Language: UR
ملفوظات سے مراد حضرت بانی جماعت احمدیہ، مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا وہ پاکیزہ اور پُرمعارف کلام ہے جو حضورؑ نے اپنی مقدس مجالس میں یا جلسہ سالانہ کے اجتماعات میں اپنے اصحاب کے تزکیہ نفس، ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت، خداتعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرنے اور قرآن کریم کے علم و حکمت کی تعلیم نیز احیاء دین اسلام اور قیام شریعت محمدیہ کے لیے وقتاً فوقتاً ارشاد فرمایا۔
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ نَـحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَعَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ۱۸۹۱ء بعثت کی غرض حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ فرماتے ہیں.مجھے خوب یاد ہے اور میں نے اپنی نوٹ بک میں اس کو لکھ رکھا ہے کہ جالندھر کے مقام پر ایک شخص نے حضرت اقدس امام صادق حضرت میرزا صاحبؑ کی خدمت میں سوال کیا کہ آپ کی غرض دنیا میں آنے سے کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میں اس لئے آیا ہوں تا لوگ قوت یقین میں ترقی کریں.ایمان کی اقسام ایک اور بات بھی ہے جو میری نوٹ بُک میں درج ہے اور وہ واقعہ بھی اسی جالندھر کا ہے.ہماری جماعت کے ایک آدمی ہمارے بھائی منشی محمد اروڑا صاحب نے سوال کیا کہ حضرت ایمان کتنی طرح کا ہوتا ہے؟ آپ نے جو جواب اس کا فرمایا بہت ہی لطیف اور سلیس ہے.فرمایا.ایمان دو قسم کا ہوتا ہے.موٹا اور باریک.موٹا ایمان تو یہی ہے کہ دین العجائز پر عمل
کرے اور باریک ایمان یہ ہے کہ میرے پیچھے ہو لے.۱؎ ۱۸۹۵ء جناب مفتی محمد صادق صاحبؓ لکھتے ہیں ۱۸۹۵ء میں جب میں حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا تو اس وقت بھی مجھے شوق تھا کہ آپ کے کلمات طیبات ایک کاغذ پر نقل کر کے ہمیشہ لاہور لے جاتا اور وہاں کے احمدیہ احباب کو ہفتہ وار کمیٹی میں سنایا کرتا....اس وقت کی یادداشت میں سے کچھ نقل کر کے ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے.ان ایام میں چونکہ تاریخ کا انتظام نہیں رکھا تھا اس لئے بلا تاریخ ہر ایک بات درج کی جاتی ہے.بیعت اور توبہ بیعت میں جاننا چاہیے کہ کیا فائدہ ہے اور کیوں اس کی ضرورت ہے؟ جب تک کسی شے کا فائدہ اور قیمت معلوم نہ ہو تو اس کی قدر آنکھوں کے اندر نہیں سماتی جیسے گھر میں انسان کے کئی قسم کا مال واسباب ہوتا ہے.مثلاً روپیہ، پیسہ، کوڑی، لکڑی وغیرہ تو جس قسم کی جو شے ہے اسی درجہ کی اس کی حفاظت کی جاوے گی.ایک کوڑی کی حفاظت کے لیے وہ سامان نہ کرے گا جو پیسہ اور روپیہ کے لیے اسے کرنا پڑے گا اور لکڑی وغیرہ کو تو یونہی ایک کونہ میں ڈال دے گا.علیٰ ہذاالقیاس جس کے تلف ہونے سے اس کا زیادہ نقصان ہے اس کی زیادہ حفاظت کرے گا.اسی طرح بیعت میں عظیم الشان بات توبہ ہے.جس کے معنی رجوع کے ہیں.توبہ اس حالت کا نام ہے کہ انسان اپنے معاصی سے جس سے اُس کے تعلقات بڑھے ہوئے ہیں اور اس نے اپنا وطن انہیں مقرر کر لیا ہوا ہے گویا کہ گناہ میں اس نے بودوباش مقرر کر لی ہوئی ہے تو توبہ کے معنے یہ ہیں کہ اس وطن کو چھوڑنا اور رجوع کے معنے پاکیزگی کو اختیار کرنا.اب وطن کو چھوڑنا بڑا گراں گزرتا ہے اور ہزاروں تکلیفیں ہوتی ہیں.ایک گھر جب انسان چھوڑتا ہے تو کس قدر اسے تکلیف ہوتی ہے اور
وطن کو چھوڑنے میں تو اس کو سب یار دوستوں سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے اور سب چیزوں کو مثل چارپائی، فرش و ہمسائے، وہ گلیاں، کوچے، بازار سب چھوڑ چھاڑ کر ایک نئے ملک میں جانا پڑتا ہے یعنی اس وطن میں کبھی نہیں آتا.اس کا نام توبہ ہے.معصیت کے دوست اَور ہوتے ہیں اور تقویٰ کے دوست اَور.اس تبدیلی کو صوفیاء نے موت کہا ہے.جو توبہ کرتا ہے اسے بڑا حرج اٹھانا پڑتا ہے اور سچی توبہ کے وقت بڑے بڑے حرج اس کے سامنے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ رحیم کریم ہے.وہ جب تک اس کل کا نعم البدل عطا نہ فرماوے نہیں مارتا.اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ (البقرۃ: ۲۲۳) میں یہی اشارہ ہے کہ وہ توبہ کر کے غریب، بیکس ہو جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس سے محبت اور پیار کرتا ہے اور اُسے نیکوں کی جماعت میں داخل کرتا ہے.دوسری قومیں خدا کو رحیم ، کریم خیال نہیں کرتیں.عیسائیوں نے خدا کو تو ظالم جانا اور بیٹے کو رحیم کہ باپ تو گناہ نہ بخشے اور بیٹا جان دے کر بخشوائے.بڑی بے وقوفی ہے کہ باپ بیٹے میں اتنا فرق.والد مولود میں مناسبت اخلاق عادات کی ہوا کرتی ہے (مگر یہاں تو بالکل ندارد) اگر اللہ رحیم نہ ہوتا تو انسان کا ایک دم گزارہ نہ ہوتا.جس نے انسان کے عمل سے پیشتر ہزاروں اشیاء اُس کے لئے مفید بنائیں تو کیا یہ گمان ہوسکتا ہے کہ توبہ اور عمل کو قبول نہ کرے.گناہ اور توبہ کی حقیقت گناہ کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ اللہ گناہ کو پیدا کرے اور پھر ہزاروں برس کے بعد گناہ کی معافی سُوجھے.جیسے مکھی کے دو پَر ہیں.ایک میں شفا اور دُوسرے میں زہر.اسی طرح انسان کے دو پَر ہیں.ایک معاصی کا دوسرا خجالت، توبہ، پریشانی کا.یہ ایک قاعدہ کی بات ہے جیسے ایک شخص جب غلام کو سخت مارتا ہے تو پھر اُس کے بعد پچھتاتا ہے.گویا کہ دونوں پَر اکٹھے حرکت کرتے ہیں.زہر کے ساتھ تریاق ہے.اب سوال یہ ہے کہ زہر کیوں بنایا گیا؟ تو جواب یہ ہے کہ گویہ زہر ہے مگر کُشۃ کرنے سے حکم اکسیر کا رکھتا ہے.اگر گناہ نہ ہوتا تو رعونت کا زہر انسان میں پڑ جاتا اور ہلاک ہو جاتا.توبہ اس کی تلافی کرتی ہے.کبر اور عُجب کی آفت سے گناہ انسان کو بچائے رکھتا ہے.جب نبی معصوم ؐ ستّر بار استغفار کرے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ گناہ سے توبہ وہی نہیں کرتا جو اس پر راضی ہو جاوے اور جو گناہ کو گناہ جانتا
ہے وہ آخر اُسے چھوڑے گا.حدیث میں آیا ہے کہ جب انسان بار بار رو رو کر اللہ سے بخشش چاہتا ہے تو آخر کار خدا کہہ دیتا ہے کہ ہم نے تجھ کو بخش دیا.اب تیرا جو جی چاہے سو کر.اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے دل کو بدلا دیا اور اب گناہ اُسے بالطبع بُرا معلوم ہوگا.جیسے بھیڑ کو مَیلا کھاتے دیکھ کر کوئی دوسرا حِرص نہیں کرتا کہ وہ بھی کھاوے اسی طرح وہ اِنسان بھی گناہ کی حرص نہ کرے گا جسے خدا نے بخش دیا ہے.مسلمانوں کو خنزیر کے گوشت سے جو بالطبع کراہت ہے حالانکہ اور دوسرے ہزاروں کام کرتے ہیں جو حرام اور منع ہیں تو اس میں حکمت یہی ہے کہ ایک نمونہ کراہت کا رکھ دیا ہے اور سمجھا دیا ہے کہ اسی طرح انسان کو گناہ سے نفرت ہو جاوے.دعا تریاق ہے گناہ کرنے والا اپنے گناہ کی کثرت وغیرہ کا خیال کرکے دعا سے ہرگز باز نہ رہے.دعا تریاق ہے.آخر دعاؤں سے دیکھ لے گا کہ گناہ اسے کیسا بُرا لگنے لگا.جو لوگ معاصی میں ڈوب کر دعا کی قبولیت سے مایوس رہتے ہیں اور توبہ کی طرف رجوع نہیں کرتے آخر وہ انبیاء اور ان کی تاثیرات سے منکر ہو جاتے ہیں.توبہ جُزوِ بیعت ہے یہ توبہ کی حقیقت ہے (جو اوپر بیان ہوئی) اور یہ بیعت کی جز کیوں ہے؟ تو بات یہ ہے کہ انسان غفلت میں پڑا ہوا ہے.جب وہ بیعت کرتا ہے اور ایسے کے ہاتھ پر جسے اللہ تعالیٰ نے وہ تبدیلی بخشی ہو تو جیسے درخت میں پیوند لگانے سے خاصیت بدل جاتی ہے اسی طرح سے اس پیوند سے بھی اس میں وہ فیوض اور انوار آنے لگتے ہیں (جو اُس تبدیلی یافتہ انسان میں ہوتے ہیں) بشرطیکہ اُس کے ساتھ سچا تعلق ہو.خشک شاخ کی طرح نہ ہو.اُس کی شاخ ہو کر پیوند ہوجاوے.جس قدر یہ نسبت ہوگی اُسی قدر فائدہ ہوگا.رسمی بیعت فائدہ نہیں دیتی بیعت رسمی فائدہ نہیں دیتی.ایسی بیعت سے حصہ دار ہونا مشکل ہوتا ہے.اسی وقت حصہ دار ہوگا جب اپنے وجود کو ترک کر کے بالکل محبت اور اخلاص کے ساتھ اس کے ساتھ ہو جاوے.منافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
کے ساتھ سچا تعلق نہ ہونے کی وجہ سے آخر بے ایمان رہے.ان کو سچی محبت اور اخلاص پیدا نہ ہوا اس لیے ظاہری لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ان کے کام نہ آیا تو ان تعلقات کو بڑھانا بڑا ضروری امر ہے.اگر ان تعلقات کو وہ (طالب) نہیں بڑھاتا اور کوشش نہیں کرتا تو اس کا شکوہ اور افسوس بے فائدہ ہے.محبت و اخلاص کا تعلق بڑھانا چاہیے.جہاں تک ممکن ہو اس انسان (مرشد) کے ہم رنگ ہو.طریقوں میں اور اعتقاد میں.نفس لمبی عمر کے وعدے دیتا ہے.یہ دھوکہ ہے.عمر کا اعتبار نہیں ہے.جلدی راستبازی اور عبادت کی طرف جھکنا چاہیے اور صبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہیے.۲؎ تہجد کی تاکید اس زندگی کے کل انفاس اگر دنیاوی کاموں میں گزر گئے تو آخرت کے لئے کیا ذخیرہ کیا؟ تہجد میں خاص کر اٹھو اور ذوق اور شوق سے ادا کرو.درمیانی نمازوں میں بہ باعث ملازمت کے ابتلا آجاتا ہے.رازق اللہ تعالیٰ ہے.نماز اپنے وقت پر ادا کرنی چاہیے.ظہر و عصر کبھی کبھی جمع ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ ضعیف لوگ ہوں گے اس لیے یہ گنجائش رکھ دی مگر یہ گنجائش تین نمازوں کے جمع کرنے میں نہیں ہو سکتی.اللہ تعالیٰ کی خاطر تکلیف اٹھانا جبکہ ملازمت میں اور دوسرے کئی امور میں لوگ سزا پاتے ہیں (اور مورد عتاب حکام ہوتے ہیں) تو اگر اللہ تعالیٰ کے لئے تکلیف اٹھاویں تو کیا خوب ہے.جو لوگ راستبازی کے لیے تکلیف اور نقصان اٹھاتے ہیں وہ لوگوں کی نظروں میں بھی مرغوب ہوتے ہیں اور یہ کام نبیوں اور صدیقوں کا ہے.جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے دنیاوی نقصان کرتا ہے اللہ تعالیٰ کبھی اپنے ذمہ نہیں رکھتا پورا اجر دیتا ہے.
انسان منافقانہ طرز نہ رکھے (انسان کو لازم ہے) منافقانہ طرز نہ رکھے مثلاً اگر ایک ہندو (خواہ حاکم یا عہدہ دار ہو) کہے کہ رام اور رحیم ایک ہے تو ایسے موقع پر ہاں میں ہاں نہ ملائے.اللہ تعالیٰ تہذیب سے منع نہیں کرتا.مہذبانہ جواب دیوے.حکمت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ایسی گفتگو کی جاوے جس سے خواہ نخواہ جوش پیدا ہو اور بیہودہ جنگ ہو.کبھی اخفائے حق نہ کرے.ہاں میں ہاں ملانے سے انسان کافر ہو جاتا ہے.یار غالب شو کہ تا غالب شوی # اللہ تعالیٰ کا لحاظ اور پاس رکھنا چاہیے.ہمارے دین میں کوئی بات تہذیب کے خلاف نہیں.اسلام اسلام ہمیشہ مظلوم چلا آیا ہے.جیسے کبھی دو بھائیوں میں فساد ہو تو بڑا بھائی بہ سبب اپنی عظمت اور پہلے پیدا ہونے کے اپنے چھوٹے بھائی پر خواہ نخواہ ظلم کرتا ہے اس لیے کہ وہ پیدائش میں اول ہونے سے اپنا حق زیادہ خیال کرتا ہے حالانکہ حق دونوں کا برابر ہے.اسی طرح کا ظلم اسلام پر ہو رہا ہے.اسلام سب مذاہب کے بعد آیا.اسلام نے سب مذاہب کی غلطی ان کو بتلائی تو جیسے قاعدہ ہے کہ جاہل، خیر خواہ کا دشمن ہو جاتا ہے اسی طرح وہ سب مذاہب اس سے ناراض ہوئے کیونکہ ان کے دلوں میں اپنی اپنی عظمت بیٹھی ہوئی تھی.انسان کثرت قوم.قدامت اور کثرت مال کے باعث متکبر ہو جایا کرتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غریب قلیل اور نئے گروہ والے تھے اس لیے (ابتدا میں)انہوں نے نہ مانا.حق ہمیشہ مظلوم ہوتا ہے.اسلام دوسری اقوام کا محسن ہے اسلام ایسا مطہّر مذہب ہے کہ کسی مذہب کے بانی کو بُرا نہیں کہنے دیتا.مگر دوسرے مذاہب والے جھٹ گالی دینے کو طیار ہو جاتے ہیں.دیکھو! یہ عیسائی قوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر گالی دیتی ہے.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت زندہ ہوتے تو آپ کی دنیاوی عظمت کے خیال سے بھی یہ لوگ کوئی کلمہ زبان پر نہ لا سکتے بلکہ ہزار ہا درجہ تعظیم سے پیش آتے.امیر کابل اور سلطان روم ایک ادنیٰ امتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں اُن کو گالی نہیں دے سکتے.بے ادبی سے پیش نہیں
آسکتے مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا جاوے تو ہزاروں گالیاں سناتے ہیں.اسلام دوسری اقوام پر محسن ہے کہ ہر ایک نبی اور کتاب کو بری کیا اور خود اسلام مظلوم ہے.اسلام کا مضمون لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کسی دوسرے مذہب میں نہیں ہے.۳؎ ۱۸۹۶ء فرمایا.حضرت مسیحؑ کی آمد کے واسطے جو لفظ آیا ہے وہ نزول ہے اور رجوع نہیں ہے.اول تو واپس آنے والے کی نسبت جو لفظ آتا ہے وہ رجوع ہے اور رجوع کا لفظ حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت کہیں نہیں بولا گیا.دوم نزول کے معنی آسمان سے آنے کے نہیں ہیں.نزیل مسافر کو کہتے ہیں.مخالفین کے لئے دعا سے کام لینا چاہیے فرمایا.ہم نے جو مخالفین پر بعض جگہ سختی کی ہے وہ ان کے تکبر کو دور کرنے کے واسطے ہے.وہ سخت باتوں کا جواب نہیں بلکہ علاج کے طور پر کڑوی دوائی ہے اَلْحَقُّ مُرٌّ.لیکن ہر شخص کے واسطے جائز نہیں کہ وہ ایسی تحریر کو استعمال کرے.جماعت کو احتیاط چاہیے.ہر ایک شخص اپنے دل کو پہلے ٹٹول کر دیکھ لے کہ صرف ضد اور دشمنی کے طور پر ایسے لفظ لکھ رہا ہے یا کسی نیک نیت پر یہ کام مبنی ہے.فرمایا.مخالفین کے ساتھ دشمنی سے پیش نہیں آنا چاہیے بلکہ زیادہ تر دعا سے کام لینا چاہیے اور دیگر وسائل سے کوشش کرنی چاہیے.۴؎ ۱۸۹۷ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا.میں ہر گز اپنے آپ کو مولوی نہیں کہتا اور نہ میں راضی ہوں کہ کبھی کوئی مجھے مولوی کہے بلکہ مجھے تو
اس لفظ سے ایسا رنج ہوتا ہے جیسا کہ کسی نے گالی دے دی.فرمایا.لوگ تمہیں دکھ دیں گے اور ہر طرح سے تکلیف پہنچائیں گے مگر ہماری جماعت کے لوگ جوش نہ دکھائیں.جوشِ نفس سے دل دُکھانے والے الفاظ استعمال نہ کرو.اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگ پسند نہیں ہوتے.ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے.۵؎ فرمایا.یہ آسمانی کام ہے اور آسمانی کام رک نہیں سکتا.اس معاملہ میں ہمارا قدم ایک ذرہ بھی درمیان میں نہیں.فرمایا.لوگوں کی گالیوں سے ہمارا نفس جوش میں نہیں آتا.فرمایا.دولت مندوں میں نخوت ہے مگر آج کل کے علماء میں اس سے بڑھ کر ہے.ان کا تکبّر ایک دیوار کی طرح ان کی راہ میں رکاوٹ ہے.میں اس دیوار کو توڑنا چاہتا ہوں.جب یہ دیوار ٹوٹ جائے گی تو وہ انکسار کے ساتھ آویں گے.فرمایا.اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو اور یاد رکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں.کسی پر ظلم نہ کرو.نہ تیزی کرو.نہ کسی کو حقارت سے دیکھو.جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہوتا ہے تو وہ سب کو گندہ کر دیتا ہے.اگر حرارت کی طرف تمہاری طبیعت کا میلان ہو تو پھر اپنے دل کو ٹٹولو کہ یہ حرارت کس چشمہ سے نکلی ہے.یہ مقام بہت نازک ہے.۶؎ دسمبر ۱۸۹۷ء دارالامان قادیان سے بذریعہ پوسٹ کارڈ اطلاع ملی ہے کہ ہماری جماعت ہر نماز کی آخری رکعت میں بعد رکوع مندرجہ ذیل دعا بکثرت پڑھیں رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِِ.(البقرۃ:۲۰۲) ۷؎
۲۵؍ دسمبر ۱۸۹۷ء حضرت اقدسؑ کی پہلی تقریر برموقع جلسہ سالانہ تقویٰ کی بابت نصیحت حضور نے فرمایا.اپنی جماعت کی خیر خواہی کے لئے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے کیونکہ یہ بات عقلمند کے نزدیک ظاہر ہے کہ بجز تقویٰ کے اور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ.(النّحل: ۱۲۹) ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے.خصوصاًاس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلۂ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رُوبہ دنیا تھے ان تمام آفات سے نجات پاویں.آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہو جاوے خواہ اس کی بیماری چھوٹی ہو یا بڑی اگر اس بیماری کے لئے دوا نہ کی جاوے اور علاج کے لئے دکھ نہ اٹھایا جاوے بیمار اچھا نہیں ہوسکتا.ایک سیاہ داغ منہ پر نکل کر ایک بڑا فکر پیدا کردیتا ہے کہ کہیں یہ داغ بڑھتا بڑھتا کل منہ کو کالا نہ کر دے.اسی طرح معصیت کا بھی ایک سیاہ داغ دل پر ہوتا ہے.صغائر سہل انگاری سے کبائر ہوجاتے ہیں.صغائر وہی داغ چھوٹا ہے جو بڑھ کر آخر کار کل منہ کو سیاہ کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ جیسے رحیم وکریم ہے ویسا ہی قہار اور منتقم بھی ہے.ایک جماعت کو جب دیکھتا ہے کہ ان کا دعویٰ اور لاف و گزاف تو بہت کچھ ہے اور ان کی عملی حالت ایسی نہیں تو اس کا غیظ و غضب بڑھ جاتا
ہے.پھر ایسی جماعت کی سزا دہی کے لئے وہ کفار کو ہی تجویز کرتا ہے.جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ کئی دفعہ مسلمان کافروں سے تہ تیغ کئے گئے.جیسے چنگیز خاں اور ہلاکو خاں نے مسلمانوں کو تباہ کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے حمایت اور نصرت کا وعدہ کیا ہے لیکن پھر بھی مسلمان مغلوب ہوئے.اس قسم کے واقعات بسا اوقات پیش آئے.اس کا باعث یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ قوم لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تو پکارتی ہے لیکن اس کا دل کسی اور طرف ہے اور اپنے افعال سے وہ بالکل رُوبہ دنیا ہے تو پھر اس کا قہر اپنا رنگ دکھاتا ہے.قول و فعل میں مطابقت اللہ کا خوف اسی میں ہے کہ انسان دیکھے کہ اس کا قول و فعل کہاں تک ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہے.پھر جب دیکھے کہ اس کا قول وفعل برابر نہیں تو سمجھ لے کہ وہ مورد غضب الٰہی ہوگا.جو دل ناپاک ہے خواہ قول کتنا ہی پاک ہو وہ دل خدا کی نگاہ میں قیمت نہیں پاتا بلکہ خدا کا غضب مشتعل ہوگا.پس میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس آئے ہیں اسی لئے کہ تخم ریزی کی جاوے جس سے وہ پھل دار درخت ہو جاوے.پس ہر ایک اپنے اندر غور کرے کہ اس کا اندرونہ کیسا ہے اور اس کی باطنی حالت کیسی ہے؟ اگر ہماری جماعت بھی خدانخواستہ ایسی ہے کہ اس کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے تو پھر خاتمہ بالخیر نہ ہوگا.اللہ تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ ایک جماعت جو دل سے خالی ہے محض زبانی دعوے کرتی ہے.وہ غنی ہے وہ پروا نہیں کرتا.بدر کی فتح کی پیشگوئی ہو چکی تھی، ہر طرح فتح کی امید تھی لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رو رو کر دعا مانگتے تھے.حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا کہ جب ہر طرح فتح کا وعدہ ہے تو پھر ضرورت الحاح کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ذات غنی ہے یعنی ممکن ہے کہ وعدۂ الٰہی میں کوئی مخفی شرائط ہوں.برکات تقویٰ پس ہمیشہ دیکھنا چاہیے کہ ہم نے تقویٰ و طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے.اس کا معیار قرآن ہے.اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں ایک یہ بھی نشان رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہات دنیا سے آزاد کرکے اس کے کاموں کا خود متکفّل ہوجاتا ہے.
