Language: UR
ملفوظات سے مراد حضرت بانی جماعت احمدیہ، مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا وہ پاکیزہ اور پُرمعارف کلام ہے جو حضورؑ نے اپنی مقدس مجالس میں یا جلسہ سالانہ کے اجتماعات میں اپنے اصحاب کے تزکیہ نفس، ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت، خداتعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرنے اور قرآن کریم کے علم و حکمت کی تعلیم نیز احیاء دین اسلام اور قیام شریعت محمدیہ کے لیے وقتاً فوقتاً ارشاد فرمایا۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَعَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ۸؍ جنوری ۱۹۰۲ء ابتلا اور ھمّ وغم کا فائدہ حضرت اقدسؑ کی ایک تقریر جو ۸؍جنوری ۱۹۰۲ء بوقت سیر آپ نے فرمائی.فرمایا.اﷲ تعالیٰ چاہتا تو انسان کو ایک حالت میں رکھ سکتا تھا مگر بعض مصالح اور امور ایسے ہوتے ہیں کہ اس پر بعض عجیب وغریب اوقات اور حالتیں آتی رہتی ہیں.ان میں سے ایک ھمّ و غم کی بھی حالت ہے.ان اختلافِ حالات اور تغییر وتبدیل اوقات سے اﷲ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتیں اور اسرار ظاہر ہوتے ہیں.کیا اچھا کہا ہے ؎ اگر دنیا بیک دستور ماندے بسا اسرارہا مستور ماندے جن لوگوں کو کوئی ھمّ وغم دنیا میں نہیں پہنچتا اور جو بجائے خود اپنے آپ کو بڑے ہی خوش قسمت اور خوشحال سمجھتے ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کے بہت سے اسرار اور حقائق سے ناواقف اور ناآشنا رہتے ہیں.اس
کی ایسی ہی مثال ہے کہ مدرسوں میں سلسلہ تعلیم کے ساتھ یہ بھی لازمی رکھا گیا ہے کہ ایک خاص وقت تک لڑکے ورزش بھی کریں.اس ورزش اور قواعد وغیرہ سے جو سکھائی جاتی ہے سررشتہ تعلیم کے افسروں کا یہ منشا تو ہو نہیں سکتا کہ ان کو کسی لڑائی کے لیے طیار کیا جاتا ہے اور نہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ وقت ضائع کیا جاتا ہے اور لڑکوں کا وقت کھیل کود میں دیا جاتا ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اعضا جو حرکت کو چاہتے ہیں اگر ان کو بالکل بے کار چھوڑ دیا جائے تو پھر ان کی طاقتیں زائل اور ضائع ہو جاویں اور اس طرح پر اُس کو پورا کیا جاتا ہے.بظاہر ورزش کرنے سے اعضا کو تکلیف اور کسی قدر تکان اُن کی پرورش اور صحت کاموجب ثابت ہوتی ہے.اسی طرح پر ہماری فطرت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ تکلیف کو بھی چاہتی ہے تا کہ تکمیل ہو جاوے.اس لیے اﷲ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہی ہوتا ہے جو وہ انسان کو بعض اوقات ابتلائوں میں ڈال دیتا ہے.اس سے اس کی رضا بالقضا اور صبر کی قوتیں بڑھتی ہیں.جس شخص کو خدا پر یقین نہیں ہوتا ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ ذرا سی تکلیف کے پہنچنے پر گھبرا جاتے ہیں اور وہ خود کشی میں آرام دیکھتا ہے، مگر انسان کی تکمیل اور تربیت چاہتی ہے کہ اس پر اس قسم کے ابتلا آویں اور تاکہ اﷲ تعالیٰ پر اس کا یقین بڑھے.اﷲ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے لیکن جن کو تفرقہ اور ابتلا نہیں آتا ان کا حال دیکھوکہ کیسا ہوتا ہے.وہ بالکل دنیا اور اس کی خواہشوں میں منہمک ہو گئے ہیں اُن کا سر اوپر کی طرف نہیں اٹھتا.خدا تعالیٰ کا ان کو بھول کر بھی خیال نہیں آتا.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اعلیٰ درجہ کی خوبیوں کو ضائع کر دیا اور بجائے اس کے ادنیٰ درجہ کی باتیں حاصل کیں کیونکہ ایمان اور عرفان کی ترقی ان کے لیے وہ راحت اور اطمینان کے سامان پیدا کرتے جو کسی مال و دولت اور دنیا کی لذت میں نہیں ہیں.مگر افسوس کہ وہ ایک بچہ کی طرح آگ کے انگارہ پر خوش ہو جاتے ہیں اور اس کی سوزش اور نقصان رسانی سے آگاہ نہیں لیکن جن پر اﷲ تعالیٰ کافضل ہوتاہے اور جن کو ایمان اور یقین کی دولت سے مالا مال کرتا ہے ان پر ابتلا آتا ہے.جو کہتے ہیں کہ ہم پر کوئی ابتلا نہیں آیا وہ بدقسمت ہیں.وہ نازونعمت میں رہ کر بہائم کی زندگی بسر کرتے ہیں.ان کی زبان ہے مگر وہ حق بول نہیں سکتی.خدا کی حمد وثنا اس پر جاری نہیں ہوتی بلکہ وہ
صرف فسق وفجور کی باتیں کرنے کے لیے اور مزہ چکھنے کے واسطے ہے.ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ قدرت کا نظارہ نہیں دیکھ سکتیں بلکہ وہ بدکاری کے لیے ہیں.پھر ان کو خوشی اور راحت کہاں سے میسّر آتی ہے.یہ مت سمجھو کہ جس کو ھمّ وغم پہنچتا ہے وہ بدقسمت ہے.نہیں.خدا اس کو پیار کرتا ہے.جیسے مرہم لگانے سے پہلے چیرنا اور جراحی کا عمل ضروری ہے اسی طرح خدا کی راہ میں ھمّ و غم آنا ضروری ہے.غرض یہ انسانی فطرت میں ایک اَمر واقع شدہ ہے جس سے اﷲ تعالیٰ یہ ثابت کرتا ہے کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے اور اس میں کیا کیا بلائیں اور حوادث آتے ہیں.ابتلائوں میں ہی دعائوں کے عجیب وغریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعائوں ہی سے پہچانا جاتا ہے.مجیب اور بولنے والا خدا صرف اسلام پیش کرتا ہے دنیا میں جس قدر قومیں ہیں کسی قوم نے ایسا خدا نہیں مانا جو جواب دیتا ہو اور دعائوں کو سنتا ہو.کیا ایک ہندو ایک پتھر کے سامنے بیٹھ کر یا درخت کے آگے کھڑا ہو کر یا بیل کے رُوبرو ہاتھ جوڑ کر کہہ سکتا ہے کہ میرا خدا ایسا ہے کہ میں اس سے دعاکروں تو یہ مجھے جواب دیتاہے؟ ہر گز نہیں.کیاایک عیسائی کہہ سکتا ہے کہ میں نے یسوع کو خدا مانا ہے وہ میری دعا کو سنتا اور اس کا جواب دیتا ہے؟ ہرگز نہیں.بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلام کا خدا ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے.جس نے کہا اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : ۶۱) تم مجھے پکارو میں تم کو جواب دوں گا اور یہ بالکل سچی بات ہے.کوئی ہو جو ایک عرصہ تک سچی نیت اور صفائی قلب کے ساتھ اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہو وہ مجاہدہ کرے اور دعائوں میں لگا رہے.آخر اس کی دعائوں کا جواب اُسے ضرور دیا جاوے گا.قرآن شریف میں ایک مقام پر ان لوگوں کے لیے جو گو سالہ پرستی کرتے ہیں اور گو سالہ کو خدا بناتے ہیں آیا ہے اَلَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمْ قَوْلًا(طٰہٰ : ۹۰) کہ وہ اُن کی بات کا کوئی جواب اُن کو نہیں دیتا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو خدا بولتے نہیں ہیں وہ گوسالہ ہی ہیں.ہم نے عیسائیوں سے بار ہا
پوچھا ہے کہ اگر تمہارا خدا ایسا ہی ہے جو دعائوں کو سنتا ہے اور ان کے جواب دیتا ہے تو بتائو وہ کس سے بولتا ہے؟ تم جو یسوع کو خدا کہتے ہو پھر اس کو بلا کر دکھائو.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ سارے عیسائی اکٹھے ہو کر بھی یسوع کو پکاریں وہ یقیناً کوئی جواب نہ دے گا، کیونکہ وہ مَر گیا.عیسائیوں کو ملزم کرنے والا سوال عیسائیوں کو ملزم کرنے کے واسطے اس سے بڑھ کر کوئی تیز ہتھیار نہیں ہے.ان سے پہلا سوال یہی ہونا چاہیے کہ کیا وہ ناطق خدا ہے یا غیر ناطق؟اگر غیر ناطق ہے تو اس کا گونگا ہونا ہی اُس کے ابطال کی دلیل ہے.لیکن اگر وہ ناطق ہےتو پھر اس کو ہمارے مقابل پر بلا کر دکھائو اور اس سے وہ بولیاں بلوائو جن سے سمجھاجاتا ہے کہ وہ انسان کی مقدرت اور طاقت سے باہر ہیں یعنی عظیم الشان پیشگوئیاں اور آئندہ کی خبریں.مگر وہ پیشگوئیاں اس قسم کی ہی نہیں ہونی چاہئیں جو یسوع نے خود اپنی زندگی میں کی تھیں کہ مرغ بانگ دے گا یا لڑائیاں ہوں گی قحط پڑیں گے بلکہ ایسی پیشگوئیاں جن میں قیافہ اور فراست کو دخل نہ ہو بلکہ وہ انسانی طاقت اور فراست سے بالاتر ہوں.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ کوئی پادری یہ کہنے کی طاقت نہیں رکھ سکتا کہ خدائے قادر کے مقابلہ میں ایک عاجز اور ضعیف انسان یسوع کی اقتداری پیشگوئیاں پیش کر سکے.غرض یہ مسلمانوں کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان کا خدا دعائوں کا سننے والا ہے.دعاؤں کے نتائج میں تاخیر اورتو قّف کی وجہ کبھی ایسا اتفا ق ہوتا ہے کہ ایک طالب نہا یت رقّت اور درد کے ساتھ دعائیں کرتا ہے مگر وہ دیکھتا ہے کہ ان دعاؤں کے نتائج میں ایک تاخیر اور توقّف واقع ہوتا ہے.اس کا سِر کیا ہے؟ اس میںیہ نکتہ یاد رکھنے کے قا بل ہے کہ اوّل تو جس قد ر امور دنیا میں ہوتے ہیں ان میں ایک قسم کی تدریج پائی جاتی ہے.دیکھو! ایک بچہ کو انسان بننے کے لیے کس قدر مرحلے اور منازل طے کرنے پڑتے ہیں ایک بیج کا درخت بننے کے لیے کس قدر توقّف ہوتاہے.اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کے امور کا نفاذبھی تدریجاًہوتاہے.دوسرے اس توقّف میں یہ مصلحتِ الٰہی ہوتی ہے کہ
انسان اپنے عزم اور عقدہمت میں پختہ ہوجاوے اورمعرفت میں استحکام اور رُسوخ ہو.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر انسان اعلیٰ مراتب اور مدارج کو حاصل کرناچاہتا ہے اُسی قدر اس کو زیادہ محنت اور دقّت کی ضرورت ہوتی ہے.پس استقلال اور ہمت ایک ایسی عمدہ چیز ہے کہ اگر یہ نہ ہوتو انسان کامیابی کی منزلوں کو طے نہیں کر سکتا.اس لیے ضروری ہوتاہے کہ وہ پہلے مشکلات میں ڈالا جاوے.اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا(الم نشـرح:۷) اسی لیے فرمایا ہے.دنیا میں کوئی کامیابی او ر راحت ایسی نہیں ہے جس کے ابتدا اوراوّل میں کوئی رنج اور مشکل نہ ہو.ہمت کو نہ ہارنے والے مستقل مزاج فائدہ اُٹھالیتے ہیں اور کچے اور ناواقف راستہ میں ہی تھک کر رہ جاتے ہیں.پنجابی میں کسی نے کہا ہے.ایہو ہیگی کیمیا جے دن تھوڑے ہو پس جب خدا پر سچا ایمان ہو کہ وہ میری دعاؤں کوسننے والا ہے تو یہ ایمان مشکلات میں بھی ایک لذیذایمان ہو جاتاہے اور غم میں ایک اعلیٰ یاقوتی کاکام دیتاہے.ہموم وغموم کے وقت اگر انسان کو کوئی پناہ نہ ہو تو دل کمزور ہوتا جاتاہے او رآخر وہ مایوس ہوکر ہلاک ہو جاتا اور خود کشی کرنے پر آمادہ ہوتا بلکہ بہت سے ایسے بدقسمت یورپ کے ملکوں میں خصوصاًپائے جاتے ہیںجوذراسی نامُرادی پر گولی کھاکر مَر جاتے ہیں.ایسے لوگوں کاخود کشی کرنا خود اُن کے مذہب کی موت اورکمزوری کی دلیل ہے.اگر اُس میں کوئی قوت اور طاقت ہوتی تو اپنے ماننے والوں کو ایسی یاس اور نامُرادی کی حالت میں نہ چھوڑتا.لیکن اگر خدا تعالیٰ پر اُسے ایمان ہے او راس قادر کریم ہستی پر یقین رکھتاہے کہ وہ دعائیں سنتاہے تو اس کے دل میں ایک طاقت آتی ہے.حقیقت ِ دعا یہ دعائیں حقیقت میں بہت قابل قدر ہوتی ہیں اور دعاؤں والا آخر کار کامیاب ہو جاتا ہے ہاں یہ نادانی اور سُوءِ اَدب ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے ارادہ کے ساتھ لڑنا چاہے.مثلاًیہ دعاکرے کہ رات کے پہلے حصہ میں سورج نکل آوے اس قسم کی دعائیں گستاخی میں داخل ہوتی ہیں وہ شخص نقصان اُٹھاتاہے اور ناکام رہتاہے جو گھبر انے والااور
قبل از وقت چاہنے والاہو.مثلاً گر بیاہ کے دس دن بعد مرد و عورت یہ خواہش کریں کہ اب بچہ پیدا ہو جاوے تو یہ کیسی حماقت ہوگی، اس وقت تو اسقاط کے خون اور چھچھڑوں سے بھی بے نصیب رہے گی.اسی طرح جو سبزہ کو نمونہیں دیتاوہ دانہ پڑنے کی نوبت ہی نہیں آنے دیتا.میںنے ارادہ کیاہواہے کہ ایک بار اورشرح وبسط کے ساتھ دعا کے مضمون پر ایک رسالہ لکھوں.مسلمان دعاسے بالکل ناواقف ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ جن کو بد قسمتی سے ایسا موقع ملاکہ دعا کریں مگر انہوں نے صبر اور استقلال سے چونکہ کام نہ لیااس لیے نامُراد رہ کر سیّداحمدخانی مذہب اختیارکر لیا کہ دعاکوئی چیزنہیں.یہ دھوکااور غلطی اس لیے لگتی ہے کہ وہ لوگ حقیقت دعاسے ناواقف محض ہوتے ہیں اور اس کے اثر سے بے خبر اور اپنی خیالی امیدوں کوپورانہ ہوتے دیکھ کر کہہ اُٹھتے ہیں کہ دعاکوئی چیز نہیں ہے اور اس سے بر گشتہ ہو جاتے ہیں.دعا ربوبیت اورعبودیت کاایک کامل رشتہ ہے.اگر دعاؤں کا اثر نہ ہوتاتو پھر اس کاہونانہ ہونا برابر ہے.۱ قبولیتِ دعاہستی باری تعالیٰ کی زبردست دلیل ہے اللہ تعالیٰ کی شناخت کی یہ زبردست دلیل اور اُس کی ہستی پر بڑی بھاری شہادت ہے کہ محو و اثبات اُس کے ہاتھ میں ہے يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُ(الرّعد:۴۰) دیکھواجرام سماوی کتنے بڑے اور عظیم الشان نظر آتے ہیںاور ان کی عظمت کو دیکھ کر ہی بعض نادان اُن کی پرستش کی طرف جھک پڑے ہیں او رانہوں نے اُن میں صفات ِالٰہیہ کو مان لیا جیسے ہندویا اَور دوسرے بُت پرست یاآتش پرست وغیرہ جو سورج کی پوجاکرتے ہیں او راس کو اپنا معبود سمجھتے ہیں.کیا وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سورج اپنے اختیار سے چڑھتاہے یاچھپتاہے؟ ہرگز نہیں اور اگر وہ کہیں بھی تووہ اس کا کیاثبوت دے سکتے ہیں.وہ ذرا سورج کے سامنے یہ دعا تو کریں کہ ایک دن وہ نہ چڑھے یا دوپہر کو مثلاً چُھپ جاوے تاکہ معلوم ہو کہ وہ کوئی اختیار اور ارادہ بھی
رکھتاہے.اس کا ٹھیک وقت پر طلو ع اور غر وب تو صاف ظا ہر کرتا ہے کہ اس کااپناذاتی کوئی اختیار اور ارادہ نہیں ہے.ارادہ کامالک تب ہی معلوم ہوتا ہے کہ دعا قبول ہواور کرنے والے اَمر کو کرے اور نہ کرنے والے کو نہ کرے.غرض اگر قبولیت ِدعانہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر بہت سے شکوک پیدا ہو سکتے تھے اور ہوتے اور حقیقت میںجو لوگ قبولیت دعا کے قائل نہیں ہیں اُن کے پاس اللہ تعالیٰ کی ہستی کی کوئی دلیل ہی نہیں ہے.میرا تو یہ مذہب ہے کہ جو دعا اور اس کی قبولیت پر ایمان نہیں لاتا وہ جہنم میں جائے گا، وہ خداہی کاقائل نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی شناخت کا یہی طریق ہے کہ اس وقت تک دعا کرتارہے جب تک خدااس کے دل میں یقین نہ بھر دے او ر اَنَا الْحَقُّ کی آوازاس کو نہ آجاوے.قبولیت دعا کے لیے صبر شرط ہے اس میںشک نہیں کہ اس مرحلہ کو طے کرنے اور اس مقام تک پہنچنے کے لیے بہت سے مشکلات ہیں اور تکلیفیں ہیں مگر ان سب کا علاج صرف صبر سے ہوتاہے.حافظ نے کیا اچھاکہا ہے.شعر ؎ گویند سنگ لعل شود در مقام صبر آرے شود ولیک بخُونِ جگر شود یادرکھوکوئی آدمی کبھی دعا سے فیض نہیں اُٹھا سکتا جب تک وہ صبر میں حد نہ کر دے اور استقلال کے ساتھ دعاؤںمیں نہ لگارہے.اللہ تعالیٰ پرکبھی بد ظنی اور بد گمانی نہ کرے.اُس کو تمام قدرتوں اور ارادوں کامالک تصوّر کرے، یقین کرے پھر صبر کے ساتھ دعاؤں میں لگا رہے.وہ وقت آجائے گا کہ اللہ تعالیٰ اُس کی دعاؤں کو سُن لے گا ا و ر اسے جوا ب دے گا.جو لو گ اس نسخہ کو استعما ل کر تے ہیں وہ کبھی بد نصیب اور محروم نہیں ہو سکتے بلکہ یقیناً وہ اپنے مقصد میں کامیا ب ہو تے ہیں.خدا تعالیٰ کی قدرتیں اور طاقتیں بے شمار ہیں اس نے انسانی تکمیل کے لیے دیر تک صبر کا قا نو ن رکھا ہے پس اس کو وہ بدلتا نہیں اور جو چاہتا ہے کہ وہ اس قانو ن کو اس کے لیے بدل دے وہ گویا اللہ تعالیٰ کی جنا ب میں
گستاخی کرتا اور بے ادبی کی جرأت کرتا ہے.پھر یہ بھی یاد رکھنا چا ہیے کہ بعض لوگ بےصبری سے کام لیتے ہیں اور مدا ری کی طر ح چا ہتے ہیں کہ ایک دَم میں سب کام ہو جائیں میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی بےصبری کرے تو بھلا بے صبری سے خدا تعالیٰ کا کیا بگاڑے گا.اپنا ہی نقصان کرے گا.بے صبری کر کے دیکھ لے وہ کہاں جائے گا؟ میں ان باتوں کو کبھی نہیں مان سکتا اور درحقیقت یہ جھوٹے قصے اور فرضی کہانیاں ہیںکہ فلاں فقیر نے پھونک مار کر یہ بنا دیا اور وہ کر دیا.یہ اللہ تعالیٰ کی سنّت اور قرآن شریف کےخلاف ہے اس لیے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا.ہر اَمر کے فیصلہ کے لیے معیا ر قرآن ہے.دیکھو! حضرت یعقو ب علیہ السلا م کا پیا را بیٹا یوسف علیہ السلام جب بھا ئیوں کی شرارت سے ان سے الگ ہو گیا تو آپ چالیس برس تک اس کے لیے دعا ئیں کرتے رہے.اگر وہ جلد باز ہوتے تو کوئی نتیجہ پیدانہ ہوتا.چالیس برس تک دعاؤں میں لگے رہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان رکھا.آخر چالیس برس کے بعد وہ دعائیں کھینچ کر یوسف علیہ السلام کو لے ہی آئیں.اس عرصہ دراز میں بعض ملامت کرنے والوں نے یہ بھی کہا کہ تو یوسف کو بے فائدہ یاد کرتا ہے.مگر اُنہوں نے یہی کہاکہ میں خدا سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.بےشک ان کو کچھ خبر نہ تھی مگر یہ کہا اِنِّيْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ (یوسف:۹۵) پہلے تو اتنا ہی معلوم تھاکہ دعاؤں کا سلسلہ لمباہوگیا ہے اللہ تعالیٰ نے اگر دعاؤں میں محروم رکھناہوتا تو وہ جلد جواب دے دیتا مگر اس سلسلہ کا لمبا ہونا قبولیت کی دلیل ہے کیونکہ کریم سائل کو دیر تک بٹھاکر کبھی محروم نہیں کرتا بلکہ بخیل سے بخیل بھی ایسا نہیں کرتا، وہ بھی سائل کو اگر زیادہ دیر تک دروازہ پر بٹھائے تو آخر اس کو کچھ نہ کچھ دے ہی دیتاہے.حضرت یعقوب علیہ السلام کے دعاؤں کے زمانہ کی درازی پر وَابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ (یوسف: ۸۵) قرآن میں خود دلالت کر رہی ہیں.غرض دعاؤں کے سلسلہ کے دراز ہونے سے کبھی گھبرانا نہیں چاہیے.اللہ تعالیٰ ہر نبی کی تکمیل بھی جدا جدا پیرایوں میں کرتاہے حضرت یعقوبؑکی تکمیل اللہ تعالیٰ نے
سی غم میں رکھی تھی.مختصر یہ کہ دعا کایہ اُصول ہے جو اس کو نہیں جانتاوہ خطرناک حالت میں پڑتا ہے اور جو اس اُصول کو سمجھ لیتا ہے اس کا انجام اچھااور مبارک ہوتاہے.متقی کے لیے مصائب ترقی کا باعث ہوتے ہیں اور جو لوگ حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ جب ان کو پکڑتا بھی ہے تو پھر جان لینے ہی کے لیے پکڑتا ہے.مگر مومن کے حق میں اس کی یہ عادت نہیں ہے.اُن کی تکالیف کا انجام اچھاہوتاہے اور انجام کار متقی کے لیے ہی ہے جیسے فرمایا وَالْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِيْنَ(الزّخرف: ۳۶) اُن کو جو تکالیف اور مصائب آتے ہیں وہ بھی ان کی ترقیوں کا باعث بنتے ہیں تاکہ ان کو تجربہ ہوجاوے اللہ تعالیٰ پھر ان کے دن پھیر دیتا ہے اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس شخص کے شکنجہ کے دن آتے ہیں اس پر بہائمی زندگی کا اثر نہیںرہتا اس پر ایک موت ضرور آجاتی ہے اور خدا شناسی کے بعد وہ لذتیںاو رذوق جو بہائمی سیرت میں معلوم ہوتے تھے نہیں رہتے بلکہ ان میں تلخی اور کدورت و کراہت پیدا ہوتی ہے اور نیکیوں کی طرف توجہ کرنا ایک معمولی عادت ہو جاتی ہے پہلے جو نیکیوں کے کرنے میں طبیعت پر گرانی اور سختی ہوتی تھی وہ نہیں رہتی.پس یاد رکھو کہ جب تک نفسانی جوشوں سے ملی ہوئی مُرادیں ہوتی ہیں اس وقت تک خدا ان کو مصلحتاً الگ رکھتاہے اور جب رجوع کرتاہے تو پھر وہ حالت نہیں رہتی.اس بات کو کبھی مت بھولو کہ دنیا روزے چند آخر کار با خدا وند.اتنا ہی کام نہیں کہ کھا پی لیا اور بہائم کی طرح زندگی بسر کر لی.انسان بہت بڑی ذمہ داریاں لے کر آتا ہے.اس لیے آخرت کی فکر کرنی چاہیے اور اس کی تیاری ضروری ہے.اس تیاری میں جو تکالیف آتی ہیں وہ رنج اور تکلیف کے رنگ میں نہ سمجھو بلکہ اللہ تعالیٰ ان پر بھیجتا ہے جن کو دونوں بہشتوں کامزہ چکھانا چاہتا ہے وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ(الرّحـمٰن:۴۷).مصائب آتے ہیں تاکہ ان عارضی اُمور کو جو تکلّف کے رنگ میں ہوتے ہیں نکال دے.
مولوی رومیؒ نے کیا اچھا کہا ہے.؎ عشق اوّل سرکش و خُونی بود تا گریزد ہر کہ بیرونی بود سید عبدالقادر جیلانیؓ بھی ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ جب مومن، مومن بنناچاہتاہے تو ضرور ہے کہ اس پردکھ اور ابتلا آویں اور وہ یہاں تک آتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کوقریب موت سمجھتاہے اور پھر جب اس حالت تک پہنچ جاتاہے تو رحمت الٰہیہ کاجو ش ہوتاہے تو قُلْنَا يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا(الانبیآء:۷۰) کا حکم ہوتا ہے.اصل اور آخری بات یہی ہے.مگر نہ شنیدہ کہ ع خدا داری چہ غم داری ۱ آیاتِ مُبین میرے نزدیک آیات مبین وہ ہوتی ہیں مخالف جس کے مقابلہ سے عاجز ہو جاوے خواہ وہ کچھ ہی ہو.جس کا مخالف مقابلہ نہ کر سکے وہ اعجا ز ٹھہر جا ئے گاجبکہ اس کی تحدی کی گئی ہو.یاد رکھنا چاہیے کہ اقتراح کے نشانوں کو اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے.نبی کبھی جرأت کر کے یہ نہیں کہے گا کہ تم جو نشا ن مجھ سے مانگومیں وہی دکھا نے کو تیار ہوں.اس کے منہ سے جب نکلے گا یہی نکلے گا اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ (العنکبوت:۵۱) اور یہی اس کی صداقت کا نشا ن ہوتا ہے.کم نصیب مخالف اس قسم کی آیتوں سے یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ معجزات سے انکار کیا گیا ہے مگر وہ آنکھوں کے اندھے ہیں ان کو معجزات کی حقیقت ہی معلوم نہیں ہو تی اس لیے وہ ایسے اعترا ض کرتے ہیں اور نہ ذاتِ باری کی عزّت اور جبروت کا ادب ان کے دل پر ہوتا ہے.ہمارا خدا تعالیٰ پر کیا حق ہے کہ ہم جو کہیںوہ وہی کر دے یہ سوئِ ادب ہے اور ایسا خدا خداہی نہیں ہو سکتا.ہاں یہ اس کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو امید اور حو صلہ دلایا کہ اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤ من: ۶۱)
یہ نہیں کہا کہ تم جو مانگو گے وہی دیا جاوے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بعض اقتراحی نشانات مانگے گئے تو آپ نے یہی خدا کی تعلیم سے جواب دیا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا( بنیٓ اسـرآءیل:۹۴) خدا کے رسو ل کبھی اپنی بشریت کی حد سے نہیں بڑھتے اور وہ آدابِ الٰہی کو مدِّ نظر رکھتے ہیں.یہ باتیں منحصر ہیں معرفت پر.جس قدر معرفت بڑھی ہو ئی ہو تی ہے اسی قدر خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت دل پر مستولی ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر معرفت انبیاء علیہم السلام ہی کی ہوتی ہے.اس لیے ان کی ہر بات اور ہر ادا میںبشریت کا رنگ جدا نظرآتا ہے اور تائید اتِ الٰہیہ الگ نظر آتی ہیں.ہما را ایمان ہے کہ خدا تعالیٰ نشا ن دکھاتا ہے جب چاہتا ہے، وہ دنیا کو قیامت بنانا نہیں چاہتا اگر وہ ایسا کھلا ہوا ہو کہ جیسے سو رج تو پھر ایمان کیا رہا اور اس کا ثوا ب کیا؟ ایسی صورت میں کو ن بدبخت ہوگا جو انکا ر کرے گا.نشا ن بیّن ہوتے ہیں مگر ان کو باریک بین دیکھ سکتے ہیں اور کو ئی نہیں.اور یہ دِقّت ِنظر اور معرفت سعادت کی وجہ سے عطا ہوتی ہے اور تقویٰ سے ملتی ہے شقی اور فاسق اس کو نہیں دیکھ سکتا.ایمان اس وقت تک ایمان ہے جب تک اس میں کوئی پہلو اخفاکا بھی ہو لیکن جب بالکل پردہ بر انداز ہو تو وہ ایمان نہیں رہتا.اگر مٹھی بند ہو اور کوئی بتاوے کہ اس میں یہ ہے تو اس کی فراست قابلِ تعریف ہو سکتی ہے لیکن جب مٹھی کھو ل کر دکھا دی اور پھر کسی نے کہا کہ میں بتا دیتا ہوں تو کیا ہوا.یا پہلی رات کا چاند اگر کوئی دیکھ کر بتائے تو البتہ اسے تیز نظر کہیں گے لیکن جب چودہویں کا چا ند ہوگیا اس وقت کوئی کہے کہ میں نے چاند دیکھ لیا وہ چڑھا ہوا ہے تو لوگ اس کو پاگل کہیں گے.غر ض معجزات وہی ہوتے ہیں جس کی نظیر لانے پر دوسرے عاجز ہوں.انسان کا یہ کام نہیں کہ وہ ان کی حد بند کرے کہ ایسا ہونا چاہیے یا ویسا ہونا چاہیے.اس میں ضرور ہے کہ بعض پہلو اخفا کے ہوں کیو نکہ نشانات کے ظاہر کرنے سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ایمان بڑھے اور اس میں ایک عرفانی رنگ پیدا ہو جس میں ذوق ملا ہوا ہو.لیکن جب ایسی کھلی باتیں ہوں گی تو اس میں ایمانی رنگ ہی نہیں آسکتا چہ جائیکہ عرفانی اور ذوقی رنگ ہو.پس اقتراحی نشانات سے اس لیے منع کیا جاتا ہے اور روکا جاتا ہے کہ اس میں پہلی رگ سوءِ ادبی کی پیدا ہو جاتی ہے جو ایما ن کی جڑ کاٹ ڈا لتی ہے.
۹؍جنوری ۱۹۰۲ء (بوقتِ سیر) ایک پرانا الہام ابتدائے جنوری ۱۹۰۲ء کو ایک عرب صا حب آئے ہوئے تھے.بعض لوگ ان کے متعلق مختلف رائیں رکھتے تھے.حضرت اقدس امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ۹؍جنوری کی شب کو اس کے متعلق الہا م ہوا قَدْ جَرَتْ عَادَۃُ اللہِ اَنَّہٗ لَا یَنْفَعُ الْاَمْوَاتَ اِلَّا الدُّعَاءُ اس وقت رات کے تین بجے ہوں گے.حضرت اقدس فرما تے ہیں کہ اس وقت پر میں نے دعا کی تو یہ الہام ہوا فَکَلِّمْہُ مِنْ کُلِّ بَابٍ وَّلَنْ یَّنْفَعَہٗ اِلَّا ھٰذَا الدَّوَاءُ (اَیِ الدُّعَاءُ) اور پھر ایک اور الہا م اسی عرب کے متعلق ہواکہ فَیَتَّبِعُ الْقُرْآنَ.اِنَّ الْقُرْآنَ کِتَا بُ اللہِ کِتَابُ الصَّادِقِ.چنانچہ ۹ ؍ جنوری ۱۹۰۲ء کی صبح کو جب آپؑسیر کو نکلے توحضرت اقدس ؑنے عربی زبان میں ایک تقریر فرمائی.جس میں سلسلہ محمدیہ اور موسویہ کی مشابہت کو بتایا اور پھر سورہ ٔنور کی آیتِ استخلاف اور سورۂ تحریم سے اپنے دعاوی پر دلائل پیش کیے اور قرآن شریف اور احادیث کے مراتب بتائے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عرب صاحب جو پہلے بڑے جوش سے بو لتے تھے بالکل صاف ہو گئے اور انہوں نے صدقِ دل سے بیعت کی اور ایک اشتہار بھی شائع کیا اور بڑے جوش کے ساتھ ا پنے ملک کی طرف بغرض تبلیغ چلے گئے.چونکہ یہ خدا تعالیٰ کا کلا م تھا ہم نے اس کی عزّت وعظمت کے لحاظ سے ضروری سمجھا کہ گو پرانا الہام ہے لیکن چونکہ آج تک یہ سلسلہ اشاعت میں نہیں آیا اس کو شا ئع کردیا جاوے.نشانات کس سے صادر ہوتے ہیں؟ اس سوال کا جواب حضرت حجۃاللہ علیہ السلام نے ایک بار اپنی ایک مختصر سی تقریر میں دیاہے.
فرمایا.نشانات کس سے صادر ہوتے ہیں.جس کے اعمال بجائے خود خوارق کے درجہ تک پہنچ جائیں.مثلاً ایک شخص خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرتاہے وہ ایسی وفاداری کرے کہ اُس کی وفا خارقِ عادت ہوجاوے.اُس کی محبت اُس کی عبادت خارقِ عادت ہو.ہر شخص ایثار کرسکتاہے اور کرتابھی ہے لیکن اس کا ایثار خارقِ عادت ہو.غرض اس کے اخلاق، عبادات اور سب تعلقات جو خدا تعالیٰ کے ساتھ رکھتاہے اپنے اندر ایک خارق عادت نمونہ پیداکریں.تو چونکہ خارقِ عادت کا جواب خارقِ عادت ہوتاہے اس لیے اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر نشانات ظاہر کرنے لگتاہے.پس جو چاہتا ہے کہ اس سے نشانات کاصدور ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے اعمال کو اس درجہ تک پہنچائے کہ ان میں خارقِ عادت نتائج کے جذب کی قوت پیدا ہونے لگے.انبیاء علیہم السلام میں یہی ایک نرالی بات ہوتی ہے کہ ان کا تعلق اندرونی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایساشدید ہوتاہے کہ کسی دوسرے کاہرگز نہیں ہوتا.ان کی عبودیت ایسا رشتہ دکھاتی ہے کہ کسی اور کی عبودیت نہیں دکھاسکتی.پس اس کے مقابلہ میں ربوبیت اپنی تجلّی اور اظہار بھی اسی حیثیت اور رنگ کاکرتی ہے.عبودیت کی مثال عورت کی سی ہوتی ہے کہ جیسے وہ حیا و شرم کے ساتھ رہتی ہے اور جب مرد بیاہنے جاتاہے تو وہ علانیہ جاتاہے.اسی طرح پرعبودیت پردۂ خفا میں ہوتی ہے لیکن اُلوہیت جب اپنی تجلّی کرتی ہے تو پھر وہ ایک بیّن اَمر ہو جاتا ہے.اور ان تعلقات کاجو ایک سچے مومن اور عبد اور اس کے ربّ میں ہوتے ہیں خارقِ عادت نشانات کے ذریعہ ظہور ہوتاہے.انبیاء علیہم السلام کے معجزات کا یہی راز ہے اور چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلقات اللہ تعالیٰ کے ساتھ کُل انبیا ء علیہم السلام سے بڑھے ہوئے تھے اس لیے آپ کے معجزات بھی سب سے بڑھے ہوئے ہیں.۱ ۱۵؍جنوری ۱۹۰۲ء (شب)
طاعون اور لوگوں کی حالت طاعون کی خبریں سن کر فرمایا.یہ خدا کی طرف سے کس قدر تنبیہ ہے اگر اب بھی دل بیدار نہ ہوں اور اب بھی خدا سے صلح کا عہد باندھنے کے لیے مستعد نہ ہوں تو کیسی بد قسمتی ہے.افسو س ہے کہ لوگ اب بھی خدا تعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتے اور فسق و فجور اور شوخیوں سے با زنہیں آتے.اگر کسی کی اولاد اور عزیزوں پر آفت آجاوے تو ساری باتیں رہ جائیں پھر کس شیخی اور بھروسہ پر انسان خدا سے اس قدر سر کشی کرتاہے؟ وہ اُس کی حکومت سے کہیں بھاگ کر نہیں جاسکتا.جب یہ حال ہے توسب سے بہتر اور محفوظ طریق عذاب ِالٰہی سے بچنے کا توخود اُس کی ہی پناہ میں آناہے.وہ احمق ہے جو خدا کے حدود کو توڑ کر نکلتاہے اس لیے کہ امان پاوے.وہ مصیبت کو بلاتاہے اور عذاب کو جذب کرتاہے.اب وقت ہے کہ مسلمان اپنے ایمان اور توبہ کی تجدید کریں.یہ وقت آیا ہے کہ خدا اپنا وجود دکھانا چاہتا ہے اور اپنی ہستی کو منوانا چاہتا ہے.ایمان باللہ کے تین ذرائع اللہ تعالیٰ پرایمان لانے اور اس کو مستحکم اور مضبوط کرنے کی تین صورتیں ہیں اور خدا تعالیٰ نے وہ تینوں ہی سُورۃ فاتحہ میں میں بیان کردی ہیں.اوّل.اللہ تعالیٰ نے اپنے حُسن کو دکھایا ہے جب کہ جمیع محامد کے ساتھ اپنے آپ کو متّصف کیاہے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ خوبی بجائے خود دل کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے.خوبی میں ایک مقناطیسی جذب ہے جو دلوں کو کھینچتی ہے جیسے موتی کی آب، گھوڑے کی خوبصورتی، لباس کی چمک دمک، غرض یہ حُسن پھولوں، پتوں، پتھروں، حیوانات، نباتات، جمادات کسی چیز میں ہو اس کا خاصہ ہے کہ بے اختیار دل کو کھینچتاہے.پس خدا تعالیٰ نے پہلا مرحلہ اپنی خدائی منوانے کا حُسن کا رکھاہے جب اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فرمایا کہ جمیع اقسام حمدوستائش اسی کے لیے سزاوار ہیں.پھر دوسرا درجہ احسان کا ہوتاہے انسان جیسے حُسن پرمائل ہوتاہے ویسے ہی احسان پر بھی مائل ہوتا ہے اس لیے پھراللہ تعالیٰ نے رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.الرَّحْمٰنِ.الرَّحِيْمِ.مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ صفات کو
یہاں تو شورِعظیم میری مخالفت میںبرپا کیاگیا او ر گندی گالیاں دی گئیں جن کی نظیر پہلے مخالفوں میں بھی پائی نہیں جاتی.حجج الکرامہ میں نواب صدیق حسن خان نے لکھا ہے کہ آیا ت پوری ہوگئی ہیں اور پھر اپنی اولاد کو سلام کی وصیت کرتاہے.مگر میں کہتا ہوں کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو خود بھی ان مخالفت کرنے والوں ہی کے ہمراہ ہوتے.یہ لوگ کب ماننے والے ہوتے ہیں جب تک وہی نظارہ آنکھوں سے نہ دیکھ لیں جو خیالی طور پر دل میں فرض کر رکھا ہے.یہ لوگ جو کچھ ان سے بَن پڑتا ہے میری مخالفت میں کریں مجھے ذرا بھی پروا نہیں کیونکہ یہ میرامقابلہ نہیں یہ تو خدا سے مقابلہ کیا جاتا ہے.اگر میری اپنی مرضی پر ہوتا تو میں تخلیہ کو بہت پسند کرتا تھا مگر میں کیا کر سکتا تھا جب کہ خدا تعالیٰ نے ہی ایسا پسند کیا.یہ مقابلہ کریں مگر دیکھ لیں گے کہ خدا کے ساتھ کو ئی جنگ نہیں کرسکتا.وہ ایک طُرفۃ العین میں سالہاسال کی کارروائی کو ملیا میٹ کر دیتا ہے.اس لیے ہمیں خوشی ہے اور ان کی مخالفت سے ذرا بھی رنج نہیں ہوتا کیونکہ ہمارا خدا ایسا خدا ہے جو سار ی خوبیوں سے متّصف ہے جیسا کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ میں ہم کوپہلے ہی بتایا گیا ہے.پھر خداداری چہ غم داری ہمیں ان کی مخالفت کا کیا فکر؟ ہم کیوں بے حوصلہ ہوں؟ کیا معلوم ہے کہ اُس نے اس مخالفت کے طوفان کے انجام میں کیا مقدر رکھاہے؟ یہ جو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ(ابراہیم :۱۶) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انبیاء او ر رُسل آتے ہیں وہ ایک وقت تک صبر کرتے ہیں اور مخالفوں کی مخالفت جب انتہا تک پہنچ جاتی ہے تو ایک وقت توجہ تام سے اقبال علی اللہ کر کے فیصلہ چاہتے ہیں اور پھر نتیجہ یہ ہوتاہے وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ.اِسْتَفْتَحُوْا سنّت اللہ کو بیا ن کرتاہے کہ وہ اس وقت فیصلہ چاہتے ہیں اور اس فیصلہ چاہنے کی خواہش ان میں پیدا ہی ا س وقت ہوتی ہے جب گویا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے پس ہم اپنے مخالفوں کی مخالفت کی کیا پروا کریں یہ مخالف نوبت بہ نوبت اپنے فرضِ منصبی کو سر انجام دیتے ہیں.ابتدا ان کی ہوتی ہے اور انجام متقیوں کا وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ (الاعراف : ۱۲۹ ) ۱
عصمت اور شفاعت (ایڈیٹرکے اپنے الفاظ میں ) تعجب ہے کہ عیسائی لوگ شفاعت کے لیے عصمت کامطالبہ کیوں کرتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں نری عصمت شفاعت کاموجب نہیں ہو سکتی بلکہ شفاعت تب ہو سکتی ہے جب کہ شفیع معصوم ہو اور پھر وہ اِبن اللہ ہو اور پھر صلیب پر لٹکایا جاکر ملعون ہو.جب تک یہ تثلیث عیسائی مذہب کے عقیدہ کے موافق قائم نہ ہو شفیع نہیں ہوسکتا.پھر وہ عصمت عصمت ہی کیوں پکارتے ہیں.کیا اگر کوئی معصوم اُن کے سامنے پیش کیا جاوے یا ثابت کردیا جاوے تو وہ مان لیں گے کہ وہ شفیع ہے؟ ہرگز نہیں.بلکہ عیسائی عقیدہ کے موافق یہ ضروری ہے کہ وہ خدا بھی نہ ہو بلکہ ابن اللہ ہو اور وہ مصلوب ہو کر جب تک ملعون نہ ہولے ہرگز ہرگز وہ شفیع نہیں ہو سکتا.پھر ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ جبکہ یسوع خود خدا تھا اور اس لیے وہ علّت الْعِلَل تھا اور اس نے کل جہان کے گناہ بھی اپنے ذمے لئے پھر وہ معصوم کیوں کر ہوا.اَور گناہوں کا تذکرہ ہم چھوڑتے ہیں جو یہودی مؤرخوں اور فری تھنکروں (آزاد خیال )نے ان کی انجیل سے ثابت کیے ہیں لیکن جب اس نے خو دگناہ اُٹھالیے اور بوجہ عِلَّتُ الْعِلَل ہونے کے سارے گناہوں کا کرانے والا وہی ٹھہرا تو پھر اسے معصوم قرار دینا عجیب دانش مندی ہے.پھر خدا کا نام معصوم نہیں کیونکہ معصوم وہ ہے جس کا کوئی دوسرا عاصم ہو.خدا کا نام عاصم ہے.اس لیے جب شفاعت کے لیے ابنیت کی ضرورت ہے اور اُس کے لیے بھی مصلوبیت کی لعنت ضروری ہے تو یہ سارا تانابانا ہی بنائے فاسد بر فاسد کامصداق ہے.حقیقی اور سچی بات یہ ہے جو میں نے پہلے بھی بیان کی تھی کہ شفیع کے لیے ضروری ہے کہ اوّل خدا تعالیٰ سے تعلق کامل ہو تاکہ وہ خدا سے فیض کو حاصل کرے اور پھر مخلوق سے شدید تعلق ہو تاکہ وہ فیض اور خیر جو وہ خدا سے حاصل کرتاہے مخلوق کو پہنچاوے.جب تک یہ دونوں تعلق شدید نہ ہوں شفیع نہیں ہوسکتا.پھر اسی مسئلہ پر تیسری بحث قابلِ غور یہ ہے کہ جب تک نمونے نہ دیکھے جائیں کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا اور ساری بحثیں فرضی ہیں.مسیح کے نمونہ کودیکھ لو کہ چند حواریوں کو بھی درست نہ کر سکے.ہمیشہ اُن کو سُست اعتقاد کہتے رہے بلکہ بعض کو شیطان بھی کہا اور انجیل
کی رُو سے کوئی نمونہ کامل ہونا ثابت نہیں ہوتا.بالمقابل ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل نمونہ ہیں کہ کیسے روحانی اور جسمانی طور پر انہوں نے عذاب الیم سے چھڑایااورگناہ کی زندگی سے اُن کو نکالا کہ عالَم ہی پلٹ دیا.ایسا ہی حضرت موسیٰ کی شفاعت سے بھی فائدہ پہنچا.عیسائی جو مسیح کو مثیلِ موسیٰ قرار دیتے ہیں تو یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ موسیٰ کی طرح انہوں نے گناہ سے قوم کو بچایا ہو.بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح کے بعد قوم کی حالت بہت ہی بگڑ گئی اور اب بھی اگر کسی کو شک ہو تولنڈن یا یورپ کے دوسرے شہروں میں جا کردیکھ لے کہ آیا گناہ سے چھڑادیا ہے یا پھنسادیا ہے اور یوں کہنے کو تو ایک چوہڑا بھی کہہ سکتا ہے کہ بالمیک نے چھوڑایا مگر یہ نرے دعوے ہی دعوے ہیں جن کے ساتھ کوئی واضح ثبوت نہیں ہے.پس عیسائیوں کایہ کہنا کہ مسیح چھوڑانے کے لیے آیا تھا.ایک خیا لی بات ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے بعد قوم کی حالت بہت بگڑگئی اور روحانیت سے بالکل دور جاپڑی.ہاں سچا شفیع اور کامل شفیع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے قوم کو بُت پرستی اورہر قسم کے فسق و فجور کی گندگیوں اور ناپاکیوںسے نکال کر اعلیٰ درجہ کی قوم بنادیا اور پھر اس کاثبوت یہ ہے کہ ہر زمانہ میں آپؐکی پاکیزگی اور صداقت کے ثبوت کے لیے اللہ تعالیٰ نمونہ بھیج دیتاہے اس کے بعد استغفار کامسئلہ بھی قابل غور ہے.عیسائیوں نے اپنی جہالت اور نادانی سے اس پاک اصول پر بھی نکتہ چینی کی ہے حالانکہ یہ انسان کی طبعی منزلوں میں سے ایک منزل ہے.جاننا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے قرآن شریف نے دو نام پیش کیے ہیں اَلْـحَیُّ اور اَلْقَیُّوْمُ.اَلْـحَیُّ کے معنے ہیںخود زندہ اور دوسروں کو زندگی عطاکرنے والا.اَلْقَیُّومُ خود قائم اور دوسروں کے قیام کااصلی باعث.ہر ایک چیز کا ظاہری باطنی قیام اور زندگی انہیں دونوں صفات کے طفیل سے ہے.پس حیّ کا لفظ چاہتا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے جیسا کہ اس کامظہر سورۃ فاتحہ میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ ہے اور اَلْقَیُّوْمُچاہتا ہے کہ اس سے سہار اطلب کیاجاوے اس کو اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کے لفظ سے ادا کیا گیا ہے.حیّ کا لفظ عبادت کو اس لیے چاہتا ہے کہ اس نے پیدا کیا اور پھر پید اکر کے چھوڑ نہیں دیا.جیسے
مثلاً معمار جس نے عمارت کو بنایا ہے اُس کے مَر جانے سے عمارت کا کوئی حرج نہیں ہے، مگر انسان کو خدا کی ضرورت ہر حال میں لاحق رہتی ہے.اس لیے ضروری ہواکہ خدا سے طاقت طلب کرتے رہیںاور یہی استغفار ہے.اصل حقیقت تو استغفار کی یہ ہے.پھر اس کو وسیع کر کے اُن لوگوں کے لیے کیاگیا کہ جو گناہ کرتے ہیں کہ اُن کے بُرے نتائج سے محفو ظ رکھا جاوے، لیکن اصل یہ ہے کہ انسانی کمزوریوں سے بچایا جاوے.پس جو شخص انسان ہو کر استغفار کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ بے ادب اور دہریّہ ہے.۱ مخالفانہ تحریروں کا جواب مخالف جو گالیاں دیتے ہیں اور گندے اور ناپاک اشتہار شائع کرتے ہیں.ہم کو اُن کا جواب گالیوںسے کبھی دینا نہیں چاہیے.ہم کو سخت زبانی کی ضرورت نہیں کیونکہ سخت زبانی سے برکت جاتی رہتی ہے اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ اپنی برکت کو کم کریں.اُن کو تو مخاطب کرنے کی بھی ضرورت نہیں.یہ لوگ بجائے خود واجب الرحم ہیں.ہاں فضول باتوں کو نکال کر اگر کسی معقول اعتراض کا جواب عوام کو دھوکا سے بچانے کے لیے دیا جاوے تو نامناسب نہیں.اگر ہم ان کے مقابل پر سخت زبانی کا استعمال کریں تو یہ تو اپنے مرتبہ کا بھی تذلّل ہے.اگر کبھی کوئی سخت لفظ استعمال کیا گیا ہے تو وہ حق کی لازمی مرارت ہے جو دوا کے طور پر ہے جس کی نظیر انجیل اور نبیوں کے کلام میں پائی جاتی ہے.رِیس اور تقلید کرنا انبیاء کا کام نہیں.نام تو وہی ہوتا ہے جو آسمان پر رکھا جاتا ہے.کسی کے ظالم، کافر کہنے سے کیا بنتا ہے.زمینی ناموںکا آخر خاتمہ ہو جاتا ہے اور آسمانی نام ہی رہ جاتے ہیں.پس دنیا کے کیڑوں کے ناموں کی کیا پروا؟اُس نام کی قدر کرو جو آسمان پر نیک لکھاجاوے.مسیح کا دو زرد چادروں میں نزول زرد چادروں سے مُراد اگر یہی ہو جوہمارے مخالف بیان کرتے ہیں توپھر عام ہندو جوگیوں اور مسیح میں مابہ الامتیاز کیا ہوگا.اصل میں خدا کی چادر اپنے الگ معنے رکھتی ہے اور وہ وہی ہیں جو خدا تعالیٰ نے مجھ
پر کھولے ہوئے ہیں کہ دو زرد چادروں سے مُراد دو بیماریاں ہیں جو مجھے لاحقِ حال ہیں.آداب ِتبلیغ دنیا میں تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں عوام، متوسط درجے کے، اُمراء.عوام عموماً کم فہم ہوتے ہیں.اُن کی سمجھ موٹی ہوتی ہے.اس لیے اُن کو سمجھانا بہت ہی مشکل ہوتاہے.اُمراء کے لیے سمجھانا بھی مشکل ہوتاہے کیونکہ وہ نازک مزاج ہوتے ہیں اور جلد گھبرا جاتے ہیں اور اُن کا تکبّر اور تعلّی اور بھی سدِّ راہ ہوتی ہے.اس لیے اُن کے ساتھ گفتگوکرنے والے کو چاہیے کہ وہ اُن کے طرز کے موافق اُن سے کلام کرے یعنی مختصر مگر پورے مطلب کو ادا کرنے والی تقریر ہو قَلَّ وَ دَ لَّ.مگر عوام کو تبلیغ کرنے کے لیے تقریر بہت ہی صاف اور عام فہم ہونی چاہیے.رہے اوسط درجہ کے لوگ زیادہ تر یہ گروہ اس قابل ہوتاہے کہ ان کو تبلیغ کی جاوے.وہ بات کو سمجھ سکتے ہیں اور اُن کے مزاج میں وہ تعلّی اور تکبّر اور نزاکت بھی نہیں ہوتی جو اُمراء کے مزاج میں ہوتی ہے اس لیے ان کوسمجھانا بہت مشکل نہیں ہوتا.بعثت انبیاء پر لوگ کس طرح ہدایت پاتے ہیں جب انبیاء علیہم السلام مامور ہوکر دنیا میں آتے ہیں تو لوگ تین ذریعوںسے ہدایت پاتے ہیں.یہ اس لیے کہ تین ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں ظالم، مقتصد اور سابق بالخیرات.اوّل درجے کے لوگ تو سابق بالخیرات ہوتے ہیں جن کو دلائل اور معجزات کی ضرورت ہی نہیں ہوتی.وہ ایسے صاف دل اور سعید ہوتے ہیں کہ مامور کے چہرہ ہی کو دیکھ کراس کی صداقت کے قائل ہو جاتے ہیںاور اُس کے دعویٰ کو ہی سُن کر اس کو برنگ دلیل سمجھ لیتے ہیں.اُن کی عقل ایسی لطیف واقع ہوئی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ انبیاء کی ظاہری صورت اور اُن کی باتوں کو سن کر قبول کرلیتے ہیں.دوسرے درجہ کے لوگ مقتصدین کہلاتے ہیںجو ہوتے تو سعید ہیں مگر اُن کو دلائل کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ شہادت سے مانتے ہیں.تیسرے درجہ کے لوگ جو ظالمین ہیں ان کی طبیعت اور فطرت کچھ ایسی وضع پر واقع ہوتی ہے
کہ وہ بجز مار کھانے اور سختی کے مانتے ہی نہیں.جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام جبرسے پھیلا ہے وہ تو بالکل جھوٹے ہیں کیونکہ اسلامی جنگیں دفاعی اصول پر تھیں، مگر ہاں یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے قانون میں یہ بات رکھی ہوئی ہے کہ تیسرے درجہ کے لوگوں یعنی ظالمین کے لیے ایک طریق رکھا ہوا ہے جو بظاہر جبر کہلاتاہے اور ہرنبی کے وقت میں عوام کی ہدایت جبر کے کسی نہ کسی پیرایہ میں ہوئی ہے کیونکہ دُوربین سے دیکھنے والے کامقابلہ مجرد آنکھ سے دیکھنے والا نہیںکرسکتا.جب استعداد یں مختلف ہیں تو پھر سب کے لیے ایک ہی ذریعہ کیوں کر مفید ہو سکتا ہے.بڑے مقبول اور مقرب اور رسالت کی سچی خلافت حاصل کرنے والے وہی ہوتے ہیں جو سابق بالخیرات ہوتے ہیں اُن کی مثال حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سی ہے کہ آپ نے کو ئی معجزہ اور نشان طلب نہیںکیا سنتے ہی ایمان لے آئے.او رحقیقت میں یہ ہے بھی سچ اس لیے کہ جس شخص کو مامور کی اخلاقی حالت کی واقفیت ہو اس کو معجزہ اور نشان کی ہرگز ضرورت نہیں ہوتی.اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد دلایا کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا (یونس : ۱۷ ) سابقین کو تویہ صورت پیش آتی ہے کہ وہ اپنی فراست صحیحہ سے ہی تاڑ جاتے ہیں.اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب آپؐمدینہ تشریف لے گئے تو بہت سے لوگ آپ کو دیکھنے آئے.ایک یہودی بھی آیا اور اس سے جب لوگوں نے پوچھا تو اُس نے یہی کہا کہ یہ منہ تو جھوٹوں کا نہیں ہے.اور مقتصد لوگ وہ ہوتے ہیں جو دلائل اور معجزات کے محتاج ہوتے ہیں اور تیسری قسم ظالمین کی ہے جو سختی سے مانتے ہیں.جیسے موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں کبھی طاعون سے اور کبھی زلزلہ سے ہلاک ہوئے اور دوسروں کے لیے عبرت گاہ بنے.یہ ایک قسم کا جبر ہے جو اس تیسری قسم کے لیے خدا تعالیٰ نے رکھا ہوا ہے اور سلسلہ نبوت میں یہ لازمی طور پر پایا جاتاہے.مامور من اللہ شفیع ہوتا ہے مامور من اللہ کی دعاؤں کا کُل جہان پر اثر ہوتا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا ایک باریک قانون ہے جس کو ہر ایک شخص نہیں سمجھ سکتا
جن لوگوں نے شفیع کے مسئلہ سے انکار کیا ہے انہوں نے سخت غلطی کھائی ہے.شفیع کو قانونِ قدرت چاہتا ہے.اُس کو ایک تعلق شدید خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے اور دوسرا مخلوق سے.مخلوق کی ہمدردی اس میںاس قدر ہوتی ہے کہ یوںکہناچاہیے کہ اُس کے قلب کی بناوٹ ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ ہمدردی کے لیے جلد متأثرہو جاتا ہے اس لیے وہ خدا سے لیتا ہے اور اپنی عقد ہمت اور توجہ سے مخلوق کو پہنچاتا ہے اور اپنا اثر اُس پر ڈالتا ہے.اور یہی شفاعت ہے.انسان کی دعااور توجہ کے ساتھ مصیبت کارفع ہونا یا معصیت اور ذنوب کا کم ہونا یہ سب شفاعت کے نیچے ہے.توجہ سب پر اثر کرتی ہے خواہ مامور کو اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کانام بھی یاد ہونہ ہو.۱ مامور کی صحبت شریعت کی کتابیں حقائق اور معارف کا ذخیرہ ہوتی ہیں.لیکن حقائق اور معارف پر کبھی پوری اطلاع نہیںمل سکتی جب تک صادق کی صحبت اخلاص او رصدق سے اختیار نہ کی جاوے.اسی لیے قرآن شریف فرماتا ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ(التّوبۃ: ۱۱۹ ) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور اتقا کے مدارج کامل طور پر کبھی حاصل نہیں ہوسکتے جب تک صادق کی معیت اور صحبت نہ ہو کیونکہ اس کی صحبت میں رہ کر وہ اس کے انفاسِ طیبہ، عقد ِہمت اور توجہ سے فائدہ اُٹھاتاہے.قبول ہونے والی دعا کا راز دعاجب قبول ہونے والی ہوتی ہے تو اللہ اس کے لیے دل میں ایک سچا جوش اور اضطراب پیدا کر دیتا ہے او ربسا اوقات اللہ تعالیٰ خود ہی ایک دعا سکھاتا ہے اور الہامی طور پر اس کا پیرایہ بتادیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ (البقرۃ: ۳۸ ) اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے راستباز بندوں کو قبول ہونے والی دعا ئیں خود الہاماً سکھادیتا ہے.بعض وقت ایسی دعا میں ایسا حصہ بھی ہوتا ہے جس کو دعا کرنے والا ناپسند کرتا ہے مگر وہ قبول
ہوجاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس آیت کے مصداق ہے عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْـًٔا وَّ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ(البقرۃ : ۲۱۷) مامور من اللہ کی سچی ہمدردی مامورمن اللہ جب آتا ہے تو اس کی فطرت میں سچی ہمدردی رکھی جاتی ہے اور یہ ہمدردی عوام سے بھی ہوتی ہے اور جماعت سے بھی.اس ہمدردی میں ہمارے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھے ہوئے تھے.اس لیے کہ آپ کُل دنیا کے لیے مامور ہو کر آئے تھے اور آپ سے پہلے جس قدر نبی آئے وہ مختص القوم اور مختص الزمان کے طور پرتھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کل دنیا اور ہمیشہ کے لیے نبی تھے اس لیے آپ کی ہمدردی بھی کامل ہمدردی تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ( الشعرآء: ۴ ) اس کے ایک تویہ معنے ہیں کہ کیا تو ان کے مومن نہ ہونے کی فکر میں اپنی جان دے دے گا.اس آیت سے اس درد اور فکر کا پتہ لگ سکتا ہے جو آپؐکو دنیاکی تبہ حالت دیکھ کر ہوتا تھا کہ وہ مومن بن جاوے.یہ تو آپؐکی عام ہمدردی کے لیے ہے اور یہ معنے بھی اس آیت کے ہیں کہ مومن کو مومن بنانے کی فکر میں تو اپنی جان دے دےگا یعنی ایمان کو کامل بنانے میں.اسی لیے دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہےيٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ (النِّسآء : ۱۳۷) بظاہر تو یہ تحصیل حاصل معلوم ہوتی ہوگی لیکن جب حقیقتِ حال پر غور کی جاوے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ کئی مراتب ہوتے ہیں اس لیے اﷲ تعالیٰ تکمیل چاہتا ہے.غرض مامور کی ہمدردی مخلوق کے ساتھ اس درجہ کی ہوتی ہے کہ وہ بہت جلد اُس سے متأثر ہوتا ہے.رسولِ مامور اﷲ تعالیٰ اور اُس کے ماموروں کے درمیان دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں.مامور تو اﷲ تعالیٰ کا رسول ہوتا ہی ہے لیکن بعض مقامات پر اﷲ تعالیٰ بھی مامور کا رسول ہو جاتا ہے.یہ ایک باریک بھید ہے جس کو ہر شخص جلدی نہیں سمجھ سکتا.یہ صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب مامور اپنی جماعت کو اپنی منشا کے موافق نہیں دیکھتا تو اس کے دل میں ایک درد
پیدا ہوتا ہے اور اس پر ایک ٹھوکر لگتی ہے.اس وقت خدا تعالیٰ تمثیلی طور پر بعض افرادکو اُن کے عیوب اُن پر ظاہر کر دیتا ہے اور کبھی اس فعل کا علم مامور اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے انسان دونوں کو ہوتا ہے اور کبھی ایک ہی کو.(ہم اس عقدہ کو حل کرنے کے لیے ذرا مثال کے طور پر سمجھا دیتے ہیں بہت سے لوگ ایسے ہوں گے بلکہ قریباً ہر ایک شخص پر اس قسم کے واقعات گذرے ہوں گے کہ جب کبھی وہ کسی گناہ کی حالت میں گرفتار ہونے کو ہوا ہے تو رؤیا میں حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُس نے زیارت کی اور اس گناہ کی حالت سے بچ گیا.اس قسم کے تمثّلات وہ ہوتے ہیں جن میں اﷲ تعالیٰ مامور کا رسول ہو کر اپنا فیض پہنچاتا ہے.ایڈیٹر)۱ بلاتاریخ ۱۹۰۲ء قضا اور دعا قدر اور جبر پر بڑی بڑی بحثیں ہوئی ہیں مگر تعجب کی بات ہے کہ لوگ اس پر کیوں بحث کرتے ہیں.میرا مذہب یہ ہے کہ قرونِ ثلاثہ کے بعد ہی اس قسم کی بحثوں کی بنیاد پڑی ہے ورنہ انسانیت یہ چاہتی تھی کہ ان پر توجہ نہ کی جاوے.جب روحانیت کم ہو گئی تو اس قسم کی بحثوں کا بھی آغاز ہو گیا.جس شخص کا یہ ایمان نہ ہو کہ اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ (یٰسٓ : ۸۳) میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اُس نے خدا تعالیٰ کو نہیں پہچانا اور ایسا ہی اس شخص نے بھی شناخت نہیں کیا جو اس کو عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ اور حَیُّ و قَیُّوْمُ کہ دوسروں کی حیات و قیام اسی سے ہے اور وہ مدبّر بالارادہ ہے مدبّر بالطبع نہیں مانتا جو فلاسفروں کا عقیدہ ہے.غرض ہم اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں.یہ بات قریب بہ کفر ہو جاتی ہے اگر یہ تسلیم کریں کہ کوئی حرکت یا سکون یا ظلمت یا نور بِدوں خدا کے ارادے کے ہو جاتا ہے اس پر ثبوت اوّل قانونِ قدرت ہے.انسان کو اﷲ تعالیٰ نے دو آنکھیں، دو کان ایک ناک دیئے ہیں.اتنے ہی اعضا لے کر بچہ پیدا ہوتا ہے.پھر اسی طرح عمر ہے
اور بہت سے امور ہیں جو ایک دائرہ کے اندر محدود ہیں.بعض کے اولاد نہیں ہوتی.بعض کے لڑکے یا لڑکیاں ہی ہوتی ہیں.غرض یہ تمام امور خدا تعالیٰ کے قدیر ہونے کو ثابت کرتے ہیں.پس ہمارا مذہب یہ ہے کہ خدا کی اُلوہیت اور ربوبیت ذرّہ ذرّہ پر محیط ہے اگر چہ احادیث میں آیا ہے کہ بدی شیطان یا نفس کی طرف سے ہوتی ہے.ہم کہتے ہیں کہ وہ بدی جس کو بدی سمجھا جاوے مگر بعض بدیاں ایسی ہیں کہ اُن کے اسرار اور حِکم اور مفہوم سے ہم آگاہ نہیں ہیں جیسے مثلاً آدم کا دانہ کھانا.غرض ہزار ہا اسرار ہیں جو مستحدثات کا رنگ دکھانے کے لیے کر رکھے ہیں.قرآن شریف میں ہے مَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ (اٰلِ عـمران : ۱۴۶) تَمُوْتَ میں روحانی اور جسمانی دونوں باتیں رکھی ہوئی ہیں.ایسے ہی ہدایت اور ضلالت خدا کے ہاتھ میں ہیں.اس پر اعتراض یہ ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ لغو ہو جاتا ہے؟ ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ کوئی ایسی فہرست پیش کرو جس میں لکھا ہو کہ فلاں شقی ہے.انبیاء علیہم السلام جب دعوت کرتے تو اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی اثر مترتّب ہوتا ہے اور ایسا ہی دعا کے ساتھ بھی.اﷲ تعالیٰ قضا و قدر کو بدل دیتا ہے اور قبل ازوقت اس تبدیلی کی اطلاع بھی دے دیتا ہے.اس وقت ہی دیکھو کہ جو رجوع لوگوں کا اس سلسلہ کی طرف اب ہے براہین احمدیہ کے زمانہ میں کب تھا.اس وقت کوئی جانتا بھی نہ تھا.میں نے خود عیسائیوں کی کتابیں پڑھی ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ایک طُرفۃ العین کے لیے بھی عیسائی مذہب کی سچائی کا خیال میرے دل میں نہیں گذرا.وہ قرآن شریف کی اس تعلیم پر کہ خدا کے ہاتھ میں ضلالت اور ہدایت ہے اعتراض کرتے ہیں لیکن اپنی کتابوں کو نہیں پڑھتے جن میں لکھا ہے کہ شریر جہنم کے لیے بنائے گئے ہیں.یا مثلاً یہ لکھا ہے کہ فرعون کا دل سخت ہونے دیا.اگر لفظوں پر ہی اعتراض کرنا ہو تو عیسائی ہمیں بتائیں اس کا کیا جواب دیتے ہیں؟ بد دیانت آدمی سے تو مَرے ہوئے کتّے سے بھی زیادہ بدبو آتی ہے.ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ ان پادریوں کا اسلام پر ایسا اعتراض نہیں ہے جو توریت اور انجیل کے ورق ورق پر صاف صاف
نہ آتا ہو.ایسا ہی رگ وید اور فارسیوں اور سناتنیوں کی کتابوں سے پایا جاتا ہے.قرآن شریف نے ان امور کو جن سے احمق معترضوں نے جبر کی تعلیم نکالی ہے محض اس عظیم الشّان اصول کو قائم کرنے کے لیے بیان کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ایک ہے اور ہر ایک اَمر کامبدا اور مرجع وہی ہے.وہی عِلَّتُ الْعِلَل اور مسبّب الاسباب ہے.یہ غرض ہے جو اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بعض درمیانی وسائط اٹھا کر اپنے عِلَّتُ الْعِلَل ہونے کا ذکر فرمایا ہے ورنہ قرآن شریف کو پڑھو اس میں بڑی صراحت کے ساتھ ان اسباب کو بھی بیان فرمایا جس کی وجہ سے انسان مکلّف ہو سکتا ہے؟ علاوہ بریں قرآن شریف جس حال میں اعمال بد کی سزا ٹھہراتا ہے اور حدود قائم کرتا ہے اگر قضا وقدر میں کوئی تبدیلی ہونے والی نہ تھی اور انسان مجبور مطلق تھا تو ان حدود اور شرائع کی ضرورت ہی کیا تھی.پس یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن شریف دہریوں کی طرح تمام امور کو اسباب طبیعیہ تک محدود رکھنا نہیں چاہتا بلکہ خالص توحید پر پہنچانا چاہتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے دعا کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور نہ قضاوقدر کے تعلقات کو جو دعا کے ساتھ ہیں تدبّر کی نگاہ سے دیکھا ہے.جو لوگ دعا سے کام لیتے ہیں اﷲ تعالیٰ ان کے لیے راہ کھول دیتا ہے.وہ دعا کو ردّ نہیں کرتا.ایک طرف دعا ہے.دوسری طرف قضاوقدر.خدا نے ہر ایک کے لیے اپنے رنگ میں اوقات مقرر کر دیئے ہیں.اور ربوبیت کے حصہ کو عبودیت میں دیا گیا ہے اور فرمایا ہے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ( المؤمن : ۶۱) مجھے پکارو میں جواب دوں گا.میں اس لیے ہی کہا کرتا ہوں کہ ناطق خدا مسلمانوں کا ہے لیکن جس خدا نے کوئی ذرّہ پیدا نہیں کیا یا جو خود یہودیوں سے طمانچے کھا کر مَر گیا وہ کیا جواب دےگا.؎ تو کار زمین را نکو ساختی کہ با آسمان نیز پرداختی جبر اور قدر کے مسئلہ کو اپنی خیالی اور فرضی منطق کے معیار پر کسنا دانش مندی نہیں ہے.اس سِر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرنا بیہودہ ہے.الوہیت اور ربوبیت کا کچھ تو ادب بھی چاہیے اور یہ راہ تو ادب کے خلاف ہے کہ الوہیت کے اسرار کو سمجھنے کی کوشش کی جاوے اَلطَّرِیْقَۃُ کُلُّھَا اَدَبٌ.
قضاوقدر کا دعا کے ساتھ بہت بڑا تعلّق ہے.دعا کے ساتھ معلّق تقدیر ٹل جاتی ہے.جب مشکلات پیدا ہوتے ہیں تو دعا ضرور اثر کرتی ہے.جو لوگ دعا سے منکر ہیں ان کو ایک دھوکا لگا ہوا ہے.قرآن شریف نے دعا کے دو پہلو بیان کئے ہیں.ایک پہلو میں اﷲ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور دوسرے پہلو میں بندے کی مان لیتا ہے وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ (البقرۃ : ۱۵۶) میں تو اپنا حق رکھ کر منوانا چاہتا ہے.نونِ ثقیلہ کے ذریعہ سے جو اظہار تاکید کیا ہے.اس سے اﷲ تعالیٰ کا یہ منشا ہے کہ قضائے مبرم کو ظاہر کریں گے تو اس کا علاج اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ : ۱۵۷) ہی ہے.اور دوسرا وقت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی امواج کے جوش کا ہے وہ اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن :۶۱) میں ظاہر کیا ہے.پس مومن کو ان دونو مقامات کا پورا علم ہونا چاہیے.صوفی کہتے ہیں کہ فقر کامل نہیں ہوتا جب تک محل اور موقع کی شناخت حاصل نہ ہو بلکہ کہتے ہیں کہ صوفی دعا نہیں کرتا جب تک کہ وقت کو شناخت نہ کرے.سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دعا کے ساتھ شقی سعید کیا جاتا ہے بلکہ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ شدیدالاختفا امور مشبّہ بالمبرم بھی دور کیے جاتے ہیں.الغرض دعا کی اس تقسیم کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی اﷲ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور کبھی وہ مان لیتا ہے.یہ معاملہ گویا دوستانہ معاملہ ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جیسی عظیم الشّان قبولیت دعائوں کی ہے اس کے مقابل رضا اور تسلیم کے بھی آپ اعلیٰ درجہ کے مقام پر ہیں.چنانچہ آپ کے گیارہ بچے مَر گئے مگر آپؐنے کبھی سوال نہ کیا کہ کیوں؟ جو لوگ فقراء اور اہل اﷲ کے پاس آتے ہیں اکثر اُن میں سے محض آزمائش اور امتحان کے لیے آتے ہیں.وہ دعا کی حقیقت سے نا آشنا ہوتے ہیں اس لیے پورا فائدہ نہیں ہوتا.عقل مند انسان اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے.سچ تو یہ ہے کہ اگر دعا نہ ہوتی تو اہل اﷲ مَرجاتے.جو لوگ دعا کے منافع سے محروم ہیں ان کو دھوکا یہی لگا ہوا ہے کہ وہ دعا کی تقسیم سے نا واقف ہیں.میرا جب سب سے پہلا لڑکا فوت ہوا تو اس کو ایک سخت غشی کی حالت تھی.گھر میں اس کی والدہ
نے جب دیکھا کہ حالت نازک ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو امید نہیں اب جانبر ہو میں اپنی نماز کیوں ضائع کروں چنانچہ وہ نماز میں مصروف ہو گئے اور جب نماز سے فارغ ہو کر مجھ سے پوچھا تو اُس وقت چونکہ انتقال ہو چکا تھا میں نے کہا کہ لڑ کا مَر گیا ہے.انہوں نے پورے صبر اور رضا کے ساتھ اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ پڑھا.خدا جس اَمر میں نا مُراد کرتا ہے اس نامُرادی پر صبر کرنے والوں کو ضائع نہیں کرتا.اسی صبر کا نتیجہ ہے کہ خدا نے ایک کی بجائے چار لڑکے عطا فرمائے.الغرض دعا بڑی دولت ہے.بے صبر ہو کر دعا نہ کرے بلکہ دعائوںمیں لگا رہے.یہاں تک کہ وہ وقت آجاوے.قرآن مجید میں فتنہءِ دجّال کا ذکر اوّل بآخر نسبتے دارد قرآنِ شریف کو سورۃ فاتحہ سے شروع کر کے غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ (الفاتـحۃ : ۷) پر ختم کیا ہے، لیکن جب ہم مسلمانوں کے معتقدات پر نظر کرتے ہیں تو دجّال کا فتنہ اُن کے ہاں عظیم الشّان فتنہ ہے اور یہ ہم کبھی تسلیم نہیں کر سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ دجّال کا ذکر ہی بھول گیا ہو.نہیں، بات اصل یہ ہے کہ دجّال کامفہوم سمجھنے میں لوگوں نے دھوکا کھایا ہے.سورۃ فاتحہ میں جو دو فتنوں سے بچنے کی دعا سکھائی ہے اوّل غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ، غیر المغضوب سے مُراد باتفاق جمیع اہلِ اسلام یہود ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت اُمّت پر آنے والا ہے جبکہ وہ یہود سے تشابہ پیدا کرے گی اور وہ زمانہ مسیح موعود ہی کا ہے جبکہ اس کے انکار اور کفر پر اسی طرح زور دیا جائے گا جیسا کہ حضرت مسیح ابنِ مریم کے کفر پر یہودیوں نے دیا تھا.غرض اس دعا میں یہ سکھایا گیا کہ یہود کی طرح مسیح موعود کی توہین اور تکفیر سے ہم کو بچا.اور دوسرا عظیم الشّان فتنہ جس کا ذکر سورۃ فاتحہ میں کیا ہے اور جس پر سورۃ فاتحہ کو ختم کر دیا ہے وہ نصاریٰ کا فتنہ ہے جو وَ لَا الضَّآلِّيْنَمیں بیان فرمایا ہے اب جب قرآن شریف کے انجام پر نظر کی جاتی ہے تو وہ بھی ان دونوں فتنوں کے متعلق کھلی کھلی شہادت دیتا
ہے.مثلاً غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ کے مقابل میں سورۃ تَبَّتْ یَدَا ہے.مجھے بھی فتویٰ کفر سے پہلے یہ الہام ہوا تھا اِذْ یَـمْکُرُ بِکَ الَّذِیْ کَفَّرَ.اَوْقِدْ لِیْ یَا ھَامَانُ لَعَلِّیْ اَطَّلِعُ عَلٰی اِلٰہِ مُوْسٰی وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ.تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ مَا کَانَ لَہٗ اَنْ یَّدْخُلَ فِیْـھَا اِلَّا خَائِفًا وَمَا اَصَابَکَ فَـمِنَ اللہِ یعنی وہ زمانہ یاد کر کہ جبکہ مُکَفِّرْ تجھ پر تکفیر کا فتویٰ لگائے گا.اور اپنے کسی حامی کو جس کا لوگوں پر اثر پڑ سکتا ہو کہے گا کہ میرے لیے اس فتنہ کی آگ بھڑکا.تا میں دیکھ لوں کہ یہ شخص جو موسیٰ کی طرح کلیم اﷲ ہونے کامدّعی ہے.خدا اس کامعاون ہے یا نہیں اور میں تو اسے جھوٹا خیال کرتا ہوں.ابی لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور آپ بھی ہلاک ہو گیا.اس کو نہیں چاہیے تھا کہ اس میں دخل دیتا مگر ڈر ڈر کر.اور جو رنج تجھے پہنچے گا وہ خدا کی طرف سے ہے.غرض سورۃ تَبّت میں غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ کے فتنہ کی طرف اشارہ ہے اور وَ لَا الضَّآلِّيْنَ کے مقابل قرآن شریف کے آخر میں سورۃ اخلاص ہے.اور اس کے بعد کی دونوں سورتیں سورۃ الفلق اور سورۃ النّاس ان دونوں کی تفسیر ہیں.ان دونوں سورتوں میں اس تیرہ وتار زمانہ سے پناہ مانگی گئی ہے جبکہ مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگا کر مغضوب علیہم کا فتنہ پیدا ہوگا اور عیسائیت کی ضلالت اور ظلمت دنیا پر محیط ہونے لگے گی.پس جیسے سورہ فاتحہ میں جو ابتدائے قرآن ہے.ان دونوں بلائوں سے محفوظ رہنے کی دعا سکھائی گئی ہے.اسی طرح قرآن شریف کے آخر میں بھی ان فتنوں سے محفوظ رہنے کی دعا تعلیم کی.تاکہ یہ بات ثابت ہو جاوے کہ اوّل بآخر نسبتے دارد.سورۃ فاتحہ میں جو اِن فتنوں کا ذکر ہے وہ کئی مرتبہ بیان کیا ہے مگر قرآن شریف کے آخر میں جو اِن فتنوں کا ذکر ہے وہ بھی مختصر طور پر سمجھ لو.اَلضَّآلِّيْنَ کے مقابل آخر کی تین سورتیں ہیں.اصل تو قُلْ هُوَ اللّٰهُ(الاخلاص : ۲) ہے اور باقی دونو سورتیں اس کی شرح ہیں.قُلْ هُوَ اللّٰهُ کا ترجمہ یہ ہے کہ نصاریٰ سے کہہ دو کہ اﷲ ایک ہے.اﷲ بے نیاز ہے.نہ اُس سے کوئی پیدا ہوا.اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا.اور نہ کوئی اس کے برابر ہے.پھر سورۃ الفلق میں اس فتنہ سے بچنے کے لیے یہ دعا سکھائی قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ یعنی تمام
مخلوق کے شرّ سے اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو رَبُّ الْفَلَقِ ہے یعنی صبح کامالک ہے یا روشنی ظاہر کرنا اسی کے قبضہ و اقتدار میں ہے.رَبُّ الْفَلَقِ کا لفظ بتاتا ہے کہ اس وقت عیسائیت کے فتنہ اور مسیح موعود کی تکفیر اور توہین کے فتنہ کی اندھیری رات احاطہ کرلے گی اور پھر کھول کر کہا کہ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ اور میں اس اندھیری رات کے شر سے جو عیسائیت کے فتنہ اور مسیح موعود کے انکار کے فتنہ کی شبِ تار ہے پناہ مانگتا ہوں.پھر لکھا وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِي الْعُقَدِ اور میں ان زنانہ سیرت لوگوں کی شرارت سے پناہ مانگتا ہوں جو گنڈوںپر پھونکیں مارتے ہیں.گرہوں سے مُراد وہ معضلات اور مشکلات شریعت ِ محمدیہ ہیں جن پر جاہل مخالف اعتراض کرتے ہیں اور ان کو ایک پیچیدہ صورت میں پیش کر کے لوگوں کو دھوکا میں ڈالتے ہیں اور یہ دو قسم کے لوگ ہیں ایک تو پادری اور ان کے دوسرے پس خوردہ کھانے والے اور دوسرے وہ نا واقف اور ضدی مُلاں ہیں جو اپنی غلطی کو تو چھوڑتے نہیں اور اپنی نفسانی پھونکوں سے اس صاف دین میں اور بھی مشکلات پیدا کردیتے ہیںاور زنانہ خصلت رکھتے ہیںکہ خدا کے مامورو مرسل کے سامنے آتے نہیں.پس ان لوگوںکی شرارتوںسے پناہ مانگتے ہیںاور ایسا ہی ان حاسدوں کے حسد سے پناہ مانگتے ہیںاور اس وقت سے پناہ مانگتے ہیں جب وہ حسدکرنے لگیں.اور پھر آخر سورۃ میںشیطانی وسوسوں سے محفوظ رہنے کی دعا تعلیم فرمائی ہے جیسے سورۃ فاتحہ کو اَلضَّآلِّيْنَ پر ختم کیا تھا ویسے ہی آخری سورۃ میں خنّاس کے ذکر پر ختم کیا تاکہ خنّاس اور اَلضَّآلِّيْنَ کا تعلق معلوم ہو.اور آدم کے وقت میںبھی خنّاس جس کو عبرانی زبان میں نـحاش کہتے ہیں جنگ کے لیے آیا تھا اس وقت بھی مسیح موعود کے زمانہ میں جو آدم کامثیل بھی ہے ضروری تھا کہ وہی نحاش ایک دوسرے لباس میں آتا اور اسی لیے عیسائیوں اور مسلما نوں نے باتفاق یہ بات تسلیم کی ہے کہ آخری زمانہ میں آدم اور شیطان کی ایک عظیم الشان لڑائی ہو گی جس میں شیطان ہلا ک کیا جاوے گا.اب ان تما م امور کو دیکھ کر ایک خدا ترس آدمی ڈر جا تا ہے کیا یہ میرے اپنے بنا ئے ہوئے امور ہیں جو خدا نے جمع کر دیئے ہیں.
کس طرح پر ایک دائر ہ کی طر ح خدا نے اس سلسلہ کو رکھا ہو اہے وَلَا الضَّآلِّيْنَ پر سو ر ۃ فاتحہ کو جو قرآن کا آغا ز ہے ختم کیا اور پھر قرآن شریف کے آخر میں وہ سو رتیں رکھیں جن کا تعلق سو رۃفا تحہ کے انجا م سے ہے.ادھر مسیح اور آدم کی مماثلت ٹھہرا ئی اور مجھے مسیح مو عو د بنا یا تو ساتھ ہی آدم بھی میرا نا م رکھا.یہ باتیں معمو لی باتیں نہیں ہیں.یہ ایک علمی سلسلہ ہے جس کو کوئی ردّ نہیں کر سکتا کیو نکہ خدا تعالیٰ نے اپنے ہا تھ سے اس کی بنیا د رکھی ہے.شفیع کون ہو سکتا ہے شفیع کا لفظ شفع سے نکلا ہے جس کے معنے جفت کے ہیں.اس لیے شفیع وہ ہو سکتا ہے جو دو مقا مات کامظہرِ اَتَم ہویعنی مظہر کامل لاہُوت اور ناسُوت کا ہو.لاہُوتی مقا م کامظہر کامل ہونے سے یہ مُراد ہے کہ اس کا خدا کی طر ف صعود ہو وہ خدا سے حاصل کرے.اور ناسُوتی مقام کے مظہر کا یہ مفہو م ہے کہ مخلو ق کی طرف اس کا نزول ہو جو خدا سے حا صل کرے وہ مخلو ق کو پہنچاوے اور مظہرکامل ان مقامات کا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اسی کی طر ف اشا رہ ہے دَنَا فَتَدَلّٰى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى (النّجم :۹،۱۰).ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بِدوں کامل حصہ مقا م لاہُوت کا کسی نبی میں نہیں آیا، اور ناسُوتی حصہ چاہتا ہے بشری لوازم کو ساتھ رکھے اور حضور علیہ الصلوٰۃ و السلا م میں یہ ساری باتیں پوری پائی جاتی ہیں.آ پ نے شادیاں بھی کیں.بچے بھی ہوئے.دوستوں کا زُمرہ بھی تھا.فتوحات کر کے اختیاری قوتوں کے ہوتے ہوئے انتقام چھوڑ کر رحم کر کے بھی دکھایا.جب تک انسان کے پیرایہ پو رے نہ ہوں وہ پوری ہمدردی نہیں کرسکتا.اس حصہ اخلاقِ فاضلہ میں وہ نامکمل رہے گا.مثلاً جس نے شادی ہی نہیں کی وہ بیوی اور بچّوں کے حقوق کی کیا قدر کر سکتا ہے اور ان پر اپنی شفقت اور ہمدردی کا کیا نمونہ دکھاسکتا ہے.رہبانیت ہمدردی کو دور کر دیتی ہے او ریہی وجہ ہے کہ اسلام نے رہبانیت کو نہیں رکھا.غرض کامل شفیع وہی ہوسکتا ہے جس میں یہ دونوں حصے کامل طور پر
پائے جائیں.چونکہ یہ ایک ضروری اَمر تھا کہ شفیع ان دونوں مقامات کامظہر ہو اللہ تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش سے ہی اس سلسلہ کا ظِل قائم رکھا، یعنی آدم علیہ السلام کو جب پیدا کیا تو لا ہوتی حصہ تو اس میں یوں رکھ دیا جب کہا فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ(الـحجر :۳۰) اور ناسُوتی حصہ یوںرکھا کہ حوّا کو اس سے پید اکیا.یعنی جب روح پھونکی تو ایک جو ڑ آدم کا خدا تعالیٰ سے قائم ہو ا.اور جب حوّا نکالی تو دوسرا مخلوق کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ناسُوتی ہوگیا.پس جب تک یہ دونو حصے کامل طور پر کامل انسان میں نہ پائے جاویں وہ شفیع نہیں ہو سکتا.جیسے آدم کی پسلی سے حوّا نکلی اسی طرح پر کامل انسان کی پسلی سے مخلوق نکلتی ہے.تصویر او رنماز ایک شخص نے دریافت کیا کہ تصویر کی وجہ سے نماز فاسد تو نہیں ہوتی؟ جواب میںحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا.کفار کے تتبّع پر تو تصویر ہی جائز نہیں.ہاں نفسِ تصویر میں حُرمت نہیں بلکہ اُس کی حُرمت اضافی ہے، اگر نفس تصویر مفسد نماز ہو تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا پھر روپیہ پیسہ نماز کے وقت پاس رکھنا مفسد نہیں ہوسکتا؟ اس کا جوا ب اگر یہ دو کہ روپیہ پیسہ کا رکھنا اضطراری ہے تو میں کہوں گا کہ کیا اگر اضطرار سے پاخانہ آجاوے تو وہ مفسد نماز نہ ہو گا اور پھر وضو کرنا نہ پڑے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ تصویر کے متعلق یہ دیکھنا ضرور ی ہے کہ آیااس سے کوئی دینی خدمت مقصود ہے یا نہیں؟ اگر یوں ہی بے فائدہ تصویر رکھی ہوئی ہے اور اس سے کوئی دینی فائدہ مقصود نہیں تو یہ لغو ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(المؤمنون : ۴) لغو سے اعراض کرنا مومن کی شان ہے اس لیے اس سے بچنا چاہیے لیکن ہاں اگر کوئی دینی خدمت اس ذریعہ سے بھی ہو سکتی ہو تو منع نہیں ہے کیونکہ خدا تعالیٰ علوم کو ضائع نہیں کرنا چاہتا.مثلاً ہم نے ایک موقع پر عیسائیوں کے مثلّث خدا کی تصویر دی ہے جس میں روح القدس بشکل کبوتر دکھایا گیا ہے اور باپ اور بیٹے کی بھی جدا جدا تصویر دی ہے.اس سے ہماری یہ غرض تھی کہ
تاتثلیث کی تردید کر کے دکھائیں کہ اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے وہی حقیقی خدا ہے جو حیّ وقیّوم، ازلی و ابدی، غیر متغیر ہے اور تجسّم سے پاک ہے.اس طرح پر اگر خدمتِ اسلام کے لیے کوئی تصویر ہو تو شرع کلام نہیں کرتی ہے کیونکہ جو امور خادمِ شریعت ہیں ان پر اعتراض نہیں ہے.کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کے پاس کُل نبیوں کی تصویریں تھیں.قیصر روم کے پاس جب صحابہؓ گئے تھے تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر اس کے پاس دیکھی تھی.تو یاد رکھنا چاہیے کہ نفس تصویر کی حُرمت نہیں بلکہ اس کی حُرمت اضافی ہے جو لوگ لغو طور پر تصویریں رکھتے اور بناتے ہیں وہ حرام ہیں.شریعت ایک پہلو سے حرام کرتی ہے اور ایک جائز طریق پر اسے حلال ٹھہراتی ہے.روزہ ہی کو دیکھو رمضان میں حلال ہے لیکن اگر عید کے دن روزہ رکھے تو حرام ہے.ع گر حفظِ مراتب نہ کنی زندیقی حرمت دو قسم کی ہوتی ہے.ایک بالنَّفس حرام ہوتی ہے، ایک بالنّسبت.جیسے خنزیر بالکل حرام ہے خواہ وہ جنگل کا ہو یا کہیں کا، سفید ہو یا سیاہ، چھوٹا ہو یا بڑا، ہر ایک قسم کا حرام ہے.یہ حرام بالنفس ہے لیکن حرام بالنسبت کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص محنت کر کے کسبِ حلال سے روپیہ پیدا کرے تو حلال ہے.لیکن اگر وہی روپیہ نقب زنی یا قمار بازی سے حاصل کرے تو حرام ہوگا.بخاری کی پہلی ہی حدیث ہے اِنَّـمَا الْاَ عْـمَالُ بِالنِّیَّاتِ.ایک خونی ہے اگر اس کی تصویر اس غرض سے لے لیں کہ اس کے ذریعہ اس کو شناخت کر کے گرفتار کیا جاوے تو یہ نہ صرف جائز ہو گی بلکہ اس سے کام لینا فرض ہو جائے گا.اسی طرح اگر ایک شخص اسلام کی توہین کرنے والے کی تصویر بھیجتا ہے تو اس کو اگر کہا جاوے کہ حرام کام کیا ہے تو یہ کہنا موذی کا کام ہے.یاد رکھو اسلام بُت نہیں ہے بلکہ زندہ مذہب ہے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آجکل نا سمجھ مولویوں نے لوگوں کو اسلام پر اعتراض کرنے کاموقع دیا ہے.آنکھوں میں ہر شَے کی تصویر بنتی ہے.بعض پتھر ایسے ہیں کہ جانور اُڑتے ہیں تو خود بخود اُن کی
تصویر اتر آتی ہے.اﷲ تعالیٰ کا نام مصوّر ہے يُصَوِّرُكُمْ فِي الْاَرْحَامِ (اٰلِ عـمران : ۷) پھر بلا سوچے سمجھے کیوں اعتراض کیا جاتا ہے.اصل بات یہی ہے جو میں نے بیان کی ہے کہ تصویر کی حُرمت غیر حقیقی ہے کسی محل پر ہوتی ہے اور کسی پر نہیں.غیر حقیقی حُرمت میں ہمیشہ نیت کو دیکھنا چاہیے.اگر نیت شرعی ہے تو حرام نہیں ورنہ حرام ہے.حدیثوں ہی پر تکیہ نہ کر لو.اگر قرآن شریف پر حدیث کو مقدم کرتے ہو تو پھر گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام لگاتے ہو کہ کیوں انہوں نے احادیث کو خود جمع نہیں کرایا کیونکہ آپؐنے کوئی حکم احادیث کے جمع کرنے کو نہیں فرمایا حالانکہ قرآن شریف کو آپؐخود لکھواتے اور سناتے تھے.بعض صحابہؓ نے احادیث کو اپنے طور پر جمع کیا لیکن آخر انہوں نے جلا دیا.جب سبب دریا فت کیا تو یہی بتایا کہ آخر راویوں سے سُنی ہیں ممکن ہے ان میں کمی بیشی ہوئی ہو.اپنے ذمہ کیوں بوجھ لیں.پس قرآن کو مقدم کرو اور حدیث کو قرآن پر عرض کرو حکم نہ بنائو.۱ ۱۲ ؍ فروری ۱۹۰۲ء ضروری اعلان حضرت مسیح موعود اَدَامَ اللہُ فُیُوْضَہُمْ نے ارشاد فرمایا ہے کہ الحکم کے ذریعہ اپنے تمام دوستوں کو اطلاع دے دی جاوے کہ چونکہ طاعون پنجاب کے اکثر حصوں میں زور کے ساتھ پھیل گیا ہے اور پھیلتا جاتا ہے ایسی صورت میں یہ اَمر قرین مصلحت نہیں کہ ایسا مجمع ہو جس میں وبازدہ علاقوں کے لوگ بھی شامل ہوں.اس لیے عیدالاضحیٰ پر جو تجویز امتحان کی قرار پائی تھی وہ کسی دوسرے وقت کے لیے ملتوی کی جاتی ہے.وہ لوگ جن کے شہروں اور دیہات میں طاعون شدت کے ساتھ پھیل گیا ہے اپنے شہروں سے دوسری جگہ نہ جائیں.اپنے مکانوں کی صفائی کریں اور انہیں گرم رکھیں اور ضروری تدابیر حفظِ ماتقدم کی عمل میں لائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سچی توبہ کریں اور پاک تبدیلی کر کے خدا تعالیٰ سے صلح کریں.راتوں کو اُٹھ اٹھ
کر تہجدمیں دعائیں مانگیں.ہر ایک قسم کے فسق وفجور خیانت اور غلط کاری کی راہ سے اپنے آپ کو بچائیں.اپنی حالت کی سچی تبدیلی ہی خدا کے اس عذاب سے بچاسکے گی.وَلَنِعْمَ مَاقِیْلَ.؎ خور تابان سیہ گشت است از بدکاری مردم زمین طاعون ہمی آرد پئے تخویف و انذارے بہ تشویش قیامت ماند ایں تشویش گر بینی علاجے نیست بہر دفع آں جز حسن کر دارے ۱ معراج کے اسرار (ایڈیٹر کے اپنے الفاظ میں ) معراج میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے انبیاء علیہم السلام کو مختلف آسمانوں پر دیکھا ہے حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے نبیوں کا سلسلہ زمانی طور پر بتایا ہے.سب سے اوپر حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو ابو الانبیاء تھے دکھایا ہے.اور دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو چونکہ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ کا زمانہ مشترک تھا اس لیے ان کو اکٹھے بٹھایا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسرے درجے پر تھے، اس لیے دوسرے آسمان پر ان کو دکھایا اور آدم کو پہلے آسمان پر دکھایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی آدم تھے.اسی لیے آپ کو پہلے آسمان پر دکھایا گیا.مذہب ایک سائنس ہے اس وقت خدا تعالیٰ نے مذہبی امور کو قصے اور کتھا کے رنگ میں نہیں رکھا ہے بلکہ مذہب کو ایک سائنس (علم) بنادیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ زمانہ کشفِ حقائق کا زمانہ ہے جبکہ ہر بات کو علمی رنگ میں ظاہر کیا جاتا ہے.میں اس لیے ہی بھیجا گیا ہوں کہ ہر اعتقاد کو اور قرآن کریم کے قصص کو علمی رنگ میں ظاہر کروں.ذوالقرنین اور مسیح موعود یہ زمانہ چونکہ کشفِ حقائق کا زمانہ ہے اور خدا تعالیٰ قرآن شریف کے حقائق اور معارف مجھ پر کھول رہا ہے.ذوالقرنین کے قصے
کی طرف جو میری توجہ ہوئی تو مجھے یہ سمجھایا گیا ہے کہ ذوالقرنین کے پیرایہ میں مسیح موعود ہی کا ذکر ہے اور اﷲ تعالیٰ نے اس کا نام ذوالقرنین اس لیے رکھا ہے کہ قرن چونکہ صدی کو کہتے ہیں اور مسیح موعود دو قرنوں کو پائے گا اس لیے ذوالقرنین کہلائے گا.چونکہ میں نے تیرھویں اور چودھویں صدی دونوں پائی ہیں اور اسی طرح پر دوسری صدیاں ہندوئوں اور عیسائیوں کی بھی پائی ہیں.اس لحاظ سے تو ذوالقرنین ہے.اور پھر اسی قصہ میں اﷲ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ذوالقرنین نے تین قومیں پائیں.اوّل وہ جو غروبِ آفتاب کے پاس ہے اور کیچڑ میں ہے.اس سے مُراد عیسائی قوم ہے جس کا آفتاب ڈوب گیا ہے.یعنی شریعتِ حقہ اُن کے پاس نہیں رہی، روحانیت مَر گئی اور ایمان کی گرمی جاتی رہی ہے.یہ ایک کیچڑ میں پھنسے ہوئے ہیں.دوسری قوم وہ ہے جو آفتاب کے پاس ہے اور جھلسنے والی دھوپ ہے.یہ مسلمانوں کی موجودہ حالت ہے.آفتاب یعنی شریعتِ حقہ اُن کے پاس موجود ہے مگر یہ لوگ اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے کیونکہ فائدہ تو حکمتِ عملی سے اُٹھایا جاتا ہے.جیسے مثلاً روٹی پکانا.وہ گو آگ سے پکائی جاتی ہے لیکن جب تک اس کے مناسب حال انتظام اور تدبیر نہ کی جاوے وہ روٹی تیار نہیں ہوسکتی.اسی طرح پر شریعتِ حقہ سے کام لینا بھی ایک حکمتِ عملی کو چاہتا ہے.پس مسلمانوں نے اس وقت باوجودیکہ اُن کے پاس آفتاب اور اس کی روشنی موجود تھی اور ہے لیکن کام نہیں لیا اور مفید صورت میں اس کو استعمال نہیں کیا اور خدا کے جلال اور عظمت سے حصہ نہیں لیا.اور تیسری وہ قوم ہے جس نے اس سے فریاد کی کہ ہم کو یاجوج ماجوج سے بچا.یہ ہماری قوم ہے جو مسیح موعود کے پاس آئی اور اس نے اس سے استفادہ کرنا چاہا ہے.غرض آج اِن قصّوں کا علمی رنگ ہے.ہمارا ایمان ہے کہ یہ قصّہ پہلے بھی کسی رنگ میں گذرا ہے لیکن یہ سچی بات ہے کہ اس قصّہ میں واقعہ آئندہ کا بیان بھی بطور پیشگوئی تھا جو آج اس زمانہ میں پورا ہو گیا.اَلْھُدٰی اور اَلْـحَقُّ سے مُراد هُوَ الَّذِيْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ (الصّف : ۱۰) پر سوچتے سوچتے مجھے معلوم
حاصل کرتے ہیں مگر وہ کامل علم جو اس مامور کو دیا جاتا ہے کسی دوسرے کو نہیں مل سکتا اور خدا تعالیٰ کا علم تو پھر اور ہی رنگ رکھتا ہے.جب مامور کی تکذیب اور انکار حدتک پہنچ جاتا ہے تو پھر ٹھیک اسی طرح جیسے زمیندار جب فصل پک جاتی ہے تو اس کے کاٹنے کے واسطے درانتی کو درست کرتا ہے اﷲ تعالیٰ بھی مکذّبوں کے لیے تیاری کرتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اب وہ وقت آگیا ہے خدا تعالیٰ ہر پہلو سے حجت پوری کر چکا ہے.اس لیے اب ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ خاموشی سے آسمانی ہتھیار اور حربے کو دیکھے.دنیا میں ہم یہ قانون دیکھتے ہیں کہ جب ایک حاکم کو معلوم ہو جاوے کہ فلاں مظلوم ہے تو وہ اس کی مدد کرتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ جس کا علم سب سے زیادہ صحیح اور یقینی ہے جو ہر حال کا بِینا ہے کیوں اس مظلوم صادق کی مدد نہ کرے گا.جو محض اس لیے ستایا گیا ہےکہ اس نے اﷲ تعالیٰ سے الہام پاکر یہ کہا کہ میں خدا کی طرف سے اصلاح خلق کے لیے بھیجا گیا ہوں.اﷲ تعالیٰ اپنے راستباز بندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا.وہ اُن کی مدد کرتا ہے لیکن ہاں یہ سنّت اﷲ ہے کہ وہ صبر سے کام لیتا ہے.یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ کو اس تکذیب اور انکار کی خبر نہیں کفر ہے.وہ تو ابتدا سے جانتا ہے کہ کیا کِیا جاتا ہے.اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے دو فریق ہو گئے ہیں.جس طرح ہماری جماعت شرح صدر سے اپنے آپ کو حق پر جانتی ہے اسی طرح مخالف اپنے غلو میں ہر قسم کی بےحیائی اور جھوٹ کو جائز سمجھتے ہیں.شیطان نے اُن کے دلوں میں جما دیا ہے کہ ہماری نسبت ہر قسم کا افترا اور بہتان اُن کے لیے جائز ہے اور نہ صرف جائز بلکہ ثواب کا کام ہے.اس لیے اب ضروری ہے کہ ہم اپنی کوششوں کو ان کے مقابلے میں بالکل چھوڑدیں اور خدا تعالیٰ کے فیصلہ پر نگاہ کریں.جس قدر وقت اُن کی بیہودگیوں اور گالیوں کی طرف توجہ کرنے میں ضائع کریں بہتر ہے کہ وہی وقت استغفار اور دعائوں کے لیے دیں.خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے ہماری جماعت کو یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ وہ اس اَمر کو مدِّ نظر رکھیں جو میں بیان کرتا ہوں.مجھے ہمیشہ اگر کوئی خیال آتا ہے تو یہی آتا ہے کہ دنیا میں تو رشتے ناطے ہوتے ہیں.بعض ان
میں سے خوبصورتی کے لحاظ سے ہوتے ہیں.بعض خاندان یا دولت کے لحاظ سے اور بعض طاقت کے لحاظ سے.لیکن جنابِ الٰہی کو ان امور کی پروا نہیں.اُس نے تو صاف طور پر فرما دیا کہ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ (الـحجرات : ۱۴) یعنی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہی معزز و مکرم ہے جو متقی ہے.اب جو جماعت اتقیا ہے خدا اس کو ہی رکھے گا اور دوسری کو ہلاک کرے گا.یہ نازک مقام ہے اور اس جگہ پر دو کھڑے نہیں ہوسکتے کہ متقی بھی وہیں رہے اور شریر اور ناپاک بھی وہیں.ضرور ہے کہ متقی کھڑا ہو اور خبیث ہلاک کیا جاوے اور چونکہ اس کا علم خدا کو ہے کہ کون اُس کے نزدیک متقی ہے.پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے.خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے اور بدبخت ہے وہ جو لعنت کے نیچے آیا ہے.الٰہی اور شیطانی الہام میں فرق اگر کوئی یہ خیال کرے کہ ان میں علماء بھی ہیں.ملہم بھی ہیں تو یہ ایک خیالی بات ہے اور اس سے کوئی فائدہ اس مقصد کو نہیں پہنچ سکتا جو انسانی ہستی کا ہونا چاہیے.یادرکھو وہ اَمر جس پر خدا راضی ہوتا ہے جب تک وہ نہ ہو نہ علم صحیح ہوتا ہے نہ الہام مفید.جو شخص پاخانہ کے پاس کھڑا ہے.پہلے تو اُس کو بدبو ہی آئے گی.پھر اگر عطر اس کے پاس کیا جاوے تو وہ اس سے کیا فائدہ اٹھائے گا.جب تک خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہ ہو کچھ نہیں ملتا اور خدا سے قریب کرنے والی بات صرف تقویٰ ہے.سچی آواز سننے کے لیے متقی بننا چاہیے.میں نے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو ہر آواز کو جو انہیں آجاوے الہام ہی سمجھتے ہیں حالانکہ اضغاثِ اَحلام بھی ہوتے ہیں.ہم یہ نہیں کہتے کہ جو آوازیں انہیں سنائی دیتی ہیں وہ بناوٹی ہیں.نہیں اُن کو آوازیں آتی ہوں گی مگر ہم ہر آواز کو خدا تعالیٰ کی آواز قرار نہیں دے سکتے جب تک اس کے ساتھ وہ انوار اور برکات نہ ہوں جو اﷲ تعالیٰ کے پاک کلام کے ساتھ ہوتے ہیں.اس لیے ہم کہتے ہیں کہ ان الہام کے دعویٰ کرنے والوں کو اپنے الہاموں کو اس کسوٹی پر پَرکھنا چاہیے اور اس بات کو بھی اُنہیں فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بعض آوازیں نری شیطانی ہوتی ہیں.اس لیے ان آوازوں پر ہی فریفتہ ہو جانادانشم مند انسان کا کام نہیں بلکہ جب تک اندرونی نجاست اور گند دور نہ ہو اور تقویٰ
کی اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل نہ ہو اور اس درجہ اور مقام پر انسان نہ پہنچ جاوے.جو دنیا ایک مرے ہوئے کیڑے سے بھی حقیر اور ذلیل نظر آوے اور اللہ تعالیٰ ہی ہر قول و فعل میں مقصود ہو اس مقام پر قدم نہیں پڑ سکتا جہاں پہنچ کر انسان اپنے اللہ کی آواز کو سنتا ہے.اور وہ آواز حقیقت میں اسی کی ہوتی ہے کیونکہ اس وقت یہ تمام نجاستوں سے پاک ہو گیا ہوتا ہے.غرض نری آوازیں اور چند رسمی کتابوں کے پڑھ لینے سے فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ فیصلہ کی اصل اور سچی راہ وہی ہے جس کو تائیدات الٰہیہ کہتے ہیں.ان سے ہی فیصلہ ہوتا ہے اور خدا ہی کا حربہ فیصلہ کرتا ہے.جو شخص خدا تعالیٰ کے حضور ایسے مقام پر کھڑا ہے جو نجاست سے بالکل الگ ہے.وہ وہی پاک آوازیں سنتا ہے جو حضرت موسی حضرت عیسٰی حضرت نوح حضرت ابراہیم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام نے سنیں اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو سنا تھا.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ان آوازوں کی صداقت اور عملی ظہور کے لئے انسانی ہاتھوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خود خدا تعالیٰ ان کی چمکار دکھاتا ہے.اگرچہ یہ بہت ہی باریک باتیں ہیں جو معرفت کے اسرار میں داخل ہیں.تاہم خوشبو اور بدبو اپنے مختلف نظاروں سے شناخت کی جا سکتی ہے.اچھے درخت کو کئی طرح پہچان لیتے ہیں.پتّوں سے بھی شناخت کر لیتے ہیں.میں نے ایک بار الائچی کا درخت انبالہ میں دیکھا اور ایک پتّا اُس کا لے کر سونگھا تو اس میں الائچی کی خوشبو موجود تھی اگرچہ ابھی اس کے تین درجے باقی تھے مگر خوشبو موجود تھی.دانشمند انسان بہت سے قرائن سے امر واقعی کو معلوم کر لیتا ہے.خباثت بھی ہزاروں پردوں میں چھپی رہتی ہے اور تقویٰ بھی ہزاروں پردوں میں مخفی رہتا ہے مگر ان کے آثار اور قرائن سے بخوبی پتہ لگ سکتا ہے.صوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے کوئی آدمی عین بدکاری کی حالت میں پکڑا جاوے تو اسے بہت ہی شرمندہ ہونا پڑتا ہے.ایسے ہی ایک متقی جب اپنے تقویٰ کے سیر و عبادت میں مصروف ہو اور کوئی اجنبی اس پر گزرے تو اس کو بھی شرمندہ ہونا پڑتا ہے شرمندگی کے موجبات تو ایک ہی ہیں.بدکار اپنی بدکاری کو امر مستور رکھنا چاہتا ہے اور متقی اپنے تقویٰ کو.غرض تقویٰ کے امور بہت پوشیدہ ہوتے ہیں بلکہ اصل تو یہ ہے کہ اس سر کی ملائکہ کو بھی خبر نہیں ہوتی.پھر دوسرے کو کیسے اطلاع مل سکتی ہے.
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو تعلق تَدَلّٰی کا تھا اس کی کیفیت کو اﷲ تعالیٰ جس قدر سمجھتا تھا اس کو کسی دوسرے نے ہرگز نہیں سمجھا.نہ حضرت ابو بکرنے اُسے سمجھا نہ حضرت علی نے اور نہ کسی اور نے.آپ کا انقطاعِ تام اور اﷲ تعالیٰ پر توکّل کرنا اور مخلوق کو مَرے ہوئے کیڑے سے ہیچ سمجھنا ایک ایسااَمر تھا جو دوسروں کو نظر نہ آسکتا تھا مگر خدا تعالیٰ کی تائیدوں کو دیکھ کر لوگ یہ نتیجہ ضرور نکالتے تھے کہ جیسا خدا تعالیٰ سے سچا اور قوی تعلق اُس نے پیدا کیا ہوا ہے.خدا تعالیٰ نے بھی اس سے کوئی فرق نہیں کیاہے.قرآن کریم اور انجیل کی تعلیمات کاموازنہ کیسی عظیم الشّان بات ہے کہ آپ کو کوئی مقام ذلّت کا کبھی نصیب نہیں ہوا بلکہ ہر میدان میں آپ ہر طرح معزز و مظفر ثابت ہوئے ہیں لیکن بالمقابل اگر مسیح کی حالت کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اُنہیں کیسی ذلّت پر ذلّت نصیب ہوئی ہے.بسا اوقات ایک عیسائی شرمند ہ ہوجاتا ہوگا جب وہ اپنے اس خدا کی حالت پر غور کرتا ہوگا جو انہوںنے فرضی اور خیا لی طور پر بنایا ہواہے.مجھے ہمیشہ تعجب اور حیرت ہوئی ہے کہ عیسائی اس تعلیم کو جو انجیل میں بیان ہوئی ہے اوراس خدا کو جس کے واقعات کسی قدر انجیل سے ملتے ہیں رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اسے ترجیح کیوں کردیتے ہیں مثلاًیہی تعلیم ہے کہ ایک گا ل پر طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیر دو.اب اس کے تمام پہلوؤں پر غور کر و تو صاف نظر آجائے گا کہ یہ کیسی بودی اور نکمّی تعلیم ہے.بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اُن سے بچے خوش ہوجاتے ہیں بعض سے متوسط درجے کے لوگ او ربعض سے اعلیٰ درجہ کے لوگ.انجیل کی تعلیم صرف بچوں کا کھلونا ہے کہ جس کی حقیقت کچھ بھی نہیں.کیا اللہ تعالیٰ نے جو انسان کو اس قدر قویٰ عطا فرمائے ہیں ان سب کاموضوع او ر مقصود یہی ہے کہ وہ طمانچے کھایاکرے؟ انسان انسان تب ہی بنتا ہے کہ وہ سارے قویٰ کو استعمال کرے، مگر انجیل کہتی ہے کہ سارے قویٰ کو بیکار چھوڑ دو اور ایک ہی قوت پر زور دیئے جائو.بالمقابل قرآن شریف تمام قوتوں کامربی ہے او ربرمحل ہر قوت کے استعمال کی تعلیم دیتا ہے جیسا کہ مسیح کی اس تعلیم کے بجائے قرآن شریف فرماتا ہے جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ (الشّورٰی: ۴۱) یعنی بدی کی سزا تو اسی قدر بدی ہے مگر عفو بھی کرو تو
ایسا عفو کہ اس کے نتیجہ میں اصلاح ہو، وہ عفو بے محل نہ ہو مثلاً ایک فرمانبردار خادم ہے اور کبھی کوئی خیانت اور غفلت اپنے فرض کے ادا کرنے میں نہیں کرتا.مگر ایک دن اتفاقاً اس کے ہاتھ سے گرم چاء کی پیالی گر جاوے اور نہ صرف پیالی ہی ٹوٹ جاوے بلکہ کسی قدرگرم گرم چاء سر پر بھی پڑجاوے تو اس وقت یہ ضرو ری نہیں کہ آقا اس کو سزا دے بلکہ اس کے حسبِ حا ل سزا یہی ہے کہ اس کو معا ف کردیا جاوے.ایسے وقت پر موقع شناس آقا تو خود شرمندہ ہو جا تا ہے کہ اس بیچا رے نوکر کو شرمندہ ہونا پڑے گا لیکن کوئی شریر نوکر اس قسم کا ہے کہ وہ ہر روز نقصان کر تا ہے اگر اس کو عفوکر دیا جائے تو وہ اور بھی بگڑے گا.اس کو تنبیہ ضروری ہے.غرض اسلام انسانی قویٰ کو اپنے اپنے موقع اور محل پر استعمال کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور انجیل اندھا دھند ایک ہی قوت پر زور دیتی چلی جاتی ہے.ع گر حفظِ مراتب نہ کنی زندیقی غرض حفظِ مراتب کا مقام قرآن شریف نے رکھا ہے کہ وہ عدل کی طرف لے جاتا ہے.تمام احکام میں اس کی یہی صورت ہے.مال کی طرف دیکھو نہ مُمسِک بنا تا ہے نہ مُسرف.یہی وجہ ہے کہ اس امّت کا نا م ہی اُمَّةً وَّسَطًا رکھ دیا گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح علیہ السلام پھر دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقرب کو دیکھنا چاہیے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ بادشاہ کے دل کی بات تو بادشاہ ہی جانتا ہے مگر جس پر وہ اسرار ظاہر کرتا ہے یا اپنی رضامندی کے آثار جس پر دکھاتا ہے ضروری ہے کہ ہم اس کو مقرّب کہیں.اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ہم دیکھتے ہیں تو آپ کے قرب کا مقام وہ نظر آتا ہے جو کسی دوسرے کو کبھی نصیب نہیں ہوا.وہ عطایا اور نعماء جو آپ کو دئیے گئے ہیں سب سے بڑھ کر ہیں اور جو اسرار آپ پر ظاہر ہوئے اور کوئی اس حد تک پہنچا ہی نہیں.قرآن شریف ہی کو دیکھ لو کہ کس قدرعظیم الشّان پیشگوئیاں اس میں موجود ہیں.حضرت مسیح کامجھے بارہا خیال آتا ہے کہ یہ نادان عیسائی کس شیخی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کامقابلہ کرنے بیٹھتے ہیں.حضرت مسیح کا تو
دعویٰ ہی بجائے خود محدود ہے.وہ صاف کہتے ہیں کہ میںبنی اسرائیل کی بھیڑوں کے لیے آیا ہوں.ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ الآیۃ ( اٰل عـمران : ۱۱۳) کی مصداق آپ کی دعوت کی مخاطب قوم تھی.یہ دعویٰ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی نمبر داری یا پتی داری کا دعویٰ کرے.اب اُن کی ہمت، استقلا ل اور توجہ اسی دعویٰ کی نسبت سے ہونی چاہیے.دوسری طرف ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا ( الاعراف: ۱۵۹) اب اس ہمت اور بلند نظری اور توجہ کامقابلہ کرو کیا یہی خدائی کی شان ہے کہ یہودیوں کے چار گھروں کے سوا اور کسی کی اصلاح کے لیے بھی نہیں آئے؟ خدا کے حسبِ حال توہونا چاہیے تھا کہ آپ کی دعوت کامیدان بڑا وسیع ہوتا.خیربنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوںکے لیے ہی دعوت سہی.مگر اب یہ بھی تو دیکھنا ہے کہ اس میں کامیابی کیا ہوئی.غور کیا جاوے اور انجیلی واقعات پر نگاہ کی جاوے تویہ راز بھی کھل جاتا ہے کہ آپ کو ہر میدان میں ذلیل ہونا پڑا.دشمنوں پر کامیابی نہ ملی بلکہ انہوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑھادیا اور قصہ پاک ہوا؟ اس خدا کامقابلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا جاتا ہے آپ ہر میدان میں مظفر ومنصور ہوئے.آپ کے دشمن آپ پر کبھی قابو اور غلبہ نہ پاسکے اور آپ کے سامنے ہی ہلاک ہوئے.آپؐکو بھیجا ایسے وقت میں گیا جبکہ زمانہ آپ کی ضرورت کو خودثابت کرتا تھا اور اُٹھائے ایسے وقت گئے جبکہ کامل اصلاح ہو چکی اور آپ اپنے فرضِ منصبی کو پوری کامیابی کے ساتھ ادا کر چکے اور اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المائدۃ :۴) کی آواز آپ نے سن لی.پھر مسیح کی طرف دیکھو آپ صلیب پر چڑھے ہوئے ہیں اور ایلی ایلی لما سبقتنی کی فریاد کرتے ہیں.یہودا اسکریوطی تیس روپیہ پر اپنے پاک اُستاد کو پکڑوا چکا ہے اور پطرس صاحب لعنت بھیج رہے ہیں مسیح کے لیے وہ نظارہ کیسا مایوسی بخش ہے.دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ آپ کے جاں نثار رفیق کس طرح پر اپنی جانیں آپ کے قدموں پر قربان کر رہے ہیں.ایسے وفادار اور فرمانبردار اصحاب اور رفیق کس کو ملے؟ اور یہ وفاداری اور اطاعت میں فنا کہ اپنی جانوں تک کے
دے دینے میں دریغ نہ کیا.آپؐکی ذاتی قوتِ قدسی کا ثبوت ہے جو مقابلہ کرنے سے مسیح میں کچھ بھی نظر نہیں آتی.قرآن کریم اور بائبل پھر اَسرار کی طرف نگاہ کرو.جس قدر اسرار اور رموز قرآن شریف میں ہیں تورات اور انجیل میں وہ کہاں؟ پھر قرآن شریف تمام امور کو صرف دعوے ہی کے رنگ میں بیان نہیں کر تا جیسے کہ تورات یا انجیل جو دعویٰ ہی دعویٰ کر تی ہیں بلکہ قرآن شر یف استدلالی رنگ رکھتا ہے کو ئی بات وہ بیا ن نہیں کرتا جس کے سا تھ اُس نے ایک قوی اور مستحکم دلیل نہ دی ہو.جیسی قرآن شریف کی فصا حت وبلا غت اپنے اندر ایک جذب رکھتی ہے جس طرح پر اس کی تعلیم میں معقولیت اور کشش ہے ویسے ہی اس کے دلائل مؤثر ہیں.غرض میرا مطلب ان ساری باتوں سے یہ ہے کہ سب سے بڑھ کرکامل اور مؤثر نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی وا رث جماعت اسی طرح پر اب بھی وہی خدا ہے جس نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر احسا ن اور انعا م کیے اور اسی طرح پر اب بھی اس کے فضل اور بر کا ت کے انعام ہو رہے ہیں.پس یاد رکھو کہ جو فریق اس حق کی مخا لفت کرتا ہے اور اسے مفتری کہتا ہے وہ جس قدر مخالفت چاہیں کریں.مخالف الہا م سنا ئیں ان کو آخر معلوم ہو جائے گا کہ غالب وہی ہوتا ہے جس کو خدا نے اپنا نور اور فضل دے کر بھیجا ہے اور خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنّت اور عادت کے موافق اس قو م پر اپنا فضل کرے گا جس کو اُس نے منتخب کیا ہے.وہی دنیا پر پھیلے گی اور وہی قرآن شریف، اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی وارث ہو گی.مومنین کے تین طبقے دنیا میں ہمیشہ انسانوں کے تین طبقے ہو تے ہیں سابق بالخیرات، مقتصد اور ظالم.سابقین کو نشانات اور معجزات کی ضرورت نہیں ہوتی وہ تو قرائن اور حالات موجود ہ سے پہچان لیتے ہیں.مقتصدین کوکچھ حصہ روشن دماغی کاملا ہوا ہوتا ہے
اور کچھ تاریکی کا، اس لیے وہ دلائل اور معجزات کے محتاج ہوتے ہیں.مگر تیسرا طبقہ جو ظالمین کا ہوتا ہے وہ چونکہ بہت ہی غبی اور بلید ہوتے ہیں بجز مار کھانے کے وہ نہیں مانتے.یہ ایک قسم کا جبر ہوتا ہے جو ہر مذہب حق میں پایا جاتا ہے، کیو نکہ ظالمین بجز اس کے سمجھ نہیں سکتے.حضرت مسیح کے لیے طیطاؤس رُومی کا اتفاق ہو گیا.موسیٰ کی قو م جو پہلے ہی سے مزدوریوں اور فر عو ن کی سختیوں سے نالاں تھی اس نے حضرت موسیٰ کی دعوت کو قبو ل کر لینا اپنی نجات کامو جب سمجھا اور پھر بھی اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح کے لیے وقتاً فوقتاً اُن پر عذاب بھیجتا رہا.کبھی طاعو ن کبھی زلزلے مختلف طریق پر انہیں منوایااور اسی طر ح ہوتا رہا ہے.غرض یہ ایک سنّت اللہ ہے کہ ظالمین کو اللہ تعالیٰ اس طر یق پر سمجھاتا ہے کیوں؟ یہ فرقہ زیادہ بھی ہوتا ہے اور غبی بھی.اس وقت بھی یہ فر قہ زیا دہ ہے جو نشا نات خدا نے ظاہر کئے ان پر بھی جرح کر تے ہیں.کسوف خسو ف کی حدیث کو مجرو ح قرار دے دیا.لیکھرام کی پیشگوئی پر اعتراض کر دیا.ہر نشان جو ظاہر ہوتا ہے اعتراض کر دیتے ہیں مگر خدا تو سب کامرشد ہے اس نے تیسری صورت اور آخری حجّت اختیار کی ہے جو طاعون ہے.طاعو ن کا علاج توبہ، استغفا ر اور تہجد طاعون کا علا ج توبہ و استغفا رہی ہے.یہ کوئی معمولی بلا نہیں بلکہ ارادہ الٰہی سے نازل ہو ئی ہے یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہماری جماعت میں سے کسی کو نہ ہو.صحابہ میں سے بھی بعض کو طاعو ن ہو گئی تھی لیکن ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کے حضور تضرّع اور زاری کرتا ہے اور اس کے حدود و احکام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے جلا ل سے ہیبت زدہ ہو کر اپنی اصلاح کرتا ہے وہ خدا کے فضل سے ضرور حصہ لے گا اس لیے ہماری جماعت کوچا ہیے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں.جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیو نکہ اس کو دعا کرنے کاموقع بہر حال مل جائے گا اس وقت کی دعاؤں میں ایک خا ص تا ثیر ہو تی ہے کیو نکہ وہ سچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں.جب تک ایک خا ص سو ز اور درد دل میں نہ ہو اس وقت تک ایک شخص خوابِ راحت سے بیدا ر کب ہو سکتا ہے؟
پس اس وقت کا اُٹھنا ہی ایک دردِ دل پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقّت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیتِ دعا کاموجب ہو جاتے ہیں، لیکن اگر اٹھنے میں سُستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اور سوز دل میں نہیں کیو نکہ نیند تو غم کو دور کر دیتی ہے لیکن جبکہ نیند سے بیدار ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی درد اور غم نیند سے بھی بڑھ کر ہے جو بیدار کر رہا ہے.پھر ایک اور بات بھی ضرو ری ہے جو ہما ری جماعت کو اختیار کرنی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ زبان کو فضول گوئیوں سے پاک رکھا جاوے زبان وجود کی ڈیوڑھی ہے اور زبان کو پاک کرنے سے گویا خدا تعالیٰ وجود کی ڈیوڑھی میں آجاتا ہے جب خدا ڈیو ڑھی میں آگیا تو پھر اندرآنا کیا تعجب ہے؟ پھر یاد رکھو کہ حقوق اللہ اور حقوقِ عبا د میں دانستہ ہرگز غفلت نہ کی جاوے.جو اِن امور کو مدّ ِ نظر رکھ کر دعاؤں سے کام لے گا یا یوں کہو کہ جسے دعا کی تو فیق دی جاوے گی ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اور وہ بچ جاوے گا.ظاہری تدا بیر صفا ئی وغیرہ کی منع نہیں ہیں بلکہ برتوکّل زانوے اشتر بہ بند پر عمل کرنا چاہیے جیسا کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ سے معلوم ہوتا ہے.مگر یاد رکھو کہ اصل صفائی وہی ہے جو فر مایا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشّمس:۱۰) ہر شخص اپنا فرض سمجھ لے کہ و ہ اپنی حالت میں تبدیلی کرے.تمہیںیا د ہو گا کہ مجھے الہا م ہو ا تھا اَیَّامُ غَضَبِ اللہِ غَضِبْتُ غَضْبًا شَدِیْدًا یہ طاعو ن کے متعلق ہے مگر وہی خدا کے فضل کا امیدوار ہو سکتا ہے جو سلسلہ دعا، توبہ اور استغفار کا نہ توڑے اور عمداََ گناہ نہ کرے.گناہ ایک زہر ہے جو انسان کو ہلا ک کر دیتی ہے اور خدا کے غضب کو بھڑکاتی ہے گناہ سے صرف خدا تعالیٰ کا خوف اور اس کی محبت ہٹاتی ہے طاعون بھی گناہوں سے بچانے کے لیے ہے.صوفی کہتے ہیں کہ سعید کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں دیتے.بعض کے حالات سنے ہیں کہ انہوں نے دعا کی کہ کوئی ہیبت ناک نظارہ ہو تاکہ دل میں رقّت اور درد پیدا ہو.اب اس سے بڑھ کر کیا ہیبت ناک نظارہ ہوگا کہ لاکھوں بچے یتیم کیے جاتے ہیں.بیوائوں سے گھر بھر جاتے ہیں.ہزاروں خاندان بے نام و نشان
ہو جاتے ہیں اور کوئی باقی نہیں رہتا.اﷲ تعالیٰ کی یہ سنّت ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کو ایسے موقعوں پر ہمیشہ بچا لیتا ہے جبکہ بلائیں عذابِ الٰہی کی صورت میں نازل ہوں.پس اس وقت خدا کا غضب بڑھا ہوا ہے اور حقیقت میں یہ خدا کے غضب کے ایام ہیں اس لیے کہ خدا کے حدود اور احکام کی بے حُرمتی کی جاتی ہے اور اس کی باتوں پر ہنسی اور ٹھٹھا کیا جاتا ہے.پس اس سے بچنے کے لیے یہی علاج ہے کہ دعا کے سلسلہ کو نہ توڑو اور توبہ و استغفار سے کام لو.وہی دعا مفید ہوتی ہے جبکہ دل خدا کے آگے پگھل جاوے اور خدا کے سوا کوئی مفرّ نظر نہ آوے جو خدا کی طرف بھاگتا ہے اور اضطرار کے ساتھ امن کا جویاں ہوتا ہے وہ آخر بچ جاتا ہے.۱ ۵ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء ۵؍اپریل ۱۹۰۲ء کی شام کو چند آدمی بیعت کے لئے آئے ہوئے تھے.آپ نے بعد بیعت بظاہر ان کو خطاب کر کے کل جماعت کو یوں ہدایت فرمائی.(ایڈیٹر) استغفار کرتے رہو اور موت کو یاد رکھو موت سے بڑھ کر اور کوئی بیدار کرنے والی چیز نہیں ہے.جب انسان سچے دل سے خدا کی طرف رجوع کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اپنا فضل کرتا ہے.جس وقت انسان اﷲ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ پہلے گناہ بخش دیتا ہے پھر بندے کا نیا حساب چلتا ہے.اگر انسان کا کوئی ذرا سا بھی گناہ کرے تو وہ ساری عمر اس کا کینہ اور دشمنی رکھتا ہے اور گو زبانی معاف کر دینے کا اقرار بھی کرے لیکن پھر بھی جب اسے موقع ملتا ہے تو اپنے اس کینہ اور عداوت کا اس سے اظہار کرتا ہے.یہ خدا تعالیٰ ہی ہے کہ جب بندہ سچے دل سے اس کی طرف آتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کو معاف کر دیتا اور رجوع بہ رحمت فرماتا ہے.اپنا فضل اس پر نازل کرتا ہے اور اس گناہ کی سزا کو معاف کر دیتا ہے، اس لیے تم بھی اب ایسے ہو کر جائو کہ تم وہ ہو جائو جو پہلے نہ تھے.نماز سنوار کر پڑھو.خدا جو یہاں ہے وہاں بھی ہے.پس ایسا نہ ہو کہ جب تک تم یہاں
ہو تمہارے دلوں میں رقّت اور خدا کا خوف ہو اور جب پھر اپنے گھروں میں جائو تو بے خوف اور نڈر ہو جائو.نہیں بلکہ خدا کا خوف ہر وقت تمہیں رہنا چاہیے.ہر ایک کام کرنے سے پہلے سوچ لو اور دیکھ لو کہ اس سے خدا تعالیٰ راضی ہو گا یاناراض.نماز کس طرح پڑھنی چاہیے نماز بڑی ضروری چیز ہے اور مومن کامعراج ہے.خدا تعالیٰ سے دعا مانگنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے.نماز اس لیے نہیں کہ ٹکریں ماری جاویں یا مرغ کی طرح کچھ ٹھونگیں مار لیں.بہت لوگ ایسی ہی نمازیں پڑھتے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ کسی کے کہنے سننے سے نماز پڑھنے لگتے ہیں یہ کچھ نہیں.نماز خدا تعالیٰ کی حضوری ہے اور خدا تعالیٰ کی تعریف کرنے اور اس سے اپنے گناہوں کے معاف کرانے کی مرکب صورت کا نام نماز ہے.اس کی نماز ہرگز نہیں ہوتی جو اس غرض اور مقصد کو مدِّ نظر رکھ کر نماز نہیں پڑھتا.پس نماز بہت ہی اچھی طرح پڑھو.کھڑے ہو تو ایسے طریق سے کہ تمہاری صورت صاف بتادے کہ تم خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں دست بستہ کھڑے ہو اور جھکو تو ایسے جس سے صاف معلوم ہو کہ تمہارا دل جھکتا ہے اور سجدہ کرو تو اس آدمی کی طرح جس کا دل ڈرتا ہے اور نمازوں میں اپنے دین اور دنیا کے لیے دعا کرو.طاعون ایک غضبِ الٰہی ہے طاعون جو دنیا میں آئی ہے اور اُس نے لاکھوں انسانوں کو زیر زمین کر دیا ہے، جس سے لاکھوں بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوگئی ہیں بلکہ کئی گھر بالکل تباہ ہو گئے اور خاندانوں کے خاندان بے نام ونشان ہو گئے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کا ایک غضب ہے جو انسانوں کی غفلت اور حد سے بڑھی ہوئی شرارت اور انکار کی وجہ سے آیا ہے.خدا تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ جب انسان غافل ہو جاتا ہے اور طرح طرح کی بدکاریوں اور فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس وقت خدا کا غضب جوش میں آتا ہے.اس وقت بھی دنیا کی ایسی ہی حالت ہو گئی تھی.کچھ تو خود گمراہ ہی تھے اور غفلت اور سُستی ان میں آگئی تھی.سچے مذہب کے سچے
عقائد کو چھوڑ بیٹھے تھے اور تمام اعمالِ صالحہ کی جگہ صرف چند رسومات نے لے لی تھی.اس پر پادریوں نے اور بھی مٹی پلید کی.اُنہوں نے مختلف ذریعوں سے اس بیہودہ مذہب کو جس میں ایک عاجز انسان کو جو مَر گیا ہے خدا بنایا گیا.لوگوں کے سامنے عجیب عجیب رنگ دے کر پیش کیا اور اس کے خون کو گناہوں کا کفارہ قرار دے کر بیباک زندگی بسر کرنے کی ترغیب دی.حیلہ جو طبیعتوں کو ایک بہانہ مل گیا اور بہت سے مرتد ہوگئے اور اکثروں نے دین کی عظمت کو دل سے دور کر دیا.پادریوں کے اس فتنہ کے ساتھ ہی یہ نقص پیدا ہوا کہ انگریزی تعلیم اور انگریزی وضع نے بھی ایک قسم کی نصرانیت پھیلادی جبکہ سروں میں آزادی ہی آزادی کا خیال بھر گیا.ادھر یورپ کے فلسفہ اور طبیعیات نے اپنی جدید تحقیقاتیں جو پیش کیں تو علماء نے اپنی کمی معرفت اور علومِ حقہ سے بیخبری کے باعث اور بھی نقصان اسلام کو پہنچایا.ان میں سے بعض نے تو قرآن کریم کی تعلیمات کی اس فلسفہ سے دب کر ایسی تاویلیں شروع کر دیں جو خدا تعالیٰ کے پاک کلام کے منشا کے صریح خلاف تھیں اور بعض نے سرے سے ان علوم جدیدہ کے پڑھنے والوں کے اعتراضوں پر ان کوکفر کے فتوے دینے شروع کر دیئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزی تعلیم نے جو آزادی پھیلا دی تھی اس نے مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے ہوئے بچوں کو بالکل بیباک کر دیا اور پھر ایک اور آفت یہ آئی کہ مسلمانوں میں سستی اور غفلت تو پیدا ہو ہی چکی تھی سچے عقائد کو چھوڑ کر قسم قسم کی بدعتیں اور سلسلے خدا تعالیٰ کے سچے دین اور سلسلے کے خلاف پیدا کیے گئے اور مشرکا نہ تعلیمات اور وظائف قائم کر لیے.ان ساری آفتوں کے ہوتے ہوئے جب خدا تعالیٰ نے اپنے قدیم قانون کے موافق محض اپنے فضل سے ایک بندہ بھیج دیا جو ان ساری مصیبتوں کا چارہ گر اور مداوا تھا.ان لوگوں نے ناحق اسے تکلیف دی اور اس کی مخالفت کے لیے اٹھے.جب ان کی مخالفت اور شرارت حد سے بڑھ گئی اور خدا تعالیٰ کے حضور ان کی شوخیاں اور گستاخیاں اور بے جا ضد اور عداوت سے ملا ہوا انکار قابل سزا ٹھہر گیا تو اس نے اپنے وعدہ کے موافق اس بندہ کی تائید کے لیے طاعون بھیجا.ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ
ﷲ تعالیٰ اس مرض سے محفوظ رکھے اور اپنی پناہ میں لے.طاعون کوئی معمولی مرض نہیں ہے اور نہ اس کے دورہ کا کوئی خاص نظام ہے بلکہ بعض اوقات یہ سالہائے دراز تک اپنا سلسلہ جاری رکھتی ہے اور اس وقت تو طاعون خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص کام کے لیے مامور کی گئی ہے.وہ لوگ غلطی اور گناہ کرتے ہیں جو طاعون کو بُرا کہتے ہیں.یہ خدا کا فرشتہ ہے جو اس کے بندے کی سچائی پر ایک گواہی قائم کرنے کے لیے آیا ہے.۱ طاعون کی شدت اور اس کے متعلق پیشگوئیاں پس ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ خدا اس سے محفوظ رکھے.بظاہر طاعون ہر ایک گائوں کا دورہ کرے گی یہ نہ سمجھو کہ کوئی باقی رہ جاوے گا.وہی بچ سکتا ہے جو توبہ اور استغفار میں مصروف ہے.اس لیے اس وقت ضروری ہے کہ اپنی جان اور اپنی بیوی بچوں پر رحم کرو.یہ خدا تعالیٰ کے غضب کے دن ہیں.بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی بدکاریاں اور شوخیاں اس حدتک پہنچی ہوئی ہوتی ہیں کہ جب وہ خدا کے غضب سے ہلاک ہوتا ہے تو اس لعنت اور غضب کا اثر اُس کی اولاد تک بھی پہنچتا ہے.اسی لیے قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے وَ لَا يَخَافُ عُقْبٰهَا (الشّمس : ۱۶).عُقْبٰهَا سے اولاد اور پسماندگان مُراد ہیں.جہاں جہاں طاعون پھیلا ہے.لوگ کتوں کی طرح مَرتے ہیں.بعض مُردہ چوہوں کی طرح بدبودار ہو جاتے ہیں.کوئی اُن کو اُٹھا بھی نہیں سکتا اور ان کے جنازوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر قبروں میں ڈالتے ہیں.بہت سے خطوط طاعون زدہ علاقوں اور گائوںسے آئے ہیں.جن میں لکھا ہوا تھا کہ کوئی جنازہ نہیں پڑھتا.مُرداروں کی طرح مُردوں کو گڑھے کھود کر ڈال دیا جاتا ہے مگر تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ لوگوں نے اس بات کی طرف توجہ نہیں کی کہ خدا تعالیٰ کا یہ غضب کیوں آیا؟ میں یقیناً کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو لوگ آتے ہیں جب اُن کی باتوں کو لوگ نہیں مانتے اور شرارت اور شوخی سے اُن کا انکار کر کے ایذا رسانی کی حدتک پہنچ جاتے ہیں تو پھر خدا تعالیٰ کا
غضب کسی نہ کسی رنگ میں جوش میں آتا ہے چنانچہ پہلے نبیوں کے وقت میں کسی قوم کو کسی عذاب سے ہلاک کیا، کسی کو کسی سے،مگر اس وقت جو مسیح موعود کا زمانہ ہے خدا تعالیٰ نے اس شرارت اور شوخی سے ملے ہوئے انکار کی سزا کے لیے طاعون کو مقرر کیا ہے.چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے زمانہ کا نشان طاعون قرار دیا اور انجیل میں بھی اسی کی صداقت موجود ہے.براہین احمدیہ میں بھی آج سے پچیس برس پیشتر خدا تعالیٰ نے طاعون کے پھیلنے کی خبر دی تھی.چونکہ انکار حد سے زیادہ بڑھ گیا اور انکار کے ساتھ شرارت اور ایذا رسانی بھی ہے اور قسم قسم کے طعن کیے جاتے ہیں، اس لیے خدا تعالیٰ نے طاعون ہی کو سزا کے لیے بھیجا.اور یہ بات کہ مامور من اﷲ کی تکذیب اور ایذارسانی پر عذاب کیوں آتا ہے ایسی صاف ہے کہ تم اس کی مثال ایسی سمجھ سکتے ہو جیسے سرکار کسی چپڑاسی کو معاملہ وصول کرنے کے لیے بھیجے حالانکہ وہ چپڑاسی پانچ چھ روپیہ ماہوار کاملازم ہوتا ہے.لیکن اگر کوئی اس کو معاملہ نہ دے یا شرارت کر کے اس کو دکھ دے تو گورنمنٹ سارے گائوں کو سزا دینے کے لیے تیار ہو جاتی ہے خواہ اس میں کیسے ہی معزز اور دولتمند زمیندار بھی ہوں.اسی طرح پر خدا تعالیٰ کے ماموروں کی بے عزّتی کی جاوے تو خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور اس کا غضب بھڑک اُٹھتا ہے.اس وقت وہ شریروں کو سزا دینے کے لیے اپنے بندے کی حمایت میں نشان ظاہر کرتا ہے.مسیح موعود کی بعثت کی غرض پھر میں یہ کہتا ہوں کہ خدا کی طرف سے جو آتے ہیں وہ کوئی بُری بات تو کہتے ہی نہیں.وہ تو یہی کہتے ہیں کہ خدا ہی کی عبادت کرو اور مخلوق سے نیکی کرو.نمازیں پڑھو اور جو غلطیاں مذہب میں پڑ گئی ہوئی ہیں، انہیں نکالتے ہیں چنانچہ اس وقت جو میں آیا ہوں تو میں بھی اُن غلطیوں کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا ہوں جوفیجِ اعوج کے زمانہ میں پیدا ہو گئی ہیں.سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کو خاک میں ملا دیا گیا ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور اہم اور اعلیٰ تعلیم توحید کو مشکوک کیا گیا ہے.ایک طرف تو عیسائی کہتے ہیں کہ یسوع زندہ ہے اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نہیں ہیں اور وہ اس سے حضرت عیسیٰ کو خدا اور خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں.کیونکہ وہ دو ہزار برس سے زندہ
چلے آتے ہیں نہ زمانہ کا کوئی اثر اُن پر ہوا.دوسری طرف مسلمانوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ بیشک مسیح زندہ آسمان پر چلا گیا ہے اور دو ہزار برس سے اب تک اسی طرح موجود ہے.کوئی تغیّر وتبدّل اس کی حالت اور صورت میں نہیں ہوا.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مَر گئے.میں سچ کہتا ہوں کہ میرا دل کانپ جاتا ہے، جب میں ایک مسلمان مولوی کے منہ سے یہ لفظ سنتا ہوں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مَر گئے.زندہ نبی کو مُردہ رسول قرار دیا گیا.اس سے بڑھ کر بے حرمتی اور بے عزّتی اسلام کی کیا ہوگی؟ مگر یہ غلطی خود مسلمانوں کی ہے جنہوں نے قرآن شریف کے صریح خلاف ایک نئی بات پیدا کرلی.قرآن شریف میں مسیح کی موت کا بڑی وضاحت سے ذکر کیا گیا ہے، لیکن اصل میں اس غلطی کا ازالہ میرے ہی لیے رکھا تھا کیونکہ میرا نام خدا نے حَکم رکھا ہے.اب جو اس فیصلہ کے لیے آوے وہی اس غلطی کو نکالے.دنیا نے اس کو قبول نہ کیا پر خدا اُس کو قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.اس قسم کی باتوں نے دنیا کو بڑا نقصان پہنچایا ہے.مگر اب وقت آگیا ہے کہ یہ سب جھوٹ ظاہر ہو جاوے.خدا تعالیٰ نے جس کو حَکم کر کے بھیجا اس سے یہ باتیں مخفی نہیں رہ سکتی ہیں.بھلا دائی سے پیٹ چُھپ سکتا ہے.قرآن نے صاف فیصلہ کر دیا ہے کہ آخری خلیفہ مسیح موعود ہوگا اور وہ آگیا ہے.اب بھی اگر کوئی اس پر لکیر کا فقیر رہے گا جو فیجِ اعوج کے زمانہ کی ہے تو وہ نہ صرف خود نقصان اٹھائے گا بلکہ اسلام کو نقصان پہنچانے والا قرار دیا جاوے گا اور حقیقت میں اس غلط اور ناپاک عقیدہ نے لاکھوں آدمیوں کو مرتد کر دیا ہے.اس اصول نے اسلام کی سخت ہتک کی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین.جب یہ مان لیا کہ مُردوں کو زندہ کرنے والا، آسمان پر جانے والا، آخری انصاف کرنے والا یسوع مسیح ہی ہے تو پھر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو معاذاﷲ کچھ بھی نہ ہوئے حالانکہ اُن کو رَحْـمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن کہا گیا اور وہ کَافّۃَ النّاس کے لیے رسول ہو کر آئے.خاتم النبیین وہی ہوئے.ان لوگوں کا جنہوں نے مسلمان کہلا کر ایسے بیہودہ عقیدہ رکھے ہیں یہ بھی مذہب ہے کہ اس وقت جو پرندے موجود ہیں اُن میں کچھ مسیح کے ہیں اور کچھ خدا تعالیٰ کے.نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ.میں نے ایک بار ایک موحّد سے سوال کیا کہ اگر اس وقت دو جانور پیش کیے جاویں
ور پوچھا جاوے کہ خدا کا کونسا ہے اور مسیح کا کونسا ہے.تو اُس نے جواب دیا کہ مل جل ہی گئے ہیں.۱ پھر وہ دین جو خدا تعالیٰ کی توحید کا سرچشمہ تھا اور جس کی حمایت اور آبیاری کے لیے زمین صحابہؓ کے پاک خون سے سرخ ہو گئی تھی اسی کے ماننے کا دعویٰ کرنے والوں نے ایک عورت کے بچہ کو عیسائیوں کا تتبع کر کے خدا بنادیا اور خدا کی صفات کو اس میں قائم کر دیا.جب یہاں تک نوبت پہنچ گئی تو خدا تعالیٰ نے اپنی غیرت اور جلال کے لیے یہ سلسلہ قائم کیا اور اُس نے اس نبی ناصری کے نمونہ پر (جس کو نادان مسلمانوں نے خدائی صفات سے متّصف کرنا چاہا ہے)مجھے بھیجا ہے، مگر ان لوگوں نے جو ضد اور تعصّب سے خالی نہ تھے بلکہ اُن کے دل ان تاریک بخارات سے سیاہ ہو چکے تھے میری مخالفت کی اور اس مخالفت کو شرارت اور ایذ ارسانی کی حدتک پہنچایا.اس پر خدا تعالیٰ نے جو اپنے بندوں کے لیے غیرت رکھتا ہے طاعون کو بھیجا.اور یہ اس وقت ہوا ہے جب ہر قسم کی حجّت پوری ہو چکی.عقلی دلائل اُن کے سامنے پیش کیے گئے.نصوص قرآنیہ حدیثیہ سے اُن پر حجّت پوری کی اور آخر خدا تعالیٰ کے تائیدی نشانات بھی کثرت کے ساتھ ظاہر ہوئے.ہر قسم کے نشان اُن کو ملے مگر انہوں نے اُن کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور اُن پر ٹھٹھا کیا.اس لیے آخری علاج طاعون رکھا گیا.یہ وہ نشان ہے جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے آج سے پچیس برس پہلے براہین میں بھی کیا ہے اور خدا تعالیٰ نے پہلی کتابوں میں بھی مسیح موعود کے زمانہ کا یہ ایک نشان رکھا ہے.اس سے وہی بچیں گے جو توحید اختیار کریں گے اور عاجز انسان کو خدا نہ بنائیں گے اور خدائی صفات سے اس کو متّصف نہ ٹھہرائیں گے اور خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول کی قدر کریں گے.مسئلہ وفاتِ مسیح کی اہمیت سب سے پہلی بات جو یاد رکھنی چاہیے وہ وفاتِ مسیح کا ہی مسئلہ ہے.یہ لوگ بعض وقت دھوکا دیتے ہیں کہ وفات مسیح کی بحث کی ضرورت ہی کچھ نہیں حالانکہ اصل جڑ یہی ہے.اسی مسئلہ سے عیسائیوں کی ساری کارروائی باطل ہوتی ہے اور حضرت مسیح کی خدائی کی ٹانگ ٹوٹتی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دنیا میں
قائم ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے وفاتِ مسیح کے مسئلہ پر بر خلاف اور نبیوں کی وفات کے بہت ہی بڑا زور دیا ہے.اور تیس۳۰ سے بھی زیادہ آیتوں میں اس مضمون کو بیان کیا ہے چنانچہ يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ اور فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ وغیرہ آیتوں میں بڑی صراحت کے ساتھ یہ ذکر موجود ہے.یہ بیوقوف کہتے ہیں کہ وفات نہیں ہوئی بلکہ خدا نے آسمان پر اُٹھا لیا.یہ غلطیاں ہیں جو کتاب اﷲ کے خلاف دین کی ہتک کے لیے لوگوں نے از خود پیدا کر لی ہیں.خدا تعالیٰ نہیں چاہتا ہے کہ اس کی صفات عاجز انسان کو دی جاویں.پھر کس شیخی پر یہ اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں.کیا اسلام اسی کا نام ہے کہ یہ اقرار کیا جاوے کہ کچھ مخلوق خدا کی ہے اور کچھ مسیح کی.میں سچ کہتا ہوں کہ ایسے عقائد بنا کر ان لوگوں نے اسلام کی ہتک کی ہے.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی ہے اور خدا تعالیٰ کی مخالفت کی ہے.افسوس! کیا اسلام یہی برکت لے کر دنیا میں آیا تھا؟ اسی کا نام اتمامِ نعمت تھا؟ خالص توحید اسلام نے سکھائی اسلام وہ مصفّا اور خالص توحید لے کر آیا تھا، جس کا نمونہ اور نام و نشان بھی دوسرے ملتوں اور مذہبوں میں پایا نہیں جاتا.یہاں تک کہ میرا ایمان ہے کہ اگر چہ پہلی کتابوں میں بھی خدا کی توحید بیان کی گئی ہے اور کُل انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض اور منشا بھی توحید ہی کی اشاعت تھی.لیکن جس اسلوب اور طرز پر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم توحید لے کر آئے اور جس نہج پر قرآن نے توحید کے مراتب کو کھول کھول کر بیان کیا ہے کسی اور کتاب میں اس کا ہرگز پتہ نہیں ہے.پھر جب ایسے صاف چشمہ کو انہوں نے مکدّر کرنا چاہا ہے تو بتائو اسلام کی توہین میں کیا باقی رہا.اس پر اُن کی بد قسمتی یہ ہے کہ جب اُن کو وہ اصل اسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے پیش کیا جاتا ہے اور قرآن شریف کے ساتھ ثابت کر کے دکھایا جاتا ہے کہ تم غلطی پر ہو تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا اسی طرح مانتے آئے ہیں.مگر میں کہتا ہوں کہ کیا اتنی بات کہہ کر یہ اپنے آپ کو بَری کر سکتے ہیں؟ نہیں! بلکہ قرآن شریف کے موافق اور خدا تعالیٰ کی سنّت ِقدیم کے مطابق اس قول سے بھی ایک حجّت اُن پر پوری ہوتی ہے.جب کبھی کوئی خدا کامامور اور مرسل آیا ہے تو مخالفوں نے اس کی تعلیم کو سُن کر یہی کہا
ہے مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِيْۤ اٰبَآىِٕنَا الْاَوَّلِيْنَ (المؤمنون : ۲۵) مجدّدین کی ضرورت تعجب کی بات ہے کہ تجدید کا قانون یہ روز مرہ دیکھتے ہیں.ایک ہفتہ کے بعد کپڑے بھی میلے ہو جاتے ہیں اور اُن کے دھلانے کی ضرورت پڑتی ہے لیکن کیا پوری صدی گذر جانے کے بعد بھی مجدّد کی ضرورت نہیں ہوتی؟ ہوتی ہے اور ضرور ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدّد اصلاحِ خلق کے لیے آتا ہے کیونکہ صدی کے اس درمیانی حصہ میں بہت سی غلطیاں اور بدعتیں دین میں شامل کر لی جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ کبھی پسند نہیں فرماتا کہ اس کے پاک دین میں خرابی رہ جاوے اس لیے وہ ان کی اصلاح کی خاطر مجدّد بھیج دیتا ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین پھر تابعین پھر تبع تابعین کے زمانے کیسے مبارک زمانے تھے.ان تین زمانوں کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خیرالقرون فرمایا ہے.بعد اس کے نیکی اور خیر میں کمی آتی رہی اور غلطیاں پیدا ہونے لگیں.یہاںتک کہ بہت ہی خطرناک غلطیاں پیدا ہوگئیں.یہ وہ زمانہ ہے جس کا نام رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیجِ اعوج رکھا ہے اور جس میں جھوٹ کثرت سے پھیل گیا اور جس کی بابت آپؐ نے فرمایا لَیْسُوْ امِنِّیْ وَلَسْتُ مِنْـہُمْ.ظہور مہدی و مسیح موعود کی غرض اب اس زمانہ کے بعد خدا نے چاہا ہے کہ ان غلطیوں کو دور کرے اور اسلام کا حقیقی چہرہ پھر دنیا کو دکھائے اور شرک اور مُردہ انسان کی پرستش کو دور کرے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروزی طور پر ظہور ہوا اور آپؐکی عظمت کو مسیح کے مقابلہ میں ظاہر کرنے کے لیے خدا کی غیرت نے چاہا کہ احمدؐ کے غلام کو مسیح سے افضل قرار دیا.اسی بات کے لیے سورج چاند کو رمضان میں مقررہ تاریخوں پر پیشگوئی کے موافق گرہن لگا.یہ مولوی جب تک یہ واقع نہ ہوا تھا مہدی کی علامتوں میں بڑے زور و شور سے منبروں پر چڑھ چڑھ کر اس کو بیان کرتے تھے.لیکن اب جبکہ خدا تعالیٰ نے اپنے وقت پر اس نشان کو ظاہر کر دیا تو میری مخالفت
کے لیے یہ خدا تعالیٰ کے اس جلیل الشان نشان کی بے حُرمتی کرتے ہیں اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک پیشگوئی کی توہین کرتے ہوئے حدیثوں کو جھوٹا قرار دیتے ہیں!!! افسوس.اسی طرح پر یہود کے بڑے بڑے مولوی فقیہ اور فریسی کرتے تھے.جب حضرت مسیح آئے اُنہوں نے بھی انکار کیا.یاد رکھو حق میں ایک خوشبو ہوتی ہے او وہ خود بخود پھیل جاتی ہے اور خدا اس کی حمایت کرتا ہے.جب خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا تھا اس وقت میں اکیلا تھا اور کوئی مجھے جانتا بھی نہ تھا مگر اب پچاس ہزار سے بھی زیادہ انسان اس سلسلہ میں شامل ہیں اور اطرافِ عالَم میں اس دعویٰ کا شور مچ گیا ہے.خدا تعالیٰ اگر ساتھ نہ ہوتا اور اُس کی طرف سے یہ سلسلہ نہ ہوتا تو اس کی تائید کیوں کر ہوسکتی تھی اور یہ سلسلہ قائم کیوں کر رہ سکتا تھا؟ مخالفت کی وجہ اور پھر یہ نہیں کہ اس طریق میں سب کو خوش کیا گیا تھا؟ نہیں بلکہ سب سے مخالفت اور سب کو ناراض کیا گیا.عیسائی الگ ناراض اور سب سے بڑھ کر ناراض ہیں جبکہ اُن کو سنایا گیا کہ صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کرنے آیا ہوں اور اُن کو دعوت کی گئی کہ تمہارا یسوع مسیح جس کو تم نے خدا بنایا ہے اور جس کی صلیبی موت پر جو تمہارے نزدیک لعنتی موت ہے تمہاری نجات منحصر ہے وہ ایک عاجز انسان تھا اور وہ کشمیر میں مَرا پڑا ہے.عیسائی اگر ناراض تھے تو اور کسی قوم کے ساتھ بھی صلح نہ رہی.آریوں کے ساتھ الگ مخالفت جبکہ اُن کے نیوگ، تناسخ اور دوسرے معتقدات کی ایسی تردید کی گئی کہ جس کا جواب اُن سے کبھی نہ ہوسکے گا.اور آخر خدا تعالیٰ نے اپنے ایک بیّن نشان کے ساتھ اُن پر حجّت پوری کی.اور اگر باہر والے ناراض تھے تو مسلمان ہی خوش ہوتے، مگر تم دیکھ لو کہ ان لوگوں کی جب غلطیاں نکالی گئیں اُن کے مشائخ، پیرزادوں مولویوں اور دوسرے لوگوں کی بدعتوں اور مشرکانہ رسومات کو ظاہر کیا گیا اور اُن کے خانہ ساز عقائد کو کھولا گیا تو یہ سب سے بڑھ کر دشمن ثابت ہوئے.اب ان سب لوگوں کی مخالفت کے ہوتے ہوئے اس سلسلہ کا ترقی کرنا اور دن بدن بڑھنا بتائو خدا کی تائید کے بغیر ہو سکتا ہے؟ کیا انسانی منصوبوں سے یہ عظیم الشّان سلسلہ چل سکتا ہے؟
انسان کی عادت میں داخل ہے کہ جب اس کی عادت اور عقیدہ کے خلاف کہا جاوے تو وہ مخالف ہو جاتا ہے اور ناراض ہو جاتا ہے.ایک ہندو کو جب گنگا کے خلاف ذرا سی بات بھی کہی جاوے تو وہ دشمن بن جاتا ہے.پھر کُل مذاہب کے خلاف کہا گیا وہ کیوں ناراض نہ ہوتے اور اس پر اگر خدا کی طرف سے یہ کام نہ ہوتا تو تباہ ہو جاتا.اس قدر مخالفت کے ہوتے ہوئے اس کا سر سبز ہونا ہی اس کے خدا کی طرف سے ہونے کی دلیل ہے.پھر عام پیروں اور مشائخ کی طرح نہیں کہ نذر و نیاز سے ہی کام ہے خواہ وہ چور ی کی ہی ہو اور کچھ بھی خدا تعالیٰ کی سچی شریعت کے متعلق نہیں بتاتے بلکہ بتاتے ہوئے ڈرتے ہیں.وہ اس قدر جرأت نہیں کر سکتے کہ ایک چور مرید کو چوری کرنے سے منع کر سکیں یا سُودخواریا بدکار کو اس کے عیبوں سے آگاہ کر سکیں.دنیا کے گدی نشینوں اور مہنتوں کا اس طرح پر گذارہ نہیں ہو سکتا.یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے یہ خدا ہی کے سلسلہ میں برکت ہے کہ وہ دشمنوں کے درمیان پرورش پاتا اور بڑھتا ہے.۱ اُنہوں نے بڑے بڑے منصوبے کئے.خون تک کے مقدّمے بنوائے مگر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جو باتیں ہوتی ہیں، وہ ضائع نہیں ہو سکتیں.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے.اگر انسانی ہاتھوں اور انسانی منصوبوں کا نتیجہ ہوتا تو انسانی تدابیر اور انسانی مقابلے اب تک اُس کو نیست و نابود کر چکے ہوتے.انسانی منصوبوں کے سامنے اس کا بڑھنا اور ترقی کرنا ہی اس کے خدا کی طرف سے ہونے کا ثبوت ہے.پس جس قدر تم اپنی قوتِ یقین کو بڑھائو گے اسی قدر دل روشن ہوگا.دعا کے آداب قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی نا اُمید نہ ہو.مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا.یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں.ہمارا خدا عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ خدا ہے.قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو
سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کامطلب بھی سمجھ لو.اپنی زبان میں بھی دعائیں کر لو.قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اُس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو.نماز کو اسی طرح پڑھو جس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے.البتہ اپنی حاجتوں اور مطالب کو مسنون اذکار کے بعد اپنی زبان میں بیشک ادا کرو اور خدا تعالیٰ سے مانگو اس میں کوئی حرج نہیں ہے.اس سے نماز ہرگز ضائع نہیں ہوتی.آجکل لوگوں نے نماز کو خراب کر رکھا ہے.نمازیں کیا پڑھتے ہیں ٹکریں مارتے ہیں.نماز تو بہت جلدجلد مرغ کی طرح ٹھونگیں مار کر پڑھ لیتے ہیں اور پیچھے دعا کے لیے بیٹھے رہتے ہیں.نماز کا اصل مغز اور روح تو دعا ہی ہے.نماز سے نکل کر دعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہو سکتا ہے.ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جاوے اور اس کو اپنا حال عرض کرنے کاموقع بھی ہو لیکن وہ اس وقت تو کچھ نہ کہے لیکن جب دربار سے باہر جاوے تو اپنی درخواست پیش کرے.اسے کیا فائدہ؟ ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع خضوع کے ساتھ دعائیں نہیں مانگتے.تم کو جو دعائیں کرنی ہوں نماز میں کر لیا کرو اور پورے آداب الدّعا کو ملحوظ رکھو.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے شروع ہی میں دعا سکھائی ہے اور اس کے ساتھ ہی دعا کے آداب بھی بتا دئیے ہیں.سورۃ فاتحہ کا نماز میں پڑھنا لازمی ہے اور یہ دعا ہی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل دعا نماز ہی میں ہوتی ہے چنانچہ اس دعا کو اﷲ تعالیٰ نے یوں سکھایا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.....اِلٰی اٰخِرِہٖ.یعنی دعا سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی جاوے جس سے اﷲ تعالیٰ کے لیے روح میں ایک جوش اور محبت پیدا ہو، اس لیے فرمایا اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ سب تعریفیں اﷲ ہی کے لیے ہیں.رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ سب کو پیدا کرنے والا اور پالنے والا.اَلرَّحْـمٰن جو بلا عمل اور بن مانگے دینے والا ہے.الرَّحِيْمِ پھر عمل پر بھی بدلہ دیتا ہے.اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیتا ہے.مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ہر بدلہ اُسی کے ہاتھ میں ہے.نیکی بدی سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے.پورا اور کامل موحّد تب ہی ہوتا ہے جب اﷲ تعالیٰ کو مالک یوم الدّین تسلیم کرتا ہے.دیکھو حکّام کے سامنے جاکر ان کو
سب کچھ تسلیم کر لینا یہ گناہ ہے اور اس سے شرک لازم آتا ہے.اس لحاظ سے کہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کو حاکم بنایا ہے.اُن کی اطاعت ضروری ہے مگر اُن کو خدا ہرگز نہ بنائو.انسان کا حق انسان کو اور خدا تعالیٰ کا حق خدا تعالیٰ کو دو.پھر یہ کہو اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.....الـخ ہم کو سیدھی راہ دکھا یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیے اور وہ نبیوں،صدیقوں،شہیدوں اور صالحین کا گروہ ہے.اس دعا میں ان تمام گروہوں کے فضل اور انعام کو مانگا گیا ہے.ان لوگوں کی راہ سے بچا جن پر تیرا غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے.غرض یہ مختصر طور پر سورۃ فاتحہ کا ترجمہ ہے.اسی طرح پر سمجھ سمجھ کر ساری نماز کا ترجمہ پڑھ لو اور پھر اسی مطلب کو سمجھ کر نماز پڑھو.طرح طرح کے حرف رَٹ لینے سے کچھ فائدہ نہیں.یہ یقیناً سمجھو کہ آدمی میں سچی توحید آہی نہیں سکتی جب تک وہ نماز کو طوطے کی طرح پڑھتا ہے.روح پر وہ اثر نہیں پڑتا اور ٹھوکر نہیں لگتی جو اس کو کمال کے درجہ تک پہنچاتی ہے.عقیدہ بھی یہی رکھو کہ خدا تعالیٰ کا کوئی ثانی اور نِدّ نہیں ہے اور اپنے عمل سے بھی یہی ثابت کرکے دکھائو.سلسلہ احمدیہ کے برحق ہونے کا ثبوت خدا تعالیٰ کی دو زبر دست گواہیاں ہر بات میں ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں.اوّل گواہی اس کی کتاب کی ہے جو قرآن شریف ہے.قرآن شریف میں جو کچھ لکھا ہے وہ سب صحیح اور سچ ہے اور ہم ایمان لاتے اور یقین کرتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے پس اس کو مانو اور دوسری گواہی اس کے کام کی ہے.زمین و آسمان اپنی شہادتوں سے اس کی سچائی کو ثابت کرتے ہیں.اﷲ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو جو قائم کیا ہے اور مجھے جو پیدا کیا ہے تو اس میں بھی ان دونوں گواہیوں کو ساتھ رکھا ہے.اوّل.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے فوت ہونے کا بڑی صفائی کے ساتھ قرآن شریف میں ذکر کیااور تیس۳۰ آیتوں میں کھول کھول کر اُس کی موت بیان کی.دوم.قرآن شریف نے یہ بھی تعلیم دی کہ حقیقی مُردے کبھی واپس نہیں آسکتے.
