Malfuzat Volume 2

Malfuzat Volume 2

ملفوظات (جلد 2)

ستمبر 1900ء تا دسمبر 1901ء
Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

ملفوظات سے مراد حضرت بانی جماعت احمدیہ، مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا وہ پاکیزہ اور پُرمعارف کلام ہے جو حضورؑ نے اپنی مقدس مجالس میں یا جلسہ سالانہ کے اجتماعات میں اپنے اصحاب کے تزکیہ نفس، ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت، خداتعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرنے اور قرآن کریم کے علم و حکمت کی تعلیم نیز احیاء دین اسلام اور قیام شریعت محمدیہ کے لیے وقتاً فوقتاً ارشاد فرمایا۔


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

Page 7

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَعَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یکم ستمبر ۱۹۰۰ء خدا کی صفت غنا کا تقاضا جناب مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے غنائے ذاتی پر بہت موثر اور ڈر دلانے والی تقریر فرمائی.فرمایا.اگر چہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ.مگر خدا تعالیٰ کسی کا محکوم رہنا نہیں چاہتا.اس کی صفتِ غنا ہر دم تقاضاکرتی ہے کہ انسان کبھی ایمن اور مطمئن ہو کر نہ بیٹھ رہے.اس کا منشا ہے کہ انسان خوف و ہراس میں اوقات بسر کرے توکہ ذِلِّ عبودیت کی حالت قائم رہے.فرمایا.ہیضہ خدا تعالیٰ کی تلوار ہے.بہت بہت دعا ئیں مانگو کہ اللہ تعالیٰ اس سے اس گاؤں کو محفوظ رکھے.اس لئے کہ مخالفوں کے نزدیک اور جگہوں کے لوگ تو شہید ہوتے ہیں.مگر خدا نہ کرے جو یہاں پڑے تو یہی کہیں گے کہ ان پر غضبِ الٰہی پڑا.۱ ۱ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۶ ء صفحہ ۹ (از مکتوبات کریمیہ نمبر ۳ )

Page 8

۳؍ستمبر ۱۹۰۰ء تحفہ گولڑویہ کے متعلق الہامی بشارت تحفہ گولڑویہ میں بڑے بڑے دقائق معارف بیان فرمائے ہیں.آج فرماتے تھے.خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک الہام ہوا ہےجس کے یہ معنے ہیں کہ یہ رسالہ بڑا بابرکت ہو گا، اسے پورا کرو اور پھر الہام ہوا.قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا.چونکہ مضامین کی آمد بہت ہے اور وہ چاہتی ہے کہ درمیانی سلسلہ ٹوٹنے نہ پائےاس لئے کہ ٹوٹنے میں بسا اوقات پیش آمد مضمون فوت ہو جاتا ہے.مناسب ہے کہ جمعرات تک پھر نمازیں ظہر اور عصر کی جمع کر کے پڑھی جائیں.....یوں ثابت اور صحیح ہوگئی وہ پیش گوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ۱ ۴؍ستمبر ۱۹۰۰ء بڑا ثواب حضرت اقدسؑ نے ایک دن مولانا عبد الکریم صاحب کو مخاطب ہو کر فرمایاکہ اب تو آپ بھی ہمارے ساتھ گالیوں میں شامل ہو گئے.بڑا ثواب ہے.۲ ۷؍ستمبر ۱۹۰۰ء ایک الہام حضرت کو کل دردِ سر کے وقت بار بار یہ الہام ہوا.’’اِنِّیْ مَعَ الْاُمَرَآءِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً‘‘ یعنی میں امیروں کے ساتھ تیری طرف اچانک آؤں گا.۱ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۶ ء صفحہ ۹ (از مکتوبات کریمیہ نمبر ۳ ) ۲ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۰

Page 9

(اس الہام سے بشارت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اب امیروں کو اس آسمانی سلسلہ کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہے) ۸؍ ستمبر ۱۹۰۰ء کلام الٰہی کے تین طریقے رات مولوی نور الدین صاحب نے اس آیت کے معنے پوچھے.وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا....الاٰیۃ (الشورٰی:۵۲) مولوی صاحب نے کہا کہ اس پر بہت سا جھگڑا ہوا.حضرت نے فرمایا.قبل اس کے کہ اس آیت کے حل کی طرف ہم متوجہ ہوں.ہم عملاً دیکھتے ہیں کہ تین ہی طریقے ہیں خدا تعالیٰ کے کلام کرنے کے، چوتھا کوئی نہیں(۱)رؤیا(۲)مکاشفہ(۳)وحی.نماز عشاء سے سلام پھیرنے کے بعد فرمایا.مولوی صاحب! اس آیت کے معنے خوب کھل گئے ہیں.مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ سے مراد رؤیا کا ذریعہ ہے.مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ کے معنے یہ ہیں کہ اس پر استعارے غالب رہتے ہیں.جو حجاب کا رنگ رکھتے ہیں.اور یہی رؤیا کی ہیئت ہے.يُرْسِلَ رَسُوْلًا سے مراد مکاشفہ ہے.رسول کا تمثّل بھی مکاشفہ میں ہی ہوتا ہے اور مکاشفہ کی حقیقت یہی ہے کہ وہ تمثّلات ہی کا سلسلہ ہوتا ہے.اس کے بعد بڑے جوش اور خوشی سے فرمایا کہ قرآن کریم کیسے کیسے حقیقی اور عظیم علوم بیان فرماتا ہے.اس آیت کے ہمرنگ انجیل وتوریت میں تو ڈھونڈ کر بتاؤ.مولوی صاحب نے پوچھا تھا اس تفسیر سے پہلے کہ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ سے یہ مطلب ہو کہ

Page 10

خدا تعالیٰ کا نظر آنا کوئی ضروری نہیں.فرمایا.یہ مطلب ہی نہیں.یہ معنی ہی رؤیا کے ہیں اور لفظ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ نے تو حقیقت رؤیا کے فلسفہ کی بیان کی ہے.۱ ابتلا موجب رحمت ہوتے ہیں شیخ رحمت اللہ صاحب کا خط دربارہ کسی ابتلا کے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پہنچا، جس پر حضور نے فرمایا.میں اس ابتلا میں ان کے لئے بہت دعا کرتا ہوں.اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی.درحقیقت ابتلا بڑی رحمت کا موجب ہوتے ہیں کہ ایک طرف عبودیت مضطر ہو کر اور چاروں طرف سے کٹ کر اسی اکیلے سبب ساز کی طرف توجہ ہو جاتی ہے اور اُدھر سے الوہیت اپنے فضلوں کے لشکر لے کر اس کی تسلی کے لئے قدم بڑھاتی ہے.میں ہمیشہ یہ سنّت انبیاء علیہم السلام اور سنّت اللہ میں دیکھتا ہوں کہ جس قدر اس گرامی جماعت کی رأفت و رحمت ابتلا کے وقت اپنے خدام کی نسبت جوش مارتی ہے.آرام و عافیت کے وقت وہ حالت نہیں ہوتی.۲ ۹؍ستمبر ۱۹۰۰ء صبر کی تلقین حضرت اقدس نے قبل از نماز ظہر بڑی لطیف تقریر فرمائی اور مولانا عبد الکریم صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایاکہ جو کچھ ہو رہا ہے ارادۂ الٰہی کے موافق ہو رہا ہے.ضروری تھا کہ یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے اُن آثار کی صداقت پر مہر لگا دیتے.جن میں لکھا ہے کہ مہدی موعود کے وقت بڑا شور برپا ہو گا اور اس کو سلف وخلف کے عقائد کے خلاف باتیں بنانے والا کہہ کر کافر ٹھہرایا جائے گا.اس وقت ہمارے احباب کو ایسا ہی صبر ۱،۲ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۶ ء صفحہ ۱۰ (مکتوبات کریمیہ نمبر ۵)

Page 11

کرنا چاہیے.جیسا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے مکہ معظمہ میں کیا.کوئی حرکت ان سے ایسی سر زد نہ ہوئی جو ا نہیں حُکّام تک پہنچاتی.اس وقت کسی پر بھروسہ نہ کریں کہ فلاں شخص ہماری مدد کرے گا.یاد رکھیں اس وقت خداوند جلّ و عَلا کے سوا کوئی ولی ونصیر نہیں.۱ اولیا ء اللہ سے جنگ کا نتیجہ ایک شخص کسی شیخ عبد الرحمٰن کشمیری بازار کا شائع ہوا لمبا چوڑا اشتہار لے کر حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا.حضرت اقدسؑ نے اس پر فرمایا.اب ہماری باتیں ان لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتیں اور درحقیقت جب تک آسمان سے نور نازل ہوکر قلوب کو با فہم نہ بنائے کوئی نہ سمجھا سکتا ہے اور نہ کوئی سمجھ ہی سکتا ہے.یہ ایام ابتلا کے ایام ہیں.پھر فرمایا.کیا ہی سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کے اولیاء سے جنگ کرنے کے سبب سے نہ صرف ایمان ہی سلب ہوجاتا ہے بلکہ عقلیں بھی سلب ہو جاتی ہیں.اس وقت جو بولتا ہے یہی بولتا ہے اور بیسیوں خط اطراف سے اس مضمون کے آتے ہیں کہ مہر شاہ نے مرزا صاحب کی ساری شرطیں منظور کر لیں پھر وہ مقابلہ کے لئے کیوں نہ آئے.اللہ اللہ ایک طوفان بے تمیزی برپا ہے.کوئی غور کرتا ہی نہیں کہ اصل بات کیا ہے.۲ ۱۵؍ستمبر۱۹۰۰ ء کلامِ الٰہی کی اقسام مطابق بستم جمادی الاولیٰ۱۳۱۸ھ بعد اداء نماز مغرب شرفِ دیدار مبارک حضرت اقدس ؑ حاصل گر دید.فرمودند.۳کلامِ الٰہی برسہ قسم ست وحی،رؤیا،کشف.وحی آنکہ بلا واسطہ شخص بر قلب مطہرہ نبوی فرود آید ۱، ۲ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۶ ء صفحہ ۱۰ (مکتوبات کریمیہ نمبر ۴) ۳(ترجمہ از مرتب) مطابق ۲۰ ؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۱۸ھ نمازِ مغرب کی ادائیگی کے بعد حضرت اقدس کے دیدار مبارک کا شرف حاصل ہوا.آپ نے فرمایا.کلامِ الٰہی کی تین اقسام ہیں.وحی، رؤیا، کشف.وہ وحی جو کسی شخص کے واسطہ کے بغیر قلب مطہرہ پر اُترتی ہے.

Page 12

وآن کلام اجلٰی وروشن مے باشد.نظیرش بیان فرمودند کہ مثلاً حافظ صاحب نا بینا کہ پیش مانشستہ اند.درسماعِ کلامِ ما ہرگز غلطی نمے خورندونمے دانند کہ آواز مسموع کلام غیرِ ما باشد.اگرچہ از چشم ظاہر مارا نمے بینند.دیگر رؤیا ومنام ست.کہ آن کلام رنگین ولطیف وکنایہ داردوذوی الو جوہ است.چوں دیدن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سِوارَیْن در دستِ مبارکِ خویش، یا معائنہ فرمودن یکے زوجہ مطہرہ خود را اَطْوَلُ یَدَیْنِ، ودیدن بقرہ وغیرہ ایں چنیں کلام الٰہی تعبیر طلب ست.سوم کشف است وآن تمثّل است خواہ بصورتِ جبرائیل باشدیا فرشتہ یا دیگر اشیاء.پس آیت شریفہ خواندند اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا (الشورٰی :۵۲).ارشاد شد کہ سوائے امور ثلاثہ مذکورہ کلام الٰہی را طریقے نیست.۱ ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۰ء بیماری میں الٰہی مصالح عصر کے وقت فرمایا.طبیعت بہت علیل ہے دعا کرنی چاہیے.(بقیہ حاشیہ )اور کلام اجلٰی اور روشن ہوتا ہے.اس کی مثال بیان فرمائی کہ مثلاً حافظ صاحب نابینا کہ ہمارے قریب بیٹھے ہیں.ہمارے کلام کی سماعت میں ہرگز غلطی نہیں کھاتے اور نہیں جانتے کہ سنا جانے والا کلام ہمارا نہیں ہوگا.اگرچہ چشم ظاہر سے ہم کو نہیں دیکھ رہے ہیں.دوسری قسم رؤیا اور خواب ہے کہ وہ کلام رنگین و لطیف اور کنایہ رکھتا ہے اور ذو الوجوہ ہوتا ہے.جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (خواب میں ) اپنے دستِ مبارک میں دو کنگن دیکھنا.یا معائنہ فرمانا اپنی ایک زوجہ مطہرہ کو اَطْوَلُ یَدَیْن یا گائے کو دیکھنا وغیرہ اس طرح کا کلامِ الٰہی تعبیر طلب ہوتا ہے.تیسری قسم کشف ہے کہ وہ تمثّل ہے خواہ حضرت جبرائیل کی شکل میں ہو یا فرشتہ یا دوسری اشیاء کی صورت میں.پس آپ نے آیت شریف پڑھی اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا (الشورٰی :۵۲) ارشاد فرمایا کہ کلام الٰہی کی ان تین مذکورہ امور کے علاوہ اور کوئی طریق نہیں ہے.۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴؍ مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۶

Page 13

مجھے.۱اس لفظ سے رقّت ہوئی میں نے عرض کیا کہ آپ وہ ہیںجن کی نسبت خدا تعالیٰ کہہ چکا ہے اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَا یُضَاعُ وَقْتُہٗ.میں امید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کو آپ کے درجات کی ترقی بہت ہی منظور ہے کہ ایک طرف تو آپ کے سپرد اس کثرت سے کام کر دیئے ہیں کہ ان کے تصور سے قوی سے قوی زہرہ آدمی کی پیٹھ ٹوٹ جاتی ہے اور اُس پر اس قدر بیماریوں کا ہجوم.مسکرا کر فرمایا.ہاں یہ تو ہمیں یقین ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے بہت سے مصالح ملحوظ ہیں.احمد بیگ کے متعلق پیشگو ئی احمد بیگ والی پیشگوئی پر اعتراض کے متعلق فرمایا.اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے خوف سے غور کرے کہ چار شخصوں کی موت کی نسبت ہماری پیش گوئی تھی.جن میں سے تین ہلاک ہو چکے اور ایک(داماد)باقی ہے تو اس کی روح کانپ جائے گی کہ کس دلیری سے اور کیوں وہ اعتراض کر سکتا ہے.اسے سمجھ لینا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے مصالح اس میں ہیں.خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ راستبازوں کے مخالفوں کی عمریں بھی ان کے کارخانہ کی رونق کے لئے لمبی کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ قادر تھا کہ ابو جہل اور اس کے امثال پر مکہ معظمہ میں یکجا اور ناگہاں بجلی پڑ جاتی اور بہت بڑی ایذا پہنچانے سے قبل ان کا استیصال ہو جاتا مگر ان کا تاروپود درہم برہم نہ ہواجب تک بدر کا یوم نہ آیا.اگر ایسی ایسی کارروائیاں جلد جلد پوری ہو جائیںتو نبی بہت جلد ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور وہ گرمیٔ ہنگامہ کیوں کر رنگ آرائے چہرۂ ہستی ہو، جس کے قیام کے بغیر طرح طرح کے علوم و حکمتیں بروئے کا ر نہیں آسکتیں.خدا تعالیٰ صادق کو نہیں اٹھاتا جب تک اس کا صادق ہونا آشکار نہ کر دے اور ان الزاموں سے اس کی تطہیر نہ کر دے جو ناعاقبت اندیش اس پر لگاتے ہیں.مہدی اور دجّال کے متعلق احادیث بعد نماز عشاء فرمایا.میں آج کنز العمال کو دیکھ رہا تھا.مہدی اور دجّال کی نسبت ۸۵حدیثیں اس میں جمع کی گئی ہیں.سب حدیثوں میں یہی ہے کہ وہ آتے ہی یوں ۱ (مراد.حضرت مولانا عبد الکریم صاحبؓ.مرتّب)

Page 14

خونریزی کرے گا اور یوں خلقِ خدا کے خون سے روئے زمین کو رنگین کرے گا.خدا جانے ان لوگوں کو جو اِن احادیث کے وضّاع تھے.سفّاکی کی کس قدر پیاس اور خلق خدا کی جان لینے کی کتنی بھوک تھی اور اس وقت عقلیں کس قدر موٹی اور سطحی ہو گئیں تھیں.یہ بات ان کی سمجھ ہی میں نہ آئی کہ اصول تبلیغ اور ماموریت کے قطعاًخلاف ہے کہ کوئی مامور آتے ہی بلا اتمام حجت کے تیغ زنی شروع کر دے.تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو آخری زمانہ کو حضرت خیر الانام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے اتنا دُور قرار دیا ہے.اور ظاہر ہے کہ جتنا بُعد زمانہ نبوت سے ہو گا.اتنی ہی غفلت اور کسل اور اعراض عَنِ اللہ کا مرض شدید ہو گا.بایں ہمہ آخری زمانہ کا مصلح اور مامور ایسا شخص قرار دیا ہے جو آتے ہی تلوار سے کام لے اور اتمامِ حجت کا ایک لفظ بھی منہ پر نہ لاوے.وہ مصلح کیا ہوا، وہ خونریز مفسد ہوا.افسوس آتا ہے کہ اس قدر تنا قضات کا مجموعہ وہ حدیثیں ہیں کہ اس سے زیادہ ہفوات اور لغویات میں بھی تناقض ممکن نہیں مگر ان لوگوں کی دانشیں ان کی بیہودگی کی تہ تک نہ جا سکیں.فرمایا.میں ان حدیثوں کو پڑھ کر کانپ اٹھا اور دل میں گزرا اور بڑے درد کے ساتھ گزرا کہ اگر اب خدا تعالیٰ خبر نہ لیتا اور یہ سلسلہ قائم نہ کرتا.جس نے اصل حقیقت سے خبر دینے کا ذمہ اٹھایا ہے تو یہ مجموعہ حدیثوں کا اور تھوڑے عرصہ کے بعد بے شمار مخلوق کو مرتد کر دیتا.ان حدیثوں نے تو اسلام کی بیخ کنی اور خطرناک ارتداد کی بنیاد رکھ دی ہوئی ہے.جبکہ حدیثیں یونہی نا مراد رہتیں اور ان کی بے بنیاد پیش گوئیاں جو محض دروغ بے فروغ اور باطل افسانے ہیں اور کچھ مدت کے بعد آنے والی نسلوں کے سامنے اسی طرح نامراد پیش ہوتیں.توصاف شک پڑ جاتا کہ اسلام بھی اور جھوٹے مہا بھارتی مذہبوں کی طرح نرا کتھوں پر مبنی اور بے سرو پا مذہب ہے.اورآئندہ نسلیں سخت ہنسی اور استہزا سے اس بات کے کہنے کا بڑی دلیری سے موقع پاتیں کہ دجّال کو خدا بنانے والا اور خدا کی صفات کاملہ مستجمعہ سے پورا حصہ دینے والا مذہب بھی کبھی مذہب حق اور مذہب توحید کہلانے کا استحقاق رکھ سکتا ہے.۱ ۱ الحکم جلد ۴ نمبر ۳۷ مورخہ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۰۰ء صفحہ ۱ تا ۳

Page 15

اشاعت ہدایت کی تکمیل مسیح موعودؑ کے ذریعہ مقدر ہے فرمایا.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس قسم کی اصلاح ہے.حالت تو یہ ہے کہ بُعد ِزمانہ ہی بجائے خود بہت کچھ قابلِ رحم حالت ہوتی ہے اور اس پر تو ہزاروں فتنے اور آفتیں بھی ہوںگی پھر قتال سے کیا فائدہ؟ خیر آخر میں یہ بھی لکھ دیا ہے لَا مَھْدِیَّ اِلَّا عِیْسٰی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نجات قرآن سے ہی ہے.جب ہم اس ترتیب کو دیکھتے ہیں کہ ایک طرف تو رسول اللہ کی زندگی کے دو ہی مقصد بیان فرمائے ہیں.تکمیلِ ہدایت اور تکمیلِ اشاعت ہدایت اور اوّل الذکر تکمیل چھٹے دن یعنی جمعہ کے دن ہوئی.جبکہاَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المائدۃ:۴) نازل ہوئی اور دوسری تکمیل کے لئے بالاتفاق مانا گیا ہے کہ وہ مسیح ابن مریم یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں ہوگی.سب مفسروں نے بالاتفاق لکھ دیا ہے کہهُوَ الَّذِيْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى (الصّف:۱۰) کی نسبت لکھتے ہیں کہ یہ مسیح موعود کے زمانہ میں ہوگی اور جبکہ پہلی تکمیل چھٹے دن ہوئی تو دوسری تکمیل بھی چھٹے دن ہی ہونی چاہیے تھی اور قرآنی دن ایک ہزار برس کا ہوتا ہے.گویا مسیح موعود چھٹے ہزار میں ہو گا.پھر فرمایا کہ قرآن ہی پڑھنے کے قابل ہے.کیونکہ قرآن کے معنی ہی یہ ہیں.ضمناً یہ بھی فرمایا کہ آریوں نے قرآن کریم کے نہ سمجھنے سے خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (اٰلِ عـمران:۵۵) وغیرہ الفاظ پر اعتراض کیا ہے حالانکہ خود وید میں اِندر کو بڑا مکّار لکھا ہے.پھر مہدی کی حدیثوں کی نسبت فرمایا کہ سلطنت کے خیال سے وضع کی گئی تھیں.۱ قرآن کے نام میں پیشگوئی فرمایا.اگر ہمارے پاس قرآن نہ ہوتا اور حدیثوں کے یہ مجموعے ہی مایۂ ناز ایمان واعتقاد ہو تے تو ہم قو موں کو شرمساری سے منہ بھی نہ دکھاسکتے.میں نے قرآن کے لفظ میں غور کی.تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبر دست پیش گوئی ہے.وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۴ مورخہ ۲۶؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحہ ۳

Page 16

میں تو اور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے قابل کتاب ہو گی جبکہ اور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی.اس وقت اسلام کی عزّت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہو گی اور دیگر کتابیں قطعاً چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی.فرقان کے بھی یہی معنے ہیں.یعنی یہی ایک کتاب حق وباطل میں فرق کرنے والی ٹھہرے گی اور کوئی حدیث کی یا اور کوئی کتاب اس حیثیت اور پایہ کی نہ ہو گی.(فرمایا اور بڑے جوش اور تاکید سے فرمایا کہ ) اب سب کتابیں چھوڑ دو اور دن رات کتاب اللہ ہی کو پڑھو.بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی رات دن جھکا رہے.ہماری جماعت کو چاہیے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبّر میں جان ودل سے مصروف ہو جائیں اور حدیثوں کے شغل کو ترک کردیں.بڑے تأسف کا مقام ہے کہ قرآن کریم کا وہ اعتنا اور تدارس نہیں کیا جاتا جو احادیث کا کیا جاتا ہے.اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے.اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی.۱ ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۰۰ء خلقِ آدمؑ اور زُحل کی تاثیرات صبح کی سیر کے وقت حضرت اقدس ؑ نے فرمایا.آدم عصر کے وقت چھٹے دن پیدا ہوا تھا.اس وقت مشتری کا دورہ ختم ہو کر زُحل کا شروع ہونے والا تھا.چونکہ زُحل کی تاثیرات خونریزی اور سفّاکی ہیں.اس لئے ملائکہ نے اس خیال سے کہ یہ زُحل کی تاثیرات کے اندر پیدا ہو گا یہ کہا اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا (البقرۃ:۳۱) اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس طرح انسان ارضی تاثیرات اور بوٹیوں کے خواص سے واقف ہوتا ہے اس طرح پر آسمانی مخلوق آسمانی تاثیرات سے باخبر ہو تی ہے.بہترین دعا پھر فرمایا کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں جہاں اَلرَّبُّ ، اَلرَّحْـمٰنُ ، اَلرَّحِیْمُ ، مَالِکِ یَـوْمِ الدِّیْنِ کے حسن و احسان کی طرف سے تحریک ہوتی ہے.وہاں انسان کی عاجزی اور بے کسی بھی ساتھ ہی محرک ہوتی ہے اور وہ اِيَّاكَ نَسْتَعِیْنُ کہہ اٹھتا ہے.دعا بہترین دعا وہ ہوتی ہے ۱ الحکم جلد ۴ نمبر ۳۷ مورخہ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۰۰ء صفحہ ۵

Page 17

جو جامع ہوتمام خیروں کی اور مانع ہو تمام مضرات کی.اس لئے اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا میں آدمؑ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک کے کل منعم علیہم لوگوں کے انعامات کے حصول کی دعا ہے اور غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ میں ہر قسم کی مضرتوں سے بچنے کی دعا ہے.اسلام تلوار سے نہیں پھیلا پھر فرمایا کہ اسلام کی نسبت جو کہتے ہیں کہ تلوار سے پھیلا.یہ بالکل غلط ہے.اسلام نے تلوار اس وقت تک نہیں اٹھائی جب تک سامنے تلوار نہیں دیکھی.قرآن شریف میں صاف لکھا ہے کہ جس قسم کے ہتھیاروں سے دشمن اسلام پر حملہ کرے اسی قسم کے ہتھیار استعمال کرو.مہدی کے لئے کہتے ہیں کہ آکرتلوار سے کام لے گا.یہ صحیح نہیں.اب تلوار کہاں ہے جو تلوار نکالی جاوے.پھر افسوس تو یہ ہے کہ باوجود یکہ مسیح ان لوگوں کے مسلّمات کو تسلیم کرلے گا اور فرشتوں کے ساتھ آسمان سے اترے گا مگر پھر بھی اس پر کفر کا فتویٰ دیا جائے گا.جیسا کہ کتابوں سے ثا بت ہے بلکہ ایک شخص اٹھ کر کہہ دے گا اِنَّ ھٰذَا الرَّجُلَ غَیَّرَ دِیْنَنَا.ہم چاہتے ہیں کہ ہماری جماعت کے لوگ ان دلائل سے باخبر ہوںتاکہ کسی محفل میں ان کو شرمندہ نہ ہونا پڑے.میر محمد سعید صاحب حیدر آبادی اور یعقوب علی اور چند دوست ایسی کتابیں سوال و جواب کے طور پر تالیف کریں جو ہمارے مقاصد کو لئے ہوئے ہوں اور مدرسہ میں رائج کی جاویں.۱ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۰۰ء صبح کو حضرت اقدس علیہ السلام حسب معمول سیر کو تشریف لے گئے راہ میں فرمانے لگے کہ کشف اور الہام کی درمیانی حالت بہت دفعہ ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایک بات بتلاتے ہیں میں اس کو سنتا ہوں مگر آپ کی صورت نہیں دیکھتا ہوں.غرض یہ اک حالت ہوتی ہے جو بین الکشف والالہام ہوتی ہے.مسیح موعود کے دو نشان رات کو آپ نے مسیح موعود کے متعلق یہ فرمایا ہے.یَضَعُ الْـحَرْبَ وَ یُصَا لِـحُ النَّاسَ یعنی ایک طرف تو جنگ وجدال ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۴ مورخہ ۲۶؍ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۳

Page 18

اور حرب کو اٹھا دے گا.دوسری طرف اندرونی طور پر مصالحت کرا دے گا.گویا مسیح موعودؑ کے لئے دو نشان ہوں گے.اوّل بیرونی نشان کہ حرب نہ ہوگی.دوسرا اندرونی نشان کہ باہم مصالحت ہو جاوے گی.پھر اس کے بعد فرمایا سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ.سلمان یعنی دو.صُلحیں اور پھر فرمایا عَلٰی مَشْـرَبِ الْـحَسَنِ یعنی حضرت حسن رضی اللہ عنہ میں بھی دو ہی.صُلحیں تھیں.ایک صلح تو انہوںنے حضرت معاویہ کے ساتھ کر لی اور دوسری صحابہ کی باہم صلح کرا دی.اس سے معلوم ہوا کہ مسیح موعودؑ حَسْنِیُّ الْمَشْـرَب ہے.اور حجج الکرامہ میں نواب صدیق حسن خان نے لکھا بھی ہے کہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ مہدی حسنی ہو گا.اس کے بعد فرمایا کہ حسن کا دودھ پیے گا.یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ مہدی آپ کی آل میں سے ہو گا.یہ مسئلہ اس الہام سے حل ہو گیا اور مسیح موعود کا جو مہدی بھی ہے کام بھی معلوم ہو گیا.پس وہ جو لوگ کہتے ہیں کہ وہ آتے ہی تلوار چلائے گا اور کافروں کو قتل کرے گا جھوٹے ہیں.اصل بات یہی ہے جو اس الہام میں بتلائی گئی ہے کہ وہ دو صُلحوں کا وارث ہو گا.یعنی بیرونی طور پر بھی صلح کرے گا اور اندرونی طور پر بھی مصالحت ہی کرا دے گا اور آل کا لفظ اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آل چونکہ وارث ہوتی ہے اس لئے انبیاء علیہم السلام کے وارث یا آل وہ لوگ ہوتے ہیں جو اِن کے علوم کے روحانی وارث ہوں.اسی واسطے کہا گیا ہے کہ کُلُّ تَقِیٍّ وَّ نَقِیٍّ اٰلِیْ.آیت مَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ کی تفسیر مولوی جمال الدین صاحب ساکن سید والہ نے قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر پوچھی.مَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ (البقرۃ:۱۰۳) اس کے جواب میں حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ بعض نابکار قومیں حضرت سلیمان علیہ السلام کو بت پرست کہتی ہیں.اللہ تعالیٰ اس آیت میں ان کی تردید کرتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف واقعات پر بحث کرتا ہے.اور قرآن کل دنیا کی صداقتوں کا مجموعہ ہے.اور سب دین کی کتابوں کا فخر ہے.جیسے فرمایا ہے فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ اور يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً(البینۃ:۳،۴) پس قرآن کریم کے معنی کرتے وقت خارجی قصوں کو نہ لیں بلکہ واقعات کو مدّ ِنظر رکھنا چاہیے.مثلاً قرآن کریم نے جو سورۃ فاتحہ کو اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ (الفاتـحۃ:۲تا۴) اسماء سے شروع کیا تو اس میں کیا راز تھا.چونکہ بعض قومیں اللہ تعالیٰ کی ہستی

Page 19

پھر اس کی صفات رَبّ، رَحِیْم، مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ سے منکر تھیں اس لئے اس طرز کو لیا.یہ یاد رکھو کہ جس نے قرآن کریم کے الفاظ اور فقرات کو جو قانونی ہیں ہاتھ میں نہیں لیااس نے قرآن کا قدر نہیں سمجھا.اب دیکھو یہاں خَالِقُ الْعَالَمِیْن نہیں فرمایا بلکہ رَبُّ الْعَالَمِیْن فرمایا یہاں یہ بھی فرمایا کہ رَبُّ الْعَالَمِیْن اس لئے بھی فرمایا تا کہ یہ ثابت کرے کہ وہ بسائط اور عالم امر کا بھی ربّ ہے.کیونکہ بسیط چیزیں امر سے ہیں اور مرکب خلق سے،اس لئے کہ بعض قومیں ربوبیت کی منکر ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم کو جو کچھ ملتا ہے ہمارے عملوں کے سبب سے ہی ملتا ہے مثلاً اگر دودھ ملتا ہے تو اگر ہم کوئی گناہ کر کے گائے یا بھینس وغیرہ کی جون میں نہ جاتے تو دودھ ہی نہ ہوتا اور خلق چونکہ قطع برید کرنے کا نام ہے.اس لئے اس موقع پر رَبُّ الْعَالَمِیْن کو جو اس سے افضل تر ہے بیان فرمایا.اسی طرح پر رحمانیت، رحیمیت کے منکر دنیا میں موجود ہیں.غرض قرآن کریم مذاہبِ باطلہ کے عقائد فاسدہ کو مدّ ِنظر رکھ کر ایک سلسلہ شروع فرماتا ہے.اسی طرح پر اس قصہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی بریت منظور ہے.اور ان کو اس ناپا ک الزام سے بری کرنا مقصود ہے.جو ان پر لگایا جاتا ہے کہ وہ بُت پرست تھے.خدا نے فرمایا مَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ ( البقرۃ : ۱۰۳) سلیمان نے کفر نہیں کیا.۱ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۰ء دو قسم کی مخلوق مولوی جمال الدین صاحب سید والہ نے اپنے واقعات سنائے.جس پر حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ آج میں اَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ (البقرۃ:۸۸) کی بحث لکھتا تھا.اس میں مَیں نے بتایا ہے کہ مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں.روح القدس کے فرزند وہ تمام سعادت مند اور راستباز ہیں جن کی نسبت اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ(الـحجر:۴۳) وارد ہے اور قرآن کریم سے دو قسم کی مخلوق ثابت ہوتی ہے.اوّل وہ جو روح القدس کے فرزند ہیں اور بن باپ پیدا ہونا تو کوئی خصوصیت ۱ الحکم جلد ۴ نمبر ۴۰ مورخہ ۱۰ ؍ نومبر ۱۹۰۰ء صفحہ ۳، ۴

Page 20

نہیں.دوم شیطان کے فرزند.۱ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۰۰ء ایک اہم پیش گوئی سیر میں علماء سوء کی حالت پر افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ کوئی ایسا آدمی ہو جو ان کو جا کر سمجھا وے اور کہے کہ تم کوئی نشان مل کر صدق دل سے دیکھو.پھر فرمایا.یہ لوگ کم ہی امید ہے کہ رجوع کریں مگر جو آئندہ ذرّیّت ہو گی وہ ہماری ہی ہو گی.۲ ۲۲؍اکتوبر ۱۹۰۰ء گوشت خوری چونکہ انسان جلالی جمالی دونوں رنگ رکھتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ گوشت بھی کھائے دال وغیرہ بھی کھائے.۳ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۰ء دوزخ عارضی ہے اور بہشت دائمی صبح کی سیر میںبہشت ودوزخ کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایاکہ ہمارا ایمان ہے کہ دوزخ میں ایک عرصہ تک آدمی رہے گا پھر نکل آوے گا.گویا جن کی اصلاح نبوت سے نہیں ہوسکی اُن کی اصلاح دوزخ کرے گی.حدیث میں آیا ہے کہ دوزخ پر ایک ایسا زمانہ آوے گا کہ اس میں ایک آدمی بھی باقی نہ رہے گا اور نسیم صبا اس کے دروازوں کو کھٹکھٹائے گی.اس کے علاوہ قرآن شریف نے بہشت کے انعامات کا تذکرہ کر کے عَطَآءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ (ہود:۱۰۹) کہہ دیا ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے تھا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو امید نہ رہتی اور مایوسی پیدا ہوتی.۱،۲الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۴ مورخہ ۲۶ ؍ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۳ ۳ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴ ؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۳

Page 21

بہشت کے انعامات کی بے انتہا درازی کودیکھ کر مسرت بڑھتی ہے اور دوزخ کے ایک متعیّن عرصہ تک ہونے سے خدا تعالیٰ کے فرض پر امید پیدا ہوتی ہے.ایک شاعر نے اس کو یوں بیان کیا ہے ؎ گویند کہ بحشر جستجو خواہد بود واں یار عزیز تندخو خواہد بود از خیر محض شرے نیاید ہرگز خوش باش کہ انجام بخیر خواہد بود ۱ معجزات کے اقسام معجزات مسیح ؑپر گفتگو کے سلسلہ میں فرمایاکہ معجزات تین قسم کے ہوتے ہیں.دعا ئیہ، ارہاصیہ اور قوت قدسیہ کے معجزات.ارہاصیہ میں دعا کو دخل نہیں ہوتا.قوتِ قدسیہ کے معجزات ایسے ہوتے ہیں جیسے رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم نے پانی میںانگلیاں رکھ دی تھیں اور لوگ پانی پیتے چلے گئے یا کنوئیں میں لَب مبارک گرا دیا اور اس کا پانی میٹھا ہو گیا.مسیح کے معجزات اس قسم کے بھی تھے.خود ہم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.۲ علم توجہ اور توجہ انبیاء میں فرق توجہ اور انبیاء علیہم السلا م کی دعا میںعظیم الشان فرق ہوتا ہے.وہ توجہ جو مسمر یزم والے کرتے ہیںوہ ایک کسب ہے اور وہ توجہ جو دعا سے پیدا ہوتی ہے ایک موہبتِ الٰہی ہے.نبی جبکہ بنی نوع کی ہمدردی سے متاثر ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی فطرت کو ہمہ توجہ بنا دیتا ہے اور اس میں قبولیت کا نفخ رکھ دیتا ہے.۳ ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۰۱ء صفحہ ۳ ۲ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۴ مورخہ ۲۶ ؍ جولائی ۱۹۰۸ ء صفحہ ۳ ۳ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۰۱ ء صفحہ ۳ ، ۴

Page 22

مقربان الٰہی کی علامت ؎ آں خدائے کہ از و اہل جہاں بے خبر اند بر من او جلوہ نمود ست گر اہلی بپذیر یہ تو ہر ایک قوم کا دعویٰ ہے کہ بہتیرے ہم میں سے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہیں مگر ثبوت طلب یہ بات ہے کہ خدا تعالیٰ بھی ان سے محبت رکھتا ہے یا نہیں؟اور خدا تعالیٰ کی محبت یہ ہے کہ پہلے تو ان دلوں پر سے پردہ اٹھا دے جس پردہ کی وجہ سے اچھی طرح انسان خدا تعالیٰ کے وجود پر یقین نہیں رکھتا اور ایک دھندلی سی اور تاریک معرفت کے ساتھ اس کے وجود کا قائل ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات امتحان کے وقت اس کے وجود سے ہی انکار کر بیٹھتا ہے اور یہ پردہ اٹھایا جانا بجز مکالمہ الٰہیہ کے اور کسی صورت سے میسر نہیں آسکتا.پس انسان حقیقی معرفت کے چشمہ میں اس دن غوطہ مارتا ہے جس دن خدا تعالیٰ اس کو مخاطب کر کے اَنَا الْمَوْجُوْد کی اس کو آپ بشارت دیتا ہے.تب انسان کی معرفت صرف اپنے قیاسی ڈھکو سلہ یا محض منقولی خیالات تک محدود نہیںرہتی بلکہ خدا تعالیٰ سے ا یسا قریب ہوجاتا ہے کہ گویا اس کو دیکھتا ہے اور یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان اسی دن اس کو نصیب ہوتا ہے کہ جب اللہ جَلَّ شَانُہٗ اپنے وجود سے آپ خبر دیتا ہے.اور پھر دوسری علامت خدا تعالیٰ کی محبت کی یہ ہے کہ اپنے پیارے بندوں کو صرف اپنے وجود کی خبر ہی نہیں بلکہ اپنی رحمت اور فضل کے آثار بھی خاص طور پر ان پر ظاہر کرتا ہے اور وہ اس طرح پر کہ ان کی دعا ئیں جو ظاہری امیدوں سے زیادہ ہوں قبول فرما کر اپنے الہام اور کلام کے ذریعہ سے ان کو اطلاع دیتا ہے.تب ان کے دل تسلی پکڑ جاتے ہیں کہ یہ ہمارا قادر خدا ہے جو ہماری دعا ئیں سنتا ہے اور ہم کو اطلاع دیتا ہے اور مشکلات سے ہمیں نجات دیتا ہے.اسی روز سے نجات کا مسئلہ بھی سمجھ میں آتا ہے اور خدا تعالیٰ کے وجود کا بھی پتہ لگتا ہے.اگرچہ جگانے اور متنبہ کرنے کے لئے کبھی کبھی غیروں کو بھی سچی خواب آسکتی ہے مگر اس طریق کا مرتبہ اور شان اور رنگ اَور ہے.یہ خدا تعالیٰ کا مکالمہ ہے جو خاص مقربوں ہی سے ہوتا ہے

Page 23

اور جب مقرب انسان دعا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنی خدا ئی کے جلال کے ساتھ اس پر تجلی فرماتا ہے اور اپنی روح اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی محبت سے بھرے ہوئے لفظوں کے ساتھ اس کو قبول دعا کی بشارت دیتا ہے اور جس کسی سے یہ مکالمہ کثرت سے وقوع میں آتا ہے اس کو نبی یا محدث کہتے ہیں.سچے مذہب کی علامت اور سچے مذہب کی یہی نشانی ہے کہ اس مذہب کی تعلیم سے ایسے راستباز پیدا ہوتے ہیں جو محدث کے درجہ تک پہنچ جائیں جن سے خدا تعالیٰ آمنے سامنے کلام کرے اور اسلام کی حقیقت اور حقانیت کی اوّل نشانی یہی ہے کہ اس میں ہمیشہ ایسے راستبازجن سے خدا تعالیٰ ہم کلام ہو پیدا ہوتے ہیں تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا (حٰمٓ السجدۃ:۳۱) سو یہی معیار حقیقی سچے اور زندہ اور مقبول مذہب کا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ نور صرف اور صرف اسلام میں ہے دوسرے مذاہب اس روشنی سے بے نصیب ہیں اور ان مذاہب کے بطلان کے لئے یہی دلیل ہزار دلیل سے بڑھ کر ہے کہ مُردہ ہرگز زندہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور نہ اندھا سو جا کھے کے ساتھ پورا اتر سکتا ہے.وَلَنِعْمَ مَا قِیْلَ ؎ کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے یہ ثمر باغِ محمدؐ سے ہی کھایا ہم نے یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجاۃ میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے.۱ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو جاؤ میرے دل میں یہ بات آئی ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان ان صفات کو اپنے اندر لے یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ساری صفتیں سزاوار ہیں جو رب العالمین ہے.یعنی ہر عالم میں، نطفہ میں، مضغہ وغیرہ سارے عالموں میں، غرض ہر عالم ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۰۱ ء صفحہ ۴

Page 24

میں پھر رحـمٰن ہے پھر رحیم ہے اور مالک یوم الدین ہے.اب اِيَّاكَ نَعْبُدُ جو کہتا ہے تو گویا اس عبادت میں وہی ربوبیت ،رحمانیت،رحیمیت، مالکیت صفات کا پَرتَو انسان کو اپنے اندر لینا چاہیے.کمال عابد انسان کا یہی ہے کہ تَـخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق میں رنگین ہو جاوے اور جب تک اس مرتبہ تک نہ پہنچ جائے نہ تھکے نہ ہارے.اس کے بعد خود ایک کشش اور جذب پیدا ہو جاتا ہے جو عبادتِ الٰہی کی طرف اسے لے جاتا ہے.اور وہ حالت اس پر وارد ہو جاتی ہے جو يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ(النحل:۵۱) کی ہوتی ہے.۱ ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۰۰ ء حسبِ معمول حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوٰۃ السلام سیر کو تشریف لے گئے.راستہ میں آپ نے فرمایاکہ نبوت اور قرآن شریف کی کلید میرے دعویٰ کا فہم کلید ہے نبوت اور قرآن شریف کی.جو شخص میرے دعویٰ کو سمجھ لے گا،نبوت کی حقیقت اور قرآن شریف کے فہم پر اس کو اطلاع دی جاوے گی اور جو میرے دعویٰ کو نہیں سمجھتا.اس کو قرآن شریف پر اور رسالت پر پورا یقین نہیں ہو سکتا.اتّباعِ امام پھر فرمایا.قرآن شریف میں جو یہ آیت آئی ہے اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ (الغاشیۃ:۱۸ )یہ آیت نبوت اور امامت کے مسئلہ کو حل کرنے کے واسطے بڑی معاون ہے.اونٹ کے عربی زبان میں ہزار کے قریب نام ہیں اور پھر ان ناموں میں سے اِبِل کے لفظ کو جو لیا گیا ہے.اس میں کیا سِرّ ہے؟ کیوں! اِلَی الْـجَمَل بھی تو ہو سکتا تھا؟ اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جَـمَل ایک اونٹ کو کہتے ہیں اور اِبِل اسم جمع ہے.یہاں اللہ تعالیٰ کو چونکہ تمدنی اور اجماعی حالت کا دکھانا مقصود تھا اور جَـمَل میں جو ایک اونٹ پر بولا جاتا ہے یہ فائدہ حاصل نہ ہوتاتھا،اس لیے اِبِل کے لفظ کو پسند فرمایا.اونٹوں میں ایک دوسرے کی پیروی اور اطاعت ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۰۱ ء صفحہ ۴

Page 25

کی قوت رکھی ہے.دیکھو! اونٹوں کی ایک لمبی قطار ہوتی ہے اور وہ کس طرح پر اس اونٹ کے پیچھے ایک خاص انداز اور رفتار سے چلتے ہیں.اور وہ اونٹ جو سب سے پہلے بطور امام اور پیشرو کے ہوتا ہے وہ ہوتا ہے جو بڑا تجربہ کار اور راستہ سے واقف ہو.پھر سب اونٹ ایک دوسرے کے پیچھے برابر رفتار سے چلتے ہیں اور ان میں سے کسی کے دل میں برابر چلنے کی ہوس پیدا نہیں ہوتی جو دوسرے جانوروں میں ہے جیسے گھوڑے وغیرہ میں.گویا اونٹ کی سرشت میں اتباعِ امام کا مسئلہ ایک مانا ہوا مسئلہ ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِکہہ کر اس مجموعی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ اونٹ ایک قطار میں جارہے ہوں.اسی طرح پر ضروری ہے کہ تمدنی اور اتحادی حالت کو قائم رکھنے کے واسطے ایک امام ہو.پھر یہ بھی یاد رہے کہ یہ قطار سفر کے وقت ہوتی ہے.پس دنیا کے سفر کو قطع کرنے کے واسطے جب تک ایک امام نہ ہو انسان بھٹک بھٹک کر ہلاک ہو جاوے.پھر اونٹ زیادہ بارکش اور زیادہ چلنے والا ہے.اس سے صبر وبرداشت کا سبق ملتا ہے.پھر اونٹ کا خاصہ ہے کہ وہ لمبے سفرو ںمیں کئی کئی دنوں کا پانی جمع رکھتا ہے.غافل نہیں ہوتا.پس مومن کو بھی ہر وقت اپنے سفر کے لئے طیار اور محتاط رہنا چاہیے اور بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے.فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى (البقرۃ:۱۹۸ ).يَنْظُرُوْنَ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دیکھنا بچوں کی طرح دیکھنا نہیں ہے بلکہ اس سے اتباع کا سبق ملتا ہے کہ جس طرح پر اونٹ میں تمدنی اور اتحادی حالت کو دکھایا گیا ہے اور ان میں اتباعِ امام کی قوت ہے اسی طرح پر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اتباعِ امام اپنا شعار بنا وے کیونکہ اونٹ جو اس کے خادم ہیں ان میں بھی یہ مادہ موجود ہے.كَيْفَ خُلِقَتْ میں ان فوائد جامع کی طرف اشارہ ہے جو اِبِل کی مجموعی حالت سے پہنچتے ہیں.تناسخ

Page 26

عمال کا نتیجہ ہے تو پھر یہ بھی ساتھ ہی ماننا پڑے گا کہ معاذ اللہ خدا بالکل معطل پڑا ہوا ہے کیونکہ خالق کے متعلق یہ مان لیا گیا ہے کہ وہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتا اور ایک ذرّہ کا بھی وہ خالق نہیں اور اُدھر یہ مانا گیا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ملتا ہے وہ اپنے ہی عملوں سے ملتا ہے.مثلاً اگر کوئی شخص ایسے بُرے عمل نہ کرے کہ وہ گائے یا بھینس کی جون میں جاوے یا بھیڑ، بکری بنے تو پھر دودھ ہی نہ ملے اور اسی طرح پر کچھ بھی نہیں مل سکتا.پھر ایسا خدا جو نہ کچھ پیدا کرتا ہے اور نہ کسی کو کچھ دیتا ہے.وہ ایک معطل خدا نہ ہوا تو اور کیا ہوا؟پھر اس تناسخ کے مسئلہ سے اخلاقی قوتوں پر یہ بڑی زَد پڑتی ہے کہ انسان میں جوغیرت کی قوت رکھی گئی ہے اس کا ستیا ناس ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی ایسی فہرست وید نے نہیں دی کہ فلاں شخص فلاں جون میں چلا گیا ہے تو یہ کیوں ممکن نہیں کہ ایک آدمی کسی وقت اور کسی جون میں اپنی ماں بہن سے بھی شادی کر کے بچے پیدا کرے یا باپ گھوڑا بن جاوے اور بیٹا اس پر سوار ہو کر چابکوں سے اس کی خبر لے.غرض کہ یہ مسئلہ بہت ہی بُرے اور ناپاک نتیجوں کے پیدا کرنے والا ہے.تناسخ ہی کیا کم تھا جو آریوں نے نیوگ بھی ویدوں میں سے نکال لیا.۱ ۳؍ نومبر ۱۹۰۰ء نکات عشرہ ۱.محمد صلی اللہ علیہ وسلم مظہر رحمانیت ورحیمیت رحمانیت کا مظہر تام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے.کیونکہ محمدؐ کے معنے ہیں بہت تعریف کیا گیا.اور رحمان کے معنے ہیں بلا مُزد، بن مانگے بلا تفریق مومن وکافر دینے والا اور یہ صاف بات ہے کہ جو بن مانگے دے گا اس کی تعریف ضرور کی جاوے گی.پس محمدؐمیں رحمانیت کی تجلی تھی اور اسم احمد میں رحیمیت کا ظہور تھا.کیونکہ رحیم کے معنے ہیں محنتوں اور کوششوں کو ضائع نہ کرنے والا اور احمد کے معنے ہیں تعریف کرنے والا اور یہ بھی عام بات ہے کہ وہ شخص جو کسی کا عمدہ کام کرتا ہے وہ اس سے خوش ہو جاتا ہے اور اس کی محنت پر ایک بدلہ دیتاہے اور اس کی تعریف کرتا ۱ الحکم جلد ۴ نمبر ۴۲ مورخہ ۲۴ ؍ نومبر ۱۹۰۰ ء صفحہ ۴ ، ۵

Page 27

ہے.اس لحاظ سے احمد میں رحیمیت کا ظہور ہے.پس اللہ، محمد(رحـمٰن)احمد(رحیم) ہے.گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی ان دو عظیم الشان صفات رحمانیت اوررحیمیت کے مظہر تھے.۲.دنیا ایک ریل گاڑی دنیا ایک ریل گاڑی ہے اور ہم سب کو عمر کے ٹکٹ دئیے گئے ہیں.جہاں جہاں کسی کا سٹیشن آتا جاتا ہے اس کو اُتار دیا جاتا ہے.یعنی وہ مَر جاتاہے پھر انسان کس زندگی پر خیالی پلاؤ پکاتا اور لمبی امیدیں باندھتا ہے.۳.معراج کا سِرّ معراج انقطاعِ تام تھا اور سِرّ اس میںیہ تھا کہ تارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقطۂ نفسی کو ظاہر کیا جا وے.آسمان پر ہر ایک روح کے لیے ایک نقطہ ہوتا ہے.اس سے آگے وہ نہیں جاتی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نقطہءِ نفسی عرش تھا اور رفیقِ اعلیٰ کے معنے بھی خدا ہی کے ہیں.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اور کوئی معززومکرم نہیں ہے.۴.نماز تعویذ ہے نماز انسان کا تعویذ ہے.پانچ وقت دعا کا موقع ملتا ہے.کوئی دعا تو سنی جائے گی.اس لیے نماز کو بہت سنوار کر پڑھنا چاہیے اور مجھے یہی بہت عزیز ہے.۵.فاتحہ کی سات آیات کی حکمت سورۃ فاتحہ کی سات آیتیں اسی واسطے رکھی ہیں کہ دوزخ کے سات دروازے ہیں.پس ہر ایک آیت گویا ایک دروازہ سے بچاتی ہے.۶.اصل جنّت اعلیٰ درجہ کی خوشی خدا میں ملتی ہے.جس سے پرے کوئی خوشی نہیں ہے.جنت پوشیدہ کو کہتے ہیں اور جنت کو جنت اس لیے کہتے ہیں کہ وہ نعمتوں سے ڈھکی ہوئی ہے.اصل جنت خدا ہے.جس کی طرف تردّد منسوب ہی نہیں ہوتا.اس لیے بہشت کے اعظم ترین انعامات میں رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ (التوبۃ:۷۲) ہی رکھا ہے.انسان انسان کی حیثیت سے کسی نہ کسی دکھ اور تردّد میں ہوتا ہےمگر جس قدر قربِ الٰہی حاصل کرتا جاتا ہے اور تَـخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہ

Page 28

سے رنگین ہوتا جاتا ہے اسی قدر اصل سکھ اور آرام پاتاہے.جس قدر قربِ الٰہی ہو گا لازمی طور پر اُسی قدر خدا کی نعمتوں سے حصہ لے گااور رفع کے معنے اسی پر دلالت کرتے ہیں.نجات کامل خدا ہی کی طرف مرفوع ہو کر ہوتی ہے اور جس کا رفع نہ ہو وہ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ (الاعراف: ۱۷۷ ) ہو جاتا ہے.پس رفع مسیحؑ سے مراد ان کے نجات یافتہ ہونے کی طرف ایما ہے اور یہ روحانی مراتب ہیں جن کو ہر ایک آنکھ دیکھ نہیں سکتی کہ کیوں کر ایک انسان آسمان کی طرف اُٹھایا جاتا ہے.۷.نزول سے مُراد نزول سے مراد عزّت وجلال کا اظہار ہوتا ہے.پس ہمارا نزول بھی یہی شان رکھتا ہے.پھر نزول سے پہلے منارہ کا وجود تو خود ہی ہو جائے گا.نزول سے مراد محض بعثت نہیں ہوتی.۸.سورئہ فاتحہ کی جامع تفسیر اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ سے قرآن شریف اسی لیے شروع کیا گیا ہے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی طرف ایما ہو.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ سے پایا جاتا ہے کہ جب انسانی کوششیں تھک کر رہ جاتی ہیںتو آخر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے.دعا کامل تب ہوتی ہے کہ ہر قسم کی خیر کی جامع ہواور ہر شر سے بچاوے.پس اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ میں ساری خیر جمع ہیں.اور غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ میں سب شرّوں حتی کہ دجّالی فتنہ سے بچنے کی دعا ہے.مغضوب سے بالا تفاق یہودی اور اَلضَّآلِّيْنَ سے نصاریٰ مراد ہیں.اب اگر اس میں کوئی رمزاور حقیقت نہ تھی تو اس دعا کی تعلیم سے کیا غرض تھی؟اور پھر ایسی تاکید کہ اس دعا کے بدوں نماز ہی نہیں ہوتی اور ہر رکعت میں اُس کا پڑھا جانا ضروری قرار دیا.بھید اس میں یہی تھا کہ یہ ہمارے زمانہ کی طرف ایما ہے.اس وقت صراطِ مستقیم یہی ہے جو ہماری راہ ہے.۹.مسیحؑ کی شبیہ کا افسانہ کہتے ہیں کہ مسیحؑ کی شبیہ کو سولی دی گئی.مگر میں کہتا ہوں کہ اس میں حصر عقلی یہی بتاتا ہے کہ وہ شخص جو مسیحؑ کی شبیہ بنایا گیا یادشمن ہو گا یا دوست.اگر وہ دشمن تھا تو ضرور تھا کہ وہ شور مچاتا کہ میں مسیحؑ نہیں ہوں اور میرے فلاں رشتہ دار

Page 29

موجود ہیں.میرا اپنی بیوی کے ساتھ فلاں راز ہے.مسیحؑ کو تو میں ایسا سمجھتا ہوں.غرض وہ شور مچا کر اپنی صفائی اور بریّت کرتا حالانکہ کسی تاریخ صحیح سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ جو شخص صلیب پر لٹکایا گیا تھااس نے شور مچا کر رہائی حاصل کر لی تھی.اور اگر وہ مسیحؑ کا دوست اور حواری ہی تھا.پھر صاف بات ہے کہ وہ مومن باللہ تھا اور وہ صلیب پر مرنے کی وجہ سے بلا وجہ ملعون ہوا اور خدا نے اس کو ملعون بنایا.رہی یہ بات کہ مصلوب ملعون کیوں ہوتا ہے؟ یہ عام بات ہے کہ جو چیز کسی فرقہ سے تعلق رکھتی ہے وہ اس کے ساتھ منسوب ہو جاتی ہے.سولی کو مجرموں کے ساتھ تعلق ہے جو گویا کاٹ دینے کے قابل ہوتے ہیں اور خدا کا تعلق مجرم کے ساتھ کبھی نہیں ہوتا.یہی لعنت ہے.اس وجہ سے وہ لعنتی ہوتا ہے.اس لیے یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ایک مومن ناکردہ گناہ ملعون قرار دیا جاوے.پس یہ دونوں باتیں غلط ہیں.اصل وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر ظاہر کی کہ مسیحؑ کی حالت غشی وغیرہ سے ایسی ہو گئی جیسے مُردہ ہوتے ہیں.۱۰.انبیاء خبیث امراض سے محفوظ رکھے جاتے ہیں انبیاء علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کے مامور خبیث اور ذلیل بیماریوں سے محفوظ رکھے جاتے ہیں مثلاً جیسے آتشک ہو،جذام ہو یا اور کوئی ایسی ہی ذلیل مرض.یہ بیماریاں خبیث لوگوں ہی کو ہوتی ہیں.اَلْـخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ (النّور: ۲۷ ) اس میں عام لفظ رکھا ہے اور نکات بھی عام ہیں.اس لئے ہر خبیث مرض سے اپنے ماموروں اور برگزیدوں کو بچا لیتا ہے.یہ کبھی نہیں ہوتا کہ مومن پر جھوٹا الزام لگایا جاوے اور وہ بری نہ کیا جاوے خصوصاًمصلح اور مامور.اور یہی وجہ ہے کہ مصلح یا مامور حسب نسب کے لحاظ سے بھی ایک اعلی درجہ رکھتا ہے اگرچہ ہمارا مذہب یہی ہے اور یہی سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک تکریم اور تعظیم کا معیار صرف تقویٰ ہی ہے اور ہم یہ مانتے ہیں کہ ایک چوہڑا بھی مسلمان ہو کر اعلیٰ درجہ کا قرب اور درجہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاصل کر سکتا ہے اور وہاں کسی خاص قوم یا ذات کے لئے فضل مخصوص نہیں

Page 30

ہےمگر سنّت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ جس کو مامور اور مصلح مقرر فرماتا ہےاس کو ایک اعلیٰ خاندان میں ہونے کا شرف دیتا ہے اور یہ اس لئے کہ لوگوں پر اس کا اثر پڑے اور کوئی طعنہ نہ دے سکے.۱ ۱۵؍ نومبر ۱۹۰۰ ء نبی اور ولی کی عبادات میں فرق خیانت اور ریا کاری دو ایسی چیزیں ہیںکہ ان کی رفتار بہت ہی سُست اور دھیمی ہے.اگر کسی زاہد کو فاسق کہہ دیا جاوے تواسے ایک لذّت آجائے گی اس واسطے کہ وہ راز جواس کے اور اس کے محبوب ومولیٰ کے درمیان ہے وہ مخفی معلوم دے گا.صوفی کہتے ہیں کہ خالص مومن جبکہ عین عبادت میں مصروف ہو اور وہ اپنے آپ کو پوشیدہ کر کے کسی حجرہ یا کوٹھڑی کے دروازے بند کر کے بیٹھا ہو.ایسی حالت میں اگر کوئی شخص اس پر چلا جاوے تو وہ ایسی طرح شرمندہ ہو جاوے گا جیسے ایک بد کار اپنی بدکاری کو چھپاتا ہے.جیسے کہ اس قسم کے مومن کو کسی کے فاسق کہنے سے ایک لذّت آتی ہے.اسی طرح پر دیانت دار کو کسی کے بد دیانت کہنے سے جوش میں نہیں آنا چاہیے.ہاں!انبیاء میں ایک قسم کا استثنیٰ ہوتا ہےکیونکہ اگر وہ اپنی عبادت اور افعال کو چھپائیں تو دنیا ہلاک ہو جاوے مثلاً اگر نبی نے نماز پڑھ لی ہو اور کوئی کہے کہ دیکھو اس نے نماز نہیں پڑھی تو اس کو چپ رہنا مناسب نہیں ہوتا اور اس کو بتلاناپڑتا ہے کہ تم غلط کہتے ہو.میں نے نماز پڑھ لی ہے.اس لئے کہ اگر وہ نہ کہے دوسرے لوگ دھوکہ میں پڑ کر ہلاک ہو سکتے ہیں.پس نبیوں کو ضرور ہوتا ہے کہ وہ اپنی عبادات کا ایک حصہ ظاہر طور پر کرتے ہیں اور لوگوں کو دکھانا مقصود ہوتا ہے تا کہ ان کو سکھاویں.یہ ریا نہیں ہوتی.اگر کوئی کہے کہ خضر نے ایسے کام کیوں کئے جن میں شریعت کی خلاف ورزی کا مظنّہ تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ خضر صاحبِ شریعت نہ تھا ولی تھا.انبیاء علیہم السلام کے لئے دونو حصے ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۶ مورخہ ۱۷؍ فروری ۱۹۰۱ ء صفحہ ۷ ، ۸ بروایت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب در مجمع تشحیذ الاذہان.

Page 31

ہوتے ہیں.اس لئے ان کو سِرًّا وَّعَلَانِیَّۃً نیکی کرنے کا حکم ہوتا ہے.میرے پاس آؤ اور میری سنو! میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں ہے بلکہ میری حیثیت سنن انبیاء کی سی حیثیت ہے.مجھے ایک سماوی آدمی مانو پھر یہ سارے جھگڑے اور تمام نزاعیں جو مسلمانوں میں پڑی ہوئی ہیں ایک دم میں طے ہو سکتی ہیں.جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر حَکَم بن کر آیا ہے جو معنی قرآن شریف کے وہ کرے گاوہی صحیح ہوں گے اور جس حدیث کو وہ صحیح قرار دے گا وہی صحیح حدیث ہو گی.ورنہ شیعہ سنی کے جھگڑے آج تک دیکھو کب طے ہونے میں آتے ہیں.شیعہ اگر تبرّا کرتے ہیں تو بعض ایسے بھی ہیں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نسبت کہتے ہیں.؎ بر خلافت دلش بسے مائل لیک بوبکر شد درمیاں حائل مگر مَیں کہتا ہوں کہ جب تک یہ اپنا طریق چھوڑ کر مجھ میں ہو کر نہیں دیکھتے یہ حق پر ہرگز نہیں پہنچ سکتے.اگر ان لوگوں کو اور یقین نہیں تو اتنا تو ہونا چاہیے کہ آخر مَرنا ہے اور مَرنے کے بعد گند سے تو کبھی نجات نہیں ہوسکتی.سبّ وشتم جب ایک شریف آدمی کے نزدیک پسندیدہ چیز نہیں ہے تو پھر خدائے قدوس کے حضور عبادت کب ہو سکتی ہے؟اس لئے تو میں کہتا ہوں کہ میرے پاس آؤ،میری سنو تا کہ تمہیں حق نظر آوے.میں تو سارا ہی چولا اتارنا چاہتا ہوں.سچی توبہ کر کے مومن بن جاؤ.پھر جس امام کے تم منتظر ہو، میں کہتا ہوں وہ مَیں ہوں.اس کا ثبوت مجھ سے لو.اسی لئے میں نے اس خلیفہ بلافصل کے سوال کو عزّت کی نظر سے نہیں دیکھا.میں ایسے گندے سوال کو کیا کروں.ا نہیں گندوں کو نکالنے کے واسطے تو خدا نے مجھے بھیجا ہے.دیکھو!سُنّی اُن کی حدیثوں کو لغو ٹھہراتے ہیں.یہ اپنی حدیثوں کو مرفوع متّصل اور آئمہ سے مروی قرار دیتے ہیں.ہم کہتے ہیں یہ سب جھگڑے فضول ہیں.اب مُردہ باتوں کو چھوڑو اور ایک زندہ امام کو شناخت کرو کہ تمہیں زندگی کی روح ملے.اگر تمہیں خدا کی تلاش ہے تو اس کو ڈھونڈو جو خدا کی طرف

Page 32

سے مامور ہو کر آیا ہے.اگر کوئی شخص خبث کو نہیں چھوڑتاتو کیا ہم اندھے ہیں؟منافق کے دل کی بدبو نہیں سونگھتے؟ہم انسان کو فوراً تاڑ جاتے ہیں کہ اس کی بات اس بنا پر ہے.پس یاد رکھو! خدا نے یہی راہ پسند کی ہے جو میں بتاتا ہوں اور یہ اقرب راہ اُسی نے نکالی ہے.دیکھو! جو ریل جیسی آرام دہ سواری کو چھوڑ کر ایک لنگڑے مَریل ٹٹو پر سوار ہوتا ہے،وہ منزل پرنہیں پہنچ سکتا.افسوس!یہ لوگ خدا کی باتوں کو چھوڑ کر زید، بکر کی باتوںپر مَرتے ہیں.ان سے پوچھو کہ وہ حدیثیں کس نے دی ہیں؟ میں تو بار بار یہی کہتا ہوں کہ ہمارا طریق تو یہ ہے کہ نئے سر سے مسلمان بنو.پھر اللہ تعالیٰ اصل حقیقت خود کھول دے گا.میں سچ کہتا ہوںکہ اگر وہ امام جن کے ساتھ یہ اس قدر محبت کا غُلو کرتے ہیں زندہ ہوں تو اِن سے سخت بیزاری ظاہر کریں.جب ہم ایسے لوگوں سے اعراض کرتے ہیں تو پھر کہتے ہیں کہ ہم نے ایسا اعتراض کیا جس کا جواب نہ آیا اور پھر بعض اوقات اشتہار دیتے پھرتے ہیں.مگر ہم ایسی باتوں کی کیا پروا کر سکتے ہیں.ہم کو تو وہ کرنا ہے جو ہمارا کام ہے.اس لئے یاد رکھو کہ پرانی خلافت کاجھگڑاچھوڑو.اب نئی خلافت لو.ایک زندہ علی تم میں موجود ہے اس کو چھوڑتے ہو اور مُردہ علی کی تلاش کرتے ہو.۱ ۸؍ دسمبر۱۹۰۰ء ایک الہام اور اپنی وحی پر یقین فرمایا.کل رات میری انگلی کے پوٹے میں درد تھا اور اس شدت کے ساتھ درد تھا کہ مجھے خیال آیا تھا کہ رات کیوں کر بسر ہو گی.آخر ذرا سی غنودگی ہوئی اور الہام ہوا کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًااور سَلَامًا کا لفظ ابھی ختم نہ ہونے پایا تھا کہ معاً درد جاتا رہا ایسا کہ کبھی ہوا ہی نہیں تھا.یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے.۱ الحکم جلد ۴ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۷ ؍ نومبر ۱۹۰۰ء صفحہ ۱، ۲

Page 33

اس پر آپؑ نے فرمایا کہ ہم کو تو خدا تعالیٰ کے اس کلام پر جو ہم پر وحی کے ذریعہ نازل ہوتا ہے اس قدر یقین اور علیٰ وجہ البصیرۃ یقین ہے کہ بیت اللہ میں کھڑا کر کے جس قسم کی چاہوقسم دے دو.بلکہ میرا تو یقین یہاںتک ہے کہ اگر میں اس بات کا انکار کروںیا وہم بھی کروں کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں تو معاً کافر ہوجاؤں.۱ ۱۳؍دسمبر ۱۹۰۰ء نصرتِ الٰہی فیصلہ کن قاضی ہے الٰہی بخش لاہوری مخالف کی کتاب’’عصائے موسیٰ‘‘ تمام وکمال پڑھ کر حضرت اقدس ؑنے فرمایا.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کی فضولیات کو چھوڑ کر چند گھنٹوںکا کام ہے اس کا جواب دے دینا لیکن میں محض ترحم سے کچھ مدت تک اس کو چھوڑ دیتا ہوں کہ وہ لوگ بھی خوش ہو لیں.آخر پرانے رفیق تھے.اور نیز اس اثنا میں بہت سے لوگوں کے فہم اور عقلیں اور ایمان ہمیں معلوم ہو جاویں گے کہ کون کون اس پر ریویو کرتا ہے اور کیا کرتا ہے.اور کون کون اس کے وسوسوں سے متاثر ہوتا ہے.بہرحال مصلحت یہی ہے کہ ایک وقت تک اس کی طرف سے اغماض کیا جاوے.مت سمجھو کہ ہمارے حق میں یہ کتاب شر ہے.یقیناً یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نے اس سے ہماری بڑی خیر کا ارادہ فرمایا ہے.آخری فیصلہ کی راہ خدا تعالیٰ کی نصرتوں اور تائیدوں کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے؟ جو اعتراض اس نے ہم پر کیے ہیں وہی نصاریٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتیات پر کرتے ہیں.آخر اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ (الفتح:۲ ، ۳) نے فیصلہ کر دیا کہ سارے جزوی اعتراض باطل تھے.حضرت موسٰی پر آریوں نے کیا کیا اعتراض کیے کہ ۱ الحکم جلد ۴ نمبر ۴۴ مورخہ ۱۰ ؍ دسمبر ۱۹۰۰ء صفحہ ۶

Page 34

فرعونیوں کا مال انہوں نے غبن کیا اور بچے مارے اور یہ کیا اور وہ کیا.مگر نصرتِ الٰہی نے غرق فرعون اور آپ کی نجات سے فیصلہ کر دیا کہ حق کس طرف تھا.غرض نصرتِ الٰہی آخر کار بڑا فیصلہ کن قاضی ہوتی ہے.ہمارے اور ان کے درمیان بھی نصرتِ الٰہی اورتائیداتِ سماوی فیصلہ کن ہوں گی.۱ ۲۲؍دسمبر ۱۹۰۰ء وقت کی قدر کرو ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا.ڈاکٹر صاحب!ہمارے دوست دو قسم کے ہیں.ایک وہ جن کے ساتھ ہم کو کوئی حجاب نہیں اور دوسرے وہ جن کو ہم سے حجاب ہے.چونکہ ان کو ہم سے حجاب ہے اس لئے ان کے دل کا اثر ہم پر پڑتا ہے اور ہم کو ان سے حجاب رہتا ہے.جن لوگوں سے ہم کو کوئی حجاب نہیں ہے ان میں سے ایک آپ بھی ہیں.ہم چاہتے ہیںکہ ہمارے وہ دوست جن کو ہم سے کچھ حجاب باقی نہیں رہا وہ ہمارے پاس رہیں کیونکہ موت کا کچھ اعتبار نہیں ہے.ہم سب کے سب عمر کی ایک تیز رفتار گاڑی پر سوار ہیں اور مختلف مقامات کے ٹکٹ ہمارے پاس ہیں.کوئی دس برس کی منزل پر اتر جاتا ہے کوئی بیس کوئی تیس اور بہت ہی کم اَسّی برس کی منزل پر.جبکہ یہ حال ہے تو پھر کیسا بد نصیب وہ انسان ہے کہ وہ اس وقت کی جو اس کو دیا گیا ہے کچھ قدر نہ کرے اور اس کو ضائع کر دے.نماز میں دعا اور تضرّع انسان کی زاہدانہ زندگی کا بڑا بھاری معیار نماز ہے.وہ شخص جو خدا کے حضور نماز میں گریاں رہتا ہے،امن میں رہتا ہے.جیسے ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں چیخ چیخ کر روتا ہے اور اپنی ماں کی محبت اور شفقت کو محسوس کرتا ہے.اسی طرح پر نماز میں تضرّع اور ابتہال کے ساتھ خدا کے حضور گڑ گڑانے والا اپنے آپ کو ربوبیت کی عطوفت کی گود میں ڈال دیتا ہے.یاد رکھو اس نے ایمان کا حظ نہیں اٹھایا جس نے نماز میں لذّت نہیں پائی.نماز صرف ٹکروں کا نام نہیں ہے.بعض لوگ نماز کو تو دو چار چونچیں لگا کر جیسے مرغی ٹھونگے مارتی ہے ختم ۱ الحکم جلد ۴ نمبر ۴۵ مورخہ ۱۷ ؍ دسمبر ۱۹۰۰ ء صفحہ ۲

Page 35

کرتے ہیں اور پھر لمبی چوڑی دعا شروع کرتے ہیں حالانکہ وہ وقت جو اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرنے کے لئے ملا تھا اس کو صرف ایک رسم اور عادت کے طور پر جلد جلد ختم کرنے میں گزار دیتے ہیں اور حضورِ الٰہی سے نکل کر دعا مانگتے ہیں.نماز میںدعا مانگو.نماز کو دعا کا ایک وسیلہ اور ذریعہ سمجھو.فَاتِـحَۃ.فتح کرنے کو بھی کہتے ہیں.مومن کو مومن اور کافر کو کافر بنا دیتی ہے.یعنی دونوں میں ایک امتیاز پیدا کر دیتی ہے اور دل کو کھولتی، سینہ میں ایک انشراح پیدا کرتی ہے اس لئے سورۂ فاتحہ کو بہت پڑھنا چاہیے اور اس دعا پر خوب غور کرنا ضروری ہے.انسان کو واجب ہے کہ وہ ایک سائل کامل اور محتاج مطلق کی صورت بنا وے اور جیسے ایک فقیر اور سائل نہایت عاجزی سے کبھی اپنی شکل سے اور کبھی آواز سے دوسرے کو رحم دلاتا ہے.اسی طرح سے چاہیے کہ پوری تضرّع اور ابتہال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض حال کرے.پس جب تک نماز میں تضرع سے کام نہ لے اور دعا کے لئے نماز کو ذریعہ قرار نہ دے نماز میں لذّت کہاں.اپنی زبان میں دعا یہ ضروری بات نہیں ہے کہ دعا ئیں عربی زبان میں کی جاویں چونکہ اصل غرض نماز کی تضرّع اور ابتہال ہےاس لئے چاہیے کہ اپنی مادری زبان میںہی کرے.انسان کو اپنی مادری زبان سے ایک خاص انس ہوتا ہے اور وہ پھر اس پر قادر ہوتا ہے.دوسری زبان سے خواہ اس میں کس قدر بھی دخل ہو اور مہارت کامل ہو ،ایک قسم کی اجنبیّت باقی رہتی ہے اس لئے چاہیے کہ اپنی مادری زبان ہی میں دعا ئیں مانگے.موت سے بے فکر نہ ہوں کسی کو کیا معلوم ہے کہ ظہر کے بعد عصر کے وقت تک زندہ رہیں.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ یک وقت ہی دوران خون بندہو کر جان نکل جاتی ہے.بعض دفعہ چنگے بھلے آدمی مَر جاتے ہیں.وزیر محمد حسن خاں صاحب ہوا خوری کرکے آئے تھے اور خوشی خوشی زینہ پر چڑھنے لگے.ایک دو زینہ چڑھے ہوں گے کہ چکر آیا، بیٹھ گئے.نوکر نے کہا کہ میں سہارا دوں.کہا نہیں.پھر دو تین زینہ چڑھے پھر چکر آیا اور اسی چکر کے ساتھ جان

Page 36

نکل گئی.ایسا ہی غلام محی الدین کوتلی کشمیر کا ممبر یکدفعہ ہی مَر گیا.غرض موت کے آجانے کا ہم کو کوئی وقت معلوم نہیں کہ کس وقت آجاوے.اسی لیے ضروری ہے کہ اس سے بے فکر نہ ہوں.پس دین کی غم خواری ایک بڑی چیز ہے جو سکرات الموت میں سر خرو رکھتی ہے.قرآن شریف میں آیا ہے اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ (الـحج:۲) ساعت سے مراد قیامت بھی ہو گی.ہم کو اس سے انکار نہیں مگر اس میں سکرات الموت ہی مراد ہے کیونکہ انقطاع تام کا وقت ہوتا ہے.انسان اپنے محبوبات اور مرغوبات سے یکدفعہ الگ ہوتا ہے اور ایک عجب قسم کا زلزلہ اس پر طاری ہوتا ہے.گویا اندر ہی اندر وہ ایک شکنجہ میں ہوتا ہے.اس لئے انسان کی تمام تر سعادت یہی ہے کہ وہ موت کا خیال رکھے اور دنیا اور اس کی چیزیںاس کی ایسی محبوبات نہ ہوں جو اس آخری ساعت میں علیحدگی کے وقت اس کی تکالیف کا موجب ہوں.دنیا اور اس کی چیزوں کے متعلق ایک شاعر نے کہا ہے ؎ ایں ہمہ را بہ کشتنت آہنگ گاہ بصلح کشند و گاہ بجنگ قرآن کریم نے اس مضمون کو اس آیت میں ادا کر دیا ہے اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ (الانفال:۲۹) اَمْوَالُكُمْ میں عورتیں داخل ہیں.عورت چونکہ پردہ میں رہتی ہے اس لئے اس کا نام بھی پردہ ہی میں رکھا ہے اور اس لئے بھی کہ عورتوں کو انسان مال خرچ کر کے لاتا ہے.مال کا لفظ مائل سے لیا گیا ہے یعنی جس کی طرف طبعاً توجہ اور رغبت کرتا ہے.عورت کی طرف بھی چونکہ طبعاً توجہ کرتا ہے اس لئے اس کو مال میں داخل فرمایا ہے.مال کا لفظ اس لئے رکھا تا کہ عام محبوبات پرحاوی نہ ہو.ورنہ اگر صرف نساء کا لفظ ہوتاتو اولاد اور عورت دو چیزیں قرار دی جاتیں اور اگر محبوبات کی تفصیل کی جاتی تو صرف پھر دس جزو میں بھی ختم نہ ہوتا.غرض مال سے مراد کُلَّ مَا یَـمِیْلُ اِلَیْہِ الْقَلْبُ ہے.اولاد کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ انسان اولاد جگر کا ٹکڑہ اور اپنا وارث سمجھتا ہے.مختصر بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور انسان کے محبوبات میں ضد ہے.دونوں باتیں یکجا جمع نہیں ہو سکتیں.

Page 37

بیوی سے حسن سلوک اس سے یہ مت سمجھو کہ پھر عورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جاوے.نہیں نہیں.ہمارے ہادی کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو.بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں.دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو.نہ یہ کہ ہر ادنیٰ بات پر زدو کوب کرے.ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض وقت ایک غصہ میں بھرا ہوا انسان بیوی سے ادنیٰ سی بات پر ناراض ہو کر اس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے اور بیوی مر گئی ہے اس لئے ان کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النّساء: ۲۰ ) ہاں اگر وہ بے جا کام کرے تو تنبیہ ضروری چیز ہے.انسان کو چاہیے کہ عورتوں کے دل میں یہ بات جما دے کہ وہ کوئی ایسا کام جو دین اور بدعت کے خلاف ہو کبھی بھی پسند نہیں کر سکتا اور ساتھ ہی وہ ایسا جابر اور ستم شعار نہیں کہ اس کی کسی غلطی پر بھی چشم پوشی نہیں کر سکتا.خاوند عورت کے لئے اللہ تعالیٰ کا مظہر ہوتا ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے سوا کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے.پس مرد میں جلالی اور جمالی دونوں رنگ موجود ہونے چاہئیں.اگر خاوند عورت سے کہے کہ تو اینٹوں کا ڈھیر ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دے تو اس کا حق نہیں ہے کہ اعتراض کرے.مرشد اور مرید کا تعلق ایسا ہی قرآن کریم اور حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ مرشد کے ساتھ مرید کا تعلق ایسا ہونا چاہیے جیسا عورت کا تعلق مرد سے ہو.مرشد کے کسی حکم کاانکار نہ کرے اور اس کی دلیل نہ پوچھے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ(الفاتـحۃ:۶،۷) فرمایا ہے کہ منعم علیہم کی راہ کے مقیّد رہیں.انسان چونکہ طبعاً آزادی کو چاہتا ہے پس حکم کر دیا کہ اس راہ کو اختیار کرے.تجربہ کار ڈاکٹر اگر غلطی بھی کرے تو جاہل کے علاج سے بہتر ہے.

Page 38

ایک جاہل کے پاس اگر اعلیٰ درجہ کے تیز اوزار ہیں لیکن ہاتھ حاذق ڈاکٹر کا نہ ہو تو وہ اوزار کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں.کسی نے کہا ہے.؎ اگر دستِ سلیمانی نہ باشد چِہ خاصیت دہد نقشِ سلیمانی پس قرآن کریم ایک تیز ہتھیار ہے لیکن اس کے استعمال کے لئے اعلیٰ درجہ کے ڈاکٹر کی ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ کی تائیدات سے فیض یافتہ ہو.یہ ضروری بات ہے کہ دل پاک ہو.لیکن ہر جگہ یہ دولت میسر نہیں آ سکتی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو پیدا کیا مگر ہر شخص نبی نہیں ہوتا اور وہ تعداد کم ہے.آدم کہلانے کی حقیقت آدم ہی ایک ہے جو نطفہ کے بغیر پیدا ہوا ہے.اسی طرح پر میرا الہام ہے اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ.یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اس کو کسی کی بیعت اور مریدی کی ضرورت نہ ہو گی بلکہ جیسے آدم کو خدا نے اپنے جمالی اور جلالی ہاتھ سے پیدا کیا ہے یہ خلیفۃ اللہ بھی اسی کے ہاتھ کا تربیت یافتہ اور اسی کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا ہو گا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو ان سلسلوں سے الگ رکھا جو منہاج نبوت کے خلاف ہیں.اب جبکہ یہ حال ہے کہ دل کی پا کیزگی کا حاصل کرنا ضروری ہے.اور یہ حاصل نہیں ہوسکتی جب تک منہاج نبوت پر آئے ہوئے پاک انسان کی صحبت میں نہ بیٹھے.اس کی صحبت کی توفیق نہیں مل سکتی جب تک اوّلاً انسان یہ یقین نہ کرلے کہ وہ ایک مرنے والی ہستی ہے.یہی ایک بات ہے جو اس کو صادق کی صحبت کی توفیق عطا فرماوے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے لئے نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک واعظ پیدا کر دیتا ہے.سب سے بڑھ کر واعظ یہ ہے کہ وہ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التوبۃ:۱۱۹ )کی حقیقت کو سمجھ لے.صحابہ کرامؓ کا رنگ پیدا کریں صحابہ کرامؓ کی حالت کو دیکھو کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنے کے لئے کیا کچھ نہ

Page 39

کیا.جو کچھ انہوں نے کیااسی طرح پر ہماری جماعت کو لازم ہے کہ وہی رنگ اپنے اندر پیدا کریں.بدوں اس کے کہ وہ اس اصلی مطلب کو جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوںپا نہیں سکتے.کیا ہماری جماعت کو زیادہ حاجتیں اور ضرورتیں لگی ہوئی ہیں جو صحابہ ؓ کو نہ تھیں.کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے اور آپ کی باتیں سننے کے واسطے کیسے حریص تھے.اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعود کے ساتھ ہے یہ درجہ عطا فرمایا ہے کہ وہ صحابہؓ کی جماعت سے ملنے والی ہے.وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ (الـجمعۃ:۴) مفسروں نے مان لیا ہے کہ یہ مسیح موعود والی جماعت ہے.اور یہ گویاصحابہؓ ہی کی جماعت ہو گی اور وہ مسیح موعود کے ساتھ نہیں در حقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی ساتھ ہیںکیونکہ مسیح موعود آپ ہی کے ایک جمال میں آئے گا اور تکمیلِ تبلیغ اشاعت کے کام کے لئے مامور ہو گا.اس لئے ہمیشہ دل غم میں ڈوبتا رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو بھی صحابہؓ کے انعامات سے بہرہ ور کرے.ان میں وہ صدق و وفا وہ اخلاص اور اطاعت پیدا ہو جو صحابہؓ میں تھی.یہ خدا کے سوا کسی سے ڈرنے والے نہ ہوں.متقی ہوں کیونکہ خدا کی محبت متقی کے ساتھ ہوتی ہے.اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ (البقرۃ:۱۹۵)۱ متقی کے ساتھ چونکہ اللہ تعالیٰ کی معیّت ہوتی ہے اس لئے دشمن پر بھی متقی کا رعب ہوتا ہے مگر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ سچا تقویٰ کبھی حاصل نہیں ہو سکتا جب تک انسان صادقوں اور مردانِ خدا کی صحبت اختیار نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ کے فرستادوں کی اطاعت میں ایک فنا اپنے اوپر طاری نہیں کر لیتا.اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التوبۃ: ۱۱۹ ) ایمان والو!تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ رہو ان کی معیّت سے قوت پکڑو.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کی پوری حقیقت متقی ہونے کے بعد کھلتی ہے.اور تقوَی اللہ کی حقیقت اس وقت تک متحقق نہیں ہوسکتی جب تک ایک فانی مَرد کی پاک صحبت میں رہ کر فائدہ نہ اُٹھایا جائے اور یہ بھی یاد رکھنا ۱ الحکم جلد ۴ نمبر ۴۶ مورخہ ۲۴ ؍ دسمبر ۱۹۰۰ ء صفحہ ۱ تا ۳

Page 40

چاہیے کہ صرف صحبت میں رہنا ہی چنداں مفید اور کارگر نہیں ہوتا بلکہ صادقوں کی صحبت کے اختیار کرنے میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ان کی اطاعت اختیار کی جائے چنانچہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ (النّساء : ۶۰ ) یعنی اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو.اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذّت اور روشنی آتی ہے.مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے.اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے.بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بُت بن سکتی ہے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیسا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں فناشدہ قوم تھی.یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملّیّت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے.اور اگر اختلافِ رائے اور پھوٹ رہے تو پھر سمجھ لو کہ یہ ادبار اور تنزل کے نشانات ہیں.مسلمانوں کے ضعف اور تنزل کے منجملہ دیگر اسباب کے باہم اختلاف اور اندرونی تنازعات بھی ہیں پس اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہوجاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے.اس میں یہی تو سِرّ ہے.اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہوسکتی جب تک اطاعت نہ کی جائے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہؓ بڑے بڑے اہل الرائے تھے.خدا نے ان کی بناوٹ ایسی ہی رکھی تھی.وہ اصول سیاست سے بھی خوب واقف تھے کیونکہ آخر جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرامؓ خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بار گراں کو سنبھالا ہے اس سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ ان میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ان کا یہ حال تھا کہ جہاں آپ نے کچھ فرمایا اپنی تمام

Page 41

راؤں اور دانشوں کو اس کے سامنے حقیر سمجھا اور جو کچھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا.ان کی اطاعت میں گم شدگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے وضو کے بقیہ پانی میں برکت ڈھونڈتے تھے اور آپ کے لبِ مبارک کو متبرک سمجھتے تھے اگر ان میں یہ اطاعت یہ تسلیم کا مادہ نہ ہوتا بلکہ ہر ایک اپنی ہی رائے کو مقدم سمجھتا اور پھوٹ پڑ جاتی تو وہ اس قدر مراتب عالیہ کو نہ پاتے.میرے نزدیک شیعہ سنّیوں کے جھگڑوں کو چکا دینے کے لئے یہی ایک دلیل کافی ہے کہ صحابہ کرامؓ میں باہم پھوٹ ہاں باہم کسی قسم کی پھوٹ اور عداوت نہ تھی کیونکہ ان کی ترقیاں اور کامیابیاں اس امر پر دلالت کر رہی ہیں کہ وہ باہم ایک تھے اور کچھ بھی کسی سے عداوت نہ تھی.نا سمجھ مخالفوں نے کہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا مگر میں کہتا ہوں کہ یہ صحیح نہیں ہے.اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہو کر بہ نکلی تھیں.یہ اس اطاعت اور اتحاد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسرے دلوں کو تسخیر کر لیا.میرا تو یہ مذہب ہے کہ وہ تلوار جو ان کو اٹھانی پڑی وہ صرف اپنی حفاظت کے لئے تھی ورنہ اگر وہ تلوار نہ بھی اٹھاتے تو یقیناً وہ زبان ہی سے دنیا کو فتح کر لیتے.ع سخن کز دل بروں آید نشیند لاجرم بر دل انہوں نے ایک صداقت اور حق کو قبول کیا تھا اور پھر سچے دل سے قبول کیا تھا اس میں کوئی تکلف اور نمائش نہ تھی.ان کا صدق ہی ان کی کامیابیوں کا ذریعہ ٹھیرا.یہ سچی بات ہے کہ صادق اپنے صدق کی تلوار ہی سے کام لیتا ہے.آپ (پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم )کی شکل و صورت جس پر خدا پر بھروسہ کرنے کا نور چڑھا ہوا تھا اور جو جلالی اور جمالی رنگوں کو لئے ہوئے تھی اس میں ہی ایک کشش اور قوت تھی کہ وہ بےا ختیار دلوں کو کھینچ لیتے تھے.اور پھر آپ کی جماعت نے اطاعت الرسول کا وہ نمونہ دکھایا اور ان کی استقامت ایسی فوق الکرامت ثابت ہوئی کہ جو اُن کو دیکھتا تھا وہ بے اختیار ہو کر ان کی طرف چلا آتا تھا.غرض صحابہ کی سی حالت اور وحدت کی ضرورت اب بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعود کے ہاتھ سے طیار ہو رہی ہے اسی جماعت کے ساتھ شامل کیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 42

نے طیار کی تھی.اور چونکہ جماعت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے نمونوں سے ہوتی ہے اس لئے تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہؓ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو اپنے اندر صحابہؓ کا رنگ پیدا کرو.اطاعت ہو تو ویسی ہو.باہم محبت اور اخوت ہو تو ویسی ہو.غرض ہر رنگ میں، ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہؓ کی تھی.جو لوگ ہمارے مخالف ہو کر ہم کو گالیاں دیتے ہیں اور دجال اور کافر کہتے ہیں ہم اس کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک آدمی کو نور فطرت اور قوت فیصلہ عطا کی ہے.پاخانہ جو آدمی کے اندر سے نکلتا ہے اس کی بد بو خود بھی وہ محسوس کرتا ہے.پس جب کہ یہ ایک مانی ہوئی بات ہے اور پکا قاعدہ ہے پھر جھوٹ جو اس پاخانہ سے بھی بڑھ کر بد بو رکھتا ہے کیا اس کی بد بو جھوٹ بولنے والے کو نہیں آتی؟ ضرور آتی ہے.پھر میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایک مفتری علی اللہ اس قدر قوت اور استقلال کے ساتھ اپنے دعوے کو پیش کرے جو ہمیشہ صادق کا خاصہ ہے.پھر ان کی پیش رفت کیوں کر جاسکتی ہے اور وہ میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ اگر میں خدا کی طرف سے نہ آیا ہوتا اور اس نے ہی مجھے مامور نہ کیا ہوتا تو تم ہی بتاؤ کہ اس قدر گالیاں اور اس قدر شورو شر اور مخالفت یہاں تک کہ قتل کے فتوے، قتل عمد کے مقدمے جو میرے خلاف بنائے گئے ان مصیبتوں اور بلاؤں کو اپنے اوپر لینے کی کس کو ضرورت ہو سکتی ہے؟ کبھی کوئی برداشت نہیں کرتا کہ اس قسم کے گند سے بھرے ہوئے اشتہار اور گالیوں کے خطوط جو بھیجے جاتے ہیں سنا کرے.مگر میں سچ کہتا ہوں کہ یہ میرے اختیار کی بات نہیں ہے.خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے چونکہ اس نے خود ہی اس سلسلہ کی بنیاد رکھی ہے.اس نے ہی وہ قوت قلب کو عطا کی ہے کہ یہ ساری مصیبتیں اور مشکلات میرے سامنے کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں اور مجھے تو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کس کو کہتے ہیں.پس تم خود ہی سوچ کر دیکھو کہ یہ شوکت، یہ قوت، یہ استقلال مفتری کو مل سکتا ہے؟ میں تو کبھی یقین نہیں کرتا کہ مفتری ہو اور ایسی قوت پالے.جو آدمی خون کرتا ہے صدق اس کو ملزم کرتا ہے.آخر وہ خود ہی عدالت میں جا کر اقرار کر لیتا ہے.اس میں یہی سِرّ ہے کہ اس میں وہ قوت نہیں ہوتی جو ایک صادق کو عطا ہوتی ہے.جھوٹ انسان کو بزدل اور کمزور بنا دیتا ہے.اس لئے خدا نے فرمایا ہے

Page 43

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ( الـحج : ۳۱ ) پس ہر ایک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ مدعی کے استقلال اور ثابت قدمی کو دیکھے.ہماری جماعت کے لئے جو ہم توقع کر سکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے وَ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ( اٰلِ عـمران : ۵۶ ) اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں اور ان میں تخلّف نہیں ہوتا اس لئے کوشش کرو کہ تم سب ان وعدوں سے حصہ لینے والے ٹھیرو.یہاں اللہ تعالیٰ ایک کُشتی کا طریق بتاتا ہے.فَوْق سے گرانا ہی مقصود ہے ورنہ اس سے یہ تو مراد نہیں ہے کہ جسم وزنی اور بھاری ہوجائیں گے اور پھر یہاں اس سلسلہ کے لئے لڑائی بھی نہیں ہے کیونکہ یَضَعُ الْـحَرْبَ کا ارشاد ہے پس فوقیت سے مراد روحانی صدق ہے اور اس کے ثمرات، علوم، معارف، نکات، مکنونات اور اللہ تعالیٰ سے قریب ہونا اور ان تعلقات سے علوم جدیدہ کا پیدا ہونا مراد ہے.مخالفوں کا پانی آسمانی نہیں ہے.اس کو فَوْق سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے وہ جلد گندہ اور ناپاک ہوجاتا ہے مگر مسیح موعود کے متبعین کا فوق یعنی آسمان سے تعلق ہے جو ہمیشہ تازہ علوم اور جدید معارف پاتے رہیں گے.اور جیسا کہ قاعدہ ہے کہ جب تک آسمانی پانی نہ آئے زمینی پانی خشک ہوجاتا ہے یا ناپاک اور سَمّی مواد پیدا کرنے والا ہوجاتا ہے.اس کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہی قانون مقرر کیا ہے کہ آسمان سے سال میں ایک بار یا دو بار برسات ہوتی ہے اور وہ ان تمام گندی اور ناپاک ہواؤں کو اور مواد فاسدہ کو صاف کر دیتی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ کے تجدید کے قانون کو مخفی رکھا ہے اور صاف ثابت ہوتا ہے کہ روحانی اور جسمانی تجدید کا سلسلہ کیسے چلتا ہے.یہ حدیث کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدّد تجدید دین کے لئے آتا ہے مخالفوں کے نزدیک کیسی ہی ہو مگر ہم کہتے ہیںکہ جب قانون قدرت میں اس کی تصریح موجود ہے تو پھر اس سے انکار کے کیا معنے؟ ہر چیز تجدید کی محتاج ہے.پس نئی صدی بھی حق رکھتی ہے کہ نئے اہل دل پیدا کرے جو حکمت اور صداقت کی تخم ریزی کریں.بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى ( القصص : ۴۴ ) تجدید ہی کی طرف اشارہ کرتی ہے.جیسا گزشتہ زمانہ میں مجدّدوں کی ضرورت تھی دنیا قیامت تک اسی طرح مجدّدوں کی محتاج ہے.انبیاء علیہم السلام محدود

Page 44

ہوتے تھے اور مجدّد کثرت سے آتے تھے.مگر یہ ضروری امر ہے کہ تجدید سے مراد صرف چند کلمے کہنے والوں کی جماعت نہیںہوتی ہے بلکہ خدا تو جلال چاہتا ہے پس مجدّد چاہتا ہے کہ انسان میں ایک تبدیلی ہو.نیا دل ہو نئی روح ہو.اس لئے میری ہمیشہ یہ آرزو ہے کہ ہماری جماعت ایسی ہی ہو کہ خواہ وہ جوان ہوں یا بڈھے اپنے اندر ایک ایسی تبدیلی پیدا کریں کہ گویا وہ ایک نئی دنیا کے انسان ہوں.اور جب جماعت اس حالت پر پہنچے گی تو پھر فوق العادت ترقی ہوگی.پس ہر ایک تم میں سے نیا انسان بننے کی کوشش کرے کیونکہ تم نے ایک مجدّد کو قبول کیا ہے.پس یاد رکھو کہ مخالفوں پر غالب آنے کے واسطے تقویٰ ضروری ہے اور اس کے لئے اس زمانہ میں بہتر طریق یہی ہے کہ ہمارے پاس رہیں.سب سے پہلے مولوی نور الدین صاحب نے اس راز کو سمجھا ہے اور وہ محض خدا کی رضا مندی کے واسطے اور دین کو حاصل کرنے کے واسطے یہاں آکر جنگل میں بیٹھے ہیں.انہوں نے بہت بڑی قربانی کی ہے.اپنی جائیدادیں اور املاک چھوڑیں اور ایک جنگل کی رہائش اختیار کی.میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مولوی صاحب جیسی قابلیت اور لیاقت کا آدمی اگر لاہور یا امرتسر میں رہتا تو بہت بڑا دنیوی فائدہ اٹھا سکتا تھا اور کئی بار لاہور اور امرتسر والوں نے چاہا بھی کہ وہ یہاں آکر رہیں مگر انہوں نے کبھی یہاں کے رہنے پر دوسری جگہ کی آمدنی اور فوائد کو ترجیح نہیں دی اللہ تعالیٰ ان کو اس کی بہتر جز ادے.اس قسم کے لوگ ہوں اور ایسی روح اور یقین یہاں لے کر آئیں.پھر میں دیکھتا ہوں کہ بعض احباب ہمارے ہر سال دنیا سے رخصت ہوتے جاتے ہیں.یہ کس کو معلوم ہے کہ اگلے سال کون ہوگا اور کس کو طلبی کا حکم آجائے گا.پس اس سے پیشتر کہ انسان دنیا سے رخصت ہو اس کو ضروری ہے کہ وہ خدا سے صلح کرلے اور یہ سچی بات ہے کہ کسی شخص کو فیض الٰہی نہیں پہنچتا جب تک کہ اس کو خدا کے فرستادہ کے ساتھ سچی محبت نہ ہو اور اس محبت کا ثبوت اس طرح پر ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی اطاعت اختیار کرے.صوفی جو یہ کہتے ہیں کہ مرید کو فائدہ نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے مرشد کو سب سے اچھا نہ سمجھے.میرے نزدیک یہ بات بےشک ضروری ہے لیکن وہ جو یہ کہتے ہیں کہ مرشد کو لازم ہے کہ وہ ہر وقت عبوس

Page 45

رہے اس کو میں صحیح نہیں سمجھتا.انسان اپنے اخلاق کو کیوںدور کرے.منہاج نبوت کا طریق نہ چھوڑے.ان کو بہت بڑے ظرف اور دل کا آدمی ہونا چاہیے اور وہ جو خدا کی طرف سے منہاج نبوت پر آتے ہیں اخلاق فاضلہ ساتھ لے کر آتے ہیں.میرا یہی مذہب ہے.انبیاء علیہم السلام کی مدح کے خلاف زبان چلانا میرے نزدیک کفر ہے.(او ناعاقبت اندیش کفر کا فتویٰ دینے والو! کہاں ہو؟ کیا تم سنتے ہو یہ کیا کہتا ہے ؟اس پر بھی کہتے ہوکہ نبیوں کی توہین کرتا ہے خدا سے کچھ تو ڈرو.ایڈیٹر) پس یہ بڑی عظیم الشان بات ہے کہ انسان اخلاق کو حاصل کرے اور تقویٰ اختیار کرے.اس کے لئے صادقوں کی صحبت کی ضرورت ہے اس لئے میرے پاس رہنے کی فکر کرو.ان دنوں کو غنیمت سمجھو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اپنے لئے ایک نمونہ بناؤ.۱ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۰۰ء ایمان بالغیب نواب عماد الملک فتح نواز جنگ سید مہدی حسین صاحب بارایٹ لاء جو کہ علیگڑھ کالج کے ٹرسٹی تھے.بڑے شوق اور اخلاص سے حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضور نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی.ہر ایک قدم جو صدق اور تلاش حق کے لئے اٹھایا جاوے اس کے لئے بہت بڑا ثواب اور اجر ملتا ہےمگر عالم ثواب مخفی عالم ہےجس کو دنیا دار کی آنکھ دیکھ نہیں سکتی.بات یہ ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ باوجود آشکارا ہو نے کے مخفی اور نہاں درنہاں ہے اور اس لئے الغیب بھی اس کا نام ہے.اسی طرح پر ایمان بالغیب بھی ایک چیز ہے.جو گو مخفی ہوتا ہے مگر عامل کی عملی حالت سے ظاہر ہو جاتا ہے.اس زمانہ میں ایمان بالغیب بہت کمزور حالت میں ہے.اگر خدا پر ایمان ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ لوگوں میں وہ صدق و حق کی تلاش او ر پیاس نہیں پائی جاتی جو ایمان کا خاصہ ہے.۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۵ مورخہ ۱۰؍ فروری ۱۹۰۱ء صفحہ ۱ تا ۴

Page 46

ایمان کی قوت خدا کی راہ میں سختی کا برداشت کرنا مصائب اور مشکلات کے جھیلنے کے لئے ہمہ تن طیار ہو جانا ایمانی تحریک سے ہی ہوتا ہے.ایمان ایک قوت ہے جو سچی شجاعت اور ہمت انسان کو عطا کرتا ہے.اس کا نمونہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی میں نظر آتاہے.جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئے تو وہ کون سی بات تھی جو ان کو امید دلاتی تھی کہ اس طرح پر ایک بیکس ناتواں انسان کے ساتھ ہو جانے سے ہم کو کوئی ثواب ملے گا.ظاہری آنکھ تو اس کے سوا کچھ نہ دکھاتی تھی کہ اس ایک کے ساتھ ہونے سے ساری قوموں کو اپنا دشمن بنا لیا ہے.جس کا نتیجہ صریح یہ معلوم ہوتا تھا کہ مصائب اور مشکلات کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑے گا اور وہ چکنا چور کر ڈالے گا اسی طرح پر ہم ضائع ہو جائیں گے.مگر کوئی اور آنکھ بھی تھی جس نے ان مصائب اور مشکلات کو ہیچ سمجھا تھا اور اس راہ میں مَر جانا اس کی نگاہ میں ایک راحت اور سرور کا موجب تھا.اس نے وہ کچھ دیکھا تھا جو اِن ظاہر بین آنکھوں کے نظارہ سے نہاں در نہاںاور بہت ہی دور تھا.وہ ایمانی آنکھ تھی اور ایمانی قوت تھی جو اِن ساری تکلیفوں اور دکھوں کو بالکل ہیچ دکھاتی تھی.آخر ایمان ہی غالب آیا اور ایمان نے وہ کرشمہ دکھایا کہ جس پر ہنستے تھے اور جس کو ناتواں اور بیکس کہتے تھے اس نے اس ایمان کے ذریعہ ان کو کہاں پہنچا دیا.وہ ثواب اور اجر جو پہلے مخفی تھا پھر ایسا آشکار ہوا کہ اس کو دنیا نے دیکھا اور محسوس کیا کہ ہاں یہ اسی کا ثمرہ ہے.ایمان کی بدولت وہ جماعت صحابہ ؓ کی نہ تھکی نہ ماندہ ہوئی بلکہ قوت ایمانی کی تحریک سے بڑے بڑے عظیم الشان کام کر دکھائے اور پھر بھی کہا تو یہی کہا کہ جو حق کرنے کا تھا نہیں کیا.ایمان نے ان کو وہ قوت عطا کی کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سر کا دینا اور جانوں کا قربان کر دینا ایک ادنیٰ سی بات تھی اور اَور اہل اسلام میں جب کہ ابھی کوئی بیّن نتائج نظر نہ آتے تھے دیکھو!کس قدر مسلمانوں نے دشمنوں کے ہاتھوں سے کیسی کیسی تکلیفیں اور مصیبتیں محض لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہنے کے بدلے برداشت کیں.ایک وہ زمانہ تھا کہ سر دینا کوئی بڑی بات نہ تھی اور یا ایک یہ زمانہ ہے کہ ایمانی قوت باوجود اس کے کہ مخالف اس قسم کی اذیّتیں نہیں دیتے.ایک عادل گورنمنٹ کے سایہ میں رہتے ہیں.سلطنت کسی قسم کا تعرض نہیں

Page 47

کرتی.علوم دین حاصل کرنے کے پورے سامان میسر ہیں.ارکان مذہبی ادا کرنے میں کوئی تکلیف نہیں ہے.ایک سجدہ کا کرنا بارِ گراں معلوم ہوتا ہے.غور تو کرو کہاں سر اور کہاں صرف ایک سجدہ!اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آج ایمان کیسا انحطاط کی حالت میں ہے.وضو اور نماز اور پھر ایسی حالت میں کہ نماز کا پڑھنا اور وضو کا کرنا طبی فوائد بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے.اطبا کہتے ہیں کہ اگر کوئی ہر روز منہ نہ دھوئے تو آنکھ آجاتی ہے.(آنکھ دکھنے لگتی ہے.ایڈیٹر) اور یہ نزول الماءکا مقدمہ ہے.اور بہت سی بیماریاںاس سے پیدا ہوتی ہیں.پھر بتلاؤ کہ و ضو کرتے ہوئے کیوں موت آتی ہے.بظاہر کیسی عمدہ بات ہے.منہ میں پانی ڈال کر کلی کرنا ہوتا ہے.مسواک کرنے سے منہ کی بد بو دور ہوتی ہے.دانت مضبوط ہو جاتے ہیں اور دانتوں کی مضبوطی غذا کے عمدہ طور پر چبانے اور جلد ہضم ہو جانے کا باعث ہوتی ہے.پھر ناک صاف کرنا ہوتا ہے.ناک میں کوئی بد بو داخل ہو تو دماغ کو پرا گندہ کر دیتی ہے.اب بتلاؤ کہ اس میں برائی کیا ہے.اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی حاجات لے جاتا ہے اور اس کو اپنے مطالب عرض کرنے کا موقع ملتا ہے.دعا کرنے کے لئے فرصت ہوتی ہے.زیادہ سے زیادہ نماز میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے اگرچہ بعض نمازیں تو پندرہ منٹ سے بھی کم میں ادا ہو جاتی ہیں.پھر بڑی حیرانی کی بات ہے کہ نماز کے وقت کو تضییع اوقات سمجھا جاتا ہے.جس میں اس قدر بھلائیاں اور فائدے ہیں اور اگر سارا دن اور ساری رات لغو اور فضول باتوں یا کھیل اور تماشوں میں ضائع کر دیںتو اس کا نام مصروفیت رکھا جاتا ہے.اگر قوی ایمان ہوتا ،قوی تو ایک طرف اگر ایمان ہی ہوتا تو یہ حالت کیوں ہوتی اور یہاں تک نوبت کیوں پہنچتی.ناصح سے تنفّر باوجود اس کے کہ اس قدر ایمانی حالت گر گئی ہے اس پر بھی اگر کوئی اس کمزوری کو محسوس کرا کے اس کا علاج کرنا چاہے اور وہ راہ بتائے جس پر چل کر انسان خدا سے ایک قوت اور شجاعت پاتا ہے تو اس کو کافر اور دجّال کہا جاتا ہے.میں کہتا ہوں کہ اگر یہ لوگ ایمان کا ایک نتیجہ یقین نہیں کر سکتے تو کم از کم فرض ہی کر لیں.فرض پر بھی تو بڑے بڑے نتائج مترتب ہو جاتے ہیں.دیکھو!اقلیدس کا سارا مدار فرض ہی پر ہے اس سے بھی کس قدر فوائد

Page 48

پہنچتے ہیں.بڑے بڑے علوم کی بنا اوّلاً فرض پر ہی ہوتی ہے.پس اگر ایمان کو بھی فرض کر کے ہی اختیار کر لیتے تب بھی یقین ہے کہ وہ خالی ہاتھ نہ رہتے مگر یہاں تو اب یہ حال ہو گیا ہے کہ وہ سرے ہی سے اس کو اِک بے معنی شے سمجھتے ہیں.صحابہؓکا ایمان میں پھر صحابہؓ کی حالت کو نظیر کے طور پر پیش کر کے کہتا ہوں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اپنی عملی حالت میں دکھایا کہ وہ خدا جو غیب الغیب ہستی ہے اور جو باطل پرست مخلوق کی نظروں سے پوشیدہ اور نہاں ہے انہوں نے اپنی آنکھ سے ہاں آنکھ سے دیکھ لیا ہے ورنہ بتاؤ تو سہی کہ وہ کیا بات تھی جس نے ان کو ذرا بھی پروا ہونے نہیں دی کہ قوم چھوڑی، ملک چھوڑا،جائیدادیں چھوڑیں، احباب و رشتہ داروں سے قطع تعلق کیا.وہ صرف خدا ہی پر بھروسہ تھا اور ایک خدا پر بھروسہ کر کے انہوں نے وہ کر کے دکھایا کہ اگر تاریخ کی ورق گردانی کریں تو انسان حیرت اور تعجب سے بھر جاتا ہے.ایمان تھا اور صرف ایمان تھا اور کچھ نہ تھا ورنہ بالمقابل دنیا داروں کے منصوبے اور تدبیریں اور پوری کوششیں اور سر گر میاں تھیں پر وہ کامیاب نہ ہو سکے.ان کی تعداد، جماعت ،دولت سب کچھ زیادہ تھا مگر ایمان نہ تھا اور صرف ایمان ہی کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہلاک ہوئے اور کامیابی کی صورت نہ دیکھ سکے مگر صحابہ نے ایمانی قوت سے سب کو جیت لیا.انہوں نے جب ایک شخص کی آواز سنی جس نے باوصفیکہ اُمّی ہونے کی حالت میں پرورش پائی تھی مگر اپنے صدق اور امانت اور راستبازی میں شہرت یافتہ تھا.جب اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں.یہ سنتے ہی ساتھ ہو گئے اور پھر دیوانوں کی طرح اس کے پیچھے چلے.میں پھر کہتا ہوں کہ وہ صرف ایک ہی بات تھی جس نے ان کی یہ حالت بنا دی اور وہ ایمان تھا.یاد رکھو!خدا پر ایمان بڑی چیز ہے.خدا تعالیٰ کی ہستی انگریزی اور مغربی قومیں دنیا کی تلاش اور خواہش میں لگی ہوئی ہیں.ابتدا میں ایک موہوم اور خیالی امید پر کام شروع کرتے ہیں.سینکڑوں جانیں ضائع ہوتی ہیں.ہزاروں لاکھوں روپے بر باد ہوتے ہیں.آخر ایک بات پا ہی لیتے ہیں.پھر کس قدر

Page 49

افسوس اور تعجب ان پر ہے جو کہتے ہیں خد ا نہیں مل سکتا.کس نے مجاہدہ اور سعی کی اور پھر خدا کو نہیں پایا؟خدا تو ملتا ہے اور بہت جلد ملتا ہے لیکن اس کے پانے والے کہاں؟؟؟ اگر کوئی یہ شبہ پیش کرے کہ خدا نہیں ہے تو یہ بڑی بے ہودہ بات ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی نادانی اور بے وقوفی نہیں ہے جو خدا کا انکار کیا جاوے.دنیا میں دو گواہوں کے کہنے سے عدالت ڈگری دے دیتی ہے.چند گواہوں کے بیان پر جان جیسی عزیز چیز کے خلاف عدالت فتویٰ دے دیتی ہے اور پھانسی پر لٹکا دیتی ہے.حالانکہ شہادتوں میں جعل اور سازش کا اندیشہ ہی نہیں یقین ہوتا ہے.لیکن خدا کے متعلق ہزاروں لاکھوں انسانوں نے جو اپنی قوم میں اور ملک میں مسلّم راستباز، نیک چلن تھے شہادت دی ہو، اس کو کافی نہ سمجھا جاوے.اس سے بڑھ کر حماقت اور ہٹ دھرمی کیا ہو گی کہ لاکھوں مقدسوں کی شہادت موجود ہے اور پھر انہوںنے اپنی عملی حالت سے بتا دیا ہے اور خونِ دل سے یہ شہادت لکھ دی ہے کہ خدا ہے اور ضرور ہے.اس پر بھی اگر کوئی انکار کرتا ہے تو وہ بے وقوف ہے اور پھر عجیب تو یہ بات ہے کہ کسی معاملہ میں رائے دینے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا علم ہو.جس شخص کو علم ہی نہیں وہ رائے دینے کا کوئی حق نہیں رکھتا.رائے زنی کرے تو کیا وہ احمق اور بے وقوف نہ کہلائے گا.ضرور کہلائے گا بلکہ دوسرے دانش مند اس کو شرمندہ کریں گے کہ احمق جبکہ تجھے کچھ واقفیت ہی نہیں تو پھر تو رائے کس طرح دیتا ہے.اس طرح پر جو خدا کی نسبت کہتے ہیں کہ نہیں ہے.ان کا کیا حق ہے کہ وہ رائے دیں جبکہ الٰہیات کا علم ہی ان کو نہیں ہے اور انہوں نے کبھی مجاہدہ ہی نہیں کیا ہے.ہاں ان کو یہ کہنے کا حق ہو سکتا تھا اگر وہ ایک خدا پرست کے کہنے کے موافق تلاش حق میں قدم اٹھاتے اور خدا کو ڈھونڈتے.پھر اگر ان کو خدا نہ ملتا تو بے شک کہہ دیتے کہ خدا نہیں ہے لیکن جب کہ انہوںنے کوئی کوشش اور مجاہدہ نہیں کیا ہے تو ان کو انکار کرنے کا حق نہیں ہے.غرض خدا کا وجود ہے اور وہ ایک ایسی شے ہے کہ جس قدر اس پر ایمان بڑھتا جاوے،اسی قدر قوت ملتی جاتی ہے اور وہ نہاںدر نہاں ہستی نظر آنے لگتی ہے.یہاں تک کہ کھلے کھلے طور پر اس کو دیکھ لیتا ہے اور پھر یہ قوت دن بدن زیادہ ہوتی جاتی ہے.یہی ایک بات ہے جس کی تلاش دنیا کو ہونا چاہیے مگر آج دنیا

Page 50

میں یہ قوتیں نہیں رہی ہیں.اسلام کی ترقی یورپ کی اتباع میں نہیں اسلام جو یہ ایمانی قوت لے کر آیا تھا بہت ضعیف ہو گیا ہے اور عام طور پر مسلمانوں نے محسوس کر لیا ہے کہ وہ کمزور ہیں ورنہ کیا وجہ ہے کہ آئے دن جلسے اور مجلسیں ہوتی رہتی ہیں اور نت نئی انجمنیں بنتی جاتی ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اسلام کی حمایت اور امداد کے لئے کام کرتی ہیں.مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ان مجلسوں میں قوم قوم تو پکارتے ہیں.قومی ترقی، قومی ترقی کے گیت گاتے ہیں لیکن کوئی مجھ کو یہ بتائے کہ کیا پہلے زمانہ میں جب قوم بنی تھی وہ یورپ کے اتباع سے بنی تھی؟کیا مغربی قوموں کے نقش قدم پر چل کر انہوں نے ساری ترقیاں کی تھیں.اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ہاں اسی طرح ترقی کی تھی تو بے شک گناہ ہو گا اگر ہم اہل یورپ کے نقش قدم پر نہ چلیں.لیکن اگر ثابت نہ ہو اور ہر گزثابت نہ ہو گا.پھر کس قدر ظلم ہے کہ اسلام کے اصولوں کو چھوڑ کر قرآن کو چھوڑ کر جس نے ایک وحشی دنیا کو انسان اور انسان سے باخدا انسان بنایا ایک دنیا پرست قوم کی پیروی کی جائے.جو لوگ اسلام کی بہتری اور زندگی مغربی دنیا کو قبلہ بنا کر چاہتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے.کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتے ہیں.قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں.صحابہؓ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو.دیکھو! انہوں نے جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا.تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے تھے پورے ہو گئے.ابتدا میں مخالف ہنسی کرتے تھے کہ باہر آزادی سے نکل نہیں سکتے اور بادشاہی کے دعوے کرتے ہیں.لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں گم ہو کر انہوں نے وہ پایا جو صدیوں سے ان کے حصہ میں نہ آیا تھا.وہ قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے.اور ان کی ہی اطاعت اور پیروی میں دن رات کوشاں تھے.ان لوگوں کی پیروی کسی رسم و رواج تک میں بھی نہ کرتے تھے جن کو کفار کہتے تھے.جب تک اسلام اس حالت میں رہا

Page 51

وہ زمانہ اقبال اور عروج کا رہا.اس میں سر یہ تھا.ع خدا داری چہ غم داری مسلمانوں کی فتوحات اور کامیابیوں کی کلید بھی ایمان تھا.صلاح الدین کے مقابلہ پر کس قدر ہجوم ہوا تھالیکن آخر اس پر کوئی قابو نہ پا سکا.اس کی نیت اسلام کی خدمت تھی.غرض ایک مدت تک ایسا ہی رہا.جب بادشاہوں نے فسق وفجور اختیار کیا پھر اللہ تعالیٰ کا غضب ٹوٹ پڑا اور رفتہ رفتہ ایسا زوال آیا جس کواب تم دیکھ رہے ہو.اب اس مرض کی جو تشخیص کی جاتی ہے ہم اس کے مخالف ہیں.ہمارے نزدیک اس تشخیص پر جو علاج کیا جائے گا وہ زیادہ خطر ناک اور مضر ثابت ہو گا.جب تک مسلمانوں کا رجوع قرآن شریف کی طرف نہ ہو گا ان میں وہ ایمان پیدا نہ ہو گا یہ تندرست نہ ہوں گے.عزّت اور عروج اسی راہ سے آئے گا جس راہ سے پہلے آیا.دین کو دنیا پر مقدم رکھیں میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسلمان سُست ہو جائیں.اسلام کسی کو سُست نہیں بناتا.اپنی تجارتوںاور ملازمتوں میں بھی مصروف ہوں.مگر میں یہ نہیں پسند کرتا کہ خدا کے لئے کوئی وقت بھی ان کا خالی نہ ہو.ہاں تجارت کے وقت پر تجارت کریں اور اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت کو اس وقت بھی مدّ ِنظر رکھیں تاکہ وہ تجارت بھی ان کی عبادت کا رنگ اختیار کرلے.نمازوں کے وقت پر نمازوں کو نہ چھوڑیں.ہر معاملہ میں کوئی ہو دین کو مقدم کریں.دنیا مقصود بالذّات نہ ہو.اصل مقصود دین ہو.پھر دنیا کے کام بھی دین ہی کے ہوں گے.صحابہ کرامؓ کو دیکھو کہ انہوں نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی خدا کو نہیں چھوڑا.لڑائی اور تلوار کا وقت ایسا خطر ناک ہوتا ہے کہ محض اس کے تصور سے ہی انسان گھبرا اٹھتا ہے.وہ وقت جب کہ جوش اور غضب کا وقت ہوتا ہے ایسی حالت میں بھی وہ خدا سے غافل نہیں ہوئے.نمازوں کو نہیں چھوڑا.دعا ؤں سے کام لیا.اب یہ بد قسمتی ہے کہ یوں تو ہر طرح سے زور لگاتے ہیں.بڑی بڑی تقریریں کرتے ہیں.جلسے کرتے ہیں کہ مسلمان ترقی کریں مگر خدا سے ایسے غافل ہوئے ہیں کہ بھول کر بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.پھر ایسی حالت میںکیا امید ہو سکتی ہے کہ ان کی

Page 52

کوششیں نتیجہ خیز ہوں جب کہ وہ سب کے سب دنیا ہی کے لئے ہیں.یاد رکھو جب تک لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ دل و جگر میں سرایت نہ کرے اور وجود کے ذرّہ ذرّہ پر اسلام کی روشنی اور حکومت نہ ہو کبھی ترقی نہ ہو گی.اگر تم مغربی قوموں کا نمونہ پیش کرو کہ وہ ترقیاں کر رہے ہیں ان کے لئے اور معاملہ ہے.تم کو کتاب دی گئی ہے.تم پر حجت پوری ہو چکی ہے.ان کے لئے الگ معاملہ اور مواخذہ کا دن ہے.تم اگر کتاب اللہ کو چھوڑو گے تو تمہارے لئے اسی دنیا میںجہنم موجود ہے.ایسی حالت میں کہ قریباً ہر شہرمیں مسلمانوں کی بہتری کے لئے انجمنیں اور کانفرنسیں ہوتی ہیں.لیکن کسی ہمدردِ اسلام کے منہ سے یہ نہیں نکلتاکہ قرآن کو اپنا امام بناؤ.اس پر عمل کرو.اگر کہتے ہیں تو بس یہی کہ انگریزی پڑھو،کالج بناؤ، بیرسٹربنو.اس سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا پر ایمان نہیں رہا.حاذق طبیب بھی دس دن کے بعد اگر دوا فائدہ نہ کرے تو اپنے علاج سے رجوع کر لیتے ہیں.یہاں ناکامی پر ناکامی ہوتی جاتی ہے اور اس سے رجوع نہیں کرتے.اگر خدا نہیں ہے تو اس کو چھوڑ کر بے شک ترقی کر لیں گے لیکن جب کہ خدا ہے اور ضرور ہے پھر اس کو چھوڑ کر کبھی ترقی نہیں کرسکتے.اس کی بے عزتی کر کے، اس کی کتاب کی بے ادبی کر کے چاہتے ہیں کہ کامیاب ہوں اور قوم بن جاوے.کبھی نہیں.ہماری رائے تو یہی ہے جس کو آنکھیں دیکھتی ہیں.ترقی کی ایک ہی راہ ہے کہ خدا کو پہچانیں اور اس پر زندہ ایمان پیدا کریں.اگر ہم ان باتوں کو ان دنیا پرستوں کی مجلس میں بیان کریں تو وہ ہنسی میں اڑا دیں مگر ہم کو رحم آتا ہے کہ افسوس یہ لوگ اس کو نہیں دیکھ سکتے جو ہم دیکھتے ہیں.آپ کو چونکہ خدا تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ اس قدر دور و دراز کا سفر اختیار کر کے اور راستہ کی تکلیف اٹھا کر آئے ہیں.میںسمجھتا ہوں کہ اگر ایمانی قوت کی تحریک نہ ہوتی تو اس قدر تکلیف برداشت نہ کرتے.اللہ تعالیٰ آپ کو جزا دے اور اس قوت کو ترقی دے تا کہ آپ کو وہ آنکھ عطا ہو کہ آپ اس روشنی اور نور کو دیکھ سکیں اور جو اس زمانہ میںاللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دنیا پر نازل کیا ہے.بعض اوقات انسان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ کہیں جاتا ہے اور پھر جلد چلا آتا ہےمگر اس

Page 53

کے بعد اس کی روح میں دوسرے وقت اضطراب ہوتا ہے کہ کیوں چلا آیا.ہمارے دوست آتے ہیں اور اپنی بعض مجبوریوں کی وجہ سے جلد چلے جاتے ہیں لیکن پیچھے ان کو حسرت ہوتی ہے کہ کیوں جلد واپس آئے.(یہاں مولوی سید مہدی حسین صاحب نے کہا کہ میرا بھی یقیناً یہی حال ہو گا.اگر میں نواب محسن الملک صاحب اور دوسرے دوستوں کو تار نہ دے چکا ہوتاتو میں اور ٹھیرتا.ایڈیٹر) بہر حال میں نہیں چاہتا کہ آپ تخلف وعدہ کریں اور جب کہ ان کو اطلاع دے چکے ہیں تو ضرور جانا چاہیے لیکن میں امید کرتا ہوں کہ آپ پھر آئیں گے.میں محض للہ اور نصیحتًا کہتا ہوں کہ آپ ایک دو ہفتہ تک کم از کم کسی دوسرے موقع پر یہاں رہ جائیں تو آپ کو بہت فائدہ ہو گا.آپ وہ باتیں سنیں گے جن کے سنانے کے لئے خدا نے مجھے بھیجا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اس وقت کافر یہی رائے لگاتے تھے اِنَّ هٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ (صٓ:۷) میاں یہ تو دکانداری ہے.مخالف جس کو صحبت نصیب نہیں ہوتی اس کو صحیح رائے نہیں ملتی اور دور سے رائے لگانا صحیح نہیں ہے کیونکہ جب تک وہ پاس نہیںآتا اور حالات پر اطلاع نہیں پاتا کیوں کر صحیح رائے حاصل کر سکتا ہے.یہ سلسلہ منہاج نبوت پر قائم ہوا ہے میں دیکھتا ہوںکہ اللہ تعالیٰ نے جو بنیاد اس وقت ایک سلسلہ آسمانی کی رکھی ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے.یہ سلسلہ بالکل منہاج نبوت پر قائم ہوا ہے.اس کا پتہ اسی طرز پر لگ سکتا ہے جس طرح پر انبیاء علیہم السلام کے سلسلوں کی حقانیت معلوم ہوئی.اور وہ راہ ہے صحبت میں صبر اور حسن ظن سے رہنے کی.مخالفوں کو چونکہ اسباب نہیں ملتے اس لئے وہ صحیح رائے اور یقینی نتیجہ پر پہنچ نہیں سکتے.انسان جب تک ان طرح طرح کے خیالات اور راؤں کے پردوں کو چیر کر نہیں نکل آتا اس کو سچی معرفت، فتوۃ اور مردانگی نہیں مل سکتی.خوش قسمت وہی انسان ہے جو ایسے مردانِ خدا کے پاس رہ کر (جن کو اللہ تعالیٰ اپنے وقت پر بھیجتا ہے) اس غرض اور مقصد کوحاصل کرلے جس کے لئے وہ آتے ہیں.ایسے لوگ اگرچہ تھوڑے ہوتے ہیں لیکن ہوتے ضرور ہیں.وَ قَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ

Page 54

الشَّكُوْرُ (سبا:۱۴) اگرتھوڑے نہ ہوتے تو پھر بے قدری ہو جاتی.یہی وجہ ہے کہ سونا چاندی لوہے اور ٹین کی طرح عام نہیں ہے.ہاں یہ ضرور ہے کہ مخالف بھی ہوں کیونکہ سنّت اللہ اسی طرح جاری ہے کہ ہر شخص جو خدا کی طرف قدم اٹھاتا ہے،اس کے لئے امتحان ضروری رکھا ہوا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ(العنکبوت:۳) امتحان خدا کی عادت ہے.یہ خیال نہ کرو کہ عالم الغیب خدا کوامتحان کی کیا ضرورت ہے؟یہ اپنی سمجھ کی غلطی ہے اللہ تعالیٰ امتحان کا محتاج نہیں ہے.انسان خود محتاج ہے تا کہ اس کو اپنے حالات کی اطلاع ہو اور اپنے ایمان کی حقیقت کھلے.مخالفانہ رائے سن کر اگر مغلوب ہو جاوے تو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ قوت نہیں ہے.جس قدر علوم وفنون دنیا میںہیں بدوں امتحان ان کو سمجھ نہیں سکتا.خدا کا امتحان یہی ہے کہ انسان سمجھ جاوے کہ میری حالت کیسی ہے.یہی وجہ ہے کہ مامور من اللہ کے دشمن ضرور ہوتے ہیں جو ان کو تکلیفیں اور اذیتیں دیتے ہیں.توہین کرتے ہیں.ایسے وقت میں سعید الفطرت اپنی روشن ضمیری سے ان کی صداقت کو پا لیتے ہیں.پس ماموروں کے مخالفوں کا وجود بھی اس لئے ضروری ہے.جیسے پھولوں کے ساتھ کانٹے کا وجود ہے.تریاق بھی ہے تو زہریں بھی ہیں.کوئی ہم کو کسی نبی کے زمانہ کا پتہ دے جس کے مخالف نہ ہوئے ہوں اور جنہوں نے اس کو دکاندار، ٹھگ، جھوٹا، مفتری نہ کہا ہو.موسیٰ علیہ السلام پر بھی افترا کر دیا.یہاں تک کہ ایک پلید نے تو زنا کا اتہام لگا دیا اور ایک عورت کو پیش کر دیا.غرض ان پر ہر قسم کے افترا کیے جاتے ہیں تا لوگ آزمائے جائیں.اور یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ خدا کے لگائے ہوئے پودے ان نابکاروںکی پھونکوں سے معدوم کیے جاویں.یہی ایک نشان اور تمیز ہوتی ہے ان کے خدا کی طرف سے ہونے کی، کہ مخالف کوشش کرتے ہیں کہ وہ نابود ہو جائیں اور وہ بڑھتے اور پھولتے ہیں.ہاں جو خدا کی طرف سے نہ ہووہ آخر معدوم اور نیست و نابود ہو جاتا ہے.لیکن جس کو خدا نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے وہ کسی کی کوشش سے نابود نہیں ہو سکتا.وہ کاٹنا چاہتے ہیں اور یہ بڑھتا ہے.اس سے صاف معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا کا ہاتھ ہے جو اس کو تھامے ہوئے ہے.

Page 55

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کس قدر عظیم الشان معجزہ ہے کہ ہر طرف سے مخالفت ہوتی تھی مگر آپ ہر میدا ن میں کامیاب ہی ہوتے تھے.صحابہؓ کے لئے یہ کیسی دل خوش کرنے والی دلیل تھی جب وہ اس نظارہ کودیکھتے تھے.اسلام کیا ہے؟بہت سی جانوں کا چندہ ہے.ہمارے آباؤ اجداد چندہ ہی میں آئے.اب اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ وہ اسلام کو کل ملّتوں پر غالب کرے.اس نے مجھے اسی مطلب کے لئے بھیجا ہے اور اسی طرح بھیجا ہے جس طرح پہلے مامور آتے رہے.پس آپ میری مخالفت میں بھی بہت سی باتیں سنیں گے اور بہت قسم کے منصوبے پائیں گے.لیکن میں آپ کو نصیحتاً للہ کہتا ہوںکہ آپ سوچیں اور غور کریں کہ یہ مخالفتیں مجھے تھکا سکتی ہیںیا ان کا کچھ بھی اثر مجھ پر ہوا ہے؟ ہرگز نہیں.خدا تعالیٰ کا پوشیدہ ہاتھ ہے جو میرے ساتھ کام کرتا ہے ورنہ میں کیا اور میری ہستی کیا؟ مجھے شہرت طلب کہا جاتا ہے.لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ اس فرض کے ادا کرنے میں مجھے کس قدر گالیاں سننی پڑی ہیں مگر ان گالیوں کی جو دیتے ہیں اور ان تکلیفوں کی جو پہنچاتے ہیں ایک لحظہ کے لئے بھی پروا یا خیال نہیں کرتا اور سچ تو یہ ہے کہ مجھے معلوم نہیں ہوتا.میرا خدا میرے ساتھ ہے اور اگر میں خدا کی طرف سے آیا نہ ہوتا تو میری یہ مخالفت بھی ہرگز نہ ہوتی.آپ کا اس قدر دور دراز کا سفر اختیار کر کے اور پھر تکالیفِ راہ برداشت کر کے آنا اللہ تعالیٰ کے حضور ایک اجر رکھتا ہے.خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اور توفیق دے کہ آپ اس سلسلہ کی طرف توجہ کر سکیں جو خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے.آمین.۱ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۰۰ء سعید اور شقی بعد نماز جمعہ عام مجمع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مفصلہ ذیل تقریر فرمائی.دیکھو! میں محض لِلہ مختصر طور پر چند باتیں سناتا ہوں.میری طبیعت اچھی نہیں اور زیادہ باتوں ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۲ تا ۶

Page 56

کی حاجت نہیں ہے.کیونکہ وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے نیک اور پاک فطرت عطا فرمائی ہے اور جن کی استعدادیں عمدہ ہیں وہ بہت باتوں کے محتاج نہیں ہوتے اور ایک اشارہ ہی سے اصل مقصد اور مطلب کو سمجھ لیتے اور بات کو پا لیتے ہیں.ہاں جو لوگ اچھی فطرت اور عمدہ استعداد نہیں رکھتے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور قدرت پر اعتقاد نہیں ہے وہ تو اپنی ہی اغراض کی پیروی کرتے ہیں.وہ ایسی پستی کی حالت میںپڑے ہوئے ہیں کہ اگر سب انبیاء علیہم السلام اکٹھے ہو کر ایک ہی وعظ کے منبر پر چڑھ کر نصیحت کریں انہیں تب بھی کچھ فائدہ نہ ہو گا.یہی وہ سِر ہے کہ ہر نبی اور مامور کے وقت دو فرقے ہوتے ہیں.ایک وہ جس کا نام سعید رکھا ہے اور دوسرا وہ جو شقی کہلاتا ہے.دونوں فرقے وعظ و نصیحت کے لحاظ سے یکساں طور پر انبیاء علیہم السلام کے سامنے تھے اور اس پاک گروہ نے کبھی کسی سے بخل نہیں کیا.پورے طور پر حق نصیحت ادا کیا.جیسے سعیدوں کے لئے ویسے ہی اشقیا کے لئے.مگر سعید قوم کان رکھتی تھی جس سے اس نے سنا.آنکھیں رکھتی تھی جس سے دیکھا.دل رکھتی تھی جس سے سمجھا.مگر اشقیا کا گروہ ایک ایسی قوم تھی جس کے کان نہ تھے جو سنتی، اور نہ آنکھیں تھیںجس سے دیکھتی، نہ دل تھے جس سے سمجھتی، اسی لئے وہ محروم رہی.مکہ کی مٹی ایک ہی تھی جس سے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ابو جہل پیدا ہوئے.مکہ وہی مکہ ہے جہاں اب کروڑوں انسان ہر طبقہ اور درجہ کے دنیا کے ہر حصہ سے جمع ہوتے ہیں.اسی سر زمین سے یہ دونوں انسان پیدا ہوئے.جن میں سے اوّل الذکر اپنی سعادت اور رشد کی وجہ سے ہدایت پا کر صدیقوں کا کمال پا گیا اور دوسرا شرارت، جہالت، بےجا عداوت اور حق کی مخالفت میںشہرت یافتہ ہے.یاد رکھو کمال دو ہی قسم کے ہوتے ہیں.ایک رحمانی دوسرا شیطانی.رحمانی کمال کے آدمی آسمان پر ایک شہرت اور عزّت پاتے ہیں.اسی طرح شیطانی کمال کے آدمی شیاطین کی ذریّت میں شہرت رکھتے ہیں.غرض ایک ہی جگہ دونوں تھے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کچھ فرق نہیں کیا.جو کچھ حکم اللہ تعالیٰ نے دیا وہ سب کا سب یکساں طور پر سب کو پہنچا دیامگر بد نصیب بد قسمت محروم رہ

Page 57

گئے اور سعید ہدایت پا کر کامل ہو گئے.ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے بیسیوں نشان دیکھے.انوار وبرکات الٰہیہ کو مشاہدہ کیا مگر ان کو کچھ بھی فائدہ نہ ہوا.اب ڈرنے کا مقام ہے کہ وہ کیا چیز تھی جس نے ابو جہل کو محروم رکھا.اس نے ایک عظیم الشان نبی کا زمانہ پایا جس کے لئے نبی ترستے گئے تھے.حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخر تک ہر ایک کی تمنا تھی مگر ا نہیں وہ زمانہ نہ ملا.اس بد بخت نے وہ زمانہ پایا جو تمام زمانوں سے مبارک تھا مگر کچھ فائدہ نہ اٹھایا.اس سے صاف ظاہر ہے اور خوف کا مقام ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کو دیکھنے والی آنکھ نہ ہو اس کی، سننے والا کان نہ ہو اور اس کے سمجھنے والا دل نہ ہو کوئی شخص کسی نبی اور مامور کی باتوں سے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا.میں پھر کہتا ہوں کہ اصل یہی ہے کہ سرشت میں دو حصے ہوتے ہیں.ایک وہ لوگ ہیں جن کے قویٰ عمدہ ہیں اور وہ سعادت اور رشد کے پا جانے کے لئے استعدادوں سے یوں بھرے ہوئے ہوتے ہیں جیسے ایک عطر کا شیشہ لبریز ہوتا ہے.تیل اور بتّی سب کچھ موجود ہو تا ہے.صرف ایک ذرا سی آگ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ایک ادنیٰ سی تحریک اور رگڑ سے روشن ہو اُٹھتی ہے.ابو بکر رضی اللہ عنہ وہ تھا جس کی فطرت میں سعادت کا تیل اور بتّی پہلے سے موجود تھے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم نے اس کو فی الفور متاثر کر کے روشن کر دیا.اس نے آپ سے کوئی بحث نہیں کی.کوئی نشان اور معجزہ نہ مانگا.معاً سن کر صرف اتنا ہی پوچھا کہ کیا آپ نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں تو بول اٹھے کہ آپ گواہ رہیں میں سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں.حسنِ ظنّ اور صبر یہ تجربہ کیا گیا ہے کہ سوال کرنے والے بہت کم ہدایت پاتے ہیں.ہاں حسنِ ظن اور صبر سے کام لینے والے ہدایت سے پورے طور پر حصہ لیتے ہیں.اس کا نمونہ ابو بکرؓ اور ابو جہل دونوں موجود ہیں.ابو بکرؓ نے جھگڑا نہ کیا اور نشان نہ مانگے مگر اس کو وہ دیا گیا جو نشان مانگنے والوں کو نہ ملا.اس نے نشان پر نشان دیکھے اور خود ایک عظیم الشان

Page 58

نشان بنا.ابو جہل نے حجت کی اور مخالفت اور جہالت سے باز نہ آیا.اس نے نشان پر نشان دیکھے مگر دیکھ نہ سکا.آخر خود دوسروں کے لئے نشان ہو کر مخالفت ہی میں ہلاک ہوا.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ جن کی فطرت میں نورِ ایمان ہے ا نہیں زیادہ گوئی کی ضرورت نہیں.وہ ایک ہی بات سے مطلب پر پہنچ جاتے ہیں.ان کے دل میں ایک روشنی ہوتی ہے.وہ معاً آواز کے سنتے ہی منورہو جاتے ہیں اور وہ الٰہی قوت جو اُن کے اندر ہوتی ہے اس آواز کو سن کر جوش میں آجاتی ہے اور نشو ونما پاتی ہے.جن میں یہ قوت نہیں رہتی وہ محروم رہ کر ہلاک ہو جاتے ہیں.یہی طریق شروع سے چلا آیا ہے.اب ہر شخص کو خوف کرنا چاہیے کہ اگر کسی زمانہ میں اصلاح کے لئے مامور پیدا ہوتا ہے تو جو لوگ اپنے اندر اس مامور کے لئے قبولیت اور ایمان کا رنگ پاتے ہیں، وہ مبارک ہیں.لیکن جو اپنے دل میں قبض پاتا ہے اور دل ماننے کی طرف رجوع نہیں کرتا اس کو ڈرناچاہیے کہ یہ انجام بد کے آثار ہیں اور محرومی کے اسباب.یقیناً سمجھ لو اور یہ ایک راز کی بات ہے کہ جو حق کے قرائن و دلائل دیکھ کر نہیں مانتا اور حسنِ ظن اور صبر سے کام نہیں لیتا اور تلاشِ رَد میں رہتا ہے.عمدہ سے عمدہ نشان اور قوی سے قوی دلائل اس کے پاس جاتے ہیں مگر وہ ان کو دیکھ کر سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ رَد کی فکر میں لگ جاتا ہے تو اس کو ڈرناچاہیے کہ یہ اشقیا والی عادت ہے.امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے اس جماعت نے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا.جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کا پیام سنا اور مامور من اللہ کی آواز ان کے کان میں پہنچی وہ مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور فکر معکوس اور بخل و بے جا عداوت کی وجہ سے اس کی تردید کی فکر میں لگ گئے.پھر اسی پر بس نہیں کی.انسان چونکہ ترقی کرتا ہے.دوستی ہو یا دشمنی.آخر بڑے بڑے مقابلوں اورناپاک منصوبوں تک نوبت پہنچ کر ہلاکت کی گھڑی آجاتی ہے.ایسا ہی حال پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا.ایک گروہ نے ایمان میں وہ ترقی کی کہ بکریوں کی طرح خدا کے حکم پاکر ذبح ہو گئے اور کچھ پروا نہیں کی کہ بیوی بچوں کا کیا حال ہو گا.ان کو کچھ ایسی شرابِ محبت پلائی کہ لا پروا ہو کر جانیں دے دیں.یہ تصرّف اس نظارہ کے وقت معلوم ہوتا

Page 59

ہے کہ کس طرح پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی.بیعت کے مغز کو اختیار کرو یہ مت خیال کرو کہ صرف بیعت کر لینے سے ہی خدا راضی ہو جاتا ہے.یہ تو صرف پوست ہے.مغز تو اس کے اندر ہے.اکثر قانون قدرت یہی ہے کہ ایک چھلکا ہوتا ہے اور مغز اس کے اندر ہوتا ہے.چھلکا کوئی کام کی چیز نہیں ہے.مغز ہی لیا جاتا ہے.بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں مغز رہتا ہی نہیں اور مرغی کے ہوائی انڈوں کی طرح جن میں نہ زردی ہوتی ہے اور نہ سفیدی جو کسی کام نہیں آسکتے اور ردّی کی طرح پھینک دئیے جاتے ہیں.ہاںایک دو منٹ تک کسی بچہ کے کھیل کا ذریعہ ہو تو ہو.اسی طرح پر وہ انسان جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اگر وہ ان دونوں باتوں کا مغز اپنے اندر نہیں رکھتا تو اسے ڈرنا چاہیے کہ ایک وقت آتا ہے کہ وہ اس ہوائی انڈے کی طرح ذرا سی چوٹ سے چِکنا چُور ہو کر پھینک دیا جاوے گا.اسی طرح جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کو ٹٹولنا چاہیے کہ کیا میں چھلکا ہی ہوں یا مغز؟جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان، محبت، اطاعت، بیعت، اعتقاد، مریدی ، اسلام کا مدعی سچا مدعی نہیں ہے.یاد رکھو کہ یہ سچی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مغز کے سوا چھلکے کی کچھ بھی قیمت نہیں.خوب یاد رکھو کہ معلوم نہیں ،موت کس وقت آجاوے لیکن یہ یقینی امر ہے کہ مَرنا ضرور ہے.پس نِرے دعویٰ پر ہرگز کفایت نہ کرو اور خوش نہ ہو جاؤ.وہ ہرگز ہر گز فائدہ رساں چیز نہیں.جب تک انسان اپنے آپ پر بہت موتیں وارد نہ کر ے اور بہت سی تبدیلیوں اور انقلابات میں سے ہو کر نہ نکلے وہ انسانیت کے اصل مقصد کو پا نہیں سکتا.انسان کی حقیقت انسان اصل میں اُنسان سے لیا گیا ہے یعنی جس میں دو حقیقی اُنس ہوں.ایک اللہ تعالیٰ سے دوسرا بنی نوع کی ہمدردی سے.جب یہ دونوں انس اس میں پیدا ہو جاویں اس وقت انسان کہلاتا ہے اور یہی وہ بات ہے جو انسانیت کا مغز کہلاتی ہے اور اسی مقام پر انسان اُولُوا الْاَلْبَابِ کہلاتا ہے.جب تک یہ نہیں کچھ بھی نہیں.ہزار دعویٰ کرو اور دکھاؤ مگر

Page 60

اللہ تعالیٰ کے نزدیک، اس کے نبی اور فرشتوں کے نزدیک ہیچ ہے.اسوۂ انبیاء علیہم السلام پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ تمام انسان نمونہ کے محتاج ہوتے ہیں اور وہ نمونہ انبیاء علیہم السلام کا وجود ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا کہ درختوں پر کلام الٰہی لکھاجاتا مگر اس نے جو پیغمبروں کو بھیجا اور ان کی معرفت کلامِ الٰہی نازل فرمایا اس میں سِرّیہ تھا کہ تا انسان جلوۂ الوہیت کو دیکھے جو پیغمبروں میں ہو کرظاہر ہوتا ہے.پیغمبر الوہیت کے مظہراور خدا نما ہوتے ہیں.پھر سچا مسلمان اور معتقد وہ ہوتا ہے جو پیغمبروں کا مظہر بنے.صحابہ کرامؓ نے اس راز کو خوب سمجھ لیا تھا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ایسے گم ہوئے اور کھوئے گئے کہ ان کے وجود میں اور کچھ باقی رہا ہی نہیں تھا.جو کوئی ان کو دیکھتا تھا ان کو محویّت کے عالم میں پاتا تھا.پس یاد رکھو کہ اس زمانہ میں بھی جب تک وہ محویّت اور وہ اطاعت میں گمشدگی پیدا نہ ہو گی جو صحابہ کرامؓ میں پیدا ہوئی تھی.مریدوں، معتقدوں میں داخل ہونے کا دعویٰ تب ہی سچا اور بجا ہو گا.یہ بات اچھی طرح پر اپنے ذہن نشین کر لوکہ جب تک یہ نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تم میں سکونت کرے اور خدا تعالیٰ کے آثار تم میں ظاہر ہوں اس وقت تک شیطانی حکومت کا عمل و دخل موجود ہے.شیطان جھوٹ ،ظلم،جذبات،خون، طُولِ اَمل ، رِیا اور تکبر کی طرف بلاتاہے اور دعوت کرتا ہے.اس کے بالمقابل اخلاقِ فاضلہ، صبر، محویت،فنا فی اللہ، اخلاص، ایمان ،فلاح یہ اللہ تعالیٰ کی دعوتیں ہیں.انسان ان دونوں تجاذب میں پڑا ہوا ہے.پھر جس کی فطرت نیک ہے اور سعادت کا مادہ اس میں رکھا ہوا ہے وہ شیطان کی ہزاروں دعوتوں اور جذ بات کے ہوتے ہوئے بھی اس فطرت رشید سعادت اور سلامت روی کے مادہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی ہی طرف دوڑتا ہے اور خدا ہی میں اپنی راحت، تسلّی اور اطمینان کو پاتا ہے.ایمان کے نشانات مگر ہر چیز کے لئے نشان ضرور ہوتے ہیں.جب تک اس میں وہ نشان نہ پائے جائیں وہ معتبر نہیں ہو سکتی.دیکھو! دواؤں کی طبیب شناخت

Page 61

کر لیتا ہے.بنفشہ، خِیَار شَنبـر، تُربد میں اگر وہ صفات نہ پائے جائیں جو ایک بڑے تجربہ کے بعد ان میں متحقق ہوئے ہیں تو طبیب ان کو رَدّی کی طرح پھینک دیتا ہے.اسی طرح پر ایمان کے نشانات ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کو بار بار اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے.یہ سچی بات ہے کہ جب ایمان انسان کے اندر داخل ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی عظمت یعنی جلال تقدس کبریائی قدرت اور سب سے بڑھ کر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا حقیقی مفہوم داخل ہو جاتا ہے.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے اندر سکونت اختیار کرتا ہے اور شیطانی زندگی پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور گناہ کی فطرت مَرجاتی ہے اس وقت ایک نئی زندگی شروع ہوتی ہے اور وہ روحانی زندگی ہوتی ہے یا یہ کہو کہ آسمانی پیدائش کا پہلا دن وہ ہوتا ہے جب شیطانی زندگی پر موت وارد ہوتی ہے اور روحانی زندگی کا تولّد ہوتا ہے.جیسےبچے کا تولّد ہوتا ہے.اسلام کا کامل خدا اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ میں اسی تولّد کی طرف ایما فرمایا ہے.اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ(الفاتـحۃ:۲تا۴) یہ چاروں صفات اللہ تعالیٰ کی بیان کی گئی ہیں.یعنی وہ خدا جس میں تمام محامد پائے جاتے ہیں.کوئی خوبی سوچ اورخیال میں نہیں آسکتی جو اللہ تعالیٰ میں نہ پائی جاتی ہو بلکہ انسان کبھی بھی ان محامد اور خوبیوں کو جو اللہ کریم میں پائی جاتی ہیں کبھی بھی شمار نہیں کر سکتا.جو خدا اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے وہی کامل اور سچا خدا ہے اور اسی لئے قرآن کو اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ سے شروع فرمایا ہے دوسری قوموں اور کتابوں نے جس خدا کی طرف دنیا کو دعوت کی ہے وہ کوئی نہ کوئی عیب اپنے اندر رکھتے ہیں.کسی کے ہاتھ نہیں ،کسی کے کان نہیں،کوئی گونگا ہے ، کوئی کچھ،غرض کوئی نہ کوئی عیب اور روگ موجود ہے.مثلاً عیسائیوں نے جس کو خدا بنا رکھا ہے سوچنے والا انسان سوچ سکتا ہے کہ اگر یہ ۱۹۰۰ برس کی مدت ان کے اس خیالی ڈھکو سلہ پر نہ گزر گئی ہوتی تو کچھ بھی ان کے ہاتھ میں نہیں تھا.اب صرف ایک بے ہودہ بات کی کہ ۱۹۰۰ برس سے یہ مذہب چلا آتا ہے کوئی دلیل مسیح کی خدا ئی کی نہیں ہے.مسیح کو خدا بنانے والوں کو باوجود اس فلسفہ دانی کے شرم آجاتی اگر سوچتے کہ کیا کبھی عورت کے پیٹ

Page 62

سے معمولی طور پر پیشاب کی راہ پیدا ہونے والا ضعیف و ناتواں بچہ جو کھانے پینے کا محتاج، پاخانہ اور پیشاب کی حاجتوں کا پا بند، تمام انسانی حوائج کا اسیر اور محتاج ہو خدا ہو سکتا ہے؟صرف اتنی ہی بات ہے کہ پرانی بات ہو کر انہوںنے قائم مقام دلیل کے بنا لی ہے.جیسے ہندوؤں کے خیال میں گنگا کے پانی میں سَت اور برکت خیالی طور پر رکھی ہوئی ہے حالانکہ وہ ایک معمولی دریا ہے جس میں مینڈک، کچھوے اسی طرح موجود ہیں جیسے اور دریاؤںمیں اور اس میں مُردوں کی ہڈیاں ڈالی جاتی ہیں.اب اگر ایک ہندو سے اس کی دلیل پوچھیں تو وہ یہی کہے گا کہ میرے دل میں دلیل ہے بیان نہیں کر سکتا.ایسا ہی نادان آریوں نے جو پرمیشر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے،وہ ایک مستری اور کاریگر سے بڑھ کر نہیں کیونکہ بجز جوڑنے جاڑنے کے خَالقیت کے اعلیٰ جوہر سے وہ بے بہرہ ہے.روح اور ذرّات عالم پر اس کا کوئی تصرّف نہیں.کیونکہ اس نے ان کوپیدا ہی نہیں کیا.وہ کبھی اپنے بندوں کو نجات نہیں دے سکتا کیونکہ پھر سارا کارخانہ ہی بگڑتا ہے اور ہاتھ سے جاتا رہتا ہے.وہ اپنے کسی مخلص بندہ کی دعا ہی نہیں سن سکتا اور نہ کسی کو وہ اپنے فضل سے کچھ دے سکتا ہے کیونکہ جو کچھ وہ کسی کو دیتا ہے اس کے ہی کرموں کا پھل ہوتا ہے.غرض ہر قوم اور کتاب نے جو خدا پیش کیا ہے اس کو دیکھ کر شرم آجاتی ہے.یہ فضیلت اور فخر اسلام ہی کو ہے کہ اس کا ماننے والا کبھی شرمندہ نہیں ہوسکتا.اس نے کامل خدا کا پلّہ پکڑا ہے اور کامل ہی کے حضور جائے گا.۱ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان اور فضل ہے.پھر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے عظیم الشان احسان فرمایا.اگر آپ کا وجود باجود دنیا میں نہ آتا تو رام رام کہنے والوں کی طرح بہت سے جھوٹے اور بیہودہ، اینٹ، پتھر وغیرہ معبود بنائے جاتے.اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ہے کہ نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم آیا اور بت پرستوں سے اس نے نجات دی.یہی وہ راز ہے کہ یہ درجہ صرف صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان احسانوں کے معاوضہ میں ملا کہ اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا ۱ الحکم جلد ۵ نمبر۱ مورخہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۲تا ۴

Page 63

عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا(الاحزاب:۵۷).ادھر ہندوؤں نے ۳۳ کروڑ دیوتاؤں کو خدا بنا رکھا تھا.اس وقت کی حالت سے کوئی نہیں بتلا سکتا کہ موحّد فرقہ کہاں رہتا تھا.اس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے تقاضے کا پتہ لگتا ہے کہ کیوں کر تاریکی کے وقت اس کی غیرت ہدایت کا تقاضا کرتی ہے.ہندو رام رام اور عیسائی رَبُّنَا الْیَسُوْعُ، رَبُّنَا الْیَسُوْعُ پکارتے تھے.کوئی ایسا نہ تھا جوخدا کانام لیتا.کروڑوں پردوں میں اللہ تعالیٰ کا جلالی اسم مخفی تھا.اللہ جَلّ شَانُہٗ نے جب احسان کرنا چاہا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا.آپ کا نام محمدؐ تھا جس کے معنی ہیں نہایت ہی تعریف کیا گیا جو باب تفعیل سے آتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی اسی قدر قابل تعریف ٹھہرتا ہے جس قدر کام کرتا ہے.پہلے نبی خاص قوموں کے لئے آتے تھے اور ایک نقص یہ تھا کہ ایک عظیم الشان اصلاح کی ضرورت نہ ہوتی تھی.مثلاً حضرت مسیح علیہ السلام جب آئے تو وہ صرف بنی اسرائیل ہی کی گمشدہ بھیڑوں کو اکٹھا کرنے کے واسطے آئے اور یہودیوں کے پاس اس وقت توریت موجود تھی.وہی تورات کی تعلیمات عملدر آمد کے لئے کافی سمجھی گئی تھیں اور یہودی تورات کے احکام اور تعلیمات کے قائل اور ان پر قائم تھے.ہاں بعض اخلاقی کمزوریاں تھیں جو ان میں پیدا ہو گئی تھیں.اور یہ صاف بات ہے کہ صرف اخلاقی کمزوریوں کا دور کرنا.ان کے نقصانات کو بتلا دینا یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے.ایک معمولی درجہ کا آدمی بھی ایساکر سکتا ہے اور اخلاقی واعظ ہو سکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ مسیحؑ کا نام محمدؐ نہ رکھا گیا.کیوں کہ ان کی خدمات ایسی اعلیٰ درجہ کی نہ تھیں اور اسی طرح پر موسیٰ علیہ السلام جب آئے گو وہ ایک شریعت لے کر تو آئے مگر ان کا بڑا کام بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانا ہی تھا حالانکہ وہ قوم چار سو برس کی تلخیوں اور مصیبتوں کی وجہ سے بجائے خود اس بات پر آمادہ اور طیار تھے کہ کوئی ایسی تحریک ہو تو وہاں سے نکل کھڑے ہوں.مادہ طیار تھا.صرف تحریک اور محرک کی ضرورت تھی.انسان جب کسی بیگار یا بیجا مشقت میں پکڑا جاوے تو وہ خود اس سے نجات پانی چاہتا ہے اور نکلنے کی خواہش کرتا ہے.پس جب بنی اسرائیل فرعون کی غلامی میں پریشان

Page 64

ہو رہے تھے اور اندر ہی اندر وہ اس سے رہائی پانے کی فکر میں تھے.اس وقت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر جب ا نہیں کہا کہ میں تم کو فرعون کی غلامی سے نجات دلاؤں گا تو وہ سب طیار ہو گئے.بنی اسرائیل کے حالات اور واقعات کو بنظر غور دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کی اصل غرض موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کی کیا تھی؟بڑی بھاری غرض یہی تھی کہ وہ فرعون کی غلامی سے نکلیں.چنانچہ روحانی امور اور خدا پرستی کے متعلق وہ ہمیشہ ٹھوکر کھاتے رہے.اور بے جا گستاخیوں اور شوخیوں سے کام لیتے رہے.یہاں تک کہ لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً (البقرۃ:۵۶) اور اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ (المائدۃ:۲۵) جیسے کلمات کہنے اور ذرا سی غیر حاضری میں گو سالہ پرستی کرنے سے باز نہ آئے اور بات بات میں ضد اور اعتراض سے کام لیتے.ان کے حالات پر پوری نظر کے بعد صاف معلوم دیتا ہے کہ وہ صرف، صرف فرعون کی غلامی سے ہی آزاد ہونا چاہتے تھے.خود اپنے آپ میں رہبری اور سرداری کی قوت نہ رکھتے تھے.اس لئے موسیٰ علیہ السلام کی بات سنتے ہی طیار ہو گئے.چونکہ بہت تنگ آچکے تھے اور ’’مَرتا کیا نہ کرتا‘‘ اپنی سر خروئی انہوں نے اسی میں سمجھی حضرت موسیٰ کے ساتھ نکل پڑے لیکن آخر موسیٰ کی کامیابیوں کی راہ میں ٹھوکر کا پتھر بنے.غرض حضرت موسٰی کو بہت محنت و مشقت کرنے کی ضرورت نہ پڑی.قوم زندانِ غلامی میں گرفتار تھی اور طیار تھی کہ کوئی آئے تو اسے قبول کر لیں.ایسی حالت میں کئی لاکھ آدمیوں نے ایک دن میں قبول کر لیا اور انہوںنے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ وہ کیسی قوم ہے اور موسٰی کی تعلیم سے انہوں نے کیا فائدہ اٹھایا ہے.پس یہاں تک کہ ان کو مصر سے نکال لیا، کوئی بڑا کام نہ تھا.اصلاح کا زمانہ جب آیا اور موسٰی نے جب چاہا کہ ان کو خدا پرست قوم بنا کر وعدہ کی سر زمین میں داخل کریں وہ ان کی شوخیوں اور گستاخیوں اور اندرونی بد اعمالیوں میں گزرا.یہاںتک کہ خود حضرت موسیٰ بھی اس سرزمین میں داخل نہ ہو سکے اس لئے ان کا نام بھی محمدؐ نہ ہو سکا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت غرض جہاں تک غور کرتے جاؤ یہ پتہ ملے گا کہ کوئی نبی اس مبارک نام کا مستحق نہ تھا.یہاں تک

Page 65

کہ ہمارے نبی کریمؐ کا زمانہ آگیا وہ ایک خارستان تھا جس میںنبی کریمؐ نے قدم رکھا اور ظلمت کی انتہا ہو چکی تھی.میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اس وقت تک گزر چکے تھے سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہرگز نہ کر سکتے.ان میں وہ دل، وہ قوت نہ تھی جو ہمارے نبیؐکو ملی تھی.اگر کوئی کہے کہ یہ نبیوں کی معاذ اللہ سُوءِ ادبی ہے تو وہ نادان مجھ پر افترا کرے گا.میں نبیوں کی عزّت و حرمت کرنا اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں لیکن نبی کریمؐ کی فضیلت کل انبیاء علیہم السلام پر میرے ایمان کا جزوِ اعظم اور میرے رگ وریشہ میں ملی ہوئی بات ہے.یہ میرے اختیار میں نہیں کہ اس کو نکال دوں.بد نصیب اور آنکھ نہ رکھنے والا مخالف جو چاہے سو کہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کام کیا ہے جو نہ الگ الگ اور نہ مل مل کر کسی سے ہو سکتا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ.سراپا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات پیش آمدہ کی اگر معرفت ہو اور اس بات پر پوری اطلاع ملے کہ اس وقت دنیا کی کیا حالت تھی اور آپ نے آکر کیا کیا تو انسان وجد میں آکر اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کہہ اٹھتا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے.قرآن شریف اور دنیا کی تاریخ اس امر کی پوری شہادت دیتی ہے کہ نبی کریمؐ نے کیا کیا.ورنہ وہ کیا بات تھی جو آپ کے لئے مخصوصاً فرمایا گیااِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا (الاحزاب:۵۷) کسی دوسرے نبی کے لئے یہ صدا نہیں آئی.پوری کامیابی ،پوری تعریف کے ساتھ یہی ایک انسان د نیا میں آیا جو محمد کہلایا صلی اللہ علیہ وسلم.عادت اللہ اسی طرح پر ہے.زمانہ ترقی کرتا ہے.آخر وہ زمانہ آگیا جو خاتم النبیین کا زمانہ تھا جو ایک ہی شخص تھا جس نے یہ کہا يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا (الاعراف:۱۵۹) کہنے کو تو یہ چند لفظ ہیں اور ایک اندھا کہہ سکتا ہے کہ معمولی بات ہے مگر جو دل رکھتا ہے وہ سمجھتا ہے اور جو کان رکھتا ہے وہ سنتا ہے جو آنکھیں رکھتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ یہ الفاظ معمولی الفاظ نہیں ہیں.میں کہتا ہوں اگر یہ

Page 66

معمولی لفظ تھے تو بتلاؤ کہ موسیٰ علیہ السلام کو یا مسیح علیہ السلام یا کسی نبی کو بھی یہ طاقت کیوں نہ ہوئی کہ وہ یہ لفظ کہہ دیتا.اصل یہی ہے جس کو یہ قوت، یہ منصب نہیں ملا وہ کیوں کر کہہ سکتا ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ کسی نبی کو یہ شوکت، یہ جلال نہ ملا جو ہمارے نبی کریمؐ کو ملا.بکری کو اگر ہر روز گوشت کھلاؤ تو وہ گوشت کھانے سے شیر نہ بن سکے گی.شیر کا بچہ ہی شیر ہو گا.پس یاد رکھو یہی بات سچ ہے کہ اس نام کا مستحق اور واقعی حقدار ایک تھا جو محمدؐ کہلایا.یہ دادِ الٰہی ہے جس کے دل ودماغ میں چاہے یہ قوتیں رکھ دیتی ہے اور خدا خوب جانتا ہے کہ ان قوتوں کا محل اور موقع کون ہے.ہر ایک کاکام نہیں کہ اس راز کو سمجھ سکے اور ہر ایک کے منہ میں وہ زبان نہیں جو یہ کہہ سکے کہ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا (الاعراف:۱۵۹) جب تک روح القدس کی خاص تائید نہ ہو یہ کلام نہیں نکل سکتا.رسول اللہؐ میں وہ ساری قوتیں اور طاقتیں رکھی گئی تھیں جو محمدؐ بنا دیتی ہیں تا کہ بالقوۃ باتیں بالفعل میں بھی آجاویں،اس لئے آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا.ایک قوم کے ساتھ جو مشقت کرنی پڑتی ہے تو کس قدر مشکلات پیش آتی ہیں.ایک خدمت گار شریر ہو تو اس کا درست کرنا مشکل ہو جاتا ہے.آخر تنگ اور عاجز آکر اس کو بھی نکال دیتا ہے.لیکن وہ کس قدر قابلِ تعریف ہو گا جو اسے درست کرلے اور پھر وہ تو بڑا ہی مردِ میدان ہے جو اپنی قوم کو درست کر سکے حالانکہ یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں.مگر وہ جو مختلف قوموں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا سوچو تو سہی کس قدر کامل اور زبردست قویٰ کا مالک ہو گا.مختلف طبیعت کے لوگ،مختلف عمروں، مختلف ملکوں، مختلف خیال مختلف قویٰ کی مخلوق کو ایک ہی تعلیم کے نیچے رکھنا اور پھر ان سب کی تربیت کر کے دکھلا دینا اور وہ تربیت بھی کوئی جسمانی نہیں بلکہ روحانی تربیت، خدا شناسی اور معرفت کی باریک سے باریک باتوں اور اسرار سے پورا واقف بنا دینا اور نری تعلیم ہی نہیں بلکہ عامل بھی بنا دینا یہ کوئی چھوٹی سی بات نہیں ہے.دنیا کے لئے اجتماع بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ ان میں ذاتی مفاد اور دنیوی لالچ کی ایک تحریک ہوتی ہے.مگر کوئی یہ بتلائے کہ محض اللہ کے لئے پھر ایسے وقت میں کہ اس جلالی نام سے کل دنیا ناواقف ہو پھر ایسی حالت میں کہ اس کا اقرار کرنا دنیا کی تمام مصیبتوں کو اپنے سر پر اٹھا لینا ہو کون کسی کے پاس

Page 67

آسکتا ہے جب تک اللہ کی طرف بلانے والے میں عظیم الشان قوت جذب کی نہ ہو کہ بے اختیار ہو ہو کر دل اس طرف کھچ آویں اور وہ تمام تکلیفیں اور بلائیں ان کے لئے محسوس اللّذّات اور مُدرک الحلاوت ہو جاویں.اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کی طرف غور کرو تو پھر کیسا روشن طور پر معلوم ہو گا کہ آپ ہی اس قابل تھے کہ محمدؐ نام سے موسوم ہوتے اور اس دعویٰ کو جیسا کہ زبان سے کیا گیا تھا کہ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا اپنے عمل سے بھی کرکے دکھاتے.چنانچہ وہ وقت آگیا کہ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا (النصـر: ۲ ، ۳ ) اس میں اس امر کی طرف صریح اشارہ ہے کہ آپ اس وقت دنیا میںآئے جب دین اللہ کو کوئی جانتا بھی نہ تھا اور عالمگیر تاریکی پھیلی ہوئی تھی اور گئے اس وقت کہ جبکہ اس نظارہ کو دیکھ لیا کہ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا.جب تک اس کو پورا نہ کر لیا نہ تھکے نہ ماندہ ہوئے.مخالفوں کی مخالفتیں،اعدا کی سازشیں اور منصوبے، قتل کرنے کے مشورے،قوم کی تکلیفیں آپ کے حوصلہ اور ہمت کے سامنے سب ہیچ اور بے کار تھیں اور کوئی چیز ایسی نہ تھی جو اپنے کام سے ایک لمحہ کے لئے بھی روک سکتی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس وقت تک زندہ رکھا جب تک کہ آپ نے وہ کام نہ کر لیا جس کے واسطے آئے تھے.یہ بھی ایک سِرّ ہے کہ خدا کی طرف سے آنے والے جھوٹوں کی طرح نہیںآتے.اسی طرح پر آپ کے صدق نبوت پر آپ کی زندگی سب سے بڑا نشان ہے.کوئی ہے جو اس پر نظر کرے! آپ کو دنیا میں ایسے وقت پر بھیجا کہ دنیا میں تاریکی چھائی ہوئی تھی اور اس وقت تک کو زندہ رکھا کہ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ (المائدۃ:۴) کی آواز آپ کو نہ آگئی اور فوجوں کی فوجیں اسلام میں داخل ہوتی ہوئیں آپ نے نہ دیکھ لیں.غرض اسی قسم کی بہت سی وجوہ ہیں جن سے آپ کا نام مُـحَمَّدؐ رکھا گیا.احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پھر آپ کا ایک اور نام بھی رکھا گیا وہ احمد ہے.چنانچہ حضرت مسیح نے اسی نام کی پیشگوئی کی تھی مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي

Page 68

اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ ( الصفّ :۷) یعنی میرے بعد ایک نبی آئے گا جس کی میں بشارت دیتا ہوں اور اس کا نام احمد ہو گا.یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ جو اللہ تعالیٰ کی حد سے زیادہ تعریف کرنے والا ہو.اس لفظ سے صاف پایا جاتا ہے اور سچی بات بھی یہی ہے کہ کوئی اسی کی تعریف کرتا ہے جس سے کچھ لیتا ہے اور جس قدر زیادہ لیتا ہے اسی قدر زیادہ تعریف کرتا ہے.اگر کسی کو ایک روپیہ دیا جاوے تو وہ اسی قدر تعریف کرے گا اور جس کو ہزار رو پیہ دیا جاوے وہ اسی انداز سے کرے گا.غرض اس سے واضح طور پر پایا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ خدا کا فضل پایا ہے.دراصل اس نام میں ایک پیشگوئی ہے کہ یہ بہت ہی بڑے فضلوں کا وارث اور مالک ہو گا.مُحَمَّد واَحْمد پھر آپؐکے مبارک ناموں میں ایک سِرّ یہ ہے کہ محمد اور احمد جو دو نام ہیں ان میں دو جدا جدا کمال ہیں.محمدؐ کا نام جلال اور کبریائی کو چاہتا ہے جو نہایت درجہ تعریف کیا گیا ہے اور اس میں ایک معشوقانہ رنگ ہے.کیونکہ معشوق کی تعریف کی جاتی ہے.پس اس میں جلالی رنگ ہونا ضروری ہے.مگر احمد کا نام اپنے اندر عاشقانہ رنگ رکھتا ہے کیونکہ تعریف کرنا عاشق کا کام ہے.وہ اپنے محبوب و معشوق کی تعریف کرتا رہتا ہے.اس لئے جیسے محمدؐ محبوبانہ شان میں جلال اور کبریائی کو چاہتا اسی طرح پر احمد عاشقانہ شان میں ہو کر غربت اور انکساری کو چاہتا ہے.اس میں ایک سِرّ یہ تھا کہ آپ کی زندگی کی تقسیم دو حصوں پر کر دی گئی ایک تو مکی زندگی جو ۱۳ برس کے زمانہ کی ہے اور دوسری وہ زندگی ہے جو مدنی زندگی ہے اور وہ ۱۰ برس کی ہے.مکہ کی زندگی میں اسم احمد کی تجلی تھی.اس وقت آپ کے دن رات خدا تعالیٰ کے حضور گریہ وبُکا اور طلبِ استعانت اور دعا میں گزرتے تھے.اگر کوئی شخص آپ کی اس زندگی کے بسر اوقات پر پوری اطلاع رکھتا ہو تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ جو تضرّع اور زاری آپ نے اس مکی زندگی میں کی ہے وہ کبھی کسی عاشق نے اپنے محبوب و معشوق کی تلاش میں کبھی نہیں کی اور نہ کر سکے گا.پھر آپ کی تضرّع اپنے لیے نہ تھی بلکہ یہ تضرّع دنیا کی حالت کی پوری واقفیت کی وجہ سے تھی.خدا پرستی کا نام ونشان چونکہ مٹ چکا تھا اور آپ کی روح اور خمیر میں اللہ تعالیٰ میں ایمان رکھ کر ایک لذّت اور سرور آچکا تھا

Page 69

اور فطرتاً دنیا کو اس لذّت اور محبت سے سرشار کرنا چاہتے تھے.اِدھر دنیا کی حالت کو دیکھتے تھے تو ان کی استعدادیں اور فطرتیں عجیب طرز پر واقع ہو چکی تھیں اور بڑے مشکلات اور مصائب کا سامنا تھا.غرض دنیا کی اس حالت پر آپ گریہ و زاری کرتے تھے اور یہاں تک کرتے تھے کہ قریب تھا کہ جان نکل جاتی.اسی کی طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ(الشعرآء:۴) یہ آپ کی متضر عانہ زندگی تھی اور اسم احمد کا ظہور تھا.اس وقت آپ ایک عظیم الشان توجہ میں پڑے ہوئے تھے.اس توجہ کا ظہور مدنی زندگی اور اسم محمدؐ کی تجلی کے وقت ہوا جیساکہ اس آیت سے پتہ لگتا ہے وَ اسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ (ابراہیم:۱۶).مامورین پر ابتلا یہ سنّت اللہ ہے کہ مامور من اللہ ستائے جاتے ہیں.دکھ دیئے جاتے ہیں.مشکل پر مشکل ان کے سامنے آتی ہے نہ اس لئے کہ وہ ہلاک ہو جائیں بلکہ اس لئے کہ نصرتِ الٰہی کو جذب کریں.یہی وجہ تھی کہ آپ کی مکی زندگی کا زمانہ مدنی زندگی کے بالمقابل دراز ہے.چنانچہ مکہ میں ۱۳برس گزرے اور مدینہ میں دس برس.جیسا کہ اس آیت سے پایا جاتا ہے ہرنبی اور مامور من اللہ کے ساتھ یہی حال ہوا ہے کہ اوائل میں دکھ دیا گیا ہے.مکّار، فریبی، دوکاندار اور کیا کیا کہا گیا ہے.کوئی بُرا نام نہیں ہوتا جو ان کا نہیں رکھا جاتا.وہ نبی اور مامور ہر ایک بات کی برداشت کرتے اور ہر دکھ کو سہ لیتے ہیں لیکن جب انتہا ہو جاتی ہے تو پھر بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لئے دوسری قوت ظہور پکڑتی ہے.اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کا دکھ دیا گیا ہے اور ہر قسم کا بُرا نام آپ کا رکھا گیا ہے.آخر آپ کی توجہ نے زور مارا اور وہ انتہا تک پہنچی جیسا اِسْتَفْتَحُوْا سے پایا جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ.تمام شریروں اور شرارتوں کے منصوبے کرنے والوں کا خاتمہ ہو گیا.یہ توجہ مخالفوں کی شرارتوں کی انتہا پر ہوتی ہے کیونکہ اگر اوّل ہی ہو تو پھر خاتمہ ہو جاتا !!مکہ کی زندگی میںحضرت اَحدیّت کے حضور گرنا اور چلّانا تھا.اور وہ اس حالت تک پہنچ چکا تھا کہ دیکھنے والوں اور سننے والوں کے بدن پر لرزہ پڑ جاتا ہے.مگر آخر مدنی زندگی کے جلال کو دیکھو کہ وہ جو شرارتوں میں سر گرم اور قتل اور اخراج کے منصوبوں میں

Page 70

مصروف رہتے تھے سب کے سب ہلاک ہوئے اورباقیوں کو اس کے حضور عاجزی اور منّت کے ساتھ اپنی خطاؤں کا اقرار کر کے معافی مانگنی پڑی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دیکھو کس قدر فائدہ پہنچا.ایک زمانہ میں یہ ایمان نہ لائے تھے اور چار برس کا توقف ہو گیا.اللہ تعالیٰ خوب مصلحت سمجھتا ہے کہ اس میں کیا سِرّ تھا.ابو جہل نے تلاش کی کہ کوئی ایسا شخص تلاش کیا جاوے جو رسول اللہؐ کو قتل کر دے.اس وقت حضرت عمرؓ بڑے بہادر اور دلیر مشہور تھے اور شوکت رکھتے تھے.انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا بیڑا اٹھایا اور معاہدہ پر حضرت عمرؓ اور ابو جہل کے دستخط ہو گئے اور قرار پایا کہ اگر عمر قتل کر آویں تو اس قدر روپیہ دیا جاوے.۱ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ جو ایک وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوشہید کرنے کے لئے جاتے ہیں.دوسرے وقت وہی عمر رضی اللہ عنہ اسلام میں ہو کر خود شہید ہوتے ہیں.وہ کیا عجیب زمانہ تھا!!! غرض اس وقت یہ معاہدہ ہوا کہ میں قتل کرتا ہوں.اس تحریر کے بعد آپؐکی تلاش اور تجسس میں لگے راتوں کو پھرتے تھے کہ کہیں تنہا مل جائیں تو قتل کر دوں.لوگوں سے دریافت کیا کہ آپ تنہا کہاں ہوتے ہیں.لوگوں نے کہا کہ نصف رات گزرنے کے بعد خانہ کعبہ میں جا کر نماز پڑھا کرتے ہیں.حضرت عمرؓ یہ سن کر بہت ہی خوش ہوئے چنانچہ خانہ کعبہ میں آکر چھپ رہے.جب تھوڑی دیر گزری تو جنگل سے لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ کی آواز آتی ہوئی معلوم ہوئی اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی آواز تھی.اس آواز کو سن کر اور یہ معلوم کر کے کہ وہ ادھر ہی کو آرہی ہے حضرت عمر اور بھی احتیاط کرکے چھپے اور یہ ارادہ کر لیا کہ جب سجدہ میں جائیں گے تو تلوار مار کر سر مبارک تن سے جدا کردوںگا.آپؐنے آتے ہی نماز شروع کر دی.پھر اس سے آگے کے واقعات خود حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ میں اس قدر رو رو کر دعا ئیں کیں کہ مجھ پر لرزہ پڑنے لگا ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۲ مورخہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۲ تا ۴

Page 71

یہاں تک کہ آنحضرت نے یہ بھی کہا کہ سَـجَدَ لَکَ رُوْحِیْ وَجَنَانِیْ یعنی اے میرے مولیٰ میری روح اور میرے دل نے بھی تجھے سجدہ کیا.حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ ان دعا ؤں کو سن سن کر جگر پاش پاش ہوتا تھا.آخر میرے ہاتھ سے ہیبت حق کی وجہ سے تلوار گر پڑی.میں نے آنحضرتؐکی اس حالت سے سمجھ لیا کہ یہ سچاہے اور ضرور کامیاب ہو جائے گا.مگر نفسِ امّارہ بُرا ہوتا ہے.جب آپ نماز پڑھ کر نکلے مَیں پیچھے پیچھے ہو لیا.پاؤں کی آہٹ جو آپؐکو معلوم ہوئی.رات اندھیری تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کون ہے؟ میں نے کہا کہ عمر.آپ نے فرمایا کہ اے عمر! نہ تو رات کو پیچھا چھوڑتا ہے اور نہ دن کو.اس وقت مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کی خوشبو آئی اور میری روح نے محسوس کیا کہ آنحضرتؐبد دعا کریں گے.میں نے عرض کیا یا حضرت!بد دعا نہ کریں.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ وہ وقت اور وہ گھڑی میرے اسلام کی تھی.یہاں تک کہ خدا نے مجھے توفیق دی کہ میں مسلمان ہو گیا.اب سوچو کہ اس تضرّع اور بُکا میں کیسی تلوار مخفی تھی کہ جس نے عمر جیسے انسان کو جو قتل کے لیے معاہدہ کرکے آتا ہے اپنی ادا کا شہید کر لیا.اس توجہ اور زاری میں ایسی تلوار ہوتی ہے جو سیف وسنان سے بڑھ کر کام کرتی ہے.غرض وہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کاا سم احمد کے ظہور کا زمانہ تھا اس لئے مکہ میں عاشقانہ رنگ کا جلوہ دکھایا.اپنے آپ کو خاک میں ملا دیا اور ہزاروں موتیں اپنے آپ پر وارد کر لیں.اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس جوش ،وفا،تضرّع، اور دعا وبکا کا اندازہ نہیں کر سکتا.ان موتوں کے بعد وہ قوت وہ زندگی آپؐکو ملی کہ ہزاروں لاکھوں مُردوں کے زندہ کرنے والا ٹھہرے اور حاشر الناس کہلائے اور اب تک اپنی قوت قدسی کے زور سے کروڑہا مُردوں کو زندہ کررہے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے.پس اس مکی زندگی اور عاشقانہ ظہور کے بعد جو اسم احمدؐ کی تجلی تھی دوسرا دور آپ کی جلالی زندگی اسم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور کا معشوقانہ شان میں ہوا جبکہ مکہ والوں کی دشمنی کی انتہا ہو چکی اور دعاؤں اور توجہ کی حد ہو گئی.نابکار مخالفوں کی عداوت حد سے بڑھ کر بیت اللہ سے نکال دینے کا باعث

Page 72

ہوئی اور اس پر بھی بس نہ کی بلکہ تعاقب کیا اور اپنی طرف سے کو ئی دقیقہ تکلیف دہی اور ایذا رسانی کا باقی نہ رکھا تو آپ مدینہ تشریف لائے اور پھر حکم ہوا کہ مداخلت کی جاوے.اللہ تعالیٰ کی غیرت نے جوش مارا اور جلالِ الٰہی نے اسم محمدؐ کا جلوہ دکھانے کا ارادہ فرمایا جس کا ظہور مدنی زندگی میں ہوا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں آنے کی غرض و غایت تو صرف یہ تھی کہ دنیا پر اس خدا کا جلال ظاہر کریں جو مخلوق کی نظروں اور دلوںسے پوشیدہ ہو چکا تھا اور اس کی جگہ باطل اور بیہودہ معبودوں، بتوں اور پتھروں نے لے لی تھی اور یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جمالی اور جلالی زندگی میں جلوہ گری فرماتا اور اپنے دستِ قدرت کا کرشمہ دکھاتا.محبوبِ الٰہی بننے کے لئے واحد راہ اطاعتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک کامل نمونہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور محبوب الٰہی بننے کا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں فرما دیا کہ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ (اٰل عـمران:۳۲) یعنی ان کو کہہ دو کہ تم اگر چاہتے ہو کہ محبوبِ الٰہی بن جاؤ اور تمہارے گنا ہ بخش دیئے جاویں تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ میری اطاعت کرو.کیا مطلب کہ میری پیروی ایک ایسی شے ہے جو رحمت الٰہی سے نا اُمید ہونے نہیں دیتی.گناہوں کی مغفرت کا باعث ہوتی اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اور تمہارا یہ دعویٰ کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اسی صورت میں سچا اور صحیح ثابت ہو گا کہ تم میری پیروی کرو.اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے کسی خود تراشیدہ طرز ریاضت ومشقت اور جپ تپ سے اللہ تعالیٰ کا محبوب اور قربِ الٰہی کا حق دار نہیں بن سکتا.انوار و برکاتِ الٰہیہ کسی پر نازل نہیں ہو سکتی جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں کھویا نہ جاوے.اور جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں گم ہو جاوے اور آپ کی اطاعت اور پیروی میں ہر قسم کی موت اپنی جان پر وارد کر لے اس کو وہ نورِ ایمان،محبت اور عشق دیا جاتا ہے جو غیر اللہ سے رہائی دلا دیتا ہے

Page 73

اور گناہوں سے رستگاری اور نجات کا موجب ہوتا ہے.اسی دنیا میں وہ ایک پاک زندگی پاتا ہے اور نفسانی جوش وجذبات کی تنگ وتاریک قبروںسے نکال دیا جاتا ہے.اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے اَنَا الْـحَاشِـرُ الَّذِیْ یُـحْشَـرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِیْ یعنی میں وہ مُردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں.غرض یہ ہے کہ وہ علوم جو مدارِ نجات ہیں یقینی اور قطعی طور پر بجز اس حیات کے حاصل نہیںہو سکتے جو بتوسط روح القدس انسان کو ملتی ہے اور قرآن شریف کی یہ آیت صاف طور پر اور پکار کر یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ حیات روحانی صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے ملتی ہے اور وہ تمام لوگ جو بخل اور عناد کی وجہ سے نبی کریمؐ کی متا بعت سے سر کش ہیں وہ شیطان کے سایہ کے نیچے ہیں.اس میں اس پاک زندگی کی روح نہیں ہے.وہ بظاہر زندہ کہلاتا ہے لیکن مُردہ ہے جبکہ شیطان اس کے دل پر سوار ہے.موت کو یاد رکھیں افسوس اس کو موت یاد نہیں ہے.موت کیا دُور ہے؟ جس کی پچاس برس کی عمر ہو چکی ہے اگر وہ زندگی پالے گا تو دوچار برس اور پالے گا یا زیادہ سے زیادہ دس برس اور آخر مرنا ہوگا.موت ایک یقینی شَے ہے جس سے ہرگز ہرگز کوئی بچ نہیں سکتا.مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگ روپیہ پیسہ کے حساب میں ایسے غلطاں پیچاں رہتے ہیں کہ کچھ حد نہیں مگرعمر کا حساب کبھی بھی نہیں کرتے.بدبخت ہے وہ انسان جس کو عمر کے حساب کی طرف توجہ نہ ہو.سب سے ضروری اور حسا ب کے لائق جو شَے ہے وہ تو عمر ہی ہے.ایسانہ ہو کہ موت آجائے اور یہ حسرت لے کر دنیا سے کُوچ کرے.قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ جیسے بہشتی زندگی اسی دنیا سے شروع ہوجاتی ہے جہنم کی زندگی بھی یہاں ہی سے شروع ہوجاتی ہے.جب انسان حسرت کے ساتھ مَرتا ہے تو بہت بڑے جہنم میں ہوتا ہے جب دیکھتا ہے کہ اب چلا.ہیضہ، طاعون، محرقہ، خفقان یا کسی اور شدید مرض میںمبتلا ہوتا ہے تو موت سے پہلے ایک موت وارد ہوجاتی ہے جو دل اور رُوح کو فرسودہ کردیتی ہے اور وہ بھی حسرت ہوتی ہے.بعض امراض ایسے ہیں کہ دو منٹ بھی دَم لینے نہیں دیتے اور جھٹ پٹ کام تمام کردیتے ہیں.جس نے ایک دن بھی مطالعہ کیا کہ مَیں مرنے ولا جانور

Page 74

ہوں وہ اس عذاب سے بچنے کی فِکر میں ہوا جو انسان کو حسرت کے رنگ میں کھا جاتا ہے.ہمارے عزیزوں میں سے ایک کو قولنج ہوئی.آخر پیشاب بند ہوکرسیاہ رنگ کی ایک قَے ہوئی اور اس کے ساتھ ہی گردن لٹک گئی.اس وقت کہا کہ اب معلوم ہوا کہ دنیا کچھ چیز نہیں.یقیناً یادرکھو کہ دنیا کوئی چیز نہیں.کون کہہ سکتا ہے کہ ہم سب جو اس وقت یہاں موجود ہیں سالِ آئندہ میں بھی ضرور ہوں گے.بہت سے ہمارے دوست جو پچھلے سال موجود تھے آج نہیں ہیں.اُنہیں کیا معلوم تھا کہ اگلے سال ہم نہ ہوں گے.اسی طرح اب کون کہہ سکتا ہے کہ ہم ضرورہوں گے اور کس کو معلوم ہے کہ مَرنے والوں کی فہرست میں کس کس کانام ہے.پس بڑا ہی مُورکھ ہے اور نادان ہے وہ شخص جو مَرنے سے پہلے خدا سے صُلح نہیں کرتا اور جھوٹی برادری کونہیں چھوڑتا.بَدصحبت انسان کو ہلاک کرنے والی چیزوں میں سے ایک بدصحبت بھی ہے.دیکھو ابوجہل خود تو ہلاک ہوا مگر اور بھی بہت سے لوگوں کو لے مَرا جو اس کے پاس جاکر بیٹھا کرتے تھے.اُس کی صحبت اور مجلس میں بجز استہزا اور ہنسی ٹھٹھے کے اور کوئی ذکر ہی نہ تھا.یہی کہتے تھے اِنَّ هٰذَا لَشَيْءٌ يُّرَادُ ( صٓ : ۷ ) میاں یہ دوکانداری ہے.اب دیکھواوربتلاؤ کہ وہ جس کو دوکاندار اورٹھگ کہاجاتا تھا ساری دنیا میں اسی کانُور ہے یا کسی اَور کابھی.ابوجہل مَرگیا اور اس پر لعنت کے سواکچھ نہ رہا.مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ بلند کو دیکھو کہ شب وروز بلکہ ہروقت درودپڑھا جاتا ہے اور ۹۹ کروڑ مسلمان اس کے خادم موجود ہیں.اگر اب ابوجہل پھر آتا تو آکر دیکھتا کہ جس کو اکیلا مکہ کی گلیوں میں پھرتا دیکھتاتھا اور جس کی ایذادہی میں کوئی دقیقہ باقی نہ رکھتا تھا.اس کے ساتھ جب ۹۹ کروڑ انسانوں کے مجمع کو دیکھتا حیران رہ جاتا اور یہ نظارہ ہی اس کو ہلاک کردیتا.یہ ہے ثبوت آپؐکی رسالت کی سچائی کا.اگر اللہ تعالیٰ ساتھ نہ ہوتا تو یہ کامیابی نہ ہوتی.کس قدر کوششیں اور منصوبے آپؐکی عداوت اور مخالفت کے لئے کئے مگرآخر ناکام اور نامراد ہونا پڑا.اس ابتدائی حالت میں جب چند آدمی آپؐکے ساتھ تھے کون دیکھ سکتا تھا کہ یہ عظیم الشان انسان دنیا میں ہوگا اور ان مخالفوں کی سازشوں سے صحیح و سلامت بچ کر

Page 75

کامیاب ہوجائے گا.مگر یادرکھو کہ اللہ تعالیٰ کی عادت اسی طرح پر ہے کہ انجام خدا کے بندوں کا ہی ہوتا ہے.قتل کی سازشیں ، کفر کے فتوے، مختلف قسم کی ایذائیں ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ (الصّفّ:۹) یہ شریر کافر اپنے مُنہ کی پھونکوں سے نور اللہ کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ اپنے نور کو کامل کرنے والا ہے.کافر بُرا مناتے رہیں.منہ کی پھونکیں کیا ہوتی ہیں؟ یہی کسی نے ٹھگ کہہ دیا.کسی نے دوکاندار اور کافر، بے دین کہہ دیا.غرض یہ لوگ ایسی باتوں سے چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھادیں مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکتے نور اللہ کو بجھاتے بجھاتے خود ہی جل کر ذلیل ہوجاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے لوگوں کے لشکر آسمان پر ہوتے ہیں.منکر اور زمینی لوگ اُن کو دیکھ نہیں سکتے ہیں.اگر ان کو معلوم ہو جاوے اور وہ ذرا سا بھی دیکھ پائیں تو ہیبت سے ہلاک ہوجائیں مگر یہ لشکر نظر نہیں آسکتا جب تک انسان اللہ تعالیٰ کی چادر کے نیچے نہ آئے.سعادتِ عظمیٰ کے حصول کی راہ مَیں پھر اصل مطلب کی طرف رجوع کرکے کہتا ہوں کہ سعادتِ عظمیٰ کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی راہ رکھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جاوے جیسا کہ اس آیت میں صاف فرما دیا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (اٰل عـمران:۳۲) یعنی آؤ میری پیروی کرو تاکہ اللہ بھی تم کو دوست رکھے.اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ رسمی طور پر عبادت کرو.اگر حقیقت مذہب یہی ہے تو پھر نماز کیا چیز ہے اور روزہ کیا چیز ہے.خود ہی ایک بات سے رُکے اور خود ہی کرلے.اسلام محض اس کا نام نہیں ہے.اسلام تو یہ ہے کہ بکرے کی طرح سررکھ دے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا مَرنا، میرا جینا، میری نماز، میری قربانیاں اللہ ہی کے لیے ہیں اور سب سے پہلے مَیں اپنی گردن رکھتا ہوں.یہ فخر اسلام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کواوّلیت کا ہے نہ ابراہیم کو نہ کسی اور کو.یہ اسی کی طرف اشارہ ہے کُنْتُ نَبِیًّا وَّاٰدَمُ بَیْنَ الْمَآءِ وَالطِّیْنِ.اگرچہ

Page 76

آپؐسب نبیوں کے بعد آئے مگر یہ صدا کہ میرا مَرنا اور میرا جینا اللہ تعالیٰ کے لئے ہے، دوسرے کے منہ سے نہیں نکلی.مسلمان کی حقیقت اب دنیا کی حالت کودیکھو کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے عمل سے یہ دکھایا کہ میرا مَرنا اور جینا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور یا اب دنیامیں مسلمان موجود ہیں کسی سے کہا جاوے کہ کیا تو مسلمان ہے؟ تو کہتا ہے الحمدللہ.جس کاکلمہ پڑھتا ہے اس کی زندگی کا اُصول تو خدا کے لئے تھا مگر یہ دنیا کے لئے جیتا اور دنیا ہی کے لئے مَرتا ہے.اس وقت تک کہ غرغرہ شروع ہوجاوے دنیا ہی اس کی مقصود ، محبوب اور مطلوب رہتی ہے پھر کیوں کر کہہ سکتا ہے کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتا ہوں.یہ بڑی غورطلب بات ہے.اس کو سرسری نہ سمجھو.مسلمان بننا آسان نہیں ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اسلام کا نمونہ جب تک اپنے اندر پیدا نہ کرلو.مطمئن نہ ہو.یہ صرف چھلکا ہی چھلکا ہے اگر بدوں اتباع مسلمان کہلاتے ہو.نام اور چھلکے پر خوش ہوجانا دانش مند کاکام نہیں ہے.لکھا ہے کہ کسی یہودی کو ایک مسلمان نے کہا کہ تو مسلمان ہوجا.اس نے کہا کہ تو صرف نام ہی پر خوش نہ ہوجا.مَیں نے اپنے لڑکے کا نام خالد رکھا تھا اورشام سے پہلے ہی اُس کو دفن کرآیا.پس حقیقت کوطلب کرو.نِرے ناموں پر راضی نہ ہوجاؤ.کس قدر شرم کی بات ہے کہ انسان عظیم الشان نبی کا امتی کہلا کرکافروں کی سی زندگی بسرکرے.تم اپنی زندگی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ دکھاؤ، وہی حالت پیدا کرو اور دیکھو کہ اگر وہ حالت نہیں ہے تو تم طاغوت کے پیرو ہو.غرض یہ بات اب بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہونا انسان کی زندگی کی غرض وغایت ہونی چاہیے کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ کا محبوب نہ ہو اور خدا کی محبت نہ ملے کامیابی کی زندگی بسر نہیں کر سکتا اور یہ امر پیدا نہیں ہوتا جب تک رسول اللہؐ کی سچی اطاعت اور متا بعت نہ کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے دکھا دیا ہے کہ اسلام کیا ہے؟پس تم وہ اسلام اپنے اندر پیدا کرو تاکہ تم خدا کے محبوب بنو.