جیسے کہ فرمایا وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق: ۴،۳) جو شخص خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لئے راستہ مَخلصی کا نکال دیتا ہے اور اس کے لئے ایسے روزی کے سامان پیدا کردیتا ہے کہ اس کے علم و گمان میں نہ ہوں، یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا.مثلاً ایک دوکاندار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغ گوئی کے سوا اس کا کام ہی نہیں چل سکتا اس لئے وہ دروغ گوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کے لیے وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے لیکن یہ امر ہرگز سچ نہیں.خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہوجاتا اور اسے ایسے موقع سے بچا لیتا ہے جو خلاف حق پر مجبور کرنے والے ہوں.یاد رکھو جب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا تو خدا نے اسے چھوڑ دیا.جب رحمان نے چھوڑ دیا تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا.یہ نہ سمجھوکہ اللہ تعالیٰ کمزورہے.وہ بڑی طاقت والی ذات ہے.جب اس پر کسی امر میں بھروسہ کروگے وہ ضرور تمہاری مددکرے گا وَ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ (الطلاق :۴) لیکن جو لوگ ان آیات کے پہلے مخاطب تھے وہ اہل دین تھے.ان کی ساری فکریں محض دینی امور کے لیے تھیں اور ان کے دنیوی امور حوالہ بخدا تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں.غرض برکات تقویٰ میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو ان مصائب سے مَخلصی بخشتا ہے جو دینی امور کے حارج ہوں.متقی کے لئے روحانی رزق ایسا ہی اللہ تعالیٰ متقی کو خاص طور پر رزق دیتا ہے.یہاں میں معارف کے رزق کا ذکر کروں گا.آنحضرتؐ کو باوجود اُمّی ہونے کے تمام جہان کا مقابلہ کرنا تھا جس میں اہل کتاب، فلاسفر، اعلیٰ درجہ کے علمی مذاق والے لوگ اور عالم فاضل شامل تھے لیکن آپ کو روحانی رزق اس قدر ملا کہ آپؐ سب پر غالب آئے اور ان سب کی غلطیاں نکالیں.یہ روحانی رزق تھا کہ جس کی نظیر نہیں.متقی کی شان میں دوسری جگہ یہ بھی آیا ہے اِنْ اَوْلِيَآؤُهٗۤ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ (الانفال:۳۵) اللہ کے ولی وہ ہیں جو متقی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے دوست.پس یہ کیسی
نعمت ہے کہ تھوڑی سی تکلیف سے خدا کا مقرب کہلائے.آج کل زمانہ کس قدر پست ہمت ہے.اگر کوئی حاکم یا افسر کسی کو یہ کہہ دے کہ تو میرا دوست ہے یا اس کو کرسی دے اور اس کی عزت کرے تو وہ شیخی کرتا ہے.فخر کرتا پھرتا ہے لیکن اس انسان کا کس قدر افضل رتبہ ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ اپنا ولی یا دوست کہہ کر پکارے.اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول اکرم ؐ کی زبان سے یہ وعدہ فرمایا ہے جیسے کہ ایک حدیث بخاری میں وارد ہے لَایَزَالُ یَتَقَرَّبُ عَبْدِیْ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اَحْبَبْتُہٗ فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِہَا وَ رِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا وَاِنْ سَاَلَنِیْ لَاُعْطِیَنَّہٗ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُعِیْذَنَّہٗ.(بخاری، کتاب الرقاق ،باب التواضع) یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا ولی ایسا قرب میرے ساتھ بذریعہ نوافل کے پیدا کر لیتا ہے.الـخ فرائض و نوافل انسان جس قدر نیکیاں کرتا ہے اس کے دو حصے ہوتے ہیں.ایک فرائض دوسرے نوافل.فرائض یعنی جو انسان پر فرض کیا گیا ہو جیسے قرضہ کا اتارنا.یا نیکی کے مقابل نیکی.ان فرائض کے علاوہ ہر ایک نیکی کے ساتھ نوافل ہوتے ہیں یعنی ایسی نیکی جو اس کے حق سے فاضل ہو جیسے احسان کے مقابل احسان کے علاوہ اَور احسان کرنا یہ نوافل ہیں.یہ بطور مکملات اور متممات فرائض کے ہیں.اس حدیث میں بیان ہے کہ اولیاء اللہ کے دینی فرائض کی تکمیل نوافل سے ہو رہتی ہے.مثلاً زکوٰۃ کے علاوہ وہ اور صدقات دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسوں کا ولی ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی دوستی یہاں تک ہوتی ہے کہ میں اس کے ہاتھ، پاؤں وغیرہ حتی کہ اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے.ہر ایک فعل خدا کی منشا کے مطابق ہو بات یہ ہے کہ جب انسان جذبات نفس سے پاک ہوتا اور نفسانیت چھوڑ کر خدا کے ارادوں کے اندر چلتا ہے اس کا کوئی فعل ناجائز نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک فعل خدا کی منشا کے مطابق ہوتا ہے.جہاں لوگ ابتلا میں پڑتے ہیں وہاں یہ امر ہمیشہ ہوتا ہے کہ وہ فعل خدا کے ارادہ سے مطابق نہیں ہوتا.خدا کی رضا اس کے برخلاف ہوتی ہے.ایسا شخص اپنے جـذبات کے نیچے چلتا ہے مثلاً غصہ میں آکر
کوئی ایسا فعل اس سے سرزد ہوجاتا ہے جس سے مقدمات بن جایا کرتے ہیں.فوجداریاں ہو جاتی ہیں مگر اگر کسی کا یہ ارادہ ہو کہ بلا استصواب کتاب اللہ اس کا حرکت و سکون نہ ہوگا اور اپنی ہر ایک بات پر کتاب اللہ کی طرف رجوع کرے گا تو یقینی امر ہے کہ کتاب اللہ مشورہ دے گی.جیسے فرمایا وَلَا رَطْبٍ وَّ لَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ (الانعام:۶۰) سو اگر ہم یہ ارادہ کریں کہ ہم مشورہ کتاب اللہ سے لیں گے تو ہم کو ضرور مشورہ ملے گا لیکن جو اپنے جذبات کا تابع ہے وہ ضرور نقصان ہی میں پڑے گا.بسا اوقات وہ اس جگہ مواخذہ میں پڑے گا.سو اس کے مقابل اللہ نے فرمایا کہ ولی جو میرے ساتھ بولتے چلتے کام کرتے ہیں وہ گویا اس میں محو ہیں.سو جس قدر کوئی محویت میں کم ہے وہ اتنا ہی خدا سے دور ہے لیکن اگر اس کی محویت ویسی ہی ہے جیسے خدا نے فرمایا تو اس کے ایمان کا اندازہ نہیں.ان کی حمایت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّافَقَدْاٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ (بخاری) جو شخص میرے ولی کا مقابلہ کرتا ہے وہ میرے ساتھ مقابلہ کرتا ہے.اب دیکھ لو کہ متّقی کی شان کس قدر بلند ہے اور اس کا پایہ کس قدر عالی ہے.جس کا قرب خدا کی جناب میں ایسا ہے کہ اس کا ستایا جانا خدا کا ستایا جانا ہو تو خدا اس کا کس قدر معاون و مددگار ہوگا.متّقی کے پاس جو آجاتا ہے وہ بھی بچایا جاتا ہے لوگ بہت سے مصائب میں گرفتار ہوتے ہیں لیکن متّقی بچائے جاتے ہیں بلکہ ان کے پاس جو آجاتا ہے وہ بھی بچایا جاتا ہے.مصائب کی کوئی حد نہیں.انسان کا اپنا اندر اس قدر مصائب سے بھرا ہوا ہے کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں.امراض کو ہی دیکھ لیا جاوے کہ ہزارہا مصائب کے پیدا کرنے کو کافی ہیں لیکن جو تقویٰ کے قلعہ میں ہوتا ہے وہ ان سے محفوظ ہے اور جو اس سے باہر ہے وہ ایک ایسے جنگل میں ہے جو درندہ جانوروں سے بھرا ہوا ہے.متّقی کو اسی دنیا میں بشارتیں ملتی ہیں متّقی کے لئے ایک اور بھی وعدہ ہے.لَهُمُ الْبُشْرٰى فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ (یونس:۶۵) یعنی جو متّقی ہوتے ہیں ان کو اسی دنیا میں بشارتیں سچے خوابوں کے ذریعہ ملتی ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ
صاحبِ مکاشفات و الہامات ہوجاتے ہیں.مکالمۃ اللّٰہ کا شرف حاصل کرتے ہیں.وہ بشریت کے لباس میں ہی ملائکہ کو دیکھ لیتے ہیں.جیسے کہ فرمایا اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ...الخ (حٰمٓ السَّجدۃ :۳۱) یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور استقامت دکھلاتے ہیں یعنی ابتلا کے وقت ایسا شخص دکھلا دیتا ہے کہ جو میں نے منہ سے وعدہ کیا تھا وہ عملی طور سے پورا کرتا ہوں.ابتلا ضروری ہے کیونکہ ابتلا ضروری ہے.جیسے یہ آیت اشارہ کرتی ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ (العنکبوت:۳) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور استقامت کی ان پر فرشتے اترتے ہیں.مفسروں کی غلطی ہے کہ فرشتوں کا اترنا نزع میں ہے.یہ غلط ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ دل کو صاف کرتے ہیں اور نجاست اور گندگی سے جو اللہ سے دور رکھتی ہے اپنے نفس کو دور رکھتے ہیں ان میں سلسلہ الہام کے لئے ایک مناسبت پیدا ہوجاتی ہے.سلسلہ الہام شروع ہو جاتا ہے.پھر متّقی کی شان میں ایک اور جگہ فرمایا اِنَّ اَوْلِيَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ (یونس:۶۳) یعنی جو اللہ کے ولی ہیں ان کو کوئی غم نہیں.جس کا خدا متکفّل ہو اس کو کوئی تکلیف نہیں.کوئی مقابلہ کرنے والا ضرر نہیں دے سکتا اگر خدا ولی ہو جاوے.پھر فرمایا اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ (حٰمٓ السّجدۃ :۳۱) یعنی تم اس جنت کے لئے خوش ہو جس کا تم کو وعدہ ہے.قرآن کی تعلیم سے پایا جاتا ہے کہ انسان کے لئے دو جنت ہیں جو شخص خدا سے پیار کرتا ہے کیا وہ ایک جلنے والی زندگی میں رہ سکتا ہے؟ جب اس جگہ ایک حاکم کا دوست دنیوی تعلقات میں ایک قسم کی بہشتی زندگی میں ہوتا ہے تو کیوں نہ ان کے لئے دروازہ جنت کا کھلے جو اللہ کے دوست ہیں اگرچہ دنیا پُر از تکلیف و مصائب ہے لیکن کسی کو کیا خبر وہ کیسی لذت اٹھاتے ہیں؟ اگر ان کو رنج ہو تو آدھ گھنٹہ تکلیف اٹھانا بھی مشکل ہے حالانکہ وہ تو تمام عمر تکلیف میں رہتے ہیں.ایک زمانہ کی سلطنت ان کو دے کران کو اپنے کام سے روکا جاوے تو وہ کب کسی کی سنتے ہیں؟ اسی طرح خواہ مصیبت کے
پہاڑ ٹوٹ پڑیں وہ اپنے ارادہ کو نہیں چھوڑتے.کامل نمونہ اخلاق ہمارے ہادی کامل کو یہ دونو باتیں دیکھنی پڑیں.ایک وقت تو طائف میں پتھر برسائے گئے.ایک کثیر جماعت نے سخت سے سخت جسمانی تکلیف دی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استقلال میں فرق نہ آیا.جب قوم نے دیکھا کہ مصائب و شدائد سے ان پر کوئی اثر نہ پڑا تو انہوں نے جمع ہو کر بادشاہت کا وعدہ دیا.اپنا امیر بنانا چاہا.ہر ایک قسم کے سامان آسائش مہیا کر دینے کا وعدہ کیا.حتی کہ عمدہ سے عمدہ بی بی بھی.بدیں شرط کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) بتوں کی مذمت چھوڑ دیں لیکن جیسے کہ طائف کی مصیبت کے وقت ویسی ہی اس وعدہ بادشاہت کے وقت حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کچھ پروا نہ کی اور پتھر کھانے کو ترجیح دی.سو جب تک خاص لذت نہ ہو تو کیا ضرورت تھی کہ آرام چھوڑ کر دکھوں میں پڑتے.یہ موقع سوا ہمارے رسول علیہ الصلوٰۃ والتحیات کے کسی اور نبی کو نہ ملا کہ ان کو نبوت کا کام چھوڑنے کے لئے کوئی وعدہ دیا گیا ہو.مسیح (علیہ السلام) کو بھی یہ امر نصیب نہ ہوا.دنیا کی تاریخ میں صرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ ہی یہ معاملہ ہوا کہ آپؐ کو سلطنت کا وعدہ دیا گیا اگر آپ اپنا کام چھوڑ دیں.سو یہ عزت ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص ہے.اسی طرح ہمارے ہادی کامل کو دونوں زمانے تکلیف اور فتح مندی کے نصیب ہوئے تاکہ وہ دونوں اوقات میں کامل نمونہ اخلاق کا دکھا سکیں.اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے لئے چاہا ہے کہ ہر دو لذتیں اٹھائیں.بعض وقت دنیوی لذّات، آرام اور طیّبات کے رنگ میں بعض وقت عسرت اور مصائب میں تاکہ ان کے دونوں اخلاق کامل نمونہ دکھا سکیں.بعض اخلاق طاقت میں اور بعض مصائب میں کھلتے ہیں.ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ دونوں باتیں میسر آئیں.سو جس قدر ہم آپؐ کے اخلاق پیش کر سکیں گے کوئی اور قوم اپنے کسی نبی کے اخلاق پیش نہ کرسکے گی.جیسے مسیحؑ کا صرف صبر ظاہر ہو سکتا ہے کہ وہ مار کھاتا رہا لیکن یہ کہاں سے نکلے گا کہ ان کو طاقت نصیب ہوئی.وہ نبی بے شک سچے ہیں لیکن ان کے ہر قسم کے اخلاق ثابت نہیں.
چونکہ ان کا ذکر قرآن میں آگیا اس لئے ہم ان کو نبی مانتے ہیں واِلَّا انجیل میں تو ان کا کوئی ایسا خلق ثابت نہیں جیسے اولوالعزم انبیاء کی شان ہوتی ہے.ایسا ہی ہمارے ہادی کامل بھی اگر ابتدائی تیرہ برس کے مصائب میں مر جاتے تو ان کے اور بہت سے اخلاق فاضلہ مسیح کی طرح ثابت نہ ہوتے لیکن دوسرا زمانہ جب فتح کا آیا اور مجرم آپؐ کے سامنے پیش کئے گئے اس سے آپؐ کی صفت رحم اور عفو کا کامل ثبوت ملا اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ آپؐ کے کام کوئی جبر پر نہ تھے، نہ زبردستی تھی بلکہ ہر ایک امر اپنے طبعی رنگ میں ہوا.اسی طرح آپؐ کے اور بہت سے اخلاق بھی ثابت ہیں.سو اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا کہ نَحْنُ اَوْلِـيٰٓـؤُ كُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ (حٰمٓ السجدۃ: ۳۲) کہ ہم اس دنیا میں بھی اور آئندہ بھی متّقی کے ولی ہیں سو یہ آیت بھی تکذیب میں ان نادانوں کی ہے جنہوں نے اس زندگی میں نزول ملائکہ سے انکار کیا.اگر نزع میں نزول ملائکہ تھا تو حیات الدنیا میں خدا تعالیٰ کیسے ولی ہوا.متّقی کو آئندہ زندگی یہیں دکھلائی جاتی ہے سو یہ ایک نعمت ہے کہ ولیوں کو خدا کے فرشتے نظر آتے ہیں آئندہ کی زندگی محض ایمانی ہے لیکن ایک متّقی کو آئندہ کی زندگی یہیں دکھلائی جاتی ہے.انہیں اسی زندگی میں خدا ملتا ہے.نظر آتا ہے.ان سے باتیں کرتا ہے سو اگر ایسی صورت کسی کو نصیب نہیں تو اس کا مرنا اور یہاں سے چلے جانا نہایت خراب ہے.ایک ولی کا قول ہے کہ جس کو ایک خواب سچا عمر میں نصیب نہیں ہوا اس کا خاتمہ خطرناک ہے جیسے کہ قرآن مومن کے یہ نشان ٹھہراتا ہے.سنو! جس میں یہ نشان نہیں اس میں تقویٰ نہیں سو ہم سب کی یہ دعا چاہیے کہ یہ شرط ہم میں پوری ہو.اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام، خواب، مکاشفات کا فیضان ہو کیونکہ یہ مومن کا خاصہ ہے.سو یہ ہونا چاہیے.بہت سی اور بھی برکات ہیں جو متّقی کو ملتی ہیں مثلاً سورۂ فاتحہ میں جو قرآن کے شروع میں ہی ہے اللہ تعالیٰ مومن کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ دعا مانگیں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ (الفاتحۃ: ۶، ۷) یعنی ہمیں وہ راہ سیدھی بتلا ان لوگوں کی جن پر تیرا انعام و فضل ہے.یہ اس لئے سکھلائی گئی کہ انسان عالی ہمت ہو کر اس سے خالق کا منشا
سمجھے اور وہ یہ ہے کہ یہ امت بہائم کی طرح زندگی بسر نہ کرے بلکہ اس کے تمام پردے کھل جاویں جیسے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ولایت بارہ اماموں کے بعد ختم ہو گئی.برخلاف اس کے اس دعا سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے پہلے سے ارادہ کر رکھا ہے کہ جو متقی ہو اور خدا کی منشا کے مطابق ہے تو وہ ان مراتب کو حاصل کر سکے جو انبیاء اور اصفیاء کو حاصل ہوتے ہیں.اس سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ انسان کو بہت سے قویٰ ملے ہیں جنہوں نے نشوونما پانا ہے اور بہت ترقی کرنا ہے.ہاں ایک بکرا چونکہ انسان نہیں اس کے قویٰ ترقی نہیں کرسکتے.عالی ہمت انسان جب رسولوں اور انبیاء کے حالات سنتا ہے تو چاہتا ہے کہ وہ انعامات جو اس پاک جماعت کو حاصل ہوئے اس پر نہ صرف ایمان ہی ہو بلکہ اسے بتدریج ان نعماء کا علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین ہو جاوے.علم کے تین مدارج علم کے تین مدارج ہیں.علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین.مثلاً ایک جگہ سے دھواں نکلتا دیکھ کر آگ کا یقین کر لینا علم الیقین ہے لیکن خود آنکھ سے آگ کا دیکھنا عین الیقین ہے.ان سے بڑھ کر درجہ حق الیقین کا ہے یعنی آگ میں ہاتھ ڈال کر جلن اور حرقت سے یقین کر لینا کہ آگ موجود ہے.پس کیسا وہ شخص بد قسمت ہے جس کو تینوں میں سے کوئی درجہ حاصل نہیں.اس آیت کے مطابق جس پر اللہ کا فضل نہیں وہ کورانہ تقلید میں پھنسا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) جو ہماری راہ میں مجاہدہ کرے گا ہم اس کو اپنی راہیں دکھلا دیں گے.یہ تو وعدہ ہے اور ادھر یہ دعا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ (الفاتحۃ:۶) سو انسان کو چاہیے کہ اس کو مدنظر رکھ کر نماز میں بالحاح دعا کرے اور تمنا رکھے کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہو جاوے جو ترقی اور بصیرت حاصل کر چکے ہیں ایسا نہ ہو کہ اس جہان سے بے بصیرت اور اندھا اٹھایا جاوے چنانچہ فرمایا وَمَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسرآءیل : ۷۳) کہ جو اِس جہان میں اندھا ہے وہ اُس جہان میں بھی اندھا ہے جس کی منشا یہ ہے کہ اس جہان کے مشاہدہ کے لئے اسی جہان سے ہم کو آنکھیں لے جانی ہیں.آئندہ جہان کو محسوس کرنے کے لئے حواس کی طیاری اسی جہان میں ہوگی پس کیا یہ گمان
ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وعدہ کرے اور پورا نہ کرے.اندھا کون ہے؟ اندھے سے مراد وہ ہے جو روحانی معارف اور روحانی لذات سے خالی ہے.ایک شخص کورانہ تقلید سے کہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوگیا مسلمان کہلاتا ہے.دوسری طرف اسی طرح ایک عیسائی عیسائیوں کے ہاں پیدا ہو کر عیسائی ہوگیا.یہی وجہ ہے کہ ایسے شخص کو خدا، رسول اور قرآن کی کوئی عزت نہیں ہوتی.اس کی دین سے محبت بھی قابل اعتراض ہے.خدا اور رسول کی ہتک کرنے والوں میں اس کا گزر ہوتا ہے.اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایسے شخص کی روحانی آنکھ نہیں.اس میں محبت دین نہیں.وَاِلَّا محبت والا اپنے محبوب کے برخلاف کیا کچھ پسند کرتا ہے؟ غرض اللہ تعالیٰ نے سکھلایا ہے کہ میں تو دینے کو طیار ہوں اگر تو لینے کو طیار ہے.پس یہ دعا کرنا ہی اس ہدایت کو لینے کی طیاری ہے.متّقی اس دعا کے بعد سورہ بقرہ کے شروع میں ہی جو هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ (البقرۃ:۳) کہا گیا تو گویا خدا تعالیٰ نے دینے کی طیاری کی.یعنی یہ کتاب متقی کو کمال تک پہنچانے کا وعدہ کرتی ہے.سو اس کے معنے یہ ہیں کہ یہ کتاب ان کے لیے نافع ہے جو پرہیز کرنے اور نصیحت سننے کو تیار ہو.اس درجہ کا متقی وہ ہے جو مخلَّی بالطبع ہو کر حق کی بات سننے کو تیار ہو.جیسے جب کوئی مسلمان ہوتا ہے تو وہ متقی بنتا ہے.جب کسی غیر مذہب کے اچھے دن آئے تو اس میں اتّقا پیدا ہوا.عُجب، غرور، پندار دور ہوا.یہ تمام روکیں تھیں جو دور ہو گئیں.ان کے دور ہونے سے تاریک گھر کی کھڑکی کھل گئی اور شعاعیں اندر داخل ہو گئیں.یہ جو فرمایا کہ یہ کتاب متّقین کی ہدایت ہے یعنی هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ تو اتّقا جو افتعال کے باب پر ہے اور یہ باب تکلّف کے لیے آیا کرتا ہے یعنی اس میں اشارہ ہے کہ جس قدر یہاں ہم تقویٰ چاہتے ہیں وہ تکلف سے خالی نہیں، جس کی حفاظت کے لئے اس کتاب میں ہدایات ہیں.گویا متّقی کو نیکی کرنے میں تکلیف سے کام لینا پڑتا ہے.عبد صالح جب یہ درجہ گزر جاتا ہے تو سالک عبدصالح ہو جاتا ہے.گویا تکلیف کا رنگ دور ہوا اور صالح نے طبعاً و فطرتاً نیکی شروع کی.وہ ایک قسم کے دارالامان میں ہے جس کو
کوئی خطرہ نہیں.اب کُل جنگ اپنے نفسانی جذبات کے برخلاف ختم ہوچکی اور وہ امن میں آگیا اور ہر ایک قسم کے خطرات سے پاک ہوگیا.اسی امر کی طرف ہمارے ہادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا ہے.فرمایا کہ ہر ایک کے ساتھ شیطان ہوتا ہے لیکن میرا شیطان مسلم ہوگیا ہے.سو متقی کو ہمیشہ شیطان کے مقابل جنگ ہے لیکن جب وہ صالح ہو جاتا ہے تو کُل جنگیں بھی ختم ہو جاتی ہیں.مثلاً ایک ریا ہی ہے جس سے اسے آٹھوں پہر جنگ ہے.متقی ایک ایسے میدان میں ہے جہاں ہر وقت لڑائی ہے.اللہ کے فضل کا ہاتھ اس کے ساتھ ہو تو اسے فتح ہو.جیسے ریا جس کی چال ایک چیونٹی کی طرح ہے.بعض وقت انسان بے سمجھے لیکن موقع پر ریا کو دل میں پیدا ہونے کا موقع دے دیتا ہے.مثلاً ایک کا چاقو گم ہو جاوے اور وہ دوسرے سے دریافت کرے تواس موقع پر ایک متقی کا جنگ شیطان سے شروع ہو جاتا ہے جو اسے سکھاتا ہے کہ مالک چاقو کا اس طرح دریافت کرنا ایک قسم کی بے عزتی ہے جس سے اس کے افروختہ ہونے کا احتمال ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ آپس میں لڑائی بھی ہو جاوے.اس موقع پر ایک متقی کو اپنے نفس کی بدخواہش سے جنگ ہے.اگر اس شخص میں محض للہ دیانت موجود ہو تو غصہ کرنے کی اس میں ضرورت ہی کیا ہے، کیونکہ دیانت جس قدر مخفی رکھی جاوے اسی قدر بہتر ہو.مثلاً ایک جواہری کو راستہ میں چند چور مل جاویں اور چور آپس میں اس کے متعلق مشورہ کریں.بعض اسے دولت مند بتلاویں اور بعض کہیں کہ وہ کنگال ہے.اب مقابلتاً یہ جواہری انہیں کو پسند کرے گا جو اسے کنگال ظاہر کریں گے.اعمال میں اخفا اچھا ہے اسی طرح یہ دنیا کیا ہے.ایک قسم کی دارالابتلا ہے.وہی اچھا ہے جو ہر ایک امر خفیہ رکھے اور ریا سے بچے.وہ لوگ جن کے اعمال للّٰہی ہوتے ہیں وہ کسی پر اپنے اعمال کو ظاہر ہونے نہیں دیتے.یہی لوگ متقی ہیں.میں نے تذکرۃ الاولیاء میں دیکھا ہے کہ ایک مجمع میں ایک بزرگ نے سوال کیا کہ اس کو کچھ روپیہ کی ضرورت ہے کوئی اس کی مدد کرے.ایک نے صالح سمجھ کر اس کو ایک ہزار روپیہ دیا.انہوں نے روپیہ لے کر اس کی سخاوت اور فیاضی کی تعریف کی.اس بات پر وہ رنجیدہ ہوا کہ جب یہاں ہی
تعریف ہو گئی تو شاید ثواب آخرت سے محرومیت ہو.تھوڑی دیر کے بعد وہ آیا اور کہا کہ وہ روپیہ اس کی والدہ کا تھا جو دینا نہیں چاہتی چنانچہ وہ روپیہ واپس دیا گیا جس پر ہر ایک نے لعنت کی اور کہا کہ جھوٹا ہے اصل میں یہ روپیہ دینا نہیں چاہتا.جب شام کے وقت وہ بزرگ گھر گیا تو وہ شخص ہزار روپیہ اس کے پاس لایا اور کہا کہ آپ نے سرعام میری تعریف کر کے مجھے محروم ثواب آخرت کیا اس لئے میں نے یہ بہانہ کیا.اب یہ روپیہ آپ کا ہے لیکن آپ کسی کے آگے نام نہ لیں.بزرگ رو پڑا اور کہا کہ اب تو قیامت تک مورد لعن طعن ہوا کیونکہ کل کا واقعہ سب کو معلوم ہے اور یہ کسی کو معلوم نہیں کہ تونے مجھے روپیہ واپس دے دیا ہے.ایک متقی تو اپنے نفس امارہ کے برخلاف جنگ کر کے اپنے خیال کو چھپاتا ہے اور خفیہ رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس خفیہ خیال کو ہمیشہ ظاہر کردیتا ہے جیسا ایک بدمعاش کسی بدچلنی کا مرتکب ہو کر خفیہ رہنا چاہتا ہے، اسی طرح ایک متقی چھپ کر نماز پڑھتا ہے اور ڈرتا ہے کہ کوئی اس کو نہ دیکھ لے.سچا متقی ایک قسم کا ستر چاہتا ہے.تقویٰ کے مراتب بہت ہیں لیکن بہر حال تقویٰ کے لئے تکلّف ہے اور متقی حالت جنگ میں ہے اور صالح اس جنگ سے باہر ہے.جیسے کہ میں نے مثال کے طور پر اوپر ریا کا ذکر کیا جس سے متقی کو آٹھوں پہر جنگ ہے.ریا اور حلم کا جنگ بسا اوقات ریا اور حلم کا جنگ ہو جاتا ہے.کبھی انسان کا غصہ کتاب اللہ کے برخلاف ہوتا ہے.گالی سن کر اس کا نفس جوش مارتا ہے.تقویٰ تو اُس کو سکھلاتا ہے کہ وہ غصہ ہونے سے باز رہے.جیسے قرآن کہتا ہے وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا (الفرقان:۷۳) ایسا ہی بے صبری کے ساتھ اسے اکثر جنگ کرنا پڑتا ہے.بے صبری سے مراد یہ ہے کہ اس کو راہ تقویٰ میں اس قدر دقتوں کا مقابلہ ہے کہ مشکل سے وہ منزل مقصود پر پہنچتا ہے اس لئے بے صبر ہو جاتا ہے مثلاً ایک کنواں پچاس ہاتھ تک کھودنا ہے.اگر دو چار ہاتھ کے بعد کھودنا چھوڑ دیا جاوے تو محض یہ ایک بدظنی ہے.اب تقویٰ کی شرط یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے احکام دیئے ان کو اخیر تک پہنچائے اور بے صبر نہ ہوجاوے.
