Malfuzat Volume 10

Malfuzat Volume 10

ملفوظات (جلد 10)

نومبر 1907ء تا مئی 1908ء
Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

ملفوظات سے مراد حضرت بانی جماعت احمدیہ، مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا وہ پاکیزہ اور پُرمعارف کلام ہے جو حضورؑ نے اپنی مقدس مجالس میں یا جلسہ سالانہ کے اجتماعات میں اپنے اصحاب کے تزکیہ نفس، ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت، خداتعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرنے اور قرآن کریم کے علم و حکمت کی تعلیم نیز احیاء دین اسلام اور قیام شریعت محمدیہ کے لیے وقتاً فوقتاً ارشاد فرمایا۔


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

Page 7

Page 8

Page 9

ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بلا تاریخ۱ مخالفت مفید ہو تی ہے ذکر ہوا کہ کشمیر میں ایک بڑا مولوی میر واعظ ہے وہ پہلے اس سلسلہ کے متعلق خاموش تھا.مگر جب سے مولوی عبداللہ صاحب نے اس کو مخاطب کر کے اشتہارات دئیے وہ بھی اپنے وعظ میں مخالفت کرنے لگا ہے.حضرت نے فرمایا.اس معاملہ میں مولوی عبداللہ کی کارروائی درست تھی.مخالفت سے ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ اس سے فائدہ ہوتا ہے.یہی قدیم سے سنّت اللہ چلی آتی ہے.جب کبھی کوئی نبی پیدا ہوتا ہے لوگ اس کی مخالفت شروع کر تے ہیں سبّ وشتم سے کام لیتے ہیں.اسی ضمن میں کتابوں کے دیکھنے اور صحیح حالات کے سننے اور معلوم کرنے کا بھی ان کو موقع مل جاتا ہے.دنیا کے کیڑے جو اپنے دنیاوی کاموں میں مستغرق ہوتے ہیں ان کو فرصت ہی کہاں ہے کہ دینی امور کی طرف متوجہ ہوں لیکن مخالفت کے سبب ۱ قیاس ہے کہ یہ ملفوظات اکتوبر ۱۹۰۷ء کے اواخر یا پھر نومبر ۱۹۰۷ءکے ابتدائی ایام کے ہیں.واللہ اعلم بالصواب.(مرتّب)

Page 10

ان کو بھی غور و فکر کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور ان کے شوروغل کے سبب دوسرے لوگوں کو بھی اس طرف توجہ ہو جاتی ہے کہ دیکھنا چاہیے کہ اصل میں بات کیا ہے؟ کئی لوگوں کے ہمارے پاس خطوط آئے کہ مولوی محمد حسین یا مولوی ثناء اللہ وغیرہ کا انہوں نے نام لیا کہ ان کی مخالفانہ تحریریں اور کتب پڑھ کر ہمیں اس طرف خیال ہوا کہ آخر مرزا صاحب کی تحریر بھی منگوا کر دیکھنی چاہیے اور جب آپ کی کتاب پڑھی تو اس کو روحانیت سے پُر پایا اور حق ہم پر کھل گیا.جب انسان توجہ کرتا ہے تو اس کا دلی انصاف خود اُسے ملزم کرتا ہے.جہاں مخالفت کی آگ بھڑکتی ہے اور شور اُٹھتا ہے اس جگہ ایک جماعت پیدا ہو جاتی ہے.انبیاء سے پہلے تمام لوگ نیک وبد بھائی بھائی بنے ہوتے ہیں.نبی کے آنے سے ان کے درمیان ایک تمیز پیدا ہو جاتی ہے سعید الگ ہو جاتے اور شقی الگ ہو جاتے ہیں.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخالفین کو یہ کلمہ نہ سناتے کہ اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ( الانبیآء :۹۹ ) تم اور تمہارے معبود سب جہنم کے لائق ہیں تو کفار ایسی مخالفت نہ کرتے مگر اپنے معبودوں کے حق میں ایسے کلمات سن کر وہ جوش میں آگئے.پنجاب میں سب سے زیادہ ہماری مخالفت ہوئی اور اسی جگہ خدا تعالیٰ نے سب سے زیادہ جماعت بھی بنائی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلے لوگ امت واحدہ ہوتے ہیں پھر نبی کے آنے سے ان میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے.ابوجہل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ جو مباہلہ کیا تھا اور آخری دعا کی تھی کہ اے خدا! جس نے ملک میں فساد پیدا کر رکھا ہے اور قطع رحم کرتا ہے آج اس کو ہلاک کر دے جس کے نتیجہ میں وہ خود ہلاک ہوا.اس کی دعا سے ظاہر ہے کہ آنحضرت کی بعثت سے ملک کی کیا حالت ہو گئی تھی اور باہمی فساد کو کفار کس کی طرف منسوب کرتے تھے؟ جب شور اُٹھتا ہے تو ایسے آدمی بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو انصاف کی پابندی کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں مخالفینِ انبیاء کی عادت ہے کہ رسم وعادت کی پیروی کرتے ہوئے ایک بات پر اَڑ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے اُمید منقطع کر کے اسی پر فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم اسی پر مَر جائیں گے خواہ کچھ ہی ہو.مگر خدا تعالیٰ انہی لوگوں میں سے سعید الفطرت انسان بھی پیدا کر دیتاہے.

Page 11

احمدی نام کی وجہ ذکر آیا کہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے اپنی جماعت کا ایک الگ نام احمدی کیوں رکھ لیا ہے؟ فرمایا.یہ نام تو صرف شناخت کے واسطے ہے جیسا کہ مسلمانوں میں بہت سے فرقے ہیں.کوئی اپنے آپ کو حنفی کہتا ہے کوئی شافعی کوئی اہلحدیث وغیرہ.چونکہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جمالی نام احمد کا ظہور ہو رہا ہے اس واسطے اس جماعت کا (نام) احمدی ہوا.اور یہ نام اسی زمانہ اور اسی جماعت کے واسطے مقدر تھا اس سے پہلے اگر چہ بعض ایسے آدمی ہوئے جو کسی جماعت کے امام بنے اور ان کے نام میں احمد کا لفظ تھا مگر کبھی خدا تعالیٰ نے کسی جماعت کا (نام) احمدی نہ ہونے دیا.مثلاً امام احمد بن حنبل تھے ان کی جماعت حنبلی کہلائی.سید احمد بریلوی تھے تو ان کی جماعت مجاہدین کی کہلائی.سید احمد علیگڈھ کے تھے تو اُن کے ہم خیال نیچری کہلائے.علی ہذا القیاس اور کسی کا نام کبھی احمدی نہیں ہوا.۱ بلا تاریخ ڈاکٹروں کے لیے عبرت کے مواقع مختلف قسم کی بیماریوں کا ذکر تھا.فرمایا.ڈاکٹروں کے واسطے عبرت کے نظاروں سے فائدہ حا صل کرنے کے لئے بہت موقع ہوتا ہے.قسم قسم کے بیمار آتے ہیں.بعض کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے جاتے ہیں.بعض کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ شدت بیماری کے سبب لَا مِنَ الْاَحْیَآءِ وَلَا مِنَ الْاَمْوَاتِ.نہ زندوں میں داخل نہ مُردوں میں.لیکن ایسے نظاروں کو کثرت کے ساتھ دیکھنے سے سخت دلی بھی پیدا ہو جاتی ہےاور ضروری بھی ہے.کیونکہ نرم دل اور رقیق القلب ایسا کام نہیں کر سکتا کیونکہ سر جری کا کام بہت حوصلے کا کام ہے.۱ بدر جلد ۶ نمبر ۴۵ مورخہ ۷؍نومبر ۱۹۰۷ءصفحہ ۷

Page 12

اس زمانہ کے مُلّاں فرمایا.اس زمانہ کے مُلّانوں کو بھی مُردوں کے عبر ت انگیز نظاروں کو بہت دیکھنا پڑتا ہے.لیکن افسوس ہے کہ وہ بھی سخت دل ہو گئے ہیں.کلکتہ میں ایک مُلّاں کا ذکر اخبار میں لکھا ہے کہ اس پر کسی قرض خواہ نے نالش کی تو اس نے جوابِ دعویٰ میں کہا کہ امسال کلکتہ کی صحت اچھی رہی اور لوگ بہت نہیں مَرے اس واسطے میں کچھ دے نہیں سکتا.البتہ بسبب قحط و وبا اگلے سال لوگوں کے بہت مَرنے اور معقول آمدنی حاصل ہونے کی اُمید ہے پھر قرضہ ادا کیا جائے گا.ایسا ہی اس جگہ دو ملّانوں کے درمیان جو بھائی تھے باہمی تنازعے ہونے پر ان کے درمیان مسلمانوں کے گھر وں کی تقسیم کر دی گئی.تو ایک مُلّاں اس بات پر ناراض ہوا کہ جو لوگ میر ے حصے میں آئے ان کے قد چھوٹے ہیں اور ان کے کفن پر سے جو چادر اترے گی وہ چھوٹی ہو گی.اس قدر رذالت ان لوگوں میں آگئی ہے.اللہ رحم کرے.ایک آیت کا القائی ترجمہ فرمایا.آیت قرآنیقَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا(الشمس:۱۰،۱۱) کا ترجمہ اردو میں ایک دفعہ سوچتا تھا تو یہ شعر لکھا گیا.؎ کوئی اس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے تصوّف کی غلط اصطلاحات فرمایا.سیدھی اور سچی اور سادہ عام فہم منطق وہ ہے جو قرآن شریف میں ہے اس میں کوئی پیچیدگی نہیں.ایک سیدھی راہ ہے جو خدا تعالیٰ نے ہم کو سکھلا دی ہے.چاہیے کہ آدمی قرآن شریف کو غور سے پڑھے.اس کے اَمر اور نہی کو جداجدا دیکھ رکھے اور اس پر عمل کرے اور اسی سے وہ اپنے خدا کو خوش کر لے گا.باقی منطقیوں نے اور صوفیوں نے جو اصطلاحیں بنائی ہیں وہ اکثر لوگوں کے واسطے ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہیں کیونکہ ان میںپیچیدگیاں اور مشکلات ہیں.فرمایا.ایک بزرگ نے جس پر ہم حُسنِ ظن رکھتے ہیں کہ اس نے کسی نیک نیتی سے لکھا ہوگا.گو اس کا قول صحیح نہیں ہے یہ لکھا ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی کامل نہ تھے کیونکہ ان کا پورے طور پر نزول نہ

Page 13

تھا صرف صعود تھا اسی وجہ سے ان سے بہت سی کرامتیں صادر ہوئیں.اگر نزول پورا ہوتا تو کوئی کرامت صادر نہ ہوتی.اس قول میں جس قدر تخالف قرآنی ہے وہ ظاہر ہے.یہ ایسا قول ہے کہ قرآن اور حدیث سے سراسر مخالف ہے درحقیقت شیخ عبدالقادر جیلانی خدا تعالیٰ کے کامل بندوں میں سے تھے.اگر ان پر معجزات کے متعلق اعتراض کیا جاوے تو پھر یہ اعتراض تمام انبیاء پر وارد ہوتا ہے.یہ ان صوفیوں کی غلط اصطلاحوں کی پیروی کا نتیجہ ہے جن کی تصدیق قرآن وحدیث سے نہیں ملتی.الہام بھول جانے میں حکمت الٰہی ہوتی ہے فرمایا.شاید ہی کوئی ایسی رات گذرتی ہوگی جس میں کوئی نظارہ آئندہ کے متعلق مجھے نہ دکھایا جاتا ہو.لیکن بہت سی باتیں صبح تک بھول جاتی ہیں اور توفیق ہی نہیں ہوتی کہ ان کو ایسے وقت میں لکھ لیا جاوے کہ پھر نہ بھولیں.اس میں حکمت الٰہی ہے و ہ جس بات کو چاہے یاد رکھواتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بھلوا دیتا ہے.۱ بلا تا ریخ انذاری امورٹل سکتے ہیں فرمایا.خدا تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے.ہمارا آزمودہ ہے کہ بعض دفعہ ایک الہام ہوتا ہے جو کسی پیشگوئی پر مشتمل ہوتا ہے اگر وہ انذاری اَمر ہوتا ہے اور ہم دعا میں مصروف ہو جاتے ہیں تو بسا اوقات مثلاً ایک گھنٹہ کے بعد وہ منسوخ ہو جاتا ہے اور وہ بات خدا تعالیٰ کے دوسرے حکم سے ٹل جاتی ہے.فرشتوں کے ذریعہ سے الہام فرمایا.بعض الہامات کے وقت اگر چہ فرشتہ نظر نہیں آتا تاہم الفاظ کے معانی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام فرشتے کے ذریعہ سے نازل ہوا ہے.مثلاً الہامات میں ایسے الفاظ کہ قَالَ رَبُّکَ اور مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ.۱ بدر جلد ۶ نمبر ۴۷ مورخہ ۲۱؍نومبر ۱۹۰۷ءصفحہ ۱۰

Page 14

قادیان کی تاریخی حیثیت فرمایا کہ اس قادیان میں پانچ سو حافظ قرآن شریف کے رہتے تھے اس وقت اس جگہ کا نام اسلام پور تھا.اب یہاں کیا ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں بھی اس قدر تعداد حفاظ کی نہیں مل سکتی.اس جگہ کی اسلامی شوکت کو سکھوں نے خراب کر دیا تھا.یہاں بہت سے سکھ رہتے تھے جن میں سے بعض نے سید احمد صاحب کے ساتھ بھی لڑائیاں کی تھیں مگر رفتہ رفتہ وہ سب مَر گئے اور اب دو چار باقی ہوں گے.جہاد کی حقیقت فرمایا.جہاد کا مسئلہ بھی ہمارے مولویوں نے کچھ اُلٹا ہی سمجھا ہے.قرآن شریف اور احادیث اور آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح سے کہیں ایسا نہیں معلوم ہوتا کہ کوئی اس قسم کا جہاد اسلام میں جا ئز ہو یا کبھی کیا گیا ہو کہ کفار کو زبردستی مسلمان بنایا جائے.تیرہ سال تک آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐکے صحابہ ؓنے کفار کے ہاتھوں سے دُکھ اُٹھایا.جب کفار کی زیادتیاں حد سے بڑھ گئیں تب اجازت ہوئی کہ اُن لوگوں کو قتل کرو جو تم کو قتل کرتے ہیں اور بسبب مظلوم ہونے کے مسلمانوں کو بھی اجازت دی گئی کہ ہاتھ اُٹھائیں.سارا خلاصہ جہاد کا یہی ہے اور جز یہ جو بہت ہی قلیل رقم کا ٹیکس ہے خود اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ کفار کو اپنے ماتحت امن کے ساتھ رکھنے کا اسلامیوں کو حکم تھا.اسی بات پر حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ قرآن شریف میں جو یہ آیت ہے.وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِيَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا١ؕ وَ لَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ(الـحج :۴۱) اس آیت سے بھی ثابت ہوا ہے کہ مذہب کی خا طر جنگ کرنا اور دوسرے مذاہب کو تلوار کے ذریعہ سے منہدم کرنے کی کوشش کرنا جائز نہیں.اللہ تعالیٰ تمام مذاہب کے نشانات کو قائم رکھنا چاہتا ہے.اور جو سچا ہے اس کی خاص نصرت فرماتا ہے وہ خود بخود فروغ پکڑتا ہے اس کو کسی جہاد کی ضرورت نہیں.

Page 15

انبیاء کی تعریف کی وجہ فرمایا.آجکل یہ حالت ہے کہ رات کے وقت جس کی زبان پر ایک لفظ جاری ہوا وہ سمجھتا ہے کہ میں مُلہَم ہو گیا اور اس پر فخر کرنے لگتا ہے اور اپنے نفس کی حالت کو نہیں دیکھتا کہ وہ کیسی ہے؟ سارے قرآن شریف کو پڑھ کر دیکھو اس میں کہیں نہیں یہ لکھا کہ کسی شخص پر خدا تعالیٰ اس واسطے خوش ہو ا کہ اس پر الہام ہوتا تھا بلکہ انبیاء کی تعریف خدا نے قرآن شریف میں اس وجہ سے کی ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے حضور میں صدق اور وفا کاکمال دکھایا اور اعمال صالحہ بجالائے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کیا.یہ ایک نہایت مکروہ طریق ہے جو ایک خواب پر انسان فخر کرتا ہے یہ ایک زہر ناک غلطی ہے.یہ باتیں انسان کے واسطے ناز کے لائق نہیں.انسان کا تو یہ کام ہے کہ اپنے تمام قویٰ اللہ تعالیٰ کے راہ میں خرچ کر ڈالے.خدا تعالیٰ کے تمام حکموں پر عمل کرے.تب وہ خدا کا ولی ہوگا.بغیر دلیل کے کوئی دعویٰ نہیں مانا جا سکتا.بغیر دلیل کے تو پیغمبر بھی نہیں مانے جاتے.حضر ت موسٰی نے بھی اللہ تعالیٰ سے عرض کی تھی کہ مجھے کوئی دلیل دی جاوے جو کہ میں دنیا کے آگے پیش کروں.۱ ۱۱؍نومبر ۱۹۰۷ء ( بوقتِ ظہر ) سائیں عالم دین صاحب ساکن دھارووال نے اپنے مجاہدات کا حال سنایا اور طرح طرح کے الہامات اور کشوف بیان کئے اور ایسے ایسے حیرت انگیز مقامات کا ذکر کیا جہاں وہ خود بخود پہنچ کر کل نبیوں اور پیغمبروں سے اپنے آپ کو افضل اور اعلیٰ سمجھتے تھے اور ( معاذ اللہ ) بذات خود خدائی کے دعویدار بن بیٹھتے تھے اور کبھی خیال کرتے تھے کہ میں خالق اور مخلوق میں درمیانی واسطہ اور وسیلہ ہوں اور خلقت میری محتاج ہے اور پھر اپنے آپ کو بالکل بے پروا اور بے نیاز سمجھتے تھے.بیان کرتے تھے کہ آئندہ مجھ سے کچھ نشان ظاہر ہوں گے اور عجیب تر یہ کہ حضرت اقدس سے مخا طب ہو کر یہ بھی کہنے لگ جاتے تھے کہ میں

Page 16

آپ کو مسیح اور مہدی سمجھتا ہوں اور ایسا اُولوالعزم امام مانتا ہوں کہ جیسا نہ آگے کبھی ہوا اور نہ ہوگا اور ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا بھی دم بھرتے تھے.غرض ایک فقرہ تو ایسا بولتے تھے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ سائیں صاحب اپنے آپ کو تمام دنیا سے اعلیٰ اور زکی النفس خیال کرتے ہیں اور ساتھ ہی کل ذات اور کل فعل والے سبقوں کی عجیب عجیب تجلیات سناتے تھے لیکن پھر باتوں ہی باتوں میں اپنے آپ کو حقیر ذلیل اور کچھ کا کچھ سمجھنے لگ جاتے تھے.غرض بیچارے (خدا اپنے فضل وکرم سے ان پر رحم کرے ) پیچ در پیچ مشکلات میں پھنسے ہوئے تھے اور فیج اعوج کی مقر ر کردہ منزلوں کو طے کرتے کرتے عجیب وغریب اُتار چڑھاؤ میں مشغول تھے اور مصیبت پر مصیبت یہ تھی کہ اس قسم کے معاملات سے اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگ گئے تھے اور خودستائی اور کبریائی کی منازل میں بھی کافی گذر کر چکے تھے.اسی لئے وہاں کے احمدی احباب نے سائیں صاحب کو مخبوط الحواس اور پاگل خیال کرکے نماز کےلئے امام بنانا چھوڑ دیا اور اُن کے پیچھے نماز کا ادا کرنا ناجائز جانا.سائیں صاحب موصوف کی اس قسم کی سرگذشت سن کر حضرت اقدس ( علیہ السلام ) نے فرمایا.سچے الہام کی شناخت اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں مختلف طبقات کے انسان پائے جاتے ہیں مگر مسلمان تو انسان اسی صورت میں رہ سکتا ہے جب سچے دل سے کلمہ طیبہ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ پر ایمان لاوے اور پورے طور سے اس پر کار بند ہو جاوے.اور اس کے بعد قرآن شریف پر ایمان رکھے کہ وہ خدا تعالیٰ کی سچی اور کامل کتاب ہے اور وہی ایک کلام ہے جس پر خدا کی مہرہے.انسان کو اسی کے مطابق عمل درآمد کرنا چاہیے اور اسی کے بتائے ہوئے احکام پر چلنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھائے ہوئے نمونہ پر کاربند ہونا یہی صراط مستقیم ہے اس کے سوائے کوئی تحریر، کشف رؤیا یا الہام بغیر مہر کے جائز نہیں.جب تک کسی الہام پر خدا کی مہر نہ ہو وہ ماننے کے لائق نہیں ہوتا.دیکھو! قرآن شریف کو عربوں جیسے اَشدّ کافر کب مان سکتے تھے اگر خدا کی مہر اس پر نہ ہوتی ہمیں بھی اگر کوئی کشف رؤیا یا الہام ہوتا ہے تو ہمارا دستور ہے کہ اُسے قرآن مجید پر عرض کرتے ہیں

Page 17

اور اسی کے سامنے پیش کرتے ہیں.اور پھر یہ بھی یاد رکھو کہ اگر کوئی الہام قرآن مجید کے مطابق بھی ہو لیکن کوئی نشان ساتھ نہ ہو تو وہ قابلِ قبول نہیں ہوتا.قابل قبول الہام وہی ہوتا ہے جو قرآن مجید کے مطابق بھی ہو او ر ساتھ ہی اس کی تا ئید میں نشان بھی ہوں.اگر ایک شخص کہے کہ میں بادشاہ کے در بار سے فلاں عہدہ حاصل کرکے آیا ہوں لیکن اس کے ساتھ کوئی نشان نہ ہو اور بادشاہی سامان اور فوج سپاہ سے بالکل خالی ہو تو صرف یہ کہنے سے کہ مجھے فلاں عہد ہ مل گیا ہے اس کی کچھ عزت نہیں ہوگی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معصوم اور خاتم الانبیاء تھے ہمارا تو یہی ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہ معصوم نبی ہے کہ جس پر تمام کمالات نبوت کے ختم ہوگئے ہیں اور ہر ایک طرح کا کمال اور درجہ انہیں پر ختم ہو گیا ہے اور ان پر وہ کامل اور جامع کتاب نازل کی گئی جس کے بعد قیامت تک کوئی اور شریعت نہیں آئے گی.وہ ایسی کلام ہے جس پر خدا کی مہر ہے اور جو ہزاروں فرشتوں کے ساتھ اور ان کی حفاظت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی.اگر کوئی الہام ہو یا کشف ہو یا وحی ہوجب تک وہ اس کے ساتھ مطابقت نہ رکھے گی منجانب اللہ نہیں ٹھہر سکتی.ہاں اگر کوئی الہام یا وحی اس کے مطابق ہو اور ساتھ ہی اپنی تائید میں نشانات بھی رکھتی ہو تو سب سے پہلے ہم اس کو قبول کریں گے.ہمارا مقدور نہیں کہ ایک ذرّہ بھر بھی چون وچرا کریں.کشوف والہامات کی تین اقسا م الہام، کشف یا رؤیا تین قسم کے ہوتے ہیں.( ۱) اوّل وہ جو خدا کی طرف سے ہوتے ہیں اور وہ ایسے شخصو ں پر نازل ہوتے ہیںجن کا تزکیہ نفس کامل طور پر ہو چکا ہوتا ہے اور وہ بہت سی موتوں اور محویت نفس کے بعد حاصل ہوا کرتا ہے اور ایسا شخص جذبات نفسانیہ سے بکلی الگ ہوتا ہے اور اس پر ایک ایسی موت وارد ہو جاتی ہے جو اس کی تمام اندرونی آلائشوں کو جلا دیتی ہے جس کے ذریعہ سے وہ خدا سے قریب اور شیطان سے دُور ہو جاتا ہے.کیونکہ جو شخص جس کے نزدیک ہوتا

Page 18

ہے اسی کی آواز سنتا ہے (۲) دوسرے حدیث النفس ہوتا ہے جس میں انسان کی اپنی تمنا ہوتی ہے اور انسان کے اپنے خیالات اور آرزوؤں کا اس میں بہت دخل ہوتا ہے اور جیسے مثل مشہور ہے بلّی کو چھیچھڑوں کی خوابیں، وہی باتیں دکھائی دیتی ہیں جن کا انسان اپنے دل میں پہلے ہی سے خیال رکھتا ہے اور جیسے بچے جو دن کو کتابیں پڑھتے تو رات کو بعض اوقات وہی کلمات ان کی زبان پر جاری ہو جاتے ہیں یہی حال حدیث النفس کا ہے.( ۳) تیسرے شیطانی الہام ہوتے ہیں.ان میں شیطان عجیب عجیب طرح کے دھوکے دیتا ہے کبھی سنہری تخت دکھاتا ہے اور کبھی عجیب وغریب نظارے دکھا کر طرح طرح کے خوش کن وعدے دیتا ہے.ایک دفعہ سید عبدالقادر رحمۃ اللہ کو شیطان اپنے زرین تخت پر دکھائی دیا اور کہا کہ میں تیرا خدا ہوں.میں نے تیری عبادت قبول کی.اب تجھے عبادت کی ضرورت نہیں رہی.جو چیزیں اب اوروں کے لئے حرام ہیں وہ سب تیرے لیے حلال کر دی گئی ہیں.سید عبدالقادر رحمۃ اللہ نے جواب دیا کہ دُور ہو اے شیطان! جو چیزیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حلال نہ ہوئیں وہ مجھ پر حلال کیسے ہو گئیں ؟ پھر شیطان نے کہا کہ اے عبدالقادر! تو میرے ہاتھ سے علم کے زور سے بچ گیا ورنہ اس مقام پر کم لوگ بچتے ہیں.یہ سن کر سائیں صاحب بول اُٹھے کہ میں کیا ہوں اور کس مرتبے پر ہوں اور میرا کیا حال ہے ؟ حضرت اقدس نے فرمایا.مجھے کچھ علم نہیں کہ تم کس مرتبہ پر ہو.توبہ و استغفار بہت کرو.مُلہمین کے لئے نصیحت اور یہ باتیں میں صرف تمہارے لئے نہیں کہتا بلکہ ہر ایک کے لئے کہتا ہوں.ہماری جماعت میں کوئی پچاس ساٹھ آدمیوں کے قریب ہوں گے جو اس قسم کے دعوے کرتے ہیں.دیکھو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صاحبِ وحی ہونے کا دعویٰ کیا تھا تو وہ بے نشان نہیں تھا.کافروں نے جب ثبوت مانگا تھا کہ آپ کی وحی کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل کیا ہے؟ تو ان کو جواب دیا گیا تھا قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ وَ بَيْنَكُمْ١ۙ

Page 19

وَ مَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ ( الرّعد : ۴۴ ) یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ تُو خدا کا رسول نہیں ان کو کہہ دے کہ میرے پاس دو گواہیاں ہیں.( ۱) ایک تو اللہ کی کہ اس کے تازہ تا زہ نشانات میری تائید میں ہیں اور (۲) دوسرے وہ لوگ جن کو کتاب اللہ کا علم دیا گیا ہے وہ بتا سکتے ہیں کہ میں سچا ہوں.یا د رکھو! اللہ تعالیٰ کا نام غیب بھی ہے وہ نہاں درنہاں اور پوشیدہ سے پو شیدہ ہے کسی کا حق نہیں کہ کسی بات کو خدا کا الہام سمجھ لے جب تک کہ خد ا کا فعل اس پر شہادت نہ دے.شہادت بغیر تو کوئی کام نہیں چلتا.اگر شہادتوں یعنی خدا کے نشانوں سے یہ بات ثابت ہو جاوے کہ یہ الہام خدا کی طرف سے ہے تو سب سے پہلے ایمان لانے والے ہم ہیں.اپنا قیل وقال تو قابل اعتبار نہیں ہوتا.خدا کے فعل کی اس کے ساتھ شہادت ہونی چاہیے.ہماری جماعت کے مولوی عبداللہ صاحب تیماپوری اپنے خطوط کے ذریعہ سے بہت کچھ الہامات اور کشوف لکھا کرتے تھے.آخر نتیجہ یہ ہوا تھا کہ چند دنوں کے بعد ان کو جنون ہو گیا.تھوڑے دن گذرے ہیں کہ قادیان میں آکر ایسے الہامات سے انہوں نے توبہ کی اور نیز میری بیعت کی.میں مانتا ہوں کہ مکالماتِ الٰہیہ حق ہیں اور خدا کے اولیاء مخاطبات اللہ سے شرف پاتے ہیں.لیکن یہ مقام بغیر تزکیہ نفس کے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا اور بغیر تزکیہ نفس کے شیطان ان سے یاری کرتا ہے علاوہ اس کے سچے الہام کے لئے ہم پر تین گواہ ہوئے ہیں.( ۱)اپنی پاک حالت (۲) خدا کے نشانوں کے ساتھ گواہی (۳) تیسرے الہام کی کلامِ الٰہی سے مطابقت.یہاں پر پھر سائیں صاحب کہنے لگے کہ پھر میرے ایمان کا کیا حال ہے ؟ حضرت اقدس نے فرمایا.میرا کام تو ایک حق بات کا پہنچا دینا ہے.آگے فائدہ اور نقصان صرف تمہارے لئے ہوگا.دوسرے کا اس سے کوئی تعلق نہیں.تم توبہ اور استغفار بہت کرو اور رو رو کر خدا سے دعائیں مانگو.سائیں صاحب بولے کہ پھر یہ جو مجھے سیر ہوتے ہیں اور عجیب عجیب مقامات دیکھنے میں آتے ہیں

Page 20

کیا یہ یونہی ہیں؟ اور کیا ان کی اصلیت کچھ بھی نہیں ؟ ہم کس سیر کے قائل ہیں حضرت اقدس نے فرمایا.ایسی سیروں کا تو میں قائل ہی نہیں.ہم تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر کے قائل ہیں.جنہوں نے لاکھوں کروڑوں انسانوں کے سر جھکا دیئے.قرآن مجید میں صاف لکھا ہے کہ شیطان کی طرف سے بھی وحی ہوتی ہے اور خدا کی طرف سے بھی ہوتی ہے.جو وحی خدا کی طرف سے ہوتی ہے اس میں ایک تاجِ عزت پہنایا جاتا ہے اور خدا کے بڑے بڑے نشان اس کی تا ئید میں گواہ بن کرآتے ہیں.سائیں صاحب نے آدابِ رسول کا لحا ظ نہ کرکے پھر قطع کلام کیا اور بولے کہ پھر میرے اختیار میں کیا ہے ؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ تم قال اللہ اور قال الرسول پر عمل کرو اور ایسی باتیں زبان پر نہ لاؤ جن کا تمہیں علم نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ( بنی اسـرآءیل :۳۷) تم نیکی کی طرف پورے زور سے مشغول ہو جاؤ اور اعمال صالحہ بجا لاؤ.اگر تمہاری حالت اس لائق ہو گئی اور تم نے پورے طور پر اپنا تزکیہ نفس کر لیا تو پھر خدا کے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بھی حاصل ہو سکتا ہے.اکثر لوگ آجکل ہلاک ہو رہے ہیں.ان کی یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی حالت کا مطالعہ نہیں کرتے اور اس تعلق کو نہیں دیکھتے جو وہ خدا سے رکھتے ہیں اور نہیں سوچتے کہ کس زور سے خدا کی طرف جا رہے ہیں اور کیسے کیسے مصائب آنے پر ثابت قدم نکلے ہیں اور ابتلاؤں میں پورے اُترے ہیں.انسان کو چاہیے کہ اپنا فرض ادا کرے اور اعمالِ صالحہ میں ترقی کرے.الہام کرنا اور رؤیا دکھانا یہ تو خدا کا فعل ہے.اس پر ناز نہیں کرنا چاہیے.اپنے اعمال کو درست کرنا چاہیے.خیر البر یّہ کون ہیں خد ا فرما تا ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ١ۙ اُولٰٓىِٕكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ( البیّنۃ :۸) یہ نہیں کہا کہ جن کو کشوف اور الہامات ہوتے ہیں

Page 21

وہ خیر البریّہ ہیں.یا د رکھو! ایسی باتیں ہر گز زبان پر نہ لاؤ جو قال اللہ اور قال الرسول کے برخلاف ہوں.اس قسم کے الہامات کچھ چیز نہیں.دیکھو! بارش کا پانی سب کو خوش کرتا ہے مگر پر نالہ کا پانی لڑائی ڈالتا ہے اور فساد پیدا کرتا ہے.جن الہامات کی تائید میں خدا کا فعل نہیں ہوتا اور نشاناتِ الٰہیہ گواہی نہیں دیتے وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے پرنالہ کا پانی.مثلاً ایک شخص ایسا ہے کہ نہ اس کے سر پر پگڑی ہے اور نہ پاؤں میں جو تی.پھٹے پرانے کپڑے اور ابتر سی حالت ہے اور پھر کہے کہ میں بادشاہ ہو ں اور اس ملک کی سب فوجیں میرے کہنے پر عمل کرتی ہیں تو ایسا شخص سوائے سودائی کے اور کون ہو سکتا ہے؟ یاد رکھو !کہ قول بغیر فعل کے کچھ چیز نہیں اور یہ آیت کہ قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ وَ بَيْنَكُمْ١ۙ وَمَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ(الرّعد:۴۴) اس میں ایک عجیب نکتہ ہے یعنی اگر خدا میری گواہی دیتا ہے تو مانو ورنہ نہ مانو.اسی طرح براہین احمدیہ میں وہ الہام درج ہے جو خدا نے مجھے کیا تھا اور وہ یہ ہے کہ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ.یعنی ان کو کہہ دے کہ میرے پاس میری سچائی پر خدا کی گواہی ہے پس کیا تم خدا کی گواہی قبول کرتے ہو یا نہیں؟ خدا تعالیٰ کی شہادت دیکھو! براہین احمدیہ میں یہ سلسلہ الٰہی شروع ہی ہوا تھا کہ ساتھ اس کے خدا تعالیٰ کی شہادت بھی موجود ہوگئی.سارے انبیاء اولیاء کا اسی پر اتفاق ہے کہ بغیر کسی شہادت کے دعویٰ کرنا جنون ہے.سائیں صاحب نے کہا کہ میں تو آپ کو مسیح اور مہدی مانتا ہوں اور دوسرے لوگوں کے پیچھے نماز بھی نہیں پڑھتا ہوں.یہ احمدی لوگ میرے پیچھے نماز نہیں پڑھتے اس کی با بت کیا حکم ہے ؟ حضرت اقدس نے فرمایا.اگر توبہ کر لو اور زبان بند رکھو اور قال اللہ اور قال الرسول کے برخلاف کوئی بات نہ کہو تو پھر

Page 22

یہ نماز پڑھ سکتے ہیں.بغیر دلائل قویہ اور براہین قاطعہ کے دعویٰ کرنا ایسا ہی ہے جیسے اپنے آپ کو آگ میں ڈالنا.یہ کہنا کہ میں فلاں نبی ہوں یا فلاں رسول سے افضل ہوں.یہ کفر کے کلمات ہیں.دل پر تو کسی کی حکومت نہیں.زبان سے ہی انسان کافر ہو جاتا ہے.دنیا میں زبان سے ہی سب کام چلتے ہیں.زبان کو قابو میں رکھو دیکھو! عورت اور مرد کا آپس میں نکاح ہوتا ہے تو صرف زبان سے ہی اقرار لیا جاتا ہے اور صرف اتنا کہنے سے کہ میں تجھے طلاق دیتا ہوں ان کا یہ سب رشتہ ٹوٹ جاتا ہے.ایسے ایسے دعوے کرنے ایک لاکھ ۱۲۴۰۰۰چوبیس ہزار پیغمبر وں کی تکذیب کرنا ہے.اگر خدا کا خوف ہو تو پھر انسان ایسا نہیں کرتا.اگر آپ زبان کو بند رکھیں تو بہتر ورنہ یاد رکھو اس کا نتیجہ تمہارے حق میں اچھا نہیں ہوگا.؎ ہر چہ دانا کند کند ناداں لیک بعد از کمال رسوائی سائیں صاحب نے کہا.تو کیا میں یہ سب باتیں جھوٹ کہتا ہوں ؟ حضرت اقدس نے فرمایا.میں اس کی نسبت کچھ نہیں کہہ سکتا.خدا جانے سچ کہتے ہو یا جھوٹ کہتے ہو.سائیں صاحب بولے.تُوں مسیح ہیں خلقت دابادشاہ ہیں.اچھا میرے واسطے دعا کر.‘‘ حضرت اقدس نے فرمایا.ہاں! دعا کروں گا.۱ بلا تاریخ عقیقہ کے واسطے کتنے بکرے مطلوب ہیں ایک صاحب کا حضرت اقدس کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ اگر کسی کے گھر میں ۱ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۲،۱۳

Page 23

لڑکا پیدا ہو تو کیا یہ جائز ہے کہ وہ عقیقہ پر صرف ایک ہی بکراذبح کرے ؟ حضرت مسیح موعودؑنے جواب میں فرما یا کہ عقیقہ میں لڑکے کے واسطے د۲و بکرے ہی ضروری ہیں لیکن یہ اس کے واسطے ہے جو صاحب مقدرت ہے اگر کوئی شخص دو بکروں کے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا اور ایک خرید سکتا ہے تو اس کے واسطے جائز ہے کہ ایک ہی ذبح کرے اور اگر ایسا ہی غریب ہو کہ وہ ایک بھی نہیں قربانی کرسکتا تو اس پر فرض نہیں کہ خواہ مخواہ قربانی کرے.مسکین کو معاف ہے.نماز تراویح ایک شخص نے سوال کیا کہ ماہِ رمضان میں نماز تراویح آٹھ رکعت باجماعت قبل خُفتن مسجد میں پڑھنی چاہیے یا کہ پچھلی رات کو اُٹھ کر اکیلے گھر میں پڑھنی چاہیے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ نماز تراویح کوئی جدا نماز نہیں.دراصل نماز تہجد کی آٹھ رکعت کو اوّل وقت میں پڑھنے کا نام تراویح ہے اور یہ ہر دو صورتیں جائز ہیں جو سوال میں بیان کی گئی ہیں.آنحضرت نے ہر دو طرح پڑھی ہے لیکن اکثر عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمکا اس پر تھا کہ آپ پچھلی رات کو گھر میں اکیلے یہ نماز پڑھتے تھے.۱ بلا تا ریخ فترتِ وحی فرمایاکہ وحی الٰہی کا یہ قاعدہ ہے کہ بعض دنوں میں تو بڑے زور سے بار بار الہام پر الہام ہوتے ہیں اور الہاموں کا ایک سلسلہ بند ھ جاتا ہے اور بعض دنوں میں ایسی خاموشی ہوتی ہے کہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس قدر خا موشی کیوں ہے اور نادان لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اب خدا تعالیٰ نے ان سے کلام کرنا ہی چھوڑ دیا ہے.نبی کریم پر بھی ایک زمانہ ایسا ہی آیا تھا کہ لوگوں نے سمجھا کہ اب وحی بند ہو گئی چنانچہ کافروں نے ہنسی شروع کی کہ اب خدا نعوذ باللہ ہمارے رسول کریم ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۵۲ مورخہ ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۲

Page 24

سے ناراض ہوگیا ہے اور اب وہ کلام نہیں کرے گا.لیکن خدا تعالیٰ نے اس کا جواب قرآن شریف میں اس طرح دیا ہے کہ وَ الضُّحٰى وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى( الضُّحٰى :۲تا۴) یعنی قسم ہے دھوپ چڑھنے کے وقت کی اور رات کی.نہ تو تیرے رب نے تجھ کو چھوڑدیا اور نہ تجھ سے نارا ض ہوا.اس کا یہ مطلب ہے کہ جیسے دن چڑھتا ہے اور اس کے بعد رات خود بخود آجاتی ہے اور پھر اس کے بعد دن کی روشنی نمودار ہوتی ہے اور اس میں خدا تعالیٰ کی خوشی یا ناراضگی کی کوئی بات نہیں.یعنی دن چڑھنے سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ اس وقت اپنے بندوں پر خوش ہے اور نہ رات پڑنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر ناراض ہے بلکہ اس اختلاف کو دیکھ کر ہر ایک عقلمند خوب سمجھ سکتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق ہو رہا ہے.اور یہ اس کی سنّت ہے کہ دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن ہوتا ہے پس اس سلسلہ کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کہ اس وقت خدا خوش ہے اور اس وقت ناراض ہے غلط ہے.اسی طرح سے آجکل جو وحی الٰہی کا سلسلہ کسی قدر بند رہا ہے تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ تجھ سے ناراض ہو گیا ہے یا یہ کہ اس نے تجھ کو چھوڑ دیا ہے بلکہ یہ اس کی نسبت ہے کہ کچھ مدت تک وحی الٰہی بڑے زور سے اور پے درپے ہوتی ہے اور کچھ دنوں تک اس کا سلسلہ بند رہتا ہے اور پھر شروع ہو جاتا ہے اور اس کی بھی وہی مثال ہے جو دن اور رات کے آگے پیچھے آنے کی ہے.۱ ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۷ء ( صبح بوقتِ سیر ) آریوں کے ساتھ مسلمانوں کی صلح کی تجاویز فرمایا.سچا مسلمان تو وہ ہے جو اپنے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی محبت رکھتا ہے کہ اگر کوئی آنحضرت کی ہتک میں ایک لفظ بھی بولے یا اشارہ بھی کرے۱ بدر جلد ۶ نمبر ۵۲ مورخہ ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳

Page 25

تو وہ مَرنے مارنے پر تیار ہو جاتا ہے.ہم نے آریوں کے اخباروں میں ایسے مضامین پڑھ کر کہ وہ مسلمانوں سے صلح چاہتے ہیں صلح کی ایک تجویز اپنے مضمون میں پیش کی تھی مگر افسوس ہے کہ انہوں نے قدر نہ کی.نوٹ ازایڈیٹر صاحب’’ بدر‘‘.حضرت اقدس نے آریوں کی بد زبانی کو دیکھ کر پہلے ہی ایک مضمون میں فرمایا تھا کہ ان لوگوں کے ساتھ ہماری صلح کس طرح ہو سکتی ہے.چنانچہ وہ الفاظ کتاب ’’ قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ میں اس طرح چھپے تھے.’’ ہماری شریعت صلح کا پیغام ان کو (آریوں کو ) دیتی ہے اور ان کے ناپاک اعتقاد جنگ کی تحریک کر کے ہماری طرف تیر چلا رہے ہیں.ہم کہتے ہیں کہ ہندوؤں کے بزرگوں کو مکار اور جھوٹا مت کہو مگر یہ کہو کہ ہزارہا برسوں کے گذرنے کے بعد یہ لوگ اصل مذہب کو بھول گئے مگر بمقابل ہمارے یہ ناپاک طبع لوگ ہمارے برگزیدہ نبیوں کو گندی گالیاں دیتے ہیں اور ان کو مفتری اور جھوٹا کہتے ہیں.کیا کوئی توقع کر سکتا ہے کہ ایسے ہندوؤں سے صلح ہوسکے؟ ان لوگوں سے بہتر سناتن دھرم کے اکثر نیک اخلاق لوگ ہیں جو ہر ایک نبی کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور فروتنی سے سر جھکا تے ہیں.میری دانست میں اگر جنگلوں کے درندے اور بھیڑئیے ہم سے صلح کر لیں اور شرارت چھوڑ دیں تو یہ ممکن ہے مگر یہ خیال کرنا کہ ایسے اعتقاد کے لو گ کبھی دل کی صفائی سے اہلِ اسلام سے صلح کرلیں گے سر اسر باطل ہے بلکہ ان کا ان عقیدوں کے ساتھ مسلمانوں سے سچی صلح کرنا ہزاروں محا لوں سے بڑھ کر محال ہے.کیا کوئی سچا مسلمان برداشت کر سکتا ہے جو اپنے پاک اور بزرگ نبیوں کی نسبت ان گالیوں کو سنے اور پھر صلح کرے؟ ہر گز نہیں پس ان لوگوں کے ساتھ صلح کرنا ایسا ہی مضر ہے جیسا کہ کاٹنے والے زہریلے سانپ کو اپنی آستین میں رکھ لینا.یہ قوم سخت سیاہ دل قوم ہے جو تمام پیغمبروں کو جو دنیا میں بڑی بڑی اصلاحیں کر گئے مفتری اور کذّاب سمجھتے ہیں.نہ حضرت موسٰی ان کی زبان سے بچ سکے نہ حضرت عیسیٰ ؑ اور نہ ہمارے سید ومولا جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم

Page 26

جنہوں نے سب سے زیادہ دنیا میں اصلاح کی جن کے زندہ کئے ہوئے مُردہ اب تک زندہ ہیں ‘‘.اس کے بعد جب کہ اخباروں میں بہت شور مچا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان صلح ہونی چاہیے.تب حضرت صاحب نے لیکچر لاہور میں صلح کی ایک تجویز پیش کی جس کے یہ الفاظ تھے.’’ ہم اس بات کا اعلان کرنا اور اپنے اس اقرار کو تمام دنیا میں شائع کرنا اپنی ایک سعادت سمجھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے نبی سب کے سب پاک اور بزرگ اور خدا کے برگزیدہ تھے.ایسا ہی خدا نے جن بزرگوں کے ذریعہ سے پاک ہدایتیں آریہ ورت میں نا زل کیں اور نیز بعد میں آنے والے جو آریوں کے مقدس بزرگ تھے جیسا کہ راجہ رامچندر اور کرشن.یہ سب کے سب مقدس لوگ تھے اور ان میں سے تھے جن پر خدا کا فضل ہوتا ہے.دیکھو! یہ کیسی پیاری تعلیم ہے جو دنیا میں صلح کی بنیاد ڈالتی ہے اور تمام قوموں کو ایک قوم کی طرح بنانا چاہتی ہے یعنی یہ کہ دوسری قوموں کے بزرگوں کو عزت سے یاد کرو.اور اس بات کو کون نہیں جانتا کہ سخت دشمنی کی جڑ ان نبیوں اور رسولوں کی تحقیر ہے جن کو ہر ایک قوم کے کروڑہا انسانوں نے قبول کر لیا.ایک شخص جو کسی کے باپ کو گندی گالیاں دیتا ہے اور پھر چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا اس سے خوش ہو.یہ کیوں کر ہو سکتا ہے ؟ غرض ہم اس اصول کو ہاتھ میں لے کر آپ کی خدمت میں حا ضر ہوئے ہیں کہ آپ گواہ رہیں جو ہم نے مذکورہ بالا طریق کے ساتھ آپ کے بزرگوں کو مان لیا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے تھے اور آپ کی صلح پسند طبیعت سے ہم اُمیدوار ہیں کہ آپ بھی ایسا ہی مان لیں یعنی صرف یہ اقرار کر لیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول اور صادق ہیں.جس دلیل کو ہم نے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے وہ نہایت روشن اور کھلی کھلی دلیل ہے اور اگر اس طریق سے صلح نہ ہو تو آپ یاد رکھیں کہ کبھی صلح نہ ہو گی بلکہ روز بروز کینے بڑھتے

Page 27

جاویں گے.‘‘۱ بلا تا ریخ۲ بعض فقہی مسائل کی تشریح ایک صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں خط لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ نماز کس طرح پڑھنی چاہیے ؟ اور تراویح کے متعلق کیا حکم ہے اور سفر میں نماز کا کیا حکم ہے ؟ اور کچھ اپنے ذاتی معاملا ت کے متعلق دعا کرائی تھی اس کے جواب میں حضرت نے تحریر فرمایا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ نماز وہی ہے جو پڑھی جاتی ہے.صر ف تضرّع اور انکسار سے نماز ادا کرنی چاہیے اور دین، دنیا کے لئے نماز میں بہت دعا کرنی چاہیے خواہ اپنی زبان میں دعا کر لیں.اور تمہا رے قرضہ کے لئے انشاء اللہ دعا کروں گا.یاد دلاتے رہیں.لڑکے کے لئے بھی دعا کروں گا.سفر میں دوگانہ سنّت ہے.تراویح بھی سنّت ہے پڑھا کریں اور کبھی گھر میں تنہائی میں پڑھ لیں کیونکہ تراویح دراصل تہجد ہے کوئی نئی نماز نہیں.وتر جس طرح پڑھتے ہو.بیشک پڑھو.عالم آخرت کے اجسام کیسے ہوں گے ایک دوست نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ عالَمِ آخرت میں کیا یہی اجسام ومکانا ت وغیرہ جو یہاں ہیں ہوں گے یا اَور ؟ حضرت نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے جو کچھ مجھے قرآن شریف کا علم دیا ہے وہ یہی ہے کہ و ہ عالم اس عالم سے بالکل علیحدہ ہے.مَالَا عَیْنٌ رَاَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ (الحدیث) ہمارا اعتقاد ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۵۲ مورخہ ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴،۵ ۲حضرت اقدسؑ کے یہ ارشادات دسمبر ۱۹۰۷ء کی کسی تاریخ کے معلوم ہوتے ہیں.واللہ اعلم بالصواب (مرتّب)

Page 28

یہی ہے کہ وہ دوسرا عالَم بالکل اس عالَم سے الگ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے.بہشت کی تمام چیزیں ایسی ہوں گی کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھیں اور نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی دل میں گذریں بلکہ حشر اجساد میں بھی ہمارا یہی مذہب ہے کہ وہ عالَم بھی ایک دوسرا عالَم ہے.اجسام ہوں گے مگر وہ نورانی اجسام ہوں گے نہ یہ تاریک اور زوال پذیر اجسام.اس جگہ کی حویلیاں اور مکانات جو اینٹ پتھر کی ہیں بہشت میں نہیں جائیں گی.واللہ اعلم۱ ۲۷؍دسمبر ۱۹۰۷ء (بروز جمعہ) جلسہ سالانہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تقریر بے نظیر ایک عظیم الشان معجزہ دیکھو اوّل اللہ جلّ شانہٗ کا شکر ہے کہ آپ صاحبو ں کے دلوں کو اس نے ہدایت دی اور باوجود اس بات کے کہ ہزاروں مولوی ہندوستان اور پنجاب کے تکذیب میں لگے رہے اور ہمیں دجّال اور کافر کہتے رہے آپ کو ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے کا موقع دیا.یہ بھی اللہ جلّ شانہٗ کا بڑا معجزہ ہے کہ باوجود اس قدر تکذیب اور تکفیر کے اور ہمارے مخالفوں کی دن رات کی سر توڑ کو ششوں کے یہ جماعت بڑھتی جاتی ہے.میرے خیال میں اس وقت ہماری جماعت چا۴ر لاکھ سے بھی زیادہ ہو گی اور یہ بڑا معجزہ ہے کہ ہمارے مخالف دن رات کو شش کر رہے ہیں اور جانکاہی سے طرح طرح کے منصوبے سو چ رہے ہیں اور سلسلہ کو بند کرنے کے لئے پورا زور لگا رہے ہیں مگر خدا ہماری جماعت کو بڑھاتا جاتا ہے.جانتے ہو کہ اس میں کیا حکمت ہے ؟ حکمت اس میں یہ ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ جس کو مبعوث کرتا ہے اور جو واقعی طور پر خدا کی طرف سے ہوتا ہے وہ روز بروز ترقی کر تا اور بڑھتا ہے اور اس کا سلسلہ دن بدن رونق پکڑتا جاتا ہے ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۵۲ مورخہ ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۶

Page 29

اور اس کے روکنے والا دن بدن تباہ اور ذلیل ہوتا جاتا ہے اور اس کے مخالف اور مکذّب آخر کار بڑی حسرت سے مَرتے ہیں جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ہماری مخالفت کرنے والے اور ہمارے سلسلہ کو روکنے والے بیسیوں مَر چکے ہیں.خدا کے ارادہ کو جو در حقیقت اس کی طرف سے ہے کوئی بھی روک نہیں سکتا اور خواہ کوئی کتنی ہی کوششیں کرے اور ہزاروں منصوبے سوچے مگر جس سلسلہ کو خد ا شروع کرتا ہے اور جس کو وہ بڑھانا چاہتا ہے اس کو کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ اگر ان کی کو ششوں سے وہ سلسلہ رک جائے تو ماننا پڑے گا کہ روکنے والا خدا پر غالب آگیا حالانکہ خدا پر کوئی غالب نہیں آسکتا.پچیس بر س پہلے کی ایک پیشگوئی کا ظہور پھر ایک یہ معجزہ ہے کہ ان لوگوں کی بابت جو ہزاروں لاکھوں ہمارے پاس آتے رہتے ہیں اللہ جلّ شانہٗ نے براہین احمدیہ میں پہلے ہی سے خبر دے رکھی تھی اور یہ وہ کتاب ہے جو عرب، فارس، انگلستان اور دیگر ممالک میں پچیس۲۵ برس کا عرصہ گذرا شائع ہو چکی ہے.اس میں بہت سے اسی زمانہ کے الہام بھی درج ہیں.اور یہ ایک ایسی بد یہی بات ہے جس سے کوئی یہودی، عیسائی، مسلمان، برہمو، آریہ انکار نہیں کر سکتا.اور اس کتاب کا ہمارے اشدّ العداوت یعنی مولوی محمد حسین صاحب نے اسی زمانہ میں ریویو بھی لکھا تھا اور اسی کتاب براہین احمدیہ میں آنے والی مخلوق کی صاف طور پر پیشگوئی درج ہے اور یہ کوئی معمولی پیشگوئی نہیں بلکہ عظیم الشان پیشگوئی ہے اور وہ یہ ہے.الہامات الٰہیہ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍِِ.یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ.یَنْصُـرُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ.یَرْفَعُ اللّٰہُ ذِکْرَکَ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ (ص۲۴۱) اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَانْتَـھٰی اَمْرُ الزَّمَانِ اِلَیْنَا اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ(ص ۲۴۰) وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَتْـرُکَکَ حَتّٰی یَمِیْـزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ(ص ۴۹۱) فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ(ص۴۸۹) اِنِّیْ نَاصِرُکَ.اِنِّیْ اُحَافِظُکَ.اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا( ص ۵۰۷ )

Page 30

یہ اس کی عبارت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چہ اس وقت تو اکیلا ہے مگر وہ زمانہ تجھ پر آنے والا ہے کہ تو تن تنہا نہیں رہے گا.فوج در فوج لوگ دور دراز ملکوں سے تیرے پاس آئیں گے اور آپ جانتے ہیں کہ جب اس قدر مخلوق آئے گی تو آخر اُن کے کھانے کے واسطے بھی انتظام چاہیے اس لئے فرمایا یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ یعنی وہ لو گ تحفے تحائف اور ہزاروں روپے تیر ے لئے لے کر آویں گے.پھر خد ا فرماتا ہے.وَلَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ(ص۲۴۲) یعنی کثرت سے مخلوق تیرے پاس آئے گی.اس کثرت کو دیکھ کر گھبرانہ جانا اور ان کے ساتھ کج خلقی سے پیش نہ آنا.پیشگوئی کے وقت قادیان کی حالت اس وقت جب کہ یہ الہام براہین احمدیہ میں شائع کئے گئے تھے قادیان ایک غیر مشہور قصبہ تھا اور ایک جنگل کی طرح پڑا ہوا تھا.کوئی اسے جانتا بھی نہ تھا اور اتنے لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں کون کہہ سکتا ہے کہ اس وقت بھی اس کی یہی شہرت تھی بلکہ تم میں سے تقریباً سب کے سب ہی اس گاؤں سے نا واقف تھے.اب بتلاؤ کہ خدا کے ارادہ کے بغیر آج سے پچیس۲۵ چھبیس۲۶ برس پیشتر اپنی تنہائی اور گمنامی کے زمانے میں کوئی کس طرح دعویٰ کر سکتا ہے کہ مجھ پر ایک زمانہ آنے ولا ہے جب کہ ہزارہا لوگ میرے پاس آئیں گے اور طرح طرح کے تحفے اور تحائف میرے لیے لاویں گے اور میں دنیا بھر میں عزت کے ساتھ مشہور کیا جاؤں گا؟ عظیم الشان معجزہ دیکھو! جتنے انبیاء آج سے پہلے گذر چکے ہیں ان کے بہت سے معجزات تو نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ بعض کے پاس تو صرف ایک ہی معجزہ ہوتا تھا اور جس معجزہ کا میں نے بیان کیا ہے یہ ایک ایسا عظیم الشان معجزہ ہے جو ہر ایک پہلو سے ثابت ہے اوراگر کوئی نرا ہٹ دھرم اور ضدی نہ ہو گیا ہوتو اُسے میر ا دعویٰ بہر صورت ماننا پڑتا ہے.میری اس تنہائی اور گمنامی کے زمانے کے یہاں کے ہندو بھی گواہ ہیں اور وہ بتا سکتے ہیں کہ میں اس وقت اکیلا تھا اور ارد گر د کے لوگ بھی مجھے نہ جانتے تھے.ہاں اگر کوئی ہندو اس سے انکار کرے تو اس کو چاہیے

Page 31

کہ میرے سامنے آکر جھوٹ بولے کہ اس وقت بھی اسی طرح سے لوگ آیا کرتے تھے اور اگر وہ کہیں کہ یہ اتفاقی بات ہے تو پھر کسی اور جگہ سے اس کی نظیر بتاویں اور دنیا بھر میں اس کا پتہ دیں کہ ایک شخص پچیس۲۵ برس پہلے گمنامی کی حالت میں ہو اور اس وقت اس نے پیشگوئی کی ہو کہ میر ے پاس فوج در فوج لوگ آویں گے اور ہزار ہا روپوں کے مال ومتاع اور تحفے تحائف لے کر آویں گے اور میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر طرح سے مدد دیا جاؤں گا اور پھر اسی طرح سے وہ پیشگوئی پوری بھی ہو گئی ہو.اگر یہ دکھا دیویں تو ہم مان لیں گے.یونہی بہانہ جوئیاں تو ہم قبول نہیں کریں گے کیونکہ اس طرح سے تو کسی نبی کا کوئی بھی معجزہ قبول نہیں کیا جا سکتا.ان کو چاہیے کہ کسی کذّاب کی نظیر پیش کریں کہ اس نے پچیس۲۵ برس پہلے اس طرح سے اقتداری پیشگوئی کی ہو اور پھر وہ پوری بھی ہو گئی ہو.اگر یہ ایسا کر دیں تو ہم تیار ہیں کہ انہیں قبول کر لیں.اگر کوئی کہے کہ خیر خوابیں آیا ہی کرتی ہیں اور ان میں سے بعض پوری بھی ہوا ہی کرتی ہیں تو اس کا یہ جواب ہے کہ خوابیں تو اکثر چوہڑوں اور چماروں کو بھی آتی ہیں اور ان سب سے پوری ہو جاتی ہیں بلکہ کنچنیاں بھی عموماً کہا کرتی ہیں کہ ہماری فلاں خواب پوری نکلی اور ہمارے گھر میں ایک چوہڑی تھی جو اکثر اپنی خوابیں سناتی تھی اور وہ سچی بھی ہوتی تھیں لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ان میں یہ قدرت اور نصرت کہاں ہوتی ہے اس طرح کی فتح اور مدد اور دشمنوں کا ادبار اور اپنا اقبال، دشمنوں کی ذلّت اور اپنی عزت یہ تو صرف صرف انبیاء کے ہی سپر د ہے.دوسرے کا تو اس میں کچھ حصہ ہی نہیں.یہ تو خدا تعالیٰ کا فعل ہے یہ خوابیں تو نہیں.براہین احمدیہ وہ کتاب ہے کہ جس کے کل مذہبوں والے گواہ ہیں اور ہر ایک ملک میں جس کی اشاعت ہو چکی ہے اور یہاں کے ہندو بھی جس کے گواہ ہیں.مثلاً لالہ ملاوامل اور شرمپت جو اسی قادیان کے رہنے والے ہیں وہ پہچان سکتے ہیں کہ یہی باتیں تھیں جو اس وقت لکھی گئی تھیں.اب دیکھ لو کہ کیا معجزات اس سے بڑھ کر ہو تے ہیں؟ یہی تو معجزہ ہے کہ پیشگوئی کے بعد ہندو،آریہ،عیسائی،مسلمان، نیچری، وہابی اپنے بیگانے سب کے سب ہمارے دشمن ہو گئے تھے اور ہمارے تباہ کرنے میں

Page 32

پورے زور لگائے گئے اور ایسی ایسی حد بندیاں کی گئی تھیں کہ جو ہمیں السلام علیکم کہے وہ بھی کافر اور جو خوش خلقی سے پیش آوے وہ بھی کافر اور ہمارے ساتھ وہ باتیں کر لینی روا رکھی گئیں جن کو شریف طبع سن بھی نہیں سکتے.راستوں میں بیٹھ بیٹھ کر لوگوں کو یہاں آنے سے روکا گیا اور طرح طرح کی باتیں پیش کر کے لوگوں کو ور غلایا گیا.مگر آخر وہی ہوا جو خدا تعالیٰ نے پہلے ہی سے فرمایا ہوا تھا کہ لاکھوں لوگ تیرے پاس آویں گے اور ہزار ہا روپے اور تحفے تحائف لائیں گے.اور پھر۱ عجیب بات یہ ہے کہ ان کی مخالفت اور دشمنی کی با بت بھی خدا تعالیٰ نے پہلے ہی سے اطلاع دی تھی بلکہ اسی کتاب میں ایک یہ الہام بھی درج ہے.یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ وَاِنْ لَّمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ.(ص ۵۱۰) یعنی اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کر ے گا اور شریروں کی شرارتوں اور دشمنوں کے منصوبوں سے وہ خود تجھے محفوظ رکھے گا اور اگرچہ لو گ تیری حفاظت اور مدد نہ کریں گے مگر خدا ان سب الزاموں اور بہتانوں سے جو شریر لوگ تجھ پر لگائیں گے تیرا معصوم ہونا ثابت کر دے گا.اب دیکھو! یہ کیسی عظیم الشان پیشگوئی ہے جو پوری ہوئی آخر سچائی کی جستجو کرنے والے کو ماننا ہی پڑے گا اور جو بے ایمان ہے اس کا ہم کیا کریں؟ کیونکہ جو سچا ہی نہیں اس کا مذہب بھی کچھ نہیں کتنا بڑا معجزہ ہے کہ یہ سب مخالف پورا زور لگالیں اور جو کچھ کر سکیں کریں مگر ہم اپنے وعدوں کو پورا کریں گے.لیکھرام کی ہلاکت کا نشان ایسا ہی ایک پنڈت لیکھرام تھا وہ قادیان میں آیا اور دو ماہ کے قریب یہا ں رہا.یہاں کے لوگوں نے اُسے بہکایا اور میری مخالفت پر اُسے آمادہ کیا.آخر اُس نے مباہلہ کے طور پر ایک دعا لکھی اور اس میں میرا نام اور اپنا نام لکھ کر اپنے پر میشر سے نہایت تضرّع اور ابتہال کے ساتھ پرارتھنا کی کہ ہم دونوں میں سے جو ۱ بدر سے.’’اب خود سوچ کر دیکھو کیا یہ کسی انسان کے بس میں ہے کہ تن تنہا اپنی مشکلات پر غالب آئے ہم کسی کو بالجبر نہیں منواتے بلکہ ہر ایک اپنے طور سے غور کر کے یہ بات سمجھے کہ آیا ہم سچ کہتے ہیں یا نہیں.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۴)

Page 33

جھوٹا ہے پرمیشر اُسے ہلاک کرے اور اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ وید سچے، ویدوں کی رشی منی بھی سچے اور (نعوذ باللہ ) ہمارے نبی کریم جھوٹے اور ہمارا قرآن شریف جھوٹا ہے.غرض اسی قسم کی با تیں لکھ کر اس نے اپنے پر میشر سے فیصلہ چاہا اور بہت دعائیں کیں.بہتیرا چلّایا اور بہت ناک رگڑی.ادھر سے چھ برس کی پیشگوئی کی گئی مگر وہ اپنی شوخی کے سبب سے پانچ برس میں ہی مَر گیا اور مَرا بھی اسی طرح جس طرح پیشگوئی میں لکھا تھا یعنی عید کے دوسرے دن چُھری سے قتل کیا گیا.اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائیدات غرض میرے پاس اس قدر نشان ہیں کہ ان کے بیان کرنے کے لئے وقت کافی نہیں میرے پاس تو یہی نشان کافی ہے کہ اتنے آدمی جو یہاں آتے ہیں ان میں سے ہر ایک آدمی ایک ایک نشان ہے اور خدا تعالیٰ نے ان سب کی پہلے سے خبر دے رکھی ہے اور یہ سب نصرتیں اور تا ئیدیں جو ہمارے شامل حال ہیں اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے ان کا ہمارے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے.لیکن جو جھوٹا اور مفتری علی اللہ ہوتا ہے اس کو خدا کبھی نصرت نہیں دیتا بلکہ اُلٹا ہلاک کرتا ہے لیکن تم لوگ جانتے ہو کہ ہم پر طرح طرح کے جھوٹے الزام لگائے گئے، مقدمے کئے گئے.کچہریوں میں ہمیں بدنام اور بے عزت کرنے کی کو ششیں کی گئیں.قتل کے مقدمے دائر کئے گئے.قتل کے مقدمہ میں ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے جس کی پیشی میں یہ مقدمہ تھا پوری طرح سے تحقیقات کر کے آخر مجھے کہا کہ میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ بری ہیں.اور اگر آپ چاہیں تو ان پر نالش کر کے سزا دلا سکتے ہیں.اب بتلاؤ! کہ اگر خدا ہمارے ساتھ نہ ہوتا تو اس قسم کی فتح اور نصرت ہمیں حا صل ہو سکتی تھی ؟ اس خو ن کے مقدمہ میں مولوی محمد حسین نے بھی گواہی دی تھی.۱ لیکن میں نے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ میں بری کیا جاؤں گا.اب بتلاؤکہ ان مقدموں سے ان لوگوں کو کیا حاصل ہوا؟ بجز اس کے کہ ایک اور نشان ظاہر ہو گیا.۱ بدر سے.’’ان لوگوں نے جان توڑ کوششیں کیں.اگر خدا ہمارے ساتھ نہ ہوتا تو کچلے جاتے.آجکل تین چار گواہ گذار کر پھانسی دلا سکتے ہیں.ان لوگوں نے آٹھ گواہ گذارے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۵)

Page 34

یا د رکھو کہ ایک مفتری اور کذّاب کا کام کبھی نہیں چلتا اور اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مدد اور نصرت کبھی نصیب نہیں ہوتی کیونکہ اگر مفتری کا کام بھی اسی طرح سے دن بدن ترقی کرتا جاوے تو پھر اس طرح سے تو خدا کے وجود میں بھی شک پڑ جاوے اور خدا کی خدائی میں اندھیر پڑ جاوے.جب سے دنیا پیدا ہوئی عا دت اللہ اسی طرح سے ہے کہ ایک جہان ان کی مخالفت پر کمربستہ ہو جاتا ہے اور جس طرح سے کوئی مسافر چلتا ہے تو کتے اس کے ارد گرد جمع ہو کر بھونکتے اور شور مچاتے ہیں اسی طرح سے جو خدا کی طرف سے مامور ہوکر آتا ہے وہ چونکہ ان لوگوں میں سے نہیں ہوتا اس لئے دوسرے لوگ کتوں کی طرح اس پر پڑتے ہیں اور مخالفت کا شور مچاتے اور دکھ دینے کی کو ششیں کرتے ہیں لیکن آخر خدا تعالیٰ ایک نظر میں ان سب کو ہلاک کر دیتا ہے.زبانی اسلام کافی نہیں اب یہ بھی سن لو! کہ وہ بڑا ہی خوش قسمت انسان ہے جو اسلام جیسے پاک مذہب میں داخل ہے لیکن صرف زبان سے اسلام اسلام کہنے سے کچھ نہیں بنتا جب تک کہ سچے دل سے انسان اس پر کار بند نہ ہو جاوے.اکثر لوگ اس قسم کے بھی ہوتے ہیں جن کی نسبت قرآن شریف میں لکھا ہےوَ اِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ١ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ۠( البقرۃ : ۱۵) یعنی جب وہ مسلمانوں کے پا س جاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور جب وہ دوسروں کے پا س جاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور یہ وہ لوگ ہوتے جن کو قرآن شریف میں منافق کہا گیا ہے.اس لئے جب تک کوئی شخص پورے طور پر قرآن مجید پر عمل نہیں کرتا تب تک وہ پورا پورا اسلام میں بھی داخل نہیں ہوتا.قرآن کریم کے فضا ئل قرآن مجید ایک ایسی پاک کتاب ہے جو اس وقت دنیا میں آئی تھی جب کہ بڑے بڑے فساد پھیلے ہوئے تھے اور بہت سی اعتقادی اور عملی غلطیاں رائج ہو گئی تھیں اور تقریباً سب کے سب لوگ بد اعمالیوں اور بد عقیدگیوں میں گرفتار تھے.

Page 35

اسی کی طرف اللہ جَلّ شَانُہٗ قرآن مجید میں اشارہ فرماتا ہے ظَھَرَالْفَسَادُفِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الرّوم : ۴۲) یعنی تما م لوگ کیا اہل کتاب اور کیا دوسر ے سب کے سب بد عقیدگیوں میں مبتلا تھے اور دنیا میں فسادِ عظیم برپا تھا.غرض ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے تمام عقا ئد باطلہ کی تردید کے لیے قرآن مجید جیسی کامل کتاب ہماری ہدایت کے لئے بھیجی جس میں کُل مذاہب باطلہ کا ردّ موجود ہے.سورۂ فاتحہ کی فضیلت اور خا ص کر سورۂ فاتحہ میں جو پنج وقت ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اشارہ کے طور پر کُل عقائد کا ذکر ہے جیسے فرمایا اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ یعنی ساری خوبیاں اس خدا کے لئے سزا وار ہیں جو سارے جہانوں کو پیدا کرنے والا ہے اَلرَّحْـمٰن وہ بغیر اعمال کے پیدا کرنے والا ہے اور بغیر کسی عمل کے عنایت کرنے والا ہے.اَلرَّحِیْم اعمال کا پھل دینے والا مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ جزا سزا کے دن کا مالک.ان چار صفتوں میں کُل دنیا کے فرقوں کا بیان کیا گیا ہے.آریوں کا ردّ بعض لوگ اس بات سے منکر ہیں کہ خدا ہی تما م جہانوں کا پیدا کرنے والا ہے.وہ کہتے ہیں کہ جیو یعنی ارواح اور پر مانو یعنی ذرّات خو د بخود ہیں اور جیسے پر میشر آپ ہی آپ چلا آتا ہے ویسے ہی وہ بھی آپ ہی آپ چلے آتے ہیں اور ارواح اور اُن کی کُل طا قتیں، گُن اور خواص جن پر دفتروں کے دفتر لکھے گئے خود بخود ہیں اور با وجود اس کے کہ ان میں قوتِ اتّصال اور قوت انفصال خو د بخود پائی جاتی ہے وہ آپس میں میل ملاپ کرنے کے لئے ایک پرمیشر کے محتاج ہیں.غرض یہ وہ فرقہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ کہہ کر اشارہ کیا ہے.سنا تن دھرم کے عقائد کی تردید دوسرا فرقہ وہ ہے جس کی طرف اَلرَّحْـمٰن کے لفظ میں اشارہ ہے اور یہ فرقہ سناتن دھرم والوں کا ہے گو وہ مانتے ہیں کہ پر میشر سے ہی سب کچھ نکلا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ خدا کا فضل کوئی چیز نہیں وہ کرموں کا ہی پھل دیتا ہے.یہاں تک کہ اگر کوئی مر دبنا ہے تو وہ بھی اپنے اعمال سے اور اگر کوئی عورت بنی ہے تو وہ بھی اپنے اعمال سے اور اگر ضروری اشیاء حیوانات نباتات وغیرہ بنے ہیں تو وہ بھی اپنے اپنے

Page 36

کرموں کی وجہ سے.الغرض یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی صفت رَحْـمٰن سے منکر ہیں.وہ خدا جس نے زمین، سورج،چاند، ستارے وغیرہ پیدا کئے اور ہوا پیدا کی تاکہ ہم سانس لے سکیںاور ایک دوسرے کی آواز سن سکیں.اورروشنی کے لیے سورج چاند وغیرہ اشیاءپیدا کیں اور اس وقت پید اکیں جب کہ ابھی سانس لینے والوں کا وجود اور نام ونشان بھی نہ تھا.تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے ہی اعمال کی وجہ سے پیدا کیا گیا ہے.کیا کوئی اپنے اعمال کا دم مار سکتا ہے ؟ کیا کوئی دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ سورج، چاند، ستارے، ہو ا وغیرہ میر ے اپنے عملوں کا پھل ہے۱ غرض خد ا کی صفت رحمانیت اس فرقہ کی تردید کر تی ہے جو خدا کو بلا مبادلہ یعنی بغیر ہماری کسی محنت اور کو شش کے بعض اشیاء کے عنایت کرنے والا نہیں مانتے.اعمال اور مجاہدات کی ضرورت اس کے بعد خدا تعالیٰ کی صفت اَلرَّحِیْـم کا بیان ہے یعنی محنتوں، کو ششوں اور اعمال پر ثمراتِ حسنہ مترتّب کرنے والا.یہ صفت اس فرقہ کو ردّ کرتی ہے جو اعمال کو بالکل لغوخیال کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ میاں نماز کیا، روزے کیا ؟ اگر غفور الرحیم نے اپنا فضل کیا تو بہشت میں جائیں گے نہیں تو جہنم میں اور کبھی کبھی یہ لوگ اس قسم کی باتیں بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ میاں عبادتیں کر کے ولی تو ہم نے تھوڑا ہی بننا.’’کچھ کیتا کیتا نہ کیتا نہ سہی ‘‘غرض اَلرَّحِیْـم کہہ کر خدا ایسے ہی لوگوں کا ردّ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ جو محنت کرتا ہے اور خدا کے عشق اور محبت میں محو ہو جاتا ہے وہ دوسروں سے ممتا ز اور خدا کا منظورِ نظر ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی خود دستگیری کرتا ہے جیسے فرما یاوَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ( العنکبوت : ۷۰ ) یعنی جو لوگ ہماری خا طر مجاہدات کرتے ہیںآخر ہم ان کو اپنا راستہ دکھا دیتے ہیں.جتنے اولیاء، انبیاء اور بزرگ لوگ گذرے ہیں انہوں نے خدا کی راہ میں ۱ بدر سے.’’یہ لوگ بھولے ہوئے اورکفر میں گرفتار ہیں.سچی بات یہی ہے کہ اللہ کا فضل ہے کئی نعمتیں ایسی ہیں جن میں اعمال کا دخل نہیں اور کئی ایسی ہیں جن میں اعمال کا دخل ہے جیسے عابد زاہد بندگی کرتے ہیں اور اس کا اجر ملتا ہے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۵)

Page 37

جب بڑے بڑے مجاہدات کئے تو آخر خدا نے اپنے دروازے ان پر کھول دئیے لیکن وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی اس صفت کو نہیں مانتے عموماً ان کا یہی مقولہ ہوتا ہے کہ میاں ہماری کوششوں میں کیا پڑا ہے جو کچھ تقدیر میں پہلے روز سے لکھا ہے وہ تو ہو کر رہے گا.ہماری محنتوں کی کوئی ضرورت نہیں، جو ہونا ہے وہ آپ ہی ہو جائے گا.اور شاید چوروں اور ڈاکوؤں اور دیگر بد معاشوں کا اندر ہی اندر یہی مذہب ہوتا ہوگا.غرض یہ با ت یاد رکھنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے فعل دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ ہیں جن میں اعمال کا کوئی دخل نہیں جیسے سورج، چاند، ہوا وغیرہ جو خدا تعالیٰ نے بغیر ہمارے کسی عمل کے ہمارے وجود میں آنے سے بھی پیشتر اپنی قدرتِ کا ملہ سے تیار کر رکھے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جن میں اعمال کا دخل ہے اور عابد، زاہد اور پرہیز گار لوگ عبادت کرتے اور پھر اپنا اجر پاتے ہیں.سورۃ فاتحہ میں غلط عقائد کی تردید (۱) اب تین فرقوں کی با بت تو تم سن چکے ہو یعنی ایک فرقہ تو وہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کو رَبّ نہیں سمجھتا اور ذرّہ ذرّہ کو اس کا شریک ٹھہراتا ہے اور یہ مانتا ہے کہ ارواح اور ذرّاتِ عالَم کا پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی طاقت سے باہر ہے اور جیسے خو د بخود خدا ہے ویسے ہی وہ بھی خود بخود ہے اس لئے ربُّ العالمین کہہ کر اس فرقہ کی تردید کی گئی ہے.(۲) دوسرا فرقہ وہ ہے جو سمجھتا ہے کہ خدا اپنے فضل سے کچھ نہیں دے سکتا جو کچھ بھی ہمیں ملا ہے اور ملے گا وہ ہمارے اپنے کرموں کا پھل ہے اور ہوگا.اس لئے لفظ رَحْـمٰن کے ساتھ ا س کا رَدّ کیا گیا ہے.(۳) اور اس کے بعد اَلرَّحِیْم کہہ کر اس فرقہ کی تردید کی گئی ہے جو اعمال کو غیر ضروری خیا ل کرتے ہیں.( ۴) اب ان تینوں فرقوں کا بیا ن کر کے فرمایا مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ یعنی جزا سزا کے دن کا مالک اور اس سے اس گروہ کی تردید مطلوب ہے جو کہ جزا سزا کا قائل نہیں کیونکہ ایسا ایک فرقہ بھی دنیا میں

Page 38

موجود ہے جو جزا سزا کا منکر ہے.جو لوگ خدا کو رحیم نہیں مانتے ان کو تو بے پروا بھی کہہ سکتے ہیں مگر جو مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ والی صفت کو نہیں مانتے وہ تو خدا تعالیٰ کی ہستی سے بھی منکر ہوتے ہیں اور جب خدا کی ہستی ہی نہیں جانتے تو پھر جزا سزا کس طرح مانیں؟ غرض ان چارصفات کو بیان کر کے خدا فرما تا ہے کہ اے مسلمانو! تم کہو اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ یعنی اے چار صفتوں والے خدا! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور اس کام کے لئے مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں اور یہ جو حدیث شریف میں آیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے عرش کو چار فرشتوں نے اُٹھایا ہوا ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس کی ان چاروں صفات کا ظہور موجود ہے اور اگر یہ چار نہ ہوں یا چاروں میں سے ایک نہ ہو تو پھر خدا کی خدائی میں نقص لازم آتا ہے.عرش کی حقیقت اور بعض لو گ نا سمجھی سے عرش کو جو ایک مخلوق چیز مانتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں اُن کو سمجھنا چاہیے کہ عر ش کوئی ایسی چیز نہیں جس کو مخلوق کہہ سکیں.وہ تو تقدّس اور تنـزّہ کا ایک وراء الوراء مقام ہے.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ جیسے ایک بادشاہ تخت پر بیٹھا ہو ا ہوتا ہے ویسے ہی خدا بھی عرش پر جلوہ گر ہے.جس سے لازم آتا ہے کہ محدود ہے.لیکن ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن مجید میں اس با ت کا ذکر تک نہیں کہ عرش ایک تخت کی طرح ہے جس پر خدا بیٹھا ہے کیونکہ نعوذ باللہ اگر عرش سے مراد ایک تخت لیا جاوے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے تو پھر ان آیات کا کیا ترجمہ کیا جاوے گا.جہاں لکھا ہے کہ خدا ہر ایک چیز پر محیط ہے اور جہاں تین ہیں وہاں چوتھا اُن کا خدا.۱ اور جہاں چا ر ہیں وہاں پانچواں ان کا خدا ۲اور پھر لکھا ہے نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ ( قٓ: ۱۷ ) اور وَ هُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ( الـحدید :۵ ) غرض اس بات کو اچھی طرح سے یاد بدر سے.’’جاہل نہیں سمجھتے کہ اگر قرآن میں ایک طرف اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى (طٰہٰ:۶) ہے تو دوسری طرف یہ بھی ہے کہ کوئی تین نہیں جس میں چوتھا وہ نہیں اور کوئی پانچ نہیں جس میں چھٹا وہ نہیں اور فرمایا کہ جہاں کہیں تم ہو میں تمہارے ساتھ ہوں.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۵) ۲اس سے ظاہر ہے کہ بعض وقت ڈائری نویس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصل الفاظ نہیں لکھتے بلکہ مفہوم اور

Page 39

رکھنا چاہیے کہ کلام الٰہی میں استعارات بہت پائے جاتے ہیں.چنانچہ ایک جگہ دل کو بھی عرش کہا گیا ہے کیونکہ خدا کی تجلّی بھی دل پر ہوتی ہے اور ایسا ہی عرش اس وراء الوراء مقام کو کہتے ہیں جہاں مخلوق کا نقطہ ختم ہو جاتا ہے.اہلِ علم ا س بات کو جانتے ہیں کہ ایک تو تشبیہ ہوتی ہے اور ایک تنز یہ ہوتی ہے مثلاً یہ بات کہ جہاں کہیں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور جہاں پانچ ہوں وہاں چھٹا ان کا خدا ہوتا ہے.یہ ایک قسم کی تشبیہ ہے جس سے دھو کا لگتا ہے کہ کیا خدا پھر محدود ہے؟ اس لیے اس دھوکا کے دور کرنے کے لئے بطور جواب کے کہا گیا ہے کہ وہ تو عرش پر ہے جہاں مخلوقات کا دائرہ ختم ہو جاتا ہے اور وہ کوئی اس قسم کا تخت نہیں ہے جو سونے چاندی وغیرہ کا بنا ہوا ہو اور اس پر جواہرات وغیرہ جڑے ہوئے ہوں بلکہ وہ تو ایک اعلیٰ ارفع اور وراء الوراء مقام ہے اور اس قسم کے استعارات قرآن مجید میں بکثر ت پائے جا تے ہیں جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِيْلًا ( بنی اسـرآءیل: ۷۳) ظاہراً تو اس کے معنے یہی ہیں کہ جو اس جگہ اندھے ہیں وہ آخرت کو بھی اندھے ہی رہیں گے.مگر یہ معنے کون قبول کرے گا جب کہ دوسری جگہ صاف طور پر لکھا ہے کہ خواہ کوئی سوجاکھا ہو خواہ اندھا جو ایمان اور اعمال صالحہ کے سا تھ جاوے گا وہ تو بینا ہوگا لیکن جو اس جگہ ایمانی روشنی سے بے نصیب رہے گا اور خدا کی معرفت حا صل نہیں کرے گا وہ آخر کو بھی اندھا ہی رہے گا.کیونکہ یہ دنیا مزرعہ آخرت ہے جو کچھ کوئی یہاں بوئے گا وہی کاٹے گا اور جو اس جگہ سے بینائی لے جائے گا وہی بینا ہوگا.مومن کا فرض پھر اس کے آگے خدا تعالیٰ نے ایک دعا سکھلائی ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ( الفاتـحۃ :۶،۷) یعنی اے خدا کہ تو ربُّ العالمین،رحـمٰن، رحیم اور مالک یوم الدّین ہے ہمیں وہ راہ دکھا جو ان لوگوں کی راہ ہے (بقیہ حاشیہ) اپنی سمجھ کے مطابق لکھتے ہیں.بدر نے جو لکھا ہے وہ قرآن مجید کی آیت کے مطابق ہے.الحکم نے معلوم ہوتا ہے تین کے بعد چار کا ذکر اپنی سمجھ کے مطابق کر دیا ورنہ حضور نے وہی فرمایا ہوگا جو بدر نے ذکر کیا ہے کیونکہ قرآنی آیت کے وہی مطابق ہے.(شمس)

Page 40

جن پر تیرا بے انتہا فضل ہوا اور تیرے بڑے بڑے بڑے انعام اکرام ہوئے.مومن کو چاہیے کہ ان چار صفات والے خدا کا صرف زبانی اقرار ہی نہ کرے بلکہ اپنی ایسی حالت بناوے جس سے معلوم ہو کہ وہ صرف خدا کو ہی اپنا ربّ جانتا ہے.زید عمر کو نہیں جانتا اور اس بات پر یقین رکھے کہ در حقیقت خدا ہی ایسا ہے جوعملوں کی جزا سزا دیتا ہے اور پوشیدہ سے پوشیدہ اور نہاں در نہاں گناہوں کو جانتا ہے.۱ عملی حالت کی اہمیت یا د رکھو کہ صرف زبانی باتوں سے کچھ نہیں ہوتا جب تک عملی حالت درست نہ ہو.جو شخص حقیقی طور پر خدا کو ہی اپنا ربّ اور مالک یوم الدین سمجھتا ہے ممکن ہی نہیں کہ وہ چوری، بدکاری، قمار بازی یا دیگر افعال شنیعہ کا مرتکب ہو سکے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ سب چیزیں ہلاک کر دینے والی ہیں اور ان پر عملدر آمد کرنا خدا تعالیٰ کے حکم کی صریح نافرمانی ہے.غرض انسان جب تک عملی طور پر ثابت نہ کر دیوے کہ وہ حقیقت میں خدا پر سچا اور پکا ایمان رکھتا ہے تب تک وہ فیوض اور برکا ت حاصل نہیں ہو سکتے جو مقربوں کو ملا کرتے ہیں.وہ فیوض جو مقربانِ الٰہی اور اہل اللہ پر ہوتے ہیں وہ صرف اسی واسطے ہوتے ہیں کہ ان کی ایمانی اور عملی حالتیں نہایت اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہیں اور انہوں نے خدا تعالیٰ کو ہر ایک چیز پر مقدم کیا ہوا ہوتا ہے.سمجھنا چاہیے کہ اسلام صرف اتنی بات کا ہی نام نہیں ہے کہ انسان زبانی طور پر ورد و ظائف اور ذکر اذکار کرتا رہے بلکہ عملی طور پر اپنے آپ کو اس حد تک پہنچانا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تائید اور نصرت شامل حال ہونے لگے اور انعام واکرام واردہوں.جس قدر انبیاء اولیاء گذرے ہیں ان کی عملی حالتیں نہایت پاک صاف تھیں اور ان کی راستبازی اور دیا نتداری اعلیٰ پایہ کی تھی اور یہی نہیں کہ جیسے یہ لوگ احکامِ الٰہی بجا لاتے ہیں اور روزے رکھتے اور زکوٰتیں ادا کرتے ہیں.اور نمازوں میں رکوع سجود کرتے اور سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے تھے اور احکامِ الٰہی بجا لاتے تھے بلکہ ان کی نظر میں تو سب کچھ مُردہ معلوم ہوتا تھا اور ان کے وجودوں پر ایک قسم کی موت طاری ہو گئی تھی.ان کی آنکھوں کے سامنے تو ایک خدا کا وجود ہی رہ گیا تھا.اسی کو ہی وہ اپنا کار ساز اور حقیقی ربّ یقین کرتے تھے.۱الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱ مورخہ ۲؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۴تا ۶

Page 41

اسی سے ان کا حقیقی تعلق تھا اور اسی کے عشق میں وہ ہر وقت محو اور گداز رہتے تھے.خدا تعالیٰ سے محبت رکھنے والوں کو اس کی نصرت حا صل ہوتی ہے جب ایسی حالت ہو تو قدیم سے یہ سنّت اللہ ہے کہ ایسے شخص کی خدا تعالیٰ تا ئید اور نصرت کرتا ہے اور غیبی طور پر اسے مد د دیتا ہے اور ہر ایک میدان میں اُسے فتح نصیب کرتا ہے.دیکھو! مذہب اسلام میں ہزاروں اولیاء گذرے ہیں.ہر ایک ملک میں ایسے چار پانچ لوگ تو ضرورہی ہو تے ہیں۱ جن کو اس وقت تک لوگ بڑی عزت سے یاد کرتے ہیں اور ان کے مجاہدات اور کرامات کا عجیب عجیب طرح سے تذکرہ کرتے ہیں اور دہلی کا تو ایک بڑا میدا ن اسی قسم کے بزرگوں سے بھرا پڑا ہے.غرض سوچنا چاہیے کہ اگر ایک انسان ایک ڈاکو اور چور سے دلی محبت رکھے تو اگر وہ چور زیادہ احسان نہ کرے گا تو اتنا ضرور کرے گا کہ اس کی چوری نہ کرے گا.تو اب سمجھنا چاہیے کہ جب محبت کرنے سے چوروں اورڈاکوؤں سے بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے تو کیا خدا سے فا ئدہ نہیں ہوتا ؟ ہوتا ہے اور ضرور ہوتا ہے کیونکہ خدا تو بڑا رحیم کریم اور بڑے فضلوں اور احسانوں والا ہے.جو لوگ کرموں، اواگون اور جو نوں کی راہ لیے بیٹھے ہیں میرا یقین ہے کہ ان کو اس راہ کا خیال تک بھی نہیں.جب محبت کے ثمرات اسی دنیا میں پائے جاتے ہیں اور جب ایک شخص کو دوسرے سے سچی اور خالص محبت ہوتی ہے تو وہ اس سے کوئی فرق نہیں کرتا.تو کیا خدا ہی ایسا ہے کہ جس کی دوستی کسی کام نہیں آتی ؟ ہندوؤں کا نظریۂ نجات وہ لوگ قابلِ الزام ہیں جو خدا کو شرم ناک الزاموں سے یاد کرتے ہیں.مثلاً ہندوؤں اور آریوں میں دائمی مکتی نہیں.وہ کہتے ہیں کہ مکتی خانہ میں داخل کرتے وقت ایک گناہ پرمیشر باقی رکھ لیتا ہے اور پھر ایک وقت کے بعد اس ۱ بدر میں ہے.’’دار الکفر و الشرک میں بھی کم ایسی جگہ ہیں جہاں دو چار قبریں ایسے بزرگوں کی نہ ہوں جو ولی اللہ کہلائے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۶)

Page 42

ایک گناہ کے عوض میں ان رشیوں، منیوں اور مکتی یا فتوں کو گدھوں، بندروں اور سؤروں وغیرہ کی جونوں میں بھیجتا ہے مگر اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ پرمیشر ان مقدسوں پر ناراض تھا اور جان بوجھ کر اُن کو مکتی خانہ سے باہر نکالنا چاہتا تھا تو پھر پہلے ہی ان کو مکتی خانہ میں کیوں داخل کیا ؟ آخر اُن پر راضی ہی ہوا ہو گا تو داخل کیا تھا.یہ تو نہیں کہ اندھا دھند ہی مکتی خانہ میں دھکیل دیا تھا لیکن رضا اور گناہ اکٹھے نہیں رہ سکتے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پر میشر ان پر پہلے ہی راضی نہیں ہوا تھا.۱ اور اگر راضی تھا تو ماننا پڑے گا کہ اس کو ان کے گناہوں کی خبر نہ تھی کیونکہ جب اُسے خبر ہوئی تھی تب تو اس نے اُن کو مکتی خانہ سے باہر نکال دیا تھا لیکن بعض آریہ اس کا یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ ان کو مکتی خانے سے اس واسطے نکالا گیا تھا کہ اُن کے عمل محدود تھے اور چونکہ عمل محدود تھے اس لئے ان کا پھل بھی محدود ہونا چاہیے لیکن ان کو اتنی خبر نہیں کہ ان بیچاروں نے جو پرمیشر کی راہ میں ایسی ایسی سختیاں جھیلی تھیں اور اپنا ہر ایک ذرّہ اس کی راہ میں قربان کر دیا تھا تو وہ اس واسطے نہیں تھا کہ چند دن تک توہمیں مکتی خانہ کی سیر کر الو اور اس کے بعد جس گندی سے گندی جون میں چاہو بھیج دو.ان کی تو نیتوں کو دیکھنا چاہیے اگر ان کی نیتیں صرف اسی قدر تھیں کہ دو چار برس پرمیشر سے محبت کر کے پھر چھوڑ دیں گے تب تو ایک بات ہے ورنہ اِنَّـمَا الْاَعْـمَالُ بِالنِّیَّاتِ ان مکتی یا فتوں کا کیا قصور ؟ یہ تو پر میشر کا قصور ہے کہ ان کو مار دیا کیونکہ اگر وہ زندہ رہتے تو پر میشر کی محبت کو کبھی نہ چھوڑتے.انہوں نے تو صرف اسی واسطے پرمیشر کی راہ میں مصائب شدائد برداشت کئے تھے کہ جب تک ہم رہیں گے پرمیشر کے ہو کر رہیں گے ان کو پرمیشر کی بے وفائی کا تو خیال نہ تھا ایک شخص کسی سے بہت محبت رکھتا ہے اور آگے پیچھے اس کی محبت کے گن گاتا پھرتا ہے اگر وہ مَر جائے تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ دشمنی بھی ساتھ لے گیا ہے؟ اور پھر اس بات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ مکتی خانہ سے باہر نکالنے کے لئے جوگناہ پر میشر نے ان کے بدر سے.’’جب کوئی شخص کسی سے کہتا ہے میں تجھ پر راضی ہوگیا تو یہ معنے ہوتے ہیں کہ گناہ بھی بخش دیا.یہ نہیں کہ راضی ہوگیا مگر گناہ نہیں بخشے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۶)

Page 43

ذمہ رکھے ہوئے ہوں گے وہ بہر صورت ایک ہی قسم کے ہوں گے.یہ تو جائز نہیں کہ کسی کو کسی گناہ سے باہر نکال دیا جاوے اور کسی کو کسی گناہ کے سبب سے، لیکن یہ کیسا انصاف ہے کہ باہر نکالتے وقت باوجود ایک ہی قسم کے گناہ ہونے کے کسی کو مرد اور کسی کو عورت اور کسی کو گدھا اور کسی کو بندر بنا دیا.سورۃ فاتحہ میں مذکور اللہ تعالیٰ کی صفات غرض قصہ کوتاہ اللہ تعالیٰ نے الحمد شریف میں اپنی صفاتِ کاملہ کا بیان کر کے ان تمام مذاہب باطلہ کا ردّ کیا ہے جو عام طور پر دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں.یہ سورہ جو اُمُّ الکتاب کہلاتی ہے اسی واسطے پانچوں وقت ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے کہ اس میں مذہب اسلام کی تعلیم موجو دہے اور قرآن مجید کا ایک قسم کا خلاصہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی چار صفات بیان کر کے ایک نظارہ دکھانا چاہا ہے اور بتایا ہے کہ اسلام نہایت ہی مبارک مذہب ہے.جو اس خدا کی طرف رہبری کرتا ہے جو نہ تو عیسائیوں کے خدا کی طرح کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ ایسا ہے کہ آریوں کے پر میشر کی طرح مکتی دینے پر ہی قادر نہ ہو اور جھوٹے طور پر کہہ دیتا ہے کہ عمل محدود ہیں.حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ اس میں نجات دینے کی طا قت ہی نہیں کیونکہ روحیں تو اس کی بنائی ہوئی نہیں.جیسے وہ آپ خود بخود ہے ویسے ہی ارواح بھی خو د بخود ہیں.یہ تو ہوہی نہیں سکتا کہ وہ اَور روحیں پیدا کر لے اس لئے یہ سوچ کر کہ اگر ہمیشہ کے لئے کسی روح کو مکتی دی جاوے تو آہستہ آ ہستہ وہ وقت آجاوے گا کہ تمام روحیں مکتی یافتہ ہو کر میرے قبضہ سے نکل جائیں گی جس سے میرا تمام بنا بنایا کار خانہ درہم برہم ہو جائے گا.اس لئے وہ بہانہ کے طور پر ایک گناہ ان کے ذمہ رکھ لیتا ہے اور اس دَور کو چلائے جاتا ہے.۱ ۱بدر سے ’’دنیا میں کوئی خالقیت سے منکر ہے کوئی رحمانیت سے، کوئی رحیمیت سے اور کوئی اس کے مالک یوم الدین ہونے سے.اس قسم کا تفرقہ تمام مذاہب میں ہے مگر اسلام ہی ایسا پاک مذہب ہے جس نے سب صفاتِ کاملہ کو جمع کر دیا.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۶)

Page 44

اسلام کا قدوس اور قادر خدا لیکن اسلام کا خدا ایسا قدوس اور قادر خدا ہے کہ اگر تمام دنیا مل کر اس میںکوئی نقص نکالنا چاہے تو نہیں نکال سکتی.ہمارا خدا تمام جہانوں کا پیدا کرنے والا خدا ہے.وہ ہر ایک نقص اورعیب سے مبّرا ہے کیونکہ جس میں کوئی نقص ہو وہ خدا کیوں کر ہو سکتا ہے اور اس سے ہم دعائیں کس طرح مانگ سکتے ہیں اور اس پر اُمیدیں کیا رکھ سکتے ہیں؟ وہ تو خود نا قص ہے نہ کہ کامل.لیکن اسلام نے وہ قادر اور ہر ایک عیب سے پاک خدا پیش کیا ہے جس سے ہم دعائیں مانگ سکتے ہیں اور بڑی بڑی اُمیدیں پوری کر سکتے ہیں اسی واسطے اس نے اسی سورہ فاتحہ میں دعا سکھائی ہے کہ تم لوگ مجھ سے دعا مانگا کرو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی یا الٰہی! ہمیں وہ سیدھی راہ دکھا جو اُن لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرے بڑے بڑے فضل اور انعام ہوئے اور یہ دعا اس واسطے سکھائی کہ تا تم لوگ صرف اس بات پر ہی نہ بیٹھ رہو کہ ہم ایمان لے آئے ہیں بلکہ اس طرح سے اعمال بجا لاؤ کہ ان انعاموں کو حاصل کر سکو جو خدا کے مقرب بندوں پر ہوا کرتے ہیں.رسمی عبادات بعض لوگ مسجدوں میں بھی جاتے ہیں.نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور دوسرے ارکانِ اسلام بھی بجا لاتے ہیں مگر خدا کی نصرت اور مدد ان کے شامل حال نہیں ہوتی اور اُن کے اخلاق اور عادات میں کوئی نمایاں تبدیلی دکھائی نہیں دیتی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی عبادتیں بھی رسمی عبادتیں ہیں.حقیقت کچھ بھی نہیں.کیونکہ احکام الٰہی کا بجا لانا تو ایک بیج کی طرح ہوتا ہے جس کا اثر روح اور وجود دونوں پر پڑتا ہے.ایک شخص جو کھیت کی آب پاشی کرتا اور بڑی محنت سے اس میں بیج بوتا ہے اگر ایک دو ماہ تک اس میں انگوری نہ نکلے تو ماننا پڑتا ہے کہ بیج خراب ہے.یہی حال عبادات کا ہے اگر ایک شخص خدا کو وحدہٗ لا شریک سمجھتا ہے نما زیں پڑھتا ہے روزے رکھتا ہے اور بظاہر نظر احکام الٰہی کو حتی الوسع بجا لاتا ہے لیکن خدا کی طرف سے کوئی خا ص مدد اس کے شاملِ حال نہیں ہوتی تو ماننا پڑتا ہے کہ جو بیج وہ بو رہا ہے وہی خراب ہے.یہی نمازیں تھیں جن کو پڑھنے سے بہت سے لوگ قطب اور ابدال بن گئے مگر تم کو کیا ہوگیا جو

Page 45

یہی نمازیں تھیں جن کو پڑھنے سے بہت سے لوگ قطب اور ابدال بن گئے مگر تم کو کیا ہوگیا جو باوجود اُن کے پڑھنے کے کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا.۱ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب تم کوئی دوا استعمال کرو گے اور اس سے اگر کوئی فائدہ محسوس نہ کرو گے تو آخر ماننا پڑے گا کہ یہ دوا موافق نہیں.یہی حال ان نمازوں کا سمجھنا چاہیے.ع برکریماں کار ہا دشوار نیست حقیقی مومن کبھی ضائع نہیں ہوتا جو شخص سچے جوش اور پورے صدق اور اخلاص سے اللہ تعالیٰ کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضا ئع نہیں ہوتا.یہ یقینی اور سچی بات ہے کہ جو خدا کے ہوتے ہیں خدا ان کا ہوتا ہے اور ہر ایک میدان میں ان کی نصرت اور مد د کرتا ہے بلکہ ان پر اپنے اس قدر انعام و اکرام نازل کرتا ہے کہ لوگ ان کے کپڑوں سے بھی برکتیں حاصل کرتے ہیں۲ اللہ تعالیٰ نے یہ جو دعا سکھائی ہے تو یہ اس واسطے ہے کہ تا تم لوگوں کی آنکھ کھلے کہ جو کام تم کرتے ہو دیکھ لو کہ اس کا نتیجہ کیا ہوا ہے؟ اگر انسان ایک عمل کرتا ہے اور اس کا نتیجہ کچھ نہیں تو اس کو اپنے اعمال کی پڑتال کرنی چاہیے کہ وہ کیسا عمل ہے جس کا نتیجہ کچھ نہیں! سورۃ فاتحہ میں ایک پیشگوئی پھر اس کے آگے خدا فرماتا ہےغَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ( الفاتـحۃ : ۷) یعنی اے مسلمانو! تم خدا سے دعا مانگتے رہو کہ یا الٰہی! ہمیں ان لوگوں میں سے نہ بنانا جن پر اس دنیا میں ہی تیرا غضب نازل ہوا ہے اور نہ ہی ان لوگوں کا راستہ دکھانا جو کہ راہِ راست سے گمراہ ہوگئے ہیں اور یہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یہ بطور قصہ یا کتھا کے بیان نہیں کیا بلکہ وہ جانتا تھا کہ جس طرح پہلی قوموں نے بدکاریاں ۱ بدر سے.’’ آخر سوچنا چاہیے کہ یہی نماز تھی جس سے لوگ قطب ہوگئے غوث ہوگئے اور تم اسی طرح تحت الثریٰ میں پڑے رہو.یہ بات کیا ہے؟‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۷) ۲بدر سے.’’وہ اپنے خاص بندوں پر ایسے ایسے فضل کرتا ہے کہ زمین و آسمان اس کے تابع کر دیتا ہے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۷)

Page 46

آئے گا جب کہ وہ فسق وفجور میں حد سے بڑھ جاویں گے اور جن کاموں سے ان قوموں پر خدا کا غضب بھڑکا تھا ویسے ہی کام مسلمان بھی کریں گے اور خدا کا غضب اُن پر نازل ہو گا.تفسیروں اور احادیث والوں نے مغضوب سے یہود مراد لیے ہیں کیونکہ یہود نے خدا تعالیٰ کے انبیاء کے سا تھ بہت ہنسی ٹھٹھا کیا تھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خا ص طور پر دُکھ دیا تھا اور نہایت درجہ کی شوخیاں اور بے باکیاں انہوں نے دکھائی تھیں جن کا آخری نتیجہ یہ ہوا تھا کہ اسی دنیا میں ہی خدا کا غضب ان پر نازل ہوا تھا.خدا تعالیٰ کے غضب کی حقیقت مگر اس جگہ خدا کے غضب سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ (معاذ اللہ ) خدا چڑ جاتا ہے بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان بسبب اپنے گناہوں کے نہایت درجہ کے پاک اور قدوس خدا سے دُور ہو جاتا ہے یا مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ ایک شخص کسی ایسے حجرہ میں بیٹھا ہوا ہو جس کے چار دروازے ہوں اگر وہ ان دروازوں کو کھولے گا تو دھوپ اور آفتاب کی روشنی اندر آتی رہے گی اور اگر وہ سب دروازے بند کر دے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ روشنی کا آنا بند ہو جائے گا.غرض یہ بات سچی ہے کہ جب انسان کوئی فعل کرتا ہے تو سنّت اللہ اسی طرح سے ہے کہ اس فعل پر ایک فعل خدا کی طرف سے سر زد ہوتا ہے.جیسے اس شخص نے اپنی بدقسمتی سے جب چاروں دروازے بند کر دیئے تھے تو اس پر خدا کا فعل یہ تھا کہ اس مکان میں اندھیرا ہی اندھیرا ہو گیا.غرض اس اندھیرا کرنے کا نام خدا کا غضب ہے.یہ مت سمجھو کہ خدا کا غضب بھی اسی طرح کا ہوتا ہے کہ جس طرح سے کہ انسان کا غضب ہوتا ہے کیونکہ خدا خدا ہے اور انسان انسان ہے.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ جس طرح سے ایک انسان کام کرتا ہے خدا بھی اسی طرح سے ہی کرتا ہے مثلاً خدا سنتا ہے تو کیا اس کو سننے کے لئے انسان کی طرح ہوا کی ضرورت ہے اور کیا اس کا سننا بھی انسان کی طرح سے ہے کہ جس طرف ہوا کا رخ زیا دہ ہوا اُس طرف کی آواز کو زیادہ سن لیا.یا مثلاً دیکھنا ہے کہ جب تک سورج چاند چراغ وغیرہ کی روشنی نہ ہو انسان دیکھ نہیں سکتا تو کیا خد ا بھی روشنیوں کا محتاج ہے ؟ غرض انسان کا دیکھنا اَور رنگ کا ہے اور خدا کا

Page 47

انسان دیکھ نہیں سکتا تو کیا خد ا بھی روشنیوں کا محتاج ہے ؟ غرض انسان کا دیکھنا اَور رنگ کا ہے اور خدا کا اَور رنگ کا ہے.اس کی حقیقت خدا کے سپر د کرنی چاہیے.۱ آریہ وغیرہ جو اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں خدا تعالیٰ کو غضب ناک کہا گیا ہے یہ ان کی صریح غلطی ہے اُن کو چاہیے تھا کہ قرآن مجید کی دوسری جگہوں پر بھی نظر کرتے وہاں تو صاف طور پر لکھا ہے.عَذَابِيْۤ اُصِيْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُ١ۚ وَ رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ( الاعراف : ۱۵۷) خدا کی رحمت تو کل چیزوں کے شاملِ حال ہے.مگر ان کو دقّت ہے تو یہ ہے کہ خدا کی رحمت کے تو وہ قائل ہی نہیں.اُن کے مذہبی اصول کے بموجب اگر کوئی شخص بصد مشکل مکتی حا صل کر بھی لے تو آخر پھر وہاں سے بھی نکلنا ہی پڑے گا.غرض خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے کلام پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.جیسے خد اہر ایک عیب سے پاک ہے ویسے ہی ا س کا کلام بھی ہر ایک قسم کی غلطی سے پاک ہوتا ہے.یہود کی شوخیاں اور یہ جو فرمایا ہے غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ توا س سے یہ مراد ہے کہ یہود ایک قوم تھی جو توریت کو مانتی تھی.انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بہت تکذیب کی تھی اور بڑی شوخی کے ساتھ اُن سے پیش آئے تھے.یہاں تک کہ کئی بار ان کے قتل کا ارادہ بھی انہوں نے کیا تھا اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی فن کو کمال تک پہنچادیتا ہے تو پھر وہ بڑا نامی گرامی اور مشہور ہو جاتا ہے اور جب کبھی اس فن کا ذکر شروع ہوتا ہے تو پھر اسی کا نام ہی لیا جا تا ہے.مثلاً دنیا میں ہزاروں پہلوان ہوئے ہیں اور اس وقت بھی موجو د ہیں.مگر رستم کا ذکر خاص طور پر کیا جاتا ہے بلکہ اگر کسی کو پہلوانی کا خطاب بھی دیا جاتا ہے تو اُسے بھی رستم ہند وغیرہ کر کے پکارا جاتا ہے.یہی حال یہود کا ہے.کوئی نبی نہیں گذرا جس سے انہوں نے شوخی نہیں کی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تو انہوں نے یہاں تک مخالفت کی کہ صلیب پر چڑھانے سے بھی دریغ ۱ بدر سے.’’ خدا کا غضب خدا کی رحمت اس کے سمع بصر کی طرح الگ ہے.ایمان لانا چاہیے اور حقیقت کو خدا کے سپرد کرنا مومن کی شان ہے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۷)

Page 48

غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ والی دعا کی ضرورت ہاں اگر یہ سوال پیدا ہو کہ یہود نے تو انبیاء کے مقابل پر شوخیاں اور شرارتیں کی تھیں مگر اب تو سلسلہ نبوت ختم ہو چکا ہے اس لئے غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ والی دعا کی کوئی ضرورت نہ تھی.اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ آخری زمانہ میں مسیح نا زل ہو گا اور مسلمان لوگ اس کی تکذیب کرکے یہود خصلت ہو جائیں گے اور طرح طرح کی بدکاریوں اور قسم قسم کی شوخیوں اور شرارتوں میں ترقی کر جاویں گے اس لئے غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ والی دعا سکھائی ہے کہ اے مسلمانو! پنجگانہ نمازوں کی ہر ایک رکعت میں دعا مانگتے رہو کہ یا الٰہی! ہمیں ان کی راہ سے بچائے رکھیو جن پر تیرا غضب اسی دنیا میں نازل ہوا تھا اور جن کو تیرے مسیحؑ کی مخالفت کرنے کے سبب سے طرح طرح کی آفات ارضی وسماوی کا ذائقہ چکھنا پڑا تھا.سو جاننا چاہیے کہ یہی وہ زمانہ ہے جس کی طرف آیت غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ اشارہ کرتی ہے.اور وہی خدا کا سچا مسیح ہے جو اس وقت تمہارے درمیان بول رہا ہے.مسیح موعود ؑ کی مخالفت اور تکفیر یا د رکھو کہ اللہ تعالیٰ پچیس۲۵ برس سے صبر کرتا رہا ہے ان لوگوں نے کوئی دقیقہ میری مخالفت کا اُٹھا نہیں رکھا.ہر طرح سے شوخیاں کی گئیں.طرح طرح کے الزام ہم پر لگائے گئے اور ان شوخیوں اور شرارتوں میں پوری سر گرمی سے کام لیا گیا.ہر پہلو سے میرے فنا اور معدوم کرنے کے لئے زور لگائے گئے اور ہمارے لئے طرح طرح کے کفرنامے تیار کئے گئے اور نصاریٰ اور یہود سے بھی بدتر ہمیں سمجھا گیا.حالانکہ ہم کلمہ طیبہ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ پر دل وجان سے یقین رکھتے تھے قرآن شریف کو خدا تعالیٰ کی سچی اور کامل کتاب سمجھتے تھے اور سچے دل سے اُسے خاتم الکتب جانتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے دل سے خا تم النّبیّین سمجھتے تھے.وہی نمازیں تھیں وہی قبلہ تھا.اسی طرح سے ماہِ رمضان کے روزے رکھتے تھے.حج اور زکوٰۃ میں بھی کوئی فرق نہ تھا پھر معلوم نہیں کہ وہ کون سے وجوہات تھے جن کے سبب سے ہمیں یہود اور نصاریٰ سے بھی بدتر ٹھہرایا گیا اور

Page 49

کہ وہ کون سے وجوہات تھے جن کے سبب سے ہمیں یہود اور نصاریٰ سے بھی بدتر ٹھہرایا گیا اور دن رات ہمیں گالیاں دینا موجب ثواب سمجھا گیا.۱ آخر شرافت بھی تو کوئی چیز ہے.اس طرح کا طریق تو وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جن کے ایمان مسلوب اور دل سیاہ ہو جاتے ہیں.غرض چونکہ خدا جانتا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب کہ مسلمان یہود سیرت ہو جائیں گے اس لئے غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ والی دعا سکھا دی اور پھر فرمایا وَ لَا الضَّآلِّيْنَ یعنی نہ ہی ان لوگوں کی راہ پر چلانا جنہوں نے تیری سچی اور سیدھی راہ سے منہ موڑ لیا اور یہ عیسائیوں کی طرف اشارہ ہے.جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انجیل کے ذریعہ سے یہ تعلیم ملی تھی کہ خدا کو ایک اور واحد لاشریک مانو مگر انہوں نے اس تعلیم کو چھوڑ دیا اور ایک عورت کے بیٹے کو خدا بنا لیا.یہود اور نصاریٰ کا موازنہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ مَغْضُوْبِ عَلَیْـھِمْ تو بڑا سخت لفظ ہے اور ضَآلِّیْن نرم لفظ ہے.یہ نرم لفظ نہیں بات یہ ہے کہ یہودیوں کا تھوڑا گناہ تھا وہ توریت کے پابند تھے اور اس کے حکموں پر چلتے تھے گو وہ شوخیوں اور شرارتوں میں بہت بڑھ گئے تھےمگر وہ کسی کو خدا یا خدا کا بیٹا بنانے کے سخت دشمن تھے.۲ اور سورہ فاتحہ میں ان کا نام جو پہلے آیا ہے تو وہ اس واسطے نہیں کہ ان کے گناہ زیا دہ تھے بلکہ اس واسطے کہ اسی دنیا میں ۱بدر سے.’’ میں نے ان کے کفر ناموں میں دیکھا کہ لکھتے ہیں اس کا کفر یہود و نصاریٰ کے کفر سے بڑھ کر ہے.تعجب کی بات ہے کہ جو لوگ کلمہ پڑھتے ہیں قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تعظیم سے لیتے ہیں.جان تک فدا کرنے کو حاضر ہیں.کیا وہ ان سے بدتر ہیں جو ہر وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے رہتے ہیں؟‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۷) ۲ بدر سے.’’ہم نے ایک یہودی سے اس کے مذہب کی نسبت پوچھا تو اس نے کہا ہمارا خدا کی نسبت وہی عقیدہ ہے جو قرآن میں ہے.ہم نے اب تک کسی انسان کو خدا نہیں بنایا.اس اعتبار سے تو یہ ضالّین سے اچھے ہیں مگر شوخی شرارت میں ضالّین سے بڑھ کر ہیں.پس اس لیے کہ انہیں دنیا میں سزا ملی ان کا ذکر پہلے آیا.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۷)

Page 50

قصور اس کے اختیار سے باہر نہیں ہوتا.مثلاً فرض کرو کہ کسی بھاری سے بھاری گناہ پر وہ اپنی طرف سے ۵۰،۶۰ روپیہ جرمانہ کر سکتا ہے لیکن اگر قصور وار زیا دہ کا حقد ار ہو تو پھر تحصیلدار یہ کہہ کر کہ یہ میرے اختیار سے باہر ہے اور کہ تمہاری سزا کا یہاں موقع نہیں کسی اعلیٰ افسر کے سپرد کرتا ہے.اسی طرح یہودیوں کی شرارتیں اور شوخیاں اسی حد تک ہیں کہ ان کی سزا اسی دنیا میں دی جا سکتی تھی لیکن ضالّین کی سزا یہ دنیا برداشت نہیں کرسکتی کیونکہ ان کا عقیدہ ایسا نفرتی عقیدہ ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا( مریم : ۹۱، ۹۲ ) یعنی یہ ایک ایسا بُرا کام ہے جس سے قریب ہے کہ زمین آسمان پھٹ جائیں اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں.غرض یہودیوں کی چونکہ سزا تھوڑی تھی اس لئے ان کو اسی جہان میں دی گئی اور عیسائیوں کی سزا اس قدر سخت ہے کہ یہ جہان اس کی برداشت نہیں کرسکتا اس لئے ان کی سزا کے واسطے دوسرا جہان مقرر ہے اور پھر یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ یہ عیسائی صرف ضالّ ہی نہیں ہیں بلکہ مُضِلّ بھی ہیں.ان کا دن رات یہی پیشہ ہے کہ اَوروں کو گمراہ کرتے پھریں.پچاس پچاس ہزار، ساٹھ ساٹھ ہزار بلکہ لاکھوں پرچے ہر روز شائع کرتے ہیں اور اس باطل عقیدہ کی اشاعت کے لئے ہر طرح کے بہانے عمل میں لاتے ہیں.انگریز قوم کی انصاف پسندی یا د رکھو! گورنمنٹ کو ان پادریوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ایک انگریز یہا ں آیا تھا.جاتی دفعہ پوچھنے لگا کہ میرے راستہ میں کسی پا دری کی کوٹھی تو نہیں ؟ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ پا دریوں سے سخت نفرت کرتا تھا.۱ یہ لوگ بڑ ے منصف مزاج ہوتے ہیں.اگر یہ منصف نہ ہوتے تو حکومت نہ رہتی.یاد رکھنا ۱ بدر میں مزید لکھا ہے.’’ایک اَور انگریز تھا جس کی عدالت میں ہمارا مقدمہ ہوا.فریق مخالف ایک جنٹلمین پادری تھا.آٹھ دس گواہ بھی گذارے اور یوں بھی تم جانتے ہو کہ حکام کے اختیار میں سب کچھ ہوتا ہے قومیت کا سوال بھی تھا مگر میں نے سنا کہ اس نے صاف کہہ دیا کہ مجھ سے یہ بد ذاتی نہیں ہو سکتی کہ کسی بے گناہ کو سزا دوں.مجھے بلا کر کہا آپ کو مبارک ہو.اگر یہ لوگ ان اوصاف والے نہ ہوتے تو ہمارے حاکم بھی نہ ہوتے.مسلمانوں میں جب یہ حالت

Page 51

یہ لوگ بڑ ے منصف مزاج ہوتے ہیں.اگر یہ منصف نہ ہوتے تو حکومت نہ رہتی.یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی حکومت کا ہونا بھی خدا تعالیٰ کا ایک خا ص فضل ہے.سکھوں کے زمانے کو دیکھو کہ اگر کوئی اذان بھی دیتا تھا تو قتل کر دیتے تھے.مگر اس سلطنت میں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر طرح سے آزادی ہے اس کا ہونا ہمارے لئے بڑی بڑی برکتوں کا موجب ہے.خود ہمارے اس گاؤں قادیان میں جہاں ہماری مسجد ہے کارداروں کی جگہ تھی.اس وقت ہمارے پچپن کا زمانہ تھا.لیکن میں نے معتبر آدمیوں سے سنا ہے کہ جب انگریزوں کا دخل ہو گیا تو چند روز تک وہی سابقہ قانون رہا.انہی ایام میں ایک کاردار یہا ں آیا ہوا تھا اس کے پاس ایک مسلمان سپاہی تھا وہ مسجد میں آیا اور مؤذن کو کہا کہ اذان دو.اس نے وہی ڈرتے ڈرتے گنگنا کر اذان دی سپاہی نے کہا کیا تم اسی طرح سے بانگ دیا کرتے ہو ؟ مؤذن نے کہا ہاں اسی طرح دیتے ہیں.سپاہی نے کہا کہ نہیں.کوٹھے پر چڑھ کر اونچی آواز سے اذان دو اور جس قدر زور سے ممکن ہو سکتا ہے بانگ دو.وہ ڈرا.آخر اس نے سپاہی کے کہنے پر زور سے بانگ دی۱ اس پر ہندو اکھٹے ہو گئے اور مُلّا کو پکڑ لیا.وہ بیچارہ بہت ڈرا اور گھبرایا کہ کاردار مجھے پھانسی دے دے گا.سپاہی نے کہا کہ میں تیرے ساتھ ہوں.آخر وہ اس کو پکڑ کر کاردار کے پاس لے گئے اور کہا کہ مہاراج اس نے ہم کو بھرشٹ کر دیا ہے.کاردار تو جانتا تھا کہ اب سلطنت تبدیل ہو گئی ہے اور اب وہ سکھا شاہی نہیں رہی.اس لئے ذرا دبی زبان سے پوچھا کہ تو نے اونچی آواز سے کیوں بانگ دی؟ سپاہی نے آگے بڑھ کر کہا کہ اس نے نہیں دی میں نے (بقیہ حاشیہ) ہوگئی کہ ایک دوسرے کوکاٹنے دوڑتے جیسے کتوں کے آگے ہڈی ڈال دیں تو وہ ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں اور اخوت ہمدردی کا نام و نشان نہ رہا تو خد اکی حکمتِ بالغہ نے ان سے سلطنت لے لی.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۸) ۱ بدر سے.’’اور اس نے زور سے اذان دی کہ چالیس برس پہلے تک اس علاقہ میں کوئی اذان نہ دی گئی تھی.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۸)

Page 52

گائیاں ذبح ہوتی ہیں اور تم اذان کو روتے ہو.جاؤ چپکے ہو کر بیٹھ رہو.ایسے ہی بٹالہ کا واقعہ ہے ایک سیّد وہیں کا رہنے والا باہر سے دروازے پر آیا وہاں گائیوں کا ہجوم تھا.اس نے تلوار کی نوک سے مویشوں کو ذرا ہٹایا.ایک گائے کے چمڑے کو خفیف سی خراش پہنچ گئی تھی اس پر اس بیچارہ کو پکڑ لیا گیا اور اس اَمر پر زور دیا گیا کہ اس کو قتل کر دیا جاوے.آخر بڑی سفارش کے بعد جان سے تو بچ گیا لیکن اس کا ہاتھ ضرور کا ٹا گیا.ایسے ہی ایک گائے کے مقدمہ میں ایک دفعہ پانچ ہزار غریب مسلمان قتل کئے گئے.اب دیکھو کہ اس حکومت کا وجود ایک مبارک وجود ہے یا نہیں؟ ایک حدیث میں آیا کہ تمہارا حاکم بد ہو تو وہ بد نہیں.اصل میں تم ہی بد ہو.سو یاد رکھو کہ یہ لوگ بڑے انصاف پسند ہوتے ہیں.ہمارے مقدمہ میں ہی دیکھ لو۱ کہ آتمارام نے تو سا ت سو روپیہ جرمانہ کر ہی دیا تھا مگر سیشن جج کے سامنے جب وہ کاغذات پیش ہوئے تو باوجودیکہ وہ عیسائی تھا مگر انصاف کی خاطر اُس نے تمام دن محنت کی اور پورے غور اور فکر کے بعد کرم الدین کو بُلا کر کہا کہ تم لئیم کے معنے ولد الزنا اور کذّاب کے معنے بڑا جھوٹا کرتے ہو.اگر کسی کو اُلّو کہا جاوے تو اُلّو چھوٹا کیا اور بڑا کیا؟ جو کچھ فیصلہ آتمارام نے کیا ہے وہ غلط ہے.ہم جرمانہ واپس کر تے ہیں.اگر لئیم کذّاب سے بڑھ کر بھی تم کو کہا جاتا تو یہ شخص حق رکھتا تھا.اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ ہندوؤں سے بالکل جوڑ نہ رکھیں.اگر انگریز آج یہاں سے نکل جاویں تو یہ ہندو مسلمانوں کی بوٹی بوٹی کر دیں.ضالّین سے مراد انگریز نہیں بلکہ عیسائی پا دری ہیں اب نتیجہ یہ ہے کہ یہ جو میں نے ضالّین کہا ہے تو اس سے مراد عیسائی اور پادری ہیں انگریز اس سے مراد نہیں.کیونکہ انگریز تو اکثر ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں ایک دفعہ بھی انجیل پڑھی ہوئی نہیں ہوتی.ان پادریوں پر اسلام ایک بڑا بھاری صدمہ ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲ مورخہ ۶؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۲تا ۴

Page 53

ساری عمر میں ایک دفعہ بھی انجیل پڑھی ہوئی نہیں ہوتی.ان پادریوں پر اسلام ایک بڑا بھاری صدمہ ہے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب جس کو وہ مغلوب نہیں کر سکتے.آریہ مذہب آریوں کا کیا ہے جن کے مذہب میں نیوگ جیسی گندی رسم موجود ہو اور جن کو حکم ہو کہ اولاد کی خاطر اپنی جوان اور پیاری بیوی کو غیر آدمی سے ہمبستر کرا لیا کرو اور جو باوجود اس کے کہ خود جوان اور تندرست ہوتے ہیں اپنی پاک دامن عورت کو دوسرے نوجوانوں سے ہمبستر کراکے دس پتروں تک اولاد حا صل کر سکتے ہیں اور جن کا پرمیشر ایک مکھی تو درکنار ایک ذرّہ بھی پیدا نہ کر سکتا ہو وہ کب کسی مذہب پر غلبہ پا سکتے ہیں.عیسائیت کا عظیم فتنہ عیسائی تو اسلام کے مقابلہ پر کسی صورت میں نہیں ٹھہر سکتے کیوں کہ انہوں نے ایک انسان کو جس کا باپ بھی موجود تھا.چار بھائی اور دو بہنیں بھی تھیں اور پھر یہودیوں کے ہاتھ سے ماریں بھی کھاتا پھرتا تھا خدا تجویز کر لیا ہے اور اپنی نجات کے لئے اس کو لعنتی موت سے مَرا ہوا سمجھ لیا ہے حالانکہ دنیا بھر میں یہ کوئی قاعدہ نہیں کہ سر درد تو ہو زید کو اور بکر اپنے سر کو پتھر مار کر پھوڑ لے اور پھر اس سے زید کی سر درد جاتی رہے.۱ سوچنا چاہیے کہ گناہ تو کیا زید نے مگر بکر اُس کی جگہ سولی چڑھے یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ گلے پڑا ڈھول بجا رہے ہیں ورنہ ان کے دل تو اس عقیدہ سے متنفر ہیں اور اب تو خدا کی طرف سے توحید کی ہوا چل رہی ہے اور بہت سے لوگ اس انسان پر ستی کو چھوڑ کر خدا پر ستی اختیار کر تے جاتے ہیں.۲ ۱ بدر سے.’’میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ ایک مسلمان کا بچہ ان لغویات کو قبول نہیں کر سکتا.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۸) ۲بدرسے.’’ولایت کے جو سمجھدار لوگ ہیں وہ خود اس بات کو چھوڑتے جاتے ہیں.مبارک زمانہ آگیا.توحید کی ہوا چل رہی ہے.عنقریب تمام دنیا جان لے گی کہ ہر جگہ پر اسلام کے سوا ضلالت ہے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۸)

Page 54

کرنے میں بھی پوری ہمت اور کو شش سے کام لیتے ہیں.اور یہ جو حدیثوں میں دجّال کا ذکر آیا ہے تو اس سے مراد ضالّین ہی ہیں اور اگر دجّال کے معنے ضالّین کے نہ لیے جاویں تو ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ نے ضالّین کا ذکر تو قرآن شریف میں کر دیا بلکہ ان کے فتنہ عظیم سے بچنے کے لئے دعا بھی سکھا دی مگر دجّال کا ذکر تک بھی نہ کیا حالانکہ وہ ایک ایسا عظیم فتنہ تھا جس سے لکھو کھہا لوگ گمراہ ہوجانے تھے.غرض سچی بات یہی ہے کہ دجّال او رضالّین ایک ہی گروہ کا نام ہے جو لوگوں کو گمراہ کرتے پھرتے ہیں اور اس آخری زمانہ میں اپنے پورے زور پر ہیں اور ہر ایک طرح کے مکر اور فریب سے خلقت کو گمراہ کرنے کی کو شش کرتے پھرتے ہیں اور چونکہ دجّال کے معنے بھی گمراہ کرنے والے کے ہیں.اسی واسطے احادیث میں یہ لفظ ضا لّین کی بجائے بولا گیا ہے اور احادیث میں ضالّین کی بجائے دجّال کا لفظ آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ لوگ اپنی طرف سے ایک دجّال بنا لیں گے اور عجیب عجیب قسم کے خیالا ت اس کی طرف منسوب کریں گے کہ اس کے ایک ہاتھ میں بہشت ہو گا اور ایک ہاتھ میں دوزخ اور وہ خدائی کا بھی دعویٰ کرے گا اور نبوت کا بھی اور اس کے ماتھے پر کا فر لکھا ہوا ہوگا اور اس کا ایک گدھا ہو گا جس کے کانوں میں اس قدر فاصلہ ہو گا اور اس میں یہ یہ باتیں ہو ں گی.اس لئے فرماتا ہے کہ وہ دجّالی گروہ ضالّین کا ہی ہے جو طرح طرح کے پیر ایوں میں لو گوں کو گمراہ کرتے پھرتے ہیں اور بڑے بڑے وعدے دے دے کر خدا تعالیٰ کی کتابوں میں تحریف تبدیل کرتے ہیں اور لوگوں کو خدا تعالیٰ کے حکموں سے بالکل روگردان کر رہے ہیں یہاں تک کہ سؤر جیسی گندی چیز کو بھی حلال خیال کر رہے ہیں.حالانکہ توریت میں سؤر خا ص طور پر حرام کیا گیا ہے اور خو د مسیحؑ نے بھی کہا ہے کہ سؤروں کے آگے موتی مت ڈالو.اور ایسا ہی کَفّارہ جیسا گندہ مسئلہ ایجاد کر کے انہوں نے گناہوں کے لئے ایک وسیع میدا ن تیار کر دیا ہے خواہ انسان کیسے ہی کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو.مگر یسوع کو خدایا خدا کا بیٹا سمجھنے سے وہ سب عیب جاتے رہیں گے اور انسان نجات پا جائے گا.اب بتلاؤ کیا یہ صاف سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ وہی گمراہ کرنے والا گروہ ہے جس کو احادیث میں دجّال اور قرآن کریم میں ضالّین کر کے پکارا گیا ہے.

