمہ کتب کو چھوڑدیتے ہیں اور کسی شخص کی ذاتی رائے کو لے کر اس کو مذہب کی خبر بنادیتے ہیں.ہم بہت سی باتوں میں آریہ مذہب کے خلاف ہیں اور ہم ان کو صحیح تسلیم نہیں کرتے لیکن ہم ان کو ویدپر نہیں لگاتے ہم کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ اس میں کیا ہے ہاں پنڈت دیا نند پر ضرور لگاتے ہیں کیونکہ انہوں نے تسلیم کر لیا ہے ہم تو اس عقیدہ کے خلاف کہتے ہیں جو شائع کر دیا گیا ہے کہ یہ آریہ سماج کا عقیدہ ہے اسی طرح پر آریوں کو اگر کوئی اعتراض کرنا ہو تو چاہیے کہ وہ قرآن شریف پر کرےیا اس عقیدہ پر جو ہم نے مان لیا ہو اور اس کو شائع کر دیا ہو یہ مناسب نہیں کہ جس بات کو ہم مانتے ہی نہیں خواہ نخواہ ہمارے عقیدہ کی طرف اس کو منسوب کر دیا جاوے.مباحثہ اصول پر ہونا چاہیے چونکہ بہت سے فرقے ہو گئے ہیں اس لیے جس نے ایک اصول مان لیا ہے اس پر اعتراض کرنا چاہیے اس لئے مباحثہ کے وقت کتاب کا نام لے.تفسیروں اور بھاشوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر اختلاف ہے.اگر اس اصل کو مد نظر رکھا جاوے تو سا معین فائدہ اٹھا سکتے ہیں.جب تک کتاب کو کسی نے سمجھا اور پڑھا ہی نہیں اس پر وہ اعتراض کرنے کا حق کس طرح رکھ سکتا ہے.مذہب کے معاملہ میں یہ ضروری بات ہے کہ ما نی ہوئی اصل پر بحث کریں.اگرچہ یہ ضروری نہیں کہ کل کتابیں پڑھی جاویں اس کے لیے
تو عمر بھی وفا نہیں کرسکتی.مباحثہ اصول پر ہونا چاہیے۱ جو بطوربحث کے ہیں.اور چونکہ عام مجمعوں میں حق کو مشتبہ رکھا جاتا ہے انسان ضد اور تعصب سے کام لیتا ہے میں نے خدا سے عہد کر لیا ہے کہ اس طریق کو چھوڑدیا جاوے.یہ کتاب۲ میں نے اصول مباحثہ کے لحاظ سے لکھی ہے.اوراسی طریق سے جو میں نے پیش کیا ہے بحث کی ہے جو لوگ ہم کو گالیاں دیتے ہیں ہم ان کی گالیوں کا کوئی جواب نہیں دیتے کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہم سے توگالیوں کی قوت ہی کھو دی ہے.کس کس کی گالی کا جواب دیں.۳ ۴ ۲؍مارچ ۱۹۰۳ء (صبح کی سیر) مسیح موعودؑ کے ذریعہ خانہ کعبہ کی حفاظت ایک صاحب نے عر ض کیا کہ حضورمیرے ایک دوست نے لکھا ہے کہ تم تو حج کرنے البدرسے.’’مناظرین نے لکھا ہے کہ فروعات میں بحث کرنا ہی فضول ہے.فروعا ت کی مثال تو لشکر کی ہے جن کے افسر اُصول ہیں.جب اصول میں فیصلہ ہوجاوے تو فروع میں خود ہو جاتا ہے جیسےجب افسر مارا جاوے توسپاہی خود تابع ہوجاتے ہیں.میں کوئی بات نہیں کرتا جب تک خدا تعالیٰ اجازت نہ دے اگر میں نے مباحثہ میں جانا ہوتا تو کتاب (نسیم دعوت) شائع نہ کرتا.،، (البدر جلد ۲نمبر ۸مورخہ ۱۳ ؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۵۸ کالم اوّل) ۲ (یعنی نسیم دعوت.مرتّب ) ۳ البدر سے.جب یہ آریہ صاحبان تشریف لے گئے توکچھ اَور صاحب آئے.ان کے سوالات کا جواب حضرت اقدس نے ذیل کے مختصر فقرات میں دیا.’’باوجود اختلافاتِ رائے کے حق کی رُو رعایت رکھنا اس بات کو آپ کتاب نسیمِ دعوت میں دیکھیں گے.خدا نے اب ہم سے گالیوں کی قوت ہی دور کردی ہے اور نہ ہم ہر ایک کو الگ الگ جواب دے سکتے ہیں.اب کروڑہا آدمی گالی دے رہے ہیں کس کس کو جواب دیویں.میراتعلق آریہ سماج سے ہے نہ کہ وید سے کیونکہ وید سے میں واقف نہیں ہوں.‘‘ (البدر جلد۲نمبر۸ مو رخہ ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵۸ ) ۴ الحکم جلد ۷ نمبر ۹ مو رخہ ۱۰ ؍ما رچ ۱۹۰۳ءصفحہ ۱۲
کو گئے ہوئے ہو مگر ہمیں بھلا دیا ہے.۱ فرمایا.اصل میں جو لوگ خدا کی طرف سے آتے ہیں ان کی خدمت میں دین سیکھنے کے واسطے جانا بھی اک طرح کا حج ہی ہے.حج بھی خدا تعالیٰ کے حکم کی پابندی ہی ہے اور ہم بھی تو اس کے دین اوراس کے گھر یعنی خانہ کعبہ کی حفاظت کے واسطے آئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کشف میں دیکھا تھا کہ دجّال اور مسیح موعود اکٹھے طواف کررہے ہیں.اصل میں طواف کے معنی ہیں پھرنا، تو طواف دو ہی طرح کا ہوتا ہے، ایک تو رات کو چور پھرتے ہیں یعنی گھروں کے گرد طواف کرتے ہیں اور ایک چوکیدار طواف کرتا ہے مگر ان میں فرق یہ ہے کہ چور تو گھروں کو لوٹنے اور گھروں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے اور چوکیدار ان گھروں کی حفاظت اور بچائواور چوروں کے پکڑنے کے واسطے طواف کرتے ہیں.یہی حال مسیح اور دجّال کے طواف کا ہے.دجّال تو دنیا میں اس واسطے پھرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ تا دنیا کو خدا کی طرف سے پھیر دے اور ان کے ایمان کو لُوٹ لیا جاوے مگر مسیح موعود اس کوشش میں ہے کہ تا اسے پکڑے اور مارے اور اس کے ہاتھ سے لوگوں کے دین وایمان کے متاع کو بچاوے.غرض یہ ایک جنگ ہے جو ہمارا دجّال سے ہو رہا ہے.کا مل ایمان والے کو کسی نشان کی ضرورت نہیں ہوتی ایک صاحب نے عرض کی حضور کیا وجہ ہے کہ بعض لوگوں کو مبشرات کثرت سے ہوتے ہیں اور بعض کو بہت کم بلکہ بالکل ہی نہیں.فرمایا کہ اصل میں اللہ تعالیٰ نے طبائع مختلف پیدا کی ہیں.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی ۱ البدر سے.’’ایک شخص کی طرف سے اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَامِنْکَ جو حضرت کا الہام ہے اس پر اعتراض پیش ہو اتو فرمایاکہ اَنْتَ مِنِّیْ کے معنے ہیں کہ تیری نشوونما مجھ سے اور اَنَامِنْکَ یعنی جب خدا کی عظمت و جلال ایک وقت کم ہوجاتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ ایک بندہ کے ذریعہ اسے دُنیا پر ظاہر کرتا ہے چونکہ اس وقت خدائی کا جلوہ اس مامور کے ہاتھ سے ہوتا ہے اس لیے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تجھ سے ہوں یعنی میرا جلال تیرے ذریعے ظاہر ہوا.‘‘ (البدر جلد۲نمبر۸ مو رخہ ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵۸ )
ایمانی قوت ہی ایسی مضبوط ہوتی ہے کہ اسے کسی نشان کی ضرورت نہیں ہوتی.اس کا ایمان کامل ہوتا ہے دیکھو! حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کون سا نشان دیکھاتھا؟ یا ان کو کون سا خواب آیا؟ یا کوئی بشارت ہوئی تھی جس سے انہوں نے آپ کوپہچان لیا تھا اگر ان کا کوئی خواب یا بشارت وغیرہ ہوتی تو اس کا ذکر حدیث شریف میں ضرور ہوتا.وہ ایک سفر پر گئے ہوئے تھے راستہ میں واپسی پر انہوں نے ایک شخص سے پوچھا کہ اپنے شہر کی کوئی نئی بات سنا اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت سے اسے آگاہ کیا.فوراً بے چون وچرامان لیا.اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے حالات دیکھے ہوئے تھے.وہ بخوبی آگاہ تھے کہ یہ شخص کاذب یا مفتری نہیں.ان کو پہلی واقفیت اور عقلِ سلیم نے آپ کو فوراً قبول کر لینے پر مجبور کیا.زمانہ کی حالت کو انہوں نے دیکھ لیا تھا.وقت تھا ضرورت تھی ایک صادق نے خدا کی طرف سے الہام پا کر دعویٰ کیا فوراً مان لیا.اصل میں نشانات کی ضرورت بھی کمزور ایمان کو ہوتی ہے.کامل ایمان کو نشان کی ضرورت ہی نہیں.خداکے مقرب عذابِ الٰہی سے محفوظ رکھے جاتے ہیں فرمایا کہ خداکے عذاب سے اور اپنے محفوظ رکھنے کے واسطے خدا کا قرب حاصل کرنا ضروری ہے.جتنا جتنا خدا سے انسان قریب ہوتا ہے اتنا ہی وہ مصائب،شدائد اور بلائوںسے دور ہوتا ہے.جو خدا کا مقرب ہوتا ہے اسے کبھی خدا کے قہر کی آگ نہیں کھاتی.دیکھو! انبیاء کے وقت میں وبائیں اور طاعون سخت ہوتے رہے مگر کوئی بھی نبی ان عذابوں میں ہلاک نہیں ہوا.صحابہؓ کے وقت میں بھی طاعون پڑا.اور بہت سے صحابہؓ اس سے شہید بھی ہوئے مگر اس وقت وہ صحابہؓ کے واسطے شہادت تھی کیونکہ صحابہؓ اپنا کام پورا کر چکے تھے اور اعلیٰ درجہ کی کامیابی ان کو ہوچکی تھی اور نیز وہ کوئی تحدّی کا وقت بھی نہ تھا اور مَرنا توہر انسان کے ساتھ لازمی لگا ہوا ہے.اسی ذریعہ سے خدا تعالیٰ کو ان کی موت منظور تھی.ان کے واسطے شہادت تھی.مگر جب کسی عذاب کے واسطے پہلے سے خبر دی جاوے کہ خدا آسمان سے اپنی ناراضگی کی وجہ سے قہر نازل کرے گا تو ایسے وقت میں وہ وبا رحمت نہیں اور شہادت نہیں ہوا کرتی بلکہ لعنت ہوا کرتی ہے پس
خدا کی طرف دوڑو کہ اسی کے پاس معالجے ہیں اور بچائو کے سامان ہیں.۱ (بوقتِ ظہر) ماننے کے قابل حدیث اور خواب ایک شخص نے ایک پراگندہ سی خواب لکھ کر حضرت سے تعبیر پو چھی تھی.اس پر آپ نے فرمایا کہ جس طرح سے حدیث ماننے کے قابل نہیں ہوتی جب تک قرآن کے موافق نہ ہو.اسی طرح کوئی خواب بھی ماننے کے لائق نہیں جب تک ہمارے موافق نہ ہو.(بوقتِ عصر) اس وقت چند ایک سکھ حضرت کی ملاقات کے واسطے آئے اور اثنائے ذکر میں آپ نے فرمایاکہ زبان سے تو ایک انسان بھی اپنا بندہ نہیں بن سکتا خدا کیسے اپنا بن سکتا ہے.محبت ہو گی تو سانجھ ہو گی کھوٹ سے کوئی خدا سے کیا لے سکتا ہے.۲ (دربارِ شام) خدا تعالیٰ کے فرستادہ کی تلاش ضروری تھی ایک صاحب نووار د۳تھے آپ نے ان سے فرمایا کہ دیکھو! دنیا چند روزہ ہے کسی کو بقا نہیں اور یہ دنیا اور اس کا جاہ وجلال کسی کے ساتھ ہمیشہ نہیں رہنے والے.چاہیے کہ اس وقت جو اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اس کو سمجھ جاوے.اگر وہ درحقیقت خدا ہی کی طرف سے ہے تو اس سے دور رہنا کیسی بد قسمتی کا موجب ہوگا.وقت نازک ہے.دنیا نے جس اَمر کو سمجھنا چاہیے تھا اسے نہیں سمجھااور جس کی طرف توجہ کرنی چاہیے تھی اس کو پسِ پُشت ڈال دیا ہے.خدا کے فرستادہ کی تلاش ضروری تھی.دیکھو! دنیوی ضرورتوں کے واسطے کس طرح دنیا ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۹ مورخہ ۱۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲،۱۳ ۲ البدر جلد ۲ نمبر ۸ مورخہ ۱۳؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۵۸ ۳ البدر میں لکھا ہے.’’صا حبزادہ سراج الحق صاحب نعمانی کے بھائی کے مرید وں میں سے ایک صاحب حضرت اقدس کی زیارت کے لیے تشریف لائے.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۸مورخہ ۱۳ ؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۵۸ )
کوشش کرتی اور جانکاہ محنتوں سے ان کے حصول کے ذریعہ کو سوچتی ہے.مگر دین کیا ایسا ہی گیا گذرا اَمر ہے کہ اس کے واسطے اتنی بھی تکلیف نہ برداشت کی جاوے کہ چند روز کے واسطے ایک جگہ رہ کر اسلام کی تحقیق کی جاوے.ایک بیمار انسان جب کسی طبیب کے پاس جاتا ہے تو مریض کی اگر طبیب تشخیص کر بھی لیوے تو معالجہ میں بڑی دقتیں پیش آتی ہیں کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا دوا دی جاوے؟ ضرورتِ الہام ایک شہر میں پہنچ کر انسان پھر بھی کسی خاص جگہ پر پہنچنے کے واسطے کسی راہبر کا محتاج ہوتا ہے تو کیا دین کی راہ معلوم کرنے اور خدا کی مرضی پانے کے واسطے انسانی ڈھکونسلے کام آسکتے ہیں؟ اور کیا صرف سفلی عقل کافی ہوسکتی ہے؟ ہرگزہرگز نہیں جب تک اللہ تعالیٰ خود اپنی راہ کو نہ بتاوے اور اپنی مرضی کے وسائل کے حصول کے ذریعہ سے مطلع نہ کرے تب تک انسان کچھ کر نہیں سکتا.دیکھو! جب تک آسمان سے پانی نازل نہ ہو زمین بھی اپنا سبزہ نہیں نکالتی گو بیج اس میں موجود ہی کیوں نہ ہو بلکہ زمین کا پانی بھی دور چلا جاتا ہے تو کیا رُوحانی بارش کے بغیر ہی رُوحانی زمین سر سبز ہو جاتی اور بار آور ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں.خدا کے الہام کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا.دیکھو! یہ جو اتنے بڑے عاقل کہلاتے ہیں اور بڑے مو جد ہیں آئے دن تار نکلتی ہے ریل بنتی ہے اور انسانی عقل کو حیران کر دینے والے کام کئے جاتے ہیں کیا ان کی عقل کے برابر بھی کوئی اورعقل ہے؟ جب ایسے عاقل لوگوں کا یہ حال ہے کہ ایک عاجز ا نسان کو جو ایک عورت کے پیٹ سے عام لڑکوں کی طرح سے پیدا ہو اتھا اور اسی طرح عوارض وغیرہ کا نشانہ بنا رہا اور کھانا پینا سب کچھ کرتا ہو ایہودیوں کے ہاتھ سے سولی پر چڑھایا گیا تھا اس کو خداوند بنایا ہو اہے اور اس کے کفارہ سے اپنی نجات جانتے ہیں اور ایسی بودی چال اختیا رکی ہے کہ ایک بچہ بھی اس پر ہنسی کرے.اس کی کیا وجہ تھی؟ صرف یہی کہ انہوں نے سفلی عقل پر ہی بھروسا کیا اور ایک کوّے کی طرح نجاست پر گر پڑے.دیکھو! جب انسان خدا سے مدد چاہتا ہے اور اپنے آپ کو عاجز جانتا ہے اور گردن فرازی نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ خود اس کی مدد کرتا ہے ایک مکھی ہے کہ گندگی پر گرتی ہے اور دوسری کو خدا نے عزّت
دی کہ سارا جہان اس کا شہد کھاتا ہے یہ صرف اس کی طرف جھکنے کی وجہ سے ہے.پس انسان کو چاہیے کہ ہروقت اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتـحۃ:۵ ) کی دعا پر کار بند رہے اور اسی سے توفیق طلب کرے.ایساکرنے سے انسان خدا کی تجلیات کا مظہر بھی بن سکتا ہے.چاند جب آفتاب کے مقابل میں ہوتا ہے تو اسے نور ملتا ہے مگر جوں جوں اس سے کنارہ کشی کرتا ہے توں توں اندھیرا ہوتا جاتا ہے.یہی حال ہے انسان کا جب تک اس کے دروازہ پر گرارہے اور اپنے آپ کو اس کا محتاج خیال کرتا رہے تب تک اللہ تعالیٰ اسے اُٹھاتا اور نوازتاہے ورنہ جب وہ اپنی قوتِ بازو پر بھروسا کرتا ہے تو وہ ذلیل کیا جاتا ہے.۱ صادق کی معیت كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التوبۃ: ۱۱۹)بھی اسی واسطے فرمایا گیا ہے.سادھ سنگت بھی ایک ضرب المثل ہے.پس یہ ضروری بات ہے کہ انسان باوجود علم کے اور باوجود قوت و شوکت کے امام کے پاس ایک سادہ لوح کی طرح پڑا رہے تا اس پر عمدہ رنگت آوے.سفید کپڑا اچھا رنگا جاتا ہے اور جس میں اپنی خودی اور علم کاپہلے سے کوئی میل کچیل ہوتا ہے اس پر عمدہ رنگ نہیں چڑھتا.صادق کی معیت۲ میں انسان کی عقدہ کشائی ہوتی ہے اور اسے البدر سے.’’ عیسائیوں کی عقل کیسی تیز ہے کیسی کیسی صنعتیں ایجاد کی ہیں گویا بالکل دنیا کو نیا کردیا ہے.ہر ایک پُرانی شَے کی جگہ ایک نئی شَے موجود ہے مگر چونکہ دینی معاملات میں خدا سے مدد نہ مانگی گھمنڈ اورفخر کیا اس لیے عقل آخر کار ماری گئی کہ کوّے کی طرح نجاست پر دانت مارا.سب پڑھ پڑھا کرڈبو دیا.اس لیے اپنی رائے اورفیصلہ پر بھروسا نہ کرنا چاہیے.ہر ایک نبی میں یہ کمال تھا کہ ہر وقت خدا پر بھروسا رکھتے.اپنی عقل اور طاقت پران کو ذرّہ بھر اعتبار نہ تھا.چونکہ وہ ہر وقت خدا سے مدد مانگتے ہیں.اسی لیے ہروقت اُن کو خدا سے مدد ملتی ہے خدا کے بغیر کوئی طاقت اور مدد نہیں ملتی اگر عقل پر گھمنڈ کرے گا تو شہد کی مکھی کی جگہ نجاست کی مکھی کی طرح ہوگا.لیکن اگر خدا سے مدد چاہے گا تو ایک نور اسے ملے گا کہ جس سے مدد پاکر وہ بڑی بڑی تجلّیات الٰہی کااگر مظہر بن جاوے توسچ ہے.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۸مورخہ ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ءصفحہ۵۹) ۲ البدرسے.’’صادقوں کی صحبت میں رہنا بہت ضروری ہے خواہ انسان کیسا علم رکھتا ہو.طاقت رکھتا ہو لیکن صحبت میں رہنے سے جواس کے شبہات دور ہوتے ہیںاور اسے علم حا صل ہوتا ہے وہ دوسرے طور سے حاصل نہیں ہوتا.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۸مورخہ ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ءصفحہ ۵۹)
نشانات دیئے جاتے ہیں جن سے اس کا جسم منور اور رُوح تازہ ہوتی ہے.۱ ۳؍مارچ ۱۹۰۳ء (بوقتِ سیر) حضرت صاحب تشریف لائے تو کل کے نو وارد مہمان بھی ہمراہ سیر کو چلے آپ نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا.زندگی کا اعتبار نہیں ہے.ایک دن آنے کا ہے اور ایک دن جانے کا ہے معلوم نہیں کب مَرنا ہے.علم ایک طاقت انسان کے اندر ہے.اس کے اُوپر وساوس اور شبہات پڑتے ہیں.عادتوں کے کیڑے مثل برتن کی میل کی طرح انسان کے اندر چمٹے ہوئے ہیں.اس کا علاج یہی ہے کہ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ(التّوبۃ:۱۱۹) پس اگر آپ چند روز یہاں ٹھہر جاویں تو اس میں آپ کا کیا حرج ہے؟اس طرح ہر ایک بات کا موقع آپ کو مل جائے گا دنیا کے کام تو یو نہی چلے چلتے ہیں اور کبھی ختم نہیں ہوتے.؎ کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد ہرچہ گیرید مختصر گیرید بہت لوگ ہمارے پاس آئے اور جلد رُخصت ہونے لگے.ہم نے ان کو منع کیا مگر وہ چلے گئے.آخر کار پیچھے سے انہوں نے خط روانہ کئے کہ ہم نے گھر پہنچ کر بنایا تو کچھ نہیں اگر ٹھہر جاتے تو اچھا ہوتا اور انہوں نے یہ بھی لکھا کہ ہمارا جلدی آنا ایک شیطانی وسوسہ تھا.مسیح موعود کی صحبت میں رہنے کی تاکید یہ مرحلہ اس لئے قابلِ طے ہے کہ آنحضرتؐنے بڑی تاکید فرمائی ہے کہ جب دنیا ختم ہونے پر ہو گی تو اس اُمّت میں سے مسیح موعود پیدا ہوگا.لوگوں کو چاہیے کہ اس کے پاس پہنچیں خواہ ان کو برف پر چل کر جانا پڑے.اس لیے صحبت میں رہنا ضروری ہے کیونکہ یہ سلسلہ آسمانی ہے.پاس رہنے سے باتیں جو ہوں گی ان کو سنےگا جو کوئی نشان ظاہر ہو اسے سوچے گا.آگے ہی زندگی کا کون سا ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۹ مورخہ ۱۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳
اعتبار تھا مگر اب تو جب سے یہ سلسلہ طاعون کا شروع ہوا ہے کوئی اعتبار مطلق نہیں رہا.آپ نفس پر جبر کرکے ٹھہریئے اور جو شبہ وخیال پیداہو وہ سناتے رہیے.اَن پڑھ اور اُمّی لوگ جو آتے ہیں ان کی باتیں اور شبہات کا سننا بھی ہمارا فرض ہے.اس لیے آپ بھی اپنے شبہات ضرور سنایئے.یہ ہم نہیں کہتے کہ ہدایت ہو یا نہ ہو ہدایت تو اَمرِرَبی ہے.کسی کے اختیار میں نہیں ہے.مسلمان کون ہے؟ یہ بات سمجھنے والی ہے کہ ہر ایک مسلمان کیوں مسلمان کہلاتا ہے؟ مسلمان وہی ہے جو کہتا ہے کہ اسلام برحق ہے.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہیں قرآن کتابِ آسمانی ہے.اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں ان سے باہر نہ جائوں گا.نہ عقیدہ میں نہ عبادت میں نہ عملدرآمد میں.میری ہر ایک بات اور عمل اس کے اندراندر ہی ہوگا.گدی نشین اور بدعات اب اس کے مقابل پر آپ انصاف سے دیکھیں کہ آج کل گدی والے اس ہدایت کے موافق کیا کچھ کرتے ہیں.اگر وہ خدا کی کتاب پر عمل نہیں کرتے توقیامت کو اس کا جواب کیا ہوگا کہ تم نے میری کتاب پر عمل نہ کیا.اس وقت طوافِ قبر، کنجریوں کے جلسے اور مختلف طریقہ ذکر کے جن میں سے ایک ارّہ کا ذکر بھی ہے ہوتے ہیں.لیکن ہمارا سوال ہے کہ کیا خدا بھول گیا تھا کہ اس نے یہ تمام باتیں کتاب میں نہ لکھ دیں اور نہ رسول کو بتلائیں.جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت جانتا ہے اسے ماننا پڑے گا کہ اللہ اور اس کے رسول کے فرمودہ کے باہر نہ جانا چاہیے.کتا ب اللہ کے برخلاف جو کچھ ہو رہاہے وہ سب بدعت ہے اور سب بدعت فی النّار ہے.اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجُز اس قانون کے جو مقرر ہے اِدھر اُدھر بالکل نہ جاوے.کسی کا کیا حق ہے کہ باربار ایک شریعت بناوے.بعض پیر زادے چوڑیاں پہنتے ہیں.مہندی لگاتے ہیں.لال کپڑے ہمیشہ رکھتے ہیں.سَدا سہاگن ان کا نام ہوتا ہے.اب ان سے کوئی پوچھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو مَرد تھے.اس کو مَرد
سے عورت بننے کی کیا ضرورت پڑی؟ ہمارا رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کتاب قرآن کے سوا اور طریق سُنّت کے سوا نہیں.کس شَے نے ان کو جرأت دی ہے کہ اپنی طرف سے وہ ایسی باتیں گھڑ لیں.بجائے قرآن کے کا فیاں پڑھتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا دل قرآن سے کھٹا ہوا ہوا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میری کتاب پر چلنے والا ہو وہ ظلمت سے نور کی طرف آوے گا اور کتاب پر اگر نہیں چلتا تو شیطان اس کے ساتھ ہوگا.بندگانِ خدا کی علامت مگر جو خدا کے بندے ہوتے ہیں ان میں خوشبو اور برکت ہوتی ہے فر یب اور مکر سے ان کو کوئی غرض نہیں ہوتی.جیسے آفتاب اسے چمکتا ہوا نظر آتا ہے ایسے ہی دور سے ان کی چمک دکھائی دیتی ہے اور دنیا میں اصل چمک انہی کی ہے.یہ آفتاب اور قمر وغیرہ تو صرف نمونہ ہیں.ان کی چمک دائمی نہیں ہے کیونکہ یہ غروب ہو جاتے ہیں لیکن وہ غروب نہیں ہوتے.جس کو خدا اور رسول کی محبت کا شوق ہے اور ان کے خلاف کو پسند نہیں کرتا اور عفونت اور بد بو کو محسوس کرنے کا اس میں مادہ ہو وہ فوراً آ جائے گا کہ یہ طریق اسلام سے بہت بعید ہے.مثلِ یہود کے خدا نے ان کو چھوڑ دیا ہے.بلعم کی طرح اب مکروفریب کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں رہا.صفائی والا انسان جلد دیکھ لیتا ہے کہ یہ جسم اس حقیقی رُوح سے خالی ہے.سجادہ نشینوں کے پَیرو سو چیں انسان توجہ کرے تو اسے پتا لگتا ہے کہ جو لوگ صُمٌّۢ بُكْمٌ ہو کر سجادہ نشینوں کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہیں اور عرسوں وغیرہ میں شریک ہو جاتے ہیں ان کو یہ خیال نہیں آتا کہ وہ کون سی روشنی ہے جو کہ خانہ کعبہ سے شروع ہوئی تھی اور تمام دنیا میں پھیلی تھی اور انہوں نے اس میں سے کس قدر حصہ لیا ہے.ان کو ہرگز وہ نور نہیں ملتا جو آنحضرت مکہ سے لائے اور اس سے کُل دنیا کو فتح کیا.آج اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیداہوں تو ان لوگوں کو جو اُمت کا دعویٰ کرتے ہیں کبھی شناخت بھی نہ کرسکیں.کون سا طریقہ آپ کا ان لوگوں نے رکھا ہے.