راہ سلوک میں مبارک قدم دو گروہ ہیں راہ سلوک میں مبارک قدم دو گروہ ہیں.ایک دین العجائز والے جو موٹی موٹی باتوں پر قدم مارتے ہیں مثلاً احکام شریعت کے پابند ہوگئے اور نجات پاگئے.دوسرے وہ جنہوں نے آگے قدم مارا.ہرگز نہ تھکے اور چلتے گئے حتی کہ منزل مقصود تک پہنچ گئے لیکن نامراد وہ فرقہ ہے کہ دین العجائز سے تو قدم آگے رکھا لیکن منزل سلوک کو طے نہ کیا وہ ضرور دہریہ ہوجاتے ہیں جیسے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو نمازیں بھی پڑھتے رہے، چلہ کشیاں بھی کیں لیکن فائدہ کچھ نہ ہوا.جیسے ایک شخص منصور مسیح نے بیان کیا کہ اس کی عیسائیت کا باعث یہی تھا کہ وہ مرشدوں کے پاس گیا چلہ کشی کرتا رہا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا بدظن ہو کر عیسائی ہوگیا.صدق و صبر سو جو لوگ بے صبری کرتے ہیں وہ شیطان کے قبضہ میں آجاتے ہیں.سو متّقی کو بے صبری کے ساتھ بھی جنگ ہے.بوستان میں ایک عابد کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب کبھی وہ عبادت کرتا تو ہاتف یہی آواز دیتا کہ تو مردود و مخذول ہے.ایک دفعہ ایک مرید نے یہ آواز سن لی اور کہا کہ اب تو فیصلہ ہوگیا اب ٹکریں مارنے سے کیا فائدہ ہوگا؟ وہ بہت رویا اور کہا کہ میں اس جناب کو چھوڑ کر کہاں جاؤں.اگر ملعون ہوں تو ملعون ہی سہی.غنیمت ہے کہ مجھ کو ملعون تو کہا جاتا ہے.ابھی یہ باتیں مرید سے ہو ہی رہی تھیں کہ آواز آئی کہ تو مقبول ہے.سو یہ سب صدق و صبر کا نتیجہ تھا جو متقی میں ہونا شرط ہے.استقامت یہ جو فرمایا کہ وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) یعنی ہمارے راہ کے مجاہد راستہ پاویں گے.اس کے معنے یہ ہیں کہ اس راہ میں پیمبر کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنا ہوگا.ایک دو گھنٹہ کے بعد بھاگ جانا مجاہد کا کام نہیں بلکہ جان دینے کے لئے طیار رہنا اس کا کام ہے سو متقی کی نشانی استقامت ہے جیسے کہ فرمایا اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا (حٰـمٓ السجدۃ:۳۱) یعنی جنہوں نے کہا کہ رب ہمارا اللہ ہے اور استقامت دکھلائی اور ہر طرف سے منہ پھیر کر اللہ کو ڈھونڈا.مطلب یہ کہ کامیابی استقامت پرموقوف ہے اور
وہ اللہ کو پہچاننا اور کسی ابتلا اور زلازل اور امتحان سے نہ ڈرنا ہے.ضرور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مورد مخاطبہ و مکالمہ الٰہی انبیاء کی طرح ہوگا.ولی بننے کے لئے ابتلا ضروری ہیں بہت سے لوگ یہاں آتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پھوک مار کر عرش پر پہونچائے اور واصلین سے ہوجاویں.ایسے لوگ ٹھٹھہ کرتے ہیں.وہ انبیاء کے حالات کو دیکھیں.یہ غلطی ہے جو کہا جاتا ہے کہ کسی ولی کے پاس جا کر صدہا ولی فی الفور بن گئے.اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے کہ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ (العنکبوت:۳) جب تک انسان آزمایا نہ جاوے، فتن میں نہ ڈالا جاوے وہ کب ولی بن سکتا ہے.ایک مجلس میں بایزیدؒ وعظ فرمارہے تھے.وہاں ایک مشائخ زادہ بھی تھا جو ایک لمبا سلسلہ رکھتا تھا.اس کو آپ سے اندرونی بغض تھا.اللہ تعالیٰ کا یہ خاصہ ہے کہ پرانے خاندانوں کو چھوڑ کر کسی اور کو لے لیتا ہے جیسے بنی اسرائیل کو چھوڑ کر بنی اسماعیل کو لے لیا.کیونکہ وہ لوگ عیش وعشرت میں پڑ کر خدا کو بھول گئے ہوتے ہیں وَ تِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (اٰلِ عمران:۱۴۱) سو اس شیخ زادے کو خیال آیا کہ یہ ایک معمولی خاندان کا آدمی ہے.کہاں سے ایسا صاحب خوارق آگیا.لوگ اس طرف جھکتے ہیں اور ہماری طرف نہیں آتے.یہ باتیں خدا تعالیٰ نے بایزید ؒ پر ظاہر کیں.انہوں نے ایک قصہ کے رنگ میں یہ بیان شروع کیا کہ ایک جگہ مجلس میں رات کے وقت ایک لیمپ....میں جل رہا تھا.تیل اور پانی میں بحث ہوئی.پانی نے تیل کو کہا کہ تو کثیف اور گندہ ہے اور باوجود کثافت کے میرے اوپر آتا ہے.میں ایک مصفا چیز ہوں اور طہارت کے لئے استعمال کیا جاتا ہوں لیکن نیچے ہوں.اس کا باعث کیا ہے؟ تیل نے کہا کہ جس قدر صعوبتیں میں نے کھینچی ہیں تو نے کہاں وہ جھیلی ہیں جس کے باعث یہ بلندی مجھے نصیب ہوئی.ایک زمانہ تھا جب میں بویا گیا زمین میں مخفی رہا، خاکسار ہوا.پھر خدا کے ارادہ سے بڑھا.بڑھنے نہ پایا کہ کاٹا گیا.پھر طرح طرح کی مشقتوں کے بعد صاف کیا گیا.کولہوں میں پیسا گیا.پھر تیل بنا اور آگ لگائی گئی.کیا ان مصائب
کے بعد بھی میں بلندی حاصل نہ کرتا؟ یہ ایک مثال ہے کہ اہل اللہ مصائب، شدائد کے بعد درجات پاتے ہیں.لوگوں کا یہ خیال خام ہے کہ فلاں شخص فلاں کے پاس جا کر بلا مجاہدہ و تزکیہ ایک دم میں صدیقین میں داخل ہو گیا.قرآن کو دیکھو کہ خدا کس طرح تم پر راضی ہو.جب تک نبیوں کی طرح تم پر مصائب و زلازل نہ آویں جنہوں نے بعض وقت تنگ آکر یہ بھی کہہ دیا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ (البقرۃ:۲۱۵) اللہ کے بندے ہمیشہ بلاؤں میں ڈالے گئے پھر خدا نے ان کو قبول کیا.ترقیات کی دو راہیں صوفیوں نے ترقیات کی دو راہیں لکھی ہیں.ایک سلوک دوسرا جذب.سلوک سلوک وہ ہے جو لوگ آپ عقلمندی سے سوچ کر اللہ و رسولؐ کا راہ اختیار کرتے ہیں جیسے فرمایا قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (اٰلِ عمران:۳۲) یعنی اگر تم اللہ کے پیارے بننے چاہتے ہو تو رسول اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی کرو.وہ ہادی کامل وہی رسول ہیں جنہوں نے وہ مصائب اٹھائے کہ دنیا اپنے اندر نظیر نہیں رکھتی.ایک دن بھی آرام نہ پایا.اب پیروی کرنے والے بھی حقیقی طور سے وہی ہوں گے جو اپنے متبوع کے ہر قول و فعل کی پیروی پوری جدوجہد سے کریں.متبع وہی ہے جو سب طرح پیروی کرے گا.سہل انگار اور سخت گزار کو اللہ پسند نہیں کرتا بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے غضب میں آوے گا.یہاں جو اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی کا حکم دیا تو سالک کا کام یہ ہوگا کہ اول رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی کل تاریخ دیکھے اور پھر پیروی کرے.اسی کا نام سلوک ہے.اس راہ میں بہت مصائب و شدائد ہوتے ہیں ان سب کو اٹھانے کے بعد ہی انسان سالک ہوتا ہے.جذب اہل جذب کا درجہ سالکوں سے بڑھا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں سلوک پر ہی نہیں رکھتا بلکہ خود ان کو مصائب میں ڈالتا اور جاذبہ ازلی سے اپنی طرف کھینچتا ہے.کل انبیاء مجذوب ہی تھے.
جس وقت انسانی روح کو مصائب کا مقابلہ ہوتا ہے ان سے فرسودہ کار اور تجربہ کار ہو کر روح چمک اٹھتی ہے.جیسے لوہا یا شیشہ اگرچہ چمک کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہے.لیکن صیقلوں کے بعد ہی مجلّٰی ہوتا ہے حتی کہ اس میں منہ دیکھنے والے کا نظر آجاتا ہے.مجاہدات بھی صیقل کا ہی کام کرتے ہیں.دل کا صیقل یہاں تک ہونا چاہیے کہ اس میں سے بھی منہ نظر آجاوے.منہ کا نظر آنا کیا ہے؟ تَخَلَّقُوْابِاَخْلَاقِ اللّٰہِ کا مصداق ہونا.سالک کا دل آئینہ ہے جس کو مصائب و شدائد اس قدر صیقل کردیتے ہیں کہ اخلاق النبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں منعکس ہوجاتے ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب بہت مجاہدات اور تزکیوں کے بعد اس کے اندر کسی قسم کی کدورت یا کثافت نہ رہے تب یہ درجہ نصیب ہوتا ہے.ہر ایک مومن کو ایک حد تک ایسی صفائی کی ضرورت ہے.کوئی مومن بلا آئینہ ہونے کے نجات نہ پائے گا.سلوک والا خود یہ صیقل کرتا ہے.اپنے کام سے مصائب اٹھاتا ہے لیکن جذب والا مصائب میں ڈالا جاتا ہے.خدا خود اس کا مصقل ہوتا ہے اور طرح طرح کے مصائب وشدائد سے صیقل کرکے اس کو آئینہ کا درجہ عطا کر دیتا ہے.دراصل سالک و مجذوب دونوں کا ایک ہی نتیجہ ہے.سو متقی کے دو حصے ہیں.سلوک و جذب.ایمان بالغیب تقویٰ جیسے کہ میں بیان کر آیا ہوں کسی قدر تکلف کو چاہتا ہے.اسی لئے تو فرمایا کہ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ (البقرۃ:۴،۳) اس میں ایک تکلّف ہے مشاہدہ کے مقابل ایمان بالغیب لانا ایک قسم کے تکلّف کو چاہتا ہے سو متقی کے لئے ایک حد تک تکلّف ہے کیونکہ جب وہ صالح کا درجہ حاصل کرتا ہے تو پھر غیب اس کے لئے غیب نہیں رہتا کیونکہ صالح کے اندر سے ایک نہر نکلتی ہے جو اس میں سے نکل کر خدا تک پہنچتی ہے وہ خدا اور اس کی محبت کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے کہ مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسرآءیل :۷۳) اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک انسان پوری روشنی اسی جہان میں نہ حاصل کر لے وہ کبھی خدا کا منہ نہ دیکھے گا.سو متقی کا کام یہی ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے سرمے طیار کرتا رہے جس سے اس کا روحانی نزول الماء دور ہو جاوے.اب اس سے ظاہر ہے کہ متقی شروع میں اندھا ہوتا ہے.مختلف کوششوں اور تزکیوں
سے وہ نور حاصل کرتا ہے.سو جب سوجاکھا ہوگیا اور صالح بن گیا پھر ایمان بالغیب نہ رہا اور تکلف بھی ختم ہوگیا.جیسے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بِرَأْیِ الْعَیْن اسی عالم میں بہشت دوزخ وغیرہ سب کچھ مشاہدہ کرایا گیا.جو متقی کو ایک ایمان بالغیب کے رنگ میں ماننا پڑتا ہے وہ تمام آپ کے مشاہدہ میں آگیا.سو اس آیت میں اشارہ ہے کہ متقی اگرچہ اندھا ہے اور تکلّف کی تکلیف میں ہے لیکن صالح ایک دارالامان میں آگیا ہے اور اس کا نفس نفسِ مطمئنہ ہو گیا ہے.متقی اپنے اندر ایمان بالغیب کی کیفیت رکھتا ہے.وہ اندھا دھند طریق سے چلتا ہے.اس کو کچھ خبر نہیں.ہر ایک بات پر اس کا ایمان بالغیب ہے یہی اس کا صدق ہے اور اس صدق کے مقابل خدا کا وعدہ ہے کہ وہ فلاح پائے گا اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (البقرۃ:۶) اقامت ِصلوٰۃ اس کے بعد متقی کی شان میں آیا ہے وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ (البقرۃ:۴) یعنی وہ نماز کو کھڑی کرتا ہے.یہاں لفظ کھڑی کرنے کا آیا ہے یہ بھی اس تکلف کی طرف اشارہ کرتا ہے جو متقی کا خاصہ ہے یعنی جب وہ نماز شروع کرتا ہے تو طرح طرح کے وساوس کا اسے مقابلہ ہے جن کے باعث اس کی نماز گویا بار بار گرتی پڑتی ہے جس کو اس نے کھڑا کرنا ہے.جب اس نے اللہ اکبر کہا تو ایک ہجوم وساوس ہے جو اس کے حضور قلب میں تفرق ڈال رہا ہے وہ ان سے کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے.پریشان ہوتا ہے.ہر چند حضور و ذوق کے لئے لڑتا مرتا ہے لیکن نماز جو گری پڑتی ہے بڑی جان کنی سے اسے کھڑا کرنے کے فکر میں ہے.بار بار اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہہ کر نماز کے قائم کرنے کے لئے دعا مانگتا ہے اور ایسے الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی ہدایت چاہتا ہے جس سے اس کی نماز کھڑی ہو جاوے.ان وساوس کے مقابل میں متقی ایک بچہ کی طرح ہے جو خدا کے آگے گڑگڑاتا ہے.روتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ (الاعراف :۱۷۷) ہو رہا ہوں سو یہی وہ جنگ ہے جو متقی کو نماز میں نفس کے ساتھ کرنا ہے اور اسی پر ثواب مترتّب ہوگا.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نماز میں وساوس کو فی الفور دور کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ کی منشا کچھ اور ہے.کیا خدا نہیں جانتا؟ حضرت شیخ عبدالقادر گیلانی (رحمۃ اللہ علیہ) کا قول
ہے کہ ثواب اس وقت تک ہے جب تک مجاہدات ہیں اور جب مجاہدات ختم ہوئے تو ثواب ساقط ہو جاتا ہے.گویا صوم و صلوٰۃ اس وقت تک اعمال ہیں جب تک ایک جدوجہد سے وساوس کا مقابلہ ہے لیکن جب ان میں ایک اعلیٰ درجہ پیدا ہوگیا اور صاحب صوم و صلوٰۃ تقویٰ کے تکلف سے بچ کر صلاحیت سے رنگین ہو گیا تو اب صوم و صلوۃ اعمال نہیں رہے.اس موقع پر انہوں نے سوال کیا ہے کہ کیا اب نماز معاف ہو جاتی ہے؟ کیونکہ ثواب تو اس وقت تک تھا جس وقت تک تکلف کرنا پڑتا تھا.سو بات یہ ہے کہ نماز اب عمل نہیں بلکہ ایک انعام ہے.یہ نماز اس کی ایک غذا ہے، اس کے لئے قرۃ العین ہے.یہ گویا نقد بہشت ہے.مقابل میں وہ لوگ جو مجاہدات میں ہیں وہ کُشتی کر رہے ہیں اور یہ نجات پا چکا ہے.سو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا سلوک جب ختم ہوا تو اس کے مصائب بھی ختم ہو گئے مثلاً ایک مخنث اگر کہے کہ وہ کبھی کسی عورت کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا تو وہ کون سی نعمت یا ثواب کا مستحق ہے.اس میں تو صفت بد نظری ہے ہی نہیں لیکن ایک مرد صاحب رجولیت اگر ایسا کرے تو ثواب پاوے گا.اسی طرح انسان کو ہزاروں مقامات طے کرنے پڑتے ہیں.بعض بعض امور میں اس کی مشاقی اس کو قادر کر دیتی ہے.نفس کے ساتھ اس کی مصالحت ہو گئی اب وہ ایک بہشت میں ہے لیکن وہ پہلا سا ثواب نہیں رہے گا.وہ ایک تجارت کر چکا ہے جس کا اب وہ نفع اٹھا رہا ہے لیکن پہلا رنگ نہ رہے گا.انسان میں ایک فعل تکلف سے کرتے کرتے اس میں طبعیت کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے.ایک شخص جو طبعی طور سے لذّت پاتا ہے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اس کام سے ہٹایا جاوے.وہ طبعاً یہاں سے ہٹ نہیں سکتا.سو اتّقا اور تقویٰ کی حد تک پورا انکشاف نہیں ہوتا.وہ ایک قسم کا دعویٰ ہے.انفاق من رزق اللہ اس کے بعد متقی کی شان میں وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ (البقرۃ:۴) آیا ہے.یہاں متقی کے لئے مِمَّا کا لفظ استعمال کیا کیونکہ اس وقت وہ ایک اَعْـمٰی کی حالت میں ہے اس لئے جو کچھ خدا نے اس کو دیا اس میں سے کچھ خدا کے نام کا دیا.حق یہ ہے کہ اگر وہ آنکھ رکھتا تو دیکھ لیتا کہ اس کا کچھ بھی نہیں سب خدا کا ہی ہے.یہ ایک حجاب تھا
جو اتقا میں لازمی ہے.اس حالت اتقا کے تقاضے نے متقی سے خدا کے دئیے میں سے کچھ دلوایا.رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایام وفات میں دریافت فرمایا کہ گھر میں کچھ ہے؟ معلوم ہوا کہ ایک دینار تھا.فرمایا کہ یہ سیرت یگانگت سے بعید ہے کہ ایک چیز بھی اپنے پاس رکھی جاوے.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اتقا کے درجہ سے گزر کر صلاحیت تک پہنچ چکے تھے اس لئے مِمَّا ان کی شان میں نہ آیا کیونکہ وہ اندھا ہے جس نے کچھ اپنے پاس رکھا اور کچھ خدا کو دیا لیکن یہ لازمۂ متقی تھا کیونکہ خدا کے راہ دینے میں بھی اسے نفس کے ساتھ جنگ تھا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کچھ دیا اور کچھ رکھا.وہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب خدا کو دیا اور اپنے لئے کچھ نہ رکھا.جیسے دھرم مہوتسو کے مضمون میں انسان کی تین حالتیں ذکر کی گئی ہیں جو انسان پر ابتدا سے انتہا تک وارد ہوتی ہیں اسی طرح یہاں بھی قرآن نے جو انسان کو تمام مراحـل ترقی کے طے کرانے آیا اتقا سے شروع کیا.یہ ایک تکلّف کا راستہ ہے.یہ ایک خطرناک میدان ہے.اس کے ہاتھ میں تلوار ہے اور مقابل بھی تلوار ہے.اگر بچ گیا تو نجات پا گیا وَ اِلَّا اَسْفَلَ السَّافِلِیْنَ میں پڑ گیا.چنانچہ یہاں متقی کی صفات میں یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ ہم دیتے ہیں اسے سب کا سب خرچ کر دیتا ہے متقی میں ابھی اس قدر ایمانی طاقت نہیں جو نبی کی شان ہوتی ہے کہ وہ ہمارے ہادیٔ کامل کی طرح کُل کا کُل دیا ہوا خدا کا خدا کو دے دے.اسی لئے پہلے مختصر سا ٹیکس لگایا گیا تا کہ چاشنی چکھ کر زیادہ کے لئے طیار ہو جاوے.رزق وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ (البقرۃ:۴) رزق سے مراد صرف مال نہیں بلکہ جو کچھ ان کو عطا ہوا.علم، حکمت، طبابت.یہ سب کچھ رزق میں ہی شامل ہے.اس کو اسی میں سے خدا کی راہ میں بھی خرچ کرنا ہے.تدریج کے ساتھ تعلیم کی تکمیل انسان نے اس راہ میں بتدریج اور زینہ بزینہ ترقی کرنا ہے.اگر انجیل کی طرح یہ تعلیم ہوتی کہ گال پر ایک طمانچہ کھا کر دوسرے طمانچہ کے لئے گال آگے رکھ دی جاوے یا سب کچھ دے دیا جاوے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا
کہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح تعلیم کے ناممکن التعمیل ہونے کے باعث ثواب سے محروم رہتے.لیکن قرآن تو حسب فطرت انسانی آہستہ آہستہ ترقی کراتا ہے.انجیل کی مثال تو اس لڑکے کی ہے جو مکتب میں داخـل ہوتے ہی بڑی مشکل مکتب کی کتاب پڑھنے کے لئے مجبور کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ حکیم ہے.اس کی حکمت کا یہی تقاضا ہونا چاہیے تھا کہ تدریج کے ساتھ تعلیم کی تکمیل ہو.اس کے بعد متقی کے لئے فرمایا وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَ (البقرۃ:۵) یعنی متقی وہ ہوتے ہیں جو پہلے نازل شدہ کتب پر اور تجھ پر جو کتاب نازل ہوئی اس پر اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں.یہ امر بھی تکلف سے خالی نہیں.ابھی تک ایمان ایک محجوبیت کے رنگ میں ہے.متقی کی آنکھیں معرفت اور بصیرت کی نہیں.اس نے تقویٰ سے شیطان کا مقابلہ کر کے ابھی ایک بات کو مان لیا ہے.یہی حال اس وقت ہماری جماعت کا ہے.انہوں نے بھی تقویٰ سے مانا تو ہے اور ابھی وہ نہیں جانتے کہ یہ جماعت کہاں تک نشوونما الٰہی ہاتھوں سے پانے والی ہے.سو یہ ایک ایمان ہے جو بالآخر فائدہ رساں ہوگا.یقین کا لفظ عام طور پر جب استعمال ہو تو اس سے مراد اس کا ادنیٰ درجہ ہوتا ہے یعنی علم کے تین مدارج میں سے ادنیٰ درجہ کا علم یعنی علم الیقین.اس درجہ پر اتقا والا ہوتا ہے مگر بعد اس کے عین الیقین اور حق الیقین کا مرتبہ بھی تقویٰ کے مراحل طے کرنے کے بعد حاصل کر لیتا ہے.تقویٰ کوئی چھوٹی چیز نہیں.اس کے ذریعہ ان تمام شیطانوں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے جو انسان کی ہر ایک اندرونی طاقت و قوت پر غلبہ پائے ہوئے ہیں.یہ تمام قوتیں نفس امارہ کی حالت میں انسان کے اندر شیطان ہیں اگر اصلاح نہ پائیں گی تو انسان کو غلام کر لیں گی.علم و عقل ہی برے طور پر استعمال ہو کر شیطان ہو جاتے ہیں.متقی کا کام ان کی اور ایسا ہی اور کل قویٰ کی تعدیل کرنا ہے.سچا مذہب انسانی قویٰ کا مربی ہوتا ہے ایسا ہی جو لوگ انتقام، غضب یا نکاح کو ہر حال میں بُرا جانتے ہیں وہ بھی صحیفۂ قدرت کے مخالف ہیں اور قویٰ انسانی کا مقابلہ کرتے ہیں.سچا مذہب وہی ہے جو انسانی قویٰ کا مربی ہو نہ کہ
ان کا استیصال کرے.رجولیت یا غضب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے فطرت انسانی میں رکھے گئے ہیں ان کو چھوڑنا خدا کا مقابلہ کرنا ہے جیسے تارک الدنیا ہونا یا راہب بن جانا.یہ تمام حق العباد کو تلف کرنے والے ہیں اگر یہ امر ایسا ہی ہوتا تو گویا اس خدا پر اعتراض ہے جس نے یہ قویٰ ہم میں پیدا کئے.سو ایسی تعلیمیں جو انجیل میں ہیں اور جن سے قویٰ کا استیصال لازم آتا ہے ضلالت تک پہنچاتی ہیں.اللہ تعالیٰ تو اس کی تعدیل کا حکم دیتا ہے ضائع کرنا پسند نہیں کرتا.جیسے فرمایا اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ....الخ (النّحل:۹۱) عدل ایک ایسی چیز ہے جس سے سب کو فائدہ اٹھانا چاہیے.مسیحؑ کا یہ تعلیم دینا کہ اگر تو بری آنکھ سے دیکھے تو آنکھ نکال ڈال.اس میں اَور قویٰ کا استیصال ہے کیوں تعلیم ایسی نہ کی کہ تو غیر محرم عورت کو ہرگز نہ دیکھ.اجازت دی کہ دیکھ تو ضرور لیکن زنا کی آنکھ سے نہ دیکھ.دیکھنے سے تو ممانعت ہے ہی نہیں.دیکھے گا تو ضرور، بعد دیکھنے کے دیکھنا چاہیے کہ اس کے قویٰ پر کیا اثر ہو گا.کیوں نہ قرآن کی طرح آنکھ کو ٹھوکر والی چیز ہی کے دیکھنے سے روکا اور آنکھ جیسی مفید اور قیمتی چیز کو ضائع کر دینے کا افسوس لگایا.اسلامی پردہ آج کل پردہ پر حملے کئے جاتے ہیں لیکن یہ لوگ جانتے نہیں کہ اسلامی پردہ سے مراد زندان نہیں بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے.جب پردہ ہوگا، ٹھوکر سے بچیں گے.ایک منصف مزاج کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیر مرد و عورت اکٹھے بلا تامل اور بے محابا مل سکیں، سیریں کریں کیونکر جذبات نفس سے اضطراراً ٹھوکر نہ کھائیں گے.بسا اوقات سننے دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیر مرد، عورت کو ایک مکان میں تنہا رہنے کو حالانکہ دروازہ بھی بند ہو کوئی عیب نہیں سمجھتیں.یہ گویا تہذیب ہے.ان ہی بدنتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے ہی کی اجازت نہ دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں.ایسے موقع میں یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح دو غیر محرم مرد و عورت جمع ہوں تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے.ان ناپاک نتائج پر غور کرو جو یورپ اس خلیع الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے.بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جا رہی ہے یہ انہیں تعلیموں کا نتیجہ ہے.اگر کسی چیز
کو خیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو.لیکن اگر حفاظت نہ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں تو یاد رکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہوگی.اسلامی تعلیم کیا پاک تعلیم ہے کہ جس نے مرد و عورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی جس سے یورپ نے آئے دن کی خانہ جنگیاں اور خودکشیاں دیکھیں.بعض شریف عورتوں کا طوائفانہ زندگی بسر کرنا ایک عملی نتیجہ اس اجازت کا ہے جو غیر عورت کو دیکھنے کے لئے دی گئی.انسانی قویٰ کی تعدیل اور جائز استعمال اللہ تعالیٰ نے جس قدر قویٰ عطا فرمائے وہ ضائع کرنے کے لئے نہیں دیئے گئے ان کی تعدیل اور جائز استعمال کرنا ہی ان کی نشوو نما ہے.اس واسطے اسلام نے قوائے رجولیت یا آنکھ کے نکالنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ ان کا جائز استعمال اور تزکیہ نفس کرایا.جیسے فرمایا قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ (المؤمنون:۲) اور ایسے یہاں بھی کہا.متقی کی زندگی کا نقشہ کھینچ کر آخر میں بطور نتیجہ یہ کہا وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (البقرۃ:۶) یعنی وہ لوگ جو تقویٰ پر قدم مارتے ہیں.ایمان بالغیب لاتے ہیں.نماز ڈگمگاتی ہے پھر اسے کھڑا کرتے ہیں.خدا کے دیئے سے دیتے ہیں.باوجود خطرات نفس بلا سوچے گذشتہ اور موجودہ کتاب اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور آخرکار وہ یقین تک پہنچ جاتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت کے سر پر ہیں.وہ ایک ایسی سڑک پر ہیں جو برابر آگے کو جا رہی ہے اور جس سے آدمی فلاح تک پہنچتا ہے.پس یہی لوگ فلاح یاب ہیں جو منزل مقصود تک پہنچ جاویں گے اور راہ کے خطرات سے نجات پاچکے ہیں.اس لئے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے ہم کو تقویٰ کی تعلیم کرکے ایک ایسی کتاب ہم کو عنایت کی جس میں تقویٰ کے وصایا بھی دیئے.سو ہماری جماعت یہ غم کل دنیوی غموں سے بڑھ کر اپنی جان پر لگائیں کہ ان میں تقویٰ ہے یا نہیں.اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کرو اہل تقویٰ کے لئے یہ شرط تھی کہ وہ غربت اور مسکینی میں اپنی زندگی بسر کرے.