سوم.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیلِ موسیٰ ٹھہرا کر یہ تعلیم دی کہ جس طرح سلسلہ موسوی میں رسول آتے رہے محمدی سلسلہ میں بھی اس کا نمونہ اور نظیر ہو گی.گویا اس سلسلہ کا خاتم الخلفاء موسوی سلسلہ کے خاتم الخلفاء کے نام پر مسیح کے نام سے آئے گا.چنانچہ ان وعدوں کے موافق جب خدا نے مجھے مسیح موعود بنا کر بھیجا تو میری تائید میں زمین اور آسمان نے بھی اپنی شہادت کو ادا کر دیا.یعنی زمین کی حالت بجائے خود ایسی ہو گئی کہ وہ پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ خدا کامامور اور مصلح اس وقت آئے.وہ ہر قسم کے فساد سے لبریز ہو گئی تھی.اسلام پر خطرناک حملے شروع ہو چکے تھے.آسمان نے اپنے نشانوں سے میری شہادت دی چنانچہ جس طرح پر پہلے کہا گیا تھا، اُسی طرح اپنے وقت پر کسوف و خسوف ہو گیا.زمین کے دوسرے نشانات میں سے طاعون بھی ایک بڑا نشان ہے.غرض جو کچھ تسلّی کے لیے ضروری تھا وہ خدا نے سب پورا کردیا.اگر کسی کو خبر نہیں تو اُسے چاہیے کہ ان کتابوں کو جو ہم نے لکھی ہیں پڑھے یا سنے کہ کیوں کر خدا تعالیٰ نے اپنے نشانات کو وقت پر پورا کیا ہے.بغیر علم کے انسان اندھا ہوتا ہے اور جہالت ایک موت ہے.پس اس نابینائی اور موت سے بچنا چاہیے.خدا کے نشانات سمندر کی طرح بہہ رہے ہیں.ایک زبر دست اور کھلا کھلا نشان طاعون کا ہے جو خدا تعالیٰ نے طعنہ کرنے والوں اور سفیہوں کے لیے رکھا ہوا تھا وہ بھی پورا ہو گیا.میں سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس وقت غضب میں ہے.اُس کی باتوں پر ہنسی کی گئی.اس کے نشانوں کو ذلیل قرار دیا گیا اس لیے خدا کے قہر کے دن آگئے.اب دیکھو گے کہ وہ کیا کرے گا.اب وہ وقت آیا ہے کہ یہ الہام پورا ہو رہا ہے.’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.‘‘ اس لیے اب وہ وقت ہے کہ نیک بخت کو بھی ڈرنا چاہیے کیونکہ خدا بے نیاز ہے.موت کو یاد رکھو کہ یہ دن خدا کے غضب کے ہیں.نمازوں پر پکے ہو جائو.تہجد پڑھو اور عورتوں کو بھی نماز کی تاکید کرو.
طاعون قہرِ الٰہی ہے غرض یہ طاعون خدا کا قہر ہے.عقل مند وہی ہے جو ہوا پہچان لے اور خدا کی باتوں پر صدقِ دل سے ایمان لے آئے.یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ جو اس وقت عذاب دے رہا ہے وہ ایک خاص کام کے لیے عذاب دے رہاہے.ہمارے سلسلہ کی بابت مولویوں، صوفیوں یا سجادہ نشینوں سے بات کرو تو وہ پہلے ہی گالیاں دینی شروع کر دیتے ہیں.اب دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ کا صبر کتنا بڑا صبر ہے کہ ہزار برس سے اوپر ہونے کو آیا کہ خدا کے پاک نبیوں اور راستبازوں اور برگزیدوں کو گالیاں دی جاتی ہیں اور اُن کی بےحُرمتی اور ذلّت کے لیے ہر قسم کے وسائل اختیار کئے جاتے ہیں آخر اُس نے ان سب نبیوں اور خصوصاً ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت و عظمت کو قائم کرنے کے لیے یہ سلسلہ قائم کیا.اور جب سے یہ قائم ہوا اس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو پہلے راستبازوں کے ساتھ ہوا تھا مگر آخر خدا تعالیٰ نے ان حد سے بڑھے ہوئے بیباکوں اور شوخ چشموں کا علاج کرنا چاہا ہے.اس میں شک نہیں کہ وہ بہت حلیم ہے مگر اس میں بھی کلام نہیں کہ جب پکڑتا ہے توسخت پکڑتا ہے.کیا سچ کہاہے.شعر ؎ ہاں مشو مغرور بر حلمِ خدا دیر گیرد سخت گیرد مرترا میرے ہاتھ پر توبہ کرناایک موت کوچاہتاہے آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تووہ سعید الفطرت ہوتے ہیں جو پہلے ہی مان لیتے ہیں.یہ لوگ بڑے ہی دُور اندیش اور باریک بین ہوتے ہیں جیسے حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ تھے.اور ایک بیوقوف ہوتے ہیں جب سر پر آپڑتی ہے تب کچھ چونکتے ہیں.اس لیے تم اس سے پہلے کہ خدا کا غضب آجاوے دعا کرو اور اپنے آپ کوخدا کی پناہ اور حفاظت میں دے دو.دعا اس وقت قبول ہوتی ہے جب دل میں درد اور رقّت پیدا ہو اور مصائب اور غضبِ الٰہی دُور ہو لیکن جب بَلا سَرپر آئی بے شک اس وقت بھی ایک درد پیدا ہوتا ہے مگر وہ درد قبولیتِ دعا کا جذب
اپنے اندر نہیں رکھتا ہے.یقیناً سمجھوکہ اگر مصیبت سے پہلے اپنے دلوں کو گداز کرو گے اور خدا تعالیٰ کے حضور اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے گریہ و بکا کرو گے تو تمہارے خاندان اور تمہارے بچّے طاعون کے عذاب سے بچائے جائیں گے اگر دنیا داروں کی طرح رہو گے تو اس سے کچھ فائدہ نہیں کہ تم نے میرے ہاتھ پر توبہ کی.میرے ہاتھ پر توبہ کرنا ایک موت کوچاہتا ہے تاکہ تم نئی زندگی میں ایک ا و ر پیدائش حاصل کرو.بیعت اگر دل سے نہیں تو کوئی نتیجہ اس کا نہیں میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے پس جو سچے دل سے مجھے قبول کرتا اوراپنے گناہوںسے سچی توبہ کرتاہے، غفور و رحیم خدا اُس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتاہے اور وہ ایساہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے.تب فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں.ایک گائوں میں اگر ایک آدمی نیک ہو تواللہ تعالیٰ تو اس نیک کی رعایت اور خاطر سے اس گاؤںکو تباہی سے محفوظ کرلیتا ہے لیکن جب تباہی آتی ہے تو پھر سب پر پڑتی ہے مگر پھر بھی وہ اپنے بندوں کو کسی نہ کسی نہج سے بچالیتا ہے.سنّت اللہ یہی ہے کہ اگر ایک بھی نیک ہو تو اس کے لیے دوسرے بھی بچائے جاتے ہیں.جیسے حضرت ابراہیم ؑکا قصہ ہے کہ جب لُوط کی قوم تباہ ہونے لگی تو انہوںنے کہا کہ اگر سَو میںسے ایک ہی نیک ہو تو کیا تباہ کردے گا؟ کہا نہیں آخر ایک تک بھی نہیں کروں گا.فرمایا.لیکن جب بالکل حد ہی ہو جاتی ہے تو پھر لَا يَخَافُ عُقْبٰهَا خدا کی شان ہو تی ہے پلیدوں کے عذاب پر وہ پروا نہیںکرتا کہ اُن کی بیوی بچوں کاکیا حال ہوگا اور صادقوں اور راستبازوں کے لیے كَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا(الکھف:۸۳) کی رعایت کرتا ہے.حضرت موسیٰ اور خضر کو حکم ہوا تھا کہ ان بچوں کی دیوار بنا دو اس لیے کہ اُن کا باپ نیک بخت تھا.اور اس کی نیک بختی کی خدا نے ایسی قدر کی کہ پیغمبر راج مزدور ہوئے، غرض ایسا تو رحیم کریم ہے لیکن اگر کوئی شرارت کرے اورزیادتی کرے تو پھر بہت بُری طرح پکڑتا ہے.وہ ایسا غیور ہے کہ اس کے غضب کو دیکھ کر کلیجہ پھٹتاہے.دیکھولُوط کی بستی کو کیسے تباہ کر ڈالا.اس وقت بھی دنیا کی حالت ایسی ہی ہورہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے غضب کو کھینچ لائی ہے تم بہت
چھے وقت آگئے ہو اب بہتر اور مناسب یہی ہے کہ تم اپنے آپ کو بدلالو.اپنے اعمال میں اگر کوئی انحراف دیکھو تو اُسے دور کر و.تم ایسے ہوجاؤکہ نہ مخلوق کا حق تم پر باقی رہے نہ خدا کا.یاد رکھو جو مخلوق کا حق دباتاہے اس کی دعاقبول نہیں ہوتی کیونکہ وہ ظالم ہے.۱ اپنی زندگی میں انقلاب پیدا کرو اس سلسلہ میںداخل ہو کر تمہارا وجود الگ ہو اور تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ.جو کچھ تم پہلے تھے وہ نہ رہو.یہ مت سمجھو کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں تبدیلی کرنے سے محتاج ہوجاؤگے یا تمہارے بہت سے دشمن پیدا ہوجائیں گے.نہیں، خدا کا دامن پکڑنے والا ہرگز محتاج نہیں ہوتا اس پر کبھی بُرے دن نہیں آسکتے.خداجس کا دوست اور مدد گار ہو اگر تمام دنیا اس کی دشمن ہوجاوے تو کچھ پروا نہیں.مومن اگر مشکلات میں بھی پڑے تو وہ ہرگز تکلیف میںنہیں ہوتا بلکہ وہ دن اس کے لیے بہشت کے دن ہوتے ہیں خداکے فرشتے ماں کی طرح اسے گود میں لے لیتے ہیں.مختصر یہ کہ خدا خودان کامحافظ اور ناصر ہوجاتا ہے یہ خدا جو ایسا خدا ہے کہ وہ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ہے وہ عالم الغیب ہے وہ حیّ و قیوم ہے.اس خدا کا دامن پکڑنے سے کوئی تکلیف پا سکتا ہے؟ کبھی نہیں.خدا تعالیٰ اپنے حقیقی بندے کو ایسے وقتوں میں بچا لیتا ہے کہ دنیا حیرا ن رہ جاتی ہے آگ میں پڑ کر حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کا زندہ نکلنا کیا دنیا کے لیے حیرت انگیز اَمر نہ تھا.کیا ایک خطرناک طو فا ن میں حضرت نوحؑ اور آپ کے رفقاء کا سلا مت بچ رہنا کو ئی چھو ٹی سی بات تھی اس قسم کی بے شمار نظیریں مو جود ہیں اور خو د اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اپنے دستِ قدرت کے کر شمے دکھا ئے ہیں دیکھو! مجھ پر خون اور اقدامِ قتل کامقد مہ بنا یا گیا.ایک بڑا بھا ری ڈاکٹر جو پادری ہے وہ اس میں مدّعی ہوا اور آریہ اور بعض مسلمان اس کے معاون ہوئے لیکن آخر وہی ہوا جو خدا نے پہلے سے فرمایا تھا کہ اِبْرَاء ( بے قصور ٹھہرانا ).پس یہ وقت ہے کہ تم توبہ کرو اور اپنے دلوں کو پاک صاف کر و ابھی طاعون تمہا رے گاؤں میں
نہیں.یہ خدا کا فضل و کرم ہے اس لیے توبہ کا وقت ہے اور اگر مصیبت سر پر آپڑی اس وقت تو بہ کیا فائدہ دے گی.جموں، سیالکوٹ اور لدھیانہ وغیرہ اضلا ع میں دیکھو کہ کیا ہو رہا ہے.ایک طو فان برپا ہے اور قیامت کا ہنگا مہ ہو رہا ہے اس قدر خوفناک موتیں ہوئی ہیں کہ ایک سنگدل انسا ن بھی اس نظا رہ کو دیکھ کر ضبط نہیں کر سکتا.چھو ٹا سا بچہ پا س پڑا ہوا تڑپ رہااور بلبلارہا ہے ماں باپ سا منے مَرتے ہیں کوئی خبر گیر نہیں ہے.بہت عرصہ کا ذکر ہے کہ میں نے ایک رؤیا دیکھی تھی کہ ایک بڑا میدان ہے اس میں ایک بڑی نالی کھدی ہوئی ہے جس پر بھیڑیں لٹا کر قصاب ہا تھ میں چُھری لئے ہوئے بیٹھتے ہیں اور آسمان کی طرف منہ کیے ہوئے حکم کا انتظا ر کرتے ہیں.میں پاس ٹہل رہا ہوں.اتنے میں مَیں نے پڑھا قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ(الفرقان : ۷۸ ) یہ سنتے ہی انہوں نے جھٹ چُھری پھیر دی بھیڑیں تڑپتی ہیں اور وہ قصاب انہیں کہتے ہیں کہ تم ہو کیا، گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو وہ نظارہ اس وقت تک میری آنکھوں کے سامنے ہے.غرض خدا بے نیاز ہے، اُسے صا دق مومن کے سو ا اور کسی کی پرو ا نہیں ہو تی اور بعدازوقت دعاقبول نہیںہوتی ہے.جب اللہ تعالیٰ نے مہلت دی ہے اُس وقت اُسے راضی کر نا چا ہیے لیکن جب اپنی سیہ کاریوں اور گناہوں سے اُسے ناراض کر لیا اور اس کا غضب اور غصہ بھڑک اُٹھا.اُس وقت عذاب ِ الٰہی کو دیکھ کر تو بہ استغفا ر شرو ع کی اس سے کیا فا ئدہ ہو گا جب سزا کا فتویٰ لگ چکا.یہ ایسی بات ہے کہ جیسے کوئی شہزادہ بھیس بدل کر نکلے اور کسی دولت مند کے گھر جاکر روٹی یا کپڑا پانی مانگے اور وہ باوجود مقدرت ہو نے کے اس سے مسخری کریں اور ٹھٹھے مار کر نکال دیں.اور وہ اسی طرح سارے گھر پھرے لیکن ایک گھر والا اپنی چارپائی دے کر بٹھائے اور پانی کی بجائے شربت اور خشک روٹی کی بجائے پلاؤ دے اور پھٹے ہوئے کپڑوں کی بجائے اپنی خاص پو شاک اس کو دے تو اب تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ چونکہ دراصل تو بادشاہ تھا اب ان لوگوں سے کیا سلوک کرے گا.صاف ظاہر ہے کہ ان کمبختوں کو جنہوں نے باوجود مقدرت ہونے کے اس کو دھتکار دیا اور اس سے بد سلوکی کی سخت
سزا دے گا اور اس غریب کو جس نے اس کے ساتھ اپنی ہمت اور طاقت سے بڑھ کر سلوک کیا وہ دے گا جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا.اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ خدا کہے گا کہ میں بھوکا تھا مجھے کھانا نہ دیا.یا میں ننگا تھا مجھے کپڑا نہ دیا.میں پیاسا تھا مجھے پانی نہ دیا.وہ کہیں گے کہ یا ربَّ العالمین کب؟وہ فرمائے گا.فُلاں جو میرا حاجتمند بندہ تھا اس کو دینا ایسا ہی تھا جیسا مجھ کو.اور ایسا ہی ایک شخص کو کہے گا کہ تونے روٹی دی کپڑا دیا.وہ کہے گا کہ تُو تو ربُّ العالمین ہے تو کب گیا تھا کہ میں نے دیا؟ تو پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فلاں بندہ کو دیا تھا.غرض نیکی وہی ہے جو قبل از وقت ہے اگر بعد میں کچھ کرے تو کچھ فائدہ نہیں.خدا نیکی قبول نہیں کرتا جو صرف فطرت کے جوش سے ہو.کشتی ڈوبتی ہے تو سب روتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں مگر وہ رونا اور چلانا چونکہ تقاضائے فطرت کا نتیجہ ہے اس لیے اس وقت سُودمند نہیں ہو سکتا اور وہ اس وقت مفید ہے جو اس سے پہلے ہوتا ہے جبکہ امن کی حالت ہو.یقیناً سمجھو کہ خدا کوپانے کا یہی گُر ہے جو قبل از وقت چوکنّا اور بیدار ہوتا ہے.ایسا بیدار کہ گویا اس پر بجلی گرنے والی ہے.اس پر ہرگز نہیں گرتی.لیکن جو بجلی کو گرتے دیکھ کر چلّاتا ہے اُس پر گرے گی اور ہلاک کرے گی.وہ بجلی سے ڈرتا ہے نہ خدا سے.اسی طرح پر جب طاعون گھر میں آگئی اس وقت اگر تو بہ و استغفار شروع کیا تو وہ طاعون کا خوف ہے نہ خدا کا.اس کا بُت طاعون ہے خدا معبود نہیں.اگر خدا سے ڈرتا ہے تواللہ تعالیٰ اس فرشتہ کو حکم دیتا ہے کہ اس کو نقصان نہ پہنچاؤ.یہ مت سمجھوکہ طاعون گرمی میں ہٹ جاتی ہے سردی میںپھر یہی بَلا آن موجود ہوتی ہے.بعض وقت اس کا دورہ ستّر۷۰ ستّر۷۰ برس تک ہوتا ہے.یہود پر بھی یہی بَلا پڑی تھی.غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ میںاللہ تعالیٰ نے یہی تعلیم دی ہے کہ ان یہو دیوں کی راہ سے بچائیو جن پر طاعون پڑی تھی پس قبل از وقت عاجزی کرو گے تو ہماری دعائیں بھی تمہارے لیے نیک نتیجے پیدا کریں گی.لیکن اگر تم غافل ہو گئے تو کچھ فائدہ نہ ہو گا.خدا کو ہر وقت یاد رکھو اور موت کو سامنے موجو د سمجھو.زمیندار بڑے نادان ہو تے ہیں.اگر ایک رات بھی امن سے گذر جاوے تو بے خوف ہو جاتے ہیں.دیکھو! تم لوگ کچھ محنت کرکے کھیت تیار کرتے ہو تو فائدہ کی امید ہو تی ہے.اسی طرح پر امن
کے دن محنت کے لیے ہیں.اگر اب خدا کو یاد کرو گے تو اس کامزا پاؤ گے.اگرچہ زمینداری اور دنیا کے کاموں کے مقابلہ میںنمازوں میں حاضر ہو نا مشکل معلوم ہوتا ہے.اور تہجد کے لیے اور بھی مگر اب اگر اپنے آپ کواس کا عادی کر لو گے توپھر کوئی تکلیف نہ رہے گی.اپنی دعائوںمیں طاعون سے محفو ظ رہنے کی دعا ملا لو.اگردعائیںکرو گے تو وہ کریم رحیم خدا احسان کرے گا.دعائیںکرنے کے لیے نصیحت دیکھو! اب کام تم کرتے ہو.اپنی جانوں اور اپنے کنبہ پر رحم کرتے ہو.بچوں پر تمہیں رحم آتا ہے.جس طرح اب ان پر رحم کرتے ہو یہ بھی ایک طر یق ہے کہ نمازوں میں ان کے لیے دعائیں کرو.رکوع میں بھی دعا کرو پھر سجدہ میں دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس بلا کو پھیر دے اور عذاب سے محفوظ رکھے.جو دعا کرتا ہے وہ محروم نہیں رہتا.یہ کبھی ممکن نہیں ہے کہ دعائیں کرنے والا غافل پلید کی طرح مارا جاوے.اگر ایسا نہ ہو تو خدا کبھی پہچانا ہی نہ جاوے.وہ اپنے صادق بندوں اور غیروں میں امتیاز کر لیتا ہے.ایک پکڑا جاتا ہے.دوسرا بچایا جاتا ہے.غرض ایسا ہی کرو کہ پورے طور پر تم میں سچا اخلاص پیدا ہو جاوے.۱ ۶؍اپریل ۱۹۰۲ء کشف رات میں نے کشف میں دیکھا کہ کوئی بیمار کتّا ہے میں اسے دوا دینے لگا ہوں تو میری زبان پر جاری ہوا.’’اس کتّے کا آخری دم ہے.‘‘ فرمایا.کشف میں غَیبتِ حِس نہیں ہوتی مگر خواب میں ہوجاتی ہے اور جب الہامِ الٰہی زبان پر جاری ہوتا ہے اس وقت زبان پر اللہ تعالیٰ کا تصرّفِ تام ہوتاہے میرا اس پر کوئی دخل نہیں ہوتا.۲
۱۰؍اپریل۱۹۰۲ء دعا نہ کرنا سُوءِ اَدبی ہے انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ میں یہی رہا ہے کہ وہ پیشگوئیوں کے دئیے جانے پر بھی اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر سچا ایمان رکھ کر بھی دعاؤں کے سلسلہ کو ہرگز نہ چھوڑتے تھے.اس لیے کہ وہ خدا تعالیٰ کے غناءِ ذاتی پر بھی ایمان لاتے ہیں اور مانتے ہیں کہ خدا کی شان لَا یُدْرَک ہے اوریہ سُوء ِادب ہے کہ دعا نہ کی جاوے.لکھا ہے کہ بدر کی لڑائی میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑے اضطرا ب سے دعا کر رہے تھے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ حضور !اب دعا نہ کریں خدا تعالیٰ نے آپ کو فتح کا وعدہ دیا ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں مصروف رہے.بعض نے اس پر تحریر کیا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ نہ تھا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت بہت بڑھی ہو ئی تھی اور ہرکہ عارف تر باشد خائف تر باشد.وہ معرفت آپ کو اللہ تعالیٰ کے غناءِ ذاتی سے ڈراتی تھی.پس دعا کا سلسلہ ہرگز چھوڑنا نہیں چاہیے.مسیح مو عو د کی دعا ؤں کی عظمت ۱۰؍اپریل۱۹۰۲ء صبح کو سیر میں فر مایا کہ میں آج کل طاعو ن سے قادیا ن کے محفو ظ رہنے کے لیے بہت دعائیں کرتا ہوں اور باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے وعدے فرمائے ہیں لیکن یہ سُوءِ ادب اور انبیاء کے طریق سے دور ہے کہ خدا کی لَا یُدْرَک شان اور غناءِ ذاتی سے خوف نہ کیا جاوے.آج پہلے وقت ہی یہ الہام ہوا.؎ دلم می بلرزد چو یاد آورم مناجات شوریدہ اندر حرم شوریدہ سے مُراد دعا کرنے والا ہے اور حر م سے مُراد جس پر خدا نے تباہی کو حرام کر دیا ہو اور دلم مے بلرزد خدا کی طرف ہے یعنی یہ دعائیں قوی اثر ہیںمیں انہیں جلدی قبو ل کرتا ہوں.یہ خدا تعالیٰ
کے فضل اور رحمت کا نشان ہے دلم مے بلرزد بظا ہر ایک غیر محل سا محاورہ ہو سکتا ہے مگر یہ اسی کے مشابہ ہے جو بخاری میں ہے کہ مومن کی جان نکا لنے میں مجھے تردّد ہوتا ہے.تو ریت میں جو پچھتانا وغیرہ کے الفا ظ آئے ہیں در اصل وہ اسی قسم کے محاورہ ہیں جو اس سلسلہ کی ناواقفی کی وجہ سے لوگوںنے نہیں سمجھے.اس الہام میں خدا تعالیٰ کی اعلیٰ درجہ کی محبت اور رحمت کا اظہار ہے اورحرم کے لفظ میں گویاحفاظت کی طرف اشارہ ہے.حرم کے لفظ پر اس وقت خاکسار ایڈیٹر نے عرض کیا تھا کہ حضور کا الہام مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا اور بھی اس لفظ حرم کی تصدیق کر تا ہے اور اب ہم کہتے ہیں کہ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ کا الہام بھی اسی کامؤید ہے.یاد آورم اسی طرح ہے جیسے اُذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ (البقرۃ:۱۵۳) مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا اللہ تعالیٰ جو قرض مانگتا ہے تو اس سے یہ مُرا د نہیں ہوتی ہے کہ معا ذ اللہ اللہ تعالیٰ کو حا جت ہے اور وہ محتاج ہے ایسا وہم کرنا بھی کفر ہے بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ جزا کے ساتھ وا پس کروں گا.یہ ایک طریق ہے اللہ تعالیٰ جس سے فضل کرنا چاہتا ہے.باپ کی شکل پر خدا تعالیٰ کو دیکھنا حضرت سید عبدالقا در جیلا نی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ رَاَیْتُ رَبِّیْ عَلٰی صُوْرَۃِ اَبِیْ یعنی میں نے اپنے ربّ کو اپنے باپ کی شکل پر دیکھا.میں نے بھی اپنے والد صاحب کی شکل پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا ان کی شکل بڑی با رُعب تھی انہوں نے ریاست کا زمانہ دیکھا ہوا تھا اس لیے بڑے بلند ہمت اور عالی حوصلہ تھے.غر ض میں نے دیکھا کہ وہ ایک عظیم الشَّان تخت پر بیٹھے ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ خدا تعالیٰ ہے.اس میں سِر یہ ہوتا ہے کہ باپ چونکہ شفقت اور رحمت میں بہت بڑا ہوتا ہے اور قرب اور تعلّق شدید رکھتا ہے، اس لیے اﷲ تعالیٰ کا باپ کی شکل میں نظر آنا اس کی عنایت تعلّق اور شدّت محبت کو ظاہر کرتا ہے.اس لئے قرآن شریف میں بھی آیا ہے كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ (البقرۃ : ۲۰۱) اور میرے الہامات میں یہ بھی ہے اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْـزِلَۃِ اَوْلَادِیْ یہ قرآن شریف کی اسی آیت کے مفہوم اور
مصداق پر ہے.۱۰؍اپریل کو الہام ہوا ’’افسوس صد افسوس‘‘ اور ۱۱ ؍ اپریل کو الہام ہوا ’’رہگزائے عالم جاودانی شد‘‘.بعثت مسیح موعود کا اصل منشا ہمارا اصل منشا اور مدّعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال ظاہر کرنا ہے اور آپ کی عظمت کو قائم کرنا.ہمارا ذکر تو ضمنی ہے.اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جذب اور افاضہ کی قوت ہے اور اسی افاضہ میں ہمارا ذکر ہے.۱ ۱۷ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء طاعون سے متعلق ایک اعتراض کا جواب بعد از مغرب فرمایا.طاعون کے متعلق بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اکثر غریب مَرتے ہیں اور اُمراء اور ہمارے بڑے بڑے مخالف ابھی تک بچے ہوئے ہیں، لیکن سنّتُ اﷲ یہی ہے کہ اَئـمۃ الکفر اخیر میں پکڑے جایا کرتے ہیں چنانچہ حضرت موسیٰ کے وقت جس قدر عذاب پہلے نازل ہوئے اُن سب میں فرعون بچارہا چنانچہ قرآن شریف میں بھی آیا کہ نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا (الرّعد : ۴۲) یعنی ابتدا عوام سے ہوتا ہے اور پھر خواص پکڑے جاتے ہیں اور بعض کے بچانے میں اﷲ تعالیٰ کی یہ حکمت بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے آخر میں توبہ کرنی ہوتی ہے یا اُن کی اولاد میں سے کسی نے اسلام قبول کرنا ہوتا ہے.مسیح موعود کا مقام فرمایا.کمالاتِ متفرقہ جو تمام دیگر انبیاء میں پائے جاتے تھے.وہ سب حضرت رسول کریمؐ میں ان سے بڑھ کر موجود تھے اور اب وہ سارے کمالات حضرت رسول کریمؐ سے ظِلّی طور پر ہم کو عطا کیے گئے.اور اسی لیے ہمارا نام آدم، ابراہیم،
موسیٰ، نوح، دائود، یوسف، سلیمان، یحییٰ، عیسیٰ وغیرہ ہے.چنانچہ ابراہیم ہمارا نام اس واسطے ہے کہ حضرت ابراہیم ایسے مقام میں پیدا ہوئے تھے کہ وہ بُت خانہ تھا اور لوگ بُت پرست تھے اور اب بھی لوگوں کا یہی حال ہے کہ قسم قسم کے خیالی اور وہمی بتوں کی پرستش میں مصروف ہیں اور وحدانیت کو چھوڑ بیٹھے ہیں.پہلے تمام انبیاء ظِل تھے نبی کریم کی خاص خاص صفات میں اور اب ہم ان تمام صفات میں نبی کریم کے ظِل ہیں.مولانا رومؒ نے خوب فرمایا ہے.؎ نامِ احمدؐ نام جملہ انبیاء است چوں بیامد صد نو دہم پیش ما است نبی کریمؐ نے گویا سب لوگوں سے چندہ وصول کیا اور وہ لوگ تو اپنے اپنے مقامات اور حالات پر رہے پر نبی کریمؐ کے پاس کروڑوں روپے ہوگئے.ہندو اسلام کی طرف توجہ کریں گے فرمایا.معلوم ہوتا ہے کہ اس عالمگیر طوفانِ وبا میں یہ ہندوئوں کی قوم بھی اسلام کی طرف توجہ کرے.چنانچہ جب ہم نے باہر مکان بنوانے کی تجویز کی تھی تو ایک ہندو نے ہم کو آکر کہا تھا کہ ہم تو قوم سے علیحدہ ہو کر آپ ہی کے پاس باہر رہا کریں گے اور نیز دو دفعہ ہم نے رؤیا میں دیکھا کہ بہت سے ہندو ہمارے آگے سجدہ کرنے کی طرح جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اوتار ہیں اور کرشن ہیں اور ہمارے آگے نذریں دیتے ہیں اور ایک دفعہ الہام ہوا ’’ہے کرشن رودرگوپال تیری مہما ہو، تیری استتی گیتا میں موجود ہے.‘‘ لفظ رودر کے معنے نذیر اور گو پال کے معنے بشیر کے ہیں.اُمّت ِمحمدی کی شان فرمایا.عیسائیوں نے جو شور مچایا تھا کہ عیسیٰ مُردوں کو زندہ کرتا تھا اور وہ خدا تھا.اس واسطے غیرتِ الٰہی نے جوش مارا کہ دنیا میں طاعون پھیلائے اور ہمارے مقام کو بچائے تاکہ لوگوں پر ثابت ہو جائے کہ اُمّت ِمحمدی کا کیا شان ہے کہ احمد ؐکے ایک غلام کی اس قدر عزّت ہے.اگر عیسیٰ مُردوں کو زندہ کرتا تھا تو اب عیسائیوں کے مقامات کو اِس بَلا سے بچائے.اس وقت غیرتِ الٰہی جوش میں ہے تا کہ عیسیٰ کا کسرِ شان ہو جس کو
خدا بنایا گیا ہے.؎ چہ خوش ترانہ زد ایں مطرب مقام شناس کہ درمیان غزل قول آشنا آورد قرآن میں مسیح کی معصومیت کے ذکر کی وجہ قرآن شریف اور احادیث میں جو حضرت عیسیٰ کے نیک اور معصوم ہونے کا ذکر ہے.اس سے یہ مطلب نہیں کہ دوسرا کوئی نیک یا معصوم نہیں بلکہ قرآن شریف اور حدیث نے ضرورتاً یہود کے منہ کو بند کرنے کے لئے یہ فقرے بولے ہیں کہ یہود نعوذباﷲ مریم کو زنا کا ر عورت اور حضرت عیسیٰ کو ولدالزّنا کہتے تھے.اس لیے قرآن شریف نے اُن کا ذَبّ کیا ہے کہ وہ ایسا کہنے سے باز آویں.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسمانی برکات فرمایا.حضرت رسول کریمؐ کے ہزاروں جسمانی برکات بھی تھے.آپ کے جُبّہ سے بعد وفات آپ کے لوگ برکات چاہتے تھے.بیماریوں میں لوگوں کو شفا دیتے تھے اور بارش نہ ہوتی تو دعا کرتے تھے اور بارش ہو جاتی تھی.ایک لاکھ سے زیادہ آپ کے اصحابی تھے.بہتوں کی جسمانی تکلیفات آپ کی دعائوں سے دُور ہو جاتی تھیں.عیسیٰ کو نبی کریمؐ کے ساتھ کیا نسبت ہو سکتی ہے جس کے ساتھ چند آدمی تھے اور ان کا حال بھی انجیلوں سے ظاہر ہے کہ وہ کس مرتبہ روحانیت کے تھے.اِس اُمّت کا فرعون فرمایا.ابو جہل اس اُمّت کا فرعون تھا کیونکہ اس نے بھی نبی کریمؐ کی چند دن پر ورش کی تھی جیسا کہ فرعون مصری نے حضرت موسٰی کی پرورش کی تھی.اورایسا ہی مولوی محمد حسین صاحب نے ابتدا میں براہین پر ریویو لکھ کر ہمارے سلسلہ کی چند یوم پرورش کی.ایک الہام کی تشریح حضرت اقدس ؑ نے اپنا ایک پرانا الہام سنایا یَا یَـحْیٰی خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّۃٍ وَالْـخَیْـرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ.
اور فرمایا کہ اس میں ہم کو حضرت یحییٰ کی نسبت دی گئی ہے کیونکہ حضرت یحیٰی کویہود کی ان اقوام سے مقابلہ کرنا پڑا تھا جو کتابُ اﷲ توریت کو چھوڑ بیٹھے تھے اور حدیثوں کے بہت گرویدہ ہو رہے تھے اور ہر بات میں احادیث کو پیش کرتے تھے.ایسا ہی اس زمانہ میں ہمارا مقابلہ اہلِ حدیث کے ساتھ ہوا کہ ہم قرآن پیش کرتے اور وہ حدیث پیش کرتے ہیں.اذان کے وقت کوئی اور نیکی کا کام کرنا ایک شخص اپنا مضمون اشتہار دربارہ طاعون سنا رہا تھا اذان ہونے لگی.وہ چُپ ہو گیا.فرمایا.پڑھتے جائو.اذان کے وقت پڑھنا جائز ہے.طاعون زدہ علاقہ میں جانے کی ممانعت ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرے اہلِ خانہ اور بچے ایک ایسے مقام میں ہیں جہاں طاعون کا زور ہے.میں گھبرایا ہوا ہوں اور وہاں جانا چاہتا ہوں.فرمایا.مت جائو لَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرۃ : ۱۹۶) پچھلی رات کو اٹھ کر اُن کے لیے دعا کرو.یہ بہتر ہوگا بہ نسبت اس کے کہ تم خود جائو.ایسے مقام پر جانا گناہ ہے.قرآنی الفاظ میں الہامات کی حکمت حضرت اقدس کو الہام ہوا اَنْتَ مَعِیْ اِنِّیْ مَعَکَ.اِنِّیْ بَایَعْتُکَ بَا یَعَنِیْ رَبِّیْ.فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ کامنشا ہے کہ قرآن شریف کو حل کیا جائے اس واسطے اکثر الہامات جو قرآن شریف کے الفاظ میں ہوتے ہیں ان کی ایک عملی تفسیر ہو جاتی ہے.اس سے خدا تعالیٰ یہ دکھانا چاہتا ہے کہ یہی زندہ اور با برکت زبان ہے اور تا کہ ثابت ہو جائے کہ تیرہ سو سال اس سے قبل ہی اسی طرح یہ خدا کا کلام نازل ہوا.قرآن مجید میں اس زمانہ اور طاعون کے متعلق پیشگوئیاں فرمایا کہ اس آیت قرآن کریم میں اس زمانہ اور طاعون کے متعلق پیشگوئی ہے وَ الْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا.فَالْعٰصِفٰتِ عَصْفًا.وَّالنّٰشِرٰتِ
نَشْرًا۱.فَالْفٰرِقٰتِ فَرْقًا.فَالْمُلْقِيٰتِ ذِكْرًا.عُذْرًا اَوْ نُذْرًا.(المرسلات : ۲ تا ۷) قسم ہے ان ہوائوں کی جو آہستہ چلتی ہیں یعنی پہلا وقت ایسا ہو گا کہ کوئی کوئی واقعہ طاعون کا ہو جایا کرے.پھر وہ زور پکڑے اور تیز ہو جاوے.پھر وہ ایسا ہو کہ لوگوں کو پراگندہ کر دے.اور پریشان خاطر کر دے پھر ایسے واقعات ہوں کہ مومن اور کافر کے درمیان فرق اور تمیز کردیں.اس وقت لوگوں کو سمجھ آجائے گی کہ حق کس اَمر میں ہے.آیا اس امام کی اطاعت میں یا اس کی مخالفت میں.یہ سمجھ میں آنا بعض کے لیے صرف حجّت کاموجب ہو گا.(عُذْرًا) یعنی مَرتے مَرتے اُن کا دل اقرار کر جائے گا کہ ہم غلطی پر تھے اور بعض کے لیے (نُذْرًا) یعنی ڈرانے کاموجب ہو گا کہ وہ توبہ کر کے بدیوں سے باز آویں.۲ ۱۸ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء الہام فرمایا کہ آج رات کو یہ الہام ہوا.’’اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ.وَمَنْ یَّلُوْمُہٗ اَلُوْمُ.اُفْطِرُ وَاَصُوْمُ‘‘ یعنی میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.اس کی مدد کروں گا اور جو اس کو ملامت کرے گا اُس کو ملامت کروں گا.روزہ افطار کروں گا اور روزہ رکھوں گا یعنی کبھی طاعون بند ہو جائے گی اور کبھی زور کرے گی.نماز جمعہ کے بعد انجمن حمایتِ اسلام کا اشتہار دربارہ دعا برائے دفعیہ طاعون آپ کو دکھایا گیا جس کی تحریک پر آپ نے طاعون کامختصر اُردو اشتہار لکھا.بد گو بد باطن مخالف سے اعراض مناسب ہے قادیان میں ایک بدگو بد باطن مخالف آیا ہوا تھا.اس نے احباب میں سے ایک کو بلایا.وہ اس کے ساتھ بات کرنے کو گیا.حضرت کو خبر ہوئی تو فرمایا کہ ایسے خبیث مفسد کو اتنی عزّت نہیں دینی چاہیے کہ اُس کے ساتھ تم میں سے کوئی بات کرے.
خوابوں کو جمع کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ مختلف لوگوں کو جو رؤیا ہوئے ہیں کہ قادیان میں طاعون نہیں ہو گی.ان خوابوں کو جمع کر کے شائع کر دینا چاہیے.اصل مقصد تقدیس رسول ہے مولوی محمد احسن صاحب ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کرتے ہیں.ان کو فرمایا کہ اصل میں ہمارا منشا یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقدیس ہو اور آپ کی تعریف ہو اور ہماری تعریف اگر ہو تو رسول اﷲ کے ضمن میں ہو.سلفِ صالحین کے متعلق مسلک فرمایا.وفاتِ مسیح یا ایسے مسائل کے متعلق پہلے لوگ جو کچھ کہہ آئے ان کے متعلق ہم حضرت موسٰی کی طرح یہی کہتے ہیں کہعِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ (الاعراف : ۱۸۸) یعنی گذشتہ لوگوں کے حالات سے اﷲ تعالیٰ بہتر واقف ہے.ہاں حال کے لوگوں کو ہم نے کافی طور پر سمجھا دیا ہے اور حجّت قائم کر دی ہے.ایک الہام کی تشریح فرمایا.خدا تو چور کا بھی دشمن ہے.اگر میں مفتری ہوتا تو وہ مجھے اتنی مہلت کیوں دیتا.ہاں اﷲ تعالیٰ کی عادت میں سے ہے کہ موافق مخالف ہر طرح کے لوگ دنیا میں ہوں تا کہ ایک نظارۂ قدرت ہو.جن دنوں لڑکی پیدا ہوئی تھی اور لوگوں نے غلط فہمی پیدا کرنے کے لیے شور مچایا کہ پیشگو ئی غلط نکلی.ان دنوں میں یہ الہام ہوا تھا ؎ دشمن کا بھی خوب وار نکلا تِس پر بھی وہ وار پار نکلا یعنی مخالفوں نے تو یہ شور مچایا ہے کہ پیشگوئی غلط نکلی مگر جلدفہیم لوگ سمجھ جائیں گے اور نا واقف شرمندہ ہوں گے.فرمایا.مکّہ والوں کو جب فتح کا وعدہ دیا گیا تو ان کو ۱۳ سال اس کے انتظار میں گذر گئے.مگر آخر اللہ تعالیٰ کے وعدہ کا دن آگیا اور دشمن ہلاک ہو گئے ورنہ وہ کہا کرتے تھے مَتٰى هٰذَا الْفَتْحُ (السّجدۃ:۲۹)
ابتلا تمحیص کے لیے آتے ہیں فرمایا.اﷲ تعالیٰ تمحیص کرنا چاہتا ہے تاکہ جیسا دوسرے پیروں کا حال ہے ہمارے پاس بھی ہر طرح کے گندے اور ناپاک لوگ بھی شامل نہ ہو جاویں.اس واسطے اس قسم کے ابتلا بھی درمیان میں آجاتے ہیں.۱ ۲۶ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء بعض فقہی سوالات کے جوابات ایک شخص نے عرض کی کہ زیور پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ جو زیور استعمال میں آتا ہے اور مثلاً کوئی بیاہ شادی پر مانگ کرلے جاتا ہے تو دے دیا جاوے، وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہے.سوال ہوا کہ جو آدمی اس سلسلہ میں داخل نہیں اُس کا جنازہ جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.اگر اس سلسلہ کامخالف تھا اور ہمیں بُرا کہتا اور سمجھتا تھا تو اس کا جنازہ نہ پڑھو اور اگر خاموش تھا اور درمیانی حالت میں تھا تو اس کا جنازہ پڑھ لینا جائز ہے بشرطیکہ نمازِ جنازہ کا امام تم میں سے کوئی ہو ورنہ کوئی ضرورت نہیں.سوال ہوا کہ اگر کسی جگہ امام نماز حضور کے حالات سے واقف نہیں تو اس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں؟ فرمایا.پہلے تمہارا فرض ہے کہ اُسے واقف کرو پھر اگر تصدیق کرے تو بہتر ورنہ اس کے پیچھے اپنی نماز ضائع نہ کرو اور اگر کوئی خاموش رہے نہ تصدیق کرے نہ تکذیب کرے تو وہ بھی منافق ہے.اُس کے پیچھے نماز نہ پڑھو.فرمایا.اگر کوئی ایسا آدمی مَر جائے جو تم میں سے نہیں اور اُس کا جنازہ پڑھنے اور پڑھانے والے غیر لوگ موجود ہوں اور وہ پسند نہ کرتے ہوں کہ تم میں سے کوئی جنازہ کا پیش امام بنے اور جھگڑے کا
خطرہ ہو تو ایسے مقام کو ترک کرو اور اپنے کسی نیک کام میں مصروف ہو جا ئو.۱ ۲۷ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء موجودہ عیسائیت درحقیقت پولوسی مذہب ہے فرمایا.جیسا کہ یہودی فاضل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے یہ بات صحیح ہے کہ موجودہ مذہب نصاریٰ جس میں شریعت کا کوئی پاس نہیں اور سؤر کھانا اور غیر مختون رہنا وغیرہ تمام باتیں شریعتِ موسوی کے مخالف ہیں.یہ باتیں اصل میں پولوس کی ایجاد ہیں اور اس واسطے ہم اس مذہب کو عیسوی مذہب نہیں کہہ سکتے بلکہ دراصل یہ پولوسی مذہب ہے اور ہم تعجب کرتے ہیں کہ حواریوں کو چھوڑ کر اور اُن کی رائے کے برخلاف کیوں ایسے شخص کی باتوں پر اعتبار کر لیا گیا تھا جس کی ساری عمر یسوع کی مخالفت میں گذری تھی.مذہب عیسوی میں پولوس کا ایسا ہی حال ہے جیسا کہ باوانانک صاحب کی اصل باتوں کو چھوڑ کر قوم سکھ گوروگو بند سنگھ کی باتوں کو پکڑ بیٹھی ہے.کوئی سند ایسی مل نہیں سکتی جس کے مطابق عمل کر کے پولوس جیسے آدمی کے خطوط اناجیلِ اربعہ کے ساتھ شامل کیے جا سکتے تھے.پولوس خواہ مخواہ معتبر بن بیٹھا تھا.ہم اسلام کی تاریخ میں کوئی ایسا آدمی نہیں پاتے جو خواہ مخواہ صحابی بن بیٹھا ہو.۲ ۲۸ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء اشتہار دافع البلاء کی اشاعت کے لیے شیخ یعقوب علی صاحب کی امداد اشتہار دافع البلاء کے متعلق حضرت بہت تاکید کر رہے تھے کہ اس کو بہت جلد شائع کیا جائے.مگر مطبع میں ہفتہ کے اندر سات آٹھ سو چھپ سکتا ہے.اس پر شیخ یعقوب علی صاحب نے عرض کی کہ اخبار الحکم میں
ہر دو پریس ہم دو دن کے لیے خالی کروا دیتے ہیں.حضرتؑنے بہت پسند فرمایا اور حکم دیا کہ ایسا کیا جاوے تا کہ یہ اشتہار وقت پر جلد شائع ہو جائے.اﷲ تعالیٰ شیخ صاحب موصوف کو جزائے خیر دے.اُن کے مطبع سے اس طرح وقتاً فوقتاً حضرت کے زیادہ ضروری کاموں میں نصرت ملتی رہتی ہے.الہام ۲۸؍اپریل حضرت اقدسؑ کو الہام ہوا.’’اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.‘‘ فرمایا.دار کے معنے نہیں کھلے کہ اس سے مُراد صرف یہ گھر ہے یا قادیان میں جتنے ہمارے سلسلہ کے متعلق گھر ہیں.مثلاً مدرسہ اور مولوی صاحب کا گھر وغیرہ.۱ ۲۹ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء چراغ الدین جمونی کا توبہ نامہ ظہر کے وقت فرمایا.میاں چراغ الدّین جموں والے نے اپنا توبہ نامہ بھیج دیا ہے.یہ اُن کی بڑی سعادت ہے اور ہم مانتے ہیں کہ انہوں نے دراصل کوئی افترا نہیں کیا تھا بلکہ حدیث ِنفس اور اضغاث ِاحلام سے ایک دھوکا لگ جاتا ہے.شیخ یعقوب علی الحکم میں شائع کر دیں کہ سب لوگ اُن کو اپنا بھائی سمجھیں اور خُلق کے ساتھ اُن سے پیش آویں.۲۸ ؍ اپریل کے الہام کا ذکر تھا فرمایا کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ ہمارا گھر اتنا بڑا ہوتا کہ سارے جماعت والے اس کے اندر آجاتے.عیسائیوں کے باہمی اختلافات عیسائیوں کے باہمی اختلافات کا ذکر تھا اور ایک کتاب پڑھی جارہی تھی.جس میں یہ ذکر ہے کہ موجودہ مذہب عیسوی اصل میں پولوس نے فریب دہی سے بنایا ہے مسیح کا یہ مذہب نہ تھا.حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ دیکھو! یہ لوگ آپ ہی عیسائیت کی جڑیں کاٹ رہے ہیں،کیونکہ لکھا ہے کہ اگر مسیح دجال کو نہ
مارے گا تب بھی وہ گل گل کر مَر جائے گا.۳۰ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء الہام فرمایا.آج رات کو الہام ہوا ’’ لَوْ لَا الْاَمْرُ لَھَلَکَ النَّمْرُ‘‘ یعنی اگر سنّت اﷲ اور اَمرِ الٰہی اس طرح پر نہ ہوتا کہ اَئمۃُ الکفر اخیر میں ہلاک ہوا کریں تو اب بھی بڑے بڑے مخالف جلد تباہ ہو جاتے.لیکن چونکہ بڑے مخالف جو ہوتے ہیں اُن میں ایک خوبی عزم اور ہمت اور لوگوں پر حکمرانی اور اثر ڈالنے کی ہوتی ہے.اس واسطے اُن کے متعلق یہ امید بھی ہوتی ہے کہ شاید لوگوں کے حالات سے عبرت پکڑ کر توبہ کریں اور دین کی خدمت میں اپنی قوتوں کو کام میں لاویں.فرمایا.اس بات میں بڑی لذّت ہے کہ انسان خدا کے وجود کو سمجھے کہ وہ ہے اور رسول کو برحق جانے.انسان کو چاہیے کہ اپنے گذارے کے مطابق اپنی معیشت کو حاصل کرے اور دنیا کی بہت مُراد یابیوں کی خواہش کے پیچھے نہ پڑے.۱ ۵ ؍ مئی ۱۹۰۲ء الہامات رات کے تین بجے حضرت اقدسؑکو الہام ہوا.’’اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ اِلَّا الَّذِیْنَ عَلَوْا بِا سْتِکْبَارٍ‘‘ یعنی میں دار کے اندر رہنے والوں کی حفاظت کروں گا.سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے تکبّر کے ساتھ علوّ کیا.فرمایا.علوّ دو قسم کا ہوتا ہے.ایک جائز ہوتا ہے اور دوسرا نا جائز.جائز کی مثال وہ علوّ ہے جو
حضرت موسیٰ علیہ السلام میں تھا اور ناجائز کی مثال وہ علوّ ہے جو فرعون میں تھا.اور فرمایا کہ صبح کی نماز کے بعد یہ الہام ہوا.’’اِنِّیْ اَرَي الْمَلَائِکَۃَ الشِّدَادَ‘‘ یعنی میں سخت فرشتوں کو دیکھتا ہوں جیسا کہ مثلاً ملکُ الموت وغیرہ ہیں.فرمایا کہ خدا کے غضب شدید سے بغیر تقویٰ و طہارت کے کوئی نہیں بچ سکتا.پس سب کو چاہیے کہ تقویٰ و طہارت کو اختیار کریں اور اگر کوئی فاسق اور فاجر دار میں داخل ہو جائے تو اُس کا بچ رہنا یقینی کیوں کر ہو سکتا ہے.ہاں اس میں پھر بھی ایک قسم کی خصوصیت کی گئی ہے.کیونکہ جو لوگ علوّ استکبار نہ کریں اُن کی حفاظت کا اﷲ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے.لیکن اِنَّہٗ اَوَی الْقَرْیَۃَ میں یہ اَمر نہیں.وہاں انتشار اور ہلچل شدید سے بچنے کا وعدہ معلوم ہوتا ہے.اﷲ تعالیٰ ایسا اَمر نہیں کرتا جس سے لوگوں کو جرأت پیدا ہو جائے اور گناہ کی طرف جھکنے لگیں.متکبّر، علوّ کرنے والوں کے استثناء کی مثال ایسی ہے جیساکہ ایک کافر نے حضرت رسول کریمؐ کے زمانہ میں بیت اﷲ کی پناہ لی تھی تو آنحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ اس کو اسی جگہ قتل کر دو کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا گھر مفسد کو پناہ نہیں دیتا.اس گائوں میں دراصل اس قسم کے سخت دل اور مخالف دین اسلام لوگ موجود ہیں کہ اگر اس سلسلہ کا اکرام نہ ہوتا تو یہ سارا گائوں ہلاک ہو جاتا.اور اب بھی اگرچہ ممکن ہے کہ بعض وارداتیں ہوں مگر تاہم اﷲ تعالیٰ ایک ما بہ الامتیاز قائم رکھے گا.سیونگ بنک اور تجارتی کارخانوں کے سُود کا حکم ایک شخص نے ایک لمبا خط لکھا کہ سیونگ بنک کا سُود اور دیگر تجارتی کارخانوں کا سُود جائز ہے یا نہیں.کیونکہ اس کے ناجائز ہونے سے اسلام کے لوگوں کو تجارتی معاملات میں بڑا نقصان ہو رہا ہے.حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور جب تک کہ اس کے سارے پہلوئوں پر غور نہ کی جائے اور ہر قسم کے ہرج اور فوائد جو اس سے حاصل ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے پیش
مقابلہ اور مجادلہ نہ کریں.اگر کہیں کسی کو کوئی درشت اور نا ملائم بات سننے کا اتفاق ہو تو اعراض کرے.میں بڑے و ثوق اور سچے ایمان سے کہتا ہوں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری تائید میں آسمان پر خاص تیاری ہو رہی ہے.ہماری طرف سے ہر پہلو کے لحاظ سے لوگوں پر حجّت پوری ہو چکی ہے.اس لیے اب خدا تعالیٰ نے اپنی طرف سے اس کارروائی کے کرنے کا ارادہ فرمایا ہے جو وہ اپنی سنّتِ قدیم کے موافق اتمامِ حجّت کے بعد کیا کرتا ہے.مجھے خوف ہے کہ اگر ہماری جماعت کے لوگ بدزبانیوں اور فضول بحثوں سے باز نہ آئیں گے تو ایسا نہ ہو کہ آسمانی کارروائی میں کوئی تاخیر اور روک پیدا ہو جاوے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی عادت ہے کہ ہمیشہ اس کا عتاب ان لوگوں پر ہوتا ہے جن پر اس کے فضل اور عطایات بے شمار ہوں اور جنہیں وہ اپنے نشانات دکھا چکا ہوتا ہے.وہ ان لوگوں کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوتا کہ انہیں عتاب یا خطاب یا ملامت کرے جن کے خلاف اس کا آخری فیصلہ نافذ ہونا ہوتا ہے چنانچہ ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے فَاصْبِرْكَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ(الاحقاف : ۳۶) اور فرماتا ہے وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ (القلم : ۴۹) اور فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْاَرْضِ الاٰیۃ(الانعام : ۳۶) یہ حجّت آمیز عتاب ا س بات پر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت جلد فیصلہ کفار کے حق میں چاہتے تھے مگر خدا تعالیٰ اپنے مصالح اور سنن کے لحاظ سے بڑے توقّف اور حلم کے ساتھ کام کرتا ہے لیکن آخر کار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو ایسا کچلا اور پیسا کہ اُن کا نام و نشان مٹا دیا.اسی طرح پر ممکن ہے کہ ہماری جماعت کے بعض لوگ طرح طرح کی گالیاں، افترا پردازیاں اور بدزبانیاں خدا تعالیٰ کے سچے سلسلے کی نسبت سن کر اضطراب اور استعجال میں پڑیں.مگر انہیں خدا تعالیٰ کی اس سنّت کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ برتی گئی ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے.اس لیے میں پھر اور بار بار بتاکید حکم کرتا ہوں کہ جنگ وجدال کے مجمعوں، تحریکوں اور تقریبوں سے کنارہ کشی کرو.اس لیے کہ جو کام تم کرنا چاہتے ہو یعنی دشمنوں پر حجّت پوری کرنا وہ اب خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے.
تمہارا کام اب یہ ہونا چاہیے کہ دعائوں اور استغفار اور عبادتِ الٰہی اور تزکیہ وتصفیہ نفس میں مشغول ہو جائو.اس طرح اپنے تئیں مستحق بنائو خدا تعالیٰ کی ان عنایات اور توجہات کا جن کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.اگر چہ خدا تعالیٰ کے میرے ساتھ بڑے بڑے وعدے اور پیشگوئیاں ہیں جن کی نسبت یقین ہے کہ وہ پوری ہوں گی مگر تم خواہ نخواہ اُن پر مغرور نہ ہو جائو.ہر قسم کے حسد، کینہ، بغض، غیبت اور کبر اور رعونت اور فسق وفجور کی ظاہری اور باطنی راہوں اور کسل اور غفلت سے بچو اور خوب یاد رکھو کہ انجام کار ہمیشہ متقیوں کا ہوتا ہے.جیسے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِيْنَ(الزّخرف: ۳۶ ) اس لیے متقی بننے کی فکر کرو.سلسلہ احمدیہ کی عزّت و عظمت حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے ذکر کیا کہ حضور کی بیماری کی شدّت میں میرے دل میں بہت رقّت پیدا ہوئی تو میں نے بہت دعا کی اور اس طرح پر دعا کی کہ مولا کریم اسلام کی عزّت، قرآن کی عزّت، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت اور بالآخر تیری اپنی عزّت اور جلال کے اظہار کا بھی اس وقت یہی ذریعہ ہے تو اس پر فرمایا.بیماری کی شدّت میں جبکہ یہ گمان ہوتا تھا کہ روح پر واز کر جائے گی مجھے بھی الہام ہوا اَللّٰھُمَّ اِنْ اَھْلَکْتَ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ فَلَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ اَبَدًا.یعنی اے خدا اگر تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر اس کے بعد اس زمین میں تیری پرستش کبھی نہ ہوگی.فرمایا.یقیناً یاد رکھو یہ سلسلہ اس وقت اﷲ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے.اگر یہ سلسلہ قائم نہ ہوتا تو دنیا میں نصرانیت پھیل جاتی اور خدائے وحدہٗ لا شریک کی توحید قائم نہ رہتی یا یہ مسلمان ہوتے جو اپنے ناپاک اور جھوٹے عقیدوں کے ساتھ نصرانیت کو مدد دیتے ہیں اور اُن کے معبود اور خدا بنائے ہوئے مسیح کے لیے میدان خالی کرتے ہیں.یہ سلسلہ اب کسی ہاتھ اور طاقت سے نابود نہ ہوگا.یہ ضرور بڑھے گا اور پھولے گا اور خدا کی بڑی بڑی برکتیں اور فضل اس پر ہوں گے.جب ہمیں خدا کے زندہ اور مبارک وعدہ ہر روز ملتے ہیں اور وہ تسلّی دیتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اور تمہاری
دعوت زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا.پھر ہم کسی کی تحقیر یا گالی گلوچ پر کیوں مضطرب ہوں.۱ ۳۰ ؍ مئی ۱۹۰۲ء مامورین کی تمجید اور مدح وثنا کی حقیقت ۳۰ ؍ مئی ۱۹۰۲ء کی شام کو مختلف باتوں کے تذکرہ میں یہ ذکر شروع ہوا کہ لوگ جناب کے اس فقرہ پر کہ میں مسیح اور حسین سے بڑھ کر ہوں بہت جھلا رہے ہیں.حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا.دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک تو وہ جو خواہ مخواہ بلا کسی قسم کے استحقاق کے اپنے تئیں محامد، مناقب اور صفاتِ محمودہ سے موصوف کرنا چاہتے ہیں.گویا وہ یہ چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی کبریائی کی چادر آپ اوڑھ لیں.ایسے لوگ لعنتی ہوتے ہیں.دوسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو طبعاً ہرقسم کی مدح و ثنا اور منقبت سے نفرت اور کراہت کرتے ہیں.اور اگر وہ اپنے اختیار پر چھوڑ دیئے جاویں تو دل سے پسند کرتے ہیں کہ گوشہءِ گمنامی میں زندگی گذار دیں.مگر خدا تعالیٰ اپنے مصالح اور باریک حکمتوں کی بِنا پر اُن کی تعریف اور تمجید کرتا ہے اور درحقیقت ہونا بھی اسی طرح چاہیے کیونکہ جن لوگوں کو وہ مامور کر کے بھیجتا ہے اُن کی ماموریت سے اس کامنشا یہ ہوتا ہے کہ اس کی حمدوثنا اور جلال دنیا میں ظاہر ہو.اگر ان ماموروں کی نسبت وہ یہ کہے کہ فلاں مامور جسے میں نے مبعوث کیا ہے ایسا نکمّا، بُزدل، نالائق، کمینہ، سفلہ اور ہر قسم کے فضائل سے عاری اور بیگانہ ہے تو کیا خدا تعالیٰ کی اس کے ذریعہ سے کوئی صفت قائم ہوسکے گی.حقیقت میں خدا کا ان کی تمجید اور مدارج اور فضائل بیان کرنا اپنے ہی جلال اور عظمت کی تمہید کے لیے ہوتا ہے.وہ تو اپنے نفس سے بالکل خالی ہوتے ہیں اور ہر قسم کے مدح و ذَم سے بے پروا ہوتے ہیں چنانچہ سالہا سال اس سے پہلے جبکہ نہ کوئی مقابلہ تھا نہ گرد و پیش میں کوئی مجمع تھا، نہ یہ مجلس اور اس کی کوئی تمہید تھی اور نہ دنیا میں کوئی شہرت تھی.خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میری نسبت یہ
فرمایا کہ یَـحْمَدُکَ اللہُ مِنْ عَرْشِہٖ.نَـحْمَدُکَ وَ نُصَلِّیْ.کُنْتُمْ خَیْـرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ وَاِفْتِخَارًا لِلْمُؤْمِنِیْـنَ.یَا اَحْـمَدُ فَاضَتِ الرَّحْـمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ.اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا.یَرْفَعُ اللہُ ذِکْرَکَ.وَیُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ.یَا اَحْـمَدِیْ اَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ غَرَسْتُ کَرَامَتَکَ بِیَدِیْ.یَا اَحْـمَدُ یَتِمُّ اسْـمُکَ وَلَا یَتِمُّ اسْـمِیْ.بُوْرِکْتَ یَا اَحْـمَدُ وَ کَانَ مَا بَارَکَ اللہُ فِیْکَ حَقًّا فِیْکَ.شَاْنُکَ عَـجِیْبٌ وَّ اَجْرُکَ قَرِیْبٌ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا.اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْـرَتِیْ.اِخْتَـرْتُکَ لِنَفْسِیْ.اَلْاَرْضُ وَالسَّمَآءُ مَعَکَ کَمَا ھُوَ مَعِیْ.وَسِـرُّکَ سِـرِّیْ.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْـزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ.سُبْـحَانَ اللہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی زَادَ مَـجْدُکَ.سَلَامٌ عَلَیْکَ.جُعِلْتَ مُبَارَکًا.وَاِنِّی فَضَّلْتُکَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ.وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِيْۤ اٰدَمَ وَفَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ.دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی.وَاِنَّ عَلَیْکَ رَحْـمَتِیْ فِی الدُّنْیَا وَالدِّیْنِ.وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَـحَبَّۃً مِّنِّیْ.وَلِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ.یَـحْمَدُکَ اللہُ وَیَـمْشِیْ اِلَیْکَ.خَلَقَ اٰدَمَ فَاَکْرَمَہٗ.جَرِیُّ اللہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَاءِ.اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ خَلَقْتُ لَکَ لَیْلًا وَنَـھَارًا.اِعْـمَلْ مَا شِئْتَ فَاِنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَکَ.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْـزِلَۃٍ لَا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.وَیَعْصِمُکَ اللہُ وَلَوْلَمْ یَعْصِمُکَ النَّاسُ.وَلَوْلَمْ یَعْصِمُکَ النَّاسُ یَعْصِمُکَ اللہُ.اَنْتَ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَا یُضَاعُ وَقْتُہٗ.کَمِثْلِکَ دُرٌّ لَّا یُضَاعُ.اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ وَاِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَنْصَارِکَ.وَاَنْتَ اسْـمِیَ الْاَعْلٰی وَ اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْـزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ وَاَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْـزِلَۃِ الْمَحْبُوْبِیْـنَ عَلَیْکَ بَرَکَاتٌ وَّسَلَامٌ.سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.مَظْھَرُ الْـحَیِّ.وَ اَنْتَ مِنِّیْ مَبْدَءُ الْاَمْرِ.وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَـوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی.فرمایا.میں اپنے قلب کو دیکھ کر یقین کرتا ہوں کہ کل انبیاء علیہم السلام طبعاً ہر قسم کی تعریف او ر مدح و ثنا سے کراہت کرتے تھے مگر جو کچھ خدا تعالیٰ نے اُن کے حق میں بیان فر مایاہے اپنے مصالح کی بنا پر فرمایا ہے اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ الفاظ میرے الفاظ نہیں خدا تعالیٰ کے
لفاظ ہیں اور یہ اس لیے کہ خدا تعالیٰ کی عزّت اور جلال اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت اور عظمت اور جلال خاک میں ملادیا گیا ہے اور حضرت عیسیٰ اور حضرت حسین کے حق میں ایسا غلو اور اطرا کیا گیا ہے کہ اس سے خدا کا عرش کانپتا ہے.اب جبکہ کرو ڑ ہا آدمی حضرت عیسیٰ کی مدح و ثنا سے گمراہ ہو چکے ہیں اور ایسا ہی بے انتہا مخلوق حضرت حسین کی نسبت غلو اور اطرا کر کے ہلا ک ہو چکی ہے تو خدا کی مصلحت اور غیرت اس وقت یہی چاہتی ہے کہ وہ تمام عزّتوں کے کپڑے جو بےجا طور پر ان کو پہنا ئے گئے تھے اُن سے اُتار کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ کو پہنائے جاویں.پس ہماری نسبت یہ کلمات درحقیقت خدا تعالیٰ کی اپنی عزّت کے اظہار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لیے ہیں.میں حلفاً کہتا ہوں کہ میرے دل میں اصلی اور حقیقی جوش یہی ہے کہ تمام محامد اور مناقب اور تمام صفاتِ جمیلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کروں.میری تمام تر خوشی اسی میں ہے اور میری بعثت کی اصل غرض یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت دنیا میں قائم ہو.میں یقیناً جانتاہوں کہ میری نسبت جس قدر تعریفی کلمات اور تمجیدی باتیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں.یہ بھی درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف راجع ہیں اس لیے کہ میں آپ کا ہی غلام ہوں اور آپ ہی کے مشکوٰۃِ نبوت سے نور حاصل کرنے والا ہوں اور مستقل طور پر ہمارا کچھ بھی نہیں.اسی سبب سے میرا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ میں مستقل طور پر بلااستفاضہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مامور ہوں اور خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہوں تو وہ مردود اور مخذول ہے.خدا تعالیٰ کی ابدی مُہر لگ چکی ہے اس بات پر کہ کوئی شخص وصول اِلَی اللہ کے دروازہ سے آنہیں سکتا ہے بجُز اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے.۱
۳۱ ؍مئی ۱۹۰۲ء شرک کی اقسام شرک تین قسم کا ہے اوّل یہ کہ عام طور پر بُت پرستی، درخت پرستی وغیرہ کی جاوے یہ سب سے عام اور موٹی قسم کا شرک ہے.دوسری قسم شرک کی یہ ہے کہ اسباب پر حد سے زیادہ بھروسہ کیا جاوے کہ فلاں کام نہ ہوتا تو میں ہلاک ہوجاتا یہ بھی شرک ہے.تیسری قسم شرک کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے وجود کے سامنے اپنے وجود کو بھی کوئی شَے سمجھا جاوے.موٹے شرک میں توآج کل اس روشنی اور عقل کے زمانہ میں کوئی گرفتار نہیں ہوتا، البتہ اس مادی ترقی کے زمانہ میں شِرک فی الاسباب بہت بڑھ گیا ہے.طاعون کے پھیلنے پر یہ کوئی خیال نہیں کرتا کہ شامتِ اعمال سے پھیلی ہے اور اَور اسباب کی طرف توجہ کرتے ہیں.نماز عربی زبان میں پڑھنی چاہیے نماز اپنی زبان میں نہیں پڑھنی چاہیے.خدا تعالیٰ نے جس زبان میں قر آن شریف رکھا ہے اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے.ہاں اپنی حاجتوں کو اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے سامنے بعد مسنون طریق اور اذکار کے بیان کر سکتے ہیں مگر اصل زبان کو ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے.عیسائیوں نے اصل زبان کو چھوڑ کر کیا پھل پایا.کچھ بھی باقی نہ رہا.قرآن مجید میں طاعون کے متعلق پیشگوئی قرآن شریف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ طاعون سے کوئی جگہ باقی نہ رہے گی.جیسے فرمایا ہے اِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا الاٰیۃ (بنیٓ اسـرآءیل : ۵۹) اس سے لازم آتا ہے کہ کوئی قریہ مَسِّ طاعون سے باقی نہ رہے.اس لیے قادیان کی نسبت یہ فرمایا اِنَّہٗ اَوَی الْقَرْیَۃَ یعنی اس کو انتشار اور افراتفری سے اپنی پناہ میں لے لیا.سزائیں دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک بالکلیۃ اہلاک کرنے والی جس کے مقابلہ میں فرمایا لَوْ لَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ.یعنی یہ مقام اہلاک سے بچایا جاوے گا.دوسری قسم سزا کی بطور تعذیب ہوتی ہے.غرض خدا تعالیٰ
نے قادیان کو ہلاکت سے محفوظ رکھا ہے اور تعدّی سزا ممنوع نہیں بلکہ ضروری ہے.آیات اﷲ دانے کا کیا وجود ہوتا ہے لیکن جمع کیے جاویں تو سیری کاموجب ہو جاتا ہے.ایک سیر خام میں قریباً پندرہ ہزار کے دانہ ہوتے ہیں جس سے ایک آدمی بخوبی سیر ہو جاتا ہے.اسی طرح پر آیاتُ اﷲ کو اگر جمع کیا جاوے اور قدر کی جاوے تو وہ روحانی سیری کاموجب ہو جاتی ہیں.ہمارے نشانات کو اگر یکجائی طور پر دیکھا جاوے توا ن کی قوت اور شوکت معلوم ہوتی ہے.ایک نشان آج کل جو ایک پہاڑ کی وجہ سے جزائر غربُ الہند میں سینٹ پیری اور مارٹینک ہلاک ہوئے ہیں.ان کے متعلق تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا.لوط کی بستی پر بھی اسی طرح پتھر برسے جیسے کوہ آتش فشاں سے پڑتے ہیں.یہ قانونِ قدرت ہے.موجودہ واقعہ جو ہلاکت کا ہوا ہے یہ مسیح کے زمانہ کا ایک نشان ہے.قرآن کے ذریعہ توریت کی اصلاح ہم قرآن کریم کے ذریعہ توریت کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں توریت کے ذریعے قرآن کی اصلاح کرنا نہیں چاہتے.توریت کامقابلہ ہی قرآن سے کیا ہے.جہاں قرآن اور توریت کا اختلاف ہے وہاں صاف نظر آتا ہے کہ توریت میں ایک گند اور جھوٹ ہے جو بعد میں ملایا گیا ہے.انبیاء اور مامورین کی ابتدا انبیاء اور مامور ہمیشہ کَزَرْعٍ آتے ہیں.ابتدا میں حقیر اور ذلیل نظر آتے ہیں.فلسفی ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن آخر خدا تعالیٰ کی قدرت کا ظہور ہوتا ہے.۱ جون۱۹۰۲ء دارالامان کا ہفتہ حضرت اقدس حجۃ اللہ علی الارض مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خدا کے فضل و کرم سے بہمہ وجوہ تندرست ہیں.اور طاعون کے متعلق ایک جدید
اشتہار لکھ رہے ہیں.آج پہلا دن ہے کہ حضرت حجۃ اللہ سیر کے لئے باہر تشریف لے گئے اور اب انشاء اللہ حسبِ معمول ہر روز جایا کریں گے.سیر سے واپس آکر شیخ عبد الرحمٰن ملازم خان صاحب نواب محمد علی خان صاحب رئیس اعظم مالیر کوٹلہ نے جو اپنی غلط فہمی اور کوتہ اندیشی کی وجہ سے ان کی ملازمت سے مستعفی ہوئے تھے رخصت چاہی.حضرت حجۃ اللہ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا.ملازم کے لئے ملازمت سے پہلے ایسی جگہ دیکھ لینی چاہیے جہاں آقا نیک اور متقی ہو کیونکہ بندگی بیچارگی ملازم ناصح کا درجہ نہیں پاسکتا اس لیے بسا اوقات ایسے لوگوں کی ملازمت ہوتی ہے جہاں دین برباد ہوجاتا ہے.پس نواب صاحب کی ملازمت کو بہت ترجیح دینی چاہیے نواب صاحب بڑے صالح اور بامروّت ہیں اور پھر قادیان جیسی جگہ کو چھوڑنا نہیں چاہیے یہاں امن سے بیٹھے ہو دنیا میں ایک آگ لگی ہوئی ہے اور ابھی معلوم نہیں کیا ہوگا ملکُ الموت قریب آرہا ہے لیکن یہاں تم سنتے ہو کہ خدا اپنا فضل کر رہا ہے جب انسان دینی فوائد کو چھوڑ کر دنیوی فوائد کے پیچھے جاتا ہے تو دنیوی فوائد بھی جاتے رہتے ہیں بس بُری مجلسوں سے توبہ کرو اور جہاں تکذیب ہوتی ہو وہاں سے اٹھ جاؤ ورنہ تم بھی ان کے مثل سمجھے جاؤ گے میری رائے میں بہتری یہی ہے کہ تم اپنے اس ارادہ پر نظر ثانی کر لو.۱ ۱۴؍جون ۱۹۰۲ ء مُردوں کا جی اُٹھنا ہم خدا تعالیٰ کے اسی قانونِ قدرت کو مانتے ہیں جو قرآن شریف میں بیان ہوا ہے.جو مُردہ ایسے ہیں کہ قبر میں رکھے جاتے ہیں اور ان کے پاس ملائکہ آتے ہیں.اُن کی نسبت قرآن شریف کا یہی فتویٰ ہے فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ (الزُّمُر : ۴۳) مگر برنگ دیگر غیر حقیقی موت میں اِحیاء بھی ہوتا ہے چنانچہ اس قسم کے واقعات خود ہمارے ساتھ بھی پیش آئے ہیں چنانچہ مبارک کے متعلق اس قسم کی مو تیں فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ
سے نہیں اور وہ یہ احیاء ہے جس پر ہم ایمان لاتے ہیں کہ مُردہ جی اٹھتا ہے.غرض خدا تعالیٰ نے جو قانون باندھا ہے اُسے ہم مانتے ہیں اگر اس پر اعتبار نہ کریں اور یقین نہ لائیں توامان اُٹھ جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت جو کتاب اﷲ میں درج ہے اس پر ہمارا ایمان ہے اور ہم اس بات پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی صفات کے خلاف نہیں کرتا.مثلاً کوئی کہے کہ خدا تعالیٰ قادر ہے تو کیا خود کشی بھی کر لیتا ہے؟ ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ کبھی نہیں کیونکہ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى (الـحشـر : ۲۵) کوئی صفت اس سے منسوب نہیں کر سکتے وہ اپنی صفاتِ قدیمہ کے خلاف نہیں کرتا.غرض احیائے موتیٰ اور قانونِ قدرت کے متعلق ہمارا یہی مذہب ہے کہ ہم اس اِحیاء کے قائل ہیں جو قرآن شریف نے بیان کیا اور وہ قانونِ قدرت ہمارا امام ہے جو قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے.یورپ کا فلسفہ اور اس کی محدود تحقیقاتیں ہمارے لیے رہبر نہیں ہو سکتی ہیں.ہمارا خدا قادر خدا ہے ہم اپنے خدا تعالیٰ پر یہ قوی ایمان رکھتے ہیں کہ وہ اپنے صادق بندہ کو کبھی ضائع نہیں کرتا.حضرت ابراہیمؑ کی طرح اگر وہ آگ میں ڈالا جاوے تو وہ آگ اس کو جلا نہیں سکتی.ہمارا مذہب یہی ہے کہ ایک آگ نہیں اگر ہزار آگ بھی ہو تو وہ جلا نہیں سکتی.صادق اُس میں ڈالا جاوے تو ضرور بچ جاوے گا.ہم کو اگر اس کام کے مقابلہ میں جو خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے آگ میں ڈالا جاوے تو ہمارا یقین ہے کہ آگ جلا نہیں سکے گی اور اگر شیروں کے پنجرہ میں ڈالا جاوے تو وہ کھانہ سکیں گے.میں یقیناً کہتا ہوں کہ ہمارا خدا وہ خدا نہیں جو اپنے صادق کی مدد نہ کرسکے بلکہ ہمارا خدا قادر خدا ہے جو اپنے بندوں اور اس کے غیروں میں مابہ الامتیاز رکھ دیتا ہے.اگر ایسا نہ ہو تو پھر دعا بھی ایک فضول شَے ہو.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو کچھ میں خدا تعالیٰ کی نسبت بیان کرتا ہوں اس کی قوتیں اور طاقتیں اس سے بھی کروڑ در کروڑ درجے بڑھ کر ہیں جن کو ہم بیان نہیں کر سکتے.ہمارا ایمان ہے کہ اگر قریش مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر آ گ میں ڈال دیتے تو وہ
آگ ہرگز ہرگز آپ کو جلا نہیں سکتی تھی.اگر کوئی محض اس بنا پر کہ آگ اپنی تاثیر نہیں چھوڑتی انکار کرے تو وہ خبیث اور کافر ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے جب ان سب دشمنوں کو مخاطب کر کے یہ کہہ دیا فَكِيْدُوْنِيْ جَمِيْعًا(ھود : ۵۶) تم سب مکر کر کے دیکھ لو میں اس کو ضرور بچا لوں گا.پھر اگر کوئی یہ وہم بھی کرے کہ آگ میں ڈالتے تو معاذاﷲ جل جاتے یہ کفر ہے.قرآن شریف سچا ہے اور خدا تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں وہ کوئی بھی حیلہ اور فریب آپ کی جان لینے کے لیے کرتے اللہ تعالیٰ ضرور اُن کے گزند سے محفوظ رکھتا جیسا کہ محفوظ رکھ کر دکھا دیا.خواہ وہ صلیب کامکر کرتے خواہ آگ میں ڈالنے کا.غرض کوئی بھی کرتے آخر محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے وعدے کے موافق صادق ثابت ہوتے جیسا کہ ہوئے.جس طرف ہم اپنی جماعت کو کھینچنا چاہتے ہیں وہ یہی عظیم الشّان مرحلہ خدا شناسی کا ہے اور ہم یقین رکھتے ہیںکہ انشاء اﷲ تعالیٰ آہستہ آہستہ سب کچھ ہو جاوے گا.تبلیغ کا جوش ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھربگھر پھر کر خدا تعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کوبچالیں.اگر خدا تعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھا دے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کر کے تبلیغ کریں اور اسی تبلیغ میں زندگی ختم کر دیں خواہ مارے ہی جاویں.مسیح کی قبر کی اشاعت یورپ میں یورپ اور دوسرے ملکوں میں ہم ایک اشتہار شائع کرنا چاہتے ہیں جو بہت ہی مختصر ایک چھوٹے سے صفحے کا ہو تاکہ سب اُسے پڑھ لیں.اس کامضمون اتنا ہی ہو کہ مسیح کی قبر سرینگر کشمیر میں ہے جو واقعاتِ صحیحہ کی بِنا پر ثابت ہو گئی ہے.اس کے متعلق مزید حالات اور واقفیت اگر کوئی معلوم کرنا چاہے تو ہم سے کرلے.اس قسم کا اشتہار ہوجو بہت کثرت سے چھپوا کر شائع کیا جاوے.مضرِصحت چیزیں مضرِایمان ہیں حدیث میں آیا ہے مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَالَا یَعْنِیْہِ یعنی اسلام کا حُسن یہ بھی ہے کہ جو چیز ضروری نہ ہو وہ چھوڑ دی جاوے.
اسی طرح پر یہ پان، حُقّہ، زردہ (تمباکو) افیون وغیرہ ایسی ہی چیزیں ہیں.بڑی سادگی یہ ہے کہ ان چیزوں سے پر ہیز کرے.کیونکہ اگر کوئی اور بھی نقصان اُن کا بفرضِ محال نہ ہو تو بھی اس سے ابتلا آجاتے ہیں اور انسان مشکلات میں پھنس جاتا ہے.مثلاً قید ہو جاوے تو روٹی تو ملے گی لیکن بھنگ چرس یا اور منشّی اشیاء نہیں دی جاوے گی.یا اگر قید نہ ہو کسی ایسی جگہ میں ہو جو قید کے قائم مقام ہو تو پھر بھی مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں.عمدہ صحت کو کسی بیہودہ سہارے سے کبھی ضائع کرنا نہیں چاہیے.شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہے کہ ان مضر صحت چیزوں کو مُضر ایمان قرار دیا ہے اور ان سب کی سردار شراب ہے.یہ سچی بات ہے کہ نشوں اورتقویٰ میں عداوت ہے.افیون کا نقصان بھی بہت بڑا ہوتا ہے.طبّی طور پر یہ شراب سے بھی بڑھ کر ہے اور جس قدر قویٰ لے کر انسان آیا ہے اُن کو ضائع کر دیتی ہے.بیدمشک اور کیوڑہ کا استعمال منشی الٰہی بخش اور اُس کے دوسرے رفیق اعتراض کرتے ہیں کہ میں بیدمشک اور کیوڑہ کا استعمال کرتا ہوں یا اور اس قسم کی دوائیاں کھاتا ہوں.تعجب ہے کہ حلال او رطیّب چیزوں کے کھانے پر اعتراض کیا جاتا ہے.اگر وہ غور کر کے دیکھتے اور مولوی عبداﷲ غزنوی کی حالت پر نظر رکھتے تو میرا مقابلہ کرتے ہوئے اُن کو شرم آجاتی.مولوی عبد اﷲ کو بیویوں کا استغراق تھا اس لیے انڈے اور مرغ کثرت سے کھاتے تھے.یہاں تک کہ اخیر عمر میں شادی کرنا چاہتے تھے.میری شہادت مل سکتی ہے کہ مجھے کیوڑہ وغیرہ کی ضرورت کب پڑتی ہے.میں کیوڑہ وغیرہ کا استعمال کرتا ہوں جب دماغ میں اختلال معلوم ہوتا ہے یا جب دل میں تشنّج ہوتا ہے.خدائے وحدہٗ لا شریک جانتا ہے کہ بجز اس کے مجھے ضرورت نہیں پڑتی.بیٹھے بیٹھے جب بہت محنت کرتا ہوں تو یکد فعہ ہی دورہ ہوتا ہے.بعض وقت ایسی حالت ہوتی ہے کہ قریب ہے کہ غش آجاوے اس وقت علاج کے طور پر استعمال کرنا پڑتا ہے اور اسی لیے ہر روز باہر سیر کو جاتا ہوں.مگر مولوی عبداﷲ جو کچھ کرتے تھے یعنی مرغ، انگور، انڈے وغیرہ جو استعمال کرتے تھے اس کی وجہ کثرت ازدواج تھی اور کوئی سبب نہ تھا.انبیاء علیہم السلام ان چیزوں کو استعمال کرتے تھے مگر وہ خدا کی راہ میں فدا تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی گھبراتے تھے تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا
کی ران پر ہاتھ مار کر کہتے کہ اے عائشہ ہم کو راحت پہنچا.آنحضرت کے لیے تو سارا جہان دشمن تھا.پھر اگر اُن کے لیے کوئی راحت کا سامان نہ ہو تو یہ خدا کی شان کے ہی خلاف ہے.یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہوتی ہے کہ جیسے کا فور کے ساتھ دو چار مرچیں رکھی جاتی ہیں کہ اُڑ نہ جاوے.اسلام کا آئندہ غلبہ اﷲ تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے وہ تعلیم اور تربیت کے لیے کرتا ہے چونکہ شوکت کا زمانہ دیر تک رہتا ہے اور اسلام کی قوت اور شوکت صدیوں تک رہی اور اُس کے فتوحات دور دراز تک پہنچے.اس لیے بعض احمقوں نے سمجھ لیا کہ اسلام جبر سے پھیلایا گیا.حالانکہ اسلام کی تعلیم ہےلَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ (البقرۃ : ۲۵۷) اس اَمر کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لیے اسلام جبر سے نہیں پھیلا اﷲ تعالیٰ نے خاتم الخلفاء کو پیدا کیا اور اس کا کام یَضَعُ الْـحَرْبَ رکھ کر دوسری طرف لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ(الصّف : ۱۰) قرار دیا.یعنی وہ اسلام کا غلبہ مِلَلِ ہالکہ پر حجّت اور براہین سے قائم کرے گا اور جنگ و جدال کو اُٹھا دے گا وہ لوگ سخت غلطی کرتے ہیں جو کسی خونی مہدی اور خونی مسیح کا انتظار کرتے ہیں.اسلام کا عظیم الشان اعجاز اسلام کا سب سے بڑا اور عظیم الشان معجزہ جس کی نظیر کہیں نہیں مل سکتی وہ اس کی حقانیت اور روشنی ہے وہ کسی پہلو سے شرمندہ نہیں ہوتا.تمام حقائق اور صداقتیں اسلام میں موجود ہیں.ہر ایک پہلو سے کامل.سب کے حملوں کا جواب دیتا ہے اور دوسروں پر ایسا حملہ کرتا ہے کہ اس کا جواب نہیں ہو سکتا.درازیٔ عمر کا راز ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ اس کی عمر دراز ہو لیکن بہت ہی کم ہیں وہ لوگ جنہوں نے کبھی اس اصول اور طریق پر غور کی ہو جس سے انسان کی عمر دراز ہو.قرآن شریف نے ایک اصول بتایا ہے وَ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ(الرّعد : ۱۸) یعنی جو نفع رساں وجود ہوتے ہیں اُن کی عمر دراز ہوتی ہے.اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کو درازیٔ عمر کا وعدہ فرمایا ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے مفید ہیں.حالانکہ شریعت کے دو پہلو ہیں.اوّل خدا تعالیٰ کی عبادت.دوسرے بنی نوع سے ہمدردی.لیکن یہاں یہ پہلو اس لیے اختیار کیا ہے کہ کامل عابد وہی ہوتا ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے.پہلے پہلو میں اوّل مرتبہ خدا تعالیٰ کی محبت اور توحید کا ہے.
اس میں انسان کا فرض ہے کہ دوسروں کو نفع پہنچائے اور اس کی صورت یہ ہے.اُن کو خدا کی محبت پیدا کرنے اور اس کی توحید پر قائم ہونے کی ہدایت کرے جیسا کہ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ( العصـر : ۴) سے پایا جاتا ہے.انسان بعض وقت خود ایک اَمر کو سمجھ لیتا ہے لیکن دوسرے کو سمجھانے پر قادر نہیں ہوتا.اس لیے اُس کو چاہیے کہ محنت اور کوشش کر کے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاوے.ہمدردیٔ خلائق یہی ہے کہ محنت کر کے دماغ خرچ کر کے ایسی راہ نکالے کہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکے تا کہ عمر دراز ہو.اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ کے مقابل پر ایک دوسری آیت ہے جو دراصل اس وسوسہ کا جواب ہے کہ عابد کے مقابل نفع رساں کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور عابد کی کیوں نہیں ہوتی؟ اگر چہ میں نے بتا یا ہے کہ کامل عابد وہی ہو سکتا ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے لیکن اس آیت میں اور بھی صراحت ہے اور وہ آیت یہ ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ(الفرقان : ۷۸ ) یعنی ان لوگوں کو کہہ دو کہ اگر تم لوگ ربّ کو نہ پکارو تو میرا ربّ تمہاری پروا ہی کیا کرتا ہے یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ عابد کی پروا کرتا ہے.وہ عابد زاہد جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ بنوں اور جنگلوں میں رہے اور تارک الدُّنیا تھے ہمارے نزدیک وہ بودے اور کمزور تھے کیونکہ ہمارا مذہب یہ ہے کہ جو شخص اس حدتک پہنچ جاوے کہ اﷲ اور اس کے رسول کی کامل معرفت ہو جاوے وہ کبھی خاموش رہ سکتا ہی نہیں.وہ اس ذوق اور لذّت سے سرشار ہو کر دوسروں کو اس سے آگاہ کرنا چاہتا ہے.حکمت ایمانیاں راہم بخواں یقین ایک ایسی شَے ہے جو انسان کو ایک قوت اور شجاعت عطا کرتا ہے.یقین معلومات سے بڑھتا ہے اور جب معلومات وسیع ہوں تو یقین کی قوت سے ایک ماتحت اپنے افسر کے سامنے اپنے مقصد کو بیان کرنے سے نہیںڈرتا لیکن اگر معلومات کم ہوں تو یقین میں بھی ایک قسم کی کمزوری ہوگی اور پھر خواہ وہ افسر بھی ہو تو اسے بھی دبنا پڑتا ہے.یہ صحیح بات ہے کہ زندگی اور طاقت تب پیدا ہوتی ہے جب پورا علم ہو.اس وقت انسان اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالتا ہوا بھی پروا نہیں کرتا.جیسے صحابہ جو یقین اور معرفت کے نور سے بھر کر دل میں ایک قوت اور شجاعت رکھتے تھے وہ بادشاہوں کے سامنے کس دلیری سے جابولے.یقین ایسی
چیز ہے جو موت کو بھی آسان کر دیتا ہے.اسی لیے شہادت کی موت سہل اور آسان ہے.اگر ایک پکے مسلمان کو قتل کی دھمکی دی جاوے تو وہ قتل اس کو سہل معلوم ہوگا.یقین ایک روحانی مسکن ہے.شہادت کی موت والا دنیا اور طُولِ اَمَل کو طاق پر رکھ دیتا ہے.غرض انسان کو یقین حاصل کرنا چاہیے.اس سے پہلے کہ وہ فلسفہ اور طبیعات میں ترقی کرے.؎ اے کہ خواندی حکمت یونانیاں حکمت ایمانیاں را ہم بخواں جس نے حکمت ایمان نہیں پڑھی وہ مُردہ پرست ہی رہا.ہر نیا دن موت کے قریب کرتا ہے جوں جوں انسان بڈھا ہوتا جاتا ہے دین کی طرف بے پروائی کرتا جاتا ہے.یہ نفس کا دھوکہ اور سخت غلطی ہے جو موت کو دور سمجھتا ہے.موت ایک ایسا ضروری اَمر ہے کہ اس سے کسی صورت میں بچ نہیں سکتے اور وہ قریب ہی قریب ہے ہر ایک نیا دن موت کے زیادہ قریب کرتا جاتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بعض آدمی اوائل عمر میں بڑے نرم دل تھے.لیکن آخر عمر میں آکر سخت ہوگئے.ایسا کیوں ہوتا ہے؟ نفس دھوکہ دیتا ہے کہ موت ابھی بہت دور ہے.حالانکہ بہت قریب ہے.موت کو قریب سمجھو تا کہ گناہوں سے بچو.ایں درگہِ مادر گہ نومیدی نیست خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا.انسان اگر سچے دل سے اخلاص لے کر رجوع کرے تو وہ غفور رحیم ہے اور توبہ کو قبول کرنے والا ہے.یہ سمجھنا کہ کس کس گنہگار کو بخشے گا خدا تعالیٰ کے حضور سخت گستاخی اور بے ادبی ہے.اس کی رحمت کے خزانے وسیع اور لا انتہا ہیں.اس کے حضور کوئی کمی نہیں.اس کے دروازے کسی پر بند نہیں ہوتے.انگریزوں کی نوکریوں کی طرح نہیں کہ اتنے تعلیم یافتہ کو کہاں سے نوکریاں ملیں.خد اکے حضور جس قدر پہنچیں گے سب اعلیٰ مدارج پائیں گے.یہ یقینی وعدہ ہے.وہ انسان بڑا ہی بد قسمت اور بد بخت ہے جو خد اتعالیٰ سے مایوس ہو اور اس کی نزع
کا وقت غفلت کی حالت میں اس پر آجاوے.بے شک اس وقت دروازہ بند ہو جاتا ہے.۱ علم نُور ہے اور جہالت حجابِ اکبر یاد رکھو لغزش ہمیشہ نادان کو آتی ہے.شیطان کو جو لغزش آئی وہ علم کی وجہ سے نہیں بلکہ نادانی سے آئی.اگر وہ علم میںکمال رکھتا تو لغزش نہ آتی.قرآن شریف میںعلم کی مذمت نہیں بلکہ اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓـؤُا (فاطر: ۲۹) ہے.اور نیم ملّاں خطرہ ایمان مشہور مثل ہے.پس میرے مخالفوں کو علم نے ہلاک نہیں کیا بلکہ جہالت نے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا قُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا (طٰہٰ : ۱۱۵ ) پس اگر علم کوئی معمولی اور چھوٹی سی چیز ہوتی تو یہ دعا آپ کو تعلیم نہ کی جاتی.اور پھر فرمایا مَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا(البقرۃ : ۲۷۰ ) غرض ساری سعادتیں علم صحیح کی تحصیل میں ہیں یہ جس قدر لوگ نصرانی ہوئے ہیں وہ جہالت کے سبب ہوئے.اگر علم کامل ہوتا تو انسان کو خدا نہ بناتے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہنمی کہیں گے لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْۤ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ(الملک : ۱۱ ).یہ جو کہتے ہیں اَلْعِلْمُ الْـحِجَابُ الْاَکْبَـرُ یہ غلط ہے.اَلْـجَھْلُ الْـحِجَابُ الْاَکْبَـرُ.علم نور ہے وہ حجاب نہیں ہو سکتا بلکہ جہالت حجاب اکبر ہے.خدا کا نام علیم ہے اور پھر قرآن میں آیا ہے اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ(الرَّحـمٰن : ۲،۳) اسی لیے ملائکہ نے کہا لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا (البقرۃ : ۳۳) مختصر یہ کہ یاد رکھو کہ ساری زہریں نادانی میں ہیں.جہالت سچ مچ ایک موت ہے.تمام اطبّاء اور ڈاکٹر اور دوسرے لوگ جو غلطی کھاتے ہیں وہ قصور علم کی وجہ سے کھاتے ہیں.انبیاء علم لے کر آتے ہیں جب دنیا میں ظلمت چھا جاتی ہے اور مخلوق شیطان ہوجاتی ہے اور خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں رہتا اس وقت خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو تجدید کے لیے بھیجتا ہے.۲ موت مومن کے لیے خوشی کا باعث ہے موت کے متعلق ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.موت سے نہیں ڈرنا چاہیے مگر خدا کے غضب سے بچنا چاہیے کیونکہ موت تو بہرحال آنے والی ہے.
موت نہیں ٹلتی مگر جو خدا کے دین کے خادم ہوں، اعلائے کلمۃ اللہ چاہتے ہوں ان کی عمر دراز کی جاتی ہے.جو اپنی زندگی کھانے پینے تک محدود رکھتے ہیں ان کا خدا ذمہ وار نہیں.موت مومن کے لیے خوشی کی باعث ہے کیونکہ وہ ایک مَرْکَبْ ہے جو دوست کو دوست کے پاس پہنچاتی ہے.قرب الٰہی کے حصول کی دو چیزیں ہیں.اول سچا ایمان.دوم اعمالِ صالحہ.عیسائی مذہب میں دونوں باتیں نہیں ہیں.اصولِ ایمان کی جگہ کفارہ نے لے لی اور اس کے ساتھ ہی اعمال صالحہ حذف ہوئے.کیونکہ ضرورت نہ رہی.۱ اسلامی عبادات عبادت کے دو حصے تھے.ایک وہ جو انسان اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو ڈرنے کا حق ہے.خدا تعالیٰ کا خوف انسان کو پاکیزگی کے چشمہ کی طرف لے جاتا ہے اور اس کی روح گداز ہو کر الوہیت کی طرف بہتی ہے اور عبودیت کا حقیقی رنگ اس میں پیدا ہو جاتا ہے.دوسرا حصہ عبادت کا یہ ہے کہ انسان خد اسے محبت کرے جو محبت کرنے کا حق ہے اسی لیے فرمایا ہے وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ(البقرۃ: ۱۶۶) اور دنیا کی ساری محبتوں کو غیر فانی اور آنی سمجھ کر حقیقی محبوب اللہ تعالیٰ ہی کو قرار دیا جاوے.یہ دو حق ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنی نسبت انسان سے مانگتا ہے ان دونوں قسم کے حقوق کے ادا کرنے کے لیے یوں تو ہر قسم کی عبادت اپنے اندر ایک رنگ رکھتی ہے مگر اسلام نے دو مخصوص صورتیں عبادت کی اس کے لیے مقرر کی ہوئی ہیں.خوف اور محبت دو ایسی چیزیں ہیں کہ بظاہر ان کا جمع ہونا بھی محال نظر آتا ہے کہ ایک شخص جس سے خوف کرے اس سے محبت کیوں کر کر سکتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ کا خوف اور محبت ایک الگ رنگ رکھتی ہے.جس قدر انسان خدا کے خوف میں ترقی کرے گا اسی قدر محبت زیادہ ہوتی جاوے گی.اور جس قدر محبتِ الٰہی میں وہ ترقی کرے گا اسی قدر خدا تعالیٰ کا خوف غالب ہو کر بدیوں اور بُرائیوں سے نفرت
دلا کر پاکیزگی کی طرف لے جائے گا.پس اسلام نے ان دونوں حقوق کو پورا کرنے کے لیے ایک صورت نماز کی رکھی جس میں خدا کے خوف کا پہلو رکھا ہے اور محبت کی حالت کے اظہار کے لیے حج رکھا ہے.خوف کے جس قدر ارکان ہیں وہ نماز کے ارکان سے بخوبی واضح ہیں کہ کس قدر تذلّل اور اقرار عبودیت اس میں موجود ہے اور حج میں محبت کے سارے ارکان پائے جاتے ہیں بعض وقت شدّت محبت میں کپڑے کی بھی حاجت نہیں رہتی.عشق بھی ایک جنون ہوتا ہے.کپڑوں کو سنوار کر رکھنا یہ عشق میں نہیں رہتا.سیالکوٹ میں ایک عورت ایک درزی پر عاشق تھی.اسے بہتیرا پکڑ کر رکھتے تھے وہ کپڑے پھاڑ کر چلی آتی تھی.غرض یہ نمونہ جو انتہائے محبت کا لباس میں ہوتا ہے وہ حج میں موجود ہے.سر منڈایا جاتا ہے.دوڑتے ہیں.محبت کا بوسہ رہ گیا وہ بھی ہے جو خد اکی ساری شریعتوں میں تصویری زبان میں چلا آیا ہے پھر قربانی میں بھی کمال عشق دکھایا ہے.اسلام نے پورے طور پر ان حقوق کی تکمیل کی تعلیم دی ہے.نادان ہے وہ شخص جو اپنی نابینائی سے اعتراض کرتا ہے.۱ یکم اگست ۱۹۰۲ء دار الامان کی ایک شام بعد نماز مغرب حضرت مسیح موعود حسب معمول تشریف فرما ہوئے.سید ناصر شاہ صاحب جموں سے تشریف لائے تھے اور کئی سال بعد آئے تھے وہ پاؤں دبانے لگے.آپؑنے فرمایا کہ ’’آپ بیٹھ جائیے‘‘ سید صاحب جوشِ ارادت اور حسنِ عقیدت کی وجہ سے چاہتے تھے کہ دیر تک قدم مبارک کو دباتے رہیں.آپؑنے پھر کمال لُطف اور پیار سے فرمایا کہ آپ بیٹھ جائیں اَلْاَمْرُ فَوْقَ الْاَدَبِ
یہ سن کر سید صاحب اوپر شہ نشین پر بیٹھ گئے.جناب مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے استفسار کیا کہ آج جناب نے کیا لکھا ہے.مولانا ممدوح کی غرض اس قسم کے استفسار سے محض ایک تحریک کرنا ہوتی ہے کہ حضرت امامؑ کچھ بطور خلاصہ بیان فرما دیں.فرمایا.آج تو میں پچھلا مسودہ دیکھتا رہا کیونکہ کاتب لکھ رہا ہے.اس پر مولوی عبد الکریم صاحب نے پھر قصیدوں کی بابت دریافت کیا جو حضرت حجۃ اللہ اس کتاب کے ساتھ منضم فرما ویں گے.فرمایا.وہ آخر میں لگائے جائیں گے.نثر میں اس کے تداخل کی ضرورت نہیں.اس لیے بعد ہی میں ان کو پورا کروں گا.اعجاز المسیح فرمایا.فیصلہ بہت ہی آسان تھا اگر یہ لوگ فیصلہ کرنے والے ہوتے.اب ان کو کیا معلوم ہے کہ جب میں عربی لکھتا ہوں تو کس طرح افواج کی طرح الفاظ اور فقرے سامنے کھڑے ہوتے ہیں.ہاں ان کو پتہ لگ جاتا اگر یہ مقابلہ کرتے اور کچھ لکھنے کے لیے قلم اٹھاتے.یہ جو سرقہ کا بیہودہ الزام لگاتے ہیں ہماری طرف سے ان کو اجازت ہے کہ ساری دنیا کی کتابوں سے سرقہ کر لیں.مگر جب علمی مضمون کو ادا ہی نہیں کر سکتے اور معارف سے آگاہ ہی نہیں تو نرے الفاظ اور جملوں کے سرقہ سے کیا ہوگا.الفاظ کو معانی کے تابع علمی رنگ میں کسی مضمون کو یہ لوگ ہرگز لکھ نہیں سکتے تو وہی مثال ہے کہ ایک شخص معمار ہو اور اینٹیں چرا کر جمع کرلے اور بس.مگر محض اینٹیں چُرانے سے تو عمارت تیار نہیں ہوسکتی.سرقہ کا الزام تو حریری پر بھی لگایا گیا.یہ لوگ الفاظ کا تتبّع کرتے ہیں، مضمون کا نہیں کر سکتے.چنانچہ حریری کی بابت بھی مشہور ہے کہ جب اسے ایک اظہار لکھنے کے لیے کہا گیا تو نہ لکھ سکا.یہ قرآن شریف ہی کامعجزہ ہے کہ عبارت بھی فصیح و بلیغ ایسی ہے کہ اس کی نظیر نہیں مل سکتی اور مضامین بھی عالی اور علمی ہیں.اس پر مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کی کہ حضور ایک بار میرے دل میں آیا کہ میں کوشش کر کے مقاماتِ حریری کی طرح مسجّع عبارت میں فرضی قصے لکھ سکتا ہوں.آخر یہ کہ بات کھل گئی کہ الفاظ اپنے اغراض کے ماتحت کر کے افسانے لکھ لینے آسان ہیں مگر حقائق و معارف اور واقعات
فصیح و بلیغ عبارت میں لکھنا قریب محال ہے.فرمایا.یہی تو معجزہ قرآن شریف کا ہے.پھر اسی سلسلہ کلام میں فرمایا کہ فیصلہ کی کیسی آسان راہ تھی.یہ جو مشہور کرتے ہیں کہ گولڑی کے مقابلے میں لاہور نہ آئے.ہم نے کہا تھا کہ تفاؤل کے طور پر قرآن کہیں سے کھول کر اس کی تفسیر بالمقابل لکھنی چاہیے.اس کا جواب اس وقت گولڑی نے یہ دیا کہ پہلے عقائد پر تقریر کر کے مولوی محمد حسین کا فیصلہ مان لو.اگر وہ کہہ دے کہ یہ عقیدہ غلط ہے تو معاً میرے ہاتھ پر بیعت کر لو.پھر تفسیر لکھ لو.اب بتاؤ یہ کیا فیصلہ ہوا.اس پر کہتے ہیںکہ لاہور نہیں آئے حضرت حکیم الامت نے سید علی حائری لاہوری شیعہ کے رسالہ کا ذکر کیا کہ اس میں حضرت امام حسینؓ کی فضیلت پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بارہ امام نُورِ الٰہی سے پیدا ہوئے تھے.جس کا ظاہری ثبوت یہی ہے کہ ان کا سایہ نہ تھا.پس جبکہ وہ نور الٰہی سے بنے تھے تو پھر ان پر کسی کو فضیلت کیسی! اور پھر لکھا ہے کہ قرآن شریف کی چودہ منزلیں ہیں.یہ تقسیم اپنے طور پر کی ہے کہ لوحِ محفوظ پر آیا.پھر جبرائیل کے پاس، علیٰ ہذا القیاس.اس پر حضرت حجۃ اللہ نے فرمایا کہ کیا چودھویں منزل یہ نہیں لکھی کہ آخر حضرت عثمان کے پاس محرّف مبدّل ہوگیا.چودھویں منزل تو ان کے اعتقاد کے موافق یہی ہوگی نہ.اور مدینہ منورہ سے کربلا ۱۴ منزل ہیں.اس سے حضرت حسین کی فضیلت قرآن سے ثابت ہوگئی.غرض اس قسم کے لغویات اس میں بھرے ہیں.اور ایک جگہ باپ کی کتاب ہی ثبوت کے لیے کافی قرار دے دی ہے.اور ایک مقام پر لکھا ہے کہ غایتُ المقصود پڑھ کر اتنے ہزار مرزائی مومن ہوگئے.اس پر مفتی محمد صادق صاحب نے عرض کی کہ گولڑی کہتا ہے کہ میری کتاب پڑھ کر اتنے ہزار نے توبہ کی یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو تعداد کم بتاتے ہیں اور پھر ہزاروں نکل کر ان میں بھی شامل
ہوجاتے ہیں اور ختم نہیں ہوتے.حضرت حجۃ اللہ نے ہنس کر فرمایا.یہ عجیب حساب ہے جو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا کیا نام رکھا جاوے.اَربعہ ہے یا کیا کہ جس قدر کم ہوتے جاویں وہ بڑھتے جاویں حضرت اقدسؑ نے ضمناً ایڈیٹر الحکم سے خطاب کر کے اشاعت السّنّۃ کے متعلق دریافت فرمایا کہ ابھی شائع ہوا یا نہیں.عرض کی گئی کہ اشتہار اشاعت کے بعد کچھ معلوم نہیں ہوا.اسی کے ضمن میں دہلی کے ایک پنجابی کاتب والے اخبار کا ذکر ایڈیٹر نے کیا کہ اس میں ایک نوٹ لکھ کر گویا ۱۸ مختلف مقامات پر نالش کی دھمکی دی ہے.رؤیا ہمت اور استعداد کے مطابق ہوتی ہے پھر ماسٹر عبدا لرحمٰن صاحب نے ایک لڑکے کا خواب بتلایا.حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ ہر شخص کی خواب اس کی ہمت اور استعداد کے موافق ہوتی ہے.معبّرین نے یہی لکھا ہے.ضمناً میاں جان محمد صاحب مرحوم امام مسجد قادیان کی ایک رؤیا کا تذکرہ فرمایا.پھر فرمایا.خدا تعالیٰ کا فیضان ظرف اور استعداد کے موافق ہوتا ہے.خدا تو ایک ہی ہے.لیکن جیسے روشنی صاف اور روشن چیز پر جیسے شیشہ ہے بہت صفائی سے پڑتی ہے اسی طرح پر خدا تعالیٰ کے فیضان کا حال ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت بہت ہی بلند تھی اس لیے قرآن شریف جیساکلام آپؐپر نازل ہوا.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کی صاف تصویر نظر آتی ہے.اور اَور کتابوں میں دھندلی سی روشنی پڑتی ہے.مسیح ہی کو دیکھ لو کہ اسرائیل کی قوم پیشِ نظر ہے.مگر قرآن شریف کسی خاص قوم کو خطاب نہیں کرتا.شروع ہی سے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (الفاتـحۃ : ۲ ) کہتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیسی بلند ہمت اور عام دعوت ہے کہ کہتے ہیں يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا ( الاعراف : ۱۵۹ ) مگر انجیل میں اسرائیل ہی کا ذکر ہے جو پیشگوئیاں ہیں وہ بھی
ان ہی کے متعلق ہیں.اسی سبب سے یہودیوںکو ٹھوکر لگی اور خدا کے وعدوں کے مصداق اپنی ہی قوم کو سمجھ کر تمام قوموں سے بے تعلّق اور غافل ہوگئے اور خدا کے وعدوں کے ایفاء کی آخری منزل اسی دنیا کو خیال کر کے قیامت سے بے خبر اور بہتیرے منکر ہوگئے.فرمایا.ہمت بلند ہونی چاہیے.چنانچہ لکھا ہے.ہمت بلند دار کہ دادار کردگار.ان باتوں میں ہی اذان ہوگئی.حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز کے لیے اٹھے اور بعد نماز تشریف لے گئے.۱ انبیاء کی بعثت کی اصل غرض انبیاء کی بعثت کی اصل غرض یہ ہو تی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایسا ایمان پیدا کریں جو اعمالِ صالحہ کی قوت عطا کرتا ہے اور گناہ سوز فطرت پیدا کرتاہے کیونکہ اعمالِ صالحہ کبھی نہیں ہوسکتے ہیں جب تک اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان اور معرفت پیدانہ ہو.ہر ایک عمل معرفتِ صحیح اور عرفانِ کامل کے بعد اعمالِ صالحہ کی مدّ میں آتا ہے.لوگ جوکچھ اعمالِ صالحہ کرتے ہیں یا صدقات و خیرات کرتے ہیںیہ رسم اور عادت کے طور پر کرتے ہیں اُس معرفت کا نتیجہ نہیں ہوتے جو ایمان علی اللہ کے بعد پیدا ہوتی ہے.چونکہ دنیا کی نیکیاں اور بظاہر اعمالِ صالحہ رسم اور عادت کے طور پرہوتے ہیں اور دنیاخداشناسی اور خدارسی کے مقاموں سے دور ہوتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرماتا ہے جو آکر دنیا کو خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں.باقی تمام اُمور اسی ایمان کا نتیجہ ہوتے ہیں اس لیے اصل غرض انبیاء کے بعثت کی یہی ہوتی ہے کہ وہ انسان کو اس کی زندگی کے اصل منشا عبودیت تامّہ سے آگاہ کریں اور خدا تعالیٰ پر عرفان بخش ایمان لانے کی تعلیم دیں.کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ انبیاء علیہم السلام تھوڑے ہوتے ہیں اور اپنے اپنے وقت پر آیا کرتے ہیں.اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمام دُنیا کو رسم اور عادت سے نجات دینے اور سچا اخلاص اور ایمان حاصل کرنے کی یہ راہ بتائی ہے کہ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (التّوبۃ: ۱۱۹).یہ
سچی بات ہے اس کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے کہ جس نے نبی کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کردیا.رسم اورعادت کی غلامی سے انسان اسی وقت نکل سکتا ہے جب وہ عرصہ دراز تک صادقوں کی صحبت اختیار کرے اور اُن کے نقشِ قدم پر چلے.مَایَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ یہ جو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ ( الرّعد: ۱۸ ) حقیقت یہی ہے کہ جو شخص دُنیا کے لیے نفع رساں ہو اس کی عمر دراز کی جاتی ہے.اس پر جو یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھوٹی تھی.یہ اعتراض صحیح نہیں ہے.اوّل اس لیے کہ انسانی زندگی کا اصل منشا اور مقصدآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حاصل کر لیا.آپ دنیا میں اس وقت آئے جب کہ دنیا کی حالت بالطّبع مصلح کو چاہتی تھی اور پھر آپ اُس وقت اُٹھے جب پوری کامیابی اپنی رسالت میں حاصل کر لی.اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المآئدۃ:۴) کی صدا کسی دوسرے آدمی کو نہیں آئی اور اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا (النّصر :۲،۳) پوری کامیابی کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اب جس حال میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پورے طور پر کامیاب ہو کر اُٹھے پھر یہ کہنا کہ آپ کی عمر تھوڑی تھی سخت غلطی ہے.اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوض اَبدی ہیں اور ہر زمانہ میں آپ کے فیوض کا در وازہ کُھلا ہوا ہے.اس لئے آپ کو زندہ نبی کہا جا تا ہے اور حقیقی حیات آپ کو حاصل ہے طولِ عمر کا جو مقصدتھا وہ حاصل ہو گیا اور اس آیت کے موافق آپ ابدا لآباد کے لئے زندہ رہے.مسیح علیہ السلام کی وفات کے دو گواہ مسیح علیہ السلام کی وفات پر دو زبر دست گواہیاں علاوہ اور گو اہوں کی شہادت کے موجود ہیں جن کا انکار ہرگز نہیںہوسکتا.اوّل خدا تعالیٰ کی شہادت جس نے يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ (اٰل عـمران :۵۶) فرمایا ہے اور پھر دوسری شہادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت کی ہے.آپ نے یحییٰ علیہ السلام کے ساتھ حضرت مسیح کو دیکھا.اب ان دو گواہوں کے خلاف یہ کہنا ہے کہ
وہ زندہ ہے کہاں تک صحیح ہو سکتا ہے؟ رجوع کا لفظ صعود کے بعدہوتا ہے پھر جو لوگ مسیح کے مع وجود عنصری آسمان پر چڑھنے کو ثابت کرتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ مسیح کا رجوع ثابت کریں کیونکہ نزول کے لیے صعود لازم نہیں ہے.صدق و وفا حدیث میںآیا ہے کہ صوم وصلوٰ ۃسے درجہ نہیں ملتا بلکہ اس بات سے جو انسان کے دل میں ہے یعنی صدق ووفا.خدا یہی چاہتاہے کہ عمل صالح ہو اور اس کا اخفاء ہو ریاکاری نہ ہو.صدق بڑی چیز ہے اس کے بغیرعمل صالح کی تکمیل نہیںہوتی.خدا تعالیٰ اپنی سنّت نہیں چھوڑتا اور انسان اپنا طریق نہیں چھوڑنا چاہتا.اس لیے فرمایا ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰ ) خدا تعالیٰ میںہوکر جومجاہدہ کرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ اپنی راہیں کھول دیتا ہے.وحد ت الوجود بُت پرست بھی وجودیوںکی طرح اپنے بتوں کو مظاہر ہی مانتے ہیں.قرآن شریف اس مذہب کی تردیدکرتا ہے.وہ شروع ہی میںیہ کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ اگر مخلوق اور خالق میں کوئی امتیاز نہیں بلکہ دونوں برابر اور ایک ہیں تو رَبِّ الْعٰلَمِيْنَنہ کہتا.اب عالم تو خدا تعالیٰ میں داخل نہیں ہے کیونکہ عالم کے معنے ہیں مَایُعْلَمُ بِہٖ اور خدا تعالیٰ کے لیے ہے لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ (الانعام: ۱۰۴ ).موجودات کو جو وہ عین اللہ کہتے ہیں یہ بالکل غلط ہے.قرآن شریف نے عین اور غیر کی کوئی بحث نہیں کی، محی الدین ابنِ عربی سے جو منسوب کرتے ہیں کہ اس نے لکھا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَشْیَآءَ وَھُوَعَیْنُھَا یہ بات صحیح نہیں ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ( بنی اسرآءیل: ۳۷ ) جب انسان کوکچھ بھی خبر نہیں پھر بتاؤ کہ غیب کہاں رہی.یہ تو پکی بات ہے کہ صفات کسی چیز کے اس سے الگ نہیںہوتے خواہ وہ کہیں چلی جاوے.پانی کو خواہ لندن لے جاؤآخر وہ پانی رہے گا.جب انسان خداہو تو اس کی صفات اس سے کیوں الگ ہونے لگیں خواہ کسی حالت میں ہو.
استحالہ کے ساتھ اس کے صفات معدوم ہوجاتے ہیں.ہر ایک چیز کابقا تو اس کے صفات ہی کے ساتھ ہے.اگر ایک پھول کے صفات اُس کے ساتھ نہیں تو وہ پھول کیوں کر ہوسکتا ہے.پس اگر انسان خداہے تو پھر ا س کی خدائی کے صفات اس کے ساتھ ہونے ضروری ہیں.اگر صفات نہیں تو پھر نادانی سے اُسے خدا بنایا جاتاہے.انسان ایسی ایسی مصیبتوں اور مشکلات میںگرفتار ہوتا ہے کہ ٹکریںمارتا پھرتاہے اور ایسا سرگردان ہوتا ہے کہ کچھ پتہ نہیں لگتا ہزاروں آرزوئیںاور تمنّائیں ایسی ہوتی ہیں کہ پوری ہونے میں نہیں آتیں.کیا خدا تعالیٰ کے ارادے بھی اس قسم کے ہوتے ہیں کہ پورے نہ ہوں.اس کی شان تو یہ ہے اِذَاۤ اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ( یٰسٓ : ۸۳).اس سے صا ف معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو انسان کواپنے ارادوں میںنامُراد کرتا ہے.وہ کوئی الگ اور طاقتور ہستی ہے اگر دونوں ایک ہوتے تویہ نامُرادی نہ ہونے پاتی.یہ باتیں قرآن شریف کی تعلیم کے صریح خلاف ہیں اور خدا تعالیٰ کے حضور خطرناک گستاخی کی باتیں ہیں.اس قسم کے اعتراض کرنا کہ پھر دنیا کہاں سے بنائی.بے ادبی ہے.جب خدا تعالیٰ کو قادر مان لیا پھر ایسے اعتراض کیوں کیے جاویں.آریہ بھی اس قسم کے اعتراض کیا کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کو اپنی قوت اور طاقت کے پیمانہ سے ناپنا چاہتے ہیں.پھر دیکھو وجودیوں کے بڑے بڑے صُوفی مَرے ہیں اور مَرتے ہیں.اگر وہ خدا تھے تو ان کوتو اس وقت خدائی کا کرشمہ دکھانا چاہیے تھا نہ یہ کہ عاجز انسان کی طرح تڑپ کر جان دے دیتے.یاد رکھو انسان کی سعادت یہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے کاموں میں اپنا دخل نہ دے بلکہ اپنی عبودیت کا اعتراف کرے.ہمارا تو یہ ایمان اور مذہب ہے کہ ایک فوق الفوق قادر ہستی ہے جو ہم پر کام کرتی ہے.جدھر چاہتی ہے لے جاتی ہے.وہ خالق ہے ہم مخلوق ہیں.وہ حیّ قیّوم ہے اور ہم ایک عاجز مخلوق.قرآن شریف میں جو حضرت سلیمان اور بلقیس کا ذکر ہے کہ اس نے پانی کو دیکھ کر اپنی پنڈلی سے کپڑا اُٹھایا اس میں بھی یہی تعلیم ہے جو حضرت سلیمان نے اس عورت کو دی تھی وہ دراصل آفتاب پرستی کرتی تھی، اس کو اس طریق سے انہوں نے سمجھایا کہ جیسے یہ پانی شیشہ کے اندر چل رہا ہے
دراصل اوپر شیشہ ہی ہے اسی طرح پرآفتاب کو روشنی اور ضیا بخشنے والی ایک اور زبر دست طاقت ہے.اور یہ اعتراض جو کیا جاتاہے کہ قرآن شریف غیریت اُٹھانے آیا تھا.اس کو وجودیوںنے سمجھا نہیں.قرآن شریف ایک اتحاد عام مسلمانوں میں قائم کرتا ہے نہ یہ کہ خالق اور مخلوق کو متحدفی الذَّات کر دے.نظائر کے بغیر تو کچھ سمجھ میں نہیںآتا.پس ایسی کوئی مثال وجودی کو پیش کرنی چاہیے جس سے معلوم ہوجاوے کہ خالق اور مخلوق ایک ہی ہیں.انسان گناہ سے محبت کرتاہے پھر وہ عین خدا کیوں کر ہو سکتا ہے.وجودی کہتے ہیں کہ تم نے غیریت سے شریک بنالیا.ہم کہتے ہیں یہ غلط ہے ہم تو مخلوق مانتے ہیں کوئی الگ خدا تو تجویز نہیں کرتے اور پھر مخلوق بھی ایسی مانتے ہیں جس پر سارا ہی تصرّف خدا تعالیٰ کا ہے کیونکہ وہ حیّ و قیّوم خدا ہے جس کے سہارے سے زندگی قائم ہے.خدا تعالیٰ اس قسم کا حیّ و قیّوم نہیں ہے کہ جیسے معمار کی عمارت کو ضرورت نہیںہوتی کہ معمار اس کے ساتھ زندہ رہے یعنی اگر معمار مَر جاوے توعمارت کو اس کے مَرنے سے کوئی نقصان نہیںہوتا بلکہ مخلوق کسی صورت میں اس کے سہارے سے الگ ہو ہی نہیںسکتی بلکہ اور مخلوق کی زندگی اور قیام کا اصلی ذریعہ وہی ہے.ہم عین غیر کی بحث میں ہرگز نہیںپڑتے.قرآن شریف نے ان اصطلاحوں کو کبھی بیان نہیں کیا.جو تعلقات خالق اور مخلوقات کے اُس نے بیان کیے ہیں ان سے باہر جانا گستاخی اور بے ادبی ہے.شیخ محی الدّین سے پہلے اس وحدتِ وجود کا نام و نشان نہ تھا.ہاں وحدتِ شہودی تھی یعنی خدا تعالیٰ کے مشاہدہ میں اپنے آپ کو فانی سمجھنا.وحدتِ شہودی میں ’’من تو شدم تو من شُدی‘‘ استیلائے محبت کا تقاضا تھا.وجودیوں نے اس سے تجاوز کرکے وہ کام کیا جو ڈاکٹراور فلاسفر کرتے ہیں کہ وہ خدائی کے حصہ دار بنتے ہیں اور دیکھا گیا ہے کہ یہ وحدتِ وجود والے عموماً اباحتی ہوتے ہیں.اور نماز و روزہ کی ہرگز پروا نہیںکرتے یہاں تک کہ کنجروں (کنچنوں ) کے ساتھ بھی تعلقات رکھتے ہیں.ان کو کوئی پرہیز اور عذر نہیںہوتا.شہود کی حقیقت تویہی ہے کہ جیسے لوہے کو آگ میں ڈالا جاوے اور وہ اس قدر گرم ہوجاوے کہ سُرخ آگ کی طرح ہوجاوے.اس وقت اگر چہ آگ کے خواص اس میں پائے جاتے ہیں تاہم وہ آگ نہیںکہلا سکتا.اسی طرح جس شخص کو خدا تعالیٰ سے تعلقات قوی اور
شدید ہوتے ہیں اور فنافی اللہ کے درجہ پر ہوتاہے تواس سے بسا اوقات خارقِ عادت معجزات صادر ہوتے ہیں جو اپنے اندر ایک قسم کی اقتداری قوت کانمونہ رکھتے ہیں لوگ اپنی غلط فہمی اور کمزوری سے یہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ شاید یہ خداہو.شہودی حالت میں اکثر امور ان کی مرضی کے موافق ہو جاتے ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعلوں کو خدا تعالیٰ نے اپنا فعل قرار دیا ہے اور اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المائدۃ :۴) اور اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ (النّصـر :۲) کی صدا آپ کو آگئی.۱ ۴؍اگست ۱۹۰۲ء ۴؍اگست کی شام کو بعد نماز مغرب حضرت حجۃاللہ حسب معمول تشریف فرما ہوئے.خدام پروانہ وار ارد گرد تھے.ایک نوجوان نے عرض کی کہ مَیں اپنا خواب بیان کرنا چاہتا ہوں.فرمایا.کل صبح کو بیان کرو.مسنون طریق یہی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صبح ہی کو خواب سنا کرتے تھے.ایک زبردست نشان اثنائے کلام میں اس اَمر پر تذکرہ ہو اکہ فیضی ساکن بھیں نے اعجازالمسیح کا جواب لکھنا چاہا تھا جو خدا تعالیٰ کے وعدے کے موافق جو اعجاز المسیح کے ٹائٹل پیج پر درج ہے بامُراد نہ ہوسکا بلکہ اس دنیا سے اُٹھ گیا.حضرت حجۃ اللہ نے فرمایا کہ یہ کس قدر زبر دست نشان ہے خدا کی طرف سے ہماری تصدیق اور تائید میںکیونکہ قرآن شریف میں آیا ہے وَ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ ( الرّعد: ۱۸ ) اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جیسا کہ ہمارے مخالف مشہور کرتے ہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھا تو چاہیے تھا کہ فیضی نے جولوگوں کی نفع رسانی کا کام شروع کیا تھا اس میں اس کی تائید کی جاتی لیکن اس طرح پر اس کا جوانامرگ ہوجاناصاف ثابت کرتا ہے کہ اس سلسلہ کی مخالفت کے لیے قلم اُٹھانا لوگوںکی نفع رسانی
کاکام نہ تھا.کم از کم ہمارے مخالفوں کوبھی اتناتو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کی نیت نیک نہ تھی ورنہ کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کی تائید نہ کی اور اس کو مہلت نہ ملی کہ اس کو تمام کرلیتا.میرے اپنے الہام میں بھی یہ ہے وَ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ.تیس برس سے زیادہ عرصہ ہو اجب میں تپ سے سخت بیمار ہوا.اس قدر شدید تپ مجھے چڑھی ہوئی تھی کہ گویا بہت سے انگارے سینے پر رکھے ہوئے معلوم ہوتے تھے.اس اثنائے میں مجھے الہام ہوا وَ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ.یہ جو اعتراض کیا جاتاہے کہ بعض مخا لفِ اسلام بھی لمبی عمر حاصل کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ اُن کا وجود بھی بعض رنگ میں مفید ہی ہوتا ہے.دیکھو! ابو جہل بدر کی جنگ تک زندہ رہا.اصل بات یہ ہے کہ اگر مخالف اعتراض نہ کر تے تو قرآن شریف کے تیس۳۰ سپارے کہاں سے آتے.جس کے وجود کو اللہ تعالیٰ مفید سمجھتا ہے اسے مہلت دیتا ہے.ہمارے مخالف بھی جو زندہ ہیں اور مخالفت کر تے ہیں ان کے وجود سے بھی یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف کے حقائق و معارف عطا کرتا ہے.اب اگر مہر علی شاہ اتنا شور نہ مچاتا تو نزولِ مسیح کیسے لکھاجاتا.اس طرح پرجو دوسرے مذاہب باقی ہیں ان کے بقا کا بھی یہی باعث ہے تاکہ اسلام کے اصولوں کی خو بی اور حسن ظاہر ہو.اب دیکھ لو کہ نیو گ اور کفارہ کے اعتقاد والے مذہب اگر موجود نہ ہوتے تو اسلام کی خوبیوں کا امتیا ز کیسے ہوتا.غرض مخالف کا وجود اگر مفید ہو تو اللہ تعالیٰ اسے مہلت دیتا ہے.۱ ۶؍اگست ۱۹۰۲ء ۶؍ اگست کی شام کو حضرت مسیح مو عودؑ تشریف لائے.پیر گو لڑی کی اس پُرفن کارروائی کا ذکر تھا جو اس نے اپنی کتاب سیف چشتیائی کی تالیف میں کی ہے اور جس کا راز اگلی اشاعت میں بالکل کھول دیا جاوے گا اور دنیا کو دکھایا جاوے گا کہ کفن کھسوٹ مصنّف بھی دنیا میں ہیں.اس کے بعد امریکہ کے
مشہور مفتری مدّعی الیاس ڈوئی کا اخبار پڑھا گیا جو مفتی محمد صادق صاحب ایک عرصہ سے سنایا کرتے ہیں ڈوئی نے اپنے مخالف قوموں، بادشاہوں اور سلطنتوںکی نسبت پیشگوئی کی ہے کہ وہ تباہ ہوجائیں گے.اس پر حضرت اقدس ؑ کی رگ غیرت و حمیّت دینی جوش میں آئی اور فرمایا کہ مفتری کذّاب اسلام کا خطرناک دشمن ہے.بہتر ہے اُس کے نام ایک کھلا خط چھاپ کر بھیجا جاوے اور اس کو مقابلہ کے لیے بلایاجاوے.اسلام کے سوا دنیامیں کوئی سچا مذہب نہیں ہے اور اسلام ہی کی تائید میں برکات اور نشان ظاہر ہوتے ہیں.میرا یقین ہے کہ اگر یہ مفتری میرا مقابلہ کرے گا تو سخت شکست کھائے گا اور اب وقت آگیا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے افترا کی اس کو سزادے.غرض یہ قرارپایا کہ ۷ ؍ اگست کو حضرت اقدس ؑ ایک خط اس مفتری کو لکھیں اور اسے نشان نمائی کے میدان میں آنے کی دعوت کریں.یہ خط انگریزی زبان میں ترجمہ ہوکر مختلف اخبارات میں بھی شائع ہوگا اور بھیجا جاوے گا.الہام نزول المسیح جو آج کل لکھ رہے ہیں.اور پیر گولڑی کی کتاب سیف چشتیائی بھی زیر ِنظر ہے.اس پر کسی قدر توجہ کرنے سے یہ الہام ہوا.اِنِّیْ اَنَا رَبُّکَ الْقَدِیْرُ.لَا مُبَدِّلَ.لِکَلِمَاتِیْ.۷ ؍ اگست ۱۹۰۲ء ۷؍اگست کی صبح کو حسب معمول سیر کو نکلے.ایڈیٹر الحکم نے عرض کی کہ حضور امسال شکاگو کی طرز پر ایک مذہبی کانفرنس جاپان میں ہونے والی ہے.جس میں مشرقی دنیا کے مذاہب کے سر کردہ ممبروں کا اجتماع ہو گا اور اپنے اپنے مذہب کی خوبیوں اور تائید پر لیکچر دئیے جائیں گے.کیا اچھاہو اگر حضور کی طرف سے اس تقریب پر کوئی مضمون لکھا جاوے اور اسلام کی خوبیاں اس جلسہ میں پیش کی جاویں.ہماری جماعت کی طرف سے کوئی صاحب جیسے مولوی محمد علی صاحب ہیں چلے جائیں.جاپان کے مصارف بھی بہت نہیں ہیں اور جاپان والوں نے ہندوستانیوں کو دعوت کی ہے
بلکہ وہ ہندوستان سے جانے والوںکے لیے اپناالگ جہاز بھیجنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں.اس پر فرمایا کہ بیشک ہم تو ہر وقت تیار ہیں اگر یہ معلوم ہوجاوے کہ وہ کب ہوگی اور اس کے قواعد کیا ہیں تو ہم اسلام کی خوبیوں اور دوسرے مذاہب کے ساتھ اس کامقابلہ کر کے دکھاسکتے ہیں اور اسلام ہی ایسا مذہب ہے جوکہ ہر میدان میں کامیاب ہوسکتا ہے کیونکہ مذہب کے تین جُزو ہیں.اوّل خداشناسی، مخلوق کے ساتھ تعلق اور اس کے حقوق اور اپنے نفس کے حقوق.جس قدرمذاہب اس وقت موجود ہیں بجز اسلام کے جو ہم پیش کرتے ہیں سب نے بے اعتدالی کی ہوئی ہے.پس اسلام ہی کامیاب ہوگا.ذکر کیا گیا کہ وہاں بدھ مذہب ہے اس کا ذکر بھی اس مضمون میں آجانا چاہیے.بُدھ مت فرمایا.بدھ مذہب دراصل سناتن دھرم ہی کی شاخ ہے.بدھ نے جو اوائل میں اپنی بیوی بچوں کوچھوڑ دیا اور قطع تعلق کر لیا، شریعت ِ اسلام نے اس کو جائز نہیں رکھا.اسلام نے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی اور مخلوق سے تعلق رکھنے میں کوئی تناقض بیان نہیں کیا.بدھ نے اوّل ہی قدم پر غلطی کھائی ہے اور اس میں دہریت پائی جاتی ہے.مجھے اس بات سے کبھی تعجب نہیں ہوتا کہ ایک کتا مُردار کیوں کھاتا ہے جس قدر تعجب اس بات سے ہوتا ہے کہ انسان انسان ہو کر پھر اپنے جیسی مخلوق کی پرستش کیوں کرتا ہے اس لیے ا س وقت جب خدا نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے تو سب سے اوّل میرا فرض ہے کہ خدا کی توحید قائم کرنے کے لیے تبلیغ او راشاعت میں کوشش کروں.پس مضمون تیار ہوسکتا ہے اور وہاںبھیجا جاسکتا ہے.پہلے قواعد آنے چاہئیں.پھر فرمایا کہ اس مضمون کے پڑھنے کے لیے اگر مولوی عبدالکریم صاحب جائیں تو خوب ہے.اُن کی آواز بڑی بارُعب اور زبردست ہے اور وہ انگریزی لکھا ہو اہو تو اُسے خوب پڑھ سکتے ہیں اور ساتھ مولوی محمد علی صاحب بھی ہوں اور ایک اور شخص بھی چاہیے.اَلرَّفِیْقُ ثُمَّ الطَّرِیْقُ.پھر اس سلسلہ کلام میں فرمایا.زمانہ میں باوجود استغراق دنیا کے مذہب کی طرف بھی توجہ ہو گئی ہے اورمذہبی چھیڑچھاڑکاایسا
سلسلہ جاری ہوگیا ہے کہ پہلے کبھی ایسا موقع نہیں ملا.پھر اس ذکر پرکہ انجمن حمایتِ اسلام کوبعض اخباروں نے توجہ دلائی ہے کہ وہ کوئی آدمی بھیجیں.فرمایا.ہمارے مخالف اسلام کو کیا پیش کریں گے جب کہ اسلام کی خوبیوں کاخود ان کو اعتراف نہیں ہے.اوّل خدا کی توحید اسلام نے بڑے زور سے قائم کی مگر جب یہ مسیح میں خدائی صفات کو قائم کرتے اور مانتے ہیں تو توحید کہاں رہی.پھر برکا ت اسلام کا فخر ہے.مگر یہ لوگ اس سے بھی منکر ہیں.اگر پچھلے قصے پیش کریں تو سناتن والے بھی کرسکتے ہیں.اسلام تو اس پھل کی طرح تھا جو تازہ بتازہ ہو جس کے کھانے سے لذّت اور خوشی محسوس ہو تی ہے مگر اب ان لوگوں نے وہ حالت کر دینی چاہی ہے جیسے ایک سڑا ہوا پھل ہو جس کی عفونت دماغ کو خراب کر دے.خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اسلام کو تازہ ہی رکھا ہے اور اسی لیے بجزہمارے کوئی دوسرا اس کو پیش نہیں کرسکتا.آج اسلام کو وہی کامیاب کر سکتا ہے جو بیان کرتے کرتے مسیح کو قبرتک پہنچا دے.پھر اسی سلسلہ میں فرمایاکہ خدا تعالیٰ نے جو براہین میں وعدہ کیا تھا یَنْصُـرُکَ اللہُ فِی الْمَوَاطِنِ.یعنی اللہ بہت سے میدانوں میں تیری مددکرے گا.اب تک جس قدر میدان ہمارے سامنے آئے خدا تعالیٰ نے فتح دی.۱ ۸ ؍اگست۱۹۰۲ء (بوقتِ شام) امریکہ کے ڈاکٹر ڈوئی کے نام حضرت مسیح موعود ؑ کی چٹھی کا خلاصہ حضرت اقدس علیہ السلام نے مولوی محمد علی صاحب کووہ چٹھی دی جو ڈاکٹرڈوئی امریکہ کے مشہور عیسائی مفتری کے نام لکھی ہے چنانچہ وہ چٹھی پڑھ کر سنائی گئی.اس چٹھی کو ہم انشاء اللہ اخیر ستمبر۱۹۰۲ء تک
الحکم میں شائع کرنے کے قابل ہو سکیں گے تاہم حاصل بالمطلب کے طور پر اتنا اب بھی لکھ دیتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ نے اس چٹھی میں ایک عظیم الشان فیصلہ کی بنیاد رکھ دی ہے.ہمارے ناظرین اخبار کو غالباً معلوم ہوگا کہ ڈاکٹر ڈوئی کایہ دعویٰ ہے کہ وہ عہد نامہ کا رسول ہے.وہ الیاس پیغمبر ہے جس کا آنا مسیح سے پہلے ضرو ری تھا اور اس نے اپنے اخبار میں یہ پیشگوئی کی ہے کہ وہ سلطنت، وہ انسان، وہ قوم ہلاک ہو جائے گی جو اس کو رسو ل نہیں مانتے اور مسلمانوں کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے اور اس پیشگو ئی میں ہماری گورنمنٹ کو بھی داخل کر لیا ہے اور تمام دنیا کی سلطنتوں کو شامل کیا ہے.حضرت اقدسؑ نے اس چٹھی کے ذریعہ ڈاکٹر ڈوئی کو دعوت کی ہے کہ اب فیصلہ کا طریق آسان ہے.اس قدر مسلمانوں کے ہلاک کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مسیح موعود جس کاڈاکٹر ڈوئی انتظار کرتا ہے آگیا ہے وہ میں ہوں.پس میرے ساتھ مقابلہ کرکے یہ فیصلہ ہو سکتا ہے کہ کون کاذب اور مفتری ہے.ڈاکٹر ڈوئی اپنے مریدوں میںسے ایک ہزار آدمی کے دستخط دے کر ایک قسم اس طرح شائع کر دے کہ ہم دونوں میں سے جو کاذب اور مفتری ہے وہ راست باز اور صادق سے پہلے ہلاک ہو جاوے.پس پھر کاذب کی موت خود ایک نشان ہو جاوے گا.یہ خلاصہ ہے اس چٹھی کا جس میں اور بھی بہت سے حقائق ہیں.حضرت اقدسؑ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہمیشہ کے لئے ثابت کر دیا جاوے کہ یہ غلط خیال ہے کہ تلوار کبھی مذہب کا فیصلہ نہیں کر سکتی یعنی مسئلہ جہاد پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے ضمن میں حضرت مسیح کی موت اور آپ کی قبر پر بحث کی ہے اور ان واقعات کی بنا پر جو انجیل میں درج ہوئے ہیں ثابت کیا ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مَرے بلکہ وہاں سے بچ کر نکل کھڑے ہوئے اور کشمیر میں آکر فوت ہوئے.اس چٹھی کے ختم کرنے کے بعد مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری نے ایک فارسی نظم غازی و گولڑی کے جواب میں پڑھی جو دوسری جگہ درج ہے.پھر مولوی جمال الدین صاحب سیکھواں والے نے ایک پنجابی نظم تصدیق المسیح میں جو سوہل کے خیاطوں کو مخاطب کر کے لکھی گئی ہے پڑھ کر سنائی جس میں حضرت حجۃاللہ کی صداقت کامعیار آپ کی عظیم الشان کامیابیاں اور دشمنوں کی نامُرادیاں مذکور تھیں.ان
نظموں کے پڑھے جانے کے بعد نماز عشاء ادا کی گئی.۱ ۹؍اگست ۱۹۰۲ ء (بوقتِ سیر) قیصر کی تاج پوشی سیر میں مختلف تذکروں کے بعد قیصرِ ہند کی تاجپوشی کا ذکر آیا.فرما یا کہ رعیّت کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ شاہ ایڈورڈ ہفتم ہندو ستان کے سرپرست ہوئے.میری رائے تو یہ ہے کہ نوجوان بادشاہ کی نسبت بوڑھا بادشاہ رعایا کے لئے بہت ہی مفید ہوتا ہے.کیو نکہ نو جو ان اپنے جذبات اور جو ش کے نیچے کبھی کبھی رعایا کے حقوق اور نگہداشت کے طریقوں میں فروگذاشت کر بیٹھتا ہے مگر عمر رسیدہ بادشاہ اپنی عمر کے مختلف حصوں میں گزر جانے کے باعث تجربہ کار ہوتا ہے.اس کے جذبات دبے ہوئے ہو تے ہیں.خدا کا خوف اس کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے.اس لئے وہ رعایا کے لئے بہت ہی مفید اور خیر خواہ ہوتا ہے.۲ (بوقتِ شام) حضرت اقدس نمازمغرب سے فارغ ہو کر حسب معمول بیٹھ گئے.تھو ڑی دیر کے بعد کپور تھلہ سے آئے ہوئے دو تین احباب نے بیعت کی.بیعت کے بعد ایک صاحب کی نسبت عرض کیا گیا کہ یہ قاری ہیں آپ نے فرمایا کہ کچھ سناؤ.چنانچہ انہوں نے حضرت اقدس کے ارشاد کے موافق سورۂ مریم کا ایک رکوع نہایت ہی عمدہ طور پر پڑھ کر سنایا.اس کے بعد قاری صاحب سے حضرت اقدس معمو لی امور دریافت فر ماتے رہے.زاں بعد قاری صاحب نے عرض کی کہ حضور بہت عرصہ سے مجھے اس اَمر کا اشتیاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت مجھے ہو جاوے.اس لئے آپ کوئی وظیفہ مجھے بتا دیجئے کہ ایک جھلک ہو جاوے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا.زیارت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم دیکھو! آپ نے میری بیعت کی.جو شخص بیعت میں داخل ہوتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان مقاصد کو
مغضوب سے مُراد بالاتفاق یہود ہیں اور ضالین سے نصاریٰ.اب تو سیدھی بات ہے کہ کوئی دانش مند باپ بھی اپنی اولاد کو وہ تعلیم نہیں دیتا جو اس کے لیے کام آنے والی نہ ہو.پھر خدا تعالیٰ کی نسبت یہ کیوں کر روارکھ سکتے ہیں کہ اس نے ایسی دعا تعلیم کی جو پیش آنے والے امور نہ تھے؟ نہیں بلکہ یہ امور سب واقعہ ہونے والے تھے.مغضوب سے مُراد یہود ہیں اور دوسری طرف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُمّت کے بعض لوگ یہودی صفت ہو جائیں گے.یہاں تک کہ ان سے تشبّہ اختیار کریں گے کہ اگر یہودی نے ماں سے زنا کیا ہو تو وہ بھی کریں گے.اب وہ یہودی جو خدا تعالیٰ کے عذاب کے نیچے آئے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے اُن پر لعنت پڑی تھی.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں یہ سب واقعات پیش آئیں گے.وہ وقت اب آگیا ہے.میری مخالفت میں یہ لوگ ان سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں رہے.رشوت کی تعریف اس کے بعد حضرت مولانا نورالدین صاحب نے عرض کی کہ حضور ایک سوال اکثر آدمی دریافت کرتے ہیں کہ اُن کو بعض وقت ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ جب تک وہ کسی اہلکار وغیرہ کو کچھ نہ دیں اُن کا کام نہیں ہوتا اور وہ تباہ کر دیتے ہیں.فرمایا.میرے نزدیک رشوت کی یہ تعریف ہے کہ کسی کے حقوق کو زائل کرنے کے واسطے یا ناجائز طور پر گورنمنٹ کے حقوق کو دبانے یا لینے کے لیے کوئی مابہ الاحتظاظ کسی کو دیا جائے لیکن اگر ایسی صورت ہو کہ کسی دوسرے کا اس سے کوئی نقصان نہ ہو اور نہ کسی دوسرے کا کوئی حق ہو صرف اس لحاظ سے کہ اپنے حقوق کی حفاظت میں کچھ دے دیا جاوے تو کوئی حرج نہیں اور یہ رشوت نہیں بلکہ اس کی مثال ایسی ہے کہ ہم راستہ پر چلے جاویں اور سامنے کوئی کتا آجاوے تو اس کو ایک ٹکڑا روٹی کا ڈال کر اپنے طور پر جاویں اور اس کے شر سے محفوظ رہیں.استفتاءِ قلب اس پر حضرت حکیم الامت نے عرض کی کہ بعض معاملات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ پتا ہی نہیں لگتا کہ اصل میں حق پر کون ہے.فرمایا.ایسی صورتوں میں استفتاءِ قلب کافی ہے.اس میں شریعت کا حصہ رکھا گیا ہے.میں نے
جو کچھ کہا ہے اس پر اگر زیادہ غور کی جاوے تو امید ہے قرآن شریف سے بھی کوئی نَصّ مل جاوے.بعد نماز عشاء حضور تشریف لے گئے.۱ ۱۰ ؍اگست ۱۹۰۲ء ۱۰؍اگست کی سیر میں شیعوں کے لاہوری مجتہد سید علی حائری کے دوسرے اشتہار یا رسالہ کا تذکرہ تھا.جس میں علی حائری نے لغو اور بے معنی طریق پر حضرت امام حسین کی فضیلت کو کل انبیاء پر ثابت کرنے کی بالکل بیہودہ کوشش کی ہے.اور ضمناً اس اَمر پر بھی ذکر ہوا کہ ہمارے مخالفین مکذّبین کا جو انجام ہوا ہے وہ ایک زبردست نشان ہے.مثلاً غلام دستگیر کا اپنی کتاب میں مباہلہ کرنا اور پھر اس کے چند روز بعد مَرجانا یا مولوی اسماعیل علیگڑھی کامباہلہ کرنا اور ہلاک ہونا، ایسا ہی لدھیانہ کے اوّل المکذّبین مولوی عبدالعزیز کا تباہ ہونا یا دوسرے مخالفوں کامختلف اذیتوں اور تکلیفوں میں مبتلا اور اس سلسلہ کا کامیاب اور با مُراد ہونا یہ عظیم الشّان نشان ہے.سچا سُکھ پھر باتوں ہی باتوں میں جناب نواب صاحب نے ذکر کیا کہ ایک شخص سے میں نے کہا کہ مومن ہی دنیا و آخرت میں سچا سُکھ پاتا ہے.جس پر وہ شخص کہنے لگا کہ پھر سب سے بڑے مومن تو انگریز ہیں.اس پر حضرت حجۃاﷲ نے جو کچھ فرمایا.اس کا خلاصہ وہ عنوان ہے جو ہم نے ا س نوٹ کے حاشیہ میں لکھ دیا ہے.حضرت اقدسؑ نے فرمایاکہ یہ بات غلط ہے کہ سچا سکھ یا راحت کفار کو حاصل ہے.ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ یہ لوگ شراب جیسی چیزوں کے کیسے غلام ہیں اور اُن کے حوصلے کیسے پست ہیں.اگر اطمینان اور سکینت ہو تو پھر خود کشیاں کیوں کرتے ہیں.ایک مومن کبھی خودکشی نہیں کر سکتا.جیسے شراب اور دوسرے نشہ بظاہر غم غلط کرنے والے مشہور ہیں اسی طرح سب سے بہتر غم غلط کرنے والا اور راحت بخشنے والا سچا ایمان ہے.یہ مومن ہی کے لیے ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ (الرّحـمٰن :۴۷).
مخلوق پر ست دانش مند کہاں ! حضرت امام حسین کی فضیلت کے دلائل یا دعاوی جو سید علی حائری نے بیان کیے ہیں.اُن کے تذکرے پر حضرت اقدس نے ایک موقع پر فرمایاکہ مخلوق پرست کبھی دانش مند نہیں ہو سکتے اور اب تو زمانہ بھی ایسا آگیا ہے.علمی تحقیقات اور ایجادوں نے خود دلوں پر ایک اثر کیا ہے اور لوگ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ یہ خیالی امور ہیں.۱ ۱۱؍اگست ۱۹۰۲ء (بوقتِ سیر) ایک قریشی صاحب کئی روز سے بیمار ہو کر دار الامان میں حضرت حکیم الامت کے علاج کے لیے آئے ہوئے ہیں.اُنہوں نے متعدّد مرتبہ حضرت حجۃاﷲ کے حضور دعا کے لیے التجا کی.آپ نے فرمایا.ہم دعا کریں گے.تیمارداری ۱۰؍اگست کی شام کو اس نے بذریعہ حضرت حکیم الامت التماس کی کہ میں حضور مسیح موعودؑ کی زیارت کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں مگر پائوں کے متورّم ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتا.حضرت نے خود اا؍اگست کو اُن کے مکان پر جا کر دیکھنے کا وعدہ فرمایا چنانچہ وعدہ کے ایفا کے لیے آپ سیر کو نکلتے ہی خدام کے حلقہ میں اس مکان پر پہنچے جہاں وہ فروکش تھے.آپ کچھ دیر تک مرض کے عام حالات دریافت فرماتے رہے.زاں بعد بطور تبلیغ فرمایا کہ قبولیتِ دعا کی شرط میں نے دعا کی ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ نری دعائیں کچھ نہیں کر سکتی ہیں.جب تک اﷲ تعالیٰ کی مرضی اور اَمر نہ ہو.دیکھو! اہلِ حاجت لوگوں کو کس قدر تکالیف ہوتی ہیں مگر حاکم کے ذرا کہہ دینے اور توجہ کرنے سے وہ دور ہو جاتی ہیں.اسی طرح پر اﷲ تعالیٰ کے اَمر سے سب کچھ ہوتا ہے.میں دعا کی قبولیت کو اس وقت محسوس کرتا ہوں جب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اَمر اور اِذن ہوکیونکہ اس نے اُدْعُوْنِیْ تو کہا ہے مگر اَسْتَجِبْ
لَکُمْ بھی ہے.یہ ضروری بات ہے کہ بندہ اپنی حالت میں ایک پاک تبدیلی کرے اور اندر ہی اندر خدا تعالیٰ سے صلح کر لے اور یہ معلوم کرے کہ وہ دنیا میں کس غرض کے لیے آیا ہے اور کہاں تک اس غرض کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے.جب تک انسان اﷲ تعالیٰ کو سخت ناراض نہیں کرتا اس وقت تک کسی تکلیف میں مبتلا نہیں ہوتا.لیکن اگر انسان تبدیلی کرلے تو خدا تعالیٰ پھر رجوع برحمت کرتا ہے.اس وقت طبیب کو بھی سوجھ جاتی ہے.خدا تعالیٰ پر کوئی اَمر مشکل نہیں بلکہ اس کی تو شان ہے اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ( یٰسٓ : ۸۳).ایک بار میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک ڈپٹی انسپکٹر پنسل سے ناخن کامیل نکال رہا تھا جس سے اس کا ہاتھ ورم کر گیا.آخر ڈاکٹر نے ہاتھ کاٹنے کامشورہ دیا.اس نے معمولی بات سمجھی.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہلاک ہو گیا.اسی طرح ایک دفعہ میں نے پنسل کو ناخن سے بنایا.دوسرے دن جب میں سیر کو گیا تو مجھے اس ڈپٹی انسپکٹر کا خیال آیا اور ساتھ ہی میرا ہاتھ ورم کر گیا.میں نے اسی وقت دعا کی اور الہام ہوا اور پھر دیکھا تو ہاتھ بالکل درست تھا اور کوئی ورم یا تکلیف نہ تھی.غرض بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جب اپنا فضل کرتا ہے تو کوئی تکلیف باقی نہیں رہتی مگر اس کے لیے یہ ضروری شرط ہے کہ انسان اپنے اندر تبدیلی کرے.پھر جس کو وہ دیکھتا ہے کہ یہ نافع وجود ہے تو اس کی زندگی میں ترقی دے دیتا ہے.ہماری کتاب میں اس کی بابت صاف لکھا ہے وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ (الرّعد : ۱۸) ایسا ہی پہلی کتابوں سے بھی پایا جاتا ہے.حزقیاہ نبی کی کتاب میں بھی درج ہے.انسان بہت بڑے کام کے لیے بھیجا گیا ہے لیکن جب وقت آتا ہے اور وہ اس کام کو پورا نہیں کرتا تو خدا اس کا تمام کام کر دیتا ہے.خادم کو ہی دیکھ لو کہ جب وہ ٹھیک کام نہیں کرتا تو آقا اس کو الگ کر دیتا ہے پھر خدا تعالیٰ اس وجود کو کیوں کر قائم رکھے جو اپنے فرض کو ادا نہیں کرتا.ہمارے مرزا صاحب۱ پچاس برس تک علاج کرتے رہے.اُن کا قول تھا کہ اُن کو کوئی حکمی نسخہ
نہیں ملا.سچ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے اذن کے بغیر ہر ایک ذرہ جو انسان کے اندر جاتا ہے کبھی مفید نہیں ہو سکتا.توبہ واستغفار بہت کرنی چاہیے تا خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے.جب خدا تعالیٰ کا فضل آتا ہے تو دعا بھی قبول ہوتی ہے.خدا نے یہی فرمایا ہے کہ دعا قبول کروں گا اور کبھی کہا کہ میری قضاء و قدر مانو.اس لیے میں تو جب تک اذن نہ ہو لے کم امید قبولیت کی کرتا ہوں.بندہ نہایت ہی ناتوان اور بے بس ہے.پس خدا کے فضل پر نگاہ رکھنی چاہیے.حکّام اور برادری سے سلوک چودہری عبد اﷲ خان صاحب نمبردار بہلول پور نے سوال کیا کہ حکّام اور برادری سے کیا سلوک کرنا چاہیے؟ فرمایا.ہماری تعلیم تو یہ ہے کہ سب سے نیک سلوک کرو.حکّام کی سچی اطاعت کرنی چاہیے کیونکہ وہ حفاظت کرتے ہیں.جان اور مال اُن کے ذریعہ امن میں ہے اور برادری کے ساتھ بھی نیک سلوک اور برتائو کرنا چاہیے کیونکہ برادری کے بھی حقوق ہیںالبتہ جو متقی نہیں اور بدعات و شرک میں گرفتار ہیں اور ہمارے مخالف ہیں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے تا ہم اُن سے نیک سلوک کرنا ضرور چاہیے.ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو.جو دنیا میں کسی سے نیکی نہیں کر سکتا وہ آخرت میں کیا اجرلے گا.اس لیے سب کے لیے نیک اندیش ہونا چاہیے.ہاں مذہبی امور میں اپنے آپ کو بچانا چاہیے.جس طرح پر طبیب ہر مریض کی خواہ ہندو ہو یا عیسائی یا کوئی ہو غرض سب کی تشخیص اور علاج کرتا ہے.اسی طرح پر نیکی کرنے میں عام اصولوں کو مدِّ نظر رکھنا چاہیے.اگر کوئی یہ کہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کفار کو قتل کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی شرارتوں اور ایذارسانیوں سے بہ سبب بلاوجہ قتل کرنے مسلمانوں کے مجرم ہو چکے تھے.اُن کو جو سزا ملی وہ مجرم ہونے کی حیثیت سے تھی.محض انکار اگر سادگی سے ہو اور اس کے ساتھ شرارت اور ایذارسانی نہ ہو تو وہ اس دنیا میں عذاب کاموجب نہیں ہوتا.رشوت رشوت ہرگز نہیں دینی چاہیے.یہ سخت گناہ ہے مگر میں رشوت کی یہ تعریف کرتا ہوں کہ جس سے گورنمنٹ یا دوسرے لوگوں کے حقوق تلف کیے جاویں.میں اس سے سخت منع کرتا ہوں لیکن ایسے طور پر کہ بطور نذرانہ یا ڈالی اگر کسی کو دی جاوےجس سے کسی کے حقوق کے
ف مدّ ِنظر نہ ہوبلکہ اپنی حق تلفی اور شر سے بچنا مقصود ہو تو یہ میرے نزدیک منع نہیں ہے اور میں اس کا نام رشوت نہیں رکھتا.کسی کے ظلم سے بچنے کو شریعت منع نہیں کرتی بلکہ لَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرۃ : ۱۹۶) فرمایا ہے.خدا تعالیٰ کی آزمائش نہ کرو خان صاحب نواب خاں صاحب جاگیردار مالیر کوٹلہ نے ایک شخص کا ذکر کیا کہ وہ ارادت کا اظہار کرتا ہے.مگر چاہتا ہے کہ اس کی توجہ نماز کی طرف ہوجاوے.فرمایا کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ سے ایسی شرطیں کیوں کرتے ہیں.پہلے خود کوشش کرنی چاہیے.قرآن شریف میںاِيَّاكَ نَعْبُدُ مقدم ہے.خدا تعالیٰ پر کسی کا حق واجب نہیں.اگر وہ خود کوشش کرنا چاہتے ہیں تو مہینے تک یہاں آکر رہیں.خدا نے فرمایا ہے كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التّوبۃ : ۱۱۹) یہاں وہ نماز پڑھنے والوں کو دیکھیں گے، باتیں سنیں گے.خدا تعالیٰ تو غنی ہے.اگر ساری دنیا اُس کی عبادت نہ کرے تو اس کو کیا پروا ہے.ہزاروں موتیں انسان قبول کرے تو خدا کو خوش کرسکتا ہے.خدا تعالیٰ کی آزمائش نہ کرو یہ اچھا طریق نہیں.حدیث حدیثیں دو قسم کی ہیں.اوّل وہ جوصراحۃً بلا تاویل ہماری ممد اور معاون ہیں.جیسے اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ، فَاَمَّـکُمْ مِنْکُمْ، لَامَھْدِیَ اِلَّا عِیْسٰی وغیرہ.اور دوم کچھ اس قسم کی ہیں جو ہمارے مخالف پیش کرتے ہیں.ان میں سے بعض تو ایسی ہیں کہ ذرا سی توجہ سے ان کامضمون اور مفہوم ہمارے مطابق ہو جاتا ہے اور بعض بالکل محرّف و مبدّل قرآن شریف کے منشا کے خلاف اقوالِ مر دودہ ہیں.ہم اُن کو ردّ کر دیں گے.خدا تعالیٰ کی آواز تو ہمیشہ آتی ہےمگر مُردوں کی نہیں آتی.اگر کبھی کسی مُردے کی آواز آتی ہے تو خدا کی معرفت یعنی خدا تعالیٰ کوئی خبر اُن کے متعلق دے دیتا ہے.اصل یہ ہے کہ کوئی ہو خواہ نبی ہو یا صدیق یہ حال ہے کہ آنراکہ خبر شد خبرش بازنیامد.اﷲ تعالیٰ ان کے درمیان اور اہل و عیال کے درمیان ایک حجاب رکھ دیتا ہے.وہ سب تعلق قطع ہو جاتے ہیں.اسی لیے فرمایا ہے فَلَاۤ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ (المؤمنون : ۱۰۲).