شریعت تو اسی بات کا نام ہے کہ جو کچھ آنحضرتؐ نے دیا ہے اسے لے لے اور جس بات سے منع کیا ہے اس سے ہٹے.اب اس وقت قبروں کا طواف کرتے ہیں ان کو مسجد بنایا ہوا ہے.عرس وغیرہ ایسے جلسے نہ منہاجِ نبوت ہے نہ طریق سُنّت ہے.اگر منع کرو تو غیظ وغضب میں آتے ہیں اور دشمن بن جاتے ہیں.چونکہ یہ آخری زمانہ ہے ایسا ہی ہونا چاہیے تھا لیکن اسی زمانہ کے فسادوں کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اس زمانہ میں اکیلا رہنا اور اکیلا مَر جانا یا درختوں سے پنجہ مار کر مَر جانا ایسی صحبتوں سے اچھا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ سب چیزیں پوری ہو رہی ہیں انسان دوسرے کے سمجھائے کچھ نہیں سمجھ سکتا.دل میں کسی بات کا بٹھا دینا یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.حدیث شریف میں ہے کہ خدا جب کسی سے نیکی کرتا ہے تو اسے سمجھ عطا کرتا ہے.اس کے دل میں فراست پیداہو جاتی ہے اور دل ہی معیار ہوتا ہے مگر محجوب دل کام نہیں آتا.یہ کام ہمیشہ پاک دل سے نکلتا ہے.مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنیٓ اسـرآءیل:۷۳) ان باتوں کے لئے دعا کرنی چاہیے.نیک اعمال کے لئے صحبت ِصادقین کی ضرورت ہے خد اکے فضل کے سوا تبدیلی نہیں ہوتی اعمالِ نیک کے واسطے صحبت ِصادقین کا نصیب ہونا بہت ضروری ہے.یہ خدا کی سنّت ہے ورنہ اگر چاہتا تو آسمان سے قرآن شریف یو نہی بھیج دیتا اور کوئی رسول نہ آتا.مگر انسان کو عمل در آمد کے لئے نمونہ کی ضرورت ہے.پس اگر وہ نمونہ نہ بھیجتا رہتا تو حق مشتبہ ہو جاتا.مخالفت کی وجہ اب اس وقت علماء مخالف ہیں.اس کی وجہ کیا ہے؟ صرف یہی کہ میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ تمہارے عقیدہ وغیرہ سب خلافِ اسلام ہیں.اس میں میرا کیا گناہ ہے؟ مجھے تو خدا نے مامور کیا ہے اور بتلایا ہے کہ ان غلطیوں کو نکال دیا جاوے اور منہاجِ نبوت کو قائم کیا جاوے.اب یہ لوگ میرے مقابلہ پر قصّہ کہانیاں پیش کرتے ہیں.حالانکہ مجھے خود ہر ایک اَمر بذریعہ وحی والہام کے بتلایا جاتا ہے.ان کے کہنے سے میں اسے
کیسے چھوڑ دوں؟ ان کا عقیدہ ہے کہ جب مسیح آوے گا تو جس قدر غلطیاں ہوں گی ان کو نکال دے گا اگر اس نے سب کچھ انہی کا قبول کرنا ہے اور اپنی طرف سے کچھ نہیں کہنا تو بتلائو کہ پھر اس کا کام کیا ہوگا؟ آنحضرت کے وقت میں بھی یہی طریق ایسے لوگوں کا تھا کہ دور سے بیٹھے شور مچاتے اور پاس آکر نہ دیکھتے.ابو جہل نے مخالفت تو سالہاسال کی مگر پیغمبر خدا کی صحبت میں ایک دن بھی نہ بیٹھا حتی کہ مَر گیا.اس لئے خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ (بنیٓ اسـرآءیل:۳۷) اب ان سے پوچھا جاوے کہ بلا تحقیق کے کیوں فتوے لگاتے ہو؟ علامات ظہور مہدی ومسیح کا پورا ہونا یہ خود کہتے تھے کہ صدی کے سر پر آنے والا ہے.پھر انہی کی کتابوں میں لکھا ہوا تھا کہ کسوف خسوف ہوگا، طاعون پڑے گی، حج بند ہوگا، ایک ستارہ جو مسیح کے وقت نکلا تھا نکل چکاہے، اونٹوں کی سواری بے کار ہو گئی ہے.اسی طرح سب علامتیں پوری ہو گئی ہیں مگر ان لوگوں کا یہ کہنا کہ ابھی مسیح نہیں آیا یہ معنے رکھتا ہے کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ آنحضرتؐکی کوئی پیشگوئی پوری نہ ہو.یہ سب اندرونی نشان ہیں.اب بیرونی دیکھئے کہ صلیب کا غلبہ کس قدر ہے.نصاریٰ نے تردید اسلام میں کیا کیا کوشش کی ہیں اور خود اندرونی طور پر تقویٰ، زہد، ریاضت میں فرق آگیا ہے.برائے نام مسلمان ہیں.جھوٹی گواہیاں دیتے ہیں.خیانتیں کرتے ہیں.قرضہ لے کر دبا لیتے ہیں.اگر خدا کو یہ منظور ہوتا کہ اسلام ہلاک ہو جاوے اور اندرونی اور بیرونی بلائیں اسے کھا جاویں تو وہ کسی کو پیدا نہ کرتا.اس کا وعدہ نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الـحجر:۱۰) کا کہاں گیا؟ اوّل تو تاڑ تاڑ مجدّد آئے مگر جب مسلمانوں کی حالت تنزل میں ہوئی بد اطواری ترقی کرتی جاتی ہے سعادت کا مادہ ان میں نہ رہا اور اسلام غرق ہونے لگا تو خدا نے ہاتھ اُٹھا لیا؟ جب کہو تو یہی جواب ہے کہ حدیثوں میں لکھا ہے ۳۰ دجّال آویں گے.یہ بھی ایک دجّال ہے.او کمبختو ! تمہاری قسمت میں دجّال ہی لکھے ہیں؟ غرض یہ باتیں غور کے قابل ہیں مگر دل کے کھولنے کی کنجی خدا کے ہاتھ میں
ہے.جب تک وہ نہ کھولے دل میں اثر نہیں ہوتا.ابو جہل بھی تو چودہ برس تک باتیں سنتاہی رہا.یہی ہماری جماعت ہے اس کی کون سی عقل زیادہ ہے کہ انہوں نے حقیقت کو سمجھ لیا اور بعضوں نے نہ سمجھا ایسے ہی دماغ اعضا وغیرہ باقی سب مخالفوں کے ہیں مگر وہ اس حقیقت کو نہیں پہنچے.ان کے دلوں کو قفل لگے ہیں.دوکانداری کا جواب مختلف اعتراضات کے جواب پر فرمایا کہ اسے دوکانداری کہتے ہیں.ہے تو دوکان مگر خدا کی، اگر انسان کی ہوتی تو دوالہ نکل جاتا، ٹوٹ جاتی، مگر خدا کی ہے جو محفوظ ہے.ہمارے گروہ کی خدا نے خود مدد کی ہے کہ اتنی جلدی ترقی کر دی.یہ مسجدوں کے مُلّاں وغیرہ جب دیکھیں گے کہ اب ان کی تعداد بہت ہے خود ہی ہاں میں ہاں ملا دیں گے.(قبل از عشاء) ایک خانساماں کی استقامت بٹالہ میں ایک خانسامہ جو مشنری لیڈی کے ہاں ملازم تھا.حضرت صاحب کا خادم تھا.مشنری لیڈی نے اسے اس تعصّب کے باعث برخواست کر دیا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ اگر مکھن کھاتے دانت جاتے ہیں تو جاویں.مشنری لیڈی نے اسے کہاتھا کہ تم اتنی دیر ہمارے پاس رہے اور اثر نہ ہوا.اس پر حضرت نے فرمایا کہ اثر تو ہوا کہ اس نے مقابلہ کرکے دیکھ لیا کہ حق اِدھر ہے.فقط۱ ۴ ؍مارچ ۱۹۰۳ء (صبح کی سیر) جو خد اکے واسطے کھوتا ہے اسے ہزار چند دیا جاتا ہے فرمایا کہ جو شخص خدا کی طرف قدم ۱ البدر جلد ۲نمبر۸ مورخہ۱۳ ؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵۹،۶۰
اٹھاتا ہے، خدا سے نور اترتا ہے.اپنے فرشتوں کو اس کی خدمت کے واسطے مامور فرماتا ہے.جو اس کے واسطے کچھ کھوتا ہے اس کو اس سے ہزار چند دیا جاتا ہے.دیکھو صحابہؓ میں سے سب سے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا سارا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیا تھا اور کمبل پو ش بن پھرا تھا مگر جب خدا نے اسے دیا تو کیا دیا.دیکھ لو کیسی مناسبت ہے کہ اس نے چونکہ سب صحابہؓ سے اوّل خرچ کیا تھا اسے سب سے پہلے خلافت کا تخت عطا کیا گیا.غرض خدا کوئی بخیل نہیں اور نہ اس کے فیض خاص خاص ہیں بلکہ ہر ایک جو صدقِ دل سے طا لب بنتا ہے اسے عزّت دی جاتی ہے.یہ ہمارے دشمن تو اللہ تعالیٰ سے جنگ کرتے ہیں بھلا ان سے آسمانی باتیں اور تائیدات روکی جاسکتی ہیں.ہرگز نہیں.پرنالہ کے پانی کو تو کوئی روک بھی سکتا ہے مگر جو آسمان سے موسلادھار بارش ہونے لگ جاوے اس کو کون رو ک سکے گا اور اس کے آگے کون سا بند لگاویں گے؟ ہماراتو سارا کا روبار ہی آسمانی ہے پھر بھلا کسی کی کیا مجال کہ اس میں کسی قسم کا حرج یا خلل واقع کرسکے.۱ لمبی مو نچھوں کی تعبیر ایک خوا ب کی تعبیر میں فرمایا کہ اصل میں زیادہ لمبی لبیں( مونچھیں ) رکھنا بھی تکبر اور نخوت کو بڑھاتا ہے اسی واسطے شریعت اسلام نے فرمایا ہے کہ مونچھیں کٹواؤ اور داڑھی کو بڑھاؤ.یہ یہوداور عیسائی اور ہندوؤں کا کام ہے کہ وہ اکثرتکبرسے مو نچھوں کو بڑھاتے اور تاؤ دے دے کر ایک متکبرانہ وضع البدر میں بعض مزید باتوں کا ذکر ہے وہاں لکھا ہے کہ حضور نے فرمایا.’’ تجربہ ہے کہ جب ہندوؤں میں سے مسلمان ہوتے ہیں تو وہ متقی ہوتے ہیں جیسے مولوی عبید اللہ صاحب.سناتن دہرم والے زوائد کو چھوڑ کر وہ تمام باتیں مانتے ہیں جن کے ہم قائل ہیں.خدا کو خالق مانتے ہیں.فرشتوں پر بھی ان کا ایمان ہے.نیو گ کے سخت مخالف ہیں.جو لوگ اخلاص سے اسلام میں داخل ہوتے ہیں وہ کوئی شرط نہیں باندھتے جو شرطیں پیش کرکے اسلام لا نا چاہتا ہے وہ ضرور کھوٹ رکھتا ہے.آسمان سے بارش ہو یا ہوا چلے تو کوئی روک نہیں سکتا لیکن پرنالہ وغیرہ کا پانی روکا جا سکتا ہے.‘‘ ( البدر جلد ۲ نمبر ۸ مو رخہ ۱۳ ؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۰ )
بناتے ہیں خصوصاً سکھ لوگ.مگر ہماری شریعت کیا پاک ہے کہ جس جگہ سے کسی قسم کی بدی کا احتمال بھی تھا اس سے بھی منع کر دیا.بھلا یہ باتیں کسی اور میں کہاں پائی جاتی ہیں.۱ ۲ ۵؍مارچ ۱۹۰۳ء (دربا رشا م ) حضرت اقدس نے فا رسی میں فرمایا لہٰذاس کا تر جمہ لکھا جاتا ہے.دوستوں کی جدائی پر غمگین ہونا فرمایا.خدا تعالیٰ۳ نے یہ بات میرے دل میں ڈالی ہے اور میری فطرت میں رکھ دی ہے کہ جب کوئی دوست مجھ سے الگ ہونے لگتا ہے مجھے سخت قلق اور درد محسوس ہوتا ہے میں خیال کرتا ہوں کہ خدا جانے زندگی کا بھر وسہ نہیں.پھر ملاقات نصیب ہو گی یا نہیں.پھر میرے دل میں خیال آجاتا ہے کہ دوسروں کے بھی تو حقوق ۱ البد ر میں ہے.ایک صاحب نے عرض کی کہ خواب میں میں نے اپنی مونچھوں کو کترے ہوئے دیکھا ہے.فرمایا کہ لبوں کے کترنے سے مراد انکساری اور تواضع ہے زیادہ لب رکھنا تکبر کی علامت ہے جیسے انگریز اور سکھ وغیرہ رکھتے ہیں پیغمبر خدا نے اسی لیے اس سے منع کیا ہے کہ تکبر نہ رہے اسلام تو تواضع سکھاتا ہے جو خواب میں دیکھے تو اس میں فر وتنی بڑھ جاوے گی.(البدر جلد ۲ نمبر ۸ مو رخہ ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ءصفحہ۶۰ ) ۲ الحکم جلد ۷نمبر ۱۰ مورخہ۱۷ ما رچ ۱۹۰۳ءصفحہ۲ ۳ (البدرسے) ’’ ایک خادم نے حضرت اقدس سے رخصت طلب کی.ان کاوطن یہاں سے دور دراز تھا اور ایک عرصہ سے آکر حضرت کے قدموں میں موجود تھے ان کے رخصت طلب کرنے پر حضرت اقدس نے فر مایا کہ انسان کی فطرت میں یہ بات ہوتی ہے اورمیری فطرت میںبھی ہے کہ جب کوئی دوست جُدا ہونے لگتا ہے تو دل میرا غمگین ہوتا ہے کیونکہ خدا جانے پھرملاقات ہویانہ ہو اس عالم کی یہی وضع پڑی ہے خواہ کوئی ایک سوسال زندہ رہے آخر پھر جُدا ئی ہے مگر مجھے یہ اَمرپسند ہے کہ عیدالاضحی نزدیک ہے وہ کرکے آپ جاویں جب تک سفر کی تیاری کرتے رہیں.باقی مشکلات کا خدا حافظ ہے.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۸ مورخہ ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۰)
ہیں.بیوی ہے، بچے ہیں اور اور شتہ دار ہیں.مگر تاہم جو چند روز بھی ہمارے پاس رہتا ہے اس کے جدا ہونے سے ہماری طبیعت کو صدمہ ضرور ہوتا ہے ہم بچے تھے اب بڑھاپے تک پہنچ گئے ہیں ہم نے تجر بہ کرکے دیکھا ہے کہ انسان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں بجز اس کے کہ انسان خدا کے ساتھ تعلق پیدا کرلے.دعا اور توکّل ساری عقد ہ کشا ئیاں دعا سے ہو جاتی ہیں.ہمارے ہاتھ میں بھی اگر کسی کی خیر خواہی ہے تو کیا ہے.صرف ایک دعا کا آلہ ہی ہے جو خدا نے ہمیں دیا ہے کیا دوست کے لیے اور کیا دشمن کے لیے ہم سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ نہیں کرسکتے.ہمارے بس میں ایک ذرّہ بھر بھی نہیں ہے.مگر جو خدا ہمیں اپنے فضل سے عطا کر دے.انسان کو مشکلات کے وقت اگرچہ اضطراب تو ہوتا ہے مگر چاہیے کہ توکل کو کبھی بھی ہاتھ سے نہ دے.آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بدر کے موقع پر سخت اضطراب ہوا تھا.۱ چنانچہ عرض کرتے تھےکہ یَارَبِّ اِنْ اَھْلَکْتَ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ فَلَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ اَ بَدًا.مگر آپؐکا اضطراب فقط بشری تقاضا سے تھا کیونکہ دوسری طرف توکل کو آپ نے ہرگز ہاتھ سے نہیں جانے دیا تھا آسمان کی طرف نظر تھی اور یقین تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا.یاس کو قریب نہیں آنے دیا تھا ایسے اضطرابوں کا آنا تو انسانی اخلاق اور مدارج کی تکمیل کے واسطے ضروری ہے مگر انسان کو چاہیے کہ یاس کو پاس نہ آنے دے کیونکہ یاس تو کفار کی صفت ہے.انسان کو طرح طرح البدر میں ہے.خدا کے بندے مایوس اور ضائع نہیں ہوتے اگرچہ انسان کو بشریت کے تقاضا سے اضطراب ہوتا ہے مگر وہ خاصہ بشریت ہے اور سب انبیاء بھی اس میں شریک ہیں جیسے کہ جنگ بدر میںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواضطراب ہواتھا.عام لوگوں میں اور انبیاؤں میں یہ فرق ہے کہ عام لوگوں کی طرح انبیاؤں کے اضطراب میں یاس کبھی نہیں ہوتی.ان کواس اَمر پر پورا یقین ہوتا ہے کہ خدا ضائع کبھی نہ کرے گا.میرا یہ حال ہے کہ اگر مجھے جلتی آگ میں بھی ڈالا جاوے توبھی یہی خیال ہوتا ہے کہ ضائع نہ ہوں گا.اضطراب تو ہوگا کہ آگ ہے اس سے انسان جل جاتا ہے مگرامید ہوتی ہے کہ ابھی آواز آوے گی يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِيْمَ لیکن دوسرے لوگوں کے اضطراب میں یاس ہوتا ہے.خدا پر ان کوتوقع نہیں ہوتی اور یہ کُفر ہے.،، (البدر جلد ۲نمبر ۸ مورخہ ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۱ )
کے خیالات اضطراب کا وسوسہ ڈالتے ہیں مگر ایمان ان وساوس کو دور کر دیتا ہے بشریت اضطراب خریدتی ہے اور ایمان اس کو دفع کرتا ہے.ایمان وعرفان کی حقیقت دیکھو! ایمان جیسی کوئی چیز نہیں.ایمان سے عرفان کا پھل پیدا ہوتا ہے.ایمان تو مجاہدہ اور کوشش کو چاہتا ہے اورعرفان خدا تعالیٰ کی موہبت اور انعام ہوتا ہے عرفان سے مراد کشوف اور الہامات جو ہر قسم کی شیطانی آمیزش اور ظلمت کی ملونی سے مبرّا ہوں اور نور اور خدا کی طرف سے ایک شوکت کے ساتھ ہوں وہ مراد ہیں.اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی طرف سے موہبت اور انعام ہوتا ہے.یہ چیز کچھ کسبی چیز نہیں مگر ایمان کسبی چیز ہوتا ہے اسی واسطے اوامر ہیں کہ یہ کرو.غرض ہزاروں احکام ہیں اور ہزاروں نواہی ہیں.ان پر پوری طرح سے کار بند ہونا ایمان ہے.غرض ایمان ایک خدمت ہے جو ہم بجالاتے ہیں اورعرفان اس پر ایک انعام اور موہبت ہے.انسان کو چاہیے کہ خدمت کئے جاوے.آگے انعام دینا خدا کا کام ہے یہ مومن کی شان سے بعید ہونا چاہیے کہ وہ اس انعام کے واسطے خدمت کرے.خد اکی محبت میں محو ہو جائو مکاشفات اورالہامات کے ابواب کے کھلنے کے واسطے جلدی نہ کرنی چاہیے اگر تمام عمر بھی کشوف اور الہامات نہ ہوں تو گھبرانا نہ چاہیے اگر یہ معلوم کر لو کہ تم میں ایک عاشقِ صادق کی سی محبت ہے جس طرح وہ اس کے ہجر میں اس کے فراق میں بھو کا مَرتا ہے پیاس سہتا ہے نہ کھانے کا ہوش ہے نہ پانی کی پروا، نہ اپنے تن بدن کی کچھ خبر.اسی طرح تم بھی خدا کی محبت میں ایسے محو ہوجائو کہ تمہارا وجود ہی درمیان سے گم ہوجاوے.پھر اگر ایسے تعلق میں انسان مَر بھی جاوے تو بڑا ہی خوش قسمت ہے.ہمیں تو ذاتی محبت سے کام ہے نہ کشوف سے غرض نہ الہام کی پروا.دیکھو! جس طرح ایک شرابی شراب کے جام کے جام پیتا ہے اور لذّت اٹھاتا ہے اسی طرح تم اس کی ذاتی محبت کے جام بھر بھر پیو.جس طرح وہ دریا نوش ہوتا ہے اسی طرح تم بھی کبھی سیر نہ ہونے والے بنو.جب تک انسان اس اَمر کو محسوس نہ کر لے کہ میں محبت
کے ایسے درجہ کو پہنچ گیا ہوں کہ اب عاشق کہلا سکوں تب تک پیچھے ہرگز نہ ہٹے.قدم آگے ہی آگے رکھتا جاوے اور اُس جام کو منہ سے نہ ہٹائے.اپنے آپ کو اس کے لیے بے قرار و شیدا و مضطرب بنالو.اگر اس درجہ تک نہیں پہنچے تو کوڑی کے کام کے نہیں.ایسی محبت ہوکہ خدا کی محبت کے مقابل پر کسی چیز کی پرواہ ہو نہ کسی قسم کی طمع کے مطیع بنو اور نہ کسی قسم کے خوف کا تمہیں خوف۱ ہوچنانچہ کسی کا شعر ہے کہ ؎ آن کس کہ تراشناخت جان را چہ کُند فرزند و عیال و خانمان را چہ کُند دیوانہ کنی ہر دو جہانش بخشی دیوانہ تو ہر دو جہان را چہ کُند مَیں تو اگر اپنے فرزندوں کا ذکر کرتا ہوں تو نہ اپنی طرف سے بلکہ مجھے تو مجبوراً کرنا پڑتا ہے.کیا کروں اگر اس کے انعامات کا ذکر نہ کروں تو گنہ گار ٹھہروں.چنانچہ ہر لڑکے کی پہلے اُسی نے خود اپنی طرف سے بشارت دی.اب میں کیا کروں.غرض انسان کا اصل مدعا صرف یہی چاہیے کہ کسی طرح خدا کی رضا مل جاوے.مدار نجات نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم ۲ مدارِ نجات صرف یہی اَمر ہے کہ سچا تقویٰ اور خدا کی خوشنودی اور خالق کی عبادت ۱ البدرسے.’’پس یہ تعلق محبت ایک چیزہے جوکہ میں چاہتا ہوں کہ یہ ہماری جماعت میں زیادہ ہوـــــ جب تک انسان محسوس نہ کرے کہ وہ محبت جس کانام عشق ہے اس نے اسے بے قرار کردیا ہے تب تک اس نے کچھ نہیں پایا.ہزارہا کشوف وغیرہ ہوں کچھ شَے نہیں ہیں.ہم تو ایک دمڑی کو نہیں خرید تے کیاعمدہ کہاہے.؎ آن کس کہ تراشناخت جان را چہ کُند فرزند و عیال و خانمان را چہ کُند مَیں جو کبھی فرزندوں کا ذکر کیا کرتا ہوں یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اتفاقی طور پراُن کا ذکر پیشگوئیوں میں آگیاہوا ہے ورنہ مجھے اس بات کی کچھ آرزواور ہوس نہیں ہوتی.،، (البدر جلد ۲نمبر ۸ مورخہ ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۱ ) ۲البدر میں اس کا پہلا مصرعہ بھی لکھا ہے.؎ من ذرّہ ز آفتابم ہم از آفتاب گویم نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم (البدر جلد ۲نمبر ۸ مورخہ ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ
کا حق ادا کیا جاوے.الہامات و مکاشفات کی خواہش کرنا کمزوری ہے.مَرنے کے وقت جو چیز انسان کو لذّت دِہ ہو گی وہ صرف خدا تعالیٰ کی محبت اور اس سے صفائی معاملہ اور آگے بھیجے ہوئے اعمال ہوں گے جوایمان صادق اور ذاتی محبت سے صادر ہوئے ہوئے ہوں گے مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ.اصل میں جو عاشق ہوتا ہے آخر کار ترقی کرتے کرتے وہ معشوق بن جاتا ہے کیونکہ جب کوئی کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کی توجہ بھی اس کی طرف پھرتی ہے اور آخر کار ہوتے ہوتے کشش سے وہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے اور عاشق معشوق کا معشوق بن جاتا ہے.جب جسمانی اور مجازی عشق ومحبت کا یہ حال ہے کہ ایک معشوق اپنے عاشق کا عاشق بن جاتا ہے تو کیا روحانی رنگ میں جو اس سے زیادہ کامل ہے ایسا ممکن نہیں کہ جو خدا سے محبت کرنے والا ہو آخر کار خدا اس سے محبت کرنے لگے اور وہ خدا کا محبوب بن جاوے.مجازی معشوقوں میں تو ممکن ہے کہ معشوق کو اپنے عاشق کی محبت کا پتا نہ لگے مگر وہ خدا تعالیٰ علیم بذاتِ الصدور ہے اس سے انسان مظہر کر اماتِ الٰہی اور موردِ عنایات ایزدی ہوجاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی چا در میں مخفی ہو جاتا ہے.ان مکاشفات اور رؤیا اور الہامات کی طرف سے توجہ پھیر لو اور ان امور کی طرف تم خود بخود جرأت کرکے درخواست نہ کرو ایسا نہ ہو کہ جلد بازی کرنے والے ٹھہر و.اکثر لوگ میرے پاس آتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسا ورد وظیفہ بتا دوکہ جس سے ہمیں الہامات اور مکاشفات ہونے شروع ہو جاویں مگر میں ان کو کہتا ہوں کہ ایسا کرنے سے انسان مشرک بن جاتا ہے شرک یہی نہیں کہ بتوں کی پو جا کی جاوے بلکہ سخت شرک اور بڑامشکل مرحلہ تو نفس کے بُت کو توڑنا ہوتا ہے.تم ذاتی محبت خر ید واور اپنے اندروہ قلق وہ سو زش وہ گداز وہ رقّت پیدا کرو جو ایک عاشق صادق کے اندر ہوتی ہے.دیکھو! کمزورایمان جو طمع یا خوف کے سہارا پر کھڑاہو وہ کام نہیں آتا.بہشت کی طمع یا دوزخ کا خو ف وغیرہ امور پر ا پنے ایمان کا تکیہ نہ لگاؤ.بھلا کبھی کسی نے کوئی عاشق دیکھا ہے کہ وہ معشوق سے کہتا ہو کہ میں تو تجھ پر اس واسطے عاشق ہوں کہ تو مجھے اتنا روپیہ یا فلاں شَے دے دے، ہرگز نہیں.دیکھو! ایسی طبعی محبت پیدا کر لو جیسے ایک ماں کو اپنے بچہ سے ہوتی ہے.ماں کو نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کیوں بچہ سے محبت کرتی ہے.اس میں ایک طبعی کشش اور ذاتی محبت ہوتی ہے.
دیکھو! اگر کسی ماں کا بچہ گم ہو جاوے اور رات کا وقت ہو تو اس کی کیا حالت ہوتی ہے.جُوں جُوں رات زیادہ ہو گی اور اندھیرابڑھتا جاوے گا اس کی حالت دگر گوں ہوتی جاوے گی گویا زندہ ہی مَر گئی ہے مگر جب اچانک اسے اس کا فرزند مل جاوے تو اس کی وہ حالت کیسی ہوتی ہے.ذرا مقابلہ کرکے تو دیکھو، پس صرف ایسی محبت ذاتی اور ایمان کامل سے ہی انسان دارالامان میں پہنچ سکتا ہے.سارے رسول خدا تعالیٰ کو اس لیے پیارے نہ تھے کہ ان کو الہامات ہوتے ہیں ان کے واسطے مکاشفات کے دروازے کھولے گئے ہیں، نہیں بلکہ ان کی ذاتی محبت کی وجہ سے وہ ترقی کرتے کرتے خدا کے معشوق اور محبوب بن گئے تھے.اسی واسطے کہتے ہیں کہ نبی کی نبوت سے اس کی ولایت افضل ہے.اسی لیے ہم نے اپنی جماعت کو بارہا تاکید کی ہے کہ تم کسی چیز کی بھی ہوس نہ رکھو.پاک دل اور بے طمع ہو کر خدا کی محبت ذاتی میں ترقی کرو.جب تک ذاتی محبت نہیں تب تک کچھ بھی نہیں.مگر جو کہتے ہیں کہ ہم کو خدا سے ذاتی محبت ہے اور اس کے نشان ان میں نہیں پائے جاتے یہ ان کا دعویٰ غلط ہے.کیا وجہ ہے کہ ایک مجازی عاشق میں تو عشق کے آثار اور نشانات کھلے کھلے پائے جائیں بلکہ کہتے ہیں کہ عشق چھپائے سے چھپ نہیں سکتا تو کیا وجہ کہ روحانی عشق پوشیدہ رہ جائے.اس کے کچھ نشان ظاہر نہ ہوں.دھوکا کھا تے ہیں ایسے لوگ، ان میں محبت ہی نہیں ہوتی.صحبت صادقین اختیارکرو اسی واسطے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ یعنی صادق لوگوں کے ساتھ معیّت اختیارکرو.ان کی صحبت میں مدّتہائے دراز تک رہو.کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی شخص چند روز ان کے پاس رہ جاوے اور ان ایا م میں حکمت الٰہی سے کوئی ایسا اَمر واقع نہ ہو کیونکہ ان لوگوں کے اپنے اختیار میں تو نہیں کہ جب چاہیں کوئی نشان دکھاویں.اسی واسطے ضروری ہے کہ ان کی صحبت میں لمبے عرصہ اور دراز مدّت گذر جاوے بلکہ نشان دکھانا تو درکنار یہ لوگ تو اپنے خدا کے ساتھ کے تعلقات کا اظہار بھی گناہ جانتے ہیں.لکھا ہے کہ اگر کوئی ولی خلو ت میں اپنے خدا کے ساتھ خاص حالت اور تعلق کے جوش میں ہو اور اس پر وہ حالت طاری ہو تو ایسے وقت میں اگر کوئی شخص اس کے اس حال سے آگاہ ہو جائے تو وہ ولی شخص ایسا شرمندہ اور پسینہ پسینہ ہو جاتا ہے جیسے کوئی زانی عین زنا کی حالت میں پکڑا جاوے کیونکہ یہ لوگ اپنے راز کو
پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں.چونکہ طبعاً ایسا معاملہ تھا خدا نے اسی واسطے کہا كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ کفار نے جو یہ کہا تھا کہ مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ (الفرقان:۸) تو انہوں نے بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حالت دیکھ کر ہی یہ کلمہ منہ سے نکالا تھا کہ کیا ہے جی! یہ تو ہمارے جیسا آدمی ہی ہے.کھاتا پیتا بازاروں میں پھرتا ہے اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا فیض نہ تھا کہ ان کو کوئی رسالت کا اَمر نظر آتا وہ معذور تھے انہوں نے جو دیکھا تھا اسی کے مطابق رائے زنی کر دی.پس اس واسطے ضروری ہے کہ مامور من اللہ کی صحبت میں دیر تک رہا جاوے.ممکن ہے کہ کوئی جس نے نشان کوئی نہ دیکھا ہو کہہ دے کہ اجی ہماری طرح نماز روزہ کرتا ہے اور کیا ہے.دیکھو! حج کے واسطے جانا خلوص اور محبت سے آسان ہے مگر واپسی ایسی حالت میں مشکل.بہت ہیں جو وہاں سے نامراد اور سخت دل ہو کر آتے ہیں اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ وہاں کی حقیقت ان کو نہیں ملتی.قشر کو دیکھ کر رائے زنی کرنے لگ جاتے ہیں وہاں کے فیوض سے محروم ہوتے ہیں اپنی بدکاریوں کی وجہ سے اور پھر الزا م دوسروں پر دھرتے ہیں.اس واسطے ضروری ہے کہ مامور کی خدمت میں صدق اور استقلال سے کچھ عرصہ ر ہا جاوے تاکہ اس کے اندرونی حالات سے بھی آگاہی ہو اور صدق پُورے طور پر نورانی ہوجاوے.۱ سناتن دھرم ہندوؤں کا ذکر چل پڑا.فرمایاکہ یہ جو میں نے ایک اور رسالہ لکھا ہے اس کا نام سناتن دھرم ہی رکھا ہے یہ لوگ اسلام کے بہت ہی قریب ہیں.اگر زوائد کو چھوڑ دیں.بلکہ میں نے ان سے سنا ہے اور پڑھا بھی ہے کہ جب یہ جوگی ہو کر خدا کے بہت قریب ہو جاتے ہیں تو اس وقت بُت پرستی کو حرام جانتے ہیں.ابتدا میں صرف تمثیلی طور پر بُت پرستی انہوں نے غلطی سے رکھ لی لیکن اعلیٰ مر اتب پر پہنچ کر اسے اس لیے چھو ڑدیتے ہیں کہ قریب ہو کر پھر بعید نہ ہوں اور اس حالت میں جو مَرتا ہے اسے جلاتے بھی نہیں بلکہ دفن کرتے ہیں.۱ الحکم جلد ۷نمبر۱۰ مورخہ۱۷مارچ۱۹۰۳ء صفحہ۲تا۴
کلمۃ اللہ کلمۃ اللہ پر فرمایا کہ وجودیوں کی طرف تو ہم نہیں جاتے مگر جب تک کلمۃ اللہ نہ کہا جاوے توبا ت بھی نہیں بنتی.یہ علم بہت گہرا ہے.جو شَے خدا سے نکلی ہے اس پر رنگ تو خدا کا ہے مگر یہ لوگ اسے خدا سے الگ خیال نہیں کرتے.فیض کے یہ معنے ہیں کہ ہدایت ہو.۱ ۶ ؍مارچ ۱۹۰۳ء بَلائوں سے بچنے کا طریق جمعہ کی نماز مسجد اقصیٰ میں ادا کرنے کے بعد چند ایک گرد ونواح کے آدمیوں نے بیعت کی.بیعت کے بعد حضرت اقدس کھڑے ہو گئے اور آپ نے ان کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ جب آدمی توبہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے پہلے گناہ بخش دیتا ہے.۲ قرآن میں اس کا وعدہ ہے ہر طرح کے دکھ انسان کو دنیا میں ملتے ہیں.مگر جب خدا کا فضل ہوتا ہے تو ان سب بلاؤں سے انسان بچتا ہے.اس لیے تم لوگ اگر اپنے وعدہ کے موافق قائم رہو گے تو وہ تم کو ہر ایک بَلا سے بچالے گا.نماز میں پکے رہو.جو مسلمان ہو کر نماز نہیں ادا کرتا ہے وہ بے ایمان ہے.اگر وہ نماز نہیں ادا کرتا تو بتلاؤ کہ ایک ہندو میں اور اس میں کیا فرق ہے؟ زمینداروں کا دستور ہے کہ ذرا ذرا سے عذر پر نماز چھوڑ دیتے ہیں.کپڑے ناپاک۳ کا بہا نہ کرتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے اگر کسی کے پاس کپڑے نہ ہوں تو اسی میں نماز پڑھ لے اور جب دو سر ا کپڑا مل جاوے تو اس کو بدل دے.اسی طرح اگر غسل کرنے کی ضرورت ہو اور بیما ر ہووے تو تیمم کر لے.خدا نے ہر ایک قسم کی آسانی کر دی ہے تاکہ قیامت میں کسی کوعذر نہ ہو.۱ البد ر جلد۲ نمبر۸ مورخہ ۱۳ ؍مارچ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۱ ۲ الحکم سے.’’اللہ تعالیٰ ان کو طرح طرح کی ذلتوں اور خواریوں سے بچالیتا ہے.‘‘ (الحکم جلد۷ نمبر۹ مورخہ۱۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴) ۳اس جگہ البدر میں جو لفظ ہے وہ ٹھیک پڑھا نہیں جاتا.الحکم میں یہ فقرہ واضح ہے جو یہ ہے.’’کپڑوں کے میلا ہو نے کا عذر کردیتے ہیں.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۹ مورخہ۱۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴)
اب ہم مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ شطرنج گنجفہ وغیرہ بیہودہ باتوں میں وقت گذارتے ہیں.ان کو یہ خیال تک نہیں آتا کہ اگر ہم ایک گھنٹہ نمازوں میں گذار دیں گے تو کیا حرج ہوگا؟ سچے آدمی کو خدا مصیبت سے بچا تا ہے اگر پتھر بھی برسیں تو بھی اسے ضرور بچاوے گا.اگر وہ ایسا نہ کرے تو سچے اور جھوٹے میں کیا فرق ہوسکتا ہے؟ لیکن یاد رکھو کہ صرف ٹکریں مارنے سے خدا راضی نہیں ہوتا.کیا دنیااور کیا دین میں جب تک پوری بات نہ ہو فائدہ نہیں ہوا کرتا.جیسے میں نے کئی بار بیان کیا ہے کہ روٹی اور پانی جب تک سیر ہو کر نہ کھائے پئے تو وہ کیسے بچ سکتا ہے؟ یہ موت طاعون کی جو اَب آئی ہے یہ اس وقت ٹلے گی کہ انسان قدم پورا رکھے۱ ادھورے قدم کو خدا پسند نہیں کرتا.بدی کو خدا کے خو ف سے چھو ڑدو جو بات طاقت سے باہر ہے وہ تو خدا معاف کر دے گا.مگر جو طاقت کے اندر ہے اس سے مؤاخذہ ہوگا جب انسان نیک بنتا ہے تو دائیں با ئیں آگے پیچھے خدا کی رحمت اور فرشتے ہوتے ہیں سچا مومن ولی کہلا تا ہے اور اس کی برکت اس کے گھر اور اس کے شہر میں ہوتی ہے.جو خدا کو ناراض کرتا ہے وہ نجاست کھاتا ہے.اگر انسان بدی کو خدا کے خو ف سے چھو ڑ دے تو خدا اس کی جگہ نیک بدلہ اسے دیتا ہے.مثلاً ایک چور اگر چوری کرتا ہے اور وہ چوری کو چھوڑ دیوے تو پھر خدا اس کی وجہ معاش حلال طور سے کر دے گا.اسی طرح زمینداروں میں پانی وغیرہ چرانے کا دستور ہوتا ہے اگر وہ چھو ڑدیویں تو خدا ان کی کھیتی میں دوسری طرف سے برکت دےدے گا.ایک نیک متقی زمیندار کے واسطے خدا تعالیٰ بادل کا ٹکڑا بھیج دیا کرتا ہے اور اس کے طفیل دوسرے کھیت بھی سیراب ہو جاتے ہیں خدا کو ۱ الحکم سے.’’دیکھو آج کل طاعون بڑی خوفناک پڑی ہوئی ہے جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اُ س کو بچالے گا.عذابِ الٰہی سے بچنے کے لیے فقط زبانی اقرار ہی کافی نہیں اور نہ اُدھوری نمازیں کافی ہوسکتی ہیں.بھلا ایک شخص جس کو پیاس شدت کی لگی ہوئی ہو کیاایک قطرہ پانی سے وہ اپنی پیاس بجھا سکتا ہے؟یا سخت بھوک لگی ہوئی ہو تو ایک ذرّہ بھر اناج سے پیٹ بھر سکتا ہے؟ کبھی نہیں.اسی طرح پر کوئی شخص اُدھوری اور ناقص نمازوں سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے غضب سے نہیں بچا سکتا پس اپنی نمازوں کو درست کرو ہر ایک قسم کی شکایت، گلہ، غیبت، جھوٹ، افترا،بد نظری وغیرہ سے اپنے تئیں بچائے رکھو.ـ‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۹ مورخہ۱۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴ )
چھوڑ کر بدی اور گند میں رہنا صرف خدا کی نافرمانی ہی نہیں ہے بلکہ اس میں خدا تعالیٰ پر ایمان میں بھی شک ہوتا ہے.حدیث میں آیا ہے کہ چور جب چوری کرتا ہے تو ایمان اس میں نہیں ہوتا اور زانی جب زنا کرتا ہے تو ایمان اس میں نہیں ہوتا.یا د رکھو کہ وسوسہ جو بلا ارادہ دل میں پیدا ہوتے ہیں ان پر مؤاخذہ نہیں ہوتا جب پکی نیت انسان کسی کام کی کرے تو اللہ تعالیٰ مؤاخذ ہ کرتا ہے اچھا آدمی وہی ہے جو دل کو ان باتوں سے ہٹا دے.ہرایک عضو کے گناہوں سے بچے.ہاتھ سے کوئی بدی کا کام نہ کرے.کان سے کوئی بری بات چغلی، غیبت، گلہ وغیرہ نہ سنے.آنکھ سے محرمات پر نظر نہ ڈالے.پا ئوں سے کسی گناہ کی جگہ چل کر نہ جاوے.شریروں کے لئے مہلت بار با ر میں کہتا ہوں کہ تم لوگ طاعون سے بے خو ف نہ ہو اور یہ نہ سمجھو کہ اب اس کا دورہ ختم ہو گیا ہے.جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم کو کیوں نہیں آتی اور وہ بدی پر مصر ہیں ان کو وہ ضرور پکڑ ے گی.اس کا دستورہے کہ اول دور دور رہتی ہے.اب دیکھو کہ مکہ میں قحط بھی پڑا، وبا بھی آئی لیکن ابو جہل کا بال بھی بانکا نہ ہوا حا لا نکہ وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا سخت دشمن تھا.چودہ ۱۴ برس تک خدا نے اسے ایسا رکھا کہ سر درد تک نہ ہوا.آخر وہاں ہی قتل ہوا جہاں پیغمبر خدا نے اس کا نشان بتایا تھا.اس دنیا میں اللہ تعالیٰ سب کام پردے سے کرتا ہے اگر وہ قہری بجلی ایک دن دکھا دے تو سب ہندو وغیرہ مسلمان ہو جاویں.تم میں سے کوئی تکبر اور غرور سے یہ نہ کہے کہ مجھے طاعون نہیں آتی.خدا تعالیٰ شریروں کو اس لیے مہلت دیتا ہے کہ شاید باز آجاویں اور ہدایت ہو.۱ الحکم سے.’’ جو لوگ یہ کہہ بیٹھتے ہیں کہ اگر خدا ہے تو ہم کو ہمارے گناہوں کے بدلے کیوں عذاب نہیں دیتا اور نہیں پکڑتا.وہ دلیری کرتے ہیں اور نہیںجانتے کہ خدا تعالیٰ کے کام آہستہ اور پوشیدہ ہوتے ہیں.اگر وہ قہری تجلی کرے تو یک لحظہ میں تباہ کردے.دنیا میں بھی سارے کام تدریجی ہوتے ہیں اگر ایک شخص گُڑ یا ریوڑیاں تقسیم کرے تو یکدم سب کو نہیں دے دیتا بلکہ ایک ایک کرکے.ایسا ہی خدا تعالیٰ کا حال ہے.پہلے وہ دُور دُوربلائیں بھیجتا ہے تا کہ بعض سعیدالفطرت لوگوں کو جو کسی شامت اعمال میں گرفتار ہوگئے ہیں توبہ واستغفار کا موقع ملے وہ بچ جاتے ہیں اور شریر پکڑے جاتے ہیں.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۹مورخہ۱۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴ )
بیعت کرنے والوں کو نصیحت آج تم لوگوں نے توبہ کی ہے.اگر سچے دل سے کی ہےتو پہلے سارے گناہ معاف ہو گئے اب اس وقت سے پھر نیا حساب کتاب شروع ہوگا.فرشتوں کو حکم ہوا ہے کہ تمہارے گذشتہ نامہ اعمال سب چاک کر دیویں اور تم نے اب ایک نیا جنم لیا ہے.یا درکھو کہ جیسے ایک آقا نے اپنے غلام کے بہت سے قصور معاف کر دیئے ہوں اور اسے تاکید ہو کہ اب کروگے تو سخت سزا ہو گی.پھر اگر وہ کوئی قصو رکرے تو اسے سخت غصہ آتا ہے.ایسا ہی حال خدا کا ہے.خدا قہار ہے اگر اس کے بعد کوئی باز نہ آیا تو اس کا غضب بھڑکے گا.جیسے وہ ستار ہے ویسا ہی منتقم اور غیور بھی ہے قرآن کو بہت پڑھو.نمازوں کو ادا کرو.عورتوں کو سمجھاؤ.بچوں کو نصیحت کرو.کوئی عمل اور بدعت ایسی نہ کرو جس سے خدا نا راض ہو.اگر ایسا کرو گے تو خدا تعالیٰ تم میں اور دوسرے لوگوں میں فرق کرکے دکھلا دے گا.(مجلس قبل ازعشاء) جس صاحب نے کل حضرت اقدس سے رخصت طلب کی تھی ان سے مخاطب ہو کر حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہی مناسب ہے کہ عید کی نماز کے بعدروانہ ہوں کیونکہ پھر سخت گر می کا مو سم آنے والا ہے سفر میں بہت تکلیف ہو گی میں نے جیسے آپ سے وعدہ کیا ہے دعا کرتا رہوں گا مجھے کسی امیریا بادشا ہ کا خطر نہیں ہے.میر اکا م دعا کرنا ہے.تو بہ کی انتہا فنا ہے ہم سے رخصت ہونے والے احمد ی دوست نے کہا کہ حضرت جب سے میں آپ پر ایمان لا یا ہوں.میں آج تک فرق نہیں کرسکا کہ میری محبت آپ سے زیادہ ہے یا آنحضر ت (صلی اللہ علیہ وسلم) سے اور ایسے ہی نہیں معلوم کہ میں خدا سے زیادہ پیار کرتا ہوں یا آپ سے.حضر ت ا قدس نے فرمایا کہ یہ فطر ت انسانی ہے يَعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ یہی ہے.جب زرکو آگ میں ڈالتے ہیں تو آخر کار وہ
ایسا ہی ہو جاتا ہے کہ آگ میں اور اس میں کوئی فرق نہیں رہتا اور اگر وہ آگ سے الگ ہو جاوے تو بھی ایک مفید شَے ضرور رہتا ہے.صرف اتنی بات ہوتی ہے کہ چِرک اس میں نہیں رہتا.آگ اپنے رنگ میں لا کر چِرک اس سے دورکر دیتی ہے.توبہ کی انتہا فنا ہے.جس کے معنے رجو ع کے ہیں یعنی خدا تعالیٰ کے نزدیک ہو نا.یہی آگ ہے جس سے انسان صاف ہوتا ہے.جو شخص اس کے نزدیک قدم رکھنے سے ڈرتا ہے کہ کہیں آگ سے جل نہ جاوے وہ ناقص ہے لیکن جو قدم آگےرکھتا ہے اور جیسے پر وانہ آگ میں گر کر اپنے وجود کو جلاتا ہے ویسے ہی وہ بھی گرتا ہے.وہ کامیاب ہوتا ہے.مجا ہدات کی انتہا فنا ہی ہے.مقا م لقا اس کے آگے جو لقا ہے وہ اَمر کسبی نہیں بلکہ وہبی ہے.اس کا روبا ر کا انتہا مَر نا ہے اور یہ تخم ریزی ہے.اس کے بعد روئیدن یعنی پیدا کرنا وہ فعل خدا کا ہے.ایک دانہ زمین میں جا کر جب بالکل نیست ہوتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ اسے سبز ہ بنا دیتا ہے مگر یہ مر حلہ بہت خوفناک ہے.با لکل ٹھیک کہا ہے.؎ عشق اول سرکش و خونی بود تا گریزد ہر کہ بیرونی بود جب آدمی سلوک میں قدم رکھتا ہے تو ہزار ہا بَلا اس پر وارد ہوتی ہیں جیسے جنّات اور دیو نے حملہ کر دیا ہے مگر جب وہ شخص فیصلہ کر لیتا ہے کہ میں اب واپس نہ ہوں گا اور اسی راہ میں جان دے دوں گا تو پھر وہ حملہ نہیں ہوتا اور آخر کار وہ بَلا ایک باغ میں متبدّل ہو جاتی ہے اور جو اس سے ڈرتا ہے اس کے لیے وہ دوزخ بن جاتی ہے.اس کا انتہائی مقام بالکل دوزخ کا تمثّل ہوتا ہے تاکہ خدا تعالیٰ اسے آزماوے جس نے اس دوزخ کی پروا نہ کی وہ کامیاب ہوا.یہ کام بہت نازک ہے.بجز موت کے چارہ نہیں.۱ سالہا سال کا میرا تجربہ ہے کہ جو مقام انسان تلاش کرتا ہے وہ مکاشفات میں نہیں ہے وہ تو صرف ایک موہبتِ الٰہی ہے اور مَرنے کے بعد یہ نصیب ہوتا ہے جب کہ نفسانیت بالکل جل جاوے پھر ۱ البد ر جلد۲ نمبر ۸ مو رخہ ۱۳ ؍ما رچ ۱۹۰۳ءصفحہ ۶۲
تبدیل ہو کر وہ اور شَے بن جاوے تو اس وقت وہ ابدال ہوتا ہے.یہ بات انسان کے اندر دردِ دل سے پیدا ہوتی ہے اور جب تک خدا خود نہ درد دے تب تک درد پیدا نہیں ہوتا.اس درد کا نمونہ ایک ماں میں ہوتا ہے اگر اس کا بچہ بیمار ہو تو اس کا جگر پارہ پارہ ہوتا ہے یہ ایک بڑی بزرگ شَے ہے جو کہ زراور زور سے حاصل نہیں ہوتی صرف موہبت ہے اور صرف درد بھی کوئی شَے نہیں ہے جب تک اس کے ساتھ عمل نہ ہو.خدا کی محبت کا زبانی دعویٰ کوئی حقیقت نہیں رکھتا.رؤیا اور خواب بھی کیا شَے ہیں.ہندو بھی اس میں شریک ہیں حالانکہ ان کے عمل کیسے ناپاک ہوتے ہیں.میں تو ان باتوں کو ایک جَو کے بدلے بھی نہیں خریدتا.بلعم کیسا صاحبِ الہام تھا مگر اسے دردِ دل نہ تھا.تکبر تھا اس لئے اسے موسیٰ پر جرأت بددعا کی ہوئی اس نے خیال کیا کہ موسیٰ میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں حالانکہ موسیٰ کو دردِ دل تھا.آخر خدا نے اسے کتّے سے مشابہت دی.پس دردِ دل کو تلاش کرو.ماں کو بچے سے عاشق کو معشوق سے جو محبت ہے وہ دردِ دل ہے درد ِدل وہ کام کرتا ہے کہ دوسرے اس سے حیران ہوجاتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ ایک عورت ایک مَرد پر عاشق تھی.دونوں کی عمر ۳۰ یا ۳۵ سا ل کی تھی پھر وہ عورت اس کے دروازے کے آگے گری رہتی لوگ اسے پتھر مار مار کر لہو لہان کرتے اور گھسیٹ گھسیٹ کر دور پھینک جاتے مگر وہ پھر وہیں آپڑتی.میں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ اصل میں محبت حقیقی کا نمونہ ہے.خدا تعالیٰ بعض دفعہ سالہا سال تک بیزار ہوکر متمثّل ہوتا ہے مگر بیزار نظر آتا ہے.جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں بہت سخت تکلیف اٹھائی آخر خدا سے عرض کی کہ اگر مجھ پر عتاب ہے تو اس وقت تک میں صبر کروں گا کہ تو راضی ہو جاوے.اصل میں خدا تعالیٰ کی بیزاری نہ تھی وہ بھی ایک پیرایہ میں محبت تھی.خدا تعالیٰ کی طرف سے جو امتحان ہوتے ہیں اس میں ایک بیزاری بھی ہے بعض لوگ جو اس کے اہل نہیں ہوتے وہ دھوکا کھاتے ہیں.اکثر دہریہ ہوجاتے ہیں سعید وہ ہے جو ازل سے سعید ہے گویا اس نے خدا کی گود میں پرورش پائی ہے.۱ ۱ البدر جلد ۲ نمبر۹ مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۵
۹ ؍ما رچ ۱۹۰۳ء (دورانِ سیر ) وبا زدہ علا قہ میں ما مو ر یا نبی کے جانے کی تعبیر ایک شخص کی خوا ب پر فرمایا کہ معبرین نے لکھا ہے کہ اگر وبا ئی جگہ پر کوئی مامور یا نبی گیا ہوا دیکھا جاوے تو جاننا چاہیے کہ وہاں آرام ہوگا کیونکہ وہ لوگ خدا کی رحمت ساتھ لاتے ہیں.ایک رئویا پھر فرمایا کہ رات کو میں نے ایک خواب دیکھی کہ ایک شخص نے مجھے ایک پروانہ دیا ہے وہ لمبا سا کاغذ ہے میں نے پڑھا تو لکھاہوا تھا کہ عدالت سے چار جگہ کے لیے طاعون کا حکم جاری کیا گیا ہے.اس پروانے سے پایا جاتا تھاکہ اس کا اجرا میں نے کیا ہے جیسے کاغذات محافظ دفتر کے پاس ہوتے ہیں ویسے ہی وہ میرے پاس ہے میں نے کہا کہ یہ حکم ایک عرصہ سے ہے اور اس کی تعمیل آج تک نہ ہوئی؟ اب میں اس کا کیا جواب دوں گا.اس سے مجھے ایک خوف طاری ہوا اور تمام رات میں اسی خدشہ میں رہا اور اس پر روشن خط میں لفظ طاعون کا لکھا تھا گویا حکم میرے نام آتا ہے اور میں جاری کرتا ہوں پھر میں نے دیکھا کہ اپنی جماعت کے چند آدمی کُشتی کر رہے ہیں میں نے کہا آئو میں تم کو ایک خواب سنائوں مگر وہ نہ آئے.میں نے کہا کیوںنہیں سنتے جو شخص خدا کی باتیں نہیں سنتا وہ دوزخی ہوتا ہے.التحیات میں انگشت سبابہ اُٹھانے کی حکمت ایک شخص نے سوال کیا کہ التحیات کے وقت نماز میں انگشت سبابہ کیوں اُٹھاتے ہیں؟ فرمایا کہ لوگ زمانہ جاہلیت میں گالیوں کے واسطے یہ اُنگلی اُٹھایا کرتے تھے اس لیے اس کو سبابہ کہتے ہیں یعنی گالی دینے والی.خدا تعالیٰ نے عرب کی اصلاح فرمائی اور وہ عادت ہٹاکرفرمایا کہ خدا کوواحد لا شریک کہتے وقت یہ اُنگلی اُٹھایا کرو تا کہ اس سے وہ الزام اُٹھ جاوے.ایسے ہی عرب
کے لوگ پانچ وقت شراب پیتے تھے.اس کے عوض میں پانچ وقت نماز رکھی.اس کے بعد اس اَمر پر ذکر رہا کہ ہر ایک فرقہ میں نذیر آیا ہے جیسے قرآن سے ثابت ہے.اسی لیے رام چند راور کرشن وغیرہ اپنے زمانے کے نبی وغیرہ ہوں گے.تبلیغ کے لئے مفت اشاعت عرب صاحب نے سوال کیا کہ لوگ آپ کو سا دہ مزاج کہتے ہیں اس لیے کہ کتب مفت تقسیم کی جاتی ہیں.فرمایا کہ گفتہ اند کہ نکوئی کن وَ در آپ انداز.کتابیں ہم مفت دیتے ہیں مگر اس میں ہماری سادگی نہیں ہے اور نہ ہم غلطی پر ہیں.ہمارا منشا تبلیغ کا ہوتا ہے اگر ہزار کتاب شائع ہو اور ایک شخص بھی راہ راست پر آجاوے تو ہمارا مطلب پورا ہو گیا.۱ (دربارِ شام) ایک جامع درس نو ما رچ ۱۹۰۳ءکے دربا ر شا م میں حضرت حجۃ اللہ مسیح مو عو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جامع تقریرفرمائی.ہم کو افسوس ہے کہ اس روز ہم ایک مصروفیت کی وجہ سے مو جو دنہ تھے اس لیے اس تقریر کو خود قلمبند نہیں کرسکے تاہم ہمارے ایک عزیز نے اس کے کچھ نو ٹ لیے تھے جن کو مرتّب کرکے نا ظر ین کے فا ئدہ کے لیے مَا لَا یُدْرَکُ کُلُّہٗ لَا یُتْرَکُ کُلُّہٗ پر عمل کرنے کے لیے اسے ہی پیش کر دیتے ہیں.(ایڈیٹر) نو مبا ئعین کو نصیحت چند احباب بتقریب نماز عید اضحی دارالا مان میں تشریف لائے اور انہوں نے بیعت کی.حضرت اقدس امام پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کھڑے ہوکر یہ تقریر فرمائی.فرمایا.دیکھو! جس قدر آپ لوگوں نے اس وقت بیعت کی ہے اور جو پہلے کر چکے ہیں ان کو چندکلمات بطور نصیحت کے کہتا ہوں.چاہیے کہ اسے پوری توجہ سے سنیں.۱ البدر جلد۲نمبر۹ مورخہ۲۰؍مارچ۱۹۰۳ء صفحہ۶۵، ۶۶
آپ لوگوں کی یہ بیعت.بیعت توبہ ہے۱ توبہ دو طرح سے ہوتی ہے ایک تو گذشتہ گناہوں سے یعنی ان کی اصلا ح کرنے کے واسطے جو کچھ پہلے غلطیاں کر چکا ہے ان کی تلافی کرے اور حتی الوسع ان بگاڑوں کی اصلاح کی کو کشش کرنا اور آیند ہ کے گناہوں سے باز رہنا اور اپنے آپ کو اس آگ سے بچائے رکھنا.توبہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ توبہ سے تمام گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ وہ توبہ صدقِ دل اور خلوصِ نیت سے ہو اور کوئی پوشیدہ دغا بازی دل کے کسی کونہ میں پوشیدہ نہ ہو.وہ دلوں کے پوشیدہ اور مخفی رازوں کو جانتا ہے وہ کسی کے دھوکا میں نہیں آتا پس چاہیے کہ اس کو دھوکا دینے کی کو کشش نہ کی جاوے اور صدق سے نہ نفا ق سے اس کے حضور توبہ کی جاوے.توبہ انسان کے واسطے کوئی زائدیا بے فائدہ چیز نہیں ہے اور اس کا اثر صرف قیامت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سے انسان کی دنیا و دین دونوں سنورجاتے ہیں.اوراسے اس جہان میں اور آنے والے جہان میں دونوں میں آرام اور سچی خوشحالی نصیب ہوتی ہے.۲ دیکھو! قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ:۲۰۲) اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا میں بھی آرام و آسائش کے سامان عطا فرما اور آنے والے جہان میں بھی آرام اور راحت عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.دیکھو! درحقیقت رَبَّنَا کے لفظ میں توبہ ہی کی طرف ایک باریک اشارہ ہے کیونکہ رَبَّنَا کا لفظ چاہتا ہے۳ کہ وہ بعض اور ربوں کو جو اس نے پہلے بنائے ہوئے تھے ان سے بے زارہو کر اس ربّ ۱ البدر میں یوں لکھا ہے.’’بیعت دراصل توبہ ہوتی ہے اور بیعت کے دو جز ہیں.اوّل.پچھلے گناہوں سے معافی مانگتے ہیں.دوم.بیعت میں آئندہ گناہوں سے بچنے کے لیے وعدہ کیا جاتا ہے.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۹مورخہ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۶۶ ) ۲ البدر میں ہے.’’توبہ ایک ایسی چیز ہے جو اس جہان میں بھی اپنا پھل لاتی ہے اور آخرت میں بھی.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۹ مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۶ ) ۳البدر میں ہے.’’قرآن کریم میں جہان لفظ ربّ آتا ہے اس کے معنے کا تعلق توبہ سے ہوتا ہے.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۹ مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۶ )
کی طرف آیا ہے اور یہ لفظ حقیقی درداور گداز کے سوا انسان کے دل سے نکل ہی نہیں سکتا.ربّ کہتے ہیں بتد ریج کمال کو پہنچانے والے اور پرورش کرنے والے کو.اصل میں انسان نے اپنے بہت سے ارباب بنائے ہوئے ہوتے ہیں اپنے حیلوں اور دغا بازیوں پر اسے پورا بھروسا ہوتا ہے تو وہی اس کے رب ہیں.اگر اسے اپنے علم کا یا قوتِ بازو کا گھمنڈہے تو وہی اس کے رب ہیں.اگر اسے اپنے حسن یا مال ودولت پر فخر ہے تو وہی اس کا رب ہے غرض اس طرح کے ہزاروں اسباب اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں.جب تک ان سب کو ترک کرکے ان سے بیزار ہو کے اس واحد لاشریک سچے اور حقیقی رب کے آگے سر نیاز نہ جھکائے اور رَبَّنَا کی پُر درد اور دل کو پگھلانے والی آوازوں سے اس کے آستا نہ پر نہ گرے.تب تک وہ حقیقی رب کو نہیں سمجھا.پس جب ایسی دلسوزی اور جاں گدازی سے اس کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کرکے توبہ کرتا اورا سے مخاطب کرتا ہے کہ رَبَّنَا یعنی اصلی اور حقیقی ربّ تو تُو ہی تھا مگر ہم اپنی غلطی سے دوسری جگہ بہکتے پھرتے رہے.اب میں نے ان جھوٹے بتوں اور باطل معبودوں کو ترک کر دیا ہے اور صدق دل سے تیری ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں.تیر ے آستانہ پر آتا ہوں.غرض بجزاس کے خدا کو اپنا ربّ بنانا مشکل ہے جب تک انسان کے دل سے دوسرے ربّ اور ان کی قدرومنزلت وعظمت و وقارنکل نہ جاوے تب تک حقیقی ربّ اور اس کی ربوبیت کا ٹھیکہ نہیں اٹھاتا.بعض لوگوں نے جھوٹ ہی کو اپنا ربّ بنایا ہوا ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ ہمارا جھوٹ کے بدوں گذارہ ہی مشکل ہے بعض چوری و راہزنی اور فریب دہی ہی کو اپنا ربّ بنائے ہوئے ہیں.ان کا اعتقاد ہے کہ اس راہ کے سوا ان کے واسطے کوئی رزق کا راہ ہی نہیں.سو ان کے ارباب وہ چیزیں ہیں.دیکھو! ایک چو ر جس کے پاس سا رے نقب زنی کے ہتھیار موجود ہیں اور رات کا موقع بھی اس کے مفید مطلب ہے اور کوئی چوکیدار وغیرہ بھی نہیں جاگتا ہے تو ایسی حالت میں وہ چوری کے سوا کسی اور راہ کو بھی جانتا ہے جس سے اس کا رزق آسکتا ہے؟ وہ اپنے ہتھیاروں کو ہی اپنا معبود جانتا ہے.غرض ایسے لوگ جن کو اپنی ہی حیلہ بازیوں پر اعتماد اور بھروسا ہوتا ہے ان کو خدا
سے استعانت اور دعا کرنے کی کیا حاجت؟ دعا کی حاجت تو اسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اس دَر کے نہ ہو اسی کے دل سے دعا نکلتی ہے.غرض رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا....الـخ ایسی دعا کرنا صرف انہیں لوگوں کا کام ہے جو خداہی کو اپنا رب جان چکے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ ان کے رب کے سامنے اور سا رے اربابِ با طلہ ہیچ ہیں.آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہو گی بلکہ دنیا میں بھی جو شخص ایک لمبی عمر پاتا ہے وہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا میں بھی ہزاروں طرح کی آگ ہیں.تجربہ کار جانتے ہیں کہ قسم قسم کی آگ دنیا میں موجود ہے طرح طرح کے عذاب خو ف، خون، فقر و فا قے، امراض، ناکامیاں، ذلّت وادبار کے اند یشے، ہزاروں قسم کے دکھ، اولاد، بیوی وغیرہ کے متعلق تکا لیف اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں الجھن.غرض یہ سب آگ ہیں.تو مومن دعا کرتا ہے کہ ساری قسم کی آگوں سے ہمیں بچا.جب ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ان سب عوارض سے جو انسانی زندگی کو تلخ کرنے والے ہیں اور انسان کے لیے بمنزلہ آگ ہیں بچائے رکھ.سچی توبہ ایک مشکل اَمر ہے.بجز خد اکی توفیق اور مددکے توبہ کرنا اور اس پر قائم ہو جانا محال ہے.توبہ صرف لفظوں اور باتوں کا نام نہیں.دیکھو! خدا قلیل سی چیز سے خوش نہیں ہو جاتا.کوئی ذرا سا کام کرکے خیال کر لینا کہ بس اب ہم نے جو کرنا تھا کر لیا اور رضا کے مقام تک پہنچ گئے یہ صرف ایک خیال اور وہم ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایک با دشا ہ کو ایک دانہ دے کر یا مٹی کی مٹھی دے کر خوش نہیں کرسکتے بلکہ اس کے غضب کے مو ردبنتے ہیں تو کیا وہ احکم الحاکمین اور بادشاہوں کا بادشاہ ہماری ذرا سی ناکارہ حرکت سے یا دو لفظوں سے خوش ہوسکتا ہے ۱ خدا تعالیٰ پو ست کو پسند نہیں کرتا وہ مغز چاہتا ہے.البدر میں ہے.’’میری جماعت کو یادرکھنا چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو دھوکا نہ دے.خدا تعالیٰ ایک ناکارہ چیز کو پسند نہیں کرتا.دیکھو! اگر ایک شخص دُنیوی بادشاہ کے پاس نکمّی سی چیز ہدیہ کے طور پر لے جاتا ہے تو اگرچہ وہ اس کو لے جاسکتا ہے مگر وہ ایسے فعل سے بادشاہ کی ہتک کرتا ہے.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۹مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۶۶)
شرک کی حقیقت دیکھو! خدا یہ بھی نہیں چاہتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جاوے.بعض لوگ اپنے شر کاءِ نفسانی کے واسطے بہت ساحصہ رکھ لیتے ہیں اور پھر خدا کا بھی حصہ مقرر کرتے ہیں.سوایسے حصہ کو خدا قبو ل نہیں کرتا وہ خا لص حصہ چاہتاہے.اس کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک بنانے سے زیادہ اس کو غضبناک کرنے کا اور کوئی آلہ نہیں ہے.ایسا نہ کرو کہ کچھ تو تم میں تمہارے نفسانی شر کاء کا حصہ ہو اور کچھ خدا کے واسطے.خدا تعالیٰ کہتاہے کہ میں سب گناہ معاف کروں گا مگر شرک نہیں معاف کیا جاوے گا.یا درکھو شرک یہی نہیں کہ بتوں اور پتھروں کی تراشی ہوئی مو رتوں کی پو جا کی جاوے.یہ تو ایک موٹی بات ہے یہ بڑے بیوقوفوں کا کام ہے دا نا آدمی کو تو اس سے شرم آتی ہے.شرک بڑا بار یک ہے وہ شرک جو اکثر ہلاک کرتا ہے وہ شرک فی الاسباب ہے یعنی اسباب پر اتنا بھروسا کرنا کہ گویا وہی اس کے مطلوب ومقصودہیں جو شخص دنیا کو دین پر مقدم رکھتا ہے اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ اس کو دنیا کی چیزوں پر بھر وسہ ہوتا ہے اور وہ امید ہوتی ہے جو دین و ایمان سے نہیں.نقد فا ئدہ کو پسند کرتے ہیں اور آخرت سے محروم.جب وہ اسباب پر ہی اپنی ساری کامیابیوں کا مدار خیال کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کے وجود کو تو اس وقت وہ لغو محض اور بے فائدہ جانتا ہے اور تم ایسا نہ کرو.تم تو کل اختیار کرو.توکّل تو کّل یہی ہے۱ کہ اسباب جو اللہ تعالیٰ نے کسی اَمر کے حاصل کرنے کے واسطے مقرر کئے ہوئے ہیں ان کو حتی المقدور جمع کرو.اور پھر خود دعائوں میں لگ جائوکہ خدا تو ہی اس کا انجام بخیر کر.صدہا آفات ہیں اور ہزاروں مصائب ہیں جو ان اسباب کوبھی برباد و تہ وبالا کرسکتے ہیں.ان کی دست بُرد سے بچا کر ہمیں سچی کامیابی اور منزل مقصود پر پہنچا.حقیقت توبہ توبہ کے معنی ہی یہ ہیں کہ گناہ کو ترک کرنا اور خدا کی طرف رجوع کرنا.بدی چھوڑ کر نیکی کی طرف آگے قدم بڑھانا.توبہ ایک موت کو چاہتی ہے جس کے بعد البدر میں ہے.’’ توکّل ایک طرف سے توڑ اور ایک طرف جوڑکا نام ہے.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۹ مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۶)
انسان زندہ کیا جاتا ہے اور پھر نہیں مَرتا.توبہ کے بعد انسان ایسا بن جاوے کہ گویا نئی زندگی پا کر دنیا میں آیا ہے نہ اس کی وہ چال ہو، نہ اس کی وہ زبان، نہ ہاتھ نہ پائوں، سارے کا سارا نیا وجود ہو جو کسی دوسرے کے ماتحت کام کرتا ہوا نظر آجاوے.دیکھنے والے جان لیں کہ یہ وہ نہیں یہ تو کوئی اَور ہے.خلاصہ کلام یہ کہ یقین جانو کہ توبہ میں بڑے بڑے ثمرات ہیں.یہ برکات کا سرچشمہ ہے.درحقیقت اولیاء اور صلحاء بھی لوگ ہوتے ہیں جو توبہ کرتے اور پھر اس پر مضبوط ہو جاتے ہیں.وہ گناہ سے دور اور خدا کے قریب ہوتے جاتے ہیں.کامل توبہ کرنے والا شخص ہی ولی، قطب اور غوث کہلاسکتا ہے.اسی حالت سے وہ خدا کا محبوب بنتا ہے اس کے بعد بَلائیں اور مصائب جو انسان کے واسطے مقدرہوتی ہیں ٹل جاتی ہیں.انبیاء اور مومنوں پر مصائب آنے کی حکمت اس سے یہ خیال نہ آوے کہ پھر انبیاء اور نیک مومنوں کو کیوں تکلیفیں آتی ہیں؟ ان لوگوں پر بعض بَلائیں آتی ہیں اور ان کے واسطے آثارِ رحمت ہوتا ہے.۱ دیکھو! ہمارے نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسی کیسی مصائب آئی تھیں.ان کا گننابھی کسی بڑے زبردست دِل کا کام ہے.ان کے نام سے ہی انسان کے بدن پر لرزہ آتا ہے.پھر جو کچھ سلوک آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہیوں سے ہوئے ان کی بھی تاریخ گواہ ہے.کیا کوئی ایسی بھی تکلیف تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو پہنچائی نہ گئی ہو؟ جس طرح ان کی ایذاء دہی میں کفار نے کوئی دقیقہ باقی اٹھا نہ رکھا تھا.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے کمالات میں کوئی کمی باقی نہ رکھی.اصل میں ان لوگوں کے واسطے یہ مصائب اور سختیاں تریاق ہو جایا کرتی ہیں.ان لوگوں کے واسطے خدا کی رحمت کے خزانے البدر میں یوں ہے.’’تکالیف مومنوں پر بھی آتی ہیں بلکہ سب سے زیادہ تو نبیوں پر آتی ہیں.اس جگہ بعض جلد باز یہ اعتراض کردیں گے کہ اگر ولیوں نبیوں کو بھی تکالیف پہنچتے ہیں تو پھر توبہ کا کیا فائدہ ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ جب نیک لوگوں کو تکالیف پہنچتے ہیں تو وہ ان کو اس انعام کی خوشخبری دیتی ہیں جوکہ ان تکالیف کے بعد خدا تعالیٰ نے ان کو دینا ہوتا ہے.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۹مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ءصفحہ ۶۶)
انہیں سختیوں ہی کی وجہ سے کھولے جاتے ہیں.؎ ہر بَلا کیں قوم را حق دادہ است زیر آں گنج کرم بنہادہ است مگر ایسے وقت میں انسان کو چاہیے کہ صبرِ جمیل کرے اور خدا سے بدظن نہ ہو.وہ لوگ تو خدا کے اسلام کو انعا م کے رنگ میں دیکھتے ہیں اور ابتلا میں لذّت پا تے ہیں.قرب کے مر اتب جس طرح جلد ابتلا کے وقت میں طے ہوتے ہیں وہ یوں زُہد وتعبّد یا ریا ضت سے تو سا لہا سال میں بھی تمام نہیں کئے جاتے.ان لوگوں میں سے جو خدا کے قرب کا نمونہ بنے اور خلق کی ہدایت کا تمغہ ان کو دیا گیا یا وہ خدا کے محبوب ہوئے ایک بھی نہیں جس پر کبھی نہ کبھی مصائب اور شدائد کے پہا ڑ نہ گرے ہوں.ان لوگوں کی مثال مشک کے نا فہ کی سی ہوتی ہے وہ جب تک بند ہے اس میں اور ایک پتھر یا مٹی کے ڈھیلے میں کچھ تفاوت نہیں پایا جاتا مگر جب اس پر سختی سے جراحی کا عمل کیا جاوے اور اس کو چُھری یا چاقو سے چیرا جاوے تو معاً اس میں سے ایک خوش کن خوشبو نکلتی ہے جس سے مکان کا مکان معطر ہو جاتا ہے اور قریب آنے والا بھی معطر کیا جاتا ہے.سویہی حال ہے انبیاء اور صادق مو منوں کا کہ جب تک ان کو مصائب نہ پہنچیں تب تک ان کے اندرونی قویٰ چھپے رہتے ہیں اور ان کی ترقیا ت کا دروازہ بندہوتا ہے ان لوگوں کے قویٰ دو قسم کے موقعوں پر اظہارپذیرہوتے ہیں.بعض تو مصائب شدائد اور دکھوں کے زمانہ میں اور بعض ان کی کامیابی کے زمانہ میں کیونکہ یک طرفہ کارروائی قابلِ اعتماد نہیں ہوتی.ممکن ہے کہ ایک شخص جس نے بچپن سے خوشحالی اور آرام اور آسائش کے سوا کچھ دیکھا ہی نہیں اس کے قویٰ کا پورا اندازہ نہیں ہوسکتا ہے اور دوسرا جو بچپن سے غربت کی مار بد حالی میں مبتلا رہا ہے اس کے قویٰ کا بھی پورا اندازہ کرنا مشکل ہے.کسی شخص کے اخلاق فاضلہ اور اس کے خلق کے متعلق اس کے حالا ت کا اندازہ تب ہی ہوسکتا ہے جب اس پر انعام وابتلا ہر دوطرح کے زمانے آچکے ہوں.سواس اَمر کے دیکھنے کے لیے بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سی اور کوئی مثال نہیں کیونکہ باقی انبیاء میں سے اکثر ایسے تھے کہ انہوں نے نہایت کار ایک زمانہ دیکھا دوسرے کی نوبت ہی نہیں آئی مثلاً حضرت عیسیٰ ہیں.ہمارا اعتقادہے کہ وہ خدا کے برگزیدہ اور پاک نبی تھے.خدا
کے نزدیک ان کے بڑے مدارج ہیں مگر آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل میں رکھ کر اگر ان کو اسی کسوٹی پرپرکھا جاوے تو ان کے اخلاق بہت گرے ہوئے معلوم ہوتے ہیں.انہوں نے اقتداراور ثروت کا زمانہ نہ پایا اور نہ اس کے متعلق ان کے اخلاق کا اظہار ہوا.ہمیں تو قرآن شریف مجبور کرتا ہے ورنہ ہم اگر ان کے حا لات کے لحاظ سے اور ان کی عام سوانح کی وجہ سے دیکھیں تو وہ تو ایک کامل انسان کے مرتبہ سے بھی گرے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کجا یہ کہ عیسائی ان کو خدائے قدوس کا مرتبہ دے بیٹھے ہیں.بھلا ان کا صبر، ان کی داد و دہش، ان کی جو دوسخا کا کون سا نمونہ دنیا میں باقی رہا ہے.ان کی شجا عت کے اظہار کا کون سا موقع تھا.کس جنگ میں انہوں نے اس اَمر کا ثبوت دیا.۱ ان کی بعثت کا زمانہ صرف تین سال تھا اور وہ بھی مصائب کا زما نہ.مقابلہ پرصرف ایک اپنی ہی قوم تھی جو معدودے چند سے زیادہ ہرگز نہ تھی.ان کا پیش کردہ اَمر بھی ان کے لیے کوئی نرالا نہ تھا جس کی مثال پہلے نہ پائی جاتی ہو.قوم پہلے ہی تو حید پسند تھی ان کے خلا ق اور ان کے عقائدکا بہت سا حصہ نسبتاًاچھا تھا.ان میں خدا تر س ، گوشہ نشین وغیرہ بھی تھے غرض ان کا کام نہایت سہل اور آسان تھا.ادھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھوکہ آپ کی نبوت کے زمانہ میں سے ۱۳ سال مصائب اور شدائدکے تھے اور دس سال قوت وثروت اور حکومت کے.مقابل میں کئی قومیں.اول تو اپنی ہی قوم تھی.یہودی تھے عیسائی تھے.بُت پرست قوموں کا گروہ تھا.مجوس تھے وغیرہ جن کا کام کیا ہے؟ بُت پرستی.جو ان کا حقیقی خدا کے اعتقادسے پختہ اعتقاد اور مسلک تھاوہ کوئی کام کرتے ہی نہ تھے جو ان بتوں کی عظمت کے خلاف ہو.شراب خوری کی یہ نوبت کہ دن میں پانچ مرتبہ یا سات مرتبہ شراب.بلکہ پانی کے بجائے شراب ہی سے کام لیا جاتا تھا.حرام کو تو شیرِ مادرجا نتے تھے اور قتل وغیرہ تو ان کے نزدیک ایک گاجر مولی کی طرح تھا.غرض کل دنیا کی اقوام کا نچوڑاور گندے البدر میں لکھا ہے.’’مثلاً حضرت عیسیٰ کی طرف دیکھ لو.نُصرت کا زمانہ نہیںدیکھا کوئی لڑائی نہیں ہوئی تا کہ ہم اُن کی شجاعت کا اندازہ لگائیں.کسی فتح کا وقت نہیں آیا جس سے ہم دیکھ سکتے کہ وہ کس طرح اپنے دشمنوں کو معاف کرسکتے تھے اور اُن میں عفو کی قوت کس قدر تھی.اُن کو غنیمتیں نہیں ملیں جس سے ہم دیکھ سکتے کہ ان میں قوتِ سخاوت کس قدر تھی.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۹مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۶۶،۶۷)