یہ ایک تقویٰ کی شاخ ہے جس کے ذریعہ ہمیں غضب ناجائز کا مقابلہ کرنا ہے.بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لئے آخری اور کڑی منزل غضب سے ہی بچنا ہے.عجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے اور ایسا ہی کبھی خود غضب عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ غضب اس وقت ہوگا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے.میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں.خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے.یہ ایک قسم کی تحقیر ہے اور جس کے اندر حقارت ہے ڈر ہے کہ یہ حقارت بیج کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جاوے.بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں.لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے، اس کی دل جوئی کرے، اس کی بات کی عزت کرے، کوئی چڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَمَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ (الـحجرات:۱۲) تم ایک دوسرے کے چڑ کے نام نہ ڈالو.یہ فعل فساق و فجار کا ہے.جو شخص کسی کو چڑاتا ہے وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اسی طرح مبتلا نہ ہوگا.اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو.جب کُل ایک ہی چشمہ سے پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے.مکرم و معظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہوسکتا.خدا کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے.اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ (الحجرات:۱۴) ذاتوں کا امتیاز یہ جو مختلف ذاتیں ہیں یہ کوئی وجہ شرافت نہیں.خدا تعالیٰ نے محض عرف کے لئے یہ ذاتیں بنائیں اور آج کل تو صرف بعد چار پشتوں کے حقیقی پتہ لگانا ہی مشکل ہے.متقی کی شان نہیں کہ ذاتوں کے جھگڑے میں پڑے.جب اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا کہ میرے نزدیک ذات کوئی سند نہیں.حقیقی مکرمت اور عظمت کا باعث فقط تقویٰ ہے.متّقی کون ہیں؟ خدا کے کلام سے پایا جاتا ہے کہ متّقی وہ ہوتے ہیں جو حلیمی اور مسکینی سے چلتے ہیں.وہ مغرورانہ گفتگو نہیں کرتے.ان کی گفتگو ایسی ہوتی ہے جیسے چھوٹا بڑے
سے گفتگو کرے.ہم کو ہر حال میں وہ کرنا چاہیے جس سے ہماری فلاح ہو.اللہ تعالیٰ کسی کا اجارہ دار نہیں وہ خالص تقویٰ کو چاہتا ہے جو تقویٰ کرے گا وہ مقام اعلیٰ کو پہنچے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کسی وراثت سے تو عزت نہیں پائی.گو ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد عبداللہ مشرک نہ تھے لیکن اس نے نبوت تو نہیں دی.یہ تو فضل الٰہی تھا ان صدقوں کے باعث جو ان کی فطرت میں تھے.یہی فضل کے محرک تھے.حضرت ابراہیم علیہ السلام جو ابوالانبیاء تھے انہوں نے اپنے صدق و تقویٰ سے ہی بیٹے کو قربان کرنے میں دریغ نہ کیا.خود آگ میں ڈالے گئے.ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی صدق و وفا دیکھئے! آپؐ نے ہر ایک قسم کی بد تحریک کا مقابلہ کیا.طرح طرح کے مصائب و تکالیف اٹھائے لیکن پروا نہ کی.یہی صدق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا (الاحزاب:۵۷) ترجمہ.اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے رسول پر درود بھیجتے ہیں.اے ایمان والو! تم درود و سلام بھیجو نبی ؐ پر.اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرم ؐ کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا.لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے یعنی آپؐ کے اعمال صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی.اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی.آپؐ کی روح میں وہ صدق و صفا تھا اور آپؐ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں.ان کی ہمت و صدق وہ تھا کہ اگر ہم اوپر یا نیچے نگاہ کریں تو اس کی نظیر نہیں ملتی.خود مسیح کے وقت کو دیکھ لیا جاوے کہ ان کی ہمت یا روحانی صدق و صفا کا کہاں تک اثر ان کے پیروؤں پر ہوا.ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ایک بد روش کو درست کرنا کس قدر مشکل ہے.عادات راسخہ کا گنوانا کیسا محالات سے ہے لیکن ہمارے مقدس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہزاروں انسانوں کو درست کیا جو حیوانوں سے بدتر تھے.بعض ماؤں اور بہنوں میں حیوانات کی
طرح فرق نہ کرتے تھے.یتیموں کا مال کھاتے، مُردوں کا مال کھاتے.بعض ستارہ پرست، بعض دہریہ، بعض عناصر پرست تھے.جزیرۂ عرب کیا تھا ایک مجموعہ مذاہب اپنے اندر رکھتا تھا.قرآن مجید کامل ہدایت ہے اس سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ قرآن کریم ہر ایک قسم کی تعلیم اپنے اندر رکھتا ہے.ہر ایک غلط عقیدہ یا بُری تعلیم جو دنیا میں ممکن ہے اس کے استیصال کے لئے کافی تعلیم اس میں موجود ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی عمیق حکمت و تصرف ہے.چونکہ کامل کتاب نے آکر کامل اصلاح کرنی تھی.ضرور تھا کہ اس کے نزول کے وقت اس کے جائے نزول میں بیماری بھی کامل طور پر ہو، تاکہ ہر ایک بیماری کا کامل علاج مہیا کیا جاوے.سو اس جزیرہ میں کامل طور سے بیمار تھے اور جن میں وہ تمام بیماریاں روحانی موجود تھیں جو اس وقت یا اس سے بعد آئندہ نسلوں کو لاحق ہونے والی تھیں.یہی وجہ تھی کہ قرآن نے کل شریعت کی تکمیل کی اور کتابوں کے نازل ہونے کے وقت نہ یہ ضرورت تھی نہ ان میں ایسی کامل تعلیم ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا عظیم الشان معجزہ ہمارے نبی اکملؐ کی برکات جس قدر ظہور میں آئیں اگر تمام خوارق کو الگ کر دیا جاوے تو آپ کی اصلاح ہی ایک عظیم الشان معجزہ ہے.اگر کوئی اس حالت پر غور کرے جب آپؐ آئے پھر اس حالت کو دیکھے جو آپؐ چھوڑ گئے تو اس کو ماننا پڑے گا کہ یہ اثر بذات خود ایک اعجاز تھا.اگرچہ کل انبیاء عزت کے قابل ہیں لیکن ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُـؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ (الجمعۃ:۵).اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لاتے تو نبوت تو درکنار خدائی کا ثبوت بھی اس طرح نہ ملتا.آپؐ کی تعلیم سے پتہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ.اَللّٰهُ الصَّمَدُ.لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَلَمۡ یُوۡلَدۡوَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ (الاخلاص:۲تا۵) کا لگا.اگر توریت میں کوئی ایسی تعلیم ہوتی اور قرآن صرف اس کی تصریح ہی کرتا تو نصاریٰ کا وجود ہی کیوں ہوتا.قرآن پاک میں سب سچائیاں ہیں غرض قرآن نے جس قدر تقویٰ کی راہیں اختیار کیں اور ہر طرح کے انسانوں اور مختلف عقل
والوں کی پرورش کرنے کے طریق سکھلائے ایک جاہل، عالم اور فلسفی کی پرورش کے راستہ ہر طبقے کے سوالات کا جواب غرض کہ کوئی فرقہ نہ چھوڑا جس کی اصلاح کے طریق نہ بتائے.یہ ایک دقیقۂ وقت تھا.جیسے کہ فرمایا فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ (البینۃ :۴) یعنی یہ وہ صحیفے ہیں جن میں کل سچائیاں ہیں.سو یہ کیسی کتاب مبارک ہے کہ اس میں سب سامان اعلیٰ درجہ تک پہنچنے کے موجود ہیں.مسیح و مہدی لیکن افسوس ہے جیسے کہ حدیث میں آیا ایک درمیانی زمانہ آوے گا جو فَیْج اَعْوَج ہے.یعنی حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ ایک میرا زمانہ برکت والا ہے ایک آنے والے مسیح و مہدی کا.مسیح و مہدی کوئی دو الگ اشخاص نہیں.ان سے مراد ایک ہی ہے.مہدی ہدایت یافتہ سے مراد ہے.کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مسیح مہدی نہیں.مہدی مسیح ہو یا نہ ہو لیکن مسیح کے مہدی ہونے سے انکار کرنا مسلمان کا کام نہیں.اصل میں اللہ تعالیٰ نے یہ دو الفاظ سب و شتم کے مقابل بطور ذب کے رکھے ہیں کہ وہ کافر، ضَالّ، مُضِلّ نہیں بلکہ مہدی ہے چونکہ اس کے علم میں تھا کہ آنے والے مسیح و مہدی کو دجال و گمراہ کہا جائے گا اس لئے اسے مسیح و مہدی کہا گیا.دجال کا تعلق اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ (الاعراف:۱۷۷) سے تھا اور مسیح کو رفع آسمانی ہونا تھا.سو جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا تھا اس کی تکمیل دو ہی زمانوں میں ہونی تھی.ایک آپؐ کا زمانہ اور ایک آخری مسیح و مہدی کا زمانہ.یعنی ایک زمانہ میں تو قرآن اور سچی تعلیم نازل ہوئی لیکن اس تعلیم پر فَیْج اَعْوَج کے زمانہ نے پردہ ڈال دیا جس پردہ کا اٹھایا جانا مسیح کے زمانہ میں مقدر تھا.جیسے کہ فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تو موجودہ جماعت یعنی جماعت صحابہ کرامؓ کا تزکیہ کیا اور ایک آنے والی جماعت کا جس کی شان میں لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ (الجمعۃ:۴) آیا ہے.سو یہ ظاہر ہے کہ خدا نے بشارت دی کہ ضلالت کے وقت اللہ تعالیٰ اس دین کو ضائع نہ کرے گا بلکہ آنے والے زمانہ میں خدا حقائق قرآنیہ کو کھول دے گا.آثار میں ہے کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ فضیلت ہوگی کہ وہ قرآنی فہم اور معارف کا صاحب ہوگا اور صرف قرآن سے استنباط کرکے لوگوں کو ان غلطیوں سے متنبہ کرے گا جو حقائق قرآن کی ناواقفیت سے لوگوں میں پیدا ہوگئی ہوں.
سلسلہ موسویہ و محمدیہ میں مماثلت قرآن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسٰی قرار دے کر فرمایا اِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا (المزّمل :۱۶) یعنی ہم نے ایک رسول بھیجا جیسے موسٰی کو فرعون کی طرف بھیجا تھا.ہمارا رسول مثیل موسٰی ہے.ایک اور جگہ فرمایا وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ (النّور:۵۶) اس مثیل موسیٰ کے خلفاء بھی اسی سلسلہ سے ہوں گے جیسے کہ موسیٰ کے خلفاء سلسلہ وار آئے.اس سلسلہ کی میعاد چودہ سو برس تک رہی برابر خلفاء آتے رہے.یہ ایک اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیشگوئی تھی کہ جس طرح سے پہلے سلسلہ کا آغاز ہوا ویسے ہی اس سلسلہ کا آغاز ہوگا.یعنی جس طرح موسٰی نے ابتدا میں جلالی نشان دکھلائے اور فرعو ن سے چھڑایا، اس طرح آنے والا نبی بھی موسٰی کی طرح ہوگا.فَكَيْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيْبَا.ࣙالسَّمَآءُ مُنۡفَطِرٌۢ بِہٖ ؕ کَانَ وَعۡدُہٗ مَفۡعُوۡلًا (المزّمل:۱۹,۱۸) یعنی جس طرح ہم نے موسیٰ کو بھیجا تھا سو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کفار عرب بھی فرعونیت سے بھرے ہوئے تھے.وہ بھی فرعون کی طرح باز نہ آئے جب تک انہوں نے جلالی نشان نہ دیکھ لیا.سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام موسیٰ ؑ کے کام کے سے تھے.اس موسٰی کے کام قابل پذیرائی نہ تھے لیکن قرآن نے منوایا.موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں گو فرعون کے ہاتھ سے نجات (بنی) اسرائیل کو ملی لیکن گناہوں سے نجات نہ پائی.وہ لڑے اور کج دل ہوئے اور موسیٰ پر حملہ آور ہوئے لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری پوری نجات دی.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر طاقت، شوکت، سلطنت اسلام کو نہ دیتے تو مسلمان مظلوم رہتے اور نجات کفار کے ہاتھ سے نہ پاتے.سو اللہ تعالیٰ نے ایک تو یہ نجات دی کہ مستقل اسلامی سلطنت قائم ہو گئی.دوسرا یہ کہ گناہوں سے ان کو نجات ملی.خداوند تعالیٰ نے خود ہر دو نقشے کھینچے ہیں کہ عرب پہلے کیا تھے اور پھر کیا ہوئے.اگر دونو نقشے اکٹھے کئے جاویں تو ان کی پہلی حالت کا اندازہ لگ جاوے گا.سو اللہ تعالیٰ نے دونو نجاتیں دیں.شیطان سے بھی نجات دی اور طاغوت سے بھی.
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہؓ کا مقام جوصدق و صفا آپؐ نے یاآ پؐ کے صحابہ کرامؓ نے دکھایا اس کی نظیر کہیں نہیں.جان دینے تک دریغ نہ کیا.حضرت عیسٰیؑ کو کوئی مشکل کام نہ تھا اور نہ مفید ہی کوئی الہام تھا.چند برادری کے لوگوں کو سمجھانا کون سا بڑا کام ہے.یہودی تو توریت پڑھے ہی ہوئے تھے، ایمان لانے والے تھے، خدا کو وحدہٗ لاشریک جانتے ہی تھے تو بعض وقت یہ خیال آجاتا ہے کہ مسیحؑ کرنے ہی کیا آئے تھے.یہودیوں میں تو توحید کے لئے اب بھی غیرت پائی جاتی ہے.نہایت کار یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاید اخلاقی نقص تھے لیکن تعلیم تو توریت میں موجود ہی تھی.باوجود اس سہولت کے کہ قوم اس کتاب کو مانتی تھی مسیحؑ نے وہ کتاب سبقاً سبقاً ایک استاد سے پڑھی تھی.اس کے مقابل ہمارے سید و مولیٰ ہادی کامل اُمّی تھے.ان کا کوئی استاد بھی نہ تھا اور یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ مخالف بھی اس امر سے انکار نہ کر سکے.سو حضرت عیسٰیؑ کے لئے دو آسانیاں تھیں.ایک تو برادری کے لوگ تھے جو بھاری بات منوانی تھی وہ پہلے ہی مان چکے تھے.ہاں کچھ اخلاقی نقص تھے لیکن باوجود اتنی سہولت کے حواری درست نہ ہوئے.لالچی رہے.حضرت عیسیٰ اپنے پاس روپیہ رکھتے تھے.بعض چوریاں بھی کرتے.وہ کہتے ہیں کہ مجھے سر رکھنے کی جگہ نہیں.لیکن ہم حیران ہیں کہ اس کے کیا معنے ہیں.جب گھر بھی ہو اور مکان بھی ہو اور مال میں گنجائش اس قدر ہو کہ چوری کی جاوے تو پتہ بھی نہ لگے.خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا.دکھانا یہ منظور ہے کہ باوجود ان تمام سہولتوں کے کوئی اصلاح نہ ہو سکی.پطرس کو بہشت کی کنجیاں تو مل جاویں لیکن اپنے استاد کو لعنت دینے سے نہ رک سکے.اب مقابلہ میں انصافاًد یکھا جاوے کہ ہمارے ہادی اکملؐ کے صحابہؓ نے اپنے خدا اور رسول کے لئے کیاک یا جان نثاریاں کیں، جلاوطن ہوئے،ظ لم اٹھائے،طر ح طرح کے مصائب اٹھائے، جانیں دے دیں لیکن صدق وو فا کے ساتھ قدم مارتے ہی گئے.پس وہ کیا بات تھی کہ جس نے انہیں ایسا جان نثار بنا دیا.و ہ سچی الٰہی محبت کا جوش تھا جس کی شعاع ان کے دل میں پڑ چکی تھی.سو خواہ کسی نبی
کے ساتھ مقابلہ کر لیا جاوے آپؐ کی تعلیم، تزکیہ نفس، پیروؤں کو دنیا سے متنفر کرادینا، شجاعت کے ساتھ صداقت کے لئے خون بہا دینا اس کی نظیر کہیں نہ مل سکے گی.سو یہ مقام حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کا ہے ان میں جو آپس میں تالیف و محبت تھی اس کا نقشہ دو فقروں میں بیان کیا ہے وَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ لَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مَّاۤ اَلَّفۡتَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیۡنَہُمۡ (الانفال:۶۴) یعنی جو تالیف ان میں ہے وہ ہرگز پیدا نہ ہوتی خواہ سونے کا پہاڑ بھی دیا جاتا.اب ایک اور جماعت مسیح موعود کی ہے جس نے اپنے اندر صحابہؓ کا رنگ پیدا کرنا ہے.صحابہؓ کی تو وہ پاک جماعت تھی جس کی تعریف میں قرآن بھرا پڑا ہے.کیا آپ لوگ ایسے ہیں؟ جب خدا کہتا ہے کہ مسیحؑ کے ساتھ وہ لوگ ہوں گے جو صحابہؓ کے دوش بدوش ہوں گے.صحابہؓ تو وہ تھے جنہوں نے اپنا مال، اپنا وطن راہ حق میں دیا اور سب کچھ چھوڑا.حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا معاملہ اکثر سنا ہوگا.ایک دفعہ جب راہ خدا میں مال دینے کا حکم ہوا تو کُل گھر کا اثاثہ لے آئے.جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ گھر میں کیا چھوڑ آئے؟ تو فرمایا کہ خدا اور رسول کو گھر میں چھوڑ آیا ہوں.رئیس مکہ ہو اور کمبل پوش ہو، غربا کا لباس پہنے.سو یہ سمجھ لو کہ وہ لوگ تو خدا کی راہ میں شہید ہوگئے.ان کے لئے تو یہی لکھا ہے کہ سیفوں کے نیچے بہشت ہے لیکن ہمارے لیے تو اتنی سختی نہیں کیونکہ یَضَعُ الْحَرْبَ ہمارے لئے آیا ہے یعنی مہدی کے وقت لڑائی نہ ہوگی.جہاد کی حقیقت اللہ تعالیٰ بعض مصالح کے رو سے ایک فعل کرتا ہے اور آئندہ جب وہ فعل معرض اعتراض ٹھہرتا ہے تو پھر وہ فعل نہیں کرتا.اوّلاً ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی تلوار نہ اٹھائی مگر ان کو سخت سے سخت تکالیف برداشت کرنی پڑیں.تیرہ سال کا عرصہ ایک بچہ کو بالغ کرنے کے لیے کافی ہے اور مسیحؑ کی میعاد تو اگر اس میعاد میں سے دس نکال دیں تو بھی کافی ہوتی ہے.غرض اس لمبے عرصہ میں کوئی یا کسی رنگ کی تکلیف نہ تھی جو اٹھانی نہ پڑی.آخرکار وطن سے نکلے تو تعاقب ہوا دوسری جگہ پناہ لی تو دشمن نے وہاں بھی نہ چھوڑا.جب یہ حالت ہوئی تو مظلوموں کو ظالموں کے ظلم سے بچانے کے لیے حکم ہوا اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ
بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُ ࣙالَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ (الحج:۴۱،۴۰) جن لوگوں کے ساتھ لڑائیاں خواہ مخواہ کی گئیں اور گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس لیے کہ انہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے سو یہ ضرورت تھی کہ تلوار اٹھائی گئی.واِلَّا حضرت کبھی تلوار نہ اٹھاتے.ہاں ہمارے زمانہ میں ہمارے بر خلاف قلم اٹھائی گئی، قلم سے ہم کو اذیت دی گئی اور سخت ستایا گیا، ان کے مقابل قلم ہی ہمارا حربہ بھی ہے.جماعت کے لئے نصیحت میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ جس قدر کوئی قرب حاصل کرتا ہے اسی قدر مؤاخذہ کے قابل ہے.اہل بیت زیادہ قابل مؤاخذہ تھے.وہ لوگ جو دور ہیں وہ قابل مؤاخذہ نہیں لیکن تم ہو.اگر تم میں ان پر کوئی ایمانی زیادتی نہیں تو یہ تم میں اور ان میں کیا فرق ہوا؟ تم ہزاروں کے زیر نظر ہو.وہ گورنمنٹ کے جاسوسوں کی طرح تمہاری حرکات و سکنات کو دیکھ رہے ہیں.وہ سچے ہیں جب مسیح کے ساتھی صحابہؓ کے ہم دوش ہونے لگے ہیں تو کیا آپ ویسے ہیں؟ جب آپ ویسے نہیں تو آپ قابل گرفت ہیں.گویہ ابتدائی حالت ہے لیکن موت کا کیا اعتبار ہے.موت ایک ایسا ناگزیرامر ہے جو ہر ایک کو پیش آتا ہے.جب یہ حالت ہے تو پھر آپ کیوں غافل ہیں.جب کوئی شخص مجھ سے تعلق نہیں رکھتا تو یہ امر دوسرا ہے لیکن جب آپ میرے پاس آئے، میرا دعویٰ قبول کیا اور مجھے مسیح مانا تو گویا مِنْ وَجْہٍ آپ نے صحابہ کرام ؓ کے ہم دوش ہونے کا دعویٰ کر دیا تو کیا صحابہؓ نے کبھی صدق و وفا پر قدم مارنے سے دریغ کیا.ان میں کوئی کسل تھا.کیا وہ دل آزار تھے؟ کیا ان کو اپنے جذبات پر قابو نہ تھا؟ وہ منکسرالمزاج نہ تھے؟ ان میں پرلے درجہ کا انکسار تھا.سو دعا کرو کہ خدا تم کو بھی ویسی ہی توفیق عطا کرے کیونکہ تذلّل اور انکساری کی زندگی کوئی اختیار نہیں کرسکتا جب تک اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہ کرے.اپنے آپ کو ٹٹولو اور اگر بچہ کی طرح اپنے آپ کو کمزور پاؤ تو گھبراؤ نہیں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دعا صحابہؓ کی طرح جاری رکھو.راتوں کو اٹھو اور دعا کرو کہ خدا تم کو اپنی راہ دکھلائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے بھی تدریجاً تربیت پائی.وہ پہلے کیا تھے.وہ ایک کسان کی تخم ریزی کی طرح تھے.
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آبپاشی کی.آپ نے ان کے لئے دعائیں کیں.بیج صحیح تھا اور زمین عمدہ تو اس آبپاشی سے پھل عمدہ نکلا.جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام چلتے اسی طرح وہ چلتے.وہ دن کا یا رات کا انتظار نہ کرتے تھے.تو آپ لوگ سچے دل سے توبہ کرو، تہجد میں اٹھو، دعا کرو، دل کو درست کرو، کمزوریوں کو چھوڑ دو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے قول و فعل بناؤ.یقین رکھو کہ جو اس نصیحت کو ورد بنائے گا اور عملی طور سے دعا کرے اور عملی طور پر التجا خدا کے سامنے لائے اللہ تعالیٰ اس پر فضل کرے گا اور اس کے دل میں تبدیلی ہو گی.خدا سے ناامید مت ہو.بر کریماں کار ہا دشوار نیست # بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو کیا کوئی ولی بننا ہے؟ افسوس انہوں نے کچھ قدر نہ کی.بے شک انسان نے ولی بننا ہے.اگر وہ صراط مستقیم پر چلے گا تو خدا بھی اس کی طرف چلے گا اور پھر ایک جگہ پر اس کی ملاقات ہوگی.اس کی اس طرف سے حرکت خواہ آہستہ ہوگی لیکن اس کے مقابل خدا تعالیٰ کی حرکت بہت جلد ہوگی، چنانچہ یہ آیت اسی طرف اشارہ کرتی ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا...الخ (العنکبوت:۷۰) سو جو جو باتیں میں نے آج وصیت کی ہیں ان کو یاد رکھو کہ انہی پر مدارِ نجات ہے.تمہارے معاملات خدا اور خَلق کے ساتھ ایسے ہونے چاہئیں جس میں رضاء الٰہی مطلق ہی ہو.پس اس سے تم نے وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ...الخ (الجمعۃ :۴) کے مصداق بننا ہے.اسرائیلی اور اسماعیلی سلسلوں میں مسیح کی بعثت ہاں جیسے کہ آگے بیان ہو چکا ہے خدا کی حکمت بالغہ نے یہی پسند کیا کہ اسرائیلی اور اسماعیلی دو سلسلے دنیا میں قائم کرے.پہلا سلسلہ حضرت موسٰی سے شروع ہو کر حضرت مسیح تک ختم ہوا اور یہ چودہ سو برس تک رہا.اسی طرح حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج چودہ سو برس پر ایک مسیح کے آنے کا اشارہ ہے.عدد چودہ کو خاص نسبت ایک یہ بھی ہے کہ انسان چودہ برس پر بلوغ پالیتا ہے.حضرت موسیٰ کو خبر ملی تھی کہ مسیح اس وقت آوے گا جب
یہودیوں میں بہت فرقے ہوں گے.ان کے عقائد میں سخت اختلاف ہوگا.بعض کو فرشتوں کے وجود سے انکار.بعض کو قیامت وحشر اجساد سے انکار.غرض جب طرح طرح کی عملی بداعتقادی پھیل جاوے گی تب بطور حَکَم کے مسیح ان میں آوے گا.اسی طرح ہمارے ہادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو اطلاع دی کہ جب تم میں بھی یہودیوں کی طرح کثرت سے فرقے ہو جاویں گے ان کی طرح مختلف قسم کی بداعتقادیاں اور بدعملیاں شروع ہوں گی علماء یہود کی طرح بعض بعض کے مکفّر ہوں گے.اس وقت اس امت مرحومہ کا مسیح بھی بطور حَکَم کے آوے گا جو قرآن سے ہر امر کا فیصلہ کرے گا.وہ مسیح کی طرح قوم کے ہاتھ سے ستایا جاوے گا اور کافر قرار دیا جاوے گا.اگر ان لوگوں نے کم سمجھی سے اس شخص کو دجال اور کافر کہا تو ضرور تھا کہ ایسا ہوتا کیونکہ حدیث میں آچکا تھا کہ آنے والا مسیح کافر اور دجال ٹھہرایا جاوے گا لیکن جو عقیدہ آپ کو سکھلایا جاتا ہے وہ بالکل صاف اور اُجلٰی ہے اور محتاج دلائل بھی نہیں.برہان قاطع اپنے ساتھ رکھتا ہے.وفات مسیح پہلا جھگڑا وفات مسیح کا ہی ہے.کھلی کھلی آیات اس کی حمایت میں ہیں.يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ (اٰل عمران: ۵۶) پھر فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ (المآئدۃ:۱۱۸) یہ عذر بالکل جھوٹا ہے کہ توفّی کے معنی کچھ اور ہیں.ابن عباس رضی اللہ عنہ اور خود ہادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے معنی اماتت کے کر دیئے ہیں.یہ لوگ بھی جہاں کہیں لفظ توفّی استعمال کرتے ہیں تو معنی اماتت اور قبض روح سے مراد لیتے ہیں.قرآن نے بھی ہر ایک جگہ اس لفظ کے یہی معنے بیان کئے ہیں سو اس کا ہاتھ تو کہیں نہ پڑا.اور جب مسیح ناصری کی وفات ثابت ہے توآنے والا ضرور ہے کہ امت میں سے کوئی ہو جیسے کہ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ (الحدیث) اس کی تصریح کرتا ہے.وہ لوگ جو نیچری ہیں ان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ اس ابتلا سے بچ گئے کیونکہ وفاتِ مسیح کے تو وہ قائل ہی ہیں اور مسیح موعود کا ذکر اس قدر تواتر رکھتا ہے کہ جس تواتر سے انکار محال ہے.علاوہ ازیں اشارات قرآنی بھی آنے والے کے شاہد ہیں تو عقل مند اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ مسیح آوے گا.