Page 55

سب عیب جاتے رہیں گے اور انسان نجات پا جائے گا.اب بتلاؤ کیا یہ صاف سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ وہی گمراہ کرنے والا گروہ ہے جس کو احادیث میں دجّال اور قرآن کریم میں ضالّین کر کے پکارا گیا ہے.کسر صلیب اور قتل خنزیر اور پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صحیح بخاری میں آنے والے مسیح کی نسبت (جو کہ اس وقت آگیا ہے) جو لکھا ہے یَکْسِـرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْـخِنْـزِیْرَ یعنی وہ صلیبوں کو توڑے گا اور خنزیروں کو قتل کرے گا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ جنگلوں میں چوہڑوں اور چماروں کی طرح شکار کھیلتا پھرے گا اور گرجوں پر چڑ ھ کر صلیبیں توڑتا پھرے گا.بلکہ اصل بات یہ ہے کہ خنز یر نجا ست کھانے والے کو کہتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ وہ نجا ست جانوروں کی ہی ہو.بلکہ جھوٹ اور دروغ کی جو نجاست ہے وہ سب سے گندی اور بدبودار نجاست ہے اس لئے ایسے لوگوں کا جو ہر وقت جھوٹ اور فریب سے دنیا کو گمراہ کرتے رہتے ہوں اللہ تعالیٰ نے خنزیر نا م رکھا ہے اور یہ جو فرمایا یَکْسِـرُ الصَّلِیْبَ تو اس کے یہ معنے نہیں کہ مسیح جب آوے گا تو پتھر، تانبے اور لکڑی وغیرہ کی صلیبوں کو جو پیسے پیسے پر فروخت ہوتی ہیں توڑتا پھرے گا.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صلیبی مذہب کی بنیاد کو توڑے گا اب دیکھ لو کہ اُن کے مذہب کا تمام دارو مدار تو عیسٰیؑ کی زندگی پر ہے اور یہ نہیں کہ دوسرے انبیاء کی طرح وہ زندہ ہے بلکہ وہ ایسا زندہ ہے کہ پھر دوبارہ دنیا میں آئے گا اور خلقت کا فیصلہ کرے گا اور پھر معلوم نہیں کہ مسلمانوں میں عیسٰیؑ کی زندگی کا مسئلہ کہاں سے آگیا بد قسمتی سے انہوں نے بھی عیسائیوں کی ہاں میں ہاں ملانی شروع کر دی.غرض سمجھنا چاہیے کہ عیسائیوں کے مذہب کی بنیاد تو صرف عیسٰیؑ کی زندگی پر ہے جب وہ مَر گیا تو پھر ان کا مذہب بھی ان کے ساتھ ہی مَر گیا.لدھیانہ میں ایک دفعہ ایک پادری میر ے پاس آیا اثنائے گفتگو میں مَیں نے اسے کہا کہ عیسٰیؑ کی ۱بدر سے.’’اس نے کہا کہ اگر مسیح کے زندہ ہونے کا عقیدہ نہ ہو تو پھر سب یکدم مسلمان ہوجائیں.ہمارے مذہب کی روح یہی بات ہے جب یہ نکلی تو ہم بے جان ہوجائیں گے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۹)

Page 56

حضرت عیسیٰ زندہ موجود ہیں اور وہی دوبارہ آئیں گے میں نے اُن سے کہا کہ اچھا یہ تو بتلاؤ کہ سوائے اس کے کہ کئی ہزار آدمی مرتد ہوگئے اور اس بات کا نتیجہ ہی کیا نکلا ہے؟ اس پر وہ خاموش ہو گئے.تب میں نے کہا کہ اچھا اس نسخہ کا تو آپ لوگوں نے تجربہ کر لیا ہے یہ تو غلط نکلا.اب ہمارا نسخہ بھی چند روز استعمال کر کے دیکھ لو کہ نتیجہ کیا ہوتا ہے ۱ اس پر ایک شخص اُٹھا اور کہنے لگا اسلام کی سچی خیر خواہی جیسی آپ کررہے ہیں اور کوئی نہیں کر رہا.آپ بڑی خوشی سے اپنے کام میں لگے رہیں.موجود ہ مسلمانوں کے غلط عقاید غرض مسلمانوں کی عجیب حالت ہو رہی ہے.بات بات میں پیچھے.جگہ جگہ پر شکست.ان کے نزدیک ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فوت ہو گئے ہیں مگر عیسیٰ زندہ ہیں اور ( نعوذ باللہ ) ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو مسِّ شیطان سے پاک نہیں تھے مگر عیسٰیؑ پاک تھا.اور پھر بے باپ تھا تو عیسٰیؑ، پرندوں کا خالق تھا تو عیسیٰ، مردے زندہ کرتا تھا تو عیسیٰ، آسمان پر چڑھ گیا تھا اور پھر دوبارہ نازل ہو گا تو عیسٰیؑ.اب بتلاؤ سوائے مرتد ہونے کے اس کا اور کیا نتیجہ ہو سکتا ہے ؟ غرض عیسٰیؑ کی زندگی مرتد کرنے کا آلہ ہے.جو لوگ عیسائی ہو جاتے ہیں تو وہ ایسی ایسی باتیں ہی سن کر ہو جایا کرتے ہیں جن کا میں ذکر کر چکا ہوں.مرزائی ہیں تو کافر مگر آج عزت رکھ لی ہے ایک دفعہ بشپ صاحب لاہور میں لیکچر دے رہے تھے اور اس قسم کی باتیں پیش کرتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) صاحب تو فوت ہوچکے ہیں اور ان کی مدینہ میں قبر موجود ہے مگر یسوع مسیح کی نسبت خود مسلمان بھی مانتے ہیں کہ وہ آسمان پر زندہ موجود ہیں وغیرہ وغیرہ اور پھر کہتے تھے مسلمانو! تم خود منصف بن کے دیکھ لو کہ آیا یہ باتیں سچی ہیں یا نہیں ؟ تب ہمارے مفتی صاحب آگے بڑھے اور بشپ صاحب کو کہنے لگے کہ بتاؤ یہ باتیں قرآن شریف میں کہاں لکھی ہیں کہ ۱ بدر سے.’’اب ہمارے نسخے کو بھی چند روز آزما دیکھو کہ مسیح کی وفات ماننے میں اسلام کی زندگی اور صلیبی مذہب کی موت ہے یا نہیں.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۹)

Page 57

مگر یسوع مسیح کی نسبت خود مسلمان بھی مانتے ہیں کہ وہ آسمان پر زندہ موجود ہیں وغیرہ وغیرہ اور پھر کہتے تھے مسلمانو! تم خود منصف بن کے دیکھ لو کہ آیا یہ باتیں سچی ہیں یا نہیں ؟ تب ہمارے مفتی صاحب آگے بڑھے اور بشپ صاحب کو کہنے لگے کہ بتاؤ یہ باتیں قرآن شریف میں کہاں لکھی ہیں کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو مَر گئے ہیں اور عیسیٰ آسمانوں پر زندہ ہیں؟ قرآن مجید میں تو صاف طور پر عیسیٰ کی موت لکھی ہے اور آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ ( المائدۃ : ۱۱۸ ) اسی بات کی شہادت دے رہی ہے کہ عیسٰیؑ فوت ہو چکے ہیں تب بشپ صاحب سے اور تو کچھ بن نہ آیا گھبرا کر کہنے لگے ’’معلوم ہوتا ہے کہ تم مرزائی ہو ‘‘ پھر اس کے بعد وہ لوگ جو وعظ سن رہے تھے باہر آکر کہنے لگے کہ ’’ہیں تو کافر مگر آج تو عزت رکھ لی ہے ‘‘ روحانی ہتھیار اب ہمارے پاس ہیں غرض یاد رکھنا چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو اقبال دیتا ہے تو ہتھیار بھی ساتھ ہی دیتا ہے.دیکھو جسمانی طور پر آجکل یورپ کا ہی بول بالا ہے مگر ہر ایک قسم کے عجیب عجیب ہتھیار بھی تو یورپ والوں نے ہی تیار کر رکھے ہیں یہاں تک کہ اگر سلطان روم کو بھی کسی ہتھیار کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ بھی انہیں سے منگوا بھیجتا ہے اسی طرح روحانی ہتھیار اب ہمارے ہاتھ میں ہیں۱ اور جس کے ہاتھ میں ہتھیار نہیں وہ غلبہ کس طرح پا سکتا ہے؟ اب تم لوگ جہاں جاؤ گے کہو گے کہ عیسٰی مَر گیا اور اس کی وفات قرآن مجید میں موجود، احادیث صحیحہ میں موجود ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دی کہ میں نے معراج کی رات کو حضرت عیسٰی کو مُردوں میں دیکھا اور خود مَر کر دکھا دیا کہ مجھ سے پہلے جتنے نبی آتے رہے ہیں وہ سب کے سب فوت ہوچکے ہیں اور ایسے ہی کئی قسم کے اَور بھی چمکتے ہوئے دلائل خدا تعالیٰ نے تم ۱بدر سے.’’خدا تعالیٰ نے ہمیں روحانی ہتھیار دیئے ہیں یہ خدا کا خاص فضل ہے جو قوم بے ہتھیار ہوتی ہے ضرور ہے کہ وہ تباہ ہوجائے.یاد رہے کہ ہتھیاروں سے مراد روحانی قوتیں اور دلائل قاطعہ ہیں.ظاہری سامان کی مذہب کے معاملہ میں ضرورت نہیں.دیکھو! اگر مسیح کی وفات کا ہتھیار نہ ہوتا تو تم ان کے سامنے بات بھی نہیں کر سکتے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۹)

Page 58

(عبدالحکیم ) ہے جو بیس برس تک میرا مرید رہا ہے اور ہر طرح سے میری تائید کرتا رہا ہے اور میری سچائی پر اپنی خوابیں سناتا رہا ہے.اب مرتد ہو کر اس نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام اس نے میری طرف منسوب کر کے کانا دجّال رکھا ہے لیکن اصلی بات یہ ہے کہ اس کو اس بات کی خبر ہی نہیں ہے کہ اسلام کا کیا حال ہو رہا ہے؟ جن لوگوں کے دھوکوں اور فریبوں سے آئے دن لوگ اسلام سے مرتد ہو رہے ہیں وہ تو اس کے نزدیک دجّال نہیں ہیں اور ان کا ذکر تک بھی اپنی کتابوں میں نہیں کرتا ہے اور جو اسلام کا زندہ چہرہ دکھا رہا ہے اور تا زہ بتازہ نشانوں سے اس کی تا ئید کر رہا ہے اور ہر طرح سے اسلام کی مدد کر رہا ہے اور دشمنان اسلام کا دندان شکن جواب دے رہا ہے وہ اس کی نظر میں دجّال ہے.صفائی ذہن کے لئے تقویٰ ضروری ہے سو سمجھنا چاہیے کہ صفائی ذہن بھی تو آخر تقویٰ سے ہی حاصل ہو تا ہے.اسی واسطے خدا تعالیٰ فرما تا ہے.الٓمّٓ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ١ۛۖۚ فِيْهِ١ۛۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠(البقرۃ:۲،۳ ) یعنی یہ کتاب انہیں کو ہدایت نصیب کرتی ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جن میں تقویٰ نہیں وہ تو اندھے ہیں۱ اگر کوئی پاک نظر سے اور خدا تعالیٰ کا خوف کر کے اس کو دیکھتا ہے تب تو اس کو سب کچھ اس میں سے نظر آجا تا ہے اور اگر ضد اور تعصب کی پٹی آنکھوں پر باندھی ہوئی ہے تو وہ اس میں سے کچھ بھی نہیں دیکھ سکتا.شیطان کا مغلوب ہونا مسیح موعود ؑ کے ہاتھوں مقدّر ہے یاد رکھنا چاہیے کہ دجّال اصل میں شیطان کے مظہر کو کہتے ہیں جس کے معنے ہیں راہ ہدایت سے گمراہ کرنے والا.لیکن آخری زمانہ کی نسبت پہلی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس وقت شیطان کے ساتھ بہت جنگ ہوں گے لیکن آخر کار شیطان مغلوب ۱ بدر سے.’’اور جیسے اندھا سورج سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتا.اسی طرح جو متقی نہیں وہ قرآن کے نور سے کچھ روشنی نہ پاسکے گا.جو تعصب سے نظر کرتا ہے.بات بات میں بد ظنی سے کام لیتا ہے وہ بشر تو کجا اگر فرشتہ بھی آئے تو کبھی ماننے کا نہیں.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۹)

Page 59

ہو جائے گا.گو ہر نبی کے زمانہ میں شیطان مغلوب ہو تا رہا ہے مگر وہ صرف فرضی طور پر تھا حقیقی طور پر اس کا مغلوب ہونا مسیح کے ہاتھوں سے مقدر تھا اور خدا تعالیٰ نے یہاں تک غلبہ کا وعدہ دیا ہے کہ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ فرمایا ہے کہ تیرے حقیقی تابعداروں کو ہی دوسروں پر قیامت تک غالب رکھو ں گا.غرض شیطان اس آخری زمانہ میں پورے زور سے جنگ کر رہا ہے مگر آخری فتح ہماری ہی ہو گی.یہ توتم جانتے ہی ہو اور تمہارے نزدیک یہ ایک معمولی سی بات ہے کہ حضرت عیسٰی مَر چکے ہیں اور اس بات میں تم نے ہر طرح سے فتح بھی حاصل کر لی ہے.۱ شیطان کا مَرنا ابھی باقی ہے مگر شیطا ن کا مَرنا ابھی باقی ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ اس کا بہت ساتسلط ابھی تم لوگوں پر باقی ہے.اکثر لوگ یہاں سے بیعت کر جاتے ہیں اور گھر میں پہنچ کر ایک خط ارتداد کا لکھ دیتے ہیں اور اس کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ کوئی مولوی انہیں مل جاتا ہے جو طرح طرح کی باتیں سناکر اور ہم پر قسم قسم کے جھوٹے الزام قائم کرکے ان کو پھسلا دیتا ہے اور ان لوگوں میں بھی چونکہ شیطان کا بہت سا حصہ با قی ہوتا ہے اس لئے وہ شیطان سیرت لوگوں کے پھندوں میں بہت جلد پھنس جاتے ہیں.چونکہ میں اپنے دعویٰ کے متعلق کتاب حقیقۃ الوحی میں مَیں بہت کچھ بیان کر چکا ہوں اور تم اس کو پڑھ بھی چکے ہو اس لئے اگر میں اس کے متعلق کچھ بیان کرو ں تو تقریر کا سلسلہ لمبا ہو جائے گا.سو اس وقت تم لوگوں کو شیطان کی وفات کا مسئلہ یا د کر لینا چاہیے.حضرت عیسیٰ کو جو ایک فرضی حیات مانی ہوئی تھی اس کو مارنے میں تم لوگ کامیاب ہو گئے ہو مگر شیطان کا مارنا ابھی باقی ہے مگر یا د رکھنا چاہیے کہ اس کا مارنا صرف اسی قدر نہیں ہے کہ صرف زبان سے ہی کہہ دیا جاوے کہ شیطان مَر گیا ہے اور وہ مَر جاوے بلکہ تم لوگوں کو عملی طور پر دکھانا چاہیے کہ شیطان مَر گیا ہے شیطا ن کی موت قال سے نہیں بلکہ حا ل سے ظاہر کرنی ۱ بدر سے.’’اصل میں ہمارا وجود دو باتوں کے لیے ہے ایک تو ایک نبی کو مارنے کے لیے، دوسرا شیطان کو مارنے کےلیے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۹)

Page 60

چاہیے.خدا کا وعدہ ہے کہ آخری مسیح کے زمانہ میں شیطان بالکل مَر جائے گا.گو شیطان ہر ایک انسان کے سا تھ ہوتا ہے مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شیطان مسلمان ہو گیا تھا.شیطان کے لا حول سے بھاگنے کی حقیقت اسی طرح خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس زمانہ میں شیطان کی بالکل بیخ کنی کر دی جائے گی.یہ توتم لوگ جانتے ہی ہو کہ شیطان لاحول کہنے سے بھاگتا ہے مگر وہ ایسا سادہ لوح نہیں کہ صرف زبانی طور پر لاحول کہنے سے بھاگ جائے.اس طرح سے تو خواہ سو دفعہ لا حول پڑھا جاوے وہ نہیں بھاگے گا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جن کے ذرّہ ذرّہ میں لا حول سرایت کر جاتا ہے اور جو ہروقت خدا تعالیٰ سے ہی مدد اور استعانت طلب کرتے رہتے ہیں اور اس سے ہی فیض حا صل کرتے رہتے ہیں وہ شیطان سے بچائے جاتے ہیں اور وہی لو گ ہوتے ہیں جو فلاح پانے والے ہوتے ہیں.دعا کی ضرورت اور حقیقت مگر یا د رکھو! کہ یہ جو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کی ابتدا بھی دعا سے ہی کی ہے اور پھر اس کو ختم بھی دعا پر ہی کیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان ایسا کمزور ہے کہ خدا کے فضل کے بغیر پاک ہو ہی نہیں سکتا۱ اور جب تک خدا تعالیٰ سے مدد اور نصرت نہ ملے یہ نیکی میں ترقی کر ہی نہیں سکتا.ایک حدیث میں آیا ہے کہ سب مُردے ہیں مگر جس کو خدا زندہ کرے اور سب گمراہ ہیں مگر جس کو خدا ہدایت دے اور سب اندھے ہیں مگر جس کو خدا بینا کرے.غرض یہ سچی بات ہے کہ جب تک خدا کا فیض حا صل نہیں ہوتا تب تک دنیا کی محبت کا طوق گلے کا ہا ر رہتا ہے اور وہی اس سے خلاصی پاتے ہیں جن پر خدا اپنا فضل کرتا ہے مگر یاد رکھنا چاہیے کہ خدا کا فیض بھی دعا سے ہی شروع ہو تا ہے.لیکن یہ مت سمجھو کہ دعا صرف زبانی بک بک کا نام ہے بلکہ دعا ایک قسم کی موت ہے جس کے ۱ بدر سے.’’ تم اپنے تئیں پاک مت ٹھہراؤ کیونکہ کوئی پاک نہیں جب تک خدا پاک نہ کرے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰)

Page 61

بعد زندگی حا صل ہوتی ہے جیسا کہ پنچابی میں ایک شعر ہے.؎ جو منگن جائے سو مَر رہے جو مَرے سو منگن جا۱ دعا میں ایک مقنا طیسی اثر ہوتا ہے وہ فیض اور فضل کو اپنی طرف کھینچتی ہے.یہ کیا دعا ہے کہ منہ سے تو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کہتے رہے اور دل میں خیال رہا کہ فلاں سودا اس طرح کرنا ہے.فلاں چیز رہ گئی ہے.یہ کام یوں چاہیے تھا اگر اس طرح ہو جائے تو پھر یوں کریں گے.یہ تو صرف عمر کا ضا ئع کرنا ہے.جب تک انسان کتا ب اللہ کو مقدم نہیں کرتا اور اسی کے مطابق عملدر آمد نہیں کرتا تب تک اس کی نمازیں محض وقت کا ضا ئع کرنا ہے.دعا کے لوازمات اور نتائج قرآن مجید میں تو صاف طور پر لکھا ہےقَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ (المؤمنون : ۲،۳ ) یعنی جب دعا کرتے کرتے انسان کا دل پگھل جائے او ر آستانہءِ الوہیت پر ایسے خلوص اور صدق سے گر جاوے کہ بس اسی میں محو ہو جاوے اور سب خیالات کو مٹا کر اسی سے فیض اور استعانت طلب کرے اور ایسی یکسوئی حا صل ہو جائے کہ ایک قسم کی رقّت اور گداز پید ا ہو جاوے تب فلاح کا دروازہ کھل جاتا ہے جس سے دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جاتی ہے.کیونکہ دو محبتیں ایک جگہ جمع نہیں رہ سکتیں.جیسے لکھا ہے.؎ ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں ایں خیال است و محال است و جنون اسی لیے اس کے بعد ہی خدا فرماتا ہےوَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (المؤمنون : ۴ ) یہاں لغو سے مراد دنیا ہے یعنی جب انسان کو نمازوں میں خشوع اور خضوع حا صل ہونے لگ جاتا ہے تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی محبت اس کے دل سے ٹھنڈی ہو جاتی ہے.ا س سے یہ مراد نہیں ہے کہ پھر وہ کاشتکار ی، تجارت، نوکری وغیرہ چھوڑ دیتا ہے بلکہ وہ دنیا کے ایسے کاموں سے جو دھوکہ دینے والے ۱ بدر میں ہے ’’جو منگے سو مَر رہے جو مَرے سو منگن جا‘‘ (بدر جلد ۷نمبر ۱مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰)

Page 62

ہوتے ہیں اور جو خدا سے غافل کر دیتے ہیں اعراض کرنے لگ جاتا ہے ۱ اور ایسے لوگوں کی گریہ وزاری اور تضرّع اور ابتہال اور خدا کے حضور عاجزی کرنے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص دین کی محبت کو دنیا کی محبت، حرص، لالچ اور عیش وعشرت سب پر مقدم کر لیتا ہے کیونکہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ ایک نیک فعل دوسرے نیک فعل کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور ایک بد فعل دوسرے بد فعل کی ترغیب دیتا ہے.جب وہ لوگ اپنی نمازوں میں خشوع خضوع کرتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طبعاً وہ لغو سے اعراض کرتے ہیں اور اس گندی دنیا سے نجات پا جاتے ہیں اور اس دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو کر خدا کی محبت ان میں پیدا ہوجا تی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ(المؤمنون : ۵ ) یعنی وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور یہ ایک نتیجہ ہے عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ کا.کیونکہ جب دنیا سے محبت ٹھنڈی ہو جائے گی۲ تو اس کا لازمی نتیجہ ہو گا کہ وہ خدا کی راہ میں خرچ کریں گے اور خواہ قارون کے خزانے بھی ایسے لوگوں کے پاس جمع ہوں وہ پروا نہیں کریں گے اور خد ا کی راہ میں دینے سے نہیں جھجکیں گے.ہزاروں آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیتے یہاں تک کہ اُن کی قوم کے بہت سے غریب اور مفلس آدمی تباہ اور ہلاک ہو جاتے ہیں مگر وہ ان کی پروا بھی نہیں کرتے حا لانکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر ایک چیز پر زکوٰۃ دینے کا حکم ہے یہاں تک کہ زیور پر بھی.ہاں جواہرات وغیرہ چیزوں پر نہیں اور جوامیر، نواب اور دولت مند لوگ ہوتے ہیں ان کو حکم ہے کہ وہ شرعی احکام کے بموجب اپنے خزانوں کا حساب کر کے زکوٰۃ دیں لیکن وہ نہیں دیتے.اس لئے خدا فرما تا ہے عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ( المؤمنون :۴ ) کی حالت تو اُن میں تب پیدا ہوگی جب وہ زکوٰۃ بھی دیں گے گویا زکوٰۃ کا دینا لغو سے اعراض کرنے کا ایک نتیجہ ہے.۳ ۱ بدر سے.’’فرمایا.رِجَالٌ لَا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ (النّور:۳۸) یعنی ہمارے ایسے بندے بھی ہیں جو بڑے بڑے کارخانہ تجارت میں ایک دم کے لیے بھی ہمیں نہیں بھولتے.خدا سے تعلق رکھنے والا دنیا دار نہیں کہلاتا.بلکہ دنیا دار وہ ہے جسے خدا یاد نہ ہو.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰) ۲ بدر سے.’’دنیا کی محبت بخیل بنا دیتی ہے.آخرت کو بھلانا اور دنیا سے دل لگانا یہ سخت منع ہے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰) ۳ بدر سے.’’یہ قوت زکوٰۃ دینے کی لغو سے کنارہ کشی پر حاصل ہوتی ہے.پس تم دنیا کی محبت کم کرو بلکہ نہ کرو تا زکوٰۃ دینے کی قوت حاصل ہو اور تم فلاح پاؤ.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰)

Page 63

پھر اس کے بعد فرمایا.وَ الَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ ( المؤمنون :۶) یعنی جب وہ لوگ اپنی نمازوں میں خشوع خضوع کریں گے.لغو سے اعراض کریں گے اور زکوٰۃ اد اکریں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ لوگ اپنے سوراخوں کی حفا ظت کریں گے.کیونکہ جب ایک شخص دین کو دنیا پر مقدّم رکھتا ہے اور اپنے مال کو خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ کسی اور کے مال کو ناجائز طریقہ سے کب حا صل کرنا چاہتا ہے اور کب چاہتا ہے کہ میں کسی دوسرے کے حقوق کو دبالُوں.۱ اور جب وہ مال جیسی عزیز چیز کو خدا کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا تو پھر آنکھ، ناک، کان، زبان وغیرہ کو غیر محل پر کب استعمال کرنے لگا؟ کیونکہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب ایک شخص اوّل درجہ کی نیکیوں کی نسبت اس قدر محتاط ہوتا ہے تو ادنیٰ درجہ کی نیکیاں خود بخود عمل میں آتی جاتی ہیں.مثلاً جب خشوع خضوع سے دعا مانگنے لگا تو پھر اس کے سا تھ ہی لغو سے بھی اعراض کرنا پڑا اور جب لغو سے اعراض کیا تو پھر زکوٰۃ کے اد اکرنے میں دلیر ہونے لگا اور جب اپنے مال کی نسبت وہ اس قدر محتاط ہو گیا تو پھر غیروں کے حقوق چھیننے سے بدر جہءِ اَولیٰ بچنے لگا.اس لئے اس کے آگے فرمایا وَ الَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ( المؤمنون : ۹) کیونکہ جو شخص دوسرے کے حق میں دست اندازی نہیں کرتا او ر جو حقوق اس کے ذمہ ہیں ان کو ادا کرتا ہے.اس کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے عہدوں کا پکّا ہو اور دوسرے کی امانتوں میں خیانت کرنے سے بچنے والا ہو.اس لئے بطور نتیجہ کے فرمایا کہ جب ان لوگوں میں یہ وصف پائے جاتے ہوں گے تو پھر لازمی بات ہے کہ وہ اپنے عہدوں کے بھی پکّے ہوں گے.نماز کی اہمیت اور حقیقت پھر ان سب باتوں کے بعد فرمایا.وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ ( المؤمنون : ۱۰) یعنی ایسے ہی لوگ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کر تے ہیں اور کبھی ناغہ نہیں کرتے اور انسان کی پیدائش کی اصل غرض بھی یہی ہے کہ وہ نماز کی حقیقت سیکھے.جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ(الذّٰریات : ۵۷ ) ۱ بدر سے.’’ سب سے بڑا حق یہ ہے کہ انسان دوسرے کی بیوی پر بد نظر ہی نہ کرے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰)

Page 64

غرض یا د رکھنا چاہیے کہ نماز ہی وہ شَے ہے جس سے سب مشکلات آسان ہو جاتے ہیں اور سب بَلائیں دور ہوتی ہیں مگر نماز سے وہ نماز مراد نہیں جو عام لوگ رسم کے طور پر پڑھتے ہیں بلکہ وہ نماز مراد ہے جس سے انسان کا دل گداز ہو جاتا ہے اور آستانہءِ احدیّت پر گر کر ایسا محو ہو جاتا ہے کہ پگھلنے لگتا ہے اور پھر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ نماز کی حفاظت اس واسطے نہیں کی جاتی کہ خدا کو ضرورت ہے خدا کو ہماری نمازوں کی کوئی ضرورت نہیں.وہ تو غَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ ہے اس کو کسی کی حاجت نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ضرورت ہے اور یہ ایک راز کی بات ہے کہ انسان خود اپنی بھلائی چاہتا ہے اور اسی لیے وہ خدا سے مدد طلب کر تا ہے کیونکہ یہ سچی بات ہے کہ انسان کا خدا سے تعلق ہو جانا حقیقی بھلائی کا حاصل کر لینا ہے.ایسے شخص کی اگر تمام دنیا دشمن ہو جائے اور اس کی ہلاکت کے در پے رہے تو اس کا کچھ بگا ڑ نہیں سکتی اور خدا تعالیٰ کو ایسے شخص کی خاطر اگر لاکھوں کروڑوں انسان بھی ہلاک کرنے پڑیں تو کر دیتا ہے اور اس ایک کی بجائے لاکھوں کو فنا کر دیتا ہے.حقیقی نماز یاد رکھو! یہ نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی.لیکن اکثر لوگ جو نماز پڑھتے ہیں تو وہ نماز ان پر لعنت بھیجتی ہے۱ جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ( الماعون :۵،۶) یعنی لعنت ہے ان نمازیوں پر جو نماز کی حقیقت سے ہی بے خبر ہو تے ہیں.نماز تو وہ چیز ہے کہ انسان اس کے پڑھنے سے ہر ایک طرح کی بد عملی اور بے حیائی سے بچایا جاتا ہے مگر جیسے کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں اس طرح کی نماز پڑھنی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی اور یہ طریق خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حا صل نہیں ہو سکتا اور جب تک انسان دعاؤں میں نہ لگا رہے اس طرح کا خشو ع اور خضوع پیدا نہیں ہو سکتا.اس لئے چاہیے کہ تمہارا دن اور تمہاری رات بدر میں ہے.’’ایک حدیث ہے کہ بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان کو لعنت کرتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک انسان عمل نہ کرے، دلی حضور نہ ہو تو گویا وہ عبادت سانپ کی خاصیت رکھتی ہے دیکھنے میں بہت خوبصورت اور خوشنما مگر بباطن دکھ دینے والی زہر سے پُر.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۱)

Page 65

غرض کوئی گھڑی دعاؤں سے خا لی نہ ہو.بہت سخت دن آنیوالے ہیں یاد رکھو! کہ بہت سخت دن آنے والے ہیں جن میں دنیا کو خطرناک شدائد اور مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا.خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ عنقریب سخت وبائیں اور طرح طرح کی آفات ارضی وسماوی ظاہر ہونے والی ہیں اور ایک شدید زلزلہ کی بھی خبر دے رکھی ہے جو کہ قیامت کا نمونہ ہوگا اور جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے بَغْتَةً فرمایا ہے یعنی وہ زلزلہ ناگہانی طور پر آجائے گا.ایسے ہی اور بھی بہت سی ڈراؤنی خبریں خدا تعالیٰ نے دے رکھی ہیں.اگر تمہیں ان باتوں کا پتہ ہو جائے جو میں دیکھ رہا ہوں تو سارا سارا دن اور ساری ساری رات خدا تعالیٰ کے آگے روتے رہو.دیکھو! اسی ایک مہینہ میں ہی تین زلزلے آچکے ہیں اور یہ سب بطور پیش خیمہ کے ہیں۱ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں پہلے تو ٹڈیوں، جوؤں اور مینڈکوں وغیرہ کے عذاب ہی آتے رہے تھے اور مخالفوں نے اُن کو ایک قسم کا تماشا سمجھ رکھا تھا۲ اور اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان بدبختوں کو یہ خبر نہ تھی کہ ایک وہ معجزہ بھی ظاہر ہو گا.جب کہ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِيْلَ ( یونس:۹۱) بھی کہنا پڑے گا.ابتدائی منذرات کو عبر ت کی نظر سے دیکھو سو اس بات کو اچھی طرح سے یاد رکھو! کہ اگر ابتدائی منذرات کو عبر ت کی نظر ۱ بدر سے.’’اللہ تعالیٰ کی انذار کی باتیں نرمی سے شروع ہوتی ہیں.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۱) ۲ بدر سے.’’پہلے نرم نرم عذاب آئے کہ حشرات الارض نکل آئے، خون پھیل گیا، قحط پڑ گیا.بھلا فرعون قحط کو کیا جانتا تھا.وہ تماشا سمجھتا ہوگا کیونکہ قحط کا اثر تو غریبوں پر پڑتا ہے مگر اس کو یہ خبر نہ تھی کہ ایک دن بطش شدید کا آنے والا ہے جب اس کے منہ سے بے اختیار نکلے گا اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِيْلَ‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۱)

Page 66

سے دیکھو گے اور خدا تعالیٰ سے ڈر کر استغفار، لا حول اور دوسرے نیک کاموں میں مشغول ہو جاؤ گے تو یہ تمہارے لیے اچھا ہوگا لیکن جو بے پرواہی سے کام لیتا ہے توآخر کار جب وہ وقت آ جائے گا تو اس وقت رونے چلانے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور آخر کار بڑی ذلّت اور نا مرادی سے ہلاکت کا منہ دیکھنا پڑے گا اور پھر جس دنیا کے لئے دین سے منہ موڑا تھا اس کو بھی بڑی حسرت سے چھوڑنا پڑے گا.دیکھو! طاعون بھی آنے والی ہے.دنیا کہتی ہے کہ اب تو دور ہو گئی ہے اور اس کا دورہ ختم ہو گیا ہے مگر خدا کہتا ہے کہ عنقریب ایسی طاعون پھیلنے والی ہے جو پہلے کی نسبت نہایت ہی سخت ہو گی اور پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ ایک سخت وبا پھیلے گی جس کا کوئی نام بھی نہیں رکھ سکتے.توبہ.ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا متفق علیہ مسئلہ لیکن ان سب باتوں کے بعد میں تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی رحمتیں سمندروں سے بھی زیادہ ہیں.اگر وہ شدید العقاب ہے تو غفور الرحیم بھی تو ہے.جو شخص توبہ کرتا اور استغفار اور لاحول میں مشغول ہو جاتا ہے اور دین کو دنیا پر مقدم کر لیتا ہے تو وہ ضرور بچایا جاتا ہے.ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کا یہ متفق علیہ مسئلہ ہے کہ جو عذاب آنے سے پہلے ڈرتے ہیں اور خدا کی یاد میں مشغول ہو جاتے ہیں وہ اس وقت ضرور بچائے جاتے ہیں جب کہ عذاب اچانک آدباتا ہے لیکن جو اس وقت روتے اور آہ وزاری کرتے ہیں جب کہ عذاب آپہنچتا ہے اور اس وقت گڑ گڑاتے اور توبہ کر تے ہیں جب کہ ہر ایک سخت سے سخت دل والا بھی لرزاں اور ترساں ہوتا ہے تو وہ بے ایمان ہیں وہ ہر گز نہیں بچائے جاتے.آنے والے سخت ایام یہ باتیں جو میں کہہ رہا ہوں میں نہیں جانتا کہ تم میں سے کتنے آدمی ہیں جو سچے دل سے ان باتوں کو مانتے ہیں مگر میں پھر بھی وہی کہتا ہوں کہ یہ دن جو آنے والے ہیں تو یہ نہایت سخت ہیں.لوگوں کی بد اعتقادیوں اور بدعملیوں نے خدا کے غضب کو بھڑکا دیا ہے.تمام نبیوں نے اس زمانہ کی نسبت پہلے ہی سے خبر دے رکھی ہے کہ اس وقت ایک مری پڑے گی اور کثرت سے اموات ہو ں گی.

Page 67

اور پھر حدیثوں میں لکھا ہے کہ جہاں تک خدا کے مسیح کی نظر پہنچ سکے گی کافر تباہ اور ہلاک ہوتے جائیں گے یہ بھی بالکل سچی بات ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس پر اس کی نظر پڑے گی وہی تباہ ہوتا جائے گا بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ جو اس کی نظر میں نشانہ بنیں گے وہ تباہ اور ہلاک ہوتے جائیں گے لیکن اب تو تمام دنیا نشانہ بن رہی ہے.خدا تعالیٰ تو فرماتا ہےوَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ( الذّٰریٰت : ۵۷ ) یعنی تمام جنّ اور انسان صرف اسی واسطے پیدا کئے گئے تھے کہ وہ خدا کی معرفت میں ترقی کر تے اور اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر چلتے.دنیو ی مشاغل میں انہماک مگر اب تم خود سوچ لو کہ کتنے لوگ ہیں جو دینداری سے زندگی بسر کر رہے ہیںاور دین کو دنیا پر مقدم کر رہے ہیں.تم خود کسی بڑے شہر مثلاً کلکتہ، دہلی، پشاور اور لاہور، امرتسر وغیرہ کے چوک میں کھڑے ہو کر دیکھ لو ہزاروں لاکھوں لوگ اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر دوڑتے پھرتے ہیں مگر اُن کی یہ سب دوڑ دھوپ محض دنیا کے لئے ہوتی ہے.آپ کو بہت تھوڑے ایسے ملیں گے جو دین کے کام میں ایسی سرگرمی سے مشغول ہوں.بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کی خا طر بڑے بڑے مصائب کا مقابلہ کرتے ہیں مگر دین میں نہایت بو دے پائے جاتے ہیں.ایک ذرا سے ابتلا پر جھوٹ جیسی نجاست کو کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور اپنی نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے کن کن حیلوں سے کام لیتے ہیں کہ گویا خدا ہی نہیں.انسان جتنی ٹکریں اپنی بیوی کو خوش کرنے اور اس کی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنے کے لئے مارتا ہے اگر خدا کی راہ میں اتنی کوشش کرے تو کیا وہ خوش نہ ہوگا ؟ ہو گا اور ضرور ہوگا مگر کوئی کوشش کرکے بھی دیکھے.اگر ایک کے ہاں اولاد نہیں ہو تی تو محض ایک بچہ کی خا طر وہ کیسی کیسی سختیاں جھیلتا ہے اور کس طرح کے وسائل اور تدابیر سے اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کہاں کا کہاں خوار ہوتا پھرتا ہے گویا خدا اس کے نزدیک ہے ہی نہیں.غرض یا د رکھنا چاہیے کہ انسان جب اپنی زندگی کی اصل غرض سے غافل ہو جاتا ہے تو پھر و ہ

Page 68

اسی قسم کے دھندوں اور بکھیڑوں میں سر گرداں اور مارا مارا پھرتا ہے.انسان کو چاہیے کہ جتنی جلدی اُس سے ہو سکے خدا سے اپنا تعلق قائم کرے.جب تک اس کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا تب تک کچھ بھی نہیں.ایک حدیث میں آیا ہے کہ اگر انسان آہستہ آہستہ خدا کی طرف جاتا ہے تو خدا جلدی سے اس کی طرف آتا ہے اور اگر انسان جلدی سے اس کی راہ میں ترقی کرتا ہے تو خدا دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے لیکن اگر بندہ خدا (سے) لا پروا بن جائے اور غفلت اور سستی سے کام لے پھر اس کا نتیجہ بھی ویسا ہی ہوتا ہے.ذوالقرنین سے مراد مسیح موعو د ؑ ہے ایک دفعہ سورہ کہف جس کو ذوالقرنین بھی کہتے ہیں۱ میں دیکھ رہا تھا تو جب میں نے اس قصہ کو غور سے پڑھا تو مجھے معلوم ہو ا کہ اس میں بعینہٖ اسی زمانہ کا حال درج ہے.جیسے لکھا ہے کہ جب اس نے سفر کیا تو ایسی جگہ پہنچا جہاں کہ اُسے معلوم ہوا کہ سورج کیچڑ میں ڈوب گیا ہے اور یہ اس کا مغربی سفر تھا اور اس کے بعد پھر وہ ایسے لوگوں کے پاس پہنچتا ہے جو دھوپ میں ہیں اور جن پر کوئی سایہ نہیں.پھر ایک تیسری قوم اُسے ملتی ہے جو یاجو ج ماجوج کے حالات بیان کر کے اس سے حمایت طلب کرتی ہے.اب مثالی طور پر تو خدا نے یہی بیان کیا ہے لیکن ذو القرنین تو اس کو بھی کہتے ہیں جس نے دو صدیاں پائی ہوں اور ہم نے دو صدیوں کو اس قدر لیا ہے کہ اعتراض کا موقع ہی نہیں رہتا میں نے ہر صدی پر دو صدیوں سے حصہ لیا ہے.تم حساب کر کے دیکھ لو اور یہ جو قرآن میں قصص پائے جاتے ہیں تو یہ صرف قصہ کہانیاں نہیں بلکہ یہ عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں جو شخص ان کو صرف قصے کہانیاں سمجھتا ہے وہ مسلمان نہیں.غرض اس حساب سے تو مجھے بھی ذوالقرنین ماننا پڑے گا اور ائمہ دین میں سے بھی ایک نے ذوالقرنین سے مسیح مراد لیا ہے.اب خدا تعالیٰ نے اس قصہ میں مغربی اور مشرقی دو قوموں کا ذکر کیا ہے.مغربی قوم سے مراد تو وہ لوگ ہیں جن کو انجیل یا دیگر صحیفہ جات کا بدر میں ہے.’’میں نے ایک مرتبہ ذو القرنین کا حال قرآن مجید میںدیکھا تھا.تدبّر سے معلوم ہوا کہ جو کچھ اس میں ہے وہ دراصل اسی زمانے کے لیے بطور پیشگوئی ہے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۱)

Page 69

صاف شفاف پانی دیا گیا تھا.مگر وہ روشن تعلیم انہوں نے ضا ئع کر دی اور اپنے پاس کیچڑ اور گند باقی رہنے دیا اور مشرقی قوم سے وہ مسلمان لوگ مراد ہیں جو امام کے سایہ کے نیچے نہیں آئے ۱ اور دھوپ کی شعاعوں سے جھلسے جا رہے ہیں لیکن ہماری جماعت بہت خو ش نصیب ہے.۲اس کو اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے اپنے فضل سے ہدایت عطا فرمائی لیکن یہ ابھی ابتدائی حالت ہے.جماعت کے لئے ضروری نصائح میں خوب جانتا ہوں کہ ابھی بہت سی کمزوریاں اس میں پائی جاتی ہیں.اس لئے سمجھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا(الشّمس:۱۰،۱۱ ) جس کا مطلب یہ ہے کہ نجات پا گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا اور خائب اور خا سر ہو گیا وہ شخص جو اس سے محروم رہا اس لئے اب تم لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ تزکیہ نفس کس کو کہا جاتا ہے.تزکیہءِ نفس کی حقیقت سو یاد رکھو کہ ایک مسلمان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے کے واسطے ہمہ تن تیار رہنا چاہیے اور جیسے زبان سے خدا تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات میں وحدہٗ لا شریک سمجھتا ہے ایسے ہی عملی طور پر اس کو دکھانا چاہیے اور اس کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور ملائمت سے پیش آنا چاہیے اور اپنے بھائیوں سے کسی قسم کا بھی بغض، حسد اور کینہ نہیں رکھنا چاہیے اور دوسروں کی غیبت کرنے سے بالکل الگ ہو جانا چاہیے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ یہ معاملہ تو ابھی دور ہے کہ تم لوگ خدا کے سا تھ ایسے از خودرفتہ اور محو ہو جاؤ کہ بس اُسی کے ہو جاؤ اور جیسے زبان سے اس کا اقرار کرتے ہو عمل سے بھی کر کے دکھاؤ.ابھی تو تم لوگ مخلوق کے ۱ بدر میں ہے.’’وہ قرآن مجید سے کچھ فائدہ اٹھانا نہیں جانتے بلکہ جاہلیت میںمَر رہے ہیں.چنانچہ فرمایا مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہٖ فَقَدْ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۲) ۲ بدر میں ہے.’’ تیسری ہماری قوم جو بڑی خوش نصیب ہے.یہ امام کے سایہ میں آگئے اور چاہا کہ یاجوج ماجوج کے آگے انہیں سَدّ بنا دی جائے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۲)

Page 70

حقو ق کو بھی کما حقہ ادا نہیں کرتے.بہت سے ایسے ہیں جو آپس میں فساد اور دشمنی رکھتے ہیں اور اپنے سے کمزور اور غریب شخصوں کو نظر حقارت سے دیکھتے ہیں اور بدسلوکی سے پیش آتے ہیں اور ایک دوسرے کی غیبتیں کرتے اور اپنے دلوں میں بغض اور کینہ رکھتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم آپس میں ایک وجود کی طرح بن جاؤ.۱ اور جب تم ایک وجود کی طرح ہو جاؤ گے اس وقت کہہ سکیں گے کہ اب تم نے اپنے نفسوں کا تزکیہ کر لیا.کیونکہ جب تک تمہارا آپس میں معاملہ صاف نہیں ہوگا اس وقت تک خدا تعالیٰ سے بھی معاملہ صاف نہیں ہو سکتا.۲گو ان دونوں قسموں کے حقوق میں بڑا حق خدا تعالیٰ کا ہے مگر اس کی مخلوق کے سا تھ معاملہ کرنا یہ بطور آئینہ کے ہے.جو شخص اپنے بھائیوں سے صاف صاف معاملہ نہیں کرتا وہ خدا کے حقوق بھی ادا نہیں کر سکتا.یاد رکھو! اپنے بھائیوں کے سا تھ بکلی صاف ہو جانا یہ آسان کام نہیں بلکہ نہایت مشکل کام ہے.منافقانہ طور پر آپس میں ملنا جلنا اور بات ہے مگر سچی محبت اور ہمدردی سے پیش آنا اور چیز ہے.یادرکھو! اگر اس جماعت میں سچی ہمدردی نہ ہوگی تو پھر یہ تباہ ہو جائے گی اور خدا اس کی جگہ کوئی اور جماعت پیدا کر لے گا.۳ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۲ تا ۵ ۲ بدر سے.’’تزکیہ نفس اسے کہتے ہیں کہ خالق و مخلوق دونو طرف کے حقوق کی رعایت کرنے والا ہو.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۲) ۳ بدر سے.’’پس خدا چاہتا ہے کہ جب تک تم ایک وجود کی طرح بھائی بھائی نہ بن جاؤ گے اور آپس میں بمنزلہ اعضا نہ ہو جاؤ گے تو فلاح نہ پاؤ گے.انسان کا جب بھائیوں سے معاملہ صاف نہیں تو خدا سے بھی نہیں.بیشک خدا کا حق بڑا ہے مگر اس بات کو پہچاننے کا آئینہ کہ خدا کا حق ادا کیا جارہا ہے یہ ہے کہ مخلوق کا حق بھی ادا کر رہا ہے یا نہیں؟ جو شخص اپنے بھائیوں سے معاملہ صاف نہیں رکھ سکتا وہ خدا سے بھی صاف نہیں رکھتا.یہ بات سہل نہیں یہ مشکل بات ہے.سچی محبت اَور چیز ہے اور منافقانہ اَور.دیکھو! مومن کے مومن پر بڑے حقوق ہیں.جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کو جائے اور جب مَرے تو اس کے جنازہ پر جائے.ادنیٰ ادنیٰ باتوں پر جھگڑا نہ کرے بلکہ درگذر سے کام لے.خدا کا یہ منشا نہیں کہ تم ایسے رہو.اگر سچی اخوت نہیں تو جماعت تباہ ہوجائے گی.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۲)

Page 71

اللہ تعالیٰ اس جماعت کو صحابہ ؓ کے رنگ میں رنگین کرنا چاہتا ہے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت بنائی تھی ان میں سے ہر ایک زکی نفس تھا اور ہرایک نے اپنی جان کو دین پر قربان کر دیا ہوا تھا ان میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جو منافقانہ زندگی رکھتا ہو.سب کے سب حقو ق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے والے تھے سو یاد رکھو اس جماعت کو بھی خدا تعالیٰ انہیں کے نمونہ پر چلانا چاہتا ہے اور صحابہ ؓ کے رنگ میں رنگین کرنا چاہتا ہے.جو شخص منافقانہ زندگی بسر کرنے والا ہوگا وہ آخر اس جماعت سے کا ٹا جائے گا.یاد رکھو! یہ خدا کا وعدہ ہے خبیث اور طیّب کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے.ابھی وقت ہے کہ اپنی اپنی اصلاح کر لو.یاد رکھو! کہ انسان کا دل خدا کے گھر کی مثال ہے.خانہءِ خدا اور خانہءِ انسان ایک جگہ نہیں رہ سکتا جب تک انسان اپنے دل کو پورے طور پر صاف نہ کرے۱اور اپنے بھائی کے لئے دکھ اُٹھانے کو تیار نہ ہو جائے تب تک خدا کے سا تھ معاملہ صاف نہیں ہو سکتا اور یہ باتیں میں اس واسطے بیان کرتا ہوں کہ آپ لوگ جو یہاں قادیان میں آئے ہو ایسا نہ ہو کہ پھر خالی کے خالی ہی واپس چلے جاؤ.توبہ کی حقیقت زندگی کا کچھ اعتبار نہیں معلوم نہیں کہ آئندہ سال تک کون مَرے اور کون زندہ رہے گا اس لئے سچے دل سے توبہ کرنی چاہیے.خدا فرما تا ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا (التحریم:۹) سو انسان کو چاہیے کہ اگر توبہ کر ے تو خا لص توبہ کرے.توبہ اصل میں رجوع کو کہتے ہیں.صرف الفاظ ایک قسم کی عادت ہو جاتی ہے.اس لئے خدا ۱بدر سے.’’اس گھر کو بتوں سے صاف کرو تا یہ خدا کا گھر کہلائے.فرمایا طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّآىِٕفِيْنَ وَ الْعٰكِفِيْنَ (البقرۃ:۱۲۶) یعنی میرے گھر کو فرشتوں کے لیے پاک کرو انسان کا دل خدا کا گھر ہے یہ خدا کا گھر اس وقت کہلائے گا اور اس وقت فرشتوں کا طواف گاہ بنے گا جب یہ اوہام باطلہ و عقائد فاسدہ سے بالکل پاک و صاف ہو.جب تک انسان کا دل صاف نہ ہو اس کی عملی حالت درست نہیں ہو سکتی.دیکھو! یہ وقت ہے جو کچھ کرنا ہے کر لو.ایسا نہ ہو کہ بوجہ مخالفت دنیا سے بھی رہے اور دین سے بھی خالی چلے جاؤ.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۲)

Page 72

خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ صرف زبان سے توبہ توبہ کرتے پھرو بلکہ فرمایا کہ خدا کی طرف رجوع کرو جیسا کہ حق ہے رجوع کرنے کا کیونکہ جب متناقض جہات میں سے ایک کو چھوڑ کر انسان دوسری طرف آجاتا ہے تو پھر پہلی جگہ دُور ہو جاتی ہے اور جس کی طرف جاتا ہے و ہ نزدیک ہوتی جاتی ہے.یہی مطلب توبہ کا ہے کہ جب انسان خدا کی طرف رجوع کر لیتا ہے اور دن بدن اسی کی طرف چلتا ہے تو آخر یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ شیطان سے دُور ہوجاتا ہے اور خدا کے نزدیک ہو جاتا ہے اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جو جس کے نزدیک ہوتا ہےاسی کی بات سنتا ہے اس لیے ایسے انسان پر جو عملی طور پر شیطان سے دُور اور خدا سے نزدیک ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ کے فیوض اور برکات کا نزول ہو تا ہے اور سفلی آلائشوں کا گند اُس سے دھویا جا تا ہے جیسے آگے فرمایا عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ (التحریم:۹) کیونکہ توبہ میں ایک خا صیت ہے کہ گذشتہ گناہ اس سے بخشے جاتے ہیں.ایسے ہی ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ(البقرۃ : ۲۲۳) توَّ اب اور مُتَطَھِّر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک تو توّاب ہوتے ہیں اور ایک متطہّر ہوتے ہیں.توّاب ان کو کہا جاتا ہے جو بکلّی خدا کی طر ف رجوع کر لیتے ہیں اور متطہّر وہ ہوتے ہیں کہ وہ مجاہدات اور ریاضات کرتے رہتے ہیں اور اُن کے دل میں ایک کپٹ سی لگی رہتی ہے کہ کسی طرح سے اُن آلائشوں سے پاک ہو جاویں اور نفسِ امّارہ کے جذبات پر ہر طرح سے غالب آکر زکی النفس بن جاویں.نفس کی اقسام یا د رکھنا چاہیے کہ قرآن مجید میں نفس کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں.نفسِ امّارہ.نفسِ لوّامہ.نفسِ مطمئنّہ.نفسِ امّارہ اس کو کہتے ہیں کہ سوائے بدی کے اور کچھ چاہتا ہی نہیں جیسے فرمایا اللہ نے اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ ( یوسف :۵۴) یعنی نفس امّارہ میں یہ خاصیّت ہے کہ وہ انسان کو بدی کی طرف جھکاتا ہے اور نا پسندیدہ اور بد راہوں پر چلانا چاہتا ہے جتنے بدکار چور ڈاکو دنیا میں پائے جا تے ہیں وہ سب اسی نفس کے ما تحت کام کرتے ہیں.ایسا شخص جو نفسِ امّارہ کے ما تحت ہو ہر ایک طرح کے بد کام

Page 73

کر لیتا ہے ہم نے ایک شخص کو دیکھا تھا جس نے صرف بارہ آنہ کی خا طر ایک لڑکے کو جان سے مار دیا تھا.کسی نے خوب کہا ہے کہ ؎ حضرت انساں کہ حد مشترک را جامع است مے تواند شد مسیحا مے تواند شد خرے غرض جو انسان نفسِ امّارہ کے تابع ہوتا ہے وہ ہر ایک بدی کو شیر ِمادر کی طرح سمجھتا ہے اور جب تک کہ وہ اسی حالت میں رہتا ہے بدیاں اُس سے دُور نہیں ہو سکتیں.پھر دوسری قسم نفس کی نفسِ لوّامہ ہے جیسے کہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَاۤ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ(القیٰمۃ: ۳) یعنی میں اس نفس کی قسم کھاتا ہوں جو بدی کے کاموں اور نیز ہر ایک طرح کی بے اعتدالی پر اپنے تئیں ملا مت کرتا ہے.ایسے شخص سے اگر کوئی بد ی ظہور میں آجاتی ہے تو پھر وہ اس پر جلدی سے متنبّہ ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو بُری حرکت پر ملامت کرتا ہے اور اسی لئے اس کا نام نفس لَوَّامہ رکھا ہے.یعنی بہت ملامت کرنے والا.جو شخص اس نفس کے تا بع ہوتا ہے وہ نیکیوں کے بجالانے پر پورے طور پر قادر نہیں ہوتا اور طبعی جذبات اس پر کبھی نہ کبھی غالب آجا تے ہیں لیکن وہ اس حالت سے نکلنا چاہتا ہے اور اپنی کمزوری پر نادم ہوتا رہتا ہے.اس کے بعد تیسری قسم نفس کی نفسِ.مطمئنّہ ہے جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے يٰۤاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ ارْجِعِيْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ وَ ادْخُلِيْ جَنَّتِيْ (الفجر: ۲۸تا۳۱)یعنی اےوہ نفس! جو خدا سے آرام پاگیا ہے اپنے ربّ کی طرف واپس چلا آ تُو خدا سے راضی ہے اور خدا تجھ پر راضی ہے.پس میرے بندوں میں مل جا اور میرے بہشت کے اندر داخل ہو جا.غرض یہ وہ حالت ہوتی ہے کہ جب انسان خدا سے پوری تسلی پالیتا ہے اور اس کو کسی قسم کا اضطراب باقی نہیں رہتا اور خدا تعالیٰ سے ایسا پیوند کرتا ہے کہ بغیر اس کے جی ہی نہیں سکتا.نفسِ لوّامہ والا تو ابھی بہت خطرے کی حالت میں ہو تا ہے کیونکہ اندیشہ ہو تا ہے کہ لَوٹ کر وہ کہیں پھر نفسِ امّارہ نہ بن جاوے.لیکن نفسِ.مطمئنّہ کا وہ مرتبہ ہے کہ جس میں نفس تمام کمزوریوں سے نجا ت پا کر روحانی قوتوں سے بھر جاتا ہے.

Page 74

غرض یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک انسان اس مقام تک نہیں پہنچتا اس وقت تک وہ خطرہ کی حالت میں ہوتا ہے.اس لئے چاہیے کہ جب تک انسان اس مرتبہ کو حا صل نہ کرلے مجاہدات اور ریاضات میں لگا رہے.روح کا جذام سوچنا چاہیے کہ انسان کے بدن پر جذام کا داغ نکل آتا ہے تو پھر کیسے کیسے خیالات اس کے دل میں اُٹھتے ہیں اور کیسے دور دراز کے نتیجوں پر وہ پہنچتا ہے اور اپنی آنے والی حالت کا خیال کر کے وہ کیسا غمگین ہو تا ہے؟ کبھی خیال کرتا ہے کہ شاید اب لوگ مجھ سے نفرت کرنے لگ جائیں گے اور میرے ساتھ بد سلوکی سے پیش آئیں گے اور کبھی سوچتا ہے کہ خدا جانے اب میں کسی ابتر حالت میں ہو جاؤں گا اور کن کن دکھوں میں مبتلا ہو ں گا.لیکن افسوس! کہ اس بات کا خیال تک بھی نہیں کیا جا تا کہ آخر مَرنا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اس وقت کیا حالت ہو گی؟ یہ جذام تو ایسا ہے کہ مَرنے کے بعد ہی اس سے خلاصی ہو جاتی ہے مگر وہ کوڑھ جو روح کو لگ جاتا ہے وہ تو ابد تک رہتا ہے کیا کبھی اس کا بھی فکر کیا ہے؟ دو جنّتیں یاد رکھو! جو خدا کی طرف صدق اور اخلاص سے قدم اُٹھاتے ہیں وہ کبھی ضا ئع نہیں کئے جاتے ان کو دونوں جہانوں کی نعمتیں دی جاتی ہیں جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نےوَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ ( الرّحـمٰن : ۴۷) اور یہ اس واسطے فرمایا کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ میری طرف آنے والے دنیا کھو بیٹھتے ہیں بلکہ ان کے لئے دو بہشت ہیں ایک بہشت تو اسی دنیا میں اور ایک جو آگے ہو گا.دیکھو! اتنے انبیاء گذرے ہیں کیا کسی نے اس دنیا میں ذلّت اور خواری دیکھی؟ سب کے سب اس دنیا میں سے کامیاب اور مظفر و منصور ہو کر گئے ہیں.خدا نے ان کے دشمنوں کو تباہ کیا اور ان کو عزّت اور جلال کے تخت پر جگہ دی لیکن اگر وہ اس دنیا کے پیچھے پڑتے تو زیادہ سے زیادہ دس بارہ روپیہ ما ہوار کی نوکری انہیں ملتی کیونکہ وہ صاف گو اور سادہ طبع تھے مگر جب انہوں نے خدا کے لئے اس دنیا کو چھوڑا تو ایک دنیا اُن کے تا بع کی گئی.غور کر کے دیکھو! کہ اگر ان لوگوں نے خدا کے لئے اس دنیا کو چھوڑ دیا تھا تو نقصان کیا اُٹھایا؟

Page 75

حضرت ابو بکر صدیقؓ کو ہی دیکھو کہ جب وہ شام کے ملک سے واپس آرہے تھے تو راستہ میں ایک شخص ان کو ملا.آپ نے اس سے پو چھا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ.اس شخص نے جواب دیا کہ اور تو کوئی تازہ خبر نہیں البتہ تمہارے دوست محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے.اس پر ابو بکر صدیق ؓ نے اس کو جواب دیا کہ اگر اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو وہ سچا ہے.وہ جھوٹا کبھی نہیں ہو سکتا.اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ سیدھے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر چلے گئے اور آنحضرت کو مخا طب کر کے کہنے لگے کہ آپ گواہ رہیں کہ سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والا میں ہوں.دیکھو! انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معجزہ نہیں مانگا تھا.صرف پہلے تعارف کی برکت سے وہ ایمان لے آئے تھے.یاد رکھو! معجزات وہ طلب کیا کرتے ہیں جن کو تعارف نہیں ہوتا.جو لنگوٹیا یار ہوتا ہے اس کے لیے تو سابقہ حا لات ہی معجزہ ہوتے ہیں.اس کے بعد حضرت ابو بکر ؓ کو بڑی بڑی تکالیف کا سامنا ہوا.طرح طرح کے مصائب اور سخت درجہ کے دکھ اُٹھانے پڑے.لیکن دیکھو! کہ اگر سب سے زیادہ انہیں کو دکھ دیا گیا تھا اور وہی سب سے بڑھ کر ستائے گئے تھے تو سب سے پہلے تخت نبوت پر وہی بٹھائے گئے تھے.کہاں وہ تجارت کہ تمام دن دھکے کھاتے پھرتے تھے اور کہاں یہ درجہ کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے اوّل خلیفہ انہیں کو مقر ر کیا گیا.خدا تعالیٰ پر بد ظنّی نہ کرو انسان کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ پر بدظنّی کرنے سے بچے کیونکہ اس کا انجام آخر میں تباہی ہوا کرتا ہے.جیسے فرما یا اللہ تعالیٰ نے وَ ذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِيْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ( حٰمٓ السّجدۃ :۲۴) اس لئے سمجھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ پر بدظنی کرنا اصل میں بے ایمانی کا بیج بونا ہے جس کا نتیجہ آخر کار ہلاکت ہوا کرتا ہے.جب کبھی خدا تعالیٰ کسی کو اپنا رسول بنا کر بھیجتا ہے اور جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ ہلاک ہو جاتا ہے.مامور کے مخالف آخر پکڑے جاتے ہیں یاد رکھو! جب ایک مامور من اللہ آتا ہے تو اس سے منہ پھیرنا اصل میں خدا سے منہ پھیرنا ہے دیکھو گورنمنٹ کا ادنیٰ چپڑاسی ہوتا ہے.پانچ روپیہ ماہوار اس کی تنخواہ ہوتی ہے لیکن جب

Page 76

وہ گورنمنٹ کے حکم سے سرکاری پروانہ لے کر زمینداروں کے پاس جاتا ہے.اگر زمیندار یہ خیال کرکے کہ یہ ایک پانچ روپیہ کا ملازم ہے اس کو تنگ کریں اور بجائے اس کے حکم کی تعمیل کرنے کے اُلٹا اس کو ماریں پیٹیں اور بد سلوکی سے پیش آویں.تو اب بتلاؤ کہ کیا گورنمنٹ ایسے شخصوں کو سزا نہ دے گی ؟ دے گی اور ضرور دے گی کیونکہ گورنمنٹ کے چپڑاسی کو بے عزّت اور ذلیل کرنا اصل میں گورنمنٹ کو ہی بے عزت اور ذلیل کرنا ہے اسی طرح جو شخص خدا تعالیٰ کے مامور کی مخالفت کرتا ہے وہ اس کی نہیں بلکہ حقیقت میں وہ خدا کی مخالفت کرتا ہے.۱ یاد رکھو! خدا اگرچہ سزادینے میں دھیما ہے مگر جو لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے اور بجائے اس کے کہ اپنے گناہوں کا اقرار کر کے خدا تعالیٰ کے حضور جھک جائیں اُلٹے خدا تعالیٰ کے رسول کو ستاتے اور دکھ دیتے ہیں وہ آخر پکڑے جا تے ہیں اور ضرور پکڑے جا تے ہیں.دیکھو! دن نہایت نازک آتے جاتے ہیں.ا س لئے تم لوگوں کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کرو اور تضرّع اور ابتہال کے سا تھ دن رات اس سے دعائیں مانگتے رہو.خدا تمہیں توفیق دے.اب دعا کر لو.اس کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام نے بمعہ سامعین نہایت خلوص کے سا تھ دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگیں.رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْاِيْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا١ۖۗ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ كَفِّرْ عَنَّا سَيِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰى رُسُلِكَ وَ لَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ ( اٰل عـمران :۱۹۴ ،۱۹۵ )۲ ۱ بدر سے.’’خدا جو سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے اور جس کی عظمت اورجس کے جلال کے مقابل میں کسی کا جلال نہیں.کیا وہ اپنے فرستادہ اپنے رسول کی ہتک دیکھ کر خاموش رہتا ہے؟ ہرگز نہیں.مامور کی بے ادبی در حقیقت خدا تعالیٰ کی بے ادبی ہے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۳) ۲الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴ مورخہ ۱۴؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۲،۳ وبدر جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ءصفحہ ۲ تا ۱۳

Page 77

۲۸؍دسمبر ۱۹۰۷ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی دوسری تقریر جو آپ نے جلسہ سالانہ کے موقع پر۲۸ ؍دسمبر ۱۹۰۷ء کو یوم شنبہ کے بعد جمع نماز ظہر وعصر مسجد اقصیٰ میں فرمائی.جو کچھ کل میں نے تقریر کی تھی اس کا کچھ حصہ باقی رہ گیا تھا کیونکہ بسبب علالت طبع تقریر ختم نہ ہو سکی.اس واسطے آج پھر میں تقریر کرتا ہوں.زندگی کا کچھ اعتبار نہیں.جس قدر لوگ آج اس جگہ موجود ہیں معلوم نہیں ان میں سے کون سا ل آئند ہ تک زندہ رہے گا اور کون مَر جائے گا؟ یہ زمانہ بہت نازک ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر طرح سے لوگوں کو سمجھا دیں کہ یہ زمانہ بہت نا زک ہے خدا تعالیٰ نے اس قدر بار بار مجھے آئندہ اور بھی خطر ناک زمانہ کے آنے کے متعلق وحی کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت قریب ہے اور وہ جلد آنے والی ہے جیساکہ کل بیان کیا گیا تھا.طرح طرح کے لباسوں میں موتیں وارد ہو رہی ہیں.طاعون ہے وبائیں ہیں قحط ہے زلزلے ہیں.جب ایسی مصیبتیں وارد ہوتی ہیں تو دنیا داروں کی عقل جاتی رہتی ہے اور وہ ایک سخت غم اور مصیبت میں گرفتا ر ہو جاتے ہیں جس سے نکلنے کا کوئی طریق ان کو نہیں سوجھتا.قرآن شریف میں اسی کی طرف اشارہ ہے وَ تَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى وَ مَا هُمْ بِسُكٰرٰى(الـحج:۳) تو لوگوں کو دیکھتاہے کہ نشے میں ہیں حالانکہ وہ کسی نشے میں نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ نہایت درجہ کے غم اور خوف سے ان کی عقل ماری گئی ہے اور کچھ حوصلہ باقی نہیں رہا ایسے موقع پر بجز متقی کے کسی کے اندر صبر کی طا قت نہیں رہتی.دینی امور میں بجز تقویٰ کے کسی کو صبر حا صل نہیں ہوسکتا.بَلا کے آنے کے وقت سوائے اس کے کون صبر کر سکتا ہے؟ جو خدا کی رضا کے سا تھ اپنی رضا کو ملائے ہوئے ہو جب تک کہ پہلے ایمان پختہ نہ ہو.ادنیٰ نقصان سے انسان ٹھوکر کھا کر دہریہ بن جاتا ہے جس کو خدا کے سا تھ تعلق نہیں اس میں مصیبت کی برداشت نہیں.

Page 78

مصائب کا آنا ضروری ہے دنیا دار لوگ تو ایسے مصائب کے وقت وجود باری تعالیٰ کا بھی انکار کر بیٹھتے ہیں.دنیا کی وضع ہی ایسی بنی ہے کہ اس میں مصائب کا آنا ضروری ہے.دنیا میں جس قدر آدمی گذرے ہیں ان میں سے کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس پر کبھی کوئی مصیبت وارد نہیں ہوئی؟ کسی کی مصیبت اولاد پر وارد ہو تی ہے اور کسی کے مال پر اور کسی کی عزّت پر.غرض ہر ایک کو کوئی نہ کوئی مصیبت اور ابتلا دیکھنا ہی پڑتا ہے بغیر اس کے دنیا میں چارہ نہیں.یہ دنیا کا لازمہ ہے.عرب کا ایک پرانا شاعر لکھتا ہے.؎ سَئِمْتُ تَکَالِیْفَ الْـحَیَاۃِ وَمَنْ یَّعِشْ ثَـمَانِیْنَ حَوْلًا لَا اَبَا لَکَ یَسْئَمٖ دنیا میں مَیں نے بڑی بڑی تکلیفیں دیکھی ہیں اور جو کوئی میری طرح اَسّی سال تک جیے گا وہ بھی لامحالہ کچھ دیکھے گا.دنیا کے مصائب تو دراصل چند روز کے واسطے ہیں.کوئی جلدی مَرا اور کوئی دیر سے مَرا.آخر سب نے مَرجانا ہے.تکالیفِ شرعیہ دین کے راہ میں دو قسم کی تکلیفیں ہیں.ایک تکالیفِ شرعیہ جیسا کہ نماز ہے اور روزہ ہے اور حج ہے اور زکوٰۃ ہے.نماز کے واسطے انسان اپنے کاروبار کو ترک کر تا ہے اور ان کا ہرج بھی کر کے مسجد میں جاتا ہے سردی کے موسم میں پچھلی رات اُٹھتا ہے.ماہ رمضان میں دن بھر کی بھوک اور پیاس برداشت کرتا ہے.حج میں سفر کی صعوبتیں اُٹھاتا ہے زکوٰۃ میں اپنی محنت کی کمائی دوسروں کے سپرد کر دیتا ہے.یہ سب تکالیف شرعیہ ہیںاور انسان کے واسطے موجب ثواب ہیں.اس کا قدم خدا کی طرف بڑھاتی ہیں لیکن ان سب میں انسان کو ایک وسعت دی گئی ہے اور وہ اپنے آرام کی راہ تلاش کر لیتا ہے.جاڑے کے موسم میں وضو کے واسطے پانی گرم کر لیتا ہے.بہ سبب علالت کھڑا ہو کر نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر پڑھ لیتا ہے.رمضان میں سحری میں اُٹھ کر خوب کھانا کھا لیتا ہے بلکہ بعض لوگ ماہِ صیام میں معمول سے بھی زیا دہ خرچ کھانے پینے پر

Page 79

کر لیتے ہیں.غرض ان تکا لیفِ شرعیہ میں کچھ نہ کچھ آرام کی صورت ساتھ ساتھ انسان نکالتا رہتا ہے.اس واسطے اس سے پورے طور پر صفائی نہیں ہوتی اور منازل سلوک جلدی سے طے نہیں ہو سکتے.تکالیفِ سماوی لیکن سماوی تکالیف جو آسمان سے اُترتی ہیں اُن میں انسان کا اختیار نہیں ہوتا اور بہر حال برداشت کرنی پڑتی ہیں.ا س واسطے ان کے ذریعہ سے انسان کو خدا تعالیٰ کا قرب حا صل ہوتا ہے.ہر دو قسم کی تکلیف شرعی اور سماوی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں (کیا ہے) (۱) تکالیف شرعی کے متعلق پہلے سیپارہ میں فرمایا ہے الٓمّٓ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ١ۛۖۚ فِيْهِ١ۛۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠(البقرۃ:۲،۳) یعنی مومن وہ ہے جو خدا تعالیٰ پر غیب سے ایمان لاتے ہیں.اپنی نما ز کو کھڑا کرتے ہیں یعنی صدہا وساوس آکر دل کو اَور طرف پھیر دیتے ہیں مگر وہ بار بار خدا کی طرف توجہ کرکے اپنی نماز کو جو بہ سبب وساوس کے گرتی رہتی ہے بار بار کھڑا کرتے رہتے ہیں.خدا تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں.یہ تکالیف شرعیہ ہیں.مگر ان پر پورے طور سے بھروسہ حصولِ ثواب کا نہیں ہو سکتا کیونکہ بہت سی باتوں میں انسان غفلت کرتا ہے اکثر نماز کی حقیقت اور مغز سے بے خبر ہو کر صر ف پوست کو ادا کرتا ہے.( ۲) اس واسطے انسانی مدارج کی ترقی کے واسطے سماوی تکالیف بھی رکھی گئی ہیں ان کا ذکر بھی خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں کیا ہے.جہاں فرما یا ہے وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ١ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ اُولٰٓىِٕكَ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ١۫ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ ( البقرۃ : ۱۵۶تا ۱۵۸) یہ وہ مصائب ہیں جو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے ڈالتا ہے یہ ایک آزمائش ہے جس میں کبھی تو انسان پر ایک بھارے درجہ کا ڈر لاحق ہوتا ہے.وہ ہر وقت اس خوف میں ہوتا ہے کہ شاید اب معاملہ بالکل بگڑ جائے گا.کبھی فقروفاقہ شاملِ حال ہو جاتا ہے.ہر ایک اَمر میں انسان کا گذارہ بہت تنگی سے ہونے لگتا ہے.کبھی مال میں نقصان نمودار ہوتا ہے.تجارت اور دکانداری

Page 80

بگڑ جاتی ہے یا چور لے جاتے ہیں.کبھی ثمرات میں نقصان ہو تا ہے یعنی پھل خراب ہو جاتے ہیں.کھیتی ضا ئع جاتی ہے اور یا اولاد عزیز مَر جاتی ہے محاورہ عرب میں اولاد کو بھی ثمر کہتے ہیں.اولاد کا فتنہ بھی بہت سخت ہوتا ہے اکثر لوگ مجھے گھبرا کر خط لکھتے رہتے ہیں کہ آپ دعا کریں کہ میری اولاد ہو.اولاد کا فتنہ ایسا سخت ہے کہ بعض نادان اولاد کے مَر جانے کے سبب دہریہ ہو جاتے ہیں.بعض جگہ اولاد انسان کو ایسی عزیز ہو تی ہے کہ وہ اس کے واسطے خدا کا ایک شریک بن جاتی ہے بعض لوگ اولاد کے سبب سے دہریہ، ملحداور بے ایمان بن جاتے ہیں.بعضوں کے بیٹے عیسائی بن جاتے ہیں تو وہ بھی اولاد کی خا طر عیسائی ہو جاتے ہیں.بعض بچے چھوٹی عمر میں مَر جاتے ہیں تو وہ ماں باپ کے واسطے سلبِ ایمان کا موجب ہو جاتے ہیں.صدمہ کے مطابق اجر ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ظالم نہیں.جب کسی پر صدمہ سخت ہو اور وہ صبر کرے تو جتنا صدمہ ہو اتنا ہی اس کا اجر بھی زیادہ ہوتا ہے.خد ا تعالیٰ رحیم، غفور اور ستار ہے.وہ انسان کو اس واسطے تکلیف نہیں پہنچاتا کہ وہ تکلیف اُٹھا کر دین سے الگ ہو جائے بلکہ تکالیف اس واسطے آتی ہیں کہ انسان آگے قدم بڑھائے.صوفیاء کا قول ہے کہ ابتلا کے وقت فا سق آدمی قدم پیچھے ہٹاتا ہے لیکن صالح آدمی اور بھی قدم آگے بڑھاتا ہے.انبیاء اور رُسل کے ابتلا اور امتحانات ایک روایت میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ لڑکے فوت ہوئے تھے.انبیاء اور رسل کو جو بڑے بڑے مقام ملتے ہیں وہ ایسی معمولی باتوں سے نہیں مل جاتے جو نرمی سے اور آسانی سے پوری ہو جائیں بلکہ ان پر بھاری ابتلا اور امتحان وارد ہوئے جن میں وہ صبر اور استقلال کے ساتھ کامیاب ہوئے تب خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو بڑے بڑے درجات نصیب ہوئے.دیکھو حضرت ابراہیم پر کیسا بڑا ابتلا آیا.اس نے اپنے ہاتھ میں چھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر ے اور اس چھری کو اپنے بیٹے کی گردن پر اپنی طرف سے پھیر دیا مگر آگے بکرا تھا.ابراہیم امتحان میں پاس ہوا

Page 81

اور خدا نے بیٹے کو بھی بچا لیا.تب خدا تعالیٰ ابراہیم پر خوش ہوا کہ اُس نے اپنی طرف سے کوئی فرق نہ رکھا.یہ خدا تعالیٰ کا فضل تھا کہ بیٹا بچ گیا ورنہ ابراہیم نے اس کو ذبح کر دیا تھا.اس واسطے اس کو صادق کا خطاب ملا.اور توریت میں لکھا ہے کہ خد ا تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم! تو آسمان کے ستاروں کی طرف نظر کر کیا تو ان کو گن سکتا ہے؟ اسی طرح تیری اولاد بھی نہ گنی جائے گی.تھوڑے سے وقت کی تکلیف تھی وہ تو گذر گئی.اس کے نتیجہ میں کس قدر انعام ملا.آج تمام سادات اور قریش اور یہود اور دیگر اقوام اپنے آپ کو حضرت ابراہیم کا فرزند کہتے ہیں.۱ گھڑی دو گھڑی کی بات تھی وہ تو ختم ہو گئی اور اتنا بڑا انعام ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا.درحقیقت انسان کا تقویٰ تب محقّق ہوتا ہے جب کہ اس پر کوئی مصیبت وارد ہو.جب وہ تمام پہلو ترک کر کے خدا کے پہلو کو مقدم کرلے اور آرام کی زندگی کو چھوڑ کر تلخ زندگی قبول کر لے تب انسان کو حقیقی تقویٰ حا صل ہوتا ہے.انسان کی اندرونی حالت کی اصلاح نری رسمی نما زوں اور روزوں سے نہیں ہو سکتی بلکہ مصائب کا آنا ضروری ہے.؎ عشق اوّل سر کش و خونی بوَد تا گریزد ہر کہ بیرونی بود اوّل حملہ عشق کا شیر کی طرح سخت ہو تا ہے جس قدر انبیاء اور رسول اور صدیق گذرے ہیں اُن میں سے کسی نے معمولی امور سے ترقی نہیں پائی بلکہ ان کے مدارج کا راز اس بات میں تھا کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے ساتھ موافقت تامہ کی.مومن کی ساری اولاد ذبح کر دی جائے اور اس کے سوائے بھی اس پر تکالیف پڑیں تب بھی وہ بہر حال قدم آگے بڑھاتا ہے.دیکھو! انسان باوجود ہزاروں کمزوریوں کے اپنے سچے دوست کے ساتھ وفا داری کرتا ہے.تو کیا خدا جو رحمان اور رحیم ہے وہ تمہارے ساتھ وفا داری نہ کرے گا.خدا سے ایسا پیار کرو کہ اگر ہزار بچہ ایک طرف ہو اور خدا ایک طرف تو خدا کی طرف اختیار کرو او ربچوں کی پروا نہ کر و.مصائب تمام انبیاء پر وارد ہو تے رہے ہیں.۱ انگریزوں میں بھی ایک فرقہ ہے جس کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے ہیں.(یہ غالباً ایڈیٹر صاحب بدر کا اپنا نوٹ ہے.مرتّب)

Page 82

کوئی اُن سے خالی نہیں رہا اسی واسطے مصائب کے برداشت کرنے والے کے لئے بڑے بڑے اجر ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور اپنے رسول کو خطاب کیا ہے کہ صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو جو مصیبت کے وقت کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ ہمارا کوئی وجود ہی نہ تھا.خدا نے ہم کو پیدا کیا ہے اور اس کی ہم امانت ہیں اور اسی کے پاس جانا ہے.ایسے لوگوں کے واسطے بشارت ہے.ان مصائب کے ذریعہ سے جو برکات حا صل ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو خا ص بشارت ملتی ہے وہ نماز روزہ زکوٰۃ سے حا صل نہیں ہو سکتی.نما ز کما حقہ ادا ہو جاوے تو بہت عمدہ شے ہے مگر خدا کی طرف سے جو نشانہ لگتا ہے.وہ سب سے زیادہ ٹھیک بیٹھتا ہے اور اسی سے ہدایت اور رستگاری حا صل ہو تی ہے.جماعت کو تکالیف برداشت کرنے کی تلقین اب اہلِ جماعت غور سے سنیںاور اس بات کو سمجھیں کہ دونوں قسم کی تکالیف خدا تعالیٰ نے تمہارے واسطے رکھی ہیں.اوّل تکالیف شرعی ہیں ان کی برداشت کرو.دوسری تکالیف قضاء و قدر کی ہیں.اکثر انسان شرعی تکالیف کو کسی نہ کسی طرح ٹال دیتے ہیں اور ان کو پورے طور سے ادا نہیں کر تے.مگر قضاء وقدر سے کون بھاگ سکتا ہے.اس میں انسان کا اختیار نہیں.یاد رکھو! انسان کے واسطے یہی ایک عالَم نہیں بلکہ اس کے بعد ایک اور عالَم ہے.یہ تو ایک بہت ہی مختصر زندگی ہے کوئی پچاس ساٹھ سال کی عمر میں مَر گیا.کسی نے دس بارہ سال اور گذار لیے.اس جگہ کی مصائب کا خاتمہ تو موت کے ساتھ ہو جا تا ہے مگر اُس عالم کا خاتمہ نہیں.جب قیامت بر حق ہے اور وہ ایمان کا لازمہ ہے تو اس چند روزہ زندگی کی تکالیف کا برداشت کر لینا کیا مشکل ہے؟ اس دائمی جہان کے واسطے کو شش کرنی چاہیے.جو شخص کوئی تکلیف بھی نہیں اُٹھاتا.وہ کیا سرمایہ رکھتا ہے مومن کی نشانی یہ ہے کہ وہ صرف صبر کرنے والا نہ ہو بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ مصیبت پر راضی ہو.خدا کی رضا کے سا تھ اپنی رضا کو ملا لے.یہی مقام اعلیٰ ہے.مصیبت کے وقت خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھنا چاہیے مُنْعِم کو نعمتوں پر مقدم رکھو.بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت

Page 83

آتی ہے تو وہ شکوہ شروع کرتے ہیں گویا خدا تعالیٰ کے ساتھ قطع تعلق کرتے ہیں.بعض عورتیں کوستی ہیں اور گالیاں دیتی ہیں.بعض مرد بھی ایمانی حالت میں ناقص ہوتے ہیں.یہ ایک ضروری نصیحت ہے اور اس کو یاد رکھو کہ اگر کوئی شخص مصیبت زدہ ہو تو اُسے ڈرنا چاہیے کہ ایسا نہ ہو کہ اس سے بڑھ کر اس پر کوئی مصیبت گرے.کیونکہ دنیا دار المصائب ہے اور اس میں غافل ہو کر بیٹھنا اچھا نہیں اکثر مصائب متنبہ کرنے کے واسطے آتے ہیں.ابتدا میں اس کی صورت خفیف ہو تی ہے.انسان اس کو مصیبت نہیں سمجھتا پھر وہ بیتاب کرنے والی مصیبت ہو جاتی ہے.دیکھو! اگر کسی کو آہستگی سے دبایا جائے تو اس کے بدن کو آرام پہنچتا ہے.وہی ہاتھ زور سے مارا جائے تو موجب دکھ ہو جاتا ہے.ایک مصیبت سخت ہو تی ہے جو وبالِ جان بن جاتی ہے.قرآن شریف نے ہر دو مصائب کا ذکر کر دیا ہے.خدمتِ دین کو ایک فضلِ الٰہی جانو مصائب رفع درجات کے واسطے ہو تے ہیں حضرت ابراہیم اس بات پر روتے دھوتے نہ رہے کہ خدا نے مجھ سے بیٹا مانگا ہے بلکہ انہوں نے اس بات پر خدا تعالیٰ کا شکر کیا کہ ایک خدمت کا موقع ملا ہے.لڑکے کی ماں نے بھی رضا مندی دی اور لڑکا بھی اس بات پر راضی ہوا.ذکر ہے کہ ایک دفعہ ایک مسجد کا مینار گر گیا تو شاہِ وقت نے سجدہ کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس خدمت میں سے حصہ لینے کا موقع دیا ہے جو بزرگ بادشاہوں نے اس مسجد کے بنا کرنے میں حاصل کی تھی.صبر کا اجر وقت تو بہر حال گذر جا تا ہے.گوشت پلاؤ کھانے والے بھی آخر مَر جاتے ہیں لیکن جو شخص تلخیاں دیکھ کر صبر کرتا ہے اس کو بالا ٓخر اجر ملتا ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کی اس بات پر شہادت ہے کہ صبر کا اجر ضرور ہے.جو لوگ خدا کی خا طر صبر نہیں کرتے ان کو بھی صبر کرنا ہی پڑتا ہے مگر پھر نہ وہ ثواب ہے اور نہ اجر.کسی عزیز کے مَرنے کے وقت عورتیں سیاپا کرتی ہیں.بعض نادان مرد سر پر راکھ ڈالتے ہیں.تھوڑے عرصہ کے بعد خود ہی صبر کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں.ایک عورت کا

Page 84

ذکر ہے کہ اس کا بچہ مَر گیا تھا اور وہ قبر پر کھڑی سیاپا کر رہی تھی.آنحضرتؐوہاں سے گذرے آپ نے اُسے فرمایا تو خدا سے ڈر اور صبر کر.اس کمبخت نے جواب دیا کہ تو جا تجھ پر میرے جیسی مصیبت نہیں پڑی.بد بخت نہیں جانتی تھی کہ آپ تو گیارہ بچوں کے فوت ہونے پر بھی صبر کرنے والے ہیں.جب اس کو بعد میں معلوم ہوا کہ اس کو نصیحت کرنے والے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے تو پھر آپ کے گھر میں آئی اور کہنے لگی کہ یا رسول! میں صبر کرتی ہوں.آپ نے فرمایا کہ اَلصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدَمَۃِ الْاُوْلٰی صبر وہ ہے جو پہلے ہی مصیبت پر کیا جائے.غرض بعد میں خود وقت گذرنے پر رفتہ رفتہ صبر کرنا ہی پڑتا ہے صبر وہ ہے جو ابتدا ہی میں انسان اللہ تعالیٰ کی خا طر صبر کرے.خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیتا ہے.یہ بے حساب اجر کا وعدہ صبر کرنے والوں کے واسطے ہی مقرر ہے.دعا اور استغفار میں مصروف رہو کسی کو کیا خبر ہے کہ آج کیا ہے اور کل کیا ہونے والا ہے؟ ابھی ہمارے پاس کئی خط راولپنڈی سے آئے ہیں جن میں لکھا ہے کہ ایک ایسا زلزلہ آیا کہ لوگ چیخ اُٹھے بلکہ بعض نے کہا کہ یہ زلزلہ ۴؍اپریل والے زلزلے کے برابر تھا.دیکھو! اس ایک مہینہ میں تین بار زلزلہ آچکا ہے اور آگے ایک سخت زلزلہ کے آنے کی خبر خدا تعالیٰ دے چکا ہے.وہ زلزلہ ایسا سخت ہو گا کہ لوگوں کو دیوانہ کر دے گا لوگوں نے غفلت کر کے خدا کو بھلا دیا ہے اور خوشی میں بیٹھے ہیں مگر جن لوگوں نے خدا کو پا لیا ہے وہ تلخ زندگی کو قبول کرنے کے واسطے تیار ہیں.مصائب کا آنا ضروری ہے.خدا کی سنّت ٹل نہیں سکتی.ہر ایک کو چاہیے کہ خدا سے دعا اور استغفار میں مصروف رہے اور خدا تعالیٰ کی رضا کے ساتھ اپنی رضا کو ملائے.جو شخص پہلے سے فیصلہ کر لیتا ہے ٹھوکر نہیں کھاتا.مال، اولاد، بیوی، بھائیوں سے پہلے ہی سمجھ لے کہ میرا ان سے کوئی تعلق نہیں.سب امانت خدا وند ی ہیں.جب تک ہیں ان کی قدر، عزت، خاطر خدمت کرو.جب خدا اپنی امانت کو واپس لے لے تو پھر رنج نہ کرو.

Page 85

ہر اَمر میں خدا تعالیٰ کو مقدم رکھو دین کی جڑاس میں ہے کہ ہر اَمر میں خدا تعالیٰ کو مقدم رکھو دراصل ہم تو خدا کے ہیں اور خدا ہمارا ہے اور کسی سے ہم کو کیا غرض ہے؟ ایک نہیں کروڑ اولاد مَر جائے پر خدا راضی رہے تو کوئی غم کی بات نہیں.اگر اولاد زندہ بھی رہے تو بغیر خدا کے فضل کے وہ بھی موجب ابتلا ہو جاتی ہے.بعض آدمی اولاد کی وجہ سے جیل خانوں میں جاتے ہیں.شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے ایک شخص کا قصہ لکھا ہے کہ وہ اولاد کی شرارت کے سبب پابہ زنجیر تھا.اولاد کو مہمان سمجھنا چاہیے اس کی خاطر داری کرنی چاہیے.اس کی دلجوئی کرنی چاہیے.مگر خدا تعالیٰ پر کسی کو مقدم نہیں کرنا چاہیے اولاد کیا بنا سکتی ہے؟ خدا کی رضا ضروری ہے.نماز میں وساوس پیدا ہونے کی وجہ جن لوگوں کو خدا کی طرف پورا التفات نہیں ہوتا انہیں کو نماز میں بہت وساوس آتے ہیں.دیکھو! ایک قیدی جب کہ ایک حا کم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو کیا اس وقت اس کے دل میں کوئی وسوسہ گذر جاتا ہے؟ ہر گز نہیں.وہ ہمہ تن حاکم کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس فکر میں ہوتا ہے کہ ابھی حاکم کیا حکم سناتا ہے؟ اس وقت تو وہ اپنے وجود سے بھی بالکل بے خبر ہو تا ہے.ایسا ہی جب صدقِ دل سے انسان خدا کی طرف رجوع کرے اور سچے دل سے ا س کے آستانہ پر گرے تو پھر کیا مجال ہے کہ شیطان وساوس ڈال سکے.شیطان انسان کا پورا دشمن ہے قرآن شریف میں اس کا نام عدو رکھا گیا ہے.اس نے اوّل تمہارے باپ کو نکالا.پھر وہ اس پر خو ش نہیں اب اس کا یہ ارادہ ہے کہ تم سب کو دوزخ میں ڈال دے.یہ دوسرا حملہ پہلے سے بھی زیا دہ سخت ہے.وہ ابتدا سے بدی کرتا چلا آیا ہے.وہ چاہتا ہے کہ تم پر غالب آوے لیکن جب تک کہ تم ہر بات میں خدا تعالیٰ کو مقدم رکھو گے وہ ہرگز تم پر غالب نہ آسکے گا.جب انسان خدا کے راہ میں دکھ اُٹھاتا ہے اور شیطان سے مغلوب نہیں ہوتا تب اس کو ایک نور ملتا ہے.شہاب ثاقب کی حقیقت جب کہ ایک مومن سب باتوں پر خدا تعالیٰ کو مقدم کر لیتا ہے تب اس کا خدا کی طرف رفع ہو تا ہے.وہ اسی زندگی میں

Page 86

خدا تعالیٰ کی طرف اُٹھایا جا تا ہے اور ایک خاص نور سے منور کیا جاتا ہے.اس رفع میں وہ شیطان کی زد سے ایسا بلند ہو جاتا ہے کہ پھر شیطان کا ہاتھ اس تک نہیں پہنچ سکتا.ہر ایک چیز کا خدا تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی ایک نمونہ رکھا ہے اوریہ اسی اَمر کی طرف اشارہ ہے کہ شیطان جب آسمان کی طرف چڑھنے لگتا ہے تو ایک شہاب ثاقب اس کے پیچھے پڑتا ہے جو اس کو نیچے گرا دیتا ہے.ثاقب.۱ روشن ستارے کو کہتے ہیں اس.۲ چیز کو بھی ثاقب کہتے ہیں جو سوراخ کر دیتی ہے اور اس.۳ چیز کو بھی ثاقب کہتے ہیں جو بہت اونچی چلی جاتی ہو.اس میں حالت انسانی کے واسطے ایک مثال بیان کی گئی ہے جو اپنے اندر ایک نہ صرف ظاہری بلکہ ایک مخفی حقیقت بھی رکھتی ہے جب ایک انسان کو خدا تعالیٰ پر پکا ایمان حاصل ہو جاتا ہے تو اس کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع ہو جاتا ہے اور اس کو ایک خا ص قوت اور طاقت اور روشنی عطا کی جا تی ہے.جس کے ذریعہ سے وہ شیطان کو نیچے گرا دیتا ہے.ثاقب مارنے والے کو بھی کہتے ہیں.ہر ایک مومن کے واسطے لازم ہے کہ وہ اپنے شیطان کو مارنے کی کوشش کرے اور اسے ہلاک کر ڈالے جو لوگ روحانیت کی سائنس سے ناواقف ہیں وہ ایسی باتوں پر ہنسی کرتے ہیں مگر دراصل وہ خود ہنسی کے لائق ہیں.ایک قانونِ قدرت ظاہری ہےایسا ہی ایک قانونِ قدرت باطنی بھی ہے ظاہری قانون باطنی کے واسطے بطور ایک نشان کے ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی اپنی وحی میں فرمایا ہے کہ اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْـزِلَۃِ الثَّاقِبِ۱ یعنی تو مجھ سے بمنزلہ ثاقب ہے.اس کے یہ معنے ہیں کہ میں نے تجھے شیطان کے مارنے کے واسطے پیدا کیا ہے.تیرے ہاتھ سے شیطان ہلاک ہو جائے گا.شیطان بلند نہیں جا سکتا.اگر مومن بلندی پر چڑھ جائے تو شیطان پھر اس پر غالب نہیں آسکتا.مومن کو چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ سے دعا کرے کہ اس کو ایک ایسی طا قت مل جائے جس سے وہ شیطان کو ہلاک کر سکے.جتنے بُرے خیالات پید ا ہوتے ہیں ان سب کا دُور کرنا شیطان کو ہلاک کرنے پر منحصر ہے.مومن کو چاہیے کہ استقلال سے کام لے، ہمت نہ ہارے، شیطان کو مارنے کے پیچھے پڑا رہے.آخر وہ ایک دن کامیاب ہو جائے گا.خدا تعالیٰ رحیم وکریم ہے جو لوگ اس کی ۱ نقل مطابق اصل ہے روحانی خزائن میںیہ الہام یُوں درج ہے.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ النَّجْمِ الثَّاقِبِ (مرتّب) (چشمہ معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۴۳۶)

Page 87

راہ میں کو شش کرتے ہیں وہ آخر ان کو کامیابی کا منہ دکھا دیتا ہے.بڑا درجہ انسان کا اسی میں ہے کہ وہ اپنے شیطان کو ہلاک کرے.اپنے خوابوں اور الہامات پر نا ز نہ کرو ایسے ضروری کام کو چھوڑ کر جو مومن کا اصل منشا ہے بعض لوگ اور باتوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں.مثلاً کسی کو ایک خواب آجائے یا چند الفاظ زبان پر جاری ہو جائیں تو وہ سمجھتا ہے کہ میں اب ولی ہو گیا ہوں.یہی نکتہ ہے جس پر انسان دھوکہ کھا تا ہے.خواب تو چوہڑوں، چماروں او ر کنجروں کو بھی آجا تے ہیں اور سچے بھی ہو جاتے ہیں.ایسی چیز پر فخر کرنا تو لعنت ہے.فرض کرو کہ ایک شخص کو چند خوابیں آگئی ہیں اور وہ سچی بھی ہو گئی ہیں مگر اس سے کیا بنتا ہے ؟ کیا سخت پیاس کے وقت ایک شخص کو دو چار قطرے پانی کے پلائے جاویں تو وہ بچ جائے گا ؟ ہر گز نہیں بلکہ اس کی تپش اور بھی بڑھے گی.ایسا ہی جب تک کہ کسی انسان کو پوری مقدار معرفت کی اپنی کیفیت اور کثرت کے سا تھ حا صل نہ ہو تب تک یہ خوابیں کچھ شَے نہیں.انسان کی عمدہ اور قابل تشفّی وہ حالت ہے کہ وہ عملی رنگ میں درست اور صاف ہو.اس کی عملی حالت خود اس پر گواہی دے.خدا تعالیٰ کے برکات اور زبردست خوارق اس کے سا تھ ہوں اور ہر دم اس کی تا ئید کرتے ہوں تب خدا اس کے ساتھ ہے اور وہ خدا کے سا تھ ہے.ہر ایک بات میں شیطان ایک موقع نکال لیتا ہے کہ لوگوں کو کسی طرح سے بہکائے.چونکہ ہم بار بار اپنی وحی اور الہام پیش کرتے ہیں اس واسطے بعض لوگوں کو یہ خیال ہوا کہ ہم بھی ایسا ہی کریں.یہ ایک ابتلا ہے جو اُن پر وارد ہوا اور اس ہلاکت کی راہ میں شیطان نے اُن کی امداد کی اور ان کو شیطانی القا اور حدیث نفس شروع ہوا.چراغ دین، الٰہی بخش، فقیر مرزا اور دوسرے بہت سے اس راہ میں ہلاک ہو گئے اور ہنوز بہت سے ایسے ہیں جن کا قدم اسی راہ پر ہے.ہماری جماعت کے آدمیوں کو چاہیے کہ ایسی باتوں سے دل ہٹا لیں.قیامت کے دن خدا تعالیٰ اُن سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم کو کس قدر الہام ہوئے تھے یا کتنی خوابیں آئی تھیں بلکہ عمل صالح کے متعلق سوال ہو گا کہ کس قدر نیک عمل تم نے کئے ہیں.الہام وحی تو خدا تعالیٰ کا فعل ہے کوئی انسانی عمل نہیں.

Page 88

خدا کے فعل پر اپنا فخر جاننا اور خوش ہونا جاہل کا کام ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ آپ بعض دفعہ رات کو اس قدر عبادت میں کھڑے ہو تے تھے کہ پاؤں پر ورم ہو جاتا تھا.ساتھی نے عرض کی کہ آپ تو گناہوں سے پاک ہیں اس قدر محنت پھر کس لئے.فرمایا.اَفَلَا اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا کیا میں شکر گذار نہ بنوں.انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہیے انسان کو چاہیے کہ مایوس نہ ہووے.گناہوں کا حملہ سخت ہوتا ہے اور اصلاح مشکل نظر آتی ہے مگر گھبرانا نہیں چاہیے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو بڑے گناہ گار ہیں.نفس ہم پر غالب ہے.ہم کیوں کر نیکوکار ہو سکتے ہیں؟ ان کو سوچنا چاہیے کہ مومن کبھی نا اُمید نہیں ہوتا.خد ا کی رحمت سے نا اُمید ہونے والا شیطان ہے اور کوئی نہیں.مومن کو کبھی بزدل نہیں ہونا چاہیے گو کیسا ہی گناہ سے مغلوب ہو.پھر بھی خدا تعالیٰ نے انسان میں ایک ایسی قدرت رکھی ہے کہ وہ بہر حال گناہ پر غالب آہی جاتا ہے.انسان میں گناہ سو ز قوت خدا نے رکھی ہے.جو اس کی فطرت میں موجو د ہے.ایک لطیف مثال دیکھو! پانی کو کیسا ہی گرم کیا جائے ایسا سخت گرم کیا جائے کہ جس چیز پر ڈالیں وہ چیز بھی جل جائے پھر بھی اگر اس کو آگ پر ڈالو تو وہ آگ کو بجھا دے گا کیونکہ اس میں خدا تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھ دی ہے کہ وہ آگ کو بجھا دیوے.ایسا ہی انسان کیسا ہی گناہ میں ملوث ہو اور کیسا ہی بد کاری میں غرق ہو پھر بھی اس میں یہ طاقت موجود ہے کہ وہ معاصی کی آگ کو بجھا سکتا ہے.اگر یہ بات انسان میں نہ ہوتی تو پھر وہ مکلّف نہ ہوتا بلکہ پیغمبر رسول کا آنا بھی پھر غیر ضروری ہوتا مگر دراصل فطرت انسانی پاک ہے اور جیسا کہ جسم کے لیے بھوک اور پیاس ہے تو کھانا اور پینا بھی آخر میسر آجاتا ہے انسان کے واسطے دم لینے کے واسطے ہو ا کی ضرورت ہے تو وہ موجود ہے اور جسم کے لیے جس قدر سامان ضروری ہیں جب کہ وہ سب مہیا کردئیے جاتے ہیں تو پھر روح کے واسطے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ کیوں مہیا نہ ہوں گی؟ خدا تعالیٰ رحیم، غفور اور ستار ہے اس نے روحانی بچاؤ کے واسطے بھی تمام سامان مہیا کر دئیے ہیں.انسان کو چاہیے کہ

Page 89

روحانی پانی کو تلاش کر ے تو وہ اُسے ضرور پا لے گا اور روحانی روٹی کو ڈھونڈے تو وہ اُسے ضرور دی جائے گی.جیسا کہ ظاہری قانون قدرت ہے ویسا ہی باطن میں بھی قانونِ قدرت ہے لیکن تلا ش شرط ہے جو تلاش کرے گا وہ ضرور پالے گا.خدا کے ساتھ تعلق پید ا کرنے میں جو شخص سعی کرے گا خدا تعالیٰ اس سے ضرور راضی ہو جائے گا.اس زمانہ کے مولوی یہ آخری زمانہ تھا اور تا ریکی سے بھرا ہوا تھا.اس زمانہ کے متعلق خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ اس زمانہ میں ایک آفتاب نکلے گا.مولوی لو گوں کو دیکھنا چاہیے کہ اس زمانہ میں تقویٰ کی کیا حالت ہو رہی ہے؟ ایک آدمی نے چار روپے کے زیور کے پیچھے ایک بچے کو قتل کر دیا تھا.ان مولویوں سے جو ہم پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں کوئی یہ پوچھے کہ کیا ہم کلمہ نہیں پڑھتے پھر کیا وجہ ہے کہ ان کے نزدیک ہم ہند وعیسائی وغیرہ ہر ایک سے بد تر ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ مولوی لوگ طمع نفسانی کے بندے ہیں.ایک شخص نے مجھے خوب کہا تھا کہ ان مولویوں کا خا موش کرانا کیا مشکل تھا؟ آپ ان سب کو بلا کر دو دو روپے دے دیتے تو سب خاموش ہو جاتے اور کوئی بھی آپ کی مخالفت نہ کر سکتا.میں نے کہا کہ ہم نے تو ان لوگوں کے تقویٰ پر بھر وسہ کیا تھا.ہمیں کیا معلوم تھا کہ ایسے نفسانی بندے نکلیں گے یہ تو منبروں پر کھڑے ہو کر کہا کرتے تھے کہ موسیٰ کہاں اور عیسیٰ کہاں.ہمیں کیا معلوم تھا کہ باوجود ایسے خطبے پڑھنے اور سنانے کے یہ وفات مسیح پر ایسے مشتعل ہوں گے کہ گویا تمام دارومدار اسلام کا حضرت عیسیٰ کی زندگی پر ہے.شیطان کے ساتھ آخری جنگ لیکن یہ لوگ جو چاہیں سو کر لیں.اب تو خدا تعالیٰ کا ارادہ ہو چکا ہے کہ شیطان کو ہلاک کر دے.شیطان کی یہ آخر ی جنگ ہے اور وہ ضرور ہلاک ہو گا.وہ ضرور قتل کیا جائے گا.شیطان نے بھی حیاتِ مسیح میں پناہ لی ہے مگر وفاتِ مسیح کے ثبوت کے سا تھ ہی شیطان بھی ہلاک ہو جائے گا.شیطان نے پادریوں کے ہاں اور ان کے حامیوں کے ہاںبسیرا کیا ہے مگر خدا کے مسیح کے سا تھ ملائک اور راستباز لوگ جمع ہو رہے ہیں اور اسلام کی مخالفت میں ہر طرح کا زور دکھایا جا رہا ہے.

Page 90

ہند وستان مجموعۃ المذاہب ہے اوّل تو یہ زمانہ ہی ایسا ہے کہ بہ سبب تار، ڈاک،ریل تمام زمین گویا ایک ہی شہر بن رہی ہے.ہر وقت کی خبریں آتی ہیں.کثرت سے لوگ اِدھر اُدھر آتے جاتے ہیں مگر بالخصوص ہندوستان ایسا ملک ہے جس میں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں.ایسے بھی ہیں جو وجود باری تعالیٰ کے منکر ہیں، پھر بے قید لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں جو چاہو سو کرو، پھر کتاب کے منکر برہمو موجود ہیں، انسان کے پجاری بھی ہیں، پتھروں کو خدا ماننے والے بھی ہیں، ایک لاکھ سے زائد مرتد عیسائی موجود ہیں، سورج پرست ہیں، پانی کی پوجا کرنے والے، آگ کی پو جا کرنے والے ہیں، آتش پرستی کے بڑے مندر کو زلزلے نے گرا دیا تھا تو اب نیا بنا رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ ایک زلزلہ اور آنے والا ہے.آزادی اس قسم کی ہے جو جس کے جی میں آتا ہے وہ کہہ گذرتا ہےکسی کی پروا نہیں.غرض یہ وہی وقت ہے اور بالخصوص ہند میں وہی نظارہ موجود ہے جس کے واسطے پہلے سے پیشگوئی کی گئی تھی.عیسائی لوگ پچاس پچاس ہزار کتاب اسلام کے بر خلاف شائع کر رہے ہیں.آریوں کے عقاید کا بوداپن ( ۱) آریہ سماجی کہتے ہیں کہ کئی ارب سالوں کے بعد دنیا میں ایک کتاب آتی ہے اور وہ بار بار وید ہی ہو تے ہیں اور ہند میں ہی آتے ہیں اور سنسکر ت کی ہی زبان اُن کے لئے خا ص ہے گویا پرمیشر کو اور کسی ملک یا زبان کی خبر ہی نہیں.نہیں معلوم کہ پر میشر ہندوستان پر ایسا کیوں ریجھ گیا ہے اور باوجود اس کے ہندوؤں کو ایسی ذلّت میں کیوں رکھا ہے؟ اس وقت عیسائی بھی بادشاہ ہیں، مسلمان بھی بادشاہ ہیں، بد ھ بھی بادشاہ ہیں مگر کہیں آریوں کی با د شاہی نہیں.معلوم نہیں کہ پرمیشر کو کیوں یہ بہت پسند آیا؟ شاید اس وجہ سے کہ یہاں نیوگی لوگ رہتے ہیں جو اپنی زندگی میں اپنی بیوی کے واسطے موٹا تازہ خاوند تلاش کرتے ہیں کہ اس سے ہمبستر ہو اور اس کے لئے خوبصورت بچے جنے اور یہ بھی شرط ضروری ہے کہ وہ بیرج داتا برہمن ہو.( ۲) پھر انسان کو ہنسی آتی ہے کہ آریوں کا یہ ناپاک عقیدہ ہے کہ انسان ایک مدت تک نجات یافتہ

Page 91

ہو کر مکتی خانہ میں رہے اور پھر ناکردہ گناہ کی وجہ سے وہاں سے نکالا جاوے اور کتا سؤر بلّا بنایا جاوے.آریہ کہتے ہیں کہ پرمیشر ہر ایک انسان میں تھوڑا سا گناہ بطور بیج کے لا زماً باقی رکھ لیتا ہے جو اس کو دوبارہ پھنسانے کے کام آتا ہے لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس بقیہ گناہ کے سبب پھر سزائیں ایسی مختلف کیوں دی جاتی ہیں کہ کوئی شیر بنایا جاوے اور کوئی بکری، کوئی بچّھو اور سانپ بنایا جاوے اور کوئی گھوڑا اور ہاتھی اور کوئی کِرمِ ناپاک بنایا جائے اور کوئی انسان پَـوِتَّـرْ.پھر انسانوں میں کوئی مر د بنایا جائے اور کوئی عورت.اس تفریق کا کیا سبب ہو سکتا ہے ؟ ( ۳) پھر یہ بھی آریوں کا ایک عجیب مسئلہ ہے کہ مختلف گناہوں کے سبب مختلف جونیں بنتی ہیں.اس سے تو لازم آتا ہے کہ جس قدر جونیں ہیں اسی قدر گناہوں کی تعداد ہو اور چونکہ الہامی کتاب صرف وید ہی ہے اس واسطے وہ تمام گناہ وید میں مذکور ہونے چاہئیں.لیکن جب وید کے احکام کو دیکھا جاتا ہے توان کی گنتی آریوں کے نزدیک بھی چند سو سے زائد نہ ہو گی.لیکن کئی ہزار قسم کے جانور تو جنگلوں میں موجود ہیں.کئی ہزار قسم کے کیڑے مکوڑے زمین پر رینگ رہے ہیں.پھر درختوں کے پرند اور سمندروں کے جا نور جن کی گنتی ہی نہیں یہ اتنی جونیں کہاں سے آگئیں.( ۴) آریہ لوگ کہتے ہیں کہ روحوں کو بہشت میں سے نکالنے کی ضرورت اس واسطے پڑے گی کہ ان کی عبا دت بہت محدود زمانہ کی تھی.ایسی محدود عبادت کا بدلہ بھی محدود وقت کے لئے ہونا چاہیے مگر یہ عقیدہ بہت ہی فاسد ہے آریہ لوگ ایسے محدود وقت کے خیال سے عبادت کرتے ہوں گے.اسلام میں تو یہ با ت نہیں ہمار ا عہد تو خدا کے سا تھ ابدی ہے ہم کسی محدود وقت کی نیت کے ساتھ خدا کی عبادت نہیں کرتے بلکہ ایسی نیت کو کفر جا نتے ہیں.ہم نے تو ہمیشہ کے لیے خدا کی عبادت کا جؤا اپنے گلے میں ڈال لیا ہے.اگر خدا تعالیٰ ہمیں وفات دے تو اس سے ہماری نیت میں کوئی فرق نہیں.ہم اسی عبادت کے ثواب کو سا تھ لے کر فو ت ہو تے ہیں.ہم اس کو محدود نہیں رکھتے.

Page 92

اسلا م کا خدا خد ا تعالیٰ کا شکر ہے کہ قرآن شریف نے ایسا خدا پیش نہیں کیا جو ایسی نا قص صفات والا ہو کہ نہ وہ روحوں کا مالک ہے نہ ذرّات کا مالک ہے نہ اُن کو نجات دے سکتا ہے نہ کسی کی توبہ قبول کر سکتا ہے بلکہ ہم قرآن شریف کے رو اس خدا کے بندے ہیں جو ہمارا خالق ہے.ہمارا مالک ہے.ہمارا رازق ہے.رحمان ہے.رحیم ہے.مالک یوم الدین ہے.مومنوں کے واسطے یہ شکر کا مقام ہے کہ اس نے ہم کو ایسی کتاب عطا کی جو اس کے صحیح صفات کو ظاہر کرتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے.افسوس ہے ان پر جنہوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی.ان مسلمانوں پر بھی افسوس ہے جن کے سامنے عمدہ کھانا اور ٹھنڈ ا پانی رکھا گیا ہے لیکن وہ پیٹھ دے کر بیٹھ گئے اور اس کھانے کو نہیں کھاتے.زمانے کے مصائب سے بچانے کے واسطے ان کے لیے ایک وسیع محل تیار کیا گیا جس میں ہزاروں آدمی داخل ہو سکتے ہیں مگر افسوس اُن پر کہ وہ خود بھی داخل نہ ہوئے اور دوسروں کو بھی داخل ہونے سے روک دیا.یہ نفخ صور کا وقت ہے کیا پہلے سے نہیں کہا گیا تھا کہ آخری زمانہ میں ایک قرناء آسمان سے پھونکی جائے گی.کیا وحی خدا کی آواز نہیں.انبیاء جو آتے ہیں وہ قرناء کا حکم رکھتے ہیں.نفخ صور سے یہی مراد تھی کہ اس وقت ایک مامور کو بھیجا جائے گا.وہ سناوے گا کہ اب تمہار اوقت آگیا ہے کون کسی کو درست کر سکتا ہے جب تک کہ خدا درست نہ کرے.اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو ایک قوت جاذبہ عطا کرتا ہے کہ لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہوتے چلے جاتے ہیں.خدا کے کام کبھی حبط نہیں جاتے.ایک قدرتی کشش کام کر دکھائے گی اب وہ وقت آگیا ہے جس کی خبر تمام انبیاء ابتدا سے دیتے چلے آئے ہیں.خدا تعالیٰ کے فیصلہ کا وقت قریب ہے اس سے ڈرو اور توبہ کرو.۱ بدر جلد ۷ نمبر ۲ مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۴تا۹ و الحکم جلد ۱۲ نمبر ۵ مورخہ ۱۸؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۳ تا ۶

Page 93

بلا تا ریخ سفر میں نمازوں کا قصر سوال پیش ہوا کہ اگر کوئی تین کوس سفر پر جائے تو کیا نماز وں کو قصر کرے ؟ فرمایا.ہاں دیکھو! اپنی نیت کو خو ب دیکھ لو.ایسی تما م باتوں میں تقویٰ کا بہت خیال رکھنا چاہیے.اگر کوئی شخص ہر روز معمولی کاروبار یا سفر کے لیے جاتا ہے تو وہ سفر نہیں بلکہ سفر وہ ہے جسے انسان خصوصیت سے اختیار کرے اور صرف اس کام کے لئے گھر چھوڑ کر جائے اور عرف میں وہ سفر کہلاتا ہے.دیکھو! یوں تو ہم ہر روز سیر کے لئے دو دو میل نکل جاتے ہیں مگر یہ سفر نہیں ایسے موقع پر دل کے اطمینان کو دیکھ لینا چاہیے کہ اگر وہ بغیر کسی خلجان کے فتویٰ دے کہ یہ سفر ہے تو قصر کرے.اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ ( اپنے دل سے فتویٰ لو ) پر عمل چاہیے ہزار فتویٰ ہو پھر بھی مومن کا نیک نیتی سے قلبی اطمینان عمدہ شَے ہے.عرض کیا گیا کہ انسانوں کے حالات مختلف ہیں بعض نو دس کوس کو بھی سفر نہیں سمجھتے.بعض کے لیے تین چار کوس بھی سفر ہے.فرمایا.شریعت نے ان باتوں کا اعتبار نہیں کیا.صحابہ کرام نے تین کوس کو بھی سفر سمجھا ہے.عرض کیا گیا.حضور بٹالہ جاتے ہیں تو قصر فرماتے ہیں.فرمایا.ہاں! کیونکہ وہ سفر ہے.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی طبیب یا حاکم بطور دورہ کئی گاؤں میں پھرتا رہے تو وہ اپنے تمام سفر کو جمع کر کے اسے سفر نہیں کہہ سکتا.قربانی کا بکرا سوال پیش ہوا.ایک سال کا بکرا بھی قربانی کے لیے جائز ہے ؟ فرمایا.مولوی صاحب سے پوچھ لو.اہلحدیث وحنفاء کا اس میں اختلاف ہے۱ قربانی کے لیے ناقص جانور ایک شخص نے حضرت سے دریافت کیا کہ اگر جانور مطابق علامات مذکورہ در حدیث نہ ملے تو کیا نا قص کو ذبح کر سکتے ہیں ؟ فرمایا.مجبوری کے وقت تو جائز ہے مگر آج کل ایسی مجبوری کیا ہے؟ انسان تلاش کر سکتا ہے ۱نوٹ از ایڈیٹر بدر.مولوی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ دو سال سے کم کا بکرا قربانی کے لیے اہلِ حدیث کے نزدیک جائز نہیں.

Page 94

اور دن کافی ہوتے ہیں خواہ مخواہ حجت کرنا یا تساہل کرنا جائز نہیں.۱ ۳؍جنوری ۱۹۰۸ء (بوقتِ سیر) قرآن کریم میں مذکور آخری زمانہ کی علامات فرمایا.قرآن مجید میں آتا ہے کہ کفار کہیں گے لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْۤ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ (الملک:۱۱ ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہتدبّر کے سوا ایمان صحیح نہیں ہوتا.سورۃ تکویر میں سب نشانات آخری زمانے کے ہیں.انہیں میں سے ایک نشان ہے وَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ(التکویر:۵) یعنی جب اونٹنیاں بیکار چھوڑی جائیں گی.اسی کی تفسیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وَلَیُتْـرَکُنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْـھَا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود بھی اسی زمانہ میں ہوگا بلکہ اس کے ابتدائی زمانے کے یہ نشان ہیں.پھر فرمایا وَ اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ ( التکویر : ۸ ) یعنی ایسے اسبابِ سفر مہیا ہو جائیں گے کہ قومیں باوجود اتنی دور ہونے کے آپس میں مل جائیں گی حتی کہ نئی دنیا پرانی سے تعلقا ت پیدا کر لے گی.یاجوج ماجوج کا آنا.دجّال کا نکلنا اور صلیب کا غلبہ یہ بھی اسی زمانے کے نشان ہیں.ان کے متعلق لو گوں نے غلط فہمی سے تنا قض پیدا کر لیا ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب الگ الگ ہیں.حالانکہ ان میں سے ہر ایک کی نسبت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ تمام روئے زمین پر محیط ہو جائیں گے.پس اگر یاجوج ماجوج محیط ہو گئے تو پھر دجّال کہاں احاطہ کرے گا اور صلیب کا غلبہ کس جگہ ہوگا ؟ سِوا یہ کہنے کے کچھ چارہ نہیں کہ یہ سب ایک ہی قوم کے مختلف افراد ہیں اور اگر ان کو ایک بنا دیں تو پھر کوئی مشکل نہ رہے گی.خدا تعالیٰ نے ان کی نسبت فرمایا ہے وَ تَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ يَّمُوْجُ فِيْ بَعْضٍ وَّنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًا( الکھف : ۱۰۰ ) جس سے ظاہر ہے کہ نہایت درجہ کا اختلاف پیدا ہوجائے گا اور سب مذاہب ایک دنگل میں ہو کر نکلیں گے.’’تَرَكْنَا ‘‘کا اس بات کی طرف اشارہ ۱ بدر جلد ۷ نمبر ۳ مورخہ ۲۳؍جنوری ۱۹۰۸ءصفحہ ۲

Page 95

ہے کہ آزادی کا زمانہ ہو گا اور یہ آزادی کمال تک پہنچ جائے گی تو اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے مامور کی معرفت ان کو جمع کرنے کا ارادہ کر ے گا.پہلے دیکھو جَمَعْنٰهُمْ فرمایا اور ابتدائے عالَم کے لئےخَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّ نِسَآءً(النّسآء: ۲) فرمایا.لفظ بَثَّ اور جَمَعَ آپس میں پوراتنا قض رکھتے ہیں گویا دائرہ پورا ہو کر پھر وہی زمانہ ہوجائے گا.پہلے تو وحدتِ شخصی تھی اب اخیر میں وحدتِ نوعی ہو جائے گی.اس سے آگے فرماتا ہے وَعَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَىِٕذٍ لِّلْكٰفِرِيْنَ عَرْضًا (الکھف:۱۰۱) یہ مسیح موعود کے زمانے کا ایک نشان بتلا یا کہ اس دن جہنم پیش کیا جاوے گا ان کافروں پر.یہ قیامت کا ذکر نہیں کیونکہ اس دن جہنم کا پیش کیا کرنا ہے اس روز تو اس میں کفّار داخل ہوں گے.جہنم سے مراد طاعون ہے.چنانچہ ہمارے الہامات میں کئی بار طاعون کو جہنم فرمایا گیا ہے.یَاْتِیْ عَلٰی جَھَنَّمَ زَمَانٌ لَّیْسَ فِیْھَا اَحَدٌ بھی ایک الہام ہے.اللہ تعالیٰ نے دو۲فرقوں کا ذکر فرما دیا.ایک تو وہ سعید جنہوں نے مسیح کو قبول کیا دوسرے وہ شقی جو مسیح کا کفر کرنے والے ہوں گے.اُن کے لئے فرمایا کہ ہم طاعون بطور جہنم بھیجیں گے اور نُفِخَ فِي الصُّوْرِ (الکھف:۱۰۰) سے یہ مراد ہے کہ جو لوگ خدا کی طرف سے آتے ہیں وحی کے ذریعہ ان میں آواز دی جاتی ہے اور پھر یہ آواز اُن کی معرفت تمام جہان میں پہنچتی ہے پھر ان میں ایک ایسی کشش پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگ باوجود اختلافِ خیالات وطبائع وحالات کے اس کی آواز پر جمع ہونے لگتے ہیں اور آخر کار وہ زمانہ آجاتا ہے کہ ’’ایک ہی گلہ اور ایک ہی گلہ بان ہو.‘‘ خدا تعالیٰ نے ہمارے لیے خود ہی ایسے اسباب مہیا کر دئیے ہیں کہ جس سے تمام سعید روحیں ایک دین پر جمع ہو سکیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا گیا تھا قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا (الاعراف:۱۵۹) ایک طرف یہ جَمِيْعًا دوسری طرف جَمَعْنٰهُمْ جَمْعًا ایک خا ص علاقہ رکھتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی کارروائی اس جمع کی تو اسی زمانہ نبوی میں شروع ہو گئی تھی مگر اسباب کا تہیّہ کمال پر اس زمانہ میں پہنچا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سفر کی تمام راہیں نہ کھلی تھیں.تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ

Page 96

بعض ایسے مقامات بھی ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت نہیں پہنچی مگر اب تو ڈاک، تار، ریل سے زمین کے اس سرے سے اُس سرے تک خبر پہنچ سکتی ہے.یہ حجاز ریلوے جو بن رہی ہے یہ بھی اسی پیشگوئی کے ماتحت ہے.عرب کے کئی لوگ کہنے لگ گئے ہیں کہ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (التکویر:۵) کا زمانہ آگیا.عِشار( گابھن اونٹنیاں) کا لفظ خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب قیامت سے پہلے ہو گا کیونکہ اس دن کی نسبت تو لکھا ہے کہ ہر حمل والی اپنا حمل گرا دے گی اور پھر اس دن تو ہر چیز معطل ہو جائے گی، اونٹنیوں کی خصوصیت کیا ہے ؟ مطلب یہ تھا کہ اب تجارت کا دارومدار اُونٹنیوں پر ہے پھر ریل پر ہو گا.اور چونکہ حدیث میں یہی زمانہ مسیح موعود کا لکھا ہے اس لئے اب عرب والوں کو مسیح موعود کی تلاش کرنی چاہیے.دیکھو! اب تو اُن کے گھر میں ریل بن رہی ہے اور خود ہمارے دشمن اس میں سر توڑ کوشش کر رہے ہیں.یہ بھی ایک نشان ہے کہ ہمارے دشمنوں کو خدا نے ہمارے کام میں لگا دیا ہے.چندہ تو دے رہے ہیں وہ اور صداقت ہماری ثابت ہو گی.نشانا ت کی تکذیب افسو س کہ یہ لوگ ہمارے بغض کی وجہ سے آنحضرتؐکی پیشگوئیوں کی تکذیب بھی کر دیتے ہیں مگر کس کس نشان کی یہ تکذیب کریں گے.خدا نے ہمارے لیے طاعون بھیجا.زلزلہ بھی آیا.یاجوج ماجوج دجّال کا خروج ہو چکا.کسوف خسوف ماہ ِرمضان میںغیر معمولی طور سے ہو چکا.کہتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے.نادان یہ نہیں سمجھتے کہ جب واقع ہو گئی تو اب راویوں پر جرح فضول ہے.جب کوئی اَمر واقع ہو جائے تو بڑا ہی بیوقوف ہے وہ شخص جو پھر بھی کہے فلاں راوی ایسا ہے اور فلاں ایسا.ایک بزرگ نے لکھا ہے کہ بعض حدیثیں صحیح، عجب نہیں اگر موضوع ثابت ہوں اور کئی ایسی حدیثیں جنہیں موضوع کہتے ہیں صحیح واقعات نے صحیح ثابت کیں.ان لوگوں میں ذرا بھی ایمان ہو تو مان لیں.دیکھو! حدیث وقرآن وحالات موجو دہ کا آپس میں کیا تطابق ہوا ہے یہ ہمیں مفتری کہتے ہے.اچھا الہام بنانے پر تو ہمارا اختیار ہے کیا آسمان پر بھی ہمارا ختیار تھا کہ ہم ماہِ رمضان میں خلافِ معمول کسوف خسوف کراتے؟ کیا طاعون پر ہمارا اختیار تھا کہ اُسے لے آتے ؟ کیا ریل ہماری کوشش سے بن رہی ہے

Page 97

اصل بات وہی ہے جو خدا نے عَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَىِٕذٍ لِّلْكٰفِرِيْنَ عَرْضًا( الکھف : ۱۰۱) سے آگے فرمایا اَلَّذِيْنَ كَانَتْ اَعْيُنُهُمْ فِيْ غِطَآءٍ عَنْ ذِكْرِيْ وَ كَانُوْا لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۠ سَمْعًا ( الکھف :۱۰۲) ذکر سے مراد یہ ہے کہ جو میں نے ان کو اپنے مامور کی معرفت یاد کیا.خدا کا یاد کرنا یہی ہوتا ہے کہ اپنی طرف سے ایک مصلح کو بھیج دیا.سو اس مامور سے وہ غفلت میں رہے.ان کی آنکھوں کے آگے طرح طرح کے شبہات کے حجاب چھائے رہے اور حق کا نور نظر نہ آیا.یہ کیونکہ جوش تعصب سے ان کی ایسی حالت ہوگئی جو وہ اس مامور کی بات کو سن ہی نہیں سکتے (وَ كَانُوْا لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۠ سَمْعًا)اب ان لوگوں کی حالت یہی ہو رہی ہے اور اس کی سزا بھی وہی مل رہی ہے جو قرآن مجید میں ہے کہ عَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَىِٕذٍ لِّلْكٰفِرِيْنَ عَرْضًا.۱ ۶؍جنوری ۱۹۰۸ء موجودہ حالات میں مصلح کی ضرور ت ایک دوست نے اپنا خواب بیان کیا جس میں یہ آیت بھی تھی وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا (الطلاق:۳) فرمایا.ایک عالمگیر عذاب کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے جس سے نجات کا ذریعہ صرف تقویٰ ہی ہے.دیکھو یہ قحط جو بڑھتا جاتا ہے یہ بھی شامت اعمال ہی ہے.جواس سے بچنا چاہتے ہیں وہ اللہ کے حضور توبہ کرے مگر توبہ کے آثار نظر نہیں آتے.یہ لوگ بار بار تکذیب کرتے ہیں.نشان پر نشان دیکھتے ہیں اور پھر نہیں مانتے.کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ یہ کیوں تکذیب وتکفیر پر کمر بستہ ہیں؟ نہ قرآن مجید ان کے ساتھ، نہ احادیث ان کے ساتھ موجود ہ حالات پکار پکار کر ایک مصلح کی ضرورت جتا رہی ہیں.غرض عقلی نقلی دونوں طریق سے یہی جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں مگر پھر بھی باز نہیں آتے.بار بار جہاد کو پیش کرتے ہیں مگر یہ نہیں سمجھتے کہ جب کوئی گورنمنٹ مذہب کے لئے نہیں لڑتی تو وہ جو خدا کی ۱ بدر جلد ۷ نمبر ۳ مورخہ ۲۳؍جنوری ۱۹۰۸ءصفحہ ۳

Page 98

طرف سے آیا وہ کس لئے تلوار سے جہاد کرتا؟ اب تو زمانہ دلائل سے جہاد کرنے کا ہے جو ہو رہا ہے.یہ لوگ عجیب قسم کی تا ریکی میں ہیں کہ انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا.جو اُن کے رہبر بنے ہوئے ہیں وہ عجیب قسم کے مکروں سے کام لے رہے ہیں.دنیا ہی دنیا میں ان کا مقصود ہے.اسلام میں ایک بیج بویا گیا تھا بجائے اس کے کہ اس کی آبیاری کرتے اس کو اُجاڑنے کے در پے ہیں.۱ ۸؍جنوری ۱۹۰۸ء آخر ی زمانہ کے اکثر نشانات پورے ہو چکے ہیں فرمایا.بڑے تعجب کی بات ہے کہ آخری زمانہ کے متعلق جس قدر نشانات تھے ان میں سے بہت پورے ہو چکے مگر پھر بھی لوگ توجہ نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ غنی ہے اور اس کو ان لوگوں کی پروانہیں جو اس سے لاپرواہی اختیار کرتے ہیں یہ لوگ دنیا کے معمولی کاموں کے لیے کس قدر تکلیفیں برداشت کرتے ہیں.اس کا عشر عشیر بھی دین کی تحقیق کے لئے محنت نہیں اُٹھاتے بلکہ طرح طرح کے بیہودہ عذر کرتے ہیں.حالانکہ جیسے اَور معمولی کام دنیا کے کر رہے ہیں ایسا ہی اس اَلنَّبَاِ الْعَظِيْمِ کی تحقیق بھی یہ کر سکتے ہیں جس پر اُخروی زندگی کی بہبودی کا دار و مدار ہے.مامور من اللہ کا انکا ر سب سے بڑا گناہ ہے ایک شخص نے جو اکثر صوفیوں کی صحبت میں رہا ہے عرض کیا کہ دعا کریں کہ مجھے خدا کا شوق ومعرفت حا صل ہو.فرمایا.پہلے ایما ن کو درست کرو.یہ ریا ضتیں جو طریقہ نبوی سے باہر ہیں یہ تو کسی کام نہ آئیں گی اور نہ منزل مقصود کو پہنچائیں گی.دیکھو! بعض جوگی اس قدر ریاضتیں کرتے ہیں کہ اپنے بازو سکھا دیتے ہیں.مگر اللہ کے نزدیک مقبول نہیں کیونکہ ایک تو ارشاد نبوی کے خلاف.دوم ایمان ہی نہیں اور اللہ تعالیٰ ۱ بدر جلد ۷ نمبر ۲ مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۳

Page 99

فرماتا ہے.اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ (المآئدۃ : ۲۸) یعنی اللہ ان کی عبادت قبول کرتا ہے جو خدا سے ڈرتے ہیں اور ڈرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کے منشا کے مطابق کام کرتے ہیں اور سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ اس کے مامور کو مانیں.دیکھو! یہودی خدا کو مانتے ہیں اور مشرک بھی نہیں.قبلہ بھی ان کا وہ ہے جو پہلے مسلمانوں کا رہ چکا ہے مگر پھر بھی خدا کے حضور مقبول نہیں.صرف اس لئے کہ اللہ کے رسول کو نہ مانا.رسولوں کو نہ ماننے سے وہی جنہیں عالمین پر فضیلت دی گئی تھی ملعون ہوئے.کیونکہ گناہ تو اور بھی ہیں مگر سب سے بڑا گناہ مامور من اللہ کا انکار ہے.غور کر کے دیکھو تو معلوم ہو جائے گا کہ سب سے بڑا گناہ یہ کیوں ہے؟ جس قدر گناہ ہیں و ہ سب خدا تعالیٰ کے احکام کی نافرمانبرداری سے پیدا ہو تے ہیں اور خدا کے احکام ماموروں کی معرفت دنیا پر ظاہر ہو تے ہیں.پس جب ان احکام کے لانے والے کو نہ مانا تو گویا اللہ کے کسی حکم کو بھی نہ مانا کیونکہ جس نے اللہ کی مرضی ظاہر کر نی تھی جب اس کا انکار کیا تو اس کی رضا مندی کی راہوں کا کیوں کر علم ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ یہودی باوجود خدا کو ماننے.نماز روزہ کرنے کے بندر سؤر کہلائے.وصول اِلَی اللہ کا ذریعہ اس شخص نے عرض کیا حضور میں ایمان لایا.فرمایا.پھر توبہ و استغفار وصول اِلَی اللہ کا ذریعہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) پوری کوشش سے اس کی راہ میں لگے رہو منزل مقصود تک پہنچ جاؤ گے.اللہ تعالیٰ کو کسی سے بخل نہیں.آخر انہی مسلمانوں میں سے وہ تھے جو قطب اور ابدال اور غوث ہوئے.اب بھی اس کی رحمت کا دروازہ بند نہیں.قلبِ سلیم پیدا کرو.نماز سنوار کر پڑھو.دعائیں کرتے رہو.ہماری تعلیم پر چلو.ہم بھی دعا کریں گے.طریق اسلام یاد رکھو! ہمارا طریق بعینہٖ وہی سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا تھا.آج کل فقراء نے کئی بدعتیں نکال لی ہیں.یہ چلّے اور وِرد وظائف جو انہوں نے رائج کر لیے ہیں ہمیں نا پسند ہیں.اصل طریق اسلام قرآن مجید کو تدبّر سے پڑھنا اور جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کرنا اور نماز توجہ کے ساتھ پڑھنا اور دعائیں توجہ وَ اِنابت اِلَی اللہ سے

Page 100

کرتے رہنا.بس نماز ہی ایسی چیز ہے جو معراج کے مراتب تک پہنچا دیتی ہے.یہ ہے تو سب کچھ ہے.والسلام۱ ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء اپنی کتابوں میں تکرارِ مضامین کی وجہ فرمایا.ہم جو کتاب کو لمبا کر دیتے ہیں اور ایک ہی بات کو مختلف پیرایوں میں بیان کرتے ہیں اس سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ مختلف طبائع مختلف مذاق کے ناظرین کسی نہ کسی طریقے سے سمجھیں اور شاید کسی کو کوئی نکتہ دل لگ جائے اور اسی سے ہدایت پالے اور یوں بھی اکثر دل جو طرح طرح کی غفلتوں سے بھرے ہوئے ہیں اُن کو بیدار کرنے کے لیے ایک بات کا بار بار بیان کرنا ضروری ہوتا ہے.آریوں کا رویہ تقویٰ سے بعید ہے فرمایا.عیسائیو ں کی دشمنی تو اسلام سے پرانی ہو گئی ہے اور ان کے پادری اب گلے پڑا ڈھول بجا رہے ہیں.مگر یہ آریہ ابھی تازہ تازہ دشمنی رکھتے ہیں اس لیے زیادہ پُر جوش ہیں.مگر افسوس کہ ان میں طلبِ حق نہیں.اُن کے اعتراضوں سے معلوم ہو تا ہے کہ ان کے معترضوں نے صحیح طور سے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا.چنانچہ یہ لکھتا ہے کہ مسلمان کہتے ہیں قرآن آسمان سے لکھا لکھایا اُترا.بھلاجی وہ کس طرح اُترا؟ دراصل مسلمان جو استعارے کے رنگ میں کہتے ہیں کہ قرآن مجید آسمان سے اترا ہے اس کے غلط معنے اس نے کر لیے مگر یہ طریق تقویٰ سے بہت بعید ہے.۲ ۱،۲بدر جلد ۷ نمبر ۲ مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۳

Page 101

۱۲ ؍جنوری ۱۹۰۸ء عوام میں مشہور ایمان کی علاما ت جمعہ کے دن مَرنا، مَرتے وقت ہوش کا قائم رہنا یا چہرہ کا رنگ اچھا ہونا.ان علامات کو ہم قاعدہ کلیہ کے طور سے ایمان کا نشان نہیں کہہ سکتے کیونکہ دہریہ بھی اس دن کو مَرتے ہیں.ان کا ہوش قائم اور چہرہ سفید رہتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ بعض امراض ہی ایسے ہیں مثلاً دِق و سِل کہ ان کے مریضوں کا اخیر تک ہوش قائم رہتا ہے بلکہ طاعون کی بعض قسمیں بھی ایسی ہی ہیں.ہم نے بعض دفعہ دیکھا کہ مریض کو کلمہ پڑھایا گیا اور یٰسٓ بھی سنائی.بعدا زاں وہ بچ گیا اور پھر وہی بُرے کام شروع کر دئیے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صدق دل سے ایمان نہیں لایا.اگر سچی توبہ کرتا تو کبھی ایسا کام نہ کرتا.اصل میں اس وقت کا کلمہ پڑھنا ایمان لانا نہیں.یہ تو خوف کا ایمان ہے جو مقبول نہیں.۱ ۱۳؍جنوری ۱۹۰۸ء (بوقتِ ظہر ) علماء کے نزدیک فرمایا.گویا ان کے نزدیک اپنی ہی قوم میں دجّال، اپنی ہی میں کافر.اپنی ہی میں سب بدیاں ہیں.باہر نظر نہیں جاتی تا دیکھیں کہ دجّالیت کس فرقے میں ہے اور کفار کون ہیں.۲ ۱۸ ؍جنوری ۱۹۰۸ء ہمارے مقابل پر خواب اور الہام جو الہام یا خواب ہمارے مقابل پیش کئے جائیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ پیش از وقت دعوے ۱ بدر جلد ۷ نمبر ۳ مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۳ ۲بدر جلد ۷ نمبر ۴ مورخہ ۳۰؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۳

Page 102

کے ساتھشائع کئے گئے ہوں اور پھر پورے ہوں.یوں تو ہر ایک مفتری کہہ سکتا ہے کہ میں نے ایسا خواب دیکھا جو پورا ہو گیا.۱ ۱۹ ؍جنوری ۱۹۰۸ء سچا مسیح کہاں ہے ؟ اگر ہم ہی ’’المسیح الدجّال‘‘ ہیں اور یہ بات کسی صحیح واقعہ پر مبنی ہے تو پھر احادیث میں تو اس کے ساتھ ہی مسیح موعود کا ذکر بھی ہے.پس بتائیں کہ وہ سچا مسیح کہاں ہے اور کب آسمان سے اُترا؟۲ بلا تا ریخ قرض کا علاج ایک شخص نے عرض کیا مجھ پر بڑا قرض ہے.دعا کیجئے.فرمایا.توبہ واستغفار کرتے رہو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو استغفار کرتا ہے اُسے رزق میں کشائش دیتا ہے.سودی لین دین پھر پوچھا کہ اتنا قرض کس طرح چڑھ گیا؟ اس نے کہا.بہت سا حصہ سود ہی ہے.فرمایا.بس پھر تو شامت اعمال ہے.جو شخص اللہ تعالیٰ کے حکم کو توڑتا ہے اسے سزا ملتی ہے.خدا تعالیٰ نے پہلے فرما دیا کہ اگر سود کے لین دین سے باز نہ آؤ گے تو لڑائی کا اعلان ہے.خدا کی لڑائی یہی ہے کہ ایسے لوگوں پر عذاب بھیج دیتا ہے.پس یہ مفلسی بطور عذاب اور اپنے کئے کا پھل ہے.سودی لین دین سے بچنے کا طریق اس شخص نے کہا.کیا کریں مجبوری سے سودی قرضہ لیا جاتا ہے.فرمایا.جو خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے خدا اس کا کوئی سبب پردۂِ غیب سے بنا دیتا ہے.افسوس کہ ۱،۲بدر جلد ۷ نمبر ۴ مورخہ ۳۰؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۳

Page 103

لوگ اس راز کو نہیں سمجھتے کہ متقی کے لئے خدا تعالیٰ کبھی ایسا موقع نہیں بناتا کہ وہ سودی قرضہ لینے پر مجبور ہو.یاد رکھو! جیسے اَور گناہ ہیں مثلاً زنا، چوری ایسے ہی یہ سود دینا اور لینا ہے.کس قدر نقصان دہ یہ بات ہے کہ مال بھی گیا، حیثیت بھی گئی اور ایمان بھی گیا.معمولی زندگی میں ایسا کوئی اَمر ہی نہیں کہ جس پر اتنا خرچ ہو جو انسان سود ی قرضہ لینے پر مجبور ہو.مثلاً نکاح ہے اس میں کوئی خرچ نہیں.طرفین نے قبول کیا اور نکاح ہو گیا.بعد ازاں ولیمہ سنّت ہے.سو اگر اس کی استطاعت بھی نہیں تو یہ بھی معاف ہے.انسان اگر کفایت شعاری سے کام لے تو اس کا کوئی بھی نقصان نہیں ہوتا.بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ اپنی نفسانی خواہشوں اور عارضی خوشیوں کے لیے خدا تعالیٰ کونا راض کر لیتے ہیں جو ان کی تباہی کا موجب ہے.دیکھو سود کا کس قدر سنگین گناہ ہے.کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں؟ سؤر کا کھانا تو بحالت اضطرار جائز رکھا ہے.چنانچہ فرماتا ہے فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَيْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ( البقرۃ : ۱۷۴) یعنی جو شخص باغی نہ ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں اللہ غفور رحیم ہے مگر سود کے لئے نہیں فرمایا کہ بحالت اضطرار جائز ہے بلکہ اس کے لئے تو ارشاد ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ( البقرۃ : ۲۷۹، ۲۸۰) اگر سُود کے لین دین سے باز نہ آؤ گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان ہے.ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ جو خدا تعالیٰ پر توکّل کرتا ہے اسے حاجت ہی نہیں پڑتی.مسلمان اگر اس ابتلا میں ہیں تویہ ان کی اپنی ہی بدعملیوں کا نتیجہ ہے.ہندو اگر یہ گناہ کرتے ہیں تو مالدار ہو جاتے ہیں.مسلمان یہ گناہ کرتے ہیں تو تباہ ہو جاتے ہیں.خَسِرَ الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةَ کے مصداق ہیں پس کیا ضروری نہیں کہ مسلمان اس سے باز آئیں ؟ انسا ن کو چاہیے کہ اپنے معاش کے طریق میں پہلے ہی کفایت شعاری مدّ نظر رکھے تا کہ سودی قرضہ اُٹھانے کی نوبت نہ آئے جس سے سود اصل سے بڑھ جاتا ہے.ابھی کل ایک شخص کا خط آیا تھا کہ ہزار روپیہ دے چکا ہوں.ابھی پانچ چھ سو باقی ہے.پھر مصیبت یہ ہے کہ عدالتیں بھی ڈگری

Page 104

دے دیتی ہیں مگر اس میں عدالتوں کا کیا گناہ جب اس کا اقرار موجود ہے تو گویا اس کے یہ معنے ہیں کہ سود دینے پر راضی ہے.پس وہاں سے ڈگری جاری ہو جاتی ہے.اس سے یہ بہتر تھا کہ مسلمان اتفاق کرتے اور کوئی فنڈ جمع کر کے تجارتی طور سے اُسے فروغ دیتے تاکہ کسی بھائی کو سود پر قرضہ لینے کی حاجت نہ ہوتی بلکہ اسی مجلس سے ہر صاحبِ ضرورت اپنی حا جت روائی کر لیتا اور میعاد مقررہ پر واپس دے دیتا.حکیم فضل دین صاحب نے سنایا کہ علامہ نور الدین بھیرہ میں حدیث پڑھا رہے تھے.باب الربٰو تھا.ایک سُود خور سا ہو کار آکر پاس بیٹھ گیا.جب سود کی ممانعت سنی تو کہا اچھا مولوی صاحب آپ کو نکاح کی ضرورت ہو تو پھر کیا کریں ؟ انہوں نے کہا بس ایجاب قبول کر لیا جائے.پوچھا اگر رات کو گھر میں کھانا نہ ہو تو پھر کیا کرو؟ کہا.لکڑیوں کا گٹھا باہر سے لاؤں روز بیج کر کھاؤں.اس پر کچھ ایسا اثر ہو ا کہ کہنے لگا آپ کو دس ہزار تک اگر ضرورت ہو تو مجھ سے بلا سود لے لیں.فرمایا.دیکھو جو حرام پر جلدی نہیں دوڑتا بلکہ اس سے بچتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے لیے حلال کا ذریعہ نکال دیتا ہے.مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا (الطلاق: ۳ ) جو سود دینے اور ایسے حرام کاموں سے بچے خدا تعالیٰ اس کے لئے کوئی سبیل بنا دے گا.ایک کی نیکی اور نیک خیال کا اثر دوسرے پر بھی پڑتا ہے.کوئی اپنی جگہ پر استقلال رکھے تو سود خور بھی مفت دینے پر راضی ہو جاتے ہیں.۱ بلاتا ریخ بنک کا سُود ایک صاحب کا ایک خط حضرت کی خدمت میں پہنچا کہ جب بینکوں کے سود کے متعلق حضور نے اجازت دی ہے کہ موجودہ زمانہ اور اسلام کے حالات کو مدّ نظر رکھ کر اضطرارکا اعتبار کیا جائے سو اضطرار کا اصول چونکہ وسعت پذیر ہے اس لیے ذاتی، قومی، ملکی، تجارتی وغیرہ اضطرارات بھی ۱ بدر جلد ۷ نمبر ۵ مورخہ ۶؍فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۵،۶

Page 105

پیدا ہو کر سود کا لین دین جاری ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ فرمایا.اس طرح سے لوگ حرامخوری کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں کہ جو جی چاہے کرتے پھریں.ہم نے یہ نہیں کہا کہ بینک کا سود بہ سبب اضطرار کے کسی انسان کو لینا اور کھانا جائز ہے بلکہ اشاعتِ اسلام میں اور دینی ضروریات میں اس کا خرچ جائز ہو نا بتلایا گیا ہے.وہ بھی اس وقت تک کہ امدادِ دین کے واسطے روپیہ مل نہیں سکتا اور دین غریب ہو رہا ہے کیونکہ کوئی شے خدا کے واسطے تو حرام نہیں.باقی رہی اپنی ذاتی اور ملکی اور قومی اور تجارتی ضروریات سو اُن کے واسطے اور ایسی باتو ں کے واسطے سود بالکل حرام ہے وہ جواز جو ہم نے بتلایا ہے وہ اس قسم کا ہے کہ مثلاً کسی جاندار کو آگ میں جلانا شرعاً منع ہے.لیکن ایک مسلمان کے واسطے جائز ہے کہ اس زمانہ میں اگر کہیں جنگ پیش آوے تو توپ بندوقوں کا استعمال کرے کیونکہ دشمن بھی اس کا استعمال کر رہا ہے.تراویح کی رکعات تراویح کے متعلق عرض ہوا کہ جب یہ تہجد ہے تو بیس رکعت پڑھنے کی نسبت کیا ارشاد ہے کیونکہ تہجد تو مع وتر گیارہ یا تیرہ رکعت ہے.فرمایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت دائمی تو وہی آٹھ رکعات ہے اور آپ تہجد کے وقت ہی پڑھا کرتے تھے اور یہی افضل ہے مگر پہلی رات بھی پڑھ لینا جائز ہے.ایک روایت میں ہے کہ آپ نے رات کے اوّل حصّے میں اسے پڑھا.بیس رکعات بعد میں پڑھی گئیں.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت وہی تھی جو پہلے بیان ہوئی.۱ بلا تا ریخ محرّم کی رسوم شیعہ تو اس غلطی میں تھے ہی ہمارے سنّی بھائی بھی کچھ اس رنگ میں رنگین ہوتے جاتے ہیں اور محرّم کے دنوں میں مرثیہ خوانی کی مجلسوں میں شریک ہوتے، تعزئیے بناتے ہیں۱ بدر جلد ۷ نمبر ۵ مورخہ ۶؍فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۷

Page 106

اور پھر کچھ شربت و چاول وغیرہ تقسیم کرتے ہیں.اس کے متعلق اما م الائمہ حجۃ اللہ خلیفۃ اللہ علی الارض کا فتویٰ نقل کر دیا جا تا ہے کہ کم از کم ہمارے احمدی بھائی ہی اس سے الگ رہیں.نیا ز مند اکمل نے سوال کیا کہ محرّم کی دسویں کو جو شربت وچاول وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اگر یہ للہ بہ نیت ایصال ثواب ہو تو اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے ( اماموں کے نام پر دینا تو حسب آیت وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ(البقرۃ : ۱۷۴) حرام ہے) فرمایا.ایسے کاموں کے لئے دن اور وقت مقرر کر دینا ایک رسم وبدعت ہے اور آہستہ آہستہ ایسی رسمیں شرک کی طرف لے جاتی ہیں.پس اس سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ ایسی رسموں کا انجام اچھا نہیں.ابتدا میں اسی خیال سے ہو مگر اب تو اس نے شرک اور غیر اللہ کے نام کا رنگ اختیار کر لیا ہے اس لئے ہم اسے ناجائز قرار دیتے ہیں.جب تک ایسی رسوم کا قلع قمع نہ ہو عقائد باطلہ دور نہیں ہوتے.۱ بلا تاریخ خواب تعبیر طلب ہوتی ہے کسی نے اپنا خواب بیان کیا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ گجرات میں انجیر ہو تی ہے اس کا شربت بنوا کر پیو.فرمایا.خواب تعبیر طلب بھی ہوتی ہے.انجیر گرمی سے بچاتی ہے.قرآن شریف میں بھی ’’تِیْن‘‘ کا ذکر ہے مگر وہاں اور اشارات ہیں.اس سے ثبوت نبوت دیا گیا ہے.طبابت ظنی علم ہے علم طبابت ظنی ہے کسی کو کوئی دوا پسند کسی کو کوئی.ایک دوا ایک شخص کے لیے مضر ہوتی ہے دوسرے کے لیے وہی دوا نافع، دوائیوں کا راز اور شفا دینا خدا کے ہاتھ میں ہے کسی کو یہ علم نہیں.کل ایک دوائی مَیں استعمال کرنے لگا تو الہام ہوا ’’خطرناک‘‘ ۱ بدر جلد ۷ نمبر ۵ مورخہ ۶؍فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۵

Page 107

دوا میں اندازہ کرنے پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے بلکہ ضرور تول لینا چاہیے.مسلمان کس طرح ترقی کر سکتے ہیں ؟ آریہ اگر یہ گند نہ بولتے تو ہمارے لیے تحریک نہ ہوتی.حقائق ومعارف کے لیے اُن کے اعتراضات بہانہ ہو گئے.غیر قوموں میں اپنے قومی مذہبی کاموں میں چندہ دینے کا جو جوش ہے وہ مسلمانوں میں نہیں.شاید اس لئے کہ’’ کریماں رابدست اندر درم نیست‘‘ مگر مسلمانوں میں بھی کئی نواب ہیں.کئی امراء و دولتمند.ہر مسلمان کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ سچائی پھیل جائے.مسلمانوں پر پہلے بھی جب اقبال کا زمانہ آیا تو دینی رنگ میں ترقی کرنے سے.اب بھی اگر وہ پہلا زمانہ دیکھنا چاہتے ہیں تو دین کی طرف توجہ کریں.ان لوگوں کی تقلید سچے مسلمانوں کے لئے کوئی نتیجہ نہیں دے سکتی.مسلمانوں میں جو آجکل مصلح بنے ہیں وہ بجائے اس کے کہ اپنی حالت درست کریں نماز روزہ کے احکام میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں.اس میں قوم کی ترقی سمجھتے ہیں.خدا تعالیٰ تو دین کے ذریعہ ترقی چاہتا ہے اور یہ لوگ بے دین ہونے سے ترقی طلب کرتے ہیں جس میں کبھی کامیابی نہیں ہو گی.اسلام ہی خدا کو واحد لاشریک مانتا ہے.اگر یہ مسلمان بھی ا س توحید سے الگ ہو گئے تو ان کے حق میں اچھا نہیں ہو گا.دوسری قوموں کی تقلید اُن کے لئے مبارک نہیں ہو سکتی.دوسروں کو اگر بے دینی سے کامیابی بھی ہوتی ہے تو یہ بطور ابتلا ہے.ہر شخص سے خدا تعالیٰ کا معاملہ علیحدہ ہے.عیسائی قومیں ناپسند کریں.شراب خوری قمار بازی کریں تو یہ اُن کے لئے مفید ہو سکتے ہیں لیکن اگر مسلمان ایسے کام کریں تو ان پر ضرور عذاب نا زل ہوگا.دیکھو! ظاہر ی سلطنت کا بھی یہی قاعدہ ہے کہ اگر ملازم کسی شورش کے جلسہ میں شامل ہو تو اس کو عبرت ناک سزا دی جاتی ہے.پس اسی طرح جو کلمہ پڑھنے والے ہیں یہ خدا کے خاص بندے ہیں.اگر یہ لوگ گستاخی کریں اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری نہ کریں تو ضرور گرفتار ہوں گے.یہ الہام جو ہم کو ہوا.’’ وہ وعدہ ٹلے گا نہیں جب تک خون کی ندیاں چاروں طرف سے بہہ نہ جائیں ‘‘

Page 108

تو اس میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کی توحید دنیا سے گم ہو.جب مسلمان ہی کفروشرک کو پسند کرنے لگیں تو پھر دوسری قوموں کا کیا گلہ ہو سکتا ہے؟ پہلے گھر صاف ہو تو پھر دوسرے لوگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے تمام قوموں میں دہریت بڑھتی جاتی ہے.خدا تعالیٰ اپنی ہستی ثابت کرنا چاہتا ہے اور اوّل خویشاں بعد درویشاں کے مطابق ہمارا فرض ہے کہ پہلے اپنی قوم کی اصلاح کریں.جب مسلمانوں ہی میں ہزاروں گندہوں تو دوسروں کو کیا کہا جاسکتا ہے.جہاد جہاد پکارتے ہیں.مگر میں کہتا ہوں کہ اگر ہمیں جہاد کرنے کا حکم ہوتا تو سب سے پہلے انہیں سے کیا جانا چاہیے تھا.یہ عادت اللہ ہے کہ جس قوم کے اندر کتاب ہو پہلے اسے درست کیا جا تا ہے پھر دوسری قوموں کی طرف توجہ ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ موجود ہے.سب سے پہلے قریش کی اصلاح کی پھر یہود ونصاریٰ کی طرف متوجہ ہوئے.مسلمانوں کے دو گروہ مسلمانوں میں دو قسم کے لوگ ہیں.ایک جو پورا کلمہ بھی پڑھنا نہیں جانتے جن میں سے وہ بھی ہیں جن کی نسبت آریہ مشہور کرتے رہتے ہیں کہ ہم نے اتنے مسلمانوں کو آریہ کر لیا.پہاڑ میں ایسے آدمی ہم نے بہت دیکھے جن کو اسلام کی کچھ خبر ہی نہیں.دوسرے وہ جو مہذّب تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں.یہ اسلام کو کراہت کی نظرسے دیکھتے ہیں.نما ز کے ارکان پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ نماز روزہ وحشیانہ زمانے کی باتیں ہیں.یہ احکام آجکل کے زمانہ میں مناسب نہیں.پس ان دونوں گروہوں کی اصلاح سب سے اوّل ضروری ہے مگر ہم کیا اصلاح کر سکتے ہیں جب تک آسمان ہی سے نہ ہو جس کے کان سننے کے ہوں اسے ہم بخوشی سناتے ہیں.بعض ایسے ہیں کہ بیان کرو وہ سنیں گے ہی نہیں یا بات کو دوسری طرف لے جائیں گے.بے دینی کی ایک زہرناک ہوا چل رہی ہے جس نے کسی کو ہلاک کر دیا کسی کو اندھا، کسی کو سُست.وہ جو خدا سے تعلق پیدا کرنے والے ہیں بہت تھوڑے رہ گئے ہیں.خدا کی ہستی ثابت کرنے کی بڑی ضرورت ہے.فرقے تو بہت ہوگئے تھے مگر دہریہ سب سے زیادہ ہیں عظمتِ الٰہی مطلق نہیں رہی.عظمت کیا ہو جب کہ خدا کے وجو د پر ہی پورا یقین نہیں رہا.