عقائدکا عطر ان کے حصہ میں آیا ہو اتھا.اس قوم کی اصلاح کرنی اور پھر ان کو درست کرنا اور پھر اس پر زمانہ وہ کہ یکہ وتنہا بے یار پھرتے ہیں کبھی کھانے کو ملا اور کبھی بھوکے ہی سو رہے جو چند ایک ہمراہی ہیں ان کی بھی ہر روز بری گت بنتی ہے.بے کس اور بے بس.ادھر کے ادھراور ادھرکے ادھر مارے مارے پھرتے ہیں.وطن سے بے وطن کر دیئے گئے ہیں.پھر دوسرا زما نہ تھا کہ تمام جزیرہ عرب ایک سرے سے دوسرے سرے تک غلام بنا ہوا ہے کوئی مخالفت کے رنگ میں چوں بھی نہیں کرسکتا اور ایسا اقتدار اور رعب خدا نے دیا ہو اہے کہ اگر چاہتے تو کل عرب کو قتل کر ڈالتے اگر ایک نفسانی انسان ہوتے تو ان سے ان کی کرتوتوں کا بدلہ لینے کا عمدہ موقع تھا.جب الٹ کر مکہ فتح کیا تو لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ فرما یا.غرض اس طرح سے جو دونوں زما نے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم پر آئے اور دونوں کے واسطے ایک کافی موقع تھا کہ اچھی طرح سے جانچے پرکھے جاتے اور ایک جوش یا فوری ولولہ کی حالت نہ تھی.آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر طرح کے اخلاق فاضلہ کا پورا پوراامتحان ہو چکا تھا اور آپ کے صبر، استقلال، عفت، حلم، بردباری، شجاعت، سخاوت، جودوغیرہ وغیرہ غرض کل اخلاق کا اظہارہوچکا تھا اور کوئی ایسا حصہ باقی نہ تھا کہ باقی رہ گیا ہو.حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت غرض ایسے ایسے مصائب ہیں جو ان کے لیے رحمت ہیں اور ان سے ان لوگوں کے اندرونی گُن ظاہر ہوتے ہیں.دیکھو! حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ جنہوں نے ہمیشہ ناز و نعمت میں پرورش پائی تھی اورسید سید کرکے پکارے جاتے تھے.انہوں نے بھی تو سختی کا زمانہ نہ دیکھا تھا.ان کو ایسے ایسے زمانے دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا کہ وہ ان صحابہ ؓکے مراتب کو پہنچ سکتے.ان کی ساری زندگی ناز ونعمت میں گذری تھی نہ انہوں نے کسی جہاد میں حصہ لیا تھا نہ کسی کفر ہی کوتوڑاتھا تو خدا نے جو اُن کو شہید کیا، کیااُن پر ظلم کیا؟ ہرگز نہیں.انہوں نے پچاس پچپن برس کی عمر تک وہ زمانہ نہ دیکھا تھاکہ شدائدکیا ہوا کرتے ہیں اور انہوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ جب صحابہؓ بکریوں کی طرح ذبح ہوتے تھے تو پھر ان کا کیا حق تھا کہ وہ شہداء میں درجہ پا تے یا کسی طرح کے آخرت میں خدا کے
قرب میں عزّت پا تے.کیاان کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بیٹا کہلا نے کا فخر بس تھا؟ اور ان کے واسطے یہی کافی تھا؟ نہیں اس سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی منع فرمایا تھا.اس سے کوئی حق قربِ الٰہی نہیں ہوسکتا تھا.غرض ان کی اپنی تو ایسی بظاہر کوئی کارنمائی نہ تھی جس سے وہ ان درجات اعلیٰ کے وارث یا حقدار ہوتے مگر چونکہ ان کو آنحضر ت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک قسم کا تعلق تھا.اللہ تعالیٰ نے نہ چاہا کہ آنحضر ت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کا تعلق رکھنے والے کو ضائع کرے۱ سو ان کے واسطے ایسے ایسے ساما ن میسّر کر دیئے کہ وہ خدا کی راہ میں شہادت پا نے کے قابل ہو گئے اور اس طرح وہ سابقین کے ساتھ مل گئے جن کے حالات سے وہ محض نا واقف تھے.ایک ذراسی تکلیف اور اجر عظیم مل گیا.شیعہ کیا بیوقوف ہیں، اس حکمت الٰہی کی طرف تو غور نہیں کرتے اور الٹا روتے ہیں کہ ان کوشہیدکر دیا.ابتلا پر صبر کا اجر پس تم مومن ہونے کی حالت میں ابتلا کو بُرا نہ جانو اور بُرا وہی جانے گا جو مومن کامل نہیں ہے قرآن شریف فرماتا ہے کہ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ١ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ(البقرۃ:۱۵۶،۱۵۷) خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم کبھی تم کو مال سے یا جان سے یا اولاد یا کھیتوں وغیرہ کے نقصان سے آزمایا کریں گے مگر جو ایسے وقتوں میں صبر کرتے اور شاکر رہتے ہیں تو ان لوگوں کو بشارت دوکہ ان کے واسطے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کشادہ اور ان پر خدا کی برکتیں ہوں گی جو ایسے وقتوں میں کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ یعنی ہم اور ہمارے متعلق کل اشیاء یہ سب خدا ہی کی طرف سے ہیں اور پھر آخر کاران کا لوٹنا خدا ہی کی طرف ہے کسی قسم کے نقصان کا غم ان کے دل کو نہیں کھاتا اور وہ لوگ مقامِ رضا میں بودوباش رکھتے ہیں.البدر میں مزید یوں لکھا ہے.’’اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ اس طرح گمنام فوت نہ ہوں.اس واسطے اللہ تعالیٰ نے اُن کو شہادت کی موت سے وفات دی تاکہ وہ دنیا میں قیامت تک نیک نام مشہور ہو جاویں.اگر ان پر یہ مصائب نہ آتے تو وہ کس طرح مشہور ہوتے.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۹مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۷ )
ایسے لوگ صابر ہوتے ہیں اور صابروں کے واسطے خدا نے بے حساب اجر رکھے ہوئے ہیں.۱ مُہْتَدُوْنَ سے مراد مُہْتَدُوْن سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا کے منشا کو پالیا اور اس کے مطابق عمل درآمد کرنے لگ گئے.ایسے ہی لوگ تو ولی ہوتے ہیں.انہی کو تو لوگ قطب کہتے ہیں یہی تو غوث کہلاتے ہیں پس کوشش کرو کہ تم بھی ان مدارج عالیہ کو حاصل کرنے کے قابل ہوسکو.خدا تعالیٰ نے تو انسان سے نہایت تنزّل کے رنگ میں دوستانہ برتاؤ کیا ہے.دوستانہ تعلق کیا ہوتا ہے یہی کہ کبھی ایک دوست دوسرے دوست کی بات کو مان لیتا ہے اور کبھی دوسرے سے اپنی بات منواناچاہتا ہے چنانچہ خدا تعالیٰ بھی ایسا ہی کرتا ہے چنانچہ اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المومن: ۶۱) اور اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ١ؕ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ....الآیۃ (البقرۃ:۱۸۷) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسان کی بات کو مان لیتا ہے اور اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے اور دوسری جگہ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَ لْيُؤْمِنُوْابِيْ....الآیۃ سے اور وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی بات منوانا چاہتا ہے.بعض لوگ اللہ تعالیٰ پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہماری دعا کو قبول نہیں کرتا یا اولیاء لوگوں پر طعن کرتے ہیں کہ ان کی فلاں دعا قبول نہیں ہوئی.اصل میں وہ نادان اس قانون الٰہی سے نا آشنا محض ہوتے ہیں.جس انسان کو خدا سے ایسا معاملہ پڑاہوگا وہ خوب اس قاعدہ سے آگا ہ ہوگا.اللہ تعالیٰ نے مان لینے کے اور منوانے کے دونمونے پیش کئے ہیں.انہی کو مان لینا ایمان ہے تم ایسے نہ بنوکہ ایک ہی پہلو پر زور دو.ایسا نہ ہو کہ تم خدا کی مخالفت کرکے اس کے مقررہ قانون کو توڑنے کی کوشش کرنے والے بنو.۲ ۱البدر میں مزید یوں لکھا ہے.’’یہی تکالیف جب رسولوں پر آتی ہیں تو اُن کو انعام کی خو شخبری دیتی ہیں اور جب یہی تکالیف بدوں پر آتی ہیں اُن کو تباہ کردیتی ہیں.غرض مصیبت کے وقت قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ:۱۵۷) پڑھنا چاہیے کہ تکالیف کے وقت خدا تعالیٰ کی رضا طلب کرے.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۹مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۷ ) ۲البدر میں لکھا ہے.’’مومن کو مصیبت کے وقت میں غمگین نہیں ہونا چاہیے.وہ نبی سے بڑھ کر نہیں ہوتا.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۹مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۷ )
مصائب کی لذّت مومن کے لیے مصائب ہمیشہ نہیں رہتے اور نہ لمبے ہوتے ہیں بلکہ اس کے واسطے رحمت، محبت اور لذّت کا چشمہ جا ری کیا جاتا ہے.عاشق لوگ عشق کے غلبہ کے وقتوں اور اس کے دردوں میں ہی لذّت پا تے ہیں.یہ باتیں گوایک خشک محض انسان کے لیے سمجھانی مشکل ہیں مگر جنہوں نے اس راہ میں قدم مارا ہے وہ ان کو خوب جانتے ہیں بلکہ ان کو تو معمولی آرام اور آسائش میں وہ چین اور لذّت نہیں ہوتی جو دکھ کے اوقات میں ہوتی ہے.مثنوی رومی میں ایک حکایت ہے کہ ایک مرض ایسا ہے کہ اس میں جب تک ان کو مکّے مارتے کوٹتے اور لتاڑتے رہتے ہیں تب تک وہ آرام میں رہتا ہے ورنہ تکلیف میں رہتا ہے سویہی حال اہل اللہ کا ہے کہ جب تک ان کو مصائب وشدائد کے مشکلات آتے رہیں اور ان کو مار پڑتی رہے تب تک وہ خوش ہوتے اور لذّت اٹھا تے ہیں ورنہ بے چین اور بے آرام رہتے ہیں.مومن کے جوہرمصائب سے کھلتے ہیں اللہ تعالیٰ قادرتھا کہ اپنے بندوں کو کسی قسم کی ایذا نہ پہنچنے دیتا اور ہرطرح سے عیش وآرام میں ان کی زندگی بسر کرواتا.ان کی زندگی شاہانہ زندگی ہوتی.ہر وقت ان کے لیے عیش وطرب کے سامان مہیاکئے جاتے مگر اس نے ایسا نہیں کیا.اس میں بڑے اسراراور راز نہانی ہوتے ہیں.دیکھو! ایک والدین کو اپنی لڑکی کیسی پیاری ہوتی ہے بلکہ اکثر لڑکوں کی نسبت زیادہ پیاری ہوتی ہیں مگر ایک وقت آتا ہے کہ والدین ان کو اپنے سے الگ کر دیتے ہیں وہ وقت ایسا ہوتا ہے کہ اس وقت کو دیکھنا بڑے جگر والوں کا کام ہوتا ہے.۱ دونوں طرف کی حالت ہی بڑی قابلِ رحم ہوتی ہے قریباً چودہ پندرہ سال ایک جگہ رہے ہوئے ہوتے ہیں آخر ان کی جدائی کا وقت نہایت ہی رقّت کا وقت ہوتا ہے.اس جدائی کو بھی کوئی نادان بے رحمی کہہ دے تو بجاہے مگراس لڑکی میں بعض ایسے قویٰ البدر میں ہے.’’والدہ ایک طرف روتی ہے اور والد ایک طرف روتا ہے تا ہم وہ سب تکالیف برداشت کرکے اس کو ہمیشہ کے لئے الگ کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟وہ جانتے ہیں کہ اس لڑکی میں ایک جوہر ہے جو کہ سسرال میں جا کر ظاہر ہوگا اس لیے مومن کے جوہر بھی مصائب سے کھلتے ہیں.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۹مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۷ )
ہوتے ہیں جن کا اظہاراس علیحد گی اور سسرال میں جا کر شوہر سے معاشرت ہی کا نتیجہ ہوتا ہے جو طرفین کے لیے موجبِ برکت اور رحمت ہوتا ہے.یہی حال اہل اللہ کا ہے.ان لوگوں میں بعض خلق ایسے پوشیدہ ہوتے ہیں کہ جب تک ان پر تکالیف اور شدائد نہ آویں ان کا اظہار ناممکن ہوتا ہے.دیکھو! اب ہم لوگ جو آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بیان کرنے میں بڑے فخر اور جرأت سے کام لیتے ہیں یہ بھی تو صرف اسی وجہ سے ہے کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم پروہ دونوں زمانے آچکے ہوئے ہیں ورنہ ہم یہ فضیلت کس طرح بیان کرتے.دکھ کے زمانہ کو بری نظر سے نہ دیکھو یہ خدا سے لذّت کو اور اس کے قرب کو اپنی طرف کھینچتا ہے اسی لذّت کے حاصل کرنے کے واسطے جو خدا کے مقبولوں کو ملا کرتی ہے دنیوی اور سفلی کل لذّات کو طلاق دینی پڑا کرتی ہے.خدا کا مقر ب بننے کے واسطے ضروری ہے کہ دکھ سہتے جاویں اور شکر کیا جاوے اور نئے دن ایک نئی موت اپنے اوپر لینی پڑتی ہے جب انسان دنیوی ہواوہوس اور نفس کی طرف سے بکلّی موت اپنے اوپر وارد کر لیتا ہے تب اسے وہ حیات ملتی ہے جو کبھی فنا نہیں ہوتی.پھر اس کے بعد مَرنا کبھی نہیں ہوتا.قرآن کا نزول بحالت غم ہوا ہے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن شریف غم کی حالت میں نازل ہوا ہے.تم بھی اسے غم ہی کی حالت میں پڑھا کرو.اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا بہت بڑا حصہ غم والم میں گذرا ہے.توبہ کا درخت اور اس کا پھل توبہ کے درخت بو۱ لو تا تم اس کے پھل کھاؤ.توبہ کا درخت بھی بالکل ایک باغ کے درخت کی ما نند ہے جو جو البدر میں ہے.’’اگرتوبہ کے ثمرات چاہتے ہوتو عمل کے ساتھ توبہ کی تکمیل کرو.دیکھو! جب مالی بوٹا لگاتا ہے پھر اس کو پانی دیتا ہے اور اس سے اس کی تکمیل کرتا ہے.اسی طرح ایمان ایک بوٹا ہے اور اس کی آب پاشی عمل سے ہوتی ہے اس لیے ایمان کی تکمیل کے لیے عمل کی از حد ضرورت ہے.اگر ایمان کے ساتھ عمل نہیں ہونگے تو بوٹے خشک ہو جائیں گے.اور وہ خائب وخاسررہ جائیں گے.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۹مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۷ )
حفاظتیں اور خدمات اس باغ کے لیے جسمانی طورسے ہیں وہی اس توبہ کے درخت کے واسطے روحانی طور پرہیں پس اگر توبہ کے درخت کا پھل کھانا چاہوتو اس کے متعلق قوانین اور شرائط کو پورا کرو ورنہ بے فائدہ ہوگا.یہ خیال نہ کرو کہ توبہ کرنا مَرنا ہوتا ہے.خدا قلیل شَے سے خوش نہیں ہوتا اور نہ وہ دھوکا کھاتا ہے.دیکھو! اگر تم بھوک کو دورکرنے کے لیے ایک لقمہ کھانے کا کھاؤ یا پیاس کے دور کرنے کے لیے ایک قطرہ پانی کا پیوتو ہرگز تمہاری مقصد براری نہ ہو گی.ایک مرض کے دفع کرنے کے واسطے ایک طبیب جو نسخہ تجویزکرتا ہے جب تک اس کے مطابق پوراپورا عمل نہ کیا جاوے تب تک اس کے فائدہ کی امید اَمر موہوم ہے۱ اور پھر طبیب پر بھی الزام.غلطی اپنی ہی ہے اسی طرح توبہ کے واسطے مقدار ہے اور اس کے بھی پرہیز ہیں.بدپرہیز بیمار صحت یاب نہیں ہوسکتا.خدا سے صلح پیدا کرو اب طاعون کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ اِنِّيْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ اِلَّا الَّذِیْنَ عَلَوْا بِاسْتِکْبَارٍ.دیکھو! خدا تو سب کا خداہے مگر اس کے تعلقات خاص خاص کے ساتھ خاص خاص ہیں.جتنی جتنی۲ کوئی اس سے صلح کرتا ہے اتنا ہی وہ اس کی حفاظت کرتا ہے.تم میں سے ہر ایک کو بھی آواز آسکتی ہے جو مجھے آئی اگر تم سچی تبدیلی اور اس سے صلح پیدا کرو.خدا بخیل نہیں مگر ہاں اس نے ایک اندازہ رکھا ہوا ہے جب تک اس تک انسان نہ پہنچے تو وہ کامل نہیں ہوتا اور نہ اس پر و ہ فیض جا ری کیا جاتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شرابی کو اگر پوری مقدار شراب کی نہ دی جاوے تب تک وہ بے ہوش نہیں ہوسکتا.اسی طرح جب اس انتہائی درجہ محبت تک ترقی نہ کی جاوے تب تک لا حاصل ہوتا ہے.قانونِ قدرت جس طرح جسمانی چیزوں کے واسطے ہے ایسے ہی روحانی امور کے واسطے بھی ہیں.البدر میں ہے.’’یہی سنّت اللہ ہے کہ جب تک کوئی چیز اپنے مقررہ وزن تک استعمال نہ کی جاوے تب تک بےفائدہ ہے.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۹مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۷ ) ۲البدر میں ہے.’’اگر انسان خدا کی طرف آہستہ قدم چلتا ہے تو وہ تیز چل کر آتا ہے اور اگر انسان اس کی طرف تیز چلتا ہے تو وہ دوڑکر آتا ہے.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۹مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۷ )
دیکھو! ابوالحسن خرقانی، بایزید بسطامی یا شیخ عبد القادر جیلانی صاحب رحمۃ اللہ علیہم اجمعین وغیرہ یہ سب خدا کے مقر ب تھے اورانہوں نے بھی شریعت ہی کی پابندی سے یہ درجہ پایا تھا نہ کہ کوئی نئی شریعت بناکر.جیسا کہ آج کل کے گدی نشین کرتے ہیں.یہی نماز تھی اور یہی روزے تھے مگر انہوں نے اس کی حقیقت اور اصل غرض کو سمجھا ہوا تھا.بات یہ تھی کہ انہوں نے نیکی کی مگر سنوار کر.انہوں نے اعمال کو بیگار کے طور پر پورا نہ کیا تھا بلکہ صدق اور وفا کے رنگ میں ادا کرتے تھے سوخدا نے ان کے صدق وسداد کو ضائع نہ کیا.خدا کسی کا احسان اپنے اوپر نہیںرکھتا وہ ایک پیسہ کے بدلے میں جب تک ہزار نہ دے لے تب تک نہیں چھوڑتا.پس جب کسی انسان میں وہ برکات اور نشانات نہیں ہیں.۱ اور وہ خدا کی محبت اور تقوے کادعویٰ کرتا ہے تو جھوٹھا ہے مگر خدا پر الزام نہیں لگا تا بلکہ اپنا گندظاہر کرتا ہے.خدا کی جناب میں بخل ہرگز نہیں.پس کوشش کرو کہ اس کی رضا کے موافق عمل درآمد کرسکو.اگر مصائب کے وقت میں تم مومن ہو اور خدا سے صلح کرنے والے اور اس کی محبت میں آگے قدم بڑھانے والے ہوتو.تو وہ رحمت ہے تمہارے واسطے کیونکہ خدا قادر ہے کہ آگ کو گلزار کرے اور اگر تم فاسق ہو تو ڈرو کہ وہ آگ ہے جو بھسم کرنے والی ہے اور قہر اور غضب ہے جو نیست ونابود کرنے والا ہے.فقط۲ ۱۱؍مارچ ۱۹۰۳ء (قبل ازعشاء) ایک نے خواب بیان کی کہ کان میں اس نے کچھ بات سنی ہے اس کی تعبیر میں فرمایا کہ دہنا کان دین ہوتا ہے اور با یاں دنیا.کان میں بات کا ہونا بشارت پر محمول کیا جاتا ہے.پھر ایک ذکر پر فرمایا کہ جو خدا کی طرف رجوع ہوتا ہے ایک دن کامیاب ہو ہی جاتا ہے ہاں تھکے نہ.کیونکہ خدا کے ۱ البدر میں ہے.’’جب انسان نیکی کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس سے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا اور اس کو اس کے پھل عطا نہیں ہوتے تو وہ جھوٹا ہے.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۹مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۷) ۲ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۹ تا ۱۳
واسطے لہریں ہوتی ہیں باد نسیم چلتی ہے.ویسے رحمت کی نسیم بھی اپنے وقت پر چلا کرتی ہے.انسان کو ہمیشہ طیار رہنا چاہیے.۱ ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ء نظر آئے گی دنیا کو تیرے اسلام کی رفعت مسیحا کا بنے گا جب یہاںمنار.یا اللہ ! منار ۃ ا لمسیح کی بنیادی اینٹ بعد نماز جمعہ حضرت حجۃ اللہ المسیح الموعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے حضور ہمارے مکرم دوست حکیم فضل الٰہی صاحب لاہوری، مرزا خدا بخش صاحب، شیخ مولا بخش صاحب، قاضی ضیاء الدین صاحب وغیرہ احباب نے عرض کی کہ حضور منارۃ المسیح کی بنیادی اینٹ حضور کے دست مبارک سے رکھی جاوے تو بہت ہی مناسب ہے.فرمایا کہ ہمیں تو ابھی تک معلوم بھی نہیں کہ آج اس کی بنیاد رکھی جاوے گی.اب آپ ایک اینٹ لے آئیں میں اس پرد عا کروں گا اور پھر جہاںمیں کہوں وہاں آپ جا کر رکھ دیں.چنانچہ حکیم فضل الٰہی صاحب اینٹ لے آئے.اعلیٰ حضرت نے اس کو ران مبارک پر رکھ لیا اور بڑی دیر تک آپ نے لمبی دعا کی.معلوم نہیں کہ آپ نے کیسی کیسی اور کس کس جوش سے دعائیں اسلام کی عظمت و جلال کے اظہار اور اس کی روشنی کے کل اقطاع واقطارعالم میں پھیل جانے کی کی ہوں گی.وہ وقت قبولیت کا وقت معلوم ہوتا تھا.جمعہ کا مبارک دن اور حضرت مسیح مو عود منارۃ المسیح کی بنیادی اینٹ رکھنے سے پہلے اس کے لیے دلی جوش کے ساتھ دعائیں مانگ رہے ہیں.یعنی دعا کے بعد آپ نے اس اینٹ پر دم کیا اور حکیم فضل الٰہی صاحب کو دی کہ آپ اس کومنارۃ المسیح کے مغربی حصہ میں رکھ دیں.غرض اس عظیم الشان مینار کی بنیاد خدا کے برگزیدہ ماموراور مسیح ومہدی علیہ السلام کے ہاتھ سے ۱۳ ؍مارچ ۱۹۰۳ء کو رکھ دی گئی.۲ ۱ البدا جلد ۲ نمبر ۹ مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۸ ۲ الحکم جلد۷ نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۴
حجرہ دعا بعد نمازجمعہ مورخہ ۱۳ ؍مارچ ۱۹۰۳ء کو حضرت اقدس نے تجویز فرمایا کہ چونکہ بیت الفکرمیں اکثر مستورات وغیرہ اور بچے بھی آجاتے ہیں اور دعا کا موقع کم ملتا ہے اس لیے ایک ایسا حجرہ اس کے ساتھ تعمیر کیا جاوے.جس میں صرف ایک آدمی کے نشست کی گنجائش ہو اور چارپائی بھی نہ بچھ سکے تاکہ اس میں کوئی اور نہ آسکے.اس طرح سے مجھے دعا کے لیے عمدہ وقت اور موقع مل سکے گا.۱ ۲ (مجلس قبل از عشاء) قبل از عشاء مجلس میں صرف یہ ذکر ہوا کہ ایک صاحب نے حضرت اقدس سے ایمان مجمل اور مفصل کی تفسیر دریافت کی.حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ ایک سیدھے طور پر ایمان لانے کی بات ہے زیادہ دقیق بیان بے موقع ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور صفات کو قرآن میں بیان کیا ہے اس طرح مان لینا ایمان باللہ ہے اور جیسے خدا نے کتابوں کا ذکر قرآن شریف میں کیا ہے اسی طرح ان کو مان لینا ایمان بالکتب ہے اور ایمان بالرّسل یہ ہے کہ جن کا ذکر قرآن شریف میں آگیا ان کو بھی مانا اور جو لَمْ نَقْصُصْ میں آئے اور خدا نے ان کا ذکر نہیں کیا ان پر بھی ایمان چاہیے اور قدر خیر اور شر پر اور مُردوں کے جی اٹھنے پر ایمان لانا چاہیے اس کی تفصیل خدا کے سپرد ہے اس کی زیادہ تفصیل سمجھنے کے واسطے قرآن شریف کو تدبّر سے دیکھنا کافی ہے اس کو پڑھو اور ایمان لاؤ.۳ ۱ نوٹ از ایڈیٹر البدر.چنانچہ اسی وقت مغربی جانب جو در یچہ ہے اس کے ایک حجرے کے لیے عمارت شروع ہو گئی ہے.۲البدر جلد ۲نمبر ۹مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۷۲ ۳البدر جلد ۲ نمبر ۹ مورخہ ۲۰؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۸
۱۴؍مارچ ۱۹۰۳ء (قبل از نماز عشاء) حکّام کو نیکی کی تلقین کرنی چاہیے مفتی صاحب نے اخبارسول ملٹری میں طاعون کا مضمون پڑھ کر سنایا اس مضمون کو سن کر حضرت نے فرمایا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا لفظ ہرگز منہ پر نہیں لاتے حالانکہ اگر حاکم کے منہ سے ایک بات نکلتی ہے تو ہزاروں آدمیوں پر اس کا اثر ہوتا ہے.بٹالہ کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ ایک اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر جو کہ ایک دیسی آدمی تھا اس کے منہ سے یہ بات نکلی کہ نماز پڑھنی چاہیے.اس پر بہت سے مسلمانوں نے نماز شروع کردی.اسی طرح کبھی گورنمنٹ کی طرف سے یہ تاکید ہو کہ یہ لوگ خدا کی طرف رجوع کریں تو دیکھئے پھر لوگوں کی کیا تبدیلی ہوتی ہے مگر اس وقت امر اء لوگ ایسے فسق وفجورمیں مبتلا ہیں کہ گویا یہ ان کے نطفہ کا ایک جزوبن گیا ہے.عورتوں کے حقوق اس کے بعد مفتی محمد صادق صاحب نے ایک مضمون سول ملٹری گزٹ سے سنایا جو کہ اسلامی عورتوں کے حقوق وغیرہ پرتھا.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ابھی کچھ دن ہوئے تھے کہ آنحضر تؐکی شان میں ایک گندہ مضمون سنایا گیا تھا اب خدا نے اس کے مقابلہ پر فرحت بخش مضمون بھیج دیا ہے خدا کا فضل ہے کہ ہر ہفتہ ایک نہ ایک بات ایسی نکل آتی ہے جس سے طبیعت کو ایک تر وتازگی مل جاتی ہے.اس مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام میں عورتوں کو وہی حقوق دیئے ہیں جو کہ مَردوں کو دیئے گئے ہیں.حتی کہ اسلامی عورتوں میں پاکیزہ اور مقدس عورتیں بھی ہوتی ہیں اور ولیہ بھی ہوتی ہیں ان سے خارقِ عادت امور سرزدہوتے ہیں اور جو لوگ اسلام پر اس بارہ میں اعتراض کرتے ہیں.وہ غلطی پر ہیں.اس پر حضرت اقدس نے عورتوں کے بارے میں فرمایا کہ عورتوں کی اصلاح کا طریق مر د اگر پا رسا طبع نہ ہو تو عورت کب صالح ہوسکتی ہے.ہاں اگر مَرد خودصالح بنے تو عورت بھی صالح بن سکتی ہے قول
سے عورت کو نصیحت نہ دینی چاہیے بلکہ فعل سے اگر نصیحت دی جاوے تو اس کا اثر ہوتا ہے.عورت تو درکناراور بھی کون ہے جو صرف قول سے کسی کی مانتا ہے....اگر مَرد کوئی کجی یا خا می اپنے اندر رکھے گا تو عورت ہر وقت کی اس پر گواہ ہے اگر وہ رشوت لے کر گھر آیا ہے تو اس کی عورت کہے گی کہ جب خاوند لایا ہے تو میں کیوں حرام کہوں.غرضیکہ مَرد کااثر عورت پر ضرور پڑتا ہے اور وہ خود ہی اسے خبیث اور طیّب بناتا ہے اس لیے لکھا ہے اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ۠.وَ الطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ(النّور:۲۷) اس میں یہی نصیحت ہے کہ تم طیّب بنوورنہ ہزاروں ٹکریں مارو کچھ نہ بنے گا.جو شخص خدا سے خود نہیں ڈرتا تو عورت اس سے کیسے ڈرے؟ نہ ایسے مو لویوں کا وعظ اثر کرتا ہے نہ خاوند کا.ہر حال میں عملی نمونہ اثر کیا کرتا ہے بھلا جب خاوند رات کو اٹھ اٹھ کر دعا کرتا ہے، روتا ہے تو عورت ایک دن، دو دن تک دیکھے گی آخر ایک دن اسے بھی خیال آوے گا اور ضرور مؤثر ہو گی.عورت میں مؤثر ہونے کا مادہ بہت ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب خاوند عیسائی وغیرہ ہوتے ہیں تو عورتیں ان کے ساتھ عیسائی وغیرہ ہو جاتی ہیں ان کی درستی کے واسطے کوئی مدرسہ بھی کفا یت نہیں کرسکتا جتنا خاوند کا عملی نمونہ کفا یت کرتا ہے.خاوند کے مقابلہ میں عورت کے بھائی بہن وغیرہ کا بھی اثر کچھ اس پر نہیں ہوتا.خدا نے مَرد عورت دونوں کا ایک ہی وجود فرمایا ہے.یہ مَردوں کا ظلم ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو ایسا موقع دیتے ہیں کہ وہ ان میں نقص پکڑیں.ورنہ ان کو چاہیے کہ عورتوں کو ہرگز ایسا موقع نہ دیں کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ تو فلاں بدی کرتا ہے بلکہ عورت ٹکر مار مار کر تھک جاوے اور کسی بدی کا پتا اسے مل ہی نہ سکے تو اس وقت اس کو دینداری کا خیال ہوتا ہے اور وہ دین کو سمجھتی ہے.۱ مَرد۲ اپنے گھر کا امام ہوتا ہے پس اگر وہی بداثر قائم کرتا ہے تو پھر کس قدر بد اثر پڑنے کی امید ہے.مَرد کو چاہیے کہ اپنے قویٰ کو بر محل اورحلال موقع پر استعمال کرے مثلاً ایک قوت غضبی ہے جب وہ ۱ البدر جلد ۲نمبر ۹مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۸ ۲ یہا ں سے جو مضمون شروع ہوتا ہے یہ البدر کے اگلے نمبریعنی نمبر۱۰میں درج ہے.لیکن وہاں سہو کتابت سے اُسے ۲۰؍مارچ کی ڈائری کا بقیہ لکھا ہے جو درست نہیں.دراصل یہ ۱۴؍مارچ کی بقیہ ڈائری ہے.جیسا کہ مضمون کی ترتیب سے واضح ہے.۲۰؍مارچ کی مکمل ڈائری تو البدر جلد ۲کے نمبر۱۱صفحہ۸۱، ۸۲پر درج ہے.(مرتّب)
اعتدال سے زیادہ ہو تو جنون کا پیش خیمہ ہوتی ہے جنون میں اور اس میں بہت تھوڑا فرق ہے جو آدمی شدید الغضب ہوتا ہے اس سے حکمت کا چشمہ چھین لیا جاتا ہے.بلکہ اگر کوئی مخا لف ہو تو اس سے بھی مغلوب الغضب ہو کر گفتگونہ کرے.مَرد کی ان تمام باتوں اور اوصاف کو عورت دیکھتی ہے.اسی طرح وہ دیکھتی ہے کہ میرے خاو ند میں فلاں فلاں اوصاف تقویٰ کے ہیں جیسے سخاوت، حلم، صبر اور جیسے اسے پر کھنے کا موقع ملتا ہے وہ دوسرے کو مل نہیں سکتا.اسی لیے عورت کو سارق بھی کہا ہے کیونکہ یہ اندر ہی اندر اخلاق کی چوری کرتی رہتی ہے حتی کہ آخر کار ایک وقت پورا اخلاق حاصل کر لیتی ہے.ایک شخص کا ذکر ہے وہ ایک دفعہ عیسائی ہوا تو عورت بھی اس کے ساتھ عیسائی ہو گئی.شراب وغیرہ اول شروع کی پھر پر دہ بھی چھوڑ دیا.غیر لوگوں سے بھی ملنے لگی.خاوند نے پھراسلام کی طرف رجوع کیا تو اس نے بیوی کو کہا کہ تو بھی میرے ساتھ مسلمان ہو اس نے کہا کہ اب میرا مسلمان ہونا مشکل ہے.یہ عادتیں جو شراب وغیرہ اور آزادی کی پڑگئی ہیں یہ نہیں چھوٹ سکتیں.۱ ۱۵؍مارچ ۱۹۰۳ء (دورانِ سیر) آریوں کے متعلق لٹریچر کی اشاعت کتابوں کی اشاعت کے متعلق خلیفہ صاحب سے فرمایا کہ ان کی اشاعت کرو ایسا نہ ہو کہ صندوقوں میں بند پڑی رہیں.ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آریہ لوگ ان کتابوں کے جواب میں ایک گالیوں کا طومار لکھیں گے کیونکہ جواب دینے کی تو ان میں طاقت نہیں ہوتی.صرف گند ہی گند بولیں گے.ہم نے تو نہایت نرم الفاظ میں لکھی ہیں مگر یہ بہتان لگائے بغیرنہ رہیں گے شاید ایک اَور کتاب پھر اس کے جواب میں لکھنی پڑے.دیانندکو اسلام کی خبر نہیں تھی مگر چونکہ اس نے کتابیں ناگری زبان میں لکھیں اس لیے لوگوں کو اس کی گندہ زبانی کی خبر نہیں ہے لیکھرام ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۱۰ مورخہ ۲۷؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۳
نے اردو میں لکھیں اس کی خبرسب کو ہوئی.میرا اصول ہے کہ جو شخص حکمت اور معرفت کی باتیں لکھنا چاہے وہ جوش سے کام نہ لیوے و رنہ اثر نہ ہوگا.ہاں بعض امورِ حقّہ بر محل عبارت میں لکھنے پڑتے ہیں مگر اَلْـحَقُّ مُرٌّ کا معاملہ ہو کر ہم اس میں مجبور ہو جاتے ہیں.میرے خیال میں سناتن دھرم اور نسیم دعوت وغیرہ لاہور، بمبئی، کشمیر وغیرہ شہروں میں آریوں کے پاس ضرور روانہ کرنی چاہئیں اگر شائع نہ ہوں تو پھر وہی مثال ہے.ع ز بہر نہادن چہ سنگ و چہ زر امامت مسجد اور ختم و نذروغیرہ ایک سوال پر فرمایا کہ خدا کے پاک کلام قرآن کو ناپاک باتوں سے ملا کر پڑھنا بے ادبی ہے وہ تو صرف روٹیوں کی غرض سے مُلّاں لوگ پڑھتے ہیں اس ملک کے لوگ ختم وغیرہ دیتے ہیں تو ملّاں لوگ لمبی لمبی سورتیں پڑھتے ہیں کہ شوربا اور روٹی زیادہ ملے.وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَمَنًا قَلِيْلًا (البقرۃ: ۴۲) یہ کفر ہے.جو طریق آج کل پنجا ب میں نماز کا ہے میرے نزدیک ہمیشہ سے اس پر بھی اعتراض ہے.ملّاں لوگ صرف مقررہ آدمیوں پر نظر کرکے جماعت کراتے ہیں ایسا امام شرعاً ناجائزہے.صحابہؓ میں کہیں نظیر نہیں ہے کہ اس طرح اجرت پر امامت کرائی ہو.پھر اگر کسی کو مسجد سے نکالا جاوے تو چیف کورٹ تک مقدمہ چلتا ہے.یہاں تک کہ ایک دفعہ ایک ملّاں نے نماز جنازہ کی ۶یا ۷ تکبیریں کہیں.لوگوں نے پوچھا تو جواب دیاکہ یہ کام روز مرّہ کے محاورہ سے یاد رہتا ہے کبھی سال میں ایک آدمی مَرتا ہے تو کیسے یاد رہے جب مجھے یہ بات بھول جاتی ہے کہ کوئی مَرا بھی کرتا ہے تو اس وقت کوئی میّت ہوتی ہے.اسی طرح ایک ملّا یہاں آکر رہا.ہمارے میرزا صاحب نے اسے محلے تقسیم کر دیئے ایک دن وہ روتا ہوا آیا کہ مجھے جومحلہ دیا ہے اس کے آدمیوں کے قدچھوٹے ہیں اس لیے ان کے مَرنے پر جو کپڑا ملے گا اس سے چادر بھی نہ بنے گی.اس وقت ان لوگوں کی حالت بہت ردّی ہے صوفی لکھتے ہیں کہ مُردہ کا مال کھانے سے دل سخت ہوجاتا ہے.