کہف والا قصہ ہماری راہ میں نہیں.اگر خدا تعالیٰ نے اُن کو سلایا ہو اور پھر جگایا ہو تو ہمارا کوئی حرج نہیں.مسیح کی وفات سے اس کو کیا تعلق؟ مسیح کے لیے کہاں رُقُوْد آیا ہے.فضیلت کامسئلہ امام حسین ؑ پر میری فضیلت سن کر یونہی غصہ میں آتے ہیں.قرآن نے کہاں امام حسین کا نام لیا ہے.زید کا ہی نام لیا ہے.اگر ایسی ہی بات تھی تو چاہیے تھا کہ حسین کا نام بھی لے دیا جاتا اور پھر مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ(الاحزاب:۴۱) کہہ کر اور بھی اُبُوّت کا خاتمہ کر دیا.اگر اِلَّاحُسَیْنٍ کہہ دیا ہوتا تو شیعہ کا ہاتھ پڑسکتا تھا.اصل یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام ان باتوں سے لا پروا ہوتے ہیں.اُن کی تمنّا بھی یہ نہ تھی، ورنہ اﷲ تعالیٰ نبیوں کی تمنّا بھی پوری کر دیتا ہے.مخالفین سے معانقہ قبل نماز ظہر حضرت اقدس ؑسے دریافت کیا گیا کہ عیسائیوں کے ساتھ کھانا اور معانقہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.میرے نزدیک ہرگز جائز نہیں یہ غیرتِ ایمانی کے خلاف ہے کہ وہ لوگ ہمارے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور ہم اُن سے معانقہ کریں.قرآن شریف ایسی مجلسوں میں بیٹھنے سے بھی منع فرماتا ہے جہاں اﷲ اور اس کے رسول کی باتوں پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے اور پھر یہ لوگ خنزیر خور ہیں.اُن کے ساتھ کھانا کھانا کیسے جائز ہو سکتا ہے.اگر کوئی شخص کسی کی ماں بہن کو گالیاں دے تو کیا وہ روا رکھے گا کہ اس کے ساتھ مل کر بیٹھے اور معانقہ کرے.پھر جب یہ بات نہیں، اﷲ اور رسول کے دشمنوں اور گالیاں دینے والوں سے کیوں اس کو جائز رکھا ہے.(بوقتِ شام) آنحضرتؐاور آپ کے صحابہؓکی فضیلت مسیحؑ اور اُن کے حواریوں پر بعد ادائے نماز مغرب حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام معمول کے موافق خدام کے حلقہ میں بیٹھ گئے اور فرمایا کہ قرآن شریف کے ایک مقام پر غور کرتے کرتے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی عظمت اور کامیابی معلوم ہوئی.جس کے مقابل میں حضرت مسیح بہت ہی کمزور ثابت ہوتے ہیں.سورئہ مائدہ میں
ہے کہ نزولِ مائدہ کی درخواست جب حواریوں نے کی تو وہاں صاف لکھا ہے قَالُوْا نُرِيْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْهَا وَ تَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُنَا وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَ نَكُوْنَ عَلَيْهَا مِنَ الشّٰهِدِيْنَ (المائدۃ : ۱۱۴) اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے جس قدر معجزات مسیح کے بیان کئے جاتے ہیں اور جو حواریوں نے دیکھے تھے ان سب کے بعد اُن کا یہ درخواست کرنا اس اَمر کی دلیل ہے کہ اُن کے قلوب پہلے مطمئن نہ ہوئے تھے ورنہ یہ الفاظ کہنے کی اُن کو کیا ضرورت تھی وَ تَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُنَا وَنَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا.مسیح کی صداقت میں بھی اس سے پہلے کچھ شک ہی ساتھا اور وہ اس جھاڑ پھوک کو معجزہ کی حد تک نہیں سمجھتے تھے.اُن کے مقابلہ میں صحابہ کرامؓ ایسے مطمئن اور قوی الایمان تھے کہ قرآن شریف نے ان کی نسبت رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ (البیّنۃ :۹) فرمایا.اور یہ بھی بیان کیا کہ اُن پر سکینت نازل فرمائی.یہ آیت مسیح علیہ السلام کے معجزات کی حقیقت کھولتی ہے.اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت قائم کرتی ہے.صحابہ کا کہیں ذکر نہیں کہ اُنہوں نے کہا کہ ہم اطمینانِ قلب چاہتے ہیں بلکہ صحابہ کا یہ حال کہ اُن پر سکینت نازل ہوئی اور یہود کا یہ حال يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ(البقرۃ :۱۴۷) ان کی حالت بتائی یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت یہاں تک کھل گئی تھی کہ وہ اپنے بیٹوں کی طرح شناخت کرتے تھے اور نصاریٰ کا یہ حال کہ ان کی آنکھوں سے آپ کو دیکھیں تو آنسو جاری ہو جاتے تھے.یہ مراتب مسیح کو کہاں نصیب! انبیاؑء تلامیذالرَّحمٰن ہوتے ہیں،اُن کی ترقی بھی تدریجی ہوتی ہے اس پر عرض کیا گیا کہ حضور! حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی احیاءِ موتٰی کی کیفیت کے متعلق اطمینان چاہا تھا.کیا اُن کو بھی پہلے اطمینان نہ تھا؟ فرمایا.اصل بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اﷲ تعالیٰ کے مکتب میں تعلیم پانے والے ہوتے ہیں اور تلامیذالرَّحمٰن کہلاتے ہیں.اُن کی ترقی بھی تدریجی ہوتی ہے.اسی لیے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن شریف میں آیا ہے كَذٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا (الفرقان : ۳۳)
پس میں اس بات کو خوب جانتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کی حالت کیسی ہوتی ہے.جس دن نبی مامور ہوتا ہے اُس دن اور اُس کی نبوّت کے آخری دن میں ہزاروں کوس کا فرق ہو جاتا ہے.پس یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا کہا.ابراہیم تو وہ شخص ہے جس کی نسبت قرآن شریف نے خود فیصلہ کر دیا ہے اِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰۤى (النّجم : ۳۸) وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ (البقرۃ : ۱۲۵) پھر یہ اعتراض کس طرح پر ہو سکتا ہے.کیا ایک بچہ مثلاً مبارک(سَلَّمَہٗ رَبُّہٗ) جو آج مکتب میں بٹھایا جاوے وہ ایم اے یا بی اے کامقابلہ کر سکتا ہے.اسی طرح انبیاء کی بھی حالت ہوتی ہے کہ ان کی ترقی تدریجی ہوتی ہے.دیکھو! براہین احمدیہ میں باوجودیکہ خدا تعالیٰ نے وہ تمام آیات جو حضرت مسیحؑ سے متعلق ہیں میرے لیے نازل کی ہیں اور میرا نام مسیح رکھا اور آدم، دائود، سلیمان غرض تمام انبیاء کے نام رکھے مگر مجھے معلوم نہ تھا کہ میں ہی مسیح موعود ہوں جب تک خود اﷲ تعالیٰ نے اپنے وقت پر یہ راز نہ کھول دیا.حواریوں نے جو اطمینانِ قلب چاہا ہے وہ ان سب نشانات کے بعد ہے جو وہ دیکھ چکے تھے اس لیے وہ اس اعتراض کے نیچے ہیں کہ ان کو ضرور شک تھا.آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ نَصّ ہے مسیحؑ کے عدم نزول پر اس کے بعد امریکہ کے مشہور کاذب اور مفتری ڈاکٹر ڈوئی کے اخبار کا خلاصہ برادر مفتی محمد صادق صاحب نے پڑھ کر سنا یا.اُس کے سننے کے بعد حضرت حجۃاﷲ نے پھر ذکر کیا کہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ (المائدۃ : ۱۱۸ ) سورئہ مائدہ کی آیت پر آج پھر غور کرتے ہوئے ایک نئی بات معلوم ہوئی اور وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حضرت مسیح سے یہ سوال ہوا کہ کیا تو نے کہا تھا کہ ’’مجھ کو اور میری ماں کو اِلٰہ بنالو تو وہ اپنی بریّت کے لیے جواب دیتے ہیں کہ میں نے تو وہی تعلیم دی تھی جو تو نے مجھے دی تھی اور جب تک میں اُن میں رہا میں اُن کا نگران تھا اور جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تُو اُن پر نگران تھا.‘‘ اب صاف ظاہر ہے کہ اگر حضرت مسیح دوبارہ دنیا میں آئے تھے.
ور یہ سوال ہوا تھا قیامت میں تو اس کا یہ جواب نہیں ہونا چاہیے تھا.بلکہ اُن کو تو یہ جواب دینا چاہیے تھا کہ ہاں بیشک میرے آسمان پراٹھائے جانے کے بعد اُن میں شرک پھیل گیا تھا لیکن پھر دوبارہ جا کر تو میں نے صلیبوں کو توڑا، فلاں کافر کو مارا، اُسے ہلاک کیا،اُسے تباہ کیا.نہ یہ کہ وہ یہ جواب دیتے وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ (المائدۃ : ۱۱۸ ) اس جواب سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیحؑ کو ہرگز ہر گز خود دنیا میں نہیں آنا ہے اور یہ نَصّ ہے اُن کے عدمِ نزول پر.۱۲؍اگست ۱۹۰۲ء (بوقتِ شام) حضرت جریُّ اﷲ فی حلل الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام ادائے نماز کے بعد جلوس فرما ہوئے اورفرمایا کہ چونکہ یہ کتاب نزول المسیح تمام مسائل کی جامع کتاب بنانی چاہتا ہوں.اس لیے میرا ارادہ ہے کہ ہمارے چند احباب میری کتابوں کے مضامین کی ایک ایک فہرست بنادیں تا کہ مجھے معلوم ہو جاوے کہ کون کون سے مضامین ان میں آچکے ہیں.اس کے بعد ایڈیٹر الحکم نے الحکم کا وہ نمبر پیش کیا جو ۲۴؍ جولائی ۱۹۰۱ء کا چھپا ہوا ہے اور جس میں حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے ایک خط مولوی عبدالرحمٰن صاحب لکھو کے والے کے نام حضرت حجۃاﷲ مسیح موعود کے ایما سے لکھا تھا اور جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر تو حضرت اقدس کے بر خلاف نام لے کر کوئی الہام مخالف پیش کرے گا تو ہلاک ہو جاوے گا.غرض وہ مضمون ناظرین الحکم پڑھ چکے ہیں.اعادہ کی ضرورت نہیں.مولوی عبداﷲ چکڑالوی کے خلاف وُجوہِ کفر اس کے بعد حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے عرض کی کہ مولوی محمد حسین صاحب کا ایک رسالہ آیا ہے جس میں چینیاں والی مسجد میں قیامت کے عنوان سے آپ نے ایک مضمون لکھا ہے جو مولوی عبداﷲ چکڑالوی کے خلاف ہے.لکھتے لکھتے ایک مقام پر لکھتا ہے کہ ہم اس کو پرافٹ آف قادیان کے ساتھ ملاتے ہیں یعنی کفر کا فتویٰ دیتے ہیں چنانچہ اس کے نیچے پھر کفر کا
فتویٰ مرتّب کیا ہے.اس پر حضرت اقدس نے دریافت فرمایا کہ وجوہ کفر کیا ہیں؟ مولوی چکڑالوی کہتا ہے کہ حدیث کی کچھ ضرورت نہیں بلکہ حدیث کا پڑھنا ایسا ہے جیسا کہ کتّے کو ہڈی کا چسکا ہو سکتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ قرآن کے لانے میں اس سے بڑھ کر نہیں جیساکہ ایک چپڑاسی یا مذکوری کا درجہ پروانہ سرکاری لانے میں ہوتا ہے.حضرت اقدس مسیح مو عو دؑ نے فرمایا.ایسا کہنا کفر ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بے ادبی کرتاہے.احادیث کو ایسی حقارت سے نہیں دیکھنا چاہیے.کفار تو اپنے بتوں کے جنتر منتر کو یاد رکھتے ہیں تو کیا مسلمانوں نے اپنے رسولؐ کی باتوںکو یاد نہ رکھا.قرآن شریف کے پہلے سمجھنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور اس پر آپؐعمل کرتے تھے اور دوسروں کو عمل کراتے تھے.یہی سنّت ہے اور اسی کو تعامل کہتے ہیں اور بعد میںآئمہ نے نہایت محنت اور جانفشانی کے ساتھ اس سنّت کو الفاظ میں لکھااور جمع کیا اور اس کے متعلق تحقیقات اور چھان بین کی پس وہ حدیث ہوئی.دیکھو! بخاری اور مسلم کو، کیسی محنت کی ہے.آخر انہوں نے اپنے باپ دادوں کے احوال تو نہیں لکھے بلکہ جہاں تک بس چلا صحت وصفائی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال یعنی سنّت کو جمع کیا اور اکثر حدیثوںمثلاً بخاری کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں برکت اور نورہے.جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلی ہیں.مثلاً اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ کی حدیث کیسی صاف ظاہر کرتی ہے کہ مسیح تم میںسے ہو گا اور یہ عیسائیوں کا ردّ ہے کیونکہ عیسائی فخر کرتے تھے کہ عیسیٰ پھر آئے گا اور دین عیسوی کو بڑھائے گا لیکن آنحضرتؐنے سنایا کہ ہم نے اس کو آسمان پر دیگر فوت شدہ لوگوں میں دیکھا اور پھر فرمایا کہ جوآنے والامسیح ہے وہ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ ہوگا.غرض احادیث کے متعلق ایسا کلمہ نہیں بولنا چاہیے.ہاں اس معاملہ میں غلو بھی نہیں کرناچاہیے کہ اس کو قرآن اور تعامل سے بڑھ کر سمجھا جائے بلکہ جو کچھ قرآن اور سنّت کے مطابق حدیث میں ہو اس کو ماننا چاہیے کیونکہ جب حدیث کی کتابیں نہ تھیں تب بھی لوگ نمازیں پڑھتے تھے اور تمام شعائر اسلام بجالاتے تھے.پس
قرآن شریف کے بعد تعامل یعنی سنّت ہے اور پھر حدیث ہے جو اُن کے مطابق ہو.مولوی محمد حسین نے پہلے اپنے رسالہ اشاعۃ السنّۃ میں ایسا ہی ظاہر کیاتھا کہ جو لوگ خدا سے وحی اور الہام پاتے ہیں وہ اپنے طور پر براہِ راست احادیث کی صحت کر لیتے ہیں بعض وقت قواعد علم حدیث کی روح سے ایک حدیث موضوع ہوتی ہے اور ان کے نزدیک صحیح اور ایک حدیث صحیح قراردی ہوئی اُن کے نزدیک موضوع.غرض بات یہ ہے کہ قرآن اور سنّت اور حدیث تین مختلف چیزیںہیں.مولوی محمد حسین صاحب کے متعلق حضرت اقدس کا ایک پرانا خواب اس کے بعد حضرت اقدس نے اپنا پراناخواب مولوی محمد حسین صاحب کے متعلق بیان فرمایا جو کہ کتاب سراجِ منیر کے آخر میں درج ہے اور فرمایا کہ یہ بات ۹۴ء یا ۹۵ء کی ہے جب ہم نے یہ رؤیا دیکھا تھا کہ ہم نے جماعت کرائی ہے اور نمازِ عصر کا وقت ہے اور ہم نے قراءت پہلے بلند آواز سے کی ہے پھر ہم کو یاد آیا اور اس کے بعد ہم نے محمد حسین سے کہا کہ ہم خدا کے سامنے جائیں گے ہم چاہتے ہیں ہر بات میں صفائی ہو اگر ہم نے آپ کے متعلق کچھ سخت الفاظ کہے ہوں تو آپ معا ف کردیں.ا س نے کہا میں معاف کرتاہوں.پھر ہم نے کہا کہ ہم بھی معاف کرتے ہیں.پھر ہم نے دعوت کی اور اس نے عذر ِخفیف کے ساتھ اس دعوت کو قبول کرلیا.اور ایک شخص سلطان بیگ نام چبوترہ پر قریب الموت تھا اور ہم نے کہا کہ ایسا ہی مقدّر تھا کہ اس کے مَرنے کے وقت یہ واقعہ ہو اور ایسا ہی مقدر تھا کہ بہاء الدین کے مَرنے کے وقت یہ بات ہو.اس خواب کے بعد فرمایا کہ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.خواب میںتعیّنات شخصیہ ضروری نہیں.پھر حضرت اقدس ؑنے مولوی محمد حسین صاحب کی ان دنوں کی حالت کا ذکر کیا.جب و ہ بات بات میںخاکساری دکھاتے اور قدم قدم پر اخلاص رکھتے تھے اور جوتے اُٹھاکر جھاڑکر آگے رکھتے تھے اور وضوکراتے تھے اور کہتے تھے کہ میں مولویّت کو نہیں چاہتا.مجھے اجازت دو تو میں قادیان میں آرہوں اور
فرمایا کہ کسی وقت کا اخلاص اور خدمت انسان کے کام آجاتاہے.شاید ان وقتوں کاا خلاص ہی ہو جو بالآخرمولو ی محمد حسین صاحب کو اس سلسلہ کی طرف رجوع کرنے کی توفیق دے کیونکہ وہ بہت ٹھوکریں کھاچکے ہیں اورآخر دیکھ چکے ہیں کہ خدا کے کاموں میں کوئی حارج نہیںہوسکتا.فرمایا.ایسا ہی اجتہادی طور پر ہمیں بعض لوگوں پر بھی حُسن ظن ہے کہ وہ کسی وقت رجوع کریں گے کیونکہ ایک دفعہ الہام ہواتھا کہ ’’لاہور میں ہمارے پاک محبّ ہیں، وسوسہ پڑگیا ہے پر مٹی نظیف ہے، وسوسہ نہیں رہے گا.مٹی رہے گی.‘‘ اس کے بعد چند مختلف باتیں ہو کر نماز عشاء ادا کی گئی.۱۳؍ اگست ۱۹۰۲ء (بوقتِ شام) نماز مغرب کے بعد حضرت اقدس نے کل کی تجویز کی تکمیل کے لیے فرمایاکہ مخالفین کے لیے اہم اعتراضات جمع کر لینے کا ارشاد بہت ہی بہتر ہو کہ اگر مخالفین کی کل کتابیں جمع کر کے اُن کے اہم اعتراضات کو یکجا کر لیا جاوے، تا کہ ان کا جواب بھی ہماری اس کتاب میں آجاوے اور یہ کتاب تمام مسائل کی جامع ہو جاوے.اس کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب نے اس چٹھی کے مضمون کا تتمہ پڑھ کر سنایا جو امریکہ کے مشہور کاذب، مفتری الیاس ڈاکٹر ڈوئی کے نام مقابلہ کے لیے لکھی گئی ہے.خلاصہ تتمہ چٹھی بنام الیاس ڈاکٹر ڈوئی اس تتمہ کا خلاصہ یہ ہے حضرت اقدسؑ نے اس میںلکھا ہے کہ صادق اور کاذب کی شناخت کامعیاروہ اَمر کبھی نہیںہوسکتا جو مختلف قوموںمیں بطور اَمر مشترک
ہو مثلاً سلبِ امراض کا طریق ہے.جس پرڈاکٹرڈوئی اپنے اخبار میں لاف زنی کیا کرتا ہے کہ فلاں شخص اچھاہوگیا اور فلاں نے صحت پائی.یہ طریق اس قسم کا ہے کہ اس کے لیے راستبازاور متقی ہونے کی بھی ضرورت نہیں.چہ جائیکہ یہ کسی کے مامور ہونے پر گواہ ہوسکے کیونکہ سلبِ امراض کا طریق ہندوؤں، یہودیوں، عیسائیوں میںیکساں پایا جاتا ہے اورمسلمانوں میں بھی بعض لوگ اس قسم کے پائے جاتے ہیں.حضرت مسیحؑ جب سلبِ امراض کے معجزات دکھاتے تھے اس وقت بعض یہودی بھی اس قسم کے کام کرتے تھے اور ایک تالاب بھی ایساتھا جس میں غسل کرنے سے بعض مریض اچھے ہوجاتے تھے.غرض حضرت حجۃاللہ نے پہلے اس میںیہ ظاہر کیا ہے کہ جو اَمر مختلف قوموں میں مشترک ہے اور جس کے لیے نیک و بد کی کوئی تمیز نہیں صادق اور کاذب کی شناخت کامعیار نہیںہوسکتا.پھر اس اَمر پر بحث کی ہے کہ اس کی ایک صورت ہے کہ کچھ بیمار لے کر بطور قرعہ اندازی صادق اور کاذب کو تقسیم کردئیے جاویں ایسی صورت میں صادق کے حصہ کے مریض بمقابلہ کاذب زیادہ اچھے ہوں گے.اس اَمرکے بیان میں یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ اس طریق کو اپنے ملک میں اپنے مخالفوںکے سامنے مَیں نے پیش کیا ہے مگر کوئی مقابلہ کے لیے نہ آیا.پھر حضرت اقدس نے ڈوئی کی اس تحدّی پر بحث کی ہے جو اس نے اپنے مخالفوں کے لیے کی ہے کہ میرے مخالف ہلاک ہو جائیں گے خصوصاً مسلمان.حضرت حجۃ اللہ نے بڑے پُر زور اور پُرشوکت الفاظ میںلکھاہے کہ کُل مسلمانوں کو ہلاک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور علاوہ ازیں یہ اَمر مشکوک ہو سکتا ہے.اس کو یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ مسلمان ہلاک تو ہوہی جائیں گے مگر پچاس یا ساٹھ سال کے اندر.اور وہ خود اس عرصہ میں ہلاک ہوجائے گا.پھر کون اس سے پوچھنے والاہوگا.اس لیے بہترہے کہ سارے مسلمانوں کو چھوڑ کر میرے مقابلہ میں آئے اور میںعیسائیوں کے خود ساختہ خدا کی نسبت تمام مسلمانوں سے زیادہ کراہت اور نفرت رکھتا ہوں.یہاں تک کہ اگر کُل مسلمانوں کی نفرت عیسائیوں
کے خدا کی نسبت ترازو کے ایک پلّہ میں رکھ دی جاوے اور میری نفرت ایک طرف تو میرا پلّہ اس سے بھاری ہوگا.اور میں ایسے شخص کو جو عورت کے پیٹ سے نکل کر خدا ہونے کا دعویٰ کرے بہت ہی بڑاگناہ گار اور ناپاک انسان سمجھتاہوں.مگر ہاں میرا یہ مذہب ہے کہ مسیح ابنِ مریم رسول اِس اِلزام سے پاک ہے، اس نے کبھی یہ دعویٰ نہیںکیا، میں اسے اپنا ایک بھائی سمجھتا ہوں، اگر چہ خدا تعالیٰ کا فضل مجھ پر اس سے بہت زیادہ ہے اور وہ کام جو میرے سپرد کیا گیا ہے اس کے کام سے بہت ہی بڑھ کر ہے.تاہم میں اس کو اپنا ایک بھائی سمجھتا ہوں.اور میں نے اسے بارہادیکھاہے.ایک بار میں نے اور مسیحؑ نے ایک ہی پیالہ میں گائے کاگوشت کھایا تھا، اس لیے میں اور وہ ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ہیں.غرض اس طرح پر حضرت حجۃاللہ نے بلحاظ اپنے کام اور ماموریت کے اور خدا تعالیٰ کے ان فضلوں اور احسانوں کے جو حضرت مسیح موعود کے شاملِ حال ہیں تحدیث بِالنِّعْمَت اور تبلیغ کے طور پر ذکر فرمایا اور یہاں تک کہا کہ ’’میں خدا سے ہوں اور مسیح مجھ سے ہے.‘‘ ان امور کے پیش کرنے کے بعد آپ نے پھر پُر شوکت تحدّی کے ساتھ اُس کو مقابلہ کے لیے دعوت کی ہے کہ اگر وہ سچا ہے تو اسے چاہیے میرے مقابلہ میں نکلے اور یہ دعاکرے کہ ہم دونوں میںسے جو کاذب ہے وہ صادق کے سامنے ہلاک ہو.یہ خلاصہ ہے اس تتمہ کا جو ہم نے اپنے طور پر لکھا ہے.اصل چٹھی ستمبر کے اخیر تک انشاء اللہ شائع ہوسکے گی.آج کی ڈائری میں ایک اَمر ہم نے فروگذاشت کیا تھا.اسے یہاں درج کر دینا قرینِ مصلحت معلوم ہوتاہے.حضرت صاحبزادہ مبارک احمد سَلَّمَہُ اللہُ الْاَحَدُ کے ایک کبوتر کو بلّی نے پکڑا جو ذبح کرلیاگیا.فرمایا کہ اس وقت میرے دل میں تحریک ہوئی کہ گویا عیسائیوںکے خدا کو ہم نے ذبح کر کے کھالیا ہے.
پھر فرمایا کہ انگریزبھی کبوترکاشکار کرتے ہیں اور بنی اسرائیل کی قربانیوں میں بھی شاید اس کا تذکرہ ہے.بہر حال کبوتر ہمیشہ کھائے جاتے ہیں یادوسرے الفاظ میں یہ کہو کہ عیسائیوں کے خداذبح ہوتے ہیں.کیا یہ بھی کفارہ تو نہیں ہے.۱ ۱۶؍اگست ۱۹۰۲ء (بوقتِ شام) رزق میں قبض و بسط حضرت جریُّ اللہ فی حلل الانبیا ء علیہ الصلوٰۃ والسلام بعد ادائے نماز مغرب حسب معمول حلقہ خدام میں بیٹھ گئے کسی شخص نے ایک رقعہ دیا جو دفترمیگزین میں محرّر کی آسامی کے لیے سفارش کی خواہش پر مشتمل تھا.حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ قبض، بسط رزق کا سِر ایسا ہے کہ انسان کی سمجھ میں نہیں آتا.ایک طرف تو مومنوں سے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں وعدے کئے ہیں مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ (الطّلاق:۴) یعنی جو اللہ تعالیٰ پر توکّل کر تا ہے اس کے لیے اللہ کافی ہے مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطّلاق:۳،۴) جو اللہ تعالیٰ کے لئے تقو یٰ اختیار کر تا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے کہ اس کو معلوم بھی نہیں ہوتا.اور پھر فر ماتا ہے وَفِي السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ (الذّاریٰت:۲۳) اور پھر اللہ تعالیٰ اپنی ذات کی قسم کھا تا ہے کہ فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اِنَّهٗ لَحَقٌّ (الذّاریٰت:۲۴) آسمان و زمین کے ربّ کی قسم ہے کہ یہ وعدہ سچ ہے.جیسا کہ تم اپنی زبان سے بو ل کر انکار نہیں کرسکتے جب کہ اس قسم کے وعد ے اللہ تعالیٰ نے فر مائے ہیں.پھر باوجود ان وعدوں کے دیکھا جاتا ہے کہ کئی آدمی ایسے دیکھے جاتے ہیں جو صالح اور متقی نیک بخت ہوتے ہیں اور ان کا شعائرِ اسلام صحیح ہوتا ہے مگر وہ رزق سے تنگ ہیں.رات کو ہے تو دن کو نہیں اور دن کو ہے تورات کو نہیں.
جملہ معترضہ یہاں حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب نے عرض کی کہ جب میں پہلے پہل یہاں آیا تو حضور علاماتُ المقربین ایک رسالہ لکھ رہے تھے.واپسی پر گجرات ٹھہرا تو ایک شخص نے مجھ سے دریافت کیا کہ آج کل مرزا صاحب کیا لکھ رہے ہیں.میں نے کہا کہ اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ (الانفطار : ۱۴) کی تفسیر لکھ رہے ہیں.اس نے کہا کہ یہ کفار آرام میں نہیں؟ سارا دن بگھیاں چلتی رہتی ہیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ آپ کے اس آیت کے پڑھنے سے ایک اور آیت یاد آگئی وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ(الرّحـمٰن : ۴۷).غرض یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں مگر تجربہ دلالت کرتا ہے کہ یہ امور خدا کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے.ہمارا یہ مذہب ہے کہ وہ وعدے جو خدا تعالیٰ نے کئے ہیں کہ متقیوں کو خود اﷲ تعالیٰ رزق دیتا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان آیتوں میں بیان کیا ہے یہ سب سچ ہیں.اور سلسلہ اہل اﷲ کی طرف دیکھا جاوے تو کوئی ابرار میں سے ایسا نہیں ہے کہ بھو کا مَرا ہو.مومنوں نے جن پر شہادت دی اور جن کو اتقیامان لیا گیا ہے.یہی نہیں کہ وہ فقروفاقہ سے بچے ہوئے تھے.گو اعلیٰ درجہ کی خوشحالیاں نہ ہوں مگر اس قسم کا اضطراری فقروفاقہ بھی کبھی نہیں ہوا کہ عذاب محسوس کریں.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقراختیار کیا ہوا تھا.مگر آپ کی سخاوت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود آپؐنے اختیار کیا ہوا تھا، نہ کہ بطور سزا تھا.غرض اس راہ میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں.بعض لوگ ایسے دیکھے جاتے ہیں کہ بظاہر متقی اور صالح ہوتے ہیں مگر رزق سے تنگ ہوتے ہیں.ان سب حالات کو دیکھ کر آخر یہی کہنا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے تو سب سچ ہیں لیکن انسانی کمزوری ہی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے.یورپ کی پُرآسائش زندگی جنّت نہیں حضرت مولانا مولوی حکیم نورالدین صاحب نے پھر ذکر کیا کہ لندن سے ایک شخص نے مجھے خط لکھا کہ لندن آکر دیکھو کہ جنّت عیسائیوں کو حاصل ہے یا مسلمانوں کو.میں نے اس کو جواب لکھا کہ
سچی عیسائیت مسیح اور اس کے حواریوں میں تھی اورسچا اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ میں تھا.پس ان دونوں کامقابلہ کر کے دیکھ لو.اس پر حضرت حجۃ اﷲ نے بہ تسلسل کلام سابق پھرارشاد فرمایا.اِن روحانی امور میں ہر شخص کا کام نہیں ہے کہ نتیجہ نکال لے.یہ لوگ جو لندن جاتے ہیں وہ وہاں جا کر دیکھتے ہیں کہ بڑی آزادی ہے شراب خوری کی اس قدر کثرت ہے کہ ساٹھ میل تک شراب کی دکانیں چلی جاتی ہیں.زنا اور غیر زنا میں کوئی فرق ہی نہیں.کیا یہ بہشت ہے؟ بہشت سے یہ مُراد نہیں ہے.دیکھو! انسان کی بھی بیوی ہے اور وہ تعلقاتِ زوجیت رکھتا ہے اور پرندوں اور حیوانات میں بھی یہ تعلقات ہیں، مگر انسان کو اﷲ تعالیٰ نے ایک نظافت اور ادراک بخشا ہے.انسان جن حواس اور قویٰ کے ساتھ آیا ہے اُن کے ساتھ وہ ان تعلقاتِ زوجیت میں زیادہ لُطف اور سرور حاصل کرتا ہے بمقابلہ حیوانات کے جو ایسے حواس اور ادراک نہیں رکھتے ہیں اور اسی لیے وہ اپنے جوڑے کی کوئی رعایت نہیں رکھتے جیسے کتے.پس اگر انسان ان حواس کے ساتھ سرور حاصل نہیں کر سکتے بلکہ حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں پھر اُن میں اور حیوانوں میں کیا فرق ہوا.یہ جو فرمایا ہے کہ مومن کے لیے ہی جنّت ہے یہ اس لیے فرمایا ہے کہ سچی راحت دنیا کی لذّات سے تب پیدا ہوتی ہے جب تقویٰ ساتھ ہو.جو تقویٰ کو چھوڑ دیتا ہے اور حلال و حرام کی قید اُٹھا دیتا ہے وہ تو اپنے مقام سے نیچے گر جاتا ہے اور حیوانی درجہ میں آجاتا ہے.لندن میں جب ہائیڈو پارک میں حیوانوں کی طرح بدکاریاں ہوتی ہیں اور کوئی شرم و حیا ایک دوسرے سے نہیں کیا جاتا تو پھر ایک شخص انسانیت کو ضبط رکھ کر دیکھے تو ایسی بہشت اور راحت سے ہزار توبہ کرے گا کہ ایسی دیّوث اور بے غیرت جماعت سے خدا بچائے.ایسی جماعت کو جو ایسی زندگی بسر کرتی ہے بہشت میں سمجھنا حماقت ہے.اصل یہی ہے کہ بہشت کی کلید تقویٰ ہے.جس کو خدا تعالیٰ پر بھروسہ نہیں اُسے سچی راحت کیوں کر مل سکتی ہے.بعض آدمی ایسے دیکھے گئے ہیں کہ جن کو خدا
پر بھروسہ نہیں اور ان کے پاس روپیہ تھا وہ چوری چلا گیا.اس کے ساتھ ہی زبان بند ہو گئی.اور اُن (کفّار) کو جو بہشت میں کہا جاتا ہے اُن کی خود کشیوں کو دیکھو کہ کس قدر کثرت سے ہوتی ہیں.تھوڑی تھوڑی باتوں پر خود کشی کر لیتے ہیںجس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ایسے ضعیف القلب اور پست ہمت ہوتے ہیں کہ غم کی برداشت ان میں نہیں ہے.جس کو غم کی برداشت اور مصیبت کے مقابلہ کی طاقت نہیں اس کے پاس راحت کا سامان بھی نہیں ہے.خواہ ہم اس کو سمجھا سکیں یا نہ سمجھا سکیں اور کوئی سمجھ سکے یا نہ سمجھ سکے.حقیقت الامر یہی ہے کہ لذائذ کامزہ صرف تقویٰ ہی سے آتا ہے.جو متقی ہوتا ہے اس کے دل میں راحت ہوتی ہے اور ابدی سرور ہوتا ہے.دیکھو! ایک دوست کے ساتھ تعلق ہو توکس قدر خوشی اور راحت ہوتی ہے لیکن جس کا خدا سے تعلق ہو اُسے کس قدر خوشی ہو گی.جس کا تعلق خدا سے نہیں ہے اُسے کیا امید ہو سکتی ہے اور امید ہی تو ایک چیز ہے جس سے بہشتی زندگی شروع ہوتی ہے.ان مہذب ممالک میں اس قدر خود کشیاں ہوتی ہیں کہ جن سے پایا جاتا ہے کہ کوئی راحت نہیں.ذرا راحت کامیدان گم ہوا اور جھٹ خود کشی کر لی لیکن جو تقویٰ رکھتا ہے اور خدا سے تعلق رکھتا ہے اُسے وہ جا ودانی خوشی حاصل ہے جو ایمان سے آتی ہے.دنیا کی تمام چیزیں معرض تغیّر وتبدّل میں ہیں.مختلف آفات آتی رہتی ہیں.بیماریاں حملے کرتی ہیں.کبھی بچےمَر جاتے ہیں.غرض کوئی نہ کوئی دکھ یا تکلیف رہتی ہے اور دنیا جائے آفات ہے اور یہ امور سُکھ کی نیند انسان کو سونے نہیں دیتے.جس قدر تعلقات وسیع ہوتے ہیں اسی قدر آفتوں اور مصیبتوں کامیدان وسیع ہوتا ہے اور یہ آفتیں اور بلائیں انسان کے منزلی تعلقات میں ایک غم کو پچاس بنا دیتی ہیں.کیونکہ اگر اکیلا ہو تو غم کم ہو مگر جب بچے،بیوی،ماں باپ،بہن بھائی اور دوسرے رشتہ دار رکھتا ہے تو پھر ذرا سی تکلیف ہوئی اور یہ آفت میں پڑا.اس قدر مجموعہ کے ساتھ تو اُس وقت راحت ہو سکتی ہے جب کسی کو کوئی بیماری اور آفت نہ ہو اور کوئی تکلیف میں نہ ہو.صرف مال موجبِ راحت نہیں ہے یہ بات بھی غلط ہے کہ مال سے راحت ہو.نرے مال سے راحت نہیں ہے.اگر مال ہے
صحت اچھی نہیں.مثلاًمعدہ خراب ہے تو وہ کیا بہشتی زندگی ہوگی.اس سے معلوم ہوا کہ مال بھی راحت کا باعث نہیں.سچی بات یہی ہے کہ جو خدا سے تعلق رکھتا ہے وہی ہر پہلو سے بہشتی زندگی رکھتا ہے کیونکہ اﷲ قادر ہے کہ وہ بلائیں اور آفتیں نہ آئیں اور مالی اضطرار بھی نہ ہو.یا آئیں تو دل میں ایسی قوت اور ہمت بخش دے کہ وہ اُن کا پورا مقابلہ کر سکے.جس قدر پہلو انسان کی عافیت کے لیے ضروری ہیں وہ کسی بادشاہ کے بھی ہاتھ میں نہیں ہیں بلکہ وہ سب ایک ہی کے ہاتھ میں ہے جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے جسے چاہے دیدے.بعض لوگ اس قسم کے دیکھے گئے ہیں کہ روپیہ پیسہ سب کچھ موجود ہے مگر مسلُول مدقُوق ہو جاتے ہیں اور زندگی انہیں تلخ معلوم ہوتی ہے.پس ان کروڑوں آفات کا جو انسان کو لگی ہوئی ہیں کون بندوبست کر سکتا ہے اور اگر رنج بھی ہو تو صبر جمیل کون دے سکتا ہے؟ اﷲ ہی ہے جو عطا کرے.صبر بھی بڑی چیز ہے جو بڑی بڑی آفتوں اور مصیبتوں کے وقت بھی غم کو پاس نہیں آنے دیتا.بعض امیر ایسے ہوتے ہیں کہ عافیت اور راحت کے زمانہ میں بڑے مغرور اور متکبّر ہوتے ہیں اور ذرا رنج آگیا تو بچوں کی طرح چلّا اٹھے.اب ہم کس کا نام لے سکتے ہیں کہ اس پر حوادث نہ آئیں اور متعلّقین کو رنج نہ پہنچے؟ کسی کا نام نہیں لے سکتے.یہ بہشتی زندگی کس کی ہو سکتی ہے.صرف اُس شخص کی جس پر خدا کا فضل ہو.بہشتی زندگی اس لیے یہ بڑی غلطی ہے جو یونہی کسی کے سفید کپڑے دیکھ کر کہہ دیتے ہیں کہ وہ بہشتی زندگی رکھتے ہیں.اُن سے جا کر پوچھو تو معلوم ہو کہ کتنی بلائیں سناتے ہیں.صرف کپڑے دیکھ کر یا بگیوں پر سوار ہوتے دیکھ کر شراب پیتے دیکھ کر ایسا خیال کر لینا غلط ہے.ماسوا اس کے اباحتی زندگی بجائے خود جہنم ہے.کوئی ادب اور تعلق خدا سے نہیں.اس سے بڑھ کر جہنمی زندگی کیا ہوگی.کتا خواہ مُردار کھالے خواہ بدکاری کرے کیا وہ بہشتی زندگی ہوگی؟ اسی طرح پر جو شخص مُردار کھاتا ہے اور بدکاریوں میں مبتلا ہے، حرام و حلال کے مال کو نہیں سمجھتا یہ لعنتی زندگی ہے، اس کو بہشتی زندگی سے کیا تعلق؟
یہ سچ ہے کہ بہشتی زندگی بھی ہوتی ہے مگر اُن کی جن کو خدا پر پورا بھروسہ ہوتا ہے.اس لیے وہ هُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ (الاعراف :۱۹۷) کے وعدہ کے موافق خدا تعالیٰ کی حفاظت اور تولّی کے نیچے ہوتے ہیں اور جو خدا تعالیٰ سے دور ہے اس کا ہر دن ترساں و لرزاں ہی گزرتا ہے وہ خوش نہیں ہو سکتا.سیالکوٹ میں ایک شخص رشوت لیا کرتا تھا.وہ کہا کرتا تھا کہ میں ہر وقت زنجیر ہی دیکھتا ہوں.بات یہ ہے کہ بُرے کام کا انجام بد ہی ہونا چاہیے.اس لیے بدی ایسی چیز ہے کہ روح اس پر راضی ہو ہی نہیں سکتی.پھر بدی میں لذت کہاں؟ ہر بُرے کام پر آخر دل پر ٹھوکر لگتی ہے اور ایک کثافت انسان محسوس کرتا ہے کہ یہ کیا حماقت کی اور اپنے اوپر لعنت کرتا ہے.ایک شخص نے بارہ آنے کے عوض میں ایک بچہ مار دیا تھا.غرض زندگی بجز اس کے کوئی نہیں کہ بدی سے بچے اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرے.کیونکہ مصیبت سے پہلے جو خدا پر بھروسہ کرتا ہے مصیبت کے وقت خدا اس کی مدد کرتا ہے.جو پہلے سویا ہوا ہے وہ مصیبت کے وقت ہلاک ہو جاتا ہے.حافظ نے کیا اچھا کہا ہے.شعر ؎ خیال زلف تو جستن نہ کار خامان است کہ زیرِ سلسلہ رفتن طریق عیاری است خدا تعالیٰ غنی ہے.بیکانیر و غیرہ میں جو قحط پڑے تو لوگ بچوں تک کو کھا گئے.یہ اسی لیے ہوا کہ وہ کسی کے ہو کر نہیں رہے.خدا کے ہو کر رہتے تو بچوں پر یہ بلا نہ آتی.حدیث شریف اور قرآن مجید سے ثابت ہے اور ایسا ہی پہلی کتابوں سے بھی پایا جاتا ہے کہ والدین کی بدکاریاں بچوں پر بھی بعض وقت آفت لاتی ہیں.اسی کی طرف اشارہ ہے وَ لَا يَخَافُ عُقْبٰهَا (الشّمس : ۱۶).جو لوگ لا اُبالی زندگی بسر کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ ان کی طرف سے بے پروا ہو جاتا ہے.دیکھو! دنیا میں جو اپنے آقا کو چند روز سلام نہ کرے تو اس کی نظر بگڑ جاتی ہے تو جو خدا سے قطع کرے پھر خدا اس کی پروا کیوں کرے گا.اسی پر وہ فرماتا ہے کہ وہ اُن کو ہلاک کر کے اُن کی اولاد کی بھی پروا نہیں کرتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو متقی صالح مَر جاوے اس کی اولاد کی پروا کرتا ہے جیسا کہ ا س آیت سے بھی پتہ
لگتا ہے.وَكَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا (الکہف : ۸۳) اس باپ کی نیکی اور صلاحیت کے لیے خضر اور موسیٰ جیسے اولوا العزم پیغمبر کو مزدور بنا دیا کہ وہ ان کی دیوار درست کردیں.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس شخص کا کیا درجہ ہوگا.خدا تعالیٰ نے لڑکوں کا ذکر نہیں کیا چونکہ ستّار ہے.اس لیے پر دہ پوشی کے لحاظ سے اور باپ کے محلِ مدح میں ذکر ہونے کی وجہ سے کوئی ذکر نہیں کیا.پہلی کتابوں میں بھی اس قسم کامضمون آیا ہے کہ سات پُشت تک رعایت رکھتا ہوں.حضرت دائود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی متقی کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا.غرض نشاط خدا کا رزق ہے جو غیر کو نہیں ملتا.۱ ۱۸؍اگست ۱۹۰۲ء (بوقتِ شام) بیعت کی حقیقت مرزا اعظم بیگ کے پوتے مرزا احسن بیگ نے بیعت کی درخواست کی.اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا.بیعت اگلے جمعہ کو کر لینا مگر یہ یاد رکھو کہ بیعت کے بعد تبدیلی کرنی ضروری ہوتی ہے.اگر بیعت کے بعد اپنی حالت میں تبدیلی نہ کی جاوے تو پھر یہ استخفاف ہے.بیعت بازیچہءِ اطفال نہیں ہے.درحقیقت وہی بیعت کرتا ہے جس کی پہلی زندگی پر موت وارد ہو جاتی ہے اور ایک نئی زندگی شروع ہو جاتی ہے.ہر ایک اَمر میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے.پہلے تعلقات معدوم ہو کر نئے تعلقات پیدا ہوتے ہیں.جب صحابہؓ مسلمان ہوتے تو بعض کو ایسے امور پیش آتے تھے کہ احباب رشتہ دار سب سے الگ ہونا پڑتا تھا.حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ابو جہل کے ساتھ اسلام سے پہلے ملتے تھے.بلکہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ابو جہل نے منصوبہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا خاتمہ کر دیا جاوے اور کچھ روپیہ بھی بطور انعام مقرر کیا.حضرت عمر اس کام کے لیے منتخب ہوئے، چنانچہ انہوں نے اپنی تلوار کو تیز کیا اور موقع کی تلاش میں رہے.آخر حضرت عمر کو پتہ ملا کہ آدھی رات کو آپ کعبہ میں
آکر نماز پڑھتے ہیں.چنانچہ یہ کعبہ میں آکر چھپ رہے.اور اُنہوں نے سنا کہ جنگل کی طرف سے لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کی آواز آتی ہے اور وہ آواز قریب آتی گئی یہاں تک کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں آ داخل ہوئے اور آپ نے نماز پڑھی.حضرت عمر کہتے ہیں کہ آپ نے سجدہ میں اس قدر مناجات کی کہ مجھے تلوار چلانے کی جرأت نہ رہی.چنانچہ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ آگے چلے، پیچھے پیچھے میں تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے پائوں کی آہٹ معلوم ہوئی اور آپ نے پوچھا کون ہے؟ میں نے کہا کہ عمر.اس پر آپ نے فرمایا! اے عمر! نہ تو دن کو میرا پیچھا چھوڑتا ہے اور نہ رات کو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے محسوس کیا کہ اب آپ بد دعا کریں گے.اس لیے میں نے کہا کہ حضرت آج کے بعد آپ کو ایذانہ دوں گا.عربوں میں چونکہ وعدہ کا لحاظ بہت بڑا ہوتا تھا.اس لیے آنحضرتؐ نے یقین کر لیا.مگر دراصل حضرت عمر کا وقت آپہنچا تھا.آنحضرتؐکے دل میں گذرا کہ اس کو خدا ضائع نہیں کرے گا.چنانچہ آخر حضرت عمر مسلمان ہوئے اور پھر وہ دوستیاں، وہ تعلقات جو ابو جہل اور دوسرے مخالفوں سے تھے یک لخت ٹوٹ گئے اور ان کی جگہ ایک نئی اخوت قائم ہوئی.حضرت ابو بکر اور دوسرے صحابہ ملے اور پھر ان پہلے تعلقات کی طرف کبھی خیال تک نہ آیا.غرض اس سلسلہ میں جو ابتلائوں کا سلسلہ ہوتا ہے بہت سی ٹھو کریں کھانی پڑتی ہیں اور بہت سی موتوں کو قبول کرنا پڑتا ہے.ہم قبول کرتے ہیں کہ ان انسانوں میں جو اس سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں ان میں بعض بزدل بھی ہوتے ہیں.شجاع بھی ہوتے ہیں.بعض ایسے بزدل ہوتے ہیں کہ صرف قوم کی کثرت کو دیکھ کر ہی الگ ہو جاتے ہیں.انسان بات کو تو پورا کر لیتا ہے.مگر ابتلا کے سامنے ٹھہرنا مشکل ہے.خدا وند تعالیٰ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ (العنکبوت : ۳) یعنی کیا لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ایمان لائیں اور امتحان نہ ہو.غرض امتحان ضروری شَے ہے.اس سلسلہ میں جو داخل ہوتا ہے وہ ابتلا سے خالی نہیں رہ سکتا.ہمارے بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ وہ ایک طرف ہیں اور باپ الگ.۱
۱۹؍اگست ۱۹۰۲ء (بوقتِ شام) دلائل صداقت متقی کامنہ تو ایسے بند ہوتا ہے جیسے منہ میں روڑے ڈالے ہوئے ہوں.متقی کبھی کفر کا دائرہ وسیع کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ ایمان کا دائرہ وسیع کرنا چاہتا ہے.ان مخالف مولویوں کی نسبت میرا یہ عقیدہ تھا کہ ان میں صفائی نہیں ہے اور ملونی سے ضرور بھرے ہوئے ہیں.مگر یہ میرے وہم و خیال میں بھی نہیں تھا کہ ان سے یہ کمینہ پن ظاہر ہوگا جو انہوں نے اب میری مخالفت میں ظاہر کیا ہے.چونکہ عمر گذرتی جاتی ہے جیسے برف ڈھلتی ہے اس لیے ہر روز یہ خیال آتا ہے کہ کوئی آدمی ایسا ہو جو اُن کے پاس جاوے اور اُن کو فیصلہ کی راہ پر لاوے اور بتائے کہ ایک وہ وقت تھا کہ اﷲ تعالیٰ میری دعا کی نقل فرماتا ہے.رَبِّ لَا تَذَرْنِيْ فَرْدًا (الانبیآء : ۹۰) اور رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتٰى (البقرۃ : ۲۶۱).وہ زمانہ کہاں کہ دو آدمی ثابت کرنے مشکل ہیں.اور یا اب یہ زمانہ ہے کہ فوجیں کی فوجیں آرہی ہیں.قبل ازوقت کہ جیسا کہا تھا وہ کر دیا اور کر رہا ہے اور لوگوں کی نظروں میں عجیب.اگر کوئی سمجھنے والا ہو تو اُسے معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا نے اپنی سنّتِ قدیمہ کے موافق کیا اور جس طرح رُسُل آتے ہیں وہ اسی طرح پہچانے جاتے ہیں.مجھے انہیں آثار اور نشانات کے ساتھ شناخت کرو جو خدا کی طرف سے آتے ہیں.وہ خدا کی محکم ہدایات کے خلاف نہیں کرتے.ایسا نہیں کہ حرام کو حلال یا حلال کو حرام کر دیں.دوسرے وہ ایسے وقت میں آتے ہیں کہ وہ ضرورت کا وقت ہوتا ہے.تیسرے یہ کہ تائیدِ الٰہی کے بدوں نہیں ہوتے.صریح نظر آتا ہے کہ خدا تائید کرتا ہے.سچائی معلوم کرنے کی تین راہیں جہاں تک میں خیال کرتا ہوں سچائی کے تین ہی راہ ہیں اوّل نصوصِ قرآنیہ و حدیثیہ، دوسرے عقل، تیسرے خدا تعالیٰ کے تائیدات.ان تینوں ذریعوں سے جو چاہے ہم سے ثبوت لے مگر انسان بن کر نہ سِفلہ پن کی طرح.ہم سب کو دعوت دیتے ہیں خواہ سو روپیہ روز خرچ ہو جاوے.آکر آدمیت
سے پوچھ لیں.اب دور بیٹھے ہیں، نہ کتاب ہے، نہ غور ہے، نہ فکر ہے.سِفلہ لوگوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بد تر کام کرتے ہیں.یہ طریق تو تقویٰ کے خلاف ہے.اگر کوئی انسان ایسا ہو جو اُن پر رُعب داب رکھتا ہو وہ انہیں جا کر سمجھائے.دنیا دار لوگ اگر اُن کو کہیں تو اُن سے ڈرتے ہیں.خدا کرے کہ کوئی ایسا دنیا دار ہو جس کو اس طرف توجہ ہو اور ان کو سمجھائے اور یہی خیال کرے کہ اسلام میں پھوٹ پڑ رہی ہے اس کو ہی دور کیا جاوے.غرض ہم تو چاہتے ہیں کہ کسی طرح یہ لوگ راہ پر آویں اور ہماری مخالفت کر کے تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے کیونکہ خدا تعالیٰ خود اپنی تائید کر رہا ہے.پَرنالہ کا پانی تو ایک اینٹ سے بند کر سکتے ہیں مگر آسمان کا کون بند کر سکتا ہے.یہ خدا کے کام ہیں.چراغ کو تو پھونک مار کر بجھادیتے ہیں مگر چاند سورج کو تو کوئی پھونک مار کر بجھاوے.خدا کے کام اونچے ہیں.انسان کی وہاں پیش رفت نہیں جاتی.وہاں نہ غبارہ جاوے اور نہ ریل.یہ بھی عظمتِ الٰہی ہے.تعالیٰ شانُہٗ کامصداق ہے.آسمانی امور اونچے ہیں.وہ تو آگے ہی آگے جاتے ہیں.عذاب سے متعلق خدا تعالیٰ کی سنّت ایک شخص نے عرض کی کہ حضور میرے گائوں سے آٹھ آدمیوں نے خط بھیجا ہے کہ اگر سچے ہو تو ہم پرعذاب نازل ہو جاوے.فرمایا.خدا تعالیٰ کے کام میں جلدی نہیں ہوتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے دکھ دئیے گئے اور بعض ایسے بیباک اور شریر تھے جو کہتے تھے کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر پتھر برسیں مگر اسی وقت تو اُن پر پتھر نہ برسے.خدا تعالیٰ کی سنّت یہ نہیں کہ اسی وقت عذاب نازل کرے.اگر کوئی خدا تعالیٰ کو گالیاں دے توکیا اسی وقت اس پر عذاب آجاوے گا.عذاب اپنے وقت پر آتا ہے جبکہ جرم ثابت ہو جاتا ہے.لیکھرام ایک آریہ تھا جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت گالیاں دیا کرتا تھا.آخر خدا تعالیٰ نے اس کی شرارتوں اور شوخیوں کے بدلے اس کو سزادی اور وہی زبان چُھری ہو کر اس کی ہلاکت کا باعث ہوئی جس سے وہ ٹکڑے کیا گیا.پس خدا تعالیٰ کی یہ سنّت نہیں ہے کہ وہ اُسی وقت عذاب دے یہ لوگ کیسے بیوقوف اور بدقسمت ہوتے ہیں.عذاب مانگتے ہیں.ہدایت نہیں مانگتے.
خدا کے نزدیک قومیّت کا لحاظ نہیں اسی شخص نے کہا کہ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ سیّد ہو کر اُمتی کی بیعت کرتے ہو؟ فرمایا.خدا تعالیٰ نہ محض جسم سے راضی ہوتا ہے نہ قوم سے.اس کی نظر ہمیشہ تقویٰ پر ہے اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ( الـحجرات : ۱۴) یعنی اﷲ کے نزدیک تم سے زیادہ بزرگی رکھنے والا وہی ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہے.یہ بالکل جھوٹی باتیں ہیں کہ میں سید ہوں یا مغل ہوں یا پٹھان اور شیخ ہوں.اگر بڑی قومیت پر فخر کرتا ہے تو یہ فخر فضول ہے.مَرنے کے بعد سب قومیں جاتی رہتی ہیں.خدا تعالیٰ کے حضور قومیت پر کوئی نظر نہیں اور کوئی شخص محض اعلیٰ خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے نجات نہیں پاسکتا.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کو کہا ہے کہ اے فاطمہ! تُو اس بات پر ناز نہ کر کہ تو پیغمبر زادی ہے.خدا کے نزدیک قومیت کا لحاظ نہیں.وہاں جو مدارج ملتے ہیں وہ تقویٰ کے لحاظ سے ملتے ہیں.یہ قومیں اور قبائل دنیا کا عرف اور انتظام ہیں.خدا تعالیٰ سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی محبت تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ ہی مدارجِ عالیہ کا باعث ہوتا ہے.اگر کوئی سیّد ہو اور وہ عیسائی ہو کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے اور خدا تعالیٰ کے احکام کی بے حرمتی کرے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کو آلِ رسول ہونے کی وجہ سے نجات دے گا اور وہ بہشت میں داخل ہو جاوے گا اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ( اٰلِ عـمران : ۲۰) اﷲ تعالیٰ کے نزدیک تو سچا دین جو نجات کا باعث ہوتا ہے اسلام ہے.اگر کوئی عیسائی ہو جاوے یا یہودی ہو یا آریہ ہو وہ خدا کے نزدیک عزّت پانے کے لائق نہیں.خدا تعالیٰ نے ذاتوں اور قوموں کو اڑادیا ہے.یہ دنیا کے انتظام اور عُرف کے لئے قبائل ہیں.مگر ہم نے خوب غور کر لیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور جو مدارج ملتے ہیں ان کا اصل باعث تقویٰ ہی ہے جو متقی ہے وہ جنّت میں جاوے گا.خدا تعالیٰ اس کے لیے فیصلہ کر چکا ہے.خدا تعالیٰ کے نزدیک معزّز متقی ہی ہے.پھر یہ جو فرمایا ہے اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ( المائدۃ : ۲۸) کہ اعمال اور دعائیں متقیوں کی قبول ہوتی ہیں.یہ نہیں کہا کہ مِنَ
السَّیِّدِیْنَ.پھر متقی کے لیے تو فرمایا مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطّلاق : ۳، ۴ ) یعنی متقی کو ہر تنگی سے نجات ملتی ہے.اس کو ایسی جگہ سے رزق دیا جاتا ہے کہ اس کو گمان بھی نہیں ہوتا.اب بتائو کہ یہ وعدہ سیدوں سے ہوا ہے یا متقیوں سے.اور پھر یہ فرمایا ہے کہ متقی ہی اﷲ تعالیٰ کے ولی ہوتے ہیں.یہ وعدہ بھی سیدوں سے نہیں ہوا.ولایت سے بڑھ کر اور کیا رُتبہ ہوگا.یہ بھی متقی ہی کو ملا ہے.بعض نے ولایت کو نبوت سے فضیلت دی ہے اور کہا ہے کہ نبی کی ولایت اس کی نبوت سے بڑھ کر ہے.نبی کا وجود دراصل دو چیزوں سے مرکّب ہوتا ہے.نبوت اور ولایت.نبوت کے ذریعہ وہ احکام اور شرائع مخلوق کو دیتا ہے اور ولایت اس کے تعلقات کو خدا سے قائم کرتی ہے.پھر فرماتا ہےذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ (البقرۃ : ۳)، ھُدًی لِّلسَّیِّدِیْنَ نہیں کہا.غرض خدا تعالیٰ تقویٰ چاہتا ہے.ہاں سید زیادہ محتاج ہیں کہ وہ اس طرف آئیں کیونکہ وہ متقی کی اولاد ہیں.اس لیے ان کا فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے آئیں نہ یہ کہ خدا تعالیٰ سے لڑیں کہ یہ سادات کا حق تھا.وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ(الـجمعۃ :۵).یہ ایسی بات ہے کہ جیسے یہودی کہتے ہیں کہ بنی اسمٰعیل کو نبوت کیوں ملی.وہ نہیں جانتے تِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ ( اٰل عـمران : ۱۴۱) خدا تعالیٰ سے اگر کوئی مقابلہ کرتا ہے تو وہ مردود ہے.وہ ہر ایک سے پوچھ سکتا ہے.اُس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا.۱ اگست ۱۹۰۲ء ۲
اَخلاقِ الٰہیہ سورۂ فاتحہ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے پیش کی ہے اور اس میں سب سے پہلی صفت رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ بیان کی ہے جس میں تمام مخلوقات شامل ہے.اسی طرح پر ایک مومن کی ہمدردی کامیدان سب سے پہلے اتنا وسیع ہونا چاہیے کہ تمام چرند، پرند اور کُل مخلوق اس میں آجاوے.پھر دوسری صفت رحـمٰن کی بیان کی ہے جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ تمام جاندار مخلوق سے ہمدردی خصوصاً کرنی چاہیے اور پھر رحیم میں اپنی نوع سے ہمدردی کا سبق ہے.غرض اس سورۂ فاتحہ میں جو اﷲ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئی ہیں یہ گویا خدا تعالیٰ کے اخلاق ہیں جن سے بندہ کو حصہ لینا چاہیے.اور وہ یہی ہے کہ اگر ایک شخص عمدہ حالت میں ہے تو اس کو اپنی نوع کے ساتھ ہر قسم کی ممکن ہمدردی سے پیش آنا چاہیے.اگر دوسرا شخص جو اس کا رشتہ دار ہے یا عزیز ہے خواہ کوئی ہے اس سے بیزاری نہ ظاہر کی جاوے اور اجنبی کی طرح اس سے پیش نہ آئیں بلکہ ان حقوق کی پروا کریں جو اس کے تم پر ہیں.اس کو ایک شخص کے ساتھ قرابت ہے اور اس کا کوئی حق ہے تو اس کو پورا کرنا چاہیے.اَخلاقِ عالیہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک اپنے اخلاق دکھائے ہیں کہ بعض وقت ایک بیٹے کے لحاظ سے جو سچا مسلمان ہے منافق کا جنازہ پڑھ دیا ہے بلکہ اپنا مبارک کُرتہ بھی دے دیا ہے.اخلاق کا درست کرنا بڑا مشکل کام ہے جب تک انسان اپنا مطالعہ نہ کرتا رہے یہ اصلاح نہیں ہوتی.زبان کی بداخلاقیاں دشمنی ڈال دیتی ہیں اس لیے اپنی زبان کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہیے.دیکھو! کوئی شخص ایسے شخص کے ساتھ دشمنی نہیں کر سکتا جس کو وہ اپنا خیر خواہ سمجھتا ہے.پھر وہ شخص کیسا بیوقوف ہے جو اپنے نفس پر بھی رحم نہیں کرتا اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے جبکہ وہ اپنے قویٰ سے عمدہ کام نہیں لیتا اور اخلاقی قوتوں کی تر بیت نہیں کرتا.ہر شخص کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہیے البتہ وہ شخص جو سلسلہ عالیہ یعنی دین اسلام سے علانیہ باہر ہو گیا ہے اور وہ گالیاں نکالتا اور خطرناک دشمنی کرتا ہے اس کامعاملہ اور ہے.جیسے صحابہؓ کو مشکلات پیش آئے اور اسلام کی توہین انہوں نے اپنے بعض رشتہ داروں سے سنی تو پھر باوجود تعلّقاتِ شدیدہ کے ان کو اسلام مقدم کرنا پڑا اور ایسے واقعات پیش آئے جن میں باپ نے بیٹے کو
یا بیٹے نے باپ کو قتل کر دیا.اس لیے ضروری ہے کہ مراتب کا لحاظ رکھا جاوے.ع گر حفظِ مراتب نکنی زندیقی ایک شخص ہے جو اسلام کا سخت دشمن ہے.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے وہ اس قابل ہے کہ اُس سے بیزاری اور نفرت ظاہر کی جاوے.لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کا ہو کہ وہ اپنے اعمال میں سُست ہے تو وہ اس قابل ہے کہ اس کے قصور سے درگذر کیا جاوے اور اس سے ان تعلقات پر زَد نہ پڑے جو وہ رکھتا ہے.جو لوگ بالجہر دشمن ہو گئے ہیں اُن سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوستی نہیں کی بلکہ ابوجہل کا سر کٹنے پر سجدہ کیا.لیکن جو دوسرے عزیز تھے جیسے امیر حمزہ جن پر ایک وحشی نے حربہ چلایا تھا تو باوجودیکہ وہ مسلمان تھا.آپ نے فرمایا کہ میری نظر سے الگ چلا جا کیونکہ وہ قصہ آپ کو یاد آگیا.اس طرح پر دوست دشمن میں پوری تمیز کر لینی چاہیے اور پھر اُن سے علیٰ قدرِ مراتب نیکی کرنی چاہیے.کمزور بھائیوں کا بار اٹھائو اصل بات یہ ہے کہ اندرونی طور پر ساری جماعت ایک درجہ پر نہیں ہوتی.کیا ساری گندم تخم ریزی سے ایک ہی طرح نکل آتی ہے.بہت سے دانے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ضائع ہو جاتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو چڑیاں کھا جاتی ہیں.بعض کسی اور طرح قابلِ ثمر نہیں رہتے.غرض اُن میں سے جو ہو نہار ہوتے ہیں اُن کو کوئی ضائع نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ کے لیے جو جماعت تیار ہوتی ہے وہ بھی كَزَرْعٍ ہوتی ہے.اسی لیے اس اصول پر اس کی ترقی ضروری ہے.پس یہ دستور ہونا چاہیے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے.یہ کس قدر نامناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں.ایک تیرنا جانتا ہے اور دوسرا نہیں.تو کیا پہلے کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اس کو ڈوبنے دے؟ اس کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے.اسی لیے قرآن شریف میں آیا ہے تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى (المائدۃ :۳) کمزور بھائیوں کا بار اُٹھائو.عملی، ایمانی اور مالی کمزوریوں
میں بھی شریک ہو جائو.بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو.کوئی جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے اور اس کی یہی صورت ہے کہ اُن کی پردہ پوشی کی جاوے.صحابہؓ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چڑو کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے.اسی طرح یہ ضرور ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت ملائمت کے ساتھ برتائو کرے.دیکھو! وہ جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چار مل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور اُن کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں.ایسا ہرگز نہیں چاہیے.بلکہ اجماع میں چاہیے کہ قوت آجاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ ذرا ذرا سی بات پر اختلاف پیدا ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مخالف لوگ جو ہماری ذرا ذرا سی بات پر نظر رکھتے ہیں معمولی باتوں کو اخباروں میں بہت بڑی بنا کر پیش کر دیتے ہیں اور خلق کو گمراہ کرتے ہیں.لیکن اگر اندرونی کمزوریاں نہ ہوں تو کیوں کسی کو جرأت ہو کہ اس قسم کے مضامین شائع کرے اور ایسی خبروں کی اشاعت سے لوگوں کو دھوکا دے.کیوں نہیں کیا جاتا کہ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے.اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی، محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے اور تمام عادتوں پر رحم اور ہمدردی، پردہ پوشی کو مقدم کر لیا جاوے.ذرا ذرا سی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئیں جو دل شکنی اور رنج کاموجب ہوتی ہیں.یہاں مدرسہ ہے، مطبع ہے مگر کیا اصل اغراض ہمارے یہی ہیں یا اصل امور اور مقاصد کے لیے بطور خادم ہیں؟ کیا ہماری غرض اتنی ہی ہے کہ یہ لڑکے پڑھ کر نوکر یاں کریں یا کتابیں بیچتے رہیں.یہ تو سِفلی اُمور ہیں ان سے ہمیں کیا تعلق.یہ بالکل ابتدائی امور ہیں.اگر مدرسہ چلتا رہے تب بھی بنظرِ ظاہر بیس برس تک بھی یہ اس حالت تک نہیں پہنچ سکتا جو اس وقت علیگڑھ کالج کی ہے.یہ اَمر دیگر ہے کہ اگر خدا چاہے تو ایک دم میں ہی علیگڑھ کالج سے بھی بڑا بنادے مگر ہماری ساری طاقتیں اور قوتیں اسی ایک اَمر میں خرچ ہوجانی ضرور نہیں ہیں.
اخوت و ہمدردی کی نصیحت ہماری جماعت کو سرسبزی نہیں آئے گی جب تک وہ آپس میں سچی ہمدردی نہ کریں.جس کو پوری طاقت دی گئی ہے وہ کمزور سے محبت کرے.میں جو یہ سنتا ہوں کہ کوئی کسی کی لغزش دیکھتا ہے تو وہ اس سے اخلاق سے پیش نہیں آتا بلکہ نفرت اور کراہت سے پیش آتا ہے حالانکہ چاہیے تو یہ کہ اس کے لیے دعا کرے، محبت کرے اور اُسے نرمی اور اخلاق سے سمجھائے مگر بجائے اس کے کینہ میں زیادہ ہوتا ہے.اگر عفو نہ کیا جاوے، ہمدردی نہ کی جاوے اس طرح پر بگڑتے بگڑتے انجام بد ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کو یہ منظور نہیں.جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرے.پردہ پوشی کی جاوے.جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں.ایک شخص کا بیٹا ہو اور اس سے کوئی قصور سرزَد ہو تو اس کی پردہ پوشی کی جاتی ہے اور اس کو الگ سمجھایا جاتا ہے.بھائی کی پردہ پوشی کبھی نہیں چاہتا کہ اس کے لئے اشتہار دے.پھر جب خدا تعالیٰ بھائی بناتا ہے تو کیا بھائیوں کے حقوق یہی ہیں؟ دنیا کے بھائی اخوت کا طریق نہیں چھوڑتے.میں مرزا نظام الدین وغیرہ کو دیکھتا ہوں کہ ان کی اباحت کی زندگی ہے مگر جب کوئی معاملہ ہو تو تینوں اکٹھے ہو جاتے ہیں.فقیری بھی الگ رہ جاتی ہے.بعض وقت انسان جانور بندر یا کتّے سے بھی سیکھ لیتا ہے.یہ طریق نامبارک ہے کہ اندرونی پھوٹ ہو.خدا تعالیٰ نے صحابہؓ کو بھی یہی طریق و نعمت اخوت یاد دلائی ہے.اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوت ان کو نہ ملتی جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کو ملی.اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اسی قسم کی اخوت وہ یہاں قائم کریگا.خدا تعالیٰ پر مجھے بہت بڑی اُمیدیں ہیں.اُس نے وعدہ کیا ہے جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ( اٰل عـمران : ۵۶).میں یقیناً جانتا ہوں کہ وہ ایک جماعت قائم کرے گا.جو قیامت تک منکروں پر غالب رہے گی.مگر یہ دن جو ابتلا کے دن ہیں اور کمزوری کے ایام ہیں ہر ایک شخص کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کرے اور اپنی حالت میں تبدیلی کرے.دیکھو! ایک دوسرے کا شکوہ کرنا،دل آزاری کرنا اور سخت زبانی کر کے
دوسرے کے دل کو صدمہ پہنچانا اور کمزوروں اور عاجزوں کو حقیر سمجھنا سخت گناہ ہے.اب تم میں ایک نئی برادری اور نئی اخوت قائم ہوئی ہے.پچھلے سلسلے منقطع ہو گئے ہیں.خدا تعالیٰ نے یہ نئی قوم بنائی ہے جس میں امیر، غریب، بچے، جوان، بوڑھے ہر قسم کے لوگ شامل ہیں.پس غریبوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے معزز بھائیوں کی قدر کریں اور عزّت کریں اور امیروں کا فرض ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کریں ان کو فقیر اور ذلیل نہ سمجھیں کیونکہ وہ بھی بھائی ہیں گو باپ جُدا جُدا ہوں مگر آخر تم سب کا روحانی باپ ایک ہی ہے اور وہ ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں.جھوٹ کی مذمّت بدکاری فسق و فجور سب گناہ ہیں.مگر یہ ضرور دیکھا جاتا ہے کہ شیطان نے یہ جو جال پھینکا ہے اُس سے بجز خدا کے فضل کے کوئی نہیں بچ سکتا.بعض وقت یونہی جھوٹ بول دیتا ہے مثلا باز یگر نے دس ہاتھ چھلانگ ماری ہو تو محض دوسروں کو خوش کرنے کے لیے یہ بیان کر دیتا ہے کہ چالیس ہاتھ کی ماری ہے.اس قسم کی شرارتیں شیطان نے پھیلا رکھی ہیں اس لیے چاہیے کہ تمہاری زبانیں تمہارے قابو میں ہوں.ہر قسم کے لغو اور فضول باتوں سے پر ہیز کرنے والی ہوں.جھوٹ اس قدر عام ہو رہا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں.درویش، مولوی، قصہ گو، واعظ اپنے بیانات کو سجانے کے لیے خدا سے نہ ڈر کر جھوٹ بول دیتے ہیں اور اس قسم کے اور بہت سے گناہ ہیں جو ملک میں کثرت کے ساتھ پھیلے ہوئے ہیں.۱ قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رجس قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا ہےفَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (الـحج : ۳۱) دیکھو! یہاں جھوٹ کو بُت کے مقابل رکھا ہے اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بُت ہی ہے ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے.جیسے بُت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمع سازی کے اور کچھ بھی نہیںہوتا.جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہاں تک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو.اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا
جھوٹ کم ہو جاوے تو جلدی سے دور نہیں ہوتا.مدت تک ریاضت کریں تب جاکر سچ بولنے کی عادت اُن کو ہوگی.کثرتِ گناہ اور اس کا علاج اسی طرح پر اور قسم قسم کی بدکاریاں اور شرارتیں ہو رہی ہیں.غرض دنیا میں گناہ کے سیلاب کا طوفان آیا ہوا ہے اور اس دریا کا گویا بند ٹوٹ گیا ہے.اب سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ گناہ جو کیڑوں کی طرح چل رہے ہیں کوئی ایسی صورت بھی ہے کہ جس سے یہ بلا دور ہو جائے اور دنیا جو خباثت اور گناہ کے زہر اور لعنت سے بھر گئی ہے کسی طرح پر صاف ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اس سوال کو قریباً تمام مذہبوں اور ملتوں نے محسوس کیا ہے.اور اپنی اپنی جگہ پروہ کوئی نہ کوئی علاج بھی گناہ کا بتاتے ہیں.مگر تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ اس زہر کا تریاق کسی کے پاس نہیں.اُن کے علاج استعمال کرکے مرض بڑھا ہے گھٹا نہیں.مثال کے طور پر ہم عیسائی مذہب کا نام لیتے ہیں.اس مذہب نے گناہ کا علاج مسیح کے خون پر ایمان لانا رکھا ہے کہ مسیح ہمارے بدلے یہودیوں کے ہاتھوں صلیب لٹکایا جا کر جو ملعون ہو چکا ہے اس کی لعنت نے ہم کو برکت دی.یہ عجیب فلاسفی ہے جو کسی زمانہ اور عمر میں سمجھی نہیں جا سکتی.لعنت برکت کاموجب کیوں کر ہو سکتی ہے اور ایک کی موت دوسرے کی زندگی کا ذریعہ کیوں کر ٹھہرتی ہے؟ ہم عیسائیوں کے اس طریق علاج کو عقلی دلائل کے معیار پر بھی پرکھنے کی ضرورت نہ سمجھتے اگر کم از کم عیسائی دنیا میں یہ نظر آتا کہ وہاں گناہ نہیں ہے.لیکن جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہاں حیوانوں سے بھی بڑھ کر ذلیل زندگی بسر کی جاتی ہے تو ہم کو اس طریق انسداد گناہ پر اور بھی حیرت ہوتی ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ اس سے بہتر تھا کہ یہ کفارہ نہ ہوا ہوتا جس نے اباحت کا دریا چلا دیا.اور پھر اس کو معافی گناہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے.اسی طرح پر دوسرے لوگوں نے جو طریق نجات کے ایجاد کئے ہیں وہ اس قابل نہیں ہیں کہ اُن سے گناہ کی زندگی پر کبھی موت وارد ہوئی ہو.پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شریر اور خطا کار قومیں معجزات دیکھ کر پیشگوئیاں دیکھ کر باز نہیں آئیں.حضرت موسٰی کے معجزات کیا کم تھے؟ کیا بنی اسرائیل نے کھلے کھلے نشان
نہ دیکھے تھے مگر بتائو کہ اُن میں وہ تقویٰ، وہ خدا ترسی اور نیکی جو حضرت موسیٰ چاہتے تھے کامل طور پر پیدا ہوئی آخر ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ ( البقرۃ : ۶۲) کے مصداق وہ قوم ہو گئی.پھر حضرت مسیح کے معجزات دیکھنے والے لوگوں کو دیکھو کہ اُن میں کہاں تک نیکی اور پرہیز گاری اور وفاداری کے اصولوں کی رعایت تھی.اُن میں سے ہی ایک اٹھا اور اے ربّی !تجھ پر سلام کہتے ہوئے پکڑوادیا.اور دوسرے نے سامنے لعنت کی.ان ساری باتوں کو دیکھ کر پھر سوال ہوتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو انسان کو واقعی گناہ سے روک سکتی ہے؟ میرے نزدیک خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت ایسی چیز ہے جو انسان کی گناہ کی زندگی پر موت وارد کرتی ہے.جب سچا خوف دل میںپیدا ہوتا ہے تو پھر دعا کے لیے تحریک ہوتی ہے اور دعا وہ چیز ہے جو انسان کی کمزوریوں کا جبرِ نقصان کرتی ہے.اس لیے دعا کرنی چاہیے.خدا تعالیٰ کا وعدہ بھی ہے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : ۶۱) بعض وقت انسان کو ایک دھوکا لگتا ہے کہ وہ عرصہ دراز تک ایک مطلب کے لیے دعا کرتا ہے اور وہ مطلب پورا نہیں ہوتا تب وہ گھبرا جاتا ہے، حالانکہ گھبرانا نہ چاہیے بلکہ ’’طلبگار باید صبور و حمول‘‘ دعا تو قبول ہو جاتی ہے لیکن انسان کو بعض دفعہ پتہ نہیں لگتا.کیونکہ وہ اپنے دعا کے انجام اور نتائج سے آگاہ نہیں ہوتا اور اﷲ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے اس کے لیے وہ کرتا ہے جو مفید ہوتا ہے.اس لیے نادان انسان یہ خیال کر لیتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی حالانکہ اس کے لیے اﷲ تعالیٰ کے علم میں یہی مفید تھا کہ وہ دعا اس طرح پر قبول نہ ہو بلکہ کسی اور رنگ میں ہو.اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک بچہ اپنی ماں سے آگ کا سرخ انگارہ دیکھ کر مانگے تو کیا دانش مند ماں اُسے دیدے گی؟ کبھی نہیں.اسی طرح پر دعا کے متعلق بھی ہوتا ہے.غرض دعائیں کرنے سے کبھی تھکنا نہیں چاہیے.دعا ہی ایسی چیز ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قوت اور نور عطا کرتی ہے جس سے انسان بدی پر غالب آجاتاہے.صداقت کے دلائل اور نشانات مجھے بارہا اس اَمر کا خیال آیا ہے کہ ہماری جماعت یہ افسوس نہیں کر سکتی کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے کچھ نہیں دکھایا
ہے بلکہ یہاں تو اس قدر ثبوت اور نشان اس نے جمع کر دئیے ہیں کہ سلسلہ نبوت میں اس کی نظیریں بہت تھوڑی ملیں گی.اللہ تعالیٰ نے کوئی پہلو ثبوت کا خا لی نہیں رکھا.نصو صِ قرآنیہ و حدیثیہ ہماری تائید کرتے ہیں اور عقل اور قانو نِ قدرت ہماری مؤید و معاون ہیں.آسمانی تائیدات اور شواہد ہمارے ساتھ ہیں.پھر کسی پہلو میں کمی نہیں.میں نے ارادہ کیا ہوا ہے کہ اپنی جماعت کی سہو لت اور آسانی کے لیے تین قسم کی تر تیبیں اپنے دعاوی اور دلائل کے متعلق دوں اور پھر وہ تر تیب شدہ نقشہ چھاپ دیا جاوے.ایک نقشہ تو حرو فِ تہجی کی تر تیب پر ان نصوصِ قرآنیہ اورحدیثیہ کاہو جو ہمارے مؤید ہیں دوسرا نقشہ عقلی دلائل اور قانونِ قد رت کے شواہد کا ہو.یہ بھی حرو فِ تہجی کی ترتیب سے ہو.ایسا ہی تیسرا نقشہ ان نشانات اورتائیدات ِسماویہ کا ہو جو ہمارے لیے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیے تھے.یا خدا تعالیٰ نے ہمارے ہاتھ پر ظاہر کئے.مثلاًان کی ترتیب یوں سمجھئے.(الف) ۱.اِبْرَاء اس سے اِبراء کا نشان لو.یہ وہ نشان ہے جو مسٹر ڈگلس ڈپٹی کمشنر گورد اسپور کے سامنے پورا ہوا.امر تسر کے ایک پادری ڈاکٹر کلارک نے مجھ پر اقدامِ قتل کامقدمہ بنایا تھا کہ عبدالحمید نام ایک شخص کو گویا میں نے اس کے قتل کے لیے بھیجا ہے.یہ مقدمہ مسٹر ڈگلس کے سامنے پیش ہو ا او رخدا تعالیٰ کے وعدہ اورپیشگوئی کے موافق مجھے بَری کیا جیساکہ پہلے الہام اِبْرَاء ( بے قصورٹھہرانا ) ہو چکا تھا.جو لوگ اس وقت یہاں ہمارے پاس موجود تھے اور دوسرے مقامات کے لوگ بھی اس اَمر کے گواہ ہیں کیونکہ مولوی عبدالکریم صاحب کی عادت ہے کہ جب کوئی الہام وہ سنتے ہیں اُسے فوراً بذریعہ خطوط پھیلا دیتے ہیں.اس طرح پر یہ الہامات جو اس مقدمہ کے نام و نشان سے بھی پہلے ہوئے تھے ہماری اپنی جماعت میں پورے طور پر اشاعت پاچکے تھے اور وہ سب لوگ جانتے ہیں کہ مقدمہ سے پہلے اِنْ ھٰذَااِلَّا تَـھْدِیْدُالْـحُکَّامِ اور صادق آن با شد کہ ایّام بلا....الخ وغیرہ الہام ہوئے تھے اور ان
سب کے بعد اللہ تعالیٰ نے خبر دے دی تھی کہ اِبْرَاء ( بے قصور ٹھہرانا ).ایک دانش مند اور سلیم الفطرت اس عظیم الشان نشان سے بہت بڑافائدہ اُٹھا سکتا ہے.اگراللہ تعالیٰ کی عظمت دل میں نہ ہو تو اوربات ہے مگر خداترس اور متقی آدمی سمجھ لیتا ہے کہ یہ پیشگوئی اس طرز کی نہیں ہے جیسے راول ہاتھ دیکھ کر اناپ شناپ بتا دیتے ہیں.یہ خدا کی باتیں ہیں جو قبل از وقت ہزارہا انسانوں میں مشتہر ہوئیں اور آخر اسی طرح ہوا ورنہ کیا کسی کے خیال اور وہم میں یہ بات آسکتی تھی کہ مِثل پورے طور پر مرتّب ہو جاوے اور عبدالحمید اپنا اظہار بھی دے کہ ہاں مجھے بھیجا ہے.آخری وقت پر جو فیصلہ لکھنے کا وقت سمجھا جاتا ہے خدا تعالیٰ نے مسٹر ڈگلس کے دل میں القا کیا کہ یہ مقدمہ بناوٹی ہے اور اس کے دل کو غیر مطمئن کردیا چنانچہ اس نے کپتان لیمارچنڈ کو ( جوڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا ) کہا کہ میرا دل اس سے تسلّی نہیں پاتا.بہتر ہے کہ تم اس مقدمہ کی تفتیش کرو اور عبدالحمید سے اصل حالات معلوم کرو.چنانچہ جب کپتان لیمارچنڈ نے اس سے پوچھا تو اس نے پھر وہی پہلا بیان دیا.مگر جب کپتان صاحب نے اسے کہاکہ تو سچ سچ بتا.عبدالحمید رو پڑا اور اقرار کیا کہ مجھے تو سکھایاگیا تھا.اب بتاؤ کہ کیا یہ انسان کا کام ہے.کیا ہر روز یہ لوگ مقدمات میں اسی طرح کیا کرتے ہیں.واقعات پر فیصلے دیتے ہیں یا دل کی تسلیوں کو دیکھتے ہیں.نہیں یہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ تھا جو وہ وعدہ کرچکا تھا وہی ہونا تھا.پس اِبْرَاء کا نشان عظیم الشّان نشان ہے جو الف کی مد میں ہے.۲.اٰوٰی اور پھر اسی طرح اس مد میں اٰوٰی کا نشان ہے جو خدا تعالیٰ نے قادیان کوطاعون کی افراتفری سے محفوظ رکھنے کے متعلق دیا ہے اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ.ملک میں طاعون کثرت سے پڑاہو اہے اورخدا تعالیٰ قادیان کے انتشار اور موتُ الکلاب سے محفوظ رہنے کی بشارت دیتا ہے کہ اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے.یعنی اس گاؤں پر خصوصیت سے فضل رہے گا.اٰوٰی کے اصل معنی یہ ہیں کہ اُسے منتشر نہ کیا جاوے اور جبکہ عام طور پر قانوناً یہ اَمر روارکھا گیا ہے کہ کسی گاؤں کو جبراً باہر نہ نکالا جاوے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مُراد یہ ہے کہ وہ افراتفری اور موتُ الکلاب جو دوسرے شہروں میں پڑی ہے اس سے خدا تعالیٰ قادیان کو محفوظ رکھے یعنی یہاں طاعونِ جارف نہ ہوگی.
اَ بْنَاء پھر اسی طرح الف کی مد میں اَبناء کا نشان ہے.کتابوں اور اشتہاروں کو پڑھو تو صاف معلوم ہوگا کہ ہر ایک کی پیدائش سے پہلے ایک اشتہار دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ لڑکا پیدا ہوگا.چنانچہ ان اشتہاروں کے موافق یہ لڑکے پیداہوئے ہیں اور پھر یہاں تک کہ تعداد بھی بتادی کہ چارلڑکے ہوں گے اور چوتھے لڑکے کی بابت یہ بھی اعلان کردیا گیا تھا کہ عبدالحق نہ مَرے گا جب تک چوتھالڑکا پیدا ہونے کی خبر نہ سُن لے.ایسا ہی مولوی صاحب ( مولوی نور الدین صاحب) کے بیٹے کی بابت جب سعداللہ نے اعتراض کیا تو خدا تعالیٰ نے میری دعاؤں کے بعد مجھے بشارت دی کہ مولوی صاحب کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا.یہاں تک کہ اس کے بدن پر پھوڑوں کے نشان کا بھی پتہ دیا گیا اور اس کا علاج بھی بتایا گیا.اب کیا اشتہار پہلے سے نہیں دیاگیا تھا؟ اب دیکھ لو کہ اس اشتہار کے موافق وہ بچہ عبدالحی نام مولوی صاحب کے گھر میں پیدا ہوگیا اور اس کے پھوڑوں کے نشانات بھی ہیں.یہ وہی خصوصیتیں ہیں جو انبیاء بنی اسرائیل کے وقت ہواکرتی ہیں.۴.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ پھر اس کے ساتھ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کا نشان ہے.یہ بہت پرانا الہام ہے اوراس وقت کا ہے جب کہ میرے والد صاحب مرحوم کا انتقال ہو ا.میں لاہور گیا ہو ا تھا.مرزا صاحب کی بیماری کی خبر جو مجھے لاہور پہنچی میں جمعہ کو یہاں آگیا تو دردِ گردہ کی شکا یت تھی.پہلے بھی ہو اکرتا تھا اس وقت تخفیف تھی.ہفتہ کے دن دوپہر کو حقہ پی رہے تھے اور ایک خدمت گار پنکھاکررہا تھا.مجھے کہا کہ اب آرام کا وقت ہے تم جا کر آرا م کرو مَیں چوبارہ میں چلا گیا.ایک خدمت گا ر جمال نام میرے پاؤں دبارہا تھا.تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہو ا وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ اور معاً اس کے ساتھ یہ تفہیم ہوئی.اب میں نہیںکہہ سکتا کہ لفظ پہلے آئے یا تفہیم.قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اس حادثہ کی جو غروبِ آفتاب کے بعد ہونے والا ہے.گویا خدا تعالیٰ عزا پرسی کرتا ہے.یہ ایک عجیب بات ہے جس کو ہر ایک نہیں سمجھ سکتا.ایک مصیبت بھی آتی ہے اور خدا اس کی عزاپرسی بھی کرتا ہے چونکہ ایک نیا
عالَم شروع ہونے والا تھا اس لیے خدا تعالیٰ نے قسم کھائی.مجھے یہ دیکھ کر خدا تعالیٰ کا عجیب احسان محسوس ہو ا کہ میرے والدصاحب کے حادثہ انتقال کی وہ قسم کھاتا ہے اس الہا م کے ساتھ ہی پھر معاً میرے دل میں بشریت کے تقاضے کے موافق یہ خیال گذرا.اور میں اس کو بھی خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے سمجھتا ہوں کہ چونکہ معاش کے بہت سے اسباب ان کی زندگی سے وابستہ تھے.کچھ انعام انہیں ملتا تھا اور کچھ اور مختلف صورتیں آمدنی کی تھیں جس سے کوئی دو ہزار کے قریب آمدنی ہوتی تھی.میں نے سمجھاکہ اب وہ چونکہ ضبط ہوجائیں گے اس لیے ہمیں ابتلا آئے گا.یہ خیال تکلّف کے طور پر نہیں بلکہ خداہی کی طرف سے میرے دل میں گذرا.اور اس کے گذرنے کے ساتھ ہی پھر یہ الہام ہو ا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ یعنی کیا اللہ اپنے بندہ کے لیے کافی نہیں ہے چنانچہ یہ الہام میں نے ملاوامل اور شرمپت کی معرفت ایک انگشتری میں اسی وقت لکھوا لیا تھا جو حکیم محمد شریف کی معرفت امرتسر سے بنوائی تھی اور وہ انگشتری میں کھدا ہوا الہام موجود ہے.اب دیکھ لو کہ اس وقت سے لے کر آج تک کیسا تکفّل کیا.اگر کسی کو شک ہو تو ملاوامل اور شرمپت سے پو چھ لے.محمدشریف کی اولاد موجود ہے.شاید وہ مہر کن بھی موجود ہو.تکفّل بڑھتا گیا ہے یا نہیں جس جس قدر ضرورتیں پیش آتی گئی ہیں خو داس نے اپنے وعدہ کے موا فق تکفّل کیا ہے اور کر تا ہے.اب بتاؤ کہ کیا یہ کوئی چھو ٹاسا نشان ہے.اس طرح پر الف میں اور بہت سے نشان آسکتے ہیں.(ب) ۱.بشیر پھر اب ب کی مدمیں دیکھو.بشیر ہے.یہ لڑکا بشیر جو اَب مو جو د ہے اس کی بابت پہلے اشتہار ہوا تھا اور اس اشتہا ر کے موافق یہ پیدا ہوا.پھر اس کی آنکھوں سے اس قدر پانی جاری تھا کہ آنکھیںبوٹی کی طرح سر خ ہو گئی تھیں اور مجھے اند یشہ تھا کہ آنکھوں کو خطرناک نقصان نہ پہنچے.اس وقت
میں نے دعا کی تب الہام ہوا بَرَّقَ طِفْلِیْ بَشِیْرٌ.بہت سے لو گ اس الہام کے بھی گواہ موجود ہیں کیونکہ میں الہام پو شیدہ تو رکھتا ہی نہیں ہوں.تبریق کے معنے ہیں آنکھوں کا اچھا ہو نا.چنانچہ ہفتہ بھی نہ گذرا تھا کہ یہ با لکل اچھا ہو گیا.۱ ۲.بشمبر داس اسی طرح ب کی مد میں بشمبر داس کو داخل کر تے ہیں.بشمبر داس قادیا ن کا رہنے والا ایک ہندو تھا اور ایک خوشحا ل بر ہمن جو اس وقت پٹواری تھا.یہ دو نوں ایک مقدمہ میں ماخو ذ ہو ئے.جس میں خوشحال کو دو سال اور بشمبر داس کو ایک سال کی قید کی سزاہوئی.شرمپت رائے نے آکر مجھے دعا کے واسطے کہا اور میں نے دعا کی تو میں نے کشف میں دیکھا کہ میں نے اپنے ہا تھ سے اس کی نصف قید کاٹ دی ہے اور پھر میں نے دیکھا کہ مِثل واپس آکر نصف قید رہ جاوے گی اور خوشحال اپنی پوری سزا بھگتے گا.یہ خبر میںنے پہلے ہی شرمپت کو دے دی.وہ اب تک زندہ موجود ہے اور اگراس کو قسم دے کر پو چھا جاوے تو وہ انکار نہ کرے گا.غرض آخر جس طرح پر میں نے خبر دی تھی اور مجھے دکھایا گیا تھا وہی ظہور میں آیا یعنی مِثل واپس آئی اور اس میں بشمبرکی نصف سزا رہ گئی.وہ نصف قید بھگت کر رہا ہوا.اس پر شرمپت نے کہا کہ تم چونکہ متقی ہو اس لیے دعا قبو ل ہو گئی.چو نکہ اسلام کے ساتھ ان لوگوں کو بغض اور عداوت ہے اس لیے شرارت سے اسلام کی تعریف نہ کی.اس مقدمہ میں جب اپیل کیا گیا تو رات کو علی محمد نام ایک شخص آیا اور اس نے آکر خبر دی کہ وہ بَری ہوگئے ہیں.مجھے یہ خبر سن کر تعجب ہوا کیونکہ میں نے مذکورہ بالا پیشگوئی کی تھی.اس تردّد میں جب میں نے نماز پڑھی تو نماز ہی میں الہام ہوا اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى.وہ رات تو اسی طرح گذر گئی اور میں نے مزید تحقیقات نہ کی لیکن صبح کو اصل حال معلوم ہو گیا کہ اپیل لے گئے تھے جس سے یہ غلط نتیجہ نکال لیا گیا کہ وہ بَری ہو گئے ہیں.آخرجیسا کہ میں نے کہا ہے اسی طرح پیشگوئی کے موافق مِثل واپس آئی اور اس میں بشمبر کی قید نصف رہ گئی اور خوشحال کو پوری سزا بھگتنی پڑی.اب بتاؤ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کیسے زبر دست نشان ہیں.اب
پھر اسی طرح جھنڈاسنگھ نامی ایک زمیندار کے ساتھ درخت کاٹنے کامقدمہ تحصیل میں دائرتھا.مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہواکہ ڈگری ہو جائے گی.جب کوئی دس بارہ دن ہوئے تو لوگوں نے جو بٹالہ سے آئے کہا کہ وہ مقدمہ خارج ہوگیا ہے اور خود اس نے بھی آکر بطور تمسخر کہا کہ مقدمہ خارج ہو گیا.مجھے اس خبر کے سننے سے اتنا غم ہوا کہ کبھی کسی ماتم سے بھی نہیں ہوا.میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ڈگری کی خبر دی تھی یہ کیا کہتے ہیں.وہ اسامی تھے اور ہم مالک تھے اورمالک کی اجازت کے بغیر وہ درخت کاٹنے کے مجاز نہ تھے مختلف قسم کے پند۱۵رہ یا سو۱۶لہ آدمی اس مقدمہ میں تھے.مجھے بہت ہی غم محسوس ہوا اور میں جیسے کوئی مبہوت ہوجاتا ہے سراسیمہ ہو کر سجدہ میںگر پڑا اور دعاکی تب ایک بلند آواز سے الہام ہوا ’’ڈگری ہوئی ہے مسلمان ہے.‘‘ یعنی آیا باور نمے کنی.صبح کو جب میں تحصیل میں گیا تو وہاں جاکر ایک شخص سے جو حاکم کا سررشتہ دار تھا.میں نے دریافت کیا کہ کیا فلاں مقدمہ خارج ہوگیا ہے.اس نے کہا نہیںا س میں تو ڈگری ہوگئی ہے.پھر میں نے اس سے کہا کہ انہوں نے گاؤں میں مشہور کیا ہے کہ وہ مقدمہ خارج ہو گیاہے یہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا اصل بات یہ ہے کہ اس خبر میں وہ بھی سچے ہیں.جب حافظ ہدایت علی صاحب فیصلہ لکھنے لگے تو میں کہیں باہر چلاگیا تھا، جب باہر سے آیا تو انہوں نے روبکارمجھے دی کہ یہ مقدمہ خارج کر دیا ہے.سر رشتہ دار کہتا ہے کہ تب میں نے ان کو کہا کہ تم نے غلطی کی ہے.اس نے کہانہیں میں نے کمشنرکا فیصلہ جو انہوں نے پیش کیا تھادیکھ لیا ہے.میں نے ان کو کہا کہ فنانشل کمشنر کا فیصلہ بھی تو دیکھناتھا.پھر اسے معلوم ہواکہ وہ فیصلہ جو اس نے کیا تھا وہ غلط ہے.اس نے رو بکار لے کر پھاڑ کر پھینک دی اور دوسری روبکارلکھی جس میںڈگری کافیصلہ دیا اور اس طرح پر پیشگوئی جوخدا تعالیٰ نے قبل ازوقت مجھے بتلائی تھی پوری ہوئی.اس پیشگوئی کے بھی بہت سے لوگ گواہ ہیں اور ابتک موجود ہیں.(ث) ۱.ثَـمَانِیْـنَ حَوْلًا.پھر ث میں ثَـمَانِیْنَ حَوْلًا کی پیشگوئی ہے.اس پیشگوئی پر ایک زمانہ گزر گیا.کوئی شخص
ایک دم کے لیے بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں زندہ رہوں گا لیکن ایک خاص تعداد سالوں تک کی خبر دے دینا کیا یہ انسانی طاقت کا کام ہے.اور پھر میرے جیسے آدمی کے لیے تو یہ قیافہ سے بھی ممکن نہیں جس کو دوبیماریاں لگی ہوئی ہیں.باوجود ان بیماریوں اور ضعفوں کے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ دینا کہ تیری اسّی۸۰ برس کے قریب عمر ہوگی کیسا عجیب ہے.اور حقیقت میں خداہی کی طرف سے اس قسم کی خبر ہوسکتی ہے ورنہ عاجز انسان کچھ نہیںکہہ سکتا.یہ پیشگوئی بھی پوری شدہ ہی سمجھ لیجیے کیونکہ بہت عرصہ اس پر گزر گیا ہے اور میری عمر اب ساٹھ سے متجاوز ہو چکی ہے.۲.ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ پھر ث ہی کی مدّمیں ایک اور پیشگوئی ہے جو اس سے بھی عجیب تر اور عظیم الشان ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَ ثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ.اس سے ایک عظیم الشان جماعت کے قائم کرنے کی خبر دیتا ہے.جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی تھی اس وقت ایک آدمی بھی ہم کو نہیں جانتا تھا اور کو ئی یہاں آتا جاتا نہ تھا.براہین احمدیہ میں یہ الہام درج ہے لیکن اب دیکھ لو کہ ستر۷۰ ہزار سے زیادہ آدمی اس سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں اور دن بدن ترقی ہو رہی ہے.خاص قادیان میں ایک کثیر جماعت موجود رہتی ہے.پھر کیا یہ کوئی جھوٹ بات ہے.یہ خدا کے کام ہیں اور لوگوں کی نظروں میں عجیب.اور بھی ث کی مدّمیں پیشگو ئیاں ہیں مگر میں اس وقت صرف مثال کے طور پر ایک دو بیان کرتا ہوں.(ج) جنازہ اسی طرح ج کی مد میں جنازہ کاالہام ہے.جب ہمارے بڑے بھائی صاحب مرزا غلام قادر مرحوم فوت ہوئے توان کے مَرنے سے پہلے جنازہ کا الہام ہوا تھا.۲.جمال الدین اور اسی طرح جمال الدین کے متعلق بھی الہام ہواتھا.خواجہ جمال الدین صاحب جب اپنے امتحان منصفی میں فیل ہوئے تو میں نے دعاکی الہام ہوا سَیُغْفَرُ لَہٗ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر ان کو جگہ دے دی.
جمع بَیْنَ الصَّلٰوتَین پھر ج ہی کی مد میں جمع بین الصلوٰتین کی پیشگوئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے لیے ایک نشان ٹھہرایا ہے.اس پیشگوئی کو پوراکرنا اختیاری اَمر نہیں ہے.موت سر پر ہے.خدا جو چاہتاہے کرتاہے.وہ خود اس کی تکمیل کررہاہے.جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو عزّت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت بھی نہیں کرتا ہے.اس پیشگوئی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے کیونکہ لکھا ہے کہ تُـجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ یعنی اس کے لیے نماز جمع کی جاوے گی.ایسے امور جمع ہو جائیں گے کہ اس کے لیے نمازیں جمع کی جاویں گی یا ایسے امور جمع ہوجائیں گے کہ اس کے لئے نمازیں جمع کرنی پڑیں گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت جو میں اپنا اعتقاد رکھتا ہوں اس کومیں کسی کے دل میں نہیں ڈال سکتا.میں ایک سچے مسلمان کے لیے یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ ان امور کے ساتھ جو آپ کی نبوت کے لیے بطور شہادت ہوں محبت کی جاوے.ان میں سے یہ پیشگوئیاں بھی ہیں.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کشفی کیسی تیز ہے.اور آپ کی نگاہ کیسی دور تک پہنچنے والی تھی کہ آپؐنے سارا نقشہ اس زمانہ کا کھینچ کر دکھایا.ہم اس پیشگوئی کو جو تُـجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ ہے بہت ہی بڑی عزّت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اس کے پورا ہونے پر ہمیں ایک راحت اور لذّت آتی ہے جو دوسرے کے آگے بیان نہیں کر سکتے کیونکہ لذّت خواہ جسمانی ہو،خواہ روحانی، ایک ایسی کیفیت اور اثر ہے جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے کمال درجہ کی عزّت اور صداقت ثابت ہوتی ہے کہ آپ نے جو کچھ فرمایا وہ پورا ہوا.اب بتائو کہ کیا یہ امور جو جمع نماز کے موجب ہوئے ہیں خود ہم نے پیدا کر لیے ہیں یا خدا تعالیٰ نے یہ تقریب پیدا کر دی ہے؟ صحابہؓ نے اس پیشگوئی کو سنا مگر پوری ہوتے نہیں دیکھا اور اب جو پیشگوئی پوری ہوئی اور انہیں اس کی خبر ملتی ہے تو
انہیں کیسی لذّت آتی ہے؟ میں سچ کہتا ہوں کہ جیسا اس پیشگوئی کے پورا ہونے سے ہم ایک لُطف اور لذّت اٹھارہے ہیں آسمان پر بھی ایک لذّت ہے.اس لیے کہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور عظمت کا اظہار ہوتا ہے.صوفیوں نے لکھا ہے کہ بعض زمینی امور ایسے ہوتے ہیں کہ آسمان پر اُن کی خبر دی جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی خبر دی جاتی ہے اور اس کا انتشار ہوتا ہے.غرض یہ بڑی عظیم الشان پیشگوئی ہے جس سے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہوتی ہے اُن کو حقیر سمجھنا کفر ہے.یہ دوسرا نشان ہے.ایک طرف ہماری صداقت کے لئے کیونکہ ہمارے لئے یہ نشان رکھا گیا تھا.دوسری طرف خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کہ آپ کی فرمائی ہوئی پیشگوئی پوری ہوئی.لوگ ناواقفی اور جہالت سے اعتراض کرتے ہیں حالانکہ یہ اَمر بہت ہی قابلِ غور ہے.کیا ہم نے خود ایسے اَمر پیدا کر لیے ہیں کہ نمازیں جمع کی جائیں؟پھر جب یہ اَمر سب خدا کی طرف سے ہیں تو پھر اعتراض کرنا ہی نری حماقت اور خبث ہے جو لوگ اس پیشگوئی پر اعتراض کرتے ہیں وہ مجھ پر نہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بلکہ خدا تعالیٰ پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک آدھ مرتبہ نماز جمع نہ ہوگی بلکہ ایک اچھی میعاد تک نماز جمع ہوتی رہے گی کیونکہ ایک آدھ مرتبہ جمع کرنے کا اتفاق تو دوسرے مسلمانوں کو بھی ہو جاتا ہے.پس یہ خدا کا زبردست نشان ہے جو ہماری اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر ایک زبردست گواہ ہے.(ح) ۱.حیات خاں ایسا ہی پھر ح کی مد میں حیات خان کامقدمہ ہے.بہت سے لوگ اس اَمر کے گواہ ہیں.یہاں تک کہ اکثر ہندوئوں کو بھی معلوم ہے اور میرے لڑکے فضل احمد اور سلطان احمد بھی اس میں گواہ ہیں.سردار حیات خان ایک دفعہ کسی مقدمہ میں معطّل ہو گیا تھا.میرے بڑے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم نے مجھے کہا کہ ان کے لیے دعا کرو.میں نے دعا کی تو مجھے دکھایا گیا کہ یہ کرسی پر بیٹھا ہو
عدالت کر رہا ہے.میں نے کہا کہ یہ تو معطّل ہوگیا ہے.کسی نے کہا کہ اس جہاں میں معطّل نہیں ہوا.تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ بحال ہو جائے گا.چنانچہ اس کی اطلاع دی گئی اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ پھر بحال ہو گیا.۲.حَانَ اَنْ تُعَانَ ایسا ہی فَـحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ یہ پیشگوئی بھی وہیں موجود ہے.کوئی ثابت کرے کہ اس الہام کے وقت کتنی جماعت تھی.یا میں ہوتا تھا یا میاں شمس الدین جو براہین احمدیہ کے مسودے لکھا کرتا تھا مگر اب خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق لاکھوں کروڑوں انسانوں میں اس کو پورا کیا اور کر رہا ہے.ہر نیا دن اس پیشگوئی کی شان اور عظمت کو بڑھا رہا ہے جوں جوں یہ سلسلہ ترقی کرتا جاتا ہے.(خ) ۱.خسوف وکسوف پھر خ ہے.اس میں خسوف و کسوف کی عظیم الشّان پیشگوئی ہے.اس کو دیکھو کہ تیرہ۱۳۰۰ سو برس کے بعد یہ پیشگوئی پوری ہوئی.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی کا نشان مقرر کیا تھا کہ اس کے وقت میں رمضان کے مہینہ خسوف اور کسوف ہوگا اور پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ نشان ابتدائے آفرینش سے لے کر کبھی نہیں ہوا.کس قدر عظیم الشّان نشان ہے جس کی نظیر آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تک اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر مہدی کے وقت تک پائی نہیں جاتی.اب مجھے جو دجّال اور کذّاب کہا جاتا ہے، کیا کاذب اور دجّال کے لیے ہی اﷲ تعالیٰ نے یہ نشان مقرر کیا تھا.کیا خدا تعالیٰ کو بھی دھوکا لگ گیا کہ ایک تو مجھے صدی کے سر پر بھیجا اور پھر وہ تمام نشان اور علامات بھی قائم کر دیئے جو مسیح موعود اور مہدی معہود کے وقت کے مقرر تھے.صلیب کا غلبہ بھی میرے وقت میں ہی ہو گیا.اور پھر خسوف و کسوف کا نشان بھی پورا کر دیا.اس قدر لمبا سلسلہ خدا نے دھوکے کا رکھا.خدا تعالیٰ کی شان اس سے منزہ ہے کہ وہ کسی کو دھوکا دے.مسلمانوں کی موجودہ حالت تو چاہتی تھی کہ
کسی راستباز اور صادق کے ساتھ ان کی تائید کی جاتی نہ کہ ایک کاذب اور مفتری کو بھیجا جاتا.اور پھر یہ کہ کاذب کے وقت میں نشان وہ پورے کئے جو صادق کے لیے مقرر تھے.کیا یہ تعجب کی بات نہ ہوگی؟اصل یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق جبکہ اسلام بہت کمزور ہو گیا تھا اور بالکل رسم پرستی اور نام کے طور پر رہ گیا تھا اور جبکہ نصاریٰ کا فتنہ حد سے بڑھ گیا تھا اور انہوں نے اسلام کے ذلیل کرنے کے لیے ہر قسم کے منصوبے کئے اور اپنی کوششوں میں کامیاب ہونے کے لیے مل مل کر اور اکیلے اکیلے زور لگایا.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت توہین کی گئی.یہاں تک کہ آپ کو معاذاﷲ جھوٹا نبی کہا گیا.اور خطرناک الزام آپ کی پاک ذات پر لگائے اور کوئی دقیقہ اسلام کی ہتک اور بےعزّتی کا باقی نہ رکھا گیا.اور اپنے مذہب میں اس قدر غلو کیا کہ ایک ضعیفہ عورت کے بچہ کو خدائی کے تخت پر بٹھایا.اور ایک انسان کو خدا بنا کر پھر اس کو ملعون قرار دے کر اس کی لعنت کو برکت کا ذریعہ بنایا تو خدا تعالیٰ نے جو غیّور خدا ہے ایک عاجز انسان کو اپنے وعدہ کے موافق قائم کیا اور اس کی تائید اور نصرت کی.اس کے لیے ان نشانات کو پورا کیا جو اس وقت کے لیے مقرر تھے اور اسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک اور توہین کا انتقام لینے والا ٹھہرایا.اور وہ اس طرح پر کہ جس عاجز انسان مسیح ابنِ مریم کو خدا ٹھہرایا گیا تھا غیرتِ الٰہی نے اس کو مسیح ابن مریم سے افضل بنا کر دنیا میں بھیجا اور مسیح موعود اس کا نام رکھا.مسیح موعود کامسیح ابنِ مریم سے افضل ہونا خود یہود و نصاریٰ کے مسلّمات سے ہے.عیسائی اعتراف کرتے ہیں کہ اس کی آمدثانی پہلی آمد کے مقابلہ میں جلالی آمد ہو گی.پہلی آمد ناکامی تھی.اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت چاہیے.غرض خدا نے مجھے مسیح موعود ٹھہرایا اور میرے نشانات کو قوت اور تعداد میں مسیح کے نشانات سے بہت بڑھ کر ثابت کیا.اگر کسی عیسائی کو شک ہو تو قوت ثبوت اور تعداد کے لحاظ سے میرے نشانوں کامسیح کے نشانوں سے مقابلہ کر کے دیکھ لے.ان نشانوں میں سے ہی یہ خسوف وکسوف کا نشان ہے جو اپنے وقت پر میری صداقت اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر مُہر کرنے کے لیے پورا ہوا.میں نے سنا ہے کہ پٹیالہ میں ایک مولوی تھا اس نے جب دیکھا کہ خسوف وکسوف کا نشان پورا ہو گیا تو اس نے ہاتھ مار مار کر کہا کہ اب خلقت گمراہ ہو گی.اب خلقت گمراہ
ہوگی.مگر اس احمق سے کوئی اتنا پوچھے کہ خدا تعالیٰ نے جب وہ نشان پورا کیا جو صادق کے لیے مقرر تھا پھر لوگ گمراہ ہوں گے یا ہدایت پائیں گے؟ خسوف و کسوف کا نشان بہت بڑا نشان ہے.(د) ۱.دیانند پھر د کے مد میں دیانند کے مَرنے کی خبر ہے.اس کی زندگی میں مَرنے سے پہلے یہ خبر بذریعہ ایک رجسٹری شدہ خط کے اس کو دی گئی تھی.اور شرمپت اور ملاوامل موجود ہیں.ان کو قسم دے کر پوچھا جاوے کہ کیا تین مہینے پہلے یہ خبر دی گئی تھی یا نہیں؟ ۲.دلیپ سنگھ اور اسی مدمیں دلیپ سنگھ کے نا کام ہونے کی پیشگوئی ہے کہ ابھی اُس کے آنے کی کوئی خبر بھی نہیں تھی.۱ بلاتاریخ سیّد المعصومین صلی اﷲ علیہ وسلم معصوم ہونے کے اسباب اور معصوم بنانے کے اسباب جس قدر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میسّر آئے تھے وہ کسی دوسرے نبی کو کبھی نہیں ملے.اسی لیے عصمت کے مسئلہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جس مقام اور درجہ پر ہیں وہاں اور کوئی نہیں ہے.خود کوئی کبھی معصوم نہیں بن سکتا بلکہ معصوم بنانا خدا تعالیٰ کا کام ہے.جس شخص کو کثیر التعداد مال مل گیا ہے اس کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ چوری کرتا پھرے؟ لیکن جس پر خدا کی مار ہے اور گویا روٹیوں کا محتاج ہے اس سے تو ممکن بلکہ قرینِ قیاس ہے کہ اگر پاخانہ میں کوڑی پڑی ہوئی ہو تو وہ اس کے اٹھانے میں بھی کوئی مضائقہ اور دریغ نہ کرے گا.سو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا کا بہت بڑا فضل تھا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے
َكَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا ( النِّسآء : ۱۱۴) اور اصل یہ ہے کہ انسان بچتا بھی فضل سے ہی ہے.پس جس شخص پر خدا تعالیٰ کا فضل عظیم ہو اور جس کو کُل دنیا کے لیے مبعوث کیا گیا ہو اور جو رَحْـمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن ہو کر آیا ہو.اُس کی عصمت کا اندازہ اسی سے ہو سکتا ہے.عظیم الشّان بلندی پر جو شخص کھڑا ہے ایک نیچے کھڑا ہوا اس کامقابلہ کیا کرسکتا ہے؟ مسیح کی ہمت اور دعوت صرف بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں تک محدود ہے.پھر اس کی عصمت کا درجہ بھی اسی حدتک ہونا چاہیے.لیکن جو شخص کُل عالَم کی نجات اور رَستگاری کے واسطے آیا ہے.ایک دانش مند خود سوچ سکتا ہے کہ اس کی تعلیم کیسی عالمگیر صداقتوں پر مشتمل ہو گی اور اسی لیے وہ اپنی تعلیم اور تبلیغ میں کس درجہ کا معصوم ہوگا.حضرت مسیح ایک بار چھوڑ ہزار بار کہیں کہ میں خدا ہوں لیکن کون ان کی خدائی کا اعتراف کر سکتا ہے جبکہ انسانیت کا اقبال بھی آپ کے وجود میں نظر نہیں آتا.دشمنوں کے نرغہ میں آپ پھنس جاتے ہیں اور اُن سے طمانچے کھاتے ہوئے صلیب پر لٹکائے جاتے ہیں.باوجود یکہ وہ طعن کرتے ہیں کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو صلیب سے اُتر آ مگر آپ خاموش ہیں اور کوئی خدائی کرشمہ نہیں دکھاتے.برخلاف اس کے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف خسروپرویز نے منصوبہ کیا اور آپ کو گرفتار کر کے قتل کرنا چاہا.مگر اسی رات خود ہی ہلاک ہو گیا.اور ادھر حضرت مسیح کو ایک معمولی چپراسی پکڑ کر لے جاتا ہے.تائید الٰہی کا کوئی پتہ نہیں ملا.غرض جس قدر ان امور کی تنقیح کی جاوے گی اسی قدر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارجِ عالیہ معلوم ہوں گے اور آپ ایک بلند مینار پر کھڑے دکھائی دیں گے اور مسیح آپ سے مقابلہ کرنے میں بہت ہی نیچے کھڑے ہوں گے.اس سے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور فضیلت کیا ہو گی کہ تیرہ سو برس بعد اپنے نفوسِ قدسیہ سے وہ ایک انسان کو تیار کرتے ہیں جو مسیح ابنِ مریم پر فضیلت پاتا ہے.بلحاظ اپنے کام اور کامیابی کے یعنی مسیح موعود سے مقابلہ کرنے میں بھی مسیح اپنی کامیابی اور بعثت کے لحاظ سے کم ہے.کیونکہ محمدی مسیح محمدی کمالات کا جامع ہے.جیسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں
تمام نبیوں کے کمالات یکجا جمع تھے.اس لیے مسیح موعود جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروزی ظہور ہے.اُن کمالات کو اپنے اندر رکھتا ہے اور اپنی دعوت کی وجہ سے مسیح ابنِ مریم سے بڑھ کر ہے.شعر ؎ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے مسیح ناصری کا آسمان پر جانا مسیح کو جو آسمان پر چڑھایا جاتا ہے تو سوال ہو سکتا ہے کہ وہ آسمان پر کیوں چڑھے؟ کیا ضرورت پیش آئی تھی؟عقل اس کے لیے تین شقیں تجویز کرتی ہے.اور ان تینوں صورتوں میں مسیح کا صعودثابت نہیں ہوسکتا.شق اوّل صلیب کی لعنت سے بچنے کے لیے.کیونکہ تورات میں لکھا ہوا تھا کہ جو صلیب پر لٹکایا جاوے وہ ملعون ہوتا ہے.اب اگر مسیح کے صعود اِلَی السَّمَآءِ سے یہ غرض تھی کہ وہ اس لعنت سے بچ رہیں تو اس رفع کے لیے ضروری ہے کہ پہلے موت ہو.کیونکہ یہ رفع وہ ہے جو قربِ الٰہی کامفہوم ہے اور بعد موت ملتا ہے.اسی لیے اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ ( اٰل عـمران : ۵۶) کہا گیا.اور یہ وہی رفع ہے جو اِرْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً ( الفجر : ۲۹) میں خدا نے بیان فرمایا ہے اور مُفَتَّحَةً لَّهُمُ الْاَبْوَابُ(صٓ : ۵۱) سے پایا جاتا ہے.غرض اس رفع کے لیے جو لعنت سے بچانے کے لیے ہو اور جو قربِ الٰہی کے معنوں میں ہو کیونکہ لعنت کی ضد رفع تو وہی ہے جس سے قربِ الٰہی ہو.یہ تو بجز موت کے حاصل نہیں ہوتا.پھر جو لوگ ہمارے مخالف ہیں وہ چونکہ موت کے قائل نہیں.اس لیے ان کے اعتقاد کے موافق مسیح کو ابھی رفع نہیں ہوا.کیونکہ یہ رفع انسان کی آخری زندگی کا نتیجہ ہے اور یہ ان کو حاصل نہیں ہوا.پس اس شق کے لحاظ سے تو ان کا آسمان پر چڑھنا باطل ہوا.دوسری غرض رفع سے یہ ہو سکتی ہے کہ حضرت مسیح کوئی نشان دکھانا چاہتے تھے مگر یہودی جن کو نشان دکھانا مقصود تھا وہ اب تک منکر ہی چلے آتے ہیں.اُنہوں نے عین صلیب کے وقت نشان مانگا تو ان کو کوئی نشان دکھایا نہ گیا.پھر ایک ایسا نشان جو اُن کو دکھانا مقصود تھا وہ بجز شاگردوں کے کسی اور کو نہ دکھایا گیا.کیا یہ تعجب کی بات نہیں.چاہیے تو یہ تھا کہ صلیب پر جب ان سے نشان مانگا گیا تھا توا س
وقت نشان دکھاتے یا کہہ دیتے کہ میںآسمان پر اُڑجانے کا نشان تم کو دکھائوں گا.اور صعود کے دن سب کو پکار کر کہہ دیتے کہ آئو اب دیکھ لو میں آسمان پر جاتا ہوں.پھر جب اس قسم کا کوئی واقعہ یہودیوں نے نہیں دیکھا اور وہ اب تک ہنسی اُڑاتے ہیں اور خطر ناک اعتراض کرتے ہیں تو یہ غرض بھی ثابت نہ ہوئی.مسیح علیہ السلام کے مقابلہ میں ہمارے نشانوں کو دیکھو کہ کیسے واضح اور صاف ہیں اور لاکھوں انسان اُن میں سے بعض کے گواہ ہیں.براہین احمدیہ میں یہ الہام ۲۲ برس سے زیادہ عرصہ ہوا ہے درج ہے یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ اور یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ.اب اس کی بابت محمد حسین ہی سے پوچھو کہ جب اس نے براہین احمدیہ پر ریویو لکھا تھا کس قدر لوگ یہاں آتے تھے اور کہاں سے آتے تھے.اور اب تو آنے والے لوگوں کی بابت ہم سے دریافت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے.پولیس کا ایک کانسٹیبل یہاں رہتا ہے جو آنے والے مہمانوں کی ایک فہرست تیار کر کے اپنے افسروں کے پاس بھیجا کرتا ہے.ان کے کاغذات کو جاکر کوئی دیکھ لے تو اُسے معلوم ہو جاوے گا کہ یہ پیشگوئی کس شان اور عظمت سے پوری ہو رہی ہے یہاں تک کہ ہر شخص آنے والا اس پیشگوئی کو پورا کرتا ہے.اسی طرح اس کا دوسرا حصہ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ.دیکھ لو کہاں کہاں سے تحفے تحائف چلے آتے ہیں اور روپیہ آتا ہے اس کے لیے بھی ڈاک خانہ کے کاغذات اور محکمہ ریلوے کے رجسٹر شہادت کے لیے کافی ہو سکتے ہیں.اب ان نشانوں کا ذرا مسیح کے نشانوں سے مقابلہ تو کر کے دکھائو.وہاں تو یہودی دُہائی دیتے ہیں کہ ہم نے کچھ بھی نہیں دیکھا.اگر یہودی دیکھتے تو کیوں انکار کرتے اور یہاں مخالف تک اس بات کے گواہ ہیں اور صد ہانشان اس قسم کے ہیں جن کو اگر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاوے تو کئی کتابوں کی ضرورت پڑے.تیسرا شِق مسیح کے صعود کے متعلق یہ ہو سکتا ہے کہ ان کی غرض فرار کی تھی.یہ بالبداہت باطل ہے کیا زمین پر کوئی جگہ نہ تھی.اور ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ (البقرۃ : ۶۲) کے مصداق یہودیوں سے پھر اتنا خوف ہوا کہ پہلے آسمان پر بھی نہ ٹھہر سکے.غرض جس پہلو سے اس مسئلہ کو دیکھا
اس لیے جو نبی آتا ہے اس کی نبوت اور وحی و الہام کے سمجھنے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ہر شخص کی فطرت میں ایک ودیعت رکھی ہوئی ہے.اور وہ ودیعت خواب ہے.اگر کسی کو کوئی خواب سچی کبھی نہ آئی ہو تو وہ کیوں کر مان سکتا ہے کہ الہام اور وحی بھی کوئی چیز ہے.اور چونکہ خدا تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (البقرۃ : ۲۸۷) اس لیے یہ مادہ اس نے سب میں رکھ دیا ہے.میرا یہ مذہب ہے کہ ایک بدکار اور فاسق فاجر کو بھی بعض وقت سچی رؤیا آجاتی ہے اور کبھی کبھی کوئی الہام بھی ہو جاتا ہے.گو وہ شخص اس کیفیت سے کوئی فائدہ اُٹھاوے یا نہ اُٹھاوے.جبکہ کافر اور مومن دونو کو سچی رؤیا آجاتی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ عظیم الشان فرق تو یہ ہے کہ کافر کی رؤیا بہت ہی کم سچی نکلتی ہے اور مومن کی کثرت سے سچی نکلتی ہے.گویا پہلا فرق کثرت اور قلّت کا ہے.دوسرے مومن کے لیے بشارت کا حصہ زیادہ ہے جو کافر کی رؤیا میں نہیں ہوتا.سوم.مومن کو رؤیا مصفّا اور روشن ہوتی ہے بحالیکہ کافر کی رؤیا مصفّا نہیں ہوتی.چہارم.مومن کی رؤیا اعلیٰ درجہ کی ہو گی.جماعت کے واعظین کی صِفات یہ اَمر بہت ضروری ہے کہ ہماری جماعت کے واعظ تیار ہوں لیکن اگر دوسرے واعظوں اور ان میں کوئی امتیاز نہ ہو تو فضول ہے.یہ واعظ اس قسم کے ہونے چاہئیں جو پہلے اپنی اصلاح کریں اور اپنے چلن میں ایک پاک تبدیلی کرکے دکھائیں تا کہ ان کے نیک نمونوں کا اثر دوسروں پر پڑے.عملی حالت کا عمدہ ہونا یہ سب سے بہترین وعظ ہے.جو لوگ صرف وعظ کرتے ہیں مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے وہ دوسروں پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈال سکتے بلکہ اُن کا وعظ بعض اوقات اباحت پھیلانے والا ہو جاتا ہے.کیونکہ سننے والے جب دیکھتے ہیں کہ وعظ کہنے والا خود عمل نہیں کرتا تو وہ ان باتوں کو بالکل خیالی سمجھتے ہیں.اس لیے سب سے اوّل جس چیز کی ضرورت واعظ کو ہے وہ اُس کی عملی حالت ہے.دوسری بات جو اُن واعظوں کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ان کو صحیح علم اور واقفیت ہمارے
عقائد اور مسائل کی ہو جو کچھ ہم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں.اس کو انہوں نے پہلے خود اچھی طرح پر سمجھ لیا ہو اور ناقص اور ادھورا علم نہ رکھتے ہوں کہ مخالفوں کے سامنے شرمندہ ہوں.اور جب کسی نے کوئی اعتراض کیا تو گھبرا گئے کہ اب اس کا کیا جواب دیں.غرض علم صحیح ہونا ضروری ہے.اور تیسری بات یہ ہے کہ ایسی قوت اور شجاعت پیدا ہو کہ حق کے طالبوں کے واسطے ان میں زبان اور دل ہو.یعنی پوری دلیری اور شجاعت کے ساتھ بغیر کسی قسم کے خوف وہر اس کے اظہار حق کے لیے بول سکیں اور حق گوئی کے لئے اُن کے دل پر نہ کسی دولتمند کا تموّل یا بہادر کی شجاعت یا حاکم کی حکومت کوئی اثر پیدا نہ کر سکے.یہ تین چیزیں جب حاصل ہو جائیں تب ہماری جماعت کے واعظ مفید ہو سکتے ہیں.یہ شجاعت اور ہمت ایک کشش پیدا کرے گی کہ جس سے دل اس سلسلہ کی طرف کھچے چلے آئیں گے مگر یہ کشش اور جذب دو چیزوں کو چاہتی ہے جن کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی.اوّل پورا علم ہو.دوم تقویٰ ہو.کوئی علم بدوں تقویٰ کے کام نہیں دیتا ہے اور تقویٰ بدوں علم کے نہیں ہو سکتا.سنّت اﷲ یہی ہے جب انسان پورا علم حاصل کرتا ہے تو اسے حیا اور شرم بھی دامنگیر ہو جاتی ہے.پس ان تین باتوں میں ہمارے واعظ کامل ہونے چاہئیں.اور یہ میں اس لیے چاہتا ہوں کہ اکثر ہمارے نام خطوط آتے ہیں.فلاں سوال کا جواب کیا ہے؟ فلاں اعتراض کرتے ہیں اس کا کیا جواب دیں؟ اب ان خطوط کے کس قدر جواب لکھے جاویں.اگر خود یہ لوگ علم صحیح اور پوری واقفیت حاصل کریں اور ہماری کتابوں کو غور سے پڑھیں تو وہ ان مشکلات میں نہ رہیں.ہماری جماعت کو عمل کی ضرورت ہے یاد رکھو کہ ہماری جماعت اس بات کے لیے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں.نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی جیسے بدقسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے کہ پوچھو تم مسلمان ہو؟ تو کہتے ہیں شکر الحمد للہ.مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعائر اﷲ کی حرمت نہیں کرتے.پس میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھائو یہ نکمی حالت ہے خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا.اور دنیا کی اس حالت نے ہی تقاضا کیا کہ خدا تعالیٰ
نے مجھے اصلاح کے لیے کھڑا کیا ہے.پس اب اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے.وہ گویا اپنے عمل سے میری عدم ضرورت پر زور دیتا ہے.پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سُود ہے تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے کیا معنے ہیں؟ میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض اور مقاصد کو پورا کرو اور وہ یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنا اخلاص اور وفاداری دکھائو اور قرآن شریف کی تعلیم پر اسی طرح عمل کرو جس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکے دکھایا اور صحابہ نے کیا.قرآن شریف کے صحیح منشا کو معلوم کرو اور اس پر عمل کرو.خدا تعالیٰ کے حضور اتنی ہی بات کافی نہیں ہو سکتی کہ زبان سے اقرار کر لیا اور عمل میں کوئی روشنی اور سرگرمی نہ پائی جاوے.یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہے وہ عمل کے بدوں زندہ نہیں رہ سکتی.یہ وہ عظیم الشّان جماعت ہے جس کی تیاری حضرت آدمؑ کے وقت سے شروع ہوئی ہے کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے اس دعوت کی خبر نہ دی ہو.پس اس کی قدر کرو اور اس کی قدر یہی ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کر کے دکھائو کہ اہلِ حق کا گروہ تم ہی ہو.سچا ہادی خیانت نہیں کر سکتا جو شخص خدا کی طرف سے مامور ہو کر آتا ہے اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی جماعت کی کمزوری کو دور کرے.سچا ہادی کبھی خیانت نہیں کر سکتا.اگر کوئی شخص ایسا ہو کہ جس طرز اور چال پر کوئی چلے خواہ اس کی زندگی اﷲ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہی ہو وہ پروا نہ کرے تو سمجھ لو کہ وہ خدا کی طرف سے اصلاح کے لیے نہیں آیا.بلکہ شیطان اس کا قرین ہے.سچا ہادی جو دیکھتا ہے اس کی اصلاح کرتا ہے.ہاں یہ درست ہے کہ وہ کسی کی ذلّت اور رُسوائی نہیں کرنا چاہتا مگر مریض کے امراض کو شناخت کر کے ان کا علاج بتاتا ہے.خدمتِ دین بھی عمر بڑھاتی ہے جو لوگ دین کے لیے سچا جوش رکھتے ہیں اُن کی عمر بڑھائی جاوے گی اور حدیثوں میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود کے وقت عمریں بڑھادی جاویں گی اس کے معنے یہی مجھے سمجھائے گئے ہیں کہ جو لوگ خادمِ دین
ہوں گے ان کی عمریں بڑھائی جاویں گی جو خادم نہیں ہو سکتا وہ بڈھے بیل کی مانند ہے کہ مالک جب چاہے اُسے ذبح کر ڈالے اور جو سچے دل سے خادم ہے وہ خدا کا عزیز ٹھہرتا ہے اور اس کی جان لینے میں خدا تعالیٰ کو تردّد ہوتا ہے اس لیے فرمایا وَ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ(الرّعد : ۱۸)۱ ۲۶؍اگست ۱۹۰۲ء آپؑحج کیوں نہیں کرتے شیخ ابو سعید محمد حسین بٹالوی کے خط کا جواب الحکم کی گذشتہ اشاعت میں کسی قدر بسط سے شائع ہو چکا ہے لیکن اتمامِ حجت اور ایک نکتہ معرفت کے لیے اتنا اور عرض کرنا ضروری سمجھا ہے کہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور جب وہ خط پڑھا گیا اور یہ اعتراض پیش کیا گیا کہ آپؑکیوں حج نہیں کرتے؟ تو فرمایا کہ میرا پہلا کام خنزیروں کا قتل اور صلیب کی شکست ہے.ابھی تو میں خنزیروں کو قتل کر رہا ہوں.بہت سے خنزیر مَرچکے ہیں اور بہت سے سخت جان ابھی باقی ہیں.اُن سے فرصت اور فراغت تو ہولے.شیخ بٹالوی صاحب اگر انصاف سے کام لیں گے تو ۱مید ہے یہ لطیف جواب انہیں تسلیم ہی کرنا پڑے گا؟ کیوں شیخ صاحب! ٹھیک ہے نا! پہلے خنزیروں کو قتل کر لیں؟ بلا تاریخ ابتلا کی حالت میں خدا سے روٹھنا نہیں چاہیے ایک دوست کو دشمنوں نے سخت تکلیف دی اور ان کی شکائتیں بھی افسران بالادست سے کیں جس کانتیجہ یہ ہوا کہ ان کو وہاںسے تبدیل ہوناپڑا.انہوں نے اس کے متعلق دعا کے لیے عرض کیاکہ اس سے دشمن خوش ہوںگے یہ نہیں ہوناچاہیے.اس کے متعلق جو فرمایا
اس کاخلاصہ یہ ہے.خداکے ساتھ روٹھنا نہیں چاہیے اور خدا تعالیٰ کا شکوہ کرنا کہ اس نے ہماری نصرت نہیں کی سخت غلطی ہے.مومنوں پر ابتلا آتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ۱۳ برس تک کیسی تکلیفیں اٹھاتے رہے.طائف میں گئے تو پتھر پڑے.اس وقت جب کہ آپ کے بدن سے خون جاری تھا آپ نے کیسا صدق اور وفا کانمونہ دکھایا اور کیا پاک الفاظ فرمائے کہ یا اللہ میں یہ سب تکلیفیں اس وقت تک اُٹھاتا رہوں گا جب تک تو راضی ہو.امتحان کا ہوناضروری ہے.نبیوں اور صادقوں پر ابتلا آتے ہیں.حضرت مسیحؑ کودیکھو کہ کیسا ابتلا آیا.اَیْلِیْ اَیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَنِیْ کہنا پڑا، یہویوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑھادیاغرض مومن کو گھبرانا نہیں چاہیے.اور خدا سے روٹھنا نہیں چاہیے.اس مضمون پر ایک لمبی تقریر حضرت اقدسؑ نے فرمائی جس کا خلاصہ آپ ہی کے اشعار میں یہ ہے.؎ صادق آں باشد کہ ایام بلا مے گذارد با محبت با وفا (الہامی) گر قضا را عاشقے گردد اسیر بوسد آں زنجیر راکز آشنا ۱ ڈائری سے اقتباس (ایڈیٹر کے اپنے الفاظ میں ) تقویٰ سے اکرام ہوتا ہے مولوی غلام حسن صاحب سب رجسٹرار پشاور سے تشریف لائے عندالملاقات حضرت حجۃاﷲ نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ مولوی صاحب با وجود ہمارے سلسلہ میں شامل ہونے کے ہر دلعزیز ہیں.اس پر مولوی عبدالکریم صاحب نے عرض کی کہ حضور تقویٰ اور رزقِ حلال ایسی چیزیں ہیں کہ
انسان کو معزز بناتی ہیں.حضرت حجۃاﷲ نے فرمایا.حقیقت میں تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے انسان کا اکرام ہوتا ہے.طاعون کا ٹیکہ اور اسباب پرستی کی ممانعت طاعون کے ٹیکہ کا ذکر تھا.اس کے متعلق ایک مبسوط اشتہار تقویۃ الایـمان کے نام سے عنقریب شائع ہوتا ہے جو چھپ رہا ہے.وہ الحکم کی کسی اشاعت میں انشاء اﷲ کامل طور پر چھپے گا.اسی ذکر کے اثنا میں اور اسی کے متعلق ایک لطیف بات فرمائی کہ دیکھو! ایک زمیندار ہے اس کی زمین بارانی ہے اور ایک دوسرا ہے جس نے رات دن محنت کر کے کنوئیں سے آبپاشی کی ہے اور اپنے کھیتوں کو بھر لیا ہے.مگر آسمان پر یکایک بادل ہوئے اور بارانی زمین والے تمام کھیت بھر گئے.اب دونوں میں سے زیادہ شکر گذار کون ہوگا؟ کیا وہ جس نے رات دن ایک محنت کر کے اپنے کھیت بھرے ہیں یا وہ جو آسمان کی طرف دیکھتا رہا ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ وہ جو رات کو سویا ہوا تھا اور صبح اُٹھ کر دیکھا تو کھیتوں کو لبالب پایا.اس طرح پر ٹیکہ کے متعلق ایک تو ہم ہیں کہ خدا تعالیٰ نے حفاظت کا وعدہ کیا ہے.اور ایک وہ ہیں جو اسی پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں.اسباب سے اﷲ تعالیٰ نے منع تو نہیں فرمایا مگر اس قدر محوفی الاسباب نہ ہونا چاہیے کہ شرک کی حدتک پہنچ جاوے.اسباب سے جائز فائدہ اعتدال کی حدتک ضرور اُٹھانا چاہیے مگر شرک فی الاسباب نہ ہونے پائے.اور یہ شرکِ اسباب اسباب سے ہی پیدا ہوتا ہے.ہزاروں ہزار مخلوق جانتی ہے کہ جب ٹیکا کرانے والوں کو فائدہ ہوگا جیسا کہ ظاہر کیا گیا ہے تو وہ شخص کس قدر خوش ہوگا اور کتنا بڑا نشان ہوگا جو یہ کہے گا کہ اوروں کو ٹیکہ نے فائدہ کیا اور مجھ کو خدا نے.وَلَنِعْمَ مَاقِیْلَ.تُرا کشتی آورد و ما را خدا.جس راہ پر ہم چلتے ہیں یہ مرحلہ دور ہے.ہم اسباب کو چھوڑتے نہیں لیکن اُن کو پوجتے بھی نہیں.خدا نے اپنے فضل سے ایک نشان دیا ہے اس کی قدر کرتے ہیں.اگر وہ ہم پر ظاہر نہ کرتا تو کچھ بات
نہ تھی.لیکن اب اس نشان کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی قدر کریں.ہر ایک شخص اپنے صدق،ثبات اور قوت کو دیکھ لے.ہم کسی کو منع نہیں کرتے.اسباب پرستی،پتھر پرستی سے بڑھ کر ہے.پتھروں کی پوجا اگر محرقہ ہے تو اسباب پرستی تپ دِق ہے جس نے دنیا کو ہلاک کر دیا ہے.یاد رکھو جو اسباب میں دل لگاتا ہے وہ شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے.اَلدَّار والوں کی حفاظت کا قوی ذمہ خدا نے لے لیا ہے مگر ایک دار تو وہ ہے جو خس و خاشاک و خاک کا بنا ہوا درودیوار والا گھر ہے اور ایک وہ جو ہمارے منشا کے موافق روحانی طور پر اپنی تبدیلی کرتا ہے.وہ بھی ہمارے دار میں ہے.برکت کا نشان میرے پاس ایک شیشی مُشک کی ہے جس میں سے میں کھایا کرتا ہوں.اﷲ تعالیٰ جب کسی چیز کے سلسلہ کو منقطع کرنا نہیں چاہتا تو جس طرح چاہے اس کو برکت دیدے.میں نے گھر والوں سے کہا کہ لائو اس شیشی کو میں برکت دیتا ہوں چنانچہ میں نے اُس میں پھونک ماردی.ڈاک کے وقت فضل الٰہی ایک شیشی لایا.میں نے سمجھا کہ کوئی دوائی ہے اور رکھ دی.مگر فجر کو جب اسے کھول کر دیکھا تو وہ مشک نکلا.میں نے اس کو بلا کر پوچھا کہ کس نے بھیجی ہے.اس نے کہا کہ وہ کاغذ گم ہو گیا.اس شیشی پر بھی مرسل و فریسندہ کا نام نہیں.یہ نمونہ خدا تعالیٰ نے برکت کا دیا ہے.میں نے گھر میں خود پھونک ماری اور دوسرے دن وہ شیشی آگئی.یہ خدا کے عجیب کام ہیں جو آجکل ظاہر ہو رہے ہیں.فَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذَالِکَ.۱ ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۲ء رومن کیتھولک اور پراٹسٹنٹ رومن کیتھولک اور پراٹسٹنٹ دراصل دونوں ایک ہی ہیں.آدم زاد کی پرستش کرنے میں کوئی ایک دوسرے سے ممتاز نہیں ہے.ایک بیٹے کی پرستش کرتا ہے تو دوسرا ماں کو بھی خدا بناتا ہے اور اس معاملہ میں وہ
عقل مندی سے کام لیتا ہے.جب بیٹا خدا ہے تو ماں تو ضرور خدا ہونی چاہیے.مگر اب وقت آگیا ہے کہ انسان پرستی کا شہتیر ٹوٹ جاوے.اصل تبلیغ توکّل علی اﷲ سے ہوتی ہے مفتی محمد صادق صاحب کو فرمایا جبکہ انہوں نے مسٹروب کا ایک خط سنایا کہ اُن کو لکھ دو کہ عمر گذرتی جاتی ہے جو کرنا ہے اب کرلو.دن بدن قویٰ کمزور ہوتے جاتے ہیں.دس برس پہلے جو قویٰ تھے وہ آج کہاں ہیں؟گذشتہ کا حساب کچھ نہیں آئندہ کا اعتبار نہیں.جو کچھ کرنا ہو آدمی کو موجودہ وقت کو غنیمت سمجھ کر کرنا چاہیے.اب اسلام کی خدمت کر لو.اوّل واقفیت پیدا کرو کہ ٹھیک اسلام کیا ہے؟اسلام کی خدمت جو شخص درویشی اور قناعت سے کرتا ہے وہ ایک معجزہ اور نشان ہو جاتا ہے جو جمعیت کے ساتھ کرتا ہے اس کامزا نہیں آتاکیونکہ توکّل علی اﷲ کا پورا لطف نہیں رہتا اور جب توکّل پر کام کیا جاوے تو خدا مدد کرتا ہے اور یہ باتیں روحانیت سے پیدا ہوتی ہیں.جب روحانیت انسان کے اندر پیدا ہو تو وہ وضع بدل دیتا ہے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح پر صحابہؓ کی وضع بدل دی.یہ سارا کام اس کشش نے کیا جو صادق کے اندر ہوتی ہے.یہ خیالات باطل ہیں کہ کئی لاکھ روپیہ ہو تو کام چلے.خدا تعالیٰ پر توکّل کر کے جب ایک کام شروع کیا جاوے اور اصل غرض اس کے دین کی خدمت ہو تو وہ خود مددگار ہو جاتا ہے اور سارے سامان اور اسباب بہم پہنچا دیتا ہے.خواجہ کمال الدین صاحب جناب خواجہ کمال الدین صاحب کے ذکر پر فرمایا کہ بڑے سعید اور مخلص ہیں اور حقیقت میں مردانگی یہی ہے کہ جب تعلق پکڑے تو آخر تک نبھاوے.یک درگیر ومحکم گیر.بینظیر مجلس اور تائید اسلام یہ مجلس خود اﷲ تعالیٰ نے پیدا کردی ہے.جس میں بیٹھ کر خدا نظر آتا ہے.جو راستہ ہم صاف کرتے ہیں، مشرق مغرب میں کہیں چلے جائو کسی جگہ وہ بات نہیں ملے گی.کوئی ہفتہ نہیں ایسا گذرتا جب ایک یا دو باتیں اسلام کی تائید میں پیدا نہ ہوتی ہوں.
بلاتاریخ سچے مذہب کے پیروئوں کے ساتھ خدا ہوتا ہے جو لوگ سچے مذہب کے پیرو ہوتے ہیں خدا تعالیٰ ان ہی کے ساتھ ہوتا ہے.اُن کے اور اُن کے غیروں میں ایک امتیاز ہوتا ہے جو تائید وہ اسلام کی کرتا ہے وہ دوسروں کی نہیں کرتا.اسلام کا خدا اپنے کلام کے ساتھ ایک شرف عطا کرتا ہے جو اور کسی کو نہیں ملتا اور اس طرح پر وہ قدرت کے نشان دکھاتا ہے اور کوئی ان کامقابلہ نہیں کر سکتا.ہاں باتیں بنانے والے بہت ہو جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کی یہ عادت نہیں کہ انسان کے تابع ہو بلکہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کے تابع ہوں.بلاتاریخ آج ہمیں کوئی دکھائے کہ اسلام کے سوا کونسا مذہب ہے جو اﷲ اور اس کی مخلوق کے لیے پاک ہدایت کرتا ہے.بلاتاریخ دنیا کی بے ثباتی اور مصائب دنیا ایسی ہے کہ یہ آرام کی جگہ نہیں بلکہ ایک خارستان ہے.خوشی کی جگہ نہیں اس کے ساتھ آلام و اسقام لگے ہوئے ہیں.ہمارے خاندان میں پچاس کے قریب آدمی تھے وہ قریباً سب کے سب خاک کے نیچے چلے گئے.بچوں بیویوں میں ابتلا آتے ہیں.اس سے بھی انسان کو سبق ملتا ہے.اس پر دنیا کی بے ثباتی اور حقیقت منکشف ہو جاتی ہے.انسان چونکہ دو محبتوں کامجموعہ ہے کیونکہ انسان اصل میں اُنسان ہے.
پرندوںکا خالق بھی تھا.عالم الغیب اور شافی بھی تھا اور پھر یہ بھی مانتے ہیں کہ وہ صاف آسمان پر چلا گیا ان لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ اس کی موت کی خبر اور پیشگوئی کہاں ہے؟ حالانکہ قرآن شریف میں صاف لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ مسیح سے پوچھے گا کہ کیا تو نے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا بنا لو تو حضرت مسیح اس سے اپنی بریت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے نہیں کہا اور پھر یہ کہتے ہیں فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ (المائدۃ:۱۱۸) لیکن اب ہم پوچھتے ہیں کہ جب کہ حضرت مسیح کو قیامت سے پہلے آسمان سے اترنا تھا تو پھر قیامت میں ان کا یہ جواب تو دروغ گویم بر روئے تو کا مصداق ہوتا ہے.ان کو چاہیے تھا کہ وہ یہ کہتے کہ یا اللہ تو نہیں جانتا کہ میں چالیس برس تک خنزیروں کو مارتا رہا ہوں اور صلیبوں کو توڑتا رہا ہوں.فلاں کافر مارا.فلاں مشرک قتل کیا.فلاں صلیب پرست کا سر قلم کیا.یہ جواب ان کو تو دینا چاہیے تھا اب وہ جو اپنی لاعلمی ظاہر کرتے ہیں تو ہمارے مخالف بتائیں کہ کیا جھوٹ بولتے ہیں؟ شاید ان مخالفوں کے عقیدہ کے موافق انہوں نے جھوٹ ہی بولا ہوگا جب ہی تو اللہ تعالیٰ نے پھر آگے فرمایا قَالَ اللّٰهُ هٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُهُمْ (المائدۃ:۱۲۰) غرض سورۂ مائدہ کا آخری رکوع مسیح علیہ السلام کی وفات اور عدمِ نزول کے لئے عجیب ہے.فَتَدَبَّرْ!۱ یکم اکتوبر ۱۹۰۲ء (بوقتِ سیر) حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام حسب معمول حلقہ خدام میں سیر کو نکلے.حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب فاضل امروہی نے ایک مختصر سا انٹروڈکشن اپنی جدید تصنیف کا (جو سائیں مہر شاہ گولڑی کے متعلق آپ لکھ رہے ہیں) سنانا شروع کیا.جس میں سائیں جی کے سرقہ مضمون کُشتہ اعجاز المسیح محمد حسن بھینی پر ایک لطیف ریویو کیا ہے اور اعجاز المسیح کا جواب با وجود سرقہ مضامین کے اردو زبان میں بشکل سیف چشتیائی لکھنے سے سائیں جی کی قلعی کھولی ہے کہ اس سے وہ الزام بھی سائیں جی پر قائم ہو گیا کہ عربی تفسیر نویسی کی دعوت میں واقعی لا جواب ہو گیا تھا اور اُسے کوئی قوت اور قابلیت نہیں جو حضرت مسیح موعودؑ کے مقابلہ میں آتا، ورنہ کیا وجہ ہے کہ اعجاز المسیح کا جواب اردو میں لکھا حالانکہ
خانہ نشین ہو کر لکھا ہے.بہرحال یہ لطیف اور ملیح دیباچہ سنا یا گیا.اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ شہر سے باہر نکلتے ہی اونٹوں کی ایک قطار کھڑی تھی.آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ بعینہٖ ریل گاڑی کی طرح ایک سلسلہ ہے اور کوئی جانور نہیں جس کو آگے پیچھے اس طرز سے باندھیں.گاڑیاں بھی اسی طرح باندھی جاتی ہیں.حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس قدر فرمایا تھا.خاکسار ایڈیٹر اس کو وسیع کرنا چاہتا ہے.اور اگر بات کا سلسلہ اور نہ چلا دیا جاتا تو امید تھی کہ اس نقطہ پر بات آجاتی کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (التکویر:۵)کی پیشگوئی پوری ہو گئی ہے.خصوصاً یہ نظارہ عرب میں اور بھی زیادہ حیرت انگیز اور مسرت بخش ہوگا.جبکہ ان جنگلوں اور ریگستانوں میں جہاں یہ جہازِ بیابان چلا کرتا تھا.اب اس جگہ ریل گاڑی چلتی نظر آئے گی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوتی دکھائی دے گی.دودھاری تلوار گولڑوی کی کتاب سیف چشتیائی کے متعلق فرمایا کہ اس نے دوہرا کام کیا.فیضی کی موت کا ہماری پیشگوئی کے موافق ہونا اس سے ثابت ہو گیا.اور گولڑی کی پردہ دری ہو گئی.اگر فیضی زندہ ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اصلاح کرتا یا اس ارادہ سے ہی باز آجاتا.مگر موت نے پیشگوئی کے موافق اُسے آلیا.اور گولڑی اس کی کچی ہانڈی کھانے بیٹھ گیا اور نہ خیال کیا کہ اس کی ہر بات کی خود بھی تو تحقیق کرلے.نتیجہ یہ ہوا کہ اپنی پردہ دری کرالی اور محمد حسن کی بھی.مسیح علیہ السلام بن باپ تھے حضرت مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نے انبالہ سے آئے ہوئے ایک خط کا تذکرہ کیا کہ کشتی نوح کے اس حصہ کو پڑھ کر جو الحکم میں شائع ہوا ہے.انبالہ سے ایک مخلص دوست لکھتے ہیں کہ مسیح کے بھائی بہنوں کا جو حضرت اقدس نے ذکر کیا ہے اس سے شبہ ہوتا ہے کہ یوسف گویا مسیح کا باپ بھی تھا؟ فرمایا.ہم مسیح کو بن باپ پیدا ہوا ہوا مانتے ہیں اور ہماری کتابوں، رسالوں اور اخبار کی بہت سی
تحریروں میں لکھا جا چکا ہے.اور ہم اس بات کو کیا کریں کہ یہ تاریخی غلطی مسلمانوں میں پیدا ہوئی ہے جو صحیح تاریخ سے ثابت ہے کہ مریم کا یوسف کے ساتھ نکاح ہو گیا تھا اور پھر اس سے اولاد بھی ہوئی تھی.ہم نے تو اس اولاد کا ذکر کیا ہے.اور اسی قسم کی غلطی واقعہ صلیب کے متعلق ہے.مسیح کو صلیب دیئے جانے کے دردناک قصے موجود ہیں اور ان علماء کے نزدیک وہ چھت پھاڑ کر اُڑ گئے.اب اس میں کس کا قصور ہے.یہ تو ان کو بالکل خدا بنانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بشریت ان کے پاس نہ آجاوے.اور ایسا ہی حضرت مریم کو ساری عمر بتول ٹھہرانا کہ انہوں نے نکاح نہیں کیا بڑی غلطی ہے.ان تاریخی امور سے ہم انکارنہیں کر سکتے.مسیح کی نسبت ہمارا یہی مذہب ہے کہ وہ بِن باپ پیدا ہوئے.مریم علیہا السلام کی محصنہ ہونے کی حقیقت مولوی مبارک علی صاحب نے عرض کیا کہ حضور اس اَمر کی تائید میں کہ مریم علیہا السلام نے ساری عمر نکاح نہیں کیا یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ قرآن میں آیا ہے وَ الَّتِيْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا(الانبیآء:۹۲) فرمایا.محصنات تو قرآن شریف میں خود نکاح والی عورتوں پر بولا گیا.وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ(النِّسآء : ۲۵) اور اَلَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا کے معنے تو یہ ہیں کہ اس نے زنا سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا.یہ کہاں سے نکلا کہ اس نے ساری عمر نکاح ہی نہیں کیا.مسیح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام مسیح کے آیۃ ُاﷲ ہونے میں کوئی خصوصیت نہیں ہے.جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے وہ آیۃ اﷲ ہی ہوتا ہے.براہین احمدیہ میں مجھے مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے لِنَجْعَلَكَ اٰيَةً.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آیت تھے.مسیح کی کوئی خصوصیت اس میں نہیں.عُزیر بھی آیۃ ُاﷲ تھے.مخالفوں کی طرف سے ہمارا حصہ ان مخالفوں کی طرف سے ہمارے حصہ میں تو گالیاں ہی آئی ہیں.اب اس رسالہ کشتی نوح کو پڑھ کر بھی بہت سی باتیں بنائیں گے اور گالیاں دیں گے.کوئی فریبی اور مکّار کہے گا.کوئی کچھ.