Page 109

آخری علاج ہر نبی کے زمانہ میں کچھ نہ کچھ خونریزی ہوئی.مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ(الانفال:۶۸) انسانوں کے ہاتھوں پر جو امور مقدر تھے وہ تو ختم ہو چکے.اب خدا نے ایسے کل امور کو اپنے ہاتھ میں لے لیا.یہ طاعون، زلزلے، طرح طرح کے امراض، مصائب سب خدا کی تلواریں ہیں.تعجب ہے کہ حا دثے پر حادثے آتے ہیں مصیبت پر مصیبت آتی ہے مگر ہماری جماعت کے سوا دوسرا کوئی ان سے متأثر نہیں ہوتا حالانکہ یہ سب بلائیں اس لیے ہیں کہ لوگوں کی غفلت دور ہو وہ تضرّع اختیار کریں اور سمجھیں کہ خدا ہے.دیکھو! ہر پہلو سے حا دثے واقعہ ہور ہے ہیں اور ابھی کیا معلوم کہ آگے آگے کیا ہونے والا ہے؟ ہمار ا مذہب تو یہ ہے کہ اب جو کچھ کرے گا خدا ہی کرے گا.جرّاحی آخری علاج ہے اور علاج تو سب ہو چکے.پس یہ آخری علاج ہے اب یابیمار مَرے گا یا صحت یاب ہو گا.کئی لاکھ انسان مَر چکا ہے مگر عملی حالت دکھاتی ہے کہ ابھی کچھ بھی نہیں ہوا.نیکی کی طرف سے بہت دُور ہیں اور بدی کی جانب قریب ہیں.استغفار کرنا چاہیے.آگے قاعدہ تھا کہ مسلمان بادشاہ عام طور پر وباؤں کے وقت انابت اِلَی اللہ اور دعا وصدقہ وخیرات کی طر ف توجہ دلاتے رہتے.اب یہ بھی نہیں بلکہ خدا کا نام لینا بھی خلافِ تہذیب سمجھا جاتا ہے.سلطان المعظّم۱ نے وزراء سے ایک اَمر کی نسبت مشورہ کیااور اس کے متعلق تجویزیں پوچھیں.جب سب تجویزیں بیان ہو چکیں تو کہا اَور تو سب کچھ کہا مگر یہ کسی نے نہ کہا کہ دعا بھی کرو.آخر مسلمان کا بچہ تھا.کچھ نہ کچھ خدا پرستی تو تھی.سلطان المعظّم جمعہ کی نماز کو بھی جاتا ہے.فقراء سے بھی نیاز رکھتا ہے اس لئے اچھا ہے.اس زمانہ کی ضلالت خدا تعالیٰ ابتداءِ زمانہ میں بولا کہ میں تیرا خدا ہوں.ایسا ہی اخیر زمانہ میں بھی اس نے فرمایاکہ انا الموجود یا د رکھو کہ وہ ’’ہادی‘‘ ہے.اگر ۱ حضور کا اشارہ غالباً سلطان ٹرکی کی طرف ہے.(مرتّب)

Page 110

چھوڑ دے تو سب دہر یہ بن جائیں.پس وہ اپنی ہستی کا ثبوت دیتا رہتا ہے اور یہ زمانہ تو بالخصوص اس بات کا محتاج ہے.جس چیز کی حکومت ہو اس کا اثر ظاہر ہو جاتا ہے آج کل اگر صالح آدمی جس نے حق پا لیا ہے خیال پر اثر نہیں ڈال سکتا تو معلوم ہوا کہ ضلالت کی حکومت ابھی باقی ہے.جب ایسی ہوا چلتی ہے تو سب اس کے اثر سے متأثر ہوجاتے ہیں.مومن اگرچہ بچا رہتا ہے مگر دوسروں پر اثر نہیں ڈال سکتا.ضلالت کے رُعب کا یہ حال ہے کہ بڑے بڑے تعلیم یافتہ ہیں اُن سے مذہب کی نسبت کوئی کچھ نہیں کہتا کہ شاید یہ ناراض ہو جائیں یا مجھ سے ہنسی ٹھٹھا ہو.حق کا اعلان مگر صحابہ کرام کی طرف دیکھنا چاہیے کہ اسلام کے ضعف کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام شاہوں کو خط لکھ دیا.ا س وقت ایسا مہذبانہ زمانہ بھی نہیں تھا نہ یہ امن کی صورت.صحابہ ؓنے ان خطوط کو پہنچایا اور بر سر دربار اپنے عقائد کو کھول کر بیان کیا.ایک عیسائی بادشاہ کو جب اسلام کا پیغام پہنچا اور اس نے صحابہ ؓسے کلامِ الٰہی سنا تو وہ بول اُٹھا یہ اس کا کلام معلوم ہو تا ہے جس نے تورات نازل کی اور کہا اگر اس نبی کے پاس میں جاسکتا تو اس کے قدم چومتا.پادریوں کو بُلا کر کہا.دیکھو! اسلام کیسا عمدہ مذہب ہے کیا تم اسے پسند کرتے ہو ؟ جب ان سے مخالفت محسوس کی تو کہہ دیا کہ میں تو تمہیں آزماتا تھا.یہ کمزوری دنیا کی حرص کا نتیجہ تھی جن میں دنیا پرستی نہیں و ہ حق کہنے اور حق کا اعلان کرنے سے نہیں ڈرتے اور ان کی خد ا مدد کرتا ہے.قولِ مُوَجّہ کی ضرورت ہماری جماعت کے لئے نہایت ضروری ہے کہ ہر طبقہ کے انسانوں کو مناسب حال دعوت کرنے کا طریق سیکھے.بعض کو باتوں کا ایسا ڈھنگ ہوتا ہے کہ جوکچھ کہنا ہوتا ہے وہ کہہ لیتے ہیں اور اس سے نا راضی بھی پیدا نہیں ہوتی.بعض ظاہر میں خبیث معلوم ہوتے ہیں جن سے نا اُمید ی ہوتی ہے مگر وہ قبول کر لیتے ہیں اور بعض غریب طبع دکھائی دیتے ہیں اور ان پر بہت کچھ امید ہو تی ہے مگر وہ قبول نہیں کرتے اس لیے قولِ مُوَجّہ کی ضرورت ہے جس سے آخر کار فتح ہوتی ہے.

Page 111

دہلی میں سخت مخالفت ہوئی.آخر مَیں نے کہا کہ تیرہ سو برس وہ نسخہ (حیاتِ مسیح ) آزمایا.اس کا نتیجہ دیکھا کہ کئی مرتد ہو گئے.اب یہ نسخہ (وفاتِ مسیح ) آزما دیکھو.دیکھو کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ ایک شخص بےاختیار اُٹھ کھڑا ہوا.اور کہا حق وہی ہے جو آپ فرماتے ہیں.غرض قولِ مُوَجّہ بڑی نعمت ہے.کسی نے کیا اچھا کہا ہے.ع ایہو ہیگی کیمیا جو کوئی جانے بول پیغام حق پہنچانے کا طریق ہر ایک کو ایسی بات کرنی نہیں آتی.پس چاہیے کہ جب کلام کرے تو سوچ کر اور مختصر کام کی بات کرے.بہت بحثیں کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا.پس چھوٹا سا چٹکلہ کسی وقت چھوڑ دیا جو سیدھا کان کے اندر چلا جائے پھر کبھی اتفاق ہوا تو پھر سہی.غرض آہستہ آہستہ پیغام حق پہنچاتا رہے اور تھکے نہیں کیونکہ آجکل خدا کی محبت اور اس کے ساتھ تعلق کو لوگ دیوانگی سمجھتے ہیں.اگر صحابہ ؓ اس زمانہ میں ہو تے تو لوگ انہیں سودائی کہتے اور وہ انہیں کافرکہتے.دن رات بیہودہ باتوں اور طرح طرح کی غفلتوں اور دنیاوی فکروں سے دل سخت ہوجاتا ہے.بات کا اثر دیر سے ہوتا ہے.ایک شخص علیگڑھی غالباً تحصیلدار تھا.میں نے اُسے کچھ نصیحت کی.وہ مجھ پر ٹھٹھا کرنے لگا.میں نے دل میں کہا میں بھی تمہارا پیچھا نہیں چھوڑنے کا.آخر باتیں کرتے کرتے اس پر وہ وقت آگیا کہ وہ یا تو مجھ پر تمسخر کر رہا تھا یا چیخیں مار مار کر رونے لگا.بعض وقت سعید آدمی ایسا معلوم ہو تا ہے جیسے شقی ہے.یاد رکھو! ہر قفل کے لیے ایک کلید ہے.بات کے لئے بھی ایک چابی ہے.وہ مناسب طرز ہے.جس طرح دواؤں کی نسبت مَیں نے ابھی کہا کہ کوئی کسی کے لئے مفید اور کوئی کسی کے مفید ہے.ایسے ہی ہر ایک بات ایک خا ص پیرائے میں خا ص شخص کے لئے مفید ہو سکتی ہے.یہ نہیں کہ سب سے یکساں بات کی جائے.بیان کرنے والے کو چاہیے کہ کسی کے بُرا کہنے کو بُرا نہ منائے بلکہ اپنا کام کئے جائے اور تھکے نہیں.امراء کا مزاج بہت نازک ہوتا ہے اور وہ دنیا سے غافل بھی ہوتے ہیں بہت

Page 112

باتیں سن بھی نہیں سکتے.انہیں کسی موقع پر کسی پیرائے میں نہایت نرمی سے نصیحت کر جانا چاہیے.۱ بلا تاریخ عقیقہ کس دن کرنا چاہیے عقیقہ کی نسبت سوال ہوا کہ کس دن کرنا چاہیے؟ فرمایا.ساتویں دن.ا گر نہ ہو سکے تو پھر جب خدا توفیق دے.ایک روایت میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ چالیس سال کی عمر میں کیا تھا.ایسی روایات کو نیک ظن سے دیکھنا چاہیے.جب تک قرآن مجید و احادیثِ صحیحہ کے خلاف نہ ہوں.مسجد کے ستونوں کے درمیان نماز پیل پایوں کے بیچ میں کھڑے ہونے کا ذکر آیا کہ بعض احباب ایسا کرتے ہیں.فرمایا.اضطراری حالت میں تو سب جائز ہے.ایسی باتوں کا چنداں خیال نہیں کرنا چاہیے اصل بات تو یہ ہے کہ خدا کی رضا مندی کے موافق خلوصِ دل کے ساتھ اس کی عبادت کی جائے ان باتوں کی طرف کوئی خیال نہیں کرتا.۲ ۲۶؍جنوری ۱۹۰۸ء قُربِ قیامت سے مراد ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور نے اپنی تقریر جلسہ ماہِ دسمبر میں فرمایا تھا کہ قیامت آنے والی ہے اور اس کا وقت قریب ہے.کیا اس سے یہ مراد ہے کہ کچھ سالوں کی بات ہے ؟ فرمایا کہ قرآن میں بھی ہے اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ (القمر: ۲ ) اور ایسی دیگر آیات پس سمجھ سکتے ہو کہ قریب کے کیا معنے ہیں؟ قرب الساعۃ کے جو نشانات تھے وہ تو ظاہر ہو چکے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ ۱ بدر جلد ۷ نمبر ۶ مورخہ ۱۳؍ فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۴،۵ ۲ بدر جلد ۷ نمبر ۶ مورخہ ۱۳؍فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰

Page 113

آخری زمانہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی ہولناک واقعہ پیش آتا تو فر ماتے کہ قیامت آگئی.نشان وہ ہوتا ہے جو اپنی عظمت سے رُعب ڈال دے ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ حضور کا الہام تھا.ستائیس کو خوشیاں منائیں گے.سو ۲۷ ماہ پوہ کو بارش ہو گئی اور لوگوں نے خوشیاں منائیں.فرمایا.یہ تکلّفات ہیں جو ہم نہیں چاہتے.خدا کا وہ نشان ہوتا ہے جو دل بول اُٹھیں بلکہ دشمن بھی کہہ دیں کہ یہ بات ہو گئی گو دشمن کا اقرار زبان سے محال ہے مگر تا ہم نشان وہ ہوتا ہے جو اپنی عظمت سے رعب ڈال دے.دعا کی دو قسمیں فرمایا.جو خط آتا ہے میں اُسے پڑھ کر اس وقت تک ہاتھ سے نہیں دیتا جب تک دعا نہ کر لوں کہ شاید موقع نہ ملے یا یاد نہ رہے.مگر دعا دو قسم ہے جو اس کوچہ میں داخل ہووے وہی خوب سمجھتا ہے.ایک معمولی.ایک شدّت توجہ سے.اور یہ آخری صورت ہر دعا میں میسر نہیں آتی.سوز اور قلق کا پیدا ہونا اپنے اختیار میں نہیں.کوئی مخلص ہو تو اس کے لئے خود ہی دعا کرنے کو جی چاہتا ہے.یوں تو ہر ایک شخص جو ہماری جماعت میں داخل ہے اس کے لئے ہم دعا کرتے ہیں.مگر مذکورہ بالا حالت ہر ایک کے لیے میسر نہیں آتی.یہ اختیاری بات نہیں پس جسے جوش دلانا ہو وہ زیادہ قرب حاصل کرے.مکر کے معنے فرمایا.جب انسان مکر کرتا ہے تو اس کے ساتھ خد ا بھی مکر کرتا ہے.مکر کا مقابلہ مکر کرے جب ہی بات بنتی ہے.نادان مکر کے لفظ پر اعتراض کرتے ہیں.یہ زبان کی نا واقفیت کی وجہ سے ہے اس میں کوئی بری بات نہیں.مَکْر اس باریک تدبیر کو کہتے ہیں جو خبیث آدمی کے دفع کے لئے کی جائے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنا نام خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ ( اٰل عـمران :۵۵ ) رکھا.حقیقی دعا دعا دو قسم ہے.ایک تو معمولی طور سے.دوم وہ جب انسان اُسے انتہا تک پہنچا دیتا ہے.پس یہی دعا حقیقی معنوں میں دعا کہلاتی ہے.انسان کو چاہیے کہ کسی مشکل پڑنے کے بغیر بھی دعا کرتا رہے.کیونکہ اسے کیا معلوم کہ خدا کے

Page 114

کیا ارادے ہیں اور کل کیا ہونے والا ہے؟ پس پہلے سے دعا کرو تابچائے جاؤ.بعض وقت بَلا اس طور پر آتی ہے کہ انسان دعا کی مہلت ہی نہیں پاتا.پس پہلے اگر دعا کر رکھی ہو تو اُس آڑے وقت میں کام آتی ہے.عذاب کا فلسفہ جب لوگ حد سے زیادہ دنیا میں دل لگاتے ہیں.خدا سے بے پروائی اختیار کرتے ہیں تو انہیں متنبہ کرنے کے لئے عذاب نازل ہوتا ہے.دیکھو طاعون کیسی تباہی ڈال رہی ہے.ایک کو دفن کر کے آتے ہیں تو دوسرا جنازہ تیار ہوتا ہے.یاد رکھو کہ بت پرستی، انسان پرستی، مخلوق پرستی کی سزا آخرت میں ہے.مگر شوخیوں بدمعاشیوں، ظلم وتعدی، غفلت اور اہل حق کو ستانے و دکھ دینے کی سزا اسی دنیا میں دی جاتی ہے.نوح کے وقت جو عذاب آیا اگر خدا کے رسول کو نہ ستاتے تو وہ عذاب نہ آتا.یہ شوخی پر اس لیے عذاب آتا ہے کہ ’’ایک چور دوسرا چتر ‘‘دنیا دار المکافات نہیں.اس میں دست بدست سزا صرف اُسے ملتی ہے جو بدمعاشی کرے.جو شرافت کے سا تھ گناہ میں گرفتار ہو تو اس کی سزا آخرت میں ہے اور اب جو دنیا میں عذاب آیا تو اسی لیے کہ دلیری، شوخی، شرارت حدسے بڑھ گئی ایسی کہ گویا خدا ہے ہی نہیں.طاعون نے اس قدر سخت بربادی کی مگر ابھی اُن کے دلوں نے کچھ محسوس نہیں کیا.پوچھو تو ہنسی ٹھٹھے میں گذار دیتے ہیں.بعض کہتے ہیں معمولی بیماری ہے گویا خدا کے قضاء وقدر سے منکر ہیں.بے شک یہ بیماری ہے مگر انہی بیماریوں سے عذاب آیا کرتا ہے.یہودیوں پر جب یہ وباپڑی تو خدا نے اسے عذاب فرمایا.یاد رکھو کہ جب خدا چاہتا ہے انہیں بیماریوں کو شدت وکثرت میں بڑھا کر ہلاک کر دیتا ہے.ان لوگوں کی بے یقینی کی یہ علامت ہے کہ عذاب کو عذاب نہیں سمجھتے.خدا رحیم ہے.سزا دینے میں دھیماہے مگر یہ لوگ یاد رکھیں کہ جب تک وہ وقت نہ آئے گا کہ پکار اُٹھیں’’ اب ہم سمجھے‘‘ یہ عذاب ہٹنے کا نہیں.اس کا علاج وہی ہے جو ہم بار ہا دفعہ بتا چکے ہیں.یعنی تضرّع وانابت اِلَی اللہ.۱

Page 115

۳؍فروری ۱۹۰۸ء مومن پر ابتلا نہ آنا سنّت اللہ کے خلاف ہے خدا کے مامور پر ایمان لانے کے ساتھ ابتلا ضروری ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ(العنکبوت :۳) کیا لوگوں نے سمجھا کہ چھوڑے جائیں گے یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لائے اور آزمائے نہ جائیں گے؟ گویا ایمان کی شرط ہے آزمایا جانا.صحابہ کرام کیسے آزمائے گئے؟ ان کی قوم نے طرح طرح کے عذاب دئیے اُن کے اموال پر بھی ابتلا آئے.جانوں پر بھی، خویش واقارب پر بھی، اگر ایمان لانے کے بعد آسائش کی زندگی آجا وے تو اندیشہ کرنا چاہیے کہ میرا ایمان صحیح نہیں کیونکہ یہ سنّت اللہ کے خلاف ہے کہ مومن پر ابتلا نہ آئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی نہیں ہو سکتا.وہ جب اپنی رسالت پر ایمان لائے تو اسی وقت سے مصائب کا سلسلہ شروع ہو گیا.عزیزوں سے جدا ہوئے.میل ملاپ بند کیا گیا.ملک سے نکالے گئے.دشمنوں نے زہر تک دے دیا.تلواروں کے سامنے زخم کھائے.اخیر عمر تک یہی حا ل رہا.پس جب ہمارے مقتدا وپیشوا کے ساتھ ایسا ہوا تو پھر اس پر ایمان لانے والے کو ن ہیں جو بچے رہیں؟ ایسے ابتلا جب آویں تو مردانہ طریق سے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے.ابتلا اسی واسطے آتے ہیں کہ صادق جُدا ہو جائے اور کاذب جُدا.خد ا رحیم ہے مگر وہ غنی اور بےنیاز بھی ہے جب انسان اپنے ایمان کو استقامت کے سا تھ مدد نہ دے.تو خدا کی مد د بھی منقطع ہو جاتی ہے.بعض آدمی صرف اتنی سی بات سے دہر یہ ہو جاتے ہیں کہ ان کا لڑکا مَر گیا یا بیوی مَر گئی یا رزق کی تنگی ہو گئی حالانکہ یہ ایک ابتلا تھا جس میں پورا نکلتے تو انہیں اس سے بڑھ کر دیا جاتا اور رزق کی تنگی سے پرا گندہ دل ہونا مومن کا کام متقی کا شیوہ نہیں یہ جو ع پراگندہ روزی پراگندہ دل

Page 116

کہتے ہیں.اس کے یہ معنے ہیں کہ جو پراگندہ دل ہو وہ پراگندہ روزی رہتا ہے.اور اوّل تو صادقوں کے سوانح دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے خو د اپنے تئیں پراگندہ روزی بنا لیا.دیکھو! حضرت ابو بکرؓ تاجر تھے بڑے معز ز، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر سب کو دشمن بنا لیا.کاروبار میں بھی فرق آگیا یہاں تک کہ اپنے شہر سے بھی نکلے.یہ بات خوب یاد رکھو کہ سچی تقویٰ ایسی چیز ہے جس سے تمام مشکلات حل ہو جاتی ہیں اور کُل پراگندگیوں سے نجات ملتی ہے.جھوٹے ہیں وہ لوگ جو خدا تعالیٰ پر تہمتیں دیتے ہیں.تمام انبیاء وراستبازوں کی گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ رحیم وکریم کوئی نہیں.انسان جو حد سے زیا دہ تنگ ہوجاتا ہے تو یہ اس کی اپنی ہی غلطی کا نتیجہ ہے.توکّل میں کمی ہوتی ہے صدقِ قدم نہیں ہوتا.صحیح طور سے مومن معلوم کرنا مشکل ہے انسان کہہ سکتا ہے میں صالح ہوں، زاہد ہوں مگر خدا کے نزدیک وہ بد کار ہو تا ہے.ایسے ہی بعض ایسے بندے بھی ہیں جو لوگوں میںبُرے سمجھے جاتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی صالح ہیں.دیکھو! ابو جہل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بُرا سمجھا مگر اللہ کے نزدیک آپ سرورِ کائنات تھے.ابو جہل کو آپؐکے بُرے ہونے پر یقین تھا کہ اُس نے مباہلہ تک کر لیا اور کہا.اَللّٰھُمَّ مَنْ کَانَ اَفْسَدُ لِلْقَوْمِ وَاَقْطَعُ لِلرِّحـْمِ فَاھْلِکْہُ الْیَوْمَ.معلوم ہوتا ہے اسے پکا یقین تھا جبھی تو یہ کلمات کہے مگر اس کا نتیجہ کیا ہوا ؟ کہ خدا تعالیٰ نے فعلی رنگ میں ظاہر کر دیا کہ صادق اور پاکباز کون ہے اور کاذب اور بدکار کون؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْۤ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ( الملک : ۱۱ ) علم صحیح اور عقل سلیم یہ بھی خو ش قسمتی کی نشانیاں ہیں.جس میں شقاوت ہو اس کی مت ماری جاتی ہے وہ نیک کو بد اور بد کو نیک سمجھتا ہے.۱ ۱ بدر جلد ۷ نمبر ۷ مورخہ ۲۰؍فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۳ ،۴

Page 117

بلا تا ریخ۱ امر حق کے پہنچانے میں کسی قسم کا اخفا نہیں رکھنا چاہیے ایک مخلص بھائی نے اپنا قصہ سنایا کہ ایک نواب ریاست نے جو شیعہ ہے اُن سے آپ کے بارے میں چند سوال کئے او ر ان کے میں نے یہ جواب دئیے مرزا صاحب کا آل نبی کے بارے میں کیا عقیدہ ہے.ہم سنتے ہیں کہ وہ ان کی توہین کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ان کا ایک شعر ہے.؎ جان و دلم فدائے جمالِ محمدؐ است خاکم نثار کوچہءِ آلِ محمدؐ است دوم یہ کہ یزید کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے انہوں نے یہ شعر پڑھا.؎ ہر طرف کفر است جو شاں ہمچو افواجِ یزید دین حق بیمار و بیکس ہمچو زین العابدین جب اس طرح کوئی اعتراض کا موقع نہ پایا تو پوچھا کہ تم ان کے نہ ماننے والوں کو کیا سمجھتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ جو مہدی موعود کے مخالفین کو سمجھنا چاہیے اور جو کچھ اہل سنّت وشیعہ سمجھتے ہیں.پوچھا کہ رسالت کے مدعی ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ان کا ایک شعر ہے.؎ من نیستم رسول و نیاوردہ اَم کتاب ہاں ملہم استم و ز خداوند منذرَم اس پر دوسرے روز فرمایا کہ اس کی تشریح کر دینا تھا کہ ایسا رسول ہونے سے انکار کیا گیا ہے جو صاحبِ کتاب ہو.دیکھو! ۱یہ ۱۹۰۱ء کا واقعہ ہے اور اسی پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’ایک غلطی کا ازالہ ‘‘لکھا تھا.(مرتّب)

Page 118

جو امور سماوی ہوتے ہیں ان کے بیان کرنے میں ڈرنا نہیں چاہیے اور کسی قسم کا خوف کرنا اہلِ حق کا قاعدہ نہیں.صحابہ کرام کے طرز عمل پر نظر کرو.وہ بادشاہوں کے درباروں میں گئے اور جو کچھ ان کا عقیدہ تھا وہ صاف صا ف کہہ دیا.اور حق کہنے سے ذرا نہیں جھجکے جبھی تو لَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىِٕمٍ(المآئدۃ :۵۵ ) کے مصداق ہوئے.مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ نبوت ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں.اصل یہ نزاع لفظی ہے.خدا تعالیٰ جس کے سا تھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بہت بڑھ کر ہو اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے پس ہم نبی ہیں.ہاں یہ نبوت تشریعی نہیں جو کتاب اللہ کو منسوخ کرے اور نئی کتاب لائے.ایسے دعوے کو تو ہم کفر سمجھتے ہیں.بنی اسرائیل میں کئی ایسے نبی ہوئے ہیں جن پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی.صرف خد ا کی طرف سے پیشگوئیاں کرتے تھے جن سے موسوی دین کی شوکت وصداقت کا اظہار ہو.پس وہ نبی کہلائے.یہی حال اس سلسلہ میں ہے.بھلا اگر ہم نبی نہ کہلائیں تو اس کے لیے اور کونسا امتیازی لفظ ہے جو دوسرے ملہموں سے ممتاز کرے.دیکھو! اور لوگوں کو بھی بعض اوقات سچے خواب آجاتے ہیں بلکہ بعض دفعہ کوئی کلمہ بھی زبان پر جاری ہو جاتا ہے جو سچ نکل آتا ہے.یہ اس لیے تا اُن پر حجت پوری ہو اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم کو یہ حواس نہ دئیے گئے پس ہم سمجھ نہیں سکتے کہ یہ کس بات کا دعویٰ کرتے ہیں؟ آپ کو سمجھانا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ کس قسم کی نبوت کے مدعی ہیں.ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ جس دین میں نبوت کا سلسلہ نہ ہو وہ مردہ ہے.یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں کے دین کو جو ہم مردہ کہتے ہیں تو اسی لیے کہ اُن میں اب کوئی نبی نہیں ہوتا.اگر اسلام کا بھی یہی حال ہوتا تو پھر ہم بھی قصہ گو ٹھہرے.کس لیے اس کو دوسرے دینوں سے بڑھ کر کہتے ہیں؟ آخر کوئی امتیاز بھی ہونا چاہیے.صرف سچے خوابوں کا آنا تو کافی نہیں کہ یہ تو چوہڑے چماروں کو

Page 119

بھی آجاتے ہیں.مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ ہونا چاہیے اور وہ بھی ایسا کہ جس میں پیشگوئیاں ہوں اور بلحا ظ کمیت وکیفیت کے بڑھ چڑھ کر ہو.ایک مصرعہ سے تو شاعر نہیں ہو سکتے.اسی طرح معمولی ایک دو خوابوں یا الہاموں سے کوئی مدعی رسالت ہو تو وہ جھوٹا ہے.ہم پر کئی سالوں سے وحی ناز ل ہو رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے کئی نشان اس کے صدق کی گواہی دے چکے ہیں اسی لیے ہم نبی ہیں.اَمر حق کے پہنچانے میں کسی قسم کا اخفا نہ رکھنا چاہیے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پا ک زندگی فرمایا.آریہ اعتراض کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پَـوِتَّـرْ نہیں تھی.یہ ان لوگوں کی سخت غلطی ہے کیونکہ پاک ناپاک ہونا بہت کچھ دل سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا حال سوائے اللہ کے اور کسی کو معلوم نہیں.پس پاک وہ ہے جس کے پاک ہونے پر خدا گواہی دے.دیکھو ابو جہل نے مباہلہ کیا تھا کہ جو ہم میں اَفْسَدُ لِلْقَوْمِ اور اَقْطَعُ لِلرَّحْـمِ ہے اسے ہلاک کر.وہ اسی روز ہلاک ہو گیا.ایسا ہی خسرو پرویز.وہ تو خدا کی بات ہے.خود اس کے گھر میں ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غلام سے مباہلہ کیا.مدت مقررہ کے اندر مَر کر گواہی دے گیا.اسلام کی فتح پھر اسی آریہ نے لکھا ہے کہ الہامی کتاب وہ ہے جس سے اللہ کے اعلیٰ درجہ کے اخلاق ظاہر ہوں.فرمایا.یہ سچ ہے اور اس میں بھی اسلام ہی کی فتح ہے.یہ آریہ اللہ کے رحیم وغفور ہونے کے قائل نہیں حالانکہ ان میں سے کوئی مقدمہ میں پھنس جائے تو یہ دل سے چاہتا ہے کہ خواہ میں نے قصور کیا مجھے حاکم بخش دے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت چاہتی ہے کہ اس کا حاکم غفور رحیم ہے پھر باوجود اس کے اللہ کی اسی صفت سے انکار ایک ہٹ دھرمی ہے.۱ ۱ بدر جلد ۷ نمبر ۹ مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۲ و الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۷ مورخہ ۶؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۵

Page 120

۱۰ ؍فروری ۱۹۰۸ء (بوقتِ ظہر ) شیعوں کا مبالغہ فرمایا.شیعوں نے مبالغہ کی حد کر دی.ایک شیعہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے تمام انبیاء حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی امام حسینؓ کی شفاعت کے محتاج ہیں.پھر کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ پر وحی آئی تھی مگر جبریل بھول گیا.اور یہ بھی لکھا ہے کہ آنحضرتؐجب معراج کو گئے تو آگے علی ؓ موجود تھے اور ایک شخص حضرت علیؓ کو خدا کہتا تو کہا کہ اچھا لاکھوں کروڑوں بندے خدا کے اور ایک بندہ تو میرا ہی سہی.گویا حضرت علی ؓ کو خدا بنا دیا ہے.تعجب ہے کہ علی آسمان پر تو خدا ہے مگر زمین پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف ایک صحابی ہے جو معمولی خلافت کو بھی نہ سنبھال سکا.معلوم نہیں کہ لوگ شیعہ میں کون سا اسلام پاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کل صحابہ ؓ کو سوائے دو چار کے یہ مرتد کہتے ہیں.اُمہات المومنین پر سخت اعتراض کرتے ہیں.قرآن کو بیاضِ عثمانی قرار دیتے ہیں.جس قوم کے پاس کتاب اللہ نہیں اس کا مذہب ہی کیا ہوا.کیا گالیاں دینا اور گھر بیٹھ کر دوسروں پر اور مَرے ہوؤں پر تبرّے بھیجتے رہنا یہ بھی کوئی مذہب ہے ؟ پھر تقیہ جس سے بُری کوئی بات نہیں ہو سکتی یعنی جس سے دب گئے یا جہاں کوئی اپنا مطلب جاتا دیکھا وہاں اپنے عقیدہ سے انکار کر دیا.پھر بتائیں کہ ان کی کوئی عمدہ تفسیر بھی ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ لوگ کلام الٰہیہ کے واقف ہیں.ہم نے تو جو تفسیر دیکھی ان میں ہر ایک آیت کے یہی معنی دیکھے کہ یہ علی کے حق میں ہے.مقطعات میں بھی یہی خبط رہا ہے.كٓهٰيٰعٓصٓ.ک سے مراد کربلا ہے.پھر توحید جو مذہب اسلام کی روح ہے اس کا یہ حال کہ آریہ باوجود سخت معاند اسلام ہونے کے ان سے اچھے ہیں جو ہزار ہابتوں کی پرستش سے نفرت رکھتے ہیں اور ان لوگوں نے بت پرستی کو از سر نو جاری کر دیا.اجی کوئی پتھر پرست یا درخت پرست یا انسان پر ست ہو.ایک ہی بات ہے.

Page 121

یہ امام حسینؑ کے فضائل بے شک بیان کریں ہم منع نہیں کرتے اور جس حد تک انبیاء کرام کی تکذیب لازم نہ آئے اور راست بازوں کی ہتک نہ ہو ہم ماننے کو تیار ہیں مگر یہ تو نہیں کہ انہیں خدا بنا لیں.اگر واقعی ان کو امام حسینؓسے محبت ہے تو ان کی پیروی کریں.جس سے انسان کو محبت ہو وہ اس کے رنگ سے رنگین ہونا چاہتا ہے اور اُس (کے) سے کام کرنا اپنا دین وایمان سمجھتا ہے.اتنے پیغمبر گذرے ہیں کیا کبھی کسی نے کہا ہے کہ میری بندگی کرو ؟ اصل بات تو یہ ہے کہ دُور دُور سے گمراہوں کا جو اسلام میں ہو کر اس درجہ تک پہنچے ہدایت پانا نسبتًا مشکل ہے.امام حسین کو میں نے دو مرتبہ دیکھا ہے.ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ دور سے ایک شخص چلا آرہا ہے اور میری زبان سے یہ لفظ نکلا.ابو عبداللہ حسین.پھر دوبارہ دیکھا.آداب مجلس ہمارا مذہب تو یہ ہے اور یہی مومن کا طریق ہونا چاہیے کہ بات کرے تو پوری کرے ورنہ چپ رہے.جب دیکھو کہ کسی مجلس میں اللہ اور اس کے رسول پر ہنسی ٹھٹھا ہو رہا ہے تو یا تو وہاں سے چلے جاؤ تا کہ ان میں سے نہ گنے جاؤ اور یا پھر پورا پورا کھول کر جواب دو.دو باتیں ہیں یا اعتراض یا چپ رہنا.یہ تیسرا طریق نفاق ہے کہ مجلس میں بیٹھے رہنا اور ہاں میں ہاں ملائے جانا.دبی زبان سے اخفا کے ساتھ اپنے عقیدہ کا اظہار کرنا.۱ ۲۵ ؍فروری ۱۹۰۸ء (قبل نماز عصر ) والدین کی فرمانبرداری بجا لیکن خد ا تعالیٰ کا حق مقدم ہے ایک شخص نے سوال کیا کہ یا حضرت! والدین کی خدمت اور ان کی فرمانبرداری اللہ نے انسان پر فرض کی ہے مگر میرے والدین حضور کے سلسلہ بیعت میں داخل ہونے کی وجہ سے مجھ سے سخت بیزار ہیں اور میری شکل تک دیکھنا پسند نہیں کرتے.چنانچہ جب میں حضور کی بیعت کے واسطے آنے کو تھا تو انہوں نے مجھے کہا کہ ہم سے خط وکتابت ۱ بدر جلد ۷ نمبر ۱۰ مورخہ ۱۲؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۴

Page 122

بھی نہ کرنا اور اب ہم تمہاری شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے اب میں اس فرضِ الٰہی کی تعمیل سے کس طرح سبکدوش ہو سکتا ہوں.فرمایا کہ قرآن شریف جہاں والدین کی فرمانبرداری اور خدمت گذاری کا حکم دیتا ہے وہاں یہ بھی فرماتا ہے کہ رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِيْ نُفُوْسِكُمْ١ؕ اِنْ تَكُوْنُوْا صٰلِحِيْنَ فَاِنَّهٗ كَانَ لِلْاَوَّابِيْنَ۠ غَفُوْرًا (بنی اسـرآءیل : ۲۶) اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اگر تم صالح ہو تو وہ اپنی طرف جھکنے والوں کے واسطے غفور ہے.صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی بعض ایسے مشکلات آگئے تھے کہ دینی مجبوریوں کی وجہ سے ان کی ان کے والدین سے نزاع ہو گئی تھی.بہرحال تم اپنی طرف سے ان کی خیریت اور خبرگیری کے واسطے ہر وقت تیار رہو.جب کوئی موقع ملے اسے ہاتھ سے نہ دو.تمہاری نیت کا ثواب تم کو مل رہے گا.اگر محض دین کی وجہ سے اور اللہ کی رضا کو مقدم کرنے کے واسطے والدین سے الگ ہونا پڑا ہے تو یہ ایک مجبوری ہے.اصلاح کو مدّنظر رکھو اور نیت کی صحت کا لحا ظ رکھو اور ان کے حق میں دعا کرتے رہو.یہ معاملہ کوئی آج نیا نہیں پیش آیا حضرت ابراہیم ؑ کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا.بہر حال خدا کا حق مقدم ہے.پس خدا کو مقدم کرو اور اپنی طرف سے والدین کے حقوق ادا کرنے کی کو شش میں لگے رہو.اور اُن کے حق میں دعا کرتے رہو اور صحت نیت کا خیال رکھو.۱ ۲۶ ؍ فروری ۱۹۰۸ء (بوقتِ سیر) ہمارے دعوے کے دو پہلو مسیح کی وفات اور ان کی آمد ثانی فرمایا کہ اصل میں ہمارے دعویٰ کے دو پہلو ہیں ایک تو حضرت عیسٰیؑ کی وفات دوسرا ان کی آمدثانی.وفات کے متعلق تو ہم ہزاروں بار بیان کر چکے ہیں کہ قرآنِ شریف میں خود مسیح کا...اقرار ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۶ مورخہ ۲؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۴

Page 123

لکھا ہے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ(المآئدۃ : ۱۱۸ ) یہ عجیب نکتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بیان کو قیامت کے دن کے لئے خا ص کر دیا ہے.اس سے تو صاف ثابت ہے کہ حضرت عیٰسیؑ وفات پاچکے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوال کے جواب میں کہ کیا ایسے مشرکانہ خیالات اور عقائد تم نے ان لوگوں کو بتائے ہیں؟ حضرت مسیحؑ صاف انکار کرتے ہیں اور کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیںکہ یا الٰہی! میں نے تو ان کو توحید کی تعلیم دی تھی.یہ مشرکانہ تعلیم میری وفات کے بعد انہوں نے اختیار کی ہے.میں اس کا ذمہ وار نہیں ہوں.چاہے ان کو عذاب دے اور چاہے تو ان کو بخش تیرے بندے ہیں.اب صاف بات ہے کہ اگر حضرت عیسٰیؑ دوبارہ دنیا میں آئے ہوتے اور عیسائیوں کے ایسے فاسد عقائد کی اصلاح کی ہوتی تو بڑے زور سے عرض کرتے کہ یا اللہ! میں نے بڑے بڑے جنگ کئے ہیں اور بہت مشکلات اُٹھا کر ان کے مشرکانہ خیالات اور عقائد کی جگہ دو بار ہ تیری توحید ان میں قائم کی ہے.میں تو بڑے انعامات کا مستحق ہوں چہ جائیکہ مجھ سے ایسا سوال کیا جاتا.غرض خو د ان کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ وفات پا چکے اور دوبارہ دنیا میں نہیں آئیں گے.پھر آنحضرتؐنے ان کو معراج کی رات مُردوں میں دیکھا.بھلا زندوں کو مُردوں سے کیا تعلق ؟ اگر مسیحؑ زندہ تھے تو پھر مُردوں میں کیوں جاشامل ہوئے ؟ اس کے سوا سینکڑوں مقامات قرآن شریف میں ہیں جن سے ان کی وفات ثابت ہے.عجیب بات ہے کہ یہی تَوَفّی کا لفظ ہے جب اَوروں کے واسطے آوے تو اس کے معنے موت کے کئے جاتے ہیں اور جب حضرت عیسٰیؑ کے واسطے آوے تو کچھ اَور کئے جاتے ہیں.نہ معلوم یہ خصوصیت حضرت عیسٰیؑ کو کیوں دی جاتی ہے؟ دیکھو حضرت یوسفؑ کی دعا ہے کہ تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ (یوسف : ۱۰۲) علاوہ ازیں اور بیسیوں جگہ تَوَفِّی کا لفظ موت ہی کے معنوں میں وار د ہوا ہے.کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ تَوَفِّی فعل کا فاعل اللہ ہو اور مفعول ذی روح چیز ہوتو معنے بجز موت کوئی اَور ہو سکتے ہیں.مسیح کے احیاءِ موتٰی کی حقیقت ان کے مُردے زندہ کرنے کے معجزے کو بھی خواہ مخواہ خصوصیت دی گئی ہے.تعجب آتا ہے ان مولویوں پر کہ

Page 124

حضرت عیسیٰ کے واسطے احیاءِ موتٰی کا لفظ آوے تو حقیقی مُردے زندہ ہو جاویں جو سنّت اللہ اور قرآن مجید کے منشا کے خلاف ہیں مگر جب وہی لفظ آنحضرتؐکے واسطے آتے ہیں تو اس سے مُراد روحانی مُردے بن جاتے ہیں.انجیل میں لکھا ہے کہ جتنے مُردے قبروں میں تھے سب زندہ ہو کر شہروں میں آگئے اس کثرت سے آپ نے مُردے زندہ کئے.بھلا ان سے کوئی سوال تو کرے کہ ہزاروں مُردے زندہ ہو کر شہروں میں آگئے ان کا گذر کیسے ہوا؟ اور دوسرا یہ کہ باوجود اتنا بڑا معجزہ دیکھنے کے پھر وہ لوگ ایمان کیوں نہ لائے ؟ ان کو کوئی سمجھا تا کہ انہوں نے ہی دعا کی اور تم زندہ ہوئے اب ان پر ایمان لے آؤ.کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنا بڑا معجزہ نہ اُن مُردوں کے واسطے مفید ہوا نہ ان کے رشتہ دار وں کے واسطے جنہوں نے ان مُردوں کو بچشم خود زندہ ہوتے قبروں میں سے نکل کر شہروں میں داخل ہو تے دیکھا تھا.اصل بات یہ ہے کہ علم تعبیر رؤیا میں لکھا ہے کہ جب کوئی دیکھے کہ مُردے قبروں میں سے زندہ ہو کر شہروں میں آگئے ہیں تو اس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ اس وقت کے نیک طبع لوگ قید سے رہائی پاجاویں گے.اس وقت چونکہ خو د حضرت مسیحؑ قید میں تھے تو ممکن ہے کہ انہوں نے خو د یا کسی اَور نے یہ رؤیا یا مکاشفہ دیکھا ہو مگر بعد میں وہ مکاشفہ یا رؤیا تو ترک کر دیا گیا اور اصل مطلب لے لیا گیا.آنحضرتؐکی نسبت بھی مُردے زندہ کرنے کے متعلق کئی روایات تھیں مگر معتبر کتب احادیث میں ان کا ذکر نہیں کیا گیا.دیکھو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے بڑے مشکلات جھیل کر قریب ایک لاکھ کے حدیث جمع کی.مگر آخر ان میں سے صرف چالیس۱ ہزار رکھیں باقی متروک کر دیں.ہمارے مسلمان ان معاملات میں بڑے محقق گذرے ہیں.مسئلہ خلقِ طیور اسی طرح حضرت عیسٰیؑ کا خلقِ طیور کا مسئلہ ہے.ہم معجزات کے منکر نہیں بلکہ قائل ہیں.حضرت عیسٰیؑ کا خلقِ طیور کا مسئلہ بعینہٖ موسیٰ علیہ السلام کے سوٹے والی ۱ سہو کتابت معلوم ہوتی ہے صحیح بخاری میں قریباً سات ہزار دو سو پچھتر حدیثیں ہیں اور اگر مکررات کو نکال دیں تو چار ہزار حدیثیں ہیں.(مرتّب)

Page 125

بات ہے دشمنوں کے مقابلہ کے وقت وہ اگر سانپ بن گیا تھا تو دوسرے وقت میں وہی سوٹے کا سوٹا تھا نہ یہ کہ وہ کہیں سانپوں کے گروہ میں چلا گیا تھا.پس اسی طرح حضرت عیسٰیؑ کے وہ طیور بھی آخر مٹی کے مٹی ہی تھے بلکہ حضر ت موسیٰ کا سوٹا تو چونکہ مقابلہ میں آگیا تھا اور وہ مقابلہ میں غالب ثابت ہوا تھا اس واسطے حضرت عیسٰیؑ کے طیور سے بہت بڑھا ہوا ہے کیونکہ وہ طیور تو نہ کسی مقابلے میں آئے اور نہ اُن کا غلبہ ثابت ہوا.غرض ایک حصہ تو ہمارے دعاوی کا حضرت عیسٰیؑ کی وفات کے ثابت کرنے کے متعلق ہے جس کو ہم نے ہرطرح سے عقل سے، نقل، اقوالِ ائمہ سے غرض ہر پہلو سے بیسیوں کتابیں تالیف کرکے ثابت کر دیا ہے.مسیح کی آمد ثانی دوسرا حصّہ آمد ثانی کے متعلق ہے.سو وہ اللہ تعالیٰ نے خود آسمانی نشانات اور تائیداتِ سماوی کے ذریعہ سے اور آئے دن ہماری ترقی، دشمنوں کا تنزل کرکے ظاہر کر دیا ہے.ایک طوفان اور دریا کی لہریں تا ئید اور نصرت کی خدا کی طرف سے آرہی ہیں.ا ن کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.تا زہ نشانات اور قبل از وقت زبردست کثیر پیشگوئیاں دلوں پر اثر ڈالتی ہیںاور انہیں سے ترقی ہوئی.ان مُلّانوں کے پرانے رطب ویابس جو ان کے پاس قصے کہانیوں کے رنگ میں ہیں ان سے کیا ترقی ہو سکتی ہے بلکہ تنزل کے اسباب ہیں.تعجب ہے کہ یہ لوگ منبروں پر چڑھ کر رویا کرتے تھے کہ یہ تیرھویں صدی سخت منحوس ہے.چودہویں صدی انعامات وبرکات کا موجب ہوگی اور امام مہدی اور مسیح موعود اس صدی میں آوے گا.صدیق حسن خاں نے کئی اولیا ء اللہ کی روایات سے اپنی کتاب میں ثابت کیا ہے کہ سب کا اتفاق تھا کہ مسیح آنے والا چودھویں صدی میں آوے گا.مگر خدا جانے اب لوگوں کو کیا ہوگیا؟ زبانی بیعت کی کچھ بھی حقیقت نہیں خیرا صل بات یہ ہے کہ انسان کو اپنی صفائی کرنی چاہیے.صرف زبان سے کہہ دینا کہ میں نے بیعت کر لی ہے کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتا جب تک عملی طور سے کچھ کر کے نہ دکھلایا جاوے.صرف زبان

Page 126

کچھ نہیں بنا سکتی.قرآن شریف میں آیا ہے کہ لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ.كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصّف:۳،۴) یہ وقت ہے کہ سابقوں میں داخل ہو جاؤ یعنی ہر نیکی کے کرنے میں سبقت لے جاؤ اعمال ہی کام آتے ہیں زبانی لاف وگزاف کسی کام کی نہیں.دیکھو! حضرت فاطمہؓ کو آنحضرتؐنے کہا کہ فاطمہ اپنی جان کا خود فکرکر لے میں تیرے کسی کام نہیں آسکتا.بھلا خدا کا کسی سے رشتہ تو نہیں.وہاں یہ نہیں پوچھا جاوے گا کہ تیر اباپ کون ہے بلکہ اعمال کی پر سش ہو گی.انسان میں کئی قسم کے گناہ کسل، کبر، سستیاں اور باریک در باریک گناہ ہوتے ہیں ان سب سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں نفسِ انسان کے تین مرتبے بیان فرمائے ہیں.امّارہ، لوّامہ، مطمئنّہ.نفسِ امّارہ تو ہر وقت انسان کو گناہ اور نافرمانی کی طرف کھینچتا رہتا ہے اور بہت خطر ناک ہے.لوّامہ وہ ہے کہ کبھی کوئی بدی ہو جاوے تو ملامت کرتا ہے.مگر یہ بھی قابلِ اطمینان نہیں ہے.قابلِ اطمینان صرف نفس کی وہ حالت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نفسِ مطمئنّہ کے نام سے پکارا ہے اور وہی اچھا ہے وہ اس حالت کا نام ہے کہ جب انسان خدا کے ساتھ ٹھہر جاتا ہے اسی حالت میں آکر انسان گناہ کی آلائش سے پاک کیا جاتا ہے.یہی ایک گناہ سوز حالت ہے اور اسی درجہ کے انسانوں کے ساتھ برکات کے وعدے ہوئے ہیں.ملائکہ کا نزول ان پر ہوتا ہے اور حقیقی نیکی اور پاکی صرف انہیں کا حصہ ہوتی ہے.صرف زبان کا اقرار تو خدا کے نزدیک کچھ چیز ہی نہیں.ہم نے اکثر ہندو دیکھے ہیں کہ خیانت کرتے ہیں، کم تولتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، دنیا کی محبت میں مَرے جاتے ہیں مگر زبان سے دوسری طرف یہ بھی کہے جاتے ہیں کہ اجی صاحب دنیا فانی ہے.نا پائیدار ہے.میری حقیقی جماعت بنو پس تم ایسے ہو جاؤ کہ خدا کے ارادے تمہارے ارادے ہو جاویں اسی کی رضا میں رضا ہو.اپنا کچھ بھی نہ ہو سب کچھ اس کا ہو جاوے صفائی کے یہی معنے ہیں کہ دل سے خدا کی عملی اور اعتقادی مخالفت اُٹھا دی جاوے.خدا کسی کی

Page 127

نصرت نہیں کرتا جب تک وہ خود نہیں دیکھتا کہ اس کا ارادہ میرے ارادے اور اس کی مرضی میری رضا میں فنا نہیں ہے.میں کثرت جماعت سے کبھی خوش نہیں ہوتا.اب اگرچہ چار لاکھ یا اس سے بھی زیادہ ہے مگر حقیقی جماعت کے معنے یہ نہیں ہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر صرف بیعت کر لی.بلکہ جماعت حقیقی طور سے جماعت کہلانے کی تب مستحق ہو سکتی ہے کہ بیعت کی حقیقت پر کار بند ہو.سچے طور سے ان میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہو جاوے اور ان کی زندگی گناہ کی آلائش سے بالکل صا ف ہو جاوے.نفسانی خواہشات اور شیطان کے پنجہ سے نکل کر خدا کی رضا میں محو ہو جاویں.حق اللہ اور حق العباد کو فراخ دلی سے پورے اور کامل طور سے ادا کریں.دین کے واسطے اور اشاعتِ دین کے لیے ان میں ایک تڑ پ پیدا ہو جاوے اپنی خواہشات اور ارادوں، آرزؤں کو فنا کر کے خدا کے بن جاویں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم گمراہ ہو پر جسے میں ہدایت دوں تم سب اندھے ہو مگر وہ جس کو میں نور بخشوں.تم سب مُردے ہو مگر وہی زندہ ہے جس کو میں روحانی زندگی کا شربت پلاؤں.انسان کو خدا تعالیٰ کی ستّاری ڈھانکے رکھتی ہے ورنہ اگر لوگوں کے اندرونی حالات اور باطن دنیا کے سامنے کر دئیے جاویں تو قریب ہے کہ بعض کے بعض قریب تک بھی جانا پسند نہ کریں.خدا بڑا ستّار ہے.انسانوں کے عیوب پر ہر ایک کو اطلاع نہیں دیتا.پس انسان کو چاہیے کہ نیکی میں کوشش کرے اور ہروقت دعا میں لگا رہے.یقیناً جانو کہ جماعت کے لوگوں میں اور ان کے غیر میں اگر کوئی مابہ الامتیاز ہی نہیں ہے تو پھر خدا کوئی کسی کا رشتہ دار تو نہیں ہے.کیا وجہ ہے کہ اِن کو عزت دے اور ہر طرح حفاظت میں رکھے.اور اُن کو ذلّت دے اور عذا ب میں گرفتار کرے.اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ( المآئدۃ : ۲۸ ) متقی وہی ہیں کہ خدا سے ڈر کر ایسی باتوں کو ترک کر دیتے ہیں جو منشاء الٰہی کے خلاف ہیں.نفس اور خواہشاتِ نفسانی کو اور دنیا و مافیہا کو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں ہیچ سمجھیں.ایمان کا پتہ مقابلے کے وقت لگتا ہے.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ایک کان سے سنتے ہیں دوسری طرف نکال دیتے ہیں ان باتوں کو

Page 128

دل میں نہیں اتارتے.چاہو جتنی نصیحت کرو مگر ان کو اثر نہیں ہوتا.یاد رکھو کہ خدا بڑا بے نیاز ہے جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پروا نہیں کرتا.دیکھو! کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو.یا کسی پر سخت مقدمہ آجاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے.پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالت اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے.قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے جیسا کہ فرمایا اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوْٓءَ(النّمل:۶۳) اپنے آپ کو عمدہ اور نیک نمونہ بناؤ ہماری جماعت کے لوگوں کو نمونہ بن کر دکھانا چاہیے اگر کسی کی زندگی بیعت کے بعد بھی اسی طرح کی ناپاک اور گندی زندگی ہے جیسا کہ بیعت سے پہلے تھی اور جو شخص ہماری جماعت میں ہو کر بُرا نمونہ دکھاتا ہے اور عملی یا اعتقادی کمزوری دکھاتا ہے تو وہ ظالم ہے کیونکہ وہ تمام جماعت کو بدنام کرتا ہے اور ہمیں بھی اعتراض کا نشانہ بناتا ہے.بُرے نمونے سے اَوروں کو نفرت ہوتی ہے اور اچھے نمونہ سے لوگوں کو رغبت پیدا ہوتی ہے.بعض لوگوں کے ہمارے پاس خط آتے ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ میں اگرچہ آپ کی جماعت میں ابھی داخل نہیں مگر آپ کی جماعت کے بعض لوگوں کے حالات سے البتہ اندازہ لگاتا ہوں کہ اس جماعت کی تعلیم ضرور نیکی پر مشتمل ہے.اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ (النّحل:۱۲۹) خدا تعالیٰ بھی انسان کے اعمال کا روز نامچہ بناتا ہے.پس انسان کو بھی اپنے حالات کا ایک روز نامچہ تیار کرنا چاہیے اور اس میں غور کرنا چاہیے کہ نیکی میں کہاں تک آگے قدم رکھا ہے.انسان کا آج اور کل برابر نہیں ہونے چاہئیں.جس کا آج اور کل اس لحا ظ سے کہ نیکی میں کیا ترقی کی ہے برابر ہو گیا وہ گھاٹے میں ہے.انسان اگر خدا کو ماننے والا اور اسی پر کامل ایمان رکھنے والا ہو تو کبھی ضا ئع نہیں کیا جاتا بلکہ اس ایک کی خا طر لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں.ایک شخص جو اولیاء اللہ میں سے تھے ان کا ذکر ہے کہ وہ جہاز میں سوار تھے.سمندر میں طوفان

Page 129

آگیا.قریب تھا کہ جہاز غرق ہو جاتا.اس کی دعا سے بچا لیا گیا اور دعا کے وقت اس کو الہام ہوا کہ تیری خا طر ہم نے سب کو بچا لیا.مگر یہ باتیں نرا زبانی جمع خرچ کرنے سے حا صل نہیں ہوتیں.دیکھو! ہمیں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک وعدہ دیا ہے.اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ مگر دیکھو ان میں غافل عورتیں بھی ہیں.مختلف طبائع اور حالات کے انسان ہیں خدا نخواستہ اگر ان میں سے کوئی طاعون سے مَر جاوے یا جیسا کہ بعض آدمی ہماری جماعت میں سے طاعون سے فوت ہو گئے ہیں تو ان دشمنوں کو ایک اعتراض کا موقع ہاتھ آگیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْۤا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ (الانعام: ۸۳) بہر حال جماعت کے افراد کی کمزوری یا بُرے نمونہ کا اثر ہم پر پڑتا ہے اور لوگوں کو خواہ مخواہ اعتراض کرنے کا موقع مل جاتا ہے.پس اس واسطے ہماری طرف سے تو یہی نصیحت ہے کہ اپنے آپ کو عمدہ اور نیک نمونہ بنانے کی کو شش میں لگے رہو.جب تک فرشتوں کی سی زندگی نہ بن جاوے تب تک کیسے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی پاک ہو گیا.يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ(التحریم :۸) فنا فی اللہ ہو جانا اور اپنے سب ارادوں اور خواہشات کو چھوڑ کر محض اللہ کے ارادوں اور احکام کا پابند ہو جانا چاہیے کہ اپنے واسطے بھی اور اپنی اولاد، بیوی بچوں، خویش واقارب اور ہمارے واسطے بھی باعثِ رحمت بن جاؤ.مخالفوں کے واسطے اعتراض کا موقع ہرگز ہرگز نہ دینا چاہیے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ١ۚ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ١ۚ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَيْرٰتِ ( فاطر :۳۳) پہلی دونوں صفات ادنیٰ ہیں.سابق بالخیرات بننا چاہیے.ایک ہی مقام پر ٹھہر جانا کوئی اچھی صفت نہیں ہے.دیکھو ٹھہر ا ہوا پانی آخر گندہ ہو جاتا ہے.کیچڑ کی صحبت کی وجہ سے بدبُودار بد مزا ہو جاتا ہے.چلتا پانی ہمیشہ عمدہ ستھرا اور مزیدار ہو تا ہے اگرچہ اس میں بھی نیچے کیچڑ ہو مگر کیچڑ اس پر کچھ اثر نہیں کر سکتا.یہی حال انسان کا ہے کہ ایک ہی مقام پر ٹھہر نہیں جانا چاہیے.یہ حالت خطرناک ہے.ہر وقت قدم آگے ہی رکھنا چاہیے نیکی میں ترقی کرنی چاہیے ورنہ خدا انسان کی مدد نہیں کرتا اور اس طرح سے انسان بے نور ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ آخر کار بعض اوقات ارتداد ہو جاتا ہے.اس طرح

Page 130

سے انسان دل کا اندھا ہو جاتا ہے.اپنی اصلاح میں اپنے اہل وعیال کو شامل رکھو خدا تعالیٰ کی نصرت انہیں کے شاملِ حال ہوتی ہے جو ہمیشہ نیکی میں آگے ہی آگے قدم رکھتے ہیں ایک جگہ نہیں ٹھہر جاتے اور وہی ہیں جن کا انجام بخیر ہو تا ہے.بعض لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ ابتدا میں تو ان میں بڑا شوق ذوق اور شدت رقّت ہو تی ہے مگر آگے چل کر بالکل ٹھہر جاتے ہیں اور آخر ان کا انجام بخیر نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ اَصْلِحْ لِيْ فِيْ ذُرِّيَّتِيْ (الاحقاف:۱۶) میرے بیوی بچوں کی بھی اصلاح فرما.سو اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے.دیکھو! پہلا فتنہ حضرت آدمؑ پر بھی عورت ہی کی وجہ سے آیا تھا.حضرت موسٰی کے مقابلے میں بلعم کا ایمان جو حبط کیا گیا اصل میں اس کی وجہ بھی توریت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ بلعم کی عورت کو اس بادشاہ نے بعض زیورات دکھا کر طمع دے دیا تھا اور پھر عورت نے بلعم کو حضرت موسٰی پر بد دعا کرنے کے واسطے اُکسایا تھا.غرض ان کی وجہ سے بھی اکثر انسان پر مصائب شدائد آجا یا کرتے ہیں تو اُن کی اصلاح کی طر ف بھی پوری توجہ کرنی چاہیے اور ان کے واسطے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہیے.۱ ۳ ؍مارچ ۱۹۰۸ء (قبل نماز عصر ) بیعت کی حقیقت اور غرض وغایت ایک شخص نے عرض کی کہ حضور میں نے پیشتر بذریعہ خط کے بیعت کی ہوئی ہے کیا وہی کافی ہے؟ فرمایا کہ ہزاروں آدمی ہیں کہ ان بیچاروں کو دنیوی مشکلات کی وجہ سے استطاعت نہ ہونے ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۶ مورخہ ۲؍ مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۴تا۶

Page 131

کے باعث قادیان میں آنا دشوار ہے اور انہوں نے بذریعہ خطوط ہی بیعت کی ہوئی ہے.بیعت کرنے سے مطلب بیعت کی حقیقت سے آگاہ ہونا ہے.ایک شخص نے روبرو ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی.اصل غرض اور غایت کو نہ سمجھا یا پر وا نہ کی تو اس کی بیعت بے فائدہ ہے اور اس کی خدا کے سامنے کچھ حقیقت نہیں.مگر دوسرا شخص ہزار کوس سے بیٹھا بیٹھا صدق دل سے بیعت کی حقیقت اور غرض وغایت کو مان کر بیعت کرتا ہے اور پھر اس اقرار کے اوپر کار بند ہو کر اپنی عملی اصلاح کرتا ہے وہ اس رو برو بیعت کر کے بیعت کی حقیقت پر نہ چلنے والے سے ہزار درجہ بہتر ہے.دیکھو مولوی عبداللطیف صاحب شہید اسی بیعت کی وجہ سے پتھروں سے مارے گئے ایک گھنٹہ تک برابر ان پر پتھر برسائے گئے حتی کہ ان کا جسم پتھروں میں چھپ گیا مگر انہوں نے اُف تک نہ کی.ایک چیخ تک نہ ماری بلکہ ان کو اس ظالمانہ کارروائی سے پیشتر تین بار خود امیر نے اس اَمر سے توبہ کرنے کے واسطے کہا اور وعدہ کیا کہ اگر تم توبہ کرو تو معاف کر دیا جاوے گا اور پیشتر سے زیادہ عزت اور عہدہ عطا کیا جاوے گا مگر وہ تھا کہ خدا کو مقدم کیا اور کسی دکھ کی جو خدا کے واسطے اُن پر آنے والا تھا پروا نہ کی اور ثابت قدم رہ کر ایک نہایت عمدہ زندہ نمونہ اپنے کامل ایمان کا چھوڑ گئے.وہ بڑے فاضل، عالم اور محدّث تھے.سنا ہے کہ جب ان کو پکڑ کر لے جانے لگے تو اُن سے کہا گیا کہ اپنے بال بچوں سے مل لو ان کو دیکھ لو مگر انہوں نے کہا کہ اب کچھ ضرورت نہیں.یہ ہے بیعت کی حقیقت اور غرض وغایت.بعض لوگوں کے ہمارے پاس خط آتے ہیں کہ میں ایک مسجد کا مُلّاں تھا.آپ کی بیعت کرنے کی وجہ سے لوگ مجھ سے ناراض ہیں.مخالفت کرتے ہیں.غرض مجھے بیعت کی وجہ سے سخت تکلیف ہے حالانکہ اس آزادی اور امن کے زمانہ اور سلطنت میں ان لوگوں کو کوئی تکلیف ہی کیا پہنچا سکتا ہے.زیادہ سے زیادہ کسی نے زبان سے گالیاں نکال دی ہوں گی.تو ان باتوں سے ہوتا بھی کیا ہے.مگر وہ اس کو تکلیف سمجھتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ بیعت کرنے کی وجہ سے مجھے یہ تکلیف پہنچی.غرض بعض لوگ ذرا سی مخالفت کی بھی برداشت نہیں کر سکتے.اصل میں انہوں نے

Page 132

بیعت کی حقیقت ہی کو نہیں سمجھا.۱ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء ( بوقتِ سیر) کرشن جی مہاراج کا مذہب مولوی ابو رحمت صاحب نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور کرشن جی مہاراج کا مذہب جیسا کہ خود ان کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے ان کے زمانہ کے عام اہلِ ہنود سے الگ تھا.حضرت اقدسؑ نے فرمایاکہ یہ واقعی اور صحیح بات ہے کہ بعد کے لوگ بزرگوں کی تعلیم کو بوجہ امتداد ِزمانہ بھول جاتے ہیں اور اُن کی سچی تعلیموں میں بہت کچھ بے جا تصرّف کر لیا کرتے ہیں اور مرورِ زمانہ سے ان کی اصلی تعلیم پر سینکڑوں پردے پڑ جاتے ہیں اور حقیقتِ حال دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہو جاتی ہے.اصل بات یہی سچ ہے کہ اُن کا مذہب موجود ہ مذہب اہلِ ہنود سے بالکل مختلف اور توحید کی سچی تعلیم پر مبنی تھا.حضرت اقدسؑ نے اس جگہ اپنے دو الہام بیا ن فرمائے.اوّل یہ ہے کہ ہے کرشن رُوِدَّر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے.اور دوسرا الہام یہ بیان فرمایا کہ ایک بار الہام ہوا تھا کہ آریوں کا بادشاہ آیا ایک اور خواب حضرت اقدس ؑنے فرمایا کہ ایک بار ہم نے کرشن جی کو دیکھا کہ وہ کالے رنگ کے تھے اور پتلی ناک،کشادہ پیشانی والے ہیں.کرشن جی نے اُٹھ کر اپنی ناک ہماری ناک سے اور اپنی پیشانی ہماری پیشانی سے ملا کر چسپاں کر دی.ایک اور واقعہ آپ نے یوں بیان فرمایا کہ خواجہ باقی باللہ صاحب کے سامنے کسی شخص نے اپنی خواب یوں بیان کی کہ میں نے دیکھا ہے ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۷ مورخہ ۶؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۶

Page 133

کہ ایک آگ ہے اور راجہ رامچندر جی اس کے کنارے پر ہیں اور کرشن جی عین اس کے وسط میں پڑے ہیں.حا ضرین مجلس میں سے ایک شخص نے یوں اس خواب کی تعبیر بیان کی کہ چونکہ وہ دونوں کافر ہیں اس واسطے آگ میں ہیں.مگر ایک کافر کم ہے اس لئے وہ کنارے پر ہے اور دوسرا سخت کافر ہے اس واسطے وہ آگ کے بیچوں بیچ پڑا ہے مگر مرزا جان جاناں صاحب جو کہ خواجہ صاحب کے مرید تھے انہوں نے عرض کی کہ حضور یہ تعبیر صحیح نہیں ہے.خواجہ صاحب نے فرمایا کہ تم کیا بیان کرتے ہو.اس پر مرزا جان جاناں نے یوں تعبیر کی کہ وہ آگ آتشِ محبتِ الٰہی ہے دوزخ کی آگ نہیں.رامچندر جی سالک ہیں اور ابھی کمالِ عشق حاصل نہیں ہوا.اس واسطے اس کو کنارے پر دیکھا.مگر کرشن جی مجذوب ہیں اور محبت الٰہی کی آگ جس سے غیر اللہ جل جاتا ہے اس میں ان کو کمال حاصل ہو گیا ہے.اس واسطے ان کو عین بیچوں بیچ میں دیکھا ہے.ایک اور واقعہ اسی مضمون کے متعلق حضرت اقدس ؑ نے یوں بیان فرمایا کہ اولیاء اللہ میں سے ایک صاحبِ کشف ایک دفعہ اجودھیا میں پہنچے.وہاں پہنچ کر مسجد میں لیٹ گئے.دیکھتے کیا ہیں کہ کرشن جی آئے اور سات روپے اُن کی نذر کئے کہ ہماری طرف سے بطور دعوت قبول کیا جاوے.وہ ولی اللہ صاحب چونکہ مسلمان تھے انہوں نے کہا کہ تم لوگ کافر ہو ہم تمہارا مال نہیں کھاتے تو اس پر کرشن جی نے عرض کیا کہ کیا آپ موجودہ ہندوؤں سے ہماری حالت اور ایمان کا اندازہ لگاتے ہیں؟ ہم ان میں سے ہرگز ہرگز نہیں ہیں بلکہ ہمارا مذہب توحید ہے اور ہم آپ لوگوں کے بالکل قریب ہیں.علاوہ ازیں ابنِ عربی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ کَانَ فِی الْھِنْدِ نَبِیٌّ اَسْوَدُ اللَّوْنِ اسْـمُہٗ کَاھِنٌ یعنی ہندوستان میں ایک نبی گذرا ہے جس کا رنگ کالا تھا اور نام اس کا کاہن تھا.مجدّد الف ثانی صاحب سر ہندی فرماتے ہیں کہ ہندوستان میں بعض قبریں ایسی ہیں جن کو میں پہچانتا ہوں کہ نبیوں کی قبریں ہیں.

Page 134

غرض ان سب واقعات اور شہادتوں سے اور نیز قرآن شریف سے صاف طور سے ثابت ہے کہ ہندوستان میں بھی نبی گذرے ہیں چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے کہ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ(فاطر:۲۵) اور حضرت کرشنؑ بھی انہیں انبیاء میں سے ایک تھے جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر خلق اللہ کی ہدایت اور توحید قائم کرنے کو اللہ کی طرف سے آئے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک قوم میں نبی آئے ہیں.یہ بات الگ ہے کہ ان کے نام ہمیں معلوم نہ ہوں.مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ(المؤمن: ۷۹) لمبے زمانے گذر جانے کی وجہ سے لوگ ان کی تعلیمات کو بھول کر کچھ اَور کا اَور ہی ان کی طرف منسوب کرنے لگ جاتے ہیں.اب دیکھو بیچارے حضرت عیسٰیؑ وہ تو خود اپنی وفات کا اقرار کرتے ہیں اور اپنے آپ کو خدا کا ایک عاجز بندہ اور معمولی انسانوں کی طرح کھاتا پیتا اور دیگر حوائجِ انسانی کا محتاج بیان کرتے ہیں اور خدائی سے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں مگر عیسائی ہیں کہ ان کو زبردستی خدا بنائے بیٹھے ہیں یہی حال حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا ہے.ایک شخص نے کچھ عرصہ ہوا لکھا تھا کہ تمام انبیاء اولیاء اور ہر طبقہ کے لوگ حضرت امام حسینؓ کی شفاعت ہی سے نجات پاویں گے.دیکھو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو انہوں نے پہلے ہی قصہ تمام کر رکھا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باقی رہ گئے تھے.سو اب دیکھ لو کہ آپؐکے متعلق بھی قصہ تمام کر دیا کہ ان کو بھی بجز امام حسین ؓ نعوذ باللہ نجات نہیں ہو گی.اور بجز شفاعت امام حسین ؓ آپ کو بھی کوئی چارہ نہ ہوگا.دیکھو ان لوگوں نے کہا ں تک غلو کر دیا ہے.غرض انبیاء کے دنیا سے گذر جانے کے بعد ان کی پاک تعلیمات کا یہ حال کیا جاتا ہے قرآن شریف کیا ہے؟ حَکَم ہے.کُل کتب ِسابقہ کی اصلیت کھول کر دکھا دی ہے.سچا مومن بننا چاہیے مولوی ابو رحمت صاحب نے عرض کی.حضور میرے واسطے دعا فرمائی جاوے پیشتر تو میری زندگی اَور رنگ میں تھی مگر اب جب سے میں نے علی الاعلان حضور کے عقائد کی اشاعت اپنا فرض مقرر کر لیا ہے تو میری برادری بھی مخالف ہو گئی ہے

Page 135

اور درپئے آزار ہے اور عام طور سے لوگ بھی مجمعوں میں کم آتے ہیں.اس پر حضرت اقد سؑ نے فرمایا کہ آپ صبر سے کام لیں اور استقلال رکھیں.آپ دیکھ لیں گے کہ پہلے سے بھی زیادہ لوگ آپ کے مجمعوں میں جمع ہوں گے اور سارے مشکلات دور ہو جاویں گے.ایسی مشکلات کا آنا از بس ضروری ہوتا ہے.دیکھو امتحان کے بغیر کسی کی کچھ قدر نہیں ہوتی.دنیا ہی میں دیکھ لو کہ پاسو ں کی کیسی پوچھ ہوتی ہے کہ کیا پاس کیا ہے؟ پس جو لوگ خدائی امتحان میں پا س ہو جاتے ہیں پھر اُن کے واسطے ہر طرح کے آرام وآسائش، رحمت اور فضل کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں.دیکھو! قرآن شریف میں صاف فرما یا ہےکہ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ(العنکبوت : ۳ ) صرف زبان سے کہہ لینا تو آسان ہے مگر کچھ کر کے دکھانا اور خدائی امتحان میں پاس ہونا بڑی بات ہے.دیکھو! ہماری ہی ابتدائی حالت پر غور کرو کہ اوّل اوّل ہمارے ساتھ ایک آدمی بھی نہ تھا.مولوی محمد حسین نے ہمارے واسطے کُفر کا فتویٰ تیار کیا اور پشاور سے لے کر بنارس تک تمام ہندوستان کے بڑے بڑے مولویوں کی دو تین صد مہریں لگوالیں اور فتویٰ دے دیا کہ ان کا قتل کرنا، ان کا مال لوٹ لینا، ان کی عورتیں چھین لینا سب جائز ہے اور یہ لوگ کافر، اَکفر، ضالّ، مُضِلّ اور یہود نصاریٰ سے بھی بد تر ہیں.مگر دیکھ لو کہ اس کی کیا پیش گئی.خدا نے اس کو کیسا ذلیل کیا.پس سچے مومن بننا چاہیے.دیکھو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پر ذرا نظر ڈالو.آپؐکے زمانے میں کیسے مشکلات کا سامنا تھا.مگر آپؐکے اور آپؐکے صحابہ ؓکے وفا،صدق، صبر اور استقامت نے کیا کچھ کر دکھایا یقیناً جانو کہ اگر کروڑ توپ بھی ہوتی جب بھی یہ کام جو ان لوگوں کے ایمان، صدق، صبر اور استقلال نے کر دکھایا ہرگز ہرگز نہ کر سکتی.دیکھو! آپؐکے پاس نہ کوئی فوج تھی نہ توپیں تھیں نہ سپاہی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے کیسی تائید کی کہ بڑے بڑے لوگ خس وخاشاک کی طرح فتح ہوتے چلے گئے.

Page 136

ہمیں خیال آیا کہ ہمارا نام مہدی ہے، عیسیٰ ہے اور کرشن کے نام سے بھی اللہ نے ہمیں پکارا ہے اور انہیں تینوں کی آمد کی انتظار میں اس وقت تین بڑی قومیں لگی ہوئی ہیں.مسلمان مہدی کے، عیسائی عیسیٰ کی آمد ثانی کے اور ہندو کرشن اوتار کے.چنانچہ ان ناموں میں یہی حکمتِ الٰہی تھی.کرشن کی گوپیوں کی حقیقت مولوی ابو رحمت صاحب نے عرض کی کہ حضور کرشن کے معنے ان کی لغت کے بموجب ہیں وہ روشنی جو آہستہ آہستہ دنیا کو روشن کرتی ہے.تاریکی جہالت کے مٹانے والے کا نام کرشن ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کے متعلق جو گوپیوں کی کثرت مشہور ہے اصل میں ہمارے خیال میں بات یہ ہے کہ اُمت کی مثال عورت سے بھی دی جاتی ہے.چنانچہ قرآن شریف سے بھی اس کی نظیر ملتی ہے.جیسا کہ فرماتا ہے.ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ.الـخ (التّحریم:۱۲)یہ ایک نہایت ہی باریک رنگ کا لطیف استعارہ ہوتا ہے.اُمت میں جوہرِ صلاحیت ہوتا ہے اور نبی اور اُمت کے تعلق سے بڑے بڑے حقائق معارف اور فیضان کے چشمے پیدا ہوتے ہیں اور نبی اور اُمت کے سچے تعلق سے وہ نتائج پیدا ہوتے ہیں جن سے خدائی فیضان اور رحم کا جذب ہوتا ہے پس کرشن اور گوپیوں کے ظاہری قصہ کی تہہ میں ہمارے خیال میں یہی رازِ حقیقت پنہاں ہے.مولوی ابو رحمت صاحب نے عرض کی کہ گوپی کے معنے یوں بھی ہیں کہ گو کہتے ہیں زمین کو اور پی پالنے والے کو یعنی کرشن جی کے مریدان با صفا ایسے لوگ تھے جو نیک مزاج اور مخلوق کی پرورش کرنے والے تھے.حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ.اس میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ انسان کو زمین سے بھی تشبیہ دی گئی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ذکر ہے کہ اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الـحدید: ۱۸) ارض کے زندہ کرنے سے مراد اہلِ زمین ہیں.پھر مولوی ابو رحمت صاحب نے عرض کی کہ یہ بھی ممکن ہے کہ کرشن جی نے اپنی تعلیم کو عورتوں ہی کے

Page 137

ذریعہ سے پھیلایا ہو کیونکہ ان کے مرد تو عمومًا کھیتی کے دھندوں میں جنگلوں بنوں میں رہتے تھے اور ان کو اشاعتِ مذہب کے واسطے کم فرصت ہوتی تھی.عورتیں ہی یہ کام کرتی ہوں.حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ ہمیں ایک دفعہ خیال آیا کہ کرشن جی کو داؤدؑ کے سا تھ بالکل مشابہت معلوم ہوتی ہے.بلحاظ راگ، رقص مجمع مستورات اور بہادری میں خدا جانے یہ کیا بات ہے؟ کتاب’’ چشمہ معرفت ‘‘ فرمایا کہ ہم نے اپنی کتاب کا نام جس میں لیکچر لاہور لکھا ہے اور ابھی کچھ حصہ اس کا باقی ہے چشمہ معرفت رکھا ہے کیونکہ اس میں بڑی معرفت کی باتیں اور حقائق ومعارف درج کئے گئے ہیں.فرمایا.وہ لیکچر تو ہم نے خاص خاص اس مجمع کا لحا ظ رکھ کر اور ان کے شائع کردہ شرائط کے مطابق اور مناسب موقع اختصار سے لکھا تھا مگر جب انہوں نے خود اپنے شائع کردہ شرائط کی پا بندی نہ کی اور اپنے اقرار کی ذرہ بھی پروانہ کر کے بہت سے وہی پرانے اعتراضات جن کا بارہا جواب دے دیا گیا ہے پھر دلآزاری کے واسطے بیان کئے تو ہمیں بطور تتمہ ان کے سب سوالات کا جواب لکھنے کے واسطے کتاب کو اور بڑھا نا پڑا.فرمایا.مشکل یہ ہے کہ ان لوگوں نے تو قسم کھائی ہوئی ہے کہ ہماری کتاب نہ پڑھیں.جہل، نادانی اور تعصب کی پٹی آنکھوں پر باندھی ہوئی ہے.ہماری کسی کتاب کو نہیں پڑھتے.دلائل کو نہیں مانتے بے تحاشا اعتراض کئے جاتے ہیں.فرمایا.اس کتاب میں ہم نے بڑی بسط سے ان کے متعلق لکھ دیا ہے اور اگر کوئی حق جُو بن کر مطالعہ کرے تو اس کے واسطے کافی ہے.دورانِ تقریر میں حضرت اقدسؑ نے یہ بھی فرمایا کہ.آریوں کے ہاتھ میں آجکل مسلمانوں کے بر خلاف غلط فہمی پھیلانے کے واسطے صرف تعدّدِ ازدواج ہی کا مسئلہ رہ گیا جس پر یہ لوگ اپنی نادانی کی وجہ اس کی حکمت اور حقیقت سے بے خبر

Page 138

ہونے کی وجہ سے اعتراض کئے جاتے ہیں.حالانکہ موجودہ زمانہ پکار اُٹھا ہے اور زبانِ حال سے کہہ رہا ہے کہ واقعی تعدّد ازدواج کی ضرورت ہے آریوں نے بھی اس ضرورت کو محسوس کیا ہے.غرض ضرورت کا احساس تو سب نے کر لیا ہے باقی رہی یہ بات کہ اس ضرورت کو ہم نے کس رنگ میں پورا کیا اور آریوں نے اس کے پورا کرنے کی کیا راہ سوچی.سو وہ تعدّد ازدواج اور نیوگ ہے.اب ان دونوں باتوں کا مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ کونسی راہ اچھی ہے؟۱ لائف انشورنس (قبل از نماز ظہر ۲) ایک دوست کا خط حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش ہوا جس میں لکھا تھا.بحضور جناب مسیح موعود مہدی مسعود علیہ السلام مارچ ۱۹۰۰ء میں مَیں نے اپنی زندگی کا بیمہ واسطے دو ہزار روپے کے کرایا تھا شرائط یہ تھیں کہ اس تاریخ سے تامرگ میں  سالانہ بطور چندہ کے ادا کرتا رہوں گا.تب دو ہزار روپیہ بعد مرگ میرے وارثان کو ملے گا اور زندگی میں یہ روپیہ لینے کا حقدار نہ ہوں گا.اب تک میں نے تقریباً مبلغ چھ سو روپیہ کے بیمہ کرنے والی کمپنی کو دے دیا ہے.اب اگر میں اس بیمہ کو توڑ دوں تو بموجب شرائط اس کمپنی کے صرف تیسرے حصہ کا حقدار ہوں.یعنی دو صد روپیہ ملے گا اور باقی چار صد روپیہ ضائع جائے گا.مگر چونکہ میں نے آپ کے ہاتھ پر اس شرط کی بیعت کی ہوئی ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.اس واسطے بعد اس مسئلہ کے معلوم ہو جانے کے میں اس حرکت کا مرتکب ہونا نہیں چاہتا جو خدا اور اس کے رسول کے احکام کے برخلاف ہو اور آپ حَکم اور عدل ہیں.اس واسطے نہایت عجز سے ملتجی ہوں کہ جیسا مناسب حکم ہو صادر فرمایا جاوے تا کہ اس کی تعمیل کی جاوے.۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۷ مورخہ ۶؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۷،۸ ۲الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۷ مورخہ ۶؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ۹ کالم اوّل سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ ڈائری ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء قبل از نماز ظہر کی ہے.(مرتّب)

Page 139

اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا کہ زندگی کا بیمہ جس طرح رائج ہے اور سنا جا تا ہے اس کے جواز کی ہم کوئی صورت بظاہر نہیں دیکھتے کیونکہ یہ ایک قمار بازی ہے.اگرچہ وہ بہت سا روپیہ خرچ کر چکے ہیں.لیکن اگر وہ جاری رکھیں گے تو یہ روپیہ اُن سے اور بھی زیادہ گناہ کرائے گا.اُن کو چاہیے کہ آئندہ زندگی گناہ سے بچنے کے واسطے اس کو ترک کر دیویں اور جتنا روپیہ اب مل سکتا ہے وہ واپس لے لیں.قبولیتِ دعا ایک صاحب نے حضرت کی خدمت میں لکھا کہ میرے واسطے آپ ایسی دعا کریں جو ضرور قبول ہو اور اس اور اُس معاملہ میں ہو.حضرت نے فرمایا.اس کو جواب لکھ دیں کہ خدا تعالیٰ کی یہ عادت نہیں کہ ہر ایک دعا قبول کرے.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسا کہیں نہیں ہوا.ہاں مقبولوں کی دعائیں بہ نسبت دوسروں کے بہت قبول ہوتی ہیں.خدا کے معاملہ میں کسی کا زور نہیں.۱ ۶؍مارچ ۱۹۰۸ء (قبل نماز عصر ) مولوی محمد حسین بٹالوی کا ظاہر وباطن مولوی محمد حسین صاحب نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بذریعہ ایک دو خطوں کے اور زبانی بھی کسی مقدمہ میں منصف بننے کے واسطے لکھا اور کہلا بھیجا تھا اور ساتھ ہی دھمکیاں بھی دی تھیں کہ اگر آپ اس معاملہ میں منصف نہ بنیں گے تو میں عدالت میں آپ کو گواہ لکھوا دوں گا اور اس طرح سے آپ کو عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا.حضرت اقدسؑ نے فرمایا.تعجب آتا ہے کہ ایک طرف تو ہمیں کافر و دجّال، بیدین اور مرتد ٹھہراتا ہے اور پھر یہی نہیں کہ ۱ بدر جلد ۷ نمبر ۱۴ مورخہ ۹؍اپریل ۱۹۰۸ءصفحہ ۳

Page 140

اپنے آپ تک ہی محدود رکھا ہو بلکہ اس فتویٰ میں قریباً تمام ہندوستان کے بڑے بڑے مولویوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے واسطے سر توڑ کو شش کرتا رہا ہے.دوسری طر ف ہمیں ایک شرعی معاملہ میں منصف بنانا چاہتا ہے.اس کے نزدیک جب ہم دائرہ اسلام سے ہی خارج ہیں تو پھر ایک شرعی معاملہ میں ہمارا دخل کیا اور فیصلہ کیسا ؟ اس سے کہو کہ پہلے تم ہمارے کفر و اسلام کا تو فیصلہ کر لو پھر ہمیں منصف بھی بنا لینا.اس شخص نے تو جہاں تک اس سے ممکن ہوسکا ہے اور اس کا بس چلا ہے ہمیں پھانسی دلانے کی کوششوں میں بھی کمی نہیں کی مگر یہ اللہ کا فضل اور اس کی خا ص نصرت تھی کہ اُس نے ہمیں ہرمیدان میں عزت دی اور اعدا اور ہماری ذلّت چاہنے والوں کو ذلیل کیا.دیکھو لیکھرام کے قتل کے وقت بھی اس نے کس طرح آریوں کو اُکسایا.ہماری تلاشی ہوئی اور پھر خون کے مقدمہ میں ایک عیسائی کی طرف سے گواہ بن کر ہمارے بر خلاف اقدام قتل کے ثبوت کے واسطے کو ششیں کیں.گورنمنٹ کو ہم سے بد ظن کرنے میں اس نے کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھا.ہمیں باغی بنایا اور صاف کہا کہ گورنمنٹ کیوں ایسے باغی کو نہیں پکڑتی؟ عام لوگوں کو ہم سے بد ظن کرنے میں اپنے ناخنوں تک زور لگایا.لوگوں سے کہہ دیا کہ ان سے سلام مت کرو.مصافحہ مت کرو.ان کی چوری کرنا، ان کو قتل کر دینا اور ان کی عورتیں چھین لینا جائز ہے.پھر جب اس کے ہم پر ایسے ایسے احسانات ہیں تو اب یہ نامہ وپیام کیسے ہیں ؟ معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں جس کے واسطے یہ اتنے زور دیتا ہے کہ اس کی کوئی ذاتی اور نفسانی غرض ہے اگر کچھ بھی سعادت کا حصہ اس میں ہوتا تو اسی معاملہ میں غور کرتا کہ جس دن سے اس نے ہماری مخالفت کا بیڑا اُٹھایا ہے اور ہمارے نیست ونابود کرنے میں جان توڑ کو ششیں کی ہیں.اسی دن سے اندازہ تو لگائے کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کے کیسے فیضان نا ز ل ہوئے اور ہمیں کس طرح خدا نے بڑھا یا اور اس کا اپنا کیا حال ہوا؟ ایک سعید انسان اور سلیم الفطرت آدمی کے ہدایت پاجانے کے واسطے صرف یہی بات کافی تھی.

Page 141

پھر اپنے خط میں لکھا ہے کہ میرے گھر لڑکا پیدا ہوگا.یہ فقرہ لکھنے سے اس کی مراد نکتہ چینی ہے اور پیشگوئیوں اور امور نبوت کا نعوذ باللہ استخفاف کرنا مدّ نظر ہے.سو اس کے جواب میں اس سے کہہ دیا جاوے کہ ہماری کتاب حقیقۃ الوحی کا مطالعہ کرے.ہم نے ان امور کو اس میں بالتفصیل لکھ دیا ہے.وہ نہیں جانتا کہ خواب تو اکثر چوہڑے چماروں اور مُردار خوروں کو بھی ہو جاتا ہے اور اکثر سچا بھی ہوتا ہے تو پھر اس میں کیا شیخی ہے کہ میر ے گھر لڑکا ہو گا؟ عام لوگوں کے سچے خوابوں اور مامورین کے الہامات میں مابہ الامتیاز ہمارے پاس بعض ہندو آتے ہیں اور خواب سناتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ خواب سچا بھی نکلا.اس سے مطلب ان کا صرف یہ ہوتا ہے کہ اعتراض کریں کہ اسلام کی اس میں خصوصیت ہی کیا ہے؟ ہم ایسی نظیریں بتا سکتے ہیں کہ بعض فاسق، فاجر، بدمعاش، مشرک، چور، زانی، ڈاکوؤں کو بھی خواب آجاتے ہیں اور ان میں سچے بھی ہوتے ہیں تو پھر اس میں مولوی محمد حسین کی کیا خصوصیت ہوئی ؟ شرمپت یہاں کا ایک آریہ ہے اس نے ایک خواب میں اپنے ہاں لڑکا پیدا ہونا بتایا تھا.چنانچہ لڑکا پیدا ہوا اور پھر ایک بار بیان کیا کہ بابو اللہ دتہ تبدیل ہو جاوے گا.چنانچہ یہ خواب بھی اس کا پورا ہو گیا اور بابو اللہ دتہ کو وہ اس معاملہ کا گواہ بھی کرتا ہے تو پھر کیا ان باتوں سے یہ نتیجہ نکالنا چاہیے کہ شرمپت کویا اور ایسے لوگوں کو نعوذ باللہ ہم نبی مان لیں ؟ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ امور بطور شہادت اللہ تعالیٰ نے ہر طبقہ کے لوگوں میں اس لیے ودیعت کر دئیے ہیں کہ تا انسان ملزم ہو جاوے اور قبول نبوت کے واسطے اس کے پاس اپنے نفس میں سے شاہد پیدا ہو جاوے.خواب کا ملکہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے انسان کی بناوٹ میں رکھ دیا ہے کہ کہیں یہ نبوت کا انکار ہی نہ کر دے.سچی خواب کے واسطے اللہ تعالیٰ نے کوئی شرط نہیں رکھی بلکہ بلا امتیاز کفر واسلام، نیک وبدیہ ملکہ ہر فرد بشر میں رکھ دیا ہے.بھلا دیکھو تو حضرت یوسف ؑکے سا تھ جو دو آدمی قید تھے ان دونوں کو بھی

Page 142

خوابیں آئیں اور وہ دونوں سچی بھی تھیں.فرعون کو بھی جو اس وقت کا بادشاہ تھا خواب آئی اور سچی نکلی تو کیا حضرت یوسف ؑ نے ان کی کوئی تعظیم کی یا ان کو نبی مان لیا؟ یا بتاؤ تو بھلا تم نے بھی ان کو کوئی مرتبہ دیا ہے؟ بھلا ایک نے تو اپنے خواب کو قتل ہو کر سچا کر دیا مگر دوسرا تو با دشاہ کا مقرب بن گیا تھا اسی کی عزت کی ہوتی؟ اگر اسی طرح ایک دو خوابیں سچی ہو جانے سے کوئی نبی بن جاتا ہے اور اس میں نبوت کی شان آجاتی ہے تو بتاؤ کس کس کو امام مانو گے؟ نعوذ باللہ اس طرح تو نشانِ نبوت کی ہتک اور انبیاء کا تمسخر کرتے ہو.یاد رکھو کہ ایک دو پیسے پاس ہونے سے یا دو چار آنے کا مالک بننے سے یا چند پونڈوں کے پاس ہونے سے کوئی بادشاہ نہیں بن جاتا بلکہ پیسے روپے اور پونڈ تو کثرت مال وزر کی ایک شہادت ہیں کہ تا ان سے قیاس کر لیا جاوے کہ کروڑ در کروڑ پونڈ اور لا تعداد خزانے بھی ضرور اور یقیناً ہیں.پس ان لوگوں کی خوابوں اور انبیاء کے الہامات مکالمات اور مخاطبات میں ایک مابہ الامتیاز ہوتا ہے.انبیاء کی وحی اپنے تمام لوازمات کے ساتھ ہوتی ہے اس میں ایک شوکت اور جلال ورعب ہوتا ہے.انبیاء کی وحی کیا بلحاظ کیفیت اور کیا بلحاظ کمیت عام لوگوں سے بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے.اور وہ ان کی کامیابی اور ان کے دشمنوں کی نامرادی پر مبنی ہوتی ہے.انبیاء کی وحی غیب پر مشتمل ہوتی ہے.لَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ(الـجنّ: ۲۷،۲۸) غرض انبیاء کی وحی میں کسی انسان کو کسی طرح کا اشتراک نہیں ہوتا.جنسیت کے لحاظ سے جو اشتراک رکھا گیا ہے وہ بھی صرف اس واسطے کہ تا انسان کو انبیاء کی پاک وحی پر ایمان لانے میں مدد دے ورنہ اس کی کوئی حقیقت نہیں اور وہ تو انبیاء کی وحی کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.پس مولوی محمد حسین صاحب کو آپ کہہ دیں ( جو صاحب زبانی پیغام لائے تھے ) کہ مولوی ہوکر آپ کے منہ سے کس طرح ایسی باتیں نکلتی ہیں جن سے نعوذ باللہ شانِ نبوت کا تمسخر اور استخفاف ہوتا ہے.اوّل تو آپ کا یہ خواب یا الہام جو کچھ بھی ہے تفسیر طلب ہے.دوسرے اگر یہ سچا بھی ہوتو نہ یہ شانِ نبوت کے لیے اعتراض ہو سکتا اور نہ ہی آپ اس سے نبی بن سکتے ہیں.آپ سے پہلے بھی

Page 143

ایک شخص نے ہمارے مقابلہ میں امر تسر سے اپنے ہاں لڑکا ہونے کی پیشگوئی کی تھی.مگر خدا جانے کیا ہوا وہ موہوم حمل بھی حمل نہ رہا اور ایک چوہا بھی پیدا نہ ہوا.غرض آپ کا خواب یا الہام بھی تو ابھی تصدیق طلب ہے مگر جن کے خوابوں کی تصدیق ہو چکی ہے اور ان میں سے بعض مشرک اور دہریہ بھی ہیں اور بعض فاسق وفاجر اور چور و زانی.ان کو بھی تو آپ کچھ جواب دیں کہ کیا آپ ان کو نبی یا ولی اللہ مان لیں گے؟ یہاں آنا ہو تو نفسانی غرض سے نہ آؤ بلکہ تحقیق حق کے لیے آؤ.اسی تصفیہ کے واسطے آجاؤ کہ خواب کفّار فُجار کو بھی آجاتی ہیں اور انبیاء کو بھی.جنسیت میں دونوں مشترک ہیں تو پھر کفّار اور انبیاء کی خوابوں اور الہامات میں مابہ الامتیاز کیا ہے ؟ ان میں کوئی معیار بھی خدا نے رکھا ہے یا کہ نہیں؟ یہ ایک دینی کام ہے اس کی تحقیق کے واسطے آ جاؤ.ثواب بھی ہے.یاد رکھو کہ قرآن شریف نے ان دونوں قسموں میں امتیازی معیار پیشگوئی کو رکھا ہے جو انسانی طاقتوں سے بالا تر اور خا رق عادت رنگ میں ـغیب پر مشتمل ہو.معجزات دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو کہ موسٰی کے سوٹے کی طرح فوراً دکھا دئیے جاتے ہیں.دوسرے علمی رنگ کے معجزات اور غیب پر مشتمل پیشگوئیاں.اوّل الذّکر معجزات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان سے دشمنوں کے منہ بند ہو جاتے ہیں مگر دیرپا اور ہمیشہ کے واسطے نہیں ہوتے بلکہ وہ وقتی ضرورت کے مناسبِ حال ہوتے.پیچھے آنے والی قوموں کے واسطے وہ کوئی حجّت اور دلیل نہیں ہوتے کیونکہ ان میں تدبّر و تفّکر کا انسان کو موقع نہیں ملتا.مگر مؤخر الذکر معجزات ایسے علمی رنگ میں ہوتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کے واسطے اور دیر پا ہوتے ہیں.انسان جو ں جوں ان میں غور وخوض کرتا ہے توں توں ان کی شوکت اور عظمت بھی بڑھتی جاتی ہے.اور جوں جوں بُعد زمانی ہوتا جاتا ہےان کی ضیا اور شوکت میں ترقی ہوتی جاتی ہے.ان کی عظمت میں فرق نہیں آتا.چنانچہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اس قسم ثانی کے ہیں.دیکھ لو! تیرہ سو برس گذر چکے ہیں زمانہ ترقی کے لحا ظ سے معراج پر پہنچ گیا ہے.نئے نئے علوم اور طبیعات نکلے مگر نہ آنحضرتؐکی تعلیم کا کوئی

Page 144

نقص کوئی ثابت کر سکا اور نہ ہی آپ کے معجزات کی قدر و عظمت میں فرق آیا بلکہ روز افزوں ان کی عظمت اور شوکت بڑھتی ہی جاتی ہے اور جوں جوں نئے نئے علوم نکلتے ہیں، سائنس اور فلاسفہ ترقی کرتا جاتا ہے تو ں توں آپ کی تعلیم کی عظمت اور آپ کے معجزات کی شوکت زیا دہ ہوتی ہے.دیکھو ایک اور بڑا بھاری مابہ الامتیاز اللہ تعالیٰ نے یہ قائم کیا ہے لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْل لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ(الـحاقۃ: ۴۵تا۴۷) یعنی اگر کوئی شخص تقوّل علَی اللہ کرے تو وہ ہلاک کر دیا جاوے گا.خبر نہیں کیوں اس میں آنحضرتؐہی کی خصوصیت رکھی جاتی ہے.کیا وجہ کہ رسول اللہؐ اگر تقوّل علَی اللہ کریں توا ُن کو تو گرفت کی جاوے اور اگر کوئی اور کرے تو اس کی پروانہ کی جاوے.نعوذ باللہ اس طرح سے تو امان اُٹھ جاتی ہے.صادق اور مفتری میں مابہ الامتیاز ہی نہیں رہتا.اِنَّهٗ مَنْ يَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ(طٰہٰ: ۷۵) فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ(الزلزال:۸،۹)اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(الانعام : ۲۲)ان آیات سے صاف طور سے عموم ظاہر ہو رہا ہے.کوئی خصوصیت نہیں.نہ معلوم تو پھر رسول اللہؐ اگر افترا علی اللہ کریں تو خدا بُرا مناتا ہے مگر اگر کوئی اور یہی جرم کر دے تو خیر چنداں ہرج کی بات نہیں.معاذ اللہ! براہین کے زمانہ کو دیکھو جب کہ اس نے خود ریویو بھی لکھا ہے.اس سے قسماً پوچھ لو کہ اس وقت میں اکیلا تھا یا نہیں اور اب اس وقت چار لاکھ سے بھی زیادہ آدمی ہمارے ساتھ ہیں.بھلا کبھی مفتری کی بھی اللہ تعالیٰ ایسی نصرت کرتا ہے؟ پس عام لوگوں کے خوابوں اور انبیاء کی وحی میں اللہ تعالیٰ نے خود مابہ الامتیاز مقر ر کر دئیے ہیں.جنسیت کے لحاظ سے تو کم وبیش ہر طبقہ کے لو گ شامل ہیں مگر بلحاظ اپنی کیفیت اور کمیت مقدار ونصرت انبیاء ہی کی وحی ممتاز اور قابل اعتبار ہو تی ہے.پھر ہمیں تشریعی نبوت کا دعویٰ نہیں ہے.ہمارا ایمان ہے کہ تشریعی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی.اب اسی شریعت کی خدمت بذریعہ الہامات، مکالمات، مخاطبات اور بذریعہ پیشگوئیوں

Page 145

کے کرنے کا ہمار ادعویٰ ہے.مجدّد صاحب لکھتے ہیں کہ یہی خوابیں اور الہامات جو گاہ گاہ انسان کو ہوتے ہیں اگر کثرت سے کسی کو ہوں تو وہ محدّث کہلاتا ہے.غرض یہ سب کچھ ہم نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں مفصل لکھ دیا ہے.اس کا مطالعہ کر کے تسلّی کر لیں.۱ ۷؍مارچ ۱۹۰۸ء (بوقتِ سیر) تحویلِ قبلہ کی حقیقت کسی آریہ کے اس اعتراض پر کہ نعوذ باللہ آنحضرتؐکو خود اپنی وحی اور الہامات پر یقین او ر وثوق نہ تھا اسی واسطے تحویلِ قبلہ ہوئی.فرمایا کہ یہ نادان لوگ نہیں جانتے کہ تحویلِ قبلہ اور یہ انقلاب اللہ تعالیٰ نے اس واسطے کرائے کہ تا یہ ظاہر ہو جاوے کہ مسلمان کعبہ پر ست نہیں ہیں.ہر دو متبرک مقامات جن کی بزرگی اور عزت کی وجہ سے کبھی کسی زمانے میں کسی کو ان کی پرستش کا خیال ہو سکتا تھا ان کو پیٹھ کے پیچھے کراکے اس اَمر کا اظہار عام طور پر کرا دیا کہ مسلمان واقعی اور حقیقی طور سے خد ا پرست ہیں نہ کہ کعبہ پرست.بایں ہمہ یہ لوگ مسلمانوں پر حجر اسود کی پر ستش کا الزام دئیے ہی جاتے ہیں.صاف بات ہے کہ عبادت کے لئے انسان کو کسی نہ کسی طرف تو منہ کرنا ہی پڑتا ہے.پس ایک شخص تو خود اپنی خواہش سے کسی طرف کو پسند کرتا ہے اور دوسرا حکمِ الٰہی سے ایک خاص طرف منہ کرتا ہے.بھلا بتاؤ تو سہی ان میں سے کون اچھا ہے ایک تو حکم پرست ہے اور دوسرا نفس پرست.بایں ہمہ یہ لوگ مسلمانوں کو کعبہ پرست کہتے ہوئے شرماتے کیوں نہیں؟ پس آنحضرتؐکا تحویلِ قبلہ کرنا اسی حقیقت پر مبنی تھا کہ مسلمان خاص مؤحد اور توحید کے پابند ہو جاویں.کعبہ پرستی کا وہم تک بھی ان کے دل سے نکل جاوے نہ کسی تلوّن اور یقین کی کمی کی وجہ سے جیساکہ نادان آریوں کا وہم ہے کیونکہ آپؐتو صاف کہتے ہیں قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۸ مورخہ ۱۰؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۴، ۵

Page 146

عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِيْ(یوسف:۱۰۹) اس اعتراض کا جواب کہ مسلمانوں نے جنگوں میں لونڈیاں کیوں بنائیں ؟ ایک دوسرے اعتراض پر کہ مسلمان لوگ جو جنگوں میں لونڈیاں بنا لیا کرتے تھے یہ بڑا ظلم اور وحشت ہے.فرمایا کہ مسلمانوں نے جو کچھ بھی کیا تھا سب کچھ کفّار مکہ کے جور و ستم او رظلم وتعدّی کے بعد کیا تھا.ان کے مظالم کے کارنامے دیکھ کر پھر مسلمانوں پر اعتراض کرناچاہیے.بھلا غور کرو کہ مکہ میں آپ کی زندگی کس طرح گذری ہے؟ کس غربت اور انکساری سے اہل مکہ کے تشدد اور مظالم کا مسلمان نشانہ بنتے رہے تھے کہ آخر ان کی شرارتوں سے تنگ آکر آپؐکو اپنا عزیز وطن بھی چھوڑنا پڑا.اس زندگی میں ایک مسلمان بیوی کا ایک جگر خراش واقعہ ہے جو کفّار مکہ کے جورو ظلم کا مُشتے نمونہ از خر وارے است.ہماری فطرت تقاضا نہیں کرتی کہ اس ظلم کی تفصیل اور تشریح کریں.جنہوں نے وہ واقعہ کتب تواریخ میں پڑھا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ کیسا جانکاہ واقعہ ہے.غرض مسلمانوں نے جو کچھ بھی کیا ہے دفاعی رنگ میں کیا ہے.مقابل لوگوں نے پہلے وہ سارے کام کئے تھے بعد میں مسلمانوں نے کئے.جیسا جیسا انہوں نے کیا تھا ویسا ان سے کیا گیا.جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا( الشّورٰی:۴۱) اصل بات یہ ہے کہ دنیا کے انتظام کے واسطے خدا تعالیٰ نے دو حکومتیں بنائی ہیں.ایک ظاہری اور ایک باطنی.ہمارے رسول اکرمؐکو یہ دونوں حکومتیں عطا کی گئی تھیں.پس شریروں، بدمعاشوں، لٹیروں، راہزنوں کو ان کی شرارتوں کی سزا دینی ملک میں امن قائم کرنے کے واسطے ضروری تھی.مدینہ کے لوگوں نے آپؐکو اس وقت اپنا ظاہری بادشاہ بھی مان لیا تھا.اکثر مقدمات کے فیصلے آپؐ سے ہی کراتے تھے.چنانچہ ایک مقدمہ ایک مسلمان اور یہودی کا تھا.آپؐنے یہودی کو اس میں ڈگری دی تھی.بعض وقت آپؐنے کفّار کے جرائم ان کو معاف بھی کئے اور بعض رسوم بد کو آپ نے مقابلہ میں بھی ترک کر دیا ہے.چنانچہ کفّار مکہ لڑائی میں مسلمان مُردوں کی بے حرمتی کیا کرتے تھے.ناک کان کاٹ لے جاتے تھے مگر آنحضرتؐنے مسلمانوں کو اس رسم بد کے ترک کر دینے کا حکم دیا تھا.

Page 147

غرض ان معترضوں کو دونوں آنکھوں سے کام لینا چاہیے.دو آنکھوں کے ہوتے کا نے کیوں بنتے ہیں ؟ کفّار مکہ کے مظالم کو پہلے مطالعہ کریں پھر مسلمانوں کی اگر کوئی زیادتی ثابت ہو تو ان کو حق ہے.مسلمانوں کے تمام جنگ اور کفّار کے ساتھ تمام سلوک دفاعی رنگ میں ہیں.ابتدا ہرگز ہرگز مسلمانوں نے کبھی نہیں کی.اچھا اب دیکھو! یہ سر حدی لٹیرے جو آئے دن گورنمنٹ کی رعایا کے جان ومال پر حملے کرتے ہیں اور بدامنی پھیلاتے ہیں تو کیا گورنمنٹ کو چپکے بیٹھے رہنا چاہیے اور ان کی سر کوبی اور سزا کی کوئی مناسب تجویز نہیں کرنی چاہیے ؟ ذرا غور کرو اور سوچو!۱ ۱۰؍مارچ ۱۹۰۸ء (بوقتِ سیر) دینی ضرورت کے لئے چندوں کی ضرورت فرمایا.دینی ضروریات کے انجام دینے کے واسطے چندوں کی ضرورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پیش آئی تھی.دیکھو ہماری جماعت جو اس وقت چار لاکھ یا اس سے بھی زیادہ ہے اگر اس میں سے صرف دس ہزار آدمی جو خواہ غریب کسان ہی ہوں اور اخلاص سے ضروریات دینی کے واسطے اپنے نفس پر وہ اگر صرف آٹھ آنے (۸؍) ماہوار ہی مقرر کر لیں اور التزام سے ماہوار ادا کرتے رہیں تو پانچ ہزار روپیہ ماہوار کی کافی امداد دینی ضروریات کی انجام دہی کے واسطے پہنچ سکتی اور یہ اَمر جفا کش محنتی اور دیانتدار واعظوں کے ذریعہ سے اچھی طرح سے پورا ہو سکتا ہے جو لوگوں کو دینی ضروریات سے آگا ہ کرتے رہیں.فرمایا کہ سلسلہ خطوط کے دیکھنے سے پتہ لگ سکتا ہے کہ کس قدر لوگوں کے خط ہر روز بیعت کے واسطے آتے ہیں اور یوں بھی کوئی ہفتہ خالی نہیں جاتا کہ دس بیس آدمی بیعت نہ کرتے ہوں.اب اس طرح سے بیعت کے رجسٹروں کی تعداد میں تو روز افزوں ترقی ہے مگر یہ رجسٹر (یعنی باقاعدہ چندہ دہندگان کا ) اپنی اسی حالت پر ہے.اس میں کوئی نمایا ں ترقی نہیں ہوتی.اصل وجہ یہی ہے کہ ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۹ مورخہ ۱۴؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۲،۳

Page 148

لوگ بذریعہ خطوط بیعت کرتے ہیں یا اس جگہ آکر بیعت کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں مگر ان کو ضروریاتِ سلسلہ سے مطلع کرنے کا کوئی کافی ذریعہ نہیں ہے.ہمارے خیال میں مو لوی فتح دین صاحب بھی اس کام کے واسطے موزوں ہیں.آدمی مخلص دیانتدار ہیں اور یوں ان کی کلام بھی مؤثر ہے.ان کی پنچابی نظم جو اس ملک کی مادری زبان ہے اور جسے لوگ خوب سمجھتے ہیں وہ بھی اچھی مؤثر ہے ہمارے خیال میں ان کے ذریعہ سے تبلیغ واشاعت کا کام بھی ہوتا رہے گا.اور چندہ کی وصولی کا بھی باقاعدہ انتظام ہو جاوے گا.اللہ تعالیٰ اپنے خا ص بندوں کو عظمت اور رعب عطا کرتا ہے مولوی فتح دین صاحب کی کسی عرض پر فرمایا.خد ا جب بند ے سے خو ش ہو جاتا ہے تو وہ اپنے بندے کو خود عظمت اور رعب عطا کر دیتا ہے کیونکہ حق کے ساتھ ایک عظمت اور رعب ہوتا ہے.دیکھو ابو جہل وغیرہ جو اس وقت مکہ میں بڑے آدمی بنے ہوئے تھے اصل میں ان کا سارا تکبر اور دبدبہ جھوٹا تھا.ان کی عظمت فانی تھی.چنانچہ نتیجہ میں دیکھ لو کہ ان کی عظمت وشوکت کہاں گئی.اصل بات یہ ہے کہ سچا رعب اور حقیقی عظمت ان لوگوں کو عطا کی جاتی ہے جو اوّل خدا کے واسطے اپنے اوپر ایک موت وارد کر لیتے ہیں اور اپنی عظمت اور جلال کو خا کساری سے، انکساری سے، تواضع سے تبدیل کردیتے ہیں.تب چونکہ انہوں نے خدا کے لئے اپنا سب کچھ خرچ کیا ہوتا ہے خدا خود اُن کو اُٹھاتا ہے اور قدرت نمائی سے ان کو نوازتا ہے.دیکھو! تو بھلا اگر حضرت ابو بکر ؓ اور عمر ؓ بھی اپنی پہلی خاندانی بزرگی اور عظمت ہی کو دل میں جگہ دئیے رہتے اور خدا کے لیے وہ اپنا سب کچھ نہ کھو بیٹھتے تو کیا تھے؟ زیادہ سے زیادہ مکہ کے کھڑ پنچ بن جاتے مگر نہیں خدا نے ان کے دلوں کے اندرونہ حالات کو خلوص سے بھرا پایا اور انہوں نے خدا کی راہ میں اپنی کسی بزرگی اور عظمت وسطوت کی پروانہ کی بلکہ سب کچھ نثار کر دیا اور خد ا کے لئے فروتن، مُتواضع اور خا کسار ہو گئے تو اللہ نے ان کو

Page 149

کیسا نوازا.کیسی عظمت اور جبروت عطا کیا.بھلا جو کچھ خدا نے ان کو دیا اس کا وہم بھی کبھی کسی عرب کے دل میں اس وقت آسکتا تھا؟ ہر گز نہیں.پس سچی عظمت اور سچارعب یہی تھا نہ کہ ابو جہل وغیرہ کا.اور یہ باتیں انہی کو دی جاتی ہیں جو پہلے اپنے اُوپر خدا کے لیے ایک موت وارد کر لیتے ہیں.استقامت اور دعا سے کام لیں فرمایاکہ بات دراصل یہ ہے کہ صبر سے کام لینا چاہیے.ترقی ہو رہی ہے.قبولیت دلوں میں پیدا ہوتی جاتی ہے اور دنیا کے کناروں تک اب یہ سلسلہ پہنچ چلا ہے.ہمارے پاس بعض ایسے لوگوں کے بھی خط آتے ہیں جن میں سے بعض رؤسائے ریاست بھی ہوتے ہیں اور انہوں نے بیعت بھی نہیں کی ہوتی وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے لیے فلاں اَمر میں دعا کی جاوے.اصل بات یہ ہے کہ دنیا کے دل مان گئے ہیں اور اب دیکھو متواتر چھبیس یا ستائیس برس سے ہمارا دعویٰ چلا آرہا ہے اور خدا اس میں روز ترقی دے رہا ہے.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اس بات کی نظیر نہیں ملتی کہ کسی مفتری علَی اللہ کو اس قدر مہلت دی گئی ہو اور ایسی قبولیت اور ترقی عطا کی گئی ہو.آسمانی اور زمینی نشان اس کے واسطے بطور شاہد پیدا کئے گئے ہوں.آخر ان باتوں کا بھی تو دلوں پر اثر ہوتا ہے.گھبرانا نہیں چاہیے.صبر، استقامت اور دعا سے کام لینا چاہیے.حضور کی ذرہ نوازی سیر سے واپسی پر ایک کسان منگو نام سکنہ بھینی نے سامنے سے آکر سلامِ مسنون اور مصافحہ کرنے کے بعد عرض کی کہ حضور تھوڑی دیر ٹھہر جاویں میں کچھ گنے نذر کرنا چاہتا ہوں.حضور نے فرمایا.کچھ ضرورت نہیں تمہیں ثواب ہو گیا.اب تکلیف مت کرو مگر اس نے نہ مانا اور اصرار کیا.حضرت اقدس ؑنے فرمایا کہ اچھا میاں شادی خاں کو دے د و.وہ ہمارے واسطے لے آوے گا.مگر اس شخص نے نہایت ہی الحا ح سے عرض کی، نہیں حضور !یہاں ٹھہر ہی جاویں اور حضور کے

Page 150

سارے ساتھی گنوں کی دعوت قبول کریں.یہ کہہ کر لپٹ گیا اور حضور کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کھیت میں لے گیا حضرت اقدسؑ مسکرائے اور اس کے کھیت میں چند منٹ تک ٹہلتے رہے.اتنے میں اس نے گنے لا ڈھیر کئے.چنانچہ حضرتؑکے تمام ساتھیوں نے لے لیے.چلنے سے پہلے حضرت اقدسؑ نے نہایت لطف اور مہربانی سے اس شخص کو بلا کر اس کا نام وغیرہ دریافت کیا اور اس کے صدق اور خلوص محبت سے مسکرا کر رخصت ہوئے.اس واقعہ سے حضرت کے ہمراہیوں پر خا ص اثر ہوا کہ کس لطف اور شفقت سے اور فراخدلی سے حضرت اقدسؑ اس سے پیش آئے اور یہ آپ کے اخلاق حمیدہ کا ایک نمونہ تھا.ویدوں میں مورتی پوجا اور توحید فرمایا.ہر قوم کی اصلی تعلیم کا خواہ اس پر ہزاروں ہی برس کیوں نہ گذر جائیں کچھ نہ کچھ اثر یا نمونہ بطور بیج کے رہ ہی جاتا ہے.ویدوں میں اگر توحید کی تعلیم کا کوئی بھی شعبہ موجو د ہوتا تو اس تعلیم کا اثر اس کے ماننے والوں میں ضرور کچھ نہ کچھ تو پایا جاتا.کروڑوں نمونے بت پرستی کے موجو د ہیں.لاکھوں مندروں میں طرح طرح کے بت رکھے ہیں بلکہ اکثروں میں تو فحش اور ننگی مورتیاں ان کے تمدن اور ویدوں کی تعلیم کی اصلیت کا راز عملی طور سے دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں.علمی رنگ میں ان کی کتب جو دیانند سے پہلے اسلام کے مقابل میں علم مناظرہ میں لکھی گئی ہیں وہ ان کی تعلیم کی اصلیت ظاہر کرتی ہیں.چنانچہ وہ لوگ ہمیشہ مسلمان موحدوں کے مقابلہ میں بت پرستی کے اثبات کے دلائل اپنی انہی کتب متبرکہ یعنی ویدوں سے پیش کیا کرتے تھے اور ان کی ساری جدوجہد مورتی پوجا کے اثبات کے لیے ہوا کرتی تھی سوا چند ان آدمیوں کے جن کو دیانند نے پیدا کیا ہے کُل بڑے بڑے علماء اور فضلاء مورتی پوجا ہی کے معتقد تھے.اب ہم ان لاکھ در لاکھ پنڈتوں اور متقدمین بزرگان اہلِ ہنود کو ان معدودے چند دیانندی خیال کے مقلدوں کے مقابلہ میں کس طرح جھوٹا جان سکتے ہیں.وَالْفَضْلُ لِلْمُتَقَدِّ.مِ.یہ بات دو حال سے خالی نہیں.یا تو یہ دعویٰ توحید پنڈت دیانند کا زمانہ حال کی موجودہ روش اور ترقی کو دیکھ کر خود ساختہ مسئلہ ہے اور دراصل ویدوں میں اس کا نام ونشان نہیں بلکہ وہی مورتی پوجا

Page 151

کا پرانا مسلّمہ مسئلہ ان کتب میں اصل الاصول ہے جس کا ثبوت مدت ہائے دراز سے اہل ہنود کے کروڑوں رشی اور پنڈت بزرگ اپنے عملی نمونے سے دنیا میں قائم کر گئے ہیں اور یا اگر پنڈت دیانند کو اپنے دعوے میں سچا مان لیں اور ان متقدمین کو جو ان کتابوں کے اصل وارث اور اہل تھے غلطی پر خیال کر لیں تو یوں ماننا پڑے گا کہ وید گونگے ہیں اور وہ اپنے اظہارِ مطلب سے بالکل عاری ہیں.توحید اور بت پرستی میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر ان دونوں کا سرچشمہ وہی کتب مقدسہ یعنی وید ہی بتایا جاتا ہے.ایک طرف متقدمین اہلِ ہنود انہی ویدوں کو ہاتھ میں لے کر بت پرستی ثابت کرتے ہیں اور موحدوں سے مباحثہ کرتے ہیں.دوسری طرف انہی پاک کتب سے آج کل موجودہ نسل کے دیانندی خیال کے لوگ جو بلحاظ زمانہ اور زبان کے بہت پیچھے کی نسلیں ہیں وہ انہی کتب سے توحید نکالتے ہیں اور بُت پرستی کے دشمن ہیں.بہرحال ایک بات سے انکار نہیں یا تو پہلے بزرگ راستی پر ہیں اور یا وید گونگے ہیں کہ اپنے اظہارِ مطلب سے عا جزاور عاری ہیں.بھلا کبھی کسی نے کسی مسلمان کو بھی بت پرستی اور مورتی پوجا کا حامی دیکھا یا سنا ہے.قرآن شریف نے توحید کے مسئلہ کو ایسا صاف اور بیّن دلائل سے کھلے کھلے طور سے بیان کیا ہے کہ بت پرستی کا کبھی کسی مسلمان کے دل میں وہم وگمان تک بھی نہیں پیدا ہوا.فرمایا کہ چشمہ معرفت میں ہم نے ان لوگوں کے کل اعتراضات کا پورے طور سے ہمیشہ کے واسطے فیصلہ ہی کر دیا ہے.ہم یقین کرتے ہیں کہ اگر کوئی حق جُو انسان تعصب اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر حق کی تلاش کے واسطے ہماری اس کتاب کو اوّل سے آخر تک پڑھ لے گا تو وہ کم ازکم کبھی بھی اسلام کے برخلاف زبان یا قلم نہیں اُٹھا سکتا.پوری توجہ سے ایک سرے سے دوسرے سرے تک نظر انصاف سے پڑھنا شرط ہے.۱ ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۹ مورخہ ۱۴؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۳،۴

Page 152

۱۷؍مارچ ۱۹۰۸ء حضرت علی ؓ خلفاء ثلاثہ کو اپنا مقتدا تسلیم کر تے تھے فرمایا.شیعہ کہتے ہیں قرآن مجید میں کچھ کمی بیشی ہے.اس اعتراض کی زد میں سب سے پہلے وہی آتے ہیں.حضرت علیؓاسی لیے خلیفہ نہیں ہوئے تھے کہ معاویہ کے ساتھ جنگ کریں بلکہ ان کا فرض تھا کہ قرآن شریف کی حفاظت کریں جو اصل الاصول دین ہے.پس وہ اپنی خلافت کے زمانے میں اصل قرآن کو شائع کر جاتے.کیا جس قرآن مجید کی اشاعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہزاروں مخالف وموافق لوگوں میں ہوتی رہی ہو اس میں کچھ تغیر ممکن تھا؟ یہ کیسی لغو بات ہے! پھر ہم پوچھتے ہیں کہ انہی خلفاء کے پیچھے حضرت علیؓ نمازیں پڑھتے رہے اگر ان کے غاصب ظالم ہونے کا یقین تھا تو ایسا کیوں کیا؟ دیکھو ہمارے مرید ہیں وہ دوسروں کے پیچھے نماز نہ پڑھیں گے تو کیا حضرت علی ؓ ان سے بھی ایمانی حالت میں کمزور تھے جو تقیہ کرتے رہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کی زمین وسیع ہے.ایسی بات ہو تو ہجرت کر جاؤ.آپ نے یہ بھی نہ کیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ خلفائے ثلاثہ کو اپنا مقتدا تسلیم کرتے تھے.امرا ء اہلُ اللہ کے محتاج ہوتے ہیں فرمایا.شَـــرُّ الْــفُــقَـــرَائِ مَــنْ ھُــــوَ عَـــــلٰی بَـــابِ الْاُمَرَائِ.یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے بہتری پاتے ہیں.پس انہیں امراء کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہاں! امراء ان کے بہت کچھ محتاج ہیں.اللہ تعالیٰ کا احسان فرمایا.لوگ دین حق اختیار کر کے داعی اِلَی اللہ پر احسان رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے کہا یہ تو میرا احسان ہے کہ تمہیں ہلاکت سے بچا لیا.تم بجائے احسان نمائی کے نبی کا شکر یہ ادا کرو.

Page 153

کیمیا گری اور رزقِ کریم فرمایا کہ بہت سے لوگ کیمیا کی فکر میں لگے رہتے ہیںاور عمر کو ضا ئع کرتے ہیں اور بجائے اس کے کہ کچھ حاصل کریں جو کچھ پاس ہوتا ہے اس کو بھی کھو دیتے ہیں.ایک شخص بٹالہ کا رہنے والا تھا جو کہ کسی قدرغربت سے گذارہ کرتا تھا اور اس نے جو مکان رہائش کے لئے بنایا تھا اس کے باہر کی ایک ایک اینٹ تو پکی تھی اور باقی اندر سے کچا تھا.ایک دن اسے ایک فقیر ملا جو بہت وظیفہ پڑھتا رہتا تھا اور ظاہراً نہایت نیک معلوم ہوتا تھا.بوجہ اس کے ظاہری درود وظائف کے وہ سادہ لوح آدمی اس کے ساتھ بہت بیٹھتا اور تعلق رکھتا تھا.کچھ مدت کے بعد اس فقیر نے بڑی سنجیدگی سے اُس آدمی سے پوچھا کہ تم نے یہ مکان اس طرح پر کیوں بنایا ہے کیوں نہیں سارا پختہ بنا لیتے؟ اس نے جواب دیا کہ روپیہ نہیں غریب ہوں.اس پر فقیر نے کہا روپیہ کی کیا بات ہے؟ اور اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا.اس ذومعنے جواب پر اس شخص کو کچھ خیال پیدا ہوا اور اس نے اس سے پوچھا کہ کیا تم کچھ کیمیا جانتے ہو.اس نے کہا کہ ہاں استاد صاحب جانتے تھے اور بہت اصرار کے بعد مان لیا کہ مجھ کو بھی آتا ہے پر میں کسی کو بتاتا نہیں.چونکہ تم بہت پیچھے پڑے ہو اس لئے کچھ تم کو بتا دیتا ہوں اور یہ کہہ کر اس کو گھر کا زیور اکٹھا کرنے کی ترغیب دی اور کچھ مدت تک باہر میدان میں جا کر وظیفہ پڑھتا رہا.ایک زیور لے کر ہنڈیا میں رکھنے لگا مگر کسی طرح اس زیور کو تو چرا لیا اور اس کی جگہ اینٹیں اور روڑے بھر دئیے اور خود وظیفہ کے بہانے باہر چلا گیا اور جاتے وقت کہہ گیا کہ اس ہنڈیا کو بہت سے اُپلوں میں رکھ کر آگ دو.مگر دیکھنا کچا نہ اُتارنا بلکہ جب تک میں نہ آؤں اسے ہاتھ نہ لگانا.اس نے اس کے کہنے مطابق اس ہنڈیا کو خو ب آگ دی اوراس قدر دھواں ہوا کہ ہمسائے اکٹھے ہو گئے اور دروازہ کھلوا کر اندر گئے اور جب اُس سے پوچھنے پر معلوم کیا کہ کیمیا بن رہا ہے تو انہوں نے اس شخص کو سمجھایا کہ وہ تجھے لوٹ کر لے گیا اور جب ہنڈیا کھولی تو اس میں سے روڑے نکلے.چنانچہ وہ شخص جب کسی کام کے لیے گورداسپور گیا تو اُسے وہاں معلوم ہو ا کہ وہی شخص کسی اور کو دھوکہ دے گیا ہے اور وہاں آگ جل رہی ہے.پس اس نے ان کو بھی سمجھا دیا کہ مجھ کو بھی لوٹ کر لے گیا ہے اور وہاں بھی ہنڈیا کھولنے پر اینٹ پتھر ہی نکلے.