مولُودخوانی ایک۱ شخص نے مولودخوانی پر سوال کیا.فرمایاکہ آنحضرتؐکا تذکرہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ اولیاء اور انبیاء کی یاد سے رحمت نازل ہوتی ہے۲ اور خودخدا نے بھی انبیاء کے تذکرے کی ترغیب دی ہے۳ لیکن اگر اس کے ساتھ ایسے بدعات مل جاویں جن سے توحید میں خلل واقع ہو تو وہ جائز نہیں.خدا کی شان خدا کے ساتھ اور نبی کی شان نبی کے ساتھ رکھو.آج کل کے مولودوں میں بدعت کے الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور وہ بدعات خدا کے منشا کے خلاف ہیں.اگر بدعات نہ ہوں تو پھر تو وہ ایک وعظ ہے.آنحضرت کی بعثت، پیدائش اور وفات کا ذکر ہو تو موجب ثواب ہے ۴ہم مجاز نہیں ہیں کہ اپنی شریعت یاکتا ب بنا لیویں.الحکم جلد۷نمبر۱۱کے صفحہ۵پراستفساراور اُن کے جواب کے زیر عنوان حضور علیہ السلام کے جو ملفوظات بلاتاریخ درج ہیں.دراصل یہ ۱۵؍مارچ ۱۹۰۳ء کی ڈائری ہے کیونکہ یہ سب استفسار اور ان کے جواب البدرنے ۱۵؍مارچ کی ڈائری میں دئیے ہیں لہٰذاالحکم کے ان ملفوظات میں جو بات البدر سے زیادہ مفصل ہے وہ حاشیہ میں درج کردی ہے (مرتّب).۲ الحکم سے.’’اُس سے محبت بڑھتی ہے اور آپؐ کی اِتباع کے لیے تحریک ہوتی اور جوش پیدا ہوتا ہے.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۱۱مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵) ۳ الحکم سے.’’ قرآن شریف میں بھی اسی لیے بعض تذکرے موجود ہیں جیسے فرمایا وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِبْرٰهِيْمَ (مریم:۴۲).‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۱۱مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵) ۴ الحکم سے.’’لیکن اگر تذکروں کے بیان میں بعض بدعات ملا دی جائیں تو وہ حرام ہو جاتے ہیں.گرحفظ مراتب نہ کنی زندیقی یہ یاد رکھو کہ اصل مقصد اسلام کا توحید ہے.مولود کی محفلیں کرنے والوں میں آج کل دیکھا جاتا ہے کہ بہت سی بدعات ملالی گئی ہیں جس نے ایک جائز اور موجبِ رحمت فعل کوخراب کردیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ موجبِ رحمت ہے مگرغیر مشروع امور وبدعات منشاءِ الٰہی کے خلاف ہیں.ہم خود اس اَمر کے مجاز نہیں ہیں کہ آپ کسی نئی شریعت کی بنیاد رکھیں اورآج کل یہی ہو رہا ہے کہ ہر شخص اپنے خیالات کے موافق شریعت کو بنانا چاہتا ہے گویا خود شریعت بناتا ہے.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۱۱مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵)
بعض ملّا اس میں غلو کرکے کہتے ہیں کہ مولودخوانی حرام ہے۱ اگر حرام ہے تو پھر کس کی پیروی کرو گے؟ کیونکہ جس کا ذکر زیادہ ہو اس سے محبت بڑھتی ہے اور پیدا ہوتی ہے.مولود کے وقت کھڑا ہونا جائز نہیں ان اندھوں کو اس بات کا علم ہی کب ہوتاہے کہ آنحضرتؐکی روح آگئی۲ ہے بلکہ ان مجلسوں میں تو طرح طرح کے بدطینت اور بد معاش لوگ ہوتے ہیں وہاں آپؐکی روح کیسے آسکتی ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ روح آتی ہے؟ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ (بنیٓ اسـرآءیل:۳۷).دونوں طرف کی رعایت رکھنی چاہیے.جب تک وہابی جو کہ آنحضرتؐکی عظمت نہیں سمجھتا وہ بھی خدا سے دور ہے.انہوں نے بھی دین کو خراب کر دیا ہے.جب کسی نبی، ولی کا ذکر آجاوے تو چلّا اٹھتے ہیں کہ ان کو ہم پر کیا فضیلت ہے.انہوں نے انبیاء کے خوارق سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہا.دوسرے فرقے نے شرک اختیار کیا حتی کہ قبروں کو سجدہ کیا اور اس طرح اپنا ایمان ضائع کیا.ہم نہیں کہتے کہ انبیاء کی پرستش کرو بلکہ سوچو اور سمجھو....خدا بارش بھیجتا ہے ہم تواس پر قادر نہیں ہوتے مگر بارش کے بعد کیسی سرسبزی اور شادابی نظر آتی ہے.اسی طرح انبیاء کا وجود بھی بارش ہے.۳ الحکم سے.’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرہ کو حرام کہنا بڑی بے باکی ہے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع خدا تعالیٰ کا محبوب بنانے کا ذریعہ اور اصل باعث ہے اور اتباع کا جوش تذکرہ سے پیدا ہوتا اور اس کی تحریک ہوتی ہے.جو شخص کسی سے محبت کرتا ہے اس کا تذکرہ کرتا ہے.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۱۱مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵) ۲ الحکم سے.’’ہاں جو لوگ مولود کرتے وقت کھڑے ہوتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی تشریف لے آئے ہیں یہ اُن کی جرأت ہے ایسی مجلسیں جو کی جاتی ہیں اُن میں بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ کثرت سے ایسے لوگ شریک ہوتے ہیں جو تارک الصلوٰۃ، سُود خور اور شرابی ہوتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی مجلسوں سے کیا تعلق؟اور یہ لوگ محض ایک تماشہ کے طور پر جمع ہو جاتے ہیں.پس اس قسم کے خیا ل بے ہودہ ہیں.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۱۱مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵) ۳ الحکم میں ہے.’’انبیاء علیہم السلام کا وجود بھی ایک بارش ہوتی ہے وہ اعلیٰ درجہ کا روشن وجود ہوتا ہے.خوبیوں کا مجموعہ ہوتا ہے.دنیا کے لیے اس میں برکات ہوتے ہیں.اپنے جیسا سمجھ لینا ظلم ہے.اولیاء و انبیاء سے محبت رکھنے سے ایمانی قوت بڑھتی ہے.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۱۱مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵)
پھر دیکھو کہ کوڑی اور موتی دونوں دریا ہی سے نکلتے ہیں پتھر اور ہیرہ بھی ایک ہی پہاڑ سے نکلتا ہے.مگر سب کی قیمت الگ الگ ہوتی ہے اسی طرح خدا نے مختلف وجود بنائے ہیں.انبیاء کا وجود اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے اور خدا کی محبت سے بھرا ہوا.اس کو اپنے جیسا سمجھ لینا اس سے بڑھ کر اور کیا کفر ہوگا.بلکہ خدا نے تو وعدہ کیا ہے کہ جو اس سے محبت کرتا ہے وہ انہی میں سے شمار ہوگا.آنحضرتؐنے ایک دفعہ فرمایا کہ بہشت میں ایک ایسا مقام عطا ہوگا جس میں صرف میں ہی ہوں گا.ایک صحابی روپڑا کہ حضور مجھے جو آپ سے محبت ہے میں کہاں ہوں گا آپ نے فرمایا کہ تو بھی میرے ساتھ ہوگا.پس سچی محبت سے کام نکلتا ہے ایک مشرک ہرگز سچی محبت نہیںرکھتا.۱ میں نے جہاں تک دیکھا ہے وہابیوں میں تیزی اور چالاکی ہوتی ہے.خاکساری اور انکساری تو ان کے نصیب نہیں ہوتی یہ ایک طرح سے مسلمانوں کے آریہ ہیں.وہ بھی الہام کے منکر، یہ بھی منکر.جب تک انسان براہ راست یقین حاصل نہ کرے قصص کے رنگ میں ہرگز خدا تک پہنچ نہیں سکتا.جو شخص خدا پر پورا ایمان رکھتا ہے ضرور ہے کہ اس پر کچھ تو خدا کا رنگ آجاوے.دوسرے گروہ میں سوائے قبرپرستی اور پیرپرستی کے کچھ روح باقی نہیں ہے.قرآن کو چھوڑدیا ہے.خدا نے اُمّت وسط کہا تھا.وسط سے مراد میانہ رو اور وہ دونوں گروہ نے چھوڑدیا ہے.پھر خدا فرماتا ہے اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ (اٰل عـمران: ۳۲) کیا۲ آنحضرتؐنے کبھی روٹیوں پر قرآن پڑھا تھا؟ اگر آپ نے ایک روٹی پر پڑھا ہوتا تو ہم ہزار پر پڑھتے.ہاں آنحضرت نے ایک دفعہ خوش الحانی۳سے ۱ الحکم میں ہے.’’مشرک بھی سچی محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں رکھ سکتا اور ایسا ہی وہابی بھی نہیں کرسکتا.یہ مسلمانوں کے آریہ ہیں اُن میں روحانیت نہیں ہے.خدا تعالیٰ اور اس کے سچے رسول سے سچی محبت نہیں ہے.دوسرا گروہ جنہوں نے مشرکانہ طریق اختیار کئے ہیں.رُوحانیت ان میں بھی نہیں.قبر پرستی کے سوا اور کچھ نہیں.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۱۱مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵) ۲ الحکم جلد۷نمبر۱۱صفحہ۵سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص نے سوال کیا تھا کہ روٹیوں پر فاتحہ پڑھنے کے متعلق کیا حکم ہے؟اس کے جواب میں حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃنے یہ جواب دیا تھا.(مرتّب) ۳ الحکم میں ہے.’’سوال.خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھناکیسا ہے؟ حضرت اقدس.خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنا بھی عبادت ہے اور بدعات جو ساتھ ملالیتے ہیں وہ اس عبادت کو ضائع کردیتے ہیں.بدعات نکال نکال کر ان لوگوں نے کام خراب کیا ہے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵)
قرآن سنا تھا اور آپ اس پر روئے بھی تھے.جب یہ آیت آئی جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِيْدًا (النسآء:۴۲) آپ روئے اور فرمایا کہ بس کر میں آگے نہیں سن سکتا.آپ کو اپنے گواہ گذرنے پر خیال گذرا ہوگا.ہمیں خودخواہش رہتی ہے کہ کوئی خوش الحان حافظ ہو تو قرآن سنیں.آنحضرتؐنے ہر ایک کام کا نمونہ دکھلا دیا ہے وہ ہمیں کرنا چاہیے.سچے مومن کے واسطے کافی ہے کہ دیکھ لیوے کہ یہ کام آنحضرت نے کیا ہے کہ نہیں.اگر نہیں کیا تو کرنے کا حکم دیا ہے کہ نہیں؟ حضرت ابر اہیمؑ آپ کے جدّ امجد تھے اور قابلِ تعظیم تھے کیا وجہ کہ آپ نے ان کا مولود نہ کروایا؟ اشعار اور نظم پڑھنا اشعار اور نظم پر سوال ہوا تو فرمایا کہ نظم تو ہماری مجلس میں بھی سنائی جاتی ہے آنحضرتؐنے بھی ایک دفعہ ایک شخص...خوش الحان کی تعریف سن کر اس سے چندایک اشعار سنے پھر فرمایا کہ رَحِـمَکَ اللہُ یہ لفظ آپ جسے کہتے تھے وہ جلد شہید ہی ہو جاتا.چنانچہ وہ بھی میدان میں جاتے ہی شہید ہو گیا.ایک صحابیؓ نے آنحضرتؐکے بعد مسجد میں شعر پڑھے.حضر ت عمرؓ نے روکا کہ مسجدمیں مت پڑھو.وہ غصہ میں آگیا اور کہا کہ تو کون ہے کہ مجھے روکتا ہے میں نے اسی جگہ اور اسی مسجد میں آنحضرتؐکے سامنے اشعار پڑھے تھے اور آپ نے مجھے منع نہ کیا.حضرت عمرؓ خاموش ہو گئے.شعر کہنا ایک شخص کا اعتراض پیش ہوا کہ میرزا صاحب شعرکہتے ہیں.فرمایاکہ آنحضرت نے بھی خود شعر پڑھے ہیں.پڑھنا اور کہنا ایک ہی بات ہے.پھر آنحضرتؐکے کل صحابی شاعر تھے.حضر ت عائشہؓ، امام حسنؓاور امام حسینؓکے قصائد مشہور ہیں.حسان بن ثابتؓنے آنحضرتؐکی وفات پر قصیدہ لکھا ہے.سید عبد القادر صاحب نے بھی قصائد لکھے ہیں.کسی صحابیؓ کا ثبوت نہ دے سکو گے کہ اس نے تھوڑا یا بہت شعر نہ کہا ہو مگر آنحضرتؐنے کسی کو منع نہ فرما یا.قر آن کی بہت سی آیا ت شعروں سے ملتی ہیں.ایک نے عرض کی کہ سورۃ شعراء میں آخیر پر شاعروں کی مذمت کی ہے.فرمایا کہ وہ مقام پڑھو.وہاں خدا نے فسق وفجور کرنے والے شاعروں کی مذمت کی ہے اور
مومن شاعرکا وہاں خود استثنا کر دیا ہے.پھر ساری زبور نظم ہے، یر میا ہ، سلیمان اور موسیٰ کی نظمیں تورات میں ہیں اس سے ثابت ہوا کہ نظم گناہ نہیں ہے ہاں فسق وفجور کی نظم نہ ہو.ہمیں خود الہام ہوتے ہیں.بعض ان میں سے مقفّٰی اور بعض شعروں میں ہوتے ہیں.(مجلس قبل ازعشاء ) کتّے اور بندر سے مراد کتّے سے مراد ایک طماع آدمی جو کہ تھوڑی سی بات پر راضی اور تھوڑی سی بات پر نا راض ہو جاتے ہیں اور بندر سے مراد ایک مسخ شدہ آدمی ہے.مفسّرین سے یہ بات ثابت نہیں ہے کہ مسخ شدہ یہود پر پشم بھی پیدا ہوگئی تھی اور ان کی دم بھی نکل آئی تھی بلکہ ان کے عادات مثل بندروں کے ہوگئے تھے.اس وقت بھی امت مثل یہود کے ہوگئی ہے.اس سے مراد یہی ہے کہ ان کی خصلت ان میں آگئی ہے کہ ما مور کا انکار کرتے ہیں.کسرصلیب کسرصلیب پر فرمایا کہ اب ایک ہوا چل پڑی ہے جیسے ہما رے دلوں میں ڈالا ہے کہ مسیح مَر گیا ویسے ہی اب ان کے (اہلِ یورپ وامریکہ کے ) لوگوں کے دلوں میں ڈالا ہے.اخبار اور رسا لے نکلتے ہیں اور مسیح کی امید لگ رہی ہے سب پکار رہے ہیں کہ یہی زمانہ ہے.تعبیر رؤیا دانت کی داڑھ نکل کر اگر کانچ کی نظر آوے تو خطرناک ہوا کرتی ہے.دانت اگر ٹوٹ کر ہاتھ میں رہے تو عمدہ ہے.خواتین کی اصلا ح کا طریق اس کے بعد مفتی محمد صادق صاحب پھر سول اخبا ر کا بقیہ مضمون سناتے رہے جس میں اسلامی عورتوں کا ذکر تھا اس پر حضر ت نے فرمایا کہ کوئی زمانہ ایسا نہیں ہے جس میں اسلا می عورتیں صالحات میں نہ ہوں، گو تھوڑی ہوں مگر ہوں گی ضرور جس نے عورت کو صالح بنانا ہو وہ آپ صالح بنے.ہماری جماعت کے لیے ضروری ہے کہ
اپنی پرہیز گاری کے لئے عورتوں کو پرہیز گاری سکھا ویں ورنہ وہ گنہ گار ہوں گے اور جب کہ اس کی عورت سامنے ہو کر بتلا سکتی ہے کہ تجھ میں فلاں فلاں عیب ہیں تو پھر عورت خدا سے کیا ڈرے گی.جب تقویٰ نہ ہو تو ایسی حالت میں اولاد بھی پلیدپیدا ہوتی ہے.اولاد کا طیّب ہونا تو طیّبات کا سلسلہ چاہتا ہے.اگر یہ نہ ہو تو پھر اولاد خراب ہوتی.اس لیے چاہیے کہ سب توبہ کریں اور عورتوں کو اپنا اچھا نمونہ دکھلاویں.عورت خاوند کی جا سوس ہوتی ہے.وہ اپنی بدیاں اس سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتا.نیز عورتیں چھپی ہوئی دا نا ہوتی ہیں.یہ نہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ احمق ہیں.وہ اندر ہی اندر تمہارے سب اثر وں کو حا صل کرتی ہیں.جب خاوند سیدھے رستہ پر ہوگا تو وہ اس سے بھی ڈرے گی اور خدا سے بھی.ایسا نمونہ دکھانا چاہیے کہ عورت کا یہ مذہب ہو جاوے کہ میرے خاوند جیسا اور کوئی نیک بھی دنیا میں نہیں ہے.اور وہ یہ اعتقادکرے کہ یہ باریک سے باریک نیکی کی رعایت کرنے والا ہے.جب عورت کا یہ اعتقاد ہو جاوے گا تو ممکن نہیں کہ وہ خود نیکی سے باہر رہے.سب انبیاؤوں اولیاؤوں کی عورتیں نیک تھیں اس لیے کہ ان پر نیک اثر پڑتے تھے.جب مَرد بدکار اور فاسق ہوتے ہیں تو ان کی عورتیں بھی ویسی ہی ہوتی ہیں.ایک چورکی بیوی کو یہ خیال کب ہوسکتا ہے کہ میں تہجد پڑھوں.خاوند تو چوری کرنے جاتا ہے تو کیا وہ پیچھے تہجد پڑھتی ہے؟ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (النساء:۳۶) اسی لیے کہا ہے کہ عورتیں خاوندوں سے متا ثر ہوتی ہیں جس حد تک خاوند صلا حیت اور تقویٰ بڑھاوے گا کچھ حصہ اس سے عورتیں ضرور لیں گی.ویسے ہی اگر وہ بد معاش ہوگا تو بد معاشی سے وہ حصہ لیں گی.۱ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۳ء بروز دو شنبہ (بوقتِ سیر) خواب اور اس کی تعبیر بعض احبا ب نے اپنے اپنے رؤیا سنائے.آپ نے فرمایا کہ خواب بھی ایک اجمال ہوتا ہے اور اس کی تعبیر صرف قیاسی ہوتی ہے.۱ البد رجلد ۲ نمبر ۱۰ مو رخہ ۲۷ ؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۳ تا ۷۵
ایک رؤیا اور ایک الہام رات کو میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اپنی جماعت میں سے گھوڑے پر سے گر پڑا پھر آنکھ کھل گئی سوچتا رہا کہ کیا تعبیر کریں.قیاسی طور پر جو بات اقرب ہو وے لگا ئی جاسکتی ہے کہ اس اثناء میں غنود گی غالب ہوئی اور الہام ہوا.’’استقامت میں فرق آگیا.‘‘ ایک صاحب نے کہا کہ وہ کون شخص ہے حضرت نے فرمایا کہ معلوم تو ہے مگر جب تک خدا کا اذن نہ ہو میں بتلا یا نہیں کرتا میرا کام دعا کرنا ہے.سُود کی حرمت ایک نے سوال کیا کہ ضرورت پر سودی روپیہ لے کر تجا رت وغیرہ کرنے کا کیا حکم ہے.فرمایا.حرام ہے.ہاں اگر کسی دوست اور تعا رف کی جگہ سے روپیہ لیا جاوے اور کوئی وعدہ اس کو زیادہ دینے کا نہ ہو، نہ اس کے دل میں زیادہ لینے کا خیال ہو.پھر اگر مقروض اصل سے کچھ زیادہ دیدے تو وہ سود نہیں ہوتا بلکہ یہ تو هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ (الرحـمٰن:۶۱) ہے.اس پر ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر ضرورت سخت ہو اور سوائے سود کے کام نہ چل سکے تو پھر؟ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اس کی حرمت مو منوں کے واسطے مقررکی ہے اور مومن وہ ہوتا ہے جو ایمان پر قائم ہو.اللہ تعالیٰ اس کا متو لی اور متکفل ہوتا ہے.اسلام میں کروڑہا ایسے آدمی گذرے ہیں جنہوں نے نہ سود لیا نہ دیا آخر ان کے حوائج بھی پورے ہوتے رہے کہ نہ؟۱ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہ لو نہ دوجو ایسا کرتا ہے وہ گویا خدا کے ساتھ لڑائی کی طیاری کرتا ہے.ایمان ہو تو اس کا صلہ خدا بخشتا ہے ایمان بڑی بابرکت شَے ہے اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (البقرۃ: ۱۰۷) اگر اسے خیال ہو کہ پھر کیا کرے؟ تو کیا خدا کا حکم بھی بے کار ہے؟ اس کی قدرت بہت بڑی ہے سود تو کوئی شَے ہی نہیں ہے.اگر ۱ الحکم سے.’’وہ کبھی ایسی مشکلات میں مبتلا نہیں ہوتے بلکہ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ(الطلاق:۴) اللہ تعالیٰ ہر ضیق سے اُن کو نجات دیتا ہے.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۱۱مورخہ ۲۴؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۵)
اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا کہ زمین کا پانی نہ پیا کرو۱ تو وہ ہمیشہ بارش کا پانی آسمان سے دیا کرتا اسی طرح ضرورت پر وہ خود ایسی راہ نکال ہی دیتا ہے کہ جس سے اس کی نافرمانی بھی نہ ہو.جب تک ایمان میں میل کچیل ہوتا ہے تب تک یہ ضعف اور کمزوری ہے.کوئی گناہ چھوٹ نہیں سکتا جب تک خدا نہ چھڑاوے ورنہ انسان تو ہر ایک گناہ پر یہ عذر پیش کرسکتا ہے کہ ہم چھوڑ نہیں سکتے اگر چھوڑیں تو گذارہ نہیں چلتا.دوکانداروں عطا روں کو دیکھا جاوے کہ پرانا مال سا لہا سال تک بیچتے ہیں.دھوکا دیتے ہیں.ملازم پیشہ لوگ رشوت خوری کرتے ہیں اور سب یہ عذرکرتے ہیں۲ کہ گذارہ نہیں چلتا.ان سب کو اگر اکٹھا کرکے نتیجہ نکالا جاوے تو پھر یہ نکلتا ہے کہ خدا کی کتاب پر عمل ہی نہ کرو کیونکہ گذارہ نہیں چلتا.حالانکہ مو من کے لیے خدا خود سہولت کر دیتا ہے.یہ تمام راست بازوں کا مجرب علاج ہے کہ مصیبت اور صعوبت میں خدا خود راہ نکال دیتا ہے لوگ خدا کی قدر نہیں کرتے جیسے بھروسا ان کو حرام کے دروازے پر ہے ویسا خدا پر نہیں ہے.خدا پر ایمان یہ ایک ایسا نسخہ ہے کہ اگر قدر ہو تو جی چاہے کہ جیسے اَورعجیب نسخہ مخفی رکھنا چاہتے ہیں ویسے ہی اسے بھی مخفی رکھا جاوے.میں نے کئی دفعہ بیماریوں میں آزمایا ہے کہ پیشاب باربار آرہا ہے دست بھی لگے ہیں.آخر خدا سے دعا کی.صبح کو الہام ہوا.دُعَاءُکَ مُسْتَجَابٌ اس کے بعد ہی وہ کثرت جاتی رہی اور کمزوری کی جگہ طاقت آگئی.یہ خدا کی طاقت ہے ایسا خدا عجیب ہے کہ ان نسخوں سے بھی زیادہ قابلِ قدر ہے جو کیمیا وغیرہ کے ہوتے ہیں.مجھے بھی ایک دفعہ خیال آیا کہ یہ تو چھپا نے کے قابل ہے پھر سوچا کہ یہ تو بخل ہے ایسی مفید شَے کو دنیا پر اظہار کرنا چاہیے کہ مخلوق الٰہی کو فائدہ حاصل ہو.یہی فرق اسلام اور دوسرے مذاہب کے خدا میں ہے.ان کا خدا بولتا نہیں.خدا معلوم یہ بھی کیساایمان ہے.اسلام کا خدا جیسے پہلے تھا ویسے ہی اب ہے.نہ طاقت کم ہوئی نہ بوڑھا ہوا.نہ کچھ اور نقص اس میں واقع ہوا.ایسے خدا پر جس کا ایمان ہو وہ ۱ الحکم میں ہے.’’اگر اللہ تعالیٰ مومن کو کہتا کہ تو زمین کا پانی نہ پیاکر تو میں ایمان رکھتا ہوں کہ اُس کو آسمان سے پانی ملتا.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۱۱ مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ءصفحہ۶ ) ۲ الحکم سے.’’عذر رکھ کر معصیت میں مبتلا ہونا یہ سفلی عذر ہے جو شیطان سے آتا ہے خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسا کرے تو سب کچھ ہوتا ہے.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۱۱مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ءصفحہ۶)
اگر آگ میں بھی پڑا ہو تو اسے حوصلہ ہوتا ہے.ابراہیم علیہ السلام کو آخر آگ میں ڈالا ہی تھا.ویسے ہی ہم بھی آگ میں ڈالے گئے.۱ خون کا مقدمہ بنایا گیا.اگر اس میں ۵ یا دس سال کی قید ہو جاتی تو سب سلسلہ تباہ ہو جاتا.سب قوموں نے متفق ہو کر یہ آگ سلگائی تھی.کیا کم آگ تھی؟ اس وقت سوائے خدا کے اور کون تھا؟ اور وہی الہام ہوئے جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہوئے تھے آخر میں الہام ہوا ’’اِبراء‘‘ اور تسلّی دی کہ سب کچھ میرے ہاتھ میں ہے.پراویڈنٹ فنڈ ایک صاحب نے سوال کیا کہ ریلوے میں جو لوگ ملازم ہوتے ہیں.ان کی تنخواہ میں سے ۱؍(ایک آنہ) فی روپیہ کاٹ کر رکھا جاتا ہے پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ روپیہ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ کچھ زائد روپیہ بھی وہ دیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ شرع میں سُود کی یہ تعریف ہے کہ ایک شخص اپنے فائدے کے لیے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلاوے گا.۲ لیکن جس نے روپیہ لیا ہے اگر وہ وعدہ وعید تو کچھ نہیں کرتا اور اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے تو وہ سود سے باہر ہے چنانچہ انبیاء ہمیشہ شرائط کی رعایت رکھتے آئے ہیں.اگر بادشاہ کچھ روپیہ لیتا ہے اور وہ اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے اور دینے والا اس نیت سے نہیں دیتا کہ سود ہے تو وہ بھی سود میں داخل نہیں ہے وہ بادشاہ کی طرف سے احسان ہے.پیغمبر خدا نے کسی سے ایسا قرضہ نہیں لیا کہ ادائیگیٔ وقت اسے کچھ نہ کچھ ضرور زیادہ (نہ)دے دیا ہو.یہ خیال رہنا چاہیے کہ اپنی خواہش نہ ہو.خواہش کے بر خلاف جو زیادہ ملتا ہے وہ سُود میں داخل نہیں ہے.الحکم سے.’’ڈگلس کے سامنے جو کلارک کا مقدمہ تھا وہ اُس آگ سے کم نہ تھا.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۱۱مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۶ ) ۲ الحکم سے.’’لیکن جب کہ محکمہ ریلوے کے ملازم خود وہ روپیہ سُود کے لالچ سے نہیں دیتے بلکہ جبراً وضع کیا جاتا ہے تو یہ سُود کی تعریف میں داخل نہیں ہے اور خود جو کچھ وہ روپیہ زائد دے دیتے ہیں وہ داخلِ سود نہیں ہے.غرض یہ خود دیکھ سکتے ہو کہ آیا یہ روپیہ سود لینے کے لیے تم خود دیتے ہو یا وہ خود وضع کرتے ہیں اور بلا طلب اپنے طور پر دیتے ہیں.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۱۱مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۶ )
سُود اور سُود در سُود ایک صاحب نے بیان کیا کہ سیداحمد خان صاحب نے لکھا ہے اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً (اٰل عـمران:۱۳۱) کی ممانعت ہے.فرمایا کہ یہ بات غلط ہے کہ سُود در سُود کی ممانعت کی گئی ہے اور سودجائزرکھا ہے.شریعت کا ہرگز یہ منشا نہیں ہے.یہ فقر ہ اسی قسم کےہوتے ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ گناہ درگناہ مت کرتے جاؤ اس سے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ گناہ ضرور کرو.اس قسم کا روپیہ جو کہ گورنمنٹ سے ملتا ہے وہ اسی حالت میں سود ہوگا جب کہ لینے والا اسی خواہش سے روپیہ دیتا ہے کہ مجھ کو سود ملے ورنہ گورنمنٹ جو اپنی طرف سے احساناً دیوے وہ سود میں داخل نہیں ہے.رشوت کے روپیہ سے بنائی گئی جائیداد ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر ایک شخص تائب ہو تو اس کے پاس جواول جا ئیداد رشوت وغیرہ سے بنائی ہو اس کا کیا حکم ہے.فرمایا.شریعت کا حکم ہے کہ توبہ کرے تو جس جس کا وہ حق ہے وہ اسے پہنچایا جاوے.۱ رشوت اورہدیہ میں ہمیشہ تمیز چاہیے.رشوت وہ مال ہے کہ جب کسی کی حق تلفی کے واسطے دیا یا لیا جاوے ورنہ اگر کسی نے ہمارا ایک کام محنت سے کر دیا ہے اور حق تلفی بھی کسی کی نہیں ہوئی تو اس کو جو دیا جاوے گا.وہ اس کی محنت کا معاوضہ ہے.انشورنس یا بیمہ انشورنس۲ اور بیمہ پر سوال کیا گیا.فرمایا کہ سود اور قما ربازی کو الگ کرکے دوسرے اقراروں اور ذمہ داریوں الحکم سے.’’اور اگر پتا نہ لگے تو پھر اسے صدقہ و خیرات کردے.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۱۱ مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۶) ۲ الحکم میں اس سوال سے پہلے ایک اور سوال اور اس کا جواب یوں درج ہے.سوال.رہن کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضرت اقدس.’’ہمارے نزدیک رہن جب کہ نفع و نقصان کا ذمہ دار ہوجاتا ہے اس سے فائدہ اُٹھانا منع نہیں.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر۱۱ مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۶)
کو شریعت نے صحیح قرار دیا ہے قماربازی میں ذمہ داری نہیں ہوتی.دنیا کے کا روبار میں ذمہ داری کی ضرورت ہے.دوسرے ان تمام سوالوں میں اس اَمر کا خیال بھی رکھنا چاہیے کہ قر آن شریف میں حکم ہے کہ بہت کھوج نکال نکال کر مسائل نہ پوچھنے چاہئیں.مثلاً اب کوئی دعوت کھانے جاوے تو اب اسی خیال میں لگ جاوے کہ کسی وقت حرام کا پیسہ ان کے گھر آیا ہوگا.پھر اس طرح تو آخرکار دعوتوں کا کھانا ہی بند ہو جاوے گا.خدا کا نام ستار بھی ہے ورنہ دنیامیں عام طور پر راست باز کم ہوتے ہیں.مستورالحال بہت ہوتے ہیں.یہ بھی قرآن میں لکھا ہے وَلَا تَجَسَّسُوْا (الـحجرات:۱۳) یعنی تجسّس مت کیا کرو ورنہ اس طرح تم مشقت میں پڑوگے.(مجلس قبل ازعشاء ) پنڈت نند کشورسناتن دھرمی سے گفتگو پنڈت نند کشور صاحب جو کہ سناتن دھرم مذہب کے ایک عالم فاضل متبحر لیکچرار ہیں حضرت صاحب کی ملاقات کے واسطے تشریف لائے.آتے ہی حضرت صاحب سے سلا م وعلیکم کیا اور مصافحہ کیا.حضرت صاحب نے نسیم دعوت اورسناتن دھرم وغیرہ کی نسبت ان کی رائے دریافت کی.پنڈت صاحب نے فرمایا کہ ان کتب میں آپ نے ویسے ہی لکھا ہے جیسے انبیاء کا دستور ہے خدا کے برگزیدوں سے گندے لفظ نکل ہی نہیں سکتے آریہ لوگوں کی مثال انہوں نے یہ دی کہ جیسے کھارے چشمہ سے میٹھا پانی نہیں نکل سکتا.اسی طرح وہ لوگ لکھ ہی کیا سکتے ہیں.حضرت اقدس نے آریہ سماج کی نسبت ذکر کیا کہ آریہ سماج یہ لوگ بالکل حقیقت ایمان سے بے نصیب ہیں.ایمان تو عقلمندوں کی آزما ئش کے لیے ہے کہ کچھ عقل سے کام لیوے اور کچھ ایمان سے.معجزات میں یہ عادت اللہ ہرگز نہیں ہے کہ ایسے کام دکھلائے جاویں جو کہ خدا کی عادت کے بر خلاف دنیا میں ہوں.مثلاً سوال کرتے ہیں کہ سویا پچاس سال کے مُردہ آکر شہادت دیویں گو کہ یہ ہو تو سکتا ہے مگر سوال ہے کہ جو
اس کے بعد قبول کرے گا اسے کیا فا ئد ہ ہوگا؟ جب سب حقیقت کھل گئی اور ایک سو دو سو آدمی کی شہادت بھی مل گئی تو اب کس کی عقل ماری ہے کہ انکار کرے نہ ہندو نہ چمار کسی کو گنجا ئش ہی انکار کی نہیں رہتی.ہما رے ہاں لکھا ہے کہ اس قسم کا ایمان فائدہ نہیں دیتا.اگر دن چڑھا ہوا ہو اور کوئی کہے کہ میں دن پر ایمان لایا، یا چاند پورا چودہویں کا ہے اور کوئی اس پر ایمان لا وے تو اسے کیا فائدہ ہوگا؟ اور کس تعریف کا مستحق ہے؟ ہاں اگر اول شب کے چاند پر جس کا نام ہلال ہے کوئی اسے دیکھ کر بتلا دے تو اس کی نظر کی تعریف کی جاوے گی اور جس کی نظر کم و بیش ہے وہ کھل جاوے گی.تو نشانوں میں یہی اصول خدا نے رکھا ہے کہ ایک پہلو میں ایمان سے فائدہ اٹھا ویں اور ایک پہلومیں عقل سے ورنہ ایمان ایمان نہیں رہتا.ایک مخفی اَمر کو عقل سے سوچ کرقرائن ملا کر مان لینے کا نام ایمان ہے...ان لوگوں کی عقل موٹی ہے.ایسے نشان طلب کرتے ہیں جو کہ عادت اللہ کے خلاف ہیں ہم یہ پیش کرتے ہیں کہ جو سچا مذہب ہوتا ہے اس میں امتیا ز ہوتا ہے جس قدر تائید ات اور خوارق جس حد تک خدا نے اسلام کی تائید میں رکھے ہیں وہ کسی دوسرے مذہب کے لیے ہرگز نہیں ہیں.مگر یہ ان امورمیں مقابلہ چاہتے ہیں جو کہ عادت اللہ کے خلاف ہیں.دوسرے خدا غلا م نہیں ہے کہ کسی کے تابع ہو بلکہ وہ خدا کے تابع ہیں.فیصلہ کا آسان طریق ہم نے ان سے یہ چاہا ہے کہ اس طرح سے فیصلہ کر لو کہ ہزاروں اعتراض جو تم لوگ کرتے ہو ان میں سے دو اعتراض چُن لو اگر وہ سچے نکل آویں تو باقی کے تمہارے سب سچے اور اگر وہ جھوٹے نکل آویں تو باقی کے سب جھوٹے.مگر ان لوگوں کو موت کا خوف نہیں.اگر عقل ہو تو لازم ہے کہ وہ اسلام کے سوائے کوئی سچا پاک مذہب دکھلا دیں.اور طلاق کی نسبت اعتراض ہے ہم کہتے ہیں کہ اچھا آج تک جس قدر طلاق اسلام میں ہوئی ہیں ان کی فہرست ہم سے لواور جس قدر نیوگ تم میں ہوا اس کی فہرست ہمیں دو.مدارات اور مداہنہ میں فرق اس کے بعد مختلف ذکر ہوتے رہے کبھی چولہ پر کبھی کسی پر ، اثنائے گفتگو میں فرمایا کہ مدارات اسے کہتے ہیں کہ نرمی سے گفتگو کی جاوے تاکہ دوسرے کو ذہن نشین ہو اور حق کو اس
طرح اظہار کرنا کہ ایک کلمہ بھی باقی نہ رہے اور سب ادا ہو جاوے اور مداہنہ اسے کہتے ہیں کہ ڈرکر حق کو چھپا لینا.کھا لینا.اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نرمی سے گفتگو کرکے پھر گر می پر آجاتے ہیں.یہ مناسب نہیں ہے حق کو پورا پورا ادا کرنے کے واسطے ایک ہنر چاہیے.وہ شخص بہت بہا در ہے جو کہ ایسی خوبی سے حق کو بیان کرے کہ بڑے غصہ والے آدمی بھی اسے سن لیویں.خدا ایسوں پر راضی ہوتا ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ حق گو سے لوگ راضی نہ ہوں اگرچہ وہ نرمی بھی کرے مگر تاہم درمیا ن میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو اچھا کہنے لگتے ہیں.۱ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۳ء (قبل ازعشاء ) معجزہ شق القمر کی شہادت ہندوستا ن میں پنڈت نند کشور صاحب سے معجزا ت پر گفتگو ہوئی پنڈت صاحب نے معجزہ شق القمر کی نسبت کہا کہ بھو ج سوانح ایک کتاب سنسکر ت میں ہے مجھ سے پنڈتوں نے بیان کیا ہے کہ اس میں شق القمر کی شہادت راجہ بھوج سے ہے کہ وہ اپنے محل پر تھا یکایک اس نے چاند کو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا.اس نے پنڈتوں کو بلا کر پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ چاند اس طرح پھٹا.راجہ نے خیال کیا کہ کوئی عظیم الشان حادثہ ہوگا.پنڈتوں نے جواب دیا کہ کوئی خطرہ نہیں ہے پچھم کے دیس میں ایک مہاتما پیدا ہو اہے.وہ بہت یوگی ہے اس نے اپنے یوگ بھاش سے چاند کو ایسا کر دیا ہے تب راجہ نے اسے تحفہ تحائف ارسال کئے.تفسیر قر آن کا طریق قر آن کی تفسیر کے متعلق فرمایا کہ خدا کے کلام کے صحیح معنے تب سمجھ میں آتے ہیں کہ اس کے تمام رشتہ کی سمجھ ہو.جیسے قر آن شریف کی نسبت ہے کہ اس کا بعض حصہ بعض کی تفسیر کرتا ہے.اس کے سوا جو اور کلام ہوگا وہ تو اپنا کلام ہوگا.دیکھاگیاہے کہ بعض وقت ایک آیت کے معنے کرنے کے وقت ۱ البدر جلد ۲ نمبر ۱۰ مو رخہ ۲۷ ؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۵تا۷۷