محمدی سلسلہ کا خاتم الخلفاء ابن مریم پر فضیلت کے دعویٰ کو یہ لوگ بڑی بُری نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی صریح وحی سے مجھے معلوم کرایا گیا ہے کہ محمدی سلسلہ کا خاتم الخلفاء موسوی سلسلہ کے خاتم الخلفاء سے بڑھ کر ہے اور غور کر کے دیکھ لو کہ ہر ایک بات اس سلسلہ کی موسوی سلسلہ سے بڑھی ہوئی ہے.موسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کے لئے آئے تھے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کل دنیا کے لیے مبعوث ہوئے اور فرمایا گیا مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ(الانبیآء: ۱۰۸).پھر آپؐکی تائیدات موسیٰ علیہ السلام کی تائیدات سے بہت بڑھ کر، آپ کے اعجازی نشان بڑھ کر، آپ کو جو کتاب دی گئی وہ موسیٰ کی کتاب سے بڑھ کر، ہمیشہ کے لیے.غرض کل سامان بڑھ کر، کامیابیاں بڑھ کر.پھر کیا وجہ ہے کہ اس سلسلہ کا خاتم الخلفاء موسوی سلسلہ کے خاتم الخلفاء سے بڑھ کر نہ ہو؟ ہم ایسے نبی کے وارث ہیں جو رَحْـمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن اورکَافَّۃُ النَّاس کے لیے رسول ہو کر آیا.جس کی کتاب کا خدا محافظ اور جس کے حقائق معارف سب سے بڑھ کر ہیں.پھر ان معارف اور حقائق کو پانے والا کیوں کم ہے؟ پھر وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ (الـجمعۃ : ۴) جو فرمایا گیا ہے یہ مسیح موعود کے زمانہ کے لیے ہے اور اس کے مِنْهُمْ کے وہی معنی ہیں جو اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ میں مِنْکُمْ سے مُراد ہے.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ وہ گروہ بھی صحابہ ہی کا گروہ ہے حضرت عیسیٰ کے لیے یہ کہاں؟ اور پھر حضرت عیسیٰ اگر اسی شان سے آتے جس شان سے وہ پہلے آئے تو وہ وہ کام نہ کر سکتے جو مسیح موعود کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ٹھہرایا ہے.اُن کا دائرہ بہت تنگ اور چھوٹا تھا اور مسیح موعود کا دائرہ بہت وسیع ہے.ان سب امور پر جب نگاہ کی جاوے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود (مسیحِ محمدی) ابن مریم (مسیحِ موسوی) سے بڑھا ہوا ہے.اور خود عیسائیوں نے بھی مسیح کی آمد ثانی کو پہلی آمد کے مقابلہ میں بڑھ کر مانا ہے.خدا تعالیٰ کا ایک احسان خدا تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ انگریزوں کی سلطنت میں ہمیں پیدا کیا ورنہ اگر اسلامی سلطنت ہوتی تو ان مولویوں ہی کے قابو میں ہوتی جو قتل کے فتوے اور کفر کے فتوے دیتے ہیں.خدا تعالیٰ نے انگریزوں کو بھیج دیا
جنہوں نے کل مذاہب کو آزادی دیدی.اور ہمارے لیے ملک بھی چن کر مقرر کیا کل مذاہب کی کھچڑی جہاں موجود ہے.ہم یہاں وہ کام کر سکتے ہیں جو مکہ مدینہ میں ہرگز نہ کر سکتے.لوگ کہتے ہیں کہ ہم انگریزوں کی خوشامد کرتے ہیں بلکہ ہم هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ (الرّحـمٰن : ۶۱) پر عمل کرتے ہیں.خوشامدوہ کرتے ہیں جو اَلْاَئِـمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ مانتے اور سلطان روم کے لیے امیر المومنین ہونے کا فتویٰ دیتے اور پھر دل میں کچھ رکھتے اور زبان سے کچھ کہتے ہیں.ہم جو کچھ کہتے ہیں اور کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری کے لیے اور وہ محض خوشامد اور نفاق سے.اس قدر بیان فر ما کر پھر حضرت تشریف لے گئے.(دربارِ شام) حسب معمول حضرت امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام بعد ادائے نماز مغرب شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے.خدام ایک دوسرے سے پہلے جگہ لینے کے لیے گرے پڑتے تھے.آخر جب سب اپنی اپنی جگہ جہاں کسی کو ملی بیٹھ گئے تو حضرت حجۃاﷲ نے کشتی نوح کی اشاعت کے متعلق فرمایا کہ امید ہے جمعہ تک اشاعت ہو جائے گی.اور پھر انگریزی سلطنت کے متعلق قریباً وہی گفتگو فرمائی جو جو صبح کی سیر میں فرمائی تھی.ہاں اتنا اضافہ اور کیا کہ چونکہ مسیح ابن مریم کے ساتھ ہمیں مشابہت ہے.اُن کے لیے جو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَاٰوَيْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِيْنٍ (المؤمنون : ۵۱) یعنی واقعہ صلیب کے بعد ان کو ایک اُونچے ٹیلہ پر جگہ دی جہاں آرام کی جگہ اور پانی کے چشمے تھے.اصل یہ ہے کہ اس جگہ یعنی واقعاتِ مسیح ابن مریم میں تو صرف ظِل تھا اور یہاں اصل ہے.ہم کو ایسی جگہ پناہ دی جہاں یہودیوں کا بس نہیں چل سکتا یعنی سلطنتِ انگلشیہ کے ماتحت.اب یہاں یہودی حملہ نہیں کر سکتے.ہمارے لیے یہ پناہ کی جگہ ہے اور حقائق و معارف کے چشمے یہاں بہ رہے ہیں.اتنے میں آسمان پر مغرب کی طرف سے ایک غبار سا اُٹھا.کبھی کبھی اس آندھی میں بجلی کے کوندنے کی
چمک بھی نظر آتی تھی.بعض احباب نے چاہا کہ نیچے چلیں.حضور نے فرمایا.دیکھ لو جو اَمر آسمان پر ہوتا ہے اس میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے.جناب میر صاحب نے عرض کی کہ حضور غور کر کے دیکھا جاوے تو پہلے زمانہ کی نسبت خدا کا فضل اب بہت زیادہ ہے.فرمایا.وہ زمانہ اس آخری زمانہ کا نمونہ تھا اور بطور اِرہاص تھا.صوفیوں نے لکھا ہے کہ قرآن کریم عصائے موسیٰ کا قائم مقام تھا جو مذاہب مخالفہ کو کھا جانے والا ہے اور حقیقت بھی یونہی ہے.قرآنِ شریف کے مقابل پر کوئی کتاب نظر نہیں آتی.مولوی عبد الکریم صاحب کی ایک رؤیا مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنی ایک رئویا سنائی کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سیالکوٹ کے بازار میں ایک آریہ بڑے کلے تھلے والا وعظ کرتا ہے.اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ وید کی دعائوں کی طرف توجہ کرو.مجھے یہ سن کر جوش اور غیرت آئی اور میں نے کہا کہ بیشک وید میں دعائیں تو ہیں مگر اُن کی قبولیت اور مستجابُ الدّعوۃ لوگوں کی علامات کا کوئی نشان بتائو.وید میں کہاں ہے.اس پر وہ بہت ہی چھوٹا سا ہو گیا.یہ خواب مبارک اور آریہ پر فتح کی دلیل ہے.فرمایا.حقیقت میں خدا سے بے نصیب جانا یہی بڑا بھاری دوزخ ہے.کسی نے کیا اچھا کہاہے.ع حکایتے ست کہ از روز گارہجراں است اصل یہ ہے کہ جب انسان دنیا کو مقدم کر لیتا ہے خواہ جان و مال کے لیے یا دولت و ملوک کے لیے.پھر اس کو دین کی طرف آنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن جن لوگوں نے دین کو طلب کیا ہے وہ اس مقام پر اس وقت تک نہیں پہنچے جب تک انہوں نے اﷲ تعالیٰ کو مقدم نہیں کر لیا اور منقطعین اور متبتّلین میں داخل نہیں ہوئے.؎ سخن اینست کہ مابے تو نخواہیم حیات بشنو اے پیک سخن گیر وسخن باز رساں
قرآن شریف نے جو کہا ہے اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ ( البقرۃ : ۱۸۷) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دعا کا جواب ملتا ہے.پس وید کی دعائیں بے ثمر ہیں جن کا کوئی جواب نہیں ملتا ہے بلکہ ساری دعائیں اُلٹی ہی پڑتی رہی ہیں.مسیح کو خواب میں دیکھنے کی تعبیر مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کی کہ آج میں تعبیر الرئویا پڑھ رہا تھا.ایک مقام پر مجھے بہت ہی لُطف آیا لکھا ہے کہ اگر کوئی حضرت عیسیٰ کو خواب میں دیکھے تو وہ دلالت کرتا ہے کہ نقل مکان کرے گا.(ایڈیٹر.علم تعبیر الرئویا کی رو سے یہ کیسا عجیب استدلال ہے اس اَمر پر کہ مسیح اپنے ملک سے کشمیر میں ضرور آئے.خصوصاً ایسی حالت میں کہ قرآن اور حدیث ان کی مؤید ہوں.) مفتی محمد صادق صاحب آج کل ایک کتاب سنا رہے ہیں جو داستانِ مسیح کہنی چاہیے.اس میں واقعاتِ صلیب کو نہایت خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے.اور ان اسرار کا اس سے پتہ لگتا ہے جو مسیح کے صلیب پر سے زندہ اُتار لیے جانے کے مؤید ہیں.مفتی صاحب نے عرض کی کہ حضور میں اس کو دیکھ رہا تھا.ایک مقام پر لکھا ہے کہ جب مسیح کو صلیب پر چڑھانے کا حکم ہو چکا اور پیلاطوس اور اس کی بیوی کے چھوڑ دینے کی تدابیر میں کامیابی نہ ہوئی تو پیلاطوس کی بیوی نے کہا کہ ہمیں عملی تدابیر میں لگ جانا چاہیے اور اس کے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے.اس کے بعد آندھی کا زور بڑھ گیا اور بارش کا اندیشہ ہوا.اس لیے نماز عشاء ادا کرلی گئی اور جلسہ بر خاست ہوا.۱ ۲؍اکتوبر ۱۹۰۲ء آج حضرت صاحبزادہ بشیرالدین محمود سلّمہ اﷲ تعالیٰ کی بارات روڑکی کو قادیان سے علی الصباح روانہ ہوئی.اس بارات میں حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب اور جناب مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب اور
جناب سید السّادات میرنا صر نواب صاحب اور آپ کے صاحبزادہ میر محمد اسماعیل صاحب اور ڈاکٹر نور محمد صاحب اور صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی اور مفتی محمد صادق صاحب تھے.راہ میں مسنون طریق پر جناب میر ناصر نواب صاحب کو امیر قافلہ بنایا گیا.اسی روز عشاء کی نماز روڑ کی میں ادا کی گئی.جناب ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب جن کے ہاں بارات جانی تھی.اسٹیشن ریلوے روڑکی پر مع اپنے دوستوں کے استقبال کے لیے تشریف لائے اور تمام لوازماتِ تواضع جو ہونے چاہیے تھے نہایت خندہ پیشانی اور شرحِ صدر سے ادا کئے.موت سے عبرت حضرت اقدس حسبِ معمول وقت مقررہ پر سیر کو نکلے.ابتدائے گفتگو میں فرمایا.ہزارہا بدبخت لوگوں سے قبریں بھری پڑی ہیں.ہزاروں نامُراد بادشاہ ان میں ہیں.ہزاروں ہی بے نصیب اُن میں پڑے ہیں.انسان اگر اپنے ہی خاندان کی موت پر قیاس کرے تو عبرت حاصل کر سکتا ہے.عمر کا سلسلہ اپنے خاندان سے معلوم کر سکتا ہے.بعض خاندان ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کی عمریں پچاس تک پہنچتی ہیں.ناگپور او ر ممالک متوسطہ کی طرف عمریں بہت ہی چھوٹی ہوتی ہیں.اس طرف بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض خاندانوں کی عمریں چھوٹی ہوتی ہیں.اصل یہ ہے کہ یہ بھید کسی کو معلوم نہیں ہوا.انگریز محقّق نا حق ٹکریں مارتے پھرتے ہیں کہ زمینداروں کی عمریں زیادہ ہوتی ہیں یادماغی محنت کرنے والوں کی.یہ صرف خیالی باتیں ہیں.انسان کی عمر بہت چھوٹی ہوتی ہے.بعض حیوانات کی عمریں بہت بڑی ہوتی ہیں.مثلاً کچھوہ کی عمر پانچ ہزار برس تک ہوتی ہے.اس لیے اس کو عربی میں غیلم کہتے ہیں.کیونکہ یہ گویا ہمیشہ ہی جوان رہتا ہے.سانپ کی عمر بھی بڑی ہوتی ہے.ہزار ہزار برس تک.مرضیٔ مولیٰ ؎ جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے خدا تعالیٰ جس کام کو کرنا چاہتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے.چاروں طرف سے ایسے اسبا ب جمع ہوتے
ہیں اور ایسا زور اور دبائو آکر پڑتا ہے کہ آخر وہ کام ہو ہی جاتا ہے.بڑے بڑے راجے مہاراجے جو بعض اوقات مسلمان ہوئے.خدا تعالیٰ کی مرضی اسی طرح پر تھی.چاروں طرف سے ایسا زور آکر پڑا کہ بجز اسلام کے چارہ نہ رہا.خدا کی مہلت سے فائدہ اٹھانا چاہیے مذہب ایک ایسی چیز ہے کہ مختلف مذہب کے لوگ یکجاجمع نہیں ہو سکتے.سنّۃ اللہ کا نہ سمجھنا بھی ایک زہر ہے جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے.قرآن شریف میں لکھا ہے کہ بعض وقت بَلا کو ہم ٹلا دیتے ہیں تو انسان بیباک ہو کر کہتا ہے کہ بَلا ٹل گئی اور پھر شوخیاں کرنے لگتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر اﷲ تعالیٰ پکڑتا ہے اور سخت پکڑتا ہے اور ہلاک کر دیتا ہے.پس اگر طاعون کم ہو جاوے تو اس سے دلیر نہیں ہونا چاہیے.خدا تعالیٰ کی مہلت سے فائدہ اُٹھانا چاہیے.مسیح موعود کے وقت میں وبا کا پھیلنا عیسائیوں اور مسلمانوں کے نزدیک تو مسلّم ہی ہے.ہندو بھی مانتے ہیں کہ آخری دنوں میں ایک وبا ہو گی اور اس وقت آنے والے کا نام رودّر گوپال ہوگا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام فرقوں میں جیسے آخری دنوں میں ایک موعود کے آنے کا عقیدہ مشترک ہے ویسے ہی یہ بھی مانا گیا ہے کہ اس وقت وبا پڑے گی.آدابِ دعا پس دعائوں سے کام لینا چاہیے اور خدا تعالیٰ کے حضور استغفار کرنا چاہیے.کیونکہ خدا تعالیٰ غنی بے نیاز ہے اس پر کسی کی حکومت نہیں ہے.ایک شخص اگر عاجزی اور فروتنی سے اس کے حضور نہیں آتا وہ اس کی کیا پروا کر سکتا ہے.دیکھو! اگر ایک سائل کسی کے پاس آجاوے اور اپنا عجز اور غربت ظاہر کرے تو ضرور ہے کہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ سلوک ہو.لیکن ایک شخص جو گھوڑے پر سوار ہو کر آوے اور سوال کرے اور یہ بھی کہے کہ اگر نہ دو گے تو ڈنڈے ماروں گا.تو بجز اس کے کہ خود اس کو ڈنڈے پڑیں اور اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا.خدا تعالیٰ سے اڑ کر مانگنا اور اپنے ایمان کو مشروط کرنا بڑی بھاری غلطی اور ٹھوکر کاموجب ہے.دعائوں میں استقلال اور صبر ایک الگ چیز ہے اور اڑ کر مانگنا اور بات ہے.یہ کہنا کہ میرا فلاں کام اگر نہ ہوا
تو میں انکار کر دوں گا یا یہ کہہ دوں گا یہ بڑی نادانی اور شرک ہے اور آدابُ الدّعا سے ناواقفیت ہے.ایسے لوگ دعا کی فلاسفی سے ناواقف ہیں.قرآن شریف میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ ہر ایک دعا تمہاری مرضی کے موافق میں قبول کروں گا.بیشک یہ ہم مانتے ہیں کہ قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : ۶۱) لیکن ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ اسی قرآن شریف میں یہ بھی لکھا ہوا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ الآیۃ(البقرۃ : ۱۵۶).اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ میں اگر تمہاری مانتا ہے تو لَنَبْلُوَنَّكُمْ میں اپنی منوانی چاہتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کا احسان اور اس کا کرم ہے کہ وہ اپنے بندہ کی بھی مان لیتا ہے ورنہ اس کی الوہیت اور ربوبیت کی شان کے یہ ہرگز خلاف نہیں کہ اپنی ہی منوائے.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ جو فرمایا تو اس مقام پر وہ اپنی منوانا چاہتا ہے.کبھی کسی قسم کا خوف آتا ہے اور کبھی بھوک آتی ہے.اور کبھی مالوں میں کمی واقع ہوتی ہے.تجارتوں میں خسارہ ہوتا ہے اور کبھی ثمرات میں کمی ہوتی ہے.اولاد ضائع ہوتی ہے او رثمرات برباد ہو جاتے ہیں اور نتائج نقصان دہ ہوتے ہیں.ایسی صورتوں میں خدا تعالیٰ کی آزمائش ہوتی ہے.اس وقت خدا اپنی شانِ حکومت دکھانا چاہتا ہے اور اپنی منوانا چاہتا ہے.اس وقت صادق اور مومن کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ نہایت اخلاص اور انشراحِ صدر کے ساتھ خدا کی رضا کو مقدم کر لیتا ہے اور اس پر خوش ہو جاتا ہے.کوئی شکوہ اور بدظنی نہیں کرتا.اس لیے خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ (البقرۃ : ۱۵۶) پس صبر کرنے والوں کو بشارت دو.یہ نہیں فرمایا کہ دعا کرنے والوں کو بشارت دو بلکہ صبر کرنے والوں کو.اس لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اگربظاہر اپنی دعائوں میں ناکامی دیکھے تو گھبرا نہ جاوے بلکہ صبر اور استقلال سے خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرے.اہل اﷲ کو نظر آجاتا ہے کہ یہ کام ہونہار ہے.پس جب وہ یہ دیکھتے ہیں تو دعا کرتے ہیں ورنہ قضاوقدر پر راضی رہتے ہیں.اہل اﷲ کے دو ہی کام ہوتے ہیں.جب کسی بَلا کے آثار دیکھتے ہیں تو دعا کرتے ہیں لیکن جب دیکھتے ہیں کہ قضا وقدر اسی طرح پر ہے تو صبر کرتے ہیں.جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچوں کی وفات پر صبر کیا جن میں سے
ایک بچہ ابراہیم بھی تھا.جبکہ خدا تعالیٰ نے یہ دو تقسیمیں رکھ دی ہیں اور یہ اس کی سنّت ٹھہرچکی ہے اور یہ بھی اس نے فرمایا ہے لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا (الفتح : ۲۴) پھر کس قدر غلطی ہے جو انسان اس کے خلاف چاہے.میں نے بارہا بتایا ہے کہ انسان کے ساتھ خدا نے دوستانہ معاملہ رکھا ہے.کبھی ایک دوست دوسرے کی مان لیتا ہے اور کبھی اپنی منواتا ہے.اور دعا بندہ اور خدا میں بھاجی کی طرح ہیں.اگر انسان یہ سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کمزور رعایا کی طرح ہر بات مان لے تو یہ نقص ہے.ماں بھی بچہ کی ہر بات نہیں مان سکتی.کبھی بچہ آگ کی انگاریاں مانگتا ہے تو وہ کب دیتی ہے یا مثلاً آنکھیں دُکھتی ہوں تو اسے زنک یا اور کوئی دوا ڈالنی ہی پڑتی ہے.اسی طرح پر بندہ چونکہ تکمیل کا محتاج ہے.اُسے ماروںکی ضرورت ہے تاکہ وہ صدق و وفا اور ثباتِ قدم میں کامل ثابت ہو.پھر دعا کرانے والے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ صابر ہو.جلد باز نہ ہو.جو ذرا سی بات پر دجّال کہنے کو تیار ہے پس وہ کیا فائدہ اٹھائے گا.اسے تو چاہیے کہ صبر کے ساتھ انتظار کرے اور حُسنِ ظن سے کام لے.جب کہ خدا تعالیٰ نے لَنَبْلُوَنَّكُمْ فرمایا ہے تو صبر کرنے والوں کے لیے بشارت دی اور اُولٰٓىِٕكَ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ بھی فرمایا.میرے نزدیک اس کے یہی معنی ہیں کہ قبولیتِ دعا کی ایک راہ نکال دیتا ہے.حکّام کا بھی یہی حال ہے کہ جس پر ناراض ہوتے ہیں اگر وہ صبر کے ساتھ برداشت کرتا اور شکوہ اور بدظنی نہیں کرتا تو اسے ترقی دیدیتے ہیں.قرآن شریف سے صاف پایا جاتا ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ ابتلا آویں جیسے فرمایا اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ (العنکبوت : ۳) یعنی کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف اٰمَنَّا کہنے سے چھوڑے جائیں اور وہ فتنوں میں نہ پڑیں.انبیاء علیہم السلام کو دیکھو اوائل میں کس قدر دکھ ملتے ہیں.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف دیکھو کہ آپ کو مکی زندگی میں کس قدر دکھ اٹھانے پڑے.طائف میں جب آپ گئے تو اس قدر آپ
کے پتھر مارے کہ خون جاری ہو گیا.تب آپؐنے فرمایا کہ کیسا وقت ہے.مَیں کلام کرتا ہوں اور لوگ منہ پھیر لیتے ہیں اور پھر کہا کہ اے میرے ربّ! میں اس دکھ پر صبر کروں گا جب تک کہ تو راضی ہو جاوے.اولیاء اور اہل اﷲ کا یہی مسلک اور عقیدہ ہوتا ہے.سید عبدالقادر جیلانی لکھتے ہیں کہ عشق کا خاصہ ہے کہ مصائب آتے ہیں.اُنہوں نے لکھا ہے.؎ عشقا ! برآ ! تو مغز گرداں خوردی با شیر دلاں چہ رستمی ہا کردی اکنوں کہ بما روئے نبرد آوردی ہر حیلہ کہ داری نکنی نامردی مصائب او ر تکالیف پر اگر صبر کیا جاوے اور خدا تعالیٰ کی قضا کے ساتھ رضا ظاہر کی جاوے تو وہ مشکل کشائی کامقدمہ ہوتی ہیں.؎ ہر بلا کیں قوم را او دادہ است زیر آں یک گنج ہا بنہادہ است آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تکالیف کا نتیجہ تھا کہ مکہ فتح ہو گیا.دعامیں خدا تعالیٰ کے ساتھ شرط باندھنا بڑی غلطی اور نادانی ہے.جن مقدس لوگوں نے خدا کے فضل اور فیوض کو حاصل کیا.انہوں نے اس طرح حاصل کیا کہ خدا کی راہ میں مَر مَر کر فنا ہوگئے.خدا تعالیٰ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو دس دن کے بعد گمراہ ہو جانے والے ہوتے ہیں.وہ اپنے نفس پر خود گواہی دیتے ہیں جبکہ لوگوں سے شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوئی.ہم لوگوں کی شامتِ اعمال کو روک نہیں سکتے.وہ لوگ نا مُراد رہیں گے جو ولی اور مامور کا یہ معیار ٹھہراتے ہیں کہ اس کی ہر دعا اسی طرح قبول ہو جائے گی جس طرح وہ چاہتے ہیں.اور جو ولی یا مامور ہونے کامدّعی ایسا دعویٰ کرے وہ بھی کذّاب ہے.حضرت یعقوبؑ چالیس برس تک دعا کرتے
رہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ آپ کی مکی زندگی میں مصائب بڑھتے رہے کیا آپ دعا نہ کرتے ہوں گے؟ جو لوگ آسمانی علوم سے ناواقف ہیں وہ ان اسرار کو نہیں سمجھ سکتے.ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور وہ اندھا ہو گیا.اس نے کہا کہ اسلام میرے لیے مبارک نہیں، اس لیے مرتد ہو گیا.ایسے لوگ محروم رہ جاتے ہیں.میں نے ایک جگہ دیکھا ہے کہ امام حسین رضی اﷲ عنہ فتوحات کے لیے دعا کرتے تھے.ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا.آپؐنے فرمایا کہ تیرے لیے شہادت مقدر ہے اگر تو صبر نہ کرے گا تو اخیار ابرار کے دفتر سے تیرا نام کٹ جائے گا.نماز بھی ظہر ہی سے شروع ہوتی ہے جو زوال کا وقت ہے.یہاںتک کہ غروب تک بالکل تاریکی میں جا پڑتا ہے اور رات میں دعائیں کرتا ہے.یہانتک کہ صبح میں سے جا حصہ لیتا ہے.نماز کی تقسیم بھی بتاتی ہے کہ خدا نے اس تقسیم میں ایک صبح اور باقی چار ایسی رکھی ہیں جو تاریکی سے حصہ رکھتی ہیں ورنہ ممکن تھا کہ اقبال تک ختم ہو جاتیں.ایسا ہی سورۂ فاتحہ میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ایسے لفظ رکھے ہیں جو اس منشا کو ظاہر کرتے ہیں.اِيَّاكَ نَعْبُدُ سے صاف پایا جاتا ہے کہ کچھ نہیں چاہتے، تیری عبادت کرتے ہیں اور اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ سے دعا کرتے ہیں.گویا اِيَّاكَ نَعْبُدُ اور اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْاور لَنَبْلُوَنَّكُمْ کو ملایا ہے.نَعْبُدُ تو یہی ہے کہ بھلائی اور برائی کا خیال نہ رہے، سلب امید و امانی ہو.اور اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں دعا کی تعلیم ہے.(بوقتِ ظہر) خواجہ غلام فرید صاحب کا ذکر خیر خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے کا ذکر ہوا فرمایا.اس نے اپنے خط میں بڑی صفائی سے لکھ دیا تھا کہ میں آپ کے دعویٰ کامصدّق ہوں اور میں
نے کبھی ساری عمر بدظنی نہیں کی.یہ ایک ایسا کام تھا جو دوسرے گدی نشینوں سے نہیں ہوا.اور کسی نے خط کا جواب تک نہیں دیا اور کسی کو ایسی توفیق نہیں ملی.میرے خیال میں وہ نیکی جو اس کی طبیعت میں سخاوت تھی اسی کا یہ ثمرہ تھا کہ اس تصدیق کی یہ توفیق ملی.حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص مسلمان ہوا.وہ اسلام لانے سے پہلے بڑا سخی تھا.اس نے عرض کی کہ یا رسول اﷲ میں نے اسلام سے پہلے جو سخاوت کی ہے اس کا بھی کوئی اجر ملے گا.فرمایا کہ وہی روپیہ تو تجھے اسلام میں کھینچ لایا ہے.(بوقتِ عصر) حافظ محمد یوسف ضلعدار کے اشتہار کا ذکر حافظ محمد یوسف ضلعدار کی باسی کڑھی کو پھر اُبال آیا.تحفہ گولڑویہ کی اشاعت پر اس نے اشتہار دیا ہے کہ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا (الحآقّۃ : ۴۵) پر جو اس سے مطالبہ کیا گیا کہ کوئی ایسا مفتری پیش کرو جس نے خدا پر تَقَوُّل کیا ہو اور اپنے ان مفتریات کو شائع کیا ہو اور پھر اس نے ۲۳ برس کی مہلت پائی ہو.تو پانچ ۵۰۰سو روپیہ انعام دیا جاوے گا.اس طرح پر قطع الوتین ایک لغو سا اشتہار کسی امر تسری عطّارنے دیا تھا.حافظ صاحب نے اپنے اشتہار میں اسی کا حوالہ دے کر اس بوجھ کوگردن سے اتارا.اور ندوہ کے جلسہ میں حضرت کو بلایا ہے.حضرت حجۃاﷲ نے تجویز فرمایا کہ اس کے متعلق ایک مختصر اشتہار ندوہ کو مخاطب کر کے لکھا جاوے.چونکہ وہ اشتہار الگ طبع ہونا ہے جو کسی وقت الحکم میں شائع ہوجاوے گا اِنْ شَآءَ اللّٰہُ الْعَزِیْزُ.اس لیے ضرورت نہیں کہ اس مضمون کا اعادہ یہاں اپنے لفظوں میں کیا جاوے.(دربارِ شام) ہمارے لیے خدا تعالیٰ کی عدالت کافی ہے آج شیخ عبد الرشید صاحب زمیندار وتاجر میرٹھ جو آج ہی آئے تھے حضرت اقدسؑ سے نماز سے فارغ ہوتے ہی ملے.حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے ان کو
حضرت سے انٹروڈیوس کرایا.ضمیمہ شحنۂ ہند میرٹھ کے متعلق ذکر آنے پر شیخ عبدالرشید صاحب نے عرض کی کہ میں نے تو ارادہ کیا تھا کہ بذریعہ عدالت اس کے سخت توہین آمیز مضامین پر نوٹس لوں.حضرت حجۃ اﷲ نے فرمایا.ہمارے لیے خدا کی عدالت کافی ہے.یہ گناہ میں داخل ہو گا اگر ہم خدا کی تجویز پر تقدم کریں.اس لیے ضروری ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیں.اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹی نے اپنی پنجابی نظم سنائی جو بہت لطیف اور معنی خیز ہے خصوصاً عورتوں کے لیے.ہم نے ارادہ کیا ہے کہ عورتوں کے افادہ کے لیے اُس کو الگ چھاپ دیں.بعد نماز عشاء آج کا دربار ختم ہوا.۱ ۳؍اکتوبر ۱۹۰۲ء ندوہ کے لیے ایک اشتہار آج جمعہ کا دن ہے.حضرت اقدس کامعمول ہے کہ جمعہ کو سیر کو تشریف نہیں لے جاتے.بلکہ نماز جمعہ کی تیاری کے لیے مسنون طریق پر غسل، حجامت، تبدیلی لباس، حناوغیرہ امور میں مصروف رہتے ہیں.اس لیے سیر کو تشریف نہیں لے گئے.جمعہ سے پیشتر ندوہ کے لیے ایک اشتہار لکھا جو کل ۲؍ اکتوبر کو عصر کے وقت تجویز کیا تھا اگر چہ یہ اشتہار صرف ایک صفحہ کا تجویز کیا تھا مگر اﷲ تعالیٰ نے آپ کے قلم اور کلام میں وہ قوت اور روانگی دی ہے کہ جو اعجازی رنگ سے رنگین ہے اس لیے بجائے ایک صفحہ کے کئی صفحے ہوگئے.(بین المغرب والعشاء) رسالہ اسلام النَّصاریٰ شیخ عبد الحق صاحب نو مسلم نے اپنے ایک جدید رسالہ کا کچھ قصہ سنایا.اس غرض سے کہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام اس رسالہ
کا کوئی نام تجویز کر دیں.یہ رسالہ شیخ صاحب نے ایک عیسائی کے ٹریکٹ سچا اسلام نام کے جواب میں لکھا ہے.جس میں اس نے عیسائیت کو سچا اسلام قرار دیا ہے.حضرت اقدس نام تجویز کرنا چاہتے تھے کہ چند آدمیوں نے بیعت کی درخواست کی.آپ نے فرمایا کہ بیعت کے بعد اس کا نام تجویز کرتا ہوں.چنانچہ بیعت کے لیے وہ آدمی پیش ہوئے اور آپ نے اُن سے بیعت توبہ لی.اور پھر اس رسالہ کا نام اسلام نصاریٰ یا اسلام النَّصاریٰ تجویز فرمایا اور یہ تقریر فرمائی.اس رسالہ کا نام اسلام النَّصاریٰ رکھو.اور اصل رسالہ سے پہلے ایک چھوٹا سا مقدمہ لکھو کہ سچا اسلام تو یہ ہے کہ قولاً اور فعلاً خدا تعالیٰ کو اپنی ساری طاقتیں سپرد کر دی جاویں اور اس کے احکام کے آگے گردن رکھی جاوے.کوئی اس کا شریک نہ ٹھہرایا جاوے اور ہر قسم کی بدراہی سے دور رہیں.مگر یہ لوگ تو اس خدا سے دور ہیں جو اسلام نے بتایا اور کل نبیوں نے جس کی تعلیم دی.یہودی تو ابھی مَر نہیں گئے.اُن سے پوچھو کہ وہ کس خدا کو مانتے ہیں.وہ صاف کہتے ہیں کہ توریت نے اس خدا کو بیان کیا ہے جو قرآن نے بتایا ہے.وہ انجیل کے خدا کو کب مانتے ہیں جو مریم کا بیٹا ہے جس کو عیسائیوں نے خدا بنایا ہے.اس لیے ضروری ہے کہ اس مقدمہ میں یہ بیان کیا جاوے کہ حقیقی اسلام کیا چیز ہے؟ عقل اور روشنیٔ قلب کس کو تسلیم کرتی ہے.کیا عیسائیت کو یا اسلام کو؟ پھر اس میں عیسائی مذہب کی خرابیاں دکھائو کہ انجیل نے کیا تعلیم دی ہے.مثلاً طلاق ہی کامسئلہ دیکھو کہ انجیل میں لکھا ہے کہ جو طلاق دیتا ہے وہ زنا کرتا اور زنا کراتا ہے،لیکن اب واقعات اور ضرورتوں نے اُن کو مجبور کیا ہے کہ اس مسئلہ کی اہمیت کو تسلیم کریں چنانچہ امریکہ میں قانون بنایا گیا.ایسا ہی شراب کامسئلہ ہے جس کے بغیر عشاء ربانی کامل نہیں ہوتی مگر اس کی خرابیاں دیکھو کیسی ہیں.اور ولایت کا یہ حال ہے کہ وہاں سادہ پانی پینے والے پر ہنسی ہوتی ہے اور پینے کے قابل صرف شراب سمجھی جاتی ہے.اور پانی کو تو کپڑے ہی دھونے کے قابل قرار دیا گیا ہے.اس طرح پر ان کی تعلیم پر ایک مختصر سی نظر کرو.اُن کے کھانے کے دانت اور ہیں اور دکھانے کے اور.مگر افسوس یہ ہے کہ وہ
دکھانے کے دانت بھی خراب ہیں.جب دکھانے کے دانتوں کا یہ حال ہے تو کھانے کے تو اور بھی خراب ہوں گے.کوئی چیز بھی عمدہ نہیں.خدا بنایا تو ایسا اور اعتقاد تجویز کئے تو ایسے.تعلیم دی تو ایسی کہ اگر ایک ہفتہ اس تعلیم پر عمل کرنے کے لیے عدالتیں بند کر دی جائیں تو پتہ لگ جاوے.اس شخص نے سچا اسلام نام رکھ کر دراصل اسلام کو گالی دی ہے.کیونکہ اس نے اسلام کو جھوٹا قرار دیا ہے.اس لیے ضروری ہے کہ ان کی نصرانیت کی قلعی کھولی جاوے.اباحتی زندگی کو اسلام ٹھہراتے ہیں.جو کچھ گند اس کتاب کے اندر ہے وہ اس نام ہی سے ظاہر ہے.پس نصاریٰ کے اسلام کی حقیقت ضرور کھولنی چاہیے.اسلام کا لفظ صرف قرآن نے ہی اختیار کیا ہے اور کسی نے یہ نام اختیار نہیں کیا.مسیح کی آمدِ ثانی اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب نے عرض کیا کہ لاہور سے کسی مارکوئیسی نام عیسائی نے بذریعہ خط دریافت کیا ہے کہ اس کے کیا معنی ہیں جو متی کی انجیل میں لکھا ہے کہ جھوٹے مسیح او رنبی آئیں گے؟ حضرتؑ نے فرمایا کہ اس کا جواب لکھ دیا جاوے اور اس سے پوچھا جاوے کہ یہ جو انجیل میں لکھا ہے کہ چور کی طرح آئوں گا.اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا مسیح کا نام منافق بھی ہے.کہیں بادلوں میں آنا لکھا ہے اور کہیں چور کی طرح.ہم تو حَکم ہو کر آئے ہیں.پہلے ان ساٹھ ستّر اناجیل کا تو فیصلہ ہو لے کہ کون اُن میں سے سچی ہے اور کون جھوٹی.ہم تو ایسے وقت آئے ہیں کہ ا س آیت کو پیش کرتے ہوئے بھی ان کو شرم آنی چاہیے.کیونکہ ان کے حساب کے موافق تو مسیح کی آمد پر بیس برس گذر گئے.اب تو قانونی میعاد بھی ان کے ہاتھ میں نہیں رہی.اس لیے بعض اب مایوس ہو کر کلیسیاہی کو مسیح کی آمد ٹھہراتے ہیں اور اسی قسم کی بیجا اور رکیک تاویلیں کرتے ہیں.پس اب جبکہ ان کے حساب اور اعتقاد کے موافق اب سچے مسیح کو بھی قدم رکھنے کو جگہ نہیں تو پھر فرشتوں کے ساتھ آنا اور وہ جلالی آمد تو غلط ہی ٹھہری.چور کی طرح آنا ہی صحیح ثابت ہوا.پہلے اپنے گھر میں اناجیل کا فیصلہ کر لیں.جھوٹے مسیح جو لکھا ہے تو اب تو سچے کا وقت بھی گذر گیا.تم خود بتائو کہ یہ زمانہ سچے مسیح کا ہے یا جھوٹے مسیح کا.تمہارے بزرگوں نے مان لیا ہے.اسی لئے جو عقل مند ہیں وہ اس مضمون کا ذکر بھی نہیں کرتے
کیسی عجیب بات ہے کہ اس صدی سے آگے نہ کوئی مسلمان گیا ہے،نہ عیسائی.نواب صدیق حسن خاں نے لکھا ہے کہ تمام کشوف اور الہام جو مسیح کے متعلق ہیں وہ چودھویں صدی سےآگے نہیں جاتے.لدھیانہ میں بھی ایک مرتبہ ایک عیسائی نے یہ سوال کیا تھا مگر وہ ایسا لاجواب ہوا کہ آخر اس نے اعتراف کر لیا اور بعض عیسائی اس سے ناراض بھی ہو گئے.اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹی نے اپنی پنجابی نظم و فاتِ مسیح پر پڑھی.بعد نماز عشاء دربار ختم ہوا.۱ ۴؍اکتوبر ۱۹۰۲ء (سیر) آج کی سیر میں طاعون کے متعلق اِدھر اُدھر کی مختلف باتیں ہوتی رہیں.(بوقتِ ظہر) تحفۃالنّدوۃ ندوہ کے متعلق جو جدید اشتہار حضرت حجۃاﷲ نے لکھا ہے وہ ایک جزو کے قریب ہوگیا.آپؑنے فرمایا کہ اب اس کو رسالہ کی صورت میں شائع کیا جاوے.کتاب میں ایک برکت ہوتی ہے.لوگ اشتہار کو اشتہار سمجھ کر پروا نہیں کرتے.اس پرٹائیٹل پیج لگایا جاوے.برہنہ مرد کب اچھا معلوم ہوتا ہے.ٹائیٹل پیج اس کا لباس ہے.اور اس کا نام تحفۃالندوہ رکھ دو.آج تحفہ غزنویہ بھی شائع ہو گیا.چونکہ ندوہ کا اجلاس قریب ہے اور کشتی نوح کی اشاعت میں بھی جلدی ہے.کثرتِ کام کی وجہ سے جو چار پریسوں پر ہو رہا ہے.سب پتھر رُکے پڑے تھے.عرض کیا گیا کہ کشتی نوح کی اشاعت میں دیر نہ ہو جاوے.فرمایا.ٹیکہ کے متعلق جو ہمارا اصل منشا تھا وہ الحکم کے ذریعہ شائع ہو گیا اور گورنمنٹ تک بھی پہنچ گیا اگر
(بین المغرب و العشاء) طاعون کا ذکر بعد ادائے نماز مغرب حضرت اقدس شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے اور طاعون کے ذکر چلنے پر فرمایا.خواہ کچھ ہی ہو اگر کوئی چاہے کہ یہ بَلا ارضی تدابیر سے ٹل جاوے تو یہ محال ہے.خدا کا ایک قانون ہے کہ جس قدر کوئی قابل ہے اُسی قدر اُسے بچایا جاتا ہے.دیکھو شہروں میں جو بکرے ذبح ہوتے ہیں.وہ ان کیڑوں مکوڑوں سے بہت ہی کم ہوتے ہیں جو پائوں کے نیچے آکر ہر روز مارے جاتے ہیں.اور بکروں کی نسبت گائے زیادہ مفید ہے وہ اس کی نسبت کم ذبح ہوتی ہیں.اور اُونٹ اس سے زیادہ مفید ہے وہ اس کی نسبت کم ذبح ہوتا ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر قابلِ قدر جانور ہے اسی قدر کم ذبح ہوتا ہے.انسان ان سب سے زیادہ قابل قدر ہے.اس پر وہ چُھری نہیں چلتی جو اُن جانوروں پر چلائی جاتی ہے.پھر ان انسانوں میں سے بھی جو سب سے زیادہ قابلِ قدر ہے اسے اﷲ تعالیٰ محفوظ رکھتا ہے.اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اپنا سچا تعلق رکھتے اور اپنے اندرونہ کو صاف رکھتے ہیں.اور نوعِ انسان کے ساتھ خیر اور ہمدردی سے پیش آتے ہیں اور خدا کے سچے فرمانبردار ہیں.چنانچہ قرآن شریف سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ(الفرقان : ۷۸ ) اس کے مفہوم مخالف سے صاف پتہ لگتا ہے کہ وہ دوسروں کی پرواہ کرتا ہے اور وہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو سعادت مند ہوتے ہیں.وہ تمام کسریں ان کے اندر سے نکل جاتی ہیں جو خدا سے دور ڈال دیتی ہیں اور جب انسان اپنی اصلاح کر لیتا ہے اور خدا سے صلح کر لیتا ہے تو خدا اس کے عذاب کو بھی ٹلا دیتا ہے.خدا کو کوئی ضد تو نہیں چنانچہ اس کے متعلق بھی صاف طور پر فرمایا ہے مَا يَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ (النِّسآء: ۱۴۸) یعنی خدا نے تم کو عذاب دے کر کیا کرنا ہےاگر تم دیندار ہو جائو.طاعون بڑا خطرناک عذاب ہے.بیوی بچے ہی نہیں تباہ ہوتے بلکہ یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ جنازہ کا بھی کوئی انتظام نہیں ہو سکتا مَرنے والا تو مَر جاتا ہے دوسرے جو
زندہ رہتے ہیں وہ بھی مفقود العقل اور زندہ درگور ہوتے ہیں.ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ گھر والے مُردہ کو باہر پھینک آئے ہیں اور کتوں نے اس کو کھایا اور وہ بھی طاعون سے ہلاک ہو گئے.اس خوفناک مرض میں تعہّد خدمت کا بھی نہیں ہو سکتا.بیمارداروں کو نفرت اور خوف ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ(الفرقان : ۷۸ )اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کامنشا یہ ہے کہ جیسے تم نے میرے شعار کو چھوڑ دیاہے میں تمہاری بھی کوئی پروا نہیں کرتا.تجہیزوتکفین بھی ایک شعار ہے.اور اب تو یہ رسم ہو گئی ہے اور اس سے بڑھ کر نہیں.مُلّا آتا ہے تو اس کی غرض چادر کا لینا ہوتا ہے.جنازہ کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اس کا ایک لفظ آگے نہیں جاتا بلکہ وہ تو یہی سوچتا رہتا ہے کہ کچھ نمک، دانے اور پیسے ملیں گے.اور پھر دیکھتا ہے کہ مُردہ کے کپڑوں سے کوئی حصہ ملے گا.غرض وہ تو مال تک بھی پیچھا نہیں چھوڑتے.اپنے حقوق ہی جتاتے رہتے ہیں.جماعت ایک کنبہ ہے حضرت اقدسؑ یہاں تک بیان کر چکے تھے کہ ایک تارآگیا.یہ تار مولوی غلام علی صاحب رہتا سی کی طرف سے تھا کہ میں بیمار ہو گیا ہوں.میرے لیے ڈولی نہ بھیجو.کچھ عرصہ تک حضرتؑمولوی صاحب کی بیماری کا ذکر کرتے رہے اور حالات پوچھتے رہے.پھر فرمایا کہ ہماری جماعت جو اب ایک لاکھ تک پہنچی ہے.سب آپس میں بھائی ہیں.اس لیے اتنے بڑے کنبہ میں کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی نہ کوئی دردناک آواز نہ آتی ہو.جو گذر گئے وہ بھی بڑے ہی مخلص تھے.جیسے ڈاکٹر بوڑے خاں،سید خصیلت علی شاہ، ایوب بیگ، منشی جلال الدین.خدا ان سب پر رحم کرے.طاعون بیدار کرنے کا ذریعہ ہے طاعون بھی ایک طرح اچھی ہی ہے کیونکہ یہ غفلت سے بیدار کرنے کا ذریعہ ہے.اگر یہ سر پر نہ ہو تو اس زمانہ میں شاید خوف ہی نہ رہے.بڑے بڑے موذی طبع مفسد لوگوں کو بھی دیکھا ہے کہ جہاں ہیضہ زور سے پڑتا ہے تو ان کے بھی خون خشک ہو گئے ہیں اور اپنے اپنے طور پر ڈر گئے ہیں.بعض دانش مند
کہتے ہیں کہ نفس چونکہ باز نہیں آتا اس لیے ضروری ہے کہ کوئی نہ کوئی محرک ہی ہو.اس دنیا کا انجام کار خاتمہ ہوتا ہے اور دوسرا عالم بھی یقینی ہے اور وہ زندگی کا عالم ہے.خواہ پہلی بار ہی اگر وہاں جاکر آنکھ کھلی اور بُرے آثار ہوں تو پھر بڑے مشکلات ہیں.یہ بھی خدا کا بڑا رحم ہے جو اس مردود ملک پر طاعون کا تازیانہ بھیج دیا جس سے غفلت دور ہوتی ہے.خدا کی سنّت ہے کہ جب انسان بہت ہی سخت دل ہو جاوے تو ایسے عذاب بھیج دیتا ہے.انسان معمولی موت سے نہیں ڈرتا.مگر اب جیسے ایک بڈھا اپنے آپ کو قریب بہ قبر سمجھتا ہے.ویسے ہی بیس برس کا نوجوان بھی.غفلت اور شہوات کا نشہ ایسی چیز ہے کہ جب معمولی موت سے انسان نے سبق نہ لیا تو طاعون بھیج دی جو عذاب کی شکل میں ہلاک کر رہی ہے.اَلْاِسْتِفْتَاءُ مِنْ نَدْوَۃِ الْعُلَمَاءِ اس کے بعد مولانا مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب نے اپنا عربی قصیدہ سنایا جو مندرجہ حاشیہ عنوان سے اُنہوں نے دو تین گھنٹہ میں لکھا ہے.جب وہ قصیدہ پڑھ چکے تو مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹی نے پنجابی نظم سنائی اور بعد نماز عشاء دربار ختم ہوا.۱ ۵؍اکتوبر ۱۹۰۲ء (صبح کی سیر) اشاعتِ کُتب نزول المسیح اور کشتی نوح کے متعلق تذکرہ پر فرمایا کہ کشتی نوح الگ بھی تقسیم ہو اور نزول المسیح کے ہمراہ بھی.کیونکہ تقسیم کے وقت ہر ایک اپنی اپنی سمت الگ اختیار کرتا ہے.دنیا میں یہ دونوں قوتیں جاذبہ اور مجذوبہ ہیں اور ان کا اثر بھی برابر جاری ہے.اس لیے اس قسم کی تقسیم سے یہ فائدہ ہوگا کہ جو روحیں صرف تعلیم کی تلاش میں ہیں ان کی سیری اس تعلیم کو پڑھ کر ہو گی.اور بعض روحیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ ثبوت کی تلاش میں ہیں اُن کو نزول المسیح میں پورا ثبوت ملے گا
اور اس سے فائدہ پہنچے گا.بعض صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ امام کی کیا ضرورت ہے ان کے لیے بھی یہ مفید ہوگی.پس یہ دو قسم کی اشاعت اچھی ہے.اﷲ تعالیٰ چاہے گا تو اس سے فائدہ پہنچے گا.اَلْمُؤْمِن اور اَلنَّاس ثبوت اس قسم کے دیئے ہیں کہ اﷲ اکبر ! یہاں تک کہ مشہودات اور محسوسات سے ایمان کی تقویت ہوتی ہے لیکن جو لوگ ایمانی فراست سے حصہ رکھتے ہیں وہ پہلے ہی سمجھ لیتے ہیں جو لوگ حق قبول کرتے ہیں وہ اسی وقت فراست والے کہلاتے ہیں جب وہ اوّل ہی اوّل قبول کرتے ہیں.خدا جو مومنوں کی تعریف کرتا ہے اور رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ (البیّنۃ : ۹) کہتا ہے اسی لیے کہ اُنہوں نے اپنی فراست سے پہلے رسول اﷲؐ کو مان لیا.لیکن جب کثرت سے لوگ داخل ہونے لگے اور انکشاف ہوگیا اس وقت داخل ہونے والے کا نام النّاس رکھا ہے.اس حالت میں تو گویا منع کرتا ہے یہ کہہ کر قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا (الـحجرات : ۱۵) یعنی یہ مت کہو کہ ہم ایمان لائے بلکہ یہ کہو کہ ہم نے اطاعت کی.ایمان اس وقت ہوتا ہے جب ابتلا کے موقع آویں.جن پر ایمان لانے کے بعد ابتلا کے موقعے نہیں آئے وہ اَسْلَمْنَا میں داخل ہیں اُنہوں نے تکلیف کا نشانہ ہوکر نہیں دیکھا بلکہ وہ اقبال اور نصرت کے زمانہ میں داخل ہوئے.یہی وجہ ہے کہ فخر کا نام اور خطاب ان کو نہ ملا بلکہ النّاس ان کا نام رکھا کیونکہ وہ ایسے وقت داخل ہوئے جب کام چل پڑا.اور رسول اﷲؐ نے اپنی صداقت کی روشنی دکھلائی.اس وقت دوسرے مذاہب حقیر نظر آئے تو سب داخل ہو گئے.انبیاء کا استغفار نبی بہت بڑی ذمہ داریاں لے کر آتا ہے.اس لیے جب وہ اپنے کام کو کر چکتا ہے اور تبلیغ کر کے رخصت ہونے کو ہوتا ہے تو وہ وقت اس کا گویا خدا تعالیٰ کو چارج دینے کا ہوتا ہے.ایسے وقت میں اﷲ تعالیٰ جس پر اپنا فضل کرتا ہے اس پر استغفار کا لفظ بولتا ہے.طریق کے موافق رسول اﷲؐ کو بھی ارشادِ الٰہی اسی طرح ہوتا ہے فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا( النّصـر : ۴) خدا تعالیٰ ہر ایک نقص سے پاک ہے اس کی تسبیح کر اور جو کچھ سہو بشریت کی رُو سے اس ذمہ داری کے کام میں ہوا ہے تو اس سے استغفار چاہو.جس کے سپرد
ہزاروں کام ہوں اس کے لیے ضروری ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تو مقاصد عظیم الشان لے کر آئے تھے.غرض یہ ایک چارج تھا جو آپ نے اﷲ تعالیٰ کو دیا.اور جس میں آپ کی پوری کامیابی کی طرف پہلے اشارہ کر دیا.اور یہ سورہ گویا آنحضرتؐکی وفات کا ایک پروانہ تھا.یہ بھی یاد رکھو کہ انبیاء کی زندگی اسی وقت تک ہوتی ہے جب تک مصائب کا زمانہ رہے.اس کے بعد جب فتح و نصرت کا وقت آتا ہے تو وہ گویا اُن کی وفات کا ایک پروانہ ہوتا ہے.کیونکہ وہ اس کام کو کر چکے ہوتے ہیں جس کے لیے بھیجے جاتے ہیں.اور اصل تو یہ ہے کہ کام تو اﷲ کے فضل سے ہوتے ہیں.مفت میں ثواب لینا ہوتا ہے.جو شخص اس میں بھی خود غرضی، سُستی، ریا کی آمیزش کرے وہ اصل ثواب سے محروم رہ جاتا ہے.اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ کی تائید میں ایک عرصہ ہوا میں نے خواب دیکھا تھا کہ گویا میر ناصر نواب ایک دیوار بنا رہے ہیں جو فصیلِ شہر ہے.میں نے اس کو جودیکھا تو خوف آیا کیونکہ وہ قد آدم بنی ہوئی تھی.خوف یہ ہوا کہ اس پر آدمی چڑھ سکتا ہے.مگر جب دوسری طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ قادیان بہت اونچی کی گئی ہے اس لیے یہ دیوار دوسری طرف سے بہت اونچی ہے اور یہ دیوار گویا ریختہ کی بنی ہوئی ہے.فرش کی زمین بھی پختہ کی گئی ہے.اور غور سے جو دیکھا تو وہ دیوار ہمارے گھروں کے ارد گرد ہے.اور ارادہ ہے کہ قادیان کے گرد بھی بنائی جاوے.شاید اﷲ رحم کر کے ان بلائوں میں تخفیف کر دے.۱ قادیان میں چند موتیں آج معمولی موسمی عوارض بخار وغیرہ سے یہاں کے چوڑھوں اور دوسری اقوام میں دو موتیں ہو گئی تھیں.اس کا ذکر آیا.فرمایا.ایسی موتیں محرقہ تپ سے بھی ہوتی ہیں.طاعون کے حملے ہی الگ ہوتے ہیں.کوئی جنازہ پڑھنے اور اُٹھانے والا بھی نہیں ملتا.بعض وقت ایک گھر میں جب یہ بَلا داخل ہوتی ہے تو اس گھر کے گھر کو
صاف کر دیتی ہے.اور عورتوں بچوں تک کو تو ہوتی ہی ہے جانوروں کو بھی ہو جاتی ہے.بلائوں اور خوف کی افادیت طاعون بجائے خود انسان کے ایمان کے پرکھے جانے کا بھی ایک ذریعہ ہے.اب طاعون تو مان نہ مان میں ترا مہمان ہو کر آئی ہے.اگر طاعون نہ ہوتی تو سچے مسلمان کا پتہ لگنا ہی مشکل ہوتا جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں وہ اس وقت طاعون کو دیکھ کر جلد تبدیلی کرتے ہیں.یہ دیکھا گیا ہے کہ معمولی موتیں جو ہر روز ہوتی رہتی ہیں.یہ گو انسان کو بیدار کرنے کے لیے کافی ہیں.اگر وہ ان سے عبرت حاصل کرے.لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ وہ ناکافی ہیں اور وہ دنیا کے تعلقات پر موت وارد کرنے کے لیے اس قدر مفید اور مؤثر ثابت نہیں ہوتی ہیں جس قدر کہ اب طاعون! اور اس کی وجہ یہ ہے کہ معمولی موتیں اب معمولی موتیں ہونے کی وجہ سے اس قدر خوفناک نہیں رہی ہیں.لیکن اب طاعون کے حملوں سے ایک عالمگیر خوف چھا گیا ہے اور یہ وقت ہے کہ خدا تعالیٰ ہی کو اپنا ماویٰ وملجا بنایا جاوے.غور کرکے دیکھو کہ کس قدر وحشت ہوسکتی ہے.جب ایک گھر میں دو چار مُردے پڑے ہوں اور کوئی اٹھانے والا بھی موجود نہ ہو.غرض طاعون اب انسان کا جو ہر کھول کر دکھادیتی ہے.مصیبت اور مشکلات بھی انسان کے ایمان کے پرکھنے کا ایک ذریعہ ہیں.چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ (العنکبوت : ۳)اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں جماعت کو بہت زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ موت سب سے بڑھ کر منذرات میں سے ہے.جو تبدیلی اس نظارہ موت سے ہو سکتی ہے وہ دوسری مُنذرات سے نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ جو تبدیلی چاہتا ہے وہ اسی طرح ہوتی ہے.یہ وقت ہے کہ لوگ خدا کی طرف رجوع کریں اور اس سے دعائیں مانگیں کہ ایک پاک تبدیلی انہیں عطا ہو.جن لوگوں کی پاک تبدیلی خدا تعالیٰ دعائوں سے چاہتا ہے ان کی تبدیلی اسی طرح پر ہوتی ہے کہ اُن پر بلائیں اور خوف آتے ہیں.جیسے فرمایا وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ الآیۃ ( البقرۃ : ۱۵۶) اگر انسان کے افعال سے گناہ دور ہو جاوے تو شیطان چاہتا ہے کہ آنکھ، کان، ناک تک
ہی رہے اور جب وہاں بھی اُسے قابو نہیں ملتا تو پھر وہ یہاں تک کوشش کرتا ہے کہ اور نہیں تو دل ہی میں گناہ رہے.گویا شیطان اپنی لڑائی کو اختتام تک پہنچاتا ہے،مگر جس دل میں خدا کا خوف ہےوہاں شیطان کی حکومت نہیں چل سکتی.شیطان آخر اس سے مایوس ہو جاتا ہے اور الگ ہوتا ہے اور اپنی لڑائی میں ناکام و نامُراد ہو کر اسے اپنا بوریا بستر باندھنا پڑتا ہے.بہت سے لوگ اس قسم کے ہیں کہ وہ نفسانی قیدوں اور ناجائز خیالات سے الگ ہونا نہیں چاہتے اور کوئی بات ان پر مؤثر نہیں ہوتی.آخر خدا تعالیٰ اُن پر یوں رحم کرتا ہے کہ بعض ابتلا آجاتے ہیں تو وہ آہستہ آہستہ اُن سے باز آجاتے ہیں.قوموں کا باہمی جدال اس وقت عام طور پر قوموں کامناظرہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پیش آگیا ہے مگر اس میں فتح و نصرت اُسی کو ملے گی جو خدا کے نزدیک تقویٰ والی ہو اور زبان کو سنبھال کر رکھے.بندوں پر ظلم نہ کرے.ان کے حقوق کی رعایت کرے.سفر میں، حضر میں بنی نوع انسان کی ہمدردی اور رعایت کرے تو خدا تعالیٰ اس کی رعایت کرتا ہے.جب وہ تقویٰ دیکھتا ہے تووہ خود اس کا ولی اور مددگار ہوتا ہے.یہ بالکل سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کا کسی کے ساتھ کوئی جسمانی رشتہ نہیں ہے.خدا تعالیٰ خود انصاف ہے اور انصاف کو دوست رکھتا ہے.وہ خود عدل ہے عدل کو دوست رکھتا ہے.اس لیے ظاہری رشتوں کی پروا نہیں کرتا.جو تقویٰ کی رعایت کرتا ہے اسے وہ اپنے فضل سے بچاتا ہے اور اس کا ساتھ دیتا ہے.اور اسی لیے اُس نے فرمایا اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ (الـحجرات : ۱۴) پس اس مناظرہ میں متقی ہی کامیاب ہوگا.طائف عرب کی تجارتی اشیاء کا تذکرہ ہوتا رہا.اور طائف کے ذکر پر فرمایا کہ وہ گویا اس ریگستان میں بہشت کا نمونہ ہے.اسی ذکر میں یہ بھی کہا گیا کہ عرب میں بازاروں میں ہر ایک چیز کبھی ختم نہیں ہوتی ہر وقت جس قدر چاہو میسّر آسکتی ہے.
برات کے ساتھ باجا بجانا میاں اﷲ بخش صاحب امرتسری نے عرض کیا کہ حضور یہ جو براتوں کے ساتھ باجے بجائے جاتے ہیں.اس کے متعلق حضور کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا.فقہاء نے اعلان بالدّف کو نکاح کے وقت جائز رکھا ہے اور یہ اس لیے کہ پیچھے جو مقدمات ہوتے ہیں تو اس سے گویا ایک قسم کی شہادت ہو جاتی ہے.ہم کو مقصود بالذّات لینا چاہیے.اعلان کے لئے یہ کام کیا جاتا ہے یا کوئی اپنی شیخی اور تعلّی کا اظہار مقصود ہے.دیکھا گیا ہے کہ بعض چپ چاپ شادیوں میں نقصان پیدا ہوئے ہیں.یعنی جب مقدمات ہوئے ہیں تو اس قسم کے سوال اُٹھائے گئے ہیں.غرض ان خرابیوں کے روکنے کے لیے اور شہادت کے لیے اعلان بالدّف جائز ہے اور اس صورت میں باجا بجانا منع نہیں ہے، بلکہ نسبتوں کی تقریب پر جو شکر وغیرہ بانٹتے ہیں.دراصل یہ بھی اس غرض کے لیے ہوتی ہے کہ دوسرے لوگوں کو خبر ہو جاوے اور پیچھے کوئی خرابی پیدا نہ ہو.مگر اب یہ اصل مطلب مفقود ہو کر اس کی جگہ صرف رسم نے لے لی ہے اور اس میں بھی بہت سی باتیں اور پیدا کی گئی ہیں.پس ان کو رسوم نہ قرار دیا جاوے بلکہ یہ رشتہ ناطہ کو جائز کرنے کے لیے ضروری امور ہیں.یاد رکھو جن امور سے مخلوق کو فائدہ پہنچتا ہے،شرع اس پر ہرگز زد نہیں کرتی.کیونکہ شرع کی خود یہ غرض ہے کہ مخلوق کو فائدہ پہنچے.آتش بازی اور تماشا وغیرہ یہ بالکل منع ہیں کیونکہ اس سے مخلوق کو کوئی فائدہ بجز نقصان کے نہیں ہے.اور باجابجانا بھی اسی صورت میں جائز ہے جبکہ یہ غرض ہو کہ اس نکاح کا عام اعلان ہو جاوے اور نسب محفوظ رہے کیونکہ اگر نسب محفوظ نہ رہے تو زنا کا اندیشہ ہوتا ہے.جس پر خدا نے بہت ناراضی ظاہر کی ہے.یہاں تک کہ زنا کے مرتکب کو سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے.اس لیے اعلان کا انتظام ضروری ہے البتہ ریاکاری، فسق فجور کے لیے یا صلاح و تقویٰ کے خلاف کوئی منشا ہو تو منع ہے.شریعت کامدار نرمی پر ہے سختی پر نہیں ہے لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (البقرۃ : ۲۸۷) باجہ کے متعلق حُرمت کا کوئی نشان بجز اس کے کہ وہ صلاح وتقویٰ کے خلاف اور ریاکاری اور فسق و فجور کے
لیے ہے، پایا نہیں جاتا اور پھر اعلان بالدّف کو فقہاء نے جائز رکھا ہے اور اصل اشیاء حلّت ہے،اس لیے شادی میں اعلان کے لیے جائز ہے.شادی کے موقع پر لڑکیوں کا گانا پھر یہ سوال کیا گیا کہ لڑکی یا لڑکے والوں کے ہاں جو جوان عورتیں مل کر گھر میں گاتی ہیں.وہ کیسا ہے؟ فرمایا.اصل یہ ہے کہ یہ بھی اسی طرح پر ہے اگر گیت گندے اور ناپاک نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے مل کر آپ کی تعریف میں گیت گائے تھے.مسجد میں ایک صحابی نے خوش الحانی سے شعر پڑھے تو حضرت عمر نے ان کو منع کیا.اس نے کہا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھے ہیں تو آپ نے منع نہیں کیا.بلکہ آپ نے ایک بار اس کے شعر سنے تو آپ نے اس کے لیے ’’رحمت اﷲ‘‘فرمایا.اور جس کو آپ یہ فرمایا کرتے تھے وہ شہید ہو جایا کرتا تھا.غرض اس طرح پر اگر وہ فسق و فجور کے گیت نہ ہوں تو منع نہیں.مگر مَردوں کو نہیں چاہیے کہ عورتوں کی ایسی مجلسوں میں بیٹھیں.یہ یادرکھو کہ جہاں ذرا بھی مظنّہ فسق و فجور کا ہو وہ منع ہے.؎ بزہد و ورع کوش و صدق و صفا و لیکن میفزائے بر مصطفیٰ یہ ایسی باتیں ہیں کہ انسان ان میں خود فتویٰ لے سکتا ہے جو اَمر تقویٰ اور خدا کی رضا کے خلاف ہے مخلوق کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے وہ منع ہے.اور پھر جو اسراف کرتا ہے وہ سخت گناہ کرتا ہے.اگر ریاکاری کرتا ہے تو گناہ ہے.غرض کوئی ایسا اَمر جس میں اسراف، ریا، فسق، ایذائے خلق کا شائبہ ہو وہ منع ہے اور جو اُن سے صاف وہ منع نہیںگناہ نہیں.کیونکہ اصل اشیاء کی حلّت ہے.ہر ایک کا کام نہیں کہ دین کے لیے بات کرے،پہلے خود متقی ہونا چاہیے تا کہ ع سخن کزدل بُروں آید نشیند لا جرم بَردِل
کامصداق ہو.منطقی بات بدبُو دار ہوتی ہے کیونکہ اس میں نِرے دائو پیچ ہی ہوتے ہیں.اس لیے منطقیانہ طریق کو چھوڑ کر عارفانہ تقریر کا پہلو اختیار کرنا چاہیے.(دربارِ شام ) آج بعد عصر حضرت صاحبزادہ بشیرالدین محمود احمد سلّمہ اﷲالاحد کی برات رُوڑ کی سے واپس آئی تھی.اس موقع پر ایڈیٹر الحکم نے اپنی احمدی جماعت کی طرف سے ایک مبارکباد کا خاص پر چہ شائع کیا جو برات کے دارالامان پہنچتے ہی شائع کیا گیا تھا.واقعہ صلیب کے بعد مسیح کی زندگی کے متعلق پطرس کی شہادتقبل نما زمغرب جب حضرت جریُّ اﷲ فی حلل الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے تو روڑ کی سے آئے ہوئے احباب ملے جو برات میں گئے تھے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے (جو حضرت اقدس کے سلسلہ میں ایک درخشندہ گوہر ہیں اور جو عیسائیوں کی کتابوں کو پڑھ کر ان میں سے سلسلہ عالیہ کے مفید مطلب مضامین کے اقتباس کرنے کا بے حد شوق اور جوش رکھتے ہیں) پطرس کے متعلق سنایا کہ روڑکی میں پادریوں سے مل کر میں نے اس سوال کو حل کیا ہے.معلوم ہوا ہے کہ صلیب کے وقت پطرس کی عمر ۳۰ یا ۴۰ کے درمیان تھی.ناظرین کو اس سوال ’’عمر پطرس کی ضرورت‘‘ کے لیے ہم الحکم کا وہ نوٹ یاد دلاتے ہیں جس میں ظاہر کیا گیا تھا کہ بعض کاغذات اس قسم کے ہیں.جن میں پطرس لکھتا ہے کہ میں نے مسیح کی وفات سے تین سال بعد ان کو لکھا ہے.اور اب میری عمر ۹۰ سال کی ہے.گویا مسیح نے جب وفات پائی تو پطرس کی عمر ۸۷ سال کی ہوئی اور واقعہ صلیب کے وقت پطرس کی عمر تیس اور چالیس کے درمیان بتائی جاتی ہے تو اب اس سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ مسیح واقعہ صلیب کے بعد کم از کم ۴۷ سال تک بموجب اس تحریر کے زندہ رہا.اور پطرس ان کے ساتھ رہا.اور یہ ثابت ہو گیا کہ صلیب پر مسیح نہیں مَرا بلکہ طبعی موت سے مَرا ہے اور نہ آسمان پر اس جسم کے ساتھ اٹھایا گیا، کیونکہ راس الحواریین پطرس اس کی موت کا
اعتراف کرتا ہے اور موت کا وقت دیتا ہے.مفتی صاحب نے یہ عظیم الشّان خوشخبری حضرت کو سنائی.پھر نماز مغرب ادا ہوئی.(بعد نماز مغرب) ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین کے اخلاص اور نورِ فراست کا ذکر بعد ادائے نماز مغرب حضرت حجۃاﷲ حسبِ معمول شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے.بیٹھتے ہی حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب نے مبارکباد دی اور عرض کیا کہ حضور ڈاکٹر صاحب کو بہت ہی مخلص پایا ہے.کوئی بات انہوں نے نہیں کی.یہی کہا کہ جو حکم دیا ہے وہ کرو.بھائیوں میں سے بھی کوئی شریک نہیں ہوا.فرمایا.خدا تعالیٰ نے ان کو بہت اخلاص دیا ہے اور یہ تقریب پیدا کر دی کہ مخالف بھائیوں سے قطع تعلق ہو جاوے.پھر مولوی صاحب نے عرض کی کہ باوجود یکہ کوئی تکلّف کی بات نہ تھی مگر وہ بڑی ہی خاطر و تواضع سے پیش آئے اور اسی میں اِدھر اُدھر پھرتے رہے.فرمایا.اُن میں اہلیت اور زیرکی بہت ہے.اس پر حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے عرض کی کہ حضور جب الحکم میں میرا ایک خطبہ فَلَا وَ رَبِّكَ پر شائع ہوا تو انہوں نے بڑے ہی اخلاص اور صدق سے خط لکھا کہ اس کو پڑھ کر میرا ایمان بڑا قوی اور تازہ ہو گیا ہے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا.میں نے دیکھا ہے کہ اُن میں نورِ فراست ہے.وہ اپنے باپ سے بھی اس معاملہ میں گفتگو کیا کرتے تھے.حافظ محمد یوسف اور قَطْعُ الْوَتِیْن حافظ محمد یوسف کا ذکر آگیا کہ اس نے اشتہار دیا ہے اور اس میں قطع الوتین کا حوالہ دیا ہے.اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت توہین کی ہے کہ ایک مفتری کو بھی وہ تسلیم کرتا ہے کہ ۲۳ برس تک زندہ رہتا ہے حالانکہ خدا تعالیٰ نے آپ کی صداقت کا یہ عملی زمانہ مقرر کیا ہے
ایک انسان کو اگر لکھا جاوے کہ تیری شکل جانور کی سی ہے اس کی توہین ہے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدتِ نبوت کو کذّاب کی طرح کہنا سخت بے ادبی ہے.آپؐکی پاک زندگی کو مومن کبھی کسی ناپاک انسان کی زندگی سے مشابہت نہیں دے سکتا.آپ کی آمد اس وقت ہوئی جب دنیا فسق وفجور اور فساد سے بھری ہوئی تھی اور آپ اس وقت دنیا سے رخصت ہوئے جب آپ پورے کامیاب ہو گئے اور سب کام کر لیے.اس اشتہار کا جواب لکھنا ضروری تھا اس لیے میں نے ایک رسالہ مختصر سا بنا دیا ہے اور ضروری ہے کہ اس پر ٹائیٹل پیج بھی لگا دیا جاوے.بائیبل میں بھی چھوٹے چھوٹے صحیفے موجود ہیں.اس میں چونکہ ندوہ کو تبلیغ ہے، اس لیے اس کا نام تـحفۃ الندوۃ رکھ دیا ہے.مبارک بشارت اب بہتر ہے کہ اس کے پیچھے ایک مبارک بشارت لکھ دی جاوے کہ عیسائیوں کے محقّقین کی تحریروں سے ثابت ہو گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ صلیب کے واقعہ کے بعد بھی زندہ رہے جیسا کہ پطرس کی اس تحریر سے جو ملی ہے معلوم ہوا.اس تحقیقات سے ہر ایک محقّق کو خوش ہونا چاہیے، کیونکہ یہ ان کاغذات سے ثابت ہوئی ہے جو مسیح کے خاص حواری پطرس کی لکھی ہوئی ہیں.دنیا میں اس وقت ایک عام تحریک ہو رہی ہے اور آئے دن ایک نہ ایک بات ہماری تصدیق اور تائید میں نکلتی آتی ہے.یہ خدا کا کام ہے.اب دیکھ لو کہ یہ کاغذ نکل آئے ہیں جو پطرس کے لکھے ہوئے ہیں.ہماری جماعت ان کو پڑھ کر خوش ہو گی اور ان کا ایمان بڑھے گا.خاتم النبِیِّین کے معنے خاتم النَّبِیِّین کے معنے یہ ہیں کہ آپ کی مُہر کے بغیر کسی کی نبوت تصدیق نہیں ہوسکتی.جب مُہر لگ جاتی ہے تو وہ کاغذ سند ہو جاتا ہے اور مصدّقہ سمجھاجاتا ہے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مُہر اور تصدیق جس نبوت پر نہ ہو وہ صحیح نہیں ہے.ہماری تعلیم کشتی نوح میں مَیں نے اپنی تعلیم لکھ دی ہے اور اس سے ہر ایک شخص کو آگاہ ہونا ضروری ہے.چاہیے ہر ایک شہر کی جماعت جلسے کر کے سب کو یہ سنا دے.ایک مستعد
اور فارغ شخص کو بھیج دی جاوے جو پڑھ کر سنا دے اور اگر یونہی تقسیم کرنے لگو تو خواہ پچاس ہزار ہو کافی نہیں ہو سکتی ہیں.اس ترکیب سے اس کی اشاعت بھی ہو جائے گی اور وہ وحدت جو ہم چاہتے ہیں جماعت میںپیدا ہونے لگے گی.دو گروہ خدا تعالیٰ نے دو گروہ بنا دیئے ہیں جیسے صدرِ اسلام میں تھے.ایک ضعفاء اور غرباء کا گروہ ہے اور دوسرے وہ جو نفسانیت رکھتے ہیں.۱ ۶؍اکتوبر ۱۹۰۲ء (دربارِ شام) بعد ادائے نماز مغرب حضرت حجۃ اللہ علی الارض حسبِ معمول شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے.میاں غلام رسول حجام امرتسر نے اپنی مشکلات کا ذکر کیا کہ مخالف کس طرح پر ان کو تکلیفیں دیتے ہیں.اور اس نے یہ بھی ذکر کیا کہ وہ غلام محمد لڑکا جس نے یہاں سے جاکر ایک گندہ اشتہار شائع کیا ہے وہ سخت تکلیف میں ہے.ایک ہندو فقیر کوٹ کپورہ سے آیا ہوا تھا جو آج صبح بھی ملا تھا.اس وقت پھر اس نے سلام کیا.حضرت اقدس نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ یہ ہمارا مہمان ہے اس کے کھانے کا انتظام بہت جلد کردینا چاہیے.چنانچہ ایک شخص کو حکم دیا گیا اور وہ ایک ہندو کے گھر اس کو کھانا کھلانے کے لئے لے گیا.میاں غلام رسول نے پھر اپنی تکالیف کا ذکر کیا اور کہا کہ امرتسر کے مخالفوں نے باہم اتفاق کر کے یہ سازش کی ہے کہ جن گھروں میں مَیں کھانا پکانے جایا کرتا تھا اُن کو بند کر دیا ہے کہ وہ مجھ سے کھانا نہ پکوائیں.حضرت اقدس نے فرمایا.صبر کرنا چاہیے.خبر ہے کہ تمہارے لیے کتنے گھر خدا نے رکھے ہیں؟اور اُن سے دوچند سہ چند تم
کو مل جائیں گے.طاعون شروع ہو گئی ہے اور وہ ابھی ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں.اس لیے تم ان باتوں کا ذکر ہی نہ کرو کہ گھر چھوٹ گئے ورنہ ثواب جاتا رہے گا.طاعون کی اقسام طاعون کے ذکر پر فرمایا.تین قسم کی طاعون ہے.اوّل صرف تپ چڑھتا ہے اور گلٹی نکلتی ہے اور بعض ایسے ہیں کہ سخت تپ ہی ہوتا ہے.اور بعض ایسی ہوتی ہے کہ نہ تپ ہے نہ کچھ اور بس خاتمہ ہی ہو جاتا ہے.مچھلی کی ہڈی گلے میں پھنس جانے کا علاج جناب نواب صاحب کے لڑکے کے گلے میںایک ہڈی کا ٹکڑا پھنس گیا تھا.مولوی صاحب اس کے علاج کے لیے گئے ہوئے تھے.جب نواب صاحب کے ساتھ واپس آئے تو اُنہوں نے ذکر کیا کہ ہڈی پھنس گئی تھی اور شکر ہے کہ نکل گئی.فرمایا.مچھلی کی ہڈی کا علاج تو سہل ہے کہ دہی سرکہ ملا کر پلایا جاوے تو فوراً نکل جاتی ہے.اور فرمایا کہ خدا کا فضل قدم قدم پر انسان کو مطلوب ہے اگر اس کا فضل نہ ہو تو یہ جی نہیں سکتا.مسیح موعود کا ذکر قرآن کریم میں مولوی عبد اﷲ صاحب کشمیری نے دھرم کوٹ میں جو اُن کامباحثہ ہوا تھا اس کامختصر ساتذکرہ کیا اور مہر نبی بخش صاحب بٹالوی کا بھی ذکر کیا کہ وہ وہاں آئے تھے اور انہوں نے ایک مختصر سی تقریر کی تھی.مولوی عبداﷲ صاحب نے کہا کہ وہ بار بار یہ اعتراض کرتے تھے کہ مرزا صاحب کا نام قرآن سے نکال کر دکھائو اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ وہ احمق نہیں جانتے کہ اگر خدا تعالیٰ ایسے صاف طور پر کہتا تو اختلاف کیوں ہوتا؟ یہودی اسی طرح تو ہلاک ہو گئے.بات یہ ہے کہ اگر خدا اس طرح پر پردہ برانداز کلام کرے تو ایمان ایمان ہی نہ رہے.فراست سے دیکھنا چاہیے کہ حق کیا ہے؟ہماری تائید میں تو اس قدر دلائل ہیں کہ فراست والا سیر ہو کر کہتا ہے کہ یہ صحیح ہے.یاد رکھو کہ گفتگو کرتے وقت ضروری ہے کہ پہلے مذہب متعیّن کر لو.
اس پر حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب حکیم الامت نے عرض کیا کہ گور داسپور میں ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے کچھ سوال کیے.میں نے کہا تم نے کسی راستباز کو دنیا میں مانا ہے یا نہیں.جن دلائل سے اس کو مانا ہے اسی دلیل سے حضرت اقدس سچے ہیں.پھر خاموش ہو گیا.فرمایا.یہ لوگ جو بار بار پوچھتے ہیں کہ قرآن میں کہاں نام ہے؟ ان کو معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ نے میرا نام احمد رکھا ہے.بُوْرِکْتَ یَا اَحْـمَدُ وغیرہ بہت سے الہام ہیں.میرا نام محمد رکھا مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ.اور احمد نام پر ہی ہم بیعت لیتے ہیں.کیا یہ نام قرآن شریف میں نہیں ہیں؟ پھر جس قدر میرے نام آدم، عیسیٰ، داؤد، سلیمان وغیرہ رکھے ہیں وہ سب قرآن میں موجود ہیں.ماسوا اس کے یہ سلسلہ اپنے ساتھ ایک علمی ثبوت رکھتا ہے.اگر ان علمی امور کو یکجائی طور پر دیکھا جاوے تو آفتاب کی طرح اس سلسلہ کی سچائی روشن نظر آتی ہے.خدا تعالیٰ نے میرے سارے نبیوں کے نام رکھے ہیں اور آخر جَرِیُّ ﷲِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَاءِ کہہ دیا ہے.مقامِ خاتم النّبِیّین ہم جس طرح پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النّبِیّین مانتے ہیں.اور پھر یہ کہتے ہیں کہ خدا نے میرا نام نبی رکھا یہ بالکل سچی بات ہے.ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو چشمہ افادات مانتے ہیں.ایک چراغ اگر ایسا ہو جس سے کوئی دوسرا روشن نہ ہو وہ قابل تعریف نہیں ہے مگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم ایسا نور مانتے ہیں کہ آپ سے دوسرے روشنی پاتے ہیں.یہ جو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ (الاحزاب : ۴۱) یہ بالکل درست ہے.خدا تعالیٰ نے آپؐکی جسمانی ابوت کی نفی کی.لیکن آپ کی روحانی ابوت کا استثنا کیا ہے.اگر یہ مانا جاوے جیسا کہ ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ آپ کا نہ کوئی جسمانی بیٹا ہے نہ روحانی تو پھر اس طرح پر معاذ اﷲ یہ لوگ آپ کو ابتر ٹھہراتے ہیں، مگر ایسا نہیں آپ کی شان تو یہ ہے کہ اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ.فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ.اِنَّ شَانِئَكَ
اِنَّ شَانِئَكَ هُوَالْاَبْتَرُ (الکوثر : ۲ تا ۴).اﷲ تعالیٰ نے ختمِ نبوت کی آیت میں فرمایا ہے کہ جسمانی طور پر آپ اَبّ نہیں مگر روحانی سلسلہ آپ کا جاری ہے.لاکن خبر مافات کے لیے آتا ہے.اﷲ تعالیٰ کہتا ہے کہ آپ خاتم ہیں.آپ کی مُہر سے نبوت کا سلسلہ چلتا ہے.ہم خودبخود نہیں بن گئے.خدا تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے موافق جو بنایا وہ بن گئے.یہ اس کا فعل اور فضل ہے يَفْعَلُ مَا يَشَآءُ.خدا نے جو وعدے نبیوں سے کیے تھے ان کا ظہور ہوا ہے.براہین میں یہ الہام اس وقت سے درج ہے وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا.صَدَقَ اللہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَکَانَ اَمْرًا مَّفْعُوْلًا وغیرہ اس قسم کے بیسیوں الہام ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایسا ہی ارادہ فرمایا ہوا تھا.اس میں ہمارا کچھ تصرّف نہیں.کیا جس وقت اﷲ تعالیٰ نے نبیوں سے یہ وعدے فرمائے ہم حاضر تھے؟ جس طرح خدا تعالیٰ مرسل بھیجتا ہے،اسی طرح اس نے یہاں اپنے وعدہ کو پورا کیا.آئندہ کے لیے اگر اسی قسم کے جلسے گفتگو کے ہوں تو سوالات پہلے قلمبند ہونے چاہئیں تا کہ ان کے جوابات دیکھ لیے جائیں کیونکہ ہم تو ان بحثوں کا سلسلہ بند کر چکے ہیں.چونکہ یہ کوئی بٹیر بازی نہیں اس لیے ضروری ہے کہ پہلے سے مرتّب ہو جاوے.حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور نے جو لکھا ہے کہ سورئہ نور سے نور حاصل کرو.یہ ایک لطیف نکتہ معرفت ہے.ایک شخص نے سوال لکھ کر بھیجا تھا کہ میرے دادا نے مکان کے ایک حصہ ہی کو مسجد بنایا تھا اور اب اس کی ضرورت نہیں رہی ہے تو کیا اس کو مکان میں ملا لیا جاوے؟ فرمایا.ہاں.ملا لیا جاوے.زاں بعد بعد نماز عشاء اجلاس ختم ہوا.۱
۷؍اکتوبر ۱۹۰۲ء (بوقتِ عصر) مولوی کرم الدین کی دھمکی کا جواب مولوی کرم الدین صاحب بھیں نے سائیں مہر علی شاہ گولڑوی کے پردہ دری والے مضمون کو پڑھ کر اور سن کر ایک خط لکھا.جس میں انہوں نے دھمکی دی تھی کہ اب جو کچھ مجھ سے ہو سکے گا میں کروں گا.فرمایا.اُن کو لکھ دو کہ تمہاری دھمکی تم پر ہی پڑے گی.جو دوسرے مولویوں پر پڑا ہے وہی تم پر پڑے گا.ہماری باتیں آسمانی ہیں.ہم منصوبہ نہیں سوچتے.یہ نامَردی ہے کہ تم نے نام تک نہیں لکھا.(دربارِ شام) مختلف مسائل پر گفتگو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام کی طبیعت بعارضہ زکام ناساز تھی.بعد ادائے نماز مغرب جب آپ اجلاس فرما ہوئے تو ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب طبی مشورہ عرض کرتے رہے.پھر مولانا مولوی محمد علی صاحب نے منشی مظہر علی صاحب کا خط سنایا جو میگزین کو پڑھ کر اس سلسلہ کی طرف متوجہ ہوئے ہیں.انہوں نے اپنے مزید اطمینان کے لیے چاہا تھا کہ ایک مقدمہ متدابرہ کے انجام کے متعلق حضرت اقدس جواب دیں.آپ نے سنّتِ انبیاء کے موافق جو اقتراحی معجزات مانگنے والوں کو جواب دینا چاہیے جواب دیا اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ نشان نمائی میں اپنی شرائط رکھتا ہے.اس کے بعد مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب فاضل امروہی نے اپنا ایک لطیف مضمون سنایا.پھر ٹیکہ طاعون پر مختلف باتیں ہوتی رہیں.اور طاعون کے ذکر آنے پر آپ نے اپنی پیشگوئی کو دہرایا کہ
براہین میں اس کی خبر دی گئی ہے اَتٰی اَمْرُ ﷲِ فَلَا تَسْتَعْـجِلُوْنِ اور پھر نذیر نام رکھا اور یہ کہا کہ زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا اور پھر فرمایا کہ یہی زور آور حملے ہیں.انسان جب کوئی بیمار ہی نہیں ہوتا تو غافل ہوتا ہے لیکن جب زلزلہ کی طرح ہلایا جاتا ہے پھر تبدیلی کرنی چاہتا ہے جیسے فرعون کا حال ہوا.دوزخ ؎ حدیث آتش دوزخ کہ گفت واعظ شیخ حدیث آتش روزگار ہجران است خدا تعالیٰ سے جب انسان جدائی لے کر جاتا ہے تو اس کے تمثّلات دوزخ ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کے کلام میں کذب نہیں ہے مَنْ يَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا (طٰہٰ : ۷۵) سچ فرمایا ہے.جب انسان عذاب اور درد میں مبتلا ہے اگر چہ وہ زندہ ہے لیکن مُردوں سے بھی بدتر ہے.وہ زندگی جو مَرنے کے بعد انسان کو ملتی ہے وہ صلاح اور تقویٰ کے بدوں نہیں مل سکتی.جس کو تپ چڑھی ہوئی ہے اسے کیوں کر زندہ کہہ سکتے ہیں.سخت تپ میں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ رات ہے یا دن ہے.شدھی اور شودر مولانا مولوی نورالدین صاحب حکیم الامت نے عرض کیا کہ روڑکی میں بعض مسلمان آریہ ہو گئے ہیں.میں نے اُن سے پوچھا کہ تمہیں کوئی نفع پہنچا.اور اب شدھ ہو کر تم کس ورن میں ہوئے.اُس نے کہا کہ شودر ہوں.پھر دوسرے آریہ سے پوچھا کہ آپ کون ہیں.اس نے بھی کہا کہ میں شودر ہوں.میں نے کہا کہ کیا آپ اپنی لڑکی ان کو دے سکتے ہیں.خاموش ہی ہوگیا.پگٹ اور ڈوئی مسٹر پگٹ کے متعلق ایک نوٹ فری تھنکر سے سنا یا گیا کہ لوگوں نے اس پر حملہ کیا.پولیس نے بچادیا اور پھر مسٹر ڈوئی کا اخبار سنایا گیا.اس نے ایک فقرہ لکھا ہے کہ مسیح نے دو ہزار سؤروں کو شیطان میں ڈال دیا تو گویا سؤر کے لیے موزوں جگہ شیطان ہے اور پھر سؤر کے لئے بہترین جگہ تمہارا پیٹ ہے.تو اس سے نتیجہ نکلا کہ شیطان کے لیے بہترین جگہ تمہارا پیٹ ہے.
انجیل کی ایک تمثیل انجیل میں ایک خمیر کی مثال ہے.جس کو ناظرین کی دلچسپی کے لئے ہم انجیل متی کے ۳۳؍۱۳ سے نقل کرتے ہیں.یہ مثال ڈوئی نے بیان کی ہے اور اس پر حجۃاﷲ نے مختصر سی تقریر کی.وہ ذیل میں درج ہوگی.وہ مثال انجیل میں یوں لکھی ہے.’’اس نے ایک اور تمثیل انہیں سنائی کہ آسمان کی بادشاہت اُس خمیر کی طرح ہے جسے کسی عورت نے لےکر تین پیمانہ آٹے میں ملا دیا اور ہوتے ہوتے سب خمیر ہو گیا.‘‘ فرمایا.اگر یہ صحیح ہے تو یہ پیشگوئی ہے.عورت سے مُراد دنیا ہے اور مسیح سے لے کر اس وقت تک تین ہی پیمانے ہوتے ہیں.یعنی خود مسیح، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اس وقت یہ سلسلہ.ہم نے جو تعلیم لکھی ہے اور کشتی نوح میں چھپی ہے.اس کو پڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ تین پیمانوں کو ایک کیا گیا ہے.عورت سے مُراد دنیا ہے.گو دنیا نے طبعاً تقاضا کیا کہ یہ سلسلے اس طرح پر قائم ہوں.ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو پیش کرکے مسیح کی تعلیم کے زوائد کو نکال دیا ہے.براہین کے الہامات میںمجھے اور مسیح ابن مریم کو ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے کہا گیا ہے.اس کے بعد نماز عشاء کا دربار ختم ہوا.۱ ۸؍اکتوبر ۱۹۰۲ء (صبح کی سیر) یاجوج ماجوج کے تذکرہ پر فرمایا کہ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ(الانبیآء : ۹۷) کے بعد وہ خدا سے جنگ کریں گے.اب گویا یہ خدا سے جنگ ہے.یہ استعارہ ہے کہ جب اقبال یہاں تک پہنچ جاوے کہ کوئی سلطنت ان کے مقابل نہ ٹھہرے تو پھر خدا سے جنگ کرنی چاہیں گے.خدا سے جنگ یہی ہے کہ نہ ان میں تضرّع اور زاری ہے اور نہ دعا کی حقیقت پر نظر ہو بلکہ اسباب اور تدابیر پر پورا بھروسہ ہو اور قضا وقدر کامقابلہ کیا جاوے.ڈوئی کے سامنے جو ہمارا مقدمہ تھا.اس
سلطنتوں اور خاص کر ہماری سلطنت کا بہت بڑا اقبال ہے.حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر سلطنت میں طاعون جاوے گی.ان کو خدا کے تصرّف پر یقین نہیں.پہلے بادشاہوں کا یہی حال تھا کہ جب کوئی آفت رعایا پر آتی تو خود اُن میں تضرّع کی حالت پیدا ہوتی اور وہ دعائیں کرتے اور کراتے اور صدقات سے کام لیتے.مگر آج کل تدابیر اور اسباب ہی پر سارا بھروسہ ہے.دعائوں کو لغو اور بیہودہ شَے سمجھا گیا ہے.اور اصل تو یہ ہے کہ قضا و قدر کا سارا سلسلہ تو سچے خدا پر ایمان لانا تھا.جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا مان لیا.پھر اس سلسلہ پر کیوں ایمان لاتے.افیون کی مضرَّت فرمایا.جو لوگ افیون کھاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں موافق آگئی ہے.وہ موافق نہیں آتی.دراصل وہ اپنا کام کرتی رہتی ہے اور قویٰ کو نابود کر دیتی ہے.اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ اﷲ تعالیٰ نے جو ہمیں بشارت دی ہے یہ سچ ہے اور یہ ایک نشان ہے اس کی طرف سے.اﷲ تعالیٰ کسی علاج سے منع نہیں کرتا بلکہ شہد اور مشک وغیرہ کا خود ذکر کرتا ہے.اس لیے اگر ٹیکا ضروری ہوتا تو سب سے پہلے ہم کو حکم ہوتا.خود گورنمنٹ کو بھی اس پر پورا وثوق نہیں ہے.یہ الہام جو اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ ہے اس میں ڈرایا بھی ہے جبکہ اس نے فرمایا ہے اِلَّاالَّذِیْنَ عَلَوْا بِاسْتِکْبَارٍ جو لوگ فسق کی پروا نہیں کرتے وہ اﷲ تعالیٰ کی اس ذمہ داری سے الگ ہیں اور جن لوگوں کی زندگی کا درجہ ختم ہو گیا ہے وہ بھی الگ ہیں.اور سب سے آخر یہ بات ہے کہ نسبتاً جو اُن میں ہیں وہ محفوظ رہیں گے.قرآن شریف میں بھی آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں اور کافروں میں ایک فرق رکھ دیتا ہے اور ان میںفاروق ہوجاتا ہے اﷲ تعالیٰ ہر شَے پر قادر ہے.اس زندگی میں کیا مزہ ہے جو حشائش پر ہاتھ مارتا ہے.وہی زندگی بہشتی زندگی اور قابلِ قدر زندگی ہے جس میں اﷲ تعالیٰ سے تمسّک ہو ورنہ حشائش پر ہاتھ مارنے والوں کی زندگی کی تو ایسی مثال ہے جیسے بلی کے بچہ کے پیچھے کتا ہو اور وہ چُوہے کے بِل پر ہاتھ مارتا پھرے.
کیا انسان ابتدا میں وحشی تھا جناب ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نے ذکر کیا کہ ایک شخص نے ان سے اس اَمر پر گفتگو کی کہ انسان پہلے وحشی تھا اور وہ پھر ترقی کرتے کرتے تہذیب کے درجہ پر پہنچا ہے.فرمایا کہ جب ہم انسان کو مہذّب دیکھتے ہیں تو کیوں اس کی جڑ تہذیب نہ بتائیں.قرآن شریف سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ.ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ(التّین:۵،۶) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پیچھے وحشی بن گئے.میں کہتا ہوں کہ کیا خدا تعالیٰ کو پہلا عمدہ نمونہ دکھانا چاہیے تھا یا خراب اور اَوَّلُ الدُّنِّ دُرْدٌ کا مصداق خدا نے بُرا بنایا تھا اور پھر گھِس گھِس کر خود عمدہ بن گیا یہ خدا تعالیٰ کی شان میں گستاخی اور توہین ہے.مثنوی سے ایک مثال اس کی تو وہی مثال ہے جو مثنوی میں ایک بہرہ کی حکایت لکھی ہے کہ وہ کسی بیمار کی عیادت کو گیا اور خود ہی تجویز کر لیا کہ پہلے مزاج پوچھوں گا.وہ کہے گا اچھا ہے.میں کہوں گا الحمدﷲ.اور پھر میں پوچھوں گا کہ آپ کیا کھاتے ہیں تو وہ چونکہ بیمار ہے یہی کہے گا کہ مونگ کی دال کھاتا ہوں.میں کہوں گا بہت اچھا ہے اور پھر پوچھوں گا طبیب کون ہے.وہ کہے گا کہ فلاں ہے.میں کہوں گا خوب ہے.دستِ شفا ہے.لیکن جب وہاں گئے تو بہرہ.(مریض سے) آپ کامزاج کیسا ہے؟ مریض.مَر رہا ہوں.بہرہ.الحمدﷲ.بہرہ.(مریض سے) آپ کی غذا کیا ہے؟ مریض.خونِ جگر.بہرہ.بہت اچھی غذا ہے.بہرہ.(مریض سے) طبیب کون ہے؟ مریض.ملک الموت.
بہرہ.طبیب اچھا ہے.دستِ شفا ہے.ان لوگوں کی بھی کچھ ایسی حالت ہے.کشتی نوح قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ جب نوح کا بیٹا طوفان میں غرق ہونے لگا تو نوح نے کہا کہ تو آجا تو اُس نے کہا کہ مجھے تیرے پاس آنے کی کوئی ضرورت نہیں.میں پہاڑ پر چڑھ جائوں گا.گویا وہ نادان اپنے اسباب اور تدابیر سے بچنا چاہتا تھا.مگر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ آج تجھے خدا سے کوئی بچانے والا نہیں.اسی طرح پر میرے الہام میں بھی یہی ہے کہ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَ وَحْيِنَا وَ لَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ اور اس مسجد مبارک کے لیے فرمایا مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا یہ دلالت کرتے ہیں کہ ایک طوفانِ عظیم آنے والا ہے اور اس میں وہی لوگ بچیں گے جو میری کشتی میں سوار ہوں گے.اور اب اِنِّیْ اُحَافِظُ...الـخ الہام بھی اس کامؤید ہے اور وہ طاعون کا طوفان ہے اور براہین میں اس کی طرف اشارہ کر کے صاف فرمایا اَتٰۤى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ۠ اس وقت جو اس میں سوار ہوتے ہیں اور اپنی تبدیلی کرتے ہیں وہ بچ جائیں گے.طاعون فرمایا.زمانہ کی رسم کے موافق اب لوگ طاعون کو کہتے ہیں کہ یہ معمولی بات ہے.یہ ایک قسم کا عام ارتداد ہے جو پھیل رہا ہے.جو لوگ ڈاکٹر ہوتے ہیں وہ نیم دہریہ ہوتے ہیں.وہ اپنے علاج اور اسباب پر اس قدر توکّل اور تکیہ کیے ہوئے ہوتے ہیں کہ خدا سے ان کو کوئی تعلق نہیں رہتا.پنجاب میں طاعون کا حملہ بہت بڑھ کر ہے.بمبئی کراچی کا کوئی اوسط اس کے ساتھ مقابلہ نہیں کھاتا.اور یہ بہت بڑھی ہوئی تعداد موت کی ہے.پنجاب پر طاعون کا حملہ کیوں ہو رہا ہے؟ ہمارے نزدیک اس کی یہ وجہ ہے کہ خدا نے یہاں ایک سلسلہ قائم کیا ہے تو اوّل المکذّبین یہی لوگ ہوئے ہیں اور انہوں نے ہی کفر کے فتوے دیئے ہیں.بعض آدمیوں نے کہا کہ یہ طاعون گویا ہماری شامتِ اعمال کا نتیجہ ہے.یہ آواز کوئی نئی آواز نہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی کہا گیا تھا يَطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰى (الاعراف : ۱۳۲) مگر مجھے یہ تعجب
ہے کہ یہ لوگ طاعون کو ہماری شامتِ اعمال کا نتیجہ بتاتے ہیں.لیکن مبتلا خود ہوتے ہیں حالانکہ اگر ہماری شامتِ اعمال تھی تو چاہیے تھا کہ طاعون کی خبر تم کو دی جاتی.مگر یہ کیا ہوا کہ خبر بھی ہم کو دی گئی اور موتیں تم میں ہوتی ہیں.بر خلاف اس کے ہماری حفاظت کا وعدہ کیا جاتا اور اسے ایک نشان ٹھہرایا جاتا ہے.کچھ تو خدا سے ڈرو.خدا کے نذیر کے لیے زور آور حملے خدا تعالیٰ کے نزدیک نذیر وہ ہوتا ہے جو خدا اس کے لیے تائیدی نشان جن میں اس کے مخالفوں کے لیے خوف ہو اوپر سے نازل کرتا ہے.لکھا ہے کہ خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.خدا تعالیٰ کی پہلی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زور آور حملے طاعون کے ہیں.جن سے ہر راہ بند کی جاتی ہے اور منہ سے اقرار کرنا پڑتا ہے یَامَسِیْحَ الْـخَلْقِ عَدْوَانَا.نَدْوَہ ندوہ کے متعلق ذکر تھا.فرمایا.اصل یہ ہے کہ متقی کے لیے تو بولنے کی جگہ نہیں ہے.ہم نے جو کچھ لکھا ہےوہ اس لیے لکھا ہے کہ وَ اللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ ( البقرۃ : ۷۳ ) یہ لوگ جو امرتسر میں آئے ہیں ان کی بھی جھوٹی تہذیب نہ رہے بلکہ اس کی حقیقت کھل جاوے.یادرکھو مداہنہ سے حق نہیں پھیلتا بلکہ رہی سہی برکت بھی جاتی رہتی ہے.اگر کوئی شخص ڈر کر کہ یہ علماء کی جماعت ہے ان کے ساتھ ہو جاوے.ہم کو اُس کی پروا نہیں.جن لوگوں کے لیے سعادت مقدر ہے ان کا حرج نہیں.خدا تعالیٰ ان کا آپ محافظ ہے اور یہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ بعض خبیث فطرت مرتد ہو جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی اور مسیح کے وقت میں بھی مرتد ہوئے.احمق نہیں جانتے کہ ہماری طرف سے بات ہوتی تو یہ شوکت کب رہتی.طاعون ہی کے ذریعہ سے دس ہزار کے قریب لوگ اس سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں.اگر یہ سلسلہ خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو وہ خود اس سلسلہ کو ہلاک کر دیتا.آخری حیلے ان لوگوں کے رشتوں ناطوں اور جنازوں کے متعلق ہوتے ہیں.مکہ والوں نے بھی کیے تھے.مگر جیسے وہاں پہلے ہی سے فیصلہ ہو چکا تھا کہ ان سے الگ ہیں ویسے
ان کے ساتھ افراط وتفریط کا معاملہ کرتا ہے.استغفار ایک شخص نے پوچھا کہ میں کیا وظیفہ پڑھا کروں.فرمایا.استغفار بہت پڑھا کرو.انسان کی دو ہی حالت ہیں.یا تو وہ گناہ نہ کرے اور یا اللہ تعالیٰ اس گناہ کے بد انجام سے بچا لے.سواستغفار پڑھنے کے وقت دونوں معنوں کا لحاظ رکھنا چاہیے.ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ سے گزشتہ گناہوں کی پردہ پوشی چاہے اور دوسرا یہ کہ خدا سے توفیق چاہے کہ آئندہ گناہوں سے بچالے مگر استغفار صرف زبان سے پورا نہیں ہوتابلکہ دل سے چاہے.نماز میں اپنی زبان میں بھی دعا مانگو یہ ضروری ہے.ہر نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے فرمایا.تقویٰ اختیار کرو.تقویٰ ہر چیز کی جڑ ہے.تقویٰ کے معنے ہیں ہر ایک باریک در باریک رگِ گناہ سے بچنا.تقویٰ اس کو کہتے ہیں کہ جس امر میں بدی کا شبہ بھی ہو اس سے بھی کنارہ کرے.فرمایا.دل کی مثال ایک بڑی نہر کی سی ہے جس میں سے اور چھوٹی چھوٹی نہریں نکلتی ہیں جن کو سُوا کہتے ہیں یا راجبا ہا کہتے ہیں.دل کی نہر میں سے بھی چھوٹی چھوٹی نہریں نکلتی ہیں مثلاً زبان وغیرہ.اگر چھوٹی نہر یعنی سُوے کا پانی خراب اور گندہ اور میلا ہو تو قیاس کیا جاتا ہے کہ بڑی نہر کا پانی خراب ہے.پس اگر کسی کو دیکھو کہ اس کی زبان یا دست وپا وغیرہ میں سے کوئی عضو ناپا ک ہے تو سمجھو کہ اس کا دل بھی ایسا ہی ہے.غیرو ں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی حکمت اپنی جماعت کا غیر کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے متعلق ذکر تھا.فرمایا.صبر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نماز مت پڑھو.بہتری اور نیکی اسی میں ہے اور اسی میں تمہاری نصرت اور فتح عظیم ہے اور یہی اس جماعت کی ترقی کا موجب ہے.دیکھو! دنیا میں روٹھے ہوئے ہوئے اور ایک دوسرے سے ناراض ہونے والے بھی اپنے دشمن کو چار دن منہ نہیں لگاتے اور تمہاری ناراضگی اور روٹھنا تو خدا کے لئے ہے.تم اگر ان میں رلے ملے رہے تو خدا تعالیٰ جو
ابتلا میں پھنس جاتے ہیں.بعض کو رشوت لینے کی عادت ہوجاتی ہے.وہ آدمی بڑا ہی خوش نصیب ہے اور اس کو خدا کا شکر کرنا چاہیے جو کسی حکومت کے نیچے نہیں اور جسے فکر نہیں ہے کہ رات کو یادن کو کوئی آواز آئے گی.بعض لوگ اسیسر ہونے میں اپنی عزّت سمجھتے ہیں مگر میں نے دیکھا ہے کہ وہ بڑے پابند ہوتے ہیں.ایک بار ایک اسیسر کو جو اپنے وقت پر نہیں آیا تھا سزا ہوئی.اس نے کہا کہ میں شادی پر یا کہیں اور گیا ہوا تھا.حاکم نے اُسے کہا کہ کیا تم کو معلوم نہ تھا کہ میں اسیسر ہوں اور سزا دے دی.آخر چیف کورٹ نے اس کو بَری کر دیا.غرض اس قسم کے مصائب اور مشکلات ہوتی ہیں اور پھر ان بیچاروں کی حالت ’’تاتریاق از عراق آوردہ شود‘‘ کی مصداق ہو جاتی ہے خواہ اپیل میں بَری ہو جاویں.مگر وہ بے عزّتی اور مصائب کا ایک بار تو منہ دیکھ لیتے ہیں.کیا اچھا کہا ہے سعدی نے ؎ کس نیاید بخانۂ درویش کہ خراج بوم و باغ گذار جس قدر انسان کشمکش سے بچا ہوا ہو اس قدر اس کی مُرادیں پوری ہوتی ہیں.کشمکش والے کے سینہ میں آگ ہوتی ہے اور وہ مصیبت میں پڑا ہوا ہوتا ہے.اس دنیا کی زندگی میں یہی آرام ہے کہ کشمکش سے نجات ہو.کہتے ہیں کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار چلا جاتا تھا.راستہ میں ایک فقیر بیٹھا تھا جس نے بمشکل اپنا ستر ہی ڈھانکا ہوا تھا.اُس نے اُس سے پوچھا کہ سائیں جی کیا حال ہے؟ فقیر نے اسے جواب دیا کہ جس کی ساری مُرادیں پوری ہو گئی ہوں اس کا حال کیسا ہوتا ہے؟ اُسے تعجب ہوا کہ تمہاری ساری مُرادیں کس طرح حاصل ہو گئیں ہیں.فقیر نے کہا جب ساری مُرادیں ترک کر دیں تو گویا سب حاصل ہو گئیں.حاصل کلام یہ ہے کہ جب یہ سب حاصل کرنا چاہتا ہے تو تکلیف ہی ہوتی ہے.لیکن جب قناعت کر کے سب کوچھوڑ دے تو گویا سب کچھ ملنا ہوتا ہے.نجات اور مکتی یہی ہے کہ لذّت ہو دکھ نہ ہو.دُکھ والی زندگی تو نہ اس جہان کی اچھی ہوتی ہے اور نہ اُس جہان کی.جو لوگ محنت کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں وہ گویا اپنی کھال آپ اتارتے ہیں.اس لیے کہ یہ زندگی تو بہرحال ختم ہو جائے گی.کیونکہ یہ برف کے ٹکڑہ کی طرح ہے خواہ اس کو کیسے ہی
صندوقوں اور کپڑوں میں لپیٹ کر رکھو لیکن وہ پگھلتی ہی جاتی ہے.اسی طرح پر خواہ زندگی کے قائم رکھنے کی کچھ بھی تدبیریں کی جاویں لیکن یہ سچی بات ہے کہ وہ ختم ہوتی جاتی ہیں اور روز بروز کچھ نہ کچھ فرق آتا ہی جاتا ہے.دنیا میں ڈاکٹر بھی ہیں طبیب بھی ہیں مگر کسی نے عمر کا نسخہ نہیں لکھا.جب لوگ بڈھے ہو جاتے ہیں.پھر ان کے خوش کرنے کو بعض لوگ آجاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ابھی تمہاری عمر کیا ہے؟ ساٹھ برس کی بھی کوئی عمر ہوتی ہے.اس قسم کی باتیں کرتے ہیں.رحمت علی ایک مذکوری تھا.اس کا بیٹا فقیر علی منصف ہو گیا تھا اور لوگ اس وجہ سے اس کی عزّت بھی کیا کرتے تھے.ڈپٹی قائم علی نے ایک دفعہ اس سے پوچھا کہ تمہاری کیا عمر ہے؟ اس نے کہا کہ ۵۵ سال کی ہوگی حالانکہ وہ ۶۵ سال کا تھا.قائم علی نے اس کو کہاکہ کیا ہوا ابھی تو بچے ہو.خود بھی وہ یہی عمر بتایا کرتا تھا.میں نے کہا کہ ۵۵ کا سال بڑا مشکل ہے یہ ختم ہونے میں نہیں آتا.غرض انسان عمر کا خواہشمند ہو کر نفس کے دھوکوں میں پھنسا رہتا ہے.دنیا میں عمریں دیکھتے ہیں کہ ۶۰ کے بعد تو قویٰ بالکل گداز ہو نے لگتے ہیں.بڑا ہی خوش قسمت ہوتا ہے جو ۸۰یا۸۲ تک عمر پائے اور قویٰ بھی کسی حد تک اچھے رہیں.ورنہ اکثر نیم سودائی سے ہو جاتے ہیں.اُسے نہ تو پھر مشورہ میں داخل کرتے ہیں اور نہ اس میں عقل اور دما غ کی کچھ روشنی باقی رہتی ہے.بعض وقت ایسی عمر کے بڈھوںپر عورتیں بھی ظلم کرتی ہیں کہ کبھی کبھی روٹی دینی بھی بھول جاتی ہیں.اصل بات یہ ہے کہ درجوانی کارد و جہانی کن.اور مشکل یہ ہے کہ انسان جوانی میں مست رہتا ہے اور مَرنا یاد نہیں رہتا، بُرے بُرے کام اختیار کرتا ہے اورآ خر میں جب سمجھتا ہے تو پھر کچھ کر ہی نہیں سکتا.غرض اس جوانی کی عمر کو غنیمت سمجھنا چاہیے.؎ نشان زندگانی تا بسی سال چو چہل آمد فرو ریزد پر و بال انحطاط عمر کا ۴۰ سال سے شروع ہوجاتا ہے.۳۰ یا ۳۵ برس تک جس قدر قد ہونا ہوتا ہے وہ پورا ہوجاتا ہے اور بعد اس کے بڈھے ہو کر پھولنا شروع ہوجاتا ہے اور پھولنے کا نتیجہ فالج ہوجاتا ہے.
شرمپت اس وقت جانے لگا.فرمایا.بیٹھو! ان کے ساتھ جانا یہ شرطِ وفا نہیں.پھر حضرت اقدس نے اسی سلسلہ سابقہ میں فرمایاکہ جس قدر ارادے آپ نے اپنی عمر میں کیے ہیں اُن میں سے بعض پورے ہوئے ہوں گے مگر اب سوچ کر دیکھو کہ وہ ایک بُلبلہ کی طرح تھے جو فوراً معدوم ہوجاتے ہیں اور ہاتھ پلّے کچھ نہیں پڑتا.گذشتہ آرام سے کوئی فائدہ نہیں اس کے تصوّر سے دکھ بڑھتا ہے.اس سے عقل مند کے لیے یہ بات نکلتی ہے کہ انسان ابنُ الوقت ہو، رہی زندگی انسان کی جو اس کے پاس موجود ہے.جو گذر گیا وہ وقت مَر گیا.اس کے تصوّرات بے فائدہ ہیں.دیکھو! جب ماں کی گود میں ہوتا ہے اس وقت کیا خوش ہوتا ہے سب اُٹھائے ہوئے پھرتے ہیں.وہ زمانہ ایسا ہوتا ہے کہ گویا بہشت ہے.اور اب یاد کر کے دیکھو کہ وہ زمانہ کہاں؟ سعدی کہتا ہے ؎ من آنگہ سر تا جور داشتم کہ بر فرقِ ظلِ پدر داشتم اگر بر وجودم نِشستے مگس پہ پریشاں شد خاطرے چند کس یہ زمانے پھر کہاں مل سکتے ہیں.لکھا ہے کہ ایک بادشاہ چلاجاتا تھا.چند چھوٹے لڑکوں کو دیکھ کر روپڑا کہ جب سے اس صحبت کوچھوڑا دکھ پایاہے.پیرانہ سالی کا زمانہ بُرا ہے.اس وقت عزیز بھی چاہتے ہیں کہ مَر جاوے اور مَرنے سے پہلے قویٰ مَر جاتے ہیں.دانت گر جاتے ہیں.آنکھیں جاتی رہتی ہیں.اور خواہ کچھ ہی ہو آخر پتھر کا پتلاہو جاتا ہے شکل تک بگڑ جاتی ہے.اور بعض ایسی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ آخرخود کشی کر لیتے ہیں.بعض اوقات جن دکھوں سے بھاگناچاہتا ہے یکدفعہ ان میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اگراولاد ٹھیک نہ ہو تو اور بھی دکھ اُٹھاتا ہے.اس وقت سمجھتا ہے کہ غلطی کی اور عمر یونہی گذر گئی.مگر دوہرہ ؎ آگے کے دن پاچھے گئے اور ہر خدا سے کیو نہ ہیت اب پچتائے کیا ہوت ہے جب چڑیا چُگ گئیں کھیت
عقل مند وہی ہے جو خدا کی طرف توجہ کرے، خدا کو ایک سمجھے اس کے ساتھ کوئی نہیں.ہم نے آزماکردیکھاہے نہ کوئی دیوی نہ دیوتا کوئی کام نہیں آتا.اگر یہ صرف خدا کی طرف نہیں جھکتا تو کوئی اس پررحم نہیں کرتا.اگر کوئی آفت آجاوے تو کوئی نہیں پوچھتا.انسان پر ہزاروں بلائیں آتی ہیں پس یا د رکھو کہ ایک پرور دگار کے سوا کوئی نہیں، وہی ہے جو ماں کے دل میں بھی محبت ڈالتا ہے.اگر اس کے دل کو ایسا پیدا نہ کرتا، تو وہ بھی پرورش نہ کر سکتی.اس لیے اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرو.۱ ۱۰ ؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء (یوم جمعہ ) تحفۃ النَّدوۃ فرمایا.ندوہ میں لوگ اتمامِ حجّت کی غرض سے ہم نے بھیجے ہیں.ورنہ کچھ بہتری کی امید ہرگز نہیں.کیونکہ ان کے اغراض عوام سے وابستہ ہیں.یہاں تو ان کو تحفۃ النَّدوۃ دے کر بھیجا ہے.اگر خدا نے چاہا تو نزول المسیح دلّی میں بھیجیں گے.والسّلام ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء (یوم شنبہ ) جلدی میں رائے قائم نہ کریں ایک صاحب نو وارد کوجن کانام مولوی حامد حسین صاحب تھا مخاطب کر کے فرمایا.بہتر ہے کہ آپ پانچ سات دن یہاں قیام کریں اتنا عزم اور جلد واپس چلا جانا ٹھیک نہیں.دنیاوی کاموں میں لوگ کتنی تحقیقات اور چھان بین کرتے ہیں.حقیقت میں جوشخص جلدی رائے قائم کر لیتا ہے وہ دوسروں کو بھی ابتلا میں ڈالتا ہے.پس خلاف واقعہ رائے ظاہر کرنا خون کرنے کے برابر ہے.بہت باتیں ایسی ہوتی ہیںکہ جوں جوں انسان ان پر زیادہ غور کرتا ہے، اسی قدر نتیجہ عمدہ نظر
آتا جاتا ہے.انسان کو سچائی تک پہنچنے کے واسطے دو باتوںکی ضرورت ہے.اوّل خدا داد عقل اور فہم ہو.دوم خدا داد سمجھ اور سعادت ہو.جن لوگوں کو مناسبت نہیں ہوتی ان کے دلوں میں کراہت اور اعتراض ہی پیدا ہوتے جاتے ہیں.اور یہی وجہ ہے کہ گذشتہ لوگوں میں سے اکثر لوگوں نے راستبازوں کا انکار کیا.آپ دور دراز سے آئے ہیں اور آپ کو آتے ہی ایک روک بھی پیدا ہو گئی.اور ہم نے تو ایک ہی روک کا ذکر سنا ہے.مخالفانہ گفتگو کے بجُزا حقاق حق نہیں ہوتا.بہت لوگ منافقانہ طور پر ہاں میں ہاں ملالیتے ہیں.پس ایسے لوگ کچھ فائدہ نہیں اُٹھاتے.تم خُوب جی کھول کراعتراض کرو.ہم پورے طور پر جواب دینے کو تیار ہیں.سچے مذہب کی شناخت مولوی حامد حسین صاحب کی طرف سے سوال ہوا کہ تمام اہلِ مذاہب اپنے مذہب کو صحیح خیال کر رہے ہیں.ہم فیصلہ کس طور کریں؟ فرمایا.بات یہ ہے کہ آجکل بلکہ ہمیشہ سے سچے مذہب کی شناخت کے لئے ضروری ہے کہ دو باتیں اس میں موجود ہوں.اوّل یہ کہ اس کی تعلیم پاک ہو.اور تعلیم ہر انسان کی عقل اور کانشنس کا کوئی اعتراض نہ ہو کیونکہ ناممکن ہے کہ خدا کے امور ناپاک ہوں.دوم اس کے ساتھ تائیداتِ سماویہ کاسلسلہ ایسا وابستہ ہو کہ جس کے ساتھ انسان خدا کو پہچان سکے اور اس کی تمام صفات کامشاہدہ کرے تاکہ گناہ سے بچ سکے.گو انسان سچے مذہب میں ہی داخل ہو پر اگر اس کے ساتھ کشتی نہیں تو وہ ایسے چشمہ کی مثل ہے کہ جو ایسی جگہ واقع ہے جس کے ارد گرد پہاڑ یا دیوار یا ایسا خارستا ن ہے کہ وہاں ہم کسی طرح پہنچ نہیں سکتے.پس ایسا چشمہ ہمارے لئے فضول ہے.غرض ضروری شرط یہ ہے کہ اس قدر اسباب موجود ہوں جن سے پکی طرح پر معرفتِ الٰہی پیدا ہو جائے.یہ بات بھی بد یہی ہے کہ انسان کو زیادہ مصیبت اس بات کی ہے کہ طرح طرح کے مصائب شدائدکسل وغیرہ کیڑے ایسے لگے ہوئے
ہیں کہ اس کو کھاتے اور خدا سے روکتے ہیں.اور انہیں کی وجہ سے انسان اور خدا کے درمیان ایک بُعد پڑاہوا ہے.پس اس مذہب میں ایسے وسائل ہوں جو اس کوروز بروز کھینچتے جاویں اور کامل یقین پیدا کرا کر خدا سے ملاویں.دنیا تو یہی سمجھتی ہے کہ کیا ہم خدا کے منکر ہیں.لیکن اس کے اعمال کہتے ہیں کہ ضرور وہ منکر ہے.میں نے اس بات کا ذکراکثر کتابوں میںبھی کیا ہے.دیکھو! اگر ایک سوراخ میں سانپ ہو تو کیا ایک شخص اس بات کو جان کر کہ اس سوراخ کے قریب جاوے گا یا اس میں ہاتھ ڈالے گا؟ ایک بَن میں بہت درندے رہتے ہیں کیا باوجود علم کے اس بَن میں کوئی جاوے گا؟ ایک زہریلے کھانے کو علم پاکر کھاوے گا؟ پس معلوم ہوا کہ یہ اَمر یقین کے لوازم میں سے ہے کہ جس چیز کو وہ مہلک سمجھتا ہے،اس کے قریب نہ جاوے.پس ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک موقع پر حقوقِ انسانی کو چھینتا ہے، تلف کرتا ہے، رشوت لیتا ہے، چوری کرتا ہے، بد معاشی کرتاہے، نہ غصہ اعتدال پر ہے وغیرہ وغیرہ.پھر پیرانہ سالی اس کو ان گناہوں سے چھڑاتی ہے، پر جب تک جسمانی قویٰ اس کے ساتھ ہیں ہر ایک قسم کی بد کاریاں کرتا ہے پس معلوم ہوتا ہے کہ اس کا خدا پر ایمان نہیں.ہر ایک شخص اپنے نفس سے گواہی لے سکتا ہے کہ جیسا اس کا حق ہے اعتدال پر چلنے کا، ویسا وہ نہیں چلتا.پس بڑا مقصود یہ ہے کہ یہ جو بے اعتدالیاں انسان سے ظہو ر میں آتی ہیں.ان پر غور کرے کہ اُن کا کیا سبب ہے تو آخر معلوم ہو گاکہ جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے وہ پورا پورا نہیں ہے.بعض دفعہ احسا ن سے اور بعض دفعہ خوف سے گناہ کم ہو جاتے ہیں.جیسے نسبتاً شریر لوگ ایام امراضِ طاعون و ہیضہ میں نمازیں شروع کر دیتے ہیں.پس ضروری ہے کہ جہاں دو باتیں پائی جاویں، تعلیم پاک اور رفتہ رفتہ خدا تک پہنچ جانا وہی سچا مذہب ہے.اور یہ دونوں ذریعے ایسے ہیں کہ سوائے اسلام کے کہیں نہیں ملیں گے.جس خدا کو اسلام پیش کرتا ہے اس صفائی سے اور کسی مذہب نے پیش نہیں کیا.ایک طرف تو اسلام کی تعلیم اعلیٰ ہے دوسری طرف ایک شخص دس دن بھی
تبدیلی کرے تو اس پر انوار و برکات نازل ہو نے شروع ہو جاتے ہیں.آجکل اسلام کے بہت فرقے ہو گئے ہیں.گویا گھر گھر ایک فرقہ بنا ہو ا ہے.اس سے تشویش ہو گئی ہے.ایک طرف شیعہ ہیں کہ حسینؓکو مثل لات کے بنا رکھا ہے تو ایک شخص کہہ دے گا کہ کہاں جاؤں شیعہ حسین پرست بنے ہوئے ہیں.خوارج علیؓ کو گالیاں دیتے ہیں.درمیان میںاہلِ سنّت ہیں اگرچہ بظاہر اُن کا اعتدال نظر آتا تھا مگر اب انہوں نے ایسے قابلِ شرم اعتقاد بنارکھے ہیں کہ وہ شرک تک پہنچ گئے ہیں.مثلاً مسیح کو خالق بنا رکھا ہے.احیائے موتیٰ کرنے والا ماناہوا ہے.پس پاک مذہب وہی ہے جو قرآن کامعیار اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے.اگرچہ انسان بظاہر گھبراتا ہے کہ اس پاک مذہب کو میں کس طرح پاؤں.مگر یاد رکھو کہ جو یندہ یابندہ صبر اور تقویٰ ہاتھ سے نہ دے ورنہ خدا تعالیٰ غنی ہے.اس کو کسی کی کیا پروا ہے پس انسان خدا کے سامنے خاکسار بنے تو اس پر لُطف اور احسان کرتا اور اس کی آنکھیں کھول دیتا ہے.توبہ، دعا، استغفار کرے اور کبھی نہ گھبراوے ہر ایک شخص بیمار ہے اور کبھی صحت نہیں پا سکتا جب تک خدا کونہ دیکھ لے.پس ہر وقت اداس اور دل برداشتہ رہے اور تمام تعلقات کو توڑ کر خدا سے تعلق پیدا کرے ورنہ اس وقت تک جب تک کہ خدا سے نہیں ملا یہ گندہ اور نجس ہے.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى.الآیۃ (بنیٓ اسـرآءیل:۷۳) خدا پر یقین بڑی دولت ہے.پس اندھا وہی ہے جس کو اس دنیا میں خدا پر پورا یقین حاصل نہیں ہوا.پس جب اس کا حسن، جمال، جلال اس پر ظاہر ہوگا تو خدا کی تجلّی ہوگی.اور پھر یہ دیکھ کر ممکن نہیں کہ گناہ کی طرف انسان رجوع کرسکے.پس گناہ بھی تبھی کرتا ہے جب اس کو خدا پر شک پڑجاتا ہے.پس جو شخص نفس کا خیر خواہ ہے اس کو تو خدا پر یقین ہونا چاہیے.مسیح کے زمانہ میں تو گناہ کی کمی تھی مگر کفّارہ نے دنیا کو گناہ سے پُر کر دیا.انسا ن اپنی کوشش سے کچھ نہیں کر سکتا.حدیث میں آیا ہے کہ تم سب اندھے ہو مگر جس کو خدا آنکھیں دے.تم سب بہرے ہو مگر جس کو خدا کان دے وغیرہ وغیرہ.پس جب انسان کو خدا ہدایت دینے لگتا
ہے تو اس کے دل میں ایک واعظ پیدا کر دیتا ہے.پس جب تک دل کا واعظ نہ ہو تسلّی نہیں ہو سکتی.پس دینی امور میں جب تک تقویٰ نہ ہو روح القدس سے تائید نہیں ملے گی.وہ شخص ضرور ٹھوکر کھا کر گرے گا.اس دین کی جڑتقویٰ اور نیک بختی ہے اور یہ ممکن نہیں جب تک خدا پر یقین نہ ہو.اور یقین سوائے خدا کے اور سے ملتا نہیں اسی لیے فرمایاوَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ( العنکبوت : ۷۰) پس انسان دنیا کوچھوڑکر اپنی زندگی پر نظر ڈالے اور اپنی حالت پر رحم کرے کہ میں نے دنیا میں کیا بنایا سوچے اور ظاہر ی الفاظ کی پیروی نہ کرے.اور دعا میں مشغول رہے تو امید ہے کہ خدا اس کو اپنی راہ دکھا دے گا.نیک دل لے کر خداکے سامنے کھڑا ہو اور رو رو کر دعائیں مانگے.تضرّع اور عاجزی کرے تب ہدایت پاوے گا.ایک فرقہ وہ بھی ہے جو ہماری باتوں کو قبول نہیں کرتا.اس سے ہماری بحث نہیں.اُن کی سرشت میں انکا ر ہے.وہ موت کے بعد اس کا نتیجہ دیکھ لیں گے.سعادت مند کو تو سمجھانے کی ضرورت نہیں.پتھر پر لو ہا مارنے سے آگ اس لئے نکلتی ہے کہ آگ پتھر میں موجود ہے اور وہ صرف ضرب کا محتاج تھا، مگر جس کے اندر موجودنہیں اس میں سے کیا نکلے گا.ہر ایک نیکی تب قبول ہو تی ہے جب کہ اس کے اندر تقویٰ ہو ورنہ قبول نہیں ہو تی.زندگی تو برف کے ٹکڑے کی مثال رکھتی ہے.ہزاروں پردوں میں رکھو پگلتی جاوے گی.اصل میں مخالف کی بات کا امتحان مخالف سے پوچھ کر ہوتا ہے.میں نے تو اپنا مسلک بیان کردیا ہے.میرے پاس بہت عیسائی آیا کرتے تھے، اب نہیں آتے.میں تو ہمیشہ ان کو یہی کہتا ہوں کہ زندہ مذہب ثابت کرو.مُردہ تو ہمیں اُٹھاناپڑے گا اور زندہ ہم کو اُٹھاوے گا،کچھ جواب نہیں دے سکتے.یورپ امریکہ میں ۱۶ ہزار اشتہار رجسٹری کرا کر بھیجا کوئی جواب نہیں آیا.ہماراخدا زندہ ہے.ہماری آواز سنتا ہے.ہمیں جواب دیتاہے.پس ہم صلیب پر چڑھے ہوئے خدا کو کیوں مانیں.یہ لوگ شریر ہوتے ہیں اور ان کے پاس باتیں ہی باتیں ہوتی ہیں.میں ۱۵ برس کا تھا جب سے ان کے اور میرے درمیان مباحثات شروع ہیں.ان کے پاس صرف اعتراض
ہی اعتراض ہیں.اورہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے ہیں اور جاہلوں اور بد نصیبوں کو ان اعتراضات سے شک پڑ جاتے ہیں.دوسری طرف سے یہ لوگ اس کو طمع دنیاوی دے کر ابتلا میںڈال کر مُر تد کر لیتے ہیں.میں نے سنا ہے کہ ۲۹لاکھ آدمی کو انہوں نے ہند میں مُر تد کیا ہے پس اسلام کا سخت دشمن یہی مذہب ہے.آریہ لوگ ہیں مگر ان کے ساتھ تو زمینی سلطنت بھی یاور نہیں وہ کیا مقابلہ کر سکتے ہیں.ایک اخبار نے اپنی تحقیقات لکھی ہے کہ آریہ مذہب کے ہونے سے ہندو بہت مسلمان ہو رہے ہیں.مَرتے بھی بہت ہیں اور مذہب بھی بہت چھوڑتے جاتے ہیں.پس یہ مذہب تو کچھ چیز نہیں.طاعون کو دیکھا ہے کہ پہلے ہنود میں آتی ہے.بمبئی، سیالکوٹ، جالندھر وغیرہ میں، پہلے ہنود سے شروع ہوئی اور جب مسلمانوں میں گئی تو بھی ہنود کو شامل کر لیا.وحدتُ الوجود اور وحدتُ الشہود نووارد صاحب نے وجودی فرقہ کی نسبت سوال کیا.فرمایا.میرے نزدیک یہ بات بھی تدبّر کرنے کے لائق ہےیعنی وجود اور شہود.میرا مذہب تو یہ ہے کہ وہاں قدم رکھنا غلطی اور جرأت ہے جہاں انسان قدم رکھنے کامستحق نہیں.وجودی فلسفی رنگ کادعویٰ کرتا اور کہتا ہے کہ جس طرح ڈاکٹر مُردہ پھاڑ کر اس کااندر دیکھ لیتا ہے میں نے اسی طرح خدا کو دیکھ لیا ہے.یہ بھی دعویٰ کیا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَ الْاَشْیَآءَ وَھُوَ عَیْنُھَا.یہ بہت بڑا دعویٰ ہے.شہودی مذہب استیلاء محبت کا نام ہے.جیسے لوہا اگر آگ میں نہایت سرخ کیا جاوے تو اس صورت میں کوئی دیکھنے والا اگر اس کو آگ کہہ دے تو ایک صورت سے معذور ٹھہر سکتاہے کیونکہ آگ اس پر مستولی ہوئی ہوئی ہے.کسی کا شعر ہے ؎ من تو شُدم تو من شُدی من تن شُدم تو جان شُدی تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری غرض شہودی مذہب کی یہ بنا ہے کہ انسان خداکے وجودسے بہت بہرہ وَر ہو سکتا ہے جب خدا اور
مخلوق کی محبت ایک دل میں آکر جمع ہوتی ہے تو انسان پر ایک نیا رنگ چڑھتا ہے.اور اس حالت میں وہ اپنے آپ کودیکھتا ہے کہ گویا بالکل خدا میں کھویاگیا ہے اور اپنے تئیں محو دیکھتا اور خدا ہی نظر آتا ہے.وجود ی ایک حقیقت کاطلب گار ہوتاہے.اس کو محبت سے کچھ تعلق نہیں.جیسے آج کل کے وجودیوں کا دعویٰ ہی دعویٰ ہے کہ میں خدا ہوں.شہود والا کہتا ہے کہ انسان انسان ہے خدا خدا ہے یعنی شہود کے طور پراپنے تئیں طالب اور خدامیں کھویا ہواپاتا ہے.اگر انسان کو خدابنناتھا تو یا تو اس جہان میں خدا بنتایا آخرت میں خدابنتا.مگر ثابت ہے کہ یہاں بھی انسان ہے اور وہاں بھی یہ جامہ تواس کے اوپر سے اترتانظر نہیں آتا.ہم کہتے ہیں کہ ہر ایک شخص اپنا رنگ رکھتا ہے.بہت لوگ قوالی میں ہی لذّت اُٹھاتے ہیں.مگر میں دیکھتا ہوں کہ یہ عارفانہ مشرب نہیں.پس اگر اس کی کوئی دلیل دنیا میں ہوتی توچاہیے تھا کہ کوئی آدمی تو ایسا نظر آتا کہ جس میں خدائی کے صفات ہوتے.دنیاوی لوگوں کے من گھڑت خدا اور خدا کے مرسل بندہ کامقابلہ یوں ہوسکتا ہے کہ مسیح کوتو خدا مانا اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے ایک مرسل تھے.پس مقابلۃًدیکھ لو کہ مسیح کو تو پکڑ لیا گیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنے والا خود مَر گیا.پس انصاف کرو کہ ایک شخص انسان کہلاتا اور اپناکام خدا پر چھوڑتا اس کا پکڑنے والاخود مارا جاتا.یہودی جن کی صفت میں آیا ہے ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ( البقرۃ : ۶۲) وہ اس خدا کہنے والے کو ایک ہی گھنٹہ میں گرفتار کر لیتے اور مارنے کو تیار ہوجاتے ہیں فَاعْتَبِرُوْا يٰۤاُولِي الْاَبْصَارِ.اگر کوئی یہ کہے کہ وہ محض خدائی تھی تو اس کو جانے دو.جہاں تک ہم دیکھتے ہیں خداہم سے باتیں کرتا ہے اورخوارق اور معجزات دکھلاتا ہے پر پھر بھی ہم انسان ہیں.دیوار کاوجود ایک الگ چیز ہے اور دھوپ کاوجود الگ ہے.اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ الی آخرالسورۃ (الفاتحہ)
یہ ساری باتیں چاہتی ہیں کہ کوئی ربّ ہے اور کوئی چیز مخلوق بھی ہے.پس ہم کو اپنی خدائی کا ثبوت دیں.خدا نے انسان کو مخلوق پیدا کیا ہے اور دنیا میں بھی مخلوق بنایا ہے.پھر ہم چاند سورج وغیرہ کو کس طرح خدا مان لیں.تمام انبیاء سے خوف ظاہر ہوتے رہتے ہیں.اگر ان میں کچھ بھی خدائی کا رنگ ہوتا تو خوف کیوں آتا.میری جماعت میں بھی ایک شخص مولوی احمد جان صاحب وجودی تھے.کبھی انہوں نے مجھ سے اس مسئلہ پر گفتگو نہیں کی.اب تھوڑا عرصہ ہوا ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہیں اور ساری عمر اسی میں گذار دی.ہم کسی کے زرخرید نہیں.ہم تو اسلم اور روشن تر راہ اختیار کرتے ہیں.وجودیوں کے کوئی دشمن نہیں.ہم تو ان کو قابل رحم سمجھتے ہیں.اس پر نووارد صاحب نے آیت ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ الآیہ وحدت وجود کے ثبوت میں پیش کی.فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا کلام ایسا ہے کہ اس کی تفصیل بعض آیت کی بعض آیت سے ہوتی ہے.اوّل کی تفسیر یہ ہے کہ کَانَ اللّٰہُ وَلَمْ یَکُنْ مَعَہٗ شَییٌٔ اٰخر کے معنے کئے.کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ.ہم تو انہیں معنوں کو پسند کریں گے جو خدا نے بتلائے ہیں.افسوس ہے کہ اس زمانہ کے یہودی صوم و صلوٰۃ کے تو پابند ہی نہیں اور قرآن کو کبھی کھول کر دیکھا ہی نہیں.ہاں میں اپنے اس ملک کی بات کرتا ہوں جس میں جالندھر، بٹالہ ہوشیار پور، سیالکوٹ وغیرہ شامل ہیں.ان لوگوں کو میں نے شراب خوروں، بھنگیوں اور دہریوں کی مجلس میں اکثر دیکھا ہے.اکثر کہتے ہیں کہ وجودی وہ ہے کہ جو خدا کانام بھی نہ لے بلکہ جو کچھ ہے مخلوق ہے.پس یہ لوگ کہتے ہیں کہ اعلیٰ وجودی وہ ہے جس کو لوگ دہریہ کہتے ہیں.پس ہر شخص اپنے قول و فعل کا خود ذمہ دار ہے.و کان اللّٰہ و لم یکن معہ شییٔ حدیث ہے.اور حدیث اور توریت سے ثابت ہے کہ خداتھا اور زمین اور آسمان وغیرہ میں سے کچھ نہ تھا.یہ مسلّم مسئلہ ہے تمام اہل کتاب کا پس ہمارا اختیار
نہیں کہ مروڑ کر اور معنی کر لیں.بعض آدمی مذاق کے دلدادہ ہوتے ہیں.مگر مذاق بھی ایک قسم کا زہر ہے.ہمیں مذاقی معنے پسند نہیں کرنا چاہئیں.بلکہ توریت قرآن اور حدیث کو دیکھنا چاہیئے وہ یہی کہتی ہیں کہ ایک وقت ایسا تھا کہ ان موجودہ چیزوں میں سے ایک بھی نہ تھی.میرے خیال میں وحدت وجود بھی مذاق سے پیدا ہوا ہے.کُل کتب گذشتہ سے یہی معنے ثابت ہوتے ہیں اور اس کی تفصیل قرآن اور توریت میں موجود ہے.اول تو ان بحثوں کی حاجت نہیں.انسان کے واسطے پہلے تو یہی امر ضروری ہے کہ اجمالی طور پر خدا پر ایمان لاوے.جب اس کا ایمان پیدا ہو گا تو خودبخود اس پر حقائق کھلتے جاویں گے.دیکھو.ایک مرض میں قوت ذائقہ جاتی رہتی ہے.ترشی، میٹھا، کڑوا، نمکین وغیرہ سب کچھ بے مزہ معلوم دیتا ہے.پس معلوم ہوا کہ قوت حاسہ بھی کام دے رہی ہے.ایک قوت ناک میں ہوتی ہے جس کے وہ نہیں رہتی اس کو اَخْشَمْ کہتے ہیں.بعض کے کانوں کی قوت ماری جاتی ہے.پس جب اس طرح بعض قوتیں جاتی رہتی ہیں تو اسی طرح بعض اوقات دینی قوتیں بھی بے حس ہو جاتی ہیں اور انسان سید احمد خاں کی طرح دعا کا قبول ہونا اور ایسی باتیں ناممکن خیال کر بیٹھتا ہے.قبولیت دعا کا ثبوت دعا کے قبول ہونے پر ہمارا کامل ایمان ہے.او رہم نے اس کا نتیجہ بھی دیکھا ہے کہ لیکھرام کے قتل سے پہلے پانچ سال مَیں نے خبر دی تھی.میں نے سید احمد خاں کو لکھا تھا کہ میں نے لیکھرام کے واسطے دعا کی ہے تو مجھے خبر دی گئی ہے کہ تیری دعا قبول ہو گئی ہے اور خدا تعالیٰ اس کو ہیبت ناک موت سے مارے گا.یہی نمونہ تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں کہ اگر یہ دعا قبول نہ ہوئی تو تمہارے دعویٰ کا ثبوت ہوا اور اگر قبول ہو گئی تو تم اس عقیدہ سے توبہ کرنا اور وہ لیکھرام کی موت کو دیکھ کر فوت ہوا تھا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ.آنکھیں تو اس کو دیکھ نہیں سکتیں.اور وہ آنکھوں کو دیکھ سکتا ہے.جب وجودی ہو گیا تو پھر باقی کیا رہ گیا.اصل میں یہ سب مذاقی باتیں ہیں.ثبوت تو وہ ہے جس کا نمونہ انسان دکھلا دیوے.
آنحضرتؐ.موسٰی.عیسٰی کے مصائب پر ذرا غور کرو.ان باتوں کے ذکر کی ضرورت نہیں.اوّل خدا سے تعلق پیدا کرو.جب انسان کسی گھر میں داخل ہوتا ہے تو اندر کے حالات کا آپ ہی پتہ لگ جاتا ہے.جب تک گھر سے ہزاروں کوس دور ہے تو اندر کے حالات کس طرح بتلا سکے گا.یہ مناسب ہے کہ چند روز ہمارے پاس رہیں اور خاص ہمارے سلسلہ کے متعلق جو اعتراض ہوں وہ بیان کریں.تو کارے زمیں را نکو ساختی کہ با آسماں نیز پرداختی ہم نے بعض آدمی ایسے دیکھے ہیں جو کہتے ہیں کہ اجی اس جھگڑے کو جانے دو.رفع یدین، اور انگلی کے اٹھانے کا فیصلہ کرو مگر یہ اپنا اپنا مذاق ہوتا ہے.نووارد صاحب کی طرف سے سوال ہوا کہ سایہ کا وجود ہے کہ نہیں یعنی اس کی ذات ہے کہ نہیں.فرمایا.وجود کے معنی ہیں مَایُوْجَدُ یعنی جو چیز پائی جاوے اس کی ہویت ہو یا نہ ہو.آپ آئینہ دیکھتے ہیں اس میں چہرہ نظر آتا ہے.ہویت تو نہیں یعنی ایک مستقل شئے قائم بالذّات پس ہویت تو نہیں لیکن وجود ہے.وجود اَور ہے ہویت اَور ہے.آفتاب نے جہاں ظِلّ ہے وہاں بھی دھوپ ڈالنی ہے.مگر ایک چیز نے درمیان آ کر ظل پیدا کر دیا ہے.آفتاب اور ظِل کے درمیان جب تک اوٹ نہ ہو سایہ نہیں ہو سکتا.خیر آپ کو بھی اس وجودیت سے کچھ مذاق ہے اور ہم آپ کے مذاق کے خلاف ہیں.کُنْ کے اطلاق کا محل پھر سوال ہوا کہ کُنْ کا اطلاق کہاں آتا ہے.فرمایا.بات یہ ہے کہ آپ کئی مرتبہ خوابوں میں طرح طر ح کے تمثلات دیکھا کرتے ہوں گے اور بظاہر آپ جانتے ہیں کہ ان کا وجود کچھ نہیں.حکماء نے بھی لکھا ہے.پس جس طرح ہمارے تصورات ہوتے ہیں اسی طرح خدائی صفات میں سے اس کے تصورات بھی ہیں.پس جو تصور آتا ہے اگر انسانی ہے تو وہ ہیچ ہے اور اگر خدا کا ہے تو اس سے مخلوق پیدا ہو جاتی
ہے.مگر خدا کی کُنہ میں ہم دخل نہیں دے سکتے.اسلم طریق یہی ہے کہ انسان لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُپر ایمان رکھے.کہ میرا منصب نہیں کہ خدا کی کل صفات کو میں دیکھ لوں اور ان کی تحقیقات کر لوں.طبیب بیان کرتے ہیں کہ پانی سرد اور آگ گرم ہے.مگر یہ نہیں بتلا سکتے کہ پانی سرد کیوں ہے اور آگ گرم کیوں ہے.فلاسفر بھی یہاں کُنہ اشیا میں آ کر عاجز رہ گئے ہیں.یہاں اُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللّٰہِ پر چلے کہ ہم خدا پر چھوڑ دیں.بعض اکابر محی الدّین العربی وغیرہ کی نسبت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے.اس لئے کہ یہ بحث فضول ہے.بہت امور مرنے کے بعد معلوم ہوں گے اور بہت سے ایسے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی نہیں معلوم ہوں گے.محی الدّین بھی قائل ہیں کہ انسان متقی ہو اور خدا پر ایمان لانے والا ہو تو نجات پائے گا.(الحکم جلد۶ نمبر ۳۸ صفحہ ۴-۸ پرچہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۲ء) ۱۲؍اکتوبر ۱۹۰۲ء دربار شام بعد ادائے نماز مغرب حسب معمول حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے.حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب سلمہ الرحیم نے شحنہ ہند کے ایڈیٹر کا ایک کارڈ سنایا.جس میں اس نے اپنا ایک خواب لکھا تھا.کہ گویا وہ قادیان آیا ہے اور حضرت اقدس کو ایسی حالت میں دیکھا ہے کہ سر پائوں سے لگا ہوا ہے.اس پر حضرت حجۃ اللہ نے فرمایا کہ مامور ایک آئینہ ہے تعبیر الرؤیا میں یہ صاف لکھا ہے کہ جو لوگ مامورین کو بُری صورت میں دیکھتے ہیں وہ لوگ اپنی پردہ دری کراتے ہیں.مولوی ابویوسف محمد مبارک علی صاحب کے والد مرحوم نے ایک بار مجھ سے ذکر کیا کہ ایک ہندو ان کے پاس آیا کرتا تھا جو رغبت اسلام رکھتا تھا.کچھ عرصہ کے بعد وہ کشمیر سے آیا اور اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اب میں پکا ہندو ہو گیا ہوں.لیکن پھر کچھ عرصہ کے بعد جو اس کو دیکھا تو وہ عیسائی
ہو گیا تھا.جب اس سے وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ میں نے ایک خواب دیکھا تھا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تاریک کوٹھڑی میں دیکھا اور اس میں آگ جل رہی تھی.(لعنۃ اللّٰہ علیہ) گویا خبیث نے اس کو دوزخ سمجھا.اور اس کے گرد پادریوں کو دیکھا.اس سے میں نے نتیجہ نکالا کہ پادری حق پر ہیں.اور آپؐ (معاذ اللہ) مغلوب ہو رہے ہیں.مولوی صاحب کو تعبیر کا علم نہ تھا.مجھ سے جب انہوں نے کہا.تو میں نے کہا کہ اس کی یہی تعبیر ہے جو حالت اس شخص کی ہوئی.چنانچہ تعطیر الانام میں ایسا ہی لکھا ہے.کہ جب کسی نبی مامور و مُرسل کو ردّی حالت میں دیکھتا ہے مثلاً مجذوم دیکھتا ہے یا برہنہ دیکھتا ہے یا یہ کہ وہ بُری غذا کھاتے ہیں تو یہ سب اس کے اپنے ہی حالات ہوتے ہیں.انبیاء آئینہ کا حکم رکھتے ہیں اور اس کی اصلی صورت دکھا دیتے ہیں.اور یہ بات ہماری اپنی تجربہ کردہ ہے کہ جب کوئی آدمی کسی مامور و مُرسل کو بُری حالت میں دیکھتے ہیں تو جلدی ہی ان کی وہ حالت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی عقوبت کے دن قریب ہوتے ہیں.یہ میرے مجربات سے ہے.نو وارد مولوی حامد حسین صاحب نے کہا کہ میں مکہ معظمہ میں تھا.حاجی امداد اللہ صاحب سے ایک شخص نے ایسا ہی کہا کہ میں نے ایسی شکل پر دیکھا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ یہ تمہاری اپنی شکل ہے.اس کے بعد خاکسار ایڈیٹر الحکم نے جلسہ ندوۃ العلماء پر جو کارروائی کی تھی اس کا تذکرہ کیا جس کو سن کر حضرت حجۃ اللہ محظوظ ہوئے.پھر مولوی عبداللہ صاحب نے اس روئداد کے تتمہ کے طو رپر مولوی محمد حسین صاحب کا کچھ ذکر کیا اور مولوی مبارک علی صاحب نے اپنا ایک واقعہ سنایا.یہ سب امور جلسہ ندوہ کے متعلق ہمارے اپنے مضامین میں آئیں گے.زاں بعد مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے آبزرورؔ میں سے پایونیرؔ کا نقل کیا ہوا ایک مذہب نئے عنوان سے پڑھا.جس میں ڈاکٹر ڈوئی کو جو دعوت کی گئی ہے.اس پر ریمارک تھا.پھر بعد نماز عشاء اجلاس ختم ہوا.(الحکم جلد۶ نمبر ۳۸ صفحہ ۸-۹ پرچہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۲ء)
۱۳؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صبح کی سیر ۱.حضرت حجۃ اللہ علی الارض حسب معمول سیر کو نکلے.چند آدمیوں نے اپنے خواب سنائے.آپ نے فرمایا:.باطل میں جو تیاریاں حق کی طرف آنے کے لئے ہو رہی ہیں اس کے نظارے دکھائے جاتے ہیں.رؤیا کا بھی عجیب عالم ہوتا ہے.جن باتوں کا نام و نشان نہیں ہوتا وہ وجود میں لائی جاتی ہیں.معدوم کا موجود اور موجود کا معدوم دکھایا جاتا ہے اور عجیب عجیب قسم کے تغیرات ہوتے ہیں.آدمی کا جانور اور جانور کے آدمی دکھائے جاتے ہیں.۲.ہمارے موجودہ مخالفوں اور دس برس پہلے کے مخالفوں میں بہت بڑا فرق ہو گیا ہے پہلے تو اپنے عقیدوں کو سچے ہی سمجھتے تھے مگر اب صرف نفاق سے کہتے ہیں جو کہتے ہیں.ورنہ ان عقائد کی غلطیوں کو دل میں تسلیم کر چکے ہیں (جَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْھَآ اَنْفُسُھُمْ) ایک شخص جو اپنے تئیں سچا سمجھتا ہے وہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے.مگر اب یہ بھروسہ نہیں کر سکتے.اور اسی لئے اگر خواہ کئی ہزار روپیہ کا اشتہار دیا جاوے یہ اپنے آپ کو مدمقابل ہو کر نشانہ نہ بنائیں گے.۳.مخالفوں کی کمی اور اپنی روز افزوں ترقی پر فرمایا.یہ فوق العادۃ ترقی نہ ہو اگر تغیر واقع نہ ہوا ہو.ان کا خزانہ کم ہو رہا ہے اور ہمارا بڑھ رہا ہے.اگر ان کے پاس اپنی سچائی کے دلائل ہیں تو یہ لوگوں کو روک لیں.اگر کوئی بڑا سیلاب آیا ہوا ہو اور کسی کا گھر تباہ ہو رہا ہو اور اس کے پاس سامان بھی ہو تو کیا وہ اس کے روکنے کی سعی نہ کرے گا.ہمارے پاس جو ہر روز بیعت کے لئے آتے ہیں ان میں سے ہی آتے ہیں.آسمان سے تو نہیں آتے.۴.ندوۃ العلماء کے جلسہ کی تقریب پر فرمایا.کہ اشاعت رسالوں کی خوب ہو گئی.بہت اچھا ہوا.بہت سے لوگ واقف ہو جائیں گے
ان کو پڑھ لیں گے.دہلی کے جلسہ سے پہلے نزول المسیح بھی تیار ہو جاوے تو اچھا ہے.۵.ایڈیٹر الحکم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میاں نبی بخش صاحب عرف عبدالعزیز صاحب نمبردار بٹالہ کا توبہ نامہ جو اس نے بھیجا ہے.الحکم میں چھاپ دیا جاوے.اور ساتھ اپنا ایک رویاء بھی جسے بارہا آپ نے فرمایا ہے.سنایا کہ میں نے ایک بار اس کے متعلق دیکھا تھا کہ گویا اسی راستہ ہم سیر کو نکلے ہیں تو اس بڑ کے درخت کے نیچے جو میراں بخش حجام کی حویلی کے پاس ہے.نبی بخش سامنے سے آ کر ملا ہے اور اس نے مصافحہ کیا ہے.یہ رویاء ان دنوں کی ہے جب وہ مخالفت کے اشتہار چھپواتا پھرتا تھا.جماعت کی ترقی اور اس کے متعلق براہین احمدیہ میں پیشگوئیاں ۶.جماعت کی ترقی پر اور مولوی محمد حسین کے ابھی تین سو تیرہ ہی کہتے رہنے پر فرمایا کہ بڑے زور سے ترقی ہو رہی ہے.کیا وہ نہیں جانتا کہ خدا قادر ہے کہ ایک دم میں تین سو تیرہ سے تین لاکھ تیرہ ہزار کر دے.یہ ترقی محمد حسین کے لئے تو اعجاز ہے.اگر وہ سوچے اور سمجھے براہین احمدیہ کو پڑھے.یہ کتاب میں نے اب تو نہیں بنا لی جس میں لکھا ہوا ہے کہ تیرے ساتھ فوجیں ہوں گی.باوجود مولویوں کی اس قدر مخالفت کے پھر اس قوم کا ترقی کرنا کیا یہ معجزہ نہیں.جبکہ وہ اپنے ارادوں میں عاجز آ گئے.کس قدر جدوجہد ان لوگوں نے ہمارے نابود کرنے کے لئے کی.گورنمنٹ تک سے چاہا کہ کسی نہ کسی طرح سے ہم کو پھنسائیں.مگر خدا تعالیٰ نے ایسی زور شور سے ترقی کی جس قدر زور انہوں نے مخالفت میں لگایا.اب تو بات صاف ہو گئی ہے.مردم شماری کے کاغذات سے صاف معلوم ہو جاتاہے کہ ہماری جماعت تین سو تیرہ ہے یا ایک لاکھ کے قریب.طاعون نے ان کو دو طرح گھٹایا ہے.کچھ مرتے ہیں اور اکثروں کو ادھر ملایا ہے.اصل یہ ہے کہ جو بیج اچھی طرح بویا جاوے اور وقت پر بارش بھی ہو وہ دیکھتے ہی دیکھتے نشوونما پاتا اور ترقی کرتا ہے.دلوں کا کھینچنا اور قائم رکھنا یہ خدا کا کام ہے.ان مخالفوں کو اگر اب ابو سفیان کی طرح نظارہ کرایا
اوے تو حیران ہو جائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو اپنی فوج دکھائی اور عباس کو کہا کہ ان کے پاس ٹھیر کر دکھائو اور جب اس نے وہ نظارہ کیا تو اس نے کہا کہ تیرا بھتیجا بڑا بادشاہ ہو گیا ہے مگر اس کو جواب دیا گیا کہ بادشاہی نہیں نبوت ہے.براہین احمدیہ کے زمانہ پر غور کیا جاوے.جب وہ چھپ رہی تھی.اب تو نہیںبنائی گئی.اس وقت کے الہامات اس میں درج ہیں.جو انگریزی میں بھی ہیں اور عربی میں بھی.اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح وانتھٰی امر الزّمان اِلینا الیس ھٰذا بالحق.ایک مخلوق ہماری طرف رجوع کرے گی.تو کہا جائے گا.الیس ھٰذا بالحق.وانتھٰی امر الزمان الینا عربی میں بڑا عجیب فقرہ ہے کہ زمانہ کا رجوع ہماری طرف ہو گا اور آخری فیصلہ ہمارے ہی حق میں ہو گا.غرض بڑی بڑی پیشگوئیاں ہیں.جیسے یہ کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ملوک کو بھی اس طرف توجہ ہو گی اور ان میں بھی اس سلسلہ کی اشاعت ہو گی.ملوک اور رؤساء کے کان حق کے سننے سے بہرے ہوتے ہیں.نہ خود ان کو عادت ہوتی ہے اور نہ ان کے پاس والے ایسے ہوتے ہیں.ان کے مصاحب اور پاس رہنے والے بدوضع لوگ ہوتے ہیں.اس لئے وہ اپنی سد دنیا کا باعث سمجھتے ہیں.اگر وہ دین کی طرف توجہ کریں.مگر خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.یہ برکت ڈھونڈنے والے بیعت میں داخل ہوں گے.اور ان کے بیعت میں داخل ہونے سے گویا سلطنت بھی اس قوم کی ہو گی.پھر مجھے کشفی رنگ میں وہ بادشاہ دکھائے بھی گئے.وہ گھوڑوں پر سوار تھے.اور چھ سات سے کم نہ تھے.اصل یہ ہے کہ خدا کے کام تدریجی ہوتے ہیں.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ کی گلیوں میں تکلیف اٹھاتے پھرتے تھے اس وقت کون خیال کر سکتا تھا اس شخص کا مذہب دنیا میں پھیل جائے گا.علم خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی کو نہیں ہوتا.صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علم کا دائرہ بھی اشاعت اسلام
کے متعلق اتنا نہ تھا.جتنا اب ہے.وہ تو یقین کرتے تھے کہ ہم فتح پائیں گے.میرا مذہب تو یہ ہے.خدا تعالیٰ ہی علیم و خبیر ہے.ضروری نہیں کہ پیغمبروں پر بھی تفصیلی حالات ظاہر کئے جائیں.وہ جتنا علم چاہتا ہے دیتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر اس وقت آئیں تو اسلام کی اس قدر وسیع اشاعت اور ترقی کو دیکھ کر حیران ہو جائیں.صداقت کے چار قسم کے ثبوت ۷.اپنے تائیدی ثبوتوں کے متعلق فرمایا.کہ اب وہ اس کثرت سے ہو گئے ہیں کہ گِنے بھی نہیں جاتے.ہر روز زیادتی رہتی ہے.یہ خدا کا کلام ہے.مجھے بارہا خیال آیا ہے کہ اگر کسی رئیس کو یہ خیال پیدا ہو تو جس ترتیب سے خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کی سچائی کو ظاہر کیا ہے وہ ایک جلسہ کر کے اس ثبوت کو ہم سے لے.یہ ثبوت چار قسم کے ہیں.اگر عقل کو بھی اس میں داخل کر لیا جاوے.(۱) نصوص قرآنیہ و حدیثیہ.(۲) آیات ارضیہ و سماویہ.(۳) ضرورت مشہودہ و محسوسہ.(۴) دلائل عقلیہ.اس ترتیب سے اگر عیسائیوں کے اس جلسہ کی طرح (جو ۱۵ دن تک امرت سر میں ہوتا رہا) ایک جلسہ کیا جاوے اور قیصرسوم کی طرح جس نے ایک مذہبی جلسہ کیا تھا مذہب کی تحقیقات کے لحاظ سے نہ سہی بطور تماشا ہی کوئی کر کے دیکھے.اس طرح پر آہستگی سے منہاج نبوت پر ہمارے ثبوت سن لئے جاویں تو بہت بڑا مفید نتیجہ نکلے.بے شک جس طریق پر حضرت موسیٰ کی نبوت یا حضرت عیسیٰ اور دوسرے نبیوں کی نبوت ثابت ہوتی ہے.اس سلسلہ کو پرکھا جاوے.۸.ایک بار حضرت نے پیشگوئیوں کے نقشہ کی تیاری کا حکم دیا تھا.پھر وہ نقشہ تیارہوا.اس کے متعلق یاددہانی کرائی گئی تو فرمایا کہ وہ پیشگوئیاں اب نزول المسیح میں چھپ رہی ہیں.ان کی عبارات کا چست کرنا بھی ضروری تھا.اب اس سے نقشہ بھی مرتب ہو سکتا ہے.
آتھم کا رجوع الی الحق ۹.آتھم کی پیشگوئی کے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرمایا.کہ ہماری جماعت کو یہ مسائل مستحضر ہونے چاہئیں.آتھم کے رجوع کے متعلق یاد رہے کہ پیشگوئی سنتے ہی اس نے اپنی زبان نکالی اور کانوں پر ہاتھ رکھا اور کانپا اور زرد ہو گیا.ایک جماعت کثیر کے سامنے اس کا یہ رجوع دیکھا گیا.پھر اس پر خوف غالب ہوا.اور وہ شہر بشہر بھاگتا پھرا.اس نے اپنی مخالفت کو چھوڑ دیا اور کبھی اسلام کے مخالف کو ئی تحریر شائع نہ کی.جب انعامی اشتہار دے کر قسم کے لئے بلایا گیا تو وہ قسم کھانے کو نہ آیا.اخفائے شہادت حقہ کی پاداش میں اس پیشگوئی کے موافق جو اس کے حق میں کی گئی تھی.وہ ہلاک ہو گیا.یہ باتیں اگر عیسائی منصف مزاج کے سامنے پیش کی جاویں تو اس کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا.غرض اس طرح پر مسائل کو یاد رکھنا ایک فرض ہے.اور کتابوں کا دیکھنا ایک ضروری ہوتا ہے.رفع کے معنے ۱۰.رفع کے متعلق جو اعتراض کرتے ہیں.اس کے لئے یہ سمجھنا چاہیئے کہ رفع سے یہودی تو یہی معنے سمجھے ہوئے تھے کہ جس پر لعنت پڑے اس کا روح آسمان پر نہیں جاتا.ان کا یہ مذہب کب تھا کہ نجات کے لئے آسمان پر جانا ضروری ہے.پس یہودیوں کی اصل غرض مسیح کو صلیب دینے سے یہ تھی.ان کے جسم سے ان کو کیا کام تھا.اللہ تعالیٰ کو بھی اسی اختلاف کا رفع کرنا اور ان کی غلط فہمی کو رفع کرنا مقصود تھا.اب اگر رفع سے جسمانی مراد ہے تو یہودیوں کے اس الزام کی بریّت کہاں ہے؟ اس طرح پر ہر قسم کے اعتراضوں کا جواب پہاڑوں کی طرح یاد ہونا چاہیئے.مستحضر جواب دینا ہر ایک کا کام نہیں.اگر پکا جواب نہ ہو تو ؎ عذر نا معقول ثابت میکند الزام را.کا معاملہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کی سچائی کے تو ایسے دلائل دے دیئے ہیں کہ اگر یاد ہوں تو پھر کوئی مشکل نہیں.میرا ارادہ ہے کہ اس کتاب کے بعد پھر امتحان کی صورت رکھی جاوے.رؤسا میں سے کسی کو خیال آوے کہ اسلام میں پھوٹ پڑ رہی ہے اور وہ اس کام کو اپنے ذمہ لے اور ایک جلسہ کر کے فیصلہ کر لے.
طاعون کے متعلق سارے نبی پیشگوئی کرتے آئے ہیں کہ مسیح موعود کے وقت میں طاعوں شدت سے پھیلے گی.؎ٰ ۱۳؍اکتوبر ۱۹۰۲ء ندوۃ العلمأ اور اصلاح کا صحیح طریق ۱۹۰۲ء میں ندوۃ العمأ کا سالانہ جلسہ بمقام امرتسر ہوا تھا.اس جلسہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنے رسل بغرض تبلیغ بھیجے تھے.۱۳؍اکتوبر کو جلسہ سے واپس آنے پر بعض اور لوگ بھی دارالامان آئے.سلسلہ کلام میں ندوہ کے متعلق ذکر آیا کہ وہ بحث مباحثہ سے الگ رہ کر اصلاح چاہتے ہیں.اس پر فرمایا : اگر ندوہ کا دعویٰ اصلاح ہے تو امر تنقیح طلب یہ ہے کہ اصلاح کس طرح ہو سکتی ہیاور کن راہوں سے ہو رہی ہے اور اسلام پر کیا حملہ ہو رہا ہے؟ اس کی مدافعت اور انسداد کی تدابیر کا سوال بے محل اور ایسا دعویٰ خیالی دعویٰ ہوگا.پھر قابل غور امر یہ ہے کہ ان ساری خرابیوں کا انسدادِ ارضی طاقت سے ہو سکتا ہے یا آسمانی تائیدات سے؟اگر ندوہ والے چاہتے ہیں کہ لوگ پڑھ کر یعنی انگریزی تعلیم حاصل کر کے نوکر ہو جاجیں او ر ان کو ملازمت کے لیے آسانیاں ہوں تو یہ دین کا کام نہیں ہے.یہ تو قوم کو غلام بنانے کی تدابیر ہیں.اور اگر ان کی غرض دینی اصلاح ہے تو پھر یاد رکھیں کہ ؎ خدا را بخدا تواں شناخت اس اصل کو چھوڑ کر جو شخص چاہتا ہے کہ دینی اصلاح ہو جاوے.وہ کبھی اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا.اس خشک اور خیالی اصلاح سے کیا فائدہ ہوگا.جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدیں اور نصرتیں نہیں ہیں.وہ باتیں جو نری لفاظی کے طور پر بیان کی جاویں یا قصہ اور کہانی کی طرح گذشتہ امور پر جس کا حوالہ ہو.ان کی پہلے سے کیا کمی ہے.جو ایک خاص جماعت اپنا وقت اور غریب مسلمانوں کا روپیہ لے کر صرف کرے اور نتیجہ کچھ بھی نہ ہو.میں اس قسم کی کارروائیوں کو کبھی پسند نہیں کرتا.ایسی باتوں سے ریاکاری اور نفاق کی بُو آتی ہے.کیونکہ یہ طریق اس مطلب اور غرص کے حصول
کو سوں دور ہے جس کے لیے انسان پیدا کیا گیا ہے اور جس طرح دنیا کی اصلاح ہوا کرتی ہے.وہ رنگ اس میں موجود نہیں ہے.اصلاح کا طریق ہمیشہ وہی مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہوا ہے.جو اﷲ تعالیٰ کے اذن اور ایماء سے ہول.اگر ہر شخص کی خیالی تجویزوں اور منصوبوں سے بگڑہوئی قوموں کی اصلاح ہوسکتی تو پھر دنیا میں انبیاء علیہم السلام کے وجود کی کچھ حاجت نہ رہتی جبتک کامل طور پر ایک مرض کی تشخیص نہ ہو اور پھر پورے وثوق کے ساتھ اس کا علاج معلوم نہ ہولے کامیابی علاج میں نہیں ہوسکتی.اسلام کی جو حالت بازک ہو رہی ہے وہ ایسے ہی طبیبوں کی وجہ سے ہو رہی ہے جنہوں نے اس کی مرضکو تو تشخیص نہیں کیا اور جو علاج اپنے خیال میں گذرا اپنے مفاد کو مد نظر رکھ کر شروع کر دیا.مگریقینا یاد رکھو کہ اس مرض اور علاج سے یہ لوگ محض ناواقف ہیں.اس کو وہی شناخت کرتا ہے جس کو خد اتاعالیٰ نے اسی غرض کے لیے بھیجا ہے اور وہ میں ہوں.اصلاح احوال کے لیے آسمانی تدابیر کی ضرورت اسلام کے اندر ایک خطرناک پھوڑا ہو گیا ہے اور یاک جذام باہر کی طرف سے ا۲سے لگ رہا ہے.اندرونی پھوڑے کا باعث خود مسلمان ہوئے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیمات اور اُسوہ حسنہ کو چھوڑ کر اپنی تجویز اور رائے کے موافق اس میں اصلاح اور ترمیم شروع کر دی.وہ باتیں جو کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہم وگمان میں بھی نہ آئی تھیں آج عبادت قرار دی گئے ہیں اور زہد و ریاضت کا بہت بڑا مدار انہیں پر رکھا گیا ہے.ان باتوں کو دیکھ کر بیرونی دشمنو ںکو بھی موقع ملا اور وہ تیروتفنگ لے کر اسلام پر حملہ آور ہوئے اور اس کے پاک وجود کو چھلنی کر دیا اور اسے ایسی مکروہ ہیئت میں دشمنوں نے دکھانا شروع کر دیا کہ غیر تو غیر تھے ہی اپنوں کو بھی متنفر کر دیا.ہر شخص نے اپنی طرز پر اس کی تصویر کو بھیانک بنانے کی فکر کی.ایسی صورت میں زمینی حربہ اور ارضی تدابیر کام نہیں دے سکتی ہیں.اس کے لیے اسمانی حربہ ارو آسمانی تدابیر کی حاجت ہے.اس لیے جب تک آسمانی کشش اور آسمانی
تائیدات کسی کو نہ دی جاویں کامیابی ہو نہیں سکتی؟ ضرورت انبیاء علیہم السلام کا یہی بڑا بھاری ثبوت ہے کیونکہ اگر بگڑے وقت اصلاح دنیا ہوسکتی تو ہر زمانہ میں فلاسفر اور دانش مند مدبّر ہوتے ہی رہے ہیں.انبیاء علیہم السلام کے زمانہ میں بھی ایسے لوگ ہو گذرے ہیں.اب بھی موجود ہیں.لیکن وہ فلاسفر اور ریفار مر خدا تعالیٰ سے اس قدر دور جا پڑے ہیں کہ ان کے نزدیک شاید خدا تعالیٰ کا نام لینا بھی ایک گناہ اور غلطی قرار دیا گیا ہے.پھر بتائو کہ یہ فلسفہ اور یہ اصلاح تمہیں کہاں تک لے جائے گی.اس سے کسی بہتری کی امید رکھنا خطرناک غلطی ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ خدا تعالیٰ نے یہی سنّت رکھی ہے کہ اصلاح کے واسطے نبیوں کو مامور کر کے بھیجا ہے.انبیاء علیہم السلام جب آتے ہیں تو بظاہر دنیا میں ایک فسادِ عظیم نظر آتا ہے.بھائی بھائی سے باپ بیٹے سے جدا ہو جاتا ہے.ہزاروں ہزار جانیں بھی تلف ہو جاتی ہیں.حضرت نوح علیہ السلام کے وقت طوفان سے ان کے مخالفوں کو تباہ کر دیا گیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت طاعون اور دوسرے کئی عذاب وارد ہوئے اور فرعون کے لشکر کو غرق کیا گیا.غرض خوب یاد رکھو کہ قلوب کی اصلاح اسی کا کام ہے جس نے قلوب کو پیدا کیا ہے.نرے کلمات اور چرب زبانیاں اصلاح نہیں کر سکتی ہیں بلکہ ان کلمات کے اندر ایک روح ہونی چاہیے.پس جس شخص نے قرآن شریف کو پڑھا اور اس نے اتنا بھی نہیں سمجھا کہ ہدایت آسمان سے آتی ہے تو اس نے کیا سمجھا؟ اَلَمْ يَاْتِكُمْ نَذِيْرٌ کا جب سوال ہوگا تو پتہ لگے گا.اصل بات یہی ہے کہ ع خدا را بخدا تواں شناخت اور یہ ذریعہ بغیر امام نہیں مل سکتا.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانوں کامظہر اور اس کی تجلیّات کامورد ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں آیا ہے مَنْ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہٖ فَقَدْ مَاتَ مِیْتَۃَالْـجَاھِلِیَّۃِ.یعنی جس نے زمانہ کے امام کو شناخت نہیں کیا وہ جہالت کی موت مَر گیا.۱
۱۴؍اکتوبر ۱۹۰۲ء (دربارِ شام) دعا بعد نماز مولوی سید محمود شاہ صاحب نے جو سہار نپور سے تشریف لائے ہوئے ہیں.حضرت اقدس امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور جب آپ نماز مغرب سے فارغ ہو کر شہ نشین پر اجلاس فرماہوئے.یہ عرض کیا کہ میں نے آج تحفہ گولڑویہ اور کشتی نوح کے بعض مقامات پڑھے ہیں.میں ایک اَمر جناب سے دریافت کرنا چاہتا ہوں.اگر چہ وہ فروعی ہے لیکن پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم لوگ عموماً بعد نماز دعا مانگتے ہیں،لیکن یہاں نوافل تو خیر دعا بعد نماز نہیں مانگتے.اس پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا.اصل یہ ہے کہ ہم دعا مانگنے سے تو منع نہیں کرتے اور ہم خود بھی دعا مانگتے ہیں.اور صلوٰۃ بجائے خود دعا ہی ہے.بات یہ ہے کہ میں نے اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ ہندو ستان میں یہ عام بدعت پھیلی ہوئی ہے کہ تعدیل ارکان پورے طور پر ملحوظ نہیں رکھتے اور ٹھونگے دار نماز پڑھتے ہیں.گویا وہ نماز ایک ٹیکس ہے جس کا ادا کرنا ایک بوجھ ہے.اس لیے اس طریق سے ادا کیا جاتا ہے جس میں کراہت پائی جاتی ہے حالانکہ نماز ایسی شَے ہے کہ جس سے ایک ذوق اُنس اور سرور بڑھتا ہے.مگر جس طرز پر نماز ادا کی جاتی ہے اس سے حضورِ قلب نہیں ہوتا اور بے ذوقی اور بے لُطفی پیدا ہوتی ہے.میں نے اپنی جماعت کو یہی نصیحت کی ہے کہ وہ بے ذوقی اور بے حضوری پیدا کرنے والی نماز نہ پڑھیں بلکہ حضورِ قلب کی کوشش کریں جس سے اُن کو سرور اور ذوق حاصل ہو.عام طور پر یہ حالت ہو رہی ہے کہ نماز کو ایسے طور سے پڑھتے ہیں کہ جس میں حضورِ قلب کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ جلدی جلدی اس کو ختم کیا جاتا ہے اور خارج نماز میں بہت کچھ دعا کے لیے کرتے ہیں اور دیر تک دعا مانگتے رہتے ہیں حالانکہ نماز کا (جو مومن کی معراج ہے) مقصود یہی ہے کہ اس میں دعا کی جاوے اور اسی لیے اُمُّ الادعیہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ دعا مانگی جاتی ہے.انسان کبھی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرتا جب تک کہ اِقَامُ الصَّلٰوۃ نہ کرے.اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ اس لیے فرمایا کہ نماز گری پڑتی ہے مگر جو شخص
ِقَامُ الصَّلٰوۃ کرتے ہیں تو وہ اس کی روحانی صورت سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو پھر وہ دعا کی محویت میں ہو جاتے ہیں.نماز ایک ایسا شربت ہے کہ جو ایک بار اُسے پی لے اُسے فرصت ہی نہیں ہوتی اور وہ فارغ ہی نہیں ہوسکتا.ہمیشہ اس سے سرشار اور مست رہتا ہے.اس سے ایسی محویت ہوتی ہے کہ اگر ساری عمر میں ایک بار بھی ا سے چکھتا ہے تو پھر اس کا اثر نہیں جاتا.مومن کو بے شک اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت دعائیں کرنی چاہئیں مگر نماز کے بعد جو دعائوں کا طریق اس ملک میں جاری ہے وہ عجیب ہے.بعض مساجد میں اتنی لمبی دعائیں کی جاتی ہیں کہ آدھ میل کا سفر ایک آدمی کر سکتا ہے.میں نے اپنی جماعت کو بہت نصیحت کی ہے کہ اپنی نماز کو سنوار و یہ بھی دعا ہے.کیا وجہ ہے کہ بعض لوگ تیس تیس برس تک برابر نماز پڑھتے ہیں.پھر کورے کے کورے ہی رہتے ہیں.کوئی اثر روحانیت اور خشوع وخضوع کا ان میں پیدا نہیں ہوتا.اس کایہی سبب ہے کہ وہ وہ نماز پڑھتے ہیں جس پر خدا تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے ایسی نمازوں کے لیے وَیْلٌ آیا ہے.دیکھو! جس کے پاس اعلیٰ درجہ کا جوہر ہو تو کیا کوڑیوں اور پیسوں کے لیے اسے اس کو پھینک دینا چاہیے؟ ہرگز نہیں.اوّل اس جوہر کی حفاظت کا اہتمام کرے اور پھر پیسوںکو بھی سنبھالے.اس لیے نما زکو سنوار سنوار کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھے.سائل.الحمد شریف بیشک دعا ہے مگر جن کو عربی کا علم نہیں ان کو تو دعا مانگنی چاہیے.حضرت اقدسؑ.ہم نے اپنی جماعت کو کہا ہوا ہے کہ طوطہ کی طرح مت پڑھو.سوائے قرآن شریف کے جو ربِّ جلیل کا کلام ہے اور سوائے ادعیہ ماثورہ کے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامعمول تھیں نماز بابرکت نہ ہوگی جب تک اپنی زبان میں اپنے مطالب بیان نہ کرو.اس لیے ہرشخص کہ جو عربی زبان نہیں جانتا ضروری ہے کہ اپنی زبان میں اپنی دعائوں کو پیش کرے اور رکوع میں سجود میں مسنون تسبیحوں کے بعد اپنی حاجات کو عرض کرے.ایسا ہی التحیات میں اور قیام اور جلسہ میں.اس لیے میری جماعت کے لوگ اس تعلیم کے موافق نما زکے اندر اپنی زبان میں دعائیں کر لیتے ہیں.اور ہم بھی کر لیتے ہیں اگر چہ ہمیں تو عربی اور پنجابی یکساں ہی ہیں.مگر مادری زبان کے
ساتھ انسان کو ایک ذوق ہوتا ہے.اس لیے اپنی زبان میں نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ اپنے مطالب اور مقاصد کو بارگاہ ربُّ العزّۃ میں عرض کرنا چاہیے.میں نے بارہا سمجھایا ہے کہ نما زکا تعہد کرو جس سے حضور اور ذوقی پیدا ہو.فریضہ تو جماعت کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں.باقی نوافل اور سُنن کو جیسا چاہو طُول دو.اور چاہیے کہ اس میں گریہ وبکا ہو تاکہ وہ حالت پیدا ہو جاوے جو نماز کا اصل مطلب ہے.نماز ایسی شَے ہے کہ سیّئات کو دور کر دیتی ہے جیسے فرمایا اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ (ھود : ۱۱۵) نماز کل بدیوں کو دور کر دیتی ہے.حسنات سے مُراد نما زہے.مگر آج کل یہ حالت ہو رہی ہے کہ عام طور پر نمازی کو مکّار سمجھا جاتا ہے کیونکہ عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں یہ اسی قسم کی ہے جس پر خدا نے واویلا کیا ہے کیونکہ اس کا کوئی نیک اثر اور نیک نتیجہ مترتّب نہیں ہوتا.نرے الفاظ کی بحث مَیں پسند نہیں کرتا.آخر مَر کر خدا تعالیٰ کے حضور جانا ہے.دیکھو! ایک مریض جو طبیب کے پاس جاتا ہے اور اس کا نسخہ استعمال کرتا ہے.اگر دس بیس دن تک اس سے کوئی فائدہ نہ ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ تشخیص یا علاج میں کوئی غلطی ہے.پھر یہ کیا اندھیر ہے کہ سالہا سال سے نمازیں پڑھتے ہیں اور اس کا کوئی اثر محسوس اور مشہود نہیں ہوتا.میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر دس دن بھی نماز کو سنوار کر پڑھیں تو تنویر ِقلب ہو جاتی ہے.مگر یہاں تو پچاس پچاس برس تک نما زپڑھنے والے دیکھے گئے ہیں کہ بدستور روبدنیا اور سِفلی زندگی میں نگونسار ہیں اور انہیں نہیں معلوم کہ وہ نمازوں میں کیا پڑھتے ہیں اور استغفار کیا چیز ہے؟ اس کے معنوں پر بھی انہیں اطلاع نہیں ہے.طبیعتیں دو قسم کی ہیں.ایک وہ جو عادت پسند ہوتی ہیں.جیسے اگر ہندو کا کسی مسلمان کے ساتھ کپڑا بھی چُھو جاوے تو وہ اپنا کھانا پھینک دیتا ہے حالانکہ اس کھانے میں مسلمان کا کوئی اثر سرایت نہیں کر گیا.زیادہ تر اس زمانہ میں لوگوں کا یہی حال ہو رہا ہے کہ عادت اور رسم کے پابند ہیں اور حقیقت سے واقف اور آشنا نہیں ہیں.جو شخص دل میں یہ خیال کرے کہ یہ بدعت ہے کہ نماز کے پیچھے دعا نہیں مانگتے بلکہ نمازوں میں دعائیں کرتے ہیں یہ بدعت نہیں.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ادعیہ عربی میں سکھائی تھیں جو اُن لوگوں کی اپنی مادری زبان تھی اسی لیے ان کی ترقیات جلدی
ہوئیں.لیکن جب دوسرے ممالک میں اسلام پھیلا تو وہ ترقی نہ رہی.اس کی یہی وجہ تھی کہ اعمال رسم و عادت کے طور پر رہ گئے.ان کے نیچے جو حقیقت اور مغز تھا وہ نکل گیا.اب دیکھ لو مثلاً ایک افغان نماز تو پڑھتا ہے لیکن وہ اثر نماز سے بالکل بے خبر ہے.یاد رکھو رسم اور چیز ہے اور صلوٰۃ اور چیز.صلوٰۃ ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے قرب کا کوئی قریب ذریعہ نہیں.یہ قرب کی کنجی ہے.اسی سے کشوف ہوتے ہیں.اسی سے الہامات اور مکالمات ہوتے ہیں.یہ دعائوں کے قبول ہونے کا ایک ذریعہ ہے.لیکن اگر کوئی اس کو اچھی طرح سے سمجھ کر ادا نہیں کرتا تو وہ رسم اور عادت کا پابند ہے اور اس سے پیار کرتا ہے جیسے ہندو گنگا سے پیار کرتے ہیں.ہم دعائوں سے انکار نہیں کرتے بلکہ ہمارا تو سب سے بڑھ کر دعائوں کی قبولیت پر ایمان ہے جبکہ خدا تعالیٰ نے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : ۶۱) فرمایا ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے نماز کے بعد دعا کرنا فرض نہیں ٹھہرایا.اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی التزامی طور پر مسنون نہیں ہے.آپ سے التزام ثابت نہیں ہے.اگر التزام ہوتا اور پھر کوئی ترک کرتا تو یہ معصیت ہوتی.تقاضاءِ وقت پر آپ نے خارج نماز میں بھی دعا کر لی.اور ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ آپ کا سارا ہی وقت دعائوں میں گذرتا تھا.لیکن نماز خاص خزینہ دعائوں کا ہے جو مومن کو دیا گیا ہے.اس لیے اس کا فرض ہے کہ جب تک اس کو درست نہ کرے اَور طرف توجہ نہ کرے کیونکہ جب نفل سے فرض جاتا رہے تو فرض کو مقدم کرنا چاہیے.اگر کوئی شخص ذوق اور حضورِ قلب کے ساتھ نما زپڑھتا ہے تو پھر خارج نماز میں بے شک دعائیں کرے ہم منع نہیں کرتے.ہم تقدیم نما زکی چاہتے ہیں اور یہی ہماری غرض ہے.مگر لوگ آج کل نماز کی قدر نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے بہت بُعد ہو گیا.مومن کے لیے نماز معراج ہے اور وہ اس سے ہی اطمینانِ قلب پاتا ہے کیونکہ نماز میں اﷲ تعالیٰ کی حمد اور اپنی عبودیت کا اقرار، استغفار، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود غرض وہ سب امور جو روحانی ترقی کے لیے ضروری ہیں موجود ہیں.ہمارے دل میں اس کے متعلق بہت سی باتیں ہیں جن کو الفاظ پورے طور پر ادا نہیں کر سکتے.بعض سمجھ لیتے ہیں اور بعض رہ جاتے ہیں.مگر ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تھکتے نہیں کہتے جاتے ہیں.جو سعید
ہوتے ہیں اور جن کو فراست دی گئی ہے وہ سمجھ لیتے ہیں.عربی کی بجائے اپنی زبان میں نما زپڑھنا درست نہیں سائل.ایک شخص نے رسالہ لکھا تھا کہ ساری نما زاپنی ہی زبان میں پڑھنی چاہیے.حضرت اقدسؑ.وہ اور طریق ہوگا جس سے ہم متفق نہیں.قرآن شریف بابرکت کتاب ہے اور ربّ جلیل کا کلام ہے.اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے.ہم نے تو ان لوگوں کے لیے دعائوں کے واسطے کہا ہے جو اُمّی ہیں اور پورے طور پر اپنے مقاصد عرض نہیں کرسکتے.ان کو چاہیے کہ اپنی زبان میں دعا کرلیں.ان لوگوں کی حالت تو یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ فتح محمد ایک شخص تھا.اس کی چچی بہت بڈھی ہو گئی تھی.اس نے کلمہ کے معنے پوچھے تو اس کو کیا معلوم تھا کہ کیا ہیں.اس نے بتائے تو اس عورت نے پوچھا کہ محمد مرد تھا یا عورت تھی.جب اس کو بتایا گیا کہ وہ مرد تھاتو وہ حیرت زدہ ہو کر کہنے لگی کہ پھر کیا میں اتنی عمر تک بیگانے مرد ہی کا نام لیتی رہی؟ یہ حالت مسلمانوں کی ہوگئی ہے.۱ مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب فاضل امر وہی نے جب حضرت حجۃاﷲؑ تقریر ختم کر چکے تو مستفسر کو مخاطب کر کے فرمایا کہ صاحب سفر السعادۃ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ نماز کے بعد دعا کی حدیث ثابت نہیں.اس پر پھر حضرت اقدسؑ نے سلسلہ کلام یوں شروع کیا کہ حدیث پر میرا مذہب میرا مذہب یہ ہے کہ حدیث کی بڑی تعظیم کرنی چاہیےکیونکہ یہ آنحضرتؐسے منسوب ہے.جب تک قرآن شریف سے متعارض نہ ہو تو مستحسن یہی ہے کہ ا س پر عمل کیا جاوے.مگر نما زکے بعد دعا کے متعلق حدیث سے التزام ثابت نہیں.ہمارا تو یہ اصول ہے کہ ضعیف سے ضعیف حدیث پر بھی عمل کیا جاوے جو قرآن شریف کے مخالف نہ ہو.اس کے بعد دو تین آدمیوں نے بیعت کی درخواست کی اور آپ نے بیعت میں داخل کیا.