Page 154

اسی طرح قادیان کے پاس ایک گاؤں ہے.وہاں ایک کیمیا گر آیا اور مسجد میں ٹھہرا.مسجد والے سے پوچھا کہ یہ مسجد ٹوٹی پھوٹی ہے اس کو بناتے کیوں نہیں ؟ اس نے کہا کہ ہمارے آباؤ اجداد کے زمانے میں یہ مسجد بنی تھی اب ہم غریب ہیں اس قدر روپیہ نہیں.اس نے کہا کہ نہیں روپیہ کا کیا ہے؟ بندوبست ہو جائے گا اور پوچھے جانے پر جواب دیا کہ میں چاندی بنا سکتا ہوں.چنانچہ ا س شخص نے پچیس روپے دئیے اور وہ کیمیا گر اس کو لے کر بٹالہ آیا اور وہاں پہنچ کر اس کو صاف کی ہوئی قلعی دےدی وہ شخص بیچارہ سادہ لوح تھا فرق نہ کر سکا اور اپنے گاؤں میں آکر سنار کو دکھلائی تو معلوم ہوا کہ بالکل بے قیمت ہے.اسی طرح ایک ڈپٹی صاحب تھے جن کو مدت سے کیمیا کا شوق تھا اور اس میں بہت روپیہ ضائع کر چکے تھے.ایک دن ایک آدمی اُن کے پاس آیا اور کہا کہ میں کیمیا بنانی جانتا ہوں مگر سامان وغیرہ کے لئے پانچ سو روپیہ درکار ہے.وہ ڈپٹی صاحب نے فوراً دلوا دیا.روپیہ لے کر وہ شخص ایک پاس کی دکان میں بیٹھ گیا اور ڈپٹی صاحب کو کہلا بھیجا کہ روپیہ تو میں لے چکا.اب جو مرضی ہو کرو.میں نہیں دیتا.لینا ہے تو عدالت میں نالش کرو.ڈپٹی صاحب اب ایسے بوڑھاپے میں نالش کس طرح کرتے اور کرتےتو اپنی بے عزتی ہوتی.چپ ہو رہے غرض یہ سب بیہودہ ہے.کیمیا کی مرض پہلے زمانہ میں تو عام طور پر تھی اور ہنود اس میں مدت سے پھنسے ہوئے تھے مگر افسوس بعض تعلیم یافتہ لوگ بھی اب تک اس کے دلدادہ ہیں.اسلام اس کو بالکل ناجائز قرار دیتا ہے اور قرآن شریف سے ثابت ہے کہ رزق کریم متقی کو ضرور ملتا ہے اور وہ رزق جس سے فائدہ پہنچے کریم ہی ہوتا ہے.ورنہ بہت سے ایسے مال ہوتے ہیں جو ناجائز طریقوں سے کمائے جاتے ہیں اور ناجائز باتوں میں اور فضول رسومات میں اُٹھ جاتے ہیں.حالانکہ محنت اور نیکی سے کمایا ہوا روپیہ اپنے اصل موقع پر خرچ ہو تا ہے جیسا کہ ان دو بھائیوں کے قصہ سے ظاہر ہے کہ خد ا تعالیٰ نے اَبُوْهُمَا صَالِحًا (الکھف:۸۳) کی وجہ سے دونبیوں کو اس بات پر مامور کیا کہ اس روپیہ کی حفاظت کے لئے جو کہ نیکی اور تقویٰ سے کمایا ہوا تھا ایک دیوار بنائیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَفِي السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اِنَّهٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَاۤ اَنَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ (الذّٰریٰت:۲۳،۲۴)

Page 155

یعنی ہر ایک انسان کو خدا تعالیٰ اپنے پاس سے روزی دیتا ہے.حضرت داؤد کہتے ہیں کہ میں بچہ تھا اور بوڑھا ہوگیا ہوں مگر آج تک میں نے کسی صالح کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا.اسی طرح توریت میں ہے کہ نیک بخت انسان کا اثر اس کی سات پشت تک جاتا ہے پھر قرآن مجید میں بھی ہے کہ کَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحًا(الکھف:۸۳) یعنی ان کا باپ صالح تھا اس لیے خدا تعالیٰ نے ان کا خزانہ محفوظ رکھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکے کچھ ایسے نیک نہ تھے.باپ کی نیکی کی وجہ سے بچائے گئے.پس انسان کے لیے متقی اور نیک بننا کیمیاگر سے بہت بہتر ہے.اس کیمیا گری میں تو روپیہ ضائع ہو تا ہے مگر اس کیمیاگری میں دین بھی اور دنیا بھی دونوں سدھر جاتے ہیں.افسوس ہے ان لوگوں پر جو ساری عمر یونہی فضول ضائع کر دیتے ہیں اور کیمیا کی تلاش میں ہی مَر جاتے ہیں حالانکہ اس کوچہ میں سوائے نقصان مال اور نقصان ایمان اور کچھ نہیں اور ایسا شخص یکے نقصانِ مایہ ودیگر شماتت ہمسایہ کا مستحق ٹھہرتا ہے.اصل کیمیا تقویٰ ہے جس نے اس کو حا صل کر لیا اس نے سب کچھ حا صل کر لیا اور جس نے اس نسخہ کو نہ آزمایا اُس نے اپنی عمر ضائع کی.اگر کیمیا واقعی ہو بھی تو بھی اس کے پیچھے عمر کھونے والا کبھی متقی اور پرہیز گار نہیں ہو سکتا.جس کو رات دن دنیا کی محبت لگی رہے گی وہ اپنے پاک اور پیارے خدا کی محبت کو اپنے دل میں کس طرح جگہ دے گا.عقیدۂ کفارہ کفارہ کی نسبت فرمایا کہ عیسائی کفارہ پر اس قدر زور دیتے ہیں حالانکہ یہ بالکل لغوبات ہے.ان کے اعتقاد کے موافق مسیح کی انسانیت قربان ہو گئی مگر صفت خدائی زندہ رہی.اب اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ وہ جو دنیا کے لیے فدا ہوا وہ تو ایک انسان تھا خدا نہ تھا حالانکہ کفارہ کے لیے بموجب انہی کے اعتقاد کے خدا کو قربان ہونا ضروری تھا مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ ایک انسانی جسم فدا ہوا اور خدا زندہ رہا.اور اگر خدا فدا ہوا تو اس پر موت آئی.اصل میں اس کفّارہ کی وجہ سے ہی دنیا میں گناہوں کی کثرت ہو رہی ہے مگر جب عیسائیوں کو کہا

Page 156

جاتا ہے کہ کفارہ نے دنیا میں گناہ پھیلایا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ کفّارہ صرف نجات کے لئے ہے.ورنہ جب تک انسان پاک نہ ہو اور گناہوں سے پرہیز نہ کرتا ہو کفّارہ کچھ نہیں مگر جب انہی لوگوں کی طرف دیکھا جاتا ہے جو اس قول کے کہنے والے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا ہیں.ایک دفعہ ایک پادری کسی گنہ کی وجہ سے پکڑا گیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ کفّارہ ہو چکا ہے اب کوئی گناہ نہیں.اگر کفّارہ گناہ کرنے سے نہیں بچاتا تو اس کا کیا فائدہ ؟ چنانچہ اس کا جواب عیسائی کچھ نہیں دے سکتا.۱ غیروں کے پیچھے نماز ۱۷؍مارچ ۱۹۰۸ء کو ایک صاحب علاقہ بلوچستان نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں خط لکھا کہ ’’آپ کا ایک مرید نور محمد نام میرا دلی دوست ہے.وہ بڑا نمازی ہے.نیکو کار ہے سب اس کی عزت کرتے ہیں.ہمہ صفت موصوف خلیق شخص ہے.دیندار ہے.اس سے ہم کو آپ کے حالات معلوم ہوئے تو ہمارا عقیدہ یہ ہوگیا ہے کہ حضوربڑے ہی خیرخواہ اُمت محمدیہ ومداح جناب رسول مقبول واصحاب کبار ہیں.آپ کو جو بُرے نا م سے یاد کرے وہ خود بُرا ہے مگر باوجود ہمارے اس عقیدہ وخیال کے نور محمد مذکور ہمارے ساتھ باجماعت نماز نہیں پڑھتا اور نہ جمعہ پڑھتا ہے اور وجہ یہ بتلاتا ہے کہ غیر احمدی کے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوتی.آپ اس کو تاکید فرماویں کہ وہ ہمارےپیچھے نماز پڑھ لیا کرے تاکہ تفرقہ نہ پڑے کیونکہ ہم آپ کے حق میں بُرا نہیں کہتے.‘‘ یہ اس خط کا اقتباس اور خلاصہ ہے اس کے جواب میں اسی خط پر حضرت نے عاجز ۲کے نام تحریر فرمایا.’’جواب میں لکھ دیں کہ چونکہ عام طور پر اس ملک کے مُلّاں لوگوں نے اپنے تعصب کی وجہ سے ہمیں کافر ٹھہرایا ہے اور فتوے لکھے ہیں اور باقی لوگ ان کے پیرو ہیں.پس اگر ایسے لوگ ہوں کہ وہ صفائی ثابت کرنے کے لئے اشتہار دے دیں کہ ہم ان مکفّر مولویوں کے پیرو نہیں ہیں تو پھران کے ساتھ نماز پڑھنا روا ہے ورنہ جو شخص مسلمانوں کو کافر کہے وہ آپ کافر ہو جاتا ہے پھر اس کے پیچھے نماز ۱الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۱۸؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۷،۸ ۲ یعنی حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ ایڈیٹر ’’بدر‘‘(مرتّب)

Page 157

کیوںکر پڑھیںیہ تو شرع شریف کی رو سے جائز نہیں ہے.‘‘ فوٹوگرافی ایک شخص نے حضرت مسیح موعودؑسے سوال کیا تھا کہ کیا عکسی تصویر لینا شرعاً جائز ہے؟ فرمایاکہ یہ ایک نئی ایجاد ہے.پہلی کتب میں اس کا ذکر نہیں.بعض اشیاء میں ایک منجانب اللہ خاصیت ہے جس سے تصویر اُتر آتی ہے.اگر اس فن کو خا دمِ شریعت بنایا جاوے تو جائز ہے.قضا ء نماز ایک شخص نے سوال کیا کہ میں چھ ماہ تک تارک صلوٰۃ تھا.اب میں نے توبہ کی ہے کیا وہ سب نمازیں اب پڑھوں ؟ فرمایا.نماز کی قضاء نہیں ہوتی.اب اس کا علاج توبہ ہی کافی ہے.۱ ۱۹؍مارچ ۱۹۰۸ء (بوقتِ سیر) شیعوں کا غلو.قرآن شریف میں تدبّر نہ کرنے کا نتیجہ ہے فرمایا کہ شیعہ لوگ خواہ مخواہ غلو کرتے ہیں ان کے مقابلہ میں خا رجی ان کا اچھا منہ بند کرتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ صحابہؓ میں کبھی کوئی نزاع بھی اگر واقع ہو گئی ہو تو کیا ہرج کی بات ہے نزاع اور جھگڑا ہمیشہ وہیں ہوا کرتا ہے جن کو آپس میں گہرے تعلقات ہوں.یہ کوئی عیب کی بات نہیں.اللہ تعالیٰ نے ان سب باتوں کا یوں فرما کر فیصلہ ہی کر دیا ہے کہ نَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيْنَ (الـحجر:۴۸) پس خدائی فیصلہ کے بعد ان امور میں زبان کھولنا ایمان کا نشان نہیں.اگر صحابہ کرامؓ پر شیعہ اعتراض کرتے ہیں تو خارجی حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر بھی تو اعتراض کرتے ہیں.چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارادہ تھا کہ ابو جہل کی لڑکی سے شا دی کریں مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو آپؐبہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ایسا ہرگز نہیں ہو سکے گا کہ خدا کے رسول کی لڑکی اور خدا کے دشمن کی لڑکی ایک گھر میں جمع ہوں.اگر ایسا ہی کرنا منظور ہو تو فاطمہ ؓ کو طلاق دے دی ۱ بدر جلد ۸ نمبر ۷،۸،۹ مورخہ ۲۴.۳۱ دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۵

Page 158

جاوے.بلکہ خا رجی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ حضرت علیؓنے نعوذ باللہ اپنے اسی ارادے کو پورا کرنے کے واسطے خود دانستہ حضرت فاطمہؓ کو زہر دے کر مار دیا تھا.اور آخر کار اس طرح سے اپنے اس ارادے کو پورا بھی کر لیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے متعلق قرآن شریف نے فرمایا ہے کہ وہ امہات المؤمنین ہیں تو حضرت علیؓ گویا مدت تک ماں سے جھگڑا کرتے رہے ہیں.حضرت حسنؓنے حضرت معاویہ کے مقابلہ میں ملک ہی چھوڑ دیا تھا مگر دیکھو حضرت علی ؓ نے ماں سے جھگڑا نہ چھوڑ ا بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اوّل اوّل حضرت ابو بکرؓ کی بیعت سے بھی تخلّف کیا تھا.مگر پھر گھر میں جا کر خدا جانے یک دفعہ کیا خیال آیا کہ پگڑی بھی نہ باندھی اور فوراً ٹوپی سے ہی بیعت کرنے کو آگئے اور پگڑی پیچھے منگائی.معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں خیال آگیا ہو گا کہ یہ تو بڑی معصیت ہے.ا سی واسطے اتنی جلدی کی کہ پگڑی بھی نہ باندھی اصل بات یہ ہے کہ یہ سب باتیں قرآن شریف میں تدبّر نہ کرنے کی وجہ سے ہیں.مسیح علیہ السلام کا رفع وفات مسیحؑ پر فرمایا کہ قرآن شریف یہود ونصاریٰ کے اختلافات کے لیے بطور حَکَم ہے اصل جھگڑا تو یہ تھا کہ توریت میں لکھا تھا کہ جو سولی پر لٹکایا جاوے اس کا رفع روحانی نہیں ہوتا اور وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ خدا کی طر ف سے ایسے شخص کو خلعت نبوت عطا کیا جاوے بلکہ ملعون اور لعنتی ہوتا ہے.سولی جرائم پیشہ لوگوں کی سزا ہے اور جو جرائم پیشہ لوگوں کی سزا سے موت کا لقمہ بن جاوے وہ اس قابل کہاں ہوتا ہے کہ اس کا رفع روحانی ہو.غرض ان یہود کا دعویٰ تو صرف یہی تھا کہ حضرت عیسٰیؑ کا رفع روحانی نہیں ہوا.وہ حضرت موسٰی کے رفع روحانی کے قائل تھے نہ کہ رفع جسمانی کے.رفع جسمانی کا تو ان کے دلوں میں خیال تک بھی نہ تھا.پس سچی بات یہی ہے کہ مسلمانوں اور یہود کا متفقہ اور مسلّم اعتقاد اس پر ہے کہ خدا کے نیک بندوں کا بعد وفات رفع روحانی ہوا کرتا ہے.اور یہی قابل بڑائی بات ہے.رفع جسمانی کے یہ نہ قائل ہیں اور نہ کوئی اس میں فضیلت مدّ نظر ہے

Page 159

چنانچہ قرآن شریف بھی اسی اُصول کو یوں بیان فرماتا ہے کہ مُفَتَّحَةً لَّهُمُ الْاَبْوَابُ (صٓ:۵۱) یعنی جو خدا کے نزدیک متقی اور برگزیدہ انسان ہوتے ہیں خدا ان کے لیے آسمانی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور ان کا رفع روحانی بعد الموت کیا جاتا ہے اور ان کے مقابل میں جو لوگ بدکار اور خدا سے دور ہوتے ہیں اور ان کو خدا سے کوئی تعلق صدق و اخلاص نہیں ہوتا اُن کے واسطے آسمانی دروازے نہیں کھولے جاتے جیسا کہ فرمایا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ (الاعراف:۴۱) غرض یہود کا اعتراض تو یہی تھا کہ نعوذ باللہ حضرت عیسٰیؑ چونکہ سولی چڑھائے گئے ہیں اس واسطے وہ ملعون ہیں اور صاف بات ہے کہ ملعون کا رفع روحانی نہیں ہو سکتا.اسی کے جواب میں قرآن شریف نے فرمایا ہے کہ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ(النّسآء :۱۵۹) اچھا ہم یہ دریافت کرتے ہیں کہ اگر یہودیوں کا یہی اعتراض تھا کہ عیسٰیؑ کا رفع جسمانی نہیں ہوا تو پھر قرآن شریف جو کہ ان دونوں قوموں میں حَکَم ہوکر آیا ہے اس نے یہود کے اس اعتراض کا کیا جواب دیا ہے ؟ کیا وجہ کہ قرآن شریف نے یہود کے اصل اعتراض کا تو کہیں جواب نہ دیا اور رفع روحانی پر اتنا زور دیا اور رَفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ فرمایا رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَی السَّمَآءِ کیوں نہ فرمایا ہے؟ عرشِ الٰہی ایک وراء الورا مخلوق ہے جو زمین سے اور آسمان سے بلکہ تمام جہات سے برابر ہے.یہ نہیں کہ نعوذ باللہ عرش الٰہی آسمان سے قریب اور زمین سے دُور ہے.لعنتی ہے وہ شخص جو ایسا اعتقاد رکھتا ہے عرش مقام تنزیہ ہے اور اسی لیے خدا ہر جگہ حا ضر نا ظر ہے جیسا کہ فرماتا ہے هُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ(الـحدید:۵)اور مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ (المـجادلۃ : ۸)اور فرماتا ہے کہ وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ(قٓ: ۱۷) غرض اصل جھگڑا تو صرف ان کے رفع روحانی اور مقرب بار گاہِ سلطانی ہونے کے متعلق تھا سو اللہ تعالیٰ نے اس کا فیصلہ ہی کر دیا یہ فرما کر بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ اب کوئی بتائے کہ بھلا اس سے ان کا آسمان پر چڑھ جانا کیسے ثابت ہوتا ہے.کیا خدا آسمان پرہے اور زمین پر نہیں؟

Page 160

وفاتِ مسیح علیہ السلام اللہ تعالیٰ نے تو حضرت عیسٰیؑ کا قصہ ہی تمام کر دیا ہے جہاں یہ سوال وجواب ہے کہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ (المآئدۃ: ۱۱۸) اس آیت سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں.ایک تو حضرت عیسٰیؑ کا وفات پا جانا اور دوسرے ان کا دوبارہ دنیا میں نہ آنا.کیونکہ یہ سوال وجواب قیامت کے دن کو ہوں گے.اللہ تعالیٰ کا یہ سوال حضرت عیسٰیؑ سے کہ کیا تم نے عیسائیوں کو یہ شرک کی تعلیم دی تھی اور حضرت عیسٰی ؑکا یہ جواب دینا کہ یاالٰہی! یہ میری وفات کے بعد بگڑے ہیں.مجھے اس بات کا علم نہیں کہ میرے بعد انہوں نے کیسے عقائد اختیار کر لیے.میں نے تو ان کو صرف توحید کی تعلیم دی تھی.اس سوال وجواب سے صاف صریح اور واضح طور معلوم ہوتاہے کہ حضرت عیسٰیؑ وفات پا چکے ہیں اور وہ دنیا میں دوبارہ نہیں آئیں گے ورنہ اگر وہ دوبارہ کبھی دنیا میں آئے ہوتے اور ان کی گندی تعلیم اور مشرکانہ عقائد کی اصلاح کی ہوتی.صلیب توڑی ہوتی اور خنزیر قتل کئے ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو ایسے صریح جھوٹ سے سرزنش نہ کرتا؟ اور وہ ایسی جرأت اور دلیری سے حضورِ الٰہی کے سامنے قیامت کے دن ایسا جھوٹ بولتے ؟ ہرگز نہیں.پس واقعی اور حق بات یہی ہے کہ حضرت عیسٰیؑ وفات پا چکے اور وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آئیں گے.یہ تو اللہ تعالیٰ کا قول ہوا اس کی تصدیق آنحضرتؐنے فعل سے کردی اور آپ نے معراج کی رات حضرت عیسیٰ ؑ کو حضرت یحیٰیؑ کے پاس بیٹھے دیکھا غور کا مقام ہے کہ زندہ کو مُردہ سے کیا تعلق اور کیا کام؟ حیات اور وفات تو دو ضدیں ہیں جس طرح نور اور ظلمت ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتا.اسی طرح مُردے اور زندہ لوگوں کا بھی آپس میں کوئی تعلق نہیں کہ ایک جگہ رہیں بلکہ حضرت عیسٰیؑ کے واسطے تو کوئی الگ کوٹھڑی درکار تھی.مسیح موعود ؑکی آمد اور پیشگوئیوں کا ظہور اس کے بعد اور زیادہ تشریح بخاری اور مسلم نے کر دی ہے جنہوں نے آخری زمانہ کی علامات کا ذکر کرتے ہوئے ایک نئی سواری کا ذکر کرکے یہ کہا کہ لَیُتْرَکَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْـھَا اور قرآن شریف نے اسی مضمون کو عبارت ذیل میں بیان فرما کر اور بھی صراحت کر دی کہ

Page 161

اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ(التکویر:۵) قرآن وحدیث کا تطابق اور پھر عملی رنگ میں اس دور دراز زمانہ میں جب کہ ان پیشگوئیوں کو تیرہ سو برس سے بھی زائد عرصہ گذر چکا ہے ان کا پورا ہونا ایمان کو کیسا تازہ اور مضبوط کرتا ہے.چنانچہ ایک اخبار میں ہم نے دیکھا ہے کہ شاہ روم نے تا کیدی حکم دیا ہے کہ ایک سال کے اندر حجاز ریلوے تیار ہو جاوے.سبحان اللہ! کیسا عجیب نظارہ ہو گا اور ایمان کیسے تازہ ہوں گے کہ جب پیشگوئی کے بالکل مطابق بجائے اونٹوں کی لمبی لمبی قطاروں کے ریل کی لمبی قطاریں دوڑتی ہوئی نظر آویں گی.پس جب یہ پیشگوئی جو آثار قرب قیامت اور مسیح موعودؑ کی آمد کے نشانات میں سے ایک زبردست اور اقتداری پیشگوئی ہے پوری ہو رہی ہے تو ایمان لانا چاہیے کہ مسیح موعود بھی موجو د ہے.زلازل اور طاعون کا سلسلہ فرمایا کہ زلازل اور طاعون کا سلسلہ بھی حکّامِ وقت کے دورہ کی طرح دورہ ہی کر رہا ہے.جس طرح حکّامِ وقت اپنے انتظامی دوروں میں جہاں کوئی سرکشی یا بدنظمی پاتے ہیں اس کی اصلاح کرتے ہیں اسی طرح زلازل اور طاعون بھی ملک کے مختلف حصوں میں دورہ کر رہے ہیں.بعض ممالک میں سنا گیا ہے کہ زلزلوں سے پہاڑ گر گئے اور شہروں کے شہر فنا ہو گئے.یہی حال طاعون کا ہے جب لوگ کسی قدر وقفہ دیکھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں اور گناہ اور غفلت میں ترقی کرنے لگ جاتے ہیں تو پھر خدا طاعون کو ان کی سر زنش اور سرکوبی کے واسطے بھیج دیتا ہے.پس بے فکر اور مطمئن نہیں ہونا چاہیے بلکہ قبل اس کے کہ کوئی مصیبت اچانک آن پکڑے اپنی اصلاح میں لگے رہنا چاہیے اور توبہ استغفار میں مشغول ہونا چاہیے.اللہ تعالیٰ کے اقتداری نشانات فرمایا.خدا جب کسی کام کو کرانا ہی چاہتا ہے تو گردن سے پکڑ کر بھی کرا دیتا ہے.اس کے منوانے کے عجیب عجیب رنگ ہیں.چنانچہ ایک مسلمان بادشاہ کا ذکر ہے کہ اُس نے امام موسیٰ رضا کو کسی وجہ سے قید کر دیا ہوا تھا.خدا کی قدرت ایک رات بادشاہ نے اپنے وزیر اعظم کو نصف رات کے وقت

Page 162

بلوایا اور نہایت سخت تاکید کی کہ جس حالت میں ہو اسی حالت میں آجاؤ حتی کہ لباس بدلنا بھی تم پر حرام ہے.وزیر حکم پاتے ہی ننگے سر ننگے بدن فوراً حاضر ہوئے اور اس جلدی اور گھبراہٹ کا باعث دریافت کیا.بادشاہ نے اپنا ایک خواب بیان کیا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک حبشی آیا اور اس نے گنڈاسے کی قِسم کے ایک ہتھیار سے مجھے ڈرایا اور دھمکایا ہے اس کی شکل نہایت پُر ہیبت اور خوفناک ہے اس نے مجھے کہا ہے کہ امام موسیٰ رضا کو ابھی چھوڑ دو ورنہ میں تمہیں ہلاک کر دوں گا اور اسے ایک ہزار اشرفی دے کر جہاں اس کا جی چاہے رہنے کی اجازت دو.سو تم ابھی جاؤ اور امام موسیٰ رضا کو قید سے رہا کر دو.چنانچہ وزیر اعظم قید خانہ میں گئے اور قبل اس کے کہ وہ اپنا عندیہ ظاہر کرتے امام موسیٰ رضا بولے کہ پہلے میرا خواب سن لو.چنانچہ انہوں نے اپنا خواب یوں بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی ہے کہ تم آج ہی قبل اس کے کہ صبح ہو قید سے رہا کئے جاؤ گے غرض یہ ہیں خدا کے اقتداری نشانات.شیعوں کے عقاید کا ردّ فرمایا.شیعہ لوگ جس راہ کو اختیار کئے ہوئے ہیں.اس راہ سے تو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سارا مذہب ہی برباد جاتا ہے.دیکھو اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا (النّصـر:۲،۳) اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دینِ الٰہی یعنی اسلام میں بہت کثرت اور بہتات سے لوگ شامل ہوں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حینِ حیات میں ہی ایسا ظہور میں آوے گا.بھلا ان لوگوں سے کوئی پوچھے کہ کیا دو چار آدمیوں کا نام ہی افواج ہے اور کیا یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی لمبی محنت اور جانکاہ کوششوں کا نتیجہ تھا؟ افسوس! دیکھو فوج ہی کچھ کم نہیں ہوتی یہاں تو اللہ نے فوج کی بھی جمع کا لفظ بولا ہے اور اَفْوَاجًا کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں فوجوں کی فوجیں داخل اسلام ہو جاویں گی.ان لوگوں کے عقائد کے لحاظ سے تو قرآن شریف ہی کی تکذیب لازم آتی ہے.انہوں نے قرآن شریف کو تو محرّف مبدّل کا الزام دے کر چھوڑ دیا.رہے قرآن شریف کے پہنچا نے والے جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ (البیّنۃ:۹) فرما یا اور ان کو

Page 163

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تخت کا وارث بنایا اور آنحضرتؐکے منہ سے نکلی ہوئی پیشگوئیوں کی تصدیق کرنے والے اور پورا کرنے والے بنایا.انہی کے ہاتھ سے بڑے بڑے قرآنی وعدے پورے کئے.قیصر وکسریٰ کے تخت اور خزانے انہی کے ذریعہ اسلام کا ورثہ بنائے.سو اُن کو غدار، ظالم، منا فق اور غاصب کا لقب دے کر چھوڑ دیا.ان کا تو وہ حال ہے کہ جس طرح ایک عورت کو جب اس کے دن حمل کے پورے ہو چکتے ہیں تو دردِ زہ شروع ہوتی ہے جس کی تکلیف سے وہ اور اس کے عزیز و اقارب اور خویش روتے ہیں اور دردمند ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایک نازک حالت ہوتی ہے.نتیجہ کی کسی کو خبر نہیں ہوتی.مگر جب اس کے ہاں لڑکا پیدا ہو جاوے اور وہ چلہ پورا کر کے غسلِ صحت بھی کرلے اور بچہ بھی اس کا صحیح سالم جیتا جاگتا ہو اس وقت لگے کوئی آدمی رونے تو اس کا رونا کیسا بے محل اور بے موقع ہو گا.سو یہی حال ہے ان کا وقت گذ ر چکا.صحابہ کرامؓکامیابی کے ساتھ تختِ خلافت کو مقررہ وقت تک زیب دے کر اپنی اپنی خدمات بجا لا کر بڑی کامیابی اور اللہ کی رضوان لے کر چل بسے اور جنّات وعیون جو آخرت میں ان کے واسطے مقرر تھے اور وعدے تھے وہ اُن کو عطا ہوگئے.اب یہ روتے ہیں اور چلّاتے ہیں کہ وہ نعوذ باللہ ایسے تھے اور ایسے تھے.محرّم میں شہیدان کربلا کی مصیبت کو یاد کر کر کے رونے سے کیا حاصل؟ اپنے نفس کا غم کرنا چاہیے اس کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے.سب سے بڑا فکر انسان کو جو کرنا چاہیے وہ یہی ہے کہ اپنے نفس کی اصلاح کر لے اور آخر ت کے واسطے زادِ راہ لے لے.دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کیا کہا تھا؟ اے فاطمہ ؓ! اپنی جان کو آگ سے بچانے کی فکر کر لے میں تیرے کسی کام نہیں آ سکتا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال ہے تو پھر اور کسی کا کیا حال؟۱ ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۱ مورخہ ۲۲؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۲،

Page 164

۲۴؍مارچ ۱۹۰۸ء (بوقتِ سیر) پیشگوئی میں مذکور سورج اورچاندگرہن کی شرائط حضرت مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب جو کہ کسی کارِ ضروری کے واسطے حضرت اقدسؑ کی اجازت سے امروہہ تشریف لے گئے ہوئے تھے.بخیر و عافیت واپس تشریف لے آئے ہیں.انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی حضور کانے دجّال۱ نے بڑادجل کر رکھا ہے اوربعض جاہل اوربے علم لوگ اس کے اس دھوکے میں آئے ہوئے ہیں کہ اس نے اپنی کتاب میں پچیس یا چھبیس دفعہ چاند اور سورج گرہن رمضان میں ہونے کاثبوت دیا ہے اس پر فرمایا کہ ہم نے اس بات سے کبھی انکار نہیں کیا کہ پہلے بھی رمضان میں کبھی کسوف خسوف ہواہوبلکہ ہم تونظامِ شمسی کے قائل ہیں اور ایمان رکھتے ہیںکہ ممکن ہے کہ کبھی پہلے بھی ایسا واقعہ ہوگیا ہو.ہمارادعویٰ توصرف یہ ہے کہ جن شرائط اورلوازم کا ذکر حدیث دارقطنی میں درج ہے ایسا آج سے پہلے کبھی واقع نہیں ہوا.مثلاً اس حدیث میں صاف تاریخ مقرر کی گئی ہے کہ چاند گرہن اپنے گرہن کی مقررہ تاریخوں میں سے اوّل تاریخ میں اور سورج گرہن اپنے گرہن کی مقررہ تاریخوں میں سے ان کے نصف میں یعنی تیرھویں چاند اوراٹھائیسویں کو سورج گرہن ہوگا اور اس وقت پہلے سے ایک مدعی مہدویت کا دعویٰ موجود ہوگا نہ کہ سورج گرہن اورچاند گرہن کو دیکھ کر دعویٰ کرے گا بلکہ وہ پیشتر ہی سے دعویٰ موجود ہوگا اور اس کی تائید اورنصرت کے واسطے آسمان پر اس طرح سے چاند اورسورج گرہن ہوگا اور علاوہ ازیں اور اورنشانات زمینی وآسمانی اوردلائل وبراہین سے اپنے دعویٰ کو مبرہن کرتا ہوگا اور اس کا دعویٰ خوب طرح سے شہرت پاکر دوردور اطراف میں مشہور ہوگیا ہوگا.پس کیا عبدالحکیم نے ایسا بھی ثبوت دیا ہے کہ وہ پہلے گرہن جو رمضان میں واقع ہوئے تھے ان میں سے کوئی ان شرائط ولوازم اورقید تاریخ سے بھی واقع ہواتھا ؟اور کیا اس وقت پہلے اس کے کہ وہ ۱ڈاکٹر عبدالحکیم مرتد کی طرف اشارہ ہے (مرتّب )

Page 165

اس طرح کا موعودہ کسوف خسوف ظہور میں آوے کوئی مدعی مہدویت اور مسیحیت موجود تھا جس نے اپنے دعویٰ کو عام کتب کے ذریعہ سے شائع بھی کیا ہواور اس کا دعویٰ دنیا میںشہرت یافتہ ہو اور پھر اس کے ساتھ کوئی آسمانی یا زمینی نشان اور تائیدات بھی موجود ہو ں یا قرآن وحدیث سے مبرہن کیا گیا ہو.ہمارا مطالبہ توان شرائط اور لوازم کے ساتھ کسوف خسوف ثابت کرنے کا ہے.دیکھو! اس واقعہ کا بیان تو انگریزی اخبارات مثل سول ملٹری اورپایونیر وغیرہ نے بھی کردیا تھا کہ اس ہیئت کذائی سے اس سے پہلے کبھی کوئی ایسا واقعہ ظہو ر میں نہیں آیا.اس سے بڑھ کر دجل اور بے ایمانی اور کیا ہوگی کہ سب لوازم کو ترک کرکے صر ف ایک بات کو ہاتھ میں لے کر اعتراض کر دینا؟ دکھانا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسا نشان ظاہر ہونے سے پہلے کہ وہ مقررہ تاریخوں میں ظاہر ہوا ہو، کوئی مدعی بھی موجود ہو.پھر اس نے دعویٰ بھی کیا ہو.اس دعویٰ کی اشاعت بھی کی ہو اور اس کو آیات ونشانات ارضی وسماوی اوردلائل قاطعہ سے مبرہن بھی کیا ہو.یونہی زبانِ اعتراض ہلا دینے سے کیا ہوتا ہے؟ اس طرح سے توتمام نبوت کا خاتمہ ہوسکتا ہے.ڈاکٹر عبدالحکیم کے عقاید مولوی عبداللہ خاں صاحب پٹیالوی نے عرض کیا کہ حضور تمام جماعت پٹیالہ نے بڑا شکر کیا تھا.جس دن یہ شخص جماعت میں سے خارج کیا گیا تھا.وہ بار ہا مجھ سے یوں مخاطب ہواکرتا تھا کہ مولوی صاحب جب کونین میں ذاتی خاصیت شفا کی موجود ہے توکیا ضرورت ہے کہ عبدالحکیم کو ڈاکٹر ماننے ہی سے کونین شفادے؟ اس طرح سے جب توحید الٰہی پر ایمان لانے کا نتیجہ نجات ہے تو کیا ضرورت ہے کہ ہم محمد ؐ کو نبی مانیں؟ بلکہ جس طرح سے کونین بغیر اس کے بھی کہ کسی زید و بکر کوڈاکٹر تسلیم کیا جاوے نفع پہنچاتی ہے اسی طرح توحید بھی اپنے نفع پہنچانے اورنجات دلانے کے لئے کسی کے رسول اور نبی ماننے کی محتا ج نہیں.فرمایا.ہم نے یہی مناسب سمجھا کہ بجائے اس کے کہ نعوذ باللہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر اعتراض سنیں اورایمان لانے کی ضرورت نہ سمجھنے کا سوال سنیں کیوں عبدالحکیم ہی کو جماعت سے خارج نہ کردیں.۱ ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۲ مورخہ ۲۶؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۳

Page 166

۲۵؍مار چ ۱۹۰۸ء (بوقتِ سیر ) مسلمان ریاستوں کی تباہی کی وجہ جناب خلیفہ ڈاکٹر رشید الدین صاحب اسسٹنٹ سرجن فرخ آباد کے گذشتہ نوابی حالات کا ذکر کرتے ہوئے ان کی تباہی اوربربادی اوران کے محلات کے کھنڈرات بنائے جانے کے متعلق ذکر کرتے تھے.اس پر حضرت اقدسؑنے فرمایا کہ پہلے بادشاہوں کے زمانہ میں یہ قاعدہ ہوتاتھا کہ ان کے درباروں میں کوئی نہ کوئی اہل اللہ بھی موجود ہواکرتے تھے جن کے صلاح مشوروںسے بادشا ہ کام کیا کرتے تھے اوران کی دعائوں سے فائدہ اٹھایا کرتے تھے مگر اب وہ حال نہیں رہا بلکہ ان مسلمانوں کا بھی بنی اسرائیل والا حال ہوگیا.ان کو بھی خدا نے بوجہ ان کی بدکاریوں کے چھوڑدیا تھا اورکوئی نصرت ان کی نہیں ہوتی تھی.وہی حال اب بھی ہورہا ہے.اسلام کی نصرت اورمدد کا خدا نے خود وعدہ کیا ہے مگر کوئی مسلمان بھی ہو.مسلمان توخود ہی موردِ قہر وعذا بِ الٰہی ہورہے ہیں ان کی نصرت کیسے ہو؟ یہ چند ہندوستانی مسلمانوں کی ریاستیں جو خدا کے قہر کا نشانہ بنیں.اگر یہ کچھ بھی نیک طینت ہوتے تو خدا ضروران کو محفوظ رکھتا اوران کی نصرت کرتا.یہ عذاب اورتنزل جو ان کو نصیب ہوایہ ان کی اپنی ہی بدعملیوں کا باعث تھا.دیکھو! بنی اسرائیل کو خود حضرت موسٰی کے ہوتے ہوئے شکست ہوئی تھی اس میں بھی یہی وجہ تھی کہ ان کی حالت خود جاذب نصرت نہیں تھی بلکہ حضرت موسٰی نے ان کو کہہ دیا تھا اس وقت مقابلہ مت کرو.موقع مناسب نہیں اورنہ ہی وہ وقت آیا ہے کہ تمہاری نصرت ہو.صلاح الدین ایوبی صلاح الدین ایک نیک بخت شخص تھا.نمازوں کا بھی پابند تھا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے بھی اس کی تائید کی اورسخت سے سخت مشکلات اور مخالفوں کے حملوں میں اس کو فتح نصیب کی.اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی قوم بگڑ جاتی ہے اورخدا کو چھوڑ کر دنیا کی طرف جھک جاتی ہے اوربدکاریوں اور فسق وفجور میں غرق ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایک

Page 167

دوسری قوم کو خود اپنے ارادہ سے اس پر مسلّط کردیتا ہے.والدہ کا حق ایک دوست نے خط کے ذریعہ اس اَمر کا استفسارکیا کہ میری والدہ میری بیوی سے ناراض ہے اورمجھے طلاق کے واسطے حکم دیتی ہے مگر مجھے میری بیوی سے کوئی رنجش نہیں.میرے لئے کیا حکم ہے ؟ فرمایاکہ والدہ کا حق بہت بڑا ہے اوراس کی اطاعت فرض.مگر پہلے یہ دریافت کرنا چاہیے کہ آیا اس ناراضگی کی تہہ میں کوئی اوربات تو نہیں ہے جو خدا کے حکم کے بموجب والدہ کی ایسی اطاعت سے بری الذمہ کرتی ہو مثلاً اگر والدہ اس سے کسی دینی وجہ سے ناراض ہو یا نماز روزہ کی پابندی کی وجہ سے ایسا کرتی ہو تو اس کاحکم ماننے اور اطاعت کرنے کی ضرورت نہیں.اوراگر کوئی ایسا مشروع اَمر ممنوع نہیں ہے.جب تووہ خود واجب طلاق ہے.اصل میں بعض عورتیں محض شرارت کی وجہ سے ساس کو دکھ دیتی ہیں.گالیاںدیتی ہیں.ستاتی ہیں.بات بات میں اس کو تنگ کرتی ہیں.والدہ کی ناراضگی بیٹے کی بیوی پر بے وجہ نہیں ہوا کرتی.سب سے زیادہ خواہشمند بیٹے کے گھر کی آباد ی کی والدہ ہوتی ہے اوراس معاملہ میں ماں کو خاص دلچسپی ہوتی ہے.بڑے شوق سے ہزاروں روپیہ خر چ کرکے خدا خداکرکے بیٹے کی شادی کرتی ہے توبھلا اس سے ایسی امید وہم میں بھی آسکتی ہے کہ وہ بے جاطور سے اپنے بیٹے کی بہو سے لڑے جھگڑے اورخانہ بربادی چاہے.ایسے لڑائی جھگڑوں میں عموماً دیکھاگیا ہے کہ والدہ ہی حق بجانب ہوتی ہے.ایسے بیٹے کی بھی نادانی اورحماقت ہے کہ وہ کہتا ہے کہ والدہ توناراض ہے مگر میں ناراض نہیں ہوں.جب اس کی والدہ ناراض ہے تووہ کیوں ایسی بے ادبی کے الفاظ بولتا ہے کہ میں ناراض نہیں ہوں.یہ کوئی سوکنوں کا معاملہ توہے نہیں.والدہ اوربیوی کے معاملہ میں اگر کوئی دینی وجہ نہیں تو پھر کیوں یہ ایسی بے ادبی کرتا ہے.اگر کوئی وجہ اورباعث اورہے تو فوراً اسے دورکرنا چاہیے.خرچ وغیرہ کے معاملہ میں اگر والدہ ناراض ہے اوریہ بیوی کے ہاتھ میں خرچ دیتا ہے تولازم ہے کہ ماں کے ذریعہ سے خرچ کراوے اورکل انتظام والدہ کے ہاتھ میں دے.والدہ کو بیوی کا محتاج اور دست نگر نہ کرے.بعض

Page 168

عورتیں اوپر سے نرم معلوم ہوتی ہیں مگر اندر ہی اندر وہ بڑی بڑی نیش زنیاں کرتی ہیں.پس سبب کودور کرنا چاہیے اورجو وجہ ناراضگی ہے اس کو ہٹادینا چاہیے اوروالدہ کو خوش کرنا چاہیے.دیکھو شیر اور بھیڑیئے اور اَور درندے بھی توہلائے سے ہل جاتے ہیں اور بے ضرر ہوجاتے ہیں.دشمن سے بھی دوستی ہوجاتی ہے اگر صلح کی جاوے توپھر کیا وجہ ہے کہ والدہ کو ناراض رکھا جاوے؟ سوکنوں کی مشکلات فرمایاکہ ایک شخص کی دوبیویاں تھیں.بیویوں میں باہمی نزاع ہوجانے پر ایک بیوی خود بخود بلا اجازت اپنے گھر میکے چلی گئی.وہ شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں طلاق دے دوں.میں نے سوچا کہ یہ معاملات بہت باریک ہوتے ہیں.سوکن کو بڑی بڑی تلخیاں اٹھانی پڑتی ہیں اور بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ بعض عورتیں اپنی مشکلات کی وجہ سے خود کشی کرلیتی ہیں.جس طرح سے دیوانہ آدمی مرفوع القلم ہوتا ہے اسی طرح سے یہ بھی ایسے معاملات کی وجہ سے مرفوع القلم اور واجب الرحم ہوتی ہیں کیونکہ سوکن کی مشکلات بھی دیوانگی کی حد تک پہنچادیتی ہیں.اصل بات یہ تھی کہ وہ شخص خود بھی دوسری بیوی کی طرف ذرا زیادہ التفات کرتاتھا اوروہ بیوی بھی اس بیچاری کو کوستی اورتنگ کرتی تھی.آخر مجبور ہوکر اور ان مشکلات کی برداشت نہ کرکے چلی گئی.چنانچہ اس شخص نے خود اقرار کیا کہ واقعی یہی بات تھی اور اپنے ارادے سے باز آیا.ایسے قصوروں کو تو خود خدا بھی معاف کردیتا ہے.چنانچہ قرآن شریف میں ہے وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ (البقرۃ :۲۸۷) جو اَمر فوق الطاقت اورناقابل برداشت ہوجاوے اس سے خدابھی درگذرکرتا ہے دیکھو! حضرت ہاجرہؓ کا واقعہ بھی ایسا ہی ہے جو کہ مومنین کی دادی تھی پہلی مرتبہ جب وہ نکالی گئی توفرشتہ نے اسے آواز دی اوربڑی تسلّی دی اور اس سے اچھا سلوک کیا مگر جب دوسری مرتبہ نکالی گئی توسوکن نے کہا کہ اس کو ایسی جگہ چھوڑو جہاں نہ دانہ ہو نہ پانی.اس کی غرض یہی تھی کہ وہ اس طرح سے ہلاک ہوکر نیست ونابود ہوجاوے گی اور حضرت ابراہیمؑ کا ایسا منشا نہ تھا مگر خدا نے حضرت ابراہیمؑ کو کہا کہ اچھا جس طرح یہ کہتی ہے اسی طرح کیا جاوے اورسارہ کی

Page 169

بات کو مان لے.اصل میں بات یہ تھی کہ خدا کا منشا قدرت نمائی کا تھا.توریت میں یہ قصہ مفصل لکھا ہے.بچہ جب بوجہ شدت پیاس رونے لگا توبی بی ہاجرہؓ پہاڑ کی طرف پانی کی تلاش میںاِدھر اُدھر گھبراہٹ سے دوڑتی بھاگتی پھرتی رہی مگر جب دیکھا کہ اب یہ مَرتا ہے توبچے کو ایک جگہ ڈال کر پہاڑ کی چوٹی پر دعاکرنے لگ گئی کیونکہ اس کی موت کو دیکھ نہ سکتی تھی.اسی اثناء میں غیب سے آواز آئی کہ ہاجرہ! ہاجرہ! لڑکے کی خبر لے وہ جیتا ہے.آکر دیکھا تولڑکا جیتا تھا اورپانی کا چشمہ جاری تھا.اب وہی کنواں ہے جس کا پانی ساری دنیا میں پہنچتا ہے اوربڑی حفاظت اور تعظیم اور شوق سے پیا جاتا ہے.غرض یہ سارا معاملہ بھی سوکنوں کے باہمی حسدوضد کی وجہ سے تھا.انبیاء کا وجود خدا تعالیٰ کے ظہور کا باعث ہوتا ہے فرمایا.خدا کا نام ظاہر بھی ہے اور باطن بھی.وہی ظاہر ہے اَور کوئی ظاہر نہیں.خدا کا ظہور دنیا میں انبیاء کے ذریعہ سے ہوتا ہے.انبیاء کا وجود خدا کے ظہور کا باعث ہوتا ہے.انبیاء کے آنے سے پہلے خدامخفی ہوتا ہے.لوگ خدا کو بھول جاتے ہیں اور زبانِ حال سے دنیا بول اٹھتی ہے کہ گویا خدا ہے ہی نہیں.انبیاء آکر دنیا کو خوابِ غفلت سے جگاتے ہیں اورا ن کے ذریعہ سے خدااپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے اسی واسطے انبیا ء خدانما کہلاتے ہیں.وہ خود فنا ہوجاتے ہیں جب خدا کا ظہو ر ہوتا ہے.دیکھو! جب تک انسان اپنے نفسانی جذبات اورخودی سے فنا نہ ہوجاوے جب تک خواہ الہام بھی ہوں اورکشوف بھی دکھائے جاویں مگر کسی کام کے نہیں ہیں کیونکہ بجز اس کے کہ خدامیں اپنے آپ کو فنا کردیا جاوے یہ امور عارضی ہوتے ہیں اور دیر پا نہیں ہوتے اور ان کی کچھ بھی قدروقیمت نہیں ہوتی.قبولیتِ دعا کا راز دعاکی قبولیت کا بھی یہی راز ہے.انسان جب تک اپنی خواہشات، ارادوں اور علموں کوترک کرکے خدا میں فنا نہ ہوجاوے اورخدا کی

Page 170

قدرت کا ملہ اورقادر مطلق ہونے اورسننے اورقبول کرنے والا ہونے پر یقین کامل اور پوراوثوق نہ رکھتا ہو جب تک دعا بھی ایک بے حقیقت چیز ہے.فلسفیوں کو کیوں قبولیت دعاپر ایمان نہیں ہوتا؟ اس کی یہی وجہ ہے کہ ان کو خدا کی وسیع قدرت اورباریک درباریک سامانوں کے پیدا کردینے والا ہونے پر ایمان نہیں ہوتا اور وہ خدا کی قدرت کو محدود جانتے ہیں اوراپنے تجارب اورعلوم پر ہی بھروسہ کربیٹھتے ہیں.ان کو اپنے تجارب کے مقابلہ میں یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ خدابھی ہے اوروہ بھی کچھ کرسکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات بعض سخت سخت مہلک امراض میں وہ لوگ یقینی اورقطعی حکم لگادیتے ہیں کہ یہ شخص بچ نہیں سکتا یا اتنے عرصے میں مَر جاوے گا.یااس طرزسے مَرے گا.مگر بیسیوں مثالیں ایسی خود ہماری چشم دید ہیں اور بعض کو ہم جانتے ہیں جن میں باوجود ان کے یقینی اور قطعی حکم لگادینے کے خدا تعالیٰ نے ان بیماروں کے واسطے ایسے اسباب پیدا کردیئے کہ وہ آخر کار بچ گئے اوربعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض وہ بیمار جن کے حق میں یہ لوگ موت کا قطعی اور اٹل فتویٰ دے چکے تھے زندہ سلامت ہوگئے اور کسی دوسرے موقع پر ان کو مل کر شرمندہ کیا اوران کے علم ودعویٰ کو بھی شرمندہ کیا ہے.حدیث میں آیا ہے مَا مِنْ دَآءٍ اِلَّا وَلَہٗ دَوَآءٌ ایک مشہور ڈاکٹر کا ہمیں قول یاد ہے وہ کہتا ہے کہ کوئی مرض بھی ناقابل علاج نہیں ہے بلکہ یہ ہماری سمجھ اورعقل وعلم کا نقص ہے کہ ہمارے علم کی رسائی وہاں تک نہیں ہوتی.ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مرض کے واسطے بعض ایسے ایسے اسباب پیدا کئے ہوں جن سے وہ شخص جس کو ہم ناقابل علاج یقین خیال کرتے ہیں قابل علاج اور صحت یاب ہو کر تندرست ہوجاوے پس قطعی حکم ہرگز نہ لگانا چاہیے بلکہ اگر رائے ظاہر بھی کرنی ہوتویوں کہہ دوکہ ہمیں ایسا شک پڑتا ہے مگر ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسے سامان پیدا کردے کہ جن سے یہ روک اٹھ جاوے اوربیمار اچھا ہوجاوے.دعاایک ایسا ہتھیار خدا نے بنایا ہے کہ اَنہونے کام بھی جن کو انسان ناممکن خیال کرتا ہے ہوجاتے ہیں کیونکہ خداکے لئے کوئی بات بھی انہونی نہیں.۱ ۱ الحکم جلد ۱۲نمبر ۲۲مورخہ ۲۶؍مارچ۱۹۰۸ء صفحہ ۳،۴

Page 171

خدا تعالیٰ کا فضل حاجی الٰہی بخش صاحب گجراتی حضرت کے حضور میں حاضر تھے انہوں نے عرض کی کہ مجھے قبل از بیعت پندرہ سال کی عادت افیون اور حقہ نوشی کی تھی.بیعت کے بعد میں شرمند ہ ہواکہ اب تک مجھ میں ایسی عادتیں پائی جاتی ہیں تب میں جنگل میں جا کر خداکے آگے رویا اور میں نے دعا کی اورپھر یک دفعہ دونوں چیزوں کو چھوڑ دیا نہ مجھے کوئی تکلیف ہوئی اور نہ کوئی بیماری وارد ہوئی.فرمایا.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے.(قبل از ظہر ) بہشت دائمی ہے اوردوزخ غیر دائمی فرمایا.بہشت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ عَطَآءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ (ھود:۱۰۹) یہ ایک ایسی نعمت ہے جس کا انقطاع نہیں.اگر ایسا نہ ہوتا تو بہشت کے درمیان بھی مومنوں کو کھٹکا رہتا کہ کہیں نکالے نہ جاویں.لیکن برخلاف اس کے دوزخ کے متعلق ایسا نہیں.بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ سب دوزخ سے نکل چکے ہوں گے.خدا تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا بھی یہی ہے.آخر انسان خدا کی مخلوق ہے.خدا تعالیٰ اس کی کمزوریوں کو دور کردے گا اوراس کو رفتہ رفتہ دوزخ کے عذاب سے نجات بخشے گا.۱ ۲۶؍مارچ ۱۹۰۸ء (بوقتِ سیر ) اخلاقی معجزات کی زبردست تاثیر فرمایا.اگر انسان تکبّر چھوڑ دے اوراخلاق اور ملنساری سے پیش آوے تویہ ایک بھاری معجزہ ہوتا ہے.اخلاقی معجزہ ہمیشہ اپنے اندر ایک زبردست تاثیر رکھتا ہے.درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.سچی تعلیم اورپاک ایمان کا اثر اخلاق سے ظاہر ہوتا ہے.۱ بدر جلد ۷نمبر ۱۳ مورخہ ۲؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۴

Page 172

درجہ کمال کے دوہی حصے ہیں.ایک تعظیم اوامر الٰہیّہ، دوسرے شفقت علیٰ خلق اللہ.اَمر اوّل کا تعلق تودل سے اورخدا سے ہوتا ہے جس کو یکایک ہر کوئی نہیں جان سکتا.دوسراپہلو چونکہ خلقت سے تعلق رکھتا ہے اور اوّل ہی اوّل انسان کی نظر انسانی اخلاق پر پڑتی ہے اس واسطے اس خُلق کا کمال ایک بڑا بھاری اورشاندار معجزہ ہے.دیکھو! آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسے کئی ایک نمونے پائے جاتے ہیں کہ بعض لوگوں نے محض آپؐکے اخلاقی کمال کی وجہ سے اسلام قبول کیا.چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک مشرک عیسائی مہمان آیا.صحابہ ؓ ان کو اپنا مہمان بنانا چاہتے تھے مگر آنحضرتؐنے فرمایا کہ نہیں یہ میرا مہمان ہے اس کا کھانا میں لائوں گا.چنانچہ اس مشرک کو آنحضرتؐنے اپنے ہاں مہما ن رکھا اور اس کی بہت خاطر تواضع کی اور عمدہ عمدہ کھانے اس کو کھلائے اور عمدہ مکان اوراچھا بستر ہ اس کو رات بسر کرنے کے واسطے دیا مگر وہ بوجہ کھانا زیادہ کھا جانے کے بدہضمی کی وجہ سے رات بھراسی کو ٹھڑی میں رفع حاجت کرتا رہا.مکان اور بسترہ خراب کردیا.صبح منہ اندھیرے ہی شرم کے مارے اٹھ کر چلا گیا مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاش کی اوروہ نہ ملا تو بہت ہی افسوس کیا اور کپڑے جو نجاست سے آلودہ ہوگئے تھے خود اپنے دست مبارک سے صاف کررہے تھے کہ وہ اتنے میں واپس آگیا کیونکہ وہ اپنی ایک بیش قیمت صلیب بھول گیا تھا.اس کو آتے دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اوراس سے کوئی اظہار رنج نہیں فرمایا بلکہ آپ نے اس کی مدارات اورخاطر کی اور اس کی صلیب نکال کر اس کو دے دی.وہ شخص اس واقعہ سے ایسا متأثر ہواکہ وہیں مسلمان ہوگیا.اس کے سوااور کئی ایسے ایسے واقعات اس قسم کے اعلیٰ درجہ اخلاق کے موجود ہیں.غرض یہ ہے کہ اخلاقی معجزہ صداقت کی ایک بڑی بھاری دلیل ہے.اسلام کی تمام جنگیں دفاعی تھیں یہ نہایت درجہ کا ظلم ہے کہ اسلام کو ظالم کہا جاتا ہے حالانکہ ظالم وہ خود ہیں جو تعصب کی وجہ سے بے سوچے سمجھے اسلام پر بے جا اعتراض کرتے ہیں اورباوجود باربار سمجھانے کے نہیں سمجھتے کہ اسلام کے کل جنگ

Page 173

اورمقابلے کفارِ مکّہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر دفاعی رنگ میں حفاظت جان ومال کی غرض سے تھے اورکوئی بھی حرکت مسلمانوں کی طرف سے ایسی سرزد نہیں ہوئی جس کا ارتکاب اورابتدا پہلے کفار کی طرف سے نہ ہوا ہو.بلکہ بعض قابل نفریں حرکات کا مقابلہ بتقاضائے وسعت اخلاق آنحضرتؐنے خود عمداً ترک کرنے کا حکم دے دیا تھا.مثلاً کفار میں ایک سخت قابلِ نفرت رسم تھی جو کہ وہ مسلمان مُردوں سے کیا کرتے تھے مگر آنحضرتؐنے اس قبیح فعل سے مسلمانوں کو قطعاً روک دیا.قرآن شریف میں بڑی بسط اورتفصیل سے اس اَمر کا ذکر موجود ہے مگر کوئی غورکرنے والا اور بے تعصب دل سچائی اور حق کی پیاس بھی اپنے اندر رکھتا ہو.قرآن شریف میں صاف طور سے اس اَمر کا ذکر آگیا ہے کہ وَ هُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ (التوبۃ:۱۳) یعنی ہر ایک شرارت اورفساد کا ابتدا پہلے کفار کی طرف سے ہوا ہے بلکہ قرآن شریف نے تو اس اَمر کی بڑی وضاحت کردی ہے کہ جنہوں نے تلوار سے مقابلہ کیا ان کا مقابلہ تلوار سے کیا جاوے اور جولوگ الگ رہتے ہیں اورانہوں نے ایسی جنگوں میں کوئی حصہ نہیں لیا ان سے تم بھی جنگ مت کرو بلکہ ان سے بے شک احسان کرو اور ان کے معاملات میں عدل کیا کرو.چنانچہ فرماتا ہے لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَ لَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَ تُقْسِطُوْۤا اِلَيْهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ (الممتحنۃ :۹) اب جائے غور ہے کہ قرآن شریف نے جن اضطراری حالتوں میں جنگ کرنے کی اجازت دی ہے ان میں سے آج اس زمانہ میں کوئی بھی حالت موجود ہے؟ ظاہر ہے کہ کوئی جبروتشدد کسی دینی معاملہ میں ہم پر نہیں کیا جاتا بلکہ ہر ایک کو پوری آزادی دی گئی ہے.اب نہ کوئی جنگ کرتا ہے کسی دینی غرض کے لئے اورنہ ہی لونڈی غلام کوئی بناتا ہے.نہ کوئی نماز روزے اذان حج اورارکان اسلام کی ادائیگی سے روکتا ہے توپھر جہاد کیسا اور لونڈی غلام کیسے ؟ عورت اورمرد میں مساوات فرمایا کہ آریہ لوگ اپنی ضد اورہٹ دھرمی سے ایک یہ بھی اسلام پر اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اسلام نے مرداور عورت

Page 174

میں مساوات نہیں رکھی.مردوں کو ترجیح دی ہے.فرمایا.تعصب اورحق کی مخالفت نے ان کو اندھا کردیا ہے ایسا کہتے ان کو شرم نہیں آتی.پہلے اپنے گریبان میں تومنہ ڈال کر دیکھیں اورپھر انصاف کریں.غور کا مقام ہے کہ ان میں سے اگر کسی آریہ کے ہاں چالیس لڑکیاں بھی ہو جاویں جب بھی ان کے مذہب کی روسے اپنی بیوی کو کسی دوسرے سے منہ کالا کرانے کے واسطے بھیجنا پڑے گا تاکہ وہ اپنی نجات کے واسطے لڑکا حاصل کرے کیونکہ ویدوں کی تعلیم کے مطابق جس کے ہاں لڑکا نہیں اس کی مکتی نہیں.اب ذرا انصاف تو کریںکہ مساوات کس جانورکا نام ہے.چالیس پچاس لاتعداد لڑکیاں بھی ایک لڑکے کی برابری نہیں کرسکتیں اورلڑکیاں بلحاظ کثرت کے خواہ کتنی بھی ہوں اپنی ماں کو اس قابل نفرت اورخلاف فطرت قبیح فعل سے بچا نہیں سکتیں جب تک لڑکا پیدا نہ ہو اسے نیوگ کرانا ہی پڑے گا.اب بتائو کہ کیا تم نے مرد و عورت میں مساوات رکھی ہے ؟ اسلام جو کہ بڑا پاک اوربالکل فطرت انسانی کے مطابق واقع ہوا ہے اوربڑی کامل اور حکیمانہ تعلیم اپنے اندر رکھتا ہے اس نے عورتوں کے نکاح میں جس طرح ولی کا ہونا ضروری قرار دیا ہے اسی طرح ان کی طلاق میں بھی ایک ولی کا ہونا ضروری رکھا ہے مثلاً جس طرح عورت اپنے نکاح کے واسطے اپنے ولی کی محتاج ہے اسی طرح طلاق کے واسطے بھی ولی کی محتاج ہے.اگر کسی عورت کا کسی خاص شخص سے گذارہ اورنباہ نہیں ہوسکتا تواس کو اجازت ہے کہ قاضی یا حاکم وقت کی معرفت خلع کرالے.وہی قاضی یا حاکم وقت اس کا ولی طلاق ہوگا.کوئی روک ٹوک نہیں.باقی رہا ورثہ کے متعلق سو قرآن شریف نے مرد سے عورت کا حصہ نصف رکھا ہے اس میں بھید یہ ہے کہ نصف اس کو والدین کے ترکہ میں سے مل جاتا ہے اورباقی نصف وہ اپنے سسرال میں سے جالیتی ہے اورپھر اس کے نان ونفقہ، لباس وپوشاک کا ذمہ دار بھی اس کا خاوند ہوتا ہے.اس طرح پر ایک طرح سے عورت مرد سے بھی بڑھ جاتی ہے.ان معترضوں کو شرم اورحیا سے کام لینا چاہیے.پہلے اپنے گریبان میں تومنہ ڈال کر جھانک لیاکریں، پھر زبان اعتراض کھولا کریں.

Page 175

آرام کی زندگی بسر کرنے کا طریق فرمایا.ایک حدیث میں آیا ہے کہ ظالم کو ظالم مت کہو بلکہ خود اپنے آپ کو کو سو.بادشاہ یا حاکم کو مت کوسو.اگر تم اپنی حالت کو سنوارلوتو حاکم بھی نرم اور رحمدل ہوجاویں گے اگر کسی کا حاکم ظالم اورجابر ہے تووہ جان لے کہ اس کے اعمال ہی اس لائق ہیں.قرآن شریف نے کیا پاک اصول قائم کیا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ(الرعد:۱۲) جب انسان پر خدا کی طرف سے ہی فردِ جرم لگ جاوے تو کون ہے جو اس کی رعایت کرے اوربچاسکے؟ حکام خدا کے قہر اور رحم کا نمونہ ہوتے ہیں.اگر خدا خوش ہوتو حکام کے دل میں خود بخود رحم پیدا ہو جاتا ہے اوراگر خداہی ناراض ہے توپھر انسان خود واجب سزاہے کسی کے کیا بس کی بات! پس اگر تم اس دنیا میں آرام کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہوتو خدا کی طرف جھک جائو اوراپنی اصلاح کرلو اور پورے طور سے خداکے ہوجائو مَنْ كَانَ لِلّٰهِ كَانَ اللّٰہُ لَہٗ.پنجابی کی مشہور مثل ہے کہ جے توں میرا ہورہیں سب جگ تیراہو.اصل بات یہی ہے کہ خدا خوش ہوتو سب خوش ہوجاتے ہیں.خدا کا راضی کرنا مقدم ہے.نادرشاہ کے حملہ کے وقت دلی کے بعض عقلمندوں نے کیا خوب کہا ہے.ع شومیٔ اعمال ما صورت نادر گرفت۱ ۲۹؍مارچ ۱۹۰۸ء (قبل از ظہر ) ایک دل آویز نصیحت ایک معزز صاحب جو حضرت حکیم الامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوستوں میں سے ہیں اور رامپور میں قیام رکھتے ہیں.رامپور سے کانگڑہ تشریف لے جارہے تھے حضرت حکیم الامت رضی اللہ عنہ کی ملاقات کے واسطے قادیان بھی تشریف لائے حضرت اقدسؑ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ذکر کیا کہ گرما کی شدت کی میں برداشت نہیں کرسکتا اور تمام گرما اپریل سے نومبر تک کانگڑہ میں جہاں میرے چاہ کے باغ ہیں بسر کرتا ہوں اورآج ہی واپس ۱ الحکم جلد ۱۲نمبر ۲۲مورخہ ۲۶؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۷،۸

Page 176

جانے کا ارادہ ہے کیونکہ میں گرمی کی برداشت نہیں کرسکتا.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ موسم تو کوئی بھی اللہ تعالیٰ نے بے فائدہ نہیںبنایا.آپ نے جہاں جسمانی تپش سے بچنے کا فکر کیا ہے اور آرام وآسائش کی راہیں سوچی ہیں وہاں چند روز یہاں رہ کر روحانی تپش کی اصلاح کے واسطے بھی غورکریں.ہمارا کام صرف اللہ تعالیٰ کے حضور دعاکرنا ہے قبل عصر ایک شخص نے اپنی کچھ حاجات تحریری طور سے پیش کیں.حضرت اقدسؑ نے پڑھ کر جواب میں فرمایا کہ اچھا ہم دعا کریں گے.تووہ شخص کسی قدر متحیر ہوکر پوچھنے لگا.آپ نے میری عرضداشت کا جواب نہیں دیا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہم نے تو کہا ہے کہ دعاکریں گے اس پر وہ شخص بولا کہ حضور کوئی تعویذ نہیں کیا کرتے؟ فرمایا.تعویذ گنڈے کرنا ہماراکام نہیں ہے.ہمارا کام توصرف اللہ کے حضور دعاکرنا ہے.۱ ۳۰؍مارچ ۱۹۰۸ء (قبل از عصر) لائف انشورنس ملک مولا بخش صاحب کا ایک خط حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بدیں مضمون آیا تھا کہ لائف انشورنس کی کسی کمپنی میں وہ حضرت اقدسؑ کے سلسلہ بیعت میں داخل ہونے سے کئی سال پیشتر سے ممبر ہیں اور کہ وہ قریب چھ سوروپیہ کے اس کمپنی کو ۱الحکم جلد ۱۲نمبر ۲۵مورخہ ۶؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۱

Page 177

دے چکے ہیں.وہ خط حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کرکے اس کے متعلق استفتاء دریافت کیا.ملک صاحب موصو ف نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ چونکہ میںنے حضور کے ہاتھ پر دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کرلیا ہے اس واسطے اگر اب یہ مسئلہ دین کے کسی رنگ میں بھی مخالف ہوتو میں خوشی سے اس سے دست بردار ہونا چاہتا ہوں.حضرت اقدسؑ نے فرما یا کہ ہم تو اس کے جواز کی کوئی راہ نہیں پاتے.جونقصان ہوچکا ہے وہ خدا کی راہ میں نقصان سمجھ کر آئندہ گناہ سے توبہ کرلینی چاہیے.اللہ تعالیٰ اجر دینے والا ہے.اصل میں یہ بھی ایک قمار بازی ہے.۱ ۳۱؍مارچ ۱۹۰۸ء (قبل نماز ظہر ) مجاہدہ اورریاضت کی ضرورت پیر عبداللہ شاہ صاحب ساکن پنڈ صاحب خاں ضلع اٹک جو کہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے ایک معزز خلیفہ ہیں اور ان کو پیر صاحب موصوف کی طرف سے بیعت لینے کی بھی اجازت ہے دو تین دن سے قادیان میں تشریف رکھتے تھے.انہوں نے آج حضرت اقدس کی خدمت میں نہایت ادب اور حق جوئی اور اطمینانِ قلب کی خاطر یوں عرض کی کہ ’’خدا کے بندوں کے ساتھ خداکے نشان ہوتے ہیں اورآپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں مامورومرسل بنا کر دنیا میں بھیجا ہے اورآ پ کے ہزاروں نشان ظاہر ہوچکے ہیں مگر چونکہ میں ایک بہت دور دراز ملک کا رہنے والا ہوں اورہم نے آپ کے ان نشانات سے کوئی حصہ نہیں لیا جس طرح آپ کی موجودہ جماعت کے لوگوں نے آ پ کے نشانات کودیکھا ہے.لہٰذا میری عرض یہ ہے کہ کوئی نشان دکھایا جاوے جوکہ ہمارے اطمینانِ قلب اور ترقی ایمان کا باعث ہو.‘‘ فرمایا.اصل بات یہ ہے کہ بموجب تعلیم قرآن شریف ہمیں یہ اَمر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف تواللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اپنے کرم، رحم، لطف اورمہربانیوں کی صفات بیان کرتا ہے اور ۱ الحکم جلد ۱۲نمبر ۲۵مورخہ ۶؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۱

Page 178

رحمان ہونا ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف فرماتا ہے کہ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى (النجم :۴۰) اور وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) فرما کر اپنے فیض کوسعی اور مجاہدہ میں منحصر فرماتا ہے نیز اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا طرز عمل ہمارے واسطے ایک اسو ہ حسنہ اورعمدہ نمونہ ہے.صحابہؓ کی زندگی میں غور کرکے دیکھو.بھلاانہوں نے محض معمولی نمازوں سے ہی وہ مدارج حاصل کر لیے تھے؟ نہیں! بلکہ انہوں نے تو خدا کی رضا کے حصول کے واسطے اپنی جانوں تک کی پروا نہیں کی اوربھیڑ بکریوں کی طرح خدا کی راہ میں قربان ہوگئے جب جا کر کہیں ان کو یہ رتبہ حاصل ہوا تھا.اکثر لوگ ہم نے ایسے دیکھے ہیں وہ یہی چاہتے ہیں کہ ایک پھونک مار کر ان کو وہ درجات دلادئیے جاویں اورعرش تک ان کی رسائی ہوجاوے.ہمارے رسول اکر مؐ سے بڑھ کر کون ہوگا وہ افضل البشر افضل الرسل والا نبیاء تھے جب انہوں نے ہی پھونک سے وہ کام نہیں کئے تو اورکون ہے جو ایسا کرسکے؟ دیکھو! آپ نے غارِ حرا میں کیسے کیسے ریاضات کئے.خداجانے کتنی مدت تک تضرّعات اورگریہ وزاری کیا کئے.تزکیہ کے لئے کیسی کیسی جانفشانیاں اور سخت سے سخت محنتیں کیا کئے جب جاکر کہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے فیضان نازل ہوا.اصل بات یہی ہے کہ انسان خدا کی راہ میں جب تک اپنے اوپر ایک موت اور حالت فنا وارد نہ کرلے تب تک ادھر سے کوئی پروانہیں کی جاتی.البتہ جب خدادیکھتا ہے کہ انسان نے اپنی طرف سے کمال کوشش کی ہے اور میرے پانے کے واسطے اپنے اوپر موت وارد کرلی ہے تو پھر وہ انسان پر خود ظاہر ہوتا ہے اور اس کو نوازتا اور قدرت نمائی سے بلند کرتا ہے.دیکھو قرآن شریف میں ہے.وَفَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِيْنَ عَلَى الْقٰعِدِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًا(النّسآء :۹۶) قاعدین یعنی سست اورمعمولی حیثیت کے لوگ اورخدا کی راہ میں کوشش اور سعی کرنے والے ایک برابر نہیں ہوتے.یہ تجربہ کی بات ہے اورسالہائے دراز سے ایسا ہی دیکھنے میں آرہا ہے.انسان دنیا میں دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تووہ جن کوبدقسمتی سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ بعض اولیاء

Page 179

اوراقطاب دنیا میں ایسے بھی موجود ہیں کہ جن کی ایک توجہ سے انسان ولایت کے درجہ تک پہنچ سکتا ہے اور عرش تک کی اسے خبر ہوجاتی ہے.دوسرے وہ لوگ ہیں جو قرآن شریف میں تدبّر کرتے ہیں اورخدا کی راہ میں اس کے پانے کے واسطے صدق واخلاص سے کوشش اورورزش کرتے ہیں اور یہی ہیں کہ آخر جن کی پُر سوز اور دردمند انہ محنتیں اورکوششیں ضائع نہیں کی جاتیں اورآخریہ لوگ جو صبر سے خدا کے دروازے پر مانگتے ہیں اوراخلاص اورصدق سے کھٹکھٹاتے ہیں ان کے واسطے کھولا جاتا ہے اورآخر وہ اپنے صدق واخلاص اورسچی تڑ پ اورحقیقی اضطراب کی وجہ سے خدائی فیوض کے خزانوں کے مالک اوروارث بنائے جاتے ہیں.دیکھو! خدابڑابے نیاز ہے.اس کو اس بات کی کیا پرواہے کہ کوئی جہنم میں جاوے یا کہ بہشت میں جاوے کسی کے دوزخ میں جانے سے خدا کا کچھ بگڑتا نہیں اور کسی کے بہشت میں جانے سے سنورتا نہیں.خدا کا اس میں ذاتی نفع یا نقصان کچھ بھی نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ(العنکبوت:۳) یعنی کیا بس اتنی بات سے کہ لوگ زبان سے اتنا کہہ دیں کہ ہم ایمان لائے.خدا راضی ہوجاتا ہے اورحال یہ کہ ابھی ان کے اس قول کا امتحان نہیں کیا گیا کہ آیا وہ حقیقتاً مومن ہیں بھی یا کہ نہیں اوران کے اس قول کاصدق وکذب ظاہر نہیں ہوا؟ پس سچی اور پکی بات یہی ہے کہ انسان اوّل صدق، اخلاص اور گدازش اختیار کرکے اپنے اوپر ہزاروں موتیں وارد کرے جب جاکر اللہ رحم کرتا ہے اوراس کی طرف جھانکتا ہے.جنترمنتر سے ولی بن جانے والے خیالات کے لوگ اور صرف ایک چھوہ سے آسمانی خزانوں کے مالک بن جانے کے خیالات رکھنے والے ہمیشہ محروم رہتے ہیں.ایک دفعہ ایک آدمی ہمارے پاس آیا اورکہا کہ میں توایسے کامل انسان کی تلاش میں ہوں جودم بھرمیں ایک توجہ سے ولی بنادیوے.ہم نے بہتیرا سمجھا یا مگر جب وہ باز نہ آیا توہم نے کہا کہ اچھا جائو تلاش کرو اگر کہیں ایسا کوئی قطب غوث مل جاوے.آخر ایک مدت دراز کے بعد وہ ہمیں پھر مل گیا.بُرے حال مندے دہاڑے.ہم نے پوچھا کہ کیوں تم کو ایسا پھونک مارنے والا آدمی

Page 180

ملا بھی جسے تم تلاش کرتے تھے ؟وہ چپکا ہی رہ گیا اور کچھ جواب نہ دے سکا.ہمارے عقیدے کے موافق تویہ بات ہے کہ نہ اللہ نے اورنہ ہی اس کے رسولؐ نے، کسی نے بھی یہ راہ نہیں سکھائی.دیکھو! صحابہؓ نے کس قدر کوششیں کی ہیں جس کی قسمت میں ہی ایسا ہوکہ اس کی عمر ضائع ہو وہ کتاب اللہ سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.قرآن شریف پڑھ کر دیکھ لو اس میں کہیں بھی ایسا نہیں ملے گا کہ خدا اس شخص پر بھی راضی ہوتا ہے جو اس کی رضامندی کی راہوں سے غافل اور لاپرواہی کرنے والا ہو.خدا تعالیٰ نے اپنی رضامندی کی جو راہیں مقرر کردی ہیں.انہیں کے اختیار کرنے سے وہ راضی ہوتا ہے.صاف طور سے اس نے یہ دعا سکھا دی ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ(الفاتـحۃ :۶) دیکھو! انسان انسان سے خوش ہوکر اس کو انعامات عطاکرتا ہے توکیا خدا اپنی رضامندی کی راہوں پر چلنے والوں اوراس کی تلاش کرنے والوں سے محبت نہیں کرے گا؟ مگر استعداد بھی ہو اس کے فیوض کے لینے کی.ایک گندہ پھوڑا جس میں پیپ اور گندے مواد بھرے ہوں.اس پر کیسے رحم کیا جاوے؟ دیکھو! صحابہ ؓ نے حق فرماں برداری اوررضاجوئی اداکیا تھا اوروہ ایک عمدہ نمونہ اوراعلیٰ مثا ل ہیں.اس ثبوت کے واسطے انہو ں نے کس طرح اپنی جانیں قربان کردیں، اطاعت کی، خون کی ندیاں بہادیں تو وہ بھی ان کی اس حالت پرکیسا راضی ہوگیا.جتنے بھی بزرگ اوراولیاء گذرے ہیں وہ سب مجاہدات اورریاضات میں اپنے اوقات گذراتے تھے.دیکھو! باوافرید صاحب اور اَور جتنے بھی اولیاء اورابدال گذرے ہیں یہ سب گروہ ایک وقت تک خاص ریاضات اورمجاہداتِ شاقہ کرنے کی وجہ سے ان مدارج پر پہنچے ہیں اور ان لوگوں نے بڑی سختی سے اورپورے طورسے اتباع سنّت کی ہے جب جاکر ان کی مشیخت، ننگ وناموس اورخواہ نخواہ کی کبریائی نکلی اور وہ گویاکہ سوئی کے ناکے میں سے ہوکر نکلے ہیں جس سے ہمیشہ ایسے لوگ نکلا کرتے ہیں جب جاکر کہیں ان لوگوں کو یہ حالتیں نصیب ہوئی ہیں.دعائیں بھی انہی لوگوں کی قبول ہوتی ہیں ورنہ دیکھو جس طرح سے ایک حکیم کی دوائی بجز پرہیز کرنے کے مؤثر نہیں ہوتی اسی طرح سے دعا کی قبولیت کابھی یہی راز ہے.دعا کچھ بھی اثر نہیں کرسکتی جب تک

Page 181

انسان پورا اور کامل پرہیز گار نہ ہو.لوگوں نے بعض اولیا ء کی نسبت بعض جھوٹے قصے کہانیاں بنارکھی ہیں وہ بھی مخلوق کی راہ میں بڑا بھاری پتھر اور روک ہوجاتے ہیں اوربہتوں کی ٹھوکر کا باعث ہوجاتے ہیں.دیکھو! حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بھی ایک قصہ ایسا گھڑ رکھاہے کہ ایک چور ان کے سامنے آیا اور انہوں نے گویا ایک ہی پھونک سے اس کو ولی اورقطب بنا دیاتھا.یاد رکھو کہ کوئی بھی کبھی بجز اپنے اوپر ایک موت وارد کرنے اورپوری اتباعِ سنّت کے کسی خاص اوراعلیٰ مقام پر نہیں پہنچا.فیضان بھی استعداد پر ہوتے ہیں ہاں البتہ یہ بھی صحیح ہے کہ استعداد کے سواکچھ نہیں ہو سکتا.بعض طبیعتیں اوراستعدادیں ہی اس قسم کی اللہ تعالیٰ نے بنائی ہوتی ہیں اوران میں ایسا مادہ رکھا ہوتا ہے کہ نخوت، تکبّر، عُجب، پندار وغیرہ رذیل اخلاق ان سے خود بخود آسانی سے نکل جاتے ہیں اور ایک فانی اور لاشَے بن جاتے ہیں اورجس طرح سے ایک دانہ زمین میں مل کرپہلے خاک ہوجاتا ہے توپھر خدا اس کو قدرت سے بڑھاتا ہے.اسی طرح سے وہ لوگ بھی اوّل اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں کھو دیتے ہیں.جب خدا ان کو پھر زندہ کرتا ہے اوربڑھاتا اور پھیلاتا ہے اوران کی قبولیت دنیا کے دلوں میں بڑھا دیتا ہے.پس اس طرح سے جو انسا ن کل مشکلات کو جو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے امتحان کے واسطے وقتاً فوقتاً وارد ہوں ان کی برداشت کرلیتا ہے اوراپنی طرف سے کوئی خاص حدود اورشرائط نہیں مقرر کرتا بلکہ خدا پر چھوڑ دیتا ہے تو خدااس کو اپنے فضل سے وہ کچھ دکھا دیتا ہے جس سے اس کا ایمان قوی اورمضبوط ہوجاتا ہے اورسلیم قلب حاصل ہوجاتا ہے مگر جو لوگ ضد کرتے ہیں او رخدا کو اپنے ارادوں کے ماتحت چلانے کی خواہش کرتے ہیں وہ لوگ محروم رہ جاتے ہیں اورپھر خدا ایسے لوگوں کی پروا ہی کیا رکھتا ہے وہ بے نیاز ہے.اس کے کروڑوں بندے ہیں اگر نہیں مانتا تو نہ سہی وہ بھی جہنمی گروہ میں داخل کر دیا جاتا ہے خدا نشان دکھانے میں بندے کی خواہش اور ارادے کے ماتحت نہیں ہوتا.فیضان بھی استعداد پر ہوا کرتے ہیں.(مصفّا قطرہ باید کہ تا گوہر شود پیدا) جس طرح سے ایک کھایا ہوا دانہ زمین میں باقاعدہ طور سے

Page 182

کاشت کیا جانے پر بھی تونہیں اگتا اور نہیں بارور ہوتا اسی طرح سے بدبخت لوگ جن پر فرد جرم شقاوت کا لگ چکا ہے خدا کے انعامات اور نشانات کے وارث نہیں ہوسکتے.بھلا نبیؐ سے بڑھ کر اور کون ہوگا؟ ساراقرآن شریف تدبّر سے پڑھ کر دیکھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے فیض کے حصول کے جو سامان مقرر فرمائے ہیں انہی کی پیروی سے وہ فیضان ملے گا اور ان کی خلاف ورزی کرنے سے ہرگز ہرگز ممکن نہیں کہ کوئی خداکے فیض کا وارث ہوسکے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّ سَعِيْدٌ(ھود:۱۰۶) یعنی انسان بلحاظ اپنی استعدادوں کے دوطرح کے ہیں.ایک تو وہ گرو ہ جس کو ایسے سامانوں کے جمع کرنے میں اور ایسے اعمال بجالانے کی توفیق ہوتی ہے جو فیوض وبرکات الٰہی کے انوار کے جاذب ہوتے ہیں اوروہ سعید کے نا م سے پکارے جاتے ہیں.دوسرے وہ جن کے اعمال بد اورخبث باطن ان کی ترقیوں کے آگے روک ہوکر ان کو اعمال صالحات اور خدائی فیوض وبرکات سے دورومہجور کردیتے ہیں اب بھی دیکھ لوکہ خوب زور سے تائیداتِ سماوی اورنشانات کی ایک بارش ہورہی ہے اورایک سیلاب کی طرح ترقی ہورہی ہے مگر اس میں بھی وہی داخل ہوسکتے ہیں جن کی روحوں میں سعادت کا حصہ ہے.شقی اوربدبخت لوگ باوجود ہزار ہا نشانات کے دیکھنے کے ان میں بھی وساوس شیطانی کو داخل کرکے سعادت اور قبولِ حق سے محروم رہ جاتے ہیں اورخدا کا بھی یہی منشا ہے کہ بعض سعادت کی وجہ سے سعید اور بعض شقاوت کی وجہ سے شقی ہوکر یہ اختلاف قیامت تک برابر قائم رہے.پس جن کو خدا تعالیٰ کا منشا ہی ہماری جماعت سے باہر رکھنے کا ہو اس کو ہم کیسے ہدایت دے سکتے ہیں.نشانات خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں دیکھو! کسی خاص شخص کی پروا نہ خدا کو منظور ہوا کرتی ہے اورنہ ہی اس کے رسول کسی خاص شخص کی ہدایت کے لئے زوردیا کرتے ہیں بلکہ ان کی دعائیں اور اضطراب عام خلقِ خدا کے واسطے ہوتے ہیں.دیکھو! رسول اکرم ؐسے بھی معجزات مانگے گئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے کیا جواب دیا؟ وَقَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ(الانعام :۳۸) قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ (الانعام:۱۱۰) اللہ تعالیٰ نے اقتراح کو منع کیا ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ اقتراح کرنے والے لوگ ہمیشہ ہدایت سے

Page 183

محروم ہی رہتے ہیں کیونکہ خدا نہ ان کی مرضی اورخواہشات کا تابع ہوتا ہے اور نہ و ہ ہدایت پاتے ہیں.دیکھ لو! جب نشانات اور معجزات اقتراحی رنگ میں طلب کئے گئے جب ہی یہی جواب ملا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا(بنی اسـرآءیل :۹۴) خدا تعالیٰ کے اب بھی ہزاروں نشانات ہیں جو گننے سے گنے نہیں جاسکتے اورہماری کتابوں میں تفصیل سے درج ہیں.ان کو دیکھا جاوے کیا وہ قابلِ قبول اورخدائی شان وشوکت کا رعب اپنے اندر رکھتے ہیں یا کہ کسی انسان کی طاقت میں ان کا امکان ممکن ہے؟ پھر جو نشانات خدا تعالیٰ نے خود اپنی مرضی اورخوشی سے دئیے ہیں ان سے تسلّی تشفّی نہ پاکر اپنی تسلّی تشفّی کے واسطے خاص نشانات طلب کرنا تو نہ قرآن میں ثابت ہے اورنہ کسی پہلے نبی کی زندگی میں ملتا ہے پس ہم سے کیوں منہاجِ نبوت سے باہر سوال کیا جاتا ہے ایسا ہرگز جائز نہیں.پہلے سوال کرنے والوں اورمعجزات مانگنے والوں کو دیکھ لو ان سے کیا معاملہ ہوا؟ وہی اب موجود ہے.ہم نے خدائی کا دعویٰ تونہیں کیا.نشان خدا کے ہاتھ میںہیں.جب اورجس قسم کے وہ چاہے اپنی مرضی سے ظاہر کرے.وہ کسی زید و بکر کی خواہشات کا پابند اور ماتحت نہیں ہے اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایسا انسان کبھی کامیاب بھی ہوا ہو.وہی قرآن شریف موجود ہے اس میں دیکھ لیا جاوے.خدا کبھی مجبور نہیں ہوا.اورنہ وہ مجبور ہوکر ایسا کیا کرتا ہے بلکہ جب وہ چاہتا ہے اپنی مرضی سے مانگنے والوں کی خواہشات سے ہزار درجہ بڑھ چڑھ کر بھی نشان دکھا سکتا ہے اوردکھاتا ہے.اس کو کسی خاص انسان کی پروا نہیں ہواکرتی کہ یہی شخص ہدایت پاوے گا تویہ کارخانہ چلے گا.آپ بھی مسلمان ہیں بھلا آپ نے بھی کہیں قرآن شریف میں اس قسم کا مضمون پایا ہے کہ کبھی کسی نے اقتراحی رنگ میں معجزہ مانگا ہو اور پھر اس نے پا بھی لیاہو.ہرگز ایسا ثابت نہ ہوگا کہ کسی نے اس طرح سے مانگا اورپھر پالیا ہو.پس اگر ایسا ثابت نہیں ہوتا تویہ ایک قسم کی جرأت اوربے ادبی ہے اس سے مسلمان کو بچنا چاہیے.پس جس طرح سے آنحضرتؐنے نشان مانگنے والوں کو کہا اورجواب دیا تھا ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں کہ نشان خداکے پاس ہیں وہ جس طرح کے چاہے اور

Page 184

جس وقت چاہے دکھا سکتا ہے.نشان دکھانا ہمارا کام نہیں ہے.خدا کے دکھائے ہوئے نشانات ہزاروں موجود ہیں.ہاں البتہ ان میں یہ بات ضرور ہے کہ وہ کسی کے خاص کرکے مانگے ہوئے نہیں ہیں بلکہ وہ ہیں جو خدا نے خود اپنے ارادے اورخوشی سے دکھائے.میں توایسے شخص کے اسلام میں ہی شک کرتا ہوں جو مسلما ن کہلا کر قرآن شریف اورسنت رسول سے باہر کوئی سوال کرتا ہے اگر سعادت و رشد کا انسان میں کچھ بھی حصہ ہو اور حق طلبی کی پیاس اور سچی تڑپ موجود ہو توکیوں خدائی نشانات میں غور نہیں کی جاتی اوران کو کیوں قبول نہیں کیا جاتا؟ کیا وہ نشانات باسی ہوگئے ہیں کہ ان کی پروا نہیں کی جاتی اور کہا جاتا ہے کہ جو ہم مانگتے ہیں وہ ہمیں دیا جاوے.یاد رکھو! یہ بڑی بھاری جرأت اوربے ادبی ہے.خدا بڑا بے نیاز ہے اسے کسی کی پروا ہی کیا ہے.اگر ساری دنیا بھی اس سے منہ پھیرلے تو اس کا کچھ بگڑتا نہیں.کسی کی خواہشات کا ماتحت ہوکر اور مجبور ہوکر وہ نہیں چلے گا.تسلّی پانے کے لئے دُعاکی ضرورت نماز ظہر کے بعد پھر پیر صاحب موصو ف کو بلا کر نہایت نرمی،اخلاق اورمحبت بھرے الفاظ سے یوں فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب انسان کے دل کی حالت صاف ہوتی ہے اور اس میں خلوص اور حق کی تڑپ ہوتی ہے اورخدا کو جو دلوں کے حالات سے واقف ہے اس کے لئے کوئی اَمر ہدایت کا منظور ہوتا ہے تو خدا اپنے مامورین کے دل میں اس شخص کے لئے ایک خاص جوش اورتوجہ پیدا کردیتا ہے اورالہام خفی سے مامور کو اس کی طرف متوجہ کردیتا ہے مگر یہ جب ہوتا ہے کہ خدا کو سائل کی حالت تقویٰ اورسچی تڑپ معلوم ہوجاوے.پس اس سے سمجھا جاتا ہے کہ حضورِ الٰہی میں سائل کا سوال قابلِ قبول ہوگیا ہے.پس آپ اس اَمر کے لئے خدا کے حضور دعا کریں اورتوبہ استغفار سے کام لیں.ممکن ہے کہ آ پ کی دعاکی وجہ سے خدا کوئی ایسے سامان مہیا

Page 185

کردے جس سے آپ کے واسطے تسلّی کے سامان مہیّا ہوجاویں.اس کے بغیر چارہ نہیں کیونکہ وہ بڑا بے نیاز ہے اورانسان اس کا ہرآن محتاج ہے اوراسی کی مدد کا محتاج ہے.اس کے بعد حضرت اقدسؑ تشریف لے گئے.۱ ۴؍اپریل ۱۹۰۸ء خداکے ماموروں میں کبریائی ہوتی ہے کسی صاحب نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں اس قسم کی ایک درخواست کی تھی کہ یہاں کے رئیس اعظم کو حضرت اقدسؑ کے حالات کی تحقیق کاشوق ہے لہٰذا اگر ان کی خدمت میں براہِ راست اس قسم کی کوئی تحریر بھیج کر تحریک کی جاوے تو خالی از فائدہ نہ ہوگی.اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ ہم اس قسم کی سر دردی کو ہرگز پسند نہیں کرتے.اگر ان کو اس قسم کی تحقیق کا خیال ہے تو کیوں خود اپنے ہاتھ سے درخواست نہیں کی.اصل میں ان لوگوں میں ایک قسم کا مخفی کبر ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ ایسا کرتے ہیں یہ لوگ رعایا پر تو حکومت کرتے ہیں مگر اس طرح سے خدا پر بھی حکومت کرنا چاہتے ہیں.یہ نہیں جانتے کہ خداکے ماموروں میں کبریائی ہوتی ہے کیونکہ وہ ظِلِّ الٰہی ہوتے ہیں.خدا سے ان کو تواضع اور بندوں سے لاپروائی ہوتی ہے بجز اس کے کہ ان لوگو ں میں سے کوئی شخص خود توجہ کرے اورپھر خدابھی اس کے لئے دل میں جوش پیدا کردے.خواہ نخواہ بناوٹ سے توجہ کرنا بھی ایک قسم کی بُت پرستی ہے.خداکے مامور کسی فردِ واحد کی خصوصیت کرنا بھی شرک جانتے ہیں کیونکہ ایسے لوگوں میں باریک درباریک رنگ میں کبر مخفی ہوتا ہے.۲ ۱ الحکم جلد ۱۲نمبر ۲۴مورخہ ۲؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۱تا ۳ ۲ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۹ مورخہ ۲۲؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۲

Page 186

۷؍اپریل ۱۹۰۸ء (ساڑھے دس بجے دن ) ایک امریکن میاں بیوی سے عیسائیت اوراپنی صداقت پر گفتگو ۷؍اپریل ۱۹۰۸ء کو ایک انگریز اور ایک لیڈی جنہوں نے اپنے آپ کو امریکہ (شکاگو)کے رہنے والے ظاہر کیا اور کہ وہ سیاحت کی غرض سے ملک بہ ملک پھر رہے ہیں اورہندوستان میں بھی یہاں کے پولیٹیکل اور ریلیجس حالات سے واقفیت حاصل کرنے کے واسطے آئے ہیں لاہور سے بہمراہی ایک سکاچ انگریز قادیان میں قریب دس بجے کے پہنچے.مسجد مبارک کے نیچے کے دفتروں میں ان کو اچھی طرح سے بٹھایا گیا اور چونکہ انہوں نے حضرت اقدسؑ سے ملاقات کرنے کی درخواست کی اس لئے حضرت اقدس بھی وہیں تشریف لے آئے اورسلسلہ گفتگو مترجم (مترجم کا کام اوّل ڈپٹی علی احمد صاحب نے اورپھر جناب مفتی محمد صادق صاحب نے کیا )کے ذریعہ سے یوں شروع ہوا.سوال.ہم نے سنا ہے کہ آپ نے مسٹر ڈوئی کو کوئی چیلنج دیا تھاکیا یہ درست ہے ؟ جواب.ہاں یہ درست ہے ہم نے ڈوئی کو چیلنج دیا تھا.سوال.کس بنا پر آپ نے اس کو چیلنج دیا تھا ؟ جواب.ڈوئی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں خدا کا رسول ہوں اور کہ خدا نے مجھے بذریعہ الہام یہ بتایا ہے کہ مسیح خدا کا بیٹا اور خود خداتھا اور کہ خود مسیح نے مجھے بحیثیت خداہونے کے ایسا الہام کیا ہے اور کہ (نعوذ باللہ)اسلام تباہ ہوجاوے گا اور کہ (نعوذ باللہ )آنحضرتؐجھوٹے نبی تھے.چونکہ ہمیں خدا نے بذریعہ اپنے الہام کے یہ بتایا ہے کہ مسیح نہ خدا، نہ خدا کا بیٹا بلکہ صرف ایک پاکباز انسان اور رسول تھا اور کہ ڈوئی اپنے اس دعویٰ رسالت میں کاذب ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک ہی وقت میں اسی ایک ہی خدا کی طرف سے ایک دوسرے کے بالکل متضاد اور مخالف راہوں پر چلنے والے دو رسول موجود ہوں.پس چونکہ اس طرح سے دنیا میں فساد پیدا ہوتا اورحق وباطل میں امتیاز اٹھ جاتا

Page 187

ہے ہم نے اسے صادق اورکاذب کے فیصلہ کرنے کے واسطے چیلنج دیا.اگرچہ مسیح کو ابن اللہ اورپھر واحد و یگانہ خداماننے والے لوگ دنیا میں بہت پائے جاتے ہیں مگر ان پر ایسا افسوس نہیں کیونکہ وہ خیالات اورعقائد صرف پرانے غلط اورمصنوعی قصے کہانیوں کی بنا پر ہیں اور وہ لوگ منقولات کے پیروہیں.مگر ڈوئی نے تو اپنے اس دعویٰ سے خدا پر ایک افترا کیا اوراس طرح سے خدا پر تہمت باندھ کر لوگوں کو گمراہ کرنا چاہا تھا اوروہ توکہتا تھا کہ خود خدا نے مجھے ایسا بتایا ہے اوربحیثیت ایک خدا کے رسول ہونے کے وہ مسیح کی ابنیت اورالوہیت کی منادی کرکے لوگوں کو گمراہ کرتا تھا.یہی وجہ ہے کہ ہم نے اسے اس فیصلہ کے واسطے چیلنج دیا.سوال.ڈوئی نے تو ایک جھوٹا دعویٰ کیا تھا کیونکہ وہ اپنی صداقت ثابت نہیں کرسکا اور بائبل میں لکھا ہے کہ آخر زمانے میں جھوٹے نبی آئیں گے تو پھر آپ کے دعویٰ کی سچائی کی کیا دلیل ہے ؟ جواب.فرمایا.بائبل میںجہاں یہ لکھا ہے کہ جھوٹے نبی آئیں گے وہاں سچے نبی کے آنے کی نفی تونہیں کی گئی.یہ تونہیں لکھا کہ سچانہیں آئے گا بلکہ جھوٹے نبیوں کا آنا خود بخود اس اَمر کی صراحت کرتا ہے کہ ان میں سچا بھی ہوگا.سوال.حضرت مسیحؑ نے مُردے زندے کئے تھے چنانچہ ایک شخص جس کانام۱اسے زندہ کرنا ثابت ہے اوربائبل حضرت مسیحؑ کی وفات کے بہت جلدی بعد ہی ضبط تحریر میں لائی گئی اوربجز حضرت مسیح کے کسی اورکا مُردے زندہ کرنا ثابت نہیں ہے.پس یہ شہادت ان کے دعویٰ کی دلیل اورثبوت کے واسطے کافی ہے.جواب.مُردوں کا زندہ ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بھی قرآ ن شریف میں مذکور ہے مگر ہم آنحضرتؐکے مُردے زندہ کرنے کو روحانی رنگ میں مانتے ہیں نہ کہ جسمانی رنگ میں.اوراسی طرح پر حضرت عیسٰیؑ کا مُردے زندہ کرنا بھی روحانی رنگ میں مانتے ہیں نہ کہ جسمانی طور پر.اوریہ اَمر کوئی حضرت عیسٰیؑ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بائبل میں لکھا ہے کہ ایلیا نبی نے بھی ۱ یہاں نام درج نہیں.(مرتّب

Page 188

بعض مُردے زندہ کئے تھے بلکہ وہ حضرت عیسٰیؑ سے اس کام میں بہت بڑھے ہوئے تھے.اگر فرض محال کے طورپر ہم مان بھی لیں کہ بائبل میں حضرت عیسٰیؑ کا حقیقی مُردوں کے زندہ کرنے کا ذکر ہے توپھر ساتھ ہی ایلیا نبی کو بھی خداماننا پڑے گا.اس میں حضرت عیسٰیؑ کی خدائی کی خصوصیت ہی کیا ہوئی؟ اورمابہ الامتیاز کیا ہوا؟ بلکہ یسعیاہ نبی کے متعلق تویہاں تک بھی لکھا ہے کہ مُردے ان کے جسم سے چُھوجانے پر ہی زندہ ہو جایا کرتے تھے.ان باتوں سے جو کہ اس بائبل میںدرج ہیں صاف شہادت ملتی ہے کہ مُردوں کا زندہ کرنا حضرت مسیحؑ کی خدائی کے واسطے کوئی دلیل نہیں ہوسکتا اوراگر اس کو دلیل مانا جاوے تو کیوں ان دوسرے لوگوں کو بھی جنہوں نے حضرت مسیح سے بھی بڑھ کر یہ کام کیا خدانہ مانا جاوے اورخدائی کا خاصہ صرف حضرت مسیح کی ذات تک ہی محدود و مخصوص رکھا جاوے؟ بلکہ ہمارے خیال میں توحضرت موسٰی کا سوٹے کا سانپ بنانے کا معجزہ مُردے زندہ کرنے سے بھی کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ مُردہ کو زندہ سے ایک تشبیہ اورلگائو بھی ہے کیونکہ وہی چیز ابھی زندہ تھی اور مُردے میں زندہ ہونے کی ایک استعدا د خیال کی جاسکتی ہے.مگر سانپ کو سوٹے سے کوئی بھی نسبت اور تعلق نہیں ہے وہ ایک نبات کی قسم کی چیز اور وہ سانپ.تو یہ سوٹے کا سانپ بن جانا تو مُردوں کے زندہ ہوجانے سے نہایت ہی عجیب بات ہے.لہٰذا حضرت موسٰی کو بڑا خدا ماننا چاہیے.مگر حقیقی اور اصلی بات یہ ہے کہ ہم حقیقی مُردوں کی زندگی کے قائل نہیں ہیں.سوال.حضرت مسیحؑ ازلی ابدی ہیں اور و ہ اب بھی زندہ ہیں اوراس وقت خداکے داہنے ہاتھ بیٹھے ہیں.ان کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آیا جس میں یہ خاصے پائے جاتے ہیں.جواب.ہم قطعی طورسے انکار کرتے ہیں کہ کوئی حقیقی مُردے بھی زندہ کرسکتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ.الـخ(الزّمر :۴۳) باقی رہے آپ کے دعوے سوہم ان کو بغیر کسی دلیل کے قبول نہیں کرسکتے.مُردوں کے زندہ کرنے کے ساتھ ان کا خود ازلی ابدی ہونا اور اب زندہ اورخداکے داہنے ہاتھ بیٹھے ہونا بھی آپ کے دعوے ہیں جن کی کوئی دلیل آپ نے پیش نہیںکی اوردلیل کی جگہ ایک اوردعویٰ پیش کردیا ہے.

Page 189

حضرت عیسٰیؑ کو بھی ہم اورانبیاء کی طرح خدا کا ایک نبی یقین کرتے ہیں.ہم مانتے ہیں کہ خدا کی راہ میں صدق اوراخلاص رکھنے والے لوگ خدا کے مقرب ہوتے ہیں.جس طرح خدا نے اپنے اورمخلص بندوں کے حق میں بباعث ان کے کمال صدق اور محبت کے بیٹے کا لفظ بولا ہے.اس طرح سے حضرت عیسٰی ؑ بھی انہی کی ذیل میں ہیں.حضرت عیسٰیؑ میں کوئی ایسی بڑی طاقت نہ تھی جو اور نبیوں میں نہ پائی جاتی ہو اور نہ ہی ان میں کوئی ایسی نئی بات پائی جاتی ہے جس سے دوسرے محروم رہے ہوں.اگر حضرت عیسٰیؑ میں مرد ے زندہ کرنے کی طاقت تھی تو اب بھی ان کا کوئی پیرو مُردے زندہ کرکے دکھائے.مُردے زندہ کرنے تو درکنار بلکہ ہمارے مقابلہ میں کوئی نشان ہی دکھادیوے.دیکھو! انسان اپنی انسانی حدود اور ہیئت کے اندر ترقی مدارج کرسکتا ہے نہ یہ کہ وہ خدابھی بن سکتا ہو جب انسان خدابن ہی نہیں سکتا تو پھر ایسے نمونے کی کیا ضرورت جس سے انسان فائدہ نہیں اٹھاسکتا؟ انسان کے واسطے ایک انسانی نمونے کی ضرورت ہے جو کہ رسولوں کے رنگ میں ہمیشہ خدا کی طرف سے دنیا میں آیا کرتے ہیںنہ کہ خدائی نمونہ کی جس کی پیروی انسانی مقدرت سے بھی باہر اور بالاتر ہے.ہم حیران ہیں کہ کیا خدا کا منشا انسانوں کو خدابنانے کا تھا کہ ان کے واسطے خدائی کا نمونہ بھیجا تھا.پھریہ اوربھی عجیب بات ہے کہ خداہوکر پھر یہود کے ہاتھ سے اتنی ذلّت اٹھائی اوررسوا ہوا اور ان پر غالب نہ آسکا بلکہ مغلوب ہوگیا.سوال.آپ نے جو دعویٰ کیا ہے اس کی سچائی کے دلائل کیا ہیں؟ جواب.میں کوئی نیا نبی نہیں.مجھ سے پہلے سینکڑوں نبی آچکے ہیں.توریت میں جن انبیاء کا ذکر ہے اورآپ ان کو سچامانتے ہیں.جو دلائل ان کی صداقت کے اوران کو نبی اورخدا کا فرستادہ یقین کرنے کے ہیں وہ آپ پیش کریں انہی دلائل میں میری صداقت کا ثبوت مل جائے گا.جن دلائل سے کوئی سچانبی مانا جاسکتا ہے وہی دلائل میرے صادق ہونے کے ہیں.میں بھی منہاجِ نبوت پر آیا ہوں.سوال.نہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ سے وہ دلائل سنیں جن سے آپ کو اپنے صدق کا یقین ہوا اورآپ کو

Page 190

کیسے معلوم ہواکہ آپ نبی ہیں ؟ جواب.خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنے کلام سے اس بات کا علم دیا ہے اورخدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے لوگوں کے ساتھ خدائی نشان ہوتے ہیں جوکہ اقتداری اورغیب پر مشتمل زبردست پیشگوئیوں کے رنگ میں ان کو عطا کئے جاتے ہیں.کوئی دشمن ان پر فتح نہیں پاسکتا اورباوجود کمزور اور ناتواں اوربے سروسامان، بے یارومددگار ہونے کے انجام کار انہی کی فتح ہوتی ہے ان کی مخالفت کرنے والوں کا نام ونشان مٹادیا جاتاہے منجملہ ہزاروں نشانات کے آپ لوگوں کے واسطے تو ایک ڈوئی کا معاملہ ہی جو کہ آپ کے ملک میں ہی ظہور میں آیا.اگر غور کریں تو کافی ہے.وہ دعویٰ کرتا تھا کہ مسیح خداہے.مگر ہمارے خدا نے ہم پر یہ ظاہر کیا کہ وہ خدا نہیں بلکہ ایک عاجز انسان ہے.تب ہم نے اس سے اس معاملہ میں خط وکتابت کی مگر وہ اپنے دعویٰ سے باز نہ آیا.آخر ہم نے خدا سے خبر پاکر اس کی ہلاکت اورنامرادی کی پیشگوئی کی.جو ہماری زندگی میں پوری ہونی ضروری تھی.چنانچہ ویسا ہی ظہور میں آیا اور وہ پیشگوئی کے مطابق نہایت ذلّت اورعذاب سے صاد ق کی زندگی میں ہی ہلاک ہوگیا.اب کوئی غورکرنے والا دماغ اورمان لینے والا دل چاہیے کہ اس میں غور کرے کہ آیا یہ پیشگوئی اس قابل ہے یاکہ نہیں کہ اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یقین کیا جاوے یاکیا یہ بھی کوئی انسانی منصوبہ ہے؟ دوم.آپ لوگوں کا یہاں آنا بھی تو ہمارے واسطے ایک نشا ن ہے جواگر آپ کو اس کا علم ہوتا توشاید آپ یہاں آنے میں بھی مضائقہ اورتأمّل کرتے.اصل میں آپ لوگوں کا اتنے دور دراز سفر کرکے یہاں ایک چھوٹی سی بستی میں آنا بھی ایک پیشگوئی کے نیچے ہے اورہماری صداقت کے واسطے ایک نشان اوردلیل ہے کہاں امریکہ اورکہاں قادیان.مُردے زندہ کرلینا تو ایک طرف دھرا رہ گیا ایک کوڑھی (مجذوم) توصحت یاب ہونہ سکا اور اُسے تو حضرت مسیح چنگا نہ کرسکے تو مُردے زندہ کرنا کیسا؟ وہ باتیں توہزاروں سال کی ہیں اور خداجانے ان میںکیا کچھ ملاوٹیں ہوگئی ہیں اور وہ توصرف قصے کہانیوں کے رنگ میں باقی رہ گئی ہیں.ان کی صداقت کا کوئی نشان یا ان کے سچے

Page 191

ہونے کے کوئی آثار ہی پائے جاتے تو بھی ا ن کو مان لینے کی ایک راہ ہوتی.مگر وہ تواب باتیں ہی باتیں اورنر ے دعوے ہی دعوے ہیں.مگر ہم توآجکل کی موجودہ اورزندہ مثال پیش کرتے ہیں.سوال.ڈوئی کے اس انجام کا تو ہر شخص انداز ہ لگاسکتا تھا کیونکہ اس نے ایک جھوٹا دعویٰ کیا تھا اور یہ صاف بات ہے کہ جھوٹا مدعی ذلیل ہواکرتا ہے.ہم تو آپ کے دعویٰ کی عظمت کی وجہ سے یہاں آئے ہیں کہ اتنا بڑا دعویٰ کرنے والا انسان کیسا ہوگا نہ یہ کہ آپ کے لئے نشان بننے کے واسطے آئے ہوں.جواب.فرمایاکہ اگر ڈوئی کوآپ لوگ ایسا ہی سمجھتے تھے اورجانتے تھے کہ وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے اورخدا پر بہتان باندھ رہا ہے توپھر کیا اسی یقین سے آ پ لوگوں نے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپوں کے نذرانے اسے دیئے؟ اوربیش قیمت تحائف اس کے واسطے دور دراز سے مہیا کئے؟ اوراس کی حد سے زیادہ عزت کی؟ حتی کہ دس ہزا رسے بھی زیادہ لوگ اس کے مرید بن گئے.تعجب کی بات ہے کہ ایک انسان کو باوجود جھوٹا یقین کرنے کے بھی کوئی یہ عزت وعظمت دیتا ہو؟ اور اپنا مال وجان اس پر نثار اورتصدق کرتا ہو؟ امر دوم کے لئے ان کو سنانا چاہیے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ ایک فرد واحد بھی ہمارا واقف نہ تھا اور کسی کو ہمارے وجود کا علم تک بھی نہ تھا بلکہ بہت کم لوگ تھے جن کو قادیان کے نام سے بھی اس وقت واقفیت ہوگی حتی کہ ہماری طرف کسی کا خط تک بھی نہ آتا تھا اورہم ایک گمنامی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے.اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہواکہ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ اور یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ اور وَلَاتُصَعِّرْ لِـخَلْقِ اللہِ وَلَاتَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ اوربعض اس مضمون کے الہام زبان انگریزی میں بھی تھے.حالانکہ ہم زبان انگریزی سے بالکل ناآشنا ہیں اوریہ سب خبریں اس زمانہ کی ہیں جبکہ ان کے کچھ بھی آثار موجود نہ تھے اورہماری اس وقت کی حالت کو دیکھنے اورجاننے والے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس حالت میں ایسی خبروں کے امکان کا وہم وگمان بھی نہیں ہوسکتا تھا بلکہ ان الہامات کے بعد اندرونی اوربیرونی طورسے یعنی خود

Page 192

اپنی قوم بھی اور دیگر عیسائی اور ہندو وغیرہ بھی سب دشمن ہوگئے مگر باوجود ان سب امور کے اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیشہ ہمارے شاملِ حال رہی اوراس نے ایسی ایسی تائیدات کیں کہ اب اس وقت چارلاکھ یا اس سے بھی کچھ زیادہ انسان ہمارے ساتھ ہیں اوردور دراز سے آتے ہیں.تحفے تحائف اور نقد وجنس جن کے وعدے خدا تعالیٰ کے کلام میں کئے گئے تھے سب پورے ہوئے او ر ہورہے ہیں.پیشگوئیوں کو ان کے تمام لوازم پیشگوئی کے وقت اورحالت سے دیکھنا چاہیے اورپھر اس کا انجام دیکھنا چاہیے کہ کس کرّوفر سے پوراہو ا.اگر کسی مفتری کے سوانح میں بھی اس کی نظیر ہے توپیش کرو اور اگر ہماری اس پیشگوئی کے ماننے سے انکار ہے تو کوئی نظیر دو کہ بجز خدا کی تائید اور نصرت کے کسی مفتری نے بھی ایسا عروج پالیا ہو.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا لڑکا عبدالسلام حضرت اقدسؑ کے نزدیک کھڑا تھا.حضرت اقدسؑ نے اس کا ہاتھ پکڑکر اسے انگریزوں کے روبرو کیا اورفرمایا کہ ان کو سمجھایا جاوے کہ اگر مثلاً یہ لڑکا آج اس حالت میں پیشگوئی کرے کہ میں ستر برس کی عمر پائوں گایا لاکھوں انسان دوردراز کی راہوں سے میرے دیکھنے کے واسطے آئیں گے یا کوئی اور عظیم الشان انقلاب کی خبر دے توکیا ایسی پیشگوئیوں کی اس کی موجودہ حالت کے لحاظ سے کچھ وقعت کی جاوے گی ؟اورپھر اگر بالفرض جو کچھ اس نے اس حالت میں کہا ہووہ ایک وقت پورا ہوجاوے تواس وقت اس کو کوئی جھوٹا کہہ سکے گا ؟یاکسی کو یہ کہنے کا استحقاق ہوگا کہ یہ اَمر انسانی منصوبوں یا تدبیروں سے اسے حاصل ہوا ہے ؟ حضر ت اقدس ؑ کے اتنے بیان کے بعد انہوں نے اقرار کیا کہ ہاں ہم اسے تسلیم کرتے ہیں کہ پیشگوئیاں ثبوتِ دعویٰ کی ایک دلیل ہوتی ہیں مگر.سوال.ہم کوئی اوردلیل بھی سننا چاہتے ہیں.جواب.فرمایا.اوردلیل قبولیتِ دعاہے.اس موقع پر حضرت حکیم الامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرزند صاحبزادہ عبدالحی بھی حضرت اقدس کے

Page 193

قریب ہی موجود تھا.حضرت حکیم الامت نے اسے آگے کردیا اور حضرت نے اسے بازو سے پکڑ کر ان لوگوں کے روبر وکرکے یوں فرمایا کہ ایک شخص نے جو کہ مولوی صاحب کا دشمن تھا اس نے آ پ کے متعلق یہ کہا تھا کہ آپ ابترہیں اوراشتہار بھی شائع کردیا تھا.اس پر ہم نے دعاکی وہ جنابِ الٰہی میں قبول کی گئی اورہمیں بتایاگیا کہ لڑکا پیدا ہوگا اور اس کا یہ نشان ہوگا کہ اس کے بدن پر پھنسیاں ہوں گی اور یہ اس کی پیدائش کے چھ برس پہلے کا واقعہ ہے.چنانچہ خدا کے فضل سے لڑکا پیدا ہوا اور اس کے بد ن پر پھنسیاں نکلیں جن کے داغ اب تک موجو د ہیں.علاوہ ازیں اورایسے ہزاروں نمونے قبولیتِ دعا کے موجود ہیں.سوال.آپ کے آنے کامقصد کیا ہے اوراب آئندہ کیا ہوگا ؟ جواب.فرمایاکہ ہمارے آنے کا یہ مقصد ہے کہ عیسائیوں ‘ہندوئوں اورمسلمانوں میں جو غلطیاں (خواہ وہ عملی ہوں یا اعتقادی ) پیدا ہوگئی ہیں ان کی اصلاح کی جاوے.بھلا آپ ہی بتائیں کہ آیا عیسائیت یورپ میں اپنی اصلیت پر ہے ؟ یا عیسائیوں نے توریت یا انجیل کی تعلیم کے کسی نقطہ پر بھی عمل کیا ہے؟ تمام یورپ کی عملی حالت کیا کہہ رہی ہے؟ آیا ان لوگو ں کے دلوں میں خدا پر بھی ایمان ہے؟ اور کیا ان کو خدا کا خوف بھی ہے؟ (ان باتوں کے جوا ب میں انگریز نے صاف اقرار کیا کہ واقعی نہ توتوریت پر عمل ہے اورنہ ہی یورپ کی عملی حالت درست ہے ) فرمایا کہ ہمیں خدا نے بتایا ہے کہ حضرت مسیحؑ خداکے ایک برگزیدہ بندے اورنبی تھے.یہ نہیں کہ وہی ایک ہی ایسا نمونہ تھے اورپھر خدا نے اپنا فیضان کسی پر نازل نہیں کیا اور ہمیشہ کے واسطے ایسی برکات کا دروازہ بند کردیا ہوبلکہ وہ خداجس کی شان بلند ہے اوروہ تمام ملکوں کا ایک اکیلا خدا ہے.اس نے اپنے فیضان بھی تمام ملکوں پر کئے ہیں.دیکھو! توریت چھوڑ دی گئی.اس کی تعلیمات کی کچھ پروا نہیں کی جاتی.اس میں ہزاروں غلطیاں لگائی گئی ہیں.حضرت عیسٰیؑ کی شان کی بے ادبی کی جاتی ہے کیونکہ ان کو خواہ نخواہ خدابنایا جاتا ہے.کیا

Page 194

یہ کافی نہ تھا کہ ان کو خداکے ایک برگزیدہ بندے مان کر ان کی پیروی کی جاتی؟ اوران کے نقش قدم پر ان کا نمونہ اور رنگ اختیار کیا جاتا.انسان کا یہ کام نہیں کہ وہ خدابن جاوے تو پھر اسے ایسے نمونے کیوں دیئے جاتے ہیں؟ جب کسی کو کوئی نمونہ دیا جاتا ہے تواس سے نمونہ دینے والے کا یہ منشا ہوتا ہے کہ اس نمونہ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کی جاوے اورپھر وہ اس شخص کی طاقت میں بھی ہوتا ہے کہ اس نمونے کے مطابق ترقی کرسکے خداجو فطرتِ انسانی کا خالق ہے اوراسے انسانی قویٰ کے متعلق پوراعلم ہے اور کہ اس نے انسانی قویٰ میں یہ مادہ ہی نہیں رکھا کہ خدابھی بن سکے تو پھر کیوں اس نے ایسی صریح غلطی کھائی کہ جس کام کے کرنے کی طاقت ہی انسان کو نہیں دی اس کام کے کرنے کے واسطے اسے مجبور کیا جاتا.کیا یہ ظلم صریح نہ ہوگا؟ رسالت اورنبوت کے درجہ تک توانسان ترقی کرسکتا ہے کیونکہ وہ انسانی طاقت میں ہے پس اگر حضرت عیسٰیؑ خدا تھے تو ان کا آنا ہی لاحاصل ٹھہرتا ہے اور اگر ان کو نبی اور رسول مانا جاوے توبے شک مفید ثابت ہوتا ہے.پھر اس میں خدا تعالیٰ کی بھی ہتک اوربے ادبی لازم آتی ہے.گویا خدا نے بخل کیا کہ اپنی تجلیات کا مظہر صرف ایک ہی شخص کو ٹھہرایا اوراپنے فیوض کو صرف حضرت عیسٰیؑ تک ہی محدود کردیا.غور توکرو اگر کسی بادشاہ کی رعایا صرف ایک فرد واحد ہی ہو تو کیا اس میں اس بادشاہ کی تعریف ہے یا ہتک؟ یا اگر یہ کہا جاوے کہ بادشاہ کا فیض اورانعام صرف ایک خاص نفس واحد تک ہی محدود ہے توپھر اس میں اس بادشاہ کی کیا بڑائی ہوگی؟ پس جب خداکے کروڑوں بندے دنیا کے مختلف ممالک میں موجود تھے تو کیا وجہ کہ خدا نے اپنے فیوض کو صرف بنی اسرائیل ہی تک محدود رکھا.دیکھو! بند پانی بھی آخر کار گندہ ہوجاتا ہے اورکیچڑ کی صحبت سے اس میں ایک قسم تعفن پیدا ہوجاتا ہے توپھر خداکے اوپر ایسا بہتان باندھنا کہ اس کے فیوض اوربرکات صرف ایک خاص قوم تک ہی محدود اوربند ہیں خدا کی شان کی ہتک اوربے ادبی ہے.حضرت عیسٰیؑ کے خدابنانے میں فائدہ کیا؟ اوران کی شان میں ترقی کیا؟ بلکہ الٹی اس میں تو ان

Page 195

کی ہتک اورکسرِ شان ہے.مَردمی اس میں ہے کہ جو کام وہ کرتے تھے وہ کام کئے جاویں اوران کی تعلیم پر عمل درآمد کرکے اچھا نمونہ دکھانے کے ذریعہ دکھایا جاوے کہ وہ خود اعلیٰ قسم کے انسان تھے اوران کے انفاس میں تزکیہ کا اثر اورتعلیم میں اعلیٰ درجہ تک ترقی کرنے کی طاقت موجود تھی.زبانی تعریف کرنے میں غلو کرنے سے کیا فائدہ؟ کیاان کی تعلیم کا اثر اسی زمانہ تک محدود تھا یا اب بھی ہے؟ اوراگر ہے توکہاں؟ اورکس ملک میں ؟ افسوس آتا ہے اگر عیسٰیؑ اب آجاویں تووہ تو اس قوم کو پہچان بھی نہ سکیں.ہم ان سے محبت رکھتے ہیں اور آپ محبت نہیں رکھتے ہوں گے کیونکہ آپ کو ان کی خبر نہیں.ہم نے تو ان کو بارہا دیکھا ہے.بلکہ ہم تو جانتے ہیں کہ اب بھی خود آپ لوگوں کے گھر میں ہی تفرقہ ہے اختلاف ہے.بعض ایسے فرقے عیسائیوں میں اب بھی موجود ہیں جو حضرت عیسٰیؑ کو خدانہیں مانتے بلکہ صرف ایک برگزیدہ نبی مانتے ہیں اورقرآن شریف سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے تو جب گھر میں ہی اختلاف ہے توکیوں وہ راہ اختیار نہیں کی جاتی جو سلامتی کی راہ ہے؟ اور کیوں وہ راہ ترک نہیں کی جاتی جوکہ بالاتفاق خطرناک ثابت ہوچکی ہے؟ باقی رہا یہ کہ اب دنیا میں کیا ہوگا؟ سواس کے متعلق ہم صرف اتنا کہہ دینا کافی سمجھتے ہیں کہ دنیا اپنی اس موجودہ حالت پر نہیں رہے گی بلکہ اس میں ایک عظیم الشان تغیر اورانقلاب واقع ہوگا.سوال.مسیح کو آپ نے کس طور سے دیکھا ہے؟ آیا جسمانی رنگ میں دیکھاہے ؟ جواب.فرمایاکہ ہاں جسمانی رنگ میں اورعین حالت بیداری میں دیکھا ہے.سوال.ہم نے بھی مسیح کو دیکھا ہے اوردیکھتے ہیں مگر وہ روحانی رنگ میں ہے.کیا آپ نے بھی اسی طرح دیکھا ہے جس طر ح ہم دیکھتے ہیں.جواب.نہیںہم نے ان کو جسمانی رنگ میں دیکھا ہے اوربیداری میں دیکھا ہے.اس تقریر کے بعد حضرت اقدسؑ نے فرمایاکہ ان کے واسطے چائے تیار ہے لہٰذا ان کو چائے پلائی جاوے

Page 196

اوراس طرح سے جلسہ برخاست ہوا.انگریزوں نے حضرت اقدسؑ کا بہت بہت شکریہ اداکیا اور کچھ کھانا اورچائے پینے کے بعد مدرسہ کو دیکھتے ہوئے جہاں ایک طالب علم ہائی کلاس محمد منظور علی شاکر نے سورہ مریم کی چند ابتدائی آیا ت نہایت خوش الحانی سے پڑھ کر سنائیں کیونکہ اس وقت ان کی قرآن شریف کی گھنٹی تھی.قرآن شریف سن کر وہ خوش ہوئے اور پھر بٹالہ کو چلے گئے.کھانا کھانے کے میز پر بیٹھے ہوئے انہوں نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے ایک سوال کیا کہ مرزا صاحب کی وفات کے بعد کیا ہوگا؟ جس کا جواب مفتی صاحب موصوف نے یوں دیا کہ آپ کی وفات کے بعد وہ ہوگا جو خدا کو منظور ہوگا اور جوہمیشہ انبیاء کی موت کے بعد ہوا کرتا ہے.۱ ۱۱؍اپریل ۱۹۰۸ء (بوقتِ سیر ) مرزااحمد بیگ کے بارہ میں پیشگوئی پر اعتراض کا جوا ب کسی معترض کا ایک خط حضرت مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب کی خدمت میں آیا تھا جس میں اس نے مرزا احمد بیگ والی پیشگوئی پر اعتراض کیا تھا.حضرت مولوی صاحب موصوف نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بوقتِ سیر اس کا تذکرہ کیا.حضرت اقدس ؑ نے فرمایاکہ ایسے آدمی سے پہلے یہ دریافت کرنا چاہیے کہ آیا تم کلمہ گوبھی ہویا کہ نہیں؟۲ اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اَور انبیاء سابقین پر بھی ایمان رکھتے ہویاکہ نہیں؟ تعجب آتا ہے ایسے لوگو ں کی حالت اورعقل پر کہ ہزارہا قسم کے نشانات دیکھتے ہیں ان کی توکچھ پروانہیں کرتے اور نہ ان سے کوئی فائدہ اٹھاتے ہیں.مگر جب ایک ایسے اَمر کو جو متشابہات میں سے ہوتا ہے بوجہ اپنی کم فہمی اور الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۱تا۴ ۲ بدر سے.فرمایا.’’یہ شخص ہمیں چھپا ہوانیم مرتد معلوم ہوتاہے.ہزارہا روشن نشانات دیکھنے کے بعد بھی ابھی اسے تاریکی ہی نظر آتی ہے یہ اس کی آنکھوں کا قصور ہے.اگر وہ اس قسم کے شبہات کرنے لگا تو قریب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اس کا ایمان نہ رہے.‘‘ (بدر جلد ۷نمبر ۱۶مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۰۸ءصفحہ ۴)

Page 197

کم عقلی کے اس کی حقیقت کو نہ سمجھنے کے باعث اعتراض کرنے بیٹھ جاتے ہیں حالانکہ ان سے اگر یہ سوال کیا جاوے کہ اورجو ہزارہا بیّن نشان موجود ہیں.ان سے تم نے کیا فائدہ اٹھایا ہے؟ تویقیناً ان سے کوئی جواب بن نہیں آتا.حالانکہ وہ اَمر جس کو وہ اپنی کم علمی کی وجہ سے نشانہ اعتراض بناتے ہیں عین سنّت اللہ کے موافق ایک اَمر ہوتا ہے اورکوئی بھی نبی نہیں گذرا جواس سنّت سے باہر رہا ہو.پس اس سنّت سے انکار کرنے والے کا ایمان کیسے خطرے میں ہے! وہ صرف ہماری پیشگوئی پر ہی اعتراض نہیں کرتا بلکہ آنحضرتؐکی بھی تکذیب کرتا ہے اور بلکہ اس طرح سے تودوسرے تمام انبیاء کی بھی تکذیب لازم آتی ہے.دیکھو! آنحضرتؐکا صلح حدیبیہ کا معاملہ جس میں بعض بڑے بڑے اکابر صحابہ ؓ کو بھی ٹھوکر لگ گئی تھی مگر پھر خدا نے ان کی دستگیری فرما کر ان کو بچالیا حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس میں شریک تھے.پھر آنحضرتؐکا اس اَمر کا اظہار فرمانا کہ ابوجہل مسلمان ہوجاوے۱ گا.ماسویٰ ان کے حضرت عیسٰیؑ کے بارہ حواریوں کے بارہ تختوں کا معاملہ.حضرت یونس ؑ نبی کی قوم کا معاملہ.حضرت موسٰی کی زندگی میں بھی ایسا معاملہ موجود ہے.۲ تو پھر ہم حیران ہیں کہ ایسا معترض مسلمان کہلا کرکس کس بات کا انکار کرے گا.یہ تو ایک بیہودہ بات ہے کہ جس بات کی سمجھ نہ آئی اس کا انکار کردیا.دیکھو! ہماری اس پیشگوئی کی ایک ٹانگ تواسی وقت پیشگوئی کے عین مطابق ٹوٹ گئی.جس کی وجہ سے ان لوگوں پر خوف طاری ہوا اورانہوںنے صدقہ اور خیرات سے اور اَورطرح سے عجزو انکسار، گریہ وبکا سے توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ نے بھی مطابق اپنی سنّت کے ان سے سلوک کیا.دیکھو! ۱ بدر سے.’’ابوجہل کی نسبت دیکھا گیا کہ بہشتی انگور کا خوشہ اس کو ملا ہے مگر وہ مسلمان نہ ہوا.‘‘ (بدر جلد ۷نمبر ۱۶مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۴) ۲ بدرسے.’’حضرت موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیاکہ اس ارض کے تم مالک ہوگے اور اس میں کئی برس گذر گئے.‘‘ (بدر جلد ۷نمبر ۱۶مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۴)

Page 198

حضرت یونس نبی کا قوم سے جو عذاب کا وعدہ ہوا تھا اس میں تو کوئی بھی شرط موجود نہ تھی اورصاف اور صریح الفاظ تھے کہ (چالیس۴۰ دن) کے بعد تم پر عذاب نازل ہوجاوے گا.پس جب ایک غیر مشروط اور قطعی پیشگوئی کا توبہ اوراضطراب اورگریہ وبکا سے ٹل جانا سنّت اللہ کے مطابق ہے توپھر مشروط پیشگوئی پر کیوں اعتراض کیا جاتا ہے؟ جس میں صاف یہ الفاظ موجود ہیں تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَآءَ عَلٰی عَقِبِکِ.۱ حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی کتاب فتوح الغیب میں لکھتے ہیںکہ قَدْ یُوْعَدُ وَلَا یُوْفٰی کہ بعض وعدے خدا تعالیٰ کے ایسے بھی ہوتے ہیں جو وہ پورے نہیں کئے جاتے.خود قرآن شریف میں مشابہات کا ذکر ہے.مومن اورکافر میں ایسے مشابہات سے تمیز ہوجاتی ہے اورچھپے ہوئے مرتد اور منافق لوگوں کے الگ کرنے کا یہ ایک آلہ ہوتے ہیں.خدا اگر متشابہات نہ رکھتا تودنیا دنیا ہی نہ رہتی.منافق کا قاعدہ ہے کہ اس کو دریا بہتا ہوا نظر نہیں آتا اور وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا بلکہ خس وخاشاک کی طرف جھک جاتا ہے اورمرتد ہوجاتا ہے.اگر ہم منہاج نبوت سے باہر کوئی اَمر پیش کرتے ہوں اور کوئی نئی بات اپنی طرف سے پیش کرتے تواعتراض کا موقع بھی تھا.قرآن شریف میں آیا ہے کہ لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْۤ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ (الملک :۱۱) پس جس شخص نے نہ کبھی صحبت میں رہ کر ہماری باتوں کو سنا ہواور نہ خود منہاجِ نبوت کے ثبوت پر پرکھنے کی عقل ہووہ کیسے ہدایت پاسکتا ہے؟ ۲دیکھو موجودہ زمانے میں خدا نے اتنی کثرت سے زبردست نشانات کا ذخیرہ جمع کردیا ہے اورایسے ایسے اسبا ب مہیا کردیئے ہیں کہ اگر ایک لاکھ نبی بھی ان نشانات سے اپنی نبوت کا ثبوت کرناچاہے توکرسکے کیونکہ اس وقت نہ بدر سے.’’جس سے صاف ظاہر ہے کہ توبہ سے یہ سب باتیں ٹل جاویں گی اوراحمدبیگ کی موت سے جو خوف ان پر چھا گیا اس نے پیشگوئی کے ایک حصہ کو ٹال دیا.اصل بات یہ ہے.خداہزارہا نشان دکھاکر بعض نشان ایسی حالت میں بھی رکھ لیتا ہے جو منافقین وغیرہ کے امتیاز کا موجب ہوں.‘‘ (بدر جلد ۷نمبر ۱۶مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۴) ۲ بدر سے.’’پس انجام اچھا نہیں معلوم ہوتا.‘‘ (بدر جلد ۷نمبر ۱۶مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۴)

Page 199

تو ایسی ضرورتیں تھیں اورنہ ہی ایسے ذرائع واسباب مہیّا تھے.دیکھو! اگر انبیاء کی بعثت کے ساتھ ہی بڑے بڑے زبردست نشانات اورکھلے کھلے معجزات دکھادئیے جایا کریں توپھر ایمان ایمان ہی نہیں رہ سکتا بلکہ وہ تو عرفان ہوجاتا ہے.اورپھر اس میں انسان کو ثواب اورمدارج کے حصول کی کوئی وجہ ہی نہیںرہتی.اگر ابتدا ہی میں کھلی کھلی کا میابیاں اورفتوحات ہوجاتیں توسب سے پہلے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہونے والے بدمعاش اورفاسق فاجر لوگ ہی ہوتے۱ اورصادق اورکاذب، مخلص اورمنافق میں تمیز کی کوئی راہ باقی رہ نہ جاتی اورنعوذ باللہ اس طرح سے توامان اٹھ جاتی.دیکھو! حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فراستِ صحیحہ اورنورِ ایمان سے پہچان لیا تھا کیا انہوں نے کوئی معجزہ مانگا تھا؟ ہرگز نہیں بلکہ صرف آنحضرتؐکی زندگی کے ابتدائی واقعات ہی سے آپ کے صدق دعویٰ کو بڑی قوت اوراستقلال سے قبول کرلیا.نبی کے بعد خلیفہ بنانا خدا تعالیٰ کا کام ہے صوفیاء نے لکھا ہے کہ جو شخص کسی شیخ یا رسول اور نبی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے اس کے دل میں حق ڈالا جاتا ہے.جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تودنیا پر ایک زلزلہ آجاتا ہے اوروہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے مگر خدا کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے اورپھر گویا اس اَمر کا ازسر نو اس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح واستحکام ہوتا ہے.آنحضرتؐنے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقررنہ کیا اس میں بھی یہی بھید تھا کہ آپؐکو خوب علم تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقرر فرماوے گا کیونکہ یہ خدا کا ہی کام ہے اور خداکے انتخاب میں نقص نہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کام کے واسطے خلیفہ بنایا اور سب بدر سے.’’اگر تمام نشانات یکساں روشن اور بیّن اورحسب خواہش ہوتے تو ابوجہل بھی ایمان لے ہی آتا مگر وہ خبیث النفس تھا.خدا نے نہ چاہا کہ ایسی پاک جماعت میں شامل ہو.‘‘ (بدر جلد ۷نمبر ۱۶مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۴)

Page 200

سے اوّل حق انہی کے دل میں ڈالا.حضرت مولانا المکرم سید محمد احسن صاحب نے عرض کیا کہ حضور کے الہام میں بھی تویہی مضمون ہے اَلْـحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ اورآیتِ استخلاف میں بھی اللہ تعالیٰ نے اسناد لَیَسْتَخْلِفَنَّ اور لَیُمَکِّنَـنَّ کی اپنی ہی طرف فرمائی ہے نہ کہ رسولؐ کی طرف.حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ ایک الہام میں اللہ تعالیٰ نے ہمارا نام بھی شیخ رکھا ہے.اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَایُضَاعُ وَقْتُہٗ اورایک اورالہام میں یوں آیا ہے کہ کَمِثْلِکَ دُرٌّ لَّایُضَاعُ.ان الہامات سے ہماری کامیابی کا بیّن ثبوت ملتا ہے.مومن خود جماعت ہے حضرت مولٰنا مولوی سید محمد احسن صاحب نے ایک اورخط کے متعلق عرض کیا.حضرت اقدسؑ نے فرمایاکہ ہمارے پاس توجب کوئی اس قسم کا خط آتا ہے کہ میں اکیلاہوں توہمیں اس کے ایمان ہی کا خطرہ ہوجاتا ہے.مومن خود جماعت ہے.مومن اکیلا کبھی نہیں رہتا.جس کا خدا پر ایمان کامل ہوتا ہے خدا خود اسے اکیلا نہیں رہنے دیتا.غیر احمدی کولڑکی دینے میں گناہ ہے فرمایا کہ غیر احمدیوں کی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے کیونکہ اہلِ کتاب عورتوں سے بھی تو نکاح جائز ہے بلکہ اس میںتو فائدہ ہے کہ ایک اورانسان ہدایت پاتا ہے.اپنی لڑکی کسی غیر احمد ی کو نہ دینی چاہیے.اگر ملے تو لے بے شک لو.لینے میں حرج نہیں اوردینے میں گناہ ہے.حُبِّ دنیا کا غلبہ سلبِ ایمان کا باعث بنتا ہے فرمایا.بعض لوگ جو يَكْتُمُ اِيْمَانَهٗۤ(المؤمن:۲۹) میں داخل ہیں اوربعض مخفی در مخفی معقول وجوہات کے باعث وہ اپنے ایمان کا اظہار ابھی نہیںکرسکتے اوروہ ایسے نہیں ہیں کہ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ (النسآء:۱۴۴) بلکہ انہوں نے تمہارے پاس اپنے ایمان

Page 201

اورصدق خلوص کا اظہار کردیا ہے تووہ لوگ معذور ہیں اوربعض وہ لوگ جو اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ مکفّرین میں داخل نہیں ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اس قسم کاایک اشتہار دے دیں کہ وہ ہمارے مکفّرین میں سے نہیں ہیں اورجولوگ ہم کو کافر وغیرہ ناموں سے یاد کرتے ہیں ان سے اپنے آپ کو یوں الگ کردیں بلکہ یہ بھی لکھ دیں کہ جو لوگ ہمیں کافر کہتے ہیں وہ آنحضرتؐکی حدیث کے مطابق ایک مسلمان کو کافر کہنے کی وجہ سے خود کافر ہیں.لیکن چپکے چپکے کبھی ہم میں آئے توہمارے بن بیٹھے اوران میں گئے توان کے ہوگئے.یہ ایمانداروں کی روش نہیں ہے.ہم کوئی غیب کا علم تو رکھتے نہیں کہ کسی کے دل کی حالت سے ہمیں آگاہی ہوجاوے.پس یہ ایک راہ ہے کہ جس سے یہ لوگ اگر ان کے دلوں میں کوئی نفاق کا مرض نہیں ہے توہمارے مکفّرین میں سے الگ ہوکر الگ ایک جماعت بن سکتے ہیں اوراگر فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ١ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا (البقرۃ:۱۱) والا معاملہ ہے اوران کے دلوں میں واقعی نفاق کی آگ ہے تواس طرح سے ان کی بیماری اوربھی زیادہ ہوجاوے گی اورظاہر ہوجاوے گی.اصل بات یہ ہے کہ بعض اوقات حُبِّ دنیا کا غلبہ بھی سلبِ ایمان کا باعث ہو جایا کرتا ہے لہٰذا دنیوی امور میں بہت انہماک اوردنیوی امور کو اتنی اہمیت دے دینا کہ گویا دین، ایمان اورآخرت کی پروا ہی نہ رہے.یہ بھی خطرناک زہریلا مرض ہے.یہ تووہ زمانہ ہے جس کے متعلق رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ تم پہاڑوں کی چوٹیوں پر چلے جائو، درختوں کے تنوں سے لگ جائو اور جس طرح سے بن پڑے زمانہ کے فتن سے اپنے ایمان کو سلامت رکھنے کی کوشش کرو.پس اگر بحالت مجبوری کوئی احمدی اکیلا ہی ہوتو اسے تنہا ہی نماز گذارلینی چاہیے اورکوشش اوردعاکرنی چاہیے کہ خدا اسے جماعت بنادے.بعض دفعہ سختی کرنا ضروری ہوتا ہے اصل میں مومن کو بھی تبلیغ دین میں حفظِ مراتب کا خیال رکھنا چاہیے.جہاں نرمی کا موقع ہو وہاں سختی

Page 202

اوردرشتی نہ کرے اورجہاں بجز سختی کرنے کے کام ہوتا نظر نہ آوے وہاں نرمی کرنا بھی گناہ ہے.۱ ع گرحفظِ مراتب نہ کنی زندیقی دیکھو! فرعون بظاہر کیسا سخت کافر انسان تھا مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسٰی کو یہی ہدایت ہوئی کہ قُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا (طٰہٰ: ۴۵) رسول اکرمؐ کے واسطے بھی قرآن شریف میں اسی قسم کا حکم ہے وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا (الانفال: ۶۲) مومنوں اور مسلمانوں کے واسطے نرمی اور شفقت کا حکم ہے.رسول اللہ اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بھی ایسی ہی حالت بیان کی گئی جہاں فرمایا ہے کہمُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ(الفتح:۳۰) چنانچہ ایک دوسرے مقام پر آنحضرتؐکو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ منافق اور کفّار کا سختی سے مقابلہ کرو چنانچہ فرماتا ہے کہ يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِيْنَ وَ اغْلُظْ عَلَيْهِمْ (التوبۃ:۷۳) غرض ان آیات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خود خدا تعالیٰ نے بھی حفظِ مراتب کا لحاظ رکھا ہے.مومنین اور ایمانداروں کے واسطے کیسی نرمی کا حکم ہے اور کفار میں سے بعض میں مادہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ ان کو سختی کی ضرورت ہوتی ہے جس طرح سے بعض بیماریوں یا زخموں میں ایک حکیم حاذق کو چیرا پھاڑی اور عملِ جرّاحی سے کام لینا پڑتا ہے.حضرت ابنِ عربی لکھتے ہیں کہ فرعون کے لئے کیوں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی کو نرمی کا سلوک کرنے کی ہدایت کی.اس میں بھید یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ آخر اسے ایمان نصیب ہو جاوے گا.چنانچہ اٰمَنْتُ کا لفظ اسی کے منہ سے نکلا.بلکہ وہ تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ قرآن شریف سے اس کی نجات بھی ثابت ہے.قرآن شریف میں یہ نہیں لکھا کہ فرعون جہنم میں داخل ہوگا.صرف یہی لکھا ہے کہ يَقْدُمُ قَوْمَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَاَوْرَدَهُمُ النَّارَ ( ھود:۹۹) بدر سے.’’ہر معترض سے جو باوجود سمجھانے کے پھر بھی اعتراض کرتا چلا جائے نرمی کا برتائو ٹھیک نہیں.‘‘ (بدر جلد ۷نمبر ۱۶ مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۴)

Page 203

آسمانی بجلی فرمایا.خدا تعالیٰ کی ہیبت ناک اور غضب کی تجلیات کا سب سے اکمل اور اَتم مظہر صاعقہ ہے اس میں دونوں باتیں سمندر میں میٹھے اور کڑوے پانی کی طرح خدا کے غضب اور مراحم کی پہلو بہ پہلو چلی جارہی ہیں.۱ ایک طرف صاعقہ خدا کے غضب کا مظہر ہے تو دوسری طرف روشنی اور بارش خدا کے رحم کے مظہر بھی موجود ہیں.فرمایا.ایک الہام بھی ہے کہ اِنِّیْٓ اَ نَا الصَّاعِقَۃُ فرمایاکہ بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بغیر اس کے کہ بجلی اپنا اثر کرے موت کا باعث ہو جایا کرتی ہے.چنانچہ ایک دفعہ ہم نے دیکھا کہ ایک موقع پر کچھ گدھے صرف بجلی کے صدمے سے ہی مَر گئے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم سیالکوٹ میں ایک مکان پر تھے اور پندرہ یاسولہ آدمی اور بھی ہمارے ساتھ تھے.دفعتاً بجلی اس مکان کے دروازے پر پڑی اور دروازے کی شاخ کو دوٹکڑے کر دیا اور مکان دھواں دھار ہو گیا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا بڑی کثرت سے گندھک جلائی گئی ہے.پھر چند منٹ کے بعد ہی ایک دوسرے محلے میں ایک مندر تھا اور اس کے پیچ در پیچ راستے تھے.چنانچہ اس موقعہ پر آپؑنے کھڑے ہو کر اپنے دست مبارک کی لکڑی سے زمین پر ذیل کی صورت کا ایک نقشہ کھینچا. اور فرمایاکہ اس قسم کے پیچ در پیچ راستوں سے ہو کر وہ بجلی اندر مندر میں گئی اور وہاں ایک سادھو بیٹھا تھا اس پر جا کر پڑی چنانچہ وہ سادھو ایک چو.۲ کی طرح ہو گیا ہوا تھا.۱ بدر سے.’’خدا تعالیٰ کی دو صفتیں ہیں.جلال اور جمال.دونوں ساتھ ساتھ کام کر رہی ہیں.‘‘ (بدر جلد ۷نمبر ۱۶ مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۴) ۲پنجابی میں جلی ہوئی لکڑی کو کہتے ہیں.(مرتّب)

Page 204

صداقت کی ایک دلیل فرمایاکہ ہمارا معاملہ تو غور کرنے والوں کے واسطے بالکل صاف اور کھلا ہے.عقلمند انسان کے واسطے تو اگر اور کوئی بھی معجزہ نہ ہو ( حالانکہ یہاں تو ہزاروں زمینی اور آسمانی نشانات اور تائیدات موجود ہیں) تو بھی اتنی مدت دراز تک ہمارے وجود کا ( ایسے زبر دست دعاوی اور ایسے خطر ناک حالات کے باوجود ) ابقاء ہی کافی ہے.غور کا مقام ہے کہ ابھی تیرھویں صدی میں سے کچھ سال باقی تھے جب سے ہمارا دعویٰ ہے اور اب چودھویں صدی کے بھی چھبیس برس گذر چکے ہیں.اندرونی بیرونی دشمنوں کی مخالفتیں اور جوشیلی تدابیر کے ساتھ ساتھ خود ہمارے اپنے وجود کی بعض خطرناک بیماریوں کے ہوتے ہوئے پھر بھی خدا نے ہمیں معجزانہ زندگی عطا کی ہے پھر خود ہی کہتے ہیں کہ آنحضرتؐکے واسطے تو ایک آدھ گھڑی کا افترا بھی خطرناک اور رگِ جان کے کٹ جانے کا باعث تھا مگر ہمیں خدا نے باوجود یکہ ہم ان کے زُعم میں مفتری ہیں برابر تیس۳۰ (برس) تک مہلت دی اور پھر یہی نہیں بلکہ ہزار ہا قسم کے زمینی آسمانی نشانوں سے ہمارے صدق دعویٰ کی تائید کی اور سارے معاملے ہمارے ساتھ صادقوں والے کئے.ایک بھی ایسی بات نہ کی جو کاذبوں والی ہو.پھر بایں خدا جانے ان کی عقلوں پر کیسی جہالت کے پردے پڑ گئے.اور یہ کیوں نہیں سمجھتے.۱ ۱۲؍اپریل ۱۹۰۸ ء فرمایا.یہ زندگی کچھ شَے نہیں.ذوالقرنین فرمایا.وہ ذوالقرنین جس کا ذکر قرآن شریف میں ہےاَور ہے اور سکندررومی اَور شخص ہے.بعض لوگ ہر دو کو ایک سمجھتے ہیں.صدیوں میں سے حصہ لینے والا ہے.۲ ۱الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۷ مورخہ ۱۴؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۱تا۳ ۲ بدر جلد ۸ نمبر ۷تا ۹ مورخہ ۲۴،۳۱؍دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۳

Page 205

بلاتا ریخ سفوفِ بھلاوہ کے خواص سفوفِ بھلاوہ کا ذکر تھا.فرمایا.باہ کے مایوسوں کے واسطے مفید ہے.فرمایا.یہ اَمر گناہ میں داخل ہے کہ انسان لوگوں کے ہنسی ٹھٹھے سے ڈرکر حق گوئی سے رہ جاوے.سلطان روم کا ذکر خیر سلطان روم کا ذکر تھا.فرمایا.اس گئے گذرے زمانہ میں بھی اسلامی بادشاہوں نے خدا تعالیٰ کی یاد کی راہ کو نہیں چھوڑا.سنا گیا ہے کہ سلطان روم نماز جمعہ کے واسطے مسجد جاتا ہے اورفقراء کو ملتا ہے.اس زمانہ کی سب سے اہم ضرورت فرمایا.ہمارے اصول میں یہ بات ہے کہ سچائی کو دنیا میں پھیلا یا جائے.اس زمانہ میں بڑی ضرورت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کو ثابت کیا جاوے.قولِ موجّہ فرمایا.قولِ موجّہ صفت انبیاء ہے.اونٹ کی سواری کا طبی فائدہ فرمایا.اونٹ کی سواری بھی محلل ہے.امراض ذیابیطس.سلسل البول کو مفید ہے.مبلّغ کے لئے ایک اہم بات فرمایا.مبلّغ کو چاہیے کہ امراء کو جو لمبا کلام نہیں سن سکتے ایک چھوٹا سا ٹوٹکا سنائے جو سیدھا کان کے اندر چلا جائے اور اپنا کام کرے.تعدّدازدواج تعددِ ازواج کا ذکر تھا.فرمایا کہ شریعتِ حقّہ نے اس کو ضرورت کے واسطے جائز رکھا ہے.ایک لائق آدمی کی بیوی اگر اس قسم کی ہے کہ اس سے اولاد نہیں ہوسکتی تووہ کیوں بے اولاد رہے اوراپنے آپ کو بھی عقیم

Page 206

بنالے.ایک عمدہ گھوڑاہوتا ہے تو اس کی نسل بھی قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے.انسان کی نسل کو کیوں ضائع کیا جاوے؟ پادری لوگ دوسری شادی کو زنا کاری قرار دیتے ہیں توپھر پہلے انبیاء کی نسبت کیا کہتے ہیں؟ حضرت سلیمان کی کہتے ہیں کئی سو بیویاں تھیں اورایسا ہی حضرت دائود کی تھیں.نیت صحیح ہو اورتقویٰ کی خاطر ہو تو دس بیس بیویاں بھی گناہ نہیں.اگر نعوذ باللہ عیسائیوں کے قول کے مطابق ایک سے زیادہ نکاح سب زنا ہیں تو حضرت دائود کی اولاد سے ہی ان کا خدا بھی پیدا ہوا ہے.تب تو یہ نسخہ اچھا ہے اوربڑی برکت والا طریق ہے.پادری لوگ نکمّی باتوں کی طرف جاتے اور اصل اَمر کو نہیں دیکھتے.انجیل میں لکھا ہے جس کے اندر رائی کے برابر ایمان ہے وہ پہاڑ کو کہے کہ یہاں سے اٹھ کر وہاں چلا جا تو وہ چلا جائے گا.عیسائیوں کو چاہیے کہ اپنے ایمان کا ثبوت دیں ورنہ سب بے ایمان ہیں.مسلمانوں میں ہمیشہ ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں جنہوں نے نشانات دکھلائے.ایک سرکاری افسر کی ملاقات کے وقت فرمایا.خدا وہ دن لاوے کہ روحانی ملاقاتیں ہوں.جسمانی ملاقات کوئی شَے نہیں نہ زبان کو ئی شَے ہے دل چاہیے.فرمایا.جس قد ر کوئی شخص انصاف اختیار کرتا ہے اسی قدر روشن ضمیر ہوجاتا ہے.فرمایا.جو لوگ اس نبی کی تکذیب کرتے ہیں وہ سب انبیاء کے مکذّب ہیں.فرمایا.دین آسمان سے آیا ہے اورہمیشہ آسمان سے ہی اس کو آبپاشی حاصل ہوتی ہے.۱ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۸ء (بوقتِ ظہر ) لوگوں کے پیچھے پڑنا مومن کا کام نہیں ہے ایک شخص کا خط حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا کہ فلاں شخص نماز نہیں پڑھتا،۱ بدر جلد ۸نمبر ۷تا۹ مورخہ ۲۴،۳۱ ؍ دسمبر ۱۹۰۸ءصفحہ۳

Page 207

روزے نہیں رکھتا، یہ ہے، وہ ہے، اس کو کافر کہنا چاہیے یا نہیں.وہ احمد ی ہے یا نہیں ؟ فرمایا.اس کو کہنا چاہیے کہ تم اپنے آپ کو سنبھالو اور اپنی حالت کو درست کرو.ہر شخص کامعاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ الگ ہے.تم کو کس نے داروغہ بنایا ہے جو تم لوگوں کے اعمال پڑتا ل کرتے پھرو اوران پر کفر یا ایمان کا فتویٰ لگاتے پھرو.مومن کا کام نہیں کہ بے فائدہ لوگوں کے پیچھے پڑتا رہے.مشورہ بابرکت ہوتا ہے ایک صاحب کے ایک خوفناک جگہ پر مکان بنوانے اوربسبب کمی روپیہ تعمیر مکان کو پورانہ کرسکنے کا ذکر تھا.فرمایا.افسوس ہے کہ بعض لوگ پہلے مشورہ نہیں کرلیتے.مشورہ ایک بڑی بابرکت چیز ہے.اس پر حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ خود اپنے رسو ل کو حکم دیتا ہے کہ وہ مشورہ کیا کرے توپھر دوسروں کے لئے یہ حکم کس قدر زیادہ تاکید ہوسکتا ہے.آجکل لوگوں کا یہ حال ہے کہ یا تو مشورہ پوچھتے نہیں یا پوچھتے ہیں تو پھر مانتے نہیں.حضرت نے فرمایا کہ پھر ایسی بات کی لوگ سزابھی پاتے ہیں.ایسوں کے حالات سے زیادہ تر وہ لوگ اب فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو عبرت حاصل کریں.۱ بلاتاریخ اعلیٰ عہدہ پر فائز لوگوں کے لئے نصیحت فرمایا کہ آجکل کے نواب اورامراء عیاشی میں پڑے ہوئے ہیں.دین کی طرف بالکل توجہ نہیں.ہر قسم کے عیش وعشرت کے کاموںمیں مصروف ہیں مگر دین سے بالکل غافل ہیں اور دوسرے آدمی بھی جب ان کو کوئی بڑا عہد ہ ملتا ہے یا کسی اعلیٰ جگہ پر مقرر ہوتے ہیں تو پھر غافل ہوجاتے ہیں اور بالکل مخلوق کی بہتری کا خیال نہیں رہتا.دنیا میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ۱بدرجلد۷نمبر ۱۶مورخہ ۲۳ ؍اپریل ۱۹۰۸ءصفحہ ۱۴

Page 208

جب انسان کسی اعلیٰ مرتبہ کو حاصل کرلیتا ہے تو پھر وہ مغرور ہوجاتا ہے حالانکہ وہ اس عرصہ میں بہت کچھ نیک کام کرسکتا ہے اوربنی نوع انسان کو فائدہ پہنچا سکتا ہے.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَ لَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ (ابراھیم :۸) اگر تم میرا شکر ادا کرو تو میں اپنے احسانات کو اوربھی زیادہ کرتا ہوں اوراگر تم کفر کروتو پھر میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے.یعنی انسان پر جب خدا تعالیٰ کے احسانات ہوں تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کا شکر ادا کرے اورانسانوں کی بہتر ی کا خیال رکھے اوراگر کوئی ایسا نہ کرے اورالٹا ظلم شروع کردے تو پھر خدا تعالیٰ اس سے وہ نعمتیں چھین لیتا ہے اورعذاب کرتا ہے.آجکل نواب اور راجہ بالکل بھولے ہیں اور پھر اپنے عیش وآرام میں پڑے ہوئے ہیں.دوسرے لوگوں کو چاہیے کہ ایسے کاموں میں مخلوق کی بھلائی کا خیال رکھیں اور ان باتوں کو بھولیں نہیں جن سے اہلِ ملک کا فائدہ ہو اورایسا نہ ہو کہ بڑا عہدہ پاکر انسان خدا کو بھول جائے اور اس کا دماغ آسمان پرچڑھ جائے بلکہ چاہیے کہ نرمی اور پیار سے کام کیا جائے اورچاہیے کہ جو شخص کسی ذمہ داری کے عہد ہ پر مقرر ہوتو وہ لوگوں سے خواہ امیر ہوں یا غریب نرمی اور اخلاق سے پیش آئے کیونکہ اس میں نہ صرف ان لوگوں کی بہتری ہے بلکہ خود اس کی بھی بہتری ہے.۱ ۲۰ ؍اپریل ۱۹۰۸ء (قبل ظہر ) خانہ کعبہ کی عظمت دلوں میں کم نہیں ہونی چاہیے شیخ فضل کریم صاحب جنہوں نے اسی سال حج کعبۃ اللہ کا شرف حاصل کیا ہے چند روز سے دارالامان میں تشریف رکھتے ہیں.قبل ظہر حضرت اقدسؑ سے ملاقات ہوئی اورانہوں نے اس سال کی ناقابل برداشت تکالیف کا جو حجاج کو برداشت کرنی پڑیں ساراحال بیان کیا.انہوں نے بیان کیا کہ انگلش حدود سے نکل کر ٹرکش حدود میں داخل ہوتے ہی ایسی مشکلات کا سامنا ۱ بدر جلد ۷ نمبر ۱۶ مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۰۸ءصفحہ ۱۴

Page 209

ہوا کہ جن کی وجہ سے یقیناً کہا جاسکتا ہے کہ یہ مشکلات ایسی ہیں جن سے حج کے بالکل بند ہوجانے کا اندیشہ ہے خصوصاً اہل ہند کے واسطے.انہوں نے بیان کیا کہ ٹرکی حدود میں کورنٹائن کی ناقابلِ برداشت سختیاں وہاں کے ڈاکٹروں اورحاکموں کا سخت درجہ کا حریص اورطامع ہونا اور اپنے فائدے کے لئے ہزاروں جانوں کی ذرہ بھر پرواہ نہ کرنا، لوگوں کا سامان خوراک پوشاک وغیرہ بھپارہ میں ضائع کردینا یا نقدی کا ضائع جانا.اورپھر جو چیز ایک مصری حاجی دس روپے میں حاصل کرسکتا ہے وہ ہندیوں کو تیس روپے تک بھی بمشکل دینا.رستوں میں باوجودیکہ سلطان المعظم نے ہر دومیل پر کنواں تیارکروا رکھا ہے عمال اورکارکنوں کا بغیر دوچار آنے لئے کے پانی کا گلاس تک نہ دینا اور پھر راستہ میں باوجود چوکی پہروں کے انتظام کے جو کہ سلطان المعظم کی طرف سے کیا گیا ہے پر لے درجے کی بدامنی کا ہونا یہاں تک کہ انسان اگر راستے سے دوچارگز بھی اِدھر اُدھر ہو جاوے تو پھر وہ زندہ نہیں بچ سکتا اور پھر ہندیوں سے خصوصاً سخت برتائو ہونا، بات بات پرپٹ جانا اور کوئی داد فریا د نہیں.بات بات پر کذّاب، بطّال اور الفاظ حقارت سے مخاطب کیا جانا وغیرہ وغیرہ ایسے سامان ہیں کہ بہت ہی مصیبت کا سامنا نظر آتا ہے.یہ سارا ماجرا سن کر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہم آپ کو ایک نصیحت کرتے ہیں.ایسا ہوکہ ان تمام امور ِتکالیف سے آ پ کی قوتِ ایمانی میں کسی قسم کا فرق اورتزلزل نہ آوے.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ابتلا ہے.اس سے پاک عقائد پر اثر نہیں پڑنا چاہیے.ان باتوں سے اس متبرک مقام کی عظمت دلوں میں کم نہ ہونی چاہیے کیونکہ اس سے بدتر ایک زمانہ گذرا ہے کہ یہی مقدس مقام نجس مشرکوں کے قبضہ میں تھا اور انہوںنے اسے بُت خانہ بنا رکھا تھا.بلکہ یہ تمام مشکلات اور مصائب خوش آئند زمانے اورزندگی کے درجات ہیں.دیکھو! آنحضرتؐکے مبعوث ہونے سے پہلے بھی زمانہ کی حالت کیسی خطر ناک ہوگئی تھی اور کفروشرک اورفساد اور ناپاکی حد سے بڑھ گئے تھے تو اس ظلمت کے بعد بھی ایک نور دنیا میں ظاہر ہوا تھا.اسی طرح اب بھی امید کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان مشکلات کے بعد کوئی بہتری کے سامان بھی پیدا کر دے گا اور خدا کوئی سامانِ اصلاح پیداکردے گا بلکہ اسی متبرک اور مقدس مقام پر ایک اوربھی ایسا ہی خطرناک اور

Page 210

نازک وقت گذر چکا تھا جس کی طرف آنحضرتؐکو اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی تھی.اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ.(الفیل :۲) غرض یہ اب تیسرا واقعہ ہے.ا س کی طرف بھی اللہ تعالیٰ ضرور توجہ کرے گا اورخدا کا توجہ کرنا تو پھر قہری رنگ میں ہی ہوگا.دین العجائزوالوں سے مواخذہ میں نرمی ہوگی ایک شخص کابلی سید عبدالمجید خان نامی چند روز سے قادیان میں آیا ہوا تھا.اس نے عرض کی کہ حضور میرا ارادہ ہے کہ حضور کے قدموں میں رہوں اور تحصیلِ علوم دینی کروں.فرمایا کہ اب تمہاری عمر اس قابل نہیں کہ تحصیلِ علوم کی طرف توجہ کرو.تمہاراکام یہ ہے کہ محنت کرو اور کمائو اور خدا کی راہ میں تقویٰ اختیار کرو.تمام علوم صحیحہ کی انتہائی غرض عمل ہوتی ہے.اگر انسان پڑھ کر عمل نہیں کرتا تو وہ سخت گناہ کرتا ہے اور پکڑ بھی سخت ہوگی.مولوی ہو اور پھر گناہ کرے یہ خدا تعالیٰ کے غضب اور قہر کی علامت ہے اور جو لوگ دین العجائز رکھتے ہیں اورمعمولی مسلمان ہیں مواخذہ میں بھی ان سے نرمی کی جاوے گی.پس کوشش کرو.عملی حالت میں ترقی کرو.۱ ۲۱؍ اپریل ۱۹۰۸ء (قبل از ظہر ) ایمان قوی ہوتو نشہ چھوڑ اجاسکتا ہے تمباکو، افیون اورشراب وغیرہ کے متعلق ذکر تھا کہ ان کی عادت جن لوگوں کو ہوجاتی ہے پھر ان کا چھوٹنا مشکل ہوجاتا ہے اور بالخصوص شراب تو ایک ایسی چیز ہے کہ چھوڑ دینے کے بعد بھی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس کا عام دوری امراض کی طرح بعض اوقات دورہ ہوجاتا ہے اوروہ ایسا ۱الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۹ مورخہ۲۲؍ اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۱

Page 211

خطرناک اورشدید دورہ ہوتا ہے کہ انسان پاگل ہوجاتا اور آخر کارپی ہی لیتا ہے خواہ پھر ہوش سنبھالنے پر توبہ ہی کرلے.فرمایا.وہ معاصی کا دورہ ہوتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی بات اَنہونی نہیں ہے.جہاں قوتِ ایمانی ہووہاں معاصی ٹھہر ہی نہیں سکتے.صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی کی طرف دیکھا جاوے کہ انہوں نے حرمت کی آیت نازل ہونے کے بعد کیسی چھوڑی کہ پھر اس توبہ کی حالت میں ہی مَر گئے.وہاں تو شراب نے کبھی دورہ نہ کیا اور نہ ہی کسی کو ایسا از خود رفتہ کرلیا کہ وہ مجبور ہوجاتا.حکمِ حرمت کے دن شہر کی گلیوں میں ٹخنوں تک بہہ نکلی.مگر یہ سب کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی اور تاثیر کا نتیجہ تھا کہ صحابہ ؓ کے ایمان ایسے قوی ہوگئے تھے کہ شراب بھی جس کا وہ لوگ پانی کی جگہ استعمال کرتے تھے شرک کی طرح ایسی نابود ہوئی کہ پھر نہ عود کر سکی.آنحضرتؐکو اللہ تعالیٰ نے ابتدا ہی سے کیسا معصوم رکھا تھا کہ باوجود یکہ آ پ کے تمام رشتہ دار اور اقرباء اور ہم قوم اس خبیث چیز کے استعمال میں مستغرق تھے اور آنحضرتؐنے اپنی ابتدائی چالیس سالہ زندگی انہی لوگوں میں بسر کی مگر کسی کا اثر آپؐپر نہ ہوا.گویا روز ازل ہی سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو معصوم بنایا تھا اور یہ آپؐکی فطرت سلیم کی اور عصمت کی ایک خاص دلیل ہے.۱ ۲۲؍اپریل ۱۹۰۸ء احباب جماعت پر نکتہ چینی نامناسب ہے کسی شخص کا یہ اعترض پیش ہو ا کہ احمدیوں نے کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی بات بات پر آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں وغیرہ وغیرہ.فرمایا.ایسے اعتراض باریک در باریک بغض کی وجہ سے ہوتے ہیں.کیا شرک گناہ اور ناپاک زندگی سے توبہ کرنا تبدیلی نہیں ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ جو شخص بیعت کرکے جاتا ہے اس میں ۱الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۰مورخہ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۱

Page 212

تبدیلی ضرور ہوتی ہے.شاذو نادر پر اعتراض کرنا ایمانداری نہیں ہے بلکہ قرآن شریف نے تو نکتہ چینی کرنے سے بھی منع فرمایا ہے.كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ (النسآء:۹۵) یعنی تم بھی تو ایسے ہی تھے.خدا نے تم پر احسان کیا.غور سے دیکھا جاوے تو جوکچھ ترقی اور تبدیلی ہماری جماعت میں پائی جاتی ہے وہ زمانہ بھر میں اس وقت کسی دوسرے میں نہیں ہے.دیکھو! آنحضرتؐکی وفات کے بعد دنیا میں کیسا طوفانِ ارتداد برپا ہوا تھا کہ سوائے چند ایک جگہ کے جماعت بھی نہ ہوتی تھی.معترض کو کوئی خاص عناد اور بغض ہے اور اس نے ظلم کیا ہے اور خواہ مخواہ حملہ کیا ہے ورنہ ان لوگوں کی تبدیلی تو حیرت میں ڈالتی ہے.معترض غیب دان تو ہے نہیں کہ دوسرے کے دل کے خیالات نیک و بد پر اطلاع پاسکے.اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اندر ہی اندر تبدیلی کرتا ہے اور خدا سے ایک خاص خلوص اور تعلق محبت رکھتا ہے.مگر وہ دوسروں کی نظرسے پوشیدہ ہوتا ہے.۱ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۸ء دعا کے نتیجہ میں امراض سے شفا فرمایا کہ بیماریوں میں جہاں قضاء مبرم ہوتی ہے وہاں تو کسی کی پیش ہی نہیں جاتی اور جہاں ایسی نہیں وہاں البتہ بہت سی دعائوں اور توجہ سے اللہ تعالیٰ جواب بھی دے دیتا ہے اوربعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مشابہ بمبرم ہوتی ہے اس کے ٹلا دینے پر بھی خدا قادر ہے.یہ حالت ایسی خطرناک ہوتی ہے کہ تحقیقات بھی کام نہیں دیتی اور ڈاکٹر بھی لاعلاج بتادیتے ہیں مگر خدا کے فضل کی یہ علامت ہوتی ہے کہ بہتر سامان پیدا ہوتے جاویں اور حالت دن بدن اچھی ہوتی جاوے ورنہ بصورت دیگر حالت مریض کی دن بدن ردّی ہوتی جاتی ہے اورسامان ہی کچھ ایسے پیدا ہونے لگتے ہیں کہ مرض بڑھتا گیا ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۰مورخہ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۱ ،۲

Page 213

جوں جوں دواکی.۱ فرمایا.اکثر ایسے مریض جن کے لئے ڈاکٹر بھی فتویٰ دے چکتے ہیں اورکوئی سامان ظاہری زندگی کے نظر نہیں آتے.ان کے واسطے دعا کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو معجزانہ رنگ میں شفا اورزندگی عطا کرتا ہے گویا کہ مُردہ زندہ ہونے والی بات ہوتی ہے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مُردوں کو زندہ کرنا حضرت عیسیٰؑ کے مُردوں کو زندہ کرنے کے جو قصے مشہور ہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میںجھوٹ کی بہت کچھ ملاوٹ کی گئی ہے ورنہ اگر ہزاروں مُردے زندہ ہوجاتے تویہودی کیا بالکل ہی اندھے ہوگئے تھے کہ ایسا کھلا کھلا نشان دیکھ کر بھی کہ جس میں غیب بالکل اٹھ گیا اور گویا کہ خدا خود سامنے نظرآگیا ایسی حالت دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے.کیا وہ ایسے ہی قسی القلب تھے کہ ایمان لانا تودرکنار بلکہ خود حضرت مسیحؑ کو جن کے لئے ایسے ایسے معجزات خدا نے دکھائے کہ گویا آسمان کے کُل پر دے اٹھا دئیے ان کو پکڑ کر سُولی دیا اور ان کے سرپر کانٹوں کا تاج پہنایا.اصل بات یہی ہے کہ زمانہ دراز گذرا ہے.اصل کتاب موجود نہیں.نرے تراجم ہی تراجم رہ گئے ہیں.خداجانے کیا کچھ ان لوگوں نے اپنی طرف سے بڑھایا اور کیا کیا نکال دیا.اس کا علم خداہی کو ہے.فرمایا کہ خدا کے معجزات تو ہوتے ہیں مگر ان سے فائدہ صرف مومن ہی اٹھاتے ہیں.بےایمان لوگ ان سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے اورمحروم ہی رہ جاتے ہیں کیونکہ معجزات میں بھی ایک قسم کا پردہ اور غیب ضرورہوتا ہے.مسیحیت کی ناقص تعلیم کے نتائج مکرمی جناب ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نے ذکر کیا کہ بعض انگریز ان پادریوں سے سخت متنفر ۱ یہ شعر مکرمی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسسٹنٹ سرجن نے پڑھا تھا.اور یہ بھی عرض کیا تھا کہ حضور کا شعر تو یہ ہے کہ ’’مرض گھٹتا گیا جُوں جُوں دوا دی‘‘ (ایڈیٹر)

Page 214

ہوتے ہیں حتی کہ بعض تو گرجوں کی بجائے اس کے کہ ان میں نماز پڑھیں کسی اورمفید کام پر لگالینا بہتر جانتے ہیں.اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ اکثر ایسے کہ وہ تو خدا سے انکار کر بیٹھے ہیں کیونکہ عیسائی ہوکر سب سے پہلی نیکی شراب پینا ہے اورپھر آگے جوں جوں ترقی کرے گا اور اپنے کمال کو پہنچے گا تو کفّارہ پر ایمان لاوے گا اور یقین کرے گا کہ شریعت لعنت ہے اورکہ حضرت مسیحؑ ساری امت کے گناہوں کے بدلے پھانسی پاکر ہمارے گناہوں کا کفّارہ ہووے گا.پھر گناہ کرے گا اور پیٹ بھر کر کرے گا اوراسے کسی کا خوف نہ ہوگا اور خوف ہو تو کیسے ؟کیا مسیح ان کے لئے پھانسی نہیں دیا گیا ؟غرض یہ تو ان کی عملی حالت ہے پھر دنیا کوخدائی کا جو نمونہ دیا گیا تھا وہ ایسا کمزور اورناتواں نکلا کہ تھپڑ کھائے.پھانسی دیا گیا اور دشمنوں کا کچھ نہ کرسکا.پس انہی باتوں سے وہ خداکے بھی منکر ہوگئے ہیں اور وہ لوگ بیچارے ہیں بھی معذور.کیونکہ یہ سب امور فطرتِ انسانی کے بالکل خلاف پڑے ہیں.بھلا کفارہ ایسی بیہودہ تعلیم سے بجزناپاک زندگی کے اورایسے کمزور وناتواں خداکے ماننے سے بجز ذلّت و اِدبار کی مار کے اور حاصل ہی کیا؟ انہوں نے بھی فیصلہ کرلیا کہ ایسے خدا سے ہم یونہی اچھے ہیں.یہ ا ن کا قصور نہیں بلکہ تعلیم کا قصور ہے.آریوں کو دیکھا جاوے تو انہوں نے ذرّہ ذرّہ کو خدابنارکھا ہے.وہ کہتے ہیں کہ ان کے اعمال ہی ان کے سکھ اوردکھ کا باعث ہیں گویا ان کے اعمال ہی ان کا خداہیں.غور کا مقام ہے کہ ذرّاتِ عالَم مع اپنے خواص کے خدا کی طرح ازلی ابدی ہیں تو پھر خدا کو ان پر فضیلت کیسی اورحکم کیسا؟ خواہ مخواہ مداخلت بے جا کرکے ا ن کی آزادی میں تصرّف کرنے کا حق ہی کیا تھا خدا کا؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ وہ زمانہ آگیا ہے کہ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے کہ وَ تَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ يَّمُوْجُ فِيْ بَعْضٍ وَّ نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًا(الکھف:۱۰۰) موجودہ آزادی کی وجہ سے انسانی فطرت نے ہر طرح کے رنگ ظاہر کردیئے ہیں اورتفرقہ اپنے کمال کو پہنچ گیا ہے.گویا ایسا زمانہ ہے کہ ہر شخص کا ایک الگ مذہب ہے.یہی اموردلالت کرتے ہیں کہ اب

Page 215

نفخِ صور کا وقت بھی یہی ہے اور فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًا کی پیشگوئی کے پوراہونے کا یہی زمانہ ہے.۱ ۲۷ ؍اپریل ۱۹۰۸ء بمقام بٹالہ (دوران سفر لاہور ) توحید کی برکت سے مسلمان معاشرہ کی خوبیاں ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور کیا اچھا ہوکہ اگر کوئی ایسی سبیل ہوجاوے کہ مسلمانوں کا باہمی اختلاف اٹھ جاوے اور جس طرح دیگر اقوام میں دنیوی معاملات میں اپنی یکجائی اورمتفقہ کوششوں سے کامیاب ہورہے ہیں مسلمان بھی کم از کم دنیوی معاملات میں تومل کرکام کریں وغیرہ وغیرہ.حضرت اقدسؑ نے فرمایا.خدا تعالیٰ نے تو کہا ہے کہ اختلاف ہمیشہ رہے گا تو پھر انسا ن کون ہے جو اس اختلاف کو مٹانے کی کوشش کرے؟ اصل میں غور سے دیکھا جاوے تو اندرونی اتحاد توانگریزوں میں بھی نہیں ہے.انہی میں سے بعض لوگ تو ایسے ہیں جو حضرت عیسٰیؑ کو نعوذباللہ خدامانتے ہیں.بعض ایسے ہیں جو موحد ہیں وہ ان کو صرف ایک رسول خدا کا یقین کرتے ہیں اور پھر بعض انہی میں ایسے بھی موجود ہیں کہ وہ نہ عیسٰیؑ کو مانتے ہیں نہ خدا کو دہر یہ ہیں.البتہ فرق یہ ہے کہ کسی نے تو درندگی سے اپنے ان عقائد کا اظہار کیا ہے اور بعض نے ذرانرمی سے اظہار کیا ہے.پس جب سب کا اختلاف ہے تو باوجود اس اختلاف کے کسی کی ہاں میں ہاں ملانے کے تویہی معنے ہیں کہ انسان نفاق کاطریق اختیار کرے.مگر اللہ تعالیٰ اس امت کو منافق نہیں بنانا چاہتا بلکہ اللہ تعالیٰ تو نفاق سے ڈراتا ہے اور اس طریق زندگی کو بدترین حالت بیان فرماتا ہے.اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (النّسآء:۱۴۶) کسی پکے مسلمان کی غیرت اورحمیّت یہ کب گواراکرسکتی ہے کہ اپنے معتقدات اورمذہبی مسلّمہ پیارے عقائد کے خلاف سن سکے یا ان کی توہین ہوتے دیکھ سکے یا ایسے لوگوں سے جو اس کے بزرگوں کو جن کو ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۰مورخہ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۲

Page 216

کو وہ دین کا پیشوا یقین کرتا ہے بُرا کہنے والے یا گالیاں دینے والوں سے سچی محبت اوراتفاق رکھ سکے.ہمارے نزدیک توایسا انسان جو بایں ہمہ کسی سے محبت ومودّت رکھتا ہے دنیا کا کتا اور منافق ہے کیونکہ ایک سچے مسلمان کی غیریت یہ چاہ سکتی ہی نہیں کہ وہ نفاق کرتا ہے.ابھی تھوڑا عرصہ گذرا ہے کہ ایک انگریز سیاح امریکہ سے ہمارے پاس آیا تھا ہم نے اس سے سوال کیا کہ آپ لوگ جو اتنی جان توڑ کوششیں کرتے ہوکہ لوگ آپ کا مذہب قبول کرلیں اورساری دنیا کو عیسائی بنانا چاہتے ہیں بھلا آپ یہ تو فرمائیں کہ عیسائی ہوکر آپ لوگوں نے کیا بنایا ہے کہ دوسرے وہ فائدہ اٹھاویں گے.فسق وفجور میں عیسائی قوم نے جوترقی کی ہے وہ کوئی پوشیدہ اَمر نہیں.اکثر حصہ اس قوم کا ایسا ہے کہ خدا سے بھی برگشتہ ہے اور گویا کہ اپنے فعل سے بتارہا ہے کہ خدا کی ان کو ضرورت ہی نہیں پائی جاتی ہے.اب کہیے کہ آپ ایک ایسی قوم کے کس طرح حامی بنتے ہیں جو خود ایسا اقرار کرتے ہیں.آپ کس طرح مسلمانوں سے ایسی خطرناک عادات اورفسق وفجور میں غرق شدہ قوم کی تقلید کرانا چاہتے ہیں جن پر خوف ہے کہ ان کے اعمال بد کی وجہ سے عذاب نازل ہو.خدا تقویٰ طہارت کو چاہتا ہے.ہم مانتے ہیں کہ مسلمان بھی فاسق ہیں، فاجر ہیں، مگر اس قوم کے مقابلہ میں نسبتاً دیکھا جاوے تو صاف معلوم ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کی زندگی ان کے مقابلہ میں ہزار درجہ بہتر ہے.خدا تعالیٰ نے مسلمانوں میں توحید کی برکت سے یہ فسق وفجور اور بے غیرتی پیدا نہیں ہونے دی.خود بعض انگریز مصنفوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ مسلمان قوم دنیا میں غنیمت ہے اورعیسائی اقوام کے مقابلہ میں ان کی زندگی ہزار درجہ بہتر ہے.عیسائی قوم کے واسطے کفارہ کی جو راہ کھلی ہے اس کے ذریعہ سے اس قوم میں کون سا گناہ ہے جوجرأت اوردلیری سے کیا نہیں جاتا؟ اور وہ کون سی بدی ہے جس کے کرنے سے کسی عیسائی کو کوئی روک پیدا ہوسکتی ہے؟ اصل میں کفّارہ کا عقیدہ ہی ان میں ایسا ہے کہ سارے حرام ان کے واسطے حلال ہوگئے ورنہ کفّارہ باطل ہوتا ہے.نورافشاں جو عیسائیوںکا ایک معتبر اخبار ہے اسی میں ایک دفعہ لکھا گیا تھا کہ مسلمانوں میں ان کی

Page 217

عبادت گاہوں اورمساجد میں ایک ادنیٰ مسلمان بادشاہِ وقت کے برابر بلکہ اس کے آگے کھڑا ہوسکتا ہے اوردنیوی ثروت اور جاہ وجلال کا کوئی اثر ان کی مسجدوں میں باقی نظر نہیں آتا حالانکہ عیسائیوں میں ایک خاص یورپ کا عیسائی کبھی دیسی عیسائیوں سے گرجا میں بھی اکٹھا نہیں ہوسکتا حتی کہ ان میں گرجامیں بھی کرسیوں کے درجے موجود ہوتے ہیں.غرض مسلمانوں میںبڑے بڑے برکات ہمیشہ موجود رہتے ہیں اور اب بھی ہیں.آپ ان معاملات میں غور کریں اوراپنے علم کو بڑھا ویں.بغیر معلومات وسیع کے آپ کو ایسا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے کہ عیسائی مسلمانوں سے نیکی، تقویٰ، طہارت میں بڑھے ہوئے ہیں.ہر اَمر میں حکم نسبتاً لگایا جاتا ہے.مسلمان نسبتاً ان سے نیکی میں تقویٰ میں، طہارت میں، خدا ترسی میں بہت آگے بڑھے ہوئے ہیں.باقی رہی یہ بات کہ مسلمانوں میں باہمی اتفاق نہیں ہے سواس کے متعلق تواللہ تعالیٰ کا خود بھی منشا ہے اور اس میں رحمت ہے.البتہ ایک حدتک جب خدا کو منظور ہوگا خود بخود اتفاق اوراتحاد بھی پیدا ہوجاوے گا.مسلمانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہمیشہ شاملِ حال رہا ہے کہ خدا ان کو گرنے کے وقت سنبھال لیتا ہے حالانکہ اور قومیں اس سے محروم ہیں.مشکلات بھی دن اوررات کی طرح ہر قوم کے ساتھ دورہ کرتی ہیں مگر خدا تعالیٰ نے ہمیشہ مسلمانوں کو ایسی اوقات میں تائید غیبی سے سنبھال لیا ہے.جس صلح کے آپ خواہش مند ہیں وہ تو ہمارے خیال میں نفاق ہے اورہم ایسی صلح کے دشمن ہیں.یہ کہنا کہ انگریز قوم بڑی علم دوست ہے کیسی ایک بیہودہ بات ہے.علم بھی ایک طاقت ہے.انسان اس طاقت کے ذریعہ سے ہر ظلمت اور ذلیل عقائد سے بچ جاتا ہے.ان کا علم کیاخاک علم ہے کہ ایک ناتواں کمزور اور ضعیف انسان جو کہ معمولی انسانوں کی طرح ماں کے پیٹ سے قانون قدرت کے موافق پیدا ہوا اور دنیوی سختیوں اورتلخیوں سے بچپنے کے مشکلات برداشت کرتا ہوا آخر یہودیوں کے ہاتھ سے طرح طرح کی ذلتیں سہتا اور ماریں کھاتا ہوا سُولی پر چڑھایا گیا.ایسے ایک انسان کو خدا بنالیا.کیا علم اسی کانام ہے؟ ہاتھی کے دانت کھانے کے اَور دکھانے کے اَور.جب کوئی بادشاہ بنتا ہے تو اس سے قسماً عہد لیا جاتا ہے کہ وہ انجیل کے احکام کی

Page 218

پیروی کرے گا.کیا اسی کا نام ہے کہ انگریز علم دوست ہوتے ہیں؟ سائل نے کہا کہ ہروقت ان کے ہاتھ میں کتاب یا اخبار موجود رہتی ہے.فرمایا.جو شخص علوم حقیقی اورالٰہیات سے بے نصیب محض ہو اس کو علم دوست نہیں کہا جاسکتا.ایمان کا امتحان طلباء کے امتحان کا ذکر ہونے پر فرمایا.عِنْدَ الْاِمْتِحَانِ یُکْرَمُ الْمَرْءُ اَوْیُـھَانُ فرمایا.اصل میں لڑکے بھی معذور ہیں.امتحان کے مشکلات بہت سخت ہوتے ہیں.جب دنیوی امتحانوں کا یہ حال ہے توپھر دینی امتحان کا کیا حال ہے؟ انسان دنیوی امتحان کے واسطے کیا کیا تیاریاں کرتا ہے اورکس قدر فکر اور غم اس کو ہوتا ہے اورکیسی کیسی شاقہ محنت برداشت کرتا ہے؟ بےفکری ہے تو کس سے ؟دینی امتحان سے.نہیں محنت کی جاتی تو کس کے واسطے؟ دین کے امتحان کے واسطے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ (العنکبوت :۳) اللہ تعالیٰ بھی ایک امتحان کی طرف متوجہ کرتا ہے.اس کا بھی کچھ فکر کرنا چاہیے اوراس امتحان کے واسطے بھی کچھ تیاری کرنی ازبس لازمی ہے.دیکھو! ہر صدی کے سرے پر جو ایک مجدّد آتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک امتحان ہی ہوتا ہے.اب اس وقت بھی مسلمانوں کا ایک امتحان ہورہا ہے.خدا نے ایک مامور بھیجا ہے اوراس کے ساتھ ہزاروں زمینی اور آسمانی نشانات اورتائیدات کرکے روشن نشانوں سے دنیا پر ثابت کردیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اب بھی لوگوں کے ایمان کا امتحان ہے.اب بھی یُکْرَمُ الْمَرْءُ اَوْیُـھَانُ کا نظارہ موجود ہے.پس مبارک وہ جوخدائی امتحان کی فکر رکھتے ہیں اورپھر مبارک وہ جو خدائی امتحان میں پاس ہوتے ہیں.خدا کا کلام ٹکڑے ٹکڑے نازل ہوتا ہے پھر اسی شخص نے سوال کیا کہ یہ جو بڑی بڑی سورتیں قرآن شریف میں موجود ہیں کیا یہ یکبارگی نازل ہوگئی تھیں ؟ فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہمیشہ ٹکڑے ٹکڑے نازل ہوتا ہے اور پھر پورا حصہ بن جاتا ہے.