مسیح کو اس زمانہ سے کیا خصوصیت ہے؟ ہاں بعض کا حق ہے کہ یہ اعتراض کریں کہ مسیح کو اس زمانہ سے کیا خصوصیت ہے؟ قرآن شریف نے اسرائیلی اور اسماعیلی سلسلوں میں خلافت کی مماثلت کا کھلا کھلا اشارہ کیا ہے.جیسے اس آیت سے ظاہر ہے وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ...الآیۃ(النّور:۵۶) اسرائیلی سلسلہ کا آخری خلیفہ جو چودہویں صدی پر بعد از موسیٰ علیہ السلام آیا وہ مسیح ناصریؑ تھا.مقابل میں ضرور تھا کہ اس امت کا مسیح بھی چودہویں صدی کے سر پر آوے.علاوہ ازیں اہل کشف نے اسی صدی کو بعثت مسیح کا زمانہ قرار دیا جیسے شاہ ولی اللہ صاحب ؒ وغیرہ.اہل حدیث کا اتفاق ہو چکا ہے کہ علامات صغریٰ کُل اور علامات کبریٰ ایک حد تک پوری ہو چکی ہیں لیکن اس میں کسی قدر ان کی غلطی ہے.علامات کُل پوری ہوچکیں.بڑی بھاری علامت یا نشان جوآنے والے کا ہے وہ بخاری میں یَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ...الخ (بخاری) لکھا ہے یعنی نزول مسیح کا وقت غلبہ نصاریٰ اور صلیبی پرستش کا زور ہے.سو کیا یہ وہ وقت نہیں؟ کیا جو جو کچھ پادریوں سے پہنچ چکا ہے اس کی نظیر آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک کہیں ہے؟ ہر ملک میں تفرقہ پڑ گیا.کوئی ایسا خاندان اسلامی نہیں کہ جس میں سے ایک آدھ ان کے ہاتھ نہ چلا گیا ہو.سو آنے والے کا وقت صلیب پرستی کا غلبہ ہے.اب اس سے زیادہ کیا غلبہ ہوگا.کس طرح درندوں کی طرح اسلام پر کینہ وری سے حملے کئے گئے.کوئی گروہ ہے کہ جس نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت وحشیانہ الفاظ اور گالیوں سے یاد نہ کیا؟ اب اگر آنے والے کا یہ وقت نہیں تو بہت جلدی وہ آیا بھی تو سو سال کو آوے گا کیونکہ وہ وقت کا مجدد ہے جس کی بعثت کا زمانہ صدی کا سر ہوتا ہے.تو کیا اسلام میں اور طاقت ہے کہ ایک صدی تک پادریوں کے روزافزوں غلبہ کا مقابلہ کر سکے.غلبہ حد تک پہنچ گیا اور آنے والا آگیا.اب ہاں وہ ہلاک دجال کو اتمام حجت سے کرے گا کیونکہ حدیثوں میں آچکا ہے کہ اس کے ہاتھ پر ملّتوں کی ہلاکت مقدر ہے نہ لوگوں کی یا اہلِ ملل کی، تو ویسا ہی پورا ہوا.
مسیح موعود کی تائید میں آفاقی نشانات ایک یہ بھی نشان آنے والا کا ہے کہ اس زمانہ میں رمضان میں کسوف خسوف ہو گا.خدا کے نشان سے ٹھٹھا کرنے والا خدا سے ٹھٹھا کرتا ہے.کسوف خسوف کا اس کے دعویٰ کے بعد ہونا یہ ایک ایسا امر تھا جو افترا اور بناوٹ سے بعید تر ہے.اس سے پہلے کوئی کسوف خسوف ایسا نہ ہوا.یہ ایک ایسا نشان تھا کہ جس سے اللہ تعالیٰ کو کل دنیا میں آنے والے کی منادی کرنی تھی چنانچہ اہلِ عرب نے بھی اس نشان کو دیکھ کر اپنے مذاق کے مطابق درست کہا.ہمارے اشتہارات بطور منادی جہاں جہاں نہ پہنچ سکتے تھے وہاں وہاں اس کسوف خسوف نے آنے والے کے وقت کی منادی کردی.یہ خدا کا نشان تھا جو انسانی منصوبوں سے بالکل پاک تھا.خواہ کوئی کیسا ہی فلسفی ہو وہ غور کرے اور سوچے کہ جب مقرر کردہ نشان ہوگیا تو ضرور ہے کہ اس کا مصداق بھی کہیں ہو.یہ امر ایسا نہ تھا جو کسی حساب کے ماتحت ہو.جیسے کہ فرمایا تھا کہ یہ اس وقت ہوگا جب کوئی مدعی مہدویت ہوچکے گا.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ آدمؑ سے لے کر اس مہدی تک کوئی ایسا واقعہ نہیں.اگر کوئی تاریخ سے ایسا ثابت کرسکے تو ہم مان لیں گے.ایک نشان یہ بھی تھا کہ اس وقت ذوالسنین ستارہ طلوع کرے گا.یعنی ان برسوں کا ستارہ جو پہلے گزر چکے ہیں.یعنی وہ ستارہ جو مسیح ناصری کے ایام (برسوں) میں طلوع ہوا تھا اب وہ ستارہ بھی چڑھ گیا جس نے یہودیوں کے مسیح کی اطلاع آسمانی طور سے دی تھی.اسی طرح قرآن کے دیکھنے سے بھی پتہ لگتا ہے وَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ.وَ اِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ.وَ اِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ.وَ اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ.وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ.بِاَيِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ.وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (التکویر:۵تا۱۱) یعنی اس زمانہ میں اونٹنیاں بے کار ہوجاویں گی.اعلیٰ درجہ کی سواری اور باربرداری جن سے ایام سابقہ میں ہوا کرتی تھی.یعنی اس زمانہ میں سواری کا انتظام کوئی ایسا پیدا ہوگا کہ یہ سواریاں بیکار ہو جاویں گی.اس سے ریل کا زمانہ مراد تھا.وہ لوگ جو خیال کرتے ہیں کہ ان آیات کو تعلق قیامت سے ہے وہ نہیں سوچتے کہ قیامت میں اونٹنیاں حمل دار کیسے رہ سکتی ہیں، کیونکہ عشار سے مراد حمل دار اونٹنیاں ہیں.پھر
لکھا ہے کہ اس زمانہ میں چاروں طرف نہریں پھیل جاویں گی اور کتابیں کثرت سے اشاعت پاویں گی.غرض کہ یہ سب نشان اسی زمانہ کے متعلق تھے.مسیح موعود کی جائے ظہور اب رہا مکان کے متعلق.سو یاد رہے کہ دجال کا خروج مشرق میں بتلایا گیا ہے.جس سے ہمارا ملک مراد ہے چنانچہ صاحب حـجج الکرامہ نے لکھا ہے کہ فتن دجال کا ظہور ہندوستان میں ہو رہا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ظہور مسیح اسی جگہ ہو جہاں دجال ہو.پھر اس گاؤں کا نام قدعہ قرار دیا ہے جو قادیان کا مخفف ہے.یہ ممکن ہے کہ یمن کے علاقہ میں بھی اس نام کا کوئی گاؤں ہو لیکن یاد رہے کہ یمن حجاز سے مشرق میں نہیں بلکہ جنوب میں ہے.آخر اسی پنجاب میں ایک اور قادیان بھی تو لدھیانہ کے قریب ہے.اس کے علاوہ خود قضاء و قدر نے اس عاجز کا نام جو رکھوایا ہے تو وہ بھی ایک لطیف اشارہ اس طرف رکھتا ہے.کیونکہ غلام احمد قادیانی کے عدد بحساب جمل پورے تیرہ سو (۱۳۰۰) نکلتے ہیں.یعنی اس نام کا امام چودہویں صدی کے آغاز پر ہوگا.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ اسی طرف تھا.حوادث ارضی و سماوی حوادث بھی ایک علامت تھی.حوادث سماوی نے قحط، طاعون اور ہیضہ کی صورت پکڑ لی.طاعون وہ خطرناک عذاب ہے کہ اس نے گورنمنٹ تک کو زلزلہ ڈال دیا اگر اس کا قدم بڑھ گیا تو ملک صاف ہو جاوے گا.ارضی حوادث لڑائیاں و زلازل تھے جنہوں نے ملک کو تباہ کیا.مامور من اللہ کے لئے یہ بھی ضرور ہے کہ وہ اپنے ثبوت میں آسمانی نشان دکھاوے.ایک لیکھرام کا نشان کیا کچھ کم نشان تھا.ایک کُشتی کے طور پر کئی سال تک ایک شرط بدھی رہی.پانچ سال برابر جنگ ہوتا رہا.طرفین نے اشتہار دئیے.عام شہرت ہو گئی، ایسی شہرت کہ جس کی مثال بھی محال ہو.پھر ایسا ہی واقعہ ہوا جیسے کہ کہا گیا کیا اس واقعہ کی کوئی اور نظیر ہے؟ دھرم مہوتسو کے متعلق بھی کئی دن پہلے اعلان کیا کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی ہے کہ ہمارا مضمون سب پر غالب رہے گا.جن لوگوں نے اس عظیم الشان اور پُر رُعب جلسہ کو دیکھا ہے وہ خود غور کر سکتے ہیں کہ ایسے جلسہ میں غلبہ پانے کی خبر پیش از وقت
دے دینی کوئی اٹکل یا قیاس نہ تھا.پھر آخرکار وہی ہوا جیسے کہا گیا.وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.۸؎ ۲۸؍ دسمبر ۱۸۹۷ء ( بعد نمازِ ظہر) حضرت اقدس ؑ کی دوسری تقریر برموقع جلسہ سالانہ ہر ایک شخص سفر آخرت کی تیاری رکھے حضور ؑ نے فرمایا.اس وقت میری غرض بیان کرنے سے یہ ہے کہ چونکہ انسانی زندگی کا کچھ بھی اعتبار نہیں.اس لئے جس قدر احباب اس وقت میرے پاس جمع ہیں میں خیال کرتا ہوں شاید آئندہ سال سب جمع نہ ہو سکیں اور انہیں دنوں میں مَیں نے کشف میں دیکھا ہے کہ اگلے سال بعض احباب دنیا میں نہ ہوں گے.گو میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کشف کا مصداق کون کون احباب ہوں گےاور میں جانتا ہوں کہ یہ اس لئے ہے تا ہر ایک شخص بجائے خود سفر آخرت کی طیاری رکھے.جیسا میں نے ابھی کہا مجھے کسی کا نام نہیں بتلایا گیا لیکن یہ میں اللہ تعالیٰ کے اعلام سے خوب جانتا ہوں کہ قضاء و قدر کا ایک وقت ہے اور ضرور ایک وقت اس فانی دنیا کو چھوڑنا ہے اس لئے یہ کہنا بہت ضروری پڑا ہوا ہے کہ ہر شخص اور ہر دوست جو اس وقت موجود ہے وہ میری باتوں کو قصہ گو کی داستان کی طرح نہ سمجھے.بلکہ یہ ایک واعظ مِنْ جَانِبِ اللّٰہِ اور مَامُوْر مِنَ اللّٰہِ ہے جو نہایت خیر خواہی اور سچی بھلائی اور پوری دلسوزی سے باتیں کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان پس میں اپنے دوستوں کو اطلاع دیتا ہوں کہ خوب یاد رکھو.میں پھر کہتا ہوں کہ دل سے سنو اور دل میں جگہ دو کہ اللہ جیسا
اس نے اپنی کتاب قرآن کریم میں اپنے وجود اور توحید کو پُر زور اور آسان دلائل سے ثابت کیا ہے ایک برتر ہستی اور نور ہے.وہ لوگ جو اس زبردست ہستی کی قدرتوں اور عجائبات کو دیکھتے ہوئے بھی اس کے وجود میں شکوک ظاہر کرتے اور شبہ کرتے ہیں.سچ جانو بڑے ہی بدقسمت ہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنی زبردست ہستی اور مقتدر وجود کے اثبات کے متعلق ہی فرمایا ہے اَفِي اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (ابراھیم :۱۱) کیا اللہ کے وجود میں بھی شک ہو سکتا ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے؟ دیکھو یہ تو بڑی سیدھی اور صاف بات ہے کہ ایک مصنوع کو دیکھ کر صانع کو ماننا پڑتا ہے.ایک عمدہ جوتے یا صندوق کو دیکھ کر اس کے بنانے والے کی ضرورت کا معاً اعتراف کرنا پڑتا ہے.پھر تعجب پر تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی میں کیونکر انکار کی گنجائش ہو سکتی ہے.ایسے صانع کے وجود کا انکار کیونکر ہو سکتا ہے جس کے ہزار ہا عجائبات سے زمین اور آسمان پُر ہیں.پس یقیناً سمجھ لو کہ ان قدرت کے عجائبات اور صنعتوں کو دیکھ کر بھی جن میں انسانی ہاتھ انسانی عقل و دماغ کا کام نہیں اگر کوئی بیوقوف خدا کی ہستی اور وجود میں شک لائے تو وہ بدقسمت انسان شیطان کے پنجہ میں گرفتار ہے اس کو استغفار کرنا چاہیے.خدا کی ہستی کا انکار دلیل اور رؤیت کی بنا پر نہیں بلکہ اللّٰہ جلّ شانُہٗ کا انکار کرنا باوجود مشاہدہ کرنے اس کی قدرتوں اور عجائبات مخلوقات اور مصنوعات کے جو زمین و آسمان میں بھرے پڑے ہیں بڑی ہی نابینائی ہے.نابینائی کی دو قسمیں ہیں.ایک آنکھوں کی نابینائی ہے اور دوسری دل کی.آنکھوں کی نابینائی کا اثر ایمان پر کچھ نہیں ہوتا مگر دل کی نابینائی کا اثر ایمان پر پڑتا ہے.اس لئے یہ ضروری اور بہت ضروری ہے کہ ہر ایک شخص اللہ تعالیٰ سے پورے تذلّل اور انکسار کے ساتھ ہر وقت دعا مانگتا رہے کہ وہ اسے سچی معرفت اور حقیقی بصیرت اور بینائی عطا کرے اور شیطان کے وساوس سے محفوظ رکھے.آخرت پر ایمان شیطان کے وساوس بہت ہیں اور سب سے زیادہ خطرناک وسوسہ اور شبہ جو انسانی دل میں پیدا کر کے اسے خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ کر دیتا ہے آخرت کے متعلق ہے کیونکہ تمام نیکیوں اور راستبازیوں کا بڑا بھاری ذریعہ منجملہ دیگر اسباب اور وسائل کے
آخرت پر ایمان بھی ہے اور جب انسان آخرت اور اس کی باتوں کو قصہ اور داستان سمجھے تو سمجھ لو کہ وہ ردّ ہو گیا اور دونوں جہان سے گیا گزرا ہوا.اس لئے کہ آخرت کا ڈر بھی تو انسان کو خائف اور ترساں بنا کر اس کو معرفت کے سچے چشمہ کی طرف کشاں کشاں لے آتا ہے اور سچی معرفت بغیر حقیقی خشیت اور خدا ترسی کے حاصل نہیں ہو سکتی.پس یاد رکھو کہ آخرت کے متعلق وساوس کا پیدا ہونا ایمان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے اور خاتمہ بالخیر میں فتور آجاتا ہے.ابرار کا طریق زندگی جس قدر ابرار، اخیار اور راستباز انسان دنیا میں ہو گزرے ہیں جو رات کو اٹھ کر قیام اور سجدہ ہی میں صبح کر دیتے تھے.کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ وہ جسمانی قوتیں بہت رکھتے تھے اور بڑے بڑے قوی ہیکل جوان اور تنومند پہلوان تھے؟ نہیں.یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ جسمانی قوت اور توانائی سے وہ کام ہرگز نہیں ہو سکتے جو روحانی قوت اور طاقت کر سکتی ہے.بہت سے انسان آپ لوگوں نے دیکھے ہوں گے جو تین، چار بار دن میں کھاتے ہیں اور خوب لذیز اور مقوی اغذیہ پلاؤ وغیرہ کھاتے ہیں مگر اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے.صبح تک خرانٹے مارتے رہتے ہیں اور نیند ان پر غلبہ رکھتی ہے اور یہاں تک نیند اور سستی کے مغلوب ہو جاتے ہیں کہ ان کو عشاء کی نماز بھی دو بھر اور مشکل عظیم معلوم دیتی ہے چہ جائیکہ وہ تہجد گزار ہوں.دیکھو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کیا تنعم پسند اور خورد و نوش کے دلدادہ تھے جو کفار پر غالب تھے؟ نہیں یہ بات تو نہیں.پہلی کتابوں میں بھی ان کی نسبت آیا ہے کہ وہ قائم اللّیل اور صائم الدّہر ہوں گے.ان کی راتیں ذکر اور فکر میں گزرتی تھیں اور ان کی زندگی کیوں کر بسر ہوتی تھی؟ قرآن کریم کی یہ آیہ شریفہ ان کے طریق زندگی کا پورا نقشہ کھینچ کر دکھاتی ہے وَمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ (الانفال:۶۱) اور يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَرَابِطُوْا...الآیۃ (اٰل عمران:۲۰۱) اور سرحد پر اپنے گھوڑے باندھے رکھو کہ خدا کے دشمن اور تمہارے دشمن اس تمہاری تیاری اور استعداد سے ڈرتے رہیں.اے مومنو! صبر اور مصابرت اور مرابطت کرو.
رباط کے معنی رباط ان گھوڑوں کو کہتے ہیں جو دشمن کی سرحد پر باندھے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ صحابہؓ کو اعداء کے مقابلہ کے لئے مستعد رہنے کا حکم دیتا ہے اور اس رباط کے لفظ سے انہیں پوری اور سچی تیاری کی طرف متوجہ کرتا ہے.ان کے سپرد دو کام تھے.ایک ظاہری دشمنوں کا مقابلہ اور ایک وہ روحانی مقابلہ کرتے تھے اور رباط لغت میں نفس اور انسانی دل کو بھی کہتے ہیں اور پھر ایک لطیف بات ہے کہ گھوڑے وہی کام آتے ہیں جو سدھائے ہوئے اور تعلیم یافتہ ہوں.آج کل گھوڑوں کی تعلیم و تربیت کا اسی انداز پر لحاظ رکھا جاتا ہے اور اسی طرح ان کو سدھایا سکھایا جاتا ہے جس طرح بچوں کو سکولوں میں خاص احتیاط اور اہتمام میں تعلیم دی جاتی ہے.اگر ان کو تعلیم نہ دی جائے اور وہ سدھائے نہ جائیں تو وہ بالکل نکمے ہوں اور وہ بجائے مفید ہونے کے خوفناک اور مضر ثابت ہوں.یہ اشارہ اس امر کی طرف بھی ہے کہ انسانوں کے نفوس یعنی رباط بھی تعلیم یافتہ چاہئیں اور ان کے قویٰ اور طاقتیں ایسی ہونی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ کی حدود کے نیچے نیچے چلیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو وہ اس حرب اور جدال کا کام نہ دے سکیں گے جو انسان اور اس کے خوفناک دشمن یعنی شیطان کے درمیان اندرونی طور پر ہر لحظہ اور ہر آن جاری ہے.جیسا کہ لڑائی اور میدان جنگ میں علاوہ قوائے بدنی کے تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری ہے اسی طرح اس اندرونی حرب اور جہاد کے لئے نفوس انسانی کی تربیت اور مناسب تعلیم مطلوب ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ شیطان اس پر غالب آجائے گا اور وہ بہت بُری طرح ذلیل اور رُسوا ہوگا.مثلاً اگر ایک شخص توپ و تفنگ، اسلحۂ حرب بندوق وغیرہ تو رکھتا ہو لیکن اس کے استعمال اور چلانے سے ناواقف محض ہو تو وہ دشمن کے مقابلہ میں کبھی عہدہ برآ نہیں ہو سکتا اور تیر و تفنگ اور سامان حرب بھی ایک شخص رکھتا ہو اور ان کا استعمال بھی جانتا ہو لیکن اس کے بازو میں طاقت نہ ہو تو بھی وہ کامیاب نہیں ہو سکتا.اس سے معلوم ہوا کہ صرف طریق اور طرز استعمال کا سیکھ لینا بھی کارآمد اور مفید نہیں ہو سکتا جب تک کہ ورزش اور مشق کر کے بازو میں توانائی اور قوت پیدا نہ کی جاوے.اب اگر ایک شخص جو تلوار چلانا تو جانتا ہے لیکن ورزش اور مشق نہیں رکھتا تو میدان حرب میں جا کر جونہی تین چار دفعہ تلوار کو حرکت دے گا اور دو ایک ہاتھ مارے گا اس کے بازو
نکمے ہو جائیں گے اور وہ تھک کر بالکل بے کار ہو جائے گا اور خود ہی آخر دشمن کا شکار ہو جائے گا.مجاہدہ اور ریاضت پس سمجھ لو اور خوب سمجھ لو کہ نرا علم و فن اور خشک تعلیم بھی کچھ کام نہیں دے سکتی جب تک کہ عمل اور مجاہدہ اور ریاضت نہ ہو.دیکھو سرکار بھی فوجوں کو اسی خیال سے بیکار نہیں رہنے دیتی.عین امن و آرام کے دنوں میں بھی مصنوعی جنگ برپا کر کے فوجوں کو بیکار نہیں ہونے دیتی اور معمولی طور پر چاند ماری اور پریڈ وغیرہ تو ہوتی ہی رہتی ہے.جیسا ابھی میں نے بیان کیا کہ میدان کارزار میں کامیاب ہونے کے لئے جہاں ایک طرف طریق استعمال اسلحہ وغیرہ کی تعلیم اور واقفیت کی ضرورت ہے وہاں دوسری طرف ورزش اور محل استعمال کی بھی بڑی بھاری ضرورت ہے اور نیز حرب و ضرب میں تعلیم یافتہ گھوڑے چاہئیں.یعنی ایسے گھوڑے جو توپوں اور بندوقوں کی آواز سے نہ ڈریں اور گرد و غبار سے پراگندہ ہو کر پیچھے نہ ہٹیں بلکہ آگے ہی بڑھیں.اسی طرح نفسوس انسانی کامل ورزش اور پوری ریاضت اور حقیقی تعلیم کے بغیر اعداء اللہ کے مقابل میدان کار زار میں کامیاب نہیں ہو سکتے.عربی زبان کی خوبی لغت عرب بھی عجیب چیز ہے.مقابلہ بھی اسی پر ختم ہے.رباط کا لفظ جو آیہ مذکورہ میں آیا ہے جہاں دنیاوی جنگ و جدل اور فنون جنگ کی فلاسفی پر مشتمل ہے وہاں روحانی طور پر اندرونی جنگ اور مجاہدۂ نفس کی حقیقت اور خوبی کو بھی ظاہر کرتا ہے.یہ ایک عجیب سلسلہ ہے.اسی لئے عربی زبان اُمُّ الْاَلْسِنَۃِ ہے.اس سے وہ کام نکلتے ہیں جو دوسری زبان سے ممکن نہیں اور انشاء اللہ یہ معارف نہایت وضاحت اور لطافت سے کتاب منن الرحمٰن کے ذریعہ سے ظاہر ہوں گے جو میں نے آج کل عربی زبان کی فضیلت اور اس کو اُمُّ الْاَلْسِنَۃِ ثابت کرنے کے بارہ میں لکھنی شروع کی ہے.معلوم ہو جائے گا کہ یوروپین لوگوں کی تحقیقاتیں بالکل نامکمل اور ادھوری ہیں.اور ان کو بھی پتہ لگ جائے گا کہ زبانوں کی گم گشتہ ماں بھی اس زمانہ ہی میں جہاں اور گمشدہ دینی صداقتیں مل گئی ہیں مل گئی ہے اور وہ عربی ہی ہے.الغرض عربی زبان کی لغت جسمانی سلسلہ میں روحانی سلسلہ بھی دکھاتی جاتی ہے.اس لئے کہ جسمانی امور اور جسمانی باتیں
خارجی طور پر ہمارے مشاہدہ میں آتی ہیں اور ہم ان کی ماہیت نہایت سہولت اور آسانی سے سمجھ سکتے ہیں.پس ان پر قیاس کر کے روحانی سلسلہ اور روحانی امور کی فلاسفی سمجھ میں آنی مشکل نہیں ہوتی اور یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور برکت ہے جو اس نے اس تاریکی اور ضلالت کے زمانہ میں معرفت کا نور آسمان سے اتارا تاکہ بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھلائے اور ایسا طریق اور پیرایہ ظاہر کیا جو اَب تک راز کے طور پر تھا.وہ کیا؟ یہی لغت عرب کی فلاسفی اور ماہیت سے استدلال.مبارک ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے فضل کی قدر کرتے اور اس کے لینے کو طیار ہو جاتے ہیں.اسلام کو جنگ کی دو قوتیں دی گئی تھیں اب دیکھو کہ یہی رباط کا لفظ جو ان گھوڑوں پر بولا جاتا ہے جو سرحد پر دشمنوں سے حفاظت کے لئے باندھے جاتے ہیں.ایسا ہی یہ لفظ ان نفسوں پر بھی بولا جاتا ہے جو اس جنگ کی تیاری کے لئے تعلیم یافتہ ہوں جو انسان کے اندر ہی اندر شیطان سے ہر وقت جاری ہے.یہ بالکل ٹھیک بات ہے کہ اسلام کو دو قوتیں جنگ کی دی گئی تھیں.ایک قوت وہ تھی جس کا استعمال صدر اول میں بطور مدافعت و انتقام کے ہوا.یعنی مشرکین عرب نے جب ستایا اور تکلیفیں دیں تو ایک ہزار نے ایک لاکھ کفار کا مقابلہ کر کے شجاعت کا جوہر دکھایا اور ہر امتحان میں اس پاک قوت و شوکت کا ثبوت دیا.وہ زمانہ گزر گیا اور رباط کے لفظ میں جو فلاسفی ظاہری قوت جنگ اور فنون جنگ کی مخفی تھی وہ ظاہر ہو گئی ہے.اس زمانہ میں جنگ باطنی کے نمونے دکھانے مطلوب ہیں اب اس زمانہ میں جس میں ہم ہیں جنگِ ظاہری کی مطلق ضرورت اور حاجت نہیں بلکہ ان آخری دنوں میں جنگِ باطنی کے نمونے دکھانے مطلوب تھے اور روحانی مقابلہ زیر نظر تھا کیونکہ اس وقت باطنی ارتداد اور الحاد کی اشاعت کے لئے بڑے بڑے سامان اور اسلحہ بنائے گئے.اس لئے ان کا مقابلہ بھی اسی قسم کے اسلحوں سے ضروری ہے کیونکہ آج کل امن و امان کا زمانہ ہے اور ہم کو ہر طرح کی آسائش اور امن حاصل ہے.آزادی سے ہر آدمی اپنے مذہب کی اشاعت اور تبلیغ اور احکام کی بجاآوری کر سکتا ہے.پھر اسلام جو امن کا سچا حامی
ہے بلکہ حقیقتاً امن اور سِلْم اور آشتی کا اشاعت کنندہ ہی اسلام ہے کیونکر اس زمانہ امن و آزادی میں اس پہلے نمونہ کو دکھانا پسند کر سکتا تھا؟ پس آج کل وہی دوسرا نمونہ یعنی روحانی مجاہدہ مطلوب ہے کیونکہ کہ حلوا چو یکبار خوردند و بس # موجودہ زمانہ میں جہاد ایک اور بات بھی ہے کہ اس پہلے نمونہ کے دکھانے میں ایک اور امر بھی ملحوظ تھا یعنی اس وقت اظہار شجاعت بھی مقصود تھا جو اس وقت کی دنیا میں سب سے زیادہ محمود اور محبوب وصف سمجھی جاتی تھی اور اِس وقت تو حرب ایک فن ہو گیا ہے کہ دور بیٹھے ہوئے بھی ایک آدمی توپ اور بندوق چلا سکتا ہے.ان دنوں میں سچا بہادر وہ تھا جو تلواروں کے سامنے سینہ سپر ہوتا اور آج کل کا فن حرب تو بزدلوں کا پردہ پوش ہے.اب شجاعت کا کام نہیں بلکہ جو شخص آلات حرب جدید اور نئی توپیں وغیرہ رکھتا اور چلا سکتا ہے وہ کامیاب ہو سکتا ہے.اُس حرب کا مدعا اور مقصد مومنوں کے مخفی مادہ شجاعت کا اظہار تھا اور خدائے تعالیٰ نے جیسا چاہا خوب طرح اسے دنیا پر ظاہر کیا.اب اس کی حاجت نہیں رہی اس لئے کہ اب جنگ نے فن اور مکیدت اور خدیعت کی صورت اختیار کر لی ہے اور نئے نئے آلات حرب اور پیچ دار فنون نے اس قیمتی اور قابل فخر جوہر کو خاک میں ملا دیا ہے.ابتدائے اسلام میں دفاعی لڑائیوں اور جسمانی جنگوں کی اس لئے بھی ضرورت پڑتی تھی کہ دعوت اسلام کرنے والے کا جواب ان دنوں دلائل و براہین سے نہیں بلکہ تلوار سے دیا جاتا تھا.اس لئے لاچار جواب الجواب میں تلوار سے کام لینا پڑا لیکن اب تلوار سے جواب نہیں دیا جاتا بلکہ قلم اور دلائل سے اسلام پر نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ سیف (تلوار) کا کام قلم سے لیا جاوے اور تحریر سے مقابلہ کر کے مخالفوں کو پست کیا جاوے.اس لئے اب کسی کو شایاں نہیں کہ قلم کا جواب تلوار سے دینے کی کوشش کرے.گر حفظِ مراتب نکنی زندیقی # اس وقت قلم کی ضرورت ہے اس وقت جو ضرورت ہے وہ یقیناً سمجھ لو سیف کی نہیں بلکہ قلم کی ہے.ہمارے مخالفین نے اسلام پر جو شبہات