مسٹر پگٹ مولانا مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے مسٹر پگٹ اور فرانس کے ایک جدید مدّعی مسیحیت کے متعلق ولایت کے اخبار فری تھنکر سے دو نوٹ پڑھ کر سنائے.اور مفتی محمد صادق صاحب نے ڈاکٹر ڈوئی کے اخبار کے بعض پیراگراف سنائے.ڈوئی کے ذکر پر پھر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ جان الیگزینڈر ڈوئی یہ وہ شخص ہے جس نے الیاس ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے آپ کو عہد نامہ کا رسول کہتا ہے.ہم نے اس کو دعوت کی ہے کہ اگر تو یسوع مسیح کو خداسمجھتا ہے تو میں سچ کہتا ہوں کہ میں خدا کی طرف سے مسیح موعود ہو کر آیا ہوں.پس تو اس قسم کی دعا کر کہ ہم دونوں میں سے جو کاذب ہے وہ پہلے ہلاک ہو.یہ جوش زیادہ تر مجھے اس لیے آیا ہے کہ اس نے تمام مسلمانوں کے ہلاک ہونے کی پیشگوئی کی ہے.یہ شخص اسلام کا بڑا دشمن ہے.یہ زمانہ اس قسم کا آیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایسے وسائل پیدا کر دیئے ہیں کہ دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے.اور وَ اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (التکویر : ۸) کی پیشگوئی پوری ہو گئی ہے.اب سب مذاہب میدان میں نکل آئے ہیں.اور یہ ضروری اَمر ہے کہ ان کامقابلہ ہو اور ان میں ایک ہی سچا ہوگا اور غالب آئے گا.لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ (الصّف : ۱۰)اس کی طرف اشارہ کرتا ہے.یہ مقابلہ مذاہب کا شروع ہو گیا ہے اور اس مذہبی کُشتی کا سلسلہ نری زبان تک ہی نہیں رہا بلکہ قلم نے اس میں سے سب سے بڑھ کر حصہ لیا ہے.لاکھوں مذہبی رسالے شائع ہو رہے ہیں.اس وقت مختلف مذاہب خصوصاً نصاریٰ کے جو حملے اسلام پر ہو رہے ہیں جو شخص ان حالات سے واقفیت رکھتا ہے اور اسے ان پر سوچنے کاموقع ملا ہے تو وہ ان ضرورتوں کو دیکھ کر بے اختیار ہو کر اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ یہ وقت ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے اسلام کی طرف زیادہ توجہ کرے.جو شخص اسلام پر ان حملوں کی رفتار کو دیکھتا ہے تو وہ اس ضرورت کو محسوس کرتا ہے لیکن جس کو کوئی خبر ہی نہیں ہے وہ ان نقصانوں کی بابت کیا کہہ سکتا ہے جو اسلام کو پہنچائے گئے ہیں.مسلمانوں نے نادان دوست کے رنگ میں اور غیر مذاہب والوں خصوصاً عیسائیوں نے دشمنی کے لباس میں وہ تو یہی کہتا ہے کہ اسلام کا کیا بگڑا ہے؟ مگر اسے معلوم نہیں
کہ اسلام کی ظاہری اور جسمانی صورت میں بھی ضعف آگیا ہے.وہ قوت اور شوکت اسلامی سلطنت کی نہیں.اور دینی طور پر بھی وہ بات جو مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ (البیّنۃ : ۶) میںسکھائی گئی تھی اس کا نمونہ نظر نہیں آتا ہے.اندرونی طور پر اسلام کی حالت بہت ضعیف ہو گئی ہے اور بیرونی حملہ آور چاہتے ہیں کہ اسلام کو نابود کر دیں.اُن کے نزدیک مسلمان کتوں اور خنزیروں سے بدتر ہیں.ان کی غرض اور ارادے یہی ہیں کہ وہ اسلام کو تباہ کر دیں اور مسلمانوں کو ہلاک کریں.اگر ایک سچے مسلمان کو ان ارادوں پر اطلاع ملے جو یہ لوگ اسلام کے خلاف رکھتے ہیں تو میں سچ کہتا ہوں کہ وہ ان کے تصوّر کے صدمہ ہی سے مَر جاوے.اب خدا کی کتاب کے بغیر اور اس کی تائید اور روشن نشانوں کے سوا اُن کامقابلہ ممکن نہیں اور اسی غرض کے لیے خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.عیسائیت کا فتنہ ہی دجّال کا فتنہ ہے دجّال بھی کتاب ہی کا پیرو ہونا چاہیے ورنہ دجل کیا کیا.یہ تحریف کرتے ہیں.پہلے حاشیہ پر لکھتے ہیں پھر ان مطالب کو متن میں داخل کرلیتے ہیں اور اس طرح پر آئے دن ان کی تحریف کا سلسلہ جاری رہتا ہے.دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں جس میں انہوں نے انجیل کا ترجمہ نہیں کیا.اور اپنے باطل عقیدوں کی اشاعت نہیں کی.انہوں نے اپنی تحریروں اور رسالوں کے ذریعہ بہت بڑی خباثت اور گند کو پھیلایا ہے.ان کی نیتیں اسلام کے لیے ہرگز بخیر نہیں ہیں.آدم سے لے کر اس وقت تک ایسے مغوی اور مُضِلّ پیدا نہیں ہوئے جیسی کہ یہ قوم ہے.روپیہ، قوت، شوکت جو آج ان کو ملا ہے اور کسی کو نہیں.میں پوچھتا ہوں کہ یہ قوم اسلام کے معدوم کرنے میں کس قدر کوشش کرتی ہے؟ اور کیا کیا طریق انہوں نے اختیار کئے ہیں؟ اور اپنے ارادوں اور کوششوں میں کہاں تک کامیابی اس نے حاصل کی ہے؟ اب اس سوال کا جواب سوچ کر کوئی ہمیں بتائے کہ جب یہ عظیم الشان فتنہ اور اسلام کے لیے دشمن ہے تو پھر اس کی پیشگوئی بھی تو ضرور ہونی چاہیے تھی.پھر وہ کہاں ہے؟ قرآن شریف میں وَ لَا الضَّآلِّيْنَ تو کہا.اگر دجّال کوئی الگ چیز تھی تو چاہیے تھا وَلَاالدَّجَّال
بھی کہا ہوتا.غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ اور وَ لَا الضَّآلِّيْنَ کے متعلق تمام مفسّر متفق ہیں کہ ان سے یہودی اور عیسائی مُراد ہیں.جب پانچ وقت نمازوں میں ان فتنوں سے بچنے کے لیے دعا کی تعلیم کی گئی ہے کہ الضَّآلِّيْنَ سے نہ کرنا اور نہ مغضوب قوم میں سے بنانا.تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ سب سے بڑا اور اہم فتنہ یہی تھا جو اُمُّ الفتن کہنا چاہیے.مسیح موعود کا زمانہ چودھویں صدی ثابت ہوتاہے اور باتوں کو جانے دو.واقعات بھی تو کچھ چیز ہیں.متشابہات کی بحث میں نہ پڑو.مگر یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ پیشگوئیوں کے وہ معنے ہوتے ہیں جو واقعات کی رُو سے صحیح ثابت ہو جائیں.اب تیرہ سو برس گذر گئے اور محدثین کا اس پر اتفاق ہو گیا ہے کہ کوئی کشف اور الہام چودھویں صدی سے آگے نہیں جاتا.سب گویا بالاتفاق یہی مانتے ہیں کہ مسیح موعود کا زمانہ چودھویں صدی سے آگے نہیں.خود عیسائی قوموں میں مسیح موعود کی بعثت کا وقت یہی سمجھا اور مانا جاتا ہے اور ضروریاتِ مشہودہ محسوسہ بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں کہ آنے والے کے لیے یہی وقت ہے.وہ علامات اور نشانات جو مقرر کیے گئے تھے سب اپنے اپنے وقت پر پورے ہو گئے.یاجوج ماجوج بھی مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ ( الانبیآء : ۹۷) کا نظارہ دکھارہے ہیں اور دجّال بھی اپنے دجل اور فریب سے ایک عالَم کو ہلاک کر رہا ہے.مگر فرضی دجال جو مسلمانوں کے تخیّل میں ہے اس کا ابھی نام و نشان نہیں.پھر عجیب بات یہ ہے کہ قرآن شریف میں تو لکھا ہوا ہے کہ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ(اٰل عـمران : ۵۶) اور اَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ (المائدۃ : ۱۵) اور وَ اَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ (المائدۃ : ۶۵) یعنی قیامت تک عیسائیوں کا وجود پایا جاتا ہے.لیکن یہ کہتے ہیں کہ مسیح موعود آکر عیسائیوں سے لڑائی کرے گا.میں کہتا ہوں کہ پھر وہ دجّال کہاں گیا جس کی بابت کہتے ہیں کہ حرمین کے سوا اس کا دخل ساری جگہ ہوگا.اس تناقض کا جواب ان کے پاس کیا ہے.دجال تو کھوٹ کرنے والا ہے.اس لیے اس کے معنے تاجر کے
بھی ہیں.سونے کا نام بھی دجّال ہے اور شیطان کا بھی.اصل یہی ہے کہ نصاریٰ کی قوم جو اسلام کی تخریب کے درپے ہے اور طرح طرح کے مشن قائم کر کے اسلام کو نابود کرنا چاہتی ہے اور حق وباطل میں التباس کرتی ہے اور اپنی کتابوں میں تحریف کرتی ہے.یہی وہ گروہ ہے جس پر دجّال کا اطلاق ہوا ہے.کیونکہ دجّال تو گروہ کا نام ہے.اور جو فتور اس نے پیدا کیا ہے.وہ عام طور پر محسوس ہو چکا ہے.جو بازار ارتداد کا یہاں گرم ہے وہ مصر اور دوسرے ممالک میں بھی ہو رہا ہے.تو اب ایک دانش مند سوچے کہ اﷲ تعالیٰ نے جو فرضی دجّال سے بچایا تو اس قریب تر آنے والی آفت کا کوئی سامان نہیں کیا؟ اور اس کا ذکر تک بھی نہ کیا؟ یہ غلط ہے.خدا نے ذکر کیا اور اس سے بچایا ہے.ہمارے نزدیک یہی گروہ دجّال ہے.لغت میں گروہ ہی کے معنے ہیں.یہی تحریف وتبدیل کرتے ہیں.قرآن شریف کا اگر ترجمہ کرتے ہیں وہ بھی ایسا.اسلام کو معدوم کرنا اپنا فرض اور مدّعا رکھتے ہیں.اور یہ گروہ نرے پادریانہ رنگ میں ہی اسلام پر حملہ آور نہیں بلکہ فلسفیانہ رنگ میں بھی حملہ کرتا ہے اور اپنی ذرّیت کو ایسی طرز پر تعلیم دینا چاہتا ہے کہ اعمال میں سُست ہو جاویں.ناول ہیں تو اس طریق سے بھی اُن کو اسلام سے دور ہٹانا چاہتا ہے اور فسق وفجور کی زندگی میں مبتلا کرنا چاہتا ہے اور تاریخ ہے تو اس رنگ میں بھی بداعتقادی اور بدظنی پھیلانے کا خواہشمند ہے.غرض ہر پہلو سے اسلام سے بیزار کرانا چاہتا ہے اور یہ بات بالکل بدیہی ہے.جو لوگ ان کی پالیسی سے آگاہ ہیں ان کے مکائد اور اغراض کا علم رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی مخالفت کو انتہا تک پہنچادیا ہے.شفا خانوں کے اجراء سے بھی یہی غرض ہے.غرض جو پیرایا اختیار کرتے ہیں اس میں اسلام کی مخالفت اصل مدّعا ہوتا ہے اور ارتداد علّتِ غائی ہوتی ہے.یہ اس قدر طریق لیے پھرتے ہیں کہ فرضی دجّال کے وہم و خیال میں بھی نہ ہوں گے.پھر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن شریف نے ابتدا میں بھی ان کا ہی ذکر کیا جیسے کہ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ پر سورہ فاتحہ کو ختم کیا.اور پھر قرآن شریف کو بھی اسی پر تمام کیا کہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ (الاخلاص:۲) سےلے کر قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ (النّاس : ۲) تک غور کرو.اور وسط قرآن میں بھی ان کا ہی ذکر کیا اور تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ (مریم : ۹۱) کہا.بتائو اس دجّال کا بھی کہیں ذکر کیا.جس کا
ایک خیالی نقشہ اپنے دلوں میں بنائے بیٹھے ہیں.پھر حدیث میں آیا ہے کہ دجّال کے لیے سورہ کہف کی ابتدائی آیتیں پڑھو.اس میں بھی ان کا ہی ذکر ہے اور احادیث میں ریل کا بھی ذکر ہے.غرض جہاں تک غور کیا جاوے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ اَمر ذہن میں آجاتا ہے کہ دجّال سے مُراد یہی نصاریٰ کا گروہ ہے.دَآبَّةُ الْاَرْضِ دابۃ الارض کے دو معنے ہیں.ایک تو وہ علماء جن کو آسمان سے حصہ نہیں ملا.وہ زمین کے کیڑے ہیں.دوسرے دابۃ الارض سے مُراد طاعون ہے.دَآبَّةُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٗ (سبا : ۱۵) قرآن شریف سے یہ بھی ثابت ہے کہ جب تک انسان میں روحانیت پیدا نہ ہو یہ زمین کا کیڑا ہے اور طاعون کی نسبت بھی سب نبیوں نے پیشگوئی کی تھی کہ مسیح کے وقت پھیلے گی.تُكَلِّمُ النَّاسَ، تکلیم کاٹنے کو بھی کہتے ہیں.اور خود قرآن شریف نے ہی فیصلہ کر دیا ہے.اس سے آگے لکھ دیا ہے کہ وہ اس لیے لوگوں کو کھائے گی کہ ہمارے مامور پر ایمان نہیں لائے.یہ غور کرنے کے مقام ہیں.اب زمانہ قریب آگیا ہے اور لوگ سمجھ لیں گے.طاعون بڑا بھاری کتُبِ مقدّسہ اور احادیث میں مسیح موعود کا نشان ہے.اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بھی ہوئی تھی.خدا تعالیٰ نے مجھے جو کچھ طاعون کی نسبت فرمایا ہے اُسے میں نے مفصّل لکھ دیا ہے.یہ میرا نشان ہے.جس قدر اس کا تعلق پنجاب سے ہے دوسرے حصہ ملک سے نہیں ہے.یہ اس لیے کہ اصل جڑ اس کی پنجاب میں مخفی ہے.سہارنپور وغیرہ میں جو لوگ اس سلسلہ کو بُری نظر سے دیکھتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ پنجاب کی طرف سے تکفیر کا فتویٰ تیار ہوا ہے اور پنجاب والوں نے پیش دستی کی ہے اور تہمتیں لگا کر بدنام کیا ہے.مگر اب جو یہ بَلا آئی ہے.سوچ کر دیکھو تو دشمن اسی طریق سے مانے گا.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تو یہ خیال کرتے ہو کہ وہ زمین میں دفن ہوئے اور حضرت عیسیٰ کی نسبت یہ عقیدہ کہ وہ زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں اور پھر یہ کہ مسیح مُردے زندہ کرتے تھے اور وہ خالق تھے اور انہوں نے پرندے بنائے یہاں تک کہ لاکھوں کروڑوں پر ندے اب بھی موجود ہیں.
وقت پر مقدر ہے.ریلوے مسیح موعود کی نشانی ہے فرمایا.حقیقت میں یہ ریلوے مسیح موعود کا ایک نشان ہے قرآن شریف میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ( التکویر : ۵) فرمایا.دین داری تو تقویٰ کے ساتھ ہوتی ہے یہ لوگ اگر غور کریں تو صاف معلوم ہوتاہے کہ یُتْـرَکُنَّ الْقِلَاصُ میں ریل کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اگر اس سے ریل مُراد نہیںتو پھر ان کا فرض ہے کہ وہ حادثہ بتائیں کہ جس سے اونٹ ترک کیے جاویں گے.پہلی کتابوں میں بھی اس اَمر کی طرف اشارہ ہے کہ اس وقت آمد و رفت سہل ہوجاوے گی.اصل تو یہ ہے کہ اس قدر نشانات پورے ہوچکے ہیں کہ یہ لوگ تو اس میدان سے بھاگ ہی گئے ہیں جیسے کسوف خسوف رمضان میں کیا اس طریق پر نہیں ہواجیسا کہ مہدی کی آیا ت کے لیے مقرر تھا؟ اسی طرح پر ابتدائے آفرینش سے ایسی سواری بھی نہیں نکلی ہے.فرمایا.علامات دلالت کرتی ہیں کہ مسیح موعود پیداہوگیا ہے اگر یہ لوگ ہم کو نہیں مانتے تو پھر کسی اور کی تلاش کریں او ربتائیں کہ کون ہے کیونکہ جو نشانات اس کے مقرر کئے تھے وہ تو سب کے سب پورے ہوگئے.ظہورِ مہدی سے متعلق احادیث کامرتبہ محمد حسین اور صدیق حسن نے لکھا ہے کہ مہدی کی حدیثیں مجروح ہیں مہدی اور مسیح گویا ایک شعر کے دو مصرعے ہیں.جب ایک مصرعہ ٹوٹ گیا توپھر دوسرا وزن پورا کرنے کے لیے کیوں کر صحیح ہو سکتاہے؟ ان کے لیے بڑ ی مشکلات ہیں.عادتُ اللہ اسی طور پر جاری ہے کہ جب کوئی بات اس کی طرف سے پیداہوتی ہے تو لوگ اس کو تعجب انگیز ہی سمجھتے ہیں.یہودی اپنے خیال میں انتظار ہی کرتے رہے اور آنے والامسیح اور وہ نبی گذر بھی گئے.تعجب کی بات ہے کہ ہمارے مخالفوںکے ہاتھ میں مسیح کی وفات کے متعلق کیا ہے جس سے
ان کو تسلّی ملتی ہے.سہ سالہ پیشگوئی سے مُراد ایک صاحب شاہ جہان پور سے آنے والے نے پوچھا کہ سہ سالہ پیشگوئی سے کیا مُرادہے؟ فرمایا.ان تین سال کے اندر بہت سی پیشگوئیاںپوری ہوچکی ہیں وہ سب اسی کے ماتحت ہیں اور پھر یہ طاعون والی عظیم الشّان پیشگوئی ہے جس کے ذریعہ قریباً دس ہزار لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوئے اور ابھی اڑھائی مہینے باقی ہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو اور کوئی خاص عظیم الشّان نشان بھی دکھادے جو ان سب سے بڑھ کر ہو.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے معجزے ظاہر ہوتے رہے لیکن مخالف یہی کہتے رہے فَلْيَاْتِنَا بِاٰيَةٍ كَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ ( الانبیآء : ۶ ).یہ کتاب جو اب لکھی جارہی ہے ہر قسم کے معجزات کامجموعہ ہے استجابتِ دعا کا نمونہ اس میں موجود ہے خوارق او رپیشگوئیوں کایہ مجموعہ ہے.کوئی غور کرکے دیکھے کہ کیاطاعون ہم نے خود بنالیا اور پھر اعجاز المسیح چھوٹا نشان ہے؟ ’’مَنَعَہٗ مَانِعٌ مِّنَ السَّمَآءِ‘‘ بھی اسی کے ساتھ ہے.نماز میں سُستی دور کرنے کاعلاج ایک علی گڑھی طالب العلم نے اپنی حالت کا ذکر کیا کہ نماز میں سُستی ہوجاتی ہے اور میرے ہم مجلسوں نے اس پر اعتراض کیااو ران کے اعتراض نے مجھے بہت کچھ متأثر کیا اس لیے حضور کوئی علاج اس سُستی کا بتائیں.فرمایا.جب تک خوفِ الٰہی دل پر طاری نہ ہو گناہ دور نہیں ہوسکتا اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ جہاںتک موقع ملے ملاقات کرتے رہوہم تو اپنی جماعت کو قبر کے سر پر رکھنا چاہتے ہیں کہ قبر ہر وقت مدِّ نظر ہو لیکن جو اس وقت نہیں سمجھے گا وہ آخر خدا تعالیٰ کے قہر ی نشان سے سمجھے گا.طاعون کا نشان اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ آخری دنوں میں آسمان سے ایک وبا نازل کرے گا اور اس سے ہلاک کر دے گا.ان دنوں میں جب موت کابازار گرم ہو اور خدا تعالیٰ کی گرفت کاسلسلہ شروع ہو جاوے توبہ کرے اور سمجھے کہ زندگی ناچیز ہے اس سے کچھ
فائدہ نہیں.توبہ اور خدا تعالیٰ سے خوف اس وقت مفید ہوتا ہے جبکہ خدا کاعذاب نہ آگیا ہو.خدا سے دُور تَر وہ ہے جو آنکھ کا اندھا اور دل کا سخت ہو اگر طاعون نہ آتی تو بھی ایک دانش مند اور سعید الفطرت کے لیے یہ سبق کافی تھا کہ لوگوںکے باپ دادا اور بزرگ مَر گئے اور مَرتے جاتے ہیں اور یہاںکوئی ہمیشہ رہ نہیں سکتا.لیکن اب تو خدا تعالیٰ نے اپنے کلام کے ذریعہ مجھے اطلاع دی کہ اَلْاَمْرَاضُ تُشَاعُ وَالنُّفُوْسُ تُضَاعُ مرضیں پھیلیں گی اور جانیں جائیں گی اور ایسا ہی فرمایا غَضِبْتُ غَضْبًا شَدِیْدًا مَیںسخت غضب میں بھر گیا ہوں.یاد رکھو کہ یہ ساری باتیں ہونے والی ہیں اور ان کے آثار تم دیکھتے ہو.پس لازم ہے کہ انسان ایسی حالت بنائے رکھے کہ فرشتے بھی اس سے مصافحہ کریں.ہماری بیعت سے تو یہ رنگ آنا چاہیے کہ خدا کی ہیبت اور جلال دل پر طاری رہے جس سے گناہ دور ہوں.اگر ان پیشگوئیوں پر کسی کو ایمان نہ ہوتو کم از کم اتنا ہی سمجھ لے کہ اب توڈاکٹروں کی شہادت سے بھی معلوم ہوگیا ہے کہ خطرناک بیماریاں پیدا ہو گئی ہیں.جبکہ اب ایسا خوف ناک نمونہ پیدا ہوگیا ہے تو وہ شخص کیساہی بد نصیب ہے جو اس وقت بھی غفلت سے زندگی بسر کرتا ہے.اس بات پر تمام کتابوں کااتفاق ہے اور سب لوگ مانتے ہیںکہ آخری دنوں میں طاعون آئے گی سارے نبی اس کی خبر دیتے آئے ہیںاور یہ جو لکھاہے کہ آخری دنوں میں توبہ کادروازہ بند ہوگا، اس کے یہی معنے ہیں کہ جب موت نے آکر پکڑلیا پھر کیا فائدہ توبہ سے ہوگا.پکڑاہوا تو درندہ بھی عاجز ہوتا ہے خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اور خدا کاخوف اور خشیت پابندی نماز سے شناخت ہوتی ہے دیکھو! انسان گورنمنٹ کے احکام کی کس قدر پابندی کرتا ہے پھر آسمانی گورنمنٹ کے احکام کی جس کو زمینی گورنمنٹ سے کوئی نسبت ہی نہیں کیوں قدر نہیںکرتا؟ یہ بڑا ہی خطرناک وقت ہے طاعون ایک عذابِ الٰہی ہے اس سے ڈرو اور اچھانمونہ دنیا کو دکھاؤ اگر کوئی شخص سلسلہ میں ہو کر بُرا نمونہ دکھاتاہے تواس سے سلسلہ پر کوئی اعتراض نہیں آتا کیونکہ سمندر میں توہر ایک چیز ہوتی ہے لیکن وہ خود اپنی جان پر ظلم کرتا ہے اور اسے شرمندہ ہونا پڑے گا اس واسطے بہت دعائیں کرنی چاہئیں تاکہ خدا تعالیٰ غفلت سے بیدار کرے.سُستیوں اور غفلتوں سے گناہ آتے ہیں اور پھر خدا کے خوف کانقشہ آنکھوں سے
جاتا رہتا ہے پس اس وقت وہی سعید سعادت کے دامن کے اندر ہے جو اس خطرناک وقت میں ٹھٹھے کرنے والوں کی مجلس میں نہ بیٹھے اورخدا سے تنہائی میں دعائیں کرے اور اس سے ڈرے کہ ایسا نہ ہو رات کو یا دن کے کسی حصہ میں ا س کا عذا ب آجاوے.قرآن مجید کے ہوتے ہوئے ایک مصلح کی ضرورت پھر اسی نوجوان نے عرض کیا کہ انہوںنے یہ سوال بھی مجھ سے کیاکہ قرآن شریف تو محرّف مبدّل نہیں ہوا کسی کے آنے کی کیا ضرورت ہے؟ فرمایا کہ کیا خدا کی طرف سے کسی کے آنے کی ضرورت کا ایک یہی باعث ہے کہ قرآن شریف محرّف مبدّل ہو؟ اور علاوہ بریں قرآن شریف کی معنوی تحریف تو کی جاتی ہے جبکہ اس میں لکھا ہے کہ مسیح مَر گیا اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ زندہ آسمان پر چڑھ گیا اور تحریف کیا ہوتی ہے؟ یہ لوگ تحریف تو کر رہے ہیں اور پھر مسلمانوں کی عملی حالت بہت ہی خراب ہورہی ہے نیچریوںہی کو دیکھو انہوں نے کیا چھوڑا ہے بہشت دوزخ کے وہ قائل نہیں.ملائکہ کے وہ قائل نہیں، وحی اور دعا اور معجزات کے وہ منکر ہیں انہوں نے یہودیوںکے بھی کان کاٹے یہاں تک کہ تثلیث میں بھی نجات مان لی.یہ حالت ہوچکی ہے اور پھر کہتے ہیں کہ کسی آنے والے کی ضرورت نہیں.تعجب کی بات ہے کہ دنیا توگناہ سے بھر گئی ہے مگر ان کی حالت ایسی مسخ ہوئی ہے کہ وہ محسوس ہی نہیں کرتے کہ کسی مصلح کی بھی ضرورت ہے مگر عنقریب وقت آتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو معلوم کرائے گااوراس کے غضب کا ہاتھ اب نکلتا آتا ہے.زمانہ تو ایساتھاکہ رو رو کر راتیں کاٹتے مگر ان کی اس شوخی سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے ہی بدبخت ہیں.گناہ سے بچنے کاذریعہ گناہ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ خدا کاخوف دل پر ہو اور جب خدا چاہتا ہے تو اپنا خوف ڈال دیتا ہے.محبت بھی ایک ذریعہ گناہ سے بچنے کاہے مگر یہ بہت ا علیٰ مقام ہے مگر خوف ایک عام ذریعہ ہے جس سے جوان بھی ڈر جاتا ہے خصوصاً ان دنوں میں بلکہ بعض طبیبوں کا قول ہے کہ جوانوں کو بڈھوں کی نسبت طاعون کازیادہ
خطرہ ہے کیونکہ خون میں زیادہ جوش ہوتا ہے پس یہ دن جن کو خدا کے قہر کے دن کہے جاتے ہیں دراصل خدا کے رحم کے دن ہیں کیونکہ انسان کو بیدار کرنے والے اور غفلت کی زندگی سے نکالنے والے ہیں چونکہ لوگ غفلت اور گناہ سے باز نہ آتے تھے خدا نے اپنے ہاتھ کی چمکار دکھائی.یقیناً یاد رکھو کہ اب دن بُرے آتے جاتے ہیں جیسا کہ سب نبیوں نے خبر دی تھی خدا نے اپناپاک کلام مجھ پریہی بھیجا کہ اب عقوبت کے دن آتے جاتے ہیں جو اس وقت دعاکرے گا اور زور لگائے گا کہ نمازوں میں اس کو رونا آئے اور اس کا دل نرم ہوجائے اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے گا.جبکہ شدّتِ عذاب ہو اور اس وقت ڈرنے لگتاہے توپھر شریر اور حق شناس میں کیا فرق ہوا؟ غرض اس وقت کے تعلقات جو خدا سے قائم کرو گے وہ کام آئیں گے کیا اچھاکہا ہے حافظ نے ؎ چو کارے عمر ناپید است بارے آں اولیٰ کہ روزے واقعہ پیش نگارے خودباشیم اور ایک یہ بھی علاج ہے گناہوں سے بچنے کا کہ کشتی نوح میں جو نصائح لکھی ہیں ان کو ہر روز ایک بار پڑھ لیا کرو.دربارِ شام حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب کی طبیعت کل ناساز تھی آج الحمدللہ اچھی تھی حال دریافت فرمایااورپھر فرمایا کہ ہم نے جو تصرّفا ت اللہ کے دیکھے ہیں اس سے تو بعض وقت دواؤں کا بھی خیال نہیںآتا.بعض وقت ہم کو دوا سے شفا ہو ئی اور بعض وقت محض دعاسے.میں نے دعا کی کہ بدوں دوا کے شفا دے تو پھر اِذن ہوا کہ ہم نے شفاد ی اور شفا ہو گئی.اللہ تعالیٰ سُنتا اور جواب دیتا ہے اس خدا پر ایمان لانے سے کیا مزہ جو قریب قریب بتوں کے ہو نہ سنتا ہو اور نہ جواب دے.اس خدا پر ایمان لانے سے مزہ آتا ہے جو قدرتوں والا خدا ہے.جو ایسے خدا پر ایمان نہیں لاتا اور خدا تعالیٰ کی
قدرتوں اور تصرّف پر ایمان نہیں رکھتا اس کا خدا بُت ہے.اصل میں خدا تو ایک ہی ہے مگر تجلّیات الگ ہیں جو اس بات کاپابند ہے اس سے ایسا ہی سلوک ہوتا ہے اورجو متوکّل ہے اس سے وہی.اگر خدا ایسا ہی کمزور ہوتا توپھر نبیوں سے بڑھ کر کوئی ناکام نہ ہوتا کیونکہ وہ اسباب پرست نہ تھے بلکہ خدا پرست اور متوکّل تھے.۱ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء ( در بارِ شام) ایک رؤیا بعدادائے نماز مغرب حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام شہ نشین پر اجلا س فرما ہوئے تو آپ نے بیٹھتے ہی اپنی ایک رؤیا سنائی کہ میں نے اپنے والد صاحب کو خواب میں دیکھا ( دراصل ملائکہ کا تمثّل تھا مگر آپ کی صورت میں) آپ کے ہاتھ میںایک چھوٹی سی چھڑی ہے گویا مجھے مارنے کے لئے ہے.میں نے کہا کوئی اپنی اولاد کو بھی مارتا ہے جب میں یہ کہتا ہوں تو ان کی آنکھیں پُر آب ہو جاتی ہیں.پھر وہ ایسا ہی کرتے ہیں تو میں یہی کہتا ہوں.آخر دو تین بار جب اسی طرح ہوا پھر میری آنکھ کھل گئی.فرمایا.اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک الہام میں یوں بھی فرمایا ہے اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْـزِلَۃِ اَوْلَادِیْ.اور یہ قرآن شریف کی ایک آیت کے موافق بھی ہے نَحْنُ اَبْنٰٓـؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗ١ؕ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ (المآئدۃ:۱۹)۲ ختمِ نبوت غیراُمتی نبی کے آنے کو مانع ہے ختمِ نبوت بھی ایک عجیب علمی سلسلہ ہے اللہ تعالیٰ ختم نبوت کو بھی قائم رکھتا ہے اور اسی کے استفادہ سے ایک سلسلہ جاری کرتا ہے یہ تو ایک علمی بات ہے مگر کجا یہ کہ اس سلسلہ کو الٹ پلٹ کر دوسرے نبی کو لایا جاوے.حالانکہ خدا تعالیٰ کی حکمت اورارادہ نہیںچاہتا کہ کوئی دوسرا نبی آوے قطع نظر
اس کے کہ وہ شریعت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو.خواہ شریعت نہ بھی رکھتا ہو تب بھی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی دوسرا نبی آپ کے سوا اور آپ کے استفادہ سے الگ ہو کر نہیںآسکتا.ساری براہین احمدیہ اس قسم کی باتوں سے بھری پڑی ہے اور بہت سے الہام اس کے ممدومعاون ہیں.علاوہ اس کے كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ ( النّور :۵۶) میں جو استخلاف کا وعدہ ہے یہ بھی اسی اَمر پر صاف دلیل ہے کہ کوئی پرانا نبی اخیر تک نہ آوے ورنہ کَمَا باطل ہوتاہے اللہ تعالیٰ نے کَمَا کے نیچے تو مثیل کو رکھا ہے.عین کو نہیں رکھا.پھر یہ کس قدر غلطی اور جرأت ہے کہ خدا تعالیٰ کے منشا کے خلاف ایک بات اپنی طرف سے پیداکر لی جاوے اور ایک نیا اعتقاد بنالیاجاوے اور پھر کَمَا میں مدت کی بھی تعیین ہے کیو نکہ مسیحؑ موسٰی کے بعد چو دھویں صدی میں آیا تھا اس لئے ضروری تھا کہ آنے والا محمدی مسیح بھی چو دھویں صدی میں آئے.غرض یہ آیت ان تمام امور کو حل کرتی ہے اگر کوئی سوچنے والا ہو.ابن مریم کے آنے سے مُراد ابن مریم کا سوال بھی خدا تعالیٰ نے بڑی صفائی سے حل کیا ہوا ہے.سورۃ التحریم میں اس راز کو کھو ل دیا ہے کہ مومن مریم صفت ہوتا ہے اور پھر اس میں نفخِ روح ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے اسی ترتیب سے پہلے میرا نام مریم رکھا.پھر ایک وقت آیاکہ اس میں نفخِ روح ہوا.اب مریم کے حمل سے جیسے مسیح پیدا ہوا جو اسی روح القدس کے نفخ کا نتیجہ تھا.اس لئے یہاں خود مسیح بنا دیا.براہین احمدیہ کو قرآن شریف کی اس آیت کے ساتھ جو سورہ تحریم میں بیان ہوئی رکھ کر دیکھو او رپھر اس ترتیب پر غور کرو کہ جو براہین میں رکھی ہے کہ پہلے مریم نام رکھا پھر نفخِ روح کیا اور پھر یاعیسیٰ کہہ کر پکارا اس آیت کی تفسیر کے لئے بھی دراصل یہی زمانہ تھا.زمانہ بھی ایک قسم کی عقیم کی صورت پر ہوتا ہے.اور روح اﷲ اس لئے کہا کہ اﷲ تعالیٰ کو حضرت مسیح کا تبریہ منظور تھا کیونکہ بعض اولاد میں شیطان کی شرکت ہو جاتی ہے اس واسطے روح اﷲ کہہ کر اس الزام کو دُور کیا.غرض حضرت مریم کے متعلق جس قدر واقعات قرآن شریف میں ہیں وہی الہام یہاں بھی موجود ہیں يٰلَيْتَنِيْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا در اصل جس قسم کی گھبراہٹ مریم کو تھی اسی قسم کا جوش اب بھی یہودیوں میں پیدا ہوا اور ایسا ہی اَنّٰی لَکَ ھٰذَا بھی
براہین میں درج ہے.مولوی نذیر حسین دہلوی کی وفات کی خبر آنے پر الہام مولوی نذیر حسین دہلوی مَر گیا اور اس کے مَرنے کی خبر آئی تو آپؑکی زبان پر اس کے لئے جاری ہوا مَاتَ ضَالٌّ ھَائِـمًا.۱ مسیح ناصری کے متعلق مروّجہ عقائد کا نتیجہ ایک شخص نبی بخش نام ساکن بٹالہ نے آپؑکو لکھا کہ میں عیسائیوں سے بحث کرنے لگا ہوں اور اس نے لکھا کہ میں نے تمہیں ایک پرانی بائبل دی تھی وہ بھیج دو.میں نے اس کو لکھا ہے کہ تم عیسائیوں سے کیا مباحثہ کرو گے؟ ان کی ساری باتیں تو تم خود مانتے ہو.عیسیٰ کو زندہ آسمان پر سمجھتے ہو.غیب دان اور مُردوں کو زندہ کرنے والا کہتے ہو.اور پھر تمہارا یہ اعتقاد ہے کہ صرف وہی مَسِّ شیطان سے پاک ہے غرض اس قسم کے جب تمہارے عقائد ہیں تو پھر ان سے کیا بحث کرنی چاہتے ہو؟ اس سلسلہ کے بغیر اور کوئی صورت عیسائیوں سے مباحثہ کی نہیں رہی.ہمارے مخالفوں نے تو اقبالی ڈگری کرالی ہوئی ہے اور ان کے تمام عقائد ِباطلہ کی تائید کی ہوئی ہے.مسیح علیہ السلام کے رُوْحٌ مِّنْہُ ہونے کی حقیقت مسیح کو جو روح اﷲ کہتے ہیں اور عیسائی اس پر ناز کرتے ہیں کہ یہ مسیح کی خصوصیت ہے یہ ان کی صریح غلطی ہے ان کو معلوم نہیں کہ قرآن شریف میں مسیح پر روح اﷲ کیوں بولا گیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف نے مسیح ابن مریم پر خصوصیت کے ساتھ بہت بڑا احسان کیا ہے جو ان کا تبریہ کیا ہے بعض ناپاک فطرت یہودی حضرت مسیح کی ولادت پر بہت ہی ناپاک اور خطرناک الزام لگاتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ بعض ولد اس قسم کے ہوتے ہیں کہ شیطان ان کی پیدائش میں شریک ہو جاتا ہے اس لئے اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح اور حضرت مریم کے دامن کو ان اعتراضوں سے پاک کرنے کے لئے اور اس اعتراض سے بچانے کے لئے جو ولد شیطان کا
ہوتا ہے قرآن شریف میں روح اللہ کہا.اس سے خدائی ثابت کرنا حماقت ہے کیونکہ دوسری جگہ حضرت آدم کے لئے نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ(الـحجر: ۳۰) بھی تو آیا ہے.یہ صرف تبریہ کیا ہے لیکن جو لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں وہ ان سے خاک بحث کریں گے.۱ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۲ء (بروز جمعہ بعد نماز مغرب و عشاء) میاں احمد دین صاحب اپیل نویس گوجرانوالہ سے حسب الحکم حضرت اقدسؑ تشریف لائے ان کے اتنی جلد تشریف لانے پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ریل بھی ایک عجیب شَے ہے ایک خارقِ عادت طور پر انسان کہیں کا کہیں جاپہنچتا ہے.ایک شخص نے اپنی آنکھوں کے مرض سے شفا پانے کے لئے دعا کی در خواست کی.حضرت اقدس ؑ نے فرمایا.اچھا کریں گے.پھر فرما یا.یہ تمام آنکھ، کان، ناک وغیرہ اﷲ تعالیٰ کی امانتیں ہیں.انعام کی بھی کیا عجیب راہ اختیار کی ہے.اگر ایک آنکھ جاتی رہے تو کس قدر بَلا نازل ہوتی ہے.پنجاب میں طاعون کی ترقی پھر حضرت اقدسؑ نے نواب محمد علی خان صاحب سے طاعون کا حال مالیر کوٹلہ کی طرف دریافت فرمایا.نواب صاحب نے جواب دیا کہ کچھ شروع ہے مگر کم.اب کے دفعہ رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ گذشتہ ہفتہ کی نسبت سے اس ہفتہ کل ہندوستان میں تو کم ہے مگر خاص پنجاب میں بہت ترقی پر ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ پنجاب ہی بگڑا ہوا ہے کوئی اس کا سِرّ تو دریافت کرے.قادیان کے ارد گرد نواح کے پژاووں (آوی) میں آگ لگی ہوئی تھی.اس لئے کل قصبہ کے ارد گرد اور اندر دھواں بہت تھا.حضرت صاحب نے اپنے عمامہ کے شملہ سے ناک کو ڈھانپ لیا اور وہ شملہ پھر ٹھاٹھا یعنی داڑہا کی طرح بہت بے تکلّفی سے باندھ لیا اور فرمایا کہ دھواں بہت ہوتا جاتا ہے.
طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ حکماء نے لکھا ہے اَلطَّاعُوْنُ ھُوَ الْمَوْتُ جس کے آثار ردّی ظاہر ہوں.رنگ سیاہ ہو جاوے اور جلد جلد موت ہو تو وہ تو بلائے آسمانی ہوتی ہے.ورنہ مشابہ بالطاعون گلٹیوں کا ہونا اور بخار کا ہونا طاعون نہیں.ایک دفعہ ہمارے سب بچوں کو گلٹیاں نکل آئیں صرف اینٹ گرم کر کے سینکتے رہے.سب کو آرام ہو گیا.طاعون تو ایک سِرّ مخفی کی طرح ہے.ورنہ بعض اوقات اس کے عوارض ہو کر پھر انسان کو کچھ نہیں ہوتا.احمد دین صاحب اپیل نویس نے حضرت اقدس کو خبر سنائی کہ سرکار نے یہ قانون پاس کیا ہے کہ اگر ایک محلّہ میں ایک مریض کو طاعون ہو اور اس محلّہ کے پانچ کس یہ کہیں کہ اسے نکالا جاوے تو اگر پانصد کہیں کہ نہ نکالو تو ان پانچ کی رائے پر عملدرآمد ہوگا.اور اگر مریض یا اس کے ورثاء اس سے خلاف ورزی کریں تو زیر دفعہ ۱۸۸ وہ مجرم گردانے جاویں گے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ ایک طرح سے گورنمنٹ نے اپنے سر سے بلا اتار کر رعایا پر ڈال دی ہے.محلّہ میں اکثر عداوت وغیرہ بھی ہوتی ہے.خواہ لوگ ایک مبتلائے بخار کو طاعون کہہ کر نکال دیں.اَلدَّار کی حفاظت فرمایا.آج میری زبان پر پھر یہ الہام جاری تھا اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ اِلَّا الَّذِیْنَ عَلَوْا مِنِ اسْتِکْبَارٍ.۱ اِلَّا الَّذِیْنَ عَلَوْا ہمیشہ ساتھ ہی ہوتا ہے.خدا معلوم اس کے کیا معنے ہیں.اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ متنبہ رہیں تقویٰ پر قائم رہیں.ایک علو تو اس رنگ میں ہوتا ہے جیسے کہ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (الضُّحٰی : ۱۲) اور ایک علو شیطان کا ہوتا ہے جیسے اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ (البقرۃ : ۳۵) اور اس کے
بارے میں ہے اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ (صٓ : ۷۶) یہ اس سے سوال ہے کہ تیرا علو تکبّر کے رنگ میں ہے یا واقعی ہے.خدا تعالیٰ کے بندوں کے واسطے بھی اعلیٰ کا لفظ آیا اور ہمیشہ آتا ہے جیسے اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰى (طٰہٰ : ۶۹) مگر یہ تو انکسار سے ہوتا ہے اور وہ تکبّر سے ملا ہوا ہوتا ہے.۱ شاہ عبد العزیز صاحب کے ایک شاگرد کا غلط فتویٰ شاہ عبد العزیز صاحب کے شاگردوں میں سے ایک کا ذکر ہوا فرمایا کہ ایک دفعہ وہ شاید بٹالہ میں تھے تو ایک نے حقہ کا فتویٰ پوچھا تو انہوں نے جواب دیا (حالانکہ غلط تھا) حقہ دو قسم کا ہے ایک وہ جو کہ تکیوں میں ہوتا ہے دس دس دن تک پانی نہیں بدلتے اسے غسل نہیں دیتے وہ تو حرام ہے اور دوسرا جس کا پانی بدلتا رہتا ہے اور اسے غسل دیتے رہتے ہیں وہ حلال ہے.مُردوں کے قبروں سے نکلنے کی تعبیر پھر اس کے بعد مفتی محمد صادق صاحب ایک انگریزی کتاب حضرت اقدس کو سناتے رہے جس میں ایک موقع پر یہ بھی تھا کہ جب مسیح کو صلیب دی گئی تو اس وقت مُردے قبروں میں سے نکلے.حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ عالَمِ رؤیا میں مُردہ کے قبر سے نکلنے کی یہ تعبیر ہوتی ہے کہ کوئی گرفتار آزاد ہو ممکن ہے کہ کسی نے اس وقت کشفی عالَم میں یہ دیکھا ہو ورنہ یہ اپنے ظاہری معنوں پر ہرگز نہیں ہوا.
طاعون کی کیا مجال ہے کہ راست باز کے پاس آئے احباب میں سے ایک نے ذکر سنایا کہ آج قادیان میں ٹیکہ والے آئے تھے باہر باغ میں انہوں نے سب کو بلایا اور ایک لمبی تقریر کی جس میں ٹیکہ کے فوائد لوگوں کو بتلائے انجام یہ ہوا کہ سب نے اس اَمر پر اتفاق کر لیا کہ ہم ٹیکہ لگوائیں گے.تقریر کرنے والے صاحب رائے پرتاپ سنگھ تھے یہ بھی کہا انہوں نے کہ میں نے مرزا صاحب کو بھی تاکید کرنی تھی مگر چونکہ انہوں نے ماننا نہیں اور ڈھنگ بنایا ہوا ہے اس لئے میں سرِدست ان کی خدمت میں کچھ نہیں کہتا پھر کسی وقت موقع ہوا تو کہوں گا اس نے یہ بھی کہا کہ میں یہاں نہ آتا مگر چونکہ متواتر طور پر رپورٹ پہنچی ہے کہ چوڑھوں میں طاعون ہے اس لئے آنا پڑا.اس پر حکیم نوردین صاحب نے بیان کیا کہ ہمارے ہاں نہالی چوڑھی آتی ہے میں نے اس سے طاعون کا حال دریافت کیا تھا وہ کہنے لگی کہ طاعون تو ہے نہیں ایک لڑکی مَری ہے وہ کئی دنوں سے بیمار تھی اب کہتے ہیں طاعون سے مَری.حضرت اقدس نے فرمایا کہ چوڑھوں میں ہمیشہ کبھی نہ کبھی ایسی موتیں ہوتی رہتی ہیں ایک دفعہ اسی موسم میں پچاس ایک دفعہ ہیضہ سے مَر گئے تھے حالانکہ طاعون وغیرہ نہ تھی اور چوڑھوں کامحلہ تو ہم سے ایسا ہی دور ہے جیسے کہ ننگل اور بھینی(دو گاؤں متّصل قادیان).یہ لوگ زبردستی اسے الحاق کرتے ہیں (آخر کار چوڑھوں کی موت کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ ان لوگوں نے مُردہ مویشی اس وقت کھائے جب کہ وہ متعفّن ہو گئے تھے).پھر بیان کیا گیا کہ ٹیکہ والوں نے سرِدست کل اکابران دِہ ہندو، مسلمان کے دستخط کرا لیے ہیں شاید کل یا پرسوں آویں گے حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہمارے دستخط کشتی نوح میں ہیں جو خدا کے ساتھ سیدھا اور راست ہوگا تو طاعون کی کیا مجال ہے کہ اس کے پاس آوے.پھر جماعت کو مخاطب کر کے حضرت نے فرمایا کہ صحابہؓ میں بھی طاعون ہوتا رہا ہے ہاں انبیاء کو ہرگز نہیں ہوا.اگر کوئی اس پر سوال کرے تو جواب
یہی ہے کہ ہر ایک رنگ جدا ہے ثابت کرو کہ کوئی نبی طاعون سے مَرا ہو ورنہ اگر ایسا ہوتا تو اﷲ تعالیٰ کے معاملہ میں کس قدر فتنہ برپا ہوتا.یہ کبھی نہیں ہوا کہ یہودیوں کو طاعون ہوا ہو تو موسٰیکو بھی ساتھ ہوا ہو ورنہ یہودی سارے مرتد ہو جاتے.طاعون کا علاج ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب ٹیکہ بھی علاج نہیں اور اﷲ تعالیٰ کا وعدہ حفاظت ہے تو پھر مرہم عیسیٰ اور جدوار کا استعمال کیوں بتلایا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ جو علاج اﷲ تعالیٰ بتلاوے وہ تو اسی حفاظت میں داخل ہے کہ اس نے خود ایک طریق حفاظت بھی ساتھ بتلا دیا اور انشراح صدر سے ہم اسے استعمال کرسکتے ہیں.لیکن اگر ٹیکہ میں خیر ہوتی تو ہم کو اس کا حکم کیا جاتا اور پھر دیکھتے کہ سب سے اول ہم ہی کرو اتے اگر خدا تعالیٰ آج ہی بتلادیوے کہ فلاں علاج ہے یا فلاں دوا مفید ہے تو کیا ہم اسے استعمال نہ کریں گے؟ وہ تو نشان ہوگا.پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم خود کس قدر متوکّل تھے مگر ہمیشہ لوگوں کو دوائیں بتلاتے تھے اگر ہم عوام النّاس کی طرح ٹیکہ کراویں تو خدا پر ایمان نہ ہوا.پہلے یہ تو فیصلہ کیا جاوے کہ آیا ہم نے ۲۲ برس پہلے طاعون کی اطلاع دی کہ جس وقت طاعون کانام و نشان نہ تھا اور پھر ہر ۵ برس کے بعد اس کے متعلق ضرور کوئی نہ کوئی خبر دی جاتی رہی ہے پھر پنجاب کے متعلق خبر دی حالانکہ اس وقت کوئی مقام اس میں مبتلا نہ تھا.پھر ایک دم پنجاب کے ۲۳ ضلعوں میں پھیل گئی.وہ تمام کتابیں جن میں یہ بیان ہیںخود گورنمنٹ کے پاس موجود ہیں.اگر ٹیکہ میں کوئی خیر ہوتی تو خدا خود ہمیں بتلا تا اور ہم اس وقت سب سے پہلے ٹیکہ لگوانے میں اوّل ہوتے مگر جب کہ گورنمنٹ نے اختیار دیا ہے تو یہ اختیار گویا خدا ہی نے ہمیں دیا ہے کہ جبر اٹھوا دیا.طاعون کے سلسلہ میں جماعت کو نصیحت ہماری جماعت کا صرف دعویٰ ہی دعویٰ نہ ہو کہ وہ اس دعویٰ بیعت پر نازاں رہیں بلکہ ان کو اپنے اندر تبدیلی کرنی چاہیے.دیکھو! طاعون کئی بار موسیٰ علیہ السلام کے لشکر پر پڑی اب دشمن تو خوش ہوتے ہوں گے مگر موسیٰ علیہ السلام کو کس قدر شرمساری ہوگی.لکھا ہے کہ بلعم کی بددعا کی وجہ سے
80 ہزار وبا سے مَر گئے تھے۱ اگرچہ اور لوگ بھی گنہ گار تھے مگر موسٰی کی قوم اس وقت دوہری ذمہ وار تھی.بہت کم لوگ ہیں جو کہ دلوں کو صاف کرتے ہیں اگر ایک پاخانہ میں سے پاخانہ تو اٹھا لیا جاوے مگر اس کے چند ایک ریزے باقی رہیں تو کسی کا دل گوارا کرتا ہے کہ اس میں روٹی کھاوے.اسی طرح اگر پاخانہ کے ریزے دل میں ہوں تو رحمت کے فرشتے اس میں داخل نہیں ہوتے.۲ اِلَّا الَّذِیْنَ عَلَوْا کا لفظ ہمیشہ دل میں خطرہ ڈالتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ قضا و قدر مقدرہے باربار قرآن شریف کو پڑھو۳ اور اپنی اصلاح کرو اگر ہماری جماعت میں کسی کو طاعون ہوا تو مخالف ہی شور ڈالیں گے کہ دیکھو ٹیکہ نہ کرایا تو ہلاک ہوئے اور اگر وہ لوگ بچے رہے تو ہنسیں گے.خدا کے کام اور
حفاظت سے حصہ لینے والا وہ شخص ہے جو اپنے دل میں سمجھ لے کہ میں نے تبدیلی پیدا کر لی ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح ہو جاوے.جس طرح انہوں نے ٹاٹ کے کپڑے پہن لئے تھے.۱ عذاب شدید آنے والا ہے فرق سے فرق ہوتا ہے.اگر بیعت کے وقت وعدہ اور ہے اور پھر عمل اور ہے تو دیکھو کتنا فرق ہے.اگر تم خدا سے فرق رکھو گے تو وہ تم سے فرق رکھے گا اگر ہماری جماعت سے سو آدمی مَرجاویں تو ہم یہی کہیں گے کہ ان کے دلوں میں فرق تھا کیونکہ ہمیں کسی کے اندرونہ کا کیا حال معلوم ہے عیسٰیؑ اور موسٰی کے وقت کیا ہوا.۲
ہم دواؤں کی تاثیرات سے منکر نہیں ہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ ادھر تم نے ٹیکہ نہ کرایا اور اگر چند ایک لوگ مبتلا ئے طاعون ہوئے تو وہ لوگ کس قدر ہنسیں گے جنہوں نے ٹیکہ کرایا ہوگا.مگر بڑا بے وقوف ہے جو کہ اس دوا کو بھی نہ پیوے اور پھر اس دوا سے بھی محروم رہے کہ اس کامعاملہ خدا کے ساتھ ٹھیک نہ ہو تو وہ گویا دونوں طرف سے محروم رہا۱ پھر اگر ہماری جماعت میں سے کسی کو طاعون ہو گا تو اس کا اثر اس کے ایمان پر بھی پڑے گا اور وہ خیال کرے گا کہ میں تو بیعت میں تھا مجھے کیوں طاعون ہوئی لیکن خدا کسی کی ظاہری صورت کو نہیں دیکھتا وہ اس منشا کو دیکھتا ہے جو انسان نے اپنے دل میں بنایا ہوا ہے.خدا کے ساتھ صفائی ایک مشکل کام ہے طاعون اگرچہ مومن کے واسطے ایک خوشی ہے مگر چونکہ مخالف کہتے ہیں کہ یہ تمہاری شامت سے آئی ہے اس لئے اگر یہ جماعت اسی طرح تباہ ہو جس طرح
دوسرے تباہ ہوتے ہیں تو پھر تو ان کو خوب ثبوت مل جائے گا کہ واقعی ہماری شامت سے آئی ہے اور اگر ٹیکہ لگوانے والے بھی ہلاک ہوں اور تم بھی ہلاک ہو پھر بھی تمیز کوئی نہیں رہتی.اس لئے تبدیلیاں پیدا کرنی چاہئیں.کشتی نوح میں مَیں نے بہت کچھ کہنا تھا مگر انشاء اﷲ پھر کسی دوسرے موقع پر لکھا جائے گا.اتنا لکھا بھی کافی ہے.مجھے یہ فکر ہے کہ وہ مثل نہ ہو ’’یکے نقصان مایہ ودیگر شماتت ہمسایہ‘‘.ایک تو مَریں اور پھرجھوٹے کہلا کر مَریں.اگر ایک طرف مخالفوں کی ہزار موت ہو تو نام نہ لیویں گے اور ہمارا ایک بھی مَرے تو ڈھول بجاویں گے.خدا نے صورت تو نہیں دیکھنی اس نے دل دیکھنا ہے.مگر لوگ تو ظاہر دیکھتے ہیں اور جس شخص کا نام رجسٹر بیعت میں ہے اسے جماعت میں خیال کرتے ہیں وہ تو رجسٹر میں صرف نام دیکھیں گے لیکن اگر خدا کے رجسٹر میں نام نہیں ہے تو ہم کیا کر سکیں گے.خدا نے ترقی کاموقع خوب دیا ہے نفس کو لگام دینے کے لیے اس سے بڑھ کر اور کونسا وقت ہوسکتا ہے اس وقت سے غافل نہ رہنا چاہیے اور محنت کرنی چاہیے.سالک اور مجذوب کی تعریف وہ انسان جو آپ محنت کرتا ہے اسے سالک کہتے ہیں اور جسے خود خدا دیوے وہ مجذوب ہوتا ہے.اور جو سویا رہے تو اسے کوئی کیا کرے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ.۱ بات سن کر صرف کان تک رکھنے سے فائدہ نہیں ہوتا جب تک دل کو خبر نہ ہو انسان ایک دو کاموں سے سمجھ لیتا ہے کہ میں نے خدا کو راضی کر لیا حالانکہ یہ بات نہیں ہوتی.اطاعت کی حقیقت اطاعت ایک بڑا مشکل اَمر ہے صحابہ کرام کی اطاعت اطاعت تھی کہ جب ایک دفعہ مال کی ضرورت پڑی تو حضرت عمرؓ اپنے مال کا نصف لے
آئے اور ابو بکرؓ اپنے گھر کامال متاع فروخت کر کے جس قدر رقم ہو سکی وہ لے آئے.پیغمبر خداؐ نے حضرت عمرؓ سے سوال کیا کہ تم گھر میں کیا چھوڑ آئے؟انہوں نے جواب دیا کہ نصف.پھر ابو بکرؓ سے دریافت کیا انہوں نے جواب دیا کہ اﷲ اور اس کا رسول گھر چھوڑ کر آیا ہوں.رسول اﷲ ؐنے فرمایا کہ جس قدر تمہارے مالوں میں فرق ہے اسی قدر تمہارے اعمال میں فرق ہے.کیا اطاعت ایک سہل اَمرہے۱ جو شخص پورے طور پر اطاعت نہیں کرتا وہ اس سلسلہ کو بدنام کرتا ہے حکم ایک نہیں ہوتا بلکہ حکم تو بہت ہیں جس طرح بہشت کے کئی دروازہ ہیں کہ کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے کوئی کسی سے.اسی طرح دوزخ کے کئی دروازہ ہیں ایسا نہ ہو کہ تم ایک دروازہ تو دوزخ کا بند کرو اور دوسرا کھلا رکھو.ہمارے لئے تو دوہرا وقت ہے گورنمنٹ بھی ایک طرح سے مخالف ہے کیونکہ اگر گورنمنٹ کو ہم پر ایمان ہوتا۲ تو وہ ہم سے کہتی کہ دعا کرو.ادھر اخباروں نے شور مچایا ہے کہ ہم گورنمنٹ کی مخالفت کی لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں.پس خوب یاد رکھو جس طرح دنیا میں ایک عام قانون قدرت خدا کا ہے جیسے کہ تربد اگر ہندو کھائے تو اسے بھی دست آویں گے اور اگر مسلمان کھائے تو اسے بھی دست آویں گے اسی طرح آفتاب مہتاب کی روشنی سے ہر ایک قوم مشترکہ فائدہ اٹھاتی ہے.اور ایک خاص قانون ہے جو کہ مومنین کے ساتھ برتا جاتا ہے وہ بہت لذیذ اور شیریں ہے اور بہت سے پھلوں سے بھرا ہوا ہے اور ان پھلوں کےاندر
ساتھ ان کو بھی کوئی مصدّق خواب آجایا کرتا ہے.انہوں نے کہا میں نے خواب دیکھا کہ ایک بڑا بکس ادویہ کا چراغ لایا ہے۱ اور شیخ رحمت اﷲ صاحب نے روانہ کیا ہے جب کھولا گیا تو دیکھا کہ ہزارہا شیشیاں اس میں دوا کی ہیں کوئی بڑی کوئی چھوٹی.تب گھر میں تعجب کیا کہ کبھی کدائیں۲ دس بارہ شیشیاں منگوائی جاتی تھیں مگر یہ ہزار ہا شیشیاں کیوں منگوائی گئیں.یہ خواب بھی عِنْدِیْ مُعَالِـجَاتٌ کی تصدیق کرتا ہے مجھے بتلایا گیا.ان کو دکھلایا گیا.۳ اسباب سے استفادہ جائز ہے علاج حرام تو نہیں اب دیکھو انگریزوں نے ریل بنائی ہے ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.تار ایجاد کی ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.تیلیاں آگ جلانے کی ولایت سے آتی ہیں اسی طرح اگر ان کی دوا ہو اور ہم استعمال کریں تو حرج نہیں.ہاں جو خدا بتلا دیوے وہ ہارج نشان نہیں ہے اگر ٹیکہ کروا کر یہ کہیں کہ نشان ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے ہم کو علیحدہ رکھا جاتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مخفی اَمر ہے جو بعد ازاں معلوم ہوگا ورنہ ہم ان کی چیزیں اور ادویہ استعمال کرتے ہی ہیں.۴
عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف تو کہتے ہیں کہ جب تک طاعونی کیڑے کا کوئی طبیعت میں تعلق نہ ہو تب تک طاعون نہیں ہوتی اور دوسری طرف آپ وہ کیڑے داخل کرتے ہیں اور چیچک کے ساتھ اس کا قیاس مع الفارق ہے چیچک کامادہ تو شیرِ مادر کے ساتھ آتا ہے مگر اس میں ظن کیا گیا ہے کہ بہت سی طبائع میں مادہ موجود ہی نہیں ہوتا صرف اس ظن پر ٹیکہ لگایا جاتا ہے کہ کسی طرح وہ مادہ نہ آجاوے.مولوی محمد احسن صاحب نے ذکر کیا کہ حضور تَـخْرُجُ الصُّدُوْرُ اِلَی الْقُبُوْرِ کا آغاز تو ہو گیا ہے کیونکہ ادھر مولوی نذیر حسین دہلوی فوت ہوئے ادھر فتح علی شاہ فوت ہوا.حضرت اقدس نے فرمایا.ہاں.آپ نے خوب سمجھا.نجات ایمان کے ساتھ ہے بعض رؤساء لاہور کے ٹیکہ لگوانے پر جو راضی ہوئے ہیں یہ اَمر ان کی شجاعت پردلالت نہیں کرتا بلکہ تہوُّر ہے کہ سرکار راضی ہو ہاتھ بٹایا جاوے ابھی تک تو ہماری جماعت کو گورنمنٹ کامخالف ہی خیال کیا جاوے گا.بڑی ضرورت خدا شناسی کی ہے سب امور خدا کے بعد ہیں جیسے ہم نے ابھی بتلایا کہ نجات ایمان کے ساتھ ہے.۱
پھر ساکنانِ قادیان کے ٹیکہ لگوانے پر فرمایا کہ یہ ہمارے لئے مفید ہے کیونکہ فاسق فاجر لوگ بھی ہیں اور ظاہری اسباب میں سے ٹیکہ بھی ہے.جب یہ لوگ اپنے ظنون (یعنی ٹیکہ) پر یقین رکھتے ہیں تو کیا وجہ کہ ہم اپنے یقین پر یقین نہ رکھیں.عجیب زمانہ ہے کسی کو خبر نہیں کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے.پھر حضرت نے مفتی محمد صادق صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ان سابقہ نوشتوں میں یہ تو لکھا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں طاعون ہوگی مگر یہ بھی لکھا ہے کہ نہیں کہ جس طرح کے الہامات جیسے ’’اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ ‘‘ اور دوسرے ہمیں ہوئے ہیں ان کا بھی کوئی ذکر ہے کہ نہیں؟ مفتی صاحب نے کہا کہ حضور دیکھ کر عرض کروں گا.پھر فرمایا کہ اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ میں قریہ کا لفظ ہے قادیان کا نام نہیں ہے اور قَرْیَۃ، قِیْـر سے نکلا ہے جس کے معنے جمع ہونے اور اکٹھے بیٹھ کر کھانے کے ہیں یعنی وہ لوگ جو آپس میں مواکلت رکھتے ہوں اس میں ہندو اور چوڑھے بھی داخل نہیں ہیں.کیونکہ وہ تو ہمارے ساتھ مل کر کھاتے ہی نہیں.قریہ سے مُراد وہ حصہ ہوگا جس میں ہمارا گروہ رہتا ہے.مسیح موعود کے اپنی جماعت کو طُور پر لے جانے کامطلب پھر ذکر ہوا کہ حدیث میں یہ بھی ہے کہ مسیح اپنی جماعت کو کوہِ طور پر لے جاوے گا.حضرت اقدس نے فرمایا.اس کے یہ معنے ہیں کہ تجلّی گاہ حق میں لے جانا۱ یعنی قرب اور ہیبت کے مقام پر لے جاوے گا
کہ جس سے جماعت کی تبدیلی ہوتی ہے کہ ایک طرف تو طاعون کو دیکھ کر اور دوسری طرف ہماری تعلیم کو دیکھ کر وہ خدا کی تجلّیات کو نظر میں رکھیں گے.عظیم الشّان معاملہ آ کر پڑا ہے گورنمنٹ نے ہر ایک فرقہ کو لپیٹ لیا ہے.مولوی محمد احسن صاحب نے کہا کہ حضور یہ لوگ پہلے اعتراض کرتے تھے کہ ہم گورنمنٹ کی خوشامد کرتے ہیں مگر اب کیا کہیں گے کیا یہ کارروائی ٹیکہ کی خوشامد سے ہے کہ جس سے ہم نے اتفاق نہیں کیا.نواب محمد علی خان صاحب نے کہا کہ ٹیکہ بھی کہاں تک لگے گا.اس پر حضرت اقدس نے ہنس کر فرمایا کہ وہی مثال ہے جس کا ذکر مثنوی میں لکھا ہے کہ ایک شخص کی ماں بدکار تھی اس نے اسے مار ڈالا لوگوں نے کہا کہ ماں کو کیوں مارا؟ اس کے دوستوں کو مارنا تھا اس نے جواب دیا کہ ایک کو مارتا دو کو مارتا آخر کتنوں کو مارتا؟اس لئے اسے ہی مارنا مناسب تھا یہی حال ٹیکہ کا ہے.طاعون کا دورہ میرے نزدیک طاعون کے جتنے عدد ہیں اتنے ہی سال تک اس کا دورہ ہوتا ہے حدیث میں ہے کہ آخر زمانہ میں لوگ خدا سے لڑائی کریں گے تو اب یہ خدا سے لڑائی ہی ہے لوگ خود کہیں گے کہ خدا سے لڑرہے ہیں.ہمارا الہام بھی ہے کہ اُجَھِّزُ جَیْشِیْ یعنی میں اپنا لشکر تیار کر رہا ہوں ہمیں تو یہ خوشی ہے کہ سمجھ دار لوگ خوب خبردار ہو جاویں گے.خدا کی قدرت ہے کہ وہی وقت آگیا ہے اور وہی موسم ہے جس کا ذکر تھا اور اس پر خدا نے گواہی بھی دے دی اب یہ نہ مانیں توا صل میں یہ خدا کا انکار ہے.یہ لوگ ہمارے آگے حدیثیں پیش کرتے ہیں حالانکہ اس نے حَکَم ہو کر آنا ہے پھر ان کو حکم تو یہ ہے کہ تم کو بولنا نہ چاہیے جو حَکَم کہے وہ مان لو تقویٰ ہوتی تو یہ لوگ کبھی نہ بولتے.اگر فی الواقع ہی ان کے ہاتھ میں
کوئی حدیث ہوتی تو پھر اسے غایت مرتبہ ظن کا ہوتا مگر اصل میں ان لوگوں کو یقین ہی نہیں ہے.مگر کیا قساوتِ قلبی ہے کہ جس قدر گندی اور فحش باتیں ہیں اور تحقیر اور توہین ممکن تھی اور جہاں تک ان کا ہاتھ پڑتا تھا وہ تمام افترا بنائے.صرف چند ایک باتیں گورنمنٹ کے قانون کے ڈر سے ان سے باقی رہ گئی ہیں.اکالئے جو ہوئے.پھر اس کے بعد میاں احمد دین صاحب عرائض نویس درجہ اول ساکن گوجرانوالہ سے حضرت اقدس بعض قانونی وجوہات پر گفتگو فرماتے رہے ایک مقام پر فرمایا کہ قانون بھی ایک موم کی ناک ہوتا ہے اس لئے کچی بات ہرگز نہ پیش کرنی چاہیے اور ایسی کچی بات کے پیش کرنے سے تو اس کا پیش نہ کرنا ہی اچھا ہے.(بوقتِ مغرب) ایک نَو مسلم پشاوری کا ذکر بعد ادائے نماز حکیم نور الدین صاحب نے ایک نو مسلم پشاوری کا حال سنایا جو کہ گذشتہ ماہ میں پشاوری جماعت کے ساتھ پشاور سے آیا تھا اور حضرت سے بیعت کی تھی.ان نو مسلم صاحب کو اہلِ اسلام پشاور نے امدادی چندہ کر کے ایک دوکان کھول دی تھی حکیم صاحب نے بیان کیا کہ آج اس کا خط آیا ہے اس نے لکھا ہے کہ مسلمانوں نے جو امدادی طور پر چندہ سے مجھے دوکان کھول دی تھی وہ اب اس لئے ضبط کرلی ہے کہ میں قادیان گیا اور بیعت کی.حضرت اقدس نے فرمایا.ابتلا ہے.صبر کرنا چاہیے.پھر آج صبح جو گفتگو حفاظت ِالٰہی کے وعدوں کے متعلق حضرت اقدس نے سیر میں کی تھی اس کا اعادہ حکیم نور الدین صاحب سے کیا اور اپنے الہام اور گھر کا خواب سنایا.اس گفتگو میں حضرت اقدس نے یہ بھی فرمایا.سعید فرقہ جو کہ عذاب سے نجات پانے والا ہے وہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتـحۃ : ۷) ہے اور جو عذاب میں مبتلا ہونے والا ہے وہ مغضوب علیہم ہے.مغضوب علیہم اور ضالّین میں وہی فرق ہے جو ایک مریض
محرقہ اور مدقوق میں ہوتا ہے کہ ایک جلدی ہلاک ہوتا ہے اور ایک آہستہ آہستہ ہلاکت تک پہنچتا ہے مگر انجام کار دونوں ہلاک ہوتے ہیں کوئی آگے کوئی پیچھے.کتُبِ سابقہ میں حفاظتِ الٰہی کا وعدہ پھر مفتی محمد صادق صاحب نے حسب الحکم حضرت اقدس وہ تمام حوالہ جات کتُبِ سابقہ کے سنانے لگے جن کا ارشاد حضرت اقدس نے صبح کی سیر میں کیا تھا اور اس کا خلاصہ یہ ہے.زبور ۹۱.’’وہ جو حق تعالیٰ کے پردہ تلے سکونت کرتا ہے سو قادر مطلق کے سایہ تلے رہے گا.میرا خدا جس پر میرا توکّل ہے یقیناً وہ تجھ کو صیاد کے پھندے سے اور مہلک وبا سے رہائی دے گا.وہ تجھے اپنے پروں تلے چھپاوے گا.اور کہ اس وبا سے جو اندھیرے میں چلتی ہے اور نہ اس مَری سے جو دوپہر کو ویران کرتی ہے.تیرے آس پاس ایک ہزار گر جاویں گے اور دس ہزار تیرے دہنے ہاتھ پر.لیکن وہ تیرے نزدیک نہ آوے گی.تو نے حق تعالیٰ کو اپنا مسکن اختیار کیا اس لئے تجھ پر کوئی آفت نہ آوے گی اور کوئی وبا تیرے خیمہ کے پاس نہ پہنچے گی.‘‘ لالہ شرمپت کا حسنِ ظن پھر حضرت اقدسؑ نے ذکر سنایا کہ شرمپت آریہ میرے پاس مشورہ لینے آیا تھا کہ مجھے بخار سا معلوم ہوتا ہے.جسم گرم ہے.ٹیکہ کرائوں یا نہ.میں نے کہہ دیا کہ نہ کرائو کیونکہ اس سے تو حرارت اور زیادہ ہوگی.پھر فرمایا کہ ان لوگوںکا دستور ہے کہ مجھ سے ہمیشہ مشورہ دریافت کرتے ہیں بلکہ لیکھرام کے قتل کے دنوں میں ایک دفعہ یہ دوا پوچھنے آیا تو میں نے کہا کہ اس وقت تو تم ہمیں دشمن جانتے ہو کہ اس کے قاتل ہم ہیں.ہماری دوا تم کو لینی مناسب نہیں ہے مگر اس نے کہا کہ ہم کو یقین ہے آپ دوا دے دیں.ایک الہام پھر فرمایا کہ رات کو مجھے ایک اور فقرہ الہام ہوا تھا بھول گیا تھا اب یاد آیا ہے وہ یہ ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ.
مخالفین سے شفقت پھر اس کے بعد میاں احمد دین صاحب عرائض نویس گوجرانوالہ نے مقدمہ کے متعلق کچھ گفتگو حضرت اقدسؑ اور آپ کے موجودہ احباب سے کی.حضرت اقدسؑ نے ایک مقام پر فرمایاکہ ہماری مُراد سزا سے نہیں ہے کہ اسے سزا ضرور ہو.ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ جیسے یوسفؑ کی حقیقت عزیز ِمصر کے سامنے کھل گئی تھی ویسے ہی ہماری بھی حقیقت کھل جاوے.یوسف نے جیل خانہ سے باہر نہیں قدم نکالا جب تک اپنا باعصمت ہونا ثابت نہ کرا دیا.۱ ۱۹؍اکتوبر ۱۹۰۲ء بروز یکشنبہ (بوقتِ سیر) دَآبَّةُ الْاَرْضِ کی حقیقت حسب معمول حضرت اقدسؑ سیر کے لئے باہر تشریف لائے اور نواب محمد علی خان صاحب کے مکان کے آگے آکر تھوڑی دیر نواب صاحب کا انتظار کرتے رہے جب نواب صاحب تشریف لائے تو روانہ ہوئے اور فرمایا کہ نئی تحقیقات نے دَآبَّةُ الْاَرْضِ کی بہت تائید کی ہے اور اس کے معنے کھول دیئے ہیں کہ وہ ایک کیڑا ہی ہے اور پھر یہ بھی کہ بہت باریک ہے جیسے کہ سلیمان علیہ السلام کے قصہ میں ہے تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٗ (سبا : ۱۵) باریک ہی تھا تو اندر اندر کھاتا رہا اور پتہ نہ لگا.اور تُكَلِّمُهُمْ (النَّمْل : ۸۳) سے مُراد بھی یہی ہے کہ طاعون ہو کیونکہ ایک اور مقام پر قرآن شریف میں ہے کہ ہم ہر ایک قریہ کو قیامت سے پہلے ہلاک یا عذاب کریں گے.مغضوب علیہ اور ضالّ کا فرق مَغْضُوْبِ عَلَیْـہِمْ کا آخر جیسے موت ہے اس طرح الضَّآلِّيْنَ کا بھی آخر موت ہے مگرآہستہ آہستہ.کیونکہ ضلالت کے معنے ہیں راستے سے بہک جانا بھٹکتے پھرنا.آخر انسان کو جب کوئی راہ نہ ملا تو مَر ہی جاوے گا.ریگستانوں وغیرہ میں لوگ راستہ بھول کر مَر ہی جاتے ہیں.لیکھرام مغضوب علیہم تھا اور
آتھم ضالّ کہ ایک جلدی مَر گیا اور ایک آہستہ آہستہ سسکتا ہوا مَرا.اور آریہ بھی یہود میں داخل ہیں ان کا ھَوَن وغیرہ تمام رسوم یہود سے ملتی ہیں.بعض نے لکھا ہے کہ برہمن،مصرجی اسی لئے کہلاتے ہیں کہ یہ لوگ مصر سے آئے تھے.ایک نفسیاتی نکتہ ایک شخص کی حالت پر حضور نے فرمایا کہ جوش والا آدمی درست ہونے کے لائق بہت ہوتا ہے مگر منافق نہیں ہوتا.سر سید احمد خان کی رائے ایک شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ سر سید احمد صاحب سے ایک دفعہ جب میری کتابوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو اس نے کہا کہ ان میں ذرہ خیر نہیں ہے.مولوی نذیر حسین دہلوی کا ذکر مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی متوفّی کے ذکر پر بعض احباب نے یہ کہا کہ قوم اور برادری کی محبت ہی نے دراصل اسے اخفائے حق کے لئے مجبور کیا ہوا تھا.حضرت اقدس ؑ نے فرمایا.محبت دین کی ہی محبت ہوتی ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بھی برادری، قوم اور رشتہ داریاںتھیں مگر صحابہ کو جب معلوم ہوا کہ یہ لوگ دین کے دشمن ہیں تو اپنے ہاتھوں سے ان کو ہلاک کیا.اگر ان میں (نذیر حسین میں) تقویٰ ہوتی تو ایسے سخت دلی کے لکھے ہوئے خط نہ پہنچتے یہ کہہ دیتے کہ تقویٰ اجازت نہیں دیتا.یہ تمام امور کس قدر تقویٰ کے بر خلاف ہیں کہ قرآن شریف بیّن دلائل سے وفات ثابت کرتا ہے جیسے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ (المائدۃ : ۱۱۸) اور قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (اٰل عـمران : ۱۴۵).پھر خود پیغمبرِ خدا کامعراج میں ان کو مُردوں میں دیکھنا اور پھر تمام فرقہ اسلام کے اور بڑے بڑے صوفی موت کو مانتے ہیں اور یہ لوگ اس بات کے قائل نہیں ہیں.سب سے پہلا اتفاق اسی اَمر پر ہوا کہ کُل انبیاء فوت ہو چکے ہیں صرف قوم اور برادری کو مدِّ نظر رکھ کر (نذیر حسین نے) انکار کیا.سنا تھا کہ نذیر حسین کہتا تھا کہ مجھے ایک ایسی بات یاد ہے کہ اگر بتلائوں تو ہزاروں آدمی مرزا صاحب کے مرید ہو جاویں.وہ تو ہزاروں داخل کرتا رہا یہاں لاکھوں ہوگئے.
حجرہ نشین لوگوں کو نہ تو آسمانی منطق نصیب ہوتی ہے اور نہ زمینی.مولوی اسمٰعیل شہید صاحب آئے تو سنگھڑ بھی گئے اور شیخ سلیمان سے ملے شائد جہاد کے لئے کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ فقیر نے اپنے ہاتھ سے ایک چڑی بھی نہیں ماری تلوار کیسے اٹھاوے گا.انہوں نے کہا کہ رسول اﷲ نے ۳۶۳ اونٹ اپنے ہاتھ سے ذبح کئے تھے.پھر فرمایا کہ اب تومیں یقین کرتا ہوں کہ وہ (نذیر حسین )ہماری جماعت میں داخل ہوا.کئی مرتبہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک آدمی زندگی میں تو قائل نہ ہوا مگر جب فوت ہو گیا تو ہماری جماعت میں داخل ہوا.محمد حسین بٹالوی کا عقیدہ محمد حسین بٹالوی کے ذکر پر فرمایا کہ اس عمارت کے دو کونے ہیں ایک مہدی اور ایک مسیح.مہدی کی نسبت وہ کہہ چکا تھا کہ کوئی حدیث بھی جرح سے خالی نہیں ہے جب ایک کونہ گر گیا تو دوسرا کس کام کا.اس لئے ہمارا انکار کر دیا یہ مسئلہ ایک مرکب شَے ہے جیسے ایک پیالہ اگر اس کا ایک ٹکڑا ٹوٹ جاوے تو باقی کس کام کا.اور ایک پہلو سے محمد حسین ہمارے مفید مطلب ہوا کہ مہدی کی تردید کر چکا.(بوقتِ ظہر) مقدمہ بازی اچھی نہیں ہوتی حکیم فضل دین صاحب کے مقدمہ پر حضرت اقدسؑ غور فرماتے رہے اور بہت سی باتیں سننے کے بعد حضور نے فرمایا کہ مقدمہ وہ بہت منحوس ہوتا ہے جس کا انجام بخیر نظر نہ آوے اور صاف وہ مقدمہ ہوتا ہے جس کے آثار فتح و نصرت کے جلد نظر آجاویں مقدمہ بازی اچھی نہیں ہوتی.بار بار حکّام کے پاس جانا، ان کے متھے لگنا.میری رائے تو یہ ہے کہ مردار بصد بگزار صلح کر لو.قرآن کے حکم کی تعمیل میں کوئی تکلیف نہیں ایک صاحب نے کہا کہ حضور کو بھی شہادت کے لئے جانے کی تکلیف ہوگی اس نے اسی لئے آپ کی شہادت لکھائی ہے کہ یہ لوگ تکالیف کو دیکھ کر صلح کر لیں.حضرت اقدسؑ نے
فرمایا کہ ہمیں کوئی تکلیف نہیں قرآن کا حکم ہے کہ جب گواہی کے لئے بلایا جاوے تو جائو.میں کوئی بے دست و پاتو ہوں نہیں.ہمیشہ پیدل بٹالہ آیا جایا کرتا تھا.یہ تو کوئی بات نہیں چلنے پھرنے کی عادت ہے مگر یہ ایک منحوس بے حیثیت سا مقدمہ نظر آتا ہے مو من کو اپنی عزّت کا پاس بھی چاہیے.گندے آدمیوں سے یہ جگہ پُر تھی معلوم نہیں کہ خدا کو کیوں یہ جگہ پسند آئی.(بوقتِ عصر ) اس وقت نماز سے پیشتر مولوی عبدالکریم صاحب نے اخویم عبدالعزیز صاحب کا خط سنایا جو کہ سہارنپور سے آیا تھا اس میں لکھا تھا کہ یہاں کے لوگوں میں ایک عجیب ولولہ اور شوق قادیان پہنچنے کا پیدا ہورہا ہے.(بوقتِ مغرب و عشاء) عصمتِ انبیاء کسی پادری نے عصمتِ انبیاء کے متعلق چند ایک اعتراضات مولوی محمد علی صاحب کے پاس روانہ کئے ہوئے تھے اور نوح کا گنہگار ہونا بھی لکھا تھا کہ اس نے خلافِ منشاءِ ایزدی اپنے بیٹے کے لئے دعا کی یہ اعتراض مولوی ایم.اے صاحب نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش کئے.حضرت اقدس نے فرمایا.کیا وجہ ہے کہ اس نے مسیح کا ذکر نہ کیا کہ ایک انجیر کے درخت کی طرف گیا اور جانتا تھا کہ اس میں پھل نہیں ہے پھر وہ جانتا تھا کہ صلیب ملنی ہے اور دعائیں کرتا رہا کہ مجھے نجات ملے.پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے ثبوت میں قَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا (یونس : ۱۷) کی دلیل پیش کرتے ہیں اس کے مقابلہ کا ایک فقرہ بھی انجیل میں نہیں ہے اور پیغمبرِ خدا کی تمام عمر کا یہ حوالہ ہے کہ قَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا.استغفار کے اصل معنے تو یہ ہیں کہ یہ خواہش کرنا کہ مجھ سے کوئی گناہ نہ ہو یعنی میں معصوم رہوں اور دوسرے معنے جو اس سے نیچے درجے پر ہیں کہ میرے گناہ کے بدنتائج جو مجھے ملنے ہیں میں ان سے
محفوظ رہوں.۱ مسیح تو خود کنجریوں سے تیل ملواتا رہا.اگر استغفار کرتے تو یہ حالت نہ ہوتی.(بوقتِ مغرب) پھر اس کے بعد اذان ہو کر نماز مغرب ہوئی اور حضرت اقدس حسب معمول شہ نشین پر جلوہ گر ہوئے اور فرمایا کہ الزامی جواب مفتی محمد صادق صاحب جو کتاب سنایا کرتے ہیں جس میں مشیعہ عورت اور مشیع یہودی عاشق سلومی کا ذکر ہے کہ سلومی مشیع کو چھوڑ کر یسوع کے شاگردوں میں جاملی.اس لئے اس مشیع نے یہ سارا منصوبہ صلیب کا بنایا گویا ایک عورت کے واقعہ نے ان کی صلیب تک نوبت پہنچائی.جس طرح بدظنیاں ان لوگوں نے نکالی ہیں ویسے ہی ہمارا بھی حق ہے.ان کے نزدیک زیادہ شادیاں کرنا گناہ ہے مگر ایک بازاری عورت عطر ملتی ہے تیل بالوںکو لگاتی ہے بالوں میں کنگھی کرتی ہے اور یہ مہنت کی طرح بیٹھے ہوئے مزے سے سب کراتے جاتے ہیں یہ بھی پوچھو کہ گناہ ہے یا نہیں.ان کو لازم تھا کہ اعتراض نہ کرتے جو واقعات ان کے ہاتھوں کے لکھے ہیں وہی پیش کرنے پڑتے ہیں اور کیا جواب دیویں.یہ کوئی چھوٹا اعتراض نہیں ہے کہ ان کو کنجریوں سے کیا تعلق تھا اور اگر کہو کہ اس کنجری نے توبہ کی تھی تو کنجری کی توبہ کا اعتبار کیا.ایک طرف توبہ کرتی ہیں ایک طرف پھر موڑھے پر بازار میں جا بیٹھتی ہیں.پھر شراب کو دیکھو کہ تمام گناہوں کی جڑھ ہے اس کی تخم ریزی مسیح نے کی.شراب کے جائز رکھنے سے کروڑہا لوگوں کی گردن پر چُھری پھر گئی جب انسان نشہ کا عادی ہو جاتا ہے تو پھر چھوڑنا مشکل ہے یہ نشہ بھی کیا شَے ہے کہ ایک طرف زندگی کو کھاتا جاتا ہے دوسری طرف زندگی کا شہتیر بھی ہے نشہ والوں کو نشہ نہ ملے تو موت تک نوبت پہنچ جاتی ہے.
ایک نشہ کا سائل ایک دفعہ ایک عورت میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھے تین دن سے نشہ نہیں ملا اس کی حالت بہت ردّی تھی اورنشہ کے لئے مجھ سے پیسہ طلب کرتی تھی میں نے تعجب کیا کہ یہ نہ روٹی کا سوال کرتی ہے نہ کپڑے کا اور نشہ کے لئے بے قرار ہے.اسے عادت ہوگی اور اب اس کی زندگی کا گویا جزو ہوگیا ہے اس لئے اس کو اپنے بیان میں سچا جان کر میں نے ایک پیسہ اسے دے دیا.اس موقع پر حضرت اقدس نے حکیم نورالدین صاحب سے سوال کیا کہ کتنے عرصہ کے بعد انسان کسی نشہ کا ایسا عادی ہو جاتا ہے کہ پھر اسے چھوڑ نہیں سکتا اور مجبور ہوتا ہے حکیم صاحب نے کہا کہ کسی جگہ شاید نظر سے تو نہیں گذرا مگر چالیس دن میں ایسا ہو سکتاہے.حضرت اقدس ؑ نے فرمایا.ہر ایک شَے کے لئے چالیس دن ہی ہیں بات یہ ہے کہ شراب اور اس کے بھین بھرا (بھنگ افیون وغیرہ) ایسی خراب شَے ہیں کہ ان سے مٹی پلید ہوتی ہے مگر پھر وہ مذہب کیسے اچھا ہو سکتا ہے جس میں ایسی تعلیم ہو.ہاں ایک صورت ہے کہ نشہ چھوٹ سکے کہ جیل خانہ میں بند ہوں داروغہ بھی ایساہو کہ کسی سے سازش نہ کرے پھر شاید عادت چھوٹ جاوے.حکیم صاحب نے پھر ایک واقعہ سنایا کہ جو لوگ جیل خانہ میں ہوتے ہیں تو ان کو نشہ نہیں ملتا اگر کام میں سُستی اور انکار کریں تو سخت سزا ملتی ہے تین تین سال تک.پھر وہ نشہ کا نام نہیں لیتے.مگر جوں ہی جیل خانہ سے باہر نکلے پھر ایک دَم بِلا نشہ رہنا ان کو موت کے برابر ہے.حضرت نے فرمایا کہ یحییٰ جو نشہ نہیں پیتے تھے تو معلوم ہوا کہ اس وقت بھی منع تھی.مسیح نے مرشد کی تقلید کیوں نہ کی.شائد کوئی یہ اعتراض کرے کہ اوائل اسلام میں تو حُرمت تھی نہیں.۱۳ برس کے بعد حُرمت ہوئی تو جواب یہ ہے کہ اسلام تو آہستہ آہستہ صفائی کرتا جاتا تھا اور قوم بن رہی تھی جب قوم بن گئی تو حکم آگیا.ابتدا میں تو صحابہؓ کو یہ مصیبت تھی کہ پانی بھی بھولا ہوا ہوگا شراب کا کیا ذکر ہے.ماموریت کامقصد ایک علی حائری نامی شیعہ کے رسالہ کا ذکر ہوا جس میں مصنّف نے ہمارے مقابلہ میں اہلِ سنّت کو خطاب کیا ہے کہ تم اور ہم ایک ہیں حضرت نے اس پر
فرمایا کہ سنّیوں کو تو ایک کر لیا اب ان کو چاہیے کہ خارجیوں کو بھی ایک کرے.ان کا بھی حق ہے پھر کبھی مل کر علیؓ اور عثمانؓکو گالیاں دے لیا کریں اور کبھی وہ ابو بکرؓ و عمرؓ کو دے لیا کریں.ہمیں خدا نے اس لئے مامور کیا ہے کہ جو حد سے زیادہ شانیں (خدا کی مخلوق کی) بنائی ہوئی ہیں ان کو دور کریں اس کے حصہ دار سنّی بھی ہیں ان میں بھی شرک بہت پھیلا ہوا ہے.تازہ الہامات پھر حضرت نے آج کے الہامات سنائے کہ آج یہ الہام ہوئے ’’یُـرِیْـدُوْنَ اَنْ یُّـطْـفِـئُوْا نُـوْرَکَ.یُـرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفُوْا عِرْضَکَ.اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ.‘‘ فرمایا کہ خدا تعالیٰ ہمیں اکیلا، کمزور، ضعیف پا کر، ہماری حمایت پر ہی آسمان سے تار آ جاتی ہے.۱ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۲ء بروز دو شنبہ (بوقتِ سیر) حسب معمول حضرت اقدسؑ سیر کے لئے نکلے اور طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ اس موسم میں آج کل عموماً گلٹیاں بغل وغیرہ میں نکلا کرتی ہیں مگر جب تک ان کے ساتھ کوئی زہریلا مادہ نہ ہوتب تک طاعون نہیں کہلاتی.عیسائیوں کے چار سوالوں کا جواب ایک شخص کے چار سوال دہلی سے آئے تھے جو کہ عیسائیوں کی طرف سے اس پر ہوئے تھے وہ شیخ یعقوب علی صاحب نے پڑھ کر سنائے.کلمۃ اﷲ کی حقیقت اوّل سوال اس مضمون پر تھا کہ انجیل میں لکھا ہے کہ اوّل کلام تھا اور کلام سے خدا ہوا اور خدا کی روح سے مسیح پیدا ہوا اور قرآن نے بھی اسے کلمہ
فرمایا ہے.حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ کلمہ تو میرے الہام میں میرا نام بھی رکھا گیا ہے.تم اس کے معنے بتلائو پھر ہم اس کے بتلائیں گے اگر کہو کہ یہ الہام سچا نہیں تو آئو اوّل اس کا فیصلہ کر لیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ ( الاعراف : ۱۵۹) مَا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ( لقمان : ۲۸) تو معلوم ہوا کہ قضاء و قدر کا نام بھی کلمہ ہے.روح کی دو قسمیں ہوتی ہیں.روح الشیطان اور روح اﷲ پہلا لفظ ولد الزّنا اور دوسرا اصیل پر بولا جاتا ہے.قرآن کریم کے مصدّق ہونے کی حقیقت دوسرا سوال اس مضمون کا تھا کہ قرآن جو انجیلوں کا مصدّق ہے تو کیا اناجیل صحیح ہیں؟ فرمایا کہ مصدّق کے معنے قرآنی طور پر یہ ہیں کہ جو کچھ صحیح تھا اس کی تونقل کر دی اور جو نہیں لیا وہ غلط تھا پھر انجیلوں کا آپس میں اختلاف ہے اگر قرآن نے تصدیق کی ہے تو بتلائو کونسی انجیل کی کی ہے قرآن نے یوحنا، متی وغیرہ کی انجیل کی کہیں تصدیق نہیں کی.ہاں پطرس کی دعا کی تصدیق کی ہے.اسی طرح کونسی توریت کہیں جس کی تصدیق قرآن نے کی.پہلے توریت تو ایک بنائو، قرآن تو تمہاری توریت کو محرّف بتلاتا ہے اور تم میں خود اختلاف ہے کہ توریت مختلف ہیں.قرآن کریم کا خطاب تیسرا سوال.قرآن نے خود رسول اﷲؐ کو کہا اِنْ كُنْتَ فِيْ شَكٍّ(یونس:۹۵).فرمایا.اوّل یہ بتلائو کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو حکم دیا کہ ماں باپ کی عزّت کرو ان کے والدین کہاں تھے ہاں یہ شک کا لفظ اوّل مسیح پر وارد ہو سکتا ہے کیونکہ اگر وہ قربان اور فدیہ ہونے کے واسطے ہی آیا تھا اور یہ قطعی فیصلہ تھا تو اس نے کیوں کہا کہ اے خدا یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے.معلوم ہوا کہ اسے ضرور شک تھا قرآن میں جہاں شک کا لفظ ہے ہر ایک مخاطب کی طرف ہے نہ کہ خاص رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف.خدا نے ہمیں قاعدہ بتلایا ہے کہ جو بات قرآن کے مطابق ہواس
پر عمل کرو اور جو مخالف ہو اسے ردّ کرو.کلمہ والی بات تو ہم تھوڑے دنوں تک خود شائع کرنے والے ہیں یہ تو کلمہ کلمہ لئے پھرتے ہیں اور یہاں خود میرا الہام ہے اَنْتَ مِنِّی بِـمَنْزِلَۃِ اَوْ لَادِیْ.شریعت شارح کی محتاج ہے جو مامور ہو کر آتا ہے اس کی ذاتیات سے الہام وابستہ نہیں ہوتے وہ تو شریعت کا شارح ہوتا ہے جس طرح حضرت مسیح کے وقت شریعت شارح کی محتاج تھی اسی طرح اس وقت بھی شریعت شارح کی محتاج ہو رہی تھی کیونکہ جس طرح اس وقت یہود کے ۷۲ فرقے تھے اسی طرح اسلام کے ۷۲ فرقے ہو گئے.اب خدا ان سب کو ملا کر ایک بنانا چاہتا ہے.شیطان کی آخری جنگ رات تین بجے کے قریب مجھے الہام ہوا.وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ لِلسِّلْسِلَۃِ السَّمَاوِیَّۃِ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ.جَفَّ الْقَلَمُ بِـمَا ھُوَ کَائِنٌ.قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰۤى اِلَيَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ.وَالْـخَیْـرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ.فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِيْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ.معلوم ہوتا ہے کہ آدمی دو قسم کے ہیں ایک وہ کہ جانتے تو نہیں مگر ان میںابھی انسانیت ہے.دوسرے وہ جن کے آنکھ کان فہم وغیرہ سب جاتے رہتے ہیں اور حجارہ میں داخل ہیں وہ بھی جہنم میں داخل ہوں گے جو کہ سمجھے ہوئے تو ہیں مگر بعض تعلقات دنیاوی کی وجہ سے وہ قبول نہیں کرتے.معلوم ہوتا ہے اس میں کوئی تجویز ہے اور اس کو ابھی مخفی رکھا ہے.یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ترقی ہونے والی ہے اور اﷲ کریم کچھ چشم نمائی کرنے والے ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ جو کچھ ہمارے ارادہ میں ہے وہ ہو چکا.اب ٹل نہیں سکتا.لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مُنْفَكِّيْنَ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ یہ براہین کامیرا الہام ہے.مجھے خدا نے اسی لئے بھیجا ہے کہ ان اہلِ کتاب کو بیّن دکھلا کر دَم بخود کیا جاوے.عنقریب سمجھ لیویں گے کہ ان کو کوئی مفرّ نہیں.مسلمانوں نے تو اقبالی ڈگری اپنے اوپر عیسائیوں کو دیدی.آئو وہ فیصلہ ہمارے ساتھ بھی کرو جو انبیاء کے ساتھ ہونا چاہیے تا کہ آسمان سے اس
کا فیصلہ ہو.تم کہتے ہو کہ مسیح کلمۃاﷲ ہے ہم کہتے ہیں ہمیں خدا نے اس سے بھی زیادہ درجہ دیا.اگر یہ اعتراض ہو کہ مسلمان تم کو کافر کہتے ہیں تو دیکھو تم کو رومن کیتھولک کافر کہتے ہیں اور تم ان کو کافر کہتے ہو اور ڈوئی سب کو کافر کہتا ہے.میرے پاس تو خدا کی گواہی اور اس کے نشانات ہیں نہ کسوف وخسوف تھا نہ جماعت تھی، نہ اس کی ترقی تھی، نہ طاعون تھی.یہ سب باتیں مجھے قبل ازوقت بتلائی گئیں.اس ملک پر اتفاقاً افلاس کا سخت صدمہ آیا اور اس سے بہت بھوکے اور خبیث طبع لوگ جو نرے روٹی کے طالب تھے اس عیسائی فرقہ میں چند روپیوںکے لالچ سے شامل ہو گئے.اب یہ معلوم ہوتا ہے کہ دانیال اور حزقیل نبی کی کتابوں سے یہ پایا جاتا ہے کہ یہ ایک آخری جنگ ہے جو کہ شیطان کی لڑائی کہلاتی ہے اور خود شیطان نے تو لڑائی کرنی نہیں بلکہ انہی لوگوں کے ذریعہ سے ہورہی ہے.پس ایسی لڑائیوں سے یہ ہمارے مخالفین کو خُنثہ بنا دیویں گے اور آخر بات ہم پر ہی آکر پڑے گی.ان ہمارے مخالفوں کا یہ مذہب ہے کہ کلمۃاﷲ، روح اﷲ خالق اور مسِ شیطان سے بَری اور آسمان سے دوبارہ دنیا میں واپس آنے والا یہ سب صفات حضرت مسیح ہی میں ہیں.کمبخت! خدا جانے کہاں کے کہاں چلے جاتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ ع آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری پھر یہ مصرعہ تو حضرت مسیحؑکے بارہ میں لکھنا چاہیے نہ کہ آنحضرتؐپر.اور ان لوگوں کے خیال کے موافق آنحضرتؐتو قتل دجال سے دست بردار ہو گئے کیونکہ مسیح نے آکر قتل جو کرنا ہوا اوّل حصہ بھی مسیح کا ہوا اور آخر حصہ بھی مسیح کا.ابتدا میں کلمہ تھا اور کلمہ خدا کا کلام تھا وغیرہ وغیرہ یہ سب الحاقی عبارتیں ہیں.ان کے پاس الحاقی عبارتیں ہوئیں اور ہمارے پا س اصل.آخر پر ان کا یہی جواب ہوتا ہے کہ مرزائیوں سے بات نہ کرو.ایک درخت کی چھوٹی اور کمزور شاخ تو ایک چڑیا کو بھی ناز سے اپنے اوپر بٹھا لیتی ہے لیکن اگر اس کے اوپر مور بیٹھنا چاہے تو ایک سیکنڈ کےلئے برداشت نہیں کرسکتی.زمانہ اور قرائن کے لحاظ سے دیکھو کہ جو باتیں تم مسیح پر چسپاں کرتے ہو وہ پورے طور پر ہم پر
چسپاں ہوتی ہیں.قیمتی پیشگوئیاں آمد ثانی پر تھیں وہ سارے کا سارا تھیلا ہم نے چھین لیا.آمد اوّل میں تو ساری ذلّت اور مار کھانے والی پیشگوئیاں ہیں اور جلال اور عظمت والی تو آمد ثانی پر تھیں جو کہ ہم کو ملیں.ایک تفسیری نکتہ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ (الزّخرف : ۸۶) پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا.یہ بات واقعی ہے اور قرآن کریم سے بھی ثابت ہے کہ ساعت سے اس جگہ مُراد یہودیوں کی تباہی کا زمانہ ہے وہ وہی زمانہ تھا اور جس ساعت کے یہ لوگ منتظر ہیں اس کا تو ابھی تک کہیں پتہ بھی نہیں ہے ایک پہلوسے اوّل مسیح کے وقت یہودیوں نے بدبختی لے لی اور دوسرے وقت میں نصاریٰ نے بدبختی کا حصہ لے لیا مسلمانوں نے بھی پوری مشابہت یہود سے کرلی.اگر ان کی سلطنت یا اختیار ہوتا تو ہمارے ساتھ بھی مسیح والا معاملہ کرتے.نشانوں کے ظہور کا وقت جس طرح کھانگڑ بھینس کا دودھ نکالنا بہت مشکل ہے اسی طرح سے خدا کے نشان بھی سخت تکلیف کی حالت میںاترا کرتے ہیں.جیسے حضرت موسٰی کو بنی اسرائیل نے کہا تھا اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَ ( الشعرآء : ۶۲) وہ ایسا سخت مشکل کا وقت تھا کہ آگے سے بھی اور پیچھے سے بھی ان کو موت ہی موت نظر آتی تھی سامنے سمندر اور پیچھے فرعون کا لشکر.اس وقت موسٰی نے جواب دیا كَلَّا اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ (الشعرآء: ۶۳) پس ایسی ضرورتوں اور ابتلا کے اوقات میں نشان ظاہر ہوا کرتے ہیں جبکہ ایک قسم کی جان کندنی پیش آجاتی ہے چونکہ خدا کا نام غیب ہے اس لئے جب نہایت ہی اشد ضرورت آبنتی ہے تو اُمورِ غیبیہ ظاہر ہوا کرتے ہیں.لیکھرام کے قتل کی طرز اور وضع اور وقت اور تاریخ وغیرہ سب کچھ کس صفائی سے بتلایا گیا.مگر بے ایمانوں کے واسطے تھوڑا ساشبہ اور ایمان والوں کے واسطے تھوڑی سی بات ایمان کے لئے باقی رکھ لی تھی.بے ایمانی کی بات ہی ہوئی جو کہا کہ شاید ان کی جماعت میں سے کسی نے اس کو قتل کر دیا ہو.(بعد نمازِ مغرب) بعد ادائے نماز مغرب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حسبِ معمول اجلاس فرماہوئے تو قادیان میں جو
چوڑھوں میں چند آدمی مَر گئے ہیں بہ ایں وجہ کہ ان ایام میں انہوںنے کئی ہلاک شدہ بھینسیں کھائی تھیں ان کا ذکر ہوتے ہوتے آخر طاعون کا تذکرہ ہو پڑا فرمایا.خدا تعالیٰ کاجلال ظاہر ہو ایک بار مجھے یہ الہام ہو اتھا کہ خدا قادیان میں نازل ہو گا اپنے وعدہ کے موافق اور پھر یہ بھی تھا.’’اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ‘‘ فرمایا.طاعون کے خوف ناک نتائج یہ بھی ہیں کہ آخر کو جنگل بنادیتی ہے.اس پر حکیم نور الدین صاحب نے کہا کہ حضور میں نے پڑھا ہے یہ جو نئی آبادی بار میں ہوئی ہے اس میں پرانی آبادیوں کے نشانات ملے ہیں اور یہ لکھا ہے کہ یہ قطعات آباد تھے اور طاعون سے ہلاک ہوئے تھے.حضرت اقدس ؑ نے فرمایا.خواہ موذی طبع لوگ ہزاروں ہی مَر جاویں مگر میراجی یہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کاجلال ظاہر ہو اور دنیا کو خدا کا پتہ لگے اور ثبوت ملے کہ کوئی قادر خدابھی ہے اس وقت دہریت اورالحاد بہت پھیلا ہوا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے بے پروائی ظاہر کی جاتی ہے اورجن لوگوںنے بظاہرخدا تعالیٰ کااقرار بھی کیا ہے انہوں نے یاتو خطرناک شرک کیا ہے جیسے عیسائی اور دوسرے بُت پرست مشرک اور پھر جنہوں نے بظاہر توحید کااقرار بھی کیا ہے جیسے مسلمان انہوں نے بھی در اصل شرک اختیار کر رکھا ہے اور مسیح کو خدا کی صفات سے متّصف ٹھہرا رکھا ہے.علاوہ بریں خدا تعالیٰ کی حکومت کے نشان ان کے اعمال سے ثابت نہیں ہوتے.اعمال میں سستی اور بیباکی اور دلیری پائی جاتی ہے جس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ خدا کاخوف دلوں پر نہیں رہا.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس بیباکی کے دور کرنے میں بے شک ہزاروں ظالم طبع ہلاک ہوںتاکہ وہ دوسروں کے لئے عبرت ہو اور وہ خدا کی قدرتوں اور طاقتوں پر ایمان لانے والے ہوں.دیہات کے لوگ تو جنگل کے وحشیوں کی طرح ہیں مگر شہروں میں جو تعلیم یافتہ ہیں ان کی حالت بہت ہی ناگفتہ بہ ہورہی ہے میں دیکھتا ہوں کہ
مسلمانوں میں بھی اعلائے کلمۃ اللہ اور اپنے اعمال کی اصلاح اور تبدیلی کاجوش نہیں ہے باپ دادا سے لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ سن لیا اسی کو کافی سمجھا اعمال کی پروا نہیں.یہ جو الہام ہو چکا ہے اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ اگر منتشر کرنے کاقانون منسوخ نہ ہوتا تواس مفہوم کو اس الہام میں داخل سمجھا جاسکتا مگر اب جب کہ سب جگہ قانون منسوخ ہوگیا ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کامنشا یہی ہے جیساکہ دوسرے الہام لَوْلَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ سے پایا جاتا ہے.اس میں ایک شوکت بھی ہے اورچشم نمائی ہے جیسے ایک مجرم کو جج ۳ سال کی سزا دے او رساتھ ہی یہ کہہ دے کہ اصل میں ۱۴سال کی قید کی سزا کے لائق تھا مگرعدالت رحم کرکے ۳ سال کی سزا دیتی ہے.اسی طرح پر یہ الہام ظاہر کرتا ہے کہ دراصل یہ جگہ بھی ایسی ہی تھی کہ ہلاک کی جاتی مگر خدا تعالیٰ اپنے اس سلسلہ کااکرام ظاہر کرناچاہتا ہے کہ اسی اکرام کی وجہ سے اسے ہلاکت سے بچالیا اوراس طرح پر یہ نشان ٹھہرا.جماعت کو نصیحت میری نصیحت اس وقت جماعت کو یہ ہے کہ یہ دن بڑے سخت اور ہولناک ہیںاس لئے جہاں تک ہوسکے اپنے دلوںکو اور آنکھوںکو بُرے جذبات سے روکے اور اپنے اعمال اور چال چلن میں خاص تبدیلی کریں.یہ وقت خاص تبدیلی کا ہے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگنے کا ہے پس اس وقت خدا سے سچا تعلق پیدا کرو.میں نے سنا ہے کہ ایک شخص عین شادی کے دن طاعون سے مَر گیا.دنیا کی بے ثباتی کے لئے یہ کیسی عبرت بخش مثال ہے اگر دانش مند غور کرے تو ایک طرح سے یہ دن بڑے عجیب ہیں ان پر نظر کرنے سے موت یاد آتی ہے اور خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین پیدا ہوتاہے او ریقین ہی ایک ایسی شَے ہے جو اعلیٰ درجہ کی لذّت اور سرور صادق الیقین کو بخشتا ہے وہ کسی اور کو میسر نہیںآسکتے.خداشناسی کے مسئلہ پر اس وقت ہزاروں قسم کے حجاب اور گرد و غبار ہیں.اور وہ یقین جو لذّت بخش نتائج اپنے ساتھ رکھتا ہے وہ نہیں رہا اور جو دنیا کے تعلقات میں پیدا ہونے والے رنج اور غم کو دور کرتا ہے اس وقت نہیں بلکہ یہ حالت ہو رہی ہے کہ اکسیر مل جاوے تو
مل جاوے لیکن ایسے آدمی اس زمانہ میں ملنے مشکل ہیں جو خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایسا یقین رکھتے ہوںجس نے ان کی ساری قوتوں اور جذبات پر اپنا اثر کیا ہو اور ایسی معرفت عطا کی ہو جس سے ان کے گناہ کی زندگی پر موت وارد ہو چکی ہو.میں سچ کہتا ہوں کہ ایسے دلوں کاملنا بہت مشکل ہے جو ایمان اور اس کے لذّات بخش نتائج کی معرفت سے بھرے ہوئے ہوں.ضرورتیں تو اس وقت بہت سی ہیں جو اﷲ تعالیٰ اپنی قدرت کا ہاتھ دکھائے اور اپنی چمکار سے دنیا کو روشن کرے مگر سب سے بڑی ضرورت ایسی معرفت اور یقین کا پیدا کرنا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ طاعون اسی کو پورا کر رہی ہے ٹیکہ کا علاج اس وقت تک آخری علاج سمجھا گیا ہے لیکن اگر یہ علاج ٹھیک نہ ہوا تو پھر مشکل ہو گی ابھی تک اس کا پورا تجربہ بھی نہیں ہوا.جب تک ایک عدد کثیر نہ ہو کیا کہہ سکتے ہیں مثلاً لاہور میں ۵۰ یا ۶۰ ہزار آدمی ٹیکہ لگوائے اور پھر ایک دو جاڑے ان پر امن سے گذر جاویں تو کچھ پتہ ملے لیکن اگر ۶ ماہ کے بعد اس کا اثر زائل ہو جاوے اور ہر ششماہی کے بعد یہ نسخہ گلے پڑا تو پھر تو کچھ نہیں.احادیث میںجو آیا ہے کہ آخر خدا سے لڑائی کریں گے یہ اس قسم کی جنگ ہو گی جو خدا تعالیٰ کی قضا و قدر کے مقابلہ کے لئے ہر قسم کی تیاری کی جاوے گی.میرے الہام میں جو اُجَھِّزُ جَیْشِیْ ہے اس سے مُراد طاعون ہی ہے اور ایسا ہی حضرت مسیح نے اپنی آمد کا زمانہ نوح کے زمانہ کی طرح قرار دیا ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے میرا نام بھی نوح رکھا ہے اور وَاصْنَعِ الْفُلْکَ کا الہام ہوا اور لَاتُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ بھی فرمایا.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عظیم الشان طوفان آنے والا ہے اور پھر اس طوفان میں میری بنائی ہوئی کشتی ہی نجات کا ذریعہ ہوگی.اب طاعون وہی طوفان ہے اور خدا کا زور آور حملہ اور اس کی چمکار ہے یہی وہ سیف الہلاک ہے جس کا براہین میں ذکر ہوا ہے.طبیبوں اور ڈاکٹروں کو اقرار کرنا پڑا ہے کہ اس کا کوئی نظام مقرر نہیں ہے کہ گرمی میں کم ہوتی ہے یا سردی میں.کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض جگہوں میں گرمیوں میں بھی اس کی کثرت میں فرق نہیں آیا.غرض اس کا علاج بجز استغفار اور دعا اور اپنے اعمال میں پاکیزگی اور طہارت کے کیا ہو سکتا ہے.۱
۲۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء بروز سہ شنبہ (بوقتِ سیر) کوئی ۷ بجے کے قریب حضرت اقدسؑ سیر کے لئے تشریف لائے.کپور تھلہ سے چند ایک احباب آئے ہوئے تھے.حضرت اقدسؑ نے ان سے ملاقات کی اور طاعون کا حال اس طرف کا دریافت کیا.اس سے پیشتر حضرت اقدسؑ قادیان کے شمال کی طرف تشریف لے جایا کرتے تھے مگر آج آپ نے حکم صادر کیا کہ اس طرف (یعنی مشرقی طرف)چلئے.گویا آج اس مشرقی زمین کے بخت بیدار ہوئے جس پر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مبارک قدم پڑنے تھے.عصمتِ انبیاء علیہم السلام آج بھی وہی مضمون زیر بحث رہا جس پر گذشتہ ایام میں بحث تھی کہ عیسائی جو دوسرے نبیوںکو گنہگار ٹھہراتے ہیں مسیح کے گناہوں کو کیوں چھپاتے ہیں فرمایا کہ ان کو (عیسائیوں کو) بحث میں ذلّت اور ندامت کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں.دوسرے پر حملہ کرنے سے پیشتر اوّل اپنے گھر کی صفائی تو کر لیں.اگر موسٰی کے قتل پر اعتراض ہے تو وہ توریت کے نزول سے پہلے کا واقعہ ہے مگر مسیحؑکو کیا ہوا کہ انجیل نازل ہو رہی ہے اور کنجری سے تیل ملوا رہا ہے پھر موسٰی کا فعل ارادتاً نہ تھا.نہ اس کو مارنے کا ارادہ تھا قتل کا الزام غلط ہے میں نے خود دیکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے ایک بیل کو ڈنڈا مارا وہ مَر گیا.مقدمہ عدالت میں گیا چونکہ ایک اتفاقیہ اَمر تھا آخر عدالت نے اسے چھوڑ دیا.اور اَشُدّ سے مُراد وہ نبوت لیتے ہیں اس سے مُراد نبوت نہیں ہے بلکہ یہ مُراد ہے کہ جب ہوش میں آیا.اَشُدّ بھی دو قسم کی ہوتی ہے ایک وحی کی اَشُدّ، دوسری جسمانی اَشُدّ.موسٰی نے مُکّا مارا.اتفاقیہ لگ گیا.مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ الہام کا سلسلہ بعد بپتسمہ لینے کے شروع ہوا ہے اور روح القدس بھی پیچھے ہی اترا.حضرت اقدسؑ نے فرمایا.پھر یوں کہو کہ مسیح کے برکات کا سرچشمہ یحییٰ ہی تھا.سچی پاکیزگی بِلا روح القدس نہیں مل سکتی.یحییٰ
بھی ان پر ایمان نہیں لایا وہ کہتا تھا کہ میں آنے والے سے اوّل آیا ہوں مگر اس نے ان کو مسیح نہیں مانا اور اسی لئے جب اس سے پوچھا گیا کہ تو ایلیا ہے تو اس نے انکار کر دیا.نیک نیتی کے ساتھ اسے (یحییٰ کو ) کچھ امور پیش آگئے اس نے خیال کیا ہو گا کہ جب اس نے خود میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے تو یہ مسیح کیسے ہوگا.ان (عیسائیوں ) پر سخت مشکلات ہیں بے وقوف ہیں جو اپنی پردہ دری کراتے ہیں.پھر حضرت اقدسؑ نے مفتی محمد صادق صاحب کو حکم دیا کہ ملک صدق کا حال دیکھنا جس نے حضرت ابراہیمؑ کو تحفہ اور سوغات دیئے تھے.کیونکہ یہ تین آدمیوں کو مسیح کے علاوہ بے گناہ کہا کرتے ہیں ایک ملک صدق، دوسری مریم، تیسرے یحییٰ.ان کے نزدیک تومسیح اور مریم ہی مَسِّ شیطان سے پاک ہیں مگر قرآن نے مساوی رکھا ہے کہ ہر ایک راستباز مَسِّ شیطان سے پاک ہے.کچھ تہمتیں چونکہ مسیح علیہ السلام پر آگئی تھیں کہ یہودی لوگ ان کو مَسِّ شیطان سے منسوب کرتے تھے اور طرح طرح کی باتیں اور الزام لگاتے تھے اس لئے ان کا ذبّ ضروری تھا ان پر سخت الزام تھے اور اب تک وہی چلے آتے ہیں.سو خدا نے وہی (الزام) اتارے.دوسروں (نبیوں ) پر اس قدر الزام نہ تھے اس لئے ان کے ایسے ذکر کی ضرورت نہ تھی.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی کا خاصہ ہے کہ جیسے جیسے یہ بہت پیچھے پڑے ہیں اس طرف سے بہت باتیں نکلتی آتی ہیں.لوگ کہا کرتے ہیں کہ ’’فقیراں دی بد دعا لگ جاندی ہے‘‘ اسی طرح عیسٰی کی بددعا ان کو لگ گئی جو وہ دیا کرتے تھے کہ تم بے ایمان ہو.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب بات انتہا تک پہنچ جاتی ہے تو بے ایمانوں سے جواب تو بن نہیں آتا اس لئے آخر خاموش ہو کر پیچھا چھوڑا تے ہیں.اندرونی مخالفوں کا ذکر پھر اندرونی مخالفوں کی حالت پر فرمایا کہ اگر یہ کوئی تحریر نہیں کرتے تو دس بارہ آدمی مل کر آویں کہ ہمیں حق کی طلب ہے اور آدمیت کی بحث کریں جس میں چند ایک منصف مزاج بھی موجود ہوں اور تمام باتوں پر سنجیدگی سے غور کریں کہ حقیقت کھل جاوے مگر یہ لوگ ایسی بات کبھی نہیں چاہتے.دراصل یہ لوگ اب سرد ہو گئے ہیں اپنی حفاظتوں کو مقدم رکھ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ کوئی ان (مرزائیوں)
سے نہ ملے ان کو جانے دو.پھر مولوی غلام قادر صاحب بھیروی کے ذکر اذکار دیگر احباب کرتے رہے کہ وہ وہابیوں کے سخت دشمن ہیں بلکہ ایک دفعہ میاں نجم الدین نے جب آپ کی بیعت کی تو اس نے طعنہ مارا کہ دیکھو تم نے وہی بات مانی جو ہم منواتے تھے اور اس نے حضور کی مخالفت میں کبھی نہ قلم اٹھایا نہ زبان کھولی بلکہ وہ اس سلسلہ کو اس لئے پسند کرتا ہے کہ وہابیوں کی خوب خبر لی.پیشہ وروں کی ناز نمائی پر فرمایا کہ یہ لوگ ناز نمائی بغیر رہ نہیں سکتے، ضرور کرتے ہیں.(بوقتِ مغرب) وَسِّعْ مَکَانَکَ اذان سے پیشتر ہی حضرت اقدس بالائی مسجد میں تشریف لے آئے اور جس مکان کی خرید کے متعلق حضور نے کشتی نوح میں اشتہار دیا ہے اس کا ذکر کرتے رہے کہ توسیع مکان کی بہت ضرورت ہے جہاں تک ہو سکے جلدی فیصلہ کرنا چاہیے.پھر اذان ہوئی اور نماز ادا کر کے حضرت اقدسؑ حسبِ معمول شہ نشین پر جلوہ افروز ہوئے.ایک خط اخبارِ عام کے کار پردازوں کی طرف سے حضرت اقدس کی خدمت میں آیا تھا جس کا راقم ایک شخص رحمت مسیح نامی بٹالہ سے تھا.اس خط میں لکھا تھا کہ قادیان میں سخت طاعون پھوٹی ہے دھڑا دھڑ لوگ مَر رہے ہیں.مرزا صاحب کی جماعت بھی بہت طاعون سے تباہ ہو چکی ہے خود مرزا صاحب بھی مبتلائے طاعون ہیں وغیرہ وغیرہ.اخبار عام نے اس خط کو بجنسہٖ حضرت اقدسؑ کے پاس تصدیق کے لئے روانہ کر دیا تھا.اس کا ذکر حضرت اقدس نے کیا.راقم خط کے متعلق کہا کہ حُسنِ ظنی بعض لوگ شریر فتنہ پر دازی سے ایسا کرتے ہیں کہ ایک خط لکھ کر دوسرے مخالف کا نام اس پر لکھ دیا کرتے ہیں اس لئے کیا معلوم کہ کس کا لکھا ہوا ہے.میں نے اخبارِ عام
کو لکھ دیا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے صرف چند ایک اموات چوڑھوں میں ہوئی ہیں سو ان کا باعث بھی مشکوک ہے.کچھ ڈنگر مَرے تھے وہ چوڑھوں نے کھائے پھر جن لوگوں نے ان کو کھایا وہی مَرے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ طاعون سے مَرے.آخرین کا اخلاص پھر تین صاحبوں نے حضرت اقدس سے بیعت کی جس میں ایک صاحب سید اختر الدین احمد ساکن کٹک بنگال بھی تھے.مولوی عبد الکریم صاحب نے احمد حسین صاحب آمدہ از کٹک کی طرف سے ایک کرنسی نوٹ او ر کچھ زیورات حضرت کی خدمت میں پیش کئے.زیورات ان صاحب کی اہلیہ مرحومہ کی طرف سے تھے کہ جس کی وصیت تھی کہ یہ خاص حضرت اقدس کی خدمت میں دینی خدمت کے لئے دیئے جاویں حضرت اقدس نے ان کے اخلاق کی تعریف کی اور فرمایا کہ خدا ان کو اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ میں ملاوے.۱
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا مقام صحابہ کرام کے ذکر پر فرمایا کہ شیعہ سبّ و شتم تو کرتے ہیں مگر ان (صحابہؓ ) کا کام دیکھو کہ جیسے خدا کی مرضی تھی ویسے ہی اسلام کو پھیلا کر دکھا دیا.خوب جانتے تھے کہ بیویاں مَریں گی، بچے ذبح ہوں گے اور ہر ایک قسم کی تکلیف شدید ہو گی مگر پھر بھی خداکے کام سے منہ نہ پھیرا.یہی فقرہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک جماعت وہ ہے کہ اپنا نحب (ذمہ)ادا کر چکے ہیں جیسے مِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ (الاحزاب : ۲۴) کیسا سرٹیفکیٹ ہے کہ بعض نے میری راہ پر جان دی.ایک جان وہ ہے جس پر عیسائی بھڑک رہے ہیں اور پیچھے سے معلوم ہوا کہ وہ بھی نہیں دی گئی.استغفار کی حقیقت ہم نے تحقیق کر لی ہے کہ استغفار کے یہ معنے ہیں کہ انسانی قویٰ جو کرتوت کر رہے ہیں ان کا افراط اور تفریط یعنی بے محل استعمال نافرمانی ہوتا ہے تو خدا کا لُطف و کرم مانگنا کہ تو رحم کر اور ان کے استعمال کی افراط تفریط سے محفوظ رکھ یعنی اﷲ تعالیٰ سے امداد طلب کرنی ہے.مسیحؑبھی خدا کی مدد کے محتاج تھے اگر کوئی اس طرح نہیں سمجھتا تو وہ مسلمان نہیں.بڑا فنا فی اﷲ وہ ہے جو کہ ہر آن میں خدا کی امداد چاہتا ہے جیسے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتـحۃ : ۵).پھر مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے اپی فینی ایک انگریزی عیسائی پرچہ میں سے حضرت اقدس کو ایک مضمون سنایا جو کہ ایک مسلمان کی قلم سے استغفار کے متعلق نکلا ہوا تھا جس میں اس نے اپنی نادانی سے ایک عیسائی کو یہ جواب دیا تھا کہ استغفار کا حکم آنحضرت کی طرف منسوب نہیں ہے بلکہ اس سے اُمّت مقصود ہے کہ آپ کی اُمت استغفار کرے.اس مضمون پر اس عیسائی پرچہ کے ایڈیٹر نے اس پر اعتراض کیا ہوا تھا کہ اگر یہ حکم رسول اﷲؐ کو اس لئے ہوا کہ اُمّت کو تعلیم دیں تو اُمّت کے روبرو پڑھ کر سنا دینا کافی تھا مگر ایک دن میں ستّر ستّر اور سو سوبار استغفار کرنے اور پھر تنہائی میں کرنے سے کیا فائدہ تھا؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ لوگ نادانی سے نہیں سمجھتے.اس مسلمان شخص نے تو خود عیسائیوں کو اعتراض کاموقع دے دیا ہے
ور یہ اس کی کم فہمی ہے کہ اس نے خود استغفار کامطلب نہیں سمجھا (اس سے مُراد تو ترقی مراتب ہے).پھر ایک اور مسلمان کامضمون اسی پرچہ میں سے سنایا جس نے لفظ ذَنب کے متعلق لکھا ہوا تھا اور حضرت اقدسؑ کے مضمون مندرجہ انگریزی میگزین میں سے اس کا جواب اقتباس شدہ تھا.اس شخص نے اپنے جواب میں انگریزی میگزین کا حوالہ بھی دے دیا تھا.اس سے حضرت اقدس بہت خوش ہوئے کیونکہ اس ترتیب سے علاوہ جواب معقول ہونے کے اس سلسلہ کی یہ تائید ہوئی کہ تیرہ چودہ ہزار آدمیوں میں میگزین کا اشتہار ہو گیا جن کے پاس یہ عیسائی پرچہ جاتا ہے.بپتسمہ کا ظاہر اور حقیقت پھر عیسائیوں کے بپتسمہ دینے کے وقت جو پانی وغیرہ چھڑکا جاتا ہے اور بعض ان کے فرقہ اس وقت نئے دیندار کو ایک چھوٹے سے حوض میں دھکا دے دیتے ہیں اس کے ذکر پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ پانی کا لحاظ تو ہر ایک نے رکھا ہے ان لوگوں نے تالاب وغیرہ رکھا ہے اور قرآن نے گریہ وبکا کا پانی رکھا ہے.وہ ظاہر پر گئے ہیں اور قرآن شریف حقیقت پر گیا ہے جیسے تَرٰۤى اَعْيُنَهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ (المائدۃ : ۸۴).عیسائیت اور شریعت عیسائی پرچہ اپی فینی میں قرآن کریم پر شریعت کے متعلق حملہ ہوا ہوا تھا اور اس کے مقابل پر انجیل کو مبارک بتلایا ہوا تھا جس نے شریعت کو لعنت کہا ہے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ جب ان میں شریعت کوئی نہیں ہے تو اگر ان کو کہا جاوے کہ نجاست کھائو تو کھا سکتے ہیں اور ماں کے ساتھ زنا کریں تو کر سکتے ہیں پھر تعجب ہے کہ یہ لوگ کپڑا کیوں پہنتے ہیں.کیونکہ ان کو مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے.برائے نام گناہ گناہ کرتے ہیں اور اصل میں چاہتے ہیں کہ ہر ایک گناہ کو چالاکی سے ہضم کر لیں جب ہر ایک قسم کی بدکاری کرنے پر وہ تیار ہیں تو پھر گناہ کیا شَے ہے اگر باکرہ ہمشیرہ یا لڑکی کو نکاح میں لاویں تو وہ حرام نہیں ہے اگر کہیں کہ سابقہ کتب میں حرام ہے تو وہ ان کے نزدیک منسوخ ہیں.
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی جنگیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں پر فرمایا کہ وہ تو جائز طور پر جن کو مارنا تھا مار چکے مگر ان لوگوں (عیسائیوں) نے لاکھوں خون نا جائز طور پر کئے (عیسائی مذہبی جنگوں سے پتہ لگتا ہے کہ کس قدر خون ناحق ہوئے ہیں.)۱ اسلامی جنگیں بالکل دفاعی لڑائیاں تھیں جب کفار کی تکالیف اور شرارتیں حد سے گذر گئیں تو خدا نے ان کے سزا دینے کے لئے یہ حکم دیا مگر عیسائیوں نے جو مختلف اوقات میں مذہب کے نام سے لڑائیاں کی ہیں ان کے پاس خدا تعالیٰ کی کونسی دستاویز اور حکم تھا جس کے رو سے وہ لڑے تھے.ان کو تو ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دینے کا حکم تھا.۲ عُسر اور یُسر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خُلقِ عظیم انسان کا خُلق اس کی فتح اور کامیابی کے متعلق ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ صبر و غیرہ اَخلاقِ فاضلہ مصیبت اور بلا کے وقت دکھلاتا ہے وہی فتح اور اقبال کے وقت دکھلاوے.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں قسم کے وقتوں پر اخلاق دکھلانے کاموقع ملا جو خُلقِ عظیم تنگی اور بلا کے وقت آپ مکہ میں دکھلاتے تھے وہی آپ نے بادشاہ ہو کر دکھلایا.حضرت مسیحؑ کا کوئی اخلاقی شعبہ خلق کا دکھلائو وہ اس سے بالکل فارغ ہیں بلا ثبوت توجوگی بھی مدّعی ہوسکتے ہیں کہ ہم نے نفس کو مارا ہوا ہے.ستر بی بی ازبے چادری! مسیح نے تو امام حسین علیہ السلام جتنا حوصلہ بھی نہ دکھلایا کیونکہ ان کو مفرّ کی گنجائش تھی اگر چاہتے تو جاسکتے تھے مگر جگہ سے نہ ہلے اور سینہ سپر ہو کر جان دی اور مسیح کو تو مفرّ ہی کوئی نہ تھا یہودیوں کی قید میں تھے حوصلہ کیا دکھلاتے.۳
۲۲ ؍اکتوبر ۱۹۰۲ء بروز چہار شنبہ(بوقتِ سیر) حضرت اقدس حسب معمول سیر کے لئے تشریف لائے اور مشرقی جانب آپ نے چلنے کا حکم دیا فرمایا کہ اس طرف جنگل ہے اِدھر ہی چلئے.جلد جنگل میں نکل جاتے ہیں.انبیاء کی پیشگوئیوں کا امتیاز نزول المسیح کے متعلق مفتی محمد صادق صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ پیشگوئی کا جس قدر تکرار ہوگا وہ ایک نیا نشان ہوگا.خدا کا عمیق علم اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جن باتوں کا وجود بھی نہیں ہوگا.ان کی قبل از وقت خبر دیتا ہے اس کا علم غَیبوبیّت سے پتہ لگتاہے کیونکہ طاقتوں اور قدرتوں کے ساتھ بھرا ہوا ہوتا ہے اس علم میں غیب بھی ہوتا ہے اور طاقت بھی.نجومی جھوٹا ہوتا ہے اس کے ساتھ طاقت نہیں ہوتی.انبیاء کی خبروں میں طاقت بھی ہوتی ہے جیسے دشمن کا ادبار اور اپنا اقبال، دشمن کو شکست اور اپنی فتح.جو اسے نجومی کے ساتھ ملاتے ہیں وہ دھوکا کھاتے ہیں کیونکہ اس میں صراحت ہوتی ہے کہ وہ (نبی)ایسا وجود ہے کہ دشمن کو پامال کرنا چاہتا ہے یہ چھیڑ چھاڑ جو عیسائیوں (کے اعتراضوں) کی ہوئی ہے آخرکسی حدتک بڑھتی جاوے گی مگر آخر کار فیصلہ ہوگا.خدا تو ایک دَم میں فیصلہ کر سکتا ہے مگر وہ تماشہ دیکھنا چاہتا ہے زمین میں کشمکش رہتی ہے مگر آخر کار فرشتہ آکر ہاتھ مارتا ہے تو فیصلہ ہو جاتا ہے.۱ ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی پھر ڈوئی کا ذکر ہوا کہ اسے اس ماہ کے آخر میں ہمارا رسالہ مل جاوے گا فرمایا کہ معلوم نہیں کہ ذکر کرے (اخبار میں) یا چُپ رہے.اس کے چُپ رہنے سے معلوم ہوگا کہ یہ
جسے خدا بنارہا ہے تو اسے کچھ جرأت بھی ہے کہ نہیں.اگر ذکر نہ کیا تو معلوم ہو گا اس عقیدہ میں اسے خود کھٹکا ہے.جس جگہ اس نے ہاتھ ڈالا ہے اس کا اسے خود علم نہیں.جو توحید پر نہیں ہوتا اسے اس کا قلب خود جھوٹا ثابت کرتا ہے.ان لوگوں نے ہزاروں بحثیں کیں اور جلسہ بھی کئے مگر اب تک کوئی ایسی خصوصیت ثابت نہ کرسکے کہ حضرت مسیح کو انسان سے بر تر کچھ خصوصیت ہے کہ نہیں.ٹھاکر داس نے یہ بھی مان لیا ہے کہ انجیل کتب سابقہ کاخلاصہ ہے کوئی نئی نہیں ہے.مسیح صرف مصلوب ہونے کو آیا تھا.ڈوئی کے نزدیک انسان حقہ، شراب اور سؤر کھانے سے تو کافر ہوجاتا ہے مگر انسان کو خدا بنانے سے نہیں ہوتا.اور مشرک تو مثل چوہوں کے ہیں ان سے نفرت کرتا ہے اور جوبڑا بھاری شرک ہاتھی کی مثال ہے اسے قبول کیا ہوا ہے.قوم کو چونکہ اس شرک میں بہت ہی گرفتاردیکھا اس لئے دلیری نہ کر سکا کہ ان کی مخالفت کر ے ( مسیح کو خدامانتے ہیں ).پگٹ پگٹ کے ذکر پرفرمایاکہ لوگ بہت ہی گھبرائے ہوئے ہیں کہ آخر گھبرا گھبرا کر مسیح کو منگوارہے ہیں.ڈوئی و پگٹکے دعاوی کی اشاعت پر فرمایا کہ ان کی شہرت کاباعث اخبار ہوتے ہیں ان کے مقابلہ میں پنجاب کے اخبار تو گویا برائے نام ہیں وہاں تو ایک دن میں لاکھوںکو خبر ہوجاتی ہے.ڈوئی کی نسبت اگر ہمارے مقابلہ پر پگٹ آوے تو بہت اثر ہوگا.دجّال ایک گروہ کانام ہے اور مسیح سیاحت کرنے والے کو کہتے ہیں.ان لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا کہ خدا کی کتابوں کو توڑ مر وڑکر اپنے منشا کے مطابق بنا لیا اور پھر فلسفہ کے رنگ میں خدائی کادعویٰ کیا.ان کی مثال ایسی ہے کہ ایک شاگر د استاد سے پڑھ رہا تھا سبق میں مثال آئی ضَـرَبَ زَیْدٌ عَـمْرًوا شاگرد نے استاد سے پوچھا کہ زید نے عمرو کو کیوں مارا؟ استاد نے کہا صرف ایک مثال ہے.شاگرد نے کہا کہ نہیں یہ تواصل واقعہ ہے سبب بتلائیے کہ مار کی نوبت کیوں پہنچی؟ آخر استادنے دیکھا کہ یہ پیچھا نہیں چھوڑتا اس لئے کہا کہ اب مجھے سبب مار کا یاد آگیا کہ عَـمرو نے و کاحرف چرا لیا ہے اور اپنے
نام کے ساتھ لگا لیا ہے تب شاگرد نے کہا اب ٹھیک ہے باعث تو معلوم ہوگیا.پگٹ کو ضرور چٹھی لکھنی چاہیے اگر مقابلہ کرے تو خوب اثر ہو گا اور لوگ بھی توجہ کریں گے.مفتی صاحب نے کہا کہ چٹھی لکھ دی ہوئی ہے.حضرت اقدس نے فرمایاکہ بہ نسبت امریکہ کے ولایت والوں کو ہم سے بہت واسطہ ہے.اس کا اگر مقابلہ ہواوروہ لکھا جاوے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی نشان ظاہر کردے.ڈوئی نے توکم مرتبہ اختیار کیا ہے مثل غلاموں کے.اگر وہ ( پگٹ ) ذرہ دلیر بنے تو یہ (ڈوئی ) قابو آیا ہو اہے کیونکہ وہ اس کی مقررہ میعاد کے اندر آگیا ہے.کہہ دیوے کہ مسیح پانی کی طرح پگھل کر آسمان سے آیا ہے اور میرے اندر رچ گیا ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ دجّال کے متعلق جب سوال ہوا کہ وہ کیا ایسے اعلیٰ درجہ والاہوگا کہ چاند سورج سب پر اختیار پاوے گا اور مُردہ زندہ کرے گا؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ جھوٹ ہے اسے رَتی بھر اختیار نہ ہو گا صرف مکر اور حیلہ ہی ہوگا.ڈوئی نے ایک بات عجیب کی ہے کہ معجزات مسیح کی مٹی پلید کر دی.سلبِ امراض کے معجزہ ہی مسیح کی نسبت ان کے ہاتھ میں تھے ویسے ہی ڈوئی بھی کرتا ہے اور جب کوئی اعتراض کر ے کہ تمہاری لڑکی اچھی نہ ہوئی توجواب دیتا ہے کہ مسیح سے بھی فلاں فلاں مریض اچھا نہ ہوا.کیسے منحوس معجزے تھے کہ جو شخص ان کے نزدیک کافر ہے وہ بھی وہ معجزے دکھلاسکتا ہے حالانکہ موسیٰ کی طرح نہ اس نے سوٹے کا سانپ بنایااور نہ کچھ اور.بس یہی ا ستدلال کافی ہے کہ زہے خدائی ایک کافر نے بھی وہ بات کر کے دکھادی.سلبِ امراض کوئی شَے نہیں ہے یہودی بھی کرسکتے ہیں اور فاسق فاجر جو خدا کی راہ سے غافل ہیں وہ بھی کر سکتا ہے.ڈوئی سے پوچھا جاوے کہ مسیح کے معجزات تو وہی ہیں جو تو کر رہا ہے او رتو ان لوگوں کے نزدیک کافر ہے اب بتلا کہ مسیح کے وہ معجزات کونسے ہیں جو اس کی خدائی پر دلیل ہیں؟ آنحضرتؐکے زمانہ میں ایرانی لوگ مشرک تھے اور قیصرِ روم جو کہ عیسائی تھا دراصل موحّد تھا اور مسیح کو ابن اللہ نہیں مانتا تھا.اور جب اس کے سامنے مسیح کا وہ ذکر جو قرآن میں درج ہے پیش کیا گیا تو
اس نے کہا کہ میرے نزدیک مسیح کادرجہ اس سے ذرہ بھی زیادہ نہیں جو قرآن نے بتلایا ہے.حدیث میں بھی اس کی گواہی بخاری میں موجود ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ وہی کلام ہے جو کہ توریت میں ہے اور اس کی حیثیت نبوت سے بڑھ کر نہیں ہے.اسی پر یہ آیت نازل ہوئی کہ الٓمّٓ.غُلِبَتِ الرُّوْمُ.فِيْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ.فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ١ؕ۬ لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْۢ بَعْدُ١ؕ وَ يَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ( الرّوم :۲تا ۵ ) یعنی روم اب مغلوب ہوگیا ہے مگر تھوڑے عرصہ میں ( ۹ سال میں ) پھر غالب ہوگا.عیسائی لوگ نہایت شرارت سے کہتے ہیں کہ آنحضرتؐنے دونوں طاقتوں کااندازہ کرلیاتھا اور پھر فراست سے یہ پیشگوئی کردی تھی.مسیحؑکاسلب ِ امراض کا معجزہ ہم کہتے ہیںکہ اسی طرح مسیح بھی بیماروں کو دیکھ کر اندازہ کر لیا کرتا تھا جو اچھے ہونے کے قابل نظر آتے تھے ان کا سلبِ امراض کر دیتا.اس طرح توسارے معجزات ان کے ہاتھ سے جاتے ہیں.يَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ.اس دن مومنوں کو دو خوشیاں ہوں گی ایک تو جنگِ بدر کی فتح دوسرے روم والی پیشگوئی کے پورا ہونے کی.منتر جنتر بھی سلبِ امراض ہی ہے مگر بڑا خبیث کام ہے اس لیے اسلام میں اس کی بجائے خدا پر توقع رکھا گیا ہے اور صرف روحانی امراض کے لئے سلب رکھا گیا ہے جیسے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشّمس:۱۰).حضرت مسیح تو روحانی امراض کاسلب نہ کر سکے اس لیے گالیاں دئیے چلے گئے اور آنحضرتؐکے سلب ِامراض کا نمونہ صحابہؓ ہیں.۱
صحابہؓ کا مقام اور شیعوں پرحجّت اس طرح آزمائش کرو کہ خدااور رسول کی راہ میں کس نے صدق دکھلایا.آپس کی رنجشیںخانگی امور ہوتے ہیں ان کا اثر ان پر نہیں پڑ سکتا خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ نَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيْنَ (الـحجر : ۴۸) یہ ایک پیشگوئی ہے کہ آئندہ زمانہ میں آپس میں رنجشیں ہوں گی لیکن غِل ان کے سینوں میں سے کھینچ لیویں گے وہ بھائی ہوں گے تختوں پر بیٹھنے والے.اب شیعوںسے پوچھو کہ اس وقت زمانہ نبوی میں تو کوئی رنجش نہ تھی اور اگر ہوتی تو آنحضرتؐاس وقت آپس میں صلح کروا دیتے.آخر یہ بات آئندہ زمانہ میں ہونے والی تھی ورنہ اس طرح پھر آنحضرتؐپر حرف آتاہے کہ انہوں نے صلح کی کوشش توکی مگر کامیاب نہ ہوئے.یہ بات شیعہ پر بڑی دلیل ہے وہ صرف دو آدمیوں کا نام لیتے ہیں جو کہ آنحضرتؐکے بعد ہوئے.ہم کہتے ہیں کہ آیت تو پیغمبر خدا پر اتری تھی نہ علی پر اور نہ کسی اور پر.اگر کہو کہ اس وقت ہی غِل تھا تو معلوم ہوتا ہے کہ نعوذباﷲ صحابہ ایسے سخت دل تھے کہ آنحضرتؐنے بار بار کہا اور سمجھایا مگر کسی نے آپ کا کہنا نہ مانا.یہ کیوں کر ہو سکتا ہے یہ تو بڑی بے ادبی ہے.اس کا پتہ لگتا ہے کہ یہ بعد کی خبر ہے مگر خدا کے سامنے یہ کوئی شَے نہیں اسی لئے فرماتا ہے کہ تم اس پر خیال نہ کرو یہ بشریت کے اختلاف ہیں ہم ان کو بھائی بھائی بنادیویں گے خدا تعالیٰ ہی نے یہ پیشگوئی کی کہ ایسا ہو گا بعض آپس میں لڑیں گے.پھر سب سے آخر جولوگ اسلام میں داخل ہوئے تھے نیز فرمایا وہ وہی گروہ تھے کہ جنہوں نے آپؐکی صحبت نہ پائی مگر آپؐکو دیکھ لیا.ایسے لوگ تیسرے طبقہ میں ہیں اور بعض ان میں سے مرتد بھی ہو گئے تھے ان کی نسبت ہے کہ آپؐ (بروزِ قیامت) خدا تعالیٰ کو کہیں گے کہ یہ تو ایمان لائے تھے.خدا تعالیٰ کہے گا مَا تَدْرِیْ یعنی تجھ کو علم نہیں کیونکہ وہ لوگ آپؐکی صحبت میں بہت قلیل رہے تھے اور وہی تھے جو پیچھے بعض ان میں سے مرتد بھی ہو گئے اور زکوٰۃ نہ دینے کی وجہ سے قتل ہوئے تھے.اہلِ اسلام خود اس قسم کے مرتد مانتے ہیں جو صحابہ کہلاتے تھے.مگر
یہ تو قرآن ہے جو بتلاتا ہے جو آپس میں موحّدین ہوں گے ان میں بھی تفرقہ ہو گا.ایک وہ موحّد تھے جنہوں نے کم وقت پایا اور پھر ان کی نسبت قرآن شریف نے کہا ہے قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا (الـحجرات : ۱۵) یعنی ہم نے مقابلہ چھوڑ دیا لیکن ان کے دل میں ابھی ایمان داخل نہیں ہوا انہی کی طرف اشارہ ہے وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا (النّصـر : ۳) کجا صحابہ کی شان اور کجا یہ لوگ.ایک گروہ جان دے چکا خدا نے روح القدس سے اس کی تائید کی.بعض وقت غیر محل پر ذکر کرنے سے ایک عالِم بھی گھبرا جاتا ہے جیسے اگر کوئی شیعہ کہے کہ کون ہے تو خدا نے بتلا دیا کہ یہ لوگ جو پیچھے آئے تھے اور داخلِ اسلام ہوئے تھے.اَلدَّار کی توسیع (مغرب و عشاء) مجوّزہ مکان کی تعمیر کے واسطے میر صاحب کو ارشاد فرمایا کہ لکڑی کا بندوبست بہت جلد کرنا چاہیے اور مولوی عبدالکریم صاحب کو تاکید کی کہ احباب کی توجہ چندہ کی طرف مائل کرنی چاہیے اور تاکید کرنی چاہیے کیونکہ یہ کام بِلا چندہ کے نہیں ہو سکتا.(اس مکان کے جلد تعمیر کرنے کی علّت ِغائی یہ ہے کہ توسیع مکان ہو جاوے گی تو زیادہ احباب اس میں رہ سکیں گے اور خصوصیت کے ساتھ جو الہام اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ ہے وہ تمام اس خاص حفاظت سے حصہ گیر ہو سکیں گے) مولوی محمد علی صاحب نے ایک خط حامد سنو صاحب (ایک نو مسلم انگریز) کا پڑھ کر سنایا.اس میں راقم نے اس اَمر پر تعجب کیا ہوا تھا کہ میگزین کی انگریزی محمد علی صاحب کی ہوتی ہے اور نیز راقم نے ایک کتاب تصنیف کی تھی اس کے متعلق بیان تھا کہ اگر اجازت ہو تو وہ حضرت اقدس کے نام مبارک پر طبع کی جاوے.حضرت اقدس نے کہا کہ اوّل وہ کتاب آجاوے دیکھ کر پھر رائے قائم کی جاوے گی.اور اسی پر حضرت اقدسؑ نے یہ بھی تجویز فرمایا کہ
ایک اہم ارشاد اپنے عقائد کی ایک مختصر فہرست چھاپ دی جاوے کہ عقیدہ کے ہر پہلو کا اس میں بیان ہو معجزات.فرشتہ.وحی.حیات ووفاتِ مسیح وغیرہ تاکہ جب کسی کو اپنے عقائد کے متعلق اطلاع دینی ہو تو جھٹ وہ روانہ کر دی.میر ناصر نواب صاحب کی تائید پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ مولوی محمد علی صاحب کا ایسی عمدہ انگریزی لکھنا ایک خوارقِ عادت اَمر ہے چنانچہ انگریزوں نے بھی خیال کیا ہے کہ ہم نے کوئی یورپین رکھا ہوا ہے جو کہ انگریزی رسالہ لکھتا ہے.مولوی محمد علی صاحب نے بیان کیا کہ یہ خدا کا فضل ہی ہے ورنہ اس سلسلہ سے پیشتر میرا ایک حرف تک کبھی شائع نہیں.(اَللّٰھُمَّ زِدْ فَزِدْ) گناہ کی تعریف مفتی محمد صادق صاحب حسب الارشاد حضرت اقدس ایک عیسائی کتاب سے گناہ کی حقیقت سناتے رہے اس کتاب میں ایک جگہ گناہ کی تعریف یہ لکھی تھی کہ جو اَمر کانشنس یا شریعت کے خلاف ہو وہ گناہ ہے.حضرت اقدسؑ نے فرمایا.قرآن شریف میں بھی ہے لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْۤ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ(الملک: ۱۱) یعنی اگر ہم شریعت پر چلتے یا کانشنس پر ہی عمل کرتے تو اصحابُ السَّعیر سے نہ ہوتے.موسیٰ پر الزام مُکّا مارنے کا جو عیسائی لگاتے ہیں اس کی نسبت فرمایا کہ وہ گناہ نہیں تھا ان کا ایک اسرائیلی بھائی نیچے دبا ہوا تھا طبعی جوش سے انہوں نے ایک مُکّا مارا وہ مَر گیا جیسے اپنی جان بچانے کے لئے اگر کوئی خون بھی کر دیوے تو وہ جرم نہیں ہوتا.موسٰی کا قول قرآن شریف میں ہےمِنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ (القصص : ۱۵) یعنی قبطی نے اس اسرائیلی کو عمل شیطان (فاسد ارادہ )سے دبایا ہوا تھا.پھر اس کتاب میں خود غرضی کو گناہ کہا تھا حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہر ایک خود غرضی گناہ میں داخل نہیں ہے جیسے کھانا پینا وغیرہ جب تک کہ وہ خلافِ کانشنس یا
شریعت نہ ہو.جب خدا کے حکم کو توڑ کر کوئی شہوات کی خواہش کرے تو گناہ ہے اور جو (اشارہ مسیح) اپنے نفس کے لئے نجات چاہتا ہے یہ خود غرضی ہے کہ نہیں؟ مسیح کے گناہ اٹھانے پر فرمایا کہ اس نے تمام کے گناہ اُٹھا کر پھر گناہ کیا کہ اس کو معلوم تھا کہ دعا قبول نہ ہوگی مگر پھر بھی کرتا ہی رہا.۱ ۲۳؍اکتوبر ۱۹۰۲ء (صبح کی سیر) قرآن کریم کا مقام اس سلسلہ مضمون میں فرمایا کہ مسلمانوں میں قرآن کی عظمت نہیں رہی.شیعہ ہیں وہ آئمہ کے اقوال کو مقدم کرتے ہیں اور دوسرے فریق حدیثوں کے ظنی سلسلہ کو قرآن پر قاضی بناتے ہیں.اسی ذکر میں عبد اﷲ چکڑالوی اور محمد حسین کی بحث کا ذکر آگیا فرمایا.چکڑالوی نے تفریط کی ہے اور حدیث کو بالکل لا شَے سمجھا اور محمد حسین افراط کی طرف گیا ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کو لا شَے سمجھتاہے.کتابُ اﷲ،سنّت اور حدیث پھر آپ نے واضح اور بیّن طور پر اس مضمون پر کلام کیا کہ ہمارے نزدیک تین چیزیں ہیں ایک کتاب اﷲ دوسرے سنّت یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور تیسرے حدیث.ہمارے مخالفوں نے دھوکا کھایا ہے کہ سنّت اور حدیث کو باہم ملایا ہے.ہمارا مذہب حدیث کے متعلق یہی ہے کہ جب تک وہ قرآن اور سنّت کے صریح مخالف اور معارض نہ ہو اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے خواہ وہ محدّثین کے نزدیک ضعیف سے ضعیف کیوں نہ ہو جب کہ ہم اپنی زبان میں دعائیں کر لیتے ہیں تو کیوں حدیث میں آئی ہوئی دعائیں نہ کریں جب کہ وہ قرآن شریف کے مخالف بھی نہیں.قرآن شریف پر حدیث کو قاضی بنانا سخت غلطی ہے اور قرآن شریف کی بے ادبی ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کے سامنے ایک بڑھیا نے حدیث پیش کی تو انہوں نے یہی کہا کہ میں ایک بڑھیا کے لئے قرآن نہیں چھوڑ سکتا.ایسا ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے کسی نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے ماتم کرنے سے مُردہ کو تکلیف ہوتی ہے تو انہوں نے یہی کہا کہ قرآن میں تو آیا ہے لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى(الانعام : ۱۶۵) پس قرآن پر حدیث کو قاضی بنانے میں اہلِ حدیث نے سخت غلطی کھائی.اصل بات یہ ہے کہ اپنی موٹی عقل کی وجہ سے اگر کوئی چیز قرآن میں نہ ملے تو اس کو سنّت میں دیکھو اور پھر تعجب کی بات یہ ہے کہ جن باتوں میں ان لوگوں نے قرآن کی مخالفت کی ہے خود ان میں اختلاف ہے ان کی افراط تفریط نے ہم کو سیدھی اور اصل راہ دکھا دی جیسے یہودیوں اور عیسائیوں کی افراط اور تفریط نے اسلام بھیج دیا.پس حق بات یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنّت کے ذریعہ تو اتر دکھا دیا ہے اور حدیث ایک تاریخ ہے اس کو عزت دینی چاہیے.سنّت کا آئینہ حدیث ہے.یقین پر ظن کبھی قاضی نہیں ہوتا کیونکہ ظن میں احتمال کذب کا ہے.امام اعظم رحمۃاﷲعلیہ کامسلک قابلِ قدر ہے انہوں نے قرآن کو مقدّم رکھا ہے.نزول اور ختمِ نبوت کی حقیقت احادیث میں مسیح موعود کے لئے نُزُوْلٌ مِّنَ السَّمَاءِ نہیں لکھا نزول کا لفظ ہے اور یہ اظلالی معنی رکھتا ہے نہ کہ حقیقی.نزیل لغت میں مسافر کو کہتے ہیں کیا وہ آسمان سے اتر تا ہے بہر حال قرآن ہر میدان میں فتح یاب ہے.آپؐکو خاتم الانبیاء ٹھہرایا اور اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ کہہ کر مسیح موعود کو اپنا بروز بتا دیا ہے.معراج ایک کشف تھا بعض لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات اسی جسم کے ساتھ آسمان پر گئے ہیں مگر وہ نہیں دیکھتے کہ قرآن شریف اس کو ردّ کرتا ہے اور حضرت عائشہؓ بھی رؤیا کہتی ہیں.حقیقت میں معراج ایک کشف تھا جو بڑا عظیم الشان اور صاف کشف تھا اور اتم اور اکمل تھا
کشف میں اس جسم کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ کشف میں جو جسم دیا جاتا ہے اس میں کسی قسم کا حجاب نہیں ہوتا بلکہ بڑی بڑی طاقتیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں اور آپؐکو اسی جسم کے ساتھ جو بڑی طاقتوں والا ہوتا ہے معراج ہوا.پھر آپ نے ا س اَمر کی تائید میں چند آیات سے استدلال کیا کہ جسم آسمان پر نہیں جاتا.یہ باتیں قریباً پہلے ہم بارہا درج کر چکے ہیں بخوفِ طوالت اعادہ نہیں کرتے.مسیح کی پیدائش اور خارقِ عادت اُمور مسیح کی پیدائش کے ذکر پر فرمایا کہ خدا کی سنّت دو طرح پر ہوتی ہے ایک کثرتی جیسے عموماً عورت سے دودھ نکلتا ہے مگر بعض اوقات نر سے بھی نکلا کرتا ہے ایسے واقعات دنیا میں ہوئے ہیں.یہ قلیل الوقوع واقعات خارقِ عادت کہے جاتے ہیں.۱ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۲ء (دربارِ شام) برادر مکرم محمد یوسف صاحب اپیل نویس نے اپنے گائوں میں بعض لوگوں کی شرارت کے رفع کرنے کے واسطے بعض احباب کو حضرت اقدس کے ایما سے لے جانا چاہا.اس کی تجویز ہوئی کہ مولوی عبد اﷲ صاحب اور مولوی سرور شاہ صاحب کو بھیجا جاوے.مسیح کی عصمت پھر مفتی محمد صادق صاحب نے رسالہ بے گناہی مسیح سنایا.اس کے ضمن میں مندجہ ذیل نکات آپ نے بیان فرمائے.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کے اسماء مفعول کے لفظ میں نہیں جیسے قدوس تو ہے مگر معصوم نہیں لکھا کیونکہ پھر بچانے والا اور ہوگا.اس پر مولوی نور الدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور وجودیوں سے جب کبھی مجھے کلام کرنے کاموقع ملا ہے میں نے یہی کہا ہے خدا کا نام موجودنہیں لکھا کیونکہ موجود بمعنی مدرک ہے اور خدا تعالیٰ
کی شان ہے لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ (الانعام : ۱۰۴) اور پھر یہ لفظ خدا تعالیٰ کی نسبت صحابہ میں بھی نہیں بولا گیا.فرمایا.جیسے مسیح پر کفر کا فتویٰ لگا کر ان کو صلیب پر چڑھایا گیا ایسا واقعہ کسی نبی کے ساتھ نہیں ہوا.گناہ کا کمال کفر پر جاکرہوتا ہے اور مسیح پر یہودیوں نے کفر کا فتویٰ لگایا (ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفوں نے برخلاف اس کے آپ کو الامین اور المامون کہا.مسیح کے مخالفوں کا ان کی نسبت کفر کا فتویٰ دینا اور آپؐکے مخالفوں کا آپ کو الامین کہنا رُتبہ اور درجہ میں اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بڑا فرق بتاتا ہے.۱ ۲۶؍اکتوبر ۱۹۰۲ء مولوی جمال الدین صاحب ساکن سید والہ نے سوال کیا کہ حضرت زکریا علیہ السلام کی بابت جو آیا ہےکہ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ اِلَّا رَمْزًا ( اٰل عـمران : ۴۲).کیا اس سے یہ مُراد ہے کہ وہ کلام نہ کریں گے.فرمایا.اس سے یہی معلوم ہوتا ہے.لَاتَسْتَطِیْعُ نہیں کہا.معجزہ کی حقیقت سلیمان علیہ السلام کے لئے جو آیا ہے کہ لوہا نرم کر دیا اس سے کیا مُراد ہے؟ فرمایا.تدابیر مشہودہ سے الگ ہو کر جو فعل ہوتا ہے اس میں اعجازی رنگ ہوتا ہے.معجزات جن باتوں میں صادر ہوتے ہیں ان میں سے بہت سے افعال ایسے ہوتے ہیں کہ د وسرے لوگ بھی ان میںشریک ہوتے ہیں مگر نبی ان تدابیر اور اسباب سے الگ ہو کر وہی فعل کرتا ہے اس لئے وہ معجزہ ہوتا ہے اور یہی بات یہاں سلیمان کے قصہ میں ہے.