Page 219

ہم اس معاملہ میں صاحبِ تجربہ ہیں.جس طر ح سے اب اترتا ہے اسی طرح پہلے اترتا تھا.اس میں اعتراض کی بات ہی کیا ہے اورخلافِ قانون کس اَمر کو کہا جاتا ہے.خلافِ قانون توجب کوئی کہہ سکتا ہے کہ کوئی اس بات کا دعویٰ کرے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے سارے اسرار کا مطالعہ کرلیا ہے اور سارے قانونِ قدرت کا اس نے احاطہ کرلیا ہے.پھر یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ فلاں اَمر قانونِ قدرت کے خلاف ہے مگر جب خدا کی قدرت کا کوئی انتہا ہی نہیں پاسکا توپھر یہ دعویٰ کیسا؟ ہمارے الہامات کی کتاب تو بنیاد ہی ہے مگر شریعت نہیں ہے.شریعت وہی ہے جو آنحضرتؐلائے اور جو قرآن شریف نے دنیا کو سکھلائی.ایک نقطہ نہ گھٹایا گیا نہ بڑھایا گیا ہے.خدا تعالیٰ اب بھی کلام کرتا ہے خدا جس طرح پہلے دیکھتا تھا اب بھی دیکھتا ہے اسی طرح جس طرح سے پہلے کلام کرتا تھا اب بھی صفتِ تکلّم اس میں موجود ہے.یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اب خدا کلام نہیں کرتا.کیا خیال کیا جاسکتا ہے کہ پہلے تو خدا سنتا تھا مگر اب نہیں سنتا.پس اللہ تعالیٰ کے تما م صفات جو پہلے موجود تھے اب بھی اس میں پائے جاتے ہیں.خدا میں تغیر نہیں.شریعت چونکہ تکمیل پاچکی ہے.لہٰذا اب کسی نئی شریعت کی ضرورت نہیں ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المآئدۃ :۴)پس اکمالِ دین کے بعد اور کسی نئی شریعت کی حاجت نہیں.فراست فرمایا.خدا جس کو حکومت دیتا ہے اسے فراست بھی عطا فرماتا ہے بشر طیکہ وہ خود اپنے اس پاک جوہر کو شرارت یا تعصب کی کدورت سے مکدرنہ کردے.نیک طبع حکام کو اللہ تعالیٰ تائید غیبی سے بعض ایسے امور میں جن میں حق وباطل پوشیدہ ہوتا ہے حق ظاہر کردیتا ہے اورفراستِ صحیحہ سے وہ اس اَمر کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں.پھر ان کو اوردلائل کی بھی ضرورت نہیں رہتی.ہمارے اس مقدمہ کی حالت جوڈگلس کے سامنے پیش ہوا تھا اس میں غور کرنے والے کے

Page 220

واسطے کئی نشان موجود ہیں.اصل بات یہ ہے کہ فراست اچھی چیز ہے.انسان اندر ہی اندر سمجھ جاتا ہے کہ یہ سچا ہے.سچ میں ایک جرأت اوردلیری ہوتی ہے.جھوٹا انسان بزدل ہوتا ہے.وہ جس کی زندگی ناپاکی اور گندہ گناہوں سے ملوث ہے وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے اورمقابلہ نہیں کرسکتا.ایک صادق انسان کی طرح دلیری اور جرأت سے اپنی صداقت کا اظہار نہیں کرسکتا اوراپنی پاکدامنی کاثبوت نہیں دے سکتا.دنیوی معاملات میں ہی غور کرکے دیکھ لو کہ کون ہے جس کو ذرا سی بھی خدا نے خوش حیثیتی عطا کی ہو اوراس کے حاسد نہ ہوں.ہر خوش حیثیت کے حاسد ضرور ہو جاتے ہیں اورساتھ ہی لگے رہتے ہیں.یہی حال دینی امور کا ہے.شیطان بھی اصلاح کا دشمن ہے.پس انسان کو چاہیے کہ اپنا حساب صاف رکھے اورخدا سے معاملہ درست رکھے.خدا کو راضی کرے.پھر کسی سے نہ خوف کھائے اور کسی کی پروا نہ کرے.ایسے معاملات سے پرہیز کرے جن سے خود ہی مورد عتاب ہوجاوے مگر یہ سب کچھ بھی تائید غیبی اور توفیق الٰہی کے سوانہیں ہوسکتا.صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خدا کا فضل بھی شاملِ حال نہ ہو.خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا (النّسآء :۲۹)انسان ناتواں ہے.غلطیوں سے پُرہے.مشکلات چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں.پس دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کی توفیق عطا کرے اور تائیداتِ غیبی اور فضل کے فیضان کا وارث بنادے.توکّل اصل میں توکّل ہی ایک ایسی چیز ہے کہ انسان کو کامیاب وبامراد بنادیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ(الطّلاق :۴)جو اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتا ہے اللہ اس کو کافی ہوجاتا ہے بشر طیکہ سچے دل سے توکل کے اصلی مفہوم کو سمجھ کر صدق دل سے قدم رکھنے والا ہو اورصبر کرنے والا اور مستقل مزاج ہو.مشکلات سے ڈر کر پیچھے نہ ہٹ جاوے.دنیا گذشتنی اورگذاشتنی ہے اور اس کے کام بھی ایسے ہی ہیں.پس انسان کو لازم ہے کہ اس کا غم کم کرے اورآخرت کا فکر زیادہ رکھے.اگر دین کے غم انسان پر غالب آجاویں تو دنیا کے کاروبار کا خود خدا متکفّل ہوجاتا ہے.

Page 221

عذاب نازل ہونے سے پہلے توبہ کرنی چاہیے افسوس ہے بڑے بڑے حوادث روزہو رہے ہیں مگر لوگ ہیں کہ توجہ نہیں کرتے.پروا نہیں کرتے.حضرت موسٰی کے کافر ہی اچھے تھے کہ جب ان پرعذاب نازل ہوتے تھے تب تو توجہ کرتے تھے اورکہتے تھے کہ اگر یہ ٹل جاوے تومان لیں گے.مگر آجکل کے کافر ان سے بھی زیادہ سخت جان ہیں کہ نت نئے عذاب آتے ہیں.نئی نئی صورت میں خدا کا قہر نازل ہوتا ہے مگر یہ ہیں کہ کان پر جُوں نہیں چلتی.دیکھو ایک طاعون نے ہی کیسے کیسے خطرناک حملے کئے.کیسی کیسی جانگداز تباہیاں واقع ہوئی ہیں کہ ان کا ذکر سننے سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں مگر کسی پر اثر نہیں ہوا.وہ لوگ تھے کہ ایسے اوقات میںحضرت موسٰی سے دعا کرایا کرتے تھے مگر یہ لوگ ہیں کہ کہتے ہیں کوئی نہیں معمولی بات ہے ایسا ہواہی کرتا ہے اورایسے عذاب آیا ہی کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا قدیم سے یہ وعدہ تھا کہ آخر ی زمانہ میں طرح طرح کے عذاب آویں گے اس وقت بعض ہدایت پاجاویں گے اوراکثر ہلاک ہوں گے.نشان تو خدادکھاتا ہے مگر نشان سے بھی فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جو مومن ہوتے ہیں اور وہ قلیل ہیں.ایک شخص ہمارے پاس آیاتھا.اس نے ذکر کیا کہ ہمارے شہر میں طاعون نے سخت تباہی ڈالی ہے.بہت لوگ تیار ہیں کہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر توبہ کریں اور اصل بات یہی ہے کہ مجھے بھی طاعون ہی حضور کے پاس لائی ہے.اس سال طاعون کسی قدر کم ہے اس وجہ سے دل بھی سخت ہیں.دلیر ہیں.مگر کسی کو علم کیا ہے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے ؟پس مطمئن نہیں رہنا چاہیے اورقبل اس کے کہ عذاب نازل ہوجاوے توبہ کرنی چاہیے اور خدا کی طرف جھکنا اورحفاظت طلب کرنی چاہیے مگر یہ سب کچھ توفیق سے ہوسکتا ہے.انسان کو بعض اوقات شیطان بڑے بڑے وسوسے پیدا کردیتا ہے.میرے رشتے ناطے ٹوٹ جاویں گے میرے جاہ و عزت میں فرق آجاوے گا یا وجوہ معاش بند ہوجاویں گے یا میرے حکام مجھ سے ناراض ہوجاویں گے مگر یاد رکھو کہ ہدایت کے قبول کرنے سے یہ

Page 222

سب امور روکتے نہیں.گورنمنٹ کو توکسی کے مذہب سے کچھ سروکار ہی نہیں اورپھر خدا کا فضل ہے کہ ہمارے اصول ہی ایسے ہی نہیں کہ گورنمنٹ ان سے ناراض ہو.باقی رہی یہ بات کہ رشتے ناطے ٹوٹ جاویں گے یا معاش میں فرق آجاوے گا سویاد رکھنا چاہیے کہ انسان جب خدا کے واسطے کچھ چھوڑتا ہے اوراپنے اوپر مشکلات برداشت کرتا ہے تو خدا اس کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ہر حال میں اس کا خود مددگار اورکارساز ہوجاتا ہے.۱ ۲۹؍اپریل ۱۹۰۸ء اہل اَمر تسر کی عقیدت مندی اور اخلاص ۲۹؍اپریل ۱۹۰۸ء کو جبکہ بٹالہ سے لاہور کو جانے والی ٹرین اسٹیشن امرت سر پر پہنچی جس میں حضرت اقدس خلیفۃ اللہ فی حلل الانبیاء علیہ الف الف صلوٰۃ وسلام رونق افروز تھے اورمخلصین جماعت احمدیہ امر تسر صدق اور عقیدت مندی کا ایک نہ رکنے والا جوش اوراپنے آقا ومولا کی زیارت کے واسطے شوق بھرے دل لئے ہوئے پہلے ہی سے سٹیشن پر موجود تھے.ٹرین کے کھڑا ہوتے ہی تمام عقیدت مندان مخلص آگے بڑھ بڑھ کر سعادت مصافحہ اور شرف حضوری حاصل کرتے تھے.ہر کوئی یہی چاہتا تھا کہ میں آگے بڑھوں اور ان کے دلوں کا شوق عقیدت ان کے چہروں سے نمایاں تھا.جذب جو خاصہءِ خاصانِ خدااور علامت بندگان عالی ہوتی ہے اوروہ خدا کی طرف سے آنے والوں کو بطور نشان کے عطا ہوتا ہے اس کا یہ عالم تھا کہ سٹیشن بھر کے جس انسان کے کان میں آپ کانام پہنچا اسی کے دل میں شوقِ زیارت نے گدگدی کی اوروہ بے تحاشا بھاگا چلا آیا.وہ سلامتی کا شہزادہ اورمحبوب خدا سیکنڈ کلاس ڈیپارٹمنٹ۲ میں متمکن تھا.جلال و شوکت اور رعب ووقار، شہادت صداقت اداکرنے ۱الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۱ مورخہ ۶؍مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۱تا ۳ ۲ نقل مطابق اصل ہے یہ لفظ غالباً کمپارٹمنٹ ہوگا.(مرتّب)

Page 223

کے واسطے حضوری میں حاضر کھڑے تھے.لوگ آتے اورزیارت کرکر کے چلے جاتے تھے.اہلِ ہنود اور سکھ صاحبان اپنے طرز میں اور مسلمان اپنے طریق سے سلام ونیاز عرض کرتے تھے.پلیٹ فارم کی جانب پلیٹ فارم پر اورگاڑی کے دوسرے پہلو سے لوگ پائیدانوں پر کھڑے کھڑکیوں میں سے حضور پُر نور کی صورت دیکھنے کے واسطے شوق سے جھانکتے تھے.سیری کسی کو نہ ہوتی تھی.اتنے میں ایک مسلمان صاحب معہ چند آدمیوں کے تشریف لائے.حضرت اقدس نے ان کو گاڑی کے اندر بلاکر اپنے پاس بٹھا لیا اور ان کے سوال پر ان کو یوں مخاطب فرمایا.وفات وحیاتِ مسیح میںقرآن کریم سے فیصلہ لینا چاہیے خدا کی شہادت سب سے پہلے زیادہ معتبر ہے خدا کاپاک کلام قرآن شریف ہمارے پاس موجود ہے.مسائل مختلفہ میں فیصلہ کرنے اور حق پانے کے واسطے مسلمانوں کو اوّل قرآن شریف ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیاتِ ابدی کی کوئی دلیل اگر ان کے پاس ہے تو ان کو چاہیے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت پیش کریں.مگر قرآن شریف میں جب ہم اس غرض کے لئے غور کرتے ہیں تو ہمیں تو ان کے حق میں خدا کا یہی کلام ملتا ہے کہ اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ ( اٰل عـمران:۵۶) فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ (المآئدۃ :۱۱۸) اب جائے غور ہے کہ آیا یہ لفظ قرآن شریف میں کسی اور نبی کے حق میں بھی آیا ہے یا کہ نہیں ؟سو ہم صاف پاتے ہیں کہ اورانبیاء اورہمارے سید ومولیٰ محمد مجتبیٰ احمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی یہی لفظ تَوَفّی کا استعمال ہوا ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ۠ ( یونس:۴۷) اورپھر حضرت یوسف علیہ السلام کے حق میں بھی یہی لفظ نظر آتا ہے تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ (یوسف:۱۰۲) اب ہم پوچھتے ہیں کہ ہمیں کوئی اس خصوصیت کی وجہ تو بتادے کہ کیوں یہ لفظ اور انبیاء پر تو موت کے معنوں میں وارد ہوتا ہے اورکیوں حضرت عیسٰیؑ کے حق میں آوے تولفظ کی یہ خاصیت بدل جاتی ہے اوریہ لفظ موت کے معنے نہیں دیتا؟ ان کو چاہیے کہ تعصب کو الگ کرکے ایک گھڑی بھرکے لئے حق جُو ہوکر اس میں غورکریں.

Page 224

گالیاں دینا تو ان لوگوں کا ایک فرض ہوچکا ہے سودے لیں.مگر اب ہمیں شوق ہے تو صرف یہی کہ آیا تقویٰ اورخشیتِ الٰہی کو مدّ نظر رکھ کر اس فرقہ کے منہ سے کوئی علمی بات بھی نکلتی ہے؟ مگرافسوس یہ بات کبھی پوری نہ ہوئی.جو حق پر ہوتا ہے اس کے ساتھ خدا کی تائید اورنصرت ،اس کے کلام میں قوت اورشوکت اور اس کے انفاس میں ایک جذب ہوتا ہے.فرمایا.حیات کا مسئلہ ان کو مبارک نہ ہوا کیونکہ ان میں سے بہت سے حیات حیات ہی پکارتے بصد حسرت وارمان گذر گئے مگر حیاتِ مسیحؑ نے ان کی کوئی مدد نہ کی.اتنے میں گھنٹی بجی.وسل ہوا.اورگاڑی لاہور کو چل دی.۱ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۸ء (بمقام لاہور.احمدیہ بلڈنگز) موجود ہ مسلمانوں کی حالت فرمایا.صدق وصفا، تقویٰ طہارت، یہ اسلام کے برکات تھے جو کہ مسلمانوں میں لازماًپائے جاتے ہیں مگر اب تو ان صفات سے لوگ بکلّی محروم ہوگئے ہیں.نماز بھی پڑھتے ہیں تو بہت ہی کم.مسجدیں ویران پڑی ہیں.نمازی کوئی نظرنہیں آتا.ایک وقت تھا کہ نمازیوں کو مسجدیں نہ ملتی تھیں.جتنے پڑھتے ہیں ان میں بھی اکثر دکھلاوے کی نماز پڑھتے ہیں کیونکہ حقیقی نماز کے آثار برکات اور ثمرات سے محروم ہیں عیسائی توحضرت مسیحؑ کو پھانسی دے کر بے فکر ہو بیٹھے تھے مگر اکثر مسلمان حضرت امام حسینؓ کی شہادت میں نجات پاچکے ہیں.شہوات کی آگ بجھانے کا ذریعہ فرمایا.جسمانی شہوات کے دلدل میں سے نکلنا ہی مشکل ہوتا ہے اگر اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کے واسطے مقدر کیا ہو تا ہے کہ اسے سعادت میں سے کوئی حصہ عطافرماوے تو اس کے واسطے کوئی ایسا عجوبہ اور خارقِ عادت نشان یا اپنی کوئی دل کو پکڑ لینے والی تجلّی دکھادیتا ہے بجز اس کے دلوں کی گندگی دھوئی

Page 225

نہیں جاتی اور شہوات کی آگ بجھائی نہیں جاتی.غفلت اوربے باکی کے آثار فرمایا.جس قدر کسی کو دنیا کے سامانِ عیش وعشرت کثرت سے دیئے جاتے ہیں اسی قدر وہ خدا سے غافل اور بے پروا ہوکر متکبر ہوجاتے ہیںا ور اسی قدر اس کا تکبر بڑھ جاتا ہے.امرتسر میں ہمیں پتھر مارے گئے.سیالکوٹ میں ہمارے ساتھ کیا بُرا سلوک کیا گیا.یہ سب غفلت اوربے باکی ہی کے آثارہیں.ایک خدائی وعدہ فرمایا.خدا نے ہمیں ایک پکا وعدہ دیا ہوا ہے.اس میں ذرابھی شک نہیں اور وہ یہ ہے کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ‘‘ اس الہام کے بعد وہ بادشاہ بھی دکھائے گئے تھے.مسیحؑ کے مَرنے میں اسلام کی زندگی ہے فرمایا.مسلمانوں کی خوش قسمتی ہی اسی میں ہے کہ مسیحؑ مَرجائے.اب زمانہ ہی ایسا آگیا ہے کہ خیال تبدیل ہوتے ہیں.کچھ مان جائیں گے کچھ مَرجائیں گے.باقی ایسے ضعیف ہوجائیں گے کہ ان کو طاقت ہی نہ رہے گی اور ان کا عدم وجود برابر ہوگا.پس مسیح کو مَرنے دوکہ اسلام کی زندگی اسی میں ہے.فروتنی کرنے والا خدا کا محبوب ہوتا ہے فرمایا.متکبّر خدا کے تخت پر بیٹھنا چاہتا ہے پس اس قبیح خصلت سے ہمیشہ پناہ مانگو.خدا تعالیٰ کے تمام وعدے بھی خواہ تمہارے ساتھ ہوں مگر تم جب بھی فروتنی کرو کیونکہ فروتنی کرنے والا ہی خدا کا محبوب ہوتا ہے.دیکھو! ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابیاں اگر چہ ایسی تھیں کہ تمام انبیائے سابقین میں اس کی نظیر نہیں ملتی.مگر آپؐکو خدا تعالیٰ نے جیسی جیسی کامیابیاں عطا کیں آپ اتنی ہی فروتنی اختیار کرتے گئے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص حضورؐ کے حضور پکڑ کر لایا گیا.آپ نے دیکھا تو وہ بہت کانپتا تھا

Page 226

اورخوف کھاتا تھا مگر جب وہ قریب آیا توآپؐنے نہایت نرمی اور لُطف سے دریافت فرمایا کہ تم ایسے ڈرتے کیوں ہو ؟آخر میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہی ہوں اور ایک بڑھیا کا فرزند ہوں.خدا تعالیٰ کی حکمتوں کو کوئی نہیں پاسکتا فرمایا.جب بات حد سے بڑھ جاتی ہے تو فیصلہ کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے.ہمیں چھبیس سال ہوئے تبلیغ کرتے اورجہاں تک ممکن تھا ہم ساری تبلیغ کرچکے ہیں اب وہ خود ہی کوئی ہاتھ دکھلاوے اورفیصلہ کرے گا.پس جس نے یہ شرط کرلی ہو کہ میں نے تو اس شخص کو ماننا ہی نہیں خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو اوراس کا غبار حد سے بڑھ گیا ہو تو اس کا حال خدا ہی کے سپر د ہے اس کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے.خدا کی حکمتوں کو کوئی نہیں پاسکتا.یہ خدائی تصرفات ہیں جس کو چاہے اپنی طرف کھینچ لے اور جس کو چاہے ردّ کردے.دیکھو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود دنیا کے واسطے رحمت تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (الانبیآء :۱۰۸) مگر کیا ابوجہل کے واسطے بھی آپؐرحمت ہوئے؟ وہ لوگ تو خیال کرتے ہوں گے کہ ابھی یہ ایک یتیم بچہ تھا.بکریاں چرایا کرتا تھا.کمزور اور غریب تھا.نکاح تک بھی تومیسر نہ آیا.غرض کچھ ایسے ہی خیالات ان کے دل میں آتے ہوں گے مگر ان بدقسمتوں کو کیا خبر تھی کہ ایک دن یہی یتیم دنیا کا شہنشاہ اورنجات دہندہ ہوگا.۱ یکم مئی ۱۹۰۸ء خدا کی طرف آنے والا کبھی ضائع نہیں ہوتا نماز جمعہ سے پہلے جبکہ چند اجنبی آپ کی ملاقات کے واسطے آئے.فرمایا.ہمیں تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آجکل اسلام کی خوش قسمتی نہیں بلکہ بدقسمتی کے دن ہیں ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۹،۵۰ مورخہ ۲۶،۳۰ ؍اگست ۱۹۰۸ء صفحہ ۳

Page 227

کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کو دینی امور سے کوئی دلچسپی نہیں.بلکہ لوگ خدا کو بھی بھول چکے ہیں.مسلمانوں کی یہ ایک غلطی ہے جو شاید غرغرے کے وقت ان کو معلوم ہوجائے گی اورلوگ اس وقت یقین کریں گے کہ واقعی ہم نے جو کچھ سمجھا ہواتھا وہ سارا تانا بانا ہی غلط تھا.جو انسان کوشش کرے گا وہی پائے گا.کوشش توہو ساری دنیا کے واسطے اورخدا کانام درمیان بھولے سے بھی نہ آئے.تقویٰ ہو نہ طہارت.پھر ایسا انسان امیدوار ہوخدا کے ملنے کا، یہ محال ہے.آخراب وقت آگیا ہے کہ ان لوگوں کے ہاتھ میں اجر دیا جاوے جو دین کو دنیا پر مقدم کریں.بجز توفیق الٰہی کے کچھ نہیں ملتا.دیکھو! نبی کریمؐ نے دنیا کو خدا کے لئے ترک کردیا تھا مگر خدا نے کس طرح ذلیل کرکے دنیا کو آپؐکے سامنے غلاموں کی طرح حاضر کردیا.دنیا طلب سے بھاگتی اور کوسوں دورجاتی ہے مگر جو صدق دل سے خدا کی طرف جاتاہے اورخدا کی راہ میں دنیا کی کچھ پروا نہیں کرتا دنیا اس کے پیچھے پیچھے پھرتی ہے.دیکھو! حضرت مسیحؑ کو اس وقت چالیس کروڑ انسان پوجنے والا موجود ہے.نبی ماننا تو درکنار اس کی خدائی کے قائل ہیں.یہ سب خدا کی قدرت کے نمونے ہیں کہ خدا کی طرف آنے والا کبھی ضائع نہیں کیا جاتا دین بھی اسے ملتا ہے اوردنیا بھی اس کے لئے حاضر کی جاتی ہے.دنیا کا پرستار چند روز جو چاہے سوکرے مگر آخر کار دنیا بھی چھوٹ جائے گی اور آخر ت بھی برباد.دیکھو! دنیا بھی آخر مفت تو نہیں مل جاتی.دنیا کے وعدے دینے والے بھی تو محنتیں چاہتے ہیں.امتحان لیتے ہیں.بصورت کامیابی اورپھر عمدہ کارگذاری سے کچھ ملتا ہے.اسی طرح اگر وہی محنت دوسرے رنگ میں خدا کے واسطے کی جاوے تو اجر یقینی ہیں.نہ دین جاوے اور نہ دنیا.بلکہ بیک کرشمہ دوکار والی بات.نالے حج نالے ونج کا معاملہ ہوجاوے مگر کم ہیں جو ان باتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں.انسان کو چاہیے کہ دعامیں لگا رہے اور کسی قدر تبدیلی اپنے اندر پیداکرنے کی کوشش کرے.شاید ہے کہ اللہ تعالیٰ توفیق دیدے.ہم یہ نہیں کہتے کہ زراعت والا زراعت کو اورتجارت والا تجارت کو،ملازمت والا ملازمت کو

Page 228

اور صنعت وحرفت والا اپنے کاروبار کو ترک کردے اور ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ جائے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ لَا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ (النّور:۳۸) والا معاملہ ہو.دست باکار دل بایار والی بات ہو.تاجر اپنے کاروبار تجارت میں اورزمیندار اپنے امور زراعت میں اوربادشاہ اپنے تخت حکومت پر بیٹھ کر، غرض جو جس کام میں ہے اپنے کاموں میں خدا کو نصب العین رکھے اور اس کی عظمت اورجبروت کو پیش نظر رکھ کر اس کے احکام اور اَمر و نواہی کا لحاظ رکھتے ہوئے جو چاہے کرے.اللہ سے ڈر اور سب کچھ کر.اسلام کہاں ایسی تعلیم دیتا ہے کہ تم کاروبار چھوڑ کر لنگڑے لولوں کی طرح نکمے بیٹھے رہو اوربجائے اس کے کہ اَوروں کی خدمت کرو خود دوسروں پر بوجھ بنو.نہیں بلکہ سست ہونا گناہ ہے.بھلا ایسا آدمی پھر خدا اوراس کے دین کی کیا خدمت کرسکے گا.عیال واطفال جو خدا نے اس کے ذمے لگائے ہیں ان کو کہاں سے کھلائے گا؟ پس یاد رکھو کہ خدا کا یہ ہرگز منشا نہیں کہ تم دنیا کو بالکل ترک کردو.بلکہ اس کو جو منشا ہے وہ یہ ہے کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشّمس:۱۰)تجارت کرو، زراعت کرو، ملازمت کرو اورحرفت کرو، جو چاہو کرو مگر نفس کو خدائی نافرمانی سے روکتے رہو اور ایسا تزکیہ کرو کہ یہ امور تمہیں خدا سے غافل نہ کردیں پھر جو تمہاری دنیا ہے وہ بھی دین کے حکم میں آجاوے گی.انسان دنیا کے واسطے پیدا نہیں کیا گیا.دل پاک ہواور ہر وقت یہ لَو اور تڑپ لگی ہوئی ہو کسی طرح خدا خوش ہوجائے توپھر دنیا بھی اس کے واسطے حلال ہے.اِنَّـمَا الْاَعْـمَالُ بِالنِّیَّاتِ.۱ (بعد نماز جمعہ ) مسیح موعود ؑ کو ماننے کی ضرورت سوال کیا گیا کہ ہم اللہ اوراس کی کتاب قرآن شریف اوراس کے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو صدقِ دل سے مانتے ہیں اورنماز روزہ وغیرہ اعمال بھی بجالاتے ہیں.پھر ہمیں کیا ضرورت ہے کہ آپ کو بھی مانیں؟ ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۹،۵۰ مورخہ ۲۶،۳۰ ؍اگست ۱۹۰۸ء صفحہ ۳ ، ۴

Page 229

فرمایا.دیکھو! جس طرح جو شخص اللہ اوراس کے رسول اورکتاب کو ماننے کا دعویٰ کرکے ان کے احکام کی تفصیلات مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، تقویٰ طہارت کو بجانہ لاو ے اوران احکام کو جو تزکیہ نفس، ترک شر اور حصول خیر کے متعلق نافذ ہوئے ہیں چھوڑ دے وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہے اور اس پر ایمان کے زیور سے آراستہ ہونے کا اطلاق صادق نہیں آسکتا.اسی طرح سے جو شخص مسیح موعودؑ کو نہیں مانتا یا ماننے کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ بھی حقیقت اسلام اورغایت نبوت اور غرضِ رسالت سے بے خبر محض ہے اور وہ اس بات کا حقدار نہیں ہے کہ اس کو سچا مسلمان، خدااوراس کے رسول کا سچا تابعدار اورفرمانبردار کہہ سکیں کیونکہ جس طرح سے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے قرآن شریف میں اور احکام دئیے ہیں اسی طرح سے آخری زمانہ میں ایک آخری خلیفہ کے آنے کی پیشگوئی بھی بڑے زورسے بیان فرمائی ہے اور اس کے نہ ماننے والے اور اس سے انحراف کرنے والوں کا نام فاسق رکھا ہے.قرآن اورحدیث کے الفاظ میں فرق (جوکہ فرق نہیں بلکہ بالفاظ دیگر قرآن شریف کے الفاظ کی تفسیر ہے )صرف یہ ہے کہ قرآن شریف میں خلیفہ کا لفظ بولا گیا ہے اور حدیث میں اسی خلیفہ آخری کو مسیح موعودؑ کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے.پس قرآن شریف نے جس شخص کے مبعوث کرنے کے متعلق وعدے کا لفظ بولا ہے اور اس طرح سے اس شخص کی بعث کو ایک رنگ کی عظمت عطا کی ہے.وہ مسلمان کیسا ہے جو کہتا ہے کہ ہمیں اس کے ماننے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ خلفاء کے آنے کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک لمبا کیا ہے اوراسلام میں یہ ایک شرف اور خصوصیت ہے کہ اس کی تائیداورتجدید کے واسطے ہر صدی پر مجدّد آتے رہے اورآتے رہیں گے.دیکھو! اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تشبیہ دی ہے جیسا کہ کَمَا کے لفظ سے ثابت ہوتا ہے.شریعتِ موسویؑ کے آخری خلیفہ حضرت عیسٰیؑ تھے جیسا کہ خود وہ فرماتے ہیں کہ میں آخری اینٹ ہوں اسی طرح شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اس کی خدمت اورتجدید کے واسطے ہمیشہ خلفاء آئے اورقیامت تک آتے رہیں گے اوراس طرح سے آخری خلیفہ کا نام بلحاظ

Page 230

مشابہت اوربلحاظ مفوضہ خدمت کے مسیح موعودؑ رکھا گیا.اورپھر یہی نہیں کہ معمولی طور سے اس کا ذکر ہی کردیا ہو بلکہ اس کے آنے کے نشانات تفصیلاً کل کتبِ سماوی میں بیان فرمادئیے ہیں.بائبل میں، انجیل میں، احادیث میں اور خود قرآن شریف میں اس کی آمد کی نشانیاں دی گئی ہیں اور ساری قومیں یہودی، عیسائی اورمسلمان متفق طورسے اس کی آمد کے قائل اورمنتظر ہیں پس ایسا ایک شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عظمت دی اور جس کی آمد کی ساری قومیں متفق طور سے منتظر ہیں اس کا انکار کردینا یہ کس طرح سے اسلام ہوسکتا ہے؟ اورپھر جبکہ وہ ایک ایسا شخص ہے کہ اس کے واسطے آسمان پر بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی تائید میں نشان ظاہر کئے اورزمین پر بھی معجزات دکھائے.اس کی تائید کے واسطے طاعون آیا اور کسوف خسوف اپنے مقررہ وقت پر بموجب پیشگوئی عین وقت پر ظاہر ہوگیا.تو کیا ایسا شخص جس کی تائید کے واسطے آسمان نشان ظاہر کرے اور زمین اَلْوَقْت کہے وہ کوئی معمولی شخص ہوسکتا ہے کہ اس کا ماننا اورنہ ماننا برابر ہو اورلوگ اسے نہ مان کر بھی مسلمان اور خدا کے پیارے بندے بنے رہیں ؟ہرگزنہیں.یاد رکھو کہ موعودؑ کے آنے کے کُل علامات پورے ہوگئے ہیں.طرح طرح کے مفاسد نے دنیا کو گندہ کردیا ہے خود مسلمان علماء اوراکثر اولیا ء نے مسیح موعودؑ کے آنے کا یہی زمانہ لکھاہے کہ وہ چودھویں صدی میں آئے گا.حجج الکرامہ میں بھی اسی چودھویں صدی کے متعلق لکھا ہے اور کوئی بھی نہیں جو اس صدی سے آگے بڑھا ہو.تیرھویں صدی سے تو جانوروں نے بھی پناہ مانگی تھی اورلکھا ہے کہ اب چودھویں صدی مبارک ہوگی.اس قدر متفقہ شہادت کے بعد بھی جو کہ اولیاء اوراکثر علماء نے بیان کی.اگر کوئی شبہ رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ قرآن شریف میں تدبّر کرے اورسورۃ النّور کو غور سے مطالعہ کرے.دیکھو! جس طرح حضرت موسٰی سے چودہ سو برس بعد حضرت عیسیٰ آئے تھے اسی طرح پر یہاں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودہویں صدی ہی میں مسیح موعود آیا ہے اور جس طرح حضرت عیسیٰؑ سلسلہ موسوی کے خاتم الخلفاء تھے.اسی طرح ادھر بھی مسیح موعودؑ خاتم الخلفاء ہوگا.اسلام اس وقت اس بیمار کی طرح تھا جس کی زندگی کا جام لبریز ہوچکا ہو.اسلام پر ظلم کیا گیا

Page 231

اور بڑی بے رحمی سے دشمن چاروں طرف سے اپنے پورے ہتھیاروں سے اس کو نیست ونابود کرنے کے واسطے مسلّح وتیار ہوکر حملہ آور ہو رہے ہیں.اسلام اس وقت مُردہ ہوچکا تھا اوراندرونی اور بیرونی حملوں سے نیم جان.اسلام کی شمع کا اب آخر ی وقت تھا اوراس کی گردن پر بڑی بے رحمی سے چُھری پھیری جارہی تھی.اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الـحجر:۱۰) کس وقت کے لئے کیا گیا تھا ؟ کیا ابھی کوئی اور مصیبت بھی رہ گئی تھی جو اسلام پر آنی باقی ہو؟ یادرکھو! حفاظت سے اوراق کی حفاظت ہی مُراد نہیں بلکہ اس کی تشریح ایک حدیث میں ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آوے گا کہ قرآن شریف دنیا سے اٹھ جاوے گا.ایک صحابیؓنے عرض کیا کہ لوگ قرآن کو پڑھتے ہوں گے تو اٹھ کیسے جاوے گا ؟ فرمایا میں تو تمہیںعقلمند خیال کرتا تھا مگر تم بڑے بیوقوف ہو.کیا عیسائی انجیل نہیں پڑھتے؟ اور کیا یہودی توریت نہیں پڑھتے؟ قرآن کے اٹھ جانے سے مُراد یہ ہے کہ قرآن شریف کا علم اٹھ جاوے گا اور ہدایت دنیا سے نابود ہوجاوے گی.انوار اوراسرار قرآنیہ سے لوگ بے بہرہ ہوجاویں گے اورعمل کوئی نہ کرے گا.قرآن جس کے سکھانے کو آیا ہے لوگ اس راہ کو ترک کردیں گے اوراپنی ہواوہوس کے پابند ہو جاویں گے.جب یہ حال ہوگا تو ابنائے فارس میں سے ایک شخص آوے گا اور وہ دین کو از سرنَوواپس لائے گا اور دین کو اورقرآن کو ازسر نَوتازہ کرے گا.قرآن کی کھوئی ہوئی عظمت اوربھولی ہوئی ہدایت اورثر یا پرچڑھ گیا ہوا ایمان دوبارہ دنیا میں پھیلاوے گا.لَوْکَانَ الْاِیْـمَانُ عِنْدَالثُّـرَیَّا لَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ اَبْنَاءِ فَارِس.غرض قرآن شریف سے اوراحادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس امت میں آخری زمانہ میں ایک خلیفہ کے آنے کا وعدہ دیا گیا ہے اوراس کے علامات اورنشانات بھی بتا دیئے گئے ہیں.ہمیں مسیح موعودؑ ہونے کا دعویٰ ہے.اب ہر شخص کا جو خدا اور رسول سے پیارکرتا ہے اوراپنے ایمان کو سلامت رکھنا چاہتا ہے فرض ہے کہ اس معاملہ میں غورکرے کہ آیا ہم نے جو دعویٰ کیا ہے بجا ہے کہ جھوٹا.خدا کی طرف سے آنے والوں کے ساتھ خدائی نشان ہوتے ہیں.

Page 232

صرف نرازبانی دعویٰ قابل پذیرائی نہیں ہوتا.منجملہ اورعلامات کے جو ہمارے آنے کے واسطے اللہ اور رسول کی کتابوں میں مندرج ہیں ایک اونٹوں کی سواریوں کا معطل ہوجانا بھی ہے.چنانچہ اس مضمون کو قرآن شریف نے بالفاظ ذیل تعبیر کیا ہےوَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ(التکویر:۵) اورحدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس مضمون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ وَلَیُتْـرَکُنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْـھَا.اب سوچنے والے کو چاہیے کہ ان امور میں جو آج سے تیرہ ۱۳۰۰سوبرس پیشتر خدااوراس کے رسول کے منہ سے نکلے اوراس وقت وہ الفاظ بڑی شان اورشوکت سے پورے ہوکر اپنے کہنے والوں کے جلال کا اظہار کررہے ہیں.دیکھئے! اب اس پیشگوئی کے پوراہونے کے کیسے کیسے سامان پیدا ہورہے ہیں حتی کہ حجاز ریلوے کے تیار ہوجانے پر مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ کے سفر بھی بجائے اونٹ کے ریل کے ذریعہ ہواکریں گے اور اونٹنیاں بیکار ہوجاویں گی.رہی یہ بات کہ ان پیشگوئیوں کو مسیح موعود کے لفظ سے کیا تعلق ہے کیونکہ قرآن شریف میں تومسیح موعودؑ کا نام کہیں نہیںآیا.سواس کے واسطے یادرکھنا چاہیے کہ ہم خاتم الخلفا ء ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اورخاتم الخلفاء کاقربِ قیامت کے وقت ظہور ہونے کا وعدہ قرآن شریف میں موجود ہے.پھر ہمیں باربار بذریعہ الہام الٰہی اس اَمر کی بھی اطلاع دی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح موعودؑ بھی ہمارا ہی نام رکھا ہے جس کے آنے کے متعلق احادیث میں وعدہ تھا.یادرکھو کہ جو شخص احادیث کو ردّی کی طرح پھینک دیتا ہے وہ ہرگز ہرگز مومن نہیں ہوسکتا کیونکہ اسلام کا بہت بڑا حصہ ایسا ہے کہ جو بغیر مدد احادیث ادھورا رہ جاتا ہے.جوکہتا ہے کہ مجھے احادیث کی ضرورت نہیں وہ ہرگز مومن نہیں ہوسکتا.اسے ایک دن قرآن کو بھی چھوڑنا پڑے گا.پس قرآن شریف میں جس شخص کا نام خاتم الخلفا ء رکھا گیا ہے اسی کانام احادیث میں مسیح موعود رکھا گیا ہے اوراس طرح سے دونوں ناموں کے متعلق جتنی پیشگوئیاں ہیں وہ ہمارے ہی متعلق ہیں.خلیفہ کہتے ہیں پیچھے آنے والے کو اور کامل وہ ہے جو سب سے پیچھے آوے.اورظاہر ہے کہ جو

Page 233

قربِ قیامت کے وقت آوے گا وہی سب سے پیچھے ہوگا.لہٰذا وہی سب سے اکمل اورافضل ہوا.صرف تغیر الفاظ ہی ہے.قرآن شریف نے خلیفہ کے لفظ سے پکارا ہے اور حدیث میں اس کو مسیح موعودؑ کے نام سے نامزد کیا گیا ہے.رہا یہ کہ ہمارے اس دعوے کا ثبوت کیا ہے.سویاد رکھو کہ ہماری صداقت کا ثبوت وہی ہے جو ہمیشہ سے انبیاء اورماموروں کا ہوتا رہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا جو ثبوت کوئی شخص پیش کرسکتا ہے اسی دلیل سے ہم اپنے دعوے کا صدق ظاہر کرسکتے ہیں.خدا کی طرف سے آنے والے خدا ہی کی گواہی سے سچے ٹھہرا کرتے ہیں.دعویٰ توصادق بھی کرتا ہے اور کاذب بھی.اورنفس دعویٰ کرنے میں تو دونوں یکساں ہیں مگر ان میں مابہ الامتیاز بھی تو ہوتا ہے.بھلا فرض کرو کہ مسیح موعودؑ کا ذکر قرآن میں بھی نہ ہوتا اورحدیث میں بھی پایا نہ جاتا تو پھر کیا تھا؟ پھر بھی صادق اپنے نشانوں سے شناخت کرلیا جاتا.دیکھو! حضرت موسٰی کا ذکر بھلا کس پہلی کتاب میں درج تھا ؟کوئی بتاسکتا ہے کہ حضرت موسٰی کے آنے کی خبر اورپیشگوئی کس کتاب میں موجود تھی ؟ پھر حضرت موسٰی کس طرح نبی مان لیے گئے؟ یادرکھو کہ خدا کی تازہ بتازہ گواہی ہی صدق کی دلیل ہوسکتی ہے.صرف دعویٰ بلادلیل صد ق کی دلیل ہرگز نہیں ہوسکتا.بلکہ جس دعویٰ کے ساتھ خدائی شہادت نہ ہو وہ جھوٹا ہے اورخدا کے مواخذہ کے قابل ہے.جھوٹے مدعی کو خدا خود ہلاک کرتا ہے اور اس کو مہلت نہیں دی جاتی کیونکہ وہ خدا پر افترا کرتا ہے اورحق وباطل میں گڑبڑڈالنا چاہتا ہے.میں اسی شریعت کی خدمت اورتجدید کے واسطے آیا ہوں میں کوئی نئی بات نہیں لایا اورنہ ہی میں نے کوئی نئی شریعت قائم کی ہے.میں اسی شریعت کی خدمت اور تجدید کے واسطے آیا ہوں جو آنحضرتؐلائے تھے اورمیری سچائی دعوے کے لئے بھی منہاج نبوت پر ہی نشان موجود ہیں.میں نے اپنی کتابوں میں ان کا ذکر کیا ہے.ابھی ایک تازہ کتاب حقیقۃ الوحی میں نے لکھی ہے اس کا مطالعہ کرکے دیکھ لیا جاوے کہ کس قدر نشان خدا نے میری تائید کے واسطے ظاہر فرمائے.کیا یہ

Page 234

کسی جھوٹے کے واسطے بھی دکھائے جاتے ہیں؟ دیکھو! بعض انبیاء صرف ایک ہی معجزہ سے صادق قبول کرلئے گئے مگر یہاں توہزاروں نشان موجود ہیں.پھر ہم اگر کسی نئے دین کا دعویٰ کرتے.کتاب اللہ کے خلاف کوئی نیا حکم اپنی طرف سے بیان کرتے.سنّت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کمی بیشی کرتے یا ان کو منسوخ کرنے کا دعویٰ کرتے.نماز، روزہ اورحج کے مسائل میں کوئی تغیر تبدل کرتے تو اس قسم کا کوئی دغدغہ اورشک وشبہ بھی بجا تھا.مگر ہم تو کہتے ہیں کہ کافر ہے وہ شخص جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے ذرّہ بھر بھی ادھر ادھر ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے روگردانی کرنے والا ہی ہمارے نزدیک جب کافر ہے تو پھر اس شخص کا کیا حال جو کوئی نئی شریعت لانے کا دعویٰ کرے یا قرآن اورسنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تغیر تبدل کرے یا کسی حکم کو منسوخ جانے، ہمارے نزدیک تومومن وہی ہے جو قرآن شریف کی سچی پیروی کرے اورقرآن شریف ہی کو خاتم الکتب یقین کرے اوراسی شریعت کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں لائے تھے اسی کو ہمیشہ تک رہنے والی مانے اوراس میں ایک ذرّہ بھر اور ایک شوشہ بھی نہ بدلے اور اس کی اتباع میں فنا ہوکر اپنا آپ کھودے اوراپنے وجود کا ہرذرّہ اسی راہ میں لگائے عملاً اورعلماً اس کی شریعت کی مخالفت نہ کرے تب پکا مسلمان ہوتا ہے.البتہ ہمارے اوپر جو کلام الٰہی نازل ہوتا ہے اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ ہم نے کسی نئی اورتشریعی نبوت کا دعویٰ کیا ہے بلکہ مکالمہ مخاطبہ کی کثرت کیا بلحاظ کمیت اور کیا بلحاظ کیفیت کی وجہ سے نبی کہا گیا ہے.اب اس مجلس میں اگر کوئی صاحب عبرانی یا عربی سے واقف ہے تووہ جان سکتا ہے کہ نبی کا لفظ نبأ سے نکلا ہے اور نبأ کہتے ہیں خبر دینے کو.اورنبی کہتے ہیں خبر دینے والے کو.یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کلام پاکر جو غیب پر مشتمل زبردست پیشگوئیاں ہوں مخلوق کو پہنچانے والا اسلامی اصطلاح کے روسے نبی کہلاتا ہے.چنانچہ قرآن شریف میں ہے اَنْۢبِـُٔوْنِيْ۠ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ (البقرۃ :۳۲) اصل میں ہماری اوران لوگوں کی صرف نزاع لفظی ہے.ہمارے مخالف اگر تقویٰ طہارت نہ چھوڑیں اورتعصب اورعناد نہ کریں توسب جانتے ہیں اور

Page 235

متقدمین بزرگ اوراولیا ء اللہ صاف لکھ گئے ہیں وَلِلہِ بِاَوْلِیَآءِہٖ مُکَالِمَاتٌ وَمُـخَاطِبَاتٌ دنیا میں صدہا نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں ہیں جن کو سچی خوابیں آتی ہیں بلکہ سچی خواب تو بعض اوقات بلا امتیاز نیک وبد کافرومسلم کو بھی آجاتی ہے.بعض وقت زانی مردوں اورزانیہ عورتوں کو، چوہڑے چماروں کو بھی سچی خوابیں آجاتی ہیں.پھر مومن کو جوکہ بوجہ اپنے ایمان صحیح کے ان سے بڑھ کر اس بات کا مستحق ہے کیوں سچی خواب یا کشوف اورالہامات نہ مانے جاویں.بلکہ مومن کو بہت بڑھ چڑھ کر یہ سب باتیں میسّر آسکتی ہیں.اس سے یہ مت خیال کرو کہ اس طرح صادقوں اورمامورین انبیاء و رسل کی رئویا اور کشوف اورالہامات کی بے رونقی ہوتی ہے یا ان کی شان میں کوئی فرق یا بے وقعتی لازم آتی ہے.نہیں بلکہ یہ امورتو اس وحی نبوت اور خدا کے مکالمات مخاطبات کے واسطے جو کہ اس کے انبیاء اور رسولوں کو اس کی طرف سے عطاکئے جاتے ہیں ان کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کی صداقت کی ایک قوی دلیل ہیں کیونکہ اگر اس کا بیج ان لوگوں میں نہ پایا جاتا تو ممکن تھا کہ وہ فاسق فاجر اور بے دین لوگ وحی اور الہام کے وجود سے ہی انکار کر بیٹھتے اور پھر ان کا اعتراض قوی ہوتا اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل حکمت سے انبیاء اولیاء کے مکالمات اور مخاطبات اور وحی نبوت کے واسطے بطور تخم ریزی یہ ایک شہادت ہر طبقہ کے لوگوں میں خود ان کے نفسوں میں پیدا کردی تاکہ انسان کو انکار کرنے کے واسطے کوئی مفرّ رہ نہ جاوے اور اندر ہی اندر ملزم ہوتا رہے.سلسلہ مکالمہ ومخاطبہ اسلام کی روح ہے قاعدہ کی بات ہے کہ انسان کو اگر کسی چیز کا نمونہ نہ دیا جاوے تو اس کے متعلق شبہات میں مبتلا ہوجاتا ہے.یہ بات صرف صرف اسلام ہی میںپائی جاتی ہے.اور یہ صداقت مذہب کی ایک اعلیٰ دلیل ہے جو کسی دوسرے مذہب میں پائی نہیں جاتی.اسلام ہی خدا کو پسند اور خدا کا مقرب و مقبول مذہب ہے اس واسطے اس نے محض اپنے رحم سے اسلام مسلمانوں کو ٹھوکر اور شبہات سے بچانے کے واسطے سلسلہ مکالمات اور مخاطبات کا ہمیشہ جاری رہنے والا اکمل فیضان عطا

Page 236

کیا.لوگوں کے دلوں میں اس قسم کے خیالات اکثر جاگزیں ہو جایا کرتے ہیں کہ میں بھی انسان ہوں اور یہ مدعی الہام بھی آخر میری ہی طرح کا انسان ہے تو کیا وجہ ہے کہ مجھے الہام اور مکالمہ الٰہیہ نہیں ہوتا اور اس کو ہوتا ہے؟ اس واسطے ایسے شبہات کا قلع قمع کرنے کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے ہرانسان میں اس فیضان کی ایک جھلک بطور نمونہ رکھ دی.دیکھو! جس طرح ایک پیسہ لاکھ دو لاکھ پیسوں کے وجود کے لئے اور ایک روپیہ کروڑ دو کروڑ روپوں اور خزائن کے واسطے دلیل ہو سکتا ہے.اسی طرح سے ایک سچا خواب الہام کے واسطے دلیل صحیح ہو سکتا ہے.سچے خواب بطور ایک نمونہ کے فطرت انسانی میں ودیعت کئے گئے ہیں تاکہ اس نقطہ سے اس انتہائی کمال فیضان کا وجود یقین کر لیا جاوے.جب ایک خواب معمولی بلکہ ادنیٰ درجہ کے انسان کو بھی ممکن ہے تو کیا وجہ کہ اعلیٰ درجہ کے کامل اور پاک مطہر انسان میں اس خواب کا اعلیٰ مرتبہ جس کو ہم الہام کہتے ہیں موجود نہ ہو کیونکہ سچا خواب بھی کمالات کا ایک ادنیٰ ترین حصہ ہے.یادر کھو کہ سلسلہ مکالمہ مخاطبہ اسلام کی روح ہے.ورنہ اگر اسلام کو یہ شرف حاصل نہ ہوتا تو یقیناً اسلام بھی دوسرے مذاہب کی طرح ایک مردہ مذہب ہوتا ہے.اس بات کو خوب سمجھ لو کہ اگر اسلام اس فضلِ الٰہی اور برکت سے خالی ہوتا تو یقیناً اسلام میں بھی کوئی وجہ فضیلت نہ تھی.یہ خدا کا خاص فضل ہے کہ وہ اس قسم کے زندہ نمونے اسلام میں ہر صدی کے سر پر بھیجتا رہا ہے.اور اس طرح سے ہمیشہ اسلام کا زندہ مذہب ہونا دنیا پر ثابت کرتا رہا ہے.اسلام ایک وقت وہ مذہب تھا کہ ایک شخص کے مرتد ہوجانے سے قیامت برپا ہو جاتی تھی مگر اب وہی اسلام ہے کہ لاکھوں انسان اس سے مرتد اوربے دین ہو گئے.اندرونی بیرونی دشمنوں کے حملوں سے اسلام کو نابود کرنے کی کوشش کی گئی اور اسلام کی ہتک کی گئی.پائوں کے نیچے روندا اور کچلا گیا.خود مسلمانی کا دعویٰ کرنے والے دین کی حقیقت سے بے خبر ہو کر دین کے دشمن ثابت ہو رہے ہیں.اب بتائو کہ وہ کونسی ضلالت اور گمراہی باقی ہے جس کی اب انتظار کی جاتی ہے.عیسائیوں میں پادری فنڈر کی کتابیں مطالعہ کر کے دیکھ لو.وہ لکھتا ہے کہ اسلام میں ایک بھی پیشگوئی نہیں جو کی گئی اور نہ ہی کوئی

Page 237

پوری ہو ئی.الٓمّٓ غُلِبَتِ الرُّوْمُ (الرّوم :۲،۳)والی پیشگوئی کو بھی وہ ظنی اور ڈھکوسلا بتاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( نعوذ باللہ) واقعات موجودہ کو دیکھ کر ایسا اندازہ کر لیا تھا اور اس طرح سے پیشگوئی کر دی تھی.اس کے سوا اور سینکڑوں کتابیں اور رسائل ہیں جو اسلام کے خلاف لکھے گئے.کوئی مسلمان کسی عیسائی کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا اور دشمنانِ اسلام کو کوئی دندان شکن جواب نہیں دے سکتا.اگر اسلام اور اسلام کی زندگی صرف پرانے قصے کہانیوں پر ہی آرہی ہے تو پھر یاد رکھو کہ اسلام آج بھی نہیں ہے اور کل بھی نہیں ہے.یاد رکھو کہ اسلام کی جس طرح خدا نے ابتدا میں حمایت کی اور کرتا آیا ہے.اسی طرح آج بھی اسلام کی حمایت میں وہ تازہ بتازہ نشان دکھا سکتا ہے اور ہر مومن کے واسطے وہ بشرطیکہ کوئی مومن ہو فرقان پیدا کر سکتا ہے.مگر یہ ہیں نام کے مُلّاں اور حامیانِ دین متین کہ خود منبر وں پر چڑھ کر بلند آوازوں سے کہتے ہیں کہ اب اسلام میں نشان دکھانے والا کوئی نہیں.چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب نے خود جلسہ مہوتسو میں جہاں کہ تمام مذاہب کے لوگ جمع تھے اس بات کا اقرار کیا کہ افسوس ہے کہ اسلام میں آجکل ایسے لوگ موجود نہیں ہیں جو نشان دکھا سکیں.گویا خود اقرار کر لیا کہ ہمارا مذہب بھی دوسرے مذاہب کی طرح ایک مُردہ مذہب ہے اور زندگی کی جو علامات ہوتے ہیں وہ اب اس میں موجو نہیں ہیں.اب غور کر و کہ کیا اسلام کی عزت ایسی ہی باتوں میں ہے؟ نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اور کیا ذلّت ہو گی کہ اسلام کو ایسے لوگوں سے خالی مانا جاوے جن سے خدا مکالمہ مخاطبہ کرتا ہو اورجن کی صداقت کے ثبوت کے واسطے ان کے ساتھ زبردست غیب پر مشتمل نشان موجود ہوں.یادرکھو کہ اگر خدانخواستہ ایسا بھی کوئی زمانہ آجاوے کہ اسلام میں یہ برکات نہ رہیں تویقین رکھو کہ اسلام بھی اورمذہبوں کی طرح مَر گیا.کیونکہ زندگی کی جو علامت تھی جب وہی مفقود ہے تو پھر زندگی کیسی؟ دیکھو! برہمو بھی تو لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کے قائل ہیں وہ اگر تم سے سوال کریں کہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ کے زیادہ کرنے سے تم میں کیا طاقت اورخصوصیت پیدا ہوگئی؟ تو بتائوان کو کیا جواب دو گے؟ مسلمان کو

Page 238

چاہیے کہ ایک ایسی زبر دست بات پکڑے اور ایسا اصول اختیار کرکے کہ جس سے وہ دوسروں پر غالب آجاوے.اچھا اگر یہی بات ہے تو پھر بتائو تو سہی کہ تم میں اور تمہارے غیروں میں مابہ الامتیازہی کیا ہے؟ جبکہ برہمو بھی تو حید کے قائل ہیں.عیسائی بھی توحید کے خیالات رکھتے ہیں.آریہ بھی توحید کے حامی بنتے ہیں.یہودی بھی مؤحد ہیں.ہم نے ایک خط ایک فاضل یہودی کو لکھا تھا کہ توحید کے متعلق تمہارا کیا عقیدہ ہے؟ اس کے جواب میں اس نے لکھا کہ ہماری تعلیم توحید کی ہے اور ہمارا وہی خدا ہے جو قرآن کا خدا ہے.اب یہ سمجھنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ جب یہ لوگ بھی توحید کا ہی دعویٰ کرتے ہیں تو مسلمانوں میں خصوصیت کی وجہ کیا ہے؟ حق و باطل میں تمیز کرنیوالے معجزات رہی نظری اور دقیق بحثیں سووہ توذبح کرنے والی باتیں ہیں.بحثوں سے کبھی کوئی مانا؟ نہیں.دیکھو! لیکھرام کا مجھ سے مقابلہ ہوا تھا.اس نے میرے واسطے پیشگوئی کی تھی کہ تین برس میں مَرجائوں گا.میں نے خدا سے خبر پاکر اس کے حق میں پیشگوئی کی تھی کہ چھ بر س میں بذریعہ قتل ہلاک ہوگا.لیکھرام کی کتاب’’خبط احمدیہ‘‘ کھول کر دیکھ لو کہ کس طرح اس نے رو رو کر گریہ وبکا سے پرمیشر کے حضور نہایت عجزو انکسار سے التجا کی ہے اور خدا سے صادق کی تائید اور نصرت اور کاذب کی ہلاکت اور بربادی کا فیصلہ مانگا ہے تاکہ حق و باطل میں تمیز ہو سکے اور دنیا پر ظاہر ہو جاوے کہ آریہ مت اور مذہب اسلام دونوں میں سے خدا کے حضور کونسی راہ پیاری اور منظور ہے اور کون سی مردود؟ آخر کارجو فیصلہ ہوا ایک دنیا اس کو جانتی ہے کہ خدا نے کس کی تائید کی اور کون نامراد مَرا.اور اس طرح سے سچے اور جھوٹے اور اسلام اور آریہ مذہب کا ہمیشہ کے واسطے تصفیہ ہو گیا.۱ یہ ہیں خدا کے نشان اور ان کا نام ہے مابہ الامتیاز.خشک مباحثات سے کیا ہو سکتا ہے.بھلا کبھی کسی نے دیکھا بھی کہ مباحثہ سے کسی نے ہار منوائی ہو؟ ایک طرف خبط احمدیہ کو لے لو اور دوسری ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۱ مورخہ ۶؍مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۳ تا ۶

Page 239

طرف میر ی کتابوں کو لے لو جن میں یہ پیشگوئی بڑی بسط سے درج ہے پھر مقابلہ کرو کہ کون سا خدا کا کلام ہے اور کون سا شیطان کا؟ اگر میرا نطق خدا کی طرف سے اور خدا کے حکم سے نہ ہوتا تو کیا ممکن نہ تھا کہ میں ہی مَر جاتا اور وہ زندہ رہتا کیونکہ ظاہر اسباب اس بات کے متقاضی تھے.میں اس کی نسبت عمر میں زیادہ تھا اور پھر بیماری میرے لاحق حال تھی مگر بر خلاف اس کے وہ مضبوط و توانا اور تندرست تھا.یہی نہیں بلکہ اس کے سوا اور بھی جس جس نے مباہلہ کیا وہی ذلیل ہوا.ہلاک ہوا.غلام دستگیر قصوری، محی الدین لکھو کے والا.ان لوگوں نے مباہلہ کئے اور خود ہی ہلاک ہو کر ہماری صداقت پر ہمیشہ کے واسطے مہریں کر گئے.مولوی چراغ دین جموں والا نے میری نسبت پیشگوئی کی کہ طاعون سے مَرے گا اور مباہلہ کیا.مگر دیکھو خود ہی طاعون سے مَرا.ایک فقیر مرزا تھا.اس نے بھی اعلان کیا تھا کہ مرزا رمضان کے مہینے میں مَر جائے گا.مجھے عرش سے یہ خبر دی گئی ہے.آخر جب وہ رمضان کا مہینہ آیا تو خود ہلاک ہو گیا.بابو الٰہی بخش صاحب نے بھی ہماری نسبت اپنی کتاب میں طاعون سے مَرنے کی پیشگوئی کی تھی مگر آپ لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ کس طرح مَرے.اب بتائو کہ معجزات کے سر پر سینگ ہوتے ہیں.ڈوئی جو سمندروں کے پار بیٹھا تھا جب وہ ہمارے مقابلہ میں آیا اور ہم نے خدا سے خبر پا کر اس کے واسطے اس کی پُر حسرت ہلاکت کے واسطے پیشگوئی کی تو فوراً اس پر آثار ادبار ظاہر ہو نے شروع ہو گئے اور آخر کار بڑی نامرادی سے مفلوج ہو کر اور طرح طرح کے دکھ اور ذلّتیں دیکھتا ہوا ہلاک ہو گیا.غرضیکہ اگر نشانات کی ایک کتاب بنائی جاوے تو یقین ہے کہ پچاس جزو کی ایک کتاب تیار ہو.دیکھو! عبداللہ آتھم بھلا اب کہاں ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے واسطے کوئی نیامعجزہ دکھائو.خدائی نشانات کیا باسی ہو گئے ہیں اور وہ ردّی ہو گئے ہیں کہ ان کو ردّ کر دیا جاتا ہے اور اپنی مرضی کے نشانات مانگے جاتے ہیں؟ خدا کسی کا ماتحت ہو کر نہیں چلنا چاہتا کہ وہ کسی کی مرضی کا تابع ہو.وہ نشان دکھا رہا ہے مگر اپنی مرضی کے موافق دکھاتا ہے.کیا ان سے تسلّی نہیں ہو تی کہ اور مانگے جاتے ہیں؟ الغر ض قرآن شریف میں آخری زمانہ کے موعود کانام خلیفہ رکھا گیا ہے اور احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 240

میں مسیحؑ کے نام سے اس کو یاد کیا گیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی ہمارے دو نام رکھے ہیں جو کہ ہماری کتاب میں جس کو عرصہ چھبیس سال ہو گیا چھپ کر شائع ہو گئی اور دوست دشمن کے ہاتھ میں موجود ہے.چنانچہ ہمارے ایک الہام میں یوں آیا ہے اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً اور ایک دوسرے الہام میں ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ.غرض حدیث اور قرآن شریف کے روسے اللہ تعالیٰ نے ہمارا ہی یہ نام رکھا ہے اور آنے والا موعودؑ ہمیں ہی مقر ر فرمایا ہے.مسیح ناصری تو مَر گیا اور قرآن شریف میںباربار اس کی وفات کا ذکر بڑے زور سے کیا گیا ہے.وہ تو اب کسی طرح زندہ ہو ہی نہیں سکتا.جب اس کی جگہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسر ے کو بٹھا دیا تو اب بھی اس کا انتظار کرنا کیسی نادانی اور جہالت ہے.میرا مدعایہ ہے کہ لوگ جو اس معاملہ میں بحث کرتے ہیں کہ ہمیں ہمارے منہ مانگے نشان دیئے جاویں.دیکھو! صد ہانبی ایسے بھی آئے کہ ان کی پیشگوئی کسی پہلی کتاب میں نہیں کی گئی.اصل بات یہ ہے کہ سچے نبی کے ساتھ خدا کی ہیبت ہوتی ہے اور جو خدا کی طرف سے آتا ہے اس کے ساتھ خدا ئی نشان اور تائید کا علَم لازمی طور سے ہوتا ہے.دیکھو! بائبل، انجیل، قرآن، حدیث میں جن معجزات کا ذکر ہے دشمن ان کو نہ ماننے کے کئی وجوہ پیدا کرسکتا ہے.تحریف تبدیل کا الزام لگا سکتا ہے اور اَور رنگ کے دوسرے پہلو کے معنے کر سکتا ہے.غرضیکہ گذشتہ امور پر ہی اگر فیصلہ کا انحصار اور دارومدار ہو تو اس میں بڑی مشکلات پیش آسکتی ہیں، مگر اللہ تعالیٰ ہر گز پسند نہیں کرتا کہ حق و باطل میں خلط ہو اور حق دنیا پر مشتبہ رہے اسی واسطے اس کی سنّت ہے کہ وہ تازہ بتازہ نشانات سے اَمرِ حق کا ہمیشہ اظہار کرتا رہا ہے.چنانچہ اس زمانہ میں بھی جبکہ خدا نے ہمیں مامور کر کے بھیجا اور مسیح موعودؑ اور خاتم الخلفاء ہمارا نام رکھا تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ قُلْ عِنْدِيْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ الخیعنی ساتھ ہی اپنی شہادت اور گواہی بھی عطا فرمائی.پس اس وقت ہمارے ساتھ بھی خدائی شہادت موجود ہے، کوئی بھی اعتراض جو منہاج نبوت پر قرآن اور حدیث کی روسے کیا

Page 241

جاوے ہم اس کا جواب دینے کو ہر وقت تیار ہیں.ہر مدعی سے یہی ہوتا ہے کہ اس کے صدق دعویٰ کا ثبوت مانگا جاتا ہے.سو ہم اس امتحان کے واسطے ہر وقت تیار ہیں.بشرطیکہ منہاج نبوت پر ہو.خدا جانے ان پرانے قصوں میں کیا رکھا ہے کہ یہ لوگ تازہ بتازہ نشانات کو تو نہیں مانتے اور قصوں کے پیچھے پڑتے ہیں.بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ قصوں سے تمہیں حاصل ہی کیا؟ یہودیوں کے قصے تو تم سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہیں تو کیا ان کو مان لو گے.ہر ایک قوم میں قصوں کی بھر مار ہے مگر خشک قصے تقویت ایمان اور تازگی روح کے واسطے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے.قصوں والا ایمان بھی کچھ بودا ہی ہوتا ہے.تازہ بتازہ نشانات اور خدا کی گواہی کو جو لوگ نہیں مانتے ان کی سزا ہی آخر یہی ہے کہ وہ قصے کہانیوں کے پیرو ہوں.خلفاء اور مصلحین کا مدّعا سوال کیا گیا کہ خلیفہ آنے کا مدّعا کیا ہوتا ہے؟ فرمایا.اصلاح.دیکھو! حضرت آدمؑ سے اس نسل انسانی کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک مدت دراز کے بعد جب انسانوں کی عملی حالتیں کمزور ہو گئیں اور انسان زندگی کے اصل مدعا اور خدا کی کتاب کی اصل غایت بھول کر ہدایت کی راہ سے دور جا پڑے تو پھر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ایک مامور اور مرسل کے ذریعہ سے دنیا کو ہدایت کی اور ضلالت کے گڑھے سے نکالا، شانِ کبریائی نے جلوہ دکھایا اور ایک شمع کی طرح نور معرفت دنیا میں دوبارہ قائم کیاگیا.ایمان کو نورانی اور روشنی والا ایمان بنادیا.غرض اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہی سنّت چلی آتی ہے کہ ایک زمانہ گذرنے پر جب پہلے نبی کی تعلیم کو لوگ بھول کر راہ راست اور متاعِ ایمان اور نور معرفت کو لوگ کھو بیٹھتے ہیں اور دنیا میں ظلمت اور گمراہی فسق و فجور چاروں طرف سے خطر ناک اندھیرا چھا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی صفات جوش مارتی ہیں اور ایک بڑے عظیم الشان انسان کے ذریعہ سے خدا کا نام اور توحید اور اخلاق فاضلہ پھر نئے سرے سے دنیا میں اس کی معرفت قائم کر کے خدا کی ہستی کے بیّن ثبوت ہزاروں نشانوں سے دئیے جاتے ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ کھویا ہواعرفان اور گمشدہ تقویٰ طہارت دنیا میں قائم کی جاتی ہے

Page 242

اور ایک عظیم الشان انقلاب واقع ہوتا ہے.غرض اسی سنّتِ قدیمہ کے مطابق ہمارا یہ سلسلہ قائم ہوا ہے.یاد رکھو کہ ایمان ہی ایمان کو پہچانتا ہے اور روشنی سے روشنی کی شناخت ہوتی ہے سورج دنیا میں موجود ہے مگر جس کی آنکھ میں ہی نور نہ ہو وہ سور ج سے فائدہ ہی کیا اُٹھا سکتا ہے؟ منہ سے یہ دعویٰ کر دینا کہ ہمیں کسی امام یا مصلح کی کیا ضرورت ہے؟ بڑا خطر ناک ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ خدا کے پانے کے واسطے بڑے بڑے سخت مشکلات اور دشوار گذار گھاٹیاں ہیں.ایمان صرف اسی کانام نہیں ہے کہ زبان سے کلمہ پڑھ لیا لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ.ایمان ایک نہایت باریک اور گہرا راز ہے اور ایک ایسے یقین کانام ہے جس سے جذباتِ نفسانیہ انسان سے دور ہو جاویں اور ایک گناہ سوز حالت انسان کے اندر پیدا ہو جاوے.جن کے وجود میں ایمان کا سچا نور اور حقیقی معرفت پیدا ہو جاتی ہے ان کی حالت ہی کچھ الگ ہوجاتی ہے اور وہ دنیا کے معمولی لوگوں کی طرح نہیں بلکہ ممتاز ہو تے ہیں.کوئی ایک گناہ چھوڑ کر ایسا مغرور ہو جانا اور مطمئن ہو جانا کہ بس اب ہم مومن بن گئے اور تمام مدارجِ ایمان ہم نے طے کرلئے یہ ایک اپنا خیال ہے.دیکھو! انسان کی فطرت ہی ایسی ہے کہ ہمیشہ ایک حالت پر قائم نہیں رہتی.پس جب تک لمبے تجربہ اور استقامت سے یہ اَمربپایہءِ ثبوت نہ پہنچ جاوے کہ واقعی اب تم نے خدا کو مقدم کر لیا ہے اور تمہاری حالت گناہ سوز مستقل ہو گئی ہے اور تم کو نفس امّارہ اور لوّامہ سے نکل کر نفسِ مطمئنّہ عطا کیا گیا ہے اور عملی طور سے سچی پاکیزگی تم نے حاصل کر لی ہے تب تک مطمئن ہونے کی کوئی وجہ نہیں.ترکِ شر اور کسبِ خیر کے مراتب دیکھو! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى (الاعلٰی:۱۵) فلاح وہ شخص پاوے گا جو اپنے نفس میں پوری پاکیزگی اور تقویٰ طہارت پیدا کر لے اور گناہ اور معاصی کے ارتکاب کا کبھی بھی اس میں دورہ نہ ہو اور ترکِ شر اور کسبِ خیر کے دونوں مراتب پورے طور سے یہ شخص طے کرلے تب جا کر کہیں اسے فلاح نصیب ہو تی ہے.ایمان کوئی آسان سی بات نہیں.جب تک انسان مَر ہی نہ جاوے

Page 243

جب تک کہاں ہو سکتا ہے کہ سچا ایمان حاصل ہو؟ دیکھو! ایمان کی دو ہی نشانیاں ہیں.اوّل درجہ یہ ہے کہ گناہ کو انسان چھوڑ دے اور ایسی حالت اس کو میسر آجاوے کہ گناہ کرنا گویا آ گ میں پڑنا ہے یا کسی کالے سانپ کے منہ میں انگلی دینا ہے یا کوئی خطرناک زہر کا پیالہ پینے کے برابر ہے.پھر یادر کھو کہ صرف ترکِ شر ہی نیکی نہیں ہے.نیکی اس میں ہے کہ ترک شر کے ساتھ ہی کسبِ خیر بھی ہو.ترکِ گناہ میں جب انسان اس درجہ تک ترقی کر جاوے تو پھر چاہیے کہ خدا کے منشا کے موافق سنّت رسول پر بڑی سرگرمی سے نیک اعمال کو بجا لاوے اور کوئی روک اس کی طبیعت میں پیدا نہ ہو اور انشراح صدر سے نیکی کرنے پر قادر ہو جاوے.دیکھو! بعض لوگ فطرتاً ہی ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں بعض قسم کے معاصی کے ارتکاب کی طاقت اورمادہ ہی نہیں ہوتا.کیا ایک ایسا شخص جس کو قوت رجولیت دی ہی نہیں گئی یہ شیخی مار سکتا ہے کہ میں زنا نہیں کرتا.یا وہ جس کو دن بھر میں دوپیسے کی روٹی بھی مشکل سے میسر آئی ہے دعویٰ کر سکتا ہے کہ میں شراب نہیں پیتا.یا ایک ضعیف ناتواں کس مپرس جو کہ خود ہی ذلیل وخوار پھرتا ہے کہہ سکتا ہے کہ میں ہمیشہ صبر اور تحمل اور بردباری کرتا ہوں اور کسی کا مقابلہ نہیں کرتا، عفو کرتا ہوں، غر ض بعض لوگ فطرتاً ہی ایسے پیدا ہوتے ہیں کہ وہ بعض گناہوں پر قادر ہی نہیں ہو سکتے.ممکن ہے کہ بعض سادہ لوح انسان ایسے بھی ہوں کہ جنہوں نے عمر بھر میں کوئی بھی گناہ نہ کیا ہو.پس صرف ترکِ ذنوب ہی نیکی کی شرط نہیں بلکہ کسبِ خیر بھی اعلیٰ جزو ہے.کوئی انسان کامل نہیں ہو سکتا جب تک دونوں قسم کے شربت پی نہیں لیتا.سورۂ دہر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایک شربت کا فوری ہوتا ہے اور دوسراشربت زنجبیلی.یہ مقربوں اور برگزیدہ لوگوں کو دونوں شربت پلائے جاتے ہیں.کافوری شربت کے پینے سے انسا ن کا دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور گناہ کے قویٰ ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں.کافور میں گندے مواد کے دبانے کی تاثیر ہے.پس وہ لوگ جن کو شربت کافوری پلایا جاتا ہے.ان کے گناہ والے قویٰ بالکل دب ہی جاتے ہیں اور پھر ان سے گناہ کا ارتکاب ہوتا ہی نہیں اور ایک قسم کی سکینت جس کو شانتی کہتے ہیں میسر آجاتی ہے اور ایک نور پانی کی طرح اترتا ہے جو ان کے سینے میں

Page 244

سارے گندوں کو دھو ڈالتا ہے اور سفلی زندگی کے تمام تعلقات ان سے الگ کر دئیے جاتے ہیں اور گناہ کی آگ کی بھڑک ہمیشہ کے واسطے ٹھنڈی پڑ جاتی ہے.مگر یادرکھو صرف یہی اَمر نیکی اور خوبی نہیں ہے.ایک شخص کا ہمیں واقعہ یاد ہے کہ اس کی کسی نے دعوت کی اور کھانا وغیرہ کھلا چکنے کے بعد میزبان نے اپنے مہمان کی خدمت میں عذر کیا کہ میں جیسا کہ آپ کی خدمت کا حق تھاادا نہیں کر سکا یعنی جیسا کہ قاعدہ ہے اپنی طرف سے معذرت کی.مگر مہمان کچھ ایسا شوریدہ مغز تھا کہ میزبان کی اس بات سے بھڑک اٹھا اور کہنے لگا کہ کیا تم مجھ پر اس طرح سے اپنا احسان جتانا چاہتے ہو.تمہارا نہیں بلکہ میرا تم پر بہت بھاری احسان ہے.میزبان نے فرمایا کہ یہ اور خوشی کی بات ہے میں وہ بھی جاننا چاہتا ہوں تو اس مہمان نے کہا کہ دیکھو! جب تم سامان مہمان داری میں مصروف تھے اور میری طرف سے بالکل بے خبر تھے میں تنہا اس جگہ موجود تھا اگر میں تمہارے اس مکان میں آگ لگا دیتا تو تمہار اکتنا نقصان ہوتا.پس میں نے تم پر احسان کیا ہے نہ کہ تم نے.غرض ترکِ شرّ کی یہ ایک مثال ہے مگر یاد رکھو کہ خدا کے سامنے ایسی مثال کوئی پیش نہیں کرسکتا.وہاں تو جیسا کرے گا ویسا پائے گا.ترکِ ذنوب کو اللہ تعالیٰ نے شربت کا فوری کی ملونی سے تشبیہ دی ہے.اس کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ انسان کو شربت زنجبیل پلایا جاوے.زنجبیل سونٹھ کو کہتے ہیں.زنجبیل مرکب ہے لفظ زَنَا اور جَبَل سے.زنجبیل کی تاثیر ہے کہ حرارت غریزی کو بڑھاتی ہے اور لغوی معنے اس کے ہیں پہاڑ پر چڑھنا.اس میں جو نکتہ رکھا گیا ہے.وہ یہ ہے کہ جس طرح سے پہاڑ پر چڑھنا مشکل کام ہے اور وہ اس مقوی چیز کے استعمال سے آسان ہو جاتا ہے اسی طرح روحانی نیکی کے پہاڑ پر چڑھنا بھی سخت دشوار ہے.وہ روحانی شربت زنجبیل سے آسان ہو جاتا ہے.خالص اعمال محض لِلہ اخلاص اور ثواب کے ماتحت بجالانا بھی ایک پہاڑ ہے اور سخت دشوار گذار گھاٹی سے مشابہ ہے.ہر ایک پائوں کا یہ کام نہیں کہ وہاں پہنچ سکے.دیکھو! دنیوی امور میں تو ایک ظاہر نتیجہ مدّنظر ہوتا ہے.اور اَمر مخصوص کے واسطے کوشش کی جاتی ہے اور ضمیر میں ایک خاص غرض اور

Page 245

مقصد مدّنظر رکھ کر محنت کی جاتی ہے اور کامیابی کے واسطے کس قدر جان توڑ کوشش کی جاتی ہے.حصولِ عزت اور مدارج پاس کے واسطے کیسی کیسی جانکاہ سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں کہ بعض اوقات انسان ان محنتوں کی وجہ سے پاگل اور مجنون اوربعض اوقات ایسے عوار ض میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ سل اور دق وغیرہ امراض اس کے لاحق حال ہو جاتی ہیں جب دنیوی امتحانات کی گھاٹیاں ایسی مشکل ہیں تو پھر دینی اور روحانی مقاصد کی گھاٹیاں جن کے نتائج ابھی ایک قسم کے پردہ غیب میں ہیں اور بعض ظنی طبائع ان کے وجود اور عدم وجود میں بھی فیصلہ نہیں کر سکتے ان کے حصول کے واسطے پھر کیسی کیسی محنت اور کوشش کی ضرورت ہے؟ یہ خیال کر لینا کہ ہم ایک پھونک سے خدا تک پہنچ سکتے ہیں اور صرف لسانی اقرار سے ہی پاک ہو سکتے ہیں یہ ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں نے اصلاح نہ کبھی دیکھی اور نہ سنی.پاکیزگی کے مراحل بہت دور ہیں یادر کھو کہ پاکیزگی کے مراحل بہت دور ہیں اور وہ ان خیالات سے بالاترہیں.صرف پاکیزگی حاصل کرنا اور سچے طور سے صغائر کبائر سے بچ جانا ان لوگوں کا کام ہے جو ہروقت خدا کو آنکھ کے سامنے رکھتے ہیں اور فرشتہ سیرت بھی وہی لوگ ہو سکتے ہیں.دیکھو ایک بکری کو اگر ایک شیر کے سامنے باند ھ دیں تو وہ اپنا کھانا پینا ہی بھول جاوے چہ جائیکہ وہ ادھر ادھر کے کھیتوں میں منہ مار ے اور لوگوں کی محنت اور جانفشانیوں سے پیدا کی ہوئی کھیتیوں کو کھاوے.پس یہی حال انسان کا ہے اگر اس کو یہ یقین ہو کہ میں خدا کو دیکھ رہا ہو ں یا کم از کم خدا مجھے دیکھ رہا ہے تو بھلا پھر ممکن ہے کہ کوئی گناہ اس سے سرزد ہو سکے؟ ہر گز نہیں.یہ ایک فطرتی قاعدہ ہے کہ جب یقین اور قطعی علم ہو کہ اس جگہ قدم رکھنا ہلاکت ہے یا ایک سوراخ جس میں کالاسانپ ہو اور یہ خود اسے دیکھ بھی لیوے تو کیا اس میں انگلی ڈال سکتا ہے؟ یا ایک ایسے جنگل میں جہاں اس کو یقین ہو کہ ایک خونخوار شیر ہے تنہا بغیر کسی ہتھیار کے جا سکتا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں.غرض یہ فطرت انسانی میں ہی رکھا گیا ہے کہ جہاں اس کو ہلاکت کا یقین ہوتا ہے اس جگہ سے بچتا اور پرہیز کرتا ہے.جب تک اس درجہ تک خدا کی معرفت نہ

Page 246

ہو جاوے اور یہ یقین پیدا نہ ہو جاوے کہ خدا کی نافرمانی اور گناہ ایک بھسم کر دینے والی آگ ہے یا ایک خطرناک زہر ہے تب تک حقیقتِ ایمان کو نہیں سمجھا گیا اور بغیر ایسے کامل یقین اور معرفت کے پھر ایمان بھی ادھور ا ایمان ہے.وہ ایمان جس کا اعمال پر بھی اثر نہ ہو یا جو ایمان انسانی حالات میں ذرا بھی تبدیلی پیدا نہ کر سکے کس کام کا ایمان ہے اور اس کی کیا فضیلت ہو سکتی ہے؟ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کے کاروبار میں آرام سے زندگی بھی بسر کرتے رہیں.اور خدا بھی مل جاوے اور انسان پاک بھی ہو جاوے اور اسے کوئی محنت اور کوشش نہ کرنی پڑے یہ بالکل غلط خیال ہے.کل انبیاء، اولیاء، اتقیاء اور صالحین کا یہ ایک مجموعی مسئلہ ہے کہ پاک کرنا خدا کا کا م ہے اور خدا کے اس فضل کے جذب کے واسطے اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم از بس ضروری اور لازمی ہے جیسا کہ فرماتا ہےقُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (اٰل عمران :۳۲) سورج دنیا میں موجود ہے مگر چشم بینا بھی تو چاہیے.خدا تعالیٰ کا قانون قدرت لغو اور بے فائدہ نہیں ہے.جو ذرائع کسی اَمر کے حصول کے خدا نے بنائے ہیں.آخر انہیں کی پابندی سے وہ نتائج حاصل ہوتے ہیں.کان سننے کے واسطے خدا نے بنائے ہیں مگر دیکھ نہیں سکتے ہیں.آنکھ جو دیکھنے کے واسطے بنائی گئی ہے وہ سننے کاکام نہیں کر سکتی.بس اسی طرح خدا کے فضل کے فیضان کے حصول کی جو راہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے اس سے باہر رہ کر کیسے کوئی کامیا ب ہو سکتا ہے؟ حقیقی پاکیزگی اور طہارت ملتی ہے اتباع نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیونکہ خود خدا نے فرما دیا ہے کہ اگر خدا کے محبوب بننا چاہتے ہو تو رسول ؐکی پیروی کرو.پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمیں کسی نبی یا رسول کی کیا ضرورت ہے؟ وہ گویا اللہ تعالیٰ کے قانونِ قدرت کو باطل کرنا چاہتے ہیں.خد ا فرماتا ہے کہ تم پاک نہیں ہو سکتے جب تک کہ میں کسی کو پاک نہ کروں.تم اندھے ہو مگر جسے میں آنکھیں دوں.تم مُردے ہو مگر جسے میں زندگی عطا کروں پس انسان کو چاہیے کہ ہمیشہ دعاؤں میں لگا رہے اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی سچی تڑپ اور سچی خواہش پیدا کرے اور خدا کی محبت کی پیاس د ل میں پیدا کرے تاکہ پھر خدا کا فیضان بھی اس کی نصرت کرے اور

Page 247

اسے قدرت نمائی سے اٹھائے.خدا کی تلاش میں اور اس کی مرضی کے ڈھونڈنے میں فنا ہوجاوے تا خدا پھر اسے زندہ کر ے اور شربتِ وصال پلاوے اور اگر انسان جلدی کرے گا اور خدا کی چنداں پروانہ کرے گا یا معمولی طور سے لاپرواہی کرے گا تو پھر یاد رکھو کہ خدا بھی غَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ ہے.کیا کوئی ہے جو خد ا ئی قانون کو مٹا سکے؟ جو کہ اس نے فضل کے حصول کے واسطے بنادیا ہے کہ فضل کے حصول کے امیدوار اور از راہ نیاز اس دروازے سے داخل ہوں.جب ان کی امیدیں پوری ہوں گی ورنہ اگر تمام عمر بھی بھٹکتے پھریں بجز اس اصلی راہ کے ( جو اتباع نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے) ہرگز ہرگز منزل مقصود کو نہیں پہنچ سکیں گے.خدا نے ایک را ہ بتادی ہے.ہلاک ہو گا وہ جو پیروی نہ کرے گا.مگر لوگ باوجود سمجھانے کے نہیں سمجھتے اور لاپرواہی کرتے ہیں.زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اس راہ کو جس کی ہم ان کو دعوت دیتے ہیں آزمالیں کہ آیا ہم سچ کہتے ہیں یا جھوٹ.ہماری طرف سے تو خدا بحث کررہا ہے اور اس نے ہماری تائید میں آج تک ہزاروں نشان بھی دکھائے.کون شخص ہے جس نے ہمارا کوئی نہ کوئی نشان نہ دیکھا ہو.ابھی ایک انگریز امریکہ سے ہمارے پاس آیا تھا.وہ خود اقرار کر گیا ہے کہ واقع میں ڈوئی (آپؑ) کی پیشگوئی کے عین منشا کے مطابق مَرا مگر وہ تو خود بُرا تھا.غرض ایک ڈوئی کیا ہزاروں روشن اور زبر دست نشان موجود ہیں.خدا کسی کا محکوم تو ہے نہیں وہ چاہے مُردے زندہ کرے یا زندوں کو مارے.غرض دنیا کے کاموں کے واسطے اپنی عمریں، مال، دولت، صحت، وقت آپ لوگ خرچ کرتے ہیں.آخر دین کا بھی حق ہے کہ اس کے لئے بھی کوئی وقت،عمر، دولت خرچ کی جاوے آپ ولایت میں ساڑھے تین سال رہے.مگر ہم کہتے ہیں کہ تین کو جانے دیں وہ باقی کی ساڑھ ہی ہمارے پاس رہ جاویں.پھر دیکھیں کہ آپ کے معلومات میں کیسا مفید اضافہ ہوتا ہے.خاتم النّبیّین کے معنی سوال کیا گیا کہ خاتم النّبیّین کے کیا معنی ہیں ؟ فرمایا.اس کے یہ معنے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی صاحبِ شریعت نہیں آوے گا اور یہ کہ کوئی ایسا نبی آپؐکے بعد نہیں آسکتا جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 248

کی مہر اپنے ساتھ نہ رکھتا ہو.رئیس المتصوّفین حضرت ابنِ عربی کہتے ہیں کہ نبوت کا بند ہوجانا اور اسلام کا مَرجانا ایک ہی بات ہے.دیکھو حضرت موسٰی کے زمانہ میں تو عورتوں کو بھی الہام ہوتا تھا.چنانچہ خود حضرت موسٰی کی ماں سے بھی خدا نے کلام کیا ہے.وہ دین ہی کیاہے جس میں کہا جاتا ہے کہ اس کے برکات اور فیوض آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئے ہیں.اگر اب بھی خدا اسی طرح سنتا ہے جس طرح پہلے زمانہ میں سنتا تھا اور اسی طرح سے دیکھتا ہے جس طرح پہلے دیکھتا تھا تو کیا وجہ ہے کہ جب پہلے زمانہ میں سننے اور دیکھنے کی طرح صفت تکلّم بھی موجود تھی تواب کیوں مفقود ہوگئی؟ اگر ایسا ہی ہے تو کیا اندیشہ نہیں کہ کسی وقت خدا کی صفت سننے کی اور دیکھنے کی بھی معزولی ہو جاوے.افسوس ایسے بیہودہ خیالات پر.خدا جس طرح سے پہلے تمام انبیاء کے ساتھ بولتا تھا اور کلام کرتا تھا اسی طرح اب بھی بولتا ہے.چنانچہ ہم خود اس ثبوت کے واسطے موجود ہیں.یقین جانو کہ جس طرح خد ا دیکھتا ہے اور سنتا ہے اسی طرح کلام بھی کرتا ہے.بجز اس کے کہ خدا تعالیٰ کے مکالمات اور مخاطبات کو اسلام میں ہمیشہ کے واسطے مانا جاوے اسلام کی زندگی ہی نہیں رہتی اور کبھی عزت ہی نہیں پاسکتا اور اسلام بھی دیگر مذاہب کی طرح ایک بے فیض اور بے برکت مُردہ مذہب رہ جاتا ہے.آپ اگر آج اس وقت اس بات کو نہ سمجھو گے تو پھر کسی دوسرے وقت میں سمجھ جائو گے.اس کے مانے بغیر تو پھر اسلام رہ ہی نہیں سکتا اور آپ کو بھی مانے بغیر چارہ نہیں ہو گا.اگر فطرت ہی کسی کی بےپرواہو تو فطری نقص کو تو کوئی دور کر نہیں سکتا.ورنہ اگر فطرت سلیم ہے تو پھر کبھی نہ کبھی کشاں کشاں ادھر آہی جاوے گا.سوال کیا گیا کہ کیا ایک ہی وقت میں کئی نبی ہو سکتے ہیں؟ فرمایا.ہاں.خواہ ایک ہی وقت میں ہزار بھی ہوسکتے ہیں.مگر چاہیے ثبوت اور نشانِ صداقت.ہم انکار نہیں کرتے.

Page 249

کیا یہ آخری صدی ہے؟ سوال کیا گیا کہ کیا یہ آخری صدی ہے؟ فرمایا.اس کا علم خدا کو ہے.وہ قادر ہے کہ ایک زلزلہ سے تمام دنیا کا خاتمہ کردے.اصل بات یہ ہے کہ آرام اورخوشی کے وقت میں بھی انسان کو ایسے ایسے سوال سوجھتے ہیں اگر کوئی ذراسی بھی مشکل آجاوے یا ابھی ایک زلزلہ آجاوے اور مکانات لرزنے لگ جاویں تو اس وقت معاً خیال کرلیں گے کہ قیامت آگئی اوریہی دنیا کے خاتمہ کا وقت ہے اورسچے دل سے خدا کو مان لیں گے.مگر جب امن ہوجاتا ہے تو پھر ایسے ایسے سوالات ہی سوجھا کرتے ہیں.فرمایا.میر محمد اسمٰعیل صاحب نے گذشتہ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء والے زلزلہ کے متعلق ایک قصہ سنایا کہ ایک شخص دہر یہ تھا اورخدا سے منکر تھا مگر جب زلزلہ آیا وہ بھی رام رام کرنے لگ گیا.آخر جب وہ وقت جاتا رہا تو اس سے سوال کیا گیا کہ تم خداکے منکر ہو پھر اس وقت رام رام کیسا تھا؟ شرمندہ ساہو کر کہنے لگا کہ اصل میں مَیں نے غلطی ہی کھائی میری عقل ماری گئی تھی.غرض خدا چاہے تو صرف ایک ہی زلزلہ سے ہلاک کردے.خدا کے آگے کوئی مشکل بات نہیں اب بھی خدا نے ایک زلزلہ کی خبر دی ہوئی ہے.آوے گا اور بَغْتَةً آوے گا.ہر کس اپنے اپنے کام میں بےفکری سے مصروف ہوگا.فلسفے بھی آرام کی حالت میں سوجھتے ہیں.عذاب نظر آجاوے تو سب کچھ بھول جاتا ہے.وہ جو ۴؍اپریل والا زلزلہ تھا اس کی بھی ہم نے قبل ازوقت خبر دی تھی اور یہ طاعون جس نے دنیا میں ایک کہرام مچارکھا ہے اس کی بھی ہم نے قبل ازوقت خبر دی تھی.کتابوں میں اشتہاروں میں اس کو شائع کردیا تھا.کوئی زبانی بات ہی نہیں.چنانچہ وہ بعینہٖ بالکل پیشگوئی کے مطابق ظاہر ہوئی اور ابھی خدا نے بس نہیں کی.اس نے دنیا کو متنبہ کرنے کا ارادہ کرلیا ہے اور نہیں چھوڑے گا جب تک طاقتور حملوں سے دنیا کو منوا نہ لے گا.ہمارے لئے توہر رات نئی ہوتی ہے.خداجانے کیا ہونے والا ہے اور کیا کچھ ہوگا.ہمیشہ ترساں ولرزاں اوردعا میں مصروف رہنا چاہیے.۱ ۱ الحکم جلد ۱۲نمبر ۳۲ مورخہ ۱۰؍ مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۱تا ۵

Page 250

۲؍مئی ۱۹۰۸ء (قبل ظہر.بمقام لاہور ) سچائی کی تلاش کے لئے کوشش کرنا فر ض ہے ایک گریجویٹ صاحب حاضر خدمت ہوئے اور عرض کی کہ آپ دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ حضور کے اس نور کی شناخت کی توفیق دے تاکہ ہم اس نعمت سے محروم نہ رہ جاویں.وغیرہ.فرمایا.اگر چہ جو کچھ ہوتا ہے وہ خدا کے فضل سے ہی ہوتا ہے مگر کوشش کرنا انسان کا فرض ہے.جیسا کہ قرآن شریف نے صراحت سے حکم دیا ہے کہ لَيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى (النجم:۴۰) یعنی انسان جتنی جتنی کوشش کرے گا اسی کے (مطابق) فیوض سے مستفیض ہوسکے گا اوردوسری جگہ فرمایا وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) جو لوگ خدامیں ہوکر خدا کے پانے کے واسطے کی تڑپ اور گدازش سے کوشش کرتے ہیں ان کی محنت اور کوشش ضائع نہیں جاتی اور ضرور ان کی راہبری اورہدایت کی جاتی ہے.جوکوئی صدق اور خلوصِ نیت سے خدا کی طرف قدم اٹھاتا ہے خدا اس کی طرف راہ نمائی کے واسطے بڑھتا ہے.انسان کا فرض ہے کہ تدبر کرے اورحق طلبی کی سچی تڑپ اورپیاس اپنے اندر پیدا کرے.معلومات کے وسیع کرنے کی جو سبیل اللہ تعالیٰ نے بنائی ہیں ان پر کاربند ہو.خدابھی بے نیاز ہوجاتا ہے اس شخص سے جو خدا سے لاپروائی کرتا ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ (اٰل عـمران :۹۸)قبولیتِ دعا کے واسطے بھی کوشش اور صدقِ دل کی سچی تڑپ ہی کی ضرورت ہوتی ہے.دیکھو دنیوی امتحانات کے واسطے لوگ کیسی کیسی خطرناک کوششیں کرتے ہیں.محنت کرتے کرتے ان کے دماغ پھر جاتے ہیں اور بعض اوقات خطرناک امراض مثل جنون اورسل دق وغیرہ پیدا ہوجاتے ہیں اوربصورت ناکامی بعض لوگ تو ایسے صدمات کے نیچے آجاتے ہیں کہ خودکشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے.غرض ایک چند روزہ اوردنیوی زندگی کے لئے کیسی کیسی سختیاں برداشت کرتے ہیں.آخر یہ کامیابیاں کسی قدر ان کی محنتوں ہی کا نتیجہ ہوتی ہیں.اگر ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ رہیں اورامتحان کی تیاری نہ کریں توکبھی کسی کو وہم بھی ہوسکتا ہے کہ وہ

Page 251

کامیاب ہوں مگر جب بایں ہمہ سخت محنت اورکوشش کے بھی بعض لوگ ناکام ہوجاتے ہیں تو بالکل نکمّے اور ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہنے والوں کا کیاحال؟ مانا کہ کوشش کرنے والے بھی ناکام ہوجاتے ہیں مگر اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ اب آئندہ کوشش ہی نہ کی جاوے.یہ بالکل غلط راہ ہے.کیا عجب کسی کا شعر ہے.؎ گرچہ وصالش نہ بکوشش دہند ہر قدر اے دل کہ توانی بکوش دیکھو! ایک کسان کیسی جانکاہی اورمحنت سے ایک فصل تیار کرتا ہے مگر بعض اوقات ژالہ باری سے اوربعض اوقات امساکِ باراں کی وجہ سے اس کا فصل ضائع ہو جاتا ہے مگر اس ناکامی پر ایسا اثر نہیں ہوتا کہ پھر آئندہ کے واسطے لوگ زراعت ہی ترک کردیں.ہزاروں ہیں کہ باوجود ان ناکامیوں کے پھر بھی پورے زور سے کوشش کئے جاتے ہیں اور آخر اپنی کو ششوں کے ثمرات سے مستفید بھی ہوتے ہیں.فیضان الٰہی کوشش پر موقوف ہے.دیکھو شاعر بھی جب کوشش کرتا ہے اورٹکریں مارتا ہے تو آخر کوئی نہ کوئی شعر سوجھ ہی جاتا ہے.آپ کے واسطے بھی ضروری ہے کہ سلسلہ کی کتابیں مطالعہ کریں اور غور اورانصاف پسندی سے دیکھیں کہ آیا ان میں حق ہے یا کہ نہیں.کسی اَمر کے متعلق رائے قائم کرنے کے واسطے معلومات کا ہونا ازبس ضروری ہے جس کی معلومات وسیع ہوجاتے ہیں وہ خود موازنہ کرسکتا ہے کہ فریقین میں سے کون حق بجانب ہے.اکثر لو گ غرور نفس کی وجہ سے اوّل تو ہمارے پاس آنے میں ہی مضائقہ کرتے ہیں اور اگر آتے بھی ہیں تووہ گھر سے ہی فیصلہ کرکے آتے ہیں.اس قسم کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی گذرے ہیں اورہمیشہ محروم ہی رہ جایا کرتے ہیں.ایمان ان کے نصیب ہوتا ہی نہیں.اصل میں ایسے لوگ دہریہ بے دین اوربے قید ہوتے ہیں.جو شخص سچے طور پر پکا مسلمان ہوتا ہے اس پر حق کے پرکھنے کے واسطے بہت بڑے مشکلات نہیں آتے کیونکہ ایک مسلمان جو حقیقت میں مسلمان ہے اورسنّت اللہ اور سنّتِ رسول سے

Page 252

واقف ہے وہ ہمیشہ منہاجِ نبوت کو مدّ ِنظر رکھ کر ہی تحقیق کرے گا.ایسے لوگوں کے اعتراضات بہت تھوڑے رہ جاتے ہیں اور اس راستے کا بہت تھوڑا حصہ ان کے واسطے باقی رہ جاتا ہے اوراگر ایسا شخص ہے کہ اسے خود اسلام کے متعلق ہی شک وشبہات پیدا ہورہے ہیں اورابھی اس نے اسلام کی صداقت کا ہی فیصلہ نہیں کیا تو پھر ایسے لوگوں کے واسطے سلامتی کی کوئی راہ نہیں اور یہی ہیں کہ آخر وہ ہلاک ہوجاتے ہیں ایسے لوگ دراصل روحانی امور کے دشمن ہوتے ہیں.ان میں ایک قسم کا کبر اور غرور ہوتاہے.وہ لوگ اتباع کو عار سمجھتے ہیں.یہ لوگ نئی روشنی میں بھی ہلاک ہوگئے مگر خدا کے آسمانی نور کو قبول نہ کیا.خدا کا ہمیشہ سے یہ قانون چلا آتا ہے کہ جب دنیا فسق وفجور اورگناہ سے پُر ہوجاتی اورہر قسم کے مفاسد دنیا میں پھیل جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ اپنی طرف سے ایک روحانی سلسلہ قائم کرکے زمانہ کی اصلاح کرتا ہے مگر وہ جو کہتا ہے کہ مجھے اس کی کیا ضرورت ہے گویا وہ خدا کے قانون کو بدلنا چاہتا ہے.ایسے لوگوں سے تو یہ بھی خوف ہے کہ ایک دن اسلام سے بھی انکار کردیں اور یہاں تک کہ خود خدا کی ہستی کی بھی ضرورت محسوس نہ کریں یہ بڑی خطرناک راہ ہے کیونکہ جو حقیقی اورسچی راہ شناخت اسلام اوروجود باری تعالیٰ پر دلیل تھی ان لوگوں نے اسی سے روگردانی کرلی ہے.اکثر ان میں ایسے پائے جاتے ہیں کہ معلومات وسیع کا دعویٰ کرتے ہیں مگر جاہل بلکہ اجہل ہوتے ہیں.دین اور علومِ دینی سے ان کو مَس بھی نہیں ہوتا.فائدہ وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو خالی النفس ہوتے ہیں اور خدا کی راہ میں سچی پیا س، نرمی اورصبر سے کام کرتے ہیں.روشنی کی ضرورت اس شخص کو ہوتی ہے جو ظلمت میں ہو.جس کے پاس پہلے ہی روشنی ہے وہ روشنی کا کیسے محتاج ہوسکتا ہے؟ جو برتن پہلے ہی پُرہے اس میں اور کیا داخل ہو سکتا ہے؟ ہمیشہ خالی برتن میں کچھ بھراجاتا ہے.عمر کا اعتبار نہیں.زمانہ بڑا خطرناک ہے.بہت جلدی اس طرف توجہ کرنی چاہیے.طاعون میں کمی خوشی کا مقام نہیں طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ اس سال طاعون کسی قدر کم ہے.یہ کوئی خوشی کا مقام

Page 253

نہیں کیونکہ لوگوں نے طاعون سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا.جس غرض کے واسطے یہ آیا تھا وہ غرض ابھی پوری نہیں ہوئی.اصل میں طاعون نام ہے موت کا.لغت میں و ہ خطر ناک عوارض جن کا انجام موت ہوتا ہے اس کانام طاعون ہی رکھا ہے اور یہ لفظ لغت کے روسے بڑا وسیع ہے.ممکن ہے کہ اب کسی اوررنگ میں نمودار ہوجاوے یا اسی رنگ میں آئندہ اوربھی زور سے پھوٹ نکلے.اللہ تعالیٰ کے کلام میں بھی اَفْطِرُ وَ اَصُوْمُ کا لفظ ہے.یعنی ایک وہ وقت ہے جس طرح افطار میں کھانا پینا جائز ہوتا ہے.اسی طرح طاعون لوگوںکو کھاتا جاوے گا اورایک وقت ایسا بھی ہوگاکہ صوم کی طرح امن ہو جاوے گا.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ.اَفْطِرُ وَاَصُوْمُ وَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ اِلَی الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ.لوگ امن اورآرام کے واسطے جلدی ایک بات بنالیا کرتے ہیں.اجی ایک بیماری تھی سوچلی گئی.کیسا نشان اور کیسی تنبیہ !غرض اس طرح کے خیالات سے اپنی تسلّی کرلیتے ہیں.اصل میں طاعون بڑا وسیع لفظ ہے.اَلطَّاعُوْنُ.اَلْمَوْتُ کل امراض دَوری کا نام.یہ چیچک ہے.ذات الجنب ہے، تپ، گلٹیاں،قے، سکتہ.اس قسم کی کل امراض اس میں داخل ہیں یہ لفظ یادرکھنے کے قابل ہے کہ صحابہ ؓکے وقت میں بھی ایک قسم کا طاعون پھوٹا تھا مگر وہ بہت باریک ایک دانہ کی طرح ایک پھنسی ہوتی تھی جو کہ ہتھیلی میں نکلتی تھی.اکثر دیکھا گیا ہے کہ غشی اور نیند کی حالت میں اوربعض ہنستے ہنستے ہی اس دنیا سے چل گذرتے ہیں.بعض کو خون کے جلاب لگ جاتے ہیں.بعض کا کسی کو علم بھی نہیں ہوتا کہ ہواکیا؟ دس آدمی تھے رات اچھے بھلے سوئے مگر صبح ہوتے ان میں سے ایک بھی زندہ نہ اٹھا.غرض اس قسم کے کئی واقعات ہیں کہ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مرض کا کسی کو پتہ نہیں لگا اوراس کے کئی رنگ ہیں.اصل میں یہ وقفہ بھی شامتِ اعمال کی وجہ سے مفید نہیں بلکہ بہت ہی خطرناک ہے کیونکہ لوگ اب دلیر ہو جاویں گے اور جرأت سے ارتکاب جرائم کریں گے اور اس وقفے سے یہ نتیجہ نکال لیں گے کہ اجی صاحب !ایک بیماری تھی گئی گذری.نہ کوئی نشان ہے کسی کا اور نہ عذاب.غرض یہ خوشی کا مقام نہیں بلکہ جائے خوف ہے.ایک ایسے وقت میں جبکہ طاعون کی وجہ سے ایک قہر الٰہی ٹوٹ پڑاتھا

Page 254

دنیا پر.ایسے وقت میں یہ الہام ہوا تھا کہ اَفْطِرُ وَاَصُوْمُ یعنی ایک استعارہ تھا کہ کبھی یہ مرض زورپکڑ جاوے گااور کبھی اس میں وقفہ بھی آجاوے گا.اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ(الرّعد :۱۲) خدا نہیں چھوڑے گا اورہر گز نہیں چھوڑے گاجب تک لوگ اپنے اخلاق، اعمال اورخیالات میں ایک تبدیلی پیدا نہ کرلیں گے.اصل میں ان لوگوں کو یہ اَمر بھی گراںگذرتا ہے کہ خدا کی طرف کوئی اَمر منسوب کیا جاوے بلکہ یہ تو کہتے ہیں کہ اتفاقی طورسے ہوگئی.خدا کا اس میں کیا دخل وتصرف ہے.اب ہمیں تواس بات کا فکر ہے کہ اب لوگ خواہ نخواہ یہ رائے قائم کرلیں گے اور پھر اس رائے کو صحیح یقین کریں گے کہ ایک اتفاقی مرض تھا سوجاتا رہا، اب امن امان ہوگیا.غرض اس طرح سے اطمینان اورتسلی کرکے خدا سے منہ پھیریں گے اوربے باکی اور جرأت میں ترقی کرجاویں گے.دلوں میں سے اللہ تعالیٰ کی عظمت ہی اٹھ چکی ہے.دنیا کے حکّام کی اوراپنی اغراض کی جس قدر عظمت اورتڑپ ان کے دلوں میں ہوتی ہے خدااوراس کے رسول اوران کی رضا کی اتنی بھی تڑپ اور عظمت باقی نہیں رہی.طاعون کا عالمگیر اورقہر ی نشان بھی ان کے واسطے مفید نہ ہوا.زلزلے بھی خداکے وعدے کے عین مطابق آگئے اور شہر وں کے شہر جو کسی وقت بڑے آباد تھے ویران ہوگئے.مگر دنیا نے تبدیلی پیدا نہ کی.چند روز ہوئے الہام ہوا.زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ یہ بھی ایک مخفی اورخوفناک بات پر استدلال کرتا ہے.خواہ ظاہری ہوخواہ اندرونی.کیونکہ زلزلہ کا لفظ ظاہر معنوں کے سوادوسرے معنوں پر بھی بولا گیا ہے جیساکہ قرآن شریف سے معلوم ہوتاہے.زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا (الاحزاب :۱۲) اب جتنے نشان بھی خدا نے ظاہر کئے ہیں ان سب کا ان پر الٹا اثر پڑے گا اورسب کو یہ طاعون کی طرح اتفاقی سمجھ کر سخت دل ہوجاویں گے.فرعون والا حال ہے.وہ بھی جب ایک عذاب میں افاقہ ہوتا تھا تو اسے عارضی اور اتفاقی جان کر اور بھی سخت دل ہوجاتا تھا.آخر کار پھر غرق ہوتے وقت کہا میں بھی اس پر ایمان لایا جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے.خدا کا نام پھر بھی نہ لیا.یہی حال اس وقت اس قوم کا ہے.طاعون تھا سووہ کسی قدر کم ہو ہی گیا ہے قحط بھی اب چند اں زور پر نہیں اورصورت امن کی نظر

Page 255

آنے لگ گئی ہے اب مطمئن ہوجاویں گے اوربے خوف ہوکر جرأت اوردلیری سے ارتکاب معاصی اورجرائم میں آگے سے بھی سخت دل ہو کر ترقی کر جاویں گے.اورتو بہ، استغفار اورتوجہ اِلَی اللہ اور تبدیلی کی فکردلوں میں پیدانہ ہوگی.مگر خدا فرماتا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے.( بعد نماز عصر) صفاتِ حسنہ اوراخلا قِ فاضلہ کے دوحصے حقو ق اللہ اورحقوق العباد (جناب شاہزادہ محمد ابراہیم خاں صاحب کی ملاقات کے وقت حضرت اقدسؑ نے بزبان فارسی تقریر فرمائی.ایڈیٹر) فرمایا.دنیا میں اس زمانہ میں نفاق بہت بڑھ گیا ہے.بہت کم ہیں جو اخلاص رکھتے ہیں.اخلاص اورمحبت شعبہ ایمان ہے.آپ کو خدا آپ کی محبت اوراخلاص کا اجر دے اورتقویت عطا کرے.اخلاق فاضلہ اسی کا نام ہے بغیر کسی عوض معاوضہ کے خیال سے نوع انسان سے نیکی کی جاوے.اسی کا نام انسانیت ہے.ادنیٰ صفت انسان کی یہ ہے کہ بدی کا مقابلہ کرنے یا بدی سے درگذر کرنے کی بجائے بدی کرنے والے کے ساتھ نیکی کی جاوے یہ صفت انبیاء کی ہے اورپھر انبیاء کی صحبت میں رہنے والے لوگوں کی ہے اور اس کا اکمل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں.خدا ہرگز ضائع نہیں کرتا ان دلوں کو کہ ان میں ہمدردی بنی نوع ہوتی ہے.صفاتِ حسنہ اوراخلاقِ فاضلہ کے دوہی حصے ہیں اور وہی قرآن شریف کی پا ک تعلیم کا خلاصہ اورلُبّ ِ لُباب ہیں.اوّل یہ کہ حق اللہ کے اداکرنے میں عبادت کرنا فسق وفجور سے بچنا اور کل محرماتِ الٰہی سے پرہیز کرنا اوراوامر کی تعمیل میں کمر بستہ رہنا.دوم یہ کہ حق العباد اداکرنے میں کوتاہی نہ کرے اوربنی نوع انسان سے نیکی کرے.بنی نوع انسان کے حقوق بجانہ لانے والے لوگ خواہ حق اللہ کو اداکرتے ہی ہوں بڑے خطر ے میں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ستّار ہے، غفار ہے،

Page 256

رحیم ہے اورحلیم ہے اورمعاف کرنے والا ہے.اس کی عادت ہے کہ اکثر معاف کردیتا ہے مگربندہ (انسان )کچھ ایسا واقع ہواہے کہ کبھی کسی کو کم ہی معاف کرتا ہے.پس اگر انسان اپنے حقوق معاف نہ کرے توپھر وہ شخص جس نے انسانی حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہویا ظلم کیا ہو خواہ اللہ کے احکام کی بجا آوری میں کوشاں ہی ہو اورنماز، روز ہ وغیرہ احکامِ شرعیہ کی پابندی کرتا ہی ہو.مگر حق العباد کی پروا نہ کرنے کی وجہ سے اس کے اَوراعمال بھی حبط ہونے کا اندیشہ ہے.غرض مومن حقیقی وہی جو حق اللہ اور حق العباد دونوں کو پورے التزام اوراحتیا ط سے بجالاوے.جو دونوں پہلوئوں کو پوری طرح سے مدّنظر رکھ کر اعمال بجالاتا ہے وہی ہے کہ پورے قرآن پر عمل کرتا ہے ورنہ نصف قرآن پر ایمان لاتا ہے.مگر یہ ہر دو قسم کے اعمال انسانی طاقت میں نہیں کہ بزور بازو اور اپنی طاقت سے بجالانے پرقادر ہوسکے.انسان نفسِ امّارہ کی زنجیروں میں جکڑ ا ہوا ہے.جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اور توفیق اس کے شامل حال نہ ہو کچھ بھی نہیں ہوسکتا.لہٰذا انسان کو چاہیے کہ دعائیں کرتا رہے.تاکہ خدا کی طرف سے اسے نیکی پر قدرت دی جاوے اور نفسِ امّارہ کی قیدوں سے رہائی عطا کی جاوے.یہ انسان کا سخت دشمن ہے.اگر نفسِ امّارہ نہ ہوتا تو شیطان بھی نہ ہوتا.یہ انسان کا اندرونی دشمن اور مار آستین ہے اورشیطان بیرونی دشمن ہے.قاعدہ کی بات ہے کہ جب چورکسی کے مکان میں نقب زنی کرتا ہے توکسی گھر کے بھیدی اور واقف کا ر سے پہلے سازش کرنی ضروری ہوتی ہے.بیرونی چور بجزاندرونی بھیدی کی سازش کے کچھ کر ہی نہیں سکتااور کامیاب ہوہی نہیں سکتا.پس یہی وجہ ہے کہ شیطان بیرونی دشمن، نفسِ امّارہ اندرونی.اورگھر کے بھیدی سے سازش کرکے ہی انسان کے متاعِ ایمان میں نقب زنی کرتا ہے اورنورایمان کو غارت کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِيْ١ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ (یوسف:۵۴) یعنی میں اپنے نفس کو بری نہیں ٹھہراتا اور اس کی طرف سے مطمئن نہیں کہ نفس پاک ہوگیا ہے بلکہ یہ توشریر الحکومت ہے.مدارنجات تزکیہ نفس پر موقوف ہے تزکیہ نفس بڑا مشکل مرحلہ ہے اور مدار نجات تزکیہ نفس پر موقوف ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

Page 257

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا(الشّمس :۱۰) اور تزکیہ نفس بجز فضل خدا میسر نہیں آسکتا.یہ خدا تعالیٰ کا اٹل قانون ہے لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا (الفتح :۲۴) اوراس کا قانون جو جذبِ فضل کے واسطے ہمیشہ سے مقرر ہے وہ یہی ہے کہ اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاوے.مگر دنیا میں ہزاروں ایسے موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم بھی لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کہتے ہیں.نیک اعمال بجالاتے ہیں.اعمال بد سے پرہیز کرتے ہیں.اصل میں ان کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ ان کو اتباع رسولؐ کی ضرورت نہیں مگر یاد رکھو! یہ بڑی غلطی ہے اور یہ بھی شیطان کا ایک دھوکہ ہے کہ ایسا خیال لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام پا ک میں تزکیہ اور محبتِ الٰہی کو مشروط باتباعِ رسول رکھا ہے تو کون ہے کہ وہ دعویٰ کرسکے کہ میں خود بخود ہی اپنی طاقت سے پاک ہوسکتا ہوں.سچایقین اور کامل معرفت سے پُر ایمان ہرگز ہرگز میسّر ہی نہیں آسکتا جب تک انبیاء کی سچی فرماں برداری اور حمیّت اختیار نہ کی جاوے گناہ سوزایمان اورخدا کو دکھادینے والا یقین بجزاقتداری اورغیب پر مشتمل زبردست پیشگوئیوں کے جو انسانی طاقت اور وہم وگمان سے بالا تر ہوںہر گز ہرگز میسر نہیں آسکتا.دنیا اپنے کاروبار دنیوی میں جس استغراق اور انہماک سے مصروف ہوتی اورجیسی جیسی جانکاہ اورخطرناک مشکل سے مشکل کوششیں اپنی دنیا کے واسطے کرتی ہے.اگر خدا کی طرف بھی اسی طرح کی کوشش سے قدم اٹھاویں اور اس وقت جو ایک آسمانی سلسلہ خدا نے اس غرض کے لئے مقرر فرمایا ہے اس کی طرف متوجہ ہوں تو ہم یقین سے کہتے ہیں کہ ضرور اللہ تعالیٰ ان کے واسطے رحمت کے نشان دکھانے پر قادر ہے.مگر اصل بات یہ ہے کہ لوگ اس پہلو سے لاپروا ہیں ورنہ دینی امور اوراعمال کیامشکل ہیں.نماز میں کوئی مشکل نہیں.پانی موجود ہے.زمین سجدہ کرنے کے واسطے موجود ہے.اگر ضرورت ہے تو صرف ایک فرماں بردار اورپاک دل کی جس کو محبت الٰہی کی سچی تڑپ ہو.دیکھو! اگر ساری نمازوں کو جمع کیاجاوے اور ان کے وقت کا اندازہ کیا جاوے تو شاید ایک گھڑی بھر میں ساری پوری ہوسکیں آخر پاخانہ بھی جاتے ہیں.اگر اتنی ہی قدر نماز کی ان لوگوں کے دلوں میں ہوتو بھی یہ نماز کو اداکرسکتے ہیں.مگر افسوس! اسلام اس وقت بہت خطرے میں ہے اور مسلمان درحقیقت نور ایمان سے بے نصیب

Page 258

ہیں.اگر کسی کو ایک مہلک مرض لگ جاوے تو کیسا فکر لگ جاتا ہے مگر اس روحانی جذام کی کسی کو بھی پروا نہیں جس کا انجام جہنم ہے.مامورین کے ساتھ دنیا کا سلوک اصل میں ہمارے پاس آنا خدا کے حضور جانا ہے اور ہماری عزت درحقیقت خدا و رسول کے کلام کی عزت ہے.متواتر چھبیس سال ہوئے ہیں کہ اس نے ہمیں مامور کیا.مجدّد بنایا اوراصلاح مفاسد زمانہ کی غرض سے دنیا میں بھیجا.اورپھر یہی نہیں کہ صرف ہمارازبانی دعویٰ ہوبلکہ اس نے ساتھ ساتھ اپنے ہزاروں زبردست نشان بھی دئیے.منہاجِ نبوت پر بھیجا.مگر لوگوں نے پروا نہ کی بلکہ الٹا کافر کہا.اَکفر کہا.دجّال کہا.کذّاب کہا.حالانکہ جس خدا نے مجھے بھیجا اس نے مجھے میری صداقت کے لیے نشان بھی ظاہر کیے.ایک نہیں، دونہیں بلکہ ہزاروں نشان.دنیوی عدالتوں میں خواہ کتنا ہی سخت سے سخت مقدمہ ہو مگر دوتین گواہ گذرنے پر سزائے موت تک بھی دی جاتی ہے مگریہاں توہزاروں لوگ ہیں جو ہمارے ان نشانات کے گواہ ہیں مشرق سے مغرب تک کوئی جگہ نہیں جہاں ہمارے نشانوں کی گواہی موجود نہ ہو مگر بایں ہمہ ان لوگوں نے پروانہیں کی.گورنمنٹ کا ادنیٰ چپڑاسی وصول لگان کے واسطے آجاوے کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرتا اور اگر کرے تو گورنمنٹ کا باغی ٹھہرتا ہے اور سزا پاتا ہے مگر خدائی گورنمنٹ کی لوگ پروانہیں کرتے خدا سے آنے والے لاریب غربت کے لباس میں ہوتے ہیں.لوگ ان کو حقارت اور تمسخر سے دیکھتے ہیں.ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ١ۣۚ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۠ (یٰسٓ : ۳۱) اللہ تعالیٰ سچا ہے وہ جھوٹ نہیں کہتا.وہ فرماتا ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک جتنے بھی نبی آئے ہیں.ان تمام سے ہنسی ٹھٹھا کیا گیا ہے مگر جب وقت گذر جاتا ہے پھر لگتے ہیں تعریفیں کرنے.شیخ عبدالقادرجیلانیؒ پر بھی قریباً دو ۲۰۰ سو علماء وقت نے کفر کا فتویٰ لگایا تھا.ابنِ جوزی جو محدّث وقت تھا اس نے ایک کتاب لکھی اور تلبیس ابلیس اس کا نام رکھا اور بہت کچھ تلخ نازیبا الفاظ ان کے حق میں استعمال کئے مگر ان کے دو ۲۰۰ سو برس بعد ان کو کیسا کامل اور پاک باز

Page 259

صادق انسان مانا گیا اور کیسی قبولیت ہوئی دنیا جانتی ہے.یہ صرف انہی پر نہیں بلکہ تمام اولیاء کے ساتھ یہی سلوک ہوتا چلا آیا ہے.غرض اسی منہاج پر مجھے بھی تمام پنجاب اور ہندوستان کے علماء نے کافر، دجّال، فاسق، فاجر وغیرہ کے خطاب دئیے ہیں اور کہتے ہیں کہ نعوذباللہ میں انبیاء کو گالیاں دیتا ہوں حالانکہ میں ان تمام انبیاء کی عزت کرتاہوں اور ان کی عظمت اور صداقت ظاہر کرنے کے واسطے ہی میری بعثت ہوئی ہے.یقین جانو کہ اگر میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں اور میں ہی جھوٹا ہوں تو پھر تمام انبیاء میں سے کسی کی نبوت کو کوئی ثابت نہیں کر سکتا.اگر حضرت عیسٰی ؑ کی وفات کا ذکر کرنا گالیاں دینا ہے تو پھر سب سے پہلے جس نے حضرت عیسٰی ؑ کو گالی دی وہ خدا ہے.مصلح کی ضرورت میر امطلب یہ ہے کہ ہمیشہ سے ایسا سلسلہ چلا آیا ہے کہ جب دنیا میں حق اللہ اور حق العباد کی پروا دلوں سے اٹھ جاتی ہے.اور ظلم اور تعدی انسانوں کا شیوہ ہو جاتا ہے.اور لو گ اپنے خالق اور معبود حقیقی سے منہ پھیر کر سینکڑوں بُت اپنے واسطے تجویز کر لیتے ہیں اور انبیاء کی تعلیم لوگ بھول جاتے ہیں.ایسے خطرناک وقت میں اللہ تعالیٰ ایک روحانی سلسلہ پیدا کر کے ان سب مفاسد کی اصلاح کرتا ہے.آج بھی اگر کسی انسان میں فراست موجود ہے تو دیکھ سکتا ہے کہ کیا اسلام کی حالت اس خطرناک حالت تک پہنچی ہے یا کہ نہیں؟ جس وقت خدا اس کی خبر گیری کرے.زمانہ خود پکار پکار کر کہ زبانِ حال سے کہہ رہا ہے کہ مصلح کی ضرورت ہے.مسلمان حکمرانوں کی حالت مسلمانوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے.معمولی مسلمان تو کسی شمار میں ہی نہیں.جو لوگ بادشاہ کہلاتے ہیں اور خلیفۃ المسلمین، امیر المؤمنین ہیں.خود ان کا حال ایسا ہے کہ باوجود بادشاہ ہونے کے ان کو اتنی جرأت نہیں کہ ان کی سلطنت میں کوئی شخص جرأت اور آزادی سے اظہار حق بھی کر سکے.سلطان روم کی سلطنت میں کوئی چار سطر بھی مذہب عیسوی کے خلاف نہیں لکھ سکتا.شاید یہ خیال ہوگا کہ تمام عیسائی سلطنتیں ناراض ہو کر سلطنت چھین لیں گی مگر خدا کی سلطنت کا ذرّہ بھی خیال نہیں اور

Page 260

نہ ہی خدا کی طاقت پر پورا بھروسہ ہے.خود داری بھی ایک حد تک اچھی ہوتی ہے مگر جہاں ایمان جائے وہاں ایسی باتوں کا کیا خیال.حالانکہ ہمارا تجربہ بتلاتا ہے کہ گورنمنٹ کو مذہب سے تعلق ہی کوئی نہیں.دیکھو! ہم نے عیسائیوں کے خلاف کتنی کتابیں لکھی ہیں اور کس طرح کے زور سے ان کے عقائد باطلہ کا ردّ کیا ہے مگر گورنمنٹ میں یہ بڑی بھاری خوبی ہے کہ کوئی ناراضگی کا اظہار نہیں کیاگیا.اصل وجہ اپنی ہی کمزوری ہوتی ہے ورنہ گورنمنٹ دین کے معاملات میں کبھی بھی دست اندازی نہیں کرتی.دیکھو! ہمارے اس مقدمہ کی طرف ہی غور کرکے دیکھ لو کہ کس دیانت داری اور انصاف سے اس کا فیصلہ کیاگیا.امرتسر سے چالیس ہزار روپے کی ضمانت پر وارنٹ نکالا گیا.مگر خدا کی قدرت وہ کتاب ہی میں پڑا رہ گیا اور بعد میں اس حاکم کو معلوم ہوا کہ وہ ایسا کرنے کا مجاز بھی نہ تھا مگر خدا کا تصرّف جو ہمیشہ اپنے فرستادوں کے واسطے رنگا رنگ طرزوں میں ظاہر ہوا کرتا ہے.اس نے اس خطرناک وقت میں بھی ہماری نصرت کی.پھر مقدمہ تبدیل ہو کر معاً گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں آگیا.جس نے کوئی وارنٹ نہ نکالا اور ہمیں بلوا کر بڑے احترام اور عزت سے ہمارے ساتھ سلوک کر تا رہا.ہماری غرض اس اَمر کے اظہار سے صرف یہی ہے کہ اوّل تو گورنمنٹ پر مذہبی معاملات کی وجہ سے مخالف ہو یا موافق کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ کیا جاتا ہے جو انصاف اور دیانت کا تقاضا ہو.دوسرے یہ کہ خدا کا تعلق ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے ہر مشکل کے وقت اسے تسلّی اور ہر بلا سے نجات عطا کی جاتی ہے.جو خدا کا ہو جاتا ہے.خدا بھی پھر ہر بات میں اس کا پاس کرتا ہے.ایسے لوگ مومن کہلانے کے مستحق نہیں ہیں جو دنیا کے خطرا ت اورتفکرات میں ہی غرق ہوں اور خدا کا خانہ بالکل خالی پڑا رہے.مومن وہ کہلاتا ہے کہ ہلاکت کے قریب بھی پہنچ جاوے مگر خدا کو نہ چھوڑے.ایمان کا یہ ایک نشان ہے کہ آخر تک کل امور اسی کے ہاتھ میں یقین کرے اور ناامید نہ ہو.بادشاہ اور خلیفۃ المسلمین اور امیر المؤمنین کہلا کر بھی خدا کی طرف سے بے پروائی اچھی بات نہیں.مخلوق سے اتنا ڈرنا کہ گویا خد ا کو قادر ہی نہیں سمجھنا.یہ ایک قسم کی سخت کمزوری ہے.لوگ کہتے

Page 261

ہیں کہ وہ خادم الحرمین ہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ حرمین اس کی حافظ ہیں.حرمین کی برکت اور طفیل ہے کہ اب تک وہ بچا ہواہے.جو مذہبی آزادی اس ملک میں ہمیں نصیب ہے وہ مسلمان ممالک میں خود مسلمانوں کو بھی نصیب نہیں.دیکھو! کس آزادی سے ہم کام کر رہے ہیں اور پھر کیا اثر ہماری تالیفات کا ملک پر ہوا ہے؟ قادیان میں ہمیشہ پادری لوگ آیا کرتے تھے.ان کے خیمے ہمیشہ قادیان کے باہر کی طرف نصب کئے جاتے تھے اور وہ پھر کر اپنا وعظ کیا کرتے تھے.مگر اب عرصہ پندرہ برس کا ہوتا ہے کہ کبھی کسی پادری کی شکل بھی نظر نہیں آئی.ہمیشہ کہا کرتے تھے اور مسلمانوں کو دعوے سے بلایا کرتے تھے کہ کوئی ان سے مباحثہ کرے اور کہتے تھے کہ نعوذباللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بھی معجزہ ظاہر نہیں ہوا.ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ زندہ نبیؐ کے مضمون پر بحث کی جاوے مگر اب یہ معاملہ ہے کہ ہم بلاتے ہیں.انعام دیتے ہیں.مگرکوئی ادھر آتا ہی نہیں گویا وہ پہلو ہی بدل دیا ہے.ہم جہاں تک کوئی طریق اتمامِ حجت کا ہو سکتا ہے کرنے کو ہر وقت تیار ہیں.اسلام پر بیرونی حملے وہ وقت بھی آپ کو یاد ہو گا کہ کہا کرتے تھے کہ قرآن میں ایک بھی معجزہ نہیں ہے.غُلِبَتِ الرُّوْمُ ( الرّوم:۳) والی پیشگوئی محض ایک اٹکل تھی جو آنحضرتؐنے ( نعوذباللہ) دونوں طاقتوں کا مقابلہ کرنے سے کر دی تھی.نوبت یہاں تک تھی.پھر ایک اور خطرناک دھبہ ہمیشہ سے اسلام کے پاک اور نورانی چہرہ پر لگاتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.غرضیکہ طرح طرح کے الزامات اور بے جا اعتراضات کا ایسا طوفان بے تمیزی برپا کر رکھا تھا کہ ان کی کتابوں اور رسائل کو جو انہوں نے اسلام کے برخلاف اس نصف صدی میں لکھی ہیں جمع کیا جاوے تو میرے خیال میں ایک پہاڑ بنتا ہے.جاننے والے جانتے ہیں کہ اتنے حملے نہ کبھی کسی نبی پر کئے گئے اور نہ اتنی گندہ دہانی کسی نبی کے مقابل پر کی گئی اور جب سے دنیا پیدا ہوئی نہ کسی کو اتنی گا لیاں دی گئیں اور نہ کسی نبی کی اتنی ہتک کی گئی ہے.آریوں کو دیکھو ان کی کتابوں میں تو ایسا گند بھر ا پڑا ہے کہ کوئی باغیرت مسلما ن، میں سمجھتا ہوں

Page 262

کہ ان کتابوں کی ایک سطر بھی پڑھ نہیں سکتا.خصوصاً اگر لیکھرام کی کتابوں کو دیکھا جاوے.....اسلام کے اندرونی دشمن غرض یہ تو بیرونی دشمنوں کاحال ہے.خود گھر کا حال اس سے بد تر ہے اور اندرونی دشمن دوستی کے مدعی بن کر اس سے بھی زیادہ نقصان اور مضرت کا باعث ہو رہے ہیں.علماء جو دین کے ستون اور نجات کا باعث سمجھے جاتے تھے.ان کا یہ حال ہے کہ جب خدا نے عین سنّت ِقدیمہ کے مطابق محض حق و حکمت سے عین ضرورت کے وقت ان مفاسد کی اصلاح اور انسداد کے واسطے ایک آسمانی سلسلہ قائم کیا اور اس کے منجانب اللہ ہونے کی صداقت کے واسطے ہزاروں اقتداری نشانات ظاہر فرمائے ہیں.یہ لوگ جن کا بوجہ اس کے (کہ) دین کے ستون تھے اور قرآن و حدیث کے علوم سے واقف و آگاہ ہونے کے زیادہ مستحق اس بات کے تھے کہ اس سلسلہ کی تائید کرتے، اُلٹے دشمن اور استیصال چاہنے والے بن گئے.اور طرح طرح کے منصوبوں سے اس خدائی نور کے بجھادینے کی کوشش میں مصروف ہو گئے.اور ان کی عملی حالت ایسی ناگفتہ بہ ہے کہ حافظ شیرازی کا یہ شعر ؎ واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند چوں بخلوت مے روند آں کار دیگر می کنند شاید انہی علماء کے واسطے لکھا گیا تھا.پھر ان سے دوسرے طبقہ کے لوگ جو امر اء ہیں ان کا جو حال ہے وہ بھی اظہر من الشمس ہے وہ تو دین سے بے تعلق ہیں.ان کو اپنے عیش و عشرت سے ہی فرصت نصیب نہیں.اگر فرصت نصیب ہو گی تو شطرنج کھیلنے میں گذار دیں گے.پھر اگر تیسرے طبقہ کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا جاوے جو کہ عوام ہیں تو اور بھی اسلام کی غربت اور نازک حالت پر رحم آتا ہے.جیل خانوں میں مسلمان بھر ے پڑے ہیں.شراب خانوں میں مسلمان خراب ہو رہے ہیں.طوائف کے رنگ میں مسلمان کہلانے والے ہی بدحال ہیں.غرض ہرفسق وفجور اور معاصی اور گناہ کی مجلس میں غور سے دیکھو تو مسلمانوں کا نمبر بڑھا ہواہے.