دوسوآیتیں شامل ہوتی ہیں.ایجادی معنے کرنے والوں کا منہ اس سے بند ہو جاتا ہے.۱ ۱۸ ؍مارچ ۱۹۰۳ء (مجلس قبل ازعشاء ) بعد مغرب گرمی کو محسوس کرکے اپنے احباب سے مشورہ کیا کہ اب موسم بدلا ہوا ہے اس لیے اگر مناسب ہو تو اوپر چل بیٹھیں چنا نچہ احبا ب نے اس سے اتفاق کیا اور اسی وقت تمام احباب اور حضرت اقدس اوپر بالائی مسجد میں تشریف لے گئے.اپنے شہ نشین پر بیٹھ کر ابو سعید صاحب سے فرمایا کہ اگر آپ چلے گئے ہوتے تو اوپر کا جلسہ کیسے دیکھتے اور یہ کہاں نصیب ہونا تھا.اس اثناء میں نواب صاحب تشریف لائے.حضر ت نے فرمایا.مدت کے بعد آج پھر نواب صاحب کا چہرہ نظر آیا ہے.آگے تو ایک گھر سے نکل کر دوسرے گھر میں جا بیٹھا کرتے اور اندھیرے میں چہرہ بھی نظر نہ آتا تھا.فراغت بیٹھے بیٹھے آپ نے ذکر فرمایا کہ جیسے ایک مرض ہوتی ہے کہ اس میں جب تک مکیاں ما رتے رہیں تو آرام رہتا ہے.اسی طرح فراغت میرے واسطے مرض ہے ایک دن بھی فا رغ رہوں تو بے چین ہو جاتا ہوں اس لیے ایک کتاب شروع کر دی ہے جس کا نام حقیقت دعا رکھا ہے ایک رسالہ کی طرز پر لکھا ہے.دعا دعا ایسی شَے ہے کہ جب آدم کا شیطان سے جنگ ہو اتو اس وقت سوائے دعا کے اور کوئی حربہ کام نہ آیا.آخر شیطان پر آدم نے فتح بذریعہ دعا کے پائی رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا١ٚ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (الاعراف:۲۴) اور آخر میں بھی دجال کے ما رنے کے واسطے دعا ہی رکھی ہے.گویا اول بھی دعا اور آخر بھی دعا ہی دعا ہے.حالت موجودہ بھی یہی چاہتی ہے تمام اسلامی طا قیتں کمزور ہیں.اور ان موجودہ اسلحہ سے وہ کیا کام کرسکتی ہیں؟ اب اس کفر وغیرہ پر غالب آنے کے واسطے اسلحہ کی ضرورت بھی نہیں.آسمانی حربہ کی ضرورت ہے.۲ ۱، ۲ البدر جلد۲ نمبر ۱۰ مو رخہ ۲۷ ؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۷
۱۹ ؍مارچ ۱۹۰۳ء (مجلس قبل از عشاء) آپ نے شہ نشین پر جلوہ گر ہو کر فرمایا کہ ـ آج طبیعت نہایت علیل تھی کہ اٹھنے کی طاقت نہیں ہوئی.اسی لیے ظہر و عصر کے اوقات میں نہ آسکا.چند ایک دریدہ دہن آریوں کے بیبا کا نہ اعتراض پر فرمایا کہ یہ گندہ زبانی سے باز نہیں آتے ہم بھی ان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں.؎ گر نباشد بدوست راہ بردن شرط عشق است در طلب مُردن جب انسان کے دل میں میل ہوتا ہے تو ایک فرشتے کو بھی میلا سمجھ لیتا ہے.ایک رئویا فرمایا کہ آج میں نے ایک خواب دیکھا جیسے آنکھ کے آگے ایک نظارہ گذر جاتا ہے.دیکھتا ہوں کہ دو سنڈھوں کے سر جسم سے الگ کٹے ہوئے ہاتھوں میں ہیں.ایک ایک ہاتھ میں اور دوسرا دوسرے ہاتھ میں.اسلام کی حالت کا علاج دعا ہے جس حالت میں اب اسلام ہے اس کا علاج اب سوائے دعا کے اور کیا ہوسکتا ہے.لوگ جہا د جہاد کہتے ہیں مگر اس وقت تو جہاد حرام ہے اس لیے خدا نے مجھے دعاؤں میں وہ جوش دیا ہے جیسے سمندر میں ایک جوش ہوتا ہے چونکہ توحید کے لیے دعا کا جوش دل میں ڈلا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ارادہ الٰہی بھی یہی ہے جیسا کہ اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن:۶۱) اس کا وعدہ ہے.۱ ۲۰ ؍مارچ ۱۹۰۳ء بیعت کا مدّعا سچی توبہ ہے جمعہ کے دن چند آدمیوں نے بیعت کی اور بعد بیعت حضرت اقدس نے ان کو خطاب کرکے فرمایا.اصل مدّعابیعت کا یہی ہے کہ توبہ کرو.استغفارکرو.نمازوں کو درست کرکے پڑھو.ناجائز ۱ البدر جلد۲ نمبر۱۱ مو رخہ ۳ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۱
کاموں سے بچو.میں جماعت کے لیے دعا کرتا رہتا ہوں مگر جماعت کو چاہیے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو پاک کرے.یا درکھو غفلت کا گناہ پشیمانی کے گناہ سے بڑھ کر ہوتا ہے.یہ گناہ زہریلا اور قاتل ہوتا ہے.توبہ کرنے والا تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں.جس کو معلوم ہی نہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں وہ بہت خطرناک حالت میں ہے پس ضرورت ہے کہ غفلت کو چھوڑو اور اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہو.جو شخص توبہ کرکے اپنی حالت کو درست کر لے گا وہ دوسروں کے مقابلہ میں بچا یا جاوے گا.پس دعا اسی کوفائدہ پہنچا سکتی ہے جو خود بھی اپنی اصلا ح کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے سچے تعلق کو قائم کرتا ہے.پیغمبر کسی کے لیے اگر شفا عت کرے لیکن وہ شخص جس کی شفاعت کی گئی ہے اپنی اصلا ح نہ کرے اور غفلت کی زندگی سے نہ نکلے تو وہ شفا عت اس کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی.۱ جب تک خود خدا تعالیٰ کی رحمت کے مقام پر کھڑا ہو تو دعا بھی اس کو فائدہ پہنچا تی ہے.نرا اسباب پر بھروسا نہ کرلوکہ بیعت کر لی ہے اللہ تعالیٰ لفظی بیعتوں کو پسند نہیں کرتا.بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ جیسے بیعت کے وقت توبہ کرتے ہو اس توبہ پر قائم رہو اور ہر روز نئی توجہ پیدا کرو جو اس کے استحکام کاموجب ہو.اللہ تعالیٰ پناہ ڈھونڈھنے والوں کوپناہ دیتا ہے جو لوگ خدا کی طرف سے آتے ہیں وہ ان کو ضائع نہیں کرتا.اس بات کو خوب سمجھ لو کہ جب پورا خوف دامنگیر ہو اور جاں کندن کی سی حالت ہوگئی.اس وقت کی توبہ، توبہ نہیں.جب بَلا نازل ہوگئی پھر اس کا ردّ کرنا اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے.تم بَلا کے نزول سے پہلے فکر کرو.جو بَلا کے نزول سے پہلے ڈرتا ہے وہ عاقبت بیں اورباریک بیں ہوتا ہے اور بَلا کے ۱ البدر میں اس کی مزید تشریح یو ں درج ہے.’’دیکھو کہ نوح کا بیٹا ہلاک ہوا.عیسیٰ علیہ السلام کے بھائی ہلاک ہوئے.اُن کو ایمان نصیب نہ ہوا.اسی طرح موسٰی کا چچا زاد بھائی تھا اس کو کچھ فائدہ موسیٰ کے رشتہ سے نہ ہوا.دعا تو ہم کرتے ہیں مگر جب تک انسان خود سیدھا نہ ہو دعا شفا عتی فا ئدہ نہیں کرتی.اگر انسان رحمت کے مقام سے خود ہی بھاگے تو رحمت اُسے کہاں کہاں تلاش کرے گی.‘‘ (البدرجلد۲نمبر۱۱ مورخہ ۳ ؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۸۱ )
آجانے کے وقت تو کافر بھی ڈرتے ہیں.میں نے سُنا ہے کہ بعض گائوں میں جہاں طاعون کی شدت ہوئی ہے ہندوئوں نے مسلمانوں کو بلا کر اپنے گھروں میں اذانیں دلوائی ہیں.وہی اذان جس سے پہلے ان کو پرہیز تھا.۱ جومومن غرض کے لیے خدا سے نہیں ڈرتا خدا اس سے خوف کو دور کر دیتا ہے مگر جس کے دروازہ پر بَلا نازل ہو جاوے تو وہ خواہ نخواہ اس سے ڈرے گا.بہت دعائیں کرتے رہوتاکہ ان بَلائوں سے نجات ہو اور خاتمہ بالخیر ہو.عملی نمونہ کے سوا بیہودہ قیل و قال فائدہ نہیں دیتی اور جیسے یہ ضروری ہے کہ ڈر کے سامانوں سے پہلے ڈرنا چاہیے یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ڈر کے سامان قریب ہوں تو ڈر جائو اور جب وہ دور چلے جاویں تو بے باک ہو جائو.بلکہ تمہاری زندگی ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے خوف سے بھری ہوئی ہو خواہ مصیبت کے سامان ہوں یا نہ ہوں.اللہ تعالیٰ مقتدرہے۲ وہ جب چاہتا ہے مصیبت کا دروازہ کھول دیتا ہے اور جب چاہتا ہے کشا ئش کرتا ہے جو اس پر بھی بھروسا کرتا ہے وہ بچایا جاتا ہے.ڈرنے والا اور نہ ڈرنے والا کبھی برابر نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ ان دونوں میں ایک فرق رکھ دیتا ہے.پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ سچی توبہ کریں اور گناہ سے بچیں.جو بیعت کرکے پھر گناہ سے نہیں بچتا وہ گویا جھوٹا اقرار کرتا ہے.۳ اور یہ میرا ہاتھ نہیں خدا کا ہاتھ ہے جس پر وہ ایسا جھوٹ بولتا ہے اور پھر خدا کے ہاتھ پر جھوٹ بول کر کہاں جاوے؟ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ البدر میں اس کی مزید تشریح ہے.لکھا ہے.’’جیسے آج کل سُنا گیا ہے کہ ہندو اور سکھ لوگ طاعون کے ڈر سے مسلمانوں کو بُلا بُلا کر اپنے گھروں میں بانگ دلواتے ہیں مگر اس سے کوئی فائدہ نہیں.غرض کے وقت یہ لوگ نرم ہوجاتے ہیں جب غرض نکل گئی پھر ویسے ہی سخت قلب ہوگئے.مومن کی یہ حالت نہ چاہیے بلکہ اُسے خد اسے صدق اور وفا سے دُعا کرنی چاہیے.اگر طاعون نہ بھی ہو تو بھی وہ خدا سے ایسا ہی ڈرے گا جیسے ہزار طاعون ہو.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۱ مورخہ ۳؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۱) ۲ البدر سے.’’ہر وقت اس سے ڈرنا چاہیے.کیا اسے قہر بھیجتے کچھ دیر لگتی ہے؟ ‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۱ مورخہ۳؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۱،۸۲) ۳ البدر سے.’’بیعت کی بنیادیہی ہے کہ سچی توبہ ہو اور گناہ چھوٹ جاویں اگر یہ نہ ہو تو بیعت خود گناہ ہوگی.‘ ‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۱ مورخہ۳؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۲)
اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصّف:۴) مَقْت خدا کے غضب کو کہتے ہیں یعنی بڑا غضب ان پر ہوتا ہے جو اقرار کرتے ہیں اور پھر کرتے نہیں ایسے آدمی پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے اس لیے دعائیں کرتے رہو.کوئی ثابت قدم نہیں رہ سکتا جب تک خدا نہ رکھے.۱ ۲۱؍مارچ ۱۹۰۳ء (بوقتِ سیر ) کسی خاص شخص کی ہدایت کے لئے دعا کسی خاص شخص کی ہدایت پر زوردینے کے بارے میں فرمایا کہ ایک فرد واحد پر ہدایت کے لیے زور دیناٹھیک نہیں ہوتا اور نہ اس طرح کبھی انبیاء کو کامیابی ہوئی ہے.عام دعا چاہیے پھر جو لائق ہوتا ہے وہ اس سے خود بخود مؤثر ہوتا ہے.حقیقت توبہ توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ گناہ سے کُلّی طور پر بیزارہو کر خدا کی طرف رجوع کرے اور سچے طور سے یہ عہد ہو کہ موت تک پھر گناہ نہ کروں گا.ایسی توبہ پر خدا کا وعدہ ہے کہ میں بخش دوں گا.اگرچہ یہ توبہ دوسرے دن ہی ٹوٹ جاوے مگر بات یہ ہے کہ کرنے والے کا اس وقت عزم مصمم ہو اور اس کے دل میں ٹوٹی ہوئی نہ ہو.ایک توبہ انسان کی طرف سے ہوتی ہے اور ایک خدا کی طرف سے.خدا کی توبہ کے معنے رجوع کے ہیں کیونکہ اس کا نام توّاب ہے.انسان توبہ کرتا ہے تو گناہ سے نیکی کی طرف آتا ہے اور جب خدا توبہ کرتا ہے تووہ رحمت سے اس کی طرف آتا ہے اور اس انسان کو لغزش سے سنبھال لیتا ہے.جب اس قسم کی خدا کی توبہ ہو تو پھر لغزش نہیں ہوتی.حدیث میں ہے کہ انسان توبہ کرتا ہے پھر اس سے ٹوٹ جاتی ہے اور قضا و قدرغا لب آتی ہے پھر وہ روتاہے گڑ گڑاتا ہے پھر توبہ کرتا ہے مگر پھر ٹوٹ جاتی ہے اور وہ بار بار تضرّع کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے پھر آخر کار جب انتہا تک اس کی تضرّع اور ابتہال پہنچ جاتے ہیں تو پھر خدا توبہ کرتاہے یعنی اس کی طرف رجوع کرتاہے اور کہتا ہے اِعْـمَلْ مَا شِئْتَ اِنِّیْ ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۷،۸
غَفَرْتُ لَکَ.اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اب اس کی فطرت ایسی بدل دی گئی ہے کہ گناہ نہ ہوسکے گاجیسے کسی بدکا رکا آلہ تنا سل کا ٹ دیا جاوے تو پھر وہ کیا بد کا ری کرسکے گا یا آنکھیں نکال دی جاویں تو وہ کیا بدنظری کرے گا اسی طرح خدا سرشت بدل دیتا ہے اور بالکل پا کیزہ فطرت بنا دیتا ہے.بدر میں جب صحابہ کرام نے جان لڑائی تو ان کی اس ہمّت اور اخلاص کو دیکھ کر خدا نے ان کو بخش دیا.ان کے دلوں کو صاف کردیا کہ پھر گناہ ہو ہی نہ سکے.یہ بھی ایک درجہ ہے جب فطرت بدل جاتی ہے تو وہ خدا کی رضا کے بر خلاف کچھ کر ہی نہیں سکتا.اگر انسان سے گناہ نہ ہوں اور وہ توبہ نہ کرے تو خدا ان کوہلاک کرکے ایک ایسی قوم پیدا کرے جو گناہ کرے اور پھر خدا ان کو بخشے اگر یہ نہ ہو تو پھر خدا کی صفت غفوریّت کیسے کام کرے گی.گناہ توبہ کے ساتھ مل کر تر یا ق بنتا ہے گناہ ایک مہلک زہر مثل سم الفار و سڑکنیا وغیرہ کے ہیں مگر توبہ کے ساتھ مل کر یہ تریاق کا حکم رکھتے ہیں انسان کے نفس کے اندر رعونت پیدا ہو جاتی ہے پھر گناہ سے کسر نفس پیدا ہو جاتی ہے.جیسے زہر کو زہر مارتی ہے ایسا ہی رعونت وغیرہ کی زہر کو گناہ ما رتا ہے.حضرت آدم کے ساتھ جو ذلّت آئی اس کے بھی یہی معنے ہیں ورنہ اس کے اندر تکبر پیدا ہوتا کہ میں وہ ہوں جسے خدا نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور ملائکہ نے سجدہ کیا مگر اس خطا سے وہ شرمسا رہوئے اور اس تکبر کی نوبت ہی نہ آئی.پھر اس شرمساری سے سارے گناہ معاف ہوئے اسی طرح بعض سادات آج کل فخر کرتے ہیں مگر نسبی دعویٰ کیا شَے ہے؟ اس سے رعونت پیدا ہوتی ہے.ہر ایک تکبر زہر قاتل ہوتا ہے اسے کسی نہ کسی طرح ما رنا چاہیے.آدم کی جنّت سوال ہوا کہ آدم کی جنّت کہاں تھی؟ فرمایا.ہمارا مذہب یہی ہے کہ زمین میں ہی تھی خدا فرماتا ہے مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَفِيْهَا نُعِيْدُكُمْ (طٰہٰ:۵۶)آدم کی بودوبا ش آسمان پر یہ بات بالکل غلط ہے.شجر ممنوعہ شجرکی نسبت سوال ہواکہ وہ کون سا درخت تھا جس کی ممانعت کی گئی تھی؟ فرمایا کہ مفسّروں نے کئی باتیں لکھی ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ انگورہوگا.شراب
اس سے پیدا ہوتی ہے اور شراب کی نسبت لکھا ہے رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ(المآئدۃ:۹۱) یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت کا انگورایسا ہی ہوکہ بغیر سڑانے گلانے کے اس کے تازہ شیرہ میں نشہ ہوتا ہو جیسے تاڑی کہ ذراسی دیر کے بعد اس میں نشہ پیدا ہو جاتا ہے.تمباکو تمباکو کی نسبت فرمایا کہ یہ شراب کی طرح تو نہیں ہے کہ اس سے انسان کو فسق وفجور کی طرف رغبت ہو مگر تاہم تقویٰ یہی ہے کہ اس سے نفرت اور پرہیز کرے.منہ میں اس سے بدبوآتی ہے اور یہ منحوس صورت ہے کہ انسان دھواں اندر داخل کرے اور پھر باہر نکالے.اگر آنحضرت کے وقت یہ ہوتا تو آپ اجازت نہ دیتے کہ اسے استعمال کیا جاوے.ایک لغواور بیہودہ حرکت ہے ہاں مسکّرات میں اسے شامل نہیں کرسکتے.اگر علاج کے طور پر ضرورت ہو تو منع نہیں ہے ورنہ یو نہی مال کو بےجا صرف کرنا ہے.عمدہ تندرست وہ آدمی ہے جو کسی شَے کے سہارے زندگی بسر نہیں کرتا ہے.انگریز بھی چاہتے ہیں کہ اسے دور کر دیں.۱ (دربارِ شام ) نومبایعین کو نصیحت چند نوواردشخصوں نے بیعت کی.اوربعد از بیعت فرمایا.دیکھو! بیعت تو تمہاری ہو چکی تمہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو خدا کا قہر سخت ہوتا ہے اگرچہ دنیا کا عذاب بھی سخت اور نا قابل برداشت ہوتا ہے مگر تاہم جس طرح ہوتا ہے.اچھے برے دن گذرجاتے ہیں مگر آخرت کا عذاب تو نا پیدا کنارہے اس لیے مناسب ہے کہ اس کے واسطے کافی سا ما ن کیا جاوے.ہمیں کہنا پڑتا ہے کیونکہ جو شخص آتا ہے اور بیعت کرتاہے ہم پر فرض ہوتا ہے کہ اسے کرنے اور نہ کرنے کے کاموں سے آگا ہ کریں.جیسا بے خبر آیا تھا ویسا ہی بے خبر واپس نہ جاوے.ایسا ہونے سے معصیت کا خوف ہے اسے کیوں نہ بتا یا گیا؟ سوتم سوچ لو کہ مقدّم اَمر دین ہی کا ہے دنیا کے دن تو ۱ البدر جلد۲ نمبر۱۱ مو رخہ ۳ ؍اپریل ۱۹۰۳ءصفحہ ۸۲
کسی نہ کسی طرح گذر ہی جاتے ہیں.ع شب تنور گذشت و شب سمور گذشت غرباء اور مسا کین بھی جن کو کھانے کو ایک وقت ملتا ہے اور دوسرے وقت نہیں ملتا اور آرام کے مکان بھی نہیں ہوتے ان کی بھی گذرہی جاتی ہے اور امر اء اور پلاؤ زردے کھانے والوں اور عمدہ مکانوں اور بالاخانوں میں رہنے والے بھی اپنے دن پورے کرہی رہے ہیں.کسی کا دکھ دردسے اور کسی کا عیش میں گذارہ ہوتا ہے مگر عاقبت کا دکھ جھیلنا بہت مشکل ہے اور وہ عذاب اور اس کے دکھ درد ناقابل برداشت ہوں گے لہٰذا دانا وہی ہے کہ جو اس ہمیشہ رہنے والے جہان کی فکر میں لگ جاوے.حقیقتِ نماز سوتم نمازوں کو سنوارواور خدا تعالیٰ کے احکام کو اس کے فرمودہ کے بموجب کرو.اس کی نواہی سے بچے رہو.اس کے ذکر اور یاد میں لگے رہو.دعا کا سلسلہ ہروقت جاری رکھواپنی نماز میں جہاں جہاں رکوع وسجود میں دعا کا موقع ہے دعا کرو اور غفلت کی نماز کو ترک کر دو.رسمی نماز کچھ ثمرات مترتّب نہیں لاتی اور نہ وہ قبولیت کے لائق ہے.نماز وہی ہے کہ کھڑے ہونے سے سلام پھیرنے کے وقت تک پورے خشوع خضوع اور حضورقلب سے ادا کی جاوے اور عاجزی اور فروتنی اور انکساری اور گریہ زاری سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس طرح سے ادا کی جاوے کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہو.اگر ایسا نہ ہوسکے تو کم ازکم یہ تو ہو کہ وہی تم کو دیکھ رہا ہے.اس طرح کما ل ادب اور محبت اور خوف سے بھری ہوئی نماز ادا کرو.بے وقت موتوں کا زمانہ دیکھو! یہ زمانہ بے وقت موتوں کا زمانہ آگیا ہے.بھلا پہلے کبھی تم نے اپنے با پ و دادا سے بھی سنا ہے کہ اس طرح اچانک موت کا سلسلہ کبھی جا ری ہوا ہو.رات کو اچھا بھلا کام کا ج کرتا اور چلتا پھر تا آدمی سوتا ہے اور صبح کو ایسی نیندمیں سویا ہواہوتا ہے کہ جس سے جا گناہی نہیں.اب جس گھر میں یہ موت آئی، گھر کا گھر اور گاؤں کے گاؤں اس نے خالی کر دئیے ابھی انجام کی خبر نہیں.کیا کیا دن آنے ہیں.ایک نا دان اپنی نا دانی کی وجہ سے جب طاعون چنددن کے لیے رک جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کسی مصلحت سے اسے بند کرتا
ہے وہ کہتا ہے کہ بس اب گئی اب نہیں آئے گی.اومیاں !ایسا ہمیشہ ہی ہوا کرتا ہے کہ بیما ریاں آتی ہیں چا ردن رہ کر چلی جاتی ہیں مگر خدا کی باریک تد ابیر سے وہ نا واقف ہیں.وہ نہیں جانتے کہ وہ مہلت دیتا ہے کہ بھلا ابھی ان میں کچھ صلا حیت اور تقویٰ اور خوف بھی پیدا ہواہے یانہیں.اس طاعون کا پچھلاتجربہ بتا تا ہے کہ ایک ایک دورہ سترسترسال کا ہواکرتا ہے اس سے تو جنگل کے جانوروں نے بھی پناہ مانگی ہے.جب انسانوں کو ختم کر چکتی ہے تو اس جنگل کے حیوانوں اور درندوں کو بھی ختم کردیتی ہے.ایسے وقتوں میں خدا تعالیٰ بچا لیتا ہے ان لوگوں کو جو اِن مصائب اور عذابوں کے نازل ہونے سے پہلے اپنے آپ کی اصلاح کرتے اور دوسروں سے عبر ت پکڑتے ہیں.خدا تعالیٰ ان کی حفاظت خود کرتا ہے عذابوں اور شدائدکے وقتوں میں جو آرام اور عیش کے وقت میں اس سے ڈرتے اور پناہ مانگتے ہیں مگر جب عذاب کسی پر نازل ہو جاوے تب توبہ بھی قبول نہیں ہوتی.اپنے آپ کو درست کر لو پس اب موقع ہے کہ تم خدا کے سامنے اپنے آپ کودرست کر لو اور اس کے فرائض کی بجاآوری میں کمی نہ کرو.خلق اللہ سے کبھی بھی خیانت، ظلم، بدخلقی، تر شروئی، ایذا دہی سے پیش نہ آؤ.کسی کی حق تلفی نہ کرو کیونکہ ان چیزوں کے بدلے میں بھی خدا مؤاخذہ کرے گا.جس طرح خدا کے احکام کی نافرمانی، اس کی عظمت، توحید اور جلال کے خلاف کرنے اور اس سے شرک کرنا گناہ ہیں اسی طرح اس کی خلق سے ظلم کرنا.اور ان کی حق تلفیاں نہ کرو.زبان یا ہاتھ سے دکھ یا کسی قسم کی گالی گلوچ دینا بھی گناہ ہیں پس تم دونوں طرح کے گناہوں سے پاک بنو اور نیکی کو بدی سے خلط ملط نہ کرو.تمہارا دین اسلام ہے تمہارا دین اسلام ہے اسلام کے معنے ہیں خدا کے آگے گردن رکھ دینا.جس طرح ایک بکراذبح کرنے کی خاطر منہ کے بل لٹا یا جاتا ہے.اسی طرح تم بھی خدا کے احکام کی بجا آوری میں بے چون وچراگردن رکھ دو.جب تک کامل طور سے تم اپنے ارادوں سے خا لی اور نفسانی ہوا و ہوس سے پاک نہ ہو جاؤ گے تب تک تمہارا اسلام اسلام نہیں ہے.بہت ہیں کہ ہماری ان باتوں کو قصہ کہا نی جانتے ہوں گے اور ٹھٹھے
اور ہنسی سے ان کا ذکر کرتے ہوں گے مگر یادرکھوکہ یہ اب آخری دن ہیں.خدا تعالیٰ فیصلہ کرنا چاہتا ہے.لوگ بے حیائی، حیلہ بازی اور نفس پرستی میں حد سے زیادہ گذرے جاتے ہیں.خدا کے عظمت وجلا ل اور توحید کا ان کے دلوںمیں ذرا بھی خیال نہیں گویا نا ستک مت ہو گئے ہیں.کوئی کام بھی ان کا خدا کے لیے نہیں ہے.ایک ما مور کی بعثت پس ایسے وقت میں اس نے اپنے ایک خاص بندہ کو بھیجا ہے تا اس کے ذریعہ سے دنیا میں ہدایت کا نور پھیلادے اور گمشدہ ایمان اور توحید کو ازسر نودنیا میں قائم کرے.مگرجب دنیا نے اس کی پروا نہ کی اور الٹا دکھ دیا اور اس کی تکذیب کے لئے کمر بستہ ہو گئے تو خدا نے ان کو قہر کی آگ سے ہلاک کرنا شروع کیا.کئی طرح کے عذابوں سے اس نے دنیا کو جگا یا ہے کہیں قحط ہوئے اور کہیں زلزلے آئے.آ تش فشانیاں ہوئیں.ہزار در ہزار لوگ تباہ ہوئے.انہیں میں سے ایک طاعون بھی ہے.یہ دورنہ ہوگی اور نہ جاوے گی جب تک یہ دنیا کو سیدھا نہ کرلے.لوگ تسلّی پا جاتے ہیں کہ بس اب گئی اب نہیں آوے گی مگروہ دھوکا کھا تے ہیں.ان نا دانوں کاتو کام ہی خدا سے جنگ کرنا ہو گیا ہے مگر وہ کہاں تک؟ وہ دنیا کو بتا نا چاہتا ہے کہ میں ضرور موجود ہوں اور ان کی بیباکیوں اور شرارتوں کو دور کرنا چاہتا ہوں مگر آہستہ آہستہ.اس کے تمام کام بتدریج ہوا کرتے ہیں.جب وہ دیکھتا ہے کہ دنیا طرح طرح کے ظلم اور فسادوں سے بھرگئی اور خدا کا نام دنیا سے اٹھ گیا.اس کی توحید اور اس کی کتاب اور اس کے رسول کی ہتک کی گئی تو وہ ایسے وقت میں اپنے خاص رحم سے اپنی رحمت کا دروازہ کھولتا ہے اور اپنی خلقت کو ایک ایسے شخص کے سپرد کرتا ہے جو اس کوخدا کے عذاب سے بچا نے کے واسطے کوشش کرتا اور ان کا بڑا خیر خواہ ہے مگر جب دنیا اس کی پروا نہیں کرتی اور بجائے اس کے کہ اس سے محبت کریں اس کو ستایا جاتا اور دکھ دیا جاتا ہے تو خدا بھی اپنے غضب سے دنیا میں اپنا عذاب نازل کرتا ہے جو نا فر مانوں کو آگ کی طرح بھسم کرتا ہے اور خدا کی سلطنت کا رعب قائم کرتا اور صادق کی نصرت اور اس کے ہمراہیوں کو بطورنمونہ اس سے بچاتا ہے.
توبہ کرو بس اب یہ وقت ہے توبہ کرو.اگر عذاب آگیا تو پھر توبہ کا دروازہ بھی بندہو گیا.توبہ میں بہت کچھ ہے.دیکھو! جب کوئی بادشاہ کے کسی اَمر کے متعلق سمجھاوے تم اس سے رک جاؤ تمہارا بھلا ہوگا تو اگر وہ شخص رک جاوے تو بہتر ورنہ پھر اس کا عذاب کیسا سخت ہوتا ہے اس طرح پہلے چھوٹے چھوٹے عذابوں سے خدا تعالیٰ لوگوں کو سمجھوتیاں دیتا ہے کہ بازآجاؤ موقع ہے ورنہ پچھتاؤ گے مگر جیسا وہ نہیں سمجھتے اور اس کی نافرمانی سے نہیں رکتے تو پھر اس کا عذاب ایسا ہوتا ہے لَا يَخَافُ عُقْبٰهَا (الشمس:۱۶).صرف بیعت کافی نہیں تم لوگوں نے جو میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے اسی پر بھروسا نہ کرلینا صرف اتنی ہی بات کافی نہیں.زبانی اقرارسے کچھ نہیں بنتا جب تک عملی طور سے اس اقرار کی تصدیق نہ کرکے دکھلائی جاوے.یوں زبانی تو بہت سے خوشامدی لوگ بھی اقرار کر لیاکرتے ہیں مگر صادق وہی ہے جو عملی رنگ سے اس اقرار کا ثبوت دیتا ہے.خدا کی نظر انسان کے دل پر پڑتی ہے.پس اب سے اقرار سچا کرلواور دل کو اس اقرار میں زبان کے ساتھ شریک کرلوکہ جب تک قبر میں جاویں ہر قسم کے گناہ سے شرک وغیرہ سے بچیں گے.غرض حق اللہ اور حق العباد میں کوئی کمی یا سستی نہیں کریں گے.اسی طرح سے خدا تم کو ہرطرح کے عذابوں سے بچاوے گا اور تمہاری نصرت ہرمیدا ن میں کرے گا.ظلم کو ترک کرو، خیانت، حق تلفی اپنا شیوہ نہ بناؤ اور سب سے بڑا گناہ جو غفلت ہے اس سے اپنے آپ کو بچاؤ.۱ ۲۲؍ مارچ ۱۹۰۳ء (مجلس قبل ازعشاء) اسلا م مذہب کے مقابلے پر گفتگوفر ما تے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اسلام وہ زندہ مذہب ہے جس نے اپنے اقبال کے ساتھ تمام مذاہب کو اپنے پیروں میں لے لیا ہوا ہے.اسلام ایسے ملک سے شروع ہواجہاں لوگ درندوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے ۱ الحکم جلد ۷نمبر ۱۲ مورخہ ۳۱؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۹، ۱۰
اور طرح طرح کی بد اعمالیوں میں مبتلا تھے.ان کو حیوانیت سے انسانیت میں اسلام ہی لایا.ہرطرف اس کی مخا لفت ہوئی لوگوں نے دشمنی میں کوئی دقیقہ فر وگذاشت نہ کیا.پھر بھی وہ تمام کام پورے ہو کر رہے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے تھے اور کوئی فردبشر بھی اس کا با ل نہ بگاڑسکا.حتی کہ ندا آگئی اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا(المائدۃ: ۴)۱ ۲۳؍مارچ ۱۹۰۳ء (قبل از عشاء) ہندوؤں سے گفتگو کا طریق جیسے کہ بعض لوگوں کا دستور ہے کہ جب ہندومسلمانوں میں کوئی گفتگو ہو تو گاؤ خوری وغیرہ باتوں پر بحث ہوا کرتی ہے اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ اصل اشیاء میں حلت ہے اب دنیا میں کروڑہا اشیاء ہیں کوئی کچھ کھاتا ہے اور کوئی کچھ.اس لیے ایسی باتوں میں پڑنا مناسب نہیں ہوا کرتا.چاہیے کہ ایسے مباحثات میں ہمیشہ اسلام کی خوبیاں اور صداقت بیان کی جائے اور ظاہر کیاجاوے کہ کن کن نیک اعمال کی تعلیم اسلام نے دی ہے کن مہلکات سے بچایا ہے.گاؤخوری کے مسائل وغیرہ بیان کرنے سے کیا فائدہ؟ جو اسلام کو پسندکرے گا.وہ خود گاؤ خوری کو بھی پسند کرے گا جس بات کا فساد اس کے نفع سے بڑھ کر ہو اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں.۲ ختم اور فا تحہ خوانی ایک بزرگ نے عر ض کی کہ حضور میں نے اپنی ملا زمت سے پہلے یہ منت مانی تھی کہ جب میں ملا زم ہو جاؤں گا تو آدھ آنہ فی روپیہ کے حسا ب سے نکال کر اس کا کھانا پکوا کر حضرت پیران پیرکا ختم دلاؤں گا.اس کے متعلق حضور کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا کہ خیر ات تو ہر طرح اور ہر رنگ میں جائز ہے اور جسے چاہے انسان دے مگر اس فا تحہ خوانی ۱ البدر جلد۲ نمبر۱۱ مو رخہ ۳ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۲ ۲ البدر جلد۲ نمبر۱۱ مو رخہ ۳ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۲،۸۳
سے ہمیں نہیں معلوم کیا فائدہ اور یہ کیوں کیا جاتا ہے؟ میرے خیال میں یہ جو ہما رے ملک میں رسم جاری ہے کہ اس پر کچھ قرآن شریف وغیرہ پڑھاکرتے ہیں یہ طریق تو شرک ہے اور اس کا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے نہیں.غرباء ومساکین کو بے شک کھانا کھلاؤ.نصیحت بعد ازبیعت چند احباب نے بیعت کی تھی اس پر ان کو چند کلمات بطور نصیحت فرمائے.پانچوں نمازیں عمدہ طرح سے پڑھا کرو.روزہ صدق سے رکھو اور اگر صاحبِ توفیق ہو تو زکوۃ، حج وغیرہ اعمال میں بھی کمر بستہ رہو.اور ہر قسم کے گناہ سے اور شرک اور بدعت سے بیزار رہو.اصل میں گناہ کی شناخت کے اصول صرف دوہی ہیں.اوّل.حق اللہ کی بجا آوری میں کمی یا کوتا ہی.دوم.حق العباد کا خیال نہ کر نا.اصل اصول عبادت بھی یہی ہیں کہ ان دونو حقوں کی محا فظت کما حقہ کی جاوے اور گناہ بھی انہیں میں کوتاہی کرنے کا نام ہے اپنے عہد پر قائم رہو اور جوالفاظ اس وقت تم نے میرے ہاتھ پر بطور اقرار زبان سے نکالے ہیں ان پر مَرتے دم تک قائم رہو.انسان بعض اوقات دھوکا کھاتا ہے وہ جانتا ہے کہ میں نے اپنے لیے توبہ کا درخت بولیا ہے اب اس کے پھل کی امیدرکھتا ہے یا ایمان میں نے حاصل کر لیا ہے اس کے اب نتائج مترتّب ہونے کا منتظر ہوتا ہے مگر اصل میں وہ خدا کے نزدیک نہ تائب اور نہ سچا مومن، کچھ بھی نہیں ہوتا کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ کی پسند یدگی اور منظوری کی حد تک نہ پہنچی ہوئی ہو وہ چیزاس کی نظر میں ردی اور حقیر ہوتی ہے.اس کی کوئی قدر و قیمت خدا کے نزدیک نہیں ہوتی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان جب کسی چیز کے خریدنے کا ارادہ کرتا ہے جب تک کوئی چیز اس کی پسندیدگی میں نہ آوے تب تک اس کی نظر میں ایک ردی محض اور بے قیمت ہوتی ہے.تو جب انسان کا یہ حال ہے تو خدا تو قدّوس اور پاک اور بے لوث ہستی ہے.وہ ایسی ردّی چیز کو اپنی جناب میں کب منظور کرنے لگا؟ دیکھو! یہ دن ابتلا کے دن ہیں وبائیں ہیں قحط ہے غرض اس وقت خدا کا غضب زمین پر نازل ہو
رہا ہے.ایسے وقت میں اپنے آپ کو دھوکا مت دو اور صاف دل سے اپنی کوئی پناہ بنالو.یہ بیعت اور توبہ اس وقت فائدہ دیتی ہے جب انسان صدق دل اور اخلاص نیت سے اس پرقائم اور کار بندبھی ہو جاوے.خدا خشک لفّاظی سے جو حلق کے نیچے نہیں جاتی ہرگز ہرگز خوش نہیں ہوتا.ایسے بنوکہ تمہارا صدق اور وفا اور سوزوگدازآسمان پر پہنچ جاوے.خدا تعالیٰ ایسے شخص کی حفاظت کرتا اور اس کو برکت دیتا ہے جس کو دیکھتا ہے کہ اس کا سینہ صدق اور محبت سے بھرا ہوا ہے وہ دلوں پر نظر ڈالتا اور جھا نکتا ہے نہ کہ ظاہری قیل وقال پر.جس کا دل ہر قسم کے گنداور ناپاکی سے معرّا اور مبرّا پاتا ہے اس میں آاتر تا ہے اور اپنا گھر بناتا ہے مگر جس دل میں کوئی کسی قسم کا بھی رخنہ یا ناپاکی ہے اس کو لعنتی بناتا ہے.دیکھو! جس طرح تمہارے عام جسمانی حوائج کے پورا کرنے کے واسطے ایک مناسب اور کافی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح تمہاری روحانی حوائج کا حال ہے.کیا تم ایک قطرہ پانی زبان پر رکھ کر پیا س بجھا سکتے ہو؟ کیا تم ایک ریزہ کھانے کا منہ میں ڈال کر بھوک سے نجات حاصل کرسکتے ہو؟ ہرگزنہیں.پس اسی طرح تمہاری روحانی حالت معمولی سی توبہ یا کبھی کسی ٹوٹی پھوٹی نماز یا روزہ سے سنورنہیں سکتی.روحانی حالت کے سنوارنے اور اس باغ کے پھل کھانے سے بھی تم کو چاہیے کہ اس باغ کو بھی وقت پر خدا کی جناب میں نمازیں اداکرکے اپنی آنکھوں کاپانی پہنچاؤ اور اعمال صالحہ کے پانی کی نہرسے اس باغ کو سیراب کرو تا وہ ہرا بھرا ہو اور پھلے پھولے اور اس قابل ہوسکے کہ تم اس سے پھل کھاؤ.ایمان اور اعمال صالحہ یا درکھوایمان بغیر اعمال صالحہ کے ادھورا ایمان ہے.کیا وجہ ہے کہ اگر ایمان کامل ہو تو اعمال صالحہ سرزد نہ ہوں؟ اپنے ایمان اور اعتقاد کو کامل کرو ورنہ کسی کام کا نہ ہوگا.لوگ اپنے ایمان کو پورا ایمان تو بنا تے نہیں پھر شکایت کرتے ہیں کہ وہ ہمیں انعامات نہیں ملتے جن کا وعدہ تھا.بے شک خدا نے وعدہ فرمایا ہوا ہے کہ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق:۳،۴).