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کیا لوگ قصائد نہ کہتے تھے؟ کہتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کلام فصیح وبلیغ پیش کیا تو وہ جوڑ توڑ کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وحی سے تھا.اس لئے معجزہ تھا کہ درمیان اسباب عادیہ نہ تھے.آپ نے کوئی تعلیم نہ پائی تھی اور بدوں کوشش کے وہ کلام آپ نے پیش کیا.غرض اسی طرح پر لوہا نرم کرنے کامعجزہ ہے کہ اس میں اسباب عادیہ نہ تھے.اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے اور معنی بھی ہوں.مشکلات صعب سے بھی مُراد لوہا ہوتا ہے.وہ حضرت سلیمان پر آسان ہوگئیں.مگر اصل اعجاز کا کسی حال میں ہم انکار نہیں کرتے ورنہ اگر خدا تعالیٰ کی ان قدرتوں پر ایمان نہ ہو تو پھر خدا کو کیا مانا؟ ہم اس کو خارقِ عادت نہیں مان سکتے جو قرآن شریف کے بیان کردہ قانونِ قدرت کے خلاف ہو.مثلاً ہم احیاءِ موتٰی حقیقی کا کیوں انکار کرتے ہیں؟ اس لئے کہ قرآن شریف نے یہ فیصلہ کر دیا ہے فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ (الزّمر : ۴۳) اسی طرح ہم نہیں مان سکتے کہ خدااپنے جیساکوئی اور خدا بھی بنالیتا ہے کیونکہ یہ اس کی توحید کے خلاف ہے یا یہ کہ وہ خود کشی نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی صفت حیّ و قیّوم کے خلاف ہے اسی طرح اگر کوئی کہے کہ دنیا ہمیشہ رہے گی اور یہاں ہی دوزخ بہشت ہوگا ہم نہیں مان سکتے.اس کی صفت مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ (الفاتـحۃ : ۴) کے خلاف ہے اور اس کے خلاف جا ٹھہرتا ہے فَرِيْقٌ فِي الْجَنَّةِ وَ فَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ (الشّورٰی : ۸) ایسا ہی ہم نہیں مان سکتے کہ کوئی اس جسم کے ساتھ آسمان پر بھی چڑھ سکتا ہے کیونکہ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار نے کہا کہ تو آسمان پر چڑھ جا آپ نے یہی فرمایا سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا (بنی اسـراءیل : ۹۴) ایسا ہی مُردے اگر واپس آسکتے تو چاہیے تھا کہ قرآن شریف ان کے لئے کوئی خاص قانونِ وراثت بیان کرتا اور فقہ میں کوئی باب اس کے متعلق بھی ہوتا.غرض جو اُمور قرآن شریف کے بیان کردہ قانون کے خلاف ہیں ہم ان کو تسلیم نہیں کر سکتے.قرآن کریم کا متن پوچھا گیا کہ قرآن کا جو نزول ہوا ہے وہ یہی الفاظ ہیں یا کس طرح؟ فرمایا.
یہی الفاظ ہیں اور یہی خدا کی طرف سے نازل ہوا.قراءت کا اختلاف الگ اَمر ہے.مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِيٍّ (الـحج : ۵۳) میں لَا مُـحَدَّثٍ قراءتِ شاذہ ہے اور یہ قراءت صحیح حدیث کا حکم رکھتی ہے جس طرح نبی اور رسول کی وحی محفوظ ہوتی ہے اسی طرح محدّث کی وحی بھی محفوظ ہوتی ہے جیسا کہ اس آیت سے پایا جاتا ہے.جبرائیل علیہ السلام کا نزول پوچھا گیا جبرائیل کا نزول قلب پر ہوتا تھا یا آواز آتی تھی؟ فرمایا.اس میں بحث کی کچھ ضرورت نہیں جبرائیل کا تعلق قلب ہی سے ہوتا ہے اور قرآن شریف میں یہ لفظ آیا بھی ہے مگر یہ عالم الگ ہی ہوتا ہے قرآن شریف جو تمام کتابوں اور علوم کا خاتمہ کرتا ہے اس لئے وہ بڑی اقویٰ وحی ہے اور شدت کے ساتھ اس کا نزول تھا.اسلام فطرتی مذہب ہے ایک شخص نے اپنی رؤیا سنائی جس میں یہ آیت تھی فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (الرّوم : ۳۱) فرمایا.اس کے معنی یہی ہیں کہ اسلام فطرتی مذہب ہے انسان کی بناوٹ جس مذہب کو چاہتی ہے وہ اسلام ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ اسلام میں بناوٹ نہیں ہے.اس کے تمام اصول فطرتِ انسانی کے موافق ہیں.تثلیث اور کفارہ کی طرح نہیں ہیں جو سمجھ میں نہیں آسکتے.عیسائیوں نے خود مانا ہے کہ جہاں تثلیث نہیں گئی وہاں توحید کامطالبہ ہوگا.کیونکہ فطرت کے موافق توحید ہی ہے اگر قرآن شریف نہ بھی ہوتا تب بھی انسانی فطرت توحید ہی کو مانتی.کیونکہ وہ باطنی شریعت کے موافق ہے ایسا ہی اسلام کی کل تعلیم باطنی شریعت کے موافق ہے برخلاف عیسائیوں کی تعلیم کے جو مخالف ہے.دیکھو! حال ہی میں امریکہ میں طلاق کا قانون خلافِ انجیل پاس کرنا پڑا.یہ دقّت کیوں پیش آئی اس لئے کہ انجیل کی تعلیم فطرت کے موافق نہ تھی.
مسیحؑکو صلیب پر لٹکائے جانے کے دلائل سوال کیا گیا کہ مسیح کو صلیب پر چڑھانا قرآن میں کہاں سے ثابت ہوتا ہے؟ فرمایا.وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ( النِّسآء: ۱۵۸) سے.یہ واقعہ عیسائیوں اور یہودیوں کے متواترات سے ہے قرآن شریف اس کا انکار کیوں کرنے لگا تھا.قرآن یا حدیث صحیح میں کہیں ذکر نہیں ہے کہ مسیح چھت پھاڑ کر آسمان پر چلا گیا.یہ صرف خیالی اَمر ہے کیونکہ اگر مسیح صلیب پر چڑھایا نہیں گیا اور وہ کوئی اور شخص تھا تو دو صورتوں سے خالی نہیں یا دوست ہوگا یادشمن.پہلی صورت میں مسیح نے اپنے ہاتھ سے ایک دوست کو ملعون بنایا جس لعنت سے خود بچنا چاہتا تھا اس کا نشانہ دوست کو بنایا.یہ کون شریف پسند کر سکتا ہے.پس وہ حواری تو ہو نہیں سکتا.اگر دشمن تھا تو چاہیے تھا کہ وہ دہائی دیتا اور شور مچاتا کہ میں تو فلاں شخص ہوں مجھے کیوں صلیب دیتے ہو.میری بیوی اور رشتہ داروں کو بلائو میرے فلاں اسرار ان کے ساتھ ہیں تم دریافت کر لو.غرض اس تواتر کا انکار فضول ہے اور قرآن شریف نے ہرگز اس کا انکار نہیں کیا.ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن شریف نے تکمیل صلیب کی نفی کی ہے جو لعنت کاموجب ہوتی تھی.نفس صلیب پر چڑھائے جانے کی نفی نہیں کی اس لئے مَا قَتَلُوْهُ کہا اگر یہ مطلب نہ تھا تو پھر مَا قَتَلُوْهُ کہنا فضول ہو جائے گا.یہ ان کے تواترات میں کہاں تھا؟ یہ اس لئے فرمایا کہ صلیب کے ذریعہ قتل نہیں کیا پھر مَاصَلَبُوْهُ سے اور صراحت کی اور لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ سے اور واضح کر دیا کہ وہ زندہ ہی تھا یہودیوں نے مُردہ سمجھ لیا.اگر آسمان پر اٹھایا جاتا تو خدا تعالیٰ کی قدرت پر ہنسی ہوتی کہ اصل مقصود تو بچانا تھا یہ کیا تماشا کیا کہ دوسرے آسمان سے پہلے بچاہی نہ سکا.چاہیے تھا کہ ایک یہودی کو ساتھ لے جاتے اورآسمان سے گرادیتے تا کہ ان کو معلوم ہو جاتا.
فرمایا.رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا (مریم : ۵۸)میں ان کو ماننا پڑا ہے کہ ادریس مَر گیا.صدیق حسن خان نے لکھا ہے کہ اگر حضرت ادریس کو ایسا مانیں تو پھر ان کے بھی واپس آنے کا عقیدہ رکھنا پڑتا ہے جو صحیح نہیں.تعجب ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑکے لئے توفّی موجود ہے.پھر بھی اس کی موت سے انکار کرتے ہیں.بخاری بڑا ہی مبارک آدمی تھا اس نے صاف لکھ دیا مُتَوَفِّیْکَ مُــمِیْتُکَ.اسی کے ضمن میں فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ (المآئدۃ:۱۱۸)کی تفسیر جو آپ نے بارہا کی اور ہم نے شائع کی بیان فرمائی.۱ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۰۲ء ( بوقتِ صبح کی سیر) یروشلم اور بیت المقدس سے مُراد اس تذکرہ پر کہ عیسائیوں اور یہودیوں میں پھر اس اَمر کی تحریک ہو رہی ہے کہ ارضِ مقدس کو ترکوں سے خرید کر لیا جاوے.مختلف باتوں کے دوران میں فرمایا.یروشلم سے مُراد در اصل دارالامان ہے.یروشلم کے معنی ہیں وہ سلامتی کو دیکھتا ہے یہ سنت اﷲ ہے کہ وہ پیشگوئیوں میں اصل الفاظ استعمال کرتا ہے اور اس سے مُراد اس کامفہوم اور مطلب ہوتا ہے.اسی طرح پر بیت المقدس یعنی مسجد اقصیٰ ہے ہماری اس مسجد کا نام بھی اﷲ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ رکھا ہے کیونکہ اقصیٰ یا باعتبار بُعد زمانہ کے ہوتاہے اور یا بُعد مکان کے لحاظ سے.اور اس الہام میں اَلْمَسْجِدُالْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیراتِ زمانی کو لیا ہے اور اس کی تائید وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ (الـجمعۃ : ۴) سے بھی ہوتی ہے اور بَارَکْنَا حَوْلَہٗ کا اس زمانہ کی برکات سے ثبوت ملتا ہے جیسے ریل اور جہازوں کے ذریعہ سفروں کی آسانی اور تار اور ڈاک خانہ کے ذریعہ سلسلہ رسل ورسائل کی سہولت اور ہر قسم کے آرام و آسائش قسم قسم کی کلوں کے اجراء سے ہوتے جاتے ہیں اور سلطنت بھی ایک امن کی سلطنت ہے.
بنی اسرائیل بنی اسرائیل خدا تعالیٰ کا دیا ہوا لقب ہے اسرائیل کے معنے ہیں جو خدا سے بے وفائی نہیں کرتے اس کی اطاعت اور محبت کے رشتہ میں منسلک قوم.حقیقی اور اصلی طور پر اسلام کے یہی معنی ہیں بہت سی پیشگوئیوں میں جو اسرائیل کا نام رکھا ہے.یہ قلّت ِفہم کی وجہ سے لوگوں کو سمجھ نہیں آئی ہیں.اسرائیل سے مُراد اسلام ہی ہے اور وہ پیشگوئیاں اسلام کے حق میں ہیں.اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ فرمایا.اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ الارض سے مُراد جو شام کی سرزمین ہے یہ صالحین کا ورثہ ہے اور جو اب تک مسلمانوں کے قبضہ میں ہے.خدا تعالیٰ نے يَرِثُهَا فرمایا یَـمْلِکُھَا نہیں فرمایا.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ وارث اس کے مسلمان ہی رہیں گے اور اگر یہ کسی اور کے قبضہ میں کسی وقت چلی بھی جاوے تو وہ قبضہ اس قسم کا ہوگا جیسے راہن اپنی چیز کا قبضہ مرتہن کو دے دیتا ہے یہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کی عظمت ہے.ارضِ شام چونکہ انبیاء کی سر زمین ہے اس لئے اﷲ تعالیٰ اس کی بے حُرمتی نہیں کرنا چاہتا کہ وہ غیروں کی میراث ہو.يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ (الانبیآء : ۱۰۴)فرمایا، صالحین کے معنے یہ ہیں کہ کم ازکم صلاحیت کی بنیاد پر قدم ہو.مومنوں کے مدارج مومن کی جو تقسیم قرآن شریف میں کی گئی ہے اس کے تین ہی درجے اﷲ تعالیٰ نے رکھے ہیں.ظالم.مقتصد.سابق بالخیرات.یہ ان کے مدارج ہیں ورنہ اسلام کے اندر یہ داخل ہیں.ظالم وہ ہوتا ہے کہ ابھی اس میں بہت غلطیاں اور کمزوریاں ہیں اور مقتصد وہ ہوتا ہے کہ نفس اور شیطان سے اس کی جنگ ہوتی ہے مگر کبھی یہ غالب آجاتا اور کبھی مغلوب ہوتا ہے کچھ غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور صلاحیت بھی.اور سابق بالخیرات وہ ہوتا ہے جو ان دونوں درجوں سے نکل کر مستقل طو رپر نیکیاں کرنے میں سبقت لے جاوے
اور بالکل صلاحیت ہی ہو.نفس اور شیطان کو مغلوب کر چکا ہو.قرآن شریف ان سب کو مسلمان ہی کہتا ہے.ہماری جماعت ہی کو دیکھ لو کہ وہ ایک لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ سب کی سب ہمارے مخالفوں ہی سے نکل کر بنی ہے اور ہر روز جو بیعت کرتے ہیںیہ ان میں ہی سے آتے ہیں ان میں صلاحیت اور سعادت نہ ہوتی تو یہ کس طرح نکل کر آتے.بہت سے خطوط اس قسم کی بیعت کرنے والوں کے آئے ہیں کہ پہلے میں گالیاں دیا کرتا تھا مگر اب توبہ کرتا ہوں مجھے معاف کیا جاوے.غرض صلاحیت کی بنیاد پر قدم ہو تو وہ صالحین میں داخل سمجھا جاتا ہے.مسیح کا جنازہ بعد ادائے نماز مغرب جب ہمارے سید ومولیٰؑ شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے تھے تو ڈاکٹر سید عبدالستار صاحب رعیہ نے عرض کی کہ ایک شخص منشی رحیم بخش عرضی نویس بڑا سخت مخالف تھا مگر اب تحفہ گولڑویہ پڑھ کر اس نے مسیح کی موت کا تو اعتراف کر لیا ہے اور یہ بھی مجھ سے کہا کہ مسیح کا جنازہ پڑھیں.میں نے تو یہی کہا کہ بعد استصواب و استمزاج حضرت اقدس جواب دوں گا.فرمایا.جنازہ میّت کے لئے دعا ہی ہے کچھ حرج نہیں.وہ پڑھ لیں.اَلْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ ہمارے ناظرین منشی شاہدین صاحب سٹیشن ماسٹر مردان سے خوب واقف ہیں وہ اس سلسلہ میں قابل قدر شخص ہیں تبلیغ اور اشاعت کا سچا شوق رکھتے ہیں جہاں جاتے ہیں ایک جماعت ضرور بنا دیتے ہیں.الحکم کے خاص معاونین میں سے ہیں بہر حال ناظرین یہ بھی جانتے ہیں کہ مردان میں بعض شریر النَّفس لوگوں کی طرف سے ان کو سخت ایذائیں دی گئیں اور آخر ان کی شرارت سے ان کی تبدیلی ہوگئی.حضرت اقدس کے حضور جب ان کی تکالیف اور مصائب کا ذکر ہوا تھا تو آپ نے صبر اور استقامت کی تعلیم دی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر خدا تعالیٰ نے اظہارِ حق کیا.افسران بالادست نے بدوں کسی قسم کی تحریک کے جو منشی صاحب کی طرف سے کی جاتی از خود
اس مقدمہ کی تفتیش کی اور انجام کار منشی شاہدین صاحب ترقی پر گوجر خان ایک عمدہ سٹیشن پر تبدیل ہوئے اور ان کے متعلق بہت ہی اطمینان بخش رائے افسروں نے قائم کی.غرض جب منشی صاحب کی اس کامیابی کا ذکر ہوا فرمایا.عاقبت متقی کے لئے ہے.برگردن او بماند و بر ما بگذشت والا معاملہ ہو گیا.خدا تعالیٰ نیک نیت حاکم کو اصلیت سمجھا دیتا ہے اگر اصلیت نہ سمجھیں تو پھر اندھیر پید اہو.بغداد کی تباہی بغداد وغیرہ کی تباہی کے ذکر پر جو ہلا کونے کی فرمایا کہ بدکاری حد سے بڑھ گئی تھی.آخر خدا تعالیٰ نے اس طرح پر ان کو تباہ کیا لکھا ہے کہ آسمان سے آواز آتی تھی.اَیُّـھَا الْکُفَّارُ اُقْتُلُوا الْفُجَّارَ.فرمایا.صادق مخالفوں کی شرارت اور ایذارسانی سے اگر مارا بھی جاتا ہے تو وہ شہید ہوتا ہے مگر وہ ناعاقبت اندیش طاعون کا شکار ہونے کو باقی رہ جاتے ہیں جو ان کی شامتِ اعمال سے آتی ہے.اذان ایک عمدہ شہادت ہے اذان ہو رہی تھی آپ نے فرمایا.کیسی عمدہ شہادت ہے جب یہ ہوا میں گونجتی ہوئی دلوں تک پہنچتی ہے تو اس کا عجیب اثر پڑتا ہے.دوسرے مذاہب کے جس قدر عبادت کے بلانے کے طریق ہیں وہ اس کامقابلہ نہیں کر سکتے انسانی آواز کامقابلہ دوسری مصنوعی آوازیں کب کر سکتی ہیں؟ جماعت کے لیے غلبہ کا وعدہ اپنی جماعت کے ذکر پر فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے اس جماعت کے لئے وعدہ فرمایا ہےوَ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اور خدا کے وعدے سچے ہیں.ابھی تو تخم ریزی ہو رہی ہے ہمارے مخالف کیا چاہتے ہیں؟ اور خدا تعالیٰ کا کیا منشا ہے یہ تو ان کو ابھی معلوم ہو سکتا ہے اگر وہ غور کریں کہ وہ اپنے ہر قسم کے منصوبوں اور چالوں میں ناکام اور نامُراد رہتے ہیں.اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف کیا چاہتے تھے؟ ان کا تو یہی مدّعا اور مقصد تھا کہ اس جماعت
کو نابود کر دیں مگر دیکھو انجام کیا ہوا؟ اگر اس اعجاز کامیابی کو جو ہمارے نبی کو حاصل ہوئی ابو جہل اس وقت دیکھے تو اس کو پتہ لگے.کس قدر فوق العادۃ ترقی مخالفوں کی مخالفت اور شرارت کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے کر کے دکھائی.یہی معاملہ یہاں ہے اگر یہ مخالف نہ ہوتے تو ایسی اعجازی ترقی یہاں بھی نہ ہوتی یعنی اس ترقی میں اعجازی رنگ نہ رہتا کیونکہ اعجاز تو مقابلہ اور مخالفت سے ہی چمکتا ہے.ایک طرف تو ہمارے مخالفوں کی یہ کوششیں ہیں کہ وہ ہم کو نابود کردیں.ہمارا سلام تک نہیں لیتے اور غائبانہ ذکر بھی نفرت سے کرتے ہیں دوسری طرف اﷲ تعالیٰ حیرت انگیز طریق پر اس جماعت کو بڑھا رہا ہے یہ معجزہ نہیں تو کیا ہے؟ کیا یہ ہمارا فعل ہے یا ہماری جماعت کا؟نہیں یہ خدا تعالیٰ کاایک فعل ہے جس کی تہ اور سِر کو کوئی نہیں جان سکتا.اب ان کو کس قدر تعجب ہوتا ہو گا کہ چند سال پہلے جس جماعت کو بالکل کمزور اور ذلیل اور ضعیف سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ چند آدمی شامل ہیں اب اس کا شمار ایک لاکھ سے بھی بڑھ گیا ہے اور کوئی دن نہیں جاتا کہ بذریعہ خطوط اور خود حاضر ہو کر لوگ اس سلسلہ میں داخل نہیں ہوتے.یہ خدا کا کام ہے اور اس کی باتیں عجیب ہوتی ہیں.۱ ۲۸؍اکتوبر ۱۹۰۲ء (بوقت صبح کی سیر) طاعون حسب معمول آپ حلقہ خدام میں سیر کو نکلے طاعون کا تذکرہ شروع ہوتے ہی فرمایا کہ قرآن شریف میں اس کو رِجْزٌ مِّنَ السَّمَآءِ کہا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس پر انسانی ہاتھ نہیں پڑسکتا اور نہ زمینی تدابیر اس کامقابلہ کر سکتی ہیں.ورنہ یہ عذاب آسمانی نہ رہے.طاعون جو اس کا نام رکھا ہے یہ مبالغہ کا صیغہ ہے جیسے فاروق.جب طعن اور تکذیب حد سے گذر جاتی ہے تو پھر اس کی پاداش میں طاعون آتی ہے اور پھر صفائی کر کے ہی قہرِ الٰہی بس کرتا ہے.
دابۃالارض اور طاعون میں تعلق عرض کیا گیا کہ دَآبَّةُ الْاَرْضِاور رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ میں کیا تعلق ہے؟ فرمایا.اَمر تو آسمانی ہی ہوتے ہیں یعنی اس طاعون کا اَمر آسمان سے آتا ہے اور وہ انسانی ہاتھوں سے بالاتر اَمر ہوتاہے اور اس کامعالجہ بھی آسمان ہی سے آتا ہے.دابۃ الارض طاعون کو کہتے ہیں اس لئے کہ اس کے کیڑے تو زمینی ہی ہوتے ہیں.طاعونی موت شہادت ہوتی ہے عرض کیا گیا کہ طاعون سے مَرنا شہادت بتاتے ہیں تو پھر عذاب کیوں کر ہوا؟ جو لوگ طاعون سے مَرنا شہادت بتاتے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ طاعونی موت تو عذا بِ الٰہی ہی ہے لیکن یہ جو کسی حدیث میں آیا ہے کہ اگر مومن ہو کر طاعون سے مَرجاوے تو شہادت ہے.تو یہ اﷲ تعالیٰ نے گویا مومن کی پردہ پوشی کی ہے.کثرت سے اگر مَرنے لگیں تو شہادت نہ رہے گی پھر عذاب ہو جائے گا.شہادت کا حکم شاذ کے اندر ہے کثرت ہمیشہ کافروں پر ہوتی ہے.اگر یہ ایسی ہی شہادت اور برکت والی چیز تھی تو اس کا نام رِجْزٌ مِّنَ السَّمَآءِ نہ رکھا جاتا اور پھر کثرت سے مومن مَرتے اور انبیاء مبتلا ہوتے مگر کیا کوئی کسی نبی کا نام لے سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.پس یاد رکھو کہ اگر کوئی شاذ مومن اس سے مَرجاوے تو اﷲ تعالیٰ اپنی ستاری سے اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے اور اس کے لئے کہا گیا کہ وہ شہادت کی موت مَرتا ہے ماسوا اس کے میں نے بارہا کہا ہے کہ اگر کوئی حدیث قرآن شریف کے متعارض ہو اور اس کی تاویل قرآن کے موافق نہ ہو تو اسے چھوڑ دینا چاہیے حکم ہمیشہ کثرت پر ہوتا ہے شاذ تو معدوم کا حکم رکھتا ہے.(دربارِ شام ) بعد ادائے نماز مغرب اوّل چند آدمیوں نے بیعت کی.پھر مفتی محمد صادق صاحب نے ڈوئی کے اخبار سے چند پیراگراف سنائے.
فرمایا.یہ لغو اور کفر تو ہوتا ہے مگر اس سے تحریک ہو جاتی ہے اور تحریک بچہ کے بازیچہ سے بھی ہو جاتی ہے.یہی اعتراض میری سچائی کا گواہ ہے ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب نے منشی رحیم بخش عرضی نویس کا خط پیش کیا جس میں دو سوال لکھے تھے.پہلا سوال یہ تھا کہ براہین میں مسیح کی آمد ثانی کا اقرار تھا کہ وہی مسیح آئے گا پھر اس کے خلاف دعویٰ کیا گیا یہ تزلزل بیانی قابل اعتبار نہیں ہوتی.فرمایا.ہمیں اس سے انکار نہیں کہ ہم نے ایسا لکھا ہے اور ہمیں یہ بھی دعویٰ نہیں ہے کہ ہم عالم الغیب ہیں ایسا دعویٰ کرنا ہمارے نزدیک کفر ہے اصل بات یہ ہے کہ جب تک اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نہ آوے ہم کسی اَمر کو جو مسلمانوں میں مروّج ہو چھوڑ نہیں سکتے.براہین احمدیہ کے وقت اس مسئلہ کی طرف اﷲ تعالیٰ نے ہمیں توجہ نہیں دلائی.پھر جبکہ ایک چرخہ کاتنے والی بڑھیا بھی یہی عقیدہ رکھتی تھی اور جانتی تھی کہ مسیح دوبارہ آئے گا تو ہم اس کو کیسے چھوڑ سکتے تھے جب تک خدا کی طرف سے صریح حکم نہ آجاتا.اس لئے ہمارا بھی یہی خیال تھا.مخالفوں کی بے ایمانی ہے کہ ایک خیال کو الہام یا وحی بتا کر پیش کرتے ہیں.براہین میں یہ بات عامیانہ اعتقاد کے رنگ میں ہے نہ یہ کہ اس کی نسبت وحی کا دعویٰ کیا گیا ہو.مگر جب خدا تعالیٰ نے ہم پر بذریعہ وحی اس راز کو کھول دیا اور ہم کو سمجھایا اور یہ وحی تواتر تک پہنچ گئی تو ہم نے اس کو شائع کر دیا.انبیاء علیہم السلام کی بھی یہی حالت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ کسی اَمر پر اطلاع دیتا ہے تو وہ اس سے ہٹ جاتے ہیں یا اختیار کرتے ہیں.دیکھو! اِفک عائشہ رضی اللہ عنہا میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اوّل کوئی اطلاع نہ ہوئی.یہاں تک نوبت پہنچی کہ حضرت عائشہ اپنے والد کے گھر چلی گئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی کہا کہ اگر ارتکاب کیا ہے تو توبہ کر لے.ان واقعات کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپؐکو کس قدر اضطراب تھا مگر یہ راز ایک وقت تک آپ پر نہ کھلا لیکن جب خدا تعالیٰ نے اپنی وحی سے تبریہ کیا اور فرمایا اَلْـخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ۠ وَ الْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ وَ الطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ وَ الطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ (النّور : ۲۷) تو آپ کو اس
افک کی حقیقت معلوم ہوئی اس سے کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی فرق آتا ہے؟ ہرگز نہیں وہ شخص ظالم اور ناخدا ترس ہے جو اس قسم کا وہم بھی کرے اور یہ کفر تک پہنچتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ عالم الغیب ہیں.عالم الغیب ہونا خدا کی شان ہے.یہ لوگ سنت انبیاء علیہم السلام سے اگر واقف اور آگاہ ہوں تو اس قسم کے اعتراض ہرگز نہ کریں.افسوس ہے ان کو گلستان بھی یاد نہیں جہاں حضرت یعقوب کی حکایت لکھی ہے.؎ یکے پُرسید زاں گم کردہ فرزند کہ اے روشن گہر پیر خردمند زِ مصرش بوئے پیراہن شمیدی چرا در چاہ کنعانش نہ دیدی بگفت احوال ما برق جہاں است دمے پیدا و دیگر دم نہاں است گہے بر طارم اعلیٰ نشینیم گہے بر پشت پائے خود نہ بینیم اگر درویش بر یک حال ماندے سر دست از دو عالم بر فشاندے یہ سچی بات ہے اور ہمیں اس کا اعتراف ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے دکھائے بغیر نہیں دیکھتے اور اس کے سنائے بغیر نہیں سنتے اور اس کے سمجھائے بغیر نہیں سمجھتے.اس اعتراف میں ہمارا فخر ہے ہم نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ ہم عالم الغیب ہیں.ہم نے انہیں خیالات کے مسلمانوں میں نشوونما پایا تھا ایسا ہی مہدی و مسیح کے متعلق ہمارا علم تھا.مگر جب خدا تعالیٰ نے اصل راز ہم پر کھولا اور حقیقت بتادی تو ہم نے اس کو چھوڑ دیا اور نہ خود چھوڑا بلکہ دوسروں کو بھی اس کی طرف اسی کے حکم سے دعوت دی اور اس کو چھڑایا.اور تعجب کی بات یہ ہے کہ جس اَمر کو نادان اعتراض کے رنگ میں پیش کرتا ہے اسی میں ہمارا
فائدہ اور ہماری تائید ہوتی ہے دیکھو! براہین میں ایک طرف مجھے مسیح موعود ٹھہرایا ہے اور وہ تمام وعدے جو آنے والے مسیح موعود کے حق میں ہیں میرے ساتھ کئے اور دوسری طرف ہم اپنے اسی قلم سے مسیح کے دوبارہ آنے کا اقرار کرتے ہیں اب ایک دانش مند اور خدا ترس مسلمان اس معاملہ میں غور کرے اور دیکھے کہ اگر یہ دعویٰ ہمارا افترا ہوتا اور ہم نے ازخود بنایا ہوتا یا منصوبہ بازی ہوتی تو اس قسم کا اقرار ہم اس میں کیوں کرتے؟ یہ سادگی صاف بتاتی ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے ہم کو علم دیا اسے ہم نے ظاہر کیا.بظاہر یہ کارروائی متنا قض ہے مگر ایک سعید الفطرت انسان کے لئے ایک روشن تر دلیل ہے.کیونکہ جب تک خدا تعالیٰ نے ہم پر نہیں کھولا باوجود یکہ ہمارے ساتھ وہی وعدے جو مسیح موعود کے ساتھ تھے کیے جاتے اور اسی براہین میں میرا نام مسیح رکھا جاتا ہے اور هُوَ الَّذِيْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ الآیۃ الہام ہوتا ہے مگر اسی قلم سے میں لکھتا ہوں کہ مسیح موعود دوبارہ آئے گا ہم نے قِیَامٌ فِیْ مَا اَقَامَ اللہُ کو نہیں چھوڑا جب تک کہ آفتاب کی طرح کھل نہیں گیا.یہی اعتراض ہماری سچائی کا گواہ ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلے پہل وحی آئی تو آپ نے یہی فرمایا خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ.بیوی کہتی ہے کَلَّا وَ ﷲِ.اور پھر بیوی نے کہا کہ آپؐضعفاء کے مدد گار ہیں آپ کو خداضائع نہیں کرے گا پھر خدا تعالیٰ نے جب آپ پر اَمر نبوت کو واضح طو رپر کھول دیا تو آپ نے تبلیغ اور اشاعت میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا.مومن اس مقام کو جہاں ہوتا ہے نہیں چھوڑتا جب تک خدا نہ چھڑائے.مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے ضمناً عرض کیا کہ تعجب کی بات ہے ایک قوم اور بھی تو ہے جس نے خدا کے اس راستباز اورصادق مسیح موعود کو تسلیم کیا ہے اور وہ اس پر ایمان لائی ہے اس کے سامنے کیا یہ باتیں نہیں ہیں؟ ہیں مگر ان کو ان پر کوئی اعتراض نہیں معلوم ہوتا بلکہ ایمان بڑھتا اور اس کی سچائی پر ایک عرفانی رنگ کی دلیل پیدا ہوتی ہے حضرت اقدس نے سن کر فرمایا.بے شک یہ تو سچائی کی دلیل ہے نہ اعتراض.کیونکہ ماننا پڑے گا کہ تصنّع سے یہ دعویٰ نہیںکیا گیا بلکہ خدا کے حکم اور وحی سے کیا گیا کیونکہ حضرت عیسیٰ کی آمد کے واقعات کو ہی تو اس میں بیان نہیں کیا بلکہ میرا نام عیسیٰ رکھا اور لکھا کہ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ(الصّف:۱۰) میرے حق میں ہے اور
ادھرکوئی توجہ نہیں.پس اس سے صاف ثابت ہوتاہے کہ اگر میرایہ کام ہوتاتواس میں دوبارہ آنے کا اقرار نہ ہوتا.یہ اقرار ہی بتاتا ہے کہ یہ خدا کاکام ہے.اس پر مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے اس نکتہ سے خاص ذوق اٹھا کر عرض کیا کہ یہ بعینہٖ وہی بات ہے جو قرآن شریف کی حقّانیت پر پیش کی جاتی ہے کہ اگر یہ آنحضرتؐکا اپنا کلام ہوتا تواس میں زینب کاقصہ نہ ہوتا.حضرت اقدس نے پھر اسی سلسلہ کلام میں فرمایا کہ اب کون سی نئی بات ہے جس کا ذکر براہین میں نہیں ہے.براہین کو طبع ہوئے پچیس۲۵ برس کے قریب ہوگذرے ہیں اور اس وقت کے پیدا ہوئے بچے بھی اب بچوںکے باپ ہیں.اس میں ساری باتیں درج ہیں بناوٹ کامقابلہ اس طرح پر ہوسکتا ہے کیا.تیس برس پہلے ایک شخص ایسا منصوبہ کس طرح کر سکتا ہے جبکہ اسے اتنا بھی یقین نہیں کہ وہ اس قدر عرصہ تک زندہ رہے گا.پھر کیوں کر میں اپنانام اتنے سال پہلے از خود عیسیٰ رکھ سکتا تھا اور ان کاموں کوجو اس کے ساتھ منسوب تھے اپنے ساتھ منسوب کرتا.ہاں اس سے منصوبہ بے شک پایا جاتا اگر میں اس وقت لکھ دیتا کہ آنے والا میں ہی ہوں مگر اس وقت نہیں کہا باوجودیکہ هُوَ الَّذِيْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى کااعتراف کیاہے کہ میرے حق میں ہے یہ خدا کاکام تھا کہ مسیح کادعویٰ تواس میں بیان کیا مگراس کو چھپایا اور زبان سے نکلوا دیاکہ وہ آئے گا.میں حلفاً کہتا ہوں کہ آج جودعویٰ کیا گیا ہے براہین میں یہ سارا موجود ہے ایک لفظ بھی کم و بیش نہیں ہوا اگر اس میں الہامات نہ ہوتے تواعتراض کی گنجائش ہوتی گو اس وقت بھی اعتراض فضول ہوتا کیونکہ وہ دعویٰ وحی سے نہیں تھا بلکہ اپنی ذاتی رائے تھی خدا تعالیٰ نے یہ اس لئے کیا تا ظنون اور جعل سازی کے وہم دور ہوں.مسیح موعو د کے قریشی ہونے کی حقیقت دوسرا سوال ان کا اس اَمر پر تھا کہ آپ نے مسیح موعود کو لکھا ہے کہ وہ قریش میں سے نہیں اور پھر بعض جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ وہ قریشی ہے ا س کی مطابقت کیوں کر ہو؟ فرمایا.مسیح موعود کو جس طرزپر ہم کہتے ہیں کہ وہ قریش میں سے نہیں وہ اس اعتبار سے نہیں جیسے قریش ہیں.اہلِ فارس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش میں سے ٹھہرایا ہے اور میرا الہام
بھی ہے سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ اسی نام سے مجھے اہل بیت میں داخل کیا ہے داخل کرنا اور بات ہے اور ہونا اور.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار ہے اہل فارس کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ بیت اور قریش سے ٹھہرایا ہے ا س لئے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلام سے قریش اور اہلِ بیت میں ہوں.اس پر حضرت حکیم الامۃ نے یُسْلَبُ الْمُلْکُ مِنْ قُرَیْشٍ کا ذکر کر کے عرض کیا کہ حضور ہم قریشیوں سے ملک چھینا گیا مگر کسی نے ہماری قوم سے غور نہیں کی کہ کیوں ایسا ہوا.تکبّر کا اتنا بڑا خطرناک مرض ہماری قوم میں ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں.سید کی لڑکی کسی دوسرے کے گھر میں دینا کفر سمجھا گیا ہے.اس پر میر صاحب نے کہا کہ ہم سے کوئی پوچھاکرتا ہے تواس کو یہی جواب دیا کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کی ایک بہن تھی کوئی ہمیں بتائے کہ وہ کس سیدکودی گئی تھی.بروز کی حقیقت پھر بروز کے متعلق سلسلہ کلام یوں شروع ہوا.فرمایا.نیکوں کے اور بدوں کے بروزہوتے ہیں.نیکوںکے بروزمیں جو موعود ہے وہ ایک ہی ہے یعنی مسیح موعود.ہمار اعقیدہ یہ ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ( الفاتـحۃ : ۶،۷ ) سے نیکوں کا بروز او ر ضالین سے عیسائیوں کابروز اور مغضوب سے یہودیوں کا بروز مُراد ہے اور یہ عالم بروزی صفت میں پیدا کیا گیا ہے جیسے پہلے نیک یابد گذرے ہیں ان کے رنگ اور صفات کے لوگ اب بھی ہیں.خدا تعالیٰ ان اخلاق اور صفات کو ضائع نہیں کرتا.ان کے رنگ میں اور آجاتے ہیں جب یہ اَمر ہے تو ہمیں اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ ابراراور اخیار اپنے اپنے وقت پر ہوتے رہیںگے.اور یہ سلسلہ قیامت تک چلاجاوے گا جب یہ سلسلہ ختم ہوجاوے گاتو دنیا کابھی خاتمہ ہے لیکن وہ موعود جس کے سپرد عظیم الشان کام ہے وہ ایک ہی ہے کیونکہ جس کاوہ بروزہے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ بھی ایک ہی ہے.
اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا حضرت حکیم الامۃ نے مولوی ابو رحمت حسن صاحب کا ذکر سنایا کہ وہ بڑے اخلاص سے خط لکھتے ہیں اور انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اس آیت پر مخالف اعتراض کرتے ہیں کہ یہ تہذیب کے خلاف ہے.فرمایا.جو خدا تعالیٰ کو خالق سمجھتے ہیں توکیا اس خلق کو لغو اور باطل قرار دیتے ہیں جب اس نے ان اعضا کو خلق کیا اس وقت تہذیب نہ تھی.خالق مانتے ہیں اور خلق پر اعترا ض نہیں کرتے ہیں تو پھر اس ارشاد پر اعتراض کیوں؟دیکھنا یہ ہے کہ زبان عرب میں اس لفظ کااستعمال ان کے عرف کے نزدیک کوئی خلافِ تہذیب اَمر ہے جب نہیں تو دوسری زبان والوں کاحق نہیں کہ اپنے عرف کے لحاظ سے اسے خلافِ تہذیب ٹھہرائیں.ہر سوسائٹی کے عرفی الفاظ اور مصطلحات الگ الگ ہیں.۱ ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء (صبح کی سیر) دُرِّ حکمت طاعون کے ذکر پر ضمناًفرمایا.(۱)خدا کے کام عجیب ہوتے ہیں لوگ مغرور ہوکر مطمئن ہوجاتے ہیں مگر خدا تعالیٰ پھر پکڑ تا ہے.(۲) نادان انسان ذرا سی خوشی پر تکبّر سے باتیں کرتا ہے مگر آخر فتح اسی کی ہوتی ہے جس کے ساتھ خدا ہو.(۳) اسلام نے ہمیشہ نصرانیت کی سر کوبی کی ہے اور اب وہ وقت ہے کہ ان کے عقائد کی پردہ دری ہوگئی ہے اور اس کے بعد کسی کوحوصلہ نہ ہوگا کہ انسان کے بچہ کوخدا بنائے.فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے وفادار اور مطیع فرمان تھے کہ کسی نبی کے شاگردوں میں ایسی نظیر نہیں ملتی ہے اورخدا کے احکام پر ایسے قائم تھے کہ قرآن شریف ان کی تعریفوں سے بھرا پڑا ہے لکھا ہے کہ جب شراب کی
حُرمت کاحکم نافذ ہوا تو جس قدر شراب برتنوں میں تھی وہ گرادی گئی اور کہتے ہیں اس قدر شراب بہی کہ نالیاں بہ نکلیں.او رپھر کسی سے ایسا فعل شنیع سرزد نہ ہوااور وہ شراب کے پکے دشمن ہوگئے.دیکھو یہ کیسا ثبات اوراستقلال علی الاطاعۃ تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت جس وفاداری، محبت اور ارادت اور جوش سے انہوںنے کی کبھی کسی نے نہیں کی.موسیٰ علیہ السلام کی جماعت کے حالات پڑھ کر معلوم ہوتاہے کہ وہ کئی بار پتھراؤکرناچاہتی تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری توایسے کمزور اورضعیف الاعتقاد تھے کہ خود عیسائیوں کوتسلیم کرناپڑا ہے اور حضرت مسیحؑآپ انجیل میں سُست اعتقاد ان کانام رکھتے ہیں.انہوں نے اپنے استاد کے ساتھ سخت غداری کی اور بے وفائی کا نمونہ دکھایا کہ اس مصیبت کی گھڑی میں الگ ہوگئے.ایک نے گرفتارکرادیا دوسرے نے لعنت بھیج کر انکارکر دیا.مگر صحابہ ایسے ارادت مند اور جاں نثار تھے کہ خود خدا تعالیٰ نے ان کی شہادت دی کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں جانوں تک دینے میںدریغ نہیں کیا.اور ہر صفت ایمان کی ان میں پائی جاتی ہے.عابد، زاہد، سخی، بہادر اور وفادار یہ شرائط ایمان کی کسی دوسری قوم میں نہیں پائی جاتیں.جس قدر مصائب اور تکالیف صحابہ کو ابتدائے اسلام میںاٹھانی پڑیں ان کی نظیر بھی کسی اور قوم میں نہیںملتی اس بہادر قوم نے ان مصیبتوں کو برداشت کرناگوارا کیا لیکن اسلام کو نہیں چھوڑا.ان مصیبتوں کی انتہاآخراس پر ہوئی کہ ان کووطن چھوڑنا پڑا اور نبی کریم ؐ کے ساتھ ہجرت کرنی پڑی اور جب خدا تعالیٰ کی نظر میں کفار کی شرارتیں حد سے تجاوز کر گئیں اور وہ قابل سزا ٹھہر گئیں تو خدا تعالیٰ نے انہیں صحابہ کو مامور کیا کہ اس سرکش قوم کو سزا دیں.چنانچہ اس قوم کوجو مسجدوں میںدن رات اپنے خدا کی عبادت کرتی تھی اورجس کی تعداد بہت تھوڑی تھی.جس کے پاس کوئی سامان جنگ نہ تھا مخالفوں کے حملوں کے روکنے کے واسطے میدان جنگ میں آناپڑا.اسلامی جنگیں دفاعی تھیں.پھر ان جنگوں میں یہ چند سوکی جماعت کئی کئی ہزار کے مقابلہ میں آئی اور ایسی بہادری اور وفاداری سے لڑی.اگرحواریوں کو اس قسم کاموقع پیش آتا توان میں سے ایک بھی آگے نہ ہوتا.ایک ذرا سے ابتلا پر وہ اپنے آقا کوچھوڑ کر الگ ہوگئے توایسے معرکوں میں ان کاٹھہرنا ایک ناممکن بات
ہے مگر اس ایماندار اور وفادار قوم نے اپنی شجاعت اور وفاداری کا پورانمونہ دکھایا اور جو کچھ جوہر انہوں نے دکھائے وہ سچے ایمان اوریقین کے نتائج تھے.موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو کہا کہ بڑھ کر دشمن پر حملہ کرو تو انہوںنے کیا شرمناک جواب دیا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ (المائدۃ : ۲۵) تواورتیرا ربّ جاؤ اور لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گئے.صحابہؓ کی لائف میں ایساکوئی موقع نہیں آیابلکہ انہوںنے کہا کہ ہم ان میں سے نہیں ہیں جنہوں نے یہ کہا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ ایسی قوت اور شجاعت اور وفاداری کاجوش کیوں کر پیدا ہوگیا تھا؟ یہ سب ایمان اوریقین کانتیجہ تھا جو آپؐکی قوتِ قدسی اورتاثیر کااثر تھاآپ نے ان کو ایمان سے بھر دیا تھا.مسیح کے حواریوں کاایمان مسیح کے حواریوں میں جو یہ ایمانی قوت پیدا نہیں ہوئی اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ان کے معجزات پر کوئی قوی ایمان اوربھروسہ نہ تھا.بلکہ اصل بات یہی ہے جیسا کہ بعض عیسائی مصنفوں نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ حواری دنیا دار اورسطحی خیال کے آدمی تھے انہیں یہ خیال تھاکہ یہ بادشاہ ہوجائے گا تو ہم کو عہدے ملیں گے.ان کاتعلق ایک لالچ کے رنگ میں مسیح کے ساتھ تھااسی لیے وہ ایمانی قوت اور عرفانی مذاق ان میں پیدا نہ ہوا.اگر وہ معجزات مسیح کودیکھتے کہ مُردوں کو زندہ کرتا ہے توکیا وجہ ہے کہ ایسے عجوبے دیکھ کر بھی ایمان میں قوت نہ آئے.حقیقت یہی ہے کہ مسیح سے سلبِ امراض وغیرہ کے نشانات جو دیکھتے تھے وہ ایسے عام تھے کہ یہودی بھی کرتے تھے اور ایک تالاب پربھی مریض جاکر اچھے ہو جایاکرتے تھے.اس لئے ان باتوں نے معجزات مسیح کی کوئی عظمت ان کے دل میں پیدا نہ کی اور وہ نُورِ یقین ومعرفت جو گناہوں کو زائل کرتا ہے ان میں پیدا نہیں ہوا.اس لئے یہودا اسکریوطی جو مسیح کا خزانچی تھا اور جس کے پاس ایک ہزار روپیہ کی تھیلی رہتی تھی اس میں سے چُرا لیا کرتا تھا اور اسی لالچ نے اس کو تیس۳۰ درہم لے کر گرفتار کرانے پر آمادہ کیا.
کہتے ہیں کہ ابن آدم کو سَر رکھنے کو جگہ نہیں.آنحضرتؐکی یہ حالت تھی کہ آپ کے پاس جو کچھ ہوتا وہ سخاوت کر دیا کرتے تھے ایک بار آپ کے گھر میں ایک مہر تھی آپؐنے اس کو لے کر تقسیم کر دیا.مسیحؑکا شوقِ جہاد پادری جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائیوں پر اعتراض کرتے ہیں اپنے گھر میں نگاہ نہیں کرتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائیاں بالکل دفاعی تھیں.مگر مسیح کو اس قدر شوق تھا کہ اس نے شاگردوں کو کہا کہ کپڑے بیچ کر بھی ہتھیار خریدو.اصل میں مسیح کا لڑائیاں نہ کرنا ’’ستر بی بی از بے چادری ‘‘ کامصداق ہے اگر انہیں موقع ملتا تو وہ ہرگز تامل نہ کرتے بلکہ اس قسم کی تعلیم سے جو انہوں نے ہتھیاروںکے خریدنے کی دی صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کس قدر شوق تھااور داؤد کے تخت کی وراثت کاخیال لگا ہواتھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا تو آپ نے ان مخالفوں سے جنہوں نے سخت ایذائیں دی ہوئی تھیں اور جو اَب واجب القتل ٹھہر چکے تھے پوچھا تمہارا میری نسبت کیا خیال ہے انہوں نے کہا کہ تو کریم اِبنِ کریم ہے توآپ نے فرمایا.اچھا میں نے تم سب کو بخش دیا آپ کے اس رحم اور کرم نے ان پر ایسا اثر کیا کہ وہ سب مسلمان ہوگئے.حضرت مسیح کو اپنے ایسے اخلاق کے اظہار کاموقع ہی نصیب نہیں ہوا.اور حواریوں کے لئے تو مسیح کا آنا ایک قسم کاابتلا تھاکیونکہ ان کو کو ئی فائدہ نہ ہوا اور انہوںنے کچھ نہ سیکھا.مسیح ناصری او رمسیح محمدی فرمایا.جو کامیابی اور اثر مسیح ابن مریم کا ہوا وہ توصاف ظاہر ہے اور جس کمزوری اور ناکامی کے ساتھ انہوں نے زندگی بسر کی وہ انجیل کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتی ہے مگر مسیح موعود جیسے اپنے زبردست اور قوتِ قدسیہ کے کامل اثر والے متبوع کاپیرو ہے اسی طرح پر اس کی عظمت اور بزرگی کی شان اس سے بڑھی ہوئی ہے جو کامیابیاں اور نصرتیں اس جگہ خدا نے ظاہر کی ہیں مسیح کی زندگی میں ان کا نشان نہیں نہ معجزات میں نہ پیشگوئیوں میں نہ تعلیم میں.غرض جیسے
آنحضرتؐاپنے مثیل موسیٰ سے ہر پہلومیں بڑھے ہوئے تھے اور گویا آپ اصل اور موسیٰ آپ کا ظِل تھے اسی طرح مسیح موعود موسوی مسیح سے نسبت رکھتا ہے.نصرا نیت کااثر نصرانیت کااثر آج کل عام ہورہا ہے بعض تو بالکل مرتد ہوگئے ہیں او ربعض نے اور نہیں تو فیشن ہی میں ان کا تتبع کر لیا ہے.نیکی اور بدی کی کشش فرمایا.انسان کے اندر نیکی اور بدی کی ایک کشش ہے آدمی نیکی کرتا ہے مگر نہیں سمجھ سکتا کہ کیوں نیکی کرتا ہے اسی طرح ایک شخص بدی کی طرف جاتا ہے لیکن اگر اس سے پوچھا جاوے تو کدھرجاتا ہے تو وہ نہیں بتا سکتا.مثنوی رومی میں ایک حکایت اس کشش پہ لکھی ہے کہ ایک فاسق آقا کا ایک نیک غلام تھاصبح کو جو مالک نوکر کو لے کر بازار سودا خریدنے کو نکلا توراستہ میں آذان کی آوازسن کر نوکر اجازت لے کر مسجد میں نماز کو گیا اور وہاں جو اسے ذوق اور لذّت پیدا ہوا تو بعد نمازذکر میں مشغول ہوگیاآخر آقانے انتظار کر کے اس کو آواز دی اور کہا کہ تجھے اندر کس نے پکڑلیا.نوکر نے کہا کہ جس نے تجھے اندر آنے سے باہر پکڑلیا.غرض ایک کشش لگی ہوئی ہے اسی کی طرف خدا نے اشارہ فرمایا ہے كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ (بنیٓ اسرآءیل : ۸۵) ۱ ۳۰؍اکتوبر ۱۹۰۲ء (صبح کی سیر ) الہام ’’نتیجہ خلاف امید ہے ‘‘ اس کی کوئی تصریح نہیں فرمائی گئی.آج کی سیر میں متفرق مقامی اور آنی امور پر سلسلہ گفتگو کا شروع رہا اور ختم ہوا.( دربارِشام ) ضرورت عمل کی ہے میاں نبی بخش نمبر دار پنڈوری نے عرض کی کہ حضور میں کچھ لکھا پڑھا آدمی نہیں ہوں.
فرمایا.علم کیا، اصل ضرورت عمل کی ہے.قِیَا مٌ فِیْ مَا اَقَامَ اللہُ ایک شخص نے ملازمت چھوڑ کر تجارت کے متعلق مشورہ پوچھا.فرمایا.نوکری چھوڑنی نہیں چاہیے.قِیَامٌ فِیْ مَا اَقَامَ اللہُ بھی ضرو ری ہے بلا وجہ ملازمت چھو ڑ نا اچھا نہیں ہے.طلب حق کے لئے ضرو ری امور ایک ہندو نوجوان نے (جو طالب حق اپنا نام رکھتا تھا ) عرض کی کہ حضور میں ایک عرصہ سے طلب ِ حق چاہتا ہوں مگر مجھے ابھی تک وہ راہ نہیں ملی.فرمایا.طلبِ حق کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے اول عقل سلیم چاہیے بعض لوگ طلب حق تو چا ہتے ہیں مگر غبی اور بلید طبع ہوتے ہیں اور قوت فیصلہ نہیں رکھتے اس لئے جو کچھ سمجھا یا جاوے اس کو سمجھ نہیں سکتے اور کل مذاہب ان کے سامنے پیش کئے جاویں تو وہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ ان میں سے حق کس کے ساتھ ہے یہ بیماری ہے طبیبوں نے اس کو سو فسطائی عقل لکھا ہے ان پر وہم غالب ہوتا ہے اس لئے اوّل طالبِ حق کے واسطے ضروری ہے کہ وہم غالب نہ ہو.دوم.قبو لِ حق کے لئے جرأت رکھتا ہو.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ حق کو سمجھ تو لیتے ہیں مگر برادری کے تعلقات نہیں ٹوٹتے ایسے لوگ بزدل ہوتے ہیں یہ بزدلی بھی فائدہ نہیں پہنچاتی.پہلے پہل جو بچہ مدرسہ میں بھیجا جاتا ہے اس کے سامنے تو اَبجد ہی پیش کی جاتی ہے.کوئی بڑی کتاب نہیں رکھی جاتی.اسی طرح مذہب کی پر کھ میں پہلے نسبتاً موٹے موٹے اصولوں میں مقابلہ کر کے دیکھ لینا چاہیے کہ مذہب حق کون سا ہے؟ مجھے تعجب آتا ہے کہ اس وقت مذاہب کامقابلہ ہو رہا ہے اور اَمر حق صاف طور پر معلوم ہو سکتا ہے اور اس ہند ہی میں سب مذاہب موجود ہیں.سناتن، عیسائی، آریہ، مسلمان وغیرہ بڑے بڑے یہی مذہب ہیں.
مذہب کی جَڑ خدا شناسی ہے مذہب کی پہلی جزو اور جڑ خدا شناسی ہے جس کا پہلا قدم ہی غلط اور بے ٹھکانے ہے دوسرا قدم اس کا کب ٹھکانہ پر ـپڑے گا.اب اس اصل پر مذاہب کی شناخت کرلو.سناتن دھرم سناتن دھرم کو لو انہوں نے کوئی جڑی بوٹی پتھر درخت چاند سورج غرض مخلو ق میں کوئی چیز نہیں چھوڑی جس کی پر ستش نہیں کی اور جس کو خدا نہیں بنایا.اب جس مذہب کا خدا شناسی کے متعلق یہ عقیدہ ہو اس کو علومِ حقہ سے کب حصہ مل سکتا ہے؟ اس کی اخلاقی حالتیں کیوں کر درست ہو سکتی ہیں؟ وہ تو ریل کو بھی دیکھیں تو اسے بھی سجدہ کرنے کو تیار ہیں اور اسے خدا ماننے لگتے ہیں.آریہ دھرم پھر ان لوگوں میں سے ایک اورفرقہ ہے جو اپنے آپ کواصلاح یافتہ فرقہ سمجھتا ہے اور اس کوآریہ کہتے ہیں.آریہ کی خداشناسی کایہ حال ہے کہ انہوں نے بر خلاف وید کے خدا کی توحید کازبانی اقرار توکیا ہے گو وید میں اگنی وایووغیرہ کی پرستش کی گئی ہے لیکن یہ لوگ اپنی زبان سے اقرار کرتے ہیں کہ ہم بتوںکی پوجانہیںکرتے مگر خداشناسی میں باوجود اس اقرار کے سخت ٹھوکر کھائی ہے اور وہ یہ کہ وہ خدا کو کسی چیز کاخالق نہیں مانتے اور اس کو صرف جوڑنے جاڑنے والامانتے ہیں جب خدا کی اس عظیم الشان صفت سے انکار کیاگیا تو ایساناقص اور ادھورا خداکب کسی کے ماننے میں آسکتا ہے.پھر انہوں نے خدا کی دوسری صفتوں کا بھی انکار کیا ہے مثلاً وہ مانتے ہیں کہ وہ کسی انسان کو کوئی چیز عطا نہیں کرسکتا جو کچھ کسی کو ملتا ہے اس کے عملوں کی ہی پاداش ملتی ہے.پھر انہیں یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ اگر گناہ نہ ہوتا تو دنیا کا کام نہ چل سکتا کیونکہ گائے، بکری، بھینس اور دوسری آرام دہ مخلوق نہ ہو سکتی.اس قسم کا خدا انہوں نے مانا ہے گویا خدا شناسی کے مقام سے یہ مذہب بھی گرا ہوا ہے.عیسائیت پھر ایک اور مذہب ہے جس کی اشاعت کے لئے کروڑ ہا روپیہ خرچ کیا جاتا ہے اور وہ عیسائی مذہب ہے اس میں خدا شناسی کی اور بھی ردّی حالت ہے وہ اوّل تو سرے
سے خدا ہی کو تین مانتے ہیں اور یہ ایسامسئلہ ان کے نزدیک ہے کہ وہ سمجھ میں آہی نہیں سکتا اور پھران تین میں سے ایک عاجز انسان بھی ہے جو مریم کے پیٹ سے پیداہوااورجس کی ساری عمر جیسا کہ انجیل سے معلوم ہوتاہے ایک کرب اور اضطراب میں گذری.ماریں کھاتارہا اور آخر یہودیوں نے اس کو پکڑ کر صلیب پر چڑھا دیا اب اگر خدا کایہی نمونہ ہے تو کون اس پر ایمان لاسکتاہے؟ اِسلام مگراسی خداشناسی کے متعلق جو تعلیم اسلام نے دی ہے وہ ایسی صاف ہے کہ ہر عقل مند کو اس کے ماننے پر مجبور ہوناپڑتا ہے.اسلام بتاتا ہے کہ اللہ وہ ہے جو تمام صفاتِ حمیدہ سے موصوف اور تمام نقصوں سے مبرا ہے وہ تمام اشیاء کاخالق اورمالک ہے وہ رحمان اوررحیم ہے.اسلام کسی مخلوق کوخدایاخدا کاہمسر نہیں بناتا.وہ خالق اورمخلوق میں فرق بتاتاہے.اب اس اصل میں جب مقابلہ کیاجاوے توکیسے صاف اورواضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ کوئی مذہب اس اصل میں اسلام کامقابلہ نہیں کرسکتا اوراسلام ہی سچامذہب ہے.دوسری اصل پھرمذہب کی دوسری جزویااصل یہ ہے کہ وہ مخلوق کے حقوق کیسے قائم کرتاہے اس اصل میں بھی دوسرے مذاہب کامقابلہ کر کے دیکھو لو.آریہ مذہب نے تو ایسا ظلم کیا ہے کہ بجز بے غیرتی کے اور معلوم نہیں ہوتا.اس نے نیوگ کی تعلیم دی ہے کہ جس شخص کے گھر میں اولاد نہ ہوتو وہ اپنی عورت کو دوسرے شخص سے ہم بستر کراوے اور اولاد حاصل کر لے.اب اس سے بڑ ھ کر پاکیزگی اور غیرت کاخون کیاہوگا کہ ایک شخص کو جس کی بد قسمتی سے دو چار سال تک اولادنہیں ہوئی کہہ دیا جاوے کہ تواپنی بیوی کودوسرے آدمی سے اولاد لینے کی خاطر ہم بستر کرالے یہ کیسی شرمناک بات ہے.یہاں قادیان میں ایک شخص موجود ہے اس سے جب اس نیوگ کی بابت پوچھا گیا تواس نے یہی کہا کہ کیامضائقہ ہے.اب کوئی عقل مند اس تعلیم کو کب گوارا کر سکتا ہے.میںنے پڑھاتھا کہ ایک بنگالی آریہ ہوگیا ایک برہمو نے جب اس پر نیوگ کی حقیقت کھولی تو اس نے ستیارتھ پرکاش کوپھٹکار کر مارا اور کہاکہ یہ مذہب قبول کرنے کے لائق نہیں.عیسائیوں نے مخلوق پر یہ ظلم کیا کہ کفارہ کی تعلیم دے کر اور شریعت کو لعنت کہہ کر نیکی کادروازہ ہی
بند کر دیا اور قوائے انسانی کی بےحُرمتی کی.جب کہہ دیا کہ کوئی نیکی کر ہی نہیں سکتا.مگر اسلام مخلوق کے حقوق کو جائز اور مناسب مقام پر قائم کرتا ہے وہ ایسی تعلیم نہیں دیتا جو نیوگ کے پیرایہ میں دی گئی وہ انسانی قویٰ کی بے حرمتی نہیںکرتا اورانسان کوکفارہ کی تعلیم دے کر سُست نہیںبناناچاہتا اس نے شریعت کو لعنت نہیں بنایا بلکہ انسانی طاقتوں کے اندر اسے رکھا.اس طرح معاملہ توبالکل صاف ہے اگروہم نہ ہواور قبولِ حق میں کوئی روک نہیںہوسکتی اگر بزدلی نہ ہو.سائل.ان مذاہب کی بابت تو مجھے پہلے سے اعتراض ہیںمگر اسلام کی کتابیں میںنے نہیں پڑھی ہیں.فرمایا.آپ قرآن شریف کو پڑھیں اس سے معلوم ہوجاوے گا کہ وہ خدا کی نسبت کیاتعلیم دیتا ہے اورمخلوق کی نسبت کیا؟ ان دونوں تعلیموں کو اگر آدمی غورسے دیکھ لے توحق کھل جاتا ہے.پھر مفتی صاحب نے میور کی ایک تصنیف سنائی جواس نے مسلمانوں سے مناظرہ کرنے کے متعلق ہدایات پر لکھی ہے پھر چند لوگوں نے بیعت کی.پھر طالب حق نے عرض کیاکہ مجھے خواب آیا تھا کہ تو مسیح کے پاس جا اور اس سے پوچھ اگر وہ کہے کہ میں مسیح ہوں تو پھر وہ جو کہے مان لے.فرمایا.ہم توسالہاسال سے اس دعویٰ کی اشاعت کر رہے ہیں اورخدا نے صدہانشان اس کی تائیدمیں دکھائے ہیں جن کو خدا نے سعادت اور فہم دیا ہے وہ سمجھ لیتے ہیں جس کو ان سے حصہ نہیں وہ محروم رہ جاتاہے.فرمایا.حق شناسی کی راہ میں اگر وہم اوربزدلی نہ ہوتو کوئی مشکل نہیں ہے.مشرق اورمغرب میں تلاش کرو اسلام کے سواحق نہیں ملے گا.مجھے تعجب ہے کہ لوگ ایک پیسہ کی چیز لیتے ہیں تو اسے خوب دیکھ بھال کر لیتے ہیں مگر مذہب کے معاملہ میں توجہ نہیں کرتے.اگر انسان توہمات میں گرفتار نہ ہو تو آج کل مذہب کے حُسن و قبح معلوم کرنے میں کوئی مشکل نہیں.مقابلہ کر کے دیکھ لو اگرسچامسلمان انسان ہو جاوے توپاک ہو جاتا ہے دوسرے مذاہب میں یہ نہیں.کیا ایک عیسائی پاک ہوسکتا ہے؟
جس کوکفارہ پر ایمان لاتے ہی عشاءِ ربّانی میںشراب استعمال کرنی پڑتی ہے یاانجیل پر عمل کرکے وہ پاکیزگی میںترقی کر سکتا ہے؟ جس کی رُو سے منع نہیں کہ غیر مَردوںکے ساتھ عورتیں بڑے بڑے جلسوں میں جیساکہ ناچتی ہیں نہ ناچیں.یہ تو قرآن ہی تعلیم دیتاہے کہ تونامحرم کومت دیکھ.مجھے تعجب ہے کہ وہ کیاعقل ہے جوتاریکی کو روشنی سمجھتی ہے یہ اَمر دیگر ہے کہ کوئی سچامتبع نہ ہو لیکن جو ویدیاانجیل کاسچامتبع ہے اس کواس کی تعلیم پر عمل کر کے پورا نمونہ دکھانا ہوگا اب وید کے سچے متبع کی اگر تصویر کھینچیں تو ضروری ہوگاکہ وہ وایو اور اگنی کو خدا کہے اور اولادنہ ہوتی ہوتو نیوگ کرالے مگر جو قرآن پر عمل کرتاہے اسے لازم ہے کہ وہ وحدہٗ لاشریک خدا کو مانے او رہر قسم کی بے حیائی اورناپاکی سے دور رہے اورفسق و فجور سے بچے.عورتیں پاک دامن ہوں.اب ان دونوںتصویروںپر غور کر لو اصل میں ایک شخص جس دین کی طرف منسوب ہوتا ہے وہ حقیقی نام اس وقت حاصل کرتا ہے جب اس کاسچامتبع ہو اور پابند مذہب ہو.آپ قرآن کاایک جزو بھی پڑھیں گے تو معلوم ہوجاوے گا.۱ ۳۱ ؍اکتوبر ۱۹۰۲ء (دربارِ شام ) بعد ادائے نماز مغرب اوّلاًچند آدمیوںنے بیعت کی.پھر میاں نبی بخش صاحب نمبر دار چک نمبر ۱۰۸ نے دعا کی درخواست کی کہ حضور کی محبت میرے دل میں بڑھے.خدا کافضل فرمایا.خدا تعالیٰ نے جواخلاص اورتوجہ عطا کی ہے خود اس نے ابتدا کی ہے اس لئے شکر کرو کہ وہ اوربھی بڑھادے یہ محض اس کافضل ہے جواس نے حق شناسی کی توفیق دی ورنہ اگردل سخت کر دے توانسان رجوع نہیں کر سکتا.یہ اسی کے فضل سے ہوتاہے جو یقین اور اخلاص عطا کرتاہے اوراس کے شکرپر اس کو بڑھاتاہے پس شکر کرو کہ اس کا فضل اور بھی ترقی کرے نمازوں میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتـحۃ:۵) کاتکراربہت کرو.اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ
خداکے فضل اورگمشدہ متاع کوواپس لاتاہے.۱ یکم نومبر ۱۹۰۲ء بروز شنبہ (بوقتِ سیر ) حضرت اقدس حسبِ دستور سیر کے لئے نکلے تمام راہ میاں فتح دین صاحب مولوی حضرت اقدس کے مخاطب رہے حضرت اقدس بار بار ان کے ذہن نشین یہ اَمر کراتے رہے کہ مباحثات میں ہمیشہ دیگر طریق استدلال کو چھوڑ کر اس طریق کو اختیار کرنا چاہیے کہ قرآن شریف مقدم ہے اور احادیث ظن کے مرتبہ پر ہیں قرآن شریف سے جو اَمر ثابت ہواس کوکوئی حدیث خواہ پچاس کروڑ ہوں ہرگز رد کر نہیں سکتیں.چونکہ اس گفتگومیںمیاںفتح دین صاحب بھی بعض اوقات احادیث سے اپنے استنباط جو کہ انہوں نے اپنی منظوم کتاب میںدرج کئے ہیں مفصّل حضرت اقدس کوسناتے رہے اور حضرت اقدس مختلف طور پر ان کوسمجھاتے رہے اس لئے ہم حضرت اقد س کے کلمات کو مختصراً درج کرتے ہیں.اِسلام کامدار قرآن شریف پر ہے ان لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ تم خود قائل ہو کہ اصح کتاب قرآن شریف ہے احادیث ۱۵۰ برس بعد جمع ہوئیں پھر ان میں باہم تناقض ہے ایک میں مہدی کا ذکر ہے ایک میں ہے لَا مَھْدِیَ اِلَّا عِیْسٰی.ایک طرف مہدی کی حدیث ضعیف لکھی ہے پھر کہتے ہیں کہ مسیح اوپر سے اترے گا تو ایک طرح سے ایک ٹانگ ٹوٹ گئی جب قرآن شریف بار بار اوپر کے آنے سے منع کرتا ہے تو حدیث جو کسی طرح سے خواہ حقیقتاً خواہ استعارہ کے طور پر قرآن شریف کے برابر نہ آسکے تو وہ ہر حال میں ناقابلِ اعتبار ٹھہرے گی ورنہ اس طرح سارا اسلام درہم برہم ہو جاوے گا.تمام ستون اور مدار اسلام کا قرآن پر ہے جب قرآن شریف میں ہے کہ عیسیٰ فوت ہو گئے پھر انکار کیسا؟ پھر فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ (المائدۃ : ۱۱۸) کی نسبت آپ مولوی فتح دین کو سمجھاتے رہے.پھر احادیث کے بیان کی طرف رجوع کر کے فرمایا کہ
اگر ان کا حدیث پر اس قدر اعتبار ہے تو رفع یدین کی جو چار ۴۰۰سو احادیث آئی ہیں اس پر کیوں نہیں عمل کرتے.ہمارا مسئلہ خدا کی سنّتِ قدیمہ کے موافق ہے جیسے یہ آمد کے منتظر ہیں ویسے ہی یہودی الیاس کے منتظر تھے.پیغمبر کے لئے ضروری نہیں ہے کہ اس کا علم اتنا وسیع ہو جیسے خدا کا ہے.یہ پیغمبر پر جائز ہے کہ بعض امور کی تفصیل اس پر نہ کھل سکے.جیسے کہ بہت سے آخرت کے امور ہیں کہ انسان کو مَرنے کے بعد معلوم ہوتے ہیں تو پھر یہ لوگ اپنے علم پر کیوں اس قدر باتیں کرتے ہیں یہودیوں کو الیاس کی انتظار تھی مسیح نے کہا کہ یحییٰ الیاس ہے خواہ قبول کرو خواہ نہ، پھر اسی وقت جا کر یحییٰ سے دریافت کیا اور دریافت بھی ایسے الفاظ سے کیا ہو کہ اسے یہی جواب دینا پڑے کہ میں وہ الیاس نہیں.ہم نے دیکھا ہے کہ یہ بار بار احادیث پیش کرتے ہیں اور ان میں سے نزول کو لیتے ہیں ہم کہتے ہیں کہ اگر اسی مسیح نے آنا تھا تو پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے کا حُلیہ کیوں الگ بتلایا اور کہا کہ آنے والے مسیح کو تم اس طرح پہچانو.اس کی کیا ضرورت تھی؟ مباحثہ میں بھی اصول رکھا جاوے کہ قرآن شریف مقدم ہے یہ منواکر ان سے کہا جاوے تقدم قرآن تو اب مقبولہ فریقین ہے باقی امور اسی سے فیصلہ کر لو.اگر حدیثوں پر سارا مدار ہے تو قرآن کی کیا ضرورت ہے جو کہتا ہے اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ جھوٹے دھوکے ہیں.اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ (الزّخرف : ۶۲)کے یہ معنے ہیں کہ یہودیوں کے ادبار اور ذلّت کی نشانی مسیح کے آنے کا وقت تھا اور جَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ (الزّخرف : ۶۰) بھی اسی کی تصدیق کرتا ہے.ساعت کے معنے آخرت کے بھی ہیں.اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ (النِّسآء : ۱۶۰) کے یہ معنے کرتے ہیں کہ وہ اب تک زندہ موجود ہے جب آویں گے تو کُل اہلِ کتاب ایمان لاویں گے اس کے متعلق ابی ہریرہ کی حدیث پیش کرتے ہیں حالانکہ تفسیر مظہری میں اس کے اوپر کس قدر مطاعن ہیں.یہ کہنا کہ کُل لوگ اس وقت ایمان لاویں گے غلط ہے.قرآن سے ثابت ہے کہ قیامت تک کافر رہیں گے قرآن کو ہر حال میں مقدم رکھنا چاہیے قرآن کے نصوصِ قطعیہ بالکل فیصلہ کر دیتے ہیں.
سورہ تحریم میں ہے کہ مسیح بن مریم اسی اُمّت میں سے ہوگا.سورۃ النّور میں ہے کہ تمام خلیفہ اسی اُمّت میں سے ہوں گے.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح کا نام حَکم رکھا ہے یہ اس طرف اشارہ ہے کہ بہت فرقہ ہوں گے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ غلطیاں کثرت سے ہوں گی.نزول کی حقیقت قرآن میں نزول کے معنے مختلف مقام پر مختلف ہیں اگر اعتراض ہو کہ پھر نزول کا لفظ استعمال ہی کیوں ہوا اَور کوئی لفظ حدیث میں کیوں نہ آیا تو جواب یہ ہے کہ مسلم کی ایک حدیث میں مبعوث کا لفظ بھی آیا ہے نزول کا لفظ اس لئے استعمال ہوا کہ اس وقت کل برکات اور فیوض اٹھ جاویں گے اور پھر آسمان سے نازل ہوں گے قرآن میں خود آنحضرتؐکے بارے میں ہے کہ ہم نے اسے آسمان سے نازل کیا اور آسمان ہی سے پانی بھی اترتا ہے اگر آسمان سے بارش نہ ہو تو کوئیں بھی پانی نہیں دیتے لمبے قحطوں میں اکثر ایسا ہوتا ہے.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان لوگوں کو وصیت تھی کہ میرے بعد بخاری کو ماننا؟ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تو یہ تھی کہ کتاب اﷲ کافی ہے.ہم قرآن سے پوچھے جاویں گے نہ کہ زید و بکر کے جمع کردہ سرمایہ سے.یہ سوال ہم سے نہ ہوگا کہ تم صحاحِ ستہ وغیرہ پر کیوں نہ ایمان لائے؟ پوچھا تو یہ جاوے گا کہ قرآن کو کیوں نہ مانا؟ بحث کے اصول بحث کے قواعد ہمیشہ یاد رکھو.اوّل قواعد مرتّب ہوں.پھر سوال مرتّب ہوں.کتاب اﷲ کو مقدم رکھا جاوے احادیث ان کے اقرار کے بموجب خود ظنیات ہیں یعنی صدق اور کذب کا ان میں احتمال ہے اس کے یہ معنے ہیں کہ ممکن ہے کہ سچ ہو اور ممکن ہے کہ جھوٹ ہو لیکن قرآن شریف ایسے احتمالات سے پاک ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی
زندگی قرآن شریف تک ہی ہے.پھر آپؐفوت ہو گئے اگر یہ احادیث صحیح ہوتیں اور مدار ان پر ہوتا تو آنحضرتؐفرما جاتے کہ میں نے احادیث جمع نہیں کیں فلاں فلاں آوے گا تو جمع کرے گا تم ان کو ماننا.سنّت اور حدیث قرآن کا نام فرقان رکھا ہے یعنی فیصلہ کرنے والا ہے.لیکن یہ لوگ کہتے ہیں کہ اب اس کا نام فرقان نہیں.اوّل قرآن مقدم رکھا جاوے.دوسری سنّت.سنّت یہ ہے کہ قرآن میں جو احکام آئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کر کے ان کو دکھلا دیا جیسے نماز پڑھ کر بتلادی کہ صبح کی یوں ہوتی ہے شام کی یوں.جیسے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن شریف سے استنباط کئے ویسے ویسے آپ بتلاتے رہے اور جو آپ کے اقوال تھے ان کا نام حدیث ہے ایک سنّت یہ بھی تھی کہ آپ فوت ہو گئے قرآن شریف میں تھا کہ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ( اٰل عـمران : ۱۴۵).یعنی سب مَرگئے وہ بھی مَرے گا خدا کی بات پوری ہوگئی کہ آپ مَر گئے.۱ نزولِ مسیحؑ ہمارے ہاتھ میں تو ایک نظیر ہے اگر یہ پوچھیں کہ جو تاویل (نزولِ مسیح کی) تم پیش کرتے ہو کسی نے آگے بھی کی ہے تو ہم جواب دیتے ہیں کہ جس کے بارے میں تم کو مصیبت پڑی ہے (یعنی مسیحؑ ) اس نے خود یہ تاویل کی ہے اس کو بھی اس وقت مصیبت پڑی تھی تو ہماری جماعت میں داخل ہو کر آخر اس کی رہائی ہوئی.نظیر بھی کوئی شَے ہوتی ہے خدا تعالیٰ بھی اپنی سنّت بطور نظیر۲ کے پیش کیا کرتا ہے اگر آنحضرتؐدوبارہ آجاتے تو کوئی حرج نہ تھا آپ نے کوئی خدائی کا دعویٰ تو نہیں کیا نہ آپ خدا بنائے گئے مگر خدا نے مسیح کے منہ سے نکلوا کر اقرار کرالیا کہ دوبارہ آنے کے یہ معنے ہوتے ہیں.کوئی بادشاہ وہ طریق اختیار نہیں کرتا جس سے اس کی بادشاہی میں خلل آوے پس خدا کیوں ایسا طریق اختیار کرے جس سے اس کی خدائی میں بٹہ لگے.
مومن کو اﷲ رُسوائی کی موت نہیں دیتا پھر میاںفتح دین صاحب نے کہا کہ ہم لوگ بڑے خطاکار ہیں کئی فاسد خیال آتے رہتے اور طاعون کا زور ہو رہا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا.میں یہ یقیناً جانتا ہوں کہ جس کو دل سے خدا سے تعلق ہے اسے وہ رُسوائی کی موت نہیں دیتا.ایک بزرگ کا قصہ کتب میں لکھا ہے کہ ان کی بڑی دعا تھی کہ وہ طوس کے مقام میں فوت ہوں ایک کشف میں بھی انہوں نے دیکھا کہ میں طوس میں ہی مَروں گا پھر وہ کسی دوسرے مقام میں سخت بیمار ہوئے اور زندگی کی کوئی امید نہ رہی تو اپنے شاگردوں کو وصیت کی کہ اگر میں مَر گیا تو مجھے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کرنا.انہوں نے وجہ پوچھی تو بتلایا کہ میری بڑی دعا تھی کہ میںطوس میں مَروں مگر اب پتہ لگتا ہے کہ وہ قبول نہیں ہوئی اس لئے میں مسلمانوں کو دھوکا نہیں دینا چاہتااس کے بعد وہ رفتہ رفتہ اچھے ہو گئے اور پھر طوس گئے وہاں بیمار ہو کر مَرے اور وہیں دفن ہوئے.اس لئے مومن بننا چاہیے مومن ہو تو خدا رُسوائی کی موت نہیں دیتا اور دل کے خیالات پر مواخذہ نہیں ہوتا جب تک کہ انسان عزم نہ کر لے ایک چور اگر بازار میں جاتا ہوا ایک صراف کی دوکان پر روپوں کا ڈھیر دیکھے اور اسے خیال آوے کاش کہ میرے پاس بھی اس قدر روپیہ ہو اور پھر اسے چُرانے کا ارادہ کرے مگر قلب اسے لعنت کرے اور وہ باز رہے تو گنہگار نہ ہوگا اور اگر پختہ ارادہ کرلے کہ اگر موقع ملا تو ضرور چُرالوں گا تو گنہگار ہو گا آدم ؑ کے قصہ میں بھی خدا فرماتا ہے وَلَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا (طٰہٰ : ۱۱۶) یعنی ہم نے اس کی عزیمت نہیں پائی عَصٰۤى اٰدَمُ (طٰہٰ : ۱۲۲) کے معنے ہیں کہ صورت عصیان کی ہے مثلاً آقا ایک غلام کو کہے کہ فلاں رستہ جا کر فلاں کام کر آئو تو وہ اگر اجتہاد کرے اور دوسرے راہ سے جاوے تو عصیان تو ضرور ہے لیکن وہ نافرمان نہ ہوگا صرف اجتہادی غلطی ہوگی جس پر مواخذہ نہیں.خرگوش حلال ہے پھر کسی نے خرگوش کے حلال ہونے پر حضرت اقدس سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اصل اشیاء میں حلّت ہے حُرمت جب تک نصِّ قطعی سے ثابت نہ ہو تب تک نہیں ہوتی.
حدیث کا مقام حدیث کے متعلق ہمارا مذہب ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ بھی ہو تو اس پر عمل کر لیا جاوے جب تک کہ وہ مخالف قرآن نہ ہو.پھر سنّت پر ذکر ہوتے ہوتے فرمایا کہ امام اعظم علیہ الرحمۃ نے رفع یدین پر کیوں عمل نہ کیا.کیا اس وقت حدیث کے راوی نہ تھے راوی تو تھے مگر چونکہ یہ سنّت اس وقت ان کو نظر نہ آئی اس لئے انہوں نے عمل نہیں کیا.مولویوں کی بدقسمتی ہے کہ یہودونصاریٰ محرّف ومبدّل توریت کو لئے پھرتے ہیں اور یہ بجائے قرآن کے حدیثوں کو لئے پھرتے ہیں.غیر ازجماعت کی نماز جنازہ نماز جنازہ پڑھنے پر آپ نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منافق کو کُرتہ دیا اور اس کے جنازہ کی نماز پڑھی.ممکن ہے کہ اس نے غرغرہ کے وقت توبہ کر لی ہو.مومن کا کام ہے کہ حُسنِ ظن رکھے اسی لئے نماز جنازہ کا جواز رکھا ہے کہ ہر ایک کی پڑھ لی جاوے.ہاں اگر کوئی سخت معاند ہو یا فساد کا اندیشہ ہے تو پھر نہ پڑھنی چاہیے ہماری جماعت کے سَر پر فرضیت نہیں ہے بطور احسان کے ہماری جماعت دوسرے غیر ازجماعت کا جنازہ پڑھ سکتی ہے.وَصَلِّ عَلَيْهِمْ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ (التّوبۃ : ۱۰۳)اس میں صلوٰۃ سے مُراد جنازہ کی نماز ہے سَكَنٌ لَّهُمْ دلالت کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا گنہگار کو سکینت اور ٹھنڈک بخشتی تھی.فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ سے دو فائدے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ (المائدۃ : ۱۱۸) سے دو فائدہ ہماری جماعت کو اٹھانے چاہئیں ایک تو یہ کہ عیسٰیؑ اس میں کہتے ہیں کہ میری وفات کے بعد میری اُمّت بگڑی ہے جس کی مجھ کو خبر نہیں ہے پس اگر عیسٰیؑ ابھی تک نہیں فوت ہوئے تو پھر یہ بھی مان لینا چاہیے کہ ابھی تک عیسائی صراطِ مستقیم پر ہیں اور بلحاظ دین کے ان میں کوئی فساد نہیں.دوسری بات یہ کہ اگر اس آیت کا اطلاق ان پر ان کے دوبارہ آنے کے بعد ہے تو اس صورت میں مسیحؑ بہت کذّاب ٹھہرتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ وہ دوبارہ دنیا میں آکر چالیس سال
رہے اور اپنی قوم کی بد اعتقادی کی حالت دیکھ کر انہوں نے ان کی اصلاح کی اور صلیب کو توڑا اور خنزیروں کو قتل کیا اور پھر باوجود اس کامل علم کے خدا کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں کہ مجھ کو خبر نہیں ہے.(بوقتِ عصر) مباحثہ مُدّ کی روئیداد اس وقت حضرت اقدس نے نماز سے پیشتر مجلس فرمائی سید سرور شاہ صاحب اور عبداللہ صاحب کشمیری جو کہ موضع مُد میں تبلیغ اور مشاہدہ کے لئے تشریف لے گئے تھے بخیرو عافیت واپس آئے اور حضرت اقدس سے نیاز حاصل کی اور وہاں کے جلسہ مباحثہ کی مختصر تفصیل سنانے لگے.حضرت اقدس نے اختصاراً ان تمام باتوں کا اعادہ کیا جو کہ آپ نے سیر میں فرمائی تھیں کہ مباحثہ میں ہماری جماعت کو کیا پہلو اختیار کرنا چاہیے اور پھر تمام کیفیت مباحثہ سننے کے لئے شام کا وقت مقرر ہوا.بعدادائے نماز مغرب حضرت اقدس نے جلوس فرماتے ہی حکم صادر فرمایا کہ مباحثہ موضع مُد کی کارروائی سنائی جاوے.چنانچہ عبداﷲ کشمیری صاحب اٹھ کر سنانے لگے.سب سے اوّل حضرت اقدس کو اس اَمر پر کمال افسوس ہوا کہ فریقین نے صرف بیس بیس منٹ اپنے اپنے دعاوی کے متعلق دلائل لکھنے کے لئے قبول کئے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ایسی صورت میں ہرگز مباحثہ قبول نہیں کرنا چاہیے تھا یہ تو ایک قسم کا خون کرنا ہے جب ہم مدعی ہیں تو ہمیں اپنے دعاوی کے دلائل کے واسطے تفصیل کی ضرورت ہے جو کہ وقت چاہتی ہے اور جب دلائل لکھے جاتے ہیں تو توجہ ہوتی ہے اس میں فیضانِ الٰہی ہوتا ہے اس کا ہم کیا وقت مقرر کر سکتے ہیں کہ کب تک ہو.غرضیکہ حضرت اقدس نے اس بات کو بالکل نا پسند فرمایا کہ وقت میں کیوں تنگی اختیار کی گئی.پھر عبداللہ صاحب کشمیری نے وہ تمام تحریریں پڑھ کر سنائیں.ہماری جماعت کی طرف سے مذکورہ بالا دو اصحاب تھے اور فریق مخالف کی طرف سے مولوی ثناء اللہ صاحب تھے.مباحثہ اس طریق سے ہوا تھا کہ مصدّق فریق نے وفاتِ مسیح، نزولِ مسیح اور حضرت اقدس کے مسیح موعود ہونے کے دلائل اپنے ذمہ لیے تھے اور
مکذّب فریق نے اس کی تکذیب کے دلائل اپنے ذمہ لئے تھے ہر ایک فریق ہر ایک اَمر پر بیس بیس منٹ تک لکھتا تھا اور سنا دیتا تھا پھر ایک دوسرے کا دونوں جواب الجواب لکھتے تھے.بہرحال فریقِ مکذّب نے اس مباحثہ میں قرآن کی طرف مطلق رجوع نہ کیا اور مصدّق فریق نے جو جو معیار صداقت قرآن کریم سے پیش کیے تھے ان کا اس سے کوئی جواب بن نہ آیا.چنانچہ پریزیڈنٹ جلسہ نے اٹھ کر علانیہ بیان کر دیا کہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ (المآئدۃ:۱۱۸)کا جواب مولوی ثناء اللہ صاحب سے کوئی بن نہیں آیا.اس کی روئیداد سننے پر حضرت اقدس پھر انہیں امور کا بار بار اعادہ فرماتے رہے جو کہ سیر میں مناظرہ اور مباحثہ کے متعلق فرماتے تھے تا کہ سامعین کے ذہن نشین وہ باتیں ہو جاویں.۱ ۲؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز یکشنبہ(بوقتِ سیر) مُدّ کے حالاتِ مباحثہ پر تبصرہ حضرت اقدس حسبِ معمول سیر کے لئے تشریف لائے اور آتے ہی پھر اس مناظرہ پر حضور نے گفتگو شروع کی جس کی کارروائی گذشتہ شب کو درج کی جا چکی ہے.آپ نے فرمایا کہ آج کل ان مولویوں کا دستور ہے کہ چالیس پچاس جھوٹ ایک دفعہ ہی بیان کر دیتے ہیں اب ان کا فیصلہ تین چار منٹ میں دوسرا فریق کس طرح کرے پادریوں کا بھی یہی طریق ہے کہ ایک دَم اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں ایسے وقت میں یہ طریق اختیار کرنا چاہیے کہ ایک اعتراض چُن لیوے اور اوّل اس پر فیصلہ کر کے پھر آگے چلے اور دوسرا لے لیوے.اوّل قواعد مقرر کئے جاویں یہ اَمر بھی دیکھا جاوے کہ منہاجِ نبوت کو مانتا ہے کہ نہیں.اس۱ نے بار بار عبداﷲ آتھم کی پیشگوئی کا تکرار کیا کہ وہ پوری نہ ہوئی.اگر منہاجِ نبوت کا فیصلہ اوّل کر لیا جاتا تو اس طرح کا دھوکہ کب دے سکتا تھا.
وعیدی پیشگوئی ٹل سکتی ہے یونس ؑ نبی کی پیشگوئی موجود تھی اس میں کوئی شرط بھی نہ تھی اور دُرِّمنثور میں بھی حدیث ہے کہ یونسؑ نے کہا کہ لَنْ اَرْجِعَ کَذَّابًا یعنی میں جھوٹا کہلا کر واپس نہ جائوں گا.دیکھو اس میں کوئی شرط نہ تھی وعید میں خدا کو حق لازم نہیں آتا کہ ضرور عذاب نازل کرے.دیکھا جاتا ہے کہ جب بَلا آتی ہے تو صدقہ خیرات کرنے سے ٹل جاتی ہے صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ ایسی بَلا کا قبل ازوقت بیان نہیں ہوتا نہ اس کی پیشگوئی ہوتی ہے اور پیشگوئی میں بَلا کا قبل از وقت بیان کر دیا جاتا ہے بہر حال وہ بھی خدا کے علم میں تو قبل از وقت ہی ہوتی ہے.قرآن میں بار بار ذکر ہے کہ ہم نے فلاں قوم کی ہلاکت کا ارادہ کیا مگر جب انہوں نے توبہ کی تو پھر عذاب ہلاکت ٹل گیا.توریت میں بھی ذکر ہے کہ موسیٰ کی دعا سے بار بار عذاب ٹلتا رہا وعید میں تخلّف جائز ہے.اہلِ کتاب کا کوئی ایسا فرقہ نہیں کہ جو اسے نہ مانتا ہو.ہندو بھی مانتے ہیں کہ صدقہ سے بَلا ٹل جاتی ہے جب ٹل گئی تو پیشگوئی بدل گئی قرآن میں بھی ہے يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ يَعِدُكُمْ(المؤمن : ۲۹) یعنی عذابی پیشگوئیوں کا بعض حصہ تو پورا ہو گا اور بعض بوجہ توبہ و استغفار ٹل جاوے گا.نبی سے اجتہادی غلطی ہو سکتی ہے منہاجِ نبوت کو دیکھا جاوے تو صریح نظر آتا ہے کہ انبیاؤوں سے اجتہادوں میں غلطیاں ہوتی ہیں جیسے عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم ابھی نہیں مَرو گے کہ میں واپس آجائوں گا تو یہ آپ کا اجتہاد تھا مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک ان کے آنے سے یہ مُراد نہ تھی بلکہ دوسرے کا آنا تھا اور ممکن ہے کہ الیاس کا بھی یہ خیال ہو کہ میں ہی واپس آئوں گا اسی طرح پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کا سفر کیا تو حضرت عمرؓ کو ابتلا آیا خود آنحضرتؐکا اجتہاد اس طرف دلالت کرتا تھا کہ ہم فتح کر لیویں گے مگر وہ اجتہاد صحیح نہ نکلا.اسی طرح ایک دفعہ آپ نے کہا کہ میں نے سمجھا تھا کہ ہجرت یمامہ کی طرف ہوگی مگر یہ بات درست نہ نکلی کیونکہ یہ آپ کا اجتہاد تھا خدا پر یہ اَمر لازم نہ تھا کہ ہر ایک باریک اَمر آپ کو بتلا دیوے پس بحث مباحثہ میں اوّل مخالف سے منہاجِ نبوت کو قبول کروا کر اس کے دستخط کروالینے چاہئیں.
پھر آتھم والی پیشگوئی کی تفصیل کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں تو یہ لکھا ہے کہ بشرطیکہ اس کی طرف رجوع نہ کرے یہ تو نہیں لکھا کہ بشرطیکہ مسلمان ہو جاوے.اس سے اوّل وہ رسول اللہ کو دجّال لکھ چکا تھا اور یہی وجہ مباحثہ کی تھی پھر جب میں نے پیشگوئی سنائی تو اس نے اسی وقت کانوں پر ہاتھ دھرے اور کہا کہ توبہ توبہ میں تو دجّال نہیں کہتا.عذابوں کے نزول کی وجہ یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ صرف عیسائی ہونا یا بُت پرست ہونا اس اَمر کاموجب نہیں ہوتا کہ دنیا میں عذاب آوے ایسے عذابوں کے لئے تو قیامت کا دن مقرر ہے.عذاب ہمیشہ شوخیوں پر آتا ہے اگر ابو جہل وغیرہ شرارتیں نہ کرتے تو عذاب نازل نہ ہوتا.نرے باطل مذہب کے پابند ہونے پر نہ کوئی عذاب ہوتا ہے نہ کوئی پیشگوئی.ہمیشہ زیادہ شوخیوں پر پیشگوئیاں ہوتی ہیں یہود کو مغضوب علیہم اسی لئے کہا کہ انہوں نے شوخیاں کیں گستاخیاں کیں ان پر غضب وارد ہوئے لیکن ضالّین کو مغضوب علیہم نہ کہا حالانکہ آخرت میں تو عذاب یہود کو بھی ہونا ہے اور نصاریٰ کو بھی.مگر چونکہ انہوں نے شوخی نہ کی اس لئے دنیا میں ان پر غضب نازل نہیں ہوا.انسان کیسے ہی بُت پرست، انسان پرست کیوں نہ ہو مگر جب تک شرارت نہ کرے عذاب نہیں آتا اگر ان باتوں پر بھی عذاب دنیا میں ہی آجاوے تو پھر قیامت کو کیا ہوگا.یہودیوں پر عذاب اسی لئے آئے کہ انہوں نے پیغمبروں کو دکھ دیئے ان کے قتل کے منصوبے کئے ان کی گستاخیاں کیں.کافروں کے لئے اصل زنداں تو قیامت ہی ہے.اس پر سوال ہوتا ہے کہ پھر دنیا میں کیوں عذاب آتا ہے تو جواب یہی ہے کہ شوخیوں کے واسطے آتا ہے.عوام النّاس سے ہمیشہ موٹی موٹی باتیں کرنی چاہئیں.خدا تعالیٰ نے جو معجزات نبوت کی جزو رکھے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام فائدہ اٹھاویں کیونکہ خواص کے لئے معجزات کی ضرورت نہیں ہوتی ان کے لئے تو حقائق اور معارف ہی کافی ہیں عوام کو چونکہ یہ معرفت نہیں ہوتی اس لئے ان کے خوش کرنے کو معجزات رکھے گئے ہیں.
(بوقتِ عصر) مرکزی اخبارات کو محتاط رہنے کی ہدایت اس وقت نماز کے بعد حضرت اقدس نے الحکم اور البدر کے ایڈیٹروں کو بلا کر تاکید کی کہ وہ مضامین کے قلمبند کرنے میں ہمیشہ محتاط رہا کریں ایسا نہ ہو کہ غلطی سے کوئی بات غلط پیرایہ میں بیان ہو جاوے یا کسی الہام کے الفاظ غلط شائع ہوں تو اس سے معترض لوگ دلیل پکڑیں اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایسے مضامین مولوی محمد علی صاحب ایم اے کو دکھا لیا کریں اس میں آپ کو بھی فائدہ ہے اور تمام لوگ بھی غلطیوں سے بچتے ہیں.مباحثہ مُدّ حضرت اقدس نے بعد نماز مغرب حسب دستور جلوس فرماکر مباحثہ موضع مُد کے حُسن وقبح پر تذکرہ کیا کہ یہ مولوی لوگ عوام کے بھڑکانے کے واسطے عجیب عجیب حیلہ گھڑتے ہیں اور حق رسی سے ان کو کوئی کام نہیں ہوتا.اس پر مولانا عبد الکریم صاحب اور مولانا حکیم نور الدین صاحب نے اپنے اپنے مباحثات سنائے جن میں مخالفین نے عوام الناس کو اصل مقام بحث سے بالکل الگ تھلگ باتیں سنا کر اس لئے بھڑکایا تھا کہ جنگ اور فساد ہو اور عام جہال مولانا صاحبان کی آبرو پر حملہ کریں.حکیم نور الدین صاحب کے واقعات ایک خوارقِ عادت رنگ رکھتے تھے کہ عین مباحثہ کے اوقات میں انہوں نے مخالفت عام دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور ایسے اسباب اسی وقت پیدا ہو گئے کہ جماعت مخالف کو نیچا دیکھنا پڑا.یہ تمام اذکار اور نظائر اس لئے سنائے گئے تھے کہ ہمارے بھائی ہمیشہ مباحثہ میں اس اَمر کا خیال رکھیں کہ لوگوں کے فہم کے مطابق باتیں کریں جو لوگ باریک بین اور نکتہ رَس نہیں ہوتے ان کے رو برو باریک در باریک حقائق اور معارف بیان کرنے گویا دیدہ دانستہ مخالف کو ڈگری دینی ہوتی ہے.
فرمایا.ولد الزّنا میں حیا کامادہ نہیں ہوتا اسی لئے خدا تعالیٰ نے نکاح کی بہت تاکید کی ہے.۱ (صبح کی سیر) عربی نویسی میں مقابلہ اس اَمر کا تذکرہ تھا کہ بعض نادان مُلّاں جب ہر طرح مقابلہ سے عاجز آجاتے ہیں اور ان پر اتمامِ حجّت کے لئے کہا جاتا ہے کہ فصیح بلیغ عربی نویسی میں مقابلہ کر لو تو یہ کہہ کر پیچھا چھڑاتے ہیں کہ ان کتابوں میںغلطیاںہیں.فرمایا.غلطیاں نکالنے کا جو دعویٰ کرتے ہیں اس میں تویہ اَمر بجائے خود تنقیح طلب ہے کہ جو غلطی انہوں نے نکالی ہے خود ان کی اپنی ہی غلطی تو نہیں.مولوی محمد حسین صاحب نے عَـجِبْتُ لِاَمْرِیْ پرجب اعتراض کیا کہ لام صلہ نہیں بلکہ مِنْ آتا ہے تو اسے کیسا شرمندہ ہونا پڑا.بالمقابل لکھ کر تو دکھائیں.دعوت تو لکھنے کی ہے نہ غلطیاں نکالنے کی اور پھر ایسی حالت میں یہ بہانہ کب چل سکتا ہے جب اپنی نکالی ہوئی غلطیوں میں خود ان کی ہی غلطیاں ہوں.۲ ۳؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز دوشنبہ(بوقتِ سیر) مباحثات کا طریق حضرت اقدس حسب معمول سیر کے لئے تشریف لائے اور سیر کو چلے اور اس اَمر پر آپ نے تذکرہ فرمایا کہ مباحثات میں ہمیشہ یہ اَمر مدِّ نظر رکھنا چاہیے کہ فریق مخالف اپنی روباہ بازی سے سامعین کو دھوکا نہ دے جاوے.اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سامعین کے باطل عقائد کے موافق یہ لوگ ہماری طرف سے ایسی باتیں ان کو سناتے ہیں کہ جن سے وہ لوگ معاً بھڑک جاویں اور برانگیختہ ہو جاویں ایسی صورت میں پھر خواہ ان کے آگے کچھ ہی کہو وہ لوگ ایک نہیں سنتے جیسے مولوی صاحب نے کل اپنا ذکر سنایا تھا.اور پھر طریق بحث پر ایک جگہ فرمایا کہ بلاغت کا کمال یہ بھی ہے کہ ایک بات دوسرے کے دل تک پہنچائی جاوے ورنہ اگر کوئی کلام
س قابل ہو کہ آبِ زر سے لکھی جاوے مگر متکلّم اسے سمجھ نہیں سکتا تو پھر وہ فصیح نہ کہلاوے گی اس لئے کلام کرنے والے کو یہ تمام پہلو مدِّ نظر رکھنے چاہئیں.مکذّبوںکے ذریعہ ہی حقائق و معارف کھلتے ہیں کافروں کے لئے درمیانی خوشی ہوتی ہے اور انجام کی خوشی متقیوں کے لئے ہوتی ہے خدا تعالیٰ اگر چاہے تو ایک دَم میںسب کاخاتمہ کرسکتا ہے مگروہ رونق چاہتاہے جب تک مکذّب نہ ہوں توپھرمصدّق کی حقیقت کیامعلوم ہوسکتی ہے مکذّبوں کے ذریعہ سے ہی حقائق معارف کھلتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی محبت اور نصرت کاپتہ ملتاہے اگر ایک شخص کے دل میں ماں کی محبت ہے تواس کاکسی کو علم نہ ہوگا مگر جب کوئی اسے ماں کی گالی دیوے توجھٹ اسے غصہ آوے گا اور معلوم ہوجاوے گاکہ ماں کی محبت اس کے دل میںہے.ایک عِلمی مُعجزہ ان ہمارے مخالفوںکوغلطیاںنکالنے کا کوئی حق نہیں پہنچتاجب تک وہ اپنا منصب عربی دانی کا ثابت نہ کریں تب تک ان کو غلطی نکالنے کاحق نہیں ہے.اعتراض کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اوّل زبان پر پورااحاطہ ہواگر ان لوگوں کوعربی کاعلم ہے تو ہم جو دس سال سے رسالہ لکھ لکھ کر مقابلہ پر بلا رہے ہیں انہوں نے آج تک دس سطریں ہی دکھائی ہوتیں.ورنہ جہالت سے تکذیب کرنے سے کیابنتاہے یہ خدا کی قدرت ہے کہ یہ لوگ بالمقابل لکھ نہیں سکتے ورنہ اِملا کرناکیامشکل اَمر ہے مگر ہمارے مقابلہ میں خدا نے ان کی زبانوں کو بند کردیا ہے.فرمایا کہ دل میں بات بٹھانے کے واسطے بھی ایک ڈھب ہوتاہے کیونکہ اب تلوار کی لڑائی تو ہے نہیں.زبانوں کی ہے اس لئے زبان کی تلوار جب مارے تو اوچھی نہ مارے.ایسی ضرب مارے کہ دو ٹکرے ہوجاویں میں نے بار ہاارادہ کیا ہے کہ یہ لوگ میرے زانو بہ زانو بیٹھ کر عربی لکھیں مگر دل فتویٰ دیتا ہے کہ یہ لوگ کبھی نہ آویں گے کیونکہ ان کے دلوں پر رُعب پڑ گیا ہے تو اب جب کہ شکار ہمارے نزدیک نہیں آتاتو ہمیں چاہیے کہ دو رسے بذریعہ بندوق کے نشانہ بناویں.
مباحثہ مُد میں ہماری فتح ہوئی اس وقت حضرت اقدس تشریف لائے اور تھوڑی دیر مجلس کی مُد کے مباحثہ کا ذکر ہوتا رہا کہ درحقیقت تو ہم نے فتح پالی ہے صرف اتنی بات ہے کہ وہ دیہات کے لوگ تھے ان کو ان باریک باتوں کی سمجھ نہیں آئی مجھے خوشبو آتی ہے کہ آخر کار فتح ہماری ہے دسمبر کے آخر تک جو نشان ظاہر ہونے والے ہیں شاید یہ بھی ان میں سے ایک عظیم الشان نشان ہوجاوے یہ اللہ تعالیٰ کی عادت ہے جیسے فرمایا وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ (القصص : ۸۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تیرہ برس تک مکروہات ہی پہنچتے رہے.(بوقتِ عصر) اس وقت حضرت اقدس تشریف لا کر مباحثہ مُد کے متعلق ہی ذکر کرتے رہے.خدا کے بر گزیدوں کی بھی عجیب حالت ہوتی ہے کہ جب ایک بات کی طرف توجہ ہوجاوے تو پھر رات دن اسی کی طرف توجہ رہتی ہے گویا کہ بالکل اس میںمستغرق ہیں اوردنیا و ما فیہاکی خبر نہیں.مہمان تکلّف نہ کیاکریں بعد ادائے نماز مغرب حضرت اقدس حسب معمول جلوس فرما ہوئے.میر صاحب نے عبدالصمد صاحب آمدہ از کشمیر کو آگے بلا کر حضور کے قدموں کے نزدیک جگہ دی اور حضرت اقدس سے عرض کی کہ ان کویہاں ایک تکلیف ہے کہ یہ چاولوں کے عادی ہیں اوریہاں روٹی ملتی ہے.حضرت اقدس نے فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ ( صٓ : ۸۷ ) ہمارے مہمانوںمیں سے جوتکلّف کرتاہے اسے تکلیف ہوتی ہے اس لئے جوضرورت ہو کہہ دیاکرو.پھر آپ نے حکم دیا کہ ان کے لئے چاول پکوا دیاکرو.
مباحثہ مُدّ کا ذکر پھر حضرت اقدس مُدّ کے مباحثہ پر ذکر اذکار کرتے رہے پھر فرمایاکہ اس دن ہم نے مناسب سمجھا تھاکہ یہ مباحثہ کی کار روائی الحکم وغیرہ میں نہ چھپے مگر خدا کو یہ منظو ر نہ تھا.سرسیدکایورپ کی طرف میلان سید احمد صاحب کے یورپ کی طرف میلان پر فرمایاکہ انسان جس شَے کی طرف پوری رغبت کرتا ہے تو پھر اسی کی طرف اس کامیلان طبعی ہو جاتا ہے اورآخر کار وہ مجبور ہوتا ہے.ڈوئی کا ذکر پھر ڈوئی کااخبار مفتی محمد صادق صاحب سناتے رہے حضرت اقدس نے فرمایاکہ اس لئے سنتے ہیں کہ کہیں غیرت آجاتی ہے اور بعض اوقات کوئی عجیب تحریک ہو جاتی ہے.ایک ایک حَرف خدا تعالیٰ کی طرف سے آتاہے پھر اس کے بعد ذکر چل پڑا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے حضرت اقدس کوتمام مقابلہ کی تحریروں میں مدددیتا رہا ہے کہ اکثراوقات حضرت اقدس بیمار تھے اور میعاد مقابلہ نزدیک آگئی تو پھر اسی حالت میں بڑی سختیوں سے راتوں کو بیٹھ بیٹھ کر کتابیں لکھیں.فرماتے تھے کہ میں تو ایک حرف بھی نہیں لکھ سکتا اگر خدا کی طاقت میرے ساتھ نہ ہو.بار ہا لکھتے لکھتے دیکھا ہے کہ ایک خدا کی روح ہے جو تیر رہی ہے قلم تھک جایا کرتی ہے مگر اندر جوش نہیں تھکتا طبیعت محسوس کیا کرتی ہے کہ ایک ایک حرف خدا کی طرف سے آتا ہے.ڈوئی کا ذکر پھر ڈوئی کی بات پر فرمایا کہ اس کے وجود سے شیطان کاوجود ثابت ہوتاہے وہ بھی انسان کواسی طرح فریفتہ کرتاہے.۱
۴؍نومبر ۱۹۰۲ ء بروز سہ شنبہ (بوقتِ سیر) حضرت اقدس سیر کے لئے تشریف لائے.علاقہ جہلم سے دو شخص بہت ضعیف العمر حضرت اقدس کی زیارت کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے بوجہ ضعیف العمری کے وہ چل نہیںسکتے تھے حضرت اقدس ان کی خاطر ٹھہر گئے اوران کے حالات دریافت کرتے رہے.پھر حضرت اقدس مشرق کی طرف چلے.آیت مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْ قَالُوْا لَاعِلْمَ لَنَا کی تفسیر سید سرور شاہ صاحب نے حضرت اقدس سے سوال کیاکہ قرآن شریف سے معلوم ہوتاہے کہ قیامت کے دن ہر ایک رسول اپنی اُمّت کے حالات سے لاعلمی ظاہر کرے گا جیسے قرآن شریف میں ہے يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا (المائدۃ : ۱۱۰) تو پھراس آیت کے مفہوم کے مطابق اگر مسیحؑ بھی اپنی امت کے حالات سے لاعلمی ظاہر کریں اگر چہ وہ آخر زمانہ میں پھر آکر چالیس برس ان لوگوں میں گذار بھی جاویں توآیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ کے لحاظ سے وہ اللہ تعالیٰ کے رو برو کاذب کیسے ٹھہر سکتے ہیں؟ حضرت اقدس نے فرمایاکہ یہ لاعلمی انبیاء کی ان کی اس اُمّت کے بارے میں ہوتی ہے جو ان کی وفات کے بعد ہوتی ہے مسیح بھی کہتاہے كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ( المائدۃ : ۸ ۱۱) تو پھر اگر ان کو علم نہیں تو وہ شہید کس طرح ہوئے اور کس بات کے ہوئے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے حالات سے تو لاعلمی ظاہر کر سکتے ہیں مگر صحابہ کرام کی نسبت نہیں کر سکتے کیونکہ آپ کوان کے حالات معلوم تھے اور آپ ان میں رہتے تھے.اس قسم کی لاعلمی سے وہی لا علمی مُرادہے یعنی اس امت کا ذکر جو کہ نبی کے بعد آیاکرتی ہے یابہت آخری وقت پر آتی ہے کہ اسے نبی کی صحبت سے کچھ حصہ نہیںملتا.
ایک تعبیر پھر ایک صاحب نے خوا ب سنایا کہ اس نے رات کوہاتھی خواب میں دیکھااوریہ کہ حضرت اقدس اس کے سر کو تیل لگارہے ہیں حضرت اقدس نے تعبیر فرمائی کہ رات کے وقت ہاتھی دیکھنا عمدہ ہوتاہے اورتیل لگانابھی زینت ہے یہ بھی اچھا ہے.مرکزسے عربی رسالہ جاری کرنے کی خواہش حضرت اقدس کے گذشتہ ایما پر عبداللہ عرب صاحب نے کشتی نوح چند ورق کاترجمہ عربی زبان میںکیاتھاوہ حضرت اقدس کوسناتے رہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ اگر یہ مشق کر لیںکہ اردو سے عربی اورعربی سے اردوترجمہ کر لیا کریں تو ہم ایک عربی پرچہ یہاں سے جاری کر دیویں.شرم پھر شرم کے ذکر پر فرمایاکہ ایک شرم انسان کودوزخ میں لے جاتی ہے اور ایک شرم بہشت میں لے جاتی ہے جو شخص شرم کی وجہ سے اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھاتااس کے لئے شرم دوزخ ہے.مولویوں کی حالت پھر آج کل کے معترض مولویوںکی حالت پر فرمایا کہ ان لوگوں نے بالکل پادریوں کاڈھنگ اختیار کیاہواہے جیسے وہ جب ملتے ہیں تو سب کچھ چھوڑ چھاڑکر آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم پر سبّ وشتم شروع کر دیتے ہیں اسی طرح یہ لوگ ہمارے معاملہ میںکرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بھی تماشہ دیکھ رہاہے آنحضرتؐکے زمانہ میںبھی کفار کیا کیا نہ کرتے تھے اگر خدا چاہتاتواسی وقت کفارکوتباہ کردیتامگر اس نے ایسانہ کیا کچھ عرصہ ان کی ناز برداری کرتا رہا.ایک پیشگوئی کاپورا ہونا پھر سرور شاہ صاحب سے حضرت اقدس کچھ گفتگو ان کے سفر امرتسر کے متعلق کرتے رہے ایک مقام پر فرمایا کہ ہم نے مالی انعامات دے دے کر ان لوگوں کو اپنے مقابلہ پر بلایامگر یہ لوگ نہ آئے مگرہم دینے سے تھکے نہیں ابھی اور دیویں گے اور اگروہ اسے قبول نہ کریں گے تو گویا اپنے ہاتھوں سے ایک اور پیشگوئی ہمارے حق میں پوری کر دیں گے وہ یہ ہے کہ حدیث شریف میں ہے کہ مسیح مال دے گا اور
لوگ نہ لیں گے تو اگر انکار کرتے ہیں تو اپنے ہاتھ سے اسے پوراکرتے ہیں.مذہبی گفتگوکاطریق فرمایا.گفتگوئیں ایسے مقامات پر ہونی چاہئیںجہاں رؤساء بھی جلسہ میں ہوں اور تہذیب اورنر م زبانی سے ہر ایک بات کریں کیونکہ دشمن جب جانتاہے ہے کہ محاصرہ میں آگیا تو وہ گالی اوردرشت زبانی سے پیچھاچھڑاناچاہتاہے طالبِ حق بن کر ہر ایک بات کرنی چاہیے اوریہ اَمر سچ ہے ہمارے حق پر ہونے کی یہ علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِيْ (المجادلۃ : ۲۲) اگر ہم حق پر نہیں ہیں تو ہم غالب نہ ہوں گے ہم نے ان کو کئی بار لکھا ہے کہ سب متفق ہوجاویں کوئی عیب نہیں ہے.ہماری طرف سے ان کو اجازت ہے ان تمام مولویوں میںسے بہت ایسے ہیں کہ عربی لکھتے ہیں بلکہ اشعار بھی کہتے ہیں مگر ہمارے مقابل پر خدائے تعالیٰ ان کی زبان بندکر دیتاہے اوران کوایسا اَمر پیش آتاہے کہ چپ رہ جاتے ہیں.پھر مکان قریب آگیا اور حضرت اقدس السلام علیکم کہہ کر تشریف لے گئے.(بوقتِ ظہر) پھر انہیں امور کا ذکر ہوتا رہا جو کہ سیر میں بیان ہوئے اور فرمایا کہ خدا کے فضل کی ضرورت ہے سر میں درد ہے.ریزش بھی ہے ایسا نہ ہو کہ زیادہ ہوجاوے پھر فرمایا کہ نماز پڑھ لی جاوے اور نماز پڑھ کر تشریف لے گئے.(بوقتِ عصر) اس وقت مولوی محمد علی صاحب نے حضرت اقدس کو ایک انگریزی مضمون سنایا.مغرب کی نماز کے بعد حضرت اقدس حسبِ دستورشہ نشین پر جلوہ گر ہوئے سیدعبداللہ عرب صاحب نے ایک رسالہ ایک شیعہ علی حائری کے ردّ میں زبان عربی میں لکھا تھا اس کانام سبیل الرشاد رکھا تھا وہ حضرت اقدس کوسناتے رہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ
س سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کامیلان دنیا کی طرف نہ تھا ورنہ دوسری دنیا دار قوموں کی طرح لاکھوں کروڑوں تک گنتی وہ بھی رکھتے.پھر وہ رسالہ سن کر حضرت اقدس نے تعریف کی کہ عمدہ لکھا ہے اور معقول جواب دئیے ہیں.۱ ۵؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز چہار شنبہ(بوقتِ سیر) خاتمہ بالخیر چاہیے حضرت اقدس حسبِ معمول سیر کے لئے تشریف لائے.آتے ہی قاضی امیر حسین صاحب مدرّس عربی مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے والد ماجد مسمّٰی غلام شاہ صاحب تاجر اسپاں سے ملاقات ہوئی انہوں نے حضرت اقدس کے دستِ مبارک کو بوسہ دیا اور نذر گذرائی.حضرت اقدس ان کے حالات دریافت فرماتے رہے معلوم ہوا کہ اَسّی سال سے زیادہ عمر آپ کی ہے انہوں نے درخواست کی کہ میرے خاتمہ بالخیر کی دعا فرمائی جاوے.حضرت اقدس نے فرمایا.بس یہی بڑی بات ہے کہ خاتمہ بالخیر ہو.کسی نے نوحؑ سے دریافت کیا تھا کہ آپ تو قریب ایک ہزار سال کے دنیا میں رہ کے آئے ہیں بتلائیے کیا کچھ دیکھا.نوحؑ نے جواب دیا کہ یہ حال معلوم ہوا ہے جیسے ایک دروازہ سے آئے اور دوسرے سے چلے گئے.تو عمر کا کیا ہے لمبی ہوئی تو کیا تھوڑی ہوئی تو کیا خاتمہ بالخیر چاہیے.پھر ایک بڑکے درخت کی طرف اشارہ کر کے حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہم سے تو یہ درخت ہی اچھا ہے ہم چھوٹے ہوتے تھے تو اس کے تلے ہم کھیلا کرتے تھے یہ اسی طرح ہے اور ہم بڈھے ہو گئے ہیں یہ سال بہ سال پھل بھی دیتا ہے.پھر فرمایا کہ پرسوں میں نے انشاء اللہ (ایک شہادت کے واسطے ) بٹالہ جانا ہے اس میںکوئی حکمتِ الٰہی ہوگی اس لئے کل سیر موقوف رہے گی.مہندی لگاؤں گا.فرض منصبی میں التوا ہوگیا ہے مگر خدا کی حکمت ہی ہوگی وہ جرح نہ ڈالے گا.مولوی محمد علی صاحب کو ہمراہ لے جاؤں گا.
مباحثہ مُدّ کسی فتح کی بنیاد نظر آتا ہے محمد یوسف صاحب اپیل نویس نے بیان کیا کہ حضور موضع مُد کے مباحثہ میں ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا تھا کہ مرزا صاحب تمہاری آنکھ کیوں نہیں اچھی کر دیتے حضرت اقدس نے فرمایا.جواب دینا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اندھا تھا جیسے لکھا ہے عَبَسَ وَتَوَلّٰۤى اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰى ( عبس : ۲،۳ ) وہ کیوں نہ اچھا ہوا حالانکہ آپ تو افضل الرّسل تھے اَور بھی اندھے تھے ایک دفعہ سب نے کہا کہ یا حضرت ہمیں جماعت میں شامل ہونے کی بہت تکلیف ہوتی ہے آپ نے حکم دیا کہ جہاں تک اذان کی آواز پہنچتی ہے وہاں تک کے لوگوں کو ضرور آنا چاہیے.مباحثہ کے ذکر پر فرمایا کہ شریر آدمیوں کا کام ہے کہ آنکھ، کان، ناک اور ٹانگ وغیرہ کاٹ کر پھر کلام کو ایک مسخ شدہ صورت میں پیش کرتے ہیں یہ مباحثہ بھی ہمارے لئے ایک فتح حدیبیہ کی صلح کی طرح کسی فتح کی بنیاد ہی نظر آتا ہے.جماعت کا اخلاص پھر فرمایا کہ ہماری جماعت جان و مال سے قربان ہے اگر ہمیں ایک لاکھ کی ضرورت ہو تو وہ مہیّا کر سکتے ہیں اوّل بار عوام النّاس نے علمی باتوں کو نہ سمجھا اس لئے اب اﷲ تعالیٰ نشانوں سے سمجھاتا ہے.پھر شیعوں کے ذکر اذکار ہوتے رہے کہ ان لوگوں میں یہ بھی عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی شکل علی کی شکل ہے معراج میں بھی خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر آیا تو علی کی شکل پر آیا.مولویوں کی حالت زمانہ کے مولویوں کی حالت پر فرمایا کہ ایسے مولویوں کے ہوتے ہوئے دین کے استیصال کے لئے پادریوں کی بھی ضرورت نہیں ہے.نبی سے اجتہاد میں غلطی ہو سکتی ہے پھر اعتراضوں پر فرمایاکہ کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ ہم پر وہ ٹیکس لگاتے ہیں جو
ختیار کیا.معلوم ہوتا ہے یہ لوگ گورنمنٹ کے بڑے مزاج دان ہوتے ہیں گورنمنٹ کے لئے رعایا مثل بچوں کے ہے ایک ماں کی طرح حد انسانیت تک خبر گیری ضروری ہے اگر یہ بات ثابت ہو گئی کہ ٹیکہ سے کوئی مفید تجربہ حاصل نہیں ہوا تو پھر طاعون کا کوئی علاج نہیں آخر نظر آسمان کی طرف ہونی چاہیے خدا نے قوموں کو سزا دینے کے لئے اسے رکھا ہے.توریت میں بھی اس کا ذکر ہے قرآن میں بھی ہے بلکہ قرآن میں تو چوہوں کا بھی ذکر ہے خدا کی عجیب قدرتوں کے دن ہیں جو قسمت والے ہوں گے وہ ایمان خدا پر لاویں گے.صحابہؓ کا زُہد پھر عبد اﷲ عرب صاحب اپنی تصنیف ردِّ شیعہ میں سناتے رہے ایک مقام پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ صحابہ کرام کو جَو برابر بھی دنیا کی خواہش نہ تھی ان کامدّعا یہ تھا کہ خون بہا کر بھی رسول اﷲ کے پیرو بن جاویں.پھر ایک مقام پر فرمایا کہ سِر الشہادتین (کتاب) میں مَیں نے ایک دفعہ پڑھا کہ جب مسلم (امام حسین) دروازہ کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے یہ آیت پڑھی رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَيْرُ الْفٰتِحِيْنَ(الاعراف:۹۰) اور اسی وقت ان کا سر کاٹا گیا یہ بات مجھ کو بڑی بے محل معلوم ہوئی.پھر عبد اللہ عرب صاحب اپنے تقیہ کے حالات سناتے رہے جو کہ وہ اوّل اوّل خاص قادیان میں کرتے رہے اور پھر انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا جس نے اس گند سے ان کو نجات دی.حضرت اقدس نے فرمایا کہ خدا کا بڑا فضل ہے جب تک آنکھ نہ کھلے انسان کیا کر سکتا ہے.۱ ۶؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز پنجشنبہ (بوقتِ ظہر) حضرت اقدس نے آکر فرمایا کہ چونکہ کام کی کثرت ہے اور وقت تنگ ہے کل انشاء اللہ بٹالہ بھی جانا ہے اس لیے آج نمازیں جمع کرلی جاویں.
حضرت اقدسؑ حسب معمول بعد ادائے نماز مغرب شہ نشین پر جلوہ گر ہوئے فرمایا کہ آج میں نے (کام میں) بہت توجہ کی.سر میں درد تھا ریزش بھی ہے اور گلا بھی پکا ہوا ہے جیسے کسی نے چیرا ہوا ہو اور مریض بھی بہت آئے اگر چہ حکیم نورالدین صاحب کو علاج کے لئے مقرر کیا ہوا ہے مگر بعض اپنے اعتقاد کے خیال سے مجھ سے ہی علاج کراتے ہیں.دنیا کی بے ثباتی پھر دنیا کی بے ثباتی پر فرمایا کہ چند روزہ زندگی ہے.اس کا نظارہ کیا ہے.کون ہے جو اپنے خویش واقارب کی موت کا نظارہ نہیں دیکھتا.اﷲ تعالیٰ نے دنیا کو بے ثبات کر رکھا ہے جو آیا ہے اس کے اوپر جانا سوار ہے.ہزار دو ہزار برس کی عمر ہوتی تب بھی کیا ہوتا.مگر انسان کی عمر تو چیل اور گِد جتنی بھی نہیں ہے اگریہ مضمون دل کے اندر چلا جاوے تو اس کا اثر ہوتا ہے جیسے ابراہیم ادھم اور شاہ شجاع وغیرہ ان پر ایسا اثر پڑا کہ اپنے تختوں سے نیچے اتر پڑے.۱ ۷؍نومبر ۱۹۰۲ء بٹالہ کا سفر بعد ادائے نماز فجر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام بٹالہ جانے کے لئے تیار ہوئے ۷؍نومبر کی صبح کا نظارہ دارالامان کے چوک میں قابلِ دید تھا.دارالامان کی کل جماعت، مدرسے کے طالب علم نہایت اشتیاق اور اخلاص کے ساتھ اپنے سید و مولا امام کی روانگی کے منتظر اور ہمراہ چلنے کے حکم کے لئے بیقرار تھے.حضرت اقدس ؑ نے یہی فرمایا کہ چونکہ آج ہی واپس آجانا ہے اس لئے کچھ ضرور نہیں کہ سب لوگ ساتھ جاویں.۲ آپ نے ایک اور طالب علم کو جو پاپیادہ ہمراہ تھا فرمایاکہ تم کو تو یونہی تکلیف ہوئی تھوڑی دیر شاید ٹھہرنا ہو گا سفر کی کوفت میں تم خواہ مخواہ ہمارے شریک ہو گئے.
ایک نو مسلم کو نصیحت حضرت اقدس میاں عبدالرحمان صاحب سے ان کے والد صاحب کے حالات دریافت فرماتے رہے اور نصیحت کی کہ ان کے حق میں دعا کیا کرو ہر طرح سے حتی الوسع دلجوئی والدین کی کرنی چاہیے اور ان کو پہلے سے ہزار چند زیادہ اخلاق اور اپنا پاکیزہ نمونہ دکھلا کر اسلام کی صداقت کا قائل کرو.اخلاقی نمونہ ایسا معجزہ ہے کہ جس کی دوسرے معجزے برابری نہیں کر سکتے سچے اسلام کا یہ معیار ہے کہ اس سے انسان اعلیٰ درجہ کے اخلاق پرہو جاتا ہے اور وہ ایک ممیّز شخص ہوتا ہے شاید خدا تمہارے ذریعہ سے ان کے دل میں اسلام کی محبت ڈالے.اسلام والدین کی خدمت سے نہیں روکتا.دنیوی امور میں جن سے دین کا حرج نہیں ہوتا ان کی ہر طرح سے پوری فرمانبرداری کرنی چاہیے دل و جان سے ان کی خدمت بجالائو.زندگی کا بھروسہ نہیں راستہ میں مولوی قطب الدین صاحب سے ملاقات ہوئی.جو کہ شاہ پور کی طرف ایک مریض کی درخواست سے علاج پر گئے ہوئے تھے اور وہ بیمار ان کی رسیدگی پر فوت ہوگیا تھا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ انسان کا کیا ہے زندگی کا بھروسہ نہیں جہاں تک ہو سکے آنے والے سفر کی تیاری میں مصروف ہونا چاہیے ساری بیماریوں کا علاج ہے مگر یہ ایسی بیماری ہے کہ جس کا کوئی علاج نہیں.۱ اعلیٰ حضرت کی سواری ساڑھے نو بجے کے قریب بٹالہ پہنچی.اترتے ہی لوگوں کا ایک ہجوم ہوگیا اور کچہری کے اہلکار اور دوسرے لوگ زیارت کے لئے آموجود ہوئے.اس باغ میں جو کچہری کے سامنے ہے ڈیرا کیا گیا.آپ بعض حوائج سے فارغ ہو کر حلقہ خدام میں اجلاس فرما ہوئے اور کاغذ طلب کیا.فرمایا کہ راہ میں چند شعر کہے ہیں ان کو لکھ لوں چنانچہ مفتی صاحب نے اپنی نوٹ بک پیش کی اور آپ لکھنے لگے.کھانا ساتھ ہی تھا حکم دیا کہ پہلے کھانا کھا لیا جاوے.
منشی محمد یوسف صاحب اپیل نویس مردان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ ایک دینی جہاد کر رہے ہیں اﷲ تعالیٰ اسی کی جزادے گا.۱ میں نے ایڈیٹر الحکم کو حکم دیا ہے کہ وہ سارا مباحثہ الحکم میں چھاپ دیں جو زائد کا پیاں آپ کو مطلوب ہوں ان سے لے لیں.زائد اخراجات آپ کو برداشت نہ کرنے پڑیں گے اور ثواب بھی ہو گیا.اور فرمایا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ جلدی اس سلسلہ کو پھیلا رہا ہے اﷲ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اس سلسلہ کو دنیا میں پھیلائے.ضمناً فرمایا.کوئی درخت اتنی جلدی پھل نہیں لاتا جس قدر جلدی ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے یہ خدا کا فعل ہے اور عجیب.یہ خدا کا نشان اور اعجاز ہے.مسیح ناصریؑ کے متعلق صحابہ کرامؓ کا عقیدہ فرمایا.یہ صحیح نہیں ہے کہ صحابہؓ حضرت مسیح کی اس شان کے قائل تھے جو خدائی کے ناواقف مسلمانوں نے ان کی بنا رکھی ہے اگر وہ مسیح کو اسی شان سے مانتے کہ وہ حقیقی مُردے زندہ کرتے تھے اور حیّ وقیّوم تھے تو ایک بھی مسلمان نہ ہوتا اور اگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ان کی صفات کو یقین کرتے تو وہ اخلاص اور وفاداری ان میں پیدا نہ ہوتی.حضرت مسیح علیہ السلام پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا احسان فرمایا.
حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت ہی بڑا احسان ہے کہ آپ نے ان کا تبریہ کیا اور ان الزاموں سے پاک کیا جو ان پر ناپاک یہودی لگاتے تھے جو یہودی مسلمان ہوتا تھا کتنی بڑی بات ہے کہ حضرت عیسٰیؑکی رسالت کا اسے پہلے اقرار کرنا پڑتا تھا.۱ فرمایا.عیسائی مذہب ایسا ہے کہ اس کو پیدا ہوتے ہی صدمہ پہنچا جیسے کوئی لڑکی پیدا ہوتے ہی اندھی ہو ایسا ہی اس مذہب کا حال ہے مگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر احسان کیا اور اس کو پاک کیا.نبی کا ہر سفر حکمتِ الٰہی پر مبنی ہوتا ہے بٹالہ آنے کا تذکرہ ہو پڑا فرمایا.ہمارا یہاں آنا تو کوئی اور ہی حکمت رکھتا ہے ورنہ یہ شہادت کیا اور شہادت بھی لا علمی کی.۲ اس پر آپ نے فرمایا کہ دو بزرگ ابوالقاسم اور ابو سعید نام تھے.اتفاق سے دونوں ایک جگہ اکٹھے ہو گئے ان کے ایک مرید نے کہا کہ میرے دل میں ایک سوال ہے اتفاق سے دونوں ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں.میں پوچھنا
چاہتا ہوں اور وہ سوال یہ پیش کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو مدینہ میں آئے تھے اس کی وجہ کیا تھی؟ ابوالقاسم نے کہا کہ بات اصل میں یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض کمالات مخفی تھے ان کا ظہور اور بروز وہاں آنے سے ہوا.ابو سعید نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے آئے تھے کہ بعض ناقص۱ ابھی موجودتھے ان کی تکمیل کے لئے آئے.گویا دونوں نے اپنے اپنے رنگ پر اپنی انکساری کا اظہار کیا اور ایک دوسرے کی تکریم.اسی طرح ہمارے یہاں آنے کی غرض تو یہی معلوم ہوتی ہے کہ میاں نبی بخش سے ملاقات ہو گئی کچھ تبلیغ ہو جائے گی بہت لوگوں کو فائدہ پہنچ جائے گا.شہادت کا چھپانا گناہ ہے شہادت کے تذکرہ پر فرمایا کہ شہادت کا چھپانا گناہ ہے اور جب سر کار بلائے تو ضرور حاضر ہونا چاہیے شہادت سے جب کسی کی بھلائی ہو اور حق کھل جاوے تو کیوں ادا نہ کرے.ہر جگہ جو انسان قدم رکھتا ہے اس میں خدا کی حکمت ہوتی ہے زمین پر کچھ نہیں ہوتا جب تک آسمان پر تحریک اور مقدّر نہ ہو.۲ ایک سائل نے آکر کچھ مانگا آپ نے میر صاحب کو حکم دیا کہ اس کو کچھ دے دیں اور جو آجائیں ان کو بھی کچھ نہ کچھ دے دو.۳
عیسائیوں سے مباحثات ایک مولوی صاحب جو کہ عیسائیوں کے ساتھ مباحثات کے بہت مشّاق تھے انہوں نے حضرت اقدسؑ سے نیاز حاصل کی حضرت اقدسؑ نے دریافت فرمایا کہ آپ کا وہ مباحثہ ہو اکہ نہیں.مولوی صاحب نے جواب دیا کہ عیسائی لوگ مباحثہ سے بھاگ گئے.بالکل مقابل نہیں آئے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ اب آپ لوگوں کے وہ پرانے ہتھیار کام نہیں دیتے وہ کُند ہو گئے ہیں اور خاطر خواہ کام نہیں دیتے بلکہ ان سے الٹا ضرر اسلام کو پہنچتا ہے انتیس لاکھ کے قریب مسلمان مرتد ہو چکے ہیں.مباحثات کااثر بحیثیت مجموعی دیکھناچاہیے فرداً فرداً کچھ پتہ نہیں لگاکرتا.منشی نبی بخش صاحب نے عرض کی کہ حضور جس آیت کو ہم وفاتِ مسیح کے استدلال میں پیش کرتے ہیں یعنی مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ( الانبیآء : ۳۵) عیسائی لوگ اس آیت سے استدلال پکڑ کے ان لوگوں کے سامنے الوہیت مسیح ثابت کرتے ہیں جس کاان لوگوں سے کچھ جواب بن نہیں آتا.وہ اس آیت سے مسیح کو بشریت سے الگ کر کے ان کوقائل کرتے ہیں کہ جب وہ زندہ آسمان پر ہے تو بہر حال الوہیت کے رنگ میںہوا اگر بشر ہوتا تومَر گیا ہوتا.حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ یہ سوال توان کابڑامعقول ہے ان مولویوں کوچاہیے کہ اس کا جواب دیویں.اب دیکھئے کہ اگر مسلمانوں کے دو چارجلسوں میں یہ سوال پیش ہو اور مولوی اس کے جواب میں ساکت رہیں اور جواب میں قاصر رہیں توپھر اسلام کی ذریّت پر کیااثر پڑسکتا ہے ایسے ایسے سوالوں کے بعد اگر مسلمان مرتد نہ ہوں تو کیا کریں؟ پھر انہی مولوی صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ مولوی صاحب فرمائیے اب آپ کے ہتھیار کس کام کے ہیں.بلکہ یہ لوگ تو اس بات کے بھی قائل ہیںکہ حضرت عیسٰیؑ نے بہت سے پرندے بھی بنائے جو اَب اللہ تعالیٰ کی مخلوق شدہ پرندوں میں مل جل
گئے ہیں گویا فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ہوگیا ہے.ان کے سوا ان لوگوں کے اور ایسے عقیدے ہیں کہ اگر ان کاعیسائیوں کوپتہ لگ جاوے تو وہ ان کے ساتھ بحث کرنے کو انہیں ڈنکے کی چوٹ بلاویں یہ لوگ تو خطرناک ہیں انہوں نے اگر اسے خدا نہیں بنایا تو اس کے خدا بنانے میںکسر بھی نہیں چھوڑی.ان کا وہی حال ہے جس طرح کوئی کہے کہ فلاں شخص مَرا تو نہیں مگر ہاں اس کی نبض بھی نہیں، سانس بھی نہیں لیتا، پیٹ بھی پھول گیا ہے، حرکت بھی نہیںکرتا، غرض ساری علامات مُردوں کی ہیں مگر مَرا نہیں.یہی ان لوگوں کاحال ہے کہ مسیح کوخدانہیں کہتے مگر ساری خدائی کی صفات کواس میں جمع کر دیتے ہیں ان عیسائیوں کو ہم کیا ردّ دیں ہمارے تو یہ اندر ونی عیسائی ہی اُمّت پر چُھری چلارہے ہیں.۱ الحکم میں درج ہے فرمایاکہ بے شک ان لوگوں پر جومسیح کوزندہ آسمان پر بٹھاتے ہیں یہ سوال معقول ہے انسان اپنے اقرار سے پکڑا جاتاہے ان مسلمانوں نے خود اقرار کر لیا ہے کہ مسیح زندہ ہے اورآسمان پر بیٹھا ہے اور ایسا ہی اس کے معجزات اور اس کا خالق طیور ہونابہت سی باتیں ہیں جن سے عیسائیوں کو مدد ملی ہے ہم عیسائیوں کو کیا روئیں ہمارے گھرمیں خود یہ مسلمان اسلام پر چُھری چلا رہے ہیں.الہام اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ کے معنی لالہ کاہن چند صاحب مختار عدالت بٹالہ ( جو توحید پسند ہندو ہیں ) نے آپ سے الہام اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ کی تشریح وتفسیر کے متعلق سوال کیا کہ دافع البلاء میں جو یہ الہام درج ہے اس سے کیا مُراد ہے؟ فرمایا.اس کاپہلا حصہ تو بالکل صاف ہے کہ تو جو ظاہر ہوا یہ میرے فضل اور کرم کانتیجہ ہے اور جس انسان کوخدا تعالیٰ مامور کر کے دنیامیں بھیجتاہے اس کواپنی مرضی اور حکم سے مامور کر کے بھیجتا ہے جیسے حکّام کابھی یہ دستور اورقاعدہ ہے.
اب اس الہام میں جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَنَا مِنْکَ اس کایہ مطلب اور منشا ہے کہ میری توحید میرا جلال اور میری عزّت کا ظہور تیرے ذریعہ سے ہوگا.ایک وقت آتا ہے کہ زمین فسق وفجور اورشر و فساد سے بھر جاتی ہے لوگ اسباب پرستی میں ایسے فنا اور منہمک ہوتے ہیں کہ گویا خدا کانام و نشان بھی نہیں ہوتا.ایسے وقتوں میں خدا تعالیٰ اپـنے اظہار کے واسطے ایک بندہ اپنی طرف سے بھیج دیتا ہے ہندوؤں نے جواوتار کامسئلہ مانا ہے یہ بھی اسی کاہمرنگ ہے گویا خدا تعالیٰ ان کے اندر مجازی طور پر بولتا ہے.اس زمانہ میں اسباب پرستی اور دنیا پرستی اس طرح پھیل گئی ہے خدا تعالیٰ پر بھروسہ اورایمان نہیں رہا.دہریت اور الحاد کا زور ہے جو کچھ حالت اس وقت زمانے کی ہورہی ہے اس پر نظر کر کے کہناپڑتا ہے کہ زمانہ زبانِ حال سے پکار رہاہے کہ کوئی خدانہیں.عملی حالت ایسی کمزور ہوگئی ہے کہ کھلی بے حیائی اور فسق وفجور بڑ ھ گیا ہے یہ ساری باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ دلوں سے خدا پر ایمان اوراس کی ہیبت اُٹھ گئی ہے اور کوئی یقین اس ذات پر نہیں.ورنہ یہ کیا بات ہے کہ انسان کو اگر معلوم ہوجاوے کہ اس سو راخ میں سانپ ہے تووہ کبھی اس میں اپنا ہاتھ نہیں ڈالتا پھر یہ بے حیائی اور فسق وفجور.اتلافِ حقوق جوبڑھ گیا ہے کیا اس سے صاف معلوم نہیں ہوتا کہ خدا پر ایمان نہیں رہا یا یہ کہوکہ خداگم ہوگیا ہے.اس وقت خدا تعالیٰ نے اپنے ظہور کا ارادہ فرمایا اور مجھے مبعوث کیا اس لئے مجھے کہا کہ اَنْتَ مِنِّی وَ اَنَا مِنْکَ.اوراس کے یہی معنے ہیں کہ میراجلال اور میری توحید و عظمت کاظہور تیرے ذریعہ ہوگا.چنانچہ وہ نصرتیں اور تائیدیں جواس نے اس سلسلہ کی کی ہیں اورجونشانات ظاہر ہوئے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی توحید اور عظمت کے اظہار کے ذریعہ ہیں.یہ اَمر کوئی ایسااَمر نہیں کہ مشتبہ یا مشکوک ہو بلکہ تمام مذاہب میں مشترک طور پر پایا جاتا ہے کہ ایک وقت خدا کے ظہور کا آتا ہے اورایک وقت ہوتا ہے کہ خدا اس وقت گم ہوا ہوا سمجھاجاتاہے یہ وہ وقت ہوتاہے جب اس کی ہستی اورتوحید اور صفات پر ایمان نہیں رہتا اورعملی رنگ میں دنیا دہریہ
ہوجاتی ہے.اس وقت جس شخص کوخدا اپنی تجلّیات کامظہر قرار دیتا ہے وہ اس کی ہستی توحید اورجلال کے اظہار کاباعث ٹھہرتا ہے اوروہ اَنَا مِنْکَ کامصداق ہوتاہے.اگر کوئی یہ کہے کہ خدا تعالیٰ کو کسی ذریعہ کی کیاضرورت ہے؟ تو ہم کہیں گے کہ یہ سچ ہے اس کوکوئی ضرورت نہیں ہے مگراس نے اس عالَمِ اسباب میں ایسا ہی پسند فرمایا ہے.دیکھو! پیاس لگتی ہے یابھوک لگتی ہے مگر یہ پیاس اور بھوک پانی اورکھانے کے بغیرفرو نہیں ہوسکتی.اسی طرح جس قدر قوتیں اورطاقتیں ہیں اوران کے تقاضے ہیں وہ اسی طرح پورے ہوتے ہیں اسی طرح دنیاکی تمدنی زندگی کی اصلاح اور انتظام کے لئے اس نے بادشاہوں اور حکومت کے سلسلے کاانتظام رکھا ہے جو شریروں کو سزا دیتے اور مخلوق کے حقوق ان کے جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرتے ہیں.خداخود اتر کر تو نہیں آتا.حالانکہ یہ سچ ہے کہ وہی حفاظت کرتاہے اورشریروں کی شرارت سے بچاتا اور محفوظ رکھتاہے.اسی طرح روحانی نظام کے لئے بھی اس کا ایسا ہی قانون ہے.سچی پاکیز گی اور طہارت اوروہ ایمان جس سے معرفت، بصیرت اوریقین پیدا ہو خدا ہی کی طرف سے آتا ہے اوراس کامامور لے کر آتا ہے اور وہ ذریعہ ٹھہرتاہے خدا کے جلال اور عظمت کا.اورو ہ اس وقت آتا ہے جب دنیا میں سچی پاکیزگی نہیں رہتی اور خدا سے دوری اور بُعد ایسا ہوتاہے کہ گویا خداہے ہی نہیں.اورجب دنیا کے ہاتھ میں صرف پوست رہ جاتاہے اور مغز نہیں رہتا تب خدا اپنے کسی بندے کے ذریعہ اپنا ظہور فرماتا ہے چونکہ اس زمانہ میں اس نے مجھے بھیجا ہے اس لئے مجھے مخاطب کر کے فرمایا اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ.بابوکاہن چند.آپ نے رسالہ میں اورمعنے کئے ہیں.فرمایا.ہم نے اور معنے کبھی نہیں کئے ہیں.ہم توہمیشہ یہی معنے کرتے ہیں.آتھم نے بھی یہ سوال ہم سے کیا تھا اوراس کویہی جواب دیا گیا تھا.انسان کو چاہیے کہ انصاف ہاتھ سے نہ دے یہ تو حلاوت کی بات ہے انسان اس سے اپنا ایمان بڑھاتا ہے اگر یہ بات نہ ہوتو پھر سلسلہ ہی ختم ہوجاتا.آج کل لوگ خدا کے قائل نہیں رہے بلکہ دہریہ ہیں اس لئے خدا تعالیٰ نے اپنے جلال کو ظاہر کرنے کے واسطے ایک انسان کودنیا میں بھیجا ہے.
كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ (البقرۃ: ۲۹) کی تشریح اس آیت کے معنے پوچھے گئے.فرمایا.انسان پر ایک زمانہ آتاہے کہ وہ نُطفہ ہوتاہے اوراس کاکوئی وجودنہیں ہوتا پھر مَدَارِجِ سِتَّہ سے گذر کر اس پر ایک موت آتی ہے اور پھر اسے ایک احیاء دیا جاتا ہے.یہ ایک مسلّم مسئلہ ہے کہ ہر حیات سے پہلے ایک موت ضرور آتی ہے.اس آیت میں صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ ایک زمانہ اُن پر ایساگذرا ہے کہ وہ بالکل مُردہ تھے یعنی ہر قسم کی ضلالت اورظلمت میں مبتلا تھے پھر ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ زندگی عطا ہوئی اور پھر ان کی تکمیل اورایک موت ان پر وارد ہوئی جو فنا فی اللہ کی موت تھی اس کے بعد ان کوبقاباللہ کا درجہ ملا اورہمیشہ کے لئے زندگی پائی.ایک حدیث کا ذکر ایک حدیث مولوی فتح الدین نے پیش کی جس کی تاویل کر کے اسے مسیح موعود کے وجود پر چسپاں کیا جاتا تھا.فرمایا.کیا ضرورت ہے اس بات کی خدا تعالیٰ نے کھلی کھلی تائیدیں ہمارے لئے رکھ دی ہیں کیا مَنَاکَمِ ثَلَاثَۃ ہمارے مخالفوں کے لیے کافی نہیں ایک بخاری کا مِنْکُمْ ( اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ) مسلم کا مِنْکُمْ (اَمَّکُمْ مِنْکُمْ )اور سب سے بڑھ کر قرآن کا مِنْکُمْ (وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْامِنْکُمْ) (النّور : ۵۶ ) بیعت کرنے والے ہمارے بدن کے جُزو ہوگئے منشی نعمت علی صاحب نے کھانے کے لئے عرض کیا.فرمایا.تکلّف کرنے کی کیا ضرورت ہے ہم کھانا کھا چکے ہیں جب تم لوگوں نے بیعت کر لی تو گویا ہمارے بدن کے جزو ہوگئے پھر الگ کیارہ گیا.یہ باتیں تو اجنبی کے لئے ہوسکتی ہیں.جماعت کی اعجازی ترقی جماعت کی اعجازی ترقی کے ذکر پر فرمایا کہ ہماری طرف سے کوئی سعی نہیں کی جاتی، ہمارے واعظ نہیں، بایں ہمہ
اس قدر ترقی ہورہی ہے کہ عقل حیران ہے اوراصل یہ ہے کہ اگر ہماری سعی اورکوشش سے کچھ ہوتا ہے توشاید شرک ہوتا.اس لئے خدا تعالیٰ خود جو چاہتا ہے کرتا ہے.ممالک مغربی و شمالی میں جہاں ہم کو تین آدمیوں کابھی علم نہیں مردم شماری کے رُو سے نوسو سے زائد آدمی ہیں اوریہ جماعت اب ایک لاکھ سے بھی بڑھ گئی ہے.یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں.مخالف خود محرک ہو رہے ہیں بعض لوگوں کے خطوط آئے ہیں کہ محمد حسین کے رسالوں میں کوئی مضمون دیکھتے تھے ان سے معلوم ہوا کہ آپ حق پر ہیں اوربعض ایسے خطوط بھی آئے ہیں کہ کوئی فقیر ایک کتاب لایا تھا وہ کتاب چھوڑگیا اور اس کا پتہ نہیں.غرض اس پر ذکر فرماتے رہے کہ مخالفوں نے ہر طرح سے مخالفت کی مگر خدا نے ترقی کی.یہ سچائی کی دلیل ہے کہ دنیا ٹوٹ کر زور لگاوے اورحق پھیل جاوے.اب ہمارے مقابل کونسا دقیقہ مخالفت کا چھوڑا گیا مگر آخر ان کوناکامی ہی ہوئی ہے یہ خدا کا نشان ہے اس میں دو چیزوں نے بڑی مدد دی.طاعون نے بیعت کرنے والوں کو بڑھایااور مردم شماری نے تصدیق کی.۱ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ حق کی یہ بھی ایک پہچان ہے اوراس کی شناخت کایہ ایک عمدہ معیار ہے کہ دنیا اپنے سارے ہتھیاروں سے اس کی مخالفت پر ٹوٹ پڑے جان سے، مال سے، اعضا سے، عزّت سے، اور اندرونی اوربیرونی لوگ اور اپنے اور پرائے گویا سب ہی اس کی مخالفت پر کھڑے ہوجاویں اور پھر وہ (حق) آگے ہی آگے قدم رکھتاجاوے اورکو ئی روک اس کی ترقی کو نہ روک سکے چنانچہ قرآن شریف میں ہے کہ فَكِيْدُوْنِيْ جَمِيْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ الـخ (ہود : ۵۶) سو اس معیار سے ہمارے سلسلہ کوپرکھا جاوے تو ایک طالب حق کے واسطے کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا.دیکھ لو نہ ہماراکوئی واعظ ہے، نہ کوئی لیکچرار اور دشمن بھی کیااندرونی کیا بیرونی سب اکٹھے ہو کر ہمارے تباہ کرنے کی کوشش میں لگے رہے مگر اللہ تعالیٰ نے ہر میدان میں ہمیں کامیاب کیا اور دشمن
ذلیل ہوئے کفر کے فتوے لگائے قتل کامقدمہ کیا غرض کہ انہوں نے کوئی دقیقہ ہماری بربادی کا اٹھا نہ رکھا مگر کیا خدا سے کوئی جنگ کرسکتا ہے؟ ہماری ترقی کے خود مخالف ہی باعث اورمحرک ہیں بہت لوگوں نے انہیںکے رسائل سے اطلاع پاکر ہماری بیعت کی.اگرواعظ وغیرہ ہمار ی طرف سے ہوتے تو ہمیں ان کا بھی مشکور ہوناپڑتا اوریہ بھی ایک شعبہ شرک کا ہوجاتا مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے بچایا ایک آبپاشی اور تخم ریزی تو کسان کرتاہے اورایک خود خدا کرتاہے ہم اورہماری جماعت خدا کی تخم ریزی اورآبپاشی سے ہیں تو خدا کے لگائے ہوئے پودا کو کون اکھاڑسکتاہے.۱ مختلف باتوں کے دورا ن فرمایا.قبول حق کے لئے قوت اور توفیق اللہ ہی کی طرف سے آتی ہے اس کی توفیق کے سوا کوئی چارہ نہیں.انبیا ء کے معجزات فرمایا.انبیاء نے کبھی تماشے نہیں دکھائے البتہ جب ان پر شدائد اورمصائب آتے تھے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے تماشہ دکھایا کرتا ہے.جیسے قُلْنَا يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِيْمَ ( الانبیآء : ۷۰ ) سے معلوم ہوتا ہے ایسا ہی ہم پر قتل کا مقدمہ بھی ایک نار تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے نجات دی.ایک خواب کی تعبیر میں فرمایاکہ انبیاء بھی قینچی کاکام کرتے ہیں ایک طرف سے قطع کرتے ہیں اوردوسری طرف پیوست کرتے ہیں.صحابہ کرامؓ پاک و صاف رہتے تھے کسی شخص نے کہاکہ صحابہ کے کپڑے میلے کچیلے ہوتے تھے اورپیوند لگے ہوئے ہوتے تھے.فرمایا.یہ جھوٹ ہے میلے کچیلے ہونا اور بات ہے اور پیوند ہونے اوربات ہے.قرآن شریف میں آیا ہے کہ وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ (المدّثر:۶) پس پاک صاف رہناضروری ہے ایسا ہی قرآن شریف میں فرمایا لَا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۠ ( الواقعۃ : ۸۰ ).۲
۸؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز شنبہ (بوقتِ فجر) ہر احمدی کے لئے تین نصائح مونگھیر سے محمد رفیق صاحب بی اے و محمد کریم صاحب تشریف لائے ہوئے تھے دونوں صاحبوں نے حضرت اقدسؑ سے بیعت کی.بیعت کے بعد حضرت اقدس ؑنے فرمایاکہ ہماری کتابوںکو خوب پڑھتے رہو تاکہ واقفیت ہواورکشتی نوح کی تعلیم پر ہمیشہ عمل کرتے رہاکرو اورہمیشہ خط بھیجتے رہو.مخالف باپ کے لئے دعا کی نصیحت ظہر کے وقت حضور والا نے ایک نو واردصاحب سے ملاقات کی اور ان کو تاکید کی کہ وہ اپنے والد کے حق میں جو کہ حضرت اقدس کے سخت مخالف ہیں دعا کیا کریں انہوں نے عرض کی کہ حضرت میں دعا کیا کرتا ہوں اور حضور کوبھی ہمیشہ لکھا کرتا ہوں حضرت اقدس نے فرمایا کہ توجہ سے دعا کرو باپ کی دعا بیٹے کے واسطے اور بیٹے کی باپ کے واسطے قبول ہواکرتی ہے اگر آپ بھی توجہ سے دعا کریں تو اس وقت ہماری دعا کا اثر ہو گا.مسیح موعود کی صداقت کے متعلق خوابیں لاہور سے ایک شخص کا خط آیا کہ اسے خواب میں حضرت اقدس کی نسبت بتلایا گیا کہ وہ سچا ہے.اس شخص کی ارادت ایک فقیر کے ساتھ تھی جوکہ داتا گنج بخش کے مقبرہ کے پاس رہاکرتاہے اس شخص نے اس سے بیان کیا تو اس نے کہا کہ مرزا صاحب کی اتنے عرصہ سے ترقی کا ہونا اور دن بدن عروج کا ہونا ان کی سچائی کی دلیل ہے پھرایک اورمست فقیر وہاں تھا اس نے کہا بابا ہمیں بھی پوچھ لینے دے، دوسرے دن اس نے بتلایا کہ مجھے خدا نے کہا ہے کہ مرزا مولا ہے اوّل فقیر نے کہا کہ مولانا کہا ہوگا کہ وہ تیرا اور میرا اور ہم جیسوں سب کامولا ہے.حضرت اقدسؑ نے فرمایاکہ
آج کل خواب اور رؤیا بہت ہوتے ہیں معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتاہے کہ لوگوں کو خوابوںسے اطلاع دیوے خدا کے فرشتے اس طرح پھرتے ہیں جیسے آسمان میں ٹڈ ی ہوتی ہے وہ دلوں میں ڈالتے پھرتے ہیںکہ مان لومان لو.پھر ایک اور شخص کاحال بیان کیا کہ جس نے حضور عالی کے ردّ میں ایک کتاب لکھنے کاارادہ کیا تو خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا کہ تو تو ردّ لکھتا ہے اور اصل میں مرزا صاحب سچے ہیں.(بوقتِ مغرب) ساعت کا علم کسی کونہیں حضرت اقدس حسب معمول شہ نشین پر جلوہ گر ہوئے.احباب میں سے ایک نے اٹھ کر عرض کی کہ حضور نے تحفہ گولڑویہ میں دار قطنی کی جو حدیث نقل فرمائی ہے اس کے جواب میں حضرت اقدس نے فرمایاکہ اصل قیامت کا علم توسوائے خدا کے کسی کوبھی نہیں حتی کہ فرشتوں کوبھی نہیں اور وہاں ساعۃ کا لفظ ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ عورتوںکے حمل کی میعاد نو ماہ دس دن ہوتی ہے جب نوماہ پورے ہوگئے تو اب باقی دس دن میں کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ کون سے دن وضع حمل ہوگا گھر کاہر ایک آدمی بچہ جننے کی گھڑی کامنتظر رہتاہے اسی لئے قیامت کانام ساعت رکھا ہے کہ اس ساعت کی خبر نہیں.خدا کی کتابوںمیں جو اس کی علامات ہیں ممکن ہے کہ ان سے کوئی آدمی قریب قریب اس زمانہ کاپتہ بھی دیدے مگر اس ساعۃ کی کسی کو خبر نہیں ہے جیسے وضعِ حمل کی ساعت کی کسی کو خبر نہیں.ایک ڈاکٹر سے بھی پوچھو وہ بھی کہے گا کہ نو ماہ اوردس دن.مگر جونہی نوماہ گذرے پھر فکر رہتا ہے کہ دیکھیے کون سے دن ہو.کتابوں سے معلوم ہوتاہے کہ چھ ہزار سال کے بعد قیامت قریب ہے اب چھ ہزار تو گذر گئے ہیں قیامت تو قریب ہوگی مگراس گھڑی کی خبر نہیں.کشمیر سے ایک پُرانے صحیفہ کی برآمدگی مولوی محمد علی صاحب ایم اے نے ایک خط کا مضمون سنایا جو کہ سٹریٹ سیٹلمنٹ سے آیا
تھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ کشمیر سے ایک پرانا صحیفہ ایک پادری بنام فداہنمس نے حاصل کیا ہے جو کہ دو ہزار سال کا ہے اس میں مسیح کی آمد اوراس کے منجی ہونے کی پیشگوئی ہے حضرت اقدس نے فرمایاکہ بعض وقت پادری لوگ عیسوی مذہب کی عظمت دل نشین کرانے کے واسطے ایسی مصنوعات سے کام لیتے ہیں.ہمارے نزدیک اس کامعیار یہ ہے کہ اگر اس صحیفہ میں تثلیث کا ذکر ہوتو سمجھناچاہیے کہ مصنوعی ہے کیونکہ خود عیسویت کی ابتدامیں تثلیث کاعقیدہ نہ تھا یہ بعد میں وضع ہوا ہے.عیسیٰ اصل ہے یایسوع پھر اس اَمر پر تذکرہ ہوتا رہا کہ قدیم اوراصل لفظ عیسیٰ ہے یایسوع.حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ پرانانام عیسیٰ ہی ہے تمام عرب میں عیسیٰ ہے یسوع کا ذکر پرانے اشعار عرب میں بھی نہیں پایا جاتاچونکہ عیسیٰ نبی تھے اس لئے مصلحتاً انہوں نے کسی موقع پر عیسیٰ کو بدل کر یسوع بنا لیا ہو یہ بھی تعجب ہے کسی اورنبی کانام آج تک نہیں الٹا صرف انہیں کا الٹا اورمذہب بھی انہیں کا الٹا ایسا ہی کسی کا شعر ہے.؎ نہ ہو کیوںکر ہمارا کام الٹا ہم الٹے، بات الٹی، یار الٹا حکیم نور الدین صاحب نے فرمایا کہ ساری انجیلوں میں کہیں عیسیٰ کانام نہیں آیا یسوع کاآیا ہے.۱ ۹؍نومبر۱۹۰۲ء بروزیکشنبہ اعجاز احمدی اللہ تعالیٰ کی خاص مددسے لکھی گئی ہے حضرت اقدس حسب معمول بعد ادائے نماز مغرب شہ نشین پر جلوہ افروز ہوئے اور جو مضمون مشمولہ قصائد عربی۲ آج کل زیر تحریر ہے اس کے متعلق زبان مبارک
سے ارشاد فرمایاکہ اس کی نسبت دل گواہی دیتاہے کہ یہ بالکل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.(مولوی عبدالکریم صاحب کی طرف مخاطب ہو کر ) آپ بھی دیکھیں گے تو پتہ لگ جائے گاجس طرح کلمہ کی گواہی دی جاتی ہے اسی طرح اس کی گواہی بھی دی جاتی ہے کہ یہ منجانب اللہ ہے.یہ حالت بھی ہوتی رہی ہے کہ ذرا اونگھ آئی اور ایک شعر الہام ہوگیا.اسی طرح کئی اشعار اس میں الہامی ہیں.وحی جلی بھی ہوتی ہے اورخفی بھی، یہی معلوم ہوتاتھا کہ دل میں مضمون پڑجاتا ہے اور میں لکھتا جاتا ہوں گویایہ میری طرف سے نہیں ہے ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ) خدا کی مددسے اس قدر یقین ہے کہ یہ کاروبارایک دن میں ہوسکتاتھا دیر تواس لئے لگتی ہے کہ دوبارہ دیکھنا پڑتا ہے کاپی وغیرہ بھی صحیح کرنا فرض ہے ہر ایک بات میں دیکھا گیا ہے کہ سب سامان خدا نے اوّل سے ہی کیے ہوئے ہیں.قصیدوں میں واقعات کا نبھانا مشکل اَمر ہوا کرتا ہے شاعر اسے نہیں کرسکتے ان کو قافیہ اور ردیف کے لئے بالکل بے جوڑ باتیں اور الفاظ لانے پڑتے ہیں ( اس مقام پر عربی کے دو فقرے مقاماتِ حریری کے پڑھے جن میں محض تلازم شعرکے لئے بالکل بے تعلق باتیں ذکر کی ہوئی تھیں) اس کے مقابل پر قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ.اَللّٰهُ الصَّمَدُ(الاخلاص: ۲، ۳ ) کودیکھو.۱ قرآن شریف کی فصاحت و بلاغت کے دعویٰ پر بعض نادان آریہ اور عیسائی کہہ دیتے ہیںکہ مقاماتِ حریری وغیرہ بھی فصیح و بلیغ ہیں مگر وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ ان میں یہ دعویٰ کہاں کیاگیاہے اور ان کتابوں میں کہاں پر یہ بتصریح لکھا گیاہے کہ قرآن کی تحدّی کے مقابلہ میں ہیں اور علاوہ ازیں ان کو قرآن کے مقابلہ میں پیش کرنابالکل لغو ہے کیونکہ قرآن شریف میں حقائق اور معارف کو بیان کیا گیا ہے اوران کتابوں میں صرف لفظوں کااتباع کیاگیاہے واقعات سے کوئی غرض ہی نہیں رکھی گئی ہے.۲
مبائعین کی خوش قسمتی آج کے مبائعین میں سے ایک نے کچھ اظہار محبت کے کلمات کہے حضرت اقدسؑ نے فرمایاکہ تم بڑے خوش قسمت ہو یہ جو بڑے بڑےمولوی تھے ان کے لئے خدا نے دروازے بند کر دیئے اور تمہارے لئے کھول دئیے خدا کا تم پر بہت احسان ہے.پھر دعاکی درخواست پر فرمایاکہ میں اپنے دوستوں کے لئے پنج وقتہ نمازوں میں دعاکرتاہوں اورمیں توسب کوایک سمجھتاہوں.ایک پنجابی نظم اس کے بعد امر تسر ی صاحب نے اپنی پنجابی نظم سنائی.جس میں انہوں نے اپنے ایک خواب کا ذکر اور حضرت اقدس ؑکی زیارت کاشوق اوربیعت کی کیفیت اور حضرتؑکے فیوض و برکات کا ذکر دردِ دل اور دلکش پیرایہ میں کیاہواتھا.حضرتؐخود بار بار زبان مبارک سے فرماتے تھے کہ ’’درد اور رقّت سے لکھاہواہے ‘‘ سیّد احمد شہید کے شروع کردہ کام کا اتمام ایک مقام پر حضرت اقدسؑنے فرمایاکہ ہند میں دو واقع ہوئے ہیں ایک سید احمد صاحب کا، دوسرا ہمارا.ان کا کام لڑائی کرنا تھا.مگر انہوں نے شروع کردی اور اس کا اتمام ہمارے ہاتھوں مقدر تھا جوکہ اب اس زمانہ میں بذریعہ قلم ہورہا ہے اسی طرح عیسٰیؑ کے وقت جونامُرادی تھی وہ چھ۶ سو برس بعد آنحضرتؐکے ہاتھوں سے رفع ہوئی.خدا بھی فرماتا ہے کہ وہ کامیابی ا ب ہوئی.دجّال کی دونوں آنکھیں عیب دار ہیں دجّال کے ایک چشم ہونے پر فرمایاکہ میں نے اس کی نسبت یہ بھی سنا یادیکھاہے کہ اس کی دونوں آنکھیں ہی عیب دار ہوں گی.جیسے کہاکرتے ہیں کہ یک گُل و دیگر بالکل.اس کے یہ معنی ہیں کہ انہوں نے دوکتابوں پر غور کرنی تھی ایک توریت، دوسرے قرآن.سو قرآن کے متعلق
تو رہی نہیں کہ کچھ بھی نہیں دیکھتے اور توریت پر کچھ دھندلی سی نظر ہے کہ اسے اپنی تائیدمیں برائے نام رکھتے ہیں.۱ ۱۰ ؍ نومبر ۱۹۰۲ء بروزدو شنبہ (بوقتِ فجر) مولوی محمد علی صاحب شاعر سیالکوٹی سے ارشاد فرمایا کہ آپ کومختلف مقامات دیہات میں تبلیغ کے لئے پھرناہوگا.مولوی صاحب نے بطیب ِخاطر منظور کیا.اعجازِ احمدی ظہر کی نماز سے پیشتر حضرت اقدس نے مضمون زیر قلم۱ پر فرمایا کہ کلام کامعجزہ آدم سے لے کر آنحضرتؐکے زمانہ تک چار ہزار برس ہوتے ہیں سوائے قرآن کے اور کسی نے نہیں دکھایا اورنہ کسی نے دیکھا.چونکہ یہ معجزہ ایک ہی کتاب کے متعلق ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس پر زور ڈالاجاوے کہ لوگ خوب سمجھ لیویں.کیاان (مخالف) لوگوں کے پاس قلم نہیں، وقت نہیں یاالفاظ نہیں؟ میراتو ایمان ہے کہ یہ خدا کا نشان ہے اورایک آفتاب کی طرح نظرآتاہے میں اسے بیان نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ ہی نے سب کچھ کروایاورنہ ہم توسب کچھ چھوڑبیٹھے تھے مَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى ( الانفال : ۱۸).کشتی نوح کی اشاعت کثرت سے کی جائے خواجہ کمال الدین صاحب بی اے پلیڈر پشاور سے کوہاٹ ہوتے ہوئے تشریف لائے اور نماز مغرب سے پیشتر مسجد میں حضرت اقدسؑسے نیاز حاصل کی.خواجہ صاحب نے پشاور اور کوہاٹ کا ذکر سنایا کہ وہاں پر اکثر اشتہارات جو کہ ضمیمہ شحنہ ہند میرٹھ میں حضور کی مخالفت میں شائع ہوتے ہیں اس نظر سے پڑھے جاتے ہیں کہ گویا وہ حضور کے اشتہارات ہیں اسی مغالطہ سے سر حد کے لوگوں کے دلوں میں آپ
کی طرف سے یہ خیالات ذہن نشین ہیں کہ نعوذباللہ جناب نے روزے اپنے خدام کو معاف کر دئیے ہیں اور نبی کریمؐکی ہتک کی ہے اور کہا ہے کہ وہ ایک جھوٹا نبی تھا میں اس سے افضل ہوں یہ اشتہاراس وضع اور عنوان سے لکھے ہوئے ہیں کہ عوام النّاس کو دھوکا لگتا ہے اوریہی خیال کیا جاتا ہے کہ آپ کامضمون اور آپ کی تحریر ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ کشتی نوح وہاں کثرت سے تقسیم کر دی جاوے یہی کافی ہے.خواجہ صاحب نے کہا کہ ایک ذی وجاہت شخص کو میں نے دیکھا ہے کہ اس نے اسے پڑھ کر کہا کہ کتاب تو عمدہ ہے اگر آخر میں مکان کے چندہ کا ذکر نہ ہوتا.میں نے اسے جواب دیا کہ کیا تم سے بھی ایک پیسہ مرزا صاحب نے مانگا ہے یا تم نے دیا ہے؟ مرزا صاحب نے تو ان لوگوں کو مخاطب کیا ہے جو ان سے تعلق ابنیت کا رکھتے ہیں.کیا اگر ایک باپ اپنے بیٹوں سے دو ہزار اس لئے طلب کرے کہ اسے ایک مکان بنانا ہے تو کیا یہ فعل اس کا قابل اعتراض ہو گا؟ اس پر وہ خاموش ہو گیا.مخالفین کے اشتہارات ترقی میں مانع نہیں حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ سب باتیں توہیں لیکن اندر ہی اندر ترقی ہو رہی ہے خدا کا فضل ہے اسی طرح کے اشتہارات جو مخالفین کی طرف سے شائع ہوتے ہیں یہ خدا کی کارروائی میں مضر معلوم نہیں ہوتے کیونکہ جب تک تپش نہ ہو بارش نہیں ہوتی.ہم سب پر بدظنی نہیں کرتے انہیں میں سے لوگ نکلنے شروع ہو جاتے ہیں کئی خط اس طرح کے آتے ہیں کہ ہم اوّل مخالف تھے گالیاں دیتے تھے مگر اب ایک راہ چلتے سے ایک اشتہار دیکھ کر بیعت کرتے ہیں اس سے پیشتر بھی یہ کارروائیاں چپ چاپ نہیں ہوئیں.مکہ میں کیا ہوتا رہا خدا تعالیٰ تماشا دیکھتا ہے کیا کفار امن سے رہتے تھے وہ بھی ہمیشہ ہر وقت لڑائیوں اور فسادوں میں رہتے تھے ابو جہل ہی کو دیکھو کہ بدر کی جنگ میں مباہلہ بھی کر لیا اَللّٰھُمَّ مَنْ کَانَ مِنَّا اَقْطَعَ لِلرَّحْـمِ وَاَفْسَدَ فِی الْاَرْضِ فَاَحِنْہُ الْیَوْمَ یعنی ہم دونوں میں سے جو زیادہ قطع رحم کرتا ہے اور زمین میں فساد ڈالتا ہے اس کو آج ہی ہلاک کر پھر اسی دن وہ قتل ہو گیا اس کو تو یہی خیال ہوگا کہ اس (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے فساد برپا کر دیا ہے
بھائی بھائی سے جدا کر دیا ہے اور ہر روز کا فتنہ برپا ہے لوگ آرام میں اپنی زندگی بسر کر رہے تھے ناحق ان کو چھیڑ دیا ہے ان کا اسی بنا پر یہ خیال تھا کہ یہ ضرور مفسد ہے.ایک فتنہ لعنت ہوتا ہے اور ایک فتنہ رحمت ہوتا ہے کوئی نبی نہیں آیا جس نے فتنہ نہیں ڈالا ہمیشہ نوبت جدائی اور فساد کی پہنچتی رہی.پھر آخر انہی میں سے جو نیک تھے اﷲ تعالیٰ ان کو لے آتا رہا.دنیا میں ہمارے اسی سلسلہ کے متعلق گھر گھر شور ہے بعض آدمی رافضیوں سے بڑھ گئے ہیں لعنت کی تسبیح رات دن پھیرتے ہیں اور انہی مخالفوں میں سے بعض ایسے نکلے ہیں کہ جان قربان کرنے کو تیار ہیں ہم تو اﷲ تعالیٰ سے شرمندہ ہیں ہماری طرف سے کوشش ہی کیا ہوئی ہے آسمان پر ایک جوش ہے وہی کشاں کشاں لوگوں کو لا رہا ہے.عیسائیوں کامذہب پھر اس کے بعد نظم ایک شخص سناتے رہے ایک مقام پر عیسائیوں کے ذکر پر حضرتؑنے فرمایا کہ یہ لوگ اتنا فلسفہ اور ہیئت پڑھ کر ڈوبے ہوئے ہیں چوڑھوں کا بھی کچھ مذہب ہوتا ہے کہ کچھ بات پیش کرتے ہیں مگر یہ تو بالکل ہی ڈوبے ہوئے ہیں.خواب میں گالیاں دینے کی تعبیر پھر ایک صاحب نے ایک خواب سنایا کہ ایک شخص اسے گالیاں دے رہا ہے.حضرتؑنے تعبیر دی کہ جو شخص خواب میں گالی دینے والا ہوتا ہے وہ مغلوب ہوتا ہے اور جس کوگالی دی جاتی ہے وہ غالب ہوتا ہے.۱ ۱۱؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز سہ شنبہ دینی کاموں کے لئے دن رات ایک کر دو ظہر کے وقت حضرت تشریف لائے.احباب کو فرمایا کہ یہ وقت بھی ایک قسم کے جہاد کا ہے میں رات کے تین تین بجے تک جاگتا ہوں اس لئے ہر ایک کو
چاہیے کہ اس میں سے حصہ لیوے اور دینی ضرورتوں اور دینی کاموں میں دن اور رات کو ایک کرے.کلام کا نشان دائمی ہوتا ہے کلام کی فصاحت اور بلاغت پر فرمایاکہ دوسری قسم کے جس قدر نشانات ہوتے ہیں وہ تو غائب ہو جاتے ہیں مگر اس طرح کا نشان ہمیشہ قائم رہتا ہے بھلا اب موسٰی کے سانپ کو کوئی دکھا سکتا ہے؟ اور کلام کامعجزہ اور نشان ایسا ہوتا ہے کہ آئندہ آنے والے ہمیشہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نتیجہ نکالتے ہیں کہ فلاں شخص (مردِ خدا) نے یہ کلام بطور نشان کے پیش کیا اور مخالف کچھ نظیر نہ لا سکے اور اسے کچھ جواب نہ بن آیا.حافظ محمد یوسف کی نیش زنی مغرب کی نماز سے پیشتر جناب میر ناصر نواب صاحب نے امرتسر سے آکر بیان کیا کہ حافظ محمد یوسف صاحب ملے تھے اور ان سےباتیں ہوئیں تھیں آخر نیش زنی پر آگئے میں نے جواب دیئے حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ اگر ہم کاذب ہیں تو ہم ادنیٰ سے ادنیٰ جو آدمی ہے اس سے بھی بدتر ہیں.کاذب کی حقیقت ہی کیا ہوتی ہے.فارقلیط اور احمدؐ پھر نماز کے بعد مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے بیان کیا کہ ایک شخص نے فارقلیط پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس کے معنے تو حق اور باطل کےتمیز کرنے والے کے میگزین میں کئے گئے ہیں تو پھر یہ معنی لفظ احمد پر کیسے چسپاں ہو سکتے ہیں؟ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ فارقلیط سے مُراد احمد ہے لفظ احمد کی پیشگوئی کا ذکر کتب سابقہ میں کہاں ہے؟ خدا کے برگزیدہ نے فرمایا کہ ہمارے ذمہ ضروری نہیں ہے کہ موجودہ کتب توریت وغیرہ سے وہ لفظ نکال کر دکھلاویں جب قرآن کریم نے ان کو مبدّل و محرّف قرار دیا ہے تو ہم کہاں سے نکالیں؟ جب فارقلیط ہی محرّف ہے تو ممکن ہے کہ کوئی اور بھی لفظ ہو جس کے معنی احمدکے ہوں.لسان العرب میں لکھا ہے کہ فارقلیط لفظ فارق اور لیط کامرکب ہے فارق بمعنی فرق کرنے والا
ور لیط بمعنے شیطان.یعنی شیطان کو الگ کر دینے والا دوسری یہ بات ہے کہ آنحضرتؐکا نام فارقلیط بھی ہے کیونکہ وہ صاحب فرقان ہے اور فرقان کے معنے فرق کرنے والے کے ہیں اور اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ میں لفظ شیطان ہے جو لیط کا معنے ہے اس طرح آپ کا نام فارقلیط بھی ہو گیا اور احـمد کے معنے بہت تعریف کرنے والے کے ہیں تو اس سے بڑھ کر اور کون ہو گا جو توحید کے ذریعہ سے ہر ایک قسم کی شیطنت کو دور کرے.فارقلیط بننے کے واسطے احمد ہونا ضروری ہے احمد وہ ہے جو دنیا میں سے شیطان کا حصہ نکال کر خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کو قائم کرنے والا ہو فارقلیط کامنشا دوسرے الفاظ میں احمد ہے.کرشن اور رام چندر کی پرستش اس کے بعد ایک ہندو صاحب تشریف لائے جو کہ علاقہ مدراس کے ایک مقام رائے ڈروگ ضلع بلہاری سے آئے تھے.....حضرت اقدس نے دریافت فرمایا کہ آپ کے شہر میں کرشن اور رامچندر اور پتھر کے بتوں وغیرہ کی بھی پرستش ہوتی ہے؟ لالہ صاحب نے جواب دیا کہ ہاں لوگ کرتے ہیں، میں نہیں کرتا.مدراس سے ہندو کا آنا بھی نشان ہے حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ اب ان کا اس قدر دور دراز مقام سے آنا بھی یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ کامصداق ہے اگر ایسے نشانوں کو ہم جمع کریں تو دس ہزار سے بھی زیادہ نکلتے ہیں اور گواہ بھی محمد حسین کافی ہے.آتھم کا رجوع فرمایا کہ یہ بات بھی یاد رکھو کہ میں نے اسی وقت مباحثہ میں سنادیا تھا کہ اس مباحثہ اور پیشگوئی کی بنیاد یہ ہے کہ آتھم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دجّال رکھا تو اسی وقت آتھم نے توبہ توبہ کر کے کانوں پر ہاتھ رکھے اور کہا ’’مرزا صاحب مجھے ناحق مارتے ہیں میں نے تو دجّال نہیں کہا‘‘ (مولوی عبد الکریم صاحب نے کہا مجھے یہ الفاظ خوب یاد ہیں) کیا یہ اس کا یہ عمل رجوع تھا یا نہیں؟
لنڈن میں جھوٹے مسیح پگٹ کے بعد سچے مسیح کا قدم ہوگا کچھ عرصہ ہوا کہ مفتی محمد صادق صاحب نے ایک خط مسٹر پگٹ مدعی مسیح کو لندن میں لکھ کر مزید حالات اس کے دعویٰ کے دریافت کئے تھے اس کے جوا ب میں پگٹ کے سکرٹری نے دو اشتہار اور ایک خط روانہ کیا تھا وہ حضرتؑکو سنائے.....پگٹ کے اشتہار کا عنوان انگریزی لفظ میں تھا جس کے معنے ہیں کشتی نوح.فرمایا.اب ہماری سچی کشتی نوح جھوٹی پر غالب آجائے گی.اور فرمایا کہ یورپ والے کہا کرتے تھے کہ جھوٹے مسیح آنے والے ہیں سو اول لنڈن میں ایک جھوٹا مسیح آگیا اس کا قدم اس زمین میں اوّل ہے بعد ازاں ہمارا ہو گا جو کہ سچا مسیح۱ ہے اور یہ جو حدیثوں میں ہے کہ دجّال خدائی اور نبوت کا دعویٰ کرے گا تو موٹے رنگ میں اب اس قوم نے وہ بھی کر دکھایا.ڈوئی امریکہ میں نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے اور پگٹ لندن میں خدائی کا دعویٰ کر رہا ہے.اپنے آپ کو خداکہتا ہے پگٹ کا خدا ہونا دوسرے لفظوں میں یہ گویا انجیل کی شرح آئی ہے اسے ایک فائدہ ہوا ہے کہ مسیح کو خداماننے سے چھوٹ گیا کیونکہ آپ جو ساری عمر کے لئے خود خدا ہو گیا.۲ ۱۲؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز چہار شنبہ(بوقتِ مغرب) آخری زمانہ کی علامات اس وقت مفتی محمد صادق صاحب نے خبر سنائی کہ لاہور سے ایک انگریزی رسالہ نکلتا ہے.اس میں لکھا ہے کہ ان ایام میں دنیا میں
لنڈن میں جھوٹے مسیح پگٹ کے بعد سچے مسیح کا قدم ہوگا کچھ عرصہ ہوا کہ مفتی محمد صادق صاحب نے ایک خط مسٹر پگٹ مدعی مسیح کو لندن میں لکھ کر مزید حالات اس کے دعویٰ کے دریافت کئے تھے اس کے جوا ب میں پگٹ کے سکرٹری نے دو اشتہار اور ایک خط روانہ کیا تھا وہ حضرتؑکو سنائے.....پگٹ کے اشتہار کا عنوان انگریزی لفظ میں تھا جس کے معنے ہیں کشتی نوح.فرمایا.اب ہماری سچی کشتی نوح جھوٹی پر غالب آجائے گی.اور فرمایا کہ یورپ والے کہا کرتے تھے کہ جھوٹے مسیح آنے والے ہیں سو اول لنڈن میں ایک جھوٹا مسیح آگیا اس کا قدم اس زمین میں اوّل ہے بعد ازاں ہمارا ہو گا جو کہ سچا مسیح۱ ہے اور یہ جو حدیثوں میں ہے کہ دجّال خدائی اور نبوت کا دعویٰ کرے گا تو موٹے رنگ میں اب اس قوم نے وہ بھی کر دکھایا.ڈوئی امریکہ میں نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے اور پگٹ لندن میں خدائی کا دعویٰ کر رہا ہے.اپنے آپ کو خداکہتا ہے پگٹ کا خدا ہونا دوسرے لفظوں میں یہ گویا انجیل کی شرح آئی ہے اسے ایک فائدہ ہوا ہے کہ مسیح کو خداماننے سے چھوٹ گیا کیونکہ آپ جو ساری عمر کے لئے خود خدا ہو گیا.۲ ۱۲؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز چہار شنبہ(بوقتِ مغرب) آخری زمانہ کی علامات اس وقت مفتی محمد صادق صاحب نے خبر سنائی کہ لاہور سے ایک انگریزی رسالہ نکلتا ہے.اس میں لکھا ہے کہ ان ایام میں دنیا میں مختلف مقامات پر بڑی کثرت سے زلزلہ آرہے ہیں اور آتشی مادہ زمین سے نکل رہے ہیں اور زمین اونچی ہوتی جاتی ہے فرانس کے محققین نے لکھا ہے کہ دنیا کی قدیم سے قدیم تواریخ میں زمین کے اس عظیمہ تغیّر کی کہیں خبر نہیں ملتی.حضرت اقدس نے فرمایا کہ یوں تو زمین سے ہمیشہ کانیں نکلتی رہتی ہیں اور آتش فشاں پہاڑ پھٹتے رہتے ہیں مگر اب خصوصیت سے ان زلزلوں کا آنا اور زمین کا اٹھنا یہ آخری زمانہ کی علامتوں سے ہے اور اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَا(الزّلزال : ۳) اسی کی طرف اشارہ ہے زمانہ بتلا رہا ہے کہ وہ ایک نئی صورت اختیار کر رہا ہے اور اﷲ تعالیٰ خاص تصرفات زمین پر کرنا چاہتا ہے.اَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ حکیم نورالدین صاحب نے عرض کی کہ لوہا آج تک اس کثرت سے زمین سے نکلا ہے کہ اگر ایک جگہ جمع کیا جاوے تو ایک اور ہمالہ پہاڑ بنتا ہے.لوہے کی کانوں کی آج تک تہہ نہیں ملی کہ کہاں تک نیچے نیچے نکلتا آتا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے بھی سونا اور چاندی کو چھوڑ کر اَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ (الـحدید : ۲۶) ہی کہا ہے (یعنی یہی بنی نوع انسان کے لئے زیادہ نفع رساں ہے) کلام کے معجزہ کی اہمیت پھر کلام کے معجزہ پر فرمایا کہ صفحہ روزگار میں یاد رکھنے کے لئے جیسے یہ نشان ہوتا ہے اور کوئی نہیںیہ بھی ایک ختمِ نبوت کا نشان تھا اب بھی قرآن شریف کو جو کوئی دیکھے گا تو اسے وہ معجزہ ہی نظر آوے گا اگر موسٰی کا سونٹا بھی اس شان کا ہوتا تو چاہیے تھا کہ وہ بھی کسی صندوق میں آج تک محفوظ چلا آتا اور یہودی لوگ اس کی زیارت کرواتے کہ یہ موسیٰ کا سونٹا ہے جسے اس نے سانپ بنایا تھا یہی حال مسیح کے مریضوں کی صحت کا ہے اب تو یہ عیسائی لوگ پچھتا تے ہوں گے کہ کاش عیسٰیؑ کوئی کتاب ہی بنا کر چھوڑ
جاتے مگر یہ خاصہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور کسی نبی کا نہیں.نیت پر ثواب پھر لالہ بڈہایا جو مدراس سے آئے ہوئے ہیںان کی نسبت حضرت اقدسؑ اور حکیم صاحب اور مولوی صاحب یہ تذکرہ کرتے رہے کہ اس شخص کے دل میں کیا شوق ہے کہ اتنی دور دراز مسافت طے کر کے زیارت کے لئے آیا ہے حالانکہ نہ ہماری باتیں سمجھ سکتا ہے نہ انگریزی جانتا ہے حضرت نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ ہر ایک کی نیت پر ثواب دے دیتا ہے۱ ۱۳؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز پنجشنبہ(بوقتِ مغرب) نَو تعلیم یافتہ مُلحدین نئی روشنی کے تعلیم یافتہ جو کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے احکام کو جواب دیئے بیٹھے ہیں ان کے فکر پر فرمایا کہ وہ خدا جس میں ساری راحتیں مخفی ہیں وہ ان سے بالکل دور ہو گیا ہے جیسے کروڑہا کوس ہے اس صورت میں ان کا پھر خدا سے کیا تعلق؟اور جن کو یہ مہذّب کہتے ہیں ان کو کیا سمجھے بیٹھے ہیں-(گویا خدائی کامنصب و قالب سب ان کو دے دیا ہے) حُبِّ دنیا اور حُبِّ جاہ نے ان کو اندھا کر دیا ہے.ایک شخص نے ذکر کیا کہ اپی فینی میں ایک مضمون ہے ایک علی گڑھ کے طالب علم کی طرف سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی گناہ سے خالی نہ تھے اگر چہ اور انبیاء سے بزرگ تر ہیں جن کے گناہ ان سے زیادہ تھے.حضرت نے فرمایا کہ اصل میں یہ لوگ مذہب سے خارج ہیں خدا کا خوف مطلق نہیں صرف کنبہ کا ہے.وہابیوں کی ظاہرپرستی حضرت اقدسؑ نے ان وہابیوں کے اخلاق اور ادب رسول پر ایک ذکر اپنا سنایاکہ ایک دفعہ جب آپ امرتسر میں تھے توغزنوی گروہ کے چند مولویوں نے آپ کو چائے دی چونکہ حضرت اقدس کے داہنے ہاتھ میں بچپن سے ضرب آئی ہوئی
ہوتی اگر ہو تو جلد جاتی رہتی ہے.خدا کے واسطے دوستی ہو تو وہ باقی رہتی ہے وہ ذات پاک قدوس ہے وہی دلوں میں پاکیز گی بھرتاہے اورسینوں کو کدورتوں سے صاف کرتاہے.تقویٰ اور استقامت اختیار کرو شیخ فضل حق صاحب نو مسلم پشاور سے آئے ہوئے تھے ان کی مو جودہ حالت پر فرمایاکہ اوائل میں جوسچامسلمان ہوتاہے اسے صبر کرناپڑتا ہے صحابہ ؓ پر بھی ایسے زمانے آئے ہیں کہ پتے کھا کھا کر گذارہ کئے بعض وقت ان کو ٹکڑا بھی میسر نہیں آتا تھا کوئی انسان کسی کے ساتھ بھلائی نہیں کر سکتا جب تک خدا بھلائی نہ کرے جب انسان تقویٰ اختیار کرتاہے تو خدا اس کے واسطے دروازہ کھول دیتاہے مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا ( الطّلاق : ۳ ) خدا پر سچاایمان لاؤ اس سے سب کچھ حاصل ہو گا استقامت چاہیے.انبیاوؤں کو جس قدر درجات ملے ہیں استقامت سے ملے ہیں.اور یوں خشک نمازوں اور روزوں سے کیا ہو سکتا ہے؟ بَیعت پر آخر دَم تک قائم رہو اس کے بعد تین احباب نے بیعت کی حضرت اقدس نے فرمایا کہ جو بیعت کی اس پر آخر دم تک قائم رہو.تب خدا راضی ہوتا ہے.طاعون کے ذکر پر فرمایاکہ ہم کسی کے ذمہ دار نہیں ہوسکتے خدا تعالیٰ کاوعدہ ہے کہ جو شخص تقویٰ اختیارکرے گا وہ اس کو نجات دے گا اس لئے تقویٰ اختیار کرو.ہماری جماعت دراصل مطعون تو ہوچکی ہے کہ مخالفین کا نشانہ بنی ہوئی ہے اس طرح سے طاعون اپناکام اس میں کر چکی ہے.ناول نویسی ایک صاحب نے حکیم صاحب کی معرفت کہاکہ اگر بعض واقعاتِ حقہ کو ناول کے پیرایہ میں بیان کیا جاوے تو یہ اَمر معیوب تونہیں ہے.فرمایا.اس میں معصیت نہیں ہے مطالب کو سمجھانے کے واسطے ہمیشہ زید و عمر و بکر کا ذکر فرضی طور
پر رکھ لیتے ہیں خود تعزیراتِ ہند میں مثالیں موجود ہیں.۱ ۱۴؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز جمعہ اس زمانہ کاجہاد بعد ادائے نماز مغرب حضرت اقدس حسب دستور شہ نشین پر جلوہ گر ہوئے مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹی نے رخصت طلب کی کہ میں جاکر صرف چند روز گھر رہوں گا پھر دِہ بہ دِہ پھر کر پنجابی نظم کے پیرایہ میںحضور کے سلسلہ کی تبلیغ اور اتمامِ حجّت کروں گا.حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ بہت عمدہ کام ہے اوراس زمانے کایہی جہاد ہے جو لوگ پنجابی سمجھتے ہیں آپ ان کے لئے بہت مفید کام کرتے ہیں.نجات خداکے فضل سے ہوتی ہے سید سرور شاہ صاحب نے لالہ بڈہایا کی طرف سے عرض کی کہ رات کو انہوں نے ایک سوال کیا کہ اسلام کے سواغیر مذاہب کے لوگ جو نیکی کرتے ہیں کیا ان کو نجات ہے کہ نہیں؟ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا کہ نجات اپنی کوشش سے نہیں بلکہ خدا کے فضل سے ہوا کرتی ہے.اس فضل کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ نے جو اپنا قانون ٹھہرایاہوا ہے وہ کبھی باطل نہیں کرتا وہ قانون یہ ہے کہ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (اٰل عـمران : ۳۲ ) اور وَ مَنْ يَّبْتَغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ( اٰل عـمران : ۸۶).اگر اس پر دلیل پوچھو تو یہ ہے کہ نجات ایسی شَے نہیں ہے کہ اس کے برکات اور ثمرات کاپتہ انسان کو صرف مَرنے کے بعد ہی ملے بلکہ نجات تووہ اَمر ہے کہ جس کے آثار اسی دنیا میں ظاہرہوتے ہیں کہ نجات یافتہ آدمی کو ایک بہشتی زندگی اسی دنیا میں مل جاتی ہے دوسرے مذاہب کے پابند بکلّی اس سے محروم ہیں اگر کوئی کہے کہ اہلِ اسلام کی بھی یہی حالت ہے تو ہم
کہتے ہیں کہ وہ اسی لئے اس سے بے نصیب ہیں کہ کتاب اللہ کی پابندی نہیں کرتے.اگر ایک شخص کے پاس دوا ہو اور وہ اسے استعمال نہ کرے اور لاپروائی سے نہ کھاوے تو وہ بہر حال اس کے فوائد سے محروم رہے گا یہی حال مسلمانوں کا ہے ان کے پاس قرآن جیسی پاک کتاب موجود ہے مگر وہ اس کے پابند نہیں ہیں مگر جولوگ خدا کے کلام سے اعراض کرتے ہیں وہ تو ہمیشہ انوار و برکات سے محروم رہتے ہیں.پھر اعراض بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک صوری اور معنوی یعنی ایک تو یہ ہے کہ (ظاہری اعمال میں اعراض ہو اور) دوسرے یہ کہ اعتقاد میں ہو اور انسان کو انوار اور برکات سے حصہ نہیں مل سکتاجب تک وہ اسی طرح عمل نہ کرے جس طرح خدا فرماتا ہے کہكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ( التّوبۃ :۱۱۹).بات یہی ہے کہ خمیر سے خمیرلگتاہے اور یہی قاعدہ ابتدا سے چلاآتاہے پیغمبر خدا آئے تو آپ کے ساتھ برکات اور انوار تھے جن میں سے صحابہ ؓنے بھی حصہ لیا پھر اسی طرح خمیر کی لاگ کی طرح آہستہ آہستہ ایک لاکھ تک ان کی نوبت آئی اوراس سے بڑھ کر دلیل یہ ہے کہ سوائے اسلام کے اور کسی مذہب میں برکات نہیں ہیں اوراسلام کے سوا اور کسی مذہب میں رکھاہواکیا ہے؟ ہندوؤں کو دیکھو بُت پرست ہیں عیسائیوں نے ایک عاجز انسان کو خدا بنا رکھا ہے.اگر کوئی کہے کہ ہم بُت پرست نہیں ہیں توجب ہم اس کی تفتیش کریں گے توثابت کر دیں گے.آریہ لوگ غیر اللہ کی پرستش کرتے ہیں خود کلام خدا کامتبع نہ ہونا اور یہ دعویٰ کرناکہ میں خدا سے مل جاؤں گا یہ بھی گمراہی ہے جیسے حدیث میں ہے کہ اے لوگو تم سب اندھے ہو مگر جسے میں آنکھیں دوں.جو شخص دعویٰ کرتا ہے کہ میں خداکے کلام کے سوا نجات پالوں گا وہ بھی مشرک ہے نجات کی کنجی تو خدا کے ہاتھ میں ہے وہی جس کے لئے چاہے اس کے دروازے کھول دے.خدا بار بار یہی فرماتا ہے کہ رسول کی پیر وی کرو اگر ایک باغ ہو اور اس میں لاکھوں پھل ہوں مگر جب تک باغبان اجازت نہ دے توکوئی اس میں سے ایک پھل بھی نہیں کھا سکتا اسی طرح بازاروں میں کئی قسم کی اشیاء ہوتی ہیں اور ہزاروں ہوتی ہیں مگر مالک کی اجازت ہو تو کوئی لیوے.
سی طرح خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے حاصل کرنے کا ایک یہی طریق ہے اور یہ آدم سے اسی طرح چلا آتاہے اس میں بحث کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہر ایک نور اور معرفت کی نظیر اور جگہ مل ہی نہیں سکتی.حقیقی کرامت انسان کا سب سے پہلا معجزہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اسے تقویٰ بخشے جو دل پلید ہوتے ہیں ان کا بیان ہی کرنا بے فائدہ ہے اگر کوئی ہمارے پاس آکر ایک کاغذ کا کبوتر بناکر دکھادے توکیااسے ہم کرامت سمجھ لیں گے؟ بات یہی ہے کہ انسان کی زندگی پاک ہو فراست ہواور تقویٰ ہو.۱ معجزہ کی حقیقت دوسراسوال یہ تھاکہ معجزہ کی قسم کے بعض امور اور لوگ بھی دکھاتے ہیں.فرمایا.میں قصوں کو نہیں سنتا یہ جو فرانس یا کسی اور جگہ کے قصے سنائے جاتے ہیں یہ کافی نہیں.سب سے پہلا معجزہ تو یہ ہے کہ انسان پاک دل ہو بھلا پلید دل کیا معجزہ دکھاسکتاہے جب تک خدا سے ڈرنے والا دل نہ ہو تو کیا ہے؟ ضروری ہے کہ متقی ہو اور اس میں دیانت ہو اگر یہ نہیں تو پھر کیا ہے؟ تماشے دکھانے والے کیا کچھ نہیں کر تے جالندھر میں ایک شخص نے بعض شعبدے دکھائے اوراس نے کہا میں مولویوں سے ان کی بابت کرامت کافتویٰ لے سکتاہوں مگر وہ جانتاتھا کہ ان کی اصلیت کیا ہے؟ وہ اس سلسلہ میں داخل ہوگیا اور اس نے توبہ کی.جن ملکوں کے قصے بیان کئے جاتے ہیں وہاں اگر معجزات دکھانے والے ہوتے تو یہ فسق و فجور کے دریاوہاں نہ ہوتے.خدا تعالیٰ کے نشانات دل پر ایک پاک اثر ڈالتے ہیں اور اس کی ہستی کا یقین دلاتے ہیں مگر یہ شعبدے انسان کو گمراہ کرتے ہیں ان کا خداشناسی اور معرفت سے کوئی تعلق نہیں ہے اورنہ یہ کوئی پاک تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں اس لئے کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتے.۱ ۱۵؍ نومبر ۱۹۰۲ء بروز شنبہ (بوقتِ ظہر )
تائیداتِ الٰہیہ کا ذکر اس وقت حضرت اقدس ان تائیداتِ الٰہی کا ذکر کرتے رہے جو کہ اب ان ایام میں حضور کی فتح نصرت اور اقبال کے شاملِ حال ہوتی جاتی ہیں اور کس طرح سے ایسے اسباب پیدا ہوجاتے ہیں کہ تمام دشمن گرفتار ہوتے جاتے ہیں.حضرت اقدس حسب معمول بعد ادائے نماز مغرب شہ نشین پر جلوہ افروزہوئے.طاعون کاعلاج اور بعض مریضوں کے حالات اور ان میں فوری تیز جلابوں سے جوعمدہ نتائج پیدا ہوئے تھے ان کا ذکر حکیم نور الدین صاحب کرتے رہے حضرت اقدس نے اس کی تائید میں فرمایاکہ جب بمبئی میں طاعون کثرت سے پھیلی تو وہاں سے زین الد ین محمد ابراہیم صاحب انجینئر نے مجھے لکھاتھا کہ یہ ایک بار ہا تجربہ شدہ اور مفید علاج اس کا دیکھا گیا ہے کہ طاعون کے آثار نمودار ہوتے ہی پانچ یا چھ تولہ کے قریب میگنیشیا سالٹ مریض کو پلا دیا گیا ہے تو اسے پھر بفضل خدا ضرور آرام ہو گیا ہے.۱ ۱۶؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز یکشنبہ(بوقتِ ظہر) تر جمہ کافائدہ اس وقت حضرت اقدس نے تشریف لا کر کچھ عرصہ مجلس کی مولوی محمد احسن صاحب امروہی ایک نظر اعجازِ احمدی پر کررہے تھے چونکہ یہ کتاب رات کو چھپی تھی اس لئے بعض جگہ سہو کاتب سے غلطی رہ گئی تھی اور بعض جگہ نقطہ وغیرہ لگانا یا دور کرنا رات کواندھیرے میں رہ گیا تھا اس کے اوپر تذکرہ ہوا حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ کوئی غلطی نہیں ہواکرتی کیونکہ ساتھ ہی ترجمہ ہے اور اگر کوئی لفظ عربی ہے اور نقطہ وغیرہ کی غلطی ہے تو نیچے ترجمہ اس کی صحت کرتاہے اور اگر ترجمہ میں کوئی غلطی صحت سے رہ گئی ہے تو پھر اصل عبارت عربی موجود ہے اس سے اس کی صحت ہو جاتی ہے.
(بوقتِ مغرب) وہی شخص فائدہ اُٹھائے گا جو سچا تقویٰ اختیار کرے گا اس وقت اعجازِ احمدی کے بارہ میں اور اس کے اثر کے متعلق مختلف احباب ذکر اذکار کرتے رہے....پھر سید عبداللہ صاحب عرب نے حضرت اقدسؑ سے دریافت کیا کہ میرے اطراف میں درد ہوتارہتاہے.طاعون کاخطرہ ہے اگر حضورؑ اپنا کُرتہ عطا فرمائیں تو میں اسے پہنے رہوں.حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ ہم کُرتہ تو دے دیںگے مگر بات یہ ہے کہ جب تک اﷲ تعالیٰ کی رحمت اور فضل کا کُرتہ نہ ہو تو پھر کوئی شَے کام نہیں آتی.دیکھو! میں جانتا ہوں کہ گوباربار اﷲ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ میری اور میری جماعت کی اس ذلّت کی موت سے حفاظت فرمائے گا.مگر رسمی مسلمان یا بیعت والے کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے جب تک ہمارے ساتھ والے کو حقیقی تقویٰ نصیب نہ ہو.ایک مسلمان نے ایک دفعہ یہودی کو کہا کہ تو مسلمان ہو جا اس یہودی نے کہا کہ تو اگر چہ مسلمان ہے مگر تو کوئی عمدہ آدمی نہیں ہے اس لئے تم صرف صورت پر نازنہ کرو بلکہ حقیقت کام آتی ہے.سنو!ہمارے ہاں ایک دفعہ ایک لڑکا پیدا ہوا اور اس کا نام خالد رکھا گیا جس کے معنے ہیں ہمیشہ رہنے والا اور پھر اسی دن اسے دفن کر آئے وہ مَر گیا اور خالد کا لفظ اس لڑکے کے کوئی کام نہیں آیا.اسی طرح ہمیشہ انسان کے کام میں حقیقت اور روحانیت ہی کام دے گی.میرا دل ہرگز قبول نہیں کرتا کہ ہماری جماعت میں جو سچاتقویٰ اور طہارت رکھتا ہے اور خدا سے اسے سچا تعلق ہے پھر خدا اسے ذلّت کی موت مارے.اگر چہ طاعون مختلف وقتوں میں آتی رہی ہے مگر ہر زمانہ کا حکم الگ الگ ہے بعض وقتوں میں ایسا کوئی آدمی نہ تھا جو اس وقت تم میں بول رہا ہے پس ایسے وقت اللہ تعالیٰ فرق کرنا چاہتا ہے اور وہی شخص فائدہ اٹھاوے گا جو خدا کے منشا کو سمجھ کر سچی تقویٰ اختیار کرے گا اور خدا سے کوئی فرق نہ رکھے گا.خدا نے ہمیں خوب سمجھا دیا ہے کہ جو دل سعی اور فرق کرنے والے ہیں ان سے یہ عذاب خدا نے پھیر دیا ہے اس لئے ایک متقی کب اس میں شریک ہو سکتا ہے اگر ہماری جماعت میں سے کوئی موت طاعون کی ہو تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ اس میں کوئی
نوع غفلت کی تھی میرے وہم اور خیال میں بھی کبھی یہ بات نہیں آئی کہ خدا پر بدظنی کی جاوے اور وہ مخلف الوعدہ ہو.اپنے اِرد گرد ایک دیوارِ رحمت بنالو اس لیے راتوں کو اٹھ کر روئو.دعائیں مانگو اور اس طرح سے اپنے ارد گرد ایک دیوارِ رحمت بنا لو خدا رحیم کریم ہے وہ اپنے خاص بندہ کو ذلّت کی موت کبھی نہیں مارتا.(اگر خدا نخواستہ) کوئی ہماری جماعت سے (مَرا تو وہ لوگ اعتراض کریں گے کہ) ذلّت کی موت اسے ہوئی.کیونکہ اگر ہم اشتہار نہ دیتے تو کسی کو اعتراض کاموقع کب ملتا مگر اب تو ہم نے خود مشتہر کیا ہے اس لئے لوگ ضرور اعتراض کریں گے.پس تم کو چاہیے کہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو مجھے امید ہے کہ جو پورے درد والا ہو گا اور جس کا دل شرارت سے دور نکل گیا ہے خدا اسے ضرور بچاوے گا توبہ کرو، توبہ کرو.مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ مجھے الہام ہوا تھا اردو زبان میں.’’آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے‘‘ حقیقت یہ ہے کہ جو خدا کا بندہ ہو گا اسے طاعون نہ ہو گی اور جو شخص ضرر اٹھاوے گا اپنے نفس سے اٹھاوے گا اگر تم خدا سے صفائی نہیں کرتے تو کوئی طبیب تمہارا علاج نہیں کر سکتا اور نہ کوئی دوا فائدہ بخش سکتی ہے یہ ذمہ داری صرف خدا کا فعل ہے دل کا پاک صاف کرنا بھی ایک موت ہوتی ہے جب تک انسان محسوس نہ کرے کہ میں اب وہ نہیں ہوں جو کہ پہلے تھا تب تک اسے سمجھنا چاہیے کہ میں نے کوئی تبدیلی نہیں کی.جب اسے معلوم ہو کہ اب میں گندی زندگی جہالت اور طولِ اَمل سے بہت دور آگیا ہوں تو سمجھے کہ اب میں نے تقویٰ پر قدم رکھا ہوا ہے.نفس بہت دھوکے دیتا ہے بیگانہ مال کی خواہش رکھتا ہے حسد سے دوسرے کے مال کا زوال اور نقصان چاہتا ہے.تو یہ باتیں آخری اور نفس سے نکلنے کی ہوتی ہیں.اور یہ وہی آخری وقت ہے.خدا کا خوف ایسی شَے ہے کہ انسان کو خصّی کر دیتا ہے.(بوقتِ عشاء)
ایک رؤیا شہ نشین پر تھوڑی دیر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مجھے رؤیا ہوا ہے کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی سر سے ننگا میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے میرے پاس آیا ہے اس سے مجھے سخت بدبو آتی ہے میرے پاس آکر کہتا ہے کہ میرے کان کے نیچے طاعون کی گلٹی نکلی ہوئی ہے میں اسے کہتا ہوں پیچھے ہٹ جا.پیچھے ہٹ جا.آپ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ تفہیمِ الٰہی کوئی نہیں.۱ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز دو شنبہ اعجازِ احمدی اور مخالفین حضرت اقدسؑ آٹھ بجے کے قریب سیر کے لئے تشریف لائے اور قادیان کی مشرقی طرف تشریف لے چلے.اعجازِ احمدی کا ذکر ہوتا رہا کہ یہ مخالف اب اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں.ہاں بعض یہ کہیں گے کہ اگر ہم چاہیں تو لکھ سکتے ہیں اس پر نواب خان صاحب نے ایک ڈاکٹر صاحب کا ذکر سنایا کہ دہلی میں ایک مولوی نے اعجاز المسیح کو دیکھ کر یہی کہا تھا کہ اگر چاہیں تو ہم لکھ سکتے ہیں مگر کون وقت ضائع کرے حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ یہ وہی مثال ہے کہ ایک شخص نے مشتہر کیا کہ میرے پاس ایک بکری ہے جو شیر کو مار لیتی ہے بشرطیکہ وہ چاہے.اسی طرح یہ لوگ ارادہ نہیں کرتے یہی ان کا حیلہ ہوتا ہے پھر فرمایا کہ اعجاز احمدی کا اردو حصہ بھی ہمارے تمام رسالوں کا نچوڑ ہے.مولوی محمد احسن صاحب نے فرمایا کہ حضور رنگ دوسرا ہے.پھر فرمایا کہ ابھی کیا خبر ہے کہ ہماری جماعت کے کون کون پوشیدہ لوگ ان کے درمیان ہیں وقت آوے گا تو سب آجاویں گے.اس کی مثال ایک شرابی کی مثال ہے کہ وہ جب تک بیہوش ہوتا ہے تو سب کچھ کہتا رہتا ہے پھر جب ہوش آئی تو سنبھل جاتا ہے اسی طرح ان لوگوں کو بھی حسد اور تعصب کی شراب کی بیہوشی ہے.
مولوی محمد حسین بٹالوی کا انجام ایک شخص نے ذکر کیا کہ گو محمد حسین صاحب بٹالوی آخر کار ہماری جماعت میں داخل ہوں مگر ان پنجابی تصانیف اوردیگر تحریروں میں جو کچھ ان کی گت بن چکی ہے وہ صفحہ روز گار پر یاد گار رہے گی.حضرت اقدس نے فرمایا کہیہ تمام ان کے گناہوں کا کفارہ ہو جاوے گا خدا کی شان ہے کہ جو ارادے (ذلّت پہنچانے کے) اس کے ہمارے لئے تھے وہ تمام اس پر الٹے پڑے خود اس کی اپنی جماعت میں اس کو عزّت نہ ہوئی.خدا تعالیٰ کی قدرتیں فرمایا کہ خدا کی قدرتیں عجیب ہیں جس کو چاہے عنایت کرے یہ تمام اس کی لہریں ہیں انسان کی غلطی ہے کہ ادھر ادھر پیر مارتا ہے جس قدر وہ لذّات چاہتا ہے خدا تعالیٰ قادر ہے کہ حلال ذریعہ سے پہنچاوے.کوئی دوست کسی کی ایسی پاسداری نہیں کرتا جیسے وہ کرتا ہے.اس کے خلق اسباب میں عجب مزا آتا ہے.قتل کے مقدمہ پر نظر ڈالو کہ کس طرح اﷲ تعالیٰ نے سب میں پھوٹ ڈال دی.میرا تو یہ خیال ہے کہ اگر حاکم کے سامنے بھی آدمی جاوے تو اسے ہرگز نہ کوسے کیونکہ اگر خدا کو یہ راضی کرتا ہے تو وہ خود اس کے دل کو اس کی طرف پھیر دے گا سب کچھ اسی کے پنجہ میں ہے جسے جس طرف چاہے پھیر دے اس رنگ میں ایک مزا وجودی مذہب کا آجاتا ہے مگر ان کا قدم ذرا آگے پھسلا ہوا ہے لیکن اگر یہاں تک قدم نہ پڑے تو پھر توحید کا بھی مزا نہیں آتا.سب سے زیادہ ضروری شَے خدا کی ہستی پر یقین ہے دراصل لوگوں کو شبہات پڑ گئے ہیں اس لئے وہ گناہ سے پر ہیز نہیں کرتے ہر ایک میں کچھ نہ کچھ غفلت کا حصہ رہ جاتا ہے.اسی طرح خدا اب چاہتا ہے کہ یہ لوگ سمجھ لیویں جس طرح نوحؑ کے زمانہ میں اس کے بیٹے نے کہا تھا کہ میں پہاڑ کی پناہ میں آگیا ہوں.اسی طرح یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ٹیکہ کی پناہ میں طاعون سے آجاویں گے.سب سے زیادہ
ضروری شَے خدا کی ہستی پر یقین ہے بغیر اس یقین کے اعمال میں برکات ہرگز پیدا نہیں ہوتیں ہیں.خدا تعالیٰ نے کہا کہ چلو ذرا ہم ہی چلے چلیں.اگر لوگ آج ہی توحید پر قائم ہو جاویں تو آج ہی یہ بلا جاتی رہتی ہے.خدا انسان کے اعمال کو دیکھتا ہے کہ توحید پر وہ قائم ہیں کہ نہیں.بہت سے عمل توکّل کے برخلاف، توحید کے برخلاف ہوتے ہیں خواہ وہ کسی طرح سے لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کہے مگر وہ اس میں جھوٹا ہوتا ہے اور یہی فسق ہے آج کل جس قدر اسباب پر بھروسہ ہے اس کی نظیر زمانہ سابق میں نہیں ملتی.اگرچہ ان وقتوں میں فسق و فجور ہوتا تھا مگر خدا کا خوف بھی دلوں میں ہوتا تھا ایک وقت آتا ہے کہ لوگ یَامَسِیْحَ الْـخَلْقِ عَدْوَانَا کہیں گے مگر اس وقت وہ سب نَاس ہی رہ جائیں گے جیسے رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا (النّصـر : ۳) مگر ایسے وقت پر ان لوگوں کو ایمان چنداں فائدہ نہیں دیتا.خدا فرماتا ہے قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنْفَعُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِيْمَانُهُمْ (السّجدۃ : ۳۰) اس سے طُلُوْعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا کی حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ توبہ قبول نہ ہو گی بلکہ خدا اپنے فضل سے بخشے تو بخشے ان کی توبہ کوئی حقیقت نہ رکھے گی.یہ اَمر خدا کے اختیار میں ہوگا جیسے فرمایا اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ (ہود: ۱۰۹) اور مومنوں کے حق میں ہے عَطَآءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ(ہود: ۱۰۹).طاعون مامور ہے اور لوگوں کےلئے ایک تازیانہ ہے طاعون بھی مامور ہے اس کا کیا قصور جیسے اگر ایک شخص سپاہی ہو تو خواہ اسے اپنے بھائی حقیقی کے نام وارنٹ ملے تو اسے اس کو گرفتار ہی کرنا پڑے.کیونکہ فرض منصبی ہے میں تو خدا کا شکر کرتا ہوں کہ لوگوں کو سیدھا کرنے کا وقت اب آگیا ہے خدا کی رحمت عظیم ہے کہ اپنی طرف سے خود ہی ایک تازیانہ مقرر کر دیا کہ یہ لوگ غافل نہ رہیں.اب یہ لوگ سالک نہ رہے بلکہ مجذوب ہوئے کیونکہ خود خدا نے دستگیری کی.ہماری جماعت میں ہماری طرف سے نصائح کا سلسلہ تو جاری تھا مگر اس کا اثر کچھ کم ہی ہوتا تھا اب اس نے طاعون کا تازیانہ چلایا کیونکہ طاعون کو دیکھ کر ان لوگوں کے دل متاثر ہوں گے اور ان نصائح کو خوب موقع سمجھیں گے اب ان لوگوں کے لئے ایک عمدہ موقع اولیاء اور اصفیاء بننے کا ہے ورنہ آرام کے زمانہ میں ان نصائح کا کیا اثر ہوتا.بعض وقت
انسان مار کھانے سے درست ہوتا ہے اور بعض وقت مار دیکھنے سے.زنا کی سزا کے لئے بھی خدا نے کہا ہے کہ لوگوں کو دکھا کر دی جائے.اسی طرح دوسروںکو تازیانہ پڑ رہا ہے اور ہماری جماعت دیکھ رہی ہے بہت سے آدمی تھے جنہوں نے ہمارے منشا اور ارادہ کو آج تک نہیں سمجھا تھا مگر اب خدا ان کو دوسروں کو تازیانہ لگا کرسمجھا رہا ہے طَآىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ(النّور : ۳) سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طائفہ میں کوئی کسر ہوگی.اس کی اصلاح اس طرح سے ہو جائے گی کہ وہ دوسرے کو سزا ملتی دیکھ کر اپنی اصلاح کرلیں گے اور اس میں کل مومنوں کو بھی نہیں کہا بلکہ ایک طائفہ کو کہا ہے.ایک رؤیا فرمایا.رات میں نے خواب میں کچھ بارش ہوتی دیکھی ہے یونہی ترشح ساہے اور قطرات پڑرہے ہیں مگر بڑے آرام اور سکون سے.ایمان کی حفاظت سرگرمی سے ہوتی ہے سرگرمی انسان کے اندر ہو تو ایمان رہتا ہےورنہ نہیں.کافور کے ساتھ کالی مرچ اس لیے رکھتے ہیں کہ کافور نہ اڑے.اس کی وجہ یہی ہے کہ کالی مرچ میں تیزی ہوتی ہے وہ اسے اڑنے سے بچائے رکھتی ہے.۱ ۱۸؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز سہ شنبہ(بوقتِ فجر) ایک عظیم الشان رؤیا بعد نماز فرمایا کہ نماز سے کوئی بیس یا پچیس منٹ پیشتر میں نے خواب دیکھا کہ گویا ایک زمین خریدی ہے کہ اپنی جماعت کی میتیں وہاں دفن کیا کریں تو کہا گیا کہ اس کا نام مقبرہ بہشتی ہےیعنی جو اس میں دفن ہوگا وہ بہشتی ہوگا.پھر اس کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ کشمیر میں کسر صلیب کے لئے یہ سامان ہوا ہے کہ کچھ پرانی انجیلیں وہاں سے نکلی ہیں میں نے تجویز کی کہ کچھ آدمی وہاں جاویں تو وہ انجیلیں لاویں تو ایک کتاب
ن پر لکھی جاوے.یہ سن کر مولوی مبارک علی صاحب تیار ہوئے کہ میں جاتا ہوں.مگر اس مقبرہ بہشتی میں میرے لئے جگہ رکھی جاوے میں نے کہا کہ خلیفہ نورالدین کو بھی ساتھ بھیج دو.یہ خواب ہے جو حضرتؑ نے سنایا اور فرمایا کہ اس سے پیشتر میں نے تجویز کی تھی کہ ہماری جماعت کی میّتوں کے لئے ایک الگ قبرستان یہاں ہو.سو خدا نے آج اس کی تائید کر دی اور انجیل کے معنے بشارت کے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ وہاں سے کوئی بڑی بشارت ظاہر کرے اور جو شخص وہ کام کر کے لائے گا وہ قطعی بہشتی ہے.(بوقتِ ظہر و عصر) ایک نشان چند ایک احباب مع مولوی عبد الستار صاحب جو آج تشریف لائے تھے ان سے ملاقات کی ان کے تحفے تحائف لے کر جو انہوں نے حضرت اقدس کے بطور نذر پیشکش کئے تھے فرمایا کہ ان کا آنا بھی ایک نشان ہے اور اس الہام یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ کو پورا کرتا ہے.فرمایا.میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں نماز مغرب ہی پڑھی جاوے.کشمیر میں قبرِ مسیحؑ مغرب کی نماز باجماعت ادا کر کے حضرت اقدسؑ حسب معمول مسجد مبارک کے شمال و مغربی گوشہ میں بیٹھ گئے فجر کی خواب پر حضرت اقدس اور اصحاب کبار ذکر کرتے رہے۱ فرمایا کہ
ایک صحابی نے عرض کی کہ حضور پھر تو سارے انگریز رجوع باسلام ہو جاویں فرمایا.دنیا میں ایک حرکت ہے ان کی مثال تو یہ ہے کہ جیسے تسبیح کا دانہ نکل جاوے تو باقی بھی نہیں ٹھہرتے خواہ پادری پیٹتے ہی رہیں تمام انگریز ٹوٹ پڑیں.اﷲ تعالیٰ کے دائو ایسے ہی ہوتے ہیں.مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ ( اٰل عـمران : ۵۵) پھر ڈوئی کا اخبار آپ نے سنا اور فرمایا کہ پگٹ کی شہرت ڈوئی سے بہت زیادہ ہے.۱ ۱۹؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز چہار شنبہ(بوقتِ سیر) اعجازِ احمدی کے متعلق ذکر شروع رہا.مولوی سید سرور شاہ صاحب نے کہا کہ وہ کہتے تھے کہ ہماری طرف سے کوئی استدعا نہ تھی.حضرتؑ نے فرمایا کہ خود ان کا خط موجود ہے.يَوْمَ اَمُوْتُ وَ يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا (مریم : ۳۴) اس آیت پر فرمایا کہ ان مولویوں کی حسرت ہی ہو گی کہ اُبْعَثُ کا لفظ کیوں آیا کاش اُنْزَلُ کا لفظ ہوتا.پگٹ شیطان کامظہر اس کے بعد مسٹر پگٹ کا ذکر ہوا کہ ان لوگوں کو اس لئے دعویٰ کرنے کی جرأت ہو جاتی ہے کہ قوم نے مان لیا ہے کہ وہ وقت قریب ہے کہ مسیح آوے ورنہ کثرت رائے قوم کی اس طرف ہوتی کہ وقت دور ہے تو یہ دعویٰ نہ کرتا.شیطان کے بھی مظہر ہوتے ہیں شیطان نے اس زمانہ میں اپنے مظہر کے لئے پگٹ کو ہی پسند کیا ہے.فوٹو گرافی کا جوازاور اس کی ضرورت فی زمانہ تصویر کی ان لوگوں کے بالمقابل کس قدر حاجت ہے.ہر ایک رزم بزم میں آج کل تصویر
سے اثر ڈالا جاتا ہے.پگٹ کی بھی تصویر شائع ہوئی ہے فوٹو کے بغیر آج کل جنگ ناقص ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح ہتھیار مخالف تیار کریں تم بھی ویسے ہی تیار کرو اس سے فوٹو کا جواز ثابت ہے بندوقوں اور توپوں سے جنگ کرنے کا جواز بھی اسی طرح کیا گیا ہے ورنہ آگ سے مارنا تو حرام ہے جہاں ضرورتِ حقہ محرک اور مستدعی ہوتی ہے یا اس کے متعلق الہام ہوتا ہے اس مقام پر تصویر کی حرمت کی سند پیش کرنی حماقت ہے جبریلؑ نے خود عائشہؓ کی تصویر آنحضرتؐکو دکھائی.مولوی محمد احسن صاحب نے کہا کہ سلیمانؑ کے وقت میں بھی ایسی ہی ضرورت پیش آئی ہو گی.حضرت اقدسؑ نے فرمایا.ایسا ہی معلوم ہوتا ہے.پھر فرمایا.ایک حُرمت حقیقی ہوتی ہے ایک غیر حقیقی.جو غیر حقیقی ہوتی ہے وہ اسبابِ داعیہ سے اٹھ جاتی ہے.انسان انسان میں فرق راستہ میں ایک سائل بلک بلک کر سوال کر رہا تھا فرمایا.ایک یہ بھی انسان ہے اور ہم بھی ایک انسان ہیں.کس طرح ہر ایک دروازہ پر گرتا اور سوال کرتا ہے.اگر خدا کی طرف رجوع کرتا تو ایسا کبھی نہ رہتا.ع می تواند شد مسیحا می تواند شد یہود پگٹ کا نام پگٹ کے نام کا جو سرّ ہے اس میں خنزیر کے معنے پائے جاتے ہیں.اب دیکھیں کہ یہ عیسائیوں کا خدا آسمان پر جاتا ہے کہ زمین میں دفن ہوتا ہے دراصل خدا کو ان لوگوں پر سخت غیرت ہے جو خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں اس کی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ ایسے لوگ ہوں.اس حساب سے تو موسیٰ اور دوسرے کل نبی معاذاﷲ اس (پگٹ) کے بندے ہوئے اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ ایک ہی سلطنت کے نیچے دو مدّعی.ایک جھوٹا ایک سچا جیسے طاعون ہمارے مفید پڑی ہے ویسے ہی پگٹ نے گردن نکالی ہے جو کچھ اوّل مقرر ہو چکا ہے ضرور ہے کہ وہ تمام ظاہر ہو جاوے.ڈوئی کے ذکر پر فرمایا کہ جو دولت کی مشکلات میں پھنسا ہے اسے دین میں کب راہ ملتی ہے.
زندوں کا توسّل جائز ہے بعد ادائے نمازمغرب حضرت اقدسؑ مسجد کے گوشہ میں ہو بیٹھے.ایک سوال پوچھا گیا کہ آیا دعا کے بعد یہ کلمات کہنے کہ یا الٰہی تو میری دعا کو بطفیل حضرت مسیح موعود ؑ قبول فرما.جائز ہے یا نہیں؟ حضرتؑ نے فرمایا کہ شریعت میں توسّلِ احیاء کا جواز ثابت ہوتا ہے بظاہراس میں شرک نہیں ہے ایک حدیث میں بھی ہے.۱ لفظ اٰوٰی کی حقیقت فرمایا.قرآنی آیات سے پتہ لگتا ہے کہ اٰوٰی کا لفظ یہ چاہتا ہے کہ اوّل کوئی مصیبت واقع ہو.اسی طرح اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ چاہتا ہے کہ ابتدا میں خوفناک صورتیں ہوں.اصحاب کہف کی نسبت یہی ہے فَاْوٗۤا اِلَى الْكَهْفِ (الکہف : ۱۷) اور اَور جگہ وَاٰوَيْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ (المومنون : ۵۱) ان تمام مقامات سے یہی مطلب ہے کہ قبل اس کے کہ خدا آرام دیوے مصیبت اور خوف کا نظارہ پیدا ہوجاوے اور لَوْ لَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ بھی اس کے ساتھ ملتا ہے.اوائل عمر کی بیعت ایک لڑکے کی بیعت کے ذکر پر فرمایا کہ اوائل عمر کے لوگوں کی بیعت میں مجھے بہت تردّد ہوتا ہے جب تک انسان کی عمر چالیس برس کی نہ ہو تب تک ٹھیک انسان نہیں ہوتا.اوائل عمر میں تلوّن ضرور آتے ہیں میرا ارادہ نہیں ہوتا کہ ایسی حالت میں بیعت لوں مگر بدیں خیال کہ دل آزردگی ہوتی ہے بیعت کر لیتا ہوں.انسان جب چالیس برس کا ہوتا ہے تو اسے موت کا نظارہ یاد آتا ہے اور جس کے قریب ابھی موت کا خوف ہی نہیں اس کا کیا اعتبار.
مسلمان بادشاہوں نے عربی زبان کی ترویج نہ کرکے معصیت کی اس کے بعد پھر یہ ذکر ہوتا رہا کہ آج تک بہت تھوڑے ایسے گذرے ہیں جنہوں نے اس اَمر کو محسوس کیا اور حسرت کی کہ کیوں ہندوستان کے شاہانِ اسلام نے اس ملک میں سوائے عربی کے اَور اَور زبانوں کو رواج دیا حالانکہ عربی ایک بڑی وسیع زبان تھی جس میں ہر ایک مطلب مکمل طور پر بیان ہو سکتا ہے اگر وہ ایسا کرتے تو یہ اسلام کی ایک بڑی امداد ہوتی مگر نہ معلوم کہ کیوں کسی کو خیال نہ آیا.اس سے ایک نقص یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ ہندوستان کی اسلامی ذرّیت کو اس وجہ سے کہ ان کو اپنی مذہبی زبان کا علم نہیں قرآن شریف اور دیگر علوم عربیہ سے بہت کم مسّ ہے.حضرت اقدس بھی ان باتوں کی تائید کرتے رہے اور فرمایا کہ یہ ان سے ایک معصیت ہوئی.رسالت اور نبوت پھر رسالت اور نبوت کے مضمون پر حضرت اقدس ؑ فارسی میں تقریر کرتے رہے جو ذیل میں وہ تقریر درج کی جاتی ہے.۱ اﷲ تعالیٰ می فرماید.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ(الاحزاب : ۴۱) لکن اینجا برائے استدراک آمدہ ست چوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیچ کس راپدرنیست.پس ہماں اعتراض کہ بر دشمناں کردہ شدہ و گفتہ کہ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ(الکوثر:۴) بر آنحضرتؐ ہم لازم مے آید گویا کہ خدا تعالیٰ تصدیق معترض مے کند برائے ازالہ ایں وہم فرمودہ است وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ یعنی ہیچ ابدال و قطب و اولیاء بجز ختم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم
نخواہد شد.حکام را ہمیں حالت است کہ اگر بر کاغذ مہر سرکاری نشود صحیح نمی دانند.ہر کسے راکہ الہا م و مکالمہ الٰہی مے شود از مہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مے شودوازیں معنے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہمہ راپدراست.در یک معنے نفی نبوت مے شود و دریک معنے اثبات نبوت مے شود اگر بگویم کہ سلسلہ افادات نبوی منقطع نشدہ واکنوں کسے را الہام و مکالمہ و مخاطبہ الٰہی نمے شود ہمہ اسلام تباہ میشود.سلسلہ مار اایں مثال است کہ اگر کسے در آئینہ صورت مے بیند آنچہ در شیشہ نظر مے آید چیزے دیگر نیست ہماں ہست کہ پیش شیشہ است.ایں مردماں دریں آیت کریمہ غور نمے کنندو من خوب مے دانم کہ ایں ہمہ عقیدہ میدارند کہ سلسلہ مکالمات الٰہیہ منقطع شدہ است.کلام بمعنے وحی است در قرآن ہم ذکر الہام نیامدہ بلکہ ذکر وحی آمدہ وقطعیت الہام و وحی یک معنے داردو نمے پندارند کہ اگر ایں سلسلہ منقطع شود باقی از برکات اسلام چہ مے ماند.پس ہمیں معنے است کہ گفتم درمثال آئینہ و ظل کہ ظل ہمہ نقوش اصل در خود دارد و ظل نبوت ہمیں طور است البتہ آں نبوت منقطع است کہ بلا توسل و سلسلہ رسول اﷲ آید و ہرکسے کہ ازیں انکار مےکند کافر میشود
و ازدین خارج مے شود اگر دین بایں طور مُردہ است کدام توقع نجات باید داشت اگر انسان اندریں عالم تکمیل معرفت نکند چہ دلیل دارد کہ در روز آخرت خواہد کرد بجز ایں صورت کہ ما پیش مے کنیم دیگر صورت نیست مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنیٓ اسـرآئیل : ۷۳) ازبسیار مقاما ت قرآن معلوم مے شود کہ ایں امت خیر امت است پس کدام خیر است کہ درامت موسوی الہام مکالمہ و غیرہ مے شدی و در ایں امت نمے شود و کدام مشابہت ایناں رابامت موسوی خواہد بود.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکمیل کنندہ ایں عالم اند یعنی کمال ایں عالم بر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ختم شدہ وایں معنے ختم نبوت است کے کسے دیگر نبی نمے شود حتی کہ مہر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم برنبوت او نشود چنانکہ مثال آن دریں دنیا دیدہ بود کہ ہیچ پروانہ سرکاری صدیق نمے شود حتی کہ مہر سرکاری بر او نبود.پس ازیں آیت معلوم میشود کہ اﷲ تعالیٰ بطور جسمانی نفی ابوت مے فرماید و بطور روحانی اثبات نبوت میکند بہر حال ایمان باید آورد کہ برکات وافادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاری است اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (اٰل عـمران : ۳۲) دریں آیت معنے محبت چیست ایں معنے ہرگز نیست کہ خدا ہر کسے راکہ محبت میکند دریں عالم او را کورمے دارد.
اگر ایں دوناں را عقل بودے میدانندے.انسان ہماں باشد کہ طالب مغز شود نہ کہ پوست ہمہ ابدال طالب مغز شدہ اند ایمان ہمیں است کہ ایشان میخواہند کہ چشم آنہا بینا شود نہ کہ کور باعث مغضوب شدن اہل اسلام چیست ہمیں کہ از زبان میگویند کہ ایمان آور دیم و در دل ہیچ شیئے نیست وہمیں معنے ایں آیت است مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ (الـحج : ۷۵).وہمیں نابینائی کہ ذکر کردیم موجب فسق و فجوراست و برائے ہمیں بینائی خدا وند تعالیٰ ایں سلسلہ را قائم کردہ است کہ باز آں بینائی کہ رفتہ ہست پیدا شود خدا مے خواہد کہ...ثابت کند کہ آن نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ست وافادۂ آں ہم زندہ است اگر ایں نبود کدام فرق درنصاریٰ واسلام است‘آں مُردہ وایں ہم مُردہ.آں قصہ و حکایت است ایں ہم قصہ و حکایت است اندریں صورت فیصلہ چگونہ شود.خدا تعالیٰ ارادہ فرماید کہ آں برکات سماویہ بنماید واگر مردے مثل آں (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) نمے آید چگونہ بنماید ایں ہمہ کار خدا است مابندگانیم و ہیچ امید فتح و شکست نداریم.او خوب مے داند کہ کدام شوریدہ است بہر مصلحتی کہ خواہد خواہد کرد.۱
۲۰؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز پنجشنبہ پگٹ کے متعلق ایک رؤیا فرمایا.رات کو میں نے پگٹ کے متعلق دعا کی اور صبح بھی کی.مجھے یہ دکھایا گیا کہ کسی نے مجھے چار پانچ کتابیں دی ہیں جن پر لکھا ہوا تھا.تسبیح تسبیح تسبیح بعد اس کے الہام ہوا اَللّٰهُ شَدِيْدُ الْعِقَابِ اِنَّهُمْ لَا يُحْسِنُوْنَ.اس الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی موجودہ حالت خراب ہے اور یاآئندہ توبہ نہ کریں گے.اور یہ معنے بھی اس کے ہیں لَایُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ اور یہ مطلب بھی اس سے ہے کہ اس نے یہ کام اچھا نہیں کیا اﷲ تعالیٰ پر یہ افترا اور منصوبہ باندھا اور اَللّٰهُ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا انجام اچھا نہ ہوگا اور عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوگا حقیقت میں یہ بڑی شوخی ہے کہ خدائی کا دعویٰ کیا جاوے.وہابیوں اور چکڑالویوں کا افراط و تفریط چکڑالوی کے ذکر آنے پر معلوم ہوا کہ اس نے نماز میں بھی کچھ ردّ و بدل کی ہے التحیات اور درود شریف کو نکال دیا ہے اور بھی بعض تبدیلیاں کی ہیں.حضرت اقدس نے چکڑالوی کے فتنے کو خطرناک قرار دیا اور آپ کی رحمت اور حمیّت ِاسلامی نے تقاضا کیا کہ اس کے متعلق ایک اشتہار بطور محاکمہ کے لکھا جاوے جس میں یہ دکھایا جاوے مولوی محمد حسین نے اور اس نے افراط اور تفریط کی راہ اختیار کی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو صراطِ مستقیم پر رکھا ہے.فرمایا.نبی ہمیشہ دو چیزیں لے کر آتے ہیں.کتاب اور سنّت.ایک خدا کا کلام ہوتا ہے اور دوسرے سنّت.یعنی اس پر عمل کرکے دکھادیتے ہیں دنیا کے کام بھی بغیر اس کے نہیں چل سکتے دقیق مسائل جو استاد بتاتا ہے پھر اس کو حل کرکے بھی دکھادیتا ہے پس جیسے کلام اﷲ یقینی ہے سنّت بھی یقینی ہے.خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم کو صراطِ مستقیم پر کھڑا رکھا ہے وہابیوں نے افراط کی.قرآن پر حدیث کو قاضی ٹھہرایا اور قرآن کو اس کے آگے مستغیث کی طرح کھڑا کر دیا اور چکڑالوی نے تفریط کی کہ بالکل ہی
حدیث کا انکار کر دیا.اس سے فتنے کا اندیشہ ہے اس کی اصلاح ضروری ہے ہم کو خدا نے حَاکَم ٹھہرایا ہے اس لئے ہم ایک اشتہار کے ذریعہ اس غلطی کو ظاہر کریں گے اور مضمون پیچھے لکھیں گے.اوّل خویش بعد درویش جس راہ پر خدا تعالیٰ نے ہم کو چلایا ہے اس پر اگر غور کی جاوے تو ایک لذّت آتی ہے قرآن شریف نے کیا ٹھیک فیصلہ فرمایا ہے فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۭ بَعْدَہٗ يُؤْمِنُوْنَ(المرسلات:۵۱) اور دوسری جگہ فرمایا فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۭ بَعْدَ اللّٰهِ وَ اٰيٰتِهٖ يُؤْمِنُوْنَ(الـجاثیۃ : ۷) یہ ایک قسم کی پیشگوئی ہے جو ان وہابیوں کے متعلق ہے اور سنّت کی نفی کرنے والوں کے لئے فرمایا اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ( اٰل عـمران : ۳۲)۱ ۲۱؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز جمعہ لندن میں اوّل ولد الاسلام شیخ رحمت اللہ صاحب مالک ممبئی ہوس لاہور سے مخاطب ہو کر ان سے ان کے حالات اور عرصہ سفر دریافت فرمایا.اس کے بعد مسٹر پگٹکی نسبت آپ نے شیخ صاحب سے استفسار فرمایا کہ آپ اس سے ملنے گئے تھے.شیخ صاحب موصوف نے عرض کی کہ میرے روانہ ہونے سے ایک دن پیشتر مجھے خط ملا تھا میں اسی روز اپنے دو دوستوں سمیت اس کے مکان پر گیا.مگر ہمیں یہی جواب ملتا رہا کہ تم اس وقت اسے مل نہیں سکتے.شیخ صاحب کو ایک اور فرزند ان کی ولایتی منکوحہ سے جو اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے جس کا نام عبد اللہ حضرت اقدس کے ارشاد کے مطابق رکھا گیا ہے اس کے حالات دریافت کر کے فرمایا کہ لنڈن میں وہ اوّل ولدالاسلام ہے.بعد ازاں طاعون اور ٹیکہ کا ذکر ہوتا رہا.اور ٹیکہ کی نسبت حضرت اقدس نے فرمایا کہ آخر کار آسمانی ٹیکہ ہی رہ جاوے گا.۲
جمعہ پڑھ کر فرمایا کہ رات میں نے محمد حسین اور چکڑالوی کے متعلق جو مضمون لکھا تو میں نے دیکھا کہ یہ دونوں میرے سامنے موجود ہیں تو میں نے ان کو کہا خُسِفَ الْقَمَرُ وَ الشَّمْسُ فِیْ رَمَضَانَ فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ.اور آلاء سے مُراد میں خود ہوں.۱ ۲۵؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز سہ شنبہ بعد ادائے نماز مغرب لوگوں کا دستور ہے کہ وہ پروانہ وار ایک دوسرے پر گرتے ہیں اور ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ ایک قدم آگے ہو جائوں تاکہ دہن مبارک سے جو کلمات طیّبات نکلتے ہیں ان کے الفاظ کان تک پہنچیں اس لئے احباب میں بیٹھنے کی کشمکش دیکھ کر فرمایا کہ ’’آپس میں مل جل کر بیٹھ جائو جس قدر تم آپس میں محبت کرو گے اسی قدر اﷲ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا.‘‘ مضمون زیر قلم لکھنے کی نسبت ایک کے استفسار پر فرمایا کہ یونہی امتحاناً میں نے دیکھنا چاہا تھا کہ کچھ لکھ سکتا ہوں کہ نہیں مگر چند ہی حرف لکھنے کے بعد سر کو چکر آگیا اور میں گرنے کے قریب ہو گیا.مصری اخبار اَللِّوَاء کے اعتراض کا جواب مصر کے اخبار اَللِّوَاء نے کشتی نوح کی کسی آیت پر اعتراض کیا تھا کہ یہ لوگ قرآن کو نہیں سمجھتے اور ان کو پتہ نہیں ہے کہ مَامِنْ دَآءٍ اِلَّا وَلَہٗ دَوَآءٌ حدیث میں ہے یہ اس پر ایمان نہیں لائے.آپ نے فرمایا کہ اس نے ہمارے مطلب کو نہیں سمجھا اور پہلی آیت کو دیکھ کر صرف اپنے اندرونی بغض کی وجہ سے
ایک شاعرانہ مذاق پر مضمون لکھنا شروع کر دیا.ہم دوائوں سے کب انکار کرتے ہیں ہم توقائل ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ہر ایک شَے میں بعض فوائد رکھے ہیں چونکہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے متعلق ہمیں قبل ازوقت سوجھا دیا ہے کہ یہ اس کا حقیقی علاج ہے اور یہ اَمر اس نے ہمیں بطور نشان کے دیا ہے تو اب ہم نشان کو کیسے مشتبہ کریں.جب اﷲ تعالیٰ کوئی نشان دیوے تو اس کی بے قدری کرنا صرف معصیت ہی نہیں بلکہ کفر تک نوبت پہنچا دیتا ہے.؎ ہر مرتبہ از وجود اثرے دارد گر حفظِ مراتب نہ کنی زندیقی حفظِ مراتب کا لحاظ ان لوگوں کے وہم گمان میں کبھی نہیں آتا یا افراط ہے یا تفریط.اسی لیے سمجھ اسی کا نام ہے خیر اب اس کے مقابلہ میں بھی لکھنے کا عمدہ موقع مل گیا ہے بہتر ہے کہ ایک اشتہار میں مختصراً اپنے دعاوی اور دلائل لکھ دیئے جاویں.معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اب بہانے ڈھونڈتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جب تبلیغ کا کوئی عمدہ ذریعہ نہ تھا تو اﷲ تعالیٰ اسی طرح دشمنوں کے ہاتھوں سے تبلیغ کراتا تھا کوئی شاعر آتا تو شعر کہہ جاتا لوگ برے برے پیرائوں میں آپ کا ذکر کرتے مگر سعید روحیں انہی کے الفاظ سے آپ کی طرف کھچی چلی آتیں.یہ ہمیشہ سے سنّت اﷲ ہے.سعادت کے نشان بٹالہ میں طاعون کا ذکر سن کر فرمایا کہ یہ سر زمین بہت گندی ہے خوف ہے کہیں تباہ نہ ہو جاوے.اﷲ کا رحم ہے اس شخص پر جو امن کی حالت میں اسی طرح ڈرتا ہے جس طرح کسی پر مصیبت وارد ہوتی ہو تو وہ ڈرے جو امن کے وقت خدا کو نہیں بھلاتا خدا اسے مصیبت کے وقت میں نہیں بھلاتا اور جو امن کے زمانے کو عیش میں بسر کرتا ہے اور مصیبت کے وقت دعائیں کرنے لگتا ہے تو اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں.جب عذابِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے تو توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے.پس کیا ہی سعید وہ ہے جو عذابِ الٰہی کے نزول سے پیشتر دعا میں مصروف رہتا ہے صدقات دیتا ہے اور اَمرِ الٰہی کی تعظیم اور خلق اﷲ پر شفقت کرتا ہے.اپنے اعمال کو سنوار کر بجالاتا ہے یہی ہیں جو
سعادت کے نشان ہیں.درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح سعید اور شقی کی شناخت بھی آسان ہوتی ہے.خدا تعالیٰ جو علاج فرماتا ہے وہ حتمی ہوتا ہے گھر میں کوئی بیمار تھا اس کی تکلیف کی خبر سن کر حضرت اقدس جھٹ اندر تشریف لے گئے اور دوا دے کر آئے تو آتے ہی فرمایاکہ اصل میں انسان جوں جوں اپنے ایمان کو کامل کرتا ہے اور یقین میں پکا ہوتا جاتا ہے توں توں اﷲ تعالیٰ اس کے واسطے خود علاج کرتا ہے.اس کو ضرورت نہیں رہتی کہ دوائیں تلاش کرتا پھرے وہ خدا کی دوائیں کھاتا ہے اور خدا خود اس کا علاج کرتا ہے.بھلا کوئی دعوے سے کہہ سکتا ہے کہ فلاں دوا سے فلاں مریض ضرور ہی شفا پا جاوے گا ہرگز نہیں.بلکہ بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ دوا الٹا ہلاکت کاموجب ہو جاتی ہے.اور ان علاجوں میں سو دھندے ہوتے ہیں بعض وقت تشخیص میں غلطی ہوتی ہے بعض وقت دواؤں کے اجزاء میں غلطی ہو جاتی ہے.غرض حتمی علاج نہیں ہو سکتا ہاں خدا تعالیٰ جو (علاج) فرماتا ہے وہ حتمی علاج ہوتا ہے اس سے نقصان نہیں ہوتا.مگر ذرا یہ بات مشکل ہے نرے کامل ایمان کو چاہتی ہے اور یقین کے پہاڑ سے پیدا ہوتی ہے ایسے لوگوں کا اﷲ تعالیٰ خود معالج ہوتا ہے.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ دانت میں سخت درد تھی میں نے کسی سے دریافت کیا کہ اس کا کیا علاج ہے؟ اس نے کہا کہ موٹا علاج مشہور ہے.علاجِ دنداں اخراجِ دنداں.اس کا یہ فقرہ میرے دل پر بہت گراں گذرا کیونکہ دانت بھی ایک نعمتِ الٰہی ہے اسے نکال دینا ایک نعمت سے محروم ہونا ہے اسی فکر میں تھا کہ غنودگی آئی تو زبان پر جاری ہوا وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ اس کے ساتھ ہی معًا درد ٹھہر گیا اور پھر نہیں ہوا.غرضیکہ لوگ اعتراض کے واسطے دوڑتے ہیں حقیقت کے واسطے نہیں دوڑتے اور نہ اسے دیکھتے ہیں.اعتراض کی صورت کوئی آجاوے تو ان کے واسطے عید ہو جاتی ہے.ہم نے کشتی نوح میں کہاں لکھا ہے کہ دوائیں لغو محض ہیں.ٹیکہ نہ کرانے کی صاف وجہ لکھی ہے کہ چونکہ ہمیں آسمانی ٹیکہ لگایا گیا ہے جو کہ ایک نشان ہے اس لئے اس مادی علاج کو خدا کے نشان میں مشترک کر کے ہم شرک
کے مرتکب ہونا نہیں چاہتے.حقائق اپنے اپنے محل پر ہی چسپاں ہوسکتے ہیں دیکھئے (ماہِ رمضان کا) روزہ ہے.کیسے خدا کی رضا اور ثواب کاموجب ہے لیکن اگر کوئی عید کے دن روزہ رکھے تو کیا اس ثواب کامستحق ہو گا کہ کسی اور خطاب کا؟ ان لوگوں نے ہمارے متعلق ذرا سوچ سے کام نہیں لیا اگر تقویٰ اور نیک نیتی سے کام لیتے اور سوچتے تو اتنا غوغا نہ کرتے بلکہ ان کو حق سمجھ آجاتا اور ہلاک نہ ہوتے خدا نیک نیت کو ضائع نہیں کرتا.موضع مُدّ میں میاں محمد یوسف صاحب کا بائیکاٹ حضرت کی خدمت میں عرض کی گئی کہ معلوم ہوا ہے کہ مُد میں کوئی نہ کوئی خط ایسا پہنچ جاتا ہے کہ محمد یوسف کے گھر کا پانی بند کرو ان سے میل جول نہ رکھواور تعلقات لین دین، گفتگو، سلام پیام سب ترک کرو اس لئے ان کے گھرانے کو سخت تکلیف ہے فرمایا کہ خدا آسمان پر دیکھتا ہے ان کو اس کا اجر دے گا اور ان لوگوں کی سزا ان کو د ے گا یونہی ان کو چھوڑتا نہیں.جنّات جنّات کے وجود اور ان کی معرفت اشیاء منگوانے اور کھانے کا سوال ہوا، حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ اس پر ہمارا ایمان ہے.مگر عرفان نہیں نیز جنّات کی ہمیں اپنی عبادت، معاشرت، تمدن اور سیاست وغیرہ امور میں ضرورت ہی کیا ہے.خدا تعالیٰ پر ہی بھروسہ کریں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عمدہ فرمایا ہے.مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ انسانی عمر بہت تھوڑی ہے سفر بڑا کڑا اور لمبا ہے اس واسطے زادراہ لینے کی تیاری کرنی چاہیے ان بیہودہ محض اور لغو کاموں میں (پڑے رہنا) مومن کی شان سے بعید ہے خدا کے ساتھ ہی صلح کرو اور اسی پر بھروسہ کرو اس سے بڑھ کر کوئی قادر نہیں.طاقت ور نہیں.بات یہ ہے نرے الفاظ اور باتوں سے کچھ نہیں بنتا جب تک خدا اپنے فضل سے دلوں میں نہ گاڑدے.خدا پر بھروسہ کرنا ہی ہر مرض کا علاج ہوتا ہے میرے نزدیک یہ
عالمگیر موت جو آتی ہے اس کا علاج بجز ایمان کے صیقل اور یقین کی جلا کے ہرگز ممکن نہیں.طاعون کا علاج یہ زمینی چیز نہیں ہے کہ زمین اس کا علاج کرے یہ آسمان سے آتی ہے اور اسے کوئی روک نہیں سکتا یہ رِجْزٌ مِّنَ السَّمَآءِ ہے سابقہ انبیاء کے وقت بھی یہ بطور عذاب کے ایک نشان ہوتا رہا ہے پس اس کا علاج یہی ہے کہ اپنے ایمان کو اس کی انتہائی غایت تک پہنچا دو.اس کے آنے سے پیشتر اس خدا سے صلح کرو.استغفار کرو.توبہ کرو.دعاؤں میں لگو.اس کی کوئی دوائی نہیں ہے مرض ہو تو دوا ہو.یہ تو ایک عذابِ الٰہی اور قہرِ ایزدی ہے بجز تقویٰ کے اس کا کیا علاج ہے؟ یاد رکھو کہ اگر گھر بھر میں ایک بھی متقی ہوگا تو خدا اس کے سارے گھر کو بچاوے گا بلکہ اگر اس کا تقویٰ کامل ہے تو وہ اپنے محلّے کا بھی شفیع ہو سکتا ہے اگر چہ متقی مَر بھی جاوے تو وہ سیدھا جنّت میں جاتا ہے مگر ایسے وقت میں جبکہ یہ موت ایک قہرِ الٰہی کا نمونہ ہے اور بطور نشان کے دنیا پر آتی ہے میرا دل ہرگز شہادت نہیں دیتا کہ کوئی متقی اس ذلّت کی موت سے مَرے.متقی ضرور بچایا جاوے گا.کشتی نوح کا بار بار مطالعہ کرو اور اس کے مطابق اپنے آپ کو بنائو میں نے بارہا اپنی جماعت کو کہا ہے کہ تم نرے اس بیعت پر ہی بھروسہ نہ کرنا.اس کی حقیقت تک جب تک نہ پہنچو گے تب تک نجات نہیں.قشر پر صبر کرنے والا مغز سے محروم ہوتا ہے اگر مرید خود عامل نہیں تو پیر کی بزرگی اسے کچھ فائدہ نہیں دیتی.جب کوئی طبیب کسی کو نسخہ دیوے اور وہ نسخہ لے کر طاق میں رکھ دیوے تو اسے ہرگز فائدہ نہ ہوگا کیونکہ فائدہ تو اس پر لکھے ہوئے عمل کا نتیجہ تھا.جس سے وہ خود محروم ہے.کشتی نوح کو بار بار مطالعہ کرو اور اس کے مطابق اپنے آپ کو بنائو.قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشّمس :۱۰).یوں تو ہزاروں چور، زانی، بدکار، شرابی، بدمعاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر کیا وہ درحقیقت ایسے ہیں؟ ہرگز نہیں اُمتی وہی ہے جو آپ کی تعلیمات پر پورا کاربندہے.
طاعون یہ طاعون کوئی مرض نہیں ہے صرف لوگوں کو سیدھا کرنے آئی ہے تم اس کے سیدھے کرنے سے سیدھے نہ بنو بلکہ خدا کے واسطے سیدھے ہو جائو تا کہ شرک سے بری رہو.بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سے صرف غریب لوگ ہی مَرتے ہیں.یہ ایک اور بدقسمتی ہے بجائے عبرت پکڑنے کے الٹا اعتراض کرتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ یہ صرف بیماری ہے اس کو نماز روزے سے کیا تعلق ہے.ڈاکٹروں سے علاج کرانا چاہیے غرضیکہ بیباکی کی یہاں تک نوبت پہنچی ہوئی ہے اور طاعون تو خدا کا ایک آئینہ ہے جس میں خدا اپنا چہرہ دکھائے گا.یاد رکھو کہ طاعون کا نام خدا نے رحمت نہیں رکھا کہ اس سے مَرنے والا شہید ہو.یہ تو زمانہ تحدّی کا ہے بطور نشان کے آئی ہے مومن اور غیر مومن میں فرق کر کے جاوے گی.اس کا نام رجز ہے اور میرے الہام میں بھی اسے غضب کہا گیا ہے آج سے تیرہ سو برس پیشتر قرآن میں اس کی خبر ہے اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْالـخ (النّمل : ۸۳) یعنی جب گمراہی اور ضلالت کا زمانہ ہوگا ایسے وقت میں لوگوں کا ایمان خدا پر صرف ایک بچوں کے کھیل کی طرح ہوگا.تب ہم ان میں ایک کیڑا نکالیں گے جو ان کو کاٹے گا غرض یہ خدا کا ایک قہر ہے جس سے بچنے کے واسطے ہر ایک کو لازم ہے کہ اپنی نجات کا آپ سامان کرے.۱ ۲۶؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز چہار شنبہ(بوقتِ مغرب) خدا تعالیٰ کی طرف رجوع حضرت اقدس مسجد کے گوشے میں جلوہ افروز ہوئے اور چند ایک نووارد احباب نے بیعت کی.طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ جو خدا کی طرف رجوع کرتا ہے خدا اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور جو لاپرواہے خدا اس سے لا پروا ہے اب اس وقت بھی جو نہ سمجھے تو اس کی قسمت ہی بد ہے.چند نوجوانوں کا اخلاص بیعت میں تین نوجوان ایسے بھی شامل تھے جو کہ صرف ایک دن کی رخصت پر آئے تھے عصر کے وقت قادیان میں پہنچے اور اگلے روز
انہوں نے کیمپ میں حاضر ہونا تھا.ان کے اس اخلاص اور محبت پر فرمایا کہ باوجود یکہ فوجی نوکر ہیں مگر خدا نے دین کی محبت ڈال دی ہے صدق اور اخلاص لے کر آئے ہیں خدا ہر ایک کو یہ نصیب کرے.سردرد کا علاج ایک صاحب نے اٹھ کر عرض کی کہ میرے سر میں درد رہتا ہے اور ہمیشہ گرمی میں تنگ کرتا ہے شام کو جب ٹھنڈ شروع ہوتی ہے تو آرام ہو جاتا ہے ورنہ تمام دن اور گرمی کے وقت مجھے سخت تکلیف رہتی ہے دعا فرمائی جاوے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ علاج بھی کیا ہے؟ اس نے کہا ہاں.وہ ٹکیہ بھی کھائی ہیں جو کہ سر درد کے آرام کے لیے آج کل مشہور ہیں مگر فائدہ نہیں.فرمایا کہ ہڈیوں کا شور بہ پیا کرو.ہڈیاں ایسی لیں جن میں کچھ گوشت چمڑا ہو اس کو ابال کر شوربہ ٹھنڈا کرو کہ چربی جم جاوے.اس چربی کو نکال دو.یا ایک رومال پانی میں تَر کر کے شوربہ اس میں چھانو کہ چربی اس میں لگ جاوے اور خالص شوربہ رہے وہ پیا کرو اور ہم دعا بھی کریں گے.صبر بھی ایک عبادت ہے پھر اس شخص نے عرض کی کہ میرے گاؤں میں ایک مولوی مدرسہ میں ملازم، سخت مخالف ہے اور مجھے بہت تکلیف دیتا ہے حضور دعا کریں کہ خدا اس کی تبدیلی وہاں سے کر دے.حضرت اقدس نےا س مقام پر تبسّم فرمایا اور پھر اسے اس طرح سے سمجھایا کہ اس جماعت میں جب داخل ہوئے ہو تو اس کی تعلیم پر عمل کرو.اگر تکالیف نہ پہنچیں تو پھر ثواب کیوں کر ہو.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں تیرہ برس دکھ اٹھائے تم لوگوں کو اس زمانے کی تکالیف کی خبر نہیں اور نہ وہ تم کو پہنچیں ہیں مگر آپ نے صحابہ کو صبر ہی کی تعلیم دی.آخر کار سب دشمن فنا ہو گئے.ایک زمانہ قریب ہے کہ تم دیکھو گے کہ یہ شریر لوگ بھی نظر نہ آویں گے.اﷲ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اس پاک جماعت کو دنیا میں پھیلاوے.اب اس وقت یہ لوگ تھوڑے دیکھ کر دکھ دیتے ہیں مگر جب
یہ جماعت کثیر ہو جاوے گی تو یہ سب خود ہی چپ کر جاویں گے.اگر خدا چاہتا تو یہ لوگ دکھ نہ دیتے اور دکھ دینے والے پیدا نہ ہوتے مگر خدا ان کے ذریعہ سے صبر کی تعلیم دینا چاہتا ہے.تھوڑی مدت صبر کے بعد دیکھو گے کہ کچھ بھی نہیں ہے جو شخص دکھ دیتا ہے یا تو توبہ کر لیتا ہے یا فنا ہو جاتا ہے.کئی خط اس طرح کے آتے ہیںکہ ہم گالیاں دیتے تھے اور ثواب جانتے تھے لیکن اب توبہ کرتے ہیں اور بیعت کرتے ہیں.صبر بھی ایک عبادت ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر والوں کو وہ بدلے ملیں گے جن کا کوئی حساب نہیں ہے.یعنی ان پر بے حساب انعام ہوں گے.یہ اجر صرف صابروں کے واسطے ہے.دوسری عبادت کے واسطے اﷲ تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں ہے.جب ایک شخص ایک کی حمایت میں زندگی بسر کرتا ہے تو جب اسے دکھ پر دکھ پہنچتا ہے تو آخر حمایت کرنے والے کو غیرت آتی ہے اور وہ دکھ دینے والے کو تباہ کر دیتا ہے اسی طرح ہماری جماعت خدا کی حمایت میں ہے اور دکھ اٹھانے سے ایمان قوی ہوجاتا ہے.صبر جیسی کوئی شَے نہیں ہے.یہ زمانہ مامور من اﷲ کے آنے کا ہے اس زمانے کی نسبت فرمایا کہ عجیب بات ہے کہ ہندو بھی کہتے ہیں کہ یہ زمانہ ایک بڑے اوتار کا ہے.نواب صدیق حسن خان نے لکھا ہے کہ نزول مسیح میں کوئی شخص چودھویں صدی سے آگے نہیں بڑھتا.(یعنی جس قدر مکاشفات اور اخبار ہیں وہ تمام چودھویں صدی تک کی خبر دیتی ہیں) ترقی قمر بھی چودہ تک ہی معلوم ہوتی ہے.جیسے قرآن شریف میں ہے وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِيْمِ (یٰسٓ : ۴۰).قرآن کریم کی ایک خاصیت ایک حافظ نے درخواست کی کہ میں کوشش کرتا ہوں کہ قرآن کی میری منزل ٹھہر جاوے مگر ناکامیاب ہی رہتا ہوں.دعا فرمائیے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ قرآن خود یہ خاصیت رکھتا ہے کہ اس نقص کو رفع کردے محبت سے پڑھتے رہو ہم بھی دعا کریں گے.۱
۲۸؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز جمعہ اعجازِ احمدی کے متعلق جعفر زٹلی کے اعتراض کا جواب حضرت اقدس بعد نماز مغرب مسجد کے گوشہ میں ہوبیٹھے جعفر زٹلی نے اپنے اخبار میںاعجاز ِاحمدی کی نسبت لکھا تھا کہ یہ بیان غلط ہے کہ یہ پانچ دن میں تیار ہوئی بلکہ اس کامسودہ ایک عرصہ سے تیار ہو رہا تھا.صرف مُدّ کے واقعات کا تھوڑا سا مضمون ان ایام میں بنالیا ہے.اس سفید جھوٹ پر حضرت اقدس تبسّم فرماتے رہے اور تعجب کرتے رہے کہ ان لوگوں کو اس قدر جھوٹ پر جھوٹ کی کس طرح جرأت ہوتی ہے پھر فرمایا کہ ہر ایک بات کے واسطے فیصلہ ہوتا ہے جب تک خدا تعالیٰ ان لوگوں پر اوّل سبقت نہ کرے ہم بھی نہیں کرتے.صداقت کے دلائل کی بنیاد اس کے بعد حضرت اقدس نے ارادہ ظاہر فرمایا کہ اگر طبیعت درست ہو جائے تو نزول مسیح کو مکمل کر کے ایک رسالہ بزبانِ فارسی تحریر کیا جاوے جس میں دلائل کی بنیاد تین چیزوں پر رکھی جاوے جس کو ہر ایک نبی پیش کرتا رہا ہے اور اوّل نصوص.دوسرے معجزات.تیسرے عقل.عادت ایک زنگ ہے پھر فرمایا.مشکل یہ ہے کہ عادت بھی ایک زنگ ہے جب دل پر بیٹھ جاوے تو ہزارہا دلائل ہوں ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا جیسے ایک ہندو کے دل میں جو گنگا کی عظمت بیٹھی ہے اس سے دلائل پوچھو تو کچھ نہ دے گا صرف عادت کے طور پر اس کی بزرگی ہی مانتا جاوے گا.اسی طرح نزول مسیح کے بارے میں ان لوگوں کی عادت ہو گئی ہے کہ وہ یہی مانتے ہیں کہ اسی جسم کے ساتھ آسمان سے آوے گا.یہ مرض بھی دق کی طرح لگا ہے لیکن میں اس پر خوش ہوں کہ میرا خدا ہر ایک شَے پر قادر ہے.وہ اس مرض کے دفعیہ کے ہزارہا سامان پیدا کر دے گا.
جمعہ کی تعطیل جمعہ کی تعطیل کے لئے ایک میموریل دربار دہلی کی تقریب پر گورنمنٹ ہند کی خدمت میں پیش کرنے کی تجویز حضرت اقدس نے کی ہے جو کہ عنقریب شائع ہوگا.جماعت کی ترقی اس کے بعد ترقی جماعت کا ذکر ہوا کہ یہ ایک عظیم الشان اَمر ہے جو کہ اﷲ تعالیٰ نے ان تین سالوں میں ظاہر کیا ہے.ان تین سالوں سے پیشتر ہماری جماعت صرف کئی سو تھی اور ان تین سالوں میں ایک لاکھ سے زیادہ ہو گئی باوجود یکہ ہر طرف سے مزاحمت ہوتی رہی مخالفت میں کوئی فرق نہیں رکھا.اور ناخنوں تک زور لگایا.۱ ۲۹؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز شنبہ(بوقتِ سیر) ٹیکہ طاعون کے منفی نتائج آٹھ بجے کے بعد حضرت اقدس سیر کے لئے تشریف لائے اور احباب ہمراہ چلے.گذشتہ شب کو جو ٹیکہ طاعون کے خطرناک نتائج سول ملٹری گزٹ اور پایونیئر کے حوالہ سے حضرت کو سنائے گئے تھے کہ ملکوال مقام میں انیس موتیں ٹیکہ کے لگنے سے ہوئیں.اس پر ذکر ہوتا رہا کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کی کتنی رحمت ہے ہماری کشتی نوح میں صاف لکھا ہوا ہے کہ اگر آسمانی ٹیکہ کے علاوہ اور اس کے مقابلے پر کسی اور طرح سے زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے تو ہمارا دعویٰ جھوٹاورنہ سچا.اس ٹیکہ کے انتظام پر گورنمنٹ کا لاکھوں روپیہ صرف ہواہے اس میں بھی خدا کی حکمت ہے کہ ہماری کشتی نوح پر بڑے بڑے متعصّب اخباروں نے حتی کہ مصر کے اَللِّواء نے بھی مخالفت میں مضمون درج کیا.کیا اب ان کی رُوسیاہی ہوئی یا نہیں؟ حق کا رُعب ایسا ہوتا ہے کہ منہ بند ہو جاتے ہیں اب دیکھیں کہ اَللِّواء کیا لکھے گا اور اب بھی شرمندہ ہو گا کہ نہیں؟
ایک دو دن اور ٹھہر جاویں اور دیکھ لیں.ذرا طبیعت ٹھیک ہو جاوے تو ان موتوں کے مفصّل حالات دریافت کر کے پھر اَللِّواء کو پیش کیا جاوے کیونکہ یہ اس کے لئے ایک بڑا تازیانہ ہوگا یہ اﷲ کی طاقتیں ہیں اور اسی کا کام ہے.سلسلہ کی تائید تعجب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ حق کے چمکانے اور ہمارے اس سلسلہ کی تائید میں اس قدر کثرت سے زور دے رہا ہے اور پھر بھی ان لوگوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں.یہ بھی ایک عادت اﷲ ہے کہ مکذبین کی تکذیب خدا کے نشانات کو کھینچتی ہے.جب ان کی تکذیب ٹھنڈی ہو جاوے گی تو یہ نشانات بھی ٹھنڈے پڑ جاویں گے.برسات میں جس قدر گرمی زیادہ ہوتی ہے اسی قدر بارش زور سے ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے منہاج نبوت کا نظارہ دکھلا دیا ہے.کیا کیا کچھ کیا ہے ہماری تائید میں آسمان کو چھوڑا نہ زمین کو مگر ان لوگوں نے کسی بات سے فائدہ نہ اٹھایا ہمیشہ سے ان لوگوں کا خیال تھا کہ صدی کے سر پر کوئی آیا کرتا ہے اس میں سے بھی بیس سال گزر گئے مگر آج تک ان کی سمجھ میں نہ آیا.اب تو قیامت کا سامنا باقی ہے اور تو کوئی کسر باقی نہیں.ایک مخالف نے ایک دفعہ مجھے خط لکھا کہ آپ کی مخالفت میں لوگوں نے کچھ کمی نہیں کی مگر ایک بات کا جواب ہمیں نہیں آتا کہ باوجود اس مخالفت کے آپ ہر بات میں کامیاب ہی ہوتے جاتے ہیں یہ تائید کیوں ہوتی ہے؟ ایمان کی لذّت ایمان کی لذّت بھی یہی ہے کہ خدا کی نصرتوں کو انسان آنکھوں سے دیکھ لے تب آنکھیں کھلتی ہیں جب انسان سمجھ لیتا ہے کہ سچ یہی ہے تو پھر اس پر مَرنے کو بھی تیار ہو جاتا ہے جب تک۱ خدا کی نصرتیں چمک کر ظاہر نہیں ہوتیں اس وقت تک تو
تذبذب میں رہتا ہے مگر جب ان کی چمکار نظر آتی ہے تو سینہ کی غلاظتیں دور ہو جاتی ہیں.یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ اب معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کا تزکیہ نفس کرنے لگا ہے اولیاء خدا کے وفادار بندے ہی ہوا کرتے ہیں اور کون ہوتے ہیں.یہ بھی ایک الہام ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈرائو آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.یہ بات بھی کیسی پوری ہوئی طاعون بھی آگ ہے حدیث میں آیا ہے کہ بہشتی ایک دفعہ دوزخ کی سیر کو جاویں گے اور ایک پیر آگ پر رکھیں گے کہ کس طرح جلاتی ہے تو آگ کہے گی اے مومن! ذرا پیچھے ہٹ جا تُو تو مجھے بجھاتا ہے.ایک رؤیا عصر کی نماز سے پیشتر آپ نے تھوڑی دیر مجلس فرمائی اور ایک خواب بیان کیا.جسے دیکھے ہوئے قریب دو ہفتے گذرے تھےوہ خواب یہ ہے کہ ایک مقام پر میں کھڑا ہوں تو ایک شخص آکر چیل کی طرح جھپٹا مار کر میرے سر سے ٹوپی لے گیا پھر دوسری بار حملہ کر کے آیا کہ میرا عمامہ لے جاوے مگر میں اپنے دل میں مطمئن ہوں کہ یہ نہیں لے جا سکتا.اتنے میں ایک نحیف الوجود شخص نے اسے پکڑ لیا مگرمیرا قلب شہادت دیتا تھا کہ یہ شخص دل کا صاف نہیں ہے.اتنے میں ایک اور شخص آگیا جو قادیان کا رہنے والا تھا اس نے بھی اسے پکڑ لیا میں جانتا تھا کہ موخرالذکر ایک مومن متقی ہے پھر اسے عدالت میں لے گئے تو حاکم نے اسے جاتے ہی چار یا چھ یا نو ماہ کی قید کا حکم دے دیا.(بوقتِ مغرب) غیروں کی مساجد میں نماز نور بخش صاحب نے بیعت کی اور عرض کیا کہ الحکم میں لکھا ہوا دیکھا ہے کہ غیراز جماعت احمدیہ کے پیچھے نماز نہ پڑھو.فرمایا.ٹھیک ہے اگر مسجد غیروں کی ہے تو گھر میں پڑھ لو.اکیلے پڑھ لو.حرج نہیں اور تھوڑے سے صبر کی بات ہے.قریب اﷲ تعالیٰ ان کی مسجدیں برباد کر کے ہمارے حوالہ کر دے گا.آنحضرتؐکے زمانہ میں بھی کچھ عرصہ صبر کرنا پڑا تھا.
عذاب کے بارہ میں عادت اﷲ موجودہ حالت میں طاعون سے ہندوئوں کے زیادہ مَرنے پر فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا (الرّعد : ۴۲) ہم دور دور سے زمین کو گھٹا تے چلے آتے ہیں یہ عادت اﷲ ہے کہ اوّل عذاب ایسے لوگوں سے شروع ہوتا ہے جو دور دور ہوتے ہیں اور ضعیف اور کمزور ہوتے ہیں.بیوقوف یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ صرف انہیں کے لئے ہے ہمارے لئے نہیں مگر عذاب لپک کر ان تک پہنچتا ہے جن کو خبر نہیں ہوتی اور بے پروا ہوتے ہیں.خدا کی اس میں حکمتیں ہوتی ہیں چاہتا ہے کہ یہ اور شوخی کر لیں لوگوں کو اس طاعون کی خبر نہیں ہے وہ مجھے لکھتے ہیں اور اشتہاروں میں شائع کرتے ہیں کہ یہ بھی ایک مرض ہے جس کا علاج ہو سکتا ہے.اب ان کو لازم ہے کہ ڈاکٹروں سے علاج کرائیں.آخر سِوَل نے لکھ دیا کہ ہم کہاں تک اس پر پردہ ڈالیں خود گورنمنٹ کو بھی اس ٹیکہ سے تکلیف پہنچی ہے.طاعون کی اقسام فرمایا.طاعون تین قسم کی ہے ایک خفیف جس میں صرف گلٹی نکلتی ہے اور تپ نہیں ہوتا.دوسری اس سے تیز کہ جس میں گلٹی کے ساتھ تپ بھی ہوتا ہے.تیسری سب سے تیزا س میں تپ نہ گلٹی آدمی سویا اور مَرگیا.ہندوستان کے بعض دیہات میں ایسا ہی ہوا ہے کہ دس آدمی رات کو سوئے تو صبح کو مَرے ہوئے پائے.اس کا اصل باعث طعن ہے یہ لوگ ٹھٹھہ کرتے ہیں مگر ان کو عنقریب پتہ لگ جائے گا جو مخالف بکواس کیا کرتے ہیں ان پر یک لخت پتھر نہیں پڑا کرتے.اوّل ان کو دور سے آگ دکھلائی جاتی ہے تا کہ وہ توبہ کریں.خدا تعالیٰ اس وقت اپنا چہرہ دکھلانا چاہتا ہے شیخ نور احمد صاحب نے عرض کی حضور اب بھی مخالف یہی کہتے ہیں کہ ہمیں طاعون کیوں نہیں ہوتی.فرمایا کہ قرآن میں بھی یہی لکھا ہے کہ وہ لوگ خود عذاب طلب کرتے تھے کمبخت یہ تو نہیں کہتے کہ دعا کرو
کہ ہمیں ہدایت ہو جاوے طاعون ہی مانگتے ہیں دراصل یہ لوگ دہریہ ہیں خدا پر ان کو ایمان نہیں ہے خدا اس وقت اپنا چہرہ دکھانا چاہتا ہے.اس وقت جس قدر عیاشی وفسق و فجور، حقوق العباد میں ظلم وغیرہ ہو رہے ہیں کیا اس کی کوئی حد ہے.ہمیں بعض کہتے ہیں کہ اور دوکانداروں کی طرح ایک دوکاندار ہے مگر عنقریب خدا ان کو بتلا دے گا کہ دکان تو ہے مگر خدا کی دکان ہے ایک صریح کشش آسمان سے ہے اور صریح خدا کے ارادے معلوم ہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے.قادیان آنے والا ہر تحفہ اور نذر ایک نشان ہے یہ میرا ایک پرانا الہام ہے.اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ اَمْرَكَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا براہین کے وقت سے اب اسے دیکھو کہ کیسا برابر ایک سلسلہ چلا آرہا ہے میں اس اَمر پر ایک دفعہ غور کرتا رہا کہ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ اور یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ ان دونوں الہاموں میں کیا مناسبت ہے تو معلوم ہوا کہ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ سے یہ خیال پیدا ہوا کہ جب اس قدر لوگ آویں گے تو ان کے کھانے وغیرہ کا انتظام بھی چاہیے تو آگے بتلایا گیا کہ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ یعنی وہ اپنے کھانے دانے بھی اپنے ہمراہ لاویں گے قادیان کے لوگ خوب واقف ہیں کہ اس وقت کیا حالت تھی.کیا یہ انسان کا کام ہے کہ مدت دراز کے بعد جو بات ہونے والی تھی وہ اس قدر پیشتر بتلائی گئی.اسی لئے جو شخص آتا ہے اور جو تحفہ اور نذر وہ لاتا ہے ہر ایک، ایک نشان ہوتا ہے اور اگر اس طرح سے ہم حساب کریں تو نشانات پچاس لاکھ تک پہنچتے ہیں.تکالیف کے ازالہ کا طریق ایک شخص نے اپنی خانگی تکالیف کا ذکر کیا.فرمایا کہ پورے طور پر خدا پر توکّل، یقین اور امید رکھو تو سب کچھ ہوجاوے گا اور ہمیں خطوط سے ہمیشہ یاد کراتے رہا کرو ہم دعا کریں گے.۱
۳۰؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز یکشنبہ(بوقتِ سیر) تقویٰ قریب آٹھ بجے کے حضرت اقدس سیر کے واسطے تشریف لائے.طاعون کے ذکر پر ایک جگہ فرمایا کہ خدا کا وجود ثابت ہو رہا ہے مجھے تو اسی میں مزا آتا ہے ساری جڑ تقویٰ اور طہارت ہے اسی سے ایمان شروع ہوتا ہے اور اسی سے اس کی آبپاشی ہوتی ہے اور نفسانی جذبات دبتے ہیں.سلسلہ کی ترقی پھر اعجاز احمدی اور اپنے سلسلہ کی بے نظیر ترقی پر فرمایا کہ اگر کذّاب کا یہ حال ہے تو پھر صدق کی مٹی پلید ہے ان لوگوں میں ایسی روحیں بھی ہیں جن پر ایک سخت انقلاب آوے گا جیسے آنحضرتؐکے زمانے میں ابو سفیان ایک بڑا ضعیف القلب اور کم فراست والا آدمی تھا جب آنحضرتؐنے مکہ پر فتح پائی تو اسے کہا کہ تجھ پرواویلا.۱ اس نے جواب میں کہا کہ اب سمجھ آگئی کہ تیرا خدا سچا ہے اگر ان بتوں میں کچھ ہوتا تو یہ ہماری اس وقت مدد کرتے.پھر جب اسے کہا گیا کہ تو میری نبوت پر ایمان لاتا ہے؟ توا س نے تردّد ظاہر کیا اور اس کی سمجھ میں توحید آئی اور نبوت نہ آئی.بعض مادے ہی ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں فراست کم ہوتی ہے جو توحید کی دلیل تھی وہی نبوت کی دلیل تھی مگر ابو سفیان اس میں تفریق کرتا رہا.اسی طرح سعید لوگوں کے دلوں میں اثر پڑ جاوے گا سب ایک طبقے کے انسان نہیں ہوتے.کوئی اوّل جیسے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ.کوئی اوسط درجہ کے اور کوئی آخر درجہ کے.میری ایک پرانی وحی ہے يَخِرُّوْنَ عَلَى الْاَذْقَانِ سُجَّدًا رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا اِنَّا كُنَّا خَاطِـئِيْنَ یعنی
پیچھے آنے والے کہیں گے ان کے لئے آگے خوشخبری بھی ہے.لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ.محمد حسین کو فرعون کہا گیا ہے اور نذیر حسین کو ہامان.تو ہامان کو ایمان نصیب نہ ہوا.اسی طرح نذیر حسین بے نصیب گیا اور میرا استنباط ہے کہ جس طرح فرعون نے اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِيْلَ (یونس : ۹۱) کہا تھا ویسے ہی یہ بھی کہے گا.محی الدین ابن عربی نے کہا ہے کہ قرآن سے یہ ثابت نہیں کہ فرعون جہنم میں جاوے گا.یہ ہے کہ اس نے اپنی قوم کو جہنم میں ڈالا.شاید یہ رعایت اس کے ساتھ اس لیے ہو کہ اس نے موسٰی کو پالا، پرورش کیا، تعلیم دلوائی، تربیت کیا.مگر ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کودوسرے کی تربیت کا ذریعہ نہیں ملا.صرف خدا نے ہی کی.نماز اور استغفار دل کی غفلت کا علاج ہیں سیر سے واپس ہوتے ہوئے ایک حافظ صاحب نے آپ سے مصافحہ کیا اور عرض کی کہ میںنابینا ہوں ذرا کھڑے ہو کر میری عرض سن لیں.حضور کھڑے ہوگئے اس نے کہا میں آپ کا عاشق ہوں اور چاہتا ہوں کہ غفلت دور ہو.حضرت اقدس نے فرمایا کہ نماز اور استغفار دل کی غفلت کے عمدہ علاج ہیں نماز میں دعا کرنی چاہیے کہ مجھ میں اور میرے گناہوں میں دوری ڈال.صدق سے انسان دعا کرتا رہے تو یہ یقینی بات ہے کہ کسی وقت منظور ہو جاوے.جلدی کرنی اچھی نہیں ہوتی.زمیندار ایک کھیت بوتا ہے تو اسی وقت نہیں کاٹ لیتا.بے صبری کرنے والا بے نصیب ہوتا ہے نیک انسان کی یہ علامت ہے کہ وہ بے صبری نہیں کرتے.بے صبری کرنے والے بڑے بڑے بد نصیب دیکھے گئے ہیں.اگر ایک انسان کنواں کھودے اور بیس ہاتھ کھودے اور ایک ہاتھ رہ جائے تو اس وقت بے صبری سے چھوڑ دے تو اپنی ساری محنت کو برباد کرتا ہے اور اگر صبر سے ایک ہاتھ اور بھی کھودلے تو گوہر مقصود پالیوے.یہ خدا کی عادت ہے کہ ذوق اور شوق اور معرفت کی نعمت ہمیشہ دکھ کے بعد دیا کرتا ہے اگر ہر ایک نعمت آسانی سے مل جاوے تو اس کی قدر نہیں ہوا کرتی.سعدی نے کیا عمدہ کہا ہے.؎ گر نباشد بدوست راہ بُردن شرط عشق است درطلب مُردن
مخالفتِ نفس بھی ایک عبادت ہے مخالفتِ نفس بھی ایک عبادت ہے انسان سویا ہوا ہوتا ہے جی چاہتا ہے کہ اور سولے مگر وہ مخالفتِنفس کر کے مسجد جاتا ہے تو اس مخالفت کا بھی ایک ثواب ہے اور ثواب نفس کی مخالفت تک ہی ہوتا ہے ورنہ جب انسان عارف ہو جاتا ہے تو پھر ثواب نہیں ہوتا.عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ کہتے ہیں کہ جب آدمی عارف ہو جاتا ہے تو اس کی عبادت کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ جب نفس مطمئنّہ ہو گیا اَمَّارہ نہ رہا تو ثواب کیسے رہا.نفس کی مخالفت کرنے سے ثواب تھا وہ اب رہی نہیں.بے صبر نہیں ہونا چاہیے قرآن شریف میں ہےوَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ (الرّحـمٰن : ۴۷) یعنی وہ جنت میں داخل ہو گیا اور اس کا درجہ ثواب کا نہ رہا تو یہ بات بے صبری سے نہیں ملتی.انسان کو یہاں تک صبر کرنا چاہیے کہ اس کا دل یقین کر لے کہ میرے جیسا کوئی صابر نہیں.آخر خدا تعالیٰ مہربان ہو کر دروازہ کھول دیتا ہے اسی طرح ایک اور بزرگ کا قول ہے جب انسان عارف ہو جاتا ہے تو تمام عبادتیں ساقط ہو جاتی ہیں اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ عبادات ترک کر دیتا ہے بلکہ یہ ہیں کہ عبادات کی بجا آوری میں جواسے تکلیف ہوتی تھی وہ ساقط ہو جاتی ہے.اب عبادات محبوبات نفس میں شامل ہو گئیں جیسے اور کھانا پینا وغیرہ اس کے محبوبات نفس تھے ایسے ہی نماز، روزہ ہو گیا.خدا تعالیٰ جیسا وفادار اور کوئی نہیں.دوستی اور اخلاص کا حق جیسے وہ ادا کر سکتا ہے اور کوئی نہیں کر سکتا.انسان بڑے جوش والا ہے وہ صبر سے حقوق ادا نہیں کر سکتا جلدی بے صبر نہیں ہونا چاہیے.صحبت کا اثر ہماری جماعت کو چاہیے کہ وقتاًفوقتاً ہمارے پاس آتے رہیں اور کچھ دن یہاں رہا کریں.انسان کا دماغ جیسے خوشبو سے حصہ لیتا ہے ویسے ہی بدبُو سے بھی حصہ لیتا ہے اسی طرح زہریلی صحبت کا اثر اس پر ہوتا ہے.مخالفین کی موجودہ حالت پر فرمایا کہ مکہ معظمہ کی حالت کا تو کسی نے معائنہ نہیں کیا مگر اب اس وقت کی حالت دیکھ کر پتہ لگتا ہے کہ ایسا ہی
حال اس وقت تھا.مکّہ کے دو عمرو ابو جہل کو فرعون کہا گیا ہے.مگر میرے نزدیک وہ تو فرعون سے بڑھ کر ہے فرعون نے تو آخر کہا کہ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِيْلَ (یونس : ۹۱) مگر یہ آخر تک ایمان نہ لایا۱ مکہ میں سارا فساد اسی کا تھا اور بڑا متکبر اور خود پسند.عظمت اور شرف کو چاہنے والا تھا اس کا اصل نام بھی عمرو تھا اور یہ دونو ں عمرو مکہ میں تھے خدا کی حکمت یہ کہ ایک عمرو کو تو کھینچ لیا اور ایک بے نصیب رہا اس کی روح تو دوزخ میں جلتی ہوگی اور حضرت عمروؓ نے ضد چھوڑ دی تو بادشاہ ہو گئے.سورۃ الکوثر کی تفسیر جیسے اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ ( الکوثر : ۴) آنحضرتؐکے حق میں ہے ایسا ہی میرا بھی یہ الہام ہے.یہ کم بخت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی اور روحانی طور پر ہر دو طرح ابتر قرار دیتے ہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہےاِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ(الکوثر : ۲) یہاں کوثر کا قرینہ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ ہے.نحر اولاد کے لئے ہوتا ہے کہ جب عقیقہ ہوتا ہے تو قربانیاں دیتے ہیں.پس اگر نبی کریم کی اولاد نہ روحانی ہوئی نہ جسمانی تو نحر کس کے لئے آیا؟ عبد اﷲ غزنوی کا الہام اس وقت قرآن کی عظمت بالکل دلوں میں نہیں رہی عبد اﷲ غزنوی صاحب کا بھی ایک کشف ہے جو اس کے متعلق تھا کہ اس میں ان کو الہام ہوا تھا کہ ھٰذَا کِتَابِیْ ھٰذَا عِبَادِیْ.فَاقْرَأْ کِتَابِیْ عَلٰی عِبَادِیْ.حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا غصہ عمرؓ سے کسی نے پوچھا کہ آپ بڑے غصہ والے ہوتے تھے اب غصہ مسلمان ہونے سے دور ہو گیا فرمایا.دور تو نہیںہوا منعقد ہو گیا ہے اور اب اپنے ٹھکانے پر چلتا ہے.۲
(دربارِ شام) برطانیہ اور کابل فرمایا.گورنمنٹ انگلشیہ نے بڑی آزادی دے رکھی ہے اور ہر قسم کا امن ہے.مگر کابل میں تو لوگ ایک طرح سے اسیر اور مقید ہیں.وہ باہر جانا چاہیں تو ان کے لئے کئی قسم کی پابندیاں ہیں اور بیہودہ نگرانیاں کی جاتی ہیں خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو اسی لئے اس مبارک سلطنت کے ماتحت رکھا.فرمایا.جو لوگ حق کو چھپاتے ہیں وہ مَرد نہیں بلکہ عورتیں ہیں.فرمایا.جو خدا کی پروا نہیں کرتا وہ برباد ہو جاتا ہے.یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے انکار کیا یہ آثار اچھے نہیں.اﷲ تعالیٰ بعض وقت انصاف پسند کافر کو ظالم کلمہ گوکے مقابلہ میں پسند کرتا ہے اس سلسلہ کے لئے گورنمنٹ انگلشیہ کے سوا دوسری حکومتیں سخت مضر ہیں.ان میں امن نہیں ہے.۱ یکم دسمبر ۱۹۰۲ء بروز دوشنبہ(بوقتِ سیر) حسب معمول سیر کے لئے تشریف لائے آتے ہی فرمایا کہ آج ہی کے دن سیر ہے کل سے انشاء اﷲ روزہ شروع ہوگا تو چار پانچ دن تک سیر بند رہے گی تاکہ طبیعت روزے کی عادی ہو جاوے اور تکلیف محسوس نہ ہو.مخالفین کی طرف سے اعجاز احمدی کا جواب لکھنے کی تیاری اعجازِ احمدی کی نسبت ایڈیٹر صاحب الحکم نے سنایا کہ شحنہ ہند نے لکھا ہے کہ شروع سال میں اس کا جواب اعجازی طو رپر شائع ہوگا اور اس نے تین ہزار روپیہ لوگوں سے طلب کیا ہے کہ اس روپے سے وہ کتاب تصنیف کر کے شائع کرے اور دس ہزار
انعام لے لیوے اس طرح سے تیرہ ہزار روپیہ وہ لینا چاہتا ہے حضرت نے فرمایا کہ کیمیا گر دھوکہ باز اسی طرح نادانوں کو دھوکہ دے کر لوٹا کرتے ہیں.مخالفت مخالفت پر فرمایا کہ اس سے تحریک ہو کر نشان ظاہر ہوتے ہیں اور مخالفوں کی تحریک ایسی ہے جیسے کَل (مشین) سے ایک کنواں نکالا جاوے ورنہ موافقین جو اٰمَنَّا کہہ کر چپ کر گئے.ان سے کیا تحریک ہو سکتی ہے اعجاز احمدی سے خود لوگ اس نتیجہ پر پہنچ جاویں گے کہ قرآن دانی اور عربیت کی اصل جڑھ انہیں لوگوں میں (احمدیہ مشن میں ) ہے.کیونکہ وہ نتیجہ نکال لیں گے کہ جن کی عربی دانی یہ ہے کہ اس کی مثل لوگ نہیں لا سکتے تو ضرور ہے کہ قرآن دانی بھی انہیں میں ہو.ایک تفسیری نکتہ اعجاز احمدی میں بہت سی پیشگوئیاں بھی کی ہیں اوراِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ (البقرۃ : ۲۴) اس میں مِنْ مِّثْلِهٖ کے معنے بھی اکثر مفسّرین نے کئے ہیں کہ اگر مقابلہ میں کوئی لکھ کر لاویں تو اس میں پیشگوئیاں بھی اسی طرح ہوں جیسے قرآن شریف میں ہیں.۱ عدوشود سبب خیر گر خدا خواہد مخالفوں کی مخالفت کے تذکرہ پر فرمایا کہ مخالف مامور کی عمر کو بڑھا تے ہیں اور وہ گویا سلسلہ نبوت کی رونق کا باعث ہوتے ہیں.ان کی مخالفت سے تحریک پیدا ہوتی اور خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے جب مخالفت اٹھ جاتی ہے تو گویا مامور بھی اپنا کام کر چکتا ہے اور وہ فتح یاب ہو کر اٹھایا جاتا ہے.دیکھو! جب تک کفار مکہ کی مخالفت کا زور شور رہا اس وقت تک بڑے بڑے اعجاز ظاہر ہوئے لیکن جب اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ ( النّصـر : ۲) کا وقت آیا اور یہ سورۃ اُتری تو گویا آپ کے انتقال کا وقت قریب آگیا.فتح مکہ کیا تھی آپ کے انتقال کا ایک مقدمہ تھی.غرض ان مخالفانہ تحریکوں سے بڑے بڑے فائدے ہوتے ہیں اور ہماری جماعت ان مخالفوں ہی میں سے نکل کر آئی ہے اور اگر
یہ مخالفت نہ ہوتی تو اس زور شور سے تحریک اور تبلیغ نہ ہوتی.۱ وجودی فرقہ کی حالت ایک ذرّہ حرکت اور سکون نہیں کر سکتا جب تک آسمان پر اوّل حرکت نہ ہو.ذلّت وجودی کی اس سے ہے کہ وہ اس مقام پر لغزش کھا جاتا ہے.طریق تأدب یہ تھا کہ اس مقام پر ٹھہر جاتے اور جو فرق عبد اور معبود کا ہے اس سے آگے نہ بڑھتے.مگر وہ ایسے طریق پر ہیں کہ عملی حالت میں رہے جاتے ہیں.نماز روزہ سے آخر کار فارغ ہو بیٹھتے ہیں.بھنگ وغیرہ مسکرات استعمال کرنے لگ جاتے ہیں.دہریت میں اور ان میں انیس بیس کا فرق ہے اور ان کی بیباکی دلالت کرتی ہے کہ اس فرقہ میں خیر نہیں ہے.عیسائیوں نے ایک کو خدا بنا کر آگ لگائی اور انہوں نے ہر ایک وجود کو خدابنایا.ہندوؤں پر بھی ان کا بد اثر پہنچا ہے حُرمت کی پروا نہیں ہے.اس لئے مناہی وغیرہ سب جائز رکھتے ہیں.صورت پرست ہوتے ہیں نامحرموں پر بدنظری کرتے ہیں اس زمانہ کا بگاڑ سخت ہے.اصل تقویٰ دنیا سے اُٹھ گیا ہے اصل تقویٰ جس سے انسان دھویا جاتا ہے اور صاف ہوتا ہے اور جس کے لئے انبیاء آتے ہیں وہ دنیا سے اٹھ گیا ہے کوئی ہو گا جو قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا(الشّمس : ۱۰) کامصداق ہو گا.پاکیزگی اور طہارت عمدہ شَے ہے انسان پاک اور مطہّر ہو تو فرشتے اس سے مصافحہ کرتے ہیں.لوگوں میں اس کی قدر نہیں ہے ورنہ ان کی لذّات کی ہر ایک شَے حلال ذرائع سے ان کو ملے.چور چوری کرتا ہے کہ مال ملے لیکن اگر وہ صبر کرے تو خدا اسے اور راہ سے مالدار کردے.اسی طرح زانی زنا کرتا ہے اگر صبر کرے تو خدا اس کی خواہش کو اور راہ سے پوری کردے جس میں اس کی رضا حاصل ہو.حدیث میں ہے کہ کوئی چور چوری نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا اور زانی زنا نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا جیسے بکری کے سر پر شیر کھڑا ہو تو وہ گھاس بھی نہیں کھا سکتی تو بکری جتنا ایمان بھی لوگوں کا نہیں ہے اصل جڑ اور مقصود تقویٰ ہے جسے وہ عطا ہو تو سب کچھ پاسکتا ہے بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ انسان صغائر اور کبائر سے بچ سکے.انسانی حکومتوں کے احکام گناہوں سے نہیں بچاسکتے.حکّام
ساتھ ساتھ تو نہیں پھرتے کہ ان کو خوف رہے.انسان اپنے آپ کو اکیلا خیال کرکے گناہ کرتا ہے ورنہ وہ کبھی نہ کرے اور جب وہ اپنے آپ کو اکیلا سمجھتا ہے اس وقت وہ دہریہ ہوتا ہے اور یہ خیال نہیں کرتا کہ خدا میرے ساتھ ہے وہ مجھے دیکھتا ہے ورنہ اگر وہ یہ سمجھتا تو گناہ نہ کرتا.تقویٰ سے سب شَے ہے قرآن نے ابتدا اسی سے کی ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتـحۃ : ۵) سے بھی مُراد تقویٰ ہے.کہ انسان اگر چہ عمل کرتا ہے مگر خوف سے جرأت نہیں کرتا کہ اسے اپنی طرف منسوب کرے اور اسے خدا کی استعانت سے خیال کرتا ہے اور پھر اسی سے آئندہ کے لئے استعانت طلب کرتا ہے.تقویٰ کے ثمرات پھر دوسری سورت بھی هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ سے شروع ہوتی ہے.نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ سب اسی وقت قبول ہوتا ہے جب انسان متقی ہو.اس وقت خدا تمام داعی گناہ کے اٹھا دیتا ہے.بیوی کی ضرورت ہو تو بیوی دیتا ہے.دوا کی ضرورت ہو تو دوا دیتا ہے.جس شَے کی حاجت ہو وہ دیتا ہے اور ایسے مقام سے روزی دیتا ہے کہ اسے خبر نہیں ہوتی.ایک اور آیت قرآن شریف میں ہے اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا (حٰمٓ السّجدۃ:۳۱) اس سے بھی مُراد متقی ہیں ثُمَّ اسْتَقَامُوْا یعنی ان پر زلزلہ آئے، ابتلا آئے، آندھیاں چلیں مگر ایک عہد جو اس سے کر چکے اس سے نہ پھرے.پھر آگے خدا فرماتا ہے کہ جب انہوں نے ایسا کیا اور صدق اور وفا دکھلایا.تو اس کا اجر یہ ملاتَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ یعنی ان پر فرشتے اترے اور کہا کہ خوف اور حزن مت کرو تمہارا خدا متولّی ہے.وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(حٰمٓ السّجدۃ:۳۲) اور بشارت دی کہ تم خوش ہو اس جنت سے اور اس جنّت سے یہاں مُراد دنیا کی جنّت ہے جیسے ہے وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ (الرّحـمٰن : ۴۷) پھر آگے ہے نَحْنُ اَوْلِيٰٓـؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ (حٰمٓ السّجدۃ:۳۲) دنیااور آخرت میں ہم تمہارے ولی اور متکفّل ہیں.مومن کی دنیوی زندگی بعض لوگ وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ کی آیت کے معارض ایک حدیث پیش کیا کرتے ہیں اَلدُّنْیَا سِـجْنٌ لِّلْمُؤْمِنِ اس کے
اصل معنے یہ ہیں کہ مومن کئی قسم کے ہوتے ہیں فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَيْرٰتِ (فاطر : ۳۳) مقتصد سے مُراد نفسِ لوامہ والے ہیں اور یہ تکالیف نفسِ لوّامہ تک ہوتی ہیں کہ اس میں انسان کے ساتھ کشاکش نفسِ اَمَّارہ کی ہوتی ہے وہ کہتا ہے کہ راحت اور آرام کی یہ بات اختیار کر اور لوّامہ وہ نہیں کرتا.اس وقت انسان مجاہدہ کرتا ہے اور نفسِ اَمَّارہ کو زیر کرتا ہے اور اسی طرح جنگ ہوتی رہتی ہے حتی کہ اَمَّارہ شکست کھا جاتا ہے اور پھر نفسِ مطمئنّہ رہ جاتا ہے.يٰۤاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ ارْجِعِيْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً ( الفجر : ۲۸،۲۹) یعنی تو میری جنّت میں داخل ہو جا اور اسی وقت ہو جا اور مومن کی جنّت خود خدا ہے.یعنی جب وہ خداکے بندوں میں داخل ہوا، تو خداتو انہیں میں ہے.اور وہ اس کے عباد میں آگیا تو اب اس حالت میں وہ سجن کہاں رہا؟ ایک مرتبہ ہوتا ہے کہ اس وقت تک وہ تکالیف میں ہوتا ہے جیسے جب کنواں کھودا جاوے تو اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ پانی نکل آوے مطمئنّہ ہونا اصل میں پانی نکالنا ہے.جب پانی نکل آیا.اب کھودنے کی ضرورت نہیں ہے تو اس آیت میں ظالم سے مُراد نفسِ امّارہ والے اور مقتصد سے مُراد لوَّامہ والے اور سابق بالخیرات سے مُراد مطمئنّہ والے ہیں.پوری تبدیلی زندگی میں جب تک نہ آوے تب تک جنگ رہتی ہے اور لوّامہ تک یہ جنگ ہے جب یہ ختم ہوئی تو پھر دار النّعیم میں آجاتا ہے.اس وقت اس کا ارادہ خدا کا ارادہ اس کی مرضی خدا کی مرضی ہوتی ہے اور ان باتوں میں لذّت اٹھاتا ہے جن سے خدا خوش ہوتا ہے.ایک عارف جس کی خدا سے ذاتی محبت ہو جاوے تو اگر خدا اسے بتلا بھی دیوے کہ تو دوزخی ہے خواہ عبادت کر خواہ نہ کر تو اس کی خوشی اسی میں ہو گی کہ خواہ دوزخ میں جائوں مگر میں ان عبادات سے رک نہیں سکتا جیسے افیونی کو جب افیون کی عادت ہو جاتی ہے تو اسے کیسی ہی تکالیف ہوں اور خواہ گھلتا ہی جاتا ہے مگر افیون کو نہیں چھوڑتا.جس طرح دنیا میں نوجوانوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کوایک دھن جب لگ جاوے تو خواہ والدین کتنا روکیں منع کریں مگر وہ کسی کی نہیں سنتے اور اس دھن کی خوشی میں تکالیف کا بھی خیال نہیں ہوتا.ایسا ہی اس مومن عارف کامل کا حال ہوتا ہے کہ اسے اس بات کا خیال بھی نہیں ہوتا کہ اجر ملے گا یا نہیں.یہ مقام آخر ی
مقام ہے جہاں سلوک کا سلسلہ ختم ہوتاہے اور اس کے سوا چارہ نہیں.اس حالت میں کسی سہارے پر اس کے جوش نہیں ہوتے.کیونکہ جب تک انسان کسی سہارے سے کام کرتا ہے تو ممکن ہے کہ شیطان اس میں کسی وقت دخل دیوے.مگر یہاں ذاتی محبت کے مقام میں سہارا نہیں ہوتا جیسے ماں اور بچے کے جو تعلقات ذاتی محبت کے ہیں ان میں انسان تفرقہ نہیں ڈال سکتا.ماں کی فطرتی محبت ایک دوسرے سے ملاتی ہے مثل مشہور ہے ’’ماں مارے اور بچہ ماں ماں پکارے‘‘اسی طرح اہل اﷲ خدا کی مار کھا کر کہاں جاسکتے ہیں.بلکہ مار پڑے تو وہ ایک قدم اور بڑھاتے ہیں دوسرے تعلقات میں خدا کی محبت کا جلال زور کے ساتھ نزول نہیں ہوتا جیسے جب انسان کسی کو اپنا نوکر سمجھتا ہے اور خیال ہوتا ہے کہ یہ نوکری اس لئے کرتا ہے کہ اس کی اجرت ملے تو اس کی طرف محبت کامل کا التفات نہیں ہوتا اور وہ ایک نوکر شمار ہوتا ہے.مگر جب کوئی شخص خدمت کرتا ہے اور آقا کو معلوم ہو کہ یہ نوکری کی خواہش سے نہیں کرتا تو آخرکار بیٹوں میں شمار ہوتا ہے.خدا بڑا خزانہ ہے.خدا بڑی دولت ہے.استغفار کی حقیقت غفلت غیر معلوم اسباب سے ہے.بعض وقت انسان نہیں جانتا اور ایک دفعہ ہی زنگ اور تیرگی اس کے قلب پر آجاتی ہے.اس لئے استغفار ہے.اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ زنگ اور تیرگی نہ آوے.عیسائی لوگ اپنی بیوقوفی سے اعتراض کرتے ہیں کہ اس سے سابقہ گناہوں کا ثبوت ملتا ہے.اصل معنے اس کے یہ ہیں کہ گناہ صادر نہ ہوں ورنہ اگر استغفار سابقہ صادر شدہ گناہوں کی بخشش کے معنے رکھتا ہے تو وہ بتلاویں کہ آئندہ گناہوں کے نہ صادر ہونے کے معنوں میں کون سا لفظ ہے.غفر اور کفر کے ایک ہی معنے ہیں.تمام انبیاء اس کے محتاج تھے جتنا کوئی استغفار کرتا ہے اتنا ہی معصوم ہوتا ہے.اصل معنے یہ ہیں کہ خدا نے اسے بچایا معصوم کے معنے مستغفر کے ہیں.عیسائیت عیسویت کی ترقی پر فرمایا کہ جو ترقی انہوں نے کرنی تھی وہ کر چکے پورے طور پر انسان کو خدابنا لیا.اگر انسان خدابن سکتا ہے تو پگٹ سے کیوں ناراض ہیں.بہت خدا مل جاویں گے تو طاقت زیادہ ہوگی.
(بوقتِ ظہر) بغیر عذر کے دعوت ردّ کرنا اچھی بات نہیں ایک خادم نے عرض کی کہ ایک تقریب پر اس کے ہاں خوشی ہے اور کچھ کھانے کا انتظام کیا گیا ہے حضور بھی شام کو تشریف لا کر کھانا وہیں تناول فرماویں تو عین سعادت ہے.فرمایا.دعوت راحت کے واسطے ہوتی ہے.مجھے ایسی مرض ہے کہ دن کے آخری حصہ میں وہ عود کرتی ہے اور میں بالکل چل پھر نہیں سکتا.اسی لئے دیکھتے ہو کہ پھرنے کا وقت صبح کا رکھا ہے ابھی بھی نماز سے پیشتر پائوں سرد ہو رہے تھے تو میں دوا پی کر آیا ہوں خیال آتا ہے کہ گھڑی گھڑی کیا کہوں کہ سرد ہو رہا ہوں اس لئے افتاں خیزاں آجاتا ہوں.اس لئے شام کو میں جا نہیں سکتا ورنہ دعوت کا ردّ کرنا تو اچھی بات نہیں ہے مگر جب بیمار ہو تو انسان مجبور ہے.ماہِ رمضان کی عظمت اور اُس کے روحانی اثرات مغرب کی نماز سے چند منٹ پیشتر ماہ رمضان کا چاند دیکھا گیا.حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام مغرب کی نماز گذار کر مسجد کی سقف پر تشریف لے گئے کہ چاند کو دیکھیں اور دیکھا اور پھر مسجد میں تشریف لائے.فرمایا کہ رمضان گذشتہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کل گیا تھا.شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ (البقرۃ : ۱۸۶) بھی ایک فقرہ ہے جس سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے.صوفیا نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر ِقلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے.کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں.صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم (روزہ) تجلّی قلب کرتا ہے.تزکیہ نفس سے مُراد یہ ہے کہ نفسِ اَمّارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جاوے اور تجلّی قلب سے یہ مُراد ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لیوے.پس اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ میں یہی اشارہ ہے اس میں شک و شبہ کوئی نہیں ہے روزہ کا اجر عظیم ہے لیکن امراض اور اغراض اس نعمت سے انسان کو محروم رکھتے ہیں مجھے یاد ہے کہ جوانی کے ایام میں میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ روزہ رکھنا سنّت اہلِ بیت ہے.میرے حق میں پیغمبر خدا نے فرمایا سَلْمَانُ مِنَّا اَھْل
الْبَیْتِ.سَلْمَانُ یعنی اَلصُّلْحُ کہ اس شخص کے ہاتھ سے دو صلح ہوں گی.ایک اندرونی دوسری بیرونی اور یہ اپنا کام رفق سے کرے گا نہ کہ شمشیر سے.اور میں مشرب حسین پر نہیں ہوں کہ جس نے جنگ کی بلکہ مشرب حسن پر ہوں کہ جس نے جنگ نہ کی میں نے سمجھا کہ روزہ کی طرف اشارہ ہے چنانچہ میں نے چھ ماہ تک روزے رکھے.اس اثنا میں مَیں نے دیکھا کہ انوار کے ستونوں کے ستون آسمان پر جارہے ہیں یہ اَمر مشتبہ ہے کہ انوار کے ستون زمین سے آسمان پر جاتے تھے یا میرے قلب سے لیکن یہ سب کچھ جوانی میں ہو سکتا تھا اور اگر اس وقت میں چاہتا تو چار سال تک روزہ رکھ سکتا تھا.؎ نشاط نوجوانی تا بہ سی سال چو چہل آمد فرو ریزد پر و بال اب جب سے چالیس سال گذر گئے دیکھتا ہوں کہ وہ بات نہیں.ورنہ اول میں بٹالہ تک کئی بار پیدل چلا جاتا اور پیدل آتا اور کوئی کسل اور ضعف مجھے نہ ہوتا اور اب تو اگر پانچ یا چھ میل بھی جائوں تو تکلیف ہوتی ہے چالیس سال کے بعد حرارتِ غریزی کم ہونی شروع ہو جاتی ہے خون کم پیدا ہوتا ہے اور انسان کے اوپرکئی صدمات رنج و غم کے گذرتے ہیں.اب کئی دفعہ دیکھا ہے کہ اگر بھوک کے علاج میں زیادہ دیر ہو جائے تو طبیعت بے قرار ہو جاتی ہے.عباداتِ مالی و عبادات بدنی خدا تعالیٰ کے احکام دو قسموں میں تقسیم ہیں.ایک عبادات مالی دوسرے عبادات بدنی.عبادات مالی تو اسی کے لئے ہیں جس کے پاس مال ہو اور جن کے پاس نہیں وہ معذور ہیں اور عبادات بدنی کو بھی انسان عالَمِ جوانی میں ہی ادا کر سکتا ہے ورنہ ساٹھ سال جب گذرے تو طرح طرح کے عوارضات لاحق ہوتے ہیں نزول الماء وغیرہ شروع ہو کر بینائی میں فرق آجاتا ہے.یہ ٹھیک کہا کہ پیری وصد عیب اور جو کچھ انسان جوانی میں کر لیتا ہے اسی کی برکت بڑھاپے میں بھی ہوتی ہے اور جس نے جوانی میں کچھ نہیں کیا اسے بڑھاپے میں بھی صدہا رنج برداشت کرنے پڑتے ہیں.ع موئے سفید از اجل آرد پیام
انسان کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ حسبِ استطاعت خدا کے فرائض بجا لاوے.روزہ کے بارے میں خدا فرماتا ہے وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ (البقرۃ : ۱۸۵) یعنی اگر تم روزہ رکھ بھی لیا کرو تو تمہارے واسطے بڑی خیر ہے.فدیہ کی غرض ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے.تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو.خدا ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شَے خدا ہی سے طلب کرنی چاہیے.خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جاوے اور یہ خدا کے فضل سے ہوتا ہے.پس میرے نزدیک خوب ہے کہ دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ.یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ.اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا طاقت بخش دے گا.روزہ کی فرضیت اگر خدا چاہتا تو دوسری اُمتوں کی طرح اس امت میں کوئی قید نہ رکھتا مگر اس نے قیدیں بھلائی کے واسطے رکھی ہیں میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینے میں تو مجھے محروم نہ رکھ تو خدا اسے محروم نہیں رکھتا اور ایسی حالت میں اگر انسان ماہ رمضان میں بیمار ہو جاوے تو یہ بیمار ی اس کے حق میں رحمت ہوتی ہے.کیونکہ ہر ایک عمل کامدار نیت پر ہے مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کردے جو شخص کہ روزے سے محروم رہتا ہے مگر اس کے دل میں یہ نیت درددل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا اور روزہ رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اس کے لئے روزے رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جُو نہ ہو تو خدا تعالیٰ ہرگز اسے ثواب سے محروم نہ رکھے گا.یہ ایک باریک اَمر ہے کہ اگر کسی شخص پر (اپنے نفس کی کسل کی وجہ سے) روزہ گراں ہے اور وہ
اپنے خیال میں گمان کرتا ہے کہ میں بیمار ہوں اور میری صحت ایسی ہے کہ اگر ایک وقت نہ کھائوں تو فلاں فلاں عوارض لاحق حال ہوں گے اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا تو ایسا آدمی جو خدا کی نعمت کو خود اپنے اوپر گراں گمان کرتا ہے.کب اِس ثواب کامستحق ہوگا.ہاں وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آگیا اور اس کامنتظر مَیں تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھر وہ بوجہ بیماری کے نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے.اس دنیا میں بہت لوگ بہانہ جُو ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جیسے اہل دنیا کو دھوکا دے لیتے ہیں ویسے ہی خدا کو فریب دیتے ہیں.بہانہ جُو اپنے وجود سے آپ مسئلہ تراش کرتے ہیں اور تکلّفات شامل کر کے ان وسائل کو صحیح گردانتے ہیں.لیکن خدا کے نزدیک وہ صحیح نہیں ہے تکلّفات کا باب بہت وسیع ہے.اگر انسان، خدا چاہے تو اس کی رُو سے ساری عمر بیٹھ کر نماز پڑھتا رہے اور رمضان کے روزے بالکل ہی نہ رکھے مگر خدا اس کی نیت اور ارادہ کو جانتا ہے جو صدق اور اخلاص سے رکھتا ہے.خدا جانتا ہے کہ اس کے دل میں درد ہے اور خدا اسے ثواب سے زیادہ بھی دیتا ہے کیونکہ درد دل ایک قابل قدر شَے ہے.حیلہ جُو انسان تاویلوں پر تکیہ کرتے ہیں لیکن خدا کے نزدیک یہ تکیہ کوئی شَے نہیں.جب میں نے چھ ماہ روزے رکھے تھے تو ایک دفعہ ایک طائفہ انبیاء کامجھے ملا(کشف میں).اور انہوں نے کہا تونے کیوں اپنے نفس کو اس قدر مشقّت میں ڈالا ہوا ہے، اس سے باہر نکل.اسی طرح جب انسان اپنے آپ کو خدا کے واسطے مشقّت میں ڈالتا ہے تو وہ خود ماں باپ کی طرح رحم کرکے اسے کہتا ہے کہ تو کیوں مشقّت میں پڑا ہوا ہے.خدا تعالیٰ کی شفقت یہ لوگ ہیں کہ تکلّف سے اپنے آپ کو مشقت سے محروم رکھتے ہیں.اس لئے خدا ان کو دوسری مشقتوں میں ڈالتا ہے اور نکالتا نہیں اور دوسرے جو خود مشقّت میں پڑتے ہیں ان کو وہ آپ نکالتا ہے.انسان کو واجب ہے کہ اپنے نفس پر آپ شفقت نہ کرے بلکہ ایسا بنے کہ خدا اس کے نفس پر شفقت کرے کیونکہ انسان کی شفقت اس کے نفس پر اس کے واسطے جہنم ہے اور خدا کی شفقت جنّت ہے.ابراہیم علیہ السلام کے قصہ پر غور کرو
کہ جو آگ میں گرنا چاہتے ہیں تو ان کو (خدا) آگ سے بچاتا ہے اور جو خود آگ سے بچنا چاہتے ہیں وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں.یہ سِلم ہے اور یہ اسلام ہے کہ جو کچھ خدا کی راہ میں پیش آوے اس سے انکار نہ کرے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عصمت کی فکر میں خود لگتے تو وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ( المائدۃ : ۶۸) کی آیت نہ نازل ہوتی.حفاظتِ الٰہی کا یہی سِر ہے.۱ (اوپر کی تقریر فارسی زبان میں تھی میں نے افادۂ عام کی خاطر اردو میں ترجمہ کر کے لکھی.ایڈیٹر) ۲؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز سہ شنبہ مولوی ثنا ء اﷲ کی حیلہ جوئی عصر کے وقت جب حضور کی خدمت میں یہ بات پیش کی گئی کہ ثناء اﷲ لکھتا ہے کہ میری موت کی پیشگوئی کرو تو حضور نے فرمایاکہ یہ حیلہ ہے ورنہ وہ جانتا ہے کہ ہم حکومت سے معاہدہ کر چکے ہیں کہ موت کی پیشگوئی نہ کریں گے اس لئے دیدہ دانستہ لکھتا ہے.ورنہ ہم نے جو لکھ دیا ہے وہ خود حسب شرائط شائع کر دے کہ جو کاذب ہے وہ پیشتر مَر جاوے.اسے اس طرح لکھنے سے کیوں خوف آتا ہے اس طرح نہ لکھنا اور ہمیں لکھنا کہ پیشگوئی کریں یہ صرف حیلہ جوئی ہے.۲ ۳؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز چہار شنبہ(بوقتِ مغرب) استغفار کی حقیقت ماسٹر عبدالرحمان صاحب نو مسلم تھرڈماسٹر مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان عیسائی پرچہ ایپی فینی سے ایک مضمون سناتے رہے.جو کہ کسی نے انگریزی رسالہ
ہے جو کہ قرآن میں کبائر گناہ پر بولا گیا ہے اور مرزا صاحب اس کے معانی کو وسعت دے کر جب یہ لفظ نبیوں کے حق میں آوے تو اس کے اور معنے کرتے ہیں اور جب عوام النّاس پر بولا جاوے تو اور معنے کرتے ہیں اور یہ لفظ اپنے معانی پر استعمال ہوتا ہے کہ گذشتہ گناہ جو انسان کر چکا ہے اس کی معافی طلب کی جاوے.اس سے اس نے استدلال کیا ہے کہ ضرور ہے کہ پیغمبر خدا (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سے گناہ سرزد ہوئے ہوں.اس کے جواب میں حضرت اقدس نے فرمایا کہ اگر استغفار کے لیے معنے ہیں کہ گذشتہ گناہوں سے معافی ہو تو پھر بتلاویں کہ آئندہ گناہوں سے محفوظ رہنے کے لئے کون سا لفظ ہے.گناہ سے حفاظت یعنی عصمت تو انسان کو استغفار سے ملتی ہے کہ انسان خدا سے چاہے کہ ان قویٰ کا ظہور اور بروز ہی نہ ہو.جو معاصی کی طرف کھینچتے ہیں.کیونکہ جیسے انسان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ گذشتہ گناہ اس کے بخشے جاویں اسی طرح اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ آئندہ اس کے قویٰ سے گناہ کا ظہور و بروز نہ ہو.یہ مسئلہ بھی قابل دعا کے ہے.ورنہ یہ کیا بات ہے کہ جب گناہ میں مبتلا ہو تو اس وقت تو دعا کرے اور آئندہ گناہوں سے محفوظ رہنے کی دعا نہ کرے.اگر انجیل میں یہ دعا نہیں ہے تو پھر وہ کتا ب ناقص ہے.انجیل میں لکھا ہے مانگو تو دیا جاوے گا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے استغفار مانگا آپ کو دیا گیا.مسیح نے نہ مانگا ان کو نہ دیا گیا.غرضیکہ طبعی تقسیم قرآن نے کی ہے کہ گناہ سے حفاظت کے ہر ایک پہلو کو دیکھ کر استغفار کا لفظ رکھا ہے کیونکہ انسان دونو راہ کا محتاج ہے کبھی گناہ کی معافی کا، کبھی اس اَمر کا کہ وہ قویٰ ظہور وبروز نہ کریں.ورنہ یہ کب ممکن ہے کہ قویٰ خدا کی حفاظت کے بغیر خودبخود بچے رہیں وہ کتاب کامل ہے جس نے دونوں قسم کی تعلیم بتلائی اور عقل اور ضرورت خود دونوں قسم کی دعا کا تقاضا کرتی ہے.پھر دیکھو کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کسی کے ہاتھ پر توبہ بھی نہیں کی کہ آپ کا گنہگار ہونا ثابت ہو.حالانکہ مسیح نے تو یحییٰ کے ہاتھ پر گناہوں کی توبہ کی.اور ان سے تو یحییٰ ہی اچھا رہا جس نے کسی کی بیعت نہ کی.اب بتلائو کس کا گنہگار ہونا ثابت ہے.اور اگر مسیح گناہ سے صاف تھا تو اس نے
غوطہ کیوں لگایا اور پھر روح القدس کا کبوتر ابتدا ہی سے کیوں نہ نازل ہوا؟ پھر استغفار کے معانی پر حضرت اقدس اور آپ کے برگزیدہ احباب وہ آیات قرآنی تلاش کر کے سناتے رہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ استغفار کی دعا آئندہ خطائوں سے حفاظت کے لئے ہے اور پھر تلاش کرتے کرتے انجیل میں سے بھی ایسی آیات نکل آئیں جس میں مسیحؑ نے آئندہ گناہ سے بچنے کے لئے دعا مانگی ہوئی ہے.اس کے متعلق مفصّل مضمون ریویو آف ریلیجن میں نکلنے والا ہے.۱ ۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز جمعہ(بعد از نماز مغرب) ایک احمدی کا اخلاص مدراس میں ایک مخلص عہدہ دار حضرت اقدس کے غیبیہ عاشق ہیں.ایک کذّاب نے ان کو خبر سنائی کہ قادیان میں طاعون ہے حالانکہ مرزا صاحب نے کہا تھا کہ طاعون وہاں نہ آوے گی.ان کے ایمان نے صرف اس شنید پر یہ تقاضا کیا کہ ایک تار حضرت اقدس کی خدمت میں انہوں نے روانہ کیا جو پڑھ کر سنایا گیا.اس میں درج تھا کہ اس خبر کے سننے سے میرے ایمان میں ترقی ہوئی ہے اور قادیان میں طاعون اس لئے آئی ہے کہ خدا تعالیٰ سچے مومنوں اور دوسرے لوگوں میں تمیز کر کے دکھلانا چاہتا ہے اور جو جو خبریں ان کو غلط پہنچی ہیں.ہر ایک ان کی زیادت ایمان کا باعث ہوئی ہیں حضرت اقدس نے ان کے اخلاص کی تعریف کی اور فرمایا کہ ان کو اصل واقعات سے اطلاع دے کر اس شخص کا کذّاب ہونا جتلا دیا جاوے.۲ ۷؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز یکشنبہ (بوقتِ ظہر ) اسمِ اعظم اس وقت تشریف لا کر حضرت اقدس نے بیان کیا کہ رات کو میری ایسی حالت تھی کہ اگر خدا کی وحی نہ ہوتی تو میرے اس خیال میں کوئی
شک نہ تھا کہ میرا آخری وقت ہے.اسی حالت میں میری آنکھ لگ گئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر میں ہوں اور وہ کوچہ سر بستہ سا معلوم ہوتا ہے کہ تین بھینسے آئے ہیں.ایک ان میں سے میری طرف آیا تو میں نے اسے مار کر ہٹا دیا.پھر دوسرا آیا تو اسے بھی ہٹا دیا.پھر تیسرا آیا اور وہ ایسا پُرزور معلوم ہوتا تھا کہ میں نے خیال کیا کہ اب اس سے مفرّ نہیں ہے خدا تعالیٰ کی قدرت کہ مجھے اندیشہ ہوا تو اس نے اپنا منہ ایک طرف پھیر لیا میں نے اس وقت یہ غنیمت سمجھا کہ اس کے ساتھ رگڑ کر نکل جائوں میں وہاں سے بھاگا اور بھاگتے ہوئے خیال آیا کہ وہ بھی میرے پیچھے بھاگے گا.مگر میں نے پھر کر نہ دیکھا اس وقت خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے دل پر مندرجہ ذیل دعا القا کی گئی رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُـرْنِیْ وَارْحَـمْنِیْ اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسمِ اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جو اسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے اسے نجات ہو گی.ایک آریہ میرے پاس دوا لینے آیا کرتا ہے.میں نے اسے یہ خواب سنائی تو اس نے کہا کہ مجھے بھی لکھ دو.میں نے لکھ دیا اور اس نے یاد کر لیا.ایک اور رئویا اس خواب کے بعد پھر کیا دیکھتا ہوں کہ ایک گھوڑے کا سوار ملا.جب میں گھر کے قریب آیا تو ایک شخص نے میرے ہاتھ پر پیسے رکھے.میں نے خیال کیا کہ اس میں دَوَنّی چَوَنّی بھی ہوگی.آگے آیا تو دیکھا کہ فـجّو (فضل نشان )کشمیری عورت بیٹھی ہے.پھر جب مسجد میں گیا تو دیکھا کہ ہزارہا آدمی بیٹھے ہیں اور کپڑے سب کے پرانے معلوم ہوتے ہیں.مسجد میں اور آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک جنازہ رکھا ہوا ہے اس کی بڑی سی چارپائی ہے یہ معلوم نہیں کہ کس کا جنازہ ہے.آپ مغرب کی نماز ادا کر کے تشریف لے گئے اور پھر کوئی ایک گھنٹہ کے بعد تشریف لائے فرمایا کہ آج جو مجھے خواب میں الہام سے کلمات بتلائے گئے ہیں.میں نے ارادہ کیا ہے کہ ان کو نماز میں دعا کے طور پر پڑھا جاوے اور میں نے خود تو پڑھنے شروع کر دیئے ہیں.سُوئِ ظنّ کرنا اچھا نہیں بدظنی پر آپ نے فرمایا کہ دوسرے کے باطن میں ہم تصرّف نہیں کر سکتے اور اس طرح کا
تصرّف کرنا گناہ ہے.انسان ایک آدمی کو بدخیال کرتا ہے اور پھر آپ اس سے بدتر ہو جاتا ہے.کتابوں میں مَیں نے ایک قصہ پڑھا ہے کہ ایک بزرگ اہل اﷲ تھے انہوں نے ایک دفعہ عہد کیا کہ میں اپنے آپ کو کسی سے اچھا نہ سمجھوں گا ایک دفعہ ایک دریا کے کنارے پہنچے کہ ایک شخص ایک جوان عورت کے ساتھ کنارے پر بیٹھا روٹیاں کھا رہا ہے اور ایک بوتل پاس ہے اس میں سے گلاس بھر بھر کر پی رہا ہے ا ن کو دور سے دیکھ کر اس نے کہا کہ میں نے عہد تو کیا ہے کہ اپنے کو کسی سے اچھا نہ خیال کروں گا.مگر ان دونوں سے تو میں اچھا ہی ہوں.اتنے میں زور سے ہوا چلی اور دریا میں طوفان آیا.ایک کشتی آرہی تھی وہ غرق ہو گئی وہ مرد جو کہ عورت کے ساتھ روٹی کھا رہا تھا اٹھا اور غوطہ لگا کر چھ آدمیوں کو نکال لایا اور ان کی جان بچ گئی پھر اس نے اس بزرگ کو مخاطب ہو کر کہا کہ تم اپنے آپ کو مجھ سے اچھا خیال کرتے ہو.میں نے تو چھ کی جان بچائی ہے اب ایک باقی ہے اسے تم نکالو.یہ سن کر وہ بہت حیران ہوا اور پھر اس سے پو چھا کہ تم نے یہ میرا ضمیر کیسے پڑ ھ لیا اور یہ معاملہ کیا ہے؟ تب اس جوان نے بتلایا کہ اس بوتل میں اسی دریا کا پانی ہے شراب نہیں ہے اور یہ عورت میری ماں ہے اور میں ایک ہی اس کی اولاد ہوں.قویٰ اس کے مضبوط ہیں اس لئے جوان نظر آتی ہے.خدا نے مجھے مامور کیا تھا کہ میں اسی طرح کروں تا کہ تجھے سبق حاصل ہو.پھر فرمایا کہ خضر کا قصہ بھی اسی بنا پر معلوم ہوتا ہے سوءِ ظن جلدی سے کرنا اچھا نہیں ہوتا.تصرّف فی العباد ایک نازک اَمر ہے اس نے بہت سی قوموں کو تباہ کر دیا کہ انہوں نے انبیاؤں اور ان کے اہلِ بیت پر بدظنّیاں کیں.۱ ۸؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز دوشنبہ(بوقتِ عصر) ایک رئویا اس وقت نماز سے قبل آپ نے ایک رئویا سنائی.میں دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر وضو کرنے لگا تو معلوم ہوا کہ وہ زمین پولی ہے اور اس
کے نیچے ایک غار سی چلی جاتی ہے میں نے اس میں پائوں رکھا تو دھس گیا اور خوب یاد ہے کہ پھر میں نیچے ہی نیچے چلا گیا.پھر ایک جست کر کے میں اوپر آگیا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ہوا میں تیررہا ہوں اور ایک گڑھا ہے مثل دائرے کے گول اور اس قدر بڑا جیسے یہاں سے نواب صاحب کا گھر.اور میں اُس پر اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر تیر رہا ہوں سید محمد احسن صاحب کنارہ پر تھے.میں نے ان کو بلا کر کہا کہ دیکھ لیجیے کہ عیسٰیؑتو پانی پر چلتے تھے اور میں ہوا پر تیر رہا ہوں اور میرے خدا کا فضل ان سے بڑھ کر مجھ پر ہے.حامد علی میرے ساتھ ہے اور اس گڑھے پر ہم نے کئی پھیرے کئے.نہ ہاتھ نہ پائوں ہلانے پڑتے ہیں اور بڑی آسانی سے ادھر ادھر تیر رہے ہیں ایک بجنے میں بیس۲۰ منٹ باقی تھے کہ میں نے یہ خواب دیکھا.(بوقتِ مغرب) بات وہ کرنی چاہیے جس سے لڑائی کا خاتمہ ہو ایک شخص امرتسری نے حضرت اقدس کو بہت فحش اور گندی گالیاں دی تھیں.ایک باغیرت آپ کے مخلص خادم نے اس کا جواب درشتی سے دینا چاہا تھا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ جوش کے مقابلہ پر جو ش ہو تو فساد کا باعث ہوتا ہے اور بات وہ کرنی چاہیے جس سے لڑائی کا خاتمہ ہو.اگر ہم بدی کا جواب اس حد تک کی بدی سے دیویں تو پھر ہمارے کاروبار میں برکت نہیں رہتی.جوش اور اشتعال کے وقت کے لکھے ہوئے مضامین میں فصاحت و بلاغت جاتی رہتی ہے.فصاحت اور بلاغت نرمی کا بیٹا (فرزند) ہے جس قدر نرمی ہوگی اسی قدر عبارت فصیح ہوگی.اہلِ حق کو درہم برہم نہ ہونا چاہیے.گندی بات قابل جواب ہی نہیں ہوا کرتی.احباب سے حضورؑ کی شفقت اصحاب کبار میں سے ایک نے ایک شَے طلب کی.حضرت اقدس اسی وقت خود اٹھ کر اندر تشریف لے گئے
۹؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز سہ شنبہ(بعد از نماز ظہر ) رسل بابا امرتسری کی موت آپؑکو بذریعہ خط کے علم ہوا کہ رسل بابا امرتسر میں بعارضہ طاعون فوت ہو گیا ہے اس پر آپ مولوی محمد علی صاحب کے کمرہ میں آکر گفتگو فرماتے رہے اور فرمایا کہ گذشتہ شب کو مجھے یہ الہام ہوا ہے سَلَامٌ عَلَیْکَ یَا اِبْرَاھِیْمُ پھر اس کے بعد الہام ہوا سَلَامٌ عَلٰی اَمْرِکَ صِـرْتَ فَائِزًا یعنی اے ابراہیم تجھ پر سلام تیرے کاروبار پر سلامتی ہو اور تو بامُراد ہو گیا.اسی اثناء میں عصر کا وقت آگیا تو آپ نے مسجد میں تشریف لا کر یہ الہام پھر سنایا اور رسل بابا کی موت پر ذکر ہوتا رہا کہ تُـخْرَجُ الصُّدُوْرُ اِلَی الْقُبُوْرِ کا الہام بھی اس پر صادق آتا ہے اور الہام میں صدور کا لفظ ہے جو کہ جمع پر دلالت کرتا ہے اور جمعہ کے دن جب میں بیمار تھا تو مجھے یہ الہام ہوا تھا.یَـمُوْتُ قَبْلَ یَوْمِیْ ھٰذَا یعنی یہ میرے اس دن سے پیشتر مَرے گا.یوم سے مُراد جمعہ کا دن ہے جو کہ اصل میں خدا کا دن ہے.سلسلہ کی خارقِ عادت ترقی پھر فرمایا کہ ان تین سالوں میں خوارقِ عادت ترقی ہوئی ہے.براہین میں یہ پیشگوئی ہے کہ میں تمہارے لئے فوج تیار کروں گا وہ انہی تین سالوں میں تیار ہوئی.(بوقتِ مغرب) دمشق کی خصوصیت دمشق کے لفظ پر فرمایا کہ اصل میں تثلیث کی جڑ دمشق ہے.یہ راز کی بات ہے اور سمجھنے کے قابل ہے مگر ہمارے مخالف خیال نہیں کرتے.دمشق سے مشرقی طرف اترنے کے یہی معنے ہیں کہ وہ تثلیث کا استیصال کرے گا.شرق ہمیشہ غرب پر غالب ہوتا ہے.۱
۱۰؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز چہار شنبہ(مابین مغرب و عشاء) حالات کے مطابق دعا کے الفاظ میں تبدیلی میرناصر نواب صاحب نے حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ یہ دعا رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَوالی جو الہام ہوئی ہے اگر اس میں بجائے واحد متکلّم کے جمع متکلّم کا صیغہ پڑھ کر دوسروں کو بھی ساتھ ملا لیا جاوے تو حرج تو نہیں؟ حضرت اقدس نے فرمایا.کوئی حرج نہیں ہے.۱ ۱۱؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز پنجشنبہ(بوقتِ ظہر ) بدن تکلیف اُٹھانے کے لئے ہے بکثرت مضمون نویسی اور کاپی وغیرہ دیکھنے کے متعلق جو تکلیف انسان کو ہوتی ہے اس کو مد نظر رکھ کر ایک خادم نے اس تکلیف میں حضور کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا.جس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ بدن تو تکلیف کے واسطے ہے.اور کس لئے ہے.مصری اخبار اَللِّوَاء کا جواب بعد ازیں فرمایا کہ اَللِّوَا کے متعلق مضمون لکھ رہا ہوں نیچے فارسی ترجمہ بھی کر دیا ہے تا کہ اس کی اشاعت اِتْـمَامًا لِّلْحُجَّۃِ بخارا، سمر قند وغیرہ ممالک میں بھی ہو جاوے.پھر حضور کہنے لگے کہ میں وہ مضمون لا کر بطور نمونہ سناتا ہوں چنانچہ آپ اندر گھر میں تشریف لے گئے اور مضمون لا کر اس کا عربی مسودہ اور فارسی ترجمہ سناتے رہے.فرمایا کہ اس مضمون کو میں نے تین طرح پر تقسیم کیا ہے.(اوّل).اجمال رکھا ہے.(دوم).تفصیل کی ہے کہ کیوں اس اَمر کی ضرورت پڑی کہ ٹیکہ سے ہم پرہیز کریں اور وجہ بتلائی ہے کہ ہمارا دعویٰ یہ ہے
اور لوگ گالیاں دیتے اور سبّ و شتم کرتے ہیں.(سوم).آیا خدا نے اب تک کیا تفریق کر کے دکھائی ہے اور مخالفوں کی مخالفت کے کیا نتائج ہوئے.آسمانی اور زمینی نشان عشاء سے قبل قدرے مجلس کی اور اخبارات انگریزی سنتے رہے.ایک مقام پر فرمایا کہ خدا تعالیٰ جو نشان دکھلاتا ہے اشتہاری دکھلاتا ہے.کسوف وخسوف بھی اشتہاری تھا اور وہ آسمانی تھا.اب یہ طاعون بھی اشتہاری ہے اور یہ زمینی ہے.اگر آج سے ایک ہزار برس پیشتر تک کی تواریخ پنجاب کی دیکھتے جائو تو جیسی طاعون اب ہے اس کی نظیر نہ ملے گی.ابھی تو اس کے پائوں جمے ہیں.اگر یہ سرسری ہوتی تو اس کا دورہ ختم ہوجاتا.موت اور خوف بھی خدا کے رعب کا نظارہ ہے اور اصلاح کا وقت ہے ہر ایک قسم کی قبیح رسم خود بخود دور ہو جاوے گی.ابھی تو کارروائی شروع ہے کسی کا قول ہے.؎ ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ۱ ۱۲؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز جمعہ خود نماز جنازہ پڑھانا جمعہ مسجد اقصیٰ میں ادا کیا.بعد ادائے جمعہ، نماز جنازہ ایک احمدی بھائی مرحوم کی حضرت اقدس نے پڑھائی.(بوقتِ عصر) ایک الہام اس وقت تشریف لا کر حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ الہام ہوا ہے.اس کے ساتھ ایک اور عجیب اور مبشر فقرہ تھا.وہ یاد نہیں رہا.یُنَادِیْ مُنَادٍ مِّنَ السَّمَآءِ.۲
۱۳؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز شنبہ ایک ہندوتاجر کی حضرت اقدسؑ سے عقیدت عصر کے وقت نماز سے پیشتر ایک ہندو صاحب سوداگر پارچہ امرتسری نے آکر حضرت اقدس سے نیاز مندانہ طور پر نیاز حاصل کی اور استفسار پر اس نے جواب دیا کہ ہم امرتسر میں ایک بڑے سودا گر ہیں.اس طرف تمام علاقہ میں ہماری دوکان سے کپڑا آتا ہے میں اپنی آسامیوں سے روپیہ وصول کرنے آیا تھا میرے بھائی نے کہا تھا کہ حضور کی قدم بوسی کرتا آئوں.پھر عصر کی نماز ہوئی اور ہندو صاحب الگ ایک گوشے میں بیٹھے رہے.بعد نماز وہ پھر نیاز حاصل کر کے اور دست بوسی کر کے رخصت ہوئے.بجلی چمکنے کی تعبیر مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے ایک خواب اپنا عرض کیا جس میں انہوں نے بجلی دیکھی تھی.اس پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ شائد کوئی تیس۳۰ برس کا عرصہ گذرا ہوگا کہ میں نے بھی ایک خواب دیکھا کہ اب جس مقام پر مدرسہ کی عمارت ہے وہاں بڑی کثرت سے بجلی چمک رہی ہے بجلی چمکنے کی یہ تعبیر ہوتی ہے کہ وہاں آبادی ہوگی.۱ ۱۴؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز یکشنبہ(بوقتِ ظہر ) اس وقت حضرت اقدس تشریف لائے تو لاہور سے چند ایک احباب تشریف لائے ہوئے تھے جن کے نام یہ تھے شیخ رحمت اللہ صاحب، مرزا یعقوب بیگ صاحب، میر محمد اسماعیل صاحب، حکیم نور محمد صاحب اور برہما سے سید ابو سعید صاحب تاجر برنج رنگون.ان سب نے حضرت اقدس سے نیاز حاصل کی.دانت درد کا علاج ایک صحابی کے دانت میں سخت درد تھی.حضرت نے فرمایا کہ اس کے لئے مجرّب علاج یہ ہے کہ ایک بوٹی بنام کارابار انہر کے کنارے
ہوتی ہے بارہا آزمایا ہے کہ جب اسے لے کر منہ میں رکھا اور چبایا اور اس کا اثر دانت پر پہنچا کیسا ہی سخت درد کیوں نہ ہو آرام ہوجاتا ہے.ایک ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ کارابارا اور کاربولک ایک ہی شَے معلوم ہوتی ہے.حضرت نے فرمایا کہ یہ عربی لفظ قَلَعَ وَ بَرَا ہوگا نہ کہ کاربولک.قِیَامٌ فِیْ مَا اَقَامَ اللہُ مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک شہادت پر گورداسپور جانا تھا.اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ میں یہاں سے باہر جانا نہیں چاہتا مگر اب تو اﷲ تعالیٰ لے چلا ہے خود تو میں نہیں جاتا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ قِیَامٌ فِیْ مَا اَقَامَ اللہُیہی تو ہے.طاعون کا علاج طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ اس کے لئے جونک کا لگانا اور زیادہ مقدار میں مگنیشیا کا جلاب دے کر پھر کیوڑہ اور نربسی وغیرہ مصفّٰی خون ادویہ کا استعمال کرنا بہت مفید اور مجرب ہے کیونکہ اس میں خونی و سوداوی مواد ہوتے ہیں.یہ ان دونوں کا علاج ہے.۱ ۱۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز دو شنبہ(بوقتِ مغرب) سر درد اور متلی کا علاج نماز ادا کرکے حضرت اقدسؑ تشریف لے جانے لگے تو مفتی محمد صادق صاحب نے سر درد اور کچھ متلی وغیرہ کی شکایت کی.حضرت اقدس نے فرمایا کہ آج شب کو کھانا نہ کھانا اور کل روزہ نہ رکھنا.سکنجبین پی کر اس سے قے کر دو.