Page 77

اب میں پھر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حمد ہی سے محمد اور احمد نکلا ہے صلی اللہ علیہ وسلم.اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے.گویا حمد کے دو مظہر ہوئے اور پھر اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کے بعد اللہ تعالیٰ کی چار صفتیں رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ، اَلرَّحْـمٰنِ، اَلرَّحِيْمِ، مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ بیان کی ہیں.اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کا مظہر میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کا مظہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ظہوروں محمد اور احمد میں ہوا.اب نبیءِ کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ان صفات اربعہ کو بیان کر کے صحابہ کرامؓ کی تعریف میں پورا بھی کر دیا.گویا اللہ تعالیٰ ظلّی طور پر اپنی صفات دینا چاہتا ہے.اس لئے فنا فی اللہ کے یہی معنے ہیں کہ انسان الٰہی صفات کے اندر آجائے.مظہرِ صفاتِ باری صلی اللہ علیہ وسلم اب دیکھو کہ ان صفات اربعہ کا عملی نمونہ صحابہ میں کیسا دکھایا.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پیدا ہوئے تو مکہ کے لوگ ایسے تھے جیسے بچہ دودھ پینے کا محتاج ہوتاہے گویا ربوبیت کے محتاج تھے.وحشی اور درندوں کی سی زندگی بسر کرتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماںکی طرح دودھ پلا کر ان کی پرورش کی.پھر رحمانیت کا پَرتَو کیا.وہ سامان دیئے کہ جن میں کوشش کو کوئی دخل نہ تھا.قرآن کریم جیسی نعمت اور رسول کریم ؐجیسا نمونہ عطا فرمایا.پھر رحیمیت کا ظہور بھی دکھلایا کہ جو کوششیں کیں ان پر نتیجے مترتب کیے.ان کے ایمانوں کو قبول فرمایا اور نصاریٰ کی طرح ضلالت میں نہ پڑنے دیا بلکہ ثابت قدمی اور استقلال عطا فرمایا.کوشش میں یہ برکت ہوتی ہے کہ خدا ثابت قدم کر دیتا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میںکوئی مرتد نہ ہوا.دوسرے نبیوں کے احباب میں ہزاروں ہوتے تھے.حضرت مسیح کے تو ایک ہی دن میں پانسو مرتد ہو گئے اور جن پر بڑا اعتبار اور وثوق تھا ان میں سے ایک نے تو تیس درہم لے کر پکڑوا دیا اور دوسرے نے تین بار لعنت کی.بات اصل میں یہ ہے کہ مربی کے قویٰ کا اثر ہوتا ہے.جس قدر مربی قوی التاثیر اور کامل ہو گا ویسی ہی اس کی تربیت کا اثر مستحکم اور مضبوط ہو گا.

Page 78

نبی کریمؐ کی قوتِ قدسی کا ثبوت یہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی کے کامل اور سب سے بڑھ کر ہونے کا ایک اَور ثبوت ہے کہ آپ کے تربیت یافتہ گروہ میں وہ استقلال اور رسوخ تھا کہ وہ آپ کے لئے اپنی جان، مال تک دینے سے دریغ نہ کرنے والے میدان میں ثابت ہوئے اور مسیح کے نقص کا یہ بد یہی ثبوت ہے کہ جو جماعت طیار کی وہی گرفتار کرانے اور جان سے مروانے اور لعنت کرنے والے ثابت ہوئے.غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحیمیت کا اثر تھا کہ صحابہ میں ثباتِ قدم اور استقلال تھا.پھر مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ کا عملی ظہور صحابہ کی زندگی میں یہ ہوا کہ خدا نے اُن میں اور اُن کے غیروں میںفرقان رکھ دیا یا جو معرفت اور خدا کی محبت دنیا میں اُن کو دی گئی یہ اُن کی دنیا میں جزا تھی.اب قصہ کو تاہ کرتا ہوں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ان صفات اربعہ کی تجلّی چمکی.مسیح موعود ؑکے زمانہ کی جماعت بھی صحابہ ہی ہو گی لیکن بات بڑی غور طلب ہے کہ صحابہ کی جماعت اتنی ہی نہ سمجھو جو پہلے گزر چکے بلکہ ایک اور گروہ بھی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے.وہ بھی صحابہ ہی میں داخل ہے جو احمد کے بروز کے ساتھ ہوں گے.چنانچہ فرمایا ہے وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ( الـجمعۃ :۴) یعنی صحابہ کی جماعت کو اسی قدر نہ سمجھو بلکہ مسیح موعود ؑ کے زمانہ کی جماعت بھی صحابہ ہی ہو گی.اس آیت کے متعلق مفسروں نے مان لیا ہے کہ یہ مسیح موعود کی جماعت ہے.مِنْهُمْ کے لفظ سے پایا جاتا ہے کہ باطنی توجہ اور استفاضہ صحابہ ہی کی طرح ہو گا.صحابہ کی تربیت ظاہری طور پر ہوئی تھی مگر ان کو کوئی دیکھ نہیں سکتا.وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تر بیت کے نیچے ہوں گے.اس لئے سب علماء نے اس گروہ کا نام صحابہ ہی رکھا ہے جیسے ان صفات اربعہ کاظہور اُن صحابہ میں ہواتھا ویسے ہی ضروری ہے کہ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ(الـجمعۃ:۴) کی مصداق جماعت صحابہ میں بھی ہو.اب دیکھو کہ صحابہ کو بدر میں نصرت دی گئی اور فرمایا گیا کہ یہ نصرت ایسے وقت میں دی گئی جبکہ تم تھوڑے تھے.اس بدر میں کفر کا خاتمہ ہو گیا.

Page 79

واقعہءِ بدر میں مسیح موعودؑ کے زمانہ کی پیش گوئی بدر پر ایسی عظیم الشان نشان کے اظہار میں آئندہ کی بھی ایک خبر رکھی گئی تھی اور وہ یہ کہ بدر چودھویں کے چاند کو بھی کہتے ہیں.اس سے چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کے اظہار کی طرف بھی ایما ہے اور یہ چودھویں صدی وہی صدی ہے جس کے لئے عورتیں تک کہتی تھیں کہ چودھویں صدی خیرو برکت کی آئے گی.خدا کی باتیں پوری ہوئیں اور چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ کے منشا کے موافق اسم احمد کا بروز ہوا اور وہ میں ہوں جس کی طرف اس واقعہ بدر میں پیشگوئی تھی.جس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کہا.مگر افسوس کہ جب وہ دن آیا اور چودھویں کا چاند نکلا تو دوکاندار،خود غرض کہا گیا.افسوس ان پر جنہوں نے دیکھا اور نہ دیکھا.وقت پایا اور نہ پہچانا.وہ مَر گئے جو منبروں پر چڑھ چڑھ کر رویا کرتے تھے کہ چودھویں صدی میں یہ ہو گا اور وہ رہ گئے جو کہ اب منبروں پر چڑھ کر کہتے ہیں کہ جو آیا ہے وہ کاذب ہے!!! ان کو کیا ہو گیا.یہ کیوں نہیں دیکھتے اور کیوں نہیں سوچتے.اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے بدر ہی میں مدد کی تھی اور وہ مدد اَذِلَّۃٌ کی مدد تھی.جس وقت ۳۱۳ آدمی صرف میدان میں آئے تھے اور کُل دو تین لکڑی کی تلواریں تھیں اور ان تین سو تیرہ میں زیادہ تر چھوٹے بچے تھے.اس سے زیادہ کمزوری کی حالت کیا ہو گی.اور دوسری طرف ایک بڑی بھاری جمعیت تھی اور وہ سب کے سب چیدہ چیدہ جنگ آزمودہ اور بڑے بڑے جوان تھے.آنحضرتؐکی طرف ظاہری سامان کچھ نہ تھا اس وقت.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ پر دعا کی اَللّٰھُمَّ اِنْ اَھْلَکْتَ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ لَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ اَبَدًا یعنی اے اللہ!اگر آج تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ رہے گا.آج وہی بدر والا معاملہ ہے سنو! میں بھی یقیناً اُسی طرح کہتا ہوں کہ آج وہی بدر کا معاملہ ہے.اللہ تعالیٰ اسی طرح ایک جماعت طیار کر رہا ہے.وہی بدر اور اَذِلَّۃٌ کا لفظ موجود ہے.کیا یہ جھوٹ ہے کہ اسلام پر ذلت نہیں آئی؟نہ سلطنت ظاہری میں شوکت ہے.ایک یورپ کی سلطنت منہ دکھاتی ہے تو بھاگ جاتے ہیں اور کیا مجال ہے جو سر اٹھائیں.

Page 80

اس ملک کا حال کیا ہے؟ کیا اَذِلَّۃٌ نہیں ہیں.ہندو بھی اپنی طاقت میں مسلمانوں سے بڑھے ہوئے ہیں.کوئی ایک ذلّت ہے جس میں اُن کا نمبر بڑھا ہوا ہے ؟جس قدر ذلیل سے ذلیل پیشے ہیںوہ ان میں پاؤ گے.ٹکّڑ گدا مسلمان ہی ملیں گے.جیل خانوں میں جاؤتو جرائم پیشہ گرفتار مسلمان ہی پاؤ گے.شراب خانوں میں جاؤ کثرت سے مسلمان.اب بھی کہتے ہیں ذلّت نہیں ہوئی؟ کروڑ ہا ناپاک اور گندی کتابیں اسلام کے ردّ میں تالیف کی گئیں.ہماری قوم میں مغل، سید کہلانے والے اور شریف کہلانے والے عیسائی ہو کر اسی زبان سے سیّد المعصومین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو کوسنے لگے.صفدر علی اور عماد الدین وغیرہ کون تھے؟امہات المومنین کا مصنّف کون ہے؟ جس پر اس قدر واویلا اور شور مچایا گیا اور آخر کچھ بھی نہ کر سکے.اس پر بھی کہتے ہیں کہ ذلّت نہیں ہوئی.کیا تم تب خوش ہوتے کہ اسلام کا اتنا رہا سہا نام بھی باقی نہ رہتا، تب محسوس کرتے کہ ہاں اب ذلت ہوئی ہے!!! آہ! میں تم کو کیوں کر دکھاؤں جو اسلام کی حالت ہو رہی ہے.دیکھو!میں پھر کھول کر کہتا ہوں کہ یہی بدر کا زمانہ ہے.اسلام پر ذلت کا وقت آچکا ہے مگر اب خدا نے چاہا ہے کہ اس کی نصرت کرے.چنانچہ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اسلام کو براہین اور حجج ساطعہ کے ساتھ تمام ملّتوں اور مذہبوں پر غالب کر کے دکھادوں.اللہ تعالیٰ نے اس مبارک زمانہ میں چاہا ہے کہ اس کا جلال ظاہر ہو.اب کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.جس طرح پہلے صحابہؓ کے زمانہ میں چاروں صفات کی ایک خاص تجلی ظاہر ہوئی تھی اب پھر وہی زمانہ ہے اور ربوبیت کا وقت آیا ہے.نادان مخالف چاہتے ہیں کہ بچہ کو الگ کر دیں مگر خدا کی ربوبیت نہیں چاہتی.بارش کی طرح اس کی رحمت برس رہی ہے.یہ مولوی حامیِ دین کہلانے والے مخالفت کر کے چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھا دیں.مگر یہ نور پورا ہو کر رہے گا اسی طرح پر جس طرح اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے.یہ خوش ہوتے ہیں اور تسلیم کر لیتے ہیں جب پادری اٹھ اٹھ کر کہتے ہیں کہ تمہارا نبی مر گیا اور زندہ نبی مسیح ہی ہے اور مس شیطان سے مسیح ہی بچا ہوا ہے اور مسیح نے مُردوں کو زندہ کیا.یہ بھی تائید کر کے کہہ دیتے ہیں کہ ہاں چڑیاں بنایا کرتے تھے.ایک شخص موحّد میرے پاس آیا.میں نے اس سے پوچھا کہ مسیح جو چڑیاں بنایا کرتے تھے اب تو وہ بہت ہو گئی

Page 81

ہوں گی.کیا فرق کر سکتے ہو؟اس نے کہا ہاں مل جل گئی ہیں.اس طرح پر ان لوگوں نے مسیح کو نصف خدائی کا دعویدار بنا دیا ہے.ایسا ہی انہوںنے دجّال کی نسبت مان رکھا ہے کہ وہ مُردوں کو زندہ کرے گا.اور یہ کرے گا اور وہ کرے گا.افسوس قرآن تو لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کی تلوار سے تمام ان باطل معبودوں کو قتل کرتا ہے جن میں خدائی صفات مانی جائیں.پھر یہ دجّال کہاں سے نکل آیا ہے.سورۃ فاتحہ میں یہودی اور عیسائی بننے سے بچنے کی دعا تو سکھلائی، کیا دجّال کا ذکر خدا کو یاد نہ رہا جو اتنا بڑا فتنہ تھا؟اصل یہ ہے کہ ان لوگوں کی عقل ماری گئی اور یہ اس کے مصداق ہیں.یکے بر سر شاخ وبن مے برید.یہ لوگ جب کہ اس طرح سے اسلام کو ذلیل کرنے پر آمادہ ہوئے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ( الـحجر : ۱۰ ) قرآن شریف کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے چودھویں صدی کے سر پر مجھے بھیجا ہے.کیا نہیں دیکھتے کہ کس طرح پر اس کے نشانات ظاہر ہو رہے ہیں.خسوف وکسوف رمضان میں ہو گیا.کیا ہو سکتا ہے کہ مہدی موجود نہ ہو اور یہ مہدی کا نشان پورا ہو جاوے.کیا خد اکو دھوکہ لگا ہے؟ پھر اونٹ بیکار ہونے پر بھی مسیح نہ آیا؟ آسمان اور زمین کے نشان پورے ہو گئے.زمانہ کی حالت خود تقاضا کرتی ہے کہ آنے والا آوے مگر یہ تکذیب ہی کرتے ہیں.آنے والا آگیا.ان کی تکذیب اور شور و بکا سے کچھ نہ بگڑے گا.ان لوگوں کی ہمیشہ سے اسی طرح عادت رہی ہے.خدا کی باتیں سچی ہیں اور وہ پوری ہو کر رہتی ہیں.پس تم ان کی بد صحبتوں سے بچتے رہو اور دعا ؤں میں لگے رہو اور اسلام کی حقیقت اپنے اندر پیدا کرو.۱ دسمبر ۱۹۰۰ء حوّا کی پیدائش فرمایاکہ حوّا پسلی ہی سے بنائی گئی ہیں.ہم اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان لاتے ہیں.ہاں اگر کوئی کہے کہ پھر ہماری پسلی نہ ہوتی.تو میں کہتا ہوں کہ یہ قیاس

Page 82

قیاس مَعَ الفارق ہے.اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو.میں اگر خدا تعالیٰ کو قادر او ر عظیم الشان نہ دیکھتا تو یہ دعا ؤں کی قبولیت کے نمونے جو دیکھتا ہوں نظر نہ آتے.دیکھو! کپٹن ڈگلس کے سامنے جو مقدمہ تھا اس میں کس کا تصرّف تھا.ڈاکٹر کلارک جیساآدمی جو مذہبی حیثیت سے ایک اثر ڈالنے والا آدمی تھا.پھر اس کے ساتھ آریوں کی طرف سے پنڈت رام بھجدت وکیل شریک ہوا اور مولوی محمد حسین جیسا دشمن بطور گواہ پیش ہوا اور خود عبدا لحمید کا یہ بیان کہ مجھے قتل کے لئے ضرور بھیجا تھا اور پھر اس کا یہ بیان امرت سر میں ہوا.ڈپٹی کمشنر کے سامنے بھی اس نے یہی کہا.اب یہ کس کا کام تھا کہ اس نے کپتان ڈگلس کے دل میں ڈالا کہ عبد الحمید کے بیان پر شبہ کرے اور اصل حقیقت کے معلوم کرنے کے واسطے اسے دوبارہ پولیس کے سپرد کرے.غرض جو کچھ اس مقدمہ میں ہوا ،اس سے صاف طور پر اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے تصرّف کا پتہ لگتا ہے.میرا مطلب اس مقدمہ کے بیان سے صرف یہ ہے کہ یہ بڑی نادانی اور گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اسی پیمانہ سے ناپیں جس سے ایک عاجز انسان زید بکر کو ناپا جائے.پس یہ کہنا کہ آدم علیہ السلام کی پسلی نکال لی تھی اور حوّا اس پسلی سے بنی تو پھر پسلی کہاںسے آگئی.سخت بے وقوفی اور اللہ تعالیٰ کے حضور سوء ادبی ہے.یاد رکھو! یورپی فلسفہ ضلالت سے بھرا ہوا ہے.یہ انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے.ایسا ہی یہ کہنا کہ انسان پر کوئی ایسا وقت نہیں آیا کہ اسے مٹی سے پیدا کیا ہو درست نہیں ہے.نوعی قِدَم کا میں ہرگز ہر گز قائل نہیں ہوں.ہاں یہ میں مانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے خالق ہے.کئی بار دنیا معدوم ہوئی اور پھر اَز سرِ نَو کر دی.یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے.جب کہ ایک مَر جاتا ہے تو یہ کیوں جائز نہیں کہ ایک وقت آوے کہ سب مَر جاویں.قیامت کبریٰ کے تو ہندو اور یونانی بھی قائل ہیں.جو لوگ اللہ تعالیٰ کو محدود القویٰ ہستی سمجھتے ہیں وہ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ( الـحج :۷۵) میں داخل ہیں جو ایک حد تک ہی خدا کو مانتے ہیں.یہ نیچریت کا شعبہ ہے.قرآن کریم تو صاف بتلاتا ہے اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ(ھود:۱۰۸) اور اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ( یٰسٓ :۸۳) اللہ تعالیٰ کی ان ہی قدرتوں اور فوق الفوق طاقتوں نے

Page 83

میرے دل میں دعا کے لئے ایک جوش ڈال رکھا ہے.قبولیت دعا کا فلسفہ دعا بڑی چیز ہے.افسوس! لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ کیا ہے؟ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر دعا جس طرز اور حالت پر مانگی جاوےضرور قبول ہو جانی چاہیے.اس لئے جب وہ کوئی دعا مانگتے ہیں اور پھر وہ اپنے دل میں جمائی ہوئی صورت کے موافق اس کو پورا ہوتے نہیں دیکھتے تو مایوس اور نااُمید ہو کر اللہ تعالیٰ پر بد ظن ہو جاتے ہیں حالانکہ مومن کی یہ شان ہونی چاہیے کہ اگر بظاہر اسے اپنی دعا میں مراد حاصل نہ ہو تب بھی نا امید نہ ہو کیونکہ رحمت الٰہی نے اس دعا کو اس کے حق میں مفید نہیں قرار دیا.دیکھو! بچہ اگر ایک آگ کے انگارے کو پکڑنا چاہے تو ماں دوڑ کر اس کو پکڑے گی بلکہ اگر بچہ کی اس نادانی پر ایک تھپڑ بھی لگاوے تو کوئی تعجب نہیں.اسی طرح مجھے تو ایک لذّت اور سرور آجاتا ہے جب میں اس فلسفہءِ دعا پر غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہ علیم و خبیر خدا جانتا ہے کہ کون سی دعا مفید ہے.آدابِ دعا مجھے بار ہا افسوس آتا ہے جب لوگ دعا کے لئے خطوط بھیجتے ہیں اور ساتھ ہی لکھ دیتے ہیں کہ اگر ہمارے لئے یہ دعا قبول نہ ہوئی تو ہم جھوٹاسمجھ لیں گے.آہ!یہ لوگ آدابِ دعا سے کیسے بے خبر ہیں.نہیں جانتے کہ دعا کرنے والے اور کرانے والے کے لئے کیسی شرائط ہیں.اس سے پہلے کہ دعا کی جاوے یہ بد ظنی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنے ماننے کا احسان جتانا چاہتے ہیں اور نہ ماننے اور تکذیب کی دھمکی دیتے ہیں.ایسا خط پڑھ کر مجھے بد بو آجاتی ہے اور مجھے خیال آتا ہے کہ اس سے بہتر تھا کہ یہ دعا کے لئے خط ہی نہ لکھتا.میں نے کئی بار اس مسئلہ کو بیان کیا ہے اور پھر مختصر طور پر سمجھاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے دوستانہ معاملہ کرنا چاہتا ہے.دوستوں میں ایک سلسلہ تبادلہ کا رہتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے بندہ میں بھی اسی رنگ کا ایک سلسلہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبادلہ یہ ہے کہ جیسے وہ اپنے بندے کی ہزار ہا دعا ؤں کو سنتا اور مانتا ہے.اس کے عیبوں پر پردہ پوشی کرتا ہے.باوجود یکہ وہ ایک ذلیل سے ذلیل ہستی ہے لیکن اس پر فضل و رحم

Page 84

کرتا ہے.اسی طرح اس کا حق ہے کہ یہ خدا کی بھی مان لے یعنی اگر کسی دعا میں اپنے منشا اور مراد کے موافق ناکام رہے تو خدا پر بد ظن نہ ہو بلکہ اپنی اس نامرادی کو کسی غلطی کا نتیجہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ کی رضا پر انشراحِ صدر کے ساتھ راضی ہو جاوے اور سمجھ لے کہ میرا مولیٰ یہی چاہتا ہے.مومنوں کی آزمائش اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ الآیۃ(البقرۃ:۱۵۶) خوف سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈر ہی ڈر ہے.انجام اچھا ہے.اسی سے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے.پھر اَلْـجُوْع فقر وفاقہ تنگ کرتا ہے.بعض وقت ایک کرتہ پھٹ جاوے تو دوسرے کی توفیق نہیں ملتی.جُوْع کا لفظ رکھ کر عَطَش کا لفظ چھوڑ دیا ہے کیونکہ یہ جُوْع میں داخل ہے.نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ بعض وقت ایسا ہوتا ہے کہ چور لے جاتے ہیں اور اتنا بھی نہیں چھوڑ جاتے کہ صبح کی روٹی کھا سکیں.سوچو!کس قدر تکلیف اور آفت کا سامنا ہوتا ہے.پھر جانوں کا نقصان ہے.بچے مَرنے لگ جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک بھی نہیں رہتا.جانوں کے نقصان میں یہ بات داخل ہے کہ خود تو زندہ رہے اور عزیز ومتعلقین مَرجاتے جاویں.کس قدر صدمہ ایسے وقت پر ہوتا ہے.ہمارا تعلق ایسے دوستوں سے اس قدر ہے کہ جس قدر دوست ہیں اور ان کے اہل و عیال ہیں گویا ہمارے ہی ہیں.کسی عزیز کے جدا ہو جانے سے اس قدر رنج ہوتا ہے کہ جیسا کسی کو اپنی عزیز سے عزیز اولاد کے مَر جانے کا ہوتا ہے.ثـمرات میں اولاد بھی داخل ہے اور محنتوں کے بعد آخر کی کامیابیاں بھی مراد ہیں.ان کے ضائع ہونے سے بھی سخت صدمہ ہوتا ہے.امتحان دینے والے اگر کبھی فیل ہو جاتے ہیں تو بار ہا دیکھا گیا ہے کہ وہ خود کشیاں کر لیتے ہیں.ایوب بیگ کی بیماری کی ترقی امتحان میں فیل ہو جانے سے ہی ہوئی پہلے تو اچھا خاصا تندرست تھا.غرض اس قسم کے ابتلا جن پر آئیں پھر اللہ تعالیٰ ان کو بشارت دیتا ہے وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ (البقرۃ:۱۵۶) یعنی ایسے موقع پر جہد کے ساتھ برداشت کرنے والوں کو خوشخبری اور بشارت ہے کہ جب ان کو کوئی

Page 85

مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ(البقرۃ:۱۵۷) یاد رکھو کہ خدا کا خاص بندہ اور مقرب تب ہی ہوتا ہے کہ ہر مصیبت پر خدا ہی کو مقدم رکھے.غرض ایک وہ حصہ ہوتا ہے جس میں خدا اپنی منوانا چاہتا ہے.دعا کے معنے تو یہی ہیں کہ انسان خواہش ظاہر کرتا ہے کہ یوں ہو.پس کبھی مولیٰ کریم کی خواہش مقدم ہونی چاہیے اور کبھی اللہ کریم اپنے بندہ کی خواہش کو پورا کرتا ہے.دوسرا محل معاوضہ کا یہ ہے کہ اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ( المؤمن :۶۱) اس میں تناقض نہیں ہے.جب جہات مختلف ہوں تو تناقض نہیں رہا کرتا.اس محل پر اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی مانتا ہے.قبولیتِ دعا کی شرط یہ خوب یاد رکھو کہ انسان کی دعا اس وقت قبول ہوتی ہے جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے غفلت، فسق و فجور کو چھوڑ دے.جس قدر قربِ الٰہی انسان حاصل کرے گا اسی قدر قبولیتِ دعا کے ثمرات سے حصہ لے گا.اسی لئے فرمایا ہے کہ وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ١ؕ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَ لْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ ( البقرۃ :۱۸۷) اور دوسری جگہ فرمایا ہےکہ وَ اَنّٰى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّكَانٍۭ بَعِيْدٍ (سبا:۵۳) یعنی جو مجھ سے دور ہواس کی دعا کیوں کر سنو ں.یہ گویا عام قانون قدرت کے نظارہ سے ایک سبق دیا ہے.یہ نہیں کہ خدا سن نہیں سکتا.وہ تو دل کے مخفی در مخفی ارادوں اور ان ارادوں سے بھی واقف ہے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے.مگر یہاں انسان کو قرب الٰہی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جیسے دور کی آواز سنائی نہیں دیتی اسی طرح پر جو شخص غفلت اور فسق وفجور میں مبتلا رہ کر مجھ سے دور ہو تا جاتا ہے جس قدر وہ دور ہوتا ہے اُسی قدر حجاب اور فاصلہ اس کی دعا ؤں کی قبولیت میں ہوتا جاتا ہے کیا سچ کہا ہے.ع پیدا است ندا را کہ بلند ہست جنابت جیسے میں نے ابھی کہا گو خدا عالم الغیب ہے لیکن یہ قانون قدرت ہے کہ تقویٰ کے بغیر کچھ نہیں ہوتا.نوافل کی حقیقت نادان انسان بعض وقت عدم قبول دعا سے مرتد ہو جاتا ہے.صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے کہ نوافل سے مومن میرا مقرب ہوجاتا ہے.ایک فرائض ہوتے ہیں دوسرے نوافل.یعنی ایک تو وہ احکام ہیں جو بطور حق واجب کے ہیں اور نوافل وہ ہیں جو

Page 86

زائد از فرائض ہیں اور وہ اس لئے ہیں کہ تا فرائض میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہو، نوافل سے پوری ہو جاوے.لوگوں نے نوافل صرف نماز ہی کے نوافل سمجھے ہوئے ہیں.نہیں یہ بات نہیں ہے.ہر فعل کے ساتھ نوافل ہوتے ہیں.انسان زکوٰۃ دیتا ہے تو کبھی زکوٰۃ کے سوا بھی دے.رمضان میں روزے رکھتا ہے کبھی اس کے سوا بھی رکھے.قرض لے تو کچھ ساتھ زائد دے کیونکہ اس نے مروّت کی ہے.نوافل متمم فرائض ہوتے ہیں.نفل کے وقت دل میں ایک خشوع اور خوف ہوتا ہے کہ فرائض میں جو قصور ہوا ہے وہ اب پورا ہو جائے.یہی وہ راز ہے جو نوافل کو قربِ الٰہی کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے گویا خشوع اور تذلّل اور انقطاع کی حالت اس میں پیدا ہوتی ہے اور اسی لئے تقرّب کی وجہ میں اَیّامِ بِیْض کے روزے.شوال کے چھ روزے یہ سب نوافل ہیں.پس یاد رکھو کہ خدا سے محبتِ تام نفل ہی کے ذریعہ ہوتی ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ پھر میں ایسے مقرب اور مومن بندوں کی نظر ہو جاتا ہوں یعنی جہاں میرا منشا ہوتا ہے وہیں ان کی نظر پڑتی ہے.صادق موت کا بھروسا نہیں رکھتا اور خدا سے غافل نہیں ہوتا.ان کے کان ہو جاتا ہوں.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جہاں اللہ کی یا اس کے رسول کی یا اس کی کتاب کی تحقیر اور ذلت ہوتی ہے وہاں سے بیزار اور ناراض ہو کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں.وہ سن نہیں سکتے اور کوئی ایسی بات جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور حکم کے خلاف ہو نہیں سنتے اور ایسی مجلسوں میں نہیں بیٹھتے.ایسا ہی فسق وفجور کی باتیں اور سماع کے ناپاک نظاروں اور آوازوں سے پر ہیز کرتے ہیں.نامحرم کی آواز سن کر بُرے خیالات کا پیدا ہونا زَنَا الْاُذُن ہے.اسی لئے اسلام نے پردہ کی رسم رکھی ہے.مسیح کا یہ کہنا کہ زنا کی نظر سے نہ دیکھ.کوئی کامل تعلیم نہیں ہے.اس کے مقابلہ میں کامل تعلیم یہ ہے جو مبادی گناہ سے بچاتی ہے.قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ (النّور:۳۱) یعنی کسی نظر سے بھی نہ دیکھیں کیونکہ دل اپنے اختیار میں نہیں ہے.یہ کیسی کامل تعلیم ہے.پھر فرماتا ہے کہ ہو جاتا ہوں اس کے ہاتھ.بعض وقت انسان ہاتھوں سے بہت بے رحمی کرتا ہے.

Page 87

خدا فرماتا ہے کہ مومن کے ہاتھ بے جا طور پر اعتدال سے نہیں بڑھتے.وہ نا محرم کو ہاتھ نہیں لگاتے.پھر فرماتا ہے کہ اس کی زبان ہو جاتا ہوں.اسی پر اشارہ ہے مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى (النجم:۴) اسی لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد تھا اور آپ کے ہاتھ کے لئے فرمایا مَارَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى ( الانفال :۱۸) غرض نفل کے ذریعہ انسان بہت بڑا درجہ اور قرب حاصل کرتا ہے یہاںتک کہ وہ اولیاء اللہ کے زمرہ میں داخل ہو جاتا ہے.پھر مَنْ عَادَلِیْ وَلِیًّا فَقَدْ بَارَزْتُہٗ بِالْـحَرْبِ جو میرے ولی کا دشمن ہو میں اس کو کہتا ہوں کہ اب میری لڑائی کے لئے طیار ہو جا.حدیث میں آیا ہے کہ خد اشیرنی کی طرح جس کا بچہ کوئی اٹھا لے جاوے اس پر جھپٹتا ہے.غرض انسان کو چاہیے کہ وہ اس مقام کے حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ سعی کرتا رہے.موت کا کوئی وقت معلوم نہیں ہے کہ کب آجاوے.مومن کو مناسب ہے کہ وہ کبھی غافل نہ ہو اور خدا تعالیٰ سے ڈرتا رہے.۱ ۱۹۰۰ء کامل یقین والوں کو شیطان چھو نہیں سکتا قاضی محمد عالم صاحب سکنہ قاضی کوٹ نے اپنی بیماری کے ایام میں قاضی ضیاء الدین صاحب سکنہ قاضی کوٹ کو جو قادیان میں تھے حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کرنے کو لکھا جس پر حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا.میں ضرور دعا کروں گا.آپ محمد عالم کو تسلّی دیں.احمد شاہ کی طرف وہم کے طور پر بھی خیال نہ لے جاویں.واقعی وہ کچھ بھی نہیں.یہ وسوسہ شرک سمجھیں.عوام کا بہکانا،طعن وتشنیع جتنا اثر کرے گا اسی قدر اپنے راستہ کو خالی تصور کریں.کامل یقین والوں کو شیطان چھو بھی نہیں سکتا.میرا تو یقین ہے کہ حضرت آدم کی استعداد میں کسی قدر تساہل تھا تب ہی تو شیطان کو وسوسہ کا قابو مل گیا.واللہ اگر اس جگہ ۱ الحکم جلد ۴ نمبر ۴۴ مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۰ء صفحہ ۲ تا ۴

Page 88

حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوہرِ قابل کھڑا کیا جاتا تو شیطان کا کچھ بھی پیش نہ جاتا.زندگانی کی خواہش گناہ کی جڑ ہے زندگانی کی زیادہ خواہش اکثر گناہوں کی اور کمزوریوں کی جڑ ہے.ہمارے دوستوں کو لازم ہےکہ مالک حقیقی کی رضا میں اوقات عزیز بسر کرنے کی ہر وقت کوشش رکھیں.حاصل یہی ہے ورنہ آج چل دینے والا اور مثلاً اَور پچاس سال بعد کوچ کرنے میں کیا فرق ہے.جو آج چاند و سورج ہے وہی اس دن ہو گا.جو انسان نافع اور اس کے دین کا خادم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ خود بخود اس کی عمر اور صحت میں برکت ڈال دیتا ہے اور شرّالنّاس کی کچھ پروا نہیں کرتا.سو آپ سب کام ہر حال خدا میں ہو کر کریں خود اللہ تعالیٰ آپ کو محفوظ رکھے گا.تیس سال سے زیادہ عرصہ گزرتا ہے مجھے اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں فرمایا کہ تیری عمر اَسّی برس یا دو چار اوپر یا نیچے ہو گی.اس میں بھی بھید ہے کہ جو کام مجھے سپرد کیا ہے اس قدر مدت میں تمام کرنا منظور ہو گا.لہٰذا مجھے اپنی بیماری میں کبھی موت کا غم نہیں ہوا.مجھے خوب یاد ہے کہ جن درختوں کے نیچے میں چھ سات سالہ عمر میں کھیلا کرتا تھا آج بعینہٖ بعض درخت اسی طرح ہرے بھرے سر سبز کھڑے ہیں لیکن میں اپنے حال کو کچھ اَور کا اَورہی دیکھتا ہوں.تم بھی اس کو تصور کر سکتے ہو.یہ طعن تشنیع ہمعصروں کی غنیمت سمجھیں.اسی میں اصلاحِ نفس متصور ہے.جب یہ نہ ہوں گے تو پھر خدمت مولیٰ کریم اور ہدیہ قابل حضرت عزّت کیا ہو گا؟آپ بیماری کا فکر کرتے ہیں.تمہارے پہلے بھائی یعنی صحابہؓ تو بیعت ہی جان قربان کرنے کی کرتے تھے اور ہر حال منتظر رہتے تھے کہ کب وہ وقت آتا ہے کہ اپنے مالک حقیقی کے راستہ میں فدا ہوں.غرض ہر حال کیا صحت اور کیا بیماری آپ مولیٰ کریم سے معاملہ ٹھیک رکھیں.سب کام اچھے ہو جاویں گے.۱ ۱ بدر جلد ۱۲ نمبر ۲ مورخہ ۱۱؍ جولائی ۱۹۱۲ ء صفحہ ۲

Page 89

۴؍جنوری ۱۹۰۱ء ایک الہام کا پورا ہونا حضرت اماں جانؓکی طبیعت ۳؍جنوری۱۹۰۱ء کو کسی قدر ناساز ہو گئی تھی.اس کے متعلق حضرت اقدس نے سیر کے وقت فرمایا کہ چند روز ہوئے میں نے اپنے گھر میں کہا کہ میں نے کشف میں دیکھا ہے کہ کوئی عورت آئی ہے اور اس نے آکر کہا ہے کہ تمہیں(حضرت اماں جان مراد ہیں.ایڈیٹر)کچھ ہو گیا ہے اور پھر الہام ہوا اَصِـحَّ زَوْجَتِیْ.چنانچہ کل ۳؍جنوری ۱۹۰۱ء کو یہ کشف اور الہام پورا ہو گیا.یکا یک بے ہوشی ہو گئی اور جس طرح پر مجھے دکھایا گیا تھا اسی طرح ایک عورت نے آکر بتا دیا.۱ صوم رمضان فرمایا.رمضان کا مہینہ مبارک مہینہ ہے.دعا ؤں کا مہینہ ہے.۲ فرمایا.میری تو یہ حالت ہے کہ مَرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتا ہوں.طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی.یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل ورحمت کے نزول کے دن ہیں.سادگی یاد رکھو بچوں کی سی سادگی جب تک نہ ہو اُس وقت تک انسان نبیوںکا مذہب اختیار نہیں کر سکتا ہے.۳ ۱۱؍ جنوری ۱۹۰۱ء زندگی کا ستون حضرت مسیح موعود ؑ کی طبیعت کچھ علیل تھی.فرمایا.ہر چیز کا ستون ہوتا ہے.زندگی اور صحت کا ستون خدا تعالیٰ کا فضل ہے.۴ ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخہ ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۵ ۲ الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخہ ۲۴ ؍ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۱ ۳ الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخہ ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۵ ۴ الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخہ ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۰

Page 90

۱۲؍ جنوری ۱۹۰۱ء ایک شخص نے سنایا کہ مشہور کتب فروشوںکے پاس دور دور سے آپ کی کتابوںکی مانگ آتی ہے.فرمایا.اللہ تعالیٰ نے جو ہوا چلائی ہے.لوگ اپنی اپنی جگہ تحقیقات میں لگے ہوئے ہیں.علمی معجزات فرمایا.معجزہ تو علم کا ہی بڑ اہوتا ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن شریف ہی تھا جو اب تک قائم ہے.یہ ذکر تفسیر الفاتحہ کے لکھنے پر ہوا جو کہ حضرت صاحب گولڑوی۱ وغیرہ علماء کے مقابلہ میں اشتہار دے کر لکھ رہے ہیں.فرمایا.عالم علم سے پہچانا جاتاہے.ہمارے مخالفین میں دراصل کوئی عالم نہیں ہے.ایک بھی نہیں ہے ورنہ کیوں مقابلہ میں عربی فصیح بلیغ تفسیر لکھ کر اپنا عالم ہونا ثابت نہیں کرتے.ایک آنکھوں والے کو اگر الزام دیا جاوے کہ تو نابینا ہے تو وہ غصہ کرتا ہے.غیرت کھاتا ہے اور صبر نہیں کرتا جب تک اپنا بینا ہونے کا ثبوت نہ دے.ان لوگوں کو چاہیے کہ اپنا عالم ہونا اپنا علم دکھا کر ثابت کریں.فرمایا.یہ جو کہا جاتا ہے کہ بہت سے عالموں نے اس سلسلہ کی مخالفت کی یہ غلط ہے.خدا نے اپنی تحدیوں اور دعووں کے ساتھ علمی معجزات ہماری تائید میں دکھا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ مخالفوں میں کوئی عالم نہیں ہے اور یہ بات غلط ہے کہ عالموں نے ہماری مخالفت کی.۱۵؍ جنوری ۱۹۰۱ء ایک عظیم معجزہ فرمایا.آج رات کو الہام ہوا.مَنَعَہٗ مَانِعٌ مِّنَ السَّمَآءِ یعنی اس تفسیر نویسی میں کوئی تیرامقابلہ نہ کر سکے گا.خدا نے مخالفین سے سلب طاقت اور سلب علم

Page 91

کہ اس شخص کے وجود میں تمام مخالفین کا وجود شامل کر کے ایک ہی کا حکم رکھا ہے تاکہ اعلیٰ سے اعلیٰ اور اعظم سے اعظم معجزہ ثابت ہو کہ تمام مخالفین ایک وجود یا کئی جان ایک قالب بن کر اس تفسیر کے مقابلہ میں لکھنا چاہیں تو ہرگز نہ لکھ سکیں گے.فرمایا.انسان کا کام انسان کر سکتا ہے.ہمارے مخالف انسان ہیں اور عالم اور مولوی کہلاتے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ جو کام ہم نے کیا وہ نہیں کر سکتے.یہی ایک معجزہ ہے.نبی اگر ایک سونٹا پھینک دے اور کہے کہ میرے سوا کوئی اس کو اٹھا نہ سکے گا تو یہ بھی ایک معجزہ ہے، چہ جائیکہ تفسیر نویسی تو ایک علمی معجزہ ہے.فرمایا.یہ تفسیر رمضان شریف میں شروع ہوئی جیسا کہ قرآن شریف رمضان میں شروع ہوا تھا اور امید ہے کہ دو عیدوں کے درمیان ختم ہو گی.جیسا کہ شیخ سعدی نے کسی کے متعلق کہا ہے.؎ بروز ہمایوں و سال سعید بتاریخ فرخ میان دو عید فرمایا.قرآن شریف کے معجزہ فصاحت و بلاغت کے جواب میں ایک دفعہ پادری فنڈر نے حریری اور ابوالفضل اور بعض انگریزی کتابوں کو پیش کیا تھا.مدت کی بات ہے.ہم نے اس وقت بھی یہی سوچا تھا کہ یہ جھوٹ بولتا ہے کیونکہ اول تو ان مصنفین کو کبھی یہ دعویٰ نہیں ہوا کہ ان کا کلام بے مثل ہے بلکہ وہ خود اپنی کم مائیگی کا ہمیشہ اقرار کرتے رہے ہیں اور قرآن شریف کی تعریف کرتے ہیں.دوسرا ان لوگوں کی کتابوں میں معنی الفاظ کے تابع ہوکرچلتا ہے.صرف الفاظ جوڑے ہوئے ہوتے ہیں.قافیہ کے واسطے ایک لفظ کے مقابل دُوسرا لفظ تلاش کیا جاتا ہے اور کلام میں حکمت اور معارف کا لحاظ نہیں ہوتا اور قرآن شریف میں التزام ہے حق اور حکمت کا.اصل میں اس بات کا نباہنا کہ حق اور حکمت کے کلمات کے ساتھ قافیہ بھی درست ہو یہ بات تائید الٰہی سے حاصل ہوتی ہے ورنہ انسانوں کے کلام ایسے ہوتے ہیں جیساکہ حریری وغیرہ.

Page 92

۱۹؍ جنوری ۱۹۰۱ء استغفار کلیدِ ترقیات روحانی ہے ایک شخص نے اپنے قرض کے متعلق دعا کے واسطے عرض کی فرمایا.استغفار بہت پڑھا کرو.انسان کے واسطے غموں سے سُبک ہونے کے واسطے یہ طریق ہے.۱ ایک شخص کو استغفار کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ استغفار کلیدِ ترقیاتِ روحانی ہے.۲ ۲۰؍ جنوری ۱۹۰۱ء قرآن شریف میں مسیح موعود اور اُس کی جماعت کا ذکر فرمایا.قرآن شریف میں چارسورتیں ہیں جو بہت پڑھی جاتی ہیں.اُن میں مسیح موعود اور اس کی جماعت کا ذکر ہے.(ا) سورۃ فاتحہ جو ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے.اس میں ہمارے دعوے کا ثبوت ہے جیساکہ اس تفسیر میں ثابت کیا جائے گا.(۲) سورۂ جمعہ جس میں اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ (الـجمعۃ:۴) مسیح موعود کی جماعت کے متعلق ہے.یہ ہر جمعہ میں پڑھی جاتی ہے.(۳) سورۂ کہف جس کے پڑھنے کے واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے.اس کی پہلی اور پچھلی دس آیتوں میں دجّال کا ذکر ہے.(۴) آخر ی سورۃ قرآن کی جس میں دجال کا نام خَنَّاس رکھا ہے.یہ وہی لفظ ہے جو عبرانی توریت میں دجّال کے واسطے آیا ہے.یعنی نحاش נחש.ایسا ہی قرآن شریف کے اَور مقامات میں بھی بہت ذکر ہے.۳۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخہ ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۱ ء صفحہ۱۱ ۲ الحکم جلد ۵ نمبر ۴ مورخہ ۳۱ ؍ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۱ ۳ الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخہ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۱

Page 93

تفسیر سورہ فاتحہ تفسیر سورۃ فاتحہ ابھی تک لکھنی شروع نہیں ہوئی اور دن تھوڑے سے رہ گئے ہیں.اس پر فرمایا.اب تک ہم نہیں جانتے کہ ہم کیا لکھیں.توکّلًا علی اللہ اس کام کو شروع کیا گیا ہے.ہم موجودہ مواد پر بھروسہ نہیں رکھتے.صرف خدا پر بھروسہ ہے کہ کوئی بات دل میں ڈالی جائے.یہ بات میرے اختیار میں نہیں.جب وہ مواد اور حقائق جن کی تلاش میں مَیں ہوں مجھے مل گئے تو پھر اُن کو فصیح بلیغ عربی میں لکھا جائے گا.چونکہ انسانوں کو ثواب حاصل کرنے کے واسطے فکر اُٹھانا چاہیے اس واسطے ہم فکر کرتے ہیں.آگے جب کوئی بات خدا تعالیٰ القا کرے.خدا سے دعا مانگی جاتی ہے اور میرا تجربہ ہے کہ جب خدا سے مدد مانگی جاتی ہے تو وہ مدد دیتا ہے.(تفسیر سے پہلے جوتمہید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھی ہے.اس کے متعلق حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب نے عرض کی کہ پیر گولڑوی تفسیر نویسی سے پہلے ایک تقریر اور مباحثہ چاہتا تھا.سو اس تمہید میں یہ بھی ہوگیا.حضرت سید احمدشہید ؒ اور مولوی محمد اسمٰعیل شہیدؒ کا ذکر درمیان میں آیا.) فرمایا.ان لوگوں کی نیتیں نیک تھیں وہ چاہتے تھے کہ ملک میں نماز اور اذان اور قربانی کی رکاوٹ جو کہ سکھوں نے کر رکھی تھی دور ہوجائے.خدا نے اُن کی دعاکو قبول کیا اور اس کی قبولیت کو سکھوں کے دفعیہ اورانگریزوں کو اس ملک میں لانے سے کیا.یہ اُن کی دانائی تھی کہ انہوں نے انگریزوں کے ساتھ لڑائی نہیں کی بلکہ سکھوں کو اس قابل سمجھا کہ اُن کے ساتھ جہاد کیا جاوے مگر چونکہ وہ زمانہ قریب تھا کہ مہدی موعود کے آنے سے جہاد بالکل بند ہو جائے.اس واسطے جہاد میں اُن کو کامیابی نہ ہوئی.ہاں بسبب نیک نیت ہونے کے اُن کی خواہش اذانوں اور نمازوں کے متعلق اس طرح پوری ہوگئی کہ اس ملک میں انگریز آگئے.مسیح موعود اور مہدی کے آنے کا وقت پھر فرمایا.وقت دو ہوتے ہیں.ایک خارجی اور ایک اندرونی یعنی روحانی.خارجی وقت یہ ہے کہ حضرت رسول کریمؐ اور ولیوں اور بزرگوں کے کشوف نے مسیح موعود اور مہدی کا وقت

Page 94

۲۲؍ جنوری ۱۹۰۱ء جماعتِ احمدیہ کی وجہ تسمیہ (اس جماعت کا نام احمدی رکھا جانے پر کسی نے سنایا کہ کوئی اعتراض کرتاتھا کہ یہ نیا نام ہے.اس پر کچھ گفتگو ہوئی.) فرمایا.لوگوں نے جو اپنے نام حنفی، شافعی وغیرہ رکھے ہیں یہ سب بدعت ہیں.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہی نام تھے.محمد اور احمدصلی اللہ علیہ وسلم.آنحضرتؐکا اسمِ اعظم محمد ؐ ہے صلی اللہ علیہ وسلم.جیساکہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم اللہ ہے.اِسم اللہ دیگر کل اسماء مثلاً حیّ، قیّوم، رحـمٰن، رَحیم وغیرہ کا موصوف ہے.حضرت رسول کریمؐ کا نام احمدؐ وہ ہے جس کا ذکر حضرت مسیحؑ نے کیا يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ ( الصّف :۷) مِنْۢ بَعْدِيْ کا لفظ ظاہرکرتا ہے کہ وہ نبی میرے بعد بلا فصل آئے گا یعنی میرے اور اس کے درمیان اور کوئی نبی نہ ہوگا.حضرت موسٰی نے یہ الفاظ نہیں کہے بلکہ اُنہوں نے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ......(الفتح:۳۰) میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کی طرف اشارہ کیا ہے.جب بہت سے مومنین کی معیّت ہوئی جنہوں نے کفّار کے ساتھ جنگ کئے.حضرت موسٰی نے آنحضرتؐکا نام محمد بتلایا صلی اللہ علیہ وسلم کیونکہ حضرت موسٰی خود بھی جلالی رنگ میں تھے اور حضرت عیسٰی ؑنے آپؐکا نام احمدؐ بتلایا کیونکہ وہ خود بھی ہمیشہ جمالی رنگ میں تھے.اب چونکہ ہمارا سلسلہ بھی جمالی رنگ میں ہے.اس واسطے اس کا نام احمدی ہوا.فرمایا.جمعہ حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیدا ہونے کا دن تھا اور یہی متبرک دن تھا مگر پہلی اُمتوں نے غلطی کھائی.کسی نے شنبہ کے دن کو اختیار کیا اور کسی نے یکشنبہ کے دن کو.۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۱ ء صفحہ۱۱

Page 95

حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل دن کو اختیار کیا.ایسا ہی اسلامی فرقوں نے غلطی کھائی.کسی نے اپنے آپ کو حنفی کہا اور کسی نے مالکی اور کسی نے شیعہ اور کسی نے سنّی مگر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف دو ہی نام تھے محمدؐ اور احمدصلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے دو ہی فرقے ہوسکتے ہیں.محمدی یا احمدی.محمدی اس وقت جب جلال کااظہار ہو.احمدی اس وقت جب جمال کا اظہار ہو.استغفار اور یقین ایک شخص نے عرض کی کہ حضور میرے لیے دعا کریں کہ میرے اولاد ہوجائے.آپ نے فرمایا کہ استغفار بہت کرو.اس سے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ اولاد بھی دے دیتاہے.یادرکھو! یقین بڑی چیزہے.جو شخص یقین میں کامل ہوتاہے خدا تعالیٰ خود اس کی دستگیری کرتا ہے.۱ دارالامان میں عید الفطر (قبل از نماز عید) نماز سے پیشتر حضرت اقدس امام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مولوی عبد الرحیم صاحب کٹکی سے دریافت فرمایا.کیا وہاں بھی فرقہ احمدیہ کا اشتہار پہنچا ہے اور اس کی اشاعت اچھی طرح کر دی گئی ہے جس کے جواب میں مولوی صاحب موصوف نے عرض کیا کہ حضور پہنچا اور اشاعت بھی بخوبی کردی گئی ہے مخالفوں نے بڑے بڑے اعتراض کئے اور جہلا کو بہکایا کہ اب کلمہ بھی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اَحْمَدُ رَسُوْلُ اللّٰہِ پڑھیں گے.اس پر حضرت اقدس مرسل اللہ نے ایک تقریر فرمائی جس کا کچھ حصہ پچھلے ہفتہ کی ڈائری میں برادرم مفتی محمد صادق صاحب نے لکھ دیا ہے اور جو کچھ ان سے رہ گیا تھا اس کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں.فرمایا.جاہل لوگوں کو بات بات میں ٹھوکر لگتی ہے.ان کو سمجھانا چاہیے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۱ ء صفحہ ۱۱

Page 96

کے دو ہی نام تھے.جب مسیح نے پیشگوئی کی تو احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے کی کیونکہ وہ خود جمالی شان رکھتے تھے یہ وہی نام ہے جس کا ترجمہ فارقلیط ہے.جہلا کے دماغ میں عقل نہیں ہوتی اس لئے ان کو موٹی موٹی نظیروں کے ساتھ جب تک نہ سمجھایا جائے وہ نہیں سمجھتے ہیں.ان کو تو بچوںکی طرح سبق دینا چاہیے.عورتیں اور بچے بھی تو طرح طرح کے نظیروں کےساتھ پڑھ سکتے ہیں.قرآن شریف اس وقت گم شدہ ہے.جنہوں نے اس نعمت کو پالیا ہے ان کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو سمجھا ئیں.جن کے پاس حق ہے وہ کیوں کامیاب نہ ہو.حق والا اگر دوسروں کو جو اس سے بے خبر ہیں سمجھاتا نہیں ہے تو وہ بزدلی اور گناہ کرتا ہے.اس کے سمجھانے سے اگر اور نہیں تو وہ منہ ہی بند کر لے گا.ان لوگوں کی تو یہ حالت ہے کہ اگر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی اور نام قرآن شریف میں ہوتا اور اس کو اب پیش کیا جاتا تو بھی اعتراض کرتے.کون سی بات ہے جس کو ہم نے اپنی طرف سے پیش کیا؟ ہمیشہ ان کے سامنے قرآن شریف ہی پیش کیاہے اور انہوں نے اعتراض ہی کیا ہے.انہیں یہ بات کہ کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام رکھا ہے اس میں سرّ یہ ہے کہ باطل معبودوں کی نفی اور توحید الٰہی کا اظہار جلالی طور پر ظاہر ہونے والا تھا.عرب تو باز آنے والے نہ تھے اس لئے محمدی جلال ظاہر ہوا.احمدی رنگ میں وہ ماننے والے نہ تھے اس جمالی رنگ میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے وہ کامیابی نہ ہوئی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی.اس میں اشارہ تھا کہ جلال سے اشاعت ہوگی.اللہ کے ساتھ محمد ہی ہونا چاہیے تھا کیونکہ اللہ اسم اعظم ہے اور جلالی نام ہے.اس کے ہمارے پاس دلائل ہیں.سارے قرآن شریف میں اللہ ہی کو موصوف ٹھیرایا گیا ہے.لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى(الـحشـر:۲۵) اس میں وہ نام سب داخل ہیں جو قرآن شریف میں ذکر کئے گئے ان سب سے موصوف اللہ ہی ہے جو اسم اعظم ہے پس اسم اعظم کا ظہور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ ہونا چاہیے تھا جو شخص اب بھی ضد کرے وہ ایمان سے خارج ہو جاتا ہے.۱ ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۵ مورخہ ۱۰؍ فروری ۱۹۰۱ ء صفحہ ۴

Page 97

۱۲؍ فروری ۱۹۰۱ ء ایک امتحان والے آدمی کے متعلق دعا کے واسطے عرض کی گئی فرمایا.دعا تو کی جاتی ہے مگر بعض دفعہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے واسطے کوئی اور نعمت رکھی ہوئی ہوتی ہے اور دعا ظاہر الفاظ میں پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی اس میں ایک ابتلا ہوتا ہے.خصوصاً ان لوگوں کے واسطے جو بظاہر نیک ہوتے ہیںکیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو نیک تھے ہم پر ابتلا یہ کیوں آیا.خدا تعالیٰ پر بھروسہ شام کے بعد فرمایا.ہم کو تو خدا پر اتنا بھروسہ ہے کہ ہم تو اپنے لیے دعا بھی نہیں کرتے کیونکہ وہ ہمارے حال کو خوب جانتا ہے.حضر ت ابراہیمؑکو جب کفار نے آگ میں ڈالا تو فرشتوں نے آکر حضرت ابراہیم ؑسے پوچھا کہ آپ کو کوئی حاجت ہے.حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا بَلٰی وَلٰکِنْ اِلَیْکُمْ لَا.ہاں حاجت تو ہے مگر تمہارے آگے پیش کرنے کی کوئی حاجت نہیں.فرشتوں نے کہا کہ اچھا خدا تعالیٰ کے آگے ہی دعا کرو.تو حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا عِلْمُہٗ مِنْ حَالِیْ حَسْبِیْ مِنْ سَوَالِیْ.وہ میرے حال سے ایسا واقف ہے کہ مجھے سوال کرنے کی ضرورت نہیں.۱ ۱۴؍ فروری ۱۹۰۱ء ابتلا اس بات پر ذکر کرتے ہوئے کہ مومنین پر تکالیف اور ابتلاآیا کرتے ہیں.فرمایا.ایک شخص حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنی لڑکی کا آنحضرت کے ساتھ نکاح کے واسطے عرض کیا او رمنجملہ اس لڑکی کی تعریف کے ایک یہ بات بھی عرض کی کہ وہ اتنی عمر کی ہوئی ہے مگر آج تک اس پر کوئی بیماری وارد نہیں ہوئی.آنحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جو لوگ خدا کے پیارے ہوتے ہیں ان پر خدا کی طرف سے ضرور تکالیف اور ابتلا آیا کرتے ہیں.۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۶ مورخہ ۱۷؍ فروری ۱۹۰۱ ء صفحہ ۱۳

Page 98

احباب میں سے ایک کو مخالفین کی طرف سے بہت تکالیف پہنچی ہیں.اس نے اپنا حال عرض کیا.فرمایا.آپ نے بہت تکالیف اُٹھائی ہیں.یہ بات آپ میں قابلِ تعریف ہے جس قدر ابتلا ہوا ہے اسی قدر انعام بھی ہوگا.اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ( الم نشـرح: ۷).مخالفین سے برتاؤ بعض مخالفین جو ہمارے دوستوں کے ساتھ سختی کرتے ہیں اور ان کو تکلیف پہنچاتے ہیں.اس کے ذکر میں اپنے دوستوں کو نرمی اور درگزر اور شرارت سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا.مخالفوں کے مقابلہ میں جوش نہیں دکھانا چاہیے.خصوصاً جو جوان ہیں ان کو مَیں یہ نصیحت کرتا ہوں.ضروری ہے کہ تم جلدی جلدی میرے پاس آؤ.معلوم نہیں کہ تم کتنا زمانہ میرے بعد بسرکرو گے.پا س رہنے میں بہت فائدہ ہوتا ہے.انسان اگر رُو بخدا ہو تو وہ تفسیر مجسم ہوتاہے او رپاس رہنے میں انسان بہت سی باتیں دیکھ لیتا ہے اور سیکھ لیتا ہے.سفر کی تعریف ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہو اکہ مجھے دس پندرہ کوس تک ادھراُدھر جانا پڑتا ہے.مَیں کس کو سفر سمجھوں اور نمازوں میں قصر کے متعلق کس بات پر عمل کروں.مَیںکتابوں کےمسائل نہیں پوچھتا ہوں.حضرت امام صادقؑکا حکم دریافت کرتا ہوں.حضرت اقدس نے فرمایا.میرامذہب یہ ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اوپر نہ ڈال لے.عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں خواہ وہ دو، تین کوس ہی ہو اس میں قصروسفر کے مسائل پر عمل کرے.اِنَّـمَا الْاَعْـمَالُ بِالنِّیَّاتِ.بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں مگر کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتاکہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھڑی اُٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتاہے.شریعت کی بنا دقّت پر نہیں ہے.جس کو تم عرف میں سفر سمجھو وہی سفر ہے.مسیح موعود کی خاطر نمازیں جمع کیے جانے کی پیشگوئی اور جیساکہ خدا کے فرائض پر عمل کیا جاتا ہے.ویسا ہی اُس کی رخصتوں پر عمل کرنا چاہیے.فرض بھی خدا کی طرف سے ہیں اوررخصت بھی خدا کی طرف سے.

Page 99

دیکھو! ہم بھی رخصتوں پر عمل کرتے ہیں.نمازوں کو جمع کرتے ہوئے کوئی دو ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں.بہ سبب بیماری کے اور تفسیر سورۂ فاتحہ کے لکھنے میں بہت مصروفیت کے ایساہورہا ہے اور ان نمازوں کے جمع کرنے میں تُـجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ کی حدیث بھی پوری ہورہی ہے کہ مسیح کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی.اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہ ہوگا بلکہ کوئی اور ہوگا اور وہ پیش امام مسیح کی خاطر نمازیں جمع کرائے گا.سو اب ایسا ہی ہوتاہے جس دن ہم زیادہ بیماری کی وجہ سے بالکل نہیں آسکتے اس دن نمازیں جمع نہیں ہوتیں.اور اس حدیث کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیارکے طریق سے یہ فرمایا ہے کہ اُس کی خاطر ایساہوگا.چاہیے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی عزّت و تکریم کریں اور ان سے بے پروا نہ ہوویں ورنہ یہ ایک گناہِ کبیرہ ہوگا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو خِفّت کی نگاہ سے دیکھیں.خدا تعالیٰ نے ایسے ہی اسباب پیدا کردیئے کہ اتنے عرصہ سے نمازیں جمع ہورہی ہیں ورنہ ایک دودن کے لئے یہ بات ہوتی تو کوئی نشان نہ ہوتا.ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ لفظ اور حرف حرف کی تعظیم کرتے ہیں.تفسیر سورۂ فاتحہ میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و محامد تفسیر سورۃ فاتحہ کے ذکر میں فرمایا کہ اس کتاب میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور محامد اس قدر بیان ہونے شروع ہوگئے ہیں کہ ختم کرنے کو دل نہیں چاہتا.اگر دن پورے نہ ہوتے تو مَیں چاہتا نہ تھا کہ بند کردوں.ترقیات غیرمتناہی ہیں فرمایا.بہشت میں بھی مومنوں کے لئے ترقیات ہوتی ہیں اور ترقیات انبیاء کے لئے بھی ہیں ورنہ درود شریف کیوںپڑھا جاتا ہے.ہمارا یہ مذہب ہے کہ ترقیات غیر متناہی ہیں.صفاتِ جمالیہ فرمایا.سارے قرآن شریف کا خلاصہ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ہے اللہ تعالیٰ کی اصل صفات بھی جمالی ہیں اور اصل نام خدا جمالی ہے.یہ تو

Page 100

کفار لوگ اپنی ہی کرتُوتوں سے ایسے سامان بہم پہنچاتے ہیں کہ بعض وقت جلالی رنگ دکھانا پڑتا ہے.اس وقت چونکہ اس کی ضرورت نہیں اس واسطے ہم جمالی رنگ میں آئے ہیں.ملکہ معظمہ کے متعلق یادگاروں کے قائم کرنے کا ذکر درمیان آیا.حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ ہماری رائے میں ایک بڑا بھاری کالج یا شفاخانہ بننا چاہیے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم کارنامہ فرمایا.مسیحؑ کو تو لوگ اتنی لمبی عمر دینے کے واسطے بے فائدہ سعی کرتے ہیں.ان کی تھوڑی سی عمرنے کیا نتیجہ پیدا کیا ہے جو بڑی عمر کی خواہش کی جاوے.دنیا صلیب پرستی سے بھرگئی ہے اور جابجا شرک پھیل گیا ہے.ہاں اگر اتنی عمر کا پانا کسی کے واسطے ممکن ہوتا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مستحق تھے جنہوں نے تھوڑی سی عمر میں ایک دنیا مؤحّدین سے بھردی اور اُن کے دل میں خدا کی محبت کا سچا جوش بھردیا.۱ ۱۵؍فروری ۱۹۰۱ ء کرکٹ جو قیامت تک قائم رہے گا قادیان کے مدرسہ تعلیم الاسلام کے لڑکوں کا گیندبَلّا کھیلنے میں میچ تھا.بعض بزرگ بھی بچوں کی خوشی بڑھانے کے واسطے فیلڈ میں تشریف لے گئے.حضرت اقدس ؑ کے ایک صاحبزادہ نے بچپن کی سادگی میںآپؑکو کہا کہ ابا تم کیوں کرکٹ پر نہیں گئے.آپؑ اس وقت تفسیرفاتحہ کے لکھنے میں مصروف تھے.فرمایا.وہ توکھیل کر واپس آجائیں گے مگر مَیں وہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جو قیامت تک قائم رہے گا.۲ ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۶ مورخہ ۱۷؍ فروری ۱۹۰۱ ء صفحہ ۱۳ ، ۱۴ ۲ الحکم جلد ۵ نمبر ۷ مورخہ ۲۴ ؍ فروری ۱۹۰۱ ء صفحہ ۱۰

Page 101

۱۶؍ فروری ۱۹۰۱ ء فاتحہ خلف الامام اس بات کا ذکر آیا کہ جوشخص جماعت کے اندر رُکوع میں آکر شامل ہو اس کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں.حضرت اقدس ؑنے دوسرے مولویوںکی رائے دریافت کی.مختلف اسلامی فرقوں کے مذاہب اس امر کے متعلق بیان کیے گئے.آخرحضرت ؑ نے فیصلہ دیا اور فرمایا.ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ لَاصَلٰوۃَ اِلَّا بِفَاتِـحَۃِ الْکِتَابِ.آدمی امام کے پیچھے ہو یا منفرد ہو ہرحالت میں اس کو چاہیے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے مگر امام کو نہ چاہیے کہ جلدی جلدی سورۃ فاتحہ پڑھے بلکہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھے تاکہ مقتدی سُن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے یا ہر آیت کے بعد امام اتنا ٹھہر جائے کہ مقتدی بھی اس آیت کو پڑھ لے.بہر حال مقتدی کو یہ موقع دیناچا ہیے کہ وہ سن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے.سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے کیونکہ وہ اُمّ الکتاب ہے.لیکن جو شخص باوجود اپنی کوشش کے جو وہ نماز میں ملنے کے لئے کرتاہے آخر رکوع میں ہی آکر ملا ہے اور اس سے پہلے نہیں مل سکا تو اس کی رکعت ہوگئی اگرچہ اس نے سورۃ فاتحہ اس میں نہیں پڑھی.کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے رکوع کو پالیا اس کی رکعت ہوگئی.مسائل دو طبقات کے ہوتے ہیں.ایک جگہ تو حضرت رسول کریم نے فرمایا اور تاکید کی کہ نماز میں سورۃ فاتحہ ضرور پڑھیں.وہ اُمّ الکتاب ہے اور اصل نماز وہی ہے مگر جو شخص باوجود اپنی کوشش کے اور اپنی طرف سے جلدی کرنے کے رکوع میں ہی آکر ملا ہے تو چونکہ دین کی بنا آسانی اور نرمی پر ہے اس واسطے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی رکعت ہوگئی.وہ سورۃ فاتحہ کا منکر نہیں ہے بلکہ دیر میں پہنچنے کے سبب رخصت پر عمل کرتا ہے.میرا دل خدا نے ایسابنایا ہے کہ ناجائز کام میں مجھے قبض ہوجاتی ہے اور میرا جی نہیںچاہتا کہ مَیں اُسے کروں اور یہ صاف ہے کہ جب نماز میں ایک آدمی نے تین حصوں کو پورا پالیا اور ایک حصہ میں بہ سبب کسی مجبوری کے دیر میں مل سکا ہے تو کیا حرج ہے.انسان کو چاہیے کہ رُخصت پر عمل کرے.ہاں جو شخص عمداً سُستی کرتا ہے اور جماعت میں شامل ہونے میں دیر کرتا

Page 102

ہے تو اُس کی نماز ہی فاسد ہے.۱ ۲۰؍ فروری ۱۹۰۱ء استغفار ایک شخص نے قرض کے واسطے دعا کے لئے عرض کی.فرمایا.استغفار بہت پڑھا کرو.عربی تفسیر کے لئے غیبی قوت تفسیرکے لکھنے کے متعلق فرمایا.دن تھوڑے رہ گئے ہیں.اب تو ہم اس طرح جلدی جلدی لکھتے ہیں جیسے اُردو لکھی جاتی ہے بلکہ کئی دفعہ تو قلم برابر چلتا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ کیا لکھ رہے ہیں.۲ غیروں کے پیچھے نماز کسی نے سوال کیا کہ جو لوگ آپؑ کے مُرید نہیں ہیں.ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے آپؑنے اپنے مریدوں کو کیوں منع فرمایا ہے.حضرت ؑ نے فرمایا.جن لوگوں نے جلد بازی کے ساتھ بدظنی کرکے اس سلسلہ کو جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے ، ردّ کردیا ہے اور اس قدر نشانوں کی پروا نہیں کی اور اسلام پر جو مصائب ہیں اس سے لاپروا پڑے ہیں.ان لوگوں نے تقویٰ سے کام نہیں لیا اور اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہےکہ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ(المائدۃ:۲۸) خداصرف متقی لوگوں کی نماز قبول کرتا ہے، اس واسطے کہا گیا ہے کہ ایسے آدمی کے پیچھے نماز نہ پڑھو جس کی نما زخود قبولیت کے درجہ تک پہنچنے والی نہیں.مسیح موعودؑ کو نہ ماننے کا نتیجہ قدیم سے بزرگانِ دین کا یہی مذہب ہے کہ جو شخص حق کی مخالفت کرتا ہے رفتہ رفتہ اس کا سلب ِ ایمان ہوجاتا ہے.جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانے وہ کافر ہے مگرجو مہدی اور مسیح کو نہ مانے اس کا بھی سلبِ ایمان ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۷ مورخہ ۲۴ ؍ فروری ۱۹۰۱ ء صفحہ ۹ ۲ الحکم جلد ۵ نمبر ۷ مورخہ ۲۴ ؍ فروری ۱۹۰۱ ء صفحہ ۱۰

Page 103

ہوجائے گا.انجام ایک ہی ہے.پہلے تخالف ہوتاہے پھر اجنبیّت پھر عداوت پھرغلو اور آخر کار سلب ہوجاتا ہے.اخیار میں خونی دشمنی کبھی نہیں ہوتی سوال ہوا کہ ابتدا میں بھی مسلمانوں کے درمیان آپس میں عداوت اور دشمنیاں ہوتی رہی ہیں اوراختلاف رائے بھی ہوتا رہا ہے مگر باوجود اس کے ہم کسی کوکافر نہیں کہہ سکتے.حضرت اقدس ؑ نے فرمایا.یہ تو شیعوں کا مذہب ہے کہ صحابہ ؓ کے درمیان آپس میں ایسی سخت دشمنی تھی، یہ غلط ہے.اللہ تعالیٰ آپ اس کی تردید میں فرماتا ہے کہ نَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ (الـحجر:۴۸) برادریوں کے درمیان آپس میں دشمنیاں ہوا کرتی ہیں مگر شادی، مرگ کے وقت وہ سب ایک ہوجاتے ہیں.اخیار میں خونی د شمنی کبھی نہیں ہوتی.منعم علیہ کون ہیں سوا ل ہوا کہ جو لوگ آپ کو کافر نہیں کہتے مگر آپ کے مُرید بھی نہیں ہیں.اُن کا کیا حال ؟ حضرت صاحب نے فرمایا.وہ لوگ راہ ورسم اور تعلقات کس کے ساتھ رکھتے ہیں.آخر ایک گروہ میں اُن کو ملناپڑے گا.جس کے ساتھ کوئی اپنا تعلق رکھتا ہے اُسی میں سے وہ ہوتا ہے.سوال ہوا کہ جو لوگ آپ کو نہیں مانتے وہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے نیچے ہیں یا کہ نہیں؟ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں تو مَیں اپنی جماعت کو بھی شامل نہیں کرسکتا جب تک کہ خدا کسی کو نہ کرے.جو کلمہ گو سچے دل سے قرآن پر عمل کرنے کے لیے طیار ہو بشرطیکہ سمجھایا جاوے وہ اپنا اجر پائے گا.جس قدر کوئی مانے گا اُسی قدر ثواب پائے گا.جتنا انکار کرے گا اُتنی ہی تکلیف اُٹھائے گا.میں قسماً کہتا ہوں کہ مجھے لوگوں کے ساتھ کوئی عداوت نہیں.جو ہمیں کافر نہیں کہتے اُن کے دلوں کا خدا مالک ہے مگر حضرت مسیحؑ کا خالق اور حَیّ ماننا بھی تو ایک شِرک ہے.اگر وہ کہیں کہ خدا کے

Page 104

اِذن سے کرتا تھا تو ہم کہتے ہیں کہ وہ اذن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں نہ دیا گیا.جو خدا کے ولی کے ساتھ دشمنی کرتا ہے خدا اس کے ساتھ جنگ کرتا ہے.جس کے ساتھ خداجنگ کرے اس کا ایمان کہاں رہا.۱ ۲۳؍فروری ۱۹۰۱ء حضرت اقدسؑکو الہام ہوا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ.تفسیر اعجاز المسیح کی اعجازی شان تفسیر اعـجاز المسیح کے متعلق یہ ذکر تھا کہ مخالفین میں سے کسی کو خدا نے یہ طاقت نہیں دی کہ اس کا مقابلہ کر سکے.اس پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا.قرآن شریف کے ایک معجزہ ہونے کے متعلق دو مذہب ہیں.ایک تو یہ کہ خدا تعالیٰ نے مخالفین سے صَرفِ ہمت کردیا یعنی اُن لوگوں کو توفیق نہ ہوئی کہ اس وقت مقابلہ میں کچھ کرکے دکھلاتے.اور دوسرا مذہب جو کہ صحیح اور سچا اور پکا مذہب ہے اور ہمارا بھی وہی مذہب ہے.وہ یہ ہے کہ مخالف خود اس بات میں عاجز تھے کہ مقابلہ کرسکتے.اصل میں ان کے علم اور عقل چھینے گئے تھے.قرآن شریف کا معجزہ ہماری تفسیر القرآن کے معاملہ سے خوب سمجھ میں آسکتا ہے.ہزاروں مخالف موجود ہیں جو عالم فاضل کہلاتے ہیں.کئی غیرت دلانے والے الفاظ بھی اشتہار میں لکھے گئے مگر کوئی ایسانہ کرسکا کہ اس نشان کا مقابلہ کرتا.۲ ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷ ؍ مارچ ۱۹۰۱ ء صفحہ ۸ ۲ الحکم جلد ۵ نمبر ۸ مورخہ ۳ ؍ مارچ ۱۹۰۱ ء صفحہ ۱۲

Page 105

۲۴؍ فروری ۱۹۰۱ء صحیح بخاری اور مُسلم کی عظمت صحیح بخاری کے متعلق فرمایا.یہی ایک کتاب ہے جو دنیا کی تمام کتابوں میں سے قرآن شریف کے بہت مطابق اور سب سے افضل اور صحیح ہے.اس کی دوسری بہن گویا مُسلم ہے.مسیح موعود ؑ کی ایک جُزئی فضیلت آیت کریمہ رَبُّنَا الَّذِيْۤ اَعْطٰى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى (طٰہٰ:۵۱) پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا.اس عطا میں زیادہ تر دو قسم کے آدمی ہیں.ایک بادشاہ، دوسرے مامورمن اللہ.یعنی پہلے خدا نے ان کو مامور بنایا ثُمَّ هَدٰى یعنی پھر تبلیغ کے تمام سامان اُن کے لئے مہیا کردیئے جیسا کہ خدا نے ریل، تار، ڈاک، مطبع وغیرہ تمام اسباب ہمارے واسطے مہیاکردیئے جو پہلے انبیاء علیہم السلام کو حاصل نہ تھے.ہمارے واسطے یہ ایک جُزئی فضلیت ہے اور خدا کا فضل ہے اور جزئی فضیلت سے کسرِ شان کسی نبی کی لازم نہیں آتی.اہل اللہ کا حال فرمایا.تفسیر کا کام تو ختم ہوگیا اور ہم چاہتے تھے کہ دوسرے ضروری کاموں کے شروع کرنے سے پہلے دو تین دن آرام کرلیتے مگر جی نہیں چاہتا کہ خالی بیٹھے رہیں.مثنوی مولانا رُوم میں لکھا ہے کہ ایک بیماری ہوتی ہے کہ انسان چاہتاہے کہ اس کو ہر وقت کوئی مُکیاں مارتا رہے.ایسا ہی اہل اللہ کا حال ہوتا ہے کہ وہ آرام نہیں کرسکتے.کبھی خدا ان پر کوئی محنت نازل کرتا ہے اور کبھی وہ آپ کوئی ایسا کام چھیڑ بیٹھتے ہیں جس سے ان پر محنت نازل ہو.نہایت درجہ برکت کی بات یہ ہے کہ انسان خدا کے واسطے کسی کام میں لگا رہے جو دن بغیر کسی کام کے گزر جائے وہ گویاغم میں گزرتا ہے.اس سے زیادہ دنیا میں کچھ حاصل نہیں کہ انسان خداکے واسطے کام کرے اور خدا اُس کے واسطے راستہ کھول دے اور اُسے مدد عطافرماوے.مگر بغیر اخلاص

Page 106

کے تمام محنت بے فائدہ ہے.خالصتہً لِلہ کام کرنا چاہیے.کوئی اور غرض درمیان میں نہ آوے.۱ ۲۵؍ فروری ۱۹۰۱ء جماعت کو اہم نصیحت اپنی جماعت کے لوگوں کو باہم محبت کرنے اور روحانی کمزوریوں کے سامنے نرمی کا برتاؤ کرنے کا حکم کرتے ہوئے اور اُس دردِ دل کا اظہار کرتے ہوئے جو کہ آپ کو اپنی جماعت کی بہتری کے واسطے ہے فرمایا.مَیں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے میں سے کمزور اور کچے لوگوں پر رحم کریں.اُن کی کمزوری کو دُور کرنے کی کوشش کریں.اُن پر سختی نہ کریں اور کسی کے ساتھ بداخلاقی سے پیش نہ آئیں بلکہ اُن کو سمجھائیں.دیکھو! صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان بھی بعض منافق آکر مل جاتے تھے پرحضرت رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرتے چنانچہ عبداللہ ابن اُبی جس نے کہا تھا کہ غالب لوگ ذلیل لوگوں کو یہاں سے نکال دیں گے چنانچہ سورۂ منافقون میں درج ہے اور اس سے مُراد اس کی یہ تھی کہ کفار مسلمانوں کو نکال دیں گے.اس کے مَرنے پر حضرت رسول کریمؐ نے اپنا کُرتہ اس کے لئے دیا تھا.میں نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ میں دعا کے ساتھ اپنی جماعت کی مدد کروں.دعا کے بغیر کام نہیں چلتا.دیکھو! صحابہ ؓ کے درمیان بھی جو لوگ دعا کے زمانہ کے تھے یعنی مکی زندگی کے.جیسی اُن کی شان تھی ویسی دوسروں کی نہ تھی.حضرت ابوبکر ؓ جب ایمان لائے تھے تو انہوں نے کیا دیکھا تھا.انہوں نے کوئی نشان نہ دیکھا تھا لیکن وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور اندرونی حالات کے واقف تھے.اس واسطے نبوت کا دعویٰ سنتے ہی ایمان لے آئے.اسی طرح میں کہا کرتاہوں کہ ہمارے دوست اکثر یہاں آیا کریں او ررہاکریں.گہرا دوست اور پورا واقف بن جانے سے انسان بہت فائدہ اُٹھاتا ہے.معجزات اور نشانات سے ایسا فائدہ نہیں ہوتا.معجزات سے فرعون کو کیا فائدہ ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۸ مورخہ ۳؍ مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۲

Page 107

ہوا.معجزات کے ہزاروں منکر ہوتے ہیں.اخلاق کا منکرکوئی نہیں.طالب ہوکر اصلی اور جگری حالات کو دریافت کرنا چاہیے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمہ آریہ لوگوں نے حضرت رسول کریم پراس قدر اعتراض کیے ہیں لیکن اگر ان لوگوں کو آپؐکے اصلی حالات اور اخلاقِ کریمہ کے صحیح جز مل جاتے تو یہ کبھی ایسی جرأت نہ کرتے.پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق کے دو پہلو دکھلائے.ایک مکی زندگی جبکہ آپؐکے ساتھ صرف چند آدمی تھے اور کچھ قوت نہ تھی.دوسرا مدنی زندگی میں جبکہ آپؐفاتح ہوئے اور وہی کفار جو آپؐکو تکالیف دیتے تھے اور آپؐ ان کی ایذا دہی پر صبر کرتے تھے اب آپ کے قابو میں آگئے ایسا کہ جو چاہتے آپ ان کو سزا دے سکتے تھے مگر آپ نے لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ (یوسف:۹۳) کہہ کر اُن کو چھوڑد یا اور کچھ سزا نہ دی.ہمیں حضرت مسیحؑ پر ایمان ہے اور ان کے ساتھ محبت ہے.مگر یہ کہنے میں ہم لاچار ہیں کہ اُن کو اپنے مخالفین پر قدرت اور طاقت نہیں ہوئی اور ان کو یہ موقع نہیں ملا کہ دشمن پر قابو پاکر پھر اپنے اخلاق کا اظہار کریں اور اگر ان کو یہ موقع ملتا تو معلوم نہیں وہ کیا کرتے.سچا مسلمان وہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آوے.مَیں دوباتوں کے پیچھے لگا ہوا ہوں.ایک یہ کہ اپنی جماعت کے واسطے دعا کروں.دعا تو ہمیشہ کی جاتی ہے مگر ایک نہایت جوش کی دعا جس کا موقع کبھی مجھے مل جائے اور دوم یہ کہ قرآن شریف کا ایک خلاصہ ان کو لکھ دوں.قرآن کریم کا اعجاز قرآن شریف میں سب کچھ ہے مگر جب تک بصیرت نہ ہو کچھ حاصل نہیں ہوسکتا.قرآن شریف کو پڑھنے والا جب ایک سال سے دوسرے سال میں ترقی کرتا ہے تو وہ اپنے گذشتہ سال کو ایسامعلوم کرتا ہے کہ گویا وہ تب ایک طفلِ مکتب تھا.کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام اور اس میں ترقی بھی ایسی ہی ہے.جن لوگوں نے قرآن شریف کو ذوالوجوہ کہا ہے میں اُن کو پسند نہیں کرتا.اُنہوں نے قرآن شریف کی عزّت نہیں کی.قرآن شریف کو ذوالمعارف کہناچاہیے.ہر مقام میں سے کئی معارف نکلتے ہیں او رایک نکتہ

Page 108

دوسرے نکتہ کا نقیض نہیں ہوتا مگر زُودرنج، کینہ پروراورغصہ والی طبائع کے ساتھ قرآن شریف کی مناسبت نہیں ہے اور نہ ایسوں پر قرآن شریف کھلتا ہے.میرا ارادہ ہے کہ اس قسم کی تفسیر بنادوں.نرا فہم اور اعتقاد نجات کے واسطے کافی نہیں جب تک کہ وہ عملی طور پر ظہور میں نہ آوے.عمل کے سوا کوئی قول جان نہیں رکھتا.قرآن شریف پر ایسا ایمان ہونا چاہیے کہ یہ درحقیقت معجزہ ہے اور خد اکے ساتھ ایسا تعلق ہو کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے.جب تک لوگوں میں یہ بات پیدا نہ ہوجائے ، گویا جماعت نہیں بنی.اگر کسی سے کوئی ایسی غلطی ہوکہ وہ صرف ایک غلط خیال کی وجہ سے ایک امر میں ہماری مخالفت کرتا ہے تو ہم ایسے نہیں ہیں کہ ہم اس پر ناراض ہوجائیں.ہم جانتے ہیں کہ کمزوروں پر رحم کرنا چاہیے.ایک بچہ اگر بستر پر پاخانہ پِھر دے او رماں غصہ میں آکر اس کو پھینک دے تو وہ خون کرتی ہے.ماں اگر بچہ کے ساتھ ناراض ہونے لگے اور ہر روز اس سے روٹھنے لگے تو کام کب بنے.وہ جانتی ہے کہ یہ ہنوز نادان ہے.رفتہ رفتہ خدا اس کو عقل دے گا اور کوئی وقت آتا ہے کہ یہ سمجھ لے گا کہ ایساکرنا نامناسب ہے.سو ہم ناراض کیوں ہوں.اگر ہم کذب پر ہیں تو خود ہمارا کذب ہمیں ہلاک کرنے کے واسطے کافی ہے.ہم اس راہ پر قدم مارنے والے سب سے پہلے نہیں ہیں جو ہم گھبراجائیں کہ شاید حق والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کیامعاملہ ہوا کرتا ہے.ہم جانتے ہیں کہ سنّت اللہ کیا ہے.سرورِ انبیاء ؐ پر کروڑوں اعتراض ہوئے.ہم پرتو اتنے ابھی نہیں ہوئے.بعض کہتے ہیں کہ جنگ اُحدمیں آپؐکو ۷۰ تلواریں لگی تھیں.صدق کا بیج ضائع نہیں ہوتا.ابوبکری طبیعت تو کوئی ہوتی ہے کہ فوراً مان لے.طبائع مختلف ہوتی ہیں مگر نشان کے ساتھ کوئی ہدایت پا نہیں سکتا.سکینت باطنی آسمان سے نازل ہوتی ہے.تصرّفاتِ باطنی یک دفعہ تبدیلی پیدا کردیتے ہیں.پھر انسان ہدایت پاتا ہے.ہدایت امرِ رَبّی ہے.اس میں کسی کو دخل نہیں.میرے قابو میں ہوتو مَیں سب کو قُطب اور ابدال بنادوں مگر یہ اَمر محض خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.ہاں دعا کی جاتی ہے.صُلح کی دعوت ہم طیا رہیں کہ ہمارے مخالف ہمارے ساتھ صُلح کرلیں.میرے پا س ایک تھیلہ اُن کی گالیوں سے بھرے ہوئے کاغذات کا پڑا ہے.ایک نیا کا غذ آیا

Page 109

تھا.وہ بھی آج میں نے اس میں داخل کردیا ہے.مگر ان سب کو ہم جانے دیتے ہیں.اپنی جماعت کے ساتھ اگرچہ میری ہمدردی خاص ہے مگر مَیں سب کے ساتھ ہمدردی کرتا ہوں اور مخالفین کے ساتھ بھی میری ہمدردی ہے.جیسا ایک حکیم تریاق کا پیالہ مریض کو دیتا ہے کہ وہ شفا پاوے مگر مریض غصہ میں آکر اس پیالے کو توڑدیتاہے توحکیم اس پر افسوس کرتا ہے اوررحم کرتا ہے.ہمارے قلم سے مخالف کے حق میں جو کچھ الفاظ سخت نکلتے ہیں وہ محض نیک نیتی سے نکلتے ہیں.جیسے ماں بچہ کو کبھی سخت الفاظ بولتی ہے مگر اس کا دل درد سے بھرا ہوا ہوتا ہے.صادق اور کاذب کامعاملہ خدا کے نزدیک ایک نہیں ہوتا.خدا جس کو محبت کے ساتھ دیکھتاہے اس کے ساتھ اوردُوسروں کے ساتھ اس کا ایک سلوک نہیں ہوتا.کیا سب کے ساتھ اس کامعاملہ ایک ہی رنگ کا ہے.مخالفین ہم سے صلح کرلیں.مِلنا جُلنا شروع کردیں.بے شک اپنے اعتقاد پر رہیں.ملاقات سے اصلی حالات معلوم ہوجاتے ہیں.امرتسر کے بعض مخالف سمجھتے ہیں کہ ہم خدا کے منکر ہیں اور شراب پیتے ہیں.ایسی بدظنی کا سبب یہی ہے کہ وہ ہم سے بالکل الگ ہوگئے ہیں.اس قسم کا انقطاع تو کمزور لوگ کرتے ہیں کہ بالکل الگ ہو جائیں.اَلْحَقُّ یَعْلُوْ وَلَایُعْلٰی.تم ہم سے ڈرتے کیوں ہو.اگر ہم حقیر ہیں تو تم ہم پرغالب آجاؤ گے.اگر صُلح بھی نہیں کرتے ، تو پھر مقابلہ میں آنا چاہیے.مقابلہ کے وقت خدا صادق کی مدد کرتا ہےكَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِيْ( المجادلۃ:۲۲)۱ ۲۶؍فروری ۱۹۰۱ء امام مہدی کی شان اُمّتِ محمدیہ میں پیغمبروں کاظِلّی سِلسِلہ فرمایا.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ (الفاتحۃ:۶) کی دعا سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ظِلّی ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۹ مورخہ ۱۰ ؍ مارچ ۱۹۰۱ ء صفحہ ۸ تا ۱۰

Page 110

ظِلّی سلسلہپیغمبروں کا اس اُمت میں قائم کرناچاہتا ہے مگر جیسا کہ قرآن کریم میں سارے انبیاء کا ذکر نہیں اور حضرت موسٰی اور حضرت عیسٰیؑ کا ذکر کثرت سے ہے.اس سے ثابت ہوتاہے کہ اس اُمت میں بھی مثیل موسیٰ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مثیل عیسیٰ یعنی امام مہدی سب سے عظیم الشان اور خاص ذکرکے قابل ہیں.۱ ۲۸؍ فروری ۱۹۰۱ء انبیاء سے اجتہادی غلطی کا صدور فرمایا.اجتہادی غلطی سب نبیوں سے ہو اکرتی ہے اوراس میں سب ہمارے شریک ہیں اور یہ ضرور ہے کہ ایسا ہوتا تاکہ بشرخدانہ ہوجائے.دیکھو! حضرت عیسٰیؑ کے متعلق بھی یہ اعتراض بڑے زور شور سے یہود نے کیا ہے کہ اس نے کہا تھا کہ میں بادشاہت لے کر آیا ہوں اور وہ بات غلط نکلی.ممکن ہے کہ حضرت مسیحؑ کو یہ خیال آیا ہو کہ ہم بادشاہ بن جائیں گے چنانچہ تلواریں بھی خریدرکھی ہوئیں تھیں مگر یہ اُن کی ایک اجتہادی غلطی تھی.بعد اس کے خدا نے مطلع کردیا اور انہوں نے اقرارکیا کہ میری بادشاہت روحانی ہے.سادگی انسان کا فخر ہوتاہے.حضرت عیسیٰ ؑ نے جو کہا سو سادگی سے کہا.اس سے ان کی خفت اور بے عزّتی نہیں ہوتی.ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے یہ سمجھا تھا کہ ہجرت یمامہ کی طرف ہوگی مگر ہجرت مدینہ طیبہ کی طرف ہوئی اور انگوروں کے متعلق آپؐ نے یہ سمجھا تھا کہ ابوجہل کے واسطے ہیں.بعد میں معلوم ہو اکہ عکرمہ کے واسطے ہیں.انبیاء کے علم میں بھی تدریجاً ترقی ہوتی ہے.اس واسطے قرآن شریف میں آیا ہےقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا( طٰہٰ :۱۱۵) یہ آپؐکا کمال اور قلب کی طہارت تھی جو آپؐاپنی غلطی کا اقرار کرتے تھے.اس میں انبیاء کی خِفّت کچھ نہیں.ایک حکیم ہزاروں بیماروں کا علاج کرتا ہے.اگر ایک اُن میں سے مَرجائے تو کیا حرج ہے.اس سے اُس کی حکمت میں کچھ داغ نہیں آجاتا ہے.کبھی حافظ قرآن کو پیچھے سے لقمہ دیا جاتا ہے تو اس سے یہ نہیں کہا جاتا کہ اب وہ حافظ نہیں رہا.جو باتیں متواترات اور کثرت سے ۱ الحکم جلد ۵نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷ ؍ مارچ ۱۹۰۱ ء صفحہ ۸

Page 111

سے ہوتی ہیں اُن پر حکم لگایا جاتا ہے.اخلاص والے کو خداضائع نہیں کرتا فرمایا.اخلاص والے کو خداضائع نہیں کرتا.ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس جنگل میں پیدا ہوئے تھے.پھر خدا نے کیا کیا سامان بنادیئے.ایک آدمی کا قابو کرنا مشکل ہوتاہے.کتنے آدمی آپؐکے ساتھ ہوگئے تھے.ہمارے متعلق اللہ تعالیٰ کی وحی ہے ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.‘‘ آخرمرید ہی ہوں گے تو ایساکریں گے.اس زمانہ میں دیکھو لوگ کیسی بے عزّتی کرتے ہیں مگراس زمانہ میں جو ثواب ہے وہ پھر نہ ہوگا.۱ یکم مارچ ۱۹۰۱ء نماز کا اخلاص سے تعلق فرمایا.نماز دعا اور اخلاص کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.مومن کے ساتھ کینہ جمع نہیں ہوتا.متقی کے سوا دُوسرے کے پیچھے نماز کو خراب نہیں کرنا چاہیے.۲ ۳؍ مارچ ۱۹۰۱ء کمال ختم نہیں ہوتا فرمایا.ختمِ ایمان یا ختمِ کمال نہیں ہوجاتا.خدا کی جناب میں بخل نہیں.جو رنگ ایک پر چڑھتا ہے وہ دوسرے پر چڑھ سکتا ہے.اگر نبی کی بات دوسرے میں نہ آسکے تو اس کا وجود بے فائدہ ہو.ایک صوفی ابن حزم نے لکھا ہے کہ مَیں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معانقہ کیا یہاں تک کہ مَیں خود رسول اللہ ہوگیا.۳ ۱ ۲ ۳ الحکم جلد ۵نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷ ؍ مارچ ۱۹۰۱ ء صفحہ ۸ ، ۹

Page 112

مارچ ۱۹۰۱ء ایک متلاشیِ حق کا حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں آنا چند روز سے حضور مسیح موعود ؑ کی خدمت میں ایک حق جُو ضلع گجرات سے آیاہوا ہے.اس نے عرض کی کہ مجھے ابتدا ہی سے دھرم بھاؤ اپنے اندر محسوس ہوتا تھا اور اُس کے موافق میں اپنے خیال میں بعض نیکیاں بھی کرتا رہا ہوں مگر مجھے دنیا اور اس کے طلبگاروں کو اپنے اردگرد دیکھ کربہت بڑی تکلیف محسوس ہوتی ہے اور اپنے اندر بھی ایک کشمکش پاتا ہوں.مَیں ایک بار دریائے جہلم کے کنارے کنارے میں پھر رہا تھا کہ مجھے ایک عجیب نظارہ پریم (محبت) کا تھا مجھے ایک لذّت اور سُرور محسوس ہوتا تھا.جس طرف نظر اُٹھاتا تھا آنند ہی آنند ملتا تھا.کھانے میں ، پینے میں ، چلنے میں، پھرنے میں، غرض ہر ایک حرکت میں، ہراَدا میں پریم ہی پریم معلوم ہوتا تھا، چند گھنٹوں کے بعدیہ نظارہ تو جاتا رہا مگر اس کا بقیہ ضرور دو ماہ تک رہا.یعنی اس نظارہ سے کم درجہ کا سرور دینے والا نظارہ.اس وقت مَیں عجیب گھبراہٹ میں ہوں.مَیں نے بہت کوشش کی کہ مَیں اِس کو پھر پاؤں مگر نہیں ملا.اسی کی طلب اور تلاش میں مَیں لاہور بابو ابناش چندرفورمدار صاحب کے پاس آیا جو برہم سماج کے سرگرم ممبر ہیں.مگر افسوس ہے کہ وہ مجھ سے بجز چند منٹ کے اور وہ بھی اپنے دفتر میں ہی نہ مل سکے.پھر مَیں پنڈت شونرائن ستیاننداگنی ہوتری کے پاس گیا.مَیں نے دیکھا کہ وہ لوگ کسی قدر روحانیت کو محسوس کرتے ہیں.آخر مَیں کوئی دو مہینے تک ان کے ہائی سکول موگا میں بطور تھرڈ ماسٹر کام کرتا رہا اور اپنی اصلاح میں لگا رہا.وہاں جانا میرا صرف اس مطلب کے لئے تھاکہ میں اپنی لائف کو بناؤں.اس عرصہ میں کچھ مختصر سا نظارہ نظر آنے لگا مگر میری تسلی اور اطمینان نہیں ہوا.جس شانتی اور پریم کا میں خواہش مند اور جو یا تھا وہ مجھے نہ ملا.اگرچہ مَیں صبر کے ساتھ وہاں رہنا چاہتا تھا مگر بیمار ہوکر مجھے آنا پڑا.مَیں نے اپنے شہر میں شیخ مولابخش صاحب کو ایک مرتبہ جلسۂ اعظم مذاہب والا آپ کامضمون پڑھتے ہوئے سنا.میں اپنے خیال میں مَست اور متفکرجارہا تھا کہ اُن کی آواز

Page 113

میرے کان میں پڑی.میری رُوح نے غیر معمولی طور پر محسوس کیا کہ اس کلام میں لائٹ (نور) ہے اور یہ کہنے والا اپنے اندرروشنی ضروررکھتا ہے.مَیں نے اس مضمون کو کئی مرتبہ پڑھا اور میرے دل میں قادیان آنے کی خواہش پیداہوئی مگر لیکھرام کے قتل کے تازہ وقوعہ کے باعث لاہور میں مَیں اگر کسی مسلمان سے پتہ پوچھتا تھا تووہ پتہ نہ بتاتا تھا.غالباً اس کو یہ وہم ہوتا ہوگا کہ شاید یہ مرزا صاحب کے قتل کو جاتا ہے.بہر حال میرے دل میں ایک کشمکش پیدا ہورہی تھی.اب وہ میری آرزو پوری ہوئی ہے اورمَیں اپنی زندگی کو بنانا چاہتا ہوں.اسی غرض کے واسطے حضور کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں.اس پر حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یوں ارشادفرمایا.اسلام کی حقیقت حقیت یہی ہے کہ انسان کو پوست اور چھلکے پرٹھہرنا نہیں چاہیے اور نہ انسان پسند کرتا ہے کہ وہ صرف پوست پر قناعت کرے بلکہ وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے اور اسلام انسان کو اسی مغز اور روح پر پہنچانا چاہتا ہے جس کا وہ فطرتاً طلبگار ہے.یہ نام ہی ایسا نام ہے کہ اس کو سُن کرروح میں ایک لذّت آتی ہے اور کسی مذہب کے نام سے کوئی تسلی رُوح میں پیدا نہیں ہوتی مثلاً آریہ کے نام سے کون سی رُوحانیت نکالیں.اسلام سکینت، شانتی، تسلی کے لئے بنایاگیا ہے جس کے واسطے انسان کی رُوح بھوکی پیاسی ہوتی ہے تاکہ اس نام کا سننے والا سمجھ لے کہ اس مذہب کا سچے دل سے ماننے والا اور اس پر عمل کرنے والا خدا کا عارف ہے مگر بات یہ ہے کہ اگر انسا ن چاہے کہ ایک دم میں سب کچھ ہوجائے اور معرفتِ الٰہی کے اعلیٰ مراتب پر یک دفعہ پہنچ جائے یہ کبھی نہیں ہوتا.دنیامیں ہر ایک کام تدریج سے ہوتا ہے.دیکھو کوئی علم اورفن ایسا نہیں جس کو انسان تامل اور توقف سے نہ سیکھتا ہو.ضروری ہے کہ سلسلہ وار مراتب کوطے کرے.دیکھو! زمیندار کو زمین میں بیج بوکر انتظار کرنا پڑتا ہے.اوّل وہ اپنی عزیز شے اناج کو زمین میں ڈال دیتاہے جس کو فوراً جانور چُگ جائیں یا مٹی کھالے یاکسی اور طرح ضائع ہوجائے مگر تجربہ اس کو تسلی دیتا ہے کہ نہیں ایک وقت آتا ہے کہ یہ دانے جو اس طرح پر زمین کے سپردکیے گئے ہیں بارور ہوں گے اور یہ

Page 114

کھیت سرسبز لہلہاتا ہوا نظرآئے گا اور یہ خاک آمیختہ بیج رزق بن جائیں گے.اصلاح کے لئے صبر شرط ہے اب آپ غور کریں کہ دنیاوی اور جسمانی رزق کے لئے جس کے بغیر کچھ دن آدمی زندہ بھی رہ سکتا ہے چھ مہینے درکار ہیں.حالانکہ وہ زندگی جس کا مدار جسمانی رزق پر ہے اَبدی نہیں بلکہ فنا ہوجانے والی ہے.پھر رُوحانی رزق جو رُوحانی زندگی کی غذا ہے جس کو کبھی فنا نہیں او روہ ابدالآباد کے لئے رہنے والی ہے.دوچاردن میں کیوں کرحاصل ہو سکتا ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ ایک دم میں جو چاہے کردے اور ہمارا ایمان ہے کہ اس کے نزدیک کوئی چیز اَنہونی نہیں ہے.اسلام نے ایساخدا پیش ہی نہیں کیا جو مثلاً آریوں کے پیش کردہ پرمیشر کی طرح نہ کسی رُوح (جیو)کو پیدا کرسکے نہ مادہ کو اور نہ اپنے طلبگاروں کو اور صادقوں کو سچی شانتی اور ابدی مکتی دے سکے.نہیں بلکہ اسلام نے وہ خدا پیش کیا ہے جو اپنی قدرتوں اور طاقتوں میں بے نظیر اور لاشریک خدا ہے.مگر ہاں اس کا قانون یہی ہے کہ ہرایک کام ایک ترتیب اور تدریج سے ہوتا ہے.اس لیے صبر اور حُسن ظن سے اگر کام نہ لیا جائے تو کامیابی مشکل ہے.مجھے یاد ہے کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ پہلے بزرگ پھونک مار کر آسمان پرپہنچادیتے تھے.مَیں نے کہا کہ تم غلطی کرتے ہو.خدا تعالیٰ کا یہ قانون نہیں ہے.اگر ایک مکان میں فرش کرنے لگو تو پہلے ضروری ہوگا کہ اس میں کوئی حصہ قابلِ مرمت ہو تو اس کی مرمت کرنی پڑے گی اور جہاں جہاں گندگی اور ناپاکی پڑی ہوئی ہوتی ہے اس کو فینائل وغیرہ سے صاف کیا جاتا ہے.غرض بہت سی تدبیروں اور حیلوں کے بعد وہ اس قابل ہو گاکہ اس میں فرش بچھایاجائے.اسی طرح پر انسان کا دل اس سے پیشترکہ خدا تعالیٰ کے رہنے کے قابل ہو وہ شیطان کا تخت ہے اور سلطنتِ شیطان میں ہے.اب دوسری سلطنت کے لئے اس شیطانی سلطنت کا قلع و قمع ضروری ہے.نہایت ہی بدقسمت ہے وہ انسان جو حق کی طلب میں نکلے اور پھر حُسنِ ظن سے کام نہ لے.ایک گِل گو ہی کو دیکھو کہ اس کو مٹی کا برتن بنانے میں کیا کچھ کرنا پڑتا ہے.دھوبی ہی کو دیکھو کہ وہ ایک ناپاک اور میلے کچیلے کپڑے کو جب صاف کرنے لگتا ہے تو کس قدر کام اس کو کرنے پڑتے ہیں.کبھی کپڑے کو

Page 115

بھٹی پر چڑھاتا ہے کبھی اس کو صابن لگا تا ہے.پھر اس کی میل کچیل کو مختلف تدبیروں سے نکالتا ہے.آخر وہ صاف ہوکر سفیدنکل آتا ہے اور جس قدر میل اس کے اندر ہوتی ہے سب نکل جاتی ہے.جب ادنیٰ ادنیٰ چیزوں کے لیے اس قدرصبر سے کام لینا پڑتا ہے تو پھر کس قدر نادان ہے وہ شخص جو اپنی زندگی کی اصلاح کے واسطے اور دل کی غلاظتوں اور گندگیوں کودُور کرنے کے لئے یہ خواہش کرے کہ یہ پھونک مارنے سے نکل جائیں اور قلب صاف ہوجائے.یادرکھو! اصلاح کے لئے صبر شرط ہے.پھر دوسری بات یہ ہے کہ تزکیہ اخلاق اور نفس کا نہیں ہوسکتا جب تک کہ کسی مزکی نفس انسان کی صحبت میں نہ رہے.اوّل دروازہ جو کھلتا ہے وہ گندگی دُور ہونے سے کھلتا ہے.جن پلید چیزوں کو مناسبت ہوتی ہے وہ اندر رہتی ہیں.لیکن جب کوئی تریاقی صحبت مل جاتی ہے تو اندرونی پلیدی رفتہ رفتہ دُور ہونی شروع ہوتی ہے کیونکہ پاکیزہ رُوح کے ساتھ جس کو قرآن کریم اور اسلام کی اصطلاح میں رُوح القدس کہتے ہیں اس کے ساتھ تعلق نہیں ہوسکتا جب تک کہ مناسبت نہ ہو.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ تعلق کب تک پیدا ہو جاتا ہے.ہاں! ’’خاک شوپیش ازانکہ خاک شوی‘‘ پر عمل ہونا چاہیے.اپنے آپ کو اس راہ میں خاک کردے اور پورے صبر اور استقلال کے ساتھ اس راہ میں چلے.آخر اللہ تعالیٰ اس کی سچی محنت کو ضائع نہیں کرے گا.اور اس کو وہ نور اور روشنی عطاکرے گا جس کا وہ جو یا ہوتا ہے.میں تو حیران ہوجاتا ہوں اور کچھ سمجھ میں نہیںآتا کہ انسان کیوں دلیری کرتا ہے جبکہ وہ جانتا ہے کہ خداہے.مجاہدہ مَیں نے جس شخص کا ذکر کیا ہے کہ اس نے مجھ سے کہا کہ پہلے بزرگ پھونک مارکر غوث و قطب بنادیتے تھے میں نے اس کو یہی کہا کہ یہ دُرست نہیں ہے.یہ خدا تعالیٰ کا قانون نہیں ہے.تم مجاہدہ کرو.تب اللہ تعالیٰ اپنی راہیں تم پر کھولے گا.اس نے کچھ توجہ نہ کی اور چلاگیا.ایک مدت کے بعد وہ پھر میرے پاس آیا تو اس کو اس پہلی حالت سے بھی اَبتر پایا.غرض انسان کی بدقسمتی یہی ہے کہ وہ جلدی کا قانون تجویز کرلیتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ جلدی کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قانون میں تو تدریج اور ترتیب ہے تو گھبرااُٹھتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دہریہ ہوجاتا

Page 116

ہے.دہریت کا پہلا زینہ یہی ہے.میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ یا تو بڑے بڑے دعوے اور خواہشیں پیش کرتے ہیں کہ یہ ہوجائیں اور وہ بن جائیں اور یا پھر آخر ارزل زندگی کو قبول کرلیتے ہیں.ایک شخص میرے پاس کچھ مانگنے آیا.جوگی تھا.اس نے کہا کہ مَیں فلاں جگہ گیا.فلاں مرد کے پاس گیا.آخر اس کی حالت اور اندازِ گفتگو سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ مانگ کر گزارہ کرلینا چاہیے.اصل اور سچی بات یہی ہے کہ صبر سے کام لیا جائے.سعدی نے کیا خوب کہا ہے.؎ گر نباشد بہ دوست راہ بُردن شرطِ عشق ست در طلب مُردن اللہ تعالیٰ تو اخیر حدتک دیکھتاہے.جس کو کچا اورغدار دیکھتا ہے وہ اس کی جناب میں راہ نہیں پاسکتا.؎ طلب گار باید صبور و حمول کہ نشنیدہ ام کیمیا گر ملُول کیمیا گرباوجودیکہ جانتا ہے کہ اب تک کچھ بھی نہیں ہوا لیکن پھر بھی صبر کے ساتھ اس پھونکا پھانکی میں لگا ہی رہتا ہے.میر امطلب اس سے یہی ہے کہ اول صبر کی ضرورت ہے جس کے ساتھ اگر رُشد کا مادہ ہے تو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا.اصل غرض تو یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے محبت پیدا ہو.لیکن مَیں کہتا ہوں کہ محبت تو ایک دوسرا درجہ ہے یا نتیجہ ہے.سب سے اوّل تو ضروری یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر بھی یقین پیدا ہو.اس کے بعد رُوح میں خود ایک جذب پیدا ہوجاتا ہے جو خود بخود اللہ تعالیٰ کی طرف کھچی چلی آتی ہے.جس جس قدر معرفت اور بصیرت بڑھے گی اسی قدر لذّت اور سُرور بڑھتا جائے گا.معرفت کے بغیر تو کبھی لذّت پید انہیں ہوسکتی.ذوق شوق کا اصل مبدا تو معرفت ہی ہے.معرفت معرفت ہی ایک شے ہے جس سے محبت پیدا ہوتی ہے.معرفت اور محبت کے اجتماع سے جو نتیجہ پیدا ہوتا ہے وہ سرور ہوتا ہے.یاد رکھو کہ کسی خوبصورتی کا محض دیکھ لینا ہی تو محبت پیدا نہیں کر سکتاجب تک اس کے متعلق معرفت نہ ہو.یقیناً سمجھو کہ محبت بدوں معرفت کے محال ہے.جو محبوب ہے اس کی معرفت کے بغیر محبت کیا؟ یہ ایک خیالی بات ہے.بہت سے لوگ

Page 117

ہیں جو ایک عاجز انسان کو خدا سمجھ لیتے ہیں.بھلا وہ خدا میں کیا لذّت پا سکتے ہیں.جیسے عیسائی ہیں کہ حضرت مسیحؑ کو خدا بنا رہے ہیں اور اس پر خدا محبت ہے، خدا محبت ہے، پکارتے پھرتے ہیں.ان کی محبت حقیقی محبت نہیں ہو سکتی.ایک ادعا ئی اور خیالی محبت ہے جب کہ خدا تعالیٰ کی بابت ان کو سچی معرفت ہی نصیب نہیں ہوئی.محبت الٰہی کے ذرائع عقیدہ کی تصحیح.نیک صحبت.معرفت.صبروحُسنِ ظن.دعا پس سب سے پہلے پھر یہ ضروری ہے کہ اوّل تصحیح عقیدہ کرے.ہندو کچھ اور پیش کرتے ہیں.عیسائی کچھ اور ہی دکھاتے ہیں.چینی کسی اور خدا کو پیش کرتے ہیں.مسلمانوں کا وہی خدا ہے جس کو انہوں نے قرآن کے ذریعہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.جب تک اس کو شناخت نہ کیا جائے خدا کے ساتھ کوئی تعلق اور محبت پیدا نہیں ہوسکتی.نرے دعوے سے تو کچھ نہیں بنتا.۱ پس جب عقیدہ کی تصحیح ہوجاوے تو دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ نیک صحبت میں رہ کر اس معرفت کو ترقی دی جاوے اور دعا کے ذریعہ بصیرت مانگی جاوے.جس جس قدر معرفت اور بصیرت بڑھتی جاوے گی اسی قدر محبت میں ترقی ہوتی جائے گی.یادرکھنا چاہیے کہ محبت بدوں معرفت کے ترقی پذیر نہیں ہوسکتی.دیکھو! انسان ٹین یالوہے کے ساتھ اس قدر محبت نہیں کرتا جس قدرتانبے کے ساتھ کرتا ہے.پھر تانبے کو اس قدر عزیز نہیں رکھتا جتنا چاندی کو رکھتا ہے اور سونے کو اس سے بھی زیادہ محبوب رکھتا ہے اور ہیرے اور دیگر جواہرات کو اور بھی عزیز رکھتا ہے.اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ اس کو ایک معرفت ان دھاتوں کی بابت ملتی ہے جو اس کی محبت کو بڑھاتی ہے.پس اصل بات یہی ہے کہ محبت میں ترقی اور قدروقیمت میں زیادتی کی وجہ معرفت ہی ہے.اس سے پیشتر کہ انسان سرور اور لذّت کا خواہشمند ہو اُس کو ضروری ہے کہ وہ معرفت حاصل کرے لیکن سب سے ضروری امر جس پر ان سب باتوں کی بنیاد ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴ ؍ مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۹ تا ۱۱

Page 118

رکھی جاتی ہے.وہ صبر اور حُسنِ ظن ہے.جب تک ایک حیران کردینے والا صبر نہ ہو کچھ بھی نہیں ہوسکتا.جب انسان محض حق جوئی کے لئے تھکانہ دینے والے صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سعی اور مجاہدہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنے وعدہ کے موافق اس پرہدایت کی راہ کھول دیتا ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ( العنکبوت: ۷۰) یعنی جو لوگ ہم میں ہوکر سعی اور مجاہدہ کرتے ہیں آخر ہم ان کو اپنی راہوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں.اُن پر دروازے کھولے جاتے ہیں.یہ سچی بات ہےکہ جو ڈھونڈتے ہیں وہ پاتے ہیں.کسی نے خوب کہا.ع اے خواجہ درد نیست وگرنہ طبیب ہست خدا جوئی کے آداب ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جو شخص ہمارے پاس آتا ہے اور کھڑا کھڑا بات کرکے چل دیتا ہے وہ گویا خدا سے ہنسی کرتا ہے.یہ خدا جوئی کا طریق نہیں ہے اور نہ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کا قانون مقرر کیا ہے.پس اوّل شرط خدا جوئی کے لئے سچی طلب ہے.دوسری صبر کے ساتھ اس طلب میں لگے رہنا.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے اسی قدر تجربہ بڑھتا جاتا ہے.پھر معرفت کے لئے زیادہ دیر تک صحبت میں رہنا ضروری ہوا یا نہیں؟ مَیں نے بہت سے آدمی دیکھے ہیں جو اپنی اوائل عمر میں دنیا کو ترک کرتے اور چیختے اورچلّاتے ہیں.آخر اُن کا انجام یہ دیکھا گیا کہ وہ دنیا میں منہمک پائے گئے اور دنیا کے کیڑے بن گئے.دیکھو! بعض درختوں کو سنَیرو پھل لگا کرتے ہیں جیسے شہتوت کے درخت کو عارضی طور پر ایک پھل لگتا ہے آخر وہ سارے کا سار اگر جاتاہے.اس کے بعد اصل پھل آتا ہے.اسی طرح پر خدا جوئی بھی عارضی طور پر اندر پیدا ہوتی ہے.اگر صبر اور حسنِ ظن کے ساتھ صدق قدم نہ دکھایا جاوے تو وہ عارضی جوش ایک وقت میں آکر یہی نہیں کہ فروہوجاتا ہے بلکہ ہمیشہ کے لئے دل سے محو ہوجاتا ہے اور دنیا کا کیڑا بنادیتا ہے لیکن اگر صدق و ثبات سے کام لیا جاوے تو اس عارضی جوش اور حق جوئی کی پیاس کے بعد واقعی اور حقیقی طور پر ایک طلب اور خواہش پید اہوتی ہے جو دن بدن ترقی کرتی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی راہ میں اگر مشکلات اور مصائب کا پہاڑ بھی آجائے تو وہ

Page 119

رکھی جاتی ہے.وہ صبر اور حُسنِ ظن ہے.جب تک ایک حیران کردینے والا صبر نہ ہو کچھ بھی نہیں ہوسکتا.جب انسان محض حق جوئی کے لئے تھکانہ دینے والے صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سعی اور مجاہدہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنے وعدہ کے موافق اس پرہدایت کی راہ کھول دیتا ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ( العنکبوت: ۷۰) یعنی جو لوگ ہم میں ہوکر سعی اور مجاہدہ کرتے ہیں آخر ہم ان کو اپنی راہوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں.اُن پر دروازے کھولے جاتے ہیں.یہ سچی بات ہےکہ جو ڈھونڈتے ہیں وہ پاتے ہیں.کسی نے خوب کہا.ع اے خواجہ درد نیست وگرنہ طبیب ہست خدا جوئی کے آداب ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جو شخص ہمارے پاس آتا ہے اور کھڑا کھڑا بات کرکے چل دیتا ہے وہ گویا خدا سے ہنسی کرتا ہے.یہ خدا جوئی کا طریق نہیں ہے اور نہ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کا قانون مقرر کیا ہے.پس اوّل شرط خدا جوئی کے لئے سچی طلب ہے.دوسری صبر کے ساتھ اس طلب میں لگے رہنا.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے اسی قدر تجربہ بڑھتا جاتا ہے.پھر معرفت کے لئے زیادہ دیر تک صحبت میں رہنا ضروری ہوا یا نہیں؟ مَیں نے بہت سے آدمی دیکھے ہیں جو اپنی اوائل عمر میں دنیا کو ترک کرتے اور چیختے اورچلّاتے ہیں.آخر اُن کا انجام یہ دیکھا گیا کہ وہ دنیا میں منہمک پائے گئے اور دنیا کے کیڑے بن گئے.دیکھو! بعض درختوں کو سنَیرو پھل لگا کرتے ہیں جیسے شہتوت کے درخت کو عارضی طور پر ایک پھل لگتا ہے آخر وہ سارے کا سار اگر جاتاہے.اس کے بعد اصل پھل آتا ہے.اسی طرح پر خدا جوئی بھی عارضی طور پر اندر پیدا ہوتی ہے.اگر صبر اور حسنِ ظن کے ساتھ صدق قدم نہ دکھایا جاوے تو وہ عارضی جوش ایک وقت میں آکر یہی نہیں کہ فروہوجاتا ہے بلکہ ہمیشہ کے لئے دل سے محو ہوجاتا ہے اور دنیا کا کیڑا بنادیتا ہے لیکن اگر صدق و ثبات سے کام لیا جاوے تو اس عارضی جوش اور حق جوئی کی پیاس کے بعد واقعی اور حقیقی طور پر ایک طلب اور خواہش پید اہوتی ہے جو دن بدن ترقی کرتی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی راہ میں اگر مشکلات اور مصائب کا پہاڑ بھی آجائے تو وہ تب آخری اینٹ بھی خدا ہی

Page 120

Page 121

کیونکہ وہ قسم قسم کی ظلمتوں اور تاریکیوں اور راستہ کی مشکلات میں پھنسا ہواہوتا ہے لیکن جب اس کی روشنی اس پر چمکتی ہے تو اس کا دل و دماغ روشن ہوجاتا ہے اور وہ نور سے معمور ہوکر برق کی رفتار سے خدا کی طرف چلتا ہے.حق جُو.حضور مَیں مذہب کا پابند نہیں ہوں.حضرت اقدسؑ.اگر کوئی اپنی جگہ یہ فیصلہ کرکے آوے کہ مَیں نے کچھ ماننا ہی نہیں تو اس کو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اور کہیں بھی کیا.لیکن اگر کوئی عقل رکھتا ہے تو اضطراراً اس کو ایک راہ پیدا کرنی پڑتی ہے.مذہب کیا ہے؟ مذہب کیا ہے؟ وہی راہ ہے جس کو وہ اپنے لئے اختیار کرتا ہے.مذہب تو ہر شخص کو رکھنا پڑتا ہے لامذہب انسان جو خدا کو نہیں مانتا اس کو بھی ایک راہ اختیار کرنی لازمی ہے اور وہی مذہب ہے.مگر ہاں امر غور طلب یہ ہونا چاہیے کہ جس راہ کو اختیار کیا ہے، کیا وہ راہ وہی ہے جس پر چل کر اس کو سچی استقامت اور دائمی راحت اور خوشی اور ختم نہ ہونے والا اطمینان مل سکتا ہے؟ دیکھو!مذہب تو ایک عام لفظ ہے.اس کے معنے چلنے کی جگہ یعنی راہ کے ہیں اور یہ دین کے ساتھ مخصوص نہیں ہے.ہر قسم کے علوم وفنون طبقات الارض ، طبعی ، طبابت ، ہیئت وغیرہ میں بھی ان علوم کے ماہرین کا ایک مذہب ہوتا ہے.اس سے کسی کو چارہ ہوسکتا ہی نہیں.یہ تو انسان کے لئے لازمی امر ہے اس سے باہر ہونہیں سکتا.پس جیسے انسان کی رُوح جسم کو چاہتی ہے.معانی الفاظ اور پیرا یہ کو چاہتے ہیں.اسی طرح انسان کو مذہب کی ضرورت ہے.ہماری یہ غرض نہیں ہے اور نہ ہم یہ بحث کرتے ہیں کہ کوئی اللہ کہے یا گاڈ کہے یا پرمیشر.ہمارا مقصد تو صرف یہ ہے کہ جس کو وہ پکارتا ہے اس نے اس کوسمجھاکیا ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ کوئی نام لو مگر یہ بتاؤ کہ تم اسے کہتے کیا ہو؟ اس کے صفات تم نے کیا قائم کئے ہیں؟ صفاتِ الٰہی کا مسئلہ ہی تو بڑا مسئلہ ہے جس پر غور کرنا چاہیے.حق جُو.میں یہ سمجھتا ہوں کہ مذہب کا کام فطرت کو درست کرنا ہے.حضرت اقدس ؑ.اس وقت کوئی بادشاہ ہے.مثلاً شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم ہے.اب اگر کسی اور کو

Page 122

کہیں بھی توتکلّفات سے کہیں گے ، مگر ہو نہیں سکتا.ہم یہی تو چاہتے ہیں کہ اس حقیقی خدا کو شناخت کیا جاوے اور باقی سب تکلّفات چھوڑدیئے جائیں اس کا نام فطرت کی درستی ہے.اسلام دین فطرت ہے اسلام ہے کیا؟اسلام کاتو نام ہی اللہ تعالیٰ نے فطرتُ اللہ رکھا ہے.فطرتی مذہب اسلام ہی ہے.مگر ان باتوںکی حقیقت کب کھلتی ہے؟ جب انسان صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ کسی پاک صحبت میں رہے.ثابت قدمی میں بڑی برکتیں ہوتی ہیں.شہد ہی کی مکھی کو دیکھو کہ جب وہ ثابت قدمی اور محنت کے ساتھ اپنے کام میں لگتی ہے تو شہد جیسی نفیس اور کارآمد شے طیارکرلیتی ہے.اسی طرح پر جو خدا کی تلاش میں استقلال سے لگتا ہے وہ اس کو پالیتا ہے.نہ صرف پالیتا ہے بلکہ میرا تو یہ ایمان ہے کہ وہ اُس کو دیکھ لیتا ہے.ارضی علوم کی تحصیل میں کس قدر وقت اور روپیہ صرف کرنا پڑتا ہے.یہ علوم روحانی علوم کی تحصیل کے قواعد کو صاف طور پر بتارہے ہیں.ہمارا مذہب جوروحانی علوم کے مبتدی کے لئے ہوناچاہیے یہ ہے کہ وہ پہلے خدا کی ہستی پھر اس کی صفات کی واقفیت پیدا کرے ایسی واقفیت جو یقین کے درجہ تک پہنچ جاوے.تب اللہ تعالیٰ کی ذات اور اُس کی صفاتِ کاملہ پر اس کو اطلاع مل جاوے گی اور اس کی رُوح اندر سے بول اُٹھے گی کہ پورے اطمینان کے ساتھ اُس نے خدا کو پالیا ہے.جب اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایسا ایمان پیدا ہوجاوے کہ وہ یقین کے درجہ تک پہنچ جاوے اور انسان محسوس کرلے کہ اس نے گویا خدا کو دیکھ لیا ہے اور اس کی صفات سے واقفیت ہوجاوے تو گناہ سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور طبیعت جو پہلے گناہ کی طرف جھکتی تھی اب ادھرسے ہٹتی اور نفرت کرتی ہے اور یہی توبہ ہے.اور یہ بات کہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کے بعد طبیعت گناہ سے متنفر ہوجاتی ہے یہ بات آسانی اور صفائی سے سمجھ میں آسکتی ہے.دیکھو! سنکھیا ہے یا اور زہریں ہیں یا بعض زہریلے جانور ہیں انسان اُن سے کیوں ڈرتاہے؟ صرف اس لیے کہ تجربہ نے بتادیا ہے کہ اس درجہ پر یہ زہر ہلاک کردیتے ہیں.بہتوں کو زہر کھاکر ہلاک ہوتے دیکھا ہے اسی لیے طبیعت اس طرف جا نہیں سکتی بلکہ ڈرتی ہے.جب کہ یہ بات ہے پھر کیا وجہ ہے کہ قسم قسم کے گناہ سرزد ہوتے ہیں یہاں تک کہ اگر راستہ میں

Page 123

ایک پیسہ پڑا ہوا ہو تو جھک کر اس کو اُٹھالے گا حالانکہ تھوڑے سے اعلان سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ پیسہ کس کا ہے.میں نے دیکھاہے کہ بارہ بارہ آنہ پر معصوم بچوں کی جانیں لی جاتی ہیں.عدالتوں میں جاکر دیکھو کس قدر خوفناک اور تاریک نظارہ نظرآئے گا.تھوڑی تھوڑی بات پر جھوٹ بولا جاتا ہے.فسق وفجور کا ایک دریا بہہ رہا ہے.یہ کیوں؟ صرف اس لیے کہ خدا پر ایمان نہیں ہے.سانپوں اور زہروں سے ڈرتے ہیں.اس لیے کہ اُن کو مہلک مانتے ہیں اور اُن کے خطرناک ہونے پر ایمان ہے.اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل ہو تو میں نہیں سمجھتا کہ کیوں گناہ سے نفرت پیدا نہ ہو.نیکی کے دوپہلو انسان کے لئے دو باتیں ضروری ہیں.بدی سے بچے اور نیکی کی طرف دوڑے.اور نیکی کے دو پہلو ہوتے ہیں.ایک ترک شر دوسرا افاضۂ خیر.ترکِ شر سے انسان کامل نہیں بن سکتا جب تک اس کے ساتھ افاضۂ خیر نہ ہو یعنی دوسروں کو نفع بھی پہنچائے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ کس قدر تبدیلی کی ہے اور یہ مدارج تب حاصل ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات پر ایمان ہواور اُن کا علم ہو.جب تک یہ بات نہ ہو انسان بدیوں سے بھی بچ نہیں سکتا دوسروں کو نفع پہنچانا تو بڑی بات ہے.بادشاہوں کے رُعب اور تعزیرات ِ ہند سے بھی تو ایک حد تک ڈرتے ہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے پھر کیوں اَحْکَمُ الْـحَاکِمِیْن کے قوانین کی خلاف ورزی میں دلیری پیدا ہوتی ہے.کیا اس کی کوئی اور وجہ ہے بجز اس کے کہ اُس پر ایمان نہیں ہے؟ یہی ایک باعث ہے.الغرض بدیوں سے بچنے کا مرحلہ تب طے ہوتاہے جب خدا پر ایمان ہو.پھر دوسرا مرحلہ یہ ہونا چاہیے کہ اُن راہوں کی تلاش کرے جو خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں نے اختیار کیں.وہ ایک ہی راہ ہے جس پر جس قدر راستباز اور برگزیدہ انسان دنیا میں چل کر خدا تعالیٰ کے فیض سے فیضیاب ہوئے.اس راہ کا پتہ یوں لگتا ہے کہ انسان معلوم کرے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ پہلا مرحلہ بدیوں سے بچنے کا تو خدا تعالیٰ کی جلالی صفات کی تجلی سے حاصل ہوتا ہے کہ وہ بدکاروں کا دشمن ہے.اور دوسرا مرتبہ خدا تعالیٰ کی جمالی تجلی سے ملتا ہے اور آخر یہی ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف

Page 124

سے قوت اور طاقت نہ ملے جس کو اسلامی اصطلاح کے موافق رُوح القُدس کہتے ہیں کچھ بھی نہیں ہوتا ہے.یہ ایک قوت ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے.اُس کے نزول کے ساتھ ہی دل میں ایک سکینت آتی ہے اور طبیعت میں نیکی کے ساتھ ایک محبت اور پیار پیدا ہوجاتا ہے.جس نیکی کو دوسرے لوگ بڑی مشقت اور بوجھ سمجھ کر کرتے ہیں یہ ایک لذّت اور سُرور کے ساتھ اس کو کرنے کی طرف دوڑتا ہے.جیسے لذیذ چیز بچہ بھی شوق سے کھالیتا ہے.اسی طرح جب خدا تعالیٰ سے تعلق ہوجاتا ہے اور اس کی پاک رُوح اس پر اُترتی ہے پھر نیکیاں ایک لذیذ اور خوشبو دار شربت کی طرح ہوتی ہیں.وہ خوبصورتی جو نیکیوں کے اندر موجود ہے اس کو نظر آنے لگتی ہے اور بے اختیار ہوہوکر ان کی طرف دوڑتا ہے.بدی کے تصور سے بھی اُس کی رُوح کانپ جاتی ہے.یہ اُمور اس قسم کے ہیں کہ ہم اُن کو الفاظ کے پیرایہ میں پورے طور سے ادا نہیں کرسکتے کیونکہ یہ قلب کی حالتیں ہوتی ہیں.محسوس کرنے سے ہی اُن کا ٹھیک پتہ لگتا ہے.اس وقت تازہ بتازہ اَنوار اس کو ملتے ہیں.۱ رقّتِ قلب انسان صرف اس بات پر ہی ناز نہ کرے اور اپنی ترقی کی انتہا اسی کو نہ سمجھ لے کہ کبھی کبھی اس کے اندر رقّت پید اہوجاتی ہے.یہ رقّت عارضی ہوتی ہے.انسان اکثر دفعہ ناول پڑھتا ہے اور اس کے درد انگیز حصہ پر پہنچ کربے اختیار روپڑتا ہے حالانکہ وہ صاف جانتا ہے کہ یہ ایک جھوٹی اور فرضی کہانی ہے.پس اگر محض روپڑنا یا رقّت کا پید اہوجانا ہی حقیقی سُرور اور لذّت کی جڑ ہوتی ہے تو آج یورپ سے بڑھ کرکوئی بھی رُوحانی لذّت حاصل کرنے والا نہ ہوتا کیونکہ ہزار ہا ناول شائع ہوتے اور لاکھوں کروڑوں انسان پڑھ کر روتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں ایک بات موجود ہے کہ ہنسی کے مقام پر ہنس پڑتا ہے اور رونے کے مقام پر رو بھی پڑتا ہے اور اُن سے مناسب موقع پر ایک لذّت بھی اُٹھاتا ہے مگر یہ کوئی

Page 125

لذّت روحانی فیصلہ نہیں کرسکتی ہے.کوئی کسی عورت پر عاشق ہوجاتا ہے اور اپنے فسق ہی میں اُس کے ہجر کے شعر بنابناکر خوش ہوتا ہے اور روتا ہے.انسان کے اندر ایک طاقت ہے خواہ اُس کو محل پر استعمال کرے یا بے محل.پس اس طاقت پر ہی بھروسہ کرکے نہ بیٹھ رہے.اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت اس لیے رکھی ہے کہ سچے سائل محروم نہ ہوں اور جب یہ برمحل استعمال ہو تو ان کے لئے آنے والے رُوحانی مدارج کا ایک مقدمہ ہو اور یہ قویٰ کاکام دے.غرض یہ اُمور کہ کبھی روپڑنا اور کبھی دنیا کی دوسری چیزوں اور تعلقات سے انقطاع کرنا یہ عارضی ہوتے ہیں اُن پر اعتبار کرکے بے دست و پانہ بنے.سچی معرفت کی بنیاد وہ امور جن پر سچی معرفت کی بنا ہے یہ ہیں کہ وہ خد اکی راہ میں اگر باربار آزمایا جائے اور مصائب اور مشکلات کے دریا میں ڈالا جائے.تب بھی ہرگز نہ گھبرائے اور قدم آگے ہی بڑھائے.اس کے بعد اُس کی معرفت کا انکشاف ہوتا ہے اور یہی سچی نعمت، حقیقی راحت ہوتی ہے.اس وقت دل میں ایک رِقّت پیدا ہوتی ہے مگر یہ رقّت عارضی نہیں ہوتی بلکہ سُرور اور لذّت سے بھری ہوئی ہوتی ہے.رُوح پانی کے ایک مصفّٰی چشمہ کی طرح خدا کی طرف بہتی ہے.مدعا یہ ہے کہ سمندر کے پہلے ایک سراب آتا ہے وہ بھی سمندر ہی نظر آتا ہے.جو سراب کو دھوکا سمجھ کر آگے چلنے سے رہ جاتا اور مایوس ہوکر بیٹھ جاتا ہے وہ ناکام اور نامراد رہتا ہے لیکن جو ہمت نہیں ہارتا اور قدم آگے بڑھاتا ہے وہ منزلِ مقصود پر پہنچ جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے مختلف کیفیتیں انسانی روح کے اندر رکھی ہوئی ہیں.اُن میں سے اس رقّت کی بھی ایک کیفیت ہے.کوئی فقط شعر خوانی یا خوش الحانی ہی سے متاثر ہوجاتا ہے.کوئی آگے چلتا ہے اور ان پر قانع نہ ہوکر صبر کے ساتھ اصل مرحلہ تک پہنچتا ہے.یہ یادرکھو کہ سچائی کے طالب کے واسطے یہ شرط ہے کہ جہاں سے اسے سچائی ملے لے لے.یہ ایک نور ہے جو اس کی رہبری کرتاہے.اس وقت دنیا میں ایک کشاکش شروع ہے.آریہ اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہیں.برہمو الگ بُلاتے ہیں.دیو سماج والے اپنی ہی طرف دعوت کرتے ہیں.عیسائی ہیں وہ عیسائیت ہی کو پیش کرتے ہیں.غرض ہر قوم اپنی

Page 126

طرف کھینچتی ہے.اُن کے درمیان اختلاف کا دائرہ بہت ہی وسیع ہوتا جاتا ہے.ہماری دعوت.خدا کی تلاش مگرہم جس بات کی دعوت کرتے ہیں اور جو کسی سچائی کے طلب گار کو بتلا سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ خدا کی تلاش کرے.مثلاً آریہ ہیں وہ تمام قدّوسوں اورراستبازوں کو گالیاں دیتے ہیں.ان کے نزدیک سچے سے سچا پریمی اور بھگت بھی کبھی نجات نہیں پاسکتا.اُن کے اُصول کے موافق خدا نے ایک ذرّہ بھی پیدا نہیں کیا.اب بتاؤ کہ ایسے پرمیشر پر جو وہ پیش کرتے ہیں کسی سچے طالب کی امید کیوں کر وسیع ہوسکتی ہے اور کیوں کر خدا کا جلال اور شوکت اُس کی روح پر ایک رقّت پیدا کرکے گناہ کی طرف جانے سے بچا سکتی ہے.جب وہ خیال کرتا ہے کہ اس نے تو میرے وجود کا ایک ذرّہ بھی پید انہیں کیا پھر جب یہ مانا گیا کہ وید کے سوا خدا نے کسی اور ملک کو اپنے کلام سے فیض ہی نہیں بخشا تو کس قدر مایوسی پیدا ہوتی ہے.الغرض ہماری نصیحت تو یہی ہے کہ جو سچائی کی تلاش میں قدم رکھتا ہے اس کی غرض اور غایت خدا کی تلاش ہو.پھر معارف اور حقائق کا دریا بہہ نکلتا ہے جب اس کو سچے خد اپر جو ایک ہی خدا ہے سچا ایمان پیداہوجائے.حقائق اور معارف کا تعلق علوم سے ہے یاد رکھو حقائق اور معارف کا تعلق علوم سے ہے.جس قدر معرفت وسیع ہوگی حقائق کھلتے جائیں گے.پس تحقیقات کرتے وقت دل کو بالکل پاک اور صاف کرکے کرے.جس قدر دل تعصّب اور خود غرضی سے پاک ہو گا اسی قدر جلد اصل مطلب سمجھ میں آجائے گا.نور اور ظلمت میں جو فرق ہے اسے ایک جاہل سے جاہل انسان بھی جانتا ہے.سچی اور صحیح بات ایک ہی ہوتی ہے.پس دو لفظوں میںمیری ساری تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدھا خط دو نقطوں میں ایک ہی ہوتا ہے.یہ اُمور ہیں جو قابلِ غور ہیں.آپ یہاں رہیں اور صبر واستقلال سے ٹھہریں.خد اکے فضل سے کچھ بعید نہیں ہے کہ آپ کو اس راہ کا پتہ ملے جو کروڑ ہا مقدس انسانوں کا تجربہ شدہ ہے اور اب بھی جس کے تجربہ کارموجود ہیں.

Page 127

حق جُو کا حضرت اقدسؑ سے خلوص وعقیدت کا اظہار حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس تقریر کو یہاں ختم کیا.حق جُو صاحب کچھ عرصہ تک قادیان میں رہے.انہوں نے حضرت اقدس کی صحبت میں رہ کر جو فائدہ اُٹھایا.اُس کے اظہار کے لئے ہم اُن کے ایک خط کو جو اُنہوں نے لاہور سے ہمارے نام بھیجا ہے یہاں درج کرتے ہیں.مکرمی جناب شیخ صاحب.تسلیم (۱)میری بے اَدبی معاف فرماویں.مَیں قادیان سے اچانک کچھ وجوہات رکھنے پر چلا آیا.میں اب یہاں سوچوں گا کہ مجھے اپنی زندگی پَرلوک کے لئے کس پہلو میں گزارنی ہے.میں آپ کی جماعت کی جدائی سے تکلیف محسوس کررہا ہوں.(۲) میں حضرت جی کے اخلاص کا حددرجہ مشکور ہوں اور جو کچھ رُوحانی دان مجھے نصیب ہوا اور جو کچھ مجھ پر ظاہر ہوا اُس کے لئے نہایت ہی مشکور ہورہا ہوں.مگر افسوس ہے دنیا میں سخت اندھکار ہے اور میں ایک ایک قدم پر گررہا ہوں.سوائے صحبت کے اس حالت کو قائم رکھنامیرے لئے بہت کٹھن (دشوار )ہے.(۳) اس بات پر میر ایقین ہے کہ بے شک حضرت صاحب روحانی بھلائی کے طالبوں کے لئے اعلیٰ نمونہ ہیں اور ان کی صحبت میں مستقل طور پر رہنا بڑا ضروری ہے.دنیا کی حالت ایسی ہے کہ موتیوں کو کیچڑ میں پھینکتے ہیں اورکوڑیاں جمع کرتے ہیں اور جو شخص موتی سنبھالنے لگے اس کے سر پر مٹی پھینک دیتے ہیں.ہائے افسوس کہ وہ کوڑیوں کو بھی موتی سمجھے بیٹھے ہیں.میں سخت گھبرایا ہوا ہوں.ہاں میں کیا کروں اور کدھر جاؤں.میری حالت بہت بُری ہے.تمام جماعت کی خدمت میں آداب.خصوصاً حضرت صاحب کی خدمت میں مؤدبانہ آداب عرض فرماویں اور میرے لیے حضرت صاحب اور تمام جماعت سے دعا کراویں.آپ کا نیاز مند وزیرسنگھ

Page 128

یہ خط حضرت اقدس ؑ کے حضور پڑھ کر سنادیا گیا.آنحضرت علیہ السلام نے ایڈیٹر الحکم کو مندرجہ ذیل جواب لکھ دینے کا حکم دیا.صبراوراستقلال کے ساتھ جب تک کوئی ہماری صحبت میں نہ رہے وہ فائدہ نہیں اُٹھاسکتا.ان کو چاہیے کہ وہ یہاں آجائیں اور ایک عرصہ تک ہمارے پاس رہیں.۱ ۷؍ مارچ ۱۹۰۱ء الہامات اور حدیث النفس میں امتیاز الہامات کے متعلق ذکر تھا کہ اس میں بہت مشکلات پڑتے ہیں.فرمایا.بعض لوگ حدیث النفس اور شیطان کے القا کو الہام الٰہی سے تمیز نہیں کرسکتے اور دھوکا کھا جاتے ہیں.خدا کی طرف سے جو بات آتی ہے وہ پُر شوکت اور لذیذ ہوتی ہے.دل پر ایک ٹھوکر مارنے والی ہوتی ہے.وہ خدا کی انگلیوں سے نکلی ہوئی ہوتی ہے.اس کا ہم وزن کوئی نہیں.وہ فولاد کی طرح دل میں گرنے والی ہوتی ہے.جیسا قرآن شریف میں آیا ہے اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيْلًا( المزّمل : ۶) ثقیل کے یہی معنے ہیں مگر شیطان اور نفس کا القا ایسا نہیں ہوتا.حدیث النفس اور شیطان گویا ایک ہی ہیں.انسان کے ساتھ دو قوتیں ہمیشہ لگی ہوئی ہیں.ایک فرشتے اور دوسرے شیطان.گویا اس کی ٹانگوں میں دو۲ رسّے پڑے ہوئے ہیں.فرشتہ نیکی میں ترغیب اور مدددیتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے اَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ ( المجادلۃ : ۲۳ ) اور شیطان بدی کی طرف ترغیب دیتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے يُوَسْوِسُ ( النّاس : ۶ )ان دونوں کا انکار نہیںہوسکتا.ظلمت اور نور ہر دو ساتھ لگے ہوئے ہیں.عدمِ علم سے عدمِ شے ثابت نہیں ہوسکتا.ماسوائے اس عالم کے اور ہزاروں عجائبات ہیں.گو لَا یُدْرَکْ ہوں.قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ( النّاس : ۲)میں شیطان کے ان وساوس کا ذکر ہے جو کہ وہ لوگوں کے درمیان ان دنوں ڈال رہا ہے.بڑا وسوسہ یہ ہے کہ ربوبیت کے متعلق غلطیاں ڈالی ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷ ؍ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۱ ، ۱۲

Page 129

جائیں.جیساکہ امیرلوگوں کے پاس بہت مال و دولت دیکھ کر انسان کہے کہ یہی پرورش کرنے والے ہیں.شیطانی وساوس کا علاج اس واسطے حقیقی رَبُّ النَّاسِ کی پناہ چاہنے کے واسطے فرمایا.پھر دُنیوی بادشاہوں اور حاکموں کو انسان مختارِ مطلق کہنے لگ جاتا ہے.اس پر فرمایا کہ مَلِکِ النَّاسِ( النّاس : ۳) اللہ ہی ہے.پھر لوگوں کے ان وساوس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ مخلوق کو خدا کے برابر ماننے لگ پڑتے ہیں اوران سے خوف و رجا رکھتے ہیں.اس واسطے اِلٰہِ النَّاسِ فرمایا.یہ تین وساوس ہیں.ان کے دُور کرنے کے واسطے یہ تین تعویذ ہیں اور ان وساوس کے ڈالنے والا وہی خناس ہے، وہی جس کا نام توریت میں زبانِ عبرانی کے اندر ناحاش آیا ہے جو حوّا کے پاس آیا تھا چھپ کر حملہ کرنے والا.اس سورۃ میں اسی کا ذکر ہے اس سے معلوم ہوا کہ دجّال بھی جبر نہیں کرے گا بلکہ چھپ کر حملہ کرے گا تاکہ کسی کو خبر نہ ہو جیسا کہ پادریوں کا حملہ ہوتا ہے.یہ غلط ہے کہ شیطان خود حوّا کے پاس گیا ہو بلکہ جیسا کہ اب چھپ کر آتا ہے ویسا ہی تب بھی چھپ کرگیا تھا.کسی آدمی کے اندر وہ اپنا خیال بھردیتا ہے اور وہ اُس کا قائم مقام ہوجاتا ہے.کسی ایسے ہی مخالفِ دین کے دل میں شیطان نے یہ بات ڈال دی تھی اور وہ بہشت جس میں حضر ت آدم ؑ رہتے تھے وہ بھی زمین پر ہی تھا.کسی بدنے ان کے دل میں وسوسہ ڈال دیا.قرآن شریف کی پہلی ہی سورت میں جو اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے کہ مغضوب علیہم اور ضالّین لوگوں میں سے نہ بننا.یعنی اے مسلمانو! تم یہود اور نصاریٰ کے خصائل کو اختیار نہ کرنا.اس میں سے بھی ایک پیشگوئی نکلتی ہے کہ بعض مسلمان ایسا کریں گے یعنی ایک زمانہ آوے گا کہ ان میں سے بعض یہود اور نصاریٰ کے خصائل اختیار کریں گے.کیونکہ حکم ہمیشہ ایسے امر کے متعلق دیا جاتا ہے جس کی خلاف ورزی کرنے والے بعض لوگ ہوتے ہیں.قرآن خاص وحی ہے فرمایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سار اکلام وحی ہوتا تھا.مگر قرآن شریف ایک خاص وحی ہوتا.وہ ایک نور ہوتا.۱ ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۲ مورخہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۹ ، ۱۰

Page 130

۱۰؍ مارچ ۱۹۰۱ء مشکلات کا واحد حل ایک شخص نے اپنی بعض مشکلات کے حل کے واسطے دعا کے لئے عرض کی.فرمایا.دعا کریں گے.وہ شخص اپنے کاموں میں شاید کسی اور پر بھروسہ رکھتا تھا.اس پر فرمایا.انسان پر کبھی بھروسہ نہ کرو صرف خد اپر بھروسہ کرو.جب انسان پر بھروسہ کروگے تب ہی خالی رہو گے اور کچھ حاصل نہ ہوگا.اسلام یہی ہے کہ صرف خدا کے لئے ہو جاؤ.پھر ساری مشکلات حل ہوجاتی ہیں.فرمایا.خدا تعالیٰ کا جلال اسی طرح ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا سے شرک کو دور کیا جائے کیونکہ شرک ایسا گناہ ہے جس کی نسبت خدا نے کہا ہے کہ یہ بخشا نہیں جائے گا.اس وقت بڑا شرک یہی ہے کہ مسیحؑ کو خدابنایا جاتا ہے.سورۂ اخلاص میں فتنہ نصاریٰ کاردّ فرمایا.چونکہ نصاریٰ کا فتنہ سب سے بڑا ہے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ایک سورہ قرآن شریف کی تو ساری کی ساری صرف ان کے متعلق خاص کردی ہے یعنی سورہ اخلاص.اور کوئی سورہ ساری کی ساری کسی قوم کے واسطے خاص نہیں ہے.اَحَد خدا کا اسم ہے اور اَحَد کا مفہوم واحد سے بڑھ کر ہے.صمد کے معنی ہیں ازل سے غنی بالذات جو بالکل محتاج نہ ہو.اقنومِ ثلاثہ کے ماننے سے وہ محتاج پڑتا ہے.۱ ۱۱؍مارچ ۱۹۰۱ء فرمایا.ساری خوشیاں ایمان کے ساتھ ہیں.۲ ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۲ مورخہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۹ ۲ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۲ مورخہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۰

Page 131

۲۱؍ مارچ ۱۹۰۱ء وجدو سرور کا روحانیت سے تعلق نہیں فرمایا.بعض انسانوں کو دیکھو گے کہ کافیاں اورشعر سن کر وجد وطرب میں آجاتے ہیں مگر جب مثلاً ان کو کسی شہادت کے لئے بلایا جائے تو عذر کریں گے کہ ہمیں معاف رکھو.ہمیں تو فریقین سے تعلق ہے.ہمیں اس معاملہ میں داخل نہ کرو.پس سچائی کا اظہار نہ کریں گے.ایسے لوگوں کے وجد و سُرور سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے.جب کسی ابتلا میں آجاتے ہیں تو اپنی صداقت کا ثبوت نہیں دے سکتے اُن کا سُرور و وجد قابلِ تعریف نہیں.یہ سُرور و وجد ایک عارضی چیز اور طبعی امر ہے.بعض منکرین اسلام جن کو تمام پاک بازوں سے دلی عداوت ہے وہ بھی اس سُرور سے حصہ لیتے ہیں.ایک متعصّب ہندو مثنوی مولوی رُومی رحمۃ اللہ علیہ پڑھ کر سرور حاصل کرتا تھا حالانکہ وہ دشمنِ اسلام تھا.کیا تم سانپ کو پاک باز مانو گے جو بانسری سن کر سرور میں آجاتا ہے یا اُونٹ کو خدا رسیدہ قراردوگے جو خوش الحانی سے نشہ میں آجاتا ہے.سچائی کا کمال جس سے خدا خوش ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنی وفاداری دکھائے.ایسے انسان کا تھوڑا عمل بھی دوسرے کے بہت عمل سے بہتر ہے مثلاً ایک شخص کے دو نوکر ہیں.ایک نوکر دن میں کئی دفعہ اپنے مالک کی خدمت میں آکر سلام کرتا ہے اور ہر وقت اس کے گرد و پیش رہتا ہے.دوسرا اس کے پاس بہت کم آتا ہے مگر مالک پہلے کو بہت قلیل تنخواہ دیتا ہے اور دوسرے کو بہت زیادہ.اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ دوسرا ضرورت کے وقت اُس پر جان بھی دینے کے لئے طیار ہے اور وفادار ہے اور پہلا کسی کے بہکانے سے مجھے قتل کرنے پر بھی آمادہ ہوجائے گا یا کم از کم مجھے چھوڑ کر کسی دوسرے کی ملازمت اختیار کرلے گا.اسی طرح اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ سے وفاداری کا تعلق نہیں رکھتا مگر پنج وقتہ نماز ادا کرتا ہے اور اشراق تک بھی پڑھتا ہے بلکہ کئی ایک اَور اَوراد بھی تجویز کئے ہوئے ہیں تووہ خدا تعالیٰ کی نظر میں ایک وفادار انسان سے کوئی نسبت نہیں رکھتا کیونکہ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ ابتلا کے وقت وفاداری نہیں دکھلائے گا.

Page 132

جب انسان وفاداری اختیار کرے گا تو سُرور لازمی طور پر اس کو حاصل ہوجائے گا.جیسا کہ کھانا آتا ہے تو دستر خوان بھی ساتھ آجاتاہے.مگر یاد رکھنا چاہیے کہ کاملوں میں بھی بعض قبض کے وقت آجاتے ہیں کیونکہ قبض کے وقت انسان کو سرور کی قدر زیادہ ہوتی ہے اور اس کو زیادہ لذّت حاصل ہوتی ہے.دوسرے کے متعلق رائے قائم کرنے میں جلدی نہ کی جائے فرمایا.انسان دوسرے شخص کےدل کی ماہیت معلوم نہیں کرسکتا اور اس کے قلب کے مخفی گوشوں تک اس کی نظر نہیں پہنچ سکتی اس لیے دوسرے شخص کی نسبت جلدی سے کوئی رائے نہ لگائے بلکہ صبر سے انتظار کرے.ایک شخص کا ذکر ہے کہ اس نے خدا تعالیٰ سے عہدکیا کہ میں سب کو اپنے سے بہترسمجھوں گا اور کسی کو اپنے سے کمتر خیال نہیں کروں گا.اپنے محبوب کو راضی کرنے کے لئے انسان ایسی تجویزیں سوچتے رہتے ہیں.ایک دن اس نے ایک دریا کے پل کے پاس جہاں سے بہت آدمی گزر رہے تھے ایک شخص بیٹھا ہوا دیکھا اور اس کے پہلو میں ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی.ایک بوتل اس شخص کے ہاتھ میں تھی.آپ پیتا تھا اور اُس عورت کو بھی پلاتا تھا.اُس نے اس پر بدظنی کی اور خیال کیا کہ میں اس بے حیا سے تو ضرور بہترہوں.اتنے میں ایک کشتی آئی مع سواریوں کے ڈوب گئی.وہی شخص جو عورت کے پاس بیٹھا تھا، دریا میں سے سوائے ایک کے سب کو نکال لایا اور اس بدظن سے کہا تُو مجھ پر بدظنی کرتا تھا.سب کو میں نکال لایا ہوں، ایک کو تو نکال لا.خدا نے مجھے تیرے امتحان کے لئے بھیجا تھا اور تیرے دل کے ارادہ سے مجھے اطلاع دی.یہ عورت میری والدہ ہے اوربوتل میں شراب نہیں دریا کا پانی ہے.غرض انسان دوسرے کی نسبت جلد رائے نہ لگائے.۱ ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷؍ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۴ ، ۱۵

Page 133

۳۱؍ مارچ ۱۹۰۱ ء تقریرحضرت اقدسؑ بعثت مُرسلین کے متعلق خدا تعالیٰ کی ازلی سنّت سب صاحب اس بات کو سُن لیں کہ چونکہ ہماری یہ سب کارروائی خدا ہی کے لیے ہے.وہ اس غفلت کے زمانہ میں اپنی حجت پوری کرنی چاہتا ہے جیسے ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کے زمانہ میں ہوتا رہا ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ زمین پر تاریکی پھیل گئی ہے تو وہ تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں کو سمجھاوے اور قانون کے موافق حجت پوری کرے.اس لیے زمانہ میں جب حالات بدل جاتے ہیں اور خدا سے تعلق نہیں رہتا.سمجھ کم ہوجاتی ہے.اس وقت خدا تعالیٰ اپنے کسی بندہ کو مامور کردیتاہے تاکہ غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو سمجھائے اور یہی بڑا نشان اس کے مامور ہونے پر ہوتا ہے کہ وہ لغو طور پر نہیں آتا ہے بلکہ تمام ضرورتیں اس کے وجود پر شہادت دیتی ہیں.جیسے ہمارے پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا.اعتقادی اورعملی حالت بالکل خراب ہوگئی تھی اور نہ صرف عرب کی بلکہ کل دنیا کی حالت بگڑ چکی تھی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ (الرّوم:۴۲) اس فساد عظیم کے وقت خدا تعالیٰ نے اپنے کامل اور پاک بندہ کو مامور کرکے بھیجا جس کے سبب سے تھوڑی ہی مدت میں ایک عجیب تبدیلی واقع ہوگئی.مخلوق پرستی کی بجائے خدا تعالیٰ پوجا گیا.بداعمالیوں کی بجائے اعمالِ صالحہ نظر آنے لگے.ایسا ہی اس زمانہ میں بھی دنیا کی اعتقادی اور عملی حالت بگڑ گئی ہے اور اندرونی اور بیرونی حالت انتہا تک خطرناک ہوگئی ہے.اندرونی حالت ایسی خراب ہوگئی ہے کہ قرآن تو پڑھتے ہیں مگر یہ معلوم نہیں کہ کیا پڑھتے ہیں.اعتقاد بھی کتاب اللہ کے برخلاف ہوگئے ہیں اور اعمال بھی.مولوی بھی قرآن کو پڑھتے ہیں اور عوام بھی مگر تدبرنہ کرنے میں دونوں برابر ہیں.اگر غور کرتے تو بات کیسی صاف تھی.

Page 134

قرآن شریف سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مثیلِ موسٰی پیدا کیا ہے.بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک سلسلہ پیداکرتا ہے پھر جب اس سلسلہ پر ایک دراز عرصہ گزرنے کے بعد ایک قسم کا پردہ سا چھا جاتاہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے بدلے میں اَور سلسلہ اسی رنگ میں قائم کرتا ہے.قرآن شریف سے دو سلسلوں کا پتہ لگتا ہے.اول بنی اسرائیل کا سلسلہ جو موسیٰ علیہ السلام سے شروع ہو ااور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہوگیا.چونکہ یہود کی بداعمالیاں حد تک پہنچ گئی تھیں اور اُن میں یہاں تک شقاوت اور سنگدلی پید اہوگئی تھی کہ وہ انبیاء کے قتل تک مستعد ہوئے اس لیے اللہ تعالیٰ نے غضب کی راہ سے اس سلسلہ کو جس میں ملوک اور انبیاءؑ تھے حضرت عیسیٰ ؑ پر ختم کردیا.مسیحؑ کی بے باپ ولادت نشان ہے مَیں ہمیشہ سے اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ حضرت عیسٰیؑ بے باپ پیدا ہوئے تھے اور ان کا بے باپ پیدا ہونا ایک نشان تھا اس بات پر کہ اب بنی اسرائیل کے خاندان میں نبوت کا خاتمہ ہوتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ وعدہ تھا کہ بشرطِ تقویٰ نبوت بنی اسرائیل کے گھرانے سے ہوگی لیکن جب تقویٰ نہ رہا تو یہ نشان دیا گیا تاکہ دانش مند سمجھ لیں کہ اب آئندہ اس سلسلہ کا انقطاع ہوگا.غرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بنی اسرائیل کی نبوت کا خاتمہ ہوگیا.پہلی کتابوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھاکہ بنی اسماعیل میں بھی ایک سلسلہ اسی سلسلہ کا ہمرنگ پیدا ہوگا اور اس کے امام و پیشوا اور سردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے.توریت میں بھی یہ خبر دی گئی تھی.قرآن شریف نے بھی فرمایا كَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا( المزّمل : ۱۶ ) جیسے توریت میں مانند کا لفظ تھا قرآن شریف میں كَمَا کا لفظ موجود ہے.آنحضرتؐمثیلِ موسٰی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بالاتفاق مثیل موسٰی ہیں.سورۂ نور میں بھی ذکر فرمایا گیا ہے کہ سلسلہ محمدیہ موسویہ سلسلہ کا مثیل ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیانی انبیاء کا ذکر قرآن شریف نے نہیں کیا.لَمْ نَقْصُصْ ( المؤمن :۷۹) کہہ دیا.یہاں بھی سلسلہ محمدیہ میں درمیانی خلفاء کا نام نہیں

Page 135

لیا.جیسے وہاں ابتدا اور انتہا بتائی یہاں بھی یہ بتادیا کہ ابتدامثیل موسٰی سے ہوگی اور انتہا مثیل عیسٰیؑ پر.گویا خاتم الخلفاء وہی ہے جس کو دوسرے لفظوں میںمسیح موعود کہتے ہیں.موعود اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا وعدہ کیاگیا ہے وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ (النّور:۵۶) آیت استخلاف میںمسیح موعود کی پیشگوئی خلفاء کے تقرر کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا تھا اسی وعدہ میں وہ خاتم الخلفاء بھی شامل ہے اورنصِ قرآنی سے ثابت ہوا کہ وہ موعود ہے.جو خط ایک نقطہ سے شروع ہو گا وہ ختم بھی نقطہ پر ہی ہو گا.پس جیسے وہاں خاتم مسیح ہے یہاں بھی وہ خاتم الخلفاء ہے.اس لئے یہ اعتقاد اسی قسم کا ہے کہ اگر کوئی انکار کرے کہ اس امت میں مسیح موعود نہ ہو گا وہ قرآن سے انکار کرتا ہے اور اس کا ایمان جاتا رہے گا اور یہ بالکل واضح بات ہے اس میں تکلّف اور تصنّع اور بناوٹ کا نام نہیں ہے پھر جو شک وشبہ کرے وہ قرآن شریف کو چھوڑتا ہے.سورۃ فاتحہ میں منعمین کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ا س کو کئی سورتوں میں بیان کردیا ہے.اول تو یہی سورۂ نور.دوسری سورۂ فاتحہ جس کو ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں.اس سورۃ میں تین گزشتہ فرقے پیش کیے ہیں.ایک وہ جو اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے مصداق ہیں.دُوسرے مغضوب، تیسرے ضالّین.مغضوب سے یہ مخصوصاً مراد نہیں کہ قیامت میں ہی غضب ہوگا کیونکہ جو کتاب اللہ کو چھوڑتا اور احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کرتا ہے ان سب پر غضب ہوگا مغضوب سے مراد بالاتفاق یہود ہیں اورالضَّآلِّيْنَ سے نصاریٰ.اب اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ منعم علیہ فرقہ میں داخل ہونے اور باقی دو سے بچنے کے لئے دعا ہے اور یہ سنّت اللہ ٹھہری ہوئی ہے.جب سے نبوت کی بنیادڈالی گئی ہے خدا تعالیٰ نے یہ قانون مقررکررکھا ہے کہ جب وہ کسی قوم کو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیتا ہے تو بعض اس کی تعمیل کرنے والے اور بعض خلاف ورزی کرنے والے ضرور ہوتے ہیں.پس بعض منعم علیہ، بعض مغضوب اور بعض ضالین ضرور ہوں گے.اب زمانہ بآواز بلند کہتا ہے کہ اس سورۂ شریف کے موافق ترتیب آخر سے شروع ہوگئی ہے.

Page 136

آخری فرقہ نصاریٰ کا رکھا ہے.اب دیکھو کہ اس میں کس قدر لوگ داخل ہوگئے ہیں.ایک بشپ نے اپنی تقریر میں ذکر کیا ہے کہ بیس۲۰۰۰۰۰۰ لاکھ مسلمان مرتد ہوچکے ہیں اور یہ قوم جس زور شور کے ساتھ نکلی ہے اور جو جو طریق اُس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے اختیار کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی عظیم الشان فتنہ نہیں ہے.اب دیکھو کہ تین باتوں میں سے ایک تو ظاہر ہوگئی.پھر دوسری قوم مغضوب ہے.مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا وقت بھی آگیا اور وہ بھی پورا ہورہا ہے.یہودیوں پر غضبِ الٰہی اس دنیا میں بھی بھڑکا اور طاعون نے اُن کو تباہ کیا.اب اپنی بدکاریوں اور فسق وفجور کی وجہ سے طاعون بکثرت پھیل رہی ہے.کتمانِ حق سے وہ لوگ جو عالم کہلاتے ہیں نہیں ڈرتے.اب ان دونوں کے پورا ہونے سے تیسرے کا پتہ صاف ملتا ہے.انسان کا قاعدہ ہے کہ جب چار میں سے تین معلوم ہوں تو چوتھی شے معلوم کرلیتا ہے اور اس پر اس کو اُمید ہوجاتی ہے.نصاریٰ میں لاکھوں داخل ہوگئے.مغضوب میں داخل ہوتے جاتے ہیں.منعم علیہ کا نمونہ بھی اب خدادکھانا چاہتا ہے جب کہ سورۂ فاتحہ میں دعا تھی اور سورۂ نور میں وعدہ کیا گیا ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ نور میں دعا قبول ہوگئی ہے.غرض اب تیسرا حصہ منعم علیہ کا ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس کو روشن طور پر ظاہر کردے گا اور یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے جو ہوکررہے گا مگر اللہ تعالیٰ انسان کو ثواب میں داخل کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ استحقاق جنت کاثابت کرلیں جیسا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میںہوا.خدا تعالیٰ اس بات پر قادر تھا کہ وہ صحابہؓ کے بدوں ہی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرقسم کی فتوحات عطافرماتا مگر نہیں خدا نے صحابہؓ کو شامل کرلیا تاکہ وہ مقبول ٹھہریں.اس سنّت کے موافق یہ بات ہماری جماعت کو پیش آگئی ہے کہ بار بار تکلیف دی جاتی ہے اور چندے مانگے جاتے ہیں.ہمارے دو ضروری کام اس وقت ہمارے دو بڑے ضروری کام ہیں.ایک یہ کہ عرب میں اشاعت ہو دوسرے یورپ پر اتمامِ حجت کریں.عرب پر اس لئے کہ اندرونی طور پر وہ حق رکھتے ہیں.ایک بہت بڑاحصہ ایساہوگا کہ اُن کو معلوم بھی نہ ہوگا کہ خد

Page 137

نے کوئی سلسلہ قائم کیا ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ اُن کو پہنچائیں اور اگر نہ پہنچائیں تو معصیت ہوگی.ایسا ہی یورپ والے حق رکھتے ہیں کہ اُن کی غلطیاں ظاہرکی جاویں کہ وہ ایک بندہ کو خدا بناکر خد ا سے دُور جاپڑے ہیں.یورپ کا تو یہ حال ہوگیا ہے کہ واقعی اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ( الاعراف:۱۷۷)کا مصداق ہوگیا ہے.طرح طرح کی ایجادیں صنعتیں ہوتی رہتی ہیں.اس سے تعجب مت کرو کہ یورپ ارضی علوم وفنون میں ترقی کررہا ہے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب آسمانی علوم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں تو پھر زمین ہی کی باتیں سُوجھا کرتی ہیں.یہ کبھی ثابت نہیںہوا کہ نبی بھی کلیں بنایا کرتے تھے یا اُن کی ساری کوششیں اور ہمتیں ارضی ایجادات کی انتہا ہوتی تھیں.ایک قرآنی پیشگوئی کا ظہور آج جو اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَا ( الزلزال : ۳)کا زمانہ ہے یہ مسیح موعود ہی کے وقت کے لیے مخصوص تھا.چنانچہ اب دیکھو کہ کس قدر ایجادیں اور نئی کانیں نکل رہی ہیں.ان کی نظیر پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی ہے.میرے نزدیک طاعون بھی اسی میں داخل ہے.اس کی جڑ زمین میں ہے.پہلا اثر چوہوں پر ہوتا ہے.غرض اس وقت جبکہ زمینی علوم کمال تک پہنچ رہے ہیں.توہین اسلام کی حد ہوچکی ہے.کون کہہ سکتا ہے کہ اس پچاس ساٹھ سال میں جس قدر کتابیں، اخبار، رسالے توہین اسلام میں شائع ہوئے ہیں کبھی ہوئے تھے؟ پس جب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے تو کوئی مومن نہیں بنتا جب تک کہ اس کے دل میں غیرت نہ ہو.بے غیرت آدمی دیّوث ہوتا ہے.عبادت محبت ہی کا دوسر انام ہے اگر اسلام کی عزّت کے لئے دل میں محبت نہیں ہے توعبادت بھی بے سُود ہے کیونکہ عبادت محبت ہی کا نام ہے.وہ تمام لوگ جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی ایسی چیز کی عبادت کرتے ہیں جس پر کوئی سلطان نازل نہیں ہوا وہ سب مشرک ہیں.سلطان تسلّط سے لیا گیا ہے جو دل پر تسلّط کرے.اس لیے یہاں دلیل کا لفظ نہیں لکھا ہے.

Page 138

عبادت کیا ہے.جب انتہادرجہ کی محبت کرتاہے.جب انتہادرجہ کی اُمید ہو.انتہادرجہ کا خوف ہو.یہ سب عبادت میں داخل ہے.غیر اللہ کی عبادت کا اتنا ہی مفہوم نہیں ہے کہ سجدہ نہ کیا جاوے.نہیں.بلکہ اُس کے مختلف مدارج ہیں.اگر کوئی مال سے انتہا درجہ کی محبت کرتا ہے تو وہ اس کا بندہ ہوتا ہے.خدا کابندہ وہ ہے جو خدا کے سوا اور چیزوں کی حدِ اعتدال تک رعایت کرتا ہے.اسلام میں محبت، اُمید منع نہیں ہے مگر ایک حد تک.اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ جو خدا سے محبت کرتے ہیں اُسی سے ڈرتے اسی سے اُمید رکھتے ہیں وہ ایک سلطان رکھتے ہیں لیکن جو نفس کے تابع ہوتے ہیں ان کے پاس کوئی سلطان نہیں ہے جو محکم طور پر دل کو پکڑے.غرض انسان کا کوئی فعل اور قول ہو جب تک وہ خدا کی سلطان کا پیرو نہ ہو شرک کرتا ہے.پس ہم جو اپنی اس کارروائی کی دو طور پر اشاعت چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اوراس سے بڑھ کر کوئی شاہد نہیں ہوسکتا کہ کس قدر سچے جوش اور خالصتاً للّٰہ اس کو پیش کرتے ہیں.ہمیں اتفاق نہیں ہوا کہ انگریزی میں لکھ پڑھ سکتے.اگر ایساہوتاتو ہم کبھی بھی اپنے دوستوں کو تکلیف نہ دیتے مگر اس میں مصلحت یہ تھی کہ تادوسروں کو ثواب کے لیے بلائیں ورنہ میری طبیعت تو ایسی واقع ہوئی ہے کہ جو کام مَیں خود کر سکتا ہوں اُس کے لئے کسی دوسرے کو کبھی کہتا ہی نہیں.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور چار برس زندگی پاتے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہو جاتے.دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہ فتح عظیم جس کا آپؐ کے ساتھ وعدہ تھا حاصل کرچکے تھے.رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا( النّصـر :۳) دیکھ چکے تھے.اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ (المائدۃ:۴) ہوچکا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے نہ چاہا کہ اُن کو محروم رکھے بلکہ یہی چاہا کہ اُن کو بھی ثواب میں داخل کردے.اسی طرح پر اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم کو اس قدر خزانے دے دیتا کہ ہم کو پروا بھی نہ رہتی مگر خدا ثواب میں داخل کرتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے.یہ سب جو بیٹھے ہیں یہ قبریں ہی سمجھو کیونکہ آخرمرنا ہے.پس ثواب حاصل کرنے کا وقت ہے.میں ان باتوں کو جوخدا نے میرے دل پر ڈالی ہیں سادہ اورصاف الفاظ میں ڈالنا چاہتا ہوں.اس وقت ثواب کے لیے مستعد ہو جاؤ اور یہ بھی مت سمجھو کہ اگر اس راہ میں خرچ کریں گے تو کچھ کم ہوجاوے گا.خدا تعالیٰ کی بارش کی طرح سب کمیاں پُر ہوجائیں گی مَنْ يَّعْمَل

Page 139

مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ ( الزلزال :۸).یادرکھو خدا کی توفیق کے بغیر دین کی خدمت نہیں ہوسکتی.جوشخص دین کی خدمت کے واسطے شرح صدر سے اُٹھتا ہے خدا اس کو ضائع نہیں کرتا.غرض خلاصہ یہ ہے کہ ایک پہلو تو میں کررہا ہوں دوسرے پہلو کو ہماری انگریزی خواں جماعت نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے.انہوں نے یہ تجویز کی ہے کہ تجارت کے طریق پر یہ کام جاری ہوجائے.دین کی اشاعت ہوجائے گی اور اُن کا کوئی حَرج نہ ہوگا.اُمید ہے کہ خدا اس کا اَجر دے گا.مَیںیہ صرف اپنی جماعت کے ارادوں کا ترجمہ کرتا ہوں.میرا منشا تو اسی حد تک ہے کہ کسی طرح عرب اور دوسرے ملکوںمیں تبلیغ ہوجائے.یہ اُنہوں نے اپنی دانست میں اَسہل طریق مقرر کیا ہے جس کو تجارتی طریق پر سمجھ لیا جائے.تجارت کے اُمورظَنِّ غالب ہی پر چلتے ہیں.بہرحال یہ اُن کا ارادہ ہے.میرے نزدیک جہاں تک یہ امر مذہب سے تعلق رکھتا ہے تو مَیں اس کی حمایت کرتا ہوں.اگر یہ تجویز عمل میں نہ بھی آئے تب بھی یہ کام تو ہوجائے گا.بہر حال آپ غور کرلیں.اللہ تعالیٰ کو بہتر معلوم ہے.۱ یکم اپریل ۱۹۰۱ء معرفت اور بصیرت اکثر لوگوں کے خطوط آتے ہیں کہ فلاں شخص نے ہم سے یہ سوال کیا اور ہم اس کا جواب نہ دے سکے.ایسی حالت میں انسان کچھ مذبذب اور کمزور ہو جاتا ہے.یادرکھو آئے دن وساوس میں پڑنا ناقص معرفت کا نتیجہ ہوتا ہے.معرفت اور بصیرت تو ایسی شے ہے کہ انسان فرشتوں سے مصافحہ کرلیتا ہے.مَیں سچ کہتا ہوں کہ معرفت جیسی کوئی طاقت نہیں ہے.پرندے کہاں تک اُڑ کر جاتے ہیں لیکن معرفت والا انسان اُن سے بھی آگے نکل جاتا ہے اور بہت دورپہنچ جاتا ہے.پس اصل مدعا یہی ہے کہ ہمیں وہ یقین حاصل کرنا چاہیے جو اطمینان کے درجہ پر پہنچادیتا ہے.بدُوں اس کے انسان بالکل ادھورااور ناقص ہے اور اس کی ترقی ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷ ؍ اپریل ۱۹۰۱ءصفحہ ۵ تا ۸

Page 140

کے دروازے بند ہیں.مامورمن اللہ کی صحبت ضروری ہے ہماری جماعت کے لئے یہ امر ضروری پڑا ہوا ہے کہ وہ اپنے وقتوں میں کچھ وقت نکال کر آئیں اور یہاں صحبت میں رہ کر اس غفلت کی تلافی کریں جو غیبوبت کے زمانہ میں پیدا ہوئی ہے اور اُن شبہات کو دور کریں جو اس غفلت کا باعث ہوئے ہیں.اُن کا حق ہے کہ وہ اُن کو پیش کریں اور اُن کا جواب ہم سے سنیں.بھلا اگر کمزور بچہ جو ابھی دودھ پینے اور ماں کے کنارِ عاطفت کا محتاج ہے اس سے الگ کردیا جائے تو تم اُمید کرسکتے ہو کہ وہ بچ رہے گا.کبھی نہیں.اسی طرح بلوغ سے پیشتر کے کمال اور معرفت کا حال ہے.انسان کمزور بچہ کی طرح ہوتا ہے.مامور من اللہ کی صحبت اس کے لئے ضروری ہوتی ہے.اگر وہ اس سے الگ ہوجائے تو اس کی ہلاکت کا اندیشہ ہوتاہے.مرکز میں باربارآنے کی ضرورت درحقیقت یہ ایک بہت ہی ضروری امر ہے.اگر خدا تعالیٰ کسی کو توفیق دے اور وہ اس کوسمجھ لے کہ بار بار آنے کی کس قدر ضرورت ہے اس سے یہی نہ ہوگا کہ وہ اپنے نفس کے لئے فائدہ پہنچائے گا بلکہ بہتوں کوفائدہ پہنچا سکے گا کیونکہ جب تک خود ایک معرفت اور بصیرت پیدا نہ ہو وہ دوسروں کو کیا راہ بتائے گا.یہی وجہ ہوتی ہے کہ بعض شریرالطبع لوگ ایسے آدمیوں کو جن کو بار بار آنے کی عادت نہیںکوئی سوال کرتے ہیں چونکہ انہوں نے جوابات سُنے ہوئے نہیں ہوتے اور ساکت ہوکر نہ خود خفت اُٹھاتے ہیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی جو دیکھنے سُننے والے ہوتے ہیں ٹھوکر کا موجب ہوجاتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس خفت اور سکوت سے ایمان پر ایک زد پڑتی ہے اور اس میں کمزوری شروع ہوتی ہے کیونکہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان مغلوب ہوجاتا ہے تو وہ غالب کے اثر سے بھی متاثر ہوجاتا ہے.بسا اوقات اُس کے دل کو وہ اثر سیاہ کردیتا ہے اور پھر قاعدہ کے موافق وہ تاریکی بڑھنے لگتی ہے یہاں تک کہ اگر اُسی میں اُس کو موت آجائے تو وہ جہنم میںداخل ہوا.ان ساری باتوں پر غور کرکے ایک دانش مند اس نتیجہ پر ضرور پہنچے گا کہ اس بات کی بہت بڑی ضرورت ہے کہ ان زہروں

Page 141

کے دور کرنے کے واسطے جو روح کو تباہ کرتی ہیں کسی تریاقی صحبت کی ضرورت ہے جہاں رہ کر انسان مہلکات کا علم بھی حاصل کرتا ہے اور نجات دینے والی چیزوں کی معرفت بھی کرلیتا ہے.اسی واسطے ایک عرصہ سے میرے دل میں یہ بات ہے اور مَیں سوچتا رہتا ہوں کہ اپنی جماعت کا امتحان سوالات کے ذریعہ سے لُوں چنانچہ مَیں نے اس تجویز کا کئی بار ذکر بھی کیا ہے.اگرچہ ابھی مجھے موقع نہیں ملا لیکن یہ بات میرے دل میں ہمیشہ رہتی ہے کہ ایک بار سوالات کے ذریعہ آزماکر دیکھوں کہ جو کچھ ہم پیش کرتے ہیں ا س کے متعلق ان کو کہاں تک علم ہے اور انہوں نے ہمارے مقاصد اور اغراض کو کہاں تک سمجھا ہے اور جو اعتراض اندرونی یا بیرونی طور پر کیے جاتے ہیں اُن کی مدافعت کہاں تک کرسکتے ہیں.اگر چالیس آدمی بھی ایسے نکل آویں جن کے نفس منور ہوجائیں اور پوری بصیرت اور معرفت کی روشنی انہیں مل جائے تو وہ بہت کچھ فائدہ پہنچا سکیں.یہ سلسلہ منہاج نبوت پر قائم ہے میں سولہ سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں پڑھتا ہوں اور ان کے اعتراضوں پر غور کرتا رہا ہوں.میں نے اپنی جگہ ان اعتراضوں کو جمع کیا ہے جو عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے ہیں ان کی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچی ہوئی ہے لیکن جب میں ان لوگوں کے اعتراضوں کو پڑھتا ہوں جو میری ذات کی نسبت کرتے ہیں تو میں ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ ابھی ان اعتراضوں میں پورا کمال نہیں ہوا کیونکہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر جب اس قدر اعتراض کئے گئے ہیں تو ہم مخالفوں کا منہ کیوں کر بند کر سکتے ہیں.پھر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ میری نسبت جس قدر اعتراض کیے جاتے ہیں ان میں سے ایک بھی ایسا اعتراض نہیں ہے جو اولو العزم انبیاء علیہم السلام پر نہ کیا گیا ہو اگر کسی کو اس میں شک ہو تو وہ میری ذات پر کوئی اعتراض کر کے دکھائے جو کسی پہلے نبی پر نہ کیا گیا ہو مگر ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ جس قسم کا اعتراض مجھ پر کیا جائے گا یا جو اَب تک ہوئے ہیں اسی قسم کے اعتراض ان پر ہوئے ہیں.بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ منہاج نبوت پر قائم ہوا ہے اس لئے اس سلسلہ کی سچائی کے لئے وہی معیار ہے جو انبیاء علیہم السلام کی صداقت کے لئے ہوتا ہے.