یعنی جو خدا کا متقی اور اس کی نظر میں متقی بنتا ہے اس کوخدا تعالیٰ ہر ایک قسم کی تنگی سے نکالتا اور ایسی طرز سے رزق دیتا ہے کہ اسے گمان بھی نہیں ہوتاکہ کہاں سے اور کیوں کر آتا ہے.خدا کا یہ وعدہ برحق ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ خدا اپنے وعدوں کا پورا کرنے والا اور بڑا رحیم کریم ہے.جو اللہ تعالیٰ کا بنتا ہے و ہ اسے ہر ذلّت سے نجات دیتا ہے اور خود اس کا حافظ ونا صر بن جاتا ہے.مگر وہ جو ایک طرف دعویٰ اتقاکرتے ہیں اور دوسری طرف شاکی ہوتے ہیں کہ ہمیں وہ برکات نہیں ملے ان دونوں میں سے ہم کس کو سچا کہیں اور کس کو جھوٹھا؟ خدا تعالیٰ پر ہم کبھی الزام نہیں لگا سکتے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ(اٰلِ عـمران:۱۰) خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کا خلاف نہیں کرتا.ہم اس مد عی کو جھوٹا کہیں گے.اصل یہ ہے کہ ان کا تقویٰ یا ان کی اصلاح اس حدتک نہیں ہوتی کہ خدا کی نظر میں قابلِ وقعت ہو.یا وہ خدا کے متقی نہیں ہوتے لوگوں کے متقی اور ریا کار انسان ہوتے ہیں سوان پر بجائے رحمت اور برکت کے لعنت کی ما ر ہوتی ہے جس سے سرگرداں اور مشکلات دنیا میں مبتلا رہتے ہیں.خدا تعالیٰ متقی کو کبھی ضائع نہیں کرتا.وہ اپنے وعدوں کا پکا اور سچا اور پورا ہے.متّقین کے لئے رزق رزق بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں یہ بھی تو ایک رزق ہے کہ بعض لوگ صبح سے شا م تک ٹوکری ڈھوتے ہیں اور برے حال سے شام کو دوتین آنے ان کے ہاتھ میں آتے ہیں یہ بھی تو رزق ہے مگر لعنتی رزق ہے نہ رزق مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ.۱ حضر ت داؤد زبور میں فرماتے ہیں کہ میں بچہ تھا جوان ہوا.جوانی سے اب بڑھا پا آیا مگر میں نے کبھی کسی متقی اور خدا ترس کو بھیکھ مانگتے نہ دیکھا اور نہ اس کی اولاد کو دربدر دھکے کھاتے اور ٹکڑے مانگتے دیکھا یہ بالکل سچ اور راست ہے کہ خدا اپنے بندوں کوضائع نہیں کرتا اور ان کو دوسروں کے آگے ۱ البدرسے.’’کیا یہ بھی رزق ہے جو کہ کس قدر ذلّت سے حاصل ہوتا ہے.‘‘ (البدرجلد۲نمبر۱۱مورخہ ۳ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۸۳)
ہاتھ پسا رنے سے محفوظ رکھتا ہے بھلا اتنے جو انبیاء ہوئے ہیں اولیاء گذرے ہیں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ بھیکھ مانگا کرتے تھے؟ یا ان کی اولاد پر یہ مصیبت پڑی ہو کہ وہ دربدرخاک بسر ٹکڑے کے واسطے پھرتے ہوں؟ ہرگزنہیں.میرا تو اعتقاد ہے کہ اگر ایک آدمی با خدا اور سچا متقی ہو تو اس کی سات پشت تک بھی خدا رحمت اور برکت کا ہاتھ رکھتا اور ان کی خود حفاظت فرماتا ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایک ذکر کیا ہے کہ ایک دیوار دو یتیم لڑکوں کی تھی.وہ گرنے والی تھی اس کے نیچے خزانہ تھا.لڑکے ابھی نا با لغ تھے.اس دیوار کے گر نے سے اندیشہ تھا کہ خزانہ ننگا ہوکر لوگوں کے ہاتھ آجائے گا.وہ لڑکے بیچارے خالی ہاتھ رہ جاویں گے تواللہ تعالیٰ نے دونبیوں۱ کواس خدمت کے واسطے مقرر فرمایا.وہ گئے اور اس دیوار کو درست کر دیا کہ جب و ہ بڑے ہوں تو پھر کسی طرح ان کے ہاتھ وہ خزانہ آجاوے.پس اس جگہ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ وَكَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا(الکھف:۸۳) یعنی ان لڑکوں کا با پ نیک مَرد تھا.جس کے واسطہ ہم نے ان کے خزانہ کی حفاظت کی.اللہ تعالیٰ کے ایسا فرما نے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکے کچھ اچھے نہ تھے اور نہ اچھے ہونے والے تھے.ورنہ یہ فرما تاکہ یہ اچھے لڑکے ہیں صالح ہیں اور صالح ہونے والے ہیں.نہیں بلکہ ان کے با پ کا ہی حوالہ دیا کہ ان کے باپ کی نیکی کی وجہ سے ایساکیا گیا ہے.دیکھو! یہی تو شفاعت ہے.حقیقی متقی بنو وہ لوگ جو بڑے بڑے ادعا کرتے ہیں کہ ہم یوں نیکی کرتے ہیں اور متقی ہیں مگر ان کے یہ دعوے قرآن شریف کے مطابق نہیں ہوتے اور نہ اس کسوٹی پر صادق ثابت ہوتے ہیں کیونکہ وہ فرماتا ہے وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ (الاعراف:۱۹۷) اِنْ اَوْلِيَآؤُهٗۤ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ (الانفال:۳۵) تو اس وقت افسوس سے ہمیں ان لوگوں کی ہی حالت پر رحم آتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں اصل سبب اس کا یہ ہے کہ ان کا صدق و وفااور اخلاص البدر میں ہے.’’خدا نے اپنے ان دو بندوں کو وہاں بھیجا کہ اس دیوار کی مرمّت کریں تاکہ جب وہ جوان ہوں تو اس خزانہ کو نکال کر استعمال کریں.کیا وجہ تھی کہ خدا نے ایسے دو عظیم الشان آدمیوں کو وہاں بھیجا اس کی وجہ یہی تھی وَكَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا یعنی ان کا باپ نیکو کار تھا.‘‘ (البدرجلد۲نمبر۱۱مورخہ ۳؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۸۳)
خدا کے نزدیک اس درجہ کا نہیں ہوتا بلکہ وہ دوسروں کے شرک سے قابل نفرت ہو گیا ہوا ہوتا ہے.ایمان کم ہوتا ہے اور لافیں زیادہ ہوتی ہیں خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا(الاحزاب:۶۳)۱ بھلا یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ ہم خدا کو وعدہ خلاف یا جھوٹا کہیں اور اس کی نسبت الزام کا خیال بھی کریں.اصل میں ایسے لوگوں کا ایمان ناکارہ ایمان ہوتا ہے جولعنت کے مورد ہوتے ہیں نہ رحمت کے.وہ اصل میں خدا کو دھوکا دینا چاہتے ہیں.ظاہر کچھ ہوتا ہے اور با طن کچھ.بھلا خلق نے تو دھوکا کھا بھی لیا مگر وہ جس کی نظراندرون دراندرون پہنچتی ہے وہ کسی کے دھوکا میں آسکتاہے.انبیاء کے نقش قدم پر چلو انسان کو چاہیے کہ ساری کمندوں کو جلا دے اور صرف محبت الٰہی ہی کی کمندکو باقی رہنے دے.خدا نے بہت سے نمونے پیش کئے ہیں آدم سے لے کر نوح و ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام تک کل انبیاء اسی نمونہ کی خاطر ہی تو اس نے بھیجے ہیں تا لوگ ان کے نقش قدم پر چلیں.جس طرح وہ خدا تک پہنچے اسی طرح اور بھی کوشش کریں سچ ہے کہ جو خدا کاہوجاتا ہے خدا اس کاہوجاتا ہے.یادرکھو کہ ایسا نہ ہو کہ تم اپنے اعمال سے ساری جماعت کو بدنا م کرو.شیخ سعدی صاحب فرماتے ہیں.ع بد نام کنندہ نکو نامے چند بلکہ ایسے بنو کہ تاتم پرخدا کی برکات اور اس کی رحمت کے آثار نازل ہوں.وہ عمروں کو بڑھا بھی سکتا ہے مگر ایک وہ شخص جس کا عمر پانے سے مقصد صرف ورلی دنیا ہی کے لذائذاور حظوظ ہیں اس کی عمر کیا فائدہ بخش ہوسکتی ہے؟ اس میں تو خدا کا حصہ کچھ بھی نہیں.وہ اپنی عمر کا مقصد صرف عمدہ کھانے کھانے اور نیندبھر کے سونے اور بیوی بچوں اور عمدہ مکان کے یا گھوڑے وغیرہ رکھنے یا عمدہ باغات یا فصل پر ہی ختم کرتا ہے.وہ تو صرف اپنے پیٹ کا بندہ اور شکم کا عابد ہے.اس نے تو اپنا مقصود ومطلوب اور معبود البدر سے.’’جب تک انسان اپنا ایمان اُس حد تک نہیں پہنچاتا کہ سنّت سے فائدہ اُٹھا وے تو خدا کیسے اس کے لیے سنّت بدل دیوے.‘‘ (البدرجلد۲نمبر۱۱مورخہ ۳ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۸۳)
صرف خواہشات نفسانی اور لذائذ حیوانی ہی بنایا ہوا ہے.مگر خدا نے انسان کے سلسلہ پیدائش کی علّت غائی صرف اپنی عبادت رکھی ہے وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ(الذاریات:۵۷) پس حصر کردیا ہے کہ صرف صرف عبادت الٰہی مقصد ہونا چاہیے اور صرف اسی غرض کے لیے یہ سارا کارخانہ بنایا گیا ہے برخلا ف اس کے اَور ہی اَور ارادے اور اَور ہی اَور خواہشات ہیں.بھلا سوچوتو سہی کہ ایک شخص ایک شخص کو بھیجتا ہے کہ میرے باغ کی حفاظت کر.اس کی آب پاشی اور شاخ تراشی سے اسے عمدہ طور کا بنا اور عمدہ عمدہ پھول بیل بوٹے لگا کہ وہ ہرابھرا ہوجاوے.شاداب اور سرسبز ہو جاوے مگر بجائے اس کے وہ شخص آتے ہی جتنے عمدہ عمدہ پھل پھول اس میں لگے ہوئے تھے ان کو کا ٹ کرضائع کر دے یا اپنے ذاتی مفاد کے لیے فروخت کرلے اور ناجائزدست اندازی سے باغ کو ویران کر دے تو بتاؤ کہ وہ مالک جب آوے گا تو اس سے کیا سلوک کرے گا؟ انسان کی پیدائش کا مقصد خدا نے تو اسے بھیجا تھا کہ عبادت کرے اور حق اللہ اور حق العباد کو بجا لا وے مگر یہ آتے ہی بیویوں میں مشغول، بچوں میں محو اور ا پنے لذائذ کا بندہ بن گیا اور اس اصل مقصد کو بالکل بھول ہی گیا بتاؤ اس کا خدا کے سامنے کیا جواب ہوگا؟ دنیا کے یہ سا ما ن اور یہ بیوی بچے اور کھانے پینے تو اللہ تعالیٰ نے صرف بطور بھاڑہ کے بنائے تھے جس طرح ایک یکہ با ن چند کو س تک ٹٹو سے کام لے کر جب سمجھتا ہے کہ وہ تھک گیا ہے اسے کچھ نہاری اور پانی وغیرہ دیتا ہے اور کچھ مالش کرتا ہے تا اس کے تکان کا کچھ علاج ہو جاوے اور آگے چلنے کے قابل ہو اور درماندہ ہو کر کہیں آدھ میں ہی نہ رہ جاوے.اس سہارے کے لیے اسے نہاری دیتا ہے.سویہ دنیوی آرام اور عیش اور بیوی بچے اور کھانے کی خوراکیں بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھاڑے مقرر کئے ہیں کہ تا وہ تھک کر اور درماندہ ہوکر بھوک سے پیاس سے مَر نہ جاوے اور اس کے قویٰ کے تحلیل ہونے کی تلافی مآفات ہوتی جاوے.پس یہ چیزیں اس حدتک جائزہیں کہ انسان کو اس کی عباد ت اور حق اللہ اور حق العباد کے پورا کرنے میں مدد دیں.ورنہ اس حدسے آگے نکل کر وہ حیوانوں کی طرح صرف پیٹ کا بندہ اور شکم کا عا بدبنا کر مشرک بناتی ہیں اور وہ اسلام کے خلاف
ہیں.سچ کہا ہے کسی نے ؎ خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است تومعتقد کہ زیستن از بہر خوردن است مگر اب کروڑوں مسلمان ہیں کہ انہوں نے عمدہ عمدہ کھانے کھانا، عمدہ عمدہ مکا نا ت بنانا، اعلیٰ درجہ کے عہدوں پر ہونا ہی اسلام سمجھ رکھا ہے مومن شخص کا کام ہے کہ پہلے اپنی زندگی کا مقصد اصلی معلوم کرے اور پھر اس کے مطابق کام کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ(الفرقان:۷۸) خدا کو تمہاری پروا ہی کیا ہے اگر تم اس کی عبادت نہ کرو اور اس سے دعائیں نہ مانگو، یہ آیت بھی اصل میں اس پہلی آیت کہ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذاریات:۵۷) ہی کی شرح ہے.جب خدا کا ارادہ انسانی خلقت سے صرف عبادت ہے تو مومن کی شان نہیں کہ کسی دوسری چیز کو عین مقصود بنالے حقوق نفس تو جائز ہیں مگر نفس کی بے اعتدالیاں جائز نہیں.حقوق نفس بھی اس لیے جائز ہیں کہ تاوہ درماندہ ہو کر رہ ہی نہ جاوے.تم بھی ان چیزوں کواسی واسطے کام میں لاؤ.ان سے کام اس واسطے لوکہ یہ تمہیں عبادت کے لائق بنائے رکھیں نہ اس لیے کہ وہی تمہارا مقصود اصلی ہوں.قرآن شریف تو موت واردکرنا چاہتا ہے کھانا پینا صرف جسم کے سہارے کے واسطے ہوں.انسانی بدن ہر وقت چونکہ معرض تحلیل میں ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے جائز رکھا کہ اس کے قویٰ کی بحالی رکھنے اور قیام کے لیے یہ چیزیں استعمال کی جاویں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن شریف کے شارح ہیں آپ ایک موقع پربڑے گھبرائے ہوئے تھے حضرت عائشہؓ کو کہا کہ اے عائشہؓ ہمیں آرام پہنچاؤ.۱ اور اسی واسطے ا للہ تعالیٰ نے آدم کے ساتھ حوا کو بھی بنادیا تا وہ اس کے واسطے ضرورت کے وقت سہارے کا موجب ہو.غرض یہ باتیں ہیں جو ان پرعمل کرنا اور ان کو خوب یاد رکھنا ضروری ہے اور ان سب پر پوری ۱ البدرسے.’’عورتوں کو پیدا کرنے میں سِر یہی ہے کہ خد اکی راہ میں نفس کی قربانی کے واسطے جو ایک کوفت پیدا ہوتی ہے یہ اس کا سہارا ہوجاویں.‘‘ (البدرجلد۲نمبر۱۱مورخہ ۳؍اپریل ۱۹۰۳ءصفحہ۸۴)
طرح سے قائم ہونا چاہیے.دیکھو! ایک طبیب جب نسخہ لکھ کردیتا ہے تواس کی پوری طرح تعمیل کرنی چاہیے ورنہ فائدہ سے ہاتھ دھونے چاہئیں.ایک شخص اگر بجائے اس نسخہ کے تحریر کردہ امورکے اس کاغذ ہی کو دھودھوکر پیے تو اسے فائدہ کی امید ہو گی؟ ہرگز نہیں.پس اسی طرح تم بھی ہماری ہر ایک بات پر قائم رہو.جھوٹی اور خشک محبت کام نہیں آتی بلکہ تعلیم پرپوری طرح سے عمل کرنا ہی کا رآمد ہوگا.خدا تعالیٰ اپنے و عدہ کاسچاہے وہ بڑا رحیم کریم اور ماں سے، باپ سے بھی زیادہ مہربا ن ہے مگر وہ دغاباز کو بھی خوب جانتا ہے.قبولیت آسمان سے ہی نازل ہوتی ہے تذکرۃالاولیاء میں ہے کہ ایک شخص چاہتا تھا کہ وہ لوگوں کی نظر میں بڑاقابل اعتماد بنے اورلوگ اسے نمازی اور روزہ دار اور بڑاپاکباز کہیں اور اسی نیت سے وہ نماز لوگوں کے سامنے پڑھتا اور نیکی کے کام کرتا تھا مگر وہ جس گلی میں جاتا اور جدھر اس کا گذرہوتا تھا لوگ اسے کہتے تھے کہ دیکھویہ شخص بڑا ریا کار ہے اور اپنے آپ کو لوگوں میں نیک مشہور کرنا چاہتا ہے.پھر آخر کار اس کے دل میں ایک دن خیال آیا کہ میں کیوں اپنی عاقبت کو برباد کرتا ہوں خدا جانے کس وقت مَر جاؤں گا کیوں اس لعنت کو میں اپنے لیے تیار کررہا ہوں۱ اس نے صاف دل ہوکر پورے صدق وصفااور سچے دل سے توبہ کی اور اس وقت سے نیت کرلی کہ میں سارے نیک اعمال لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ کیا کروں گا اور کبھی کسی کے سامنے نہ کروں گا.چنانچہ اس نے ایسا کرنا شروع کردیا اور یہ پاک تبدیلی اس کے دل میں بھرگئی نہ صرف زبان تک ہی محدودرہی.پھر اس کے بعد لکھا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو بظاہر ایسا بنا لیا کہ تا رک صوم وصلوٰۃ ہے اور گندہ اور خراب آدمی ہے مگر اندرونی طور پر پوشیدہ اور نیک اعمال بجا لاتا تھا.پھر وہ جدھر جاتا اور جدھر اس کا گذر ہوتا تھا لوگ اور لڑکے اسے کہتے تھے کہ دیکھویہ شخص بڑا نیک اور پارسا ہے.یہ خدا کا پیارا اور اس کا برگزیدہ ہے.غرض اس سے یہ ہے کہ قبولیت اصل میں آسمان سے نازل ہوتی ہے اولیاء اور نیک لوگوں کا یہی البدرسے.’’میں نے خدا کی نماز ایک دفعہ بھی نہ پڑھی.‘‘ (البدرجلد۲نمبر۱۱مورخہ ۳؍اپریل ۱۹۰۳ءصفحہ۸۴)
حال ہوتا ہے کہ وہ اپنے اعمال کو پوشیدہ رکھا کرتے ہیں وہ اپنے صدق و وفا کو دوسروں پر ظاہر کرنا عیب جانتے ہیں.ہاں بعض ضروری ا مور کو جن کی اجازت شریعت نے دی ہے یا دوسر وں کی تعلیم کے لیے اظہار بھی کیا کرتے ہیں.ریاء نیکی جو صرف دکھانے کی غرض سے کی جاتی ہے وہ ایک لعنت ہوتی ہے.خدا کے وجودکے ساتھ دوسروں کاوجود بالکل ہیچ جانناچا ہیے دوسروں کے وجود کو ایک مُردہ کیڑے کی طرح خیال کرنا چاہیے.ان کے کسی قسم کے نفع یا ضرر کا خوف نہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ کچھ کسی کا بگاڑ نہیں سکتے اور نہ سنوار سکتے ہیں.نیکی کو نیک لوگ اگر ہزارپردوں کے اندر بھی کریں تو خدا نے قسم کھا ئی ہوئی ہے کہ اسے ظاہر کر دے گا اور اسی طرح بدی کا حال ہے بلکہ لکھا ہے کہ اگر کوئی عابد زاہد خدا کی عبادت میں مشغو ل ہو اور اس صدق اور جوش کا جواس کے دل میں ہے انتہا کے نقطہ تک اظہار کر رہا ہو اور اتفاقاً کنڈی لگانی بھول گیا ہو تو کوئی اجنبی باہر سے آکراس کا دروازہ کھول دے تواس کی حالت بالکل وہی ہوتی ہے جو ایک زانی کی عین زنا کے وقت پکڑاجانے سے.کیونکہ اصل غرض تو دونوں کی ایک ہی ہے یعنی اخفائے راز اگرچہ رنگ الگ الگ ہیں ایک نیکی کو اور دوسرابدی کو پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے غرض خدا کے بندوں کی حالت تو اس نقطہ تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے.نیک بھی چاہتے ہیں کہ ہماری نیکی پوشید ہ رہے اور بد بھی اپنی بدی کو پوشیدہ رکھنے کی دعا کرتا ہے مگر اس اَمر میں دونوں نیک وبد کی دعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو قانون بنا رکھا ہے کہ وَ اللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ(البقرۃ:۷۳).خدا کی رضا میں فانی لوگ نہیں چاہتے کہ ان کو کوئی درجہ اور امامت دی جاوے وہ ان درجات کی نسبت گوشہ نشینی اور تنہاعبادت کے مزے لینے کو زیادہ پسند کرتے ہیں مگر ان کوخدا تعالیٰ کشاں کشاں خلق کی بہتری کے لیے ظاہر کرتا اور مبعوث فرماتا ہے.ہما رے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو غارمیں ہی رہا کرتے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ ان کا کسی کو پتا بھی ہو آخر خدا نے ان کو باہر نکالا اور دنیا کی ہدایت کا بار ان کے سپردکیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہزاروں شاعر آتے اور آپ کی تعریف میں شعر کہتے تھے مگر
لعنتی ہے وہ دل جو خیال کرتا ہے کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تعریفوں سے پھولتے تھے وہ ان کو مُردہ کیڑے کی طرح خیال کرتے تھے.مدح وہی ہوتی ہے جوخدا آسمان سے کرے.یہ لوگ محبت ذاتی میں غرق ہوتے ہیں ان کو دنیا کی مدح و ثنا کی پروانہیں ہوتی.تو یہ مقام ایسا ہوتا ہے کہ خدا آسمان اور عرش سے ان کی تعریف اور مدح کرتا ہے.توفیق سب اللہ تعالیٰ کو ہی ہے سنو! ہماری یہ باتیں اس واسطے نہیں کہ ہم کسی کے ایمان کو کچھ بڑھا سکتے ہیں یا کسی کے دل میں کچھ ڈال سکتے ہیں نہیں ہم کسی کے ایمان کو ایک جَو بھر بھی زیادہ نہیں کرسکتے.۱ ہم صرف اس واسطے کہتے ہیں کہ تم اتنے جمع ہو شاید ہے کہ کسی کے دل کو کوئی بات پکڑلے اور اس کی اصلا ح ہو جاوے.توفیق تو سب اللہ ہی کو ہے خدا تعالیٰ قادر ہے کہ کسی کے دل میں ایمان کی حقیقی جڑلگا دے اور پھر اسے اس کے ثمرات کھلاوے یا کسی کو اس کی بدی کی وجہ سے قہر کی آگ سے ہلاک کرے.پس دعا ہی کرنی چاہیے تا اس کی توفیق شامل انسان ہو.۲ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ء (بوقتِ سیر) آریہ مذہب کی نسبت فرمایا کہ مذہب کی جڑخدا شناسی ہے اور اس سے کمتر درجہ یہ کہ باہمی تعلق پاکیزگی کے ہوں سویہ دونوں باتیں گری ہوئی ہیں.۳ (دربارِ شام) اسباب پربھروسا نہ کریں طاعون کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ اصل میں لوگ اس کے حقیقی علاج کی طرف سے تو بالکل غافل۱ البدرسے.’’سب توفیق خدا سے ہے جب تک وہ نہ توفیق دے ہم ایک جَو تک نہیں بڑ ھاسکتے.‘‘ (البدرجلد۲نمبر۱۱مورخہ ۳؍اپریل ۱۹۰۳ءصفحہ۸۴) ۲ الحکم جلد۷ نمبر ۱۲ مورخہ ۳۱ ؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۴تا ۷ ۳ البدرجلد۲نمبر۱۱مورخہ ۳؍اپریل ۱۹۰۳ءصفحہ۸۴
ہیں اور اَور طرف ہاتھ پاؤں مارتے پھرتے ہیں مگر جب تک وہ اس کے اصل علاج کی طرف رجوع نہ کریں گے تب تک نجات کہاں؟ کوئی طبیبوں یا ڈاکٹروں کی طرف بھاگتا ہے اور کوئی ٹیکہ کے واسطے بازوپھیلا تا ہے کوئی نئے تجربہ سے اور نئی ایجا د کے درپے ہے.ہماری شریعت نے اگرچہ اسباب سے منع تو نہیں کیا بلکہ فِيْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ سے معلوم ہوتا ہے کہ دوائوں میں خدا تعالیٰ نے خواص شفاء مرض بھی رکھے ہوئے ہیں اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ دوائوں میں تاثیر ات ہوتی ہیں اور امراض کے معالجات ہوا کرتے ہیں.مگر ان اسباب پر بھروسا کر لینا اور یہ گمان کرنا کہ انہی کے ذریعہ سے نجات اور کامیابی ہو جاوے گی یہ سخت شرک اور کفر ہے.بھروسا اسباب پر ہرگزنہ چاہیے بلکہ یوں چاہیے کہ اسباب کو مہیا کرکے پھر بھروسا خدا پر کرنا چاہیے کہ اگر وہ چاہے تو اِن اسباب کو مفید بناوے اور اسی سے پھر بھی دعا کرنی چاہیے کیونکہ اسباب پر نتائج مرتّب کرنا تواُسی کا کام ہے اور یہی توکل ہے.نماز کی اہمیت اور حقیقت ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور نماز کے متعلق ہمیں کیا حکم ہے.فرمایا.نمازہر ایک مسلمان پر فرض ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ہمیں نماز معاف فرما دی جاوے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں.مویشی وغیرہ کے سبب سے کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا اور نہ ہمیں فرصت ہوتی ہے تو آپؐنے اس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو! کہ جب نماز نہیں تو ہے ہی کیا؟ وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں.نماز کیا ہے؟یہی کہ اپنے عجز، نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا.کبھی اس کی عظمت اوراس کے احکام کی بجاآوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور کبھی کمال مذلّت اور فروتنی سے اس کے آگے سجدہ میں گرجانا، اس سے اپنی حا جات کا مانگنا، یہی نماز ہے.ایک سائل کی طرح کبھی اس مسئول کی تعریف کرنا کہ تو ایسا ہے، تو ایسا ہے اس کی عظمت اور جلال کا اظہار کرکے اس کی رحمت کو جنبش دلانا اور پھر اس سے مانگنا، پس جس دین میں یہ نہیں وہ دین ہی کیا ہے.انسان ہر وقت محتاج ہے کہ اس سے اس کی
رضا کی راہیں مانگتا رہے اور اس کے فضل کا اسی سے خواستگارہو کیونکہ اسی کی دی ہوئی توفیق سے کچھ کیا جا سکتا ہے.اے خدا ہم کو توفیق دے کہ ہم تیرے ہو جائیں اور تیری ر ضاپر کار بند ہو کر تجھے راضی کرلیں.خدا کی محبت، اسی کا خوف، اسی کی یاد میں دل لگا رہنے کا نام نماز ہے اور یہی دین ہے.پھر جو شخص نماز ہی سے فراغت حا صل کرنی چاہتا ہے اس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیا کیا؟ وہی کھانا پینا اور حیوانوں کی طرح سورہنا.یہ تو دین ہرگز نہیں یہ سیرت کفار ہے.بلکہ جو دم غافل وہ دم کافر والی بات بالکل راست اور صحیح ہے.چنا نچہ قرآن شریف میں ہے کہ اُذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ ( البقرۃ:۱۵۳) یعنی اے میرے بندوتم مجھے یاد کیا کرو اور میری یاد میں مصروف رہا کرو میں بھی تم کو نہ بھولوں گا تمہارا خیال رکھوں گا اور میرا شکر کیا کرو، میرے انعامات کی قدر کیا کرو اور کفر نہ کیا کرو.اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ذکر الٰہی کے ترک اور اس سے غفلت کا نام کفر ہے پس جو دم غافل وہ دم کافر والی بات صاف ہے یہ پا نچو وقت تو خدا تعالیٰ نے بطور نمونہ کے مقرر فرمائے ہیں.ورنہ خدا کی یاد میں تو ہروقت دل کو لگا رہنا چاہیے اور کبھی کسی وقت بھی غافل نہ ہونا چاہیے.اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ہروقت اسی کی یاد میں غرق ہونا بھی ایک ایسی صفت ہے کہ انسان اس سے انسان کہلا نے کا مستحق ہوسکتا ہے اور خدا تعالیٰ پر کسی طرح کی امید اور بھروسا کرنے کا حق رکھ سکتا ہے.نماز خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اصل میں قاعدہ ہے کہ اگر انسان نے کسی خاص منزل پرپہنچنا ہے.اس کے واسطے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے جتنی لمبی وہ منزل ہو گی اتنا ہی زیادہ تیزی، کوشش اور محنت اور دیر تک اسے چلنا ہوگا.سو خدا تک پہنچنا بھی تو ایک منزل ہے اور اس کا بُعد اور دوری بھی لمبی.پس جو شخص خدا سے ملنا چاہتا ہے اور اس کے دربا ر میں پہنچنے کی خواہش رکھتا ہے اس کے واسطے نماز ایک گا ڑی ہے جس پر سوار ہوکر وہ جلدتر پہنچ سکتا ہے اور جس نے نماز ترک کردی وہ کیا پہنچے گا.اصل میں مسلمانوں نے جب سے نماز کو ترک کیا یا اسے دل کی تسکین، آرام اورمحبت سے اس کی حقیقت سے غا فل ہو کر پڑھنا ترک کیا ہے تب ہی سے اسلام کی حالت بھی معرضِ زوال میں آئی ہے.
وہ زمانہ جس میں نمازیں سنوارکرپڑھی جاتی تھیں غورسے دیکھ لوکہ اسلام کے واسطے کیساتھا.ایک دفعہ تواسلام نے تمام دنیا کو زیرِپا کردیا تھا جب سے اسے ترک کیا وہ خود متروک ہو گئے ہیں.دردِ دل سے پڑھی ہوئی نمازہی ہے کہ تمام مشکلات سے انسان کو نکال لیتی ہے.ہمارا بارہا کا تجربہ ہے کہ اکثر کسی مشکل کے وقت دعا کی جاتی ہے ابھی نماز میں ہی ہوتے ہیں کہ خدا نے اس اَمر کو حل اور آسان کردیا ہواہوتا ہے.نما ز میں کیا ہوتا ہے یہی کہ عرض کرتا ہے.التجا کے ہاتھ بڑھاتا ہے اور دوسرا اس کی عرض کو اچھی طرح سنتا ہے پھر ایک ایسا وقت بھی ہوتا ہے کہ جو سنتا تھا وہ بولتا ہے اور گذارش کرنے والے کو جواب دیتا ہے.نمازی کا یہی حال ہے خدا کے آگے سر بسجودرہتا ہے اور خدا کو اپنے مصائب اور حوائج سناتا ہے.پھر آخر سچی اور حقیقی نماز کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ایک وقت جلد آ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے جواب کے واسطے بولتا اور اس کو جواب دے کر تسلّی دیتا ہے.بھلا یہ بجز حقیقی نماز کے ممکن ہے؟ ہرگز نہیں.اور پھر جن کا خدا ہی ایسا نہیں وہ بھی گئے گذرے ہیں ان کا کیا دین اور کیا ایمان ہے.وہ کس امید پراپنے اوقات ضائع کرتے ہیں.اسلام کے عروج وزوال کے حقیقی اسباب ہمارے زمانہ میں جو سوال پیش ہوا کہ کیا وجوہا ت ہیں جن سے اسلام کو زوال آیا اور پھر وہ کیا ذریعے ہیں جن سے اس کی ترقی کی راہ نکل سکتی ہے.اس کے مختلف قسم کے لوگوں نے اپنے اپنے خیال کے مطابق جواب دیئے ہیں مگر سچا جو ا ب یہی ہے کہ قرآن کو ترک کرنے سے تنزل آیا اور اسی کی تعلیم کے مطابق عمل کرنے سے ہی اس کی حالت سنور جاوے گی.موجود ہ زمانہ میں جو ان کو اپنے خونی مہدی اور مسیح کی آمد کی امید اور شوق ہے کہ وہ آتے ہی ان کو سلطنت لےدے گا اور کفار تباہ ہوں گے یہ ان کے خا م خیال اور وسوسے ہیں.ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتدا میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے ذریعہ زیر کیا تھا اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلّط عطا کرے گا نہ تلوار سے.ہر ایک اَمر کے لیے کچھ آثار ہوتے ہیں اور اس کے پہلے تمہید یں ہوتی ہیں ’’ہو نہاربروا کے چکنے چکنے پا ت‘‘ بھلا اگر ان کے خیال کے موافق یہ زمانہ ان کے دن پلٹنے کا ہی تھا اور مسیح نے آ کر ان کو سلطنت دلا نی تھی تو چاہیے تھا کہ ظاہر ی طاقت ان میں جمع ہونے لگتی.