وارد کئے ہیں اور مختلف سائنسوں اور مکائد کی رو سے اللہ تعالیٰ کے سچے مذہب پر حملہ کرنا چاہا ہے اس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اور علمی ترقی کے میدان کار زار میں اتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھاؤں.میں کب اس میدان کے قابل ہو سکتا تھا؟ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کی بے حد عنایت ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ میرے جیسے عاجز انسان کے ہاتھ سے اس کے دین کی عزت ظاہر ہو.میں نے ایک وقت ان اعتراضات اور حملات کو شمار کیا تھا جو اسلام پر ہمارے مخالفین نے کئے ہیں.ان کی تعداد اس وقت میرے خیال اور اندازہ میں تین ہزار ہوئی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اب تو اور بھی تعداد بڑھ گئی ہوگی.کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اسلام کی بنا ایسی کمزور باتوں پر ہے کہ اس پر تین ہزار اعتراض وارد ہو سکتا ہے.نہیں ایسا ہرگز نہیں.یہ اعتراضات تو کوتاہ اندیشوں اور نادانوں کی نظر میں اعتراض ہیں مگر میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے جہاں ان اعتراضات کو شمار کیا وہاں یہ بھی غور کیا ہے کہ ان اعتراضات کی تہ میں دراصل بہت ہی نادر صداقتیں موجود ہیں جو عدم بصیرت کی وجہ سے ان کو دکھائی نہیں دیں اور حقیقت میں یہ خدائے تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جہاں نابینا معترض آکر اٹکا ہے وہیں حقائق و معارف کا مخفی خزانہ رکھا ہے.مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض اور خدائے تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے کہ میں ان خزائن مدفونہ کو دنیا کو دکھاؤں اور ناپاک اعتراضات کا کیچڑ جو ان درخشاں جواہرات پر تھوپا گیا ہے اسے پاک صاف کروں.خدائے تعالیٰ کی غیرت اس وقت بڑے جوش میں ہے کہ قرآن کریم کی ساخت عزت کو ہر ایک خبیث دشمن کے داغ اعتراض سے منزہ و مقدس کرے.الغرض ایسی صورت میں کہ مخالفین قلم سے ہم پر وار کرنا چاہتے ہیں اور کرتے ہیں.کس قدر بیوقوفی ہو گی کہ ہم ان سے لٹھم لٹھا ہونے کو تیار ہو جائیں.میں تمہیں کھول کر بتلاتا ہوں کہ ایسی صورت میں اگر کوئی اسلام کا نام لے کر جنگ و جدال کا طریق جواب میں اختیار کرے تو وہ اسلام کا
بدنام کرنے والا ہوگا.اور اسلام کا کبھی ایسا منشا نہ تھا کہ بے مطلب اور بلا ضرورت تلوار اٹھائی جاوے.اب لڑائیوں کی اغراض جیسا کہ میں نے کہا ہے فن کی شکل میں آکر دینی نہیں رہیں بلکہ دنیوی اغراض ان کا موضوع ہو گیا ہے.پس کس قدر ظلم ہو گا کہ اعتراض کرنے والوں کو جواب دینے کی بجائے تلوار دکھائی جائے.اب زمانہ کے ساتھ حرب کا پہلو بدل گیا ہے اس لئے ضرورت ہے کہ سب سے پہلے اپنے دل اور دماغ سے کام لیں اور نفوس کا تزکیہ کریں.راستبازی اور تقویٰ سے خدائے تعالیٰ سے امداد اور فتح چاہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا ایک اٹل قانون اور مستحکم اصول ہے کہ اگر مسلمان صرف قیل و قال اور باتوں سے مقابلہ میں کامیابی اور فتح پانا چاہیں تو یہ ممکن نہیں.اللہ تعالیٰ لاف گزاف اور لفظوں کو نہیں چاہتا وہ تو حقیقی تقویٰ کو چاہتا اور سچی طہارت کو پسند کرتا ہے.جیسا کہ فرمایا ہے اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ (النّحل :۱۲۹) عقل سے بھی کام لینا چاہیے ہم کو عقل سے بھی کام لینا چاہیے کیونکہ انسان عقل کی وجہ سے مکلّف ہے.کوئی آدمی بھی خلاف عقل باتوں کے ماننے پر مجبور نہیں ہو سکتا.قویٰ کی برداشت اور حوصلہ سے بڑھ کر کسی قسم کی شرعی تکلیف نہیں اٹھوائی گئی.لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (البقرۃ:۲۸۷) اس آیت سے صاف طور پر پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام ایسے نہیں جن کی بجا آوری کوئی کر ہی نہ سکے اور نہ شرائع و احکام خدائے تعالیٰ نے دنیا میں اس لئے نازل کئے کہ اپنی بڑی فصاحت و بلاغت اور ایجادی قانونی طاقت اور چیستان طرازی کا فخر انسان پر ظاہر کرے اور یوں پہلے ہی سے اپنی جگہ ٹھان رکھا تھا کہ کہاں بیہودہ ضعیف انسان اور کہاں کا ان حکموں پر عمل درآمد؟ خدا تعالیٰ اس سے برتر و پاک ہے کہ ایسا لغو فعل کرے.ہاں عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں کوئی آدمی شریعت کی تابعداری اور خدا کے حکموں کی بجا آوری کر ہی نہیں سکتا.نادان اتنا نہیں جانتے کہ پھر خدا کو شریعت کے بھیجنے کی کیا ضرورت پڑی تھی.ان کے خیال اور اعتقاد میں گویا اللہ تعالیٰ نے (نعوذ باللہ) پہلے نبیوں پر شریعت نازل کر کے ایک عبث اور بیہودہ کام کیا.اصل میں خدا کی ذاتِ پاک پر اس قسم کی عیب تراشی کی ضرورت
عیسائیوں کو اسی کفارہ کے مسئلہ کی گھڑت کے لئے پیش آئی.مجھے حیرت اور تعجب ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے ایک اختراعی مسئلہ کی بنیاد قائم کرنے کے لئے اس بات کی بھی پروا نہیں کی کہ خدا کی ذات پر کس قسم کا گندہ حرف آتا ہے.قرآنی تعلیم کا ہر ایک حکم معلّل باغراض و مصالح ہے ہاں! یہ خوبی قرآنی تعلیم میں ہے کہ اس کا ہر ایک حکم معلّل باغراض و مصالح ہے اور اس لئے جابجا قرآن کریم میں تاکید ہے کہ عقل، فہم، تدبر، فقاہت اور ایمان سے کام لیا جائے اور قرآن اور دوسری کتابوں میں یہی بیّن مابہ الامتیاز ہے.اَور کسی کتاب نے اپنی تعلیم کو عقل اور تدبر کی دقیق اور آزاد نکتہ چینی کے آگے ڈالنے کی جرأت ہی نہیں کی بلکہ انجیل خاموش کے چالاک اور گویا حامیوں نے اس شعور سے کہ انجیل کی تعلیم عقلی زور کے مقابل بے جان محض ہے ہوشیاری سے اپنے عقائد میں اس امر کو داخل کر لیا کہ تثلیث اور کفارہ ایسے راز ہیں کہ انسانی عقل ان کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتی.برخلاف اس کے فرقان حمید کی یہ تعلیم ہے اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ الآیۃ(اٰل عمران:۱۹۱،۱۹۲) یعنی آسمانوں کی بناوٹ اور زمین کی بناوٹ اور رات اور دن کا آگے پیچھے آنا دانش مندوں کو اس اللہ کا صاف پتہ دیتے ہیں جس کی طرف مذہب اسلام دعوت کرتا ہے.اس آیت میں کس قدر صاف حکم ہے کہ دانش مند اپنی دانشوں اور مغزوں سے بھی کام لیں.اسلام کا خدا اور جان لیں کہ اسلام کا خدا ایسا گورکھ دھندا نہیں کہ اسے عقل پر پتھر مار کر بہ جبر منوایا جائے اور صحیفۂ فطرت میں کوئی بھی ثبوت اس کے لئے نہ ہو بلکہ فطرت کے وسیع اوراق میں اس کے اس قدر نشانات ہیں جو صاف بتلاتے ہیں کہ وہ ہے.ایک ایک چیز اس کائنات میں اس نشان اور تختہ کی طرح ہے جو ہر سڑک یا گلی کے سر پر اس سڑک یا محلہ یا شہر کا نام معلوم کرنے کے لئے لگائے جاتے ہیں خدا کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور اس موجود ہستی کا پتہ ہی
نہیں بلکہ مطمئن کر دینے والا ثبوت دیتی ہے.زمین و آسمان کی شہادتیں کسی مصنوعی اور بناوٹی خدا کی ہستی کا ثبوت نہیں دیتیں بلکہ اس خدائے اَحَدُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْوَلَمْ یُوْلَدْ کی ہستی کو دکھاتی ہیں جو زندہ اور قائم خدا ہے اور جسے اسلام پیش کرتا ہے.چنانچہ پادری فنڈر جس نے پہلے پہل ہندوستان میں آکر مذہبی مناظروں میں قدم رکھا اور اسلام پر نکتہ چینیاں کیں اپنی کتاب میزان الحق میں خود ہی سوال کے طور پر لکھتا ہے کہ اگر کوئی ایسا جزیرہ ہو جہاں تثلیث کی تعلیم نہ دی گئی ہو تو کیا وہاں کے رہنے والوں پر آخرت میں مواخذہ تثلیث کے عقیدہ کی بنا پر ہو گا؟ پھر خود ہی جواب دیتا ہے کہ ان سے توحید کا مواخذہ ہو گا.اس سے سمجھ لو کہ اگر توحید کا نقش ہر ایک شے میں نہ پایا جاتا اور تثلیث ایک بناوٹی اور مصنوعی تصور نہ ہوتی تو عقیدہ توحید کی بنا پر مواخذہ کیوں ہوتا؟ توحید کا نقش قدرت کی ہر چیز میں رکھا ہوا ہے بات اصل میں یہ ہے کہ انسان کی فطرت ہی میں اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوْا بَلٰى (الاعراف:۱۷۳) نقش کیا گیا ہے اور تثلیث سے کوئی مناسبت جبلت انسانی اور تمام اشیائے عالم کو نہیں.ایک قطرہ پانی کا دیکھو تو وہ گول نکلتا ہے.مثلث کی شکل میں نہیں نکلتا.اس سے بھی صاف طور پر یہی پایا جاتا ہے کہ توحید کا نقش قدرت کی ہر چیز میں رکھا ہوا ہے.خوب غور سے دیکھو کہ پانی کا قطرہ گول ہوتا ہے اور کروی شکل میں توحید ہی ہوتی ہے اس لئے کہ وہ جہت کو نہیں چاہتی اور مثلث شکل جہت کو چاہتی ہے.چنانچہ آگ کو دیکھو شکل بھی مخروطی ہے اور وہ بھی کرویت اپنے اندر رکھتی ہے.اس سے بھی توحید کا نور چمکتا ہے.زمین کو لو اور انگریزوں ہی سے پوچھو کہ اس کی شکل کیسی ہے؟ کہیں گے گول.الغرض طبعی تحقیقاتیں جہاں تک ہوتی چلی جائیں گی وہاں توحید ہی توحید نکلتی چلی جائے گی.اللہ تعالیٰ اس آیت اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ....الآیۃ (اٰلِ عمران:۱۹۱) میں بتلاتا ہے کہ جس خدا کو قرآن پیش کرتا ہے اس کے لئے زمین آسمان دلائل سے بھرے پڑے ہیں.مجھے ایک حکیم کا مقولہ بہت ہی پسند آتا ہے کہ اگر کُل کتابیں دریا برد کر دی جاویں تو پھر بھی اسلام کا خدا باقی رہ جائے گا.اس لئے کہ وہ مثلث اور کہانی نہیں.اصل میں پختہ بات وہی ہے جس کی
صداقت کسی خاص چیز پر منحصر ہو کہ اگر وہ نہ ہو تو اس کا پتہ ہی ندارد.قصہ کہانی کا نقش نہ دل میں ہوتاہے، نہ صحیفۂ فطرت میں جب تک کسی پنڈت، پاندھے یا پادری نے یاد رکھا ان کا کوئی وجود مسلّم رہا.زاں بعد حرف غلط کی طرح مٹ گیا.تعلیم قرآن کی شہادت قانون قدرت کی زبان سے ادا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ.فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ.لَّا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ (الواقعۃ :۷۸تا ۸۰) بلکہ یہ سارا صحیفہ قدرت کے مضبوط صندوق میں محفوظ ہے.کیا مطلب کہ یہ قرآن کریم ایک چُھپی ہوئی کتاب میں ہے.اس کا وجود کاغذوں تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ ایک چھپی ہوئی کتاب میں ہے جس کو صحیفۂ فطرت کہتے ہیں یعنی قرآن کی ساری تعلیم کی شہادت قانون قدرت کے ذرہ ذرہ کی زبان سے ادا ہوتی ہے.اس کی تعلیم اور اس کی برکات کتھا کہانی نہیں جو مٹ جائیں.ضرورت الہام ہر ایک آدمی چونکہ عقل سے مدارج یقین پر نہیں پہنچ سکتا اس لئے الہام کی ضرورت پڑتی ہے جو تاریکی میں عقل کے لئے ایک روشن چراغ ہو کر مدد دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے فلاسفر بھی محض عقل پر بھروسہ کر کے حقیقی خدا کو نہ پا سکے.چنانچہ افلاطون جیسا فلاسفر بھی مرتے وقت کہنے لگا کہ میں ڈرتا ہوں.ایک بت پر میرے لئے ایک مرغا ذبح کرو.اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہو گی.افلاطون کی فلاسفی، اس کی دانائی اور دانش مندی اس کو وہ سچی سکینت اور اطمینان نہیں دے سکی جو مومنوں کو حاصل ہے.یہ خوب یاد رکھو کہ الہام کی ضرورت قلبی اطمینان اور دلی استقامت کے لئے اشد ضروری ہے.میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے عقل سے کام لو اور یہ یاد رکھو کہ جو عقل سے کام لے گا اسلام کا خدا اسے ضرور ہی نظر آجائے گا.کیونکہ درختوں کے پتّے پتّے پر اور آسمان کے اجرام پر اس کا نام بڑے جلی حرفوں میں لکھا ہوا ہے.لیکن بالکل عقل کے ہی تابع نہ بن جاؤ تا کہ الہام الٰہی کی وقعت کو کھو بیٹھو جس کے بغیر نہ حقیقی تسلی اور نہ اخلاق فاضلہ نصیب ہو سکتے ہیں.برہمو لوگ بھی شانتی اور سچا نور نجات کا حاصل نہیں کر سکتے
اس لئے کہ وہ الہام کی ضرورت کے قائل نہیں.ایسے لوگ جو عقل کے بندے ہو کر الہام کو فضول قرار دیتے ہیں میں بالکل ٹھیک کہتا ہوں کہ عقل سے بھی کام نہیں لیتے.قرآن کریم میں ان لوگوں کو جو عقل سے کام لیتے ہیں اُولُوا الْاَلْبَابِ فرمایا ہے.پھر اس کے آگے فرماتا ہے اَلَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ....الاٰیۃ(اٰل عمران:۱۹۲) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دوسرا پہلو بیان کیا ہے کہ اُولُوا الْاَلْبَابِ اور عقل سلیم بھی وہی رکھتے ہیں جو اللہ جلّشانہ کا ذکر اٹھتے بیٹھتے کرتے ہیں.یہ گمان نہ کرنا چاہیے کہ عقل و دانش ایسی چیزیں ہیں جو یونہی حاصل ہو سکتی ہیں.نہیں.سچی فراست بلکہ سچی فراست اور سچی دانش اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کئے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتی.اسی واسطے تو کہا گیا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ نور الٰہی سے دیکھتا ہے.صحیح فراست اور حقیقی دانش جیسا میں نے ابھی کہا کبھی نصیب نہیں ہو سکتی جب تک تقویٰ میسر نہ ہو.اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو عقل سے کام لو.فکر کرو.سوچو.تدبر اور فکر کے لئے قرآن کریم میں بار بار تاکیدیں موجود ہیں.کتاب مکنون اور قرآن کریم میں فکر کرو اور پارسا طبع ہو جاؤ.جب تمہارے دل پاک ہو جائیں گے اور ادھر عقل سلیم سے کام لو گے اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے پھر ان دونوں کے جوڑ سے وہ حالت پیدا ہو جائے گی کہ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (اٰل عمران:۱۹۲) تمہارے دل سے نکلے گا.اس وقت سمجھ میں آجائے گا کہ یہ مخلوق عبث نہیں بلکہ صانع حقیقی کی حقانیت اور اثبات پر دلالت کرتی ہے تا کہ طرح طرح کے علوم و فنون جو دین کو مدد دیتے ہیں ظاہر ہوں.الہام کی روشنی خدائے تعالیٰ نے مسلمانوں کو صرف عقل ہی کے عطیہ سے مشرف نہیں فرمایا بلکہ الہام کی روشنی اور نور بھی اس کے ساتھ مرحمت فرمایا ہے.انہیں ان راہوں پر نہیں چلنا چاہیے جو خشک منطقی اور فلاسفر چلانا چاہتے ہیں.ایسے لوگوں پر لسانی قوت غالب ہوتی ہے اور روحانی قویٰ بہت ضعیف ہوتے ہیں.دیکھو قرآن شریف میں خدائے تعالیٰ اپنے بندوں کی
تعریف میں اُولِي الْاَيْدِيْ وَ الْاَبْصَارِ(صٓ:۴۶) فرماتا ہے کہیں اولی الالسنۃ نہیں فرمایا اس سے معلوم ہوا کہ خدائے تعالیٰ کو وہی لوگ پسند ہیں جو بصر اور بصیرت سے خدا کے کام اور کلام کو دیکھتے ہیں اور پھر اس پر عمل کرتے ہیں اور یہ ساری باتیں بجز تزکیہ نفس اور تطہیر قوائے باطنیہ کے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتیں.فلاح دارین کے حصول کا طریق اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں فلاح دارین حاصل ہو اور لوگوں کے دلوں پر فتح پاؤ تو پاکیزگی اختیار کرو.عقل سے کام لو اور کلامِ الٰہی کی ہدایات پر چلو.خود اپنے تئیں سنوارو اور دوسروں کو اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھاؤ.جب البتہ کامیاب ہو جاؤ گے.کسی نے کیا اچھا کہا ہے سخن کز دل بروں آید نشیند لا جرم بر دل # پس پہلے دل پیدا کرو.اگر دلوں پر اثر اندازی چاہتے ہو تو عملی طاقت پیدا کرو کیونکہ عمل کے بغیر قولی طاقت اور انسانی قوت کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی.زبان سے قیل و قال کرنے والے تو لاکھوں ہیں.بہت سے مولوی اور علماء کہلا کر منبروں پر چڑھ کر اپنے تئیں نائب الرسول اور وارث الانبیاء قرار دے کر وعظ کرتے پھرتے ہیں.کہتے ہیں کہ تکبر نہ کرو، بدکاریوں سے بچو مگر جو اُن کے اپنے اعمال ہیں اور جو کرتوتیں وہ خود کرتے ہیں ان کا اندازہ اس سے کر لو کہ ان باتوں کا اثر تمہارے دلوں پر کہاں تک ہوتا ہے؟ قول و فعل میں مطابقت اگر اس قسم کے لوگ عملی طاقت بھی رکھتے اور کہنے سے پہلے خود کرتے تو قرآن میں لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصّف:۳) کہنے کی کیا ضرورت پڑتی؟ یہ آیت ہی بتلاتی ہے کہ دنیا میں کہہ کر خود نہ کرنے والے بھی موجود تھے اور ہیں اور ہوں گے.تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر پذیر نہیں ہوتی.اسی سے تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صداقت ثابت ہوتی ہے کیونکہ جو کامیابی اور تاثیر فی القلوب ان کے حصہ میں آئی اس کی کوئی نظیر بنی آدم کی تاریخ
میں نہیں اور یہ سب اس لئے ہوا کہ آپ کے قول اور فعل میں پوری مطابقت تھی.میری ان باتوں پر عمل کرو میری یہ باتیں اس لئے ہیں کہ تا تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو اور اس تعلق کی وجہ سے میرے اعضاء ہو گئے ہو ان باتوں پر عمل کرو اور عقل اور کلام الٰہی سے کام لو تا کہ سچی معرفت اور یقین کی روشنی تمہارے اندر پیدا ہو اور تم دوسرے لوگوں کو ظلمت سے نور کی طرف آنے کا وسیلہ بنو اس لئے کہ آج کل اعتراضوں کی بنیاد طبعی اور طبابت اور ہیئت کے مسائل پر ہے.لازم ہوا کہ ان علوم کی ماہیت اور کیفیت سے آگاہی حاصل کریں تا کہ جواب دینے سے پہلے اعتراض کی حقیقت تو ہم پر کھل جاوے.علوم جدیدہ کی تحصیل میں ان مولویوں کو غلطی پر جانتا ہوں جو علوم جدیدہ کی تعلیم کے مخالف ہیں وہ دراصل اپنی غلطی اور کمزوری کو چھپانے کے لئے ایسا کرتے ہیں.ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ علوم جدیدہ کی تحقیقات اسلام سے بدظن اور گمراہ کر دیتی ہے اور وہ یہ قرار دئیے بیٹھے ہیں کہ گویا عقل اور سائنس اسلام سے بالکل متضاد چیزیں ہیں چونکہ خود فلسفہ کی کمزوریوں کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لئے اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لئے یہ بات تراشتے ہیں کہ علوم جدیدہ کا پڑھنا ہی جائز نہیں.ان کی روح فلسفہ سے کانپتی ہے اور نئی تحقیقات کے سامنے سجدہ کرتی ہے.سچا فلسفہ قرآن میں ہے مگر وہ سچا فلسفہ ان کو نہیں ملا جو الہام الٰہی سے پیدا ہوتا ہے جو قرآن کریم میں کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے وہ ان کو اور صرف ان کو دیا جاتا ہے جو نہایت تذلّل اور نیستی سے اپنے تئیں اللہ کے دروازے پر پھینک دیتے ہیں.جن کے دل اور دماغ سے متکبرانہ خیالات کا تعفن نکل جاتا ہے اور جو اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے گڑگڑا کر سچی عبودیت کا اقرار کرتے ہیں.علوم جدیدہ کو اسلام کے تابع کرنا چاہیے پس ضرور ہے کہ آج کل دین کی خدمت اور اعلائے کلمۃ اللہ کی غرض سے علوم جدیدہ
حاصل کرو اور بڑے جدوجہد سے حاصل کرو لیکن مجھے یہ بھی تجربہ ہے جو بطور انتباہ میں بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ علوم ہی میں یک طرفہ پڑ گئے اور ایسے محو اور منہمک ہوئے کہ کسی اہل دل اور اہل ذکر کے پاس بیٹھنے کا ان کو موقع نہ ملا اور وہ خود اندر الٰہی نور نہ رکھتے تھے وہ بھی عموماً ٹھوکر کھا گئے اور اسلام سے دور جا پڑے اور بجائے اس کے کہ ان علوم کو اسلام کے تابع کرتے الٹا اسلام کو علوم کے ماتحت کرنے کی بے سود کوششیں کر کے اپنے زعم میں دینی اور قومی خدمات کے متکفّل بن گئے.مگر یاد رکھو کہ یہ کام وہی کر سکتا ہے یعنی دینی خدمت وہی بجا لا سکتا ہے جو آسمانی روشنی اپنے اندر رکھتا ہے.بات یہ ہے کہ ان علوم کی تعلیمیں پادریت اور فلسفیت کے رنگ میں دی جاتی ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان تعلیمات کا دلدادہ چند روز تو حسن ظن کی وجہ سے جو اس کو فطرتاً حاصل ہوتا ہے رسوم اسلام کا پابند رہتا ہے لیکن جوں جوں ادھر قدم بڑھاتا چلا جاتا ہے اسلام کو دور چھوڑتا جاتا ہے اور آخر وہ رسوم ہی رہ جاتی ہیں اور حقیقت سے کچھ تعلق نہیں رہتا.یہ نتیجہ پیدا ہوتا ہے اور ہوا ہے یک طرفہ علوم کی تحقیقات اور تعلیم میں منہمک ہونے کا.بہت سے قومی لیڈر کہلا کر بھی اس رمز کو نہیں سمجھ سکے کہ علوم جدیدہ کی تحصیل جب ہی مفید ہو سکتی ہے جب محض دینی خدمت کی نیت سے ہو اور کسی اہل دل اور آسمانی عقل اپنے اندر رکھنے والے مرد خدا کی صحبت سے فائدہ اٹھایا جاوے.میرا ایمان یہی کہتا ہے کہ اس دہریت نما نیچریت کے پھیلنے کی یہی وجہ ہے کہ جو شیطانی حملے الحاد کے زہر سے بھرے ہوئے علوم طبعی، فلسفی یا ہیئت دانوں کی طرف سے اسلام پر ہوتے ہیں ان کے مقابلہ کرنے کے لئے یا ان کا جواب دینے کے لئے اسلام اور آسمانی نور کو عاجز سمجھ کر عقلی ڈھکوسلوں اور فرضی اور قیاسی دلائل کو کام میں لایا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے مجیب قرآن کے مطالب اور مقاصد سے کہیں دور جا پڑتے ہیں اور ایک چھپا ہوا الحاد کا پردہ اپنے دل پر ڈال لیتے ہیں جو ایک وقت آکر اگر اللہ تعالیٰ اپنا فضل نہ کرے دہریت کا جامہ پہن لیتا ہے اور وہی رنگ دل کو دے دیتا ہے جس سے وہ ہلاک ہو جاتا ہے.