Page 142

کامل مومن اللہ تعالیٰ گواہ ہے اور اس سے بڑھ کر ہم کس کو شہادت میں پیش کر سکتے ہیں کہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے سولہ یا سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں پڑھتا رہا ہوں مگر ایک طرفۃ العین کے لئے بھی ان اعتراضوں نے میرے دل کو مذ بذب یا متاثر نہیں کیا اور یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے.میں جوں جوں ان کے اعتراضوں کو پڑھتا جاتا تھا اسی قدر ان اعتراضوں کی ذلت میرے دل میں سماتی جاتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور محبت سے دل عطر کے شیشہ کی طرح نظر آتا.میں نے یہ بھی غور کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جس پاک فعل پر یا قرآن شریف کی جس آیت پر مخالفوں نے اعتراض کیا ہے وہاں ہی حقائق اور حِکم کا ایک خزانہ نظر آیا ہے جو کہ ان بد باطن اور خبیث طینت مخالفوں کو عیب نظر آیا ہے.سنو!انسان کامل مومن اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کفار کی باتوں سے متاثر نہ ہونے والی فطرت حاصل نہ کر لے اور یہ فطرت نہیں ملتی جب تک اس شخص کی صحبت میں نہ رہے جو گمشدہ متاع کو واپس دلانے کے واسطے آیا ہے.پس جب تک کہ وہ اس متاع کو نہ لے لے اور اس قابل نہ ہو جائے کہ مخالف باتوں کا اس پر کچھ بھی اثر نہ ہو اس وقت تک اس پر حرام ہے کہ اس صحبت سے الگ ہو کیونکہ وہ اس بچہ کی مانند ہے جو ابھی ماں کی گود میں ہے اور صرف دودھ ہی پر اس کی پرورش کا انحصار ہے.پس اگر وہ بچہ ماں سے الگ ہو جاوے تو فی الفور اس کی ہلاکت کا اندیشہ ہے.اسی طرح اگر وہ صحبت سے علیحدہ ہوتا ہے تو خطر ناک حالت میں جا پڑتا ہے.پس بجائے اس کے کہ دوسروں کو درست کرنے کے لئے کوشش کر سکتا ہو خود الٹا متاثر ہو جاتا ہے اور اَوروں کے لئے ٹھوکر کا باعث بنتا ہے.اس لئے ہم کو دن رات جلن اور افسوس یہی ہے کہ لوگ بار بار یہاں آئیں اور دیر تک صحبت میں رہیں.انسان کامل ہونے کی حالت میں اگر ملاقات کم کر دے اور تجربہ سے دیکھ لے کہ قوی ہو گیا ہوں تو اس وقت اسے جائز ہو سکتا ہے کہ ملاقات کم کر دے کیونکہ بعید ہو کر بھی قریب ہی ہوتا ہے لیکن جب تک کمزوری ہے وہ خطر ناک حالت میں ہے.دیکھو اس قدر لوگ جو عیسائی ہو گئے جن کی تعداد ۲۰ لاکھ تک پہنچی ہے.میں نے ایک بشپ کے لیکچر کا خلاصہ پڑھا تھا.اس نے بیان کیاہے کہ ہم ۲۰لاکھ عیسائی

Page 143

کر چکے ہیں تو یہ لوگ اس قسم کے تھے جودوسروں کے اعتراضات سے متاثر ہو گئے اور ایمان کمزور ہوگیا.نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے مذہب کو ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے اور عیسائیت کو قبول کر لیا.سراج الدین عیسائی بھی ایسے ہی آدمیوں میں سے تھا.یہ لوگ کسی صادق کی صحبت میں کامل زمانہ نہیں گزارتے اور طرح طرح کی خواہشوں کے اسیر اور پابند ہو کر اپنے مذہب اور ایمان جیسی قیمتی چیز کے بدلے عیسائیت خرید لیتے ہیں.غرض میرے دشمنوں اور مخالفوںکی تعداد ابھی ایسی خطر ناک پیدا نہیں ہوئی جس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن اسلام میں سے نکل کر پیدا ہو گئے ہیں.صفدر علی اور عماد الدین وغیرہ نے کون سی کسر باقی رکھی ہے اور میں تو سچ کہتا ہوں.اللہ تعالیٰ گواہ ہے کہ مجھے اپنی دشمنی اور اپنی توہین یا عزّت اور تعظیم کا تو کچھ بھی خیال نہیں ہے.میرے لئے جو امر سخت ناگوار ہے اور ملالِ خاطر کا موجب ہمیشہ رہا ہے وہ یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کامل اور پاک انسان کی توہین کی جاتی ہے.اس صادقوں کے سردار، سراسر صدق کو کاذب کہا جاتا ہے.یہ امر ہے جو میرے لیے ہمیشہ غم کا باعث رہا ہے.اس لئے میں اسی فکر میںرہتا ہوں کہ اس مُردہ پرست قوم کے دجل اور مکر کو کھول کر ایسا دکھا دیا جائے کہ سب کھلا کھلا دیکھ لیں.کل مجھے خیال آیا کہ مسیح موعودؑ کے کام میں یَکْسِـرُ الصَّلِیْبَ تو آیا ہے پر یَقْتُلُ الْـخَنْزِیْرَ کیوں آیا ہے.تو یہی سمجھ میں آیاکہ یہ تفنن عبارت کے طور پر آیا ہے.وہ لوگ جو مرتد ہوئے ہیں ان کے مادے چونکہ خراب تھے اس لئے ایسے بد اتفاق بھی ان کو پیش آتے گئے یہاں تک کہ آخر مرتد ہو گئے اور صرف اپنے نفس کے غلام ہو کر زندگی بسر کرنے لگے.تریاقی صحبت وہ آدمی جو کسی تریاقی صحبت میں رہے اور اس طرح رہے جو رہنے کا حق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس کو ایسے زہروں سے بچا لیتا ہے اور یہ بات کہ انبیاء علیہم السلام کی یا آسمانی کتابوں کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟بہت صاف امر ہے.دیکھو! آنکھ میں بھی ایک روشنی اور نور ہے لیکن وہ سورج کی روشنی کے بغیر دیکھ نہیں سکتی.آنکھ خدا نے دی ہے

Page 144

ساتھ ہی دوسری روشنی بھی پیدا کر دی ہے کیونکہ یہ نور دوسرے نور کا محتاج ہے.اسی طرح اپنی عقل جب تک آسمانی نور اور بصیرت اس کے ساتھ نہ ہو کچھ کام نہیں دے سکتی.نادان ہے وہ شخص جو کہتا ہے ہم مجرد عقل سے بھی کچھ حاصل کر سکتے ہیں.خدا نے جو طریق مقرر کیا ہے.اس کو حقارت کی نگاہ سے مت دیکھو.بہت سے اسرار اور امور ہیں جو مجھ پر کھولے گئے ہیں اگر میں ان کو بیان کروں تو خاص آدمیوں کے سوا جو صحبت میں رہتے ہیں باقی حیران رہ جائیں.پس ان لوگوں کو دیکھ کر حیرت اور رونا آتا ہے جو کسی صادق کی پاک صحبت میں نہیں رہے.ان لوگوں کو جو ذاتیات پر اعتراض کرتے ہیں.ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ وہ کوئی ایک اعتراض تو دکھائیں جو پہلے کسی نبی پر نہ کیا گیا ہو.حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو اعتراض آریوں نے کیے ہیں کیا وہ ان اعتراضوں سے جو مجھ پر ہوئے بڑھے ہوئے نہیں ہیں؟ حضرت مسیح پر یہودیوں نے جس قدر اعتراض کیے ہیں یا آریوں نے کئے ہیں.وہ دیکھو کس قدر ہیں؟اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر جس قدر الزام لگائے جاتے ہیںان کا شمار تو کرو.منہاجِ نبوت پر قائم سلسلہ کی مخالفت ہاں منہاج نبوت پر جو سلسلہ قائم ہو گا.ضرور ہے کہ اس پر ایسے الزام لگائے جاویں.مگر آخر خدا تعالیٰ اپنے مامور مقبول اور مطہر کی تطہیر کر دیتا ہے اور دکھا دیتا ہے کہ وہ ان الزاموں سے بالکل پاک ہے.معترض کی آنکھ اور دل نے دھوکہ کھایا ہے.یہ لوگ جو اصل مقصد کو چھوڑ کر ذاتیات پر اعتراض کرنے لگے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ خدا کا فرستادہ اپنے ساتھ دلائل اور براہین پر زور رکھتا ہے.اس کی ہر ایک بات پکی اور محکم ہوتی ہے اور ایسے تائیدی نشان اس کے لئے ظاہر ہوتے ہیں کہ دوسرے ان سے عاجز رہ جاتے ہیں اس لئے مخالف جب کوئی راہِ گریز نہیں پاتے تو رکیک عذر کرنے لگتے ہیں اور بیہودہ نکتہ چینیاں شروع کر تے ہیں جن میں سے اکثر تو افترا ہوتے ہیں اور بعض ایسے امور اور معاملات ہوتے ہیں جو کہ ان کے قصور فہم کا نتیجہ ہوتے ہیں.اسی طرح پر جب ہمارے مخالفوں نے دیکھا کہ جو بات ہے وہ معقول ہے اور دلائل اور براہین کے ساتھ

Page 145

مؤکّد کی جاتی ہے.پھر قرآن شریف ہمارے ساتھ ہے احادیث ہمارے ساتھ ہیں، عقل اور قانونِ قدرت ہماری تائید کرتے ہیں اور ان سب سے بڑھ کر ہزاروں آسمانی نشان ہماری تائید میں ظاہر ہوئے.وہ نشانات بھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور پیشگوئی بیان فرمائے تھے پورے ہوئے اور ان کے علاوہ اور صد ہا نشانات خود ہمارے ہاتھ پر پورے ہوئے.اب جبکہ یہ چاروں طرف سے گھر گئے یعنی زمانہ شہادت دے اٹھا کہ اس وقت مامور من اللہ کی ضرورت ہے اور ضرورتِ وقت اور واقعات پیش آمدہ نے بتا دیا کہ یہ زمانہ مسیح موعود ہی کا ہے اور اس کی تائید بزرگان ملّت کے کشوف رؤیا اور الہامات سے بھی ہو گئی اور قرآن شریف ہماری ہی تائید میں ثابت ہوا اور دن بدن اس سلسلہ کی ترقی بھی ہوتی جاتی ہے.تب ان مخالفوں نے یہ چال بدلی کہ اور تو کہیں ہاتھ پڑنے کی جگہ باقی نہیں ہے ذاتیات پر ہی گفتگو شروع کر دی اس خیال سے کہ انسان جلد تر اس طرز سے متاثر ہو جاتا ہے مگر کیا ان احمقوںکو یہ معلوم نہیں ہے کہ عیسائی بھی ایسے ہی اعتراض کرتے ہیں.آریوں کی ایک چھوٹی سی کتاب میں نے دیکھی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق انہوں نے لکھی ہے.انہوں نے اس میں بہت سے اعتراض کیے ہیں کہ بہت سے بچے انہوں نے قتل کرا دیئے.مصریوں کا مال لے گئے.وعدہ خلافی کی ،جھوٹ بولا معاذ اللہ.غرض بڑے سے بڑا گناہ نہیں جو ان کے ذمہ نہ لگایا گیا ہو.گویا وہ ان کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں.میں کہہ چکا ہوںکہ جب یہ لوگ نبوت کے طریق پر کامیاب نہیں ہوتے اور کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے تو یہ ایسے ہی اعتراض کر دیا کرتے ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق جو کتاب یہاں پڑھی گئی تھی اس نے کیا کسر باقی رکھی ہے اور ایسا ہی وہ اخبار جو آزاد خیال لوگوں کا یہاں آتا ہے وہ کس قدر ہنسی اڑاتا ہے.قاعدہ کی بات ہے کہ صدق اور سچائی کے شعلے دم لینے نہیں دیتے تو موٹی عقل والوں کو یہ لوگ یوں دھوکہ دینے لگتے ہیں اور اپنے خیال میں ایک حد تک یہ لوگ کامیاب ہو جاتے ہیں.جس قدر عیسائی ہوتے ہیں اس کا یہی باعث ہے.جب تک انسان کو ان علوم پر اطلاع نہ ہو جو تسلی اور اطمینان کا موجب ہوتے ہیں اور انسان کو یقین کی حد تک پہنچاتے ہیں ایسے خطرات اور توہمات کے

Page 146

پیش آنے کا اندیشہ ہی اندیشہ ہے.روحانی تعلّق کا کمال دنیا میں دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں.ایک جسمانی تعلقات جیسے ماں،باپ، بھائی ،بہن وغیرہ کے تعلقات.دوسرے روحانی اور دینی تعلقات.یہ دوسری قسم کے تعلقات اگر کامل ہو جائیں تو سب قسم کے تعلقات سے بڑھ کر ہوتے ہیں اور یہ اپنے کمال کوتب پہنچتے ہیں جب ایک عرصہ تک صحبت میں رہے.دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو جماعت صحابہؓ کی تھی اس کے یہ تعلقات ہی کمال کو پہنچے ہوئے تھے جو انہوں نے نہ وطن کی پروا کی اور نہ اپنے مال واملاک کی اور نہ عزیزواقارب کی یہاں تک کہ اگر ضرورت پڑی تو انہوں نے بھیڑ بکری کی طرح اپنے سر خدا کی راہ میں رکھ دئیے.وہ شدائد و مصائب جو ان کو پہنچ رہے تھے ان کے برداشت کرنے کی قوت اور طاقت ان کو کیونکرملی؟ اس میں یہی سِرّ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلقات بہت گہرے ہو گئے تھے.انہوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا تھا جو آپؐ لے کر آئے تھے اور پھر دنیا اور اس کی ہر ایک چیز ان کی نگاہ میں خدا تعالیٰ کے لقا کے مقابلہ میں کچھ ہستی رکھتی ہی نہیں تھی.یاد رکھو کہ جب سچائی پورے طور پر اپنا اثرپیدا کر لیتی ہے تو وہ ایک نور ہو جاتی ہے جو کہ ہر تاریکی میں اس کے اختیار کرنے والے کے لیے رہنما ہوتا ہے اور ہر مشکل میں بچاتا ہے.ذاتی حملے عجز کا ثبوت ہیں ذاتی حملوں کا جو بغض اور حسد کی بنا پر کئے جاتے ہیں اور سچائی کے مقابلہ سے عاجز آکر کمینہ اور سفیہ لوگ کرتے ہیں،ان پر ہی اثر ہوتا ہے جنہوں نے سچائی کی حقیقت کو نہیں سمجھا ہوتا اور سچائی نے ان کے دل کو منور نہیں کیا ہوتا!! یہ بالکل سچی بات ہے کہ انسان اس حد تک پژمردہ ہوتا ہے جب تک سچائی کو سمجھا ہوا نہیں.جوں جوں وہ اسے سمجھتا جاتا ہے اس میںایک تازگی اور شگفتگی آتی جاتی ہے اور روشنی کی طرف آجاتا ہے.یہاں تک کہ جب بالکل سمجھ لیتا ہے پھر تاریکی اس کے پاس نہیں آتی ہے.تاریکی تاریکی کو پیدا کرتی ہے.اندرونی روشنی اور روشنی کو لاتی ہے.اسی واسطے تاریکی کو شیطان سے تشبیہ دی ہے اور روشنی روح القدس

Page 147

سے مشابہ ہے.اسی طرح معرفت اور یقین کی روشنی جہاں قائم ہو جاتی ہے، وہاں تاریکی نہیں رہتی.استغفار اور دعا ؤں میں لگ جاؤ اس لئے میں کہتا ہوں کہ اپنے کاروبار کو چھوڑ کر کبھی یہاں آؤ.ملک کی حالت خطر ناک ہو رہی ہے.طاعون بڑے زور کے ساتھ پھیلتی جا تی ہے اور اس کے دورے بعض اوقات ساٹھ ساٹھ، ستّر ستّر برس تک ہوتے رہتے ہیں اور شہروں کے شہر تباہ کر دیتی ہے.مولوی صاحب کے پاس ہی ایک خط آیا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گاؤں بالکل خالی ہو گئے ہیں.یہ مت سمجھو کہ ایک دو سال میں رخصت ہو جائے گی.یہ اپنا اثر کر کے جاتی ہے.پھر ہمارے تو ملک سے دور نہیں اس وقت پانچ ضلع مبتلا ہو رہے ہیں.پس بے خوف ہو کر مت رہو.استغفار اور دعا ؤں میں لگ جاؤ اور ایک پاک تبدیلی پیدا کرو.اب غفلت کا وقت نہیں رہا.انسان کو نفس جھوٹی تسلی دیتا ہے کہ تیری عمر لمبی ہو گی.موت کو قریب سمجھو.خدا کا وجود برحق ہے.جو ظلم کی راہ سے خدا کے حقوق دوسروں کو دیتا ہے وہ ذلت کی موت دیکھے گا.اب جیسا کہ سورۃ فاتحہ میں تین گروہ کا ذکر ہے.ان تین کا ہی مزا چکھا دے گا.اس میں جو آخر تھے وہ مقدم ہو گئے یعنی ضَالِّیْن.اسلام وہ تھا کہ ایک شخص مرتد ہوجاتا تو قیامت برپا ہو جاتی تھی مگر اب بیس لاکھ عیسائی ہو چکے ہیں اور خود ناپا ک ہو کر پاک وجود کو گالیاں دی جاتی ہیں پھر مغضوب کا نمونہ طاعون سے دکھایا جا رہا ہے.اس کے بعد اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ کا گروہ ہو گا.یہ قاعدہ کی بات ہے اور خدا کی قدیم سے سنّت چلی آتی ہے کہ جب وہ کسی قوم کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ یہ کام نہ کرنا تو اس قوم میں سے ایک گروہ ضرور خدا کی خلاف ورزی کرتا ہے.کوئی قوم ایسی دکھاؤ کہ جس کو کہا گیا کہ تم یہ کام نہ کرنا اور اس نے نہ کیا ہو.خدا نے یہودیوں کو کہا کہ تحریف نہ کرو.انہوں نے تحریف کی.قرآن کی نسبت یہ نہیں کہا بلکہ یہ کہا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر: ۱۰ ) غرض دعا ؤں میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ کے گروہ میں داخل کرے.۱ ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۶ مورخہ ۳۰ ؍ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۱ تا ۵

Page 148

اپریل ۱۹۰۱ء کشف والہام کی حقیقت منشی الٰہی بخش صاحب وغیرہ لوگوں کی اپنی بعض حالتوں سے دھوکا کھا جانے کی نسبت گفتگو تھی.اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عام طور پر رؤیا اور کشف اور الہام ابتدائی حالت میں ہر ایک کو ہوتے ہیں مگر اس سے انسان کو یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ وہ منزل مقصود کو پہنچ گیا ہے.اصل میں بات یہ ہے کہ فطرت انسانی میں یہ قوت رکھی گئی کہ ہر ایک شخص کو کوئی خواب یا کشف یا الہام ہو سکے.چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ کفار،ہنود اور بعض فاسق فاجر لوگوں کو بھی خوابیں آتی ہیں اور بعض دفعہ سچی بھی ہو جاتی ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے خود ان لوگوں کے درمیاں اس حالت کا کچھ نمونہ رکھ دیا ہے جو کہ اولیاء اللہ اور انبیاء اللہ میں کامل طور پر ہوتا ہے تا کہ یہ لوگ انبیاء کا صاف انکار نہ کر بیٹھیں کہ ہم اس علم سے بے خبر ہیں.اتمام حجت کے طور پر یہ بات ان لوگوں کو دی گئی ہے تاکہ انبیاء کے دعا وی کو سن کر حریف اقرار کر لے کہ ایسا ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے کیونکہ جس بات سے انسان بالکل نا آشنا ہوتا ہے اس کا وہ جلدی انکار کر دیتا ہے.مثنوی رومی میں ایک اندھے کا ذکر ہے کہ اس نے یہ کہنا شروع کیا کہ آفتاب دراصل کوئی شے نہیں.لوگ جھوٹ بولتے ہیں.اگر آفتاب ہوتا تو کبھی میں بھی دیکھتا.آفتاب بولا کہ اے اندھے! تو میرے وجود کا ثبوت مانگتا ہے تو پہلے خدا سے دعا کر کہ وہ تجھے آنکھیں بخشے.اللہ تعالیٰ رحیم وکریم ہے.اگر وہ انسان کی فطرت میں یہ بات نہ رکھ دیتا تو نبوت کا مسئلہ لوگوں کو کیوں کر سمجھ میں آتا.ابتدا ئی رؤیا یا الہام کے ذریعہ سے خدا بندہ کو بلانا چاہتا ہے مگر وہ اس کے واسطے کوئی حالت قابل تشفی نہیں ہوتی چنانچہ بلعم کو الہامات ہوتے تھے مگر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے کہ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ ( الاعراف:۱۷۷ ) ثابت ہوتا ہے کہ اس کا رفع نہیں ہوا تھا.یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور میں وہ کوئی بر گزیدہ اور پسندیدہ بندہ ابھی تک نہیں بنا تھا یہاں تک کہ وہ گر گیا.ان الہامات وغیرہ سے

Page 149

انسان کچھ بن نہیں سکتا.انسان خدا کا بن نہیں سکتا جب تک کہ ہزاروں موتیں اس پر نہ آویں اور بیضہءِ بشریت سے وہ نکل نہ آئے.اس راہ میں قدم مارنے والے انسان تین قسم کے ہیں.ایک وہ جو دِیْنُ الْعَجَائِز رکھتے ہیں یعنی بڑھیا عورتوں کا سا مذہب.نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہیں اور توبہ و استغفار کر لیتے ہیں.انہوں نے تقلیدی امر کو مضبوط پکڑا ہے اور اس پر قائم ہیں.دوسرے وہ لوگ ہیں جو اس سے آگے بڑھ کر معرفت کو چاہتے ہیں اور ہر طرح کوشش کرتے ہیں اور وفاداری اور ثابت قدمی دکھاتے ہیں اور اپنی معرفت میں انتہائی درجہ کو پہنچ جاتے ہیں اور کامیاب اور بامراد ہو جاتے ہیں.تیسرے وہ لوگ ہیں جنہوںنے دِیْنُ الْعَجَائِز کی حالت میں رہنا پسند نہ کیا اور اس سے آگے بڑھے اور معرفت میں قدم رکھا مگر اس منزل کو نباہ نہ سکے اور راہ ہی میں ٹھوکر کھا کر گر گئے.یہ وہ لوگ ہیں جو نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے.ان لوگوں کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جس کو پیاس لگی ہوئی تھی اور اس کے پاس کچھ پانی تھا پر وہ پانی گدلا تھا تاہم وہ پی لیتا تو مرنے سے بچ جاتا.کسی نے اس کو خبر دی کہ پانچ سات کوس کے فاصلہ پر ایک چشمہ صاف ہے.پس اس نے وہ پانی جو اس کے پاس تھا پھینک دیا اور وہ صاف چشمہ کے واسطے آگے بڑھا.پر اپنی بے صبری اور بد بختی اور ضلالت کے سبب وہاں نہ پہنچ سکا.دیکھو اس کا کیا حال ہوا.وہ ہلاک ہو گیا اور اس کی ہلاکت نہایت ہولناک ہوئی.یا ان حالتوں کی مثال اس طرح ہے کہ ایک کنواں کھودا جا رہا ہے.پہلے تو وہ صرف ایک گڑھا ہے جس سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ آنے جانے والوں کے واسطے اس میں گر کر تکلیف اٹھانے کا خطرہ ہے پھر وہ اورکھودا گیا یہاں تک کہ کیچڑ اور خراب پانی تک وہ پہنچا.پر وہ کچھ فائدہ مند نہیں.پھر جب وہ کامل ہوا اور اس کا پانی صفا ہو گیا تو وہ ہزاروں کے واسطے زندگی کا موجب ہو گیا.یہ جو فقیر اور گدی نشین بنے بیٹھے ہیں یہ سب لوگ ناقص حالت میں ہیں.انبیا ء مصفّا پانی کے مالک ہو کر آتے ہیں.جب تک خدا کی طرف سے کوئی کچھ لے کر نہ آوے تب تک بے سود ہے.الٰہی بخش صاحب اگر موسیٰ بنتے ہیں تو ان سے پوچھنا چاہیے کہ ان کے موسیٰ بننے کی علّت غائی کیا ہے.جو لوگ خدا کی طرف سے آتے ہیں وہ مزدور کی طرح ہوتے ہیں اور لوگوں کو نفع پہنچانے

Page 150

کے لئے قدم آگے بڑھاتے ہیں اور علوم پھیلاتے ہیں اور کبھی تنگی نہیں کرتے اور سست اور ہاتھ پر ہاتھ دَھر کر نہیں بیٹھتے.۱ ۱۹؍ اپریل ۱۹۰۱ ء ۱۹؍ اپریل ۱۹۰۱ء کو لاہور سے فورمن کالج امریکن مشن کے د وپادری مع ایک دیسی عیسائی کے قادیان آئے تھے.وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی ملے اور انہوںنے کچھ سوالات آنحضرت سے کیے جن کا جواب حضرت اقدس دیتے رہے.ہم چونکہ بعد میں پہنچے تھے.اس لئے ابتدائی سوال اور اس کا جواب نہ لکھ سکے.ہمارے ایک بھائی نے اسے لکھا تھا مگر افسوس ہے کہ وہ اس کو محفوظ نہ رکھ سکے اور وہ کاغذ ان سے گم ہو گیا.اگر بعد میں مل گیا تو ہم اسے بھی درج کر دیں گے.سرِ دست ہم اُس مقام سے درج کرتے ہیں جہاںسے ہم نے سنا اور قلم بند کیا(ایڈیٹر) مامور الٰہی خود نشان ہوتا ہے نبیوں سے بہت نشانات مانگنے والوں نے نشان مانگے.انہوں نے ان کے جواب میں یہی کہا کہ عقل مند ایسے سوال نہیں کرتے بلکہ مسیح علیہ السلام کے الفاظ میں تو ایسے موقع پر جیسا انجیل سے پتہ لگتا ہے بہت سختی پائی جاتی ہے.یہ سچی بات ہے کہ جو شخص خدا کی طرف سے آتا ہے وہ نشانات لے کر آتا ہے.میں تو یہ کہتا ہوں کہ وہ خود ایک نشان ہوتا ہے لیکن تھوڑے ہوتے ہیں جو ان نشانات سے فائدہ اٹھاتے اوران کو شناخت کرتے ہیں مگر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد دنیا دیکھ لیتی ہے کہ وہ کیسے عظیم الشان نشانات کے ساتھ آیا ہے.یقیناً سمجھ لیں کہ وہ نہیں مرتا جب تک دنیا پر ثابت نہ کر دے کہ وہ صاحب نشان ہے.مامورین کی دو قسمیں سوال.آپ کی سمجھ میں خدا کا کلام کیا ہے یعنی کیا آپ بھی کچھ نوشتے چھوڑ جائیں گے جیسے انجیل یا تورات ہے؟ جواب حضرت اقدسؑ.بات اصل میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو لوگ مامور ہو کر دنیا کی ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۶ مورخہ ۳۰؍ اپریل ۱۹۰۱ءصفحہ ۱۳ ، ۱۴

Page 151

اصلاح کے واسطے آتے ہیں وہ دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک وہ جوصاحبِ شریعت ہوتے ہیں اور ایک نئی شریعت قائم کرتے ہیں جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کہ وہ خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہوتے تھے اور مامور ہو کر آئے تھے مگر ان کو ایک شریعت دی گئی جس کو آپ لوگ تورات کہتے ہیں اور مانتے ہیں کہ شریعت موسیٰ کی معرفت دی گئی.مگر ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے ہمکلام تو ہوتے ہیں اور ان صاحبِ شریعت نبیوں کی طرح وہ بھی اصلاح خلق کے لئے آتے ہیں اور اپنے وقت پر ضرورتِ حقہ کے ساتھ آتے ہیں مگر وہ صاحبِ شریعت نہیں ہوتے جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہ وہ کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئے تھے بلکہ اسی موسوسی شریعت کے پابند تھے.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی لغو کام نہیں کرتا.جب اس کا زندہ کلام موجود ہو اور ایک مستقل شریعت وقت کی ضرورت کے موافق موجود ہو تو دوسری کوئی شریعت دی نہیں جاتی لیکن ہاں اس وقت ایسا تو ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے کہ جب اہلِ دنیا کے دلوں سے خدا کی محبت سرد ہو جاوے اور اعمال صالحہ کی بجائے چند رسمیں رہ جاویں.تقویٰ اور اخلاق فاضلہ نہ رہیں.اس وقت خدا تعالیٰ ایک شخص کو مبعوث کرتا ہے جو اسی شریعت پر عملدرآمد کی ہدایت کرتا ہے اور اپنے عملی نمونہ سے اس شریعت حقہ کی کھوئی ہوئی عظمت اور بزرگی کو پھر لوگوں کے دلوں میں قائم کرتا ہے.اس کے مناسب حال اس میں سب باتیں موجود ہوتی ہیں.وہ خدا تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف رکھتاہے.کلام الٰہی کا مغز اسے عطا ہوتا ہے اور شریعت کے اسرار پر اسے اطلاع دی جاتی ہے.وہ بہت سے خوارق اور نشان لے کر آتا ہے.غرض ہر طرح سے معزز اور مکرم ہوتا ہے مگر دنیا اس کو نہیں پہچانتی.جیسے جیسے کسی کو آنکھیں ملتی جاتی ہیں وہ اس کو اسی حد تک شناخت کرتا جاتا ہے.مامورین کی مخالفت یہ امر انسانی عادت میں داخل ہے کہ جب کوئی نیا انسان اُس کے سامنے آتا ہے تو آنکھیں اس کوتاڑتی ہیں کہ یہ اس کا قد ہے، یہ رنگ ہے، آنکھیں ایسی ہیں، صورت شکل ایسی ہے.غرض سر سے لے کر پیر تک اس کو تاڑتا ہے یہاں تک کہ نظر میں محدود ہو کر آخر کار اس کا رعب کم ہو جاتا ہے.اسی طرح نبیوں کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ

Page 152

آتے ہیں تو معمولی انسان ہوتے ہیں.تمام حوائج بشری اور ضروریات ان کے ساتھ ہوتی ہیں.اس لئے جو کچھ وہ فوق الفو ق باتیں بتاتے ہیں دنیا کی نظر میں وہ اچنبھا ہوتی ہیں اس لئے انکار کیا جاتا ہے.ان کو حقیر سمجھا جاتا ہے.ان سے ہنسی کی جاتی،ہر قسم کی تکالیف اور ایذا رسانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے دل میں حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح کی ہی بڑی عزّت کیوں نہ ہو لیکن جس جگہ میں بیٹھا ہوں اگر آج اسی جگہ حضرت موسیٰ یا حضرت مسیحؑ ہوتے تو وہ بھی اسی نظر سے دیکھے جاتے جس نظر سے میں دیکھا جاتا ہوں.یہی بھید ہے کہ ہر نبی کو دکھ دیا گیا اورضروری امر ہے کہ ہر ایک جو خدا کی طرف سے مامور اور مرسل ہو کر آوے وہ اپنی قوم میں کیسا ہی معزز اور امین اور صادق ہو لیکن اس کے دعوے کے ساتھ ہی اس کی تکذیب شروع ہو جاتی اور اس کی تذلیل اور ہلاکت کے منصوبے ہونے لگتے ہیں.مگر ہاں جیسے یہ لازمی امر ہے کہ ان کی تکذیب کی جاتی ،ان کو دکھ دیا جاتا ہے.یہ بھی سچی اور یقینی بات ہے کہ ایک وقت آجاتا ہے کہ ان کی جماعتیں مستحکم ہو جاتی ہیں.وہ دنیا میں صداقت کو قائم کر دیتے اور راستبازی کو پھیلا دیتے ہیں یہاںتک کہ ان کے بعد ایک زمانہ آتا ہے کہ ایک دنیا ان کی طرف ٹوٹ پڑتی اور ان تعلیمات کوقبول کر لیتی ہے جو وہ لے کر آتے ہیں.گو اپنے زمانہ میں ان کو دکھ دینے میں کوئی کسر نہ رکھی گئی ہو اور نہیں رکھی جاتی.ہاں سوال یہ ہوتا ہے کہ جنہوںنے ردّ کر دیا وہ دانش مند تھے؟ نہیں ہرگز نہیں.یہ صرف زمانہ کی خاصیت ہے کہ ان کو دانش مند کہا جاتا ہے.ورنہ ان سے بڑھ کر بے وقوف اور سطحی خیال کے اور کون لوگ ہوں گے جو حق کو جھٹلا کر دانش مند بنتے ہیں.یہ ایک فطرت کی کجی ہوتی ہے جو کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح ان کو ذلیل کیا جاوے.اسی طرح خیالی طور پر اس قسم کے مجمع کہہ اٹھتے ہیں کہ ہم جیت گئے اور خدا کے راستبازوں کے مقابلہ میں ہم کامیاب ہوگئے حالانکہ وہی ذلیل، نامراد اور مغلوب ہوتے ہیں.آخر انجام دکھا دیتا ہے اور ایک روشن فیصلہ نمودار ہو جاتا ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حق کس کے ساتھ ہے.راستباز کی کامیابی مخالفوں کی

Page 153

سفاہت اور جہالت پر مہر کر دیتی ہے کہ وہ جس قدر اعتراض کرتے تھے اپنی نادانی سے کرتے تھے.میں یہ بار بار لکھ چکا ہوں کہ جوخدا کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں دنیا ان کو کم پہچانتی ہے.بجز ان لوگوں کے جو دیکھنے کی آنکھیں رکھتے ہیں.ان کو دوسرے دیکھ ہی نہیں سکتے کیونکہ وہ تو ان میں ہی ایک کھاتے پیتے حوائج بشری کے رکھنے والے انسان ہوتے ہیں.میں کوئی جدید شریعت لے کر نہیں آیا اور یہ بات کہ میرے نوشتے باقی رہیں گے.میں پہلے کہہ چکاہوں کہ خدا کی طرف سے مامورہو کر آنے والے لوگوں کے دو طبقہ ہوتے ہیں.ایک وہ جو صاحب شریعت ہوتے ہیں جیسے موسیٰ علیہ السلام اور ایک وہ جو احیاءِ شریعت کے لئے آتے ہیں جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام.اسی طرح پر ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل شریعت لے کر آئے جو نبوت کے خاتم تھے.اس لئے زمانہ کی استعدادوں اور قابلیتوں نے ختم نبوت کر دیا تھا.پس حضور علیہ السلام کے بعد ہم کسی دوسری شریعت کے آنے کے قائل ہرگز نہیں.ہاں جیسے ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ تھے اسی طرح آپ کے سلسلہ کا خاتم جو خاتم الخلفاء یعنی مسیح موعود ہے.ضروری تھا کہ مسیح علیہ السلام کی طرح آتا.پس میں وہی خاتم الخلفاء اور مسیح موعود ہوں.جیسے مسیح کوئی شریعت لے کر نہ آئے تھے بلکہ شریعت موسوی کے احیاء کے لئے آئے تھے میں کوئی جدید شریعت لے کر نہیں آیا اور میرا دل ہرگز نہیں مان سکتا کہ قرآنِ شریف کے بعد اب کوئی اور شریعت آسکتی ہے کیونکہ وہ کامل شریعت اور خاتم الکتب ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے مجھے شریعتِ محمدی کے احیاء کے لئے اس صدی میں خاتم الخلفاء کے نام سے مبعوث فرمایا ہے.میرے الہامات جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے ہوتے ہیں اور جو ہمیشہ لاکھوں انسانوں میں شائع کئے جاتے ہیں اور چھاپے جاتے ہیں اور ضائع نہیں کئے جاتے.وہ ضائع نہ ہوں گے اوروہ قائم رہیں گے.اشاعت مذہب کا بہترین طریق سوال.آپ کی رائے میں مذہب کے پھیلانے کا بہتر طریقہ کیا ہے؟

Page 154

جواب.میرے نزدیک اشاعت مذہب کا بہترین طریق یہی ہے کہ وہ مذہب اپنی خوبیوں اور حُسن کی وجہ سے خود ہی اندر چلا جاوے اور اس کے لئے بیرونی کوشش کرنی نہ پڑے مثلاً بعض چیزیں ایسی ہیں کہ وہ اپنی روشنی کی وجہ سے خود بخود نظر آتی ہیں جیسے سورج ،چاند، ستارے وغیرہ.اور ایک وہ چیزیں ہیں جو ان روشنیوں کے بغیر نظر ہی نہیں آسکتی ہیں مثلاً چرند پرند وغیرہ کو ہم نہیں دیکھ سکتے جب تک روشنی نہ آوے.پس سچا مذہب اپنی روشنی اور حقّانیت و صداقت کے نور سے خود بخود شناخت ہو کر روحوں میں اترتا جاتا ہے اور دلوں کو اپنی طرف کھینچتا جاتا ہے اس لئے میں نے کہا تھا کہ تعلیم ایک بڑا نشان ہے.جس مذہب کے ساتھ تعلیم کا نشان نہیں ہوتا اس کے دوسرے نشان کوئی فائدہ پہنچا نہیں سکتے.آسمانی تعلیم اپنے اندر ایک روشنی اور نور رکھتی ہے.وہ انسانی طریقوں سے بالا تر ہوتی ہے.ایک انسان جب بکلی مر جاوے اور گندی زندگی سے نکل آوے اس وقت وہ خدا میں زندگی پاتا ہے اور سچے مذہب کا نشان محسوس کرتا ہے مگر خدا کے فضل کے سوایہ کس کا کام ہے کہ گندی زندگی سے مر کر نئی زندگی پاوے.یہ اس خدا کے ہاتھ سے ہوتا ہے جس نے دنیا کو زندگی بخشی ہے.وہ جس انسان کو مبعوث کرتا ہے پہلے اس کو یہ زندگی عطا کرتا ہے.وہ بظاہر دنیا میں ہوتا ہے اور دنیا کے لوگوں سے ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ اس دنیا کا انسان نہیں ہوتا.وہ خدا تعالیٰ کی چادر کے نیچے ہوتا ہے.پھر خدا تعالیٰ اس کے مناسب حال تعلیم اس کو دیتا ہے جس کو اسی مناسبت کے لوگ سیکھتے ہیں.اس میں گند، نفس پرستی، ظلم اور شہوانی خواہشات کو پورا نہیں کیا جاتا بلکہ وہ پاک باتیں ہوتی ہیں جو انسان پر ایک موت وارد کر کے اس کو ایک نئی زندگی عطا کرتی ہیں.جس سے اس کو گناہ سوز فطرت مل جاتی ہے.وہ ہر ایک قسم کی ناپاکی اور گند سے نفرت کرتا ہے اور خدا تعالیٰ میں زندگی بسر کرنے میں راحت اور لذّت پاتا ہے.پس میرے نزدیک سچا مذہب اپنی اشاعت کا آپ ہی کفیل ہے.اس کے لئے کسی خارجی کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی.ہاں یہ سچ ہے کہ اس کی صداقت کے اظہار کا ذریعہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خدا کی طرف سے اسے لے کر آتے ہیں.مقابلہ کے وقت ان کو غلبہ ملتا ہے جو بطور نشان کے ہوتا ہے.ان کی آمد اس وقت ہوتی ہے جب دنیا حق اور

Page 155

نور کے لئے بھوکی پیاسی ہوتی ہے.غرض عمدہ تعلیم اور کامل نمونہ جو اس تعلیم کی عمدگی کا زندہ ثبوت ہوتا ہے وہی اشاعت کا بہترین طریق ہے.روحانی زندگی پانے کا طریق سوال.ہم آپ کو بہت تکلیف دینا نہیں چاہتے.یہ روحانی زندگی کس طرح مل سکتی ہے؟ جواب.خدا کے فضل سے.سوال.ہمیں کچھ کہناچاہیے کہ روحانی زندگی ہم کو مل جاوے؟ جواب.ہاں.دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ہی نیک صحبت میں رہنا چاہیے.سب تعصبوں کو چھوڑ کر گویا دنیا سے الگ ہو جاوے.جیسے جہاں طاعون پڑی ہوئی ہو اور کوئی شخص وہاں سے الگ نہیں ہوتا ہے تو وہ خطرہ کی حالت میں ہے.اسی طرح جو شخص اپنی حالت کو بدل نہیں ڈالتا اور اپنی زمین میں تبدیلی نہیں کرتا اور الگ ہو کر نہیں سوچتا کہ کس طرح پاک زندگی پاؤں اور خدا سے دعا نہیں مانگتا وہ خطرہ کی حالت میں ہے.دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے دعا کی تعلیم نہیں دی.یہ دعا ایک ایسی شے ہے جو عبودیت اور ربوبیت میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے.اس راہ میں قدم رکھنا بھی مشکل ہے لیکن جو قدم رکھتا ہے پھر دعا ایک ایسا ذریعہ ہے کہ ان مشکلات کو آسان اور سہل کر دیتا ہے.دعا کا ایک ایسا باریک مضمون ہے کہ اس کا ادا کرنا بھی بہت ہی مشکل ہے.جب تک خود انسان دعا اور اس کی کیفیتوں کا تجربہ کار نہ ہو ،وہ اس کو بیان نہیں کر سکتا.غرض جب انسان خدا تعالیٰ سے متواتر دعا ئیں مانگتا ہے تو وہ اور ہی انسان ہو جاتا ہے.اس کی روحانی کدورتیں دور ہو کر اس کو ایک قسم کی راحت اور سرور ملتا ہے اور ہر قسم کے تعصّب اور ریا کاری سے الگ ہو کر وہ تمام مشکلات کو جو اس کی راہ میںپیدا ہوںبرداشت کر لیتا ہے.خدا کے لئے ان سختیوں کو جو دوسرے برداشت نہیں کرتے اور نہیں کر سکتے صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ راضی ہو جاوے برداشت کرتا ہے.تب خدا تعالیٰ جو رحمٰن رحیم خدا ہے اور سراسر رحمت ہے اس پر نظر کرتا ہے اور اس کی ساری کلفتوں اور کدورتوں کو سرور سے بدل دیتا ہے.

Page 156

زبان سے دعویٰ کرنا کہ میں نجات پا گیا ہوں یا خدا تعالیٰ سے قوی رشتہ پیدا ہو گیا ہے آسان ہے لیکن خدا تعالیٰ دیکھتا ہے کہ وہ کہاں تک ان تمام باتوں سے الگ ہو گیا ہے جن سے الگ ہونا ضروری ہے.یہ سچی بات ہے کہ جو ڈھونڈتا ہے وہ پا لیتا ہے.سچے دل سے قدم رکھنے والے کامیاب ہو جاتے ہیں اور منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں.جب انسان کچھ دین کا اور کچھ دنیا کا ہوتا ہے آخرکار دین سے الگ ہو کر دنیا ہی کا ہو جاتا ہے.اگر انسان ربّانی نظر سے مذہب کو تلاش کرے تو تفرقہ کا فیصلہ بہت جلد ہو جاوے.مگر نہیں.یہاں مقصود اور غرض یہ ہوتی ہے کہ میری بات رہ جاوے.دو آدمی اگر بات کرتے ہیں تو ہر ایک ان میں سے یہی چاہتا ہے کہ دوسرے کو گرا دے.اس وقت تو چیونٹی کی طرح تعصّب، ہٹ دھرمی اور ضد کی بلائیں لگی ہوئی ہیں.غرض میں آپ کو کہاں تک سمجھاؤں بات بہت باریک ہے اور دنیا اس سے بے خبر ہے اور یہ صرف خدا ہی کے اختیار میں ہے.اس زمانہ میں دہریت کا زور میرا مذہب یہ ہے کہ وہ خدا جس کو ہم دکھانا چاہتے ہیں وہ دنیا کی نظروں سے پو شیدہ ہے اور دنیا اس سے غافل ہے.اس نے مجھ پر اپنا جلوہ دکھایا ہے.جو دیکھنے کی آنکھ رکھتا ہو دیکھے.دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو خد اکو مانتے ہیں اور دوسرے وہ جو نہیں مانتے اور دہریہ کہلاتے ہیں.جو مانتے ہیں ان میں بھی دہریت کی ایک رگ ہے کیونکہ اگر وہ خدا کو کامل یقین کے ساتھ مانتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس قدرفسق وفجور اور بے حیائی میں ترقی ہو رہی ہے.ایک انسان کو مثلاً سنکھیایا سٹرکنیا دیا جاوے جبکہ اس کو اس بات کا علم ہے کہ یہ زہر قاتل ہے تو وہ اس کو کبھی نہیں کھائے گا خواہ اس کے ساتھ تم اسے کس قدر بھی لالچ روپیہ کا دو.اس لئے کہ اس کو اس بات کا یقین ہے کہ میں نے اس کو کھایا اور ہلاک ہوا.پھر کیا وجہ ہے کہ لوگ یہ جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ گناہ سے ناراض ہوتا ہے اور پھر بھی اس زہر کے پیالے کو پی لیتے ہیں،جھوٹ بولتے ہیں،زنا کرتے ہیں،دکھ دینے کو تیار ہو جاتے ہیں،بارہ بارہ آنہ یا ایک روپیہ کے زیور پر معصوم بچوں کو مار ڈالتے ہیں.اس قدر بے باکی اور شرارت و شوخی کا پیدا ہونا سچے علم اور پورے یقین کے بعد تو ممکن نہیں.اس سے معلوم ہوا کہ ان کو یہ

Page 157

ہرگز معلوم نہیں کہ یہ بدی کا زہر ہلاک کرنے میںسنکھیایا سٹرکنیا کے زہر سے بھی بڑھ کر ہے.اگر ان کا ایمان اس بات پر ہوتا کہ خدا ہے اور وہ بدی سے ناراض ہوتا ہے اور اس کی پاداش میں سخت سزا ملتی ہے تو گناہ سے بے زاری ظاہر کرتے اور بدیوں سے ہٹ جاتے.لیکن چونکہ گناہ کی زندگی عام ہوتی جاتی ہے اور بدی اور فسق وفجور سے نفرت کی بجائے محبت بڑھتی جاتی ہے اس لئے میں یہی کہوں گا اور یہی سچ ہے کہ آجکل دہریہ مت پھیلا ہوا ہے.فرق صرف اتنا ہے کہ ایک گروہ زبان سے کہتا ہے کہ خدا ہے مگر مانتا نہیں اور دوسرا گروہ صاف انکار کرتا ہے.حقیقت میں دونوں ملے ہوئے ہیں.آمد کا مقصد اس لئے میں خدا تعالیٰ پر ایسا ایمان پیدا کرانا چاہتا ہوں کہ جو خدا تعالیٰ پر ایمان لاوے وہ گناہ کے زہر سے بچ جاوے اور اس کی فطرت اور سرشت میں ایک تبدیلی ہو جاوے.اس پر موت وارد ہو کر ایک نئی زندگی اس کو ملے.گناہ سے لذّت پانے کی بجائے اس کے دل میں نفرت پیدا ہو.جس کی یہ صورت ہو جاوے وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے خدا کو پہچان لیا ہے.خدا خوب جانتا ہے کہ اس زمانہ میں یہی حالت ہو رہی ہے کہ خدا کی معرفت نہیں رہی.کوئی مذہب ایسا نہیں رہا جو اس منزل پر انسان کو پہنچاوے اور یہ فطرت اس میں پیدا کرے.ہم کسی خاص مذہب پر کوئی افسوس نہیں کر سکتے.یہ بلا عام ہو رہی ہے اور یہ وبا خطر ناک طور پر پھیلی ہے.میں سچ کہتا ہوں خدا پر ایمان لانے سے انسان فرشتہ بن جاتا ہے بلکہ ملائکہ کا مسجود ہوتا ہے.نورانی ہو جاتا ہے.غرض جب اس قسم کا زمانہ دنیا پر آتا ہے کہ خدا کی معرفت باقی نہیں رہتی اور تباہ کاری اور ہر قسم کی بدکاریاں کثرت سے پھیل جاتی ہیں.خدا کاخوف اٹھ جاتا ہے اور خدا کے حقوق بندوں کو دیئے جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ اسی حالت میں ایک انسان کو اپنی معرفت کا نور دے کر مامور فرماتا ہے.اس پر لعن طعن ہوتا ہے اور ہر طرح سے اس کو ستایا جاتا اور دکھ دیا جاتا ہے لیکن آخر وہ خدا کا مامور کامیاب ہوجاتا اور دنیا میں سچائی کا نور پھیلا دیتا ہے.اسی طرح اس زمانہ میں خدا نے مجھے مامور کیا اور اپنی معرفت کا نور مجھےبخشا.کوئی گالی نہیں جو ہم کو نہیں دی گئی.کوئی صورت ایذا رسانی کی نہیں

Page 158

جو ہمارے لیے نہیں نکالی گئی مگر ہم ان ساری بد زبانیوں کو سنتے ہیں اور ان ساری تکلیفوں کے برداشت کرنے کو ہر وقت آمادہ ہیں.خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ بناوٹ سے نہیں بلکہ ہمارا فرض ہے کہ سنیں کیونکہ جس مسند پر ہمیں بٹھایا گیا ہے اس پر بیٹھنے والوں کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے.۱ مسیح موعود کا کام غرض اس سلسلہ کو قائم ہوئے پچیس سے زیادہ سال گزر گئے.یہ ایک بڑا حصہ زندگی کا ہے.ا س عرصہ میں ایک بچہ پیدا ہو کر بھی صاحب اولاد ہو سکتا ہے.یہ خدا کا فضل ہے کہ اس نے عین وقت پر ہماری دستگیری کی اور مخلوق پر رحم فرمایا.چونکہ خود اس نے ایک غیر معمولی ہمت اور استقلال ہم کو دیا ہے جو اپنے ماموروں کو ہمیشہ دیا کرتا ہے اسی لئے اسی قوت اور طاقت کی وجہ سے ہم نہیں تھکتے اور یہ ساری مخالفتیں جو اس وقت کی جاتی ہیں ایک وقت آتا ہے کہ ان کا نام ونشان مٹ جاوے گا اور ہم امیدوار ہیں کہ وہ زمانہ آنے والا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ اس وقت آسمان باتیں کر رہا ہے.خدا چاہتا ہے کہ زمین کے رہنے والوں میں ایک پاک تبدیلی ہو.جس طرح سے ہر ایک بادشاہ طبعاًچاہتا ہے کہ اس کا جلال ظاہر ہو.اسی طرح منشاءِ الٰہی اس وقت یو نہی ہو رہا ہے کہ اس عظمت وجبروت کا اہلِ دنیا کو علم ہوا ور وہ خدا جو پوشیدہ ہو رہا ہے دنیا پر اپنا ظہور دکھائے اس لئے اس نے اپنا ایک مامور بھیجا ہے تا کہ دنیا کا جذام جاتا رہے.اگر یہ سوال ہو کہ تم نے آکر کیا بنایا.ہم کچھ نہیں کہہ سکتے.دنیا کوخو د معلوم ہو جاوے گا کہ کیا بنایا.ہاں.اتنا ہم ضرور کہتے ہیں کہ لوگ آکر ہمارے پاس گناہوں سے توبہ کرتے ہیں.ان میں انکسار فروتنی پیدا ہوتی ہے اور رذائل دور ہو کر اخلاق فاضلہ آنے لگتے ہیں اور سبزہ کی طرح آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں اور اپنے اخلاق اور عادات میں ترقی کرنے لگتے ہیں.انسان ایک دم میں ہی ترقی نہیں کر لیتا بلکہ دنیا میں قانون قدرت یہی ہے کہ ہر شے تدریجی طور پر ترقی کرتی ہے اس سلسلہ سے باہر کوئی شے ہو نہیں سکتی.ہاں ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ آخر سچائی پھیلے گی اور پاک تبدیلی ہو گی.یہ میرا کام نہیں ہے بلکہ خدا کا کام ہے.اس نے ارادہ کیا ہے کہ پاکیزگی پھیلے.دنیا کی حالت مسخ ہو چکی ہے ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۰ ؍ مئی ۱۹۰۱ ء صفحہ ۱ تا ۴

Page 159

ور اسے ایک کیڑا لگا ہوا ہے.پوست ہی پوست باقی ہے مغز نہیں رہا.مگر خدا نے چاہا ہے کہ انسان پاک ہو جاوے اور اس پر کوئی داغ نہ رہے.اسی واسطے اس نے محض اپنے فضل سے یہ سلسلہ قائم کیا ہے.مسیح موعودؑ کی حقیقت سوال.آپ کی کتابوں کے موافق آپ کا لقب مسیح موعود ہے.اس کے ٹھیک معنے کیا ہوتے ہیں؟ جواب.اس راز کو سمجھنے کے واسطے یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس نے نبوتوں کی بنیاد ڈالی ہے.نبوت کا ایک سلسلہ پہلے قائم کیا تھا اس سلسلہ کی بنیاد حضرت موسیٰ علیہ السلام نبی سے ڈالی تھی.ان سے پیشتر جو نبی دنیا میں گزرے تھے ان کے آثار نہ رہے تھے.حضرت موسیٰ ہی تھے جن کی کتاب میں نوح کا، آدم کا اور بعض دیگر انبیاء علیہم السلا م کا ذکر کیا گیا.غرض جیسے کسی خاندان کا مورثِ اعلیٰ ہوتا ہے اسی طرح پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خاندانِ نبوت کا مورثِ اعلیٰ ٹھہرایا اور توریت کے ذریعہ ان کو اپنی شریعت دی.موسیٰ مرد خدا کے انتقال کے بعد اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کی خدمت کے لئے کہ اس میں زوال نہ ہواور نبی بھیجتا رہا جو اس سلسلہ موسویہ کے خادم ہوتے تھے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو (جس کو آپ لوگ یسوع کہتے ہیں)اسی سلسلہ موسویہ کا مؤید بنا کر بھیجا.وہ اس سلسلہ موسویہ کی آخری اینٹ تھے جیسے آخری اینٹ مکان کو ختم کر دیتی ہے اسی طرح حضرت مسیح پر سلسلہ موسویہ کا خاتمہ ہو گیا اور اس سلسلہ کو خدا نے پورا کیا اور ایک نئے سلسلے کی بنیاد رکھی جو اسماعیل کی نسل سے قائم ہوا اور سلسلہ محمدیہ کہلایا.جیسا کہ خود اسماعیل کے لفظ سے بھی معلوم ہوتا ہے اور جیسا خدا تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی معرفت خبر دے دی تھی کہ بنی اسماعیل میں ایک سلسلہ موسویہ سلسلہ کی طرح قائم کیا جاوے گا.چونکہ بنی اسرا ئیل یعنی یہودیوں نے نہ اوّل کے ساتھ جو موسیٰ علیہ السلام تھے اچھا سلوک کیا اور نہ آخری کے ساتھ جو مسیح تھا اچھا سلوک کیا اور ایسا ہی نہ درمیانی نبیوں سے اچھا سلوک کیا کہ یہ قوم ایسی سنگدل اور بے باک تھی کہ صفحہ روزگار میں اس کی نظیر نہ ملے گی.نبیوں کی تکذیب اور ایذا رسانی میں اس قوم نے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا.انہوں نے خدا کے نورانی بندوں کی قدر نہیں کی.اس لئے

Page 160

حضرت عیسیٰ پر اس سلسلہ کو ختم کر دیا.مسیح کی بن باپ ولادت میں قدرت کا انتباہ یہ ختم رضا مندی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ ناراضگی کی وجہ سے تھا.خود حضرت مسیح کی پیدائش بطور نشان کے تھی یعنی وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے چونکہ نسل باپ سے جاری ہوتی ہے اس لئے حضرت عیسیٰ کو بن باپ پیدا کر کے خدا نے بنی اسرائیل کو متنبہ کیا کہ تمہاری شامتِ اعمال کی وجہ سے اس سلسلہ کو ختم کیا جاتا ہے.دوباتوں کا خود تم لوگوں نے اعتراف کیا ہے.اوّل یہ کہ خدا نے ان کو بدوں باپ پیدا کیا جو یہ کہتا ہے کہ ان کا باپ ہے وہ خدا تعالیٰ کے قانون کو توڑنا چاہتا ہے اور خد اتعالیٰ کے اس نشان کی جو ان کی پیدائش میں رکھا ہوا تھا بے حرمتی کرتا ہے.دوسری بات جس کا تم کو اعتراف ہے،یہ ہے کہ وہ آخری اینٹ تھے.اس کی مثال انجیل میں باغ والی تمثیل میں بیان کی گئی ہے کہ ایک شخص نے باغ لگایا.اس کے طیار ہونے پر نوکر کو بھیجا وغیرہ آخر تک.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نظر مہر اور نظر رحم یہود پر نہ رہی تھی.پھر تیسری نشانی اس امر پر کہ سلسلہ موسویہ کا خاتمہ مسیحؑ پر ہو گیا،یہ ہے کہ ان کا ملک بھی چھن گیا.غرض مسیح علیہ السلام کا بن باپ پیدا ہونا بطور ایک نشانِ کتبہ کے تھا.اسی خاندان میں سے جو ایک ہی جز رکھتا تھا اور جس میں آج تک نبی آتے رہے تھے.خدا نے ایک اور شاخ پیدا کر دی اور ایک دوسری بنیاد بنی اسماعیل میں سے ڈالی.یہود کی حکومت کی تباہی کا ذکر میں نے اس لئے کیا ہے کہ نبوت اور حکومت خدا نے اس قوم میں رکھ دی تھی لیکن مسیح کو جب کہ بن باپ پیدا کر کے یہ بتایا کہ تمہاری بد اعمالیاں اور شوخیاں ،نبیوں کی تکذیب اور خدا تعالیٰ کے ماموروں سے عداوت اس درجہ تک پہنچ گئی ہے کہ اب تم بجائے منعم علیہم ہو نے کے مغضوب ہوتے ہو اور نبوت کے خاندان کے انقطاع کے لئے یہ نشان ان کو دیا گیا کہ بنی اسرائیل میں سے مسیح کا کوئی باپ نہ ہوا یعنی اس کو بن باپ پیدا کرکے بتایا کہ آئندہ نبوت تم میں سے گئی.

Page 161

انتقالِ نبوت اور یہ انتقالِ نبوت چونکہ خدا کے غضب کے سبب سے ہوا تھا اس لئے حکومت جو نبوت کے ساتھ دوسرا فضل اس قوم کو ملا ہوا تھا وہ بھی جاتا رہا.میرا مطلب اس بیان سے یہ ہے کہ ایک وہ سلسلہ تھا جو سلسلہ موسویہ کہلاتا ہے اور جس کی آخری اینٹ مسیح ابن مریم تھے جن کی بن باپ پیدائش نے اس سلسلہ کے خاتمہ کی خبردی اور خدا نے بنی اسماعیل میں اپنے وعدہ کے موافق ایک اور عظیم الشان سلسلہ موسوی سلسلہ کے ہم رنگ پیدا کیا چنانچہ ہمارے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ کے بانی ہوئے اور اسی طرح پر مثیلِ موسیٰ قرار پائے کیونکہ موسیٰ علیہ السلام جیسے ایک سلسلہ کے بانی تھے اسی طرح ہمارے نبی کریم بھی ایک سلسلہ کے بانی قرار پائے.اور اس طرح پر بھی کہ جیسے فرعون پر موسیٰ علیہ السلام کو فتح ہوئی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی آخر میں پوری کامیابی عطا ہوئی اور ابو جہل جواس امت کا فرعون تھا ہلاک ہوا.اور بھی بہت سے وجوہ مماثلت کے ہیں جن کو ہم اس وقت بیان نہیں کرتے.اُمّت محمدیہ کا خاتم الخلفاء کیونکہ اصل مطلب تو یہ بتانا ہے کہ یہ سلسلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ کا مثیل ہے.پس جس طرح پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سلسلہ حضرت مسیحؑ پر آکرختم ہوا یہاں بھی ضرور تھا کہ خاتم الخلفاء مسیح موعود ہی ہوتا اور جیسے حضرت مسیح علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے بعد چودھویں صدی میں آئے تھے اسی طرح پر ضرور تھا کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آنے والے مسیح موعود کا زمانہ بھی چودھویں صدی ہی ہوتا تا کہ مشابہت پو ری ہو اور وہ وقت اور یہ وقت دونوں مل گئے.ایسا ہی خدا نے یہ بھی مقرر کر رکھا تھا کہ جیسے یہودی حضرت عیسٰیؑ کے وقت میں بہت ہی بگڑ گئے تھے اور ان کی اخلاقی، ایمانی حالتیں مسخ ہو گئی تھیں اور حقیقت باقی نہ رہی تھی ایسے وقت میں انجیل ان کو حقیقت دکھانے کے لئے آئی تھی اور پاک باطنی اور اخلاقی قانون سے باخبر کرنے آئی تھی جس سے وہ لوگ بالکل بے خبر ہو چکے تھے.اسی طرح اس وقت زمانہ کا حال ہو رہا ہے.فسق وفجور کا ایک دریا بہہ رہا ہے.یورپ کی نمائشی تہذیب نے اخلاق کے تمام اعلیٰ اصولوں پر پانی پھیر دیا ہے اور دہریت کو پھیلا دیا ہے.

Page 162

مذہب جس شے کا نام تھا اس کا نام ونشان مٹ چکا ہے.یورپ کی قوموں کا ہی اگر یہ حال ہوتا تب بھی ضرور تھا کہ کوئی روحانی معلّم آتا مگر مسلمانوں کی حالت بھی بگڑ گئی.ان کے ایمانیات اخلاق و عادات میں ایک عظیم زلزلہ آیا ہے.وہ اسلام کے صرف نام سے آشنا ہیں.اس کی حقیقت اور مغز سے بے خبر ہو رہے ہیں.ان کی عملی اورعلمی قوتیں کمزور ہو گئی ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غیرقوموں نے ان کے مذہب اور ایمان پر حملہ کرنا شروع کر دیا.جب ایسی حالت ہو گئی تو خدا نے اپنے وعدہ کے موافق اور اس مشابہت اور مماثلت کے لحاظ سے جو سلسلہ محمدؐیہ کو سلسلہ موسویہ سے ہے اس چودھویں صدی کے سر پر مجھے مسیح موعود کے نام سے بھیجا.قرآن کریم میں خاتم الخلفاء کی پیشگوئی تھی اور یہی ذکر تھا کہ ایک مسیح اس امت میں آئے گا اور انجیل میں مسیح نے کہا کہ آخری زمانہ میں مَیں آؤں گا.وہ میں ہی ہوں.اور اس کا راز خدا نے مجھ پر یہ کھولاہے کہ جو لوگ یہاں سے چلے جاتے ہیں ان کی خو،خصلت اور اخلاق پر ایک اور شخص آتا ہے اور اس کا آنا گویا اسی شخص کا آنا ہوتا ہے.اور یہ بات بے معنی اور بے سند بھی نہیں ہے خود انجیل نے اس عقدہ کو حل کیا ہے.یہود جو مسیح بن مریم سے پیشتر ایلیا نبی کے آنے کے منتظر تھے اور ملا کی نبی کی کتاب کے وعدہ کے موافق ان کا حق تھا کہ وہ انتظار کرتے لیکن وہ چونکہ ظاہر بین اور الفاظ پرست تھے اس لئے وہ حقیقت سے آشنا نہ ہوئے اور ایلیا ہی کا انتظار کرتے رہے.جیسا کہ توریت اور نبیوں کی کتابوں میں لکھا تھا جو وعدہ پر آتا ہے وہی موعودہو.ان کو یہ غلطی لگی کہ مسیح موعود سے پہلے ایلیا آئے گا.ان کی نظر چونکہ موٹی تھی وہ انتظار کرتے رہے کہ ایلیا پہلے آئے.چنانچہ ایک بار وہ مسیح کے پاس گئے اور انہوں نے یہ سوال کیا.آپ نے یہی جواب دیا کہ ایلیا تو آگیا اور وہ یہی یوحنا ہے.پھر وہ یوحنا کے پاس گئے.اس سے پوچھا.انہوںنے کہا کہ میں ایلیا نہیں ہوں.چونکہ ان کے دل پاک نہ تھے.اس لئے اس کو تناقض پر محمول کیا اور اس سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ یہ مسیح سچامسیح نہیں ہے حالانکہ مسیح علیہ السلام نے جو کچھ کہا وہ بالکل درست تھا اور اس میں کوئی تناقض نہ تھا.مسیح کا مطلب صرف یہ تھا کہ یہ یوحنا جس کو مسلمان لوگ یحییٰ کہتے ہیں ایلیا کی خُو اور طبیعت اور قوت پر آیا ہے مگر انہوں نے یہ سمجھا کہ سچ مچ وہی ایلیا

Page 163

جو ایک بار پہلے آچکا تھا پھر آگیا ہے حالانکہ خدا تعالیٰ کے قانون مقررہ کے یہ خلاف ہے.اس کا قانون یہی ہے کہ جو لوگ ایک بار اس دنیا سے اٹھائے جاتے ہیں پھر وہ نہیں آتے.ہاں خدا تعالیٰ چاہے تو ان کی خُو اور طبیعت پر کسی دوسرے بندے کو بھیج دیتا ہے اور شدّتِ مناسبت کے لحاظ سے وہ دونوں دوجدا جدا انسان نہیںہوتے بلکہ ایک ہی ہوتے ہیں.مسیح کا ذاتی فیصلہ غرض حضرت مسیح نے اپنے آنے سے پیشتر ایلیا کے آنے کے وعدہ اور عقدہ کو اس طرح پر حل کر کے ایک فیصلہ ہمارے ہاتھ میں دے دیا ہے.یہ وہ فیصلہ ہے جو خود مسیح نے اپنی عدالت میں اپنی سچائی کے ثبوت میں اپنے سے پہلے ایک نبی کے دوبارہ آنے کے متعلق کیا ہے کہ کسی کے دوبارہ آنے سے مراد اس کی خُو اور طبیعت پر آنے والے سے ہوتی ہے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ ایلیا تو یوں آیا یعنی یوحنا ہی اس کی خُو اور طبیعت پر آگیا لیکن میں خود ہی آؤں گا.اگر اس قسم کی صراحت انہوں نے کہیں انجیل میں کی ہے تو وہ بتانی چاہیے مگر ایک بھی ایسا مقام نہیں ہے جہاں انہوں نے اپنی آمد اور ایلیا کی آمد میں تفریق کی ہو بلکہ ایلیا کے قصہ کا فیصلہ کر کے اپنی آمد ثانی کے مسئلہ کو بھی حل کر دیا.پس ایسی صورت میں ہر ایک طالب حق کے لئے ضرور ہے کہ وہ اس فیصلہ کے بعد چوں چرا نہ کرے اور کوئی ایسی بحث نہ کرے جس میں وقت ضائع ہو کیونکہ یہ تو بالکل ایک سیدھی سی بات ہے مثلاً ایک آدمی کہے کہ ہر انسان کی دو ہی آنکھیں ہوتی ہیں اور وہ دس بیس انسان کیا ہرسامنے آنے والے انسان کو دکھا دے مگر ایک اور ہو جو کہے کہ نہیں، دو نہیں پچاس آنکھیں ہوتی ہیں لیکن وہ کسی کی پچاس آنکھیں دکھاوے نہیں تو کون صرف اس کے کہنے ہی پر مان لے گا.جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی ایلیا کے رنگ میں نہیں ہے ان کی مثال اُس آدمی کی سی ہی ہے جو پچاس آنکھیں بتاتا ہے.سچی بات یہی ہے کہ مسیح کی آمد ثانی ایلیا ہی کے رنگ میں ہے.میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ میں تناسخ کے مسئلہ کو نہیں مانتا.میرا آنا ایلیاکے رنگ پر ہے.خدا نے مجھے مسیح کے رنگ پر بھیجا ہے اور اصلاح اخلاق کے لئے بھیجا ہے.

Page 164

اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا نا فہم مخالف یہ کہتے ہیں کہ جہاد کے ذریعہ اسلام پھیلایا جاتا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ یہ صحیح نہیں ہے.اسلام کی کامل تعلیم خود اس کی اشاعت کا موجب ہے.نفسِ اسلام کے لئے ہرگز کسی تلوار یا بندوق کی ضرورت نہیں ہے.اسلام کی گزشتہ لڑائیاں وہ دفاعی لڑائیاں تھیں.انہوں نے غلطی اور سخت غلطی کھائی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ وہ جبراً مسلمان بنانے کے واسطے تھیں.غرض میرا ایمان ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعہ نہیں پھیلایا جاتا بلکہ اس کی تعلیم جو اپنے ساتھ اعجازی نشان رکھتی ہے خود دلوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے.چنانچہ جن لوگوں نے میری کتابوں کو پڑھا ہے اور میری کارروائی کو دیکھا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ساری کارروائی مسیح کے رنگ میں ہے.مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اخلاقی قوتوں کی تربیت کروں.چونکہ یہ سارا سلسلہ اور ساری کارروائی مسیحی رنگ اپنے اندر رکھتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے میرا نام مسیح موعود رکھا.مسیح موعود آگیا اور وہ مَیں ہوں اب جبکہ میں نے اس حد تک بات کو پہنچایا ہے تو میں جانتا ہوں کہ مسیحی بھی میرے مخالف ہوں گے لیکن میں کسی کی مخالفت سے کب ڈر سکتا ہوں جبکہ خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے.اگر یہ دعویٰ میری اپنی تراشی ہوئی بات ہوتی تو مجھے ایک ادنیٰ سی مخالفت بھی تھکا کر بٹھا دیتی مگر یہ میرے اپنے اختیار کی بات نہیں ہے.ہر سلیم الفطرت کو جس طرح وہ چاہے سمجھانے کے لئے میں طیار ہوں اور اس کی تسلی کے لئے ہر جائز اور مسنون راہ مَیں اختیار کر سکتا ہوں.میں سچ کہتا ہوں کہ یہی وہ زمانہ ہے جس کے لئے مسلمان اپنے اعتقاد کے موافق اور عیسائی اپنے خیال پر منتظر تھے.یہی وہ وقت تھا جس کا وعدہ تھا.اب آنے والا آگیا خواہ کوئی قبول کرے یا نہ کرے.خدا تعالیٰ اپنے بھیجے ہوئے لوگوں کی تائید میں زبر دست نشان ظاہر کیا کرتا ہے اور دلوں کو منوا دیتا ہے.جو کچھ مسیح موعود کے لئے مقدر تھا وہ ہو گیا.اب کوئی مانے نہ مانے مسیح موعود آگیا اور وہ مَیں ہوں.

Page 165

سوال.اور کیا مشابہت ہے؟ جواب.’’تعلیم میں مشابہت ہے.سوال :آپ کی رسالت کا نتیجہ کیا ہو گا؟ جواب.رسالت کا نتیجہ ’’خدا تعالیٰ کے ساتھ جو رابطہ کم ہو گیا ہے اور دنیا کی محبت غالب آگئی ہے اور پاکیزگی کم ہو گئی ہے.خد اتعالیٰ اس رشتہ کو جو عبودیت اور الوہیت کے درمیان ہے پھر مستحکم کرے گا.اور گمشدہ پاکیزگی کو پھر لائے گا.دنیا کی محبت سرد ہو جائے گی.‘‘ سوال.جبکہ مختلف مذاہب ہیں تو پھر کس طرح پہچانیں کہ سچا مذہب خدا کی طرف سے کون ہے؟ جواب.سچے مذہب کی شناخت ’’یہ کوئی مشکل امر نہیں ہے.دنیا میں ہر کھوٹے اور کھرے کے درمیان ایک امتیاز ہے.رات اور دن میں صریح فرق ہے.پھر سچا مذہب بھی کبھی مخفی رہ سکتا ہے.خدا پاک ہے اور وہ محبت، رحمت کرنے والا ہے اور وہ نفسانی امور جو گناہ کے کام ہیں.بد کاری ،تعصب، تکبر اور تمام گناہ جو دل میں جمع ہوتے ہیں.پھر آنکھوں کے ذریعہ یا اور ذریعوں سے صدور پاتے ہیں.ان سے ناراض ہوتا ہے.پھر یہ کیونکر مشکل ہو سکتا ہے کہ انسان یہ تمیز نہ کر سکے کہ خدا انسانوں کو پاک بنانا چاہتا ہے اور وہ ان سے گناہ کے صدور کو پسند نہیں کرتا پس جس مذہب کی تعلیم عملی طور پر ایسی فطرت عطا کرتی ہو کہ انسان خدا سے ڈر کر اس کی صفات کے نیچے رہ کر پاکیزگی اور محبت میں ترقی کرے اور گناہ سے بچے وہی مذہب خدا کی طرف سے ہو گا.خدا ئی مذہب کے ساتھ اس کی صداقت کے زندہ نشان ہوتے ہیں.جو ہر زمانہ میں موجود رہتے ہیں.‘‘ سوال:آپ کا خیال مسیح کی صلیب کی نسبت کیا ہے؟ جواب.مسیحؑ کا واقعہ صلیب ’’میں اس کو نہیں مانتا کہ وہ صلیب پرمرے ہوں بلکہ میری تحقیقات سے یہی ثابت ہوا ہے کہ وہ صلیب پر سے زندہ اتر آئے اور خود مسیح علیہ السلام بھی میری رائے سے الحکم جلد 5 نمبر 18 مورخہ 17/ مئی 1901ء صفحہ 1 تا 4

Page 166

تھ متفق ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام کا بڑا معجزہ یہی تھا کہ وہ صلیب پر نہیں مریں گے کیونکہ یونس نبی کے نشان کا انہوں نے وعدہ کیا تھا.اب اگر یہ مان لیا جائے جیسا کہ عیسائیوں نے غلطی سے مان رکھا ہے کہ وہ صلیب پر مر گئے تھے تو پھر یہ نشان کہاں گیا؟ اور یونس نبی کے ساتھ مماثلت کیسی ہوگی؟ یہ کہنا کہ وہ قبر میں داخل ہو کر تین دن کے بعد زندہ ہوئے بہت بے ہودہ بات ہے اس لئے کہ یونس تو زندہ مچھلی کے پیٹ میں داخل ہوئے تھے نہ مَر کر.یہ نبی کی بے ادبی ہے اگر ہم اس کی تاویل کرنے لگیں.اصل بات یہی ہے کہ وہ صلیب پر سے زندہ اتر آئے.ہر ایک سلیم الفطرت انسان کو واجب ہے کہ جو کچھ مسیح نے صاف لفظوں میں کہا اس کو محکم طور پر پکڑیں.حضرت عیسیٰ پر ایک غشی کی حالت تھی.انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اور اسباب اور واقعات بھی اس قسم کے پیش آگئے تھے کہ وہ صلیب کی موت سے بچ جائیں چنانچہ سبت کے شروع ہونے کا خیال، حاکم کا مسیح کے خون سے ہاتھ دھونا، اس کی بیوی کا خواب دیکھناوغیرہ.خد اتعالیٰ نے ہم کو سمجھا دیا ہے اور ایک بہت بڑا ذخیرہ دلائل اور براہین کا دیا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہرگز ہر گز صلیب پر نہیں مرے، صلیب پر سے زندہ اتر آئے.غشی کی حالت بجائے خود موت ہوتی ہے.دیکھو سکتہ کی حالت میں نہ نبض رہتی ہے نہ دل کا مقام حرکت کرتا ہے.بالکل مُردہ ہی ہوتا ہے مگر پھر وہ زندہ ہو جاتا ہے.مسیح کے نہ مَرنے کے دو بڑے زبر دست گواہ ہیں.اوّل تو یہ ہے کہ یہ ایک نشان اور معجزہ تھا.ہم نہیں چاہتے کہ اس کی کسر شان کی جاوے اور وہ آدمی سخت حقارت اور نفرت کے لائق ہے جو اللہ تعالیٰ کے نشانات کو حقیر سمجھ لیتا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تصدیق نہیں کرتے کہ وہ صلیب پر مَرے ہیں بلکہ صلیب پر سے زندہ اتر آئے اور پھر اپنی طبعی موت سے مَرنے کی تصدیق فرماتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اگر انجیل کی ساری باتوں کو جو اس واقعہ صلیب کے متعلق ہیں یکجائی نظر سے دیکھیں تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بات ہرگز صحیح نہیں ہے کہ مسیح صلیب پر مَرے ہوں.حواریوں کو ملنا،زخم دکھانا،کباب کھانا،سفر کرنا،یہ سب امور ہیں جو اس بات کی نفی کرتے ہیں اگرچہ خوش اعتقادی سے ان واقعات کی کچھ بھی تاویل کیوں نہ کی جاوے

Page 167

لیکن ایک منصف مزاج کہہ اٹھے گا کہ زخم لگے رہے اور کھانے کے محتاج رہے.یہ زندہ آدمی کے واقعات ہیں.یہ واقعات اور صلیب کے بعد کے دوسرے واقعات گواہی دیتے ہیں اور تاریخ شہادت دیتی ہے کہ دو تین گھنٹہ سے زیادہ صلیب پر نہیں رہے اوروہ صلیب اس قسم کی نہ تھی جیسے آجکل کی پھانسی ہوتی ہے جس پر لٹکاتے ہی دو تین منٹ کے اندر ہی کام تمام ہو جاتا ہے بلکہ اس میں تو کیل وغیرہ ٹھونک دیا کرتے تھے اور کئی دن رہ کر انسان بھوکا پیاسا مَر جاتا تھا.مسیح کے لئے اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آیا.وہ صرف دو تین گھنٹہ کے اندر ہی صلیب سے اتار لئے گئے.یہ تو وہ واقعات ہیں جو انجیل میں موجود ہیں.جو مسیح کے صلیب پر نہ مَرنے کے لئے زبردست گواہ ہیں.پھر ایک اور بڑی شہادت ہے جو اس کی تائید میں ہے.وہ مرہم عیسیٰ ہے جو طب کی ہزاروں کتابوں میں برابر درج ہے اور اس کے متعلق لکھا گیا ہے کہ یہ مرہم مسیح کے زخموں کے واسطے حواریوں نے طیار کی تھی.یہودیوں عیسائیوں کی طبّی کتابوں میں اس مرہم کا ذکر موجود ہے.پھر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ صلیب پر مَر گئے تھے.ان سب باتوں کے علاوہ ایک اور امر پیدا ہو گیا ہے جس نے قطعی طور سے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح کا صلیب پر مَرنا بالکل غلط اور جھوٹ ہے.وہ ہرگز ہر گز صلیب پر نہیں مَرے اور وہ ہے مسیح کی قبر.مسیح کی قبر مسیح کی قبر سری نگر خانیار کے محلّہ میں ثابت ہو گئی ہے اور یہ وہ بات ہے جو دنیا کو ایک زلزلہ میں ڈال دے گی کیونکہ اگر مسیح صلیب پر مرے تھے تو یہ قبر کہاں سے آگئی؟ سوال.آپ نے خود دیکھا ہے؟ جواب.میں خود وہاں نہیں گیا لیکن میں نے اپنا ایک مخلص ثقہ مرید وہاں بھیجا تھا.وہ وہاں ایک عرصہ تک رہا اور اس نے پوری تحقیقات کر کے پانسو معتبر آدمیوں کے دستخط کرائے جنہوں نے اس قبر کی تصدیق کی.وہ لوگ اس کو شہزادہ نبی کہتے ہیں اور عیسیٰ صاحب کی قبر کے نام سے بھی پکارتے ہیں.آج سے گیارہ سو سال پہلے اکمال الدین نام ایک کتاب چھپی ہے وہ بعینہٖ انجیل ہے.وہ کتاب یوز آسف کی طرف منسوب ہے.اس نے اس کا نام بشریٰ یعنی انجیل رکھا ہے.یہی تمثیلیں، یہی قصے، یہی اخلاقی باتیں جو انجیل میں ہیں پائی جاتی ہیں اور بسا اوقات عبارتوں کی عبارتیں انجیل سے

Page 168

ملتی ہیں.اب یہ ثابت شدہ بات ہے کہ یوز آسف کی قبر ہے.یوز آسف یوز آسف وہی ہے جس کو یسوع کہتے ہیں.اور آسف کے معنی ہیں پرا گندہ جماعتوں کو جمع کرنے والا.چونکہ مسیح علیہ السلام کا کام بھی بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو جمع کرناتھا اور اہل کشمیر بہ اتفاق اہل تحقیق بنی اسرائیل ہی ہیں.اس لئے ان کا یہاں آنا ضروری تھا.اس کے علاوہ خود یوز آسف کا قصہ یورپ میں مشہور ہے.بلکہ یہاں تک کہ اٹلی میں اس نام پر ایک گرجا بھی بنایا گیا ہے اور ہر سال وہاں ایک میلہ بھی ہوتا ہے.اب اس قدرصرفِ کثیر سے ایک مذہبی عمارت کا بنانا اور پھر ہر سال اس پر ایک میلہ کرنا کوئی ایسی بات نہیں ہے جو سرسری نگاہ سے دیکھی جائے.وہ کہتے ہیں کہ یوز آسف مسیح کا حواری تھا.ہم کہتے ہیں یہ بات سچی نہیں ہے.یوز آسف خود ہی مسیح تھا.اگر وہ حواری ہے تو یہ تمہارا فرض ہے کہ تم ثابت کرو کہ مسیح کے کسی حواری کا نام شہزادہ نبی ہو.یہ ایسی باتیں ہیں جو صلیب کے واقعہ کا سارا پردہ ان سے کھل جاتا ہے.ہاں اگر مسیحی اس بات کے قائل نہ ہوتے تو البتہ بحث بند ہو جاتی لیکن جب کہ انہوں نے قبول کر لیا ہے کہ یوز آسف ایک شخص ہوا ہے اور اس کی تعلیم انجیل ہی کی تعلیم ہے اور اس نے بھی اپنی کتاب کا نام انجیل ہی رکھ لیا ہے اور جس طرح پر شہزادہ نبی مسیح کا نام ہے اس کو بھی شہزادہ نبی کہتے ہیں.اب غور کرنے کے قابل بات ہے کہ اگر یہ خود مسیح ہی نہیںتو اور کون ہے؟ خدا کے لئے سوچو جو شخص دنیا سے دل نہیں لگاتا اور سچائی سے پیار کرتا ہے اس کو تو ماننے میں ذرا بھی عذر نہیں ہو سکتا کیونکہ جب مان لیا کہ یوز آسف واقعی ایک شخص تھا جس کا مسیح سے تعلق تھا.اور پھر اٹلی میں اس کا گرجا بھی بنا دیا اور ہر سال وہاں میلہ بھی ہوتا ہے اور پھر یہ بھی اقرار کر لیا کہ اس کی تعلیم انجیل ہی کی تعلیم ہے پھر یہ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ خود مسیح نہیں ہے؟ یہ چار باتیں جب تسلیم کر لیں تو میں ایک خبر لے کر آپ ہی سے پوچھتا ہوں کہ آپ جو کہتے ہیں کہ وہ حواری تھا.ثابت کر کے دکھاؤ کہ یوز آسف کسی حواری کا بھی نام تھا اور یوز آسف تو یسوع سے بگڑا ہوا ہے.اب ایک ہی بات سے فیصلہ ہوتا ہے.اگر یہ ثابت کر کے دکھایا جاوے کہ مسیح کے کسی حواری کا نام یوز آسف، شہزادہ نبی اور عیسیٰ صاحب ہے تو

Page 169

بے شک یہ قبر کسی حواری کی قبر ہو گی.اگر یہ ثابت نہ ہو اور ہرگز ہر گز ثابت نہ ہو گا تو پھر میری بات کو مان لو کہ اس قبر میں خود حضرت مسیحؑ ہی سوتے ہیں.مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ بُرد باری کے ساتھ سنتے ہیں.جو بُرد باری سے سنتا ہے وہ تحقیق کر سکتا ہے.جس قدر باتیں آپ نے سنی ہیں دوسرے کم سنتے ہیں.آپ خدا کے لئے غور کریں کہ جس حالت میں یہ قصہ مشترک ہو گیا ہے کہ وہ حواریوں میں سے تھا.بہر حال تعلق تو مانا گیا اور پھر گرجا بنا دیا اور ہر سال میلہ ہونے لگا.تو اب آپ بتائیں کہ یہ ثبوت کس کے ذمہ ہے؟اگر مسیحی تعلق نہ مان لیتے تو بار ثبوت بے شک میرے ذمہ ہوتا لیکن جب آپ لوگوں نے خود اس کو مان لیا ہے تو میں آپ سے ثبوت مانگتا ہوں کہ کسی ایسے حواری کا پتہ دیں جو شہزادہ نبی کہلایا ہو.پادری صاحب.ہم آپ کی مہربانی اور خاطر داری کے لئے بہت مشکور ہیں.حضرت اقدسؑ.یہ تو ہمارا فرض منصبی ہے جس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہم کو بھیجا ہے اس کو کرنا ضروری ہے.[حضرت اقدس حجۃ اللہ کی یہ تقریر سن کر مسٹر فضل نے (جو غالباً لاہور کی بک سوسائٹی میں ملازم ہیں) اپنی قابلیت کے اظہار کے لئے زبان کھولی،لیکن اس سے بہتر ہوتا کہ وہ خاموش رہتے اور ان کی دانش اور غور طلب طبیعت کا راز نہ کھلتا.حضرت اقدس نے اس قدر طول طویل تقریر یوز آسف کے متعلق فرمائی اور اس کو تاریخی شہادتوں کے ساتھ مؤکد فرمایا مگر مسٹر فضل کے سوال پر نگاہ کی جائے کہ آپ کیا فرماتے ہیں] مسٹر فضل.قبر کے متعلق کوئی تاریخی ثبوت ملا ہے؟ حضرت اقدس نے فرمایاکہ گیارہ سو برس کی کتاب موجود ہے.خود عیسائیوں میں اس کا گرجا موجود ہے.وہاں میلہ ہوتا ہے اور ابھی آپ تاریخی ثبوت ہی پوچھتے ہیں.یہ کیا ہے؟یہ تاریخی ثبوت نہیں تو کیا ہے؟ اور یہ بھی فرمایا کہ تم لوگ کچھ نہیں سمجھتے.صرف دھوکا دیناچاہتے ہو.میں ہر ایک انسان کو یہی وصیت کرتا ہوں کہ وہ

Page 170

پاک دل بنے.ریا کاری اور تعصّب سے اپنے دل کو صاف کرے اور جہاں سے صداقت اور حکمت کی بات ملے اس کو نہایت فراخدلی کے ساتھ قبول کرے.میں ہر وقت سننے کوطیار ہوں.اگر آپ صفائی سے جواب دیں کہ مسیح کے اس حواری کو اس وجہ سے شہزادہ نبی کہتے ہیں اور اگر آپ کوئی جواب نہ دیں اور جواب ہے بھی نہیں اور صرف اعتقادی طور پر بتائیں کہ ہم ایسا مانتے ہیں تو یہ ایسی بات ہے جیسے کسی ہندو سے پوچھیں کہ تم جو کہتے ہو کہ گنگا مہادیو کی جٹوںسے نکلتی ہے یا اس میں سَت ہے اوروہ اس کے جواب میں صرف یہی کہے کہ میں اس کے دلائل تو نہیں دے سکتا مگر ضروری مانتاہوں کہ اس میں سَت ہے تو یہ معقول بات نہ ہوگی.غرض میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے نہ اعتقاد کے طور پر بلکہ تحقیقات سے ثابت کر لیا ہے کہ یہ قبر واقعی حضرت مسیحؑ ہی کی قبر ہے.واقعات اس کی تصدیق کرتے ہیں تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے.جرمن میں ایسے مسیحی بھی ہیںجو اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت مسیحؑ صلیب پر نہیں مرے.یہ بات بہت صاف ہے اور غور کرنے کے بعد اس میں کوئی شبہ نہیں رہتا.انسان کا فرض سوال.آپ کی سمجھ میں عیسائیوں کا فرض کیا ہے؟ جواب.ہر ایک انسان کا فرض یہ ہونا چاہیے کہ حق کی تلاش کرے اور حق جہاں اسے ملے اس کو فوراً لے لے،عیسائیوں کی کوئی خصوصیت نہیں ہے.اس کے بعد پادریو ں نے مکرر حضرت اقدس کا شکریہ ادا کیا اور پھر کتب خانہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دفتر اخبار الحکم سے کچھ کتابیں لیں اور واپس چلے گئے.۱ دو الہامات ۱۸؍ اپریل ۱۹۰۱ ء کو آپ نے ایک الہام سنایا تھا.؎ سال دیگر را کہ مے داند حساب تا کجا رفت آنکہ با ما بود یار ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴ ؍ مئی ۱۹۰۱ء صفحہ ۱ تا ۳

Page 171

۹؍مئی ۱۹۰۱ء کو آپ نے یہ الہام سنایا.’’آج سے یہ شرف دکھائیں گے ہم‘‘ تفسیر نویسی اس بات کا ذکر آیا کہ آج کل لوگ بغیر سچے علم اور واقفیت کے تفسیریں لکھنے بیٹھ جاتے ہیں.اس پر فرمایا.تفسیر قرآن میں دخل دینا بہت نازک امر ہے.مبارک اور سچا دخل اس کا ہے جو خدا کے روح القدس سے مدد لے کر دخل دے ورنہ علوم مروجہ کی شیخی پر لکھنا دنیا داروں کی چالاکیاں ہیں.قبر کی پختگی کا مسئلہ ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ میرا بھائی فوت ہو گیا ہے.میں اس کی قبر پکی بناؤں یا نہ بناؤں؟ فرمایا.اگر نمود اور دکھلاوے کے واسطے پکی قبریں اور نقش و نگار اور گنبد بنائے جائیں تو یہ حرام ہے لیکن اگر خشک مُلّا کی طرح یہ کہا جائے کہ ہر حالت اور ہر مقام میں کچی ہی اینٹ لگائی جائے تو یہ بھی حرام ہے.اِنَّـمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ عمل نیت پر موقوف ہے.ہمارے نزدیک بعض وجوہ میں پکی کرنا درست ہے مثلاً بعض جگہ سیلاب آتا ہے بعض جگہ قبر میں سے میّت کو کتے اور بِجّو وغیرہ نکال لے جاتے ہیں.مُردے کے لئے بھی ایک عزّت ہوتی ہے اگر ایسے وجوہ پیش آجائیں تو اس حد تک نمود اور شان نہ ہو بلکہ صدمہ سے بچانے کے واسطے قبر کا پکا کرنا جائز ہے.اللہ اور رسول نے مومن کی لاش کے واسطے بھی عزّت رکھی ہے.ورنہ عزّت ضروری نہیں تو غسل دینے، کفن دینے، خوشبو لگانے کی کیا ضرورت ہے.مجوسیوں کی طرح جانوروں کے آگے پھینک دو.مومن اپنے لئے ذلت نہیں چاہتا.حفاظت ضروری ہے جہاں تک نیت صحیح ہے خدا تعالیٰ مؤاخذہ نہیں کرتا.دیکھو! مصلحتِ الٰہی نے یہی چاہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پختہ گنبد ہو اور کئی بزرگوں کے مقبرے پختہ ہیں مثلاً نظام الدین، فرید الدین، قطب الدین، معین الدین رحمۃ اللہ علیہم یہ سب صلحاء تھے.

Page 172

رسومات ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہوا کہ محرم کے دنوں اِمَامَین کی روح کو ثواب دینے کے واسطے روٹیاں وغیرہ دینا جائز ہے یا نہیں.فرمایا.عام طور پر یہ بات ہے کہ طعام کا ثواب میت کو پہنچتا ہے.لیکن اس کے ساتھ شرک کی رسومات نہیں چاہئیں.را فضیوں کی طرح رسومات کا کرنا نا جائز ہے.بیعت کی حقیقت ایک شخص کا سوال پیش ہو ا کہ اگر آپ کو ہر طرح سے بزرگ مانا جائے اور آپ کے ساتھ صدق اور اخلاص ہو مگر آپ کی بیعت میں انسان شامل نہ ہووے تو اس میں کیا حرج ہے؟ فرمایا.بیعت کے معنے ہیں اپنے تئیں بیچ دینا اور یہ ایک کیفیت ہے جس کو قلب محسوس کرتا ہے جبکہ انسان اپنے صدق اور اخلاص میں ترقی کرتا کرتا اس حد تک پہنچ جاتاہے کہ اس میں یہ کیفیت پیدا ہو جائے تو وہ بیعت کے لئے خود بخود مجبور ہو جاتا ہے اور جب تک یہ کیفیت پیدا نہ ہو جائے تو انسان سمجھ لے کہ ابھی اس کے صدق اور اخلاص میں کمی ہے.کشوف والہامات میں شیطان کا دخل اس بات کا ذکر آیا کہ لاہوری علماء نے الٰہی بخش ملہم سے یہ سوال کیا ہے کہ آیا تمہارا الہام تلبیسِ ابلیس سے معصوم ہے یا نہیں.جس کے جواب میں الٰہی بخش نے کہا کہ میرا الہام دخل شیطان سے پاک نہیں.اس پر حضرت اقدس امام معصوم نے فرمایا.یہ لوگ نہیں جانتے کہ اس میں کیا سِرّ ہے اور کسی کا الہام یا کشف شیطان کے دخل سے کہاں تک پاک ہوتا ہے.انسان کے اندر دو قسم کے گناہ ہوتے ہیں.ایک وہ جن سے انسان خدا کی نافرمانی دیدہ و دانستہ کرتا ہے اور بے باکی سے گناہ کرتا ہے.ایسے لوگ مجرم کہلاتے ہیں یعنی خدا سے ان کا بالکل قطع تعلق ہو جاتا ہے اور وہ شیطان کے ہو جاتے ہیں.اور دوسرے وہ لوگ جو ہر چند بدی سے بچتے ہیں مگر بعض دفعہ بسبب کمزوری کے کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں.سو جس قدر انسان گناہوں کو چھوڑتا اور خدا کی طرف آتا ہے اسی قدر اس کے خواب اور کشف دخل شیطانی سے پاک ہوتے ہیں.یہاں تک

Page 173

کہ جب وہ ان تمام دروازوں کو بند کر دیتا ہے جو شیطان کے اندر آنے کے ہیں تب اس میں سوائے خدا کے اور کچھ نہیں آتا.جب تم سنو کہ کسی کو الہام ہوتا ہے تو پہلے اس کے الہامات کی طرف مت جاؤ.الہام کچھ شے نہیں جب تک کہ انسان اپنے تئیں شیطان کے دخل سے پاک نہ کر لے اور بے جا تعصبوں اور کینوںاور حسدوں سے اور ہر ایک خدا کو ناراض کرنے والی بات سے اپنے آپ کو صاف نہ کر لے.دیکھو! اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک حوض ہے اور اس میں بہت سی نالیاں پانی کی گرتی ہیں.پھر ا ن نالیوں میں سے ایک کا پانی گندہ ہے تو کیا وہ سارے پانی کو گندہ نہ کر دے گا.یہی راز ہے جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہا گیاکہ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ( النجم :۴ ، ۵ ) ہاں انسان کو ان کمزوریوں کے دور کرنے کے واسطے استغفار بہت پڑھنا چاہیے.گناہ کے عذاب سے بچنے کے واسطے استغفار ایسا ہے جیسا کہ ایک قیدی جرمانہ دے کر اپنے تئیں قید سے آزاد کر الیتا ہے مگر استغفار سے خدا اس کو نیچے دبا دیتا ہے.۱ ۱۷؍مئی ۱۹۰۱ء بیعت لینے کا حکم سوال ہوا.کیا آپ دوسرے صوفیاء اور مشائخ کی طرح عام طور پر بیعت لیتے ہیں یا بیعت لینے کے لئے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے.فرمایا.ہم تو امر الٰہی سے بیعت کرتے ہیں جیسا کہ ہم اشتہار میں بھی یہ الہام لکھ چکے ہیں کہ اَلَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ الـخ گناہ سے بچنے کا طریق فرمایا.جذبات اور گناہ سے چھوٹ جانے کے لئے اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا کرنا چاہیے.جب سب سے زیادہ خدا کی عظمت اور جبروت دل میں بیٹھ جائے تو گناہ دور ہو جاتے ہیں.ایک ڈاکٹر کے خوف دلانے سے بسا اوقات لوگوںکے دل پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ مَر جاتے ہیں تو پھر خوف الٰہی کا اثر کیونکر نہ ہو.چاہیے ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۸ مورخہ ۱۷ ؍ مئی ۹۰۱ ء صفحہ ۱۲ ، ۱۳

Page 174

چاہیے کہ اپنی عمر کا حساب کرتے رہیں.ان دوستوں کو اور رشتہ داروں کو یاد کریں جو ا نہیں میں سے نکل کر چلے گئے.لوگوں کی صحت کے ایام یونہی غفلت میں گزر جاتے ہیں.ایسی کوشش کرنی چاہیے کہ خوفِ الٰہی دل پر غالب رہے.جب تک انسان طولِ اَمل کو چھوڑ کر اپنے پر موت وارد نہ کر لے تب تک اس سے غفلت دور نہیں ہوتی.چاہیے کہ انسان دعا کرتا رہے.یہاں تک کہ خدا اپنے فضل سے نور نازل کر دے.جو یندہ یا بندہ.وفات مسیح پر ایک لطیف استدلال فرمایا.حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مسیح آوے اس کو میرا سلام کہنا.اس حدیث کے مطلب میں غور کرنا چاہیے.اگر مسیح علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود تھے تو خود حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ملاقات معراج میں کی تھی اور نیز حضرت جبرائیلؑ ہر روز وہاں سے آتے تھے.کیوں نہ ان کے ذریعہ سے اپنا سلام پہنچایا اور پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعد از وفات آسمان پر ہی گئے تھے اور وہاں ہی حضرت مسیحؑ بھی ہیں اور حضرت مسیحؑ کو تو خود رسول کریمؐ کے پاس سے ہو کر زمین پر اترنا تھا.تو پھر اس کے کیا معنے ہوئے کہ زمین والے ان کو آنحضرتؐکا سلام پہنچائیں.کیا اس صورت میں حضرت عیسٰیؑ ان کو یہ جواب نہ دیں گے کہ میں تو خود ان کے پاس سے آتا ہوں تو تم یہ سلام کیسا دیتے ہو؟یہ تو مثال ہوئی کہ گھر سے میں آؤں اور خبریں تم دو.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم اور آپ کے اصحاب کا یہی عقیدہ اور مذہب تھا کہ حضرت مسیحؑ فوت ہو گئے ہیں اور دنیا میں واپس نہیں آسکتے اور آنے والا مسیح اسی امت میں سے بروزی رنگ میں ہو گا.سچی لذّت اللہ تعالیٰ کی محبت میں ہے سوال ہوا کہ فواحشات کی طرف لوگ جلد جھک جاتے ہیں اور ان سے لذّت اٹھاتے ہیں جن سے خیال ہو سکتا ہے کہ ان میں بھی ایک تاثیر ہے.فرمایا.بعض اشیاء میں نہاں در نہاں ایک ظل اصلی شے کا آجاتا ہے.وہ شے طفیلی طور پر کچھ حاصل کرلیتی ہے مثلاً راگ اور خوش الحانی لیکن دراصل سچی لذّت اللہ تعالیٰ کی محبت کے سوا اور کسی شے میں

Page 175

نہیں ہے اورا س کا ثبوت یہ ہے کہ دوسری چیزوں سے محبت کرنے والے آخر اپنی حالت سے توبہ کرتے اور گھبراتے اور اضطراب دکھاتے ہیں مثلاً ہر ایک فاسق اور بد کار سزا کے وقت اور پھانسی کے وقت اپنے فعل سے پشیمانی ظاہر کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والوں کو ایسی استقامت عطا ہوتی ہے کہ وہ ہزار ایذائیں دیئے جائیں،مارے جائیں،قتل کیے جائیں وہ ذرا جنبش نہیں کھاتے.اگر وہ شے جو انہوں نے حاصل کی ہے اصل نہ ہوتی اور فطرت انسانی کے ٹھیک مناسب نہ ہوتی تو کروڑوں موتوں کے سامنے ایسے استقلال کے ساتھ وہ اپنی بات پر قائم نہ رہ سکتے.یہ اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ فطرت انسانی کے نہایت ہی قریب یہی بات ہے جو ان لوگوں نے اختیار کی ہے اور کم از کم بھی ایک لاکھ چوبیس ہزار آدمیوں نے اپنے سوانح سے اس بات کی صداقت پر مہر لگا دی ہے.دنیا کے قید خانہ ہونے کی حقیقت فرمایا.آئندہ زندگی میں مومن کے واسطے بڑی تجلّی کے ساتھ ایک بہشت ہے لیکن اس دنیا میں بھی اس کو ایک مخفی جنت ملتی ہے.یہ جو کہا گیا ہے کہ دنیا مومن کے لئے سِـجْنٌ یعنی قید خانہ ہے اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ ابتدائی حالت میں جبکہ ایک انسان اپنے آپ کو شریعت کی حدود کے اندر ڈال دیتا ہے اور وہ اچھی طرح اس کا عادی نہیں ہوتا تو وہ وقت اس کے لئے تکلیف کا ہوتا ہے کیونکہ وہ لا مذہبی کی بے قیدی سے نکل کر نفس کے مخالف اپنے آپ کو احکام الٰہی کی قید میں ڈال دیتا ہے مگر رفتہ رفتہ وہ اس سے ایسا انس پکڑتا ہے کہ وہی مقام اس کے لئے بہشت ہو جاتا ہے.اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو قید خانہ میں کسی پر عاشق ہو گیا ہو.پس کیاتم خیال کرتے ہو کہ وہ قید خانہ سے نکلنا پسند کرے گا.اپنی زبان میں دعا سوال ہوا کہ آیا نماز میں اپنی زبان میں دعا مانگنا جائز ہے.حضرت اقدس نے فرمایاکہ سب زبانیں خدا نے بنائی ہیں.چاہیے کہ اپنی زبان میں جس کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے نماز کے اندر دعا ئیں مانگے کیونکہ اس کا اثر دل پر پڑتا ہے تا کہ عاجزی اور خشوع پیدا ہو.کلامِ الٰہی کو ضرور عربی میں پڑھو اور اس کے معنی یاد رکھو اور دعا بےشک اپنی زبان میں مانگو.جو لوگ نماز کو جلدی جلدی پڑھتے ہیں اور پیچھے لمبی دعا ئیں کرتے ہیں

Page 176

وہ حقیقت سے نا آشنا ہیں.دعا کا وقت نماز ہے.نماز میں بہت دعا ئیں مانگو.۱۸ ؍ مئی ۱۹۰۱ ء ظالم حاکم فرمایا.اگر حاکم ظالم ہو تو اس کو بُرا نہ کہتے پھرو بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو.خدا اس کو بدل دے گا یا اسی کو نیک کر دے گا.جو تکلیف آتی ہے وہ اپنی ہی بدعملیوں کے سبب آتی ہے ورنہ مومن کے ساتھ خدا کا ستارہ ہوتا ہے.مومن کے لئے خدا تعالیٰ آپ سامان مہیا کر دیتا ہے.میری نصیحت یہی ہے کہ ہر طرح سے تم نیکی کا نمونہ بنو.خدا کے حقوق بھی تلف نہ کرو اور بندوں کے حقوق بھی تلف نہ کرو.۲۰؍مئی ۱۹۰۱ ء ضرورت سے زیادہ مساجد کی تعمیر کہیں سے خط آیا کہ ہم ایک مسجد بنانا چاہتے ہیں اور تبرکاً آپ سے بھی چندہ چاہتے ہیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہم تو دے سکتے ہیں اور یہ کچھ بڑی بات نہیں ہے مگر جبکہ خود ہمارے ہاں بڑے بڑے اہم اور ضروری سلسلے خرچ کے موجود ہیں جن کے مقابل میں اس قسم کے خرچوںمیں شامل ہونا اسراف معلوم ہوتا ہے تو ہم کس طرح سے شامل ہوں.یہاںجو مسجد خدا بنا رہا ہے اور وہی مسجد اقصیٰ ہے وہ سب سے مقدم ہے.اب لوگوں کو چاہیے کہ اس کے واسطے روپیہ بھیج کر ثواب میں شامل ہوں.ہمارا دوست وہ ہے جو ہماری بات کو مانے نہ وہ کہ جو اپنی بات کو مقدم رکھے.حضرت امام ابو حنیفہؓ کے پاس ایک شخص آیا کہ ہم ایک مسجد بنانے لگے ہیں آپ بھی اس میں کچھ چندہ دیں.انہوں نے عذر کیا کہ میں اس میں کچھ دے نہیں سکتا حالانکہ وہ چاہتے تو بہت کچھ دیتے.ا س شخص نے کہا کہ ہم آپ سے

Page 177

بہت کچھ نہیں مانگتے صرف تبرکاً دے دیجئے.آخر انہوںنے ایک دونی کے قریب سکہ دیا.شام کے وقت وہ شخص دونی لے کر واپس آیا اور کہنے لگا کہ حضرت یہ تو کھوٹی نکلی ہے.وہ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا، خوب ہوا.دراصل میرا جی نہیں چاہتا تھا کہ میں کچھ دوں.مسجدیں بہت ہیں اور مجھے اس میں اسراف معلوم ہوتا ہے.۱ ۳؍ جون ۱۹۰۱ ء رضائے الٰہی کے حصول کا طریق اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی تعریف میں جو فرمایا ہے لَوْاَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَيْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ ( الـحشـر :۲۲)اس آیت کی تفسیرمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ایک تو اس کے یہ معنے ہیںکہ قرآن شریف کی ایسی تاثیر ہے کہ اگر پہاڑ پر وہ اترتا تو پہاڑ خوفِ خدا سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا اور زمین کے ساتھ مل جاتا.جب جمادات پر اس کی ایسی تاثیر ہے تو بڑے ہی بے وقوف وہ لوگ ہیں جو اس کی تاثیر سے فائدہ نہیں اٹھاتے.اور دوسرے اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص محبت الٰہی اور رضائے الٰہی کوحاصل نہیں کر سکتا جب تک دو صفتیں اس میں پیدا نہ ہو جائیں.اوّل تکبر کو توڑنا جس طرح کہ کھڑا ہوا پہاڑ جس نے سر اونچا کیا ہوا ہوتا ہے گر کر زمین سے ہموار ہو جائے.اسی طرح انسان کو چاہیے کہ تمام تکبر اور بڑائی کے خیالات کو دور کرے.عاجزی اور خاکساری کو اختیار کرے اور دوسرا یہ ہے کہ پہلے تمام تعلقات اس کے ٹوٹ جائیں جیسا کہ پہاڑ گر کر مُتَصَدِّعًا ہو جاتا ہے.اینٹ سے اینٹ جدا ہو جاتی ہے.ایسا ہی اس کے پہلے تعلقات جو موجب گندگی اور الٰہی نارضامندی کے تھے وہ سب تعلقات ٹوٹ جائیں اور اب اس کی ملاقاتیں اور دوستیاں اور محبتیں اور عداوتیں صرف اللہ تعالیٰ کے لئے رہ جائیں.۱ الحکم جلد ۵ نمبر۱۹ مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۰۱ ء ۸ ، ۹

Page 178

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مسیح موعود کو سلام فرمایا.حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جومسیح موعود کو السلام علیکم کہا ہے اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی کہ باوجود لوگوں کی سخت مخالفتوں کے اور ان کے طرح طرح کے بد اور جانستاں منصوبوں کے وہ سلامتی میں رہے گا اور کامیاب ہو گا.ہم کبھی اس بات پر یقین اور اعتقاد نہیں کر سکتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمولی طور سے سلام فرمایا.آنحضرتؐکے لفظ لفظ میں معارف واسرار ہیں.۱ تقویٰ کی حقیقت فرمایا.تقویٰ والے پر خدا کی ایک تجلی ہوتی ہے.وہ خدا کے سایہ میں ہوتا ہے مگر چاہیے کہ تقویٰ خالص ہواور اس میں شیطان کا کچھ حصہ نہ ہو ورنہ شرک خدا کو پسند نہیں اور اگر کچھ حصہ شیطان کا ہو تو خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ سب شیطان کا ہے.خدا کے پیاروں کو جو دکھ آتا ہے وہ مصلحت الٰہی سے آتا ہے ورنہ ساری دنیا اکٹھی ہو جائے تو ان کو ایک ذرّہ بھر تکلیف نہیں دے سکتی.چونکہ وہ دنیا میں نمونہ قائم کرنے کے واسطے ہیں اس واسطے ضروری ہوتا ہے کہ خدا کی راہ میں تکالیف اٹھانے کا نمونہ بھی وہ لوگوں کو دکھائیں ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے کسی بات میں اس سے بڑھ کر تردّد نہیںہوتا کہ اپنے ولی کی قبضِ روح کروں.خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کے ولی کو کوئی تکلیف آوے مگر ضرورت اور مصالح کے واسطے وہ دکھ دیئے جاتے ہیں اور اس میں خود ان کے لئے نیکی ہے کیونکہ ان کے اخلاق ظاہر ہوتے ہیں.انبیاء اور اولیاء اللہ کے لئے تکلیف اس قسم کی نہیں ہوتی جیسی کہ یہود کو لعنت اور ذلت ہو رہی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے بلکہ انبیاء شجاعت کا ایک نمونہ قائم کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کو اسلام کے ساتھ کوئی دشمنی نہ تھی.مگر دیکھو جنگ احد میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے.اس میں یہی بھید تھا کہ آنحضرتؐکی شجاعت ظاہر ہو جبکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کے مقابلہ میں اکیلے کھڑے ہو گئے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں.ایسا نمونہ دکھانے کا کسی نبی کو موقع نہیں ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۲۱ مورخہ ۱۰؍ جون ۱۹۰۱ ء صفحہ ۹

Page 179

نہیں ملا.ہم اپنی جماعت کو کہتے ہیں کہ صرف اتنے پر مغرور نہ ہو جائے کہ ہم نماز، روزہ کرتے ہیں یا موٹے موٹے جرائم مثلاً زنا، چوری وغیرہ نہیں کرتے.ان خوبیوں میں تو اکثر غیر فرقہ کے لوگ مشرک وغیرہ تمہارے ساتھ شامل ہیں.تقویٰ کا مضمون باریک ہے.اس کو حاصل کرو.خدا کی عظمت دل میں بٹھاؤ.جس کے اعمال میں کچھ بھی ریا کاری ہو خدا اس کے عمل کو واپس اُلٹا کر اس کے منہ پر مارتا ہے.متقی ہونا مشکل ہے مثلاً اگر کوئی تجھے کہے کہ تو نے قلم چرایا ہے تو تُو کیوں غصہ کرتا ہے.تیرا پرہیز تو محض خدا کے لئے ہے.یہ طیش اس واسطے ہوا کہ رو بحق نہ تھا.جب تک واقعی طور پر انسان پر بہت سی مَوتیں نہ آجائیں وہ متقی نہیں بنتا.معجزات اور الہامات بھی تقویٰ کی فرع ہیں.اصل تقویٰ ہے.اس واسطے تم الہامات اور رؤیا کے پیچھے نہ پڑو بلکہ حصول تقویٰ کے پیچھے لگو.جو متقی ہے اسی کے الہامات بھی صحیح ہیں اور اگر تقویٰ نہیں تو الہامات بھی قابل اعتبار نہیں.ان میں شیطان کا حصہ ہو سکتا ہے.کسی کے تقویٰ کو اس کے ملہم ہونے سے نہ پہچانو بلکہ اس کے الہاموں کو اس کی حالت تقویٰ سے جانچو اور اندازہ کرو.سب طرف سے آنکھیں بند کر کے پہلے تقویٰ کی منازل کو طے کرو.انبیاء کے نمونہ کو قائم رکھو.جتنے نبیؑ آئے سب کا مدعا یہی تھا کہ تقویٰ کا راہ سکھلائیں.اِنْ اَوْلِيَآؤُهٗۤ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ ( الانفال :۳۵) مگر قرآن شریف نے تقویٰ کی باریک راہوں کو سکھلایا ہے.کمال نبی کا کمال امت کو چاہتا ہے.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین تھے صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے آنحضرتؐ پر کمالات نبوت ختم ہوئے.کمالات نبوت ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم نبوت ہوا.جو خدا تعالیٰ کو راضی کرنا چاہے اور معجزات دیکھنا چاہے اور خارقِ عادت دیکھنا منظور ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی بھی خارق عادت بنالے.دیکھو! امتحان دینے والے محنتیں کرتے کرتے مدقوق کی طرح بیمار اور کمزور ہو جاتے ہیں.پس تقویٰ کے امتحان میں پاس ہونے کے لئے ہر ایک تکلیف اٹھانے کے لئے طیار ہو جاؤ.جب انسان اس راہ پر قدم اٹھاتا ہے تو شیطان اس پر بڑے بڑے حملے کرتا ہے لیکن ایک حد پر پہنچ کر آخر شیطان ٹھہر جاتا ہے.یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب انسان کی سفلی زندگی پر موت آکر وہ خدا کے زیر سایہ ہو جاتا ہے.وہ مظہر الٰہی اور خلیفۃ اللہ

Page 180

ہوتا ہے.مختصر خلاصہ ہماری تعلیم کا یہی ہے کہ انسان اپنی تمام طاقتوں کو خدا کی طرف لگا دے.مسیح علیہ السلام کی بن باپ ولادت حضرت مسیحؑ کے بے باپ پیدا ہونے کے متعلق ذکر تھا فرمایا.ہمارا ایمان اور اعتقاد یہی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بن باپ تھے اور اللہ تعالیٰ کو سب طاقتیں ہیں.نیچری جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا باپ تھا،وہ بڑی غلطی پر ہیں.ایسےلوگوں کا خدا مُردہ خدا ہے اور ایسے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی.۱ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بے باپ پیدا نہیں کر سکتا.ہم ایسے آدمی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ تمہاری حالتیں ایسی ردّی ہو گئی ہیں کہ اب تم میں کوئی اس قابل نہیں جو نبی ہو سکے یا اس کی اولاد میں سے کوئی نبی ہوسکے.اس واسطے آخری خلیفہ موسوی کو اللہ تعالیٰ نے بے باپ پیدا کیا اور ان کو سمجھایا کہ اب شریعت تمہارے خاندان سے گئی.اسی کی مثل خدا تعالیٰ نے آج یہ سلسلہ قائم کیا ہے کہ آخری خلیفہ محمدی یعنی مہدی و مسیح کو سیّدوں میں سے نہیں بنایا بلکہ فارسی الاصل لوگوں میں سے ایک کو خلیفہ بنایا تا کہ یہ نشان ہو کہ نبوت محمدی کی گدی کے دعوے داروں کی حالتِ تقویٰ اب کیسی ہے.فرمایا.انبیاء کا قاعدہ ہے کہ شخصی تدبیر نہیں کرتے.نوع کے پیچھے پڑتے ہیں.جہاں شخصی تدبیر آئی وہاں چنداں کا میابی نہ آئی چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ یہ حال ہوا.اس زمانہ کا مجاہدہ مدت کی بات ہے کہ ایک دفعہ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام سے عرض کیا کہ اس سلسلہ میں کوئی مجاہدہ مجھے بتلایئے.آپ نے فرمایا کہ عیسائیت کے رد میں کوئی کتاب لکھو.تب حضرت مولوی نورالدین صاحب نے کتاب فصل الخطاب لمقدمۃ اہل الکتاب دو جلدیں لکھیں.۱ شاید نیچریوں نے اسی لحاظ سے کہ وہ مُردہ اور کمزور خدا ہے.دعا اور استجابتِ دعا سے انکار کر دیا ہے.(سراج الحق نعمانی)

Page 181

لکھیں.پھر ایک دفعہ ایسا ہی مولو ی صاحب نے حضرت اقدسؑ سے سوال کیا.حضرتؑ نے فرمایا.آریوں کے رد میں کتاب لکھو.تب مولوی صاحب نے تصدیق براہین احمدیہ لکھی اور فرمایا کہ ان ہر دو مجاہدوں میں مجھے بڑے بڑے فائدے ہوئے.۱ حضرت اقدسؑ کی ایک تقریر جون ۱۹۰۱ء پورے مسلمان بنو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم دنیا سے بالکل انقطاع کرکے اس کی طرف آجاؤ گے وہ خود تمہارا متولّی اور متکفّل ہو جائے گا.جو آدمی تبتّل تام نہیں کرتا بلکہ کچھ رُو بدنیا رہتا ہے اور کسی قدر رُوبہ خدا بھی رہتا ہے وہ کبھی بھی مقصود اصلی کو حاصل نہیں کر سکتا.اسے نہ دین کی عزّت مل سکتی ہے نہ دنیا کی.خدا تعالیٰ تم سے یہ چاہتا ہے کہ تم پورے مسلمان بنو.مسلمان کا لفظ ہی دلالت کرتا ہے کہ انقطاع کلی ہو.اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو مسلمان پیدا کر کے لا انتہا فضل کیے ہیں بشرطیکہ وہ غور کرے اور سمجھے.ایک ہندو سے رام چندر کے خدا ہونے یا خدا تعالیٰ کے خالق ہونے پر بحث کرو اس وقت تمہیں ایک لذّت اور سرور آئے گا کہ تمہارا خدا کیسا قادر مطلق، مُحْيٖ، مُـمِیْت، خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ خدا ہے اور برخلاف اس کے جنہوں نے رام چندر جیسے کھانے پینے کے محتاج انسان کوخدا بنایا ہے.جب یہ کہیں گے کہ اس کی بیوی کو رَاون نکال کر لے گیا تو کس قدر شرم اس خدا کے ماننے والوں کو دامنگیر ہو گی کہ عجیب خدا ہے جو اپنی بیوی کی بھی حفاظت نہیں کر سکا ایسا ہی آریہ جب اپنے خدا کی یہ صفت مخالف سے سنے گا کہ اس نے ایک ذرّہ بھی پیدا نہیں کیا اور وہ اپنے کسی بڑے سے بڑے پریمی اور بھگت کو بھی کبھی نجات نہیں دے سکتا،یا اس ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۲۳ موخہ ۲۴؍ جون ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۰ ، ۱۱

Page 182

نے ایسی شریعت انسانوں کے لئے بنائی کہ ایک مرد اپنی بیوی کو اولاد نہ ہونے کی صورت میں دوسرے مرد سے اولاد پیدا کرنے کے واسطے ہم بستری کی اجازت دے سکتا ہے تو اسے کیسا شرمندہ ہونا پڑے گا اگر اس میں غیرت اور حیا کا کوئی مادہ باقی ہو.لیکن مسلمان کیسا خوش ہو گا اور اس کی امیدیں کیسی وسیع ہوں گی جب اپنے.خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍاور قدوس، سبحان خدا کو پیش کرتاہے.اخیار اور ابرار کا نام ابد الآباد تک زندہ رہتا ہے پس یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا چنانچہ فرمایا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ ( التوبۃ :۱۲۰) اخیار اور ابرار کا نام ابدالآباد تک زندہ رہتا ہے.گزشتہ زمانے کے بادشاہوں یہاں تک کہ قیصرو کسریٰ کا کوئی نام بھی نہیں لیتا.بر خلاف اس کے خدا تعالیٰ کے راستبازوں اور بر گزیدوں کی دنیا مدّاح ہے.دیکھو! ہمارے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر عظمت دنیا میں قائم ہے.۹۴ کروڑ مسلمان آپ کے نام لینے والے موجود ہیں جو ہر وقت آپ پر درود پڑھتے ہیں.کیا کوئی قیصرو کسریٰ پر بھی درود پڑھتا ہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کس قدر عظمت ہو رہی ہے یہاں تک کہ نادانوں نے اپنی جہالت اور کم مائیگی کی وجہ سے ان کو خدا بنا رکھا ہے.اصل بات یہ ہے کہ رسولوں کا طبقہ مصائب اٹھا کر دنیا سے گزر گیا مگر ان کا خدا کے لئے دنیا کے عیش وآرام کو چھوڑ کر طرح طرح کے آلام ومصائب کے بار کواٹھا لینا ان کی عظمت کا باعث ہو گیا.یہ بات نہیں ہے کہ خدا کے محبوبوں کو تکا لیف آتی ہیں.ان کی تکالیف میں ایک لطیف سِرّ ہوتا ہے.ان پر اس لیے سب سے زیادہ تکالیف اور مصائب نہیں آتی ہیں کہ تباہ ہو جائیں بلکہ اس لئے کہ تا زیادہ سے زیادہ پھل اور پھول میں ترقی کریں.دیکھو! دنیا میں ہر جوہرِ قابل کے لئے خدا نے یہی قانون ٹھہرایا ہے کہ اوّل وہ صدمات کا تختہ مشق بنایا جاتا ہے.کسان زمین میں ہل چلا کر اس کا جگر پھاڑتا ہے اور اس مٹی کو باریک کرتا ہے یہاں تک کہ ہوا کے جھونکے اسے اِدھر اُدھر اڑائے لئےپھرتے ہیں.نادان خیال کرے گا کہ زمیندار نے بڑی غلطی کی جو اچھی بھلی زمین کوخراب کر دیا مگر عقلمند خوب سمجھتا ہے کہ جب تک زمین کو اس درجہ تک نہ پہنچایا

Page 183

جاوے وہ پھل پھول پیدا کرنے کی قابلیت کے جوہر نہیں دکھا سکتی.اسی طرح اس زمین میں بیج ڈال دیا جاتا ہے جو خاک میں مل کر بالکل مٹی کے قریب قریب ہو جاتا ہے لیکن کیا وہ دانے اس لئے مٹی میں ڈالے جاتے ہیں کہ زمیندار ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے؟ نہیں نہیں وہ دانے اس کی نگاہ میں بہت ہی بیش قیمت ہیں.اس کی غرض ان کو مٹی میں گرانے سے صرف یہ ہے کہ وہ پھلیں اور پھولیں اور ایک ایک کی بجائے ہزار ہزار ہو کر نکلیں.جبکہ ہر جوہرِ قابل کے لئے خدا نے یہی قانون رکھا ہے وہ اپنے خاص بندوں کو مٹی میں پھینک دیتا ہے اور لوگ ان کے اوپر چلتے ہیں اور پیروں کے نیچے کچلتے ہیں مگر کچھ وقت نہیں گزرتا کہ وہ اس سبزہ کی طرح (جو خس وخاشاک میںدبے ہوئے دانے سے نکلتا ہے)نکلتے ہیں اور ایک عجیب رنگ اور آب کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں جو ایک دیکھنے والا تعجب کرتا ہے.یہی قدیم سے بر گزیدہ لوگوں کے ساتھ سنّت اللہ ہے کہ وہ ورطہءِ عظیمہ میں ڈالے جاتے ہیں لیکن نہ اس لئے کہ غرق کیے جاویں بلکہ اس لئے کہ ان موتیوں کے وارث ہوں جو دریائے وحدت کی تہہ میں ہیں.وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں نہ اس لئے کہ جلائے جائیں بلکہ اس غرض کے لئے کہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا تماشا دکھایا جاوے.غرض ان سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور ہنسی کی جاتی ہے.ان پر لعنت کرنا ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اپنا جلوہ دکھاتا ہے اور اپنی نصرت کی چمکار دکھاتا ہے.اس وقت دنیا کو ثابت ہو جاتا ہے اور غیرت الٰہی اس غریب کے لئے جوش مارتی ہے اور ایک ہی تجلی میں اعداء کو پاش پاش کر دیتی ہے.سو اوّل نوبت دشمنوں کی ہوتی ہے اور آخر میں اس کی باری آتی ہے.اس کی طرف خدا تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ ( الاعراف : ۱۲۹ ) پھر خدا تعالیٰ کے ماموروں پر مصائب اور مشکلات کے آنے کا ایک یہ بھی سِرّ ہوتا ہے تا ان کے اخلاق کے نمونے دنیا کو دکھائے جاویں اور اس عظیم الشان بات کو دکھائے جو ایک معجزہ کے طور پر ان میں ہوتی ہے وہ کیا؟ استقامت استقامت ایک ایسی چیز ہے کہ کہتے ہیں اَ لْاِسْتِقَامَۃُ فَوْقَ الْکَرَامَۃِ.حضرت ابراہیم علیہ السلام میں یہ استقامت ہی تو تھی کہ خواب میں حکم ہوا کہ تو بیٹا

Page 184

ذبح کر حالانکہ خواب کی تعبیراور تاویل بھی ہو سکتی تھی مگر خدا تعالیٰ پر ایسا ایمان اور دل میں ایسی قوت اور ایسی استقامت ہے کہ یہ حکم پاتے ہی معاً تعمیل کے واسطے طیار ہو گئے اور اپنے ہاتھ سے نوجوان بیٹے کو ذبح کرنے لگے.آجکل اگر کسی کا بچہ امراض میں مبتلا رہ کر مر جاوے تو خدا تعالیٰ کی نسبت ہزار ہا شکوک پیدا ہو جاتے ہیں اور شکوہ و شکایت کے لئے زبان کھولتے ہیں لیکن ایک ابراہیم ہے کہ بیٹے کی محبت کو کچل ڈالا اور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کو طیار ہو گیا.ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا.ایسے آدمیوں کے کلمات طیّبات قرار دیئے جاتے ہیں اور اُن کو ذریعہ دعا، اُن کے کپڑوں کو متبرک قرار دیا جاتا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عالی حوصلگی اور استقامت یاد رکھو مومنوں کا ایلام برنگ انعام ہو جاتا ہے.اور اس سے عوام کو حصہ نہیں دیا جاتا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرہ سالہ زندگی جو مکہ میں گزری اس میں جس قدر مصائب اور مشکلات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آئیں ہم تو ان کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.دل کانپ اٹھتا ہے جب ان کا تصور کرتے ہیں.اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عالی حوصلگی، فراخ دلی، استقلال اور عزم و استقامت کا پتہ ملتا ہے.کیسا کوہ وقار انسان ہے کہ مشکلات کے پہاڑ ٹوٹے پڑتے ہیں مگر اس کو ذرا بھی جنبش نہیں دے سکتے.وہ اپنے منصب کے ادا کرنے میں ایک لمحہ سست اور غمگین نہیں ہوا.وہ مشکلات اس کے ارادے کو تبدیل نہیں کر سکتیں.بعض لوگ غلط فہمی سے کہہ اٹھتے ہیں کہ آپ تو خدا کے حبیب مصطفیٰ اور مجتبیٰ تھے پھر یہ مصیبتیں اور مشکلات کیوں آئیں؟ میں کہتا ہوں کہ پانی کے لئے جب تک زمین کو کھودا نہ جاوے اس کا جگر پھاڑا نہ جاوے وہ کب نکل سکتا ہے.کتنے ہی گز گہرا زمین کو کھودتے چلے جائیں تب کہیں جا کر خوشگوار پانی نکلتا ہے جو مایہ حیات ہوتا ہے.اسی طرح وہ لذّت جو خدا تعالیٰ کی راہ میں استقلال اور ثبات قدم کے دکھانے سے نہیں ملتی جب تک ان مشکلات اور مصائب میں سے ہوکر انسان نہ گزرے.وہ لوگ جو اس کوچہ سے بے خبر ہیں وہ ان مصائب کی لذّت سے کب آشنا ہو سکتے ہیں اور کب اسے محسوس

Page 185

کر سکتے ہیں.ا نہیں کیا معلوم ہے کہ جب آپ کو کوئی تکلیف پہنچتی تھی اندر سے ایک سرور اور لذّت کا چشمہ پھوٹ نکلتا تھا.خدا تعالیٰ پر توکل ،اس کی محبت اور نصرت پر ایمان پیدا ہوتا تھا.محبت ایک ایسی شے ہے کہ وہ سب کچھ کرا دیتی ہے.ایک شخص کسی پر عاشق ہوتا ہے تو معشوق کے لئے کیا کچھ نہیں کر گزرتا.ایک عورت کسی پر عاشق تھی.اس کو کھینچ کھینچ کر لاتے تھے اور طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے ماریں کھاتی تھی مگر وہ کہتی تھی کہ وہ مجھے لذّت ملتی ہے.۱جبکہ جھوٹی محبتوں فسق و فجور کے رنگ میں جلوہ گر ہونے والے عشق میں مصائب اور مشکلات کے برداشت کرنے میں ایک لذّت ملتی ہے توخیال کرو کہ وہ جو خدا تعالیٰ کا عاشق زار ہو اس کے آستانہ الوہیت پر نثار ہونے کا خواہشمند ہو وہ مصائب اور مشکلات میں کس قدر لذّت پا سکتا ہے.صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حالت دیکھو.مکہ میں ان کو کیا کیا تکلیفیں پہنچیں بعض ان میں سے پکڑے گئے.قسم قسم کی تکلیفوں اور عقوبتوں میں گرفتار ہوئے.مرد تو مرد بعض مسلمان عورتوں پر اس قدر سختیاں کی گئیں کہ ان کے تصور سے بدن کانپ اٹھتا ہے.اگر وہ مکہ والوں سے مل جاتے تو اس وقت بظاہر وہ ان کی بڑی عزّت کرتے کیونکہ وہ ان کی برادری ہی تو تھے مگر وہ کیا چیز تھی جس نے ان کو مصائب اور مشکلات کے طوفان میں بھی حق پر قائم رکھا.وہ وہی لذّت اور سرور کا چشمہ تھا جو حق کے پیار کی وجہ سے ان کے سینوں سے پھوٹ نکلتا تھا.ایک صحابی کی بابت لکھا ہے کہ جب اس کے ہاتھ کاٹے گئے تو اس نے کہا کہ میں وضو کرتا ہوں.آخر لکھا ہے کہ سر کاٹو تو سجدہ کرتا ہے کہتا ہوا مر گیا.اس وقت اس نے دعا کی کہ یااللہ! حضرتؐکو خبر پہنچا دے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مدینہ تھے.جبرائیل نے جا کر السلام علیکم کہا اور آپ نے علیکم السلام کہا اور اس واقعہ پر اطلاع ملی.غرض اس لذّت کے بعدجو خدا تعالیٰ میں ملتی ہے ایک کیڑے کی طرح کچل کر مر جانا منظور ہوتا ہے اور مومن کو سخت سے سخت تکالیف بھی آسان ہی ہوتی ہیں.سچ پوچھو تو مومن کی نشانی ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ مقتول ہونے کے لئے طیار رہتا ہے.اسی طرح اگر کسی شخص کو کہہ دیا جاوے کہ یا نصرانی ہو جا یا قتل کر دیا جائے گا.اس وقت دیکھنا چاہیے ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۲۴ مورخہ ۳۰؍ جون ۱۹۰۱ء صفحہ ۱ ، ۲

Page 186

چاہیے کہ اس کے نفس سے کیا آواز آتی ہے.آیا وہ مرنے کے لئے سر رکھ دیتا ہے یا نصرانی ہونے کو ترجیح دیتا ہے.اگر مرنے کو ترجیح دیتا ہے تو وہ مومن حقیقی ہے ورنہ کافر ہے.غرض ان مصائب میں جو مومنوں پر آتے ہیں اندر ہی اندر ایک لذّت ہوتی ہے.بھلا سوچو تو سہی کہ اگر یہ مصائب لذّت نہ ہوتے تو انبیاء علیہم السلام ان مصائب کا ایک دراز سلسلہ کیونکر گزارتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی ایک عجیب نمونہ ہے اور ایک پہلو سے ساری زندگی ہی تکلیفات میں گزری.جنگ اُحد میں بھی آپ اکیلے ہی تھے.لڑائی میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنی نسبت رسول اللہ ظاہر کرنا آپ کی کس درجہ کی شوکت ، جرأت اور استقامت کو بتاتا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ انسان جب تک اس کوچہ میں داخل نہ ہو اسے لذّت ہی نہیں آتی.یہ ایک ایسی لذّت ہے جس کی طرف خدا تعالیٰ ہر مومن کو بلاتا ہے.جس طرح اَور اَور لذّتوں کا مزا چکھتے ہو اس کا بھی مزا چکھو اور تلاش کرنے والے پا لیتے ہیں.اُس طرف سے اگر تکاہل اور تساہل ہو گا تو اِدھر سے بھی حرکت نہ ہو گی.اُدھر سے مجاہدہ ہو گا تو اِدھر سے بھی حرکت ہو گی.مجاہدہ ایک ایسی شے ہے کہ اس کے بدوں انسان کسی ترقی کے بلند مقام کو پا نہیں سکتا.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں.غرض مجاہدہ کرو اور خدا میں ہو کر کرو تا کہ خدا کی راہیں تم پر کھلیں اور ان راہوں پر چل کر تم اس لذّت کوحاصل کر سکو جو خدا میں ملتی ہے.اس مقام پر مصائب اور مشکلات کی کچھ حقیقت نہیں رہتی.یہ وہ مقام ہے جس کو قرآن شریف کی اصطلاح میں شہید کہتے ہیں.شہادت کی حقیقت لوگوں نے شہید کے معنی صرف یہی سمجھ رکھے ہیں کہ کسی کافر غیر مسلم کے ساتھ جنگ کی اور اس میں مارے گئے تو بس شہید ہو گئے.اگر اتنے ہی معنے شہید کے لئے جاویں تو پھر مخالفوں کو بہت بڑی گنجائش اعتراض کی رہتی ہے اورغالباً یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں اور آریوں نے اسلام کو تلوار کے ذریعہ سے پھیلنے والا مذہب قرار دیاہے اگرچہ ان

Page 187

لوگوںکی سخت نادانی ہے کہ وہ بدوں دریافت کیے اصل منشا کے اعتراض کر دیتے ہیں مگر ہم کو ان مولویوں پر بھی افسوس ہے جنہوںنے قرآن شریف کے حقائق کو پیش نہیں کیا اور خیالی اور فرضی تفسیریں اور مصنوعی قصے بیان کر کے اسلام کے پاک اور خوشنما چہرہ پر ایک پردہ ڈال دیا ہے مگر خدا تعالیٰ جو خود اسلام کا محافظ اور ناصر ہے وہ اب چاہتا ہے کہ اسلام کا پاک اور درخشاں چہرہ دکھایا جاوے چنانچہ یہ سلسلہ جو اس نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے.اسی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ الٰہی نصرت کا وقت آپہنچا اور اسلام کی عزّت اور جلال کے دن آگئے کیونکہ خدا تعالیٰ کی تائیدیں اور نصرتیں جو ہمارے شامل حال ہیں، یہ آج کسی مذہب کے پیرو کو نصیب نہیں اور ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ کیا کوئی اہل مذہب ہے جو اسلام کے سوا اپنے مذہب کی حقانیت پر تائیدی اور سماوی نشان پیش کر سکے.خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ جو قائم کیا ہے یہ اس حفاظت کے وعدہ کے موافق ہے جو اس نے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ( الـحجر :۱۰) میں کیا ہے.میرا مطلب یہ تھا کہ شہید کے معنے صرف یہی نہیں کہ غیر مسلم کے ساتھ جنگ کر کے مر جانے والا شہید ہوتا ہے.ان معنوں نے ہی اسلام کو بد نام کیا اور اب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر سرحدی نادان مسلمان بے گناہ انگریزوں کو قتل کرنے میں ثواب سمجھتے ہیں.چنانچہ آئے دن ایسی وارداتیں سننے میں آتی ہیں.پچھلے دنوںکسی سرحدی نے لاہور میں ایک میم کو قتل کر دیا تھا.ان احمقوں کو اتنا معلوم نہیں کہ یہ شہادت نہیں بلکہ قتل بے گناہ ہے.اسلام کا یہ منشا نہیں ہے کہ وہ فتنہ وفساد برپا کرے بلکہ اسلام کا مفہوم ہی صلح اور آشتی کو چاہتا ہے.اسلامی جنگوںپر اعتراض کرنے والے اگر یہ دیکھ لیتے کہ ان میں کیسے احکام جاری ہوتے تھے تو وہ حیران رہ جاتے.بچوں ،بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہیںکیا جاتا تھا.جزیہ دینے والوںکو چھوڑ دیا جاتا تھا اور ان جنگوںکی بناء دفاعی اصول پر تھی.ہمارے نزدیک جو جاہل پٹھان اس طرح پر بے گناہ انگریزوں پر پڑتے ہیں اور ان کو قتل کرتے ہیں وہ ہرگز شہادت کا درجہ نہیں حاصل کرتے بلکہ وہ قاتل ہیں اور ان کے ساتھ قاتلوں کا سا سلوک ہو نا چاہیے.

Page 188

تو شہید کے معنے یہ ہیں کہ اس مقام پر اللہ تعالیٰ ایک خاص قسم کی استقامت مومن کو عطا کرتا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر مصیبت اور تکلیف کو ایک لذّت کے ساتھ برداشت کرنے کے لئے طیار ہوجاتا ہے.پس اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتـحۃ:۶،۷) میں منعم علیہ گروہ میں سے شہیدوں کا گروہ بھی ہے اور اس سے یہی مراد ہے کہ استقامت عطا ہو ،جو جان تک دے دینے میں بھی قدم کو ہلنے نہ دے.۱ ۱۵؍ جولائی ۱۹۰۱ء حضرت اقدس گورداسپور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو ۱۵؍ جولائی ۱۹۰۱ ء کو اس مقدمہ میں جو میرزا نظام الدین وغیرہ پر مسجد کا راستہ جو شارع عام ہے بند کرنے کی وجہ سے کیا گیا ہے فریق ثانی کی درخواست پر بغرض ادائے شہادت جانا پڑا.گورداسپور کو جاتے ہوئے راستہ میں ایک بہت بڑی نہر آتی ہے اور ایک مقام پر وہ نہر دو بڑے شعبوں میں منقسم ہوکر بہتی ہے اس مقام کا نام ہم نے اپنے اس سفرنامہ میں مجمع البحرین رکھا ہے جو احباب یکوں پر سوار ہو کر گئے تھے وہ وہاں پہلے پہنچے اس لئے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انتظار میں ٹھہر گئے چنانچہ کوئی آدھ گھنٹہ کے انتظار کے بعد حضرت اقدس کی سواری آ پہنچی.حضرت اقدس نے کھانا کھانے کا حکم دیا.دسترخوان بچھایا گیا.احباب نے کھانا کھایا.اس وقت کچھ باتوں کا سلسلہ چل پڑا.حضرت اقدس نے فرمایا.متقی کی تائید خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے مومن کی تو شان ہی کے خلاف ہے کہ وہ منصوبہ کرے.گورداسپور کا قیام گورداسپور میں حضرت اقدس نے مولانا مولوی محمدعلی صاحب کی تجویز کے موافق ان کے خسر منشی نبی بخش صاحب رئیس گورداسپور کے عالی شان مکان ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۰ ؍ جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۱، ۲

Page 189

میں قیام فرمایا.مقدمہ کے متعلق باتوں کا سلسلہ شروع ہوگیااور کسی کے یہ کہنے پر کہ فریق مخالف نے بہت بیہودہ جرح کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے.آپ نے فرمایا.میں اس بات کی کچھ پروا نہیں کرتا.مومن کا ہاتھ اوپر ہی پڑا ہے يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ (الفتح:۱۱) کافروں کی تدبیریں ہمیشہ الٹی ہوکر ان پر ہی پڑا کرتی ہیں مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ(اٰلِ عـمران : ۵۵ ).میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ ان لوگوں کو میرے ساتھ ذاتی عداوت اور بُغض ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ میں مِلل باطلہ کے ردّ اور ہلاک کرنے کے لئے مامور کیا گیا ہوں.میں جانتا ہوں اور میں اس میں ہرگز مبالغہ نہیں کرتا کہ مِلل باطلہ کے ردّ کرنے کے لئے جس قدر جوش مجھے دیا گیا ہے میرا قلب فتویٰ دیتا ہے کہ اس تردید و ابطال مِلل باطلہ کے لئے اگر تمام روئے زمین کے مسلمان ترازو کے ایک پلّہ میں رکھے جاویں اور مَیں اکیلا ایک طرف تو میرا پلّہ ہی وزن دار ہوگا.آریہ، عیسائی اور دوسرے باطل ملّتوں کے ابطال کے لئے جب میرا جوش اس قدرہے پھر اگر ان لوگوں کو میرے ساتھ بغض نہ ہو تو اور کس کے ساتھ ہو.ان کا بغض اسی قسم کا ہے جیسے جانوروں کا ہوتا ہے.تین دن ہوئے مجھے الہام ہوا تھا اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً میں حیران ہوں یہ الہام مجھے بہت مرتبہ ہوا ہے اور عموماًمقدمات میں ہوا ہے.افواج کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مقابل میں بھی بڑے بڑے منصوبے کئے گئے ہیں اور ایک جماعت ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا جوش نفسانی نہیں ہوتا ہے اس کے تو انتقام کے ساتھ بھی رحمانیت کا جوش ہوتاہے.پس جب وہ افواج کے ساتھ آتا ہے تو اس سے صاف پایا جاتاہے کہ مقابل میں بھی فوجیں ہیں.جب تک مقابل کی طرف سے جوش انتقام کی حد نہ ہوجاوے خدا تعالیٰ کی انتقامی قوت جوش میں نہیں آتی.۱ ۱۶؍ جولائی ۱۹۰۱ء آج دس بجے کے بعد حضرت اقدس کو شہادت میں پیش ہونا تھا....منشی فیض رحمان صاحب ٹریژری کلارک گورداسپور کے مقدمہ کے لئے دعا کے واسطے عرض کی گئی.حضرت اقدس نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا.۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۹ ، ۱۰

Page 190

فرمایا.میرا مذہب تو یہ ہے کہ جس کو بلا سے بچنا ہو وہ پوشیدہ طور پر خدا سے صلح کرلے اور اپنی ایسی تبدیلی کر لے کہ خود اسے محسوس ہووے کہ میں وہ نہیں ہوں.خدا تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَايُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ( الرّعد: ۱۲ ) سچے مذہب کی جڑ خدا پر ایمان ہے اور خدا پر ایمان چاہتا ہے کہ سچی پر ہیز گاری ہو، خدا کا خوف ہو.تقویٰ والے کو خدا تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا.وہ آسمان سے اس کی مدد کرتا ہے.فرشتے اس کی مدد کو اترتے ہیں.اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ متّقی سے معجزہ ظاہر ہوجاتا ہے.اگر انسان خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری صفائی کرلے اور ان افعال اور اعمال کو چھوڑ دے جو اس کی نا رضا مندی کا موجب ہیں تو وہ سمجھ لے کہ ہر ایک کام برکت سے طے پا جائے گا.ہمارا ایمان تو آسمانی کارروائیوں ہی پر ہے.یہ سچی بات ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کسی کا ہوجائے تو سارا جہان اپنی مخالفت سے کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا.جس کو خدا محفوظ رکھنا چاہے اس کو گزند پہنچانے والا کون ہوسکتا ہے؟ پس خدا پر بھروسا کرنا ضروری ہے اور یہ بھروسا ایسا ہونا چاہیے کہ ہر ایک شے سے بکلّی یاس ہو.اسباب ضروری ہیں مگر خلق اسباب بھی تو خدا تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے.وہ ہر ایک سبب کو پیدا کر سکتا ہے اس لئے اسباب پر بھی بھروسہ نہ کرو اور یہ بھروسہ یوں پیدا ہوتا ہے کہ نمازوں کی پابندی کرو اور نمازوں میں دعا ؤں کا التزام رکھو.ہر ایک قسم کی لغزش سے بچنا چاہیے اور ایک نئی زندگی کی بنیاد ڈالنی چاہیے.یہ یاد رکھو !عزیز بھی ایسے دوست نہیں ہوتے جیسے خدا عزیز ہوتا ہے.وہ راضی ہو تو کل جہان راضی ہو جاتا ہے اگر وہ کسی پر رضا مندی ظاہر کرے تو اُلٹے اسباب کو سیدھا کر دیتا ہے.مضر کو مفید بنا دیتا ہے یہی تو اس کی خدائی ہے.ہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس کے لئے دعا کی جاتی ہے اس کو ضروری ہے کہ خود اپنی صلاحیت میں مشغول رہے.اگر وہ کسی اور پہلو سے خد اکو ناراض کردیتا ہے تو وہ دعا کے اثر کو روکنے والا ٹھہرتا ہے.مسنون طریق پر اسباب سے مددلینا گناہ نہیں ہے مگر مقدم خدا کو رکھے اور

Page 191

ایسے اسباب اختیار نہ کرے جو خدا تعالیٰ کی ناراضی کا موجب ہوں.میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ دعا کروں گا تم خود اپنی صلاحیت میں مشغول ہو اور خدا تعالیٰ سے صلح کرو کہ وہی کار ساز ہے.۱ جس روز رات کو گورداسپور پہنچے تھے حضرت اقدسؑ کی طبیعت کسی قدر ناساز تھی باینہمہ حضرت اقدسؑ نے تمام احباب کو جو ساتھ تھے آرام کرنے اور سو جانے کی ہدایت فرمائی تھی چنانچہ تعمیلِ ارشاد کے لئے متفرق مقامات پر احباب جاکر سو رہے.برادرم عبدالعزیز صاحب اور دو تین اور دوست اس مکان میں رہے جہاں حضرت اقدس آرام کرتے تھے.ساری رات حضرت اقدس ناسازیِ طبیعت اور شدّتِ حرارت کی وجہ سے سو نہ سکے.چونکہ بار بار رفع حاجت کی ضرورت محسوس ہوتی تھی اس لئے بار بار اُٹھتے تھے.حضرت اقدس ارشاد فرماتے تھے کہ میں حیران ہوں منشی عبدالعزیز صاحب ساری رات یا تو سوئے ہی نہیں اور یا اس قدر ہوشیاری سے پڑے رہے کہ اِدھر میں سر اٹھاتا تھااُدھر منشی صاحب فوراً اُٹھ کر اور لوٹا لے کر حاضر ہوجاتے تھے.گویا ساری رات یہ بندہ خدا جاگتا ہی رہا.اور ایسا ہی دوسری رات بھی.پھر فرمایا کہ درحقیقت آدابِ مرشد اور خدمت گزاری ایسی شے ہے جو مرید و مرشد میں ایک گہرا رابطہ پیدا کر کے وصول الی اللہ اور حصول مرام کا نتیجہ پیدا کرتی ہے.اس خلوص اور اخلاص کو جو منشی صاحب میں ہے ہماری جماعت کے ہر فرد کو حاصل کرنا چاہیے.جب دس بج چکے تو حضرت اقدس نے کچہری کو چلنے کا حکم دیا چنانچہ ارشاد عالی سنتے ہی خدام اٹھ کھڑے ہوئے اور اس طرح پر کوئی چالیس آدمیوں کے حلقہ میں خدا کا برگزیدہ ادائے شہادت کے لئے چلا.راستہ میں لوگ دوڑ دوڑ کر زیارت کرتے تھے.آخر ضلع کی کچہری آگئی اور کچہری کے سامنے جو پختہ تالاب ہے اس کے جنوب اور شرقی گوشہ پر دری بچھائی گئی اور حضرت اقدس تشریف فرما ہوئے.حضور کا تشریف رکھنا ہی تھا کہ ساری کچہری امنڈ آئی اور اس دری کے گرد ایک دیوار بن گئی زائرین کا ہجوم دم بدم بڑھتا جاتا تھا ایک آتا تھا دوسرا جاتا تھا چونکہ تیسری یا چوتھی دفعہ تھی جو حضور گورداسپور کی کچہری میں رونق بخش ہوئے.۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ۱۰

Page 192

ہوئے.پہلے اور طرف بیٹھا کرتے تھے.اس طرف بیٹھنے کے لئے یہ پہلی مرتبہ تھی آپ نے فرمایا.یہ جگہ باقی رہ گئی تھی.اسی عرصہ میں ایک شخص معزز حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بڑے تپاک اور خندہ پیشانی سے حضرت سے مصافحہ کیا اور کچھ باتیں کرتے رہے اور اپنے لڑکے کے لئے جو بیمار تھا دعا کے لئے عرض کی.آپ نے دعا کا وعدہ فرمایا پھر اس نے عرض کی کہ جناب ہمارے لئے ہی یہاں تشریف لائے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہمارے واسطے ہی آپ کی تشریف آوری کی سبیل پیدا کی ہے کہ ہم مشتاقوں کو بھی آپ کی زیارت سے سعادت مند و بہرہ ور فرمائے.حضرت نے جواباً ارشاد فرمایا.ہاں ایسا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو بھی جو قادیان میں کسی وجہ سے نہیں آسکتے اور اپنے اندر اخلاص رکھتے ہیں ہماری ملاقات سے محروم نہ رکھے.فرمایا.لکھا ہے کہ دو بزرگ ایک حضرت سید عبد القادر جیلانی کے مرشد حضرت ابو سعید اور ایک اور بزرگ ایک مقام میں جمع ہوئے اور گفتگو یہ ہوئی کہ حضرت اقدس و اکرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے مدینہ میں ہجرت کرا کر کیوں خدا تعالیٰ لے گیا.ان دونوں بزرگوں میں سے ایک نے فرمایا کہ مصلحت و حکمتِ الٰہی اس بات کی مقتضی تھی کہ جو مراتب اور علو درجات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کرنے تھے وہ اس ہجرت اور سفر اور مصائب و تکالیفِ شدیدہ کے برداشت کرنے سے آپ کو عنایت فرمائے.دوسرے بزرگ نے فرمایا کہ میرے خیال میں یہ آتا ہے کہ مدینہ میں بہت سی ایسی روحیں پُر جوش اور بااخلاص اور خدا تعالیٰ کی طرف دوڑنے والی تھیں جو ایک ذریعہ عظیمہ اور سببِ کبریٰ کو چاہتی تھیں اور وہ بباعث کسی سبب یا بے دست و پا ہونے کے کہیں جا نہیں سکتی تھیں سو ان کے تکمیل کے لئے خدا وند جل شانہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں پہنچایا.غرض ان بزرگوں نے اپنے اپنے خیال کے مطابق یہ دو باتیں بیان کیں اور دونوں ہی باتیں سچی تھیں سو خدا تعالیٰ جو ہمیں گورداسپور لایا اور وہ اپنی مرضی اور حکمت کے رو سے لایا نہ ہم خود اپنی مرضی اور خواہش سے آئے.خدا ہی جانے اس میں کیا اس کی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں اور ہمارے ذریعہ یا ہمارے وجود سے حق کی کیا کیا تبلیغ اور سچائی کی کیا کیا حجتیں پوری ہوں گی اور خدا کے علم میں اور کیا کیا باتیں ہیں جو ہمیں معلوم نہیں.

Page 193

خدا تعالیٰ اپنی حکمتوں سے خوب واقف ہے.پھر آپ نے چند نصیحتیں کئی پیرایوں میں تقویٰ و طہارت اختیار کرنے اور برائیوں سے بچنے اور صدق اور راستی کے قبول کرنے کی نسبت بیان فرمائیں.۱ بیان حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوٰۃ و السلام اللہ تعالیٰ حاضرہے میں سچ کہوں گا.میری عمر ساٹھ سال کے قریب ہے مرزا غلام جیلانی ہمارے جدیوں میںسے تھا.اب تو اس کا کوئی گھر نہیں.دوران مقدمہ ہذا میں مجھے معلوم ہوا کہ غلام جیلانی نے امام الدین اور میرے والد صاحب پر مقدمہ کیا تھا.پہلے صرف امام الدین کا نام تھا پھر مرمت سوال سے میرے والد صاحب کا نام بھی لکھا گیا.یہ بات ہمارے مختاروں نے جنہوں نے اب مثل دیکھی ہے بتائی ہے.میں نے سنا ہے کہ اس مثل میں کوئی نقشہ بھی ہے.ایک چاہ پرانا ہے جو سلطان احمد پسرم کے مکان کے دروازہ کے آگے ہے.چھ سات سال سے میں نے ایک چاہ اپنے زنان خانہ میں سہولت زنان خانہ کے لئے بنایا ہے.سقّہ بہت سا پانی نہیں دے سکتا.اس وقت بھی اندر زنان خانہ میں پچاس ساٹھ عورتیں ہیں جو چاہ متّصل دروازہ مکان سلطان احمد کے ہے عرصہ سے ہمارے مصرف میں نہیں آتا.ہمارے آدمی پانی لینے جاویں تو سلطان احمد کے آدمی روکتے ہیں.سلطان احمد کا خاص کوئی آدمی نہیں ہے اس کی پہلی بیوی مرگئی ہے.اب امام الدین مدعا علیہ کی بیٹی اس کی بیوی ہے اور امام الدین کی بہن سلطان احمد کی تائی ہے جو میرے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی بیوی ہے، روکنے والی وہی امام الدین کی بہن سلطان احمد کی تائی ہے.وہ بسازش امام الدین روکتی ہے.میں نے اپنے کانوں سے ممانعت سنی ہے.میں نے خود امام الدین کی ہمشیرہ کی زبانی سنا ہے کہ یہ لوگ میرے بھائی امام الدین و نظام الدین کے دشمن ہیں اور میرا رشتہ بھائیوں سے ہے.میں نہیں چاہتی کہ یہ اس چاہ سے پانی بھریں.ان کو روک دو.میں نے اس کو بہت دفعہ کہتے سنا ہے.سلطان احمد مجھ سے مخالفت رکھتا ہے.ایک وجہ مخالفت کی یہ ہے کہ وہ مرزا غلام قادر کا متبنّٰی بنایا گیا تھا اور ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴؍ جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۱ ، ۱۲

Page 194

میری نصف جائیداد کا شریک کیا گیا تھا.اب وہ اسی میں اپنی مصلحت دیکھتا ہے کہ تائی کے ساتھ موافقت رکھے.یہ اشتہار جو مدعا علیہ دکھاتا ہے مطبوعہ ۲؍ مئی ۱۸۹۱ ء میرا ہے.زنان خانہ کا چاہ مردانہ کی ضرورتوں کے لئے ہرگز کافی نہیں ہے.وہ صرف زنان خانہ کی سہولت کے لئے بنایا گیا ہے.امام الدین کے چاہ سے ہمارا سقہ بغیر ہمارے علم کے پانی لاتا ہوگا کھلے طور پر ہم وہاں سے پانی نہیں لے سکتے کیونکہ دشنام دہی ہوتی ہے.جب سے دیوار بنی ہے تب سے زیادہ روک دیا ہے.دیوار جدید بنائے جانے کے بعد تجویز تعمیر چاہ جدید کی ہوئی.پانچ چھ ماہ ہوئے کہ چاہ جدید کا پانی استعمال میں آیا ہے.اس سے پہلے بڑی مسجد میں بھی پانی لینے جاتے تھے.جس جگہ چاہ جدید بنا ہے وہ احاطہ ہے.چھاپہ خانہ اور بورڈنگ ہوس بھی اسی احاطہ میںہے.مدرسہ اور بورڈنگ ہوس میں ڈیڑھ سو آدمی ہوتاہوگا اور دس پندرہ ملازم چھاپہ خانہ کے اور کبھی ستّر کبھی اَسّی کبھی سَو مہمان روزانہ اور مجمع میں جو سال میں تین چار مرتبہ ہوتا ہے تین سو یا چار سو یا پانسو مہمان بھی آجاتے ہیں.بورڈنگ ہوس تین یا چار سال سے بنا ہے جس کا مجھے علم ہے.لڑکوں اور مسافروں کے لئے پانی بھرنے کا سامان موجود ہے.بورڈنگ ہوس کا سقہ کوئی خاص نہیں.بورڈنگ ہوس کے کئی ملازم ہیں وہ گھڑا صراحی وغیرہ برتن بھر لیتے ہیں.میں یقیناً نہیں کہہ سکتا اگر دور سے پانی لانا پڑے تو خرچ زیادہ پڑے.گول کمرہ میں نے بنایا ہے میرے بھائی نے نہیں بنایا.میں نے خود بحیات برادر خود بنایا ہے جب کہ وہ سخت بیمار تھے اور اس مرض میں کہ اس سے جاں بر نہ ہو سکتے تھے گول کمرہ کے سامنے چار دیواری چار برس سے بنائی گئی تھی.تخمیناً ڈیڑھ سال ہوا چھوٹے بوہڑ والا مکان بنایا تھا چھ سات ماہ پہلے وہی بوہڑ والا مکان بنانا چاہا تھا.امام الدین بلوہ کرنے کے لئے آگیا چونکہ ہم احتیاط کیا کرتے ہیں ہم نے چھوڑ دیا.دوسری مرتبہ پھر ہم نے ارادہ تعمیر کا کیا کہ پھر مدعا علیہ بلوہ کرنے آگیا پھر چھوڑ دیا.پھر تیسری مرتبہ ہم کو معلوم ہوا کہ مدعا علیہم کا منشا صرف شرارت کا تھا در اصل مکان میں ان کا کوئی حق نہ تھا.عورتوں نے کہامیں نے سنا ہے انہوں نے چھوڑ دیا، فساد سے باز آگئے اور کہیں چلے گئے اس واسطہ ہم نے مکان بنا لیا.پولیس والا آدمی آیا تھا ہم نے کہاکہ ہمارا ارادہ بلوہ کرنے کا نہیں

Page 195

اگر زیادہ روکا جاوے گا تو دیوانی سے فیصلہ کرا لیں گے چونکہ انہوں نے دست برداری کی، ہم نے مکان بنا لیا.یہ جگہ جہاں دیوار بنائی گئی ہے تخمیناً ۳۶ سال یا دو تین سال کم و بیش سے شارع عام ہے.گول کمرہ میں سے ایک دروازہ ہے جہاں سے میں بڑی مسجد کو جا سکتا ہوں.چھوٹی مسجد تو ہمارے گھر کا ایک حصہ ہے.زنان خانہ میں جو دروازہ ہے اس میں سے گزر کر اگر بڑی مسجد کو جانا چاہوںتو پہلے کوٹھی پر چڑھنا پڑتا ہے پھر دوسری طرف سے اتر کر بڑی مسجد کو جاسکتا ہوں اگر میں اوپر نہ چڑھوں تو کوئی راستہ نہیں ہے.دیوار حائل ہے.اس دیوار کے بننے سے مجھے بڑی ذاتی تکلیف ہوئی ہے.ذاتی تکلیف سے یہ مراد ہے کہ مالی تکلیف ہوئی ہے کہ کنواں بنانا پڑا اور چھاپہ خانہ کا بہت بڑا حرج ہوا.مسافر اور میرے ملاقاتی جو بڑے معزز اور شریف آدمی ہوتے ہیں وہ ملاقات کے لئے ترستے رہتے ہیں.میں اوپر ہوتا ہوں اور وہ نیچے.میں الفاظ میں نہیں بیان کر سکتا کہ مجھے اس سے کس قدر درد پہنچتا ہے.آٹھ نو ماہ ہوئے ایک شریف عرب مجھے ملنے آیا اس کو چوٹیں لگیں کیونکہ راستہ چکر دار ہے.وہ بہت خراب ہے اور پتھریلا ہے.برسات میں خصوصاً چلنے کے قابل نہیں ہوتا.دیوار متنازعہ کے نیچے کوئی فرش نہیں لگا دیکھا.بازار میں پکا فرش ہے.ہماری گلیوں میں پکا فرش نہیں ہے.مجھے خبر نہیں کہ اور گلیوں میں ہے یا نہیں.۱ مدعی نے سوال پر بیان کیا.چکر دار راستہ پتھریلا ہے جہاں انسان مشکل سے گزرتا ہے.اگر مدعا علیہ کے مکان کے چاہ سے ہمارے ہاں چھوٹی مسجد میں پانی سقہ لاوے تو دیوار متنازعہ کے راستہ آوے گا.ہمارا اور مدعا علیہ کا سقّہ جدّی سقّہ ہے.اپنے تعلق سے اس چاہ سے پانی لاتاہے.ہمارے مہمانوں کے یکے اس میدان میں کھڑے ہوتے ہیں.سال میں تیس ہزار کے قریب مہمان آتے جاتے ہیں.ان کے یکے اسی جگہ کھڑے ہوتے ہیں اور گرمی کے دنوںمیں اس میدان میں سوتے ہیں.اگر چاہ جدید سے سقہ چھوٹی مسجد کو آوے گا تب بھی وہ اس دیوار کے راستہ سے آوے گا.اس دیوار الحکم جلد ۵ نمبر ۲۸ مورخہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۷ ، ۸

Page 196

کے راستہ سے آوے گا.اس دیوار بننے سے پیشتر مہمان دونوں وقت میرے ساتھ کھانا کھاتے تھے اور نمازیں پڑھتے تھے اور تعلیمی باتیں سنتے تھے جن کے لئے میں خدا کی طرف سے آیا ہوں.اب اگر اوپر آتے ہیں تو بڑی تکلیف سے چکر کھا کر آتے ہیں اور صبح اور عشا کی نماز میں ضعیف اور کمزور آدمی میرے ساتھ شریک نہیں ہوسکتے.ان مہمانوں کی غرض جو میرے پاس آتے ہیں دین سیکھنے کی ہوتی ہے لیکن جب اس دیوار کی وجہ سے ان کو تکلیف پہنچتی ہے تو مجھے ان تمام تکالیف کا صدمہ ہوتا ہے.جو کام میں کرنا چاہتا ہوں اس میں دقت پیدا ہوتی ہے.میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جن میں مَیں ان تکالیف کو بیان کر سکوں.مہمان کہیں ہوتے ہیں اور میں کہیں.وہ اس بات سے محروم رہتے ہیں جس کے لئے آتے ہیں اور میں اپنا کام نہیں کر سکتا جس کے لیے میں بھیجا گیا ہوں.برسات میں تو راستہ گزرنے کے قابل ہی نہیں ہوتا.مطبع کے پروف اور کاپیاں میں خود ہی دیکھتا ہوں.کار پردازوں کو دن میں چار پانچ مرتبہ میرے پاس آنا پڑتا ہے.اس دیوار کی وجہ سے پابندی نہیں ہوسکتی جس سے حرج ہوتا ہے.کام میں توقف ہوتا ہے.میرے لنگرخانہ کا خرچ کبھی ہزار، کبھی پندرہ سو اور کبھی دو ہزار روپے ماہانہ ہوتا ہے اورمطبع کا مستقل خرچ اڑھائی سو روپیہ ماہوار ہے.قبل از تعمیر دیوار میرے باہر جانے کا راستہ اسی طرف سے تھا جہاں دیوار ہے.میں زنانخانہ سے عموماً نہیں گزرتا ہوں کیونکہ وہاں مہمان عورتیں موجود ہوتی ہیں.اس لحاظ سے کہ ممکن ہے عورتیں کسی حال میں ہوں ہمیشہ اوپر سے ہی آتا ہوں.مدعا علیہم کو میرے ساتھ قریباً انیس، بیس سال سے عداوت ہے.عداوت کی ایک وجہ یہ ہے کہ میرزا امام الدین کی ہمشیرہ میرزا اعظم بیگ کے لڑکے مرزا اکبر بیگ سے بیاہی گئی تھی اور مرزا اعظم بیگ قادیان کی اراضی کا خریدار ہوا تھا اس نے ان لوگوں کے حصے خریدے جو بے دخل تھے.ایک وجہ عداوت کی یہ بھی ہے جو بڑی وجہ ہے کہ مرزا امام الدین خدا اور رسول کے خلاف کتابیں لکھتا ہے چنانچہ’’ دید حق‘‘ ’’ قصہ ہر دو کافر‘‘ جس میں مجھ کو اور محمد حسین بٹالوی دونوں کو کافر قرار

Page 197

دیا ہے.اور’’ گل شگفت ‘‘وغیرہ کتابیں اس نے لکھی ہیں.میں نے جو کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ لکھی ہے اس میں چھوٹی مسجد کا ذکر ہے اس لئے حاشیہ در حاشیہ نمبر ۴ میں اسی مسجد کا ذکر ہے.یہ کتاب ۱۸۸۰ء میں لکھی تھی ’’شحنہء حق‘‘ بھی میری کتاب ہے.آریوں کے خلاف ہے.’’ست بچن‘‘ اور ’’آریہ دھر م‘‘ میری تصنیف ہے.یہ اشتہار مورخہ دہم جولائی ۱۸۸۸ ء میرا ہی ہے جو مرز انظام الدین کے خلاف ہے.یہ اشتہار ۴؍ مئی ۱۸۹۸ء ’’امہات المؤمنین‘‘کے متعلق میں نے گورنمنٹ میں بھیجا تھا اور شائع کیا تھا.مکرر سوال مدعا علیہ پر کہا.کبھی سیر کو جاتا ہوں اور کبھی نہیں جاتا.عموماً صبح کے وقت جاتا ہوں.شام کو کبھی شاذو نادر ہی جاتا ہوں.میری بیوی کو مراق کی بیماری ہے.کبھی کبھی وہ میرے ساتھ ہوتی ہے کیونکہ طبّی اصول کے مطابق اس کے لئے چہل قدمی مفید ہے.ان کے ساتھ چند خادم عورتیں بھی ہوتی ہیںاور پر دہ کا پورا التزام ہوتا ہے.خادم عورتوں سے مراد خدمت گار عورتیں ہیں.پندرہ سولہ عورتیں ہیں چند فارغ خدمت گاروں کو ساتھ لے لیتی ہیں.یہ بات عام نہیں ہے بلکہ علاج کے طور پر ہے.برس میں دو چار مرتبہ ایسا اتفاق ہوتا ہے.کبھی کوئی اور ضعیفہ عورتیں بھی ساتھ چلی جاتی ہیں تو ہم مانع نہیں ہوتے.ہم باغ میں عورات کو نہیں لے جاتے جہاں حلوائیوں کے لڑکوں کو حکم دیں کہ وہ مٹھائیاں لے جاویں.ہم باغ تک جاتے ہیں اور پھر واپس آجاتے ہیں.احمد بیگ کی دختر کی نسبت جو پیشگوئی ہے وہ اشتہار میں درج ہے اور ایک مشہور امر ہے.وہ مرزا امام الدین کی ہمشیرہ زادی ہے.جو خط بنام مرزا احمد بیگ کلمہ فضل رحمانی میں ہے وہ میرا ہے اور سچ ہے.وہ عورت میرے ساتھ بیاہی نہیں گئی مگر میرے ساتھ اس کا بیاہ ضرور ہوگا جیسا کہ پیشگوئی میں درج ہے.وہ سلطان محمد سے بیاہی گئی جیسا کہ پیشگوئی میں تھا.میں سچ کہتا ہوں کہ اسی عدالت میں جہاں ان باتوں پر جو میری طرف سے نہیں ہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہیں ہنسی کی گئی ہے، ایک وقت آتا ہے کہ عجیب اثر پڑے گا اور سب کے ندامت سے سر نیچے ہوں گے.پیشگوئی کے الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے اور یہی پیشگوئی تھی کہ وہ دوسرے کے ساتھ بیاہی جاوے گی.اس لڑکی کے باپ

Page 198

کے مرنے اور خاوند کے مرنے کی پیشگوئی شرطی تھی اور شرط توبہ اور رجوع الی اللہ کی تھی.لڑکی کے باپ نے توبہ نہ کی اس لئے وہ بیاہ کے بعد چند مہینوں کے اندر مر گیا اور پیشگوئی کی دوسری جز پوری ہوگئی.اس کا خوف اس کے خاندان پر پڑا اور خصوصاً شوہر پر پڑا جو پیشگوئی کا ایک جز تھا.انہوں نے توبہ کی چنانچہ اس کے رشتہ داروں اور عزیزوں کے خط بھی آئے.اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کو مہلت دی.عورت اب تک زندہ ہے.میرے نکاح میں وہ عورت ضرور آئے گی.امید کیسی یقین کامل ہے یہ خدا کی باتیں ہیں، ٹلتی نہیں، ہو کر رہیں گی.اشخاص ذیل کی نسبت موت کا الہام تھا عبد اللہ آتھم ، لیکھرام ، احمدبیگ ، سلطان محمد.ان میں سے اب صرف سلطان محمد زندہ ہے.عبداللہ آتھم اگرچہ ظاہری نگاہ میں میعاد کے اندر نہیں مرا مگر اس کی نسبت شرطیہ الہام تھا چونکہ اس نے ظاہری میعاد کے اندرتوبہ کر لی.اس کو مہلت دی گئی اس کے بعد اس نے اخفاءِ حق کیا پھر میرے اشتہار کے بعد وہ بہت جلد مر گیا.اب آتھم کہاں ہے؟ اسے لاؤ.احمد بیگ اپنی میعاد کے اندر مرگیا.لیکھرام بھی میعاد کے اندر مرگیا.میں نے مسٹر ڈوئی کے سامنے لکھا دیا تھا کہ آئندہ کسی کی نسبت موت کا الہام شائع نہیں کروں گا جب تک کہ وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے اجازت نہ لے لیوے.دو آریہ جن کا نام میرے اشتہار میں متعلقہ پیشگوئی مرزا نظام الدین درج ہے ان کا نام یاد نہیں ہے.ایک شاید بشن داس ہے دوسرے کا نام شاید بھارا مل ہے.بعض علماء نے میری نسبت کفر کا فتویٰ دیا ہے اور بہتوں نے مجھے قبول کیا ہے اور ان میں سے بھی جنہوںنے کفر کا فتویٰ دیا تھا بعض توبہ کر کے میرے پاس آتے جاتے ہیں‘‘ تَمَّ کَلَامُہٗ.غرض اس طرح پر حضرت اقدس کا بیان ختم ہوا اور حضرت اقدس علیہ السلام ایک مجمع کثیر کے ساتھ عدالت کے کمرہ سے باہر آئے.آپ اس قدر خوش تھے جس کی کوئی حدوپایاں نہیں.فرماتے تھے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا زمانہ آگیا.اگرہم ہزار روپیہ بھی خرچ کرتے اور آرزو رکھتے کہ یہ عدالت کے کاغذات میں درج ہوجاوے اور اس طرح پر تین ڈپٹی گواہ ہوجاویں تو کبھی بھی نہ ہوتا.یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور اس کی باتیں عجیب ہوتی ہیں.اب عدالت کے کاغذات سے کون اس کو مٹاسکے گا.جب یہ پیشگوئی پوری ہوگی کیا ان ڈپٹیوں پر اس کا اثر نہ پڑے گا.ضرور ہی پڑے گا.جیسے لیکھرام کی پیشگوئی کی بہت شہرت ہوئی تھی اسی طرح اس کی شہرت ہوگئی

Page 199

ہے اور یہ بہت ہی اچھا ہوا کہ عدالت کے کاغذات میں درج ہوگئی.شام کو حسب معمول سیر کو تشریف لے گئے.راستہ میں ڈاکٹر فیض قادر صاحب نے عرض کیا کہ حضور! مہدی حسن تحصیل دار اور ان کے چند دوست چاہتے ہیںکہ آپ سے کچھ دریافت کریں اگر حضور اجازت دیں تو ان کو شام کو لے آئیں.فرمایا.ہاں بے شک ان کو بلا لو.۱ بعد نماز مغرب وہ لوگ آپہنچے حضرت اقدس نے اس سے پہلے کہ اپنے دعویٰ کے متعلق کوئی کلام کریں فرمایا.دو دن سے مجھے بہت تکلیف ہے پیچش کی وجہ سے.اگرچہ میں اس قابل نہ تھا کہ کوئی گفتگو کر سکوں مگر زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کو اپنے شبہات دور کرنے میں مدد دوںاور وہ بات آپ تک پہنچا دوں جو میں لے کر آیا ہوں.اصل میں بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے کام دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو وہ جو ہر روز لوگوں کی نظر میں ہوتے ہیں اور جن کو وہ دیکھتے ہیں اور دوسری ایک اور قسم بھی خدا تعالیٰ کے کاموں کی ہے جو کبھی کبھی ظاہر ہوتی ہے.چونکہ وہ کبھی کبھی ہوتے ہیں اس لئے لوگوں کی نظروں میں عجیب ہوتے ہیں اور ان کا سمجھنا ان کے لئے مشکل نظر آتا ہے مگر سمجھ دار آدمی تعصّب سے خالی ہو کر ان پر غور کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ بھی ان کے لئے ایک راہ پیدا کر دیتا ہے اور وہ ان کو سمجھ لیتے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں مگر نا اہل ضدّی اور متعصّب ان پر توجہ نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ کے خوف کو مدّ نظر رکھ کر ان پر فکر کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کے ان عجیب در عجیب کاموں سے سب سے بڑا کام اس کے نبیوں، رسولوں اور ماموروں کا آنا ہے.یہ لوگ اسی زمین پر چلتے پھرتے ہیں اور عام آدمیوں کی طرح بشری حوائج اور کمزوریوںسے مستثنیٰ نہیں ہوتے.کوئی اوپری اور انوکھی بات ان میں ایک خاص زمانہ تک پائی نہیں جاتی اس لئے جب وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اور خدا تعالیٰ ہم سے کلام کرتا ہے یا وہ واقعات آئندہ کے متعلق ۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۲۱ مورخہ ۱۰؍ اگست ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۴ ، ۱۵

Page 200

متعلق خدا تعالیٰ سے خبر پاکر کچھ بولتے ہیں تو لوگ ان کی ان باتوں پر تعجب کرتے ہیں.سعادت مند اور رشید لوگ تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ان کی طرف رجوع کرتے ہیں مگر متکبر ضدی انکار کرتے اور اس کی باتوں کو ٹھٹھے اور ہنسی میں اڑاتے ہیں.پس جب کہ یہ خدا تعالیٰ کا ایک قانون ہے جس کو ہم انبیاء اور مرسلین کی زندگی میں جاری پاتے ہیں تو ہمارے لئے یہ امر کبھی بھی ناخوش یا رنج دلانے والا نہیں ہوسکتا.مجھ پر اگر ہنسی یا ٹھٹھا کیا جاتاہے یا کیا جاوے تو مجھے اس کی پروا نہیں اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا یہی قانون ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ جو خدا کی طرف سے آتے ہیں دنیا کے لوگ جو تاریکی میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں ایسے ہی سلوک کرتے ہیں.پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ یہ امر مشکل ہے کہ دنیا کا ایک ہی مذہب ہوجاوے کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ بھی اپنا ایک قانون مقرر فرما دیا ہے کہ قیامت تک دنیا میں تفرقہ ضرور رہے گا.چنانچہ قرآن شریف میں یہ امر بڑی صراحت کے ساتھ موجود ہے.قرآن کریم سے بڑھ کر اور کوئی تعلیم کامل کیا ہوگی.اس میں سب سے بڑھ کر آیات اور برکات رکھے ہوئے ہیں جو ہرزمانہ میں تازہ اور زندہ ہیں پھر اگر یہ قانون الٰہی نہ ہوتا تو چاہیے تھا کہ دنیا کی کل قومیں اس کو قبول کرلیتیں مگر خاص زمانہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی دوسرا فرقہ موجود تھا.جیسا نبی کامل تھا ویسی ہی کتاب کامل تھی لیکن ابوجہل اور ابولہب وغیرہ نے کچھ فائدہ نہ اٹھایا وہ یہی کہتے رہے اِنَّ هٰذَا لَشَيْءٌ يُّرَادُ(صٓ: ۷) میاں یہ تو دوکانداری ہے اور خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہےيٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ١ۣۚ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۠ (یٰسٓ : ۳۱ ) اللہ تعالیٰ نے جو اس میں مَا کے ساتھ حصر کیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو سچا ہے اس کے ساتھ ہنسی اور ٹھٹھا ضرور کیا جاتاہے اگر یہ نہ کیا جائے تو خدا کا کلام صادق نہیں ٹھہرتا.صادق کی یہ بھی ایک نشانی ٹھہری کہ دنیا کے سطحی خیال کے لوگ ان سے ہنسی ٹھٹھا کریں.جیسا آدمؑ کے ساتھ کیا گیا.نوح کے ساتھ کیا گیا.موسیٰ اور مسیح کے ساتھ کیا گیا.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا.ایسا ہی مجھ سے بھی کیا جانا ضروری تھا.تو میری غرض اس بیان سے یہ تھی کہ میرے دعویٰ کو بھی

Page 201

اسی طرح تعجب کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے جیسے پہلے ماموروں کے دعا وی کو دیکھا گیا اور جو کچھ ان کے ساتھ مخلوق پرستوں نے سلوک کیا ضرور تھا کہ میرے ساتھ بھی کیا جاتا کیونکہ قانون الٰہی اسی طرح پر ہے.آپ لوگ آگئے ہیں چونکہ عمر کا کچھ اعتبار نہیں ہے.کوئی احمق ہوگا جو عمر کا اعتبار کرتا ہو اور موت سے بے فکر رہے.اس لئے مجھے تبلیغ حق کے لئے کہنا پڑتا ہے.مجھے اس بات کی کچھ پروا نہیں کہ کوئی مانتا ہے یا نہیں.میری غرض صرف پہنچا دینا ہے کیونکہ میں تبلیغ ہی کے لئے مامور ہوا ہوں.یاد رکھو کہ اتمام حجت کے لئے انبیا علیہم السلام کے آدم سے لے کر اس دم تک تین طریقے ہیں.اول نصوص کتابیہ یعنی خدا تعالیٰ کی کتاب کی کھلی کھلی شہادتیں.دوم نصوص عقلیہ جیسا کہ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخی کہیں گے لَوْكُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْۤ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ(الملک: ۱۱ ) یعنی اگر ہم نبیوں کے کلام کو سنتے یا عقل رکھتے توہم جہنمی نہ ہوتے.عقل ناقص جہالت سے بڑھ کر نقصان رساں ہے.مثل مشہور ہے نیم مُلّا خطرہ ایمان.ناقص عقل تکذیب اور توہین کی طرف جلدی کرتی ہے.غرض، تو دوسرا نشان عقل رکھا ہے.تیسرا نشان جو خدا نے مقرر کیا ہے وہ تائیداتِ سماویہ ہے.جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اس کے ساتھ ضروری ہوتا ہے کہ تائیداتِ سماویہ بھی ہوں.اس کے اور اس کے غیر میں ایک فرقان ہوتاہے جس سے غیر کو شناخت کر سکتے ہیں کیونکہ جو خدا کی طرف سے مامور ہوکر نہیں آتا اور جس کا تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ نہیں ہے اس کو وہ نور اور فرقان نہیں دیا جاتا.اس فرقان میں ظاہر اور باطن کے برکات ہوتے ہیں اور دانش مند انسان قوتِ شامّہ سے تمیز کر لیتا ہے کہ اس کے ساتھ تائیدات سماویہ ہیں.اب میں ہر ایک صاحب سے یہی کہتا ہوں کہ میں اپنے ساتھ یہ تینوں قسم کے ثبوت لے کر آیا ہوں اور خود سمجھنے اور سوچنے والے کے لئے کافی ہیں لیکن اگر خواہ نخواہ تکذیب ہی کرنی ہے تو یہ امر دیگر ہے.اس کے سامنے تو جبکہ نظر صاف نہیں ہے فرشتہ بھی دیو سے بد تر ہے.اس لئے ایسے لوگ ہمارے مخاطب نہیں ہو سکتے جو سرا سر ضدّ اور تعصّب سے بھرے ہوئے ہیں.ہمارے کلام سے وہ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں

Page 202

جو عقل رکھتے ہیں اور تعصّب سے خالی ہیں.ان کو یقین ہے کہ ایک دن ہم کو مَر کر خدا کے حضور جانا ہے.ایسے لوگوںکو ان باتوں میں جو خدا تعالیٰ کے روح کے فیض کا نتیجہ ہیں ایک چمک اور روشنی مل جاتی ہے جس سے وہ تعصّب اور ضدّ کے تاریک غاروں سے بچ کر نکل آتے ہیں.بعض آدمی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ یا تو ان کو تعصّب آتا ہی نہیں اور یا جیسے زرد اب پانی پر آجاتا ہے اور پھر ہٹ جاتا ہے کبھی نفسانی باتیں بھی آجاتی ہیں مگر نفسِ لوّامہ کی تحریک سے بچ جاتے ہیں.بعض شخص میں نے دیکھے ہیں کہ ابھی ہنستے تھے اور اسی وقت روتے ہیں.علی گڈھ میں مَیں نے ایک تحصیلدار کو دیکھا کہ پہلے وہ ہنستا تھا لیکن کچھ رقّت کی باتیں سن کر اس قدر رویا کہ آنسوؤں سے داڑھی تر ہوگئی.یہ سچ ہے.؎ حضرت انساں کہ حدّ فاصل است می تواند شد مسیحا می تواند شد خرے اصل بات یہی ہے کہ جب خدا کا نور چمک اٹھتا ہے تو پتہ نہیں لگتا کہ نار اور ظلمت کا مادہ کہاں گیا.جو لوگ معصیت ، ہنسی اور ٹھٹھے کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں وہ کبھی امید نہیں رکھتے ہوں گے کہ یہ عادت ان سے دور ہوگی لیکن اگر انسان میں حیا ہو اور تقویٰ اور مآ ل بینی سے کام لے تو کچھ مشکل نہیں کہ خدا تعالیٰ اس کی دستگیری کرے.آپ کو معلوم نہیں میرا کیا حال ہے اور میں آپ کے حالات سے واقف نہیں.میرا یا آپ کا کوئی حق نہیں ہوسکتا کہ ایک دوسرے کی نسبت کوئی رائے قائم کریں.خدا تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ (بنی اسـراءیل : ۳۷) ہمارا یہ مقدمہ ہی دیکھ لو ڈیڑھ برس سے چلتا ہے.اب معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے فیصلہ کی راہ نکال دی ہے.پھر دین کے معاملہ میں بھی جو اخفیٰ ہے آخر ایک راہ نکل آتی ہے.غرض میں مختصر طور پر کہتا ہوں کہ میرے دعویٰ کے دلائل اور ثبوت وہی ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے لئے ہیں.یہ سلسلہ جو خدا نے قائم کیا ہے یہ منہاج نبوۃ ہی پر واقع ہوا ہے.لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ اس کو کسی اور معیار کے ساتھ جانچنا چاہتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ اس کو اسی معیا رپر کسوجس پر انبیاء علیہم السلام کو پرکھا ہے اور میں یقین دلاتاہوں

Page 203

کہ اس معیار پر یہ پورا اترے گا.مسیح موعود جس کا خدا نے وعدہ کیا تھا وہ میں ہوں میرا دعویٰ یہ ہے کہ مسیح ابن مریم اسرائیلی نبی جو آج سے قریباً انیس سو سال پیشتر ناصرہ کی بستی میں پیدا ہوا تھا وہ اپنی طبعی موت سے مرگیا اور مسیح موعود جس کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا وہ میں ہوں.میرے مخالفوںکا یہ خیال ہے کہ مسیح ابن مریم اسرائیلی نبی زندہ آسمان پر چلا گیا ہے اور انسان ہو کر بھی وہ وہاں حوائج بشری سے بے نیاز ہوگیا ہے اور کسی دوسرے وقت وہی آسمان سے فرشتوں کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے نازل ہوگا.خدا تعالیٰ اس کو قبول نہیںکرتا.خدا تعالیٰ نے اپنے فعل اور اپنی تائیدوں سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ دعویٰ ایک خیالی اور وہمی دعویٰ ہے.خدا کے پاک کلام میں اس کا اظہار نہیں ہوا اور نہ اس دعویٰ کے کرنے والوں کو خدا نے میرے مقابل پر سماوی تائیدوں سے کامیاب کیا اور نہ عقل صحیح نے ان کا ساتھ دیا.بات یہ ہے کہ یہ قصہ اسرائیلی روایتوں سے ہمارے مخالفوں نے لیا ہے ورنہ ہمارا دستور العمل تو کتاب اللہ ہے جس کو خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ وہ قولِ فیصل ہے.وہ میزان ہے.وہ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ہے اور ہمارا ہادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی نہیں ہے.اب اوّل سے آخر تک جو شخص قرآن کریم کو دیکھے گا کہ اس میں متوفّی کا لفظ مُردوں ہی پر بولا گیا ہے اور یہی لفظ مسیح ابن مریم کی نسبت کہا گیا ہے.یہ لفظ مُردہ کے معنوںمیں ایسا عام ہے کہ پٹواری تک بھی جانتے ہیں کہ اس کے معنے بجز مَرنے کے اور کچھ نہیں ہیں.حدیث کو پڑھو تو وہاں بھی یہ لفظ موت ہی کے معنوں میں آیا ہے.غرض قرآن شریف کو اگر غور سے پڑھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح ابن مریم مَر چکا ہے اور نہ صرف یہ کہ قرآن شریف کے کسی ایک مقام ہی سے مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے بلکہ قرآن شریف کی تیس آیتوں سے واضح طور پر مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے اور ایسا ہی احادیث مسیح کی وفات پر شہادت دیتی ہیں.تاریخی طور پر صحابہ کا پہلا اجماع ہی مسیح کی وفات پر ہوا ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جہان سے انتقال فرمایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ تلوار کھینچ کر کھڑے

Page 204

ہوگئے کہ اس شخص کو قتل کر دیا جاوے گا جو آپ کو مُردہ کہے گا اور اس سے ایک عظیم شور مچ گیا.اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور خطبہ پڑھا مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (اٰلِ عمران : ۱۴۵ ) اب ایک دانش مند اور سلیم الفطرت انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اگر حضرت ابوبکرؓ یا کسی صحابی کے ذہن میں مسیح ابن مریم کی زندگی کا خیال تھا تو یہ استدلال تام کیونکر ہوسکتا تھا اور کیوں کسی صحابی نے نہ کہا کہ یہ آپ کیا کہتے ہیں.مسیح تو ابھی زندہ ہے مگر نہیں سب خاموش ہوگئے اور حضرت عمرؓ کی بھی تسلی ہوگئی.صحابہؓ کی ایسی حالت ہوئی کہ بازاروں میں اس آیت کو پڑھتے تھے.۱ پھر جب کہ صحابہ کا اجماع اس مسئلہ پر ہوچکا اور قرآن شریف میں ایک جگہ اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ (اٰلِ عـمران : ۵۶ ) خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اور دوسری جگہ مسیح علیہ السلام خود فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ(المائدۃ: ۱۱۸) کہہ کر اپنی موت کا اقرار کرتے ہیں.اس پر بھی اگر کوئی ان کی زندگی ہی کا اقرار کرتا رہے تو عجب بات ہے.مدعی سُست گواہ چست.اور سب سے عجیب یہ بات ہے کہ یہی الفاظ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی بولے گئے ہیں یعنی یہی لفظ توفّی کا.اب اگر توفّی کے معنے موت کے نہیں ہیں تو چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی یہ معنے نہ کئے جائیں.غرض یہ توفّی کا لفظ جو قریباً تیئس مرتبہ قرآن شریف میں آیا ہے اور انہیں معنوں میں آیا ہے پھر اس سے انکار کرنا سعادت اور رُشد کے خلاف ہے.یہ سارے شواہد مسیح علیہ السلام کی وفات پر قوی دلائل ہیں.علاوہ ازیں جیسا کہ مسیح علیہ السلام اس آیت میں فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ میں اقرار کرتے ہیں.اگر وہ نہیں مَرے بلکہ زندہ ہیں تو ماننا پڑے گا کہ مسیح کی پرستار قوم بھی نہیں بگڑی اور ان میں مسیح و مریم کو خدا بنانے والے پیدا نہیں ہوئے حالانکہ یہ واقعات صحیحہ کے خلاف ہے.مسیح کے پرستار دنیا میں موجود ہیں اور مریم کو خدا بنانے والے رومن کیتھولک بھی کثرت سے ہیں.اب جس کا عقیدہ یہ ہے کہ عیسیٰ زندہ ہیں تو قرآن کے رو سے اس کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ عیسائی بگڑے نہیں اور یہ مان کر پھر قرآن سے ہاتھ دھونے پڑیں گے کیونکہ اس کو واقعات ِصحیحہ کے خلاف ماننا پڑے گاو نعوذ باللہ من ذالک.۱ الحکم جلد ۵ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۷؍ اگست ۱۹۰۱ء صفحہ ۵ تا ۸

Page 205

مُتَوَفِّيْكَ کے معنے کرنے میں ہم نے ہی یہ معنے نہیںنکالے ہیںبلکہ اہلِ لُغت نے یہی معنے کئے ہیں.امام بخاری نے مُتَوَفِّيْكَ کے معنے مُـمِیْتُکَ صاف کردیئے ہیں پھر عقل بھی ہماری تائید کرتی ہے.کسی کو آج تک کبھی آسمان پرجاتے نہ دیکھا اور نہ آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا پھر عقل تو بِدُوں نظیر کے مانتی نہیں اگر کوئی پہلے بھی ایسا واقعہ ہوا ہے تو اس کو بطور نظیر پیش کرو.اب رہی تائیداتِ سماویہ، میں اگر یہ کہوں کہ میرے نشانات کے کروڑوں آدمی گواہ ہیں تو یہ امر مبالغہ میں داخل نہیں ہے مثلاً لیکھرام کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی.چھ سال پیشتر اس کی موت، صورتِ موت وغیرہ سے پوری اطلاع دی گئی اور ایسا ہی ظہور میں آیا چنانچہ بہت سے ہندوؤں نے بھی اس کی تصدیق کی یہاں تک کہ ہندوؤں کی عورتیں تک بھی گواہ ہیںکیونکہ یہ پیشگوئی بہت کثرت کے ساتھ مشتہر ہوئی تھی اور خود لیکھرام جہاں جاتا تھا اس پیشگوئی کا تذکرہ کرتا تھا بلکہ خود اس نے بھی میری نسبت ایک پیشگوئی کی تھی کہ تین سال کے اندر ہیضہ سے مَر جائے گا مگر اب میں تم سے پوچھتا ہوں کہ وہ لیکھرام کہاں ہے؟ حالانکہ میں تو خدا کے فضل سے تین سال چھوڑ اب تک زندہ ہوں اورموجود ہوں باوجودیکہ وہ ایک قوی ہیکل تندرست نوجوان تھا اور میں ہمیشہ بیمار رہنے والا، عمر میں اس سے بہت بڑا پھر یہ اگر خدا تعالیٰ کی تائید نہ تھی تو کیا تھا؟ ہاں بعض آدمی ایسے بھی ہوتے ہیںجن کی فطرت میں کج روی ہوتی ہے وہ سیدھی بات کو بھی نہیں سمجھ سکتے جیسا کہ آج عدالت میں سلطان محمد کے معاملہ کو پیش کیا گیا کہ وہ زندہ ہے.میں کیا کروں کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں اور کون سا طریق اختیار کروں جو ان کو سمجھا سکوں.یہ لوگ نہ میرے پاس آتے ہیں نہ میری باتوں کو سنتے ہیں اور نہ ان کو خدا تعالیٰ کے قوانین پر اطلاع ہے اور نہ علم ہے.وہ نہیں دیکھتے کہ چار شخصوں کے متعلق پیشگوئیاں تھیں جن میں سے تین مرگئے اور اب صرف ایک باقی ہے اور وہ بھی پیشگوئی ہی کے موافق اب تک زندہ ہے.اس پیشگوئی کے غلط ہونے کا اعتراض اس وقت ہوسکتا ہے جب سلطان محمد سے پہلے میں مَر جاؤں یا وہ عورت مَرجاوے لیکن جب کہ خدا تعالیٰ نے اسی طرح پر مقدر کیا ہے کہ وہ عورت بیوہ ہو کر میرے نکاح میں آئے اور یہ کبھی نہیں ٹلے گا کیونکہ خدا کی باتیں پوری ہو کر رہتی ہیںپھر کیوں یہ لوگ صبر سے انتظار نہیں

Page 206

کرتے.میں آپ سے سچ کہتا ہوں جیسا کہ آج میں نے خان بہادر خدا بخش صاحب کے سامنے عدالت میں کہا کہ آج مجھ پر ہنسی کی جاتی ہے لیکن ایک وقت آئے گا کہ اس کا اثر پڑے گا اور وہ وقت ہنسنے والوں کے لئے شرمندگی کا ہوگا.غرض خدا تعالیٰ کے نشانات بارش کی طرح ظاہر ہورہے ہیں نہ ایک نہ دو بلکہ میں نے تریاق القلوب میں ایک سو پیشگوئی لکھ دی ہے جو پوری ہو چکی ہے.اس پر بھی میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر کوئی اس پر صبر نہ کر سکے اور اس کی تسلی کے لئے یہ کافی نہ ہو بشرطیکہ وہ حق کا حامی ہو اور خدا تعالیٰ کا خوف اس کے دل میں ہو تو میں تو اب بھی نشان نمائی کے واسطے طیار ہوں.خدا تعالیٰ نے مجھے فضل اور موہبت کے طور پر یہ نشان دیا ہوا ہے کہ میں جب اس کے حضور دعا کروں گا وہ مجھے نشان دے گا.میرا میدان تنگ نہیں ہے بلکہ بہت وسیع ہے.میدان تنگ رمّالوں کے ہوتے ہیں مگر وہ جو خدا کی طرف سے آتا ہے اس کے لئے میدان بہت وسیع ہوتا ہے.میں کہتا ہوںکہ کوئی راستی کا بھوکا پیاسا ہو مجھ سے خرچ لے، میرے پاس آوے اور بیٹھ کر نشانات کا معائنہ کرے.میرے مخالفوں میں سے کسی کو کوئی آمادہ کرے کہ وہ استجابت دعا میں میرا مقابلہ کرے اگر ایک بھی مقابلہ کے لئے آجاوے اور میرا مقابلہ کرکے بڑھ جاوے اور میں اس کا مقابلہ نہ کر سکوں بلکہ میں تو یہاں تک مانتا ہوں کہ اگر استجابتِ دعا میں وہ میرے برابر رہے تب بھی میں اپنا جھوٹا ہونا مان لوں گا اور اپنی ساری کتابیں جلا دوں گا.اب کوئی ہے تو اسے میرے مقابلہ میں لاؤ اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ کوئی میرے مقابلہ میں نہیں آئے گا.(یہاں تک حضرت اقدسؑ نے تقریر فرمائی تھی کہ مہدی حسن صاحب نے ایک خاص ادا سے کہا کہ میں آپ کو تکلیف دینے کے واسطے نہیںآیا اور نہ تقریر سننے کو بلکہ میں تو کچھ سوال کرنے کو آیا ہوں اس تقریر کی ضرورت نہیں.ایڈیٹر) اس پر حضرت اقدس نے فرمایا.بہت اچھا میں تو ہر طرح طیار ہوں.آپ سوال کریں میں اس کا جواب دوں گا مگر کیا اچھا ہوتا اگر آپ میرا سارا بیان سن لیتے اور اس کے بعد جو شبہ آپ کو رہ جاتا اسے پیش کرتے.

Page 207

مہدی حسن.توفّی کی بحث صرف و نحو کے بغیر نہیں آتی اور ہم یہ صرف و نحو نہیں جانتے.حضرت اقدس.اگر صرف و نحو نہیں آتی تو کیا یہ میرا قصور ہے.یہ تو تمہارا ہی قصور ہے.اس کے علاوہ میں قرآن کو پوتھی بنا نا نہیں چاہتا.قرآن شریف اُمّیوں کے لئے اُمّی پر نا زل ہوا.اگر قرآن سے استدلال نہ کریں تو کیا کسی شاستر سے کریں.مسلمانوں کو عربی سے ایک خاص تعلق ہے اور یہ ان کی بد قسمتی ہے جو وہ اس پر تو جہ نہیں کرتے مگر یہ مسئلہ تو ایسا صاف ہے کہ اس میں کسی بڑے صرف و نحو کی بھی ضرورت نہیں.عام آدمی بھی جانتے ہیں کہ متوفّی کے کیا معنے ہوتے ہیں.۱ مہدی حسن.کلام اللہ میں جب مسیح کی نسبت توفّی آگیا تو مثیل مسیح کی آمد کس بنا پر ہے؟ حضرت اقدس.قرآن کی بنا پر.مہدی حسن.اس معاملہ میں جو احادیث ہیں ان کو جناب صحیح جانتے ہیں یا موضوع ٹھہراتے ہیں.حضرت اقدس.ہمارا اصول یہ ہے کہ جو احادیث صحیحہ قرآن کریم کی نصوص صریحہ بیّنہ کے موافق ہوں ان کو ہم مانتے ہیں لیکن جو احادیث قرآن کریم کے اصول کے خلاف ہوں ان کے ہم ایسے معنے کرنے کی کوشش کریں گے جو کتاب اللہ کی نصّ بیّن کے موافق اور مطابق ہوں اور اگر ہم کوئی حدیث ایسی پائیں گے جو مخالف نصِ قرآن کریم ہوگی اور کسی صورت سے ہم اس کی تاویل کرنے پر قادر نہیں ہو سکیں گے تو ایسی حدیث کو ہم موضوع قرار دیں گے اور قولِ مردودہ سمجھ کر چھوڑ دیں گے کیونکہ حدیث کا پایہ قرآن کریم کے مرتبہ کو نہیں پہنچتا.مہدی حسن.بے شک یہ صحیح اصول ہے مگر جو احادیث ابن مریم کے متعلق خاص ہیں ان کو جناب نے منظور رکھا یا ساقط کر دیا ہے.حضرت اقدس.مَیں نے تو کہہ دیا ہے کہ میرا اصول احادیث کے متعلق یہی ہے کہ اگر وہ قرآن کریم کے نصوصِ بیّنہ کے ہر طرح مخالف ہیں مَیں ان کو کبھی تسلیم نہیں کرتا.پس اسی اصول کے موافق اگر کسی حدیث میںیہ لکھا ہے کہ عیسیٰ ابن مریم اسرائیلی نبی جو ناصرہ میں پیدا ہوا تھا اور جس کو

Page 208

آج انیس سو برس کے قریب گزر گئے ہیں وہی آئے گا اور وہ اپنی نبوت کے منصب سے معزول بھی نہیں کیا جاوے گا بلکہ نبی ہی ہوگا اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین نہ رہیں گے جیسا کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ وہ خاتم النبیین ہیں تو ایسی حدیث کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والی ہو ہرگز ہرگز نہیں مان سکتا.اس کو بے شک موضوع کہوں گا اور اگر احادیث میں یہ نہیں لکھا گیا کہ وہ اسرائیلی نبی ہوگا بلکہ اسرائیلی مسیح اور محمدی مسیح کا حلیہ بھی الگ الگ بیان کیا گیا ہے اور اس کی آمد کو قرآن شریف کے خلاف نہیں ٹھہرایا گیا تو بے شک ایسی حدیثیں ماننے کے قابل ہیں مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا دعویٰ جو مسیح موعود کا ہے اس کی بنا قرآن شریف پر ہے اگرچہ یہ بالکل سچ ہے کہ صحیح حدیثیں جو قرآن شریف کے کبھی مخالف نہیںہوتی ہیں میرے اس دعوے کی مصدق ہیں مگرمیں اپنے دعویٰ کو قرآن شریف سے ثابت کرتا ہوں.میرے آنے کی خبر قرآن شریف میں موجود ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ حدیث میں بھی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصریح فرمائی ہے.۱ مہدی حسن.میں صرف یہ پوچھتا ہوں کہ جب احادیث میں مسیح ابن مریم کا لفظ آیا ہے اور یہ علم ہے پھر اس کی تاویل آپ کیوں کرتے ہیں.حضرت اقدس.یہ تاویل خود ہم نے نہیں کی ہے بلکہ قرآن شریف نے اس کی حقیقت بتائی ہے.جہاں یہ لکھا ہے وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا.اِلٰی قَوْلِهٖ تعالٰی.وَ مَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِيْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا (التّحریم: ۱۲ ، ۱۳) اس آیت میں صاف طور پر اللہ تعالیٰ نے ایک مسیح ابن مریم کے اس اُمت میں پیدا ہونے کی خبر دے دی ہے اور یوں تو ایسا ہر مومن جو کتب اور کلمات اللہ کی تصدیق کرے اور قانتین اور عابدین میں سے ہو اور اپنے فروج کو محفوظ رکھے مریم کہلاتا ہے اور اس میں نفخ روح ہوکر وہ خود عیسیٰ ابن مریم بن جاتا ہے کیونکہ مریم کو تو بوجہ عورت ہونے کے نفخ روح سے حمل ہوگیا لیکن مَردوں کو تو حمل نہیں ہوتا.اس لئے مَردوں میں اس نفخ کا نتیجہ

Page 209

یہ ہوتا ہے کہ وہ خود مسیح ہوجاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے ان آیتوں میں دو قسم کے آدمیوں کی مثال بیان کی ہے.ایک وہ ہیں جو دفع شر کی درخواست کرتے ہیں.دوسرے وہ ہیں جنہوں نے اپنی نیکیوں کو کمال تک پہنچایا ہے.اوّل الذّکر وہ لوگ ہیں جو نفسِ لوّامہ کے نیچے ہیں اور اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا والے دوسرے ہیں.اب سوچ کر بتاؤ کہ خدا نے جو یہ کہا کہ ہم اس میں اپنی روح پھونک دیتے ہیں.کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ بھی مریم کی طرح حاملہ ہوجاتے ہیں.سچ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں اس کی مثال دے کر بتا دیا ہے کہ اس امت محمدیہ میں جو مسیح موعود آنے والا ہے وہ اسی رنگ پر آئے گا.احادیث میں اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ کہہ کر صاف کر دیا ہے اور یہاں فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا(التّحریم: ۱۳)رکھ دیا.اس لئے مجھے ایک دفعہ مریم کا الہام ہوا یَا مَرْیَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْـجَنَّۃَ.(بعض احمقوں نے اس پر اعتراض کیا تھا کہ مریم کے لحاظ سے اُسْکُنِیْ ہونا چاہیے تھا لیکن چونکہ یہاں مراد حضرت اقدس سے تھی.اس لئے خدا تعالیٰ نے اُسْکُنْ کا لفظ اختیار فرمایا.کیونکہ یہ مریم اسی اطلاق کے موافق ہے.جو سورہ تحریم کی اس آیت میں موجود ہے.ایڈیٹر.) اور پھر فَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا کا الہام بھی ہوچکا ہے.غرض میر ا یہ دعویٰ قرآن کی بنا پر ہے اور خدا نے مجھ پر کھول دیا ہے کہ قرآن میں میرا وعدہ کیا گیا ہے اور میں نے کھول کھول کر بتا دیا ہے جو چاہے اس پر غور کرے.سائل.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں کیوں کہا.یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ مثیل مسیح آوے گا.حضرت اقدس.یہ اعتراض آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے ہیں نہ مجھ پر اور پھر یہ اعتراض بھی اپنی ناواقفی سے کرتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صاف طورپر کھول کر کہہ دیا کہ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ اور قرآن ہی کے مطابق انہوں نے فرمایا کہ وہ ۱۲۰ برس کی عمر پاکر فوت ہوگئے اور آپ نے معراج کی رات ان کو مُردوں میں دیکھا.پھر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر

Page 210

الزام لگاتے ہیں کہ آپ نے قرآن کے خلاف کہا.اصل بات یہ ہے کہ آپ اپنا اعتبار کھوتے ہیں.آپ جو بار بار کہتے ہیں کہ میں نے کتابیں پڑھی ہیں یہ مسئلہ آپ نے کس کتاب میں دیکھا ہے.سائل.میں آپ کو رنج دلانے کے لئے نہیں آیا.حضرت اقدس.رنج کیا! مجھے تو رنج آہی نہیں سکتا.میرا تو یہ کام ہے کہ خدا تعالیٰ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچادوں اور ہر پوچھنے والے کو جواب دوں.مجھے رنج نہیں آتا.آپ پر رحم آتا ہے کہ آپ دانستہ ایک امر کو چھوڑتے ہیں.مَیں اپنے دعویٰ کو قرآن کی بِنا پر بیان کرتا ہوں حالانکہ مقدم قرآن ہی ہے آپ حدیث کے ایک لفظ پر اڑتے ہیں جس کے معنے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کردیئے ہیں اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ.پھر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا حدیثوں میں اختلاف نہیں.شیعوں اور سنّیوں کی جدا جدا حدیثیں نہیں ہیں اور مقلّدوں اور غیر مقلّدوں کی حدیثیں الگ الگ نہیں ہیں.پھر آپ حدیث کے رو سے کیا فیصلہ کر سکیں گے.قرآن کو نہ چھوڑو.قرآن کو مقدم کرو.میرے دعا وی کاثبوت قرآن میں موجود ہے.اگر قرآن کو چھوڑ کر آپ اور طرف جانا چاہیں آپ کا اختیار ہے.حدیث صحیح سے بھی میرا ہی دعویٰ ثابت ہوتا ہے.آپ کو تو وہاں بھی کچھ نہیں مل سکتا.سائل.مقلّدوں کو حسد نہیں ہے سب ایک ہیں.حضرت اقدس.اگر مقلّدوں کو باہم حسد نہیں ہے اور باہم سب ایک ہیں تو پھر مکے میں چار مصلّے نہ ہوتے.مہدی حسن.اب ہم نہیں پوچھتے.حضرت اقدس.پھر ہم تو نہیں تھکتے.آپ جس قدر سوال چاہیں کریں.جواب دینے کو طیار ہیں.قرآن شریف اور حدیث کے رو سے میں نے اپنے دعا وی کو کھول کر بیان کر دیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اب بجز سعدی کے اس شعر کے اور کچھ باقی نہیں رہا.