ہوتی ہے بارہا آزمایا ہے کہ جب اسے لے کر منہ میں رکھا اور چبایا اور اس کا اثر دانت پر پہنچا کیسا ہی سخت درد کیوں نہ ہو آرام ہوجاتا ہے.ایک ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ کارابارا اور کاربولک ایک ہی شَے معلوم ہوتی ہے.حضرت نے فرمایا کہ یہ عربی لفظ قَلَعَ وَ بَرَا ہوگا نہ کہ کاربولک.قِیَامٌ فِیْ مَا اَقَامَ اللہُ مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک شہادت پر گورداسپور جانا تھا.اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ میں یہاں سے باہر جانا نہیں چاہتا مگر اب تو اﷲ تعالیٰ لے چلا ہے خود تو میں نہیں جاتا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ قِیَامٌ فِیْ مَا اَقَامَ اللہُیہی تو ہے.طاعون کا علاج طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ اس کے لئے جونک کا لگانا اور زیادہ مقدار میں مگنیشیا کا جلاب دے کر پھر کیوڑہ اور نربسی وغیرہ مصفّٰی خون ادویہ کا استعمال کرنا بہت مفید اور مجرب ہے کیونکہ اس میں خونی و سوداوی مواد ہوتے ہیں.یہ ان دونوں کا علاج ہے.۱ ۱۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز دو شنبہ(بوقتِ مغرب) سر درد اور متلی کا علاج نماز ادا کرکے حضرت اقدسؑ تشریف لے جانے لگے تو مفتی محمد صادق صاحب نے سر درد اور کچھ متلی وغیرہ کی شکایت کی.حضرت اقدس نے فرمایا کہ آج شب کو کھانا نہ کھانا اور کل روزہ نہ رکھنا.سکنجبین پی کر اس سے قے کر دو.
کام نہیں آتا اگر انسان مان کر پھر اسے پسِ پُشت ڈال دے تو اسے فائدہ نہیں ہوتا پھر اس کے بعد یہ شکایت کرنی کہ بیعت سے فائدہ نہیں ہوا بے سُود ہے.خدا تعالیٰ صرف قول سے راضی نہیں ہوتا.عملِ صالح کی تعریف قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عملِ صالح بھی رکھا ہے عملِ صالح اسے کہتے ہیں جس میں ایک ذرہ بھر فساد نہ ہو.یاد رکھو کہ انسان کے عمل پر ہمیشہ چور پڑا کرتے ہیں وہ کیا ہیں.ریا کاری (کہ جب انسان دکھاوے کے لئے ایک عمل کرتا ہے) عُجب (کہ وہ عمل کرکے اپنے نفس میں خوش ہوتا ہے) اور قسم قسم کی بدکاریاں اور گناہ جو اس سے صادر ہوتے ہیں.ان سے اعمال باطل ہو جاتے ہیں.عملِ صالحہ وہ ہے جس میں ظلم، عُجب، ریا، تکبر اور حقوق انسانی کے تلف کرنے کا خیال تک نہ ہو جیسے آخرت میں عملِ صالحہ سے بچتا ہے ویسے ہی دنیا میں بھی بچتا ہے اگر ایک آدمی بھی گھر بھر میں عملِ صالحہ والا ہو تو سب گھر بچا رہتا ہے.سمجھ لو کہ جب تک تم میں عملِ صالحہ نہ ہو صرف ماننا فائدہ نہیں کرتا.ایک طبیب نسخہ لکھ کر دیتا ہے تو اس سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ لے کر پیوے اگر وہ ان دوائوں کو استعمال نہ کرے اور نسخہ لے کر رکھ چھوڑے تو اسے کیا فائدہ ہوگا.استغفار کی ضرورت اب اس وقت تم نے توبہ کی ہے اب آئندہ خدا دیکھنا چاہتا ہے کہ اس توبہ سے اپنے آپ کو تم نے کتنا صاف کیا اب زمانہ ہے کہ خدا تقویٰ کے ذریعہ سے فرق کرنا چاہتا ہے.بہت لوگ ہیں کہ خدا پر شکوہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں دیکھتے انسان کے اپنے نفس کے ظلم ہی ہوتے ہیں ورنہ اﷲ تعالیٰ رحیم اور کریم ہے.بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی.اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کرایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا.خواہ اسے علم ہویا نہ ہو اور ہاتھ اور پائوں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے.آج کل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہیے.رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا١ٚ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ(الاعراف : ۲۴) یہ دعا اوّل
ہی قبول ہو چکی ہے غفلت سے زندگی بسر مت کرو جو شخص غفلت سے زندگی نہیں گذارتا ہرگز امید نہیں کہ وہ کسی فوق الطاقت بَلا میں مبتلا ہو کوئی بَلا بغیر اذن کے نہیں آتی جیسے مجھے یہ دعا الہام ہوئی ہے.رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُـرْنِیْ وَارْحَـمْنِیْ.سب خدا کے ہاتھ میں ہے یہاں تک آپ نے تقریر کی تھی اتنے میں مولوی عبد الکریم صاحب گورداسپور سے اور دیگر احباب آگئے اور حالات ِسفر وغیرہ سناتے رہے.مولوی عبد الکریم صاحب کے سفر میں ہر ایک قسم کے عوارض اور شکایت سے محفوظ رہنے پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہمارا ایمان ہے کہ سب اس کے ہاتھ میں ہے خواہ اسباب سے کرے خواہ بِلا اسباب کے.۱ ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز سہ شنبہ(بوقتِ فجر) طاعون اور مخالفین کا ایک عذر اس وقت حضرت اقدس تشریف لا کر نماز سے پیشتر کچھ عرصہ بیٹھے رہے اور ایک شخص طاعون کے کچھ حالات حضرت کو سناتا رہا کہ جب لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ تم مسیح موعود کو مان لو تو اس سے محفوظ رہو گے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ خدا کو کیوں نہ مانیں جو اس کے ایک بندے کو جا کر مانیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ابو جہل اور اس کے ساتھی بھی یہی کہا کرتے تھے.(بوقتِ ظہر ) آئینہ کمالاتِ اسلام کا اثر ایک عرب پر اس وقت مولوی عبد الکریم صاحب نے جناب ابو سعید عرب صاحب احمدی تاجر برنج رنگوں برہما کے حالات حضرت کو سنائے جن کا خلاصہ یہ تھا کہ اوّل اوّل عرب صاحب ایک بڑے آزاد مشرب اور نیچریت کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے پھر کتاب آئینہ کمالاتِ اسلام کسی طرح
ان کی نظر سے گذری تو اس نے اس سلسلہ کی طرف توجہ دلائی اور حقیقتِ اسلام ان پر منکشف ہوئی.حضرت صاحب پھر خود عرب صاحب سے ان کے حالات دریافت کرتے رہے اور پوچھا کہ آپ کتنے دن تک رہ سکتے ہیں.عرب صاحب نے بیان کیا کہ میں نے کلکتہ سے سیکنڈ کلاس کا واپسی ٹکٹ لیا ہے جس کی میعاد جنوری ۱۹۰۳ء تک ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ میری بڑی خوشی ہے کہ آپ اس دن تک ٹھہریں جب تک کہ ٹکٹ اجازت دیتا ہے.اس پر عرب صاحب نے نیاز مندی سے عرض کی کہ کرایہ کی فکر نہیں میں زیادہ بھی ٹھہر سکتا ہوں.پھر عرب صاحب اپنی مذہبی زندگی کی کیفیت حضرت اقدس کو سناتے رہے کہ میں اس مشرب کا آدمی تھا کہ خدا کے وجود پر بھی ایمان نہ تھا یہی خیال تھاکہ کھانا ہے اور کمانا ہے.آئینہ کمالاتِ اسلام نے آخر اس غلطی سے نجات دے کر حضور کی محبت کا تخم دل میں جمایا.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ حقیقی لذّات خدا میں ہیں خدا ہی کی تلاش کرو.حقیقی لذّت خدا ہی میں ہے.جو لذّات اس دنیا سے لے جاوے گا وہی اس کے ساتھ رہیں گی.ایک دہریہ جب مَرے گا تو اسے یہی خیال ہو گا کہ میں وہیں ہوں اور صرف جسم جدا ہوا ہے اس کو حسرت ہی حسرت رہے گی.جسم کے اندھے اچھے ہیں اور وہ قابل رحم ہیں بہ نسبت اس کے کہ دل کے اندھے ہوں.سید احمد خان نے تفریط کی راہ لی.اور ان (وہابیوں) نے افراط کی.طرح طرح کی بدنماباتیں پیش کیں.انسان ان کو کہاں تک قبول کرتا.کوئی راہ تسلّی اور سکینت کی نہ تھی کہ انسان مانتا.دین کا سارا حصہ ایسا نہیں ہوتا کہ انسان اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیوے.ایک حصہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود خدا سمجھادے.پھر جو سمجھنے والے ہوتے ہیں خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں بٹھاتا جاتا ہے.انسان کو پوری سعادت تک پہنچانے کے واسطے خدا نے اور حواس رکھے ہیں.اگر وہ نہ ہوتے تو پھر دین کو انسان سمجھ نہ سکتا اور اس وقت میں حقیقی طور پر انسان خدا پر ایمان لاتا ہے.خدا پر ایمان اس کا ہے جسے خدا نے ہی ایمان دیا برہمو کی طرح زمین اور آسمان کو دیکھ کر پھر خدا کی ضرورت کو
ماننا تو گویا اپنی طرف سے ایک خداتجویز کرنا ہے اور اس طرح سے گویا خود انسان کا احسان خدا پر ہے کہ اس نے خدا کا پتہ لگایا.اصل میں اس روز سے انسان کو سچی زندگی حاصل ہوتی ہے جس دن سے وہ خدا پر احسان نہیں رکھتا بلکہ خدا کا اپنے اوپر احسان مانتا ہے کہ اس نے خود اپنے وجود سے اسے خبر دی اور اسی دن سے سِفلی زندگی سے انسان کو نجات حاصل ہوتی ہے جس دن خدا کہے کہ میں غالب ہوں اور اس دن سے وہ ترکِ گناہ پر قادر ہوگا.یہی وہ سلسلہ ہے جس سے انسان کو کامل یقین خدا پر حاصل ہوتا ہے مگر ؎ ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ دنیا میں بھی ہر ایک شخص انعام و اکرام کے قابل نہیں ہوتا.اسی طرح خدا کے انعام و اکرام بھی خواص پر ہوتے ہیں.ایک چینی قیافہ شناس کی گواہی پھر عرب صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک چینی آدمی کے روبرو میں نے آپ (مرزا صاحب ) کی تصویر کوپیش کیا وہ بہت دیر تک دیکھتا رہا.آخر بولا کہ یہ شخص کبھی جھوٹ بولنے والا نہیں ہے پھر میں نے اور تصاویر بعض سلاطین کی پیش کیں مگر ان کی نسبت اس نے کوئی مدح کا کلمہ نہ نکالا اور بار بار آپ کی تصویر کو دیکھ کر کہتا رہا کہ یہ شخص ہرگز جھوٹ بولنے والا نہیں ہے.طاعون کا علاج خدا تعالیٰ کے پاس ہے حسب معمول نماز مغرب ادا کرنے کے بعد حضرت اقدس پھر دوبارہ تشریف لائے.طاعون کا ذکر ہوا فرمایا کہ اب اس کا علاج خدا تعالیٰ کے پاس ہے عِنْدِیْ مُعَالِـجَاتٌ (الہام) اور اب یہ آیت بالکل صادق آگئی ہے وَ اِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا (بنیٓ اسـرآءیل : ۵۹) یعنی ہم کوئی گائوں نہ چھوڑیں گے کہ اس کو ہلاک نہ کریں.اسی طرح اب کوئی یہ
دعویٰ نہیں کر سکتا کہ ہمارے ہاں طاعون نہیںآئی اور جہاں اب تک نہیں آئی تو آخر آنے والی ہے.۱ ۱۷؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز چہار شنبہ(بوقتِ فجر) علوّ اور تکبّر سے مُراد اس وقت حضرت اقدس نے تشریف لا کر نماز سے پیشتر تھوڑی دیر مجلس کی اور اِنِّیْ اُحَــــافِـــــظُ کُلَّ مَـــنْ فِی الـــدَّارِ اِلَّا الَّـــذِیْــنَ عَـــلَــوْا وَاسْتَکْبَرُوْا۱ کے متعلق فرمایا کہ اس میں علوّ اور تکبّر سے یہ مُراد نہیں ہے کہ مال و وجاہت کا تکبّر ہو بلکہ ہر ایک شخص جو کہ عاجزی اور تذلّل سے خدا کے سامنے اپنے آپ کو پیش نہیں کرتا اور اس کے احکام کو نہیں مانتا وہ اس میں داخل ہے خواہ وہ غریب ہی کیوں نہ ہو.(بوقتِ ظہر) جماعت کو نیک اور پاک تبدیلی پیدا کرنے کی نصیحت ظہر کے وقت حضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے تو نواب صاحب سے طاعون پر کچھ ذکر ہوا جس پر حضور نے ذیل کی تقریر کی.ہماری جماعت کو واجب ہے کہ اب تقویٰ سے کام لیوے اور اولیاء بننے کی کوشش کرے اس وقت زمینی اسباب کچھ کام نہ آوے گا اور نہ منصوبہ اور نہ حجّت بازی کام آوے گی.دنیا سے کیا دل لگانا ہے اور اس پر کیا بھروسہ کرنا ہے یہ ہی اَمر غنیمت ہے کہ خدا سے صلح کی جاوے اور اس کا یہی وقت ہے.ان کو یہی فائدہ اٹھانا چاہیے کہ خدا سے اسی کے ذریعہ سے صلح کر لیں.بہت مرضیں ایسی ہوتی ہیں کہ دلالہ کا کام کرتی ہیں اور انسان کو خدا سے ملا دیتی ہیں.خاص ہماری جماعت کو اس وقت وہ تبدیلی یک مرتبہ ہی کرنی چاہیے جو کہ اس نے دس برس میں کرنی تھی اور کوئی اور جگہ نہیں ہے جہاں ان
کو پناہ مل سکتی ہے اگر وہ خدا پر بھروسہ کر کے دعائیں کریں تو ان کو بشارتیں بھی ہو جاویں گی.صحابہؓ پر جیسے سکینت اتری تھی ویسے ان پر اترے گی صحابہؓ کو انجام تو معلوم نہ ہوتا تھا کہ کیا ہوگا مگر دل میں یہ تسلّی ہو جاتی تھی کہ خدا ہمیں ضائع نہ کرے گا.اور سکینت اسی تسلّی کا نام ہے.جیسے میں اگر طاعون زدہ ہو جائوں اور گلے تک میری جان آجاوے تو مجھے ہرگز یہ وہم تک نہیں ہوگا کہ میں ضائع ہو جائوں گا اس کی کیا وجہ ہے؟صرف وہی تعلق جو میرا خدا کے ساتھ ہے وہ بہت قوی ہے انسان کے لئے ٹھیک ہونے کا یہ مفت کاموقع ہے راتوں کو جاگو.دعائیں کرو.آرام کرو جو کسل اور سُستی کرتاہے وہ اپنے گھر والوں اور اولاد پر ظلم کرتا ہے کیونکہ وہ تو مثل جڑھ کے ہے اور اہل و عیال اس کی شاخیں ہیں.تھوڑے ابتلا کا ہونا ضروری ہے.جیسے لکھا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ(العنکبوت : ۳) ابتلائوں کی غرض پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک طرف تو مکہ میں فتح کی خبریں دی جاتی تھیں اور ایک طرف ان کو جان کی بھی خیر نظر نہ آتی تھی اگر نبوت کا دل نہ ہوتا تو خدا جانے کیا ہوتا.یہ اسی دل کا حوصلہ تھا.بعض ابتلا صرف تبدیلی کے واسطے ہوتے ہیں.عملی نمونے ایسے اعلی درجے کے ہوں کہ ان سے تبدیلیاں ہوں اور ایسی تبدیلی ہو کہ خود انسان محسوس کرے کہ اب میں وہ نہیں ہوں جو کہ میں پہلے تھا بلکہ اب میں ایک اور انسان ہوں.اس وقت خدا کو راضی کرو حتیٰ کہ تم کو بشارتیں ہوں.کل لکھتے ہوئے ایک پرانا الہام نظر پڑا اَیَّامُ غَضَبِ ﷲِ غَضِبْتُ غَضْبًا شَدِیْدًا نُنْجِیْ اَھْلَ السَّعَادَۃِ یہاں اہل السَّعادۃ سے مُراد وہ شخص ہے جو عملی طور پر صدق دکھلاتا ہے خالی زبان تک ایمان کا ہونا کوئی فائدہ نہیں دیتا جیسے صحابہؓ نے صدق دکھلایا ہتھیلی پر جانیں دے دیں اور بال بچوں تک کو قربان کیا.مگر ہم آج ایک شخص کو اگر کہیں کہ سو کوس چلا جا تو وہ عذر کرتا ہے حتیٰ کہ آبرو و عزت کامعاملہ پیش کرتا ہے اور کاروبار کا ذکر کرتا ہے کہ کسی طرح جانے سے رہ جاوے مگر انہوں (صحابہؓ) نے جان، مال، آبرو، عزّت سب کچھ خاک میں ملا دیا.بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم پر فلاں فلاں آفت آئی حالانکہ ہم نے بیعت کی تھی مگر ہم نے بار بار جماعت کو کہا ہے کہ نری
بیعت اور صرف زبان سے ماننے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.چاہیے کہ خدامیں گداز ہو کر ایک نیا وجود بن جاوے، سارا قرآن دیکھو کہیں بھی صرف اٰمَنُوْا نہیں لکھا ہے ہر جگہ عملِ صالحہ کا ساتھ ہی ذکر ہے.غرضیکہ خدا ایک موت چاہتا ہے اور میرا تجربہ ہے کہ خدا مومن پر دو موتیں ہرگز جمع نہیں کرتا کہ ایک موت تو اس کی خداکے واسطے ہو اور دوسری دنیا کی لعن طعن کے واسطے.ایسے نازک وقت میں چاہیے کہ جماعت سمجھ جاوے اور ایک تیر کی طرح سیدھی ہو جاوے.اگر ہزاروں آدمی بھی طاعون سے مرجاویں تو میں ہرگز خدا کو ملزم نہ کروں گا اور یہی کہوں گا کہ انہوں نے احسان کا پہلو چھوڑ دیا اِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ (التّوبۃ : ۱۲۰) ( بوقتِ عشاء) بعض خوابوں کی تعبیرات ایک شخص نے بیعت کی چند ایک احباب نے اپنے اپنے خواب سنائے جس میں سے ایک خواب یہ تھا کہ حضرت اقدس ہاتھی پر سوار ہیں اور وہ آپ کے حکم میں چلتا ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ جو ہاتھی میں نے خواب میں دیکھا تھا اس کی بھی ایسی ہی حالت تھی اور اس سے مُراد طاعون ہے کہ ہم اس پر سوار ہیں.ایک نے خواب میں بیسنی روٹی دیکھی اس کی تعبیر میں فرمایا کہ اس سے مُراد کچھ تکلیف ہے.۱ ۱۸؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز پنجشنبہ(بوقتِ ظہر ) الہامات اس وقت حضرت اقدس نے تشریف لا کر تھوڑی دیر مجلس کی اور اپنے الہامات کی تکرار فرماتے رہے جو کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی کی نسبت تھے اور فرمایا کہ
یہ بھی ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.مگر وہ وقت ابھی نہیں آیا.سارا قرآن ہمارے ذکر سے بھرا ہوا ہے ابو سعید عرب صاحب آمدہ ازرنگون نے عرض کی کہ ایک صاحب برہما میں کہتے تھے کہ اگر میرزا صاحب صرف قرآن کی تفسیر لکھیں اور اپنے دعاوی کا ذکر اس میں ہرگز نہ کریں تو میں بہت سا روپیہ صرف کر کے اسے طبع کروا سکتا ہوں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ اگر کوئی ہم سے سیکھے تو سارا قرآن ہمارے ذکر سے بھرا ہوا ہے ابتدا ہی میں ہے صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ (الفاتـحۃ : ۶، ۷) اب ان سے کوئی پوچھے کہ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ کونسا فرقہ تھا تمام فرقے اسلام کے اس پر متفق ہیں کہ وہ یہودی تھے اور ادھر حدیث شریف میں ہے کہ میری اُمّت یہودی ہو جاوے گی تو پھر بتلائو کہ اگر مسیح نہ ہوگا تو وہ یہودی کیسے بنیں گے.متفرق امور مغرب و عشاء کی نماز ادا کر کے حضرت اقدس تشریف لے گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد تشریف لائے آکر ایک صحابی کو فرمایا کہ اَللِّوَاء پر جو مضمون لکھاہے وہ مطبع میں چلا گیا ہے ایک دو کاپیاں نکلیں تو آپ کو دکھادیں گے.شفقت کا نمونہ ایک صاحب کے دانت میں درد تھا اس کے لئے حضرت اقدس نے کارابارا (ایک بوٹی )طلب کرایا تھا وہ اندر مکان میں تھی جناب میر صاحب نے کہا کہ ان کے دانت میں درد ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ میں ابھی جا کر وہ سب بوٹی لا دیتا ہوں.مریض نے کہا حضور کو زحمت ہوگی حضرت اقدس نے اس کے اوپر تبسم فرمایا اور کہا کہ یہ کیا تکلیف ہے.اور اسی وقت اندر جا کر حضور وہ رومال لے آئے جس میں وہ بوٹی تھی اور مریض کے حوالہ کی.
لوہے کی قلم اور تلوار ایک نے اصحاب میں سے عرض کی کہ آیت لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ١ۚ وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْهِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( الـحدید : ۲۶) سے معلوم ہوتا ہے کہ حدید نے اپنا فعل بَاْسٌ شَدِيْدٌ کا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کیا کہ اس سے سامانِ جنگ وغیرہ تیار ہو کر کام آتا تھا مگر اس کے فعل مَنَافِعُ لِلنَّاسِ کا وقت یہ مسیح اور مہدی کا زمانہ ہے کہ اس وقت تمام دنیا حدید (لوہے) سے فائدہ اٹھا رہی ہے (جیسے کہ ریل، تار، دخانی جہاز، کار خانوں اور ہر ایک قسم کے سامان لوہے سے ظاہر ہے).حضرت اقدس نے اس پر فرمایا کہ میں بھی سارے مضمون لوہے کے قلم ہی سے لکھتا ہوں.مجھے بار بار قلم بنانے کی عادت نہیں ہے.اس لئے لوہے کی قلم استعمال کرتا ہوں.آنحضرتؐنے لوہے سے کام لیا ہم بھی لوہے ہی سے لے رہے ہیں اور وہی لوہے کی قلم تلوار کا کام دے رہی ہے.(حضرت اقدس جس قلم سے لکھا کرتے ہیں وہ ایک خاص قسم کا ہوتا ہے جس کی نوک آگے سے داہنی طرف کو مڑی ہوئی ہوتی ہے اور اس کی شکل تلوار سی ہوتی ہے.ایڈیٹر)۱ ۱۹؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز جمعہ(بوقتِ فجر) الہام نماز سے پیشتر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ آج یہ الہام ہوا ہے اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْ.اپنا نمونہ ٹھیک بناویں بعد ادائے نماز خواجہ کمال الدین صاحب نے ایک خواب سنائی جس میں دیکھا کہ زلزلہ آیا ہوا ہے.فرمایا کہ یہی طاعون زلزلہ ہے.میں جماعت کو کہتا ہوں کہ یہ قیامت ہے جو آرہی ہے
اﷲ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے گا مگر صرف اتنی بات پر خوش نہ ہوں کہ بیعت کی ہوئی ہے.قرآن میں ہر جگہ اٰمَنُوْا کے ساتھ عملِ صالحہ کی تاکید ہے.اگر بعض آدمی جماعت میں سے ایسے ہوں کہ جن کو خدا کی پروا نہیں اور اس کے احکام کی عزّت نہیں کرتے تو ایسے آدمیوں کا ذمہ وار نہ خداہے اور نہ ہم.ان کو چاہیے کہ اپنا اپنا نمونہ ٹھیک بناویں زلزلہ تو آرہا ہے.(بوقتِ مغرب) تین رئویا آپ نے اپنی تین رؤیا سنائیں جو کہ آپ نے پے درپے دیکھی تھیں.(اوّل) کہ ایک شخص نے ایک روپیہ اور پانچ چھوہارے رئویا میں دیئے.اس کے بعد پھر غنودگی ہوئی تو دیکھا کہ تریاق القلوب کا ایک صفحہ دکھایا گیا ہے جس پر عَلٰی شُکْرِ الْمَصَائِبِ لکھا ہوا ہے جس کے یہ معنے ہوئے کہ ھٰذِہٖ صِلَۃٌ عَلٰی شُکْرِ الْمَصَائِبِ.گویا یہ روپیہ اور چھوہارے شُکْرِ الْمَصَائِبِکا صلہ ہے.تیسری دفعہ پھر کچھ ورق دکھائے گئے جن پر بیٹوں کے بارے میں کچھ لکھا ہوا تھا اور جو اس وقت یاد نہیں ہے.الہامی دعائیں واحد متکلّم کے صیغہ کو بصورت جمع پڑھنا حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے ایک شخص کا خط پیش کیا جس میں سوال تھا کہ دعا الہامیہ رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُـرْنِیْ وَارْحَـمْنِیْ کو صیغہ جمع متکلّم میں پڑھ لیا جاوے یا نہ؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ اصل میں الفاظ تو الہام کے یہی ہیں (یعنی واحد متکلّم میں ہیں ) اب خواہ کوئی کسی طرح پڑھ لیوے.قرآن مجید میں دونوں طرح دعائیں سکھائی گئی ہیں.واحد کے صیغہ میں بھی جیسے رَبِّ اغْفِرْلِيْ وَلِوَالِدَيَّ الـخ (نوح : ۲۹) اور جمع کے صیغہ میں بھی جیسے رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ : ۲۰۲) اور اکثر اوقات واحد متکلّم سے جمع متکلّم مُراد ہوتی ہے جیسے اس ہماری الہامی دعا میں فَاحْفَظْنِیْ سے یہی مُراد نہیں ہے کہ میرے نفس کی حفاظت کر بلکہ نفس کے
متعلقات اور جو کچھ لوازمات ہیں سب ہی آجاتے ہیں.جیسے گھر بار، خویش و اقارب، اعضا و قویٰ وغیرہ.ایک عیسائی کمیٹی کے نزدیک مسیح کے ظہور کا یہی وقت ہے مفتی محمد صادق صاحب ولایت کی ایک عیسائی کمیٹی کا ایک مضمون سناتے رہے جس میں مسیح کی دوبارہ آمد پر بہت کچھ لکھا تھا کہ وقت تو یہی ہے سب نشان پورے ہو چکے ہیں.اگر اب بھی نہ آیا تو پھر قیامت تک نہ آوے گا.اس مضمون کو سن کر حضرت اقدس نے فرمایا کہ اس نے بعض باتیں بالکل صاف اور سچی لکھی ہیں اور اس نے ضرورت زمانہ کو اچھی طرح محسوس کیا ہے.بے شک اب ایک تختہ الٹنے لگا ہے اور دوسرا تختہ شروع ہو گا جس طرح یہ لوگ اس زمانہ میں مسیح کی آمد ثانی کے منتظر ہیں بلکہ اکثر ان کے انتظار کے بعد اب بے امید بھی ہو گئے ہیں اور اکثروں نے تاویلوںسے آمد ثانی کے معنے ہی اور کر لئے ہیں.کیونکہ اس کے متعلق تمام پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں اور زمانہ کی نازک حالت ایک ہادی کو چاہتی ہے.اسی طرح اسلامی پیشگوئیوں کے مطابق بھی یہی وقت ہے.نواب صدیق حسن خاں نے لکھا ہے کہ کُل اہلِ مکاشفات اور ملہمین کے کشوف اور الہام اور رؤیاء مسیح کے بارے میں چودھویں صدی سے آگے نہیں بڑھتے.مولوی مسیح اور مہدی کا ذکر ہی چھوڑدیں گے ایک صاحب نے عرض کی کہ حضور اب تو مولوی لوگوں نے وہ خطبے وغیرہ پڑھنے چھوڑ دیئے ہیں جن سے مسیح کی وفات ثابت ہوتی تھی.حضرت اقدس نے فرمایا کہ اب تو وہ نام بھی نہ لیں گے اور اگر کوئی ذکر کرے تو کہیں گے کہ مسیح اور مہدی کا ذکر ہی چھوڑو.۱ ۲۰؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز شنبہ(بوقتِ عصر) اس وقت تشریف لاکر حضرت اقدس نے بیان فرمایا کہ
اخبار عام میں ان مقدموں کے حالات شائع ہو گئے ہیں اور ہمارے مقدمہ کو کھول کر نہیں بیان کیا بلکہ دبی زبان سے بیان کیا ہے.پھر ذکر کیا کہ یہ الہام یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَکَ.یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفُوْا عِرْضَکَ.اس کی ہمیں کیا خبر تھی کہ وہ ان واقعات کے متعلق ہیں تَـخَطُّفْ کے معنے اُچک کرلے جانا ہے.قادیان کے اخبارات کی افادیت قادیان کے اخباروں کی نسبت فرمایا کہ یہ بھی وقت پر کیا کام آتے ہیں.الہامات وغیرہ جھٹ چھپ کر ان کے ذریعے شائع ہو جاتے ہیں ورنہ اگر کتابوں کی انتظار کی جاوے تو ایک ایک کتاب کو چھپتے بھی کتنی دیر لگ جاتی ہے اور اس قدر اشاعت بھی نہ ہوتی.(بوقتِ مغرب) یورپ میں بے دینی پھیلے گی عشاء سے قبل یورپ کی لامذہبی کے متعلق فرمایا کہ عیسائی مذہب کی عمارت تو گرنی شروع ہو گئی ہے عنقریب سوائے پادریوں کے اور سب لا مذہب کہلائیں گے.۱ ۲۱؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز یکشنبہ(بوقتِ مغرب ) اعتکاف کے متعلق بعض ہدایات ڈاکٹر عباد اللہ صاحب امرتسری اور خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر (یہ ہر دو صاحبان قادیان کی مسجد میں آجکل معتکف ہیں) کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ اعتکاف میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان اندر ہی بیٹھا رہے اور بالکل کہیں آئے جائے ہی نہ.چھت پر دھوپ ہوتی ہے وہاں جا کر آپ بیٹھ سکتے ہیں کیونکہ نیچے یہاں سردی زیادہ ہے اور ہر ایک ضروری بات کر سکتے ہیں.ضروری امور کا خیال رکھنا چاہیے.اور یوں تو ہر ایک کام (مومن کا)
عبادت ہی ہوتا ہے.تلوار کا استعمال صرف دفاع کی خاطر تھا پھر جہاد کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اب تلوار سے کام لینا تو اسلام پر تلوار مارنی ہے اب تو دلوں کو فتح کرنے کا وقت ہے اور یہ بات جبر سے نہیں ہو سکتی.یہ اعتراض کہ آنحضرتؐنے پہلے تلوار اٹھائی بالکل غلط ہے تیرہ برس تک آنحضرتؐاور صحابہ صبر کرتے رہے پھر باوجود اس کے کہ دشمنوں کا تعاقب کرتے تھے مگر صلح کے خواستگار ہوتے تھے کہ کسی طرح جنگ نہ ہو اور جو مشرک قومیں صلح اور امن کی خواستگار ہوتیں ان کو امن دیا جاتا اور صلح کی جاتی.اسلام نے بڑے بڑے پیچوں سے اپنے آپ کو جنگ سے بچانا چاہا ہے جنگ کی بنیاد کو خود خدا تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ چونکہ یہ لوگ بہت مظلوم ہیں اور ان کو ہر طرح سے دکھ دیا گیا ہے اس لئے اب اﷲ تعالیٰ اجازت دیتا ہے کہ یہ بھی ان کے مقابلہ پر لڑیں.ورنہ اگر تعصّب ہوتا تو یہ حکم پہنچتا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ دین کی اشاعت کے واسطے جنگ کریں لیکن ادھر حکم دیا کہ لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ (البقرۃ : ۲۵۷) (یعنی دین میں کوئی زبردستی نہیں )اور ادھر جب غایت درجہ کی سختی اور ظلم مسلمانوں پر ہوئے تو پھر مقابلہ کا حکم دیا.کمالات مجاہدہ سے حاصل ہوتے ہیں نہ کسی کے خون سے دین اسلام ایسا دین ہے کہ اگر خدا ہمیں عمر اور فرصت دے تو چند ایام میں ان لوگوں کو معلوم ہو جاوے گا کہ کیسا میٹھا اور شیریں دین ہے.کمالات تو انسان کو مجاہدات سے حاصل ہوتے ہیں مگر جن کو سہل نسخہ مسیح کے خون کامل گیا وہ کیوں مجاہدات کرے گا.اگر مسیح کے خون سے کامیابی ہے تو پھر ان کے لڑکے امتحان پاس کرنے کے واسطے کیوں مدرسوں میں محنتیں اور کوششیں کرتے ہیں چاہیے کہ وہ تو صرف خون۱ پر بھروسہ رکھیں اور اس سے کامیاب ہوں اور کوئی محنت نہ کریں اور مسلمانوں کے بچے محنتیں کر کر کے اور ٹکریں مارمار کر پاس ہوں.اصل بات یہ ہے لَيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى (النّجم :۴۰).اس
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان جب اپنے نفس کو مطالعہ کرتا ہے تو اسے فسق و فجور وغیرہ معلوم ہوتے ہیں.آخر وہ یقین کی حالت پر پہنچ کر ان کو صیقل کر سکتا ہے لیکن جب خون مسیح پر مدار ہے تو پھر مجاہدات کی کیا ضرورت ہے ان کو جھوٹی تعلیم سچی ترقیات سے روک رہی ہے.سچی تعلیم والا دعائیں کرتا ہے کوششیں کرتا ہے آخر دوڑتا دوڑتا ہاتھ پائوں مارتا ہوا منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے.جب یہ بات ان کی سمجھ میں آوے گی کہ یہ سب باتیں قصہ کہانی ہیں (اور ان سے اب کوئی آثار اور نتائج مرتّب نہیں ہوتے) اور ادھر سچی تعلیم کی تخم ریزی کے ساتھ برکات ہوں گی تو یہ لوگ خود سمجھ لیویں گے انسان کھیتی کرتا ہے اس میں بھی محنت کرنی پڑتی ہے.اگر ایک ملازم ہے تو اسے بھی محنت کا خیال ہے غرضیکہ ہر ایک اپنے اپنے مقام پر کوشش میں لگا ہے اور سب کا ثمرہ کوشش پر ہی ہے.سارا قرآن کوشش کے مضمون سے بھرا پڑا ہے.لَيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۱ (النّجم : ۴۰) ان لوگوں کو جو ولایت میں خونِ مسیح پر ایمان لا کر بیٹھے ہیں کوئی پوچھے کیا حاصل ہوا.مَردوں یا عورتوں نے خون پر ایمان لا کر کیا ترقی حاصل کی.یہ باتیں ہیں جو بارباران کے کانوں تک پہنچانی چاہئیں یہ قصہ جھوٹا ہے کہ خداپیٹ میں رہا.پھر اسے خسرہ وغیرہ نکلی ہوگی.طفولیت کے عالَم میں ماں بھی کوئی دھول دھپامار بیٹھی ہوگی.لڑکوں میں کھیلتا ہوگا وہاں بھی مار کھاتا ہوگا.اب اس نظارہ کو کوئی دیکھے کہ بڑا ہو کر بھی مار کھاتا رہا اور چھوٹا تھا تو بھی طمانچے پڑتے رہے.۲ ۲۲؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز دوشنبہ(بوقتِ ظہر)
حقیقی طاعون طاعون کے متعلق آپ نے فرمایا کہ بعض طب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب تک سرسام نہ ہو، غشی نہ ہو تو صرف گلٹی کے ساتھ جو بخار ہوتا ہے اور اس سے جو مر جاوے تو اصل میں اس کا نام اصل میں طاعون نہیں ہے بلکہ خاص طاعون کے دنوں میں یہ ایک مرض تشابہ بالطاعون ہوا کرتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی طاعون کا لفظ ایسی موتوں پر نہیں آسکتا جس میں صرف گلٹی اور بخار ہو اور دوسرے علامات طاعون نہ ہوں.ایک الہام پھر فرمایا کہ گذشتہ شب کو دویا تین بجے یہ الہام ہوا اور بڑے زور کے ساتھ ہوا یَاْتِیْ عَلَیْکَ زَمَنٌ کَمَثَلِ زَمَنِ مُوْسٰی اتنے برس سے یہ سلسلہ ہمارا جاری ہے مگر یہ الہام کبھی نہیں ہوا.اس
سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر تیاری ہوئی ہے.۱ مسیح بمعنی سیاح مولویوں کے احادیث پیش کرنے پر فرمایا کہ ان پر ایسا وثوق تو نہیں ہوتا جیسے کلامِ الٰہی پر کیونکہ خواہ کچھ ہی ہو، پھر بھی وہ مسِّ انسان سے تو خالی نہیں.مگر خدا تعالیٰ جس کی تنقید کرتا جاوے وہ صحیح ہوتا جاوے گا.اگر احادیث میں نزول مسیح کا ذکر تھا تو دیکھئے قرآن شریف میں وَ قَفَّيْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ (البقرۃ : ۸۸) موجود ہے جو کہ اصل حقیقت کو واضح کر رہا ہے.مولویوں نے اس بات کو نہیں سمجھا اور اَور طرف دوڑتے رہے.مسیح کے معنے بہت سیر کرنے والا.اب ان سے کوئی پوچھے کہ جب وہ آسمان پر ہے تو اس نے سیر کہاں کی ہوگی اور لفظ مسیح کے معنے اس پر کیسے صادق آویں گے.ایک طرف اسے آسمان پر بٹھاتے ہیں دوسری طرف سیاح کہتے ہیں تو اس کی سیاحت کا وقت کونسا ہوا.۲ (بوقتِ مغرب) مسیح بن باپ پیدا ہوئے حضرت اقدس کے تشریف لاتے ہی ہمارےمکرم مخدوم ابو سعید عرب صاحب نے جو رنگون سے آئے ہوئے ہیںسوال کیا کہ مسیح کی ولادت کے متعلق کیا بات ہے وہ بن باپ کس طرح پیدا ہوئے؟ حضرت اقدس نے جواباً فرمایا.اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ (البقرۃ : ۱۱۸) ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ مسیح بن باپ پیدا ہوئے اور قرآن شریف سے یہی ثابت ہے.اصل بات یہ ہے کہ حضرت مسیحؑ یہود کے واسطے ایک نشان تھے جو ان کی شامتِ اعمال سے اس رنگ میں پورا ہوا.زبور اور دوسری کتابوں میں لکھا گیا تھا کہ اگر تم نے اپنی عادت کو نہ بگاڑا تو نبوت تم میں رہے گی.مگر خدا تعالیٰ کے علم میں تھا کہ یہ اپنی حالت کو بدل لیں گے.اور شرک و بدعت میں گرفتار ہو جائیں گے.جب انہوں نے اپنی حالت کو بگاڑا تو پھر اﷲ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق یہ تنبیہی نشان ان کو دیا اور مسیح کو بن باپ پیدا کیا.
مسیح کے بن باپ پیدا ہونے کا سِر اور بن باپ پیدا ہونے کا سِر یہ تھا کہ چونکہ سلسلہ نسب کا باپ کی طرف ہوتا ہے تو اس طرح گویا سلسلہ منقطع ہو گیا اور اسرائیلی خاندان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی کیونکہ وہ پورے طور سے اسرائیل کے خاندان سے نہ رہے.مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ (الصّف : ۷) میں بشارت ہے.اس کے دو ہی پہلو ہیں یعنی ایک تو آپ کا وجود ہی بشارت تھا کیونکہ بنی اسرائیل کے خاندانِ نبوت کا خاتمہ ہو گیا دوسرے زبان سے بھی بشارت دی یعنی آپ کی پیدائش میں بھی بشارت تھی اور زبانی بھی.انجیل میں بھی مسیح نے باغ کی تمثیل میں اس اَمر کو بیان کر دیا ہے اور اپنے آپ کو مالک باغ کے بیٹے کی جگہ ٹھہرایا ہے.بیٹے کامحاورہ انجیل اور بائبل میں عام ہے.اسرائیل کی نسبت آیا ہے کہ اسرائیل فرزند ِمن بلکہ نخست زادہ من است.آخر اس تمثیل میں بتایا گیا ہے کہ بیٹے کے بعد وہ مالک خود آکر باغبان کو ہلاک کردے گا اور باغ دوسروں کے سپرد کر دے گا.یہ اشارہ تھا اس اَمر کی طرف کہ نبوت ان کے خاندان سے جاتی رہی.پس مسیح کا بن باپ ہونا اس اَمر کا نشان تھا.پھر سوال کیا کہ مسیح کے بن باپ پیدا ہونے پر عقلی دلائل کیا ہیں؟ فرمایا.آدم کے بن باپ پیدا ہونے پر کیا دلیل ہے اور عقلی امتناع بن باپ پیدا ہونے میں کیا ہے.عقل انسان کو خدا سے نہیں ملاتی بلکہ خدا سے انکار کراتی ہے.پکا فلسفی وہ ہوتا ہے جو خدا کو نہیں مانتا.بھلا آپ سوچ کر دیکھیں کہ اس بات میں عقل ہمیں کیا بتلاتی ہے کہ جو کچھ ہم بول رہے ہیں یہ کہاں جاتا ہے کیا کسی جگہ بند ہوتا ہے یا یونہی ہوا میں اُڑ جاتا ہے.عقل کے جس قدر ہتھیار ہیں وہ سب نکمّے ہیں.مگر ہم خدا تعالیٰ کے وعدوں اور نشانوں کو دیکھتے ہیں تب یقین کرتے ہیں کہ خدا ہے.ایک فلسفی اگر بہت خوض اور تدبّر کے بعد کوئی نتیجہ نکالے گا تو صرف اس قدر کہ ایک خدا ہونا چاہیے مگر ہے اور ہونا چاہیے میں بہت بڑا فرق ہے مثلاً ہم کہیں کہ اگر دو آنکھیں ہماری آگے ہیں تو دو اور پیچھے کی طرف بھی ہونی چاہئیں تھیں کہ انسان پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا اور اگر کوئی دشمن پیچھے سے حملہ کرنا چاہتا تو وہ اپنی حفاظت کر سکتا.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پیچھے کی طرف آنکھیں نہیں ہیں.اسی طرح سے ہونا چاہیے
اور ہے میں بہت فرق ہے.غرضیکہ عقل سے بالکل خدا کا وجود ثابت نہیں ہوسکتا.عقل کی حیثیت عرب صاحب نے کہا کہ اسلام کا کوئی مسئلہ عقل کے خلاف نہیں؟ حضرت اقدس نے فرمایا.یہ سچ ہے.ہم یہ نہیں کہتے کہ عقل بالکل نکمّی شَے ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے روٹی کے ساتھ سالن کہ اس کے سہارے انسان کھانا خوب کھا لیتا ہے.ایسے ہی عقل ہے کہ اس سے ذرا (معرفتِ خدا) میں مزا آجاتا ہے ورنہ یوں عقل اس میدان میں بڑی نکمّی ہے.خدا کی معرفت دوسرے حواس سے ہے کہ جس میں یہ عقل کوئی کام نہیں کرتی.نہ تسلّی دیتی ہے ایک ناکارہ ہتھیار کی طرح ہے.عرب صاحب نے سوال کیا، یہ ہم تو مان لیویں مگر دوسرے آدمی کو کیسے سمجھاویں کہ اور حواس ہیں؟ حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ غیر کو ہم یہ جواب دیویں گے کہ جو لوگ ایسی بات کے اہل ہیں ان کی صحبت میں رہو کہ ان کو پتہ لگے کہ ان حواس کے علاوہ اور حواس بھی انسان کے اندر ہیں.خدا کی معرفت کا ان سے پتہ لگتا ہے اور اور اُمور بھی ہیں جن پر انسان ایمان لاتا ہے.۱ مثلاً روح، ملائک، اب عقل ان کے متعلق کیا بتلا سکتی ہے.روح کے بقا اور ملائکہ کے متعلق کیا دلیل لاؤ گے.کوئی شَے ظاہری طور پر ثابت شدہ تو ہے نہیں.آپ ہی بتلاویں کہ خدا، روح، ملائک ان تین میں عقل نے کیا فیصلہ کیا ہے جو کچھ کیا ہے سب اٹکل ہے.اصل بات کوئی نہیں اگر کہو عِلَّتُ الْعِلَل کے سلسلہ سے خدا کی معرفت تامہ ہوتی ہے تو یہ بات بھی
غلط ہے کیونکہ علّت اور معلول کے سلسلہ کوتو دہریہ بھی مانتے ہیں.مگر پھر خدا کو نہیں مانتے.فلسفہ میں ذرا کچے جو رہتے ہیں وہ خدا کا نام لیتے ہیں ورنہ پکا فلسفی ضرور دہریہ ہوتا ہے.حکیم نورالدین صاحب نے اس مقام پر حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ مجوسی لوگ اس دور تسلسل کو چرخہ اورزنجیر کہتے ہیں اور انہیں سے یہ مسئلہ لیا گیا ہے.ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہم تو کہتے ہیں کہ خدا کے وجود جیسا اور کوئی وجود روشن ہی نہیں ہے.اس مقام پر حکیم نور الدین صاحب نے عرض کی کہ حضرت بہت دہریوں کے ساتھ میرا اتفاق ملنے کا ہوا ہے مگر ایک دہریہ میں نے نیا دیکھا اس کا یہ مقولہ ہے کہ خدا ایک ہستی ضرور ہے مگر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گلاب کا پھول ہوتا ہے اور ایک اس کی جڑھ جس سے وہ پھول نکلا ہوا ہوتا ہے.اسی طرح خداتو مثل جڑھ کے ہے اور ہم وہ پھول ہیں مگر پھول جڑھ سے زیادہ عمدہ اور مفید ہوتا ہے.اسی طرح ہم خدا سے افضل اور برتر ہیں دن بدن ترقی کر رہے ہیں.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ اگر انکار ہو سکتا ہے تو مخلوق کے وجود کا ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات کا تصرّف ہر آن میں اس کے ہر ذرّہ ذرّہ پر اس قدر ہے کہ گویا اس کی ہستی کوئی شَے ہی نہیں ہے اور بِلا اس کے تصرّف کے ہم نہ کچھ بول سکتے ہیں نہ کچھ کر سکتے ہیں.جو طالب حق ہے وہ ہماری صحبت میں رہے.ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایسی ہی ذات ہے جن صفات سے قرآن شریف میں لکھا ہے.ان صفات سے ہم اسے ثابت کر کے دکھا دیویں گے.بڑی نادانی یہ ہے کہ ایک عالم کی بات کو وہ دوسرے عالم کے حواس سے ثابت کرنا چاہتے ہیں.حالانکہ روزمرہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایک حواس سے دوسرے حواس کا کام نہیں لے سکتے مثلاً آنکھ ناک کا اور کان آنکھ کا کام نہیں دے سکتے.جب خارج میں یہ حالت ہے تو باطن میں وہ کیا کہہ سکتے ہیں.بات یہ ہے کہ انسان کو ایک اور حواس ملتے ہیں.تب یہ اﷲ تعالیٰ کو شناخت کر سکتا ہے.بجز اس کے ہرگز نہیں کر سکتا.ایک دہریہ سے یہ سوال ہے کہ قبل ازوقت طاقت اور اقتدار
سے بھری ہوئی پیشگوئیاں جو ہم کرتے ہیں یہ کہاں سے ہوتی ہیں؟ اگر کہو کہ یہ کوئی علم نہیں ہے تو اس علم کے ذریعے سے وہ بھی کر سکتا ہے کرکے دکھاوے.ورنہ ماننا پڑے گا کہ ایک زبردست طاقت ہے جو الہام کر رہی ہے یہ پیشگوئیاں جو کہ غیبوبیت کے رنگ اور طاقت اور اقتدار کے ساتھ ہوتی ہیں.ان سے بڑھ کر اور کوئی نشان (خدا پر ایمان لانے کے واسطے) نہیں ہے نہ آسمان نہ زمین نہ اور کوئی شَے.ان پر نظر کر کے جو نتیجہ نکالیں گے اور جو بات پیش کریں گے وہ ظنی ہوگی.یہی ایک بات (پیشگوئی والی) یقینی ہے کہ جس کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا.لیکھرام کو قتل کروانے کے الزام کا جواب عرب صاحب نے ذکر کیا کہ ایک شخص نے کہا کہ لیکھرام کو خود اپنے کسی جماعت کے آدمی کے ذریعہ سے مَروا ڈالا ہے.اس پر فرمایا کہ ہمارے ساتھ ہزارہا جماعت ہے اگر ان میں سے کسی کو کہوں کہ تم جا کر مار آئو تو یہ میری پیری اور بیعت کا سلسلہ کب چل سکتا ہے؟ یہ تو جب ہی چل سکتا ہے کہ صفائی ہو اور پیروؤں کو معلوم ہو کہ پاک باطنی کی تعلیم دی جاتی ہے اورجب ہم خود ہی قتل کے منصوبے لوگوں کو سمجھاویں تو یہ کاروبار کیسے چل سکتا ہے؟ اب یہ اس قدر گروہ ہے کوئی ان میں سے بولے کہ ہم نے کس کو کب کہا تھا کہ جا کر اسے مار ڈالے.یہ سلسلہ منہاجِ نبوت پر چل رہا ہے پھر عقل کے شیدائیوں کی نسبت فرمایا کہ جس طور سے ہم سمجھتے ہیں اور منہاجِ نبوت پر یہ سلسلہ چل رہا ہے اس کے بغیر سمجھ نہیں آتا.یہ لوگ خواہ دہریہ ہوں یا نہ ہوں مگر بے بہرہ ضرور ہیں.پاک زندگی، استقامت، توکّل ان کو پورے طور پر نصیب نہیں ہوتا اور بڑے دنیا دار ہوتے ہیں.یتیم پوتے کامسئلہ عرب صاحب نے سوال کیا کہ ایک شخص نے مجھ پر اعتراض کیا تھا کہ شریعتِ اسلام میں پوتے کے واسطے کوئی حصہ وصیت میں نہیں ہے.اگر ایک شخص کا پوتا یتیم ہے توجب وہ شخص مَرتا ہے تو اس کے دوسرے بیٹے حصہ لیتے ہیں اور اگر چہ وہ بھی اس کے بیٹے کی
اولاد ہے مگر وہ محروم رہتا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ دادے کا اختیار ہے کہ وصیت کے وقت اپنے پوتے کو کچھ دیدے بلکہ جو چاہے دیدے اور باپ کے بعد بیٹے وارث قرار دیئے گئے کہ تا ترتیب بھی قائم رہے اور اگر اس طرح نہ کہا جاتا تو پھر ترتیب ہرگز قائم نہ رہتی کیونکہ پھر لازم آتا ہے کہ پوتے کا بیٹا بھی وارث ہو اور پھر آگے اس کی اولاد ہو تو وہ وارث ہو.اس صورت میں دادے کا کیا گناہ ہے.یہ خدا کا قانون ہے اور اس سے حرج نہیں ہوا کرتا ورنہ اس طرح تو ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور جس قدر سلاطین ہیں وہ بھی آدم کی اولاد ہیں تو ہم کو چاہیے کہ سب کی سلطنتوں سے حصہ بٹانے کی درخواست کریں.چونکہ بیٹے کی نسبت سے آگے پوتے میں جا کر کمزوری ہو جاتی ہے اور آخر ایک حد پر آکر تو برائے نام رہ جاتا ہے.خدا تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ اس طرح کمزوری نسل میں اَور ناطہ میں ہو جاتی ہے اس لئے یہ قانون رکھا.ہاں ایسے سلوک اور رحم کی خاطر خدا تعالیٰ نے ایک اور قانون رکھا ہے جیسے قرآن شریف میں ہے وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰى وَ الْيَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِيْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا( النِّسآء : ۹) (یعنی جب ایسی تقسیم کے وقت بعض خویش و اقارب موجود ہوں اور یتیم اور مساکین تو ان کو کچھ دیا کرو) تو وہ پوتا جس کا باپ مَرگیا ہے وہ یتیم ہونے کے لحاظ سے زیادہ مستحق اس رحم کا ہے اور یتیم میں اور لوگ بھی شامل ہیں (جن کا کوئی حصہ مقرر نہیں کیا گیا) خدا تعالیٰ نے کسی کا حق ضائع نہیں کیا مگر جیسے جیسے رشتہ میں کمزوری بڑھتی جاتی ہے حق کم ہوتا جاتا ہے.۱ ۲۳؍دسمبر ۱۹۰۲ء (بوقتِ فجر) ایک رئویا نماز سے پیشتر یہ رئویا سنائی.میں کسی اور جگہ ہوں اور قادیان کی طرف آنا چاہتا ہوں ایک دو آدمی ساتھ ہیں.
کسی نے کہا راستہ بند ہے ایک بڑا بحرِ زخّار چل رہا ہے.میں نے دیکھا تو واقعی میں کوئی دریا نہیں بلکہ ایک بڑا سمندر ہے اور پیچیدہ ہو ہو کر چل رہا ہے جیسے سانپ چلا کرتا ہے.ہم واپس چلے آئے کہ ابھی راستہ نہیں اور یہ راہ بڑا خوفناک ہے.(بوقتِ ظہر) چین میں عربی کتب بھیجنے کے متعلق گفتگو نماز سے پیشتر حضرت اقدس نے مجلس کی اور فرمایا کہ چین میں اہلِ اسلام عربی زبان سے واقف ہیں کہ نہیں اور وہاں عربی کتب روانہ کرنے کے متعلق حضرت اقدس ابو سعید عرب صاحب سے گفتگو کرتے رہے پھر اشاعت کے متعلق حضرت اقدس نے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ نے کیا کیا کام کئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے مومنوں کی جانیں خرید لیں اور اب اس وقت اﷲ تعالیٰ نے بہت سی مشکلات کو دور کر دیا ہے.ایک الہام پھر اس کے بعد ذکر فرمایا کہ رات کو الہام ہوا ہے اِنَّہٗ کَرِیْمٌ تَـمَشّٰی اَمَامَکَ وَعَادٰی لَکَ مَنْ عَادٰییعنی وہ کریم ہے وہ تیرے آگے آگے چلتا ہے.جس نے تیری عداوت کی (گویا) اس کی عداوت کی.قرآنی ترتیب کا ایک سِرّ فرمایا.کل جو الہام ہوا تھا یَاْتِیْ عَلَیْکَ زَمَنٌ کَمَثَلِ زَمَنِ مُوْسٰی یہ اسی الہام کے آگے معلوم ہوتا ہے جہاں ایک الہام کا قافیہ جب دوسرے الہام سے ملتا ہے خواہ وہ الہامات ایک دوسرے سے دس دن کے فاصلہ سے ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں کا تعلق آپس میں ضرور ہے یہاں بھی موسیٰ اور عادیٰ کا قافیہ ملتا ہے اور پھر توریت میں اس قسم کامضمون ہے کہ خدا نے موسیٰ کو کہا کہ تو چل میں تیرے آگے چلتا ہوں.
رسول کی قومی زبان میں الہام بعض لوگ جہالت سے اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن شریف میں ہے کہ ہر ایک قوم کی زبان میں الہام ہونا چاہیے جیسے وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ (ابراہیم : ۵) مگر تم کو عربی میں ہی کیوں ہوتے ہیں؟ تو ایک تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا سے پوچھو کہ کیوں ہوتے ہیں اور اس کا اصل سرّ یہ ہے کہ صرف تعلق جتلانے کی غرض سے عربی میں الہامات ہوتے ہیں کیونکہ ہم تابع ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو کہ عربی تھے.ہمارا کا روبار سب ظِلّی ہے اور خداکے لئے ہے.پھر اگر اسی زبان میں الہام نہ ہو تو تعلق نہیں رہتا.اس لئے خدا تعالیٰ عظمت دینے کے واسطے عربی زبان میں الہام کرتا ہے اور اپنے دین کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے جس بات کو ہم ذوق کہتے ہیں اسی پر وہ لوگ اعتراض کرتے ہیں.خدا تعالیٰ اصل متبوع کی زبان کو نہیں چھوڑتا.اور جس حال میں یہ سب کچھ اسی (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاطر ہے اور اسی کی تائید ہے تو پھر اس سے قطع تعلق کیوں کر ہو.اور بعض وقت انگریزی، اردو، فارسی میں بھی الہام ہوئے ہیں تا کہ خدا تعالیٰ جتلادیوے کہ وہ ہر ایک زبان سے واقف ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فارسی زبان میں الہام اسی طرح ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض ہوا تھا کہ کسی اور زبان میں الہام کیوں نہیں ہوتا تو آپ کو اﷲ تعالیٰ نے فارسی میں الہام کیا’’ایں مُشتِ خاک را گر نہ بخشم چہ کنم‘‘ آخر کار خدا کی رحمت ہی کاروبار کرے گی اور یہ ویسی ہی بات ہے جیسے یہود نے کہاتھا کہ پیغمبر آخر زمان بنی اسرائیل میں سے ہونا چاہیے تھا اور جس قدر نبی آئے ہیں سب کے بارے میں اسی طرح شبہات پڑتے رہے ہیں.عیسیٰ علیہ السلام کے وقت یہود کو کس قدر شبہات آئے.پیغمبر خدا کے وقت میں بھی پڑے کہ بنی اسرائیل میں سے کیوں نہ آیا.یہ عادت اﷲ ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور مخفی رکھا جاتا ہے کہ ایمان بالغیب کی حقیقت رہے ورنہ پھر ایمان پر ثواب کیا مرتّب ہو.حَکم کا کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ حکم ہوگا جس کے یہ معنے ہیں کہ سچی بات پیش کرے گا اور رطب ویابس کو اٹھادے گا اور احادیث تو ذخیرہ ظنّوں کا ہے
شیعہ، وہابی، سُنّی وغیرہ جو تہتّر فرقہ اہلِ اسلام کے ہیں سب احادیث ہی کو پیش کرتے ہیں اور حَکم کا کام ہے وہ ان میں تحقیق کرے اور جو سچی بات ہوا سے قبول کرے ورنہ پھر ہر ایک فرقہ کا حق ہے کہ اسے مجبور کرے کہ میری مان.اور اسے کہا جا سکتا ہے کہ جب ایک کی پیش کردہ احادیث کو تم بلا اعتراض مان لیتے ہو تو کیا وجہ ہے کہ دوسرے فرقوں کی حدیثوں کو بھی ویسے ہی نہ مانا جاوے.پھر اس صورت میں وہ آنے والا حَکم کیا رہا.حَکم کا لفظ بتلا رہا ہے کہ ایسے وقت میں کچھ لیا جاتا ہے اور کچھ چھوڑا جاتا ہے.موزوں پر مسح موزوں پر مسح کا ذکر ہوا تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ سُوتی موزہ پر بھی مسح جائز ہے اور آپ نے اپنے پائے مبارک کو دکھلایاجس میں سُوتی موزے تھے کہ میں ان پر مسح کر لیا کرتا ہوں.اس زمانہ میں آخر دعائوں کے ساتھ مقابلہ ہوگا ہمارے پیغمبر خدا نے جبکہ تیرہ سال تک تلوارنہ اٹھائی تو امام مہدی کو کیسے حق پہنچتا ہے کہ جس حالت میں تیرہ سو سال سے لوگ دین سے ناواقف ہو گئے ہیں آتے ہی ان پر تلوار اٹھالیوے اور اس سے اسے کیا فائدہ ہوگا؟ اگر امام مہدی نے لڑائی کے لئے آنا تھا تو اﷲ تعالیٰ اپنی سنّتِ قدیمہ کے موافق پہلے مسلمانوں کی قوم کو جنگ آزمائی سے آگاہ کر دیتا اور ان کی طبائع کامیلان جنگ کی طرف ہوتا اور ایسے اسباب ہوتے کہ مسلمان جنگ میں مشّاق ہوتے مگر اہلِ اسلام کی موجودہ حالت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو جنگ سے کوئی انس نہیں اور جس قدر لوگ آج کل مہدی کے نام سے مدّعی ہو کر یورپ کی اقوام سے جنگ کر چکے ہیں ان تمام نے شکستیں کھائی ہیں.ان تمام باتوں اور اسباب سے مفہوم ہوتا ہے کہ ارادہ الٰہی جنگ کا ہرگز نہیں ہے.یقین رکھو کہ جسمانی تلواروں کے ساتھ ان کامقابلہ کوئی نہ کر سکے گا.خود مسلم کی حدیث میں ہے کہ اس زمانہ میں آخر دعائوں کے ساتھ مقابلہ ہوگا.جن کو نہ یہ روک سکتے ہیں اور نہ مقابلہ کر سکتے ہیں.اور یہی دعائیں ہوں گی کہ جن سے مخالفوں کی حالت میں روحانی تبدیلی ہو جاوے گی.
یاجوج ماجوج کے لمبے کانوں سے مُراد یاجوج ماجوج کے ذکر پر فرمایا کہ اس کے لمبے کانوں سے مُراد جاسوسی کی مشق ہے جیسے اس زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ تار خبر کا سلسلہ اور اخبار وغیرہ سب اسی میں ہیں.موجودہ علامات سے عقل مند جانتا ہے کہ اگر خدا کا ارادہ جنگ کا ہوتا تو مسلمانوں کو نبرد آزمائی کے سامان میسر آتے اور ان میں قوت اور شوکت بڑھتی مگر اہلِ اسلام تو دن بدن تنزّل پر ہیں اور ان کی یہ حالت ہے کہ اگر ان کو سامان جنگ کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ یورپ کی سلطنتوں سے منگواتے ہیں اور خود نہیں تیار کر سکتے.۱ ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز چہار شنبہ دنیا اور آخرت کی حسنات عشاء کی نماز سے قبل جب آپ نے مجلس کی تو سید ابو سعید صاحب عرب نے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام سے عرض کی کہ دعا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ( البقرۃ : ۲۰۲) کے کیا معنے ہیں اور اس سے کیا مُراد ہے؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ انسان اپنے نفس کی خوشحالی کے واسطے دو چیزوں کا محتاج ہے.ایک دنیا کی مختصر زندگی اور اس میں جو کچھ مصائب، شدائد، ابتلا وغیرہ اسے پیش آتے ہیں ان سے امن میں رہے.دوسرے فسق وفجور اور روحانی بیماریاں جو اسے خدا سے دور کرتی ہیں ان سے نجات پاوے تو دنیا کا حسنہ یہ ہے کہ کیا جسمانی اور کیا روحانی طور پر ہر ایک بَلا اور گندی زندگی اور ذلّت سے محفوظ رہے خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا( النِّسآء : ۲۹) ایک ناخن میں ہی درد ہو تو زندگی بے مزا ہو جاتی ہے میری زبان کے تلے ذرا درد ہے اس سے سخت تکلیف ہے اسی طرح جب انسان کی زندگی خراب ہوتی ہے جیسے بازاری عورتوں
کا گروہ کہ ان کی زندگی کیسی ظلمت سے بھری ہوئی اور بہائم کی طرح ہے کہ خدااور آخرت کی کوئی خبر نہیں تو دنیا کا حسنہ یہی ہے کہ خداہر ایک پہلو سے خواہ وہ دنیا کا ہو خواہ آخرت کا ہر ایک بَلا سے محفوظ رکھے اور فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً میں جو آخرت کا پہلو ہے وہ بھی دنیا کی حسنہ کا ثمرہ ہے.اگر دنیا کا حسنہ انسان کو مل جاوے تو وہ فال نیک آخرت کے واسطے ہے.یہ غلط ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کا حسنہ کیا مانگنا ہے آخرت کی بھلائی ہی مانگو.صحت جسمانی وغیرہ ایسے امور ہیں جن سے انسان کو دنیا میں آرام ملتا ہے اور اس کے ذریعہ سے وہ آخرت کے لئے کچھ کر سکتا ہے اور اسی لئے دنیا کو آخرت کا مزرعہ کہتے ہیں اور درحقیقت جسے خدادنیا میں صحت، عزّت، اولاد اور عافیت دیوے اور عمدہ عمدہ اعمالِ صالحہ اس کے ہوں تو امید ہوتی ہے کہ اس کی آخرت بھی اچھی ہوگی.كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ (بنی اسـرآءیل:۸۵) بات بہت عمدہ ہے کہ انسان نیکی اور پاکیزگی کی طرف جھک جاوے.دنیا میں مختلف فطرتیں ہوتی ہیں جس حد تک ایک سعید پہنچ جاتا ہے اس حد تک ہر ایک انسان نہیں پہنچتا.بعض کھوپریاں ایسی ساخت کی ہوتی ہیں کہ اس کھوپری والے انسان سمجھ ہی نہیں سکتے.ایک نیک ہوتا ہے اور وہ بدوں کی مجلس میں جا بیٹھے تو اسے کچھ حظ نہیں آتا.اسی طرح ایک بد نیکوں کی محفل سے کوئی حظ حاصل نہیں کرتا.گویا ایک سمندر حائل درمیان میں ہے کہ نہ اِدھر کا آدمی اُدھر اور اُدھر کا اِدھر آسکتا ہے.ایک ہماری جماعت ہے کہ جو کہیں مان لیتی ہے اور ہر طرح تیار ہیں اور خوب سمجھے ہوئے ہیں اور ایک وہ ہیں کہ جب تک ہمیں دجّال کافر وغیرہ نہ کہہ لیں اور گالیاں نہ دے لیں ان کو صبر نہیں آتا.کیا ان کی آنکھیں نہیں کہ کان نہیں یا دماغ نہیں.سب کچھ ہے مگر كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ (بنی اسـراءیل : ۸۵).۱ ۲۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز پنجشنبہ (بوقتِ ظہر)
ایک الہام اس وقت تشریف لاکر حضرت اقدس نے فرمایا کہ رات کو الہام ہوا ہے اِنِّیْ صَادِقٌ صَادِقٌ وَسَیَشْھَدُ اللہُ لِیْیعنی میں صادق ہوں صادق ہوں عنقریب اﷲ تعالیٰ میری شہادت دیوے گا.خبر نہیں کہ کس اَمر کے متعلق ہے.یہ مقدمہ جو اس وقت جہلم میں ہوا ہے یہ تو ایک چھوٹی سی اور شخصی بات ہے اصل مقدمہ ہمارا تو وہ ہے جو کروڑہا آدمیوں کے ساتھ ہے اور جو قیامت تک نفع پہنچانے والا ہے.حسب دستور مغرب کی نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد حضرت اقدس طعام تناول فرما کر تشریف لائے تو ڈاکٹر محمد حسین صاحب اسسٹنٹ سرجن بھیرہ سے ، بابو فخر الدین صاحب کھوکھیاٹ علاقہ میانی ، بابو نبی بخش صاحب، حافظ فضل احمد صاحب لاہور سے تشریف لائے ہوئے تھے سب نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے نیاز حاصل کی.طاعون کا کچھ ذکر نو وارد احباب سے حضرت اقدس دریافت کرتے رہے.اَللِّوَاء کے اعتراض کا فصیح و بلیغ جواب مصر کے اَللِّوَاءکے اعتراض پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عربی میں جو رسالہ تحریر فرمایا ہے اس کی فصاحت پر مولوی عبد الکریم اور مولوی نور الدین صاحبان کلام کرتے رہے کہ اِنْ شَآءَ اللہُ بہت ہی سعید روحیں عرب میں ہوں گی جو اسے دیکھ کر عاشق زار ہو جاویں گی.حکیم صاحب بیان کرتے تھے کہ میں حیران ہو ہو جاتا تھا اور جی چاہتا کہ سجدہ کروں پھر حیران ہوتا کہ کون سے لفظ پر سجدہ کروں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہمارا مطلب یہی ہے کہ چونکہ ہر وقت موقع نہیں ہوتا اکثر کام اردو زبان میں ہوتا ہے اس لئے دوہزار چھپوا لیا جاوے جہاں کہیں عرب میں بھیجنے کی ضرورت ہوئی بھیج دیا.مخالفت میں بھی ہمارے لئے برکت ہوتی ہے اور جو لکھتا ہے ہماری خیر کے لئے لکھتا ہے ورنہ پھر تحریک کیسے ہو.
عیسائیت اختیار کرنے والے مسلمان لوگوں کے عیسائی ہونے کے ذکر پر فرمایا کہ اصل بات سچی یہی ہے کہ بجز ان لوگوں کے جن کی فطرت میں خدا نے سعادت دی ہے اور وہ احقاقِ حق چاہتے ہیں باقی کُل اَکل و شُرب کے واسطے عیسائی ہوتے ہیں اور اسلام سے ان کو کوئی مناسبت نہیں رہتی.اسلام میں تقویٰ، طہارت، پاکیزگی، صوم و صلوٰۃ وغیرہ سب بجا لانا پڑتا ہے وہ لوگ اسے بجا لا نہیں سکتے.حقیقت ِاسلام کی طرف نظر کی جاوے تو جن کی فطرت میں عیاشی بھری ہوئی ہے ان کو لے کر (یعنی مسلمان کرکے) ہم کیا کریں.جہاں کہیں ان کی نفسانی اغراض پوری ہوں گی وہ وہاں ہی رہیں گے ان کو مذہب اسلام سے کیا کام.جب ان کے اغراض میں فرق آیا پھر وہاں سے چلے جاویں گے.ایسے لوگ بہت ہیں مگر ان کے لانے سے کیا فائدہ؟اس شخص کو لانا چاہیے جسے اوّل پہچانا جاوے کہ اس کے اندر اسلام کو قبول کرنے کامادہ ہے تزکیہ نفس اور تقویٰ اختیار کر سکے گا اور ذرا سے ابتلا سے گھبرا نہ جاوے گاتو ایسا شخص اگر مشرف باسلام ہو تو اس سے فائدہ ہوا کرتا ہے.میری طبیعت بیزار ہوتی ہے خواہ کوئی ہندو میرے پاس آوے مگر دنیا کے گند سے بھرا ہوا ہو کہ جب ذکر کرتا ہے تو
دنیا کا اور جو خیال ہے دنیا کا.تو ایسے کو مسلمان کر کے کیا کیا جاوے گا؟ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی ایسا ہی تھا.جو لوگ متقی نہ رہے آخر وہ کافر ہو گئے.ہماری جماعت کو چاہیے کہ تقویٰ میں ترقی کرے.۱ ۲ ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز جمعہ(بوقتِ عصر) سفر کریں تو دین کی نیت سے کریں اس وقت حضرت اقدس تشریف لائے تو احباب میں سے ایک نے خواجہ کمال الدین صاحب کی وساطت سے سوال کیا کہ دربار دہلی میں شامل ہونے کا بہت شوق ہے اگر اجازت ہو تو ہو آئوں.میں تو دل کو بہت روکتا ہوں مگر پھر خیال یہی غالب رہتا ہے کہ ہو آئوں.حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ ہو آویں کیا حرج ہے.ایک کتاب میں لکھا ہے کہ جنید بغدادی علیہ الرحمۃ کو ایک دفعہ خیال آیا کہ سفر کو جانا چاہیے پھر سوچا کس واسطے جائوں تو سمجھ میں نہ آیا کہ کس ارادہ اور نیّت سے جانا چاہتے ہیں اس لئے پھر ارادہ ترک کیا حتی کہ سفر کا خیال غالب آیا اور آپ جب اسے مغلوب نہ کرسکے تواس کو ایک تحریک ِالٰہی خیال کرکے نکل پڑے اور ایک طرف کو چلے.آگے جا کر دیکھتے ہیں کہ ایک درخت کے تلے ایک شخص بے دست وپا پڑا ہے.اس نے ان کو دیکھتے ہی کہا کہ اے جنید! میں کتنی دیر سے تیرا منتظر ہوں تو دیر لگا کر کیوں آیا.تب آپ نے کہا کہ اصل میں تیری ہی کشش تھی جو مجھے بار بار مجبور کرتی تھی تو اسی طرح ہر ایک اَمر میں ایک کشش قضا وقدر کی مقدر ہوتی ہے وہ پوری نہ ہولے تو آرام نہیں آتا.آپ سفر کریں تودین کی نیت سے کریں دنیا کی نیت سے جو سفر ہوتا ہے وہ گناہ ہوتا ہے اور انسان تب ہی درست ہوتا ہے کہ ہر ایک بات میں کچھ نہ کچھ اس کا رجوع دین کا ہووے.ہر ایک مجلس میں اس نیت سے جاوے کہ کچھ پہلو دین کا حاصل ہو.حدیث شریف میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے مکان بنایا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس نے عرض کیا کہ آپ وہاں تشریف لے چلیں تو آپ کے قدموں سے برکت ہو.جب وہاں حضرتؐگئے تو آپ نے ایک دریچہ دیکھا
پوچھا کہ یہ کیوں رکھا ہے اس نے عرض کی کہ ہوا ٹھنڈی آتی رہے.پھر آپ نے فرمایا کہ اگر تو یہ نیت کر لیتا کہ اذان کی آواز سنائی دے تو ہوا بھی ٹھنڈی آتی رہتی اور ثواب بھی ملتا.سفر سے پہلے استخارہ اور اس کا طریق پھر حضرت اقدس نے فرمایا کہ آپ استخارہ کر لیویں.استخارہ اہلِ اسلام میں بجائے مہورت کے ہے چونکہ ہندو شرک وغیرہ کے مرتکب ہو کر شگن وغیرہ کرتے ہیں اس لئے اہلِ اسلام نے ان کو منع کر کے استخارہ رکھا.اس کا طریق یہ ہے کہ انسان دو رکعت نماز نفل پڑھے.اوّل رکعت میں سورۃ قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ (الکافرون:۲) پڑھ لے اور دوسری میں قُلْ هُوَ اللّٰهُ(الاخلاص:۲) التحیات میں یہ دعا کرے.’’یا الٰہی! میں تیرے علم کے ذریعے سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت سے قدرت مانگتا ہوں کیونکہ تجھی کو سب قدرت ہے مجھے کوئی قدرت نہیں اور تجھے سب علم ہے مجھے کوئی علم نہیں اور تو ہی چھپی باتوں کو جاننے والا ہے الٰہی اگر تو جانتا ہے کہ یہ اَمر میرے حق میںبہتر ہے بلحاظ دین اور دنیا کے تو تُو اسے میرے لئے مقدر کر دے اور اسے آسان کر دے اور اس میں برکت دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ اَمرمیرے لئے دین اور دنیا میں شر ہے تو مجھ کو اس سے باز رکھ.‘‘ اور اگر وہ اَمر اس کے لئے بہتر ہوگا تو خدا تعالیٰ اس کے لئے اس کے دل کو کھول دے گا ورنہ طبیعت میں قبض ہو جائے گی.دل بھی عجیب شَے ہے جیسے ہاتھوں پر انسان کا تصرّف ہوتا ہے کہ جب چاہے حرکت دے.دل اس طرح اختیار میں نہیں ہوتا.اس پہ اﷲ تعالیٰ کا تصرّف ہے.ایک وقت میں ایک بات کی خواہش کرتا ہے پھر تھوڑی دیر کے بعد اسے نہیں چاہتا.یہ ہوائیں اندر سے ہی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے چلتی ہیں.۱
ایک حق جُو پنڈت سے مکالمہ دو تین روز سے لاہور کے ایک معزز اور قدیمی رئیس خاندان کے ایک پنڈت صاحب دارالامان میں تشریف لائے ہوئے تھے حضرت اقدس کی زیارت اور آپ سے استفادہ ان کامنشا تھا.۲۶؍دسمبر کی شام کو حضرت مسیح موعود ؑ سے ان کا جو مکالمہ ہوا اسے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں.گناہ سوز فطرت کیوں کر پیدا ہو حضرت اقدسؑ.آپ نے کون کون سی کتاب دیکھی ہے؟ پنڈت صاحب.مثنوی مولانا روم صاحب اپنشد اور کئی مذہبی فقراء کی کتابیں مگر انسان کا اپنے نفس پر قابو پانا مشکل ہے یہ بالضرور انسان کو گناہ کی طرف لے جاتا ہے.حضرت اقدسؑ.اصل بات یہ ہے کہ جس طرح طبیب کے پاس کوئی بیمار جاتا ہے تو اس وقت تک وہ اس کا علاج نہیں کرسکتا جب تک وہ یہ تشخیص نہ کرلے کہ مرض کا اصلی سبب کیا ہے؟ اور جب وہ مرض کا سبب اصلی معلوم کر لیتا ہے تو پھر وہ اس کا علاج تجویز کرتا ہے.لیکن جب تک پورے پورے طور پر مرض کی تشخیص نہیں ہولیتی تو وہ عمدہ طور پر اس کا علاج نہیں سوچ سکتا.ٹھیک یہی حال گناہ کا ہے کیونکہ گناہ ایک روحانی بیماری ہے جب تک اس کی ماہیت معلوم نہیں ہوتی اس وقت تک انسان گناہ سے بچ نہیں سکتا.اس پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ انسان گناہ کی طرف کیوں جھکتا ہے اور یہ گناہ کا خیال پیدا ہی کیوں ہوتا ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ عام طور پر دیکھاجاتا ہے کہ اس وقت تک انسان گناہ کرتا ہے جب تک وہ خدا سے بے خبر رہتا ہے بھلا کیا کوئی شخص جو چوری کرتا ہے وہ اس وقت کرتا ہے جبکہ گھر کامالک جاگتا ہو اور روشنی بھی ہو یا اس وقت کرتا ہے جبکہ مالک سویا ہوا ہو اور ایسا اندھیرا ہو کہ کچھ دکھائی نہ دیتا ہو؟ صاف ظاہر ہے کہ وہ اسی وقت چوری کرتا ہے جب وہ یقین کرتا ہے کہ مالک بے خبر ہے اور روشنی نہیں ہے.اسی طرح پر ایک شخص جو گناہ کرتا ہے وہ اس وقت کرتا ہے جبکہ خدا سے بے خبر ہو جاتا ہے اور اس کو اس پر کچھ یقین نہیں ہوتا نہ اس وقت جبکہ اسے یقین ہو کہ خدا ہے.اور وہ اس کے اعمال کو دیکھتا ہے اور اس کو سزا دے سکتا ہے اور یہ علم ہو کہ اگر میں کوئی کام اس کی خلافِ مرضی کروں گا تو وہ اس کی سزا دے گا.جب یہ علم اور یقین خدا کی نسبت ہو تو پھر گناہ
کی طرف میل اور توجہ نہیں ہوسکتی.جب انسان یہ یقین رکھتا ہے کہ میں ہمیشہ اس کے ماتحت ہوں اور وہ میری بد اعمالیوں کی سزا دے سکتا ہے اور میرے اعمال کو دیکھتا ہے پھر جرأت نہیں کر سکتا جیسے ایک بھیڑ کو بھیڑیئے کے سامنے باندھ دیا جاوے تو کسی دوسرے کے کھیت کی طرف جانا درکنار اس کے سامنے کتنا ہی گھاس کھانے کے لئے ڈالا جاوے تو وہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گی کیونکہ ایک خوف جان اس پر غلبہ کئے ہوئے ہے.پس جبکہ خوف ایک وحشی جانور تک اپنا اتنا اثر کر سکتا ہے کہ وہ کھانا تک چھوڑ دیتا ہے تو پھر انسان جب اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سامنے اسی طرح سمجھے اور یقین کرے کہ وہ دیکھتا ہے اور گناہ پر سزا دیتا ہے تو اس یقین کے بعد گناہ کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتا بلکہ وہ یقین رکھتا ہے کہ وہ صاعقہ کی طرح اس پر گرے گا اور تباہ کر دے گا.پس یہ خوف جو خدا تعالیٰ کو بزرگ و برتر اور قدرت والا ماننے سے پیدا ہوتا ہے اس کو گناہ سے بچائے گا اور یہ سچا ایمان پیدا کرے گا.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گناہ دو قسم کے ہوتے ہیں.گناہِ کبیرہ وصغیرہ ایک گناہ کبیرہ کہلاتے ہیں جیسے چوری کرنا، زنا، ڈاکہ وغیرہ جو موٹے موٹے گناہ کہلاتےہیں.دوسرے صغیرہ جو بلحاظ بشریت کے انسان سے سرزد ہو جاتے ہیں باوجود یکہ انسان اپنے آپ میں بڑا ہی بچتا اور محتاط رہتا ہے مگر بشریت کے تقاضے سے بعض ناسزا امور اس سے سرزد ہوجاتے ہیں.جو دوسری قسم کے گناہ ہیں.اسی طرح پر گناہ کے دور ہونے کے بھی دو ذریعے ہیں.اوّل وہ ذریعہ ہے کہ بہت سے گناہ ایسے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے غلبہ خوف کے سبب سے دور ہو جاتے ہیں یعنی استیلاء خوفِ الٰہی بھی ایک ایسی شَے ہے جو گناہوں کو دور کرتی ہے اور ان سے بچاتی ہے.یہ ذریعہ ایسا ہے جیسے پولیس کے خوف سے انسان قانون کی خلاف ورزی سے بچتا ہے.پھر دوسرا ذریعہ گناہوں سے بچنے کا یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت پر اطلاع پانے کے بعد اس کی محبت بڑھتی ہے اور پھر اس محبت سے گناہ دور ہوتے ہیں.ان دونوں ذریعوں سے بھی گناہ دور ہوتے ہیں.ایک اور قسم کے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ گناہ ان سے سرزد نہ ہو مگر وہ کچھ ایسے غفلت میں پڑ
جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ گناہ ہو ہی جاتے ہیں لیکن یہ اَمر انسان کی فطرت اور رگ و ریشہ میں رچا ہوا ہے کہ وہ شدّتِ خوف سے بچتا ہے جیسے میں نے کہا کہ شیر کے سامنے اگر بکری کو باندھ دیں تو گھاس نہیں کھا سکتی یا حاکم کے سامنے کوئی انسان اکڑ کر کھڑا نہیں ہو سکتا بلکہ وہ اس کے سامنے نہایت عاجزی اور احتیاط سے خاموش کھڑا ہوگا.یہ احتیاط اور عجز، خوف اور حاکم کے رُعب اور حکومت کا نتیجہ ہے لیکن یہی نتیجہ محبت سے بھی پیدا ہوتا ہے جب ایک شخص اپنے محسن کے سامنے جاتا ہے تو وہ اس کے احسان کو یاد کرکے خود بخود نرم اور محتاط ہو جاتا ہے اور ایک حیا اس کی آنکھوں میں پیدا ہوتا ہے.محسن کے ساتھ محبت بڑھتی ہے جیسے کوئی شخص کسی کا قرضہ ادا کردے تو وہ اس سے کس قدر محبت کرتا ہے پھر اس محبت کے تقاضے سے وہ اس کی خلاف ورزی اور خلاف مرضی کرنا نہیں چاہتا یہ فرمانبرداری اور اطاعت محبت ذاتی سے پیدا ہوتی ہے اسی طرح پر انسان کو اگر خدا تعالیٰ کے ان احسانات کا علم ہوجو اس پر اس نے کئے ہیں تو وہ اس کی محبت ذاتی کی وجہ سے گناہوں سے بچے گا اور پھر کوئی تحریک اس طرف نہیں لے جا سکتی اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے کوئی بادشاہ کسی ماں کو حکم دیوے کہ اگر تم اس بچے کو دکھ دو گی اور دودھ نہ دو گی یہاں تک کہ اگر وہ بچہ مَر بھی جاوے تو تم کو کوئی سزا نہ ملے گی بلکہ ہم انعام دیں گے تو وہ ہرگز ہرگز اس حکم کی تعمیل نہ کرے گی اور ایسا کرنا پسند نہیں کرے گی.اس لئے کہ اس کی فطرت میں بچہ کے ساتھ محبت کا ایک جوش ہے اور یہ جوش محبت ذاتی کا جوش ہے پس انسان جب خدا تعالیٰ کے ساتھ اس قسم کی محبت کرنے لگتا ہے تو پھر اس سے جو نیکیاں صادر ہوتی ہیں اور وہ گناہوں سے بچتا ہے تو وہ کسی طمع یا خوف سے نہیں بلکہ اسی محبت ذاتی کے تقاضے سے.محبت ذاتی کا یہ نشان ہے کہ اگر محبت ذاتی والے کو یہ بھی معلوم ہو جاوے کہ اس کے اعمال کی پاداش میں اس کو بجائے بہشت کے دوزخ ملے گا یا اسے معلوم ہو کہ ان پر کوئی نتیجہ مرتّب نہ ہوگا اور بہشت دوزخ کوئی چیز ہی نہیں جس کے خوف یا جس کی طمع کے لئے وہ احکام کی بجا آوری کرے تب بھی اس کی محبت میں کوئی فرق نہ آئے گا کیونکہ یہ خوف اور رجا کے پہلوئوں کو دور کر کے فطرت کا رنگ پیدا کرتی ہے.محبت ذاتی کا یہ خاصہ ہے کہ جب انسان کے اندر نشوونما پاتی ہے تو ایک آگ پیدا کر
دیتی ہے جو اندر کی نجاستوں کو جلا کر صاف کرتی ہے یہ آگ ان نجاستوں کو جلاتی ہے جن کو بیم و رجا جلا نہ سکتے تھے.پس یہ مقام انسان کے لئے تکمیل کا مقام ہے اور اس جگہ تک اسے پہنچنا ضروری ہے.پنڈت صاحب.میں خدا کامنکر نہیں ہوں اور نہ اس کے بندہ ہونے کامنکر.حضرت اقدسؑ.بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان دو قسم کا ہے ایک وہ ایمان ہے جو صرف زبان تک محدود ہے اور اس کا اثر افعال اور اعمال پر کچھ نہیں.دوسری قسم ایمان باﷲ کی یہ ہے کہ عملی شہادتیں اس کے ساتھ ہوں.پس جب تک یہ دوسری قسم کا ایمان پیدا نہ ہو مَیں نہیں کہہ سکتا کہ ایک آدمی خدا کو مانتا ہے یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کو مانتا بھی ہو اور پھر گناہ بھی کرتا ہو.دنیا کا بہت بڑا حصہ پہلی قسم کے ماننے والوں کا ہے.میں جانتا ہوں کہ وہ لوگ اقرار کرتے ہیں کہ ہم خدا کو مانتے ہیں مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس اقرار کے ساتھ ہی وہ دنیا کی نجاستوں میں مبتلا اور گناہ کی کدورتوں سے آلودہ ہیں پھر وہ کیا بات ہے کہ وہ خاصہ جو ایمان باﷲ کا ہے اس کو حاضر ناظرمان کر پیدا نہیں ہوتا؟ دیکھو! انسان ایک ادنیٰ درجہ کے چوہڑے چمار کو حاضر ناظر دیکھ کر اس کی چیز نہیں اٹھاتا پھر اس خدا کی مخالفت اور اس کے احکام کی خلاف ورزی میں دلیری اور جرأت کیوں کرتا ہے جس کی بابت کہتا ہے کہ مجھے اس کا اقرار ہے؟ میں اس بات کو مانتا ہوں کہ دنیا کے اکثر لوگ ہیں جو اپنی زبان سے اقرار کرتے ہیں کہ ہم خدا کو مانتے ہیں کوئی پر میشر کہتا ہے کوئی گاڈ کہتا ہے کوئی اور نام رکھتا ہے.مگر جب عملی پہلو سے ان کے اس ایمان اور اقرار کا امتحان لیا جاوے اور دیکھا جاوے تو کہنا پڑے گا کہ وہ نرا دعویٰ ہے جس کے ساتھ عملی شہادت کوئی نہیں.انسان کی فطرت میں یہ اَمر واقع ہے کہ وہ جس چیز پر یقین لاتا ہے اس کے نقصان سے بچنے اور اس کے منافع کو لینا چاہتا ہے دیکھو! سنکھیا ایک زہر ہے اور انسان جبکہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ اس کی ایک رَتی بھی ہلاک کرنے کو کافی ہے تو کبھی وہ اس کو کھانے کے لئے دلیری نہیں کرتا اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ اس کا کھانا ہلاک ہونا ہے پھر کیوں وہ خدا تعالیٰ کو مان کر ان نتائج کو پیدا نہیں کرتا جو ایمان باﷲ کے ہیں.اگر سنکھیا کے برابر بھی اﷲ تعالیٰ پر ایمان ہو تو اس کے جذبات اور جوشوں پر موت وارد ہو
کی مرض ہے جو خطرناک ہے.مرض دو قسم کی ہوتی ہے ایک مرض مختلف ہوتی ہے یہ وہ ہوتی ہے جس کا درد محسوس ہوتا ہے جیسے درد سر یا درد گردہ وغیرہ.دوسری قسم کی مرض مرض مستوی کہلاتی ہے اس مرض کا درد محسوس نہیں ہوتا اور اس لئے مریض ایک طرح اس کے علاج سے تساہل اور غفلت کرتا ہے جیسے برص کا داغ ہوتا ہے بظاہر اس کا کوئی درد یا دکھ محسوس نہیں ہوتا لیکن آخر کو یہ خطرناک نتائج پیدا کرتا ہے پس خدا پر ایسا ایمان جو عملی شہادتیں ساتھ نہیں رکھتا ہے ایک قسم کی مرض مستوی ہے.صرف رسم و عادت کے طور پر مانتا ہے یا یہ کہ باپ دادا سے سنا تھا کہ کوئی خدا ہے اس لئے مانتا ہے اپنی ذات پر محسوس کرکے کب اس نے اس کا اقرار کیا.یہ اقرار جس دن اس رنگ میں پیدا ہوتا ہے ساتھ ہی گناہوں کے میل کچیل کو جلا کر صاف کر دیتا ہے اور اس کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں جب تک آثار ظاہر نہ ہوں وہ ماننا نہ ماننا برابر ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ یقین نہیں ہوتا اور یقین کے بغیر ثمرات ظاہر نہیں ہو سکتے دیکھو جن خطرات کا انسان کو یقین ہوتا ہے ان کے نزدیک ہرگز نہیں جاتا مثلاً یہ خطرہ ہو کہ گھر کا شہتیر ٹوٹا ہوا ہے تو وہ کبھی اس کے نیچے جانے اور رہنے کی دلیری نہ کرے گا یا یہ معلوم ہو کہ فلاں مقام پر سانپ رہتا ہے اور وہ رات کو پھرا بھی کرتا ہے تو کبھی یہ رات کو اٹھ کر وہاں نہ جائے گا کیونکہ اس کے نتائج کا قطعی اور یقینی علم رکھتا ہے پس اگر خدا کو مان کر ایک پیسہ کے سنکھیا جتنا بھی اثر اور یقین نہیں ہوتا تو سمجھ لو کہ کچھ بھی نہیں مانتا اور اصل یہ ہے کہ ساری خرابی کی جڑھ گیان کی کوتاہی ہے.پنڈت صاحب.میرا اصل منشا تو یہ ہے کہ خدا کی ہستی پر تو ایمان ہے مگر پھر بھی گناہ ہوتے ہیں.حضرت اقدسؑ.آپ کیوں کہتے ہیں کہ ایمان ہے.ایمان تو انسان کے نفسانی جذبات کو مُردہ کردیتا ہے اور گناہ کی قوتوں کوسلب کر دیتا ہے.آپ کو یہ سوال کرنا چاہیے کہ گناہ سے بچنے کا علاج کیا ہے؟ میں یہ کبھی نہیں مان سکتا کہ ایمان بھی ہو اور گناہ بھی ہو.ایمان روشنی ہے اس کے سامنے گناہ کی ظلمت رہ نہیں سکتی بھلا یہ کبھی ہو سکتا ہے کہ دن بھی چڑھا ہوا ہو اور رات کی تاریکی بھی بدستور موجود ہو یہ نہیں ہوسکتا.پس اصل سوال یہ رہ جاتا ہے کہ گناہ سے کیوں کر بچیں اس کا علاج وہی ہے جو میں نے بیان کر دیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ پر سچا ایمان پیدا ہو.
پنڈت صاحب.بے شک میرا یہ کہنا کہ خدا کو مانتا ہوں اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے.حضرت اقدس.پس یہی اصل بات ہے جب تک عملی شہادتیں ساتھ نہ ہوں یہ نفس کا دھوکا ہے جو کہتا ہے کہ مانتا ہوں سچا ایمان گناہ کو باقی نہیں رہنے دیتا اور سچا ایمان پیدا کیوں کر ہوتا ہے؟ آپ یاد رکھیں جو مریض طبیب کے پاس جاتا ہے تو طبیب اس کی مرض کو تشخیص کر کے ایک علاج اس کا بتا دیتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ بیمار کو متنبہ کر دے علاج کرنا نہ کرنا یہ مریض کا اپنا اختیار ہے وہ یہ بتادے گا کہ داغ لگانے کی جگہ ہے تو داغ دویا جونک لگائو وغیرہ یعنی جو علاج ہو وہ بتا دے گا اسی طرح پر ہم اصل علاج بتادیتے ہیں کرنا نہ کرنا ہر شخص کے اپنے اختیار میں ہے.پس اصل بات یہ ہے کہ جیسے خدا تعالیٰ ان آنکھوں سے نظر نہیں آتا ہے اور نہ ان حواس سے ہم اس کو محسوس کر سکتے ہیں کیونکہ اگر وہ ان محسوسات میں سے ہوتا جن کے لئے یہ حواس ہیں تو بے شک وہ نظر آجاتا یا محسوس ہو سکتا مگر ان حواس میں سے کوئی حِس اس کے لئے بِکار نہیں.اس کی شناخت کے خاص وسائل ہیں اور اور حواس ہیں گو حکیموں، برہموئوں اور فلاسفروں نے بجائے خود ٹکریں ماری ہیں لیکن وہ سب غلطیوں میں مبتلا ہیں اور وہ ایمان جو انسان کی زندگی میں ایک حیرت انگیز تبدیلی پیدا کر دیتا ہے ان کو نصیب نہیں ہوا جب خودا ن کی یہ حالت ہے تو وہ دوسروں کے لئے ہادی اور رہنما کیوں کر ہو سکتے ہیں جو خود مشکلات میں مبتلا ہیں اور جن کو خود سکینت اور اطمینان نصیب نہ ہو وہ اوروں کے لئے کیا اطمینان کاموجب ہوں گے.اس سلسلہ کی راہ کے چراغ دراصل انبیاء علیہم السلام ہیں.پس جو شخص چاہتا ہے کہ وہ نورِ ایمان حاصل کرے اس کا فرض ہے کہ اس راہ کی تلاش کرے اور اس پر چلے بدوں اس کے ممکن نہیں کہ وہ معرفت اور سچا گیان مل سکے جو گناہ سے بچاتا ہے اور ہر ایک شخص فیصلہ کرسکتا ہے کہ کس شَے کامتبوع اس وقت حقیقی ایمان اور گیان پیدا کر دیتا ہے.یہ سچ ہے کہ جب انسان سچائی پر قدم مارنے لگتا ہے تو اس کو مشکلات اور ابتلا پیش آتے ہیں برادری اور قوم کا ڈر اسے دھمکاتا ہے لیکن اگر وہ فی الحقیقت سچائی سے پیار کرتا ہے اور اس کی قدر کرتا ہے تو وہ ان ابتلائوں سے نکل جاتا ہے ورنہ
ابتلا اس کا نفاق ظاہر کر دیتا ہے.مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ دیوانہ بنے کسی ننگ وعار کی سچائی کے لئے پروا نہ کرے جب تک وہ ان قیود کا پابند ہے وہ مومن نہیں ہو سکتا.؎ از عمل ثابت کن آں نورے کہ در ایمان تُست دل چو دادی یوسفے را راہِ کنعاں را گزیں ۱ ۲۷؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز شنبہ(بوقتِ ظہر) دربار دہلی کے موقع پر میموریل کی اشاعت اس وقت حضرت اقدس تشریف لائے تو مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے عرض کی کہ دربار دہلی پر جو میموریل روانہ کرنا ہے وہ طبع ہو کر آگیا ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حکم دیا کہ اسے کثرت سے تقسیم کیا جاوے کیونکہ اس سے ہماری جماعت کی عام شہرت ہوتی ہے اور ہمارے اصولوں کی واقفیت اعلیٰ حکّام کو ہوتی ہے اور ان کی اشاعت ہوتی ہے.(بوقتِ عصر) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ایک پادری کی تصنیف اس وقت حضرت اقدس تشریف لائے حضور کو خبر دی گئی کہ ایک پادری صاحب بنام گر سفورڈ نے ایک کتاب اپنے زُعم میں آپ کے دعاوی کی تردید میں لکھی ہے اس کا نام رکھا ہے ’’میرزا غلام احمد قادیان کامسیح اور مہدی‘‘ مگر حضور کے دعوے اور دلائل کو خوب مفصّل بیان کیا ہے اور اس کی اشاعت امریکہ میں بہت کی گئی ہے اس پر ذکر ہوتا رہا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک اشاعت کا ذریعہ بنایا ہے اس کی وہی مثال ہے کہ ع عدو شود سبب خیر گر خدا خواہد حضرت اقدس نے فرمایا کہ
پھر تو ہم کو بھی ضرور لکھنا چاہیے جب انہوں نے بطور ہدیہ کے کتاب ہمیں بھیجی تو ہمیں بھی ہدیہ بھیجنا چاہیے یہ خدا کے کام ہیں.مخالفوں کی توجہ سے بہت کام بنتا ہے میں نے آزمایا ہے کہ جہاں مخالف ٹھوکر کھاتا ہے وہاں ہی ایک بڑی حکمت کی بات ہوتی ہے.جو بات سمجھ نہ آئے دریافت کر لینی چاہیے حسب دستور بعد ادائے نماز مغرب حضرت اقدس قبل از نماز عشاء تشریف لائے.ایک خادم کی نسبت ایک شخص کو غلط فہمی ہوئی تھی کہ اس نے نعوذباﷲ حضرت کے کسی فعل پر اعتراض کیا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا جب اس بیچارے کو خبر ہوئی تو اس نے مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کی خدمت میں آکر اصل واقعہ بتلایا اور عرض کی کہ راوی کو غلط فہمی ہوئی ہے ورنہ میرا ایمان ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہر ایک فعل، فعلِ الٰہی ہے جس پر اعتراض کرنا سخت درجہ کا کفر اور ضلالت ہے مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے اٹھ کر اصل واقعہ حضرت اقدس کی خدمت میں گذارش کیا اور خود اس خادم نے بھی عرض کی جس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ اوائل میں جماعت میں ایسی بات ہوا کرتی ہے اسی طرح جب پیغمبر خدا مدینہ میں تشریف لائے تو آپ نے کچھ زمین ایک صحابی سے خریدنی چاہی تو اس نے کہا کہ میں نے اپنے لڑکوں کے لئے رکھی ہے حالانکہ سب کچھ تو آپ کے ہاتھ پر فروخت کر چکا ہوا تھا لیکن آخر وہی اصحاب تھے کہ جنہوں نے سب دینی ضرورتوں کو مقدم رکھا اور اپنی جانوں تک کو قربان کر دیا.ہماری جماعت کو چاہیے کہ ہمیشہ خیال رکھے کہ بعض امور تو سمجھ میں آسکتے ہیں اور بعض نہیں آسکتے تو جو سمجھ میں نہ آیا کریں ان کو پسِ پُشت نہ کیا جاوے وہ دریافت کر لینے چاہئیں.نیکی اسی کا نام ہے ورنہ حبطِ اعمال ہو جاتا ہے یہ ہمارا معاملہ اور کاروبار سب خدا کا ہے ہمارے نفس کو اس میں دخل نہیں ہم نے اس خطا کو بخشا اور معاف کیا.۱
۲۸؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز یکشنبہ(بوقتِ ظہر ) ہر ایک ہلاکت کی راہ سے پرہیز کیا جائے مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک احمدی بھائی کی طرف حضرت اقدس کی توجہ دلائی دلائی کہ جن کے دانت میں کرکٹ کھیلنے سے ضرب آگئی تھی اور نیچے کا لب بالکل پھٹ گیا تھا حضرت اقدس نے فرمایا کہ تعجب ہے کہ دیدہ دانستہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا جاتا ہے اس جگہ کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ ہر ایک قسم کے شر اور بدعت میں اپنے آپ کو ڈالا جاوے بلکہ یہ کہ ہر ایک ہلاکت کی راہ سے پرہیز کیا جاوے.لیاقتِ علمی اور شَے ہے.کیا اگر انسان کو کوئی کھیل نہ آتی ہو تو اس کی لیاقت میں فرق آوے گا جن لوگوں کی یہ کھیل ایجاد ہے وہ تو مست ہیں ان کو تلف جان کی پروا نہیں مگر ہمیں تو پروا ہے.(بوقتِ مغرب ) تعبیر رئویا میں ناموں کا بڑا دخل ہے چند ایک احباب نے اپنی اپنی رئویا سنائی، ناموں کی نسبت آپ نے فرمایا کہ خوابوں میں ناموں کے الفاظ پر بڑا مدار ہوتا ہے تفائول کے واسطے ہمیشہ نام کے معانی کی طرف غور کرنی چاہیے.لمبا سلسلہ نہ دیکھے نام کو دیکھ لیوے.خواب میں دشمن سے بھاگنے کی تعبیر خواب میں دشمن سے بھاگنا.اس پر فرمایا کہ اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ دشمن پر فتح ہوگی.اس کی نظیر میں معبروں نے موسٰی کے قصہ کو پیش کیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام فرعون سے بھاگے وہ دشمن تھا انجام کار آپ ہی فرعون پر غالب آئے.۱
۲۷ ؍دسمبر۱۹۰۱ء بعد از نمازِ عصر تقریر مامور من اللہ کی باتیں توجہ سے سننی چاہئیں سب کو متوجہ ہو کر سننا چاہیے اور پورے غوراور فکر کے ساتھ سنو کیونکہ یہ معاملہ ایمان کا معاملہ ہے.اس میں غفلت، سستی اور عدم توجہ بہت بُرے نتیجے پیدا کرتی ہے.جو لوگ ایمان میں غفلت سے کام لیتے ہیںا ورجب ان کو مخاطب کر کے کچھ بیان کیا جاوے تو غور سے اس کو نہیں سنتے ہیں.ان کو بو لنے والے کے بیان سے خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ درجہ کا مفید اور مؤثر کیوں نہ ہو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا.ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ کان رکھتے ہیں مگر سنتے نہیں.دل رکھتے ہیں پر سمجھتے نہیں.پس یاد رکھو کہ جو کچھ بیان کیا جاوے اُسے توجہ اور بڑی غور سے سنو کیونکہ جو توجہ سے نہیں سنتا ہے وہ خواہ عرصہ دراز تک فائدہ رساں وجود کی صحبت میں رہے اسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.جب خدا تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو دنیا میں مامور کر کے بھیجتا ہے تو اس وقت دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک وہ جو ان کی باتوں پر توجہ کرتے اور کان دھرتے ہیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اسے پورے غور سے سنتے ہیں.یہ فریق وہ ہوتا ہے جو فائدہ اٹھاتا ہے اور سچی نیکی اور اس کے برکات و ثمرات کو پالیتا ہے.دوسرا فریق وہ ہوتا ہے جو اُن کی باتوں کو توجہ اور غور سے سننا تو ایک طرف رہا اُن پر ہنسی کرتے اور اُن کو دکھ دینے کے لیے منصوبے سوچتے اور کوششیں کرتے ہیں.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو اس وقت بھی اسی قاعدہ کے موافق دو فریق تھے.ایک وہ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو سنا اور پورے غور سے سنا اور پھر آپؐکی باتوں سے ایسے متاثر ہوئے اور آپؐپر ایسے فدا ہوئے کہ والدین اور اولاد، احباء اور اعزّا
سے خارج ہو کر اعتراض کرے گا.عرب صاحب نے حضرت حجۃاﷲ کے جذب کا تذکرہ کیا اور کہا کہ میں ۱۸۹۴ء میں لاہور آیا.جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے مجھے ایک کتاب آپ کی تصدیق میں اور ایک مولوی نے آپ کی تردید میں دی مگر میں نے دونوں وہیں کسی کو دے دیں اور پروا نہ کی.مجھے کہا گیا کہ قادیان آئوں مگر میں نہ آیا اور اب خدا کی شان ہے کہ وہ اس قدر فاصلہ (رنگون) سے مجھے لایا اور اس قدر خرچ کثیر کے بعد مجھے آنا پڑا.معرفتِ الٰہی سے نماز میں ذوق پیدا ہوتا ہے عرب صاحب نے عرض کیا کہ میں نماز پڑھتا ہوں مگر دل نہیں ہوتا.فرمایا.جب خدا کو پہچان لو گے تو پھر نماز ہی نماز میں رہو گے.دیکھو! یہ بات انسان کی فطرت میں ہے کہ خواہ کوئی ادنیٰ سی بات ہو جب اس کو پسند آجاتی ہے تو پھر دل خواہ نخواہ اس کی طرف کھنچاجاتا ہے اسی طرح پر جب انسان اﷲ تعالیٰ کو شناخت کر لیتا ہے اور اس کے حسن واحسان کو پسند کرتا ہے تو دل بے اختیار ہو کر اسی کی طرف دوڑتا ہے اور بے ذوقی سے ایک ذوق پیدا ہو جاتا ہے اصل نماز وہی ہے جس میں خدا کو دیکھتا ہے اس زندگی کامزہ اسی دن آسکتا ہے جبکہ سب ذوق اور شوق سے بڑھ کر جو خوشی کے سامانوں میں مل سکتا ہے تمام لذّت اور ذوق دعا ہی میں محسوس ہو.یاد رکھو کوئی آدمی کسی موت و حیات کا ذمہ وار نہیں ہوسکتا خواہ رات کو موت آجاوے یا دن کو.جو لوگ دنیا سے ایسا دل لگاتے ہیں کہ گویا کبھی مَرنا ہی نہیں وہ اس دنیا سے نامُراد جاتے ہیں وہاں ان کے لئے خزانہ نہیں ہے جس سے وہ لذّت اور خوشی حاصل کر سکیں.جہنم و جنّت کی حقیقت انسان جس لذّت کا خوگرفتہ اور عادی ہو جب وہ اس سے چھڑائی جاوے تو وہ ایک دکھ اور درد محسوس کرتا ہے اور یہی جہنم ہے پس جبکہ ساری لذّتیں دنیا کی چیزوں میں محسوس کرنے والا ہوتو ایک دن یہ ساری لذتیں تو چھوڑنی پڑیں
گی پھر وہ سید ھا جہنم میں جاوے گا.لیکن جس شخص کی ساری خوشیاں اور لذّتیں خدا میں ہیں اس کو کوئی دکھ اور تکلیف محسوس نہیں ہوسکتی وہ اس دنیا کو چھوڑتا ہے تو سیدھا بہشت میں ہوتا ہے.دل اﷲ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں اصل بات یہ ہے کہ دل اﷲ کے اختیار میں ہے وہ جس وقت چاہتا ہے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے اور اس کو سمجھ آجاتی ہے کہ سچا سرور اور خوشحالی اس میں ہے کہ خدا کو پہچانا جاوے دیکھو! میں اس وقت یہ بات تو کر رہا ہوں مگر میرے اختیار میںیہ بات نہیں ہے کہ دلوں تک اس کو پہنچا بھی دوں یہ خداہی کا کام ہے جو دلوں کو زندہ کرتا ہے اور بیدار کرتا ہے.باقی تمام جوارح آنکھ، ہاتھ، وغیرہ ایسے ہیں جو انسان کے اختیار میں ہیں.مگر دل اس کے اختیار میں نہیں ہے اس وقت تک اپنے آپ کو مسلمان نہیں سمجھنا چاہیے جب تک دل مسلمان نہ ہو جاوے اور دل مسلمان نہیں ہوتا جب تک وہ لہو ولعب سے لذّت حاصل کرتا ہے اس کے مسلمان ہونے کا وہی وقت ہے جب وہ دنیوی حیثیت سے دل برداشتہ ہو گیا ہے اور دنیا کی لذّتیں اور خوشیاں ایک تلخی کا رنگ دکھائی دیتی ہیں جب یہ حالت ہو تو پھر انسان اپنے آپ کو مشاہدہ کرتا ہے کہ میں وہ نہیں رہا ہوں بلکہ اور ہو گیا ہوں پھر دل میں ایک کشش پاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی یاد میں لذّت حاصل کرتا ہے اور ایسی محبت اسے نماز سے ہو جاتی ہے جیسے کسی اپنے عزیز کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے یہ ہے اصل جڑھ ایمان کی.مگر یہ انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہے ہم اس بات کا نمونہ نہیں بتاسکتے اور نہ الفاظ میں اس کو سمجھا سکتے ہیں کیونکہ الفاظ حقیقت کے قائم مقام نہیں ہوتے اس لئے جب یہ حالت آتی ہے تو پھر انسان اپنی گذشتہ زندگی پر حسرت اور افسوس کرتا ہے کہ وہ یونہی ضائع ہوگئی کیوں پہلے ایسی حالت مجھ پر نہ آئی.نماز کی حقیقت نماز کیا چیز ہے.نماز اصل میں ربُّ العزّۃ سے دعا ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ عافیت اور خوشی کا سامان مل سکتا ہے جب خدا تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اس وقت اسے حقیقی سرور اور راحت ملے گی اس وقت سے اس کو نمازوں میں لذّت
اور ذوق آنے لگے گا جس طرح لذیذ غذائوں کے کھانے سے مزا آتا ہے اسی طرح پھر گریہ وبکا کی لذّت آئے گی اور یہ حالت جو نماز کی ہے پید اہو جائے گی اس سے پہلے جیسے کڑوی دوا کو کھاتا ہے تاکہ صحت حاصل ہو اسی طرح اس بے ذوقی نماز کو پڑھنا اور دعائیں مانگنا ضروری ہیں اس بے ذوقی کی حالت میں یہ فرض کر کے کہ اس سے لذّت اور ذوق پیدا ہو یہ دعا کرے.نماز میں لذّت و ذوق حاصل کرنے کی دعا کہ اے اﷲ تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نابینا ہوں اور میں اس وقت بالکل مُردہ حالت میں ہوں میں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آجائوں گا اس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا لیکن میرا دل اندھا اور ناشناسا ہے تو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا انس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے تو ایسا فضل کر کہ میں نابینا نہ اٹھوں اور اندھوں میں نہ جا ملوں.جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر آئے گا کہ اسی بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رقّت پیدا کردے گی.خدا تعالیٰ کے آسمان میں ہونے کامفہوم عرب صاحب نے عرض کیا کہ خدا آسمان پر ہے؟ فرمایا.اﷲ تعالیٰ ہر چیز کامالک ہے مگر لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى (طٰہٰ : ۹) اس نے اپنے آپ کو عُلُوّ ہی سے منسوب کیا ہے پستی کی طرف اس کو منسوب نہیں کر سکتے سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى (الانعام : ۱۰۱) عُلُوّ کو ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور کشفی صورتوں میں آسمان سے نور نازل ہوتا ہوا دیکھا ہے گو ہم اس کی کنہ اور کیفیت بیان نہ کر سکیں مگر یہ سچی بات ہے کہ اس کو عُلُوّ ہی سے تعلق ہے بعض امور آنکھوں سے نظر آتے ہیں اور بعض نہیں.ہر صورت میں فلسفہ کام نہیں آتا پس اصل بات یہی ہے کہ ایک وقت ایسی حالت انسان پر آتی ہے کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ آسمان سے اس کے دل پر کچھ گرا ہے جو اسے رقیق کر دیتا ہے
اس وقت نیکی کا بیج اس میں بویا جاوے گا.۱ ۲۹؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز دو شنبہ(بوقتِ مغرب) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے توآکر فرمایا کہ روزہ ایک یادو اب رہ گئے ہیں بڑی آسانی سے گذر گئے.بوقتِ ضرورتِ جمع صلوٰتین ایک صاحب نے ذکر کیا کہ ان کا ایک افسر سخت مزاج تھا روانگی نماز میں اکثر چیں بجبیں ہوا کرتا تھا حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ خدا نے ضرورتوں کے وقت جمع صلوٰتین رکھا ہے ظہر اور عصر کی نمازیں ایسی حالتوں میں جمع کر کے پڑھ لیں.پنجابیوں کے ساتھ انگریزوں کا حُسنِ ظن بعض انگریز حکّام کی قدر شناسی پر فرمایا کہ اب زمانہ بدل گیا ہے اور پنجابیوں کے ساتھ انگریزوں کی ساری قوم کا حسن ظن ہے اور بعض ایسے انگریز ہوتے ہیں کہ ان کا ارادہ ہوتا ہے کہ ماتحت کو فائدہ پہنچاویں تا کہ وہ ان کو یاد رکھے.مصر میں تبلیغ ایک احمدی ممبر صاحب حج کرنے کے واسطے جاتے ہوئے کچھ عرصہ مصر میں مقیم رہے اور ابھی تک وہیں ہیں اور حضرت اقدس کی کتب کی اشاعت کر رہے ہیں انہوں نے لکھا تھا کہ اگر حکم ہو تو میں اس سال حج ملتوی رکھوں اور مجھے اور کتب ارسال ہوں تو ان کی اشاعت کروں.حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایاکہ ان کو لکھ دیا جاوے کہ کتابیں روانہ ہوں گی ان کی اشاعت کے لئے مصر میں قیام کریں اور حج انشاء اﷲ تعالیٰ پھر آئندہ سال کریں (مَنْ اَطَاعَ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ)
روحانی سیر کی طرف متوجہ ہوں ابو سعید صاحب عرب کو کمال شوق دلی کے جلسے کا تھا کہ وہاں کی رونق دیکھیں چنانچہ انہوں نے اجازت بھی چاہی تھی اور حضرت اقدس نے اجازت دے بھی دی تھی مگر یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ دعائے استخارہ کر لو دعا سے پھر ایسے اسباب پیدا ہوئے کہ عرب صاحب دلّی جانے سے رک گئے اور آپ ابھی یہاں ہی ہیں.حضرت اقدس نے ان کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ فرمائیے اب دلی جانے کا خیال ہے کہ نہیں؟ عرب صاحب نے جواب میں عرض کی کہ حضور اب تو بالکل جانے کو دل نہیں چاہتا.حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اب دوسری سیروں کو چھوڑ کر روحانی سیر کی طرف متوجہ ہو جاویں یہ آپ کی سعادت کی علامت ہے کہ اتنی دور سے اس جلسہ کے واسطے آئے اور یہاں ٹھہر گئے اور اس قدر مقابلہ نفس کا کیا.ہر ایک کو یہ طاقت نہیں ہوتی کہ جذبِ نفس کے ساتھ کشتی کرے.آپ نے جن کو وہاں جاکر دیکھنا تھا ان کی صورتیں انسانوں کی ہی ہوں گی مگر دل کا کیا پتہ کہ وہ بھی انسانوں کے ہوں گے یا نہ، لوگ باوجود اس کے کہ ابتلائوں میں مبتلا ہیں مگر تکبّر ان کے دماغ سے نہیں گیا ہم سے تمسخر وغیرہ اسی طرح ہے اور دلّی والے پنجابیوں کو تو بیل کہتے ہیں (جس کے معنے پنجابی میں ڈھگا ہے) ان کے خیالوں میں صرف دنیا کی زندگی ہے مگر جو لوگ بہروپیوں کے رنگ میں بولتے ہیں ان کو پاک عقل نہیں ملتی.۱ ۳۱؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز چہار شنبہ (بوقتِ مغرب) حضرت اقدس تشریف لائے ماہِ رمضان کے متعلق فرمایا کہ اب یہ ختم ہوگیا ہے.نمازِ جمعہ کے لئے تین آدمی ہونا ضروری ہیں ایک صاحب نے بذریعہ خط استفسار فرمایا تھا کہ وہ صرف اکیلے ہی اس مقام پر حضرت اقدس سے بیعت ہیں جمعہ تنہا پڑھ لیا کریں یا نہ پڑھا کریں حضرت اقدس نے فرمایا کہ
جمعہ کے لئے جماعت کا ہونا ضروری ہے اگر دو آدمی مقتدی اور تیسرا امام اپنی جماعت کے ہوں تو نماز جمعہ پڑھ لیا کریں وَ اِلَّا نہ (سوائے احمدی احباب کے دوسرے کے ساتھ جماعت اور جمعہ جائز نہیں).شہرت پسندی سے اجتناب ایک صاحب نے عرض کی کہ حضور نے جہلم مقدمہ کی تاریخ پر جانا ہے اگر اجازت ہو تو اشتہار دیدیا جاوے تاکہ ہر ایک اسٹیشن پر لوگ زیارت کے واسطے آجاویں فرمایا کہ جو ہمیں ملنے والے ہیں وہ تو اکثر آتے جاتے رہتے ہیں اور جو لوگ جماعت میں داخل نہیں ہیں ان کے لئے سر درد خرید نے سے کیا فائدہ؟میری طبیعت کے یہ اَمر برخلاف ہے اگر وہ اہل ہوتے تو خود یہاں آتے اب اس طرح ان سے ملاقات تو وقت کا ضائع کرنا ہے.خَلق اور خُلق ایک نووارد صاحب نے عرض کی کہ حضرت خلق کے کیا معنے ہیں؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ خَلق اورخُلق دو لفظ ہیں خَلق تو ظاہری حسن پر بولا جاتا ہے اور خُلق باطنی حُسن پر بولا جاتا ہے باطنی قویٰ جس قدر مثل عقل، فہم، سخاوت، شجاعت، غضب وغیرہ انسان کو دیئے گئے ہیں ان سب کا نام خُلق ہے اور عوام النّاس میں آج کل جسے خُلق کہا جاتا ہے جیسے ایک شخص کے ساتھ تکلّف کے ساتھ پیش آنا اور تصنّع سے اس کے ساتھ ظاہری طور پر بڑی شیریں الفاظی سے پیش آنا تو اس کا نام خُلق نہیں ہے بلکہ نفاق ہے.خُلق سے مُراد یہ ہے کہ اندرونی قویٰ کو اپنے اپنے مناسب مقام پر استعمال کیا جاوے جہاں شجاعت دکھانے کاموقع ہے وہاں شجاعت دکھاوے جہاں صبر دکھانا ہے وہاں صبر دکھاوے.جہاں انتقام چاہیے وہاں انتقام لیوے.جہاں سخاوت چاہیے وہاں سخاوت کرے یعنی ہر ایک محل پر ہرایک قویٰ کو استعمال کیا جاوے نہ گھٹایا جاوے نہ بڑھایا جاوے.یہاں تک کہ عقل اور غضب بھی جہاں تک کہ اس سے نیکی پر استعانت لی جاوے خُلق ہی میں داخل ہے اور صرف ظاہری حواس کا نام
ہی حواس نہیں ہے بلکہ انسان کے اندر بھی ایک قسم کے حواس ہوتے ہیں.ظاہری حواس تو حیوانوں میں بھی ہوتے ہیں جیسے کھانا پینا، دیکھنا، چُھونا وغیرہ مگر اندرونی حواس انسانوں میں ہی ہوتے ہیں مثلاً اگر ایک بکری گھاس کھارہی ہو اوردوسری بکری آجاوے تو پہلی بکری کے اندر یہ ارادہ پیدا نہ ہوگا کہ اسے بھی ہمدردی سے گھاس کھانے میں شریک کرے.اسی طرح شیر میں اگر چہ زور اور طاقت تو ہوتی ہے مگر ہم اسے شجاع نہیں کہہ سکتے کیونکہ شجاعت کے واسطے محل اور بے محل دیکھنا بہت ضروری ہے انسان اگر جانتا ہے کہ مجھ کو فلاں شخص سے طاقت مقابلہ کی نہیں ہے یا اگر میں وہاں جائوں گا تو قتل ہو جائوں گا تو اس کا وہاں نا جانا ہی شجاعت میں داخل ہوگا اور پھر اگر محل اور موقع کے لحاظ سے مناسب دیکھے کہ میرا وہاں جانا ضروری ہے خواہ جان خطرہ میں پڑتی ہو تو اس مقام پر جانے کا نام شجاعت ہے.جاہل آدمیوں سے جو بعض وقت بہادری کا کام ہوتا ہے حالانکہ ان کو محل بے محل دیکھنے کی تمیز نہیں ہوتی اس کا نام تہوّر ہوتا ہے کہ وہ ایک طبعی جوش میں آجاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ یہ کام کرنا چاہیے تھا کہ نہیں.غرضیکہ انسان کے نفس میں یہ سب صفات مثل صبر، سخاوت، انتقام، ہمت، بخل، عدمِ بخل، حسد، عدمِ حسد ہوتے ہیں اور ان کو اپنے محل اور موقع پرصَرف کرنے کا نام خُلق ہے حسد بہت بُری بلا ہے لیکن جب موقع کے ساتھ اپنے مقام پر رکھا جاوے تو پھر بہت عمدہ ہو جاوے گا.حسد کے معنی ہیں دوسرے کا زوالِ نعمت چاہنا لیکن جب اپنے نفس سے بالکل محو ہو کر ایک مصلحت کے لئے دوسرے کا زوال چاہتا ہے تو اس وقت یہ ایک محمود صفت ہوجاتی ہے جیسے کہ ہم تثلیث کا زوال چاہتے ہیں.ملائک اور شیطان کا عقلی ثبوت انسان کے اندر دو ملکہ خدا نے رکھے ہیں ایک فرشتہ اور شیطان.یہاں نووارد صاحب نے سوال کیا کہ فرشتہ اور شیطان کا عقلی ثبوت کیا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ آپ کے قویٰ میں نیکی کی طرف کبھی حرکت ہوتی ہے اور کبھی بدکاری کی طرف ہوتی ہے یا نہیں؟ نووارد صاحب نے کہا کہ ہاں.
پھر فرمایا کہ کبھی بھوکے انسان کو دیکھ کر رحم بھی آجا تا ہے اور رحم کی تحریک ہوتی ہے؟ نووارد صاحب نے کہا کہ ہاں.پھر آپؑنے فرمایا کہ جب تحریک ہوتی ہے تو محرک کوئی اندر ہے جو تحریک کرتا ہے کیونکہ تحریک کے لئے محرک کا ہونا ضروری ہے اور انسان خود اس کامحرک نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ تو حالتِ مفعول میں ہے تو پھر فاعل کیسے ہوگا(کیونکہ تحریک کا عمل اس پر ہوتا ہے اس لئے انسان مفعول ہے) تو اس نیکی کے محرک کو ہم فرشتہ اور بدی کے محرک کو شیطان کہتے ہیں.شریعت کا علم بہرحال ہم سے بڑھ کر ہے جن امور کے ہم زیر اثر ہیں شریعت نے ان کی تفصیل کر دی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم نہ مانیں یہ سب کچھ انسان کو محسوس ہوتا ہے اور ابھی آپ نے تسلیم کیا ہے.اسی طرح مَرنے کے بعد ایک شَے رہتی ہے آپ اسے مانتے ہیں اس کا نام روح ہے اسے علم بھی ہوتا ہے کہ انسان کتاب یاد کرتا ہے اگر اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے تو اس کے اس علم میں کوئی فرق نہیں آتا اس سے ثابت ہے کہ علم صفت روح کی ہے نہ کہ جسم کی.ورنہ ضرور تھا کہ ہاتھ کاٹنے سے اس کے علم میں فرق آجاتا.اب ایک دہریہ جو کہ روح کا قائل نہیں ہے اس کے نزدیک تو پھر جسم کا حصہ کاٹنے سے علم کا کچھ حصہ ضرور جاتا رہتا اگر کہو کہ مجنون بھول جاتا ہے تو یہ بات غلط ہے مجنون ہرگز بھولتا نہیں ہے بلکہ ہر ایک شَے کا علم اس کے اندر مخفی ہوتا ہے جب اس کے جنون کا علاج ہو تو فوراً وہ علم آجاتا ہے جیسے آگ پتھر میں مخفی ہوتی ہے کہ رگڑ سے تو ظاہر ہوتی ہے ورنہ نہیں.یہی حال مجنون کا ہوتا ہے ہم خود دیکھتے ہیں کہ ایک بات کرتے کرتے ایک لفظ ایسا وقت پر بھول جاتے ہیں کہ ہر چند اس وقت یاد کریں مگر یاد نہیں آتا پھر دوسرے وقت خود ہی یاد آجاتا ہے (گویا ایک وقت پر ایک بات کا علم نہ ہونے سے اس بات کا عدم علم ہرگز ثابت نہیں ہوتا) تو مخفی ہونا اور شَے ہے اور محو اور نابود ہونا اور شَے ہے آج کل کے فلسفی لوگ ان باتوں میں سے بعض کو تو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے (تو اب جیسے غیر مرئی شَے خدا اور روح ہے ویسے فرشتے ہیں) مگر فرشتوں کو نہیں مانتے تو یہ ان کی حماقت ہے پھر جو روح کو مانتے ہیں کیا ہمیں دکھلا سکتے ہیں کہ روح کیا شَے ہے.انسان اگر مَرتا ہو تو خواہ اسے کسی لوہے کے قالب میں ہی بند کردیویں کہ جس میں ہوا کا
بھی دخل نہ ہو مگر پھر بھی مَرتے وقت کوئی ایسی شَے نظر نہ آوے گی کہ ہم کہیں کہ اسی کا نام روح ہے اور کہاں سے جان نکلی تھی پھر اسی طرح انڈے میں کیا بتلا سکتے ہیں کہ کہاں سے روح داخل ہوتی ہے بعض دفعہ دیکھا جاتا ہے کہ انڈے میں بچہ مَرا ہوا ہوتا ہے گویا کہ روح داخل ہو کر پھر نکل بھی گئی اور نظر بھی کسی کو نہ آئی تو یہ ایک بھید ہے جس کی حقیقت کیا سمجھ میں آسکتی ہے ہرگز سمجھ نہیں آتی.دلائل کی دو اقسام دلائل دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک اِنّی اور ایک لِمّی.کھوج نکال کر جاننا اس کا نام لِمّی ہے اور اِنّی یہ ہے کہ آثار سے پتہ لے لینا جیسے قارورہ کو دیکھ کر طبیب گرمی تپ وغیرہ کا حال معلوم کر لیتا ہے.یہ اِنّی ہے اور تپ وغیرہ دیکھ کر قارورہ کی نسبت سمجھ لینا یہ لِمّی ہے.تو روح میں لِمّیت ہم دریافت نہیں کرسکتے مگر آثار بتلاتے ہیں کہ ایک شَے ہے تو اس طرح کے عجائبات کثیر ہیں.ظاہری اور باطنی رؤیت اسی طرح ایک رؤیت آنکھ میں ہے ہر ایک شَے کو دیکھتی ہے مگر ایک دیوار کے پیچھے ایک شَے ہو تو نہیں دیکھ سکتی.آنکھ کیوںنہیں دیوار کے پیچھے دیکھ سکتی.اس کے دلائل کیا بیان ہو سکتے ہیں.اسی طرح ایک رؤیت روح میں ہے کہ بیٹھے بٹھائے دور تک دیکھ لیتی ہے خواہ تین چار دیواریں درمیان میں حائل ہوں مگر اسے پروا نہیں ہوتی.وہ اس شَے کویہاں بیٹھے اس طرح دیکھتی ہے جیسے کہ کھلی روشنی میں ایک شَے نظر آتی ہے.اس پر نووارد صاحب حیران ہوئے کہ یہ کیا بات ہے اور تعجب ظاہر کیا.حضرت اقدس نے فرمایا.خود ہم نے کئی دفعہ اس طرح دیکھا ہے کہ تین دیواریں درمیان میں حائل ہیں مگر ہم نے وہ شَے دیکھ لی.خبر نہیں کہ اس وقت کیا ہوتا ہے دیوار مطلق رہتی ہی نہیں اور انہی آنکھوں سے اس وقت سب کچھ نظر آتا ہے.اس مقام پر حضرت اقدس نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ ایک خاکروبہ نے ایک جگہ سے میلا اٹھایا اور اس کا ایک حصہ چھوڑ دیا.میں جو مکان کے اندر بیٹھا ہوا تھا مجھے نظر آیا کہ اس نے ایک حصہ چھوڑ دیا ہے تو میں نے اس خاکروبہ سے کہا.وہ سن
کر حیران ہوئی کہ اس نے اندر بیٹھے کیسے دیکھ لیا میں نے اس پر خدا کا شکر کیا کہ یہ باوجود میلے کے سر پر موجود ہونے کے نہیں دیکھ سکتی حالانکہ مجھے اس نے اس قدر دور دراز فاصلہ سے دکھلا دیا.نووارد صاحب نے عرض کی کہ پھر یہ بات اور اس رؤیتِ روحانی کا کیسے پتہ لگے اور سمجھ میں آوے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ بہت دیر صحبت میں رہے تو سمجھ میں آسکتا ہے اور اس کی نظیر یہ پیشگوئیاں بھی ہیں جوہم کرتے ہیں کیونکہ جو علوم پیش از وقت خدا بتلاتا ہے وہ بھی تو ایک قسم کی دیوار کے پیچھے ہیں جو کہ درمیان میں حائل ہوتی ہے اور ایک عرصے کے بعد اس نے گرنا ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ قبل از وقت دکھلادیتا ہے اورا سی عالم میں یہ سب عجائبات ہیں.کل یا پرسوں ایک نیچری کا خط آیا کہ میرے نزدیک تو انسان کے واسطے خدا شناسی ممکن ہی نہیں ہے تو بات یہی ہے کہ جب روحانی حصہ نہ دیا جاوے تب تک کیا پتہ لگتا ہے.انسان کا خاصہ علم ہی ہے اگر علم نہ ہو تو صرف جسد ہی ہوا.رفع حجاب کے دو طریق دو آدمی سعید ہوتے ہیں ایک تو وہ جن کا اﷲ تعالیٰ بالذّات رفع حجاب کرتا ہے اور اپنی خدائی طاقتوں سے اپنی ہستی ان پر کھول دیتا ہے.دوسرے وہ جو ایسے آدمیوں کی صحبت میں رہ کر ان سے مستفید ہوتے ہیں.جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی جماعت کہ ان کے تمام حجاب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے رفع ہوئے اور عظیم الشَّان نشانوں سے خدا نے ان پر اپنی ہستی کو کھول دیا اور کامل معرفت ان کو ملی مگر بیہودہ فلسفیوں سے ہرگز ممکن نہیں کہ یہ ایمانی حالت ان کو نصیب ہو.ایمان تو ایک چولہ بدل کر دو سرا اسے پہنا دیتا ہے اور اسے ایک فوق العادت طاقت دی جاتی ہے کوئی فلاسفر نہیں گذرا کہ جسے یہ طاقت ملی ہو.افلاطون وغیرہ بھی اس سے بے نصیب رہے پاکیزگی کی وراثت بجز انبیاء کے نہیں آئی اور فلسفیوں وغیرہ میں بجز تکبّر کے اور کچھ نہیں ہوتا.دنیا کی مصنوعات میں زیادہ تر مشغول ہونے سے دین کے پہلومیں ضرور کمزوری ہوا کرتی ہے سچی بات یہی ہے کہ انسان لمبی صحبت میں رہے چند ایک نمونہ جب اسے مل جاتے ہیں تو پھر ٹھیک
ہوجاتا ہے.خوابوں کی تعبیر خواب میں نماز پڑھنے اور شیرینی کھانے کی تعبیر میں حضرت اقدس نے فرمایا کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی وقت چاہے گا تو نماز میں حلاوت عطا کرے گا.تَبَّتْ يَدَاۤ اَبِيْ لَهَبٍ خواب میں پڑھنے پر فرمایا کہ کسی دشمن پر فتح ہوگی.خوابوں کی تعبیر ہر ایک کے حال کے مطابق ہوتی ہے فرمایا.خوابوں کی تعبیر ہر ایک کے حال کے موافق مختلف ہوا کرتی ہیں ایک دفعہ ابنِ سیرین کے پاس ایک شخص آیا اور بیان کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک کوڑے کے ڈھیر پر ننگا کھڑا ہوں.ابن سیرین نے کہا کہ اگر کوئی اور شخص کافر یا فاسق اس خواب کو بیان کرتا تو میں اس کی تعبیر اور بیان کرتا مگر تو اس تعبیر کے لائق نہیں ہے اس لئے سن کہ کوڑے اور کھاد سے مُراد تو دنیا ہے کہ جس میں تو موجود زندہ ہے اور ننگے ہونے سے مُراد یہ ہے کہ تیرے صفات ِحسنہ سب لوگوں پر کھلے ہیں کیونکہ ننگا ہونے سے انسان کا سب ظاہر ہوجاتا ہے.اسی طرح لوگ تیری خوبیاں دیکھ رہے ہیں تو مطلب اس سے یہ ہے کہ صالح آدمی کے خواب کی تعبیر اور ہوتی ہے اور شقی کی اَور.پیدائش کے اَسرار پھر اس کے بعد روح کا ذکر چلا اور ایک شخص نے اس کے متعلق سوال کیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جس شَے نے پیدا ہونا ہوتا ہے تو روح کی استعداد اس شَے میں ساتھ ساتھ چلی آتی ہے.جیسے جیسے وہ تیار ہوتی جاتی ہے اور جب وہ عین لائق ہوتا ہے تو خدا اس پر فیضان کرتا ہے اسی کی طرف اشارہ ہے ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ (المؤمنون : ۱۵) میں نے ایک انڈے کو ایک دفعہ پیالی میں ڈالا.دیکھا تو اس کی زردی اور سفیدی پانی کی طرح ہوئی ہوئی تھی اور اس کے درمیان میں ایک نقطہ خون کا خشخاش کے دانہ کی طرح تھا اور اس کی کئی
تاریں کوئی کسی طرف کو اور کوئی کسی طرف کو نکلی ہوئی تھیں اور سوائے اس نقطہ کے اور کوئی حرکت اس میں نہ تھی تو میں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ خلق اشیاء کا سلسلہ ایسا نہیں معلوم ہوتا کہ اوّل سر بنایا پھر ہاتھ پھر پائوں وغیرہ بلکہ اس کی کارروائی یکساں ہوتی ہے اور سب کچھ پہلے ہی سے ہوتا ہے صرف نشوونما پاتا جاتا ہے میں نے بعض دائیوں کو کہا ہوا تھا کہ جو بچے اسقاط ہوا کریں تو دکھایا کرو تو میں نے بعض بچے دیکھے ان کے بھی سب اعضا وغیرہ بنے بنائے تھے خدا کا یہ خلق معمار کی طرح نہیں ہوتا کہ اوّل دیواریں بنائیں پھر چوبارہ بنایا پھر اوپر اور کچھ بنایا بلکہ چار ماہ کے بعد جب روح کی تکمیل ہوتی ہے تو اس وقت اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ اس پر صادق آتا ہے تو بچہ حرکت کرنے لگتا ہے.تکمیل کے مراتب ستہ جیسے دنیا کے سات دن ہیں یہ اشارہ اسی طرف ہے کہ دنیا کی عمر بھی سات ہزار برس ہے اور یہ کہ خدا نے دنیا کو چھ دن میں بنا کر ساتویں دن آرام کیا اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ ہر ایک شَے چھ مراتب ہی طے کر کے مرتبہ تکمیل کا حاصل کرتی ہے نُطفہ میں بھی اسی طرح چھ مراتب ہیں کہ انسان اوّل سلسلہ میں طِیْن ہوتا ہے پھر نُطفہ، پھر عَلَقَہ، پھر مُضْغَہ، پھر عِظَامًا، پھر لَـحْمًا، پھر سب کے بعد اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ باہر سے کچھ نہیں آتا بلکہ اندر ہی سے ہر ایک شَے نشوونما ہوتی رہتی ہے.رُوح سے متعلق آریوں کے عقیدہ کا ردّ آریوں کا یہ اصول ہےکہ جب انسان مَرتا ہے تو اس کی روح اندر سے نکل کر آکاش میں رہتی ہے رات کو اَوس کے ساتھ مل کر کسی پتے یا گھاس پر پڑتی ہے وہ پتّا یا گھاس کوئی کھالیتا ہے تو اس کے ساتھ وہ روح بھی کھالی جاتی ہے جو کہ پھر دوسری جاندار شَے میں نمودار ہوتی ہے اب اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بچہ خَلق اور خُلق میں ماں اور باپ ہر دو سے حصہ لیتا ہے اور جیسے جسمانی حصہ لیتا ہے
ویسے ہی روحانی بھی لیتا ہے تفاوت مراتب کے لحاظ سے تناسخ کی ضرورت کو ماننا غلطی ہے یہ تو ہر ایک جگہ پایا جاتا ہے نباتات میں بھی ہم تفاوت مراتب کو دیکھتے ہیں اور اسی طرح انسانوں میں بھی ہے.آریوں کے دیگر عقائد جس قدر بادشاہ اور راجہ ہیں اگر وہ لوگ اس آرام کے ساتھ ایک مشقّت عبادت کی نہ ملاویں گے تو وہ سخت عذاب پاویں گے.خدا نے بعض کو خود مشقّت دے دی ہے اور بعض کو نہیں.جو لوگ دنیا میں دولت رکھتے ہیں اور عیاشی اور فسق و فجور میں مبتلا ہیں ان سے حساب ہوگا جیسے ایک انسان سرد پانی پیتا ہے مگر اپنے بھائی کو نہیں دیتا تو سزا پاوے گا.جس حال میں کہ آگے جاکر سب کمی بیشی پوری ہو جاتی ہے تو پھر اعتراض کیا ہے ان کے پاس کوئی دلیل موجود نہیں کہ خدا ہے.کشف و کرامات کے منکر ہیں.روح اور پرمانو کو انادی مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف جوڑ جاڑ پر میشر کرتا ہے.ہم کہتے ہیں کہ جب روح اپنے صفات میں پرمیشر کا محتاج نہیں ہے اور نہ ذرّات (پرمانو) پرمیشر کے محتاج ہیں تو پھر جوڑنے میں اس کی کیوں احتیاج ہوئی؟بلکہ جیسے وہ اپنے وجود اور صفات میں خود بخود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ آپس میں جڑ نہ سکتے ہوں؟ جب ایک انسان کا بدن اپنا ہے، کپڑے اپنے ہیں تو پہننے کے واسطے دوسرے کی کیا ضرورت ہے؟ عیسائیوں کی طرح ان کے ہاتھ میں بھی اعتراض ہی اعتراض ہیں.اسلام پر کثرتِ ازدواج کا اعتراض کرتے ہیں حالانکہ کئی ہزار کرشن کی بیویاں تھیں.۱
توکّل کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھو.یعنی تدابیر سے کام لو.۶۱ خبر دار خد اکی بردباری پر مت اترانا وہ پکڑتا تو دیر سے ہے مگر سخت پکڑتا ہے.۶۷ جو زیادہ واقف ہو وہی زیادہ ڈرتا ہے.۶۷ جب مجھے پریشان حال شخص کا حرم میں علیحدگی کی حالت میں دعا کرنا یاد آتا ہے تو میرا دل کانپ جاتا ہے.۶۸ میرا دل کانپ جاتا ہے.۶۹ اس نے عالمِ بقا کی راہ اختیار کر لی.۷۰ احمد کا نام سب نبیوں کے نام کا مجموعہ ہے جب سو کا ہندسہ آگیا تو نوّے بھی ہمارے سامنے ہے.۷۱ اس موقع شناس گویّے نے کتنا اچھا راگ گایا کہ غزل کے اندر محبوب کی بات بھی لے آیا.۹۴ اے شخص جس نے یونانیوں کی حکمت پڑھی ہے، ایمان والوں کی حکمت بھی پڑھ.۱۰۱ اپنی ہمت بلند رکھو کیونکہ منصف خدا تعالیٰ کی ذات ہے.۱۰۵ میں تُو ہو گیا اور تُو میں ہو گیا.۱۱۹ ایسا شخص جس کے بارہ میں خبر دے دی جائے اس کی پھر دوبارہ کوئی اطلاع نہیں آتی.۱۳۴ تیرے چہرہ کا تصوّر جمانا کچے آدمیوں کا کام نہیں کیونکہ تیری زلفوں کے سایہ میں آنا چالاکی کا طریقہ ہے.۱۴۱ اگر تو لوگوں کے مرتبہ کا دھیان نہیں رکھتا تو تُو بے دین ہے.۱۴۸ صادق وہ ہوتا ہے جو ابتلاؤں کےدن...
صادق وہ ہوتا ہے کہ ابتلاؤں کے دن محبت اور وفاداری سے گزارتا ہے.۱۶۸ اگر قضائے الٰہی سے عاشق قید ہوجاتا ہے تو وہ اس زنجیر کو چومتا ہے جس کا سبب آشنا ہو.۱۶۹ تجھے کشتی لے آئی اور ہمیں خدا (لے آیا).۱۷۱ ایک ہی جگہ استقلال سے کام کرنا چاہیے.۱۷۹ پیغام یہ ہے کہ تیرے بغیر زندگی کے خواہشمند نہیں، اے قاصد سن ! پیغام سمجھ لے اور پھر اسے اسی طرح پہنچانا.۱۷۹ جدائی کے زمانہ کی ہی داستان ہے.۱۸۵ اے عشق سامنے آتو جو پہلوانوں کے مغز کھا گیا ہے اور شیروں جیسے دل والوں سے رستم جیسی بہادریاں دکھائی ہیں.۱۸۵ اب جو تو نے ہمارے مقابلہ کی ٹھانی ہے تو اگر اپنے تما م داؤ پیچ عمل میں نہ لائے تو نامَر دکہلائے گا.۱۸۵ ہر آزمائش جو خدا نے اس قوم کے لئے مقدر کی ہے، اس کے نیچے رحمتوں کا خزانہ چھپا رکھا ہے.۲۰۰ ترکِ دنیا ، پرہیز گاری اور صدق و صفا کے لئے ضرور کوشش کر، مگر مصطفٰیؐ (کے بتائے ہوئے طریقوں )سے تجاوز نہ کر.۲۰۰ ایسی نصیحت جو دل سے کی جائے وہ ضرور دل پر اثر کرتی ہے.۲۰۹ بزرگ واعظ نے دوزخ کی آگ کے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے وہ جدائی کے زمانہ کی ہی داستان ہے.
۲۱۵ بہشت ایسی جگہ ہے جہاں کوئی دکھ نہ ہو کسی کو کسی سے کچھ کام نہ ہو.۲۱۶ فقیر کے گھر کوئی نہیں آتا کہ زمین اور باغ کا خراج ادا کرو.۲۱۷ جوانی میں دونوں جہانوں کے کام کرو.۲۱۷ زندگی کی رنگینی بس چند سال ہی ہوتی ہے جیسے ہی چالیسواں سال آتا ہے انسان کے قویٰ کا انحطاط شروع ہوجاتا ہے.۲۱۸ اس وقت میرے سر پر گویا تاج تھا جب میرے سر پر باپ کا سایہ تھا.۲۱۸ اگر میرے جسم پر کوئی مکھی بھی بیٹھ جاتی تو بہتوں کے دل پریشان ہوجاتے.۲۲۴ میں تُو بن گیا تُو میں بن گیا میں تن بنا تُو جان بن گیا.تا بعد میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ میں کوئی اور ہوں اور تُو کوئی اور ہے.۲۲۸ کیا تُو نے زمینی کاموں کو درست کر لیا ہے، کہ آسمانی کاموں کی طرف بھی متوجہ ہو گیا ہے.۲۳۵ اپنی صفائی میں بے ہودہ دلائل پیش کرنا الزام کے سچے ہونے کا ثبوت ہے.۲۳۶ خد اکو خدا کی ہستی سے پہچانا جا سکتا ہے.۲۳۸ خد اکو خدا کی ہستی سے پہچانا جا سکتا ہے.۲۵۴ جب عمر کا معاملہ پوشیدہ ہے تو بہتر ہے کہ وہ موت کے آنے کے دن محبوب سامنے نہ ہو.۲۸۴ وہ تمام خوبیاں جو حسینوں میں پائی جاتی ہیں وہ سب تیری ذات میں ہیں.۳۱۲ اس کا وبال اس پر پڑا اور ہم سے در گزر کیا گیا.۳۱۶ کسی نے اس (یعقوب )سے جس کا بیٹا گم ہو گیا تھا پوچھا کہ اے روشن ضمیر دانا بزرگ.
۳۱۶ تو نے ملکِ مصر سے تو کُرتے کی بو سونگھ لی، لیکن یہیں کنعان کے کنوئیں میں اسے کیوں نہ دیکھا.۳۱۶ اس نے کہا کہ ہمارا حال بجلی کی طرح ہے ایک لمحہ دکھائی دیتی ہے اور دوسرے لمحہ غائب ہوجاتی ہے.۳۱۷ کبھی تو میں ایک بلند مقام پر بیٹھا ہوتا ہوں اور کبھی اپنے پاؤں کی پُشت پر بھی نہیں دیکھ سکتا.۳۱۷ اگر کسی درویش کی حالت ہمیشہ ایک جیسی رہے تو وہ دونوں جہانوں سے ہاتھ جھاڑ اٹھے.۳۹۲ انسان چاہے تو مسیح بن سکتا ہے اور چاہے تو یہودی خصائل اختیار کر سکتا ہے.۴۰۱ ہرشخص کا مرتبہ اور مقام ایک اثر رکھتا ہے اگر تُو لوگوں کے مرتبہ کا دھیان نہیں رکھتا تو تُو بے دین ہے.۴۱۵ اگرچہ محبوب تک رسائی پانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو پھر بھی، عشق کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی تلاش میں جان لڑا دی جائے.۴۱۹ خداچاہے تو دشمن بھی بھلائی کا ذریعہ بن جاتا ہے.۴۲۵ نوجوانی کی فرصت تیس سال تک ہوتی ہے جب چالیس ہوئے سب بال و پَر جھڑ جاتے ہیں.۴۲۵ سفید بال مرگ کا پیغام لاتے ہیں.۴۴۳ یہ سعادت اپنے زورِ بازو سے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک وہ بخشنے والا خدا خود عطا نہ کرے.۴۵۵ اسرائیل میرا بیٹا ہے بلکہ میرا پہلوٹھا ہے.