Page 263

جھوٹی گواہیاں دینا بھی مسلمانوں بلکہ خصوصاً نام کے مولویوں کا پیشہ ہی ہو گیا ہے.پھر بایں ہمہ ہم پر کفر کے فتوے لگا ئے جاتے ہیں اور طرح طرح کے الزام لگاتے ہیں.ہماری یہ خواہش ہے اور ہمیں اس بات کا اشتیاق ہے کہ صاحب اثر مسلمانوں کی ایک جماعت اس معاملہ کی تحقیقات تو کرے کہ آیا ہم پر جو الزامات لگائے جاتے ہیں وہ سچے ہیں؟ کیا یہ سچ ہے کہ ہم نے قرآن اور رسول کو چھوڑ دیاہے؟ اور نعوذباللہ کوئی نیا دین بنا لیا ہے؟ کیا یہ سچ ہے کہ ہم انبیاء کو گالیاں دیتے ہیں؟ تحریری اور زبانی تبلیغ کا موازنہ شاہزادہ صاحب موصوف نے سوال کیا کہ آپ بجائے اس کے کہ قادیان میں ہی ہمیشہ قیام رکھیں دورہ کرکے پنجاب اور ہندوستان کے مختلف شہروں میں اگر پھر کر وعظ و تبلیغ کاکام کریں تو زیادہ مفید ہوگا.فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ تبلیغ کے وسائل ہر زمانہ میں مناسب وقت اور مناسب حال الگ الگ ہوتے ہیں.اس زمانہ کی آزادی اگرچہ عمدہ چیز ہے مگر ساتھ ہی اس میں بعض نقائص بھی ہیں.آپ نے جو طریق فرمایا ہے میں نے اس طریق تبلیغ کو بھی استعمال کیا ہے اور بعض مقامات میں اس غر ض کے لئے سفر بھی کئے ہیں.مگر اس میں تجربہ سے دیکھا ہے کہ اصل مقصد کماحقہ حاصل نہیں ہو سکتا.دورانِ تقریر میں بعض لوگ بول اٹھتے ہیں.دو چار گالیاں بھی سنا دیتے ہیں اور شور و غوغا کر کے بدنظمی کا باعث ہو جاتے ہیں اس لاہور میں ہی ایک دفعہ حالانکہ خود ہمارا اپنا مکان تھا اور پولیس وغیرہ کابھی انتظام تھا.مگر ایک شخص دوران تقریر میں عین بھری مجلس میں کھڑا ہوا اور منہ پر کھڑے ہو کر گالیاں سنائیں.میاں محمدخاں صاحب مرحوم جو کہ ہمارے بڑے مخلص اور محبت کرنے والے تھے ان کو جوش آگیا مگر ہم نے ان کو بند کر دیا کہ ہمارے اخلاق کے یہ اَمر برخلاف ہے کہ اسی قسم کا پہلو اختیار کیا جاوے.غرض لاہور میں، امر تسر میں، دہلی میں، سیالکوٹ وغیرہ میں ہم نے اچھی طرح سے آزمالیا ہے کہ یہ نسخہ فتنہ سے خالی نہیں اور اس میں شر کا اندیشہ زیادہ ہے چنانچہ امر تسر میں ہمیں پتھر مارے گئے

Page 264

اورایک پتھر ہمارے لڑکے کے بھی لگا.بعض دوستوں کو جوتیاں بھی لگیں.لَایُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُـحْرٍ وَّاحِدٍ مَّرَّتَیْنِ.پس آزمودہ نسخہ کو ہم اب دوبارہ کیسے آزماسکتے ہیں؟ پھر دوسرا بڑا نقص یہ ہے کہ زبانی گفتگو میں نقل کرنے والے جو ان کا دل چاہے کر لیں اور چاہیں تو رائی کا پہاڑ بنا لیں.قلم ان کے ہاتھ میں ہے.پھر بعض شریرالنفس لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ دو دو گھنٹے تک ان کو سمجھایا جاتا ہے.مگر چونکہ ان زبانی تقریروں میں انسان کو سوچنے کا بہت کم موقع ملتا ہے اور زبانی تقریریں صرف آنی اور فوری ہوتی ہیں ان کا اثر دیر پا نہیں ہوتا اس واسطے مجبوراً اس راہ سے اجتناب کرنا پڑا اور سلسلہ تحریر میں مَیں نے اتمام حجت کے واسطے مفصل طور سے ستر پچھتر کتابیں لکھی ہیں.اور ان میں سے ہر ایک جداگانہ طور سے ایسی جامع ہے کہ اگر کوئی طالبِ حق اور طالبِ تحقیق ان کا غور سے مطالعہ کرے تو ممکن نہیں کہ اس کو حق و باطل میں فیصلہ کرنے کا ذخیرہ بہم نہ پہنچ جاوے.ہم نے اپنی عمر میں ایک بھاری ذخیرہ معلومات کا جمع کردیا ہے.اورجہاں تک ممکن تھا ان کی اشاعت بھی کی گئی ہے اور دوست اور دشمنوں نے ان کو پڑھا بھی ہے.زبانی تقریر کا عرصہ کم ہوتا ہے.انسان کو اس میں تدبر کرنے کا موقع نہیں ملتا.بلکہ بعض جو شیلی طبیعت کے آدمیوں کو سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملتا کیونکہ وہ تو اپنے خیالات کے خلاف سنتے ہی آگ ہو جاتے ہیں.اور ان کے منہ میں جھاگ آنے لگ جاتا ہے.برخلاف اس کے کتاب کو انسان ایک الگ حجرے میں لے کر بیٹھ جاوے تو تدبّر کا بھی موقع ملتا ہے اور چونکہ اس وقت مدّ ِمقابل کوئی نہیں ہوتا اس واسطے خالی الذہن ہو کر سوچنے کا اچھا موقع ملتا ہے.مگر بایں ہمہ ہم نے دوسرے پہلو کو بھی ہاتھ سے نہیں دیا اور اس غرض کے واسطے مختلف شہروں میں گئے.تبلیغ کی ہے.بعض مقامات میں تو ہمارا اینٹ پتھروں سے بھی مقابلہ کیا گیا ہے.ابھی آپ کے نزدیک تبلیغ نہیں کی گئی.ہم اپنا کام ختم کر چکے ہیں ہم نے اپنی زندگی میں کوئی کام دنیوی نہیںرکھا.ہم قادیان میں ہوں یا لاہور میں جہاں ہوں ہمارے انفاس اللہ ہی کی راہ

Page 265

میں ہیں.معقولی رنگ میں اور منقولی طور سے تو اب ہم اپنے کام کو ختم کر چکے ہیں.کوئی پہلو ایسا نہیں رہ گیا جس کو ہم نے پورا نہ کیا ہو.البتہ اب تو ہماری طرف سے دعائیں باقی ہیں.خدا نے بھی کوئی اَمر باقی اٹھا نہیں رکھا.معجزات اس کثرت اور ہیبت سے دکھا ئے ہیں کہ دوست دشمن ان کی عظمت اور شوکت کو مان گئے ہیں.اب اگر کوئی ہدایت نہ پاوے تو یہ ہمارے اختیار کی بات نہیں ہے.اِنَّکَ لَا تَـھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ(القصص : ۵۷) وفاتِ مسیح کا نسخہ خدا کے سلسلے کو ہتک اور خفت کی نظر سے نہ دیکھنا چاہیے.اس نے بہت بڑا ارادہ کیا ہے.اسلام کی خیر اسی میں ہے.ایک دفعہ ہم دہلی میں گئے تھے.ہم نے وہاں کے لوگوں سے کہا کہ تم نے تیرہ سو برس سے یہ نسخہ استعمال کیا ہے کہ آنحضرتؐکو مدفون اور حضرت عیسٰیؑ کو زندہ آسمان پر بٹھایا.یہ نسخہ تمہارے لئے مفید ہو یا مضر؟ اس سوال کا جواب تم خود ہی سوچ لو.ایک لاکھ کے قریب لوگ اسلام سے مرتد ہو گئے ہیں.ہر قوم اور ہر فرقے میں سے سید، مغل، پٹھان، قریشی وغیرہ.یہ تو حضرت عیسٰیؑ کو بار بار زندہ کہنے کا نتیجہ ہے.مگراب ایک دوسرا نسخہ ہم بتاتے ہیں وہ استعمال کرکے دیکھو اوروہ یہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ کو ( جیسا کہ قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے اور رسول کریمؐ نے فعلی شہادت دے دی) وفات شدہ مان لو.ان میں سے ایک شخص جو کہ لمبے قد کا تھا وہ بولا کہ آپ سچ کہتے ہیں آپ اپنا کام کئے جاویں میں نے آپ کا طریق سمجھ لیا ہے.واقع میں اسلام کی خیرا سی میں ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰیؑ کے حق میں تَوَفّی کا لفظ استعمال کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رؤیت سے فعلی شہادت دی کہ ان کو معراج کی رات مُردوں کے ساتھ دیکھا.بھلازندوں کو مُردوں سے کیاتعلق؟ حضرت عیسٰیؑ اگر زندہ ہوتے تو ان کے واسطے توکوئی الگ کوٹھڑی چاہیے تھی نہ یہ کہ وہ بھی مُردوں کے ساتھ ہی رہیں.تَوَفّی کا لفظ بجز وفات کے جسم عنصری سے آسمان پر چڑھ جانے کے ہرگز قرآن شریف سے کوئی ثابت نہ کرسکے گا.دیکھو! یہی لفظ تَوَفّی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں قرآن شریف نے بولا ہے.اِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ

Page 266

نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ۠ (یونس ـ:۴۷) اور حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں بھی یہی لفظ تَوَفّی ہی آیا ہے تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ (یوسف:۱۰۲) اب جائے غور ہے کہ اَوروں کے واسطے تویہی لفظ موت پر دلالت کرے مگر حضرت عیسٰیؑ کے حق میں اگر آجاوے تواس میں کچھ ایسی تاثیر پیدا ہوجاتی ہے کہ اس کے معنے بجائے موت کے جسم عنصری سے آسمان پر چڑھ جانے کے ہوجاتے ہیں.سب سے پہلا اجماع جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوا وہ وفات عیسٰیؑ کے مسئلہ پر ہے.ایک دفعہ مفتی محمد صادق صاحب جو ایک بڑے مخلص آدمی ہیں ان کو ایک بشپ پادری سے زندہ رسول کے مسئلہ پر مباحثہ کرنے کا موقع ملا.جس کی تفصیل یہ ہے کہ لاہور میں ایک لارڈ بشپ نے ایک بڑے بھاری مجمع میں یہ بیان کیا کہ مسلمانوں کا رسول (نعوذ باللہ ) زندہ نبی کہلانے کا مستحق نہیں ہے زندہ نبی صرف حضرت عیسٰیؑ ہی ہیں.مسلمانوں کے رسول مدینے میں مدفون اور مسیحؑ زندہ آسمان پر خدا کے داہنے ہاتھ بیٹھا ہے.سب مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا کہ تم ہی سوچو اورفیصلہ کرو کہ افضل ان میں سے کون ہے ؟مسلمان بیچاروں کے پاس اس سوال کا کیا جواب تھا؟ اتفاق سے مفتی محمد صادق صاحب اس جلسہ میں موجود تھے.انہوں نے یہ حال دیکھ کر غیر تِ اسلامی کے تقاضا اور جوش سے اٹھ کر کہا کہ میں آپ کے اس سوال کا جواب دیتا ہوں.چنانچہ انہوں نے حضرت مسیح کی وفات کو بیان کرکے کہا کہ قرآن شریف میں حیاتِ مسیح کا کہیں بھی ذکر نہیں.قرآن شریف ان کو باربار انبیاء کی طرح وفات یافتہ قراردے چکا ہے.یہ جواب سن کر وہ بشپ چونک پڑا اورکوئی جواب اس سے بن نہ آیا.صرف یہ کہہ کرٹال دیا کہ معلوم ہوتا ہے تم مرزائی ہو.ہم تم سے گفتگو نہیں کرتے.ہمارے مخاطب عام مسلمان ہیں.اس واقعہ نے ہمارے دشمنوں کے دلوں پر بھی اثرکیا اور اندر ہی اندر وہ ملزم ہوگئے اور ان کو یقین ہوگیا کہ آج اگر کوئی عیسائیوں پر غالب آسکتا ہے تو وہ یہی فرقہ ہے اور لوگوں نے متفق اللفظ یہ کہا کہ اگر چہ ہیں تو کافر مگر آج اسلام کی عزت انہی لوگوں نے رکھ لی ہے.

Page 267

صداقت کے زبردست نشانات فرمایا کہ قربان جائیے ایسے کفر کے جو اسلام کی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا باعث ہو.پس یاد رکھو کہ دنیا میں ایسے رہو جیسے کوئی غریب.مسافر گٹھڑی باندھے سفر کو تیار بیٹھا ہوتاہے.دنیا کے بہت سے فکر اپنے ذمے ڈال لینے ٹھیک نہیں ہوتے.دیکھو دنیا میں طرح طرح کے آفات کیسے خطرناک حملے کررہے ہیں طاعون ہے، زلزلے ہیں، قحط ہے، ان کے علاوہ اورسینکڑوں آفات ارضی وسماوی ہیں.ان کے ہوتے ہوئے انسان مطمئن کیسے ہوسکتا ہے؟ دیکھو! یہی طاعون یہ بھی ہماری صداقت کا ایک زبردست نشان ہے.ہم نے اللہ تعالیٰ سے وحی پاکر اس مرض کی خبر اس وقت دی تھی جبکہ پنجاب میں اس کا نام و نشان بھی نہ تھا اور یہ کوئی ہمارا صرف زبانی دعویٰ نہیں بلکہ باربار ہم نے اس کے متعلق اپنی کتابوں اورسلسلہ کے اخباروں میں لکھ کردنیا کواطلاع دی تھی کہ خطرناک طاعون ملک میں پھیلنے والا ہے.ہرایک کوچاہیے کہ قبل اس کے کہ وہ واردہوجاوے توبہ استغفار میں مصروف ہوجائو اور اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کر لومگر بہت تھوڑے تھے جنہوں نے ہماری بات کو سچا جانا اور اس کی طرف توجہ کی.ہم نے دیکھا کہ ملک کے مختلف حصوں میں بعض لوگ سیاہ رنگ کے درخت لگارہے تھے.ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ درخت طاعون کے ہیں اورپھر ایک ہاتھی کا ساجانور جس کے اعضا مختلف حیوانات سے مشابہ تھے اورمجموعی شکل ہاتھی سے مشابہ تھی، دیکھا کہ وہ ہاتھی ایک بَن میں کبھی ادھر اور کبھی ادھر مختلف سمتوں میں جاتا تھا اورمختلف قسم کے جنگلی جانوروں مثل ہرن، بکری، سانپ، خرگوش وغیرہ وغیرہ پر حملہ کرتا اوران کو کھاجاتا.جب وہ حملہ کرتا توجانوروں کے شوروغل سے ایک قیامت کا شوربپا ہوجاتا اوراس کے ہڈیوں وغیرہ کے چبانے کی آواز ہم سنتے تھے ایک طرف سے فارغ ہوکر وہ ہمارے پاس آجاتا اوراس کے چہرہ سے بڑے حلم اور غربت کے آثار نمایاں تھے اور گویا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ زبانِ حال سے کہتا ہے کہ میرا اس میں کیا قصور ہے میں تومامور ہوں.مجھے جو حکم ہوتا ہے اس کی تعمیل کرتا ہوں.تھوڑی دیر ہمارے پاس ٹھہرنے کے بعد پھر دوسری طرف جاتا اوروہاں بھی پہلے کی طرح عمل کرتا

Page 268

اور پھر میرے پاس آبیٹھتا.ایک طرف تو وہ جنگلی جانوروں کو کھاتا اور دوسری طرف ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خدا کے نازل شدہ غضب سے وہ خود بھی ہیبت زدہ تھا.یہ باتیں ہم نے آج نہیں بنالیں بلکہ یہ اس وقت کی ہیں کہ جب طاعون کا ملک میں نام ونشان بھی نہ تھا.کیا اس قسم کی غیبی پیشگوئیاں انسان کی طاقت میں ہیں ؟اورانسان ایسے غیب کے بتانے پر قادر ہوسکتا ہے ؟غور تو کرو کہ یہ کس قسم کا افترا ہے جو عین دعویٰ کے مطابق ظہور پذیر ہوکر صدقِ دعویٰ کی ایک زبردست اورلاجواب دلیل بن گیا ہے.پھر زلزلہ کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے قبل ازوقت خبر دی تھی.زلزلہ کا دھکا اور عَفَتِ الدِّیَارُ مَـحَلُّھَا وَمَقَامُھَا دیکھو پھر کیسا زلزلہ آیا اور کیسی کیسی تباہیاں دنیا میں واقع ہوئیں.ذرا کانگڑہ کے مندر کے حالات ہی غور سے پڑھ سن لئے جاویں تواس پیشگوئی کی عظمت اورہیبت معلوم ہوگی.کیا یہ انسان کا کام ہے؟ہرگز نہیں.پس اگر یہ خدا کا کلام ہے توپھر کیوں خدا کے مقابلہ میں ایسی جرأت اوردلیری کی جاتی ہے.اولیاء اورصاحبِ کشف لوگوں کے نزدیک مہدی اور مسیح موعود کا زمانہ میں کمزور اورایک عاجز انسان ہوں مگر خدا جس سے چاہے کام لے لے.یہ اس کی بندہ نوازی ہے کسی کا حق نہیں کہ خدا کے فعل پر اعتراض کرے.زمانہ آگیا تھا اور تمام اہل اللہ نے اس وقت کی خبر دی تھی.حجج الکرامہ میں بہت سے اولیاء اللہ اوراہل کشف لوگوں کے اقوال کے حوالے درج کرکے صدیق حسن خاں نے یہ ثابت کیا ہے کہ جتنے بڑے بڑے اولیاء اورصاحب کشف لوگ تھے تمام نے متفق طورسے یہی خبر دی ہے کہ آنے والا مہدی اور مسیح موعود چودھویں (صدی) میں ہی آوے گا.چودھویں صدی سے آگے کوئی بھی نہیں بڑھا.پھر آگے چل کرلکھا ہے کہ’’کاش وہ میرے زمانہ میں پیدا ہوں تومیں ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاسلام پہنچادوں ورنہ میں اپنی اولاد کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس کو پاویں گے میرا سلام پہنچاویں.‘‘ مگر ہم جانتے ہیں کہ ایسے لوگوں کوبہت کم توفیق قبولِ حق

Page 269

کی ملتی ہے کیونکہ سنّت اللہ یہی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت کے زمانہ سے پہلے ایک شخص بڑے زور سے وعظ کیا کرتا تھا کہ لوگو! نبی آخرالزمان آنے والے ہیں.ان کی آمد کے تمام نشانات اورلوازم پورے ہوگئے ہیں مگر خدا کی شان کہ جب آپؐمبعوث ہوئے تواوّل المکذّبین ہوا.اصل بات یہ ہے کہ ہم زمانہ ہونا بھی ایک فخر اورتکبر بےجا پیدا کردیتا ہے جو قبولِ ہدایت سے محرومی کا باعث ہوجاتا ہے.صدیق حسن نے بھی ہماری کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا اور بے ادبی کی تھی مگر بہت دن نہ گذرے کہ خدائی عتاب میں آگیا اور آخر بڑی عاجزی اورانکسار سے دعا کے واسطے لکھا.ہم نے اس کے واسطے دعا کی اورخدا نے ہمیں خبر دی کہ ہم نے اس کی عزت کو سرکوبی سے بچالیا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اوراس کے واسطے نوابی کا خطاب بحال رکھنے کا حکم آگیا مگر وہ اس حکم کے آنے سے پہلے وفات پاچکا تھا.۱ انبیاء کا ساتھ دینے والے ہمیشہ کمزوراور ضعیف لوگ ہوتے ہیں مسٹر محمد علی جعفری ایم.اے وائس پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور کو جو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں ملاقا ت کے واسطے حاضر ہوئے.حضرت اقدسؑ نے مخاطب کرکے فرمایا.میں جب مامور ہواتھا اورخدا نے اس سلسلہ کو بہت صاف طورسے قائم کیا.کوئی شک وشبہ نہیں تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اورقرآن شریف کے عین منشا کے مطابق اور ٹھیک وقت پر ظہور تھا اور پھر صداقت دعویٰ کے ساتھ خدائی نشان بھی تھے تو میں نے سب سے اوّل اس اَمر کو گروہ علماء کے پیش کیا.کیونکہ میں جانتا تھا کہ علماء اس اَمر کو سب سے پہلے قبول کریں گے.میرا خیال تھا کہ یہ لوگ بوجہ علومِ دین سے واقفیت رکھنے کے بلا عذر مجھے قبول کرلیں گے کیونکہ میرادعویٰ عین قرآن وحدیث کے مطابق اورضرورتِ حقہ کے واسطے تھا اوریہ لوگ خود انتظار میں تھے ۱ الحکم جلد ۱۲نمبر ۳۳مورخہ ۱۴ ؍مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۱تا ۷

Page 270

اور تحریراً تقریر اً اپنے وعظوں اورلیکچروں میں کہا کرتے تھے کہ چودھویں صدی میں مسیح موعود کا آجانا یقینی اورقطعی ہے اورعلاوہ ازیں کُل علامات جو یہ بیان کرتے تھے میری صداقت کے لئے ظاہر ہوچکی تھیں.مگر ہماری وہ امید بالکل غلط نکلی علماء کی طرف سے ہمیں اس دعوت کا جو جواب ملاوہ ایک فتویٰ تھا جس میں ہمیں کافر، اکفر، ضالّ، مُضلّ، دائرہ اسلام سے خارج، یہود اورنصاریٰ سے بدتر قرار دیا اورلکھا گیا کہ ان لوگوں کو اپنی قبروں میں داخل نہ کیا جائے.ان کے جنازے نہ پڑھے جاویں.ان کے ساتھ ملاقات نہ کی جاوے.ان سے مصافحہ نہ کیا جائے.حتی کہ یہاںتک تشدد کیا کہ جو ان سے میل جول رکھے گا وہ بھی انہی میں سے ہوگا.پھر ان لوگوں سے یہ جواب پاکر ہمیں خیال آیا کہ تعلیم یافتہ لوگ عموماً بے تعصب اورعناد سے پاک ہوتے ہیں.لہٰذا اسی خیال سے ہم نے پھر اپنی دعوت نئے تعلیم یافتہ گروہ کے پیش کی مگر ان میں سے اکثر کو بے قید پایا اور اکثر کو دیکھا کہ وہ خود اسلام میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں اور ان کا یہ خیال ہے کہ اسلام کی تعلیم ایک جاہلانہ اور وحشیانہ زمانہ کی تعلیم تھی اب اس کی ضرورت نہیں.اب اس سے فراغت حاصل کرنی چاہیے اورزمانہ کی رفتار کے مناسبِ حال ترمیم کرلینی چاہیے.غرض اس طرح سے اس قوم کے لوگوں سے بھی محرومی ہی ہوئی.الاماشاء اللہ پھر رئوسا کے گروہ کی طرف اپنی دعوت بھیجی کہ ان کو دنیا کا حصہ دیا جاتا ہے اوریہ سیدھے سادے مسلمان ہوتے ہیں.چنانچہ ان میں سے ایک شخص صدیق حسن خاں نے ہماری کتاب کو چاک کر کے واپس بھیج دیا اوراس طرح سے اپنی قساوتِ قلبی کا اظہار کیا.ان کے بعد ہم نے سمجھا کہ یہ سعادت ہمیشہ ضعفا ہی کا حصہ ہوتی ہے چنانچہ ہمارا یہ خیال بالکل صحیح نکلا اورسنّتِ قدیمہ کے بموجب ضعفا ہی اکثر ہمارے ساتھ ہوئے جن کو نہ مولویت کاگھمنڈ اورنہ دولت کا تکبّر بلکہ بالکل سادہ لوح اورپاک نفس ہوتے ہیں.اور وہی خدا کے بھی مقرّب ہوتے ہیں، چنانچہ اسی گروہ میں سے کئی لاکھ انسان اب ہمارے ساتھ ہیں.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جب نبوت کا خلعت خدا سے پاکر دعوتِ اسلام کے

Page 271

خط بادشاہوں کو لکھے تھے تو ان میں سے ہرقل قیصرروم کے نام بھی ایک خط لکھا تھا.اس نے خط پڑھ کر کسی عرب کی جو آپؐکی قوم کاہو تلاش کرائی.چنانچہ چند قریشی جن میں ابوسفیان بھی تھا پیش خدمت کئے گئے.ان سے بادشاہ نے چند سوال کئے جن میں یہ بھی تھے کہ اس شخص کے آباء واجداد میں سے کبھی کسی نے نبوت کا دعویٰ تونہیں کیا ؟جس کا جواب نفی میں دیا گیا.پھر پوچھا گیا کہ کوئی بادشاہ تونہیں گذرا اس کے بزرگوں میں؟ اس کا جواب بھی نفی میں دیا گیا.پھر یہ سوال کیا کہ اس شخص کے پیرو کون لوگ ہیں؟ اس کے جواب میں کہا گیا کہ ان کی پیروی کرنے والے غریب اور کمزور لوگ ہیں.پھر اس نے دریافت کیا کہ لڑائیوں میں کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ جواب دیا گیا کہ کبھی وہ فتح پاتا ہے اور کبھی ہم کامیاب ہوتے ہیں.ان سوالات کے جوابات سن کر قیصر نے اقرار کیا کہ انبیاء ہمیشہ دنیا میں اسی شان میں آیا کرتے ہیں ان کے ساتھ اوّل میں ہمیشہ کمزور اورضعیف لوگ ہی شامل ہوا کرتے ہیں اس شخص نے اپنی فراستِ صحیحہ سے معلوم کرلیا کہ واقعی یہ شخص سچا نبی ہے اوریہ وہی نبی ہے جس کی پیشگوئی کی گئی ہے چنانچہ اس نے یہ بھی کہا وہ وقت قریب ہے کہ وہ میرے تخت کا بھی مالک ہوجاوے گا.غرض یہ سنّت ِقدیمہ ہے کہ انبیاء کا ساتھ دینے والے ہمیشہ کمزور اورضعیف لوگ ہی ہواکرتے ہیں بڑے بڑے لوگ اس سعادت سے محروم ہی رہ جاتے ہیں ان کے دلوں میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو ان باتوں سے پہلے ہی فارغ التحصیل سمجھے بیٹھے ہوتے ہیں.وہ اپنی بڑائی اور پوشیدہ کبر اور مشیخیت کی وجہ سے ایسے حلقہ میں بیٹھنا بھی ہتک اورباعث ننگ وعار جانتے ہیں جس میں غریب مگر مخلص کمزور مگر خدا کے پیارے لوگ جمع ہوتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ صدہالوگ ایسے بھی ہماری جماعت میں داخل ہیں جن کے بدن پر مشکل سے لباس بھی ہوتا ہے.مشکل سے چادر یا پاجامہ بھی ان کو میسر آتا ہے.ان کی کوئی جائیداد نہیں مگر ان کے لاانتہا اخلاص اور ارادت سے محبت اور وفا سے طبیعت میں ایک حیرانی اورتعجب پیدا ہوتا ہے جوا ن سے وقتاً فوقتاً صادر ہوتا رہتا ہے یا جس کے آثار ان کے چہروں سے عیاں ہوتے ہیں وہ اپنے ایمان کے

Page 272

ایسے پکے اوریقین کے ایسے سچے اور صدق وثبات کے ایسے مخلص اورباوفا ہوتے ہیں کہ اگر ان مال ودولت کے بندوں اس دنیوی لذّات کے دلدادوں کو اس لذّت کا علم ہوجائے تواس کے بدلے میں یہ سب کچھ دینے کو تیار ہوجاویں.ان میں سے مثال کے طور پر ایک شخص شاہزادہ مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم ہی کے حالات کو غور سے دیکھ لو کہ کیسا صدق کا پکا اور وفاکا سچا تھا.جان تک سے دریغ نہیں کیا.جان دے دی مگر حق کو نہیں چھوڑ ا.ان کی جب مخبری کی گئی اور ان کو امیر کے روبروپیش کیا گیا تو امیر نے ان سے یہی پوچھا کہ کیا تم نے ایسے شخص کی بیعت کی ہے؟ تو اس نے چونکہ وہ ایک راستباز انسان تھا صاف کہا کہ’’ہاں میں نے بیعت کی ہے مگر نہ تقلیداً اندھا دھند بلکہ علیٰ وجہ البصیرت اس کی اتباع اختیار کی ہے.میں نے دنیا بھر میں اس کی مانند کوئی شخص نہیں دیکھا.مجھے اس سے الگ ہونے سے اس کی راہ میں جان دے دینا بہتر ہے.‘‘ غرض مرحوم اس بات کا ایک نمونہ چھوڑ گئے ہیں کہ ہمارے تعلق رکھنے والے کیسے صادق الایمان اورصادق الاعتقاد ہیں.منکرین کا انجام اصل بات یہ ہے کہ مشکلات صرف یہی ہیں کہ لوگوں کوامور دینی میں تدبّر کرنا اورخدا سے ڈرکر کسی معاملہ میں غورکرنا اورحق وباطل میں امتیاز چاہنا اور یہ تڑپ رکھنا کہ آیا یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے یا نہیں اس طرف توجہ ہی نہیں.مگر یادرکھو کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فعل عبث نہیں بلکہ اس نے حق وحکمت سے سلسلہ قائم کیا ہے اورضرورتِ حقّہ کے وقت اس کو کھڑا کیا ہے.پس وہ منکروں سے ضرورمطالبہ کرے گا مَااَرْسَلَ اللہُ رَسُوْلًا اِلَّا اَخْزٰی بِہٖ قَوْمًا لَّا یُؤْمِنُوْنَ.یاد رکھو کہ دنیا میں ایسا کوئی بھی نبی یا رسول نہیں گذرا جس کے منکروں کو خدا تعالیٰ نے ذلّت اور رُسوائی کا عذاب نہ دیا ہو.یہ ضروری اورلازمی ہوتا ہے کہ رسول کی حجت پوری کردینے کے بعد منکر قوم کو حق وباطل میں امتیاز پیدا کرنے کے واسطے عذاب دیا جاوے.خدا تعالیٰ کے نزدیک دوبڑے گناہ خدا کے نزدیک دوبڑے ہی سخت گناہ ہیں.اوّل افترا اور تَقَوُّل عَلَی اللہِ.یعنی یہ کہ کوئی شخص

Page 273

دعویٰ کرے کہ خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے یا وحی یا الہام کرتا ہے حالانکہ اسے نہ کوئی وحی ہوتی ہے اور نہ الہام اورنہ خدااس سے کبھی ہمکلام ہوا حتی کہ جھوٹی خواب کا بنالینا بھی اسی میں داخل ہے.غرض ایک تویہ اَمر کہ خدا پر افترا کرنا حالانکہ خدا جانتا ہے کہ وہ کاذب ہے.دوسرے وہ شخص خدا کے بڑے سخت غضب اورعتاب کا مورد ہوگا جو ایک صادق اورخدا کی طرف سے آنے والے کا انکار کرتا ہے.بہر حال ہمارا مطلب یہ ہے کہ یہ بات ہمیشہ سے چلی آئی ہے اور اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے عملی طورپر ایک سلسلہ نبوت قائم کرکے دکھا دیا ہے.اس سے اس قدر فائدہ تو اٹھانا چاہیے کہ جہاں اَوراپنے دنیوی کاروبار کے واسطے اتنی سرگردانی اورمحنت اورکوشش کرتے ہو اس بات کی بھی کچھ تحقیقات توکر وکہ آیا جو اپنے کاروبار کو خدا کی طرف منسوب کرتا ہے اور اتنا بڑا دعویٰ پیش کرتا ہے اتنا تو معلوم کرلیں کہ یہ صادق ہے یا کاذب.پھر خدا فرماتا ہے کہ جو شخص میرے رسول کی نافرمانی کرے گا میں اس کو نہیں چھوڑوں گا جب تک اس سے اس انکار کا مطالبہ نہ کرلوں.معمولی حکام اورگورنمنٹ بھی اپنے احکام کی تحقیر کرنے والوں اورباغیوں کو بغیر سزا نہیں چھوڑتی توپھر وہ خداہے اور احکم الحاکمین ہے ذرّہ ذرّہ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے تو پھر اس کے مرسل کی نافرمانی اوراس کے احکام کی ہتک کرنے والا کس طرح امن میں رہ سکتا ہے.صداقت مسیح موعود علیہ السلام اگر میرے ساتھ خدا کا کوئی نشان نہ ہوتا اور نہ اس کی تائید اورنصرت میرے شاملِ حال ہوتی اور میں نے قرآن سے الگ کوئی راہ نکالی ہوتی یا قرآنی احکام اور شریعت میں کچھ دخل وتصرّف کیا ہوتا یا منسوخ کیا ہوتا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے باہر کوئی اورنئی راہ بتائی ہوتی توالبتہ حق تھا اور لوگوں کا عذر معقول اورقابل قبول ہوتا کہ واقع میں یہ شخص خدا اور خدا کے رسول کا دشمن اور قرآن اور تعلیم قرآن کا منکر اور منسوخ کرنے والا ہے، فاسق ہے، فاجر ہے، مرتد ہے، مگر جب میں نے نہ

Page 274

قرآن میںکوئی تغیر کیا اورنہ پہلی شریعت کا جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے ایک شوشہ اور نقطہ میں نے بدلا بلکہ میں قرآن اور احکام قرآنی کی خدمت اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک مذہب کی خدمت کے واسطے کمربستہ ہوں اور جان تک میں نے اپنی اسی راہ میں لگادی ہے اور میرا یقین کامل ہے کہ قرآن کے سواجو کامل، اکمل اورمکمل کتاب ہے اوراس کی پوری اطاعت اور بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے نجات ممکن ہی نہیں اورقرآن میں کمی بیشی کرنے والے اورآنحضرتؐکی اطاعت کا جؤا اپنی گردن سے اتار نے والے کو کافر اورمرتد یقین کرتا ہوں تو پھر اس صورت میں اورباوجود میری صداقت کے ہزارہا نشان ظاہر ہوجانے کے جو کہ خدا نے آج تک میری تائید میں آسمان اور زمین پر ظاہر کئے پھر مجھے جو شخص کاذب اور مفتری اوردجّال کے نام سے پکارتا ہے یا جو میری پروا نہیں کرتا اور میری آواز کی طرف کان نہیں دھرتا یقیناً جانو کہ خدا بغیر مواخذہ اسے ہرگز ہرگز نہ چھوڑے گا.اسلام کی کشتی غرق ہونے کو ہے.زمانہ شہادت دے رہا ہے اوروقت پکار پکار کر ضرورت کو محسوس کررہا ہے.اندرونی حالت ایسی خطرناک ہے کہ اس سے ہرگز ہرگز کسی کا دل مطمئن اورخوش نہیں ہوسکتا.بیرونی حملے ایسے خطرناک ہیں کہ قریب ہے کہ اسلام کو بیخ وبُن سے اکھاڑ پھینکیں تو کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ کسی کو خدا اسلام کی حمایت کے واسطے مبعوث فرماتا اورکوئی مجدّد بھیجتا جو اسلام کی ڈوبتی نائو کو سنبھال لیتا؟ صدی کاسر بھی گذر گیا مگر کُل وعدے جھوٹے ہی جھوٹے نکلے؟ توپھر تم ہی بتائو کہ کیا ابھی وہ وقت نہیں کہ خدا اسلام کی خبر گیری کرتا؟ یا کوئی اس سے بھی زیادہ خطرناک اورنازک حالت ہوگی؟ کیا جب اسلام بالکل مَر ہی جاوے گا اور اس میں کوئی دم باقی نہ رہے گا اس وقت کوئی آوے گا ؟پھر ایسے آنے والے سے کیا فائدہ اور کیا حاصل؟ یادرکھو کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو پھر اسلام بھی جھوٹا ہے اوراگر اسلام بھی دوسروں کی طرح ایک مُردہ مذہب ہے توپھر اسلام میں کیا بڑائی ہے اوراس کی کیا خصوصیت؟ توحید جس کا ہم تم کو ناز ہے اس کے توبرہمواورآریہ بھی دعویدار ہیں.ایک شخص نے اسی لاہور میں ایک دفعہ لیکچر دیا تھا کہ ہم لوگ

Page 275

لَاۤاِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کے قائل ہیں پھر ہمیں مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ کی کیا حاجت ہے؟ جب یہ صورت ہے اور توحید کے اورمذاہب بھی قائل ہیں تو پھر تم میں اور تمہارے غیروں میں مابہ الامتیاز ہی کیا ہوا؟ جہاد کی حقیقت اگر یہی جہاد وغیرہ کے عقائد ہی مابہ الامتیاز ہیں تو پھر یاد رکھو کہ یہ سخت غلطی ہے اوراس طرح تم اسلام کے حامی نہیں بلکہ دشمن ہو، اسلام کو بدنام کرتے ہو.دیکھو! اگر ہمیں اس بات کا علم ہوتا کہ واقع میں قرآن شریف کا یہی منشا ہے تو پھر ہم اس ملک کے باہر چلے جاتے اور ایسی جگہ اپنا قیام گاہ بناتے جہاں سے ہمیں ان احکام کی ادائیگی میں ہر طرح کی سہولت اور آسانی ہوتی اورخوب دل کھول کر ان احکام کو بجا لاتے مگر میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن کا یہ منشا نہیں جو بدقسمتی سے بعض نادان ملّانوں نے سمجھا ہے.اصل بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس زمانہ میں بڑے بڑے مشکلات کا سامنا تھا.آپؐکے بہت سے جان نثار اور عزیز دوست ظالم کفّار کے تیروتفنگ کا نشانہ بنے اور طرح طرح کے قابلِ شرم عذا ب ان لوگوں نے مسلمان مردوں اورمسلمان عورتوں کو پہنچائے حتی کہ آخر کار خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ کرلیا.چنانچہ آپ کا تعاقب بھی کیا.آپ کے قتل کرنے والے کے واسطے انعام مقرر کئے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے.تعاقب کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی گئی.مگر یہ تو خدا کا تصرّف تھا کہ آپ کو ان کی نظروں سے باوجود سامنے ہونے کے بچالیا اور ان کی آنکھوں میں خاک ڈال کر خود اپنے رسول کو ہاتھ دے کر بچالیا.آخر کا رجب ان کفار کے مظالم کی کوئی حد نہ رہی اور مسلمانوں کو ان کے وطن سے باہر نکال کر بھی وہ سیر نہ ہوئے توپھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ارشاد نازل ہوا اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرٌ(الـحج :۴۰) خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو تلوار اٹھانے کی اجازت دی اور اس اجازت میں یہ ثابت کردیا کہ واقع میں جو لوگ ظالم تھے اور شرارت ان کی حد سے بڑھ چکی تھی اور مسلمانوں کا صبر بھی اپنے انتہائی نقطہ تک پہنچ چکا تھا.اب خدا نے فرمایا کہ جن لوگوں نے تلوار سے مقابلہ کیا وہ تلوار ہی سے ہلاک کئے جاویں اور گو یہ چند اورضعیف ہیں مگر میں دکھا

Page 276

دوں گا کہ میں بوجہ اس کے کہ وہ مظلوم ہیں ان کی نصرت کروں گا اور تم کو ان کے ہاتھ سے ہلاک کرائوں گا.چنانچہ پھر اس حکم کے بعد ان ہی چند لوگوں کی جو ذلیل اورحقیر سمجھے گئے تھے اور جن کا نہ کوئی حامی بنتا تھا اورنہ مددگار اوروہ کفّار کے ہاتھ سے سخت درجہ تنگ اورمجبور ہوگئے تھے ان کی مشارق اورمغارب میں دھاک بندھ گئی اوراس طرح سے خدا نے ان کی نصرت کرکے دنیا پر ظاہر کردیا کہ واقعی وہ مظلوم تھے.غرض ہر طرح سے ہر رنگ میں اورہر پہلو پر نظر ڈال کر دیکھ لو واقع میں اس وقت مسلمان مظلوم تھے یا کہ نہیں؟ اگر خدا ایسے خطرناک اور نازک وقت میں بھی ان چند کمزور مسلمانوں کو اپنی حفاظت جان کے واسطے تلوار اٹھانے اور دفاعی طور سے لڑائی کرنے کی اجازت نہ دیتا تو کیا ان کو دنیا کے تختہ سے نابود ہی کردیتا ؟توپھر اس حالت میں ان کا تلوار اٹھانا جبکہ ہر طرح سے ان کا حق تھا کہ وہ تلوار اٹھاتے کیا تو شرعاً اور کیا عرفاً.مگر وہ بھی آج تک نشانہ اعتراض بنا ہوا ہے اور متعصب اورجاہل دشمن اب تک اس کو نہیں بھولتے تو کیا اب یہ لوگ خونی مہدی کا عقیدہ پیش کرکے ان کے ان اعتراضوں کو پھرتازہ کرتے اورمسلمانوں سے متنفر کرنا چاہتے ہیں.دیکھو مہدی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صاف فرما دیا ہے کہ یَضَعُ الْـحَرْبَ وہ جنگ کا خاتمہ کردے گا اور وہ جنگ ایک علمی جنگ ہوگا.قلم تلوار کا کام کرے گااوراسرارِ روحانی، برکات سماوی اورنشاناتِ اقتدار ی سے دنیا کو فتح کیا جاوے گا اور دلائل قاطع اور براہینِ ساطع سے اسلام کا غلبہ ثابت کیاجاوے گا.اور تازہ بتازہ غیبی پیشگوئیوں اور تائیداتِ خدائی سے سچے مذہب کو ممتاز کرکے دکھایا جاوے گا.یہ کہہ دینا کہ معجزات سابقہ ہمارے پاس موجود ہیں کافی نہیں.یاد رکھو کہ ہندوئوں کے پستکوں اورعیسائیوں اور یہودیوں کی کتابوں کے قصے کہانیوں سے بڑھ کر تمہارے پا س بھی کچھ نہیں.اگر تم قصے پیش کرو گے تووہ تم سے بڑھ چڑھ کر قصے پیش کرسکتے ہیں.اگر اسلام کی سچائی کا معیار بھی صرف قصے کہانیوں کی بنا پر رہ گیا ہے توپھر یادرکھو کہ یہ اَمر مشتبہ ہے.انبیاء کے وجود اورنشانات کی ضرورت اسلام میں فرقان ہے.خدا نے ہمیشہ سے اسلام میں ایک اَمرِ خار ق رکھا ہے اورتازہ بتازہ

Page 277

نشانات ہیں.نشان کا نام سن کر آجکل کے فلسفہ پڑھنے والے کچھ کشیدہ خاطر ہوتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ خداکے وجود کا پتہ لگانے کے واسطے نشانات اورانبیاء کے وجود کی کیا ضرورت ہے ؟ مگر یادر کھو کہ اس نظام شمسی اوراس ترتیب عالم سے جو کہ ایک اَبلغ اورمحکم رنگ میں پائی جاتی ہیں اس سے نتیجہ نکالنا کہ خدا ہے یہ ایک ضعیف ایمان ہے اس سے خدا کے وجود کے متعلق پوری تسلّی نہیں ہو سکتی، امکان ثابت ہوتا ہے.یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یقیناً خدا ہے اگر اس میں یقینی اورقطعی دلائل ہوتے تو پھر لوگ دہر یہ کیوں ہوتے ؟بڑے بڑے محقّق کتابیں تالیف کرتے ہیں مگر ان کے دلائلِ ناطقہ اور براہینِ قاطعہ نہیں ہوتے.کسی کا منہ بند نہیں کرسکتے اور نہ ان سے یقینی ایمان تک انسان پہنچ سکتا ہے.اگر ایک شخص ان امور سے خدا کی ہستی کے دلائل بیان کرے گا تو ایک دہریہ اس کے خلاف دلائل بیان کردے گا.در اصل بات یہ ہے کہ اس طرح اتنا ثابت ہوسکتا ہے کہ خداہونا چاہیے.یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ’’ہے‘‘.ہونا چاہیے اورہے میں بہت بڑا فرق ہے.’’ہے‘‘ مشاہدہ کو چاہتا ہے.مگر دوسرا حصہ جو وجودِ باری تعالیٰ کے واسطے انبیاء نے پیش کیا ہے کہ زبردست نشانات معجزات اورخدا کی زبردست طاقت کے ظہور سے اس کی ہستی ثابت کی جاوے.یہ ایک ایسی راہ ہے کہ تما م سر اس دلیل کے آگے جھک پڑتے ہیں اصل میں بہت سے عرب دہر یہ تھے جیسا کہ قرآن شریف کی آیت ذیل سے معلوم ہوتا ہے اِنْ هِيَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَ نَحْيَا (المؤمنون :۳۸) کیا عرب جیسے اجڈ اور بےباک، بے قید، بے دھڑک لوگ تلوار سے آپؐنے سیدھے کئے تھے اوران کی آپؐکی بعثت سے پہلی اورپچھلی زندگی کا عظیم الشان امتیاز اور فرق اس وجہ سے تھا کہ وہ آنحضرتؐکی تلوار کا مقابلہ نہ کرسکے تھے؟ یا کیا صرف سادہ اورنری اخلاقی تعلیم تھی جس سے ان کے دلوں میں ایسی پاک تبدیلی پیدا ہوگئی تھی؟ نہیں ہرگز نہیں.یاد رکھو کہ تلوار انسان کے ظاہر کو فتح کر سکتی ہے مگر دل کبھی تلوار سے فتح نہیں ہوتے.بلکہ وہ وہ انوار تھے جن میں خدا کا چہر ہ نظر آتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایسے ایسے خارق عادت نشانات دکھائے تھے کہ خود خدا

Page 278

ان لوگوں کے سامنے آموجود ہواتھا اورانہوں نے خدا کے جلال اورجبروت کو دیکھ کر گناہ سوز زندگی اورپاک تبدیلی اپنے اندر پید اکرلی تھی.خدا تعالیٰ پر زندہ ایمان پیدا کرنے کی ضرورت اب پھر وہی وقت ہے اور ویسا ہی زمانہ.پس اس وقت بھی خدا کی ہستی کا یقین اسی ذریعہ سے ہوگا جس ذریعہ سے ابتدا میں ہوا تھا.اسلام وہی اسلام ہے لہٰذا اس کی کامیابی اور سرسبزی کے بھی وہی ذرائع ہیں جو ابتدا میں تھے.اب بھی ضرورت ہے تو اس بات کی کہ خد ا کے چہرہ نما ہیبت ناک اقتداری نشانات ظاہر ہوں اور یقین جانو کہ کوئی شخص گناہ سے نہیں پاک ہو سکتا جب تک خدا کی معرفت کامل نہ ہو.یہ گناہ اور طرح طرح کے معاصی جو چاروں طرف دنیا میں بھرے پڑے ہیں ان کے دور کرنے کے واسطے صرف خشک ایمان کافی نہیں.کیا وہ خوفِ خدا جیسا کہ چاہیے دنیا میں موجود ہے.نہیں ہر گز نہیں.اصل میں انسان نفسِ امّارہ کی زنجیروں میں ایسا جکڑا ہوا ہے.جیسے کوئی چڑیا کا بچہ ایک شیر کے پنجے میں.جب تک اس نفس کے پنجے سے نجات نہ پا جاوے تب تک تبدیلی محال ہے اور گناہ سے بچنا مشکل.مگر دیکھو! اگر ابھی ایک ہیبت ناک زلزلہ آجاوے اور در و دیوار اور مکان کا چھت لرزنے لگے تو دلوں پر ایک ایسی ہیبت طاری ہو گی اور ایسا خوف دلوں پر چھا جائے گا کہ اس وقت گناہ کا خیال تک بھی دلوں میں نہ رہے گا.ایک خطرناک مہلک مرض کے وقت جو حالت انسان کی ہوتی ہے.وہ امن اور آرام و آسائش کی زندگی میں ہر گز ممکن نہیں.انسان اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کرنے کے واسطے خدا تعالیٰ کی تجلیات اور زبر دست نشانوں کا محتاج ہے.ضروری ہے کہ خدا کوئی ایسی راہ پیدا کردے کہ انسان کا ایمان خدا پر تازہ اور پختہ ہو جاوے اور صرف زبان تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اس ایمان کا اثر اس کی عملی حالت پر بھی ظاہر ہو جاوے اور اس طرح سے انسان سچا مسلمان ہو جاوے.اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں الہاماً

Page 279

یہ فرمایا.؎ چو دور خسروی آغاز کردند مسلماں را مسلماں باز کردند یہ خدا کا کلام ہے.آجکل اگر نظر عمیق سے اور غور سے دیکھا جاوے تو زبانی ایمان ہی کثرت سے نظر آوے گا.پس خدا کا یہی منشا ہے کہ لفظی اور زبانی مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنایا جاوے.یہودی کیا توریت پر ایمان نہیں لاتے تھے قربانیاں نہ کرتے تھے.مگر خدا نے ان پر لعنت بھیجی اور کہا کہ تم مومن نہیں ہو بلکہ بعض نمازیوں کی نماز پر بھی لعنت بھیجی ہے جہاں فرمایا ہے وَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۠ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ (الماعون:۵،۶) یعنی لعنت ہے ایسے نمازیوں پر جو نماز کی حقیقت سے بے خبر ہیں.صلوٰۃ اصل میں آگ میں پڑنے اور محبت الٰہی اور خوفِ الٰہی کی آگ میں پڑ کر اپنے آپ سے جل جانے اور ماسوی اللہ کو جلا دینے کانام ہے اور اس حالت کانام ہے کہ صرف خدا ہی خدا اس کی نظر میں رہ جاوے اور انسان اس حالت تک ترقی کر جاوے کہ خدا کے بلانے سے بولے اور خدا کے چلانے سے چلے.اس کی کل حرکات اور سکنات، اس کا فعل اور ترکِ فعل سب اللہ ہی کی مرضی کے مطابق ہو جاوے خودی دور ہو جاوے.غرض یہ باتیں ہیں اگر خدا کسی کو توفیق دے تو.مگر جب تک خدا کسی کے دل کے دروازے نہ کھولے کوئی کچھ کر نہیں سکتا.دلوں کے دروازے کھولنا خدا ہی کاکام ہے اِذَا اَرَادَ اللہُ بِعَبْدٍ خَیْـرًا اَقَامَ وَاعِظًا فِیْ قَلْبِہٖ.جب انسان کے اچھے دن آتے ہیں اور خدا کو انسان کی درستی اور بہتری منظور ہو تی ہے تو خدا انسان کے دل میں ہی ایک واعظ کھڑا کر دیتا ہے.اور جب تک خود انسان کے اندر ہی واعظ پیدا نہ ہو تب تک بیرونی وعظوں کا اس پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا.مگر وہ کام خدا کا ہے.ہمارا کام نہیں ہے ہمارا کام صرف بات کا پہنچادینا ہے مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ (المآئدۃ:۱۰۰) تصرّف خدا کا کام ہے.ہم اپنی طرف سے بات کا پہنچا دینا چاہتے ہیں.ایسا نہ ہو کہ ہم پوچھے جاویں کہ کیوں اچھی طرح سے نہیں بتایا.اسی واسطے ہم نے زبانی بھی لوگوں کو سنایا

Page 280

ہے.تحریری بھی اس کا م کو پورا کر دیا ہے.دنیا میں کوئی کم ہی ہو گا جو اب بھی یہ کہہ دے کہ اس کو ہماری تبلیغ نہیں پہنچی یا ہمارا دعویٰ اس تک نہیں پہنچا.۱ ۳؍مئی ۱۹۰۸ء (بروز اتوار.بمقام لاہور برمکان ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب ) خدا تعالیٰ کو شناخت کرنے کا طریق ایک دہریہ سے ملاقات کے دوران فرمایا.طبائع میں اختلاف ہوتا ہے.بعض طبائع میں ایسی استعداد ہوتی ہے کہ وہ حق کے قبول کرنے میں جلدی کرتی ہیں اور بعض ایسی بھی ہوتی ہیں کہ حق ان کی سمجھ میں آ تو جاتا ہے مگر دیر بعد.اور بعض ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان میں قبولِ حق کی استعداد دبتے دبتے ایک وقت بالکل زائل ہی ہوجاتی ہے.خدا جس کا وجود مخفی درمخفی اور نہاں درنہاں ہے.ہم نے اس کو ایسا نہیں مانا کہ وہ ایک ہیولیٰ ہے.ایسا ایک انسان جس کو سچا شوق، حقیقی جوش اوردلی تڑپ ہے کہ وہ خدا کو پہچانے اس کے لئے تمام گذشتہ قصص اور واقعات پر نظر ڈال کر غور کرنا از بس مفید ہوسکتا ہے.تاریخ ایسے انسان کے واسطے رہبری کرسکتی ہے.تاریخ اور تمام واقعاتِ سلف بجز اس کے اور کوئی راہ نہیں بتاتے کہ خدا کو خداکے عجائبات قدرت اورتصرّفات سے جوکہ وہ بذریعہ اپنے الہامات، وحی اور مکالمات دنیا پر ظاہرکرتا ہے پہچان سکتے ہیں.اس راہ سے بڑھ کر اورکوئی یقینی راہ خدا کی شناخت کی ہر گز نہیں ہے.جن لوگوں کو وہ خاص کرلیتا ہے اورحصہ معرفت ان کو عطاکرتا ہے ان پر وہ مکالمہ مخاطبہ کا فیضان جاری کرتا ہے.عشّاق کی تسلّی اور تسکین کے لئے دیدار یا گفتار دوہی چیزیں ہیں.جہاں دیدار نہیں ہوسکتا وہاں گفتاردیدار کی جابجا اورقائم مقام ہوجاتی ہے.ایک مادر زاد نا بینا گفتارہی کے ذریعے شناسائی کرسکتا ہے.اللہ تعالیٰ چونکہ غیر محدود ہے اوراس کی ذات ایسی نہیں کہ اس کی رئویت اوردیدار جسمانی چیزوں کی طرح ہوسکے.اس واسطے اس نے

Page 281

اپنی گفتار جس کو بالفاظ دیگر الہام، وحی، مکالمات کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے، دیدار کے قائم مقام رکھ دی ہے.کم ہیں جن کودیدار ہوتا ہو.اکثر گفتار ہی کے ذریعہ تسلّی پاتے اورطمانیت حاصل کرتے ہیں.کلام اللہ کا امتیاز اس جگہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھلا یہ کیوں کر معلوم ہوکہ وہ گفتار جو انسان سنتا ہے واقعی خدا کا کلام ہے کسی اور کا نہیں؟ سواس کے لئے یادرکھنا چاہیے کہ خدا کے کلام کے ساتھ خدائی طاقت، جبروت اورعظمت ہوتی ہے جس طرح تم لوگ ایک معمولی انسان اور بادشاہ کے کلام میں فرق کرسکتے ہو اسی طرح اس احکم الحاکمین کے کلام میں بھی شوکت وسطوتِ سلطانی ہوتی ہے جس سے شناخت ہوسکتی ہے کہ واقعی یہ کلام بجز خدائے عزّوجل کے اور کسی کا نہیں.ملہمین کی علامات دوسرابڑابھاری نشان اس شناخت اور تمیز کا یہ ہوتا ہے کہ جس انسان سے خدا کلام کرتا ہے وہ خالی نہیں ہوتا بلکہ اس میں بھی خدائی شان جلوہ گر ہوتی ہے اوروہ بھی ایک گونہ خدائی صفات کا مظہر اورجلو ہ گاہ ہوتا ہے.اس میں وہ لوازم پائے جاتے ہیں.اس میںایک خاص امتیاز ہوتا ہے.علومِ غیبی جو سفلی خیالات کے انسانوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتے وہ ان کو عطا کئے جاتے ہیں.اس کی دعائیں قبول کرکے اس کو اطلاع دی جاتی ہے اور اس کی اس کے کاروبار میں خاص نصرت اور مدد کی جاتی ہے اورجس طرح خدا سب پر غالب ہے اور اس کو کوئی جیت نہیں سکتا.اسی طرح انجامکار وہ بھی غالب اور ہر طرح سے مظفر ومنصور اورکامیاب وبامراد ہوجاتے ہیں.غرض یہ نشان ہوتے ہیں جن کے ذریعہ سے عقلمند انسان کو ضرورتاً ماننا ہی پڑتا ہے کہ واقعی یہ انسان مقرّب بارگاہ ہے اور پھر یہ بھی ماننا ہی پڑتا ہے کہ خدابھی ضرور ہے.ہمیں ایسے لوگوں سے بھی گفتگو اورملاقات کا اتفاق ہوا ہے جو مصنوعات سے صانع کو پہچاننے اور شناخت کرنے کی راہ اختیار کرتے ہیں اور اس طریق کو ہم نے آزمایا بھی ہے.مگر یادرکھو کہ یہ راہ ٹھیک نہیں ادھوری ہے

Page 282

اس راہ سے انسان کو حقیقی معرفت اوریقین کامل جو انسان کی عملی حالت پر اثر ڈال سکے ہر گز ممکن نہیں.زیادہ سے زیادہ بس یہی ہوتا ہے کہ خداہونا چاہیے.مگر ہے اورہونا چاہیے میں زمین وآسمان کا فرق ہے.معرفتِ کاملہ اس بیان سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ معرفت بھی وہی فائدہ بخش ہوسکتی ہے جس سے انسان میں ایک تبدیلی بھی پیدا ہو.ایک شخص جوبینائی اورقوتِ رئویت کا دعویٰ کرے مگر اس کے دعوے کے ساتھ کوئی عملی ثبوت نہ ہو اور وہ کھڑا ہوتے ہی دیواروں سے ٹکریں کھائے کیا اس کا دعویٰ قابل پذیرائی ہوسکتا ہے؟ ہرگزنہیں.کارآمد صفت کمال ہی ہے.نیم ملاں خطرۂ ایمان اورنیم حکیم خطرۂ جان مشہور مقولے ہیں.پس کامل معرفت کی تلاش کرنا شرط ہے اوروہ اسی راہ سے میسر آسکتی ہے جو راہ انبیاء دنیا میں لائے.ایک دہریہ تو وہ ہے جو صانع کے وجود کا منکر ہے اوریہ گروہ قدیم سے ہے مگر میں کہتا ہوں فرض کرلو کہ دنیا میں ایسا ایک بھی متنفّس نہیں تو بھی ہر وہ جس کوکامل معرفت نہیں وہ بھی دہریہ ہے.جب تک کامل معرفت نہ ہو اس وقت تک کچھ نہیں.جس طرح ایک دانہ بھوک کو اورایک قطرہ پیاس کو نہیں مٹاسکتے اسی طرح خشک ایمان جس کے ساتھ کمال معرفت اپنے تمام لوازم کے ساتھ نہیں نجات نہیں دلاسکتا.جس طرح وہ انسان زندہ نہیں رہ سکتا جس کو بھوک کے وقت کھانا اور پیاس کے وقت پانی دیکھنا تک بھی نصیب نہیں ہوا.اسی طرح وہ بھی ہلاک ہوجائے گا جس نے بھوک کے وقت ایک دانہ دیکھ لیا یا کھالیا اور ایک قطرہ شدید پیاس کے وقت دیکھ لیا یا پی بھی لیا ہو.پس بعینہٖ اسی طرح سے معرفت کامل ہی موجب نجات ہوسکتی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ ان محسوسات میں بھی کامل علم اور معرفت ہی کا اثر ہوتا ہے.ایک انسان کے پاس خواہ ایک شیر یا بھیڑیا آجاوے مگر جب تک وہ شیر کو شیر اوربھیڑیئے کو بھیڑیا بمع ان کے تمام لوازم اورخواص کے یقین نہیں کرلیتا ان سے کوئی خوف نہیں کرتا.ایک زہریلے سانپ کو جوانسان ایک چوہا یقین کرتا ہوگا وہ اس سے ہرگز گریز اورپرہیز نہ کرے گا مگر اس علم کے ساتھ ہی کہ یہ ایک زہر یلا

Page 283

سانپ ہے اوراس کا کاٹنا گویا پیغامِ اجل ہے.وہ اس سے خوف کرے گا اورمعاً الگ ہوجاوے گا.عقیدہ کفارہ دیکھو! نفسِ امّارہ انسان کے ساتھ ساتھ لگا ہوا ہے اور خون کی طرح انسان کے ہررگ وریشہ میں اورذرّہ ذرّہ میں داخل ہے.عیسائیوں نے تو ایک سہل اور آسان راہ نکال لی.ایک شخص کو سُولی پر چڑھادیا.اب قیامت تک عیسائی نسل کا ہر فرد جو چاہے سوکرلے اس کو کوئی سوال ہی نہیں ہوگا.خون مسیح ان کے تمام گناہوں کا کفّارہ ہوچکا ہے.نادان نہیں سمجھتے کہ زید کے تو سردرد ہے بکرنے اٹھ کر اپنے سرمیں پتھر مارلیا.بھلا زید کو اس سے کیافائدہ؟ میں یقیناً کہتا ہوں کہ ایک بیمار کو مرغ کی یخنی جس قدر فائدہ پہنچا سکتی ہے ان کا کفّارہ اورخون مسیح اس قدر بھی مفید نہیں ہے.ان کے پادری جو دوسروں کو تعلیم دیتے ہیں خود ان کے اپنے حالات نہایت ہی خطرناک ہیں.کفّارہ کے عقیدہ نے ان کو بہت دلیر کردیا ہے.گناہ ایک خطرناک زہر ہے مگر جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ خونِ مسیح کافی ہے اور کفّارہ پر ایمان لے آنا تمام گناہوں کے واسطے کفّارہ ہو جاتا ہے وہ گناہ کے زہر کو زہر یقین کرے توکیسے ؟ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک پادری زنا کے جرم میں پکڑا گیا.عدالت میں جب اس سے سوال ہوا توا س نے بڑی دلیری اورجرأت سے کہا کہ کیا مسیح کا خون میرے واسطے کافی نہیں ہوچکا ہے؟ غرض ان کا کفّارہ ہی تمام بدیوں کی جڑ ہے.ہمارے نزدیک کوشش کرکے انسان جب تک ایک پاک تبدیلی کی طرف نہیں جھکتا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں حاصل ہوسکتا.نفسِ امّارہ کا مغلوب کرنا بہت بڑا بھاری مجاہد ہ ہے.اسی نفسِ امّارہ ہی کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے انسان نہ حق اللہ کو اداکرسکتا ہے اورنہ حق العباد سے سبکدوش ہوسکتا ہے.حق اللہ اور حق العباد شریعت نے دوہی حصے رکھے ہیں.ایک حق اللہ اور دوسراحق العباد.حق اللہ کیا ہے ؟یہی کہ اس کی عبادت کرنا اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا اور ذکر اللہ میں لگے رہنا اس کے اَوامر کی تعمیل اورنواہی سے اجتناب کرنا، اس کے محرمات سے بچتے رہنا وغیرہ.

Page 284

حق العباد کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی پر ظلم نہ کرنا اور کسی کے حقوق میں دست اندازی نہ کرنا جہاں اس کا کوئی حق نہیں ہے.جھوٹی گواہی نہ دینا وغیرہ.اب یہ دونوں اَمر ایسے مشکل ہیں کہ تمام گناہ، جرائم، معاصی اور دوسری طرف تمام نیکیوں کے اصول اسی میں آگئے ہیں.کہنے کو توہر ایک کہہ لیتا ہے کہ میں اپنی قوت سے گناہ سے بچ سکتا ہوں مگر انسان فطرت سے الگ ہرگز نہیں ہوسکتا.فطرتِ انسانی کسی کپڑے کا دامن توہے نہیں کہ پلید ہوا تو کاٹ کر الگ کردیا جاسکے.فطرت روح کا پیدائشی جزو ہے.پس جبکہ انسانی فطرت میں ہی یہی رکھا گیا ہے کہ انسان انہی امور سے خائف ہوتا اورپرہیز کرتا ہے جن کو وہ اپنی ہلاکت کا باعث اور مضر یقین کرتا ہے.کسی نے کوئی نہ دیکھا ہوگا کہ اسڑکنیا کو باوجود اسٹرکنیا یقین کرنے کے دانستہ استعمال کرے یا سانپ کوسانپ یقین کرتے ہوئے ہاتھ میں پکڑ لے یا ایک طاعون زدہ گائوں میں جہاں موتاموتی کابازار گرم ہے خواہ مخواہ جاگھسے.اس اجتناب اور پرہیز کی وجہ کیا؟ یہی کہ ان باتوں کو وہ مہلک یقین کرتا ہے.گناہ سے بچنے کا راز پس انسان معاصی اورجرائم کی مرض سے تب ہی نجات پاسکتا ہے کہ اسے چور اور سانپ وغیرہ سے بڑھ کر ان کے مضر اور نقصان دہ ہونے کا یقین ہو اور خدا کا جلا ل، اس کی عظمت اورجبروت ہر وقت اس کے مدّنظر ہو.انسان اپنی حرص و خواہش اوردلی آرزوئوں کو بھی ترک کرسکتا ہے.مثلاً ایک ذیابیطس کا مریض جس کو ڈاکٹر کہہ دے کہ شیرینی کا استعمال بالکل ترک کردو.پھر اپنی جان کی خاطر میٹھے کو چُھوتا بھی نہیں.پس یہی حال روحانی حرص وہوا اور خواہشاتِ نفسانی کا ہے.اگر خدا کی عظمت اور اس کا جلال سچے طور سے اس کے دل میں گھر کرچکا ہوتو پھر اس کی نافرمانی آگ کے کھانے اور موت سے بھی بدتر محسوس کرے گا.انسان کو جس قدر خدا کے اقتدار اورسطوت کا علم ہوگا اور جس قدر یقین ہوگا کہ اس کی نافرمانی کرنے کی سخت سزا ہے اسی قدر گناہ اورنافرمانی اور حکم عدولی سے اجتناب کرے گا.دیکھو! بعض لوگ

Page 285

موت سے پہلے ہی مَر رہتے ہیں.یہ اخیار، ابدال اوراقطاب کیا ہوتے ہیں؟ اوران میں کیا چیز زائد آجاتی ہے ؟وہ یہی یقین ہوتا ہے.یقینی اورقطعی علم ضرورتاً اورفطرتاً انسا ن کو ایک اَمر کے واسطے مجبور کردیتا ہے.خدا کی نسبت ظن کفایت نہیں کرسکتا.شبہ مفید نہیں ہوسکتا.اثر صرف یقین ہی میں رکھا گیا ہے.خدا کی صفات کا یقینی علم ایک ہیبت ناک بجلی سے بھی زیادہ اثر رکھتا ہے.اسی کے اثر سے تویہ لوگ سرڈال دیتے اورگردن جھکا دیتے ہیں.پس یاد رکھو کہ جس قدر کسی کا یقین بڑھا ہوا ہوگا اسی قدر وہ گناہ سے اجتناب کرتا ہوگا.بظاہر نظرتو گناہ سے بچنے والے اوراس قسم کا دعویٰ کرنے والے بہت ہوں گے مگر ان کی مثال وہی ہے جس طرح ایک پھوڑا جوکہ پیپ سے خوب بھر گیا ہو ظاہر ی جانب سے چمک اٹھتا ہے اور باقی حصہ جسم سے بھی اس کی چمک دمک اور روشنی بڑھی ہوئی نظر آتی ہے.مگر اندر اس کے پیپ اور گندہ مواد بھرے ہوتے ہیں.گناہ سے بچنے کے آثار بھی تو ساتھ ہوں.روشنی، دھوپ اور گرمی اس بات کے شاہد ہیں کہ آفتاب نکلا ہوا ہے.مگر جو شخص کہ رات کے وقت کہتا ہے کہ آفتاب چڑھا ہوا ہے حالانکہ آفتاب کے آثار نہیں.اب بتائو کہ کوئی اس کی بات کو باور کرے گا؟ ہر گزنہیں.پس یہی حال ان لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں حالانکہ اس ایمان کے آثار یعنی گناہ سے بکلّی نفرت اور پھر اس کے آثار کہ خدا کے فیوض و برکات اور تائیدات اور سچی پاکیزگی، تقویٰ اور طہارت ان میں مفقود ہوتے ہیں.یہ بات کہ انسان خدا کی رضا کے خلاف کاموں سے بالکل دست کش ہو جائے اور گناہ اور خدا کی نافرمانی اسے آگ کھانے سے بھی بدتر نظر آوے اور خدا کے مقابلہ میں کسی دنیوی جاہ وجلال کا رعب داب اس پر اثر نہ کرے بلکہ یہ ماسوی اللہ کو بجز ارادۂ الٰہی کسی کے نفع اور ضرر پہنچانے میں ایک مَرے ہوئے کیڑے کی طرح سمجھے اور ایسا ہوجائے کہ اس کا سکون اور اس کی حرکت اور اس کے تمام افعال خدا کی مرضی کے تابع ہو جاویں اور یہ اپنے آپ سے فنا ہو کر خد ا میں محو ہو جائے.

Page 286

گناہ سوز حالت پیدا کرنے کے لئے مامور کی ضرورت یہ تمام امور انسانی طاقت سے بالاتر ہیں.انسان کی اپنی طاقت نہیں کہ ان سب فضائل کو حاصل کر سکے اور تمام رذائل سے بکلّی پاک ہوسکے.سو اس غرض کے واسطے اللہ تعالیٰ کا یہ ہمیشہ سے قاعدہ ہے کہ وہ دنیا میں ایک انسان کو مامور کر کے بھیجا کرتا ہے اور اپنے عجائباتِ قدرت اس کے ہاتھ پر ظاہر کرتا ہے.اس کی دعائیں قبول کر کے اس کو اطلاع دیتا ہے.اس پر مکالمہ مخاطبہ کا فیضان جاری کرتا ہے.اور اس کے ہاتھ پر ایسے ایسے خارقِ عادت معجزات اور غیبی امور ظاہر کرتا ہے جن سے سفلی خیالات کے انسان عاجز ہوتے ہیں اور ایسے چمکتے ہوئے اور ہیبت ناک امور اس کی تائید میں ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں کے دل نورِ عرفان اور لذّتِ یقین سے پُر ہو کر گویا خدا کو دیکھ لیتے ہیں اور اس طرح سے خدا کی عظمت اور جبروت، سطوت اور ہیبت کے نظارہ کرنے سے ان کے دلوں میں سے غیراللہ اور تمام گندی اور نفسانی خواہشات جو گناہ کا مبدء ہوتی ہیں جل جاتی ہیں اور خدا کا جلال اور اس کی کبریائی ان کے دلوں میں بیٹھ جاتی ہے.غرض اس طرح سے وہ ایک جماعت پاک دل انسانوں کی تیار کردیتا ہے.گناہ سوز حالت جب ہی پیدا ہو تی ہے جبکہ خدا اپنے جلال اور ہیبت کو دنیا میں ظاہر کر تا ہے اور جب اس کے جبروت وسطوت کا دورہ ہو کر دنیا پر ایک قہری تجلّی ہوتی ہے اور جس طرح ایک خطرناک بجلی جس میں ایک خوفناک کڑک اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی چمک ہو تی ہے دلوں پر اپنا تسلّط اور رعب بٹھا جاتی ہے.اسی طرح اس مامور کے زمانہ میں خدا کی جلالی صفات جلوہ گر ہو کر دنیا میں ایک پاک تبدیلی پیدا کر جاتا ہے.دیکھئے! اگر آپ کے پاس ایک آدمی نہایت ہی ردّی اور خستہ حالت میں آوے خواہ وہ درحقیقت بادشاہ ہی کیوں نہ ہو آپ پر اس کا کوئی اثر نہ ہوگا اور آپ اس کے آنے کی کچھ پروا نہ کریں گے بلکہ اگر وہ کچھ کہنا چاہے گا تو آپ حقارت سے اس کی بات کی طرف بھی متوجہ نہ ہوں گے مگر اگر وہی شخص اپنی شاہانہ شان و شوکت اور سلطانی جلال اور ہیبت لے کر آوے تو آپ کو اس کا استقبال بھی کرنا

Page 287

پڑے گا.عزت و عظمت بھی کرنی پڑے گی اور ضرور ہے کہ آپ ہمہ تن گوش ہو کر اس کے احکام کی بجا آوری کے لئے تیار ہو جائیں.پس یہی حال خدا کی معرفت کا ہے.جب تک کسی کو خدا کی معرفت ہی نہیں وہ تذلّل اور انکسار جو عبادت کا خلاصہ ہے کیسے بجا لا وے گا.سچ ہے.ع آناں کہ عارف تر اند ترساں تر میں نے آپ کو یہ سب کچھ قصے کہانیاں کے رنگ میں نہیں سنایا بلکہ خدا اب بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح کہ وید توریت اور انجیل کے زمانہ میں تھا اور اسی طرح اب بھی سنتا ہے جیساکہ پہلے زمانوں میں سنتا تھا اور اسی طرح اب بھی بولتا ہے جس طرح ان زمانوں میں بولا کرتا تھا اور اسی بات کے ثابت کرنے کے واسطے ہم آئے ہیں.گناہ کی حقیقت حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام اتنی تقریر فرماچکے تھے کہ سوال کیا گیا کہ بعض لوگ ایک اَمر کو گناہ یقین کرتے ہیں حالانکہ ایک دوسرے ملک یا خود اسی ملک کے بعض لوگ اسی اَمر کو گناہ نہیں مانتے یا ثواب یقین کرتے ہیں.تو اب ان میں اَمر فیصل کیا ہوا؟ فرمایا.آپ کے بیان میں یہ ثابت ہو گیا کہ کم از کم اختلاف تو ہے.پس اسی اختلاف میں ہی ہماری فتح ہے.ایک مومن اور محتاط انسان کی شان سے یہ بات بالکل بعید ہے کہ وہ مختلفہ امور کو اختیار کرے.مثلاً آپ ہی کے سامنے ایک کھانا رکھا جاوے.اتنے میں کوئی شخص آپ کو یہ بتادے کہ اس کھانے میں زہر کا احتمال ہے.اب آپ ہی فرماویں کہ کیا آپ اس کو استعما ل کریں گے؟ میں تو ہرگز یقین نہیں کر سکتا کہ ایک ایسا آدمی جس کو اپنی زندگی عزیز ہو اس کا ایک لقمہ بھی کھا سکے.بے شک یہ سچی بات ہے کہ دہریہ ایک بے باکی کا طریق اختیار کرتا ہے مگر اس کو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ یہ اَمر اس کے واسطے مضر نہیں اور وہ بچ گیا ہے بلکہ بات یہ ہے کہ جس طرح ہر درخت کے پھل لانے کا ایک معیّن وقت ہوتا ہے اسی طرح ہر زہر کے اثر کا بھی ایک وقت مقرر ہوتا ہے.بعض زہر ایسے ہیں کہ ہاتھوں ہاتھ اپنا اثر دکھا دیتے ہیں.بعض گھڑی اور بعض گھنٹے بعد اور بعض کی میعاد اس سے بھی زیادہ کئی دنوں کی ہو ا کرتی ہے.

Page 288

عقلمند انسان کو دیکھنا یہ چاہیے کہ اتنے نامی اور مشہور اوتار، نبی، رسول جو لاکھوں لاکھ دنیا میں آئے.انہوں نے دنیا میں کیا راہ قائم کی؟ اچھا! آپ ہی بتائیں کہ مہذب فرقہ کے لوگ چوری، جھوٹ، زنا وغیرہ امور کو کیسا خیال کرتے ہیں؟ پس اب یقین جانیں کہ خود یہ اختلاف ہی ظاہر کرتا ہے کہ واقعی وہ امور جن میں اختلاف کیا گیا ہے گناہ ہیں.علاج مرض کا کیا جانا چاہیے ہم کہتے ہیں کہ گناہ تو ایسی چیز ہے کہ خدا کی ہستی کو نہ ماننے والا بھی طبعاً اس سے نفرت کرتا ہے.پس ایک صحیح الفطرت انسان خواہ اس تک آسمانی تعلیم نہ بھی پہنچی ہو فطرتاً گناہ کو گناہ یقین کرتا اور قابل نفرت جانتا ہے.دوم یہ کہ بعض امور جو ممنوعات میں سے ہوتے ہیں وہ قانون اور باریک حکمت کے خلاف ہوتے ہیں اور خود انسان کے اپنے حق میں یا بنی نوع انسان کے واسطے بھی ان کا ارتکاب مضر ہوتا ہے.مثلا ً زنا سے زانی کو آتشک، سوزاک وغیرہ خطرناک امراض لاحق ہو کر وبالِ جان ہو جاتی ہیں.پس یاد رکھنا چاہیے کہ نہ خدا نے گناہ سے اس واسطے روکا ہے کہ اس میں اس کا کوئی نقصان متصوّر ہے اور نہ نیکی کی اس واسطے تاکید فرمائی ہے کہ اس میں اس کا کوئی فائدہ ہے بلکہ یہ اس کا رحم ہے کہ اس نے ایسے امور جو خود انسان کے اپنے ہی واسطے مضر تھے یا بنی نوع انسان کے واسطے مضر تھے ان سے روک دیا اور یہ اس کا کمال رحم ہے وہ چونکہ قدوس اور پاک ہے.اس کی قدوسیت اور پاکی کا تقاضا ہے کہ دنیا میں نیکی پھیلے.ورنہ انسان اگر بے قید ہو کر بدی اور گناہ کرے گا اور ممنوعاتِ شرعیہ کا ارتکاب کرے گا تو اس کا وبال بھی خود ہی برداشت کرے گا.خدا کا اس میں کچھ نقصان نہیں.۱ برمکان خواجہ کمال الدین صاحب وفاتِ مسیح علیہ السلام کے دلائل خلیفہ رجب الدین صاحب نے سوال کیا کہ حضور بعض لوگ دریافت کرتے ہیں کہ وفات مسیحؑ کے کیا دلائل ہیں؟ اس سوال کے جواب میں حضرت اقدسؑ نے ذیل کی تقریر فرمائی.فرمایا.حضرت عیسٰیؑ کی وفات قرآن شریف میں بہت آئی ہے.دو قسم کی آیات ہیں جن سے ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۶ مورخہ ۶؍اگست ۱۹۰۸ءصفحہ ۲تا۴

Page 289

ان کا وفات پانا ثابت ہوتا ہے بعض آیا ت عام ہیں اور بعض خاص حضرت عیسٰیؑ ہی کے متعلق.عام طور پر تمام انبیاء علیہم السلام کی وفات کے متعلق جس میں حضرت عیسٰیؑ بھی شامل ہیں یہ آیت واضح اور کھلا بیان کرتی ہے وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (اٰل عـمران : ۱۴۵) خَلَتْ کا لفظ قرآن شریف کے محاورے میں ہر گز کسی ایسے شخص کے واسطے استعمال نہیں ہوا جو زندہ ہو بلکہ ہمیشہ وفات یافتہ لوگوں پر ہی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے.اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی یہی معنے کئے ہیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر جب کہ حضرت عمر ؓ نے جوشِ محبت، وفور اُلفت کی وجہ سے تلوار کھینچ لی تھی اور آپؓننگی تلوار لئے گلیوں میں پھرتے تھے اور کہتے تھے کہ جو کوئی کہے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اس کی گردن مار دوں گا.حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقع سے خبر پاکر مسجد میں آئے اور منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا جس میں ابتداءً یہی آیت پڑھی وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ١ؕ اَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ....الـخ(اٰل عـمران : ۱۴۵) اس وقت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس آیت کو سن کر رو پڑے اور یہ سمجھا کہ گویا یہ آیت آج ہی اتری ہے اور حضرت عمر ؓ نے بھی جن کو اتنا جوش تھا کہ تلوار لئے پھرتے تھے اور ان کا یہ خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی وفات نہیں پائی اس خطبہ کے بعد تلوار چھوڑ دی اور پھر کبھی کوئی ایسا ذکر نہ کیا.اب ظاہر ہے کہ اگر صحابہ ؓ میں سے کسی ایک نفس واحد کا بھی یہ اعتقاد ہوتا کہ حضرت عیسٰیؑ زندہ بجسم عنصری آسمان پر ہیں تو کیوں وہ اس وقت اعتراض نہ کرتے اور کہتے کہ کیا وجہ ہے کہ ایک چھوٹی سی قوم کا رسول تو زندہ ہے پر ہمارا رسول جس کو خدا نے تمام جہان کے واسطے قیامت تک کی تمام انسانی نسلوں کے لئے بلا کسی خصوصیت کے بھیجا.وہ تو ستّر برس تک بھی زندہ نہ رہ سکے.پس صحابہ ؓ کا سکوت اور خاموشی اور کسی قسم کا اعتراض نہ کرنا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ تمام صحابہ ؓ حضرت عیسٰیؑ کو دوسرے انبیاء کی طرح وفات یافتہ یقین کرتے تھے اور کسی ایک کابھی ہر گز یہ اعتقاد نہ تھا کہ وہ آسمان پر زندہ بجسم عنصری خدا کے داہنے ہاتھ بیٹھے ہیں اور یہ اسلام میں سب سے پہلا اجماع ہے.

Page 290

دوسری آیت جو حضرت عیسٰیؑ کی وفات کے بارہ میں خصوصیت سے ذکر ہوئی ہے وہ خود حضرت عیسٰیؑ کا قول ہے جو وہ قیامت کے دن خدا کے حضور عرض کریں گے کہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ١ؕ وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ(المآئدۃ:۱۱۸) اللہ تعالیٰ کے اس سوال کے جواب میں کہ اے عیسٰیؑ! کیا تو نے اس قوم کو ایسی بد راہی اور گمراہی کی تعلیم دی کہ تجھے اور تیری ماں کو معبود بنالیں اور خدا ئے عزّوجل واحد و یگانہ کی عبادت کو ترک کر دیں؟ حضرت عیسیٰ ؑ کانوں پر ہاتھ دھریں گے اور قوم نصاریٰ کے گمراہ ہونے سے اپنی لاعلمی اور معذرت عرض کریں گے کہ اے خدا وند! مجھے ان کے حالات سے اسی وقت تک اطلاع تھی جب تک کہ میں ان میں رہا اور جب تک میں ان میں رہا تب تک میں نے ان کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم اس خدا کی عبادت کر و جو میرا اور تمہار ا سب کا ایک ہی خدا ہے.پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی اس کے بعد کا تو ہی نگران اور واقفِ حال ہے مجھے کوئی علم نہیں.اب یہ بات دوحال سے خالی نہیں.یا تو یہ لوگ اقرار کریں کہ واقعی قوم نصاریٰ ابھی تک بگڑی نہیں اور جو عقیدہ اتخاذِ ولد اور تثلیث وغیرہ کا انہوں نے اختیار کیا ہوا ہے یہی عین توحید اور رضاءِ الٰہی کاموجب اور موافق تعلیم حضرت مسیحؑ ہے جس کا اقرار ان کی زبانی قرآن میں موجود ہے اور یا یہ لوگ اس بات کا اقرار کریں کہ درحقیقت مسیح ناصری جو کہ بنی اسرائیل کی بھیڑوں کے واسطے مامور کیا گیا تھا.اپنی مفوّضہ خدمت کو انجام دے کر بموجب حکم الٰہی اپنی طبعی موت سے وفات پاگیا ہے اور کہ آئندہ وہ کبھی دنیا میں نہیں آسکتا بلکہ آنے والا امت محمد یہؐ میں سے ہو گا جو کہ ان کی خُوبُو پر ہونے اور مناسبتِ وقت اور مناسبتِ کام کے لحاظ سے مسیح کہلائے گا.ظاہر ہے کہ صورت اوّل خدا او ر خدا کے رسول قرآن اور قرآنی تعلیم کے بالکل خلاف ہے اور ایسی ہے کہ اس کے ماننے کے ساتھ ہی تمام اسلام کی عمارت گرتی ہے اور صورت دوم خدا کے منشا کے مطابق حقیقت الامر اور قرآنی تعلیم کا سچا اصول ہے اور اسی میں اسلام کی فتح، کامیابی، صداقت اور بزرگی کا اظہار ہے.اب ان کا اختیار ہے کہ ان دونوں راہوں میں سے جو راہ چاہیں اختیار کر لیں.

Page 291

ہم علیٰ وجہ البصیرت یقین رکھتے ہیں.کہ تَوَفّی کے معنے لغت عرب میں اور کلام خدا اور رسول میں ہرگز مع جسم عنصری اٹھائے جانے کے نہیں ہیں.تمام قرآ ن شریف کو یکجائی نظر سے دیکھنا چاہیے.قرآن خدا ئے علیم وخبیر کی طرف سے کامل علم اور حکمت سے نازل کیا گیا ہے.اس میں اختلاف ہرگز نہیں.بعض آیات بعض کی تفسیر واقع ہوئی ہیں.اگر ایک متشابہات ہیں تو دوسری محکمات ہیں.جب یہی لفظ اور مقامات میں دوسرے انبیاء کے حق میں بھی وارد ہے تو اس کے معنے بجز موت کے اور کچھ نہیں کئے جاتے تو پھر نہ معلوم کہ کیوں حضرت مسیحؑ کو ایسی خصوصیت دی جاتی ہے.کیا ابھی تک مسیحؑ کو خصوصیت دینے کا انہوں نے مزہ نہیں چکھا؟ دیکھو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں صاف یہ لفظ ہیں.اِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ۠ ( یونس : ۴۷) پھر حضرت یوسف ؑکے متعلق بھی قرآن شریف میں یہی تَوَفّی کا لفظ وارد ہے اور اس کے معنے بجز موت ہرگز نہیں ہیں.دیکھو تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ (یوسف :۱۰۲) یہ حضرت یوسفؑ کی دعا ہے تو کیا اس کے بھی یہی معنے ہیں کہ اے خدا! مجھے زندہ مع جسم عنصر ی آسمان پر اٹھا لے اور پہلے صلحاء کے ساتھ شامل کر دے جو کہ زندہ آسمان پر موجود ہیں.تَعٰلَى اللّٰہُ عَمَّا يَصِفُوْنَ.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابل میں جو ساحر فرعون نے بلائے تھے.ان کے ذکر میں تَوَفّی کا لفظ مذکور ہے جہاں فرمایا رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِيْنَ( الاعراف :۱۲۷) اب ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ خدا اور اس کے کلام کے مقابلہ میں دم مارے.قرآن حضرت عیسٰیؑ کو سراسر مارتا ہے اور ان کے وفات پا جانے کو دلائل اور براہینِ قطعیہ سے ثابت کرتا ہے اور رسول اکرمؐ نے اس کو معراج کی رات میں وفات یافتہ انبیاء میں دیکھا.جائے غور ہے کہ اگر حضرت عیسٰیؑ زندہ مع جسم عنصر ی آسمان پر اُٹھائے جا چکے تھے تو پھران کو وفات شدہ انبیاء سے کیا مناسبت؟ زندہ کو مُردہ سے کیا تعلق اور کیسی نسبت؟ ان کے لئے تو کوئی الگ کوٹھڑی چاہیے تھی.

Page 292

قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ( البقرۃ :۲۵۷) کوئی گڑ بڑ نہیں اور نہ کوئی شک و شبہ اس میں باقی ہے.مسلمان کہلا کر ایسی بات پیش کرنا جو قرآن کے خلاف اسلام کے متضاد.کیا عقلمندی ہے؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف جو شخص کسی اَمر پر اجماع کا قائل ہے وہ کذّاب ہے.صوفیا ء کرام اور بعض صلحاء اُمت خیر الانام کا یہی مذہب تھا کہ وہ وفات پاچکے اور آنے والا اسی اُمت میں سے ہوگا.مگر تعصب ایک ایسی بَلا ہے کہ باوجود دیکھنے کے نہیں دیکھتے اور باوجود جاننے کے نہیں سمجھتے.باوجود کانوں کے نہیں سنتے.افسوس تعصب اور ضد نے ان میں اپنے نفع نقصان کی بھی تمیز باقی نہیں رہنے دی.چالیس کروڑ انسان ایک ضعیف اور ناتواں انسان کو انہی دلائل سے خدا مان رہا ہے کہ وہ ازلی ابدی ہے.زندہ آسمان پر موجود ہے اور اس نے خلق طیر کیا.مُردوں کو زندہ کیا.اور یہ مسلمان ہیں کہ اپنے پائوں پر آپ کلہاڑی مارتے اور اپنی گردن کاٹنے کے واسطے خود ان کے ہاتھ میں چُھری دیتے اور ان کی اس خطرناک بُت پرستی میں مدد کرتے ہیں جس کے واسطے خدا تعالیٰ نے ایسا غضب ظاہر کیا.تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا(مریم:۹۱) ان نام کے مسلمانوں کو اتنا بھی علم نہیں کہ ان کی اپنی ہی اولاد کو خود ان کے اپنے اقوال کو حجت پکڑ کر ملزم کر کے مرتد کیا جاتا ہے.کاش یہ اس خواب غفلت سے بیدار ہوں اور دوست و دشمن اور اپنے نفع نقصان کو پہچانیں.یہ اسلام کے نادان دوست اتنا نہیں سمجھتے کہ خدا تو ایسا غیور ہے کہ ان کے عقائد فاسدہ کو بیخ وبُن سے اکھاڑتا اور ذرا سی دیر کے واسطے بھی ان کے مشرکانہ اصولوں کو سن نہیں سکتا.قرآن شریف میں تدبّر اورخوض کرنے والے جانتے ہیں کہ باطل کا سر کچلنے کے واسطے خدا نے کیسے کیسے حربے اختیار کئے ہیں.دیکھو! نصاریٰ نے مسیحؑ کے بن باپ ہونے کو اس کی خدائی کی دلیل خیال کیا تھا.خدا نے کس طرح ان کو آدمؑ کی نظیر پیش کر کے نادم و ذلیل کیا اور ان کے دعویٰ کو باطل کیا.اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ(اٰلِ عـمران : ۶۰) مسیحؑ تو بن باپ تھا.آدم اس سے بھی بڑ ھ کر خدائی کے لائق ہے کیونکہ یہاں باپ نہ ماں، دونوں ندارد.

Page 293

پس یاد رکھو کہ اگر فی الواقع حضرت مسیحؑ زندہ مع جسم عنصری آسمان پر گئے ہوتے اور خدا ان کی اس دلیل کو بھی سچا مانتا تو ضرور تھا کہ اس کی کوئی نظیر پیش کرکے ان کے اس باطل (خیال) کو بھی ملیا میٹ کر دیتا مگر خدا نے ان کی اس بات کو نفی کے رنگ میں باطل کیا ہے اور یہی جواب دیا ہے کہ وہ تو مَرگیا آسمان پر جانا کیسا؟ یادرکھو کہ اگر خدا کا بھی یہی منشا ہوتا کہ درحقیقت حضرت عیسٰیؑ زندہ آسمان پر ہیں تو ضرور تھا کہ بُت پرستی کی اس دلیل اور باطل کے اس دیو کے سر کچلنے کے واسطے بھی کوئی نظیر ہی کا حربہ چلاتا مگر خدا کے نظیر پیش نہ کرنے سے اور وفات کا جابجا ذکر کرنے سے یہ صاف عیاں ہے کہ وہ ضرور وفات پاچکا ہے اور زندہ آسمان پر نہیں ہے اور خدا نے ان کی اس دلیل کو مانا ہی نہیں ورنہ ضرور ی تھا کہ جس طرح پہلے نظیر پیش کرکے ان کو ملزم و خوار کیا یہاں بھی نظیری وجہ سے عیسائیت کے بُت کو پاش پاش کرتا مگر خدا نے ایسا نہیں کیا.اس کی یہی وجہ ہے کہ خدا نے ان کی اس دلیل کو ان کی وفات کے بیان سے ردّ کیا ہے اور درحقیقت ان کی اس حجت کا حقیقی اور اصل جواب یہی ہے کہ قرآن کا یہ منشا ہر گز نہیں کہ حضرت عیسٰیؑ زندہ آسمان پر اُٹھا لئے گئے بلکہ وہ بھی وفات پا چکے جس طرح تمام انبیاء وفات پاگئے.یہ عجیب بات ہے کہ چونکہ وہ قتل نہیں ہوئے اس واسطے آسمان پر چڑ ھ گئے.کیا جو قتل نہیں کیا جاتا وہ لازماً آسمان پر چلا جاتا ہے.جب تو پھر لاکھوں کروڑوں کو زندہ آسمان پر ماننا پڑے گا.اصل جھگڑا تو یہود کا یہ تھا کہ حضرت مسیحؑ کا رفع روحانی نہیں ہوا.وہ تو اس بات کو ثابت کرنا چاہتے تھے کہ نعوذ باللہ مسیح لعین اور مردود ہیں.اسی واسطے وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ ہم نے مسیح کو صلیب دیا اوراس طرح سے ان کو قتل کرنے کے مدعی تھے تاکہ اپنی کتاب کے فرمودہ کے مطابق ان کو جھوٹا نبی ثابت کریں.رفع جسمانی کے متعلق تو کوئی جھگڑا ہی نہ تھا.قرآن شریف چونکہ بنی اسرائیل کے متنازع فیہ امور میں حَکم اور قولِ فیصل ہے اس نے یہود کے اس اعتراض اور بہتان کا جو انہوں نے مسیحؑ کو لعنتی اور جھوٹا ثابت کرنے کے واسطے باندھا تھا جواب دیا کہ مَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ (النّسآء:۱۵۸،۱۵۹) کہ یہود نے جیسا کہ ان کا زُعم ہے حضرت مسیحؑ کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی

Page 294

اس طرح سے وہ ان کو جھوٹا نبی ثابت کرنے کے دعوے میں کامیاب ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کا رفع روحانی کیا اور ان کو ایسی ذلّت اور ادبار سے بچا لیا.اگر رفع جسمانی ہی نجات اور پاکیزگی اور مقبول اور محبوبِ الٰہی ہونے کا موجب ہے تو پھر تو سارے ہی نبی جھوٹے ٹھہرتے ہیں اور کوئی بھی نجات یافتہ نہیں رہتا چہ جائیکہ کوئی خدا کا محبوب اور مقبول بھی ہو (نعوذ باللہ من ذٰلک ) تعصب نے ان کو کسی کام کانہیں چھوڑا.۱ بلا تاریخ خدا تعالیٰ کو ہر چیز پر مقدم کرنا ہی نیک بختی ہے فرمایاکہ وہ ایمان کیا ہے اگر کوئی شخص کسی چیز کو یا کسی انسان کو خدا پر مقدم کر لے جب تک ہر ایک چیز پر خدا کو مقدم نہ کیا جائے تو وہ شرک کہلاتا ہے.دیکھو! ہمیں دودفعہ موقع پیش آیا ہے.ایک دفعہ تو مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات جبکہ نہایت زور سے دعا مانگنے کے بعد الہام ہوا.اِنَّ الْمَنَایَا لَا تَطِیْشُ سِھَامُھَا اور پھر بھی دعائوں کا سلسلہ جاری رہا تو الہام ہوا کہ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ یعنی اے لوگو! اس خدا کی پرستش کرو جس نے تم کو پیدا کیا پھر مبارک احمد کی وفات کے وقت بھی یہی الہام ہوا کہ اِنَّ الْمَنَایَا لَا تَطِیْشُ سِھَامُھَا اور پھر الہام ہوا کہ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ یعنی اس شخص نے مَرنا ضرور ہے اور عبادت کے لائق وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا.یعنی زندہ رہنے والا وہی ہے اسی سے دل لگائو پس ایمانداری تو یہی ہے کہ خدا سے خاص تعلق رکھا جائے اور دوسری سب چیزوں کو اس کے مقابلہ میں ہیچ سمجھا جائے اور جوشخص اولاد کو یا والدین کو یا کسی ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۷ مورخہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۸ء صفحہ ۲ تا ۴

Page 295

اور چیز کو ایسا عزیز رکھے کہ ہر وقت انہیں کافکر رہے تو وہ بھی ایک بُت پرست ہے.بُت پرستی کے یہی تو معنے نہیں کہ ہندوئوں کی طرح بُت لے کر بیٹھ جائے اور اس کے آگے سجدہ کرے حد سے زیادہ پیار و محبت بھی عبادت ہی ہوتی ہے.ہمیںتو بچپن سے اس بات کی سمجھ آگئی تھی اور اب بھی ہمارا لڑکا مبارک احمد فوت ہو گیا ہے اور اگر ایک مبارک کی جگہ لاکھ مبارک بھی آجائے اور خدا تعالیٰ فرمائےکہ یا ان کی طرف جائو یا ہماری طرف تو قسم بخدا ایک منٹ کے لئے یا ایک سیکنڈ کے لیے بلکہ اس کے ہزار ویں حصہ کے لیے کبھی دل میں یہ خیال نہ پیدا ہو کہ اس کی طرف نہ جائیں اور مبارک احمد کی طرف چلے جاویں.اولاد چیز کیاہے؟ بچپن سے ماں اس پر جان فدا کرتی ہے مگر بڑے ہو کر دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے لڑکے اپنی ماں کی نافرمانی کرتے ہیں اور اس سے گستاخی سے پیش آتے ہیں.پھر اگر فرمانبردار بھی ہو ں تو دکھ اور تکلیف کے وقت وہ اس کو ہٹا نہیں سکتے.ذراساپیٹ میں درد ہو تو تمام عاجز آجاتے ہیں.نہ بیٹاکام آسکتاہے نہ باپ نہ ماں نہ کوئی اور عزیز.اگرکام آتا ہے تو صر ف خدا.پس ان کی اس قدر محبت اور پیار سے فائد ہ کیا جس سے شرک لازم آئے؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ (التغابن:۱۶) اولاد اور مال انسان کے لئے فتنہ ہوتے ہیں.دیکھو! اگر خدا کسی کو کہے کہ تیری کل اولاد جو مَر چکی ہے زندہ کر دیتا ہوں مگر پھر میرا تجھ سے کچھ تعلق نہ ہو گا تو کیا اگر وہ عقلمند ہے اپنی اولاد کی طرف جانے کاخیال بھی کرے گا؟ پس انسان کی نیک بختی یہی ہے کہ خدا کو ہر ایک چیز پر مقدم رکھے.جو شخص اپنی اولاد کی وفات پر بُرامناتا ہے وہ بخیل بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ اس امانت کے دینے میں جو خدا نے اس کے سپر د کی تھی بخل کرتا ہے اور بخیل کی نسبت حدیث میں آتا ہے کہ اگر وہ جنگل کے دریائوں کے برابر بھی عبادت کرے تو وہ جنت میں نہیں جائے گا.پس ایسا شخص جوخدا سے زیادہ کسی چیز کی محبت کرتا ہے اس کی عبادت نماز روزہ بھی کسی کام کے نہیں.

Page 296

حضرت ایوب علیہ السلام کامثالی صبر حضرت ایوبؑکی طرف دیکھو کہ وہ کیسے صابر تھے خدا تعالیٰ نے ان کا ذکر قرآن شریف میں بھی کیا ہے کہ وہ میرا ایک صابر بندہ ہے.پہلی کتابوں میں ان کا ذکر بالتفصیل لکھا ہے کہ شیطان نے خدا تعالیٰ سے کہا کہ ایوبؑکیوں صبر نہ کرے کہ اس کو تو نے مال دیا ہے، دولت دی ہے، غلام دئیے ہیں، نوکر چاکر دئیے ہیں، اولاد دی ہے، بیوی دی ہے، صحت دی ہے تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تو اس کو آزما.اس پر پہلے تو ان کی بھیڑ بکریاں ماری گئیں.پھر اور بڑے بڑے جانور مارے گئے مگر پھر بھی حضرت ایوبؑنے صبر سے کام لیا.اس پر شیطان نے کہا کہ ابھی اس کے پاس دولت اور غلام اور اولاد ہے وہ صبر کیوں نہ کرے.اس پر اس کے غلام بھی مَر گئے.پھر انہوں نے صبر کیا.یہاں تک کہ ہوتے ہوتے سب کچھ ہلاک ہو گیا.ایک وہ اور ان کی بیوی رہ گئیں.پھر بھی شیطان نے کہا کہ ابھی ان کی صحت درست ہے اس پر ان کو جذام ہو گیا یعنی کوڑھ ہو گیا.پھر بھی انہوں نے صبرسے کام لیا.پس جب وہ اس طرح صابر اور صادق ثابت ہوئے تو خد ا تعالیٰ نے ان کوآگے سے بھی زیادہ مال ودولت، غلام، لونڈیاں اور اولاد عطا فرمائی اور صحت بھی عطا فرمائی.پس جب انسان صبر سے کام لے تو اس کو سب کچھ ہی مل رہتا ہے.انسان کو چاہیے جو کام کرے خدا کی رضا کے مطابق کرے.شیخ سعدی صاحب کیا عمدہ فرماتے ہیں.؎ کہ بے حکم شرع آب خوردن خطا است اگر خوں بہ فتویٰ بریزی روا است یعنی اگر تم خدا کے منشا کے برخلاف پانی پیو تو وہ گناہ ہے لیکن اگراس کے حکم کے مطابق خون بھی کردو تو وہ جائز ہے.پس میں تم کو سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا کے سوا جس چیز کی انسان خواہش کرتا ہے.نہ وہ اس کو ملتی ہے نہ خدا کیونکہ اس کے سوا ہر ایک چیز فانی ہے لیکن جو شخص خدا کو پسند کرتا ہے اس کو خدا بھی ملتا ہے اور دوسری چیزیں بھی ملتی ہیں اور اس کو جو خواہش ہوتی ہے وہ پوری ہو کر رہتی ہے.اب میں نے جو کچھ

Page 297

خدا کے لئے کہنا تھا وہ کہہ چکا.تم کو چاہیے کہ اپنے دین کی حفاظت کرو.۱ ۴ ؍مئی ۱۹۰۸ء (بعد نماز عصر.بمقام لاہور) جماعت کو نصیحت فرمایا.ملاقات سے غرض یہی ہوتی ہے کہ اَمرِ دین کے متعلق کچھ سوچا جاوے میں بار بار اور کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ ظاہر نام میں تو ہماری جماعت اور دوسرے مسلمان دونوں مشترک ہیں.تم بھی مسلمان ہو.وہ بھی مسلمان کہلاتے ہیں.تم کلمہ گو ہو وہ بھی کلمہ گو ہیں.تم بھی اتباع قرآن کا دعویٰ کرتے ہو.وہ بھی اتباع قرآن ہی کے مدعی ہیں.غرض دعووں میں تو تم اور وہ دونوں برابر ہو مگر اللہ صرف دعووں سے خوش نہیں ہوتا جب تک کوئی حقیقت ساتھ نہ ہو اور دعوے کے ثبوت میں کچھ عملی ثبوت اور تبدیلی حالت کی دلیل نہ ہو.اس واسطے اکثر اوقات مجھے اس غم سے سخت صدمہ پہنچتا ہے.ظاہری طور سے جماعت (کی) تعداد میں تو بہت ترقی ہو رہی ہے کیا خطوط کے ذریعہ سے اور کیا خود حاضر ہو کر دونوں طرح سے سلسلہ بیعت میں روز افزوں ترقی ہو رہی ہے.آج کی ڈاک میںبھی ایک لمبی فہرست بیعت کنندگان کی آئی ہے، لیکن بیعت کی حقیقت سے پوری واقفیت حاصل کرنی چاہیے اور اس پر کاربند ہونا چاہیے.اور بیعت کی حقیقت یہی ہے کہ بیعت کنندہ اپنے اندر سچی تبدیلی اور خوف خدا اپنے دل میں پیدا کرے اور اصل مقصود کو پہچان کر اپنی زندگی میں ایک پاک نمونہ کرکے دکھاوے اگر یہ نہیں تو پھر بیعت سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ بیعت پھر اس واسطے اور بھی باعث عذاب ہو گی کیونکہ معاہدہ کرکے جان بوجھ اور سوچ سمجھ کر نافرمانی کرنا سخت خطرناک ہے.میں خوب جانتا ہوں کہ ان باتوں کا کسی دل میں پہنچا دینا میرا کام نہیں اور نہ ہی میرے پاس کوئی ایسا آلہ ہے جس کے ذریعہ میں اپنی بات کسی کے دل میں بٹھا دوں.مگر یہ معاملہ مجھ سے ہی نہیں بلکہ تمام انبیاء اسی راہ پر آئے ہیں.اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ (القصص:۵۷) یہ ارشاد ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۸ مورخہ ۲۲؍اگست ۱۹۰۸ء صفحہ ۱،۲ (منقول از تشحیذ الاذہان)

Page 298

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوتا ہے.اب اورکون ہے جو اپنی مرضی سے کسی کو ہدایت پر قائم کرسکے.نصیحت کرنا اوربات پہنچانا ہمارا کام ہے یوں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس جماعت نے اخلاص اور محبت میں بڑی نمایاں ترقی کی ہے.بعض اوقات جماعت کا اخلاص، محبت اورجو شِ ایمان دیکھ کر خو دہمیں تعجب اورحیرت آتی ہے اوریہاں تک کہ دشمن بھی تعجب میں ہیں.ہزارہا انسان ہیں جنہوں نے محبت اوراخلاص میں توبڑی ترقی کی ہے مگر بعض اوقات پرانی عادات یا بشریت کی کمزوری کی وجہ سے دنیا کے امور میں ایسا وافر حصہ لیتے ہیں کہ پھر دین کی طرف سے غفلت ہوجاتی ہے.ہمارا مطلب یہ ہے کہ بالکل ایسے پاک اور بے لوث ہوجاویں کہ دین کے سامنے امورِ دنیوی کی حقیقت نہ سمجھیں اورقسماقسم کی غفلتیں جو خدا سے دوری اور مہجوری کا باعث ہوتی ہیں وہ دور ہو جاویں.جب تک یہ بات پیدا نہ ہو اس وقت تک حالت خطرناک ہے اورقابل اطمینان نہیں.کیونکہ جب تک ان باتوں کا ذرہ بھی وجود موجود ہے تواندیشہ ہے اورایک دبدہ لگی رہتی ہے کہ کسی وقت یہ باتیں زورپکڑ جاویں اورباعث حبط اعمال ہوجاویں.جب تک ایک قسم کی مناسبت پیدا نہیں ہوتی تب تک حالت قابل اطمینان نہیں ہوتی.دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد یادرکھو موت کا کوئی وقت نہیں.آئے دن طاعون ہیضہ، زلازل، وبائیں، قحط اور اَورطرح کے امراض انسان پر حملہ کررہے ہیں اور اگر یہ بھی نہ ہوں تب بھی بعض اوقات خدا تعالیٰ کی ناگہانی گرفت اس طور سے انسان کو آ دباتی ہے کہ پھر کچھ بن نہیں پڑتا.پس ضروری ہے کہ جو اقرار کیا جاتا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اس اقرار کا ہر وقت مطالعہ کرتے رہو اور اس کے مطابق اپنی عملی زندگی کا زندہ نمونہ پیش کرو.عمر کا اعتبار نہیں.دیکھو! ہر سال میں کئی دوست ہم سے جد ا ہوجاتے ہیں اور کئی دشمن بھی چل بستے ہیں.خدا نے بعض خوفناک خبریں دی ہیں اور وہ اپنی بات میں سچا ہے.ان سے اوربھی خوف آتا ہے وہ بہت ہی خطرناک ہیں.رنگا رنگ کے خوف احاطہ کئے ہوئے ہیں.

Page 299

طاعون نام ہے مری کا.لغت میں ہے الطاعون ـ:الموت.کسی کو کیا معلوم کہ خدا کا کیسا غضب بھڑکنے والا ہے.خدامحفوظ رکھے ممکن ہے کہ ایسا شدید ہوکہ جس کی برداشت ہی نہ ہو.قاعدہ کی بات ہے.جیسا کہ ہم نے کل بھی بیان کیاتھا کہ جب کوئی عذاب اور قہر الٰہی دور ہوجاتا ہے ہیضہ ہویا طاعون وبا ہو یا قحط تولوگ مطمئن ہوجاتے ہیں چہروں پر خوشی کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں اورجان لیتے ہیں کہ وقت جاتا رہا.پھر اس طرح سے دل سخت ہوجاتے ہیں.مگر تمہار اکام یہ ہونا چاہیے کہ خدا کے آئندہ وعدوں کو یاد کرکے ترساں ولرزاں رہو اور قبل از وقت سنبھل جائو.نت نئی توبہ کرو.جو توبہ کرتا ہے وہ نیکی کی طرف رجوع کرتا ہے اور جو توبہ نہیں کرتا وہ گناہ کی طرف جاتا ہے.حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے سے محبت کرتا ہے جو بہت توبہ کرتا ہے توبہ نہ کرنے والا گناہ کی طرف جھکتا ہے اورگناہ آہستہ آہستہ کفر تک پہنچادیتا ہے.تمہاراکام یہ ہے کہ کوئی مابہ الامتیاز بھی تو پیدا کرو.تم میں اور تمہارے غیروں میں اگر کوئی فرق پایا جاوے گا تو جب ہی خدا بھی نصرت کرے گا.ورنہ بنی اسرائیل کی طرف دیکھ لوکہ جب ان میں اوران کے غیر میں فرق نہ پایا گیا توباوجودیکہ حضرت موسٰی ان میں موجود تھے کافروں سے کیسی ذلّت کی ہزیمت دلائی.ان کے مقابل میں ایک کافر کی تائید کی اوران کو سزادی.نبی موجود، کتاب موجود، احکام موجود، بایں انہو ں نے خلاف کیا.آخر کافروں سے بھی شکست کھائی.کافر تواحکام الٰہی سے بے خبر ہوتے ہیں.وہ ایسے مؤاخذہ کے قابل نہیں ہوتے جیسے کوئی مان کر، جان پہچان کر خلاف ورزی احکام کرنے والا.تقویٰ کی اہمیت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ (النّحل :۱۲۹) تقویٰ، طہارت اورپاکیزگی اختیار کرنے والے خدا کی حمایت میں ہوتے ہیں اوروہ ہروقت نافرمانی کرنے سے ترساں ولرزاں رہتے ہیں.آجکل دنیا کا اصول منافقانہ زندگی بسر کرنا ہوگیا ہے.اوّل اوّل انسان انسان سے نفاق کرتا ہے اور منافقانہ رنگ میں ہاں میں ہاں ملاتا ہے حالانکہ دلوں میں کدورت اوررنج وبغض بھرا ہوتا ہے.پھر یہ عادت ترقی کرتے کرتے ایسی بڑھتی ہے کہ خدا سے بھی منافقانہ تعلق کرنا چاہتا ہے اور خدا کو

Page 300

دھوکہ دینے کی کوشش کرتاہے حالانکہ جانتاہے کہ خدا عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ہے دل سے تو مومن ہوتا نہیں مگر خداکے آگے مومن بننا چاہتا ہے بھلا خدا کسی کے دھوکے میں آسکتا ہے؟ ہرگز نہیں.دیکھو! تقویٰ ایک ایسی چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف ایک متقی انسان کی خاطر دوسروں پر بھی رحم کرتا ہے اوراس کے اہل وعیال، خویش واقارب اور متعلقین پر بھی اثر پڑتا ہے اوراسی طرح سے اگر جرائم اورفسق وفجور کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کا اثر بھی پڑتا ہے.غرض خدا سے ڈرنا اور متقی بننا بڑ ی چیز ہے خدااس کے ذریعہ سے ہزار آفات سے بچالیتا ہے بجز اس کے کہ خدا تعالیٰ کی حفاظت اس کے شامل ہو.کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مجھے بَلا نہیں پکڑے گی اور کسی کو بھی مطمئن نہیں ہونا چاہیے.آفات توناگہانی طورسے آجاتے ہیں.کسی کو کیا معلوم کہ رات کو کیا ہوگا؟ استغفار کی تلقین لکھا ہے کہ ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے.پہلے بہت روئے اورپھر لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا.عباداللہ! خدا سے ڈرو آفات اوربلیّات چیونٹیوں کی طرح انسان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ان سے بچنے کی کوئی راہ نہیں بجز اس کے کہ سچے دل سے توبہ استغفار میں مصروف ہوجائو.استغفار اور توبہ کا یہ مطلب نہیں جو آجکل لوگ سمجھے بیٹھے ہیں.اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ کہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا جبکہ اس کے معنے بھی کسی کو معلوم نہیں.اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ایک عربی زبان کا لفظ ہے.ان لوگوں کی توچونکہ یہ مادری زبان تھی اور وہ اس کے مفہوم کو اچھی طرح سے سمجھے ہوئے تھے.استغفار کے معنے یہ ہیں کہ خدا سے اپنے گذشتہ جرائم اور معاصی کی سزا سے حفاظت چاہنا اور آئندہ گناہوں کے سرزد ہونے سے حفاظت مانگنا.استغفار انبیاء بھی کیاکرتے تھے اورعوام بھی.بعض نادان پادریوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استغفار پر اعتراض کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کے استغفار کرنے سے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گناہ۱ کا ہونا ثابت ہوتا ہے.یہ نادان اتنا نہیں سمجھتے کہ استغفار تو ایک اعلیٰ صفت ہے.انسان فطرتاً ایسا بنا ہے کہ کمزور ی اورضعف اس ۱ یعنی گنہگار (مرتّب)

Page 301

کا فطر ی تقاضا ہے.انبیاء اس فطرتی کمزوری اورضعف بشریت سے خوب واقف ہوتے ہیں.لہٰذا وہ دعاکرتے ہیں کہ یا الٰہی! توہماری ایسی حفاظت کرکہ وہ بشری کمزوریاں ظہور پذیر ہی نہ ہوں.غفر کہتے ہیں ڈھکنے کو.اصل بات یہی ہے کہ جو طاقت خدا کو ہے وہ نہ کسی نبی کو ہے نہ ولی کو اور نہ رسول کو.کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں اپنی طاقت سے گناہ سے بچ سکتا ہوں پس انبیاء بھی حفاظت کے واسطے خداکے محتاج ہیں.پس اظہارِ عبودیت کے واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اورانبیاء کی طرح اپنی حفاظت خدا سے مانگا کرتے تھے.یہ ان لوگوں کا خیال غلط ہے کہ حضرت عیسٰیؑ استغفار نہ کرتے تھے.یہ ان کی بیوقوفی اور بے سمجھی ہے اور یہ حضرت عیسٰیؑ پر تہمت لگاتے ہیں.انجیل میں غور کرنے سے صریح اورصاف طورسے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے جابجا اپنی کمزوریوں کا اعتراف کیا اور استغفار بھی کیا.اچھا! بھلا اَیْلِیْ اَیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَانِیْ سے کیا مطلب؟ اَبِیْ اَبِیْ کرکے کیوں نہ پکارا؟ عبرانی میں اَیْل خدا کو کہتے ہیں.اس کے یہی معنے ہیں کہ رحم کر اورفضل کر اور مجھے ایسی بے سروسامانی میں نہ چھوڑ (یعنی میری حفاظت کر).درحقیقت مشکل تویہ ہے کہ ہندوستان میں بوجہ اختلاف زبان استغفار کا اصل مقصد ہی مفقود ہوگیا ہے اوران دعائوں کو ایک جنتر منتر کی طرح سمجھ لیا ہے.کیانماز اور کیا استغفار اور کیا تو بہ؟ اگر کسی کو نصیحت کرو کہ استغفار پڑھا کرو تووہ یہی جواب ملتا ہے کہ میں تو استغفار کی سو بار یا دو سوبار تسبیح پڑھتا ہوں مگر مطلب پوچھو توکچھ جانتے ہی نہیں.استغفار ایک عربی لفظ ہے اس کے معنے ہیں طلب مغفرت کرنا کہ یا الٰہی! ہم سے پہلے جو گناہ سرزدہوچکے ہیں ان کے بد نتائج سے ہمیں بچا کیونکہ گناہ ایک زہر ہے اوراس کا اثر بھی لازمی ہے اورآئندہ ایسی حفاظت کر کہ گناہ ہم سے سرزد ہی نہ ہوں.صرف زبانی تکرار سے مطلب حاصل نہیں ہوتا.توبہ توبہ کے معنے ہیں ندامت اورپشیمانی سے ایک بد کام سے رجوع کرنا.توبہ کوئی بُرا کام نہیں ہے.بلکہ لکھا ہے کہ توبہ کرنے والا بندہ خدا کو بہت پیاراہوتا ہے.خدا کا نام بھی توّاب ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان اپنے گناہوں اور افعالِ بد سے نادم ہوکر پشیمان ہوتا ہے

Page 302

اور آئندہ اس بدکام سے بازرہنے کا عہد کرلیتا ہے تواللہ تعالیٰ بھی اس پر رجوع کرتا ہے رحمت سے.خداانسان کی توبہ سے بڑھ کر توبہ کرتا ہے.چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر انسان خدا کی طرف ایک بالشت بھر جاتا ہے تو خدا اس کی طرف ہاتھ بھر آتا ہے.اگر انسان چل کر آتا ہے تو خدا دوڑ کر آتا ہے.یعنی اگر انسان خد ا کی طرف توجہ کرے تو اللہ تعالیٰ بھی رحمت، فضل اور مغفرت میں انتہا درجہ کا اس پر فضل کرتا ہے.لیکن اگر خدا سے منہ پھیر کر بیٹھ جاوے تو خدا کو کیا پروا.دیکھو! یہ خدا کے فیضان کے لینے کی راہیں ہیں.اب دروازے کھلے ہیں تو سورج کی روشنی برابر اندر آرہی ہے اور ہمیں فائدہ پہنچا رہی ہے لیکن اگر ابھی اس مکان کے تمام دروازے بند کر دئیے جاویں تو ظاہر ہے کہ روشنی آنی موقوف ہو جاوے گی اور بجائے روشنی کے ظلمت آجاوے گی.پس اسی طرح سے دل کے دروازے بند کرنے سے تاریکی ذنوب اور جرائم آموجود ہوتی ہے اور اس طرح انسان خدا کی رحمت اور فضل کے فیوض سے بہت دور جا پڑتا ہے.پس چاہیے کہ توبہ استغفار منتر جنتر کی طرح نہ پڑھو بلکہ ان کے مفہوم اور معانی کو مدّنظر رکھ کر تڑپ اورسچی پیاس سے خدا کے حضور دعائیں کرو.توبہ میں ایک مخفی عہد بھی ہوتا ہے کہ فلاں گناہ مَیں کرتا تھا.اب آئندہ وہ گناہ نہیں کروںگا.اصل میں انسان کی خدا تعالیٰ پر دہ پوشی کرتا ہے کیونکہ وہ ستّارہے بہت سے لوگوں کو خدا کی ستّاری نے ہی نیک بنا رکھا ہے.ورنہ اگر خدا ستّاری نہ فرماوے تو پتہ لگ جاوے کہ انسان میں کیا کیا گند پوشید ہ ہیں.انسان کے ایمان کا کمال انسان کے ایمان کا بھی کمال یہی ہے کہ تخلّق باخلاق اللہ کرے.یعنی جو جو اخلاق فاضلہ خدا میں ہیں اور صفات ہیں ان کی حتی المقدور اتباع کرے اور اپنے آپ کو خدا کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرے مثلاً خدا میں عفو ہے.انسان بھی عفو کرے.رحم ہے حلم ہے کرم ہے انسان بھی رحم کرے.حلم کرے.لوگوں سے کرم کرے.خدا ستار ہے.انسان کو بھی ستّاری کی شان سے حصہ لینا چاہیے اور اپنے بھائیوں کے عیوب اور معاصی کی پردہ پوشی کرنی چاہیے.بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب کسی

Page 303

کی کوئی بد ی یا نقص دیکھتے ہیں جب تک اس کی اچھی طرح سے تشہیر نہ کر لیں ان کو کھانا ہضم نہیں ہوتا.حدیث میں آیا جو اپنے بھائی کے عیب چھپاتا ہے خدا اس کی پردہ پوشی کرتا ہے.انسان کو چاہیے شوخ نہ ہو.بے حیائی نہ کرے.مخلوق سے بد سلوکی نہ کرے.محبت اور نیکی سے پیش آوے.اپنی نفسانی اغراض کی وجہ سے کسی سے بغض نہ رکھو اپنی نفسانی اغراض کی وجہ سے کسی سے بغض نہ رکھے.سختی اور نرمی مناسب موقع اور مناسب حال کرے اور اگر کسی جگہ درشتی کرنی بھی پڑ جائے تو اس طرح کرے جس طرح کوئی کسی کامامور یا نائب حکم کی پابندی کی وجہ سے کرتا ہے.انبیاء نے بھی بعض اوقات سختی کی ہے مگر نہ جوش نفس سے بلکہ محض خدا کے حکم اور اصلاح کی غرض سے.ہم نے کسی کتاب میں ایک حکایت پڑھی ہے.لکھا ہے کہ حضرت علیؓ کی ایک کافر سے جنگ ہوئی.جنگ میں مغلوب ہو کر وہ کافر بھاگا.حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس کا تعاقب کیا اور آخر اسے پکڑا.اس سے کشتی کرکے اس کو زیر کر لیا.جب آپ رضی اللہ عنہ اس کی چھاتی پر خنجر نکال کر اس کے قتل کرنے کے واسطے بیٹھ گئے تو اس کافر نے آپ کے منہ پر تھوک دیا.اس سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کی چھاتی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس سے الگ ہو گئے.وہ کافر اس معاملہ سے حیران ہوا اور تعجب سے اس کا باعث دریافت کیا.حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگ تم سے جنگ کرتے ہیں تو محض خدا کے حکم سے کرتے ہیں.کسی نفسانی غرض سے نہیں کرتے بلکہ ہم تو تم لوگوں سے محبت کرتے ہیں.میں نے تم کو پکڑا خدا کے لئے تھا.مگر جب تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تو اس سے مجھے بشریت کی وجہ سے غصہ آگیا تب میں ڈرا کہ اگر اس وقت جبکہ اس معاملہ میں میرا نفسانی جوش بھی شامل ہو گیا ہے تم کو قتل کروں تو میرا سارا ساختہ پرداختہ ہی برباد نہ ہوجاوے اور جوش نفس کی ملونی کی وجہ سے میرے نیک اور خالصاً للہ اعمال بھی حبط نہ ہو جاویں.یہ ماجرا دیکھ کر کہ ان لوگوں کا اتنا باریک تقویٰ ہے.اس نے کہا کہ میں نہیں یقین کرسکتا کہ ایسے لوگوں کا دین باطل ہو.لہٰذا وہ وہیں مسلمان ہو گیا.

Page 304

غرض اسی طرح ہماری جماعت کے بھی جنگ ہوتے ہیں ان میں جوش نفس کو شامل نہ کرنا چاہیے.دیکھو! اگر ہم خدا کے نزدیک کافر اور دجّال نہیں ہیں تو پھر کسی کے کافر اوردجّال وغیرہ کہنے سے ہمارا کچھ بگڑتا نہیں اوراگر واقع میں ہی ہم خدا کے حضور میں مقبول نہیں بلکہ مردود ہیں توپھر کسی کے اچھا کہنے اورنیک بنانے سے ہم خدا کی گرفت سے بچ نہیں سکتے.دلوں کو فتح کرو پس تم یاد رکھو کہ نرمی عمدہ صفت ہے.نرمی کے بغیر کام چل نہیں سکتا.فتح جنگ سے نہیں.جنگ سے اگر کسی کو نقصان پہنچا دیا تو کیا کیا؟چاہیے کہ دلوں کو فتح کرو اوردل جنگ سے فتح نہیں ہوتے بلکہ اخلاقِ فاضلہ سے فتح ہوتے ہیں.اگر انسان خداکے واسطے دشمنوں کی اذیتوں پر صبر کرنے والا ہوجاوے توآخر ایک دن ایسابھی آجاتا ہے کہ خود دشمن کے دل میں ایک خیال پیدا ہوجاتا ہے اور اثر ہوتا ہے اورجب وہ برکاتِ فیوض اور نصرتِ الٰہی کو دیکھتا ہے اوراخلاقِ فاضلہ کا برتائو دیکھتا ہے توخود بخود اس کے دل میں ایسا خیال پیدا ہوجاتا ہے کہ اگر یہ شخص جھوٹا ہی ہوتا اور خدا پر افترا کرنے والا ہی ہوتا تو اس کی یہ نصرت اورتائید تو ہرگز نہ ہوتی.ان لوگوں نے کوئی ہمیں ہی یہ گالیاں نہیں دیں بلکہ یہ معاملہ تمام انبیاء کے ساتھ اسی طرح چلا آیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کذّاب، ساحر، مجنون، مفتری وغیرہ الفاظ سے یاد کیا گیا تھا اور انجیل کھول کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ حضرت عیسٰیؑ سے بھی ایسا ہی برتائو کیا گیا.حضرت موسٰی کو بھی گالیاں دی گئی تھیں.اصل میں تَشَابَهَتْ قُلُوْبُهُمْ والی بات ہے اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ يٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ١ۣۚ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۠ (یٰسٓ:۳۱) کوئی بھی ایسا سچا نبی نہیں آیا کہ آتے ہی اس کی عزت کی گئی ہو.ہم کیوں کر سنّت اللہ سے باہر ہوسکتے ہیں.بات تو آسا ن ہی تھی اور معاملہ بڑا صاف تھا.مگر ان منصوبہ بازوں نے معاملہ کچھ کا کچھ کردیا ہے.کیا یہ سچ ہے کہ ہم نبیوں کو گالیاں دیتے ہیں؟ ہم تو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے آئے ہیں اور کررہے ہیں.ہماری کتابیں دیکھ لو.اللہ تعالیٰ بہتر جانتاہے کہ کس طرح ہمارا ہر ذرّہ ذرّہ خدا کی راہ میں فدا اور قربان ہے.

Page 305

دعویٰ نبوت کی حقیقت باقی رہی یہ بات کہ ہم نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے.یہ نزاع لفظی ہے.مکالمہ مخاطبہ کے تویہ لوگ خود بھی قائل ہیں.اسی مکالمہ مخاطبہ کا نام اللہ تعالیٰ (نے) دوسرے الفاظ میں نبوت رکھا ہے ورنہ اس تشریعی نبوت کا توہم نے بارہا بیان کیا ہے کہ ہم نے ہرگز ہرگز دعویٰ نہیں کیا.قرآن سے برگشتہ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے برگشتہ ہوکر نبوت کا دعویٰ کرنے والے کو تو ہم واجب القتل اورلعنتی کہتے ہیں.اس طرح کی نبوت کا کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو منسوخ کردے دعویٰ کرنے والے کو ہم ملعون اور واجب القتل جانتے ہیں.ہم پر جو اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں یہ سب رسول اکرم ؐ کے فیض سے ہی ہیں.آنحضرتؐسے الگ ہو کر ہم سچ کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں اورخاک بھی نہیں.آنحضرتؐکی عزت اورمرتبہ دل میں اور ہر رگ وریشہ میں ایسا سمایا ہے کہ ان کو اس درجہ سے خبر تک بھی نہیں.کوئی ہزار تپسیاکرے، جپ کرے، ریاضتِ شاقّہ اور محنتوں سے مشتِ استخوان ہی کیوں نہ رہ جاوے مگر ہرگز کوئی سچا روحانی فیض بجز آنحضرتؐکی پیروی اوراتباع کے کبھی میسر آسکتا ہی نہیں اور ممکن ہی نہیں.اب جبکہ ہمارا یہ حال ہے اورایسا ایمان ہے تو پھر ان کا ہمیں کا فرودجّال کہنا کیامعنے رکھتا ہے ؟ ابھی چند روز ہوئے ہمارے پاس ایک اور نیا فتویٰ چھپ کر آیا ہے جس میں ہمیں طرح طرح کے ناموں سے یاد کیا گیا ہے.مگر ہم جانتے ہیں کہ ان باتوں سے ہمارا کچھ بگڑتا نہیں.اگر ہم خدا کی نظر میں مقبول ہیں تو پھر ان کے فتوے ہمیں کوئی ضرر دے سکتے ہی نہیں.ہمیں کافر کہنے والے خود بھی تو کفر سے نہیں بچے بلکہ ان کا کفر توبہت پکا کفر ہے.ان کے واسطے تولکھا جاچکا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی مسجدمیں داخل ہوتو وہ صرف دھونے سے پاک نہیں ہوسکتی بلکہ اینٹیں اکھاڑ کر نیا فرش لگایا جانے سے مسجد پاک ہوتی تھی.ہمارے واسطے ایسی بات تونہیں.عجیب بات یہ ہے کہ جتنے اہل اللہ گذرے ان میں کوئی بھی تکفیر سے نہیں بچا.کیسے کیسے مقدس اورصاحب برکات تھے.حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ان پر بھی قریباً دوسو علماء وقت نے کفر کا فتویٰ لکھا تھا.ابنِ جوزی جو محدّث وقت تھا اس نے ان کی تکفیر کی نسبت ایک خطرناک

Page 306

کتاب تالیف کی اوراس کانام تلبیس ابلیس رکھا.سنا گیا ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب پر بھی کفر کا فتویٰ لگایا گیا تھا.یہ تو کفر بھی مبارک ہے جو ہمیشہ اولیاء اورخدا کے مقدس لوگوں کے حصہ میں ہی آتا رہا ہے.خاکسار اورمتواضع بنو ہمار ا اس وقت اصل مدعایہ ہے کہ ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہیے.ایسا نہ ہو کہ یہ کفر سچاہی ثابت ہوجاوے.انسان اگر خدا کے نزدیک بھی مورد قہر وعذاب الٰہی ہوتو پھر دشمن کی بات پکی ہی ہو جایا کرتی ہے.خالی شیخیوں سے اور بےجاتکبر اوربڑائی سے پرہیز کرنا چاہیے اور انکساری اور تواضع اختیار کرنی چاہیے.دیکھو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ حقیقتاً سب سے بڑے اور مستحق بزرگی تھے ان کے انکسار اورتواضع کا ایک نمونہ قرآن شریف میں موجود ہے.لکھا ہے کہ ایک اندھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر قرآن شریف پڑھاکرتا تھا.ایک دن آپؐکے پاس عمائد مکہ اور رئوسائے شہر جمع تھے اور آپؐان سے گفتگو میں مشغول تھے.باتوں میں مصروفیت کی وجہ سے کچھ دیر ہوجانے سے وہ نابینا اُٹھ کر چلا گیا.یہ ایک معمولی بات تھی.اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق سورۃ نازل فرما دی.اس پر آنحضرتؐاس کے گھر میں گئے اور اسے ساتھ لاکر اپنی چادر مبارک بچھا کربٹھایا.اصل بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں عظمت الٰہی ہوتی ہے ان کو لازماً خاکسار اور متواضع بننا ہی پڑتا ہے کیونکہ وہ خدا کی بے نیازی سے ہمیشہ ترساں ولرزاں رہتے ہیں.ع آنانکہ عارف تر اند ترساں تر کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نکتہ نواز ہے اسی طرح نکتہ گیر بھی ہے.اگر کسی حرکت سے ناراض ہوجاوے تو دم بھر میں سب کارخانہ ختم ہے.پس چاہیے کہ ان باتوں پر غورکرو اور ان کو یاد رکھو اور عمل کرو.۱ ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۴ مورخہ ۱۸؍مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۱ تا ۴

Page 307

۹؍مئی ۱۹۰۸ء ( بمقام لاہور.قبل نماز ظہر ) احمدی ڈاکٹروں اوراطبّا ء کے لیے خاص نصیحت طاعون اورہیضہ وغیرہ وبائوں کا ذکر تھا.فرمایا.بدقسمت ہے وہ انسان کہ ان بلائوں سے بچنے کے واسطے سائنس، طبعی یا ڈاکٹران وغیرہ کی طرف توجہ کرکے سامان تلاش کرتا ہے اور خوش قسمت ہے وہ جو خدا کی پناہ لیتا ہے اورکون ہے جو بجز خداکے ان آفات سے پناہ دے سکتا ہو؟ اصل میں یہ لوگ جو فلسفی طبع یا سائنس کے دلدادہ ہیں ایسی مشکلات کے وقت ایک قسم کی تسلّی اور اطمینان پانے کے واسطے بعض دلائل تلاش کرلیتے ہیں اوراس طر ح سے ان وبائوں کے اصل بواعث اوراغراض سے محروم رہ جاتے ہیں اورخدا سے پھر بھی غافل ہی رہتے ہیں.ہماری جماعت کے ڈاکٹروں سے میں چاہتا ہوں کہ ایسے معاملات میں اپنے ہی علوم کوکافی نہ سمجھیں بلکہ خدا کا خانہ بھی خالی رکھیں اورقطعی فیصلے اور یقینی رائے کا اظہار نہ کردیا کریں کیونکہ اکثر ایسا تجربہ میں آیا ہے کہ بعض ایسے مریض جن کے حق میں ڈاکٹروں نے متفقہ طورسے قطعی اوریقینی حکم موت کا لگادیا ہوتا ہے ان کے واسطے خداکچھ ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے کہ وہ بچ جاتے ہیں اوربعض ایسے لوگوں کی نسبت جوکہ اچھے بھلے اوربظاہر ڈاکٹروں کے نزدیک ان کی موت کے کوئی آثار نہیں نظر آتے خداقبل ازوقت ان کی موت کی نسبت کسی مومن کو اطلاع دیتا ہے.اب اگر چہ ڈاکٹروں کے نزدیک اس کا خاتمہ نہیں.مگر خدا کے نزدیک اس کا خاتمہ ہوتا ہے اور چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آجاتا ہے.علم طب یونانیوں سے مسلمانوں کے ہاتھ آیا مگر مسلمان چونکہ مؤحد اور خدا پرست قوم تھی.انہوں نے اسی واسطے اپنے نسخوں پر ھوالشّافی لکھنا شروع کردیا.ہم نے اطباء کے حالات پڑھے ہیں.علاج الامراض میں مشکل اَمر تشخیص کو لکھا ہے.پس جو شخص تشخیص مرض میں ہی غلطی کرے گا وہ علاج میں بھی غلطی کرے گا کیونکہ بعض امراض ایسے اَدَق اورباریک ہوتے ہیں کہ انسان ان کو سمجھ

Page 308

ہی نہیں سکتا.پس مسلمان اطباء نے ایسی دقتوں کے واسطے لکھا ہے کہ دعائوں سے کام لے.مریض سے سچی ہمدردی اوراخلاص کی وجہ سے اگر انسان پوری توجہ اور دردِ دل سے دعاکرے گاتو اللہ تعالیٰ اس پر مرض کی اصلیت کھول دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کوئی غیب مخفی نہیں.پس یادرکھو کہ خدا سے الگ ہوکر صرف اپنے علم اورتجربہ کی بنا پر جتنا بڑا دعویٰ کرے گا اتنی ہی بڑی شکست کھائے گا.مسلمانوں کو توحید کا فخر ہے.توحید سے مراد صرف زبانی توحید کا اقرار نہیں بلکہ اصل یہ ہے کہ عملی رنگ میں حقیقتاً اپنے کاروبار میں اس اَمر کا ثبوت دے دوکہ واقعی تم مؤحد ہو اور توحید ہی تمہاراشیوہ ہے.مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ہر ایک اَمر خدا کی طر ف سے ہوتا ہے.اس واسطے مسلمان خوشی کے وقت الحمد للہ اورغمی اور ماتم کے وقت اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ(البقرۃ :۱۵۷) کہہ کر ثابت کرتا ہے کہ واقع میں اس کاہر کام میں مرجع صرف خداہی ہے جو لوگ خدا سے الگ ہوکر زندگی کاکوئی حظّ اٹھانا چاہتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ ان کی زندگی بہت ہی تلخ ہے کیونکہ حقیقی تسلّی اور اطمینان بجز خدا میں محو ہونے اورخدا کو ہی ہر کام کا مرجع ہونے کے حاصل ہوسکتا ہی نہیں.ایسے لوگوں کی زندگی توبہائم کی زندگی ہوتی ہے اور وہ تسلّی یافتہ نہیں ہوسکتے.حقیقی راحت اورتسلّی انہیں لوگوں کو دی جاتی ہے جوخدا سے الگ نہیں ہوتے اور خدا سے ہر وقت دل ہی دل میں دعائیں کرتے رہتے ہیں.سچے مذہب میں پابندیاں ہوتی ہیں مذہب کی صداقت اس میں ہے کہ انسان خدا سے کسی حالت میں بھی الگ نہ ہو.وہ مذہب ہی کیا ہے اورزندگی ہی کیسی ہے کہ تمام عمر گذر جائے مگر خدا کا نام درمیان کبھی بھی نہ آوے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ سارے نقائص صرف بے قیدی اورآزادی کی وجہ سے ہیں اور یہ بے قیدی ہی ہے کہ جس کی وجہ سے مخلوق کا بہت بڑا حصہ اس طرز زندگی کو پسند کرتا ہے.آج ہی ایک کتاب ہم نے دیکھی ہے جس میں بدھ کی زندگی کے حالات لکھے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا کا قائل ہی نہیں تھا.اور کہ جو کچھ ہے یہی دنیا ہی ہے آئندہ کچھ نہیں.