Page 211

؎ آنکس کہ بقرآن و خیر زو نرہی ایں است جوابش کہ جوابش ندہی مہدی حسن.میں شعر کو برا سمجھتا ہوں.حضرت اقدس.یہ آپ کی غلطی ہے.ہر شعر ایسا نہیں ہوتا کہ اسے بُرا سمجھا جاوے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی شعر پڑھ لیا کرتے تھے.صحابہ شعر پڑھا کرتے تھے.مہدی حسن.قرآن شریف شعراء کی مذمت کرتا.اَلشُّعَرَآءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ (الشعرآء: ۲۲۵) حضرت اقدس.میں پھر کہتا ہوں کہ یہاں ہر ایک شاعر کی مذمت نہیں کی گئی اس پر ال بھی ہے اس پر غور کرو.خبیث شعراء سے مراد ہے.وفات مسیح کا مسئلہ تو ایسا صاف ہے کہ اس پر وہی شخص حجت اور انکار کرے گا جس کو خدا کا خوف نہیں یا بد قسمتی سے اسے غور اور فکر کی قوت نہیںملی.اور ساری باتوں کو چھوڑ کر ہم صحابہؓ ہی کے اجماع کو لیتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پرہوا.یہ عام طورپر مسلمانوں میں مانی ہوئی بات ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرطِ محبت سے اور اس صدمہ کی برداشت کی تاب نہ لا کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال سے پیش آیا اپنی تلوار کھینچ لی اور کہا کہ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مُردہ کہے گا تو میں اسے قتل کر دوں گا.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جوش دیکھا تو وہ اُٹھے اور انہوں نے خطبہ پڑھا اور یہ آیت سنائی مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (اٰلِ عـمران : ۱۴۵ ) یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک رسول ہیں اور آپ سے پیشتر جس قدر رسول آئے وہ سب کے سب مَر گئے.جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سناتو اپنی تلوار میان میں کر لی اور کہا کہ یہ آیت گویا آج

Page 212

ہی اتری ہے.صحابہ بازاروں میں اس آیت کو پڑھتے پھرتے تھے اور بعضوں نے شعر کہے.الغرض اب یہ کیسی سچی بات ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس آیت کو صرف اس لئے پڑھا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر استدلال کریں لیکن اگر کوئی نبی مثلاً مسیح زندہ آسمان پر چلا گیا تھا اور صحابہ کا اعتقاد یہی تھا تو کیا صحابہ میں سے ایک کو بھی جرأت نہ ہوئی کہ وہ حضرت ابوبکر کا منہ بند کرتا اور کہتا کہ آپ کیوں کر کہتے ہیں جبکہ مسیح ابھی زندہ ہے مگر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ تسلیم کر لیا.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ سب سے پہلا اجماع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسیح علیہ السلام کی وفات پرہی ہوا تھا اور اس کے علاوہ قرآن کریم میں بہت سی آیات اس قسم کی موجود ہیں.تو یہ مسئلہ بہت صاف اور روشن ہے.مہدی حسن.(اس تقریر کو سن کر پھر کچھ بولے)مگر میرا تو یہ سوال نہیں.میں تو یہ کہتا ہوں کہ مسیح ابن مریم کا وعدہ حدیثوں میں کیوں کیاگیا.صاف لفظوں میں مثیل مسیح کہا ہوتا.حضرت اقدس.میں اس کا کیا جواب دوں.یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایسے ہی اعتراض کئے تھے.جب انہوں نے کہا کہ لکھا ہے کہ مسیح سے پہلے ایلیا آسمان سے اترے.میرے پاس ایک یہودی کی کتاب ہے.اس میں وہ صاف لکھتا ہے کہ اگر خدا ہم سے انکار مسیح کے وجوہات پوچھے گا تو ہم ملاکی نبی کی کتاب سامنے رکھ دیں گے کہ اس میں کہاں لکھا ہے کہ ایلیا کا مثیل یوحنا آئے گا.الغرض ایسے اعتراض پہلے بھی ہوئے ہیں اور مجھ پر یہ نئے اعتراض نہیں اور یہ اعتراض تو درحقیقت خدا تعالیٰ پر ہے لیکن اگر آپ لوگ غور کریں تو صاف معلوم ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی سنّت اسی طرح پر ہے.مہدی حسن.علم بدل نہیں سکتا.حضرت اقدس.اگر آپ کا یہی مذہب ہے تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ حدیث میں جو آیا ہے کہ ہر بچے کو جب وہ پیدا ہوتا ہے شیطان مَس کرتا ہے مگر ابن مریم کو اس نے مَس نہیں کیا.آپ اس کے کیا معنے کرتے ہیں؟

Page 213

کیا آپ کا یہ مذہب ہے کہ معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شیطان نے مس کیاتھا.آپ کا یہ مذہب ہے تو بہت خطرناک ہے اور آپ کو پھر یہ مشکل پیش آئے گی کیونکہ آپ کہتے ہیں کہ علم کی تاویل نہیں ہوسکتی.مگر ہم تو ایک طُرفۃ العین کے لئے بھی اس کو روا نہیں رکھ سکتے بلکہ سن بھی نہیں سکتے.ہمارا کلیجہ کانپ اٹھتا ہے اگر یہ سنیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطان نے مس کیا تھا.میرا مذہب ہے کہ وہ شخص ایمان سے خارج ہو جاتا ہے جو ایسا عقیدہ رکھے.آپ خدا سے ڈریں.یہ اصل آپ کو مجبور کرے گی کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت مَس شیطان کا عقیدہ رکھیں اور اگر یہ عقیدہ آپ نہیں رکھتے تو پھر اس حدیث کے معنے کر کے بتاؤ.اس کے بعد پھر حضرت اقدسؑ نے اپنی تقریر کے سلسلہ میں فرمایا کہ اصل بات یہی ہے کہ جیسے علّامہ زمخشری نے لکھا ہے کہ ابن مریم سے مراد تمام مقدس ہیں ورنہ اگر اس کو مخصوص اور محدود کریں تو اسلام ہی ہاتھ سے جاتا ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص دس دن میرے پاس رہے تو اس کو رؤیت کی طرح پتہ لگ جاوے گا کہ خد انے جو سلسلہ اس وقت قائم کیا ہے وہ حق ہے.سائل.پھر سوال وہی ہے کہ ابن مریم کی حدیث کو آپ مانتے ہیں.حضرت اقدس.میں نے تو کہہ دیا کہ اسی طرح مانتا ہوں جس طرح قرآن اس کے معنے کرتا ہے.مسیح مرگیا اور اس کی جگہ اس کا مثیل آیا.دیکھو میں پھر کہتا ہوں کہ قرآن کو سب پر مقدم کرو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لبِ مبارک سے نکلا ہے اور خدا تعالیٰ اس کا محافظ ہے.مہدی حسن.پھر اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غیر مشتبہ الفاظ نہ بولتے تو جھگڑا ہی کیوں اُٹھتا.حضرت اقدس.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور گستاخی ہے کہ آپ کی شان میں ایسے الفاظ بولے جاویں کہ انہوں نے مشتبہ لفظ بولے.آنحضرت نے کوئی مشتبہ لفظ نہیں بولا.یہ آپ کا قصورِ فہم ہے.وہ اُسی طرح پر بولے جس طرح شروع

Page 214

سے خد اتعالیٰ انبیاء کے ساتھ کلام کرتا آیا ہے.سائل.پھر علم کی تاویل نہیں ہوتی.حضرت اقدس.میں تو ابھی اس بیہودہ اصول کی حقیقت بتا چکا ہوں کہ اگر یہی مذہب رکھا جاوے پھر اسلام ہاتھ سے جاتا ہے کیونکہ مَسِّ شیطان کی حدیث کے رو سے تمہیں جو کہتے ہیں علم کی تاویل نہیں ہوتی ماننا پڑے گا کہ معاذ اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مَسِّ شیطانی سے بَری نہیں.کوئی مسلمان نہیں ہے جو یہ عقیدہ رکھ سکے.سائل.بس اب ہم نہیں پوچھتے.حضرت اقدس.ہم تو تھکتے نہیں مگر انصاف بھی تو ہونا چاہیے.میں اگر خدا کا خوف نہ کرتا تو ہرگز یہ تبلیغ نہ کرتا.اس کے بعد سائل اپنے رفقاء کو لے کر چلا گیا.حضرت اقدسؑ اس کے بعد چند باتیں اسی کے متعلق فرماتے رہے.پھر احباب اپنی اپنی جگہ جا کر سو رہے.دوسرے دن حضرت اقدس علی الصباح مراجعت فرمائے دارالامان ہوئے اور کوئی گیارہ ساڑھے گیارہ بجے کے قریب بخیریت دارالامان پہنچ گئے.۱ ۱۹؍ جولائی ۱۹۰۱ ء صداقتِ نبوت کی ایک قرآنی دلیل حافظ محمد یوسف صاحب کا ذکر آیا کہ بعض باتوں پر اعتراض کرتے تھے.فرمایا کہ ان کو تو سرے سے سب باتوں پر انکار ہے.جبکہ قرآن شریف نے صداقت نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں لَوْ تَقَوَّلَ والی دلیل پیش کی ہے اور حافظ صاحب اس سے انکار کرتے ہیں تو پھر کیا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) اگر تو اپنی طرف سے کوئی بات بنا کر لوگوں کو سنائے اور اس کو میری طرف منسوب کرے اور کہے کہ یہ خدا کا کلام ہے حالانکہ وہ خدا کا کلام نہ ہو تو تُو ہلاک

Page 215

ہوجائے گا.یہی دلیل صداقتِ نبوت محمدیہ مولوی آل حسن صاحب اور مولوی رحمت اللہ صاحب نے نصاریٰ کے سامنے پیش کی تھی جو وہ اس کا کوئی جواب نہ دے سکے اور اب یہی دلیل قرآنی ہم اپنے دعویٰ کی صداقت میں پیش کرتے ہیں.حافظ صاحب اور ان کے ساتھی اکبر بادشاہ کا نام لیتے ہیں مگر یہ ان کی سراسر غلطی ہے.تَقَوَّلَ کے معنے ہیں کہ جھوٹا کلام پیش کرنا.اگر اکبر بادشاہ نے ایسا دعویٰ کیا تھا تو اس کا کلام پیش کریں جس میں اس نے کہا ہو کہ مجھے خدا کی طرف سے یہ یہ الہامات ہوئے ہیں.ایسا ہی روشن دین جالندھری اور دوسرے لوگوں کا نام لیتے ہیں مگر کسی کے متعلق یہ نہیں پیش کر سکتے کہ اس نے کون سے جھوٹے الہامات شائع کیے ہیں.اگر کسی کے متعلق ثابت شدہ معتبر شہادت کے ساتھ حافظ صاحب یا ان کے ساتھی یہ ثابت کر دیں کہ اس نے جھوٹا کلام خدا پر لگایاحالانکہ خدا کی طرف سے وہ کلام نہ ہو اور پھر ایسا کرنے پر اس نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر عمر پائی ہو یعنی ایسے دعوے پر وہ ۲۳ سال زندہ رہا ہو تو ہم اپنی ساری کتابیں جلا دیں گے.ہمارے ساتھ کینہ کرنے میں ان لوگوںنے ایسا غلو کیا ہے کہ اسلام پر ہنسی کرتے ہیں اور خدا کے کلام کے مخالف بات کرتے ہیں گو ان کی ایسی بات کرنے سے قرآن جھوٹا ہوتا ہو پھر بھی ہم کو جھٹلاتے ہیں مگر تعصّب بُرا ہے.ایسی بات بولتے ہیں جس سے قرآن شریف پر زد ہو.ہمارا تو کلیجہ کانپتا ہے کہ مسلمان ہو کر ایسا کرتے ہیں.ایک تو وہ مسلمان تھے کہ بظاہر ضعیف حدیث میں بھی اگر سچائی پاتے تو اس کو قبول کرتے اور مخالفوںپر حجت میں پیش کرتے اور ایک یہ ہیں کہ قرآن کی دلیل کو نہیں مانتے.ہم تو حافظ صاحب کو بلاتے ہیں کہ شائستگی سے،خلق ومحبت سے چند دن یہاںآکر رہیں.ہم ان کا ہرجانہ دینے کو طیار ہیں.نرمی سے ہمارے دلائل کو سنیں اور پھر اپنا اعتراض کریں.مولوی احمداللہ صاحب کو بھی بے شک اپنے ساتھ لائیں.بابو محمد صاحب نے عرض کی کہ حافظ محمد یوسف صاحب اعتراض کرتے تھے کہ مولوی عبد الکریم صاحب نے الحکم میں یہ کفر لکھا ہے کہ یہ وہ احمد عربی ہے.فرمایا.حافظ صاحب سے پوچھو کہ براہین احمدیہ میں جو میرا نام محمد لکھا ہے اور مسیح بھی لکھا ہے.

Page 216

اور تم لوگ اس کو پڑھتے رہے اور اس کتاب کی تعریف کرتے رہے.اور اس کے ریویو میںلمبی چوڑی تحریریں کرتے رہے تو اس کے بعد کون سی نئی بات ہو ئی ہے.مولوی نذیر حسین دہلوی نے اس کتاب کے متعلق خود میرے سامنے کہا تھا کہ اسلام کی تائید میں جیسی عمدہ یہ کتاب لکھی گئی ہے ایسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی.اس وقت منشی عبد الحق صاحب بھی موجود تھے اور بابو محمد صاحب بھی موجود تھے.یہ وہ زمانہ براہین کا تھا جب کہ تم خود تسلیم کرتے تھے کہ اس میں کوئی بناوٹ وغیرہ نہیں.اگر یہ خدا کا کلام نہ ہوتا تو کیا انسان کے لئے ممکن تھا کہ اتنی مدت پہلے سے اپنی پٹڑی جمائے اور ایسا لمبا منصوبہ سوچے.اب چاہیے کہ یہ لوگ اس نفاق کا جواب دیں کہ اُس وقت کیوں ان لوگوں کو یہی باتیں اچھی معلوم ہوتی تھیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ مہدی جو آنے والا ہے اس کے باپ کا نام میرے باپ کا نام اور اس کی ماں کا نام میری ماں کا نام ہو گا اور وہ میرے خلق پر ہو گا.اس سے آنحضرتؐکا یہی مطلب تھا کہ وہ میرا مظہر ہو گا جیساکہ ایلیا نبی کا مظہر یوحنا نبی تھا.اس کو صوفی بروز کہتے ہیں کہ فلاں شخص موسیٰ کا مظہر اور فلاں عیسیٰ کا مظہر ہے.نواب صدیق حسن خان نے بھی اپنی کتاب میںلکھا ہے کہ اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ سے وہ لوگ مرادہیں جو مہدی کے ساتھ ہو ں گے اور وہ لوگ قائم مقام صحابہؓ کے ہوں گے اور ان کا امام یعنی مہدی قائم مقام حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہو گا.۱ ۲۰؍ جولائی ۱۹۰۱ء ذاتیات میں دخل تقویٰ کے خلاف ہے منشی الٰہی بخش صاحب اور ان کے رفیق اور ان کی تصنیف عصائے موسیٰ کا کچھ ذکر تھا.کسی نے کہا کہ فلاں شخص ان لوگوں کے چال چلن کی نسبت ایسی بات کہتا تھا.فرمایا.ہم اس میں نہیں پڑتے اور نہ ہم اس طرح ذاتیات میں دخل دیتے ہیں.یہ بات تقویٰ کے

Page 217

برخلاف ہے.بابو محمد صاحب نے ذکر کیا کہ انہوں نے عصائے موسیٰ میں کئی باتیں واقعات کے بَر خلاف لکھی ہیں.اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ ہم نے ضرورۃ امام میں یہ ظاہر کیا تھا کہ ہمیں ان پر حُسنِ ظن ہے مگر افسوس کہ انہوں نے اس طرح واقعات کے بَر خلاف امور لکھ کر ہمارے اس حُسنِ ظن کو دور کر دیا ہے.کسی دوسرے شخص کی عبارت نقل کر کے الٰہی بخش صاحب میری نسبت اور میرے والدصاحب کی نسبت ہتک کے لفظ استعمال کرتے ہیں کہ وہ ایسے مفلس تھے.تقویٰ کا خاصہ نہیں ہے کہ محض جھوٹ نقل کرے.ناقل بھی تو ذمہ دار ہوتا ہے.اگر الٰہی بخش صاحب کے ساتھ ہمارے تعلقات ایسے پرانے نہ ہوتے اور وہ ہمارے خاندان کے حالات سے واقفیت نہ رکھتے اور کسی دور علاقہ کے رہنے والے ہوتے اور سَر لیپل گریفن کی کتاب رؤسائے پنجاب میں میرے والد صاحب کا ذکر نہ پڑھا ہوتا اور غدر میں سرکار انگریزی کو پچاس سواروں کی مدد کے حال سے وہ نا واقف ہو تے تو میں ان کو معذور سمجھتا مگر اب تو ان کے تقویٰ کا خوب اندازہ ہو گیا.فرمایا.ساری کل انسان کی صحت اور ایمان کی خدا کے ہاتھ میں ہے.تحریر میں سختی کسی نے ذکر کیا کہ کوئی اعتراض کرتا تھا کہ مولوی عبد الکریم صاحب کی تحریر میں سختی ہوتی ہے فرمایا.ہر ایک امر کے لئے موقع ہوتا ہے.ایک مولوی کو عین مسجد میں بد کاری کرتے ہوئے دیکھے تو دیکھنے والاضرور کہے گا کہ یہ بد ذات ہے.دین کی بے عزتی کرتا ہے مگر جو شخص نہیں جانتاکہ محل اور موقع کو ن سا ہے وہ دھوکا کھا تا ہے.ایک شخص خواہ مخواہ افترا کرتا ہے.بہتان باندھتا ہے، گالیاں دیتا ہے.ایک نہ دو نہ تین بلکہ بیسیوں تک نوبت پہنچاتا ہے.خواہ مخواہ کہا جائے گا کہ یہ بے حیا ہے.جو شخص قرآن شریف کے لئے غیرت نہیں رکھتا وہ کیا ہے؟غصہ خدا نے بے جا نہیں بنایا.اس کا خراب استعمال بے جا ہے.کسی نے حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ کفر کے وقت تم بڑے غصہ والے تھے.اب

Page 218

غصہ کا کیا حال ہے فرمایا.غصہ تو اب بھی وہی ہے مگر پہلے اس کا استعمال بے جا تھا.اب ٹھکانہ پر لگ گیا ہے.یہ اعتراض تو صانع پر ہوتا ہے کہ اس نے غصہ کی قوت کیوں بنائی؟دراصل کوئی بھی قوت بُری نہیں.بد استعمالی بُری ہے.قرآن شریف ہمیں انجیل کی طرح یہ حکم نہیں دیتا کہ خواہ مخواہ مار کھاتے رہو.ہماری شریعت کا یہ حکم ہے کہ موقع دیکھو.اگر نرمی کی ضرورت ہے خاک سے مل جاؤ.اگر سختی کی ضرورت ہے سختی کرو.جہاں عفو سے صلاحیت پیدا ہوتی ہو وہاں عفو سے کام لو.نیک اور باحیا خدمت گار اگر قصور کرے تو بخش دو.مگر بعض ایسی خیرہ طبع ہوتے ہیں کہ ایک دن بخشو تو دوسرے دن دگنا بگاڑ کرتے ہیں وہاں سزا ضروری ہے اور عملی طور پر انجیل میں سختی دکھائی گئی ہے.جہاں حضرت مسیح نے مخالفین کو بے ایمانوں اور سانپوں اور سانپوں کے بچے کہا ہے.خدا نے بھی جھوٹے پر لعنت کی ہے اور دیگر اس قسم کے لفظ استعمال فرمائے ہیں.مومن کی دو مثالیں فرمایا.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے مومن کی دو مثالیں بیان فرمائی ہیں.ایک مثال فرعون کی عورت سے ہے جو کہ اس قسم کے خاوند سے خدا کی پناہ چاہتی ہے.یہ ان مومنوں کی مثال ہے جو نفسانی جذبات کے آگے گر گر جاتے ہیں اور غلطیاں کر بیٹھتے ہیں پر پچھتاتے ہیں، توبہ کرتے ہیں، خد اسے پناہ مانگتے ہیں.ان کا نفس فرعون سے خاوند کی طرح ان کو تنگ کرتا رہتا ہے.وہ لوگ نفسِ لوّامہ رکھتے ہیں.بدی سے بچنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں.دوسرے مومن وہ ہیں جو اس سے اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں.وہ صرف بدیوں سے ہی نہیں بچتے بلکہ نیکیوں کوحاصل کرتے ہیں ان کی مثال اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم سے دی ہے.اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا ( التحریم : ۱۳ ) ہر ایک مومن جو تقویٰ و طہارت میں کمال پیدا کرے وہ بروزی طور پر مریم ہوتا ہے اور خدا اس میں اپنی روح پھونک دیتا ہے.جو کہ ابن مریم بن جاتی ہے.زمخشری نے بھی اس کے یہی معنی کیے ہیں کہ یہ آیت عام ہے اور اگر یہ معنی نہ کیے جاویں تو حدیث شریف میں آیا ہے کہ مریم اور ابن مریم کے سوا مسِّ شیطان سے کوئی محفوظ نہیں.اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ تمام انبیاء پر شیطان کا دخل تھا.پس

Page 219

دراصل اس آیت میں بھی اشارہ ہے کہ ہر ایک مومن جو اپنے تئیں اس کمال کو پہنچائے خدا کی روح اس میں پھونکی جا تی ہے اور وہ ابن مریم بن جاتا ہے اور اس میں ایک پیش گوئی ہے کہ اس امت میں ابن مریم پیدا ہو گا.تعجب ہے کہ لوگ اپنے بیٹوں کا نام محمد اور عیسیٰ اور موسیٰ اور یعقوب اور اسحاق اور اسماعیل اور ابراہیم رکھ لیتے ہیں اور اس کو جائز جانتے ہیں پر خدا کے لئے جائز نہیں جانتے کہ وہ کسی کا نام عیسیٰ یا ابن مریم رکھ دے.امام بطور وکیل کے ہوتا ہے کسی کے سوال پر فرمایا.مخالف کے پیچھے نماز بالکل نہیں ہوتی.پرہیزگار کے پیچھے نماز پڑھنے سے آدمی بخشا جاتا ہے.نماز تو تمام برکتوں کی کنجی ہے.نماز میں دعا قبول ہوتی ہے.امام بطور وکیل کے ہوتا ہے.اس کا اپنا دل سیاہ ہو تو پھر وہ دوسروں کو کیا برکت دے گا.یہود کی ہٹ دھرمی فرمایا.یہود کہا کرتے ہیں کہ ہم تو قیامت کے دن خدا کے آگے ملاکی نبی کی کتاب رکھ دیں گے اور کہہ دیں گے کہ اس کتاب میں تو نے فرمایا تھا کہ مسیح کے پہلے الیاس نبی آئے گا اور تو نے یہ نہیں کہا تھا کہ مثیل الیاس یا اس کا بروز یوحنا کی شکل میں آئے گا.اب اگر یہ مسیح سچا ہے اور ہم نے اس کو نہیں مانا تو ہمارا کیا قصور.یہی حال آجکل کے علماء کا ہے جو مسیح کے منتظر ہیں.اس بات کا ذکر آیا کہ حضرت مسیح نے جب یہود کو کہا کہ یوحنا ہی الیاس ہے تو وہ یوحنا کے پاس گئے اور معلوم نہیں کن الفاظ میں ان سے پوچھا کہ تو الیاس ہے؟ تو یوحنا نے انکار کیا کہ میں الیاس نہیں ہوں اور اسی طرح حضرت مسیح کی تکذیب ہوئی.اس پر فرمایا کہ معلوم نہیںکہ یہودیوں نے کس طرح سے دھوکے کی گفتگو کی ہو گی.یوحنا کو کیا خبر تھی کہ یہ کیا شرارت کرتے ہیں.یہ دعویٰ غلط ہے کہ پیغمبر خدا کی طرح ہر وقت حاضر ناظر ہوتے ہیں.اگر یہ بات سچی ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ کے متعلق کیوں گھبراہٹ ہوتی یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی.سعدی نے خوب لکھا ہے.

Page 220

Page 221

Page 222

خاص نظر تم پر رکھتا ہے وہ نہیں رکھے گا.پاک جماعت جب الگ ہو تو پھر اس میں ترقی ہوتی ہے.معراج حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کی بابت کسی نے سوال کیا فرمایا.سب حق ہے.معراج ہوئی تھی مگر یہ فانی بیداری اور فانی اشیاء کے ساتھ نہ تھی بلکہ وہ اور رنگ تھا.جبرائیل بھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تھا اور نیچے اترتا تھا.جس رنگ میں اس کا اترنا تھا اسی رنگ میں آنحضرتؐکا چڑھنا ہوا تھا.نہ اترنے والا کسی کو اترتا نظر آتا تھا اور نہ چڑھنے والا کو ئی چڑھتا ہوا دیکھ سکتا تھا.حدیث شریف میں جو بخاری میں ہے آیا ہے کہ ثُمَّ اسْتَیْقَظَ یعنی پھر جاگ اٹھے.بائبل اور سائنس حضرت نوحؑکی کشتی کا ذکر تھا.فرمایا.بائبل اور سائنس کی آپس میں ایسی عداوت ہے جیسی کہ دو سوکنیں ہوتی ہیں.بائبل میں لکھا ہے کہ وہ طوفان ساری دنیا میں آیا اور کشتی تین سو ہاتھ لمبی اور پچاس ہاتھ چوڑی تھی اور اس میں حضرت نوحؑ نے ہر قسم کے پاک جانوروں میں سے سات جوڑے اور ناپاک میں سے دو جوڑے ہر قسم کے کشتی میں چڑھائے حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں.اول تو اللہ تعالیٰ نے کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کیا جب تک پہلے رسول کے ذریعہ سے اس کو تبلیغ نہ کی ہو اور حضرت نوحؑ کی تبلیغ ساری دنیا کی قوموں پر کہاں پہنچی تھی جو سب غرق ہو جاتے.دوم اتنی چھوٹی سی کشتی میں جو صرف ۳۰۰ ہاتھ لمبی اور ۵۰ ہاتھ چوڑی ہو.ساری دنیا کے جانور بہائم، چرند، پرند سات سات جوڑے یا دو دو جوڑے کیونکر سما سکتے ہیں.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کتاب میں تحریف ہے اور اس میں بہت سی غلطیاں داخل ہو گئی ہیں.تعجب ہے کہ بعض سادہ لوح علماء اسلام نے بھی ان باتوں کو اپنی کتابوں میں درج کر لیا ہے مگر قرآن شریف ہی ان بے معنی باتوںسے پا ک ہے.اس پر ایسے اعتراض وارد نہیں ہو سکتے.اس میں نہ تو کشتی کی لمبائی چوڑائی کا ذکر ہے اور نہ ساری دنیا پر طوفان آنے کا ذکر ہے بلکہ صرف الارض یعنی وہ زمین جس میں نوح نے تبلیغ کی صرف اس کا ذکر ہے.لفظ اراراٹ جس پر نوح کی کشتی ٹھہری اصل اَرٰی رِیت ہے.جس کے معنے ہیں مَیں پہاڑ کی

Page 223

چوٹی کو دیکھتا ہوں.ریت پہاڑ کی چوٹی کو کہتے ہیں.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے لفظ جُودی رکھا ہے.جس کے معنے ہیں میرا جود و کرم یعنی وہ کشتی میرے جودو کرم پر ٹھہری.جہاد آخِرُ الحِیَل ہے فرمایا.نادان مولوی ذرا ذرا بات پر جہاد کا فتویٰ دیتے ہیں حالانکہ جہاد تو آخر الحیل تھا.یہ اس کو اول الحیل بناتے ہیں.کو ئی بد ذات کسی طرح بھی باز نہ آوے تب حکم تھا کہ تلوار چلاؤ اور یہ بات صاف ہے کہ جب تمام مسائل سنائے جائیں، روشن دلائل دیئے جائیں تسپر بھی خدا کا نمک حرام، خدا کے نشانات کا نمک حرام باز نہ آوے اور دین میں سدِّ راہ بنے تو ایسے کے لئے خس کم جہاں پاک کہنا بے جا نہیں.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تلوار نہیں اٹھائی.صرف مدافعت کے لئے ایسا کیا گیا اور سچ یہ ہے کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر انہوں نے تلوار اٹھائی.آخر وہ تلوار ا نہیں کی ان پر پڑی.ہم بحث کرنا نہیں چاہتے ایک شخص نے کہلا بھیجا کہ میںہندو ستان سے کوئی مولوی اپنے ساتھ لاؤں گا جو آپ کے ساتھ گفتگو کرےمگر مولوی لوگ قادیان آنا پسند نہیں کرتے.آپ بٹالہ میںآجائیں.فرمایا.قادیان سے وہ لوگ اسی واسطہ نفرت رکھتے ہیں کہ میں قادیان میں ہوں.پھر اگر میں بٹالہ میں ہوا تو بٹالہ ان کے لئے نفرت کا مقام بن جائے گا ،قادیان میں وہ ہمارے پاس نہ ٹھہریں.کسی اور کے پاس جہاں چاہیں قیام کریں.یہاں دہریئے موجود ہیں ان کے پاس ٹھہریں.ہم بحث کرنا نہیں چاہتے.ہمارا مطلب صرف سمجھا دینا ہے.اگر ایک دفعہ ان کو تسلی نہ ہووے پھر سنیں پھر سنیں.وفات مسیح علیہ السلام فرمایا.اس دنیا سے اس جہان میں جانے کے لئے مُردوں کے واسطے تو ایک راہ بنا ہوا ہے اور مُردے ہمیشہ جایا کرتے ہیں مگر اس کے سوا اورکوئی دوسری سڑک نہیں.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح بھی اسی مُردوں والی سڑک کی راہ گئے جو مُردوں میں جا بیٹھے ورنہ حضرت یحییٰ کے پاس کیوں کر جا بیٹھے؟

Page 224

تقویٰ کا اثر فرمایا.تقویٰ کا اثر اسی دنیا میں متّقی پر شروع ہو جاتا ہے.یہ صرف ادھار نہیں نقد ہے.بلکہ جس طرح زہر کا اثر اور تریاق کااثر فوراًبدن پر ہوتا ہے اسی طرح تقویٰ کا اثر بھی ہوتا ہے.۱ یکم اگست۱۹۰۱ء صبر واستقلال حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور جناب مولوی عبد الکریم صاحب سَلَّمَہٗ رَبُّہٗ نے ایک شخص کو پیش کیا اور عرض کیا کہ یہ شخص بہت سی گدّیوں میں پھرا ہے اور بہت سے پیروں اور مشائخ کے پاس ہو آیا ہے.حضرت اقدس نے شخص مذکور کو مخاطب کر کے فرمایا.اچھا کہو کیا کہتے ہو.شخص.حضور! میں بہت سے پیروں کے پاس گیا ہوں.مجھ میں بعض عیب ہیں.اوّل.میں جس بزرگ کے پاس جاتا ہوں تھوڑے دن رہ کر پھر چلا آتا ہوں اور طبیعت اس سے بد اعتقاد ہوجاتی ہے.دوم.مجھ میں غیبت کرنے کا عیب ہے.سوم.عبادت میں دل نہیں لگتا اور بھی بہت سے عیب ہیں.حضرت اقدس.میں نے سمجھ لیا ہے.اصل مرض تمہار ابے صبری کا ہے.باقی جو کچھ ہیں اس کے عوارض ہیں.دیکھو! انسان اپنے دنیا کے معاملات میں جبکہ بے صبر نہیں ہوتا اور صبر واستقلال سے انجام کا انتظار کرتا ہے پھر خدا کے حضور بے صبری لے کر کیوں جاتا ہے.کیا ایک زمیندار ایک ہی دن میں کھیت میں بیج ڈال کر اس کے پھل کاٹنے کی فکر میں ہو جاتا ہے یا ایک بچہ کے پیدا ہوتے ہی کہتا ہے کہ یہ اسی وقت جوان ہو کر میری مدد کرے.خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں اس قسم کی عجلت اور

Page 225

جلد بازی کی نظیریں اور نمونے نہیں ہیں.وہ سخت نادان ہے جو اس قسم کی جلد بازی سے کام لینا چاہتا ہے.اس شخص کو بھی اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھنا چاہیے جس کو اپنے عیب، عیب کی شکل میں نظر آجاویں.ورنہ شیطان بد کاریوں اور بد اعمالیوں کو خوش رنگ اور خوبصورت بنا کر دکھاتا ہے.پس تم اپنی بے صبری کو چھوڑ کر صبر اور استقلال کے ساتھ خدا تعالیٰ سے توفیق چاہو اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو.بغیر اس کے کچھ نہیں ہے.جو شخص اہل اللہ کے پاس اس غرض سے آتا ہے کہ وہ پھونک مار کر اصلاح کردیں وہ خدا پر حکومت کرنی چاہتا ہے.یہاں تو محکوم ہو کر آنا چاہیے.ساری حکومتوں کو جب تک چھوڑتا نہیں کچھ بھی نہیں بنتا.جب بیمار طبیب کے پاس جاتا ہے تو وہ اپنی بہت سی شکایتیں بیان کرتا ہے مگر طبیب شناخت اور تشخیص کے بعد معلوم کر لیتا ہے کہ اصل میں فلاں مرض ہے.وہ اس کا علاج شروع کر دیتا ہے.اسی طرح سے تمہاری بیماری صرف بے صبری کی ہے.اگر تم اس کا علاج کرو تو دوسری بیماریاں بھی خدا چاہے تو رفع ہو جائیں گی.ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے کبھی مایوس نہ ہو اور اس وقت تک طلب میں لگا رہے جب تک کہ غر غرہ شروع ہو جاوے.جب تک اپنی طلب اور صبر کو اس حد تک نہیں پہنچاتا.انسان بامراد نہیں ہو سکتا اور یوں خدا تعالیٰ قادر ہے وہ چاہے تو ایک دم میں با مراد کر دے.مگر عشق صادق کا یہ تقاضا ہونا چاہیے کہ وہ راہ طلب میں پویاں رہے.سعدی نے کہا ہے.؎ گر نباشد بدوست رہ بُردن شرطِ عشق است در طلب مُردن مرض دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک مرض مستوی اور ایک مرض مختلف.مرض مستوی وہ ہوتا ہے جس کا درد وغیرہ محسوس نہیں ہوتا جیسے برص، اور مرض مختلف وہ ہے جس کا درد وغیرہ محسوس ہوتا ہے.اس کے علاج کا تو انسان فکر کرتا ہے اور مرض مستوی کی چنداں پروا نہیں کرتا.اسی طرح سے بعض گناہ تو محسوس ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ انسان ان کو محسوس بھی نہیں کرتا.اس لئے ضرورت ہے کہ ہر وقت انسان خدا تعالیٰ سے استغفار کرتا رہے.قبروں پر جانے سے کیا فائدہ.خدا تعالیٰ نے تو

Page 226

اصلاح کے لئے قرآن شریف بھیجا ہے.اگر پھونک مار کر اصلاح کر دینا خدا تعالیٰ کا قانون ہوتا تو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ برس تک مکہ میں کیوں تکلیفیں اٹھاتے ابو جہل وغیرہ پر اثر کیوں نہ ڈال دیتے.ابو جہل کو جانے دو ابو طالب کو تو آپ سے بھی محبت تھی.غرض بے صبری اچھی نہیں ہوتی.اس کا نتیجہ ہلاکت تک پہنچاتا ہے.۱ ۲؍اگست۱۹۰۱ء (دارالامان میں ) آج جمعہ کا دن ہے.صبح آٹھ بجے کے قریب ڈاکٹر رحمت علی صاحب ہاسپٹل اسسٹنٹ چھاؤنی میانمیر تشریف لائے.جمعہ کی نماز چھوٹی اور بڑی دونوں مسجدوں میں ادا ہوئی.صاحبزادہ مبارک احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کی طبیعت آج بحمد اللہ نسبتاً بہت اچھی رہی.مغرب کی نماز کے بعد حضرت اقدس ایدہ اللہ بنصرہٖ حسبِ معمول بعد نماز بیٹھے رہے.ایک شخص۲ نے جو کئی دن سے دارالامان میں آیا ہوا تھا ایک عجیب حرکت کی.اس نے قرآن شریف کو ہاتھ میں لے کر کہا کہ یا امام پاک!یہ خدا کا کلام ہے.میں اس کو پیش کرتا ہوں اور تین سو روپیہ آپ سے مانگتا ہوں اور قرآن شریف کو بار بار حضرت اقدس کے ہاتھ میں دیتا اور اصرار کرتا تھا کہ آپ اس کو رکھیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ اس زمانہ کی سب سے بڑی ضرورت ہم قرآن شریف ہی کی تعلیم دینے کو آئے ہیں.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف تو اس لیے بھیجا ہے کہ اس پر عمل کیا جاوے.اس میں کہیں نہیں لکھا کہ خدا کسی کو مجبور کرتا ہے.انسان کی ہر حالت خواہ وہ آرام کی ہو یا تکلیف کی، گزر ہی جاتی ہے کیونکہ وقت تو اس کی پروا نہیں کرتا.چنانچہ کسی نے کہا ہے شب تنور گزشت وشب سمور گزشت.پھر انسان کیوں کر اس کام کو مقدم نہ کرے.جو اس کا اصل فرض ہے.ہمارے نزدیک سب سے بڑی ضرورت آج اسلام کی زندگی کی ہے.اسلام ہر قسم کی خدمت کا محتاج ہے.اس کی ضرورتوں پر ہم کسی ضرورت کو مقدم نہیں کر سکتے.

Page 227

خدا تعالیٰ نے جو یہ کام ہمارے سپرد کیا ہے.ہم معصیت سمجھتے ہیں کہ اس کام کو چھوڑ دیں.دو بیمار ہوتے ہیں.ایک ان میں سے اگر مَر جاوے تو کچھ حرج نہیں ہوتا لیکن ایک ایسا ہوتا ہے اگر وہ مَر جاوے تو دنیا تاریک ہو جاتی ہے.پس یہی حالت اسلام کی ہو رہی ہے.آج سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اور بن پڑے اسلام کی خدمت کی جاوے.جس قدر روپیہ ہو وہ اسلام کے احیا میں خرچ کیا جاوے.میں اب تمہارے اس طرح پر قرآن شریف پیش کرنے کو کیا کروں.میں تمہارا فکر کروں یا قرآن شریف کا فکر کروں.میرے لیے تو قرآن ہی کا فکر مقدم پڑا ہوا ہے اور جو کام خدا نے میرے سپرد کیا ہے اسے میں کیوں کر چھوڑ دوں.تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام کا کیسا حال ہو گیا ہے.کوئی ناجائز کا م کسی تاویل اور پناہ لینے سے روا نہیں ہو جاتا.تمہاری یہ قسم دراصل ناجائز ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص قتل کا مستوجب تھا وہ بیت الحرام میں داخل ہو گیا.صرف اس خیال سے کہ اس کی شان میں آیا ہے وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا( اٰل عـمران :۹۸) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کو وہیں قتل کیا جاوے.اس طرح اگر کوئی لوگوں کو قسمیں دے کر اپنے اغراض کو پورا کرنے پر مجبور کرے تو وہ ساری دنیا کا کام آج تمام کر دیتا اور خدا کے احکام سے امان اٹھ جاتا ہے اور ایسے طریقوں اور حیلوں سے تو آج اسلام کی یہ حالت ہو گئی ہے.ہمارا یہ مذہب نہیں ہے کہ دینی حالت کا لحاظ نہ کریں اور اس کی پروا نہ ہو.نہیں ! بلکہ ہمارے نزدیک وہ سب سے مقدم ہے.تم نے جو طریق اختیار کیا ہوا ہے اس کو خدا تعالیٰ جائز نہیں رکھتا.اس کے بعد ڈاکٹر رحمت علی صاحب نے اپنا ایک خواب عرض کیا کہ کسی نے اعتراض کیا کہ مسیح کی نسبت آیا ہے وہ بہت مال دے گا.میں نے اس کو کہا کہ کس قدر مال اس نے دیا ہے.کوئی لینے والا بھی ہو.دس ہزار ایک کتاب کے ساتھ ہے پانچسو ایک کے ساتھ ہے وغیرہ حضرت اقدس نے فرمایا.ہاں درست ہے.مگر قرآن شریف کوخدا تعالیٰ نے خیر کہا ہے چنانچہ فرمایامَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا ( البقرۃ: ۲۷۰) پس قرآن شریف معارف اور علوم کے مال کا خزانہ ہے.خدا تعالیٰ نے قرآنی معارف اور علوم کا نام بھی مال رکھاہے.دنیا کی برکتیں بھی اسی کے ساتھ آتی ہیں.

Page 228

زاں بعد پھر اسی قرآن فروش نے کہا کہ یا امام پاک!نبیوں نے تو خدا کے کلام کو واپس نہیں کیا.آپ تو امام پاک ہیں آپ کیوں واپس کرتے ہیں؟حضرت نے فرمایا.تم نے نبیوں کو کہاں دیکھا ہے؟ اس نے کہا کہ یا حضرت آپ کو تو دیکھا ہے.فرمایا.تم نے ہم کو بھی نہیں دیکھا.اگر تم دیکھتے تو ایسی بے جا حرکت نہ کرتے.تھوڑی دیر کے بعد وہ چلا گیا.پھر ڈاکٹر رحمت علی صاحب کچھ اپنے مقامی حالات سناتے رہے.اور گورنمنٹ انگلشیہ کی حکومت کی برکات کا ذکر کرتے رہے کہ اس نے فوجوں میں نماز اور اپنے مذہب کی پابندیوں کے لئے پورا وقت اور فرصت دے رکھی ہے.بشرطیکہ کوئی کرنے والا ہو.ہر مذہب کے لوگوں کے لئے ایک ایک مذہبی پیشوا مقرر کر رکھا ہے اور نماز کے اوقات میں کوئی کام نہیں رکھا.ہاں جمعہ کی تکلیف ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ تکلیف بھی جاتی رہتی اگر سب مسلمان مل کر درخواست کرتے مگر ان کم بختوں نے تو ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر جمعہ کی فرضیت کو ہی اڑانا چاہا ہے.افسوس! احتیاطی نماز پھر اس شخص نے جس کا ذکر یکم اگست کی شام میںآیا ہے سوال کیا کہ حضرت احتیاطی نماز کے لئے کیا حکم ہے فرمایا.احتیاطی نماز کیا ہوتی ہے.جمعہ کے تو دو ہی فرض ہیں.احتیاطی فرض کچھ چیز نہیں.فرمایا.لدھیانہ میں ایک بار میاں شہاب الدین بڑے پکے موحّد نے جمعہ کے بعد احتیاطی نماز پڑھی.میں نے ناراض ہو کر کہا کہ یہ تم نے کیا کیا؟تم تو بڑے پکے موحّد تھے.اس نے کہا کہ میں نے جمعہ کی احتیاطی نہیں پڑھی بلکہ میں نے مار کھانے کی احتیاطی پڑھی ہے.مسیح موعود کے حنفی مذہب پر ہونے سے مراد اس کے بعد مولوی بہاؤالدین صاحب احمد آبادی نے پوچھا کہ مکتوبات امام ربّانی

Page 229

میں مسیح موعود کی نسبت لکھا ہے کہ وہ حنفی مذہب پر ہو گا.اس کا کیا مطلب ہے.فرمایا.اس سے یہ مراد ہے کہ جیسے حضرت امام اعظم قرآن شریف ہی سے استدلال کرتے تھے اور قرآن شریف ہی کو مقدم رکھتے تھے اسی طرح مسیح موعود بھی قرآن شریف ہی کے علوم اور حقائق کو لے کر آئے گا.چنانچہ اپنے مکتوبات میں دوسری جگہ انہوں نے اس راز کو کھول بھی دیا ہے اور خصوصیت سے ذکر کیا ہے کہ مسیح موعود کو قرآنی حقائق کا علم دیا جائے گا.کیا مہدی جنگ اور خون ریزی کرے گا پھر یکم اگست والے سائل نے کہا کہ مہدی کی نسبت لکھا ہے کہ وہ خون کرے گاوغیرہ.حضرت نے فرمایا.میں نے تمہارا مطلب سمجھ لیا ہے.یاد رکھو مہدی کی نسبت جو حدیثیں ہیں جن میں لکھا ہے کہ وہ جنگ کرے گا اور خونریزی کرے گا.ان کی نسبت خود ان مولویوں نے لکھ دیاہے کہ بہت سی حدیثیں ان میں موضوع ہیں اور قریباً سب کی سب مجروح ہیں.ہمارا یہ مذہب نہیں ہے کہ مہدی آئے گا تو خون کرتا پھرے گا.بھلا وہ دین کیا ہوا جس میں سوائے جنگ اور جدال کے اور کچھ نہ ہو.جہاد کے مسئلہ کو بھی ان نا واقفوںنے نہیں سمجھا.قرآن شریف تو کہتا ہےلَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ(البقرۃ:۲۵۷) تو کیا اگر مہدی آکر لڑائیاں کرے گا تو اکراہ فی الدین جائز ہو گا اور قرآن شریف کے اس حکم کی بے حرمتی ہوگی اس کے آنے کی غرض تو یہ ہے کہ وہ اسلام کو زندہ کرے.یا یہ کہ اس کی توہین کرے اگر دین میں لڑائیاں ہی ضروری ہوتی ہیں تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ برس تک مکہ میں رہ کر کیوں نہ لڑے.ہر قسم کی تکلیف اٹھاتے رہے اور پھر بھی آپ نے ابتدا نہیں کی اور ہمارا مذہب ہے کہ جبراً مسلمان کرنے کے واسطے لڑائیاں ہرگز نہیں کی ہیں بلکہ وہ لڑائیاں خدا تعالیٰ کا ایک عذاب تھا ان لوگوں کے لئے جنہوں نے آپ کو سخت تکالیف دی تھیں اور مسلمانوں کا تعاقب کیا اور ان کو تنگ کیا تھا.پس یہ ہرگز صحیح نہیں ہے کہ اسلام تلوار دکھاتا ہے.اسلام تو قر آن اور ہدایت پیش کرتا ہے.وہ صلح اور امن لے کر آیا ہے اور دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں جو اسلام کی طرح صُلح پھیلاتا ہو.

Page 230

پس یہ غلط ہے کہ مہدی جنگ کرے گا.ہمارا یہ مذہب ہرگز نہیں.بھلا اگر تلوار مار کر لوگوں کو ہلاک کر دیا اور ان کے املاک لوٹ لیے تو اس سے فائدہ کیا ہوا؟ جس مہدی ہونے کا ہمارا دعویٰ ہے یہ تو قرآن شریف سے ثابت ہے.جیسے موسوی سلسلہ مسیح پر آکر ختم ہوا اسی طرح خدا تعالیٰ نے ایک خاص مناسبت کی وجہ سے اس سلسلہ کو بھی ایک محمدی مسیح پر ختم کیا ہے اور مہدی نام اس کا اس لئے رکھا ہے کہ وہ براہ راست خدا تعالیٰ سے ہدایت پائے گا اور ایسے وقت میں آئے گا جبکہ دنیا سے نور و ہدایت اٹھ گئے ہوں گے.پھر ایک لطیف تر بات ان دونوں سلسلوں کی مماثلت میں یہ ہے کہ جیسے مسیح موسوی موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویںصدی میں آیا تھا یہاں بھی مسیح محمدی کی بعثت کا زمانہ چودھویں ہی صدی ہے اور جیسے مسیح موسوی یہودیوں کی سلطنت نہیں بلکہ رومیوں کی سلطنت میں پیدا ہوا تھا اسی طرح محمدی مسیح بھی مسلمانوں کی سلطنت میں نہیں بلکہ انگلش گورنمنٹ کی سلطنت میں پیدا ہوا ہے.غرض ہمارا ہرگز یہ مذہب نہیں ہے کہ مہدی آکر لڑائیاں کرتا پھرے گا اور خون ریزی اس کا کام ہو گا.۱ ۱۵؍اگست۱۹۰۱ء دیوار کے مقدمہ کی فتح یابی پر فرمایا.اس دیوار کی وجہ سے قریباً ڈیڑھ سال راستہ بند رہ کر ایک محاصرہ ہم پر رہاہے.اس کی خبر بھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے جو حدیث میں موجود ہے.اس بات پر کہ حدیث میں آیا ہے.مسیح کا نزول ہو گا.فرمایا.جو شَے اوپر سے یعنی آسمان سے نازل ہو تی ہے سب کی نظریں اس کی طرف پھر جاتی ہیں اور سب آسانی سے اس کو دیکھ سکتے ہیں اور وہ چیز جلد مشہور ہو جاتی ہے.پس اس لفظ میں ایک استعارہ ہے کہ مسیح کے لئے اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ بہت جلد اس کی شہرت ہو گی چنانچہ یہ امر اس زمانہ کے اسباب ریل، ڈاک، مطبع وغیرہ سے ظاہر ہے.قرآن شریف کی جامعیت فرمایا.کل چیزیں قرآن شریف میں موجود ہیں.اگر انسان عقل مند ہو تو اس کے لئے وہ کافی ہے.

Page 231

فرمایا.یورپین لوگ ایک قوم سے معاہدہ کرتے ہیں.اس کی ترکیب عبارت ایسی رکھ دیتے ہیں کہ دراز عرصہ کے بعد بھی نئی ضرورتوں اور واقعات کے پیش آنے پر بھی اس میں استدلال اور استنباط کا سامان موجود ہوتا ہے.ایسا ہی قرآن شریف میں آئندہ کی ضرورتوں کے مواد اور سامان موجود ہیں.غَضِّ بصر فرمایا.مومن کو نہیں چاہیے کہ دریدہ دہن بنے یا بے محابہ اپنی آنکھ کو ہر طرف اٹھائے پھرے، بلکہ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ (النّور:۳۱) پر عمل کر کے نظر کو نیچی رکھنا چاہیےاور بدنظری کے اسباب سے بچنا چاہیے.تقلید کے متعلق مذہب ایک دفعہ ایک واعظ ایسے طرز پر حضرت کے سامنے گفتگو کرتا تھا کہ گویا اس کے نزدیک حضرت بھی فرقہ وہابیہ کے طرف دار ہیں اور اپنے تئیں بار بار حنفی اور وہابیوں کا دشمن ظاہر کرتا تھا اور کہتا تھا کہ حق کا طالب ہوں.اس پر حضرت نے فرمایا.اگر کوئی محبت اور آہستگی سے ہماری باتیں سنے تو ہم بڑی محبت کرنے والے ہیں اور قرآن اور حدیث کے مطابق ہم فیصلہ کرنا چاہتے ہیں.اگر کوئی شخص اس طرح فیصلہ کرنا چاہے کہ جو امر قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کے مطابق ہو اسے قبول کرلے گا اور جو ان کے برخلاف ہو اسے ردّ کردے گا تو یہ امر ہمارا عین سرور ،عین مدعا ہے اور عین آنکھوں کی ٹھنڈک ہے.ہمارا مذہب وہابیوںکے بر خلاف ہے.ہمارے نزدیک تقلید کو چھوڑنا ایک اباحت ہے کیونکہ ہرایک شخص مجتہد نہیں ہے.ذرا سا علم ہو نے سے کوئی متابعت کے لائق نہیں ہو جاتا.کیا وہ اس لائق ہے کہ سارے متّقی اور تزکیہ کرنے والوں کی تابعداری سے آزاد ہو جائے.قرآن شریف کے اسرار سوائے مطہر اور پاک لوگوں کے اور کسی پر نہیں کھولے جاتے.ہمارے ہاں جو آتا ہے اسے پہلے ایک حنفیت کا رنگ چڑھانا پڑتا ہے.میرے خیال میں یہ چاروں مذہب اللہ تعالیٰ کا فضل ہیں اور اسلام کے واسطے ایک چار دیواری.اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حمایت کے واسطے ایسے اعلیٰ لوگ پیدا کیے جو نہایت متّقی اورصاحب تزکیہ تھے.آجکل کے لوگ جو بگڑے ہیں اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اماموں کی متابعت چھوڑ دی گئی ہے.خدا تعالیٰ کو دو قسم کے لوگ پیارے ہیں.اوّل وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے خود

Page 232

پاک کیا اور علم دیا.دوم وہ جو ان کی تابع داری کرتے ہیں.ہمارے نزدیک ان لوگوں کی تابع داری کرنے والے بہت اچھے ہیں کیونکہ ان کو تزکیہ نفس عطایا گیا تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے قریب تر کے ہیں.میں نے خود سنا ہے کہ بعض لوگ امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں سخت کلامی کرتے ہیں.یہ ان لوگوں کی غلطی ہے.(از نوٹ بک مولوی شیر علی صاحب) ۱۵؍اگست۱۹۰۱ء کی صبح کو ایک الہام ہوا وَاِنِّیْ اَرٰی بَعْضَ الْمَصَائِبِ تَنْزِلُ ۱ ۲۶؍اگست۱۹۰۱ء صبح بوقتِ سیر فرمایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اچھی زندگی وہ ہے جو عمدہ ہو اگرچہ تھوڑی ہو.حضرت نوح کے مقابلہ میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بہت تھوڑی تھی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر نہایت مفید تھی.تھوڑے سے عرصہ میں آپ نے بڑے بڑے مفید کام کیے.انبیاء کے اقوال میں ایک اثر ہوتا ہے.وہ اپنے ساتھ قوت قدسیہ رکھتے ہیں.یہ قوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے زیادہ تھی.دیکھو! ایک آدمی کو سمجھانا اور راہ پر لانا کیسا مشکل ہوتا ہے مگر آنحضرت کے طفیل کروڑوں آدمی راہ پر آگئے.اس وقت دنیا میں تمام مذاہب کے مقابلہ پر سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے.بعض جغرافیہ والوں نے مسلمانوں کی تعداد کم لکھی ہے مگر محققین نے بڑے بڑے ثبوت دے کر اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے.

Page 233

کسی بات کا اثر دو طرح پر قائم رہتا ہے.اعتقاد اً و عملاً.اعتقادی طور پر سارے مسلمان کلمہ طیّبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پر قائم ہیں اور عملی طور پر مثلاً سور کا نہ کھانا تمام مسلمانوں میں خواہ وہ کسی فرقہ یا ملک کے ہوں سب میں نہایت قوت کے ساتھ اس پر عمل ہوتا ہے.بدی کے ارتکاب میں سے جھوٹ بولنا سب سے زیادہ آسان اور جلدی ہو سکنے والا ہے کیونکہ زنا، چوری وغیرہ کے واسطے قوت، مال، ہمت، دلیری چاہیے مگر جھوٹ کے واسطے کسی چیز کی ضرورت نہیں.صرف زبان ہلا دینی پڑتی ہے.باوجود اس کے صحابہؓ میں جھوٹ ثابت نہیں.آنحضرت کے اصحاب میں سے کسی نے بھی جھوٹ نہیں بولا.دیکھو! کتنا بڑا اثر ہے لیکن اس کے مقابل حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں دیکھو.اپنے نبی کا عین اس کی گرفتاری کے وقت انکار کر دیا.ایک نے تیس روپے لے کر اس کو پکڑ وا دیا.ایک حواری کہتا ہے کہ مسیح نے ایسے نشان دکھائے کہ اگر لکھے جائیں تو دنیامیں نہ سمائیں.دیکھو! یہ کتنا جھوٹ ہے.جو باتیں دنیا میں ہوئیں اور ہونے کے وقت سما گئیں وہ بعد میں کیونکر نہ سما سکتیں.قبولیتِ دعا کے شرائط فرمایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں سب سے زیادہ قبول ہوئیں.قبولیّت دعا کے واسطے چار شرطوں کا ہونا ضروری ہے.تب کسی کے واسطے دعا قبول ہوتی ہے.شرط اوّل یہ ہے کہ اتقا ہو یعنی جس سے دعا کرائی جاوے وہ دعا کرنے والا متّقی ہو.تقویٰ احسن واکمل طور پر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتا تھا.آپ میں کمال تقویٰ تھا.اصول تقویٰ کا یہ ہے کہ انسان عبودیت کو چھوڑ کر الوہیت کے ساتھ ایسا مل جاوے جیسا کہ لکڑی کے تختے دیوار کے ساتھ مل کر ایک ہو جاتے ہیں.اس کے اور خدا کے درمیان کوئی شے حائل نہ رہے.امور تین قسم کے ہوتے ہیں.ایک یقینی بدیہی یعنی ظاہر دیکھنے میں ایک بات بُری یا بھلی ہے.دوم یقینی نظری یعنی ویسا یقین تو نہیں مگر پھر بھی نظری طور پر دیکھنے میں وہ امر اچھا یا برا ہو.سوم وہ امور جو مشتبہ ہوں یعنی ان میں شبہ ہو کہ شاید یہ بُرے ہوں.پس متّقی وہ ہے کہ اس احتمال اور شبہ سے بھی بچے اور تینوں مراتب کو طے کرے.حضرت عمر کا قول ہے کہ شبہ اور احتمال سے بچنے

Page 234

کے لئے ہم د س باتوں میں سے نو باتیں چھوڑ دیتے ہیں.چاہیے کہ احتمالات کا سد باب کیا جاوے.دیکھو! ہمارے مخالفوں نے اس قدر تائیدات اور نشانات دیکھے ہیں کہ اگر ان میں تقویٰ ہوتا تو کبھی رو گردانی نہ کرتے.ایک کریم بخش کی گواہی ہی دیکھو جس نے رو رو کر اپنے بڑھاپے کی عمر میں جبکہ اس کی موت بہت قریب تھی یہ گواہی دی کہ ایک مجذوب گلاب شاہ نے پہلے سے مجھے کہا تھا کہ عیسیٰ قادیان میں پیدا ہو گیا ہے اور وہ لدھیانہ میں آوے گا اور تو دیکھے گا کہ مولوی اس کی کیسی مخالفت کریں گے.اس کا نام غلام احمد ہو گا.دیکھو یہ کیسی صاف پیش گوئی ہے جو اس مجذوب نے کی.کریم بخش کے پابند صوم و صلوٰۃ ہونے اور ہمیشہ سچ بولنے پر سینکڑوں آدمیوں نے گواہی دی جیسا کہ ازالہ اوہام میں مفصّل درج ہے.اب کیا تقویٰ کا یہ کام ہے کہ اس گواہی کو جھٹلایا جاوے.تقویٰ کے مضمون پر ہم کچھ شعر لکھ رہے تھے اس میں ایک مصرعہ الہامی درج ہوا وہ شعر یہ ہے.؎ ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتّقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے اس میں دوسرا مصرعہ الہامی ہے.جہاں تقویٰ نہیں وہاں حسنہ حسنہ نہیں اور کوئی نیکی نیکی نہیں.اللہ تعالیٰ قرآن شریف کی تعریف میں فرماتا ہے کہ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ (البقرۃ:۳) قرآن بھی ان لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں.ابتدا میں قرآن کے دیکھنے والوں کا تقویٰ یہ ہے کہ جہالت اور حسداور بخل سے قرآن شریف کو نہ دیکھیں بلکہ نور قلب کا تقویٰ ساتھ لے کر صدقِ نیت سے قرآن شریف کو پڑھیں.دوسری شرط قبولیت دعا کے واسطے یہ ہے کہ جس کے واسطے انسان دعا کرتا ہو.اس کے لئے دل میں درد ہو اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ ( النمل :۶۳).تیسری شرط یہ ہے کہ وقت اصفٰی میسر آوے.ایسا وقت کہ بندہ اور اس کے رب میں کچھ حائل نہ ہو.قرآن شریف میں جو لیلۃ القدر کا ذکر آیا ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے.یہاں لیلۃ القدر کے تین معنی

Page 235

Page 236

ہو جاتا اور معاذ اللہ خدا تعالیٰ کا بھی انکار کرتا کہ خوش قسمتی سے مجھے آپ کی زیارت نصیب ہوئی اور حق مل گیا.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا.بے شک ان گدی نشینوں اور اس قسم کے پیروں کے ایمان خطرہ میں ہیں.لیکن اس قسم کی جھوٹی کرامتوں کے دکھلانے والے اور جھوٹی کرامتوں کے مشہور ہونے سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ سب جھوٹے ہی ہیں.اور تمام سلسلہ اولیاء کا اور بزرگانِ دین کا سب مکّاری اور فریب پر مبنی تھا بلکہ ان جھوٹے ولیوں کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں سچے ولی بھی ضرور ہیں کیونکہ جب تک کوئی سچی بات نہ ہو تب تک جھوٹی بات نہیں بنائی جاتی مثلاً اگر دنیا میںسچا اور اصلی سونا نہ ہوتا تو کیمیا گر کبھی جھوٹا سونا نہ بناتا.اگر سچے ہیرے اور موتی کانوںسے نہ نکلتے تو جھوٹے ہیرے اور موتی بنانے کا کسی کو خیال نہ پیدا ہوتا.ان جھوٹوں کا ہونا خود اس بات کی دلیل ہے کہ سچے ضرور ہیں.۲۸؍اگست۱۹۰۱ء کی صبح کو حضرت نے فرمایا کہ آئندہ کے متعلق ایک نظارہ ہمارے مخالف دو قسم کے لوگ ہیں.ایک تو مسلمان مُلّا مولوی وغیرہ.دوسرے عیسائی انگریز وغیرہ.دونوں اس مخالفت میں اور اسلام پر ناجائز حملے کرنے میں زیادتی کرتے ہیں.آج ہمیں ان دونوں قوموں کے متعلق ایک نظارہ دکھایا گیا اور الہام کی صورت پیدا ہوئی مگر اچھی طرح یاد نہیں رہا.انگریزوں وغیرہ کے متعلق اس طرح سے تھا کہ ان میں بہت لوگ ہیں جو سچائی کی قدر کریں گے اور مُلّا مولویوں وغیرہ کے متعلق یہ تھا کہ ان میں سے اکثر کی قوت مسلوب ہو گئی ہے.آدابِ دعا دعا کے متعلق ذکر تھا.فرمایا.دعا کے لئے رقّت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئیں.یہ مناسب نہیں کہ انسان مسنون دعاؤں کے ایسا پیچھے پڑے کہ ان کوجنتر منترکی طرح پڑھتا رہے اور حقیقت کو نہ پہچانے.اتباع سنّت ضروری ہے ،مگر تلاش رقّت بھی اتباع سنّت ہے.اپنی زبان میں جس کو تم خوب سمجھتے ہو

Page 237

دعا کرو تا کہ دعا میں جوش پیدا ہو.الفاظ پرست مَخذول ہوتا ہے.حقیقت پرست بننا چاہیے.مسنون دعاؤں کو بھی برکت کے لئے پڑھنا چاہیے مگر حقیقت کو پاؤ.ہاں جس کو زبان عربی سے موافقت اور فہم ہو وہ عربی میں پڑھے.حقہ نوشی حقہ نوشی کے متعلق ذکر آیا.فرمایا.اس کا ترک اچھا ہے.ایک بدعت ہے.منہ سے بو آتی ہے.ہمارے والد صاحب مرحوم اس کے متعلق ایک شعر اپنا بنایا ہوا پڑھا کرتے تھے جس سے اس کی برائی ظاہر ہوتی ہے.۱ ۳۱؍ اگست ۱۹۰۱ ء ۳۱؍اگست ۱۹۰۱ء کو جناب بابو غلام مصطفیٰ صاحب میونسپل کمشنر وزیر آباد، قادیان دارالامان آئے تھے اس تقریب پر حضرت حجۃاﷲعلی الارض علیہ السلام نے بطور تبلیغ مندرجہ ذیل تقریر فرمائی.نئی بات سنتے ہی اس کی مخالفت نہ کریں اصل بات یہ ہے کہ جب تک انسان کسی بات کو خالی الذہن ہو کر نہیں سوچتا اور تمام پہلوئوں پر توجہ نہیں کرتا اور غور سے نہیں سنتا اس وقت تک پرانے خیالات نہیں چھوڑ سکتا اس لئے جب آدمی کسی نئی بات کو سنے تو اسے یہ نہیں چاہیے کہ سنتے ہی اس کی مخالفت کے لئے طیار ہو جاوے بلکہ اس کا فرض ہے کہ اس کے سارے پہلوئوں پر پورا فکر کرے اور انصاف اور دیانت اور سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے خوف کو مدّنظر رکھ کر تنہائی میں اس پر سوچے.میں جو کچھ اس وقت کہنا چاہتا ہوں وہ کوئی معمولی اور سرسری نگاہ سے دیکھنے کے قابل بات نہیں بلکہ بہت بڑی اور عظیم الشان بات ہے میری اپنی بنائی ہوئی نہیں بلکہ خد اتعالیٰ کی بات ہے اس لئے جو اس کی تکذیب کے لئے جرأت اور دلیری کرتا ہے وہ میری تکذیب نہیں کرتا بلکہ اﷲ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرتا ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب پر دلیر ہوتا ہے.مجھے اس کی تکذیب سے کوئی رنج نہیں ہو سکتا البتہ اس پر

Page 238

رحم ضرور آتا ہے کہ نادان اپنی نادانی سے خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کاتا ہے.ہر صدی کے سر پر مجدّدکا ظہور یہ بات مسلمانوں میں ہر شخص جانتا ہے اور غالباً کسی کو بھی اس سے بے خبری نہ ہوگی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر ایک مجدّد کو بھیجتا ہے جو دین کے اُس حصہ کو تازہ کرتا ہے جس پر کوئی آفت آئی ہوئی ہوتی ہے.یہ سلسلہ مجدّدوں کے بھیجنے کا اﷲ تعالیٰ کے اس وعدہ کے موافق ہے جو اس نے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ( الـحجر : ۱۰) میں فرمایا ہے پس اس وعدہ کے موافق اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کے موافق جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ سے وحی پا کر فرمائی تھی یہ ضروری ہوا کہ اس صدی کے سر پر جس میں سے انیس برس گذر گئے کوئی مجدّد اصلاح دین اور تجدید ملّت کے لئے مبعوث ہوتا اس سے پہلے کہ کوئی خدا تعالیٰ کا مامور اس کے الہام و وحی سے مطلع ہو کر اپنے آپ کو ظاہر کرتا مستعد اور سعید فطرتوں کے لئے ضروری تھا کہ وہ صدی کا سر آجانے پر نہایت اضطراب اور بے قراری کے ساتھ اس مرد آسمانی کی تلاش کرتے اور اس آواز کے سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہو جاتے جو انہیں یہ مژدہ سناتی کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ کے موافق آیا ہوں.چودھویں صدی کا مجدّد یہ سچ ہے کہ چودھویں صدی پر اکابرانِ امت کی نظریں لگی ہوئی تھیں اور تمام کشوف اور رؤیا اور الہامات اس امر کی طرف ایما کرتے تھے کہ اس صدی پر آنے والا موعود عظیم الشان انسان ہو گا جس کانام احادیث میں مسیح موعود اور مہدی آیا ہے مگر میں کہوں گا کہ جب وہ وقت آگیا اور آنے والا آگیا تو بہت تھوڑے وہ لوگ نکلے جنہوں نے اس کی آواز کو سنا غرض یہ بات کوئی نرالی اور نئی نہیں ہے کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدّد آتا ہے پس اس وعدہ کے موافق ضروری تھا کہ اس صدی میں بھی جو انیس سال تک گذر چکی ہے مجدّد آئے.اب اس دوسرے پہلو کو دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کیا اس وقت اسلام کے لئے کوئی آفات اور مشکلات ایسی پیدا ہوگئی ہیں جو کسی مامور کے لئے داعی ہیں جب ہم اس پہلو پر غور کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا

Page 239

ہے کہ اسلام پر اس وقت دو قسم کی آفتیں آئی ہیں.اندرونی اور بیرونی.اسلام کی اندرونی حالت اندرونی طور پر یہ حالت اسلام کی ہو گئی ہے کہ بہت سی بدعتیں اور شرک سچی توحید کے بجائے پیدا ہوگئے ہیں اعمال صالحہ کی جگہ صرف چند رسومات نے لے لی ہے.قبر پرستی اور پیرپرستی اس حدتک پہنچ گئی ہے کہ وہ بجائے خود ایک مستقل شریعت ہو گئی ہے.مجھ کو ہمیشہ تعجب اور حیرت ہوئی ہے کہ مجھ کو یہ لوگ کہتے ہیں کہ میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے حالانکہ اس امر کو انہوں نے نہیں سمجھا کہ میں کیا کہتا ہوں مگر اپنے گھر میں یہ لوگ ہرگز غور نہیں کرتے کہ نبوت کا دعویٰ تو انہوں نے کیا ہے جنہوں نے اپنی شریعت بنالی ہے کوئی بتائے کہ وہ ورد اور وظائف جو سجادہ نشین اور مختلف گدیوں والے اپنے مریدوں کو سکھاتے ہیں، مَیں نے ایجاد کئے ہیں؟ یا میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اور سنّت پر عمل کرتا ہوں اور اس پر ایک نقطہ یا شعشہ بڑھا نا کفر سمجھتا ہوں اور ہزار ہا قسم کی بدعات ہر فرقہ اور گروہ میں اپنے اپنے رنگ کی پیدا ہو چکی ہیں.تقویٰ اور طہارت جو اسلام کا اصل منشا اور مقصود تھا جس کے لئے آنحضرت اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطرناک مصائب برداشت کیں جن کو بجز نبوت کے دل کے کوئی دوسرا برداشت نہیں کر سکتا وہ آج مفقودو معدوم ہو گیا ہے.جیل خانوں میں جا کر دیکھو کہ جرائم پیشہ لوگوں میں زیادہ تعداد کن کی ہے.زنا، شراب اور اتلاف حقوق اور دوسرے جرائم اس کثرت سے ہو رہے ہیں کہ گویا یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ کوئی خدا نہیں.اگر مختلف طبقات قوم کی خرابیوں اور نقائص پر مفصل بحث کی جاوے تو ایک ضخیم کتاب طیار ہوجاوے.ہردانش مند اور غور کرنے والا انسان قوم کے مختلف افراد کی حالت پر نظر کر کے اس صحیح اور یقینی نتیجہ پر پہنچ جاوے گا کہ وہ تقویٰ جو قرآن کریم کی علّتِ غائی تھا جو اکرام کا اصل موجب اور ذریعہ شرافت تھا آج موجود نہیں.عملی حالت جس کی اشد ضرورت تھی کہ اچھی ہوتی جو غیروں اور مسلمانوں میں مابہ الامتیاز تھی سخت کمزور اور خراب ہو گئی ہے.

Page 240

بیرونی آفات، عیسائی مذہب کی طرف سے اسلام کی مخالفت بیرونی حصہ میں دیکھ لو کہ جس قدر مذاہب مختلفہ موجود ہیں ان میں سے ہر ایک اسلام کو نابود کرنا چاہتا ہے.خصوصیت کے ساتھ عیسائی مذہب اسلام کا سخت دشمن ہے عیسائی مشنریوں اور پادریوں کی ساری کوششیں اس ایک امر میں صرف ہو رہی ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو جس طرح ممکن ہو اسلام کو نابود کیا جاوے اور اس توحید کو جو اسلام نے قائم کی تھی جس کے لئے اس کو بہت سی جانوں کا کفارہ دینا پڑا تھا اسے ناپید کرکے یسوع کی خدائی کا دنیا کو قائل کرایا جاوے اور اس کے خون پر یقین دلایا جاوے جو بے قیدی، آزادی اور اباحت کی زندگی کو پیدا کرتا ہے اور اس طرح پر وہ پاک غرض تقویٰ وطہارت اور عملی پاکیزگی کی جو اسلام کا مدّعا تھا مفقود کی جاوے.عیسائی پادریوں نے اپنی ان اغراض میں کامیابی حاصل کرنے کے واسطے بہت سے طریقے اختیار کئے ہیں اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو مرتد کر لیا اور بہت سے ہیں جن کو نیم عیسائی بنا دیا ہے اور بہت بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے جو ملحدانہ طبیعت رکھتے ہیں اور اپنی طرز بود و باش اور رفتار و گفتار میں عیسائیت کے اثر سے متاثر ہیں.نوجوانوں کی ایک جماعت اور مخلوق ہے جو مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئی ہے اور کالجوں میں اس کی تربیت ہوئی.وہ خدا تعالیٰ کے کلام کے بجائے فلسفہ اور طبیعیات کی قدر کرتی ہے اور اس کو مقدم اور ضروری سمجھتی ہے اسلام اس کے نزدیک عر ب کے جنگلوں کے حسب حال تھا.ان باتوں اور حالتوں کو جب میں دیکھتا ہوں اور سنتا ہوں میں دوسروں کی بابت کچھ نہیں کہہ سکتا مگر میرے دل پر سخت صدمہ ہوتا ہے کہ آج اسلام ان مشکلات اور آفتوں میں پھنسا ہوا ہے اور مسلمانوں کی اولاد کی یہ حالت ہو رہی ہے جو وہ اسلام کو اپنے مذاق ہی کے خلاف سمجھتے ہیں.تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو الٰہی حدود سے باہر تو نہیں ہوئے.حلال کو حرام نہیں کرتے مگر وضع قطع لباس پسند کرتے ہیں انہوں نے ایک قدم نصرانیت میں رکھا ہوا ہے.اب صاف سمجھ میں آتا

Page 241

ہے کہ اندرونی طور پر وہ بدعات اور مشرکانہ رسوم ہیں اور بیرونی طور پر یہ آفتیں.خصوصاً صلیبی مذہب نے جو نقصان پہنچایا ہے اسلام وہ مذہب تھا کہ اگر ایک آدمی بھی اس سے نکل جاتا اور مرتد ہو جاتا تو قیامت برپا ہو جاتی اور یا اب یہ حالت ہے کہ مرتدوں کی انتہا ہی نہیں رہی.خدا تعالیٰ کی خاص تجلّی کی ضرورت اب ان تمام امور کو یکجا ئی طور پر کوئی عقل مند سوچے اور خدا کے لئے غور کرے کہ کیا خدا کی خاص تجلی کی ضرورت نہیں ؟کیا ابھی تک اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ حفاظت کے پورا ہونے کا وقت نہیں کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ( الـحجر : ۱۰ )؟ اگر اس وقت اس کی مدد اورتجلی کی ضرورت نہیں تو کوئی ہمیں بتائے کہ وہ وقت کب آئے گا.غور کرو اور سوچو! کہ ایک طرف تو واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس قسم کی ضرورتیں پیدا ہو گئی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص تجلی فرمائے اور اپنے دین کی نصرت عملی سچائیوں اور آسمانی تائیدات سے کر کے دکھا وے.دوسری طرف صدی نے مہر لگا دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے موافق ( جو اس کے برگزیدہ اور افضل الرسل رسول خاتم الا نبیا ء صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہو اکہ ہر صدی کے سر پر تجدیددین کے لیے مجدّد بھیجا جاوے گا) کوئی مجدّد آناچاہیے.صدی میں سے انیس برس گذر گئے اگر اب تک باوجود ان ضرورتوں کے پیدا ہوجانے کے بھی کوئی مامور مبعوث نہیں ہو اتو پھر خدا کے لیے غور کرو کہ ا س میں اسلام کا کیا باقی رہتا ہے؟ کیا اس سے اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ کے وعدہ کا خلاف ثابت نہ ہوگا ؟ کیا اس سے ارسال مجدّد کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باطل نہ ہوگی؟ کیا یہ نہ پایا جاوے گا کہ اسلام ایسا مذہب ہے کہ اس پر ایسی آفتیں آئیں اور خدا تعالیٰ کو اس کے لیے غیرت نہ آئی؟ پیشگوئی اور بشارات کے موافق خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا اب کوئی ہمارے دعویٰ کو چھوڑے اور الگ رہنے دے مگر ان باتوں کا سوچ کر جواب دے.میری تکذیب کر وگے تو اسلام کو ہاتھ سے تمھیں دینا پڑے گامگر میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے وعدہ کے موافق اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی

Page 242

پیشگوئی پوری ہوئی کیونکہ عین ضرورت کے وقت خدا کے وعدہ کے موافق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے موافق خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا اور یہ ثابت ہوگیا کہ صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ.اللہ اور اس کے رسولؐکی باتیں سچّی ہیں ظالم طبع ہے وہ انسان جو ان کی تکذیب کرتا ہے.۱ اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے اب میرا یہ دعویٰ کہ اس صدی پر میں تجدید دین کے لیے بھیجا گیا ہوںصاف ہے.میں زور سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے اور اس پر بائیس برس سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے اس قدر عرصہ تک میری تائیدوں کا ہونا یہ اللہ تعالیٰ کا الزام اور حجت ہے تم لوگوںپر کیونکہ میں نے جو مجدّد ہونے کا دعویٰ کیا ہے کہ میں فسادوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہوں حدیث اورقرآن کی بنا پر کیا ہے.اب جولوگ میری تکذیب کریں گے وہ میری نہیں اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کریں گے.ان کو کوئی حق تکذیب کا نہیں پہنچتا جب تک وہ میری جگہ دوسرا مصلح پیش نہ کریں کیونکہ زمانہ اور وقت بتاتا ہے کہ مصلح آنا چاہیے کیونکہ ہر جگہ مفاسد پیداہوچکے ہیں اور قرآن شریف کہتا ہے کہ ایسی آفتوں کے وقت حفاظت قرآن کے لئے مامور آتا ہے او رحدیث کہتی ہے کہ ہر صدی کے سر پر مجدّد بھیجا جاتاہے.پھر ضرورتیں موجود ہیں اوریہ وعدے حفاظت اور تجدید دین کے الگ ہیں تو ان ضرورتوں اور وعدوں کے موافق آنے والے کی تکذیب کی تو دو ہی صورتیں ہیں یا کوئی اور مصلح پیش کیاجاوے یا ان وعدوں کی تکذیب کی جاوے.حفاظتِ دین کی ضرورت بعض لوگ ایسے دیکھے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ حفاظت کی کوئی ضرور ت نہیں ہے وہ سخت غلطی کرتے ہیں دیکھو! جو شخص باغ لگاتا ہے یا عمارت بناتا ہے تو کیا اس کا فرض نہیں ہوتا یا وہ نہیں چاہتا کہ اس کی حفاظت اور دشمنوں کی دست بُرد سے بچانے کے لیے ہر طرح کوشش کرے ؟ باغات کے گرد کیسے کیسے احاطے حفاظت کے لیے بنائے جاتے ہیں اور مکانات کو آتشزدگیوں سے بچانے کے لیے نئے نئے مصالح طیار

Page 243

ہوتے ہیں اور بجلی سے بچانے کے لیے تاریں لگائی جاتی ہیں.یہ امور اس فطرت کو ظاہر کرتے ہیں جو بالطبع حفاظت کے لیے انسانوں میں ہے.پھر کیا اللہ تعالیٰ کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے دین کی حفاظت کرے ؟ بے شک حفاظت کرتا ہے اور اس نے ہر بلا کے وقت اپنے دین کو بچایاہے.اب بھی جب کہ ضرو رت پڑی اس نے مجھے اسی لیے بھیجا ہے.ہا ں یہ امر حفاظت کا مشکوک ہو سکتا یا اس کا انکار ہوسکتا تھا اگر حالات اور ضرورتیں اس کی مؤید نہ ہوتیں مگر کئی کروڑ کتابیں اسلام کے ردّ میں شائع ہوچکی ہیں اور ان اشتہاروں اور دوورقہ رسالوں کا تو شمار ہی نہیں جو ہر روز اور ہفتہ وار اورماہوار پادریوں کی طرف سے شائع ہوتے ہیں.ان گالیوں کو اگر جمع کیا جاوے جو ہمارے ملک کے مرتد عیسائیوں نے سید المعصومین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پاک ازواج کی نسبت شائع کی ہیں تو کئی کوٹھے ان کتابوں کے بھرسکتے ہیں اوراگر ان کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر رکھا جاوے تو وہ کئی میل تک پہنچ جائیں.عماد الدین، صفدرعلی اور شائق وغیرہ نے جیسی تحریریں شائع کی ہیں وہ کسی پر پوشیدہ نہیں.عماد الدین کی تحریروں کے خطرناک ہونے کا بعض انصاف پسند عیسائیوں کو بھی اعتراف ہے چنانچہ لکھنؤ سے جو ایک اخبار شمس الاخبار نکلا کرتا تھا اس میں اس کی بعض کتابوں پریہ رائے لکھی گئی تھی کہ اگر ہندوستان میں پھر کبھی غدر ہو گا تو ایسی تحریروں سے ہوگا.ایسی حالتوں میں بھی کہتے ہیںکہ اسلام کا کیا بگڑا ہے اس قسم کی باتیں وہ لوگ کرسکتے ہیں جن کویا تو اسلام سے کوئی تعلق اور درد نہیںاوریا وہ لوگ جنہوں نے حجروں کی تاریکی میں پرورش پائی ہے اور ان کو باہر کی دنیا کی کچھ خبر نہیں ہے.پس ایسے لوگ اگر ہیں توان کی کچھ پروا نہیں.ہاں وہ لوگ جو نور قلب رکھتے ہیں جن کو اسلام کے ساتھ محبت اورتعلق ہے اور زمانہ کے حالا ت سے آشنا ہیں ان کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ وقت کسی عظیم الشان مصلح کا وقت ہے.مامور الٰہی ہونے کی شہادتیں غرض اس وقت میرے مامور ہونے پر بہت سی شہادتیں ہیں.اول.اندرونی شہادت ،دوم بیرونی شہادت، سوم صدی کے سر پر آنے والے مجدّد کی نسبت حدیث صحیح.چہارم.اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ( الـحجر : ۱۰ ) کا وعدۂ حفاظت.

Page 244

اب پانچویں اور زبردست شہادت میں اور پیش کرتاہوں اور وہ سورہ نور میں وعدہ استخلاف ہے اس میں اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ( النّور : ۵۶ ).اس آیت میں استخلاف کے موافق جو خلیفے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں ہوں گے وہ پہلے خلیفوں کی طرح ہوں گے.اس قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ فرمایا گیا ہے جیسے فرمایا ہے اِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا١ۙ۬ شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا ( المزّمل : ۱۶ ) اور آ پ مثیل موسیٰ استثناء کی پیشگوئی کے موافق بھی ہیں پس اس مماثلت میں جیسے كَمَا کا لفظ فرمایاگیا ہے ویسے ہی سورہ نو ر میں كَمَا کا لفظ ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موسوی سلسلہ اور محمدی سلسلہ میں مشابہت اور مماثلت تامہ ہے.موسوی سلسلہ کے خلفاء کا سلسلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آکر ختم ہوگیا تھا اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی میں آئے تھے اس مماثلت کے لحاظ سے کم ازکم اتنا تو ضروری ہے کہ چودھویں صدی میں ایک خلیفہ اسی رنگ و قوت کا پیدا ہو جو مسیح سے مماثلت رکھتا ہو اور ا س کے قلب اور قدم پر ہو.پس اگر اللہ تعالیٰ اس امر کی اور دوسری شہادتیں اور تائیدیں نہ بھی پیش کرتا تو یہ سلسلہ مماثلت بالطبع چاہتا تھا کہ چودھویں صدی میںعیسوی بروز آپ کی امت میں ہو ورنہ آـپؐکی مماثلت میں معاذا للہ ایک نقص اورضعف ثابت ہو تا لیکن اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس مماثلت کی تصدیق اورتائید فرمائی بلکہ یہ بھی ثابت کر دکھایا کہ مثیل موسیٰ ، موسیٰ سے اور تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل تر ہے.مسیح موعود کی آمد کا مقصد حضرت مسیح علیہ السلا م جیسے اپنی کوئی شریعت لے کر نہ آئے تھے بلکہ توریت کو پورا کرنے آئے تھے اسی طرح پر محمدی سلسلہ کا مسیح اپنی کوئی شریعت لے کر نہیں آیا بلکہ قرآن شریف کے احیاء کے لیے آیا ہے اور اس تکمیل کے لئے آیا ہے جو تکمیل اشاعت ہدایت کہلاتی ہے.تکمیل اشاعت ہدایت کے متعلق یاد رکھناچاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اتمامِ نعمت

Page 245

اور اکمالِ الدین ہو اتو اس کی دوصورتیں ہیں.اول تکمیل ہدایت.دوسری تکمیل اشاعت ہدایت.تکمیل ہدایت من کل الوجوہ آپؐکی آمد اوّل سے ہوئی اور تکمیل اشاعت ہدایت آپؐکی آمد ثانی سے ہوئی کیونکہ سورہ جمعہ میں جو اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ ( الـجمعۃ : ۴) والی آیت آپؐکے فیض اور تعلیم سے ایک اورقوم کے طیار کرنے کی ہدایت کرتی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ایک بعثت اور ہے اور یہ بعثت بروزی رنگ میں ہے جو اس وقت ہو رہی ہے پس یہ وقت تکمیل اشاعت ہدایت کا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اشاعت کے تمام ذریعے اورسلسلے مکمل ہو رہے ہیں.چھاپہ خانوں کی کثرت اور آئے دن ان میں نئی باتوں کا پیدا ہونا، ڈاک خانوں ،تار برقیوں، ریلوں، جہازوں کااجرا اور اخبارات کی اشاعت ان سب امور نے مل ملاکر دنیا کو ایک شہر کے حکم میں کر دیا ہے.پس یہ ترقیاں بھی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ترقیاں ہیں کیونکہ اس سے آپ کی کامل ہدایت کے کمال کا دوسرا جزو تکمیل اشاعت ہدایت پوراہورہا ہے اور یہ اسی کے موافق ہے جیسے مسیح نے کہاتھا کہ میں توریت کو پوراکرنے آیا ہوں اور میں کہتا ہوں کہ میرا ایک کام یہ بھی ہے کہ تکمیل اشاعت ہدایت کروں.غرض یہ عیسوی مماثلت بھی ہے.مسیح موسوی اور مسیح محمدی میں مماثلت علاوہ بریں حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں بھی جو آفتیں پیدا ہو گئی تھیں اسی قسم کی یہاں بھی موجود ہیں.اندرونی طور پر یہودیوں کی حالت بہت بگڑ گئی تھی اور تاریخ سے اس ا مر کی شہادت ملتی ہے کہ توریت کے احکام انہوں نے چھوڑ دئیے تھے بلکہ اس کی بجائے طالمود اور بزرگوں کی روایتوں پر زیادہ زور دیتے تھے.اس وقت مسلمانوں میں بھی ایسی ہی حالت پیدا ہوگئی ہے.کتاب اللہ کو چھوڑ دیا گیا ہے اوراس کی بجائے روایتوں، قصوں پر زورمارا جاتا ہے.اس کے علاوہ سلطنت کے لحاظ سے بھی ایک مماثلت ہے.اُس وقت رومی گورنمنٹ تھی اور اِس وقت برٹش گورنمنٹ ہے جس کے عدل و انصاف کاعام شہرہ ہے.اور یہ میں پہلے بتاچکاہوں کہ وہ بھی چودھویں صدی میں آئے تھے اوراس وقت بھی چودھویں صدی ہے.

Page 246

ان سب کے علاوہ ایک اور سرّ بھی ہے جو مماثلت کو مکمل کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیحؑ اخلاقی تعلیم پر زیادہ زور دیتے تھے اور موسوی جہادوںکی اصلا ح کرنے آئے تھے.انہوں نے کوئی تلوار نہیں اٹھائی.مسیح موعود کے لئے بھی یہی مقرر تھا کہ وہ اسلام کی خوبیوں کو تعلیم کی عملی سچائیوں سے قائم کرے اوراس اعتراض کو دور کرے جو اسلام پر اسی رنگ میں کیا جاتا ہے کہ وہ تلوار کے ذریعہ پھیلایاگیا ہے.یہ اعتراض مسیح موعود کے وقت میں بالکل اٹھا دیا جاوے گا کیونکہ وہ اسلام کے زندہ برکات اور فیوض سے اس کی سچائی کودنیا پر ظاہر کرے گااور اس سے یہ ثابت ہوگا کہ جیسے آج اسی ترقی کے زمانہ میں بھی اسلام محض اپنی پاک تعلیم اوراس کے برکات اور ثمرات کے لحاظ سے مؤثر اور مفید ہے ایسا ہی ہمیشہ اور ہر زمانہ میںمفید اورمؤثر پایاگیاہے کیونکہ یہ زندہ مذہب ہے.یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آنے والے مسیح موعود کی پیشگوئی فرمائی اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا.یَضَعُ الْـحَرْبَ وہ لڑائیوںکو اٹھادے گا.اب ان ساری شہادتوںکوجمع کر واوربتاؤ کہ کیااس وقت ضرورت نہیں کہ کوئی آسمانی مرد نازل ہو؟ جب یہ مان لیا گیا کہ صدی پر مجدّد آناضروری ہے تو اس صدی پر مجدّد تو ضرور ہوگا پھرجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مماثلت موسیٰ سے ہے تواس مماثلت کے لحاظ سے ضروری ہے کہ اس صدی کا مجدّد مسیح ہوکیونکہ چودھویں صدی پر موسیٰ کے بعد آیا تھا اور آجکل چودھویں صدی ہے.چودہ کے عدد کوروحانی تغیّر سے مناسبت ہے چودہ کے عدد کو بڑ ی مناسبت ہے چودھویں صدی کاچاند کامل ہوتاہے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ ( اٰل عـمران : ۱۲۴ ) میں اشارہ کیا ہے یعنی ایک بدر تو وہ تھا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخالفوں پر فتح پائی اس وقت بھی آپؐکی جماعت قلیل تھی اور ایک بدر یہ ہے.بدر میں چودھویں صدی کی طرف اشارہ ہے اس وقت بھی اسلام کی حالت اَذلّہ کی ہورہی ہے سو ان سارے وعدوں کے موافق اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیاہے.

Page 247

آنے والے موعود کی ایک علامت احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ آنے والے موعود کے وقت دنیاظلم اور زُور سے بھری ہوئی ہوگئی.ظلم اورزُور سے یہ مراد نہیں کہ اس وقت حکومت ظالم ہوگی جو لوگ یہ سمجھتے ہیںوہ سخت غلطی کرتے ہیں آنے والے مسیح کے وقت میں ضروری ہے کہ سلطنت عادل ہو اور امن ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کاشکر کرتے ہیں کہ ہم کوایسی عادل اورامن دوست گورنمنٹ اس نے عطا کی ہے جس کی نظیر آج دنیاکی کسی سلطنت میں نہیں ملتی ہے جیسے مسیح کے زمانہ میں رومی گورنمنٹ جو اپنے عدل و انصاف کے لیے مشہور تھی مگر ہماری گورنمنٹ رومی گورنمنٹ سے بدرجہا بہتر اور بڑھ چڑھ کر عادل ہے یہاں تک کہ اس مقدمہ میں جو پادری ہنری مارٹن کلارک کی طرف سے مجھ پر ہو اتھا کپتان ڈگلس نے جو اُن دنوں گورداس پور کا (ڈپٹی) کمشنر تھا.باوجود یکہ بعض کوتاہ اندیشوں کا یہ خیال تھا کہ ایک معزز پادری کی طرف سے مقدمہ ہے لیکن اس انصاف پسند حاکم نے اصلیت کو نکال لیا اور معلوم کر لیا کہ وہ مقدمہ بعض ادنیٰ درجہ کے آدمیوں کی چالاکی کانتیجہ تھا.کپتان ڈگلس جو آج کل دہلی میں ڈپٹی کمشنر ہیں ہمیشہ تک اس عدیم المثل انصاف کے باعث مشہور رہیںگے اور یہ تو گورنمنٹ کے ایک عہدہ دار کی مثال ہے اور ایسی ہزاروں لاکھوں مثالیں ہیں.غرض احادیث میں آیا ہے کہ جب وہ موعود آئے گا تو دنیا ظلم اور زُور سے بھری ہوئی ہو گی اس کا مطلب یہی ہے کہ اس وقت دنیا میں شرک اور زُور کا بہت زور ہو گا چنانچہ اس وقت دیکھ لو کیسی بت پرستی، صلیب پرستی، مُردہ پرستی اور قسم قسم کی پرستش ہو رہی ہے اور حقیقی اور سچّے خدا کو بالکل چھوڑ دیا گیا ہے.۱ ایک مصلح کی ضرورت اب ان تمام امور کو یکجا کر کے دانش مند غور کرے کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں کیا وہ اس قابل ہے کہ سر سری نگا ہ سے اسے ردّ کر دیا جاوے؟ یا یہ کہ اس پر پورے غور اور فکر سے کام لیا جاوے.جو کچھ ہمارا دعویٰ ہے کیایہ صدی کے سر پر ہے یا نہیں؟ اگر ہم نہ آتے تب بھی ہر ایک عقل مند اور خدا ترس کو لازم تھا کہ وہ کسی آنے والے کی تلاش

Page 248

کرتے.کیونکہ صدی کا سر آگیا تھا اور اب تو جب کہ بیس برس گزرنے کو ہیں اور بھی زیادہ فکر کی ضرورت تھی.موجودہ فساد اپنی جگہ پر پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ کوئی شخص اس کی اصلاح کے لئے آنا چاہیے عیسائیت نے وہ آزادی اور بے قیدی پھیلائی ہے جس کی کوئی حد ہی نہیں ہے اور مسلمانوں کے بچوں پر جو اس کا اثر ہوا ہے اسے دیکھ کر تو کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کے بچے ہی نہیں ہیں.کاسر الصلیب مسیح موعود کا ہی دوسرا نام ہے ساری باتوں کو چھوڑ دو اس صلیبی فتنہ ہی کی اصلاح کے لئے جو شخص آئے گا اس کا نام کیا رکھا جاوے گا؟ یہ فتنہ بالطبع اپنی اصلاح کرنے والے کا نام کاسر الصلیب رکھتا ہے اور یہ مسیح موعود کا دوسرا نام ہے.قرآن اور حدیث نے مختلف طریقوں پر اس مضمون کو ادا کیا ہے اور آنے والے موعود کی بشارت دی ہے.اس کو خوب سمجھ لینا چا ہئے.کیونکہ جب انسان ناقص طور پر سمجھتا ہے گویا کچھ نہیں سمجھتا لیکن جب کامل غور اور فکر کے بعد ایک بات کو سمجھ لیتا ہے پھر مشکل ہوتا ہے کہ کوئی اسے گمراہ کر سکے.اس لئے میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ اس سوال کو حل کرنے کی خوب فکر کریں.یہ معمولی اور چھوٹی سی بات نہ سمجھیں بلکہ یہ ایمان کا معاملہ ہے جنت اور دوزخ کا سوال ہے.مسیح موعود کی تکذیب اور انکار کا نتیجہ میرا انکار میرا انکار نہیں ہے بلکہ یہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے کیونکہ جو میری تکذیب کرتا ہے وہ میری تکذیب سے پہلے معاذاﷲ اﷲ تعالیٰ کوجھوٹا ٹھہرا لیتا ہے جبکہ وہ دیکھتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی فساد حد سے بڑھے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے باوجود وعدہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الـحجر : ۱۰) کے ان کی اصلاح کا کوئی انتظام نہ کیا؟ جب کہ وہ اس امر پر بظاہر ایمان لاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آیت استخلاف میں وعدہ کیا تھا کہ موسوی سلسلہ کی طرح اس محمدی سلسلہ میں بھی خلفاء کا سلسلہ قائم کرے گا مگر اس نے معاذاﷲ اس وعدہ کو پورا نہیں کیا اور اس وقت کوئی خلیفہ اس امت میں نہیں؟ اور نہ صرف یہاں تک ہی بلکہ اس بات سے بھی انکار کرنا پڑے گا کہ قرآن شریف نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا ہے یہ بھی صحیح

Page 249

نہیں ہے معاذاﷲ.کیونکہ اس سلسلہ کی اتم مشابہت اور مماثلت کے لئے ضروری تھا کہ اس چودھویں صدی پر اس امت میں سے ایک مسیح پیدا ہوتا اسی طرح پر جیسے موسوی سلسلہ میں چودھویں صدی پر ایک مسیح آیا اور اسی طرح پر قرآن شریف کی اس آیت کو بھی جھٹلانا پڑے گا جو اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ(الـجمعۃ : ۴) میں ایک آنے والے احمدی بروز کی خبر دیتی ہے اور اس طرح پر قرآن شریف کی بہت سی آیتیں ہیں جن کی تکذیب لازم آئے گی بلکہ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اَلْـحَمْدُ سے لے کر وَالنَّاسِ تک سارا قرآن چھوڑنا پڑے گا پھر سوچو! کیا میری تکذیب کوئی آسان امر ہے یہ میں ازخود نہیں کہتا، خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حق یہی ہے کہ جو مجھے چھوڑے گا اور میری تکذیب کرے گا وہ زبان سے نہ کرے مگر اپنے عمل سے اس نے سارے قرآن کی تکذیب کردی اور خدا کو چھوڑ دیا.اس کی طرف میرے ایک الہام میں بھی اشارہ ہے اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ بے شک میری تکذیب سے خدا کی تکذیب لازم آتی ہے اور میرے اقرار سے خدا تعالیٰ کی تصدیق ہوتی اور اس کی ہستی پر قوی ایمان پیدا ہوتا ہے.اور پھر میری تکذیب میری تکذیب نہیں یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے اب کوئی اس سے پہلے کہ میری تکذیب اور انکار کے لئے جرأت کرے.ذرا اپنے دل میں سوچے اور اس سے فتویٰ طلب کرے کہ وہ کس کی تکذیب کرتا ہے؟ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیوں تکذیب ہوتی ہے؟ اس طرح پر کہ آپؐ نے جو وعدہ کیا تھا کہ ہر صدی کے سر پر مجدّد آئے گا وہ معاذاﷲ جھوٹا نکلا اورپھر آپ نے جو اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ فرمایا تھا وہ بھی معاذاﷲ غلط ہوا ہے اور آپ نے جو صلیبی فتنہ کے وقت ایک مسیح و مہدی کے آنے کی بشارت دی تھی وہ بھی معاذاﷲ غلط نکلی کیونکہ فتنہ تو موجود ہو گیا مگر وہ آنے والا امام نہ آیا.اب ان باتوں کو جب کوئی تسلیم کرے گا عملی طور پر کیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکذّب ٹھہرے گا یا نہیں؟ پس پھر میں کھول کر کہتا ہوں کہ میری تکذیب آسان امر نہیں.مجھے کافر کہنے سے پہلے خود کافر بننا ہوگا.مجھے بے دین اور گمراہ کہنے میں دیر ہوگی مگر پہلے اپنی گمراہی اور روسیاہی کو مان لینا پڑے گا.مجھے قرآن اور حدیث کو چھوڑنے والا کہنے کے لئے پہلے خود قرآن اور حدیث کو چھوڑدینا پڑے گا اور پھر بھی

Page 250

وہی چھوڑے گا.میں قرآن اور حدیث کا مصدق و مصداق ہوں میں گمراہ نہیں بلکہ مہدی ہوں.میں کافر نہیں بلکہ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ کا مصداق صحیح ہوں اور یہ جو کچھ میں کہتا ہوں خدا نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ سچ ہے.خدا تعالیٰ سے فیصلہ طلب کریں جس کو خدا پر یقین ہے جو قرآن اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق مانتا ہے اس کے لئے یہی حجت کافی ہے کہ میرے منہ سے سن کر خاموش ہو جائے لیکن جو دلیر اور بے باک ہے اس کا کیا علاج! خدا خود اس کو سمجھائے گا اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ خدا کے واسطے اس امر پر غور کریں اور اپنے دوستوں کو بھی وصیت کریں کہ وہ میرے معاملہ میں جلدی سے کام نہ لیں بلکہ نیک نیتی اور خالی الذہن ہو کر سوچیں اور پھر خدا تعالیٰ سے اپنی نمازوں میں دعائیں مانگیں کہ وہ ان پر حق کھول دے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر انسان تعصّب اور ضدّ سے پاک ہو کر حق کے اظہارکے لئے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرے گا تو ایک چلّہ نہ گزرے گا کہ اس پر حق کھل جاوے گا مگر بہت ہی کم لوگ ہیں جو اِن شرائط کے ساتھ خدا سے فیصلہ چاہتے ہیں اور اس طرح پر اپنی کم سمجھی یا ضدّ و تعصّب کی وجہ سے خدا کے ولی کا انکار کر کے ایمان سلب کر لیتے ہیں کیونکہ جب ولی پر ایمان نہ رہے تو ولی جو نبوت کے لئے بطور میخ کے ہے.اسے پھر نبوت کا انکار کرنا پڑتا ہے اور نبی کے انکار سے خدا کا انکار ہوتا ہے اور اس طرح پر بالکل ایمان سلب ہو جاتا ہے.ایک مصلح کی ضرورت اس وقت ضروری ہے کہ خوب غور کر کے دیکھا جاوے کہ کیا عیسائی فتنہ نہیں ہے جو مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ (الانبیاء : ۹۷)کے مصداق ہو کر لاکھوں انسانوں کو گمراہ کر رہا ہے اور مختلف طریق اس نے اپنی اشاعت کے رکھے ہیں.اب وقت ہے کہ اس سوال کا جواب دیا جاوے کہ اس فتنہ کی اصلاح والے کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا رکھا ہے؟ صلیب کا زور تو دن بدن بڑھ رہا ہے اور ہر جگہ اس کی چھاؤنیاں قائم ہوتی جاتی ہیں مختلف مشن قائم ہو کر دو ر و دراز ملکوں اور اقطاع عالم میں پھیلتے جاتے ہیں اس لئے اگر اور کوئی بھی ثبوت اور دلیل نہ ہوتی تب بھی طبعی طور پر ہم کو ماننا پڑتا کہ اس وقت ایک مصلح کی ضرورت ہے

Page 251

جو اس فساد کی آگ کو بجھائے.مگر خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم کو صرف ضروریاتِ محسوسہ مشہودہ تک ہی نہیں رکھا بلکہ اپنے رسول کی عظمت وعزّت کے اظہار کے لئے بہت سی پیشگوئیاں پہلے سے اس وقت کے لئے مقرر رکھی ہوئی ہیں جن سے صاف پایا جاتا ہے کہ اس وقت ایک آنے والا مرد ہے اور اس کا نام مسیح موعود اور اس کا کام کسر صلیب ہے اب اس ترتیب کے ساتھ ہر ایک سلیم الفطرت کو اتنا تو ماننا پڑے گا کہ بجز اس تسلیم کے چارہ نہیں کہ کوئی مرد آسمانی آوے اور اس کا کام اس وقت کسر صلیب ہی ہونا چاہیے.کسرِ صلیب کی حقیقت لیکن غور طلب یہ امر ہے کہ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ کسر صلیب مسیح موعود کا کام ہو گا اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا وہ لکڑی کی صلیب کو توڑے گا؟ اور اس سے فائدہ کیا ہوگا؟صاف ظاہر ہے کہ لکڑی کی صلیب کو اگر توڑتا پھرے گا تو یہ کوئی عظیم الشان کام نہیں اور نہ اس کا کوئی معتد بہ فائدہ ہو سکتا ہے اگر وہ لکڑی کی صلیب کو توڑ دے گا تو اس کی بجائے سونے چاندی اور دھاتوں کی صلیبیں عیسائی بنالیں گے اور ا س سے کیا نقصان ہوا اور پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور یزید اور صلاح الدین نے بہت سی صلیبیں توڑیں تو کیا وہ اس ایک امر سے مسیح موعود بن گئے؟نہیں ہرگز نہیں.معلوم ہوا کہ اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہو سکتی کہ وہ لکڑی کی صلیب جو بعض عیسائیوں نے لٹکائی ہوتی ہے مسیح موعود توڑتا پھرے گا بلکہ اس کے اندر ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کی تائید میں حدیث کا ایک اور لفظ یَضَعُ الْـحَرْبَ کا آیا ہے یعنی مسیح موعود لڑائیوں کواٹھادے گا اب ہمیں کوئی سمجھائے کہ ایک طرف تو مسیح موعود کا یہ کام ہے کہ وہ لڑائی کے سلسلہ کو یک دفعہ اٹھادے اور دین کے لئے لڑائی کا نام لینا حرام سمجھا جاوے اور دوسری طرف یہ بھی صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ زمانہ امن کا زمانہ ہوگا اور سلطنت عادل سلطنت ہوگی جس سے اور بھی تقویت ہوتی ہے اس منشا کی کہ اس وقت لڑائیاں حرام ہوں گی.اچھا، لڑائیاں ہوں گی نہیں اور صلیب توڑنا مسیح موعود کا کام ہے پھر سوچ کر دیکھو کہ ہمارے اس دعویٰ کی تائید صاف طور پر ہوتی ہے یا نہیں کہ صلیب توڑنے سے یہ لکڑی یا پیتل

Page 252

وغیرہ کی صلیبیں (جو عیسائی تبرک کے طور پر گلے میں لٹکاتے پھرتے ہیں) توڑنا مراد نہیں ہے بلکہ یہ لفظ ایک اور حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور وہ وہی ہے جو ہم لے کر آئے ہیں.ہم نے صاف طور پر اعلان کیا ہے کہ اس وقت جہاد حرام ہے کیونکہ جیسے مسیح موعود کا وہ کام ہے یَضَعُ الْـحَرْبَ بھی اسی کا کام ہے.اس کام کی رعایت سے ہم کوضروری تھا کہ جہاد کے حرام ہونے کا فتویٰ صادر کریں.پس ہم کہتے ہیں کہ اس وقت دین کے نام سے تلوار یا ہتھیار اٹھانا حرام اور سخت گناہ ہے.ہم کو ان و حشی سرحدیوں پر افسوس آتا ہے کہ وہ آئے دن جہاد کے نام سے بعض وارداتیں کر کے جو دراصل اپنا پیٹ پالنے کے لئے کرتے ہیں اسلام کو بدنام کرتے ہیں اور امن میں خلل انداز ہوتے ہیں.ایک سچے مسلمان کو ان وحشیوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہونی چاہیے تو پھر یَکْسِـُر الصَّلِیْبَ کے کیا معنے ہیں؟توجہ سے سننا چاہیے کہ مسیح موعود کی بعثت کا وقت غلبہ صلیب کے وقت ٹھہرایا گیا ہے اور وہ صلیب کو توڑنے کے لئے آئے گا.اب مطلب صاف ہے کہ مسیح موعود کی آمد کی غرض عیسوی دین کا ابطال کلّی ہو گا اور وہ حجت و براہین کے ساتھ جن کو آسمانی تائیدات اور خوارق اور بھی قوی کر دیں گے وہ صلیب پرستی کے مذہب کو باطل کرکے دکھادے گا اور اس کا باطل ہونا دنیا پر روشن ہو جائے گا اور لاکھوں روحیں اعتراف کر لیں گی کہ فی الحقیقت عیسائی دین انسان کے لئے رحمت کا باعث نہیں ہو سکتا یہی وجہ ہے کہ ہماری ساری توجہ اس صلیب کی طرف لگی ہوئی ہے.صلیب کی شکست میں کیا کوئی کسر باقی ہے؟ موت مسیح کے مسئلہ نے ہی صلیب کو پاش پاش کر دیا ہے کیونکہ جب یہ ثابت ہو گیا کہ مسیح صلیب پر مَرا ہی نہیں بلکہ وہ اپنی طبعی موت سے کشمیر میں آکر مَرا.تو کوئی عقل مند ہمیں بتائے کہ اس سے صلیب کا باقی کیا رہتا ہے؟ اگر تعصّب اور ضدّ نے بالکل ہی انسان کے دل کو تاریک اور اس کی عقل کونا قابل فیصلہ نہ بنادیا ہو تو ایک عیسائی کو بھی یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ اس مسئلہ سے عیسائی دین کا سارا تا ر و پود اُدھڑ جاتا ہے.۱ مسیح موعود کا ظہور غلبہءِ صلیب کے وقت مقدر تھا غرض یہ بات بالکل صاف ہے کہ مسیح موعود کو اﷲ تعالیٰ اس

Page 253

وقت بھیجے گا جب صلیب کا غلبہ ہوگا جس سے مراد یہ ہے کہ صلیبی دین کا فتنہ بڑھا ہوا ہوگا.اس کی اشاعت اور توسیع کے لئے ہر ایک قسم کے حیلوں کو کام میں لایا جاوے گا اور دنیا میں وہ ظلم و زُور جس کا دوسرے لفظوں میں شرک او ر مُردہ پرستی نام ہو سکتا ہے پھیلا یا جاوے گا اس وقت اﷲ تعالیٰ جس شخص کو بھیجے گا اس کا کام یہی ہوگا کہ اس ظلم و زُور سے دنیا کو پاک کرے اور مُردہ پرستی اور صلیب پرستی کی لعنت سے دنیا کو بچائے اس طرح پر وہ صلیب کو توڑے گا.بظاہر یہ تنا قض معلوم ہوتا ہے کہ اس کے کاموں میں سے یَضَعُ الْـحَرْبَ بھی لکھا ہے کہ وہ لڑائیاں نہ کرے گا اور صلیب کے توڑنے میں لڑائیوں کی ضرورت ہے؟ یہ تناقض سطحی خیال کے آدمیوں کو نظر آتا ہے اور جنہوں نے مسیح موعود کی آمد اور بعثت کی غرض کو ہرگز نہیں سمجھا حالانکہ یَضَعُ الْـحَرْبَ کا لفظ ہی کسر صلیب کی حقیقت کو بتاتا ہے کہ اس سے مراد جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے لکڑی یا دوسری چیزوں کی صلیبوں کو توڑنا نہیں بلکہ صلیبی ملّت کی شکست ہے اور ملّت کی شکست بیّنہ اور براہین سے ہوگی جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے.لِيَـهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَيِّنَةٍ (الانفال : ۴۳) بہر حال ہمارے مخالف علماء جو مخالفت میں اس قدر غلو کرتے ہیں اگر ٹھنڈے دل سے اور خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا یقین رکھ کر ان باتوں کو سوچتے تو یقیناً ان کو اس کے سوا چارہ نہ ہوتا کہ وہ میرے پیچھے ہو لیتے.وہ دیکھتے کہ صدی کا سر آگیا بلکہ ا س میں سے انیس۱۹ سال گزرنے کو آگئے ہیں اور صدی پر مجدّد کا آنا ضروری ہے ورنہ اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب لازم آتی ہے.عیسائیت کا عظیم فتنہ اور جب وہ نصاریٰ کے فتنہ پر نظر کرتے تو ان کو نظر آتا کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی آفت اور فتنہ اسلام کے لئے کبھی پیدا نہیں ہوا ہے بلکہ جب سے نبوت کا سلسلہ شروع ہوا ہے ایسا خطرناک فتنہ کبھی نہیں اٹھا.فلسفیانہ رنگ میں الگ، طبی رنگ میں الگ مذہب پر زد ہے.ہر شخص جو کسی فن میں کسی علم میں کوئی دسترس رکھتا ہے وہ اسی پہلو سے اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے.مرد، عورتیں واعظ ہیں اور وہ مختلف تدابیر سے اسلام سے بیزاری پیدا کرنی چاہتے ہیں اور عیسائیت کی طرف لوگوں کو مائل کرتے ہیں.شفا خانوں میں جاؤ تو دیکھو گے کہ دوا کے

Page 254

ساتھ عیسوی دین کا وعظ ضرور کیا جاتا ہے اور بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ بعض عورتیں یا بچے شفا خانہ میں علاج کے لئے داخل ہو گئے ہیں اور پھر ان کا پتہ اس وقت تک نہیں ملا جب تک وہ عیسائی ظاہر نہیں کئے گئے.سادھوئوں کے رنگ میں وعظ کرتے ہیں.غرض کوئی طریقہ وسوسہ اندازی کا ایسا نہیں جو اس قوم نے اختیار نہ کیا ہو.اب اس فتنہ پر ان کی نگاہ ہوتی تو ان کو ماننا پڑتا کہ اس فتنہ کی اصلاح اور مدافعت کے لئے کوئی شخص خدا کی طرف سے ضرور آنا چاہیے.قرآن کریم کی طرف سے بے توجہی اور لا پروائی پر نظر کرتے تو کہتے کہ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الـحجر : ۱۰) کے وعدہ کے موافق ضرور کوئی محافظِ قرآن اس وقت آنا چاہیے اور پھر سلسلہ خلافت موسوی اور سلسلہ خلافت محمدی کی مشابہت پر نظر ہوتی تو ماننا پڑتا کہ اس وقت چودھویں صدی میں ایک خاتم الخلفاء ضرور آنا چاہیے.اس طرح پر ایک نہیں بہت سی باتیں تھیں جو ان لوگوں کی ہدایت اور رہبری کا موجب ہو سکتی تھیں مگر نفس پرستی کی وجہ سے تعصّب اور ضدّ سے انہوں نے ان پر غور نہیں کیا اور مخالفت اختیار کی.ان امور کا جو میں پیش کرتا ہوں وہی انکار کر سکتا ہے جو گھر سے باہر نہیں نکلتا اور حجروں ہی میں پرورش پاتا ہے جو شخص کہتا ہے فتنہ نہیں ہوا تو میں اس کو متعصّب ہی نہیں سمجھتا بلکہ وہ بے ادب اور گستاخ ہے جس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت و تکریم کا خیال نہیں ہے اور اس سے بے خبر محض ہے.مگر عقل مند اور دین سے واقف سمجھتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ا س فتنہ کو خفیف نہیں سمجھا اور حقیقت میں خفیف نہیں.میں بار بار اس امر پر اسی لئے زور دیتا ہوں کہ لوگوں کو اس امر پر اطلاع ملے.ان کا ایک ایک پرچہ اگر دیکھا جاوے تو وہ ایک ایک لاکھ نکلتا ہے وہ وسائل اشاعت اور تبلیغ کے جو اَب پیدا ہو گئے ہیں پہلے کہاں تھے؟اس سے پہلے ردّ اسلام میں ایک رسالہ تو دکھائو مگر اس صدی میں اگر ان رسالوں اور اخبارات اور کتابوں کو جو اسلام کے خلاف لکھے گئے ہیں ایک جگہ جمع کرو تو ان کا اونچا ڈھیر کئی میل تک چلا جاوے بلکہ میں بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ یہ اونچا ڈھیر دنیا کے بلند ترین پہاڑوں کی اونچائی سے بھی بڑھ جاوے اور اگر ان کو برابر سطح پر رکھا جاوے تو کئی میل لمبی لائن ہو.اس وقت اسلام شہیدانِ کر بلا کی طرح دشمنوں کے نرغہ میں گھرا ہوا ہے اور اس پر بھی افسوس ہے

Page 255

کہ مخالف کہتے ہیں کہ کسی شخص کی ضرورت نہیں.ہم مجادلہ کرنے والے سے بات کرنا نہیں چاہتے اور اس سے بحث کرنا بجز تضیع اوقات اور کچھ نہیں ہے.ہاں جو طالب حق ہو وہ ہمارے پاس آئے اور یہاں رہے اور پھر ہر طرح اس کی تسلی اور اطمینان کو طیار ہیں مگر افسوس تویہ ہے کہ اس قسم کے لوگ پائے نہیں جاتے بلکہ مخالف تو دو چار دس منٹ میں فیصلہ کرنا چاہتے ہیں.یہ گویا مذہبی قمار بازی ہے اس طرح پر حق کھل نہیں سکتا.آپ خود سوچیں کہ عیسائیت اسلام کو مغلوب کرنے کے واسطے کس قدر زور لگا رہی ہے.کلکتہ کے بشپ نے لندن جا کر جو تقریر کی ہے اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ کوئی آدمی گورنمنٹ انگلشیہ کا سچا خیر خواہ اور وفادار نہیں ہوسکتا جب تک وہ عیسائی نہ ہو.ایسی تقریروں اور بحثوں سے کیا یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ عیسائی بنانے کے لئے کس قدر کوشش یہ لوگ کرنی چاہتے ہیں اور ان کی نیت میں کیا ہے؟ وہ صاف چاہتے ہیں کہ کوئی مسلمان نہ رہ جاوے.عیسائی مشنریوں نے اس امر کو بھی تسلیم کیا ہے کہ جس قدر اسلام ان کی راہ میں روک ہے اور کوئی مذہب ان کی راہ میں روک نہیں ہے.مگر یادرکھو کہ اﷲ تعالیٰ اپنے دین کے لئے غیور ہے اس نے سچ فرمایا ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الـحجر : ۱۰) اس نے اس وعدہ کے موافق اپنے ذکر کی محافظت فرمائی اور مجھے مبعوث کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدہ کے موافق کہ ہر صدی کے سر پر مجدّد آنا ہے اس نے مجھے صدی چہار دہم کا مجدّد کیا.جس کا نام کا سرالصلیب بھی رکھا ہے اگر ہم اس دعویٰ میں غلطی پر ہیں تو پھر سارا کاروبار نبوت کا ہی باطل ہوگا اور سب وعدے جھوٹے ٹھہریں گے اور پھر سب سے بڑھ کر عجیب بات یہ ہوگی کہ خدا تعالیٰ بھی جھوٹوں کی حمایت کرنے والا ثابت ہوگا (معاذاﷲ) کیونکہ ہم اس سے تائیدیں پاتے ہیں اور اس کی نصر تیں ہمارے ساتھ ہیں.نزولِ مسیح اور دجال سے متعلق عام خیالات اور اصل حقیقت اب ایک شخص کو بطور وسوسہ کے یہ اعتراض گذرتا ہے کہ مسیح آسمان سے اترے گا اور اس کے ہاتھ میں ایک حربہ ہوگا اور وہ دجال کو جس کے ہاتھ میں خدائی کی ساری قوتیں ہوں گی اور روٹیوں کا پہاڑ اس کے ساتھ ہوگا وہ قتل کرے گا

Page 256

اور آسمان سے تو یونہی اتر آئے گا مگر دمشق کے منارہ پر آکر سیڑھی کے بغیر نہ اترے گا اور دجال مُردوں کو زندہ کردے گا وغیرہ.بہت سی باتیں ہیں جو نزول المسیح کے متعلق ان لوگوں نے بنا رکھی ہیں اور دجال کے لئے کہتے ہیں کہ وہ کانا ہوگا مگر کیا دجّال اس کے لئے یہ نہیں کہہ سکے گا کہ وہ اس لئے کانا ہے کہ وحدہٗ لاشریک ہے اور سب کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتا ہے اب ان باتوں پر اگر دانش مند غور کرے تو خود اس کو ہنسی آئے گی کہ کیا کہتے ہیں.ہم نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ خیالی امور نہیں بلکہ یقینی باتیں ہیں جن کے ساتھ نصوصِ قرآنیہ اور حدیثیہ ہیں اور تائیدات الٰہیہ بھی ہیں جو آج نہیں سمجھتا وہ آخر سمجھے گا.اﷲ تعالیٰ کے نور کو کوئی بجھا نہیں سکتا.پیشگوئیوں میں استعارات کا استعمال یاد رکھو! الفاظ کے معنے کرنے میں بڑی غلطی کھاتے ہیں.بعض وقت الفاظ ظاہر پر آتے ہیں اور بعض اوقات استعارہ کے طور پر آتے ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سب سے پہلے لمبے ہاتھوںوالی بی بی فوت ہوں گی.اور آپؐکے سامنے ساری بیبیوں نے باہم ہاتھ ناپنے بھی شروع کردئیے اور آپ نے منع بھی نہ فرمایا لیکن جب بی بی زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا تو اس کے معنے کھلے کہ لمبے ہاتھوں والی سے مراد اس بی بی سے تھی جو سب سے زیادہ سخی تھی.ایسا ہی اللہ تعالیٰ کے کلام میں ایسی آیتیں موجود ہیں جن کے اگر ظاہر معنے کئے جائیں تو کچھ بھی مطلب نہیں نکل سکتا جیسے فرمایا مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى ( بنی اسـرآءیل : ۷۳ ) اب آپ وزیر آباد میں ہی حافظ عبدالمنان سے جواس سلسلہ کا سخت دشمن ہے دریافت کریں کہ کیا اس آیت کایہی مطلب ہے کہ جواس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اُٹھایا جائے گا ؟ یا ظاہر پر اس سے مراد نہیںلی جاتی کچھ اور مطلب ہے.یقیناً اس کویہی کہنا پڑے گا کہ بے شک اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہر اندھا اورنابینا قیامت کو بھی اندھا اور نابینا اٹھے بلکہ اس سے مراد معرفت اور بصیرت کی نابینائی ہے.جب یہ بات ثابت ہے کہ الفاظ میں استعارات بھی ہوتے ہیں اور خصوصاً پیشگوئیوں میں تو پھر مسیح

Page 257

کے نزول کے متعلق جو پیشگوئیوں میں الفاظ آئے ہیں ان کو بالکل ظاہر ہی پر حمل کر لینا کونسی دانش مندی ہے؟ یہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیںیہ ظاہر پرستی سے کام لیتے ہیں اور ظن سے کام لیتے ہیں.مگر یاد رکھیں کہ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَيْـًٔا (النَّجم : ۲۹) اور اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (الـحجرات: ۱۳ ) پس اگر بدظنی سے کام لیتے ہیں اورظاہر معنوں ہی پر حمل کرتے ہیں تو پھر نابینوںکو تونجات سے جواب ہوگا؟ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ کیوں ناحق ایک ایسی بات پر زور دیتے ہیں جس کے لیے ان کے پاس کوئی یقینی ثبوت نہیں ہے.یہ لوگ خد اتعالیٰ کی کتابوں کی زبان سے محض ناواقف ہیں اگر واقف ہوتے تو سمجھتے کہ پیشگوئیوں میں کس قدراستعارات سے کام لیا جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ سونے کے کڑے پہنے ہوئے ہیں تو اس سے مراد جھوٹے نبی تھے اور جب آپ کو گائیوں کا ذبح ہونا دکھایا گیا تو اس سے مراد صحابہ ؓکی شہادت تھی اور یہ کوئی خاص بات نہیں عام طور پر قانون الٰہی رؤیا اور پیشگوئیوں کے متعلق اس قسم کا ہے.دیکھو! حضرت یوسف ؑ کی رؤیا جو قرآن شریف میں ہے کیا اس سے سورج اور چاند اورستارے مراد تھے ؟ یا عزیز مصر کی رؤیا جس میں گائیاں دکھائی گئی تھیں اس سے فی الواقعہ گائیں مراد تھیں یاکچھ اور ؟ اس قسم کی ایک دو نہیں ہزاروں ہزار شہادتیں ملتی ہیں.مگر تعجب کی بات ہے کہ نزول المسیح کے معاملہ میں یہ لوگ ان کو بھول جاتے ہیں اور ظاہر الفاظ پر زور دینے لگتے ہیں.ان معاملات میں اختلاف کی جڑ دو ہی باتیں ہواکرتی ہیں کہ مجاز اور استعارہ کو چھوڑ کر اس کو ظاہر پر حمل کر لیا جاوے او رجہاں ظاہر مراد ہے وہاں استعارہ قرار دیا جاوے.اگر پیشگوئیوں میں مجاز اور استعارہ نہیں ہے تو پھر کسی نبی کی نبوت کا ثبوت بہت مشکل ہوجاوے گا.عہد نامہ قدیم و جدید میں استعارات کااستعمال اور یہود کا ابتلا یہودیوں کو یہی مشکل اور آفت تو پیش آئی کیونکہ حضرت مسیح کے لیے لکھا تھا کہ اس کے آنے سے پہلے ایلیا آئے گا.چنانچہ ملاکی نبی کی کتاب میں یہ پیشگوئی بڑی صراحت سے درج ہے.یہودی اس پیشگوئی کے موافق منتظر تھے کہ ایلیا آسمان سے آوے لیکن جب مسیح آگیا او رایلیا آسمان سے نہ اترا تو وہ گھبرائے.۱

Page 258

اور یہ ابتلا ان کو پیش آگیا کہ ایلیا کا آسمان سے آنا مسیح کے آنے سے پہلے ضروری ہے اب انصاف شرط ہے.اگر یہ فیصلہ کسی جج کے سامنے پیش ہو تو وہ بھی یہودیوں ہی کے حق میں ڈگری دے گا کیونکہ یہ صاف طور پر لکھا گیا تھا کہ ایلیا آئے گا اوراس سے پہلے کوئی نظیر اس قسم کے بروز کی ان میں موجود نہ تھی جو مسیح نے یوحنا کو ایلیا بنایا.اب اگر چہ ہم ان کتابوںکی بابت تو یہی کہتے ہیں کہ فَلَاتُصَدِّقُوْا وَ لَا تُکَذِّبُوْا لیکن یہ بھی ساتھ ہی ضروری بات ہے کہ قرآن شریف میں یہ آیا ہے.فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ( النّحل : ۴ ۴ ) علاوہ بریں اس قصہ ایلیا کی قرآن شریف نے کہیں تکذیب او رتردید نہیں کی اور یہودی اور عیسائی دونوں قومیں بالاتفاق اس کو صحیح مانتی ہیں.اگر یہ قصہ صحیح نہ ہوتا تو عیسائیوں کا حق تھا کہ وہ بول پڑتے اوراس کی تکذیب کرتے خصوصاً ایسی حالت میں کہ اگر اس قصہ کو غلط کہا جائے تو عیسائیوں کے لیے ان مشکلات سے نجات اور مخلصی ہے جواس کو صحیح مان کر انہیں پیش آتی ہیں لیکن جبکہ انہوں نے تکذیب نہیں کی اوراس کوصحیح تسلیم کر لیا ہے پھر کوئی وجہ نہیںہوسکتی کہ ہم بلاوجہ تکذیب پر آمادہ ہوں.حق یہی ہے کہ یہودیوں میں یہ خبر صحیح موجود تھی کہ مسیح کے آنے سے پہلے ایلیا آئے گا.مسیح علیہ ا لسلام کافیصلہ اور اسی لیے جب مسیح آگیا تو وہ مشکلات میں پڑ ے اور انہوں نے مسیح سے ایلیا کے متعلق سوال کیا اور مسیح نے یوحنا کی صورت میں اس کے آنے کو تسلیم کر لیا.یہاںسے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگریہ پیشگوئی صحیح نہ ہوتی تو سب سے پہلے مسیح کا یہ حق تھا کہ وہ بجائے اس کے کہ یہ کہتے کہ آنے والا ایلیایوحنا ہی ہے، یوں جواب دیتے کہ کوئی ایلیا آنے والا نہیں ہے.مسیح نے اگر اس کو صحیح تسلیم نہ کیاہوتا تو وہ یوحنا کی شکل میں ایلیا کو نہ اتارتے.یہ چھوٹی اور معمولی سی بات نہیں.مسیح کا یہودیوں کے اس اعتراض کو مان کر اس کا جواب دینا بھی اس امر کی روشن دلیل ہے کہ وہ بجائے خود اس امر کوصحیح اوریقینی سمجھتے تھے.یہودیوں کایہ عذر بہر حال قابل پذیرائی تھا اور مسیح نے اس کو قبول کر کے یہی جواب دیا کہ آنے والا ایلیا یوحنا ہی ہے چاہو تو قبول کر و.اب اگر استعارات کچھ چیز نہیں اورخدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں میں یہ جزو اعظم

Page 259

نہیں ہوتے تو پھر جیسے یہودیوں نے حضرت مسیحؐ کی اس تاویل کو تسلیم نہیں کیا یہ بھی انکا ر کریںکہ وہ فیصلہ صحیح نہیں تھا کیونکہ یہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ ایلیا والے قصہ کی مسلمان تکذیب تو کر نہیں سکتے کیونکہ قرآن شریف نے کہیں اس کی تکذیب نہیں کی اور تکذیب کے اوّل حق دار تو حضرت مسیحؑ اور ان کے متبعین ہوسکتے ہیں.جبکہ یہ بات ہے کہ استعارات کوئی چیز نہیں اور ہر پیشگوئی لازماً اپنے ظاہری الفاظ ہی پر پوری ہوتی ہے تو پھر ان کو گویا مانناپڑے گا یہودیوں کی طرح کہ مسیح ابھی نہیں آئے اورجب مسیح کے آنے کا بھی انکار ہی ہواتو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی انکارکرنا پڑا اوراس طرح پر اسلام ہاتھ سے جاتا ہے.اسی لیے میں بار بار اس امر پر زور دیتا ہوں کہ میری تکذیب سے اسلام کی تکذیب لازم آتی ہے.اس صورت میںعقل مند سوچ سکتا ہے کہ ایلیا کے دوبارہ آنے کے قصہ کے رنگ میں مسیح کی آمد ثانی ہے اوران کا فیصلہ گویا چیف کورٹ کا فیصلہ ہے جو اس کے خلاف کہتا ہے وہ نامراد رہتا ہے اگر حضرت عیسیٰ ؑ نے خودآنا تھا توصاف لکھ دیتے کہ میں خود ہی آؤں گا.یہودی یہی تو اعتراض کرتے ہیںکہ اگر ایلیا کا مثیل آنا تھا توکیوں خدا نے یہ نہ کہا کہ ایلیا کا مثیل آئے گا.غرض جس قدر یہ مقدمہ ایلیا کا ہے اس پر اگر ایک دانش مند صفائی اور تقویٰ سے غور کرے تو صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ کسی کے دوبا رہ آنے سے کیا مراد ہوتی ہے اور وہ کس رنگ میں آیا کرتا ہے.دو شخص بحث کرتے ہیں ایک نظیر پیش کرتا ہے اور دوسرا کوئی نظیر پیش نہیں کرتا تو بتاؤ کس کا حق ہے کہ اس کی بات مان لی جاوے ؟یہی کہنا پڑے گا کہ ماننے کے قابل اسی کی بات ہے جو دلائل کے علاوہ اپنی بات کے ثبوت میں نظیر بھی پیش کرتا ہے اب ہم تو ایلیا کا فیصلہ شدہ مقدمہ جو خود مسیح نے اپنے ہاتھ سے کیا ہے بطور نظیر پیش کرتے ہیں یہ اگر اپنے دعویٰ میں سچّے ہیں تو دو چار ایسے شخصوں کے نام لے دیں جن کی آسمان سے اترنے کی نظیریں مو جود ہوں سچ کے حق میں کوئی نہ کوئی نظیر ضرور ہوتی ہے اس مقدمہ میںتنقیح طلب یہی امر ہے کہ جب کسی کے دوبارہ آنے کا وعدہ ہو تو کیا اس سے اس شخص کا پھر آنا مراد ہوتا ہے یا اس کا مفہوم کچھ اور ہوتا ہے اور اس کی آمد ثانی سے یہ مراد ہوتی ہے کہ کوئی اس کا مثیل آئے گا.اگر اس تنقیح طلب امر

Page 260

میں ان کا دعویٰ سچا ہے کہ وہ شخص خود ہی آتا ہے تو پھر حضرت عیسیٰ پر جو الزام عائد ہوتا ہے اسے دور کر کے دکھاویں.اوّل یہ ان کا فیصلہ فراست صحیحہ سے نہیںہوا.اور دوسرے معاذاللہ وہ جھوٹے نبی ہیں کیونکہ ایلیا تو آسمان سے آیا ہی نہیں وہ کہاں سے آگئے ؟ اس صورت میں فیصلہ یہودیوں کے حق میں صادر ہوگااس کا جواب ہمارے مخالف مسلمان ہم کو ذرا دے کر تو دکھائیں.لیکن یہ ساری مصیبت ان پر اس ایک امر سے آتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہم استعارہ نہیں مانتے اصل بات یہی ہے اور وہی فیصلہ حق ہے جو مسیح نے دیا ہے کہ ایلیا کے آنے سے مرا یہ تھی کہ اس کی خُو اور طبیعت پر اس کا مثیل آئے گا اس کے خلاف ہرگز ثابت نہیںہو سکتا.مشرق یا مغرب میں پھرو اور اس کی نظیر لاؤ کہ دو بارہ آنے والا خود ہی آیا کرتاہے.اس اعتقاد کو دل میں جگہ دو گے تو نتیجہ وہی ہو گا کہ اسلام ہاتھ سے جائے گا.مسیح کو یہودیوں نے اسی وجہ سے جھوٹا قرار دیا.کیا ہمارے مخالف مسلمان بھی چاہتے ہیں کہ اس کو جھوٹا قرار دیں ؟ پھر ایک اور اعتراض اسی قصّہ کی بدولت پیدا ہو تا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر مسیحؑ مردوں کو زندہ کرتے تھے یا وہ قدرتیں اور طاقتیں ان میں موجود تھیں جو ان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں تو پھر کیا وجہ ہوئی کہ انہوں نے ایلیا کو زندہ نہ کر لیا یا آسمان سے بہ اختیار خود نہ اتارلیا.میر ے مقدمہ کے فیصلہ سے پہلے میرے مخالفوں کوضرور ہے کہ وہ اس قضیہ کو صاف کر لیں جو مسیح کو پیش آیا اورجس کافیصلہ انہوں نے میرے حق میں کیا ہے.بات یہ ہے کہ بہت سی باتیں پیشگوئیوں کے طور پر نبیوں کی معرفت لوگوں کو پہنچتی ہیں اور جب تک وہ اپنے وقت پرظاہر نہ ہوں ان کی بابت کوئی یقینی رائے قائم نہیں کی جاسکتی.لیکن جب ان کاظہور ہوتاہے اور حقیقت کھلتی ہے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس پیشگوئی کایہ مفہوم او رمنشاتھا.اور جو شخص اس کامصداق ہو یاجس کے حق میں ہو اس کو اس کا علم دیا جاتاہے جیسے فقیہ اورفریسی برابر ایلیا کے دوبارہ آنے کاقصہ پڑھتے رہتے تھے اور وہ نہایت شوق کے ساتھ اس کاانتظار کرتے رہے لیکن اس کی حقیقت اور اصلیت کا علم ان کو اس وقت تک عطا نہ ہواجب تک کہ خود آنے والا مسیحؑ جس کے آنے کاوہ نشان تھانہ آگیا.پس یہ علم مسیحؑ کو ملا

Page 261

اوراس نے آکر فیصلہ کیا کہ ایلیا کی آمد سے یہ مراد ہے.اسی طرح پر حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کے فراق میں چالیس سال تک روتے رہے آخر جاکر آپ کو خبر ملی تو کہا اِنِّيْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ ( یوسف : ۵ ۹) ورنہ اس سے پہلے آپ کا یہ حال ہوا کہ قرآن شریف میں فرمایاگیا ہے وَ ابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ ( یوسف : ۸۵) تک نوبت پہنچی اسی کے متعلق کیا اچھا کہاہے.؎ کسے پرسید زاں گم کردہ فرزند کہ اے روشن گہر پیر خرد مند ز مصرش بوئے پیراہن شمیدی چرا در چاہ کنعانش نہ دیدی؟ ۱ ابتلا اور آزمائش کی غرض یہ بیہودہ باتیں نہیں ہیں بلکہ جب سے نبوت کا سلسلہ جاری ہوا ہے یہی قانون چلا آیا ہے.قبل از وقت ابتلا ضرور آتے ہیں تا کچوں اور پکوں میں امتیاز ہو اور مومنوں اور منافقوں میںبیّن فرق نمودار ہو اسی لیے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ (العنکبوت:۳) یہ لوگ یہ گمان کر بیٹھے ہیں کہ وہ صرف اتنا ہی کہنے پر نجات پا جائیں کہ ہم ایمان لائے اور ان کا کوئی امتحا ن نہ ہو.یہ کبھی نہیں ہوتا.دنیا میں بھی امتحان اور آزمائش کا سلسلہ مو جو د ہے جب دنیاوی نظام میں یہ نظیر موجود ہے تو رو حا نی عالم میں یہ کیوں نہ ہو؟ بغیر امتحان اور آزمائش کے حقیقت نہیں کھلتی.آزمائش کے لفظ سے یہ کبھی دھو کا نہ کھانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کوجو عالم الغیب اور یَعْلَمُ السِّـرَّ وَالْـخَفِیَّ ہے امتحان یا آزمائش کی ضرورت ہے اور بدوںامتحان اور آزمائش کے اس کو کچھ معلوم نہیںہوتا ایسا خیال کرنا نہ صرف غلطی بلکہ کفر کی حد تک پہنچتاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان صفات کا انکار ہے.امتحان یا آزمائش سے اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ تا حقائق مخفیہ کا اظہار ہو جاوے اور شخص زیر امتحان

Page 262

پر اس کی حقیقت ایمان منکشف ہو کر اسے معلوم ہو جاوے کہ وہ کہاں تک اللہ کے ساتھ صدق، اخلاص اور وفا رکھتا ہے اور ایسا ہی دوسرے لوگوں کو اس کی خوبیوں پراطلاع ملے.پس یہ خیال باطل ہے اگر کوئی کرے کہ اﷲ تعالیٰ جو امتحان کرتا ہے تو اس سے پایا جاتا ہے اس کو علم نہیں.اس کو تو ذرّہ ذرّہ کا علم ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ ایک آدمی کی ایمانی کیفیتوں کے اظہار کے لئے اس پر ابتلا آویں اور وہ امتحان کی چکی میں پیسا جاوے.کسی نے کیا اچھا کہا ہے.؎ ہر بلا کیں قوم را حق دادہ اند زیر آں گنج کرم بنہادہ اند ابتلائوں اور امتحانوں کا آنا ضروری ہے بغیر اس کے کشف حقائق نہیں ہوتا.یہودی قوم کے لئے یہ ابتلا جو مسیح کی آمد کا ابتلا تھا بہت ہی بڑا تھا اور جب کبھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور آتا ہے ضرور ہے کہ وہ ابتلائوں کولے کر آوے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی توریت میں مثیلِ موسیٰ والی موجود ہے لیکن کیا کہنے والے نہیں کہتے کہ کیوں اﷲ تعالیٰ نے پورا نام لے کر نہ بتایا اور سارا پتہ نہ دے دیا کہ وہ عبداﷲ کے گھر میں آمنہ کے پیٹ سے پیدا ہو گا اور اسما عیلی سلسلہ میں ہو گا تیرے بھائیوں کا لفظ کیوں کہہ دیا؟ اصل بات یہ ہے کہ اگر ایسی ہی صراحت سے بتادیا جاتا تو پھر ایمان ایمان نہ رہتا.دیکھو! اگر ایک شخص پہلی رات کا چاند دیکھ کر بتادے تو وہ تیز نظر کہلا سکتا ہے لیکن اگر کوئی چودھویں کا چاند دیکھ کر کہہ دے کہ میں نے بھی چاند دیکھ لیا ہے تو کیا لوگ اس پر ہنسیں گے نہیں؟ یہی حال خدا تعالیٰ کے رسولوں اور نبیوں کی شناخت کے وقت ہوتا ہے جو لوگ قرائن قویہ سے شناخت کر لیتے اور ایمان لے آتے ہیں وہ اوّل المؤمنین ٹھہرتے ہیں ان کے مدارج اور مراتب بڑے ہوتے ہیں لیکن جب ان کا صدق آفتاب کی طرح کھل جاتا ہے اور ان کی ترقی کا دریا بہہ نکلتا ہے تو پھر ماننے والے عوام الناس کہلاتے ہیں.جب خدا تعالیٰ کا ہمیشہ سے ایک قانون سلسلہ نبوت کے متعلق چلا آتا ہےاور اس کے اپنے ماموروں کے ساتھ یہی سنّت ہے تو میں اس سے الگ کیونکر ہو سکتا ہوں.پس اگر ان لوگوں کے دل

Page 263

میں بخل اور ضدّ نہیں تو میری بات سنیں اور میرے پیچھے ہو لیں پھر دیکھیں کہ کیا خدا تعالیٰ ان کو تاریکی میں چھوڑتا ہے جو نور کی طرف لے جاتا ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ جو صبر اور صدق دل سے میرے پیچھے آتا ہے وہ ہلاک نہ کیا جاوے گا بلکہ وہ اسی زندگی سے حصہ لے گا جس کو کبھی فنا نہیں.اس قدر لوگ جو میرے ساتھ ہیں اور جواب اس وقت موجود ہیں کیا ان میں سے ایک بھی ہے جو یہ کہے کہ اس نے کوئی نشان نہیں دیکھا؟ ایک نہیں سینکڑوں نشان خدا تعالیٰ نے دکھائے ہیں مگر نشانات پر ایمان کا حصر کرنا یہ ٹھوکر کھانے کا موجب ہو جایا کرتا ہے جس کا دل صاف ہے اور خدا ترسی اس میں ہے میں اس کے سامنے دوبارہ آنے کے متعلق حضرت عیسیٰ ؑ ہی کا فیصلہ پیش کرتا ہوں وہ مجھے سمجھاوے کہ یہودیوں کے سوال کے جواب میں (کہ مسیح سے پہلے ایلیا کا آنا ضروری ہے) جو کچھ مسیح نے کہا وہ صحیح ہے یا نہیں؟ یہودی تو اپنی کتاب پیش کرتے تھے کہ ملاکی نبی کے صحیفہ میں ایلیا کا آنا لکھا ہے مثیل ایلیا کا ذکر نہیں.مسیحؑ یہ کہتے ہیں کہ آنے والا یہی یوحنا ہے چاہو تو قبول کرو.اب کسی منصف کے سامنے فیصلہ رکھو اوردیکھو کہ ڈگری کس کو دیتا ہے؟ وہ یقیناً یہودیوں کے حق میں فیصلہ دے گا مگر ایک مومن جو خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا کے فرستادے کس طرح آتے ہیں وہ یقین کرے گا کہ مسیح نے جو کچھ کہا اور کیا وہی صحیح اور درست ہے اب اس وقت وہی معاملہ ہے یا کچھ اور؟ اگر خدا کا خوف ہو تو پھر بدن کانپ جاوے یہ کہنے کی جرأت کرتے ہوئے کہ یہ دعویٰ جھوٹا ہے.افسوس اور حسرت کی جگہ ہے کہ ان لوگوں میں اتنا بھی ایمان نہیں جتنا کہ اس شخص کا تھا جو فرعون کی قوم میں سے تھا اور جس نے کہا کہ اگر یہ کاذب ہے تو خود ہلاک ہو جائے گا.میری نسبت اگر تقویٰ سے کام لیا جاتا تو اتنا ہی کہہ دیتے اور دیکھتے کہ کیا خدا تعالیٰ میری تائیدیں اور نصرتیں کر رہا ہے یا میرے سلسلہ کو مٹا رہا ہے.قرآن کریم کے مقابلہ میں سُنّت اور حدیث کا درجہ میری مخالفت میں ان لوگوں نے قرآن شریف کو بھی چھوڑ دیا ہے.میں قرآن شریف پیش کرتا ہوں اور یہ اس کے مقابلہ میں احادیث کو پیش کرتے ہیں مگر

Page 264

یادرکھنا چاہیے کہ احادیث اس درجہ پر نہیں ہیں جو قرآن شریف کا درجہ ہے اور نہ ہم احادیث کو کلام اﷲ کا درجہ دے سکتے ہیں احادیث تیسرے درجہ پر ہیں اور بالاتفاق مانی ہوئی بات یہ ہے کہ وہ ظن کے لئے مفید ہیں اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَيْـًٔا( النّجم : ۲۹).اصل میں تین چیزیں ہیں قرآن، سنّت اور احادیث.قرآن خدا تعالیٰ کی پاک وحی ہے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور سنّت وہ اسوہ حسنہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وحی الٰہی کے موافق قائم کر کے دکھایا.قرآن اور سنّت یہ دونوں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام تھے کہ ان کو پہنچادیا جاوے اور یہی وجہ ہے کہ جب تک احادیث جمع نہیں ہوئی تھیں اس وقت تک بھی شعائرِ اسلام کی بجا آوری برابر ہوتی رہی ہے.اب دھوکا یہ لگا ہے کہ یہ لوگ احادیث کو اور سنّت کو ایک کر دیتے ہیں حالانکہ یہ ایک چیز نہیں ہیں.پس احادیث کو جب تک قرآن اور سنّت کے معیار پر پرکھ نہ لیں ہم کسی درجہ پر رکھ نہیں سکتے لیکن یہ ہمارا مذہب ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ حدیث بھی جو اصول حدیث کی رو سے کیسی ہی کمزور او رضعیف ہو لیکن اگر قرآن یا سنّت کے خلاف نہیں تو وہ واجب العمل ہے.مگر ہمارے مخالف یہ کہتے ہیں کہ نہیں محدثین کے اصول تنقید کی رو سے جو صحیح ثابت ہووہ خود قرآن اور سنّت کی کیسی ہی مخالف ہو اس کو مان لینا چاہیے.اب عقل مند غور کریں اور خد اکا خوف دل میں رکھ کر فکر کریں کہ حق کس کے ساتھ ہے، ان کے یا میرے؟ میں خدا کے کلام او راس کے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو مقدم کرتا ہوں اور یہ ان لوگوں کی باتوں اور خیالی اصولوں کو مقدم کرتے ہیں جنہوں نے کوئی دعویٰ نہیں کیا کہ یہ اصول تنقید احادیث کے ہم نے خدا کی وحی اور الہام سے قائم کئے ہیں.اگر یہی بات ہے کہ احادیث کے لئے قرآن اور سنّت کے علاوہ کوئی اور معیار ہے جو محض اپنی دانش اور عقل سے قائم کیا گیا ہے تو پھر میں پوچھتا ہوں کہ کیا وجہ ہے؟ سنّیوں کی پیش کردہ احادیث یا شیعوں کی پیش کردہ احادیث صحیح نہ مانی جاویں.کیوں ایک فریق دوسرے کو ردّ کرتا ہے.؟ اس کا جواب ہمیں کوئی کچھ نہیں دیتا.ان ساری باتوں سے بڑھ کر اور ایک بات ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب نے

Page 265

اپنے رسالہ اشاعۃ السنۃ میں یہ اقرار کر لیا ہے کہ اہل کشف جو لوگ ہوتے ہیں وہ احادیث کی صحت کے لئے محدثین کے اصول تنقید احادیث کے پابند نہیں ہوتے بلکہ وہ بعض اوقات ایک صحیح حدیث کو ضعیف ٹھہرا سکتے ہیں یا ضعیف کو صحیح کیونکہ وہ براہ راست اﷲ تعالیٰ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اطلاع پاتے ہیں.جب یہ بات ہے تو پھر مسیح موعود جو حَکَم ہو کر آئے گا کیا اس کو یہ حق نہ ہوگا کہ وہ احادیث کی صحت اس طریق پر کر سکے؟ کیا وہ خد اتعالیٰ سے فیض نہ پاسکے گا؟ یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے محروم ہوگا؟ اگر ا س کو یہ مقدرت نہ ہوگی تو پھر بتائو کہ ایسا حَکَم کس کام اور مصرف کا ہوگا؟ اس لئے احادیث کو یہ لوگ جب مختلط کرنے لگیں تو اس امر کو کبھی بھولنا نہ چاہیے کہ قرآن اور سنّت سے اس کو الگ کر لیا جاوے.ہمارے ضلع میں حافظ ہدایت علی صاحب ایک عہدہ دار تھے مجھے اکثر ان سے ملنے کا اتفاق ہوتا تھا.ایک بار انہوں نے کہا کہ میں ان کتابوں کو جن میں مسیح اور مہدی کے آنے کا ذکر ہے دیکھ رہا تھا ان میں ہزاروں نشانیاں قائم کر رکھی ہیں چونکہ یہ ساری نشانیاں تو پوری ہونے سے رہیں اس لئے مجھے اندیشہ ہے کہ اس وقت جھگڑا ہی پڑے گا یہ لوگ اس وقت تک ماننے سے رہے جب تک وہ سارے نشان پورے نہ ہو لیں اور وہ نشان یک دفعہ پورے ہونے سے رہے.حقیقت میں ان کی فراست صحیح نکلی اس وقت وہی ہوا انکار ہی کیا گیا.پیشگوئیوں میں مجاز اور استعارات کا استعمال اصل بات یہی ہے جس کو میں نے بارہا بیان کیا ہے کہ پیشگوئیوں کا بہت بڑا حصہ مجازات اور استعارات کا ہوتا ہے اور کچھ حصہ ظاہری رنگ میں بھی پورا ہو جاتا ہے یہی ہمیشہ سے قانون چلا آیا ہے اس سے ہم تو انکار نہیں کر سکتے خواہ کوئی مانے یا نہ مانے.اگر ساری حدیثیں پوری ہونی ہیں یعنی جو سنّیوں کی ہیں وہ بھی اور جو شیعوں کی ہیں وہ بھی، علیٰ ہذا القیاس تمام فرقوں کی تو یقیناً یاد رکھو کہ پھر نہ کبھی مسیح ہی آئے گا اور نہ مہدی.دیکھو! میری ضرورت سے زیادہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت تھی جب آپ تشریف لائے.اب بتائو کہ کیا اس وقت سب نے آپ کو تسلیم کر لیا؟ اور کیا وہ سارے نشانات جو توریت یا

Page 266

انجیل میں آپ کے لئے رکھے گئے تھے پورے ہو گئے تھے؟ خدا کے واسطے سوچو جواب دو.اگر وہ ساری روائتیں جو ان میں چلی آتی تھیں اور وہ ساری نشانیاں جو ان کی کتابوں میں پائی جاتی تھیں پوری ہوگئی تھیں پھر یہودیوں کو کیا ہو گیا تھا جو انہوں نے انکار کر دیا.کبھی ساری نشانیاں پوری نہیں ہوتیں کیونکہ ایسی بہت سی ہوتی ہیں جو خود تجویز کر لی جاتی ہیں اور بہت سی ایسی ہوتی ہیں جو کچھ اور مطلب و مفہوم رکھتی ہیں.جب سب راستبازوں کے وقت ان کا انکار کیا گیا اور یہی عذر پیش کیا گیا کہ نشانات پورے نہیں ہوئے تو اس وقت اگر انکار کیا گیا تو اسی سنّت پر انہوں نے قدم مارا ہے میں کسی کی زبانِ انکار تو بند نہیں کر سکتا مگر میں یہ کہتا ہوں کہ وہ میرے عذرات کو سن کر جواب دیں یونہی باتیں بنانا تو طریق تقویٰ کے خلاف ہے.اس سلسلہ کو منہاج نبوت پر آزمائیں منہاج نبوت پر اس سلسلہ کو آزمائیں اور پھر دیکھیں کہ حق کس کے ساتھ ہے خیالی اصولوں اور تجویزوں سے کچھ نہیں بنتا اور نہ میں اپنی تصدیق خیالی باتوں سے کرتا ہوں.میں اپنے دعویٰ کو منہاج نبوت کے معیار پر پیش کرتا ہوں پھر کیا وجہ ہے کہ اسی اصول پر اس کی سچائی کی آزمائش نہ کی جاوے.جو دل کھول کر میری باتیں سنیں گے میں یقین رکھتا ہوں کہ فائدہ اٹھاویں گے اور مان لیں گے لیکن جو دل میں بخل اور کینہ رکھتے ہیں ان کو میری باتیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکیں گی ان کی تو اَحول کی سی مثال ہے جو ایک کے دو دیکھتا ہے اس کو خواہ کسی قدر دلائل دئیے جاویں کہ دو نہیں ایک ہی ہے وہ تسلیم ہی نہیں کرے گا.کہتے ہیں کہ اَحول خدمت گار تھا آقا نے کہا کہ اندر سے آئینہ لے آئو وہ گیا اور واپس آکر کہا کہ اندر تو آئینے پڑے ہیں کونسا لے آئوں آقا نے کہا کہ ایک ہی ہے دو نہیں! اَحول نے کہا تو کیا میں جھوٹا ہوں؟ آقا نے کہا کہ اچھا ایک کو توڑ دے جب توڑا گیا تو اسے معلوم ہوا کہ درحقیقت میری غلطی تھی مگر اب ان اَحولوں کا جو میرے مقابل ہیں کیا جواب دوں؟۱

Page 267

غرض ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ بار باراگر کچھ پیش کرتے ہیں تو حدیث کا ذخیرہ جس کو خود یہ ظن کے درجہ سے آگے نہیں بڑھاتے ان کو معلوم نہیں کہ ایک وقت آئے گا کہ ان کے رطب و یا بس امور پر لوگ ہنسی کریں گے.یہ ہر ایک طالب حق کا حق ہے کہ وہ ہم سے ہمارے دعویٰ کا ثبوت مانگے.اس کے لئے ہم و ہی پیش کرتے ہیںجو نبیوں نے پیش کیا.نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ، عقلی دلائل یعنی موجودہ ضرورتیں جو مصلح کے لئے مستدعی ہیں.پھر وہ نشانات جو خد انے میرے ہاتھ پر ظاہر کئے میں نے ایک نقشہ مرتب کر دیا ہے.اس میں ڈیڑھ سو کے قریب نشانات دئیے ہیں.جن کے گواہ ایک نوع سے کروڑوں انسان ہیں.بیہودہ باتیں پیش کرنا سعادت مند کا کام نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے فرمایا تھا کہ وہ حَکَم ہو کر آئے گا.اس کا فیصلہ منظور کرو.جن لوگوں کے دل میں شرارت ہوتی ہے وہ چونکہ ماننا نہیں چاہتے اس لئے بیہودہ حجتیں اور اعتراض پیش کرتے رہتے ہیں مگر وہ یادرکھیں کہ آخر خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق زور آور حملوں سے میری سچائی ظاہر کرے گا.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر میں افترا کرتا تو وہ مجھے فی الفور ہلاک کر دیتا مگر میرا سارا کاروبار اس کا اپنا کاروبار ہے اور میں اسی کی طرف سے آیا ہوں.میری تکذیب اس کی تکذیب ہے اس لئے وہ خود میری سچائی ظاہر کردے گا.پیشگوئیوں کو ظاہر پر حمل کرنے کا نتیجہ جو لوگ پیشگوئیوں کی حقیقت کو نہ سمجھ کر مجاز اور استعارہ کو ظاہر پر حمل کرنا چاہتے ہیں آخر ان کو انکار کرنا پڑتا ہے جیسے یہودیوں کو یہی مصیبت پیش آئی اور اب عیسائیوں کو آرہی ہے اور اس کی آمد ثانی کے متعلق اکثر یہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ کلیسیاہی سے مراد تھی.سارے نشانات عام لوگوں کے خیال کے موافق کبھی پورے نہیں ہوا کرتے ہیں تو پھر انبیاء کے وقت اختلاف اور انکار کیوں ہو؟ یہودیوں سے پوچھو کہ کیا وہ مانتے ہیں کہ مسیح کے آنے کے وقت سارے نشانات پورے ہو چکے تھے؟ نہیں.

Page 268

یادرکھو قانون قدرت اور سنّت اﷲ اس معاملہ میں یہی ہے جو میں پیش کرتا ہوں وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا(الاحزاب : ۶۳) انسانی خیالات انسانی تاویلات اور قیاسات بالکل صحیح اور قطعی اور یقینی نہیں ہوسکتے ان میں غلطی کا احتمال ہے.ایک امر کے واقع ہونے سے پہلے جو رائے قائم کی جاوے اس پر قطعیت کا حکم نہیں لگاسکتے لیکن جب وقت آتا ہے تو سارے پردے کھل جاتے ہیں یہی وجہ تھی کہ آنے والے کا نام حَکَم رکھا گیا جس سے صاف پایا جاتا ہے کہ اس وقت اختلاف عام ہوگا تب ہی تو اس کا نام حَکَم رکھا گیا پس سچی بات وہی ہوسکتی ہے جو حَکَم کے منہ سے نکلے.نواب صدیق حسن خاں نے لکھا ہے کہ وہ قرآن کی طرف توجہ کرے گا کیونکہ حدیث کو تو لوگوں کا ہاتھ لگا ہوا ہے مگر قرآن شریف خد اتعالیٰ کا لَا تَبْدِيْلَ کلام ہے جس پر کسی انسانی ہاتھ نے کوئی کام نہیں کیا.اب جو خدا تعالیٰ کا کلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور جو پہلا اور ابدی معجزہ تھا اس کو پیش کیا جاتا ہے تو اس کے مقابلہ میں اقوال پیش کئے جاتے ہیں کیا یہ تعجب اور افسوس کی بات نہیں؟ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ خدا کے فضل سے سمجھ دار اور فہیم معلوم ہوتے ہیں.کیا حدیث کا وہ مرتبہ ہو سکتا ہے جو قرآن شریف کا ہے؟ اگر حدیث کا وہی مرتبہ ہے جو قرآن شریف کا ہے تو پھر نعوذباﷲ ماننا پڑے گا کہ آپؐنے اپنا فرض ادا نہ کیا کیونکہ قرآن شریف کا اہتمام تو آپ نے کیا مگر حدیث کا کوئی اہتمام نہ ہوا اور نہ آپؐنے اپنے سامنے کبھی حدیث کو لکھوایا.کیا کوئی مسلمان یہ ماننے کے لئے طیار ہو سکتا ہے جو کہے کہ ہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا فرض رسالت ادا نہ کیا؟ یہ مسلمان کا کام تو ہو نہیں سکتا بلکہ بڑے بے دین اور ملحد کا کام ہو گا.پھر سوچ کر دیکھو کہ کیا حدیث کو آپ نے اپنے سامنے مرتّب کروایا یا قرآن شریف کو؟ صاف ظاہر ہے کہ قرآن شریف ہی کو آپ نے اپنے بعد چھوڑا کیونکہ تعلیم قرآن ہی تھا ہاں یہ سچ ہے کہ آپ نے اپنی سنّت کو بھی قرآن کے ساتھ رکھا اور اصل یہی ہے کہ نبی دو ہی باتیں لے کر آتے ہیں.کتاب اور سنت.حدیث ان دونوں سے الگ شے ہے اور یہ دونوں حدیث کی محتاج نہیں ہیں.ہاں یہ ہم مانتے ہیں کہ ادنیٰ درجہ کی حدیث پر بھی عمل کرلینا چاہیے

Page 269

خواہ وہ محدّثین کے نزدیک موضوع ہی ہو اگر قرآن اور سنّت کے خلاف نہ ہو.ہم تو یہاں تک حدیث کی عزّت کرتے ہیں لیکن اس کو قرآن پر قاضی اور حَکَم نہیں بنا سکتے.آپؐنے نہیں فرما یا کہ میں تم میں حدیث چھوڑتا ہوں بلکہ فرمایا کہ کتاب اﷲ چھوڑتا ہوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی یہی کہا حَسْبُنَا کِتَابُ ﷲِ انہوں نے نہیں کہا کہ حدیث کافی ہے؟ کتاب اﷲ کا فیصلہ اب کتاب اﷲ کو کھول کر دیکھ لو وہ فیصلہ کرتی ہے پہلی ہی سورۃ کو پڑھو جو سورۃ فاتحہ ہے جس کے بغیر نما زبھی نہیں ہوسکتی.دیکھو! اس میں کیا تعلیم دی ہےاِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ(الفاتـحۃ : ۶، ۷) اب صاف ظاہر ہے کہ اس دعا میں مغضوب اور ضالّین کی راہ سے بچنے کی دعا ہے.مغضوب سے بالاتفاق یہودی مراد ہیں اور ضالّین سے عیسائی.اگر اس امت میں یہ فتنہ اور فساد پیدا نہ ہونے والا تھا تو پھر اس دعا کی تعلیم کی کیا غرض تھی؟ سب سے بڑا فتنہ تو اَلدَّجَّال کا تھا مگر یہ نہیں کہا وَلَا الدَّجَّالِ کیا خدا تعالیٰ کو اس فتنہ کی خبر نہ تھی؟اصل یہ ہے کہ یہ دعا بڑی پیشگوئی اپنے اندر رکھتی ہے.ایک وقت امت پر ایسا آنے والا تھا کہ یہودیت کا رنگ اس میں آجاوے گا.اور یہودی وہ قوم تھی جس نے حضرت مسیحؑ کا انکار کیا تھا پس یہاں جو فرمایا کہ یہودیوں سے بچنے کی دعا کرو اس کا یہی مطلب ہے کہ تم بھی یہودی نہ بن جانا یعنی مسیح موعود کا انکار نہ کر بیٹھنا اور ضالّین یعنی نصاریٰ کی راہ سے بچنے کی دعا جو تعلیم کی تو اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت صلیبی فتنہ خطرناک ہو گا اور یہی سب فتنوں کی جڑ اور ماں ہوگا.دجال کا فتنہ اس سے الگ نہ ہوگا ورنہ اگر الگ ہوتا تو ضرور تھا کہ اس کا بھی نام لیا جاتا.اب سارے گرجوں میں جاکر دیکھو کہ کیا یہ فتنہ خطرناک ہے یا نہیں؟ اسی طرح قرآن شریف کو غور سے پڑھو اور سوچو کہ کیا اس نے یہ وعدہ نہیں کیا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الـحجر : ۱۰) اور پھر آیت استخلاف میں ایک خاتم الخلفاء کا وعدہ دیا گیا ان سب امور کو یکجائی نظر سے اس طرح پر دیکھو! اوّل.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم نے توریت کی پیشگوئی کے موافق مثیل موسیٰ تسلیم

Page 270

کیا ہے.اس مماثلت کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ جس طرح پر موسوی خلفاء کا سلسلہ قائم ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی ایک سلسلہ خلافت قائم ہو.اگر اور کوئی بھی دلیل اس کے لئے نہ ہو تب بھی یہ مماثلت بالطبع چاہتی ہے کہ ایک سلسلہ خلفاء کا ہو.دوم.آیت استخلاف میں اﷲ تعالیٰ نے صاف طور پر ایک سلسلہ خلافت قائم کرنے کا وعدہ فرمایا اور اس سلسلہ کو پہلے سلسلہ خلافت کے ہمرنگ قرار دیا جیسا فرمایا كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ (النّور : ۵۶).اب اس وعدہ استخلاف کے موافق اور اس کی مماثلت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ جیسے موسوی سلسلہ خلافت کا خاتم الخلفاء مسیح تھا ضرور ہے کہ سلسلہ محمدیہ کے خلفاء کا خاتم بھی ایک مسیح ہی ہو.سوم.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ.اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ تم میں سے تمہارا امام ہوگا.چہارم.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدّد تجدید دین کے لئے بھیجا جاتا ہے اب اس صدی کا مجدّد ہونا ضروری تھا اور مجدّد کا جو کام ہوتا ہے وہ اصلاح فسادات موجودہ ہوتی ہے پس جو فساد اور فتنہ اس وقت سب سے بڑھ کر ہے وہ عیسائی فتنہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس صدی کا جو مجدّد ہو وہ کاسرالصلیب ہو.جس کا دوسرا نام مسیح موعود ہے.پنجم.موسوی خلافت کی مماثلت کے لحاظ سے بھی خاتم الخلفاء سلسلہ محمدیہ کا چودھویں ہی صدی میں ہونا ضروری ہے کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی میں مسیح علیہ السلام آئے تھے.ششم.جو علامات مسیح موعود کی مقرر تھیں ان میں سے بہت سی پوری ہو چکیں جیسے کسوف خسوف کا رمضان میں ہونا جو دو مرتبہ ہو گیا.حج کا بند ہونا.ذوالسنین ستارہ کا نکلنا.طاعون کا پھوٹنا.ریلوں کا اجرا.اونٹوں کا بیکار ہونا وغیرہ.ہفتم.سورہ فاتحہ کی دعا سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ آنے والا اس امت میں سے ہوگا.غرض ایک دو نہیں صدہا دلائل اس امر پر ہیں کہ آنے والا اسی امت میں سے آنا چاہیے اور اس کا یہی وقت ہے.اب خدا تعالیٰ کے الہام اور وحی سے میں کہتا ہوں کہ وہ جو آنے والا تھا وہ مَیں ہوں.قدیم

Page 271

سے خدا تعالیٰ نے منہاج نبوت پر جو طریق ثبوت کا رکھا ہوا ہے وہ مجھ سے جس کا جی چاہے لے لے.نشاناتِ صداقت جو نشانات میری تائید میں ظاہر ہوئے ہیں ان کو دیکھ لو.مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں ان مخالفوں کی حالت پر نظر کرتا ہوں کہ جن امور کو بطور نشان پیش کیا کرتے تھے اب وہ جب پورے ہو گئے تو ان کی صحت پر اعتراض کرنے لگے مثلاً کسوف خسوف والی پیشگوئی کو اب کہتے ہیں یہ حدیث صحیح نہیں.مگر کوئی ان سے پوچھے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے صحیح ثابت کر دیاکیا اب وہ ان کے کہنے سے جھوٹی ہو جائے گی؟افسوس تو یہ ہے کہ اتنا کہتے ہوئے ان کو شرم نہیں آتی کہ اس سے ہم مسیح موعود کی تکذیب نہیں کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کر رہے ہیں میری تصدیق اور تائید کے لئے ایک کسوف خسوف ہی نہیں ہزار ہا دلائل اور شواہد ہیں اور اگر ایک نہ بھی ہو تو کچھ بگڑتا نہیں مگر اس سے یہ تو پایا جائے گا کہ یہ پیشگوئی غلط ہوئی.افسوس یہ لوگ میری مخالفت میںسید الصادقین کی پیشگوئی کو باطل کرنا چاہتے ہیں.ہم ا س پیشگوئی کو بڑے زور سے پیش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے آقا کی صداقت کا نشان ہے.پس حدیث جس کو تم ظن کی سیاہی سے لکھتے تھے واقعہ نے اس کی صداقت کو یقین تک پہنچا دیا اب اس سے انکار کرنا بے ایمانی اور لعنت ہے.موضوع احادیث میں کیا محدّث یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے چور پکڑ لیا ہے؟ نہیں بلکہ یہی کہیں گے کہ کسی کا حافظہ درست نہیں یا راست باز ہونے میں کلام ہے مگر محدّثین نے یہ اصول تسلیم کر لیا ہے کہ ایک حدیث اگر ضعیف بھی ہو مگر اس کی پیشگوئی پوری ہو جاوے تو وہ صحیح ہوتی ہے پھر ا س معیار پر کیونکر کوئی یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں.پس یاد رکھو کہ آنے والا یا تو نصوص صریحہ سے پَرکھا جاتا ہے وہ اس کی تائید کرتی ہیں اور پھر عقل چونکہ بدوں نظیر نہیں مان سکتی عقلی نظائر اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر خدا کی تائیدیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں.اگر کسی کو کوئی شک وشبہ ہو تو وہ میرے سامنے آئے اور ان طریقوں سے جو منہاج نبوت پر ہیں میری سچائی کا ثبوت مجھ سے لے.میں اگر جھوٹا ہوں گا تو بھاگ جائوں گا مگر نہیں.اﷲ تعالیٰ نے انیس برس پہلے مجھے کہا یَنْصُـرُکَ اللہُ فِیْ مَوَاطِنَ.

Page 272

پس جس طرح نبیوں یا رسولوں کو پرکھا گیا مجھے پَرکھ لو اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس معیار پر مجھے صادق پاؤ گے.یہ باتیں میں نے مختصر طور پر کہی ہیں ان پر غور کرو اور خدا سے دعائیں کرو وہ قادر ہے کوئی راہ کھول دے گا اس کی تائید اور نصرت صادق ہی کو ملتی ہے.فقط ۱ نواب محمد علی خان صاحب کے ایک سوال کے جواب میں تقریر جب حضرت صاحبزادہ بشیر احمد، شریف احمداور مبارکہ بیگم کی آمین ہوئی اس وقت جیسا کہ حضرت حجۃاﷲ کا معمول ہے کہ خدا تعالیٰ کے انعام و عطا یا پر شکر یہ کے طور پر صدقات دیتے ہیں آپ نے شکریہ کے طور پر ایک دعوت دی اس پر حضرت نواب صاحب قبلہ نے ایک سوال کیا کہ حضور یہ آمین جو ہوئی ہے یہ کوئی رسم ہے یا کیا ہے؟ اس کے جواب میں حضرت حجۃاﷲ علیہ الصلوٰۃوالسلام نے جو کچھ فرمایا وہ ہم یہاں درج کرتے ہیں.شُبہ کا ازالہ کروانا صفائی قلب کا نشان ہے فرمایا.جو امر یہاں پیدا ہوتا ہے اس پر اگر غور کیا جاوے اور نیک نیتی اور تقویٰ کے پہلوئوں کو ملحوظ رکھ کر سوچا جاوے تو اس سے ایک علم پیدا ہوتا ہے.میں اس کو آپ کی صفائی قلب اور نیک نیتی کا نشان سمجھتا ہوں کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے اس کو پوچھ لیتے ہیں.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے دل میں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اس کو نکالتے نہیں اور پوچھتے نہیں جس سے وہ اندر ہی اندر نشوونما پاتا رہتا ہے اور پھر اپنے شکوک اور شبہات کے انڈے بچے دے دیتا ہے اور روح کو تباہ کر دیتا ہے ایسی کمزوری نفاق تک پہنچادیتی ہے کہ جب کوئی امر سمجھ میں نہ آوے تو اسے پوچھا نہ جاوے اور خود ہی ایک رائے قائم کر لی جاوے.میں اس کو داخل ادب نہیں کرتا کہ انسان اپنی روح کو ہلاک کرلے.ہاں یہ سچ ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر سوال کرنا بھی مناسب نہیں اس سے منع فرمایا

Page 273

گیا ہے لَا تَسْـَٔلُوْا عَنْ اَشْيَآءَ ( المائدۃ : ۱۰۲) اور ایسا ہی اس سے بھی منع کیا گیا ہے کہ آدمی جاسوسی کرکے دوسروں کی برائیاں نکالتا رہے یہ دونوں طریق بُرے ہیں لیکن اگر کوئی امر اہم دل میں کھٹکے تو اسے ضرور پیش کرکے پوچھ لینا چاہیے یہ ایسی ہی بات ہے کہ اگر کوئی شخص خراب غذا کھالے اور وہ پیٹ میں جا کر خرابی پیدا کرے اور اس سے جی متلانے لگے تو چاہیے کہ فوراً قَے کرکے اس کو نکال دیا جائے لیکن اگر وہ اس کو نکالتا نہیں تو پھر وہ آلات ہضم میں فتور پیدا کرکے صحت کو بگاڑدے گی جیسے ایسی غذا کو فوراً نکالنا چاہیے جو بات دل میں کھٹکے اسے جلد باہر نکال دو.غرض میں اس کو آپ کی سعادت کی نشانی سمجھتا ہوں کہ آپ جو بات سمجھ میں نہ آوے اسے پوچھ لیتے ہیں اور اس کو اعتراض بن جانے کا موقع نہیں دیتے.بخاری کی پہلی حدیث یہ ہے اِنَّـمَاالْاَعْـمَالُ بِالنِّیَّاتِ اعمال نیت ہی پر منحصر ہیں صحت نیت کے ساتھ کوئی جرم بھی جرم نہیں رہتا.قانون کو دیکھو اس میں بھی نیت کو ضروری سمجھا ہے مثلاً ایک باپ اگر اپنے بچے کو تنبیہ کرتا ہو کہ تو مدرسہ جا کر پڑھ اور اتفاق سے کسی ایسی جگہ چوٹ لگ جاوے کہ وہ بچہ مَرجاوے تو دیکھا جاوے گا کہ یہ قتل عمد مستلزم السزا نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ اس کی نیت بچے کو قتل کرنے کی نہ تھی تو ہر ایک کام میں نیت پر بہت بڑا انحصار ہے اسلام میں یہ مسئلہ بہت سے امور کو حل کر دیتا ہے.پس اگر نیک نیتی کے ساتھ محض خدا کے لئے کوئی کام کیا جاوے اور دنیا داروں کی نظر میں وہ کچھ ہی ہو تو اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے.تحدیثِ نعمت کے آداب یاد رکھو کہ انسان کو چاہیے کہ ہر وقت اور ہر حالت میں دعا کا طالب رہے اور دوسرے اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (الضحٰی : ۱۲) پر عمل کرے.خدا تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی تحدیث کرنی چاہیے اس سے خدا تعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے اور اس کی اطاعت اورفرماں برداری کےلئے ایک جوش پیدا ہوتا ہے.تحدیث کے یہی معنے نہیں ہیں کہ انسان صرف زبان سے ذکر کرتا رہے بلکہ جسم پر بھی اس کا اثر ہونا چاہیے مثلاً ایک شخص کو اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی ہے کہ وہ عمدہ کپڑے پہن سکتا ہے لیکن وہ ہمیشہ میلے کچیلے کپڑے پہنتا ہے

Page 274

اس خیال سے کہ وہ واجب الرحم سمجھا جاوے یا اس کی آسودہ حالی کا حال کسی پر ظاہر نہ ہو ایسا شخص گناہ کرتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم کو چھپانا چاہتا ہے اور نفاق سے کام لیتا ہے دھوکہ دیتا ہے اور مغالطہ میں ڈالنا چاہتا ہے یہ مومن کی شان سے بعید ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مذہب مشترک تھا.آپ کو جو ملتا تھا پہن لیتے تھے اعراض نہ کرتے تھے جو کپڑا پیش کیا جاوے اسے قبول کرلیتے تھے لیکن آپ کے بعد بعض لوگوں نے اسی میں تواضع دیکھی کہ رہبانیت کی جزو ملادی.بعض درویشوں کو دیکھا گیا ہے کہ گوشت میں خاک ڈال کر کھاتے تھے.ایک درویش کے پاس کوئی شخص گیا اس نے کہا کہ اس کو کھانا کھلا دو اس شخص نے اصرار کیا کہ میں تو آپ کے ساتھ ہی کھائوں گا آخر جب وہ اس درویش کے ساتھ کھانے بیٹھا تو اس کے لئے نیم کے گولے طیار کرکے آگے رکھے گئے اس قسم کے امور بعض لوگ اختیار کرتے ہیں اور غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو اپنے باکمال ہونے کا یقین دلائیں مگر اسلام ایسی باتوں کو کمال میں داخل نہیں کرتا.اسلام کا کمال تو تقویٰ ہے کہ جس سے ولایت ملتی ہے جس سے فرشتے کلام کرتے ہیں خدا تعالیٰ بشارتیں دیتا ہے ہم اس قسم کی تعلیم نہیں دیتے کیونکہ اسلام کی تعلیم کے منشا کے خلاف ہے قرآن شریف تو كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ (المؤمنون : ۵۲) کی تعلیم د ے اور یہ لوگ طیب عمدہ چیز میں خاک ڈال کر غیر طیب بنا دیں.اس قسم کے مذاہب اسلام کے بہت عرصہ بعد پیدا ہوئے ہیں یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اضافہ کرتے ہیں ان کو اسلام سے اور قرآن کریم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یہ خود اپنی شریعت الگ قائم کرتے ہیں.میں اس کو سخت حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ہمارے لئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اسوہ حسنہ ہیں ہماری بھلائی اور خوبی یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو آپؐکے نقش قدم پر چلیں اور اس کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائیں.عورتوں سے حُسنِ معاشرت اسی طرح پر عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جادۂ مستقیم سے بہک گئے ہیں قرآن شریف میں لکھا ہے کہ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ( النساء : ۲۰)مگر اب اس کے خلاف

Page 275

عمل ہو رہا ہے.دو قسم کے لوگ اس کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں ایک گروہ تو ایسا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو بالکل خلیع الرسن کر دیا ہے کہ دین کا کوئی اثر ہی ان پر نہیں ہوتا اور وہ کھلے طور پراسلام کے خلاف کرتی ہیں اور کوئی ان سے نہیں پوچھتا اور بعض ایسے ہیں کہ انہوں نے خلیع الرسن تو نہیں کیا مگر اس کے بالمقابل ایسی سختی اور پابندی کی ہے کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں کیا جا سکتا اور کنیزکوں اور بہائم سے بھی بدتر ان سے سلوک ہوتا ہے.مارتے ہیں تو ایسے بے درد ہو کر کہ کچھ پتہ ہی نہیں کہ آگے کوئی جاندار ہستی ہے یا نہیں.غرض بہت ہی بری طرح سلوک کرتے ہیں یہاں تک کہ پنجاب میں مثل مشہور ہے کہ عورت کو پائوں کی جوتی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں کہ ایک اتاردی دوسری پہن لی.یہ بڑی خطرناک بات ہے اور اسلام کے شعائر کے خلاف ہے.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں.آپ کی زندگی میں دیکھو کہ آپ عورتوں کے ساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو مطالعہ کرو تا تمہیں معلوم ہو کہ آپؐایسے خلیق تھے باوجود یکہ آپ بڑے بارعب تھے لیکن اگر کوئی ضعیفہ عورت بھی آپ کو کھڑا کرتی تو آپ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اجازت نہ دے.اپنے سودے خود خرید لایا کرتے تھے.ایک بار آپؐ نے کچھ خریدنا تھا ایک صحابی نے عرض کی کہ حضور مجھے دے دیں آپ نے فرمایا کہ جس کی چیز ہو اس کو ہی اٹھانی چاہیے اس سے یہ نہیں نکالنا چاہیے کہ آپ لکڑیوں کا گٹھا بھی اٹھا کر لایا کرتے تھے غرض ان واقعات سے یہ ہے کہ آپ کی سادگی اور اعلیٰ درجہ کی بے تکلفی کا پتہ لگتا ہے آپؐپاپیادہ بھی چلا کرتے تھے اس وقت یہ کوئی تمیز نہ ہوتی تھی کہ کوئی آگے ہے یا پیچھے.جیسا کہ آج کل وضعدار لوگوں میں پایا جاتا ہے کہ کوئی آگے نہ ہونے پاوے یہاں تک سادگی تھی کہ بعض اوقات لوگ تمیز نہیں کرسکتے تھے کہ ان میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی داڑھی سفید تھی لوگوں نے یہی سمجھا کہ آپ ہی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن جب حضرت ابو بکر نے اٹھ کر

Page 276

کوئی خادمانہ کام کیا اور اس طرح پر سمجھا دیا کہ آپ پیغمبرؐ ہیں تب معلوم ہوا.۱ بعض وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑے بھی ہیں ایک مرتبہ آپ آگے نکل گئے اور دوسری مرتبہ خود نرم ہوگئے تاکہ عائشہ رضی اللہ عنہا آگے نکل جائیں اور وہ آگے نکل گئیں اسی طرح پر یہ بھی ثابت ہے کہ ایک بار کچھ حبشی آئے جو تماشہ کرتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کا تماشہ دکھایا اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب آئے تو وہ حبشی ان کو دیکھ کر بھاگ گئے.غرض جب انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو غور سے مطالعہ کرتا ہے تو اسے بہت کچھ پتہ ملتا ہے لیکن بعض احمق کورباطن ایسے بھی ہیں جو آپ کی زندگی پر تدبّر تو کرتے نہیں اور اعتراض کرنے کے لئے زبان کھولتے ہیں یہ حال عیسائیوں اور آریوں کا ہے.سنّت اور بدعت میں فرق غرض اس وقت لوگوں نے سنّت اور بدعت میں سخت غلطی کھائی ہوئی ہے اور ان کو ایک خطرناک دھوکہ لگا ہوا ہے وہ سنّت اور بدعت میں کوئی تمیز نہیں کرسکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ کر خود اپنی مرضی کے موافق بہت سی راہیں خود ایجاد کر لی ہیں اور ان کو اپنی زندگی کے لئے کافی راہنما سمجھتے ہیں حالانکہ وہ ان کو گمراہ (۱ ایڈیٹر.حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سادگی بعینہٖ اس قسم کی ہے.آپ سیر کو نکلتے ہیں تو کوئی تمیز نہیں ہوتی کہ کوئی آگے نہ بڑھے بلکہ بسا اوقات جلیل القدر اصحاب کو خیال پیدا ہوتا ہے کہ خاک اڑتی ہے اور حضرت اقدس پیچھے ہیں مگر حضرت حجۃ اللہ نے کبھی اس قسم کا خیال بھی نہیں فرمایا.اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پیچھے سے لوگ چلے آتے ہیں اور اعلیٰ حضرت کو ٹھوکر لگ گئی ہے یا جوتی نکل گئی ہے یا چھڑی گر گئی ہے مگر کبھی کسی نے نہیں دیکھا یا سنا ہوگا کہ آپ نے کوئی ملال ظاہر کیا ہو یا کسی خاص وضع کو پسند کیا ہو.مسجد میں بہت مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ آپ صحابہ کے زمرہ میں بیٹھے ہیں اور کوئی اجنبی آیا ہے تو اس نے بڑھ کر مولانا مولوی عبد الکریم صاحب یا حضرت حکیم الامت سے اوّل مصافحہ کیا اور حضرت مسیح آپ کو سمجھا تو ان بزرگوں نے زبان سے بتایا کہ حضرت صاحب یہ ہیں.غرض شانِ محمدیؐکا سارا نمونہ آپ میں نظر آتا ہے جس کو شک ہو وہ یہاں آکر اور رہ کر دیکھ لے.)

Page 277

کرنے والی چیزیں ہیں جب آدمی سنّت اور بدعت میں تمیز کرلے اور سنّت پر قدم مارے تو وہ خطرات سے بچ سکتا ہے لیکن جو فرق نہیں کرتا اور سنّت کو بدعت کے ساتھ ملاتا ہے اس کا انجام اچھا نہیں ہوسکتا.اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ قرآن شریف میں بیان فرمایا ہے وہ بالکل واضح اور بیّن ہے اور پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے کر کے دکھادیا ہے آپؐکی زندگی کامل نمونہ ہے لیکن باوجود اس کے ایک حصہ اجتہاد کا بھی ہے جہاں انسان واضح طور پر قرآن شریف یا سنّت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی کمزوری کی وجہ سے کوئی بات نہ پاسکے تو اس کو اجتہاد سے کام لینا چاہیے مثلاً شادیوں میں جو بھاجی دی جاتی ہے اگر اس کی غرض صرف یہی ہے کہ تا دوسروں کو پھر اپنی شیخی اور بڑائی کا اظہار کیا جاوے تو یہ ریاکاری اور تکبر کے لئے ہوگی اس لئے حرام ہے.لیکن اگر کوئی شخص محض اسی نیت سے کہ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ( الضُّحٰی : ۱۲ ) کا عملی اظہار کرے اور مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ ( البقرۃ: ۴ ) پر عمل کرنے کے لئے دوسرے لوگوں سے سلوک کرنے کے لئے دے تو یہ حرام نہیں.پس جب کوئی شخص اس نیت سے تقریب پیدا کرتا ہے اور اس میں معاوضہ ملحوظ نہیں ہوتا بلکہ اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا غرض ہوتی ہے تو پھر وہ ایک سو نہیں خواہ ایک لاکھ کو کھانا دے منع نہیں.اصل مدار نیت پر ہے نیت اگر خراب اور فاسد ہو تو وہ ایک جائز اور حلال فعل کو بھی حرام بنا دیتی ہے.ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک بزرگ نے دعوت کی اور اس نے چالیس چراغ روشن کئے بعض آدمیوں نے کہا کہ اس قدر اسراف نہیں چاہیے اس نے کہا کہ جو چراغ میں نے ریاکاری سے کیا ہے اسے بجھا دو کوشش کی گئی ایک بھی نہ بجھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی فعل ہوتا ہے اور دو آدمی اس کو کرتے ہیں ایک اس فعل کو کرنے میں مرتکب معاصی کا ہوتا ہے اور دوسرا ثواب کا اور یہ فرق نیتوں کے اختلاف سے پیدا ہو جاتا ہے.لکھا ہے کہ بدر کی لڑائی میں ایک شخص مسلمانوں کی طرف سے نکلا جو اکڑ اکڑ کر چلتا تھا اور صاف ظاہر ہے کہ اس سے اﷲ تعالیٰ نے منع کیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا تو فرمایا کہ یہ وضع خداوند تعالیٰ کی نگاہ میں معیوب ہے مگراس وقت محبوب ہے کیونکہ اس وقت اسلام کی شان اور شوکت کا اظہار اور فریق مخالف پر ایک رعب پیدا ہو پس ایسی بہت سی مثالیں اور

Page 278

نظیریں ملیں گی جن سے آخر کار جا کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اِنَّـمَا الْاَعْـمَالُ بِالنِّیَّاتِ بالکل صحیح ہے.اسی طرح پر میں ہمیشہ اس فکر میں رہتا ہوں اور سوچتا رہتا ہوں کہ کوئی راہ ایسی نکلے جس سے اﷲ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا اظہار ہو اور لوگوں کو اس پر ایمان پیدا ہو.ایسا ایمان جو گناہ سے بچاتا ہے اور نیکیوں کے قریب کرتا ہے.آمین کی تقریب اورمیں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے مجھ پر لا انتہا فضل اور انعام ہیں ان کی تحدیث مجھ پر فرض ہے پس میں جب کوئی کام کرتا ہوں تو میری غرض اور نیت اﷲ تعالیٰ کے جلال کا اظہار ہوتی ہے ایسا ہی اس آمین کی تقریب پر بھی ہوا ہے.یہ لڑکے چونکہ اﷲ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کا زندہ نمونہ ہیں اس لئے میں اﷲ تعالیٰ کے ان نشانوں کی قدر کرنی فرض سمجھتا ہوں کیونکہ یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور قرآن کریم کی حقانیت اور خود اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت ہیں.اس وقت جب انہوں نے اﷲ تعالیٰ کے کلام کو پڑھ لیا تو مجھے کہا گیا کہ اس تقریب پر چند دعائیہ شعر جن میں اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم کا شکریہ بھی ہو لکھ دوں.میں جیسا کہ ابھی کہا ہے کہ اصلاح کی فکر میں رہتا ہوں میں نے اس تقریب کو بہت ہی مبارک سمجھا اور میں نے مناسب جانا کہ اس طرح پر تبلیغ کر دوں.۱ ہر کام میں نیت تقویٰ کی ہونی چاہیے پس یہ میری نیت اور غرض تھی.چنانچہ جب میں نے اس کو شروع کیا اور یہ مصرعہ لکھا ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے تو دوسرا مصرعہ الہام ہوا اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے جس سے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ بھی میرے اس فعل سے راضی ہوا ہے قرآن شریف تقویٰ ہی کی تعلیم دیتا ہے اور یہی اس کی علّتِ غائی ہے اگر انسان تقویٰ اختیار نہ کرے تو اس کی نمازیں بھی

Page 279

بے فائدہ اور دوزخ کی کلید ہو سکتی ہیں چنانچہ اس کی طرف اشارہ کر کے سعدی کہتا ہے.؎ کلید در دوزخ است آں نماز کہ در چشم مردم گزاری دراز ریاء الناس کے لئے خواہ کوئی کام بھی کیا جاوے اور اس میں کتنی ہی نیکی ہو لیکن وہ بالکل بے سود اور اُلٹا عذاب کا موجب ہو جاتا ہے.احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ ہمارے زمانے کے فقراء خدا تعالیٰ کے لئے عبادت کرنا ظاہر کرتے ہیں مگر دراصل وہ خدا کے لئے نہیں کرتے بلکہ مخلوق کے واسطے کرتے ہیں انہوں نے عجیب عجیب حالات ان لوگوں کے لکھے ہیں وہ بیان کرتے ہیں.ان کے لباس کے متعلق لکھا ہے کہ اگر وہ سفید کپڑے پہنتےہیں تو سمجھتے ہیںکہ عزّت میں فرق آئے گا اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر میلے رکھیں گے تو عزّت میں فرق آئے گا اس لئے امراء میں داخل ہونے کے واسطے یہ تجویز کرتے ہیں کہ اعلیٰ درجہ کے کپڑے پہنیں مگر ان کو رنگ لیتے ہیں اور ایسا ہی اپنی عبادتوں کو ظاہر کرنے کے لئے عجیب عجیب راہیں اختیار کرتے ہیں مثلاً روزہ کے ظاہر کرنے کے واسطے جب وہ کسی کے ہاں کھانے کے وقت پر پہنچتے ہیں اور وہ کھانے کے لئے اصرار کرتے ہیںتو یہ کہتے ہیں کہ آپ کھائیے میں نہیں کھائوں گا مجھے کچھ عذر ہے اس فقرہ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ مجھے روزہ ہے.اس طرح پر حالات ان کے لکھے ہیں پس دنیا کی خاطر اور اپنی عزّت و شہرت کے لئے کوئی کام کرنا خدا تعالیٰ کی رضا مندی کا موجب نہیں ہوسکتا.اس زمانہ میں بھی دنیا کی ایسی ہی حالت ہو رہی ہے کہ ہر ایک چیز اپنے اعتدال سے گر گئی ہے عبادات اور صدقات سب کچھ ریاکاری کے واسطے ہو رہے ہیں اعمال صالحہ کی جگہ چند رسوم نے لے لی ہے اس لئے رسوم کے توڑنے سے یہی غرض ہوتی ہے کہ کوئی فعل یا قول قال اﷲ اور قال الرسول کے خلاف اگر ہو تو اسے توڑا جائے جبکہ ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور ہمارے سب اقوال و افعال اﷲ تعالیٰ کے نیچے ہونے ضروری ہیں پر ہم دنیا کی پروا کیوں کریں؟ جو فعل اﷲ تعالیٰ کی رضا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو اس کو دور کر دیا جاوے اور چھوڑا جاوے.جو حدود الٰہی اور وصایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہوں ان پر عمل کیا جاوے کہ احیاء سنّت اسی کا

Page 280

نام ہے.اور جو امور وصایا آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم یا اﷲ تعالیٰ کے احکام کے خلاف نہ ہوں اور نہ ان میں ریا کاری مدّ نظر ہو بلکہ بطور اظہارشکر و تحدیث بالنعمۃ ہوں تو اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے.ہمارے علماء تو یہاں تک بعض اوقات مبالغہ کرتے ہیں کہ میں نے سنا ہے ایک مولوی نے ریل کی سواری کے خلاف فتویٰ دیا اور ڈاکخانہ میں خط ڈالنا بھی وہ گناہ بتا تاتھا.اب یہاں تک جن لوگوں کی حالت پہنچ جاوے ان کے پاگل یا نیم پاگل ہونے میں کیا شک باقی رہا؟ یہ حماقت ہے.دیکھنا یہ چاہیے کہ میرا فلاں فعل اﷲ تعالیٰ کے فرمودہ کے موافق ہے یا خلاف ہے اور جو کچھ میں کر رہا ہوں یہ کوئی بدعت تو نہیں اور اس سے شرک تو لازم نہیں آتا اگر ان امور میں سے کوئی بات نہ ہو اور فساد ایمان پیدا نہ ہو تو پھر اس کے کرنے میں کوئی حرج نہیں اِنَّـمَا الْاَعْـمَالُ بِالنِّیَّاتِ کا لحاظ رکھ لے.میں نے بعض مولویوںکی نسبت ایسا بھی سنا ہے کہ صرف ونحو وغیرہ علوم کے پڑھنے سے بھی منع کرتے ہیں اور اس کو بدعت قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یہ علوم نہ تھے یہ پیچھے سے نکلے ہیں اور ایسا ہی بعض نے توپ یا بندوق کے ساتھ لڑنا بھی گناہ قرار دیا ہے.ایسے لوگوں کے احمق ہونے میں شک کرنا بھی غلطی ہے قرآن شریف تو فرماتا ہے کہ جیسی طیاری وہ کریں تم بھی ویسی ہی طیاری کرو.یہ مسائل دراصل اجتہادی مسائل ہیں اور ان میں نیت کا بہت بڑا دخل ہے غرض ہمارا یہ فعل اﷲ تعالیٰ جانتا ہے محض اس کی شکر گزاری کے اظہار کے لئے ہے.ہمیشہ حُسنِ ظنّ سے کام لیناچاہیے بعض اوقات ایسابھی ہوتاہے کہ یہاں کوئی کام ہوتا ہے اور جو لوگ حُسنِ ظنّ سے کام نہیں لیتے یا اسرارِ شریعت سے ناواقف ہوتے ہیں بعض وقت ان کو ابتلا آجاتا ہے اور وہ کچھ کا کچھ سمجھ لیتے ہیں.کبھی ایسا ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کہانیاںسنارہے ہیں اس وقت اگر کوئی نادان اور نااہل آپ کو دیکھے اور آپ کے اغراض کو مدّ ِنظر نہ رکھے تو اس نے ٹھوکر ہی کھانی ہے.یا ایک مرتبہ آپؐحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے اور دوسری بیوی نے آپ کے لیے شورے کا پیالہ بھیجا تو حضرت عائشہ ؓنے اس پیالے کو گراکر پھوڑ دیا اب ایک ناواقف حضرت عائشہ کے اس فعل پر

Page 281

اعتراض کرنے کی جرأ ت کر تا ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دوسر ے افعال پر نظر نہیں کرتا.ایسے امور پیش آتے ہیں جو دوسرے علم نہ رکھنے کی وجہ سے ان پر اعتراض کر بیٹھتے ہیں.اعتراض سے پہلے انسان کو چاہیے کہ حُسنِ ظن سے کام لے اور چند روز تک صبر سے دیکھے پھر خودبخود حقیقت کھل جاتی ہے.کچھ عرصہ کا ذکر ہے کہ ایک عورت مہمان آئی اور ان دنوں میں کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ چند بیبیوں سے نماز ساقط ہو گئی تھی اس نے کہا کہ یہاںکیا آنا ہے کوئی نماز ہی نہیں پڑھتا حالانکہ وہ معذور تھیں اور عند اللہ ان پر کوئی مواخذہ نہ تھا مگر اس نے بغیر دریافت کئے اور سوچے ایسا لکھ دیا.حضرت امّا ں جان کاعظیم نمونہ تزکیہ دل میں ہوتا ہے.بغیر اس کے کچھ نہیں بنتا حالانکہ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے گھر میں اس قدر التزام نماز کا ہے کہ جب پہلا بشیر پیداہوا تھا.اس کی شکل مبارک سے بہت ملتی تھی.وہ بیمار ہوا اورشدت سے اس کو بخار چڑھاہوا تھا یہاں تک کہ اس کی حالت نازک ہوگئی.اس وقت نماز کا وقت ہو گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نماز پڑھ لوں.ابھی نماز ہی پڑھتے تھے کہ وہ بچہ فوت ہوگیا.نماز سے فارغ ہوکر مجھ سے پوچھا کہ کیا حال ہے؟ میں نے کہا کہ اس کاتو انتقال ہوگیا.اس وقت میں نے دیکھا کہ انہوں نے بڑی شرح صدر کے ساتھ کہا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ(البقرۃ: ۱۵۷).اسی وقت میرے دل میں ڈالا گیا کہ اللہ تعالیٰ ان کو نہیں اٹھائے گا جب تک اسی بچہ کابدلہ نہ دے لے.چنانچہ اس کے فوت ہونے کے قریباً چالیس دن بعد محمود پیداہوا اوراس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بچّے پیداہوئے.نماز کا مغز دُعاہے غرض ظنون فاسدہ والا انسان ناقص الخلقت ہوتا ہے چونکہ اس کے پاس صرف رسمی امور ہوتے ہیں اس لیے نہ ا س کادین درست ہوتا ہے نہ دنیا.ایسے لوگ نمازیں پڑھتے ہیں مگر نماز کے مطالب سے ناآشنا ہوتے ہیں اور ہرگز نہیں سمجھتے کہ کیا کر رہے ہیں نماز میں تو ٹھونگے مارتے ہیں لیکن نماز کے بعد دعامیںگھنٹہ گھنٹہ گزار دیتے ہیں.تعجب کی بات ہے کہ نماز جواصل دعا کے لیے ہے اور جس کا مغز ہی دعا ہے اس میں وہ کوئی دعا نہیں

Page 282

کرتے.نماز کے ارکان بجائے خود دعا کے لئے محرک ہوتے ہیں.حرکت میں برکت ہے.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بیٹھے بیٹھے کوئی مضمون نہیں سوجھتاجب ذرا اٹھ کر پھرنے لگے ہیںتو مضمو ن سوجھ گیا ہے اس طرح پر سب اعمال کا حال ہے اگر ان کی اصلیت کالحاظ اور مغز کا خیا ل نہ ہوتو وہ ایک رسم اور عادت رہ جاتی ہے.اس طرح روزہ میں خدا کے واسطے نفس کو پاک رکھنا ضروری ہے لیکن اگر حقیقت نہ ہوتو پھر یہ رسم ہی رہ جاتی ہے.خدا تعالیٰ کے فضلوں پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے یقیناًیاد رکھوکہ جو خدا تعالیٰ کے فضل پر خو ش نہیںہوتا اور اس کا عملی اظہا ر نہیںکرتاوہ مخلص نہیں ہے.میرے خیال میں اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے فضل پر سال بھر تک گاتا رہے تو وہ سال بھر ماتم کرنے والے سے اچھا ہے.جو امور قال اللہ اورقال الرسول کے خلاف ہوں یا ان میں شرک یا ریا ہو اور ان میں اپنی شیخی دکھائی جاوے وہ امور اثم میں داخل ہیں اور منع ہیں.د ف کے ساتھ شادی کا اعلان کرنا بھی اس لیے ضروری ہے کہ آئندہ اگر جھگڑا ہو تو ایسا اعلان بطور گواہ ہوجاتا ہے ایسا ہی اگر کوئی شخص نسبت اور ناطہ پر شکر وغیرہ اس لیے تقسیم کرتا ہے کہ وہ ناطہ پکا ہو جاوے تو گناہ نہیں ہے لیکن اگر یہ خیال نہ ہو بلکہ اس سے مقصد صرف اپنی شہرت اور شیخی ہو تو پھر یہ جائز نہیں ہوتے.اسی طرح میرے نزدیک باجے کی بھی حلّت ہے.اس میں کوئی امر خلاف شرع نہیں دیکھتے بشر طیکہ نیت میں خلل نہ ہو.نکاحو ں میں بعض وقت جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اور وراثت کے مقدمات ہوجاتے ہیں جب اعلان ہوگیاہواہوتا ہے تو ایسے مقدمات کا انفصال سہل اور آسان ہو جاتا ہے اگر نکاح گم صم ہوگیا اور کسی کو خبر بھی نہ ہوئی تو پھر وہ تعلقات بعض اوقات قانوناً نا جائز سمجھے جاکر اولاد محروم الارث قرار دے دی جاتی ہے ایسے امور صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہیں کیونکہ ان سے شرع کے قضایافیصل ہوتے ہیں.یہ لڑکے جو پیدا ہوتے رہتے ہیں بعض وقت ان کے عقیقہ پر ہم نے دو دو ہزار آدمی کو دعوت دی ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہماری غرض اس سے یہی تھی کہ تا اس پیشگوئی کا جو ہر ایک کے پیدا ہونے سے پہلے کی گئی تھی بخوبی اعلان ہوجاوے.