آج کل کے تعلیم یافتوں پر ایک اور بڑی آفت جو آکر پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کو دینی علوم سے مطلق مس ہی نہیں ہوتا.پھر جب وہ کسی ہیئت دان یا فلسفہ دان کے اعتراض پڑھتے ہیں تو اسلام کی نسبت شکوک اور وساوس ان کو پیدا ہو جاتے ہیں.پھر وہ عیسائی یا دہریہ بن جاتے ہیں.ایسی حالت میں ان کے والدین بھی ان پر بڑا ظلم کرتے ہیں کہ وہ دینی علوم کی تحصیل کے لئے ذرا سا وقت بھی ان کو نہیں دیتے اور ابتدا ہی سے ایسے دھندوں اور بکھیڑوں میں ڈالتے ہیں جو انہیں پاک دین سے محروم کر دیتے ہیں.دینی تعلیم و تربیت کا صحیح وقت یہ بات بھی غور کرنے کے قابل ہے کہ دینی علوم کی تحصیل کے لئے طفولیت کا زمانہ بہت ہی مناسب اور موزوں ہے.جب داڑھی نکل آئی پھر ضَـرَبَ یَضْـرِبُ یاد کرنے بیٹھے تو کیا خاک ہو گا؟ طفولیت کا حافظہ بہت تیز ہوتا ہے.انسانی عمر کے دوسرے وقت پر ایسا حافظہ کبھی بھی نہیں ہوتا.مجھے خوب یاد ہے کہ بعض طفولیت کی باتیں تو اب تک یاد ہیں لیکن پندرہ برس پہلے کی اکثر باتیں یاد نہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی عمر میں علم کے نقوش ایسے طور پر اپنی جگہ کر لیتے ہیں اور قویٰ کے نشوونما کی عمر ہونے کے باعث ایسے دلنشیں ہو جاتے ہیں کہ پھر ضائع نہیں ہو سکتے.غرض یہ ایک طویل امر ہے.مختصر یہ ہے کہ تعلیمی طریق میں اس امر کا لحاظ اور خاص توجہ چاہیے کہ دینی تعلیم ابتدا سے ہی ہو.میری ابتدا سے یہی خواہش رہی ہے اور اب بھی ہے.اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرے.دیکھو تمہاری ہمسایہ قوموں یعنی آریوں نے کس قدر حیثیت تعلیم کے لئے بنائی.کئی لاکھ سے زیادہ روپیہ جمع کر لیا.کالج کی عالیشان عمارت اور سامان بھی پیدا کیا.اگر مسلمان پورے طور پر اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ نہ کریں گے تو میری بات سن رکھیں کہ ایک وقت ان کے ہاتھ سے بچے بھی جاتے رہیں گے.صحبت کا اثر مثل مشہور ہے ’’ تخم تاثیر صحبت را اثر ‘‘# اس کے اول جزو پر کلام ہو تو ہو لیکن دوسرا حصہ ’’صحبت را اثر‘‘ ایسا ثابت شدہ مسئلہ ہے کہ اس پر زیادہ بحث کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں.ہر ایک شریف قوم کے بچوں کا عیسائیوں کے پھندے میں پھنس جانا اور مسلمانوں
حتی کہ غوث و قطب کہلانے والوں کی اولاد اور سادات کے فرزندوں کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرتے دیکھ چکے ہو.اِن صحیح النسب سیدوں کی اولاد جو اپنا سلسلہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچاتے ہیں ہم نے کرسچن دیکھی ہے اور بانی اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت قسم قسم کے الزام (نعوذ باللہ) لگاتے ہیں.ایسی حالت میں بھی اگر کوئی مسلمان اپنے دین اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی عزت اور غیرت نہیں رکھتا تو اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا؟ اگر تم اپنے بچوں کو عیسائیوں، آریوں اور دوسروں کی صحبت سے نہیں بچاتے یا کم از کم نہیں بچانا چاہتے تو یاد رکھو نہ صرف اپنے اوپر بلکہ قوم پر اور اسلام پر ظلم کرتے ہو اور بڑا بھاری ظلم کرتے ہو.اس کے یہ معنے ہیں کہ گویا تمہیں اسلام کی کچھ غیرت نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت تمہارے دل میں نہیں.راستباز اور متقی بنو تا کہ عقل میں جودت اور ذہانت پیدا ہو ذرا سمجھو اور سوچو.خدا کے واسطے عقل سے کام لو اور اس لئے کہ عقل میں جودت اور ذہانت پیدا ہو.راستباز اور متقی بنو.پاک عقل آسمان سے آتی ہے اور اپنے ہمراہ ایک نور لاتی ہے لیکن وہ جوہر قابل کی تلاش میں رہتی ہے.اس پاک سلسلہ کا قانون وہی قانون ہے جو ہم جسمانی قانون میں دیکھتے ہیں.بارش آسمان سے پڑتی ہے لیکن کوئی جگہ اس بارش سے گلزار ہوتی ہے اور کہیں کانٹے اور جھاڑیاں ہی اگتی ہیں اور کہیں وہی قطرہ بارش کا سمندر کی تہہ میں جا کر ایک گوہر شاہوار بنتا ہے.بقول کسے در باغ لالہ روید و در شورہ بوم خس # اگر زمین قابل نہیں ہوتی تو بارش کا کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ الٹا ضرر اور نقصان ہوتا ہے.اس لئے آسمانی نور اترا ہے اور وہ دلوں کو روشن کیا چاہتا ہے.اس کے قبول کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کو تیار ہو جاؤ تا کہ ایسا نہ ہو کہ بارش کی طرح کہ جو زمین قابل جوہر نہیں رکھتی وہ اس کو ضائع کر دیتی ہے تم بھی باوجود نور کے ہوتے تاریکی میں چلو اور ٹھوکر کھا کر اندھے کنویں میں گر کر ہلاک ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ مادر مہربان سے بھی بڑھ کر مہربان ہے.وہ نہیں چاہتا کہ اس کی مخلوق ضائع ہو.وہ ہدایت اور
روشنی کی راہیں تم پر کھولتا ہے مگر تم ان پر قدم مارنے کے لئے عقل اور تزکیۂ نفوس سے کام لو.جیسے زمین کہ جب تک ہل چلا کر طیار نہیں کی جاتی، تخم ریزی اس میں نہیں ہوتی.اسی طرح جب تک مجاہدہ اور ریاضت سے تزکیہ نفوس نہیں ہوتا پاک عقل آسمان سے اتر نہیں سکتی.اس زمانہ میں خدا نے بڑا فضل کیا اور اپنے دین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں غیرت کھا کر ایک انسان کو جو تم میں بول رہا ہے بھیجا تا کہ وہ اس روشنی کی طرف ان کو بلائے.اگر زمانہ میں ایسا فساد اور فتنہ نہ ہوتا اور دین کے محو کرنے کے واسطے جس قسم کی کوششیں ہو رہی ہیں نہ ہوتیں تو چنداں حرج نہ تھا مگر اب تم دیکھتے ہو کہ ہر طرف یمین و یسار اسلام ہی کو معدوم کرنے کی فکر میں قومیں لگی ہوئی ہیں.مجھے یاد ہے اور براہین احمدیہ میں بھی میں نے ذکر کیا ہے کہ اسلام کے خلاف چھ کروڑ کتابیں تصنیف اور تالیف ہو کر شائع کی گئی ہیں.عجیب بات ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی تعداد بھی چھ کروڑ اور اسلام کے خلاف کتابوں کا شمار بھی اسی قدر.اگر اس زیادہ تعداد کو جو اَب تک ان تصنیفات میں ہوئی ہے چھوڑ بھی دیا جائے تو بھی ہمارے مخالف ایک ایک کتاب ہر ایک مسلمان کے ہاتھ میں دے چکے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کا جوشِ غیرت نہ ہوتا اور اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:۱۰) اس کا وعدہ صادق نہ ہوتا تو یقیناً سمجھ لو کہ اسلام آج دنیا سے اٹھ جاتا اور اس کا نام و نشان تک مٹ جاتا مگر نہیں ایسا نہیں ہوسکتا.خدا کا پوشیدہ ہاتھ اس کی حفاظت کر رہا ہے.مجھے افسوس اور رنج اس امر کا ہوتا ہے کہ لوگ مسلمان کہلا کر ناطے بیاہ کے برابر بھی تو اسلام کا فکر نہیں کرتے اور مجھے اکثر بار پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے کہ عیسائی عورتوں تک مرتے وقت لکھوکھ ہا روپیہ عیسائی دین کی ترویج اور اشاعت کے لئے وصیت کر مَرتی ہیں اور ان کا اپنی زندگیوں کو عیسائیت کی اشاعت میں صرف کرنا تو ہم روز دیکھتے ہیں.ہزارہا لیڈی مشنریز گھروں اور کوچوں میں پھرتی اور جس طرح بن پڑے نقد ایمان چھینتی پھرتی ہیں.مسلمانوں میں سے کسی ایک کو نہیں دیکھا کہ وہ پچاس ہزار روپیہ بھی اشاعت اسلام کے لئے وصیت کر مَرا ہو.ہاں شادیوں اور دنیاوی رسوم پر تو بے حد اسراف ہوتے ہیں اور قرض لے کر بھی دل کھول کے فضول خرچیاں کی جاتی ہیں مگر خرچ کرنے کے لئے نہیں تو اسلام کے لئے نہیں.افسوس ! افسوس !!
اس سے بڑھ کر اور مسلمانوں کی حالت قابل رحم کیا ہوگی؟ ایک نیکی سے دوسری نیکی پیدا ہوتی ہے اصل بات یہ ہے کہ بد اعمال کا نتیجہ بداعمال ہوتا ہے.اسلام کے لئے خدائے تعالیٰ کا قانون قدرت ہے کہ ایک نیکی سے دوسری نیکی پیدا ہو جاتی ہے.مجھے یاد آیا تذکرۃ الاولیاء میں مَیں نے پڑھا تھا کہ ایک آتش پرست بڈھا نوے برس کی عمر کا تھا.اتفاقاً بارش کی جھڑی جو لگ گئی تو وہ اس جھڑی میں کوٹھے پر چڑیوں کے لئے دانے ڈال رہا تھا.کسی بزرگ نے پاس سے کہا کہ ارے بڈھے! تو کیا کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ بھائی چھ سات روز متواتر بارش ہوتی رہی ہے.چڑیوں کو دانہ ڈالتا ہوں.اس نے کہا کہ تُو عبث حرکت کرتا ہے.تُو کافر ہے.تجھے اجر کہاں؟ بوڑھے نے جواب دیا.مجھے اس کا اجر ضرور ملے گا.بزرگ صاحب فرماتے ہیں کہ میں حج کو گیا تو دور سے کیا دیکھتا ہوں کہ وہی بوڑھا طواف کر رہا ہے.اس کو دیکھ کر مجھے تعجب ہوا اور جب میں آگے بڑھا تو پہلے وہی بولا کیا میرا دانے ڈالنا ضائع گیا یا ان کا عوض ملا؟ نیکی کا اجر ضائع نہیں ہوتا اب خیال کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کافر کی نیکی کا اجر بھی ضائع نہیں کیا تو کیا مسلمان کی نیکی کا اجر ضائع کر دے گا؟ مجھے ایک صحابی کا ذکر یاد آیا کہ اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنے کفر کے زمانہ میں بہت سے صدقات کئے ہیں کیا ان کا اجر مجھے ملے گا.آپ نے فرمایا کہ وہی صدقات تو تیرے اسلام کا موجب ہو گئے ہیں.نیکی کیا چیز ہے؟ نیکی ایک زینہ ہے اسلام اور خدا کی طرف چڑھنے کا لیکن یاد رکھو کہ نیکی کیا چیز ہے.شیطان ہر ایک راہ میں لوگوں کی راہ زنی کرتا اور ان کو راہ حق سے بہکاتا ہے.مثلاً رات کو روٹی زیادہ پک گئی اور صبح کو باسی بچ رہی.عین کھانے کے وقت کہ اس کے سامنے اچھے اچھے کھانے رکھے ہیں.ابھی لقمہ نہیں اُٹھایا کہ دروازہ پر آکر فقیر نے صدا کی اور روٹی مانگی.کہا کہ باسی روٹی سائل کو دے دو.کیا یہ نیکی ہو گی؟ باسی روٹی تو پڑی ہی رہنی تھی.تنعم پسند
اسے کیوں کھانے لگے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًا (الدّھر:۹) یہ بھی معلوم رہے کہ طعام کہتے ہی پسندیدہ طعام کو ہیں.سڑا ہوا باسی طعام نہیں کہلاتا.الغرض اگر اس رکابی میں سے جس میں ابھی تازہ کھانا اور لذیذ اور پسندیدہ رکھا ہوا ہے اور کھانا شروع نہیں کیا فقیر کی صدا پر نکال کر دے تو یہ تو نیکی ہے.بیکار اور نکمی چیزوں کے خرچ سے کوئی آدمی نیکی کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا.نیکی کا دروازہ تنگ ہے پس یہ امر ذہن نشین کر لو کہ نکمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ نص صریح ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (اٰل عمران:۹۳) جب تک عزیز سے عزیز اور پیاری سے پیاری چیزوں کو خرچ نہ کرو گے اس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا.اگر تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے اور حقیقی نیکی کو اختیار کرنا نہیں چاہتے تو کیونکر کامیاب اور بامراد ہو سکتے ہو.کیا صحابہ کرام ؓ مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو ان کو حاصل ہوا.دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کے لئے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں تو پھر کہیں جا کر ایک معمولی خطاب جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہو سکتی ملتا ہے.پھر خیال کرو کہ رضی اللہ عنہم کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولیٰ کریم کی رضا مندی کا نشان ہے کیا یونہی آسانی سے مل گیا؟ بات یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی رضامندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں.خدا ٹھگا نہیں جاتا.مبارک ہیں وہ لوگ جو رضائے الٰہی کے حصول کے لئے تکلیف کی پروا نہ کریں کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی ہے.سچا مسلمان کون ہے؟ میں کھول کر کہتا ہوں کہ جب تک ہر بات پر اللہ تعالیٰ مقدم نہ ہو جاوے اور دل پر نظر ڈال کر وہ نہ دیکھ سکے کہ یہ میرا ہی ہے اس وقت تک کوئی آدمی سچا مومن نہیں کہلا سکتا.ایسا آدمی تو اَل (عرف عام) کے طور پر مومن یا مسلمان ہے.
جیسے چوہڑے کو بھی مصلّی یا مومن کہہ دیتے ہیں.مسلمان وہی ہے جو اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ کا مصداق ہو گیا ہو.وَجْہٌ مونہہ کو کہتے ہیں مگر اس کا اطلاق ذات اور وجود پر بھی ہوتا ہے.پس جس نے ساری طاقتیں اللہ کے حضور رکھ دی ہوں وہی سچا مسلمان کہلانے کا مستحق ہے.مجھے یاد آیا کہ ایک مسلمان نے کسی یہودی کو دعوت اسلام کی کہ تو مسلمان ہو جا.مسلمان خود فسق و فجور میں مبتلا تھا.یہودی نے اس فاسق مسلمان کو کہا کہ تو پہلے اپنے آپ کو دیکھ اور تو اس بات پر مغرور نہ ہو کہ تو مسلمان کہلاتا ہے.خدائے تعالیٰ اسلام کا مفہوم چاہتا ہے نہ نام اور لفظ.یہودی نے اپنا قصہ بیان کیا کہ میں نے اپنے لڑکے کا نام خالد رکھا تھا مگر دوسرے دن مجھے اسے قبر میں گاڑنا پڑا.اگر صرف نام ہی میں برکت ہوتی تو وہ کیوں مرتا؟ اگر کوئی مسلمان سے پوچھتا ہے کہ تو کیا مسلمان ہے؟ تو وہ جواب دیتا ہے الحمد للہ.پس یاد رکھو کہ صرف لفّاظی اور لسّانی کام نہیں آسکتی جب تک کہ عمل نہ ہو اور باتیں عنداللہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں.چنانچہ خدائے تعالیٰ نے فرمایا ہے كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصّف:۴) اسلام کی خدمت کا شرف حاصل کرنے کا طریق اب میں پھر اپنے پہلے مقصد کی طرف رجوع کرتا ہوں یعنی صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا (اٰل عمران:۲۰۱) جس طرح دشمن کے مقابلہ پر سرحد پر گھوڑا ہونا ضروری ہے تاکہ وہ حد سے نہ نکلنے پاوے.اسی طرح تم بھی تیار رہو.ایسا نہ ہو کہ دشمن سرحد سے گزر کر اسلام کو صدمہ پہنچائے.میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ اگر تم اسلام کی حمایت اور خدمت کرنا چاہتے ہو تو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو جس سے خود تم خدائے تعالیٰ کی پناہ کے حصن حصین میں آسکو اور پھر تم کو اس خدمت کا شرف اور استحقاق حاصل ہو.تم دیکھتے ہو کہ مسلمانوں کی بیرونی طاقت کیسی کمزور ہو گئی ہے.قومیں ان کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں.اگر تمہاری اندرونی اور قلبی طاقت بھی کمزور اور پست ہو گئی تو بس پھر تو خاتمہ ہی سمجھو.تم اپنے نفسوں کو ایسے پاک کرو کہ قدسی قوت ان میں سرایت کرے اور وہ سرحد کے گھوڑوں کی طرح مضبوط اور محافظ ہو جائیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ
متقیوں اور راستبازوں ہی کے شامل حال ہوا کرتا ہے.اپنے اخلاق اور اطوار ایسے نہ بناؤ جن سے اسلام کو داغ لگ جاوے.بدکاروں اور اسلام کی تعلیم پر عمل نہ کرنے والے مسلمانوں سے اسلام کو داغ لگتا ہے.کوئی مسلمان شراب پی لیتا ہے تو کہیں قے کرتا پھرتا ہے.پگڑی گلے میں ہوتی ہے.موریوں اور گندے نالوں میں گرتا پھرتا ہے.پولیس کے جوتے پڑتے ہیں.ہندو اور عیسائی اس پر ہنستے ہیں.اب اس کا ایسا خلاف شرع فعل اس کی ہی تضحیک کا موجب نہیں ہوتا بلکہ درپردہ اس کا اثر نفسِ اسلام تک پہنچتا ہے.مجھے ایسی خبریں یا جیل خانوں کی رپورٹیں پڑھ کر سخت رنج ہوتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ اس قدر مسلمان بدعملیوں کی وجہ سے مورد عتاب ہوئے.دل بے قرار ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ جو صراط مستقیم رکھتے ہیں.اپنی بداعتدالیوں سے اپنے آپ کو ہی نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ اسلام پر ہنسی کراتے ہیں.یہی وجہ تھی کہ کسی گذشتہ مردم شماری کے وقت مسٹر ایبٹسن صاحب نے اپنی رپورٹ میں بہت کچھ لکھا تھا.میری غرض اس سے یہ ہے کہ مسلمان لوگ مسلمان کہلا کر ان ممنوعات اور منہیات میں مبتلا ہوتے ہیں جو نہ صرف ان کو بلکہ اسلام کو مشکوک کر دیتے ہیں.پس اپنے چال چلن اور اطوار ایسے بنا لو کہ کفار کو بھی تم پر (جو دراصل اسلام پر ہوتی ہے) نکتہ چینی کرنے کا موقع نہ ملے.اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہے تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے.مسلمان پوچھنے پر اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کہہ دینا سچا سپاس اور شکر نہیں ہے.اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت اور تقویٰ کی راہیں اختیار کر لیں میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا.مجھے یاد ہے کہ ایک ہندو سر رشتہ دار نے جس کا نام جگن ناتھ تھا اور جو ایک متعصب ہندو تھا بتلایا کہ امرتسر یا کسی جگہ میں سر رشتہ دار تھا اور ایک ہندو اہلکار درپردہ نماز پڑھا کرتا تھا اور بظاہر ہندو تھا.میں اور دیگر سارے ہندو اسے بہت بُرا جانتے تھے.ہم سب اہلکاروں نے مل کر ارادہ کر لیا کہ اس کو موقوف کرائیں اور سب سے زیادہ شرارت میرے دل میں تھی.میں نے کئی بار شکایت کی کہ اس نے یہ غلطی کی ہے اور یہ خلاف ورزی کی ہے مگر اس پر کوئی التفات نہ ہوتی تھی لیکن ہم نے ارادہ کر لیا ہوا تھا کہ اس کو ضرور موقوف کرائیں گے
اور اپنے اس ارادہ میں کامیاب ہونے کے لئے بہت سی نکتہ چینیاں بھی جمع کرلی تھیں اور میں وقتاً فوقتاً ان نکتہ چینیوں کو صاحب بہادر کے ہاں پیش کر دیا کرتا تھا.صاحب اگر بہت ہی غصہ ہو کر اس کو بلا بھی لیتا تھا تو جب وہ سامنے آجاتا گویا آگ پر پانی پڑ جاتا.معمولی طور پر نہایت نرمی سے فہمائش کر دیتا گویا اس سے کوئی قصور سرزد ہی نہیں ہوا.تقویٰ کا رعب دوسروں پر بھی پڑتا ہے اصل بات یہ ہے کہ تقویٰ کا رعب دوسروں پر بھی پڑتا ہے اور خدائے تعالیٰ متقیوں کو ضائع نہیں کرتا.میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بڑے اکابر میں سے ہوئے ہیں.ان کا نفس بڑا مطہر تھا.ایک بار انہوں نے والدہ سے کہا کہ میرا دل دنیا سے بہت برداشتہ ہے.میں چاہتا ہوں کہ کوئی پیشوا تلاش کروں جو مجھے سکینت اور اطمینان کی راہیں دکھلائے.والدہ نے جب دیکھا کہ یہ اب ہمارے کام کا نہیں رہا.اس کی بات کو مان لیا اور کہا اچھا میں تجھے رخصت کرتی ہوں یہ کہہ کر اندر گئی اور اسی (۸۰) مہریں جو اس نے جمع کی ہوئی تھیں اٹھا لائی اور کہا کہ ان مہروں میں سے حصہ شرعی کے موافق چالیس مہریں تیری ہیں اور چالیس تیرے بڑے بھائی کی.اس لئے چالیس مہریں تجھے بحصہ رسدی دیتی ہوں.یہ کہہ کر چالیس مہریں لے کر اس کی بغل کے نیچے پیرہن میں سی دیں اور کہا کہ امن کی جگہ پہنچ کر نکال لینا اور عندالضرورت اپنے صرف میں لانا.سیدعبدالقادر ؒ نے ماں سے کہا کہ مجھے کوئی نصیحت کرو.اس نے کہا بیٹا جھوٹ نہ بولنا اس سے بڑی برکت ہوگی.اتنا سن کر آپ ؒ رخصت ہوئے.اتفاق ایسا ہوا کہ جس جنگل میں سے ہو کر آپؒ چلے اس میں چند قزاق راہزن رہتے تھے جو مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے.اب دور سے ان پر بھی ان کی نظر پڑی.قریب آئے تو انہوں نے ایک کمبل پوش فقیر سا دیکھا.ایک نے ہنسی سے کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟ یہ ابھی تازہ نصیحت سن کر آئے تھے کہ جھوٹ نہ بولنا.فی الفور بولے کہ ہاں.چالیس مہریں میری بغل کے نیچے ہیں جو میری ماں نے کیسہ کی طرح سی دی ہیں.اس نے سمجھا ٹھٹھا کرتا ہے.دوسرے نے جب پوچھا اس کو بھی یہی جواب دیا.الغرض ہر ایک چور کو
یہی جواب دیا.وہ انہیں امیر دزداں کے پاس لے گئے کہ بار بار یہی کہتا ہے.امیر نے کہا اچھا اس کا کپڑا دیکھو تو سہی.جب تلاشی لی تو چالیس مہریں برآمد ہوئیں.وہ حیران ہوئے کہ یہ عجیب آدمی ہے ہم نے کبھی ایسا آدمی نہیں دیکھا.امیر نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ تو نے اس طرح پر اپنے مال کا پتہ دے دیا؟ آپؒ نے کہا کہ میں خدا کے دین کی تلاش میں جاتا ہوں.والدہ نے نصیحت کی تھی کہ جھوٹ نہ بولنا.یہ پہلا امتحان تھا.جھوٹ کیوں کر بولتا.یہ سن کر امیر دزداں رو پڑا کہ آہ! میں نے ایک بار بھی خدا کا کہنا نہ مانا.چوروں سے کہا کہ اس کلمہ اور اس شخص کی استقامت نے میرا تو کام تمام کر دیا.میں اب تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا اور توبہ کرتا ہوں.اس پر چوروں نے بھی توبہ کی.میں ’’چوروں قطب بنایا ای‘‘ اسی واقعہ کو سمجھتا ہوں.الغرض سید عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں کہ پہلے بیعت کرنے والے چور ہی تھے.اسی لئے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا (اٰل عمران:۲۰۱) صبر ایک نقطہ کی طرح پیدا ہوتا ہے اور پھر دائرہ کی شکل اختیار کر کے سب پر محیط ہو جاتا ہے.آخر بدمعاشوں پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ انسان تقویٰ کو ہاتھ سے نہ دے اور تقویٰ کی راہوں پر مضبوط قدم مارے کیونکہ متقی کا اثر ضرور پڑتا ہے اور اس کا رعب مخالفوں کے دل میں بھی پیدا ہو جاتا ہے.تقویٰ کے اجزا تقویٰ کے بہت سے اجزا ہیں.عُجب، خود پسندی، مال حرام سے پرہیز اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے.جو شخص اچھے اخلاق ظاہر کرتا ہے اس کے دشمن بھی دوست ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ (المؤمنون:۹۷) اب خیال فرمائیے یہ ہدایت کیا تعلیم دیتی ہے؟ اس ہدایت میں اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہے کہ اگر مخالف گالی دے تو اس کا جواب گالی سے نہ دو بلکہ صبر کرو.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ تمہاری فضیلت کا قائل ہو کر خود ہی نادم اور شرمندہ ہو گا اور یہ سزا اس سزا سے کہیں بڑھ کر ہو گی جو انتقامی طور پر تم اس کو دے سکتے ہو.یوں تو ایک ذرا سا آدمی اقدام قتل تک نوبت پہنچا سکتا ہے لیکن انسانیت کا تقاضا اور تقویٰ کا منشا یہ نہیں.خوش اخلاقی ایک ایسا جوہر ہے کہ موذی سے موذی انسان پر بھی اس کا اثر پڑتا
ہے.کیا اچھا کہا ہے کہ لطف کن لطف کہ بیگانہ شود حلقہ بگوش # فاسق آدمی جو انبیاء علیہم السلام کے مقابلہ پر تھے.خصوصاً وہ لوگ جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ پر تھے ان کا ایمان لانا معجزات پر منحصر نہ تھا اور نہ معجزات اور خوارق ان کی تسلی کا باعث تھے بلکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کو ہی دیکھ کر ان کی صداقت کے قائل ہو گئے.اخلاقی معجزات وہ کام کر سکتے ہیں جو اقتداری معجزات نہیں کر سکتے اَلْاِسْتِقَامَۃُ فَوْقَ الْکَرَامَۃِ کا یہی مفہوم ہے اور تجربہ کرلو اور خود دیکھ لو کہ استقامت کیا کرشمہ دکھاتی ہے بلکہ کرامت کی طرف تو چنداں التفات ہی نہیں ہوتا خصوصاً آج کل کے زمانہ میں لیکن اگر پتہ لگ جاوے کہ کوئی بااخلاق آدمی ہے تو اس کی طرف جس قدر رجوع ہوتا ہے وہ کوئی مخفی امر نہیں.اخلاق حمیدہ کی زد اُن لوگوں پر بھی پڑتی ہے جو کسی قسم کے نشان کو دیکھ کر بھی اطمینان اور تسلی نہیں پا سکتے.یہ بات بھی ہے کہ بعض لوگ ظاہری معجزات اور خوارق کو دیکھ کر ایمان لاتے ہیں اور بعض حقائق اور معارف کو دیکھ کر اور اکثر وہ ہیں جن کی ہدایت اور تسلی کا موجب وہی اخلاق فاضلہ اور التفات ہیں.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے معجزات ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی لئے ہر ایک قسم کے خوارق اور معجزات حاصل تھے.ہم ان کی شان کیا بیان کریں جس طرف دیکھو بے شمار معجزات ملیں گے.ہرسہ اقسام کے معجزات مجموعی طور پر آپ ہی کا حصہ تھے.ظاہری خوارق مثل شق القمر اور دیگر معجزات کے جن کی تعداد تین ہزار سے بھی زیادہ ہے.اور معارف اور حقائق کے معجزات سے تو قرآن کریم لبریز ہے اور وہ ہر وقت تازہ اور نئے ہیں.بلحاظ اخلاقی معجزات کے خوداس مقدس نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وجود اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ (القلم:۵) کا مصداق ہے.قرآن کریم اپنے اعجاز کے ثبوت میں اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ (البقرۃ:۲۴) کہتا ہے.یہ معجزات روحانی ہیں.جس طرح وحدانیت کے دلائل دئیے ہیں اسی طرح پرحکمت، فصاحت ، بلاغت بھی
انسان اس کی مثل بنانے پر قادر نہیں.دوسرے مقام پر فرمایا لَىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ (بنی اسرآءیل:۸۹).قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت غرض روحانی معجزات میں کوئی یہ خیال نہ کر لے کہ یہ مسلمانوں کا زعم اور خیال ہے.آج کل کے نیچری نہیں بلکہ خلاف نیچریہ نہیں مانتے کہ قرآن کا معجزہ ہے.سید احمد نے بھی ٹھوکر کھائی ہے اور وہ اس کی فصاحت و بلاغت کو معجزہ نہیں مانتا.جب ہم یاد کرتے ہیں تو ہم کو افسوس ہوتا ہے کہ سید احمد نے معجزات سے انکار کیا ہے.سید صاحب کسی طور سے معجزہ نہیں مان سکتا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ایک معمولی درجہ کا آدمی یا اعلیٰ درجہ کا آدمی بھی نظیر بنا سکتا ہے مگر افسوس تو یہ ہے کہ وہ اتنا نہیں جانتے کہ قرآن لانے والا وہ شان رکھتا ہے کہ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ (البیّنۃ:۴،۳).ایسی کتاب جس میں ساری کتابیں اور ساری صداقتیں موجود ہیں.کتاب سے مراد اور عام مفہوم وہ عمدہ باتیں ہیں جو بالطبع انسان قابل تقلید سمجھتا ہے.قرآن مجید کی جامعیت قرآن شریف ایسی حکمتوں اور معارف کا جامع ہے اور رطب و یابس کا ذخیرہ اس کے اندر نہیں.ہر ایک چیز کی تفسیر وہ خود کرتا ہے اور ہر ایک قسم کی ضرورتوں کا سامان اس کے اندر موجود ہے.وہ ہر پہلو سے نشان اور آیت ہے.اگر کوئی انکار کرے تو ہم ہر پہلو سے اس کا اعجاز ثابت کرنے اور دکھلانے کو تیار ہیں.آج کل توحید اور ہستی الٰہی پر بہت زور آور حملے ہو رہے ہیں.عیسائیوں نے بھی بہت کچھ زور مارا اور لکھا لیکن جو کچھ کہا اور لکھا وہ اسلام کے خدا کی بابت ہی لکھا نہ کہ ایک مُردہ مصلوب اور عاجز خدا کی بابت.ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی اور وجود پر قلم اٹھائے گا.اس کو آخر کار اسی خدا کی طرف آنا پڑے گا جو اسلام نے پیش کیا ہے کیونکہ صحیفۂ فطرت کے ایک ایک پتہ میں اس کا پتا ملتا ہے اور بالطبع انسان اسی خدا کا نقش اپنے اندر رکھتا ہے.غرض ایسے آدمیوں کا قدم جب اٹھے گا وہ اسلام ہی کے میدان کی طرف اٹھے گا.یہ بھی تو ایک عظیم الشان اعجاز ہے.