Page 309

ایسے بے قید اورآزاد عقائد ہی ہیں جن کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ دنیا کا ۴ ۱ یا ۵ ۱ حصہ بدھ عقائد کا پابند ہے یا ان عقائد کو پسند کرتا ہے.مذہب کا دائرہ جتنا تنگ ہوگا اتنا ہی اس میں داخل ہونے والے لوگ بھی کم ہوں گے اوراتنی ہی نسبتاً پاکیزگی اورطہارت اس میں موجودہوگی.اسلامی پابندیاں اسلام نے شرائط پابندی ہر دو عورتوں اور مردوں کے واسطے لازم کیے ہیں.پردہ کرنے کا حکم جیسا کہ عورتوں کو ہے مردوں کو بھی ویسا ہی تاکیدی حکم ہے غضِّ بصر کا،نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، حلال وحرام کا امتیاز، خدا کے احکام کے مقابلہ میں اپنی عادات رسم ورواج کو ترک کرنا وغیرہ وغیرہ ایسی پابندیاں ہیں جن سے اسلام کا دروازہ نہایت ہی تنگ ہے اوریہی وجہ ہے کہ ہر ایک شخص اس دروازے میں داخل نہیں ہوسکتا.عیسائی باش وہرچہ خواہی کن.اور(ان کا) مذہب بھی ایک بے قید مذہب ہے اورمسلمانوں میںبھی آجکل ان لوگوں کو دیکھادیکھی ایک ایسا فرقہ پیدا ہواہے کہ وہ اسلام میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں.اصل میں یہ سب امور اسی بے قیدی اورآزادی کے خواہشمند وں کو سوجھتے ہیں.مگر یادرکھیں کہ بے قیدی اور پاکیزگی تو نور وظلمت کی طرح آپس میں دشمن ہیں.لاہور میں بھی طبائع میں قبول حق کی استعداد تومعلوم ہوتی ہے مگر بے قیدی اور آزادی ان کے رستے میں ایک سخت روک ہے.لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک قوم مسلمان ہوئی اور انہوں نے آپؐکی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ! ہمیں نماز معاف کردی جاوے.مگر آپؐنے ان کو یہی فرمایا کہ دیکھو جس مذہب میں خدا کی عبادت نہیں وہ مذہب ہی کچھ نہیں.جب دنیا کی حالت کے اس آزاد اوربے قید حصہ پر نظر ڈالی جاتی ہے تو دل پر ایک قسم کا زلزلہ اور لرزہ وارد ہوتا ہے اور خیال آتا ہے کہ حقیقت میں اصلاح کی راہ میں سے اسی پتھر کا اٹھنا مشکل ہے بجز اس کے کہ دنیا پر ایک عظیم الشان انقلاب آجاوے جو دلوں میں خدا کی ہیبت اورسطوت اور جبروت وجلال کا یقین پید اکردے.آجکل اگر کوئی شراب کو چھوڑ بھی دیتا ہے اورکہتا ہے کہ شراب کا استعمال ناجائز ہے.اصل میں

Page 310

اس کا بھی یہ مطلب ہوتاہے کہ اس کثرت سے استعمال نہ کی جاوے یا یہ کہ باہر لوگوں کے سامنے گلی بازاروں میں نہ پی جاوے.گھر کی چاردیواری میں جو چاہیں کریں.مگر اسلام نے ان سب امور کے ساتھ سچے تقویٰ اورحقیقی پاکیزگی کی سخت تاکید ی شرط اور خدا کی حدود میں رہنے کی تاکید فرمائی ہے.ساری بندگیوں کا خلاصہ اتنی تقریر کر چکنے پر چند دوستوں نے بیعت کی اوران کے ساتھ ہی ایک بڑے ضعیف العمر بھی تھے.انہوں نے عرض کی کہ حضور میرے واسطے دعاکی جاوے کہ اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو معاف کرے.(ایڈیٹر) فرمایا.سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انسان ہر وقت اس بات کا خیال رکھے کہ عمر کا اعتبار نہیں.نہ معلوم کہ موت کس وقت انسان کو آن پکڑے گی اور پھر اس کے ساتھ توبہ استغفار کرتا رہے.خدا سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہنا اور اس کی رضا کے حصول کی تڑپ دل میں پیدا کرنا اسی میںسب دین اوردنیا آجاتا ہے.ساری بندگیوں کا خلاصہ یہی ہے کہ انسان کے گناہ معاف ہوں اور اس سے خدا خوش ہوجاوے.حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دریافت فرمایا کہ آپ کا نام کیا ہے ؟ اس نے عرض کی کہ مستقیم.فرمایا.اچھا! خدا آپ کو مستقیم کرے.بابا مستقیم صاحب نے عرض کی کہ حضور میرا دل ہے کہ میںآپ کی کوئی خدمت کرنے کے قابل ہوسکوں.فرمایا.سب کچھ نیت میں آجاتا ہے.آپ کو آپ کی نیت کا ثواب مل گیا.آپ نے یہاں تک آنے کی جو تکلیف اٹھائی ہے اس کا بھی اجر دیا جاوے گا.اچھا! خدا پر راضی رہو.

Page 311

موجود ہ زمانہ میں اصلاح کاکام اس کے بعد حضرت اقدسؑ نے پھر اس سلسلہ کلام کو شروع کرکے فرمایا کہ زمانہ موجودہ کے حالات کے لحاظ سے مسئلہ اصلاح کچھ بہت ہی مشکل اورپیچیدہ سانظر آتا ہے.آجکل کچھ ہَوا ہی اس کے خلاف چل رہی ہے.ہم جو اَمر پیش کر رہے ہیںوہ تو ایک داروئے تلخ ہے.یہ لوگ اپنی میٹھی میٹھی عادات چھوڑ کر کڑوی دواجب ہی استعمال کرسکتے ہیں کہ اس کی حقیقت سے ان کو پوری واقفیت اورآگاہی ہوکہ واقع میں وہ مٹھائی ان کے حق میں مضر اوریہ داروئے تلخ آب حیات کا اثر رکھتی ہے اور جب ہی کچھ فائدہ ہوسکتا ہے.خدا نے جو قید لگائی ہے اس میں سراسر رحمت اور کرم ہے.بھلا ان بے قیدیوں کا انجام ہی کیا ہے ؟یہی ہوتا ہے کہ شرابخوری اورفسق وفجور میں یہ لو گ غرق نظر آتے ہیں اورپھر ان سے جو بد نتائج نکلتے ہیں وہ کیسے خطرناک ہیں؟ دنیا ان کا روز نظارہ کر رہی ہے.لقوہ، فالج، آتشک، سوزاک اور بعض اوقات جذام تک نوبت پہنچتی ہے اوراس طرح زندگی خطرناک مصائب میں مبتلا ہوکر خوار ہوجاتی ہے چاہیے کہ اس بےقیدی اوراس قید کے نتائج کا مقابلہ کرکے تو دیکھیں مگر یہ نوجوان جن کو نئی تعلیم کے مصالح لگے ہوئے ہیں سمجھتے نہیں.اس مصالح سے ہی ڈر آتا ہے مگر پھر بھی ناامید نہیں ہونا چاہیے.میں اس تجویز کا بھی مخالف نہیں جو اس گروہ کی سچی ہمدردی اوراصلاح کے واسطے کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے بلکہ زور سے اس کے موافق ہوں.سَو میں سے ایک ہی سہی ورنہ ان کے ٹھٹھا ہنسی کرنے سے ہی ہمیں اپنی محنت کا ثواب مل رہے گا.قاعدہ کی بات ہے کہ جب کسی ایسے مجمع میں جہاں سَو پچاس آدمی جمع ہوں کوئی بات کہی جاتی ہے توان میں اختلاف ضرور ہوجاتا ہے.اگر بعض ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں توبعض کو اس صداقت کی سمجھ بھی آہی جاتی ہے اگر چہ یہ سچ ہے کہ صداقت کے حصہ میں تھوڑے ہی آتے ہیں مگروہ تھوڑے ہی جوانمرد ہوتے ہیں کیونکہ صداقت کا قبول کرنا بھی ایک جوانمردی ہے اورپھر حق اورصداقت میں ایک رعب اورطاقت ہوتی ہے.اس طرح سے ان کی قوت کے ساتھ ایک اورقوت شامل ہوکر بہت بڑی

Page 312

طاقت ہوجاتی ہے.خبیث سے طیّب کی تمیز اورپھر ایک اورخدا کا فضل ہمارے حصہ میں یہ آیا ہے کہ ہماری طرف آنے والے حلیم، سلیم اورنیک آدمی ہی ہوتے ہیں ان لوگوں کے گندے اشتہاروں اوران کی خلاف تہذیب اور خارج از انسانیت تحریروں، تقریروں اور گالی گلوچ دیکھ کر تو ہمیں خوش ہی ہونا پڑتا ہے.ہمیں فائدہ ہی کیا ہوتا اگر یہ گندے لوگ ہم میں آشامل ہوتے.خدا نے ہمیں جو بتایا ہے اوروہ خدا کے کلام میں داخل ہے کہ میں خبیث سے طیّب کو الگ کرنا چاہتا ہوں.اس تمیز اور تمحیص کے ذرائع بھی خود خدا نے ہی بنادئیے ہیں ورنہ ممکن تھا کہ لوگ موت۱ کے بھی قائل ہوجاتے اور اس طرح سے ان میں اورہم میں کوئی اختلاف نہ رہ جاتا.مگر خداجو خبیث اورطیّب میں فرق کرنا چاہتا ہے اس نے اپنی حکمت سے ان میں اور ہم میں کچھ ایسے اختلاف ڈال دیئے کہ ان کو ہم سے بالکل الگ ہی کردیا.یہ عجیب بات ہے کہ ان کے پاس کوئی قوی دلیل نہیں ہے.مگر پھر بھی یہ غیظ وغضب میں بھر رہے ہیں.اگر کہیں قرآن شریف میں حضرت مسیح کی زندگی کا لفظ صریح طورسے لکھا ہوتا یا احادیث صحیحہ سے حضرت مسیحؑ کی زندگی ثابت ہوتی جب توان کا حق بھی تھا کہ غیظ وغضب کرتے اورہمیں جو دل چاہتا کہتے.مگر جب خود قرآن اورحدیث ہی ان لوگوں کو دھکے دے رہے ہیں توپھر ان کا حق نہیں ہے کہ اس قدر جھوٹا جوش دکھاویں.اصل بات یہ ہے کہ اس پُر فتن زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا ہے کہ میل کچیل سے نکال کرایک علیحدہ فرقہ بنادے اوردنیا کو دکھا دے کہ اسلام اس کو کہتے ہیں.حالات دوہی قسم کے ماتحت ہوتے ہیں.عملی اوراعتقادی.مگر اس زمانہ کے مسلمانوں نے ہردورنگ میں اسلام کو بدنام کیا ہے.اسلام ہرگند سے پاک اور ہرمیدان میں غالب ہے مگر ہم نہیں سمجھتے کہ ان لوگوں نے جو ہتھیار اختیار کیے ہیں ان سے کبھی اسلام غالب ہوسکے.۱ مراد عیسیٰ علیہ السلام کی موت ہے.(مرتّب )

Page 313

جہنم دائمی نہیں اسلام ایک ایسا پاک اور کامل مذہب ہے کہ اس کے کسی اعتقاد پر اعتراض ہوہی نہیں سکتا.معاد کے متعلق بعض لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ اگر دوزخ کا خلود اورحالت کفر میں مَرجانے کی سزا بھی ابد الآباد اور لا انقطاعِ زمانہ کے واسطے مانی جاوے تو اس طرح سے ایک ظلم لازم آتا ہے اور یہ اَمر خدا کے بے انتہا رحم کے بر خلاف ہے.مگر اصل بات یہ ہے کہ دوزخ کی ابدیت، جنت کی ابدیت اورخلود کی طرح لا انقطاع نہیں ہے.کیونکہ جن قویٰ سے انسان ارتکاب گناہ کرتا ہے آخر ان کا خالق بھی تو خود خداہی ہے.انسان وہ قویٰ اوروہ فطرت آخر گھر سے تولایا نہیں.مانا کہ انسان فعل اورترک فعل میں بعض اوقات دخل وتصرّف رکھتا ہے اور خود بدی کرتا ہے مگر چونکہ خالق فطرت خداتھا اوراس نے خود فرمایا ہے خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا (النسآء :۲۹) لہٰذا اس کو اس کا فائدہ بھی دیا جانا چاہیے تھا.پس گناہ کی سزاہوگی اورعذاب ہوگا مگر یہ ابدیت وہ نہیں جس طرح خدائی ابدیت ہے ایک خاص وقت تک جہنم میں رکھ کر اصلاح ہوجانے پر رہائی ہوجاوے گی.کوئی مانے یانہ مانے مگر خدا کے کلام سے یہی ثابت ہوتا ہے.چنانچہ جہاں بہشت کا ذکر ہے وہاں عَطَآءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ (ھود :۱۰۹) کا لفظ ہے اورجہاں جہنم کا ذکر ہے وہاں یہ فرمایا کہ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ (ھود :۱۰۸) ان آیا ت میں غورکرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بہشتیوں کو خوف نہیں دلایا گیا مگر دوزخیوں کو مخلصی کی امید ضروردلائی ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںکہ اگر بہشت کے متعلق عَطَآءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ کا لفظ نہ ہوتا تو بہشت والوں کو بھی کھٹکا ہی رہتا.مگر خدا نے عَطَآءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ کا لفظ بڑھا کر وہ کھٹکا ہی مٹا دیا کہ یہ خدا کی عطا ہے وہ واپس نہیں لی جاتی اوراس کی نسبت ہم نے ایک اورحدیث بھی دیکھی ہے جس میں لکھا ہے کہ یَاْتِیْ عَلٰی جَھَنَّمَ زَمَانٌ لَّیْسَ فِیْـھَا اَحَدٌ وَنَسِیْمُ الصَّبَا تُـحَرِّکُ اَبْوَابَـھَا.اب دیکھو! یہ کیسا پاک اصول اورعقیدہ ہے جو اسلام نے دوزخ اور بہشت کے متعلق

Page 314

مسلمانوں کو سکھایا ہے جس میں ایک ذرہ بھر بھی ظلم نہیں اورنہایت پاک اور حق وحکمت کا اصول ہے کہ ایک خاص حدتک سزاہوگی.بعد اس کے نجات ہوجاوے گی کیونکہ آخر فطرتوں اورقویٰ انسانی کا خالق تو خدا ہی ہے کوئی فطرت سلیم اور کانشنس منظور ہی نہیں کرسکتا کہ ایک کمزور اورناتواں انسان کے گناہ کو ایسا عظیم الشان مانا جاوے جو کبھی بخشا ہی نہ جاوے.معراج کی حقیقت دوسرا معاملہ معراج کا ہے.بے شک ہم بھی مانتے ہیں کہ جسم کے ساتھ آپ گئے تھے.بیداری بھی تھی اور جسم بھی تھا مگر وہ ایک اعلیٰ درجہ کی کشفی حالت تھی اس دلیل کے واسطے بخاری کو دیکھ لو کہ یہ ساراواقعہ لکھنے کے بعد لکھا ہوگا کہ ثُمَّ اسْتَیْقَظَ بھلا اس کے کیا معنے؟ دیکھو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جن کو بہت عرصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کا (موقع) ملا تھا اورجن کا علم بھی بہت بڑا تھا ان کی یہ روایت ہے.اسْتَیْقَظَ سے یہ مراد نہیں کہ آپؐنے خواب دیکھا تھا بلکہ ایک قسم کی بیداری تھی اور اس میں یہ بھی شعور تھا کہ مع جسم گئے.یہ ایک خدا کا تصرّف ہوتا ہے کہ غیبوبتِ حِس نہیں ہوتی اور یہ ایک نکتہ ہے کہ علم سے حل نہیں ہوسکتا بلکہ تجربہ صحیحہ اس کو حل کرسکتا ہے.فلسفہ اورطبعی کا اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کوئی اعتراض کے قابل بات ہے مگر بعض لو گ خود اسلام کو بگاڑتے اورقابلِ اعتراض بناتے ہیں.۱ ۱۲؍مئی ۱۹۰۸ء (بمقام لاہور قبل نماز ظہر ) انگلستان کے پروفیسر ریگ سے گفتگو پروفیسر ریگ جو کہ انگلستان کارہنے والا ایک بڑا بھاری ماہر علم ہیئت ہے.وہ تمام دنیا کی سیر کے ارادے سے وطن سے نکلا اور علم ہیئت پر بڑے بڑے لیکچردیتا پھرتا ہے.چنانچہ چند روز سے لاہور میں وارد ہے اورایک لیکچرلاہور میں بھی دیا جس میں بڑے بڑے انگریزلیکچر سننے کے واسطے شامل تھے.حضرت مفتی محمد صادق بھی حسن اتفاق سے اس لیکچر میں موجود تھے.لیکچر کے خاتمہ پر مفتی صاحب ممدوح ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۵ مورخہ ۳۰؍مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۲،۳

Page 315

نے پروفیسر صاحب سے ملاقات کی اور حضرت اقدسؑ کے دعاوی اوردلائل وغیرہ ان کو سنائے.چنانچہ پروفیسر موصوف اسی وقت تیار ہوگیا کہ حضرت اقدسؑ کے حضور حاضر ہومگر مفتی صاحب نے کہا کہ پہلے میں حضرت اقدسؑ سے اجازت لے کر وقت مقررکرالوں پھر آپ کو لے جائوں گا.چنانچہ حضرت اقدس ؑ نے اجازت دی اور۱۲ ؍مئی قبل ظہر ملاقات ہوئی.(ایڈیٹر) سوال.۱ میں ایک علمی مذاق کا آدمی ہوں.میں دیکھتا ہوں کہ یہ زمین جس میں ہم رہتے ہیں ایک چھوٹی سی زمین ہے اور ہزاردرہزار اورلاکھ درلاکھ حصے اس کے علاوہ مخلوقِ الٰہی کے موجود ہیں اور یہ ان کے مقابلہ میں ایک ذرّہ کی بھی حقیقت نہیں رکھتی تو پھر کیا وجہ کہ خداکے فضل کو صرف اسی حصہ زمین یا کسی خاص مذہب وملّت میں ہی محدود رکھا گیا ؟ جواب.دراصل یہ صحیح نہیں اورنہ ہی ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ ایک خاص فرقے یا قوم کے ذریعہ خدا اپنی ہستی ظاہر کرتاہے.خدا کوکسی خاص قوم سے انس یا رشتہ نہیں.بلکہ صحیح یہ ہے کہ خداتمام دنیا کا خدا ہے اورجس طرح اس نے ظاہر جسمانی ضروریات اور تربیت کے واسطے مواد اور سامان تمام قسم کی مخلوق کے واسطے بلا کسی امتیاز کے مشترکہ طورسے پید اکیے ہیں اورہمارے اصول کی رو سے وہ ربُّ العالمین ہے اوراس نے اناج، ہوا، پانی، روشنی وغیرہ سامان تمام مخلوق کے واسطے بنائے ہیں اسی طرح سے وہ ہر ایک زمانہ میں ہر ایک قوم کی اصلاح کے واسطے وقتاً فوقتاً مصلح بھیجتا رہا ہے.جیسا کہ قرآن شریف میں ہے وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ(فاطر:۲۵) خدا تمام دنیا کا خدا ہے.کسی خاص قوم سے اس کو کوئی رشتہ نہیں اور یہ جو مختلف اوقات میں مختلف آسمانی کتابیں آئی ہیں ان میں بھی دراصل کوئی اختلاف نہیں کیونکہ جو قابل اصلاح امور ہوتے ہیں جب دنیا عملی رنگ سے بالکل بگڑ جاتی ہے اورفسق وفجور اور چوری شرارت وغیرہ پیدا ہو جاتی ہیں اور لوگ پاکیزگی سے دور ہو کر نفسانی شہوات سے مغلوب ہوجاتے ہیں اوراعتقادی طور سے بھی خدا کو چھوڑ کر بُت پرستی کی طرف جھک جاتے ہیں توپھر خدا جو انسان کا جسمانی اور روحانی مربی ہے

Page 316

اس کی غیرت تقاضا کرتی ہے کہ ان مفاسد کی اصلاح کے واسطے کوئی شخص پیدا کرے اور اس طرح کا مصلح قانونِ قدرت سے باہر نہیں.جس طرح ہمارے واسطے وہ اناج جو حضرت آدم ؑ یا اور گذشتہ انبیاء کے وقت میں پیدا ہواتھا باعث زندگی نہیں ہوسکتا اور وہ پانی جو پہلے لوگوں کے واسطے تھا ہماری پیاس نہیں مٹاسکتا اسی طرح سے روحانی طورسے بھی ہمیں تازہ بتازہ روحانی غذا اورپانی کی ضرورت ہے.یہ عادت اللہ ہے کہ جس طرح سے جسمانی سلسلے کی پرورش اورتربیت کرتا ہے اورگذشتہ پرورش کافی نہیں ہوتی اسی طرح سے روحانی سلسلہ کا حال ہے اور روحانی جسمانی دونوں سلسلے پہلو بہ پہلو چلتے ہیں.اگر کوئی شخص خدا سے ہی منکر ہو تو اس بحث کا الگ ایک طریق ہے.خدا کے قائل کو چاہیے کہ دونوں سلسلوں کو بالمقابل رکھ کر ایک ہی نظر سے دیکھ کر فائدہ اٹھائے.جس نے جسمانی سلسلہ پیدا کیا ہے اسی نے روحانی سلسلہ پیدا کیا ہے.جس طرح وہ جسمانی سلسلہ کی تازہ بتازہ پرورش کرتا ہے اسی طرح سے وہ روحانی سلسلہ کی بھی تازہ بتازہ پرورش کرتا ہے.جس طرح جسمانی حالت ایک تازہ پانی کی محتاج ہے اسی طرح روحانی حالت بھی تازہ آسمانی وحی کی محتاج ہے.جس طرح جسم بغیر پرورش کے مَرجاتا ہے اسی طرح روح بھی بغیر پرورش کے مُردہ ہوجاتی ہے.روحانی امور میں اگر ہمیشہ گذشتہ ہی گذشتہ کا حوالہ دیا جاوے تو بجز اس کے کہ روحانی حالت ایک مُردہ حالت ہوجاوے گی اور کیا ہوسکتا ہے ؟ خدا ہمیشہ طبعاً چاہتا ہے کہ وہ پہچانا جاوے.وہ اپنی شناخت اورزندگی کے ثبوت میں ہمیشہ حقائق، معارف اورتازہ بتازہ نشان دکھایا کرتا ہے اوریہ امور کوئی عقلی استبعاد بھی نہیں رکھتے.یہی سلسلہ ہمیشہ سے چلا آتا ہے.ہزاروں لاکھوں انبیاء آئے انہوں نے عملی طورسے ثبوت دئیے.دنیا پر حجت پوری کی.اب کوئی شخص صرف یہ کہہ کر (کہ) میں سائنس دان یا فلاسفر ہوں ایک ایسی متواتر اور ثابت شدہ شہادت کو کیسے توڑ سکتا ہے؟ چاہیے کہ جس طر ح سے اس گروہ پاک نے عملی زندگی اور نمونے سے اپنے دعویٰ کا ثبوت دیا اسی طرح سے اس کاردّ بھی کیا جاتا ہے.ہاں البتہ ان لوگوں کو

Page 317

یہ کہنے کا حق پہنچتا تھا کہ پرانے قصے کہانیاں کیو ں پیش کی جاتی ہیں کوئی زندہ نمونہ یا ثبوت پیش کیا جاوے.سواس کے واسطے ہم تیار ہیں.صرف ہیئت دان اپنی ہیئت وغیرہ یا نظام شمسی میں غور کرنے سے خداکے وجود کا یقینی ثبوت بہم نہیں پہنچا سکتا.البتہ ایک امکان پیدا ہوسکتا ہے کہ خدا ہونا چاہیے.یہ بات کہ خداہے اوریقیناً ہے ہمیشہ انبیاء کے پیش کردہ اصول سے ہی ثابت ہوتا رہا ہے.اگر ہماری طرح کے انسان دنیا میں نہ آتے تو خدا کے ثبوت کاکوئی حقیقی اور کامل ذریعہ ہرگز ہرگز دنیا میں نہ ہوتا.زیادہ سے زیادہ اگر کوئی منصف مزاج ہوتا اور شرافت بھی اس کے حصہ میںآئی ہوتی تو اس اَبْلغ اور مُحکم ترتیب اور نظام شمسی وغیرہ سے اتنا نتیجہ نکال سکتا تھا کہ خداہونا چاہیے.باقی یہ اَمر کہ یقیناً خداہے اور وہ دنیا کا مالک، متصرّف اورحکمران ہے.بجز خدا سے آکر خدا نمائی کرنے والوں کے ممکن نہیں.وہ لوگ مشاہد ہ کرانے والے ہوتے ہیں اور تازہ بتازہ نشانوں کے پیش کرنے سے گویا خدا کو دکھادیتے ہیں.سوال.لکھا ہے کہ ایک آدم اورحوّا تھے.حوّا ایک کمزور عورت تھی.اس نے ایک سیب کھالیا.اب اس کے ایک سیب کھانے کی سز اہمیشہ جاری رہے گی.یہ اَمرمیری سمجھ میں نہیں آتا اورکہ یہ زمین جس سے ہمارا تعلق ہے اس کے سوا اور ہزاروں کروڑوں سلسلے خدا نے پیدا کیے ہیں تو خدا کی قدرت اور انعامات کوکیوں اس زمین تک محدود کیا جاتا ہے.جواب.ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے.ہم یہ نہیں کہتے کہ اس آسمان اور زمین کے سوا اور کوئی سلسلہ ہی نہیں.بلکہ ہمارا خدا کہتا ہے کہ وہ ربُّ العالمین ہے یعنی کہ وہ کل جہانوں کا ربّ ہے اور کہ جہاںجہاں کوئی آبادی ہے وہاں وہاں ہی اس نے رسول بھیجے ہیں.عدم علم سے عدم شی ء لازم نہیں آتی.جس خدا نے اس ایک چھوٹی سی زمین کے واسطے اتنا وسیع سامان پیدا کیا اس نے کیوں دوسری تمام آبادیوں کے واسطے سامان پیدا نہ کیے ہوں گے؟ وہ سب کا یکساں ربّ ہے اور سب کی ضرورتوں سے واقف.باقی یہ کہنا کہ انسانی رنج ومحن حوّا کے سیب کھانے کی وجہ سے ہیں اسلام کا یہ عقیدہ نہیں.ہمیں تو

Page 318

یہ تعلیم دی گئی ہے کہ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى (الانعام: ۱۶۵) زید کے بدلے بکر کو سزا نہیں مل سکتی اور نہ ہی اس سے کوئی فائدہ متصور ہے.حوّا کی سیب خوری ان مشکلات اور رنج و سزا کا باعث نہیں ہے بلکہ ان کے وجوہات قرآن نے کچھ اور ہی بیان فرمائے ہیں.سوال.دو باتیں میں دریافت کرنا چاہتا ہوں.ایک یہ کہ گناہ کیا چیز ہے.ایک ملک کا انسان ایک اَمر کو گناہ یقین کرتا ہے.حالانکہ ایک دوسرے ملک کا انسان اسی اَمر کو گناہ نہیں سمجھتا.انسان ایک کیڑے سے ترقی کرتا کرتا انسان بنا اور پھر حق و باطل میں امتیاز حاصل کیا.صداقت اور جھوٹ میں فرق کیا.نیکی اور بدی کو سمجھا.گناہ اور ثواب کا علم پیدا کیا.بایں ہمہ پھر اس اَمر میں اختلاف پایا جاتا ہے.ایک اَمر ایک شخص کے نزدیک گناہ.دوسرا اس کو گناہ نہیں سمجھتا او ر کرتا ہے.دوسرا یہ کہ شیطان کیا چیز ہے.خدا کے اس علم اور قدرت کا مالک ہوتے ہوئے بھی شیطان کا اس قدر قابو پا جانا کہ اس کی اصلاح کے واسطے خود خدا کو دنیا میں آنا پڑا.اس سے کیا مراد ہے ؟ گناہ کی حقیقت جواب.اصل میں جو لوگ خدا کی ہستی کو ماننے والے ہیں.ہم ان کے مذاق پر گفتگو کرتے ہیں.خدا کی ذات انسان کی زندگی کے واسطےایک دائمی راحت اور خوشی کا سر چشمہ ہے.جو شخص اس سے الگ ہوتا ہے یا کسی نہ کسی پہلو سے اس کو چھوڑتا ہے.اس حالت میں کہا جاتا ہے کہ اس شخص نے گناہ کیا.خدا نے فطرت انسانی پر نظر ڈال کر جو اعمال باریک در باریک رنگ میں خود انسان کی اپنی ہی ذات کے واسطے مضر پڑنے والے تھے ان کانام بھی گناہ رکھا.گو بعض اوقات انسان ان کی مضرت کو نہ سمجھ سکتاہو مثلاً چوری کرنا اور دوسروں کے حقوق میں دست اندازی کرکے ان کو نقصان پہنچانا.گویا خود اپنی پاک زندگی کو نقصان پہنچاتا ہے.زانی کا زناکرنااور دوسروں کے حق میں دست درازی کرنا اور خود اپنی فطرت کی پاکیزگی کو برباد کرنا اور طرح طرح کے مشکلات جسمانی، روحانی میں مبتلا ہونا ہے اس طرح سے وہ امور بھی جو فطرتِ انسانی کی پاکیزگی اور طہار ت کے خلاف ہوں گناہ کہلاتے ہیں اور پھر ان امور کے لوازم قریبہ یا بعیدہ بھی گناہ کے ضم ضمیمہ ہی سمجھے جاتے ہیں.خدا جو سب سے بڑا اور سب سے زیادہ علم والا،

Page 319

انسان اور ذرّہ ذرّہ کا خالق حقیقی ہے اور وہ ان کے خواص کا بھی خالق اور داتا ہے.وہ اپنی کامل حکمت اور کامل علم سے ایک بات تجویز کرتا ہے کہ یہ تمہارے حق میں مضر ہے اس کا ارتکاب ہر گز ہرگز تمہارے حق میں مفید نہیں بلکہ سراسر مضر ہے تو انسان، ہاں سلیم الفطرت انسان کا یہ کام نہیں کہ اس کی خلاف ورزی کرے.ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر جب ایک مریض کے واسطے کوئی پرہیز تجویز کرتا ہے تو بیمار کس طرح بے چون و چر ااس کی تعمیل کرتا ہے کیوں ایسا کرتا ہے؟ اس لئے کہ وہ ڈاکٹر کو اپنے سے زیادہ وسیع معلومات رکھنے والا یقین کرتا ہے.غرض اسی طرح بعض امور ایسے بھی ہیں کہ وہ انسان کے جسم یاروح کے واسطے مضر ہوتے ہیں خواہ انسان سمجھے یا نہ سمجھے بعض امور ایسے ہیں کہ اگر خدا ان کے واسطے نہ بھی حکم دیتا تو بھی وہ مضر ہی تھے طب جسمانی میں بھی بعض گناہ رکھے گئے ہیں.قواعد طب کا علم نہ ہونا عذر نہیں ہو سکتا اس شخص کے واسطے جو خلاف ورزی قواعد طب کرتا ہے.اگر کسی کو یقین نہ ہو تو ڈاکٹروں اور اطباء سے پوچھ لو.یادرکھنے کے لائق نکتہ یہی ہے کہ گناہ کی جڑ وہی امور ہیں جن کے کرنے سے سچی پاکیزگی اور تقویٰ طہارت سے انسان دور جا پڑ ے.خدا کی سچی محبت اور اس کا وصال ہی سچی راحت اور حقیقی آرام ہے.پس خدا سے دوری اور الگ ہونا بھی گناہ اور باعث دکھ اور رنج ومصیبت ہے جن باتوں کو خدا اپنی تقدیس کی وجہ سے پسند نہیں کرتا وہی گناہ ہے.اگر بعض امور میں لوگوں کا اختلاف ہے تو دوسری طرف اکثر حصہ گناہ کا دنیا میں مشترکہ طور سے مسلّم ہے.جھوٹ، چوری، زنا اور ظلم وغیرہ ایسے امور ہیں کہ تمام مذہب و ملّت کے لوگ مشترکہ طور سے ان کوگناہ ہی یقین کرتے ہیں.مگر یادرکھو کہ گناہ کی جڑ وہی امور ہیں جو خدا سے بعید کرتے ہیں.خدا کی تقدیس کے خلاف ہیں.خدا کے ذاتی تقاضے کے برخلاف اور فطرت انسانی کے واسطے مضر ہیں وہی گناہ ہیں.ہر انسان گناہ کو محسوس کرتا ہے.دیکھو! جب کوئی کسی بے گناہ کو طمانچہ مارتا ہے اور جانتا ہے کہ میرا حق نہیں کہ ایسا کروں.وہ آخر ایک وقت جب ٹھنڈے دل سے بیٹھے گا اپنے دل میں خود نادم او ر شرمندہ ہو گا اور محسوس کرے گا کہ میں نے بُرا کیا.ایک انسان جو کسی بھوکے کو کھانا دیتا ہے.پیاسے کو پانی پلاتا ہے.ننگے کو کپڑا پہناتا ہے

Page 320

وہ اپنے اندر ہی اندر ایک قسم کا احساس پاتا ہے کہ میں نے نیکی کی اور اچھا کام کیا.انسان کا دل اور کانشنس نورِ ایمان ہر کام کے وقت اس کو معلوم کر ا دیتا ہے کہ آیا اس نے ثواب کیا یا گنا ہ کیا؟ شیطان شیطان کے لئے یہ یادرکھنا چاہیے کہ انسان کی سرشت اور بناوٹ میں دو قوتیں رکھی گئی ہیں اور وہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں اور یہ اس واسطے رکھی گئی ہیں کہ انسان ان کی وجہ سے آزمائش اور امتحان میں پڑ کر بصورت کامیابی قربِ الٰہی کا مستحق ہو.ان دو قوتوں میں سے ایک قوت نیکی کی طرف کھینچتی ہے اور دوسری بدی کی طرف بلاتی ہے.نیکی کی طرف کھینچنے والی قوت کانام مَلک یا فرشتہ ہے اور بدی کی طرف بلانے والی قوت کانام شیطان یا بالفاظ دیگر یوں سمجھ لو کہ انسان کے ساتھ دو قوتیں کام کرتی ہیں.ایک داعی خیر اور دوسری داعی شر.اگر کسی کو شیطان اور فرشتہ کا لفظ گراں گذرتا ہے تو یوں ہی سمجھ لے انسان میں دو قوتوں سے تو کسی کو انکار نہیں ہو سکتا.خدا نے کسی بدی کا کبھی ارادہ نہیں کیا.خدا نے جو کیا خیرہی خیر کیا ہے.دیکھو! اگر دنیا میں گناہ کا وجود نہ ہوتا تو نیکی بھی نہ ہوتی.نیکی گناہ سے پیدا ہوتی ہے.گناہ کے وجود سے ہی نیکی کاوجود پیدا ہوتا ہے.دیکھو! اگر کسی کو زنا کا موقع ملتا ہے اور اس میں طاقت بھی موجود ہے اور پھر وہ گناہ سے بچتا ہے تو اس کانام نیکی ہے.اگر کسی کو چوری اور ظلم وغیرہ گناہ کے مواقع ملتے ہیں اور پھر وہ اس کے کرنے پر قادر بھی ہو.بایں ہمہ وہ ان کا ارتکاب نہ کرے اور اپنے آپ کو بچاوے تو وہ نیکی کرتا ہے.گناہ کا موقع اور قدرت پاکر گناہ نہ کرنا یہی ثواب اور نیکی ہے.سوال.دنیا میں دو مختلف طاقتیں کام کرتی ہیں.مثبت اور منفی.اگر ہم ہمیشہ مثبت سے کام لیتے رہیں اور منفی سے کام نہ لیں تو ایک دن ایسا ہو گا کہ منفی آہستہ آہستہ جمع ہو کر زور پکڑ جاوے گی اور کسی وقت یک دفعہ پھوٹ کر دنیا کو تباہ کر دے گی.یہی حال نیکی اور بدی کاہے اگر تمام دنیا میں نیکی ہی نیکی کی جاوے اور کوئی بدی نہ کرے تو اس طرح ایک دن بدی زور پکڑ کر دنیا کو تباہ کر دے گی.جواب.فرمایا.دیکھو! اگر ایک شخص چلّا کر بولنے پر قادر ہی نہیں تو اس کا نرمی سے بولنا اخلاق فاضلہ میں سے نہیں سمجھا جاوے گا.اگر انسان ہمیشہ ایک ہی حالت پر قائم رہتا اور دوسرا پہلو بدل ہی

Page 321

نہ سکتا تو پھر نیکی نیکی ہی نہ رہ سکتی.افراط اور تفریط دونوں کی موجودگی ہی نیکی پیدا کرتی ہے.یکطرفہ حالات ہوتے اور دوسرے قویٰ انسان کو دئیے ہی نہ جاتے اور انسان ہمیشہ نیکی کے واسطے ہی مجبور ہوتا.بدی کرنے کی طاقت ہی اسے نہ ملتی تو پھر فرمانبردار ی اور نیکی نام ہی کس چیز کا ہوتا.انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک حدتک اختیار دیا ہے.ادھر بھی پہلو بدل سکتا ہے.نیکی کی بھی طاقت ہے اوربدی کا بھی اختیار.اب جیسا کرے گا اس کا اجر پاوے گا.دیکھو! اگر اخلاق بد نہ ہوتے تو اخلاقِ فاضلہ کن کانام ہو سکتا.اخلاقِ رذیلہ ہوئے جب ہی اخلاقِ فاضلہ بھی ہوئے.کوئی اخلاقِ بد انسان کے ذہن میں ہوتے ہیں جب ہی تو انسان ان کا نقشہ ذہن میں رکھ کر ان کی مذمت کرتا اور اخلاقِ فاضلہ کسی خاص کام کا نام رکھتا ہے اور ان کی تعریف کرتا ہے.اگر ذہن میں کوئی کسی اَمر بد کا نقشہ موجود نہیں تو پھر اخلاق حسنہ بھی کچھ نہیں.ہمیشہ بدی سے ہی نیکی ممتاز کی جاتی ہے اگر ایک ہی پہلو پیدا کیا جاتا تو یقیناً کوئی اجر بھی نہ ہوتا اور کوئی خوشنو دی بھی نہ ہوتی.(رنج سے راحت، دکھ سے سکھ، ظلمت سے نور، کڑوے سے میٹھا، زہر سے تریاق، بد سے نیک اور گناہ سے نیکی پیدا ہوتی ہے.اگر یہ ضدیں دنیا میں پیدا نہ کی جاتیں تو پھر زندگی ہی بد مزہ ہو جاتی) اگر صرف ایک ہی پہلو ہوتا تو وہ تو فطرت میں داخل تھا.اس پر اجر کیسا اور ثواب کیا؟ وہ ذریعہ رضامندی کیوں کر ہو سکتا؟ وہ تو ایک مجبوری تھی کہ فطرتاًانسان سے اس کے مطابق ہی اعمال سر زد ہوتے.یاد رکھو کہ انسان ذو اختیار بنایا گیا ہے.انسان کو اختیار ہے کہ نیکی کرے یا بدی، احسان کرے یا ظلم، مروت کرے یا بخل، ہمیشہ دونوں پہلو ئوں پر لحاظ رکھ کر ہی کسی خاص انسان کے متعلق رائے زنی ہو سکتی ہے کہ نیک ہے یا بد.اعمال کا مفہوم ہی یہی ہے کہ دوسری طرف بھی قدرت رکھتا ہو جو انتقام لینے کی طاقت رکھتے ہوئے انتقام نہیں لیتا وہ نیکی کرتا ہے.مگر جس کو انتقام کے واسطے مُکّا مارنے کا ہاتھ ہی نہیں دیا گیا وہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ میں نے نیکی کی اور احسان کیا کہ مُکّا نہیں مارا.قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا( الشّمس :۱۰،۱۱)اس آیت کریمہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نیکی اور خوبی کا مدارہی دونوں پہلوئوں پر ہے جس کو ایک ہی قوت دی گئی ہے اور دوسری قوت ہی

Page 322

اس کو عطا نہیں ہوئی وہ تو ایک نقش ہے جو مٹ نہیں سکتا.جو شخص مَلک اور شیطان کا انکار کرتا ہے وہ تو گویا بد یہات اور امورِ محسوسہ مشہودہ کا انکاری ہے.ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ لوگ نیکی بھی کرتے ہیں اور ارتکاب جرائم بھی دنیا میں ہوتا ہے اور دونوں قوتیں دنیا میں برابر اپنا کام کررہی ہیں اور ان کا تو کوئی فردبشر بھی انکا ر نہیں کر سکتا.کون ہے جو ان دونوں کا احساس اور اثر اپنے اندر نہیں پاتا؟ یہاں کوئی فلسفہ اور منطق پیش نہیں جاتی جبکہ دونوں قوتیں موجو د ہیں اور اپنی اپنی جگہ اپنا اپنا کام کر رہی ہیں.باقی یہ اَمر اگر نیکی ہی نیکی کی جاوے تو بدی زور پکڑ کر دنیا کو تباہ کر دے گی.اس کے متعلق ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اس سے تعلق نہیں کہ ایسا ہوتو ایسا ہو اور ایسا ہو تو ایسا ہو.ہم اتنا دیکھتے ہیں کہ طبیعتیں مستعد بنائی ہیں.کیا اخلاقِ فاضلہ کے واسطے اور کیا رذیلہ کے واسطے؟ ہم اس سے آگے نہیں بڑھتے.سوال.عیسائیوں میں یہ ایک مسئلہ مشہور ہے کہ دنیا گمراہ ہو گئی تھی مگر خدا نے پھر شیطان سے اس کو خریدا کیا یہ صحیح ہے ؟ جواب.فرمایا.ہم ایسی لغو باتوں کے قائل نہیں.یہ ایک لغو بات ہے.عیسائیوں سے پوچھا جاوے.سوال.عیسائی عقائد سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمؑ ایک اعلیٰ حالت سے ادنیٰ حالت کی طرف آگئے تھے حالانکہ انسان ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ترقی کرتا ہے.جواب.فرمایاکہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں اور نہ ہی ہم اس کو مانتے ہیں.سوال.میں آئندہ زندگی کو مانتا ہوں کہ وہ ایک چولہ ہے.انسان اس کے ذریعہ ایک حالت سے دوسرے حالت میں چلا جاتا ہے.مجھے سپر چول ازم سے خاص دلچسپی ہے.میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آئندہ زندگی کس طرح سے ہوگی اور وہاں کیا کیا حالات ہوں گے؟ جواب.فرمایا.بیشک اس زندگی کا خاتمہ ہو کر ایک اور نئے رنگ کی زندگی شروع ہو گی مگر اس وقت ابھی وقت نہیں کہ اس کی تفصیل بیان کریں.جنہوں نے اس زندگی میں اچھی تخمریزی کی ہو گی.ان کے واسطے ایک پاک سلسلہ شروع ہو گا اور جنہوں نے بُری تخم ریزی کی ہو گی.ان کے لئے مشکلات

Page 323

اور عذاب کا سلسلہ ہو گا.اس نئی زندگی کا ایک قسم کا تعلق اس زندگی سے بھی رہتا ہے اوربالکل ٹوٹ نہیں جاتا.مثال کے طورپر عالم خواب موجود ہے.بیداری میں ایک زندگی ہوتی ہے مگر سوتے ہی ایک عظیم الشان انقلاب آجاتا ہے بعض تفاصیل معلوم تو ہیں مگر ان کا بیان اس وقت نہیں ہوسکتا کیونکہ اس اَمر کے واسطے ایک لمبا وقت چاہیے.منٹوں میں یہ اَمر طے نہیں ہوسکتا.سوال لیڈی صاحبہ.آیا یہ ممکن ہے کہ جو لو گ اس دنیا سے گذر گئے ہیں اور مَر چکے ہیں ان سے باتیں ہوسکیں یا کوئی تعلق یا واسطہ ہوسکے اور ان کے صحیح حالات معلوم کرسکیں ؟ جواب.یہ بات ممکن تو ہے کہ کشفی طورسے روحوں سے انسان مل سکتا ہے مگر اس اَمر کے حصول کے واسطے ریاضاتِ شاقہ اور مجاہدات سخت کی اشد ضرورت ہے.ہم نے خود آزمایا ہے اورتجربہ کیا ہے اوربعض اوقات روحوں سے ملاقات کرکے باتیں کی ہیں.انسان ان سے بعض مفید مطلب امور اور دوائیں وغیرہ بھی دریافت کرسکتا ہے ہم نے خود حضرت عیسٰیؑ کی روح اورآنحضرتؐاوربعض صحابہ ؓ کرام سے بھی ملاقات کی ہے اوراس معاملہ میں صاحبِ تجربہ ہیں لیکن انسان کے واسطے مشکل یہ ہے کہ جب تک اس راہ میں مشق اورقاعدہ کی پابندی سے مجاہدات نہیں کرتا یہ اَمر حاصل نہیں ہوسکتا اور چونکہ ہر ایک کویہ اَمر میسر بھی نہیں آسکتا.اس واسطے اس کے نزدیک یہ ایک قصہ کہانی ہی ہوتی ہے اوراس میں حقیقت نہیں ہوتی.انسانی قلب بڑے بڑے عجائبات کا مرکز ہے مگر جس طرح صاف اورعمدہ پانی حاصل کرنے کے واسطے سخت سے سخت محنت اٹھا کر زمین کھودی جاتی ہے مٹی نکالی جاتی ہے اورپھر صفائی کی جاتی ہے اسی طرح دل کے عجائبات قدرت سے اطلاع پانے کے واسطے بھی سخت محنت اورمجاہدات کی ضرورت ہے اصل بات یہی ہے کہ اصلیت اس اَمر کی ضرورمانی جاتی ہے جس کے ہم خود گواہ ہیں اور صاحب تجربہ.سوال.مجھے اس قسم کی ایک کمیٹی کی طرف سے بعض کاغذات آئے تھے اور میری خاص غرض آپ کے پاس حاضر ہونے کی یہی تھی کہ ان کے متعلق آپ سے دریافت کروں اور آپ کی ہدایات سنوں.کیا

Page 324

آپ مجھے اپنا کچھ عزیز وقت دے سکتے ہیں ؟ جواب.فرمایا کہ ان دنوں میں ہماری طبیعت بیمار ہے.ہم زیادہ محنت نہیں برداشت کرسکتے.البتہ صحت کی حالت ہوتو ممکن ہے.فقط ۱ ۱۴؍مئی ۱۹۰۸ء (بوقتِ صبح) کلام کی عمدگی فرمایا.قرآن مجید ایک ایسی غذا کی مانند ہے جو ہر طبقے ہر مزاج کے لوگوں کے مناسب حال ہے اور یہی اس کے خدا کی طرف سے ہونے کا ثبوت ہے.ہم چاہتے ہیں ہماری جماعت کے لوگ بھی بولنا سیکھیں.ان کا طرز تقریر بھی ایسا ہی ہوکہ جیسا وہ اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے مفید اورادنیٰ کے لئے بھی فائدہ رساں ہے.اصل میں کلام کی عمدگی یہی ہے کہ وہ ہر قسم کے لوگوں کے مطابق حال ہو.اسلام ایک وسطی راہ ہے فرمایا.خدا نے اسلام کو دوسرے لوگوں کے لئے نمونہ بنایا ہے.اس میں ایسی وسطی راہ اختیار کی گئی ہے جو افراط وتفریط سے بالکل خالی ہے.وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ (البقرۃ:۱۴۴) الزامی جواب کا جواز فرمایا.جواب دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تحقیقی، دوسرے الزامی.اللہ تعالیٰ نے بھی بعض جگہ الزامی جوابوں سے کام لیا ہے اس میں معترض کو اپنے مذہب کی کمزوری معلوم ہوتی ہے.چنانچہ جب عیسائیوں نے کہا کہ عیسٰیؑ خدا کا بیٹا ہے اوردلیل یہ کہ وہ مریم کنواری کے پیٹ سے پیدا ہواتواللہ تعالیٰ نے فرمایا اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ (اٰل عـمران:۶۰) یعنی اگر یہی اس کے بیٹا ہونے کا ثبوت ہے توآدم بطریق اوّل بیٹا ہونا چاہیے.۱ الحکم جلد ۱۲نمبر ۳۶ مورخہ ۲؍جون ۱۹۰۸ءصفحہ ۶تا۸

Page 325

چُھوت چھات چُھوت وغیرہ دراصل اس بات کا نشان ہے کہ ہندوئوں کا مذہب کمزور ہے جو ہاتھ لگانے سے بھی جاتا رہتا ہے.اسلام کی بنیاد چونکہ قوی تھی اس لئے اس نے ایسی باتوں کو اپنے مذہب میں نہیں رکھا.چنانچہ کھانے کے متعلق فرما دیا لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْتَاتًا (النّور :۶۲) مخلصانہ بیان کا اثر بیان میں جب تک روحانیت اور تقویٰ وطہارت او ر سچا جوش نہ ہو اس کا کچھ نیک نتیجہ مرتّب نہیں ہوتا ہے.وہ بیان جو کہ بغیر روحانیت و خلوص کے ہے وہ اس پرنالہ کے پانی کی مانند ہے جو موقع بے موقع جوش سے پڑا جاتا ہے اور جس پر پڑتا ہے اسے بجائے پاک و صاف کرنے کے پلید کر دیتا ہے.انسان کو پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہیے.پھر دوسروں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہونا چاہیے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ(المآئدۃ : ۱۰۶) یعنی اے مومنو! پہلے اپنی جان کی فکر کرو.اگر تم اپنے وجود کو مفید ثابت کرنا چاہو تو پہلے خود پاکیزہ وجود بن جائو.ایسا نہ ہو کہ باتیں ہی باتیں ہوں اور عملی زندگی میں ان کا کچھ اثر دکھائی نہ دے.ایسے شخص کی مثال اس طرح سے ہے کہ کوئی شخص ہے جو سخت تاریکی میں بیٹھا ہے.اب اگر یہ بھی تاریکی ہی لے گیا تو سوائے اس کے کہ کسی پر گر پڑے او ر کیا ہوگا؟ اسے چراغ بن کر جانا چاہیے تاکہ اس کے ذریعہ سے دوسرے روشنی پائیں.دل کا تقدس اور تطہر ہی صحیح ہتھیار ہیں جسمانی علوم پر نازاں ہونا حماقت ہے.چاہیے کہ تمہاری طاقت روح کی طاقت ہو.خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے سائنس یا فلسفہ یا منطق پڑھایا اور ان سے مدد دی بلکہ یہ کہ اَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ ( المجادلۃ :۲۳) یعنی اپنی روح سے مدد دی.صحابہ ؓ اُمّی تھے.ان کا نبی (سیدنا محمدعلیہ الصلوٰۃ والسلام) بھی اُمّی.مگر جو پُر حکمت باتیں انہوں نے بیان کیں وہ بڑے بڑے علماء کو نہیں سوجھیں کیونکہ ان پر خدا کی خاص تائید تھی.تقویٰ و طہارت و پاکیز گی سے اندرونی طور پر مدد ملتی ہے.یہ جسمانی علوم کے ہتھیار کمزور ہتھیار ہیں.ممکن بلکہ اغلب کہ مخالف کے پاس ان سے بھی

Page 326

زیادہ تیز ہتھیار ہوں پس ہتھیار وہ چاہیے جس کا مقابلہ دشمن نہ کرسکے.وہ ہتھیار سچی تبدیلی اور دل کا تقدس و تطہر ہے.جسے نزول الماء ہو.وہ دوسروں کے نزول الماء کو کیا تندرست کرے گا.صاحبِ باطن کی بات اگر اس وقت بظاہر ردّ بھی کر دی جائے تو بھی وہ خالی نہیں جاتی بلکہ انسانی زندگی پر ایک خفیہ اثر کرتی ہے.ع سخن کز دل بروں آید نشیند لاجرم بر دل (بوقتِ ظہر) ہنسی ہنسی کے متعلق ذکر تھا.فرمایا.جب اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں چنانچہ وہ فرماتا ہے اَنَّهٗ هُوَ اَضْحَكَ وَ اَبْكٰى(النّجم:۴۴) اصلاح کا صحیح طریق ڈاڑھی منڈ وانے کا ذکر آیا.فرمایا.لوگ کن بیہودہ اعتراضوں میں پڑے ہیں وہ ظاہر کو دیکھتے ہیں.ہماری نگاہ باطن پر ہے جب انسان کا دل پاک ہو جائے تو پھر یہ معمولی اصلاحیں خود بخود ہوجاتی ہیں.اگر پہلے ہی ایسی باتوں پر اعتراض کر دیا جائے تو انسان ابتلا میں آجاتا ہے اور بہت سی بڑی باتوں سے محروم رہ جاتاہے.بعض نو مسلم صحابہؓ پر بھی ایسے اعتراض کئے گئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ یوں نہیں چاہیے.جب انسان نے ایک صداقت کو اختیار کر لیا تو آہستہ آہستہ دوسری صداقتوں کے اختیار کی توفیق بھی حاصل ہو جائے گی.تدریجی احکام اسی لئے نازل ہوتے رہے.شراب کی حرمت یکدم نازل نہ ہوئی کہ ابھی طبائع تیار نہ ہو ئی تھیں ایسے لغو معترضوں سے ہمیں امید نہیں کہ وہ کچھ بھی فائدہ حاصل کریں.وہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ہوتے تو ان پر بھی اعتراض کرنے سے نہ رکتے اور آخر مرتد ہوجاتے.ہر نبی اور اس کی جماعت پر ایسے اعتراض ہوتے رہے ہیں.چنانچہ بعض نادانوں نے کہہ د یا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ ( الفرقان : ۸) طعام سے مراد اچھا مکلّف عمدہ کھانا ہے جب انکار

Page 327

حد سے گذر جاتا ہے تو ایسے ہی اعتراض سوجھتے ہیں.اس پر ایک دوست نے ذکر کیا کہ ایک شخص کہتا تھا کہ اگر قرآن سے حضرت کی صداقت کا ثبوت مل جائے تو میں اس قرآن کو بھی نہیں مانتا.اگر خدا اپنے نشانوں سے سچا ثابت کر دے تو میں اس خدا پر بھی ایمان نہ لائوں.یہ لعنتی قول انتہا درجے کی قساوت قلبی پر دال ہے.خلوص کی قدر حضرت عیسٰیؑ پر ایک شخص نے جو ان کا مرید بھی تھا اعتراض کیا کہ آپ نے ایک فاحشہ سے عطر کیوں ملایا.انہوں نے کہا کہ دیکھ تو پانی سے میرے پائوں دھوتا ہے اور یہ آنسوئوں سے.خدا کے نزدیک خلوص کی قدر ہوتی ہے اور میں سچ کہتا ہوں کہ آجکل کے جو فقیہ اور فریسی ہیں ان سے ایسی کنچنیاں پہلے بہشت میں جائیں گی.درحقیقت انہوں نے اس زمانہ کے علماء کی حالت کے اعتبار سے ٹھیک کہا.جائز قیاس وہ ہے جو قرآن و سنّت سے مستنبط ہو ایک شخص نے مسئلہ پوچھا.مرغی کی گردن بلی اتار کر لے گئی.مرغی پھڑک رہی ہے ذبح کر لی جائے؟ فرمایا.ایسے مسائل میں اصول کے طور پر یاد رکھو کہ دین میں صرف قیاس کرنا سخت منع ہے.قیاس وہ جائز ہے جو قرآن و حدیث سے مستنبط ہو.ہمارا دین منقولی طور سے ہمارے پاس پہنچا ہے.پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی حدیث ثابت ہو جائے تو خیر ورنہ کیا ضرورت ہے دوچار آنے کے لئے ایمان میں خلل ڈالنے کی؟ وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هٰذَا حَلٰلٌ وَّ هٰذَا حَرَامٌ (النّحل : ۱۱۷) انذاری پیشگوئی ٹل سکتی ہے آنے والے زلزلہ کی نسبت سوال ہوا.فرمایا.حقیقۃ الوحی پڑھو کہ اللہ نے اس کے حکم میں کچھ منسوخ بھی فرما دیا ہے.چنانچہ فرمایا يُؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى.ہمار ا خدا قادر مطلق خدا ہے جو

Page 328

کامل اختیارات رکھتا ہے.يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَآءُ ہمارا ایمان ہے.وہ جو تشی کی طرح نہیں.وہ ایک حکم صبح دیتا اور رات کو اس کے بدلنے کے کامل اختیارات رکھتا ہے.مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ (البقرۃ:۱۰۷ ) والی آیت اس پر گواہ ہے.آخر صدقہ خیرات بھی کوئی چیز ہے.تمام انبیاء کرام کا اجماعی مسئلہ ہے کہ صدقہ واستغفار سے ردِّ بَلا ہوتا ہے.بَلا کیا چیز ہے.یعنی وہ تکلیف دہ اَمر جو خدا کے ارادے میں مقدر ہوچکا ہے.اب اس بَلا کی اطلا ع جب کوئی نبی دے تو وہ پیشگوئی بن جاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے وہ تضرّع کرنے والوں پر اپنی رحمت سے رجوع کرتا ہے اس لئے ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ وعید کی پیشگوئیاں اٹل ہیں بلکہ وہ ٹل جاتی ہیں.دیکھو! جہاں میں نے زلزلہ کا ذکر کیا ہے وہاں ساتھ ہی توبہ استغفار تضرّع و صدقہ کی طرف توجہ دلائی ہے.جس سے یہ مراد ہے کہ یہ عظیم بَلا ٹل سکتی ہے.افسوس! لوگ ہماری عداوت میں ایسے بڑھ گئے ہیں کہ وہ اسلام کے مسائل کو بھی بھول گئے ہیں.وہ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۠(الانفال:۳۴) پڑھتے ہیںاور پھر ہم پر اعتراض کرتے ہیں.اللہ ہدایت کرے.۱ ۱۵؍مئی ۱۹۰۸ء (۱۰ بجے دن ) دو معزز بیرسٹرایٹ لاء ملاقات کو آئے.ان سے مفصلہ ذیل مکالمہ ہوا.انشاء اللہ کہنا ضروری ہے آپ نے آئندہ کے متعلق ایک بات کہی کہ ایسا کیا جائے گا.مگر ساتھ ہی انشاء اللہ العزیز فرمایا اوربتلایا کہ انشاء اللہ کہنا نہایت ضروری ہے کیونکہ انسان کے تما م معاملات اس کے اپنے اختیار میں نہیں.وہ طرح طرح کی مصائب اورمکارِہ وموانع میں گھرا ہوا ہے.ممکن ہے کہ جو کچھ ارادہ اس نے کیا ہے وہ پورا نہ ہو.پس انشاء اللہ کہہ کر اللہ تعالیٰ سے جو تما م طاقتوں کا سرچشمہ ہے مددطلب کی جاتی ہے.آجکل کے ناعاقبت اندیش ونادان لوگ اس پر ہنسی اڑاتے ہیں.۱ بدر جلد ۷ نمبر ۱۹،۲۰ مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۳،۴

Page 329

مخالفت کا فائدہ مخالفوں کے سبّ وشتم کا ذکر تھا.فرمایا.دیکھو کا شتکاری میں سب چیزوں ہی سے کام لیا جاتا ہے.پانی ہے.بیج ہے.مگر پھر بھی اس میں کھاد ڈالنے کی ضرورت پڑتی ہے جو سخت ناپاک ہوتی ہے.پس اسی طرح ہمارے سلسلے کے لئے بھی گندی مخالفت کھاد کا کام دیتی ہے.جماعت کے قیام کا مقصد فرمایا.اسلامی فرقوں میں دن بدن پھوٹ پڑتی جاتی ہے.پھوٹ اسلام کے لئے سخت مضر ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِيْحُكُمْ (الانفال :۴۷) جب سے اسلام کے اندر پھوٹ پڑی ہے دم بد م تنزل کرتا جاتا ہے.اس لئے خدا نے اس سلسلہ کو قائم کیا تالوگ فرقہ بندیوں سے نکل کر اس جماعت میں شامل ہوں جو بے ہودہ مخالفتوں سے بالکل محفوظ ہے اور اس سیدھے رستے پر چل رہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا.دوسرے کلمہ گوئوں سے ہمارا اختلاف ہم چاہتے ہیں کہ چند مہذب وشائستہ ومنصف مزاج وخداترس لوگ جمع ہوں اورہم انہیں سمجھائیں کہ ہمارا مذہب کیا ہے اور دوسرے کلمہ گوئوں سے ہمارا کس بات میں اور کیوں اختلاف ہے؟ دراصل ایسے وقت میں خدا نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے جبکہ اسلام دوحملوں کے صدمے اٹھا رہا ہے.ایک بیرونی طورسے حملہ ہے اور ایک اندرونی طور سے.چنانچہ بعض مسلمانوں ہی میں سے کہتے ہیں کہ اسلام کے احکام کوئی نہیں.یہ روزہ ونماز وحج پرانے زمانے کی باتیں ہیں جو کچھ عرب کے وحشیوں کے لئے ہی مفید ہوسکتی تھیں.پھر قیامت کے حالات پر طرح طرح کے اعتراض کرتے ہیں.دوم وہ لوگ ہیں جو افراط کی طرف گئے ہیں اوروہ بعض انبیاء کی شان میں غلو کرتے کرتے یہاں تک پہنچے ہیںکہ انہیں خداتک بنادیا ہے.ایک حضرت عیسٰیؑ ہی کو لو.ان کو بعض ایسی صفات کا صاحب گردانا ہے جو خاصّہ الوہیت ہیں.

Page 330

حضرت عیسیٰؑ کے واسطے خصوصیت کیوں؟ وہ بےشک خداکے مقرّبین میں سے تھے.ان پر خدا کا فضل تھا.وہ اللہ کی نبوت سے ممتا ز تھے مگرا ن کے لیے کوئی ایسی خصوصیت مقررکرنا جو دوسرے انبیا ء میں نہ ہو ٹھیک نہیں.کہتے ہیں کہ آسمان پر کئی صدیوں سے بجسدہِ العنصری متمکّن ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار نے قسمیں کھاکھاکر کہا کہ ہم ضرورمان لیں گے اگر آپ ہمارے سامنے آسمان پر چڑھ جاویں.اس کا جواب جو دیا گیا وہ یہ تھا کہ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا (بنیٓ اسـرآءیل :۹۴) جب اللہ نے ابتدا سے ایک قانون مقرر کردیا کہ فِيْهَا تَحْيَوْنَ (الاعراف:۲۶) توپھر اللہ اپنی سنّت کے خلاف کیوں کرتا؟ اگر یہ عقیدہ (عیسٰیؑ کے مع جسم آسمان پر چڑھ جانے کا ) اس وقت کے مسلمانوں میں ہوتا تو کافروں کا حق تھا کہ انہیں یہ کہہ کر ملزم کریں کیا وجہ ہے ایک نبی کے لیے یہ اَمر جائز قرار دیتے ہیں اور دوسرے کے لیے نہیں؟ حالانکہ تم اس بات کے بھی قائل ہوکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں سے اوربالخصوص حضرت عیسٰیؑ سے افضل اور جامع کمالات نبوت ہیں.غرض یہ زندہ آسمان پر چڑ ھ جانے کا ذکر قرآن شریف میں نہیں ہے بلکہ قرآن تواس عقیدہ کی تردید کرتا ہے یہ آیت ہے جو میں نے پڑھی ہے حدیث نہیں کہ اس پر ضعیف یا وضعی ہونے کا اعتراض ہوسکتا ہو.ساراقرآن مجید اوّل سے آخرتک دیکھ لو عیسٰیؑ کے اب تک زندہ رہنے کا ثبوت نہ پائو گے.اگر پائو گے تو یہ کہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ عیسیٰ علیہ السلام ربُّ العزت کے حضور عرض کررہے ہیں.جب تونے مجھے وفات دی تو پھر تونگران حال تھا.میں دوبارہ نہیں آیا اور یہ کہ عیسائی میرے بعد میں بگڑے ہیں.تَوَفّی کے معنے موت ایسی بدیہی بات ہے کہ اس کا انکار نہیں ہوسکتا.یہ لفظ قرآن مجید میں اورانبیاء کے لئے بھی آیا ہے مثلاً حضرت یوسف ؑ نے کہا کہ تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا (یوسف :۱۰۲) اورخود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اَوْنَتَوَفَّيَنَّكَ۠ (یونس:۴۷) دونوں باب تفعّل سے ہیں.کسی لغت کی کتاب میں بھی اس کے خلاف معنے نہ پائو گے.یہ تو اللہ تعالیٰ کے کلام کی

Page 331

شہادت ہوئی.اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی شہادت کی طرف دیکھو جو آپ کی رؤیت ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں نے معراج کی رات عیسیٰ کو یحییٰ کے ساتھ دیکھا.اب اس میں توکسی مسلمان کو شک نہیں کہ یحییٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں.پس فوت شدہ گروہ میں جو بہشت جاچکا ہے کسی کو دیکھنا سوا اس بات کے اور کیا معنے رکھتا ہے کہ وہ بھی مَر چکا ہے.غرض یہ دوشہادتیں ہیں.آپ خود ہی انصاف کریں کہ ان سے کیا بات ثابت ہوتی ہے؟ پس کیاوجہ ہے کہ عیسٰیؑ کے لیے خصوصیات پیدا کی جائیں؟ پادری عیسٰیؑ کے خدا ہونے کی دلیل بیان کرتے ہیں کہ وہ مُردے زندہ کرتا تھا حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ (الزّمر:۴۳) اب خدا کے کلام میں تناقض نہیں کہ ایک آیت میں کہے مُردے دوبارہ دنیا میں نہیں آتے اوردوسری میں کہے کہ مُردے زندہ ہوتے ہیں.پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے ہاتھ پر مُردے زندہ ہوتے ہیں.لِمَا يُحْيِيْكُمْ (الانفال:۲۵) اورسب کو معلوم ہے کہ اس سے مراد روحانی مُردوں کا زندہ ہونا ہے.پس مسلمان جو پادریوں کی متابعت میں عیسٰیؑ کے مُردے زندہ کرنے کے قائل تھے غلطی کرتے ہیں.پھر کہتے ہیں کہ جو مَسِّ شیطان سے پاک ہے وہ صرف عیسٰی اوراس کی ماں ہی تھی.دیکھو! اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر ہتک ہے.ایسے ہی اور بہت سی خصوصیتیں ہیں جومسلمانوں نے عیسٰیؑ کو دے رکھی ہیں.جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک لازم آتی ہے اورہم اس بات کو کبھی بھی گوارا نہیں کرسکتے کہ اس سید الرسل سے بڑھ کر کسی کو بنایا جاوے جو عیسیٰ سے بدرجہا افضل اوراعلیٰ تھا (اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا مُـحَمَّدٍ ) مکالماتِ الٰہیّہ جاری ہیں پھر ان مسلمانوں کا ہم سے اس بات (میں) اختلاف ہے کہ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ خدا کے مکالمات و مخاطبات اس امت کے لوگوں سے قیامت تک جاری ہیں اور یہ بالکل سچ ہے کیونکہ یہی تمام اولیاءِ اُمت کا مذہب رہا ہے.یادرکھو کہ دین اسلام ایسا دین نہیں جس کے کمالات پیچھے رہ گئے ہیں اورآگے کے لئے اس میں کچھ نہیں.اگر یہ بات ہو اوراس کا دارومدار بھی قصوں پر ہی ہوتو پھر بتائو کہ اس میں

Page 332

اور دوسرے دینوں میں فرق کیا رہ گیا؟ اسلام میں اگر کوئی چیز مابہ الامتیاز ہے تو یہی کہ اس کے پَیرو الٰہی مکالمات ومخاطبات سے مشرف ہوتے ہیں.خشک توحید کے قائل تو اور مذاہب بھی ہیں مثلاً یہود پھر برہمو سماج.یہ سوال ہو سکتا ہے کہ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کے ساتھمُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ پڑھنے کا کیا فائدہ ہے؟ یہی تو فائدہ ہے کہ سید نامحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت وپیروی وتصدیق رسالت اللہ تعالیٰ کا محبوب بنادیتی ہے اوران انعامات کا وارث جواگلے برگزیدہ انبیاء پر ہوئے.اللہ نے اس کا نام فرقان رکھا ہے.چنانچہ فرمایا (يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا (الانفال:۳۰) یعنی وہ تمہیں ایک فرقان دے گا.پس دوسرے مذاہب (اور)اس میں ایک مابہ الامتیاز اسی جہان میں ہونا ضروری ہے.ہم اپنی بات کا ذکر نہیں کرتے.ہمارے معاملہ کو الگ رکھ کر کوئی ہمیں سمجھائے کہ اگر اسلام بھی خشک توحید ہی لے کر آیا تھا جیسے کہ یہودی رکھتے اور برہمو سماج کے لوگ اس کے قائل ہیں تواتنا بڑا شریعت کا بوجھ ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟ ایک طرف تومانتے ہیں کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اوردوسری طرف اس میں کوئی مابہ الامتیاز نہیں بتاتے اوراس کے جو کمالا ت اورخوبیاں ہیں وہ بھی مُردوں میں بتاتے ہیں.گویا زندوں کے لئے کچھ نہیں.مصنوع سے صانع کی طرف جانا خدا تعالیٰ کی ہستی کا اعلیٰ ثبوت نہیں ہوسکتا.بلکہ خدا شناسی کا یہی ایک ذریعہ ہے کہ وہ خود اَ نَا الْمَوْجُوْدُ کہے.پچھلے قصے تودوسرے مذاہب بھی سناتے ہیں.پس اس کے مقابل میں اگر تم بھی دوچار گذشتہ قصے سنا دو تو اس میں بہتری کیا ہوئی اور اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ جو کچھ تم کہتے ہو وہ تو سچ ہے مگر جو دوسرا بیان کرتا ہے کہ ہمارے راہنما نے یہ یہ معجزہ دکھایا وہ غلط ہے؟ دیکھو! انجیل میں ایسے معجزوں کا بھی ذکر ہے کہ جب عیسٰیؑ کو صلیب دیا گیا تو سب مُردے قبروں سے نکل آئے.ہماری عقل کا تو یہاں آکر خاتمہ ہے کہ ایک شہر میں تمام مُردے کس طرح سماگئے.اورپھر باوجود ان کے نکلنے کے یہودیوں نے عیسٰیؑ کو کیوں نہ مانا؟ پس ایسے قصوں کے مقابلہ میں اگر ہماری طرف سے بھی قصے ہی ہوں تو کسی مخالف پر کیا اثر پڑسکتا ہے؟ معجزہ شقُّ القمر اس پر ایک صاحب نے پوچھا.شق القمر کی نسبت حضور کیا فرماتے ہیں ؟ فرمایا.ہماری رائے میں یہی ہے کہ وہ ایک قسم کا خسوف تھا.ہم نے اس کے

Page 333

متعلق اپنی کتاب چشمہ معرفت میں لکھ دیا ہے.معراج کی حقیقت پھر معراج کی نسبت سوال ہوا.فرمایا.بخاری میں جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ الباری ہے.تمام معراج کا ذکر کرکے اخیر میں فَاسْتَیْقَظَ لکھا ہے.اب تم خود سمجھ لوکہ وہ کیا تھا.قرآن مجید میں بھی اس کے لئے رئویا کا لفظ ہے وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْۤ اَرَيْنٰكَ (بنیٓ اسـرآءیل:۶۱) مسلمانوں کے موجودہ فرقے پھر دوسرے صاحب نے پوچھا کہ اسلام میں جو اَور فرقے ہیں مثلاً حنفی، شافعی، نقشبندی، چشتی، قادری کیا جیسا ان کا باہم اختلاف ہے ایسا ہی یہ ایک فرقہ ہے یا اس میں کچھ زیادہ ہے ؟ فرمایا.ہمارے نزدیک تو یہ سب فرقے موجودہ صورت حالات میں اس تعلیم سے دور ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے متعلق فرمائی.یہ طرح طرح کی بدعات میں گرفتار ہیں.ایسے درود و وظائف اورذکر کے طریقے نکال رکھے ہیں جو آنحضرتؐسے ثابت نہیں.ان میں ایک ذکر ارّہ ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آدمی کوسل ہوجاتی ہے.بعض مجنون ہوجاتے ہیں جنہیں پھر ولی اللہ کہتے ہیں.اسلام میں ایسی پاگل کردینے والی تعلیمات نہیں اورنہ یہ وصول اِلَی اللہ کا طریقہ ہے.قرآن مجید میں تویہ فرمایا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا (الشّمس: ۱۰،۱۱) جب انسان محض اللہ تعالیٰ کے لیے اپنے جذبا ت کو رو ک لیتا ہے تواس کا نتیجہ دین ودنیا میں کامیابی اورعزت ہے.فلاح دو قسم کی ہے.تزکیہ نفس حسب ہدایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرنے سے آخرکار بھی نجات ملتی ہے اوردنیا میں بھی آرام ہوتا ہے.گناہ خود ایک دکھ ہے.وہ بیمار ہیں جو گناہ میں لذت پاتے ہیں.بدی کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلتا.بعض شرابیوں کو میں نے دیکھا ہے کہ انہیں نزول الماء ہوگیا.مفلوج ہوگئے.رعشہ ہوگیا.سکتہ سے مَر گئے.خدا تعالیٰ جو ایسی بدیوں سے روکتا ہے تو لوگوں کے بھلے کے لئے.جیسے ڈاکٹر اگر کسی بیمار کو پرہیز بتاتا ہے تواس میں بیمار کا فائدہ ہے نہ کہ ڈاکٹر کا.

Page 334

پس فلاح جسمانی وروحانی پانی ہے تو ان تمام آفات ومنہیات سے پرہیز کرو.نفس کو بے قید نہ کرو کہ تم پر عذاب نہ آجائے.اللہ تعالیٰ نے کمال رحمت سے سب دکھوں سے بچنے کی راہ بتادی.اب کوئی اگر ان دکھوں سے ان گناہوں سے نہ بچے تواسلام پر اعتراض نہیں ہوسکتا.حاصل کلام دو قسم کے لوگ ہیں.ایک وہ جو نیچریت میں حدسے بڑ ھ گئے ہیں قریب ہے کہ وہ دہریہ ہوجاویں.ان کے نزدیک ارکان صلوٰۃ ایک لغوحرکت ہے.وہ سمجھتے ہیں نبی بھی اُمّی.صحابہ ؓ بھی اُمّی.پس انہی کے لائق یہ حکم تھا.یہ افراط کا طریق ہے.دوسرے وہ لوگ جو تفریط میں پڑے ہیں حقوق اسلام کو کھا گئے.فقیر ذکر اللہ کے طرح طرح کے طریقے نکال بیٹھے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اُمَّةً وَّسَطًا ہو.پس اعتدال چاہیے اوردرمیانی راہ اختیار کرنی لازم ہے.ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے پھر اس معزز ملاقات کرنے والے (مسٹر فضل حسین صاحب بیر سٹر ایٹ لاء) نے عرض کیاکہ اگر تمام غیر احمدیوں کو کافر کہا جائے توپھر اسلام میں توکچھ بھی نہیں رہتا.فرمایا.ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے جب تک کہ وہ ہمیں کافر کہہ کر خود کافر نہ بن جائے آپ کو شاید معلوم نہ ہو جب میں نے مامور ہونے کا دعویٰ کیا تو اس کے بعد بٹالہ کے محمد حسین مولوی ابوسعید صاحب نے بڑی محنت سے ایک فتویٰ تیار کیا جس میں لکھا تھا کہ یہ شخص کافر ہے دجّال ہے.ضال ہے.اس کا جنازہ نہ پڑھا جائے جو ان سے السلام علیکم کرے یا مصافحہ یا انہیں مسلمان کہے وہ بھی کافر.اب سنو! یہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے کہ جو مومن کو کافر کہے وہ کافر ہوتا ہے.پس اس مسئلہ سے ہم کس طرح انکار کرسکتے ہیں.آپ لوگ خود ہی کہہ دیں کہ ان حالات کے ماتحت ہمار ے لئے کیا راہ ہے؟ ہم نے ان پر پہلے کوئی فتویٰ نہیں دیا.اب جو انہیں کافر کہا جاتاہے تویہ انہیں کے کافر بنانے کا نتیجہ ہے.ایک شخص نے ہم سے مباہلہ کی درخواست کی.ہم نے کہا کہ دومسلمانوں میں مباہلہ جائز نہیں.اس نے جواب لکھا کہ ہم توتجھے پکا کافر سمجھتے ہیں.اس شخص نے عرض کیا کہ وہ آپ کو کافر کہتے ہیں توکہیں لیکن اگر آپ نہ کہیں تو اس میں کیا حرج ہے ؟ فرمایا کہ جو ہمیں کا فر نہیں کہتا ہم اسے ہر گز کا فر نہیں کہتے لیکن جو ہمیں کافر کہتا ہے اسے کافر نہ

Page 335

سمجھیں تو اس میں حدیث اور متفق علیہ مسئلہ کی مخالفت لازم آتی ہے اوریہ ہم سے نہیں ہوسکتا.اس شخص نے کہاکہ جو کافر نہیں کہتے ان کے ساتھ نماز پڑھنے میں کیا حرج ہے ؟ فرمایا.لَایُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُـحْرٍ وَّاحِدٍ مَّرَّتَیْنِ.ہم خوب آزما چکے ہیں کہ ایسے لوگ دراصل منافق ہوتے ہیں ان کا حال ہے وَ اِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ١ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ۠ (البقرۃ :۱۵) یعنی سامنے تو کہتے ہیں کہ ہماری تمہارے ساتھ کوئی مخالفت نہیں مگر جب اپنے لوگوں سے مخلّٰی بالطبع ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ان سے استہزا کررہے تھے پس جب تک یہ لوگ ایک اشتہار نہ دیں کہ ہم سلسلہ احمدیہ کے لوگوں کو مومن سمجھتے ہیں بلکہ ا ن کو کافر کہنے والوں کو کافر سمجھتے ہیں.تومیں آج ہی اپنی تمام جماعت کو حکم دے دیتا ہوں کہ وہ ان کے ساتھ مل کر نماز پڑھ لیں.ہم سچائی کے پابندہیں.آپ ہمیں شریعت اسلام سے باہر مجبور نہیں کرسکتے.جب اس میں یہ بالاتفاق مسلّمہ مسئلہ ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا خود کافر ہے تو ہم انہیں کس طرح مسلمان کہیں ؟اوران مکفّرین اہل حق کو کافر نہ جانیں ؟ہم کس طرح سمجھیں کہ وہ سچے مسلمان ہیں؟ جب ان کے دلوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی عظمت نہیں ہے حالانکہ ہرمسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے سید ومولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کا پاس کرے اور جو کچھ انہوںنے فرمایا اسی کے مطابق عقیدہ رکھے.اس پر اس شخص نے پھر مکرر وہی کہا.آپ نے پھر بالتفصیل سمجھا یا کہ دیکھو! پہلے اپنے ملّاں لوگوں سے پوچھ تو دیکھیں کہ وہ ہمیں کیا سمجھتے ہیں؟ وہ تو کہتے ہیں یہ ایسا کافر ہے کہ یہود ونصاریٰ سے بھی اس کا کفر بڑ ھ کر ہے.پس جیسا کہ یوسف علیہ السلام کو جب مخلصی کا پیغام پہنچا تو آ پ نے فرمایا.پہلے ان سے یہ تو پوچھو کہ میرا قصور کیا ہے؟ سو آپ صلح سے پہلے یہ تو پوچھئے کہ ہم میں کفر کی کونسی بات ہے ہم تو جو کچھ کرتے ہیں جو کہتے ہیں سب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت، جلا ل وعزت کا اظہارموجود ہے.قرآن مجید میں ہے فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَيْرٰتِ (فاطر:۳۳)

Page 336

وہ شخص اس سے احسان ومدارات سے پیش آتا ہے تووہ چور خواہ کس قدر بُرا ہے مگر اس شخص کی کبھی چوری نہیں کرے گا اور کبھی اس کے گھر میں نقب نہیں لگائے گا تو کیا خداچور جیسا بھی نہیں؟ کیا خدا سے وفاداری کا تعلق بے فائدہ جاسکتا ہے ؟ہر گز نہیں.تمام اخلاقِ حمیدہ اسی کے صفات کا پَرتَو ہیں.جو سچے دل سے اس کے پاس آتے ہیں وہ ان میں اور ان کے غیر میں ایک فرقا ن رکھ دیتا ہے.سچے دل سے تضرّع ایک حصار ہے صوفی کہتے ہیں جس شخص پر چالیس دن گذر جائیں اورخداکے خوف سے ایک دفعہ بھی اس کی آنکھوں سے آنسو جاری نہ ہوں توان کی نسبت اندیشہ ہے کہ وہ بے ایمان ہوکر مَرے.اب ایسے بھی بندگانِ خدا ہیں کہ چالیس دن کی بجائے چالیس سال گذرجاتے ہیں اور ان کی اس طرف توجہ ہی نہیں ہوتی.دانشمند انسان وہ ہے جو بَلا آنے سے پہلے بَلا سے بچنے کا سامان کرے.جب بَلانازل ہوجاتی ہے تو اس وقت نہ سائنس کام دیتی ہے اورنہ دولت.دوست بھی اس وقت تک ہیں جب تک صحت ہے پھر تو پانی دینے کے لئے بھی کوئی نہیں ملتا.آفات بہت ہیں.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جلدی توبہ کرو کہ انسان کے گردچیونٹیوں سے بڑھ کر بَلائیں ہیں.جن لوگوں کا تعلق خدا سے ہے جس طرح وہ بَلائوں سے بچائے جاتے ہیں دوسرے ہرگز نہیں بچائے جاتے.تعلق بڑی چیز ہے.ع بہ زیر سلسلہ رفتن طریق عیاری است کوئی انسان نہیں جس کے لئے آفات کا حصہ موجود نہیں.اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا(اَ لَمْ نَشْـرَح :۷) انسان کو مایوس بھی نہیں ہونا چاہیے.ع برکریماں کار ہا دشوار نیست ایک منٹ میں کچھ کا کچھ کردیتا ہے.؎ نومید ہم مباش کہ رندان بادہ نوش ناگاہ بیک خروش بمنزل رسیدہ اند

Page 337

امن اورصحت کے زمانہ کی قدر کرو.جو امن وصحت کے زمانے میں خدا کی طرف رجو ع کرتا ہے خدا اس کی تکلیف وبیماری کے زمانہ میں مدد کرتا ہے.سچے دل سے تضرّع ایک حصار ہے جس پر کوئی بیرونی حملہ آوری نہیں ہوسکتی.۱ ۱۷؍مئی ۱۹۰۸ء تقریر حضرت اقدس علیہ السلام ۱۱بجے صبح تاایک بجے دوپہر بمقام لاہور تکمیل التبلیغ واتمام الحجۃ ۲ شکریہ مجھے اس وقت اس بات کا اظہار ضروری اورمناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہمیں تین قسم کا شکر کرنا چاہیے.سب سے مقدم اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں زندگی دی، صحت دی، تندرستی بخشی، امن دیا اور بدر جلد ۷نمبر ۱۹،۲۰ مورخہ ۲۴مئی۱۹۰۸ء صفحہ ۴تا ۷ ۲بدر نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ تقریر’’البلاغ المبین ‘‘کے زیر عنوان ۲۵ ؍جون ۱۹۰۸ء کے پرچہ میں درج کی ہے جس کے شروع میں یہ نوٹ لکھا ہے.’’۱۷؍مئی ۱۹۰۸ء کا وجد انگیز نظارہ آخر دم تک مجھے یاد رہے گا.جب خدا کے ہاتھوں سے معَطَّر کیاہوا مسیح گیارہ بجے معزز رئوساء وامراء لاہور کے سامنے ایک تقریر فرمارہا تھا.تقریر کیا تھی.معرفت کا ایک سمندر تھا جو اپنے پورے جوش میں تھا.عرفان کا ایک بادل تھا جو ابر رحمت بن کر ان پر برسا.وہ ایک آخری پیغام تھا جو دارالخلافہ میں اس عزّالخلافت نے اپنے قادر و توانا مالک الملکوت سلطان الجبروت کی طرف سے پہنچایا.بارہ بج گئے اورآپ نے

Page 338

امن اورصحت کے زمانہ کی قدر کرو.جو امن وصحت کے زمانے میں خدا کی طرف رجو ع کرتا ہے خدا اس کی تکلیف وبیماری کے زمانہ میں مدد کرتا ہے.سچے دل سے تضرّع ایک حصار ہے جس پر کوئی بیرونی حملہ آوری نہیں ہوسکتی.۱ ۱۷؍مئی ۱۹۰۸ء تقریر حضرت اقدس علیہ السلام ۱۱بجے صبح تاایک بجے دوپہر بمقام لاہور تکمیل التبلیغ واتمام الحجۃ ۲ شکریہ مجھے اس وقت اس بات کا اظہار ضروری اورمناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہمیں تین قسم کا شکر کرنا چاہیے.سب سے مقدم اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں زندگی دی، صحت دی، تندرستی بخشی، امن دیا اور بدر جلد ۷نمبر ۱۹،۲۰ مورخہ ۲۴مئی۱۹۰۸ء صفحہ ۴تا ۷ ۲بدر نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ تقریر’’البلاغ المبین ‘‘کے زیر عنوان ۲۵ ؍جون ۱۹۰۸ء کے پرچہ میں درج کی ہے جس کے شروع میں یہ نوٹ لکھا ہے.’’۱۷؍مئی ۱۹۰۸ء کا وجد انگیز نظارہ آخر دم تک مجھے یاد رہے گا.جب خدا کے ہاتھوں سے معَطَّر کیاہوا مسیح گیارہ بجے معزز رئوساء وامراء لاہور کے سامنے ایک تقریر فرمارہا تھا.تقریر کیا تھی.معرفت کا ایک سمندر تھا جو اپنے پورے جوش میں تھا.عرفان کا ایک بادل تھا جو ابر رحمت بن کر ان پر برسا.وہ ایک آخری پیغام تھا جو دارالخلافہ میں اس عزّالخلافت نے اپنے قادر و توانا مالک الملکوت سلطان الجبروت کی طرف سے پہنچایا.بارہ بج گئے اورآپ نے

Page 339

اشاعتِ دین کے لئے سامان مہیا کردیئے اورحقیقتاً سچی بات یہی ہے کہ اگرخدا تعالیٰ کی ان نعمتوں کا شمار کرنا چاہیں توہرگز ممکن نہیں کہ اس خدا کی مہربانیوں اوراحسانوں کا شمار کرسکیں.۱ اس کے انعامات ہر دو روحانی اور جسمانی رنگ میں محیط ہیں اورجیسا کہ وہ سورہ فاتحہ میں جو کہ سب سے پہلی سورہ ہے اور تمام قرآن شریف اسی کی شرح اورتفسیر ہے اوروہ پنجوقت نمازوں میں باربار پڑھی جاتی ہے اس کا نام ہے ربُّ العالمین یعنی ہر حالت میں اورہر جگہ پر اسی کی ربوبیت سے انسان زندگی اورترقی پاتا ہے اوراگر نظرِ عمیق سے دیکھا جاوے تو حقیقت میں انسانی زندگی کا بقا اورآسودگی اورآرام، راحت و چین اسی صفتِ الٰہی سے وابستہ ہے.اگراللہ تعالیٰ اپنی صفت رحمانیت کا استعمال نہ کرے اوردنیا سے اپنی رحمانیت کا سایہ اٹھالے تودنیا تباہ ہوجاوے.پھر اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا نام رحمٰن اور رحیم رکھا ہے.میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمٰن اور رحیم میں فرق بیان کردوں.رحمٰن اور رحیم میں فرق اَلرَّحْـمٰن سویاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کانام جو بغیر کسی عوض یا انسانی عمل محنت اور کوشش کے انسان کے شاملِ حال ہوتی ہے رحمانیت ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ نے نظامِ دنیا(بقیہ حاشیہ) فرمایا.کھانے کا وقت گذرا جاتا ہے چاہو تو میں اپنی تقریر بند کردوں مگر سب نے یہی کہا کہ یہ کھانا تو ہم روز کھاتے ہیں.ہمیں روحانی غذا کی ضرور ت ہے.چنانچہ تقریرایک بجے ختم ہوئی.اللہ تعالیٰ خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر چیف کورٹ کی مساعی جمیلہ کو مشکور کریں جنہوں نے اپنے دوستوں کے لیے حضور سے نیاز حاصل کرنے اوران کے کلمات طیبات سننے کا یہ موقع دعوت کے رنگ میں نکال دیا.‘‘ (بدر جلد ۷نمبر ۲۵مورخہ ۲۵؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۳) ۱ بدر سے.’’وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا (ابراھیم :۳۵)‘‘ (بدر جلد ۷نمبر ۲۵مورخہ ۲۵؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۳)

Page 340

بنا دیا، سورج پیدا کیا، چاند بنایا، ستارے پیدا کئے، ہوا، پانی، اناج بنائے.ہماری طرح طرح کی امراض کے واسطے شفا بخش دوائیں پیدا کیں.غرض اسی طرح کے ہزاروں ہزار انعامات ایسے ہیں کہ بغیر ہمارے کسی عمل یا محنت و کو شش کے اس نے محض اپنے فضل سے پیدا کر دئیے ہیں.اگر انسان ایک عمیق نظر سے دیکھے تو لاکھوں انعامات ایسے پائے گا اور اس کو کوئی وجہ انکار کی نہ ملے گی اور ماننا ہی پڑے گا کہ وہ انعامات اور سامانِ راحت جو ہمارے وجود سے بھی پہلے کے ہیں بھلا وہ ہمارے کس عمل کا نتیجہ ہیں؟ دیکھو! یہ زمین اور یہ آسمان اور ان میں کی تمام چیزیں اور خود ہماری بناوٹ اور وہ حالت کہ جب ہم مائوں کے پیٹ میں تھے اور اس وقت کے قویٰ یہ سب ہمارے کس عمل کا نتیجہ ہیں؟ میں ان لوگوں کا یہاں بیان نہیں کرنا چاہتا جو تناسخ کے قائل ہیں مگر ہاں اتنا بیان کئے بغیر رہ بھی نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ کے ہم پر اتنے لاتعداد اور انعام اور فضل ہیں کہ ان کو کسی ترازو میں وزن نہیں کر سکتے.بھلا کوئی بتا تو دے کہ یہ انعامات کہ چاند بنایا، سور ج بنایا، زمین بنائی اور ہماری تمام ضروریات ہماری پیدائش سے بھی پہلے مہیّا کر دیں.یہ کُل انعامات کس عمل کے ساتھ وزن کریں گے؟ پس ضروری طور سے یہ ماننا پڑے گا کہ خدا رحمٰن ہے اور اس کے لاکھوں فضل ایسے بھی ہیں کہ جو محض اس کی رحمانیت کی وجہ سے ہمارے شامل حال ہیں اور اس کے وہ عطایا ہمارے کسی گذشتہ عمل کا نتیجہ نہیں ہیں اور کہ جو لوگ ان امور کو اپنے کسی گذشتہ عمل کا نتیجہ خیال کرتے ہیں وہ محض کوتاہ اندیشی اور جہالت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں.خدا کا فضل اور رحمانیت ہماری روحانی جسمانی تکمیل کی غرض سے ہے اور کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ یہ میرے اعمال کا نتیجہ ہیں.اَلرَّحِیْم انسان کی سچی محنت اور کوشش کا بدلہ دیتا ہے.ایک کسان سچی محنت اور کوشش کرتا ہے.اس کے مقابل میں یہ عادت اللہ ہے کہ وہ اس کی محنت اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا اور بابرگ و بار کرتا ہے.شاذوناد ر حکم عدم کا رکھتا ہے.۱ ۱ بدر سے.’’کسی پوشیدہ حکمت یا کاشتکار کی بد عملی کی وجہ سے فصل برباد ہوجائے تو یہ علیحدہ بات ہے.یہ شاذ و نادر کالمعدوم کا حکم رکھتی ہے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۲۵ مورخہ ۲۵؍جون۱۹۰۸ء صفحہ ۳)

Page 341

صفت ربوبیت اللہ کی ایک صفت ربّ ہے یعنی پرورش کرنے اور تربیت کرنے والا.کیا روحانی اور کیا جسمانی دونوں قسم کے قویٰ اللہ تعالیٰ نے ہی انسان میں رکھے ہیں.اگر قویٰ ہی نہ رکھے ہوتے تو انسان ترقی ہی کیسے کر سکتا.جسمانی ترقیات کے واسطے بھی اللہ تعالیٰ ہی کے فضل و کرم اورانعام کے گیت گانے چاہئیں کہ اس نے قویٰ رکھے اور پھر ان میں ترقی کرنے کی طاقت بھی فطرتاً رکھ دی.صفت مالکیت مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ(الفاتـحۃ:۴) خدا مالک ہے جزا سزا کے دن کا.ایک رنگ میں اسی دنیا میں بھی جزا سزا ملتی ہے.ہم روز مرہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ چور چوری کرتا ہے.ایک روز نہ پکڑا جاوے گا دو روز نہ پکڑا جاوے گا آخر ایک دن پکڑا جاوے گا اور زندان میں جائے گا اور اپنے کئے کی سزا بھگتے گا.یہی حال زانی، شراب خور اور طرح طرح کے فسق وفجور میں بے قید زندگی بسر کرنے والوں کا ہے کہ ایک خاص وقت تک خدا کی شانِ ستّاری ان کی پردہ پوشی کرتی ہے.آخر وہ طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور دکھوں میں مبتلا ہو کر ان کی زندگی تلخ ہوجاتی ہے اور یہ اس اُخروی دوزخ کی سزا کا نمونہ ہے.اسی طرح سے جو لوگ سرگرمی سے نیکی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اور فرماں برداری ان کی زندگی کا اعلیٰ فرض ہوتا ہے تو خدا ان کی نیکی کو بھی ضائع نہیں کرتا اور مقررہ وقت پر ان کی نیکی بھی پھل لاتی اور باردار ہو کر دنیا میں ہی ان کے واسطے ایک نمونہ کے طو ر پر مثالی جنت حاصل کر دیتی ہے.غرض جتنے بھی بدیوں کا ارتکاب کرنے والے فاسق، فاجر، شراب خور اور زانی ہیں.ان کو خدا کا اور روزِ جزا کاخیال آنا تو درکنار.اسی دنیا میں ہی اپنی صحت، تندرستی، عافیت اور اعلیٰ قویٰ کھو بیٹھتے ہیں اور پھر بڑی حسرت اور مایوسی سے ان کو زندگی کے دن پورے کرنے پڑتے ہیں.سل، دق، سکتہ اور رعشہ اور اَور خطرناک امراض ان کے شامل حال ہو کر مَرنے سے پہلے ہی مَر رہتے اور آخرکار بے وقت اور قبل از وقت موت کا لقمہ بن جاتے ہیں.پس انسان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور انعامات کا جو اس نے انسانی تربیت اور تکمیل

Page 342

کے واسطے مہیا کیے ہیں.ان کا خیال کرکے اس کا شکریہ کرے اور غور کرے کہ اتنے قویٰ اس کو کس نے عطا کئے ہیں؟ انسان شکر کرے یا نہ کرے.یہ اس کی اپنی مرضی ہے.مگر اگر فطرت سلیم رکھتا ہے اور سوچ کر دیکھے گا تو اس کو معلوم ہو گا کہ کیا ظاہر ی او ر کیا باطنی ہر قسم کے قویٰ اللہ تعالیٰ ہی کے دئیے ہوئے اور اسی کے تصرّف میں ہیں.چاہے تو ان کو شکر کی وجہ سے ترقی دے اور چاہے تو ناشکری کی وجہ سے ایک دم میں ضائع کر دے.غور کا مقام ہے کہ اگر یہ تمام قویٰ خود انسان کے اپنے اختیار اور تصرّف میں ہوں تو کون ہے کہ اس کا مَرنے کو جی چاہے.انسان کا دل دنیا کی محبت کی گرمی کی وجہ سے آخرت سے بے فکری و سرد مہری اختیا رکر لیتا ہے.غافل انسان ایسا نادان ہے کہ اگر اس کو خدا سے پروانہ بھی آجاوے کہ تمہیں بہشت ملے گا، آرام ہوگا اور طرح طرح کے باغ اور نہریں عطا کی جاویں گی.تمہیں اجازت ہے اور تمہاری اپنی خواہش اور خوشی پر منحصر ہے کہ چاہو توہمارے پاس آجائو اور چاہو تو دنیا میں ہی رہو.تو یاد رکھو کہ بہت سے لوگ ایسے ہوں گے کہ وہ اس دنیا کے گذارہ کو ہی پسند کریں گے اور باوجود طرح طرح کی تلخیوں اور مشکلات کے اس دنیا سے محبت کریں گے.دنیا حد اعتدال سے باہر ہو چکی ہے دیکھو! عمر کا بھروسہ نہیں.زمانہ بڑا ہی نازک آگیاہے.آپ لو گ دیکھتے ہوں گے کہ ہر سال کئی دوست اور کئی دشمن، کئی عزیز اور کئی پیارے بھائی اور بہن اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی عزیز سے عزیز اور قریبی سے قریبی رشتہ دار انسان کی مشکلات میں سہارا دینے والانہیں ہو سکتا.مگر بایں ہمہ انسان جس قدر محنت اور کوشش اور مجاہدہ ان کے واسطے اور اپنے دنیوی امور کے واسطے کرتا ہے وہ بمقابلہ خدا کے بہت ہی بڑھا ہواہے.خدا کی عبادت اور فرماں برداری اور اس کی راہ میں کوشش اور سوز و گداز بہت کچھ نابو د ہے.اعتدال نہیں کیا گیا.دنیا حدِّ اعتدال سے باہر ہو چکی ہے.دنیوی کاروبار میں ترقی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ترقی ہو رہی ہے.مگر بھلا کسی نے ایسی کوشش بھی کی ہے کہ ایک دن اس کی موت کا مقرر ہے.اس سے بھی یہ خود اپنے آپ کو یا کوئی دوسر اشخص اس کو باز رکھ سکے یا بچا سکے.ہرگز نہیں.بلکہ اگر کوئی موت کا یاد دلانے والا ہو گا

Page 343

تو اس کی بھی پروا نہ کریں گے اور ہنسی ٹھٹھے میں ٹال دیں گے.اکثر انسان بہت ہی غلطی پر ہیں.توجہ اِلَی اللہ دیکھو! یہ نہ سمجھنا کہ ان باتوں سے میرا مطلب یہ ہے کہ تم تجارت نہ کرو یا کاروبارِ دنیا کو ترک کرکے بیٹھ جائو.عیال و اطفال جو تمہارے گلے میں پڑے ہوئے ہیں.ان کی خبر گیری نہ کرو یا بیوی بچوں یا بنی نو ع انسان کے بعض حقوق جو تمہاری ذمہ داری میں داخل ہیں ان کی پروا نہ کرو.نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کو بھی بجا لائو اور خدا سے بھی غافل نہ ہو.جب تم اپنی دنیو ی آنی اور فانی ضروریات میں ا س طرح کا انہماک اور استغراق پیدا کرتے ہو تو خدا تعالیٰ سے منہ پھیر لینا اور اس کی رضاجوئی اور خوشنودی کے حصول کے واسطے کوشش نہ کرنا اور خدا سے منہ پھیر لینا بھلا کس عقلمندی کاکام ہے؟ وہ خدا جس نے ابتدا میں پیدا کیا اور درمیانی حالات بھی اس کے قبضہ اور تصرّف میں ہیں اور انجام کاربھی اسی کی حکومت اور اسی سے واسطہ پڑے گا.اس خدا سے فارغ محض اور غافل ہو جانا اس کا نتیجہ ہرگز خیر نہیں ہو سکے گا.وہ خدا جس کے انعامات انسان کے ساتھ ہر حال میں شامل رہتے ہیں اور وہ بے شمار اور بے اندازہ احسانات ہیں اسی کا شکر کرتے رہنا بہت ضروری ہے.شکر اسی کو کہتے ہیں کہ سچے دل سے اقرار کرے کہ واقعی اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ایسی ہیں کہ بے شمار اور بے اندازہ ہیں.انصاف پسند گورنمنٹ کا شکریہ دوسری بات جو مَیں کہنا چاہتا ہوں اور کہوں گا گو بعض لوگ اسے ظاہری خیال یا بناوٹ یا کچھ سمجھیں اور وہ یہ ہے کہ گورنمنٹ انگریزی کا احسان ہم مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے اور وہ اس قابل ہے کہ اس کا شکریہ ادا کیا جاوے.سوچ کر دیکھ لو.جاننے والے جانتے ہیں کہ اس عہد حکومت سے پہلے سکھوں کے زمانہ میں ہی ہم لوگوں پر کیسے کیسے مشکلات تھے.ہمارے باپ دادا کی حالت کیسی خطروں میں گھری ہوئی تھی اور احکام شرعیہ کا رواج تو بجائے خود اذان تک تو اونچی آواز سے کوئی کہہ نہ سکتا تھا.بلند آواز سے اذان کہنا ایک ایسا جرم تھا جس کی سزا موت ہوتی تھی.کسی قسم کے حلال شرعیہ بھی استعمال نہ کئے جاسکتے تھے.بات بات پر انسان کیڑوں مکوڑوں کی طرح ذلّت سے ہلاک کر دیا

Page 344

جاتا تھا.مگر اب آج اس عہد حکومت میں کیسا امن کیسی آزادی ہے کہ ہر ایک مسلمان بشرطیکہ اپنی نیت میں خرابی نہ رکھتا ہو.تکمیل دین کے واسطے ہرکام کو آزادی سے ادا کر سکتاہے.چاہے جس زور سے اذانیں کہو، نمازیں پڑھو، اعمال بجالائو، علوم کی تحصیل کرو یا کسی کا ردّ لکھو.خواہ خود عیسائیوں کا ردّ لکھو کوئی ناراضگی نہیں.ابھی چند روز کا ذکر ہے کہ جناب فنانشل کمشنر صاحب بہادر دورہ کرتے ہوئے قادیان میں تشریف لائے.ملاقات کے وقت انہوں نے بیان کیا کہ کیسی آزادی ہے کہ ہر ایک شخص ایک خاص حد تک جو قانون کی حد سے نہ نکل جاوے.آزادی سے خیالات کا اظہار کر سکتاہے.کتابیں لکھ سکتا ہے.تقریریں کر سکتا ہے اگر کوئی تعصب ہوتا تو عیسائیوں کے ردّ کرنے والوں پر تو کم از کم سختی کی جاتی.غرض یہ اَمر اس گورنمنٹ کی انصاف پسندی اوربے تعصبی کا ایک عمدہ نمونہ اور دلیل ہے.مگر انسان کا یہ فرض ہے کہ بات کو اس حد تک نہ پہنچا دے کہ قانونی گرفت کے اندر آجائے اور جرم کی حد تک پہنچا دے.پس یاد رکھو کہ اگر کوئی شخص مسلمان ہو کر اس کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ خدا کی نافرمانی کرتا ہے.حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص بندے کا شکر نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر گذار نہیں بن سکتا.یادر کھو کہ گورنمنٹ کی ناراضگی کی وجہ بغاوت ہوتی ہے ورنہ جائز طور سے دینی معاملات کی انجام دہی اور امن کی زندگی گذارنے سے گورنمنٹ ہرگز کسی پر عتاب نہیں کرتی.ایسے صلح کاری، امن پسندی اور انصاف شعاری کے اصول رکھنے والی گورنمنٹ کا شکریہ نہ کرنا بھی گناہ ہے.پس مسلمانوں پر عموماً اور ہماری جماعت پر خصوصاً واجب ہے کہ اپنی مہربان گورنمنٹ کا بھی شکر یہ کریں.اگر یہ گورنمنٹ سر پر نہ ہو تو پھر دیکھ لو کہ کیا حال ہوتا ہے.انسان کس طرح سے بے دریغ بھیڑ بکری کی طرح ذبح کئے جاتے ہیں؟ اس گورنمنٹ کی حکومت آئی تو ان پر کیا الزام.یہ تو مشیتِ ایزدی بھی اسی طرح پر واقع ہوئی تھی.مسلمان بادشاہوں نے اپنے فرائض کو چھوڑ دیا.عیش و عشرت میں پڑ کر حکومت اور رعایا کے حقوق کی پروا نہ کی.عورتوں کی طرح زیب و زینت میں مصروف ہو

Page 345

Page 346

گئے.سیاست و مدن کے امور کو ترک کر دیا.خدا نے اُن کو نااہل اور اِن کو اہل پاکر عنانِ حکومت انہی کے ہاتھ میں دی.یہ اگر کسی پر سختی کرتے بھی ہیں تو کسی وجہ سے.البتہ اگر کسی معاملہ میں علم نہ ہو تو مجبوری ہے کیونکہ بے علمی کی وجہ سے تو زاہد اور پارسا آدمی بھی غلطی کر بیٹھتے ہیں.دیدہ دانستہ ظلم کو ہرگز پسند نہیں کرتے بلکہ سلیم الطبع حکام بعض اوقات ظاہری امور کی پروا نہ کرکے اور ان سے تسلّی نہ پانے کی وجہ سے مقدمات کی تہہ نکالنے کے واسطے اور اصلیت دریافت کرنے کی غرض سے اکثر بڑی محنت اور جانفشانی اور سچی انصاف پسندی سے کام کرتے ہیں.ہمارا ہی ایک مقدمہ تھا جو کہ ایک معزز پادری نے ہم پر اقدام قتل کا کیا کہ گویا ہم نے اس کے قتل کرنے کے واسطے آدمی بھیجا.عبدالحمید اس کانام تھا.آٹھ نو آدمی گواہ بھی گذر گئے.وہی نہیں بلکہ مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب جو کہ مسلمانوں کے پیشوا کہلاتے ہیں.انہوں نے بھی ایسی گواہی دی.جس منصف مزاج حاکم کی عدالت میں ہمارا مقدمہ تھا.اس کانام ڈگلس تھا اس نے ان سب امور کے ہوتے ہوئے کہا کہ مجھ سے ایسی بد ذاتی نہیں ہو سکتی کہ اس طرح سے ایک بے گناہ انسان کو ہلاک کر دوں اور حالانکہ مقدمہ سیشن سپرد کرنے کے لائق ہو گیا تھا.مگر اس نے پھر کپتان صاحب پولیس کو حکم دیا کہ اس کی اچھی طرح سے تحقیقات کی جاوے.چنانچہ آخر کار اسی عبدالحمید نے اقرار کیا کہ مجھے اصل میں ان پادریوں نے سکھایا تھا کہ میں ایسا کہوں.اصل میں کوئی بات نہیں.یہ معلوم کرکے وہ ایسا خوش ہوا اور ہمیں اس کے تبسم سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایسا خوش ہے کہ جیسا کہ کسی کو بہت سامال و دولت حاصل ہونے کی بھی اتنی خوشی نہیں ہوتی اور آخر کار خود مجھے کہا کہ مبارک ہو آپ بری کئے گئے.اب بتائیے کہ اگر کسی مسلمان کی عدالت میں ایسا مقدمہ ہوتا تو وہ ایسا کر سکتا تھا؟ اور وہ اس طرح سے صفائی اورانصاف کی جستجوکرسکتا تھا ؟ہر گز نہیں.بلکہ ہمیں تو حالات موجودہ کے ماتحت بھی امید پڑتی ہے کہ اگر کسی مسلمان کے پاس ہمارا ایسا مقدمہ ہوتا تو وہ ہمیں ضرورہی خوار کرتا.آٹھ نو گواہ گذرچکے تھے.مسل مکمل ہوچکی تھی.اب چھوڑتا توکیوں کر؟ مگر یہ قوم ہے کہ اس کو اسی انصاف کی وجہ سے ہر جگہ فتح نصیب ہوئی ہے.جب کوئی جس قدر انصاف

Page 347

اختیار کرتا ہے اسی قدر روشن ضمیر ی بھی اسے عطا کی جاتی ہے.مخالفت دینی اور مذہبی اَور ہے اورحکومت اَورچیز ہے.اگر عدالت کو مدّ ِنظر نہ رکھیں تو ایک دن میں یہ تختہ الٹ جاوے.مسلمانو ں کا یہ خیال کہ ہمیں اعلیٰ اعلیٰ عہدے کیوں نہیں دیئے جاتے یہ ان کی اپنی غلطی ہے.یاد رکھو کہ کوئی کام جب تک پہلے آسمان پر نہیں ہولیتا زمین پر ہرگز نہیں ہوسکتا.خودنیک چلنی اختیار کرو اوراپنی حالت کو سنوارو.اس قابل بنو کہ خدا کی نظر میں آسمان پر تم اس قابل ٹھہر جائو کہ تمہیں عزت مل سکے تو پھر خود خدا تمہیں سب کچھ دے دے گا.اپنی حالتوں کو بدل کہ تا خدا بھی تمہارے واسطے کوئی اور راہ بناوے.ورنہ یاد رکھو کہ خدا نہیں چھوڑے گاجب تک کہ تم اپنی حالت کو نہیں سنواروگے.تزکیہ نفس میں ہی کامیابیوں کا راز پنہاں ہے تیسرامقام خداکے شکر کا یہ ہے کہ یہ خاص خدا کا فضل ہے کہ اس نے آپ لوگوں کے دلوں میں اس طرف توجہ ڈالی اور آپ لوگ یہاں تکلیف اٹھا کر تشریف لائے.خدا کرے کہ جس طرح ہم جسمانی طور سے مل کر بیٹھے ہیں اور جسمانی ملاقات ہوئی ہے اسی طرح ایک دن وہ بھی آوے کہ روحانی طور سے بھی ہم مل بیٹھیں.خدا نے انسان کو زبان دی اور ایک دل بخشا ہے.صرف زبان سے کوئی فتح نہیں ہوسکتی.دلوں کو فتح کرنے والا دل ہی ہوتا ہے جو قوم صرف زبانی ہی زبانی جمع خرچ کرتی ہے یاد رکھو کہ وہ کبھی بھی فتحیاب نہیں ہوسکتی.صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا نمونہ دیکھو کیا ان کے پاس کوئی ظاہری سامان تھے ؟ہر گز نہیں.مگر پھر بایں ہمہ کہ وہ بے سروسامان تھے اور دشمن کثیر اورہر طرح کے سامان اسے مہیّا تھے ان کو خدا نے کیسی کیسی بے نظیر کا میابیاں عطا کیں بھلا کہیں کسی تاریخ میں ایسی کامیابی کی کوئی نظیر ملتی ہےـ؟ تلاش کرکے دیکھ لو مگر لاحاصل.پس جو شخص خدا کو خوش کرنا چاہتا ہے اورچاہتا ہے کہ اس کی دنیا ٹھیک ہوجاوے، خود پاک دل ہوجاوے.نیک بن جاوے اور اس کی تمام مشکلات حل اور دکھ دور ہوجاویں اور اس کو ہر طرح کی کامیابی اورفتح ونصرت عطا ہو تو اس کے واسطے اللہ تعالیٰ نے ایک اصول بتایا ہے اوروہ یہ

Page 348

ہے کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا(الشّمس :۱۰) کامیاب ہوگیا، بامراد ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا.تزکیہ نفس میں ہی تمام برکات اورفیوض اورکامیابیوں کا راز نہاں ہے.فلاح صرف اموردینی ہی میں نہیں بلکہ دنیا ودین میں کامیابی ہوگی.نفس کی ناپاکی سے بچنے والا انسان کبھی نہیں ہوسکتا کہ وہ دنیا میں ذلیل ہو.میں یہ قبول نہیں کرسکتا کہ فلسفہ، ہیئت اورسائنس کا ماہر ہونے سے تزکیہ نفس بھی ہوجاتا ہے.ہرگز نہیں.البتہ یہ مان سکتا ہوں کہ ایسے شخص کے دماغی قویٰ تیز اور اچھے ہوجاتے ہیں.ورنہ ان علوم کو روحانیت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ بعض اوقات یہ امور روحانی ترقی کی راہ میں ایک روک ہوجاتے ہیں اورآخری نتیجہ اس کا بجز اس خوش قسمت کے کہ وہ فطرت سلیم رکھتا ہے اکثر کبرونخوت ہی دیکھا ہے.کبھی نیکی اورتواضع ان میں نہیں ہوتی.۱ ضرورت انسان کی راہ نما ہے ایک اورامر قابل یاد رکھنے کے یہ ہے کہ یہ قاعدہ ہے اورقانونِ قدرت میں داخل ہے کہ ہر چیز ضرورت سے پیدا ہوتی ہے.جس طرح ظاہر ی طورسے ہم دنیوی امور میں ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں.یہ لباس، خوراک، سواریاں اور اَورآلات معیشت جتنے بھی ہیں یہ تمام ضرورت سے پیدا ہوتے ہیں.اسی طرح سے روحانی امور میں بھی بہت سے امور ضرورت سے پیدا ہوتے ہیں اورجب کبھی ضرورت ہوتی ہے وہ خدا کی طرف سے پوری کی جاتی ہے.ضرورت انسان کی روحانی جسمانی تمام امور میں راہ نما ہے اور اسی سے حق وباطل میں امتیاز حاصل ہوسکتا ہے.جس طرح کوئی چیز بلا ضرورت اور بے فائدہ نہیں اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ضرورتِ حقّہ کے وقت یہ خیال کرنا کہ خدا نے اس وقت کوئی سامان پیدا نہیں کیا.سخت غلطی ہے.۱ بدر سے.’’کبر ایسی بُری بَلا ہے کہ انسان اس کی وجہ سے ہر قسم کی ترقی سے رک جاتا ہے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۲۵ مورخہ ۲۵؍جون۱۹۰۸ء صفحہ ۴)

Page 349

زہریلا اثر ڈالنے والے ہیں.سچ ہے کہ ازمااست کہ بر ما است.اصل میں یہ قصور خود مسلمانوں کا ہے جنہوں نے اپنی سادہ لوح اولاد کو بغیر اس کے کہ ان کو قرآن اور اسلام کے ضروری علوم سے آگاہ کریں ان مدرسوں اور کالجوں میں بھیج دیا.مانا کہ طلب علم ہر مرد عورت پر فرض ہے جیسا کہ حدیث طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ وَّمُسْلِمَۃٍ سے ظاہر ہے مگر اوّل علوم دینیہ کا حصول فرض ہے.جب بچے علو م دینی سے پورے واقف ہوجاویں اور ان کو اسلام کی حقیقت اورنور سے پوری اطلاع ہوجاوے تب ان مروجہ علوم کے پڑھانے کا کوئی حرج نہیں.اصل میں ان مسلمانوں کی موجودہ روش بہت ہی خطرناک ہے.دیکھو! پہلے ایک عورت کو بازاری کنجری بنا کر پھر توبہ کرائی جائے تو وہ کیسی توبہ کرے گی ؟شراب، بدکاری اور بے قید زندگی اس کی عادت ثانی ہوجاوے گی.اوّل تو اسے توبہ کرنا ہی مشکل اور اگر کرے بھی تو وہ کیسی توبہ ہوگی؟ اس کو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے.یہی حال ان لڑکوں کا ہے جن کو پہلے فلسفہ اورسائنس کے زہریلے علوم سکھا کر خود خدا کی ہستی پر ہی شبہات پیدا کرادئیے جاتے ہیں اورپھر ان سے امید کی جاتی ہے کہ و ہ اسلام کے بھی شیفتہ ہوں.۱ علوم جدیدہ کے حملے کا علاج ہمارایہ ایمان ہے کہ کوئی فلسفہ اورسائنس خواہ وہ اپنی اس موجودہ حالت سے ہزار درجہ ترقی کرجاوے مگر قرآن ایسی ایک کامل کتاب ہے کہ یہ نئے علوم کبھی بھی اس پر غالبنہیں آسکتے.مگر اس شخص کی نسبت ہم کیوں کر ایسی رائے قائم کرسکتے ہیں کہ جس کی نسبت ہمیں معلوم ہے کہ اس کو علوم قرآن سے مسّ ہی نہیں اورا س نے اس طرف کبھی توجہ ہی نہیں کی بلکہ کبھی ایک سطر بھی قرآن شریف کی غوروتدبّر کی نظر سے نہیں پڑھی.مثال کے طورپر قرآن کی تعلیم روحانی کا ایک فلسفہ بیان ہواہے جو بعد الموت اعمال کے نتیجہ میں انسان کو بہشت کے رنگ میں ملے گا جس کے نیچے نہریں چلتی ہو ں گی.بظاہر یہ ایک قصہ ہے مگر قصہ بدر سے.’’پادریوں کے یا آریوں کے مدرسوں میں اپنی اولاد کا بھیج دینا اور پھر ان سے اس بات کا طلبگار ہونا کہ یہ سچے مسلمان ہوں؎ ایں خیال است ومحال است وجنوں‘‘(بدر جلد ۷ نمبر ۲۵ مورخہ ۲۵؍جون۱۹۰۸ء صفحہ ۴)

Page 350

نہیں گوکہ قصہ کے رنگ میں آگیا ہے.اس کی حقیقت یہی ہے کہ اس وقت کے لوگ علوم روحانی کے نہ جاننے کی وجہ سے نادان بچوں کی طر ح تھے.ایسے باریک اور روحانی علوم کے سمجھانے کے واسطے ان کے مناسب حال استعاروں سے کام لینا اور مثالوں کے ذریعہ سے اصل حقیقت کو ان کے ذہن نشین کرنا ضروری تھا.اسی واسطے قرآن شریف نے بہشت کی حقیقت سمجھانے کے واسطے اس طریق کو اختیار کیا اور پھر یہ بھی فرمایا کہ مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ (مُـحمّد :۱۶) یہ ایک مثال ہے نہ کہ حقیقت.قرآن شریف کے ان الفاظ سے صاف عیاں ہے کہ وہ جنت کوئی اَور ہی چیز ہے اور حدیث میں صاف یہ بھی بیان ہوچکا ہے کہ ان ظاہری جسمانی دنیوی امور پر نعماء جنت کا قیاس نہ کیا جاوے کیونکہ وہ ایسی چیز ہے کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھی نہ کسی کان نے سنی وغیرہ.مگر وہ باتیں جن کی مثال دے کر جنت کی نعماء کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ توہم دیکھتے بھی ہیں اورسنتے بھی ہیں ایک مقام پر قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ جنت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَ بَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ(البقرۃ :۲۶) اس آیت میں ایمان کو اعمال صالحہ کے مقابل پر رکھا ہے جنّات اورانہار.یعنی ایمان کا نتیجہ توجنت ہے اور اعمال صالحہ کا نتیجہ انہار ہیں.پس جس طرح باغ بغیر نہر اورپانی کے جلدی برباد ہوجانے والی چیز ہے اوردیرپا نہیں اسی طرح ایمان بے عمل صالح بھی کسی کام کا نہیں.پھر ایک دوسری جگہ پر ایمان کو اشجار (درختوں )سے تشبیہ دی ہے اورفرمایا ہے کہ وہ ایمان جس کی طرف مسلمانوںکو بلایا جاتا ہے.وہ اشجار ہیںاور اعمال صالحہ ان اشجار کی آبپاشی کرتے ہیں.غرض اس معاملہ میں جتنا جتنا تدبّر کیا جاوے اسی قدر معارف سمجھ میں آویں گے جس طرح سے ایک کسان کا شتکارکے واسطے ضروری ہے کہ وہ تخمریزی کرے.اسی طرح روحانی منازل کے کاشتکار کے واسطے ایمان جو کہ روحانیات کی تخم ریزی ہے ضروری اورلازمی ہے اور پھر جس طرح کاشتکار کھیت یا باغ وغیر ہ کی آبپاشی کرتا ہے اسی طرح روحانی باغ ایمان کی آبپاشی کے واسطے اعمال صالحات کی ضرورت ہے.یاد رکھو کہ ایمان بغیر اعمال صالحہ کے ایسا ہی بیکار ہے جیساکہ ایک عمدہ باغ بغیر نہر یا دوسرے ذریعہ آبپاشی کے نکما ہے.درخت خواہ کیسے ہی عمدہ قسم کے ہوں اور اعلیٰ قسم کے پھل لانے

Page 351

والے ہوں مگر جب مالک آبپاشی کی طرف سے لاپرواہی کرے گا تو اس کا جو نتیجہ ہوگا وہ سب جانتے ہیں.یہی حال روحانی زندگی میں شجر ایمان کا ہے.ایمان ایک درخت ہے جس کے واسطے انسان کے اعمال صالحہ روحانی رنگ میں اس کی آبپاشی کے واسطے نہریں بن کر آبپاشی کا کام کرتے ہیں پھر جس طرح ہر ایک کاشتکار کو تخمریزی اورآبپاشی کے علاوہ بھی محنت اور کوشش کرنی پڑتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے روحانی فیوض وبرکات کے ثمرات حسنہ کے حصول کے واسطے بھی مجاہدات لازمی اور ضروری رکھے ہیں.چنانچہ فرماتا ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت :۷۰).۱ نفس انسانی کی تین حالتیں نفس انسانی ایک بیل کے مشابہ ہے اوراسکے تین درجے ہوتے ہیں.نفسِ امّارہ.امّارہ مبالغہ کا صیغہ ہے.امّارہ کہتے ہیں بدی کی طر ف لے جانے والا.بہت بدی کا حکم کرنے والا.۲ دوسری قسم نفس کی نفسِ لوّامہ ہے.لوّامہ کہتے ہیں ملامت کرنے والے کو.انسان سے ایک وقت بدی ہوجاتی ہے مگر ساتھ ہی اس کا نفس اس کو اس بدی کی وجہ سے ملامت بھی کرتا اور نادم ہوتا ہے.یہ انسانی فطرت میں رکھا گیا ہے مگر بعض طبائع ایسے بھی ہیں کہ اپنی گندہ حالت اور سیاہ کاریوں کی وجہ سے وہ ایسے محجوب ہو جاتے ہیں کہ ان کی فطرت فطرت سلیم کہلانے کی مستحق نہیں ہوتی.ان کو اس ملامت کا احسا س ہی نہیں ہوتا مگر شریف الطبع انسان ضرور اس حالت کا احساس کرتا اور بعض اوقات وہی ملامت نفس اس کے واسطے باعث ہدایت ہوکر موجب نجات ہوجاتی ہے.مگر یہ حالت ایسی نہیں کہ اس پر اعتبار کیا جاوے.نفس کی ایک تیسری حالت ہے جسے مطمئنّہ کے نام سے پکاراگیا ہے اور وہ انسان کو جب حاصل ہوتی ہے کہ انسان نفسِ امّارہ اورپھر نفسِ لوّامہ کی مشکلات کو حل کرجائے اوراس جنگ میں اس کو بدر سے.’’یعنی تم ہلکے ہلکے کام پر نہ رہو بلکہ اس راہ میں بڑے بڑے مجاہدات کی ضرورت ہے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۲۵ مورخہ ۲۵؍جون۱۹۰۸ء صفحہ ۵) ۲ بدر سے.’’بدی کی طرف باربار جانے والا.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۲۵ مورخہ ۲۵؍جون۱۹۰۸ء صفحہ ۵)

Page 352

فتح نصیب ہو.نفس امّارہ انسان کا دشمن ہے اوروہ گھر کا پوشیدہ دشمن ہے.لوّامہ بھی کبھی کبھی دشمنی کا ارادہ کرتا ہے مگر باز آجاتا ہے مگر برخلاف ان دونوں حالتوں کے جب انسان ترقی کرکے نفسِ.مطمئنّہ کے درجے تک ترقی کرجاتا ہے تواس کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ گویا اس کا دشمن اس کے زیر ہوگیا اوراس نے دشمن پر فتح نمایاں حاصل کرلی اورصلح ہوگئی.انسانی ترقیات کی آخری حداور اس کی زندگی کا انتہائی نقطہ اسی بات پر ختم ہوتا ہے کہ انسان حالت.مطمئنّہ حاصل کرلے اور وہ ایسی حالت ہوتی ہے کہ اس کی رضا خدا کی رضا اور اس کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہوجاتی ہے اس کا ارادہ خدا کا ارادہ ہوتا ہے اور وہ خداکے بلائے بولتا اورخدا کے چلائے چلتا ہے.تمام افعال حرکات وسکنات اس سے نہیں بلکہ خدا سے سرزد ہوتے ہیں اورانسان کی پہلی حالت پر ایک قسم کی موت وارد ہوجاتی ہے اور ایک نئی زندگی کا جامہ اسے ازسر نو عطا کیا جاتا ہے.اور پھر ایسا انسان ایک ممتاز انسان ہوجاتا ہے.غرض قانون قدرت میں ایسا پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دوسلسلے پہلو بہ پہلو بنائے ہیں ایک جسمانی اوردوسرا روحانی.جوکچھ جسمانی طورسے مہیا ہے وہی روحانی طورسے بھی ہوتا ہے.پس جو شخص ان دونوں سلسلوں کو نصب العین رکھ کر کاروبار میں کوشش اورمحنت کرے گا وہ جلدی ترقی کرے گا.اس کے معلومات وسیع ہوں گی.ہر صورت میں ہرجسمانی کام ان کے روحانی امور کے مشابہ ہوگا.اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرَۃِ.ہر زمانہ میں مزکّی اورمامورمن اللہ کی ضرورت ہم نظام جسمانی میں دیکھتے ہیں کہ جسمانی کاشتکار باوجود ہر قسم کی باقاعدہ محنت ومشقت کے بھی پھر آسمانی پانی کا محتاج ہے اوراگر اس کی محنتوں اور کوششوں کے ساتھ آسمانی پانی اس کی فصل پر نہ پڑے توفصل تباہ، محنت برباد ہوجاتی ہے.پس یہی حال روحانی رنگ میں ہے انسان کو خشک ایمان کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب تک کہ روحانی بارش نازل ہوکر بڑے زورکے نشانات سے اس کے اندرونی گند دھو کر اس کو صاف نہ کرے.چنانچہ قرآن شریف میں اسی کی طرف اشارہ کرکے فرماتا ہے وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ وَ الْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ (الطّارق:۱۲،۱۳)

Page 353

یعنی قسم ہے آسمان کی جس سے بارش نازل ہوتی ہے اورقسم ہے زمین کی جس سے شگوفہ نکلتا ہے.بعض لوگ اپنی نادانی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ خدا کوقسم کی کیا ضرورت تھی؟ مگر ایسے لوگ آخر کار اپنی جلد بازی کی وجہ سے ندامت اٹھاتے ہیں.قسم کا مفہوم اصل میں قائم مقام ہوتا ہے شہادت کے.ہم دنیوی گورنمنٹ میں بھی دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات مقدمات کے فیصلوں کا حصر ہی قسم پر رکھا جاتا ہے.پس اسی طرح سے خدا تعالیٰ بھی بارش آسمانی کی قسم کھا کر نظام جسمانی کی طرح نظام روحانی میں اس بات کو بطور ایک شہادت کے پیش کرتا ہے کہ جس طر ح سے زمین کی سرسبز ی اورکھیتوں کا ہرابھرا ہونا آسمانی بارش پر موقوف ہے اوراگر آسمانی بارش نہ ہوتو زمین پر کوئی سبزی نہیں رہ سکتی اور زمین مردہ ہوجاتی ہے بلکہ کنوئوں کا پانی بھی خشک ہوجاتا ہے اوردنیا زیر و زبر ہوکر ہلاکت کا باعث ہوجاتی ہے اور لوگ بھوکوں پیاسوں مَرتے ہیں.قحط کی وجہ سے انسان وحیوان اور پھر چرندوپرند اور درند وغیرہ پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے.بعینہٖ اسی طرح سے ایک روحانی سلسلہ بھی ہے.یادرکھو کہ خشک ایمان بجز آسمانی بارش کے جومکالمہ مخاطبہ کے رنگ میں نازل ہوتی ہے.ہرگز ہرگز باعث نجات یا حقیقی راحت کا نہیں ہوسکتا.جو لوگ روحانی بارش کے بغیر اور کسی مامور من اللہ کے بغیر نجات پاسکتے ہیں اوران کو کسی مُزَکِّی اور مامورمن اللہ کی ضرورت نہیں.سب کچھ ان کے پاس موجود ہے.ان کو چاہیے کہ پانی بھی اپنے گھروں میں ہی پیدا کرلیا کریں.۱ ان کو آسمانی بارش کی کیا احتیاج؟ آنکھوں کے سامنے موجود ہے کہ جسمانی چیزوں کا مدار کن چیزوں پر ہے؟ پس اس سے سمجھ لوکہ بعینہٖ اسی کے مطابق روحانی زندگی کے واسطے بھی لازمی اور لَا بُدّ اور ضروری ہے.انسان کا یہ دعویٰ کہ میں نے سب کچھ سیکھ لیا ہے اورمیں نے سارے علوم حاصل کرلیے ہیں یہ بالکل غلط خیال ہے.انسا ن کا علم کیا ہے؟ جس طرح سمند ر میں ایک سوئی ڈبو کر نکال لی جاوے.بدر سے.’’جو لوگ کہتے ہیں ہمیں اب نبیوں کی کیا ضرورت ہے وہ جسمانی بارش کیوں مانگتے ہیں.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۲۵ مورخہ ۲۵؍جون۱۹۰۸ء صفحہ ۵)

Page 354

یہی حال انسان کے علم کا ہے کہ اس کو معارف اورحقائق میں سے دیا گیا ہے.؎ ترسم نہ رسی بہ کعبہ اے اعرابی کیںراہ کہ تو میروی بترکستان است پھر تعجب آتا ہے کہ بعض لوگ معمولی مروجہ علوم کے پڑھ لینے سے بڑے بڑے دعوے کر بیٹھتے ہیں حالانکہ دین کی راہ ایک عمیق درعمیق راہ ہے اور اس کے حقائق اور روحانی فلسفہ ایسا نہیں کہ ہر فرد اس کا ماہر ہونے کا دعویٰ کرسکے.۱ یہ دین آسمان سے ہی آیا اور ہمیشہ ہمیشہ اس کی سرسبزی کے سامان بھی آسمان ہی سے نازل ہوتے رہیں گے.ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اگر زمینی علوم اورمروَّجہ تعلیم کے پاس یافتوں سے سوال کیا جاوے تو اکثر اصحاب ایسے نکلیں گے کہ ان کے ماہر ہی ہوں گے مگر ہمیں اس جگہ ان اصحاب کی خدمت میں کہ وہ زمینی اوردنیوی علوم کے ماہر ہیں یہ بھی کہنا ہے کہ ؎ اے کہ خواندی حکمت یونانیاں حکمت ایمانیاں را ہم بخواں حقیقی راحت دین سے ہی وابستہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ آجکل بہت سے ایسے بھی خیالات والے لوگ موجود ہیں کہ ان کی نظر میں دین ایک جنون ہے اور اس کی قدر ان کے دلوں میں نہیں ہے.وہ کہتے ہیں کہ عرب کے لوگ وحشی تھے اوراُمّی تھے.اس وقت ان کی ضرورتوں کے مناسب حال قرآن نازل ہوا.اب دنیا ترقی کر گئی ہے اور روشنی کا زمانہ ہے.اب موجودہ زمانہ کے مناسب حال دین میں ترمیم ہونی چاہیے مگر آپ لو گ سن رکھیں کہ دین کوئی لغونہیں ہے بلکہ دنیا کی حقیقی راحت اوراخروی نجات اسی دین میں ہی وابستہ ہے وہ عرب کے اُمّی جو اس دین کے سچے خادم تھے.ان کا اُمّی ہونا بھی ایک معجزہ ہی ۱ بدر سے.’’جو شخص دین سے بہر ہ نہ رکھے اورپھر دعویٰ کرے کہ مجھے دوسرے کی کچھ ضرورت نہیں وہ نادان ہے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۲۵ مورخہ ۲۵؍جون۱۹۰۸ء صفحہ ۵)

Page 355

تھا تاکہ دنیا کو دکھا دے کہ اُمّی لوگوں نے قرآنی تعلیم کے نیچے آکر کیا کچھ کردکھایا کہ بڑے بڑے علوم کے مدعیوں سے بھی ان کے مقابلہ میں کچھ بن نہ آیا.قرآن کریم کی پاک تعلیم کا انجیل سے موازنہ خدا خوب جانتا تھا کہ اس زمانہ میں کیسے کیسے جدید علوم پیدا ہوں گے اور خود مسلمانوں میں کیسے کیسے خیالات کے لوگ پیدا ہوجائیں گے؟ ان سب باتوں کا جواب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دے رکھا ہے اورکوئی نئی تحقیقات یا علمی ترقی نہیں جو قرآن شریف کو مغلوب کرسکے اورکوئی صداقت نہیں کہ اب پیدا ہوگئی ہو اوروہ قرآن شریف میں پہلے ہی سے موجود نہ ہو.جوراہ قرآن شریف نے پیش کی ہے وہ نہ انجیل میں پائی جاتی ہے نہ توریت میں اس کا پتہ چلتا ہے اور نہ ہی دنیا کی کوئی اور کتاب اس کمال اور جامعیت کا دعویٰ کرسکتی ہے جواللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ کاملہ سے قرآن شریف کو عطا کی ہے.قرآن کے مقابل پر ان کا ذکر ہی کیا ہے! انجیل نے ایک ضعیف ناتواں انسان کو خدا بنایا مگر اس کی طاقت کا اندازہ قوم یہود کے مقابلہ سے ہی ہوسکتا ہے.دوسری بات اورمایہ ناز انجیل کی اخلاقی تعلیم تھی مگروہ ایسی بودی اور نامکمل ہے کہ کوئی صحیح الفطرت انسان اس کی پابندی نہیں کرسکتا بلکہ خود پادری صاحبان کاعمل بھی اس تعلیم کے بالکل برخلاف ہے.مثلاً انجیل تعلیم دیتی ہے کہ اگر تجھے کوئی ایک طمانچہ مارے توتودوسری گال پھیردے اوراگر کوئی تیراکر تہ مانگے تو اس کو چادر بھی اتار دے.اوراگر کوئی تجھے ایک کوس بیگا ر میں لے جانا چاہے تو دو کوس اس کے ساتھ چل.اب ہم اوّل ان انجیل کی حمایت اورتعریف کرنے والے پادری صاحبوں سے ہی دریافت کرتے ہیں کہ ان کا اس تعلیم پر کہاں تک عمل درآمد ہے.انہوںنے اس تعلیم کا عملی نمونہ کیادکھایا ہے کہ دوسروں کو بھی اس تعلیم کی طرف بلاتے ہیں.پھراسی انجیل میں لکھا ہے کہ تو بدی کا مقابلہ نہ کر.غرض انجیل کی تعلیم تفریط کی طرف جھکی ہوئی ہے اوربجز بعض خاص حالات کے ماتحت ہونے کے انسان اس پر عمل کرہی نہیں سکتا.دوسری طر ف

Page 356

توریت کی تعلیم کو دیکھا جاوے تووہ افراط کی طرف جھکی ہوئی ہے اور اس میں بھی صرف ایک ہی پہلو پر زور دیا گیا ہے کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ اورکان کے بدلے کان اوردانت کے بدلے دانت توڑ دیا جاوے.اس میں عفو اور درگذر کا نام تک بھی نہیں لیا گیا.اصل بات یہ ہے کہ یہ کتابیں مختص الزمان اور مختص القوم ہی تھیں مگر قرآن شریف نے ہمیں کیا پاک راہ بتائی ہے جو افراط اور تفریط سے پاک اور عین فطرت انسانی کے مطابق ہے مثلاً مثال کے طور پر قرآن شریف میں فرمایا ہے جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ(الشوریٰ:۴۱)یعنی جتنی بدی کی گئی ہو اسی قدر بدی کرنی جائز ہے مگر اگر کوئی معاف کردے اور اس معافی میں اصلاح مدّ ِنظر ہو.بے محل اوربے موقع عفو نہ ہوبلکہ برمحل ہو تو ایسے معاف کرنے والے کے واسطے اس کا اجر ہے جواسے خدا سے ملے گا.دیکھو! کیسی پاک تعلیم ہے نہ افراط نہ تفریط.انتقام کی اجازت ہے مگر معافی کی تحریص بھی موجود ہے.بشرط اصلاح یہ ایک تیسر امسلک ہے جو قرآن شریف نے دنیا کے سامنے رکھا ہے.اب ایک سلیم الفطرت انسان کا فرض ہے کہ ان میں خود موازنہ اورمقابلہ کرکے دیکھ لے کہ کونسی تعلیم فطرتِ انسانی کے مطابق ہے اورکونسی تعلیم ایسی ہے کہ فطرت صحیح اور کانشنس اسے دھکے دیتی ہے.یہودیوں میں باپ اپنی اولاد کو وصیت کرتا تھا کہ میرا انتقام میر ابیٹا لے، میرا پوتا لے.چنانچہ بعض اوقات بیٹا اور پوتا باپ کے انتقام لیتے تھے.غرضیکہ توریت میں تو سخت تشدد کیا گیا تھا.باقی رہی انجیل.سواس کی اخلاقی تعلیم پر ناز کرنے والے نہیں سمجھتے کہ اوّل تو وہ تعلیم ہی ایسی ناقص ہے کہ بوجہ مختص الزمان اور مختص القوم ہونے کے آج اس کی ضرورت ہی نہیں اور نہ وہ اس وقت اخلاقی تعلیم کہلانے کی مستحق ہے اوراگر مان بھی لیا جائے توکوئی شخص نہیں کہ اس تعلیم کا عامل نظر آتا ہو.خود اس کے شیفتہ لوگ ہی اس کا عملی نمونہ پیش کریں.اصل میں یہ ہاتھی کے دانت ہیں کھانے کے اَور دکھانے کے اَور.تاہم فلسفہ حقّہ اس کے بالکل خلاف ہے.انسان ایک شاخ دار درخت ہے اور انجیلی تعلیم اس کی صرف ایک شاخ.کیا باقی قوائے انسانی بے کار ہیں؟

Page 357

یادرکھو کہ کل قوائے انسانی اسی خالق فطرت ہی کی طرف سے انسان کوملے ہیں.ان میں ایک قوت غضبی بھی ہے قوت انتقام بھی ہے.یہ قویٰ بے کار یا فضول نہیں ہیں.بلکہ ان کی بداستعمالی اوران کابے محل وبے موقع استعمال بُرا ہے.انجیل میں تو ایک موقع پر خصی بن جانے کی بھی تعلیم دی گئی ہے.اگر سچے عیسائی اس تعلیم کا عملی نمونہ بنتے تویقین ہے کہ دنیا کا خاتمہ ہی ہوگیا ہوتا.عجیب بات یہ ہے کہ صرف حکم ہی نہیں بلکہ اس عمل پر بڑے ثواب کا وعد ہ کیا گیا ہے توپھر کیا وجہ کہ ایسے کارخیر میں کوئی عیسائی بھی حصہ نہیں لیتا؟ قرآن شریف میں کوئی دکھا تو دے کہ کوئی ایسا حکم بھی دیا گیا ہو جس پر عمل کرنا انسانی طاقت سے بالاتر ہو یا کوئی ایساحکم بھی ہو جس کے کرنے سے کوئی قباحت لازم آتی ہو یا نظام دنیا میں فساد کا اندیشہ ہو.کیا ایسی ایک کتاب جس میں ایسے احکام داخل ہیں جو انسانی طاقت سے بالاتر ہیں یا ان کے کرنے سے کوئی قباحت لازم آتی ہے اورنظامِ عالَم درہم برہم ہوتا ہے.کبھی اس خدا کی طرف منسوب ہوسکتی ہے جو خالق فطرت اورمنتظم نظام دنیا اور قوائے انسانی کے پورے اندازے جاننے والا ہے اور کیا وہ کتاب کامل اور مکمل شریعت کہلانے کی مستحق ہوسکتی ہے ؟ لیکن میں اعتراض نہیں کرتا بلکہ میرا مقصد اس بیان سے اس اَمر کا اظہار ہے کہ یہ دونوں کتابیں صرف ایک ہی خاندان کی تھیں.نہ حضرت عیسٰیؑ نے اورنہ حضرت موسٰی نے کبھی یہ دعویٰ کیا کہ وہ تمام دنیا کے واسطے رسول ہو کرآئے تھے بلکہ وہ توصرف اسرائیلی بھیڑوں تک ہی اپنی تعلیم محدود کرتے ہیں.ان کا اپنا اقرار موجود ۱ہے.پس بلحاظ ضرورت کے ان کو جوکتاب ملی وہ بھی ایک قانون مختص الزمان اورمختص القوم تھا.اب ظاہر ہے کہ ایک چیز جو ایک خاص ضرورت کے لئے ایک خاص زمانے اورمکان کے واسطے بدر سے.’’چنانچہ حضرت عیسٰیؑ نے خود کہا کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کی طرف نہیں بھیجا گیا.قرآن مجید سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے.وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ (اٰلِ عـمران :۵۰).‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۲۵ مورخہ ۲۵؍جون۱۹۰۸ء صفحہ ۶)

Page 358

آئی تھی.اس کو زبردستی اورخواہ نخواہ تمام دنیا پر محیط ہونے کے واسطے کھینچ تان کی جائے گی تو اس کا لازماً یہی نتیجہ ہوگا کہ وہ اس کام سے عاری رہے گی جس بوجھ کے اٹھانے کے واسطے وہ وضع ہی نہیں کی گئی اس کی کیسے متحمل ہوسکے گی؟ اوریہی وجہ ہے کہ ان تعلیمات میں موجودہ زمانہ کے حالات کے ماتحت نقص ہیں.مگر قرآن مجید مختص الزمان نہیں، مختص القوم نہیں اور نہ ہی مختص المکان ہے بلکہ اس کامل اورمکمل کتاب کے لانے والے کا دعویٰ ہے کہ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا (الاعراف:۱۵۹) اور ایک دوسری آیت میں یوں بھی آیا ہے لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَنْۢ بَلَغَ (الانعام:۲۰) یعنی لازمی ہوگا کہ جس کو قرآنی تعلیم پہنچے وہ خواہ کہیں بھی ہو اور کوئی بھی ہو اس تعلیم کی پیروی کواپنی گردن پر اٹھائے.انسانی فطرت کا پورا اور کامل عکس صرف قرآن شریف ہی ہے.اگر قرآن نہ بھی آیا ہوتا جب بھی اسی تعلیم کے مطابق انسان سے سوال کیا جاتا کیونکہ یہ ایسی تعلیم ہے جو فطرتوں میں مرکوز اور قانون قدرت کے ہر صفحہ میں مشہود ہے.جن کی تعلیمات ناقص اور خاص قوم تک محدود ہیں اوروہ آگے ایک قدم بھی نہیں چل سکتیں.ان کی نبوت کا دروازہ بھی ان کے اپنے ہی گھر تک محدود ہے.مگر قرآن شریف کہتا ہے اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ (فاطر:۲۵) دیکھو! یہ کیسی پاک اوردل میں دخل کرجانے والی بات اور کیسا سچا اصول ہے مگر یہ لوگ ہیں کہ خدا کی خدائی کو صرف اپنے ہی گھر تک محدود خیال کرتے ہیں.یہی حال آریو ں کا ہے وہ بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہمیشہ وید ہی اتارا جاتا ہے اورصرف چار آدمی ہی اس کام کے واسطے مخصوص ہیں اورہمیشہ کے واسطے زبان سنسکرت ہی خدا کو پسند آگئی ہے.مجال نہیں کہ خدا کی یہ نعمت وحی والہام کسی اورانسان یازبان کو مل سکے.ان لوگوں کے اعتقاد کے موجب وحی الٰہی اب آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے اوراب ہمیشہ کے واسطے اس کو مہر لگ چکی ہے مگر یہ لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح سے تو خدا کی ہستی کے ثبوت میں ہی مشکلات پڑجاویں گی.صرف شنید سے انسان کب مطمئن ہوسکتا ہے اور کامل یقین اورسچی معرفت صرف دوسروں کی زبانی

Page 359

سن لینے سے کہاں میسر آتی ہے ؟ ع شنیدہ کے بود مانند دیدہ وحی والہام کی ضرورت جب تک خداخود اَ نَا الْمَوْجُوْدُ کی آواز نہ دے یا اپنے پیار ے کلام سے اور زبردست غیبی نشانات سے اپنا چہرہ نہ دکھا دے تب تک وہ پیاس کب مٹ سکتی ہے جو حق کی طلب کی پیاس انسان کو لگی ہوئی ہے.یہ کہنا کہ خدا پہلے تو نشانات اور معجزات دکھاتا تھا رسول بھیجتا تھا مگر اب نہیں.یہ نعوذ باللہ خدا کی ذات کی سخت توہین اور بےادبی ہے.۱ کیا وجہ ہے کہ اب وہ سنتا تو ہے اوردیکھتا بھی ہے مگر بولتا نہیں؟ اچھا تو اس پر تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ قوت شنوائی اوربینائی بھی قوتِ گویائی کی طرح جاتی نہیں رہیں.انسان اپنی فطرت سے الگ نہیں ہوسکتا.بکری سے بھیڑیئے کا کام لیں تو دے سکتی ہے؟ ہرگز نہیں.پس یہی حال فطرت انسانی کا ہے کہ اپنی بناوٹ کے خلاف ہرگز نہیں چل سکتی.نرے قصوں سے کب وہ تسلّی پاسکتی ہے.اگر چہ کوئی ظاہر داری کے واسطے ہاں میںہاں ملا دے مگر دل لعنت بھیجتا ہوگا اور انکار کرتا ہوگا کہ میں نہیں مانتا.یادرکھو کہ اگر پہلے کبھی الہام تھا تو اب بھی ضروری ہے کہ الہام ہو.اسلام جب صرف ایک ہی فرقہ تھا اور مختصر بھی تو اس وقت تونبیؐ اور رسولؐ آنے اور الہامات ہونے کی ضرورت تھی.مگر اب جبکہ ایک سے تہتر فرقے ہوگئے ہیں اور تفرقہ کی حدّونہایت نہیں رہی کلامِ الٰہی پر مہر لگائی جاتی ہے اورخدا کا منہ بند کیا جاتاہے.کوئی فطرت سلیم اورعقل صحیح اس منطق کو قبول نہیں کرسکتی.ہر چیز کے پیدا ہونے کی ماں ضرورت ہے.دیکھو ایک چھوٹی سی مثال ریلوے تصادم کی ہے.تصادم کے واردات ترقی کرنے لگے تو اصلاح کے سامان بھی پیدا ہوگئے.یہ سب طرح طرح کی کلیںجو دیکھنے میں آتی ہیں یہ سب ضرورت نے ہی مہیا کرادی ہیں.تو اب جبکہ انسانی حالت ۱ بدر سے.’’اب خدا کا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ زندہ بھی ہے یا کہ نہیں.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۲۵ مورخہ ۲۵؍جون۱۹۰۸ء صفحہ ۶)

Page 360

کیا بلحاظ اپنی ظاہری حالت کے اور کیا بلحاظ اپنی باطنی حالت کے ابتری کے انتہائی درجہ تک پہنچ گئی ہے اورہر فرقہ پر دہریت (ناستک مت )نے اپنا تسلّط جمایا ہوا ہے زندہ ایمان کسی میں باقی نہیں.اوریہ قاعدہ کی بات ہے کہ زندہ ایمان ہی اعمال کی تحریک کرتا ہے.جب ایمان ہی نہیں جوکہ اعمال کا اصل محرک ہے تو پھر عمل کیسے؟ غرض اس طرح ایمان کے دنیا سے اٹھ جانے کے باعث اعمال صالحہ کا بھی ساتھ ہی نام ونشان مٹ چکا ہے تو پھر کیا وجہ کہ خدا نے ایسی خطرناک حالت اور ایسی سخت ضرورت کے وقت بھی اپنی سنّتِ قدیمہ کو ترک کرکے کوئی رسول اور نبی یا ملہم نہ بھیجا؟ کلمہ طیّبہ کی حقیقت لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ یہ توحید کا کلمہ ہے.اس کے معنے ہیں کہ خدا کے سوا کوئی بھی عبادت اورسچی فرماں برداری کے لائق نہیں ہے.خدا اگر توحید کے پھیلانے میں کسی دوسرے کا محتاج ہوتا یا کسی اورکو اس کا م میں اپنا شریک بناتا تو بھی شرک لازم آتا تھا.مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ کا جملہ کلمہ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کے ساتھ شامل کرنے میں سِریہی ہے کہ تاتوحید کا سبق کامل ہواور دنیا کو معلوم ہوکہ جوکچھ آتا ہے درحقیقت اسی خدا کی طرف سے آتا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان ہدایات کو خدا سے پاکر مخلوق کو پہنچانے والے ہیں اورکہ جو کچھ ادھر سے آتا ہے وہ اسی راہ سے آتا ہے.شرک صرف پتھروں کے پوجنے ہی کا نام نہیں ہے بلکہ شرک کی ایک قسم یہ بھی لکھی ہے کہ انسان خدا کو چھوڑ کر صرف اسباب ہی پر تکیہ کرلے اور یہ شرک فی الاسباب کہلاتا ہے.برہمو وغیرہ اس رازِ توحید کو نہیں سمجھے جو خدارابخدا باید شناخت میں دکھلا یا گیا ہے.خدا کی طرف سے آنے والا ایسا ہی ہے کہ گویا خود خداہی ہے.انسانی گورنمنٹ کی طرف سے آنے والا نائب ہوتا ہے.اسی طرح سے رسول بھی خدا میں فنا ہوکر وہ وہ نہیں ہوتا بلکہ خود خداہوتا ہے.غرض مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ کا فقرہ توحید کامل کرنے کے واسطے لازمی تھا.خدا توحید کو پسند کرتا ہے اور یہ شکر کا مقام ہے کہ یہ خصوصیت صرف اسلام میں پائی جاتی ہے جس کو آج ہم پیش کرتے ہیں کسی دوسرے مذہب میں نہیں.