Page 283

بَد ظنّی بد ظنی سے حبط اعمال ہو جاتا ہے تذکرۃ الاولیا ء میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ میں اپنے آپ کو سب سے بد تر سمجھو ں گا.ایک بار وہ دریا پر گیا تو اس نے دیکھا کہ ایک جوان عو رت ہے اور ایک مرد بھی اس کے ساتھ ہے اور دونوں بڑی خوشی کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں وہاں اس نے دعا کی کہ الٰہی! میں اس شخص سے تو بہتر ہوں کیونکہ اس نے حیا چھو ڑدیا ہے اتنے میں کشتی آئی اور وہ اس میں سوار ہو گئے سات آدمی تھے وہ غرق ہو گئے وہ شخص جس کو اس نے شرابی سمجھا تھا دریا میں کود پڑا اور چھ کو بچا لایا اور ایک باقی رہا تو اس کو مخاطب کر کے کہا کہ تونے ایسا گمان کیا تھا اب ایک باقی ہے اسے نکال لااس وقت اس نے سمجھا کہ یہ تو مجھے ٹھوکر لگی.آخر اس سے اصل معاملہ پوچھا تو اس نے کہا کہ میں تیرے لئے خدا کا مامور ہوں یہ عورت میری والدہ ہے اور جس کو تو شراب کہتا ہے یہ اس دریا کا پانی ہے اور یہاں میں خدا تعالیٰ کے بٹھائے سے بیٹھاہوں.غرض حُسنِ ظن بڑی عمدہ چیز ہے اس کو ہاتھ (سے) نہیں دینا چاہیے اور خدا تعالیٰ کے فضل اور انعام پر اس کاشکر کرنا کبھی ناجائز نہیں ہوسکتا جب تک کہ محض اس کی رضا ہی مطلوب ہو اور دنیا کی شیخی اور نمود غرض نہ ہو.۱ ۳؍ستمبر۱۹۰۱ء ایک رؤیا فرمایا.آج ہم نے رؤیا میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کا دربار ہے اور ایک مجمع ہے اور اس میں تلواروں کا ذکر ہو رہا ہے تو میں نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا کہ سب سے بہتر اور تیز تر وہ تلوار ہے جوتیری تلوار میرے پاس ہے.اس کے بعد ہماری آنکھ کھل گئی اور پھر ہم نہیں سوئے.کیونکہ لکھا ہے کہ جب مبشر خواب دیکھو تو اس کے بعد جہاں تک ہو سکے نہیں سونا چاہیے اور تلوار سے مراد یہی حربہ ہے جو کہ ہم اس وقت اپنے مخالفوں پر چلا رہے ہیں.جو آسمانی حربہ ہے.

Page 284

فلسفی اور نبی فرمایا.فلسفی اور نبی میں یہ فرق ہے کہ فلسفی کہتا ہے کہ خدا ہونا چاہیے نبی کہتا ہے خدا ہے.فلسفی کہتا ہے کہ دلائل ایسے موجود ہیں کہ خدا کا وجود ضرور ہونا چاہیے.نبی کہتا ہے کہ میںنے خود خدا سے کلام کیا ہے اور مجھے اس نے بھیجا ہے اور میں اس کی طرف سے اس کو دیکھ کر آیا ہوں.۱ انبیاء کی کامیابی کا راز نبی بخش بٹالوی کا ذکر آیا ہے کہ اس نے مصلح ہونے کا دعویٰ کیا اور ایک اخبار نکالنے کا ارادہ کیا ہے.اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا.بعض لوگ انبیاء اور مرسلین من اللہ کی کامیابیوں کو دیکھ کر یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید ان لوگوں کی کامیابی بسبب ان کی لفّاظیوں اور قوت بیانیوں اور فصاحتوں اور بلاغتوں کے ہے.آؤ ہم بھی ایسا ہی کریں اور اپنا سلسلہ جمالیں.مگر وہ لوگ غلطی کھاتے ہیں.انبیاء کی کامیابی بسبب اس تعلق کے ہوتی ہے جو ان کا خدا کے ساتھ ہوتا ہے.آدم سے لے کر آج تک کسی کو تقویٰ کے سوا فتح نہیں ہوئی.فتح کی کنجی خدا کے ہاتھ میں ہے.فتح صرف اسی کو ہو سکتی ہے جس کا بحر تقویٰ میں سب سے بڑھ کر ہے.تقویٰ کا پودا قائم ہو جائے تو اس کے ساتھ زمین وآسمان الٹ سکتے ہیں.(ڈائری) فرمایا.مسلمانوں پر افسوس ہے کہ انہوں نے یہ تو مان لیا کہ آخری زمانہ کے یہود بھی مسلمان ہوں گے.پر یہ نہ مانا کہ آخری زمانہ کا مسیح بھی انہیں میں سے ہو گا گویا ان کے نزدیک امت محمدیہ میں صرف شر ہی رہ گیا ہے اور خیر کچھ بھی نہیں.کسی نے ذکر کیا کہ نبی بخش بٹالوی کہتا ہے کہ مولوی عبد الکریم صاحب اپنے خطبوں میں مرزا صاحب کے متعلق بڑا غلو کرتے ہیں اور اسی پر مرزا صاحب نے یہ سمجھ لیا کہ ہمارا درجہ بڑا ہے.فرمایا.براہین احمدیہ کے زمانہ میں مولوی عبدالکریم صاحب کہاں تھے اس میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ اور اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ اور تیرا مخالف جہنم میںگرے گا وغیرہ مولوی عبد الکریم صاحب اس کے مقابل میں کیا

Page 285

کہہ سکتے ہیں جو خدا نے کہا ہے.انبیاء کے کلام میں الفاظ کم ہوتے ہیں اور معانی بہت.فرمایا.جس قدر دعائیں ہماری قبول ہو چکی ہیں وہ پانچ ہزار سے کسی صورت میں کم نہیں.شیطان مسیح موعود ؑ کے ہاتھوں ہلاک ہو گا فرمایا.شیطان نے آدم کو مارنے کا منصوبہ کیا تھا اور اس کااستیصال چاہا تھا.پھر شیطان نے خدا سے مہلت چاہی اور اس کو مہلت دی گئی اِلٰى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ (الـحجر:۳۹) بسبب اس مہلت کے کسی نبی نے اس کو قتل نہ کیا.اس کے قتل کا وقت ایک ہی مقرر تھا کہ وہ مسیح موعود کے ہاتھ سے قتل ہو.اب تک وہ ڈاکؤوں کی طرح پھرتا رہا لیکن اب اس کی ہلاکت کا وقت آگیا ہے.اب تک اخیار کی قلت اور اشرار کی کثرت تھی لیکن شیطان ہلاک ہو گا اور اخیار کی کثرت ہو گی اور اشرار چوڑھے چماروں کی طرح ذلیل بطور نمونہ کے رہ جائیں گے.اعمال کی دو قسمیں فرمایا.اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جو بہشت و دوزخ کی امید وبیم سے ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو طبعی جوش سے ہوتے ہیں.دو باتیں مسلمانوں میں طبعی جوش کے طور پر اب تک موجود ہیں.ایک سؤر کے گوشت کی حرمت.خواہ مسلمان کیسا ہی فاسق ہو سؤر کے گوشت پر ضرور غیرت دکھائے گا اور دوسرے حرمین شریفین کی عزت.یہی وجہ ہے کہ کسی قوم کو یہ جرأت نہیں ہو سکتی کہ حرمین پر ہاتھ ڈالنے کی دلیری کرے.شیطان کا وجود اس بات کا ذکر ہوا کہ نیچری لوگ شیطان کے ہونے کے منکر ہیں.حضرت نے فرمایا.انسان کو اپنی حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے.اَحَقُّ بِالامن وہی لوگ ہیں جو خدا کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی ماہیت وحقیقت کو حوالہ بخدا کرتے ہیں.اب دیکھو چار چیزیں غیر مرئی بیان ہوئی ہیں.خدا، ملائک، ارواح، شیطان.یہ چاروں چیزیں لَا یُدْرَک ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ ان میں سے خدا اور روح کو تو مان لیا جائے اور ملائک اور شیطان کا انکار کیا جائے.اس انکار کا نتیجہ تو رفتہ رفتہ حشر اجساد کا انکار اور الہام کا انکار اور خدا کا انکار ہو گا اور ہوتا ہے.بسا مرتبہ انسان نیکی کا ارادہ

Page 286

کرتا ہے مگر اسے جذبات کہاں کے کہاں لے جاتے ہیں اور باوجود عقل اور سمجھ کے بے اختیار سا ہو کر فسق وفجور میں گرتا ہے.یہ کشاکش کیا ہے.خدا نے انسان کو اس مسافرخانہ میں بڑے بڑے قویٰ کے ساتھ بھیجا ہے.چاہیے کہ یہ ان سب سے کام لے.۱ الحکم کی کسی گزشتہ اشاعت میں اس کھلی چٹھی کاخلاصہ شائع کیا گیا ہے جو امریکہ کے مشہور مفتری الیاس ڈاکٹر ڈوئی کے نام مقابلہ کے لئے لکھی گئی ہے.اس میں حضرت حجۃ اللہ کا ایک یہ فقرہ بھی تھا کہ میں خدا سے ہوں اور مسیح مجھ سے ہے.اس پر ۳؍ ستمبر ۱۹۰۱ء کی شام کو بعد نماز مغرب جب حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے معمول کے موافق مسجد میں تشریف رکھتے تھے جناب میرزا نیاز بیگ صاحب کلانوری نے دریافت کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے.فرمایا.مسیح مجھ سے ہے اس کے یہ معنے ہیں کہ مسیح کی صداقت مجھ سے ثابت ہوئی ہے اور اس لحاظ سے گویا مسیح کا نیا جنم ہوا ہے.۲ ۱۰؍ستمبر۱۹۰۱ء غیروں کے پیچھے نماز سید عبد اللہ صاحب عرب نے سوال کیا کہ میں اپنے ملک عرب میں جاتا ہوں وہاں میں ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں؟ فرمایا.مصدقین کے سوا کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھو.عرب صاحب نے عرض کیا وہ لوگ حضورکے حالات سے واقف نہیں ہیں اور ان کو تبلیغ نہیں ہوئی.فرمایا.ان کو پہلے تبلیغ کر دینا پھر یا وہ مصدّق ہو جائیں گے یا مکذّب.

Page 287

عرب صاحب نے عرض کیا کہ ہمارے ملک کے لوگ بہت سخت ہیں اور ہماری قوم شیعہ ہے.فرمایا.تم خدا کے بنو.اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کا معاملہ صاف ہو جائے اللہ تعالیٰ آپ اس کا متولی اور متکفل ہو جاتا ہے.اب اسلام کا مذہب پھیلے گا فرمایا.آج کل تمام مذاہب کے لوگ جوش میں ہیں.عیسائی کہتے ہیں کہ اب ساری دنیا میں مذہب عیسوی پھیل جائے گا.برہمو کہتے ہیں کہ ساری دنیا میںبرہموں کا مذہب پھیل جائے گا اور آریہ کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب سب پر غالب آجائے گا مگر یہ سب جھوٹ کہتے ہیں.خدا تعالیٰ ان میں کسی کے ساتھ نہیں اب دنیا میں اسلام کا مذہب پھیلے گا اور باقی سب مذاہب اس کے آگے ذلیل اور حقیر ہو جائیں گے.دعا فرمایا.جو بات ہماری سمجھ میں نہ آوے یا کوئی مشکل پیش آوے تو ہمارا طریق یہ ہے کہ ہم تمام فکر کو چھوڑ کر صرف دعا میں اور تضرع میں مصروف ہو جاتے ہیں تب وہ بات حل ہو جاتی ہے.قرآن شریف پر غور کی ضرورت فرمایا.افسوس ہے کہ لوگ جوش اور سرگرمی کے ساتھ قرآن شریف کی طرف توجہ نہیں کرتے جیسا کہ دنیا دار اپنی دنیاداری پر یا ایک شاعر اپنے اشعار پر غور کرتا ہے.ویسا بھی قرآن شریف پر غور نہیں کیا جاتا.بٹالہ میں ایک شاعر تھا.اس کا ایک دیوان ہے.اس نے ایک دفعہ ایک مصرعہ کہا.ع صبا شرمندہ مے گردد بروئے گل نگہ کردن مگر دوسرا مصرعہ اس کو نہ آیا دوسرے مصرعہ کی تلاش میں برابر چھ مہینے سر گردان وحیران پھرتا رہا.بالآخر ایک دن ایک بزاز کی دکان پر کپڑا خریدنے گیا.بزاز نے کئی تھان کپڑوں کے نکالے پر اس کو کوئی پسند نہ آیا.آخر بغیر کچھ خریدنے کے بعد جب اٹھ کھڑا ہوا ،تو بزاز ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے اتنے تھان کھلوائے اور بے فائدہ تکلیف دی.اس پر اس کو دوسرا مصرعہ سوجھ گیا.اور اپنا شعر اس طرح سے پورا کیا.؎ صبا شرمندہ مے گردد بروئے گل نگہ کردن کہ رخت غنچہ را وا کردد نتوانست تہ کردن

Page 288

جس قدر محنت اس نے ایک مصرعہ کے لئے اٹھائی اتنی محنت اب لوگ ایک آیت قرآنی کے سمجھنے کے لئے نہیں اٹھاتے.قرآن جواہرات کی تھیلی ہے اور لوگ اس سے بے خبر ہیں.۱ ۱۲؍ستمبر۱۹۰۱ء مسیح موعود کی سچائی پر زمانہ کی شہادت اسلام کی موجودہ حالت خود بتا رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی سلسلہ ایسا قائم کرے جو اس کو ان مشکلات سے نجات دے.زیرک اور دانش مند انسان کے لئے کیا یہ کافی نہیں ہے کہ جب زمین پر طیاری ہے تو آسمان پر کوئی طیاری نہ ہو گی؟کیا مخالفوں نے اسلام کے نیست ونابود کرنے میں کوئی کمی چھوڑی ہے.پادریوں کی طرف دیکھوکہ انہوں نے کس قدر زور لگایا ہے.ان لوگوں کے ارادے ہیں اور ان کے نزدیک وہ امن جس کو یہ امن قراردیتے ہیں اس وقت قائم ہو سکتا ہے کہ اسلام کا استیصال ہوجاوے.جو شخص قرآن شریف کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کاسچانبی مانتا ہے اسے سمجھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے جو یہ وعدہ کیا تھا کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر:۱۰) کیا وہ اس وقت ان بے جا حملوں کے دفاع اورفرو کرنے کے لئے اس صدی کے سر پر اپنی سنّت قدیمہ کے موافق کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتا؟؟؟ اور پھر قرآن شریف میں جبکہ یہ صاف فرما دیا ہے کہ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا( الم نشـرح :۷) تو کیا ضروری نہ تھا کہ ان تنگیوں کی جن میں آج اسلام مبتلا ہے انتہاہوتی ؟ اور یُسر کی حالت پید اہوتی؟ بے شک ضرورتھا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا.یہ ایسی باتیں ہیں کہ ان پر غور کرنے سے ضروری طور پر سمجھ میں آتا ہے کہ اس مصیبت اور تنگی کے وقت ضرورآسمان پر ایک سامان ہوچکا ہے اور طیاری ہورہی ہے.اور وہ وقت قریب ہے کہ اسلام اپنی اصلی حالت اور صورت میں نمایاں ہو اور مِلَلِ ہَالِکَہ تباہ ہوجائیں.خدا تعالیٰ کی

Page 289

سنّتِ قدیم میں سے یہ امر بھی ہے کہ وہ ظاہر نہیں فرماتا جب تک اس کا وقت نہ آجائے.مگر اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ تخم ریزی ہورہی ہے.اندرونی مصائب کو ہی دیکھو کہ وہ کیا رنگ لارہے ہیں.مسلمانوں میں وحدت نہیں رہی جو کامیابی کا اصل الا ُصول ہے.خوراج، شیعہ الگ ہیں.حنبلی، شافعی، مالکی،حنفی الگ ہیں.صُوفیوں اور مشائخ میں الگ الگ تفرقہ شروع ہے.جیسا کہ چشتی، نقشبندی، سہروردی، قادری وغیرہ فرقوں سے معلوم ہوتا ہے.ہر ایک ان فرقہ والوں میں سے بجائے خود یہ خیال کرتا ہے اور کرتا ہوگاکہ اب اسی کا فرقہ کامیاب ہوجائے گا اور باقی سب کا نام ونشان مٹ جائے گا.حنفی کہتے ہوں گے کہ سب حنفی ہی ہوجائیں گے.رَافضیوں کے نزدیک ابھی رَفض ہی کا زمانہ ہوگا.وجودی کہتے ہوں گے کہ سب وجودی ہی ہوجائیں گے.اصل میں یہ سب جھوٹے ہیں کیونکہ یہ باتیں خدا تعالیٰ سے استمزاج کرکے تو نہیں کی جاتی ہیں بلکہ اپنے ذاتی اور سطحی خیالات ہیں.کوئی شخص خدا تعالیٰ کے ارادہ تک نہیں پہنچا.خدا تعالیٰ کے ارادے وہی ہیں جو قرآن شریف سے ثابت ہیں.جو ظلم اس وقت کتاب اللہ پر اندرونی یا بیرونی طور پر کیا گیا ہے.جوفرقہ اس ظلم کا انتقام لینے والا اور کتاب اللہ کے جلال اور عظمت کو ظاہر کرنے والا ہوگا وہی خدا سے تائید پائے گا اور اسی کی کامیابی خدا کے حضور سے مقدر ہے.جو اس ظلم کی اصلاح کرے گا خواہ اس فرقہ کا کوئی نام ہو.اگر وہ فرقہ دین کے لیے غیرت رکھتا اور کتاب اللہ کی عزّت کے لئے اپنے ننگ و نام کو کھوتا ہے تو اس وقت ایک لذّت اور بصیرت کے ساتھ خودبخود روشن ہوجائے گا کہ یہی خدا تعالیٰ سے مدد یافتہ ہے.جو کچھ اس زمانہ میں پھیلا ہو اہے اس کی بابت کچھ نہ پُوچھیے.بہت سے چور اور ڈاکو مل کر نقب زنی کررہے ہیں اور ایک خطرناک سازش اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور کتاب اللہ کے خلاف کی جاتی ہے مگر یہاں کچھ فکر ہی نہیں.اندرونی مفاسد نے مخالفوں کو موقع دے دیا ہے کہ وہ متاعِ اسلام کے لوٹ لینے میں دلیر ہوجائیں.میری رائے میں اندرونی مفاسد میں سے بہت کچھ حصہ تو علماء کے باعث سے پید اہوا ہے اور کچھ حصہ اُن لوگوں کی غلطیوں کا ہے جو اپنے آپ کو موَحّد کہلاتے ہیں اورا نہوں نے نری خشک

Page 290

لفّاظیوں کا نام اسلام رکھ چھوڑا ہے اور ذرا بھی آگے نہیں بڑھتے.انہوں نے فیصلہ کررکھا ہے جیسا عیسائیوں یا اور باطل پرستوں نے مان رکھا ہے کہ خدا کی طاقتیں پیچھے رہ گئی ہیں اور آگے نہیں ہیں گویا جو کچھ اُن کے ہاتھ میں ہے وہ نرے قصے اور کہانیاں ہی ہیں.جن میں حقیقت کی رُوح اور زندگی کا کوئی نشان باقی نہیں ہے.دُوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ انہوں نے اسلام کا یہ مغز اور خلاصہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ صرف قصّوں کی پیروی کرو اَور کچھ نہیں.جس قدر یہ ظلم اسلام پر کیا گیا ہے اس کی نظیر اپنے رنگ میں بہت ہی کم ملے گی کیونکہ اسلام ہی ایک ایسامذہب تھا اور ہے جو ہر زمانہ میں زندہ مذہب کہلاسکتا ہے کیونکہ اس کے نشانات مُردہ مذاہب کی طرح پیچھے نہیں رہ گئے بلکہ اس کے ساتھ ہر وقت رہتے ہیں.مگر ان خشک موَحّدوں نے اس کو بھی مُردہ مذاہب کے ساتھ ملانے کی کوشش کی جبکہ اُس کے انوار وبرکات کو ایک وقتِ خاص تک محدود کردیا.ابتدا میں جب اس فرقہ نے سرنکالا تو بعض طبیعتِ رسا والے بھی اُن کے پاس آتے تھے مگر یہ کسی کو خیال پیدا نہ ہوا کہ ان کا تھیلا تو پرتال کرکے دیکھے کہ ان کے پاس ہے کیا؟ جب خوب غور اور فکر سے اُن کی تلاشی لی گئی تو آخر یہی نکلا کہ ان کے پاس بجز رفع یدَین یا آمین بالجہر یا سینہ پر ہاتھ باندھنے کے اور ایسی ہی چند جُزئی باتوں کے اور کچھ نہیں.اور وہ اسی پر زور دیتے رہے کہ مثلاً امام کے پیچھے فاتحہ ضرور پڑھنی چاہیے.قطع نظر اس کے کہ اس کے معانی پر اطلاع ہو یا نہ ہو.محمدحسین قریباً بیس برس تک اپنے رسائل میں انہیں مسائل پر زوردیتا رہا لیکن آخر ماحصل یہی نکلا کہ اس پُرگوئی میں کوئی رُوحانیت نہیں ہے اور آخر ان تیز زبانوں کی مُنہ زوری اَئمہ اربعہ کی تحقیر وتذلیل تک منتہیٰ ہوتی ہے.اَ ئمہ اربعہ برکت کا نشان تھے میری رائے میں اَئمہ اربعہ ایک برکت کا نشان تھے اور ان میں رُوحانیت تھی کیونکہ رُوحانیت تقویٰ سے شروع ہوتی ہے اور وہ لوگ درحقیقت متّقی تھے اور خدا سے ڈرتے تھے اور اُن کے دِل کِلَابُ الدُّنْیَا سے مناسبت نہ رکھتے تھے.یاد رکھو یہ تقویٰ بڑی چیز ہے.خوارق کا صدور بھی تقویٰ ہی سے ہوتاہے اور اگرخوارق نہ بھی

Page 291

ہوں پھر بھی تقویٰ سے عظمت ملتی ہے.تقویٰ ایک ایسی دولت ہے کہ اس کے حاصل ہونے سے انسان خدا تعالیٰ کی محبت میں فنا ہوکرنقشِ وجودمٹاسکتا ہے.کمال تقویٰ کا یہی ہے کہ اس کا اپنا وجود ہی نہ رہے اور صیقل زدم آں قدر کہ آئینہ نماند کا مصداق ہوجاوے.اصل میں یہی توحید اور یہی وحدتِ وجود تھی جس میں لوگوں نے غلطیاں کھاکر کچھ کا کچھ بنا لیا ہے.یہ کیا دین اور تقویٰ ہے کہ ایک ضعیف انسان اور بے چارہ بندہ ہوکر خدائی کا دعویٰ کرے.اس سے بڑھ کر کیا گستاخی اور شوخی ہوسکتی ہے کہ انسان خدا بنے اور خدا کے بھید اور اسرار کا جاننے کا مدّعی ٹھہرے.وجودی فرقہ وجودیوں کی مثال ایسی ہے جیسے ڈاکٹر انسان کی تشریح کرتاہے اور اس کے دل و گُردہ وجگر کے بھید معلوم کرتا ہے.اسی طرح پروجودی نے خدا کا بھید معلوم کرلینے کا دعویٰ کیا ہے حالانکہ یہ نِری غلطی اورگستاخی ہے.یہ لوگ اگر خدا تعالیٰ کی عظمت وجبروت سے ڈرنے والے ہوتے اور ان کے دل میں خدا کاخوف ہوتاتو ان کے لیے صرف لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ (الانعام:۱۰۴) ہی کافی تھا اور لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ( الشورٰی :۱۲) ہی بس تھا مگر جو شخص خدا کے وجود میں آگے سے آگے ہی چلا جاوے توحیا اس کا نام نہیں ہے.وجودی مذہب والوں نے کیا بنایا؟۱ انہوں نے کیا معلوم کیا جو ہم کو معلوم نہ تھا؟ بنی نوع کو انہوں نے کیا فائدہ پہنچایا؟ ان ساری باتوں کا جواب نفی میں دینا پڑے گا.اگر کوئی ضدّ اور ہٹ سے کام نہ لے تو ذرا بتائے تو سہی کہ خدا تو محبت اور اطاعت کی راہ بتاتا ہے چنانچہ خود قرآن شریف میں اس نے فرمایا ہے ۱ نوٹ.بناتے توکیا خاک اُلٹے خرابی میں پڑگئے.کیااچھا ہوتاکہ اگر یہ وجودی بجائے وحدتِ وجود کے کثرتِ وجود کا عقیدہ رکھتے اور خدابننے کی کوشش نہ کرتے بلکہ مسیح بننے کی کوشش کرتے تاکہ یہ شرکِ عظیم جو دنیا میں پھیل رہا ہے کچھ تو مٹتا اور ۴۰ کروڑ لوگوں میں سے جو رات دن رَبُّنَا الْمَسِیْحُ پکارتے ہیں کسی کی تو آنکھ کھلتی کہ دنیا میں کتنے مسیح ہوچکے اورہیں اور ہوں گے اورقرآن کریم نے اس شِرک اعظم کے توڑنے کے لئے مسیح ابن مریم بننے کا دروازہ کھول دیا ہے چنانچہ سورۃ تحریم کی آخر کی آیات بوضاحت تمام کہہ رہی ہیں کہ پہلے زمانہ میں ایک ہی مسیح تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں سارے مومن مسیح ابن مریم ہوسکتے ہیں.

Page 292

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ( البقرۃ :۱۶۶) اور فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ ( البقرۃ :۲۰۱) پھر کیا دنیا میں کبھی یہ بھی ہوا ہے کہ بیٹا باپ کی محبت میں فنا ہوکر خود باپ بن جائے.باپ کی محبت میں فناتو ہوسکتا ہے مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ باپ ہی ہو جاوے.یہ یادرکھنے کے قابل بات ہے کہ فنائِ نظری ایک ایسی شَے ہے جو محبت سے ضرور پیدا ہوتی ہے لیکن ایسی فنا جو درحقیقت بہانہ فنا کا ہو اورایک جدید وجود کے پیداکرنے کا باعث بنے کہ مَیں ہی ہوں یہ ٹھیک نہیں ہے.جن لوگوں میں تقویٰ اور ادب ہے اور جنہوں نے لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ( بنی اسـراءیل :۳۷) پرقدم مارا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ وجودی نے جو قدم مارا ہے وہ حدِّ ادب سے بڑھ کر ہے.بیسیوں کتابیں ان لوگوں نے لکھی ہیں مگرہم پوچھتے ہیں کہ کیا کوئی وجودی اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ واقعی وجودی میں خدا ہے یا تصور ہے؟ اگر خدا ہی ہے تو کیا یہ ضعف اور یہ کمزوریاں جو آئے دن عایدِحال رہتی ہیں یہ خدا تعالیٰ کی صِفات ہیں؟ ذرا بچہ یا بیوی بیمار ہوجاوے توکچھ نہیں بنتا اور سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کِیا جاوے؟ مگر خدا تعالیٰ چاہے تو شفا دے سکتا ہے حالانکہ وجودی کے اختیار میں یہ امر نہیں ہے.بعض وقت مالی ضُعف اور افلاس ستاتا ہے.بعض وقت گناہ اورفسق وفجوربے ذوقی اور بےشوقی کاموجب ہوجاتا ہے تو کیا خدا تعالیٰ کے شاملِ حال بھی یہ اُمور ہوتے ہیں؟ اگر خدا ہے تو پھر اس کے سارے کام کُنْ فَیَکُوْنُ سے ہونے چاہئیں حالانکہ یہ قدم قدم پر عاجز اور محتاج ٹھوکریں کھاتا ہے افسوس وجودی کی حالت پر کہ خدا بھی بنا پھر اس سے کچھ نہ ہوا.پھر عجب تر یہ ہے کہ یہ خدائی اس کو دوزخ سے نہیں بچاسکتی کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ ( الزلزال :۹) پس جب کوئی گناہ کیا تو اس کا خمیازہ بھگتنے کے لئے جہنم میں جانا پڑا اور ساری خدائی باطل ہوگئی.وجودی بھی اس بات کے قائل ہیں کہ فَرِيْقٌ فِي الْجَنَّةِ وَ فَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ ( الشوریٰ :۸) جب کہ وہاں بھی انسانیت کے تجسّم بنے رہے تو پھر ایسی فضول بات کی حاجت ہی کیا ہے جس کا کوئی نتیجہ اور اثر ظاہر نہ ہوا.غرض یہ لوگ بڑے بے باک اور دلیر ہوتے ہیں اور چونکہ اس فرقہ کا نتیجہ اباحت اور بے قیدی ہے اس لئے یہ فرقہ بڑھتا جاتا ہے.لاہور، جالندھر اور ہوشیار پور اضلاع میں اس فرقہ نے

Page 293

اپنا زہر بہت پھیلایا ہے.غور کر کے اس کے نتائج پر نظر کرو بجز اباحت کے اور کچھ معلوم نہیں دیتا.یہ لوگ صوم و صلوٰۃ کے پابند نہیں اور ہو بھی نہیں سکتے.کیونکہ خدا سے ڈرنا جس پر نجات کا مدار اور اعمال کا انحصار ہے وہ ان میں نہیں ہے.بعض بالکل دہریوں کے رنگ میں ہیں.غرض میں سچ کہتا ہوں کہ یہ فتنہ بھی منجملہ ان فتنوں کے جو اس وقت پھیلے ہوئے ہیں ایک سخت فتنہ ہے جس نے فسق وفجور کا دریا چلا دیا ہے اور اباحت اور دہریت کے دروازوں کو کھول دیا ہے.اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس وقت زندہ ہوتے تو وہ ان کو دیکھ کر حیران ہوتے کہ یہ اسلام کہاں سے آیا.انسان کو کسی حالت میں مناسب نہیں ہے کہ وہ انسانیت کی حدود کو توڑ کر آگے نکل جاوے.کیا سچ کہا ہے ؎ بزہد و ورع کوش و صدق و صفا و لیکن میفزائے بر مصطفیٰ غرض یہ فرقہ دِق کی طرح ہے.ایک شخص الٰہ آباد میں تھا.اس نے مجھ سے خط وکتابت کی.ایک دو مرتبہ کے خطوط کی آمد ورفت کے بعد وہ گالیوں اور بد زبانیوں پر اتر آیا.ان لوگوںمیں تزکیہ نفس تو بڑی بات ہے عام اخلاقی حالت بھی اچھی نہیںہوتی.اصل یہ ہے کہ اخلاق فاضلہ اور تزکیہ نفس کا مدار ہے تقویٰ اور خدا کا خوف جو بد قسمتی سے ان لوگوں میں نہیں ہوتا کیونکہ وہ خود خد ا تو بنے ہوئے ہوتے ہیں.پس جب وہ انسانیت چھوڑ کر خدا بن گئے اور یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ وہ خدا تو بن سکتے ہی نہیں.پھر باقی یہی رہا کہ انسانیت چھوڑ کر شیطان بن گئے.اس لئے وہ بہت جلد برا فروختہ ہو جاتے ہیں اور جہاں تک ان لوگوں کے حالات کی تحقیق کرو گے ان میں اسلام کی پابندی ہرگز نہ نکلے گی.میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ان میں صوم و صلوٰۃ کی پابندی نہیں ہوتی اس لئے کہ خشیت الٰہی نہیں ہوتی اور ہیبت اٹھ جاتی ہے.آخر کار دہریوں کے ساتھ نشست وبرخاست شروع کرتے ہیں اور حدود اللہ کو توڑ کر بے قید ہو جاتے ہیں.غرض یہ بڑا ہی خطر ناک زہر ہے.اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت بایزید بسطامی یا خواجہ جنید بغدادی یا سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے کلمات میں ایسے الفاظ پائے جاتے ہیں

Page 294

جن سے جاہل یا تو اُن کو کفر کی طرف منسوب کرتا ہے یا اُن کے اقوال کو فرقہ ضالہ وحدۃ وجود کے لئے حجت پکڑتا ہے.جیسے سُبْـحَانِیْ مَااَعْظَمُ شَاْنِیْ اور اَللّٰہُ فِیْ جُبَّتِیْ.یہ اُن کی غلط فہمی ہے جو وہ ان کے اقوال سے حجت پکڑتے ہیں.اول تو یہ صحیح طور پر معلوم نہیں کہ ان کے منہ سے ایسے الفاظ نکلے بھی ہیں یا نہیں لیکن اگر ہم مان بھی لیں کہ واقعی انہوں نے ایسے الفاظ بیان فرمائے ہیں تو ایسے کلمات کا چشمہ عشق اور محبت ہے مثلاً ایک عاشق جوشِ محبت اور محویت عشق میں یہ کہہ سکتا ہےکہ ؎ من تو شُدم تومن شُدی من تن شُدم تو جان شُدی تاکس نگوید بعد ازیں من دِیگرم تو دِیگری ۱ یہ محویت اورفنا اس قسم اور رنگ کی ہے جیسے ماں کو اپنے بچہ کے ساتھ محبت کے رنگ میں ہوتی ہے.یہاں تک کہ اگر تھوڑی دیر تک بچہ ماں کو نہ ملے تو اس کا دل اندرہی اندربیٹھاجاتا ہے اور ایک اضطراب اور گھبراہٹ محسوس کرتی ہے اورجوں جوں اس میں توقّف اور دیر ہوتی جاتی ہے اسی قدر اُس کا اضطراب بڑھتا جاتا ہے اور اسے بے ہوش کردیتا ہے.اب یہ اُس کی فنا اُس کے وجود سے بڑھ کر ہے مگر وجودی نے فنا میں ایک وجود قائم کیا ہے.غرض ان بزرگوں کے منہ سے جو الفاظ اس قسم کے نکلے ہیں جن کو وجودیوں نے اپنی تائید میں پیش کیا ہے.وہ اسی قسم کی محویت اور عشق و محبت کے غلبۂ تامہ کا نتیجہ ہیں جس کو ان لوگوں نے اپنی کمی فہم کے باعث کچھ کا کچھ بنالیا ہے.اُن کو یہ معلوم نہیں ہے کہ جب عشق و محبت جوش مارتے ہیں تو اس کے عجیب عجیب اثر ظاہر ہوتے ہیں.یہاں تک کہ یہ اپنے آپ سے بالکل الگ ہوتا ہے.استیلائِ محبت میں اپنا وجود دکھائی دیتا ہی نہیں اور یہی سمجھ میں آتا ہے کہ مَیں کچھ بھی نہیں.اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک لوہے کے ٹکڑہ کو آگ میں ڈال دیا جاوے.یہاں تک کہ وہ سرخ انگارے کی طرح ہوجاوے.اس حالت میں ایک دیکھنے والا لوہے کا ٹکڑا قرارنہیں دے گا بلکہ وہ اُس کو آگ ہی کا ایک انگارہ سمجھے گا اور وہ بظاہر ہوتا بھی آگ ہی ہے.اس سے جلا بھی سکتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ لوہا ہی ہوتا ہے.اسی طرح پر آتشِ محبت اپنے عجائبات دکھاتی ہے.نادان ان

Page 295

عجائبات کو دیکھ کر بجائے اس کے کہ ان پر غور کرے اور ان سے کوئی مفید نتیجہ حاصل کرے ایک خیالی اثر اپنے دل پر قائم کرلیتا ہے اور اسی لیے یہ مشکلات ہیں کہ ہر شخص جس مذہب میں اپنی عمر کا ایک حصہ گزارتا ہے وہ اس کو چھوڑنا نہیں چاہتا.مگر یہ بڑی بھاری غلطی ہے.جہاں اور غلطیوں اورکمزوریوں کا مؤاخذہ ہوگا وہاں اس کا بھی مؤاخذہ ضرور ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا ہے لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ( بنی اسـراءیل :۳۷) پھر مَنَم خداوالا کیونکرکہہ سکتا ہے کہ مجھے واقعی یقین آگیا ہے.وہ اپنے اند رکون سے خواصِ ربّانی اور صفاتِ ربّانی محسوس کرتا ہے جو یہ فضول دعویٰ کربیٹھتا ہے.جب قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتا اور حوائجِ انسانی کی زنجیروں میں پابند اور جکڑا ہوا ہے.پھراُسے کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ مَنَم خدا کہے اور کہے کہ ہاں مجھے اپنے خدا ہونے پر یقین ہوگیا ہے.اگر وہ ایسا کہے تو دُوسرا اُس کو دیکھنے والا کہہ سکتا ہے کہ تو کیوں فضول اتنی شیخی مارتا ہے.اپنی عاجزی اور فرومائیگی کودیکھو.قرآن شریف میں خالق اور مخلوق میں صریح امتیاز رکھاہوا ہے.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سے قرآن شریف کو شروع کیا گیا ہے اور پھر مَرنے کے بعد بھی ایک مرحلہ رکھا ہوا ہے.انسان جب خود اپنے حالات اور صفات کو ہی جان نہیں سکتا اور سمجھ نہیں سکتا پھر یہ خدا کیسے بن سکتا ہے.اس کے علم کامحدود اور ناقص ہونا ہی اس کے مخلوق اور بندہ ہونے کی دلیل ہے.اگر یہ غور کرے.مسئلہ وحدتِ وجود غرض یہ بڑا گندہے اور لوگ جو اس مسئلہ وحدتِ وجود کومانتے ہیں بڑے گُستاخ اور متکبر ہوتے ہیں.اپنی غلطیوں کو نہیں چھوڑتے اور اور غلطیوں کو چھوڑیں کیوں کر جبکہ وہ اپنے آپ کو معاذ اللہ، خدا سمجھتے ہیں.اگر خدا اور بندہ میں فرق کریں تو ان کو اپنی غلطیوں کی حقیقت پر اطلاع ملے.وہ اپنے طفلانہ خیالات پر خوش ہیں اس لیے قرآن شریف کے حقائق سے ان کو کوئی خبرنہیں ہوسکتی.یہ بہت بڑی خرابی ہے اور مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ خرابی کب سے پیدا ہوئی ہے.میرے نزدیک سارے گدی نشینوں میں کوئی کم ہوگا جس کا یہ مذہب نہ ہو او رانہوں نے بزرگانِ دین کے اُن اقوال کو جو انہوں نے استیلائے محبت اور جوش عشق میں فرمائے تھے فلسفہ بنادیا.اصل میں فنائے نظری اور وجودی کے مذہب میں فرق یہ ہے کہ اوّل الذکر فلسفہ نہیں رکھتا وہ استیلائے عشق رکھتا ہے

Page 296

اور دوسرافیلسُوف بنتا ہے.یہ خدا کادشمن اور منکر ہے اور اس کو خدا سے محبت نہیں کیونکہ جیسے فلسفی مُردہ کو چیر تو سکتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ مُردہ کو کھابھی لے اسی طرح پر وحدت وجود کا قائل خدا تو بنتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو خدا سے محبت بھی ہے.جس کسی نے بندر یا کتے کی تشریح دیکھ لی ہے اس کے لئے کب لازم آتا ہے کہ اس سے تعلق بھی ہو.یہ ایسے ہی مدعی ہیں.فیلسوف بنے ہوئے ہیں مگر انہوں نے ثابت نہیں کیا کہ خدا سے اُن کا کوئی تعلق بھی ہے.اکابر کا وہ طبقہ جنہوں نے آگے قدم بڑھایا ہے وہ مقبول بھی ہوگئے ہیں.اس لیے کہ اُن پر خدا تعالیٰ کی محبت اور عشق غالب آگیا تھا.وہ قرآن شریف پر ایمان لائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے دریامیں تیرتے تھے.اسلام ان کا مذہب تھا.اس لیے اُن سے خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ کرشمے اور عجائبات ظاہر ہوئے.حقیقت یہی ہے کہ جب بندہ اپنے خالق کے ساتھ محبت و عشق میں ایک شدید تعلق پیداکرلیتا ہے اس وقت اسے خدا تعالیٰ اپنی صفات سے ایک حظ عطاکرتا ہے کیونکہ خدا نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا ہے.غرض یہ غلطیاں تو ان لوگوں کی ہیں جو خدابنے ہیں اور انہوں نے اسلام کو سخت گزند پہنچایا ہے.مخالفوں نے اُن کے اقوال کو لے کر اسلام پر اعتراض کیے ہیں.ایک اورفتنہ پھر دوسرا فتنہ اُن لوگوں کا ہے جو اپنے آپ کو موحّد کہتے ہیں.انہوں نے الفاظ پرستی کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا.لاہور میں ایک شخص سے بحث ہوئی.عبدالحکیم۱ ۱ نوٹ.جب اس مولوی عبدالحکیم سے فروری ۱۸۹۲ء میں بمقام لاہو رحضرت اقدس امام علیہ السلام کی بحث ہوئی تھی.تو بفضلہ تعالیٰ خاکسار ایڈیٹر الحکم بھی اس بحث کے موقع پر شامل تھا.یہ شخص آخرمباحثہ کے پرچے لے کر چل دیا اور پھر بے حیائی سے ۱۹۰۰ء میں بمقام قادیان آیا.ہر چند اس کو سمجھایا گیا مگر راہ پر نہ آیا اور بیہودہ بکواس کرنے لگا.جب اس کو لاہور والا مباحثہ یاددلایا اور ان کاغذات کو لے کر بھاگ جانے کا الزام اس کو دیا گیا تو پھر وعدہ کیا کہ مَیں اب وہ کاغذ طبع ہونے کے واسطے بھیج دوں گا.ایک مہینہ کے اندراندر ایڈیٹر الحکم کے پاس کاغذ مباحثہ پہنچ جائیں گے.اگرنہ بھیجوں تو مجھے کاذب سمجھا جاوے مگر اب ایک مہینہ چھوڑ ایک سال ختم ہونے کو آیا ہے آج تک اس نے وہ کاغذ نہ بھیجے.کاش اگر وہ کمبخت وہ پرچے بھیج دیتا تو حضرت اقدس ؑ کی تقریروں کو شائع کرسکتے.بہرحال یہ اس عبدالحکیم کا ذکرہے.(ایڈیٹر)

Page 297

اس کا نام تھااُس نے صاف کہہ دیا کہ حضرت عمر بھی محدث نہ تھے اور حدیث کے معنی یہ کیے کہ اگر محدث ہوتاتو عمرؓ ہوتا.یہ ترجمہ کرکے اس نے خدا پر الزام لگایا کہ اس نے اس اُمت کے گویا آنسو پُونچھ دئیے اور کچھ نہیں.مگر مَیں پوچھتا ہوں کہ ان کو اتنی سمجھ نہیں کہ کیا اس کرتوت پر وہ اس اُمت کو خیرالامم قراردیتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک شخص بھی ایسانہ ہو اجس کو خدا تعالیٰ سے کلام کرنے کا شرف ملا ہو اور جو اسلام کی صداقت کے لئے ایک زندہ نمونہ ٹھہرتا.ان لوگوں نے عملی طور پر گویا مان لیا ہے کہ اب نہ کسی کا خدا سے تعلق ہے نہ مکالمہ الٰہیہ کا شرف کسی کو حاصل ہے دعائوں کی قبولیت کا کوئی نشان موجود نہیں ہے.پھر بنی اسرائیل کی تو عورتوں تک کو بھی خدا سے ہم کلام ہونے کا شرف ملتا تھا کیا اسلام میں کوئی مرد بنی اسرائیل کی عورتوں جیسا بھی نہیں ہے؟ اے اسلام کے نادان دوستو! ذراغور تو کرو کہ اس سے اسلام پر کیسا حرف آتا ہے کیا خدا نے اسی واسطے اسلام کوتمہارے لیے پسند کیاتھا اور اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین قرار دیاتھا کہ آئندہ قیامت تک کوئی نشان ان کی صداقت پر قائم نہ ہوتا اور زندگی کے نشان مٹائے جاتے؟ مجھے بہت ہی افسوس ہوتا ہے جب ان لوگوں کے عقائد پر نظرکرتاہوں ان میں بجز الفاظ کے اور کچھ نظر نہیں آتا اور جو کچھ انہوں نے مان رکھا ہے اس سے مخالفوں کو بڑے بڑے اعتراض کرنے کا موقع ملا ہے چنانچہ مسیح کے متعلق ہی جو کچھ ان کے عقائد ہیں وہ پوشیدہ نہیں.یہ لوگ مانتے ہیں کہ مسیح مُردے زندہ کرتا تھا اور چڑیاں بھی بنایا کرتاتھا اورآج تک وہ آسمان پر بغیر کسی قسم کے زمانہ کے اثر ہونے کے بیٹھا ہو اہے تو بتائو کہ اس کے خدا بنانے میں انہوں نے کیا باقی رکھا.میں نے ایک موَحّد سے پوچھا کہ تم جو کہتے ہو کہ مسیح نے بھی کچھ جانور بنائے تھے اور وہ خدا کے بنائے ہوئے پرندوں میں مل جل گئے.اب ہمیں کیوں کر معلوم ہوکہ یہ جانور مسیح کا بنایا ہوا ہے.اس نے کہا کہ کچھ گڑبڑ ہوگئی ہے.غرض اس قسم کے ان لوگوں کے عقائدہیں.ہاں چالاکی سے اَئمہ اربعہ کو بُرا کہہ لیتے ہیں مثلاً ایک امام کی بابت وہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ بڑے مالدار تھے اور زکوٰۃ نہیں دیتے تھے.آخر سال پر سارا مال بیوی کو دے دیتے تھے اور پھر اپنی طرف منتقل کرلیتے تھے اس طرح پر گویا اس کو

Page 298

زکوٰۃ کے اثر سے بچالیتے تھے.اس قسم کے بہت سے افترا کرتے ہیں.انہوں نے بجزخشک لفّاظی کے اور کوئی فائدہ اسلام کو نہیں پہنچایا.اپنے طریقِ عمل سے اسلام کو مُردہ مذہب ثابت کرنا چاہا ہے جب کہ یہ کہہ دیا کہ اب کوئی ایسا مرد نہیں ہے جس کے ساتھ زندہ نشانات اسلام کی تائید میں ہوں.افسوس! ان لوگوں کی عقلوں کو کیا ہوا.یہ کیوں نہیں سمجھتے؟ کیا قرآن میں جو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ( الفاتـحۃ :۶، ۷) کہا گیا تھا یہ یُونہی ایک بے معنی اور بے مطلب بات تھی اور نرا ایک قصہ ہی قصہ ہے؟ کیا وہ انعام کچھ نہ تھا.خدا نے نرا دھوکہ ہی دیا ہے؟ اور وہ اپنے سچے طالبوں اور صادقوں کو بدنصیب ہی رکھنا چاہتا ہے؟کس قدر ظلم ہے اگر یہ خدا کی نسبت قراردیاجاوے کہ وہ نری لفّاظی ہی سے کام لیتا ہے.حقیقت یہ نہیں ہے.یہ ان لوگوں کی اپنی خیالی باتیں ہیں.قرآن شریف درحقیقت انسان کو ان مراتب اور اعلیٰ مدارج پر پہنچانا چاہتا ہے جو اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے مصداق لوگوں کو دیئے گئے تھے اور کوئی زمانہ ایسانہیں ہوتا جب کہ خدا تعالیٰ کے کلام کے زندہ ثبوت موجود نہ ہوں.ہمارا یہ مذہب ہرگز نہیں کہ آریوں کی طرح کوئی خدا کا پریمی اوربھگت کتنی ہی دعائیں کرے اور رورو کر اپنی جان کھوئے اور اس کا کوئی نتیجہ نہ ہو.اسلام خشک مذہب نہیں ہے.اسلام ہمیشہ ایک زندہ مذہب ہے اور اس کے نشانات اس کے ساتھ ہیں.پیچھے رہے ہوئے نہیں ہیں.غرض یہ بھی ایک بدنصیب گروہ ہے.یہ لوگ اپنااصل مذہب نہیں بتاتے ہیں.ان کی خبر مشکل سے ہوتی ہے.اَحناف رہے حنفی ، ان میں بدقسمتی سے اقوالِ مَردودہ اور بدعات نے دخل پالیا ہے.حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ تواعلیٰ درجہ کے متّقی تھے مگر اُن کے پَیروئوں میں جب روحانیت نہ رہی تو انہوں نے اور بدعتوں کو داخل کرلیا اورتقلید میں انہوں نے یہاں تک غلو کیا کہ ان لوگوں کے اقوال کو جن کی عصمت کاقرآن دعویٰ نہیں کرتا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال پر بھی فضیلت دے دی اور اپنے اغراض اور مقاصد کو مدِّ نظر رکھ کر امام صاحبؒ کے اقوال کی

Page 299

جس طرح چاہا تاویل کرلی.لُدھیانہ میں مَیں ایک دفعہ تھا تو نوابوں کے خاندان میں سے ایک شخص میرے پا س آیا اور باتوں ہی باتوں میں انہوں نے کہا کہ مَیں پکا حنفی ہوں اور یہ بھی کہاکہ میرے چچا صاحب کو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے بڑی حسنِ عقیدت تھی.یہاں تک کہ جب انہوں نے مَالَا بُدَّ مِنْہُ میں امام صاحبؓکا یہ قول دیکھا کہ صرف جَو اور انگور اور دو اور یعنی چارقسم کی شراب حرام ہے تو انہوں نے ولایت کی شرابیں منگواکر اسی ہزارروپیہ کی شراب پی تاکہ امام صاحبؒ کی سچی پیروی ہوجاوے.اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ ثُمَّ اسْتَغْفِرُاللّٰہَ.غرض اس قسم کی تاویلیںکرلیتے ہیں.عام طور پرشکایت کی جاتی ہے کہ جس قسم کا فتویٰ کوئی چاہے ان سے لے لے.حلالہ کا مسئلہ بھی انہوں نے ہی نکالا ہے.اگر کوئی عورت کو طلاق دے دے تو پھر جائز طو رپر رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرے اوروہ پھر اس کو طلاق دے حالانکہ قرآن شریف میں کہیں اس کا پتہ نہیں ملتا اور احادیث میں حلالہ کرنے والے پر لعنت آئی ہے.شافعی پھر ایک اور فرقہ شافعی مذہب والوں کا ہے.وہ تو وحشیوں کی سی زندگی بسرکرتے ہیں ہیں.ان کے ہاں ایک مقولہ ہے ’’شافعی سب کچھ معافی‘‘یعنی نہ حِلّت وحُرمت کی ضرورت ہے نہ کچھ اور.چنانچہ ہمارے ملک میں خانہ بدوش لوگ جو پھر اکرتے ہیں یہ اپنے آپ کوشافعی کہتے ہیں.ان کے اطوارا ور چال چلن کو دیکھ لو.امرتسر میں ایک موَحّد رنڈی کی مسجد میں نماز پڑھایاکرتاتھا.اس نے میرے پاس ذکر کیا کہ وہ ایک مرتبہ بمبئی چلا گیا اور اتفاق سے شافعیوں کی مسجد میں چلاگیا.صبح کی نماز کا وقت تھا.اس سے جب دریافت کیا تو اس نے کہہ دیا کہ مَیں شافعی ہوں اور جب انہوں نے اس کو نماز کے لئے امام بنایا اوراس نے شافعی مذہب کے موافق صبح کی نمازمیں قنوت نہ پڑھی تو وہ لوگ بڑے ہی برافروختہ ہوئے.آخربمشکل وہاں سے بچ کر نکلا.الغرض مذہب اسلام میں اندرونی طور پر ایسے ایسے بہت سے فساد اور فتنے ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے اور بیرونی فسادوں کو آدمی دیکھے تو اور بھی حیران ہوجاتا ہے.ایک پادریوں کے ہی فتنہ کو دیکھو تو گھبرا جائو.مختصر یہ کہ ان سارے فسادوں

Page 300

کا اجتماع بالبداہت بتارہا ہے کہ اس وقت ایک آسمانی سلسلہ کی ضرورت ہے اور اگر خدا اس وقت کوئی سلسلہ قائم نہ کرتاتو پھر خدا پر اعتراض ہوتا مگر خدا کاشکر ہے کہ اس نے وقت پر ہماری دستگیری کی اور اس سلسلہ کو اپنی تائیدوں کے ساتھ قائم کیا.فَالْـحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.۱ ۱۲؍ستمبر ۱۹۰۱ء مولوی جان محمد صاحب مدرس ڈسکہ نے سوال کیا کہ حضور آپ کی بیعت کرنے کے بعد پہلی بیعت اگر کسی سے کی ہو وہ قائم رہتی ہے یا نہیں؟حضرت حجۃ اللہ نے فرمایا.جب انسان میرے ہاتھ پر بیعت توبہ کرتا ہے تو پہلی ساری بیعتیں ٹوٹ جاتی ہیں.انسان دو کشتیوں میں کبھی پاؤں نہیں رکھ سکتا.اگر کسی کا مُرشد اب زندہ بھی ہو تب بھی وہ حقائق اور معارف ظاہر نہ کرے گا جو خدا تعالیٰ یہاں ظاہر کر رہا ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ نے ساری بیعتوں کو توڑ ڈالا ہے صرف مسیح موعود ہی کی بیعت کو قائم رکھا ہے جو خاتم الخلفاء ہو کر آیا ہے.ہندوستان میں جس قدر گدیاں اور مشایخ اور مُرشد ہیں سب سے ہمارا اختلاف ہے.بیعت دینی سلسلوں میں ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ قائم کرتا ہے.ان لوگوں کا ہمارے مسائل میں اختلاف ہے اگر ان میں سے کسی کو شک ہو کہ وہ حق پر ہیں تو ہمارے ساتھ فیصلہ کر لیں.قرآن شریف کو حَکَم ٹھہرائیں.اصل یہ ہے کہ اس وقت سب گدیاں ایک مُردہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور زندگی صرف اسی سلسلہ میں ہے جو خدا نے میرے ہاتھ پر قائم کیا ہے.اب کیسا نادان ہوگا وہ شخص جو زندوں کو چھوڑ کر مُردوں میں زندگی طلب کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی چاہا تھا کہ ایک زمانہ فیج اَعْوَج کا ہو اور اس کے بعد ہدایت کا بہت بڑا زمانہ آوے.چنانچہ ہدایت کے دو ہی بڑے زمانے ہیں جو دراصل ایک ہی ہیں مگر ان کے درمیان ایک وقفہ ہے اس لیے دو سمجھے جاتے ہیں.ایک وہ زمانہ جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا اور دوسرا مسیح موعود کا زمانہ اور مسیح موعود کے زمانہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا

Page 301

زمانہ قرار دیا گیا ہے.اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کسی دوسرے کی بیعت کب جائز ہوسکتی اور قائم رہ سکتی ہے.یہ اس شخص کا زمانہ ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کہا اب اس کی بیعت کے سوا سب بیعتیں ٹوٹ گئیں.دوسرا سوال یہ کیا تھا کہ مخالف احباب رشتہ داروں سے کیسا سلوک کریں.فرمایا.نرمی اور نیکی تو انسان کفار سے بھی کر سکتا ہے اور کرنی چاہیے.ہاں جن غلطیوں میں رشتہ دار یا احباب مبتلا ہوں ان میں ان کا ساتھ ہرگز نہیں دینا چاہیے.دعاؤں میں بڑا اثر ہے اس لیے میں نیچری خیالات کا سخت مخالف ہوں.خد اتعالیٰ کی قدرتوں کا انسان احاطہ نہیں کر سکتا جس قدر انسان کا نرم اور گداز دل خدا پر بھروسہ کرنے والا ہوگا اسی قدر دعاؤںپر امید ہوگی.بدوں اس کے توجہ اور امید نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ پر توکّل اور بھروسہ کرنے میں بڑا مزہ اور آسائش ہے.خدا تعالیٰ سے جس قدر تعلق کوئی پیدا کرتا ہے اور اس پر جس قدر ایمان کوئی لاتا ہے اسی قدر تاریکی اور مشکلات کے وقت وہ ان کا کفیل اور وکیل ہو جاتا ہے.بڑی بڑی مصیبتوں میں جہاں بچنے کی کوئی امید اور رستگاری کی کوئی صورت نہیں ہوتی وہ بچ نکلتا ہے اور بَری ہوجاتا ہے.خدا تعالیٰ کا قانون دوست اور دشمن کے ساتھ یکساں نہیں جس قدر کسی کا یقین خدا تعالیٰ پر ہے اسی قدر وہ راحت و آرام میں ہے.درحقیقت مخلص مومن کا خدا ہی الگ ہوتا ہے اور جو لوگ اسباب پرست ہوتے ہیں ان کا خدا الگ ہوتا ہے.جو اپنی طرف سے اسباب کو توڑ کر خدا کی طرف آتے ہیں ان پر وہ ایک نرالی تجلی سے ظہور کرتا ہے.یہ یاد رکھو کہ یقین کی قوت جس قدر بڑھتی ہے اسی قدر استجابت دعا کا دروازہ زیادہ کھلتا جاتا ہے.یقین کے ساتھ انسان بڑے بڑے مراحل طے کرتا ہے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا صدق ہی تھا کہ جس نے آپ کو ہر مشکل کے وقت بچایا.مخالفوں نے کس قدر منصوبے آپ کے خلاف کئے یہاں تک کہ آپ کو ہلاک کرنا چاہا اور تعاقب میں غارِ ثور تک بھی سراغ رساں جا پہنچے مگر خدا تعالیٰ پر جو سچا یقین آپ کو تھا اسی پوشیدہ ہاتھ نے آپ کو وہاں بھی بچا لیا.حضرت ابو بکر نے کہا بھی کہ ہم ایسے موقع پر ہیںکہ اگر مخالف ذرا بھی نیچے نگاہ کریں تو ہم کو دیکھ لیں

Page 302

مگر آپ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ پر کس قدر یقین اور بھروسا تھا.حقیقت میں جو اس رنگ کا ایمان خدا پر نہیں لاتا اسے کوئی مزہ خدا پر ایمان لانے کا نہیں آسکتا.خدا پر کامل یقین خارق عادت امور کی قوت عطا کرتا ہے.انبیاسے اسی لیے معجزات صادر ہوتے ہیں اور وہ بھی شدید تکالیف کے وقت جبکہ دنیا دار ان کی موت اور ہلاکت کی پیشگوئی کرتے ہیںوہ بچ کر نکل جاتے ہیں.دیکھو! ڈگلس کے سامنے جب کلارک کا مقدمہ تھا اس وقت سب کی یہی رائے تھی کہ اب یہ پکڑا جاوے گا.مگر میرا خدا مجھے تسلی دے چکا تھا کہ تُو عزّت کے ساتھ بَری ہوگا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.یہ نتیجہ ہے خدا تعالیٰ پر کامل یقین اور کامل ایمان کا.دشمن کا وجود بھی عجیب چیز ہے اس کے ذریعہ سے بہت سے حقائق اور حکمتیں ظاہر ہوتی ہیں کیونکہ وہ اپنی دشمنی میں حد سے بڑھ کر شرارتوں اور ایذا رسانیوں کی فکر اور منصوبے کرتے ہیں اور صادقوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ اس وقت ان کو نہ صرف بچا لیتا بلکہ ان کی تائید میں فوق العادت نشان ظاہر کرتا ہے.پس دشمنوں سے صادق کو کبھی گھبرانا نہیں چاہیے.ہاں صبر اور استغفار کثرت سے کرنا چاہیے.جس قدر مخالفت شدت سے ہو اسی قدر خدا کی نصرت قریب آتی ہے اور وہ اپنی تجلّی ظاہر کرتا ہے.جب یہ شناخت کر لیا کہ حق کیا ہے؟ پھر اس حق کا اگر کوئی مخالف ہو تو اس مقابل کو قابل رحم سمجھنا چاہیے کیونکہ وہ اہل حق کا مخالف نہیں بلکہ خدا کو اپنے مقابلہ کے لیے بلاتا ہے اور خدا سے جنگ کرتا ہے.خدا تعالیٰ مستعجل نہیں.وہ جلدی نہیں پکڑتا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر مخالفت کی گئی اور تیرہ برس تک کس قدر گالیاں آپ نے سنیں اسی طرح پر اب تیرہ سو برس سے اس سید المعصومین صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت پر حملے کیے جاتے رہے اب خد اتعالیٰ نے ان سب حملوں کا انتقام لے لیا.یہ انسان کی کمزوری ہے جو جلد فیصلہ کرنا چاہتا ہے.خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کا نام بھی کشتی رکھا ہے.چنانچہ بیعت کے الہام میں اِصْنَعِ الْفُلْکَ ہی فرمایا ہے.صاف کہہ سکتا تھا کہ بیعت لے لو مگر یہ الہام بتاتا ہے کہ یہاں بھی نوح کے زمانہ کی طرح

Page 303

کچھ ہونے والا ہے.چنانچہ طاعون کے طوفان نے بتا دیا کہ یہ وہی طوفان ہے.قصیدہ الہامیہ کے ایک شعر میں بھی ہے.؎ واللہ کہ ہمچو کشتی نوحم زِ کردگار بیدولت آنکہ دور بماند ز لنگرم میرے آنے کی اصل غرض اور مقصد یہی ہے کہ توحید ، اخلاق اور روحانیت کو پھیلاؤں.توحید سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہی کو اپنا مطلوب ، مقصود اور محبوب اور مطاع یقین کر لیا جاوے.موٹی موٹی بت پرستی اور شرک سے لے کر اسباب پرستی کے شرک اور باریک شرک اپنے نفس کو بھی کچھ سمجھ لینے تک دور کر دیا جاوے جس میں دنیا گرفتار ہے.اور اخلاق سے مراد یہ ہے کہ جس قدر قویٰ انسان لے کر آیا ہے ان کو اپنے محل اور موقع پر خرچ کیا جاوے یہ نہیں کہ بعض کو بالکل بے کار چھوڑ دیا جاوے اور بعض پر بہت زور دیا جاوے مثلاً اگر کوئی ہاتھ کو بالکل کاٹ دے تو کیا اس سے کوئی خوبی پیدا ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ سچے اور کامل اخلاق یہی ہیں کہ جو جو قوتیں اللہ تعالیٰ نے دے رکھی ہیں ان کو اپنے محل پر ایسے طور سے خرچ کیاجاوے کہ جس میں افراط اور تفریط پیدا نہ ہو.افراط یہ ہے کہ مثلاً جس کو قوت شامہ میں افراط ہو تو حدّت الحس کی مرض ہو جاوے گی اور پھر اس سے اور امراض شدیدہ پیدا ہوجاتے ہیں.تفریط یہ ہے کہ اس کی حس بالکل مفقود ہوجاتی ہے اور اعتدال یہ ہے کہ دونوں اپنے اپنے محل اور مقام پر رہیں اور یہی وہ درجہ اور مقام ہے جہاں اخلاق اخلاق کہلاتے ہیں اور اسی کو میں قائم کرنے آیا ہوں.روحانیت سے مراد وہ آثار اور علامات ہیں جو خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا ہونے پر مترتّب ہوتے ہیں اور یہ کیفیتیں ہیں جب تک پیدا نہ ہوں انسان سمجھ نہیں سکتا مگر اصل غرض یہی ہیں.نئی جماعت کو زبان کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنےحُسنِ بیان سے ان حقائق اور معارف کو جو اپنے امام سے سیکھتی ہے دوسروں کو آگاہ کر سکے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض وقت صبح سے لے کر شام تک لیکچر دیتے تھے اگر کوئی شخص ان عقائد کو جو اس نے سیکھے ہیں بیان کرنے کی قوت اور قدرت نہیں رکھتا تو وہ

Page 304

دوسروں کے سامنے بسا اوقات شرمندہ ہوجاتا ہے اور اسے دبنا پڑتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہر ایک شخص جو اس سلسلہ میں شامل ہے ان باتوں کو جو ضروری ہیں خوب یاد رکھے اور بیان کرنے کی عادت ڈالے.۱ ۱۳؍ستمبر ۱۹۰۱ء تبتّل کی حقیقت تبتّل کی حقیقت جو ۱۳؍ستمبر ۱۹۰۱ء کو مغرب کی نماز کے بعد حضرت اقدس حجۃ اللہ علی الارض مسیح موعود اَدَامَ اللّٰہُ فُیُوْضَہُمْ نے سید امیرعلی شاہ صاحب ملہم سیالکوٹی کے استفسارپر بیان فرمائی.ان کو اپنی کسی رؤیا میں ارشادہواتھا کہ وہ تبتّل کے معنے حضرت اقدس ؑ سے دریافت کریں.اس بِنا پر انہوں نے سوال کیااور حضرت اقدس ؑ نے اس کی تشریح فرمائی.میرے نزدیک رؤیا میں یہ بتانا کہ تبتّل کے معنی مجھ سے دریافت کئے جاویں.اس سے یہ مُراد ہے کہ جو میرامذہب اس بارہ میں ہے وہ اختیار کیا جاوے.منطقیوں یا نحویوں کی طرح معنے کرنا نہیں ہوتا بلکہ حال کے موافق معنے کرنے چاہئیں.ہمارے نزدیک اُس وقت کسی کو متبتّل کہیں گے جب وہ عملی طور پر اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام اور رضاکودنیا اور اس کی متعلقات و مکروہات پر مقدّم کرلے.کوئی رسم وعادت کوئی قومی اُصول اس کا رہزن نہ ہو سکے، نہ نفس رہزن ہوسکے، نہ بھائی نہ جورو، نہ بیٹا، نہ باپ، غرض کوئی شے اور کوئی متنفّس اس کو خدا تعالیٰ کے احکام اور رضا کے مقابلہ میں اپنے اثر کے نیچے نہ لاسکے اور وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول میں ایسا اپنے آپ کو کھودے کہ اس پرفنائے اَتَم طاری ہوجاوے اور اس کی ساری خواہشوں اور ارادوں پر ایک موت وارد ہوکر خدا ہی خدا رہ جاوے.دُنیا کے تعلقات بسا اوقات خطرناک رہ زن ہوجاتے ہیں.حضرت آدم علیہ السلام کی رہ زن حضرت حوّا ہوگئی.پس تبتّلِ تام کی صورت میں یہ ضروری امر ہے کہ ایک سُکر اور فناانسان پر وارد ہو مگر نہ ایسی کہ وہ اسے خدا سے گم کرے بلکہ خدا میں گم کرے.

Page 305

غرض عملی طورپر تبتّل کی حقیقت تب ہی کھلتی ہے جب کہ ساری روکیں دورہوجائیں اور ہر ایک قسم کے حجاب دور ہوکر محبتِ ذاتی تک انسان کا رابطہ پہنچ جاوے اور فنائِ اَتَم ایسی حاصل ہوجاوے.قیل و قال کے طور پر تو سب کچھ ہوسکتا ہے اور انسانی الفاظ اور بیان میں بہت کچھ ظاہر کر سکتا ہے مگر مشکل ہے تو یہ کہ عملی طور پر اسے دکھابھی دے جو کچھ وہ کہتا ہے.یوں تو ہر ایک جو خدا کوماننے والا ہے پسند بھی کرتا ہے اور کہہ بھی دیتا ہے کہ مَیں چاہتا ہوں کہ خدا کو سب پر مقدم کروں اور مقدّم کرنے کا مدّعی بھی ہوسکتا ہے لیکن جب ان آثار اور علامات کا معائنہ کرنا چاہیں جو خدا کو مقدّم کرنے کے ساتھ ہی عطاہوتے ہیں تو ایک مشکل کا سامناہوگا.بات بات پر انسان ٹھوکر کھاتا ہے.خدا تعالیٰ کی راہ میں جب اس مال اور جان کے دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اُن سے اُن کی جانوں اور مالوں یا اور عزیزترین اشیاء کی قربانی چاہتا ہے حالانکہ وہ اشیاء اُن کی اپنی بھی نہیں ہوتی ہیں لیکن پھر بھی وہ مضائقہ کرتے ہیں.ابتداءً بعض صحابہ کو اس قسم کا ابتلاپیش آیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنائِ مسجد کے واسطے زمین کی ضرورت تھی.ایک شخص سے زمین مانگی تو اس نے کئی عذر کرکے بتادیا کہ میں زمین نہیں دے سکتا.اب وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ پر ایمان لایا تھا اور اللہ اور اس کے رسول کو سب پر مقدم کرنے کا عہد اس نے کیا تھا لیکن جب آزمائش اورامتحان کا وقت آیاتو اس کو پیچھے ہٹنا پڑا.گو آخر کاراس نے وہ قطعہ دے دیا.تو بات اصل میں یہی ہے کہ کوئی امر محض بات سے نہیں ہوسکتا جب تک عمل اس کے ساتھ نہ ہو اورعملی طور پر صحیح ثابت نہیں ہوتا جب تک امتحان ساتھ نہ ہو.ہمارے ہاتھ پر بیعت تو یہی کی جاتی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا اور ایک شخص کو جسے خدا نے اپنا مامورکرکے دنیا میں بھیجاہے اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے.جس کا نام حَکَم اورعَدل رکھا گیا ہے اپنا امام سمجھوں گا.اس کے فیصلے پر ٹھنڈے دل اور انشراحِ قلب کے ساتھ رضامند ہوجائوں گا لیکن اگر کوئی شخص یہ عہد اور اقرارکرنے کے بعد بھی ہمارے کسی فیصلہ پر خوشی کے ساتھ رضا مند نہیں ہوتا بلکہ اپنے سینہ میں کوئی روک اور اٹک پاتا ہے تو یقیناً کہنا پڑے گا کہ اس نے پورا تبتّل حاصل نہیں کیا اور وہ اس اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچا جو تبتّل کا مقام کہلاتا ہے بلکہ اس کی راہ میں

Page 306

ہوائے نفس اور دنیوی تعلقات کی روکیں اور زنجیریں باقی ہیں اور ان حجابوں سے وہ باہر نہیں نکلا جن کو پھاڑکر انسان اس درجہ کو حاصل کرتا ہے.جب تک وہ دنیا کے درخت سے کاٹا جاکر الوہیت کی شاخ کے ساتھ ایک پیوند حاصل نہیں کرتا اس کی سرسبزی اور شادابی محال ہے.دیکھو! جب ایک درخت کی شاخ اس سے کاٹ دی جاوے تو وہ پھل پھول نہیں دے سکتی.خواہ اسے پانی کے اندر ہی کیوں نہ رکھو اور ان تمام اسباب کو جوپہلی صورت میں اُس کے لئے مایۂ حیات تھے استعمال کرو لیکن وہ کبھی بھی بارآور نہ ہوگی.اسی طرح پر جب تک ایک صادق کے ساتھ انسان کاپیوندقائم نہیں ہوتا وہ روحانیت کو جذب کرنے کی قوت نہیں پاسکتا جیسے وہ شاخ تنہا اور الگ ہوکر پانی سے سرسبز نہیں ہوتی اسی طرح پریہ بے تعلق اور الگ ہوکر بار آور نہیں ہوسکتا.پس انسان کو متبتّل ہونے کے لئے ایک قطع کی ضرورت بھی ہے اور ایک پیوند کی بھی.خداکے ساتھ اُسے پیوند کرنا اور دنیا اور اس کے تمام تعلقات اور جذبات سے الگ بھی ہونا پڑے گا.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ بالکل دنیا سے الگ رہ کر یہ تعلق اور پیوند حاصل کرے گا.نہیں بلکہ دنیامیں رہ کر پھر اس سے الگ رہے.یہی تو مردانگی اور شجاعت ہے اورالگ ہونے سے مراد یہ کہ دنیا کی تحریکیں اور جذبات اس کو اپنا زیراثرنہ کرلیں اور وہ ان کو مقدّم نہ کرے بلکہ خدا کومقدّم کرے.دنیا کی کوئی تحریک اور روک اس کی راہ میں نہ آوے اوراپنی طرف اس کو جذب نہ کرسکے.مَیں نے ابھی کہا ہے کہ دنیا میں بہت سی روکیں انسان کے لئے ہیں.ایک جورویابیوی بھی بہت کچھ رہ زن ہوسکتی ہے.خدا نے اس کانمونہ بھی پیش کیا ہے.خدا نے ایک نہی کی تعلیم دی تھی اس کا اثر پہلے عورت پر ہواپھر آدم ؑ پر ہوا.غرض تبتّل کیا ہے؟ خدا کی طرف انقطاع کرکے دوسروں کو محض مُردہ سمجھ لینا.بہت سے لوگ ہیں جو ہماری باتوں کو صحیح سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ بجااور درست ہے مگرجب اُن سے کہا جاوے کہ پھر تم اس کوقبول کیوں نہیں کرتے تو وہ یہی کہیں گے کہ لوگ ہم کو بُراکہتے ہیں.پس یہ خیال کہ لوگ اُس کو بُرا کہتے ہیں یہی ایک رگ ہے جو خدا سے قطع کراتی ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کا خوف

Page 307

دل میں ہو اور اس کی عظمت اور جبروت کی حکومت کے ماتحت انسان ہو پھر اس کو کسی دوسرے کی پروا کیا ہوسکتی ہے کہ وہ کیا کہتا ہے کیا نہیں؟ ابھی اس کے دل میں لوگوں کی حکومت ہے نہ خدا کی.جب یہ مشرکانہ خیال دل سے دورہوجاوے پھر سب کے سب مُردے او رکیڑے سے بھی کمتر اور کمزور نظرآتے ہیں.اگر ساری دُنیا مل کر بھی مقابلہ کرنا چاہے تو ممکن نہیں کہ ایساشخص حق کوقبول کرنے سے رُک جائے.تبتّل تام کا پورا نمونہ انبیاء علیہم السلام اور خدا کے ماموروں میں مشاہدہ کرنا چاہیے کہ وہ کس طرح دنیاداروں کی مخالفتوں کے باوجود پوری بے کسی اور ناتوانی کے پروا تک نہیں کرتے.اُن کی رفتار اور حالات سے سبق لینا چاہیے.بعض لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ ایسے لوگ جو بُرا نہیں کہتے مگر پورے طور پر اظہار بھی نہیں کرتے محض اس وجہ سے کہ لوگ بُرا کہیں گے کیا اُن کے پیچھے نماز پڑھ لیں؟ مَیںکہتا ہوں ہرگز نہیں.اس لیے کہ ابھی تک اُن کے قبولِ حق کی راہ میں ایک ٹھوکر کا پتھرہے اور وہ ابھی تک اسی درخت کی شاخ ہیں جس کا پھل زہریلا اور ہلاک کرنے والا ہے.اگر وہ دنیا داروں کو اپنامعبود اورقبلہ نہ سمجھتے توان سارے حجابوں کو چیر کر باہر نکل آتے اور کسی کے لعن طعن کی ذرا بھی پروا نہ کرتے اور کوئی خوف شماتت کا انہیں دامن گیرنہ ہوتا بلکہ وہ خدا کی طرف دوڑتے.پس یادرکھو کہ تم ہرکام میں دیکھ لو کہ اس میں خدا راضی ہے یا مخلوقِ خدا.جب تک یہ حالت نہ ہوجاوے کہ خدا کی رضا مقدم ہوجاوے اور کوئی شیطان اور رہزن نہ ہوسکے اس وقت تک ٹھوکر کھانے کااندیشہ ہے لیکن جب دنیا کی بُرائی بھلائی محسوس ہی نہ ہو بلکہ خدا کی خوشنودی اور ناراضگی اس پر اثرکرنے والی ہویہ وہ حالت ہوتی ہے جب انسان ہر قسم کے خوف وحُزن کے مقامات سے نکلا ہوا ہوتا ہے.اگر کوئی شخص ہماری جماعت میں شامل ہوکر پھر اس سے نکل بھی جاتا ہے تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اس کا شیطان اس لباس میں ہنوز اس کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اگر وہ عزم کرلے کہ آئندہ کسی وسوسہ انداز کی بات کو سُنوں گا ہی نہیں تو خدا اسے بچالیتا ہے.ٹھوکر لگنے کا عموماً یہی سبب ہوتاہے کہ

Page 308

دوسرے تعلقات قائم تھے.اُن کو پرورش کے لئے ضرورت پڑی کہ ادھر سے سُست ہوں.سُستی سے اجنبیت پیدا ہوئی پھر اس سے تکبر اور پھر انکار تک نوبت پہنچی.تبتّل کا عملی نمونہ ہمارے پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وسلم ہیں.نہ آپؐکو کسی کی مدح کی پَروا نہ ذم کی.کیا کیا آپؐکو تکالیف پیش آئیں مگرکچھ بھی پروانہیں کی.کوئی لالچ اورطمع آپؐکو اس کام سے نہ روک سکا جوآپؐخدا کی طرف سے کرنے آئے تھے.جب تک انسان اس حالت کو اپنے اندر مشاہدہ نہ کرلے اورامتحان میں پاس نہ ہولے کبھی بھی بے فکر نہ ہو.پھر یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ جوشخص متبتّل ہوگا متوکّل بھی وہی ہوگا.گویامتوکّل ہونے کے واسطے متبتّل ہونا شرط ہے.کیونکہ جب تک اوروں کے ساتھ تعلقات ایسے ہیں کہ ان پر بھروسہ اورتکیہ کرتا ہے اُس وقت تک خالصتہً اللہ پرتوکّل کب ہوسکتا ہے.جب خدا کی طرف انقطاع کرتاہے تو وہ دنیا کی طرف سے توڑتا ہے اور خدا میں پیوند کرتا ہے اور یہ تب ہوتاہے جب کہ کامل توکّل ہوجیسے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل متبتّل تھے ویسے ہی کامل متوکّل بھی تھے اور یہی وجہ ہے کہ اتنے وجاہت والے اورقوم وقبائل کے سرداروں کی ذرا بھی پروانہیں کی او ران کی مخالفت سے کچھ بھی متاثرنہ ہوئے.آپؐمیں ایک فوق العادت یقین خدا تعالیٰ کی ذات پر تھا.اسی لیے اس قدر عظیم الشان بوجھ کو آپؐنے اُٹھالیا اورساری دنیا کی مخالفت کی اور ان کی کچھ بھی ہستی نہ سمجھی.یہ بڑا نمونہ ہے توکل کا جس کی نظیر دنیامیں نہیں ملتی.اس لیے کہ اس میں خدا کو پسند کرکے دنیا کو مخالف بنالیا جاتاہے مگر یہ حالت پیدا نہیں ہوتی جب تک گویا خدا کو نہ دیکھ لے.جب تک یہ اُمید نہ ہوکہ اس کے بعد دوسرا دروازہ ضرور کھلنے والا ہے جب یہ امیداور یقین ہو جاتا ہے تووہ عزیزوں کو خدا کی راہ میں دشمن بنالیتا ہے.اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ خدا اَور دوست بنادے گا.جائیداد کھودیتا ہے کہ اس سے بہتر ملنے کا یقین ہوتا ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ خد ا ہی کی رضا کو مقدّم کرنا توتبتّل ہے اورپھر تبتّل اور توکّل تواَم ہیں.تبتّل کا راز ہے توکّل اورتوکّل کی شرط ہے تبتّل.یہی ہمارا مذہب اس امر میں ہے.۱

Page 309

۱۴؍ستمبر ۱۹۰۱ء (بعدمغرب) ’’اُمّ المُؤمِنین‘‘ کے لفظ کااستعمال ’’ اُمّ المُؤمنین‘‘ کا لفظ جو مسیح موعود ؑ کی بیوی کی نسبت استعمال کیا جاتا ہے اس پربعض لوگ اعتراض کرتے ہیں.حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سُن کر فرمایا.اعتراض کرنے والے بہت ہی کم غورکرتے اور اس قسم کے اعتراض صاف بتاتے ہیں کہ وہ محض کینہ اور حسد کی بنا پر کیے جاتے ہیں ورنہ نبیوں یا ان کے اظلال کی بیویاں اگراُمہات المؤمنین نہیں ہوتی ہیں توکیا ہوتی ہیں؟ خدا تعالیٰ کی سُنّت اورقانونِ قدرت کا اس تعامل سے بھی پتہ لگتا ہے کہ کبھی کسی نبی کی بیوی سے کسی نے شادی نہیں کی.ہم کہتے ہیں کہ ان لوگوں سے جو اعتراض کرتے ہیں کہ اُمّ المُؤمنین کیوں کہتے ہو؟ پوچھنا چاہیے کہ تم بتائو جو مسیح موعود تمہارے ذہن میں ہے اور جسے تم سمجھتے ہو کہ وہ آکر نکاح بھی کرے گا.کیا اس کی بیوی کو تم اُمّ المُؤمنین کہو گے یا نہیں؟ مسلم میں تو مسیح موعود کونبی ہی کہا گیا اور قرآن شریف میں انبیاء علیہم السلام کی بیویوں کومومنوں کی مائیں قرار دیاہے.افسوس تو یہ ہے کہ یہ لوگ میری مخالفت اور بغض میں ایسا تجاوز کرتے ہیں کہ منہ سے بات کرتے ہوئے اتنابھی نہیں سوچتے کہ اس کا اثر اورنتیجہ کیا ہوگا؟ جن لوگوں نے مسیح موعود کو شناخت کرلیا ہے اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کے موافق اس کی شان کو مان لیا ہے ان کا ایمان توخودبخود انہیں اس بات کے ماننے پر مجبور کرے گا اور جو آج اعتراض کرتے ہیں یہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی ہوتے تب بھی اعتراض کرنے سے باز نہ آتے.یہ بات خوب یادرکھنی چاہیے کہ خدا کامامور جو ہدایت کرتاہے اور رُوحانی اصلاح کا موجب ہوتا ہے وہ درحقیقت باپ سے بھی بڑھ کر ہوتاہے.افلاطون حکیم لکھتا ہے کہ باپ تو رُوح کو آسمان سے زمین پر لاتاہے مگر اُستاد زمین پر سے پھر آسمان پر پہنچاتا ہے.باپ کا تعلق توصرف فانی جسم کے ہی ساتھ ہوتا

Page 310

ہے.مُرشد اور مُرشد بھی وہ جو خدا کی طرف سے ہدایت کے لئے مامور ہوا ہو اس کا تعلق رُوح سے ہوتا ہے جس کوفنا نہیں ہے.پھر جب وہ روح کی تربیت کرتا ہے اور اس کی رُوحانی تولید کا باعث ہوتا ہے تو وہ اگر باپ نہ کہلائے گا تو کیا کہلائے گا؟ اصل یہی ہے کہ یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر بھی کچھ توجہ نہیں کرتے ورنہ اگر ان کو سوچتے اور قرآن کو پڑھتے تویہ مُنکرین میں نہ رہتے.فوٹو بنوانے کی غرض پھر اعتراض کیا گیا کہ تصویر پر لوگ کہتے ہیں کہ یہ تصورّ شیخ کی غرض سے بنوائی گئی ہے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا.یہ تودوسرے کی نیت پر حملہ ہے.مَیں نے بہت مرتبہ بیان کیا ہے کہ تصویر سے ہماری غرض کیا تھی.بات یہ ہے کہ چونکہ ہم کو بلادِ یورپ خصوصاً لنڈن میں تبلیغ کرنی منظور تھی لیکن چونکہ یہ لوگ کسی دعوت یا تبلیغ کی طرف توجہ نہیں کرتے جب تک داعی کے حالات سے واقف نہ ہوں اوراس کے لیے اُن کے ہاں علم تصویر میں بڑی بھاری ترقی کی گئی ہے.وہ کسی شخص کی تصویر اور اس کے خط وخال کو دیکھ کررائے قائم کرلیتے ہیں کہ اس میں راست بازی ، قوتِ قدسی کہاں تک ہے؟ اور ایسا ہی بہت سے امور کے متعلق انہیں اپنی رائے قائم کرنے کا موقع مل جاتا ہے.پس اصل غرض اور نیت ہماری اس سے یہ تھی جس کو ان لوگوں نے جو خواہ نخواہ ہربات میں مخالفت کرنا چاہتے ہیں اس کو بُرے بُرے پیرایوں میں پیش کیا اور دُنیا کو بہکایا.مَیں کہتا ہوں کہ ہماری نیت توتصویر سے صرف اتنی ہی تھی.اگر یہ نفسِ تصویر کو ہی بُرا سمجھتے ہیں تو پھر کوئی سکّہ اپنے پاس نہ رکھیں بلکہ بہتر ہے کہ آنکھیں بھی نکلوادیں کیونکہ اُن میں بھی اشیاء کا ایک انعکاس ہی ہوتا ہے.یہ نادان اتنانہیں جانتے کہ افعال کی تہ میں نیت کا بھی دخل ہوتا ہے اَ لْاَعْـمَالُ بِالنِّیَّاتِ پڑھتے ہیں مگر سمجھتے نہیں.بھلا اگر کوئی شخص محض ریاکاری کے لئے نماز پڑھے تو اس کو یہ کوئی مستحسن امر قرار دیں گے؟ سب جانتے ہیں کہ ایسی نماز کافائدہ کچھ نہیں بلکہ وبالِ جان ہے تو کیا نماز بُری تھی؟ نہیں اس کے بداستعمال نے اس کے نتیجہ کوبُرا پیدا کیا.اسی طرح پرتصویر سے ہماری غرض تو اسلام کی دعوت میں مددلیناتھا.جو اہل یورپ کے مذاق پرہوسکتی تھی.اس کو تصویر شیخ بنانا اور کچھ سے کچھ کہنا

Page 311

افترا ہے.جو مسلمان ہیں اُن کو اس پرغصہ نہیں آنا چاہیے تھا.جو کچھ خدا اور رسول نے فرمایا ہے وہ حق ہے.اگر مشائخ کا قول خدا او ر رسول کے فرمودہ کے موافق نہیں تو ع کالائے بد بریش خاوند تصورِ شیخ کی بابت پوچھو تو اس کا کوئی پتہ نہیں.اصل یہ ہے کہ صالحین اور فانین فی اللہ کی محبت ایک عمدہ شے ہے لیکن حفظِ مراتب ضروری ہے.ع گر حفظِ مراتب نہ کُنی زِندیقی پس خدا کو خدا کی جگہ، رسول کورسول کی جگہ سمجھو اور خدا کے کلام کو دستور العمل ٹھہرا لو.اس سے زیادہ چونکہ قرآن شریف میں اور کچھ نہیں کہ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التوبۃ:۱۱۹) پس صادقوں اور فانی فی اللہ کی صحبت تو ضروری ہے اور یہ کہیں نہ کہا گیا کہ تم اُسے ہی سب کچھ سمجھو اور یا قرآن شریف میں یہ حکم ہے اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ( اٰل عـمران:۳۲) اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ مجھے خدا سمجھ لو بلکہ یہ فرمایا کہ اگر خدا کے محبوب بننا چاہتے ہو تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو.اتباع کا حکم تو دیا ہے مگر تصورِ شیخ کا حکم قرآن میں پایا نہیں جاتا.تصوّرِ شیخ سوال.جوتصوّرِ شیخ کرتے ہیں وہ کہتے ہیں ہم شیخ کو خدا نہیں سمجھتے.جواب.مانا کہ وہ ایساکہتے ہیں مگر بت پرستی تو شروع ہی تصورسے ہوتی ہے.بُت پرست بھی بڑھتے بڑھتے ہی اس درجہ تک پہنچاہے.پہلے تصور ہی ہوگا.پھر یہ سمجھ لیا کہ تصورقائم رکھنے کے لئے بہتر ہے تصویر ہی بنالیں اور پھر اس کوترقی دیتے دیتے پتھر اوردھاتوں کے بُت بنانے شروع کردیئے اور اُن کو تصویرکاقائم مقام بنالیا.آخر یہاں تک ترقی کی کہ اُن کی روحانیت کو اوروسیع کرکے ان کو خدا ہی مان لیا.اب نِرے پتھر ہی رکھ لیتے ہیں اور اقرارکرتے کہ منتر کے ساتھ اُن کو درست کرلیتے ہیں اور پرمیشر کا حلُول ان پتھروں میں ہوجاتا ہے.اس منتر کا نام انہوں نے آواہن رکھا ہوا ہے.مَیں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے.مَیں نے ایک شخص کو دیا کہ اسے پڑھو تو اس نے کہاکہ اس پر آواہن لکھا ہواہے.مجھے اس سے کراہت آئی.مَیں

Page 312

نے اُسے کہا کہ تُومجھے دکھا.جب مَیں نے پھر ہاتھ میں لے کر دیکھا تو اس پر لکھا ہواتھا اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا خلیفہ جو ہوتا ہے ردائے الٰہی کے نیچے ہوتا ہے.اسی لیے آدم ؑ کے لیے فرمایا کہ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ (ا لـحجر: ۳۰) اسی طرح پر غلطیاں پیداہوتی گئیں.اُصول کو نہ سمجھا.کچھ کاکچھ بگاڑ کر بنالیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ شرک اور بُت پرستی نے اس کی جگہ لے لی.ہماری تصویر کی اصل غرض وہی تھی جو ہم نے بیان کردی کہ لنڈن کے لوگوں کو اطلاع ہو اور اس طرح پر ایک اشتہار ہوجاوے.۱ قلب جاری ہونے کا مسئلہ غرض تصوّرِ شیخ کا مسئلہ ہندوئوں کی ایجاد اورہندوئوں ہی سے لیاگیا ہے.چنانچہ قلب جاری ہونے کا مسئلہ بھی ہندوئوں ہی سے لیا گیا ہے.قرآن میں اس کا ذکر نہیں.اگر خدا تعالیٰ کی اصل غرض انسان کی پیدائش سے یہ ہوتی توپھر اتنی بڑی تعلیم کی کیا ضرورت تھی.صرف اجرائے قلب کا مسئلہ بتاکر اس کے طریقے بتا دیئے جاتے.مجھے ایک شخص نے معتبر روایت کی بنا پر بتایا کہ ہندو کا قلب رام رام پر جاری تھا.ایک مسلمان اس کے پاس گیا اس کا قلب بھی رام رام پر جاری ہوگیا.یہ دھوکا نہیں کھاناچاہیے.رام خدا کا نام نہیں ہے.دیانند نے بھی اس پر گواہی دی ہے کہ یہ خدا کانام نہیں ہے.قلب جاری ہونے کا دراصل ایک کھیل ہے جو سادہ لوح جُہلاکو اپنے دام میں پھنسانے کے لئے کیا جاتاہے.اگر لوٹالوٹا کہا جاوے تو اس پر بھی قلب جاری ہوسکتا ہے.اگر اللہ کے ساتھ ہو تو پھر وہی بولتا ہے.یہ تعلیم قرآن نے نہیں دی ہے بلکہ اس سے بہتر تعلیم دی ہے اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ ( الشعرآء:۹۰) خدا یہ چاہتا ہے کہ ساراوجودہی قلب ہوجاوے ورنہ اگر وجود سے خدا کا ذکر جاری نہیںہوتا تو ایساقلب قلب نہیں بلکہ کلب ہے.خدا یہی چاہتا ہے کہ خدا میں فنا ہوجائو اور اس کے حدود وشرائع کی عظمت کرو.قرآن فنائِ نظری کی تعلیم دیتا ہے.میں نے آزما کر دیکھا ہے کہ قلب جاری ہونے کی صرف ایک مشق ہے جس کا انحصار

Page 313

صلاح وتقویٰ پر نہیں ہے.ایک شخص منٹگمری یا ملتان کے ضلع کا مجھے چیف کورٹ میں ملا کرتا تھا اسے اجرائے قلب کی خوب مشق تھی.پس میرے نزدیک یہ کوئی قابلِ وقعت بات نہیں اور خدا تعالیٰ نے اس کو کوئی عزّت اور وقعت نہیں دی.خدا تعالیٰ کا منشا اور قرآن شریف کی تعلیم کا مقصد صرف یہ تھا کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ( الشّمس :۱۰) کپڑا جب تک سارا نہ دھویا جاوے وہ پاک نہیں ہو سکتا.اسی طرح پر انسان کے سارے جوارح اس قابل ہیں کہ وہ دھوئے جاویں.کسی ایک کے دھونے سے کچھ نہیں ہوتا.اس کے سوا یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ خدا کا سنوارا ہوا بگڑتا نہیں مگر انسان کی بناوٹ بگڑ جاتی ہے.ہم گواہی دیتے ہیں اور اپنے تجربہ کی بنیاد پر گواہی دیتے ہیں کہ جب تک انسان اپنے اندرخدا تعالیٰ کی مرضی اور سنّت نبوی کے موافق تبدیلی نہیں کرتا اور پاکیزگی کی راہ اختیار نہیں کرتا تو خواہ اس کے قلب سے ہی آواز آتی ہو وہ زہر جو انسان کی روحانیت کو ہلاک کر دیتی ہے دور نہیں ہو سکتی.روحانیت کی نشو و نما اور زندگی کے لئے صرف ایک ہی ذریعہ خدا تعالیٰ نے رکھا ہے اور وہ اتباع رسول ہے.جو لوگ قلب جاری ہو نے کے شعبدے لئے پھرتے ہیں انہوں نے سنّت نبوی کی سخت توہین کی ہے.کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی انسان دنیا میں گزرا ہے؟پھر غار حرا میں بیٹھ کر وہ قلب جاری کرنے کی مشق کیا کرتے تھے یا فنا کا طریق آپ نے اختیا ر کیا ہوا تھا؟ پھر آپ کی ساری زندگی میں کہیں اس امر کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ آپ نے صحابہؓ کو یہ تعلیم دی ہو کہ تم قلب جاری کرنے کی مشق کرو اور کوئی ان قلب جاری والوں میں سے پتہ نہیں دیتا اور کبھی نہیں کہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی قلب جاری تھا.یہ تمام طریق جن کا قرآن شریف میں کوئی ذکر نہیں.انسانی اختراع اور خیالات ہیں جن کا نتیجہ کبھی کچھ نہیں ہوا.قرآن شریف اگر کچھ بتاتا ہے تو یہ کہ خدا سے یوں محبت کرو.اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ (البقرۃ:۱۶۶) کے مصداق بنو اور فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (اٰل عـمران :۳۲) پر عمل کرو اور ایسی فنا اَتَم تم پر آجاوے کہ تَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا (المزمل:۹) کے رنگ سے تم رنگین ہو جاؤ اور خدا تعالیٰ کو سب چیزوں پر مقد م کر لو.یہ امور ہیں جن کے حصول کی ضرورت ہے.نادان انسان اپنی عقل اور خیال کے پیمانہ سے خد اکو ناپنا چاہتا ہے اور اپنی اختراع

Page 314

سے چاہتا ہے کہ اس سے تعلق پیدا کرے اور یہی ناممکن ہے.پس میری نصیحت یہی ہے کہ ان خیالات سے بالکل الگ رہو اور وہ طریق اختیار کرو جو خدا تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر دکھایا کہ اسی پر چل کر انسان دنیا اور آخرت میں فلاح اور فوز حاصل کر سکتا ہے اور صحابہؓ کو جس کی تعلیم دی.پھر وقتاً فوقتاً خدا کے بر گزیدوں نے سنّت جاریہ کی طرح اپنے اعمال سے ثابت کیا اور آج بھی خد انے اسی کو پسند کیا.اگر خدا تعالیٰ کا اصل منشا یہی ہوتا تو ضرور تھا کہ آج بھی جب اس نے ایک سلسلہ گمشدہ صداقتوں اورحقائق کے زندہ کرنے کے لئے قائم کیا یہی تعلیم دیتا اور میری تعلیم کا منتہا یہی ہوتا مگر تم دیکھتے ہو کہ خدا نے ایسی تعلیم نہیں دی ہے بلکہ وہ تو قلب سلیم چاہتا ہے.وہ مـحسنوں اور متّقیوں کو پیار کرتا ہے.ان کا ولی ہوتا ہے.کیا سارے قرآن میں ایک جگہ بھی لکھاہوا ہے کہ وہ ان کو پیار کرتا ہے کہ جن کے قلب جاری ہوں؟ یقیناً سمجھو کہ یہ محض خیالی باتیں اور کھیلیں ہیں جن کا اصلاحِ نفس اور روحانی امور سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے بلکہ ایسے کھیل خدا سے بُعد کا موجب ہو جاتے ہیں اور انسان کے عملی حصہ میں مضر ثابت ہوتے ہیں اس لئے تقویٰ اختیار کرو.سنّت نبوی کی عزّت کرو اور اس پر قائم ہوکر دکھاؤ جو قرآن شریف کی تعلیم کا اصل فخر یہی ہے.صوفیاء کا معاملہ سوال.پھر صوفیوں کو کیا غلطی لگی ؟ جواب.ان کو حوالہ بخدا کرو.معلوم نہیں انہوں نے کیا سمجھااور کہاں سے سمجھا تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ١ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ ( البقرۃ :۱۳۵) بعض وقت لوگوں کو دھوکا لگتا ہے کہ وہ ابتدائی حالت کو انتہائی سمجھ لیتے ہیں.کیا معلوم ہے (کہ) انہوںنے ابتدا میں یہ کہا ہو پھر آخر میں چھوڑ دیا ہو یا کسی اور ہی نے ان کی باتوں میں التباس کر دیا ہو اور اپنے خیالات ملا دیئے ہوں.اسی طرح پرتو توریت و انجیل میں تحریف ہو گئی.گزشتہ مشائخ کا اس میں نام بھی نہیں لینا چاہیے.ا ن کا تو ذکر خیر چاہیے.انسان کو لازم ہے کہ جس غلطی پر خدا اسے مطلع کردے خود اس میں نہ پڑے.خدا نے یہی فرمایا ہے کہ شرک نہ کرو اور تمام عقل اور طاقت کے ساتھ خدا کے ہو جاؤ.اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ.

Page 315

حبسِ دم سوال.حبسِ دَم کیا ہے؟ جواب.یہ بھی ہندو جوگیوں کا مسئلہ ہے.اسلام میں اس کی کوئی اصل موجود نہیں ہے.۱ ۲۱؍ستمبر۱۹۰۱ء ۲۱؍ستمبر۱۹۰۱ء کی شام کو جبکہ حضرت اقدس امام علیہ الصلوٰۃ والسلام حسبِ معمول مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر احباب کے زُمرہ میں تشریف فرما ہوئے تو باتوں ہی باتوں میں کچھ طبّی تحقیقاتوں کا سلسلہ چل پڑا اور ان مغربی تجارب اور تحقیقاتوں کا ذکر ہونے لگا جو عمل جراحی کے متعلق یورپ وامریکہ والوں نے کی ہیں.اس کے بعد ایک شخص منشی عبد الحق صاحب پٹیالوی نے اپنے ہاں اولاد نرینہ ہونے کے لئے دعا کی درخواست کی.اس پر حضر ت اقدس امام عالی مقام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مختصر سی لطیف تقریر فرمائی جس کو ہم اپنے الفاظ اور طرز میں ادا کرتے ہیں اور وہ یہ ہے.اولاد کی خواہش انسان کو سوچنا چاہیے کہ اسے اولاد کی خواہش کیوں ہو تی ہے؟کیونکہ اس کو محض طبعی خواہش ہی تک محدود نہ کر دینا چاہیے کہ جیسے پیاس لگتی ہے یا بھوک لگتی ہے لیکن جب یہ ایک خاص اندازہ سے گزر جاوے تو ضرور اس کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے.خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ(ا لذٰریٰت:۵۷) اب اگر انسان خود مومن اور عبد نہیں بنتا ہے اور اپنی زندگی کے اصل منشا کو پورا نہیں کرتا ہے اور پورا حق عبادت ادا نہیں کرتا بلکہ فسق وفجور میں زندگی بسر کرتا ہے اور گناہ پر گناہ کرتا ہے تو ایسے آدمی کی اولاد کے لئے خواہش کیا نتیجہ رکھے گی؟صرف یہی کہ گناہ کرنے کے لئے وہ اپنا ایک اور خلیفہ چھوڑنا چاہتا ہے.خود کونسی کمی کی ہے جو اولاد کی خواہش کرتا ہے.پس جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لئے نہ ہو کہ وہ دین دار اور متّقی ہو اور خدا تعالیٰ کی فرماں بردار ہو کر اس کے دین کی خادم بنے بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیت اور گناہ ہے اور باقیاتِ صالحات کی بجائے اس کا نام باقیاتِ سیّئات رکھنا جائز ہو گا.لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں

Page 316

صالح اور خدا ترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا بھی نرا ایک دعویٰ ہی دعویٰ ہوگا جب تک کہ خود وہ اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے.اگر خود فسق و فجور کی زندگی بسر کرتا ہے اور منہ سے کہتا ہے کہ میںصالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو وہ اپنے اس دعویٰ میں کذاب ہے.صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ زندگی بنا دے تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہو گی اور ایسی اولاد حقیقت میں اس قابل ہو گی کہ اس کو باقیات صالحات کا مصداق کہیں.لیکن اگر یہ خواہش صرف اس لئے ہو کہ ہمارا نام باقی رہے اور وہ ہمارے املاک و اسباب کی وارث ہو یا وہ بڑی نامور اور مشہور آدمی ہو.اس قسم کی خواہش میرے نزدیک شرک ہے.نیکی کرنے کا مقصد یاد رکھو کسی نیکی کو بھی اس لئے نہیں کرنا چاہیے کہ اس نیکی کے کرنے پر ثواب یا اجر ملے گا کیونکہ اگر محض اس خیال پر نیکی کی جاوے تو وہ اِبْتِغَاءً لِمَرْضَاتِ اللّٰہِ نہیں ہو سکتی بلکہ اس ثواب کی خاطر ہو گی اور اس سے اندیشہ ہو سکتا ہے کہ کسی وقت وہ اسے چھوڑ بیٹھے مثلاً اگر کوئی شخص ہر روز ہم سے ملنے کو آوے اور ہم اس کو ایک روپیہ دے دیاکریںتو وہ بجائے خود یہی سمجھے گا کہ میرا جانا صرف روپیہ کے لئے ہے.جس دن سے روپیہ نہ ملے اسی دن سے آنا چھوڑ دے گا.غرض یہ ایک قسم کا باریک شرک ہے اس سے بچنا چاہیے.نیکی کو محض اس لئے کرنا چاہیے کہ خد اتعالیٰ خوش ہو اور اس کی رضا حاصل ہو اور اس کے حکم کی تعمیل ہو.قطع نظر اس کے کہ اس پر کوئی ثواب ہو یا نہ ہو.۱ ایمان تب ہی کامل ہوتا ہے جبکہ یہ وسوسہ اور وہم درمیان سے اٹھ جاوے.اگرچہ یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا اِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ ( التوبۃ : ۱۲۰ ) مگر نیکی کرنے والے کو اجر مد نظر نہیں رکھنا چاہیے.دیکھو! اگر کوئی مہمان ۱ نوٹ.حضرت حجۃ اللہ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے جس کام کے کرنے کا حکم دیا ہے اگر مجھے یہ بھی بتایا جاوے اور یقین کرایا جاوے کہ اس کام کے کرنے پر سخت سے سخت عذاب دیا جاوے گا تب بھی میں اپنی روح میں کوئی لغزش نہیں پاتا کہ وہ اس کام کو چھوڑ دے کیونکہ محض عذاب یا ثواب میرے کام کی غرض نہیں ہے مجھے تو خدا تعالیٰ نے طبعی طور پر ایک جوشِ فطرت عطا کیا ہے جو اس کے احکام کی تعمیل کی طرف کشاں کشاں لیے جاتا ہے.(ایڈیٹر)

Page 317

یہاں محض اس لئے آتا ہے کہ وہاں آرام ملے گا.ٹھنڈے شربت ملیں گے یا تکلّف کے کھانے ملیں گے تو وہ گویا ان اشیاء کے لئے آتا ہے حالانکہ خود میزبان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ حتی المقدور ان کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہ کرے اور اس کو آرام پہنچا وے اور وہ پہنچاتا ہے لیکن مہمان کا خود ایسا خیال کرنا اس کے لئے نقصان کا موجب ہے.اولاد کی خواہش صرف نیکی کے اصول پر ہونی چاہیے تو غرض مطلب یہ ہے کہ اولاد کی خواہش صرف نیکی کے اصول پر ہونی چاہیے.اس لحاظ سے اور خیال سے نہ ہو کہ وہ ایک گناہ کا خلیفہ باقی رہے.خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مجھے کبھی اولاد کی خواہش نہیں ہوئی تھی حالانکہ خدا تعالیٰ نے پندرہ یا سولہ برس کی عمر کے درمیان ہی اولاد دے دی تھی.یہ سلطان احمد اور فضل احمد قریباً اسی عمر میں پیدا ہو گئے تھے اور نہ کبھی مجھے یہ خواہش ہوئی کہ وہ بڑے بڑے دنیا دار بنیں اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچ کر نامور ہوں.غرض جو اولاد معصیت اور فسق کی زندگی بسر کرنے والی ہو اس کی نسبت تو سعدی کا یہ فتویٰ ہی صحیح معلوم ہوتا ہے.ع کہ پیش از پدر مردہ بہ ناخلف پھر ایک اور بات ہے کہ اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کے فرماں بردار بنانے کی سعی اور فکر کریں نہ کبھی ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مد نظر رکھتے ہیں.میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں مَیں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا.بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بُری عادتیں سکھا دیتے ہیں.ابتدا میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہ نہیں کرتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہوتے جاتے ہیں.ایک حکایت بیان کرتے ہیں کہ ایک لڑکا اپنے جرائم کی وجہ سے پھانسی پر لٹکایا گیا.اس آخری وقت میں اس نے خواہش کی کہ میں اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہوں.جب اس کی ماں آئی تو اس نے ماں کے پاس جا کر اسے کہا کہ میں تیری زبان کو چوسنا چاہتا ہوں.جب اس نے زبان نکالی تو اسے کاٹ کھایا.دریافت کرنے پر اس نے کہا کہ اسی ماں نے مجھے پھانسی پر چڑھایا

Page 318

ہے کیونکہ اگر یہ مجھے پہلے ہی روکتی تو آج میری یہ حالت نہ ہوتی.حاصل کلام یہ ہے کہ لوگ اولاد کی خواہش تو کرتے ہیں مگر نہ اس لئے کہ وہ خادم دین ہو بلکہ اس لئے کہ دنیا میں ان کا کوئی وارث ہو اور جب اولاد ہوتی ہے تو اس کی تربیت کا فکر نہیں کیا جاتا.نہ اس کے عقائد کی اصلاح کی جاتی ہے اور نہ اخلاقی حالت کو درست کیا جاتا ہے.یہ یاد رکھو کہ اس کا ایمان درست نہیں ہو سکتا جو اقرب تعلقات کو نہیں سمجھتا.جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور نیکیوں کی امید اس سے کیا ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پر قرآن میں بیان فرمایا ہے رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا ( الفرقان :۷۵) یعنی خدا تعالیٰ ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرماوے اور یہ تب ہی میسر آسکتی ہے کہ وہ فسق وفجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں بلکہ عباد الرحمٰن کی زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر ایک شے پر مقدم کرنے والے ہوں اور آگے کھول کر کہہ دیا وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا اولاد اگر نیک اور متقی ہو تو یہ ان کا امام ہی ہو گا.اس سے گویا متقی ہو نے کی بھی دعا ہے.۱ اطمینان قلب اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ(الرّعد:۲۹) اس کے عام معنے تو یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے قلوب اطمینان پاتے ہیں لیکن اس کی حقیقت اور فلسفہ یہ ہے کہ جب انسان سچے اخلاص اور پوری وفاداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور ہروقت اپنے آپ کو اس کے سامنے یقین کرتا ہے اس سے اس کے دل پر ایک خوف عظمت الٰہی کا پیدا ہوتا ہے وہ خوف اس کو مکروہات اور منہیات سے بچاتا ہے اور انسان تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ملائکہ اس پر نازل ہوتے ہیں اور وہ اس کو بشارتیں دیتے ہیں اور الہام کا دروازہ اس پر کھولا جاتا ہے.اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کو گویا دیکھ لیتا ہے اور اس کی وراء الوراء طاقتوں کو مشاہدہ کرتا ہے پھر اس کے دل پر کوئی ھمّ و غم نہیں آ سکتا اور طبیعت ہمیشہ ایک نشاط اور خوشی میں رہتی ہے.اسی لیے دوسرے مقام پر آیا ہے فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ(البقرۃـ:۶۳) اگر کوئی ھمّ و غم واقع بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے الہام سے اس کے لیے خارجی اسباب ان کے دور کرنے

Page 319

کے پیدا کر دیتا ہے یا خارق عادت صبر ان کو عطا کرتا ہے.۱ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام دَنَا فَتَدَلّٰى دَنَا فَتَدَلّٰى (النجم:۹) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں آیا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اوپر کی طرف ہو کر نوعِ انسان کی طرف جھکا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال اعلیٰ درجہ کا کمال ہے جس کی نظیر نہیں مل سکتی اور اس کمال میں آپ کے دو درجے بیان فرمائے ہیں.ایک صعود، دوسرا نزول.اللہ تعالیٰ کی طرف تو آپ کا صعود ہوا یعنی خدا تعالیٰ کی محبت اور صدق و وفا میں ایسے کھینچے گئے کہ خود اس ذاتِ اقدس کے دُنُوّ کا درجہ آپ کو عطا ہوا.دُنُوّ اَقْرَب سے اَبْلَغ ہے.اس لیے یہاں یہ لفظ اختیار کیا.جب اللہ تعالیٰ کے فیوضات اور برکات سے آپ نے حصہ لیا تو پھر بنی نوع پر رحمت کے لیے نزول فرمایا.یہ وہی رحمت تھی جس کا اشارہ اللہ تعالیٰ نے مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ(الانبیآء:۱۰۸) فرمایا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم قاسم کا بھی یہی سِر ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے لیتے ہیں جو کچھ لیتے ہیں اور پھر مخلوق کو پہنچاتے ہیں.بس مخلوق کوپہنچانے کے واسطے آپ کا نزول ہوا.اس دَنَا فَتَدَلّٰى میں اسی صعود اور نزول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علوّ مرتبہ کی دلیل ہے.پیشگوئیوں میں استعارات انبیاء علیہم السلام کے آنے کے وقت دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک وہ جو استعارات کو حقیقت پر محمول کر لیتے ہیں اور حقیقت کو استعارہ بنانا چاہتے ہیں.یہ گروہ ان کی شناخت سے محروم رہ جاتا ہے.لیکن ایک اور گروہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید سے اصل حقیقت کو پالیتے ہیں.وہ استعارہ کو استعارہ اور حقیقت کو حقیقت ٹھہراتے ہیں جیسے یہودیوں نے حضرت مسیح کی آمد کے وقت ملاکی نبی کے صحیفہ کی بنا پر کہا کہ مسیح کے آنے کی یہ نشانی ہے کہ اس سے پہلے ایلیا آسمان سے آوے.مسیح علیہ السلام

Page 320

سے جب انہوںنے یہی سوال کیا تو انہوںنے اس پیشگوئی کو تو تسلیم کر لیا لیکن یہ فیصلہ کر لیا کہ آنے والے ایلیا سے مراد یحییٰ ہے.یہودی اس فیصلہ کو سن کر یحییٰ کے پاس پہنچے.وہ اس مباحثہ سے بکلی بے خبر اور نا واقف تھے.انہوں نے ایلیا ہونے سے انکار کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ یہودیوں کی مخالفت اور بھی تیز ہوگئی اور انہوں نے اصل حقیقت سے بے خبر رہ کر ظاہر الفاظ پر زور دیا اور اس طرح پر خدا تعالیٰ کے ایک سچے نبی کا انکار کر دیا.نہ صرف انکار کیا بلکہ ہر طرح سے اس کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کی اور آخر خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک مغضوب اور لعنتی قوم ٹھہر گئے.اب غور کرو اگر ایلیا کا آنا درست تھا اور حضرت یحییٰ کی شکل میں ایلیا کا بروزی رنگ میں آنا درست نہیں تو ہمارے مخالف مسلمان بتائیں کہ ملاکی نبی کے صحیفہ کی پیشگوئی کو مد نظر رکھ کر حضرت عیسیٰ کی نبوت کا کیا ثبوت ہے؟ پھر یقیناً وہ نبوت ثابت نہیں ہو سکتی اور دوسری مشکل یہ پڑتی ہے کہ حضرت عیسیٰ جو مُردوں کو زندہ کرنے والے تھے کیوں انہوں نے ایلیا کو زندہ نہ کرلیا؟ اس سے دو باتیں اور بھی ثابت ہوگئیں.اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کی یہ عادت اور سنّت نہیںکہ وہ مُردوں کو دوبارہ دنیا میں بھیجے اور زندہ کرے.دوسری یہ کہ مسیح نے کوئی مُردہ زندہ نہیں کیا.پس خوب غور کرو! اگر بروزی آمد ایلیا کی مراد نہ ہوگی تو مسیح کی نبوت جاتی رہے گی اور پھر اس کی زد اسلام اور قرآن شریف پر پڑے گی.آنے والا مسیح آچکا ہے اس وقت مسیح کے آنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر دوسرے وجوہ اور ضروریات کو چھوڑ دیا جاوے تو سلسلہ مماثلت موسوی کے لحاظ سے بھی سخت ضرورت ہے اس لیے کہ حضرت مسیح علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی میں آئے تھے.غرض میںتو بروز کی ایک نظیر پیش کرتا ہوں لیکن جو یہ کہتے ہیںکہ نہیں خود حضرت مسیح ہی دوبارہ آئیں گے انہیں بھی تو کوئی نظیر پیش کرنی چاہیے اور اگر وہ نہیں کر سکتے اور یقیناً نہیں کر سکتے تو پھر کیوں ایسی بات کرتے ہیں جو محدثات میں داخل ہے؟ محدثات سے پرہیز کرو کیونکہ وہ ہلاکت کی راہ ہے.یہودیوں پر غضب الٰہی اسی وجہ سے نازل ہوا کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے ایک رسول کا انکار کر دیا اور اس انکار کے لیے ان کو یہ مصیبت پیش آئی کہ انہوں نے استعارہ کو حقیقت پر حمل کیا

Page 321

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مغضوب قوم ٹھہر گئی.اس کا ہم شکل مقدمہ اب بھی پیش ہے.مجھے مسلمانوںکی حالت پر افسوس آتا ہے کہ ان کے سامنے یہودیوںکی ایک نظیر پہلے سے موجود ہے اور پانچ وقت یہ اپنی نمازوں میں غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ (الفاتحۃ:۷) کی دعا کرتےہیں اور یہ بھی بالاتفاق مانتے ہیں کہ اس سے مراد یہود ہیں پھر میری سمجھ میں نہیںآتا کہ اس راہ کو یہ کیوں اختیار کرتے ہیں.ایک ہی رنگ کا مقدمہ جب کہ ایک پیغمبر کے حضور فیصلہ ہو چکا ہے.اب اس فیصلہ کے خلاف مسیح کو خود آسمان سے یہ کیوں اتارتے ہیں؟ آپ ہی مسیح نے ایلیا کے مقدمہ کا فیصلہ کیا اور ثابت کر دیا کہ دوبارہ آمد سے بروزی آمد مراد ہوتی ہے اور ایلیا کے رنگ میں یحییٰ آیا.مگر اب یہ مسلمان اس نظیر کے ہوتے ہوئے بھی اس وقت تک راضی نہیں ہوتے جب تک خود مسیح کو آسمان سے نہ اتار لیں.لیکن میں کہتا ہوں کہ تم اور تمہارے سب معاون مل کر دعائیں کرو کہ مسیح آسمان سے اتر آوے پھر دیکھ لو کہ وہ اترتا ہے یا نہیں؟ میں یقیناً کہتا ہوںکہ اگر تم ساری عمر ٹکریں مارتے رہو اور ایسی دعائیں کرتے کرتے تمہارے ناک بھی رگڑے جاویں تب بھی وہ آسمان سے نہیں آئے گا.کیونکہ آنے والا تو آچکا.پھر میں کہتا ہوں کہ یہی وقت تو ہے جو اسے آسمان سے اترنا چاہیے اگر اترنا ہے کیونکہ تمہارے خیال میں ایک مفتری اور کاذب مدعی مسیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.اگر فی الواقع یہی سچ ہے کہ مسیح نے آسمان سے آنا ہے تو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اب اسے اتارے تاکہ دنیا گمراہ نہ ہو کیونکہ ایک کثیر جماعت تو مجھے مسیح موعود تسلیم کرچکی ہے اگر اس وقت وہ نہ آیا تو پھر کب آئے گا؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کاذبوں اور مفتریوں کی مدد کرے؟ اگر ایسا کبھی ہوا ہے تو نظیر پیش کرو اور پھر بتاؤ کہ راست بازوں کی سچائی کا کیا معیار ہے؟ مسئلہ وفات مسیح میں کون حق پر ہے اس مقدمہ میں خوب غور کر کے دیکھ لو کہ حق پر کون ہے؟ عقل اور نور فراست ہمارے ساتھ ہے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے ساتھ ہیں کیونکہ آپ نے معراج کی رات حضرت مسیح کو مُردوں میں دیکھا.پھر صحابہؓکا اجماع مسیح کی وفات پر ہو چکا ہے.قرآن شریف میری تائید کرتا

Page 322

ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خاص تائیدات سماویہ سے میرے دعوے کو سچا کیا.ہزاروں ارضی اور سماوی نشان میری سچائی کے ظاہر کئے.اس قدر شواہد اور دلائل کے ہوتے ہوئے میں کیونکر تسلیم کر لوں کہ جو کچھ یہ کہتے ہیں صحیح ہے جبکہ خدا تعالیٰ کی کھلی کھلی وحی مجھے مسیح موعود ٹھہراتی ہے.پھر میں ان ملانوں کی بات مانوں یا خدا کی وحی پر ایمان لاؤں؟ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی وحی کو میں ہرگز نہیں چھوڑ سکتا خواہ ساری دنیا میری دشمن ہو جاوے اور ایک بھی شخص میرے ساتھ نہ ہو.میں خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ کلام کو کیونکر جھٹلا سکتا ہوں؟ پھر ایسی حالت میں کہ اس کی روشن تائیدیں میرے ساتھ ہیں.اگر قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح کے فیصلہ کو یہ سب دھکے دیتےہیں تو دیں.خدا تعالیٰ خود ان سے مطالبہ اور محاسبہ کرے گا.نزولِ ایلیا ایک اور عجیب بات ہے کہ جب ہم ایلیا کا قصہ پیش کرتے ہیں اور یہودیوں کا اعتراض سناتے ہیں جو حضرت مسیح پر انہوں نے کیا تو اور کچھ جواب نہیں آتا تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ کتابیں محرّف مبدّل ہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ سب کچھ سہی.قومی تواتر اور تاریخ کو کیا کہو گے؟ وہ بھی تو کوئی چیز ہے اسے کیونکر ردّ کرو گے؟ اگر قومی تاریخ اور تواتر بھی ردّ کرنے کے قابل ہے تو پھر بڑے بڑے عظیم الشان بادشاہوں کے وجود پر کیا دلیل ہوگی؟ یقیناً کوئی نہیں.اس سے معلوم ہوا کہ قومی تواتر اور تاریخ کو ہم کبھی چھوڑ نہیں سکتے اور یہ مسئلہ نزول ایلیا کا ایسا ہے کہ یہودی اور عیسائی بالاتفاق اس کو مانتے ہیں.خود حضرت مسیح بھی اس پیشگوئی کے قائل تھے.اگر یہ پیشگوئی صحیح نہ تھی تو ان کو اس کی تاویل کرنے کی کیا حاجت تھی؟ وہ سِرے سے اس کا انکار ہی کر دیتے اور کہہ دیتے کہ یہ جو ملاکی نبی کی کتاب میں لکھا ہوا تم پیش کرتے ہو بالکل غلط ہے.مگر نہیں انہوں نے اس کو صحیح تسلیم کیا اور پھر اس کی تاویل کی.یہودی تو یہاں تک چلّاتے ہیں کہ ایک یہودی کی کتاب میرے پاس ہے.وہ لکھتا ہے کہ اگر قیامت کو ہم سے مؤاخذہ ہوگا تو ہم ملاکی نبی کی کتاب کھول کر رکھ دیں گے.

Page 323

غرض نزولِ ایلیاء کا مسئلہ بڑا صاف اور یقینی مسئلہ ہے اور خود حضرت مسیح کی زبان سے فیصلہ پا چکا ہے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی آمد ثانی کا بھی ذکر کر دیا ہے مگر افسوس ہے لوگ سمجھتے ہوئے نہیں سمجھتے! مگر کب تک انکار کریں گے.آخر یہ سچائی روز روشن کی طرح کھل جائے گی اور قومیں اس طرف رجوع کریں گی اسی طرح جیسے مسیح ابن مریم کے لیے ہوا.توحید کا ایک ثبوت اللہ تعالیٰ کی توحید پر یوں تو ہزاروں دلائل ہیں لیکن ایک دلیل بڑی عام اور صاف ہے اور وہ یہ ہے کہ وضع عالم میں ایک کرویت واقع ہوئی ہے اور کرویت میں توحید ہی پائی جاتی ہے.پانی کا قطرہ لو تو وہ بھی گول ہے.زمین کی شکل بھی گول ہے.آگ کا شعلہ بھی گول ہی ہے.ایسا ہی ستارے بھی گول ہیں.اگر تثلیث درست ہوتی تو چاہیے تھا کہ ان اشیاء کی اشکال و صُوَر بھی سہ گوشہ اور مثلّث نما ہوتیں.اسی طرح پر اللہ تعالیٰ نے آدم سے ایک سلسلہ شروع کیا اور آدم ہی پر اسے ختم کیا.چنانچہ مسیح موعود کا نام بھی آدم رکھا ہے چونکہ یہ آدم نئی قسم کا ہے اس لیے اس کے ساتھ شیطانی جنگ بھی نئے ہی قسم کی ہے.۱ ۳۰؍اکتوبر۱۹۰۱ء ابھی مغرب کی اذان نہ ہوئی تھی کہ حضرت اقدس علیہ السلام تشریف لے آئے.آپ کا چہرہ بشاشت اور مسرت سے پھول کی طرح کھلا ہوا تھا چہرہ سے ایک جلال ٹپکتا تھا.آتے ہی فرمایا.مسیح کی شان میں ایک افراط وتفریط کے خلاف غیرت کا اظہار آج میں نے ایک مضمون لکھنا شروع کیا ہے مسیح علیہ السلام کی نسبت بہت بڑا اِطراء کیا گیا ہے اور ان کی شان میں اتنا غلو کیا گیا ہے کہ معاذ اللہ خدا ہی بنا دیا گیا ہے.ہم ان کی عزّت کرتے ہیں جیسے اور نبیوں کی عزّت کرتے ہیں اور خدا کا راست باز نبی مانتے ہیں مگر اس غلو اور اطراء کو توڑنے کے لئے میں نے تجویز کیا ہے کہ ان کی وہ ساری سوانح یکجائی طور پر پیش کریں جو عیسائیوں اور یہودیوں کی

Page 324

کتابوں میں پائے جاتے ہیں کیونکہ جب تک وہ ساری باتیں جو ان کی انسانیت کے اثبات پر گواہ ناطق ہیں پیش نہ کی جاویں خیالی طور پر جو کچھ ان کے مراتب میں غلو کیا گیا ہے اس کا استیصال نہ ہوگا اور یہ جوش خدا تعالیٰ نے مجھے محض اس لئے دیا ہے کہ میں دیکھتا ہوں اس اِطراء کا نتیجہ بہت بُرا ہوا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین کی گئی اور خدا تعالیٰ کے جلال وجبروت کی کچھ بھی پروا نہیں کی گئی اس لئے یہ سلسلہ میں سمجھتا ہوں بہت مفید ہو گا.چونکہ اِنَّـمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ہماری نیت نیک ہے اس لئے وہ واقعات جو ہم اس میں درج کریں گے اس لئے نہیں ہوں گے کہ ہم خدا نخواستہ ان کی توہین کرتے ہیں بلکہ صرف اس لئے کہ ان کی انسانیت ان کو دی جائے بلکہ ہم ان اعتراضوں کو جو یہودیوں اور فری تھنکروں نے ان پر کئے ہیں درج کر کے خود ان کا جواب دیں گے.اس کے بعد چونکہ اذان ہو چکی تھی.نماز مغرب ادا کی گئی.بعد نماز مغرب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پھر اسی سلسلہ کلام میں فرمایاکہ اعجاز المسیح کی تصنیف یہ کتاب جو میں لکھ رہا ہوں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم الشان نشان ہو گی چونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی ہوئی ہے کہ اُجِیْبُ کُلَّ دُعَا ئِکَ اِلَّا فِیْ شُـرَکَا ئِکَ.اس لئے مجھے پورا بھروسا اور یقین ہے کہ میری دعائیں کل دنیا سے زیادہ قبول ہوتی ہیں اور اسی لئے یہ کتاب ایک نشان ہے کہ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکے گا.ہماری جماعت کے ہاتھ میں یہ زبردست نشان ہو گا.میں عربوں کے دعویٰ ادب وفصاحت وبلاغت کو بالکل توڑنا چاہتا ہوں.یہ لوگ جو اخبار نویس ہیں اور چند سطریں لکھ کر اپنے آپ کو اہلِ زبان اور ادیب قرار دیتے ہیں وہ اس اعجاز کے مقابلہ میں قلم اٹھا کر دیکھ لیں.ان کے قلم توڑ دیئے جاویں گے اور اگر ان میں کچھ طاقت ہے اور قوت ہے تو وہ اکیلے اکیلے یا سب کے سب مل کر اس کا مقابلہ کریں پھر انہیں معلوم ہو جائے گا اور یہ راز بھی کھل جائے گا جو یہ نا واقف کہا کرتے ہیں کہ عربوں کو ہزار ہا روپے کے نوٹ دے کر کتابیں لکھائی جاتی ہیں.اب معلوم ہو جائے گا کہ کون عرب ہے جو ایسی فصیح بلیغ کتاب اور ایسے حقائق ومعارف سے پُر لکھ سکتا ہے.جو کتابیں یہ ادب وانشاء کا دعویٰ کرنے

Page 325

والے لکھتے ہیںان کی مثال پتھروں کی سی ہے کہ سخت، نرم، سیاہ، سفید پتھر جمع کر کے رکھے جائیں.مگر یہ تو ایک لذیذ اور شیریں چیز ہے جس میں حقائق اور معارف قرآنی کے اجزا ترکیب دیئے گئے ہیں.غرض جو بات روح القدس کی تائید سے لکھی جاوے اور جو الفاظ اس کے القا سے آتے ہیں وہ اپنے ساتھ ایک حلاوت رکھتے ہیں اور اس حلاوت میں ملی ہوئی شوکت اور قوت ہوتی ہے جو دوسروں کو اس پر قادر نہیں ہونے دیتی.یہ غرض بہت بڑا نشان ہو گا.پھر اسی سلسلہ کلام میں کہ مسیح کی سوانح پر نکتہ چینیوں کو ہم لکھنا چاہتے ہیں اور یہودی اور فری تھنکروں کے اعتراضوں کے جواب دینا چاہتے ہیں.فرمایا.اس طرز کے اختیار کرنے سے مدعا یہ ہے کہ مسیح کی خدائی باطل کی جاوے.یہ اعتقاد ظلم عظیم ہے.اور مجھے تو ،خدا کی قدرت ہے کہ شروع سے جبکہ ابھی میں طالب علم ہی تھا اس کی تردید کا ایک جوش خدا نے دیا تھا.گویا میری سرشت میں یہ بات رکھ دی تھی.چنانچہ جب پادری فنڈر صاحب نے اپنی کتابیں شائع کیں تو ۱۸۵۹ء یا ۱۸۶۰ ء کا ذکر ہے کہ میں مولوی گل علی شاہ صاحب کے پاس جو ہمارے والد صاحب نے خاص ہمارے لئے استاد رکھے ہوئے تھے،پڑھا کرتا تھا اور اس وقت میری عمر سولہ سترہ برس کی ہو گی تو اس کی میزان الحق دیکھنے میں آئی.ایک ہندو نے جو میرا ہم مکتب تھا اس کی فارسی کو دیکھ کر اس کی بڑی تعریف کی.میں نے اس کو بہت ملزم کیا اور بتایا کہ اس کتاب میں بجز نجاست کے اور کچھ نہیں ہے تُو نری زبان پر جاتا ہے.اس وقت سے خدا نے اس جوش میں ترقی کی ہے اور میرے رگ وریشہ میں یہ بات پڑی ہوئی ہے کہ اس افترا کے پتلے کو تباہ کیا جاوے اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ آجکل جو نمازیں جمع کی جاتی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے فرمایا تھا کہ اس کے لئے نمازیں جمع کی جاویں گی تو یہ عظیم الشان پیش گوئی پوری ہو رہی ہے.میرا تو یہ حال ہے کہ باوجود اس کے کہ دو بیماریوں میں ہمیشہ سے مبتلا رہتا ہوں پھر بھی آجکل میری مصروفیت کا یہ حال ہے کہ رات کو مکان کے دروازے بند کر کے بڑی بڑی رات تک بیٹھا اس کام کو کرتا رہتا ہوں حالانکہ زیادہ جاگنے سے مراق کی بیماری ترقی کرتی ہے اور دورانِ سر کا دورہ زیادہ ہو جاتا ہے مگر میں اس بات

Page 326

کی پروا نہیں کرتا اور اس کام کو کئے جاتا ہوں.چونکہ دن چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں اور مجھے معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ دن کدھر جاتا ہے.اسی وقت خبر ہوتی ہے جب شام کی نماز کے لئے وضو کرنے کے واسطے پانی کا لوٹا رکھ دیا جاتا ہے.اس وقت مجھے افسوس ہوتا ہے کہ کاش اتنا دن اور ہوتا حالانکہ مجھے اسہال کی بیماری ہے اور ہر روز کئی کئی دست آتے ہیں مگر جب پاخانہ کی حاجت بھی ہوتی ہے تو مجھے رنج ہی ہوتا ہے کہ ابھی کیوں حاجت ہوئی اور ایسا ہی روٹی کے لئے جب کئی مرتبہ کہتے ہیں تو بڑا جبر کر کے جلد جلد چند لقمے کھا لیتا ہوں.بظاہر تو میں روٹی کھاتا ہوا دکھائی دیتا ہوں مگر میں سچ کہتا ہوں کہ مجھے پتا بھی نہیں ہوتا کہ وہ کہاں جاتی ہے اور کیا کھاتا ہوں.میری توجہ اور خیال اسی طرف لگا ہوا ہوتا ہے.پس یہ کام بہت ضروری ہے اور خدا چاہے تو یہ ایک نشان ہو گا جس کی نظیر لانے پر کوئی قادر نہ ہو گا.ناظرین!حضرت اقدس کے اس جوش کا کسی قدر پتہ ان الفاظ سے مل سکتا ہے جو آپ کو اعلائے کلمۃ الاسلام کے لئے حق نے عطا فرمایا ہے.آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہم کس دھن میں ہیں اور وہ کس خیال میں پھر اسی سلسلہ کلام میں فرمانے لگے کہ اگرچہ یہ کتاب بظاہر کوئی عجیب اور اعجاز نظر نہ آتی ہو مگر اس کی اشاعت پر دنیا کو معلوم ہو جائے گا.جب ہم نے مہو تسو کے لئے مضمون لکھنا شروع کیا تو ہمارے ایک دوست نے اپنے خیال کے موافق کچھ خوشی ظاہر نہ کی مگر خدا تعالیٰ نے الہاماً خوشخبری دی کہ وہ مضمون بالا رہا.چنانچہ یہ اشتہار جلسہ سے پہلے ہی شائع کر دیا گیا.آخر جب وہ جلسہ میں پڑھا گیا تو اس کی عظمت اور اس کے حقائق کو سب نے تسلیم کیا یہاں تک تسلیم کہ لاہور کے انگریزی، اردو اخبا رات نے اس کے بالا رہنے کا اعتراف کیا.اسی طرح پر جب یہ کتاب شائع ہو کر باہر نکلے گی تب پتہ لگے گا.میں نے ایک بار ایک شخص کو دہلی سے عطر لانے کے لئے کہا وہ کہنے لگا کہ جب میں عطار کی دکان پر گیا تو جو عطر وہ دکھاتا تھا میں اس کو ہی واپس کر دیتا تھا.آخر عطار نے کہا کہ میاں تم یہاں دوکان میں بیٹھے ہو تمہیں پتہ نہیں لگتا.جب دوکان سے باہر لے کر جاؤ گے تب اس عطر کی حقیقت معلوم ہو گی

Page 327

چنانچہ جب وہ عطر لے کر آیا تو اس نے بیان کیا کہ جو گاڑیاں ہم سے پیچھے آتی تھیں ان کے سوار کہتے تھے کہ کس کے پاس عطر ہے گویا اس کی اتنی خوشبو تھی.اس قسم کی باتیں ہو تی رہیں.اپنے دعویٰ کی صداقت اور اپنے مامور من اللہ ہونے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے رابطہ کے ایسے شدید اور گاڑھے تعلق ہونے پر کہ کوئی دوسرا آج زمین پر ویسا نہیں.اپنی دعاؤں کی قبولیت پر کچھ فرماتے رہے پھر مرزا خدا بخش صاحب ابوا لعطاء کی کتاب’’عسلِ مصفٰی‘‘ سننے لگے اور اس کے ضمن میں المسیح الدجال پر ایک پُر جوش اور لطیف تقریر فرمائی جو بالکل اچھوتی اور نئی تھی اور کسی تحریر میں ابھی تک نہیں آئی، یہ وہ تقریر ہے جو دجّال کی حقیقت اور اس کے خاص پُتلے کو ہر ایک کے سامنے کر دیا جائے گا.کوئی ہی ایسا بد بخت ہو گا جو اس کے بعد بھی منکر رہے.۱ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۱ء فونو گراف کے ذریعہ تبلیغ حضرت اقدسؑ حسبِ معمول سیر کو تشریف لے گئے.راستہ میں فونو گراف کی ایجاد اوراس سے اپنی تقریر کو مختلف مقامات پر پہنچانے کا تذکرہ ہوتا رہا.چنانچہ یہ تجویز کی گئی کہ اس میں حضرت اقدسؑ کی ایک تقریر عربی زبان میں بند ہو جو چار گھنٹہ تک جاری رہے اور اس تقریر سے پہلے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی تقریر ایک انٹرو ڈکٹری نوٹ کے طور پر جس کا مضمون اس قسم کا ہو کہ انیسویں صدی مسیحی کے سب سے بڑے انسان کی تقریر آپ کو سنائی جاتی ہے.جس نے خدا کی طرف سے مامور ہونے کا دعویٰ کیا ہے اورجو مسیح موعود اور مہدی معہود کے نام سے دنیا میں آیا ہے اور جس نے ارضِ ہند میں ہزاروں لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور جس کے ہاتھ پر ہزاروں تائیدی نشان ظاہر ہوئے.خدا تعالیٰ نے جس کی ہر میدان میں نصرت کی.وہ اپنی دعوت بلاد اسلامیہ میں کرتا ہے سامعین خود اس کے منہ سے سن لیں کہ اس کا کیا دعویٰ ہے اور اس کے دلائل اس کے پاس کیا ہیں.اس قسم کی

Page 328

ایک تقریر کے بعد پھر حضرت اقدسؑ کی تقریر ہو گی اور جہاں جہاں یہ لوگ جائیں اسے کھول کر سناتے پھریں.سیر سے واپس تشریف لا کر حضرت اقدس نے قاضی یوسف علی صاحب نعمانی کو دیکھا اور اندر تشریف لے گئے.پھر ظہر کے وقت تشریف لائے ،نمازیں جمع ہوئیں.آج اتفاق سے ڈاک میں حکیم محمد اجمل خان صاحب دہلوی کا خط اور حاذق الملک میموریل فنڈ کے کاغذات آپ کے پاس پہنچے.حضور نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر تبلیغ کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا.جناب کو فرصت ہو گی تو اس پر ایک خط لکھیں گے جو الحکم میں طبع ہو گا.۱ یکم نومبر ۱۹۰۱ء بروز جمعۃ المبارک حضرت عیسیٰ اور مریم علیہما السلام کی تطہیر حضرت اقدسؑ جری اللہ فی حلل الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام بعد نماز مغرب حسب معمول بیٹھ گئے.ارد گرد خدام ارادت مندی کے ساتھ حلقہ باندھے بیٹھے تھے.آپ نے کل کے سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مسیح علیہ السلام کی شان میں جس قدر اِطراء کیا گیا ہے اور پھر جس قدر ان پر حملے کر کے ان کو گرایا گیا ہے.میں ان دونوں پہلوؤں کو صاف کر کے مسیح علیہ السلام کی شان کو اعتدال پر لانا چاہتا ہوں اور جو کچھ وہ تھے اس سے دنیا کو اطلاع دینا بھی میرا کام ہے.آج میں اس پر بہت غور کرتا رہا کہ عیسائیوں نے جو مسیح کو خدا بناتے ہیں باوجود خدا بنانے کے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اور باتوں کے علاوہ ایک نئی بات مجھے معلوم ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ تاریخ سے معلوم ہوا ہے کہ جس یوسف کے ساتھ حضرت مریم کی شادی ہوئی اس کی ایک بیوی پہلے بھی موجود تھی.اب غور طلب یہ امر ہے کہ یہودیوں نے تو اپنی شرارت سے اور حد سے بڑھی ہوئی شوخی سے حضرت مسیحؑ کی پیدائش کو ناجائز قرار

Page 329

دیا اور انہوں نے یہ ظلم پر ظلم کیا کہ ایک تارکہ اور نذر دی ہو ئی لڑکی کا اپنی شریعت کے خلاف نکاح کیا اور پھر حمل میں نکاح کیا.اس طرح پر انہوں نے شریعت موسوی کی توہین کی اور با ایں حضرت مسیحؑ کی پاک پیدائش پر نکتہ چینی کی اور ایسی نکتہ چینی جس کو ہم سن بھی نہیں سکتے.ان کے مقابلے میں عیسائیوں نے کیا کیا؟ عیسائیوں نے حضرت مسیحؑ کی پیدائش کو تو بے شک اعتقادی طور پر روح القدس کی پیدائش قرار دیا اور خود خدا ہی کو مریم کے پیٹ سے پیدا کیا مگر تعدّدِ ازواج کو ناجائز کہہ کر وہی اعتراض اس شکل میں حضرت مریم کی اولاد پر کر دیا اور اس طرح پر خود مسیحؑ اور ان کے دوسرے بھائیوں کی پیدائش پر حملہ کیا.واقعی عیسائیوں نے تعدّدِ ازواج کے مسئلہ پر اعتراض کر کے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے.ہم تو حضرت مسیحؑ کی شان بہت بڑی سمجھتے ہیں اور اسے خدا کا سچا اور برگزیدہ نبی مانتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ آپ کی پیدائش باپ کے بدوں خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک نمونہ تھی اور حضرت مریم ؑصدیقہ تھیں.یہ قرآن کریم کا احسان ہے حضرت مریمؑ پر اور حضرت مسیحؑ پر جو ان کی تطہیر کرتا ہے اور پھر یہ احسان ہے اس زمانہ کے موعود امام کا کہ اس نے از سر نو اس تطہیر کی تجدید فرمائی.اس پر حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے فرمایا اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُـحَمَّدٍ.لاریب ’’امہات المومنین‘‘ کا عجیب جواب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا انتقام.اس کے بعد پھر حضرت اقدس نے فرمایا کہ میں یہ سارے اعتراض جمع کر کے خود حضرت مسیحؑ کی طرف سے جواب دوںگا اور ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ بھی مسیحؑ سے کرتا جاؤں گا.اس کے بعد مفتی صاحب نے وہ اعتراض پڑھ کر سنائے جو فری تھنکروں اور یہودیوںنے حضرت مسیحؑ پر کئے ہیں.زاں بعد مرزا خدا بخش صاحب نے اپنی کتاب کا کچھ حصہ سنایا پھر نماز عشاء ہوئی.۱

Page 330

۲؍نومبر ۱۹۰۱ء فرمایا کہ ابنِ صیّاد مجھے تعجب ہے کہ کیوں بے چارے ابنِ صیّاد پر یہ ظلم کیا جاتا ہے کہ خواہ نخواہ اسے دجّال بنایا جاتا ہے حالانکہ ساری عمر میں اس سے کوئی شرارت ظاہر نہیں ہوئی بلکہ اس نے مسلمان ہو کر جہاد میں اپنی جان دی اور شہید ہوا اور حج کیا ،مجھے تو یہ مظلوم نظر آتا ہے اور اس لئے وہ اس قابل ہے کہ اسے رضی اللہ عنہ کہا جاوے یہ صرف بلا سوچے سمجھے مورد اعتراض ٹھہرایا گیا ہے.اس پر حضرت مولوی نور الدین صاحب نے فرمایا کہ حضور!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو مدینہ سے نکال بھی دیا اور بعض کو قتل بھی کیا گیا مگر ابنِ صیّاد کو آپ نے نہیں نکالا.اگر وہ ایسا ہی دجّال تھا جیسا کہ یہ لوگ خیال کرتے ہیں تو اسے کیوں چھوڑا؟ پھر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ حقیقت میں یہ اعتراض بہت صحیح ہے اور اس کا جواب ان کے پاس نہیں ہے.میری رائے یہی ہے کہ وہ ایک سچا مسلمان تھا.اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق نبی الامین کہہ کر کی اور اس کی ماں بھی معلوم ہوتا ہے مسلمان تھی.یہ حضرت ابنِ صیّاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ مظلوم ہیں.۳؍نومبر ۱۹۰۱ء عیسٰیؑ اور یسوع میں فرق حسبِ معمول بیٹھتے ہی حضرت مسیحؑ کا تذکرہ شروع ہو گیا.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے عرض کیا کہ حضو ر عیسیٰ اور یسوع میں فرق ہے عیسائی کبھی عیسیٰ ابن مریم نہیں بولتے بلکہ بعض تو بُرا سمجھتے ہیں.ان کے ہاں یسوع ہے.عبرانی میں عین نہیں بولتے.یسو کہتے ہیں اور قرآن نے کہیں یسو کا تذکرہ نہیں کیا.انجیل پر کہیں کتاب کا لفظ نہیں بولا گیا.اس پر جب یہ آیت پیش کی گئی کہ مسیح نے کہا ہے اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ

Page 331

اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ ( مریم :۳۱) تو اس کی لطیف تشریح فرمائی.اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ سے مراد فہمِ کتاب ہے.۱ دعا کے اصول حضرت اقدس حسب معمول سیر کو نکلے.سیٹھ احمد الدین صاحب بھی ساتھ تھے.مولوی برہان الدین صاحب نے عرض کیا کہ سیٹھ صاحب کا ایک لڑکا ہوا تھا وہ فوت ہو چکا ہے.حضور دعا کریں.فرمایا.ہاں میں دعا کروں گا مگر ساری باتیں ایمان پر منحصر ہیں.ایمان جس قدر قوی ہو اسی قدر خدا تعالیٰ کے فضل سے حصہ ملتا ہے.خدا کے پاس کیا نہیں.اگر ایمان قوی نہ ہو تو انسان خدا سے بد ظن ہوجاتا ہے اور پھر تعویذ گنڈے کرنے لگتا ہے اور غیر اللہ کی طرف جھک جاتا ہے.پس مومن بننا چاہیے.دعا کے لئے اصول ہیں میں نے بہت دفعہ بیان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کبھی اپنی منواتا ہے اور کبھی مومن کی مانتا ہے اس کے سوا چونکہ ہم تو علیم نہیں اور نہ اپنی ضرورتوں کے نتائج سے آگاہ ہیں اس لئے بعض وقت ایسی چیزیں مانگ لیتے ہیں جو ہمارے لئے مضر ہوتی ہیں.پس وہ دعا تو قبول کر لیتا ہے اور جو دعا کرنے والے کے واسطے مفید ہوتا ہے وہ اسے عطا کرتا ہے.جیسے ایک زمیندار کسی بادشاہ سے ایک اعلیٰ درجہ کا گھوڑ امانگے اور بادشاہ اس کی ضرورت کو سمجھ کر اسے عمدہ بیل دے دے.تو اس کے لئے وہی مناسب ہو سکتا ہے.دیکھو! ماں بھی تو بچے کی ہرخواہش کو پورا نہیں کرتی.اگر وہ سانپ یا آگ کو لینا چاہے تو کب دیتی ہے؟پس خدا تعالیٰ سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے اور تقویٰ اور ایمان میں ترقی کرنی چاہیے.ریا فرمایا.ریا کی رفتار بہت دھیمی ہوتی ہے اور وہ چیونٹی سے بھی باریک چلتی ہے.ہر تحسین اور توہین میں ریا کا ایک شعبہ ہوتا ہے.یہاں تک کہ مومن کو چاہیے اگر اسے کسی طرف سے کوئی نیکی اور فائدہ پہنچے اگر وہ اس کی تحسین سے پہلے خدا کی تعریف نہیں کرتا تو یہ بھی ریا میں داخل ہے.ایسا ہی کسی تکلیف یا بدی کے وقت ضروری ہے کہ خدا کی حکمت کو مد نظر رکھے.مومن کا کمال تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ان تعلقات کو جو خدا تعالیٰ کے ساتھ رکھتا ہے کبھی پسند نہیں کرتا کہ دوسروں کو اس کا

Page 332

علم ہو بلکہ بعض صوفیوں نے لکھا ہے کہ جب مومن خدا تعالیٰ کے ساتھ شدت ارتباط اور محبت کی وجہ سے گوشہ تنہائی میں اپنی مناجات کر رہا ہو اس وقت کوئی اس کو دیکھ لے تو وہ اس سے زیادہ شرمندہ ہوتا ہے جیسے کوئی زنا کار عین زنا کاری کے وقت پکڑا جاوے.پس ریا سے بچنا چاہیے اور اپنے ہرقول و فعل کو اس سے محفوظ رکھنا چاہیے.۱ نجات کی حقیقت فرمایا.ایک ضروری اورغور طلب سوال ہے جس کو کل دنیا کی قوموں اور سب مذہبوں نے اپنی اپنی جگہ پر محسوس کیا ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ انسان کیوںکر بچ سکتا ہے؟ یہ سوال حقیقت میں ہر ایک انسان کے اندر سے پیدا ہوتا ہے جب کہ وہ دیکھتا ہے کہ کس طرح پر نفس بے قابو ہو ہو جاتا ہے اور مختلف قسم کے خیالات فاسدہ بدکاری کے آ آ کر اس کو گھیر لیتے ہیں.ان گناہوں سے بچنے کے واسطے ہر قوم نے کوئی نہ کوئی ذریعہ قرار دیا ہے اور کوئی حیلہ نکالا ہے.عیسائیوں نے اس عام ضرورت اور سوال سے فائدہ اٹھا کر ایک حیلہ پیش کیا ہے کہ مسیح کا خون نجات دیتاہے.سب سے اول یہ دیکھنا ضروری ہے کہ نجات ہے کیا چیز؟ نجات کی حقیقت تو یہی ہے کہ انسان گناہوں سے بچ جاوے اور جو فاسقانہ خیالات آ آ کر دل کو سیاہ کرتے ہیں ان کا سلسلہ بند ہو کر سچی پاکیزگی پیدا ہو.اب ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائیوں نے گناہ سے بچنے کی ضرورت کوتو محسوس کیا اور اس سے فائدہ اٹھا کر نجات طلب لوگوں کے سامنے یہ پیش کر دیا کہ مسیح کا خون ہی ہے جو گناہوں سے بچا سکتا ہے.مگر ہم کہتے ہیں کہ اگر مسیح کا خون یا کفارہ انسان کو گناہوں سے بچا سکتا ہے تو سب سے پہلے ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کفارہ میں اور گناہوں سے بچنے میں کوئی رشتہ بھی ہے یا نہیں ؟ جب ہم غور کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں میں باہم کوئی رشتہ اور تعلق نہیں مثلاً اگر ایک مریض استسقا کا کسی طبیب کے پاس آوے تو طبیب اس کا علاج کرنے کے بجائے اسے یہ کہہ دے تو میری کتاب کا

Page 333

جز لکھ دے تیرا علاج یہی ہے تو کون عقل مند اس علاج کو قبول کرے گا.پس مسیح کے خون اور گناہ کے علاج میں اگر یہی رشتہ نہیں ہے تو اور کون سا رشتہ ہے یا یوں کہو کہ ایک شخص کے سر میں درد ہوتا ہو اور دوسرا آدمی اس پر رحم کھا کر اپنے سر میں ایک پتھر مار لے اور اس کے درد سر کا اسے علاج تجویز کر لے یہ کیسی ہنسی کی بات ہے پس ہمیں کوئی بتا وے کہ عیسائیوں نے ہمارے سامنے پیش کیا کِیا ہے.جو کچھ وہ پیش کرتے ہیں وہ تو ایک قابل شرم بناوٹ ہے گناہوں کا علاج کیا؟ یسوع کی خود کشی جس کو گناہوں سے پاک ہونے کے واسطے کوئی حقیقی رشتہ بھی نہیں ہم بارہا حیران ہوتے ہیں کہ حضرت مسیح کو یہ سوجھی کیا؟ جو دوسروں کو نجات دلانے کے لئے آپ صلیب اختیار کی اگر وہ اس صلیب کی موت سے (جو لعنت تک لے جاتی ہے اور عیسائیوں کے قول اور اعتقاد کے موافق کفارہ کے لئے لعنتی ہوجانا ضروری ہے کیونکہ وہ گناہوں کی سزا ہے) اپنے آپ کو بچاتے اور کسی معقول طریق پر بنی نوع کو فائدہ پہنچاتے تو وہ اس خود کشی سے بدرجہا بہتر اور مفید ہوتا.غرض کفارہ کے ابطال پر یہ زبردست دلیل ہے کہ گناہوں کے علاج اور کفارہ میں باہم کوئی رشتہ نہیں ہے.پھر دوسری دلیل اس کے باطل ہونے پر یہ ہے کہ کفارہ نے اس فطری خواہش کو کہ گناہوں سے انسان بچ جاوے کہاں تک پورا کیا؟ اس کا جواب صاف ہے کہ کچھ بھی نہیں چونکہ تعلق کوئی نہ تھا اس لئے کفارہ گناہوں کے اس جوش او رسیلاب کو روک نہ سکا.اگر کفارہ میں گناہوں سے بچانے کی کوئی تاثیر ہوتی تو یورپ کے مرد و عورت گناہوں سے ضرور بچے رہتے.ہر قسم کے گناہ یورپ کے خواص و عوام میں پائے جاتے ہیں اگر کسی کو شک ہو تو وہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں میں جا کر دیکھ لے کیا ہوتا ہے.زنا کی کثرت خوف دلاتی ہے کہ کہیں زنا کے جواز کا ہی فتویٰ نہ ہو جاوے گو عملی طور پر تو نظر آتا ہے.شراب کا استعمال اس قدر کثرت سے بڑھتا جاتا ہے کہ کچھ روز ہوئے ایک عورت نے کسی ہوٹل میں پینے کو پانی مانگا تو انہوں نے کہا کہ پانی تو برتن دھونے یا نہانے وغیرہ کے کام آتا ہے پینے کے لئے تو شراب ہی ہوتی ہے پس اب غور کر کے دیکھ لو کہ گناہ کے سیلاب کو روکنے کے واسطے خون مسیح کا بندتو کافی

Page 334

نہیں ہوا بلکہ اپنی رو میں اس نے پہلے بندوں کو بھی توڑ دیا اور پوری آزادی اور اباحت کے قریب پہنچا دیا.گناہ سے بچنے کا طریق اب سوال یہ ہوتا ہے کہ کفارہ تو بے شک گناہوں سے بچا نہیں سکتا.مگر کیا کوئی اَور طریق ہے بھی جس سے انسان گناہوںسے بچ جاوے ؟میں کہتا ہوں کہ ہاںعلاج ہے اور ضرور ہے اور وہ علاج یقینی علاج ہے مگر جیسے سچی باتوں کے ساتھ مشکلات ہوتے ہیں ویسے ہی یہ علاج بھی مشکلات سے خالی نہیں.یہ یاد رکھو کہ جھوٹ کے ساتھ مشکلات نہیں ہوتی ہیں مثلاً ایک کیمیا گر جو یہ کہتا ہے کہ میں ایک دم میں ایک ہزار کا دو ہزار بنا دیتا ہوں وہ مشکلات اس فعل کے لئے نہیں رکھتا لیکن ایک زمیندار کو کس قدر مشکلات کا سامنا ہوتا ہے یا ایک تاجر کو اپنے مال کو کس طرح خطرہ میں ڈالنا پڑتا ہے ایسا ہی ایک ملازم قسم قسم کی پابندیوں اور ماتحتیوں کے نیچے آ کر کن مشکلات میں ہے پس تم سہل باتوں سے ڈرو جو پھونک مار کر سب کچھ بنا دینا چاہتے ہیں وہ خطرنا ک عیار ہیں.میرا مطلب ہے کہ عیسائیوں کا گناہ کا علاج تو بجز اباحت کے اور کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا.عیسائی باش ہر چہ خواہی بکن.اور یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ کے اعتقاد کی وجہ سے دہریت کی رگ پیدا ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہےکہ انسان گناہ پر دلیر ہو جاتا ہے اور جس قدر سم الفار کی مہلک تاثیر کی ہیبت اس کو اس کے کھانے سے باز رکھتی ہے اس قدر بھی خدا کی ہیبت اس کو نافرمانی سے نہیں روکتی.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ خدا کی عظمت اس کی ہیبت ، جلال اور اقتدار سے بے خبر ہے تب ہی تو نافرمانی اور سرکشی کو ایک معمولی بات سمجھتا ہے اور گناہ پر دلیر ہو جاتا ہے ا ور نہیں ڈرتا.ادنیٰ درجہ کے حکام اور ان کے چپراسیوں تک کی نافرمانی سے اس کی جان گھٹ جاتی ہے مگر خدا کی نافرمانی سے اس کے دل پر لرزہ نہیں پڑتا کیونکہ خدا شناسی کی معرفت اسے نہیں ملی.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ گناہ کا علاج جو ہم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں سوا اس کے

Page 335

دوسرا علاج نہیں ہے اور وہ یہی ہے کہ خدا کی معرفت لوگوں کو حاصل ہو.خدا کی معرفت کاملہ تمام سعادت مندیوں کا مدار خدا شناسی پر ہے اور نفسانی جذبات اور شیطانی محرکات سے روکنے والی صرف ایک ہی چیز ہے جو خدا کی معرفت کاملہ کہلاتی ہے جس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ خدا ہے.وہ بڑا قادر ہے وہ ذُو الْعَذَابِ الشَّدِيْدِ ہے.یہی ایک نسخہ ہے جو انسان کی متمردانہ زندگی پر ایک بھسم کرنے والی بجلی گراتا ہے.پس جب تک انسان اٰمَنْتُ بِاللہِ کی حدود سے نکل کر عَرَفْتُ اللہَ کی منزل میں قدم نہیں رکھتا اس کا گناہوں سے بچنا محال ہے اور یہ بات کہ ہم خدا کی معرفت اور اس کی صفات پریقین لانے سے گناہوں سے کیونکر بچ جائیں گے ایک ایسی صداقت ہے جس کو ہم جھٹلا نہیں سکتے.ہمارا روزانہ تجربہ اس امر کی دلیل ہے کہ جس شے سے انسان ڈرتا ہے اس کے نزدیک نہیں جاتا مثلاً جب کہ یہ علم ہو کہ سانپ ڈس لیتا ہے اور اس کا ڈسا ہوا ہلاک ہو جاتا ہے تو کون دانش مند ہے جو اس کے منہ میں اپنا ہاتھ دینا تو درکنار کبھی اس سوٹے کے نزدیک بھی جانا پسندکرے جس سے کوئی زہریلا سانپ مارا گیا ہو.اسے خیال ہوتا ہے کہ کہیں اس کے زہر کا اثر اس میں باقی نہ ہو.اگر کسی کو معلوم ہو جائے کہ فلاں جنگل میں شیر ہے تو ممکن نہیں کہ وہ اس میں سفر کر سکے یا کم ازکم تنہا جا سکے.بچوں تک میں یہ مادہ اور شعور موجود ہے کہ جس چیز کے خطرناک ہونے کا ان کو یقین دلایا گیا ہے وہ اس سے ڈرتے ہیں.پس جب تک انسان میں خدا کی معرفت اور گناہوں کے زہر کا یقین پیدا نہ ہو کوئی اور طریق خواہ وہ کسی کی خودکشی ہو یا قربانی کا خون نجات نہیں دے سکتا اور گناہ کی زندگی پر موت وارد نہیں کر سکتا.یقیناً یاد رکھو کہ گناہوں کا سیلاب اور نفسانی جذبات کا دریا بجز اس کے رک ہی نہیں سکتا کہ ایک چمکتا ہوا یقین اس کو حاصل ہو کہ خدا ہے اور اس کی تلوار ہے جو ہر ایک نافرمان پر بجلی کی طرح گرتی ہے جب تک یہ پیدا نہ ہو گناہ سے بچ نہیں سکتا.اگر کوئی کہے کہ ہم خدا پر ایمان رکھتے ہیں اورا س بات پر بھی ایمان لاتے ہیںکہ و ہ نافرمانوں کو سزا دیتا ہے مگر گناہ ہم سے دور نہیں ہوتے؟ میں جواب میں یہی کہوں گا کہ یہ جھوٹ ہے اورنفس کا مغالطہ ہے سچے ایمان اور سچے یقین اور گناہ میں باہم عداوت ہے جہاں سچی معرفت

Page 336

اور چمکتا ہوا یقین خدا پر ہو وہاں ممکن نہیں کہ گناہ رہے.انسانی فطرت میں یہ خاصہ جب کہ موجود ہے کہ سچی معرفت نقصان سے بچا لیتی ہے جیسے کہ سانپ یا شیر یا زہر کی مثال سے بتایا گیا ہے پھر یہ بات کیوں کر درست ہو سکتی ہے کہ ایمان بھی ہو اور گناہ بھی دور نہ ہو.میں دیکھتا ہوں کہ ان فری میسنوں میں محض ایک رعب کا سلسلہ ان کے اسرار کے اظہار سے روکتا ہے اور کچھ نہیں.پھر خدا کی عظمت و جبروت پر ایمان گناہ سے نہیں بچا سکتا ؟بچا سکتا ہے اور ضرور بچا سکتا ہے.پس گناہ سے بچنے کے لئے حقیقی راہ خدا کی تجلیات ہیں اورا س آنکھ کو پیدا کرنا شرط ہے جو خدا کی عظمت کو دیکھ لے اورا س یقین کی ضرورت ہے جو گناہ کے زہر پر پیدا ہو.زمین سے تاریکی پیدا ہوتی ہے اور آسمان اس تاریکی کو دور کرتا ہے اور ایک روشنی عطا کرتا ہے زمینی آنکھ بے نور ہوتی ہے جب تک آسمانی روشنی کا طلوع اور ظہور نہ ہو اس لئے جب تک آسمانی نور جو نشانات کے رنگ میں ملتا ہے کسی دل کو تاریکی سے نجات نہ دے انسان اس پاکیزگی کو کب پا سکتا ہے جو گناہ سے بچنے میں ملتی ہے.پس گناہوں سے بچنے کے لئے اس نور کی تلاش کرنی چاہیے جو یقین کی روشنی کے ساتھ آسمان سے اترتا ہے اور ایک ہمت ، قوت عطا کرتا ہے اور تمام قسم کے گردو غبار سے دل کو پاک کرتا ہے اس وقت انسان گناہ کے زہر ناک اثرکو شناخت کر لیتا اورا س سے دور بھاگتا ہے جب تک یہ حاصل نہیں گناہوں سے بچنا محال ہے.یہ طریق ہے جو ہم پیش کرتے ہیں اس پر اگر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے تو بے شک ہم ہر ایک شخص کو اجازت دیتے ہیںکہ وہ ہمارے سامنے اس کو بیان کرے تا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ کسی عیسائی کے سامنے اس اصل کو بیان کرے اور پھر اس کا کوئی اعتراض سن کر شرمندہ ہو جو اعتراض اس پر ہو سکتا ہے بے شک کیا جاوے.یہ سن کر خاکسار ایڈیٹر الحکم نے اتنا عرض کیا کہ حضور اب یہ سوال باقی رہتا ہے کہ جب گناہوں سے بچنے کے لیے سچی معرفت اور چمکتےہوئے یقین کی ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ کی عظمت اور گناہ کے خطرناک زہر پر آگاہ کرے تو وہ یقین پیدا کیونکر ہو؟

Page 337

خدا کی معرفت کاملہ فرمایا.بے شک یہ بات ہے جس کو میں خود بھی بیان کرنا چاہتا تھا.یہ بات کہ ایسا یقین کیونکر پیدا ہو؟ اس کے لئے اتنا ہی کہنا چاہتے ہیں کہ ایسے یقین کے خواہش مند کے لئے ضروری ہے کہ وہ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ(التوبۃ: ۱۱۹) سے حصہ لے.صادق سے صرف یہی مراد نہیںکہ انسان زبان سے جھوٹ نہ بولے یہ بات تو بہت سے ہندوؤں اور دہریوں میں بھی ہو سکتی ہے بلکہ صادق سے مراد وہ شخص ہے جس کی ہر بات صداقت اور راستی ہونے کے علاوہ اس کے ہر حرکات وسکنات و قول سب صدق سے بھرے ہوئے ہوں گویا یہ کہو کہ اس کا وجود ہی صدق ہو گیا ہو اور اس کے اس صدق پر بہت سے تائیدی نشان اور آسمانی خوارق گواہ ہوں چونکہ صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے اس لئے جو شخص ایسے آدمی کے پاس جو حرکات و سکنات ، افعال و اقوال میں خدائی نمونہ اپنے اندر رکھتا ہے صحتِ نیت اور پاک ارادہ اور مستقیم جستجو سے ایک مدت تک رہے گا تو یقین کامل ہے کہ وہ اگر دہریہ بھی ہو تو آخر خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان لے آئے گا کیونکہ صادق کا وجود خدانما وجود ہوتا ہے.انسان اصل میں اُنْسَان ہے یعنی دو محبتوں کا مجموعہ ہے ایک انس وہ خدا سے کرتا ہے دوسرا انس انسان سے.چونکہ انسان کو تو اپنے قریب پاتا اور دیکھتا ہے اور اپنی ہی نوع کی وجہ سے اس سے جھٹ پٹ متاثر ہو جاتا ہے اس لئے کامل انسان کی صحبت اور صادق کی معیت اسے وہ نور عطا کرتی ہے جس سے خدا کو دیکھ لیتا ہے اور گناہوں سے بچ جاتا ہے.انسان کے دراصل دو وجود ہوتے ہیں ایک وجود تو وہ ہے جو ماں کے پیٹ میں طیار ہوتا ہے اور جسے ہم تم سب دیکھتے ہیں جسے لے کر وہ باہر آجاتا ہے اور یہ وجود بلاکسی فرق کے سب کوملتا ہے لیکن ایک اور وجود بھی انسان کو دیا جاتا ہے جو صادق کی صحبت میں تیار ہوتا ہے یہ وجود بظاہر ایسا نہیں ہوتا کہ ہم اسے چھو کر یا ٹٹول کر دیکھ لیں مگر وہ ایسا وجود ہوتا ہے کہ اس وجود پر ایک قسم کی موت وارد ہو جاتی ہے وہ خیالات وہ افعال اور حرکات جو اس سے پہلے صادر ہوتے تھے یا دل میں گزرتے تھے یہ ان سے بالکل الگ ہو جاتا ہے اور شبہات سے جو اس کے دل کو تاریک کئے رہتے تھے ان سے اس کو

Page 338

نجات مل جاتی ہے او ریہی وجود حقیقی نجات ہوتی ہے جو سچی پاکیزگی کے بعد ملتا ہےکیونکہ جب تک شبہات سے نجات نہیں اس کو تاریکی سے نجات نہیں اور سچی پاکیزگی اسےمیسر نہیں اور وہ خدا کو دیکھ نہیں سکتا اس کی عظمت و ہیبت کا اس کے دل پر اثر نہیں ہو سکتا اور سچ تو یہ ہے کہ وہ خدا کو دیکھ نہیں سکتا اور جو شخص اس دنیا میں خدا کے دیکھنے سے بے نصیب ہے وہ قیامت کو بھی محروم ہی ہو گا جیسے خدا نے خود فرمایا ہے مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى ( بنی اسراءیل:۷۳)اس سے یہ مراد تونہیں ہو سکتی کہ جواس دنیا میں اندھے ہیں وہ قیامت کو بھی اندھے ہی ہوں گے بلکہ۱ اس کا مفہوم یہی ہے کہ خدا کو ڈھونڈنے والوں کے دل نشانات سے ایسے منور کئے جاتے ہیں کہ وہ خدا کو دیکھ لیتے ہیں اور اس کی عظمت و جبروت کا مشاہدہ کر تے ہیں یہاں تک کہ دنیا کی ساری عظمتیں اور بزرگیاں ان کی نگاہ میں ہیچ ہو جاتی ہے او راگر خدا کو دیکھنے کی آنکھیں اور اس کے دریافت کرنے کے حواس سے اس دنیا میں اس کو حصہ نہیں ملا توا س دوسرے عالم میں بھی نہیں دیکھ سکے گا.پس اللہ تعالیٰ کو جیسا کہ وہ ہے کسی غلطی کے بدوں شناخت کرنا اوراسی دنیا میں سچے اور صحیح طور پر اس کی ذات وصفات کی معرفت حاصل کرنا ہی تمام روشنیوں اور تجلیات کی کلید ہے اسی سے وہ آگ پیدا ہوتی ہے جو پہلے انسان کی گنہ گار حالت پر موت وارد کر تی ہے اوراس کو جلا دیتی ہے اور پھر اس کو نور عطا کرتی ہے جس سے وہ گناہ کو شناخت کرتا اور اس کی زہر پر اطلاع پاکر اس سے ڈرتا اور دور بھاگتا ہے پس یہی وہ دو قسم کی آگ ہے جو ایک طرف گناہ کو جلاتی اور دوسری طرف نیکیوں کی قدرت عطا کرتی ہے اور اس کا نام جلال او ر جمال کی آگ ہے کیونکہ گناہ سے تو جلالی رنگ اورہیبت ہی سے بچ سکتا ہے.جب یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ اس گناہ کی سزا میں شدید العذاب ہے اور مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ (البقرۃ:۴) ہےتو انسان پر ایک ہیبت سی طاری ہو جائے گی جو اس کو گناہ سے بچا لے گی اور جمال نیکیوں کی طرف جذب کرتا ہے جب کہ یہ معلوم ہوجائے کہ خدا تعالیٰ ربُّ العالمین ہے رحمٰن ہے رحیم ہے تو بے اختیار ہو کر دل اس کی طرف کھینچا جائے گا اور ایک سرور او ر لذّت کے ساتھ نیکیوں کا صدور ہونے لگے گا.

Page 339

جیسے چاندی یا سونے کے صاف کرنے کے واسطے ضروری ہے کہ اسے کھٹائی میں ڈال کر خوب آگ روشن کی جاوے اس سے اس کا وہ سارا میل کچیل جو ملا ہوا ہوتا ہے فی الفور الگ ہو جاتا ہے اور پھر اس کو عمدہ اور خوبصورت زیور کی شکل میں لانے کے واسطے جو کسی حسین کے لئے بنایا جائے اس بات کی ضرورت ہے کہ پھر آگ دے کر اسے مفید مطلب بنایا جائے.جب تک وہ ان دونوں آگوں کے بیچ میں رکھا نہ جائے وہ خوبصورت اور درخشاں زیور کی شکل اختیار نہیں کر سکتا.اسی طرح انسان جب تک جلالی اور جمالی آگ میں ڈالا نہ جائے وہ گناہ سوز فطرت لے کر نیک بننے کے قابل نہیں ہوتا.اس لئے پہلے گناہ جلایا جاتا ہے اور پھر جمالی آگ سے نیکی کی قوت عطا ہوتی ہے اورپھر فطرت میں ایک روشنی اورچمک آتی ہے جو نیکی اور بدی میں تمیز بنا کر نیکی کی طرف جذب کرتی ہے.اس وقت ایک نئی پیدائش ملتی ہے.سورۃ الدہر میں اس پیدائش کی حالت کا بیان کافوری اور زنجبیلی شربت کی مثال سے دیا ہے چنانچہ پہلے فرمایا ہے اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا (الدَّہر:۶) یعنی مومن جو خدا کے نیک بندے ہیں وہ کافوری پیالے پیتے ہیں.کافور کا لفظ اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ کَفَرَ ڈھانکنے کو کہتے ہیں اور کافور مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت ڈھانکنے والا.ایسے ہی طاعون بھی ہے.میں سمجھتا ہوں طاعون اس لئے نام رکھا ہے کہ یہ اہل حق پر طعن کرنے سے پیدا ہوتی ہے اور طاعون اور دیگر امراض وبائی ہیضہ میں کافور ایک عمدہ چیز ہے اور مفید ثابت ہوئی ہے.غرض کافوری پیالے کا پہلے ذکر کیا ہے اور یہ اس لئے ہے کہ اول یہ بتایا جائے کہ کامل ہونے کے لئے کافوری پیالہ پہلے پینا چاہیے تاکہ دنیا کی محبت سرد ہو جائے اور وہ فسق و فجور کے خیالات جودل سے پیدا ہوتے تھے اور جن کی زہر روح کو ہلاک کرتی تھی دبائے جائیں اور اس طرح پر گناہ کی حالت سے انسان نکل آئے پس چونکہ پہلے میل کچیل کا دور ہونا ضروری تھا اس لئے کافوری پیالہ پلایا گیا.اس کے بعد دوسرا حصہ زنجبیلی ہے.زنجبیل اصل میں دو لفظوںسے مرکب ہے زنا اور جبل سےاور زنا لغت عرب میں اوپر چڑھنے کو کہتے ہیں اور جبل پہاڑ کو اور اس مرکب لفظ کے معنے یہ ہو ئے کہ پہاڑ پر چڑھ گیا اور یہ صاف

Page 340

بات ہے کہ ایک زہریلے اور وبائی مرض کے بعد انسان کو اعلی درجہ کی صحت تک پہنچنے کے واسطے دو حالتوں میں سے گزرنا ہوتا ہے.پہلی وہ حالت ہوتی ہے جب کہ زہریلے اور خطرناک مادے رک جاتے ہیں اور ان میں اصلاح کی صورت پیدا ہوتی ہے اور زہریلے حملوں سے نجات ملتی ہے اور وہ مواد دبائے جاتے ہیں مگر اعضا بدستور کمزور ہوتے ہیں اور ان میں کوئی قوت اور سکت نہیں ہوتی جس سے وہ کام کرنے کے قابل ہوں اور ایک ربودگی سی حالت ہوتی ہے یہ وہ حالت ہوتی ہے جس کو کافوری پیالے پینے سے تعبیر کیا گیا ہے.اس حالت میں گناہ کا زہر دبایا جاتا ہے اور اس جوش کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے جو نفس کی سرکشی اور جوش کی حالت میں ہوتا ہے مگر ابھی نیکی کرنے کی قوت نہیں آتی.پس دوسری حالت جو زنجبیلی حالت ہے وہ وہی ہے جب کہ صحت کامل کے بعد توانائی اور طاقت آ جائے یہاں تک کہ پہاڑوں پر بھی چڑھ سکے.اورزنجبیل بجائے خود چونکہ حرارت غریزی کو بڑھاتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس ذکر سے بتایا کہ پہلے مومنوں کے گناہوں کی حالت پر موت آتی ہے اور پھر انہیں نیکی کی توفیق اور قوت ملتی ہے.گناہ کی حالت میں انسان پستی اور ذلت میں ہوتا ہے اور جوں جوں گناہ کرتا جاتا ہے نیچے ہی نیچے چلا جاتا ہے لیکن جب گناہوں پر موت آتی ہے تو وہ اس پستی کے گڑھے میں ہی پڑا ہوا ہوتا ہے جب تک اوپر چڑھنے کے لئے اسے زنجبیلی شربت نہ ملے.پس نیکیوں کی توفیق عطا ہونے پر وہ پھر اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے اور یہ پہاڑی گھاٹیاں وہی ہیں جو صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ( الفاتـحۃ :۷ ) میں بیان ہوئی ہیں.خدا تعالیٰ کے راست بازوں اور منعم علیہ کی راہ ہی وہ اصل مقصود ہے جوا نسان کے لئے خدا تعالیٰ نے رکھا ہے.چونکہ خدا تعالیٰ واحد ہے اور وحدت کو پیار کرتا ہے اس لئے سب کام وحدت ہی کے ذریعہ کرتا ہے.وہ اگر چاہتا تو سب کو نبی بنا دیتا مگر یہ امر وحدت کے خلاف تھا اس لیے ایسا نہیں کیا تاہم اس میں بخل بھی نہیں ہے ہر ایک شخص جو اس راہ کو اختیار کرنے کے لئے سچا مجاہدہ کرتا ہے وہ اس کا لطف اور ذوق اٹھا لیتا ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ امت میں ابدال ہوتے ہیں جن کی فطرت کو بدلا دیا جاتا ہے اور یہ تبدیلی اتباع سنّت اور دعائوں سے ملتی ہے.