ہتھیار ان کے پاس زیادہ رہتے.فتوحا ت کا سلسلہ ان کے واسطے کھولا جاتا.مگر یہاں تو بالکل ہی برعکس نظر آتا ہے ہتھیا ر ان کے ایجا دنہیں.ملک ودولت ہے تو اَوروں کے ہاتھ ہے.ہمّت و مَردانگی ہے تو اَوروں میں.یہ ہتھیا روں کے واسطے بھی دوسروں کے محتاج.دن بدن ذلّت اور ادباران کے گرد ہے.جہاں دیکھو جس میدان میں سنو انہیں کوشکست ہے.بھلا کیا یہی آثار ہو اکرتے ہیں اقبال کے؟ ہرگز نہیں یہ بھولے ہوئے ہیں.زمینی تلواراورہتھیاروں سے ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے.ابھی تو ان کی خود اپنی حالت ایسی ہے کہ بے دینی اور لا مذہبی کا رنگ ایسا آیاہے کہ قابلِ عذاب اور موردِ قہر ہیں.پھر ایسوں کو کبھی تلوار ملی ہے؟ ہرگزنہیں.ان کی ترقی کی وہی سچی راہ ہے کہ اپنے آپ کو قرآن کی تعلیم کے مطابق بناویں اور دعا میں لگ جاویں.ان کو اب اگر مدد آ و ے گی تو آسمانی تلوار سے اور آسمانی حربہ سے نہ اپنی کوششوں سے اور دعا ہی سے ان کی فتح ہے نہ قوتِ بازو سے.یہ اس لیے ہے کہ جس طرح ابتدا تھی انتہا بھی اسی طرح ہو.آدم اول کو شیطان پر فتح دعاہی سے ہوئی تھی رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا....الـخ (الاعراف:۲۴) اور آدم ثانی کو بھی جو آخری زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ کرتا ہے اسی طرح دعا ہی کے ذریعہ سے فتح ہو گی.۱،۲ ۲۵ ؍مارچ ۱۹۰۳ء (مجلس قبل ازعشاء) ہمارا سب سے بڑا کام کسر صلیب ہے حضرت اقدس نے جو حجر ہ دعائیہ بنایا ہے اس کی نسبت فرمایا کہ ہمارا سب سے بڑا کام تو کسر صلیب ہے.اگر یہ کام ہو جاوے تو ہزاروںشبہات اور اعتراضات ۱ البدرمیں ہے.گائے وغیرہ کی حلّت اور حرمت پرذکر ہوا.فرمایاکہ ’’حرام کی تو تفصیل خدا نے دی ہے اور حلال کی کوئی تفصیل نہیں دی جس سے پتا لگے کہ فلاں شَے ضرور کھائو سو اس لیے گائے کے ذبح وغیرہ کا ذ کرکے ناحق موجب فساد ہونا مناسب نہیںہوتا.‘‘ (البدرجلد۲نمبر۱۱مورخہ ۳ ؍اپریل ۱۹۰۳ءصفحہ۸۴) ۲ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۲ مورخہ ۳۱ ؍مارچ ۱۹۰۳ءصفحہ ۷، ۸
کا جواب خودبخود ہی ہو جاتا ہے اور اسی کے ادھورا رہنے سے سینکڑوں اعتراضات ہم پروارد ہوسکتے ہیں.دیکھاگیا ہے کہ چالیس یا پچاس کتابیں لکھی ہیں مگران سے ابھی وہ کام نہیں نکلا جس کے لیے ہم آئے ہیں.اصل میں ان لوگوں نے جس طرح قدم جمائے اور اپنا دام فریب پھیلا یا ہے وہ ایسا نہیں کہ کسی انسانی طاقت سے درہم برہم ہوسکے.دانا آدمی جانتا ہے کہ اس قوم کا تختہ کس طرح پلٹا جا سکتا ہے.یہ کام بجز خدائی ہاتھ کے انجام پذیر ہوتا نظر نہیں آتا.اسی واسطے ہم نے ان ہتھیاروں یعنی قلم کو چھوڑکردعا کے واسطے یہ مکان (حجرہ) بنوایا ہے کیونکہ دعا کا میدان خدا نے بڑا وسیع رکھا ہے اور اس کی قبولیت کا بھی اس نے وعدہ فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ فر مانا کہ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ (الانبیاء:۹۷) اس اَمر کے اظہار کے واسطے کافی ہے کہ یہ کل دنیا کی زمینی طاقتوں کو زیرپا کریں گے ورنہ اس کے سوااور کیا معنے ہیں؟ کیا یہ قومیں دیواروں اور ٹیلوں کو کودتی اور پھاندتی پھریں گی؟ نہیں بلکہ اس کے یہی معنے ہیں کہ وہ دنیا کی کل ریاستوں اور سلطنتوں کو زیرپا کرلیں گی اور کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہ کرسکے گی.فتح دعا کے ذریعہ ہو گی واقعات جس اَمر کی تفسیر کریں وہی تفسیر ٹھیک ہوا کرتی ہے اس آیت کے معنے خدا تعالیٰ نے واقعات سے بتا دیئے ہیں ان کے مقابلہ میں اگر کسی قسم کی سیفی قوت کی ضرورت ہوتی تو اب جیسے کہ بظاہر اسلامی دنیا کے امیدوں کے آخری دن ہیں چاہیے تھا کہ اہل اسلام کی سیفی طاقت بڑ ھی ہوئی ہوتی اور اسلامی سلطنتیں تمام دنیا پر غلبہ پاتیں اور کوئی ان کے مقابل پر ٹھہر نہ سکتا مگراب تو معاملہ اس کے برخلا ف نظر آتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور تمہید یا عنوان کے یہ زمانہ ہے کہ ان کی فتح اور ان کا غلبہ دنیوی ہتھیاروں سے نہیں ہوسکے گا.بلکہ ان کے واسطے آسمانی طاقت کام کرے گی جس کا ذریعہ دعا ہے.غرضیکہ ہم نے اس لیے سوچا کہ عمر کا اعتبار نہیں ہے ساٹھ یا پینسٹھ سال عمر سے گذرچکے ہیں.موت کا وقت مقرر نہیں.خدا جانے کس وقت آجاوے اور کام ہمارا ابھی بہت باقی پڑا ہے ادھر قلم کی طاقت کمزورثابت ہوئی ہے.رہی سیف اس کے واسطے خدا تعالیٰ کا اذن اور منشا نہیں ہے لہٰذاہم نے آسمان کی طرف ہاتھ
اٹھائے اور اسی سے قوت پانے کے واسطے ایک الگ حجرہ بنایا اور خدا سے دعا کی کہ اس مسجد البیت اور بیت الدعا کو امن اور سلامتی اور اعدا پربذریعہ دلائل نیّرہ اور براہین ساطع کے فتح کا گھر بنا.ہم نے دیکھا کہ اب ان مسلمانوں کی حالت تو خود موردِ عذاب اور شامتِ اعمال سے قہرِ الٰہی کے نزول کی محرّک بنی ہوئی ہوئی ہے اور خدا کی نصرت اور اس کے فضل وکرم کی جا ذب مطلق نہیں رہی.جب تک یہ خود نہ سنوریں تب تک خوشحا لی کا منہ نہیں دیکھ سکتے.اعلاء کلمۃ اللہ کا ان کو فکر نہیں ہے خدا کے دین کے واسطے ذرا بھی سرگرمی نہیں.اس لیے خدا کے آگے دست دعا پھیلانے کا قصد کرلیا ہے کہ وہ اس قوم کی اصلا ح کرے اور شیطان کو ہلاک کرے تاکہ خدا کا سچا نور دنیا پردوبارہ چمک جاوے اور راستی کی عظمت پھیلے.بنی اسرائیل کی کتابوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ قوم فسق وفجور میں تباہ ہو جاتی اور اس کی توحیدوجلال کو بالکل بھول جاتی تھی تو ان کے انبیاء اسی طرح جنگلوں اور الگ مکانوں میں دست بدعا ہوتے تھے اور خدا کی رحمت کے تخت کو جنبشں دیا کرتے تھے.دنیا کو علم نہیں ہے کہ آجکل عیسائی کیا کررہے ہیں مسلمانوں کی کس قدرذرّیت کو انہوں نے برباد کیا ہے.کس قدرخاندان ان کے ہاتھوں سے نالاں ہیں گویا دنیا کا تختہ بالکل پلٹ گیا ہے.اب خدا کی غیرت نے نہ چاہا کہ اس کی توحیداور جلال کی ہتک ہو اور اس کے رسول کی زیادہ بے عزّتی کی جاوے.اس کی غیرت نے تقاضا کیا کہ اپنے نورکو اب روشن کرے اور سچائی اور حق کا غلبہ ہو سو اس نے مجھے بھیجااور اب میرے دل میں تحریک پیدا کی کہ میں ایک حجرہ بیت الدعا صرف دعا کے واسطے مقررکروں اور بذریعہ دعا کے اس فساد پرغالب آؤںتا کہ اول آخر سے مطابق ہو جاوے اور جس طرح سے پہلے آدم کو دعا ہی کے ذریعےسے شیطان پر فتح نصیب ہوئی تھی اب آخری آدم کے مقابل پر آخری شیطان پر بھی بذریعہ دعا کے فتح ہو.۱ ۱ البدر جلد۲ نمبر۱۱ مو رخہ ۳ ؍اپریل ۱۹۰۳ءصفحہ۸۴، ۸۵
۲۶ ؍مارچ ۱۹۰۳ء (بوقتِ سیر)۱ رفع یدین رفع یدین کے متعلق فرمایا کہ اس میں چنداں حرج نہیں معلوم ہوتا، خواہ کوئی کرے یا نہ کرے احادیث میں بھی اس کا ذکر دونوں طرح پرہے اور وہا بیوں اور سنیوں کے طریق عمل سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے.کیونکہ ایک تو رفع یدین کرتے ہیں اور ایک نہیں کرتے.معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وقت رفع یدین کیا اور بعدازاں ترک کردیا.وتر فرمایا کہ اکیلا ایک وتر کہیں سے ثابت نہیں ہوتا.وتر ہمیشہ تین ہی پڑھنے چاہئیں.خواہ تینوں اکٹھے ہی پڑھ لیں خواہ دورکعت پڑھ کرسلام پھیر لیں اور پھر ایک رکعت الگ پڑھی جاوے.قبض و بسط با بونبی بخش صاحب احمدی کلرک لا ہو ر نے عرض کی کہ بعض وقت تودل میں خودبخود ایک ایسی تحریک پیداہو تی ہے کہ طبیعت عبادت کی طرف راغب ہوتی ہے اور قلب میں ایک عجیب فرحت اور سرورمحسوس ہوتا ہے اور بعض وقت یہ حالت ہوتی ہے کہ نفس پر جبر اور بوجھ ڈالنے سے حلا وت پیدا نہیں ہوتی اور عبادت ایک بارگراں معلوم ہوتی ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ اسے قبض اور بسط کہتے ہیں قبض اس حالت کا نام ہے جب کہ ایک غفلت کا پردہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے اور خدا کی طرف محبت کم ہوتی ہے اور طرح طرح کے فکر اور رنج اور غم اور اسباب دنیوی میں مشغول ہو جاتا ہے اور بسط اس کا نام ہے کہ انسان دنیا سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی طرف رجوع کرے اور موت کو ہر وقت یاد رکھے.جب تک اس کو اپنی موت بخوبی یاد نہیں ہوتی وہ اس حالت تک نہیں پہنچ سکتا.موت تو ہروقت قریب آتی جاتی ہے کوئی آدمی ایسا نہیں جس کے قریبی رشتہ دار فوت ۱ البدر سے.فرمایا.’’ آج میری طبیعت علیل تھی اس لئے میری آنکھ لگ گئی جب اٹھا تو یہ الفاظ زبان پر جاری تھے یا سنائی دیئے.’’طاعون کا دروازہ کھولا گیا.‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ طاعون اب پیچھا نہیں چھوڑتی.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۰ مورخہ ۲۷؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۰)
نہیں ہو چکے اور آجکل تو وبا سے گھر کے گھر صاف ہوتے جاتے ہیں اور موت کے لیے طبیعت پر زور دے کر سوچنے کی حاجت ہی نہیں رہی.یہ حالتیں قبض اور بسط کی اس شخص کو پیدا ہوتی ہیں جس کو موت یاد نہیں ہوتی کیونکہ تجربہ سے دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ انسان قبض کی حالت میں ہوتا ہے اور ایک نا گہانی حادثہ پیش آجا نے سے وہ حالتِ قبض معاً دور ہو جاتی ہے جیسے کوئی زلزلہ آجاوے یا موت کا حادثہ ہو جاوے تو ساتھ ہی اس کا انشراح ہو جاتا ہے.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قبض اصل میں ایک عارضی شَے ہے جو کہ موت کے بہت یاد کرنے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا پیوست ہو جانے سے دور ہو جاتی ہے اور پھر بسط کی حالت دائمی ہو جاتی ہے عارفوں کو قبض کی حالت بہت کم ہوتی ہے.نا دان انسان سمجھتا ہے کہ دنیا بہت دیر رہنے کی جگہ ہے میں پھر نیکی کرلوں گا.اس واسطے غلطی کرتا ہے اور عا رف سمجھتا ہے کہ آج کا دن جو ہے یہ غنیمت ہے خدا معلوم کل زندگی ہے کہ نہیں.ایک رؤیا میں اس مکان کی طرف سے مسجد کی طرف چلا جا رہا ہوں.میں نے ایک شخص کو آتے ہوئے دیکھا جو کہ ایک سکھ کی طرح معلوم ہوتا تھا جس طرح سے اکا لئے اور کو کہ سکھ ہوتے ہیں.اس کے ہاتھ میں ایک بہت تیز خوفناک بڑا اور چوڑا چھراتھا اور اس چھرے کا دستہ چھوٹا سا تھا وہ چھرا بڑاہی تیز معلوم ہوتا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا گویا وہ اس سے لوگوں کو قتل کرتا پھرتا تھا.جہاں اس نے چھرا رکھا اور گردن اڑگئی.کچھ اس طرح معلوم ہوتا تھاجس طرح میں نے لیکھرام کے وقت میں ایک آدمی خواب میں دیکھا تھا اس کی صورت بڑی ڈراؤنی تھی اور بڑاہی دہشت ناک آدمی معلوم ہوتا تھا.مجھے بھی اس سے خوف معلوم ہوا اور میں نے اس کی طرف جانا نہ چاہا لیکن میرے پاؤں بہت بوجھل ہو گئے اور میں بڑا ہی زورلگاکر ادھر سے نکلا لیکن اس نے میری مزاحمت نہ کی اور اگرچہ مجھ کواس سے خوف معلوم ہو الیکن اس نے مجھ کو کوئی تکلیف نہ دی اور پھر وہ خبر نہیں کہ کس طرف کو نکل گیا.ایک اور رؤیا ایک حنا ئی رنگ کا کاغذ لکھا ہوا دوورقہ کا غذ کچھ تھوڑے فا صلہ پر گرپڑاہے میں نے ایک ہند وکو کہا کہ اس کو پکڑو.جب وہ پکڑنے لگا تو وہ کاغذ کچھ تھوڑی دور
آگے جا پڑا...پھر وہ ہندو اٹھانے لگا تو وہ وہاں سے اڑکر اور آگے جاپڑالیکن وہ دو ورقہ اس طرح کچھ ترتیب سے کھل کر اڑتا رہا ہے کہ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ کوئی جاندار چیز ہے جب وہ کچھ فاصلہ تک چلا گیا تووہ ہندو وہاں جاکر پھر اس کو پکڑنے لگا تب وہ دوورقہ اڑکرمیرے پاس آگیا تو اس وقت میری زبان سے یہ کلمہ نکلا جس کا تھا اس کے پاس آگیا.پھر میں نے اس کو مخاطب ہو کر کہا کہ ہم وہ قوم ہیں جو روح القد س کے بلائے بولتے ہیں ہم وہ قوم ہیں جن کے حق میں خدا نے فرمایا ہے لَنَفَخْنَا فِیْـھِمْ مِّنْ صِدْقِنَا فقط.اسلا می خدمات کسی دوسرے سے اللہ تعالیٰ لینا ہی نہیں چاہتا.شاید دوسرا اس میں کچھ غلطی بھی کرے.واللہ اعلم.جو شخص اسلام کے عقائد کا منا فی ہے وہ اسلام کی تائید کیا کرے گا.سناتن دھرم میں اس طرح کے بھی آدمی ہوتے ہیں کہ وہ کسی فرقہ کے مکذب نہیں ہوتے اور معمولی چیزوں کے آگے بھی ہاتھ جوڑتے پھرتے ہیں.خدا نہیں چاہتا کہ جو سلسلہ اس نے اپنے ہاتھ سے لگا یا ہے اس کا کوئی شریک ہو یہاں سے تویہی معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کا غذ ہما رے پاس آگیا.۱ آیا تِ مبین میرے نزدیک ا ٓیا ت مبین وہ ہوتی ہیں مخا لف جس کے مقابلہ سے عاجز ہو جاوے خواہ وہ کچھ ہی ہو جس کا مخالف مقابلہ نہ کرسکے وہ اعجا ز ٹھہر جائے گا جب کہ اس کی تحدی کی گئی ہو.یا د رکھنا چاہیے کہ اقتراح کے نشانوں کو اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے نبی کبھی جرأت کرکے یہ نہیں کہے گا کہ تم جو نشان مجھ سے مانگو میں وہی دکھا نے کو طیار ہوں.اس کے منہ سے جب نکلے گا یہی نکلے گا اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ (الانعام:۱۱۰) اور یہی اس کی صداقت کا نشان ہوتا ہے.کم نصیب مخالف اس قسم کی آیتوں سے یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ معجزات سے انکار کیا گیا ہے مگر وہ آنکھوں کے اندھے ہیں ۱ البدر جلد۲نمبر۱۱ مو رخہ ۳ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۸۵
ان کو معجزات کی حقیقت ہی معلوم نہیں ہوتی اس لیے وہ ایسے اعتراض کرتے ہیں اور نہ ذات با ری کی عزّت اور جبروت کا ادب ان کے دل پر ہوتا ہے.ہمارا خدا تعالیٰ پر کیا حق ہے کہ ہم جو کہیں وہ وہی کردے.یہ سوءِ ادب ہے.اور ایسا خدا خدا ہی نہیں ہوسکتا.ہاں یہ اس کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو امیداور حوصلہ دلا یا کہ اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن:۶۱) یہ نہیں کہا کہ تم جو مانگوگے وہی دیا جاوے گا.آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بعض اقتراحی نشانات مانگے گئے تو آپ نے یہی خدا کی تعلیم سے جواب دیا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا (بنی اسـرآءیل:۹۴).خدا کے رسول کبھی اپنی بشریت کی حد سے نہیں بڑھتے اور وہ آداب الٰہی کو مدنظر رکھتے ہیں یہ باتیں منحصر ہیں معرفت پر جس قدر معرفت بڑھی ہوئی ہوتی ہے اسی قدر خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت دل پر مستولی ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر معرفت انبیاء علیہم السلام ہی کی ہوتی ہے.اس لیے ان کی ہر بات اور ہرادا میں بشریت کا رنگ جدا نظر آتا ہے اور تائید ات الٰہیہ الگ نظرآتی ہیں.ہمارا ایمان ہے کہ خدا تعالیٰ نشان دکھاتا ہے جب چاہتا ہے.وہ دنیا کو قیامت بنانا نہیں چاہتا.اگر وہ ایسا کھلا ہوا ہوکہ جیسے سورج تو پھر ایمان کیا رہا؟ اور اس کا ثواب کیا؟ ایسی صورت میں کون بدبخت ہوگا جو انکار کرے گا؟ نشان بیّن ہوتے ہیں مگر ان کو با ریک بیں دیکھ سکتے ہیں اور کوئی نہیں اور یہ دقت نظر اور معرفت سعادت کی وجہ سے عطا ہوتی ہے اور تقویٰ سے ملتی ہے شقی اور فاسق اس کو نہیں دیکھ سکتا.ایمان اس وقت تک ایمان ہے جب تک اس میں کوئی پہلو اِخفا کا بھی ہو لیکن جب بالکل پردہ بر انداز ہو تو وہ ایمان نہیں رہتا اگر مٹھی بند ہو اور کوئی بتاوے کہ اس میں یہ ہے تو اس کی فراست قابل تعریف ہوسکتی ہے لیکن جب مٹھی کھول کر دکھا دی اورپھر کسی نے کہا کہ میں بتا دیتا ہوں تو کیا ہو ا؟ یا پہلی رات کا چاند اگر کوئی دیکھ کربتائے تو البتہ اسے تیز نظر کہیں گے.لیکن جب چودھویں کا چاند ہو گیا اس وقت کوئی کہے کہ میں نے چاند دیکھ لیا وہ چڑھا ہوا ہے تو لوگ اس کو پاگل کہیں گے.معجزہ غرض معجز ات وہی ہوتے ہیں جس کی نظیر لا نے پر دوسرے عاجز ہوں.انسان کا یہ کام نہیں کہ وہ ان کی حدبند کرے کہ ایسا ہونا چاہیے یا ویسا ہونا چاہیے.اس میں ضرور ہے
کہ بعض پہلو اخفا کے ہوں کیونکہ نشانا ت کے ظاہر کرنے سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ایمان بڑھے اور اس میں ایک عرفانی رنگ پیدا ہو جس میں ذوق ملا ہوا ہو لیکن جب ایسی کھلی باتیں ہوںگی تو اس میں ایمانی رنگ ہی نہیں آسکتا چہ جا ئیکہ عرفانی اور ذوقی رنگ ہو.پس اقتراحی نشانات سے اس لیے منع کیا جاتا ہے اور روکا جاتا ہے کہ اس میں پہلی رگ سوءِ ادبی کی پیدا ہو جاتی ہے جو ایمان کی جڑکا ٹ ڈالتی ہے.۱ نشانات کس سے صادرہوتے ہیں اس سوال کا جواب حضرت حجۃ اللہ علیہ السلام نے ایک بار اپنی ایک مختصر سی تقریر میں دیا ہے.فرمایا.نشانات کس سے صادرہوتے ہیں؟ جس کے اعمال بجائے خود خوارق کے درجہ تک پہنچ جائیں مثلاً ایک شخص خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا داری کرتا ہے وہ ایسی وفاداری کرے کہ اس کی وفا خارقِ عادت ہو جاوے.اس کی محبت، اس کی عبادت خارقِ عادت ہو.ہر شخص ایثار کرسکتا ہے اور کرتا بھی ہے لیکن اس کا ایثار خارقِ عادت ہو غرض اس کے اخلاق، عبادات اور سب تعلقات جو خدا تعالیٰ کے ساتھ رکھتا ہے اپنے اندر ایک خارقِ عادت نمونہ پیدا کریں تو چونکہ خارق عادت کا جواب خارقِ عادت ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر نشانات ظاہر کرنے لگتا ہے.پس جو چاہتا ہے کہ اس سے نشانات کا صدور ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے اعمال کو اس درجہ تک پہنچائے کہ ان میں خارقِ عادت نتائج کے جذب کی قوت پیدا ہونے لگے.انبیاء علیہم السلام میں یہی ایک نرالی بات ہوتی ہے کہ ان کا تعلق اندرونی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا شدید ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کا ہرگز نہیں ہوتا.ان کی عبودیت ایسا رشتہ دکھا تی ہے کہ کسی اور کی عبودیت نہیں دکھا سکتی.پس اس کے مقابلہ میں ربوبیت اپنی تجلّی اور اظہار بھی اسی حیثیت اور رنگ کا کرتی ہے.عبودیت کی مثال عورت کی سی ہوتی ہے کہ جیسے وہ حیا و شرم کے ساتھ رہتی ہے اور جب مَرد بیا ہنے جاتا ہے تو وہ اعلانیہ جاتا ہے اسی طرح پر عبودیت پردہ اخفا میں ہوتی ہے لیکن اُلُو ہیّت جب اپنی تجلّی کرتی ہے تو پھر وہ ایک بیّن اَمر ہو جاتا ہے ۱ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۲ مورخہ ۳۱ ؍مارچ ۱۹۰۳ءصفحہ ۳
اور ان تعلقات کا جو ایک سچے مومن اور عبداور اس کے رب میں ہوتے ہیں خارق عادت نشانات کے ذریعہ ظہور ہوتا ہے.انبیاء علیہم السلام کے معجزات کا یہی راز ہے اور چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلقات اللہ تعالیٰ کے ساتھ کل انبیاء علیہم السلام سے بڑھے ہوئے تھے اس لیے آپ کے معجزات بھی سب سے بڑھے ہوئے ہیں.۱ ۲۸ ؍مارچ ۱۹۰۳ء انسان اور بہائم میں فرق بچپن کی عمر پر ذکر ہوا فرمایا کہ انسان کی فطرت میں یہ بات ہے کہ وہ رفتہ رفتہ ترقی کرتا ہے.بچوں میں عادت ہوتی ہے کہ جھوٹ بولتے ہیں.آپس میں گالی گلوچ ہوتے ہیں.ذرا ذراسی باتوں پرلڑتے جھگڑتے ہیں.جوں جوں عمر میں وہ ترقی کرتے جاتے ہیں عقل اور فہم میں بھی ترقی ہوتی جاتی ہے.رفتہ رفتہ انسان تزکیہ نفس کی طرف آتا ہے.انسان کی بچپن کی حالت اس بات پر دلا لت کرتی ہے کہ گائے بیل وغیرہ جانوروں ہی کی طرح انسان بھی پیدا ہوتا ہے.صرف انسان کی فطرت میں ایک نیک بات یہ ہوتی ہے کہ وہ بدی کو چھوڑ کرنیکی کو اختیار کرتا ہے اور یہ صفت انسان میں ہی ہوتی ہے.کیونکہ بہائم میں تعلیم کا مادہ نہیں ہوتا.سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک قصہ نظم میں لکھا ہے کہ ایک گدھے کو ایک بیوقوف تعلیم دیتا تھا اور اس پر شب وروز محنت کرتا.ایک حکیم نے اسے کہا کہ اے بیوقوف تویہ کیا کرتا ہے؟ اور کیوں اپنا وقت اور مغز بے فائدہ گنواتا ہے؟ یعنی گدھا تو انسان نہ ہوگا تو بھی کہیں گدھا نہ بن جاوے.درحقیقت انسان میں کوئی ایسی الگ شَے نہیں ہے جو کہ اور جانوروں میں نہ ہو.عموماً سب صفات درجہ وار تمام مخلوق میں پائے جاتے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق میں ترقی کرتا ہے اور حیوان نہیں کرتا.اور ان تعلقات کا جو ایک سچے مومن اور عبداور اس کے رب میں ہوتے ہیں خارق عادت نشانات کے ذریعہ ظہور ہوتا ہے.انبیاء علیہم السلام کے معجزات کا یہی راز ہے اور چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلقات اللہ تعالیٰ کے ساتھ کل انبیاء علیہم السلام سے بڑھے ہوئے تھے اس لیے آپ کے معجزات بھی سب سے بڑھے ہوئے ہیں.۱ ۲۸ ؍مارچ ۱۹۰۳ء انسان اور بہائم میں فرق بچپن کی عمر پر ذکر ہوا فرمایا کہ انسان کی فطرت میں یہ بات ہے کہ وہ رفتہ رفتہ ترقی کرتا ہے.بچوں میں عادت ہوتی ہے کہ جھوٹ بولتے ہیں.آپس میں گالی گلوچ ہوتے ہیں.ذرا ذراسی باتوں پرلڑتے جھگڑتے ہیں.جوں جوں عمر میں وہ ترقی کرتے جاتے ہیں عقل اور فہم میں بھی ترقی ہوتی جاتی ہے.رفتہ رفتہ انسان تزکیہ نفس کی طرف آتا ہے.انسان کی بچپن کی حالت اس بات پر دلا لت کرتی ہے کہ گائے بیل وغیرہ جانوروں ہی کی طرح انسان بھی پیدا ہوتا ہے.صرف انسان کی فطرت میں ایک نیک بات یہ ہوتی ہے کہ وہ بدی کو چھوڑ کرنیکی کو اختیار کرتا ہے اور یہ صفت انسان میں ہی ہوتی ہے.کیونکہ بہائم میں تعلیم کا مادہ نہیں ہوتا.سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک قصہ نظم میں لکھا ہے کہ ایک گدھے کو ایک بیوقوف تعلیم دیتا تھا اور اس پر شب وروز محنت کرتا.ایک حکیم نے اسے کہا کہ اے بیوقوف تویہ کیا کرتا ہے؟ اور کیوں اپنا وقت اور مغز بے فائدہ گنواتا ہے؟ یعنی گدھا تو انسان نہ ہوگا تو بھی کہیں گدھا نہ بن جاوے.درحقیقت انسان میں کوئی ایسی الگ شَے نہیں ہے جو کہ اور جانوروں میں نہ ہو.عموماً سب صفات درجہ وار تمام مخلوق میں پائے جاتے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق میں ترقی کرتا ہے اور حیوان نہیں کرتا.
اخلاق کی حقیقت دیکھو! ارنڈ کا تیل اور کھانڈکیسے غلیظ ہوتے ہیں لیکن جب خوب صاف کیا جاوے تو مصفّٰی ہو کر خوش نما ہو جاتے ہیں.یہی حال اخلاق اور صفات کا ہے.اصل میں صفات کل نیک ہوتے ہیں جب ان کو بے موقع اور ناجائز طور پر استعمال کیا جاوے تو وہ برے ہو جاتے ہیں اور ان کو گندہ کردیا جاتا ہے لیکن جب ان ہی صفات کو افراط تفریط سے بچا کر محل اور موقع پر استعمال کیا جاوے تو ثواب کے موجب ہو جاتے ہیں.قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا ہے مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ (الفلق:۶) اور دوسری جگہ اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ (التوبۃ:۱۰۰) اب سبقت لے جانا بھی تو ایک قسم کا حسد ہی ہے سبقت لے جانے والا کب چاہتا ہے کہ اس سے اورکوئی آگے بڑھ جاوے.یہ صفت بچپن ہی سے انسان میں پائی جاتی ہے اگربچوں کو آگے بڑھنے کی خواہش نہ ہو تو وہ محنت نہیں کرتے اور کوشش کرنے والے کی استعداد بڑھ جاتی ہے سابقون گویا حاسد ہی ہوتےہیں لیکن اس جگہ حسد کا مادہ مصفّٰی ہو کرسابق ہو جاتا ہے اسی طرح حاسد ہی بہشت میں سبقت لے جاویں گے.اسی طرح سے غضب اگر موقع اورمحل پر استعمال کیا جاوے تووہ ایک صفت محمود ہے وہ انسان ہی کیا ہے جسے مستورات کی عصمت کی محافظت کے لیے بھی غضب نہ پیدا ہوتا ہو.حضرت عمر ؓ میں غضب اورغصہ بہت تھا.مسلمان ہونے کے بعد کسی نے آپ سے پوچھا کہ اب وہ غضب اور غصہ کہاں گیا؟ فرمایا کہ غضب تو اسی طرح میرے میں ہے لیکن آگے بے محل اور بے موقع اور ظلم کے رنگ میں تھا اور اب محل اور موقع پر استعمال ہوتا ہے اب انصاف کے رنگ میں ہے.صفات بدلتے نہیں ہیں ہاں ان میں اعتدال آ جاتا ہے.اسی طرح گلہ کرنا ناجائزہے لیکن استاد یا ماں با پ اگر گلہ کریں تو وہ قابل مذمت نہیں کیونکہ مرشد، استا د یا با پ اگر گلہ کرتے ہیں تو وہ اس کی ترقی کے لیے گلہ کرتے ہیں اور اس کے عیوب کو اس کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ عبرت ہو اور اس کے اعمال میں اصلاح ہو.ایسے ہی چوری بھی ایک بری صفت ہے لیکن اگر اپنے دوستوں کی چیز بلا اجازت استعمال کر لی جاوے تو معیوب نہیں (بشرطیکہ دوست ہوں ).
کما ل دوستی کا ایک واقعہ دوشخصوں میں باہمی دوستی کما ل درجہ کی تھی اور ایک دوسرے کا محسن تھا.اتفاقاً ایک شخص سفر میں گیا دوسرا اس کے بعد اس کے گھر میں آیا اور اس کی کنیزسے دریافت کیا کہ میرا دوست کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ سفر کو گیا ہے پھر اس نے پوچھا کہ اس کے روپے والے صندوق کی چابی تیرے پاس ہے؟ کنیز نے کہاکہ میرے پاس ہے اس نے کنیز سے وہ صندوق منگواکرچا بی لی اور خود کھول کر کچھ روپیہ اس میں سے لے گیا جب کہ صاحب خانہ سفرسے واپس آیا تو کنیز نے کہا کہ آپ کا دوست گھر میں آیا تھا.یہ سن کر صاحب خانہ کا رنگ زرد ہو گیا اور اس نے پوچھا کہ کیا کہتا تھا؟ کنیز نے کہاکہ اس نے مجھ سے صندوق اور چابی منگوا کرخود آپ کا روپیہ والا صندوق کھولا اور اس میں سے روپیہ نکال کرلے گیا.پھر تو وہ صاحب خانہ اس کنیز پر اس قدر خوش ہواکہ بہت ہی پھولا اور صرف اس صلہ میں کہ اس نے اس کے دوست کا کہا مان لیا اس کو نا راض نہیں کیا.اس کنیز کو اس نے آزاد کر دیا اور کہا کہ اس نیک کام کے اجر میں جو کہ تجھ سے ہوا ہے میں آج ہی تجھ کوآزادکرتا ہوں.غرض جس قدر یہ جرائم ہیں جن کی نواہی کی شریعت میں تاکید ہے مثلاً گلہ نہ کرو، چوری نہ کرو وغیرہ وغیرہ یہ سب صفات بداستعمال کی وجہ سے خرا ب ہو گئے ہیں.ورنہ حقیقتاً ان کا موقع اور محل پر استعما ل درست اور انسان کی فطرت کے مطابق ہے.عفو ایک موقع پرتوقابل استعمال ہوتا ہے اور بعض موقع پرقابل ترک.کیونکہ اگر کسی مجرم کو بار با ر عفوہی کردیا جاوے تو وہ اور زیادہ بے باک ہوکر جرم کرے گا.ایسے موقع پر اس سے انتقام لینا ہی عفوہوتا ہے.انجیل کی غیرمتوازن تعلیم انجیل کی تعلیم میں جو کہ بعض جگہ زیادہ نرمی کی ہدایت ہے اس کا بھی یہی مقصود ہوگا کیونکہ وہ تو صرف یہود کے لیے ہے (اس کی تمام تعلیم بالمقصود تھی) جوکہ سخت سرکش اور ظالم طبع لوگ تھے.اس مسئلہ کو آج کل لوگوں نے خوب سمجھ لیا ہے برہمولوگوں نے بھی اس پر اعتراض کئے ہیں میں نے ایک برہموکی کتاب میں دیکھا وہ لکھتا ہے کہ تمام عمر مارہی کھاتے جانا اور ہمیشہ طمانچے کھانا بلکہ ایک گال زخمی کراکردوسری گال بھی
پھیر دینایہ کہاں کا انصاف ہے؟ دوم انسان اس پر عمل کب کرسکتا ہے اور نہ کسی سے آج تک اس طرح کے عفوپرعمل ہوسکا.انجیل کی اس تعلیم کے متبع عیسائی لوگ کبھی بھی اس مسئلہ پر عمل نہ کرسکے.آج کسی عیسائی کو ایک بات کہو جو کہ اس کی مرضی کے برخلاف ہو پھر دیکھو وہ کتنی سناتاہے اورعدالت کی طرف دوڑتا ہے کہ نہیں.بعض نا دان عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح کی اس تعلیم سے یہ مقصود ہے کہ مار اور طمانچہ کھا کرعرضی ڈال دواورعدالت سے چارہ جوئی کرو.لیکن اتنانہیں سوچتے کہ اگرکسی شخص نے ایک عیسائی کو طمانچہ مار کراس کے دانت نکال دئیے پھر اس نے حسب حکم شریعت دوسری گال آگے کی اور اس نے ادھر کے بھی دانت نکال دئیے کیونکہ دشمن کا طمانچہ کوئی پیار کا طمانچہ تو نہ ہوگا وہ توتمام قوت سے طمانچہ مارے گا اب جب دونوں طرف کے دانت نکل گئے تو پھر عدالت میں جانے سے وہ دانت کیا واپس لگ جاویں گے؟ اگر مجرم کوسزا بھی ہو گی تواس کو کیا ملے گا؟ جوساری عمر کے لیے ایک نعمت سے محروم ہوکرعمدہ کھانے پینے بولنے کی لذّات سے جاتا رہا.ایسے ہی اگر ایک بدکا ر کسی عیسائی کی عورت پر ناجائزحملہ کرنا چاہے تووہ عیسائی اس وقت تو اس کا مزاحم نہ ہو مگر بعد میں عدالت کے ذریعے چارہ جوئی کرے اور گواہ اور ثبوت دیتا پھرے عجب تعلیم ہے.پھرذکر ہوا کہ بلادِ یورپ اور امریکہ اور جرمن وغیرہ میں آج کل ایک عجیب تحریک پیداہوتی چلی جاتی ہے.لوگ خودبخود ہی ان خیالا ت فا سدہ سے دست کش ہوتے جاتے ہیں اور ان کی تجویز ہے کہ ان تثلیث اور کفا رہ کے بے دلیل خیالات کو مہذب دنیا سے اُڑا کر با دلیل اور آزادی پسند خیالات نوجوانوں کے آگے پیش کئے جاویں.توحید کے قیام کے آثار فرمایاکہ اب خدا چاہتا ہے کہ اس کی توحید دنیا میں قائم ہو اور اسی کا تصرف تمام دنیا پراور لوگوں کے دلوں پر رہے اور کوئی کام نہیں ہوسکتا جب تک کہ خدا تعالیٰ نہ چاہے.اس زمانہ میں ان تمام پرانی، جہالت کے زمانہ کی غلطیوں کا اس طرح خودبخود ظاہر ہو جانا یہ بھی ایک مسیح موعودؑ کے زمانہ کی نشا نی ہے تاکہ زمانہ کی حالت
بھی ایسی ہو کہ وہ مسیح موعود کی تائیدکرے جب خدا کسی بات کو چاہتا ہے کہ وہ ہوجاوے تو وہ تمام زمانہ کو اس کی طرف پھیر دیتا ہے پھر ہر طرف سے اس کی تائید ہی تائیدظاہر ہوتی ہے کیا زمین کیا آسمان گویا سب ہی اس کی خدمت میں لگ جاتے ہیں.اگر زمین کسی اور طرف رجوع کرے اور آسمان کسی اور طرف تو پھر حالت ٹھیک نہیں رہتی.اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ ہماری تائیدکرے اور چاہتا ہے کہ ہر قسم کے شرک، کفر اور بطلان کو ذلیل کر کر توحید کی سچائی کو دنیا میں قائم کرے.اسی لیے اس نے تمام زمانہ میں ایک عجیب تحریک پیدا کردی ہے اور ہر ایک طرف سے ہماری ہی تائید نظر آتی ہے مثلاً ایک ذراسی آگ تمام جہان کے جلا نے کے لیے کافی ہے.اسی طرح زمانہ میں یہ آگ لگ گئی ہے اور اب تو یہ ہوا چل رہی ہے کہ ان کے دلوں میں پھونک دیا گیا ہے کہ وہ ان تمام پرانے اور بے معنے بلکہ غیر معقول خیالا ت سے خود بخود بیزار ہو کر حقیقت اور راستی کے جویاں ہو جاویں.جیسے اب جرمن کے بادشاہ کے مذہب میں سخت انقلا ب ہوا ہے.یہی ایک کافی مثال ہے.جب سلاطین کے دل میں اللہ کریم نے ایسے ایسے خیالات ڈال دئیے ہیں تو رعیّت کا تو بہت ساحصہ ایسا بھی ہوتا ہے جو کہ بادشاہ کے مذہب کے ہوتے ہیں اور اپنے بادشاہ کے اشاروں پر چلتے ہیں.اللہ کی شان ہے کہ ایک زمانہ میں تو حضرت مسیح کی حد سے زیادہ اور مبالغہ سے بڑھ کرتعریف کی گئی تھی اور اب اس کا ردّ در و دیوار سے خود بخود عیاں ہوتا جاتا ہے.(مجلس قبل ازعشاء) حضرت ابوطالب کی نجات بعض لوگ جو کہ غیر مذاہب میں برائے نام ہوتے ہیں مگر خلوص دل سے وہ اسلام کے مداح ہوتے ہیں ان کے ذکر پر فرمایا کہ ابی طالب کی بھی ایسی ہی حالت تھی.خدا تعالیٰ کی یہ عادت نہیں ہے کہ ایک خبیث اور شریر کو ایک ادب اور لحاظ کرنے والے کے برا بر کر دیوے.اگر اس نے بظاہر تو مذہب قبول نہیں کیا مگر بزرگ سالی کی رعونت اس میں نہ تھی.احادیث میں بھی اس قدر تحقیقات کہیں نہیں ہوئی ہے ممکن ہے
کہ اس نے کبھی کلمہ پڑھ دیا ہو.بجز اعتقاد کے محبت نہیں ہوا کرتی.اول عظمت دل میں بیٹھتی ہے پھر محبت ہوتی ہے.سادہ خوراک ایک ذکر پر فرمایا کہ ایک سال سے زیادہ عرصہ گذرا ہے کہ میں نے گوشت کا منہ نہیں دیکھا ہے اکثر مسی روٹی (بیسنی )یا اچار اور دال کے ساتھ کھا لیتا ہوں آج بھی اچار کے ساتھ روٹی کھائی ہے.نسخ فرمایا کہ ایک سالک کی عمر میں نسخ ہوتا رہتا ہے.انبیاء کی زندگی میں بھی نسخ ہوتا ہے اسی لیے اول حالت آخر حالت کے ساتھ مطابق نہیں ہواکرتی.جسمانی حالتوں میں بھی نسخ دیکھا جاتا ہے.۱ ۲۹؍مارچ۱۹۰۳ء (مجلس قبل ازعشاء) عصمت انبیاء فرمایا.صلیب چونکہ جرائم پیشہ کے واسطے ہے.اس واسطے نبی کی شان سے بعیدہے کہ اسے بھی صلیب دی جاوے.اس لیے توریت میں لکھا تھا کہ جو کاٹھ پر لٹکایا جائے وہ ملعون ہے.آتشک وغیرہ جوخبیث امراض خبیث لوگوں کو ہوتے ہیں اس سے بھی انبیاء محفوظ رہتے ہیں.نفس قتل انبیاء کے لئے معیوب نہیں ہے مگر کسی نبی کا قتل ہونا ثابت نہیں ہے جس آلہ سے خبیث قتل ہو اس آلہ سے نبی قتل نہیں ہوتا.خوش خطی خوش خطی پر ذکر ہوا فرمایا کہ حسن تنا سب اعضا کا نام ہے جب تک یہ نہ ہوملا حت نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ نے اسی لیے اپنی صفت فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ(الانفطار:۸) فرمائی ہے عَدَلَکَ کے معنے تنا سب کے ہیں کہ نسبتی اعتدال ہرجگہ ملحو ظ رہے.۲ ۱ البدر جلد۲نمبر۱۲ مو رخہ ۱۰ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۸۹، ۹۰ ۲ البدر جلد۲نمبر۱۲ مو رخہ ۱۰ ؍اپریل ۱۹۰۳ءصفحہ۹۰ ،۹۱
۳۰؍ مارچ۱۹۰۳ء بعد ادائے نماز مغرب ایک صاحب نے کسی شخص غیر حاضر کی طرف سے مسئلہ دریافت کیا کہ اس نے غصّہ میں اپنی عورت کو طلاق دی ہے اور لکھ بھی دی ہے مگر ایک ہفتہ کے قریب گذرنے پروہ رجوع کرنا چاہتا ہے اس میں کیا ارشاد ہے؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ جب تک وہ شخص خودحاضر ہو کر بیان نہ کرے ہم نہیں فتویٰ دے سکتے.۱ صدقات اور دعا لوگ اس نعمت سے بے خبر ہیں کہ صدقات، دعا اور خیر ات سے ردبلا ہوتا ہے اگر یہ بات نہ ہوتی تو انسان زندہ ہی مَر جاتا.مصائب اور مشکلات کے وقت کوئی اُمید اس کے لیے تسلّی بخش نہ ہوتی مگر نہیں اسی نے لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ(اٰل عـمران:۱۰) فرمایا ہے لَا یُخْلِفُ الْوَ عِیْدَ نہیں فرمایا.اللہ تعالیٰ کے وعید معلّق ہوتے ہیں جو دعا اور صدقات سے بدل جاتے ہیں اس کی بے انتہا نظیریں موجود ہیں.اگرایسا نہ ہوتا توانسان کی فطرت میں مصیبت اور بَلا کے وقت دعا اور صدقات کی طرف رجوع کرنے کا جوش ہی نہ ہوتا.جس قدرراست باز اور نبی دنیا میں آئے ہیں خواہ وہ کسی ملک اور قوم میں آئے ہوں مگر یہ بات ان سب کی تعلیم میں یکساں ملتی ہے کہ انہوں نے صدقات اور خیرات کی تعلیم دی.اگر خدا تعالیٰ تقدیرکے محوو اثبات پر قادرنہیں تو پھر یہ ساری تعلیم فضول ٹھہر جاتی ہے اور پھر ماننا پڑےگا کہ دعا کچھ نہیں اور ایسا کہنا ایک عظیم الشان صداقت کا خون کرنا ہے.اسلام کی صداقت اور حقیقت دعاہی کے نکتہ کے نیچے مخفی ہے کیونکہ اگر دعا نہیں تو نماز بے فائدہ، زکوۃ بے سوداور اسی طرح سب اعمال معاذاللہ لغو ٹھہرتے ہیں.۱ البدر جلد۲نمبر۱۲ مو رخہ ۱۰ ؍اپریل ۱۹۰۳ءصفحہ۹۱
ہمارا بھروسا خدا پر ہے ہما رے مخالف ہر طرف سے کوشش کرتے ہیں کہ ہما رے نا بود کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں.ہرقسم کی تدبیر یں اور منصوبے کرتے ہیں مگر ان کو معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ پہلے ہی ہم کو تسلّی دے چکا ہے مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُ وَ اللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ(اٰل عـمران: ۵۵).خدا کے ساتھ لڑکر کبھی کوئی کامیاب نہیں ہوسکتا.ان کا بھروسا اپنی تدابیر اور حیل پر ہے اور ہمارا خدا پر.استقامت و صبر کوئی مشکل مشکل اور کوئی مصیبت مصیبت رہ سکتی ہی نہیں اگر کوئی شخص استقامت او رصبر اپنا شیوہ کرلے اور خدا تعالیٰ پرتوکّل اور بھروسا کرے.خدا داری چہ غم داری نشانات کا ظہور نشانات جو ظاہر ہوتے ہیں یہ اسی طرح ظاہر ہوتے ہیں جیسے ایک بچہ پیدا ہوتا ہے.ایک رات تک تو ماں خیال کرتی ہے کہ میں مَر جاؤں گی اور وہ دردِ زہ کی تکلیف سے قریب المرگ ہو جاتی ہے.اسی طرح پرنبیوں کے نشان بھی مصیبت کے وقت ظاہر ہوتے ہیں.نشان کی جڑدعا ہی ہوتی ہے یہ اسم اعظم ہے اور دنیا کاتختہ پلٹ سکتی ہے.دعا مومن کا ہتھیا رہے اور ضرور ہے کہ پہلے ابتہال اور اضطراب کی حالت پیدا ہو.۱ ۱ الحکم جلد ۷ نمبر۱۳ مورخہ ۱۰ ؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۳
ترجمہ فارسی عبارات مندرجہ ملفوظات جلد چہارم از صفحہ نمبر ترجمہ فارسی ۱ وہ سال جو اچھا ہے اس کی بہار سے ہی معلوم اور ظاہر ہوتا ہے.۳۹ میرا محبوب ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو عیش کے تارک ہوں.۵۷ انسان جو حد مشترک ہے وہ مسیحا بھی بن سکتا ہے اور گدھا بھی.۵۸ آئندہ سال کا حساب کون جانتا ہے جو دوست گذشتہ سال ہمارے ساتھ تھے وہ اب کدھر گئے.۷۶ اے محبوب ظاہر ہے کہ تیری بارگاہ بہت بلند ہے.۸۴ اس نے فضول خیال جمایا اور جھوٹی توقعی رکھی.۸۸ میں بار بار نباتات اور ہریاؤں کی شکل میں اگا ہوں میں سات سو ستر یعنی بےشمار سانچوں سے گزرا ہوں.۹۸ بارش جس کی پاکیزہ فطرت میں کوئی ناموافقت نہیں، وہ باغ میں تو پھول اگاتی ہے اور شورہ زمین میں گھانس پھونس.۱۰۱ بخدا دوزخ کے عذاب کے برابر ہے ہمسایہ کے بل بوتے پر بہشت میں جانا.۱۰۶ اگرچہ محبوب تک رسائی پانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو پھر بھی عشق کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی تلاش میں جان لڑا دی جائے.۱۰۹ وہ خدا جس سے اہل جہاں بے خبر ہیں اس نے مجھ پر اپنا جلوہ کیا ہے اگر وہ اہل ہے تو قبول کر.
ازصفحہ نمبر