Page 361

عیسائیوں کی دوڑ کفارہ مسیح تک ہے.باپ، بیٹا اور روح القدس تین ہیں.مگر تین مت کہو ایک کہو.یہ عجیب گورکھ دھند اہے جو سمجھ میں نہیں آتا.یہودی بھی بڑے سخت دل ہیں اور طرح طرح کے شرک میں مبتلا ہیں ان کو اس طرف توجہ ہی نہیں.آجکل کے آریہ صاحبان جن کو اسلام کے خلاف اپنے عقائد پر بڑا گھمنڈ اور ناز ہے ان کا مذہب ہے کہ روح بمع اپنے تمام صفات کے اورمادہ بمع اپنے تمام صفات کے خود بخود ہیں اوراعتقاد رکھتے ہیں کہ نیستی سے ہستی ممکن نہیں.غرض انہوں نے ذرّہ ذرّہ کو خدا کا شریک بنارکھا ہے.انسانی ظاہری قویٰ کو تو خدا کی طرف سے مانتے ہیں مگر کہتے ہیںکہ روح میں جو قویٰ ہیں وہ خود بخود ہیں خدا کی طرف سے نہیں.وہ مانتے ہیں کہ ارواح اورذرّات بمع اپنے قویٰ کے خود بخود موجود ہیں.خدا کا کام صرف ان کوجوڑنا ہی ہے مگر ہم پوچھتے ہیں کہ کیوں جائز نہیں کہ باہمی جوڑ ملاپ کی طاقت بھی ان کی اپنی ذاتی خاصیت نہ مانی جاوے؟ غرض تازہ معجزات کے یہ لوگ منکر ہیں.وید میں معجزات کا کوئی ذکر نہیں تو پھر خدا کے وجود پر نشانی ہی کیا ہے؟ اوراس کی زندگی کی علامت ہی کیا؟ جب دوحصے خود بخود موجود ہیں تو پھر کیوں نہ مان لیا جاوے کہ تیسر احصہ (باہمی جڑجانے کی خاصیت )بھی خود بخود ہے.جب ایک اہم کام خود بخود ہے تو سہل کے واسطے کیوں کسی کی احتیاج مانی جاوے؟ غرض یہ خدا کا خاص فضل ہے جو صرف اسلام ہی کے شامل حال ہے کہ اسلام کی کوئی بھی تعلیم عقل سلیم اور فطرت سلیم کی مخالف نہیں.لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ایک قول ہے.اس کا عملی ثبوت بَلٰى مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ (البقرۃ :۱۱۳) فعل ہے.نراقول (ایمان کا دعویٰ ) کسی کام کا نہیں اورنہ ہی وہ کچھ مفید ہوسکتا ہے.خشک ایمان ایک بے بال وپَر مرغ کی مثال ہے جو ایک مُضغہ گوشت ہے جونہ چل پھر سکتا ہے نہ اڑنے کی اس میں طاقت ہے بلکہ اسلام اس کو کہتے ہیں کہ انسان باوجود ہیبت ناک نظارے دیکھنے اوراس اَمر پر یقین ہونے کے کہ اس مقام پر کھڑا ہونا ہی گویا جان کو خطرہ میں ڈالنا ہے پھر بھی خدا کی راہ میں سرڈال دے اورخدا کی راہ میں اپنے کسی نقصان کی پروا

Page 362

نہ کرے.جنگ کے موقع پر سپاہی جانتا ہے کہ میں موت کے منہ میں جا رہا ہوں اوراسے بہ نسبت زندہ پھرنے کے مَرنا یقینی نظر آتا ہے مگر بایں ہمہ وہ اپنے افسر کی فرمانبرداری اوروفاداری کرکے آگے ہی بڑھتا ہے اور کسی خطرے کی پروانہیں کرتا اس کا نام اسلام ہے.غرض ایک فقرہ (لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ )میں تواللہ تعالیٰ نے توحید سکھائی ہے اور دوسرے (مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ )میں یہ سکھایا کہ اس توحید پر سچے اورزندہ ایمان کا ثبوت اپنے اس فعل سے دو اور خدا کی راہ میں اپنی گردن ڈال دو.اس بات کو توجہ سے سننا چاہیے.مسلمانوں کے واسطے یہ ایک مفید مسئلہ ہے.صرف اس بات سے راضی نہ ہونا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں یا ظاہر ی نماز روزے کی پابندی کرتے ہیں.خطرناک مشکلات میں ثابت قدم رہنا اورقدم آگے ہی آگے اٹھانا اورخدائی امتحان میں پاس ہوجانا سچے اورحقیقی ایمان کی دلیل ہے.مشکلات کا آنا اور ابتلائو ں کا آنا مومن پر ضروری ہے تاظاہر ہوکہ کون سچا مومن اور کون صرف زبانی ایمان کا مدعی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ(العنکبوت:۳) مسلمانوں کے صدرنے عمل سے ثابت کیا تھا کہ واقعی انہوںنے اپنی زندگیاں اللہ کے دین کی خدمت کے واسطے وقف کردی تھیں کوئی دین ترقی نہیں کرسکتا جب تک خدا کے احکام کو دنیا کے کل کاموں پر مقدم نہ کیا جاوے.معمولی نماز روزے زکوٰۃ وغیرہ اعمال توکرتے کرتے آخر عادت میں داخل ہو جاتے ہیں.مثنوی رومی میں ایک شعر میں یہ مضمون خوب اداکیا گیا ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’ہم اپنے کوٹھے میں غلہ بھرتے رہتے ہیں مگر وہ بھرنے میں نہیں آتا.جب دیکھو خالی ہی نظر آتا ہے.آخر کوئی چوہا تو ہے جو اس کوٹھے کو لگا ہواہے اس کا اناج کھائے جاتا ہے اور اسے خالی کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے.ہم بھر تے ہیں وہ خالی کرتا ہے.آخر کار دروازہ کھول کردیکھا توواقعی ایک چوہا تھا کہ اس غلہ کو کھاجایا کرتا تھا.‘‘ پس انسان کو اپنے اعمال پر ہی راضی نہ ہونا چاہیے.ریاکاری سے اعمال حبط ہو جاتے ہیں بعض بدیوںسے بعض اعمال حبط بھی ہوجاتے ہیں.ریاکاری بھی حبط اعمال کے واسطے

Page 363

ایک خطرناک کیڑا ہے.مثلاً ایک مجلس میں چندہ ہوتا ہے ایک شخص اٹھتا ہے میرا پانصد روپیہ لکھا جاوے.اب اگر صرف دکھاوے اورواہ واہ کی آواز کی واسطے یا نام پیداکرنے کے واسطے ایسا کرتا ہے تو اس کا اجر اس نے پالیا عندا للہ اس کے واسطے کوئی اجر نہ ہوگا.اس موقع پر ہمیں ایک نقل تذکرۃ الاولیاء کی یاد آگئی.لکھا ہے کہ ایک بزرگ تھے ان کو دس ہزار روپیہ کی سخت ضرورت پیش آگئی.انہوں نے اپنی ضرورت کا اظہار کیا تو ایک شخص نے دس ہزار روپیہ کی تھیلی ان کے آگے لا رکھی.اب وہ بزرگ لگے اس شخص کی تعریف کرنے اور ایک گھنٹہ تک برابر اس کی تعریف کی.آخر وہ شخص جس نے روپیہ دیا تھا مجلس میں سے اٹھ کھڑا ہوا اور گھر سے واپس لوٹ کر عرض کی کہ مجھ سے توسخت غلطی ہوئی.اصل میں وہ روپیہ تومیر ی ماں کا تھا اور میں اس کا روپیہ خود بخود دینے کا مختار نہ تھا.روپیہ مجھے دے دیا جاوے.اب لگی اس کو بجائے تعریف کے لعن طعن ہونے اورلوگ کہنے لگے کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بناوٹ کی ہے.بہانہ کرتا ہے.وغیرہ وغیرہ مگرجب وقت گذرگیا اور رات کی سنسان گھڑیا ں تھیں کہ وہی شخص وہی روپیہ لے کر اسی بزرگ کے مکان پرچپکے سے گیا اور وہی روپیہ پیش کرکے عرض کی کہ حضور میں نے روپیہ اللہ کے واسطے دیا تھا نہ کہ تعریفیں سننے کے واسطے.اب آپ کو قسم ہے خدا کی کہ آپ اس روپیہ کا کسی سے ذکر نہ کریں.یہ سن کر وہ بزرگ رو پڑے اس خیال سے کہ اب جب تک یہ شخص جئے گا لوگ اسے گالیاں دیں گے.طعن وتشنیع کریں گے ملامت کیا ہی کریں گے.ان کو اس حقیقت کی کیا خبر ؟ غرض جس کام میں ریاکاری کا ذرّہ بھی ہو وہ ضائع جاتا ہے.اس کی وہی مثال ہے جیسے ایک اعلیٰ قسم کے عمدہ کھانے میں کتامنہ ڈال دے.آج کل بھی یہ مرض بہت پھیلا ہواہے اور اکثر امور میں ریاکاری کی ملونی ساتھ ہوتی ہے.پس اعمال میں یہ ملونی ہونی نہ چاہیے.اصل میں انسان ایک حد تک معذور بھی ہے کہ ملونی کرنے کو تیار ہوجاتا ہے کیونکہ مکمل توہے نہیں.جب تک اسے نفسِ مطمئنّہ حاصل نہ ہوجائے اور کسی کی لعن طعن کی پروانہ کرے.اس کے اعمال میں ایسا اخلاص ہوجائے کہ

Page 364

تعریف کرنے والا اور گالی دینے والا، مناقب بیان کرنے والا اورحقارت سے دیکھنے والا اس کی نظر میں یکساں ہوجاویں اور یہ دونوں کو برابر جانے، مُردے کی طرح جانے جو نہ اس کا کچھ بگاڑ سکتا ہے اورنہ سنوار.اس وقت میں سِرًّا وَّ عَلَانِيَةً پر بحث نہیں کرتا بلکہ نفس (کی) ملونی کا ذکر کرتا ہوں میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیشہ خفیہ ہی خیرات کرو اور علانیہ نہ کرو.نیک نیتی کے ساتھ ہر کام میں ثواب ہوتا ہے.ایک نیک طبع انسان ایک کام میں سبقت کرتا ہے اس کی دیکھا دیکھی دوسرے بھی اس کارِ خیر میں شریک ہوجاتے ہیں.اس طر ح سے اس شخص کو بھی ثواب ملتا ہے بلکہ ان کے ثواب میں سے بھی حصہ لیتا ہے.پس اس رنگ میںکوئی نیک کام اس نیت سے کرنا کہ دوسروں کو بھی ترغیب وتحریص ہو بڑا ثواب ہے.اخلاص کی اہمیت شریعت اسلام میں بڑے بڑے باریک امورایسے ہیں تاکہ اخلاص کی قوت پیدا ہو جائے.اخلاص ایک موت ہے جو مخلص کو اپنے نفس پر وارد کرنی پڑتی ہے.جو شخص دیکھے کہ علانیہ خرچ کرنے اورخیرات دینے یا چندوں میںشامل ہونے سے اس کے نفس کو مزا آتا ہے اور ریا پیدا ہوتا ہے تواس کو چاہیے کہ ریاکاری سے دست بردار ہوجائے اور بجائے علانیہ خرچ کرنے کے خفیہ طورسے خرچ کرے اور ایسا کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی علم نہ ہو.پھر خدا قادر ہے کہ نیک کو اس کی نیکی اور پاک تبدیلی کی وجہ سے بخش دے.اس میں کوئی سوبرس کی ضرورت نہیں اخلاص کی ضرورت ہے.۱ دیکھو! حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بڑھیا کو بلاناغہ حلوا کھلایا کرتے تھے اوران کے اس فعل کی کسی کو خبر نہ تھی.ایک دن جب کہ بڑھیا کو حلوا نہ پہنچا.اس نے اس سے یقین کرلیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وفات پاگئے.اب جائے غور ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کیسے بدر میں ہے.’’یہ خیال نہ کرو کہ سوسال تک عبادت کرنے ہی سے نجات ہوتی ہے بلکہ خداتو نکتہ نواز ہے وہ ایک نیکی سے بخش دیتا ہے.صرف اخلاص چاہیے.‘‘ (بدر جلد ۷نمبر ۲۵مورخہ ۲۵؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۷)

Page 365

تعاہد سے اس بڑھیا کی جوکہ اور کچھ نہ کھاسکتی تھی خدمت کیا کرتے تھے کہ ایک دن حلوا نہ پہنچنے سے اس کو یقین ہوگیا کہ آپ وفات پاگئے یعنی اس بڑھیا کے وہم میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ آپؓزندہ ہوں او ر اس کو حلوانہ پہنچے یہ ممکن ہی نہ تھا.غرض یہ ہے اخلاص اوریہ ہیں محض خدا کی راہ میں نیک نیتی کے اعمال.اخلاص جیسی اور کوئی تلواردلوں کو فتح کرنے والی نہیں.ایسے ہی امور سے وہ لوگ دنیا پر غالب آگئے تھے.صرف زبانی باتوں سے کچھ ہونہیں سکتا.اب نہ پیشانی میں نور اورنہ روحانیت ہے اور نہ معرفت کاکوئی حصہ.خدا ظالم نہیں ہے.اصل بات ہی یہی ہے کہ ان کے دلوں میں اخلاص نہیں.نماز کو رسم اور عادت کے رنگ میں پڑھنا مفید نہیں صرف ظاہری اعمال سے جو رسم اور عادت کے رنگ میں کئے جاتے ہیں کچھ نہیںبنتا.اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ میںنماز کی تحقیر کرتا ہوں.وہ نماز جس کا ذکر قرآن میں ہے اور وہ معراج ہے.بھلا ان نمازیوں سے کوئی پوچھے توسہی کہ ان کو سورہ فاتحہ کے معنے بھی آتے ہیں.پچاس پچاس برس کے نمازی ملیں گے مگر نماز کا مطلب اور حقیقت پوچھو تو اکثر بےخبر ہوں گے حالانکہ تمام دنیوی علوم ان علوم کے سامنے ہیچ ہیں.بایں دنیوی علوم کے واسطے تو جان توڑ محنت اورکوشش کی جاتی ہے اوراس طرف سے ایسی بے التفاتی ہے کہ اسے جنتر منتر کی طرح پڑھ جاتے ہیں.میں تویہاں تک بھی کہتا ہوں کہ اس بات سے مت رُکو کہ نماز میں اپنی زبان میں دعائیں کرو.بے شک اردو میں، پنجابی میں، انگریزی میں، جوجس کی زبان ہو اسی میں دعاکرلے.مگر ہاں یہ ضروری ہے کہ خدا کے کلام کواسی طرح پڑھو.اس میں اپنی طرف سے کچھ مت دخل دو.اس کو اس طرح پڑھو اورمعنے سمجھنے کی کوشش کرو.اسی طرح ماثورہ دعائوں کا بھی اسی زبان میں التزام رکھو.قرآن اورماثورہ دعائوں کے بعد جو چاہو خدا سے مانگو اور جس زبان میں چاہو مانگو.وہ سب زبانیں جانتا ہے.سنتا ہے قبول کرتاہے.اگر تم اپنی نماز کو باحلاوت اور پُر ذوق بنانا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ اپنی زبان میں کچھ نہ کچھ

Page 366

دعائیں کیا کرو.مگر اکثریہی دیکھا گیا ہے کہ نمازیں تو ٹکریں مار کر پوری کر لی جاتی ہیں پھر لگتے ہیں دعائیں کرنے.نماز تو ایک ناحق کا ٹیکس ہوتا ہے.اگر کچھ اخلاص ہوتا ہے تونماز کے بعد میں ہوتا ہے.یہ نہیں سمجھتے کہ نماز خود دُعا کا نام ہے جو بڑے عجز،انکسار، خلوص اوراضطراب سے مانگی جاتی ہے.بڑے بڑے عظیم الشان کاموں کی کُنجی صرف دعاہی ہے.خدا کے فضل کے دروازے کھولنے کا پہلا مرحلہ دعاہی ہے.نماز کو رسم اور عادت کے رنگ میں پڑھنا مفید نہیں بلکہ ایسے نمازیوں پر تو خود خدا نے لعنت اور وَیْل بھیجا ہے چہ جائیکہ ان کی نماز کو قبولیت کا شرف حاصل ہو.وَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۠(الماعون :۵) خود خدا نے فرمایا ہے.یہ ان نمازیوں کے حق میں ہے جونما ز کی حقیقت سے اوراس کے مطالب سے بےخبر ہیں.صحابہ ؓ توخود عربی زبان رکھتے تھے اوراس کی حقیقت کو خوب سمجھتے تھے.مگر ہمارے واسطے یہ ضروری ہے کہ اس کے معانی سمجھیں اوراپنی نماز میں اس طرح حلاوت پیدا کریںمگر ان لوگوں نے تو ایسا سمجھ لیا ہے جیسے کہ دوسرا نبی آگیا ہے اور اس نے گویا نماز کو منسوخ ہی کردیا ہے.دیکھو خدا کا اس میں فائدہ نہیں بلکہ خود انسان ہی کا اس میںبھلا ہے کہ اس کو خدا کی حضور ی کا موقع دیا جاتا ہے اور عرض معرو ض کرنے کی عزت عطا کی جاتی ہے جس سے یہ بہت سی مشکلات سے نجات پاسکتا ہے.میں حیران ہوں کہ وہ لوگ کیوں کر زندگی بسر کرتے ہیں جن کا دن بھی گذر جاتا ہے اور رات بھی گذر جاتی ہے مگروہ نہیں جانتے کہ ان کا کوئی خدا بھی ہے.یاد رکھو کہ ایساانسان آج بھی ہلاک ہوا اورکل بھی.۱ میں ایک ضروری نصیحت کرتا ہوں.کاش لوگوں کے دل میں پڑجاوے.دیکھو! عمر گذری جارہی ہے غفلت کو چھوڑو اورتضرّع اختیار کرو.اکیلے ہوہو کر خدا سے دعاکرو کہ خدا ایمان کو سلامت رکھے اور تم پروہ راضی اورخوش ہوجائے.۱ بدر سے.’’یہ بات سن لوکہ دنیا فانی ہے.بی بی بھی ہے بھائی بھی.سب رشتہ دار ہیں، مال ودولت ہے یہ سب کچھ لیکن جب تک خدا کو اپنی سپر نہیںبناتا توکچھ بھی نہیں.‘‘ (بدر جلد ۷نمبر ۲۵مورخہ ۲۵؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۷)

Page 367

ترقی کرنے کے دوطریق انسان کے واسطے ترقی کرنے کے دو ہی طریق ہیں.اوّل تو انسان تشریعی احکام یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ تکالیف شرعیہ کی پابندی سے جوکہ خداکے حکم کے موجب خود بجا لا کر کرتا ہے مگر یہ امور چونکہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتے ہیں.اس لئے کبھی ان میں سُستی اور تساہل بھی کر بیٹھتا ہے اور کبھی ان میں کوئی آسانی اور آرام کی صورت ہی پیدا کر لیتا ہے.لہٰذا دوسرا وہ طریق ہے جو براہ راست خدا کی طرف سے انسان پر وارد ہوتا ہے اور یہی انسان کی اصلی ترقی کا باعث ہوتا ہے.کیونکہ تکالیف شرعیہ میں انسان کوئی نہ کوئی راہ بچائو یا آرام و آسائش کی نکال ہی لیتا ہے.دیکھو! کسی کے ہاتھ میں تازیانہ دے کر اگر اسے کہا جاوے کہ اپنے بدن پر مارو تو قاعدہ کی بات ہے کہ آخر اپنے بدن کی محبت دل میں آ ہی جاتی ہے.کون ہے جو اپنے آپ کو دکھ میں ڈالنا چاہتا ہے؟ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے انسانی تکمیل کے واسطے ایک دوسری راہ رکھ دی اور فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ١ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ:۱۵۶،۱۵۷) ہم آزماتے رہیں گے تم کو کبھی کسی قدر خوف بھیج کر، کبھی فاقہ سے کبھی مال جان اور پھلوں پر نقصان وارد کرنے سے.مگر ان مصائب شدائد اور فقروفاقہ پر صبر کرکے اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ:۱۵۷) کہنے والوں کو بشارت دے دو کہ ان کے واسطے بڑے بڑے اجر خدا کی رحمتیں اور اس کے خاص انعامات مقرر ہیں.دیکھو! ایک کسان کس محنت اور جانفشانی سے قلبہ رانی کرکے زمین کو درست کرتا، پھر تخم ریزی کرتا، آبپاشی کی مشکلات جھیلتا ہے.آخر جب طرح طرح کی مشکلات محنتوں اور حفاظتوں کے بعد کھیتی تیار ہوتی ہے تو بعض اوقات خدا کی باریک در باریک حکمتوں سے ژالہ باری ہو جاتی یا کبھی خشک سالی ہی کی وجہ سے کھیتی تباہ وبرباد ہو جاتی ہے.غرض یہ ایک مثال ہے ان مشکلات کی جن کانام تکالیف قضا و قدر ہے.ایسی حالت میں مسلمانوں کو جو پاک تعلیم دی گئی ہے وہ کیسی رضا بالقضاء کا سچا نمونہ اور سبق ہے اور یہ بھی صرف مسلمانوں ہی کا حصہ ہے.آریہ جو کہ روح اور ذرّات کو مع ان کے خواص کے خود بخود اور خدا کی طرح

Page 368

ازلی ابدی مانتے ہیں.وہ کیوں کر اِنَّالِلّٰهِ کہہ سکتے ہیں اور یہ توفیق ان کو کیسے نصیب ہو سکتی ہے؟ غرض تکالیف دو ہی قسم کی ہیں ایک حصہ تو وہ ہے جو احکام پر مشتمل ہے جن میں نماز، روزہ، زکوٰۃ حج وغیرہ داخل ہیں.ان میں کسی قدر عذر اور حیلے وغیرہ کی بھی گنجائش ہے اور جب تک پورااخلاص اور کامل یقین نہ ہو انسان ان سے کسی نہ کسی قدر بچنے کی یا آرام کی صورت پیدا کرنے کی کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی لیتا ہے.پس اس طرح کی کوئی کسر جو انسانی کمزوری کی وجہ سے رہ گئی ہو اس کسر کے پورا کرنے کے واسطے اللہ تعالیٰ نے تکالیف قضا و قدر رکھ دی ہیں تاکہ انسانی فطرت کی کمزوری کی وجہ سے جو کمی رہ گئی ہو خدا کے فضل کے ہاتھ سے پوری ہو جاوے.تکالیف قضا و قدر کانام آریہ لوگ پہلی جون کا پھل رکھتے ہیں.مگر ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر تمہارے جپ تپ کس مرض کی دوا ہیں.اگر آسمانی تکالیف تمہار ے پہلے اعمال کا نتیجہ ہیں تو کیوں ایک اور عذاب جپ تپ کی مصیبت میں پڑکر اپنے واسطے پیدا کرتے ہو؟ غرض یہ دونوں سلسلے کہ کبھی انسان تکالیف شرعیہ کی پابندی کرکے اپنے ہاتھوں اور کبھی قضا و قدر کے آگے گردن جھکاتا ہے اس واسطے ہیں کہ انسان کی تکمیل ہو جاوے.اسی کی طرف اشارہ کرکے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بَلٰى مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ (البقرۃ:۱۱۳) یعنی اسلام کیا ہے؟ یہی کہ اللہ کی راہ میں اس کی رضا کے حصول کے واسطے گردن ڈال دینا.ابتلائوں کا ہیبت ناک نظارہ لڑائی میں ننگی تلواروں کی چمک اور کھٹا کھٹ کی طرح آنکھوں کے سامنے موجود ہے.جان جانے کا اندیشہ ہے مگر کسی بات کی پروا نہ کرکے خدا کے واسطے یہ سب کچھ اپنے نفس پروارد کر لینا یہ ہے اسلام کی تعلیم کی لُبِّ لُباب.حقوق العباد کی ادائیگی کے تین مراتب دوسراحصہ خلق اللہ اور حق العباد کے متعلق ہے.اس کے متعلق قرآنی تعلیم یوں بیان ہوئی کہ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى (النحل: ۹۱) پہلے فرمایا کہ عدل کرو.پھر اس سے بھی آگے بڑھ کر فرمایا احسان کا بھی خدا نے تم کو حکم کیا ہے یعنی صرف اسی سے

Page 369

نیکی نہ کرو جس نے تم سے نیکی کی ہو بلکہ احسان کے طور پر بھی جو کہ کوئی حق نہ رکھتا ہو کہ اس سے نیکی کی جاوے اس سے بھی نیکی کرو.مگر احسان میں بھی ایک قسم کا باریک نقص اور مخفی تعلق اس شخص سے رہ جاتا ہے جس سے احسان کیا گیا ہے کیونکہ کبھی کسی موقع پر اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہو جائے جو اس محسن کے خلافِ طبیعت ہو یا نافرمانی کر بیٹھے تو محسن ناراض ہو کر اس کو احسان فراموش یا نمک حرام وغیرہ کہہ دے گا اور اگر چہ وہ شخص اس بات کو دبانے کی کوشش بھی کرے گا مگر پھر اس میں ایک ایسا مخفی اور باریک رنگ میں نقص باقی رہ جاتا ہے کہ کبھی نہ کبھی ظاہر ہو ہی جاتا ہے.اسی واسطے اس نقص اور کمی کی تلافی کرنے کے واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ احسان سے بھی آگے بڑھو اور ترقی کرکے ایسی نیکی کرو کہ وہ ایتاء ذی القربیٰ کے رنگ میں رنگین ہو یعنی جس طرح سے ایک ماں اپنے بچے سے نیکی کرتی ہے.ماں کی اپنے بچے سے محبت ایک طبعی اور فطری تقاضا پر مبنی ہے نہ کہ کسی طمع پر.دیکھو! بعض اوقات ایک ماں ساٹھ برس کی بڑھیا ہوتی ہے اس کو کوئی توقع خدمت کی اپنے بچے سے نہیں ہو تی کیونکہ اس کو کہاں یہ خیال ہوتا ہے کہ میں اس کے جوان اور لائق ہونے تک زندہ بھی رہوں گی.غرض ایک ماں کا اپنے بچے سے محبت کرنا بلاکسی خدمت یا طمع کے خیال کے فطرتِ انسانی میں رکھا گیا ہے.ماں خود اپنی جان پر دکھ برداشت کرتی ہے مگر بچے کو آرام پہنچانے کی کوشش کرتی ہے.خود گیلی جگہ لیٹتی ہے اور اسے خشک حصہ بستر پر جگہ دیتی ہے.بچہ بیمار ہو جائے تو راتوں جاگتی اور طرح طرح کی تکالیف برداشت کرتی ہے.اب بتائو کہ ماں جو کچھ اپنے بچے کے واسطے کرتی ہےا س میں تصنّع اور بناوٹ کا کوئی بھی شعبہ پایا جاتا ہے؟ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ احسان کے درجہ سے بھی آگے بڑھو اور ایتا ء ذی القربیٰ کے مرتبہ تک ترقی کرو اور خلق اللہ سے بغیر کسی اجر یا نفع و خدمت کے خیال سے طبعی اور فطری جوش سے نیکی کرو تمہاری خلق اللہ سے ایسی نیکی ہو کہ اس میں تصنّع اور بناوٹ ہر گز نہ ہو.ایک دوسرے موقع پر یوں فرمایا ہے لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا (الدھر: ۱۰) یعنی خدا رسیدہ اعلیٰ ترقیات پر پہنچے ہوئے انسان کا یہ قاعدہ ہے کہ ا س کی نیکی خالصاً للہ ہو تی ہے اور اس کے دل میں یہ بھی خیال نہیں ہوتا کہ اس

Page 370

کے واسطے دعا کی جاوے یا اس کا شکریہ ادا کیا جاوے.نیکی محض اس جوش کے تقاضا سے کرتا ہے جو ہمدردی بنی نوع انسان کے واسطے اس کے دل میں رکھا گیا ہے.ایسی پاک تعلیم نہ ہم نے توریت میں دیکھی ہے اور نہ انجیل میں.ورق ورق کرکے ہم نے پڑھا ہے مگر ایسی پاک اور مکمل تعلیم کا نام و نشان نہیں.اس زمانہ میں مصلح اور مجدّد کی ضرورت اس وقت دنیا میں تاریکی بہت پھیلی ہوئی ہے.خدا کی کتاب پر عمل کرنے کے واسطے جو قوت درکار ہے اس میں بہت کمزوری ہے.خدا کی یہ قدیم سے عادت چلی آئی ہے کہ جب دنیا میں گناہ کی ظلمت پھیل جاتی ہے لوگ زندگی کے مقصد اصلی سے دور جا پڑتے ہیں.اس وقت اللہ تعالیٰ خود اپنی طرف سے ایمانوں کو تازہ کرنے کے واسطے انتظام کرتا ہے اور مصلح اور مجدّد مبعوث کرتا ہے.سفلی ریفارمر اس وقت کچھ نہیں کرسکتے خدا کے مقرر کردہ لوگوں ہی کا یہ منصب ہوتا ہے کہ دلوں پر قابو پاکر ان میں پاک زندگی پیدا کرجاتے ہیں.خدا کی طرف سے روحانی اصلاح کے لئے مقرر ہونے والے لوگ چراغ کی طرح ہوتے ہیں.اسی واسطے قرآ ن شریف میں آپؐکانام دَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِيْرًا (الاحزاب: ۴۷) آیا ہے.دیکھو! کسی اندھیرے مکان میں جہاں سو پچاس آدمی ہوں اگر ان میں سے ایک کے پاس چراغ روشن ہو تو سب کو ا س کی طرف رغبت ہوگی اور چراغ ظلمت کو پاش پاش کرکے اجالا اور نور کر دے گا.۱ اس جگہ آپ کانام چراغ رکھنے میں ایک اورباریک حکمت یہ ہے کہ ایک چراغ سے ہزاروں لاکھوں چراغ روشن ہو سکتے ہیں اور اس میں کوئی نقص بھی نہیں آتا.چاند سورج میں یہ بات نہیں.اس سے مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اطاعت کرنے سے ہزاروں لاکھوں انسان اس مرتبہ پر پہنچیں گے اور آپ کا فیض خاص نہیں بلکہ عام اور جاری ہوگا.غرض یہ سنّت اللہ ہے کہ بدر سے.’’چراغ والا اندر اندھیرے میں چلا جائے تو یکدم سب مکان جگمگا اُٹھتا ہے پھر ہر ایک کو اس کی طرف رغبت ہو جاتی ہے.‘‘ (بدر جلد ۷ نمبر ۲۵ مورخہ ۲۵ ؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۸ )

Page 371

ظلمت کی انتہا کے وقت اللہ تعالیٰ اپنی بعض صفات کی وجہ سے کسی انسان کو اپنی طرف سے علم اور معرفت دے کر بھیجتا ہے اور اس کے کلام میں تاثیر اور اس کی توجہ میں جذب اور اس کی دعائیں مقبول ہو تی ہیں.مگروہ ان ہی کو جذب کرتے ہیں اور ان ہی پر ان کی تاثیرات اثر کرتی ہیں جو اس انتخاب کے لائق ہوتے ہیں.دیکھو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کانام سِرَاجًا مُّنِيْرًا ہے.مگر ابوجہل نے کہاں قبول کیا؟ ؎ باراں کہ در لطافت طبعش خلاف نیست در باغ لالہ روید و در شورہ بوم و خس جس طرح بارش آسمانی سے زمینیں اپنی اپنی استعداد کے موافق روئیدگی پیدا کرتی ہیں.کہیں خس و خاشاک اور کہیں گلاب کے پھول بعینہٖ یہی حال روحانی بارش کے وقت انسانی روحانیت کا ہے.عادت اللہ اسی طرح پر ہے کوئی نرالی بات نہیں.آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک سلسلہ وحی جاری رہا.بعد میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ وہ تجدید دین کے واسطے مجدّد پیدا کرے گا.تجدید کہتے ہیں ایک کپڑا جو میل کچیل سے آلود ہ ہو گیا ہو اس کو دھو کر صاف کر لیا جاوے اور میل اس سے قطعاً الگ کر دی جاوے اور بالکل نئے کی طرح کر دیا جاوے.اسی طرح جب دین میں ایک زمانہ گذرنے کے بعد عقائد اور اعمال میں طرح طرح کے گند داخل ہو جاتے ہیں اور ایمان کی بنا صرف پرانے قصہ کہانیوں پر ہی رہ جاتی ہے اور قصوں کے سوائے کچھ ہاتھ میں نہیں رہتا تو اللہ تعالیٰ نے ایسی حالت میں اسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ وعدہ دیا ہے کہ ہر صدی کے سر پر ایسے شخص بھیجتا رہے گا جو تجدید دین کیا کریں گے مگر چودھویں صدی کا سرا تو بجائے خود چھبیس برس بھی گذر گئے.آنے والا حسب وعدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عین وقت پر آگیا مگر یہ لوگ اب تک بھی شک میں ہیں.بعض الزامات کا جواب اور مجھ پر خواہ مخواہ جھوٹ اور تہمت سے الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ میں پیغمبروں کو گالیاں دیتا ہوں مگر کیسا ہی خبیث اور ملعون ہے وہ شخص جو کہ برگزیدہ بندوں کا انکار کرے یا ان کی کسی طرح سے اپنے قول سے یا فعل سے توہین کرے.

Page 372

یہ بھی مجھ پر الزام لگایا گیا ہے کہ میں معجزات سے منکر ہوں حالانکہ میرا ایمان ہے کہ بغیر معجزات کے زندہ ایمان ہی نصیب نہیں ہو سکتا.۱ عقل انسان کا کہاں تک ساتھ دے سکتی ہے اور اس کی مدد سے یہ کہاں تک ترقی کر سکتا ہے؟ خدا زندہ موجود ہے اور جس طرح اس نے پہلے کام کئے ہیں اب بھی ضرور ہے کہ اسی طرح کرے.کیا وجہ کہ پہلے معجزات اور خوارق پر ایمان لایا جاتا ہے اور گذشتہ کا حوالہ دیاجاتا ہے کیا اب خدا بڈھا ہو گیاہے؟ یا خدا کی قوتِ گویائی جاتی رہی ہے؟ یا اس کی قوت نصرت اور قدرت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے؟ حال کے فلسفہ والے ان باتوں کو نہیں مانتے مگر میں خود اس میں صاحبِ تحربہ ہوں.جس طرح پہلے نشان ظاہر ہوتے تھے اب بھی ہوتے ہیں اور اسی طرح خدا اپنے خاص بندوں کی تائید اورنصرت کرتا ہے اور اسی طرح وحی اور الہام سے ان کی تائید کرتا ہے اگر تمہارے اعتقاد کے موافق مان لیا جاوے کہ اب کوئی سلسلہ وحی و الہام نہیں رہا اور وہ مُردہ ہو گیا ہے تو پھر مُردے سے کیا امید رکھ سکتے ہو؟ کیا مُردہ مُردے کو زندہ کرسکتاہے اور اندھا اندھے کی راہبری کر سکتا ہے؟ میں سچ کہتا ہوں کہ خدا اسی طرح زندہ ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زندہ تھا خد ا نے ہمیں ایک خاص مقام پر پہنچانے کا وعدہ کیا تھا.کیا اب وہ ہمیں رستے میں ہی چھوڑ دے گا؟ مثال کے طور پر بیان کرتا ہوں کہ مثلاً ایک اندھے سے کسی نے وعدہ کیا کہ تمہیں مدراس یا کلکتہ تک پہنچا دیں گے مگر جب وہ نصف راستہ میں پہنچا تو اس کو چھوڑ دیا.اب وہ نہ ادھر کا نہ ادھر کا.کیا یہ انصاف ہے اور ظلم نہیں؟ ہم خدا پر ایسا الزام نہیں لگا سکتے کہ اس نے وعدہ تو کیا کہ قیامت تک خلفاء اور مجدّدین کا سلسلہ جاری رکھو ں گا مگر ایک خاص وقت کے بعد اس نے ایسا کرنا چھوڑ دیا.سورۃ نور میں آیتِ استخلاف کو غور سے پڑھ کر دیکھ لو.میں بھی اسی وعدہ کے موافق آیا ہوں اور اس واسطے موعود کہلاتا ہوں.یہ نہیں کہ آواگون کے طور پر وہی مسیح آگیا ہو.بلکہ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ ۱ بدر سے.’’جس دین میں زندہ معجزات نہیں وہ دین قائم رہ سکتا ہی نہیں.‘‘ ( بد ر جلد ۷ نمبر ۲۵ مورخہ ۲۵ ؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۸ )

Page 373

آخری زمانہ میں امت بگڑ جائے گی اور جس طرح حضرت عیسٰی علیہ السلام کے زمانہ میں یہود کی حالت تھی وہی حالت مسلمانوں کی موعود مسیح محمدی کے زمانہ میں ہوجائے گی.غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ (الفاتـحۃ:۷) میں اسی کی طر ف تواشارہ ہے خود مسلمانوں سے پوچھ لو کہ آخر ی زمانہ کے مسلمانوں اور علما ء کا کیا حال لکھا ہے؟ یہی کہ لکھا ہے کہ ایسے ہو جاویں گے کہ قرآ ن پڑھیں گے مگر قرآن حلق سے نیچے نہیں اترے گا.ایمان صرف زبانوں پر ہی ہو گا.اب صاف ہے کہ ایسے وقت میں ان کی اصلاح کے واسطے جوشخص آوے گا وہ بھی مناسب حال ہی آوے گا اورضرورت اورکام کے لحاظ سے اس کانام بھی مسیح ہوگا.کیا یہ ظاہر نہیں کہ دین مَرگیا.تو پھر جب کسی آدمی کا عزیز دوست حتی کہ پالتو کتا، بلّی، ہی مَرجائے تو اسے رنج ہوتا ہے اور افسوس آتا ہے توکیا وجہ کہ دین کی موت کا کسی کو رنج نہیں اور کسی کے دل میں ماتم نہیں نظر آیا؟ یہ بھی مجھ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں اورکہ میں نے نیا دین بنالیا ہے یا میں کسی الگ قبلہ کی فکر میں ہوں، نماز میں نے الگ بنائی ہے یا قرآن کو منسوخ کرکے اور قرآن بنالیا ہے.سواس تہمت کے جواب میں مَیں بجز اس کے کہ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِيْنَ(اٰل عـمرانـ:۶۲) کہوں اور کیا کہوں ؟ مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ میرا دعویٰ صرف یہ ہے کہ موجود ہ مفاسد کے باعث خدا نے مجھے بھیجا ہے اور میں اس اَمر کا اخفا نہیں کر سکتا کہ مجھے مکالمہ مخاطبہ کا شرف عطا کیا گیا ہے اورخدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے اور کثرت سے ہوتا ہے.اسی کانام نبوت ہے مگر حقیقی نبوت نہیں.نَبَأٌ ایک عربی لفظ ہے جس کے معنے ہیںخبر کے.اب جو شخص کوئی خبر خدا سے پاکر خلق پر ظاہر کرے گا اس کو عربی میں نبی کہیں گے.میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ ہوکر کوئی دعویٰ نہیں کرتا.یہ تونزاع لفظی ہے.کثرت مکالمہ مخاطبہ کو دوسرے الفاظ میں نبوت کہا جاتا ہے دیکھو! حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ قول کہ قُوْلُوْا اِنَّہٗ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَلَاتَقُوْلُوْا لَانَبِیَّ بَعْدَہٗ اس اَمر کی صراحت کرتا ہے نبوت اگر اسلام میں موقوف ہوچکی ہے

Page 374

تویقیناً جانو کہ اسلام بھی مرگیا اور پھر کوئی امتیازی نشان بھی نہیں ہے.ایک باغ جس کو اس کے مالی اور باغبان نے چھوڑ دیا، اسے بھلا دیا، اس کی آبپاشی کی اس کو فکر نہیں توپھر نتیجہ ظاہر ہے کہ چند سال بعد وہ باغ خشک ہو کر بے ثمر ہوجاوے گا اور آخر کار لکڑیاں جلانے کے کام میں لائی جاویں گی.اصل میں ان کی اورہماری تو نزاع لفظی ہے.مکالمہ مخاطبہ کا تو یہ لوگ خود بھی اقرار کرتے ہیں.مجدّد صاحب۱ بھی اس کے قائل ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ جن اولیا ء اللہ کو کثرت سے خدا کا مکالمہ مخاطبہ ہوتا ہے وہ محدّث اورنبی کہلاتے ہیں.۲ اچھا میں پوچھتا ہوں کہ ایک انسان خدا سے خبر پاکر دنیا پر ظاہر کرے تواس کانام آپ لوگ عربی زبان میں بجز نبی کے اور کیا تجویز کرتے ہیں؟ عجیب بات ہے کہ اسی لفظ کے مفہوم کو اگر زبان اردو میں یا پنجابی میں بیان کیا جائے تومان لیتے ہیں اوراگر عربی میں پیش کریں تو نفرت اورانکار کرتے ہیں یہ تعصّب نہیں تواور کیا ہے ؟ اب صرف یہی بات باقی ہے جسے میں ضرور ی سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں نے شاید اس مہذب اورتعلیم یافتہ گروہ کو بھی اس اَمر میںدھوکا دیا ہو اور ہم سے بدظن کرنے کی کوشش (کی) ہو.لہٰذا میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ لوگوں پر ظاہر کر دوں کہ خدا نے مجھے تجدید دین کے واسطے تائید اورنصرت کے ساتھ تازہ نشانات دے کر بھیجا ہے تا دین کو تازہ کر دیا جاوے.آپ یقیناً سمجھیں کہ اگر خدا نے مجھے نہ بھیجا ہوتا تو یہ دین بھی اوردینوں کی طرح صرف قصے کہانیوں میں ہی محدود ہوجاتا.خدا سے آنے والا نابود نہیں کیا جاتا.انجام کا رخدااس کی سرسبزی دنیا پر ظاہر کردیتا ہے.ان لوگوں نے میری توہین کے واسطے جھوٹ سے تہمت سے افترا سے اور طرح طرح کے حیلوں سے کام لیا ہے اور ہماری ترقی کو روکنے کے واسطے ہم سے لوگوں کو بد ظن کرنے کے واسطے بدر سے ’’مجدّد صاحب سرہندی ‘‘ (بدرجلد ۷نمبر ۲۵مورخہ ۲۵؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۹) ۲ بدر میں یہ الفاظ ہیں.’’حضرت مجدّد سرہندی بھی ایسے مکالمہ کے قائل ہیں.میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی خدا سے خبر پاکر پیشگوئی کرتا ہے تو اسے عربی میں نبوت کے سوا اور کیا کہیں گے.‘‘ (بدرجلد ۷نمبر ۲۵مورخہ ۲۵؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۹)

Page 375

سخت سے سخت کوششیں کی ہیں مگر خدا کی قدرت سے بایں ہمہ ہماری ترقی ہی ہوتی گئی اور ہو رہی ہے.حتی کہ اب چار لاکھ سے بھی زیادہ لوگ مختلف ممالک میں ہماری جماعت کے موجود ہیں.اصل بات یہ ہے کہ سمجھ دار لوگ جب سمجھ لیتے ہیں کہ یہی راہ دشمن پر غلبہ پانے کی ہے تو پھر وہ اس پر سچے دل سے قائم ہو جاتے ہیں.اب ہمیں بتائیں کہ جن کا یہ مذہب ہے کہ حضرت عیسٰیؑ مَرے نہیں بلکہ زندہ ہیں اورآنحضرتؐوفات پاکر مدینے میں مدفون ہیں.بتائیے انہوں نے آنحضرتؐکی عزت پر کیسا حملہ کیا ہے؟ اور پھر کہتے ہیں کہ وہی اسرائیلی نبی پھر دنیا میں آکر اُمت محمدیہ کی اصلاح اور تجدید دین کرے گا.اب فرمائیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب ایک اسرائیلی نبی آگیا تو پھر آنحضرتؐکس طرح خاتم النبییّن رہے؟ اس اعتقاد سے تو خاتم النبییّن حضرت عیسٰیؑہوئے نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.حاشاو کلّا عیسٰی ؑتو خود براہ راست خدا کے نبی تھے.کیا ان کی پہلی شریعت اور نبوت منسوخ ہو جائے گی؟ جب سورہ نور میں ہمیں صاف الفاظ میں وعدہ مل چکا ہے کہ جو آوے گا تم میں سے ہی آوے گا.تمہارے غیر کو قدم رکھنے کی اب گنجائش نہیں اور بخاری میں بھی جواصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے.اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ موجود ہے اور پھر جب کہ ان کی وفات بھی صراحت سے قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہے تو کیوں ایسا اعتقاد رکھا جاتا ہےجو کہ سراسر قرآن شریف اور آنحضرتؐکے خلاف ایک عقیدہ ہے آنحضرتؐنے خود ان کو معراج کی رات میں وفات شدہ انبیاء کے ساتھ دیکھا.اگر وہ زندہ تھے تو ان کے واسطے الگ کوئی مقام تجویز ہونا چاہیے تھا نہ کہ مُردوں میں.زندہ کو مُردہ سے کیا تعلق اور کیا واسطہ؟ غرض خدا نے قول سے اور آنحضرتؐنے اپنے فعل سے ثابت کر دیا کہ وہ وفات پاچکے.اب فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ (یونس:۳۳) مسلمان ہو کر قرآن اور قولِ رسولؐ کو قبول نہیں کرتے تو نہ کریں ان کا اختیار ہے.میری تکذیب نہیں کرتے بلکہ اس کی جس کی طرف سے میں آیا ہوں اور اس کی جس کا میں غلام ہوں تکذیب کرتے ہیں.میں کیا اور میری تکذیب کیا بلکہ یہ تو

Page 376

آنحضرتؐکی تکذیب کرتے ہیں.بات تو ایک ہی ہے قرآن میں خلیفہ کے آنے کی نصّ موجود ہے اور احادیث میں قربِ قیامت کے وقت آنے والے خلیفہ کانام مسیح رکھا گیا ہے.اب ان میں اختلاف کیا ہے؟ ان الزامات کے سوادوسرے الزام بھی اسی قسم کے بے حقیقت اور ضد اور تعصب کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں.ان سب کا ردّ مفصلا ً ہم نے اپنی کتابوں میں کر دیاہے.ان لوگوں کے بعض عقائد تو ایسے ہیں جن سے ایک سچے مسلمان کا دل کانپ جاتا ہے.مثلاً ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ کوئی بھی مَسِّ شیطان سے پاک نہیں بجز عیسیٰ علیہ السلام کے.ان کا یہ مسئلہ کیسا قابل شرم ہے.ہمارے نبی کریمؐ افضل الرسل، پاکوں کے سردار تو مَسِّ شیطان سے ( نعوذباللہ) پاک نہیں اور حضرت عیسیٰ ؑ پاک ہیں.کیسا افسوس کا مقام ہے! خدا جانے مسلمان کہلا کر ان کو کیا ہوگیا؟ دیکھو! خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال ہے اور خود مسلمان آریوں اور عیسائیوں کے ہمزبان بنے ہوئے ہیں.ہمارا اپنا سب سے پیارا نبی جس کی پیروی ہمارا فخر اور ہمارے واسطے باعث عزت اورموجب نجات ہے اگر وہ وفات پا چکے ہیں تو ہم عیسٰیؑ کو کیا کریں؟ بس یہ باتیں ہیں جن پر ہمیں کافر کہا جاتا ہے.دجّال کہا جاتا ہے اور اسلام سے خارج کہا جاتا ہے اور ہم سے سلام علیکم کرنے، مصافحہ کرنے، ملاقات کرنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے ایسا متعدی کفر ہے.اور تمام جماعت ایک کافروں کا مجموعہ ہے.کیسا افسوس آتا ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ کے دین کی تجدید اور خدمت کرنے کے واسطے ہروقت کمر بستہ ہے اس کو گندی گالیاں نکالتے ہیں.بُرے بُرے ناموں سے یاد کرتے ہیں.میرے صندوق بھرے پڑے ہیں ان کی گالیوں کے گندے خطوط سے.بعض اوقات بیرنگ خط محصول ادا کر کے وصول کیا.کھول کر دیکھا تو اس میں اوّل سے آخر تک بے نقط گالیوں کے سوا کچھ ہوتا ہی نہیں اور مولوی کہلا کر چوہڑے چماروں کی طرح گندی اور فحش گالیاں نکالتے ہیں کہ انسان کو پڑھتے ہوئے بھی شرم آجاتی ہے.ابھی کہتے ہیں کہ اسلام کو کسی کی کیا ضرورت ہے جبکہ

Page 377

قرآن موجود ہے اور مولوی موجو د ہیں؟ یہ نہیں جانتے کہ ان کے مولوی جو ان بھیڑوں کے گلہ بان ہیں خود بھیڑیے ہیں اور وہ ریوڑ کیسے خطرہ میں ہے جس کا کوئی گلہ بان نہ ہو؟ اسلام پر اندرونی اور بیرونی حملے ہور ہے ہیں اور ماریں کھا رہا ہے.پس ایسے شخص کی ضرورت تھی کہ مغالطے اور مشکلات دور کر کے پیچیدہ مسائل کو حل کر کے رستہ صاف کرتا اور اسلام کی اصلی روشنی اور سچا نور دوسری قوموں کے سامنے پیش کرتا.دیکھو ایک وہ زمانہ تھا کہ عیسائی لو گ کہتے تھے کہ آنحضرتؐکی نہ کوئی پیشگوئی ہے نہ معجزہ.مگر اب میرے سامنے کوئی نہیں آتا حالانکہ ہم بلاتے ہیں.خدا کا یہی ارادہ تھا.اس نے اپنے وعدہ کے موافق وقت پر اپنے دین کی خبر گیری اور دستگیری فرمائی ہے.اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الـحجر:۱۰) اسلام کو اس نے دنیا میں قائم کیا، قرآن کی تعلیم پھیلائی اور اس کی حفاظت کا بھی وہی خود ذمہ دار ہے.جب انسان اپنے لگائے ہوئے بوٹے کو التزام سے پانی دیتاہے تا وہ خشک نہ ہو جاوے تو کیا خدا انسان سے بھی گیا گزرا اور لا پروا ہے؟ یاد رکھو کہ اسلام نے جن راہوں سے پہلے ترقی کی تھی اب بھی انہی راہوں سے ترقی کرے گا.خشک منطق ایک ڈائن ہے اس سے انجان آدمی کے اعتقاد میں خلل آجاتا ہے.اور ظاہری فلسفے روحانی فلسفے کے بالکل مخالف ہیں.صاحبان! یہ امور ہیں جن کی اصلاح کے واسطے میں بھیجا گیا ہوں میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس مجلس میں سے بعض ایسے بھی لوگ اٹھیں گے کہ ان میں کچھ بھی تبدیلی پیدا نہ ہو ئی ہو گی یا ان کے خیالات پر میری ان باتوں کا ذرّہ بھی اثر نہ ہوگا مگر یاد رکھو جو مجھ سے مقابلہ کرتا ہے وہ مجھ سے نہیں بلکہ اس سے مقابلہ کرتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اگر ادنیٰ چپڑاسی کی ہتک کی جائے اور اس کی بات نہ مانی جاوے تو گورنمنٹ سے ہتک کرنے والے یا نہ ماننے والے کو سزا ملتی ہے اور باز پرس ہوتی ہے تو پھر خدا کی طرف سے آنے والے کی بے عزتی کرنا اس کی بات کی پروا نہ کرنا کیوں کر خالی جاسکتا ہے؟ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر میرا سلسلہ خدا کی طرف سے نہیں تو یونہی بگڑ جائے گا خواہ کوئی اس کی مخالفت کرے یا نہ کرے کیونکہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰى(طٰہٰ:۶۲ ) اور

Page 378

مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا (الانعام: ۲۲) اور وہ شخص جو رات کو ایک بات بناتااور دن کو لوگوں کو بتاتا اورکہتا ہے کہ مجھے خدا نے ایسا کہا ہے وہ کیوں کر بامراد اور بابر گ و بار ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے.وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْل لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ( الـحاقۃ : ۴۵تا ۴۷) جب ایک ایسے عظیم الشان انسان کے واسطے ایسا فرمان ہے تو پھر ادنیٰ انسان کے واسطے تو چھوٹی سی چُھری کی ضرورت تھی اور کبھی کا فیصلہ ہو گیا ہوتا.۱ ۱۸؍مئی ۱۹۰۸ء (بعد نماز ظہر.بمقام لاہور) پروفیسر ریگ کے بعض سوالات کے جوابات وہی پروفیسر ریگ جن کا کسی پہلی اشاعت میں حضرت اقدسؑ سے ملاقات کرنا اور سوال وجواب شائع ہو چکا ہے.۱۸ ؍مئی ۱۹۰۸ء کو پھر حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی تحریک اور وساطت سے حضر ت اقدسؑ کے حضور حاضر ہوئے اور خیریت حال دریافت کرنے کے بعد ذیل کا سوال و جواب ہوا.سوال.آپ کا کیا عقیدہ ہے خدا محدود ہے یا کہ ہر جگہ حاضر ناظر اور اس میں کوئی شخصیت یا جذبات پائے جاتے ہیں.جواب.ہم خدا کو محدود نہیں سمجھتے اور نہ ہی خدا محدود ہو سکتاہے.ہم خدا کی نسبت یہ جانتے ہیں کہ جیسا وہ آسمان پر ہے ویساہی زمین پر بھی ہے.اس کے دو قسم کے تعلق پائے جاتے ہیں ایک عام تعلق جو عام مخلوق کے ساتھ ہے اور ایک دوسرا خاص تعلق جو ان خاص بندوں کے ساتھ ہوتا ہے جو اپنے آپ کو پاک کر کے اس کی محبت میں ترقی کرتے ہیں.تب وہ ان سے ایسا قریب ہو جاتا ہے جیسا کہ ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴ ؍جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۲ تا ۱۳

Page 379

ان کے اندر ہی سے بولتا ہے.یہ اس میں ایک عجیب بات ہے کہ باوجود دور ہونے کے وہ نزدیک ہے اور باوجود نزدیک ہونے کے وہ دور ہے.وہ بہت ہی قریب ہے مگر پھر بھی نہیں کہہ سکتے کہ جس طرح ایک جسم دوسرے جسم سے قریب ہوتا ہے اور وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی چیز بھی ہے.وہ سب چیزوں سے زیادہ ظاہر ہے مگر پھر بھی وہ عمیق در عمیق ہے.جس قدر انسان سچی پاکیزگی حاصل کرتا ہے اسی قدر اس کے وجود پر اس کو اطلاع ہوتی ہے.فرمایا.جذبات سے مراد غالباً ان کی یہ ہے کہ خدا نے انسان کے ذمے شریعت کا بوجھ کیوں ڈال رکھا ہے اور حلال و حرام کی پابندی میں اسے کیوں قید کررکھا ہے؟ سوجاننا چاہیے کہ اصل بات یہ ہے کہ خدا نہایت درجہ قدوس ہے وہ اپنی تقدیس کی وجہ سے ناپاکی کو پسند نہیں کرتا اور چونکہ وہ رحیم کریم ہے اس واسطے نہیں چاہتا کہ انسان ایسی راہوں پر چلے جن میں اس کی ہلاکت ہو.پس یہ اس کے جذبات ہیں جن کی بنا پر مذہب کا سلسلہ جاری ہے.اب ان کانام خواہ آپ کچھ ہی رکھ لو.سوال.کیا خدا کی کوئی شکل ہے؟ جواب.جب وہ محدود ہی نہیں تو شکل کیسی ؟ سوال.جب خدا محبت ہے.عدل ہے.انصاف ہے تو کیا وجہ کہ نظام دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے بعض چیزوں کو بعض کی خوراک بنادیا ہے.اگر محبت اور عدل یا انصاف و رحم اس کے ذاتی خاصے ہیں تو کیا وجہ کہ اس نے مخلوق میں سے بعض میں ایسی کیفیت اور قویٰ رکھ دئیے ہیں کہ وہ دوسروں کو کھا جائیں حالانکہ مخلوق ہونے میں دونوں برابر ہیں.جواب.جب محبت کا لفظ خدا کی نسبت بولا جاتا ہے تو اس کو انسانی محبت پر قیاس کر لینا بڑی بھاری غلطی ہے.محبت کا لفظ جس طرح انسانوں میں اطلاق پاتا ہے اور جو مفہوم اس کا انسانی تعلقات کی حیثیت میں سمجھا جاتا ہے وہ ہرگز ہرگز خدا پر اطلاق نہیں پاسکتا.اورنہ ہی وہ معنے اور مراد خدا پر صادق آتے ہیں.انسان میں محبت اور غضب کی قوت ہے مگر جومفہوم ان کا انسان کے متعلق بولتے

Page 380

وقت ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ خدا پرہرگز ہرگز اطلاق نہیں پاسکتا.یہ غلطی ہے.فطرتِ انسانی میں یہ رکھا گیا ہے کہ جب کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کے فراق سے اس کو صدمہ بھی پہنچتا ہے.ماں اپنے بچے سے محبت کرتی ہے، مگر اگر اس کا بچہ اس سے جدا ہو جاوے تو اس کو کیسا صدمہ ہوتا ہے اور کتنا دکھ اور رنج پہنچتا ہے.اسی طرح سے جوشخص کسی دوسرے پر غضب کرتا ہے اوّل وہ خود اپنے آپ میں اس کا صدمہ اور اثرپاتا ہے گویا دوسرے کو سزا دینے کے ساتھ ہی خود اپنی جان کو بھی سزا دیتا ہے.غضب ایک دکھ ہے جس کا اثر پہلے اپنی ہی ذات پر پڑتا ہے اور ایک قسم کی تلخی پیدا ہو کر طبیعت میں سے راحت اور چین نکل جاتا ہے مگر خدا ان باتوں سے پاک ہے.پس اس سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ ان الفاظ کا اطلاق اس رنگ میں جس رنگ میں ہم انسان پر کرتے ہیں اور جو مفہوم ان کا انسانی تعلق میں ہو سکتاہے اس رنگ میں خدا پر نہیں بول سکتے اور نہ ہی وہ خدا پر صادق آتے ہیں.اس واسطے ہم ان الفاظ کو پسندنہیں کرتے.یہ ان لوگوں کا بنایا ہوا لفظ ہے جو خدا کو محض انسانی حالت پر قیاس کرتے ہیں وہ پاک ذات ہے.جو اس کی رضا کے موافق چلتا ہے اس سے اس کا تعلق زیادہ سے زیادہ ہوتا جاتا ہے ہاں البتہ استعارہ کے رنگ میں محبت اور غضب کا لفظ خدا کے لئے بھی بولا جاسکتاہے.پس یادر کھو کہ یہ ایک دنیا کا کارخانہ ہے جس کے واسطے خدا تعالیٰ نے اپنی کامل حکمت سے موجود ہ نظام مقرر فرمایا ہے اور یہ اس نظام کے ماتحت اس طرح سے چل رہا ہے البتہ اس کے واسطے یہ الفاظ موزوں نہیں ہیں.محبت کا لفظ ایک درد اور گداز رکھتا ہے.اگر فرض بھی کر لیں کہ خدا محبت ہے اور اس کی صفت غضب بھی ہے ( انسانی حالت کے خیال سے ) تو پھر ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خدا کو بھی ایک قسم کی تکلیف اور رنج و دکھ ہوتا ہے.مگر یاد رکھو ایسے ناقص الفاظ خدا کی طرف منسوب نہیں کئے جاسکتے.سوال.یہ تو میں نے سمجھ لیا ہے مگر میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ خدا نے یہ خاصہ کیوں رکھ دیا کہ

Page 381

ادنیٰ اعلیٰ کا خادم ہو یا اس کی خوراک بنے اور اس کے سامنے ذلیل رہے؟ جواب.ہم نے تو ابھی بیان کیا ہے کہ خدا کی صفات محبت، رحم اور غضب کی تشریح ہم اس طور سے نہیں کرسکتے جیسا کہ انسانوں میں یہ صفات ہیں.انسانی حالت پر خدا کا قیاس کرنا سخت غلطی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا ایک وسیع نظام ہے جو اس نے اسی طرح بنایا ہے.اس نظام میں انسان اپنی حد سے زیادہ دست اندازی نہیں کر سکتا اور یہ مناسب نہیں کہ دقیق در دقیق مصالح خدائی میں دخل دے کر ہربات میں ایک سوال پیدا کر لے.یہ عالَم ایک مختصر عالَم ہے.اس کے بعد خدا نے ایک وسیع عالَم رکھا ہے جس میں اس نے ارادہ اور وعدہ کیا ہے کہ سچی اور ابدی خوشحالی دی جاوے گی.ہر دکھ جو اس جہان میں ہے اس کا تدارک اور تلافی دوسرے عالَم میں کر دی جاوے گی.جو کمی اس جہان میں پائی جاتی ہے وہ آئندہ عالم میں پوری کر دی جاوے گی.باقی رہا دکھ اور تکلیف، رنج و محن یہ تو ادنیٰ و اعلیٰ کویکساں برداشت کرنا پڑتا ہے اور یہ اس نظام عالَم کے قیام کے واسطے لازمی اور ضروری تھے.اگر وسیع نظر سے دیکھا جاوے تو کوئی بھی دکھ سے خالی نہیں.ہر مخلوق کو علیٰ قدر مراتب اس میں سے حصہ لینا ہی پڑتا ہے.البتہ کسی کو کسی رنگ میں ہے اور کسی کو کسی رنگ میں.اگر باز چڑیوں اور پرندوں کو کھاتا ہے تو شیر، چیتے اور بھیڑئیے انسان کے بچوں کو بھی کھا جاتے ہیں.سانپ بچھو وغیرہ بھی ستاتے ہیں.غرض یہ سلسلہ تو اس طرح سے چل رہا ہے.اس سے خالی کوئی بھی نہیں.البتہ ان کی تلافی اور تدارک کے واسطے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا عالم رکھا ہے.اسی واسطے تو قرآن شریف میں اس کانام مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ بھی ہے.ہو سکتا ہے کہ انسان خوشحال ہو مگر ممکن ہے کہ چرند پرند اس سے بھی زیادہ خوشحال ہوں.یہ دنیا ایک عالم امتحان ہے.اس کے حل کرنے کے واسطے دوسرا عالم ہے.اس دنیا میں جو تکالیف رکھی ہیں اس کا وعدہ ہے کہ آئندہ عالَم میں خوشی دے گا.اگر اب بھی کوئی کہے کہ کیوں ایسا کیا اور ایسا نہ کیا؟ اس کا یہ جواب ہے کہ وہ تحکم اور مالکیت بھی تو رکھتا ہے.اس نے جیسا چاہا کیا کسی کو اس کے اس کام پر اعتراض کی گنجائش اور حق نہیں.دوسری بات جو قابل غور ہے یہ ہے کہ چونکہ تکالیف انسانی، تکالیف حیوانی سے بڑھی ہوئی

Page 382

ہیں.(اسی واسطے آئندہ انسانی اجر بھی حیوانی اجر سے بڑھا ہوا ہوگا) تکالیف انسانی دو قسم کی ہیں.ایک تکالیفِ شرعیہ دوسری تکالیف قضا و قدر.تکالیف قضا و قدر میں انسان و حیوان مشترک اور قریباً برابر ہیں.اگر انسان کے ہاتھ سے حیوان مَرتے ہیں تو حیوانوں کے ہاتھ سے آخر انسان بھی تو مَرتے ہیں.اسی طرح اور اور تکالیف میں بھی ان کا آپس میں ایک قسم کا اشتراک پایاجاتا ہے.باقی تکالیفِ شرعیہ میں انسان کے ساتھ حیوانات کا کوئی اشتراک نہیں ہے.احکامِ شرعیہ بھی ایک قسم کی چُھری ہے جو انسانی گردن پر چلتی ہے.مگر حیوان اس سے بری الذّمہ ہیں.امور شرعیہ بھی ایک موت ہیں جو انسان کو اپنے اوپر وارد کرنی پڑتی ہے.پس اس طرح سے ان باتوں کو یکجائی طور سے دیکھنے سے صاف معلوم ہوگا کہ تکالیف انسانی تکالیف حیوانی سے بہت بڑھی ہوئی ہیں.تیسری بات جو قابل یاد ہے یہ ہے کہ انسانی حواس میں بہت تیزی ہے.انسان میں قوتِ احساس زیادہ پائی جاتی ہے.حیوانات یا نباتات اس کے مقابلے میں بہت کم احساس رکھتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ حیوانات کو اتنی عقل بھی نہیں دی گئی.عقل سے ہی شعور پیدا ہوتا ہے.حیوانات میں چونکہ عقل اور شعور بہت کم درجہ کا ہوتا ہے اسی واسطے ایک قسم کی مستی کی حالت میں رہتے ہیں.احساس کا مسئلہ زیادہ تر انسان میں ہی پایا جاتاہے.حیوانات میں یہ قویٰ ایسے کم درجہ کے ہیں کہ گویا نہ ہونے کے برابر ہیں.پس حیوانات ان تکالیف کا بہت کم احساس کرتے ہیں اور ممکن ہے کہ بعض اوقات بالکل ہی نہ کرتے ہوں.اب جائے غور ہے کہ دنیا میں ان تکالیف کا بوجھ کس پر زیادہ ہے آیا انسان پر یا حیوان پر؟ صاف ظاہر ہے کہ انسان ہی کو ان مشکلات دنیوی میں بہ نسبت حیوانات کے زیادہ حصہ لینا پڑتا ہے.سوال.آپ نے جو کچھ بیان فرمایا میں نے سمجھ لیا.اب یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ حیوانات کو بھی آئندہ عالَم میں کوئی بدلہ دیا جاوے گا؟ جواب.فرمایا.ہاں ہم مانتے ہیں کہ علیٰ قدر مراتب سب کو ان کی تکالیف دنیوی کا بدلہ دیا جاوے گا اور ان کے دکھوںاور تکالیف کی تلافی کی جاوے گی.

Page 383

سوال.توپھر اس کا یہ لازمی نتیجہ ہوگا کہ وہ حیوانات جن کو ہم مارتے ہیں ان کو مُردہ نہیں بلکہ زندہ یقین کریں.جواب.فرمایاکہ ہاں یہ ضروری بات ہے وہ فنا نہیں ہوئے ان کی روح باقی ہے وہ حقیقتاً نہیں مَرے بلکہ وہ بھی زندہ ہیں.سوال.بائبل میں لکھا ہے کہ آدم یا یوں کہیے کہ پہلا انسان جیحون سیحون میںپیداہواتھا اوراس کا وہی ملک تھا توپھر کیا یہ لوگ جو دنیا کے مختلف حصوں امریکہ، آسٹریلیا وغیرہ میں پائے جاتے ہیں.یہ اس آدم کی اولاد سے ہیں؟ جواب.فرمایا.ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں اورنہ ہی اس مسئلہ میں ہم توریت کی پیروی کرتے ہیں کہ چھ سات ہزارسال سے ہی جب سے یہ آدم پیدا ہواتھا اس دنیا کا آغاز ہوا ہے اور اس سے پہلے کچھ بھی نہ تھا اورخداگویا معطّل تھا.اورنہ ہی ہم اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ تمام نسل انسانی جو اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں موجو د ہے یہ اسی آخری آدم کی نسل ہے.ہم تو اس آدم سے پہلے بھی نسل انسانی کے قائل ہیں جیسا کہ قرآن شریف کے الفاظ سے پتہ لگتا ہے.خدا نے یہ فرمایا کہ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً (البقرۃ:۳۱) خلیفہ کہتے ہیں جانشین کو.اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آدم سے پہلے بھی مخلوق موجود تھی.پس امریکہ اورآسٹریلیا وغیرہ کے لوگوں کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس آخری آدم کی اولاد میں سے ہیں یا کہ کسی دوسرے آدم کی اولاد میں سے ہیں.آپ کے سوال کے مناسب حال ایک قول حضرت محی الدین ابنِ عربی صاحب کا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ میں حج کرنے کے واسطے گیا تووہاں مجھے ایک شخص ملا جس کو میں نے خیال کیا کہ وہ آدم ہے.میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تو ہی آدم ہے؟ اس پر اس نے جواب دیا کہ تم کون سے آدم کے متعلق سوال کرتے ہو؟ آدم تو ہزاروں گذرچکے ہیں.سوال.کیا حضور مسئلہ ارتقا کے قائل ہیں یعنی یہ کہ انسان نے ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت میں ترقی کی ہے

Page 384

پہلے سانپ بچھو وغیرہ سے ترقی کرتے کرتے بندر بنا اور بندر سے انسان بنا اور روح کس وقت پیدا ہوئی ؟ جواب.فرمایا.ہمارا یہ مذہب نہیں کہ انسان کسی وقت بندر تھا مگر آہستہ آہستہ دُم بھی کٹ گئی اورپشم بھی جاتی رہی اورترقی کرتے کرتے انسان بن گیا.یہ ایک دعویٰ ہے جس کا بار ثبوت اس دعویٰ کے مدعی کے ذمے ہے چاہیے کہ کوئی ایسا بند رپیش کیا جاوے جو آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے انسانی حالت میں آجاوے.ہم ایسے بے دلیل قصے کہانیوں پر کیوں کر ایمان لا سکتے ہیں؟ البتہ یہ تو ہم مانتے ہیں کہ آدم بہت سے گذرے ہیں مگر موجودہ حالات کے ماتحت جو ہم روز مشاہدہ کرتے ہیں کہ انسان سے انسان پیدا ہوتا ہے.بندر سے انسان یا انسان سے بندر کبھی کسی نے پیدا ہوتا نہیں دیکھا ہوگا.یہ تو ایک ناولوں کا قصہ ہے.ہمیشہ نوع سے نوع ہی پیدا ہوتی ہے.خدا نے اپنا قانون ہماری آنکھو ں کے سامنے رکھا ہوا ہے کہ گدھے سے گدھا اور گھوڑے سے گھوڑا.بندر سے بندر پیدا ہوتا ہے.اب اس کے خلاف جو کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ بند ر سے انسان بھی پیدا ہوتا ہے اس کو اپنے دعوے کی دلیل بھی پیش کرنی چاہیے.یہ کہہ دینا کہ شاید ایسا ہوگیا ہو.شاید کے کیا معنے؟ ہمارے ساتھ تواللہ تعالیٰ نے ایک مشاہدہ دلیل کے طورسے رکھا ہوا ہے اس کے خلاف کہنے والوں کو کوئی بیّن دلیل پیش کرنی چاہیے ورنہ ظنی باتوں اور صرف دعوئوں سے کوئی اَمر حجت نہیں ہوسکتا.روح ایک مخلوق چیز ہے.اسی عنصری مادے سے خدا اسے بھی پیدا کرتا ہے (جیسا کہ مفصل طور سے اس اَمر کو ہم نے اس تازہ تصنیف کتاب چشمہ معرفت میں بیان کیا ہے) روح انسانی باریک اورمخفی طورسے نطفہ انسانی میں ہی موجود ہوتی ہے اور وہ بھی نطفہ کے ساتھ ساتھ ہی آہستگی سے نشوونما کرتی اورترقی پاتی پاتی چوتھے مہینے کے انجام اور پانچویں مہینے کے ابتدا میں ایک بیّن تغیّر اور نشوونما پاکر ظہور پذیر ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنی پاک کلام میں فرماتا ہے کہ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ(المؤمنون :۱۵) یہ درست نہیں جیسا کہ جو آریہ بتاتے ہیں کہ روح بھی خدا کی طرح ازلی ابدی ہے.اس اعتقاد پر اتنے شبہات پڑتے ہیں کہ پھر خدا خدا ہی نہیں رہتا.روح ایک لطیف جوہر ہوتا ہے جو مخفی طور سے

Page 385

انسان کی پیدائش کے ساتھ ساتھ پیدا ہوتا اور نشوونما پاتا ہے.مثال کے طورپر ایک گولر کے پھل کو لو.جب وہ کچا ہوگا تواس میں ایک قسم کے نامکمل حالت میں زندہ جانور پائے جاویں گے مگر جو نہی کہ وہ پک کرتیار ہوگا اس میں سے جانور چلتے پھر تے نظر آویں گے اوریہاں تک کہ پَر لگ کراُڑنے بھی لگ جاویں گے.اس کے سوا اور بھی کئی درختوں کے پھل ہیں جن میں اس قسم کے مشاہدات پائے جاتے ہیں.غرض ہمارے پاس توہمارے دعوے کا ثبوت ہے.ثابتہ سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا.اصل میںان پھلوں میں ایک قسم کا مادہ اندر ہی اندر موجود ہوتا جو پھل کے نشوونما کے ساتھ ساتھ نشوونما کرتا اورترقی پاتا ہے.سوال.سپریچولزم والوں کی رائے ہے کہ زندگی چاند سے اتری اور عقل مشتری سے اورچاند زمین سے بنا.ابتدا میں زمین بہت نرم تھی.زمین کا ایک ٹکڑا اڑ کر آسمان پر چلا گیا اور وہ چاند بن گیا.اصل میں زندگی زمین ہی سے نکلی.زمین سے چاند میں گئی اورچاند سے پھر انسان میں اترتی ہے.اس میں آپ کا اعتقاد کیا ہے ؟ جواب.فرمایاـ.چاند، سورج اور اور سیاروں کی تاثیرات کے ہم قائل ہیں.ان سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے اوربچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اس وقت بھی ان کی تاثیرات کا اثر بچے پر ہوتا ہے.یہ اَمر شریعت کے خلاف نہیں.اسی واسطے ہمیں ان کے ماننے میں عذر نہیں.نباتات میں چاند کی روشنی کا اثر بیّن طورسے ظاہر ہے.چاند کی روشنی سے پھل موٹے ہوتے ہیں.ان میں شیرینی پیدا ہوتی ہے اوربعض اوقات لوگوں نے اناروں کے چٹخنے کی آواز تک بھی سنی ہے جو چاند کی روشنی کے اثر سے پھوٹتے ہیں اس سے زیادہ جو حصہ پیچیدہ اورثابت شدہ نہیں اس کے ماننے کے واسطے ہم تیا ر نہیں ہیں.قرآن شریف میں صاف بیان کیا گیا ہے کہ چاند، سورج اور تمام سیارے انسان کے خادم اور مفید مطلب ہیں اور ان میں انسانی فوائد مرکوزہیں.پس ہم اس بات کے ماننے میں کوئی حرج نہیں پاتے کہ جس طرح سے نباتات سے ہمیں فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح ان تمام سیاروں سے بھی ہم فائدہ

Page 386

اٹھاتے ہیں.اب اگر یہ ثابت ہوجاوے کہ عقل کو مشتری سے تعلق ہے تو اس کے ماننے کے واسطے بھی ہم تیار ہیں.اتنا سن کر پروفیسر موصوف نے عرض کیا کہ میں تو خیال کرتا تھا کہ سائنس اورمذہب میں بڑاتضاد ہے جیسا کہ عام طورسے علماء میں مانا گیا ہے مگر آپ نے تواس تضاد کو بالکل اٹھا دیا ہے.فرمایا.یہی تو ہمارا کام ہے اور یہی توہم ثابت کررہے ہیں کہ سائنس اورمذہب میں بالکل اختلاف نہیں بلکہ مذہب بالکل سائنس کے مطابق ہے اور سائنس خواہ کتنی ہی عروج پکڑ جاوے مگر قرآن کی تعلیم اور اصول اسلام کو ہرگز ہرگز نہیں جھٹلاسکے گی.سوال.مکھیوں یا ادنیٰ قسم کے جانوروں میں جو چیز پائی جاتی ہے.اس کو کس نام سے تعبیر کیا جاوے گا؟ جواب.روح تین قسم کی ہوتی ہے.روح نباتی.روح حیوانی.روح انسانی.ان تینوں کو ہم برابر نہیں مانتے.ان میں سے حقیقی زندگی کی وارث اورجامع کمالات صرف انسانی روح ہے.باقی حیوانی اور نباتی روح میں بھی ایک قسم کی زندگی ہے.مگر وہ انسانی روح کی برابری نہیں کرسکتی.نہ ویسے مدارج حاصل کرسکتی ہے.نہ کمالات میں انسانی روح کی برابر ی کرسکتی ہے.کچھ تشابہ ہوتو اس باریک بحث میں ہم پڑنا مناسب نہیں سمجھتے.ہوسکتا ہے کہ بعض خاص خاص صفات میں یہ روحیں انسانی روح سے مشابہت رکھتی ہوں.مگر جس طرح انسا ن میں اوران میں ظاہری اختلاف اورفرق ہے اسی طرح اختلاف روحانی بھی پایا جاتا ہے.بلکہ یہاں تک بھی مانا گیا ہے کہ بعض نباتات میں بھی ایک قسم کا شعور پایا جاتا ہے.ایک بانس کا درخت گھر کی چھت کے نیچے لگایا جاوے مگر جب بڑھتے بڑھتے وہ چھت سے قریب ایک بالشت کے رہ جاوے گا تو وہ اپنا رخ بدل لے گا اوردوسری طرف کو بڑھنا شروع کردے گا.ایک اور قسم کی نباتی بوٹی ہے جس کو پنجاب میں چھوئی موئی کہتے ہیں.وہ انسان کا ہاتھ لگتے ہی سمٹ کر اکٹھی ہو جاتی ہے.یہ باتیں پرانی اچھی اچھی طبیعات کی کتابوں میں لکھی ہیں اور نیز تجربہ سے بھی ثابت ہیںمگر ان کے پیچھے بہت زیادہ نہ پڑنا چاہیے.وہ

Page 387

شعر کیا ہی موزوں ہے کہ ؎ تو کار زمیں را نکو ساختی کہ با آسماں نیز پرداختی ان کے دقیق در دقیق مباحثات میں پڑکر ان کی تفصیلات کی جستجو میں وقت ضائع کرنا ٹھیک نہیں.سوال.میں ایک روزگرجامیں گیا تھا وہاں پادری صاحب نے لیکچر میں بیان کیا کہ’’انسان ایک بالکل ذلیل ہستی ہے اورگندہ کیڑا ہے.یہ روز بروز نیچے ہی نیچے گرتا ہے اورترقی کے قابل ہی نہیں.اسی واسطے اس کی نجات اورگناہ سے بچانے کے واسطے خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو کفارہ کیا ‘‘مگر میں جانتا ہوں کہ انسان نیکی میں ترقی کرسکتا ہے.میرا یہ بچہ اس وقت اگر بے علمی کی وجہ سے کوئی حرکت ناجائز کرے توپھر ایک عرصہ بعد جب اسے عقل آوے گی اوراس کا علم ترقی کرے گا تویہ خود بخود سمجھ لے گا کہ یہ کام بُراہے اس سے پرہیز کرکے اچھے کام کرے گا.‘‘ حضور کا اس میں کیا اعتقاد ہے ؟ جواب.فرمایا.انسان نیک ہے.نیکی کرسکتا ہے اورترقی کرنے کے قویٰ اس کو دیئے گئے ہیں.نیکی میں ترقی کرکے انسان نجات پاسکتا ہے.سوال.یہ لوگ کہتے ہیںکہ انسان لاکھ نیکی کرے مگر وہ برباد ہے بجز اس کے کہ کفّارہ مسیحؑ پرایمان لاوے.آپ اس میں کیا فرماتے ہیں؟ جواب.انسان کو عمل اور کوشش کی ضرورت ہے.کفّارہ کی کوئی ضرورت نہیں.جیسا جسمانی نظام ہے ویسا ہی روحانی نظام ہے.نظام جسمانی میں ایک کاشتکار کی مثال ہی کو لے لو.وہ کس محنت سے قلبہ رانی کرتا ہے اوربیج بوتا اور پانی دینے وغیرہ کی محنت برداشت کرتا ہے.کیا اسے کسی کفّارہ کی ضرورت ہے؟ نہیں بلکہ اسے محنت اورعمل کی ضرورت ہے.اس بات کو ہم مانتے ہی نہیں کہ بجز کفّارہ کے کوئی راہِ نجات ہی نہیں.کفّارہ تو بلکہ انسانی ترقیات کی راہ میں ایک روک اورپتھر ہے.پاکیزگی سے یہ مراد ہے کہ انسان کو جو اس کے جذباتِ نفسانیہ خدا سے روگرداں کرکے اپنی خواہشات

Page 388

میں محوکرنا چاہتے ہیں ان کا مغلوب نہ ہو.اورکوشش کرے کہ خدا کی مرضی کے موافق اس کی رفتار ہو.یہاں تک کہ اس کا کوئی قول فعل خدا کی رضامندی کے بغیر سرزد ہی نہ ہو.خدا قدوس اور پاک ہے وہ اپنی صفات کے مطابق ہی انسان کو بھی چلانا چاہتا ہے.وہ رحیم ہے انسان سے بھی رحم چاہتا ہے.وہ کریم ہے انسان سے بھی کرم چاہتا ہے.خدا کی صفات خدا کے قانون قدرت میں ظاہر ہیں جسمانی طور سے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا مدت ہائے دراز سے چلی آتی ہے.ان کو اناج، پانی، لباس، روشنی وغیرہ تمام حوائج ضروریہ اورلازم انسانیہ ہمیشہ سے بہم پہنچاتا چلاآتا ہے اورہمیشہ ہی اس کے رحم اورکرم کی صفات اوراسماءِ حسنہ کے تقاضے ساتھ ساتھ مخلوق کی دستگیری کرتے چلے آئے ہیں.پس غرض یہ ہے کہ خدا انسا ن کو اپنی صفات کے رنگ میں رنگین کرنا چاہتا ہے.اس کے بعد پروفیسر اور لیڈی نے حضرت اقدسؑ کا شکریہ اداکیا اور کہا کہ ہم مشکور ہیں کہ آپ نے گفتگو کی عزت بخشی اورہماری معلومات میں ایک مفید اضافہ فرمایا اور ہمارا وقت بہت اچھی طرح سے گذرا.۱ ۱۹؍مئی ۱۹۰۸ء عبدالحکیم پٹیالوی کا ذکر عبدالحکیم کی کتاب کا ذکر تھا کہ بہت سے اعتراض کئے ہیں.فرمایا.ہم نے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے.بحثیں ہوچکیں.کتابیں مفصل لکھی جاچکی ہیں.اب بحث میں پڑنا فضولیوں میں داخل ہے.فرمایا.ہر ایک شخص کی فطرت جدا ہو جاتی ہے.ہمیں توسمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح کوئی شخص ایک آدمی کی بیس سال مریدی کرنے کے بعد اوراس کے ماتحت تعلیم حاصل کرنے کے بعد اور اس سے فائدہ اٹھانے کے بعد پھر اس کے حق میں ایسی گند ی گالیاں بول سکتا ہے.ہماری توسمجھ میں نہیں آسکتا.مگر ہر ایک شخص کی فطرت جدا ہوتی ہے.۱ الحکم جلد ۱۲نمبر ۳۵مورخہ ۳۰؍مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۴تا ۷

Page 389

عرب صاحب عبدالمحی نے عرض کیا کہ میں پٹیالہ سے آیا ہوں.عبدالحکیم نے آپ کے متعلق پیشگوئی کی ہے کہ آنے والی ۲۱؍ساون کو آپ کی وفات ہوجاوے گی.لیکن پٹیالہ کے لوگ خوب جانتے ہیں کہ وہ ایک جھوٹاآدمی ہے.حضرت نے فرمایا.كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ (بنی اسـرآءیل :۸۵) اللہ تعالیٰ ظاہر کردے گا کہ راست باز کون ہے؟ دعویٰ رسالت کی ماہیت فرمایا.ہم نے ان معنوں میں کوئی دعویٰ رسالت نہیں کیا جیسا کہ ملّاں لوگ لوگوں کو بہکاتے ہیں اورجو کچھ ہمارادعویٰ ملہم اورمنذر ہونے کا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی متابعت کا ہے وہی ہمیشہ سے ہے آج کوئی نئی بات نہیں.چوبیس سال سے یہ الہام ہے جَرِیُّ اللہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآءِ.۱ ۲۰؍مئی ۱۹۰۸ء (بوقتِ عصر ) صلح کا فائدہ صلح سے بہت فائدہ ہوتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفّار سے صلح کی.اس کا نتیجہ یہ ہواکہ جب جنگ موقوف ہوئی تو مسلمانوں کے ساتھ کفّار کا میل جول ہوگیا اور انہیں اسلام کی صداقتوں پر نظر کرنے کا موقع مل گیا.پھر ان میں سے کئی سعید روحیں اسلام کے لئے تیار ہوگئیں.خدا کا ہاتھ سب سے بڑھ کر طاقتور ہے.پنجاب کے مسلمانوں کے لئے انگریزوں کا وجود ایک نعمت ہے.اگر انگریز نہ ہوں توجو کچھ نظارہ ہوتا اس کے تصور سے جی گھبراتا ہے.مسلمانوں کو عیسائیوں سے باوجود اختلاف کے ایک قسم کا اتحاد ہے.مگر ہندوتو بالکل الگ ہیں.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے انتقام سے کام نہیں لیا.کوئی پوچھے کہ کتنے سو سؤروں ۱بدر جلد ۷نمبر ۱۹،۲۰ مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۷

Page 390

کو ہلاک کردیا.پھر کپڑے بیج کر تلواروں کے مول لینے کا حکم دیا.۱ بلاتاریخ پٹواریوں کے لئےزمینداروں کے نذرانے ایک شخص نے جو اپنی جماعت میں داخل ہیں اور پٹواری ہیں بذریعہ خط حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ پٹواریوں کے واسطے کچھ رقوم گورنمنٹ کی طرف سے مقرر ہیں لیکن عام رسم ایسی پڑ گئی ہے کہ پٹواری بعض باتوں میں اس سے زیادہ یا اس کے علاوہ بھی لیتے ہیں اور زمیندار بخوشی خاطر خود ہی بغیر مانگے کے دیئے جاتے ہیں آیا اس کا لینا جائز ہے یا کہ نہیں؟ فرمایا.اگر ایسے لینے کی خبر باضابطہ حُکّام تک بالفرض پہنچ جائے اور بموجب قانون اس پر فتنہ اٹھنے کا خوف ہوسکتا ہوتو یہ ناجائز ہے.حضور کی نظموں کی ریکارڈنگ ایک شخص نے عرض کیا کہ کیا جائز ہے کہ حضور کی نظمیں فونوگراف میں بند کرکے لوگوں کو سنائی جائیں ؟ فرمایا.اعمال نیت پر موقوف ہیں.تبلیغ کی خاطر اس طرح سے نظم فونوگراف میں سنانا جائز ہے.کیونکہ اشعار سے بسا اوقات لوگوں کے دلوں کو نرمی اور رقّت حاصل ہوتی ہے.۲ ۲۳ ؍مئی ۱۹۰۸ء (بمقام لاہور.قبل نماز ظہر ) تبلیغِ سلسلہ کے لیے قناعت شعار آدمیوں کی ضرورت ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور سے کچھ کرکے دکھانے والے ہوں.علمیت کا زبانی دعویٰ کسی کام کا نہیں.ایسے ہوں بدر جلد ۷نمبر ۱۹،۲۰ مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۷ ۲ بدر جلد ۷ نمبر ۱۹،۲۰ مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۸

Page 391

کہ نخوت اورتکبر سے بکلّی پاک ہوں اور ہماری صحبت میںرہ کر یا کم ازکم ہماری کتابوںکا کثرت سے مطالعہ کرنے سے ان کی علمیت کامل درجہ تک پہنچی ہوئی ہو.البتہ شیخ غلام احمد اس کام کے واسطے اچھا آدمی معلوم ہواہے.اس کے کلام میں بھی تاثیر ہے اور اخلاص ومحبت سے اس نے اپنے اوپر اس شدت گرمی میں اتنا وسیع دورہ کرنے کا بوجھ اٹھایا ہے.کچھ خدا کی حکمت ہے کہ لوگ اس کا کلام سننے کے واسطے جمع بھی ہوہی جاتے ہیں ایک جگہ اس کو پتھر بھی پڑے مگر خدا کی قدرت سے وہ پتھر بجائے ان کے کسی دوسرے کولگااوروہ زخمی ہوا.تبلیغ سلسلہ کے واسطے ایسے آدمیوں کے دوروں کی ضرورت ہے مگر ایسے لائق آدمی مل جاویں کہ وہ اپنی زندگی اس راہ میں وقف کردیں.آنحضرتؐکے صحابہؓ بھی اشاعتِ اسلام کے واسطے دور دراز ممالک میں جایا کرتے تھے.یہ جوچین کے ملک میں کئی کروڑ مسلمان ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی صحابہ ؓ میں سے کوئی شخص پہنچا ہوگا.اگر اسی طرح بیس یا تیس آدمی متفرق مقامات میں چلے جاویں توبہت جلدی تبلیغ ہوسکتی ہے مگر جب تک ایسے آدمی ہمارے منشا کے مطابق اورقناعت شعارنہ ہوں.تب تک ہم ان کو پورے پورے اختیارات بھی نہیں دے سکتے.آنحضرتؐکے صحابہ ؓ ایسے قانع اورجفاکش تھے کہ بعض اوقات صرف درختوں کے پتّوں پر ہی گذر کرلیتے.تمام ہندوستان ہمارے دعاوی سے ایسا بے خبر پڑا ہے کہ گویا کسی کو خبر ہی نہیں.میرے نزدیک یہ مدرسہ یاکالج وغیر ہ کا بنانا اوّل سلسلہ کی مضبوطی پر موقوف ہے.اوّل چاہیے کہ سلسلہ میں ایسے لوگ ہوں جو سلسلہ کی ضروریات کی مددکرنے والے ہوں.جب سلسلہ کی ضروریات مثل لنگر وغیرہ ہی پوری نہیں ہوتیں تواور کاموں میں بہت توجہ کرنا بھی بے فائدہ ہے.اگر کچھ ایسے لائق اور قابل آدمی سلسلہ کی خدمات کے واسطے نکل جاویں جو فقط لوگوں کو اس سلسلہ کی خبر ہی پہنچادیں تو بھی بہت بڑے فائدہ کی توقع کی جاسکتی ہے.

Page 392

پروفیسر ریگ اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا تذکرہ مسٹرریگ (جس کے نام نامی سے الحکم کے ناظرین کو میں قبل ازیں بذریعہ دو مضامین بطورسوال وجواب انٹر وڈیوس کراچکا ہوں ان کے متعلق حضرت اقدسؑنے فرمایا کہ دیکھو! وہ ہمارے پاس آیا تو آخر کچھ نہ کچھ توتبادلہ خیالات کرہی گیا.اس پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب جن کوتبلیغ سلسلہ احمدیہ کی ایک قسم کی لَو اور دھت لگی ہوئی ہے اوربہت کم ایسے مقام ولایت میں ہوں گے جہاں کے محقق انگریزوں اوراخبارات کے ایڈیٹران وغیرہ کی اطلاع پاکر انہوں نے ان معاملات میں خط وکتابت نہ کی ہو اور مسیح موعود علیہ الف الف الصلوٰۃ والسلام کے دعاوی کی تبلیغ ان کو نہ کی ہو.امریکہ کے ڈوئی کی حسرت ناک تباہی اورلنڈن کے پگٹ کی مایوسانہ نامرادی بھی حضرت مفتی صاحب ممدوح ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہیں.انہوں نے جس طرح ڈوئی اور پگٹ کا بیڑا غرق کر دیا اسی طرح کئی سعید روحوں کے واسطے باعث ہدایت بھی آپ ہی ہوئے اورآپ ہی کی سچی مخلصانہ کوششیں اورجوشِ تبلیغ حق کا یہ نتیجہ ہوا کہ یورپ اور امریکہ کے بعض انگریزوں اورلیڈیوں نے حضرت اقدسؑ کی صداقت کو مان لیا اور اپنے خیالات فاسدہ سے توبہ کی.غرض مفتی صاحب موصوف کسی تعریف کے محتاج نہیں.ساری احمدی دنیا ان کے نام نامی سے واقف اوران کے اخلاص صدق و وفا سے آگاہ ہے.یہ شخص جو پروفیسر ریگ کے نام نامی سے مشہور ہے یہ بھی آپ ہی کی سعی اور جوش کا نتیجہ ہے.آپ نے آج کے تذکرہ پر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں عرض کی کہ حضور اس کے خیالات میں حضور کی ملاقات کے بعد عظیم الشان انقلاب پیدا ہوگیا ہے.چنانچہ پہلے وہ ہمیشہ جب اپنے لیکچروں میں اجرامِ سماوی وغیرہ کی تصاویر دکھاتا اور کبھی مسیح کی مصلوب تصویر پیش کیا کرتا تھا تویہ کہا کرتا تھا کہ یہ مسیحؑ کی تصویر ہے جس نے دنیا پر رحم کرکے تمام دنیا کے گناہوں کے بدلے میں ایک اپنی اکلوتی جان خداکے حضور پیش کی اور تمام دنیا کے گناہوں کا کفّارہ ہو کر دنیا پر اپنی کامل محبت اور رحم کا ثبوت دیا مگر اب جبکہ اس نے حضور سے ملاقات کی اورپھر لیکچر دیا تومسیحؑ کی مصلوب تصویر دکھاتے ہوئے صرف یہ الفاظ کہے کہ یہ تصویر صرف عیسائیوں کے واسطے موجب خوشی ہوسکتی ہے سچی تعریف اورستائش کے لائق وہی سب سے بڑا

Page 393

خدا ہے.پہلے اپنے لیکچر میں بیان کیا کرتا تھا کہ نسل انسانی آہستہ آہستہ ترقی کرکے ادنیٰ حالت سے بندر اور پھر بند رسے ترقی پاکر انسان بنا.مگر اس دفعہ کے لیکچر میں اس نے صاف اقرارکیا کہ یہ ڈارون کا قول ہے.اگر چہ اس قابل نہیں کہ اس سے اتفاق کیا جاوے بلکہ انسان اپنی حالت میں خود ہی ترقی کرتا ہے.غرضیکہ اس پر بہت بڑا اثر ہواہے اوروہ حضو ر کی ملاقات کے بعد ایک نئے خیالات کا انسان بن گیا ہے اور ان خیالات کو جرأت سے بیان کرتا ہے.پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اصل تقریر کی طرف رجوع کیا اورفرمایاکہ ابھی ایسے لمبے سفروں کی چنداں ضرورت نہیں کہ ممالک یورپ اورامریکہ میں جاویں بلکہ ابھی تو خود ہندوستان ہی اس بات کا ازبس محتاج ہے.؎ تو کار زمیں را نکو ساختی کہ با آسماں نیز پرداختی ان ممالک میں جانا ایسے لوگوں کا کام ہے جو ان کی زبان سے بخوبی واقف ہوں اوران کے طرزِبیان اور خیالات سے خوب آگاہ، سفر کے شدائد اٹھاسکیں اور ان کی صحت کی حالت بھی بہت اچھی ہو.بصورت موجودہ یہ کام بھی بہت بڑا بھاری ہے کہ چند ایسے آدمی ہوں کہ وہ اسی ملک میں اچھی طرح سے گائوں گائوں پھر کر لوگو ں کو ہماری بعثت کی اطلاع دے دیں.اسلام کی زندگی کا ثبوت دینے کے لئے مامور کی ضرورت کسی لیکچر کے متعلق ذکرتھا کہ انہوں نے اپنے لیکچر میں بیان کیا کہ’’ اسلام بذریعہ اخلاق کے پھیلا ہے نہ تلوار سے.جنہوں نے اپنے اخلاق کریمہ کی وجہ سے دنیا میں اسلام کو پھیلایا ہے وغیر ہ.‘‘ مگر موجودہ زمانہ کے متعلق بجز خاموشی کچھ پیش نہیں کرسکتے.فرمایا.تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ١ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ (البقرۃ:۱۳۵) ان اولیاء اور بزرگوں کو اس موجودہ زمانہ سے تعلق ہی کیا؟ وہ اپنے وقت پر آئے اوراپنا کام کرکے چلے گئے.اب زمانہ موجودہ میں بھی کسی مجدّدیا خادم دین کی ضرورت ہے یا کہ بخیال ان کے یہ زمانہ دجالوں

Page 394

ہی کے آنے کا زمانہ ہے؟ ضرورت کا احساس تودلوں میں موجود ہے.حالات موجودہ پکار کر کہہ رہے ہیں کہ کسی مصلح کی ضرورت ہے.چنانچہ آج ہی پیسہ اخبار میںایک انگریز کا مضمون تھا.اس نے کسی جگہ پر اپنے لیکچر میں بیان کیا کہ زمانہ پکار کر کہہ رہا ہے کہ ہندو، مسلمان، عیسائیوں اوریہودیوں کوا تفاق کی ضرورت ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ ’’مسلمان، یہودی اورنصرانی سب کے سب بلا امتیاز انسانی گروہ میں اتحاد واتفاق دیکھنے کے مشتاق ہیں اور مہدی موعود کے آنے کا انتظار دیکھ رہے ہیں جو کہ دیر یا سویر عالَم وجود میں آکر تمام انسانوں میں یگانگت کا رشتہ قائم کردے گا.میں اس مہدی کے متعلق اپنی ذاتی رائے یہ رکھتا ہوں کہ وہ اہل قلم میں سے ہوگا اور اسی زبردست آلہ کے ذریعہ سے اقوامِ عالم کے دلوں میں تخم یگانگت بوسکے گا.‘‘۱ غرض اس اَمر کا احساس توہر ملک وملّت کے لوگوں میں پایاجاتا ہے مگر چاہیے تھا کہ ضرورت کے مطابق کوئی پیدا بھی ہوتا اوروہ اسلام کا نوراور برکات دکھا کر زندہ معجزات سے اسلام کے فیوض اورزندگی کا ثبوت دیتا نہ یہ کہ اس زمانہ پر پہنچ کر خاموشی اختیار کی جاتی اور کہا جاتا ہے کہ اب اسلام زندہ نہیں بلکہ مُردہ ہے اورکوئی ولی یا بزرگ موجود نہیں جو نشانات دکھا کر اسلام کی زندگی کا ثبوت دے.ماناکہ اخلاقِ فاضلہ بھی کسی مذہب کی صداقت کی کسی قدر دلیل ہوسکتے ہیں اور ان کا بھی کسی قدر اثر بیرونی لوگوں پر ہوتا ہے.مگر صرف اخلاقِ فاضلہ ہی حقیقی اورزندہ ایمان نہیں دے سکتے بلکہ وہ درجہ ایمان جو انسان کوخدا تعالیٰ پر کامل ایمان عطاکرتا ہے اور گناہ سوز زندگی کا آغا ز ہوتا ہے.وہ صرف خدا کے اپنے تازہ نشانوں سے ہی پیدا ہوتا ہے جو وہ اپنے ماموروں کی معرفت دنیا میں ظاہر کرتا ہے.ہندوئوں اورمسلمانوں میں خوشگوار تعلقات کی خواہش فرمایا.موجود ہ صورت میں تو بہ نسبت مسلمانوں کے ہمیں ہندوئوں سے زیادہ امید نظر آتی ہے کیونکہ وہ تعلیم کی ترقی کی وجہ سے اور کچھ تجربہ کی وجہ ۱پیسہ اخبار ۲۲؍مئی ۱۹۰۸ء

Page 395

سے بہت کچھ سمجھ گئے ہیں.ہماراتو خود کبھی بھی یہ منشانہیں کہ ان لوگوں کے مسلّمہ بزرگوں کو گالیاں دی جائیں یا ان کی عزّت نہ کی جاوے اور اسی طرح ہم ان سے بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہ لوگ بھی اتنا ہی کریں خواہ ایمان نہ لاویں مگر ان کو بُرا بھی نہ کہیں اورکہہ دیں کہ سچا مانتے ہیں.یہ (جو) موجودہ زمانہ میں پھوٹ اورنفاق کا سلسلہ جاری ہے اس کو بندکردیں اوربالکل ممانعت کردیں کہ باہم ایک دوسرے مذہب کی مخالفت میں ہتک آمیز کلمات اورکتابیں بالکل بند کردی جاویں اور چھاپی ہی نہ جاویں اور ایک ایسی ہوا چل جاوے کہ آپس میں محبت ہو اور اتفاق بڑھے.جس طرح سے ایک ہوا پہلے چل گئی تھی کہ بچہ بچہ بھی اسلام سے متنفّر تھا.اس طرح کی ایک ایسی ہواچل جاوے کہ باہمی اخوت اور اتحاد بڑھے اور نفاق اوربغض وتعصب دلوں سے نکل جاوے.عقیدت اوراعتقاد فرمایا.قاعدہ کی بات ہے انسان کو ایک مخفی اَمر پر جتنا اعتقاد ہوتا ہے اس پر اتنا اعتقاد نہیں رہتا جب وہ ظاہر ہوکر سامنے آجاوے.مثلاً ان ہندوئوں کے دیوی دیوتا جتنے بھی ہیں اور ان پر ان کو کامل اعتقاد ہے اگر وہ ان کے روبر وآجاویں توان لوگوں کے دلوں میں ہرگز ان کی اتنی وقعت نہ رہے.یہ نبیوں ہی کا کام ہے کہ وہ اپنی شکل بھی دکھادیتے ہیں اوراپنی عظمت بھی دلوں میں قائم کرجاتے ہیں.مسیحؑ جن کو آجکل لوگ خدا مانتے ہیں اگر وہ یہاں آجاویں اورلوگوں کے حلقے میں بیٹھیں توممکن نہیں کہ ان کی پرانی خدائی کی عظمت بھی لوگوں کے دلوں میں رہ سکے چہ جائیکہ وہ کچھ اورخدائی کا دبدبہ بٹھاسکیں کیونکہ لوگوں نے جس خیال سے ان کو خدا تسلیم کیا ہواہے ظاہر ہوجانے پر ان میں وہ باتیں نہ پاکر ضرور ہے کہ انکار کردیں.قاعدہ کی بات ہے کہ انسان جب کسی خاص شخص کے متعلق کوئی اعتقاد پیدا کرتا ہے تو ساتھ ہی اس کی ایک خیالی تصویر بھی اس کے ذہن میں آجاتی ہے.جب تک وہ اس کی نظروں سے غائب تھی جب تک توخیر مگر جب وہ شخص یا چیز اس کے سامنے آجاتی ہے اورانسان اس کو اپنے خیالی بُت یا تصویر کے خلاف پاتا ہے تواس کے دل سے اس کی عظمت اُٹھ جاتی ہے یا کم ازکم وہ عزت نہیں رہتی.چنانچہ یہی حال ان لوگوں کے مصنوعی خدا کا ہے.

Page 396

اس کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ اصل میں وہ شخص ان کے دل کی خیالی تصویر کے مطابق نہیں ہوتا.جو کچھ انہوں نے سمجھاہوتا ہے وہ نہیں بلکہ کچھ اور ہی پاتے ہیں.توبداعتقاد اوربدظن ہوجاتے ہیں.اوراصل میں یہ وہیں ہوتا ہے جہاں ایسے امور میں اوّل غلو سے کام لیا جاوے مگر انبیاء ایسی ذات اور وجود ہوتے ہیں کہ وہ اپنا وجود دکھا کر اپنی عظمت قائم کرتے ہیں.۱ ۲۴؍مئی۲۱۹۰۸ء (قبل عصر) ہندومستورات کو شرک ترک کرنے کی تلقین ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء کو بعد نماز عصر چند ہندو مستورات حضرت امام الزمان مسیح موعود مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دردولت پر آئیں اوربیان کیا کہ ہم مہاراج کے درشن کے واسطے آئی ہیں حضور علیہ السلا م کی خدمت میں اطلاع کی گئی.چنانچہ آ پ نے نہایت لطف اورمہربانی سے ان کو اجازت دی اوروہ گھر میں جاکر حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئیں.حضرت اقدس چونکہ ان دنوں مضمون رسالہ پیغام صلح کے لکھنے میں مصروف تھے تھوڑی دیر کے بعد آپؑنے فرمایاکہ اب درشن ہوگئے اب تم جائو.مگر انہوں نے عرض کی کہ ہم کوآپ کوئی وعظ سناویں ہم اسی واسطے حاضر خدمت ہوئی ہیں.چنانچہ آپؑنے ان کے اصرار اوراخلاص کی وجہ سے ان کو یوں مخاطب کیا (جوکہ آپؑنے ۲۴؍مئی ۱۹۰۸ء کو قبل عصر بیان فرمایا ) فرمایا.اصل بات یہ ہے کہ آ پ لوگوں میں اگر دو ایک باتیں نہ ہوں تو آپ لوگ آریہ وغیرہ ۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۷ مورخہ ۶؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۵،۶ نیز بدر جلد ۷ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۸؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۹،۱۰ ۲ ہندو مستورات حضور علیہ السلام کی زیارت کے لیے ۲۳؍مئی کو بعد نماز عصر آئیں اور حضور علیہ السلام نے ۲۴؍مئی کو قبل نماز عصر ان سے اپنی گفتگو کا ذکر فرمایا.اس لیے ان ملفوظات پر ۲۴؍مئی کی تاریخ درج ہے.(خاکسار مرتّب)

Page 397

لوگوں سے سو درجہ بہتر اوراچھے ہو.ان میں سے پہلی بات تویہی ہے کہ خدا کو جو کہ ہمارا تمہارا پیدا کنندہ اورپروردگار حقیقی ہے اس کو واحدلاشریک جان کر اس کی عبادت کرو.اس کی عباد ت میں کسی دوسرے دیوی دیوتا، پتھر یا پہاڑ، سانپ یاکسی دوسرے ہیبت ناک درندے، گنگامائی یا جمنا، کوئی درخت ہو یا نباتات غرض کوئی بھی بُت اس کے ساتھ شریک نہ کیا جاوے اور اسے ایک اکیلا خدا کرکے پوجا کرو.یہ جو تم لوگوں نے تینتیس کروڑ دیوتابنارکھے ہیں ان کی کیا ضرورت تھی اور یہ کیوں بنائے گئے ہیں ؟اتنے خداتمام دنیا میں اورتوکسی کے بھی نہیں ہیں.(حضرت اقدسؑ کا اتنا بیان سن کر ان مستورات نے طلب حق کی غرض سے عرض کی کہ یہ بات آ پ ہمیں سمجھاویں ) اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ دیکھو! گدا دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو نَرگدا، دوسرے خَرگدا.نَرگدا کا تو قاعدہ ہوتاہے کہ ایک آواز کی اور اگلے دروازے پر چل دیئے.کسی نے کچھ دے دیا تو ٹھیک ورنہ خیر بلکہ ایسے لوگوں کو بعض لوگ پیچھے سے آآکر بھی خیرات دیتے ہیں.ان کا کام صدا کرنا اور آگے بڑھنا ہوتا ہے مگر برخلاف ان کے خَرگدا دھرنا مار کر بیٹھ جاتے ہیں اورایک ہی دروازے پر بیٹھے رہتے ہیں جب تک ان کا سوال پورانہ کیا جاوے اورآخر ایسے گداکو ملتا ہے اورضرورملتا ہے.یہی حال خدا سے مانگنے والوں کا ہے.خدا سے بھی وہی پاتے ہیںجو خرگدابن کر خداہی کے دروازے کے ہورہتے ہیں اورپکّے ہوکر استقلال سے خدا کے حضور سے مانگتے ہیں.غیر مستقل اورجلد باز جو جلدی ہی نا امید یا بدظن ہوجاتے ہیں وہ ہمیشہ محروم رہتے ہیں.صدق اورثبات کے ساتھ خدا کی ذات پر کامل ایمان اور یقین بھی ضروری ہے.یہ اَمر صدق اور اخلاص کے خلاف ہے کہ جلد ی ہی خدا سے مایوس ہوکر اَوروں کی طرف اپنی حاجت کو لے جانا اوردربدر مارے مارے پھرنا، کبھی کسی بُت کے حضور التجائیں کرنا، کبھی کسی دیوتا، پتھر ،پہاڑ، جنگل کے درخت یا گنگا مائی کی طرف حاجت کولے جانا اس اَمرکی دلیل ہے کہ ایک خدا پر بھروسہ نہیں اور اس کو ساری حاجتوں کا پوری کرنے والا ہونے پر

Page 398

کامل ایمان نہیں یا جلدی سے تھک کر اس سے ناامید ہوکر اوروں کی طرف دامن حاجت پھیلانا خرگدائی کے بالکل خلاف ہے.ایک چھوڑ کر دوسرا اوردوسرا چھوڑ تیسرا خدابنانا اور ان سے اپنی حاجتیں چاہنا بالکل غلط راہ ہے بلکہ چاہیے کہ ایک کو پکڑو اور اسی سے اپنی ساری حاجتیں چاہو اور وہ سب کا حاجت رواہے شرط صبر اوراستقلال اورایمان ہے.(اتنا حصہ سن کر انہوں نے عرض کی کہ بات توسچی ہے مگر حضرت اقدس کے منشا کو پاکر حضرت اقدس چاہتے ہیں کہ چلی جائیں پھر نرمی سے عرض کی کہ ہم دُورسے آئی ہیں.پنکھا ہلانے کی خواہش ہے اورصرف درشن اورباتیں سننے کو آئی ہیں.اب فرمائیے کہ پرمیشر سے پر ارتھنا کیسے کیا کریں؟) فرمایا.پرارتھنا بے شک اپنی زبان میں کرلیا کرو.یوں کہا کرو کہ اے سچے اور واحد خدا! اے کہ تو ساری مخلوق کا پید اکرنے والا اور پالنے والا ہے اورسب کے حالات سے واقف ہے! تجھ سے کوئی بات پوشیدہ نہیں اور ہر ذرّہ تیرے تصرّف میں ہے توجو چاہے سو کر سکتا ہے.توہمیں گناہ اوربھرشٹ زندگی سے نکال کرسیدھا راستہ بتا.ایسا ہوکہ ہم تیری مرضی کے موافق ہوجاویں.بدیو ں سے ہمیں بچا.بدیاں ہمارے اختیار میں نہیں ہیں.ہم چاہتی ہیں کہ یہ ہم سے دُور ہوجاویں.ان کا تو آ پ ہی کوئی علاج فرما.ان کا دُورکرنا ہماری طاقت سے دُور ہے اورایسا ہو کہ ہم تیری رضا کی راہوں پر چل کر ہمیشہ کی نجات اورسکھ کی وارث ہوجاویں اورکوئی دکھ ہمارے نزدیک نہ آوے.پہلے بدکرموں کے پھل سے بچا اور آئندہ نیک کرمو ں کی توفیق عطا فرما.اس طرح سے خدا سے سچے دل سے اورنیک نیتی سے خرگدا کی طرح پکّی بن کر اسی سے نہ کسی اور سے دعاکیا کرو اور سب دیوی دیوتے ترک کردو.آخر اس طرح کی سچی تڑپ اوردعا سے ایسا دن آجاوے گا کہ دلوںکے سب گنددھودئیے جاویں گے اورشانتی اور سکھ کی زندگی شروع ہوجاوے گی.فقط فرمایا.ان عورتو ں کی حالت سے ٹپکتا تھا کہ شریف اورمخلص عورتیں تھیں.لاہور جیسے شہر میں ایسی شریف اورنیک عورتوں کا وجود غنیمت ہے.فقط۱ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۷ مورخہ ۶؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۶،۷ نیز بدر جلد ۷ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۸؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰،۱۱

Page 399

۲۵؍مئی ۱۹۰۸ء (بمقام لاہور.بوقتِ ظہر)(وفات سے قریباً ۲۰ گھنٹے پہلے کی تقریر ) نبوت کی حقیقت ایک شخص سرحد ی آیا.بہت شوخی سے کلام کرنے لگا.اس پر فرمایا.میں نے اپنی طرف سے کوئی اپنا کلمہ نہیں بنایا.نہ نماز علیحدہ بنائی ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو دین وایمان سمجھتا ہوں.یہ نبوت کا لفظ جو اختیار کیا گیا ہے صرف خدا کی طرف سے ہے.جس شخص پر پیشگوئی کے طور پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی بات کااظہار بکثرت ہو اسے نبی کہا جاتا ہے.خدا کا وجود خدا کے نشانوں کے ساتھ پہچانا جاتا ہے.اسی لئے اولیاء اللہ بھیجے جاتے ہیں مثنوی میں لکھا ہے ع آں نبی وقت باشد اے مرید محی الدین ابنِ عربی نے بھی ایسا ہی لکھا ہے.حضرت مجدّد نے بھی یہی عقیدہ ظاہر کیا ہے پس کیا سب کوکافر کہو گے؟ یاد رکھو کہ یہ سلسلہ نبوت قیامت تک قائم رہے گا.مجدّد کی ضرورت اس پر اس سرحدی نے سوال کیا کہ دین میں کیا نقص رہ گیا تھا جس کی تکمیل کے لئے آپ تشریف لائے ؟ فرمایا.احکام میں کوئی نقص نہیں.نماز، قبلہ، زکوٰۃ، کلمہ وہی ہے.کچھ مدّت کے بعد ان احکام کی بجاآوری میں سستی پڑجاتی ہے.بہت سے لوگ توحید سے غافل ہوجاتے ہیں تووہ اپنی طرف سے ایک بندے کو مبعوث کرتا ہے جو لوگوں کوازسرِ نَوشریعت پر قائم کرتا ہے.سوبرس تک سُستی واقع ہوجاتی ہے.ایک لاکھ کے قریب تومسلمان مرتد ہوچکا ہے.ابھی آپ کے نزدیک کسی کی ضرورت نہیں؟ لوگ قرآن چھوڑتے جاتے ہیں سنّتِ نبوی سے کچھ غرض نہیں.اپنی رسوم کو اپنا دین قرار دے لیا ہے اور ابھی آپ کے نزدیک کسی کی ضرورت نہیں.اس پرا س شخص نے کہا کہ اس وقت توسب کافر ہوں گے کوئی تیس چالیس مومن رہ جائیں گے.فرمایا.کیا مہدی کے ساتھ جو مل کر لڑائی کریں گے وہ سب کافر ہی ہوں گے.

Page 400

آپ نے کیا اصلا ح کی ؟ پھر اس شخص نے پوچھا کہ آپ نے کیا اصلا ح فرمائی ؟ فرمایا.دیکھو چار لاکھ سے زیادہ آدمیوں نے میرے ہاتھ پر فسق وفجور اوردیگر گناہوں اورفاسد عقیدوں سے توبہ کی.انسان جب فسق وفجور میں پڑتا ہے تو کافر کا حکم رکھتا ہے.کوئی دن نہیں گذرتا جب کئی اشخاص توبہ کرنے کے لئے نہیں آتے.ہر اَمر میں اللہ کی طرف رجوع کرنا ایک بڑی بات ہے.مسلمانی صرف یہی نہیں جیسے تم سمجھتے ہو.نیکی کرنا نہایت مشکل کام ہے.ریاکاری کے ساتھ عمل باطل ہوجاتا ہے.یہ زمانہ ایسا زمانہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ عمل کرنا مشکل ہے.دنیا کی طرف لوگوں کی توجہ ہے.ہر صدی کے سرپر اسی قسم کی غلطیوں کو مٹانے اورتوجہ اِلَی اللہ دلانے کے لئے مجدّد کا وعدہ دیا گیا ہے.اگر ہر صدی پر مجدّد کی ضرورت نہ تھی بلکہ بقول آپ کے قرآن کریم اور علماء کافی تھے تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض آتا ہے حج کرنے والے حج جاتے ہیں.زکوٰۃ بھی دیتے ہیں.روزے بھی رکھتے ہیں.پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سوبرس کے بعد مجدّد آئے گا.مخالفین بھی اس بات کے قائل ہیں.پس اگر میرے وقت میں ضرورت نہ تھی توپیشگوئی باطل جاتی ہے.ظاہری حالت پر ہی نہیں جانا چاہیے.غیب کا حال تو اللہ کے سواکسی کو معلوم نہیں.وَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۠ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ (الماعون: ۵،۶)یعنی لعنت ہے ان نمازیوں پر جو اپنی صلوٰۃ کی حقیقت سے بےخبر ہیں.پس فلاح وہی پاتا ہے اور وہی سچا مومن کہلاتا ہے جو نیکی کو اس کے لوازم کے ساتھ کرتا ہے.یہ بات اس زمانہ میں بہت کم لوگوں میں موجود ہے.پس ان اندرونی بیرونی کمزوریوں کو دورکرنے کے لئے مَیں اپنے وقت پر آیا.اگر میں خدا کی طرف سے نہیں تویہ سلسلہ تباہ ہوجاوے گا.اگر میں خدا کی طرف سے ہوں تو یادرکھو کہ پھر مخالف ناکام رہیں گے.۱ ۱ بدر جلد ۷نمبر ۲۳مورخہ ۱۱؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۷

Page 401

(قبل نماز عصر) حضرت اقدس علیہ السلام کی آخری تقریر مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے حضرت اقدس کی خدمت میں بذریعہ اپنے کسی خاص قاصد کے ایک خط بھیجا جس میں بعض مسائل مختلفہ فیہ پر زبانی گفتگو کرنے کی اجازت چاہی اور وعدہ کیا کہ میں بہت نرمی اور پاس ادب سے گفتگو کروں گا.حضرت اقدسؑ نے قبل عصر حضرت مولٰنا مولوی سید محمد احسن صاحب سے ان کے متعلق دریافت کیا کہ وہ اخلاق کے کیسے ہیں.مغلوب الغضب اورفوراً جوش میں آجانے والے یا بھڑک اٹھنے والی طبیعت کے تو نہیں ہیں؟ اس کے جواب میں بعض اصحاب نے عرض کیا کہ حضور ایسے تونہیں.ان کی طبیعت میں نرمی پائی جاتی ہے.البتہ اگر بعض عوام کا ہجوم ان کے ہمراہ ہوگا تواندیشہ ہے.حضرت اقدس علیہ السلام خود چونکہ ’’پیغام صلح‘‘ لکھنے میں مصروف تھے اور فرصت نہ تھی.اس لئے حضرت اقدسؑ نے مولٰنا مولوی سید محمد احسن صاحب سے فرمایا کہ آپ ان کو خط کا جواب لکھ دیں.اصل خط ان کا ہم بھیج دیں گے اوربے شک نرمی سے اورآہستگی سے ان سے ان مسائل میں گفتگو کریں.البتہ اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کے ہمراہ سوا دوچار معزز اور شریف آدمیوں کے اورزیادہ ہجوم نہ ہواورآپ بھی علیحدگی میں بیٹھ کر گفتگو کریں.اس میں کوئی حرج کی بات نہیں.اسی دوران میں کسی دوست نے ان کا یہ عقیدہ پیش کردیا کہ وہ حضرت عیسٰیؑ کے سُولی پر لٹکائے جانے کے ہی قائل نہیں اورکہ وہ اپنے اس دعوے کی دلیل میں آیت کریمہ اِذْ كَفَفْتُ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ عَنْكَ (المآئدۃ :۱۱۱)پیش کرتے ہیں.

Page 402

حضرت مسیح علیہ السلام کا صلیب پر چڑھایا جانا اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا.خلاف تواتر امور محسوسہ مشہودہ کی پروانہ کرکے ایسی ایک راہ اختیار کرنا جس کی کوئی بھی دلیل نہیں یہ عقل اورایمان کے سراسر خلاف ہے.میں کوئی نئی بات پیش نہیں کرتا اور نہ ہی میں کسی ایسی بے دلیل بات کے منوانے کی کوشش کرتا ہوں جس کا قوی ثبوت اور بیّن شہادت میرے ہاتھ میں نہیں.میرے ساتھ میری شہادت کے واسطے اس وقت لاکھوں انسان موجود ہیں.قوموں کی قومیں اپنی متواتر اورمتفقہ شہادت پیش کررہی ہیں.اگر کسی کو کوئی شک وشبہ ہوتو یہودی موجود ہیں، نصرانی موجود ہیں.ان سے پوچھ لو کہ ان کا اس بارہ میں کیاعقیدہ ہے؟ دونوں متخاصم موجود ہیں، ان سے پوچھ لوکہ آیا وہ بھی اس بات کے قائل ہیں جو تم پیش کرتے ہو؟ دیکھو! تواتر قومی کو بغیر کسی زبردست دلیل اور حجتِ نیّرہ کے توڑدینا اوراس کی پروا نہ کرنا یہ بڑی بھاری غلطی ہے.تعجب کی بات ہے اوریہ کیوںکر ہوسکتا تھا کہ کسی دوسرے آدمی کو پکڑ کر خواہ نخواہ بے قصور سُولی پر چڑھا دیا جاوے اور وہ چوں بھی نہ کرے اور دوہائی بھی نہ دیوے کہ میں توتمہارا ساتھی ہوں مجھے کیوں بےگناہ سولی پر چڑھاتے ہو؟ تمہارا اصل ملزم توبچ گیا اورمیں جو کہ تمہارا ہی ساتھی ہوںیہ میرا نام فلانے ماں باپ کا بیٹا ہو ں.یہ میرے رشتہ دار ہیں.مجھے کیوں مارتے ہو؟ جان کا معاملہ اور لعنتی موت کا نشانہ بننا ہے اصل ملزم بچا جاتا ہے ایک بے گناہ، بے قصور، بے تعلق آدمی سُولی چڑھایا جاتا ہے اورپھر تعجب یہ کہ بولتا تک نہیں.یہ بھید تو ہماری سمجھ میں نہیں آتا.علاوہ وحی اورعلم غیب کے جو ہمیں خدا نے محض اپنے فضل سے بخشا اورمکالمہ مخاطبہ کا خاص فیضان جاری کرکے ہمیں اس نے ان امور میں حقیقی علم عطا کیا.ہمارا ضمیر اس کو ہرگز ہرگز قبول نہیں کرتا کہ اتنا بھاری تواتر اور کروڑوں انسانوں کی متفقہ شہادت بالکل غلط ہے اوریہ سب جو سمجھے بیٹھے تھے ایک وہم تھا اور خیال غلط.دیکھو ع تا نہ باشد چیز کے مردم نہ گویند چیزہا

Page 403

میں نہیں سمجھتا کہ خدا کو ایسی کمزوری کی کیا ضرورت تھی.کیا وہ علیٰ رئوس الاشہاد مسیح کو بچانے پر قادر نہ تھا کہ اس کو ایسا ظلم روا رکھنا پڑا.اورایک بے گناہ انسان کی جان خواہ نخواہ ہلاکت میں ڈالی؟ قرآن اورحدیث کے خلاف ایک نئی راہ نکال کر پیش کرنا اس کا بارِ ثبوت مدعی کے ذمے ہے.توفّی کے معنی میرا مطلب اس سے یہ ہے کہ یہ سب امو رایسے ہیں کہ آسانی سے ان کو ردّ کیا جاوے.قرآن شریف میں صرف لفظ توفّیہی کو لے کر اس کو دیکھ لوکہ بھلا کسی مقام پر اس کے معنی بجز موت کے کچھ اور بھی ہیں یا معہ جسم عنصری کے آسمان پر اٹھائے جانے کے ہیں؟ یہی تَوَفّی کا لفظ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میںاللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.آیتِ کریمہ اِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ۠ (یونس:۴۷) پر غور کرکے دیکھ لو.پھر یہی تَوَفّی کا لفظ ہے جو حضرت یوسفؑ کے حق میں وارد ہے.پھر ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ بر خلاف نَصِّ قرآنی کے اور تمام انبیاءؑ کے کیوں حضرت عیسٰیؑ کو یہ خصوصیت دی جاتی ہے؟ کتب احادیث میں قریباً تین سو مرتبہ یہی لفظ تَوَفّی کا آیا ہے مگر کہیں بھی بجسدِ عنصری آسما ن پر اٹھائے جانے کے معنے نہیں ہیں.جہاں دیکھو یہ لفظ موت ہی کے معنوں میں وارد ہوتا ہے.اصل میں جو شخص طالب حق نہیں اورمحض ایک قسم کی شیخی اورتکبر کے واسطے ایسی خواہش کرتا ہے اس سے مجھے بدبو آجاتی ہے.میں ایسے آدمی پر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا.جس کو حق کی سچی پیاس نہیں اورجس کی تڑپ خدا اور خدا کے دین کے واسطے نہیں بلکہ نفس کا بندہ اور نفس کی عزت وجاہ کے واسطے مَرتا ہے.میرے پاس اگر کوئی شخص طلب حق اورخداجوئی کی پیاس اورسچی تڑپ لے کر آتا ہے تومجھے اس سے ایک قسم کی خوشبو آجاتی ہے اورپھر میںا س کے واسطے اپنے باز و بچھا دیتا ہوں اوراس کو اپنی آنکھو ں سے قبول کرتا ہوں اورجہاں تک مجھ سے بن پڑتا ہے میں اس کی خدمت کو اپنا فخر سمجھتا ہوں مگر ایک ناپاک دل انسان جس میں شرارت پوشیدہ ہوتی ہے اوروہ حق جُو نہیں بلکہ دنیا طلب ہوتا ہے توہمیں اس سے بد بو آجاتی ہے اورپھر اس کے بعد ہم اس سے کلام کرنا بھی پسند نہیں کرتے.

Page 404

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات خدا نے جس بات پر ہمیں قائم کیا ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کلام مجید میں حضرت مسیحؑ کی موت کو صراحت سے ایک نہیں بلکہ بیسیوں مقام پر ظاہر کردیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل سے شہادت دے دی کہ اس کو مُردوں کی ذیل میں دیکھا اورکوئی مابہ الامتیاز اس میں اور اس کے غیروں میں بیان نہیں فرمایا.آج ہندوستان میں ایک لاکھ سے بھی زیادہ مرتد صرف اسی بات سے ہوچکا ہے کہ نام کے مسلمانوں کے عقائد غلط سے عیسائیوں نے مسیحؑ کی فضیلت ثابت کرکے اپنے مذہب سے ناواقف لوگوں کے سامنے اسے پیش کیا اوران کے اپنے ہی معتقدات میں سے ان پر ایسے ایسے الزام دئیے جن کا جواب ان میں سے کسی سے بھی بن نہ پڑا.مگر یادرکھو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی کسی بھی خصوصیت کو قائم نہیں رہنے دیا بلکہ ان کی ہر بات کا جواب دے کر خود ان کو ہی خوار کیا ہے.نصاریٰ نے ایک عقیدہ پکڑا تھا کہ حضرت عیسٰیؑ چونکہ بن باپ کے ہیں لہٰذا یہ خصوصیت ان کی خدائی کی پختہ دلیل ہے اوریہ ان کا مسلمانوں پر ایک بھاری اعتراض تھا اوراس سے وہ حضرت عیسٰیؑ میں ایک خصوصیت ثابت کرکے ان کی خدائی کی دلیل پکڑتے تھے تواللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں ان کا یوں منہ توڑا.اوران کا ردّ یوں بیان کیا کہ اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ( اٰلِ عـمران:۶۰) یعنی اگر حضرت عیسٰیؑ کی پیدائش اعجازی رنگ میں پیش کرکے تم اس کی خدائی کی دلیل ٹھہراتے ہو تو پھر آدم بطریق اَولیٰ خدا ہونا چاہیے کیونکہ اس کا نہ باپ نہ ماں.اس طرح سے اوّل آدم کو بڑا خدا مان لو پھر اس بات کو عیسٰیؑ کی خدائی کی دلیل ٹھہرانا.پس اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس استدلال کو غلط ثابت کردیا.غرض نصاریٰ کے مسیح کوبن باپ کی پیدائش سے ان کی خدائی کی دلیل اور استدلال پکڑنے کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی نظیر پیش کرکے باطل ٹھہرادیا.ایک دوسری دلیل نصاریٰ نے مسیح کی خدائی کی یہ پیش کی تھی کہ وہ زندہ ہیں اور معہٗ جسم عنصری

Page 405

آسمان پر خداکے داہنے ہاتھ بیٹھے ہیں اوراس اَمر سے انہوں نے مسیح کی ایک خصوصیت ثابت کرکے اسی کو ان کی خدائی کی ایک زبردست دلیل کے طورپر پیش کیا ہے.اب ہمیںکوئی بتادے کہ اگر تَوَفّی کے معنے مع جسم عنصری آسمان پر ہی اٹھائے جانے کے ہیں اور اس کے معنے حضرت عیسٰیؑ کے لئے موت کے نہیں ہیں توپھر نصاریٰ کے اس اعتراض کا قرآن نے کہاں جواب دیا ہے؟ یا جس طرح ان کی دلیل اوّل کو ایک نظیر پیش کرکے توڑ اتھا اسی طرح کہیں سے ہمیں یہ بھی نکال کربتائو کہ حضرت مسیحؑ سے پہلے یا پیچھے اور کوئی ایسی بھی نظیرپائی جاتی ہے؟ اوراگر کوئی نظیر نہیں تویاد رکھو کہ اسلام آج بھی گیا اور کل بھی گیا.نصاریٰ تم کو خود تمہارے اپنے عقید ہ سے ملزم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم خود حضرت عیسٰیؑ کو زندہ اور جسم عنصری سے آسمان پر مانتے ہو حالانکہ تمہارے رسول خاکِ مدینہ میںمدفون ہیں.اب بتائو !کون افضل ہے عیسٰیؑ یا محمدؐ ! افسوس ہے ان نام کے مسلمانوں پر کہ اپنی ناک کاٹنے کے واسطے آپ ہی دشمن کے ہاتھ میں چُھری دیتے ہیں.یاد رکھو کہ اگر خدا تعالیٰ کا یہی منشا ہوتا اورقرآن وحدیث میں حقیقتاً یہی اَمر اس نے بیان کیا ہوتا کہ واقع میں حضرت مسیحؑ زندہ ہیں اور وہ مع جسم عنصری آسمان پر بیٹھے ہیں اور یہ عقیدہ بھی حضرت مسیحؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کی طرح خدا کے نزدیک سچا عقیدہ ہوتا تو ضرورتھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی بھی کوئی نہ کوئی نظیر پیش کرکے قومِ نصاریٰ کو اس اَمر کے حضرت مسیحؑ کی خدائی کی دلیل پکڑنے سے بند اور لاجواب کردیتا.مگر خدا تعالیٰ کے اس اَمر کی دلیل پیش نہ کرنے سے صاف عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہرگز ہرگز یہ منشا نہیں جو تم محض افترا سے خدا کے کلام پر تھوپ رہے۱ ہوبلکہ تَوَفّی کا لفظ خدا تعالیٰ نے محض موت ہی کے معنوں کے واسطے وضع کیا ہے اوریہی حقیقت اوراصل حال ہے.۱ بدر سے.’’پس ایسا ہی زندہ آسمان پر موجود ہونے کو عیسائی دلیل ابن اللہ ہونے کی قرار دیتے ہیں اس کی مثال کیوں نہ بیان کی تا عیسیٰ کسی بات میں وحد ہٗ لاشریک نہ ٹھہرے.تم عیسیٰ کو مَرنے دوکہ اس میں اسلام کی حیات ہے.ایسا ہی عیسیٰ موسوی کی بجائے عیسیٰ محمد ی آنے دوکہ اس میں اسلام کی عظمت ہے.میں سچ کہتا ہوں اگر اسلام میں وحی والہام کا سلسلہ نہیں تواسلام مَر گیا.‘‘ (بدر جلد ۷نمبر ۲۲ مورخہ ۲ ؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۷)

Page 406

دیکھو! ہر ایک خصوصیت جو کہیں کسی خاص شخص کے متعلق پیدا کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کا ضرور جواب دیا ہے مگر کیا وجہ کہ اتنی بڑی خصوصیت کا کوئی جواب نہ دیا؟ خصوصیت ہی ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے شرک پیدا ہوتا ہے.فقط یہ حضرت اقدسؑ کی زندگی میں آپ کی آخری تقریر ہے جو آپ نے بڑے زوراورخاص جوش سے فرمائی.دوران تقریر میں آپ کا چہرہ اس قدر روشن اور درخشاں ہوگیا تھا کہ نظر اٹھا کردیکھا بھی نہیں جاتا تھا.حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تقریر میں ایک خاص اثر اورجذب تھا.رعب، ہیبت اورجلال اپنے کمال عروج پر تھا.بعض خاص خاص تحریکات اورموقعوں پر حضرت اقدسؑ کی شان دیکھنے میں آئی ہوگی جو آج کے دن تھی.اس تقریر کے بعد آپؑنے کوئی تقریر نہیں فرمائی.۱ (فقط مرتّبہ عبدالرحمٰن قادیانی ) آخری دن ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء (بوقتِ نماز فجر ) جب فجر کی نماز کی اذان کان میں پڑی تو (حضور علیہ السلام) نے پوچھا کہ ’’کیا صبح ہوگئی ؟‘‘ جواب ملنے پر فجر کی نماز کی نیت باندھی اوراداکی.آخری الفاظ وہ الفاظ جن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے رفیق ِاعلیٰ سے جاملے یہ تھے.’’اے میرے پیارے! اے میرے پیارے!! اے میرے پیارے اللہ اے میرے پیارے اللہ ‘‘ ۲ ۱ الحکم جلد ۱۲نمبر ۴۲مورخہ ۱۸؍جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۷،۸ ۲ الحکم جلد ۱۵نمبر ۱۹،۲۰مورخہ ۲۱و۲۸؍مئی ۱۹۱۱ء صفحہ ۲۴،۲۵

Page 407

ترجمہ فارسی عبارات مندرجہ ملفوظات جلد دہم از صفحہ نمبر ترجمہ فارسی ۱۴ عقلمند جو کچھ کرتا ہے، بیوقوف بھی آخر وہی کرتا ہے لیکن بہت خواری اُٹھانے کے بعد.۳۷ جوانمردوں کے لئے کوئی کام مشکل نہیں ہوتے.۵۳ تو خدا کا طالب بھی بنتا ہے اور حقیر دنیا کا بھی، یہ محض وہم ہے، ناممکن ہے، دیوانگی ہے.۶۵ انسان جو حد مشترک ہے وہ مسیحا بھی بن سکتا ہے اور گدھا بھی.۷۳ شروع میں عشق بہت منہ زور اور خونخوار ہوتا ہے تا وہ شخص جو صرف تماشائی ہے بھا گ جائے.۱۰۹ میری جان ودل محمدؐ کے جمال پر فدا ہیں اور میری خاک آلِ محمدؐ کے کوچے پر قربان ہے.۱۰۹ افواج یزید کی مانند ہر طرف کفر جوش میں ہے اور دینِ حق زین العابدین کی طرح بیمار وبیکس ہے.۱۰۹ میں رسول نہیں ہوں اور کتاب نہیں لایا ہوں.ہاں ملہم ہوں اور خدا کی طرف سے ڈرانے والا.۱۳۸ ڈھیر میں سے ایک مٹھی کے مصداق نمونہ.۱۶۷ ہمارے عملوں کی نحوست نے نادر شاہ کی شکل اختیار کر لی.

Page 408

Page 409

Page 410

Page 411

Page 412

Page 413

Page 414

Page 415

Page 416

Page 417

Page 418

Page 419

Page 420

Page 421

Page 422

Page 423

Page 424

Page 425

Page 426

Page 427

Page 428

Page 429

Page 430

Page 431

Page 432

Page 433

Page 434

Page 435

Page 436

Page 437

Page 438

Page 439

Page 440

Page 441

Page 442

Page 443

Page 444

Page 445

Page 446

Page 447

Page 448

Page 449

Page 450

Page 451

Page 452

Page 453

Page 454

Page 455

Page 456

Page 457

Page 458

Page 459

Page 460

Page 461

Page 462

Page 463

Page 464

Page 465

Page 466

Page 467

Page 468

Page 469

Page 470

Page 470