Page 341

یہاں تک حضرت اقدس نے تقریر فرمائی تھی کہ حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نے عرض کیا کہ حضور یہ جو عیسائی بعض انبیاء علیہم السلام کی زَلَّۃُ الْاَقْدَام کو قرآن شریف سے بیان کرتے ہیں اس کا کیا جواب دیا جائے.گناہ کی تعریف فرمایا.یہ ان لوگوں کی غلطی ہے.گناہ کی تعریف میں انہوں نے دھوکا کھایا ہے.گناہ اصل میں جناح سے لیا گیا ہے اور ج کا تبادلہ گ سے کیا گیا ہے جیسے فارسی والے کر لیتے ہیں اور جناح اصل میں عمداً کسی طرف میل کرنے کو کہتے ہیں پس گناہ سے یہ مراد ہے کہ عمداً بدی کی طرف میل کیا جاوے پس میں ہرگز نہیں مان سکتا کہ انبیاء علیہم السلام سے یہ حرکت سرزد ہو اور قرآن شریف میں اس کا ذکر بھی نہیں.انبیاء علیہم السلام سے گناہ کا صدور اس لئے ناممکن ہے کہ عارفانہ حالت کے انتہائی مقام پر وہ ہوتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ عارف بدی کی طرف میل کرے.اس پر پوچھا گیا کہ وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ کے کیا معنے ہیں تو فرمایا کہ عَصٰی سے عمد تو نہیں پایا جاتا کیونکہ دوسری جگہ خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَنَسِيَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا(طٰہٰ:۱۱۶) عَصٰی سے یاد آیا میرا ایک فقرہ ہے اَلْعَصَا عِلَاجُ مَنْ عَصٰی اس سے معلوم ہوتا کہ جلالی تجلیات ہی سے انسان گناہ سے بچ سکتا ہے.۱ ۴؍نومبر ۱۹۰۱ء آج پھر حسب معمول حضرت اقدس ؑ سیر کو نکلے.اکثر احباب حضور کے ہمراہ تھے.انگریزی رسالہ کا ذکر ہوتا رہا.اسی سلسلہ میں فرمایا کہ مَیں یقین کرتا ہوں کہ جس قدر وقت میرا گزرتا ہے وہ سب عبادت ہی ہے اس لئے کہ اگر کوئی

Page 342

نماز پڑھتا ہے دو چار رکعت تو اس میں کچھ دل حاضر ہوتا ہے کچھ غیر حاضر مگر جس کام میں مَیں لگا ہوا ہوں اس کا اصل مقصد خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کو قائم کرنا ہے.پھر سارا وقت حضور قلب میسر رہتا ہے اور کوئی دن نہیں جاتا کہ میں شام تک دوچار لطیف باتیں حاصل نہ کر لوں.بائبل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک پیشگوئی رات بہت بڑی رات گزر گئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کی طرف جو تورات میں ہے اور آج تک کسی نے اس پر توجہ نہیں کی مگر خدا نے مجھے اس کی طرف متوجہ کیا.پس اسی وقت میں نے تورات نکالی اور اس کو دیکھا جو لوگ علوم الٰہیہ اور اس کے استعارات سے دلچسپی رکھتے ہیں ان کو بے شک اس میں مزا آئے گا مگر جو حقائق سے حصہ نہیں رکھتے وہ اس پر ہنسی کریں گے.وہ پیشگوئی اس طرح پر ہے کہ تورات میں لکھا ہے کہ جب ہاجرہؓکو اور اسماعیلؑ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام چھوڑ آئے تو ان کے پاس ایک پانی کی مشک دے کر چھوڑ آئے.جب وہ ختم ہوگئی اور حضرت اسماعیلؑ پیاس کی شدت سے تڑپنے لگے اور قریب المرگ ہو گئے تو حضرت ہاجرہؓ ان کی اس حالت کو نہ دیکھ سکی اور کچھ فاصلے پر جا بیٹھی.وہاں لکھا ہے کہ تِیر کے ٹپّے پر اس وقت ہاجرہ چلائی اور خدا کے فرشتہ نے اس کو پکارا اور کہا کہ اے ہاجرہ مت ڈر، اُٹھ لڑکے کو اٹھا.غرض پھر ہاجرہ کو ایک کنواں نظر آیا جہاں سے اس نے مشک بھری.اب غور طلب بات یہ ہے کہ فرشتہ نے جو ہاجرہ کو کنواں دکھایا اسی میں ایک پیشگوئی تھی.اس پر میرے دل میں فوراً یہ آیت گزری وَكُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ( اٰل عـمران :۱۰۴) ابراہیم کا پانی جب ختم ہو چکا تھا تو اسماعیل قریب المرگ ہو گیا.اس وقت خدا نے اس سے بچا لیا اور ایک اور کنواں پانی کا اسے دیا گیا.عرب والے بھی اسما عیلؑ کی اولاد ہونے کے سبب سے گویا اسما عیلی ہی تھے.جب ہدایت اور شریعت کا ان میں خاتمہ ہو گیا اور قریب المرگ ہو گئے تو خدا تعالیٰ نے ایک نئی شریعت ان پر نازل کی اور یہ اس آیت میں اشارہ ہے.غرض یہ پیشگوئی ہے جس کی طرف پہلے کسی نے توجہ نہیں کی.۱

Page 343

المسیح الدجّال کی حقیقت فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ دجال بھی مسیح موعود کی طرح ایک موعود ہے اور اس کا نام المسیح الدجال ہے.سورۃ تحریم میں جیسے مسیح موعود کے لئے بشارت اور نص موجود ہے.اسی نص سے بطور اشارۃ النص کے دجال کے وجود پر ایک دلیل لطیف قائم ہوتی ہے یعنی جیسے مریم میںنفخ روح سے ایک مسیح موعود پیدا ہو ا اسی طرح اس کے بالمقابل ایک خبیث وجود کا ہونا ضروری ہے جس میں روح القدس کی بجائے خبیث روح کا نفخ ہوا.اس کی مثال ایسی ہے جیسے بعض عورتوںکو رجا کی بیماری ہوتی ہے اور وہ خیالی طور پر اس کو حمل ہی سمجھتی ہیں یہاں تک کہ حاملہ عورتوں کی طرح سارے لوازم ان کو پیش آتے ہیں اور چوتھے مہینے حرکت بھی محسوس ہوتی ہے مگر آخر کو کچھ بھی نہیں نکلتا.اسی طرح پر مسیح الدجال کے متعلق خیالات کا ایک بت بنایا گیا ہے اور قوت واہمہ نے اس کا ایک وجود خلق کر لیا جو آخر کار ان لوگوں کے اعتقاد میں ایک خارجی وجود کی صورت میں نظر آیا.المسیح الدجّال کی حقیقت تو یہ ہے.۵؍نومبر ۱۹۰۱ء آنحضرتؐکے نشانات نشانات کے متعلق آج صبح کی سیر میں یہ ذکر تھا کہ كَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ ( الانبیآء :۶) والی آیت پر نظر کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نشانات آپ کے زمانہ میں غیر مفید تھے.اس کے متعلق شام کو پھر فرمایا کہ اَوَّلُوْنَ کا لفظ صاف بتاتا ہے کہ اب زمانہ ترقی کرگیا ہے.پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سونٹے کا سانپ بنا کر دکھاتے تو وہ بھلا کب مؤثر ہو سکتا تھا.اس قسم کے نشانات تو ابتدائے زمانہ میں کام آنے والے تھے جیسے ایک چھوٹے بچہ کے لئے جو پاجامہ سیا گیا ہے وہ اس کے بالغ ہونے پر کب کام آسکتا ہے.اسی طرح پر وہ زمانہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھااس قسم کے نشانات کا محتاج نہ تھا

Page 344

بلکہ اس میں بہت ہی اعلیٰ درجے کے خوارق کی ضرورت تھی.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات اپنے اندر ایک علمی سلسلہ رکھتے ہیں.۱ ۱۳؍نومبر ۱۹۰۱ء ایمان کی حقیقت اور اثرات دوزخ اور بہشت کے ذکر سے سلسلہ کلام شروع ہوا.فرمایا.ایمان بڑی دولت ہے اور ایمان اس بات کو کہتے ہیں کہ اس حالت میں مان لیا جاوے جبکہ علم ابھی کمال کے درجہ تک نہ پہنچا ہو اور ابھی شکوک اور شبہات سے ایک جنگ شروع ہو.پس ایسی حالت میں جو شخص تصدیقِ قلبی اور تصدیقِ لسانی سے کام لیتا ہے وہ مومن ہے اور حضرت احدیت میں اس کا نام راستباز اور صادق رکھا جاتا ہے اور اس کے اس فعل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے موہبت کے طور پر معرفت تامہ کے مراتب اس پر کھولے جاتے ہیں اور اصل بہشت اسی ایمان سے شروع ہوتا ہے چنانچہ قرآن شریف نے جہاں بہشت کا تذکرہ فرمایا ہے وہاں پہلے ایمان کا تذکرہ کیا ہے اور پھر اعمال صالحہ کا، اورایمان اور اعمال صالحہ کی جزا.جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ( البقرۃ :۲۶) کہا ہے یعنی ایمان کی جزا جنّت اور اس جنّت کو ہمیشہ سر سبز رکھنے کے لئے چونکہ نہروں کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے وہ نہریں اعمال صالحہ کا نتیجہ ہیں اور اصل حقیقت یہی ہے کہ وہی اعمال صالحہ اس دوسرے جہان میں انہار جاریہ کے رنگ میں متمثل ہو جائیں گے.دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جس قدر انسان اعمال صالحہ میں ترقی کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچتا اور سر کشی اور حدود اللہ سے اعتدا کرنے کو چھوڑتا ہے اسی قدر ایمان اس کا بڑھتا ہے اور ہر جدید عمل صالح پر اس کے ایمان میں ایک رسوخ اور دل میں ایک قوت آتی جاتی ہے.خدا کی معرفت میں اسے ایک لذّت آنے لگتی ہے اور پھر یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ مومن کے دل

Page 345

میں ایک ایسی کیفیت محبت الٰہی اور عشق خدا وندی کی اللہ تعالیٰ ہی کی موہبت اور فیض سے پیدا ہو جاتی ہے کہ اس کا سارا وجود اس کی محبت اور سرور سے جو اس کا نتیجہ ہوتا ہے لبالب پیالہ کی طرح بھر جاتا ہے اور انوارِ الٰہی اس کے دل پر بکلّی احاطہ کر لیتے ہیں اور ہر قسم کی ظلمت اور تنگی اور قبض دور کر دیتے ہیں.اس حالت میں تمام مصائب اور مشکلات بھی جو خدا تعالیٰ کی راہ میں ان کے لئے آتے ہیں وہ انہیں ایک لحظہ کے لئے پرا گندہ دل اور منقبض خاطر نہیں کر سکتے بلکہ وہ بجائے خود محسوس اللذّات ہوتے ہیں.یہ ایما ن کا آخری درجہ ہوتا ہے.بہشت اور دوزخ کی حقیقت ایمان کے انواعِ اوّلیہ بھی سات۷ ہیں اور ایک اور آخری درجہ ہے جو موہبت الٰہی سے عطا کیا جاتا ہے.اس لئے بہشت کے بھی سات ہی دروازے ہیں اور آٹھواں دروازہ فضل کے ساتھ کھلتا ہے.غرض یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بہشت اور دوزخ جو اس جہان میں موجود ہوں گی وہ کوئی نئی بہشت اور دوزخ نہ ہو گی بلکہ انسان کے ایمان اور اعمال ہی کا وہ ایک ظلّ ہیں اور یہی اس کی سچی فلاسفی ہے.وہ کوئی ایسی چیز نہیں جو باہر سے آکر انسان کو ملے گی بلکہ انسان کے اندر ہی سے وہ نکلتی ہیں.مومن کے لئے ہر حال میں اس دنیا میں بہشت موجود ہوتا ہے.اس عالم کا بہشت موجود دوسرے عالم میں اس کے لئے بہشت موعود کا حکم رکھتا ہے.پس یہ کیسی سچی اور صاف بات ہے کہ ہر ایک کا بہشت اس کا ایمان اور اعمال صالحہ ہیں جس کی اس دنیا میں لذّت شروع ہو جاتی ہے اور یہی ایمان اور اعمال دوسرے رنگ میں باغ اور نہریں دکھائی دیتی ہیں.میں سچ کہتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ اسی دنیا میں باغ اور نہریں نظر آتی ہیں اور دوسرے عالم میں بھی باغ اور نہریں کھلے طور پر محسوس ہوں گی.اسی طرح پر جہنم بھی انسان کی بے ایمانی اور بد اعمالی کا نتیجہ ہے جیسے جنّت میں انگور، انار وغیرہ پاک درختوں کی مثال دی ہے ویسے ہی جہنم میں زَقُّوْم کے درخت کا وجود بتایا ہے.اور جیسے بہشت میں نہریںا ور سلسبیل اور زنجبیلی اور کافوری نہریں ہوں گی اسی طرح جہنم میں گرم پانی اور پیپ کی نہریں بتائی ہیں.ان پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایمان منکسر المزاجی اور اپنی

Page 346

رائے کو چھوڑ دینے سے پیدا ہوا ہے اسی طرح بے ایمانی تکبّر اور انانیت سے پیداہو تی ہے.اس لئے اس کے نتیجہ میں زَقُّوْم کا درخت دوزخ میں ہوا اور وہ بد اعمالیاں اور شوخیاں جو اس تکبر و خود بینی سے پیدا ہوتی ہیں وہ وہی کھولتا ہوا پانی یا پیپ ہو گی جو دوزخیوں کو ملے گی.اب یہ کیسی صاف بات ہے کہ جیسے بہشتی زندگی اسی دنیا سے شروع ہوتی ہے اسی طرح پر دوزخ کی زندگی بھی یہاں ہی سے انسان لے جاتا ہے جیسا کہ دوزخ کے باب میں فرمایا ہے نَارُ اللّٰهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِيْ تَطَّلِعُ عَلَى الْاَفْـِٕدَةِ ( الھمزۃ : ۷،۸ ) یعنی دوزخ وہ آگ ہے جو خدا کا غضب اس کا منبع ہے اور وہ گناہ سے پیدا ہو تی اور پہلے دل پر غالب ہوتی ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس آگ کی جڑ وہ ہموم غموم اور حسرتیں ہیںجو انسان کو آگھیرتی ہیں کیونکہ تمام روحانی عذاب پہلے دل سے ہی شروع ہوتے ہیں.جیسے تمام روحانی سروروں کا منبع بھی دل ہے اوردل ہی سے شروع ہونے بھی چاہئیں کیونکہ دل ہی ایمان یا بے ایمانی کا منبع ہے.ایمان یا بے ایمانی کا شگوفہ بھی پہلے دل ہی سے نکلتا ہے اور پھر تمام بدن اور اعضاء پر اس کا عمل ہوتا ہے اور سارے جسم پر محیط ہو جاتا ہے.پس یاد رکھو کہ بہشت اور دوزخ اسی دنیا سے انسان ساتھ لے جاتا ہے اور یہ بات بھولنی نہ چاہیے کہ بہشت اور دوزخ اس جسمانی دنیا کی طرح نہیں ہے بلکہ ان دونوں کا مبدء اور منبع روحانی امور ہیں.ہاں یہ سچی بات ہے کہ عالم معاد میں وہ جسمانی شکل پر ضرور متشکل ہو کر نظر آئیں گے.یہ ایک بڑا ضروری مضمون ہے جس پر ساری قوموں نے دھوکا کھایا ہے اور اس کی حقیقت کے نہ سمجھنے کی وجہ سے کوئی خدا ہی کا منکر ہو بیٹھا ہے اور کوئی تناسخ کا قائل ہو گیا.کسی نے کچھ تجویز کیا اور کسی نے کچھ.اگر خدا تعالیٰ نے ہمیں کوئی موقع دیا تو ہمارا ارادہ ہے کہ اس پر بسط کے ساتھ بڑی بحث کریں.اسی کی مرضی اور توفیق پر موقوف ہے ورنہ ہم تو ایک لفظ بھی نہیں بول سکتے.حیات کی تین اقسام سلسلہ کلام روح سے شروع ہوا.فرمایا.نباتی،حیوانی اور انسانی تین قسم کی جان مانی گئی ہے.بعض حکماء نباتات میں شعور اور حس کے بھی قائل ہیں چنانچہ بہت اسی قسم کے درخت اور پودے پائے گئے ہیں

Page 347

جن پر مختلف امور اثر کرتے ہیں مثلاً چھوئی موئی کا درخت.جب انسان اسے ہاتھ لگاتا ہے فوراً مرجھا جاتی ہے اور اسی قسم کے بہت سے درخت ایسے ہوتے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک چیز میں خدا نے ایک برزخ رکھا ہوا ہے.نباتات اور حیوانات کے درمیان وہ نباتات جن میں حس و شعور ہے وہ برزخ ہیں جو بہت بڑا حصہ انسانی عقول کا رکھتے ہیں.اسی برزخ کے نہ سمجھنے سے بعض کو یہ دھوکا لگا ہے کہ انسان بندر سے ترقی کر کے انسان بنا ہے.حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.یہ تمام برزخ جو مخلوقات میں موجود ہیں وہ وحدتِ خَلقی کی دلیل ہونے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایک دلیل ہیں اور افسوس ہے کہ نا واقف اور نا اہل اس سے کوئی لطف نہیں اٹھا سکتے.بچہ جب بننے لگتا ہے تو ساری چیزیں اکٹھی ہی بنتی جاتی ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں پیدائش انسان کا مفصّل ذکر ہے.بعض لوگوں کی سمجھ میں جب اس کی حقیقت نہ آئی تو اعتراض کر دیا ہے مگر مشاہدہ سے یہی سچ ثابت ہوا ہے.چنانچہ میں نے ایک بار ایک انڈے کو توڑا اور اس کو ایک برتن میں ڈال دیا.میں اس کے وسط میں ایک نقطہ دیکھتا تھا جو دل کی حرکت کی طرح حرکت کرتا تھا اور میں نے نہایت غور کے ساتھ جو دیکھا تو اس نقطہ سے مختلف جہات میں کچھ خطوط سے گئے ہوئے تھے.کوئی ان میں سے دماغ کی طرف تھا کوئی جگر کی طرف وغیرہ.میں کئی منٹ تک یہ تماشا دیکھتا رہا اور بعض عورتوں نے بھی اس کو دیکھا.غرض قرآن نے جوکچھ اس کی حقیقت بیان کی ہے وہ صحیح ہے.ہاں جو یہ برزخ ہیںیہ وحدتِ خلقی کی دلیل ہیں.اسی طرح پر انسان اور خدا کے درمیان بھی ایک برزخ ہے اور وہ تجلّیات ہیں.چنانچہ اس مقام اور مرتبہ کی طرف خدا تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى (النجم :۹،۱۰) یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علوِّمرتبہ کا بیان ہے کیونکہ یہ مرتبہ اس انسان کامل کو مل سکتا ہے جو عبودیت اور الوہیت کی دونوں قوسوں کے درمیان ہو کر ایسا شدید اور قوی تعلق پکڑتا ہے گویا ان دونوںکا عین ہو جاتا ہے اور اپنے نفس کو درمیان سے اٹھا کر ایک مصفّا آئینہ کا حکم پیدا کر لیتا ہے اور اس تعلق کی دو جہتیں ہوتی ہیں.ایک جہت سے یعنی اوپر کی طرف سے وہ تمام انوار وفیوضِ الٰہیہ کو جذب کرتا ہے اور دوسری

Page 348

طرف سے وہ تمام فیوض بنی نوع کو حسب استعداد پہنچاتا ہے.پس ایک تعلق اس کا الوہیت سے اور دوسرا بنی نوع سے.جیسا کہ اس آیت میں صاف معلوم ہوتا ہے یعنی پھر نزدیک سے(یعنی اللہ تعالیٰ سے) پھر نیچے کی طرف اترا (یعنی مخلوق کی طرف اترا.یعنی مخلوق کی طرف تبلیغ احکام کے لئے نزول کیا) پس وہ ان تعلقاتِ قرب کے مراتب ِتام کی وجہ سے دو قوسوں کے وتر کی طرح ہو گیا بلکہ قوس الوہیت اور عبودیت کی طرف اس سے بھی زیادہ قرب ہو گیا.چونکہ دُنُوّ قرب سے اَبْلَغْ تَر ہے اس لئے خدا نے اس لفظ کو استعمال فرمایا اور یہی نقطہ جو برزخ.بین اللہ وبین الـخلق ہے.نفسی نقطہ سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے لیتے اور بنی نوع کو پہنچاتے ہیں اس لئے آپ کا نام قاسم بھی ہے.وَضْعِ عَالَم میں وحدت فرمایا.وضع عالم میں خدا تعالیٰ نے توحید کا ثبوت رکھ دیا ہے.وضع عالم میں کرویّت ہے.پانی، ستارے، آگ وغیرہ یہ چیزیں سب گول ہیں.چونکہ کرّہ میں وحدت ہوتی ہے اس لحاظ سے کہ اس میں جہات نہیں ہوتی ہیں.پس یہ وضع عالم میں توحید الٰہی کا ثبوت ہے.پانی کا ایک قطرہ دیکھو تو وہ گول ہوگا.ایسا ہی اجرام بھی اور آگ بھی.آگ کی ظاہری حالت سے کوئی اگر کہے کہ یہ گول نہیں ہوتی تو یہ اس کی غلطی ہے کیونکہ یہ مانی ہوئی بات ہے کہ آگ کا شعلہ دراصل گول ہوتا ہے مگر ہوا اس کو منتشر کرتی ہے.عیسائیوں نے بھی یہ بات مان لی ہے کہ جہاں تثلیث نہیں پہنچی یعنی تثلیث کی تبلیغ نہیں ہوئی وہاں ان سے توحید کی باز پرس ہو گی کیونکہ وضع عالم میں توحید کا ثبوت ملتا ہے.اگر خدا تین ہوتے تو ضرور تھاکہ سب اشیاء مثلّث نما ہوتیں.وضع عالم کی کرویّت سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ آدم ہی سے شروع ہو کر آدم ہی پر سلسلہ ختم ہوتا ہے کیونکہ محیط دائرہ کا خط جس نقطہ سے چلتا ہے اس پر ہی جا کر ختم ہو جاتا ہے.اسی لئے مسیح موعود جو خاتم الخلفاء ہے اس کا نام بھی خدا نے آدم ہی رکھا ہے.چنانچہ براہین احمدیہ میں درج ہے اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ چونکہ مسیح موعود نئی طرز کا آدم ہے اس لئے اس کے ساتھ بھی شیطان

Page 349

نئی طرز کا ہے.۱ ۱۴؍ نومبر ۱۹۰۱ء سچی شہادت کو چھپانا اچھا نہیں فرمایا.دنیا چند روزہ ہے.شہادت کو چھپانا اچھا نہیں.دیکھو! بادشاہ کے پاس جب کو ئی تحفہ لے کر جائے مثلاً سیب ہی ہو اور سیب ایک طرف سے داغی ہو تو وہ اس تحفہ پر کیا حاصل کرسکے گا.مخفی ہونے میں بہت سے حقوق تلف ہو جاتے ہیں مثلاً نماز با جماعت ،بیمار کی عیادت،جنازہ کی نماز،عیدین کی نماز، وغیرہ یہ سب حقوق مخفی رہ کر کیونکر ادا کئے جا سکتے ہیں.مخفی رہنے میں ایمان کی کمزوری ہے.انسان اپنے ظاہری فوائد کو دیکھتا ہے مگر وہ بڑی غلطی کرتا ہے.کیا تم ڈرتے ہوکہ سچی شہادت کے ادا کرنے سے تمہاری روزی جاتی رہے گی؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ فِي السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اِنَّهٗ لَحَقٌّ ( الذّٰریٰت :۲۳،۲۴) تمہارا رزق آسمان میں ہے.ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے یہ سچ ہے.زمین پر خدا کے سواکون ہے جو اس رزق کو بند کر سکے یا کھول سکے.اور فرماتا ہے وَ هُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ ( الاعراف : ۱۹۷ ) نیکوں کا وہ آپ والی بن جاتا ہے.پس کون ہے جو مرد صالح کو ضرر دے سکے؟ اور اگر کوئی مصیبت یا تکلیف انسان پر آ پڑے مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا ( الطلاق : ۳ ) جو خدا کے آگے تقویٰ اختیار کرتا ہے خدا اس کے لئے ہر ایک تنگی اور تکلیف سے نکلنے کی راہ بتا دیتا ہے.اور فرمایا وَ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ( الطلاق : ۴ ) وہ متقی کو ایسی راہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے رزق آنے کا خیال و گمان بھی نہیں ہوتا.یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں.وعدوں کے سچا کرنے میں خدا سے بڑھ کر کون ہے.پس خدا پر ایمان لاؤ.خدا سے ڈرنے والے ہرگز ضائع نہیں ہوتے.يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا( الطلاق : ۳ )یہ ایک وسیع بشارت ہے.تم تقویٰ اختیار کرو.خدا تمہارا کفیل ہو گا.اس کا جو وعدہ ہے وہ سب پورا کر دے گا.مخفی رہنا

Page 350

ایمان میں ایک نقص ہے.جو مصیبت آتی ہے اپنی کمزوری سے آتی ہے.دیکھو! آگ دوسروںکو کھاجاتی ہے پر ابراہیمؑ کو نہ کھا سکی مگر خدا کی راہ بغیر تقویٰ کے نہیں کھلتی.تقویٰ اختیار کرو معجزات دیکھنے ہوں تو تقویٰ اختیار کرو.ایک وہ لوگ ہیں جو ہر وقت معجزات دیکھتے ہیں.دیکھو! آجکل میں عربی کتاب اور اشتہار لکھ رہا ہوں.اس کے لکھنے میں سطر سطر میں مَیں معجزہ دیکھتا ہوں.جبکہ مَیں لکھتا لکھتا اٹک جاتا ہوں تو مناسبِ موقع فصیح وبلیغ پُر معانی ومعارف فقرات والفاظ خدا کی طرف سے الہام ہوتے ہیں اور اس طرح عبارتیں کی عبارتیں لکھی جاتی ہیں.اگرچہ میں اس کولوگوں کی تسلی کے لئے پیش نہیں کر سکتا مگر میرے لئے یہ ایک کافی معجزہ ہے.اگرمیں اس بات پر قسم بھی کھا کر کہوں کہ مجھ سے پچاس ہزار معجزہ خدا نے ظاہر کرایا تب بھی جھوٹ ہرگز نہ ہو گا.ہر ایک پہلو میں ہم پر خدا کی تائیدات کی بار ش ہو رہی ہے.عجب تر ان لوگوں کے دل ہیں جو ہم کو مفتری کہتے ہیں.مگر وہ کیا کریں.ع ولی را ولی می شناسد کوئی تقویٰ کے بغیر ہمیں کیونکر پہچانے.رات کو چور چوری کے لئے نکلتا ہے.اگر راہ میں گوشہ کے اندر وہ کسی ولی کو بھی دیکھے جو عبادت کر رہا ہو وہ بھی سمجھے گا کہ یہ بھی میری طرح کوئی چور ہے.خدا عمیق در عمیق چھپا ہوا ہے اور ایسا ہی وہ ظاہر د رظاہر ہے.اس کا ظہور اتنا ہوا کہ وہ مخفی ہوگیا.جیسا سورج کہ اس کی طرف کوئی دیکھ نہیں سکتا.خدا کا پتہ حق الیقین کے ساتھ نہیں پا سکتے جب تک کہ تقویٰ کی راہ میں قدم نہ ماریں.دلائل کے ساتھ ایمان قوی نہیں ہو سکتا.بغیر خدا کی آیات دیکھنے کے ایمان پورا نہیں ہو سکتا.یہ اچھا نہیں کہ کچھ خدا کا ہو اور کچھ شیطان کا ہو.صحابہؓ کو دیکھو کس طرح اپنی جانیں نثار کیں.ابو بکرؓ جب ایمان لایا تو اس نے دنیا کا کون سا فائدہ دیکھا تھا.جان کا خطرہ تھا اور ابتلا بڑھتا جاتا تھا مگر صحابہؓ نے صدق خوب دکھایا.ایک صحابی کا ذکر ہے وہ کملی اوڑھے بیٹھا تھا.کسی نے اس کو کچھ کہا.عمرؓ پاس سے دیکھتے تھے.انہوں نے فرمایا اس شخص کی عزّت کرو.میں نے اس کو دیکھا ہے کہ یہ گھوڑے پر سوار ہوتا تھا اور اس کے آگے پیچھے کئی کئی نوکر چلتے تھے.صرف دین کی

Page 351

خاطر اس نے سب سے ہجرت کی.دراصل یہ آنحضرتؐکی روحانیت کا زور تھا جو صحابہؓ میں داخل ہوا.اُن کا کوئی جھوٹ ثابت نہیں.ہر امر میں ایک کشش ہوتی ہے.دیکھو! دیوار کی اینٹوں میں ایک کشش ہے ورنہ اینٹ اینٹ الگ ہو جائے.ایسی ہی ایک جماعت میں ایک کشش ہوتی ہے.یہ ہوتا آیا ہے کہ ہر نبی کی جماعت میں سے کچھ لوگ مرتد بھی ہو جایا کرتے ہیں ایسا ہی موسیٰ اور عیسیٰ اور آنحضرتؐکی جماعت کے ساتھ ہوا.ان لوگوں کا مادہ خبیث ہوتا ہے اور ان کا حصہ شیطان کے ساتھ ہوتا ہے مگر جو لوگ اس صداقت کے وارث ہوتے ہیں وہ اس میں قائم رہتے ہیں.غرض خدا کی راہ میں شجاع بنو.انسان کو چاہیے کبھی بھروسہ نہ کرے کہ ایک رات میں زندہ رہوں گا.بھروسہ کرنے والا ایک شیطان ہوتا ہے.انسان بہادر بنے.یہ بات زورِ بازو سے نہیں ملتی.دعا کرے اور دعا کراوے.صادقوں کی صحبت اختیار کرے.سارے کے سارے خدا کے ہو جاؤ.دیکھو! کوئی کسی کی دعوت کرے اور نجس ٹھیکرے میں روٹی لے جائے.اسے کون کھائے گا.وہ تو الٹا مار کھائے گا.باطن بھی سنوارو اور ظاہر بھی درست کرو.انسان اعمال سے ترقی نہیں کر سکتا.آنحضرتؐکا رتبہ سمجھنے سے ترقی کر سکتا ہے.۱ ۱۶؍نومبر ۱۹۰۱ء معجزہ اسلام کی پہلی اینٹ ہے فرمایا.افسوس ہے ان لوگوں نے اسلام کو بد نام کیا ہے.جس بات کو سمجھتے نہیں اس میں یورپ کے فلاسفروں کی چند بے معنی کتابیں پڑھ کر دخل دیتے ہیں.معجزات اور مکالمات ِالٰہیہ ہی ایسی چیزیں ہیں جن کا مردہ.ملّتوں میں نام ونشان نہیں ہے.اور معجزہ تو اسلام کی پہلی اینٹ ہے اور غیب پر ایمان لانا سب سے اوّل ضروری ہے.اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کے خیالات دہریت کا نتیجہ ہیں جو خطر ناک طور پر پھیلتی جاتی ہے.سید احمد نے وحی کی حقیقت خود بھی نہیںسمجھی.دل سے پھوٹنے والی وحی شاعروں کی

Page 352

مضمون آفرینی سے بڑھ کر کچھ وقعت نہیں رکھتی.افسوس ہے کہ مولوی صاحب نے روپیہ صرف کیا اور کوشش کی مگر نتیجہ یہ نکلا.مولوی صاحب اس کو ضرور خط لکھ دیں اور اسے بتائیں کہ معجزات اور مکالمات اور پیشگوئیاں ہی ہیں جنہوں نے اسلام کو زندہ مذہب قرار دیا ہے.فری میسنز Freemasons فرمایا.ہم کو کبھی کبھی خیال پیدا ہوتا تھا کہ فری میسن کی حقیقت معلوم ہو جاوے مگر کبھی توجہ کرنے کا موقع نہیں ملا.ان حالات کو جو یہ اپنے لیکچر میں بیان کرتا ہے سن کر اس الہام کی جو مجھے ہوا تھا ایک عظمت معلوم ہوتی ہے.اس الہام کا مضمون یہ ہے کہ فری میسن اس کے قتل پر مسلط نہیں کئے جائیں گے.اس الہام میں بھی گویا فری میسن کی حقیقت کی طرف شاید کوئی اشارہ ہو کہ وہ بعض ایسے امور میں جہاں کسی قانون سے کام نہ چلتا ہو.اپنی سوسائٹی کے اثر سے کام لیتے ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ فری میسن کی مجلس میں ضرور بعض بڑے بڑے اہلکار اور عمائد سلطنت یہاں تک کہ بعض بڑے شہزادے بھی داخل ہوں گے اور ان کا رُعب داب ہی مانع ہوتا ہو گا کہ کوئی اس کے اسرار کھول سکے ورنہ یہ کوئی معجزہ یا کرامت تو ہے نہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصالح سلطنت کے لئے کوئی ایسا مجمع ہوتا ہو گا.ایک منذر الہام فرمایا.آج ایک منذر الہام ہوا ہے.اور اس کے ساتھ ایک خوفناک رؤیا بھی ہے.وہ الہام یہ ہے.مَحْمُوْمٌ پھر نَظَرْتُ اِلَی الْمَحْمُوْمِ.پھر دیکھا کہ بکرے کی ران کا ٹکڑا چھت سے لٹکایا ہوا ہے.۱ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۱ء انقلاب دنیا فرمایا.آذر حضرت ابراہیم کا باپ ہی تھا.اللہ تعالیٰ نے اس کا نام اَبْ رکھا ہے.اس قسم کے انقلاب دنیا میں ہوتے آئے ہیں.کبھی باپ صالح ہوتا ہے بیٹا طالح ہوتا ہے اور کبھی بیٹا صالح ہوتا ہے باپ طالح ہوتا ہے.ہمارے پڑدادا صاحب بڑے مخیر تھے اور

Page 353

باخدا بزرگ تھے.چنانچہ لوگ کہا کرتے تھے کہ ان کو گولی کا اثر نہیں ہوتا.ایک وقت میں ان کے دستر خوان پر ۵۰۰ آدمی ہوا کرتے تھے اور اکثر حافظ قرآن اور عالم ان کے پاس رہتے تھے.اور قادیان کے ارد گرد ایک فصیل ہوتی تھی جس پر تین یا چار چھکڑے برابر برابر چلا کرتے تھے.خدا کی قدرت سکھوں کی تعدی اور لوٹ کھسوٹ میں وہ سب سلسلہ جاتا رہا اور ہمارے بزرگ یہاں سے چلے گئے.پھر جب امن ہواتو وا پس آئے.سید فرمایا.سید با اعتبار اولاد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نہیں کہلاتے بلکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اولاد ہونے کی حیثیت سے کہلاتے ہیں.تُرکوں کے ذریعہ سے اسلام کو قوت حاصل ہوئی فرمایا.اگرچہ ہمارے نزدیک اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ( الـحجرات : ۱۴ ) ہی ہے اور ہمیں خواہ مخواہ ضروری نہیں کہ ترکوں کی تعریف کریں یا کسی اور کی مگر سچی اور حقیقی بات کے اظہار سے ہم رک نہیں سکتے.ترکوں کے ذریعہ سے اسلام کو بہت بڑی قوت حاصل ہوئی ہے.یہ کہنا کہ وہ پہلے کافر تھے یہ طعن درست نہیں.کوئی دو سو برس پہلے کافر ہوا کوئی چار سو برس پہلے یہ کیا ہے؟ آخر جو آج سید کہلاتے ہیں کیا ان کے آباؤاجداد پر کوئی وقت کفر کی حالت کا نہیں گزرا؟پھر ایسے اعتراض کرنا دانش مندی نہیں ہے.ہندوستان میں جب یہ مغل آئے تو انہوں نے مسجدیں بنوائیں اور اپنا قیام کیا.اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ کے اثر سے اسلام پھیلنا شروع ہوا.اور اب تک بھی حرمین شریفین تُرکوں ہی کی حفاظت کے نیچے خدا نے رکھی ہوئی ہیں.غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں خدا تعالیٰ نے دو ہی گروہ رکھے ہوئے ہیں.ایک ترک دوسرے سادات.ترک ظاہری حکومت اور ریاست کے حقدار ہوئے اور سادات کو فقر کا مبدء قرار دیا گیا چنانچہ صوفیوں نے فقر اور روحانی فیوض کا مبدء سادات ہی کو ٹھہرایا ہے اور میں نے بھی اپنے کشوف میں ایسا ہی پایا ہے.دنیا کا عروج ترکوں کو ملا ہے.حضرت اقدس یہ ذکرکر رہے تھے کہ ایک یورپین صاحب بہادر اندر آئے اور ٹوپی اتار کر مجلس میں

Page 354

آگے بڑھے اور بڑھتے ہی کہا.ایک یورپین سیاح سے گفتگو یورپین.السلام علیکم.ان کے السلام علیکم کہنے پر مختلف خیال حاضرین مجلس کے دل میںگزرے.کسی نے ترک سمجھا اور کسی نے نو مسلم.صاحب موصوف کو بیٹھے ہوئے ایک منٹ ہی گزرا ہو گا کہ خان صاحب نواب خان صاحب تحصیلدار گجرات نے پوچھا.آپ کہاں سے آئے ہیں؟ یورپین.میں سیاح ہوں.خان صاحب.آپ کا وطن؟ یورپین.میں اتنی اردو نہیں جانتا اور پھر کچھ سمجھ کر بولا.او.ہاں، انگلینڈ.اتنے میں مفتی محمد صادق صاحب آگئے.حضرت اقدس کے ایما سے وہ ترجمان ہوئے اور اس طرح پر حضرت اقدسؑ اور یورپین نووارد میں گفتگو ہوئی.حضرتؑ.آپ کہاں سے آئے ہیں؟ یورپین.میں کشمیر سے کُلُّو گیا تھا اور وہاں سے ہو کر اب یہاں آتا ہوں.حضرتؑ.آپ کا اصل وطن کہاں ہے؟ یورپین.انگلینڈ.میں سیاح ہوں.اور عرب اور کربلا میں بھی گیا تھا.اب میں یہاں سے مصر، الجیریا، کارتھیج اور سوڈان کو جاؤں گا.حضرتؑ.آپ کے اس سفر کا کیا مقصد ہے؟ یورپین.صرف دید، شنید، سیاحت.حضرتؑ.کیا آپ بحیثیت کسی پادری کے سفر کرتے ہیں؟ یورپین.ہرگز نہیں.حضرتؑ.آپ کی دلچسپی زیادہ تر کس امر کے ساتھ ہے.کیا مذہب کے ساتھ یا علمی امور کی طرف یا پو لیٹیکل امور کے ساتھ؟

Page 355

یورپین.میں صرف نظارہ عالم دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ کسی طرح دل مضطر کو قرار ہو.حضرتؑ.آخر آپ کے سفر کی کوئی غرض بھی ہے؟ یورپین.کوئی مدعا نہیں.حضرتؑ.کیا آپ فری میسن ہیں؟ یورپین.میں ان میں یقین نہیں رکھتا بلکہ میں اپنا آپ ہی بادشاہ ہوں اور آپ ہی اپنا لاج ہوں.میں سب کا دوست ہوں اور کسی کا دشمن نہیں.حضرتؑ.آپ کا نام کیا ہے؟ یورپین.ڈی ڈی ڈکسن.حضرتؑ.عیسائی فرقوں میں سے آپ کس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں؟ یورپین.میں کسی فرقہ کا پابند نہیں ہوں.میرا اپنا مذہب خاص ہے.دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جس میں صداقتیں نہ ہوں.میں ان سب مذاہب میں سے صداقتوں کو لے کر اپنا ایک الگ مذہب بناتا ہوں.حضرتؑ.اگر آپ کا کوئی مذہب نہیں تو یہ مجموعہ انتخاب بھی تو ایک مذہب ہی ہونا چاہیے.یورپین.ہاں اگر اسے مذہب کہنا چاہیے تو میرا یہی مذہب ہے کہ مختلف صداقتیں لیتا ہوں.حضرتؑ.اچھا،جو مذہب آپ نے مختلف مذاہب کی صداقتوں کو لے کر جمع کیا ہے وہ غلطیوں سے بالکل منزّہ ہے یا کوئی اور مذہب بھی ایسا آپ کے نزدیک ہے جو بالکل غلطیوں سے مبرّا ہو ؟ یورپین.جو مذہب میں نے جمع کیا ہےوہ تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے اچھا ہے اور وہ مسیح کی اس تمثیل کے اصول پر ہے جو اس نے کسی مالدار آدمی کی بیان کی ہے کہ اس نے اپنے نوکروں کو کچھ روپیہ دیا.ان میں سے ایک نے تو اس روپیہ کو کسی مصرف میں لگایا اور اس سے کچھ بنایا.دوسرے نے کچھ نہ کیا.پس خدا نے جو کچھ ہم کو دیاہے اگر ہم اس سے کچھ بنائیں تو وہ خوش ہوتا ہے اور جو کچھ نہیں بناتا اس سے ناراض ہوتا ہے.

Page 356

Page 357

یہ بزرگی اورعظمت تو آپ ہی کی ہوئی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے باہرتو کوئی چیز نہیں بلکہ اُسی کے رنگ اور اُسی کی چادر میں سے یہ ظہور نشانات کاہورہا ہے اور اسی کے ہاتھ پر صادر ہورہے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جو اسباب اورسامان تبلیغ اوراشاعت کے ہمیں میسرآئے ہیں اور اس زمانہ میں جمع ہوئے ہیں وہ پہلے نہیں ہوئے اور نہ مذاہب کا اس قدر زور ہوا.غرض یہ نشانات اپنی نظیر نہیں رکھتے.الٰہی بخش کی پیش گوئیاں کیاحقیقت رکھ سکتی ہیں؟ سچے موَحد ہی خداداد قویٰ سے کام لے سکتے ہیں فرمایا.جو قویٰ خدا نے انسان کو دیئے ہیں.ان سب سے بجز سچے موَحّد کے کوئی دوسرا کام نہیں لے سکتا.شیعہ ترقی نہیں کرسکتے کیونکہ وہ تو اپنی ساری کوششوں کا مُنتہا امام حسینؓکو سمجھ بیٹھے.ان کو رولینا اور ماتم کرلینا کافی قرار دے لیا.ہمارے اُستاد ایک شیعہ تھے.گل علی شاہ اُن کا نام تھا.کبھی نماز نہیں پڑھا کرتے تھے.منہ تک نہ دھوتے تھے.(اس پر نواب صاحب نے آپ کی تائید میں بیان کیا کہ وہ میرے والد صاحب کے بھی اُستاد تھے اور وہاں جایاکرتے تھے.اور یہ واقعی سچ ہے کہ اُن کی مسجدیں غیرآباد ہوتی ہیں.) ہماری مسجد کا ایسا ہی حال تھا اور اب خدا کے فضل سے وہ آباد ہوگئی ہے.اور لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں.اس پر حضرت اقدس نے نواب صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا.وہ کبھی کبھی آپ کے والد صاحب کا ذکر کیا کرتے تھے اور یہاں سے تین تین مہینے کی رُخصت لے کر مالیر کوٹلہ جایاکرتے تھے.میں نے غائبانہ بھی کئی مرتبہ ذکر کیا ہے اور میری فراست مجھے یہی بتاتی ہے(یہ نواب صاحب کی مسجد کے آباد ہونے اور نمازیوں کے آنے کے ذکر پر فرمایا) کہ راستی کو قبول کرنا اور پھر خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال سے ڈر جانا اور اُس کی طرف رجوع کرنا آپ کے اورآپ کی اولاد کے اقبال کی نشانی ہے.بجُز اس کے کہ انسان سچائی سے خدا کی طرف آئے خدا کسی کی پروا نہیں کرتا.خواہ وہ کوئی ہو.مبارک دن ہمیشہ نیک بخت کو ملتے ہیں.یہ آثار صلاحیت،تقویٰ اور خداترسی کے جو آپ میں پیدا

Page 358

ہوگئے ہیں.آپ کے لیے اور آپ کی اولاد کے لئے بہت ہی مفیدہیں.مخالفت ہمیشہ سچوں کی ہوتی ہے فرمایا.مجمل طور پرلکھا ہے کہ طاعون ترقی پر ہے.میرا ارادہ ہے اور مولوی صاحب نے بھی کہا ہے کہ ایک بار پھر طاعون کے متعلق ایک اشتہار دے دیا جاوے کہ لوگ رجوع کریں اور سچی پاکیزگی اور تبدیلی پیداکریں.دیکھاگیا ہے اور سُنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جس قدر زور ہوا ہے سچوں ہی پر ہوا ہے.اُن کی مخالفت میں ساری طاقتیں خرچ کی گئی ہیں.دیکھو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں کتنا زور لگایاگیا.برخلاف اس کے مسیلمہ کذّاب کو فی الفور مان لیا گیا.ایسا ہی حضرت مسیحؑ کے وقت میں بھی ہوا اور اب بھی ویساہی ہوا.جھوٹوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.راستباز پر حملہ پر حملہ کرتے ہیں اور اس کی مخالفت کے لئے سب مل بیٹھے ہیں.۱ ۱۸؍نومبر ۱۹۰۱ء صبح کو قریباً ساڑھے آٹھ بجے حضرت اقدس سیر کو نکلے، نیچے اترتے ہی مسٹر ڈکسن سیاح کو مخاطب کر کے فرمایا.ہماری دلی آرزو یہی ہے کہ آپ چند روز ہمارے پاس اور ٹھہریں تاکہ میں اسلام کی وہ روحانی فلاسفی جو اس زمانہ میں مخفی تھی اور جو خدا نے مجھے عطا کی ہے آپ کو سمجھائوں.مسٹر ڈکسن.میں آپ کا از بس ممنون ہوں مگر آج مجھے جانا ہی چاہیے میں نے کچھ کچھ سن لیا ہے.حضرت اقدس.چونکہ آپ کو چلے جانا ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ کچھ تو اپنے مقصد کو بیان کر دوں.مسیح موعود کی بعثت کا مقصد انبیاء علیہم السلام کی دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی سے جوانہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی اور جس کو

Page 359

گناہ آلود زندگی کہتے ہیں، نجات پائیں حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد ان کے آگے ہوتا ہے.پس اس وقت بھی جو خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی یعنی میں بتاناچاہتاہوں کہ خدا کیا ہے؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف رہبری کرتا ہوں.دنیا میں لوگوں نے جس قدر طریقے اور حیلے گناہ سے بچنے کے لئے نکالے ہیں اور خدا کی شناخت کے جو اصول تجویز کئے ہیں وہ انسانی خیالات ہونے کی وجہ سے بالکل غلط ہیں اور محض خیالی باتیں ہیں جن میں سچائی کی کوئی روح نہیں ہے.میں ابھی بتائوں گا اور دلائل سے واضح کروں گا کہ گناہوں سے بچنے کا صرف ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ ہے کہ اس بات پر کامل یقین انسان کو ہو جاوے کہ خدا ہے اور وہ جزا سزا دیتا ہے جب تک اس اصول پر یقین کامل نہ ہو گناہ کی زندگی پر موت وارد نہیں ہو سکتی.دراصل خدا ہے اور ہونا چاہیے یہ دو لفظ ہیں جن میں بہت بڑے غور اور فکر کی ضرورت ہے.پہلی بات کہ خدا ہے یہ علم الیقین بلکہ حق الیقین کی تہہ سے نکلتی ہے اور دوسری بات قیاسی اور ظنی ہے مثلاً ایک شخص جو فلاسفر اور حکیم ہو وہ صرف نظام شمسی اور دیگر اجرام اور مصنوعات پر نظر کر کے صرف اتنا ہی کہہ دے کہ اس ترتیب محکم اور ابلغ نظام کو دیکھ کر میں کہتا ہوں کہ ایک مدبّر اور حکیم و علیم صانع کی ضرورت ہے تو اس سے انسان یقین کے اس درجہ پر ہرگز نہیں پہنچ سکتا جو ایک شخص خود اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہو کر اور اس کی تائیدات کے چمکتے ہوئے نشان اپنے ساتھ رکھ کر کہتا ہے کہ واقعی ایک قادر مطلق خدا ہے وہ معرفت اور بصیرت کی آنکھ سے اسے دیکھتا ہے.ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک حکیم یا فلاسفر جو صرف قیاسی طور پر خدا کے وجود کا قائل ہے سچی پاکیزگی اور خدا ترسی کے کمال کو حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ظاہر بات ہے کہ نری ضرورت کا علم کبھی بھی اپنے اندر وہ قوت اور طاقت نہیں رکھتا جو الٰہی رعب پیدا کر کے اسے گناہ کی طرف دوڑنے سے بچا لے اور اس تاریکی سے نجات دے جو گناہ سے پیدا ہوتی ہے مگر جو براہ راست خدا کا جلال آسمان سے مشاہدہ کرتا ہے وہ نیک کاموں اور وفاداری اور اخلاص کے لئے اس جلال کے ساتھ ہی ایک قوت اور

Page 360

روشنی پاتا ہے جو اس کو بدیوں سے بچا لیتی اور تاریکی سے نجات دیتی ہے.اس کی بدی کی قوتیں اور نفسانی جذبات پر خداکے مکالمات اور پُر رعب مکاشفات سے ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور وہ شیطانی زندگی سے نکل کر ملائکہ کی سی زندگی بسر کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارادے اور اشارے پر چلنے لگتا ہے جیسے ایک شخص آتش سوزندہ کے نیچے بد کاری نہیں کر سکتا اسی طرح جو شخص خدا کی جلالی تجلیات کے نیچے آتا ہے اس کی شیطنت مر جاتی ہے اور اس کے سانپ کا سر کچلا جاتا ہے پس یہی وہ یقین اور معرفت ہوتی ہے جس کو انبیاء علیہم السلام آکر دنیا کو عطا کرتے ہیں جس کے ذریعہ سے وہ گناہ سے نجات پا کر پاک زندگی حاصل کر سکتے ہیں.اسی طریق پر خدا نے مجھے مامور کیا ہے اور میرے آنے کی یہی غرض ہے کہ میں دنیا کو دکھا دوں کہ خدا ہے اور وہ جزا و سزا دیتا ہے اور یہ بات کہ محض اس یقین ہی سے انسان پاک زندگی بسر کر سکتا ہے اور گناہ کی موت سے بچ سکتا ہے ایسی صاف ہے جس کے لئے ہم کو منطقی دلائل کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ خود انسان کی فطرت اور روز مرہ کا تجربہ اور مشاہدہ اس کے لئے زبردست گواہ ہیں کہ جب تک یہ یقین کامل نہ ہو گا کہ خدا ہے اور وہ گناہ سے نفرت کرتا ہے اور سزا دیتا ہے کوئی اور حیلہ کسی صورت میں کارگر ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن اشیاء کی تاثیرات کی عمدگی کا ہم کو علم ہے ہم کیسے دوڑ دوڑ کر ان کی طرف جاتے ہیں اور جن چیزوں کو اپنے وجود کے لئے خطرناک زہریں سمجھتے ہیں ان سے کیسے بھاگتے ہیں.مثال کے طورپر دیکھوا س جھاڑی میں اگر ہمیں یقین ہو کہ سانپ ہے تو کیا کوئی بھی ہم میں سے ہو گا جو اس میں اپنا ہاتھ ڈالے یا قدم رکھ دے ہرگز نہیں بلکہ اگر کسی بل میں سانپ کے ہونے کا معمولی وہم بھی ہو تو اس طرف سے گزرنے میں ہر وقت مضائقہ ہو گا طبیعت خود بخود اس طرف جانے سے رکے گی.ایسا ہی زہروں کی بابت جب ہمیں علم ہوتا ہے مثلاً اسٹرکنیا ہے کہ اس کے کھانے سے آدمی مر جاتا ہے تو کیسے اس سے بچتے اور ڈرتے ہیں.ایک محلہ میں طاعون ہو تو اس سے بھاگتے ہیں اور وہاں قدم رکھنا آتشیں تنور میں گرنا سمجھتے ہیں.اب وہ بات کیا ہے جس نے دل میںیہ خوف اور ہراس پیدا کیا ہے کہ کسی صورت میں بھی دل اس طرف کا ارادہ نہیں کرتا؟ وہ وہی یقین ہے

Page 361

جو اس کی مہلک اور مضر تاثیرات پر ہو چکا ہے.اس قسم کی بے شمار نظیریں ہم دے سکتے ہیں اور یہ ہماری زندگی میں روزمرہ پیش آتی ہیں.اب یہ بحثیں کہ گناہ سے بچنے کا یہ ذریعہ ہے یا فلاں حیلہ ہے بالکل بے سود اور بے مطلب ہیں کیونکہ جب تک الٰہی تجلیات کے رعب اور گناہ کی زہراور اس کے خطرناک نتائج کا پورا علم نہ ہو ایسا علم جو یقین کامل تک پہنچ گیا ہو گناہ سے نجات نہیں ہو سکتی.یہ ایک خیالی اور بالکل بے معنی بات ہے کہ کسی کا خون گناہ سے پاک کر سکتا ہے.خون یا خودکشی کو گناہ سے کیا تعلق ؟ وہ گناہ کے زائل کرنے کا طریق نہیں ہاں اس سے گناہ پیدا ہو سکتا ہے اور تجربہ نے شہادت دی ہے کہ اس مسئلہ کو مان کر کہاں سے کہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے.گناہ سے بچنے کی سچی فلاسفی میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ گناہ سے بچنے کی سچی فلاسفی یہی ہے کہ گناہ کی ضرر دینے والی حقیقت کو پہچان لیں اور اس بات پر یقین کر لیں کہ ایک زبردست ہستی ہے جو گناہوں سے نفرت کرتی ہے اور گناہ کرنے والے کو سزا دینے پر قادر ہے.دیکھو! اگر کوئی شخص کسی حاکم کے سامنے کھڑا ہو اور اس کا کچھ اسباب متفرق طور پر پڑاہوا ہو تو یہ کبھی جرأت نہیں کرے گا کہ اس اسباب کا کوئی حصہ چرا لے خواہ چوری کے کیسے ہی قوی محرک ہوں اور وہ کیسا ہی اس بدعادت کا مبتلا ہو مگر اس وقت اس کی ساری قوتوں اور طاقتوں پر ایک موت وارد ہوجائے گی اور اسے ہرگز جرأت نہ ہو سکے گی اور اس طرح پر وہ اس چوری سے ضرور بچ جائے گا.اس طرح پر ہر قسم کے خطا کاروں اور شریروں کا حال ہے کہ جب انہيں ایسی قوت کا پورا علم ہو جاتا ہے جو ان کی اس شرارت پر سزا دینے کے لئے قادر ہے تو وہ جذبات ان کے دب جاتے ہیں یہی سچا طریق گناہ سے بچنے کا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ پر کامل یقین پیدا کرے اور اس کے سزا و جزا دینے کی قوت پر معرفت حاصل کرے.یہ نمونہ گناہ سے بچنے کے طریق کے متعلق خدا نے ہماری فطرت میں رکھا ہوا ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس اصول کو آپ کے سامنے پیش کر دوں.

Page 362

کیا عجب آپ کو فائدہ پہنچے اور چونکہ آپ سفر کرتے رہتے ہیں اور مختلف آدمیوں سے ملنے کا آپ کو اتفاق ہوتا ہے آپ ان سے اسے ذکر بھی کر سکتے ہیںاور اگر یہ طریق جو میں پیش کرتا ہوں آپ کے نزدیک صحیح نہیں ہے تو میں آپ کو اجازت دیتا ہوں کہ آپ جس قدر چاہیں جرح کریں یہ میری طرف سے آپ کو ایک تحفہ ہے اور میں ایسے تحفے دے سکتا ہوں.ہر شخص جو دنیا میں آتا ہے اس کا فرض ہونا چاہیے کہ دھوکے اور خطرہ سے بچے.پس گناہ کے نیچے ایک خطرناک اور تمام خطروں اور دھوکوںسے بڑھ کرایک دھوکاہے.میں آگاہ کرتا ہوں کہ اس سے بچنا چاہیے اور یہ بھی بتاتا ہوں کہ کیونکر بچنا چاہیے.اگرچہ اس سے پہلے ایک اور مسئلہ بھی ہے جو خدا کی ہستی کے متعلق ہے مگر میں سردست اس کو چھوڑتا ہوں اور اس دوسرے مقصد کو لیتا ہوں جس کا ماحصل اور مدعا یہ ہے کہ ہر ایک آدمی بجائے خود نیک بننا چاہتا ہے اور نیکی کو اچھا سمجھتا ہے اختلاف اگر ہے تو ان طریقوں اور حیلوں میں ہے جو نیکی کے حصول کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں مگر مشترک طور پر نفسِ نیکی کو سب پسند کرتے ہیں اور چاہتے ہیں.جھوٹ بولنا کون پسند کرتا ہے جذبات نفسانی سے بچنے کو اچھا کہتے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیںکہ باوجودبدیوں کو بدی سمجھنے کے بھی ایک دنیا ان میں گرفتار ہے اور گناہ کے سیلاب میں بہتی ہوئی جا رہی ہے.میں مثال کے طورپر کہتا ہوں کہ عیسائیوں نے انسان کی گنہ گار زندگی کو ہلاک کرکے نیکی اور پاکیزگی کی زندگی کے حصول کے لئے یہ راہ بتائی ہے کہ مسیح ہمارے لئے مَر گیا اور ہمارے گناہوں کا بوجھ اس نے اٹھا لیا اور اس کے خون سے ہم پاک ہو گئے مگر میں دیکھتا ہوں اور آپ کو بھی اقرار کرنا پڑے گا کہ مسیح کے خون نے یورپ کی حالت پر کوئی نمایاں اثر اور تبدیلی پیدا نہیں کی بلکہ ان کی اخلاقی اور روحانی حالتوں پر نظر کرکے سخت افسوس ہوتا ہے ان کی زندگی مرتاضانہ زندگی نہیں ہے بلکہ ایک آزادی اور اباحت کی زندگی ہے.کتنے ہیں جو سرے سے خدا ہی کے منکر ہیں اور بہت ہیں جو خدا کو مان کر اور مسیح ؑکے خون پر ایمان رکھتے ہوئے بھی اپنی حالت میں گرے ہوئے ہیں.شراب کی وہ کثرت ہے جو کئی کئی میل تک شراب کی دکانیں چلی جاتی ہیں اور نامحرم عورتوں کو شہوت کی نظر سے نہ دیکھنا تو کیا ان کے دوسرے اعضا بھی نہ بچ سکے.میں عیسائیوں

Page 363

تک ہی اس گناہ کے سیلاب کو محدود نہیں کرتا، میں صاف کہتا ہوں اس وقت دنیا کی ساری قومیں اس زہر کو کھا رہی ہیں اور ہلاک ہو رہے ہیں.مسلمانوں نے باوجودیکہ ان کے پاس ایک روشن کتاب تھی اور اس میں کسی کے خون کے ذریعہ ان کو گناہ سے پاک کرنے کا وعدہ دے کر آزاد نہیں کیا گیا تھا لیکن وہ بھی خطرناک طور پر اس بلا میں مبتلا ہیں.ہندوؤں کو دیکھو ان میں بھی یہی بَلا موجود ہے یہاں تک کہ ان میں سے بعض قوموں نے جیسے آریہ ہیں نیوگ جیسے مسئلہ کو اپنے ایمانیات اور معتقدات میں داخل کر لیا کہ ایک مرد جب کہ اولاد پیدا کرنے کے ناقابل ہو تو وہ اپنی بیوی کو دوسرے سے اولاد پیدا کرنے کی اجازت دے دے.خدا کی ہستی کے متعلق ذاتی تجربہ غرض اس قسم کی ناپاک زندگی جو حقیقت میں گناہ کی لعنت ہے وہ عام ہو رہی ہے اور وہ پاک زندگی جو گناہ سے بچ کر ملتی ہے وہ ایک لعل تاباں ہے جو کسی کے پاس نہیں ہے ہاں خدا تعالیٰ نے وہ لعل تاباں مجھے دیا ہے او رمجھے اس نے مامور کیا ہے کہ میں دنیا کو اس لعل تاباں کے حصو ل کی راہ بتا دوں.اس راہ پر چل کر میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہر ایک شخص یقیناً یقیناً اس کو حاصل کر لے گا اور وہ ذریعہ اور وہ راہ جس سے یہ ملتا ہے ایک ہی ہے جس کو خدا کی سچی معرفت کہتے ہیں.درحقیقت یہ مسئلہ بڑا مشکل اور نازک مسئلہ ہے کیونکہ ایک مشکل امر پر موقوف ہے فلاسفر جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے آسمان اور زمین کو دیکھ کر اور دوسرے مصنوعات کی ترتیب ابلغ و محکم پر نظر کر کے صرف اتنا بتاتا ہے کہ کوئی صانع ہونا چاہیے مگر میں اس سے بلند تر مقام پر لے جاتا ہوں اور اپنے ذاتی تجربوں کی بنا پر کہتا ہوں کہ خدا ہے.اب اس میں صریح فرق ہے مگریہ فرق تب ہی نظر آ سکتا ہے جب آنکھ صاف ہو ایسی صاف آنکھ کے عطا ہونے پر انسان بنی نوع کے حقوق او رخدا کے حقوق میں تمیز کر کے انہیں محفوظ کر لیتا ہے اور یہ وہی آنکھ ہے جس کو خدا کے دیکھنے کی آنکھ کہتے ہیں اس آنکھ کے ملنے پر وہ پاک زندگی شروع ہوتی ہے او ر گناہوں سے بچنے کا یہ ذریعہ تو کسی حالت میں درست نہیں ہو سکتا کہ کسی دوسرے کو سزا ملے اور ہمارے گناہ معاف ہو جائیں.زید کو پھانسی ملے اور بکر بچ جاوے کیونکہ اس کے ابطال پر یہی دلیل

Page 364

کافی ہے کہ خارجی امور میں ہم اس کی کوئی نظیر نہیں پاتے اور اس طریق سے بچ نہیں سکتے بلکہ دلیر ہوتے ہیں مثلاً یہ کتّا ہے یہ بھیڑیا نہیں ہے.اصل میں اگر یہ بھیڑیا ہو اور ہم اس کو کتّا سمجھیں تو بھی ممکن ہی نہیں کہ اس سے ڈریں اور وہ خوف کریں جو ایک خونخوار بھیڑیے سے کرتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ ہمیں علم نہیں ہے کہ وہ بھیڑیا ہے.ہمارے علم میں وہ ایک کتّا ہے لیکن اگر یہ علم ہو کہ یہ بھیڑیا ہے تو اس سے دور بھاگیں گے اور اس سے بچنے کے لئے اچھی خاصی تیاری کریں گے لیکن اگر یہ علم اور بھی وسیع ہو جاوے کہ یہ شیر ہے تو بہت بڑا خطرہ پیدا ہو گا اور اس سے بچنے کے لئے اور بھی بڑی تیاری کریں گے غرض جمیع قویٰ پر ہیبت اور تاثیرکے علم سے ایک خاص اثر ہوتا ہے.پس اب یہ کیسی صاف صداقت ہے جس کو ہر شخص سوچ سکتا ہے کہ پھر گناہوں سے بچنے کے واسطے کیا راہ ہو سکتی ہے؟ میں دعویٰ سے کہتا ہوں اور میں ایسی صداقت پر قائم کیا گیا ہوں اور یہی حق ہے کہ جب تک خدائے قہار کی معرفتِ تام نہ ہو اور اس کی قوتوں اور طاقتوں کی ایک شمشیر برہنہ نظر نہ آجاوے انسان بدی سے بچ نہیں سکتا.۱ بدی ایک ایسا ملکہ ہے جو انسان کو ہلاکت کی طرف لئے جاتا ہے اور دل بے اختیار ہو ہو کر قابو سے نکل جاتا ہے خواہ کوئی یہ کہے کہ شیطان حملہ کرتا ہے خواہ کسی اور طرز پر اس کو بیان کیا جاوے یہ ماننا پڑے گا کہ آج کل بدی کا زور ہے اور شیطان اپنی حکومت اور سلطنت کو قائم کرنا چاہتا ہے بدکاری اور بے حیائی کے دریا کا بند ٹوٹ پڑا ہے اور وہ اطراف میں طوفانی رنگ میں جوش زن ہے.پس کس قدر ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہر مصیبت او رمشکل کے وقت انسان کا دستگیر ہوتا ہے اس وقت اسے ہر بَلا سے نجات دے چنانچہ اس نے اپنے فضل سے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.دنیا نے اس سیلاب سے بچنے کے واسطے مختلف حیلے نکالے ہیںاور جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے عیسائیوں نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ ایک ایسی بات ہے کہ جس کے بیان کرنے سے بھی شرم آتی ہے پھر اس کا علاج وہی ہے جو خدا نے انسان کی فطرت ہی میں رکھا ہوا ہے یعنی یہ کہ وہ مفید اور نفع رساں چیزوں کی طرف رغبت کرتا ہے اور

Page 365

مضر اور نقصاں رساں چیزوں سے دور بھاگتا ہے اور نفرت کا اظہار کرتا ہے دیکھو! سونے او رچاندی کو اپنے لئے مفید سمجھتا ہے توا س کی طرف کیسی رغبت کرتا ہے اور کن کن محنتوں اور مشکلات سے اسے بہم پہنچاتا ہے اور پھر کن حفاظتوں سے اسے رکھتا ہے لیکن اگر کوئی شخص سونے چاندی کو تو پھینک دے اور اس کے بجائے مٹی کے بڑے بڑے ڈھیلے اٹھا کر اپنے صندوقوں میں بند کر کے ان کی حفاظت کرنے لگے تو کیا ڈاکٹر اس کی دیوانگی کا فتویٰ نہ دیں گے؟ ضرور دیں گے.اسی طرح پرجب ہمیں یہ محسوس ہوجاوے کہ خدا ہے اور وہ بدی سے نفرت کرتا او رنیکی کو پیار کرتا ہے اورنیکیوں کو عزیز رکھتا ہے تو ہم دیوانہ وارنیکیوں کی طرف دوڑیں گے اور گناہ کی زندگی سے دور بھاگیں گے.یہی ایک اصول ہے جو نیکی کی قوت کو طاقت بخشتا او ر نیکی کے قویٰ کو تحریک دیتا ہے اور بدی کی قوتوں کو ہلاک کرتااور شیطان کی ذریت کو شکست دیتا ہے.جب واقعی طور پر اس آفتا ب کی طرح جو اس وقت دنیا پر چمکتا ہے.خدا پر ہمیں یقین حاصل ہو جاوے او رہم خدا کو گویا دیکھ لیں تو یقیناً ہماری سفلی زندگی پر موت وارد ہو جاتی ہے اور اس کے بجائے ایک آسمانی زندگی پیدا ہو جاتی ہے جیسے انبیاء علیہم السلام اور دوسرے راست بازوں کی زندگیاں تھیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کی رحمت فرماں برداروں اور راست بازوں پر ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور نیکی اور پاکیزگی کا تحفہ لے کر جاتے ہیں اور شرارتوں اور بد کاریوں سے اس لئے دور رہتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ سے بُعد اور حرماں کا موجب ہیں ایسے لوگ ایک پاک چشمہ سے دھوئے جاتے ہیں جس کا دھویا ہوا پھرکبھی میلا اور ناپاک نہیں ہوتا اور انہیں وہ شربت پلایا جاتا ہے جس کے پینے والا کبھی پیاسا نہیں ہوتا انہیں وہ زندگی عطا ہوتی ہے جس پر کبھی موت وارد نہیں ہوتی انہیں وہ جنت دیا جاتا ہے جس سے کبھی نکلنا نہیں ہوتا.برخلاف اس کے وہ لوگ جو اس چشمہ سے سیراب نہیں ہوتے اور خدا کے ہاتھوں سے جس کا مسح نہیں ہوتا وہ خدا سے دور جاتے ہیں اور شیطان کے قریب ہو جاتے ہیں انہوں نے خدا کی طرف آنا چھوڑ دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نہ ان میں تسلی کی کوئی راہ باقی ہے نہ ان کے پاس دلائل ہیں اور نہ تاثیرات.

Page 366

میں خارق عادت امور کا مشاہدہ کروا سکتا ہوں ایک عیسائی سے اگر پوچھا جائے کہ تو جو دعویٰ کرتا ہے کہ مسیح کے خون سے میرے گناہ پاک ہو گئے ہیں تیرے پاس اس کا کیا ثبوت ہے ؟ وہ کون سے فوق العادت امور تجھ میں پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے ایک غیر معمولی خدا ترسی اور نکو کاری کی روح تجھ میں پھونک دی ہے تو وہ کچھ جوا ب نہ دے سکے گا.برخلاف اس کے اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں اس کو ان خارق عادت امور کا زبر دست ثبوت دے سکتا ہوں اور اگر کوئی طالب صادق ہو اور ا س میں شتاب کاری اور بدظنی کی قوت بڑھی ہوئی نہ ہو تو میں اسے مشاہدہ کرا سکتا ہوں.بعض امور ایسے ہو تے ہیں کہ اگر ان کے دلائل نہ بھی ملیں تو ان کی تاثیرات بجائے خود انسان کو قائل کر دیتی ہیں اور وہی تاثیرات دلائل کے قائم مقام ہو جاتی ہیں.کفارہ کے حق ہونے کے اگر دلائل عیسائیوں کے پاس نہیں ہیں جیسا کہ وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ بھی ایک راز ہے تو ہم پوچھتے ہیں کہ وہ ان تاثیرات ہی کو پیش کریں جو کفارہ کے اعتقاد نے پیدا کی ہیں.یورپ کی اباحتی زندگی دور سے ان تاثیرات کا نمونہ دکھا رہی ہے اس سے بڑھ کر وہ کیا پیش کریں گے اور یہ ایک عقل مند کے سمجھ لینے کے واسطے کافی ہے کہ کیا اثر ہوا؟ ایک اور بات ہے جو یاد رکھنے کے قابل ہے جس پر غور نہ کرنے کی وجہ سے بعض آدمیوں کو بڑے بڑے دھوکے لگے ہیں اور وہ جادۂ مستقیم سے بھٹک گئے ہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان کی پیدائش ایک قسم کی نہیں ہے.جیسا بوٹیاں ہزاروں قسم کی ہوتی ہیں اور جمادات میں بھی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں.کوئی چاندی کی کان ہے کوئی سونے کی کوئی پیتل اور لوہے کی اسی طرح پر انسانی فطرتیں مختلف قسم کی ہیں.بعض انسان اس قسم کی فطرت رکھتے ہیں کہ وہ ایک گناہ سے نفرت کرتے ہیں اور بعض کسی اور قسم کے گناہ سے مثلاً ایک آدمی ہے کہ وہ چوری تو کبھی نہیں کرتا لیکن زنا کاری اور اَور قسم کی بے حیائی اور بے باکی کرتا ہے یا ایک زنا سے تو بچتا ہے لیکن کسی کا مال مار لینے یا خون کردینے کو گناہ ہی نہیں سمجھتا اور بڑی دلیری

Page 367

کے ساتھ ایسی بے ہودہ بات اور افعال کا مرتکب ہوتا ہے غرض ہر ایک آدمی کو جو دیکھتے ہیں تو اسے کسی نہ کسی قسم کے گناہ میں مبتلا پاتے ہیں اور بعض حصوں میں اور بعض قسم کے گناہوں میں بالکل معصوم ہوتے ہیں پس جس قدر افراد انسانوں کے پائے جاتے ہیں ان کی بابت ہم کبھی بھی قطعی اور یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ وہ سب کے سب ایک ہی قسم کے گناہ کرتے ہیں.نہیں بلکہ کوئی کسی میں مبتلا ہے کوئی دوسرے میں گرفتار ہے کسی قوم کی بابت وہ مغرب میں ہو یا مشرق میں ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ بالکل گناہ سے بچی ہوئی ہے صرف اس قدر تو مانیں گے کہ وہ فلاں گناہ وہ نہیں کرتی مگر یہ کبھی نہیں کہہ سکتے کہ بالکل نہیںکرتی.یہ فطرت اور یہ قوت کہ بالکل گناہوں سے بیزاری اور نفرت پیدا ہو جائے سچی تبدیلی کے بغیر کسی کو مل نہیں سکتی اور اسی تبدیلی کو پید اکرنا ہمارا کام ہے.مسیح موعود کا اہم کام جو لوگ صدق دل اور اخلاص کے ساتھ صحت نیت اور پاک ارادہ اور سچی تلاش کے ساتھ ایک مدت تک ہماری صحبت میں رہیں تو ہم یقیناً کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی تجلیات کی چمکار سے ان کی اندرونی تاریکیوں کو دور کر دے گااور انہیں ایک نئی معرفت اور نیا یقین خدا پر پیدا ہوگا اور یہی وہ ذریعے ہیں جو انسان کو گناہ کے زہر کے اثر سے بچا لیتے ہیں اورا س کے لئے تریاقی قوت پیدا کر دیتے ہیں.یہی وہ خدمت ہے جو ہمارے سپرد ہوئی ہے اور اسی ایک ضرورت کو میں پورا کرنا چاہتا ہوں جو انسا ن اس زنجیر اور قید سے نجات پانے کی ضرورت محسوس کرتا ہے جو گناہ کی زنجیریں ہیں اسے اسی طریق پر نجات ملے گی.پس اگر کوئی قصے کہانیوں کو ہاتھ سے پھینک کر اور ان وہمی حیلوں اور خیالی ذریعوں کو چھوڑ کر کہ کسی کی خود کشی بھی گناہ سے بچا سکتی ہے صدق اور اخلاص سے یہاں رہے تو وہ خدا کو دیکھ لے گا اور خدا کو دیکھ لینا ہی گناہ پر موت وارد کرتا ہے ور نہ اتنی ہی بات پر خوش ہو جانا کہ فلاں گناہ مجھ میں نہیں ہے یا فلاں عیب سے میں بچا ہوا ہوں حقیقی نجات کا وارث نہیں بنا سکتا.یہ تو ایسا ہی ہے کہ کسی نے اسڑکنیا کھا کر موت حاصل کی اور کسی نے سمّ الفار یا بادام کے زہر سے جان دے دی.ہم کو اس سے کچھ غرض نہیں ہے کہ عیسائیوں کے طریق ِنجات پر یا کسی اور مذہب کے پیش کردہ دستور پر کوئی لمبی چوڑی بحث

Page 368

کریں.تجربہ اور مشاہدہ خود گواہ ہے ہم تو صرف وہی طریق بتانا چاہتے ہیں جو خد ا نے ہمیں سمجھا یا ہے اور جس طریق پر ہمیں اطلاع دی ہے.پس گناہوں سے بچنے کا سچا طریق جو مجھے بتایا گیا ہے او رجس کوکل انبیاء کی پاک جماعت نے اپنے اپنے وقت پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے وہ یہی ہے کہ انسانی جذبات پر انسان کو اسی وقت کامل فتح مل سکتی ہے اور شیطان اور اس کی ذرّیّت کی شکست کا وہی وقت ہو سکتاہے جب انسان کے دل پر ایک درخشاں یقین نازل ہو کہ خدا ہے اور اس کی پاک صفات کے صریح خلاف ہے کہ کوئی گناہ کرے اور گناہ گاروں پر اس کا غضب بھڑکتا ہے اور پاک بازوں کو اس کا فضل و رحمت ہر بَلا سے نجات دیتے ہیں اور یہ معرفت اور یہ یقین حاصل نہیں ہو سکتا جب تک ان لوگوں کے پاس ایک عرصہ تک نہ رہیں جو خدا تعالیٰ سے ایک شدید تعلق رکھتے ہیں اور خدا سے لے کر مخلوق کو پہنچاتے ہیں.پس یہی ہماری غرض ہے جو لے کر ہم دنیا میں آئے ہیں اورا سی کو ہم نے آپ کو سنا دیا ہے اب آپ اس پر غور کریں اور جو سوال آپ کو اس پر ہو وہ آپ بے شک کریں.مسٹر ڈکسن.کیا خدا اس جہان میں سزا دیتا ہے یا دوسرے جہان میں؟۱ جزا و سزا کی حقیقت حضرت اقدس.میں نے آپ کے سوال کو سمجھ لیا ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نبیوںکی معرفت ہمیں بتایا ہے اور واقعات صحیحہ نےجس کی شہادت دی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سزا و جزا کا قانون خدا تعالیٰ نے ایسا مقرر کیا ہے کہ اس کا سلسلہ اسی دنیا سے شروع ہو جاتا ہے اور جو شوخیاں اور شرارتیں انسان کرتا ہے وہ بجائے خود انہیں محسوس کرتا ہے یا نہیں کرتا.ان کی سزا اور پاداش جو یہاں ملتی ہے اس کی غرض تنبیہ ہوتی ہے تاکہ توبہ اور رجوع سے شوخ انسان اپنی حالت میں نمایاں تبدیلی پیدا کرے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ عبودیت کا جو رشتہ ہے اس کو قائم کرنے میں جو غفلت اس نے کی ہے اس پر اطلاع پا کر اسے مستحکم کرنا چاہیے.اس وقت یا تو انسان اس تنبیہ سے فائدہ اٹھا کر اپنی کمزوری کا علاج اللہ تعالیٰ کی مدد

Page 369

سے چاہتا ہے اور یا اپنی شقاوت سے اس میں دلیر ہو جاتا ہے اور اپنی سر کشی اور شرارت میں ترقی کرکے جہنم کا وارث ٹھہر جاتا ہے.اس دنیا میں جو سزائیں بطور تنبیہ دی جاتی ہیں، ان کی مثال مکتب کی سی ہے جیسے مکتب میں کچھ خفیف سی سزائیں بچوںکو ان کی غفلت اور سستی پر دی جاتی ہیں.اس سے یہ غرض نہیں ہوتی کہ علوم سے انہیں استاد محروم رکھناچاہتا ہے بلکہ اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ انہیں اپنی غرض پر اطلاع دے کر آئندہ کے لئے زیادہ محتاط اور ہوشیار بنادے.اسی طرح پر اللہ تعالیٰ جو شرارتوں اور شوخیوں پر کچھ سزا دیتا ہے توا س کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ نادان انسان جو اپنی جان پر ظلم کر رہا ہے اپنی شرارت اور اس کے نتائج پر مطلع ہو کر اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جبروت سے ڈر جاوے اور اس کی طرف رجوع کرے.میں نے اپنی جماعت کے سامنے بارہا اس امر کو بیان کیا ہے اور اب آپ کو بھی بتاتا ہوں کہ جب انسان ایک کام کرتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی ایک فعل اس پر نتیجہ کے طور پر مترتّب ہوتا ہے مثلاً جب ہم کافی مقدار زہر کی کھا لیں گے توا س کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم ہلاک ہو جائیں گے.اس میں زہر کھانا یہ ہمارا اپنا فعل تھا اور خدا کا فعل اس پر یہ ظاہر ہوا کہ اس نے ہلاک کر دیا یا مثلاً یہ کہ اگر ہم اپنے گھر کی کوٹھڑی کی کھڑکیاں بند کر لیں تو یہ ہمارا فعل ہے اوراس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فعل ہو گا کہ کوٹھڑی میں اندھیرا ہو جائے گا.اسی طرح پر انسانی افعال اور اس پر بطور نتائج اللہ تعالیٰ کے افعال کے صدور کا قانون دنیا میں جاری ہے اور یہ انتظام جیسا کہ ظاہر سے متعلق ہے اور جسمانی نظام میں اس کی نظیریں ہم ہر روز دیکھتے ہیں اسی طرح پر باطن کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے اور یہی ایک اصول ہے جو قانون سزا کے سمجھنے کے واسطے ضروری ہے اور وہ یہی ہے کہ ہماراہر ایک فعل نیک ہو یا بد اپنے فعل کے ساتھ ایک اثر رکھتا ہے جو ہمارے فعل کے بعد ظہور پذیر ہوتا ہے.اب عذاب اور راحت کو جو گناہوں کی پاداش یا نیکیوں کی جزا میں دی جاتی ہے ہم بہت جلد سمجھ سکتے ہیں اور میں پوری بصیرت اور دعویٰ کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس فلاسفی کے بیان کرنے سے دوسرے تمام مذہب بالکل عاری اور تہی ہیں.اس بات کوہر شخص جو خدا کو مانتا ہے اقرار کرتا ہے کہ

Page 370

انسان خدا ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اس لئے اس کی ساری خوشیوں کی انتہا اور ساری راحتوں کی غایت اسی میں ہو سکتی ہے کہ وہ سارے کا سارا خدا ہی کا ہو جاوے اور جو تعلق اُلُوہیّت اور عبودیّت میں ہو ناچاہیے یا یوں کہو کہ ہے جب تک انسان اس کو مستحکم نہیں کرتا اور ا سے حیّز فعل میں نہیں لاتا وہ سچی خوشحالی کو پا نہیں سکتا.انبیاء علیہم السلام کے آنے کی یہی غرض ہوتی ہے اور وہ اسی اہم مقصد کو لے کر آتے ہیں کہ وہ انسان کو یہ گم شدہ متاع واپس دینا چاہتے ہیں.جو عبودیت اور الوہیت کے درمیانی رشتہ کی ہوتی ہے مگر جب انسان خدا سے دور ہٹ جاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس محبت کی زنجیر سے الگ کر لیتا ہے جو خدا اور بندہ کے درمیان ہو نی چاہیے اور یہ فعل انسان کا ہوتا ہے اور اس پر خدا کا یہ فعل ہوتا ہے کہ وہ بھی اس سے دور ہٹتا ہے اور اسی بُعد کے لحاظ سے انسانی قلب پر تاریکی کا ظہور ہوتا ہے او رجس طرح آفتا ب کی طرف سے دروازہ بند کرنے پر ظلمت اور تاریکی سے کمرہ بھر جاتا ہے اسی طرح پر خدا سے منہ پھیرنے سے اندرونہ انسانی ظلمت سے بھرنے لگتا ہے اور جوں جوں وہ دور ہوتا جاتا ہے ظلمت بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ دل بالکل سیاہ ہو جاتا ہے اور یہی ظلمت ہے جو جہنم کہلاتی ہے کیونکہ اسی سے ایک عذاب پیدا ہوتا ہے.اب اس عذاب سے اگربچنے کے لئے وہ یہ سعی کرتا ہے کہ ان اسباب کو جو خدا تعالیٰ سے بعد اور دوری کا موجب ہوئے ہیں چھوڑ دیتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ رجوع کرتا ہے اور جیسے کھڑکیوں کے کھول دینے سے گئی ہوئی روشنی واپس آکر تاریکی کو دور کر دیتی ہے اسی طرح پر سعادت کا نور جو جاتا رہا تھا وہ اسی انسان کو جو رجوع کرتا ہے پھر دیا جاتا ہے اور وہ اس سے پورا مستفید ہونے لگتا ہے.اور توبہ کی یہی حقیقت ہے جس کی نظیر ہم قانون قدرت میں صاف مشاہدہ کرتے ہیں ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نبیوں کے زمانہ میں جو قوموں پر عذاب آتے ہیں جیسے لوطؑ کی قوم پر یا یہودیوں کو بخت نصر یا طیطس رومی کے ذریعہ تباہ کیا گیاتو ان عذابوں کا موجب محض اختلاف نہیں ہوتا بلکہ ان کے عذابوں اور دکھوں کا موجب وہ شرارتیں اور شوخیا ں اور تکلیفیں ہوتی ہیں جو وہ نبیوں سے کر تے اور انہیں پہنچاتے ہیں آخر ان کی شرارتیں ان پر ہی لوٹ کر پڑتی ہیں اور

Page 371

انہیں تباہ اور ہلاک کر دیتی ہیں جس طرح پر سیاست اور ملک داری کے اصولوں کی تہ میں یہ بات رکھی ہوئی ہے کہ امن عامہ میں خلل انداز ہونے والوں کو وہ چور ہوں یا ڈاکو باغی ہوں یا کسی اور جرم کے مجرم محض اس لئے سزا دی جاتی ہے تاآئندہ کے لئے امن ہو اور دوسروں کو اس سے عبرت.اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ قانون رکھا ہوا ہے کہ وہ شریروں اورسرکشوں کو جو ا س کے حدود اور اوامر کی پروا نہیں کرتے سزا دیتا ہے تاکہ حد سے نہ بڑھ جائیں.جنہوں نے حد سے بڑھنا چاہا خدا نے وہیں انہیں تنبیہ کی.اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سزا اور تنبیہ اس شخص کے لئے بھی جسے دی جاتی ہے اور دوسروں کے واسطے بھی جو عبرت کی نگاہ سے اسے دیکھتے ہیں بطور رحمت ہے کیونکہ اگر سزا نہ دی جاتی تو امن اٹھ جاتا اور انجام کار نتیجہ بہت ہی بُرا ہوتا.قانون قدرت پر نظر کرو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فطرت انسانی میں یہ بات رکھی ہوئی ہے اور اس فطرتی نقش ہی کی بنا پر قرآن نے یہ فرمایا ہے وَ لَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّٰۤاُولِي الْاَلْبَابِ (البقرۃ:۱۸۰) یعنی تمہارے تمدن کے قیام کے لئے قصاص کاہونا ضروری ہے اگر افعال کے کچھ نتائج ہی نہیں ہوتے تو وہ افعال کیا ہوتے؟ اور ان سے کیا غرض مقصود ہوتی؟ غرض ضروری اور واقعی طور پر یہ سزائیں نہیں ہیں جو یہاں دی جاتی ہیں بلکہ یہ ایک ظل ہیں اصل سزائوں کا اور ان کی غرض ہے عبرت.دوسرے عالم کے مقاصداَور ہیں اور وہ بالا تر اور بالا تر ہیں وہاں تو مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ ( الزلزال :۹) کا انعکاسی نمونہ لوگ دیکھ لیں گے اور انسان کو اپنے مخفی در مخفی گناہوں اور عزیمتوں کی سزا بھگتنی پڑے گی.دنیا اور آخرت کی سزائوں میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ دنیا کی سزائیں امن قائم کرنے اور عبرت کے لئے ہیںاور آخرت کی سزائیں افعال انسانی کے آخری اور انتہائی نتائج ہیں وہاں اسے سزا ضرور ملنی ٹھہری کیونکہ اس نے زہر کھائی ہوئی ہے اور یہ ممکن نہیں کہ بدوں تریاق وہ اس زہر کے اثر سے محفوظ رہ سکے.عاقبت کی سزا اپنے اندر ایک فلسفیانہ حقیقت رکھتی ہے جس کو کوئی مذہب بجز اسلام کے کامل طور پر بیان نہیں کر سکا.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِيْلًا( بنی اسـراءیل:۷۳) یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا

Page 372

ہو وہ اس دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا بلکہ اندھوں سے بھی بدتر.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو دیکھنے کی آنکھیں اور اس کے دریافت کرنے کے حواس اسی جہان سے انسان اپنے ساتھ لے جاتا ہے جو یہاں ان حواس کو نہیں پاتاوہاں وہ ان حواس سے بہرہ ورنہیں ہوگا یہ ایک دقیق راز ہے جس کو عام لوگ سمجھ بھی نہیں سکتے اگراس کے یہ معنی نہیں تو یہ تو پھر بالکل غلط ہے کہ اندھے اس جہان میں بھی اندھے ہوں گے اصل بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کو بغیر کسی غلطی کے پہچاننا اور اسی دنیا میں صحیح طور پر اس کی صفات و اسماء کی معرفت حاصل کرنا آئندہ کی تمام راحتوں اور روشنیوں کی کلید ہے اور یہ آیت اس امر کی طرف صاف اشارہ کر رہی ہے کہ اسی دنیا سے ہم عذاب اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اس دنیا کی کورانہ زیست اور ناپاک افعال ہی اس دوسرے عالم میں عذاب جہنم کی صورت میں نمودار ہو جائیں گے اور وہ کوئی نئی بات نہ ہوں گے.جیسے ایک شخص گھر کے دروازے بند کر لینے سے روشنی سے محروم ہو جا تا ہے اور تازہ اور زندگی بخش ہوا اسے نہیں مل سکتی یا کسی زہر کھالینے سے اس کی زندگی باقی نہیں رہ سکتی اسی طرح پر جب ایک آدمی خدا کی طرف سے ہٹتا ہے اور گناہ کرتا ہے تو وہ ایک ظلمت کے نیچے آکر عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے.گناہ اصل میں جناح تھا جس کے معنے میل کرنے اور اصل مرکز سے ہٹ جانے کے ہیں پس جب انسان خدا سے اعراض کرتا ہے اور اس کے نور کے مقابل سے ہٹ جاتا ہے اور اس روشنی سے دور ہو جاتا ہے جو صرف خدا کی طرف سے اترتی اور دلوں پر نازل ہوتی ہے تو وہ ایک تاریکی میں مبتلا ہوتا ہے جو اس کے لئے عذاب کا موجب ہو جاتی ہے پھر جس قسم کا یہ اعراض ہو اسی قسم کا عذاب اسے دکھ دیتا ہے لیکن اگر انسان پھر اس مرکز کی طرف آناچاہے اور اپنے آپ کو اس مقام پر پہنچاوے جو الٰہی روشنی کے پڑنے کا مقام ہے تو وہ پھر اس گمشدہ نور کو پا لیتا ہے کیونکہ جیسے دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے کمرہ میں روشنی کو ایسے وقت پا سکتے ہیں جب اس کی کھڑکیاں کھول دیں ویسے ہی روحانی نظام میں مرکز اصلی کی طرف بازگشت کرنا ہی راحت کا موجب ہو سکتا ہے اور اس دکھ درد سے بچاتا ہے جو اس مرکز کو چھوڑنے سے پیدا ہوا تھا اسی کا نام توبہ ہے اور یہی ظلمت جو اس طرح پر پیدا

Page 373

ہوتی ہے ضلالت اور جہنم کہلاتی ہے اور مرکز اصلی کی طرف رجوع کرنا جو راحت پیدا کرتا ہے جنت سے تعبیر ہوتا ہے اور گناہ سے ہٹ کر پھر نیکی کی طرف آنا جس سے اللہ تعالیٰ خوش ہو جاوے اس بدی کا کفارہ ہو کر اسے دور کر دیتا ہے اور اس کے نتائج کو بھی سلب کر دیتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ (ہود:۱۱۵) یعنی نیکیاں بدیوں کو زائل کر دیتی ہیں چونکہ بدی میں ہلاکت کی زہر ہے اور نیکی میں زندگی کا تریاق اس لئے بدی کے زہر کو دور کرنے کا ذریعہ نیکی ہی ہے.یا اسی کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں عذاب راحت کی نفی کا نام ہے اور نجات راحت اور خوشحالی کے حصول کا نام ہے اسی طرح پر جیسے بیماری اس حالت کا نام ہے جب حالت بدن مجری طبیعت پر نہ رہے.اور صحت وہ حالت ہے کہ امور طبیعہ اپنی اصل حالت پر قائم ہوں اور جیسے کسی ہاتھ پائوں یا کسی عضو کے اپنے مقام خاص سے ذرا ادھر ادھر کھسک جانے سے درد شروع ہو جاتا ہے اور و ہ عضو نکما ہو جاتا ہے اور اگرچندے اسی حالت پر رہے تو پھر نہ خود بالکل بیکار ہو جاتا ہے بلکہ دوسرے اعضاء پر بھی اپنابُرا اثر ڈالنے لگتا ہے.بعینہٖ یہی حالت روحانی ہے کہ جب انسان خدا تعالیٰ کے سامنے سے جو اس کی زندگی کا اصل موجب اور مایۂ حیات ہے ہٹ جاتا ہے اور فطرتی دین کو چھوڑ بیٹھتا ہے تو عذاب شروع ہو جاتا ہے اور اگر قلب مردہ نہ ہو گیا ہو اور اس میں احساس کا مادہ باقی ہو تو وہ اس عذاب کو خوب محسوس کرتا ہے اور اگر اس بگڑی ہوئی حالت کی اصلاح نہ کی جاوے تو اندیشہ ہوتا ہے کہ پھر ساری روحانی قوتیں رفتہ رفتہ نکمی اور بیکار ہو جائیں اور ایک شدید عذاب شروع ہو جاوے.پس اب کیسی صفائی کے ساتھ یہ امر سمجھ میں آجاتا ہے کہ کوئی عذاب باہر سے نہیں آتا بلکہ خود انسان کے اندر ہی سے نکلتا ہے.ہم کو اس سے انکار نہیں کہ عذاب خدا کا فعل ہے.بے شک اسی کا فعل ہے مگر اسی طرح جیسے کوئی زہر کھائے تو خدا اسے ہلاک کر دے.پس خدا کا فعل انسان کے اپنے فعل کے بعد ہوتا ہے.اسی کی طرف اللہ جلشانہٗ اشارہ فرماتا ہے نَارُ اللّٰهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِيْ تَطَّلِعُ عَلَى الْاَفْـِٕدَةِ ( الہمزۃ :۷،۸) یعنی خدا کا عذاب وہ آگ ہے جس کو خدا بھڑکاتا ہے اورا س کا شعلہ انسان کے دل ہی سے اٹھتا ہے.اس کا مطلب صاف لفظوں میں یہی ہے کہ عذاب کا اصل بیج

Page 374

اپنے وجود ہی کی ناپاکی ہے جو عذاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے.بہشت کی نعماء کی حقیقت اسی طرح بہشت کی راحت کا اصل سرچشمہ بھی انسان کے اپنے ہی افعال ہیں.اگر وہ فطرتی دین کو نہیں چھوڑتا، اگر وہ مرکز اعتدال سے اِدھر اُدھر نہیں ہٹتا اور عبودیت الوہیت کے محاذ میں پڑی ہوئی اس کے انوار سے حصہ لے رہی ہے تو پھر یہ اس عضو صحیح کی طرح ہے جو مقام سے ہٹ نہیں گیا اور برابر اس کام کو دے رہا ہے جس کے لئے خدا نے اس کو پیدا کیا ہے اور اسے کچھ بھی درد نہیں بلکہ راحت ہے.قرآن شریف میں فرمایا ہے وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ( البقرۃ :۲۶) یعنی جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کرتے ہیں ان کو خوشخبری دے دو کہ وہ ان باغوں کے وارث ہیں جن کے نیچے ندیاں بہہ رہی ہیں.اس آیت میں ایمان کو اللہ تعالیٰ نے باغ سے مثال دی ہے اور اعمال صالحہ کو نہروں سے جو رشتہ اور تعلق نہر جاریہ اور درخت میں ہے وہی رشتہ اور تعلق اعمال صالحہ کو ایمان سے ہے پس جیسے کوئی باغ ممکن ہی نہیں کہ پانی کے بدوں سرسبز اور ثمردار ہوسکے اسی طرح پر کوئی ایمان جس کے ساتھ اعمال صالحہ نہ ہوں مفید اور کارگر نہیں ہو سکتا.پس بہشت کیا ہے وہ ایمان اور اعمال ہی کے مجسم نظارے ہیں وہ بھی دوزخ کی طرح کوئی خارجی چیز نہیں ہے بلکہ انسان کا بہشت بھی اس کے اندر ہی سے نکلتا ہے.یاد رکھو کہ اس جگہ پر جو راحتیں ملتی ہیں وہ وہی پاک نفس ہوتا ہے جو دنیا میں بنا یا جاتا ہے.پاک ایمان پودہ سے مماثلت رکھتا ہے اور اچھے اچھے اعمال اخلاق فاضلہ یہ اس پودہ کی آبپاشی کے لئے بطور نہروں کے ہیں جو اس کی سرسبزی اور شادابی کو بحال رکھتے ہیں.اس دنیا میں تو یہ ایسے ہیں جیسے خوا ب میں دیکھے جاتے ہیں مگر اس عالم میں محسوس اور مشاہد ہوں گے.یہی وجہ ہے کہ لکھاہے کہ جب بہشتی ان انعاما ت سے بہر ہ ور ہوںگے تو یہ کہیںگے هٰذَا الَّذِيْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَاُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا ( البقرۃ : ۲۶) اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ دنیا میں جو دودھ یا شہد یا انگور، انار وغیرہ چیزیں ہم کھاتے پیتے ہیں وہی وہاں ملیں گی، نہیں وہ چیزیں اپنی نوعیت اور حالت کے

Page 375

لحاظ سے بالکل اَور کی اَور ہوں گی ہاں صرف نام کا اشتراک پایا جاتا ہے.اور اگرچہ ان تمام نعمتوں کا نقشہ جسمانی طور پر دکھایا گیا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ بتا دیا گیا ہے کہ وہ چیزیں روح کو روشن کرتی ہیں اور خدا کی معرفت پیدا کرنے والی ہیںان کا سرچشمہ روح اور راستی ہے.رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ سے یہ مراد لینا کہ وہ دنیا کی جسمانی نعمتیں ہیں بالکل غلط ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا منشا اس آیت میں یہ ہے کہ جن مومنوں نے اعمال صالحہ کئے انہوں نے اپنے ہاتھ سے ایک بہشت بنایا جس کا پھل وہ اس دوسری زندگی میں بھی کھائیں گے اور وہ پھل چونکہ روحانی طور پر دنیا میں بھی کھا چکے ہوں گے اس لئے اس عالم میں اس کو پہچان لیں گے اور کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل معلوم ہوتے ہیں اور یہ وہی روحانی ترقیاں ہوتی ہیں جو دنیا میں کی ہوتی ہیں اس لئے وہ عابد و عارف ان کو پہچان لیں گے.میں پھر صاف کر کے کہنا چاہتا ہوں کہ جہنم اور بہشت میں ایک فلسفہ ہے جس کا ربط باہم اسی طرح پر قائم ہوتا ہے جو میں نے ابھی بتایا ہے مگر اس بات کو کبھی بھی بھولنا نہیں چاہیے کہ دنیا کی سزائیں تنبیہ اور عبرت کے لئے انتظامی رنگ کی حیثیت سے ہیں.سیاست اور رحمت دونوں باہم ایک رشتہ رکھتی ہیں اور اسی رشتہ کے اظلال یہ سزائیں اور جزائیں ہیں.انسانی افعال اور اعمال اسی طرح پر محفوظ اور بند ہوتے جاتے ہیں جیسے فونو گراف میں آواز بند کی جاتی ہے جب تک انسان عارف نہ ہو اس سلسلہ پر غو رکر کے کوئی لذّت اور فائدہ نہیں اٹھا سکتا.معرفت کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ اول خدا شناس ہو اور خدا شناسی حاصل نہیں ہوتی جب تک کسی خدا نما انسان کی مجلس میں صدق نیت اور اخلاص کے ساتھ ایک کافی مدت تک نہ رہے.اس کے بعد وہ اس سلسلہ کو جو جزا و سزا کا اور دنیا اور عقبیٰ کا ہے بڑی سہولت کے ساتھ سمجھ لے گا.اس بیان پر غور کرنے سے یہ بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ اور بہشت کی فلاسفی جوقرآن شریف نے بیان فرمائی ہے وہ کسی اور کتاب نے نہیں بتائی اور قرآن شریف کے مطالعہ سے یہ امر بھی کھل جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کو تدریجاً بیان فرمایا ہے مگر یہ راز ان پر ہی کھلتا ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں اور پاک نفس لے کر سوچتے ہیں کیونکہ کوئی عمدہ بات بدوں تکلیف کے نہیں ملتی ہے.یہ کہنا کہ ہر شخص اس راز

Page 376

پر کیوں اطلاع نہیں پاتا میں کہتا ہوں کہ دیکھو! ہمارے حواس کے کام الگ الگ ہیں مثلاً آنکھ دیکھ سکتی ہے زبان چکھ سکتی ہے اور بول سکتی ہے کان سن سکتے ہیں گویاہر ایک حواس میں سے اپنے اپنے فرائض اور قوت کے ذمہ وار ہیں.یہ کبھی نہیںہو سکتا ہے کہ کان کے پاس مصری کی ڈلی رکھ دی جاوے اور وہ اس کا ذائقہ بتا دے اور آنکھ خارجی آوازیں سن لے یا زبان دیکھ لے پس اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی معرفت کے دقیق اسرار کو معلوم کرنے کے واسطے خاص قویٰ ہیں وہی ان پر اطلاع دے سکتے ہیں اور یہ قویٰ دئیے تو سب کو گئے ہیں لیکن ان سے کام لینے والے بہت تھوڑے ہیں.ظن کا کو ئی قوی اثر نہیں ہوسکتا.یہی وجہ ہے کہ فلاسفروں کی ایمانی حالت بہت ہی کمزور ہوتی ہے اور وہ ظنّیات سے آگے نہیں بڑھتے.افلاطون جو بڑا مدبّر اور دانش مند سمجھا جاتا تھا جب مرنے لگا تو اس نے یہی کہا کہ فلاں بت پر اس کے لئے ایک مرغ چڑھا دینا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کیسا کمزور ایمان تھا توحید پر قائم نہ ہوا.صحبت صالحین پس وہ عظیم الشان ذریعہ جس سے ایک چمکتا ہوا یقین حاصل ہو اور خدا تعالیٰ پر بصیرت کے ساتھ ایمان قائم ہو ایک ہی ہے کہ انسان ان لوگوں کی صحبت اختیار کرے جو خدا تعالیٰ کے وجود پر زندہ شہادت دینے والے ہوں خود جنہوں نے اس سے سن لیا ہے کہ وہ ایک قادر مطلق اور عالم الغیب تمام صفات کاملہ سے موصوف خدا ہے.ابتدا میں جب انسان ایسے لوگوں کی صحبت میں جاتا ہے توا س کی باتیں بالکل انوکھی اور نرالی معلوم ہوتی ہیںوہ بہت کم دل میں جاتی ہیں گو دل ان کی طرف کھنچا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اندر کی گندگیوں اور ناپاکیوں سے ان معرفت کی باتوں کی ایک جنگ شروع ہو جاتی ہے جو کچھ گرد و غبار دل پر بیٹھا ہوتا ہے صادق کی باتیں ان کو دور کر کے اسے جلا دینا چاہتی ہے تا اس میں یقین کی قوت پیدا ہو جیسے جب کبھی کسی آدمی کو مسہل دیا جاتا ہے تو دست آور دوائی پیٹ میں جا کر ایک گڑگڑاہٹ سی پیدا کر دیتی ہے اور تمام مواد ردّیہ اور فاسدہ کو حرکت اور جوش دے کر باہر نکالتی ہیں اسی طرح پر صادق ان ظنّیات کو دور کرنا چاہتا ہے اور سچے علوم اور اعتقاد صحیحہ کی معرفت کرانی چاہتا ہے اور وہ باتیں اس دل کو جس نے بہت بڑا زمانہ ایک اور ہی دنیا میں بسر کیا ہوا ہوتا ہے ناگوار اور ناقابل عمل معلوم ہوتی ہیں

Page 377

لیکن آخر سچائی غالب آجا تی ہے اور باطل پرستی کی قوتیں مَر جاتی ہیں اور حق پرستی کی قوتیں نشوو نما پانے لگتی ہیں.پس میں اس نور کو لے کر آیا ہوں اور دنیا میں قوت یقین کو پیدا کرنا چاہتا ہوں اور اس قوت کا پیدا ہونا صرف الفاظ اور باتوں سے نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ان نشانات سے نشوونما پاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مقتدرانہ طاقت سے صادقوں کے ہاتھ پر ظہور پاتے ہیں.میرا مدعا یہی ہوتا ہے کہ دوسری کلام نہ کروں جب تک ایک امر سننے والے کے ذہن نشین نہ کر لوں اور سننے والا فیصلہ نہ کر لے کہ اس بات کو اس نے سمجھ لیا ہے یا اس پر کوئی اعتراض کرے.۱ سچی معرفت کیا ہے کیونکہ سوال کرنا بھی ایک قسم کا علم پیدا کرنا ہوتا ہے السُّؤَالُ نِصْفُ الْعِلْمِ مشہو رہے پس میں اس کو بھی غنیمت سمجھتا ہوں کہ کسی کے دل میں امرِ حق کے متعلق سوال کرنے کی تحریک پیدا ہو جاوے.یقیناً یاد رکھو کہ سچی معرفت ہر ایک طالب حق کو جو مستقل مزاجی سے اس راہ میں قدم رکھتا ہے مل سکتی ہے.یہ کسی کے لئے خاص نہیں ہے ہاں یہ سچ ہے کہ جو غفلت کرتا ہے اور صدق نیت سے اس کی جستجو نہیں کرتا اس کا کوئی حصہ نہیں ہے ورنہ خدا تعالیٰ تو ہرایک انسان کو اپنی معرفت کے رنگ سے رنگین کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کو خدا نے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے اور اسی لئے فرمایا ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ( العنکبوت :۷۰) جن لوگوں نے ایک عورت کے بچے کو یا یوں کہو کہ انسان کو خدا بنایا ہے انہوں نے نہ خدا کو سمجھا ہے اور نہ انسان ہی کی حقیقت پر غور کی ہے.انسان کیا ہے ؟ وہ گویاکل مخلوقات الٰہیہ کی ایک مجموعی صورت ہے جس قدر مخلوق دنیا میں جیسے بھیڑ بکری وغیرہ موجود ہے یہ سب انسانی قویٰ کی انفرادی صورتیں ہیں.جیسے ایک مصنّف جب کوئی کتاب لکھنی چاہتا ہے تو پہلے متفرق نوٹ ہوتے ہیں پھر ان کو ترتیب دے کر ایک کتاب کی صورت میں لے آتا ہے اسی طرح پر کل مخلوقات انسانی قویٰ کے خاکے ہیں گویا یہ عملی صورت بتاتی ہے کہ انسان اعلیٰ قویٰ لے کر آیا ہے پس عیسائی مذہب انسانی قویٰ کی توہین کرتا ہے

Page 378

اور ان کی تکمیل اور نشوونما کے لئے ایک خطرناک روک پیدا کردیتا ہے جب کہ وہ انسان کو خدا بنا کر اس کے خون پر نجات کاانحصار رکھ دیتا ہے.پس میں جو بات آپ کو پہنچانا چاہتا تھا وہ یہی ہے کہ میں انسان کو گناہ سے بچنے کا حقیقی ذریعہ بتاتا ہوں اور خدا تعالیٰ پر سچا ایمان پیدا کرنے کی راہ دکھاتا ہوں یہی میرا مقصد ہے جس کو لے کر میں دنیا میں آیا ہوں.میری دلی خواہش ہے کہ آپ اس کو سمجھ لیں اور خوب غور سے سمجھ لیں تا کہ جہاں کہیں آپ جائیں اوراپنے دوستوں میں بیٹھ کر اپنے سفر کے عجائبات سنائیں وہاں ان کو یہ باتیں بھی بتائیں جو میں نے آپ کو سنائی ہیں.مسٹر ڈکسن.میں نے آپ کا مدعا خوب سمجھ لیا ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جہاں کہیں میں جائوں گا میں یوروپین لوگوں میں اس کا تذکرہ کروں گا.حضرت اقدسؑ.ہم نے تو آپ کا چہرہ دیکھ کر ہی سمجھ لیا تھا کہ آپ میں انصاف ہے ہماری دلی آرزو یہی تھی کہ آپ کچھ دنوں ہمارے پاس رہ جاتے تا کہ ہمیں پورا موقع ملتا کہ اپنے اصول آپ کو سمجھائیں اور آپ کو بھی غور کرنے اور بار بار پوچھنے کا موقع ملتا مگر تا ہم ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کی غور کرنے والی طبیعت ضرور کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھائے گی.انسان کے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا نمونہ یہی ہے کہ و ہ راستی کے قبول کرنے کے لئے ہر وقت طیار رہے بہت سے امورا یسے ہوتے ہیں کہ انسان محض ماں باپ کی تقلید کی وجہ سے باوجودیکہ ان میں صریح نقص دیکھتا ہے نہیں چھوڑتا.لیکن جو شخص سچے اخلاق اور اخلاقی جرأت سے حصہ رکھتا ہے وہ ان باتوں کی کچھ پروا نہیں کرتا وہ صرف راستی کا خواہش مند ہوتا ہے.بچپن میں دو قوتیں بڑی تیز ہوتی ہیں اوّل ہر ایک چیز اندر چلی جاتی ہے دوم خوب یاد رہتی ہے.بچہ کبھی دلائل نہیں پوچھتا کہ کیوں یہ بات ہے مگر اصل شجاعت یہی ہے کہ ان باتوں کو جو شیر مادر کی طرح پیتا ہے جب اسے معلوم ہو جاوے کہ ان میں حقیقت اور معرفت کا رنگ اور قوت نہیں ہے تو انہیں چھوڑنے کے لئے فی الفور طیار ہو جاوے.تمام قویٰ کا بادشاہ انصاف ہے اگر یہ قوت ہی

Page 379

انسان میں مفقود ہے تو پھر سب سے محروم ہونا پڑتا ہے.انسان دنیا میں اس لئے نہیں آیا کہ وہ باطل کا ذخیرہ جمع کرے بلکہ اسے حقیقت شناس اور حق پرست ہونا چاہیے.دنیا میں چونکہ باطل بھی ہے اور کچھ تعجب نہیں کہ باطل پرست اسے سچ سے بھی زیادہ چمکدار دکھانا چاہیں مگر دانش مند کو دھوکا نہیں کھانا چاہیے اس کو لازم ہے کہ سچائی کو پورے طور پر پرکھے اور پھر قبول کرے.میرے نزدیک عام مذاہب کا اس وقت یہ حال ہے کہ گویا کل مذاہب کا ایک میدان لگا ہوا ہے اور ہر ایک بجائے خود کوشش کرتا ہے کہ اپنے مذہب کو سچا دکھائے مگر میں کہتا ہوں کہ روحانیت کو دیکھو کہ کس میں ہے اور تائیدی نشان کون اپنے ساتھ رکھتا ہے اور کون سا مذہب ہے جو گناہ کے کیڑے کو ہلاک کرنے کی قوت رکھتا ہے.میں آپ کو اپنے تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی سچی معرفت جس کی گرمی سے گناہ کا کیڑا ہلاک ہوتاہے اسلام میں ملتی ہے اور یہ کبھی نہیں ہو سکتا ہے کہ کسی کے خون سے اس کیڑے کو موت آوے بلکہ خون پڑ کر تو اور بھی کیڑے پیدا کرے گا اس لئے خون گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہرگز نہیں ہے.نجات اور پاکیزگی کی سچی اصل وہی ہے جو میں نے آپ کو بتائی ہے اور ساری دنیا کو چاہیے کہ اسی کو تلاش کریں.اس تقریر کے ختم کرتے کرتے نہر کا پل جو قادیان سے ۴ ؍ میل کے قریب ہے آپہنچا.یہاں پہنچ کر مسٹر ڈکسن حضرت سے رخصت ہو کر بٹالہ کو چلا گیا اور حضرت اقدس واپس تشریف فرما ہوئے.(ایڈیٹر)۱ سَیر سے واپسی پرحضرت اقدس ؑ نے نواب صاحب کو خطاب کرکے فرمایا.اعزّہ کو تبلیغ مَیں سنتا رہتا ہوں کہ آپ اپنے اعزّہ کو وقتاً فوقتاً تبلیغ کرتے رہتے ہیں.یہ بہت ہی عمدہ بات ہے.ہر وقت انسان کو ایسی فکر کرنی چاہیے کہ جس طرح ممکن ہو عورتوں اور اور مردوں کو اس امر الٰہی سے اطلاع کردیوے.حدیث میں آیا ہے کہ اپنے قبیلہ کا شیخ اسی طرح سوال کیا جائے گا جیسے کسی قوم کا نبی.غرض جو موقع مل سکے اسے کھونا نہیں چاہیے.زندگی کا کچھ اعتبار نہیں ہوتا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ(الشعرآء:۲۱۵) کا حکم ہوا

Page 380

تو آپ نے نام بنام سب کو خدا کا پیغام پہنچادیا.ایسا ہی مَیں نے بھی کئی مرتبہ عورتوں اور مَردوں کو مختلف موقعوں پر تبلیغ کی ہے اور اب بھی کبھی گھر میں وعظ سنایا کرتا ہوں.مَیں نے ارادہ کیا تھا کہ عورتوں کے لئے ایک قِصّہ کے پَیرایہ میں سوال وجواب کے طور پر سارے مسائل آسان عبارت میں بیان کیے جاویں مگر مجھے اس قدر فرصت نہیں ہوسکتی.کوئی اور صاحب اگرلکھیں توعورتوں کو فائدہ پہنچ جاوے.فضول خرچی فرمایا.اُمرا بہت سے فضول خرچ رکھتے ہیں جس سے آخر کوانہیں بہت نقصان اُٹھانا پڑتا ہے.اگر وہ اعتدال کے ساتھ اپنی زندگی بسرکریں تو کچھ حرج نہیں ہے.سود کی بَلا نے مسلمانوں کو بہت کمزورکردیا ہے.یہ بَنیے سُود درسُود لے کرآخر ساری جائیدادوں پرقبضہ کرلیتے ہیں.کثرتِ ازدواج کی اسلامی بنا فرمایا کہ اگرچہ عورت بجائے خودپسند نہیں کرتی کہ کوئی اور اس کی سَوت آوے مگر اسلام نے جس اُصول پر کثرتِ ازدواج کو رکھا ہے وہ تقویٰ کی بنا پر ہے.بعض اوقات اولاد نہیں ہوتی اور بقائے نوع کا خیال انسان میں ایک فطرتی تقاضا ہے اس لئے دوسری شادی کرنے میں کوئی عیب نہیں ہوتا.بعض اوقات پہلی بیوی کسی خطر ناک مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے اور بہت سے اسباب اس قسم کے ہوتے ہیں.پس اگر عورتوں کوپورے طور پر خدا تعالیٰ کے احکام سے اطلاع دی جاوے اور ا نہیں آگاہ کیا جاوے تو وہ خود بھی دوسری شادی کی ضرورت پیش آنے پر ساعی ہوتی ہیں.ایک رؤیا فرمایا.رات میں نے ایک رؤیا دیکھی ہے یعنی ۱۷؍نومبر کی رات کو جس کی صبح کو ۱۸؍نومبر تھی اور وہ رؤیا یہ ہے.میں نے دیکھا کہ ایک سپاہی وارنٹ لے کر آیا ہے اور اس نے میرے ہاتھ پر ایک رسی سی لپیٹی ہے تو میں اسے کہہ رہا ہوں کہ یہ کیا ہے.مجھے تو اس سے ایک لذّت اور سرور آرہا ہے.وہ لذّت ایسی ہے کہ میں اسے بیان نہیں کر سکتا.پھر اسی اثنا میں میرے ہاتھ میں معاً ایک پروانہ دیا گیا ہے کسی نے کہا کہ یہ اعلیٰ عدالت سے آیا ہے.وہ پروانہ بہت

Page 381

ہی خوش خط لکھا ہوا تھا اور میرے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کا لکھا ہوا تھا.میں نے اس پروانہ کو جب پڑھا تو اس میں لکھا ہوا تھا.’’عدالت عالیہ نے اسے بَری کیا ہے.‘‘ فرمایا.اس سے پہلے کئی دن ہوئے یہ الہام ہوا تھا.رَشَنَ الْـخَبَـرُ(رشن نا خواندہ مہمان کو کہتے ہیں) ۱۹؍نومبر ۱۹۰۱ء ختم نبوت کا منکر کون ہے؟ فرمایا کہ تعجب کی بات ہے یہ لوگ اسے دعویٰ جدید کہتے ہیں.براہین میں ایسے الہامات موجود ہیں جن میں نبی یا رسول کا لفظ آیا ہے.چنانچہ ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی اور جَرِیُّ اللہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآءِ وغیرہ ان پر غور نہیں کرتے اور پھر افسوس یہ نہیں سمجھتے کہ ختم نبوت کی مہر مسیح اسرائیلی کے آنے سے ٹوٹتی ہے یا خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے.ختم نبوت کا انکار وہ لوگ کرتے ہیں جو مسیح اسرائیلی کو آسمان سے اتارتے ہیں اور ہمارے نزدیک تو کوئی دوسرا آیا ہی نہیں نہ نیا نبی نہ پرانا نبی بلکہ خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی چادر دوسرے کو پہنائی گئی ہے اور وہ خود ہی آئے ہیں.کیا اگر ایک شیشہ میں حافظ صاحب اپنی تصویر دیکھیں تو کیا عورتوں کو پردہ کر لینا چاہیے کہ یہ کون غیر محرم گھس آیا.آپ ان کو خوب مفصل اور واضح خط لکھیں.حقیقت و استعارہ پھر فرمایا.انبیاء علیہم السلام کے آنے کے وقت لوگوں کے حالات دو قسم کے ہوتے ہیں.وہ استعارات کو حقیقت پر محمول کرنا چاہتے ہیں اور حقیقت کو استعارہ بنانا چاہتے ہیں.یہی مصیبت اب ان کو پیش آئی ہے.یہ کوئی ایسا دجّال دیکھنا چاہتے ہیں جس کی آنکھ در حقیقت باہر نکلی ہوئی ہو اور پورے ستر گز کا اس کا گدھا ہو اور آسمان سے حضرت عیسیٰ کبوتر کی طرح منڈلاتے ہوئے اتریں.یہ کبھی ہونا ہی نہ تھا.یہودیوں کو بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت یہی مصیبت پیش آئی.وہ یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ مسیح سے پہلے جیسا کہ ملا کی نبی کی کتاب میں لکھا ہے آسمان سے ایلیا اترے گا چنانچہ جب مسیح آیا تو انہوں نے یہی اعتراض کیا مگر مسیح نے ان کو

Page 382

جواب میں یہی کہا کہ ایلیا آچکا اور وہ یہی یحییٰ بن زکریا ہے.یہودی سمجھتے تھے کہ خود ایلیا آئے گا اس لئے وہ منکر ہو گئے.چنانچہ ایک یہودی کی کتاب میں نے منگوائی تھی.اس میں وہ صاف لکھتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ ہم سے مؤاخذہ کرے گا تو ہم ملا کی نبی کی کتاب کھول کر رکھ دیں گے کہ اس میں تو صاف لکھا ہوا ہے کہ ایلیا پہلے آسمان سے آئے گا.یہ کہاں لکھا ہے کہ وہ یحییٰ ہی ہو گا.اب ہمارا دعویٰ تو خود حضرت مسیح کی ہائیکورٹ سے فیصلہ ہو گیا کہ جس کے دوبارہ آنے کا وعدہ ہوتا ہے.اس کی آمد ثانی کا یہ رنگ ہوتا ہے کہ اس کی خُوبُو اور خواص پر کوئی دوسرا آتا ہے.یہی دھوکا اور غلطی ہمارے علماء کو لگی ہے.یہ اصل میں ایک استعارہ ہے.جس کو انہوں نے حقیقت پر حمل کر لیا ہے.ایسا ہی دجّال اور اس کے دیگر لوازمات کو حقیقت بنایا.عیسائیوں نے بھی دھوکا کھایا.حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد فار قلیط کے آنے کی پیشگوئی کی تھی.عیسائیوں نے اس سے روح القدس مراد لی حالانکہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مراد تھے.یہ لفظ فار قلیط فارق اور لیط سے مرکب ہے.لیط شیطان کو کہتے ہیں(اور فارق کے معنی جدا کرنے والا یعنی شیطان کو دور کرنے والا.ناقل) غرض یہ بڑی خطر ناک غلطی ہے جو انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے وقت لوگ کھاتے ہیں کہ استعارات کو حقیقت پر اور حقیقت کو استعارات پر محمول کر لیتے ہیں.حضرت اُمُّ المؤمنین کی ایک رؤیا اس کے بعد حضرت اقدسؑ نے جناب اُمُّ المؤمنین رضی اللہ عنہا کی ایک رؤیا سنائی جو انہوں نے گزشتہ شب کو دیکھی تھی.اور وہ یہ ہے آپ نے دیکھا کہ دوپہر کو بعد ظہر جس وقت عموماً یکے بٹالہ سے آتے ہیں.مَیں ( حضرت اقدسؑ) کچھ اسباب اور دو۲ سردے لے کر گیا ہوں اور اُمُّ المومنین کو دیئے ہیں کہ مرزا غلام قادر آگئے ہیں اور رحمت اللہ بھی ہے.(رحمت اللہ حضرت اقدس کے والد مرحوم کا مختار تھا.ایڈیٹر) اس پر اُمُّ المومنین نے حضرت ؑ سے دریافت کیا.اس خیال سے کہ ان کا گھر تو دوسری طرف ہے اور ان کی بیوی بھی موجود ہے

Page 383

جن سے حضرت اقدس کو موجودہ صورت میں بالکل انقطاع ہے کہ پھر ان کے کھانے کا کیا انتظام ہو گا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ دراصل وہ مر گئے ہیں اور وہ دونوںگھروںکے دیکھنے کو آئے ہیں.ام المومنین نے کہا کہ رحمت اللہ خاص آپ سے ملنے کو آیا ہے.پھر منظور علی ایک لڑکا ہے.وہ ایک پوٹلی کپڑوں کی اس دوسرے گھر میں ہمارے ہی مکان کی سیڑھیوں میں سے ہو کر اس طرف لے گیا ہے.جس کو انہوںنے کھولا ہے تو وہ سیاہ بوٹی اور سفید زمین کی ایک چھینٹ تھی.اس کے بعد ان کا اَور اسباب بھی اِدھر ہی آگیا ہے.تو معلوم ہوا کہ منظور علی ادھر جو پوٹلی لے گیا تھا وہ بھی غلطی سے لے گیا ہے.دراصل اِدھر ہی کی تھی پھر آنکھ کھل گئی.حضرت اقدس ؑ نے فرمایا.میری اس رؤیا کے ساتھ جو کل سنائی تھی اس کے بعض اجزا ملتے ہیں اور فرمایا کہ غلام قادر میں جو قادر کا لفظ ہے اس کا تعلق دونوں گھروں سے ہے مگر رحمت اللہ مخصوص اسی گھر سے ہے.۲۰؍نومبر ۱۹۰۱ء حُـجَّۃُ اللہ کا مقام سیر کو حسبِ معمول نکلے اور فرمایا.جب انسان حجۃ اللہ کے مقام پر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی اس کے جوارح ہوتا ہے اور یہ سچی بات ہے کہ جب خدا تعالیٰ سے انسان پوری صلح کر لیتا ہے اور اپنی مرضی اور تمام خواہشوں اور قوتوں کو اس کے ہی سپرد کر دیتا ہے تو خدا س کی ساری طاقتیں ہو جاتا ہے.اس کی مثال اس لوہے کی سی ہوجاتی ہے جو آگ میں ڈال دیا جاوے اور خوب گرم ہو کر آگ کی طرح سرخ ہو جاوے پھر اس میں اس وقت وہی خواص ہوتے ہیں جو آگ میں ہوتے ہیں.خَیْـرُ الْمَاکِریْن کے معنے فرمایا کہ میں نے غور کیا ہے کہ مکر کا لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح علیہ السلام کے لئے قرآن میں آیا ہے اور میرے لئے بھی یہی لفظ براہین میں آیا ہے.گویا مسیح علیہ السلام کے قتل کے لئے بھی ایک مخفی منصوبہ کیا

Page 384

گیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی کیا گیا تھا اور یہاں بھی منصوبے ہوئے اور اپنے طور پر آج کل بھی فرق نہیں کیا جاتا مگر خدا تعالیٰ کا مکر ان سب پر غالب آیا.مکر مخفی اور لطیف تدبیر کو کہتے ہیں.لیکھرام نے اپنے خطوط میں یہی لکھا تھا کہ خَیْرُالْمَاکِریْن سے میرے لئے کوئی نشان طلب کرو.جب خدا تعالیٰ باریک اسباب سے مجرم کو ہلاک یا ذلیل کرتا ہے اور اپنے بندہ کو جو راست باز ہوتا ہے دشمن کے منصوبوں اور شرارتوں سے محفوظ رکھتا ہے اس وقت اس کانام خَیْرُالْمَاکِریْن بیان ہوتا ہے یعنی ایسے اسباب مجرم کی سزا کے لئے مہیا کرتا ہے کہ جن اسباب کو وہ اپنے لئے کسی اور غرض سے مہیا کرتا ہے.پس وہی اسباب جو بہتری کے لئے بناتا ہے ہلاکت کا باعث بنتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ مسیح کو ایسے طرز پر بچایا کہ وہ اسباب جو ان کی ہلاکت کے لئے جمع ہوئے تھے.ان کی زندگی کا موجب ثابت ہوئے اور ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوکیسے کفار مکہ کے منصوبوں سے بچا لیا اور اسی طرح پر یہاں بھی اس کا وعدہ ہے.اگر کوئی یوں کہے کہ وہاں ہی محفوظ کیوں نہ رکھا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ سنّت اللہ یہ نہیں ہے بلکہ خدا اپنا علم دکھانا چاہتا ہے اس لئے وہاں سے نکال لیتا ہے.مکر کی حد اسی وقت تک ہے جبکہ وہ انسانی تدابیر تک ہو مگر جب انسانی منصوبوں کے رنگ سے نکل گیا پھر وہ خارق عادت معجزہ ہوا.اگر ذرا بھی ایمان کسی میں ہو تو وہ ان امور کو صفائی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے.کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے لئے ہجرت نہ ہو.۱ ۲۷؍نومبر۱۹۰۱ء حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک تقریر جو آپ نے کلامِ الٰہی کے معجزہ ہونے کے متعلق فرمائی.۲۷؍ نومبر ۱۹۰۱ء بوقت سیر اعـجاز التنزیل اللہ تعالیٰ کاکلام جو اس کے برگزیدوں، رسولوں پر نازل ہوتا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ عظیم الشان اعجاز اپنے اندر رکھتا ہے اورکوئی شخص

Page 385

تنہا یا دوسروں کی مدد سے اس کی مثل لانے پر قادر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی صرف ہمت کر دیتا ہے اور اس طرح پر اس کا معجزہ ہونا ثابت ہوتا ہے وہ بار بار مخالفوں کو اس کی مثال لانے کی دعوت اور تحدی کرتا ہے لیکن کوئی اس کے مقابلہ کے لئے نہیں اٹھ سکتا.قرآن شریف جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے کامل معجزہ ہے دوسری کتابوں کی نسبت ہم نہیں دیکھتے کہ ایسی تحدّی کی گئی ہو جیسی قرآن شریف نے کی ہے.اگرچہ ہم اپنے تجربہ اور قرآن شریف کے معجزہ کی بنا پر یہ ایمان لاتے ہیں کہ خدا کا کلام ہر حال میں معجزہ ہوتا ہے لیکن قرآن شریف کا اعجاز جس کاملیت اور جامعیت کے ساتھ معجزہ ہے دوسرے کو ہم اس جگہ پر نہیں رکھ سکتے کیونکہ بہت سی وجوہ اور صورتیں اس کے معجزہ ہونے کی ہیں اور کوئی شخص اس کی مثال بنانے پر قادر نہیں.جو لوگ کہتے ہیں کہ کلام الٰہی معجزہ نہیں ہو سکتا وہ بڑے ہی گستاخ اور دلیر ہیں.کیا وہ نہیں جانتے اور دیکھتے کہ خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق بے مثل اور لانظیر ہے پھر اس کے کلام کی نظیر کیسے ہو سکتی ہے ؟ ساری دنیا کے مدبّر اور صنّاع مل کر اگر ایک تنکا بنانا چاہیں تو بنا نہیں سکتے پھر خدا کے کلام کا مقابلہ وہ کیسے کر سکتے ہیں؟ محض کلام کے اشتراک یا الفاظ کے اشتراک سے یہ کہہ دینا کوئی معجزہ نہیں نری حماقت اور اپنی موٹی عقل کا ثبوت دینا ہے کیونکہ ان اعلی مدارج اور کمالات پر ہر شخص اطلاع نہیں پا سکتا جو باریک بین نگاہ دیکھ سکتی ہے میرا یہ مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خالص کلام لعل کی طرح چمکتی ہے لیکن بایں ہمہ قرآن شریف آپ کی خالص کلام سے بالکل الگ اور ممتاز نظر آتا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ ہر چیز کے مراتب ہوتے ہیں مثلاً کپڑا ہے تو کھدر ، ململ ، اورخاصہ لٹّھا محض کپڑا ہونے کی حیثیت سے تو کپڑا ہی ہیں اور اس لحاظ سے کہ وہ سفید ہیں بظاہر ایک مساوات رکھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ریشم بھی سفید ہوتا ہے لیکن کیا ہر آدمی نہیں جانتا کہ ان سب میں جدا جدا مراتب ہیں اور ان میں فرق پایا جاتا ہے.ع گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی

Page 386

پس جس طرح پر ہم سب اشیاء میں ایک امتیاز اور فرق دیکھتے ہیں اسی طرح کلام میں بھی مدارج اور مراتب ہوتے ہیں جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام جو دوسرے انسانوں کے کلام سے بالا تر اور عظمت اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک پہلو سے اعجازی حدود تک پہنچتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے کلام کے برابر وہ بھی نہیں تو پھر اور کوئی کلام کیونکر اس سے مقابلہ کر سکتا ہے؟ یہ تو موٹی اور بدیہی بات ہے کہ جس سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ قرآن شریف معجزہ ہے لیکن اس کے سوا اور بھی بہت سے وجوہ اعجاز ہیں.خدا تعالیٰ کا کلام اس قدر خوبیوں کا مجموعہ ہے جو پہلی کسی کتاب میں نہیں پائی جاتی ہیں.خاتم النّبیّین کا لفظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بولا گیا ہے بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہو اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں.کیونکہ کلام الٰہی کے نزول کاعام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قدر قوت قدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے جس پر کلام الٰہی نازل ہوتا ہے اسی قدر قوت اور شوکت اس کلا م کی ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی اور تمام مقامات ِکمال آپؐپر ختم ہوچکے تھے اور آپ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے اس مقام پر قرآن شریف جو آپ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے اور جیسے نبوت کے کمالات آپ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہوگئے.آپ ؐ خاتم النبییّن ٹھہرے اور آپؐکی کتاب خاتم الکتب ٹھہری جس قدر مراتب اور وجوہ اعجازِ کلام کے ہو سکتے ہیں ان سب کے اعتبار سے آپؐکی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے.یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت ، کیا باعتبار ترتیبِ مضامین، کیا باعتبار تعلیم، کیا باعتبار کمالاتِ تعلیم

Page 387

کیا باعتبار ثمرا تِ تعلیم.غرض جس پہلو سے دیکھو اسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی یعنی جس پہلو سے چاہو مقابلہ کر و خواہ بلحاظ فصاحت وبلاغت ، خواہ بلحاظ مطالب و مقاصد خواہ بلحاظ تعلیم، خواہ بلحاظ پیشگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہے غرض کسی رنگ میں دیکھو یہ معجزہ ہے گو ملاں میری مخالفت کی وجہ سے اس امر کو قبول نہ کریں لیکن اس سے قرآن شریف کے اعجاز میں کوئی فرق نہیں آسکتا.یہ لوگ جوش تعصّب میں بعض وقت یہاں تک اندھے ہو جاتے ہیں کہ ادب کے کل طریقوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں.لودہانہ کے مباحثہ میں لَہٗ ظَہَرٌ وَّ بَطَنٌ میں نے پیش کیا تو مولوی محمد حسین صاحب کو جوش آگیا اور راوی کی مخالفت شروع کر دی.کیا خدا کے کلام سے محبت اور ارادت کا یہی تقاضا ہونا چاہیے تھا یاد رکھو اَلطَّرِیْقَۃُ کُلُّہٗ اَدَبٌ اگر اس کو درست نہ سمجھتا تھا تو قرآن شریف کی محبت کی وجہ سے اس قدر مخالفت بھی تو جائز نہ تھی.قرآن شریف زندہ اعجاز ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں الغرض قرآن شریف ایک کامل اور زندہ اعجاز ہے اور کلام کا معجزہ ایسا معجزہ ہوتا ہے کہ کبھی اور کسی زمانہ میں وہ پرانا نہیں ہو سکتا اور نہ فنا کا ہاتھ اس پر چل سکتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا اگر آج نشان دیکھنا چاہیں تو کہاں ہیں؟ کیا یہودیوں کے پاس وہ عصا ہے؟ اور اس میں کوئی قدرت اس وقت بھی سانپ بننے کی موجود ہے وغیرہ وغیرہ.غرض جس قدر معجزات کل نبیوں سے صادر ہوئے ان کے ساتھ ہی ان معجزات کا بھی خاتمہ ہو گیا مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ایسے ہیں کہ وہ ہر زمانہ میں اور ہر وقت تازہ بتازہ اور زندہ موجود ہیں.ان معجزات کا زندہ ہونا اور ان پر موت کا ہاتھ نہ چلنا صاف طور پر اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی زندہ نبی ہیں اور حقیقی زندگی یہی ہے جو آپ کو عطا ہوئی ہے اور کسی دوسرے کو نہیں ملی.آپؐکی تعلیم اس لئے زندہ تعلیم ہے کہ اس کے ثمرات اور برکات اس وقت بھی ویسے ہی موجود ہیںجو آج سے تیرہ سو سال پیشتر موجود تھے دوسری کوئی تعلیم

Page 388

ہمارے سامنے اس وقت ایسی نہیں ہے جس پر عمل کرنے و الا یہ دعویٰ کر سکے کہ اس کے ثمرات اور برکات اور فیوض سے مجھے حصہ دیا گیا ہے اور میں ایک آیۃ اللہ ہو گیا ہوں لیکن ہم خدا تعالیٰ کے فضل و کرم قرآن شریف کی تعلیم کے ثمرات اور برکات کا نمونہ اب بھی موجود پاتے ہیں اور ان تمام آثار اور فیوض کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع سے ملتے ہیں اب بھی پاتے ہیں چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو اسی لئے قائم کیا ہے تاوہ اسلام کی سچائی پر زندہ گواہ ہو اور ثابت کرے کہ وہ برکات اور آثار اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل اتباع سے ظاہر ہوتے ہیں جو تیرہ سوبرس پہلے ظاہر ہوتے تھے چنانچہ صدہا نشان اس وقت تک ظاہر ہو چکے ہیں اور ہر قوم اور مذہب کے سرگروہوں کو ہم نے دعو ت کی ہے کہ وہ ہمارے مقابلہ میں آکر اپنی صداقت کا نشان دکھائیں مگرایک بھی ایسا نہیں کہ جن سے اپنے مذہب کی سچائی کا کوئی نمونہ عملی طور پر دکھائے.ہم خدا تعالیٰ کے کلام کو کامل اعجاز مانتے ہیں اور ہمارا یقین اور دعویٰ ہے کہ کوئی دوسری کتاب اس کے مقابل نہیں ہے مَیں علیٰ وجہ البصیرۃ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کاکوئی امر پیش کریں وہ اپنی جگہ پر ایک نشان اور معجزہ ہے.مثلاً تعلیم ہی کو دیکھیں تو وہ عظیم الشان معجزہ نظر آتی ہے او ر فی الواقع معجزہ ہے ایسے حکیمانہ نظام اور فطری تقاضوں کے موافق واقع ہوئی ہے کہ دوسری تعلیم اس کے ساتھ ہرگز ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتی قرآن شریف کی تعلیم پہلی ساری تعلیموں کی متمم اور مکمل ہے.اس وقت صرف ایک پہلو تعلیم کا دکھا کر میں ثابت کر تا ہوں کہ قرآن شریف کی تعلیم اعلیٰ درجہ پر واقع ہوئی ہے اور معجزہ ہے مثلاً توریت کی تعلیم (حالات موجودہ کے لحاظ سے کہو یا ضروریات وقت کے موافق) کا سارا زور قصاص اور بدلہ پر ہے.جیسے آنکھ کے بدلہ آنکھ اور دانت کے بدلہ دانت اور بالمقابل انجیل کی تعلیم کا سارا زور عفو، صبر اور درگزر پر تھا اور یہاں تک اس میں تاکید کی کہ اگر کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسری بھی اس کی طرف پھیر دو.کوئی ایک کوس بیگار لے جاوے تو دو کوس چلے جائو.کرتہ مانگے تو چغہ بھی دے دو.اسی طرح پر ہر باب میں توریت اور انجیل کی تعلیم میں یہ بات نظر آئے گی کہ توریت افراط کا پہلولیتی ہے اور انجیل تفریط کا.

Page 389

مگر قرآن شریف ہر موقع او رمحل پرحکمت اور وسط کی تعلیم دیتا ہے جہاں دیکھو جس بارہ میں قرآن کی تعلیم پر نگاہ کرو تو معلوم ہو گا کہ وہ محل اور موقع کا سبق دیتا ہے اگر چہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ نفس تعلیم سب کا ایک ہی ہے لیکن اس میں کسی کو انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ توریت اور انجیل میں سے ہر ایک کتاب نے ایک ایک پہلو پر زور دیا ہے مگر فطرت انسانی کے تقاضے کے موافق صرف قرآن شریف نے تعلیم دی ہے.یہ کہنا کہ توریت کی تعلیم افراط کے مقام پر ہے اس لئے وہ خدا کی طرف سے نہیں یہ صحیح نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ اس وقت کی ضرورتوں کے لحاظ سے ایسی تعلیم بیکار تھی اور چونکہ توریت یا انجیل قانون مختص المقام کی طرح تھیں اس لئے ان تعلیموں میں دوسرے پہلوئوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا لیکن قرآن شریف چونکہ تمام دنیا اور تمام نوع انسان کے واسطے تھا اس لئے اس تعلیم کو ایسے مقام پر رکھا جو فطرت انسانی کے صحیح تقاضوں کے موافق تھی اور یہی حکمت ہے کیونکہ حکمت کے معنے ہیں وَضْعُ الشَّیْءِ فِیْ مَـحَلِّہٖ یعنی کسی چیز کو اس کے اپنے محل پر رکھنا پس یہ حکمت قرآن شریف نے ہی سکھائی ہے.توریت جیسا کہ بیان کیا ہے ایک بے جا سختی پر زور دے رہی تھی اور انتقامی قوت کو بڑھاتی تھی اور انجیل بالمقابل بے ہودہ عفو پر زور مارتی تھی قرآن شریف نے ان دونوں کو چھوڑ کر حقیقی تعلیم دی جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا١ۚ فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ( الشورٰی:۴۱) یعنی بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے لیکن جو شخص معاف کر دے اور اس معاف کرنے میں اصلاح مقصود ہو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے.۱ قرآن شریف کی تعلیم کا حکیمانہ نظام اب اس تعلیم پر نگاہ کرو کہ نہ یہ توریت کی طرح محض انتقام پر ہی زور دیتی ہے اور نہ انجیل کی طرح ایسے عفو پر جو بسا اوقات خطرناک نتائج کا موجب ہو سکتا ہے بلکہ قرآن شریف کی تعلیم حکیمانہ نظام اپنے اندر رکھتی ہے مثلاً ایک خدمت گار ہے جو بڑا شریف اور نیک چلن ہے کبھی اس نے خیانت نہیں کی اور کوئی نقصان نہیں کیا اگر اتفاقاً وہ چاء پلانے کے لئے آئے اور اس کے ہاتھ سے پیالیاں گر کر

Page 390

ٹوٹ جاویں تو اس وقت مقتضائے وقت کیا ہو گا.کیا یہ کہ اس کو سزادیں یا معاف کر دیںایسی حالت میں ایسے شریف خدمت گار کو معاف کر دینا ہی اس کے واسطے کافی سزا ہو گی.لیکن اگر ایک شریر خدمت گار جو ہر روز کوئی نہ کوئی نقصان کرتا ہے اس کو معاف کردینا اور بھی دلیر کر دینا ہے اس لئے اس کو سزا دینی ضروری ہوگی مگر انجیل یہ نہیں بتاتی.انجیل پر عمل کر کے تو گورنمنٹ کو چاہیے کہ اگر کوئی ہندوستان مانگے تو وہ انگلستان بھی اس کے حوالے کرے.کیا عملی طور پر انجیل مانی جاتی ہے؟ ہرگز نہیں گورنمنٹ کے سیاست مدن کے اصولوں پر مختلف محکموں کا قائم کرنا اور عدالتوں کا کھولنا دشمن سے حفاظت کے لئے فوجوں کا رکھنا وغیرہ وغیرہ جس قدر امور ہیں انجیل کی تعلیم کے موافق نہیں ہیں اس لئے کہ انجیل کی تعلیم کے موافق کوئی انتظام ہو سکتا ہی نہیں ہے.غرض قرآن شریف کی تعلیم جس پہلو اور جس باب میں دیکھو اپنے اندر حکیمانہ پہلو رکھتی ہے افراط یا تفریط اس میں نہیں ہے بلکہ وہ نقطۂ وسط پر قائم ہوئی ہے اور اسی لئے اس امت کا نام بھی اُمَّةً وَّسَطًا ( البقرۃ : ۱۴۴) رکھا گیا ہے.یہ بات کہ انجیل یا توریت کی تعلیم کیوں اعتدال اور وسط پر واقع نہیں ہوئی اس سے خدا تعالیٰ پر کوئی اعتراض نہیں آتا اور نہ اس تعلیم کو ہم خلاف آئین حکمت کہہ سکتے ہیں کیونکہ حکمت کے معنی ہیں کہ وَضْعُ الشَّیْءِ فِیْ مَـحَلِّہٖ اس وقت کی حکمت کا تقاضا ایسی ہی تعلیم تھی.جیساکہ ہم نے بتایا ہے کہ سزا کے وقت سزا دینا بھی حکمت ہے اور عفو کے وقت عفو ہی حکمت ہے اسی طرح پر اس وقت طبائع کی حالت کچھ ایسی ہی واقع ہوئی تھی کہ تعلیم کو ایک پہلو پر رکھنا پڑا.بنی اسرائیل ۴۰۰ برس تک فرعون کی غلامی میں رہے تھے اور اس وجہ سے ان لوگوں کے عادات اور رسوم کا ان پر بہت بڑا اثر پڑا ہوا تھا اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ بادشاہ کے اطوار و عادات اور آئین ملک داری کا اثر رعایا پر پڑتا ہے بلکہ ان کے مذہب تک پر اثر جا پڑتا ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِہِمْ.چنانچہ سکھوں کے زمانہ میں عام لوگوں پر بھی یہ اثر پڑا تھا کہ عموماً لوگ ڈاکہ زن اور دھاڑوی ہو گئے تھے.ہری سنگھ و غیرہ براتیں ہی لوٹ لیا کرتے تھے.اسی طرح پرفرعونیوں کی غلامی میں رہ کر بنی اسرائیل عدل کو کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے ان پر جو ہمیشہ ظلم ہوتا تھا وہ بھی اعتدا اور ظلم

Page 391

کربیٹھے تھے.پس ان کی اصلاح کے لئے تو پہلا مرحلہ یہی چاہیے تھا کہ ان کو عدل کی تعلیم سکھائی جاتی اس لئے یہ تعلیم ان کو دی گئی کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت.اس تعلیم پر وہ اس قدر پختہ ہو گئے کہ پھر انہوں نے انتقام لینا ہی شریعت کی جان سمجھ لیا او ر یہ مذہب ہو گیا کہ اگر بدلہ نہ لیں گے تو گنہ گار ٹھہریں گے.اس واسطے جب حضرت مسیح علیہ السلام آئے اور انہوں نے دیکھا کہ بنی اسرائیل کی حالت ایسی ہو گئی ہے تو انہوں نے حد درجہ کے عفو کی تعلیم دی کیونکہ جس قدر زور کے ساتھ وہ انتقام پر قائم ہو چکے تھے اگر اس سے بڑھ کر عفو کی تعلیم نہ دی جاتی تو وہ مؤثر ثابت نہ ہوتی.اس لئے ان کی تعلیم کا سارا مدار اسی پر رہا.پس ان اسباب اور وجوہ کے لحاظ سے یہ دونوں تعلیمیں اگرچہ اپنی جگہ حکمت ہیں لیکن ان کو قانون مختص المقام یا قانون مختص الوقت کی طرح سمجھنا چاہیے.نہ ابدی اور دائمی قانون.قرآن شریف مستقل اور ابدی شریعت خدا تعالیٰ کی حکمتیں اور احکام دو قسم کے ہوتے ہیں بعض مستقل اور دائمی ہوتے ہیں بعض آنی اور وقتی ضرورتوں کے لحاظ سے صادر ہوتے ہیں اگرچہ اپنی جگہ ان میں بھی ایک استقلال ہوتاہے مگر وہ آنی ہی ہوتے ہیں مثلاً سفر کے لئے نماز یا روزہ کے متعلق اَور احکام ہوتے ہیں اور حالت قیام میں اَور.باہر جب عورت نکلتی ہے تو وہ برقع لے کر نکلتی (ہے) گھر میں ایسی ضرورت نہیں ہوتی کہ برقع لے کر پھرتی رہے.اسی طرح پر توریت اور انجیل کے احکام آنی اور وقتی ضرورتوں کے موافق تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت اور کتاب لے کر آئے تھے وہ کتاب مستقل اور ابدی شریعت ہے اس لئے اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ کامل اور مکمل ہے قرآن شریف قانون مستقل ہے اور توریت ، انجیل اگر قرآن شریف نہ بھی آتا تب بھی منسوخ ہو جاتیں کیونکہ وہ مستقل اور ابدی قانون نہ تھے.میں نے بعض احمقوں کو اعتراض کرتے سنا ہے کہ ایسا کیوںکیا گیا.خدا تعالیٰ نے پہلی کتابوں کو کیوں منسوخ کیا ، کیا اس کو علم نہ تھا پہلے ہی مکمل اور مستقل ابدی شریعت بھیجنی تھی؟ یہ اعتراض بالکل

Page 392

نادانی کا اعتراض ہے کیونکہ یہ کلیہ قاعدہ نہیں ہے کہ ہر نسخ کے لئے ضروری ہے کہ علم نہ ہو اگریہ صحیح ہے کہ ہر نسخ میں عدم علم ثابت ہوتا ہے تو پھر اس بات کا کیا جواب ہے کہ جو کپڑے برس یا دو برس کے بچے کو پہنائے جاتے ہیں کیوں وہی کپڑے پانچ ، دس برس یا پچیس برس کے ایک جوان کو نہیںپہنائے جاتے؟ کیا ہو سکتا ہے کہ وہی گز آدھ گز کا کرتہ ایک نوجوان کو پہنایا جاوے ؟ یقیناً کوئی سلیم الطبع انسان اس بات کو پسند نہیں کرے گا بلکہ وہ ایسی حرکت پر ہنسی اڑائے گا.اب اس مثال سے کیسی صفائی کے ساتھ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ہرگز ضروری نہیں ہے کہ ہر نسخ کے لئے عدم علم ثابت ہو.جب ہم بجائے خود معرض تغیر میں ہیں تو ہماری ضرورتیں اس تغیر کے ساتھ ساتھ بدلتی جاتی ہیں پھر ان تبدیلیوں کے موافق جو نسخ ہو تا ہے وہ ایک علم اور حکمت کی بنا پر ہوا یا عدم علم پر.یہ اعتراض سراسر جہالت اور حمق کا نشان ہے جیسے پیدا ہونے والے بچے کے منہ (میں) روٹی کا ٹکڑا یا گوشت کی بوٹی نہیں دے سکتے اسی طرح پر ابتدائی حالت میں شریعت کے وہ اسرار نہیں مل سکتے جو اس کے کمال پر ظاہر ہوتے ہیں.طبیب ایک وقت خود مسہل دیتا ہے اور دوسرے وقت جب کہ اسہال کا مرض ہو اس کو قابض دوا دیتا ہے.ہرحالت میں ایک ہی نسخہ وہ کیسے رکھ سکتا ہے.غرض قرآن شریف حکمت ہے اور مستقل شریعت ہے اور ساری تعلیموں کا مخزن ہے اور اس طرح پر قرآن شریف کا پہلا معجزہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے اور پھر دوسر امعجزہ قرآن شریف کا اس کی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں چنانچہ سورۂ فاتحہ اور سورۂ تحریم اور سورۂ نور میں کتنی بڑی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی ساری پیشگوئیوں سے بھری ہوئی ہے ان پر اگر ایک دانش مند آدمی خدا سے خوف کھا کر غور کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ کس قدر غیب کی خبریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہیں کیا اس و قت جبکہ ساری قوم آپ کی مخالف تھی اور کوئی ہمدرد اور رفیق نہ تھا یہ کہنا کہ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ( القمر :۴۶) چھوٹی بات ہو سکتی تھی.اسباب کے لحاظ سے تو ایسا فتویٰ دیا جاتا تھا کہ ان کا خاتمہ ہو جاوے گا مگر آپ ایسی حالت میں اپنی کامیابی اور دشمنوں کی ذلت اور نامرادی کی پیشگوئیاں کر رہے (ہیں) اور آخر اسی طرح وقوع میں آتا ہے پھر تیرہ سو سال کے بعد قائم ہونے والے

Page 393

سلسلہ کی اور اس وقت کے آثار و علامات کی پیشگوئیاں کیسی عظیم الشان اور لا نظیر ہیں.دنیا کی کسی کتاب کی پیشگوئیوں کو پیش کرو کیا مسیح کی پیشگوئیاں ان کا مقابلہ کر سکتی ہیں جہاں صرف اتنا ہی ہے کہ زلزلے آئیں گے قحط پڑیں گے آندھیاں آئیں گی مرغ بانگ دے گا وغیرہ وغیرہ.اس قسم کی معمولی باتیں تو ہر ایک شخص کہہ سکتا ہے اور یہ حوادثات ہمیشہ ہی ہوتے رہتے ہیں پھر اس میں غیب گوئی کی قوت کہاں سے ثابت ہو.اس کے مقابلہ میں قرآن شریف کی پیشگوئی دیکھو الٓمّٓ.غُلِبَتِ الرُّوْمُ.فِيْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ.فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ١ؕ۬ لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْۢ بَعْدُ١ؕ وَيَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ ( الرّوم:۲تا۵) میں اللہ بہت جاننے والا ہوں.رومی اپنی سرحد میں اہل فارس سے مغلوب ہو گئے ہیں اور بہت ہی جلد چند سال میں یقیناً غالب ہونے والے ہیں پہلے اور آئندہ آنے والے واقعات کا علم اور ان کے اسباب اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں جس دن رومی غالب ہوں گے وہی دن ہوگا جب مومن بھی خوشی کریں گے.اب غور کرکے دیکھو کہ یہ کیسی حیرت انگیز اور جلیل القدر پیشگوئی ہے ایسے وقت میں یہ پیشگوئی کی گئی جب مسلمانوں کی کمزوراور ضعیف حالت خود خطرہ میں تھی نہ کوئی سامان تھا نہ طاقت تھی ایسی حالت میں مخالف کہتے تھے کہ یہ گروہ بہت جلد نیست و نابود ہو جائے گا مدت کی قید بھی اس میں لگا دی اور پھر يَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ کہہ کر دوہری پیشگوئی بنادی یعنی جس روز رومی فارسیوں پر غالب آئیں گے اسی دن مسلمان بھی بامراد ہو کر خوش ہوں گے.چنانچہ جس طرح پر یہ پیشگوئی کی تھی اسی طرح بدر کے روز یہ پوری ہو گئی ادھر رومی غالب ہوئے اور ادھر مسلمانوں کو فتح ہوئی.اسی طرح سورۂ یوسف میں اٰيٰتٌ لِّلسَّآىِٕلِيْنَ کہہ کر اس سارے قصہ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بطور پیشگوئی بیان فرمایا ہے.غرض جہاں تک دیکھا جاوے قرآن شریف کی پیشگوئیاں بڑے اعلیٰ درجہ پر واقع ہوئی ہیں اور کوئی کتاب اس رنگ میں ان پیشگوئیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ یہ پیشگوئیاں یہی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں پوری ہو گئی تھیں بلکہ ان کاسلسلہ برابرجاری ہے چنانچہ بہت سی

Page 394

پیشگوئیاں تھیں جو اَب پوری ہو رہی ہیں اوربہت ابھی باقی ہیں جو آئندہ پوری ہوں گی.منجملہ ان پیشگوئیوں کے جو اِس وقت پوری ہو رہی ہیں اس سلسلہ کی پیشگوئی ہے جو قرآن شریف کے اوّل سے شروع ہو کر آخر تک چلی گئی ہے.چنانچہ سورۂ فاتحہ میں صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتـحۃ:۷) کہہ کر مسیح موعود کی پیشگوئی فرمائی اور پھر اس سورت میں مغضوب اور ضالین دو گروہوں کا ذکر کر کے یہ بھی بتا دیا کہ جب مسیح موعود آئے گا تو اس وقت ایک قوم مخالفت کرنے والی ہو گی جو مغضوب قوم یہودیوں کے نقش قدم پر چلے گی.اور ضالین میںیہ اشارہ کیا کہ قتل دجّال اور کسرِصلیب کے لئے آئے گا کیونکہ مغضوب سے یہود اور ضالین سے نصاریٰ بالاتفاق مراد ہیں اور آخر قرآن شریف میں بھی شیطان کا ذکر کیا جو اصل دجّال ہے اور ایسا ہی سورۂ نور کی آیت استخلاف میں مسیح موعود خاتم الخلفاء کی پیشگوئی کی اور اسی طرح سورۂ تحریم میں صراحت کے ساتھ ظاہر کیا کہ اس امت میں بھی ایک مسیح آنے والا ہے کیونکہ جب مومنوں کی مثال مریم کی سی ہے تو اس امت میںکم ا ز کم ایک تو ایسا شخص ہو جو مریم صفت ہو اور مریم میں نفخ روح ہو کر مسیح پیدا ہو توا س مومن میں جب نفخ روح ہو گا تو خو د ہی مسیح ہو گا.۱ ان پیشگوئیوں کا ظہور جو اس سلسلہ کی صورت میں ہوا ہے تو کیا یہ چھوٹی سی بات ہے.یہ سلسلہ بہت بڑی پیشگوئی کا پورا ہونا ہے جو تیرہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لبوں پر جاری ہوئی.اس قدرمدت دراز پہلے خبر دینا یہ قیافہ شناسی اوراٹکل بازی نہیں ہو سکتی اور پھر یہ پیشگوئی اکیلی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہزاروں وہ آیات و نشانات ہیں جو اس وقت کے لئے پہلے سے بتا دئیے گئے تھے اور ان سب کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے خود یہاں ہزاروں نشانات کا سلسلہ جاری کر دیا.چنانچہ کئی سو پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں جو قبل از وقت ملک میں شائع کی گئیں اور پھر وہ اپنے وقت پر پوری ہوئی ہیں جن کو ہمارے مخالف بھی جانتے ہیں.اب کیا قرآن، قرآن کریم کا معجزہ اور اس کی پاک تعلیم کا نتیجہ اور اثر نہیں ہے؟ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور تاثیر انفاس کے ثمرات نہیں؟ ماننا پڑے گاکہ یہ سب کچھ آپ ہی کے طفیل ہے کیونکہ یہ مسلّم بات ہے.

Page 395

Page 396

حالت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں وہ سارے عیبوں اور برائیوں کا مجموعہ بنے ہوئے تھے اور صدیوں سے ان کی یہ حالت بگڑی ہوئی تھی مگر کس قدر آپ کے فیوضات اور برکات میں قوت تھی کہ تئیس برس کے اندر کل ملک کی کایا پلٹ دی یہ تعلیم ہی کا اثر تھا.ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی اگر قرآن شریف کی لے کر دیکھی جاوے تو معلوم ہو گا کہ اس میں فصاحت بلاغت کے مراتب کے علاوہ تعلیم کی ذاتی خوبیوں اور کمالات کوا س میں بھر دیا ہے.سورۂ اخلاص ہی کو دیکھو کہ توحید کے کل مراتب کو بیان فرمایا ہے اور ہر قسم کے شرکوں کا ردّ کر دیا ہے.اسی طرح سورۂ فاتحہ کو دیکھو کہ کس قدر اعجاز ہے چھوٹی سی سورۃ جس کی سات آیتیں ہیں لیکن دراصل سارے قرآن شریف کا فن اور خلاصہ اور فہرست ہے.اور پھر اس میں خدا تعالیٰ کی ہستی اس کی صفات دعا کی ضرورت اس کی قبولیت کے اسبا ب اور ذرائع مفید اور سود مند دعائوں کا طریق ، نقصان رساں راہوں سے بچنے کی ہدایت سکھائی ہے وہاں دنیا کے کل مذاہب باطلہ کا ردّ اس میں موجود ہے.اکثر کتابوں اور اہل مذہب کو دیکھو گے کہ وہ دوسرے مذاہب کی بُرائیاں اور نقص بیان کرتے ہیں اور دوسری تعلیموں پر نکتہ چینی کرتے ہیں مگر ان نکتہ چینیوں کو پیش کرتے ہوئے یہ کوئی اہل مذہب نہیں کرتا کہ اس کے بالمقابل کوئی عمدہ تعلیم پیش بھی کرے اور دکھائے کہ اگر میں فلاں بُری بات سے بچانا چاہتا ہوں تو اس کی بجائے یہ اچھی تعلیم دیتا ہوں یہ کسی مذہب میں نہیںیہ فخر قرآن شریف ہی کو ہے کہ جہاں وہ دوسرے مذاہب باطلہ کا ردّ کرتا ہے اور ان کی غلط تعلیموں کو کھولتا ہے وہاں اصلی اور حقیقی تعلیم بھی پیش کرتا ہے جس کا نمونہ اس سورہ فاتحہ میں دکھایا ہے کہ ایک ایک لفظ میں مذاہب باطلہ کی تردید کر دی ہے.سورۃ فاتحہ میں حسن و احسان کا کمال مثلاًفرمایا اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ساری تعریفیں خواہ و ہ کسی قسم کی ہوں وہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے سزا وار ہیں اب اس لفظ کو کہہ کر یہ ثابت کیا کہ قرآن شریف جس خدا کو منوانا چاہتا ہے وہ تمام نقائص سے منزّہ اور تمام صفات کاملہ سے موصوف ہے کیونکہ اللہ کا لفظ اسی ہستی پر بولا جاتا ہے جس میں کوئی نقص ہو ہی نہیں.

Page 397

اور کمال دو قسم کے ہوتے ہیں یا بلحاظ حسن کے یا بلحاظ احسان کے.پس وہ دونوں قسم کے کمال اس لفظ میں پائے جاتے ہیں.دوسری قوموں نے جو لفظ خدا تعالیٰ کے لئے تجویز کئے ہیں وہ ایسے جامع نہیں ہیں او ریہی لفظ اللہ کا دوسرے باطل مذاہب کے معبودوں کی ہستی اور ان کی صفات کے مسئلہ کی پوری تردید کرتا ہے مثلاً عیسائیوں کو لو وہ جس کو اللہ مانتے ہیں وہ ایک عاجز ضعیف عورت کا بچہ ہے جس کا نام یسوع ہے جو معمولی بچوں کی طرح دکھ درد کے ساتھ ماں کے پیٹ سے نکلا اور عوارض میں مبتلا رہا.بھوک پیاس کی تکلیف سے بے چین رہا اور سخت تکلیفیں اور دکھ اسے اٹھانے پڑے.جس قدر ضعف اور کمزوریوں کے عوارض ہوتے ہیں ان کا شکار رہا آخر یہودیوں کے ہاتھوں سے پیٹا گیا اور انہوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑھا دیا.اب اس صورت کو جو یسوع کی ( عیسائیوں نے جس کو خدا بنا رکھا ہے ) انجیل سے ظاہر ہوتی ہے کسی دانش مند کے سامنے پیش کرو کیا وہ کہہ دے گا کہ بے شک اس میں تمام صفات کاملہ پائی جاتی ہیں اور کوئی نقص اس میں نہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ انسانی کمزوریوں اور نقصوں کا پہلا اور کامل نمونہ اسے ماننا پڑے گا تو اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کہنے والا کب ایسے کمزور اور مصلو ب اور ملعون کو خدا مان سکتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ قرآن عیسائیوں کے بالمقابل ایسے خدا کی طرف بلاتا ہے جس میں کوئی نقص ہو سکتا ہی نہیں.پھر آریہ مذہب کو دیکھو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا پرمیشر وہ ہے جس نے ذرّات عالم اور ارواحِ عالم کو بنایا ہی نہیں بلکہ جیسے وہ ازلی ابدی ہے ویسے ہی ہمارے ذرّات جسم وغیرہ بھی خدا کے بالمقابل اپنی ایک مستقل ہستی رکھنے والی چیزیں ہیں جو اپنے قیام اور بقا کے لئے اس کی محتاج نہیں ہیں بلکہ ایک طرح وہ اپنی خدائی چلانے کے واسطے ان چیزوں کا محتاج ہے وہ کسی چیز کا خالق نہیںاور پھر اس بات کا سمجھ لینا کچھ بھی مشکل نہیں کہ جو خالق نہیں وہ مالک کیسے ہو سکتا ہے؟ اور ایسا ہی ان کا اعتقاد ہے کہ وہ رازق، کریم وغیرہ کچھ بھی نہیں کیونکہ انسان کو جو کچھ ملتا ہے اس کے کرموں کا پھل ملتا ہے اس سے زائد اسے کچھ مل سکتا ہی نہیں.اب بتائو اس قدر نقص جس خدا میں پیش کئے جاویں عقل سلیم کب اسے تسلیم کر نے کے لئے

Page 398

رضامند ہو سکتی ہے؟ اسی طرح سے جس قدر مذاہب باطلہ دنیا میں موجود ہیں اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کا جملہ خدا تعالیٰ کے متعلق ان کے کل غلط اور بے ہودہ خیالات و معتقدات کی تردید کرتا ہے.فیضِ ربوبیت پھراس کے بعد رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ کا لفظ ہے جیسا پہلے بیان کیا گیا ہے اللہ وہ ذات جمیع صفات کاملہ ہے جو تمام نقائص سے منزّہ ہو اور حسن اور احسان کے اعلیٰ نکتہ پر پہنچا ہو اہو، تاکہ اس بے مثل و مانند ذات کی طرف لوگ کھینچے جائیں اور روح کے جوش اور کشش سے اس کی عبادت کریں.اس لئے پہلی خوبی احسان کی صفت رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ کے اظہار سے ظاہر فرمائی ہے جس کے ذریعہ سے کل مخلوق فیض ربوبیت سے فائدہ اٹھا رہی ہے مگر اس کے بالمقابل باقی سب مذہبوں نے جو اس وقت موجود ہیں اس صفت کا بھی انکار کیا ہے مثلاً آریہ جیسا ابھی بیان کیا ہے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ انسان کو جو کچھ مل رہا ہے وہ سب اس کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے اور خدا کی ربوبیت سے وہ ہرگز ہرگز بہرہ ور نہیں ہے کیونکہ جب وہ اپنی روحوں کا خالق ہی خدا کو نہیں مانتے اور ان کو اپنے بقا و قیام میں بالکل غیر محتاج سمجھتے ہیں تو پھر اس صفت ربوبیت کا بھی انکار کرنا پڑا.ایسا ہی عیسائی بھی اس صفت کے منکر ہیں کیونکہ وہ مسیح کو اپنا رب سمجھتے ہیں اور رَبُّنَا الْمَسِیْحُ رَبُّنَاالْمَسِیْحُ کہتے پھرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو جَـمِیْعُ مَافِی الْعَالَمِ کا رب نہیں مانتے بلکہ مسیح کو اس فیضِ ربوبیت سے باہر قرار دیتے ہیں اور خو دہی اس کو رب مانتے ہیں اسی طرح پر عام ہندو بھی اس صداقت سے منکر ہیں کیونکہ وہ تو ہر ایک چیز اور دوسری چیزوں کو رب مانتے ہیں.برہم سماج والے بھی ربوبیت تامہ کے منکر ہیں کیونکہ وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا نے جو کچھ کرنا تھا وہ سب یک بار کر دیا اور یہ تمام عالم اور اس کی قوتیں جو ایک دفعہ پیدا ہو چکی ہیں مستقل طور پر اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ ان میں کوئی تصرف نہیں کرسکتا اور نہ کوئی ان میں تغیر و تبدل واقع ہو سکتا ہے ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ اب معطل محض ہے غرض جہاں تک مختلف مذاہب کو دیکھا جاوے اوران کے اعتقادات کی پڑتال کی جاوے تو صاف طور پر معلوم ہو جاوے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ہونے کے قائل نہیں ہیں یہ خوبی جو اعلیٰ درجہ کی خوبی ہے اور جس کا مشاہدہ ہر آن ہو رہا ہے صرف اسلام

Page 399

ہی بتاتا ہے اور اس طرح پر اسی ایک لفظ کے ساتھ ان تمام غلط اور بے ہودہ اعتقادات کی بیخ کنی کرتا ہے جو اس صفت کے خلاف دوسرے مذہب والوں نے خود بنا لئے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ کی صفت الرحمٰن بیان کی ہے اور اس صفت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کی فطری خواہشوں کو اس کی دعا یا التجا کے بغیر اور بدوں کسی عمل عامل کے عطا کرتا ہے مثلاً جب انسان پیدا ہوتا ہے توا س کے قیام و بقا کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ پہلے سے موجود ہوتی ہیں.پیدا پیچھے ہوتا ہے لیکن ماں کی چھاتیوں میں دودھ پہلے آجاتا ہے.آسمان ، زمین،سورج،چاند، ستارے، پانی، ہوا، وغیرہ یہ تمام اشیاء جو اس نے انسان کے لئے بنائی ہیں یہ اس کی صفت رحمانیت ہی کے تقاضے ہیں لیکن دوسرے مذہب والے یہ نہیں مانتے کہ وہ بلا مبادلہ بھی فضل کر سکتا ہے آریہ تو سرے سے اس مسئلہ کو مانتے ہی نہیں جب کہ رب العالمین کے معنےبیان کرتے وقت بتایا ہے.عیسائیوں نے بھی کفارہ کا مسئلہ درست کرنے کے لئے یہی اعتقاد کر رکھا ہے کہ وہ بلامبادلہ رحم نہیں کر سکتا مگر آریوں سے تو یہ پوچھنا چاہیے کہ یہ زمین، آسمان، چاند ،سورج، ہوا ، پانی جو موجود ہے کن گذشتہ کرموں کا پھل ہے.۱ صفت رحیمیّت پھر اللہ تعالیٰ کی صفت رَحِیْمٌ بیان کی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جس کا تقاضا ہے کہ محنت اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان پرثمرات اور نتائج مترتّب کرتا ہے اگر انسان کو یہ یقین ہی نہ ہو کہ اس کی محنت اور کوشش کوئی پھل لاوے گی تو پھر وہ سست اور نکما ہو جاوے گا.یہ صفت انسان کی امیدوں کو وسیع کرتی او رنیکیوں کے کرنے کی طرف جوش سے لے جاتی ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ رحیم قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ اس وقت کہلاتا ہے جب کہ لوگوں کی دعا، تضرع ، او ر اعمالِ صالحہ کو قبول فرما کر آفات اور بلائوں اور تضییع اعمال سے سے ان کو محفوظ رکھتا ہے رحمانیت تو بالکل عام تھی لیکن رحیمیت خاص انسانوں سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری مخلوق میں دعا، تضرع اور اعمالِ صالحہ کا ملکہ اور قوت نہیں یہ انسان ہی کو ملا ہے.

Page 400

صفت رحمانیت رحمانیت اور رحیمیت میں یہی فرق ہے کہ رحمانیت دعا کو نہیں چاہتی مگر رحیمیت دعا کو چاہتی ہے اور یہ انسان کے لئے ایک خلعت خاصہ ہے اور اگر انسان انسان ہو کر اس صفت سے فائدہ نہ اٹھاوے تو گویا ایسا انسان حیوانات بلکہ جمادات کے برابر ہے.یہ صفت بھی تمام مذاہب باطلہ کے رد کے لئے کافی ہے کیونکہ بعض مذہب اباحت کی طرف مائل ہیں اور وہ مانتے ہیں کہ دنیا میں ترقیات نہیں ہوتی ہیں آریہ جبکہ اس صفت کے فیضان سے منکر ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ کا کب قائل ہو سکتاہے، سید احمد خان مرحوم نے بھی دعا کا انکار کیا ہے اور اس طرح پر وہ فیض جو دعا کے ذریعہ انسان کو ملتا ہے اس سے محروم رکھا ہے.صفت مالکیت يَوْمِ الدِّيْنِ پھر اللہ تعالیٰ کی چوتھی صفت مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ( الفاتـحۃ:۴) بیان کی ہے.جو لوگ قیامت کے منکر ہیں اس میں ان کا ردّ موجود ہے اس کی تفصیل قرآن میں بہت جگہ آئی ہے.اللہ تعالیٰ کی اس صفت اور رحیمیت میں فرق یہ ہے کہ رحیمیت میں دعا اور عبادت کے ذریعہ کامیابی کی راہ پیدا ہوتی اور ایک حق ہوتا ہے مگر مالکیت يَوْمِ الدِّيْنِ وہ حق اور ثمرہ عطا کرتی ہے.اور فقرہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ ( الفاتـحۃ:۵) تمام باطل معبودوں کی تردید کرتا ہے اور مشرکین کا ردّ اس میں موجود ہے کیونکہ پہلے اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ کو بیان فرمایا ہے اس سے مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ یعنی صفات کاملہ والے خدا جو رب العالمین، رحمٰن، رحیم ، مالک یوم الدین ہے تیری ہی عبادت ہم کرتے ہیں.یہ ہر چہار صفات جو اُمُّ الصّفات کہلاتی ہیں معبودان باطلہ میں کہاں پائی جاتی ہیں جو لوگ پتھروں یا درختوں یا حیوانات اور چیزوں کی پرستش کرتے ہیں ان میں ان صفات کو ثابت نہیں کر سکتے.خدا تعالیٰ کے فیوض اور برکات کا دروازہ اب بھی کھلا ہے اور اسی طرح اِيَّاكَ نَسْتَعِیْنُ میں ان لوگوں کا ردّ ہے جو دعا اور اس کی قبولیت کے منکر ہیں اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ

Page 401

اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ( الفاتـحۃ:۶،۷) میں آج کل کے مولویوں کا ردّ ہے جو یہ مانتے ہیں کہ سب روحانی فیوض اور برکات ختم ہو گئے ہیں اور کسی کی محنت اور مجاہدہ کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا اور ان برکات اور ثمرات سے حصہ نہیں ملتا جو پہلے منعم علیہ گروہ کو ملتا ہے.یہ لوگ قرآن شریف کے فیوض کو اب گو یا بے اثر مانتے ہیں اور آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات قدسی کے قائل نہیں کیونکہ اگر اب ایک بھی آدمی اس قسم کا نہیںہو سکتا جو منعم علیہ گروہ کے رنگ میں رنگین ہو سکے تو پھر اس دعا کے مانگنے سے فائدہ کیا ہوا؟ مگر نہیں یہ ان لوگوں کی غلطی اور سخت غلطی ہے جو ایسا یقین کر بیٹھے ہیں خدا تعالیٰ کے فیوض اور برکات کا دروازہ اب بھی اسی طرح کھلا ہے لیکن وہ سارے فیوض اور برکات محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے ملتے ہیں اور اگر کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر یہ دعویٰ کرے کہ وہ روحانی برکات اور سماوی انوار سے حصہ پاتا ہے توا یسا شخص جھوٹا اور کذّاب ہے.سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی چند عبارتیں ایسی تھیں جو قرآن کے رنگ کی تھیں مولوی عبدالحی صاحب جنہوں نے اتباع سنّت کیا ہے اور مجھے ان سے بہت محبت ہے ان کا مذہب توحید کا تھا.وہ بدعات اور محدثات سے جدا رہتے تھے.وہ ان عبارتوں کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر یہ قرآن کے موافق ہیں توا س کا کیا جواب دیں؟ تو فرماتے ہیں کہ ولیوںکے کرامات اور خوارق انبیاء علیہم السلام کے معجزات ہی کی طرح ہوتے ہیں.اس لئے یہ قرآن ہی کا معجزہ ہے اصل یہی ہے کہ کامل اتباع سنّت کے بعد جو خوارق ملتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم ہی کے خوارق ہیں اوراگر اب ان خوارق اور معجزات کا دروازہ بند ہو گیا ہے تو پھر معاذ اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بھاری ہتک ہو گی.یہ جو اللہ تعالیٰ نے آپؐکو فرمایا اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ ( الکوثر:۲) یہ اس وقت کی بات ہے کہ ایک کافر نے کہا کہ آپ کی اولاد نہیں ہے معلوم نہیں اس نے اَبتر کا لفظ بولا تھا جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ (الکوثر:۴) تیرا دشمن ہی بے اولاد رہے گا.روحانی طور پر جو لوگ آئیں گے وہ آپ ہی کی اولاد سمجھے جائیں گے اور وہ آپ کے علوم و برکات

Page 402

کے وارث ہوں گے اور اس سے حصہ پائیں گے اس آیت کو مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ (الاحزاب:۴۱) کے ساتھ ملا کر پڑھو تو حقیقت معلوم ہو جاتی ہے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد بھی نہیں تھی تو پھر معاذ اللہ آپ اَبتر ٹھہرتے ہیں جو آپ کے اعداء کے لئے ہے اور اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ( الکوثر:۲) سے معلو م ہوتا ہے کہ آپ کو روحانی اولاد کثیر دی گئی ہے پس اگر ہم یہ اعتقاد نہ رکھیں کہ کثرت کے ساتھ آپ کی روحانی اولاد ہوئی ہے تو اس پیشگوئی کے بھی منکر ٹھہریں گے.اس لئے ہر حالت میں ایک سچے مسلمان کو یہ ماننا پڑے گا اور ماننا چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات قدسی ابد الآباد کے لئے ویسی ہی ہیں جیسی تیرہ سو برس پہلے تھیں چنانچہ ان تاثیرات کے ثبوت کے لئے ہی خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اب وہی آیات و برکات ظاہر ہو رہے ہیں جو اس وقت ہو رہے تھے.سچی بات یہی ہے کہ اگر اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ( الفاتـحۃ:۶) نہ ہوتا تو سالک جو اپنے نفس کی تکمیل چاہتے ہیں مَرہی جاتے.لاہور میں ایک مولوی عبدالحکیم صاحب سے مباحثہ ہوا تھا تو ہم نے اس کو یہی پیش کیا کہ تم خدا تعالیٰ کے مکالمات سے کیوں ناراض ہوتے ہو.حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تو محدث تھے تو اس نے صاف طور پر انکار کیا اور کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرضی طور پر کہا تھا حضرت عمربھی محدث نہ تھے یہ محال ہے کہ آئندہ کسی کو الہام ہو.ان کو اس پر بالکل ایمان نہیں ہے وہ مکالمات کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کئے بیٹھے ہیں اور خدا تعالیٰ کو انہوں نے گونگا خدا مان لیا ہے.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ قرآن شریف میںجو یہ آیا ہے لَهُمُ الْبُشْرٰى فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا (یونس:۶۵) اس کا ان کے نزدیک کیا مطلب ہے؟ اور جب ملائکہ ایسے مومنوں پر نازل ہوتے ہیں اور ان کو بشارتیں دیتے ہیں تو وہ بشارتیں کس کی طرف سے دیتے ہیں.اس اعتقاد سے پھر قرآن شریف کا ان کو انکار کرنا پڑے گا کیونکہ سارا قرآن شریف اس بات سے بھرا پڑا ہے کہ خدا تعالیٰ کے مکالمہ کا شرف عطا ہوتا ہے اگر یہ شرف ہی کسی کو نہیں ملتا تو پھر قرآن شریف کی تاثیرات کا ثبوت کہاں سے ہو گا؟

Page 403

اگر آفتاب دھندلا اور تاریک ہے تو اس کی روشنی پر کوئی کیا فرق کر سکے گا او رکیا یہ کہہ کر فخر کرے گا کہ اس میں روشنی نہیں بلکہ تاریکی ہے؟۱ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی کا فیضان اس طرح پر قرآن شریف کی تاثیرات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کی برکات کے لئے یہ اعتقاد کرنا کہ وہ ایک وقت خاص اور ایک شخص خاص ہی کے لئے تھے آئندہ کے لئے ان کا سلسلہ بند ہو گیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت بے ادبی اور توہین ہے اور نہ صرف قرآن شریف اور آنحضر ت کی بے ادبی بلکہ اللہ تعالیٰ کی پاک ذات پر اعتراض کرنا ہے.یاد رکھو کہ نبیوں کا وجود اس لئے دنیا میں نہیں آتا کہ وہ محض ریا کاری اور نمود کے طور پر ہو اگر ان سے کوئی فیض جاری نہیں ہوتا اور مخلوق کو روحانی فائدہ نہیں پہنچتا تو پھر یہی ماننا پڑے گا کہ وہ صرف نمائش کے لئے ہیں اور ان کا عدم وجود معاذ اللہ برابر ہے مگر ایسا نہیں وہ دنیا کے لئے بہت سی برکات اور فیوض کے باعث بنتے ہیں اور ان سے ایک خیر جاری ہوتی ہے جس طرح پر آفتاب سے ساری دنیا فائدہ اٹھاتی ہے اور اس کا فائدہ کسی خاص حدتک جا کر بند نہیں ہوتا بلکہ جاری رہتا ہے اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض وبرکات کا آفتا ب ہمیشہ چمکتا ہے اور سعادت مندوں کو فائدہ پہنچا رہا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ( اٰل عـمران:۳۲) یعنی ان کو کہہ دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جائو تو میری اطاعت کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا آپ کی سچی اطاعت اور اتباع انسان کو اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اور گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہوتی ہے.پس جب کہ آپ کی اتباع کامل اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے پھر کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ ایک محبوب اپنے محبّ سے کلام نہ کرے.اگر یہ مانا جاوے کہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو باوجود محبوب بنانے کے پھر بھی اس سے کلام نہیں کرتا تو یہ محبوب معاذ اللہ اَ بْکَمْ ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ باطل معبودوں کے لئے

Page 404

یہ نقص ٹھہراتا ہے کہ وہ کلام نہیں کرتے مگر ہم یہ ثابت کرنے کو تیار ہیںاور اسی غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع کے آثار اور ثمرات ہر وقت پائے جاتے ہیں.اس وقت بھی وہ خدا جو ہمیشہ سے ناطق خدا ہے اپنا لذیذ کلام دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے اور قرآن شریف کے اعجاز کا ثبوت اس وقت بھی دے رہا ہے.یہ قرآن شریف ہی کا معجزہ ہے کہ جو ہم تحدی کر رہے ہیں کہ ہمارے بالمقابل قرآن شریف کے حقائق، معارف عربی زبان میں لکھو اور کسی کو یہ قدرت نہیں ہوتی کہ مقابلہ کے لئے نکل سکے.ہمارا مقابلہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ ہے کیونکہ وَاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ( الـجمعۃ:۴) جو فرمایا گیا ہے اس وقت جو تعلیم الکتب والحکمت ہو رہی ہے اور ایک قوم کو اس وقت بھی صحابہ کی طرح اللہ تعالیٰ بنا نا چاہتا ہے اس کی اصلی غرض یہی ہے کہ تا قرآ ن شریف کا معجزہ ثابت ہو.قرآن مجید بے مثل معجزہ ہے ماحصل یہ ہے کہ قرآن شریف ایسا معجزہ ہے کہ نہ وہ اوّل مثل ہوا اور نہ آخر کبھی ہو گا.اس کے فیوض و برکات کا دَر ہمیشہ جاری ہے اور وہ ہر زمانہ میں اس طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھا علاوہ اس کے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہر شخص کا کلام اس کی ہمت کے موافق ہوتا ہے جس قدر اس کی ہمت او رعزم اور مقاصد عالی ہوں گے اسی پایہ کا وہ کلام ہو گااور وحی الٰہی میں بھی یہی رنگ ہوتا ہے جس شخص کی طرف اس کی وحی آتی ہے جس قدر ہمت بلند رکھنے والا وہ ہو گا اسی پایہ کا کلام اسے ملے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت و استعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت ہی وسیع تھا اس لئے آپ کو جو کلام ملا وہ بھی اس پایہ اور رتبہ کا ہے اور دوسرا کوئی شخص اس ہمت اور حوصلہ کا کبھی پیدا نہ ہوگا کیونکہ آپ کی دعوت کسی محدود وقت یا مخصوص قوم کے لئے نہ تھی.جیسے آپ سے پہلے نبیوں کی ہوتی تھی بلکہ آپ کے لئے فرمایا گیا قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا ( الاعراف:۱۵۹) اور مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ ( الانبیاء :۱۰۸) جس شخص کی بعثت اور رسالت کا دائرہ اس قدر وسیع ہو اس کا مقابلہ کون کر سکتا ہے.اس وقت اگر کسی کو قرآن شریف کی کوئی آیت بھی الہام ہو تو

Page 405

ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اس کے اس الہام میں اس کا اتنا دائرہ وسیع نہیںہوگا جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور ہے.یہی وجہ ہے کہ خواب کی تعبیر میں معبرین نے یہ اصول رکھا ہے کہ وہ ہر شخص کی حیثیت اور حالت کے لحاظ سے ہوتی ہے.اگر کوئی آدمی غریب ہے تو اس کی خواب اس کی ہمت اور مقاصد کے اندر ہو گی امیر کی اپنے رنگ کی اور بادشاہ کی اپنے رتبہ کی.کوئی غریب اگر مثلاً یہ دیکھے کہ اس کے سر میں خارش ہوتی ہے تو اس سے یہ مراد تو ہونے سے رہی کہ اس کے سر پر تاج شاہی رکھا جاوے گا بلکہ اس کے لئے تو یہی مراد ہوگی کہ وہ کسی سے جوتے کھائے گا جیسے استعدادوں کے دائرے مختلف ہیں اسی طرح پر کلام الٰہی کے دوائر بھی مختلف ہیں.علاوہ ازیں خدا تعالیٰ کے کلام میں اور بھی بہت سے پہلو بے مثلی کےہوتے ہیں وہ اس پہلو سے بےمثل نہیں ہوتا جس پہلو سے ہم خیال کرتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام بدوں تدبر کے وحی ہے مگر ہمارا کلام بعض بعض اوقات تدبر کا نتیجہ ہوتا ہے اور ہم اس میں اصلاح بھی کر دیتے ہیں ہر ایک چیز نسبتاً بے نظیری پیدا کرتی ہے.دو مرغ ہوں تو ایک اس کے مقابلہ میں اور اس کی نسبت سے بے نظیر کہلا سکتا ہے لیکن ہاتھی کے مقابلہ میں تو اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں قرار پا سکتی.اسی طرح پر کرامات کا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے جب کہ رکھا ہوا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ کلام کا اعجاز نہ رکھا جاوے جیسے ہر زمانہ میں کرامات ہوتی رہی ہیں اسی طرح پر اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے اعجازی کلام کے ثبوت کے لئے کلام کا معجزہ بھی رکھا ہے جیسے حضرت سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی دو چند سطریں معجزہ تھیں.اس زمانہ (میں) بھی قرآن شریف کے کلام کے اعجاز کے لئے مسیح موعود کو کلام کا معجزہ دیا گیا ہے اسی طرح پر جیسے دوسرے خوارق اور نشانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات اور خوارق کے ثبوت کے لئے دیئے گئے ہیں.جس جس قسم کے نشانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے تھے اسی رنگ پر اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے نشانات کو رکھا ہے کیونکہ یہ سلسلہ اسی نقش قدم پر ہے اور دراصل وہی سلسلہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بروزی آمد کی پہلے ہی سے پیشگوئی ہو چکی تھی اور اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ(الـجمعۃ:۴) میں یہ وعدہ کیا گیا تھا پس جیسے آپ کو اس وقت کلام کا معجزہ اور نشان اس

Page 406

وقت دیا گیا تھا اور قرآن شریف جیسی لا نظیر کتاب آپ کو ملی اسی طرح پراسی رنگ میں آپ کی اس بروزی آمد میں بھی کلام کا نشان دیا گیا دیکھ لو کس قدر تحدی کے ساتھ غیرت دلانے والے الفاظ میں مقابلہ کے واسطے بلایاگیا ہے مگر کسی کو ہمت اور حوصلہ بھی نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ نے ان کی ہمتوں کو سلب کر لیا ہے اور ان کے علوم اور قابلیتوں کو چھین لیا.باوجودیکہ یہ لوگ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور اپنے علوم کی لاف زنیاں کرتے تھے مگر اس مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے ان سب کو ذلیل اور شرمندہ کیا.معجزہ شقُّ القمر دوسرا بڑاعظیم الشّان معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شق القمر تھا اور شق القمر دراصل ایک قسم کا خسوف ہی تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے سے ہوا.اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے کسوف خسوف کا ایک نشان دکھایا اور یہ مسیح موعود اور مہدی کے لیے مخصوص تھا اور ابتدائے دُنیا سے کبھی اس رنگ میںیہ نشان نہیںدکھایاگیاتھا.یہ صرف مسیح موعود ہی کے زمانہ کے لیے رکھا گیاتھا اور احادیث میںآیات مہدی میںسے اُسے قرار دیا گیا ہے جس کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ میرے ہی نام پر آئے گا.اس میں یہی نکتہ ہے کہ جونشانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کودئیے گئے تھے اس رنگ کے نشان یہاںبھی دئیے جانے ضروری تھے کیونکہ یہ آمد آپ ہی کی ہے.ضرورت اعجاز غرض قرآن شریف بِدُوں غور خوض بِدُوں محو و اثبات اپنے اندر زندگی کی روح رکھتا ہے اور بِدُوں کسی نسبتی لحاظ یامقابلہ کے وہ مستقل اعجاز ہے اور اس وقت جو اعجاز کلام دیا گیاہے یہ گویا اُسی اعجاز کواس طرح پر دکھایاگیا ہے جیسے ایک عمارت کو ایک نقشہ کے رنگ میںدکھایاجاتا ہے اور ایک شیشہ کو دوسرے شیشہ میںدکھایاجاوے.مسلمانوںکے لیے یہ امر کس قدر رنج کا موجب ہوتا اگر یہ مان لیاجاتا کہ کوئی خوارق اور نشانات اُن کو نہیںدیئے گئے کیونکہ پچھلے نشانات آئندہ آنے والے لوگوںکے لیے بطور کہانی کے ہوجاتے ہیں اور انسانی فطرت تو تازہ بتازہ نشانات دیکھنا چاہتی ہے.مجھے ان خشک موحدوںپر افسوس ہی آتاہے جویہ سمجھ بیٹھے ہیںکہ اب خوارق کاکوئی نشان نہیںاور نہ ان کی ضرورت ہے.خشک زندگی سے تو مَرنابہتر ہے.اگر

Page 407

خدا تعالیٰ نے اپنے فضل کوبند کردیاہے اور قفل لگا دیاہے تو پھر اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ(الفاتـحۃ:۶) کی دعاتعلیم کرنے کی کیاضرورت تھی.یہ تووہی بات ہوئی کہ ایک شخص کی مشکیںباندھ دی جاویں اور پھر اس کو ماریں کہ تُواب چل کر کیوںنہیںدکھاتا.بھلا وہ کس طرح چل سکتا ہے فیوض وبرکات کے دروازے تو خود بند کر دیئے اور پھر یہ بھی کہہ دیا کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ(الفاتـحۃ:۶) کی دعا ہر روز ہر نماز میں کئی مرتبہ مانگا کرو.اگرقانون قدرت یہ رکھا تھا کہ آپ کے بعد معجزات اور برکات کا سلسلہ ختم کر دیا تھا اورکوئی فیض اور برکت کسی کو ملنا ہی نہیں تھی تو پھر اس دعا سے کیا مطلب؟ اگر اس دعا کا کوئی اور نتیجہ نہیں تو پھر نصاریٰ کی تعلیم کے آثار اور نتائج اور اس تعلیم کے آثار اور نتائج میں کیا فرق ہوا.لکھا تو انجیل میں یہی ہے کہ میری پیروی سے تم پہاڑ کو بھی ہلا سکو گے مگر اب وہ جوتی بھی سیدھی نہیں کر سکتے.لکھا ہے میرے جیسے معجزات دکھا ؤ گے مگر کوئی کچھ نہیں دکھا سکتا.لکھا ہے کہ زہریں کھا لو گے تو اثر نہ کریں گی.مگر اب سانپ ڈستے اور کتے کاٹتے ہیں اور وہ ان زہروں سے ہلاک ہوتے ہیں اور کوئی نمونہ وہ دعا کا نہیں دکھا سکتے.ان کا وہ نمونہ دعا کی قبولیت کا نہ دکھا سکنا ایک سخت حربہ اور حجت ہے عیسائی مذہب کے ابطال پر کہ اس میں زندگی کی روح اور تاثیر نہیں اور یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ انہوں نے نبی کا طریق چھوڑ دیا.اب اگر ہم بھی یہ اقرار کر لیں کہ اب نشانات اور خوار ق نہیں ہوتے اور یہ دعا جو سکھائی گئی ہے اس کا کوئی اثر اور نتیجہ نہیں تو کیا اس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ یہ اعمال معاذ اللہ بے فائدہ ہیں.نہیں خدا تعالیٰ جو دانا اور حکمت والا ہے وہ نبوت کی تاثیرات کو قائم رکھتا ہے اور اب بھی اس نے اس سلسلہ کو اسی لئے قائم کیا ہے تا وہ اس امر کی سچائی پر گواہ ہو.قرآن شریف کے جس قدر اعجاز معارف معجز کلامی کے مَیں نے جمع کئے ہیں اس وقت اللہ تعالیٰ ان کو ظاہر کر رہا ہے تاکہ آنحضرتؐکی نبوت اور آپ کے خوارق کا ثبوت ہو یہی ایک ہتھیار اور حربہ ہے جو ہم کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور جس کے ساتھ ہم مذاہب باطلہ کے سحر کو توڑنا چاہتے ہیں ہم قرآن شریف کو زندہ کلام ثابت کرنا چاہتے ہیں اسے

Page 408

منتر بنانا نہیں چاہتے.۱ عالم آخرت کی حقیقت جاننا چاہیے کہ عالم آخرت درحقیقت دنیوی عالم کا ایک عکس ہے اور جو کچھ دنیا میں روحانی طور پر ایمان اور ایمان کے نتائج اور کفر اور کفر کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں وہ عالم آخرت میں جسمانی طور پر ظاہر ہو جائیں گے.اللہ جلّ شانُہٗ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسـراءیل :۷۳) یعنی جو اس جہان میں اندھا ہے وہ اُس جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا.ہمیں اس تمثیلی وجود سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہیے اور ذرا سوچنا چاہیے کہ کیونکر روحانی امور عالم رؤیا میں متمثل ہو کر نظر آ جاتے ہیں اور عالم کشف تو اس سے بھی عجیب تر ہے کہ وجود عدم غیبت حس اور بیداری کے روحانی امور طرح طرح کے جسمانی اشکال میں انہیں آنکھوں سے دکھائی دیتے ہیں.جیسا کہ بسا اوقات عین بیداری میں ان روحوں سے ملاقات ہوتی ہے جو اس دنیا سے گزر چکے ہیں اور وہ اسی دنیوی زندگی کے طور پر اپنے اصلی جسم میں اسی دنیا کے کپڑوں میں سے ایک پوشاک پہنے ہوئے نظر آتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں اور بسا اوقات ان میں سے مقدس لوگ.بِـاِذْنِہٖ تَعَالٰی آئندہ کی خبریں دیتے ہیں اور وہ خبریں مطابق واقعہ نکلتی ہیں.بسا اوقات عین بیداری میں ایک شربت یا کسی قسم کا میوہ عالم کشف سے ہاتھ میں آتا ہے اوروہ کھانے میں نہایت لذیذ ہوتا ہے اور ان سب امور میں یہ عاجز خود صاحب تجربہ ہے.کشف کی اعلیٰ قسموں میں سے یہ ایک قسم ہے کہ بالکل بیداری میں واقع ہوتی ہے اور یہاں تک اپنے ذاتی تجربہ سے دیکھا گیا ہے کہ ایک شیریں طعام یا کسی قسم کا میوہ یا شربت غیب سے نظر کے سامنے آگیا ہے اور وہ ایک غیبی ہاتھ سے منہ میں پڑتا جاتا ہے اور زبان کی قوت ذائقہ اس کے لذیذ طعم سے لذّت اٹھاتی جاتی ہے اورد وسرے لوگوں سے باتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور حواس ظاہری بخوبی اپنا اپنا کام دے رہے ہیں اور یہ شربت یا میوہ بھی کھایا جا رہا ہے اور اس کی لذّت اور حلاوت بھی ایسی ہی کھلی کھلی طور پر معلوم ہوتی ہے بلکہ وہ لذّت اس لذّت سے نہایت الطف ہوتی ہے اور یہ ہرگز نہیں کہ وہ وہم ہوتا ہے یا

Page 409

صرف بے بنیاد تخیلات ہوتے ہیں بلکہ واقعی طور پر وہ خدا جس کی شان بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيْمٌ (یٰسٓ:۸۰) ہے ایک قسم کے خلق کا تماشہ دکھا دیتا ہے.پس جب کہ اس قسم کے خلق اور پیدائش کا دنیا میں ہی نمونہ دکھائی دیتا ہے اور ہر یک زمانہ کے عارف اس کے بارے میں گواہی دیتے چلے آئے ہیں تو پھر وہ تمثلی خلق اور پیدائش جو آخرت میں ہو گی اور میزان اعمال نظر آئے گی اور پل صراط نظر آئے گا اور ایسا ہی بہت سے اور امور روحانی جسمانی تشکّل کے ساتھ نظر آئیں گے اس سے کیوں عقل مند تعجب کرے.کیا جس نے یہ سلسلہ تمثلی خلق اور پیدائش کا دنیا میں ہی عارفوں کو دکھادیا ہے اس کی قدرت سے یہ بعید ہے کہ وہ آخرت میں بھی دکھاوے بلکہ ان تمثّلات کو عالم آخرت سے نہایت مناسبت ہے کیونکہ جس حالت میں اس عالم میں جو کمال انقطاع کا تجلی گاہ نہیں ہے یہ تمثلی پیدائش تزکیہ یافتہ لوگوں پر ظاہر ہو جاتی ہے تو پھر عالم آخرت میں (جو) اکمل اور اتم انقطاع کا مقام ہے کیوں نظر نہ آوے.یہ بات بخوبی یاد رکھنی چاہیے کہ انسان عارف پر اسی دنیا میں وہ تمام عجائبات کشفی رنگوں میں کھل جاتے ہیں کہ جو ایک محجوب آدمی قصہ کے طور پر قرآن کریم کی ان آیات میں پڑھتا ہے جو معاد کے بارے میں خبر دیتی ہیں سو جس کی نظر حقیقت تک نہیں پہنچتی وہ ان بیانات سے تعجب میں پڑ جاتا ہے بلکہ بسا اوقات اس کے دل میں اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا عدالت کے دن تخت پر بیٹھنا اور ملائک کا صف باندھے کھڑے ہونا اور ترازو میں عملوں کا تُلنا اور لوگوں کا پل صراط پر سے چلنا اور سزا جزا کے بعد موت کو بکرے کی طرح ذبح کر دینا اور ایسا ہی اعمال کا خوش شکل یا بدشکل انسانوں کی طرح لوگوں پرظاہر ہونا اور بہشت میں دودھ او ر شہد کی نہریں چلنا وغیرہ وغیرہ یہ سب باتیں صداقت اور معقولیت سے دور معلوم ہوتی ہیں.۱

Page 410

۳؍دسمبر ۱۹۰۱ء جمع بین الصلوٰتین کے متعلق حضرت حجۃ اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک تقریر جو آپ نے ۳؍دسمبر ۱۹۰۱ء کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں فرمائی.جمع بین الصلوٰتین مہدی کی علامت سب صاحبوں کو معلوم ہو کہ ایک مدت سے خدا جانے قریباًچھ ماہ یا کم و بیش عرصہ سے ظہر اور عصر کی نماز جمع کی جاتی ہے.میں اس کو مانتا ہوں کہ ایک عرصہ سے جو مسلسل نماز جمع کی جاتی ہے ایک نو وارد یا نو مرید کو جس کو ہمارے اغراض و مقاصد کی کوئی خبر نہیں ہے یہ شبہ گزرتا ہو گا کہ کاہلی کے سبب سے نماز جمع کر لیتے ہوں گے جیسے بعض غیر مقلّد ذرا اَبر ہوا یا کسی عدالت میں جانا ہوا تو نماز جمع کر لیتے ہیں اور بلا مطر اور بلا عذربھی نماز جمع کرنا جائز سمجھتے ہیں مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم کو اس جھگڑے کی ضرورت اور حاجت نہیں اور نہ ہم اس میں پڑنا چاہتے ہیں کیونکہ میں طبعاً اور فطرتاً اس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جاوے اور نماز موقوتہ کے مسئلہ کو بہت ہی عزیز رکھتا ہوں بلکہ سخت مطر میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جاوے اگرچہ شیعوں نے اور غیر مقلّدوں نے اس پر بڑے بڑے مباحثے کئے ہیں مگر ہم کو ان سے کوئی غرض نہیں وہ صرف نفس کی کاہلی سے کام لیتے ہیں سہل حدیثوں کو اپنے مفید مطلب پا کر ان سے کام لیتے ہیں او رمشکل کوموضوع اور مجروح ٹھہراتے ہیں ہمارا یہ مدعا نہیں بلکہ ہمارا مسلک ہمیشہ حدیث کے متعلق یہی رہا ہے کہ جو قرآن اور سنّت کے مخالف نہ ہو وہ اگر ضعیف بھی ہو تب بھی اس پر عمل کر لینا چاہیے.اس وقت جو ہم نمازیں جمع کرتے ہیں تو اصل بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تفہیم، القا اور الہام کے بِدُوں نہیں کرتا بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ میں ظاہر نہیں کرتا مگر اکثر ظاہر ہوتے ہیں.جہاں تک خدا تعالیٰ نے مجھ پر اس جمع بین الصلوٰتین کے متعلق ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے تُـجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ کی بھی عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جو اب پوری ہو رہی ہے.میرا یہ

Page 411

بھی مذہب ہے کہ اگر کوئی امر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے مثلاً کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کے متعلق تو گو علمائے ظواہر اور محدثین اس کو موضوع یا مجروح ہی ٹھہراویں مگر میں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کو موضوع کہوں گا اگر خدا تعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پر ظاہر کر دی ہے جیسے لَامَہْدِیَ اِلَّا عِیْسٰی والی حدیث ہے محدثین اس پر کلام کرتے ہیں مگر مجھ پر خدا تعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور یہ میرا مذہب میرا ہی ایجاد کردہ مذہب نہیں بلکہ خود یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ اہل کشف و اہل الہام لوگ محدثین کی تنقید حدیث کےمحتاج اور پابند نہیں ہوتے خود مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ میں اس مضمون پر بڑی بحث کی ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ مامور اور اہل کشف محدثین کی تنقید کے پابند نہیں ہوتے ہیں تو جب یہ حالت ہے پھر میں صاف صاف کہتا ہوں کہ میں جو کچھ کرتا ہوں خدا تعالیٰ کے القا اور اشارہ سے کرتا ہوں.یہ پیشگوئی جو اس حدیث تُـجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ میں کی گئی ہے یہ مسیح موعود اور مہدی کی ایک علامت ہے یعنی وہ ایسی دینی خدمات اور کاموں میں مصروف ہو گا کہ اس کے لئے نماز (جمع) کی جاوے گی اب یہ علامت جب کہ پوری ہو گئی اور ایسے واقعات پیش آگئے پھر اس کو بڑی عظمت کی نگا ہ سے دیکھنا چاہیے نہ کہ استہزا اور انکار کے رنگ میں.نشانِ صداقت پر علیٰ وجہ البصیرت گواہی دیکھو! انسان کے اپنے اختیار میں اس کی موت فوت نہیں ہے اب اس نشان کے پورا ہونے پر تویہ لوگ رکیک اور نامعقول عذر تراشتے ہیں اور اعتراض کے رنگ میں پیش کرتے اور حدیث کی صحت اور عدم صحت کے سوال کو لے بیٹھتے ہیں لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ اگر خدا نخواستہ اگر اس نشان کے پورا ہونے سے پہلے ہماری موت آجاتی تو یہی لوگ اسی حدیث کو جسے اب موضوع ٹھہراتے ہیں آسمان پر چڑھا دیتے اور اس سے زیادہ شور مچاتے جو اَب مچا رہے ہیں.دشمن اسی ہتھیار کو اپنے لئے تیز کر لیتا لیکن اب جب کہ وہ صداقت کا ایک نشان اور گواہ ٹھہرتا ہے توا س کو نکما اور لاشَے قرار دیا جاتا ہے.پس ایسے لوگوں کے لئے ہم کیا کہہ سکتے ہیں انہوں نے تو صد ہا نشان دیکھے مگر انکار پر انکار کیا اور صادق کو کاذب ہی ٹھہرایااور کس نشان کو انہوں نے مانا جو اس کی امید ان سے رکھیں.

Page 412

کیا کسوف خسوف کا کوئی چھوٹا نشان تھا؟ اس کے پور ا ہونے سے پہلے تو اس کو نشان قرار دیتے رہے مگر جب پورا ہو گیا تو اس کو بھی مشکوک کرنے کی کوشش کی بہرحال مخالفوں کی کور چشمی اور تعصّب کا کیا علاج ہو سکتا ہے ؟ اب رہی اپنی جماعت خدا کا شکر ہے کہ اس کے لئے یہ کوئی ابتلا نہیں ہو سکتا کیونکہ جس نے دمشق کے منارہ پر چڑھنے والے اور فرشتوں کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے زرد پوش مسیح کے اترنے کی حقیقت کو خدا کے فضل سے سمجھ لیا ہے اور جس نے خدا کی صفات والے دجال کا انکار کر کے دجال کی حقیقت حال پر اطلاع پا لی ہے اور ایسا ہی دابۃ الارض اور دجال کے متعلق ان لوگوں کے خانہ ساز مجموعوں کو چھوڑا ہے اور اس قدر باتوں پر جب وہ مجھ پر نیک ظن کرنے کے باعث الگ ہوگئے ہیں تو یہ امر ان کی راہ میں روک اور ابتلا کا باعث کیوں کر ہو سکتا ہے؟ یہ بھی یاد رکھو کہ اب بات صرف حُسنِ ظن تک نہیں رہی بلکہ خدا تعالیٰ نے ان کو معرفت اور بصیرت کے مقام تک پہنچا دیا ہے اور وہ دیکھ چکے ہیں کہ میں وہی ہوں جس کا خدا نے وعدہ کیا تھا.ہاں میں وہی ہوں جس کا سارے نبیوں کی زبان پر وعدہ ہوا اور پھر خدا تعالیٰ نے ان کی معرفت بڑھانے کے لئے منہاج نبوت پر اس قدر نشانات ظاہر کئے کہ لاکھوں انسان ان کے گواہ ہیں.دوست دشمن ، دورونزدیک،ہر مذہب و ملت کے لوگ ان کے گواہ ہیں.زمین نے اپنے نشانات الگ ظاہر کئے آسمان نے الگ وہ علامات جو میرے لئے مقرر تھیں وہ سب پوری ہو گئیں پھر اس قدر نشانات کے بعد بھی اگر کوئی انکار کرتا ہے تو وہ ہلاک ہوتا ہے.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ تم میں سے ہرایک پر خدا نے ایسا فضل کیا ہے ایک بھی تم میں سے ایسا نہیں جس نے اپنی آنکھوں سے کوئی نہ کوئی نشان نہ دیکھا ہو.کیا کوئی ہے جو کہہ سکے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا؟ ایک بھی نہیں پھر ایسی بصیرت اور معرفت بخشنے والے نشانوں کے بعد مجھ پر حُسنِ ظن ہی نہیں رہا بلکہ میری سچائی اور خدا کی طرف سے مامور ہو کر آنے پر تم علی وجہ البصیرۃ گواہ ہو اور تم پر حجت پوری ہو چکی ہے.پھر وہ بڑا ہی بد قسمت اور ناد ان ہوگا جواتنے نشانوںکے بعد اس پیشگوئی کے پوراہونے پر ابتلا میں پڑے جو اس کے ازدیاد ایمان کا موجب اور باعث ہونی چاہیے جوکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 413

نے فرمایاتھا کہ آنے والے موعو دکایہ بھی ایک نشان ہے کہ اس کے لیے نمازجمع کی جائے گی.پس تمہیں خدا کاشکر گزار ہونا چاہیے کہ یہ نشان بھی پوراہوتاہواتم نے دیکھ لیا.لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ یہ حدیث موضو ع ہے تومیںنے پہلے اس کی بابت ایک جواب تو یہ دیا ہے کہ محدثین نے خود تسلیم کر لیا ہے کہ اہلِ کشف اور مامور تنقید احادیث میںاُن کے اصولوںکے محتاج اور پابند نہیںہوتے توپھرجبکہ خدا تعالیٰ نے مجھ پراس حدیث کی صحت کوظاہر کر دیا ہے تواس پرزور دیناتقویٰ کے خلاف ہے.پھر میںیہ بھی کہتا ہوںکہ محدثین خود ہی مانتے ہیں کہ حدیث میںسونے کے کنگن پہننے کی سخت ممانعت ہے مگر وہ کیا با ت تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک صحابی کو سونے کے کنگن پہنادئیے.چنانچہ اس صحابی نے بھی انکار کیا مگر وہ حضرت عمرؓ نے اُس کو پہناکر ہی چھوڑے.کیا وہ اُس حرمت سے آگاہ نہ تھے ؟تھے اور ضرور تھے مگر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے پورا ہونے پر ہزاروں حدیثوںکو قر بان کرنے کوتیار تھے.اب غور کا مقام ہے کہ جب ایک پیشگوئی کے پوراہونے میں حرمت کا جواز گرا دیا تو بلا مطر و بلا عذر والی بات پر انکار کیوں؟ ایک نکتہ معرفت احادیث میںتو یہاں تک آیا ہے کہ اپنے خواب کو بھی سچا کرنے کی کوشش کرو چہ جائیکہ نبی کریمؐ کی پیشگوئی جس شخص کو ایسا مو قع ملے اوروہ عمل نہ کرے اور اس کوپورا کرنے کے لیے تیار نہ ہو.وہ دشمن اسلام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذاللہ جھوٹاٹھہراناچاہتا ہے اورآپ کے مخالفوںکواعتراض کا موقع دینا چاہتا ہے.صحابہؓکا مذہب یہ تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوںکے پوراہونے پر اپنی معرفت اور ایما ن میں ترقی د یکھتے تھے اور وہ اس قد ر عاشق تھے کہ اگر آنحضرتؐسفر کو جاتے ا ور پیشگوئی کے طور پر کہہ دیتے کہ فلاں منزل پر نماز جمع کریں گے اور ان کو موقع مل جاتا تو وہ خواہ کچھ ہی ہوتا ضرور جمع کر لیتے اور خود آنحضرتؐہی کی طرف دیکھو کہ آپ پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے کس قدر مشتاق تھے.ہم کو کوئی بتائے کہ آپ حدیبیہ کی طرف کیوں گئے کیا کوئی وقت ان کو بتایا گیا تھا اور کسی میعاد سے اطلاع دی گئی تھی پھر کیا بات تھی؟ یہی وجہ تھی کہ آپؐچاہتے تھے کہ وہ خدا تعالیٰ کی

Page 414

پیشگوئی پوری ہو جائے یہ ایک باریک سِرّ اور دقیق معرفت کا نکتہ ہے جس کو ہر ایک شخص نہیں سمجھ سکتا کہ انبیاء اور اہل اللہ کیوں پیشگوئیوں کے پورا کرنے اور ہونے کی ایک غیر معمولی رغبت اور تحریک اپنے دلوں میں رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ کے نشانات پورا کرنے کے لئے اہل اللہ کا نور قلب جس قدر انبیاء علیہم السلام گزرے ہیں یا اہل اللہ ہوئے ہیں ان کو فطرۃً رغبت دی جاتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں کو پورا کرنے کے لئے ہمہ تن طیار ہوتے ہیں.مسیح علیہ السلام نے اپنی جگہ داؤدی تخت کی بحالی والی پیشگوئی کے لئے کس قدر سعی اور کوشش کی کہ اپنے شاگردوں کو یہاں تک حکم دیا کہ جس کے پاس تلواریں اور ہتھیار نہ ہوں وہ اپنے کپڑے بیچ کر ہتھیار خریدے.اب اگر اس پیشگوئی کو پورا کرنے کی وہ فطری خواہش اور آرزو نہ تھی جو انبیاء علیہم السلام میں ہوتی ہے تو کوئی ہم کو بتائے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ اور ایسا ہی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں اگر یہ طبعی جوش نہ تھا توآپ کیوں حدیبیہ کی طرف روانہ ہوئے جب کہ کوئی میعاد اور وقت بتایا نہیں گیا تھا ؟ بات یہی ہے کہ یہ گروہ خدا تعالیٰ کے نشانوں کی حرمت اور عزّت کرتا ہے اور چونکہ ان نشانات کے پورا ہونے پر معرفت اور یقین میں ترقی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا اظہار ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ پورے ہوں اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نشان پورا ہوتا تو سجدہ کیا کرتے تھے.جب تک دل دھوئے نہ جاویں اور ایمان حجاب اور زنگ کی تہوں سے صاف نہ کیا جاوے سچا اسلام اورسچی توحید جو مدار نجات ہے حاصل نہیں ہو سکتی اور دل کے دھونے اور ان حجب ظلمانیہ کے دور کرنے کا آلہ یہی خدا تعالیٰ کے نشانات ہیں جن سے خود خدا تعالیٰ کی ہستی اور نبوت پر ایمان پیدا ہوتا ہے اور جب تک سچا ایمان نہ ہو جو کچھ کرتا ہے وہ صرف رسوم اور ظاہرداری کے طور پر کرتا ہے.۱ پس جب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ بات تھی تو میرا نور قلب کب اس کے خلاف کرنے کی رائے

Page 415

دے سکتا تھا اس لئے میں نے چاہا کہ یہ ہونا چاہیے تاکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہو.ممکن تھا کہ ایسے واقعات پیش نہ آتے لیکن جب ایسے امو رپیش آگئے کہ جن میں مصروفیت از بس ضروری تھی اور توجہ ٹھیک طور پر چاہیے تھی تو اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آگیا اور وہ پوری ہوئی اسی طرح پر جیسے خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا تھا.وَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذٰلِکَ.نمازوں کا جمع کرنا اللہ تعالیٰ کے ایما اور القا سے تھا میرا ان نمازوں کو جمع کرنا جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں اللہ تعالیٰ کے اشارہ اور ایما اور القا سے تھا حالانکہ مخالف تو خواہ مخواہ بھی جمع کر لیتے ہیں مسجد میں بھی نہیں جاتے گھروں ہی میں جمع کر لیتے ہیں.مولوی محمد حسین ہی کو قسم دے کر پوچھا جاوے کہ کیا اس نے کبھی کسی حاکم کے پاس جاتے وقت نماز جمع کی ہے یا نہیں؟ پھرخدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشان نشان پر کیوں اعتراض کیا جاوے.اگر تقویٰ اور خدا ترسی ہو تو اعتراض کرنے سے پہلے انسان اپنے گھر میں سوچ لے کہ کیا کہتا ہوں اور اس کا اثر اور نتیجہ کیا ہوگا اور کس پر پڑے گا.مسیح موعود کے ساتھ جلالی و جمالی اجتماع وابستہ ہیں میںنے اس اجتہاد میں یہ بھی سوچا کہ ممکن تھا ہم دس دن ہی میں کام کو ختم کر دیتے جو اس پیشگوئی کا پورا ہونے کا موجب اور باعث ہوا ہے مگرا للہ تعالیٰ نے ایسا ہی پسند کیا کہ جب یہ لوگ اپنے نفس کی خاطر دو دو مہینے نکال لیتے ہیں تو پیشگوئی کی تکمیل کے لئے ایسی مدت چاہیے جس کی نظیر نہ ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اگرچہ وہ مصالح ابھی تک نہیں کھلے مگر اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور مجھے امید ہے کہ ضرور کھلیں گے.دیکھو! ضعف دماغ کی بیماری بدستور لاحق ہے اور بعض وقت ایسی حالت ہوتی ہے کہ موت قریب ہو جاتی ہے.تم میں سے اکثر نے میری ایسی حالت کو معائنہ کیا ہے اور پھر پیشاب کی بیماری عرصہ سے ہے گویا دو زرد چادریں مجھے یہ پہنائی گئی ہیں ایک اوپر کے حصہ بدن میں اور ایک نیچے کے حصہ بدن میں ان بیماریوں کی وجہ سے وقت صافی بہت کم ملتا ہے مگر ان ایام میں خدا تعالیٰ نے خاص فضل فرمایا

Page 416

کہ صحت بھی اچھی رہی اور کام ہوتا رہا.مجھے تو افسوس اور تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ جمع بین الصلوٰتین پر روتے ہیں حالانکہ مسیح کی قسمت میں بہت سے اجتماع رکھے ہیں.کسوف وخسوف کا اجتماع ہوا یہ بھی میرا ہی نشان تھا اور وَ اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ ( التکویر :۸) بھی میرے ہی لئے ہے.اور اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ( الـجمعۃ :۴) بھی ایک جمع ہی ہے کیونکہ اول اور آخر کو ملایا گیا ہے اور یہ عظیم الشان جمع ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوض کی زندگی پر دلیل اور گواہ ہے اور پھر یہ بھی جمع ہے کہ خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے سارے سامان جمع کر دئیے ہیں چنانچہ مطبع کے سامان، کاغذ کی کثرت ڈاک خانوں ، تار اور ریل اور دخانی جہازوں کے ذریعے کل دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے اور پھر نت نئی ایجادیں اس جمع کو اور بھی بڑھا رہی ہیں کیونکہ اسباب تبلیغ جمع ہو رہے ہیں ا ب فونو گراف سے بھی تبلیغ کا کام لے سکتے ہیں اور اس سے بہت عجیب کام نکلتا ہے اخباروں اور رسالوں کا اجراء غرض اس قدر سامان تبلیغ کے جمع ہوئے ہیں کہ اس کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں ہم کو نہیں ملتی بلکہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے اغراض میں سے ایک تکمیل دین بھی تھی جس کے لئے فرمایا گیا تھا اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ (المائدۃ:۴) اب اس تکمیل میں دو خوبیاں تھیں ایک تکمیل ہدایت اور دوسری تکمیل اشاعت ہدایت.تکمیل ہدایت کا زمانہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپناپہلا زمانہ تھا اور تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ آپؐکا دوسرا زمانہ ہے جبکہ وَاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ (الـجمعۃ:۴) کا وقت آنے والا ہے وہ وقت اَب ہے یعنی میرا زمانہ یعنی مسیح موعود کا زمانہ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تکمیل ہدایت اور تکمیل اشاعت ہدایت کے زمانوں کو بھی اس طرح پر ملایا ہے اور یہ بھی عظیم الشان جمع ہے اور پھر یہ بھی وعدہ ہے کہ سارے ادیان کو جمع کیا جاوے گا اور ایک دین کو غالب کیا جاوے گا یہ بھی مسیح موعود کے وقت کی ایک جمع ہے کیونکہ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ (الصّف:۱۰) مفسروں نے مان لیا ہے کہ مسیح موعود ہی کے وقت میں ہو گا.پھر یہ بھی کہ وہ امن کا زمانہ ہو گا کہ بھیڑیا اور بھیڑ ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے جیسا کہ اس وقت نظر آتا ہے ہمارے مخالفوں نے ہمارے قتل کے کس قدر منصوبے کئے مگر وہ کیوں کامیاب نہ ہو سکے

Page 417

اسی گورنمنٹ کے حُسنِ انتظام اور امن کی وجہ سے.پھر خدا نے یہ بھی ارادہ فرمایا ہوا تھا کہ اس زمانہ میں حقائق معارف جمع کر دے.میں دیکھتا ہوں کہ جیسے ظہر و عصر جمع ہوئے ہیں کہ ظہر آسمان کے جلالی رنگ کا ظلّ ہے اور عصر جمالی رنگ کا اور خدا تعالیٰ دونوں کا اجتماع چاہتا ہے اور چونکہ میرا نام اس نے آدم بھی رکھا ہے اور آدم کے لئے یہ بھی فرمایا کہ اس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے یعنی جلالی اور جمالی رنگ دونوں اس میں رکھے اس لئے اس جگہ بھی جلال اور جمال کا اجتماع کر کے دکھایا.جلالی رنگ میں طاعون وغیرہ اللہ تعالیٰ کی گرفتیں ہیں اور انہیں سب دیکھتے ہیں اور جمالی رنگ ميں اس کے انعامات اور مبشرانہ وعدے ہیں اور پھر میری دانست میں اللہ تعالیٰ نے میرے سا تھ ایک اور جمع کی خبر بھی رکھی ہے جس کی خدا نے مجھے اطلاع دی اور وہ یہ ہے کہ میری پیدائش میں میرے ساتھ ایک لڑکی بھی اس نے رکھی ہے اور پھر قومیت اور نسب میں بھی ایک جمع رکھی اور وہ یہ کہ ہماری ایک دادی سیدہ تھی اور دادا صاحب اہل فارس تھے.اب بھی خدا نے اس قسم کی جمع ہمارے گھر میں رکھی کہ ایک صحیح النسب سیدہ میرے نکاح میں آئی اسی طرح جیسے خدا نے ایک عرصہ پہلے بشارت دی تھی.اب غور تو کرو کہ خدا نے کس قدر اجتماع یہاں رکھے ہوئے ہیں ان تمام جمعوں کو خدا نے مصلحت عظیمہ کے لئے جمع کیا ہے.مسیح موعود ہی حکم عدل ہے ہماری جماعت کے لئے تو یہ امر دور از ادب ہے کہ وہ اس قسم کی باتیں پیش کریں یا ان کے وہم میں بھی ایسی باتیں آئیں.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں جو کرتا ہوں وہ خدا تعالیٰ کی تفہیم اور اشارہ سے کرتا ہوں پھر کیوں اس کو مقدم نہیں کرتے اور پیشگوئی سمجھ کر اس کی عزّت نہیں کرتے جیسے حضرت عمرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی سمجھ کر ایک صحابی کو سونے کے کڑے پہنا دئیے.اب تم بتائو کہ اور کیا چاہتے ہو.خدا نے اس قدر نشان تمہارے لئے جمع کر دیئے ہیں اگر خدا تعالیٰ پر ایمان ہو تو کوئی وہم اور خیال اس قسم کا پیدا نہیں ہو سکتا جس سے اعتراض کا رنگ پایا جاوے اور اگر اس قدر نشان دیکھتے ہو ئے بھی کوئی اعتراض

Page 418

کرتا اور علیحدہ ہوتا ہو تو وہ بے شک نکل جاوے اور علیحدہ ہو جاوے اس کی خدا کو کیا پروا ہے وہ کہیں جگہ نہیں پا سکتا جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھے حَکَم عدل ٹھہرایا ہے اور تم نے مان لیا ہے پھر نشانہ اعتراض بنانا ضعف ایمان کا نشان ہے.حَکَم مان کر تمام زبانیں بند ہوجانی چاہئیں اگر مخالفوں کا خیال ہو تو انہوں نے اس سے پہلے کیا کچھ نہیں کہادجال، بے ایمان، کافر، اَکفر تک ٹھہرایا اور کوئی گالی باقی نہ رہی جو انہوںنے نہیں دی اور کوئی منصوبہ شرارت اور تکلیف دہی کا نہیں رہا جوا نہوں نے نہیں سوچا پھر اور کیا باقی رہ گیا جو غیروں کی پروا کرتا اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا جب تک خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ حَکَم کی بات کے سامنے اپنی زبانوں کو بند نہ کرو گے وہ ایمان پیدا نہیں ہوسکتا جو خدا چاہتا ہے اور جس غرض کے لئے اس نے مجھے بھیجا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ میرایہ عمل اپنی تجویز اور خیال سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تفہیم سے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے لئے ہے میں کسی اور حَکَم کی ضرورت نہیں سمجھتا جو چاہتا ہے اس کو قبول کرے اور جس کا دل مریض ہے وہ الگ ہو جاوے میں ایسے لوگوں کو صلاح دیتا ہوں کہ وہ کثرت سے استغفار کریں اور خدا سے ڈریں ایسانہ ہو کہ خدا ان کی جگہ اور قوم لاوے.مسیح موعودؑ کے خلاف علماء سُوء کے فتوے اس کی صداقت کی دلیل ہیں ایک بار مجھے الہام ہوا تھا کہ کوئی شخص میری طرف اشارہ کر کے کہتا ہے ھٰذَا الرَّجُلُ یُـجِیْحُ الدِّیْنَ یہ شخص دین کی جڑھ اکھاڑتا ہے میں خوش ہوا کیونکہ آثار میں ایسا ہی لکھا ہے کہ مسیح اور مہدی کی نسبت ایسے فتوے دئے جائیں گے حجج الکرامہ میں ایسا ہی لکھا ہے اور ابنِ عربی نے لکھا ہے کہ جب مسیح نازل ہو گا تو ایک شخص کھڑا ہو کر کہے گا اِنَّ ھٰذَا الرَّجُلُ غَیَّـرَ دِیْنَنَا.اور مجدّد صاحب کے مکتوبات دوم میں صاف لکھا ہے کہ مسیح جو کچھ بیان کرے گا وہ اسرارِ غامضہ ہوں گے اور لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں گے حالانکہ وہ قرآن سے استنباط کرے گا پھر بھی لوگ ا س کی مخالفت کریں گے.اصل بات یہ ہے کہ جیسے مسیح موعود کے ساتھ جمع کا ایک نشان ہے عوام کے خیال

Page 419

کے موافق ایک تغیر بھی اس کے ساتھ ضروری ہے کیونکہ وہ بحیثیت حَکم ہونے کے تمام بدعات اور خرابیوں کو جو فیج اعوج کے زمانہ میں پیدا ہونی ہیں دور کرے گااور لوگ ان کو تغیر دین کے نام سے یاد کریں گے.میں پوچھتا ہوںکہ اگر تم مخالفوں سے ڈرتے ہو تو پھر مجھے قبول کرنے کا کیا فائدہ ہوا میری مخالفت میں کافر اور دجال ٹھہرائے گئے اور اس سے بڑھ کر کیا ہوگا؟ اور پھر اگر یہی بات ہے کہ اس کو تغیر دین کہتے ہیں تو بتائو کہ میں نے جہاد کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے اور شائع کر دیا ہے کہ دین کے لئے تلوار اٹھانا حرام ہے پھر اس کی پروا کیوں کرتے ہو؟ ہمارے مخالف تو یَضَعُ الْـجِزْیَۃَ کہتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ یَضَعُ الْـحَرْبَ درست ہے.غرض اگر آپ یہ چاہیں کہ ان لوگوں کے پنجوں سے بچ جائیں، یہ مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے جب تک پورے برگشتہ نہ ہو جائیں پس اب’’ یک در گیر محکم گیر‘‘ پر عمل کرو.۱ حَکم و عدل کے فیصلوں کو عزّت کی نگاہ سے دیکھو جو شخص ایمان لاتا ہے اسے اپنے ایمان سے یقین اور عرفان تک ترقی کرنی چاہیے نہ یہ کہ وہ پھر ظن میں گرفتار ہو.یاد رکھو ظن مفیدنہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَيْـًٔا (یونس:۳۷) یقین ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو بامراد کر سکتی ہے.یقین کے بغیرکچھ نہیںہو تا.ا گر انسان ہر بات پر بدظنی کر نے لگے تو شائد ایک دم بھی دنیا میں نہ گزار سکے.وہ پانی نہ پی سکے کہ شائد ا س میں زہر ملا دیا ہو.بازار کی چیزیںنہ کھا سکے کہ ان میںہلا ک کر نے والی کوئی شے نہ ہو.پھر کس طرح وہ رہ سکتا ہے یہ ایک موٹی مثا ل ہے اسی طرح پر انسا ن رو حا نی امور میں ا س سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.اب تم خود یہ سو چ لو او ر اپنے دلو ں میں فیصلہ کر لو کہ کیا تم نے میرے ہاتھ پر جوبیعت کی ہے او ر مجھے مسیح موعود، حَکَم،عدل ماناہے تو اس ماننے کے بعد میرے کسی فیصلہ یافعل پر اگر دل میںکوئی کد ور ت یا رنج آتا ہے تواپنے ایمان کی فکر کرو.وہ ایمان جو خدشات اور تو ہمات سے بھر ا ہو ا ہے کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہو گا لیکن اگر تم نے سچے دل

Page 420

سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح مو عو د وا قعی حَکم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سا منے اپنے ہتھیار ڈال دو.اور اس کے فیصلوں کو عز ت کی نگا ہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک باتوں کی عز ت اور عظمت کرنے والے ٹھہرو.رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہاد ت کافی ہے وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہو گا وہ حَکَم عدل ہوگا اگر اس پر تسلی نہیں ہوتی توپھر کب ہو گی.یہ طریق ہر گزاچھا اور مبارک نہیں ہو سکتا کہ ایمان بھی ہو اور دل کے بعض گوشوں میںبد ظنّیاںبھی ہوں.میںاگر صاد ق نہیں ہوںتوپھر جائو اور صادق تلا ش کر و اور یقیناً سمجھو کہ اس و قت اور صاد ق نہیںمل سکتا.او ر پھر اگر دوسرا کوئی صاد ق نہ ملے اور نہیں ملے گا تو پھر میں اتنا حق مانگتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو دیاہے.جن لوگوں نے میراانکار کیا ہے اور جو مجھ پر اعتراض کرتے ہیں انہوں نے مجھے شناخت نہیں کیا اور جس نے مجھے تسلیم کیا اور پھر اعتراض رکھتا ہے وہ اور بھی بد قسمت ہے کہ دیکھ کر اندھا ہوا.اصل بات یہ ہے کہ معاصرت بھی رتبہ کو گھٹادیتی ہے اس لیے حضرت مسیحؑ کہتے ہیںکہ نبی بے عزّت نہیں ہوتا مگراپنے وطن میں.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کو اہل وطن سے کیا کیاتکلیفیں اور صدمے اٹھانے پڑے تھے اور یہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ایک سنّت چلی آتی ہے ہم اس سے الگ کیونکر ہوسکتے ہیں.اس لیے ہم کو جو کچھ اپنے مخالفوں سے سننا پڑا.یہ اسی سنّت کے موافق ہے مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۠(الـحجر:۱۲) افسوس اگر یہ لوگ صاف نیت سے میرے پاس آتے تو میں ان کو وہ دکھاتا جو خدا نے مجھے دیا ہے اور وہ خدا خود ان پر اپنا فضل کرتا اور انہیںسمجھا دیتا مگر انہوں نے بخل اور حسد سے کام لیا.اب میں ان کو کس طرح سمجھائوں؟ جب انسان سچّے دل سے حق طلبی کے لیے آتا ہے تو سب سے فیصلہ ہو جاتے ہیں لیکن جب بدگوئی اور شرارت مقصود ہو تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا.میں کب تک ان کے فیصلے کرتا رہوں گا.حجج الکرامہ میں ابن عربی کے حوالے سے لکھا ہے کہ مسیح موعودؑ جب آئے گا تو اسے مفتری اور جاہل ٹھہرایا جائے گا اور یہاںتک بھی کہا جاوے گا کہ وہ دین کو تغیر کرتا ہے.اس وقت ایسا ہی ہو رہا

Page 421

ہے.اس قسم کے الزام مجھے دئیے جاتے ہیں.ان شبہات سے انسان تب نجات پا سکتا ہے جب وہ اپنے اجتہاد کی کتاب ڈھانپ لے اور اس کی بجائے وہ یہ فکر کرے کہ کیا یہ سچا ہے یا نہیں.بعض امور بےشک سمجھ سے بالا تر ہوتے ہیں لیکن جو لوگ پیغمبر وں پر ایمان لاتے ہیں.وہ حسنِ ظن اور صبراور استقلال سے ایک وقت کا انتظار کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر اصل حقیقت کو کھول دیتا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت صحابہؓ سوال نہ کرتے تھے بلکہ منتظر رہتے تھے کہ کوئی آکر سوال کرے تو فائدہ اٹھا تے تھے ورنہ خود خاموش سرتسلیم خم کئے ہوئے بیٹھے رہتے تھے اور جرأت سوا ل کرنے کی نہ کرتے تھے.میرے نزدیک اصل اور اسلم طریق یہی ہے کہ ادب کرے.جوشخص آداب النبی کو نہیں سمجھتا اوراس کو اختیار نہیں کرتا اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ ہلاک نہ کیا جائے.یقین کے مدارج وہ لوگ بڑی غلطی پر ہیں جو ایک ہی دن میں حق الیقین کے درجے پر پہنچنا چاہتے ہیں.یاد رکھوکہ ایک ظن ہوتا ہے اور ایک یقین.ظن صرف خیالی بات ہوتی ہے اس کی صحت اور سچائی پر کوئی حکم نہیں ہوتا بلکہ اس میں احتمال کذب کا ہوتا ہے لیکن یقین میں ایک سچائی کی روشنی ہوتی ہے.یہ سچ ہے کہ یقین کے بھی مدارج ہیں.ایک علم الیقین ہوتا ہے پھر عین الیقین اور تیسرا حق الیقین جیسے دور سے کوئی آدمی دھواں دیکھتا ہے تو وہ آگ کا یقین کرتا ہے اور یہ علم الیقین ہے اور جب جا کر دیکھتا ہے تو وہ عین الیقین ہے اور جب ہاتھ ڈال کر دیکھتا ہے کہ وہ جلاتی ہے تو وہ حق الیقین ہے.بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی ابھی ظن سے مخلصی نہیں ہوئی جبکہ سنّت اللہ اسی طرح پر ہے کہ جو مامور خدا کی طرف سے آتے ہیں ان کے ساتھ ابتلا ضرور ہوتے ہیں پھر میں کیوں کر ابتلا کے بغیر آسکتا تھا.اگرا بتلا نہ ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسرائیل میں سے آ جاتے تاکہ ان کو یہ کہنے کا موقع نہ ملتاکہ آنے والے کے لئے لکھا ہے کہ وہ تیرے بھائیوں میں سے ہو گا اوراسی طرح حضرت مسیحؑ کے وقت ایلیا ہی آجاتا تاکہ ان کو ٹھوکر نہ لگتی.ایک یہودی فاضل نے اس پر بڑی کتاب لکھی ہے وہ کہتا ہے کہ ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ ایلیا نہیں آیا.اور اگر خدا بھی ہم سے پوچھے گا تو ہم

Page 422

ملاکی نبی کی کتاب پیش کردیں گے.اس قدر معجزات جو حضرت مسیح سے صادر ہوئے بیان کئے جاتے ہیں کہ وہ مُردوںکو زندہ کرتے تھے ایلیا کو بھی زندہ کر کے لے آتے.ایماناً بتائو کہ کیا ایلیا کا ابتلا بڑا تھا یا نمازوں کو جمع کرنے کا ابتلا جس ابتلا نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھا دیا.اب اس قدر لوگ جو گمراہ ہوئے اور مسیح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منکر رہے تو اس کا باعث وہی ایلیا کا ابتلا ہی ہے یا کچھ اور.غرض ابتلا کا آنا ضروری ہے مگر سچا مومن کبھی ان سے ضائع نہیں کیا جاتا.اس قسم کے لوگوں نے کسی زمانہ میں بھی فائدہ نہیں اٹھایا.کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں انہوں نے فائدہ اٹھایا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں.میں نے عام طور پر شائع کیا کہ استجابت دعا کا مجھے نشان دیا گیا ہے جو چاہے میرے مقابلہ پر آئے.میں نے کہا کہ جو مجھے حق پر نہیں سمجھتا وہ میرے ساتھ مباہلہ کر لے.میں نے یہ بھی شائع کیا کہ قرآن کریم کے حقائق و معارف کا ایک نشان مجھے عطا ہوا اس میں مقابلہ کر کے دیکھ لو مگر ایک بھی ایسا نہ ہوا جو میرے سامنے آتا اور میری دعوت کو قبول کر لیتا.پھر خدا نے مجھے بشارت دی کہ یَنْصُـرُکَ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ اور اس کا ثبوت دیا کہ ہر میدان میں مجھے کامیاب کیا پس اگر ان نشانات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا اور اس کی تسلی نہیں ہوتی پھر وہ کسی اور کے پاس جاوے یا کسی عیسائی کے پاس جاوے اور تسلّی کر لے اگر کر سکتا ہے لیکن سچائی کو چھوڑ کر تسلی کہاں فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ( یونس:۳۳) ایسے لوگ لَا مِنَ الْاَحْیَاءِ وَلَا مِنَ الْاَمْوَاتِ کے مصداق ہوتے ہیں غرض نمازوں کے جمع کرنے میں یہ راز اور سرّ تھا اور اِنَّـمَا الْاَعْـمَالُ بِالنِّیَّاتِ.اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ آیا یہ سستی اور کسل کی وجہ تھا یا ایک معقول اور مبارک طریق پر.یاد رکھو کہ اس قدر نشانات دیکھ کر بھی جسے کوئی شک وشبہ گزر سکتا ہے تو اسے ڈرنا چاہیے کہ شیطان عدو مبین ساتھ ہے.میں جس راہ کی طرف بلاتا ہوں یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر غوثیت اور قطبیت ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے انعام ہوتے ہیں.جو لوگ مجھے قبول کرتے ہیں ان کی دین و دنیا

Page 423

بھی اچھی ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے وَ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ( اٰل عـمران:۵۶).درحقیقت وہ زمانہ آتا ہے کہ ان کو امیت سے نکال کر خود قوت بیان عطا کرے گا اور وہ منکروں پر غالب ہوں گے لیکن جو شخص دلائل اور نشانات کو دیکھتا ہے اور پھر دیانت ،امانت اور انصاف کو ہاتھ سے چھوڑتا ہے اسے یاد رکھنا چاہیے کہ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِهٖ (الانعام:۲۲) تم بہت سے نشانات دیکھ چکے ہو اور حروف تہجی کے طور پر اگرایک نقشہ تیار کیا جاوے تو کوئی حرف باقی نہ رہے گا کہ اس میں کئی کئی نشان نہ آئیں.تریاق القلوب میںبہت سے نشان جمع کئے گئے ہیں اور تم نے اپنی آنکھوں سے پُورے ہوتے دیکھے.صادق کو نشان کی ضرورت اب وقت ہے کہ تمہارے ایمان مضبوط ہوں اور کوئی زلزلہ اور آندھی تمہیں ہلانہ سکے.بعض تم میں ایسے بھی صادق ہیں کہ اُنہوں نے کسی نشان کی اپنے لیے ضرورت نہیں سمجھی گو خدا نے اپنے فضل سے ان کو سینکڑوں نشان دکھا دئیے لیکن اگر ایک بھی نشان نہ ہوتا تب بھی وہ مجھے صادق یقین کرتے اور میرے ساتھ تھے چنانچہ مولوی نورالدین صاحب کسی نشان کے طالب نہیں ہوئے.انہوں نے سنتے ہی اٰمَنَّا کہہ دیا اور فاروقی ہو کر صدیقی عمل کر لیا.لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر شام کی طرف گئے ہوئے تھے واپس آئے تو راستہ ہی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت کی خبر پہنچی وہیں انہوںنے تسلیم کر لیا.حضرت اقدسؑ نے اس قدر تقریر فرمائی تھی کہ مولانا مولوی نُورالدین صاحب حکیم الامّت ایک جوش اور صدق کے نشہ سے سرشار ہو کر اُٹھے اور کہا کہ مَیں اس وقت حاضر ہوا ہوں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور رَضِیْتُ بِاللہِ رَبًّاوَبِـمُحَمَّدٍ نَّبِیًّا کہہ کر اقرار کیا تھا.اب میں اس وقت صادق امام مسیح موعود اور مہدی معہود کے حضور وہی اقرار کرتا ہوں کہ مجھے کبھی ذرا بھی شک اور وہم حضور کے متعلق نہیں گزرا اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے.ہم جانتے ہیں کہ بہت سے اسباب ایسے ہیں جن کا ہمیں علم نہیں اور میں نے ہمیشہ اس کو آداب نبوت کے خلاف سمجھا ہے کہ کبھی کوئی سوال اس قسم کا کروں.

Page 424

میں آپ کے حضور اقرار کرتا ہوں.رَضِیْنَا بِا للہِ رَبًّا وَبِکَ مَسِیْحًا وَّ مَھْدِیًّا.اس تقریر کے ساتھ ہی حضرت اقدسؑ نے بھی اپنی تقریر ختم کر دی.۱ ۴؍دسمبر ۱۹۰۱ء بعد نماز مغرب کی ایک تقریر.ایک بہت ہی ضروری امر ہے جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں اگر چہ میری طبیعت بھی اچھی نہیں ہے لیکن کل نواب صاحب جو جانے والے ہیں.اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ میں بیان کردوں تاکہ وہ بھی سن لیں اورجماعت کے دوسرے لوگ بھی سن لیں اور وہ یہ ہے کہ انبیاء کی بعثت کی اصل غرض تمام انبیاء علیہم السلام جو دنیا میںآئے ہیں اگر چہ انہوں نے جو احکام دنیا کو سنائے وہ مبسوط اور مُطَوَّل تھے اور بہت کچھ جزئیات بھی بیان کر دیں اور تمام امور جو توحید ، تہذیب، معاملات اور معاد کے متعلق ہوتے ہیں غرض جس قدر امور انسان کو چاہیے ان سب کے متعلق وہ ہر قسم کی ہدایتیں اور تعلیمیں لوگوں کودیا کرتے تھے.باوجود ان ساری جزئی تعلیموں اور ہدایتوں کے ہر ایک نبی کی اصل غرض اور مقصد یہ رہا ہے کہ لوگ گناہوں سے نجات پاکر اور ہر قسم کی بدیوں اور بدکاریوں سے بکلّی نفرت کر کے خدا ہی کے لیے ہو جاویں.انسانی پیدائش کی اصل غرض اور مقصد بھی یہی ہے کہ وہ خدا ہی کے لیے ہو جائے.اس لیے انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض اسی مقصد کی طرف انسان کو رہبری کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی گم گشتہ متاع اور مقصد کو پھر حاصل کرلے.گناہ اگر چہ بہت ہیں اور ان کے بہت سے شعبے اور شاخیں ہیں.یہاں تک کہ ہرادنیٰ قسم کی غفلت بھی گناہ میں داخل ہے لیکن عظیم الشان گناہ جو اس مقصدِ عظیم کے بالمقابل انسان کو اصل مقصد سے ہٹانے کے لیے پڑا ہوا ہے وہ شرک ہے.انسان کی پیدائش کی اصل غرض اور مقصد یہ ہے کہ وہ خدا ہی کے لیے ہو جائے اور گناہ اور اس کے محرکات سے بہت دور رہے اِس لیے کہ جُوں جُوں بدقسمت انسان اس میں مبتلا ہوتا ہے اُسی قدر اپنے اصلی مدّعا

Page 425

سے دور ہوتا جاتا ہے.یہاںتک کہ آخر گرتے گرتے ایسی سِفلی جگہ پر جا پڑتا ہے جو مصائب اور مشکلات اور ہر قسم کی تکلیفوں اور دکھوں کا گھر ہے جس کو جہنّم بھی کہتے ہیں.دیکھو! انسان کا اگر کوئی عضو اپنی اصلی جگہ سے ہٹا دیا جاوے مثلاً بازو ہی اگر اُتر جاوے یا ایک انگلی یا انگوٹھا ہی اپنے اصلی مقام سے ہٹ جاوے تو کس قدر درد اور کرب پیدا ہوتا ہے.یہ جسمانی نظارہ رُوحانی اور اُخروی عالم کے لیے ایک زبردست دلیل ہے اور جہنّم کے وجود پر ایک گواہ ہے.گناہ یہی ہوتا ہے کہ انسان اس مقصد سے جو اس کی پیدائش سے رکھا گیا ہے دُور ہٹ جاوے.پس اپنے محل سے ہٹنے میں صاف درد کا ہونا ضروری ہے.شرک سے بچو تو شرک ایسی چیز ہے کہ جو انسان کو اس کے اصلی مقصد سے ہٹا کر جہنّم کا وارث بنا دیتا ہے.شرک کی کئی قِسم ہیں.ایک تو وہ موٹا اور صریح شِرک ہے جس میں ہندو، عیسائی، یہود اور دوسرے بُت پرست لوگ گرفتار ہیں.جس میں کسی انسان یا پتھر یا اور بے جان چیزوں یا قوتوں یا خیالی دیویوںاور دیو تائوں کو خدا بنا لیا گیا ہے اگر چہ یہ شرک ابھی تک دنیا میں موجود ہے لیکن یہ زمانہ روشنی اور تعلیم کا کچھ ایسا زمانہ ہے کہ عقلیں اس قسم کے شرک کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئی ہیں.یہ جُدا امر ہے کہ وہ قومی مذہب کی حیثیت سے بظاہر ان بے ہودگیوں کا اقرار کریں لیکن دراصل بالطبع لوگ ان سے متنفر ہوتے جاتے ہیں مگر ایک اور قسم کا شرک ہے جو مخفی طور پر زہر کی طرح اثر کر رہا ہے اور وہ اس زمانہ میں بہت بڑھتا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ اور اعتماد بالکل نہیں رہا.رعایت اسباب اور توکّل ہم یہ ہرگز نہیں کہتے اور نہ ہمارا یہ مذہب ہے کہ اسباب کی رعایت بالکل نہ کی جاوے کیونکہ خدا تعالیٰ نے رعایتِ اسباب کی ترغیب دی ہے اور اس حدتک جہاں تک یہ رعایت ضروری ہے اگر رعایتِ اسباب نہ کی جاوے تو انسانی قوتوں کی بے حُرمتی کرنا اور خدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشان فعل کی توہین کرنا ہے کیونکہ ایسی حالت میں جبکہ

Page 426

بالکل رعایت اسباب کی نہ کی جاوے ضروری ہوگاکہ تمام قوتوں کو جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہیں بالکل بے کار چھوڑ دیا جاوے اور ان سے کوئی کام نہ لیا جاوے اور اُن سے کام نہ لینا اور ان کو بےکار چھوڑ دینا خدا تعالیٰ کے فعل کو لغو اورعبث قرار دینا ہے.جو بہت بڑا گناہ ہے.پس ہمارا یہ منشا اور مذہب ہرگز نہیں کہ اسباب کی رعایت بالکل ہی نہ کی جاوے بلکہ رعایتِ اسباب اپنی حدتک ضروری ہے.آخرت کے لیے بھی اسباب ہی ہیں.خدا تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اور بدیوں سے بچنا اور دوسری نیکیوں کو اختیار کرنا اسی لیے ہے کہ اس عالَم اور دوسرے عالَم میں سکھ ملے توگویا یہ نیکیاں اسباب کے قائم مقام ہیں.اسی طرح پر یہ بھی خدا تعالیٰ نے منع نہیں کیا کہ دنیوی ضرورتوںکے پورا کرنے کے لیے اسباب کو اختیار کیا جاوے.نوکری والا نوکری کرے، زمیندار اپنی زمینداری کے کاموں میں رہے، مزدور مزدوریاں کریں تا وہ اپنے عیال واطفال اور دوسرے متعلّقین اوراپنے نفس کے حقوق کو ادا کر سکیں.پس ایک جائز حد تک یہ سب درست ہے اور اس کو منع نہیں کیا جاتا لیکن جب انسان حد سے تجاوز کرکے اسباب ہی پر پُورا بھروسہ کرلے اور سارا دارومداراسباب ہی پر جا ٹھہرے تو یہ وہ شرک ہے جو انسان کو اُس کے اصلی مقصد سے دور پھینک دیتا ہے مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں سبب نہ ہوتا تو مَیںبھوکا مر جاتا یا اگر یہ جائید اد یافلاں کام نہ ہوتا تو میرا بُرا حال ہو جاتا، فلاں دوست نہ ہوتا تو تکلیف ہوتی.یہ امور اس قسم کے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ جائیداد یا اور اسباب واحباب پر اس قدر بھروسہ کیا جاوے کہ خدا تعالیٰ سے بکلّی دُور جا پڑے.یہ خطرناک شرک ہے جو قرآن شریف کی تعلیم کے صریح خلاف ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ فِي السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ( الذاریٰت : ۲۳) اور فرمایا وَ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ (الطلاق: ۴) اور فرمایا مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ(الطلاق:۳،۴) اور فرمایا وَ هُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ (الاعراف: ۱۹۷).قرآن شریف اس قسم کی آیتوں سے بھرا پڑا ہے کہ وہ متقیوں کا متولّی اور متکفّل ہوتا ہے توپھر

Page 427

جب انسان اسباب پر تکیہ ا ور توکل کرتا ہے تو گویا خدا تعالیٰ کی ان صفات کا انکار کرتا ہے اور ان اسباب کو ان صفات سے حصہ دیتا ہے اور ایک اور خدا اپنے لیے ان اسباب کاتجویز کرتا ہے چونکہ وہ ایک پہلو کی طرف جھکتا ہے اس سے شرک کی طرف گویا قدم اُٹھاتا ہے.جو لوگ حکّام کی طرف جھکے ہوئے ہیں اور اُن سے انعام یا خطاب پاتے ہیں اُن کے دل میں اُن کی عظمت خدا کی سی عظمت داخل ہو جاتی ہے.وہ اُن کے پرستار ہو جاتے ہیں اور یہی ایک امر ہے جو توحید کا استیصال کرتا ہے اور انسان کو اُس کے اصلی مقصد سے اُٹھا کر دُور پھینک دیتا ہے.پس انبیاء علیہم السلام یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اسباب اور توحید میںتناقض نہ ہونے پاوے بلکہ ہر ایک اپنے اپنے مقام پر رہے اور مآل کار توحید پر جا ٹھہرے.وہ انسان کو یہ سکھانا چاہتے ہیں کہ ساری عزتیں سارے آرام اور حاجات براری کا متکفّل خدا ہی ہے.پس اگر اس کے مقابل میں کسی اور کو بھی قائم کیا جاوے تو صاف ظاہر ہے کہ دو ضدوں کے تقابل سے ایک ہلاک ہو جاتی ہے.اس لیے مقدم ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید ہو.رعایت اسباب کی جاوے اسباب کو خدا نہ بنایا جاوے.اسی توحید سے ایک محبت خدا تعالیٰ سے پیدا ہوتی ہے جب کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ نفع و نقصان اسی کے ہاتھ میں ہے.محسن حقیقی وہی ہے.ذرّہ ذرّہ اُسی سے ہے.کوئی دوسرا درمیان نہیں آتا.جب انسان اس پاک حالت کوحاصل کرلے تو وہ موحّد کہلاتا ہے.غرض ایک حالت توحید کی یہ ہے کہ انسان پتھروں یا انسانوں یا اور کسی چیز کو خدا نہ بناوے بلکہ ان کو خدا بنانے سے بیزاری اور نفرت ظاہرکرے اور دوسری حالت یہ ہے کہ رعایت اسباب سے نہ گزرے.موحِّد اپنے نفس اور وجود کی نفی کرتا ہے تیسری قسم یہ ہے کہ اپنے نفس اور وجُود کے اغراض کو بھی درمیان سے اُٹھادیا جاوے اور اس کی نفی کی جاوے.بسا اوقات انسان کے زیر نظر اپنی خوبی اور طاقت بھی ہوتی ہے کہ فلاں نیکی مَیںنے اپنی طاقت سے کی ہے.انسان اپنی طاقت پر ایسا بھروسہ کرتا ہے کہ ہر کام کو اپنی ہی قوت سے منسوب کرتا ہے.انسان موحّد تب ہوتا ہے کہ جب اپنی طاقتوں کی بھی نفی کردے.لیکن اب اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان جیسا کہ تجربہ دلالت کرتا ہے عموماً کوئی نہ کوئی

Page 428

حصہ گناہ کا اپنے ساتھ رکھتے ہیں.بعض موٹے گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور بعض اوسط درجہ کے گناہوں میں اور بعض باریک در باریک قسم کے گناہوں کا شکار ہوتے ہیں جیسے بخل، ریاکاری یا اور اسی قسم کے گناہ کے حصّوں میں گرفتار ہوتے ہیں.جب تک ان سے رہائی نہ ملے انسان اپنے گم شدہ انوار کو حاصل نہیں کر سکتا.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام دیئے ہیں.بعض اُن میں سے ایسے ہیں کہ ان کی بجاآوری ہر ایک کو میسر نہیں ہے مثلاً حج، یہ اس آدمی پر فرض ہے جسے استطاعت ہو پھر راستہ میں امن ہو پیچھے جو متعلقین ہیں اُن کے گزارہ کا بھی معقول انتظام ہو اور اسی قسم کی ضروری شرائط پوری ہوں تو حج کر سکتا ہے.ایسا ہی زکوٰۃ ہے یہ وہی دے سکتا ہے جو صاحبِ نصاب ہو.ایسا ہی نماز میں بھی تغیرات ہو جاتے ہیں.کلمہ طیّبہ کی حقیقت لیکن ایک بات ہے جس میں کوئی تغیّر نہیں، وہ ہے لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ.اصل یہی بات ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ سب اس کے مکمّلات ہیں.توحید کی تکمیل نہیں ہوتی جب تک عبادات کی بجا آوری نہ ہو.اس کے یہی معنے ہیں کہ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ کہنے والا اس وقت اپنے اقرار میں سچا ہوتا ہے کہ حقیقی طور پر عملی پہلو سے بھی وہ ثابت کر دکھائے کہ حقیقت میں اللہ کے سوا کوئی دوسرا محبوب و مطلوب اور مقصود نہیں ہے.جب اس کی یہ حالت ہو اور واقعی طور پر اس کا ایمانی اور عملی رنگ اس اقرار کو ظاہر کرنے والا ہو تو وہ خدا تعالیٰ کے حضور اس اقرار میں جھوٹا نہیں.ساری مادی چیزیں جل گئی ہیں اور ایک فنا اُن پر اس کے ایمان میں آگئی ہے.تب وہ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ منہ سے نکالتا ہے اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ جو اس کا دوسرا جزو ہے وہ نمونہ کے لیے ہے کیونکہ نمونہ اور نظیر سے ہر بات سہل ہو جاتی ہے.انبیاء علیہم السلام نمونوں کے لیے آتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمیع کمالات کے نمونوں کے جامع تھے کیونکہ سارے نبیوں کے نمونے آپؐمیں جمع ہیں.محمدؐ جامع جمیع کمالات آپؐکا نام اسی لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اس کے معنی ہیں نہایت تعریف کیا گیا.محمد وہ ہوتا ہے جس کی زمین و آسمان پر تعریف

Page 429

ہوتی ہے.بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ دنیا کے لوگوں نے ان کو نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھا انہیں ذلیل سمجھا اور بخیالِ خویش ذلیل کیا لیکن آسمان پر اُن کی عزّت اور تعریف ہوتی ہے.وہ خدا تعالیٰ کے حضور راست باز ہوتے ہیںاور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ دنیا ان کی تعریف کرتی ہے.ہر طرف سے واہ واہ ہوتی ہے مگر آسمان اُن پر لعنت کرتا ہے.خدا اور اس کے فرشتے اور مقرب اس پر لعنت بھیجتے ہیں.تعریف نہیں کرتے.مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زمین و آسمان دونوں جگہ میں تعریف کیے گئے اور یہ فخر اور فضل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو ملاہے.جس قدر پاک گروہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مِلا وہ کِسی اور نبی کو نصیب نہیں ہوا.یُوں تو حضرت موسٰی کو بھی کئی لاکھ آدمیوں کی قوم مِل گئی مگر وہ ایسے مستقل مزاج یا ایسی پاک باز اور عالی ہمّت قوم نہ تھی جیسی صحابہ کی تھی رضوان اللہ علیہم اجمعین.قوم موسیٰ کا یہ حال تھا کہ رات کو مومن ہیں تو دن کو مُرتد ہیں.آنحضرتؐاور آپ کے صحابہؓ کا حضرت موسیٰ اور اس کی قوم کے ساتھ مقابلہ کرنے سے گویا کُل دُنیا کا مقابلہ ہوگیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو جماعت ملی وہ ایسی پاک باز اور خدا پرست اور مخلص تھی کہ اس کی نظیر کسی دنیا کی قوم اور کسی نبی کی جماعت میں ہرگز پائی نہیں جاتی.احادیث میں اُن کی بڑی بڑی تعریفیں آئی ہیں.یہاں تک فرمایا کہ اَللّٰہُ اَللّٰہُ فِیْ اَصْحَابِیْ اور قرآن کریم میں بھی ان کی تعریف ہوئی يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا (الفرقان:۶۵).موسیٰ کی جماعت جن مشکلات اور مصائب طاعون وغیرہ کے نیچے آئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیار کردہ جماعت اس سے ممتازاور محفوظ رہی.اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور انفاس طیبہ اور جذب اِلَی اللہ کی قوت کا پتہ لگتاہے کہ کیسی زبردست قوتیں آپ کو عطا کی گئی تھیں جو ایسا پاک اور جانثار گروہ اکٹھاکر لیا.یہ خیال بالکل غلط ہے جو جاہل لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یوںہی لوگ ساتھ ہو جاتے ہیں.جب تک ایک قوت جذب اورکشش کی نہ ہو کبھی ممکن نہیں ہے کہ لوگ جمع ہوسکیں.میرامذہب یہی ہے کہ آپ کی قوت قدسی ایسی تھی کہ کسی دوسرے نبی کو دنیا میں نہیں ملی.اسلام کی ترقی کا راز یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت جذب بہت زبر دست تھی اور پھر آپ کی باتوں میں

Page 430

وہ تاثیر تھی کہ جو سنتاتھاوہ گرویدہ ہو جاتاتھا.جن لوگوںکوآپ نے کھینچا ان کوپاک صاف کر دیا.اور اس کے ساتھ ہی آپ کی تعلیم ایسی سادہ اور صاف تھی کہ اس میں کسی قسم کے گورکھ دھندے اور معمّے تثلیث کی طرح نہیں ہیں.چنانچہ نیپولین کی بابت لکھا ہے کہ وہ مسلمان تھا اور کہا کرتا تھا کہ اسلام بہت ہی سیدھا سادہ مذہب ہے اس نے تثلیث کی تکذیب کی ہے غرض آپ وہ دین لائےجو سیدھا سادہ ہے جو خداکے سامنے یا انسان کے سامنے شرمندہ نہیں ہوسکتا.قانون قدرت اور فطرت کے ساتھ ایساوابستہ ہے کہ ایک جنگلی بھی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے.تثلیث کی طرح کوئی لا ینحل عقدہ اس میں نہیں جس کو نہ خدا سمجھ سکے اور نہ ماننے والے جیساکہ عیسائی کہتے ہیں.تثلیث قبول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے بت پرستی اور اوہام پرستی کرے اور عقل وفکر کی قوتوں کوبالکل بیکار اور معطل چھوڑ دے.حالانکہ اسلام کی توحید ایسی ہے کہ ایک دنیا سے الگ تھلگ جزیرہ میںبھی وہ سمجھ میں آسکتی ہے.یہ دین عیسائی جو پیش کرتے ہیں یہ عالم گیر اورمکمل دین نہیں ہو سکتا اور نہ انسان اس سے کوئی تسلی یا اطمینان پاسکتاہے مگر اسلام ایک ایسا دین ہے جو کیا بااعتبار توحید اور اعمال حسنہ اور کیا تکمیلِ مسائل سب سے بڑھ کر ہے.ہزاروں قسم کی بد کا ریاں یہودیوں میں جو مو سیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے پائی جاتی ہیںاور مسیح کے حواریوں کا ذکربھی کر نا نہیں چاہیے کہ جن میں سے ایک نے چند کھوٹے درہم لے کر اپنے آقا کو پکڑا دیا اور ایک نے لعنت کی اور کسی نے بھی وفاداری کا نمونہ نہ دکھایا لیکن صحابہ کی حالت کو دیکھتے ہیں تو ان میں کوئی جھوٹ بولنے والا بھی نظر نہیںآتا.ان کے تصور میں بھی بجُزروشنی کے کچھ نظر نہیںآتا حالانکہ جب عرب کی ابتدائی حالت پر نگاہ کرتے ہیں تو وہ تحت الثریٰ میں پڑے ہوئے نظر آتے ہیں.بت پرستی میں منہمک تھے یتیموںکا مال کھانے اور ہر قسم کی بدکاریوں میں دلیر اور بے باک تھے.ڈاکوؤں کی طرح گزارا کرتے تھے.گویا سر سے پیرتک نجاست میں غرق تھے.پھر میں پوچھتاہوںکہ وہ کون ساعظیم الشان اسم اعظم تھا جس نے اُن کی جھٹ پٹ کایا پلٹ دی اور ان کو ایسا نمونہ بنا دیا کہ جس کی نظیر دنیا کی قوموں میں ہر گزنہیں ملتی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اگر اور کوئی بھی معجزہ پیش نہ کریں تو اس حیرت انگیز پاک تبدیلی کے مقابلہ میں کسی خودساختہ خدا کا ہی

Page 431

کوئی معجزہ ہمیں دکھائے.ایک آدمی کا درست کرنا مشکل ہو تاہے مگر یہاں تو ایک قوم تیار کی گئی کہ جنہوںنے اپنے ایمان اور اخلاص کا وہ نمونہ دکھایا کہ بھیڑبکری کی طرح اس سچائی کے لئے ذبح ہوگئے جس کو انہوں نے اختیار کیا تھا.حقیقت یہ ہے کہ وہ زمینی نہ رہے تھے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہدایت اور مؤثر نصیحت نے ان کو آسمانی بنادیا تھا.قدسی صفات ان میں پیدا ہوگئی تھیں.دنیا کی خباثتوں اور ریاکاریوں سے وہ ایسے سبک اور ہلکے پھلکے کر دئیے گئے تھے کہ ان میں پرواز کی قوت پیدا ہو گئی تھی.یہ وہ نمو نہ ہے جو ہم اسلام کا دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اسی اصلاح اور ہدایت کا باعث تھا جو اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی کے طورپرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد رکھاجس سے زمین پر بھی آپ کی ستائش ہوئی کیو نکہ آپ نے زمین کو امن صلح کاری اور اخلاق فاضلہ اور نیکو کاری سے بھردیا تھا.میںنے پہلے بھی کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جس قدر اخلاق ثابت ہوئے ہیں وہ کسی اور نبی کے نہیں کیونکہ اخلاق کے اظہار کے لیے جب تک موقع نہ ملے کوئی اخلاق اخلاق ثابت نہیں ہو سکتا مثلاً سخاوت ہے لیکن اگر روپیہ نہ ہوتو اس کا ظہور کیوں کر ہو ایسا ہی کسی کو لڑائی کا موقع نہ ملے تو شجاعت کیوں کرثابت ہو.ایسا ہی عفو اس صفت کووہ ظاہر کر سکتا ہے جسے اقتدارحاصل ہو.غرض سب خلق موقع سے وابستہ ہیں.اب سمجھنا چاہیے کہ یہ کس قدر خدا کے فضل کی بات ہے کہ آپ کو تمام اخلاق کے اظہار کے موقعے ملے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وہ موقعے نہیںملے مثلاًآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخاوت کا موقع ملا.آپ کے پاس ایک موقع پر بہت سی بھیڑبکریاں تھیں.ایک کافر نے کہا کہ آپ کے پاس اس قدر بھیڑ بکری جمع ہیں کہ قیصر وکسریٰ کے پاس بھی اس قدر نہیں.آپؐنے سب کی سب اس کو بخش دیں.وہ اسی وقت ایمان لے آیا کہ نبی کے سوااور کوئی اس قسم کی عظیم الشان سخاوت نہیں کر سکتا.مکہ میں جن لوگوں نے دکھ دئیے تھے جب آپؐنے مکہ کو فتح کیا تو آپ چاہتے تو سب کو ذبح کر دیتے مگر آپ نے رحم کیا اور لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ(یوسف:۹۳) کہہ دیا.آپ کا بخشناتھا کہ سب مسلمان ہوگئے.اب اس قسم کے عظیم الشان اخلاق فاضلہ کیاکسی نبی میں پائے جاتے

Page 432

ہیں؟ ہرگزنہیں.وہ لوگ جنہوں نے آپ کی ذات خاص اور عزیزوں اور صحابہ کو سخت تکلیفیں دی تھیں اور ناقابل عفو ایذائیں پہنچائی تھیں آپ نے سزا دینے کی قوت اور اقتدار کو پا کر فی الفور ان کو بخش دیا حالانکہ اگر ان کو سزا دی جاتی تو یہ بالکل انصاف اور عدل تھا مگر آپ نے اس وقت اپنے عفو اور کرم کا نمونہ دکھایا.یہ وہ امور تھے کہ علاوہ معجزات کے صحابہؓ پر مؤثر ہوئے تھے اس لیے آپ اِسم بامسمّٰی محمد ہو گئے تھے صلی اللہ علیہ وسلم.اور زمین پرآپ کی حمد ہو تی تھی اور اسی طرح آسمان پر بھی آپ کی تعریف ہو تی تھی اور آسمان پر بھی آپ محمد تھے یہ نام آپ کا اللہ تعالیٰ نے بطورِنمونہ کے دنیاکو دیا ہے.جب تک انسان اس قسم کے اخلاق اپنے اندر پید انہیں کرتاکچھ فائدہ نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ کی محبت کامل طور پر انسان اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا.جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور طرزِ عمل کو اپنا رہبر اور ہادی نہ بنا لے چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت فرمایا ہے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ( اٰل عـمران :۳۲) یعنی محبوبِ اِلٰہی بننے کے لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جاوے.سچی اتباع آپ کے اخلاق فاضلہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرنا ہوتا ہے مگر افسوس ہے کہ آج کل لوگوں نے اتباع سے مُراد صرف رفع یدین، آمین بالجہراور رفع سبابہ ہی لے لیا ہے.باقی امور کو جو اخلاق فاضلہ آپ کے تھے اُن کو چھوڑدیا.یہ منافق کا کام ہے کہ آسان اور چھوٹے اُمور کو بجالاتاہے اور مشکل کو چھوڑتاہے.سچے مومن اور مخلص مسلمان کی ترقیوںاور ایمانی درجوں کا آخری نقطہ تو یہی ہے کہ وہ سچا متبع ہو اور آپ کے تمام اخلاق کو حاصل کرے جو سچائی کو قبول نہیں کرتا وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتاہے.کروڑوں مسلمان دنیا میںموجود ہیں اور مسجدیںبھی بھری ہوئی نظرآتی ہیں مگر کوئی برکت اور ظہور ان مسجدوں کے بھرے ہوئے ہونے سے نظر نہیںآتا اس لیے کہ یہ سب کچھ جو کیا جاتاہے محض رسوم اور عادات کے طور پرکیا جاتاہے.وہ سچا اخلاص اور وفاجو ایمان کے حقیقی لوازم ہیں ان کے ساتھ پائے نہیں جاتے.سب عمل ریاکاری اور نفاق کے پردوں کے اندر مخفی ہو گئے ہیں.جُوں جُوں انسان ان کے حالات سے واقف ہوتاجاتاہے اندرسے گند اورخبث نکلتاآتاہے.مسجدسے نکل کر گھر کی تفتیش کرو تویہ ننگ اسلام نظر آئیں گئے.

Page 433

مثنوی میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک کوٹھا ہزارمن گندم کا بھرا ہوا خالی ہوگیا.اگر چُوہے اس کونہیں کھا گئے تو وہ کہاں گیا.پس اسی طرح پرپچاس برس کی نماز وں کی جب برکت نہیں ہوئی اگر ریا اور نفاق نے ان کو باطل اور حبط نہیںکیا تووہ کہاںگئیں.خداکے نیک بندوں کے آثار ان میں پائے نہیں جاتے.ایک طبیب جب کسی مریض کا علاج کرتاہے اگر وہ نسخہ اس کے لیے مفید اورکارگر نہ ہو تو چند روزکے تجربہ کے بعد اس کو بدل دیتاہے اورپھر تشخیص کرتاہے لیکن ان مریضوںپر تو وہ نسخہ استعمال کیا گیا ہے جو ہمیشہ مفید اور زود اثر ثابت ہو ا ہے تواس سے معلوم ہوتاہے کہ انہوںنے نسخہ کے استعمال میں غلطی اور بد پرہیزی کی ہے.یہ تو ہم کہہ نہیں سکتے کہ ارکان اسلام میں غلطی تھی اور نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ مؤثر علاج نہ تھاکیو نکہ اس نسخہ نے ان مریضوں کو اچھا کیا جن کی نسبت لاعلاج ہونے کا فتویٰ دیاگیا تھا.خود تراشیدہ وظائف میں جانتا ہوں کہ جن لوگوں نے ان ارکان کو چھو ڑ کر اور بدعتیں تراشی ہیں یہ اُن کی اپنی شامت ِاعمال ہے ورنہ قرآن شریف تو کہہ چکا تھا اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المائدۃ:۴).اِکمالِ دین ہو چکاتھا اور اتمامِ نعمت بھی.خداکے حضورپسندیدہ دین اسلام ٹھہرچکاتھا.اب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال خیر کی راہ چھوڑ کر اپنے طریقے ایجادکرنا اور قرآن شریف کی بجائے اور وظائف اور کافیاں پڑھنایا اعمال صالحہ کے بجائے قسم قسم کے ذکر اذکار نکال لینا یہ لذّتِ روح کے لیے نہیں ہے بلکہ لذّتِ نفس کی خاطر ہے.لوگوں نے لذّتِ نفس اور لذّتِ روح میں فرق نہیں کیا اور دونوں کو ایک ہی چیز قرار دیا ہے حالانکہ وہ دو مختلف چیزیں ہیں.اگر لذّتِ نفس اور لذّتِ روح ایک ہی چیز ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ ایک بد کا ر عورت کے گانے سے بد معاشوں کو زیادہ لذّت آتی ہے.کیا وہ اس لذّت نفس کی وجہ سے عارف باللہ اور کامل انسان مانے جائیں گئے.ہر گز نہیں.جن لوگوں نے خلافِ شرع اور خلافِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم راہیں نکالی ہیں ان کو یہی دھوکا لگا ہے کہ وہ نفس اور رُوح کی لذّت میں کوئی فرق نہیں کرسکے ورنہ وہ ان بیہودگیوں میں رُوح کی لذّت اور اطمینان نہ

Page 434

پاتے.ان میں نفس مطمئنہ نہیں ہے جو بُلہے شاہ کی کافیوں میں لذّت کے جویاں ہیں.روح کی لذّت قرآن شریف سے آتی ہے.۱ اپنی شامت ِاعمال کو نہیں سوچا اُن اعمال خیرکو جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تھے.ترک کردیا اور ان کے بجائے خودتراشیدہ ورد، وظائف داخل کر لیے اور چند کافیوں کا حفظ کر لینا کافی سمجھا گیا بُلہے شاہ کی کافیوں پر وجد میںآجاتے ہیں.اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف کا جہاں وعظ ہو رہا ہو وہاں بہت ہی کم لوگ جمع ہوتے ہیں لیکن جہاںاس قسم کے مجمعے ہوں وہاںایک گروہ کثیر جمع ہو جاتا ہے نیکیو ں کی طرف سے یہ کم رغبتی اور نفسانی او ر شہوانی اُمور کی طرف توجہ صاف ظاہر کرتی ہے کہ لذّتِ روح اور لذّتِ نفس میں ان لوگوں نے کوئی فرق نہیں سمجھاہے.دیکھاگیا ہے کہ بعض ان رقص و سرود کی مجلسوں میں دانستہ پگڑیاںاُتار لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ میاں صاحب کی مجلس میں بیٹھتے ہی وجدہو جاتا ہے اس قسم کی بدعتیں اور اختراعی مسائل پیدا ہوگئے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جنہوںنے نمازسے لذّتِ نہیں اُٹھائی اور اس ذوق سے محروم ہیں وہ روح کی تسلی اور اطمینان کی حالت ہی کو نہیں سمجھ سکتے اور نہیں جانتے کہ وہ سرور کیا ہو تا ہے.مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ یہ لو گ جو اس قسم کی بد عتیں مسلمان کہلا کر نکالتے ہیں.اگر روح کی خوشی اور لذّت کا سامان اسی میں تھا تو چاہیے تھاکہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم جو عارف ترین اور اکمل ترین انسان دنیامیں تھے وہ بھی اس قسم کی کوئی تعلیم دیتے یااپنے اعمال سے ہی کچھ کر دکھاتے.میں ان مخالفوں سے جو بڑے بڑے مشائخ اور گدی نشین اور صاحبِ سلسلہ ہیں.پوچھتا ہوںکہ کیاپیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے ورد و وظائف اور چلہ کشیاں اُلٹے سیدھے لٹکنا بھول گئے تھے اگر معرفت اور حقیقت شناسی کا یہی ذریعۂ اصل تھے.مجھے بہت ہی تعجب آتا ہے کہ ایک طرف قرآن شر یف میں یہ پڑھتے ہیں اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ (المآئدۃ:۴) اور دوسری طرف اپنی ایجادوں اور بدعتوں سے اس تکمیل کو توڑ کر ناقص ثابت کرنا چاہتے ہیں.

Page 435

ایک طرف تو یہ ظالم طبع لوگ مجھ پرافتراکرتے ہیں کہ گویامیں ایسی مستقل نبو ت کا دعویٰ کرتاہوںجو صاحب شریعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا الگ نبوت ہے مگر دوسری طرف یہ اپنے اعمال کی طرف ذرا بھی توجہ نہیںکرتے کہ جھوٹی نبوت کا دعویٰ تو خودکر رہے ہیں جب کہ خلافِ رسول اور خلافِ قرآن ایک نئی شریعت قائم کرتے ہیں.اب اگر کسی کے دل میں انصاف اور خدا کا خوف ہے تو کوئی مجھے بتائے کہ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم اور عمل پر کچھ اضافہ یا کم کر تے ہیں؟ جب کہ اسی قرآن شریف کے بموجب ہم تعلیم دیتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اپنا امام اور حَکَم مانتے ہیں.کیا ارّہ کا ذکر میں نے بتایا ہے اور پاس انفاس اور نفی واثبات کے ذکر اور کیا کیا، اور کیا کیا میں سکھاتا ہوں پھر جھوٹی اور مستقل نبوت کا دعویٰ تو یہ لوگ خود کرتے ہیں اور الزام مجھے دیتے ہیں.ختم نبوت کی حقیقت یقیناً یاد رکھو کہ کوئی شخص سچا مسلمان نہیں ہو سکتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع نہیں بن سکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین نہ کر لے.جب تک ان محدثات سے الگ نہیں ہوتا اور اپنے قول اور فعل سے آپ کو خاتم النبیین نہیں مانتا کچھ نہیں.سعدی نے کیا اچھا کہا ہے.؎ بزہد و ورع کوش و صدق و صفا و لیکن میفزائے بر مصطفی ہمارا مدعا جس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمارے دل میں جوش ڈالا ہے یہی ہے کہ صرف صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قائم کی جائے جو ابدالآباد کے لئے خدا نے قائم کی ہے اور تمام جھوٹی نبوتوں کو پاش پاش کر دیا جائے جوا ن لوگوں نے اپنی بدعتوں کے ذریعہ قائم کی ہیں ان ساری گدیوں کو دیکھ لو اور عملی طور پر مشاہدہ کرو کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ہم ایمان لائے ہیں یا وہ ؟ یہ ظلم اور شرارت کی بات ہے کہ ختم نبوت سے خدا تعالیٰ کا اتنا ہی منشا قرار دیا جائے کہ منہ سے ہی خاتم النبیین مانو اور کرتوتیں وہی کرو جو تم خود پسند کرو اور اپنی ایک الگ شریعت بنا لو.بغدادی نماز

Page 436

معکوس نماز وغیرہ ایجاد کی ہوئی ہے کیا قرآن شریف یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں بھی اس کا کہیں پتا لگتا ہے اور ایسا ہی یَا شَیْخُ عَبْدَالْقَادِرِ جَیْلَانِیْ شَیْئًا لِلہِ کہنا اس کا ثبوت بھی کہیں قرآن شریف سے ملتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تو شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وجود بھی نہ تھا.پھر یہ کس نے بتایا تھا.شرم کرو.کیا شریعت اسلام کی پابندی اور التز ا م اسی کا نا م ہے؟ اب خو د ہی فیصلہ کرو کہ کیا ان باتوں کو ما ن کر اور ایسے عمل رکھ کر تم اس قابل ہوکہ مجھے الزام دو کہ میںنے خاتم النبیین کی مہر کو توڑا ہے.اصل اور سچی با ت یہی ہے کہ اگر تم اپنی مساجد میںبدعا ت کو دخل نہ دیتے اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی نبوت پر ایما ن لا کر آپؐکے طر ز عمل اور نقش قدم کو اپنا ا ما م بنا کر چلتے تو پھر میر ے آ نے ہی کی کیا ضرو ر ت ہو تی.تمہار ی ان بد عتو ں اور نئی نبو تو ں نے ہی خدا تعالیٰ کی غیر ت کو تحریک دی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں ایک شخص کو مبعوث کرے جو ان جھوٹی نبوتوں کے بُت کو توڑ کر نیست و نابُودکرے.پس اسی کام کے لیے خدا نے مجھے مامور کرکے بھیجاہے.مَیں نے سنا ہے کہ غوث علی پانی پتی کے ہاں شاکت مت کا ایک منتر رکھا ہوا ہے جس کا وظیفہ کیا جاتا ہے اور ان گدی نشینوں کو سجدہ کرنا یااُن کے مکانات کا طواف کرنا یہ تو بالکل معمولی اور عام باتیں ہیں.غرض اﷲ تعالیٰ نے اس جماعت کو اس لیے قائم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور عزّت کو دوبارہ قائم کریں.ایک شخص جو کسی کا عاشق کہلاتا ہے اگر اس جیسے ہزاروں اور بھی ہوں تو اس کے عشق و محبت کی خصوصیت کیا رہے.تو پھر اگر یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق میں فنا ہیں جیسا کہ یہ دعویٰ کرتے ہیں تو یہ کیا بات ہے کہ ہزاروں قبروں اور مزاروں کی پرستش کرتے ہیں.مدینہ طیبہ تو جاتے نہیں مگر اجمیر اور دوسری خانقا ہوں پر ننگے سر اور ننگے پائوں جاتے ہیں.پاک پٹن کی کھڑ کی میں سے گزر جانا ہی نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں.کسی نے کوئی جھنڈا کھڑا کر رکھا ہے.کسی نے کوئی اور صورت اختیار کر رکھی ہے.ان لوگوں کے عُرسوں اور میلوں کو دیکھ کر ایک سچّے مسلمان کا دل کانپ جاتا ہے کہ یہ انہوں نے کیا بنا رکھاہے.اگرخدا تعالیٰ کو اسلام کی غیرت نہ ہوتی

Page 437

اور اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ( اٰلِ عـمران : ۲۰) خدا کا کلام نہ ہوتا اور اس نے نہ فرمایا ہوتا اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ( الـحجر : ۱۰) تو بےشک آج وہ حالت اسلام کی ہو گئی تھی کہ اس کے مٹنے میں کوئی بھی شبہ نہیں ہو سکتا تھا مگر اﷲ تعالیٰ کی غیرت نے جوش مارا اور اس کی رحمت اور وعدہ حفاظت نے تقاضا کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز کو پھر نازل کرے اور اس زمانہ میں آپؐکی نبوت کو نئے سِر سے زندہ کر کے دکھاوے چنانچہ اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا اور مجھے مامور اور مہدی بنا کر بھیجا.آج دو قسم کے شرک پیدا ہو گئے ہیں.جنہوں نے اسلام کو نابود کرنے کی بے حد سعی کی ہے اور اگر خدا تعالیٰ کا فضل شامل نہ ہوتا تو قریب تھا کہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور پسندیدہ دین کا نام و نشان مِٹ جاتا مگر چونکہ اُس نے وعدہ کیا ہوا تھا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر:۱۰) یہ وعدہ حفاظت چاہتا تھا کہ جب غارت گری کا موقع ہو تو وہ خبر لے.چوکیدار کا کام ہے کہ وہ نقب دینے والوں کو پوچھتے ہیں اور دوسرے جرائم والوں کو دیکھ کر اپنے منصبی فرائض عمل میں لاتے ہیں.اسی طرح پر آج چونکہ فتن جمع ہو گئے تھے اور اسلام کے قلعہ پر ہر قسم کے مخالف ہتھیار باندھ کر حملہ کرنے کو تیار ہو گئے تھے.اس لیے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ منہاجِ نبوت قائم کرے.یہ مواد اسلام کی مخالفت کے دراصل ایک عرصہ دراز سے پک رہے تھے اور آخر اب پھوٹ نکلے.جیسے ابتدا میں نطفہ ہوتا ہے اور پھر ایک عرصہ مقررہ کے بعد بچہ بن کرنکلتا ہے.اسی طرح پر اسلام کی مخالفت کے بچہ کا خروج ہو چکا ہے اور اب وہ بالغ ہو کر پورے جوش اورقوت میںہے، اس لیے اس کو تباہ کرنے کے لیے خدا تعالیٰ نے آسمان سے ایک حَربہ نازل کیا اور اس مکروہ شرک کو جو اندرونی اور بیرونی طور پر پیدا ہو گیا تھا دُور کرنے کے لیے اور پھر خدا تعالیٰ کی توحید اور جلال قائم کرنے کے واسطے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے اور میں بڑے دعویٰ اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ بے شک یہ خدا کی طرف سے ہے.اس نے اپنے ہاتھ سے اس کو قائم کیا ہے جیسا کہ اس نے اپنی تائیدوں اور نصرتوں سے جو اس سلسلہ کے لیے اس نے ظاہر کی ہیں دکھا دیا ہے.

Page 438

عادۃاﷲ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب بگاڑ حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اصلاح کے لیے کسی کو پیدا کر دیتا ہے.ظاہر نشان تو اس کے صاف ہیں کہ صدی سے انیس برس گزر گئے (اور اب تو بیسواں سال بھی شروع ہو گیا.ایڈیٹر) اب دانش مند کے لیے غور کا مقام ہے کہ اندرونی اور بیرونی فساد حد سے بڑھ گیا ہے اور اﷲ تعالیٰ کا ہر صدی کے سر پر مجدد کے مبعوث کرنے کا وعدہ الگ ہے.اور قرآن شریف اور اسلام کی حفاظت اور نصرت کا وعدہ الگ.زمانہ بھی حضرت کے بعد مسیحؑ کی آمد کے زمانہ سے پوری مشابہت رکھتا ہے.جو نشانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موعود کے آنے کے مقرر کیے ہیں وہ پورے ہو چکے ہیں.تو پھر کیا اب تک بھی کوئی مصلح آسمان سے نہیں آیا؟ آیا اور ضرور آیا اور خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق عین وقت پر آیا مگر اس کی شناخت کرنے کے لیے ایمان کی آنکھ کی ضرورت ہے.۱ جماعت کے قیام کی غر ض پھرعقل مند کو ماننے میں کیا تأمل ہو سکتا ہے.جب وہ ان تمام امور کو جو بیان کیے جاتے ہیں یک جائی نظر سے دیکھے گا.اب میرا مدعا اور منشا اس بیان سے یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اس کی تائید میں صدہا نشان اس نے ظاہر کیے ہیں.اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ یہ جماعت صحابہؓ کی جماعت ہو اور پھر خیرالقرون کا زمانہ آجاوے.جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں چونکہ وہ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ میں داخل ہوتے ہیں، اس لیے وہ جھوٹے مشاغل کے کپڑے اُتار دیں اور اپنی ساری توجہ خدا تعالیٰ کی طرف کریں.فیج اعوج (ٹیڑھی فوج) کے دشمن ہوں.اسلام پر تین زمانے گزرے ہیں.ایک قرون ثلاثہ اِس کے بعد فیج اعوج کا زمانہ جس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ لَیْسُوْا مِنِّیْ وَلَسْتُ مِنْـھُمْ یعنی نہ وہ مجھ سے ہیں اور نہ میں اُن سے ہوں اور تیسرا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانہ سے ملحق ہے بلکہ حقیقت میں یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے.فیج اعوج کا ذکر اگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بھی فرماتے تو یہی قرآن شریف ہمارے

Page 439

ہاتھ میں ہے اور اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ (الـجمعۃ: ۴) صاف ظاہر کرتا ہے کہ کوئی زمانہ ایسا بھی ہے جو صحابہؓ کے مشرب کے خلاف ہے اور واقعات بتا رہے ہیں کہ اس ہزار سال کے درمیان اسلام بہت سی مشکلات اور مصائب کا نشانہ رہا ہے.معدودے چند کے سِوا سب نے اسلام کو چھوڑ دیا اور بہت سے فرقے معتزلہ اور اباحتی وغیرہ پیدا ہو گئے.ہم کو اس بات کا اعتراف ہے کہ کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا کہ اسلام کی برکات کا نمونہ موجود نہ ہو.مگر وہ ابدال اور اولیاء اﷲ جو اس درمیانی زمانہ میں گزرے ان کی تعداد اس قدر قلیل تھی کہ ان کروڑوں انسانوں کے مقابلہ میں جو صراطِ مستقیم سے بھٹک کر اسلام سے دور جا پڑے تھے کچھ بھی چیز نہ تھے.اس لیے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کی آنکھ سے اس زمانہ کو دیکھا اور اس کا نام فیج اعوج رکھ دیا.مگر اب اﷲ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ ایک اور گروہ کثیر کو پیدا کرے جو صحابہؓ کا گروہ کہلائے مگر چونکہ خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت یہی ہے کہ اس کے قائم کردہ سلسلہ میںتدریجی ترقی ہوا کرتی ہے اس لیے ہماری جماعت کی ترقی بھی تدریجی اور كَزَرْعٍ (کھیتی کی طرح) ہو گی اور وہ مقاصد اور مطالب اس بیج کی طرح ہیں جو زمین میں بویا جاتا ہے.وہ مراتب اور مقاصد عالیہ جن پر اﷲ تعالیٰ اس کو پہنچانا چاہتا ہے ابھی بہت دور ہیں.وہ حاصل نہیں ہو سکتے ہیں جب تک وہ خصوصیت پیدا نہ ہو جو اس سلسلہ کے قیام سے خدا کا منشا ہے.توحید کے اقرار میں بھی خاص رنگ ہو.تبتّل اِلَی اﷲ ایک خاص رنگ کا ہو.ذکرِ الٰہی میں خاص رنگ ہو.حقوقِ اخوان میں خاص رنگ ہو.انبیاء کی بعثت کی غرض تما م انبیاء علیہم السلا م کی بعثت کی غر ض مشتر ک یہی ہو تی ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی اور حقیقی محبت قائم کی جاوے اور بنی نو ع انسا ن اور اخوان کے حقوق اور محبت میں ایک خا ص رنگ پیدا کیا جاوے جب تک یہ باتیں نہ ہو ں تمام امور صرف رسمی ہوں گے.خدا تعا لیٰ کی محبت کی بابت تو خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن بعض اشیاء بعض سے پہچانی جاتی ہیں مثلاً ایک درخت کے نیچے پھل ہوں تو کہہ سکتے ہیں کہ اس کے اوپر بھی ہوں گے لیکن اگر نیچے کچھ بھی نہیں تو

Page 440

اوپر کی بابت کب یقین ہو سکتا ہے.اسی طرح پر بنی نوع انسان اور اپنے اخوان کے ساتھ جو یگانگت اور محبت کا رنگ ہو اور وہ اس اعتدال پر ہو جو خدا نے قائم کیا ہے تو اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی محبت ہو.پس بنی نوع کے حقوق کی نگہداشت اور اخوان کے ساتھ تعلقات بشارت دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی محبت کا رنگ بھی ضرور ہے.دیکھو! دنیا چند روزہ ہے اور آگے پیچھے سب مَر نے والے ہیں.قبر یں منہ کھولے ہو ئے آوازیں مار رہی ہیںاور ہر شخص اپنی اپنی نو بت پر جا داخل ہو تا ہے.عمر ایسی بے اعتبا ر او رز ندگی ایسی ناپائیدار ہے کہ چھ ماہ اور تین ماہ تک زندہ رہنے کی امید کیسی.اتنی بھی امید اور یقین نہیں کہ ایک قدم کے بعد دوسرے قدم اٹھانے تک زندہ رہیںگے یا نہیں.پھر جب یہ حال ہے کہ مو ت کی گھڑی کا علم نہیں اور یہ پکی بات ہے کہ وہ یقینی ہے ٹلنے والی نہیں تو دانش مند انسان کا فرض ہے کہ ہر وقت اس کے لیے تیار رہے.اسی لیے قرآن شر یف میں فر مایاگیا ہے لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ( البقرۃ:۱۳۳) ہر وقت جب تک انسان خدا تعالیٰ سے اپنا معاملہ صاف نہ رکھے اور ان ہر دو حقوق کی پوری تکمیل نہ کرے بات نہیں بنتی جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ حقوق بھی دو قسم کے ہیں ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق عباد.اور حقوق عباد بھی دو قسم کے ہیں ایک وہ جو دینی بھائی ہوگئے ہیں خواہ وہ بھائی ہے یا باپ ہے یا بیٹا مگر ان سب میں ایک دینی اخوت ہے اور ایک عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی.اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اسی کی عبادت کی جاوے اور یہ عبادت کسی غرض ذاتی پر مبنی نہ ہو بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں تب بھی اس کی عبادت کی جاوے اور اس ذاتی محبت میں جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہیے کوئی فرق نہ آوے.اس لئے ان حقوق میں دوزخ اور بہشت کا سوال نہیں ہونا چاہیے.بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتاہے.اُدْعُوْنِيْ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ( المؤمن:۶۱) میںاللہ تعالیٰ نے کوئی قید نہیں لگائی کہ دشمن کے لئے دعا کرو تو قبول نہیں کروں گا

Page 441

بلکہ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے لئے دعا کرنا یہ بھی سنّت نبوی ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی سے مسلمان ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے اس لئے بخل کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں کرنی چاہیے اور حقیقۃً موذی نہیں ہونا چاہیے.شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو ایک بھی ایسا نہیں اور یہی میں تمہیں کہتا ہوں اور سکھاتا ہوں خدا تعالیٰ اس سے کہ کسی کو حقیقی طور پر ایذا پہنچائی جاوے اور ناحق بخل کی راہ سے دشمنی کی جاوے ایسا ہی بیزار ہے جیسے وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کے ساتھ ملایا جاوے.ایک جگہ وہ فصل نہیں چاہتا اور ایک جگہ وصل نہیں چاہتا یعنی بنی نوع کا باہمی فصل اور اپنا کسی غیر کے ساتھ وصل اور یہ وہی راہ ہے کہ منکروں کے واسطے بھی دعا کی جاوے اس سے سینہ صاف اور انشراح پیدا ہوتا ہے اور ہمت بلند ہوتی ہے اس لئے جب تک ہماری جماعت یہ رنگ اختیارنہیں کرتی اس میں اور اس کے غیر میں پھر کوئی امتیاز نہیں ہے.میرے نزدیک یہ ضروری امر ہے کہ جو شخص ایک کے ساتھ دین کی راہ سے دوستی کرتا ہے اور اس کے عزیزوں سے کوئی ادنیٰ درجہ کاہے تو اس کے ساتھ نہایت رفق اور ملائمت سے پیش آنا چاہیے اور ان سے محبت کرنی چاہیے کیونکہ خدا کی یہ شان ہے.ع بداں را بہ نیکاں ببخشد کریم پس جو تم میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تمہیں چاہیے کہ تم ایسی قوم بنو جس کی نسبت آیا ہے فَإِنَّـھُمْ قَوْمٌ لَّا یَشْقٰی جَلِیْسُہُمْ یعنی وہ ایسی قوم ہے کہ ان کا ہم جلیس بدبخت نہیں ہوتا.یہ خلاصہ ہے الٰہی تعلیم کا جو تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ میں پیش کی گئی ہے.۱ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۰۱ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک عیسائی حق جُو کی گفتگو منشی عبدالحق صاحب قصوری طالب علم بی.اے کلاس لاہور نے جو عرصہ تین سال سے عیسائی تھے

Page 442

الحکم اور حضرت اقدس علیہ السلام کی بعض تحریروں کو پڑھ کر حضرت اقدس کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا تھا کہ وہ اسلام کی حقانیت اور صداقت کو عملی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں.اس پر حضرت خلیفۃ اللہ نے ان کو لکھ بھیجا تھا کہ وہ کم از کم دو مہینے تک یہاں قادیان میں آ کر رہیں چنانچہ انہوں نے دارالامان کا قصد کیا اور ۲۲؍دسمبر ۱۹۰۱ء کو بعد دوپہر یہاں آ پہنچے.پس اس عنوان کے نیچے ہم جو کچھ لکھیں گے سردست انہی کے متعلق ہو گا.پہلی ملاقات حضرت جر ی اللہ فی حلل الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعدا کی طبیعت بوجہ کثرت کار جو آج کل حضور رات کے بہت بڑے حصہ تک اس میں مصروف رہتے تھے کیونکہ ایک طرف میگزین کے لئے مضمون ترجمہ کے واسطے دینا تھا دوسری طرف المنار کے لئے موعودہ رسالہ لکھ رہے تھے.پھر قریباً دو سو سے زائد عظیم الشان نشانوں اور پیشگوئیوں کے نقشہ کی ترتیب کے لئے ان پیشگوئیوں اور نشانوں کو مرتب اور جمع کررہے تھے دو تین روز سے ناساز تھی.مگر مہمانوں اور اس نووارد حق جُو مہمان کے لئے آج آپ نے سیر کو تشریف لے جانے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ ۹؍بجے کے قریب آپ باہر کو تشریف لے چلے.باہر نکلتے ہی منشی عبدالحق صاحب عیسائی کو حضور کے سامنے پیش کر دیا گیا او رجو کچھ گفتگو ہوئی اسے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں.حضر ت اقدس.آپ کو عیسائی ہوئے کتنا عرصہ گزرا اور کیا اسباب پیش آئے تھے جو عیسائی ہوگئے؟ منشی عبدالحق.مجھے عیسائی ہوئے اس دسمبر میں تین سال ہو جاتے ہیں چونکہ بعض عیسائی میرے دوست تھے اور ان سے میل ملاقات رہتی تھی اور فیروز پور میں پادری نیوٹن صاحب تھے وہ بھی بڑی مہربانی سے پیش آتے تھے یہی اسباب میرے عیسائی ہونے کے ابتدا میں پیدا ہوئے تھے.حضر ت اقدس.یہ آپ نے بہت اچھا کیا کہ آپ دو مہینے کے واسطے یہاں آگئے بظاہر یہ بات آپ کی حق جُوئی کی نشانی ہے.منشی عبدالحق.جناب میں کالج سے نام کٹوا کر آیا ہوں رخصت نہیں ملتی تھی.

Page 443

حضر ت اقدس.یہ تو اور بھی ہمت کا کام ہے میرے نزدیک بہتر اور مناسب طریق جو آپ کے لئے مفید ہو سکتا ہے اب یہ ہے کہ آپ ان اعتراضات کو جو اسلام پر رکھتے ہیں اور اہم ہیں سلسلہ وار لکھ لیں اور ایک ایک کر کے پیش کریں ہم انشاء اللہ تعالیٰ جواب دیتے رہیں گے اور جس جواب سے آپ کی تسلی نہ ہو اسے آپ بار بار پوچھ لیں اور صاف صاف کہہ دیں کہ اس سے مجھے اطمینان نہیں ہوا مگر ان اعتراضوں میں اس بات کا لحاظ رکھ لیں کہ وہ ایسے ہوں کہ کتب سابقہ میں اس قسم کے اعتراضوں کا نام و نشان نہ ہو ورنہ تضییع اوقات ہی ہو گا جب آپ اعتراض کر چکیں گے پھر ہم آپ کو اسلام کی خوبیاں بتائیں گے کیونکہ یہ دو ہی کام ہیں ایک آپ کریں اور ہمیں مدد دیں.دوسرا ہم خود کریں گے.اسلام کی جنگیں دفاعی نوعیت کی تھیں تبدیل مذہب کے دو باعث ہوتے ہیں سب سے بڑا باعث وہ جزئیات ہوتی ہیں جن کو غلط فہمی اور غلط بیانی سے کچھ کا کچھ بنا دیا جاتا ہے اور اصول مذہب کو اس کے مقابلہ میں بالکل چھوڑ دیا جاتا ہے جیسے مثلاً اسلام کی بابت جب عیسائی لوگ کسی سے گفتگو کرتے ہیں تو اسلامی جنگوں پر کلام کرنے لگتے ہیں حالانکہ خود ان کے گھر میں یشوع او ر موسیٰ کے جنگوں کی نظیریں موجود ہیں اور جب ان کا اسلامی جنگوںسے مقابلہ کیا جاوے تو وہ اسلامی جنگوں سے کہیںبڑھ کر مورد ِاعتراض ٹھہر جاتے ہیں کیونکہ ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اسلامی جنگ بالکل دفاعی جنگ تھے اور ان میں وہ شدت اور سخت گیری ہر گزنہ تھی جو موسیٰ اور یشوع کے جنگوںمیں پائی جاتی ہے.اگر وہ یہ کہیں کہ موسیٰ اور یشوع کی لڑائیا ں عذاب الٰہی کے رنگ میں تھیں.تو ہم کہتے ہیں کہ اسلامی جنگوں کو کیوں عذاب ِالٰہی کی صورت میں تسلیم نہیںکرتے.موسوی جنگوں کو کیا ترجیح ہے بلکہ ان اسلامی جنگوں میں تو موسوی لڑائیوں کے مقابلہ میں بڑی بڑی رعایتیں دی گئی ہیں.اصل بات یہی ہے کہ چونکہ وہ لوگ نوامیسِ الٰہیہ سے ناواقف تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر موسیٰ علیہ السلام کے مخالفو ں کے مقابلہ میں بہت بڑا رحم فرمایا کیونکہ وہ غفور و رحیم ہے.پھر اسلامی جنگوںمیں موسوی جنگوںکے مقابلہ میں یہ بڑی خصوصیت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خادموں نے مکّہ والوں

Page 444

نے برابر ۱۳ سال تک خطرناک ایذائیں اور تکلیفیں دیں اور طرح طرح کے دکھ اُن ظالموںنے دئیے چنانچہ ان میں سے کئی قتل کئے گئے اور بعض بُرے بُرے عذابوں سے مارے گئے چنانچہ تاریخ پڑھنے والے پر یہ امر مخفی نہیں ہے بیچاری عورتوں کو سخت شرمناک ایذائوں کے ساتھ مار دیا.یہاں تک کہ ایک عورت کو دو اُونٹوں سے باندھ دیا اور پھران کو مختلف جہات میں دوڑا دیا اور اس بیچاری کو چیر ڈالا اس قسم کی ایذارسانیوں اور تکلیفوں کو برابر ۱۳ سال تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پاک جماعت نے بڑے صبر اور حوصلہ کے ساتھ برداشت کیا.اس پر بھی انہوں نے اپنے ظلم کونہ روکا اور آخر کار خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ کیا گیا اور جب آپؐنے خدا تعالیٰ سے اُن کی شرارت کی اطلاع پاکر مکّہ سے مدینہ کو ہجرت کی پھر بھی انھوں نے تعاقب کیا اور آخرجب یہ لوگ پھر مدینہ پر چڑ ھائی کر کے گئے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے حملہ کو روکنے کا حکم دیا کیونکہ اب وہ وقت آگیا تھا کہ اہل مکّہ اپنی شرارتوںاور شوخیوں کی پاداش میں عذابِ الٰہی کا مزہ چکھیں چنانچہ خدا تعالیٰ نے جو پہلے وعدہ کیا تھا کہ اگر یہ لوگ اپنی شرارتوں سے بازنہ آئیں گے توعذابِ الٰہی سے ہلاک کئے جائیں گئے وہ پُوراہوا.خود قرآن شریف میں ان لڑائیوں کی یہ وجہ صاف لکھی ہے اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ ا۟لَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ (الـحج:۴۰،۴۱)آہ! یعنی ان لوگوں کو مقابلہ کی اجازت دی گئی جن کے قتل کے لیے مخالفوں نے چڑھائی کی (اس لیے اجازت دی گئی ) کہ اُن پر ظُلم ہوا اور خدا تعالیٰ مظلوم کی حمایت کرنے پرقادر ہے.یہ وہ مظلوم ہیںجو ناحق اپنے وطنوں سے نکالے گئے.ان کا گناہ بجزاس کے اور کوئی نہ تھا کہ اُنہوں نے کہا کہ ہماراربّ اللہ ہے یہ وہ آیت ہے جس سے اسلامی جنگوں کاسلسلہ شروع ہوتاہے پھر جس قدر رعائتیں اسلامی جنگوں میں دیکھوگے ممکن نہیں کہ موسوی یا یشوعی لڑائیوں میں اس کی نظیر مل سکے.موسوی لڑائیوں میں لاکھوں بےگناہ بچوں کا مارا جانا، بوڑھوں اور عورتوںکا قتل، باغات اور درختوںکاجلاکر خاک سیاہ کردینا ، تورات سے ثابت ہے.مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باوصفیکہ ان شریروںسے وہ سختیاں اور

Page 445

تکلیفیں دیکھی تھیں جو پہلے کسی نے نہ دیکھی تھیں.پھر ان دفاعی جنگوںمیں بھی بچوں کو قتل نہ کر نے، عورتوں اور بوڑھوں کو نہ مارنے، راہبوں سے تعلق نہ رکھنے اور کھیتوں اور ثمر دار درختوں کو نہ جلانے اور عبادت گاہوں کے مسمار نہ کرنے کا حکم دیا جاتا تھا.اب مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ کس کاپلہ بھاری ہے.غرض یہ بیہودہ اعتراض ہیں.اگر انسان فطرت سلیمہ رکھتاہو تو وہ مقابلہ کر کے خود حق پاسکتا ہے.کیا موسیٰ کے زمانہ میں اور خدا تھا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کوئی اور.اسرائیلی نبیوں کے زمانہ میں جیسے شریر اپنی شرارتوں سے بازنہ آتے تھے.اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں بھی حد سے نکل گئے تھے.پس اسی خدا نے جو رؤوف و رحیم بھی ہے پھر شریروں کے لیے اس میں غضب بھی (ہے) اُن کواِن جنگوں کے ذریعہ جوخود اُنہوں نے ہی پیدا کی تھیں سزادے دی.لوطؑ کی قوم سے کیا سلوک ہوا.نوحؑ کے مخالفوں کا کیا انجام ہوا.پھر مکّہ والوںکو اگر اس رنگ میں سزا دی تو کیوںاعتراض کرتے ہو.کیا کوئی عذاب مخصوص ہے کہ طاعون ہی ہو یاپتھر برسائے جائیں.خداجس طرح چاہے عذاب دے دے.سنّت قدیمہ اسی طرح پر جاری رہی ہے.اگر کوئی ناعاقبت اندیش اعتراض کرے تواُسے موسیٰ کے زمانہ اور جنگوں پر اعتراض کا موقع مل سکتا ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کوئی رعایت روانہیں رکھی گئی نبی کریم کے زمانہ پر اعتراض نہیں ہو سکتا.آج کل عقل کا زمانہ ہے اور اب یہ اعتراض کوئی وقعت نہیں رکھ سکتے کیو نکہ جب کوئی مذاہب سے الگ ہو کر دیکھے گا تو اُسے صاف نظر آجائے گاکہ اسلامی جنگوں میں اوّل سے آخر تک دفاعی رنگ مقصود ہے اور ہر قسم کی رعائتیں روا رکھی گئی ہیں جو موسٰی اور یشوع کی لڑائیوں میں نہیں ہیں.ایک آریہ کی کتاب میری نظر سے گزری.اس نے موسوی لڑائیوں پر بڑے بڑے اعتراض کیے ہیں مگر اسلامی جنگوں پر اسے کوئی موقع نہیں ملا.مجھ سے جب کوئی آریہ یا ہندو اسلامی جنگوں کی نسبت دریافت کرتا ہے تواُسے میں نرمی اور ملاطفت سے یہی سمجھاتاہوں کہ جو مارے گئے وہ اپنی ہی تلوارسے مارے گئے.جب اُن کے مظالم کی انتہاہوگئی توآخر اُن کو سزادی گئی اور ان کے حملوںکو روکاگیا.

Page 446

مجھے پادریوںکے سمجھانے اور اُن سے سمجھنے والوںپر سخت افسوس ہے کہ وہ اپنے گھر میں موسیٰ کی لڑائیوں پر توغور نہیںکرتے اور اسلامی جنگوں پر اعتراض شروع کر دیتے ہیں اور سمجھنے والے اپنی سادہ لوحی سے اُسے مان لیتے ہیں.اگر غور کیا جاوے توموسوی جنگوں کااعتراض حضرت مسیحؑ پر بھی آتاہے کیونکہ وہ توریت کو مانتے تھے اور حضرت موسیٰ کو خدا کا نبی تسلیم کرتے تھے.اگر وہ اِن جنگوں اور ان بچوں اور عورتوں کے قتل پر راضی نہ تھے تو اُنہوں نے اُسے کیوں مانا.گویا وہ لڑائیاںخود مسیح نے کیں اور اِن بچوں اور عورتوں کو خود مسیح نے ہی قتل کیا.اور اصل یہ ہے کہ خود مسیح علیہ السلام کو لڑائیوں کا موقع ہی نہیں ملا ورنہ وہ کم نہ تھے.انہوںنے تو اپنے شاگردوں کوحکم دیا تھا کہ کپڑے بیچ بیچ کر تلواریںخریدیں.یہ بالکل سچی بات ہے کہ اگر قرآن شریف ہماری رہنمائی نہ کرتا تو ان نبیوں پر سے امان اُٹھ جاتا.قرآن شریف کا احسان ہے تمام نبیوںپر اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کا احسان ہے کہ انہوں نے آکر ان سب کو اس الزام سے بَری کر دکھایا.قرآن شریف کو خوب غور سے پڑھو توصاف معلوم ہو جائے گا کہ اس کی یہی تعلیم ہے کہ کسی سے تعرض نہ کرو.جنہوں نے سبقت نہیںکی اُن سے احسان کرو اور ابتدا کرنے والوں اور ظالموں کے مقابلہ میں بھی دفاع کا لحاظ رکھو.حد سے نہ بڑھو.اسلام کی ابتدا میں ایسی مشکلات درپیش تھیں کہ اِن کی نظیر نہیں ملتی.ایک کے مسلمان ہونے پر مرنے مارنے کو طیار ہو جاتے تھے اور ہزاروں فتنے بپاہوتے تھے اورفتنہ توقتل سے بھی بڑھ کر ہے.پس امن عامہ کے قیام کے لیے مقابلہ کرنا پڑا.اگر ہندواس پر اعتراض کرتے تو کچھ تعجب اور افسوس کی جا نہ تھی مگر خودجن کے گھر میں اس سے بڑھ کر اعتراض آتا ہے اُن کواعتراض کرتے ہوئے دیکھ کر تعجب اور افسوس ہوتاہے.عیسائیوں نے اس قسم کے اعتراض کرنے میں بڑا ظلم کیا ہے.کیا ان میں ایسا ہی ایمان ہے؟ پھر منجملہ اور جزئیات کے غلامی کے مسئلہ پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ قرآن شریف نے غلاموں کے آزاد کرنے کی تعلیم دی اور تاکید کی ہے اور جو اور کسی کتا ب میں نہیں ہے.اسی قسم کی جزئیات کو یہ لوگ محل اعترا ض ٹھہر ا کر

Page 447

ناواقف لوگوں اورآزاد طبع جوانوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں.پس آپ کو مناسب ہے کہ آپ اعتراض کرتے وقت اس امر کابڑا بھاری لحاظ کریں کہ اسے گناہ اور محل اعترا ض ٹھہرائیں جو خد ا نے گناہ قرار د یا ہو نہ وہ جو کہ پادری تجو یزکر یں.میںسولہ یا سترہ سال کی عمر سے ان سے ملتا تھا مگر اس نور کی وجہ سے جو خدا نے مجھے دیا تھا میں ہمیشہ سمجھ لیتا تھا کہ یہ دھو کا دیتے ہیں.۱ تعدّدِازواج اسی طرح پر تعدادِ ازواج کے مسئلہ پر اعتراض کر دیتے ہیں.مگر مجھے سخت افسوس سے کہناپڑتا ہے کہ اِن نادانو ں نے یہ اعتراض کرتے وقت اس بات پر ذرا بھی خیال نہیں کیا کہ اس کا اثر خود اُن کے خداوند پر کیا پڑتا ہے.مجھے سخت رنج آتاہے جب میںدیکھتا ہوں کہ پادریوں کے اس اعتراض نے حضرت عیسیٰ پر سخت حملہ کیا ہے کیوںکہ جس کے گھر میںحضرت مریم گئی تھیں اس کی پہلے بیوی بھی تھی پھر یہ اولاد کیسی قرار دی جاوے گی.علاوہ ازیں جبکہ مریم نے اور اس کی ماںنے یہ عہد خدا کے حضور کیا ہوا تھا کہ اس کا نکا ح نہ کروںگی پھر وہ کیا آفت اور مشکل پیش آئی تھی جو نکاح کر دیا.بہتر ہوتاکہ روح القدس کابچہ مقدس ہیکل میں ہی جنتی.بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انہوںنے اپنے گھر میںنگاہ نہیںکی.ورنہ اس قوم کا فرض تھا کہ سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قبول کرنے والے یہی ہوتے کیونکہ ان کے ہاں نظائرموجود تھے مگر جیسے اس وقت کو انہوں نے کھودیا آج بھی یہ مسیح موعود کوقبول نہیںکرتے حالانکہ ایلیا کا قصہ اُن میں موجود ہے اور اسی پر مسیح کی صداقت کا سارا معیار ہے.اگر مسیح واقعی مُردوں کو زندہ کرتے تھے تو کیوں پھونک مار کر ایلیا کو زندہ نہ کر دیا تا یہود ابتلاسے بچ جاتے اور خود مسیح کو بھی ان تکالیف اور مشکلات کا سامنا نہ ہوتا جو ایلیا کی تاویل سے پیش آئیں.ایک یہودی کی کتاب میرے پاس موجود ہے.وہ اس میں صاف لکھتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ ہم سے مسیح کے انکارکا سوال کرے گا تو ہم ملاکی نبی کی کتاب سامنے رکھ دیںگے کہ کیا اس میں نہیں لکھا کہ مسیح سے پہلے ایلیا آئے گا.اس میں یہ کہاں ہے کہ یوحنا آئے گا.اس پر اس نے بڑی بحث کی ہے اور پھر لوگوں کے سامنے اپیل کرتا ہے کہ بتاؤ

Page 448

ہم سچے ہیں یا نہیں؟ الغرض اس قسم کی جزئیات کویہ لوگ بد نما صورت میںپیش کر کے دھوکا دیتے ہیں.آپ اپنے اعتراضوں کے انتخاب میں ان امور کو مد نظر رکھیں جو میں نے آپ کو بتادئیے ہیں.دین کا معاملہ بہت بڑا اہم اور نازک معاملہ ہے اس میں بہت بڑی فکر اور غور کی ضرورت ہے اس میں وہ پہلو اختیار کرنا چاہیے جو مشترک اُمّت کاہے.یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کوئی ایسی بات قابل تسلیم نہیںہو سکتی جس کے نظائر موجود نہ ہو ں مثلاًایک شخص کہے کہ ایک صندوق میں ایک ہزار روپیہ رکھاتھا اور وہ جادو کے ذریعہ ہوا ہو کر اُڑگیا تو اُسے کو ن مانے گا.اسی طرح پر عیسائیوں کے معتقدات کا حال ہے.آپ اپنے اعتراض مرتب کر کے پیش کریں اور انشاء اللہ ہم جواب دیں گے.تثلیث اور کفّارہ منشی عبدالحق صاحب.اگرآپ تثلیث اور کفارہ کو توڑ کر دکھا دیں گے تو میں شاید اور کچھ نہ پوچھوں گا.حضرت مسیح موعودؑ.تثلیث اور کفارہ کی تردید کے دلائل تو ہم انشاء اللہ تعالیٰ اتنے بیان کریںگے کہ جو ان کے ابطال کے لیے کافی سے بڑھ کر ہوں گے مگر میری رائے میں جو ترتیب میںنے آپ کو اشارہ کی ہے اس پر چلنے سے بہت بڑافائدہ ہوگا.اس وقت میں خلط کرنا نہیں چاہتا لیکن میں مختصر اور اشارہ کے طور پر اتناکہناضروری سمجھتا ہوں کہ اس وقت تین قومیں یہود ،مسلمان اور عیسائی موجود ہیں.ان میںسے یہودی اور مسلمان بالاتفاق توحید پر ایمان لاتے ہیں لیکن عیسائی تثلیث کے قائل ہیں.اب ہم عیسائیوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر واقعی تثلیث کی تعلیم حق تھی اور نجات کایہی اصل ذریعہ تھا تو پھر کیا اندھیر مچاہوا ہے کہ توریت میں اس تعلیم کا کوئی نشان ہمیں نہیںملتا.یہودیوںکے اظہار لےکر دیکھ لو.اس کے سوا ایک اور امر قابل غور ہے کہ یہودیوں کے مختلف فرقے ہیں اور بہت سی باتوں میں ان میں باہم اختلاف ہے لیکن توحید کے اقرار میں ذرا بھی اختلاف نہیں اگر تثلیث واقعی مدار نجات تھی تو کیا سارے کے سارے فرقے ہی اس کو فراموش کر دیتے اور ایک آدھ فرقہ بھی اس پر قائم نہ رہتا.کیا یہ تعجب خیز امر نہ ہو گا کہ ایک عظیم الشان قوم جس میں ہزاروں ہزار فاضل ہر زمانہ میں موجود رہے اور برابر مسیح علیہ السلام کے وقت تک جن میں نبی آتے رہے ان کو ایک ایسی تعلیم سے

Page 449

بالکل بے خبری ہو جاوے جو موسیٰ علیہ السلام کی معرفت انہیں ملی ہو اور مدار نجات بھی وہی ہو یہ بالکل خلاف قیاس اور بے ہودہ بات ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تثلیث کا عقیدہ خود تراشیدہ عقیدہ ہے نبیوں کے صحیفوں میں اس کا کوئی پتہ نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ یہ حق کے خلاف ہے پس یہودیوں میں توحید پر اتفاق ہونا اور تثلیث پر کسی ایک کا بھی قائم نہ ہونا صریح دلیل اس امر کی ہے کہ یہ باطل ہے حالانکہ خود عیسائیوں کے مختلف فرقوں میں بھی تثلیث کے متعلق ہمیشہ سے اختلاف چلا آتا ہے اور یونی ٹیرین فرقہ اب تک موجود ہے.میں نے ایک یہودی سے دریافت کیا تھا کہ توریت میں کہیں تثلیث کا بھی ذکر ہے اور یا تمہارے تعامل میں کہیں اس کا بھی پتہ لگتا ہے اس نے صاف اقرار کیا کہ ہرگز نہیں ہماری توحید وہی ہے جو قرآن میں ہے اور کوئی فرقہ ہمارا تثلیث کا قائل نہیں ہے.اس نے یہ کہا کہ اگر تثلیث پر مدار نجات ہوتا تو ہمیں جو توریت کے حکمو ں کو چوکھٹوں اور آستینوں پر لکھنے کا حکم تھا کہیں تثلیث کے لکھنے کا بھی ہوتا.پھر دوسری دلیل اس کے ابطال پر یہ ہے کہ باطنی شریعت میں اس کے لئے کوئی نمونہ نہیں ہے باطنی شریعت بجائے خود توحید چاہتی ہے.پادری فنڈر صاحب نے اپنی کتابوں میں اعتراف کر لیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے جزیرہ میں رہتا ہو جہاں تثلیث نہیں پہنچی اس سے توحید ہی کا مطالبہ ہو گا نہ تثلیث کا.پس اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ باطنی شریعت توحید کو چاہتی ہے نہ تثلیث کو کیونکہ تثلیث اگر فطرت میں ہوتی تو سوال اس کا ہونا چاہیے تھا.پھر تیسری دلیل اس کے ابطال پر یہ ہے کہ جس قدر عناصر خدا تعالیٰ نے بنائے ہیں وہ سب کروی ہیں.پانی کا قطرہ دیکھو اجرام سماوی کو دیکھو زمین کو دیکھو یہ اس لئے کرویّت میں ایک وحدت ہوتی ہے پس اگر خدا میں تثلیث تھی تو چاہیے تھا کہ مثلث نما اشیاء ہوتیں.ان ساری باتوں کے علاوہ بار ثبوت مدعی کے ذمہ ہے جو تثلیث کا قائل ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اس کے دلائل دے ہم جو کچھ توحید کے متعلق یہودیوں کا تعامل باوجود اختلاف فرقوں کے اور باطنی شریعت میں اس کا اثرہونا اور قانون قدرت میں ان کی نظیر کا ملنا بتاتے ہیں ان پر غور کرنے کے بعد

Page 450

اگر کوئی تقویٰ سے کام لے تو وہ سمجھ لے گا کہ تثلیث پر جس قدر زور دیا گیا ہے وہ صریح ظلم ہے.انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ کبھی غیر تسلی کی راہ اختیار نہیں کرتا اس لئے پگڈنڈیوں کی بجائے شاہراہ پر چلنے والے سب سے زیادہ ہوتے ہیں اور ا س پر چلنے والوں کے لئے کسی قسم کا خوف و خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس راہ کی شہادت قوی ہوتی ہے.پس جب دنیا میں یہ ایک روز مشاہدہ میں آئی بات ہے پھر آخرت کی راہ قبول کرنے میں انسان کیوں غیر تسلی کی راہ اختیار کرے جس کے لئے کوئی کافی اور معتبر اور سب سے بڑھ کر زندہ شہادت موجود نہ ہو.اس وقت دنیا میں ہزاروں راہیں نکالی گئیں ہیں مگر سعید اور مبارک وہی ہے جو دنیا کے لالچوں کو چھوڑ کر محض خدا کے لئے فقر و فاقہ اختیار کر کے خدائی راہ پر چلنے کی تلاش میں نکلے اور جو خلوص نیت سے اسے ڈھونڈتا ہے وہ اس کو پالیتا ہے.کسر صلیب عیسائی مذہب کے استیصال کے لئے ہمارے پاس تو ایک دریا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ یہ طلسم ٹوٹ جاوے اور وہ بت جو صلیب کا بنایا گیا ہے گر پڑے اور اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر مجھے مبعوث نہ بھی فرماتا تب بھی زمانہ نے ایسے حالات اور اسباب پیدا کر دئیے تھے کہ عیسائیت کا پول کھل جاتا کیونکہ خدا تعالیٰ کی غیرت اور جلال کے یہ صریح خلاف ہے کہ ایک عورت کا بچہ خدا بنایا جاتا جوا نسانی حوائج اور لوازم بشریہ سے کچھ بھی استثناء اپنے اندر نہیں رکھتا.میں نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں میں نے کامل تحقیقات کے ساتھ یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے کہ مسیح صلیب پر مَر گیا.اصل یہ ہے کہ و ہ صلیب پر سے زندہ اتار لیا گیا تھا ا ور وہاں سے بچ کر وہ کشمیر میں چلا آیا جہاں اس نے ایک سو بیس برس کی عمر میں وفات پائی اور اب تک اس کی قبر خانیار کے محلہ میں یوز آسف یا شہزادہ نبی کے نام سے مشہور ہے.اور یہ بات ایسی نہیں ہے جو محکم اور مستقم دلائل کی بنا پرنہ ہو بلکہ صلیب کے جو واقعات انجیل میں لکھے ہیں خود انہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مَرا.سب سے اوّل یہ ہے کہ خود مسیح نے

Page 451

اپنی مثال یونسؑ سے دی ہے.کیا یونس مچھلی کے پیٹ میں زندہ داخل ہوئے تھے یا مَر کر او رپھر یہ کہ پیلاطوس کی بیوی نے ایک ہولناک خواب دیکھا تھا جس کی اطلاع پیلاطوس کو بھی اس نے کر دی او ر وہ اس فکر میںہو گیا کہ اس کو بچایا جاوے اور اسی لیے پیلاطوس نے مختلف پیرایوں میں مسیح کے چھوڑ دینے کی کوشش کی اور آخر اپنے ہاتھ دھوکر ثابت کیا کہ میں اس سے بَری ہوں اور پھر جب یہودی کسی طرح ماننے والے نظر نہ آئے تو یہ کوشش کی گئی کہ جمعہ کے دن بعد عصر آپ کو صلیب دی گئی اور چونکہ صلیب پر بھوک پیاس اور دھوپ وغیرہ کی شدت سے کئی دن رہ کر مصلوب انسان مَر جایا کرتا تھا وہ موقع مسیح کو پیش نہ آیا کیونکہ یہ کسی طرح نہیں ہو سکتا تھا کہ جمعہ کے دن غروب ہونے سے پہلے اسے صلیب پر سے نہ اتار لیا جاتا کیونکہ یہودیوں کی شریعت کے رو سے یہ سخت گناہ تھا کہ کوئی شخص سبت یا سبت سے پہلے رات صلیب پر رہے.مسیح چونکہ جمعہ کی آخری گھڑی صلیب پر چڑھایا گیا تھا اس لئے بعض واقعات آندھی وغیرہ کے پیش آجانے سے فی الفور اتار لیا گیاپھر دو چور جو مسیح کے ساتھ صلیب پر لٹکائے گئے تھے ان کی ہڈیاں تو توڑ دی گئیں تھیں مگر مسیح کی ہڈیاں نہیں توڑی گئی تھیں.اور پھر مسیح کی لاش ایک ایسے آدمی کے سپرد کر دی گئی جو مسیح کا شا گر د تھا اور اصل تو یہ ہے کہ خود پیلاطوس اور اس کی بیوی بھی اس کی مرید تھی چنانچہ پیلاطوس کو عیسائی شہیدوںمیں لکھاہے اور اس کی بیوی کوولیہ قرار دیا ہے اور ان سب سے بڑھ کرمرہم عیسیٰ کا نسخہ ہے جس کو مسلما ن، یہود ی ،رومی اور عیسائی اور مجوسی طبیبوں نے بالاتفاق لکھا ہے کہ یہ مسیح کے زخموں کے لیے تیار ہوا تھا اور اس کا نام مر ہم عیسیٰ اور مرہم حواریین اور مر ہم رسل اور مرہم شلیخہ وغیر ہ بھی رکھا.کم از کم ہزا ر کتاب میں یہ نسخہ مو جو د ہے اور یہ کوئی عیسائی ثا بت نہیں کر سکتا کہ صلیبی زخموں کے سوا اور بھی کبھی کوئی زخم مسیح کولگے تھے اور اس وقت حواری بھی موجو د تھے.اب بتا ئو کہ کیا یہ تمام اسبا ب اگر ایک جا جمع کیے جاویں تو صا ف شہادت نہیں دیتے کہ مسیح صلیب پر سے زند ہ بچ کر اتر آیا تھا.اس پر اس وقت ہم کو کوئی لمبی بحث نہیں کرنی ہے یہودیوں کے جو فرقے متفرق ہو کر افغانستان یا کشمیر میں آگئے تھے وہ ان کی تلاش میں ادھر چلے آئے اور پھر آخر کشمیر ہی میں انہوںنے وفات پائی

Page 452

اور یہ بات انگریز محققوں نے بھی مان لی ہے کہ کشمیری دراصل بنی اسرائیل ہیں چنانچہ برنئیر نے اپنے سفر نامہ میں یہی لکھا ہے.اب جبکہ یہ ثابت ہوتا ہے اور واقعات صحیحہ کی بنا پر ثابت ہوتا ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مَرے بلکہ زندہ اتر آئے تو پھر کفارہ کا کیا باقی رہا.پھر سب سے عجیب تر یہ بات ہے کہ عیسائی جس عورت کی شہادت پر مسیح کو آسمان پر چڑھاتے ہیں وہ خود ایک اچھے اور شریف چال چلن کی عورت نہ تھی.۱ تلاش حق کے آداب یاد رکھو کہ ایک فعل انسان کی طرف سے اولاً سرزد ہوتا ہے پھراس میں جو اثر یا خاصیت مخفی ہو خدا تعالیٰ کا ایک فعل اس پر مترتّب ہو کر اسے ظاہر کر دیتا ہے مثلاً جب ہم اپنے گھر کی کوٹھڑی کی کھڑکی کوبند کر لیتے ہیں تو یہ ہمارا فعل ہے اور اس پر خدا تعالیٰ کا فعل یہ سرزد ہوتا ہے کہ اس کوٹھڑی میں روشنی اور ہوا کی آمد رفت بند ہو کر تاریکی ہو جائے گی.پس یہ ایک عاد ت اللہ اور قدیم سے اسی طرح پر چلی آتی ہے اور اس میں کوئی تغیر، تبدل نہیں ہوسکتا ہے کہ انسانی فعل پر خدا کی طرف سے ایک فعل سرزد ہوتا ہے اسی طرح پر جیسے یہ نظام ظاہری ہے اندرونی انتظام میں بھی یہی قانون ہے جو شخص صاف دل ہو کر تلاش حق کرتا ہے اور اگر کچھ نہیں تو کم از کم سلب عقائد ہی کی حالت میں آتا ہے تو وہ سچائی کو ضرور پا لیتا ہے لیکن اگر وہ اپنے دل میں پہلے سے ایک بات کا فیصلہ کر لیتا ہے اور ضدّ اور تعصّب کے حلقوں میں گرفتار دل لے کر آتا ہے توا س کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ اس کا معاندانہ جوش بڑھ کر فطرت کے انوار کو دبا لیتا ہے اور دل سیاہ ہو جاتا ہے پھر وہ حق و باطل میں امتیاز کرنے کی توفیق نہیں پاتا ہے.پس خدا تعالیٰ سے پاکیزگی اور ہدایت کے پانے کے لئے خود بھی اپنے اندر ایک پاکیزگی کو پیدا کرنا چاہیے اور وہ یہی ہے کہ انسان بخل اور تعصّب کو چھوڑ دے اور اپنے نفس کو ہرگز دھوکا نہ دے.یہ بالکل سچ ہے کہ جو شخص تلاش حق کا دعویٰ کر کے نکلتا ہے اور پھر اپنی جگہ پہلے ہی کسی مذہب کے اصول کو فیصلہ کر کے قطعی بھی قرار دے لیتا ہے وہ دنیا کا طالب ہوتا ہے جو دنیاکی فتح و شکست پر مَرتا ہے.میں اس بات کا قائل نہیں ہو سکتا کہ وہ خدا کو مانتا ہے.نہیں

Page 453

میرے نزدیک وہ دہریہ ہے.پاک دل جو کسی کی زجر و توبیخ کی پروا نہیں کرتا اور جو اقرار کرلینے میں ندامت اور شرمساری نہیں پاتا وہی ہوتا ہے جو حق کو پالیتا ہے.ایسے ہی دل پر خدا کے انوار نازل ہوتے ہیں.یاد رکھو خدا تعالیٰ ہرگز ایسے شخص کو ضائع نہیں کرتا جو اس کی جستجو میں قدم رکھتا ہے.وہ یقیناً ہے او رجیسے ہمیشہ سے اس نے اناالموجود کہا ہے اب بھی کہتا ہے.جس طرح حضرت مسیح پر وحی ہوتی تھی اسی طرح اب بھی ہوتی ہے میں سچ کہتا ہوں اور یہ نرادعویٰ نہیں اس کے ساتھ روشن دلائل ہیں کہ پہلے کیا تھا جو اب نہیں.اب بھی وہی خدا ہے جو سدا سے کلام کرتا چلا آیا ہے اس نے اب بھی دنیا کو اپنے کلام سے منور کیا ہے.کفّارہ ایک اور ضر ور ی با ت ہے جومیں کہنی چاہتا ہوں اور وہ کفّارہ کے متعلق ہے.کفّارہ کی اصل غرض تو یہی بتائی جاتی ہے کہ نجا ت حاصل ہو اور نجا ت دوسر ے الفا ظ میں گناہ کی زندگی اور اس کی موت سے بچ جانے کا نام ہے مگر میں آپ ہی سے پوچھتا ہوں کہ خداکے لیے انصاف کر کے بتائو کہ گناہ کو کسی کی خود کشی سے فلسفیا نہ طور پر کیا تعلق ہے؟ اگر مسیح نے نجات کامفہو م یہی سمجھا اور گناہوں سے بچانے کایہی طریق انہیں سوجھا تو پھر نعو ذ باللہ ہم ایسے آدمی کو تورسو ل بھی نہیں ما ن سکتے کیونکہ اس سے گناہ رک نہیں سکتے.آپ کو یور پ کے حالا ت اور لنڈن اور پیر س کے واقعات اچھی طر ح معلوم ہو ں گے.بتاؤ کون سا پہلو گنا ہ کا ہے جو نہیں ہو تا.سب سے بڑھ کرزنا تورات میںبد تر لکھا ہے مگر دیکھو کہ یہ سیلا ب کس زورسے ان قوموں میں آیا ہے جن کا یقین ہے کہ مسیح ہمارے لیے مَرا.اس خو د کشی کے طریق سے تو بہتر یہ تھا کہ مسیح دعا کر تا کہ اور لمبی عمرملے تا کہ وہ نصیحت اور وعظ ہی کے ذریعہ لوگوںکو فائدہ پہنچاتا مگر یہ سوجھی تو کیا سوجھی ؟ اس کے علا وہ ایک اور با ت بھی ہے جو میں نے پیش کی تھی اور اب تک کسی عیسائی نے اس کا جواب نہیں دیا اور وہ یہ ہے کہ مسیح ہما ر ے بدلے لعنتی ہوا.اب لعنت کے معنوں کے لیے عبرا نی یا عربی کے لغا ت نکال کر دیکھ لو کہ ملعو ن کسے کہتے ہیں.لغت کی کتابوں میں صاف لکھا ہوا ہے کہ لعین شیطان کا نام ہے اور ملعون وہ شخص ہوتا ہے جس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہواوروہ خدا سے دور ہو.اب عیسائیوں نے

Page 454

یہ بالاتفا ق اپنے عقیدہ میں داخل کر لیا ہے کہ مسیح ہمارے بدلے لعنتی ہوا چنا نچہ تین دن کے لیے اسے ہاویہ میں بھی رکھتے ہیں اب یہ لعنتی قربانی جو ان کے عقیدہ کے موافق ہوئی نجات سے کیا تعلق اس کا ہوا؟ غرض جس قدر اس پر غور کر تے جائیں گے اسی قدر اس کی حقیقت کھلتی جائے گی.میںآپ کو بتاتا ہوں کہ اصل مسیح کے متعلق عیسائیوںاور یہودیوںدو نو ںنے افرا ط اور تفریط سے کام لیا ہے.عیسائیوں نے تو یہاں تک افراط کی کہ ایک عاجز انسا ن کو جو ایک ضعیفہ عورت کے پیٹ سے عام آدمیوں کی طرح پیدا ہوا خدا بنا لیا اور پھر گرایا بھی تو یہاں تک کہ اسے ملعون بنایا اور ہاویہ میں گرایا.یہودیوں نے تفریط کی یہاں تک کہ معاذ اللہ اسے ولد الزنا قرار دیا او ربعض انگریزوں نے بھی اسے تسلیم کر لیا اور سارا الزام حضرت مریم پر لگایا مگر قرآن شریف نے آکر ان دونوں قوموں کی غلطیوں کی اصلاح کی.عیسائیوں کو بتایا کہ وہ خدا کا رسول تھا خدا نہ تھااور وہ ملعون نہ تھا مرفوع تھا.اور یہودیوں کو بتایا کہ وہ ولدالزنا نہ تھا بلکہ مریم صدیقہ عورت تھی اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا (التحریم : ۱۳) کی وجہ سے اس میں نفخ روح ہوا تھا.یہی افراط و تفریط اس زمانہ میں بھی ہوئی ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں ان کی اصل عزّت کو قائم کروں مسلمان ناواقفی سے انہیں انسانی صفات سے بڑھ کر قرار دینے میں غلطی کرتے ہیں اور ان کی موت کے راز کی حقیقت سے ناواقف ہیں.عیسائی مصلوب قرار دے کر ملعون بناتے ہیں پس اب وقت آیا ہے کہ مسیح کے سر پر سے وہ الزام دور کئے جائیں جو ایک بار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور کئے تھے پس اسلام کا کس قدر احسان مسیح پر ہے.میں امید کرتا ہوں کہ آپ ان باتوں پر پورا غور کر لیں گے میں آپ کو بار بار یہی کہتا ہوں کہ جب تک آپ کی سمجھ میں کوئی بات نہ آوے اسے آپ بار بار پوچھیں ورنہ یہ اچھا طریق نہیں ہے کہ ایک بات کو آپ سمجھیں نہیں اور کہہ دیںکہ ہاں سمجھ لیا اس کا نتیجہ بُرا ہوتا ہے.سراج الدین جو یہاں آیا تھا اس نے ایسا ہی کیا اور کچھ فائدہ نہ اٹھایا اس نے آپ کو کچھ کہا تھا؟ منشی عبدالحق صاحب.ہاں وہ مجھے منع کرتے تھے کہ وہاں مت جائو کچھ ضرورت نہیں ہے جب ہم نے ایک سچائی کو پا لیاپھر کیا ضرورت ہے کہ اور تلاش کرتے پھریں اور یہ بھی انہوں نے کہا تھا کہ جب میں آیا

Page 455

تھا تو وہ مجھے تین میل تک چھوڑنے آئے تھے.(ایڈیٹر.سلیم الفطرت لوگ حضرت مسیح موعودؑ کی شفقت اور ہمدردی پر غور کریں اور اس جوش کا اندازہ کریں جو اس کی فطرت میں کسی روح کو بچا لینےکے لئے ہے کیا تین میل تک جانا محض ہمدردی ہی کے لئے نہ تھاورنہ میاں سراج الدین سے کیا غرض تھی اگر فطرت سلیم ہو تو آپ کی اس جوش ہمدردی ہی سے حق کا پتہ پالے ہمارے لئے ایسا سچاجوش رکھنے والے تجھ پر خدا کا سلام ؎ سلامت بر تو اے مرد سلامت ) اور پسینہ آیا ہوا تھا.حضر ت مسیح موعو دؑ.اس پسینہ سے اس نے یہ مراد لی کہ گویا جواب نہیں آیاافسوس !آپ اس سے پوچھتے تو سہی کہ پھر وہ یہاں رہ کر نمازیں کیوں پڑھتا تھا اور کیا اس نے نہیں کہا تھا کہ میری تسلی ہو گئی میرے سامنے ہوتو میں اس کو حلف دے کر پوچھوں.سامنے ہونے سے کچھ تو شرم آجاتی ہے.منشی عبدالحق صاحب.میں نے نمازوں کا حال پوچھا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ ہاں میں پڑھا کرتا تھا اور آخر میں نے کہہ دیا تھا کہ میں کسی سرد مقام پر جا کر فیصلہ کروں گا اور یہ بھی مسٹر سراج الدین نے کہا تھا کہ مرزا صاحب شہرت پسند ہیں.میں نے چار سوال پوچھے تھے ان کا جواب چھاپ دیا.حضر ت اقدسؑ.اس میں تو شہرت پسندی کی کوئی بات نہیں ہم کیوں حق کو چھپاتے اگر چھپاتے تو گنہ گار ٹھہرتے اور معصیت ہوتی.خدا نے جب مجھے مامور کر کے بھیجا ہے تو پھر میں حق کا اظہار کروں گااور جو کام میرے سپرد ہوا ہے اسے مخلوق کو پہنچائوں گا اور اس بات کی مجھے کوئی پروا نہیں کہ کوئی شہرت پسند کہے یا کچھ اور.آپ ان کو پھر خط لکھیں کہ وہ یہاں کچھ دن اور رہ جائیں.الغرض ان باتوں میں آپ مکان کے قریب پہنچ گئے.اور اس وقت حضرت اقدس نے منشی عبدالحق صاحب کو مخاطب کر کے یہ فرمایا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور مہمان آرام وہی پا سکتا ہے جو بے تکلف ہو پس آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو مجھے بلا تکلف کہہ دیں.اور پھر جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دیکھو! یہ ہمارے مہمان ہیں اور تم میں سے ہر ایک کو مناسب ہے کہ ان سے پورے اخلاق

Page 456

سے پیش آوے اور کوشش کرتا رہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.یہ کہہ کر آپ گھر میں تشریف لے گئے.۱ ۲۴؍دسمبر۱۹۰۱ء مامور من اللہ کا نشان حضرت مسیح موعودؑ.مامور اگر ان امور کی جواس پر کھولے جاتے ہیں، اشاعت نہ کرے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ مخلوق پر ظلم کرتا ہے اور خود اللہ تعالیٰ کے سپرد کردہ فرض کو انجام نہیں دیتا.مامور کا ایک یہ بھی نشان ہے کہ وہ اشاعت حق سے نہیں رکتا اور ہمیںافسوس ہوتا ہے جب انجیل میں ایسے فقرا ت دیکھتے ہیں جن میںمسیح اپنے آپ کوچھپانے اور کسی پر ظاہر نہ کرنے کی تعلیم اپنے شاگردوںکودیتا ہے.مامور من اللہ میںایک شجاعت ہوتی ہے اس لیے وہ کبھی بھی اپنے پیغام پہنچانے اوراشا عت حق میںنہیںڈرتا.شہادت حقہ کا چھپانا سخت گناہ ہے پس میںکیو نکراس حقیقت کو چھپا سکتا ہوں جو خدا نے مجھ پر کھولی ہے.میرے نزد یک یہ طریق بہت ہی مناسب ہے جو یہ اس طر ح پر مرتّب ہو جا یا کر ے.آپ نے اب دوبا ر ہ سن لیا ہے.اس پر غور کریں اور جو کچھ آ پ کو شک با قی ہو بے شک پو چھ لیں.مسٹر عبدالحق.میں اس پر مز ید غور کرو ں گا.حضر ت مسیح مو عودؑ.میںآپ کی اس با ت کو بہت پسند کرتا ہوں کہ جلد ی نہیں کی.آپ بے شک چار پانچ روز تک اس پرکافی غو رکر لیں.مسٹر عبد الحق.میںنے آج ایک سوا ل قرآ ن شر یف کی ضرور ت پر سوچا تھا مگر وہ اس تقریر میں آچکا ہے میںایک یہ سوا ل بھی پو چھنا چاہتا ہوںکہ یہ جوکہا جا تا ہے کہ انجیل میںتحریف ہو گئی ہے.اگر کوئی یہ پوچھے کہ اصل کہا ں ہے تو اس کا کیا جوا ب ہے.حضر ت مسیح مو عودؑ.یہ سوال آپ کا ایک نیا سوا ل ہے اور پہلے سوا لو ں سے الگ ہے.میں چاہتا ہوں کہ تداخل نہ ہو.میں اس سوا ل کا جواب بیان کروں گا مگر اوّل مناسب یہی ہے کہ آپ اپنے

Page 457

سوالوں کے جوا ب پر غور کر کے اورجو کچھ ان کے متعلق پوچھنا ہوپوچھ لیں اور جب وہ طے ہوجائیں پھر میںآپ کے اس سوال کا جواب دوںگا.مگر تداخل کو میںمناسب نہیں سمجھتا جیسے تداخل طعام درست نہیں ہے.یعنی ایک کھانا کھایا پھر کچھ اور کھا لیا پھر کچھ اور.اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ سوءِ ہضم ہو کر ہیضہ یا قے یا کسی اور بیماری کی نوبت آئے.اسی طرح تداخل کلام منع ہے.تداخل کلام سے کوئی بات محفوظ نہیں رہ سکتی اور انسان اس سے کو ئی فائدہ نہیںاُٹھاسکتا بلکہ وہ وقت بالکل ضائع چلاجاتا ہے.میری عین مراد یہی ہے کہ یہ سوالات آپ کے باترتیب ہوںاور ہر سوال کی ایک مد رکھی جاوے اور اس کو دوسرا سوال قراردے لیا جاوے.اس وقت میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں خلط مبحث کر کے اپنا وقت ضائع کروں اور آپ کو فائدہ سے محروم رکھوں بلکہ میںچاہتا ہوں کہ آپ کو پورا فائدہ پہنچائوںجو میرے امکان اور طاقت میں ہے اور اس کے لیے میری رائے میں یہی طریق مناسب ہے جو اختیار کیا گیا ہے.میں اس سوال کا جواب دیتے وقت آپ کو بتائوں گا کہ تحریف کے خیالات شروع میں مسلمانوں سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ انجیل کے ماننے والوں ہی کی طرف سے ان خیالات کی ابتدا ہوئی ہے اور میں اس کو جیسا میں نے کہا ہے اور دوسرے وقت پر رکھتا ہوں جب آپ پہلے سوالوں کے جوابات سمجھ لیں گے.جو لوگ بحث مباحثہ کرنے کے لیے بیٹھے ہیں اور تلاش حق اُن کا مقصد نہیں ہوتا وہ ایک ہی جلسہ میں سب کچھ طے کر لینا چاہتے ہیں.میں اس کو مذہبی قمار بازی کہتا ہوں جیسے قمار باز اپنی چابک دستی اور چالاکی سے ہاتھ مارنا چاہتے ہیں اسی طرح پر یہ لوگ کرتے ہیں اور ہم نے تجربہ سے دیکھ لیا ہے کہ اصل بات کو چھپاتے ہیں اور فرضی اور خیالی باتیں پیش کرتے ہیں.پس میں اس کو بہت ہی بُرا سمجھتاہو ں کہ انسان مذہبی قمار بازی کے لیے دست دراز ہو اورخدا کا ذرا بھی خوف اور حیانہ کرکے اپنی چالاکیوں سے کام لے.یہ مذہبی قماربازی کب ہوتی ہے جب دنیا کی ہار جیت اور خیالی فتح وشکست مدِّنظر ہو اور احباب اور ہم عصروں کی نگاہ میں واہ واہ سننے اور فتح یاب کہلانے کا خیال دل میں ہو.یہ قمار بازی دنیا کی قماربازی سے بہت ہی بڑھ کر نقصان رساں ہے کیونکہ اس میں تو صرف مال کا زیاں ہے مگر اس قمار بازی میں دین اور دنیا

Page 458

دونوں تباہ ہو جاتے ہیں اور تمام اخلاقی اور روحانی قوتیں جو انسان کو اعلیٰ درجہ کے کمالات کا وارث بنا سکتی ہیں ہار دی جاتی ہیں اور اس متاع کے ہارنے سے جو رنج پیدا ہوتا ہے وہ ابدی ہوتا ہے.پس اس قمار بازی کے خیال کو کبھی پاس بھی آنے نہیں دینا چاہیے اگر مقصد عظیم یہ ہو کہ راست بازوں کے نور سے حصہ ملے.کبھی کوئی شخص اس نور کو نہیں پاسکتا اور اس متاع کو محفوظ نہیں رکھ سکتا جو فطرتِ سلیم اس کے پاس ہے جب تک حق گوئی اور حق جوئی اور پھر قبولِ حق کے لیے ساری دنیا کو اس کے سامنے مُردہ قرار نہ دے لے ا ور ان امورکے لیے خدا تعالیٰ سے ایک عہد کرے جو ایسا عہد خدا تعالیٰ سے نہیں کرتا وہ خدا کو مان کر بھی دہریہ ہے.ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جیسے امراض کا بحران ہوتا ہے اسی طرح پر مختلف ملّتوں اور مذہبوں کے بحران کے یہ ایّام ہیں.شیطان کی بھی یہ آخری جنگ ہے.اس لیے وہ اپنے تمام آلات حرب و ضرب لے کر حق کے مقابلہ میں نکلا ہے اور وہ پورے زور اور پوری طاقت سے کوشش کرتا ہے کہ حق پر غلبہ پاوے مگر خود اُسے بھی یقینِ کامل ہے کہ اُس کی یہ ساری کوشش بے سود اور بے فائدہ ہوگی اور بہت جلد وہ وقت آتا ہے کہ شیطان مارا جاوے گا اور ملائک کی فتح ہو گی مگر بایں ہمہ وہ اپنی پُوری طاقت سے اس وقت میدان میں آیا ہے اور اس کے بالمقابل حق بھی ہے اور اس کے سامان اور ہتھیار بھی آسمان سے نازل ہو رہے ہیں.چونکہ اس وقت دونوں میدان میں ہیں پس تم کو واجب ہے کہ حق کا ساتھ دو.حق کی شناخت کے نشان اور میں نے بارہا اس امر کو بیان کیا ہے اور اب پھر بتاتا ہوں کہ حق کی شناخت کے واسطے تین نشان ہیں.ان پر اگر تم اس کو جسے حق کہا جاتا ہے پَرکھ لو گے تو تم کو شیطان دھوکا نہ دے سکے گا ورنہ اس نے اپنی طرف سے التباس حق و باطل کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا.اور وہ نشان یہ ہیں.اوّل نُصُوصِ صریحہ یعنی جو معتقدات ہم رکھتے ہیں.دیکھنا چاہیے کہ کیا ان کا نام و نشان خدا تعالیٰ کی کتاب میں بھی پایا جاتا ہے یا نہیں.اگر اس کے متعلق منقولی شہادت یعنی نصوص صریحہ قطعیہ نہ ہوں تو خود سوچنا چاہیے کہ اس کو کہاں تک وقعت دی جاسکتی ہے مثلاً جیسے

Page 459

کیمیاگر کہتا ہے کہ میں ایک ہزارکا دس ہزار کر دیتا ہوں تو کیا یہ ضروری نہیں کہ ہمیں علم ہو کہ پہلے کتنے ایسے بزرگ گزرے ہیں؟ لیکن جب ہم اس پر غور کریں گے تو معلوم ہو گا کہ ہزاروں نے ایسی باتوں میں آکر نقصان اٹھایا ہے.ہمارے اس علاقہ میں ایک کیمیاگر اسی طرح پر دو آدمیوں کو ایک ہی وقت میں ٹھگ کر لے گیا.غرض پہلا نشان نصوصِ صریحہ کا ہے.اس کے ذریعہ اگر ہم عیسائیوں کے عقائد کو پَرکھنے لگیں تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ یہ نرا ملمّع ہے.حق کی چمک اس میں نہیں ہے.جیسا کہ کل مَیں نے بیان کیا تھا کہ تثلیث اور یسوع کی خدائی کی بابت اگر یہودیوں سے پوچھا جاوے اور ان کی کتابوں کو ٹٹولا جاوے تو صاف جواب ہے وہ کبھی تثلیث کے قائل نہ تھے اور نہ کبھی انہوں نے کسی جسمانی خدا کی بابت اپنی کتاب میں پڑھا تھا جو کسی عورت کے پیٹ سے عام بچوں کی طرح حیض کے خون سے پرورش پاکر نو مہینے کے بعد پیدا ہونے والا ہو اور انسانوں کے سارے دکھ خسرہ چیچک وغیرہ جو انسانوں کو ہوتے ہیں اُٹھا کر آخر یہودیوں کے ہاتھ سے مارکھاتا ہوا صلیب پر چڑھایا جاوے گا اور پھر ملعون ہو کر تین دن ہاویہ میں رہے گا.یا باپ، بیٹا، رُوح القدس کے مجموعہ اور مرکب خدا ہی کا ذکر اُن کی کتابوں میں کہیں ہوتا.اگر ہے تو ہم عیسائیوں سے ایک عرصہ سے سوال کرتے رہے ہیں وہ دکھائیں.بر خلاف اس کے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہودیوں نے منجملہ اور اعتراضوں کے جو اُس پر کیے سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ یہ خدا کا بیٹا اور خدا بنتا ہے.اور یہ کفر ہے.اگر یہودیوں نے توریت اور نبیوں کے صحیفوں میں یہ تعلیم پائی تھی کہ دنیا میں خود خدا اور اس کے بیٹے بھی ماریں کھانے کے لیے آیا کرتے ہیں اور انہوں نے دس پانچ کو دیکھا تھا تو پھر انکار کی وجہ کیا ہوسکتی تھی؟ اصل حقیقت یہی ہے کہ اس معیار پر یہ عقیدہ کبھی پورا نہیں اتر سکتا اس لئے کہ اس میں حقانیت کی روح نہیں ہے.اور دوسرا طریق شناخت حق اور اہل حق کا یہ ہے کہ عقلِ سلیم بھی ان کی ممد اور معاون ہو.عقل ایسی چیز ہے کہ اگر اسے چھوڑ دو تو دین اور دنیا دونوں کے کاموں میں فتور پیدا ہوتا ہے.اب عقل کے معیار پر اس کو کَسا جاوے تو وہ دور سے ان عقائد کو ردّ کرتی ہے.کیا عقل کے نزدیک یہ بات

Page 460

قابلِ تسلیم ہوسکتی ہے کہ ایک عاجز مخلوق بھی جس میں انسانیت کے سارے لوازم اور بشری کمزوریوں کے سارے نمونے موجود ہیں خدا ہوسکتا ہے؟ کیا عقل اس بات کو ایک لمحہ کے لیے بھی رَوا رکھ سکتی ہے کہ مخلوق اپنے خالق کو کوڑے مارے اور خدا کے بندے اپنے قادر خدا کے منہ پر تھوکیں اور اس کو پکڑیں اور سولی پر کھینچیں اور وہ یہ ساری ذلت دیکھ کر اور خدا ہو کر اپنی رُسوائی کا تماشہ دکھاتا رہے؟ کیا عقل مان لیتی ہے کہ ایک عورت کا بچہ جو نو مہینے تک پیٹ میں رہے اور خونِ حیض کھاوے اور آخر عام بچوں کی طرح چلاتا ہوا شرمگاہ سے پیدا ہو وہ خدا ہوتا ہے؟ کیا کسی دل کو اس پر اطمینان ہو سکتا ہے کہ ایک شخص خدا کہلا کر ساری رات موت سے بچنے کے لیے دعا کرتا رہے اور قبول نہ ہو؟ ایسا ہی کبھی عقل یہ تجویزنہیں کر سکتی کہ کسی کی خودکشی سے دوسرے کے گناہ بخشے جاتے ہیں.اگر مسیح کے روٹی کھانے سے حواریوں کے پیٹ بھر جاتے تھے اور عقل کے نزدیک یہ جائز ہے تو شاید یہ بھی سچ ہو کہ کسی کے دردِ سر کا علاج اپنے سر میں پتھر مارنا بھی ہے.تیسرا ذریعہ شناخت کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کبھی سچے مذہب کو ضائع نہیں کرتا اور اہل حق کو ہرگز نہیں چھوڑتا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا باغ ہے اور کبھی کسی نے نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک شخص باغ لگا کر اپنے باغ کی طرف سے بالکل لا پَروا ہو جاوے، نہیں بلکہ اس کی آبپاشی، شاخ تراشی اور حفاظت وغیرہ تمام امور کا جو اس کی سرسبزی اور شادابی کے لیے ضروری ہیں پورا اہتمام کرتا ہے.اسی طرح پر اللہ تعالیٰ اپنے راست بازوں اور دی ہوئی صداقتوں کی تائید کے لیے ہمیشہ تازہ بتازہ تائیدات دیتا رہتا ہے جن کی روشنی میں صادق چلتا ہے اور شناخت کیا جاتا ہے.عیسائیت میں کوئی زندہ نشان نہیں اب عیسائیوں کے عقائد اور مذہب کو اس معیار پر بھی آزما کر دیکھ لو کہ ان میں بجز بوسیدہ ہڈیوں اور مردہ باتوں کے اور کیا رکھا ہے.بالاتفاق وہ مانتے ہیں کہ ان میں آج ایک بھی ایسا شخص نہیں جو اپنے مذہب کی صداقت اور خون مسیح کی سچائی پر اپنے نشانات کی مہر لگا سکے.یہ تو بڑی بات ہے.مَیں کہتا ہوں کہ انجیل کے قراردادہ نشانوں کے موافق تو شاید ایمان دار ہونا بھی ایک امر محال ہوگا.

Page 461

اچھا! زندہ نشانات کو تو جانے دو.عیسائی مذہب جو اپنے تائیدی نشانوں کے لیے مسیح کی قبر کا پتہ دیتا ہے کہ اس نے فلاں قبر سے مُردہ اُٹھایا تھا وہ بجز قصوں کے اور کیا وقعت رکھ سکتے ہیں.اسی لیے میں نے بار ہا کہا ہے کہ یہ سلبِ امراض کے اعجوبے جو بعض ہندو سنیا سی بھی کرتے ہیں اور اس ترقی کے زمانہ میں مسمریزم والے بھی دکھاتے ہیں آج کوئی معجزات کے رنگ میں نہیں مان سکتا اور پیشگوئی ہی ایک ایسا زبردست نشان ہے جو ہر زمانہ میں قابلِ عزّت سمجھا جاتا ہے.مگر ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسیح کی جو پیشگوئیاں انجیل میں درج ہیں وہ ایسی ہیں کہ ان کو پڑھ کر ہنسی آتی ہے کہ قحط پڑیں گے زلزلہ آئیں گے مرغ بانگ دے گا وغیرہ.اب ہر ایک گائوں میں جا کر دیکھو کہ ہروقت مرغ بانگ دیتے ہیں یا نہیں اور قحط اور زلزلے بالکل معمولی باتیں ہیں جو آجکل کے مدبّر تو اس سے بھی بڑھ کر بتا دیتے ہیں کہ فلاں وقت طوفان آئےگا فلاں وقت بارش شروع ہو گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو دیکھو کہ کس طرح پر چھ سو سال پہلے کہا کہ ایک آگ نکلے گی جو سبزہ کو چھوڑ ے گی اور پتھر کو گلائے گی اور وہ پوری ہوئی.اس قسم کی درخشاں پیشگوئیاں تو پیش کریں.میں نے ایک ہزار روپیہ کا انعام کا اشتہار مسیح کی پیشگوئیوں کے لیے دیا تھا مگر آج تک کسی عیسائی نے ثابت نہ کیا کہ مسیح کی پیشگوئیاں ثبوت کی قوت اور تعداد میں میری پیشگوئیوں سے بڑھ کر ہیں.جن کا گواہ سارا جہان ہے.مسیح کے معجزات جو قصص کے رنگ میں ہیں ان سے کوئی فوق العادت تائید الٰہی کا پتہ نہیں لگتا.جبکہ آج اس سے بھی بڑھ کر طبی کرشمے اور عجائبات دیکھے جاتے ہیں.خصوصاًایسی حالت میں کہ خود انجیل میں ہی لکھا ہے کہ ایک تالاب تھا جس میں ایک وقت پر غسل کرنے والے شفا پالیتے تھے اور اب تک یورپ کے بعض ملکوں میں ایسے چشمے پائے جاتے ہیں اور ہمارے ہندوستان میں بھی بعض چشموں یا کنوئوں کے پانی میں ایسی تاثیر ہوتی ہے.تھوڑے دن ہوئے اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ ایک کنوئیںکے پانی سے جذامی اچھے ہو نے لگے ہیں.۱ اب عیسائی مذہب کے کن تا ئیدی نشانوں

Page 462

کو ہم دیکھیں.پچھلوںکا یہ حال ہے اور اب کوئی دکھا نہیں سکتا.اگر اسی طرح پر ہی مان لینا ہے تو ہندوئوں نے کیا قصور کیا ہے کہ اُن کے ۳۳ کروڑ دیوتائوں کو نہ مانا جاوے اور پورانوں کے قصوں کو تسلیم نہ کیا جاوے.دیانند نے ایک جدید طریق نکال کر ہندوئوں کے مذہب پر تو ہاتھ صاف کیا کہ رام کا نام وید میں نہیں ہے مگر خود جو کچھ ویدوں کا خلاصہ پیش کیا وہ بھی ایک گند نکالا.مذہب کا خلا صہ مذہب کا خلا صہ دو ہی با تیں ہیںاور اصل میں ہر مذہب کا خلاصہ ان دو ہی باتوں پرآ کر ٹھہر تا ہے یعنی حق اللہ اور حق العباد.مگر ان دونو ں ہی کے متعلق اس نے گند پیش کیا اور اسے وید کی تعلیم کا عطر بتا یا ہے.یاد رکھنا چاہیے کہ حق دو ہی ہیں ایک خدا کے حقو ق کہ اسے کس طرح ماننا چا ہیے اور کس طر ح پر اس کی عباد ت کر نی چاہیے.دوم بندوں کے حقوق یعنی اس کی مخلو ق کے سا تھ کیسی ہمدردی اور مواسات کرنی چاہیے.دیانند نے اس کے متعلق جو کچھ بتایا ہے وہ میںپھر بتاؤںگا.پہلے یہ ظاہر کر دوں کہ عیسائیوں نے بھی ان دونوںاصولوں میں سخت بیہودہ پن ظاہر کیا ہے.حق اللہ میں تو دیکھ لیا کہ انہوں نے اس خدا کو چھوڑ دیا جو موسیٰ اور دیگر راستبازوں اور پاکیزہ لوگوں پر ظاہر ہوا تھا اور ایک عاجز انسان کو خدا بنا لیا اور حقوق العباد کی وہ مٹی پلید کی کہ کسی طرح پر وہ درست ہونے میں نہیں آتے.انجیل کی ساری تعلیم ایک ہی طرف جھکی ہوئی ہے اور انسان کی کل قوتوں کی مربی نہیں ہو سکتی.اوّل تو کفّارہ کا مسئلہ مان کر پھر حقوق العباد کے اتلاف سے بچنے کے لئے کوئی وجہ ہی نہیں مل سکتی ہے کیونکہ جب یہ مان لیا گیا ہے کہ مسیح کے خون نے گناہوں کی نجاست کو دور کردیا ہے اور دھو دیا ہے حالانکہ عام طور پر بھی خون سے کوئی نجاست دور نہیں ہو سکتی ہے تو پھر عیسائی بتائیں کہ وہ کونسی بات ہے جو حقیقت میں انہیں روک سکتی ہے کہ وہ دنیا میں فساد نہ کریں او رکیونکر یقین کریں، چوری کرنے، بیگانہ مال لینے، ڈاکہ زنی، خون کرنے، جھوٹی گواہی دینے پر کوئی سزا ملے گی اگر باوجود کفارہ پرایمان لانے کے بھی گناہ گنا ہ ہی ہیں تو میری سمجھ میںنہیں آتا کہ کفار ہ کے کیامعنی ہیں اور عیسائیوں نے کیا پایا.

Page 463

غرض حقوق العباد کو پورے طور پر ادا کرنے اور بجا لانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف قوتوں کا مالک بنا کر بھیجا تھا اور اس سے منشا یہی تھا کہ اپنے محل پر ہم ان قوتوں سے کام لے کر نوعِ انسان کو فائدہ پہنچائیں مگر انجیل کا سارا زور حلم اور نرمی ہی کی قوت پر ہے حالانکہ یہ قوت بعض موقعوں پر زہر قاتل کی تاثیر رکھتی ہے.تمدنی زندگی کی ترکیب اس لئے ہماری یہ تمدنی زندگی جو مختلف طبائع کے اختلاط اور ترکیب سے بنی ہے اپنی ترکیب اور صورت ہی میں بالطبع یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے تمام قویٰ کو محل اور موقع پر استعمال کریں لیکن انجیل محل اور موقع شناسی کو تو پسِ پشت ڈالتی ہے اور اندھا دھند ایک ہی امر کی تعلیم دیتی ہے کیا ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دینا عملی صورت میں بھی آسکتا ہے اور کرتہ مانگنے والے کو چغہ دینے والے آپ نے بھی دیکھے ہیں اور کیا کوئی آدمی جو انجیل کی اس تعلیم کا عاشق زار ہو کبھی گوارا کر سکتا ہے کہ کوئی شریر اور نابکار انسان اس کی بیوی پر حملہ کرے تو وہ لڑکی بھی پیش کر دے؟ ہرگز نہیں.جس طرح پر ہم کو اپنے جسم کی صحت اور صلاحیت کے لئے ضرور ہے کہ مختلف قسم کی غذائیں موسم اور فصل کے لحاظ سے کھائیں اور مختلف قسم کے لباس پہنیں ویسی ہی روح کی صلاحیت اور اس کی قوتوں اور خواص کے نشوونما کے واسطے لازم ہے کہ اسی قاعدہ کو مدنظر رکھیں.جسمانی تمدن میں جس طرح پر گرم سرد، نرم سخت، حرکت و سکون کی رعایت رکھنی ضروری ہے اسی طرح پر روحانی صحت کے لئے مختلف قوتوں کا عطا ہونا ہی صاف دلیل اس امر کی ہے کہ روح کی بھلائی کے لئے ان سے کام لینا ضروری ہے اور اگر ان مختلف قوتوں سے ہم کام نہیں لیتے یا نہ لینے کی تعلیم دیتے ہیں تو ایک خدا ترس اور غیور انسا ن کی نگاہ میں ایسا معلم خدا کی توہین کرنے والا ٹھہرے گا کیونکہ وہ اپنے اس طریق سے یہ ثابت کرتا ہے کہ خدا نے یہ قوتیں لغو پیدا کی ہیں.انجیل ایک ہی قوت پرزور دیتی ہے پس اگرا نجیل ایک ہی قوت پر زور دیتی ہے اور دیتی ہے تو میں آپ سے ہی انصافاً پوچھتا ہوں کہ

Page 464

خدا سے ڈر کر بتائیں کہ یہ خدا کے اس فعل کی ہتک نہیں ہے کہ اس نے مختلف قوتیں اور استعدادیں انسان کی روح میں رکھ دی ہیں.اگر کوئی عیسائی یہ کہے کہ صرف نرمی اور حلم ہی کی قوت سے ساری قوتوں کا نشوونما ہو سکتا ہے تو اس کی دانش مندی میں کوئی شک کرے گا بحالیکہ خود خدا کی صفات بھی مختلف ہیں او ر ا ن سے مختلف افعال کا صدور ہو تا ہے اور خود کوئی عیسائی پادری ہم نے ایسا نہیں دیکھا کہ مثلاً سردی کے ایام میں بھی گرمی ہی کے لباس سے کام لے اور دیسی غذاؤں پر گزارہ کرے یا ساری عمر ماں ہی کا دودھ پیتا رہے یا بچپن ہی کے چھوٹے چھوٹے کُرتے پاجامے پہنا کرے غرض اس قسم کی تعلیم پیش کرتے ہوئے شرم آجاتی ہے اگر ایمان اور خدا کا خوف ہو.اگر نرمی اور حلم ہی کافی تھا تو پھرکیا یہ مصیبت پڑی کہ انجیل کے ماننے والوں کو دیوانی، فوجداری جرائم کی سزائوں کے لئے قانون بنانے پڑے اور سیاست اور ملک داری کے آئین کی ضرورت ہوئی ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری طرف پھیرنے والوں کو فوجوں اور پولیس کی کیا ضرورت!! خدا کے لئے کوئی غور کرے.پس اس اصول نے تمام حقوق العباد پر پانی پھیر دیا ہے جب کہ ساری قوتوں ہی کاخون کر دیا.اسلام کل انسانی قویٰ کا متکفّل ہے اب اس کے مقابل میں دیکھو کہ اسلام نے کیسی تعلیم دی اور کس طرح پر ساری قوتوں اور طاقتوں کا تکفّل فرمایا.اسلام نے سب سے اول یہ بتایا ہے کہ کوئی قوت اور طاقت جو انسان کو دی گئی ہے فی نفسہٖ وہ بُری نہیں ہے بلکہ اس کی افراط یا تفریط اور بُرا استعمال اسے اخلاق ذمیمہ کی ذیل میں داخل کرتا ہے اور اس کا برمحل اور اعتدال پراستعمال ہی اخلاق ہے.یہی وہ اصول ہے جو دوسری قوموں نے نہیں سمجھا اور قرآن نے جس کو بیان کیا ہے اب اس اصول کو مدنظر رکھ کر وہ کہتا ہے جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ الآیۃ(الشورٰی:۴۱) یعنی بدی کی سزا تو اسی قدر بدی ہے لیکن جس نے عفو کیا اور اس عفو میں اصلاح بھی ہو.عفو کو تو ضرو ررکھا ہے مگر یہ نہیں کہ اس عفو سے شریر اپنی شرارت میں بڑھے یا تمدن اور سیاست کے اصولوں اور انتظام میں کوئی خلل واقع ہو بلکہ ایسے موقع پر سزا

Page 465

ضروری ہے.عفو اصلاح ہی کی حالت میں روا رکھا گیا ہے.اب بتائو کہ کیا یہ تعلیم انسانی اخلاق کی متمم اور مُکْمِل ہو سکتی ہے یا نرے طمانچے کھانے.قانون قدرت بھی پکار کر اسی کی تائید کرتا ہے اور عملی طور پر بھی اس کی ہی تائید ہوتی ہے.انجیل پر عمل کرنا ہے تو پھر آج ساری عدالتیں بند کر دو اور دو دن کے لئے پولیس اور پہرہ اٹھا دو تو دیکھو کہ انجیل کے ماننے سے کس قدر خون کے دریا بہتے ہیں اور انجیل کی تعلیم اگر ناقص او ر ادھوری نہ ہوتی تو سلاطین کو جدید قوانین کیوں بنانے پڑتے.آریوں کے عقائد غرض یہ حقوق العباد پر انجیل کی تعلیم کا اثر ہے.اب میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ دیانند نے جووید کا خلاصہ ان دونوں اصولوں کے رو سے پیش کیا ہے وہ کیا ہے؟ حق اللہ کے متعلق تو اُس نے یہ ظلم کیا ہے کہ مان لیا ہے کہ خدا کسی چیز کا بھی خالق نہیں ہے بلکہ یہ ذرّات اور اَرواح خود بخود ہی اس کی طرح ہے وہ صرف اُن کا جوڑنے جاڑنے والا ہے جس کو عربی زبان میں مؤلّف کہتے ہیں.اب اس سے بڑھ کر حق اللہ کا اتلاف اور کیاہو گا کہ اس کی ساری صفات ہی کو اُڑا دیا اور عظیم الشان صفت خالقیت کا زور سے انکار کیا گیا.جبکہ وہ جوڑنے جاڑنے والاہی ہے تو پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جاوے کہ وہ ایک وقت مَر بھی جاوے گا تو اس سے مخلوق پر کیسا اثر پڑ سکتا ہے.کیونکہ جب اس نے اُسے پیداہی نہیں کیا تووہ اپنے وجودکے بقااور قیام میں قائم بالذّات ہیں اُس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جوڑنے جاڑنے سے اس کا کوئی حق اور قدرت ثابت نہیں ہوتی جبکہ اجسام اور روحوں میں مختلف قوتیں اتصال اور انفصال کی بھی موجود ہیں.روح میںبڑی بڑی قوتیںہیں جیسے کشف کی قوت.انسانی روح جیسی یہ قوت دکھاسکتا ہے اور کسی کا روح نہیں دکھا سکتا مثلاًگائے یا بیل کا.اور افسوس ہے کہ آریہ ان ارواح کو بھی مع اُن کی قوتوں اور خواص کے خدا کی مخلوق نہیں سمجھتا.اب سوال یہ ہوتاہے کہ جب یہ اشیاء اجسام اورارواح خود بخود قائم بالذّات ہیں اور ان میں اتصال اور انفصال کی قوتیں بھی موجود ہیں تو وجود باری پر اُن کے وجود سے کیا دلیل لی جاسکتی ہے.کیونکہ جب میںیہ کہتا ہوں کہ یہ لوٹا ایک قدم چل سکتا ہے دوسرے قدم پر اس کے نہ چلنے کی کیا وجہ؟

Page 466

وجود باری پر دو ہی قسم کے دلائل ہو سکتے ہیں.اوّل تو مصنوع کو دیکھ کر صانع کے وجود کی طرف ہم انتقال ذہن کا کرتے ہیں.وہ تو یہاںمفقود ہے کیونکہ اس نے کچھ پیداہی نہیں کیا.کچھ پیدا کیا ہو تو اس سے وجودخالق پر دلیل پیدا کریںاور یا دوسری صورت خوارق اور معجزات کی ہوتی ہے.اس سے وجود باری پر زبردست دلائل قائم ہوتے ہیں مگر اس کے لیے دیانند اور سب آریوںنے اعتراف کیا ہے کہ وید میںکسی پیشگوئی یا خارق عادت امر کا ذکر نہیں اور معجزہ کوئی چیز ہی نہیں ہے اب بتاؤ کہ کون سی صورت خدا کی ہستی پر دلیل قائم کرنے کی اُن کے عقیدہ کے رو سے رہی اور پھر اُن کا ایسا خدا ہے کہ کوئی ساری عمر کتنی ہی محنت ومشقت سے اُس کی عبادت کرے مگر اس کو ابدی نجات ملے گی ہی نہیں.ہمیشہ جونوںکے چکر میں اُسے چلنا ہو گا کبھی کیڑا مکوڑا اور کبھی کچھ کبھی کچھ بنناہوگا.حقوق العباد کے متعلق اتناہی کافی ہے کہ اُن میں نیوگ کا مسئلہ موجود ہے کہ اگر ایک عورت کے اپنے خاوند سے اولاد نہ ہوتی ہو تو وہ کسی دوسرے مرد سے ہمبستر ہو کر اولاد پیدا کر لے اور کھانے پینے مقویات اور بستر وغیر ہ کے سارے اخراجات اُس بیرج داتا کے اس خاوند کے ذمہ ہوںگے جو اپنی عورت کو اُس سے اولاد لینے کی اجازت دیتا ہے.اس سے بڑھ کر قابل ِشرم اور کیا بات ہوگی.یہ تو مختصر سا نمونہ ہے.یہاںقادیان میں پنڈت سومراج ایک مدرس تھا جو آریہ ہے اُس کو میں نے ایک جماعت کے رو برو بلایا جس میں بعض ہندو بھی تھے اور اُس سے یہ مسئلہ پوچھا.تو اُس نے کہا ہاںجی کیا مضائقہ ہے.اب ہمیںتواس کے منہ سے یہ سن کر تعجب ہی ہوا دوسرے ہندو رام رام کرنے لگے.میں نے سن کر کہا کہ بس آپ جائیے.غرض یہ ہے اُن میں حقوق العباد کالحاظ.مسٹر عبدالحق صاحب.میں نے آپ کی کتاب ’’ آریہ دھرم ‘‘پڑھی ہے.حضرت مسیح موعودؑ.ساری تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر سچا مذہب اور سچا عقید ہ ان تین نشانو ں یعنی نصوص، عقل اور تائید سماوی سے شناخت کیا جاتا ہے اور عیسائی مذہب کی بابت میں نے مختلف پہلوؤں سے مختصر طور پر آپ کو دکھایا ہے کہ اس معیار پر پورانہیں اترتا.یہودیوں کی کتابو ں میں اس تثلیث اور کفّارہ کا کوئی پتہ نہیں اور کبھی وہ بیٹے خدا کے منتظرہی نہ تھے اور عقل دور سے دھکے دیتی ہے.نشانات کا

Page 467

یہ حال کہ ایمانداروںکے نشان کا پایا جانابھی مشکل ہے.ایک بار فتح مسیح نام ایک عیسائی نے کہا تھا کہ مجھے الہام ہوتا ہے.میں نے جب اُسے کہا کہ تو پیشگوئی کر تو گھبرایا اور مجھے کہا کہ ایک مضمون بند لفافہ میں رکھا جاوے اور آپ اس کا مضمو ن بتادیں.مجھے خدا تعالیٰ نے اطلاع دی کہ تو اس کو قبول کر لے.جب میں نے اس کو بھی قبول کر لیا تو کئی سَو آدمیوں کے مجمع میں آخر پادری وائٹ بریخٹ نے کہا کہ یہ فتح مسیح جھوٹا ہے.غرض حق ایک ایسی چیز ہے کہ اپنے ساتھ نصوص اور عقل کی شہادت کے علاوہ نور کی شہادت بھی رکھتاہے اور یہ شہادت سب سے بڑھ کر ہوتی ہے اور یہی ایک نشان مذہب کی زندگی کا ہے کیو نکہ جو مذہب زندہ خدا کی طرف سے ہے اس میں ہمیشہ زندگی کی روح کا پایا جانا ضروری ہے تا اس کے زندہ خدا سے تعلق ہونے پر ایک روشن نشان ہو مگر عیسائیوں میں یہ ہرگز نہیں ہے حالانکہ اس زمانہ میں جو سائنس اور ترقی کا زمانہ کہلاتاہے ایسے خارق عادت نشانوں کی بڑی بھاری ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ کی ہستی پر دلائل ہو ں.اب اس وقت اگر کوئی عیسائی مسیح کے گذشتہ معجزات جن کی ساری رونق تالاب کی تاثیر دور کر دیتی ہے سنا کر اُس کی خدائی منوانا چاہے تو اس کے لیے لازمی بات ہے کہ وہ خود کوئی کرشمہ دکھائے ورنہ آج کوئی منطق یا فلسفہ ایسا نہیں ہے جو ایسے انسان کی خدائی ثابت کر دکھائے جو ساری رات روتارہے اور اُس کی دعابھی قبول نہ ہو اور جس کی زندگی کے واقعات نے اُسے ایک ادنیٰ درجہ کا انسان ثابت کیا ہو.پس میں دعویٰ سے کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس میں سچا ہوں اور تجربہ اور نشانات کی ایک کثیر تعداد نے میری سچائی کو روشن کر دیا ہے کہ اگر یسوع مسیح ہی زندہ خدا ہے اور وہ اپنے صلیب بردارو ں کی نجات کاباعث ہوا ہے اور ان کی دعاؤںکو قبول کرتا ہے باوجود یکہ اس کی خود دعا قبول نہیںہوئی توکسی پادری یا راہب کو میرے مقابلہ پر پیش کرو کہ وہ یسوع مسیح سے مدد اور توفیق پا کر کوئی خارق عادت نشان دکھائے.میں اب میدان میں کھڑا ہوں اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں اپنے خدا کو دیکھتا ہوںوہ ہر وقت میرے سامنے اور میرے ساتھ ہے.میں پکار کر کہتا ہوںمسیح کو مجھ پر زیادت نہیں کیونکہ میں نور محمدی کا قائم مقام ہوں جو ہمیشہ اپنی روشنی سے زندگی کے نشان قائم کرتاہے.اس سے بڑھ کر اور کس چیز کی ضرورت

Page 468

ہوسکتی ہے.تسلی پانے کے لیے اور زندہ خدا کو دیکھنے کے لیے ہمیشہ روح میں ایک تڑپ اور پیاس ہے اور اس کی تسلی آسمانی تائیدوں اورنشانوں کے بغیر ممکن نہیںاور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ عیسائیوں میں یہ نور اور زندگی نہیں ہے بلکہ یہ حق اور زندگی میرے پاس ہے.میں ۲۶برس سے اشتہار دے رہاہوں اور تعجب کی بات ہے کہ کوئی عیسائی پادری مقابلہ پرنہیںآتا.اگر اِن کے پاس نشانات ہیں تو وہ کیوں انجیل کے جلال کے لیے پیش نہیں کرتے.ایک بار میں نے سولہ ۱۶ ہزار اشتہار انگریزی اُردو میں چھاپ کر تقسیم کیے جن میں سے اب بھی کچھ ہمارے دفتر میںہوں گے.مگر ایک بھی نہ اُٹھاجو یسوع کی خدائی کا کرشمہ دکھاتا اور اُس بت کی حمایت کرتا.اصل میں وہاں کچھ ہے ہی نہیں.کوئی پیش کیا کرے.مختصر یہ کہ حق کی شناخت کے لیے یہ تین ہی ذریعے ہیں اور عیسائی مذہب میںتینوں مفقود ہیں.خدا کا شکر ہے کہ آپ کو اچھا موقع مل گیا ہے اور آپ یہاںآگئے ہیں.ان تقریروںکی ترتیب سے بہت فائدہ ہوگا.آپ ان کو خوب غور سے سُن لیا کریں اور پھر جب آپ کو اس میں کچھ کلام باقی نہ ہو تو اس پر دستخط کر دیا کریں تاکہ ہمارایہ وقت رائیگاں نہ جاوے اور سُود مند ثابت ہو.سراج الدین کے لیے جو وقت ہم نے دیا اگر اس طرح پرتقریر لکھی جاتی تو ایک حجت رہتی اُس نے اپنے عمل سے دوسروں کو بھی بد ظنی کا موقع دیا.میری تو سمجھ میں نہیںآتا کہ ایک شخص جب ایک جگہ سچائی کو چھوڑتاہے وہ دوسری جگہ سچائی سے کیونکر پیارکرسکتاہے.مسٹر عبدالحق.ہاں مجھے دستخط کرنے میںکیا عُذر ہو سکتاہے اور میرا اس میں کوئی حرج نہیں ہے حضرت مسیح موعود ؑ.بات یہ ہے کہ ساری جُرأت دل کی پاکیزگی سے پیدا ہو تی ہے.اگر دل صاف ہے تو اُسے کوئی بات روک نہیں سکتی.مسٹر عبدالحق.میںنے جب یہاںآنے کا ارادہ کیا تو ایک عیسائی سے ذکر کیا تواس نے آپ کو گالی دی اور مجھے یہ ناگوار معلوم ہوا.میں نے کہا کہ یہ تو بُری بات ہے گالی دینے کے کیا معنے.اس نے کہا وہ ہمارا دُشمن ہے.میں نے کہا کہ انجیل میں تولکھاہے کہ دشمنوںسے پیار کرو.یہ کہاںلکھاہے کہ دشمنوں کو گالیا ںدو.پھر میںنے مسٹر سراج الدین سے اس کا ذکرکیا اُنہوں نے بھی اس کو اچھا نہ سمجھا.بعض آدمیوںکی حالت

Page 469

یہاںتک پہنچی ہوئی ہے.حضرت مسیح موعود ؑ.گالیاں دیتے ہیں اس کی تو مجھے کچھ بھی پروا نہیں ہے.بہت سے خطوط گالیوں کے آتے ہیں جن کا مجھے محصول بھی دینا پڑتا ہے اور کھولتاہوںتوگالیا ںہوتی ہیں.اشتہاروں میں گالیاں دی جاتی ہیں.اور اب تو کھلے لفافوں پر گالیاںلکھ کر بھیجتے ہیں.مگر ان باتوںسے کیا ہوتا ہے اور خدا کا نور کہیں بجھ سکتاہے؟ ہمیشہ نبیوں، راستبازوں کے ساتھ ناشکروں نے یہی سلوک کیاہے ہم جس کے نقش قدم پر آئے ہیں مسیح ناصری اس کے ساتھ کیا ہوا.اورہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیاہو ا.اب تک ناپاک طبع لوگ گالیاںدیتے ہیں.میںتو بنی نوع انسان کاحقیقی خیر خواہ ہوں جو مجھے دشمن سمجھتاہے وہ خود اپنی جان کادشمن ہے.(اتنے میں مکان کے قریب پہنچ گئے اور حضرت ؑنے پھرفرمایاکہ ) آپ مہمان ہیں آپ کو جس چیز کی تکلیف ہو مجھے بے تکلّف کہیں کیونکہ میں تواندر رہتا ہوںاور نہیںمعلوم ہوتاکہ کس کوکیاضرورت ہے اور آج کل مہمانوںکی کثرت کی وجہ سے بعض اوقات خادم بھی غفلت کر سکتے ہیں.آپ اگر زبانی کہناپسند نہ کریں تو مجھے لکھ کر بھیج دیاکریں.مہمان نوازی تومیرافرض ہے.۱ ۲۴؍دسمبر۱۹۰۱ء تیسری ملاقات مسٹر عبد الحق.کفّارہ کامسئلہ تو میں نے سمجھ لیا ہے تثلیث کارد کریں.حضرت مسیح موعودؑ.میںنے سب سے پہلے اسی لیے آپ کو کہاتھاکہ آپ اپنے اعتراض پیش کریں جو اسلام پر ہوتے ہیںاور خود اپنی تقریر کے ضمن میں جہاد، غلامی، تعدد ازدواج پر کچھ باتیںکی تھیں تاکہ آپ کو اس پر اعتراض کرنے کاموقع ملے.میری رائے میںطالب حق کافرض ہے کہ جوبات اس کے دل میںخلجان کرے اس کو فوراً پیش کردے ورنہ وہ ایمان کوکمزور کرے گی اور روحانی قوتوں پر برا اثر ڈالے گی.جیسے کوئی خراب غذا

Page 470

کھا لے تو وہ اندر جا کر خرابی پیدا کرتی ہے اور قے یادست کی صورت میںنکلتی ہے.اسی طرح کوئی گندہ عقیدہ اندر رہ کر فسادکرنے سے نہیںرکتا اور اس کافسادیہی ہے کہ انسان کے اخلاق چال چلن پر بُرا اثر ہو جاتا ہے اوروہ ایک مجذوم کی مانند بن جاتاہے.پس جوچیز آپ کے دل میںکھٹکے آپ اُسے پوچھیںاور تثلیث کے ردّمیں مختصراً میںکہہ چکاہوں اوراب میںآپ سے اُس کے دلائل سنناچاہتاہوں کیونکہ اُس کابار ِثبوت آپ پرہے جو اسے مدارِنجات ٹھہراتے ہیں اور ایک گروہ کثیر سے اختلاف کرتے ہیں مثلاً ایک شخص ایک معمولی بات کے خلاف جو دنیانے مانی ہے کہ انسان آنکھ سے دیکھتاہے اور زبان سے چکھتا اور بولتاہے اور کانوںسے سنتا ہے یہ کہے کہ انسان آنکھ سے بولتاہے اور کان سے دیکھتاہے توقانون کی رُو سے ثبوت اسی کے ذمہ ہے.اس طرح پر تثلیث کاتوکوئی قائل نہیں.یہودی جو ابراہیمی سلسلہ میں ہیں وہ اس سے انکار کرتے ہیںاور صاف کہتے ہیں کہ ہماری کتابوںمیںاس کاکوئی نام ونشان نہیںبر خلاف اس کے توحید کی تعلیم ہے اور نہ آسمان پر نہ زمین پر نہ پانی میںغرض کہیںبھی دُوسراخداتجویز کرنے سے منع کیاگیاہے.پھر میں نے قانون قدرت سے آپ کو ثابت کر دکھایاکہ توحیدہی ماننی چاہیے.پھر باطنی شریعت میں توحید کے نقوش ہیں.اب آپ جو نقل، عقل اور باطنی شریعت کے خلاف کہتے ہیں کہ خداایک نہیں بلکہ تین ہیں تویہ ثبوت آپ ہی کے ذمہ ہے.یہ مسئلہ ایساہے کہ ہمیںتو فقط اس کے سننے ہی کاحق ہے.کیونکہ نبیوںاور راست بازوںکی تعلیم کے صریح خلاف ہے.میں خدا کوحاضر ناظر جان کر کہتا ہوںاور خدا نے میرے دل کو اس سے پاک بنایا ہے کہ اس میں بے انصافی ہو کہ اس کا بار ثبوت آپ کے ذمہ ہے رکیک تاویلوںسے کام نہیں چلتا اور نہ اُن سے تسلی ہوسکتی ہے.آپ خود دل میںانصاف کریںکہ راست باز کے بغیر کوئی وہ کام نہ کرے گا جو میں کرتا ہوں.پس آپ جس قدرمفصل اس پر لکھ سکیںوہ لکھ کر سناویں مگر اتنایادرکھیںکہ دعویٰ اپنے نفس میںابہام رکھتاہے.بعض آدمیوںکو یہ دھوکالگ جاتاہے کہ وہ دعویٰ اوردلیل میںفرق نہیںکر سکتے.دعویٰ کے لیے دلیل ایک روشن چراغ ہوتی ہے.پس دعویٰ اور دلیل میںفرق کر لینا ضروری ہے.

Page 471

(اس پر مسٹر عبدالحق نے کہا کہ میںکل لکھ کر سنادوںگا اور حضرت اقدس تشریف لے گئے.)۱ ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۱ء چوتھی ملاقات آ ج احبا ب بہت کثر ت سے آ گئے تھے اور لا ہو ر ، وزیر آ باد ، راولپنڈی ، علاقہ کا بل ، جموں، گوجرانوالہ، امرتسر، کپور تھلہ، گڈھ شنکر، لودھانہ، الٰہ آباد، سا نبھر وغیرہ مقا ما ت سے اکثر دوست آچکے تھے.حضر ت اقدسؑ حسب معمو ل سیر کو نکلے اور خدّام کے زمر ہ میں یہ نورِ خدا چلا.احبا ب کا پروا نوں کی طرح ایک دو سر ے پر گرنابھی بجا ئے خو د دیکھنے والے کے لیے ایک عجیب نظا رہ تھا.الغر ض مسٹرعبدالحق صاحب نے کل کے حضرت ا قد س کے ارشا د کے موا فق ایک مختصر سی تحر یر پڑھ کرسنا ئی جو ان کے اپنے خیال میں تثلیث اور مسیح کی الوہیت کے دلائل پر مشتمل تھی.اس کو سن لینے کے بعدحضرت ا قد س نے اپنا سلسلہ کلام یوںشروع فرما یا.تثلیث والُوہیّت ِمسیح اصل بات یہ ہے کہ یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے اور اس سے کوئی دانش مند انکار نہیںکر سکتا کہ ہر آدمی جس غلطی میںمبتلاہے یاجس غلط خیال میں گرفتار ہے وہ اس کے لیے اپنے پاس کوئی نہ کوئی وجوہاتِ رکیکہ ضرور رکھتا ہے مگر دانش مند اور سلیم الفطرت انسان کا خاصہ ہے کہ وہ ان کی توزین کر کے اصل نتیجہ کو جو سچائی ہو تی ہے تلاش کرنے لگتا ہے.اب اسی اصول کے موافق عیسا ئیوں نے بھی اپنے اس عقیدہ تثلیث کے متعلق کچھ باتیں بنا رکھی ہیں جن کو وہ دلائل قرار دیتے ہیںاور سمجھتے ہیں.مگر ابھی آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ دلائل کیا وقعت رکھ سکتے ہیںاور ان میںکہاںتک قوت اور زور ہے.جس حال میںعیسائیوںمیںایسے فرقے بھی موجود ہیںجو مسیح کی اُلوہیت اور خدائی کے قائل نہیںاور نہ وہ تثلیث ہی کو مانتے ہیں جیسے مثلاً یُونی ٹیرین.تو کیا وہ اپنے دلائل اور وجوہات انجیل سے بیان نہیں کرتے؟ وہ بھی تو انجیل ہی پیش

Page 472

کرتے ہیں.اب اگر صراحتاً بلا تاویل انجیل میں مسیح کی الوہیت یا تثلیث کا بیان ہوتا تو کیا وجہ ہے کہ یونی ٹیرین فرقہ اس سے انکار کرتا ہے حالانکہ وہ انجیل کو اسی طرح مانتا ہے جس طر ح دوسرے عیسائی.جو پیشگوئیاں توریت کی پیش کی جاتی ہیں ان کے متعلق بھی ان لوگوں نے کلام کی ہے اور ایک یونی ٹیر ین کی بعض تحریریں بھی میرے پاس اب تک موجود ہیں.کیااُنہوںنے اُن کو نہیں پڑھا اور نہیں سمجھا.قرآن شریف نے کیاخوب کہاہے كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ (الروم: ۳۳).میری مراد اس کے بیان کرنے سے صرف یہ ہے کہ تاویلات رکیکہ اور ظنی باتیں تو ایک باطل پرست بھی پیش کرتاہے.مگر کیا ہمارا یہ فرض نہیںہونا چاہیے کہ ہم اس پر پورا غور کریں؟ یونی ٹیرین لوگوں نے تثلیث پرستوں کے بیانات ان پیشگوئیوں کے متعلق سن کر کہاہے کہ یہ قابل شرم باتیںہیں جو پیش کرنے کے قابل نہیںہیں اور اگر تثلیث اوراُلوہیت مسیح کاثبو ت اسی قسم کا ہو سکتا ہے تو پھر بائبل سے کیا ثا بت نہیں ہو سکتا؟ لیکن ایک محقق کے لیے غور طلب بات یہ ہے کہ وہ ان کو پڑھ کر ایک امر تنقیح طلب قرار دے اور پھر اندرونی اور بیرونی نگاہ سے اس کو سوچے.اب ان پیشگوئیوں کے متعلق جہاں تک میں کہہ سکتا ہوں یہ امر قابل غور ہیں.اوّل.کیا ان پیشگوئیوں کی بابت یہودیوں نے بھی (جن کی کتابوں میں یہ درج ہیں) یہی سمجھا ہوا تھا کہ ان سے تثلیث پائی جاتی ہے یا مسیح کا خدا ہونا ثابت ہوتا ہے.دوم.کیا مسیح نے خود بھی تسلیم کیا کہ یہ پیشگوئیاں میرے ہی لیے ہیں اور پھر اپنے آپ کو اُن کا مصداق قرار دے کر مصداق ہونے کا عملی ثبوت کیا دیا؟اب اگر چہ یہ ایک لمبی بحث بھی ہو سکتی ہے کہ کیا درحقیقت وہ پیشگوئیاں اصل کتاب میں اسی طرح درج ہیں یا نہیں مگر اس کی کچھ چنداں ضرورت نہ سمجھ کر ان دو تنقیح طلب اُمور پر نظر کرتے ہیں.یہودیوں نے جو اصل وارثِ کتابِ توریت ہیں اور جن کی بابت خود مسیح نے کہا ہے کہ وہ موسیٰ کی گد ی پر بیٹھے ہیں کبھی بھی ان پیشگوئیوں کے یہ معنے نہیں کئے جو آپ یا دوسرے عیسائی کرتے ہیں

Page 473

اور وہ کبھی بھی مسیح کی بابت یہ خیال رکھ کر کہ وہ تثلیث کا ایک جزو ہے منتظر نہیں.چنانچہ میں نے اس سے پہلے بہت واضح طور پر اس کے متعلق سنایا ہے اور عیسائی لوگ محض زبردستی کی راہ سے ان پیشگوئیوں کو حضرت مسیح پر جماتے ہیں جو کسی طرح بھی نہیں جمتی ہیں ورنہ علما ء یہودکی کوئی شہادت پیش کرنی چاہیے کہ کیا وہ اس سے یہی مراد لیتے ہیں جو تم لیتے ہو.پھر انجیل کو پڑھ کر دیکھ لو (وہ کوئی بہت بڑی کتاب نہیں) اُس میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوا کہ حضرت مسیح نے ان پیشگوئیوں کو پورا نقل کرکے کہا ہو کہ اس پیشگوئی کے رو سے میں خدا ہوں اور یہ میری اُلوہیت کے دلائل ہیں کیونکہ نِرا دعویٰ تو کسی دانش مند کے نزدیک بھی قابلِ سماعت نہیں ہے اور یہ بجائے خود ایک دعویٰ ہے کہ ان پیشگوئیوں میں مسیح کو خدا بنایا گیا ہے.مسیح نے خود کبھی دعویٰ نہیں کیا تو کسی دوسرے کا خواہ مخواہ اُن کو خدا بنانا عجیب بات ہے.اور پھر اگر بفرض محال کیا بھی ہو تو اس قدر تناقض اُن کے دعویٰ اور افعال میں پایا جاتا ہے کہ کوئی عقل مند اور خدا ترس اُن کو پڑھ کر انہیں خدا نہیں کہہ سکتا بلکہ کوئی بڑا عظیم الشان انسان کہنا بھی مشکل ہوجاتا ہے.انجیل کے اس دعویٰ کو ردّ کرنے کے لیے تو خود انجیل ہی کافی ہے کیونکہ کہیں مسیح کا ادّعا ثابت نہیں بلکہ جہاں اُن کو موقع ملا تھا کہ وہ اپنی خدائی منوالیتے وہاں اُنہوں نے ایسا جواب دیا کہ ان ساری پیشگوئیوں کے مصداق ہونے سے گویا انکار کر دیا اور ان کے افعال اور اقوال جو انجیل میں درج ہیں وہ بھی اسی کے مؤید ثابت ہوتے ہیں کیونکہ خدا کے لیے تو یہ ضرور ہے کہ اُس کے افعال اور اقوال میں تناقض نہ ہو حالانکہ انجیل میں صریح تناقض ہے.مثلاً مسیح کہتا ہے کہ باپ کے سوا کسی کو قیامت کا عِلم نہیں ہے.اب یہ کیسی تعجب خیز بات ہے کہ اگر باپ اور بیٹے کی عینیت ایک ہی ہے تو کیا مسیح کا یہ قول اس کا مصداق نہیں کہ دروغ گو را حافظہ نباشد کیونکہ ایک مقام پر تو دعویٰ خدائی اور دوسرے مقام پر الوہیّت کے صفات کا انکار اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ انجیل میں مسیح پر بیٹے کا لفظ آیا ہے اس کے جواب میں ہمیں یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ انجیل محرف یا متبدل ہے.بائبل کے پڑھنے والوں سے یہ ہرگز مخفی نہیں ہے کہ اس میں بیٹے کا لفظ کس قدر عام ہے.اسرائیل کی نسبت لکھا ہے کہ اسرائیل

Page 474

فرزند من بلکہ نخست زادۂ من است.اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا.اور خدا کی بیٹیاں بھی بائبل سے تو ثابت ہوتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا کا اطلاق بھی ہوا ہے کہ تم خدا ہو.اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہو گا.اب ہر ایک مُنصف مزاج دانش مند غور کرسکتا ہے کہ اگر اِبن کا لفظ عام نہ ہوتا تو تعجب کا مقام ہوتا.لیکن جبکہ یہ لفظ عام ہے اور آدمؑکو بھی شجرۂ ابناء میں داخل کیاگیا ہے اور اسرائیل کو نخست زادہ بتایا گیا ہے اور کثرتِ استعمال نے ظاہر کر دیا ہے کہ مقدسوں اور راستبازوں پر یہ لفظ حُسنِ ظن کی بنا پر بولا جاتا ہے.اب جب تک مسیح پر اس لفظ کے اطلاق کی خصوصیت نہ بتائی جاوے کہ کیوں اس ابنیت میں وہ سارے راست بازوں کے ساتھ شامل نہ کیا جاوے اس وقت تک یہ لفظ کچھ بھی مفید اور مؤثر نہیں ہو سکتا کیونکہ جب یہ لفظ عام اور قومی محاورہ ہے تو مسیح پر اُن سے کوئی نرالے معنے پیدا نہیں کرسکتا.میں اس لفظ کو مسیح کی خدائی یا ابنیت یا الوہیت کی دلیل مان لیتا اگر یہ کسی اور کے حق میں نہ آیا ہوتا.میں سچ سچ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کے خوف سے کہتا ہوں کہ ایک پاک دل رکھنے والے اور سچے کانشنس والے کے لیے اس بات کی ذرا بھی پروا نہیں ہوسکتی اور ان الفاظ کی کچھ بھی وقعت نہیں ہوسکتی جب تک یہ ثابت کرکے نہ دکھایا جاوے کہ کسی اور شخص پر یہ لفظ کبھی نہیں آئے اور یا آئے تو ہیں مگر مسیح ان وجُوہاتِ قویہ کی بنا پر اَوروں سے ممتاز اور خصوصیت رکھتا ہے.یہ تو دورنگی ہے کہ مسیح کے لیے یہی لفظ آئے تو وہ خدا بنایا جاوے اور دوسروں پر اس کا اطلاق ہوتو وہ بندے کے بندے؟ اگر یہ اعتقاد کیا جاوے کہ خدا خود ہی آکر دنیا کو نجات دیا کرتا ہے یا اس کے بیٹے ہی آتے ہیں تو پھر دَور لازم آئے گا اور ہر زمانہ میں نیا خدا یا اس کے بیٹوں کا آنا ماننا پڑے گا جوصریح خلاف بات ہے.ان ساری باتوں کے علاوہ ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ وہ کیا نشانات تھے جن سے حقیقتاً مسیحؑ کی خدائی ثابت ہوتی.کیا معجزات؟اوّل تو سِرے سے ان معجزات کا کوئی ثبوت ہی نہیں کیونکہ انجیل نویسوں کی نبوت ہی کا کوئی ثبوت نہیں.اگر ہم اس سوال کو درمیان نہ بھی لائیں اور اس بات کا لحاظ نہ کریں کہ اُنہوں نے ایک محقق اور چشم دید حالات لکھنے والے کی حیثیت سے نہیں لکھے.تب بھی ان معجزات میں کوئی رونق اور قوت نہیںپائی جاتی جبکہ ایک تالاب ہی کا قصہ مسیح کے سارے معجزات کی

Page 475

رونق کو دور کر دیتا ہے اور مقابلۃً جب ہم انبیاء سابقین کے معجزات کو دیکھتے ہیں تو وہ کسی حالت میں مسیح کے معجزات سے کم نہیں بلکہ بڑھ کر ہیں کیونکہ بائبل کے مطالعہ کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ پہلے نبیوں سے مُردوں کا زندہ ہونا ثابت ہے بلکہ بعض کی ہڈیوں سے مُردوں کا لگ کر بھی زندہ ہونا ثابت ہے حالانکہ مسیح کے خیالی معجزات میں ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہے.مسیح کی لاش نے کوئی مُردہ زندہ نہیں کیا پھر بتاؤ کہ مسیح کو کون سی چیز خدا بنا سکتی ہے؟کیا پیشگو ئیاں؟ ان کی حقیقت میںنے پہلے بتادی ہے کہ مسیح کی پیشگوئیاں پیشگوئی کا رنگ ہی نہیںرکھتی ہیںجو باتیں پیشگوئی کے رنگ میںمندرج ہیں وہ ایسی ہیں کہ ایک معمولی آدمی بھی اُن سے بہتر باتیںکہہ سکتا ہے اور قیافہ شناس مدبّر کی پیشگوئیاں اُن سے بدرجہابڑھی ہوئی ہوتی ہیں.میںعلی الاعلان کہتا ہوں کہ اگر اس وقت مسیح ہوتے تو جس قدر عظیم الشان تائید ی نشان پیشگوئیوں کے رنگ میں اب خدا نے میرے ہاتھ پر صادر کئے ہیں وہ ان کو دیکھ کر شرمندہ ہوجاتے اور اپنی پیشگو ئیوں کا کہ زلزلے آئیںگے، مری اور قحط پڑیںگے یا مرغ بانگ دے گا کبھی مارے ندامت کے نام نہ لیتے.پھر آپ ہی ہمیںبتائیںکہ کس طرح پر ہم مسیح کو مانیں کہ وہ خدا تھا.خدائی کا دعویٰ ان میں نہیں.صحف سابقہ کی پیشگوئیوں کے اپنے متعلق ہونے کا انہوں نے کوئی دعویٰ نہیں کیا اور نہ اپنے متعلق ہونے کا کوئی ثبوت دیا.پھر سلب صفات ِخدائی کو ہم ان میںدیکھتے ہیں.قیامت کی بابت انہیں اقرار ہے کہ مجھے اس کاعلم نہیں، باپ اور بیٹے کے باوجود متحد فی الوجود ہونے کے ایک کا عالم دوسرے کاجاہل ہونا قابلِ لحاظ ہے.تقدّس کا یہ حال کہ خود کہتا ہے کہ مجھے نیک نہ کہو.صرف باپ ہی کو نیک ٹھہراتا ہے.پھر یہ اختلاف بھی باپ بیٹے کی عینیت کے خلاف ہے.صرف ابن کا لفظ ان کی خدائی کو ثابت نہیں کر سکتا کیونکہ حقیقت اور مجازمیں باہم تفریق کرنے کے ہم مجاز نہیں ہو سکتے کہ کہہ دیں کہ یہاں تو حقیقت مراد ہے اور فلاں جگہ مجاز ہے.یہی لفظ یا اس سے بھی بڑھ کر جب دوسرے انبیاء اور راست بازوں اور قاضیوں پر بو لا جاوے تو وہ نرے آدمی ہیں اور مسیح پر بولا جاوے تو وہ خود خدا اور ابن بن جاویں.یہ تو انصاف اور راستی کے خلاف ہے اور پھر گویا نئی شریعت اور نئی کتاب بنانا ہے.اس سے کوئی فائدہ نہیں.

Page 476

پادریوںنے خیالی اورفرضی طور پر مسیح کی خدائی کے ثبوت کے لیے بڑے ہاتھ پائوںمارے ہیں مگر آج تک ایک بھی رسالہ یا تحریر ان کی میری نظر سے نہیں گزری اور کوئی پادری میں نے نہیں دیکھا جس نے مسیح کے معجزات کے چہرہ سے تالاب کے قصہ کے داغ کو دور کیا ہو اور جب تک انجیل میں یہ قصہ درج ہے یہ داغ اٹھ نہیں سکتا.میں بار بار آپ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی صفات کو دیکھو.رہاپو لوس جس کی باتوں سے خدائی نکا لی جاتی ہے.وہ اپنے چال چلن کے لحاظ سے بجائے خود غیر معتبراور اس کے لیے مسیح کی کوئی پیشگوئی نہیں.پھرآپ ہی بتائیں کہ ایک دانش مند اسے خدا کس طرح مان کے ایسے خدا کی کوئی پرستش کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.مسیح کی زندگی اس کی پوری ناکامی اور نا مرادی کی تصویر ہے.آج وہ زندہ ہو تے تو ان کو وہ نشانات دیکھ کر جو اِس مسیح کے ہاتھ پر صادر ہو رہے ہیں شرمندہ ہونا پڑتا.کیا یہی قبولیت دعا ہوتی ہے کہ ساری رات چلّاتا رہا اور کسی نے بھی نہ سنا اور آخری ساعت میں خدا کا شکوہ کرتا ہوا رخصت ہوا کہ اِیْلِیْ اِیْلِیْ لِمَاسَبَقْتَنِیْ.خدا نے مجھے مامور کرکے بھیجا اور تائیدی نشانات دکھائے اس وقت جو خد انے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے اورجو نشانات میری تائید میںظاہر ہوئے ہیں ان کی نظیر تو پیش کرو مثلاً یہی ڈگلس کا مقدمہ جو دین دار پادریوں کی کوشش اور ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دینے کی تعلیم دینے والوںکی طرف سے کیا گیا.کئی سو آدمی اس بات کے گواہ موجود ہیں کہ کس طرح پر قبل ازوقت کل واقعات سے اطلاع دی گئی اورخدا نے کس طرح ہر قسم کی ذلت سے محفوظ رکھ لیا.پہلے امرتسر میں جب یہ مقدمہ دائر کیاگیا تو ڈپٹی کمشنر نے چالیس ہزار کی ضمانت کے ساتھ وارنٹ جاری کر دیا مگر خدا کی قدرت دیکھو کہ وہ اسے جاری نہ کر سکا وہ اسی کی کتاب میںرہ گیا.پیچھے جب اسے یہ معلوم کرایا گیا کہ ایسے وارنٹ کااجرا ناجائز ہے تو اس نے گو رداسپور تار دی کہ وارنٹ روکا جاوے مگر وہاں پہنچا ہی نہ تھا.آخر یہ مقدمہ چلا اور عیسائیوںنے ہر طرح سے میرے سزادلانے میں سعی کی.مگر خدا نے اپنی قدرت کا نشان دکھایا اور میری اہانت چاہنے والوںکی اہانت کی.ڈگلس صاحب نے نہایت ہی عزّت واحترام سے مجھے بُلایا اور کرسی دی حالانکہ مجھے ان باتوں کی ایک ذرّہ بھر بھی پروا

Page 477

نہیں.آریہ اور بعض مسلمان بھی ان کے شریک تھے.پنڈت رام بھجدت پلیڈر جو آریہ ہے وہ بلا فیس آتاتھا اور اس نے مجھے خود کہا کہ وہ اس لیے شریک ہواہے کہ لیکھرام کے قاتل کا پتہ مل جاوے.محمد حسین گواہ ہو کر آیا اور کرسی مانگ کر بہت ذلیل ہو ا.آخر جب ساری کارروائی ہو چکی اور عبدالحمید نے صاف اقرار کر لیا کہ مجھے قتل کے لیے بھیجا ہے.پوری مسل مرتب ہوجانے پر خدا نے اپنی قدرت کی چمکار دکھائی اور ڈگلس کے دل میں ڈال دیا کہ یہ سب جھوٹ ہے.اُس نے کپتان لیمارچنڈکو کہا کہ میرا دل اطمینا ن نہیں پاتا پھر عبدالحمیدسے دریافت کرو.آخر عبدالحمید نے اصل رازبتادیا کہ مجھے سکھایاگیا تھا.پھر ڈپٹی کمشنر کو تا ر دیا گیا اور نتیجہ وہی ہوا جس کی خبر مقدمہ کے نام و نشان سے بھی پہلے تمام شہروںمیںشائع ہوچکی تھی.ایسا ہی لیکھرام کا نشان اور صدہانشان ہیں.جماعت کے لحاظ سے بھی اگر دیکھا جاوے تو مسیح ناکام اُٹھا.حواریوںنے سامنے قسمیں کھائیں اور لعنت کی.اور ادھر یہ حال ہے کہ ہمارے ایک مخلص دوست عبدالرحمان نام کو جو نواح کابل میں رہتا تھا محض ہماری وجہ سے ایک سال تک قید رکھا گیا کہ وہ توبہ کرے مگر اُس نے موت کو انکا ر پر ترجیح دی.آخر کہتے ہیں کہ اُسے گلاگھونٹ کر مار دیاگیا اور جیسااس نے کہا تھا مَرنے کے بعد ایک نشان اس کاظاہر ہو ا.مجھے افسوس ہے کہ عیسائی اپنے ایمان کی متاع پولوس کی باتوں پر ہار دیتے ہیں.علاوہ برآں انجیل کا ایک بہت بڑاحصہ بھی یہی تعلیم دیتاہے کہ خدا ایک ہے مثلاً جب مسیح کو یہودیوں نے اس کے اس کفر کے بدلے میں یہ کہ ابن اللہ ہونے کا دعویٰ کرتاہے پتھراؤ کرناچاہا تو اس نے انہیں صاف کہا کہ کیا تمہاری شریعت میںیہ نہیں لکھا کہ تم خدا ہو.اب ایک دانش مند خوب سوچ سکتا ہے کہ اس الزام کے وقت توچاہیے تھا مسیح اپنی پوری بریت کرتے اور اپنی خدائی کے نشان دکھا کر انہیں ملزم کرتے اور اس حالت میں کہ ان پر کفر کا الزام لگایا گیا تھا توان کافرض ہوناچاہیے تھاکہ اگر وہ فی الحقیقت خدا یا خداکے بیٹے ہی تھے تو یہ جواب دیتے کہ یہ کفر نہیں ہے بلکہ میںواقعی طور پر خدا کا بیٹاہوں اور میرے پاس اس کے ثبوت کے لیے تمہاری ہی کتابوں میںفلاں فلاںموقع پر صاف لکھا ہے کہ

Page 478

میں قادرِ مطلق عالم الغیب خداہو ںاور لاؤ میںدکھادوں اور پھر اپنی قدرتوںاور طاقتوں سے ان کو نشانات ِخدائی بھی دکھا دیتے اوروہ کام جو انہوں نے خدائی کے پہلے دکھائے تھے ان کی فہرست الگ دےدیتے.پھر ایسے بیّن ثبوت کے بعد کس یہودی فقیہ یا فریسی کی طاقت تھی کہ انکار کرتا.وہ توایسے خدا کو دیکھ کر سجدہ کرتے.مگر بر خلاف اس کے آپ نے کیا تو یہ کیا کہ کہہ دیا کہ تمہیں خدالکھا ہے.اب خداترس دل لے کر غور کرو کہ یہ اپنی خدائی کاثبوت دیایا ابطال کیا.غرض یہ باتیں ایسی ہیں کہ ان کے بیان کرنے سے بھی شرم آتی ہے.میںاس کو آپ ہی کے انصاف پر چھوڑتاہوں.تورات، اسلام، قانون قدرت، باطنی شریعت تو توحید کی شہادت دیتے ہیںاور عیسائی یسوع کی خدائی کے یہ دلائل دیتاہے کہ کتب ِسابقہ میںاس کی بشارتیں ہیں( جن کو یہودیوںنے کبھی تسلیم نہیںکیاکہ وہ خود خدایا اس کے کسی بیٹے کے لیے ہیںبلکہ وہ مسیح کے آنے سے پہلے ہی پوری ہوچکی ہیں) اور پھر انجیل کے بعض اقوال بتاتے ہیں کہ اس کایہ حال ہے کہ اصل کاپتہ ہی نہیں کیونکہ اصل زبان مسیح کی عبرانی تھی اور خود مسیح اپنی الگ انجیل کا ذکر کرتے ہیں.پھر مسیح نے کہیں اپنی خدائی کا دعویٰ نہیںکیا یہودیو ںکے پتھراؤ کرنے پر اور اس کفر کے الزام پر ان کا قومی اور کتابی محاورہ پیش کر کے نجات پائی.اپنی خدائی کا کوئی قوی ثبوت نہ دیا اور اپنے سے کبھی فوق العادت کام کو نہ دکھایا.معجزات کا وہ حال، پیشگوئیوں کی وہ حالت ، علم کی یہ صورت کہ اتنا پتہ نہیں کہ انجیر کے درخت کو اس وقت پھل نہیںہوگا، اختیار کایہ حال کہ اسے لگا نہیںسکا.ساعت کاعلم نہیں دے سکتا، ضعف و نا توانائی اتنی کہ طمانچہ اور کوڑے کھاتاہوا صلیب پر چڑھتاہے.یہودی کہتے ہیںکہ خدا کابیٹاہے تو اتر آ.اُترناتودرکنار ان کو کچھ جواب بھی نہیں دے سکتا.چال چلن کاوہ حال کہ اُستاد بھی عاق کر دیتا ہے اور یہودیوںکے اِلزامات کئی پشت تک اوپر ہوتے ہیںاور کوئی جواب نہیںدیاجاتا.۱ مسیح کے حالات ازروئے بائبل اور پھر مسیح کے حالات کو پڑھو توصاف معلوم ہوگا کہ یہ شخص کبھی بھی اس قابل نہیںہو سکتاکہ نبی بھی ہو.

Page 479

چہ جائیکہ خدا یا خدا کابیٹا ہے.تدبیر عالم اورجزا وسزا کے لیے عالم الغیب ہونا ضروری ہے اور یہ خدا کی عظیم الشان صفت ہے مگر میںابھی دکھاآیاہو ں کہ اُسے قیامت تک کاعلم نہیں اور اتنی بھی اسے خبر نہ تھی کہ بے موسم انجیر کے درخت کے پاس شدت بھوک سے بے قرار ہو کر پھل کھانے کو جاتاہے اور درخت کو جسے بذات خود کوئی اختیار نہیں ہے کہ بغیر موسم کے بھی پھل دے سکے بد دعا دیتا ہے.اوّل تو خدا کو بھوک لگنا ہی تعجب خیز امرہے اور یہ خوبی صرف انجیلی خداہی کوحاصل ہے کہ بھوک سے بے قرار ہوتا ہے پھر اس پر لطیفہ یہ بھی ہے کہ آپ کو اتنا علم بھی نہیں ہے کہ اس درخت کو پھل نہیں ہے اورپھر اگر یہ علم نہ تھا توکاش کوئی خدائی کرشمہ ہی وہاںدکھاتے اور بے بہار ے پھل اس درخت کو لگادیتے تادُنیاکے لیے ایک نشان ہوجاتا مگر اس کی بجائے بد دعادیتے ہیں.اب ان ساری باتوںکے ہوتے یسوع کو خدا بنایاجاتاہے.میںآپ کو سچی خیر خواہی سے کہتا ہوں کہ تکلّف سے کچھ نہیں ہوسکتا.ایک شخص ایک ہی وقت میںاپنی دو حیثیتیں بتاتاہے.باپ بھی اور بیٹابھی.خدابھی اور انسان بھی.کیاایساشخص دھوکا نہیں دیتا ہے؟ انجیل کے جن مقامات کا آپ ذکر کرتے ہیں وہاں سیاق سباق پر نظر کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کی خدائی کے ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں کیونکہ وہ تو اس کی انسانیت ہی کو ثابت کرتے ہیںاور انسانیت کے لحاظ سے بھی اسے عظیم الشان انسانوں کی فہرست میں داخل نہیں کرتے جب اسے نیک کہا گیا تو اس نے انکار کیا.اگر اس کی روح میں بقول عیسائیاں کامل تطہّر اور پاکیزگی تھی پھر وہ یہ بات کیوں کہتا ہے کہ مجھے نیک نہ کہو.علاوہ بریں یسوع کی زندگی پر بہت سے اعتراض اور الزام لگائے گئے ہیں اور جس کا کوئی تسلی بخش جواب آج تک ہماری نظر سے نہیں گزرا.ایک یہودی نے یسوع کی سوانح عمری لکھی ہے اور وہ یہاں موجود ہے.اس نے لکھا ہے کہ یسوع ایک لڑکی پرعاشق ہو گیا تھااور اپنے استاد کے سامنے اس کے حسن وجمال کا تذکرہ کر بیٹھا تواستاد نے اُسے عاق کر دیا اور انجیل کے مطالعہ سے جو کچھ مسیح کی حالت کاپتہ لگتا ہے وہ آپ سے بھی

Page 480

پوشیدہ نہیں ہے کہ کس طرح پر وہ نا محرم نوجوا ن عورتوں سے ملتا تھااور کس طرح پر ایک بازاری عورت سے عطر ملواتا تھااور یسوع کی بعض نانیوں اور دادیوں کی جو حالت بائبل سے ثابت ہوتی ہے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں.ان میں سے تین جو مشہور ومعروف ہیں ان کے نام یہ ہیں بنت سبع، راحاب، تمر، اور پھر یہودیوںنے اس کی ماںپر جو کچھ الزام لگائے ہیں وہ بھی ان کتابو ںمیں درج ہیں.ان سب کو اگر اکٹھاکر کے دیکھیں تو اس کا یہ قول کہ مجھے نیک نہ کہو اپنے اندر حقیقت رکھتاہے اور یہ فروتنی یا انکسار کے طور پر ہر گزنہ تھا جیسابعض عیسائی کہتے ہیںاب میں پوچھتاہوںکہ جس شخص کے اپنے ذاتی چال چلن کا یہ حال ہواور حسب نسب کایہ، توکیا خداایسا ہی ہواکرتاہے یہ با تیں اللہ تعا لیٰ کے تقد س کے صر یح خلاف ہیں خدا اپنی قد رت سے کبھی الگ نہیں ہوا.اور یسوع کی نسبت صا ف معلو م ہے کہ پورا ناتواں اور بے علم تھا.پھر یسو ع کی راست بازی میں کلام ہے پہلے کہا کہ میںداؤدکا تخت قائم کر نے کے وا سطے آیا ہو ں اور حوار یوںکو کپڑے بیچ کرتلوا ریں خر ید نے کی بھی تعلیم دی لیکن جب دا ل گلتی نظرنہ آئی تو اس کو یہ کہہ کر ٹا ل دیا کہ آسما نی با دشا ہت ہے کیا داؤد کا تخت آسما نی تھا.اصل یہ ہے کہ ابتدا میںاسے خیا ل نہ تھا کہ کو ئی مخبر ی کی جاوے گی لیکن آخر جب مخبری ہوئی اور عدالتو ں میںطلبی ہوئی تو آنکھ کھلی اورآسمانی سلطنت پراسے ٹا لا.بھلااس قسم کے ضعف اور بے علمی اور ایسے چال چلن کے ہوتے ہوئے کہیںخدابننا کہیں بیٹا کہلانا اور انسا ن ہونا یہ سا ری باتیں ایک ہی و قت میں جمع ہو جائیں کس قدر حیرت کو بڑھا نے والی ہیں.پولو س کا کردار با قی رہاپولو س کا اجتہاد یااُس کے اقوال.جن لوگوں نے پولوس کے چال چلن پر غور کی ہے اور جیسا کہ اس کے بعض خطوط کے فقرات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر مذہب والے کے رنگ میں ہو جاتا تھا.تمہیں خوب معلوم ہے اور اس کے حالات میں آزاد خیال لوگوں نے لکھا ہے کہ اچھے چال چلن کا آدمی نہ تھا.بعض تاریخوں سے پایا جاتا ہے کہ وہ ایک کاہن کی لڑکی پر عاشق تھا اور ابتدا میں اُس نے بڑے بڑے دُکھ عیسائیوں کو دیئے اور بعد میں جب کوئی راہ اُسے نہ ملی اور اپنے مقصد میں کامیابی کا کوئی ذریعہ اُسے نظر نہ آیا تو اس نے ایک خواب بنا کر

Page 481

اپنے آپ کو حواریوں کا جمعدار بنالیا.خود عیسائیوں کو اِس کا اعتراف ہے کہ وہ بڑا سنگدل اور خراب آدمی تھا اور یونانی بھی پڑھا ہوا تھا.میں نے جہاں تک غور کی ہے مجھے یہی معلوم ہوا ہے کہ وہ ساری خرابی اس لڑکی ہی کے معاملہ کی تھی اور عیسائی مذہب کے ساتھ اپنی دشمنی کامل کرنے کے لیے اس نے یہ طریق آخری سو چاکہ اپنا اعتبار جمانے کے لیے ایک خواب سنادی اور عیسائی ہو گیا اور پھر یسوع کی تعلیم کو اپنے طرز پر ایک نئی تعلیم کے رنگ میں ڈھال دیا.میں کہتا ہوں کہ عیسائی مذہب کی خرابی اور اس کی بدعتوں کا اصل بانی یہی شخص ہے اور اس کے سوا میں کہتا ہوں کہ اگر یہ شخص ایسا ہی عظیم الشان تھا اور واقعی یسوع کا رسول تھا اور اس قدر انقلابِ عظیم کا موجب ہونے والا تھا کہ خطرناک مخالفت کے بعد پھر یسوع کا رسول ہونے کو تھا تو ہمیں دکھائو کہ اس کی بابت کہاں پیشگوئی کی گئی ہے کہ ان صفات والا ایک شخص ہوگا اور اُس کا نام ونشان دیا ہو اور یہ بھی بتایا ہو کہ وہ یسوع کی خدائی ثابت کرے گا ورنہ یہ کیا اندھیر ہے کہ پطرس کے لعنت کرنے اور یہودا اسکریوطی کے گرفتار کرانے کی پیشگوئی تو یسوع صاحب کر دیں اور اتنے بڑے عیسوی مذہب کے مجتہد کا کچھ بھی ذکر نہ ہو؟ اِس لیے اس شخص کی کوئی بات بھی قابلِ سند نہیں ہوسکتی ہے اور جو کچھ اس نے کہا ہے وہ کون سے دلائل ہیں.وہ بجائے خود نرے دعوے ہی دعوے ہیں.میں بار بار یہی کہتا ہوں اور اس لئے مکرّر سہ کرر اس بات کو بیان کرتا ہوں کہ آپ سمجھ لیں کہ انجیل ہی کو یسوع کی خدائی کے ردّ کرنے کے لیے آپ پڑھیں.وہ خود ہی کافی طور پر اس کی تردید کر رہی ہے.اگر وہ خدا تھا تو کیوں اس نے بالکل نرالی طرز کے معجزات نہ دکھائے.میں نے تحقیق کر لیا ہے کہ اُن کے معجزات کی حقیقت سلب امراض سے کچھ بھی بڑھی ہوئی نہ تھی جس میں آج کل یورپ کے مسمریزم کرنے والے اور ہندو اور دوسرے لوگ بھی مشّاق ہیں اور خیالات ایسے بیہودہ اور سطحی تھے کہ صرع کے مریض کو کہتا ہے کہ اس میں جِنّ گُھسا ہوا ہے حالانکہ اگر صرع کے مریض کو کونین، کچلہ، فولاد دیں اور اندر دماغ میں رسولی نہ ہو تو وہ اچھا ہو جاتا ہے.بھلا جِنّ کو مرگی سے کیا تعلّق.چونکہ یہودیوں کے خیالات ایسے ہو گئے تھے ان کی تقلید پر اِس نے بھی ایسا ہی کہہ دیا اور یا یہ کہ جیسے آج کل جادو ٹونے کر نے والے کرتے ہیں کہ بعض

Page 482

ادویات کی سیاہی سے تعویذ لکھ کر علاج کرتے ہیں اور بیماری کو جِنّ بتاتے ہیں.ویسے ہی اس نے کہہ دیا ہو.مجھے افسوس ہے کہ مسیح کے معجزات کو مسلمانوں نے بھی غور سے نہیں دیکھا اور عیسائیوں کی دیکھا دیکھی اور اُن سے سن سن کر ان کے معنے غلط کر لیے ہیں.مثلاً اَکْمَہ کا لفظ ہے جس کے معنے شب کور کے ہیں اور اب معنے یہ کر لیے جاتے ہیں کہ مادر زاد اندھوں کو شفا دیا کر تے تھے حالانکہ یہ اَکْمَہ وہ مرض ہے کہ جس کا علاج بکرے کی کلیجی کھانا بھی ہے اور اس سے بھی یہ اچھے ہو جاتے ہیں.یسوع کی عاجزی یسوع ضعف، ناتوانی، بیکسی اور نامرادی کی سچی تصویر ہے اور عام کمزوریوں میں انسانوں کا شریک ہے.کوئی امر خاص اس میں پایا نہیں جاتا.کُتب سابقہ کی پیشگوئیوں کا جو ذخیرہ پیش کیا جاتا ہے.ان میں صدہا اختلاف ہے.اوّل تو خود یہودیوں کی تفسیروں میں اُن کے وہ معنی ہی نہیں جو عیسائی کرتے ہیں اور دوسرے ان تفسیروں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ پوری ہو چکی ہوئی ہیں.ایک شخص عرصہ ہوا میرے پاس آیا تھا.آخرخدا نے اس پراپنا فضل کیا اور وہ مسلمان ہو گیا اور مسلمان ہی مَرا.اس کے واسطے یہودیوں کو لکھا تھا اور ان سے دریافت کیا تھا اوراصل وارث تو یہودی ہی ہیں کہ جو ہمیشہ نبیوں سے تعلیم پاتے چلے آئے تھے.انہی کا حق تو ہے کہ وہ اس کی صحیح تفسیر کریں اور خود مسیح نے بھی فقیہوں اور فریسیوں کی بات ماننے کا حکم دیا ہے گو اُن کے عمل سے منع کیا ہو.عیسائیوں اور یہودیوں میں اختلاف یہ ہے اوّل الذکر ان سے ابنیت اور الوہیت نکالتے ہیں اور آخر الذکر کہتے ہیں پوری ہو چکی ہیں.انصاف کی رو سے وہی حق پر ہیں جنہوں نے ہمیشہ نبیوں سے تعلیم پائی اور ان باتوں کی تجدید سے ایمان تازہ کیے اور برابر چودہ سو برس تک خدا کی باتیں سنتے آئے تھے.حضرت مسیح موسیٰ علیہ السلام سے چودہ سو سال بعد یعنی چودھویں صدی میں آئے تھے اور جیسے اس زمانہ میں مسیح دیا گیاتھا کہ تا موسوی جنگوں کے اعتراض کو اپنی تعلیم سے دُور کر دے اور خاتمہ جنگ و جدال پر نہ ہو.ویسے ہی اس اُمت کے لیے مثیل موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء میں سے چودھویں صدی پر مسیح موعود مبعوث کیا گیا تا اپنی پاک تعلیم کے ذریعہ جہاد کے غلط خیال کی اصلاح کر دے اور ثابت کر دے کہ اسلام تلوار سے ہرگز نہیں پھیلایا گیا بلکہ اسلام اپنے

Page 483

حقائق اور معارف کی وجہ سے پھیلا ہے.غرض یہودی پیشگوئیوں کی بحث میں غالب آجائیں گے اور حق اُن کے ساتھ ہے.اور یہ دیکھا بھی گیا ہے کہ یہودی معقول بات کہتے ہیں جیسے ایلیا کے بارے میں اُنہوں نے کہا ہے اور ایسا ہی اس بارے میں اُن کے ہاتھ میں شہادتوں کا ایک زرّیں سلسلہ ہے اور اگر کوئی چاہے تو اُن کی کتابیں اب بھی منگوا کر دکھا سکتے ہیں.یہی میں نے سراج الدین کو بھی کہا تھا.دیکھو! انسان ایک برتن کو لیتا ہے تو اسے بھی دیکھ بھال کر لیتا ہے.پھر ایمان کے معاملہ میں اتنی لاپروائی کیوں کی جاتی ہے؟ پس یہ پیشگوئیاں تو یوں ردّ ہوئیں.اب باقی رہے انجیل کے اقوال تو سب سے پہلے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ جب اصل انجیل ہی اُن کے ہاتھ میں نہیں ہے تو کیوں یہ امر قرین قیاس نہ مانا جاوے کہ اس میں تحریف کی گئی ہے کیونکہ مسیح اور اس کی ماں کی زبان عبرانی تھی.جس ملک میں رہتے تھے وہاں عبرانی بولی جاتی تھی.صلیب کی آخری ساعت میں مسیح کے منہ سے جو کچھ نِکلا وہ عبرانی تھا یعنی اِیْلِیْ اِیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَانِیْ.اب بتائو کہ جب اصل انجیل ہی کا پتہ ندارد ہے تو اس ترجمہ پر کیا دوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کہے اصل انجیل پیش کرو.اس صورت میںتو عیسائی یہودیوں سے بھی گر گئے کیونکہ انہوں نے اپنی اصلی کتاب کو تو گم نہیں کیا.پھر انجیل میںمسیح نے کہا ہے کہ ’’میری انجیل‘‘ اب اس لفظ پر غور کرنے سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسودہ انجیل کا کوئی مسیحؑ نے بھی لکھا ہو اور یہ تو نبی کا فرض ہوتا ہے کہ وہ خدا کی وحی کو محفوظ کرے اور اس کی حفاظت کا کام دوسروں پر نہ ڈالے کہ وہ جو چاہیں سو لکھ لیں.پولوس کی بابت میں پہلے کہہ آیا ہوں کہ جس کی تحریروں یا تقریروں پر اپنی خدائی کا انحصار تھا.تعجب کی بات ہے کہ خدا ہو کر اس کے واسطے منہ سے ایک لفظ بھی پیشگوئی کا نہ نکلا بلکہ چاہیے تھا کہ وصیت نامہ لکھ دیتے کہ پولوس اس مذہب کا جمعدار کیا جاوے گا اور جب یہ نہیں تو پھر اس کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ خود بخود مجتہد بن بیٹھا.اس کو یہ سارٹیفکیٹ ملا کہاں سے تھا؟ یہی وجہ ہے کہ یہ یسوعی مذہب نہیں بلکہ پولوسی ایجاد ہے، غرض صدق اور اخلاص بڑی نعمت ہے جس کو خدا دے.مختصر یہ کہ خدا بہتر جانتا ہے اور

Page 484

میں حلفاً کہتا ہوں کہ میں تو اپنے دشمن کا بھی سب سے بڑھ کر خیر خواہ ہوں.کوئی میری باتوں کو سنے بھی.یہ جو کچھ میں نے کہا ہے آپ اس پر غور کریں اور اس پر جو کچھ باقی رہ جاوے اُسے بیان کریں.حضرت اقدسؑ نے اپنی تقریر کو اس مقام پر ختم کر دیا تھا کہ خاکسار ایڈیٹر الحکم نے عرض کی کہ مسٹر عبد الحق صاحب نے اپنی تقریر میں عماد الدین کے حوالہ سے ایک بات تثلیث کے ثبوت میں کہی ہے کہ وضو کرتے وقت تین دفعہ ہاتھ دھوتے ہیں.یہ تثلیث کا نشان ہے.اس پر بھی کچھ فرما دیا جاوے.فرمایا.یہ تو بالکل بےہودہ اور کچی باتیں ہیں.اس طرح پر ثبوت دینا چاہو تو جتنے مرضی ہیں خدا بنا لو.عماد الدین کی اِن باتوں پر پادری رجب علی نے ایک ریویو لکھا تھا اور اس نے بڑا واویلا کیا تھا کہ ایسی باتوں سے عیسائیت کی توہین ہوتی ہے چونکہ وہ کچھ ظریف طبع تھا کہ عماد الدین سے تثلیث کے ثبوت میں یہ بات رہ گئی اور پھر ایک ایسی مثال دی جو قابلِ ذکر نہیں.اس نے لکھا کہ عماد الدین بالکل ایک جاہل آدمی تھا.میں نے اُس کو اردو کی عبارت کا مطلب بیان کرنے ہی کی دعوت کی تھی جس کا جواب نہ دے سکا.اور ’’نورالحق‘‘ کا جواب آج تک نہ ہوا.حالانکہ پانچ ہزار روپیہ انعام بھی تھا.ایسی باتیں تو پیش کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے.دیکھو! آخر مَرنا ہے.خدا سے ڈرنا چاہیے.دین کے معاملہ میں بڑی غوروفکردرکارہے اورپھرخدا کافضل.۱

Page 485

Page 486

غرض دنیا میں جوچیز انہیں عزیز ترین ہوسکتی تھی اس پر آپؐکے وجود کو مقدم کر لیا.اچھے بھلے آرام سے بیٹھے تھے.برادری کے تعلقات اور احباب کے تعلقات سے اپنے خیال کے موافق لطف اٹھارہے تھے.مگر اس پاک وجود کے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہی وہ سارے رشتہ اور تعلق اُن کو چھوڑنے پڑے اور اُن سے الگ ہونے میں اُنہوں نے ذرا بھی تکلیف محسوس نہ کی بلکہ راحت اور خوشی سمجھی.اب غور کرنا چاہیے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ کیا چیز تھی جس نے ان لوگوں کو اپنا ایسا گرویدہ بنا لیا کہ وہ اپنی جانیں دینے کے لیے تیار ہو گئے.اپنے تمام دنیوی مفاد اور منافع اور تمام قومی اور ملکی تعلقات کو قطع کرنے کے لیے آمادہ ہوئے.نہ صرف آمادہ بلکہ انہوں نے قطع کر کے اور اپنی جانوں کو دے کر دکھا دیا کہ وہ آپؐکے ساتھ کس خلوص اور ارادت سے ہوئے تھے.بظاہر آپ کے پاس کوئی مال ودولت نہ تھا جو ایک دنیا دار انسان کے لیے تحریص اور ترغیب کا موجب ہو سکے.خود آپ نے ہی یتیمی میں پرورش پائی تھی تو وہ اوروں کو کیا دکھا سکتے تھے.انبیاء کو حق اور کشش دی جاتی ہے میں کہتا ہوں کہ بےشک آپؐکے پاس کوئی مال و دولت اور دنیوی تحریص وترغیب کا ذریعہ نہ تھا اور ہرگز نہ تھا لیکن آپؐکے پاس وہ زبردست چیزیں جو حقیقی اور اصلی، موثر اور جاذب ہیںتھیں.وہی اُنہوں نے پیش کیں اور انہوں نے ہی دنیا کو آپؐکی طرف کھینچا.وہ تھیں حق اور کشش.یہ دو چیزیں ہی ہوتی ہیں جن کو انبیاء علیہم السلام لے کر آتے ہیں.جب تک یہ دونوں موجود نہ ہوں انسان کسی ایک سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور نہ پہنچا سکتا ہے.حق ہو کشش نہ ہو کیا حاصل؟کشش ہو لیکن حق نہ ہو اس سے کیا فائدہ؟ بہت سے لوگ ایسے دیکھے گئے ہیں اور دنیا میں موجود ہیں کہ اُن کی زبان پر حق ہوتا ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ وہ حق مفید اور موثر ثابت نہیں ہوتا.کیوں؟ وہ حق صرف اُن کی زبان پر ہے اور دل اس سے آشنا نہیں اور وہ کشش جو دل کی قبولیت کے بعد پیدا ہوتی ہے اُس کے پاس نہیں ہے.اس لیے وہ جو کچھ کہتا ہے جس اوپرے دل سے کہتا ہے اسی طرح پر اُس کا اثر ہوتا ہے.سچی کشش، حقیقی جذب اور واقعی تاثیر اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس حق کو جسے وہ بیان کرتا

Page 487

ہے نہ صرف آپ قبول کرے بلکہ اس پر عمل کر کے اس کے چمکتے ہوئے نتائج اور خواص کو اپنے اندر رکھتا ہو.جب تک انسان خود سچا ایمان ان امور پر جو وہ بیان کرتا ہے نہیں رکھتا اور سچے ایمان کے اثر یعنی اعمال سے نہیں دکھاتا وہ ہرگز ہرگز موثر اور مفید نہیں ہوتے.وہ باتیں صرف بدبودار ہونٹوں سے نکلتی ہیں جو دوسروں کے کان تک پہنچنے میں اور بھی بدبودار ہو جاتی ہیں بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ ظالم وسفاک حق کا یوں بھی خون کرتے ہیں کہ چونکہ اس کے برکات اور درخشاں ثمرات اُن کے ساتھ نہیں ہوتے اس لئے سننے والے محض خیالی اور فرضی باتیں سمجھ کر ان کی پروا بھی نہیں کرتے اور یوں دوسروں کو محروم کر دیتے ہیں.غرض یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ وہ شخص جو دنیا کی اصلاح اور بہتری کا مدعی ہے جب تک اپنے ساتھ حق اور کشش نہ رکھتا ہو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور وہ لوگ جو توجہ اور غور سے اس کی بات کو نہیں سنتے وہ ان سے بھی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا جو کشش اورحق بھی رکھتے ہوں.روحانی رات اور دن جیسا کہ خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت ہے کہ رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات آتی ہے اور اس قانونِ قدرت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی.اسی طرح دنیا پر اس قسم کے زمانے آتے رہتے ہیں کہ کبھی روحانی طور پر رات ہوتی ہے اور کبھی طلوعِ آفتاب ہو کر نیا دن چڑھتا ہے چنانچہ پچھلا ایک ہزار جو گزرا ہے، روحانی طور پرایک تاریک رات تھی جس کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیج اعوج رکھا ہے.خدا تعالیٰ کا یہ ایک دن ہے جیسا کہ فرماتا ہے اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (الـحج: ۴۸) اس ہزار سال میں دنیا پر ایک خطرناک ظلمت کی چادر چھائی ہوئی تھی.جس میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت کو ایک ناپاک کیچڑ میں ڈالنے کے لیے پوری تدبیروں اور مکاریوں اور حیلہ جوئیوں سے کام لیا گیا ہے اور خود ان لوگوں میں ہر قسم کے شِرک اور بدعات ہوگئے جو مسلمان کہلاتے تھے مگر اس گروہ کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَیْسُوْ امِنِّیْ وَلَسْتُ مِنْـہُمْ یعنی نہ وہ مجھ سے ہیں اور نہ میں اُن سے ہوں.غرض جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا یہ ہزار سالہ رات تھی جو گزر گئی.اب

Page 488

خدا تعالیٰ نے تقا ضا فرمایا کہ دُنیاکو روشنی سے حصّہ دے اس شخص کو جو حصہ لے سکے کیونکہ ہرایک اس قابل نہیں ہے کہ اس سے حصہ لے.چنانچہ اُس نے مجھے اس صدی پر مامور کر کے بھیجا ہے تا کہ میں اسلام کو زندہ کروں.جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پورے طور پر اور اصلی معنوں میں کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ وہ بہتوں کو مخلص نہ بنا سکے.ذرا سی غیر حاضری میں قوم بگڑ گئی باوجودیکہ ہارونؑ ابھی ان میں موجود تھے اور قوم نے گو سالہ پرستی اختیار کی اور ساری عمر قسم قسم کے شکوک و شبہات پیش کرتے رہے.کبھی بھی انشراح قلب کے ساتھ ساری قوم باوجود بہت سے نشانوں کے دیکھنے کے مخلص نہ ہوسکی اور ایسے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ناکام رہے.یہاں تک کہ حواری بھی جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے بگڑ گئے اور بعض مرتد ہو کر لعنتیں کرنے لگے.فقیہ اور فریسی جو موسیٰ کی گدی پر بیٹھنے والے تھے اُن کو نصیب نہ ہوا کہ اس آسمانی نور سے حصہ لیتے اور ان سچائی کی باتوں کو جو حضرت مسیح علیہ السلام لے کر آئے تھے قبول کرتے اور توجہ سے سنتے.اگر چہ کہا جائے گا کہ ان کو بہت سی مشکلات پیش آئیں جو مسیح کی علامتوں اور نشانات کے متعلق پیشگوئیوں کے رنگ میں تھیں لیکن اگر توجہ کرتے اور رشید ہوتے اور ان کو قوت حاسہ ملی ہوتی تو ضرور فائدہ اٹھالیتے اور زور دے کر مشکلات سے نکل جاتے.ان اُمور اور واقعات پر نگاہ کرنے سے طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کا مختصر جواب یہی ہے کہ انسان اپنے ہی حربہ سے ہلاک ہوتا ہے.جو لوگ توجہ نہیں کرتے اور اس کے وجود کو بے سود اور فضول قرار دیتے ہیں اور اس کی پاکیزہ باتوں پر کوئی غور نہیں کرتے اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ وہ محروم رہ جاتے ہیں.جیسا میں نے شروع میں کہا تھا کہ توجہ اور غور سے سننا چاہیے اور جو لوگ توجہ اور غور سے نہیں سنتے وہ ایسے ہی لوگ ہو تے ہیں جو کان رکھتے ہوئے نہیں سنتے.اسی طرح پر میں اب یوں کہتا ہوں کہ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہوتے ہیں اور جن کے کانوں اور آنکھوں پر پردے ہوتے ہیں.اس لیے وہ خدا تعالیٰ کے ماموروں اور مرسلوں کی باتوں پر ہنسی کرتے ہیں اور اُن سے فائدہ نہ اٹھا کر محروم ہو جاتے ہیں اور آخر عذابِ الٰہی میں

Page 489

گرفتار ہو جاتے ہیں.مامورین کی باتوں سے فائدہ اُٹھانے والے لوگ لیکن جو حسن ظن سے کا م لے کر صبر اور استقلال کے ساتھ اس کی باتوں کو متوجہ ہو کر سنتے ہیں وہ فائدہ اُٹھالیتے ہیں.آخر سچائی کی چمک خود اُن کے دل کو روشن کر دیتی ہے.اُن کی آنکھیںکھل جاتی ہیں اور اُن کے کانوںمیںنئی سننے کی قوت پیدا ہوتی ہے.دل فکر کرتاہے اور عمل کا رنگ پیدا کر دیتا ہے جس سے وہ سکھ پاتے ہیں.دنیا ہی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب انسان کو نیکی اور بھلائی کاموقع ملے اور وہ اُس کو کھو دے تو اس موقع کے ضائع کرنے سے اس کو ہمّ و غم ہوتا ہے اور ایک درد محسوس کرتاہے.اس طرح پر جنہوںنے انبیاء علیہم السلام کا زمانہ پایااور اس موقع کو کھو دیا وہ عذاب الٰہی میں گرفتار ہیں.مگر افسوس یہ ہے کہ اہل دنیا اس سے بے خبر ہیںاگر اہل دنیا کو مُردوں کے حالات پر اطلاع ہو سکتی اور مُرد ے دنیا میں دوبارہ آکر اپنے حالات سناسکتے توسب کے سب فرشتوں کی سی زندگی بسر کرنے والے ہوتے اور دنیا میں گناہ پر موت طاری ہوجاتی لیکن خدا تعالیٰ نے ایسا نہیں چاہا اور اس معاملہ کو پردہ اور خفا میں رکھا ہے تاکہ نیکی کا اجر اور ثواب ضائع نہ ہو جاوے.دیکھو! اگر امتحان سے پہلے سوالات کو شائع کر دیا جاوے تو ان کے جوابات میں لیاقت کیا معلوم ہو سکتی ہے ؟اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے جو مؤاخذہ کا طریق رکھا ہے اس کو افراط و تفریط سے بچاکر رکھاہے.ایمانیات میںا خفا اگر اللہ تعالیٰ سارے پردے کھول دیتااور کوئی امرمخفی اور پوشیدہ نہ ہوتا اور مُردے آآ کر کہہ دیتے کہ جنت ونار سب حق ہیں توبتائوکہ کیا کوئی دہریہ اور بُت پرست رہ سکتاہے؟ مثلاًاگر یہاں ہی کے دو چار مُردے آکرحقیقت بتاویں اور اپنے پوتوں عزیزوں کو بتائیں تو کوئی رو گردان رہ سکتاہے؟ہر گز نہیں.اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں چاہا.اب اگر کوئی آفتاب پر ایمان لاوے کہ یہ ہے اور روشنی دیتاہے توبتائو اس ایمان کا کوئی ثواب اسے مل سکتاہے ؟کچھ بھی نہیںاسی طرح پر اللہ تعالیٰ نے ایمان کی قدرو قیمت اور نیکی کی جزاکے لیے

Page 490

یہ پسند فرمایا ہے کہ کچھ خفابھی ہو.دانش مند آدمی سعادت پاتاہے.بیوقوف اس سے محروم رہ جاتاہے اور پھر کوئی ایمانی امرایسا نہیں ہے جس میں حقیقتِ فلسفہ نہ ہو.اس خفامیںعظیم الشان فلسفہ ہے جیساکہ میں نے ابھی کہا ہے کہ اگر ایسا انکشاف ہو تاکہ کوئی چیز مخفی نہ رہ جاتی.معادکا حال اور خدا کی رضاکاپتہ معلوم ہو جاتا ہے تونیکی نیکی نہ رہتی اور نہ اس کی کوئی قدرہوتی.مشہود محسوس چیزوںپر ایمان لانے سے کوئی ثواب نہیں مل سکتا.مسجد پر یا درخت یا آفتاب پر ایمان لانے والا اور ان کے وجود کا اعتراف کرنے والاکسی جزاکا مستحق نہیں ہے لیکن جو مخفی کو معلوم کر کے ایمان لاتاہے وہ بے شک قابل تعریف فعل کا کرنے والا ٹھہرتا ہے اور مدح اور تعریف کامستحق ٹھہرتاہے.جب بالکل انکشاف ہو گیا پھر کیا؟ اسی طرح پر اگر کوئی ۲۹دن کے ہلال کو دیکھتاہے توبے شک اس کی نظر قابل تعریف ہو گی لیکن اگر کوئی چودہ دن کے بعد جبکہ بدر ہوگیا ہے اور عالم تاب روشنی نظر آتی ہے لوگوں کو کہے کہ آئومیں تمہیں چاند دکھائوں میںنے دیکھ لیاہے تووہ مسخرہ اور فضول گو ٹھہرایاجاوے گا.غرض قابلیت فراست سے ظاہر ہوتی ہے.خدا نے کچھ چھپایاہے اور کچھ ظاہر کیاہے.اگر بالکل ظاہر کرتا تو ایمان کاثواب جاتارہتا اور اگر بالکل چھپاتاتوسارے مذ اہب تاریکی میںدبے رہتے اور کوئی بات قابل اطمینان نہ ہوسکتی اور آج کوئی مذہب والادوسرے کو نہ کہہ سکتا کہ تو غلطی پر ہے اور نہ مؤاخذہ کااصول قائم رہ سکتا تھا کیونکہ یہ تکلیف مالایطاق تھی مگر خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ( البقرۃ :۲۸۷ ) پس خدا کافضل ہے کہ ہلکا سا امتحان رکھاہو اہے جس میں بہت مشکلات نہیں باوجود یکہ وہ عالم ایسا اَدَق ہے کہ جو جاتا ہے پھر واپس نہیں آتا.پھر بھی خدا تعالیٰ نے انواروبرکات کاایک سلسلہ رکھا ہے جس سے اس دنیاہی میں پتہ لگ جاتاہے اور وہ مخفی اُمور متحقق ہوجاتے ہیں.سرِّ الٰہی آج کل کے فلاسفروںنے مُردوںکے واپس آنے کی بہت تحقیقات کی ہے.۱

Page 491

امریکہ میںایک شخص کومارکر دیکھاکہ آیامَرنے کے بعد شعور باقی رہتاہے یانہیں.اس شخص کو جس پر یہ تجربہ کرناچاہا کہہ دیاگیاکہ تم آنکھ کے اشارے سے بتا دینا مگر جب وہ ہلاک کیا گیا تو کچھ بھی نہ کر سکا کیونکہ یہ ایک سرِّ الٰہی ہے جس کی تہہ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا.انسان جب حد سے گزر تا ہے تو سرّ کی تلاش کی فکر میں ہوتا ہے مغربی دنیا میں جو زمینی تحقیقات میں لگی ہوئی ہے وہ ہر فلسفہ میں ادب سے دورنکل جاتی ہے اور انسانی حدود کو چھوڑ کر آگے قدم رکھنا چاہتی ہے مگر بے فائدہ.مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان امور کو جو ایمانیات سے متعلق ہیں نہ تو اس قدر چھپایا ہے کہ تکلّف کی حد تک پہنچ جائیں اور نہ اس قدر ظاہر کیا ہے کہ ایمان ایمان ہی نہ رہے اور کوئی فائدہ اس پر مترتّب نہ ہو سکے.اسلام ایک زندہ مذہب باوجود ان ساری باتوں کے آج اسلام کے لئے خوشی کا دن ہے کہ معمورۂ عالم میں کوئی اس دن کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور وہ اپنی روشن ہدایتوں اور عملی سچائیوں کے ساتھ زندہ نشانات اور زندہ برکات کا ایک زبر دست معجزہ اپنے ساتھ رکھتا ہے جس کے مقابلہ کی کسی میں طاقت نہیں.یہ بات کہ اسلام اپنی پاک تعلیم اور اس کے زندہ نتائج کے ساتھ اس وقت معمورۂ عالم میں ممتاز ہے نرا دعویٰ ہی دعویٰ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے بندے کے ذریعہ اس سچائی کو ثابت کر دیا ہے اور کُل مذاہب و مِلل کو دعوت حق کر کے اس نے بتادیاہے کہ فی الحقیقت اسلام ہی ایک زندہ مذہب ہے اور جسے ابھی تک شک ہو وہ میرے پاس آئے اور ان خوبیوںاور برکات کوخود مشاہدہ کرے مگر طالبِ صادق بن کر آئے نہ جلد باز معترض ہوکر.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس زمانہ میں دنیا میں ظاہر ہوئے اور خدا تعالیٰ کا جلال اور گم گشتہ توحید کو زندہ کرنے کے لیے آپ مبعوث ہوئے.اس زمانہ ہی کی حالت پر اگر کوئی سعادت مند سلیم الفطرت غور کن دل لے کر فکر کرے تو اس کو معلوم ہوگا کہ اس زمانہ کی حالت ہی آپؐکی سچائی پر ایک روشن دلیل ہے اور دانش مند اس وقت ہی کو دیکھ کر اقرار کرے اور معجزہ بھی طلب نہ کرے.

Page 492

پادری فنڈر صاحب نے اپنی کتاب ’’میزان الحق ‘‘میں یہ سوال کیاہے کہ کیاسبب ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کادعویٰ کیا اور خدا تعالیٰ نے ان کو نہ روکا ؟اس سوال کاپھر آپ جواب دیتاہے کہ اُس وقت چونکہ عیسائی بگڑگئے تھے اُن کے اخلاق اور اعمال بہت خراب تھے.انہوں نے سچی راست بازی کاطریق چھوڑدیاتھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اُن کی تنبیہ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجااور اس لیے آپؐکو نہ روکا.اس سے یہ نادان عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا تو اعتراف نہیں کرتا بلکہ معترض کی صورت میں اس کو پیش کرتاہے.میں کہتا ہوں کہ کیا اس وقت کے حسبِ حال کسی مصلح کی ضرورت تھی یا یہ کہ ایک کا جو ایک ہاتھ کاٹا ہوا ہے تو دوسرا بھی کاٹا جاوے جو بیمار ہے پتھر مار کر ماردیاجاوے.کیا یہ خدا تعالیٰ کے رحم کے مناسب حال ہے؟ اصل بات یہ کہ اس وقت جیساکہ عیسائی تسلیم کرتے ہیں وہ تاریکی کا زمانہ تھا اور دیانند نے اپنی کتاب میں تسلیم کیاہے اورتاریخ بھی شہادت دیتی ہے کہ ہندوستا ن میں بُت پر ستی ہو رہی تھی.نہ صرف ہندو ستا ن میں بلکہ کل معمورہ ٔ عا لم میں ایک خطر نا ک تا ریکی چھا ئی ہوئی تھی جس کا اعترا ف ہرقوم اور ملّت کے مؤرخو ں اور محققوںنے کیا ہے.اب ایسی حا لت میں نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجو د باجو د بے ضرو رت نہ تھابلکہ وہ کل دنیا کے لیے ایک رحمت کا نشا ن تھا.چنا نچہ فر ما یاہے وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (الانبیآء:۱۰۸ ) یعنی اے نبی کر یمؐ ہم نے تمہیں تما م عا لم پررحمت کے لیے بھیجاہے.آپ کو تو کچھ معلو م نہ تھا کہ اس و قت آریہ ور ت کی کیا حا لت ہے اور کس خطر نا ک بت پرستی کے تاریک غار میں گرا ہوا ہے.یہاں تک کہ انسا ن کی شر م گاہ تک کی پرستش بھی ان و ید کے ماننے والوں میںمروّج تھی اور نہ آ پ کو معلو م تھا کہ بلاد ِشا م کے عیسا ئیو ں کا کیا حا ل ہے وہ کس قسم کی انسان پرستی میں مصروف ہوکر اخلاق اور اعمال صالحہ کی قیود سے نکل کر بالکل تاریک زندگی بسر کر رہے تھے اور نہ آپ کواس بات کاعلم تھا کہ ایران اور مصر میںکیا ہورہا ہے؟ غرض آپؐتو ایک جنگل میں پیداہوئے تھے.نہ اس وقت کوئی تاریخ مدون ہوئی تھی جو آپؐنے پڑھی ہوتی.نہ کسی مدرسہ اور مکتب میں

Page 493

آپؐنے تعلیم پائی جو معلومات وسیع ہوتے اورنہ کوئی اور ذرائع لوگوںکے حالات معلوم کرنے کے تھے جیسے تار یا اخبار یا ڈاک خانے وغیرہ.آپؐکو تو دنیاکے بگڑجانے کی اطلاع صرف خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ملی.جب یہ آیت اتری ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ(الرّوم:۴۲) یعنی دریا بھی بگڑ گئے اور جنگل بھی بگڑ گئے.د ر یا ؤں سے مراد وہ لو گ ہیں جن کو پا نی دیا گیا یعنی شریعت اور کتا ب اللہ ملی اور جنگل سے مرا د وہ ہیں جن کو اس سے حصّہ نہیں ملا تھا.مطلب یہ ہے کہ اہل کتا ب بھی بگڑ گئے اورمشرک بھی.الغر ض آپ کا زما نہ ایسا زمانہ تھا کہ دنیا تا ریکی میں پھیلی ہو ئی تھی.دلائل صدا قت اس و قت اللہ تعالیٰ نے آپ کو پیدا کیا تا تاریکی کو دور کریں.ایسے پُرفتن زمانہ میں (کہ چاروں طر ف فسق و فجور کی ترقی تھی اور شر ک اور دہریت کا زور تھا کہ نہ اعتقاد ہی درست تھے اور نہ اعما لِ صا لحہ اورنہ اخلا ق ہی با قی رہے تھے )آپؐکا پیدا ہونا بجائے خود آپؐکی سچا ئی اور منجانب اللہ ہو نے کا ایک زبر دست ثبو ت ہے.کا ش کوئی اس پر غور کرے.عقل مند اور سلیم الفطر ت انسا ن ایسے وقت پر آنے والے مصلح کی تکذیب کے لیے کبھی جلدی نہیںکر سکتا اور کم از کم اس کو اتنا تو اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ یہ وقت پر آیا ہے.وباء طاعو ن اور ہیضہ کی شد ت کے وقت اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں ان کے علا ج کے لیے آیا ہوں تو کیا اس قدر تسلیم کر نا نہیں پڑے گا کہ یہ شخص ضرو رت کے وقت پر آیا ہے؟ بے شک ماننا پڑے گا.اسی طرح پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کے لیے پہلی دلیل یہی ہے کہ آپؐجس وقت تشریف لائے وہ وقت چاہتا تھا کہ مُردے ازغیب بیرون آیدوکارے بکند.اسی کی طر ف قرآنِ کر یم نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ ( بنی اسـرآءیل:۱۰۶) پس یاد رکھو کہ مامور من اللہ کی شناخت کی پہلی دلیل یہی ہوتی ہے کہ اس وقت اور موقع پر نگاہ کی جاوے کہ کیا اس وقت کسی مرد آسمانی کے آنے کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟ ایک شخص اگرنہروں کی موجودگی اور متعدد کنوؤں کے ہوتے ہوئے پھر ان میں ہی کنوا ں لگاتا

Page 494

ہے تو صاف کہنا پڑے گا کہ یہ وقت اور روپیہ کا خون کرتا ہے لیکن اگر وہ کسی ایسے جنگل میں جہاں کوئی کنواں نہیں ہے کنواں لگاتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ اس نے خیر جاری کے لئے یہ کام کیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے جسمانی جنگل میں پیدا ہوئے ویسے ہی روحانی جنگل بھی تھا.مکہ میں اگر جسمانی ا ور روحانی نہریں نہ تھیں تو دوسرے ملک روحانی نہر نہ ہونے کی وجہ سے ہلاک ہو چکے تھے اور زمین مَر چکی تھی جیسا کہ قرآن شریف فرماتا ہے اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا(الـحدید:۱۸) یعنی یہ بات تمہیںمعلوم ہے کہ زمین سب کی سب مَر گئی تھی اب خدا تعالیٰ نئے سرے سے اس کو زندہ کرتا ہے.پس یہ زبر دست دلیل ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی کہ آپ ایسے وقت میں آئے کہ ساری دنیا عام طور پر بدکاریوں اور بداعتقادیوں میں مبتلا ہو چکی تھی اور حق و حقیقت اور توحید اور پاکیزگی سے خالی ہو گئی تھی.پھر دوسری دلیل آپؐکی سچائی کی یہ ہے کہ آپؐایسے وقت میں اﷲ تعالیٰ کی طرف اُٹھا ئے گئے جب وہ اپنے فرضِ رسالت پورے طور پر ادا کرکے کامیاب اور با مراد ہو چکے.حقیقت میں جیسے مامور من اﷲ کے لیے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ آیا وہ وقت پر آیا ہے یا نہیں؟ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وہ کامیاب ہوا یا نہیں؟ اُس نے اُن بیماروں کو جن کے علاج کے لیے وہ آیا، اچھّا بھی کیا یا نہیں؟۱ عربوں کی اخلاقی اور روحانی حالت زیادہ تفصیل کی اس مقام پر ضرورت نہیں کیونکہ اس مجمع میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو بخوبی علم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب کا کیا حال تھا.کوئی بدی ایسی نہ تھی جو ان میں نہ پائی جاتی ہو جیسے کوئی ہر صیغہ اور امتحان کو پاس کر کے کامل اُستاد ہر فن کا ہو جاتاہے.اسی طرح پر وہ بدیوں اور بدکاریوں میں ماہر اور پُورے تھے.شرابی،زانی،یتیموں کا مال کھانے والے، قمار باز.غرض ہر برائی میں سب سے بڑھے ہوئے تھے بلکہ اپنی بدکاریوں پر فخر کرنے والے تھے.اُن کا قول تھا اِنْ هِيَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَ نَحْيَا (الـمؤمنون: ۳۶) ہماری زندگی اسی قدر ہے

Page 495

کہ یہاں ہی مَرتے ہیں اور زندہ ہوتے ہیں.حشر نشر کوئی چیز نہیں.قیامت کچھ نہیں.جنّت کیا اور جہنم کیا؟ قرآن شریف کے احکام جن بدیوں اور برائیوں سے روکتے ہیں وہ سب مجموعی طور پر ان میں موجود تھیں.ان کی حالت کا یہ نقشہ ہے جس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ کیا تھے؟ ایک موقع پر فرماتا ہے يَتَمَتَّعُوْنَ وَ يَاْكُلُوْنَ (مـحمّد :۱۳) کھاتے اور تمتع اُٹھاتے ہیں یعنی اپنے پیٹ کی اور دوسری شہوات میں مبتلا اور اسیر ہیں.یاد رکھنا چاہیے کہ جب انسان جذباتِ نفس اور دیگر شہوات میں اسیر اور مبتلا ہوجاتا ہے تو چونکہ وہ طبعی تقاضوںکو اخلاقی حالت میں نہیں لاتا اس لیے ان شہوات کی غلامی اور گرفتاری ہی اس کے لیے جہنم ہو جاتی ہے اور اُن ضرورتوںکے حصول میں مشکلات کا پیش آنا اس پر ایک خطرناک عذاب کی صورت ہو جاتی ہے.اس لیے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ جس حال میں ہیں گویا جہنم میں مبتلا ہیں.قرآنِ مجید قصّوں کا مجموعہ نہیں یہ بات ہرگز ہر گز بھول جانے کے قابل نہیں ہے کہ قرآن شریف جو خاتم الکتب ہےدراصل قصوں کا مجموعہ نہیں ہے.جن لوگوں نے اپنی غلط فہمی اور حق پوشی کی بنا پرقرآن شریف کو قصوں کا مجموعہ کہا ہے.اُنہوں نے حقائق شناس فطرت سے حصہ نہیں پایا ورنہ اس پاک کتاب نے تو پہلے قصوں کو بھی ایک فلسفہ بنا دیا ہے اور یہ اس کا احسانِ عظیم ہے ساری کتابوں اور نبیوں پر.ورنہ آج ان باتوں پر ہنسی کی جاتی اور یہ بھی اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس علمی زمانہ میں جبکہ موجوداتِ عالم کے حقائق اور خواص الاشیاء کے علوم ترقی کر رہے ہیں اس نے آسمانی علوم اور کشفِ حقائق کے لیے ایک سلسلہ کو قائم کیا.جس نے ان تمام باتوں کو جو فیج اعوج کے زمانہ میں ایک معمولی قصوں سے بڑھ کر وقعت نہ رکھتی تھی اور اس سائنس کے زمانہ میں اُن پر ہنسی ہورہی تھی علمی پیرایہ میں ایک فلسفہ کی صورت میں پیش کیا.بہشت اور دوزخ کی حقیقت پہلے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بالکل خیالی اور سادہ طور پر بہشت و دوزخ کو رکھا گیا تھا.حضرت مسیحؑ نے پھانسی پانے والے چور کو یہ تو کہہ دیا کہ آج ہم بہشت میں جائیںگے مگر بہشت کی حقیقت پر کوئی نکتہ بیان نہ فرمایا.

Page 496

ہم اس وقت اس سوال کو سامنے لانے کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ عیسائیوں کے انجیلی عقیدے اور بیان کے موافق وہ بہشت میں گئے یا ہاویہ میں بلکہ صرف یہ دکھانا ہے کہ بہشت کی حقیقت اُنہوں نے کچھ بیان نہیں کی.ہاں یوں تو عیسائیوں نے اپنے بہشت کی مساحت بھی کی ہوئی ہے.بر خلاف اس کے قرآن شریف کسی تعلیم کو قصے کے رنگ میں پیش نہیں کرتا بلکہ وہ ہمیشہ ایک علمی صورت میں اُسے پیش کرتا ہے مثلاً اسی بہشت و دوزخ کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسراءیل : ۷۳) یعنی جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا.کیا مطلب کہ خدا تعالیٰ اور دوسرے عالم کے لذّات کے دیکھنے کے لیے اسی جہان میں حواس اور آنکھیں ملتی ہیں.جس کو اس جہان میں نہیں ملیں اس کو وہاں بھی نہیں ملیں گے.اب یہ امر انسان کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ انسان کا فرض ہے کہ وہ اِن حواس اور آنکھوں کے حاصل کرنے کے واسطے اسی عالم میں کوشش اور سعی کرے تاکہ دوسرے عالم میں بینا اُٹھے.ایسا ہی عذاب کی حقیقت اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے قرآن شریف فرماتا ہے نَارُ اللّٰهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِيْ تَطَّلِعُ عَلَى الْاَفْـِٕدَةِ (الھمزۃ : ۷،۸) یعنی اﷲ تعالیٰ کا عذاب ایک آگ ہے جس کو وہ بھڑکاتا ہے اور انسان کے دل ہی پر اس کا شعلہ بھڑکتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ عذابِ الٰہی اور جہنّم کی اصل جڑ انسان کا اپنا ہی دل ہے اور دل کے ناپاک خیالات اور گندے ارادے اور عزم اس جہنّم کا ایندھن ہیں.اور پھر بہشت کے انعامات کے متعلق نیک لوگوں کی تعریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے يُفَجِّرُوْنَهَا۠ تَفْجِيْرًا(الدّھر : ۷) یعنی اسی جگہ نہریں نکال رہے ہیں.اور پھر دوسری جگہ مومنوں اور اعمالِ صالحہ کرنے والوں کی جزا کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہےجَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ (البقرۃ : ۲۶) اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی ان باتوں کو قصہ قرار دے سکتا ہے.یہ کیسی سچی بات ہے جو یہاں آبپاشی کرتے ہیں وہی پھل کھائیں گے.غرض قرآن شریف اپنی ساری تعلیموں کو علوم کی صورت اور فلسفہ کے رنگ میں پیش کرتا ہے اور یہ زمانہ جس میں خدا تعالیٰ نے ان علوم حقّہ کی تبلیغ کے لیے اِس سلسلہ کو خود قائم کیا ہے.کشفِ حقائق کا زمانہ ہے.

Page 497

قرآن شریف کے احسانات پس یاد رکھنے چاہیے کہ قرآن شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہے.جو اِن کی تعلیموں کو جو قصّہ کے رنگ میں تھیں علمی رنگ دے دیا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی شخص ان قصوں اور کہانیوں سے نجات نہیں پاسکتا جب تک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے کیونکہ قرآن شریف ہی کی یہ شان ہے کہ وہ اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ وَّ مَا هُوَ بِالْهَزْلِ (الطارق : ۱۴،۱۵)ہے.وہ میزان، مہیمن، نور اور شِفا اور رحمت ہے.جو لوگ قرآن شریف کو پڑھتے اور اُسے قصہ سمجھتے ہیں اِنھوں نے قرآن شریف کو نہیں پڑھا بلکہ اس کی بے حرمتی کی ہے.ہمارے مخالف کیوں ہماری مخالفت میں اس قدر تیز ہوئے ہیں؟ صرف اسی لیے کہ ہم قرآن شریف کو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سراسر نور، حکمت اور معرفت ہے دکھا نا چاہتے ہیں اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن شریف کو ایک معمولی قصے سے بڑھ کر وقعت نہ دیں ہم اس کو گوارا نہیں کر سکتے.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہے.اس لیے ہم ان کی مخالفت کی کیوں پروا کریں.غرض میں بار باراس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشفِ حقائق کے لیے قائم کیا ہے کیونکہ بدوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہوسکتا.اور میں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خُوبی دنیا پر ظاہر ہو جیسا کہ خدا نے مجھے اس کام کے لیے مامور کیا ہے.اس لیے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نرا قصہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر.بہشت اور دوزخ کی حقیقت اب میں پھر اصل مطلب کی طرف رجُوع کر کے کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے بہشت اور دوزخ کی جو حقیقت بیان کی ہے کسی دوسری کتاب نے بیان نہیں کی.اس نے صاف طور پر ظاہر کر دیا ہے کہ اسی دُنیا سے یہ سلسلہ جاری ہوتا ہے چنانچہ فرمایا وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ (الرحـمٰن : ۴۷) یعنی جو شخص خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا.اس کے واسطے دو بہشت ہیں.یعنی ایک بہشت تو اسی دنیا میں مل جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا خوف اُس کو برائیوں سے روکتا ہے اور بدیوں کی طرف دوڑنا

Page 498

دل میں ایک اضطراب اور قلق پیدا کرتا ہے جو بجائے خود ایک خطرناک جہنم ہے لیکن جو شخص خدا کا خوف کھاتا ہے تو وہ بدیوں سے پرہیز کرکے اس عذاب اور درد سے تو دمِ نقد بچ جاتا ہے جو شہوات اور جذباتِ نفسانی کی غلامی اور اسیری سے پیدا ہوتا ہے اور وہ وفاداری اور خدا کی طرف جھکنے میں ترقی کرتا ہے جس سے ایک لذّت اور سرور اُسے دیا جاتا ہے اور یوں بہشتی زندگی اِسی دنیا سے اُس کے لیے شروع ہو جاتی ہے اور اسی طرح پر اس کے خلاف کرنے سے جہنمی زندگی شروع ہو جاتی ہے جیساکہ میں نے پہلے بیان کر دیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر دلیل اس وقت میرا صرف یہ مطلب ہے کہ میں اس دوسری دلیل کی طرف تمہیں متوجہ کروں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر خدا تعالیٰ نے دی ہے یعنی یہ کہ آپؐجس کام کے لیے آئے تھے اس میں پورے کامیاب ہو گئے.میں نے بتایا ہے کہ جب آپؐتشریف لائے تو آپؐ نے ہزار ہا مریضوں کو مرض کے آخری درجہ میں پایا.جو اُن کی موت تک پہنچ گیا تھا بلکہ حقیقت میں وہ مَر ہی چکے تھے جیسا کہ اس وقت کی تاریخ کے پتہ سے معلوم ہوتا ہے.پھر انصافاً کوئی سوچے کہ اپنے خدمت گار کے عیب دور نہیں کر سکتے تو جو شخص ایک بگڑی ہوئی قوم کی ایسی اصلاح کر دے کہ گویا وہ عیب اُس میں تھے ہی نہیں تو اس سے بڑھ کر اس کی صداقت کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں نے اس طرف توجہ نہیں کی ورنہ یہ ایسے روشن دلائل ہیں کہ دوسرے نبیوں میں اُس کے نظائر بہت ہی کم ملیں گے مثلاً جب ہم آپؐکے بالمقابل حضرت مسیحؑ کو دیکھتے ہیں تو کس قدر افسوس ہوتا ہے کہ وہ چند حواریوں کی بھی کامل اصلاح نہ کر سکے اور ہمیشہ اُن کو سست اعتقاد کہتے رہے.یہاں تک کہ بعض کو شیطان بھی کہا.وہ ایسے لالچی تھے کہ یہودا اسکریوطی جو مسیح کا خزانچی تھا بسا اوقات اس تھیلی میں سے جو اُس کے پاس رہا کرتی تھی کبھی کبھی چُرا بھی لیا کرتا تھا.آخر اسی لالچ نے اُسے مجبور کیا کہ وہ تیس درہم لے کر اپنے اُستاد اور مُرشد کو گرفتار کرا دے.

Page 499

اور اِدھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کی طرف دیکھتے ہیں تو اُنہوں نے اپنی جانیں دے دینی آسان سمجھیں بجائے اس کے کہ اُن میں غداری کا ناپاک حصہ پایا جاتا.یورپین مورخوں تک کو اس امر کا اعتراف کرنا پڑا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں جو اُنس وفاداری اور اطاعت اپنے ہادی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی اس کی نظیر کسی دوسرے نبیوں کے متبعین میں نہیں ملتی ہے.خصوصاً مسیح علیہ السلام تو اس مقابلہ میں بالکل تہی دست ہیں.اب جبکہ اس قدر غلو اُن کی شان میں کیا گیا ہے اور باوجود کمزوریوں کی ان مثالوں اور واقعات کے ہوتے ہوئے جو انجیل میں موجود ہیں اُن کو خدا بنایا گیا ہے.ان کی قوتِ قدسی اور جذب وکشش کا یہ نمونہ پیش کیاگیا ہے کہ وہ چند حواریوں کو بھی درست نہ کر سکے تو اور اُن سے کیا اُمید ہوسکتی ہے.عیسائی جب حواریوں کی اعتقادی اور عملی کمزوریوں کا کوئی جواب نہیں دے سکتے تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ مسیحؑ کے بعد اُن میں قوت اور طاقت آگئی تھی اور وہ کامل نمونہ ہوگئے تھے مگر یہ جواب کیسا مضحکہ خیز اور عذرِ گناہ بد تر از گناہ کا مصداق ہے کہ چراغ کی موجودگی میں تو کوئی روشنی نہیں.چراغ کے بجھ جانے کے بعد روشنی ہوگئی.کیا خوب!!! ایک نبی کے سامنے تو وہ پاک صاف نہ ہو سکے.اس کے بعد ہو گئے؟ اس سے تو معلوم ہوا کہ مسیح اپنی قوتِ قُدسی کے لحاظ سے اور بھی کمزور اور ناتواں تھا.معاذاﷲ یہ ایک نحوست تھی کہ جب تک حواریوں کے سامنے رہی وہ پاک نہ ہو سکے اور جب اُٹھ گئی تو پھر رُوح القدس سے معمور ہو گئے.تعجب!!! بہت سے انگریزمصنفوں نے بھی اِس مضمون پر قلم اُٹھایا ہے اور رائے ظاہر کی ہے کہ مسیح نے ایک گروہ پایا تھا جو پہلے سے توریت کے مقاصد پر اطلاع پاچکے تھے اور فقیہوں فریسیوں سے خدا کی باتیں سنتے تھے.اگر و ہ راست باز اور پاک باز ہوتے تو کوئی تعجب کی بات نہ تھی اور ۱۴ سو برس تک لگاتار ان میں وقتاً فوقتاً نبی اور رسول آتے رہے جو خدا کے احکام اور حدود سے انہیں اطلاع دیتے رہے.گویا اُن کے نُطفہ میں رکھا ہوا تھا کہ وہ خدا کو مانیں اور خدا کے حدود کی عظمت کریں اور بدکاریوں سے بچیں.پھر کیونکر ممکن تھا کہ وہ اس تعلیم سے جو مسیح انہیں دینا چاہتا تھا بے خبر ہوتے.

Page 500

مسیح اگر انہیں دُرست بھی کر دیتے تب بھی یہ کوئی بڑی قابل تعریف بات نہ تھی کیونکہ ایک طبیب کے کامل علاج کے بعد اگر دوسرا کوئی اچھا کردے تو یہ خوبی کی بات نہیں.اس لیے بفرضِ محال اگر مسیح نے کوئی فائدہ پہنچایا بھی ہو تو بھی یہ کوئی قابل تعریف بات نہیں ہے لیکن افسوس ہے کہ یہاں کسی فائدہ کی نظیر بھی نظر نہیں آتی.یہودا نے ۳۰ روپیہ لے کر اُستاد کو بیچ لیا اور پطرس نے سامنے کھڑے ہوکر لعنت کی اور دوسری طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے اُحد اور بدر میں آپؐکے سامنے سَر دے دیئے.اب انصاف کا مقام ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ آئے ہوتے اور قرآنِ شریف نہ ہوتا تو ایسے نبی کی بابت کیا کہتے جس کی تعلیم اور قوتِ قُدسی کے نمونے یہودا اسکریوطی اور پطرس ہیں.قوتِ قدسی کا یہ حال اور تعلیم ایسی اُدھوری اور ناقص کہ کوئی دانش مند اُسے کامل نہیں کہہ سکتا اور نہ صرف یہی بلکہ انسان کی تمدنی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو اُس سے کوئی تعلق ہی نہیں اور پھر لطف یہ کہ اُس کے کوئی تاثیرات باقی نہیں ہیں.دعویٰ ایسا کیا کہ عقل، کانشنس، قانونِ قدرت اور متقدمین کے عقائد اور مسلّمات کے صریح خلاف.ان انگریز مصنفوں کو اقرار کرنا پڑا ہے کہ اگر قرآن نہ آتا تو بہت بری حالت ہوتی.اُنہوں نے اِعتراف کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں، وحشیوں کو درست کیا اور پھر ایسے صادق اور وفادار لوگ تیار کیے کہ اُنہوں نے اس کی رفاقت میں کبھی اپنے جان ومال کی بھی پروا نہیں کی.اِس قسم کی وفاداری اوراطاعت، اِیثاراور جانثاری پیدا نہیں ہوسکتی جب تک مقتدا اور متبوع میں اعلیٰ درجہ کی قوتِ قدسی اور جذب نہ ہو.پھر لکھتا ہے کہ عربوں کو سچی راست بازی ہی نہ سکھائی گئی تھی بلکہ اُن کی دماغی قوتوں کی بھی تربیت کی تھی.حواری تو ایک گائوں کا بھی انتظام نہ کرسکتے تھے مگر صحابہؓ نے دنیا کا انتظام کر کے دکھا دیا.کون کہہ سکتا ہے کہ ابو بکر اور عمر رضی اﷲ عنہما کے والدین نے حکومت اور سلطنت کی تھی اور اس لیے وہ انتظامِ ملک داری اور قوانینِ سیاست سے آگاہ تھے؟ نہیںہرگز نہیں.یہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور قرآن شریف کی کامل تعلیم کا نتیجہ تھا کہ ایک طرف اُس

Page 501

نے اُن کو فرشتے بنادیا اور دوسری طرف وہ عقلِ مجسّم ہوگئے.۱ آنحضرتؐکی قوت قدسیہ کا کمال یہ کیسی بدیہی اور صاف بات ہے کہ ایک طبیب اگر ناقابل علاج مریضوں کو اچھا کر دے تو اس کو طبیب حاذق ماننا پڑے گااور جو اس پر بھی اس کی حذاقت کا اقرارنہ کرے اس کو بجز احمق اور نادان کے اور کیا کہیںگے.اسی طرح پر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لاکھوں مریضانِ گناہ کو اچھا کیا حال آنکہ ان مریضوں میں سے ہر ایک بجائے خود ہزار ہا قسم کی روحانی بیماریوں کا مجموعہ اور مریض تھا.جیسے کوئی بیمار کہے کہ سر درد بھی ہے، نزول ہے، استسقا ہے، وجع المفاصل ہے، طحال ہے وغیرہ وغیرہ تو جو طبیب ایسے مریض کا علاج کرتا ہے اور اس کو تندرست بنا دیتا ہے اس کی تشخیص اور علاج کو صحیح اور حکمی ماننے کے سواچارہ نہیں ہے.ایسا ہی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو اچھا کیا اُن میں ہزاروں روحانی امراض تھے.جس جس قدر اُن کی کمزوریوں اور گناہ کی حالتوں کا تصور کر کے پھر اُن کی اسلامی حالت میں تغیّر اور تبدیلی کو ہم دیکھتے ہیں.اسی قدر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت اور قوت قدسی کا اقرار کرنا پڑتا ہے.ضدّ اور تعصّب ایک الگ امر ہے جو اپنی تاریکی کی وجہ سے سچائی کے نور کو دیکھنے کی قوت کو سلب کر دیتا ہے.لیکن اگر کوئی دل انصاف سے خالی نہیں اور کوئی سرعقلِ صحیح سے حصہ رکھنے والا ہے تو اس کو صاف اقرار کرنا پڑےگا کہ آپؐسے بڑھ کر عظیم الشان پاکیزگی کی طرف تبدیلی کرا دینے والا انسان دنیا میں نہیں گزرا.اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ.اب بالمقابل ہم پوچھتے ہیں کہ مسیح نے کس کا علاج کیا؟ اُنہوں نے اپنی روحانیت اور عقد ہمت اور قوتِ قُدسی کا کیا کرشمہ دکھایا؟ زبانی باتیں بنانے سے تو کچھ فائدہ نہیں جب تک عملی رنگ میں اُن کا نمونہ نہ دکھایا جاوے جب کہ اس قدر مبالغہ اُن کی شان میں کیا گیا ہے کہ بایں ضعف و ناتوانی اُن کو خدائی کا منصب دے دیا گیا ہے.تو چاہیے تو یہ تھا کہ اُن کی عام رحمت اپنا اثر دکھاتی اور اقتداری قوت کوئی نیا نمونہ پیش کرتی کہ گناہ کی

Page 502

زندگی پر دنیا میں موت آجاتی اور فرشتوں کی زندگی بسر کرنے والوں سے دنیا معمور ہو جاتی مگر یہ کیا ہوگیا کہ چند خاص آدمی بھی جو آپ کی صحبت میں ہمیشہ رہتے تھے درست نہ ہو سکے.عیسائی اپنے خدا یسوع کا مقابلہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنے بیٹھ جاتے ہیں مگر تعجب ہے کہ انہیں شرم نہیں آتی کہ وہ اس طرز پر کبھی ایک قدم بھی چلنا گوارا نہیں کرتے اور اس طریق پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا مقابلہ کریں تو اُنہیں معلوم ہو جاوے.انبیاء اخلاق اللہ کا پورا نمونہ ہوتے ہیں یا درکھو کہ نبی تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ ثابت کرنے کے لئے آتے ہیں اور وہ اپنی عملی حالت سے دکھا دیتے ہیں کہ وہ اخلاق اللہ کا پورا نمونہ ہیں.اور یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا میں جس قدر اشیاء خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہیں وہ سب کی سب کسی نہ کسی پہلو سے انسان کے لئے مفید ہیں جیسے درخت بنایا ہے اس کے پتے، اس کا سایہ، اس کی چھال، اس کی لکڑی، اس کا پھل غرض اس کے سارے حصہ کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ بخش ہیں.سورج کی روشنی سے انسان بہت سے فائدے حاصل کرتا ہے اور اسی طرح پر تمام چیزیں ہیں جو انسان کے لئے مفید اور نفع رساں ہیں مگر ہم کو عیسائیوں کی حالت پر افسوس آتا ہے کہ انہوں نے ایک عاجز انسان کو خدا اور خدا کا بیٹا بھی قرار دیا ہے مگراس کا کوئی فائدہ دنیا پر ثابت نہیں کر سکتے اور کوئی اس کی مقتدرانہ تجلی کا نمونہ ان کے ہاتھ میں نظر نہیں آتا.چاہیے تو یہ تھا کہ ان کا ابن اللہ اگر پدر نتواند پسر تمام کند کا مصداق ہوتا مگر جب اس کی سوانح عمری پر غور کرتے ہیں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ا س نے کچھ بھی نہیں کیا نری خود کشی اور دوسروں کی مصیبت کو دیکھ کر اپنی جان پر کھیل جانا یہ کیا دانش مندی اور مصلحت ہے اور اس سے ان مصیبت زدوں کو کیا فائدہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل نمونہ انصاف اور ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں مسیح کو بالکل ناکامیاب ماننا پڑتا ہے کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قسم کا موقع ملا ہے مسیح کو نہیں ملا ہے اور یہ ان کی بدقسمتی ہے یہی وجہ ہے کہ مسیح کو کامل نمونہ ہم کہہ ہی نہیں

Page 503

سکتے.انسان کے ایمان کی تکمیل کے دو پہلو ہوتے ہیں اوّل یہ دیکھنا چاہیے کہ جب وہ مصائب کا تختۂ مشق ہو اس وقت خدا تعالیٰ سے وہ کیسا تعلق رکھتا ہے؟ کیا وہ صدق ،اخلاص ،استقلال ، اور سچی وفاداری کے ساتھ ان مصائب پر بھی انشراح صدر سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو تسلیم کرتا اورا س کی حمد و ستائش کرتا ہے یا شکوہ و شکایت کرتا ہے اور دوسرے جب اس کو عروج حاصل ہو اور اقبال اور فروغ ملے تو کیا اس اقتدار اور اقبال کی حالت میں وہ خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے اور اس کی حالت میں کوئی قابل اعتراض تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے.یا اسی طرح خدا سے تعلق رکھتا ا ورا س کی حمد وستائش کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو عفو کرتا اور ان پر احسان کر کے اپنی عالی ظرفی اور بلند حوصلگی کا ثبوت دیتا ہے.مثلاً ایک شخض کو کسی نے سخت مارا ہے اگر وہ اس پر قادر ہی نہیں ہوا کہ اس کو سزا دے سکے اور اپنا انتقام لے پھر بھی وہ کہے کہ دیکھومیں نے اس کو کچھ بھی نہیں کہا تو یہ بات اخلاق میں داخل نہیں ہوسکتی اور اس کا نام بردباری اور تحمل نہیں رکھ سکتے کیونکہ اسے قدرت ہی حاصل نہیں ہوئی بلکہ ایسی حالت ہے کہ گالی کے صدمہ سے بھی رو پڑے تو یہ ستر بی بی از بے چادری کا معاملہ ہے اس کو اخلاق اور بردباری سے کیا تعلق!!! مسیح کے اخلاق کا نمونہ اسی قسم کا ہے اگر انہیں کوئی اقتداری قوت ملتی اور اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کی توفیق انہیں ہوتی پھر اگر وہ اپنے دشمنو ں سے پیار کرتے اور ان کی خطائیں بخش دیتے تو بےشک ہم تسلیم کر لیتے کہ ہاں انہوں نے اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھایا لیکن جب یہ موقع ہی ان کو نہیں ملا تو پھر انہیں اخلاق کا نمونہ ٹھہرانا صریح بے حیائی ہے.جب تک دونوں پہلو نہ ہوں خلق کا ثبوت نہیں ہو سکتا.اب مقابلہ میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھوکہ جب مکہ والوں نے آپؐکو نکالا اور تیرہ برس تک ہر قسم کی تکلیفیں آپؐکو پہنچاتے رہے آپؐکے صحابہؓ کو سخت سخت تکلیفیں دیں جن کے تصور سے بھی دل کانپ جاتا ہے.اس وقت جیسے صبر اور برداشت سے آپ نے کام لیا وہ ظاہر بات ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کے حکم سے آپؐنے ہجرت کی اور پھر فتح مکہ کا موقع ملا تو اس وقت ان تکالیف اور مصائب اور سختیوں کا خیال کر کے جو مکہ والوں نے تیرہ سال تک آپ پر اور آپ کی

Page 504

جماعت پر کی تھیںآپؐکو حق پہنچتا تھا کہ قتل عام کر کے مکہ والوں کو تباہ کر دیتے اور اس قتل میں کوئی مخالف بھی آپؐپر اعتراض نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ان تکالیف کے لئے وہ واجب القتل ہو چکے تھے اس لئے اگر آپ میں قوت غضبی ہوتی تو وہ بڑا عجیب موقع انتقام کا تھا کہ وہ سب گرفتار ہو چکے تھے مگر آپ نے کیا کیا ؟ آپ نے ان سب کو چھوڑ دیا اور کہا لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ(یوسف:۹۳).یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے مکہ کے مصائب و تکالیف کا نظارہ کو دیکھو کہ قوت و طاقت کے ہوتے ہوئے کس طرح پر اپنے جانستان دشمنوں کو معاف کیا جاتا ہے یہ ہے نمونہ آپ کے اخلاق فاضلہ کا جس کی نظیر دنیا میں پائی نہیں جاتی.محض انکارِ رسل کی سزا اس دنیا میں نہیں ملتی یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مکہ والوں نے آپ کی نری تکذیب نہیں کی تھی.نری تکذیب سے جو محض سادگی کی بنا پر ہوتی ہے اس دنیا میں اللہ تعالیٰ سزائیں نہیں دیتا ہے لیکن جب مکذّب شرافت اور انسانیت کے حدود سے نکل کر بے حیائی اور دریدہ دہنی سے اعتراض کرتا ہے اور اعتراضوں ہی کی حد تک نہیں رہتا بلکہ ہر قسم کی ایذا دہی اور تکلیف رسانی کے منصوبے کرتا ہے اور پھر اس کو حدتک پہنچاتا ہے توا للہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور اپنے مامور و مرسل کے لئے وہ ان ظالموں کو ہلاک کردیتا ہے جیسے نوح کی قوم کو ہلاک کیا یا لوط کی قوم کو.اس قسم کے عذاب ہمیشہ ان شرارتوں اور مظالم کی وجہ سے آتے ہیں جو خدا کے ماموروں اور ان کی جماعت پر کئے جاتے ہیں ورنہ نری تکذیب کی سزا اس عالم میں نہیں دی جاتی اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے اور اس نے ایک او ر عالم عذاب کے لئے رکھاہے.عذاب جو آتے ہیں وہ تکذیب کو ایذا کے درجے تک پہنچانے سے آتے ہیں اور تکذیب کو استہزا اور ٹھٹھے کے رنگ میں کر دینے سے آتے ہیں اگر نرمی اور شرافت سے یہ کہا جاوے کہ میں نے اس معاملہ کو سمجھا نہیں اس لئے مجھے اس کے ماننے میں تأمل ہے تو یہ انکار عذاب کو کھینچ لانے والا نہیں ہے کیونکہ یہ تو صرف سادگی اور کمی علم کی وجہ ہے میں سچ کہتا ہوں کہ اگر نوح کی قوم کا اعتراض شریفانہ رنگ میں ہوتا توا للہ تعالیٰ نہ پکڑتا ساری قومیں اپنی کرتوتوں کی پاداش میں

Page 505

سزا پاتی ہیں.خدا تعالیٰ نے تویہاں تک بھی فرما دیا ہے کہ جو لوگ قرآن سننے کے لئے آتے ہیں ان کو امن کی جگہ تک پہنچا دیا جاوے خواہ وہ مخالف اور منکر ہی ہوں اس لئے کہ اسلام میں جبر اور اکراہ نہیں جیسے فرمایا لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ( البقرۃ:۲۵۷) لیکن اگر کوئی قتل کرے گا یا قتل کے منصوبے کرے گا اور شرارتیں اور ایذا رسانی کی سعی کرتا ہے تو ضرور ہے کہ وہ سزا پاوے.قاعدہ کی بات ہے کہ مجرمانہ حرکات پر ہر ایک پکڑا جاتا ہے پس مکہ والے بھی اپنی شرارتوں اور مجرمانہ حرکات کے باعث اس قابل تھے کہ ان کو سخت سزائیں دی جاتیں اور ان کے وجود سے اس ارض مقدس اور اس کے گرد و نواح کو صاف کر دیا جاتا مگر یہ رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (الانبیآء:۱۰۸) اور اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ(القلم:۵) کا مصداق اپنے واجب القتل دشمنو ں کو بھی پوری قوت اور مقدرت کے ہوتے ہوئے کہتا ہے لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ(یوسف:۹۳).اناجیل کا یسوع اب پادری ہمیں بتائیں کہ مسیح کے اس خلق کو ہم کہاں ڈھونڈیں ؟ ان کی زندگی میں آپ کا نمونہ کہاں سے لائیں؟ جب کہ وہ ان کے عقیدے کے موافق ماریں ہی کھاتا رہا اور جس کو سر رکھنے کی جگہ بھی نہ ملی.(اگرچہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے ایک نبی اور مامور کی نسبت یہ گمان کریں کہ وہ ایسا ذلیل اور مفلوک الحال تھا) انسان کا سب سے بڑا نشان اس کا خلق ہے لیکن ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دینے کی تعلیم دینے والے معلم کی عملی حالت میں اس خلق کا ہمیں کوئی پتہ نہیں لگتا.دوسروں کو کہتا ہے کہ گالی نہ دو مگر یہودیوں کے مقدس فریسیوں اور فقیہوں کو حرامکار، سانپ اور سانپ کے بچے آپ ہی کہتا ہے.یہودیوں میں بالمقابل اخلاق پائے جاتے ہیں وہ اسے نیک استاد کہہ کر پکارتے ہیں اور یہ ان کو حرام کار کہتے ہیں اور کتوں اور سؤروں سے تشبیہ دیتے ہیں.باوجودیکہ وہ فقیہ اور فریسی نرم نرم الفاظ میں کچھ پوچھتے ہیں.اور وہ دنیوی وجاہت کے لحاظ سے بھی رومی گورنمنٹ میں کرسی نشین تھے.ان کے مقابلہ میں ان کے سوالوں کا جواب تو بہت ہی نرمی سے دینا چاہیے تھا اور خوب ان کو سمجھانا چاہیے تھا حالانکہ یہ بجائے سمجھانے کے گالی پر گالی دیتے چلے جاتے ہیں کیا اسی کا نام

Page 506

اخلاق ہے.میں بار بار کہتا ہوں کہ اگر قرآن شریف نہ ہوتا اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ آئے ہوتے تو مسیح کی خدائی اور نبوت تو ایک طرف شاید کوئی دانش مند ان کوکوئی عالی خیال اور وسیع الاخلاق انسان ماننے میں بھی تأمل کرتا.یہ قرآن شریف کا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان عام ہے تمام نبیوں پر اور خصوصاً مسیح پر کہ اس نے ان کی نبوت کا ثبوت خود دیا.پھر ایک اور پہلو سے بھی مسیح کی خدائی کی پڑتال کرنی چاہیے کہ اخلاقی حالت تو خیر یہ تھی ہی کہ یہود کے معزز بزرگوں کو آپ گالیاں دیتے تھے لیکن جب ایک وقت قابو آگئے تو اس قدر دعا کی جس کی کوئی حد نہیں مگر افسوس سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ ساری رات کی دعا عیسائیوں کے عقیدے کے موافق بالکل ردّ ہو گئی اور اس کا کوئی بھی نتیجہ نہ ہوا اگرچہ خدا کی شان کے ہی یہ خلاف تھا کہ وہ دعا کرتے.چاہیے تو یہ تھا اپنی اقتداری قوت کا کوئی کرشمہ اس وقت دکھا دیتے جس سے بیچارے یہود اقرار اور تسلیم کے سوا کوئی چارہ ہی نہ دیکھتے مگر یہاں الٹا اثر ہو رہا ہے اور ع او خود گم است کرا رہبری کند کا معاملہ نظر آتا ہے.دعائیں کرتے ہیں چیختے ہیں چلاتے ہیں مگر افسوس وہ دعا سنی نہیں جاتی اور موت کا پیالہ جو صلیب کی لعنت کے زہر سے لبریز ہے نہیں ٹلتا.اب کوئی اس خدا سے کیا پائے گا جو خود مانگتا ہے اور اسے دیانہیں جاتا.ایک طرف تو تعلیم دیتا کہ جو مانگو سو ملے گا دوسری طرف خود اپنی ناکامی اور نامرادی کا نمونہ دکھاتا ہے.اب انصاف سے ہمیں کوئی بتائے کہ کسی پادری کوکیا تسلی اور اطمینان ایسے خدائے ناکام میں مل سکتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامل نمونہ ہیں غرض جس پہلو سے مسیح کا مقابلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بایںدعویٰ خدائی کیا جاوے تو صاف نظر آتاہے کہ مسیح کو آپؐسے کوئی نسبت ہی نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک عظیم الشان کامیاب زندگی ہے.آپؐکیابلحاظ اپنے اخلاق فاضلہ کے اور کیابلحاظ اپنی قوت قدسی اور عقد ہمت کے اور کیا بلحاظ

Page 507

اپنی تعلیم کی خوبی اور تکمیل کے اور کیا بلحاظ اپنے کامل نمونہ اور دعائوںکی قبولیت کے، غرض ہرطرح اور ہرپہلو میںچمکتے ہوئے شواہد اور آیات اپنے ساتھ رکھتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر ایک غبی سے غبی انسان بھی بشرطیکہ اُس کے دل میںبیجاضد اور عداوت نہ ہو صاف طور پر مان لیتا ہے کہ آپؐ تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ کاکامل نمونہ اور کامل انسا ن ہیں لیکن جب جب کوئی مسیح کے حا لات پر نظر کرتاہے تو ایک دانش مند اور منصف مزاج انسان کو تأمل ہوتاہے کہ ایسے انسان کو جو مہذب اورشریفانہ باتوں کا جواب گالی سے دیتاہےنیک اُستاد کہنے والوںکوسانپ اور سانپ کے بچے اور حرام کار کہتاہے خدا تو ایک طرف نبی ہی تسلیم کرے.مسیح پر ایمان لانے میںیہودکی مشکلات ان ساری باتوںکے علاوہ یہود کو ایک اور عجیب مشکل درپیش تھی جن میں بظاہر وہ حق پرہوسکتے ہیں اور وہ یہ تھی کہ ملاکی نبی کی کتاب میں وہ پڑھ چکے تھے کہ مسیحؑ کے آنے سے پہلے ایلیا کاآسمان سے اُترناضروری ہے.جب تک وہ نہ آوے مسیح نہ آوے گا.اب اُن کے سامنے کسی کے دوبارہ آنے کی نظیر موجود نہیں اورایلیا کاآسمان سے اُترنا وہ اپنی کتابوں میں پڑھتے آئے تھے.اُنہوںنے ایلیا کو آتے دیکھانہیں.مسیح نے آنے کادعویٰ کیا اُسے تسلیم کریں تو کیوں کر؟ مسیح نے جو فیصلہ ایلیا کے آنے کا کیاکہ وہ یوحنا کے رنگ میںآگیا.یہودیوںکے پاس بظاہر اس کے انکار کے لیے وجوہات تھیں کیونکہ اُن کو ایلیا کا وعدہ دیاگیا تھا نہ مثیل ایلیا کا.اور اس سے پہلے کوئی واقعہ اس قسم کا ہوا نہ تھا اس لیے اُن کو مسیح کاانکار کرناپڑا.ایک یہودی کی کتاب میرے پاس موجود ہے.اُس نے بڑے زور سے اس امر پربحث کی ہے اور پھر اپیل کرتاہے کہ بتائو ایسی صورت میںہم کیا کریں.بلکہ اُس نے یہاںتک لکھاہے کہ اگر خدا تعالیٰ ہمیں اس کے متعلق باز پرس کرے گا تو ہم ملا کی نبی کی کتاب کھول کر اُس کے سامنے رکھ دیںگے.غرض ایک مشکل تو یہودیوں کو یہ پیش آئی پھر دوسری مشکل یہ پیش آئی کہ مسیح مصلوب ہوگیا اور صلیب کی لعنت نے ان کے کذب پر ایک اور رنگ چڑھادیا.کیونکہ وہ توریت میںپڑھ چکے تھے کہ

Page 508

جھوٹا نبی صلیب پر لٹکایاجاتاہے اوروہ ملعون ہوتاہے.پس اُنہوں نے یہ خیال کیا کہ ایک طرف تو ایلیا آیا نہیں اور یہ مسیح ہونے کامدعی ہے اور ایلیاکے قصے پر جو فیصلہ دیتاہےوہ بظاہر ملاکی نبی کی کتاب کے مخالف ہے اس لیے کاذب کی مخالفت اور خود مسیح کے طرزعمل اور سلوک نے یہودیو ں کو اور بھی برافروختہ کر دیا تھا جب وہ اِن کو حرام کار اور سانپ اور سانپ کے بچے کہہ کر پکارتے تھے.پس اُنہوں نے صلیب کے لیے کوشش کی اور جب صلیب پر چڑھادیا تو ان کے پہلے خیال کو اوربھی مضبوطی ہوگئی.کیونکہ اُنہوں نے دیکھا کہ یہ صلیب پرلٹکایا جاکر لعنتی ہو گیا ہے اس لیے سچا نہیں ہے.اب انہوں نے یہ یقین کر لیا کہ جب یہ خود لعنتی ہو گیا تو دوسروںکا شفیع کیسے ہو سکتاہے.صلیب نے اس کے کاذب ہو نے پر مہر لگا دی.دو گواہوںکے ساتھ انسان پھانسی پا سکتا ہے.اُنہوںنے اس وقت بھی کہا کہ اگر تو سچا ہے تو اُتر آ مگر وہ اُتر نہ سکا.اس امر نے اُن کو اور بد ظن کر دیا.۱ لعنت کامفہوم عیسائی چونکہ لعنت کے مفہوم اور منشا سے ناواقف تھے اس لیے مسیح کو ملعون قرار دیتے وقت اُنہوں نے کچھ نہیں سوچاکہ اُس کاانجام آخر کیا ہو گا؟ علاوہ بریں چونکہ عربی سے اُنہیں بغض تھا اس لیے عبرانی میں بھی پوری مہارت حاصل نہ کر سکے.یہ دونوںزبانیں ایک ہی در خت کی شاخیں ہیں اور عربی جاننے والے کے لیے عبرانی کاپڑھنا سہل تر ہے مگر عیسائی بوجہ بغض عبرانی لغت سے بھی فائدہ نہ اُٹھاسکے.لعنت کامفہوم یہ ہے کہ کوئی خدا تعالیٰ سے سخت بیزار ہو جاوے اور خدا تعالیٰ اس سے بیزار ہو جاوے.عیسائیوںکے اپنے مطبع کی چھپی ہوئی لغت کی کتابیں جو بیروت سے آئی ہیں ان میں بھی لعنت کے یہی معنے لکھے ہو ئے ہیں اور لعین شیطان کو کہتے ہیں.مجھے ان لوگوںکی سمجھ پر سخت افسوس آتاہے کہ اُنہو ں نے اپنے مطلب کی خاطر ایک عظیم الشان نبی کی سخت بے حُرمتی کی ہے اور اس کو لعین ٹھہرایاہے اور انہوں نے اس پرکچھ بھی توجہ نہیں کی کہ لعنت کاتعلق دل سے ہوتاہے.جب تک دل خدا سے بر گشتہ نہ ہولے ملعون نہیں ہو سکتا.اب کسی عیسائی سے پوچھو کہ کیا عربی اور عبرانی لغت میں

Page 509

لعنت کے یہ معنی متفق علیہ ہیں یانہیں ؟پھر اگر دل میں شرارت اور ہٹ دھرمی نہیں ہے اورمحض خدا تعالیٰ کی رضاکے لیے ایک مذہب کو اختیار کیا جاتا ہے تو کیاایک لعنت ہی کامضمون عیسائی مذہب کے استیصال کے لیے کافی نہیں ہے؟ اوّل غور کرے کہ جب یہ بات مسلّم تھی اور پہلے توریت میں کہا گیا تھا کہ وہ جو کاٹھ پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے اور وہ کاذب ہے تو بتائو جو خود ملعون اور کاذب ٹھہر گیاوہ دوسروں کی شفاعت کیاکرے گا؟ ع او خویشتن گم است کرا رہبری کُند میں سچ کہتاہو ں کہ جب سے ان عیسائیوں نے خدا کوچھوڑکر اُلوہیّت کاتاج ایک عاجز انسان کے سر پررکھ دیاہے اندھے ہو گئے ہیں اُن کو کچھ دکھائی نہیںدیتا.ایک طرف اُسے خدابناتے ہیں.دوسری طرف صلیب پر چڑھاکر لعنتی ٹھہراتے ہیں اور پھر تین دن کے لیے ہاویہ میں بھی بھیجتے ہیں.کیا وہ دوزخ میں دوزخیوں کو نصیحت کرنے گئے تھے یااُن کے لیے وہاں جاکر کفّارہ ہو نا تھا ؟ حضرت مریمؑ کے یُوسف سے نکاح پر اعتراضات مختصر یہ کہ اس قسم کے فساد موجود ہیں.اب اصل مطلب یہ ہے کہ یہی نہیں بلکہ کوئی بھی اخلاقی حالت مسیح کی ثابت نہیں ہے.صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سہارے سے ماناگیا ہے.اگر انجیل کی بناپر ہی مانناپڑتاتو پھر ان مشکلات میں پڑکر کون تسلیم کر سکتاہے.عیسائیوںنے اور انجیل نے تو اور بھی داغ لگائے ہیں.یہودی جس قسم کے الزام لگاتے ہیں ان کے تو بیان کرنے سے بھی شرم معلوم ہو تی ہے.یہ دلیر قوم تو اس کی ماں کو بھی متّہم کرتی ہے.ایک اور خطرناک معاملہ ہے جس کا جواب عیسائیوں کے پاس ہرگز نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ مریم کی ماں نے عہد کیاتھا کہ وہ بیت المقدس کی خدمت کرے گی اور تارکہ رہے گی نکاح نہ کرے گی اور خود مریم نے بھی یہ عہد کیاتھا کہ میں ہیکل کی خدمت کروں گی.باوجود اس عہد کے پھروہ کیا بلا اور آفت پڑی کہ یہ عہد توڑاگیا اور نکاح کیاگیا.اُن تاریخو ں میں جویہودی مصنّفوں نے لکھی ہیں اَور باتوں کو چھوڑ کر بھی اگر دیکھا جاوے تو یہ لکھاہے کہ یوسف کو مجبور کیا گیاکہ وہ نکاح کر لے اور اسرائیلی بزرگوں نے

Page 510

اسے کہا کہ ہر طرح تمہیں نکاح کرنا ہو گا.اب اس واقعہ کو مدّنظر رکھ کر دیکھو کہ کس قدر اعتراض واقع ہوتے ہیں.اوّل.جب عہد باندھاگیاتھاتوپھر خدا کی ماں اور نانی نے اپنے عہد کو کیوں توڑا ؟ دوم.جبکہ عیسائیوں کے نزدیک کثرت ازدواج زناکاری ہے تو وہ اس کاکیا جواب دیتے ہیں کہ یوسف کی پہلی بیوی بھی تھی اور مریم دوسری بیوی تھی کیا وہ اپنے آپ یہ الزام اپنی مقدس کنواری پر قائم نہیں کرتے ؟ سوم.جب کہ حمل ہو چکاتھاتو پھر حمل میں نکاح کیوں کیا گیا؟ یہ تین زبر دست اعتراض ہیں جو اس پر ہو تے ہیں.اَورباتوں کو اگر چھوڑ دیا جاوے مثلاًیہ کہ جب فرشتہ نے آ کر مریم کو بشارت دی تھی کہ تیرے پیٹ میں خدا آتاہے تو اُسے چاہیے تھاکہ شور مچا دیتی اور دنیاکو آگاہ کر تی کہ خدا کااستقبال کرنے کو تیار ہو جائو وہ میرے پیٹ سے پیداہو گا.پھر اس کو چھپایاکیو ں گیا.ہم اس قسم کے اعتراضوں کو سرِدست چھوڑدیتے ہیں لیکن جو تین بڑے اعتراض اوپر کیے گئے ہیں اُن کا جواب عیسائیوں کے پاس حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہے.اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ مریم کو ہیکل میں پیٹ ہوگیاتھااور مریم نے یہ سمجھا کہ لوگوںکو اگر بتایاگیاکہ مجھے فرشتہ نے آکر بیٹا پیدا ہونے کی بشارت دی ہے تو لوگ ٹھٹھا کریںگے اورکہیں گے کہ اس کو بیاہ کے خواب آتے ہیں.کوئی بدکار ٹھہرائے گا لیکن جب پیٹ چھپ نہ سکا اورچرچاہونے لگا تو آخر سب کو فکر پڑی.اگر پہلے سے بتادیتی جب فرشتہ نے آکر کہاتھا تو شاید اس قدر شور نہ ہو تا لیکن اُنہوں نے یہی سمجھاکہ اس وقت اگر بتایاتویہی کہیں گے کہ خاوندمانگتی ہے کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ اگر کنواری لڑکی ذراسابھی کوئی ذکر کر بیٹھے تو لوگ اس کی نسبت یہی نتیجہ نکال لیتے ہیں.پس وہ ڈرتی رہی اوریہی اس نے سوچاکہ خاموش رہوں لیکن چار پانچ مہینے کے بعد جب پیٹ بڑھااورپردہ نہ رہ سکا.تو پھر رہانہ گیا تو ہیکل کے بزرگوں کو بخوبی معلوم ہو گیا کہ مریم حاملہ ہے اور انہیں فکر پیداہوئی اور جیسا کہ یہ دیکھاجاتاہے کہ اگر شریف خاندان کی کوئی لڑکی حاملہ ہو جاوے تو جھٹ پٹ اس کا نکاح کر

Page 511

دیتے ہیں تاکہ ناک نہ کٹ جاوے.ان بزرگو ں کو بھی یہی فکر پیدا ہوئی کیو نکہ وہ اصل واقعہ سے بالکل بے خبر اور نا آشناتھے.اس لیے اُنہوں نے ان باتوں کی ذرابھی پروا نہ کی کہ اس نکاح سے عہد شکنی کاارتکاب ہو گا یادوسری شادی کی وجہ سے بقول یسوع مسیح یہ زناکاری ٹھہرے گی یا حاملہ کانکاح کرنا جائز نہیں ہے.عزیزوں نے بھی سمجھاکہ اگر اب خاموشی کی گئی اور نکاح نہ کیا گیا تو ناک کٹ جاوے گی اس لیے یہ نکاح کردیاگیا جس پر اس قدر اعتراض ہو تے ہیں.اناجیل کی مبالغہ آرائی مگر غو ر طلب سوال یہ ہے کہ ان انجیل نویسوں نے اس واقعہ پر کیوں دیانت داری کے ساتھ روشنی نہیں ڈالی یہ دیانت داری کے خلاف ہے.ایک جگہ ایک انجیل نویس لکھتاہے یسوع نے اس قدر کا م کیے کہ اگر وہ لکھے جاتے تو دنیا میں نہ سماسکتے.مگر اس عقلمند کی سمجھ پر افسوس آتاہے کہ اس ایک ہی جملہ نے انجیل کی ساری حقیقت کھول دی کہ اس میں جو کچھ لکھا گیا ہے ایسی ہی مبالغہ آمیز باتیں ہیں کیونکہ یہ کیسی ہنسی کی بات ہے کہ جو کام تین برس میں ہوسکتے ہیں وہ دنیامیں نہیں سماسکتے.جب محدود زمانہ میں سماگئے توپھر مکانی طور پر کیوں محدود نہیں ہو سکتے؟ اس قسم کے ردّی مواد سے بھراہواعیسائی مذہب کاپھوڑاہے.پھوڑوںکے پھوٹنے کا ایک وقت مقررہوتاہے.نصرانی مذہب بھی ایک پھوڑاہے جو اندر پیپ سے بھراہواہے اس لیے باہر سے چمکتا ہے.مگر اب وقت آگیاہے کہ یہ ٹوٹ جاوے اور اس کی اندرونی غلاظت ظاہر ہو جاوے.انگریزی گورنمنٹ کے عہدمیں مذہبی آزادی ابھی سکھوں کا زمانہ گزرا ہے جس میں شائستگی بالکل جاتی رہی تھی.عالم باعمل نہ رہے تھے.اگر کسی کو شبہات پڑتے اور وہ سوال کرتا تواس کو واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیا جاتا.یہ زمانہ ایسا ہی ہو گیا تھا.مگر اب خدا تعالیٰ نے فضل کیا کہ ایک مہذب اورشائستہ علم دوست گورنمنٹ کو ہم پر حکمران کیا جس نے عدل اور انصاف کے ساتھ حکومت کرنی چاہی ہے اور مذہبی آزادی کی برکت سے ساری قوموں کو مستفید کیا.اب وہ وقت آگیا ہے کہ مذہب کے متعلق سوال کرنے والوں سے کوئی

Page 512

سختی نہیں کی جاتی اور ہر ایک سائل کو جواب دیاجاتاہے.مسیح موعودؑکی بعثت کی غرض جب زمانہ نے اس قسم کی ترقی کی اور اشاعت حق کے سارے سامان اور ذریعے پیدا ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اسلام کو کُل اُمتوں پرغالب کرنے کے لیے مجھے مامور کر کے بھیجا.حقیقی محی اموات صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دنیا میں بھیجا تھا اس وقت کل تَری خشکی فساد سے بھر چکی تھی.آپؐنے آکر بہت سے بگڑے ہوئوں کو بنادیا.یہ بات سَر سَری نگاہ سے دیکھے جانے کے قابل نہیں ہے بلکہ اس میں بڑے بڑے حقائق ہیں او رنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور بزرگی کا پتہ لگتاہے کیونکہ بجز اعلیٰ درجہ کے مقدس راست باز کے کوئی دوسرے کو درست نہیں کر سکتا جس کی اپنی قوت قدسی کمال کے درجہ پر نہ پہنچی ہوئی ہو اور ایسی قوت اس میںپیدانہ ہو چکی ہو.جو ساری ناپاکیوں کے اثر کو زائل کر دے وہ دوسروں کو درست نہیں کر سکتا.یو ں تو ہر ایک نبی نے اپنے اپنے وقت میں اپنی قوم کی اصلاح کی اور اس کو درست کیا مگر جس شان اور مرتبہ کی اصلاح ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے اس کو کسی اور کی اصلاح نہیں پہنچ سکتی.بلکہ اس کے مقابل میں دوسری اصلاحیں ہیچ نظر آتی ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ٹیڑھی قوم کو پورے طور سے درست نہ کر سکے اور حضرت مسیح چند حواریوں کی سچی تبدیلی نہ کر سکے.اس لیے جب اس مقابلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جاوے تو صاف اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ایک ہی ہے جس نے لاکھوں کروڑوں مُردوں کو زندہ کیا.محی اگر ہے تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے.جھوٹے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مسیح مُردے زندہ کیا کرتا تھا.جس نے اپنے چند حواری بھی زندہ نہ کیے ان کے پاس ہمیشہ مُردے ہی رہے.میں ہمیشہ حیران ہوا کرتا ہوں اور حقیقت میں یہ حیران ہونے کی بات ہے کہ وہ حیات کیسی ہے جس کے ساتھ فنا لگی ہوئی ہے.یہ مسئلہ ہی غلط ہے جو کہے کہ فلاں شخص زندہ کرتا ہے.اگر زندہ کرنے کا مفہوم اور مطلب اَور نہ ہوتا تو خدا تعالیٰ کیوں فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ( الزّمر : ۴۳ ) فرماتا.اس سے معلوم ہوا

Page 513

کہ یہ محاورہ ہی اور ہے ورنہ اس سے تو تنا قض لازم آتا ہے کہ ایک طرف کہے کہ زندہ نہیں ہوتا اور دوسری طرف کہہ دے کہ زندہ ہو جاتا ہے.اگر مسیح سچ مچ مُردہ زندہ کرتاتھا تو قرآن شریف ضرور اس کی نسبت فرماتا یُـحْیِ الْمُتَوَفّٰی کیونکہ تَوَفّی کالفظ وہاں آتاہے جہاں قبض روح ہو.موت تو اس سے پہلے بھی آسکتی ہے.اور تَوَفّی کالفظ اس لیے استعمال کیا ہے تاکہ یہ ثابت کیاجاوے کہ مرنے کے بعد روح باقی رہتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں آجاتی ہے کس قدر حیرت اور افسوس کی جگہ ہے کہ معجزات مسیح پر بحث کرتے ہوئے لوگ پوری توجہ نہیں کرتے.قرآن کریم کو اگر غور سے پڑھ لیتے اور سنّت اللہ پر نظر کرتے تو یہ مسئلہ سمجھ میں آجانا کچھ بھی مشکل نہ تھا.انبیاء کے معجزات زمانہ کے مناسب حال ہوتے ہیں صحیح تاریخ ایک عمدہ معلّم ہے اس سے پتہ لگتاہے کہ ہر نبی کے معجزات اس رنگ کے ہوتے ہیں جس کا چرچااور زور اُس کے وقت میں ہو.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت سحر کا بہت بڑازور تھا اس لیے ان کو جو معجزہ دیا گیا وہ ایسا تھا کہ اس نے اُن کے سحر کو باطل کردیااور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں فصاحت بلاغت کازور تھا اس لیے آپؐکو قرآن کریم بھی ایک معجزہ اسی رنگ کا ملا.یہ رنگ اسی لئے اختیار کیا کہ شعر اء جادو بیان سمجھے جا تے تھے اور ان کی زبان میں اتنا اثر تھا کہ وہ جو چاہتے تھے چند شعر پڑھ کر کرالیتے تھے جیسے آج کل جوش دلانے کےلئے انگریزوں نے باجا رکھا ہوا ہے ان کے پاس زبان تھی جو دلیری اور حوصلہ پیدا کر دیتی تھی.ہر حربہ میں وہ شعر سے کام لیتے تھے اور فِيْ كُلِّ وَادٍ يَّهِيْمُوْنَ (الشعرآء:۲۲۶) کے مصداق تھے.اس لیے اُس وقت ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ اپنا کلام بھیجتا.پس خدا تعالیٰ نے اپنا کلام نازل فرمایا اور اسی کلام کے رنگ میں اپنا معجزہ پیش کر دیا.جبکہ اُن کو مخاطب کر کے کہہ دیا کہ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ الاٰیۃ ( البقرۃ : ۲۴ ) تم جو اپنی زبان دانی کا دم مارتے اور لاف زنی کرتے ہو اگر کوئی قوت اور حوصلہ ہے تو اس کلام

Page 514

کے معجزہ کے مقابلہ کچھ پیش کر کے دکھائو لیکن باوجود اس کے کہ وہ جانتے تھے کہ اگر کچھ نہ بنایا (خصوصاً ایسی حالت میں کہ جب تحدی کر دی گئی ہے کہ تم ہرگز ہر گز بنا نہ سکوگے) تو ملزم ہو کر ذلیل ہو جائیں گے پھر بھی وہ کچھ پیش نہ کر سکے.اگر وہ کچھ بناتے اور پیش کرتے تو صحیح تاریخ ضرور شہادت دیتی مگر کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ کسی نے کچھ بنایا ہو.پس خدا تعالیٰ نے اُس وقت اُسی رنگ کا معجزہ دکھایا تھا.سلبِ امراض کا معجزہ ایسا ہی یہودیوں میں سلبِ امراض کا نسخہ چلا آتا تھا.ہندوئوں میں بھی ہے.مسلمانوں میں بھی ہے.عیسائیوں میں بھی ہے بلکہ انگریزوں میں تو آج کل یہ علم بہت ترقی کر گیا ہے.اس سے نبوت کا ثبوت نہیں ہوتا اور نہ نبوت سے اس کو کوئی تعلق ہے کیونکہ یہ صرف مشق پر موقوف ہے اور ہر شخص جو مشق کرے خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، عیسائی ہو یا دہریہ غرض کوئی بھی ہو وہ مشق کرنے سے اس میں مہارت پیدا کر سکتا ہے.اس لیے اس سلب امراض کو نبوت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ ایک عام بات ہے تو حضرت مسیح کے وقت میں چونکہ اس کا زور تھا.اﷲ تعالیٰ نے اسی رنگ کا معجزہ حضرت مسیح کو دے دیا.یہ خاصیت ہرانسان میں موجود ہے کہ وہ توجہ کرتا ہے.توجہ کرنے کے ساتھ ایک چیز اُس کے دل سے اُٹھ کر پڑتی ہے.چنانچہ مسیح نے کہا کہ کس نے مجھے چھوا ہے کہ میری قوت نکلی ہے.سلبِ امراض والے بھی یہی کہتے ہیں.مختصر یہ کہ مسیح کے معجزات اس رنگ میں آکر بہت ہی کمزور اور ضعیف ہوجاتے ہیں.اس کے علاوہ مسیح کے معجزات پر ایک اَور بڑا اعتراض بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ انجیل میں لکھا ہے کہ ایک تالاب ایسا تھا کہ لوگ اس کے پانی کے ہلنے کاانتظار کیا کرتے تھے.۱ اور وہ مانتے تھے کہ اس کو فرشتہ ہلاتا ہے.پس جو سب سے پہلے اس میں اُتر پڑتا وہ اچھا ہو جاتا تھا اور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ مسیح اس تالاب پر اکثر جایا کرتے تھے.پھر کیا تعجب ہے کہ مسیح نے بیماروں کے علاج کا کوئی نسخہ اس تالاب کی مٹی وغیرہ سے ہی تیار کیا ہو.تالاب کے اس قصہ نے جو اناجیل میں درج ہے

Page 515

مسیحی معجزات کی حقیقت کو اور بھی مشتبہ کر دیا ہے اور ساری رونق کو دور کر دیا ہے.اسی لیے عمادالدین جیسے عیسائیوں کو ماننا پڑا ہے کہ تالاب والا قصہ الحاقی ہے لیکن انجیل کے ان نادان دوستوں نے اتنا خیال نہیں کیا کہ اس باب کو محض الحاقی کہہ دینے سے مسیحی معجزات کی گئی ہوئی رونق نہیں آسکتی بلکہ انجیل کو اور بھی مشتبہ قرار دینا ہے کیونکہ پھر اس بات کا کیا جواب ہے کہ جس انجیل میں ایک باب الحاقی ہو اور حصہ اُس کا الحاقی نہ ہو اور جبکہ نسب نامہ کو الحاقی کہنے والے بھی موجود ہیں.پھر اس تالاب جیسے چشمے اور ملکوں میں بھی پائے جاتے ہیں.یورپ کے اکثر ممالک میں ایسے چشمے ہیں جہاں جا کر اکثر امراض کے مریض شفا پاتے ہیں.کشمیر میں بھی بعض چشموں کا پانی ایسا ہی ہے جن میں گندھک کا پانی اور نمک اور اَور اس قسم کے اجزا ملے ہوئے ہوتے ہیں.پس وہ معجزہ نما تالاب مسیح کے سارے معجزات پر پانی پھیرتا ہے.خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ مسیح کا اس تالاب پر جانا اور اس کی مٹی کا آنکھوں پر لگانا اور اپنے پاس رکھنا بھی بیان کیا جاتا ہے اور پھر عمادالدین اُسے الحاقی مانتا ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک حصہ الحاقی مان کر پھر آسمانی کہتے ہوئے اُسے شرم نہیں آتی.مسیح کی لکھی ہوئی انجیل نہیں.حواریوں کی زبان عبرانی نہیں.تیسری مصیبت یہ ہے کہ الحاقی بھی ہے اور پھر آخر یہ کہ تعلیم اُدھوری اور ناقص اور نا معقول ہے اور اُسے پیش کیا جاتا ہے کہ نجات کا اصلی ذریعہ یہی ہے.الوہیّت مسیح معجزات کا تو یہ حال ہے پیشگوئیوں کا یہ حال ہے کہ ایسی پیشگوئیاں ہر مدبّر شخص تو درکنار عام لوگ بھی کر سکتے ہیں کہ لڑائیاں ہوں گی.قحط پڑیں گے.مرغ بانگ دے گا.ان پیشگوئیوں پر نظر کرو تو بے اختیار ہنسی آتی ہے.ان کو یہودی خدائی کا ثبوت کب تسلیم کرسکتے تھے.خدائی کے لیے تووہ جبروت اور جلال چاہیے جو خدا کے حسب حال ہے.لیکن یسوع اپنی عاجزی اور ناتوانی میں ضرب المثل ہے.یہاں تک کہ ہوائی پرندوں اور لومڑیوں سے بھی ادنیٰ درجہ پر اپنے آپ کو رکھتا ہے.اب کوئی بتائے کہ کس بنا پر اس کی خدائی تسلیم کی جاوے.کس کس بات

Page 516

کو پیش کیا جاوے.ایک صلیب ہی ایسی چیز ہے جو ساری خدائی اور نبوت پر پانی پھیر دیتی ہے کہ جب مصلوب ہو کر ملعون ہو گیا تو کاذب ہونے میں کیا باقی رہا.یہودی مجبور تھے.ان کی کتابوں میں کاذب کا یہ نشان تھا.اب وہ صادق کیوں کر تسلیم کرتے؟ جو خود خدا سے دور ہو گیا وہ اَوروں کے گناہ کیا اٹھائے گا.عیسائیوں کی اس خوش اعتقادی پر سخت افسوس آتا ہے کہ جب دل ہی ناپاک ہو گیا تو اَور کیا باقی رہا.وہ دوسروں کو کیا بچائے گا.اگر کچھ بھی شرم ہوتی اور عقل و فکر سے کام لیتے تو مصلوب اور ملعون کے عقیدے کو پیش کرتے ہوئے یسوع کی خدائی کا اقرار کرنے سے اُن کو موت آجاتی.اب کسرِصلیب کے سامان کثرت سے پیدا ہو گئے ہیں اور عیسائی مذہب کا باطل ہونا ایک بدیہی مسئلہ ہوگیا ہے.جس طرح پر چور پکڑا جاتا ہے تو اوّل اوّل وہ کوئی اقرار نہیں کرتا اور پتہ نہیں دیتا مگر جب پولیس کی تفتیش کامل ہو جاتی ہے تو پھر ساتھی بھی نکل آتے ہیں اور عورتوں بچوں کی شہادت بھی کافی ہوجاتی ہے.کچھ کچھ مال بھی بر آمد ہو جاتا ہے.تو پھر اس کو بےحیائی سے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ہاں میں نے چوری کی ہے.اسی طرح پر عیسائی مذہب کا حال ہوا ہے.صلیب پر مَرنا یسوع کو کاذب ٹھہراتا ہے.لعنت دل کو گندہ کرتی اور خدا سے قطع تعلق کرتی ہے.اور اپنا قول کہ یونسؑ کے معجزہ کے سوا اور کوئی معجزہ نہ دیا جاوے گا باقی معجزات کو ردّ کرتا اور صلیب پر مَرنے سے بچنے کو معجزہ ٹھہراتا ہے.عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ انجیل میں کچھ حصہ الحاقی بھی ہے.یہ ساری باتیں مل ملا کر اس بات کا اچھا خاصہ ذخیرہ ہیں جو یسوع کی خدائی کی دیوار کو جو ریت پر بنائی گئی تھی بالکل خاک سے ملاویں اور سرینگر میں اس کی قبر نے صلیب کو بالکل توڑ ڈالا.مرہم عیسیٰ اس کے لیے بطور شاہد ہو گئی.غرض یہ ساری باتیں جب ایک خوبصورت ترتیب کے ساتھ ایک دانش مند سلیم الفطرت انسان کے سامنے پیش کی جاویں تو اسے صاف اقرار کرنا پڑتا ہے کہ مسیحؑ صلیب پر نہیں مرا.اس لئے کفارہ جو عیسائیت کا اصل الاصول ہے بالکل باطل ہے.مسیح موعود کی بعثت کی غرض پس یاد رکھو کہ یہ وہ حقائق ہیں جو اس وقت خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مسیح موعود پر کھولے ہیں.میں پکار کر کہتا ہوں

Page 517

کہ اب خدا کا وقت آگیا ہے.جو کچھ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہوا تھا.اُس کے پورا ہونے کا وقت آپہنچا کہ مسیح موعود صلیب کو توڑے گا.اس سے یہ مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ تھی کہ وہ صلیبیں توڑتا پھرے گا.کیونکہ اگر صلیب توڑنے ہی سے کوئی مسیح موعود ہو سکتا ہے تو پھر صلاح الدین اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقت میں بہت سی صلیبیں توڑی گئی تھیں.علاوہ بریں صلیب کے اس طرح پر توڑنے سے کچھ فائدہ نہیں.اگر ایک لکڑی کی صلیب توڑی جاوے تو دس اور بن سکتی ہیں.چاندی سونے کی بن جاتی ہیں.مگر نہیں خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کے لیے جو کسر صلیب مقرر کیا تو اس سے یہ ہرگز مراد نہیں تھی کہ ان صلیبوں کو توڑتا پھرے گا کیونکہ اس سے ظالم ٹھہرایا جاسکتا ہے.پس جو لوگ یہ اعتقاد کرتے ہیں وہ دین کو بدنام کرتے ہیں.خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کو اس جسمانی جنگ سے بَری رکھا ہے اور اس کے لیے یہ مقرر کیا کہ یَضَعُ الْـحَرْب تاکہ اس دودھ میں مکھی نہ پڑ جاوے.مسیح موعود دنیا میں آیا ہے تاکہ دین کے نام سے تلوار اُٹھانے کے خیال کو دور کرے اور اپنی حجج اور براہین سے ثابت کر دکھائے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی اشاعت میں تلوار کی مدد کا ہرگز محتاج نہیں بلکہ اس کی تعلیم کی ذاتی خوبیاں اور اُس کے حقائق و معارف و حجج و براہین اور خدا تعالیٰ کی زندہ تائیدات اور نشانات اور اس کا ذاتی جذب ایسی چیزیں ہیں جو ہمیشہ اس کی ترقی اور اشاعت کا موجب ہوئی ہیں اس لیے وہ تمام لوگ آگاہ رہیں جو اسلام کے بزورِ شمشیر پھیلائے جانے کا اعتراض کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹے ہیں.اسلام کی تاثیرات اپنی اشاعت کے لیے کسی جبر کی محتاج نہیں ہیں.اگر کسی کوشک ہے تو وہ میرے پاس رہ کر دیکھ لے کہ اسلام اپنی زندگی کا ثبوت براہین اور نشانات سے دیتا ہے.اب خدا تعالیٰ چاہتاہے اور اس نے ارادہ فرمایا ہے کہ ان تمام اعتراضوں کو اسلام کے پاک وجود سے دور کردے جو خبیث آدمیوں نے اس پر کئے ہیں.تلوار کے ذریعہ اسلام کی اشاعت کا اعتراض کرنے والے اب سخت شرمندہ ہوںگے.یہ کہنا کہ سرحدی غازی آئے دن فساد کرتے ہیں.

Page 518

جہاد کے خیال سے یہ ایک بیہودہ بات ہے اور ان مفسدوںکو غازی کہناسراسرنادانی اور جہالت ہے.اگر کوئی جاہل مسلمان اُن کے ساتھ ذرا بھی ہمدردی رکھتاہے اس خیال سے کہ وہ جہاد کرتے ہیں میںسچ کہتا ہوں کہ وہ اسلام کا دشمن ہے جو مفسد کانام غازی رکھتا ہے اوراسلام کے بدنام کرنے والوں کی تعریف کرتاہے.یہودیوںکے لیے خدا نے جومسیح پیدا کیا تھا اُس کی غرض بھی یہی تھی کہ یہودیوں کی اس آلائش کو دھو ڈالے جو جبر کے ساتھ اشاعت ِمذہب کی اُن سے منسوب کی گئی تھی.اسی طرح پر چودھویںصدی میں جو مسیح موعود خدا نے اسلام کو دیا ہے اس کی غرض اور مقصود بھی یہی ہے کہ اسلام کو اس اعتراض سے صاف کرے کہ اسلام جبر کے ساتھ پھیلایا گیا ہے اس لیے اس کا پہلا کام یہی ہے کہ وہ لڑائی نہ کرے گا.انگلستان اور فرانس اور دیگر ممالک یورپ میں یہ الزام بڑی سختی سے اسلام پر لگایا جاتاہے کہ وہ جبر کے ساتھ پھیلایا گیا ہے مگر افسوس اور سخت افسوس ہے کہ وہ نہیںدیکھتے کہ اسلام لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ(البقرۃ:۲۵۷) کی تعلیم دیتا ہے اور انہیں نہیں معلوم کہ کیا وہ مذہب جو فتح پاکر بھی گرجے نہ گرانے کاحکم دیتا ہے کیا وہ جبر کر سکتا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ ان ملّانوںنے جواسلام کے نادان دوست ہیں یہ فساد ڈالا ہے.اُنہوںنے خود اسلام کی حقیقت کو سمجھانہیں اور اپنے خیالی عقائد کی بناپر دوسروںکو اعتراض کاموقع دیا.جو کچھ عقائد ان احمقوںنے بنارکھے ہیں اُن سے نصاریٰ کو خوب مدد پہنچی ہے.اگر یہ لوگ جہاد کی صورت میںدھوکا نہ دیتے یا نہ کھاتے تو کسی کو اعتراض کا موقع ہی نہیں مل سکتا تھا مگر اب خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اسلام کے پاک اور درخشاں چہرہ سے یہ سب گردو غبار دور کرے اور اس کی خوبیوںاور حسن و جمال سے دنیاکو اطلاع بخشے.چنانچہ اسی غرض اور مقصد کے لیے اس وقت جب کہ اسلام دشمنوں کے نرغہ میں پھنساہوا بے کس اوریتیم بچہ کی طرح ہورہاتھا اُس نے اپنا یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور مجھے بھیجاہے تامیں عملی سچائیوں اور خدا کے نشانات کے ساتھ اسلام کو غالب کروں.۱

Page 519

دَآبَّةُ الْاَرْضِ ان لوگوںنے اپنی رائوں اور خیالوں کو داخل کر کے اصل امر کو بد نما بنانے کی کوشش کی ہے ان کی وہی مثال ہے مَا دَلَّهُمْ عَلٰى مَوْتِهٖۤ اِلَّا دَآبَّةُ الْاَرْضِ (سبا:۱۵) یعنی سلیمان کی موت پر دلالت کرنے والا کو ئی امر نہ تھا.یہ ساری شرارت گویا دَآبَّةُ الْاَرْضِکی تھی کہ اس نے عصا کھا لیا اور وہ گر پڑا.خدا تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ سچ ہے.یہ قصےّاور داستانیں نہیں ہیں بلکہ یہ حقائق اور معارف ہیں.اسلا م راستی کاعصاتھاجو اپنے سہارے کھڑاتھا اور اس کے سامنے کوئی آریہ، ہندو،عیسائی دم نہ مارسکتاتھا لیکن جب سے یہ دَآبَّةُ الْاَرْضِ پیداہوئے اور اُنھوں نے قرآن کو چھوڑکر موضوع روایتوں پر اپنا انحصار رکھا.اس کانتیجہ یہ ہوا کہ ہر طرف سے اسلام پر حملے ہونے شروع ہوگئے.دَآبَّةُ الْاَرْضِ کے معنے اصل میں یہ ہیں کہ ایک دیمک ہوتی ہے جس میںکوئی خیر نہیں جو لکڑی اور مٹی وغیرہ کو کھا جاتی ہے.اس میںفنا کامادہ ہے اور اچھی چیز کو فناکرنا چاہتی ہے.اس میںآتشی مادہ ہے اب اس کا مطلب یہ ہے کے دَآبَّةُ الْاَرْضِ اِس وقت کے علماء ہیں جو جھوٹے معنے کرتے ہیں اور اسلام پر جھوٹے الزام لگاتے ہیں.جیساکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت کو حد سے بڑھاتے ہیں اور اُن کو خدا تعالیٰ کی صفات سے متصف قرار دیتے ہیںجبکہ اُن کو محی اور شافی، عالم الغیب، غیر متغیر وغیرہ مانتے ہیں اور ایسا ہی اسلام پر یہ جھوٹاالزام لگاتے ہیں کہ وہ تلوار کے بدوں نہیں پھیلا.بھوپال کے ایک مُلّابشیر نے مجھے دجّال کہا حالانکہ یہ لوگ خود دجّال ہیںجو مجھے کہتے ہیں کیونکہ وہ حق کو چھپاتے ہیں اور اسلام کو بد نام کرتے ہیں.غرض عصائے اسلام جس کے ساتھ اسلام کی شوکت اور رعب تھا اور جس کے ساتھ امن اور سلامتی تھی اس دَآبَّةُ الْاَرْضِ نے گرادیاہے.پس جیسے وہ دَآبَّةُ الْاَرْضِ تھا.۱ ۱ دَآبَّةُ الْاَرْضِ کے ایک معنے طاعون کے بھی ہیں جیسا کہ قرآن شریف کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ١ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ ( النمل : ۸۳ ) یعنی جب لوگوں پر حجت پوری ہوجائے گی تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک کیڑا نکالیں گے جو لوگوں کو اس واسطے کاٹے گا کہ وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے تھے.تُكَلِّمُهُمْ کے معنے اقرب الموارد میں صاف کاٹنے کے کہتے ہیں.(ایڈیٹر)

Page 520

یہ اس سے بد تر ہیں.اس سے تو صرف ملک میں فتنہ پڑاتھا مگران سے دین میںفسا د پیدا ہوا اور ایک لاکھ سے زائد لو گ مر تد ہو گئے.ایک وہ وقت تھا کہ اگر ایک مرتد ہو جا تا تو گو یا قیا مت آجا تی تھی یا اب یہ حال ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ مرتدہوگیااور کسی کو خیال بھی نہیں.کئی کروڑ کتابیں اسلام کے خلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور ہجو میں لکھی گئی ہیں لیکن کسی کو خبر تک بھی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے.اپنے عیش وعشرت میں مشغول ہیں او ردین کو ایک ایسی چیز قراردے دیاہے جس کانام بھی مہذب سو سائٹی میں لیاجاناگناہ سمجھا جاتاہے.یہی وجہ ہے کہ اسلام پرجو اعتراض طبعی فلسفہ کے رنگ میں کیے جاتے ہیں اُن کا جواب یہ لوگ نہیں دے سکتے اور کچھ بھی بتانہیں سکتے حالانکہ اسلام پر جو اعتراض عیسائی کرتے ہیں وہ خود ان کے اپنے مذہب پر ہوتے ہیں.سب سے بڑااعتراض جہاد پر کیا جاتاہے لیکن جب غور کیا جاوے تو صاف معلوم ہو جاتاہے کہ یہ اعتراض خودعیسائیوںکے مسلّمات پر پڑتے ہیں.اسلام نے جہاد کو اُٹھایا اسلام پر اعتراض نہیں.ہاںوہ اپنے گھر میں موسیٰ علیہ السلام کی لڑائیو ں کاکوئی جواب نہیںدے سکتے اور خود عیسائیوں میں جو مذہبی لڑائیاں ہوئی ہیں اور ایک فرقہ نے دوسرے فرقہ کو قتل کیا.آگ میںجلایا اوردوسری قوموں پر جو کچھ ظلم وستم کیا جیساکہ سپین میں ہوا.اس کا کوئی جواب ان عیسائیوںکے پاس نہیں ہے اور قیامت تک یہ اس کا جواب نہیںدے سکتے.یہ بات بہت درست ہے کہ اسلام اپنی ذات میں کامل، بے عیب اورپاک مذہب ہے لیکن نادان دوست اچھا نہیں ہوتا.اس دَآبَّةُ الْاَرْضِ نے اسلام کو نادان دوست بنا کر جو صدمہ اورنقصان پہنچایا ہے.اس کی تلافی بہت ہی مشکل ہے لیکن اب خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اسلام کا نور ظاہر ہو اور دنیا کو معلوم ہوجاوے کہ سچا اور کامل مذہب جو انسان کی نجات کامتکفّل ہے وہ صرف اسلام ہے اسی لیے خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا.بخرام کہ وقت ِتونزدیک رسیدو پائے محمد یاں بَر منار بلند ترمحکم اُفتاد لیکن ان ناعاقبت اندیش نادان دوستوں نے خدا تعالیٰ کے سلسلہ کی قدر نہیں کی بلکہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ یہ نور نہ چمکے یہ اس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ وعدہ کر

Page 521

چکاہے وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ (الصّف :۹ ).گالیوںکا جواب گالیوں سے نہ دیں یہ مجھے گالیاں دیتے ہیں لیکن میں ان کی گالیوں کی پروا نہیں کرتااور نہ اُن پر افسوس کرتا ہوں کیونکہ وہ اس مقابلہ سے عاجز آگئے ہیں اور اپنی عاجزی اور فرو مائیگی کو بجز اس کے نہیںچھپا سکتے کہ گالیاں دیں، کفر کے فتوے لگائیں ،جھوٹے مقدمات بنائیں اور قسم قسم کے اِفترا اور بہتان لگائیں.وہ اپنی ساری طاقتوںکو کام میں لاکرمیرامقابلہ کر لیں اور دیکھ لیںکہ آخری فیصلہ کس کے حق میں ہوتاہے.میں ان کی گالیو ںکی اگر پروا کروں تو وہ اصل کام جو خدا تعالیٰ نے مجھے سپرد کیاہے رہ جاتاہے اس لیے جہاںمیںان کی گالیوںکی پروا نہیں کرتا میںاپنی جماعت کو نصیحت کرتاہوں کہ اُن کو مناسب ہے کہ اُن کی گالیاںسُن کر برداشت کریں اور ہر گزہر گز گالی کا جواب گالی سے نہ دیں کیونکہ اس طرح پر برکت جاتی رہتی ہے.وہ صبر اور بر دا شت کا نمو نہ ظا ہر کر یں اور اپنے اخلا ق دکھائیں.یقیناً یاد رکھو کہ عقل اور جو ش میں خطر نا ک د شمنی ہے جب جوش اور غصہ آ تا ہے تو عقل قا ئم نہیں رہ سکتی لیکن جو صبر کرتا ہے اوربرد باری کا نمو نہ دکھا تا ہے اس کو ایک نور دیا جا تا ہے جس سے اس کی عقل وفکر کی قو تو ں میں ایک نئی رو شنی پیدا ہو جا تی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے غصہ اور جوش کی حا لت میں چونکہ دل و دماغ تاریک ہوتے ہیں اس لیے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہوتی ہے.اسلا م کی قدر کرو میں پھر اصل مطلب کی طرف رجوع کرکے کہتا ہو ں کہ اسلا م کی جو حالت اس وقت ہو رہی ہے اور یہ مختلف فرقہ بند یاں جو آئے دن ہوتی رہتی ہیں اور مخالف اس پر دلیر ہو رہے ہیں اور بےباکی سے حملے اور اعترا ض کرتے ہیں یہ سب اسی دَآبَّةُ الْاَرْضِ کا فسا د ہے.انہوں نے ہی عیسائیوں کو مد د دی ہے مگر اب خدا کا شکر کرو کہ اس نے عین وقت پر دستگیری فرمائی ہے اوراس سلسلہ کو قائم کیا ہے.اس لیے تم کو منا سب ہے کہ اس فضل کو جو تم کو دیا گیا ہے ضائع نہ کرو اور ادب کی نگاہ سے دیکھو اور اس مد د اور نصرت کی جو تمہیں دی گئی ہے قدر کرو.یقیناً یاد رکھو کہ خدا کی مد د بدوں اور اس کے بلائے بغیر کوئی شخص راستی سے اور پو ری قو ت سے ایک امر کو بیان

Page 522

نہیںکر سکتا.بغیراس کے دلا ئل ملتے ہی نہیں اور طرز بیا ن نہیں دیا جا تا اوریہ بھی خدا کا خاص فضل ہوتا ہے کہ اس طرز بیان سے نیکی کی قوت رکھنے والے اُس شخص کو جو خدا کی قوت اور طاقت پاکر روح القدس سے بھر کر بولتا ہے شناخت کر لیتے ہیں.پس تم پر یہ خدا تعالیٰ کابہت بڑا احسان ہے کہ اس نے تمہیں یہ قوت عطا کی اور شناخت کی آنکھ دی.اگر وہ یہ فضل نہ کرتا تو جیسے اور لوگ پردوں میں ہیں اورگالیاں دیتے ہیں تم بھی اُن میں ہی ہوتے.جس چیز نے تم کو کھینچا ہے وہ محض خدا کا فضل ہے جیسے میاں عبدالحق ہی کو دیکھو کہ خدا کافضل ان کی دستگیری نہ کرتا تو یہ کیونکر اس عیش کی جگہ سے نکل سکتے تھے خصوصاً ایسی حالت میںکہ ان کے پاس کئی ناصح بھی جمع ہوئے اور اُنہوں نے منع بھی کیا قادیان مت جائو.بلکہ ایک نے گالی بھی دی حالانکہ گالی دینا ان کے مذہب میں منع ہے اور عام طور پر تہذیب اور شائستگی کے بھی خلاف ہے لیکن ان تمام باتوںپر خدا کا فضل غالب آگیا اور اُن کو کھینچ لایا.اُن کو بدی کے اسباب ہی میسر نہ آئے ورنہ اگر یہ بیوی کر لیتے تو پھر ابتلا پیش آجاتا مگرخدا نے ہر طرح سے بچایا خدا کا فضل مستحدث نہیں ہوتا.جس پر وہ اپنا کرم کرتا ہے اُسے ہر طرح سے بچالیتا ہے.یہ خیال مت کرو کہ ہم مسلمان ہیں.اسلام بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو اور شکر کرو.اس کے اند ر فلاسفی ہے جو زبان سے کہہ دینے سے حاصل نہیں ہوتی.اسلام کی حقیقت اسلام اللہ تعالیٰ کے تمام تصرفات کے نیچے آجانے کا نام ہے اور اس کا خلاصہ خدا کی سچی اور کامل اطاعت ہے.مسلمان وہ ہے جو اپناسارا وجود خدا تعالیٰ کے حضور رکھ دیتا ہے بِدوں کسی امید پاداش کے مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ ( البقرۃ : ۱۱۳ ) ۱ یعنی مسلمان وہ ہے جو اپنے تمام وجود کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے کے لیے وقف کر دے اور سپرد کردے اور اعتقادی اور عملی طور پر اس کا مقصو داور غرض اللہ تعالیٰ ہی کی رضا اورخوشنودی ہو اور تمام نیکیاں اور اعمالِ حسنہ جو اس سے صادر ہوں وہ بمشقت اورمشکل کی راہ سے نہ ہوں بلکہ ان میں ایک لذّت اور حلاوت کی کشش ہو جو ہر قسم کی تکلیف کو راحت سے تبدیل کردے.

Page 523

حقیقی مسلمان اللہ تعالیٰ سے پیار کرتاہے یہ کہہ کر اور مان کر کہ وہ میرا محبوب ومولا پیداکرنے والا اورمحسن ہے اس لیے اُس کے آستانہ پرسر رکھ دیتاہے.سچے مسلمان کو اگر کہا جاوے کہ ان اعمال کی پاداش میںکچھ بھی نہیں ملے گا اور نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے اور نہ آرام ہیں نہ لذّات ہیں تو وہ اپنے اعمالِ صالحہ اور محبت ِالٰہی کو ہر گزہرگز چھوڑنہیں سکتا کیونکہ اس کی عبادات اور خدا تعالیٰ سے تعلق اور اُس کی فرمانبرداری اور اطاعت میں فناکسی پاداش یااجر کی بنا اورا میدپر نہیں ہے بلکہ وہ اپنے وجود کو ایسی چیز سمجھتاہے کہ وہ حقیقت میں خدا تعالیٰ ہی کی شناخت اُس کی محبت اور اطاعت کے لیے بنائی گئی ہے اور کوئی غرض اور مقصد اُس کا ہے ہی نہیں اس لیے وہ اپنی خداداد قوتوں کو جب ان اغراض اور مقاصد میںصرف کرتاہے تو اس کو اپنے محبوبِ حقیقی ہی کا چہرہ نظر آتا ہے بہشت و دوزخ پر اس کی اصلاً نظر نہیں ہوتی میں کہتاہو ں کہ اگر مجھے ا س امر کایقین دلا دیا جاوے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنے اور اس کی اطاعت میں سخت سے سخت سزا دی جاوے گی تو میں قسم کھاکر کہتا ہو ں کہ میری فطرت ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ ان تکلیفوں اور بلائو ں کو ایک لذّت اور محبت کے جو ش اور شوق کے ساتھ برداشت کرنے کوتیار ہے اور باوجود ایسے یقین کے جو عذاب اوردکھ کی صورت میں دلایا جاوے کبھی خدا کی اطاعت اورفرمانبرداری سے ایک قدم باہر نکلنے کو ہزار بلکہ لاانتہاموت سے بڑھ کر اور دکھوںاور مصائب کامجموعہ قراردیتی ہے.جیسے اگر کوئی بادشاہ عام اعلان کرائے کہ اگر کوئی ماںاپنے بچے کو دودھ نہ دے گی تو بادشا ہ اس سے خوش ہوکر انعام دے گا تو ایک ماں کبھی گوارانہیں کر سکتی کہ وہ اس ا نعام کی خواہش اور لالچ میں اپنے بچے کو ہلاک کرے.اسی طرح ایک سچا مسلمان خداکے حکم سے باہر ہونا اپنے لیے ہلاکت کا موجب سمجھتا ہے خواہ اس کو اس نافرمانی میں کتنی ہی آسائش اورآرا م کا وعدہ دیاجاوے.پس حقیقی مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس قسم کی فطرت حاصل کی جاوے کہ خدا تعالیٰ کی محبت اوراطاعت کسی جزااورسزا کے خوف اور امید کی بناپر نہ ہو بلکہ فطرت کا طبعی خاصہ اور جزو ہو کر ہو پھر وہ محبت بجائے خود اس کے لیے ایک بہشت پیداکردیتی ہے اور حقیقی بہشت یہی ہے کوئی آدمی

Page 524

بہشت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اس راہ کو اختیار نہیں کرتا ہے.اس لیے میںتم کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو اسی راہ سے داخل ہو نے کی تعلیم دیتا ہوں کیونکہ بہشت کی حقیقی راہ یہی ہے.مہدی کا زمانہ.ایک عظیم الشان جمعہ خدا تعالیٰ نے جو اتمام نعمت کی ہے وہ یہی دین ہے جس کا نام اسلام رکھا ہے.پھر نعمت میں جمعہ کا دن بھی ہے جس روز اتما مِ نعمت ہوا.یہ اس کی طرف اشارہ تھا کہ پھر اتمامِ نعمت جو لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ (الصّف:۱۰) کی صورت میں ہو گا وہ بھی ایک عظیم الشان جمعہ ہو گا.وہ جمعہ اب آگیا ہے کیو نکہ خدا تعا لیٰ نے وہ جمعہ مسیح موعو د کے سا تھ مخصو ص رکھا ہے اس لیے کہ اتما مِ نعمت کی صو رتیں دراصل دو ہیں.اول تکمیل ہدا یت، دوم تکمیل اشاعت ہدایت.اب تم غورکر کے دیکھو تکمیل ہدایت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میںکامل طو ر پر ہو چکی لیکن اللہ تعا لیٰ نے مقدر کیا تھا کہ تکمیل اشاعتِ ہدا یت کا زمانہ دوسرا زمانہ ہو جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بروزی رنگ میں ظہو ر فرماویں اور وہ زمانہ مسیح مو عو د اور مہدی کا زمانہ ہے.یہی وجہ کہ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ (الصّف:۱۰) اس شان میں فرمایا گیا ہے.تمام مفسرین نے بالاتفاق اس امر کو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے زمانہ سے متعلق ہے.در حقیقت اظہارِ دین اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ کُل مذاہب میدان میں نکل آویں اور اشاعتِ مذہب کے ہر قسم کے مفید ذریعے پیدا ہو جائیں اور وہ زمانہ خدا کے فضل سے آگیا ہے.چنانچہ اس وقت پریس کی طاقت سے کتابوں کی اشاعت اور طبع میں جو جو سہولتیں میسر آئی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں.ڈاک خانوں کے ذریعہ سے کل دنیا میں تبلیغ ہو سکتی ہے.اخباروں کے ذریعہ سے تمام دنیا کے حالات پر اطلاع ملتی ہے.ریلوں کے ذریعہ سفر آسان کر دئیے گئے ہیں.غرض جس قدر آئے دن نئی ایجادیں ہوتی جاتی ہیں اسی قدر عظمت کے ساتھ مسیح موعود کے زمانہ کی تصدیق ہوتی جاتی ہے اور اظہارِ دین کی صورتیں نکلتی آتی ہیں.اس لیے یہ وقت وہی وقت ہے جس کی پیشگوئی اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ کہہ کر فرمائی تھی.یہ وہی زمانہ ہے جو اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ ( المائدۃ : ۴) کی شان کو بلند کرنے والا اور

Page 525

ِ اشاعتِ ہدایت کی صورت میں دوبارہ اتمامِ نعمت کا زمانہ ہے اور پھر یہ وہی وقت اور جمعہ ہے جس میں وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ( الـجمعۃ: ۴ ) کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے.اس وقت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور بروزی رنگ میں ہوا ہے اور ایک جماعت صحابہ کی پھر قائم ہوئی ہے.اتمامِ نعمت کا وقت آپہنچا ہے لیکن تھوڑے ہیں جو اس سے آگاہ ہیں اور بہت ہیں جو ہنسی کرتے اور ٹھٹھوں میں اڑاتے ہیں مگر وہ وقت قریب ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق تجلی فرمائے گا اور اپنے زور آور حملوں سے دکھا دے گا کہ اس کا نذیر سچا ہے.جماعت کو نصیحت میں سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اﷲ تعالیٰ نے سعا دت مندوں کے لیے پیدا کردی ہے.مبارک وہی ہیں جو اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.تم لوگ جنہوں نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے اس بات پر ہرگز ہر گز مغرور نہ ہو جائو کہ جو کچھ تم نے پانا تھا پا چکے.یہ سچ ہے کہ تم ان منکروں کی نسبت قریب تربہ سعادت ہو جنہوں نے اپنے شدید انکار اور توہین سے خدا کو ناراض کیا.اور یہ بھی سچ ہے کہ تم نے حسنِ ظن سے کام لے کر خدا تعالیٰ کے غضب سے اپنے آپ کو بچا نے کی فکر کی.لیکن سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمہ کے قریب آپہنچے ہو جو اس وقت خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کے لیے پیدا کیا ہے.ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے.پس خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے توفیق چاہو کہ وہ تمہیں سیراب کرے کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل بدوں کچھ بھی نہیں ہو سکتا.یہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ جو اس چشمہ سے پئے گا وہ ہلاک نہ ہوگا کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے اور ہلاکت سے بچاتا ہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتا ہے.اس چشمہ سے سیراب ہونے کا کیا طریق ہے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ نے جو دو حق تم پر قائم کیے ہیں اُن کو بحال کرو اور پورے طور پر ادا کرو.ان میں سے ایک خدا کا حق ہے دوسرا مخلوق کا.توحید اپنے خدا کو وحدہٗ لا شریک سمجھو جیسا کہ اس شہادت کے ذریعہ تم اقرار کرتے ہو اَشْھَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ یعنی میں شہادت دیتا ہوں کہ کوئی محبوب مطلوب اور مطاع اﷲ کے سوا نہیں ہے.یہ ایک ایسا پیارا جملہ ہے کہ اگر یہ یہودیوں عیسائیوں یا دوسرے مشرک بُت پرستوں کو

Page 526

سکھایا جاتا اور وہ اس کو سمجھ لیتے تو ہرگز ہرگز تباہ اور ہلاک نہ ہوتے.اسی ایک کلمہ کے نہ ہونے کی وجہ سے اُن پر تباہی اور مصیبت آئی اور اُن کی روح مجذوم ہو کر ہلاک ہو گئی.۱ ایسا ہی فرمایا قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ.اَللّٰهُ الصَّمَدُ.لَمْ يَلِدْ١ۙ۬ وَ لَمْ يُوْلَدْ.وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ ( الاخلاص : ۲تا۵) یعنی کہہ دو کہ وہ خدا ایک ہے.هُوَ خدا کا نام ہے.وہ ایک ہے.وہ بےنیاز ہے.نہ کھانے پینے کی اس کو ضرورت نہ زمان یا مکان کی حاجت نہ کسی کا باپ نہ بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہمسراور بے تغیر ہے.یہ چھوٹی سورت قرآن شریف کی ہے جو ایک سطر میں آجاتی ہے لیکن دیکھو کس خوبی اور عمدگی کے ساتھ ہر قسم کے شرک سے اﷲ تعالیٰ کی تَنْـزِیْہ کی گئی ہے.حصر عقلی میں شرک کے جس قدر قسم ہو سکتے ہیں اُن سے اُس کو پاک بیان کیا ہے.جو چیز آسمان اور زمین کے اندر ہے وہ ایک تغیر کے نیچے ہے مگر خدا تعالیٰ نہیں ہے.اب یہ کیسی صاف اور ثابت شدہ صداقت ہے.دماغ اسی کی طرف متوجہ ہوتا ہے.نورِ قلب جس کی شریعت دل میں ہے اس پر شہادت دیتا ہے.قانونِ قدرت اسی کا مؤید ومصدق ہے.یہاں تک کہ ایک ایک پتہ اس پر گواہی دیتا ہے.پس اس کو شناخت کرنا ہی عظیم الشان بات ہے.خدا تعالیٰ نے جو قرآن شریف میں یہ چھوٹی سی سورت نازل کی یہ ایسی ہے کہ اگر توریت کے سارے دفتر کی بجائے اُس میں اسی قدر ہوتا تو یہود تباہ نہ ہوتے اور انجیل کے اتنے بڑے مجموعہ کو چھوڑ کر اگر یہی تعلیم اُن کو دی جاتی تو آج دنیا کا ایک بڑا حصہ ایک مُردہ پرست قوم نہ بن جاتا.مگر یہ خدا کا فضل ہے جو اسلام کے ذریعہ مسلمانوں کو ملا اور اس فضل کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے.جس پہلو سے دیکھو مسلمانوں کو بہت بڑے فخر اور ناز کا موقع ہے.مسلمانوں کا خدا پتھر، درخت، حیوان، ستارہ، یا کوئی مُردہ انسان نہیں ہے بلکہ وہ قادر مطلق خدا ہے جس نے زمین و آسمان کو اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے پیدا کیا اور حیّ وقیوم ہے.مسلمانوں کا رسول وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی نبوت اور رسالت کا دامن قیامت تک

Page 527

دراز ہے.آپؐکی رسالت مُردہ رسالت نہیں بلکہ اس کے ثمرات اور برکات تازہ بتازہ ہرزمانے میں پائے جاتے ہیں جو اس کی صداقت اور ثبوت کی ہر زمانہ میں دلیل ٹھہرتے ہیں.چنانچہ اس وقت بھی خدا نے ان ثبوتوں اور برکات اور فیوض کو جاری کیا ہے اور مسیح موعود کو بھیج کر نبوتِ محمدیہ کا ثبوت آج بھی دیا ہے اور پھر اُس کی دعوت ایسی عام ہے کہ کل دنیا کے لیے ہے قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا( الاعراف : ۱۵۹)اور پھر فرمایا وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (الانبیاء : ۱۰۸) کتاب دی تو ایسی کامل اور ایسی محکم اور یقینی کہ لَا رَيْبَ فِيْهِ (البقرۃ : ۳ ) اور فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ (البینۃ : ۴) اور اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ.قَوْلٌ فَصْلٌ.میزان.مہیمن.غرض ہر طرح سے کامل اور مکمل دین مسلمانوں کا ہے جس کے لیے اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا( المائدۃ : ۴) کی مہر لگ چکی ہے.پھر کس قدر افسوس ہے مسلمانوں پر کہ وہ ایسا کامل دین جو رضاء الٰہی کا موجب اور باعث ہے رکھ کر بھی بے نصیب ہیں اور اس دین کے برکات اور ثمرات سے حصہ نہیں لیتے بلکہ خدا تعالیٰ نے جو ایک سلسلہ ان برکات کو زندہ کرنے کے لیے قائم کیا تو اکثر انکار کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے اور لَسْتَ مُرْسَلًا اور لَسْتَ مُؤْمِنًا کی آوازیں بلند کرنے لگے.یاد رکھو خدا تعالیٰ کی توحید کا اقرار محض ان برکات کو جذب نہیں کر سکتا جو اس اقرار اور اُس کے دوسرے لوازمات یعنی اعمال صالحہ سے پیدا ہوتے ہیں.یہ سچ ہے کہ توحید اعلیٰ درجہ کی جز ہے جو ایک سچے مسلمان اور ہر خدا ترس انسان کو اختیار کرنی چاہیے مگر توحید کی تکمیل کے لیے ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ محبت الٰہی ہے یعنی خدا سے محبت کرنا.قرآن شریف کی تعلیم کا اصل مقصد اور مدعایہی ہے کہ خدا تعالیٰ جیسا وحدہٗ لا شریک ہے ایسا ہی محبت کی رو سے بھی اس کو وحدہٗ لا شریک یقین کیا جاوے اور کل انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا اصل منشا ہمیشہ یہی رہا ہے چنانچہ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ جیسے ایک طرف توحید کی تعلیم دیتا ہے ساتھ ہی توحید کی تکمیلِ محبت کی ہدایت بھی کرتا ہے اور جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے یہ ایک ایسا پیارا اور پُر معنی جملہ ہے کہ اس کی

Page 528

مانند ساری تورات اور انجیل میں نہیں اور نہ دنیا کی کسی اور کتاب نے کامل تعلیم دی ہے.اِلٰهَ کے معنی ہیں ایسا محبوب اور معشوق جس کی پرستش کی جاوے.گویا اسلام کی یہ اصل محبت کے مفہوم کو پورے اور کامل طور پر ادا کرتی ہے.یاد رکھو کہ جو توحید بِدوں محبت کے ہو وہ ناقص اور اَدھوری ہے.محبتِ الٰہی اور اپنی جماعت کو نصائح خدا کے ساتھ محبت کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ اپنے والدین،جورو،اپنی اولاد، اپنے نفس غرض ہر چیز پر اﷲ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کر لیا جاوے.چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا (البقرۃ : ۲۰۱) یعنی اﷲ تعالیٰ کو ایسا یاد کرو کہ جیسا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اور سخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو.اب یہاں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ تعلیم نہیں دی کہ تم خدا کو باپ کہا کرو بلکہ اس لیے یہ سکھایا ہے کہ نصاریٰ کی طرح دھوکہ نہ لگے اور خدا کو باپ کر کے پکارا نہ جائے اور اگر کوئی کہے کہ پھر باپ سے کم درجہ کی محبت ہوئی تو اس اعتراض کے رفع کرنے کے لیے اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا رکھ دیا اور اگر اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا نہ ہوتا تو یہ اعتراض ہو سکتا تھا مگر اب اس نے اُس کو حل کردیا.جو باپ کہتے ہیں وہ کیسے گرے کہ ایک عاجز کو خدا کہہ اُٹھے.بعض الفاظ ابتلا کے لیے ہوتے ہیں.اﷲ تعالیٰ کو نصاریٰ کا ابتلا منظور تھا اس لیے اُن کی کتابوں میں انبیاء کی یہ اصطلاح ٹھہر گئی مگر چونکہ وہ حکیم اور علیم ہے اس لیے پہلے ہی سے لفظ ابّ کو کثیر الاستعمال کر دیا.مگر نصاریٰ کی بدقسمتی کہ جب مسیح نے یہ لفظ بولا تو انہوں نے حقیقت پر حمل کر لیا اور دھوکا کھا لیا حالانکہ مسیح نے یہ کہہ کر کہ تمہاری کتابوں میں لکھا ہے کہ تم اِلٰه ہو اس شرک کو مٹانا چاہا اور ان کو سمجھانا چاہا مگر نادانوں نے پروا نہ کی اور اُن کی اس تعلیم کے ہوتے ہوئے بھی اُن کو ابن اﷲ قرار دے ہی لیا.یہودیوں کو بھی اس قسم کا ابتلا آیا.چونکہ موذی قوم تھی.اُن کی درخواست پر منّ، سلویٰ نازل ہوا

Page 529

کیونکہ یہ طاعون پیدا کرنے کا مقدمہ تھا.اﷲ تعالیٰ چونکہ جانتا تھا کہ وہ حد سے نکل جائیں گے اور اُن کی سزا طاعون تھی.اس لیے پہلے سے وہ اسباب رکھ دیئے.میں پھر اصل مطلب کی طرف آتا ہوں کہ اصل توحید کو قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے پورا حصہ لو اور یہ محبت ثابت نہیں ہوسکتی جب تک عملی حصہ میں کامل نہ ہو نری زبان سے ثابت نہیں ہوتی.اگر کوئی مصری کا نام لیتا رہے تو کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ شیریں کام ہو جاوے یا اگر زبان سے کسی کی دوستی کا اعتراف اور اقرار کرے مگر مصیبت اور وقت پڑنے پر اس کی امداد اور دستگیری سے پہلو تہی کرے تو وہ دوست صادق نہیں ٹھہر سکتا.اسی طرح پر اگر خدا تعالیٰ کی توحید کا نرا زبانی ہی اقرار ہو اور اُس کے ساتھ محبت کا بھی زبانی ہی اقرار موجود ہو تو کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ حصہ زبانی اقرار کی بجائے عملی حصہ کو زیادہ چاہتا ہے.اس سے یہ مطلب نہیں کہ زبانی اقرار کوئی چیز نہیں ہے.نہیں میری غرض یہ ہے کہ زبانی اقرار کے ساتھ عملی تصدیق لازمی ہے.اس لیے ضروری ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرو اور یہی اسلام ہے.یہی وہ غرض ہے جس کے لیے مجھے بھیجا گیا ہے.پس جو اس وقت اس چشمہ کے نزدیک نہیں آتا جو خدا تعالیٰ نے اس غرض کے لیے جاری کیا ہے وہ یقیناً بے نصیب رہتا ہے.اگر کچھ لینا ہے اور مقصد کو حاصل کرنا ہے تو طالب صادق کو چاہیے کہ وہ چشمہ کی طرف بڑھے اور آگے قدم رکھے اور اس چشمہ جاری کے کنارے اپنا منہ رکھ دے اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک خدا تعالیٰ کے سامنے غیرت کا چولہ اُتار کر آستانہ ربوبیت پر نہ گر جاوے اور یہ عہد نہ کرلے کہ خواہ دنیا کی وجاہت جاتی رہے اور مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں تو بھی خدا کو نہیں چھوڑے گا اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہے گا.ابراہیم علیہ السلام کا یہی عظیم الشان اخلاص تھا کہ بیٹے کی قربانی کرنے کے لیے تیار ہو گیا.اسلام کا منشا یہ ہے کہ بہت سے ابراہیم بنائے.پس تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے کہ ابراہیم بنو.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ولی پرست نہ بنو بلکہ ولی بنواور پیر پرست نہ بنو بلکہ پیر بنو.

Page 530

تم اُن راہوں سے آئو بے شک وہ تنگ راہیں ہیں لیکن اُن سے داخل ہو کر راحت اور آرام ملتا ہے.مگر یہ ضروری ہے کہ اس دروازہ سے بالکل ہلکے ہو کر گزرنا پڑے گا اگر بہت بڑی گٹھڑی سر پر ہو تو مشکل ہے.اگر گزرناچاہتے ہو تو اس گٹھڑی کو جو دنیا کے تعلقات اور دنیا کو دین پر مقدم کرنے کی گٹھڑی ہے پھینک دو.ہماری جماعت خدا کو خوش کرنا چاہتی ہے تو اس کو چاہیے کہ اس کو پھینک دے.تم یقیناً یاد رکھو کہ اگر تم میں وفاداری اور اخلاص نہ ہو تو تم جھوٹے ٹھہرو گے اور خدا تعالیٰ کے حضور راست باز نہیں بن سکتے.ایسی صورت میں دشمن سے پہلے وہ ہلاک ہو گا جو وفاداری کو چھوڑ کر غدّاری کی راہ اختیار کرتا ہے.خدا تعالیٰ فریب نہیں کھاسکتا اور نہ کوئی اُسے فریب دے سکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ تم سچا اخلاص اور صدق پیدا کرو.تم پر خدا تعالیٰ کی حجت سب سے بڑھ کر پوری ہوئی ہے.تم میں سے کوئی بھی نہیں ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا ہے.پس تم خدا تعالیٰ کے الزام کے نیچے ہو اس لیے ضروری ہے کہ تقویٰ اور خشیت تم میں سب سے زیادہ پیدا ہو.ذوالقرنین خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں مختلف طریقوں اور پہلوئوں سے اس سلسلہ کی حقانیت کو ثابت کیا ہے اور بتایا ہے یہاںتک کہ ہر ایک قصہ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے.مثلاً ذوالقرنین کا قصہ ہے اس میں اسی کی پیشگوئی ہے.چنانچہ قرآن شریف کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین مغرب کی طرف گیا تو اُسے آفتاب غروب ہوتا نظر آیا یعنی تاریکی پائی اور ایک گدلاچشمہ اس نے دیکھا.وہاں پر ایک قوم تھی.پھر مشرق کی طرف چلتا ہے تو دیکھا کہ ایک ایسی قوم ہے جو کسی اوٹ میں نہیں ہے اور وہ دھوپ سے جلتی ہے.تیسری قوم ملی جس نے یاجوج ماجوج سے بچائو کی درخواست کی.اب یہ بظاہر تو قصہ ہے لیکن حقیقت میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جو اس زمانہ سے متعلق ہے.خدا تعالیٰ نے بعض حقائق تو کھول دیئے ہیں اور بعض مخفی رکھے ہیں.اس لیے کہ انسان اپنے قویٰ سے کام لے.اگر انسان نرے منقولات سے کام لے تو وہ انسان نہیں ہو سکتا.ذوالقرنین اس لئے نام رکھا کہ وہ دو صدیوں کو پائے گا.اب جس زمانہ میں خدا نے مجھے بھیجا ہے سب صدیوں کو بھی

Page 531

جمع کر دیا ہے.کیا یہ انسانی طاقت میں ہے کہ اس طرح پر دو صدیوں کا صاحب ہو جاوے.ہندوئوں کی صدی بھی پائی اور عیسائیوں کی بھی.مفتی صاحب نے تو کوئی ۱۶ یا ۱۷ صدیاں جمع کر کے دکھائی تھیں.غرض ذوالقرنین کے معنے ہیں دو صدیاں پانے والا.اب خدا تعالیٰ نے اس کے لیے تین قوموں کا ذکر کیا ہے.اس سے مراد یہ ہے کہ پہلی قوم جو مغرب میں ہے اور آفتاب وہاں غروب ہوتا ہے اور وہ تاریکی کا چشمہ ہے.یہ عیسائیوں کی قوم ہے.جس کا آفتابِ صداقت غروب ہو گیا اور آسمانی حق اور نور ان کے پاس نہیں رہا.دوسری قوم اس کے مقابل میں وہ ہے جو آفتاب کے پاس ہے مگر آفتاب سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتی.یہ مسلمانوں کی قوم ہے جن کے پاس آفتابِ صداقت قرآن شریف اس وقت موجود ہے مگر دَآبَّةُ الْاَرْضِ نے اُن کو بے خبر بنادیا ہے اور وہ اس سے اُن فوائد کو حاصل نہیں کر سکتے بجز جلنے اور دکھ اٹھانے کے جو ظاہر پرستی کی وجہ سے اُن پر آیا.پس یہ قوم اس طرح پر بے نصیب ہو گئی.اب ایک تیسری قوم ہے جس نے ذوالقرنین سے اِلتماس کی کہ یا جوج ماجوج کے درے بند کر دے تاکہ وہ اُن کے حملوں سے محفوظ ہو جاویں.وہ ہماری قوم ہے جس نے اخلاص اور صدق دل سے مجھے قبول کیا.خدا تعالیٰ کی تائیدات سے میں ان حملوں سے اپنی قوم کو محفو ظ کر رہا ہوں جو یاجوج ماجوج کر رہے ہیں.پس اس وقت خدا تعالیٰ تم کو تیار کر رہا ہے.تمہارا فرض ہے کہ سچی توبہ کرو اور اپنی سچائی اور وفاداری سے خدا کو راضی کرو تاکہ تمہارا آفتاب غروب نہ ہو اور تاریکی کے چشمہ کے پاس جانے والے نہ ٹھہرو اور نہ تم اُن لوگوں سے بنو جنہوں نے آفتاب سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا.پس تم پورا فائدہ حاصل کرو اور پاک چشمہ سے پانی پیو تا خدا تم پر رحم کرے.بد قسمت انسا ن وہ انسا ن بد قسمت ہو تا ہے جو خدا تعا لیٰ کے وعدو ں پر ایما ن لا کر وفا دا ر ی اور صبر کے سا تھ ان کا انتظا ر نہیں کر تا اور شیطا ن کے وعدوں کو یقینی سمجھ بیٹھتا

Page 532

ہے، اس لیے کبھی بے دل نہ ہو جا ؤ اور تنگی اور عسر کی حا لت میں گھبراؤ نہیں خدا تعالیٰ خود رزق کے معاملہ میں فر ما تا ہے وَ فِي السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ (الذّٰریٰت:۲۳) انسان جب خدا کو چھوڑتا ہے تو پھر شیطا ن کا غلا م بن جاتا ہے.وہ انسا ن بہت ہی بڑی ذمہ داری کے نیچے ہو تا ہے جو خدا تعالیٰ کی آیات اور نشانا ت کو دیکھ چکا ہو.پس کیا تم میں سے کو ئی ہے جو یہ کہے کہ میں نے کو ئی نشا ن نہیں دیکھا.بعض نشان اس قسم کے ہیں کہ لاکھوںکروڑوں انسان ان کے گواہ ہیں.جو ان نشانو ں کی قدر نہیں کرتا اور ان کو حقارت کی نگاہ سے د یکھتا ہے وہ اپنی جان پر ظلم کرتا ہے.خدا تعالیٰ اس کو دشمن سے پہلے ہلا ک کرے گا کیو نکہ وہ شد ید العقاب بھی ہے.جو اپنے آپ کو درست نہیں کرتا وہ نہ صر ف اپنی جان پر ظلم کر تا ہے بلکہ اپنے بیوی بچو ں پر بھی ظلم کرتا ہے کیو نکہ جب وہ خو د تبا ہ ہو جاوے گا تو اس کے بیوی بچے بھی ہلا ک اور خوار ہوں گے.خدا تعالیٰ اس کی طر ف اشا رہ کرکے فرماتا ہے وَ لَا يَخَافُ عُقْبٰهَا(الشّمس:۱۶) مرد چونکہ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (النساء :۳۵) کامصداق ہے اس لیے اگر وہ لعنت لیتا ہے تو وہ لعنت بیوی بچوںکو بھی دیتاہے اور اگر برکت پاتاہے تو ہمسائیوں اور شہر والوں تک کو بھی دیتاہے.اس وقت کل ملک میں طاعون کی آگ لگ رہی ہے.وہ لوگ غلطی کررہے ہیں جو اس کو ملعون کہتے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کاایک فرشتہ ہے جو اس وقت ایک خاص کام کے لیے مامور کیاگیا ہے.اس کاعلاج خدا تعالیٰ نے مجھے یہی بتایاہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (الرّعد : ۱۲).یہ طاعون بدکاریوں اور فسق وفجور اور میرے انکار اور استہزا کانتیجہ ہے اوریہ نہیں رک سکتا جب تک لوگ اپنے اعمال میں پاک تبدیلی نہ کریں اورسبّ و شتم سے زبان کو نہ روکیں.پھر فرماتا ہے اِنَّہٗ اَوَی الْقَرْیَۃَ.اس گائوںکو پریشانی اور انتشار سے حفاظت میںلے لیا.کیا اس گائوںمیں ہر قسم کے لوگ چوہڑے، چمار، دہریہ اور شراب پینے والے اور بیچنے والے اور اَور قسم کے لوگ نہیںرہتے مگر خدا نے میرے وجود کے باعث سارے گائوںکو اپنی پناہ میںلے لیا اور اس افراتفری اور موت الکلاب سے اُسے محفوظ رکھا جو دوسرے شہروںاور قصبوںمیں ہوتی

Page 533

ہے.غرض یہ خدا تعالیٰ کے نشان ہیں ، ان کو عزّت اورعبرت کی نگاہ سے دیکھو اور اپنی ساری قوتوںکو خدا تعالیٰ کی مرضی کے نیچے استعمال کرو.توبہ اور استغفار کرتے رہو تا خدا تعالیٰ اپنا تم پر فضل کرے.۱ ۲۸؍دسمبر ۱۹۰۱ ء مُرشد اور مرید کے تعلقات مرشد اور مرید کے تعلقات استاد اور شاگرد کی مثال سے سمجھ لینے چاہئیں.جیسے شاگرد استاد سے فائدہ اُٹھاتاہے اسی طرح مرید اپنے مرشد سے لیکن شاگرد اگر اُستاد سے تعلق تو رکھے مگر اپنی تعلیم میں قدم آگے نہ بڑھائے تو فائدہ نہیں اُٹھاسکتا.یہی حال مرید کاہے پس اس سلسلہ میںتعلق پیدا کر کے اپنی معرفت اور علم کوبڑھاناچاہیے.طالب ِحق کو ایک مقام پر پہنچ کر ہرگز ٹھہرنا نہیں چاہیے ورنہ شیطان لعین اور طرف لگا دے گا اور جیسے بند پانی میں عفونت پیداہو جاتی ہے اسی طرح اگر مومن اپنی ترقیات کے لیے سعی نہ کر ے تو وہ گر جاتاہے پس سعادت مند کا فرض ہے وہ طلب دین میںلگارہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کو ئی انسان کامل دنیا میںنہیںگزرا لیکن آپ کو بھی رَبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا (طٰہٰ: ۱۱۵) کی دعا کی تعلیم ہوئی تھی پھر اور کون ہے جو اپنی معرفت اور علم پر کامل بھروسہ کر کے ٹھہر جاوے اور آئندہ ترقی کی ضرورت نہ سمجھے.جوں جوں انسان اپنے علم اور معرفت میں ترقی کرے گا اُسے معلو م ہوتاجاوے گا کہ ابھی بہت سی باتیںحل طلب باقی ہیں بعض امور کو ابتدائی نگاہ میں (اس بچے کی طرح جو اقلید س کے اشکال کو محض بیہودہ سمجھتاہے )بالکل بیہودہ سمجھتے تھے لیکن آخروہی امور صداقت کی صورت میں ان کو نظر آئے اس لیے کس قدر ضروری ہے کہ اپنی حیثیت کو بدلنے کے ساتھ ہی علم کو بڑھانے کے لیے ہر بات کی تکمیل کی جاوے، تم نے بہت ہی بیہودہ باتوں کو چھوڑکر اس سلسلہ کو قبول کیا ہے.اگر تم اس کی بابت پورا علم اور بصیرت حاصل نہیں کرو گے تو اس

Page 534

سے تمہیں کیا فائدہ ہوا.تمہارے یقین اور معرفت میں قوت کیونکر پیدا ہو گی.ذراذراسی بات پر شکوک اور شبہات پیداہوں گے اور آخر قدم کو ڈگمگاجانے کا خطرہ ہے.دین کو ہر حال میں دُنیا پر مقدم کرنا چاہیے دیکھو! دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک تو وہ جو اسلام قبول کرکے دنیا کے کاروبا ر اور تجارتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں.شیطان ان کے سر پر سوار ہو جاتا ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے.نہیں صحابہؓ تجارتیں بھی کرتے تھے مگر وہ دین کو دنیاپر مقدم رکھتے تھے ، انہوں نے اسلام قبول کیاتو اسلام کے متعلق سچاعلم جو یقین سے اُن کے دلوں کو لبریز کر دے انہوں نے حاصل کیا یہی وجہ تھی کہ وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے نہیں ڈگمگائے.کوئی امر اُن کو سچائی کے اظہار سے نہیں روک سکا.میر امطلب اس سے صرف یہ ہے کہ جو بالکل دنیا ہی کے بندے اور غلام ہوجاتے ہیں گویا دنیا کے پر ستار ہوجاتے ہیں ایسے لوگوں پر شیطان اپنا غلبہ او ر قابو پالیتا ہے.دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جودین کی ترقی کی فکر میں ہو جاتے ہیں.یہ وہ گروہ ہوتا ہے جو حزب اللہ کہلاتا ہے اور جو شیطان اور اس کے لشکر پر فتح پاتا ہے مال چونکہ تجارت سے بڑھتاہے اس لیے خدا تعالیٰ نے بھی طلب دین اور ترقی دین کی خواہش کو ایک تجارت ہی قرار دیا.چنانچہ فرمایا ہے هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ(الصّف:۱۱) سب سے عمدہ تجارت دین کی ہے جو دردناک عذاب سے نجات دیتی ہے، پس میں بھی خدا تعالیٰ کے ان ہی الفاظ میںتمہیں یہ کہتاہو ں کہ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ(الصّف:۱۱).میںزیادہ اُمید ان پر کرتاہوں جو دینی ترقی اور شوق کو کم نہیں کرتے.جواس شوق کو کم کرتے ہیں مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ شیطان ان پر قابو نہ پالے.اس لیے کبھی سست نہیںہونا چاہیے.ہر امر کو جو سمجھ میں نہ آئے پوچھناچاہیے تاکہ معرفت میں زیادت ہو.پوچھناحرام نہیں بہ حیثیت انکار کے بھی پوچھنا چاہیے اور علمی ترقی کے لیے بھی.جو علمی ترقی چاہتاہے اس کو چاہیے کہ قرآن شریف کو غور سے پڑھیں جہاں سمجھ

Page 535

میں نہ آئے دریافت کریں.اگر بعض معارف سمجھ نہ سکے تو دوسروں سے دریافت کر کے فائدہ پہنچائے.قرآن شریف ایک دینی سمندر ہے جس کی تہہ میں بڑے بڑے نایاب اور بے بہاگوہر موجود ہیں.جب تم کسی عیسائی سے ملو گے تو دیکھوگے کہ اُن میںنقالوں اور ٹھٹھے والوںکی طرح دیانت مفقود نظر آئے گی.یوںتو ان میںسے بعض ایسے ہیں جو یہ دعوے کرتے ہیں کہ ہم قرآن شریف کے ترجمہ سے واقف ہیں.مگر انہوں نے مشق تو کی ہے لیکن ان میں روحانیت نہیں ہے اور اس کا ہمیں بارہا تجربہ ہو ا ہے جب ان کو بلایا گیا تو اُنہوں نے گریزکی ہے.اگر واقعی ان میں روحانیت ہے اگر واقعی ان کی معرفت اور علم یقین کے درجہ تک پہنچاہواہے تو پھر کیاوجہ ہے کہ وہ گریز کرتے ہیں.لاہور کے بشپ کافرار دیکھو! لاہور کے بشپ صاحب نے لاہور میں بڑے اہم مضامین پر لیکچر دئیے اور اپنی قرآن دانی اور حدیث دانی کے ثبوت کے لیے بڑی کوشش کی لیکن اُسے ہم نے دعوت کی تو باجود یکہ پایونیر نے بھی اس کو شرمندگی دلائی مگر وہ صرف یہ کہہ کر کہ ہمارادشمن ہے مقابلہ سے بھاگ گیا.ہم کو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بشپ صاحب تو مسیح کی تعلیم کا کامل نمونہ ہو نا چاہیے تھا اور اپنے دشمنو ں کو پیار کرو پر ان کا پورا عمل ہو تا اگر میں ان کا دشمن بھی ہو تا حا لانکہ میں سچ کہتا ہوں اور خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ نوع انسان کا سب سے بڑھ کر خیرخواہ اور دوست مَیں ہوں.ہا ں یہ سچ ہے کہ میں ان تعلیمات کا دشمن ہوں جو انسان کی روحانی دشمن ہیں اور اس کی نجا ت کی دشمن ہیں.غرض بشپ صا حب کو کئی بار اخباروں نے اس معا ملہ میںشرمندہ کیا مگر وہ سامنے نہ آئے.عیسائیوں کی یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو سادہ دیکھتے ہیں تو چھوٹا ہے تو بیٹا بنا کر اور بڑا ہے تو با پ بنا کر اندر دا خل ہو تے ہیں اور دیکھتے ہیںکہ اگر وہ حالات سے واقف ہے تو پھر اس سے بغض کرتے ہیں اس لیے کہ جب خدا سے تعلق توڑبیٹھتے ہیں تو مخلوق سے سچی ہمدردی کیونکر پیدا ہو مگر ہماری جماعت خاص ہے اس کو عام مسلمانوںکی طرح نہ سمجھیں.دَآبَّةُ الْاَرْضِ یہ مسلمان دَآبَّةُ الْاَرْضِ ہیں اور اس لیے اس کے مخالف ہیں جو آسمان سے آتاہے.جو زمینی بات کرتاہے وہ دَآبَّةُ الْاَرْضِ ہے.خدا تعالیٰ نے ایسا ہی

Page 536

فرمایا تھا رُوحانی اُمور کو وہی دریافت کرتے ہیں جن میںمناسبت ہو.چونکہ ان میں مناسبت نہ تھی اس لیے اُنہوں نے عصائے دین کو کھالیا.جیسے سلیمان ؑکے عصاکو کھالیا تھا.اور اس سے آگے قرآن شریف میں لکھاہے کہ جب جنّوں کو یہ پتہ لگا تو اُنھوں نے سر کشی اختیار کی ہے.اسی طرح پر عیسائی قوم نے جب اسلام کی یہ حالت دیکھی یعنی اس دَآبَّةُ الْاَرْضِ نے عصائے راستی کو کمزور کردیاتو ان قوموںکو اس پر وار کرنے کاموقع دے دیا.جنّ وہ ہیں جو چھپ کر وار کرے اور پیار کے رنگ میں دشمنی کرتے ہیں وہی پیار جو حوّا سے آکر نحّاش نے کیا تھا اس پیا ر کاانجام وہی ہونا چاہیے جو ابتدامیں ہوا.آدم پر اسی سے مصیبت آئی.اُس وقت گویا وہ خدا سے بڑھ کر خیر خواہ ہوگیا.اسی طرح پر یہ بھی وہی حیات ابدی پیش کرتے ہیں جو شیطان نے کی تھی،اس لیے قرآن شریف نے اوّل او ر آخر کو اسی پر ختم کیا.اس میں یہ سرِّتھاکہ تا بتایا جاوے کہ ایک آدم آخر میں بھی آنے والا ہے قرآن شریف کے اوّل یعنی سورۃ فاتحہ کو وَلَا الضَّآلِّيْنَ پر ختم کیا.یہ امر تما م مفسر با اتفا ق مانتے ہیں کہ ضالّین سے عیسا ئی مراد ہیں اور آخر جس پر ختم ہوا وہ یہ ہے قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ.مَلِكِ النَّاسِ.اِلٰهِ النَّاسِ.مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ١ۙ۬ الْخَنَّاسِ.الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ.مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ(النّاس:۲تا۷).سورۃالنّاس سے پہلے قُلْ هُوَ اللّٰهُ (الاخلاص:۲تا۷) میں خدا تعالیٰ کی تو حید بیا ن فرمائی اور اس طرح پر گویا تثلیث کی تر دید کی اس کے بعد سورۃالنّاس کا بیان کرنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ عیسائیوں کی طرف اشارہ ہے.پس آخری وصیت یہ کی کہ شیطان سے بچتے رہو، یہ شیطان وہی نحّاش ہےجس کو اس سورۃمیں خنّاس کہا ہے جس سے بچنے کی ہدایت کی اور یہ جو فرمایاکہ ربّ کی پناہ میں آئو.اس سے معلوم ہو اکہ یہ جسمانی اُمور نہیں ہیں بلکہ روحانی ہیں.خدا کی معرفت اور معارف اور حقائق پر پکّے ہوجائو تو اس سے بچ جائو گے.اس آخری زمانہ میں شیطان اور آدم کی آخری جنگ کا خاص ذکر ہے شیطان کی لڑائی خدا اور اس کے فرشتوں سے آدم کے ساتھ ہو کر ہوتی ہے.اور خدا تعالیٰ اس کے ہلاک کرنے کو پورے سامان کے ساتھ اُترے گا اور خدا کامسیح اس کا مقابلہ کرے گا.یہ لفظ مشیح ہے جس کے

Page 537

معنی خلیفہ کے ہیں عربی اور عبرانی میں، حدیثوں میں مسیح لکھا ہے اور قرآن شریف میں خلیفہ لکھا ہے.غرض اس کے لیے مقدر تھا کہ اس آخری جنگ میں خاتم الخلفاء جو چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو کامیاب ہو.سورۃالعصر میں دنیا کی تاریخ سورۃالعصر میں دنیاکی تاریخ موجود ہے جس پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام سے مجھ کو اطلاع دی ہے اور یہ اصلی اور سچی تاریخ ہے جس سے پتہ لگتاہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک کس قدر زمانہ گزراہے، پس اس حساب سے اب ساتویں ہزار سے کچھ سال گزر گئے ہیں اورخاتم الخلفاء چھٹے ہزار کے آخر میں پیداہو ا تاکہ اوّل را بآخر نسبتے دارد کامصداق ہو.آدم بھی چھٹے دن پیداہوا تھااللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کا ہوتاہے اس چھ دن کے چھ ہزار ہوئے اور پھر آدم کی پیدائش چھٹے دن کے آخر میں ہوئی تھی اس لیے خاتم الخلفاء چھٹے ہزار کے آخر میں ہوا اور ساتویں میں جنگ ہے.حق اور باطل کی آخری جنگ اس جنگ سے توپ وتفنگ کی لڑائی مراد نہیں بلکہ یہ عیسائیت اورالٰہی دین کی آخری جنگ ہے.عیسائیت نے زمینی خدابنالیا ہے اور یہ وہی خدا یا خیالی خد اہے جیسے بہت سی عورتیں ایک وہمی حمل رجا کا کر لیتی ہیں یہاں تک کہ پیٹ میں وہمی طور پر حر کت بھی معلوم ہوتی ہے اور پیٹ بڑھتا بھی ہے.اس طرح پر فرضی مسیح بنالیا گیا ہے جسے خداسمجھاگیا ہے.غرض سچے مسیح کے مقابل وہ کھڑاہے اب یہ لڑائی ان دونوں میں شروع ہے اور خدااس میں اپناچمکتاہوا ہاتھ دکھلائے گا.چالیس کروڑ سے بھی زائد انسان عیسائی ہوچکے ہیں جب اوّل ہی اوّل یہ لوگ آئے تومولوی ان کے حملوں اور اعتراضوںسے محض ناواقف تھے اُن کو پورا علم نہ اُن کے اعتراضو ں کا تھا اور نہ قرآن شریف کے حقائق ہی سے آگاہ تھے ، بر خلاف اس کے عیسائیوں کے پاس اقبال اور تالیف قلوب کے ذریعے تھے، اس لیے اُن کی ترقی ہوتی گئی مگر اب اُن میں ایک بھی نہیں جو اس کے تنزل کو دیکھ سکے اب ان کا دور ختم ہونے والا ہے اور مختصر طور پر جعلی فرضی خد اکو سمجھ لیںگے.اصل بات تو یہ ہے کہ عیسائیوں کا تاناباناآریہ اور سناتن سے بھی بودہ ہے کیونکہ اُنہوںنے ساری بنیاد حیات مسیح پر رکھی ہوئی ہے اس

Page 538

کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ساری عمارت گر جاتی ہے.یہ بات اس زمانہ میں کہ وہ زندہ آسمان پر گیا ہے کوئی مان نہیں سکتا جبکہ دلائل قَطْعِیَّۃُ الدَّلَالَت کے ساتھ ثابت ہو گیا کہ وہ مر گیا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اب تو لاش کے دکھا دینے تک نوبت پہنچ گئی ہے.کیونکہ(سرینگر) کشمیر میں اس کی قبر واقعاتِ صحیحہ کی بنا پر ثابت ہو گئی ہے.ان ساری باتوں کے ہوتے ہوئے کون عقلمند یہ قبول کر سکتا ہے اور اِس کی موت کے ساتھ ہی صلیب، کفارہ، لعنت وغیرہ ساری باتیں علوم یقینیہ کی طرح غلط ثابت ہو جائیں گی.اِن ساری باتوں کے علاوہ یہ مذہب ایسا کمزور ہے کہ جو پہلو اس نے اختیار کیا ہے وہی بودا.ایک لعنت ہی کے پہلو کو دیکھو.اگر اس پہلو کو اختیار نہ کرتے تو بہتر تھا کیونکہ جب یہ سچی بات ہے کہ لعنت کا تعلق دل سے ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ ملعون خدا کا اور خدا ملعون کا دشمن ہو جاوے اور خدا سے اس کا کوئی تعلق نہ رہے اور وہ خدا سے برگشتہ ہو جاوے تو پھر کیا باقی رہا.ایک کتاب میں لکھا ہے کہ مسیح کو شیطان لیے پھرا.اگر جسمانی طور پر شیطان لیے پھرا ہوتا تو مسیح تماشہ دکھا سکتے تھے.اس کا کوئی معقول جواب تو نہیں دے سکے.کسی یہودی کو شیطان کہہ دیا اور پھر تین مرتبہ شیطانی الہام ہوا.غرض اب عیسائی مذہب کے خاتمہ کا وقت آگیا.پس تم اپنی ہمت اور سر گرمی میں سُست نہ ہو.بہت سے مسلمان کہلا کر دوسرے امور میں منہمک ہو جاتے ہیں.مگر تم خدا سے ڈرو اور سچی تبدیلی اور تقویٰ، طہارت پیدا کرو.اس راہ میں سست ہونا شیطان کو نقب لگا کر ایمان کا مال لے جانے کا موقع دینا ہے.اس وقت وہی خدا جو آدم پر ظاہر ہوا تھا اور دوسرے نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا ہے وہی مجھ پر ظاہر ہوا ہے.اس وقت خدا نے موقع دیا ہے کہ تم اپنے معلومات کو بڑھا سکو.اس لیے جو بات سمجھ میں نہ آئے اُس کوفو راً پوچھ لینا چاہیے.جو سمجھنے سے پہلے کہتا ہے کہ سمجھ لیا اس کے دل پر ایک چھالا سا پڑ جاتا ہے.آخر وہ نا سور ہو کر بہہ نکلتا ہے.میں تھکتا نہیں ہوں، خواہ کوئی ایک سال تک پوچھتا رہے.پس اس موقع کی قدر کرو.میری باتوں کو سنو اور سمجھو اور ان پر عمل کرو.پھر خادم دین بنو.سچائی کو ظاہر کرو.خدا سے محبت کرنا اور مخلوق سے ہمدردی کرنا یہ دونوں باتیں دین کی ہیں.ان پر عمل کرو.۱

Page 539

ترجمہ فارسی عبارات مندرجہ ملفوظات جلد دوم از صفحہ نمبر ترجمہ فارسی ۱۵ کہتے ہیں قیامت کے دن تفتیش ہوگی اور اس دن وہ پیارا محبوب تند خو ہوگا.۱۵ خالص بھلائی والی ہستی سے برا سلوک ہرگز ممکن نہیں مطمئن رہو کہ انجام بخیر ہوگا.۱۶ وہ خدا جس سے اہل جہاں بے خبر ہیں اس نے مجھ پر اپنا جلوہ کیا ہے اگر تو اہل ہے تو قبول کر.۲۵ خلافت پر اس کا دل بہت مائل تھا لیکن ابو بکر اس میں حائل ہوگیا.۳۰ یہ سب تجھے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کبھی صلح سے مارتے ہیں اور کبھی جنگ کر کے.۳۲ اگر ساتھ حضرت سلیمان کا ہاتھ نہ ہو تو خالی نقش سلیمانی (والی انگوٹھی)کیا تاثیر دکھا سکتی ہے.۳۵ بات جو (کسی ) دل سے نکلتی ہے وہ (دوسروں کے ) دل میں بیٹھ جاتی ہے.۴۵ جب خداتیر اہے تو تجھے کیا غم ہو سکتا ہے؟ ۷۵ ایک شخص ٹہنی کے سرے پر بیٹھا اس کی جڑ کاٹ رہا تھا.۷۹ آواز سے ظاہر ہے کہ تیری بارگاہ بہت بلند ہے ۸۵ ایک مبارک زمانہ اور ایک مبارک سال میں دو عیدوں کے درمیاں ایک مبارک تاریخ کو.

Page 540

ترجمہ فارسی از صفحہ نمبر ۱۰۹ مٹی بننے سے پہلے مٹی ہو جا.۱۱۰ اگرچہ محبوب تک رسائی پانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو پھر بھی، عشق کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی تلاش میں جان لڑا دی جائے ۱۱۰ (کسی چیز کے ) طلب گار کو صابر اور متحمل مزاج ہونا چاہیے میں نے کبھی نہیں سنا کہ کوئی کیمیا گر اُکتا گیا ہو.۱۱۲ حضرت درد ہی نہیں ورنہ طبیب تو موجود ہے.۱۶۴ آئندہ سال کا حساب کون جانتا ہے جو دوست گذشتہ سال ہمارے ساتھ تھے وہ اب کدھر گئے.۱۹۶ انسان جو حد مشترک ہے، وہ مسیحا بھی بن سکتا ہے اور گدھا بھی.۲۰۵ تو جس شخص سے قرآن و حدیث (بیان کرنے )سے رہائی نہ پاسکے ، اس کا (صحیح )جواب یہ ہے کہ اسے جواب نہ دے.۲۱۴ کسی نے اس (یعقوب ) سے جس کا بیٹا گم ہوگیا تھا پوچھا ، کہ اے روشن ضمیر دانا بزرگ ۲۱۴ تو نے ملک مصر سے تو کُرتے کی بُو سو نگھ لی لیکن یہیں کنعان کے کنوئیں میں اسے کیوں نہ دیکھا.۲۱۴ اس نے کہا کہ ہمارا حال بجلی کی طرح ہے، ایک لمحہ دکھائی دیتی ہے اور دوسرے لمحہ غائب ہوجاتی ہے.۲۱۴ کبھی تو میں ایک بلند مقام پر بیٹھتا ہوں اور کبھی اپنے پاؤں کی پُشت پر بھی نہیں دیکھ سکتا.

Page 541

ترجمہ فارسی از صفحہ نمبر ۲۱۹ اگرچہ محبوب تک رسائی پانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو پھر بھی، عشق کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی تلاش میں جان لڑا دی جائے.۲۲۰ تنور(پر سونے )والی رات بھی گذر گئی اور سمور (پہن کر سونے )والی رات بھی گزر گئی.۲۲۹ وقت ایسے گزارتے کہ کبھی تو جبرائیل و میکائیل کے ساتھ ہوتے اور کبھی حفصہ و زینب مورد توجہ ہوتیں.۲۵۵ کسی نے اس (یعقوب ) سے جس کا بیٹا گم ہوگیا تھا پوچھا ، کہ اے روشن ضمیر دانا بزرگ.۲۵۵ تو نے ملک مصر سے تو کُرتے کی بُو سو نگھ لی لیکن یہیں کنعان کے کنوئیں میں اسے کیوں نہ دیکھا.۲۵۶ ہر آزمائش جو خدا نے اس قوم کے لئے مقدر کی ہے اس کے نیچے رحمتوں کا خزانہ چھپا رکھا ہے.۲۷۳ وہ نماز دوزخ کے دروازہ کی چابی ہے جو تو لوگوں کو دکھانے کے لئے دراز کرتا ہے.۲۸۱ صبا پھول کو دیکھ کر شرمندہ ہوتی ہے کہ اس نے پھول کو کھِلا تو دیا لیکن اسے لپیٹنے کی طاقت نہیں رکھتی.۲۸۷ ترک دنیا ، پرہیز گاری اور صدق و صفا کے لئے ضرور کوشش کر، مگر مصطفٰیؐ (کے بتائے ہوئے طریقوں )سے تجاوز نہ کر.۲۸۸ میں تُو بن گیا تُو میں بن گیا میں تن بنا تُو جان بن گیا.تا بعد میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ میں کوئی اور ہوں اور تُو کوئی اور ہے.

Page 542

ترجمہ فارسی از صفحہ نمبر ۲۹۷ خدا کی قسم! میں خدا کی طرف سے نوح کی کشتی کی طرح ہوں وہی بد نصیب ہے جو میری کشتی سے دور رہا.۳۰۵ برا سودا خاوند کی داڑھی پر (یعنی خاوند کے ذمے).۳۰۵ اگر تو لوگوں کے مرتبہ کا دھیان نہیں رکھتا تو تُو بے دین ہے.۳۱۱ ناخلف بیٹے کا باپ سے پہلے مر جانا بہتر ہے.۳۲۸ عیسائی ہوجاؤ جو چاہو سو کرو.۳۴۴ ولی ولی کو پہچانتا ہے.۳۷۹ اگر تو لوگوں کے مرتبہ کا دھیان نہیں رکھتا تو تُو بے دین ہے.۳۸۹ وہ معجزہ جو کسی ولی کے متعلق سنا جائے وہ معجزہ اس نبی کا ہے جس کا وہ ولی پیروکار ہے.۴۱۳ ایک ہی جگہ استقلال سے کام کرنا چاہیے.۴۲۹ ترک دنیا ، پرہیز گاری اور صدق و صفا کے لئے ضرور کوشش کر، مگر مصطفٰیؐ (کے بتائے ہوئے طریقوں )سے تجاوز نہ کر.۴۳۵ وہ مہربان اچھوں کے ساتھ بروں کو بھی بخش دیتا ہے.۴۴۹ اے مرد سلامت تجھ پر سلامتی ہو.۴۶۷ جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا.۴۶۷،۴۶۸ اسرائیل میرا بیٹا بلکہ پہلوٹھا ہے.۴۸۷ غیب سے ایک مرد ظہور پذیر ہوتا ہے اور کام کر ڈالتا ہے.۵۰۰ وہ تو خود ہی گمراہ ہے کسی کی کیا رہبری کرے گا.

Page 543

ترجمہ فارسی از صفحہ نمبر ۵۰۳ وہ تو خود ہی گمراہ ہے کسی کی کیا رہبری کرے گا.۵۱۴ اب ظہور کر اور نکل کہ تیرا وقت نزدیک آگیا اور اب وہ وقت آرہا ہے کہ محمدی گڑھے میں سے نکال لئے جاویں گے اور ایک بلند اور مضبوط مینار پر ان کا قدم پڑے گا.۵۳۱ ابتدا کا انتہا سے ایک تعلق ہے.

Page 544

Page 545

Page 546

Page 547

Page 548

Page 549

Page 550

Page 551

Page 552

Page 553

Page 554

Page 555

Page 556

Page 557

Page 558

Page 559

Page 560

Page 561

Page 562

Page 563

Page 564

Page 565

Page 566

Page 567

Page 568

Page 569

Page 570

Page 571

Page 572

Page 573

Page 574

Page 575

Page 576

Page 577

Page 578

Page 579

Page 580

Page 581

Page 582

Page 583

Page 584

Page 585

Page 586

Page 587

Page 588

Page 589

Page 590

Page 591

Page 592

Page 593

Page 594

Page 595

Page 596

Page 597

Page 598

Page 599

Page 600

Page 601

Page 602

Page 603

Page 604

Page 605

Page 606

Page 607

Page 608

Page 609

Page 610

Page 611

Page 612

Page 613

Page 614

Page 615

Page 616

Page 617

Page 618

Page 619

Page 620

Page 621

Page 622

Page 623

Page 624

Page 625

Page 626

Page 627

Page 628

Page 629

Page 630

Page 631

Page 632

Page 633

Page 634

Page 635

Page 636

Page 637

Page 638

Page 638