قرآن مجید کا چیلنج اگر کوئی قرآن کریم کے اس معجزہ کا انکار کرے تو ایک ہی پہلو میں ہم لوگوں کو آزما لیتے ہیں یعنی اگر قرآن کو خدا کا کلام نہیں مانتا تو اس روشنی اور سائنس کے زمانہ میں ایسا مدعی خدائے تعالیٰ کی ہستی پر دلائل لکھے ہم وہ تمام دلائل قرآن کریم ہی سے نکال کر دکھا دیں گے.اور اگر توحید الٰہی کی نسبت دلائل قلم بند کرے تو وہ سب دلائل بھی قرآن کریم ہی سے نکال کر دکھا دیں گے اور وہ ویسے دلائل کا دعویٰ کر کے لکھیں کہ یہ دلائل جو قرآن کریم میں نہیں یا ان صداقتوں اور پاک تعلیموں پر لکھے جن کی نسبت ان کا خیال ہو کہ وہ قرآن کریم میں نہیں تو ہم اس کو واضح طور پر دکھلا دیں گے کہ قرآن کا دعویٰ فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ (البیّنۃ:۴) کیسا سچا اور صاف ہے اور یا اصل اور فطرتی مذہب کی بابت دلائل لکھنا چاہے تو ہم ہر پہلو سے قرآن کریم کا اعجاز ثابت کر کے دکھائیں گے اور بتلا دیں گے کہ تمام صداقتیں اور پاک تعلیمیں اسی میں موجود ہیں.الغرض قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے کہ ہر ایک قسم کے معارف اور اسرار اس میں موجود ہیں لیکن ان کے حاصل کرنے کے لئے میں پھر کہتا ہوں کہ اسی قوت قدسیہ کی ضرورت ہے چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لَا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۠ (الواقعۃ:۸۰) ایسا ہی فصاحت ،بلاغت میں مثلاً سورہ فاتحہ کی ترکیب چھوڑ کر اور ترکیب استعمال کرو تو وہ مطالب عالیہ اور مقاصد اعلیٰ جو اس ترکیب میں موجود ہیں ممکن نہیں کسی دوسری ترکیب میں بیان ہوسکیں.کوئی سورۃ لے لو.خواہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ ہی کیوں نہ ہو.جس قدر نرمی، ملاطفت کی رعایت کو ملحوظ رکھ کر اس میں معارف اور حقائق ہیں وہ کوئی دوسرا بیان نہ کر سکے گا.یہ بھی اعجازِ قرآن ہی ہے.مجھے حیرت ہوتی ہے جب بعض نادان مَقَامَاتِ حَرِیْرِیْ یا سَبْعَ مُعَلَّقَہ کو بے نظیر اور بے مثل کہتے ہیں اور اس طرح پر قرآن کریم کی بے مانندیت پر حملہ کرنا چاہتے ہیں وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ اول تو حریری کے مصنف نے کہیں اس کے بے نظیر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا پھر وہ خود قرآن کی اعجازی فصاحت کا قائل تھا.ان باتوں کو چھوڑ کر وہ راستی اور صداقت کو ذہن میں نہیں رکھتے بلکہ ان کو چھوڑ کر الفاظ کی طرف جاتے رہے ہیں وہ کتابیں حق اور حکمت سے خالی ہیں.
اعجاز کی خوبی اعجاز کی خوبی اور وجہ تو یہی ہے کہ ہر رعایت کو زیر نظر رکھے.فصاحت، بلاغت کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دے.صداقت اور حکمت کو بھی نہ چھوڑے.یہ معجزہ قرآن شریف ہی کا ہے جو آفتاب کی طرح روشن ہے.جو ہر پہلو سے اپنے اندر اعجازی طاقت رکھتا ہے انجیل کی طرح نری زبانی ہی جمع خرچ نہیں کہ ’’ ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسری بھی پھیر دو.‘‘ یہ لحاظ اور خیال نہیں کہ یہ تعلیم حکیمانہ فعل سے کہاں تک تعلق رکھتی ہے اور انسان کی فطرت کا لحاظ اس میں کہاں تک ہے؟ اس کے مقابل میں قرآن کی تعلیم پڑھیں گے تو پتا لگ جائے گا کہ انسان کے خیالات ایسے ہر پہلو پر قادر نہیں ہو سکتے اور ایسی مکمل اور بے نقص تعلیم زمینی دماغ اور ذہن کا نتیجہ نہیں.کیا یہ ممکن ہے کہ ہزار آدمی ہمارے سامنے مسکین ہوں اور ہم ایک دو کو کچھ دے دیں اور باقی کا خیال تک بھی نہ کریں اسی طرح انجیل ایک ہی پہلو پر پڑی ہے باقی پہلوؤں کا اسے خیال تک بھی نہیں رہا.ہم یہ انجیل پر الزام نہیں دیتے یہ یہودیوں کی شامت اعمال کا نتیجہ ہے.جیسی ان کی استعدادیں تھیں ان کے ہی موافق انجیل آئی.’’جیسی روح ویسے فرشتے‘‘ اس میں کسی کا کیا قصور؟ انجیل کی تعلیم مختص الزمان تھی اس کے علاوہ انجیل ایک قانون ہے مختص المقام و الزمان اور مختص القوم.جیسا کہ انگریز بھی قوانین مختص المقام اور مختص الوقت نافذ کر دیتے ہیں بعد از وقت اُن کا اثر نہیں رہتا.اسی طرح انجیل بھی ایک مختص قانون ہے عام نہیں.مگر قرآن کریم کا دامن بہت وسیع ہے.وہ قیامت تک ایک ہی لاتبدیل قانون ہے اور ہر قوم اور ہر وقت کے لئے ہے.چنانچہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا عِنۡدَنَا خَزَآئِنُہٗ ؗ وَمَا نُنَزِّلُہٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ (الحجر:۲۲) یعنی ہم اپنے خزانوں میں سے بقدر معلوم نازل کرتے ہیں.انجیل کی ضرورت اسی قدر تھی اس لئے انجیل کا خلاصہ ایک صفحہ میں آسکتا ہے.قرآن سب زمانوں کے لئے ہے لیکن قرآن کریم کی ضرورتیں تھیں سارے زمانہ کی اصلاح.قرآن کا مقصد تھا وحشیانہ حالت سے
انسان بنانا.انسانی آداب سے مہذب انسان بنانا.تا شرعی حدود اور احکام کے ساتھ مرحلہ طے ہو اور پھر باخدا انسان بنانا.یہ لفظ مختصر ہیں مگر اس کے ہزارہا شعبے ہیں.چونکہ یہودیوں، طبعیوں، آتش پرستوں اور مختلف اقوام میں بدروشی کی روح کام کر رہی تھی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باعلام الٰہی سب کو مخاطب کر کے کہا قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا (الاعراف:۱۵۹) اس لئے ضروری تھا کہ قرآن شریف ان تمام تعلیمات کا جامع ہوتا جو وقتاً فوقتاً جاری رہ چکی تھیں اور ان تمام صداقتوں کو اپنے اندر رکھتا جو آسمان سے مختلف اوقات میں مختلف نبیوں کے ذریعے زمین کے باشندوں کو پہنچائی گئیں تھیں.قرآن کریم کے مدنظر تمام نوع انسان تھا نہ کوئی خاص قوم اور ملک اور زمانہ.اور انجیل کا مدنظر ایک خاص قوم تھی اسی لئے مسیح علیہ السلام نے بار بار کہا کہ ’’ میں اسرائیل کی گم گشتہ بھیڑوں کی تلاش میں آیا ہوں.‘‘ تورات کے بعد قرآن شریف کی ضرورت بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کیا لایا؟ وہی تو ہے جو توریت میں ہے اسی کوتاہ نظری نے بعض عیسائیوں کو عدم ضرورت قرآن جیسے رسائل لکھنے پر دلیر کر دیا.کاش وہ سچی دانائی اور حقیقی فراست سے حصہ رکھتے تا وہ بھٹک نہ جاتے.ایسے لوگ کہتے ہیں کہ توریت میں لکھا ہے کہ تو زنا نہ کر.ایسا ہی قرآن میں لکھا ہے کہ زنا نہ کر.قرآن توحید سکھلاتا ہے اور توریت بھی خدائے واحد کی پرستش سکھلاتی ہے.لیکن فرق کیا ہوا؟ بظاہر یہ سوال بڑا پیچ دار ہے.اگر کسی ناواقف آدمی کے سامنے پیش کیا جاوے تو وہ گھبرا جاوے.اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کے باریک اور پیچ دار سوالات کا حل بھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے بغیر ممکن نہیں.یہی تو قرآنی معارف ہیں جو اپنے اپنے وقت پر ظاہر ہوتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ قرآن اور توریت میں تطابق ضرور ہے.اس سے ہم کو انکار نہیں لیکن توریت نے صرف متن کو لیا ہے جس کے ساتھ دلائل، براہین اور شرح نہیں ہے لیکن قرآن کریم نے معقولی رنگ کو لیا ہے.اس لئے کہ توریت کے وقت انسانوں کی استعدادیں وحشیانہ رنگ میں تھیں اس لئے قرآن نے وہ طریق اختیار کیا جو عبادت کے منافع کو ظاہر
کرتا ہے اور جو بتلاتا ہے کہ اخلاق کے مفاد یہ ہیں اور نہ صرف مفاد اور منافع کو بیان ہی کرتا ہے بلکہ معقولی طور پر دلائل و براہین کے ساتھ ان کو پیش کرتا ہے تا کہ عقل سلیم سے کام لینے والوں کو کوئی جگہ انکار کی نہ رہے.جیسا میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ قرآن کے وقت استعدادیں معقولیت کا رنگ پکڑ گئی تھیں اور توریت کے وقت وحشیانہ حالت تھی.آدمؑ سے لے کر زمانہ ترقی کرتا گیا تھا اور قرآن کے وقت دائرہ کی طرح پورا ہوگیا.حدیث میں ہے زمانہ مستدیر ہوگیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ (الاحزاب:۴۱).ضرورتیں نبوت کا انجن ہیں.ظلماتی راتیں اس نور کو کھینچتی ہیں جو دنیا کو تاریکی سے نجات دے.اس ضرورت کے موافق نبوت کا سلسلہ شروع ہوا اور جب قرآن کے زمانہ تک پہنچا تو مکمل ہو گیا.اب سب ضرورتیں پوری ہو گئیں.اس سے لازم آیا کہ آپ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے.اب بڑا اور واضح فرق ایک تو یہی ہے کہ قرآن نے دلائل پیش کئے ہیں جن کو توریت نے مَس تک نہیں کیا.قرآن شریف اور توریت کی تعلیم میں دوسرا فرق دوسرا فرق یہ ہے کہ توریت نے صرف بنی اسرائیل کو مخاطب کیا ہے اور دوسری قوموں سے کوئی تعلق اور واسطہ ہی نہیں رکھا.اور یہی وجہ ہے کہ دلائل و براہین پر اس نے زور نہیں دیا کیونکہ توریت کے زیر نظر کوئی فرقہ دہریہ، فلاسفیہ اور براہمہ کا نہ تھا.قرآن نے چونکہ کُل مِلَل اور فرقوں کو زیر نظر رکھ لیااور تمام ضرورتیں اس تک پہنچ کر ختم ہو گئی تھیں اس لئے قرآن نے عقائد کو بھی اور احکام عملی کو بھی مدلّل کیا.چنانچہ قرآن فرماتا ہے قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ يَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ (النّور:۳۱) یعنی مومنوں سے کہہ دے کہ اپنے ستر کو آنکھ پھاڑ کر نہ دیکھیں اور باقی تمام فروج کی بھی حفاظت کریں.لازم ہے کہ انسان چشم خوابیدہ ہو تاکہ غیر محرم عورت کو دیکھ کر فتنہ میں نہ پڑے.کان بھی فروج میں داخل ہیں جو قصص سن کر فتنہ میں پڑ جاتے ہیں اس لئے عام طور پر فرمایا کہ تمام موریوں کو
محفوظ رکھو اور کہا کہ بالکل بند رکھو ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ (النّور:۳۱) یہ تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے اور یہ طریق اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی رکھتا ہے جس کے ہوتے ہوئے بدکاروں میں نہ ہوگے.قرآن شریف دلائل و براہین بھی خود ہی بیان کرتا ہے دیکھو! قرآن نے اسی ایک امر کو جو توریت میں بھی اپنے لفظوں اور اپنے مفہوم پر بیان ہوا کیسا شرح و بسط کے ساتھ اور دلائل اور براہین کے ساتھ مؤکد کر کے بیان فرمایا.یہی تو قرآنی اعجاز ہے کہ وہ اپنے پَیرو کو کسی دوسرے کا محتاج نہیں ہونے دیتا.دلائل اور براہین بھی خود ہی بیان کر کے اسے مستغنی کر دیتا ہے.قرآن شریف نے دلائل کے ساتھ احکام کو لکھا ہے اور ہر حکم کے جداگانہ دلائل دئیے ہیں.غرض یہ دو بڑے فرق ہیں جو توریت اور قرآن میں ہیں.اول الذکر میں طریق استدلال نہیں.دعویٰ کی دلیل خود تلاش کرنی پڑتی ہے.آخر الذکر اپنے دعوے کو ہر قسم کی دلیل سے مدلّل کرتا ہے اور پھر پیش کرتا ہے اور خدا کے احکام کو زبردستی نہیں منواتا بلکہ انسان کے منہ سے سرتسلیم خم کرنے کی صدا نکلواتا ہے.نہ کسی جبر و اکراہ سے بلکہ اپنے لطیف طریق استدلال سے اور فطری سیادت سے.توریت کا مخاطب خاص گروہ ہے اور قرآن کے مخاطب کُل لوگ جو قیامت تک پیدا ہوں.پھر بتلاؤ کہ توریت اور قرآن کیونکر ایک ہو جائیں اور توریت کے ہونے سے کیونکر ضرورت قرآن نہ پڑے.قرآن جب کہتا ہے کہ تُو زنا نہ کر تو کُل بنی نوع انسان اس کا مفہوم ہوتا ہے لیکن جب یہی لفظ توریت بولتی ہے تو اس کا مخاطب اور مشار الیہ وہی قوم بنی اسرائیل ہے.اس سے بھی محدود اور غیر فصیح کا پتہ لگ سکتا ہے مگر دور اندیش اور خدا ترس دل ہو تو.جسمانی اور روحانی خوارق توریت اور قرآن میں یہ بھی ایک فرق عظیم ہے کہ قرآن جسمانی اور روحانی خوارق ہر قسم کے اپنے اندر رکھتا ہے مثلاً شق القمر کا معجزہ جسمانی معجزات کی قسم سے ہے.قانون قدرت کی تحدید نہیں ہو سکتی بعض نادان شق القمر کے معجزہ پر قانون قدرت کی آڑ میں چھپ کر اعتراض کرتے ہیں لیکن ان کو
اتنا معلوم نہیں کہ خدائے تعالیٰ کی قدرتوں اور قوانین کا احاطہ اور اندازہ نہیں کر سکتے.آہ! ایک وقت تو وہ منہ سے خدا بولتے ہیں لیکن دوسرے وقت چہ جائیکہ ان کے دل، ان کی روح خدائے تعالیٰ کی عظیم الشان اور وراء الو ریٰ قدرتوں کو دیکھ کر سجدہ میں گر پڑے اسے مطلق بھول جاتے ہیں.اگر خدا کی ہستی اور بساط یہی ہے کہ اس کی قدرتیں اور طاقتیں ہمارے ہی خیالات اور اندازہ تک محدود ہیں تو پھر دعا کی کیا ضرورت رہی؟ لیکن نہیں.میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور ارادوں کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا.ایسا انسان جو یہ دعویٰ کرے وہ خدا کا منکر ہے.لیکن کس قدر واویلا ہے اس نادان پر جو اللہ تعالیٰ کو لا محدود قدرتوں کا مالک سمجھ کر بھی یہ کہے کہ شق القمر کا معجزہ قانون قدرت کے خلاف ہے.سمجھ لو کہ ایسا آدمی فکر سلیم اور دور اندیش دل سے بہرہ مند نہیں.خوب یاد رکھو کہ کبھی قانون قدرت پر بھروسہ نہ کر لو.یعنی کہیں قانون قدرت کی حد نہ ٹھہرا لو کہ بس خدا کی خدائی کا سارا راز یہی ہے.پھر تو سارا تارو پود کھل گیا.نہیں.اس قسم کی دلیری اور جسارت نہ کرنی چاہیے جو انسان کو عبودیت کے درجہ سے گرا دے جس کا نتیجہ ہلاکت ہے.ایسی بیوقوفی اور حماقت کرنا کہ خدا کی قدرتوں کو محصور اور محدود کرنا کسی مومن سے نہیں ہو سکتی.امام فخرالدین رازی کا یہ قول بہت درست ہے کہ جو شخص خدائے تعالیٰ کو عقل کے پیمانہ سے اندازہ کرنے کا ارادہ کرے گا وہ بیوقوف ہے.دیکھو نطفہ سے انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا.یہ لفظ کہہ دینے آسان اور بالکل آسان ہیں اور یہ ایک بالکل معمولی سی بات نظر آتی ہے مگر یہ ایک سِرّ اور راز ہے کہ ایک قطرۂ آب سے انسان کو پیدا کرتا ہے اور اس میں اس قسم کے قویٰ رکھ دیتا ہے.کیا کسی عقل کی طاقت ہے کہ وہ اس کی کیفیت اور کنہ تک پہنچے.طبیعیوں اور فلاسفروں نے بہتیرا زور مارا لیکن وہ اس کی ماہیت پر اطلاع نہ پا سکے.اسی طرح ایک ایک ذرّہ خدائے تعالیٰ کے تابع ہے.اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ یہ ظاہر نظام بھی اسی طرح رہے اور ایک خارق عادت امر بھی ظاہر ہو جاوے.عارف لوگ ان کیفیتوں کو خوب دیکھتے اور ان سے حظ اٹھاتے ہیں.بعض لوگ ایک ادنیٰ ادنیٰ اور معمولی باتوں پر اعتراض کر دیتے ہیں اور شک میں پڑ جاتے ہیں.مثلاً ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیں جلایا.یہ امر بھی
ایسا ہی ہے جیسا شق القمر کے متعلق.خدا خوب جانتا ہے کہ اس حد تک آگ جلاتی ہے اور ان اسباب کے پیدا ہونے سے فرو ہو جاتی ہے.اگر ایسا مصالحہ ظاہر ہو جاوے یا بتلا دیا جاوے تو فی الفور مان لیں گے.لیکن ایسی صورت میں ایمان بالغیب اور حسن ظن کا لطف اور خوبی کیا ظاہر ہو وے.ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ خدا خلق اسباب نہیں کرتا مگر بعض اسباب ایسے ہوتے ہیں کہ نظر آتے ہیں اور بعض اسباب نظر نہیں آتے.غرض یہ ہے کہ خدا کے افعال گوناگوں ہیں.خدائے تعالیٰ کی قدرت کبھی درماندہ نہیں ہوتی اور وہ نہیں تھکتا وَ هُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيْمٌ (یٰسٓ:۸۰) اَفَعَيِيْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ (قٓ:۱۶) اس کی شان ہے.اللہ تعالیٰ کی بے انتہا قدرتوں اور افعال کا کیسا ہی صاحب عقل اور علم کیوں نہ ہو اندازہ نہیں کر سکتا بلکہ اس کو اظہار عجز کرنا پڑتا ہے.مجھے ایک واقعہ یاد ہے.ڈاکٹر خوب جانتے ہیں.عبدالکریم نام ایک شخص میرے پاس آیا.اس کے اندر ایک رسولی تھی جو پاخانہ کی طرف بڑھتی جاتی تھی.ڈاکٹروں نے اسے کہا کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے اس کو بندوق مار کر مار دینا چاہیے.الغرض بہت سے امراض اس قسم کے ہیں جن کی ماہیت ڈاکٹروں کو بخوبی معلوم نہیں ہو سکتی.مثلاً طاعون یا ہیضہ ایسے امراض ہیں کہ ڈاکٹر کو اگر پلیگ ڈیوٹی پر مقرر کیا جاوے تو اسے خود ہی دست لگ جاتے ہیں.انسان جہاں تک ممکن ہو علم پڑھے اور فلسفہ کی تحقیقات میں محو ہو جاوے لیکن بالآخر اس کو معلوم ہوگا کہ اس نے کچھ بھی نہیں کیا.حدیث میں آیا ہے کہ جیسے سمندر کے کنارے ایک چڑیا پانی کی چونچ بھرتی ہو اسی طرح خدائے تعالیٰ کے کلام اور فعل کے معارف اور اسرار سے حصہ ملتا ہے.پھر کیا عاجز انسان! ہاں، نادان فلسفی اسی حیثیت اور شیخی پر خدائے تعالیٰ کے ایک فعل شق القمر پر اعتراض کرتا اور اسے قانون قدرت کے خلاف ٹھہراتا ہے.ہم یہ نہیں کہتے کہ اعتراض نہ کرو.نہیں کرو اور ضرور کرو.شوق سے اور دل کھول کر کرو لیکن دو باتیں زیر نظر رکھ لو.اول خدا کا خوف، دوسرے بڑے بڑے فلاسفر بھی آخر یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ ہم جاہل ہیں.انتہائے عقل ہمیشہ انتہائے جہل پر ہوتی ہے.مثلاً ڈاکٹروں سے پوچھو کہ عصبہ مجوفہ کو سب وہ جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں مگر نور کی ماہیت اور اس کا کنہ تو بتلاؤ کہ کیا ہے؟ آواز کی ماہیت پوچھو
تو یہ تو کہہ دیں گے کہ کان کے پردہ پر یوں ہوتا ہے اور وُوں ہوتا ہے لیکن ماہیت آواز خاک بھی نہ بتلا سکیں گے.آگ کی گرمی اور پانی کی ٹھنڈک پر کیوں کا جواب نہ دے سکیں گے.کنہ اشیاء تک پہنچنا کسی حکیم یا فلاسفر کا کام نہیں ہے.دیکھیے ہماری شکل آئینہ میں منعکس ہوتی ہے لیکن ہمارا سر ٹوٹ کر شیشہ کے اندر نہیں چلا جاتا.ہم بھی سلامت ہیں اور ہمارا چہرہ بھی آئینہ کے اندر نظر آتا ہے.پس یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ چاند شق ہو اور شق ہو کر بھی انتظام دنیا میں خلل نہ آوے.اصل بات یہ ہے کہ یہ اشیاء کے خواص ہیں.کون دم مار سکتا ہے.اس لئے خدائے تعالیٰ کے خوارق اور معجزات کا انکار کرنا اور انکار کے لئے جلدی کرنا شتاب کاروں اور نادانوں کا کام ہے.خدا کی قدرتوں اور عجائبات کو محدود سمجھنا دانشمندی نہیں خدا کی قدرتوں اور عجائبات کو محدود سمجھنا دانش مندی نہیں.وہ اپنی ماہیت نہیں جانتا اور سمجھتا اور آسمانی باتوں پر رائے زنی کرتا ہے.ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا تو کار زمیں را نکو ساختی کہ با آسماں نیز پرداختی # انسان کو لازم ہے کہ اپنی بساط سے بڑھ کر قدم نہ مارے.اکثر امراض اور عوارض کے اسباب اور علامات ڈاکٹروں کو معلوم نہیں تو کیا ایسی کمزوری پر اسے مناسب ہے کہ وہ بساط سے بڑھ کر چلے؟ ہرگز نہیں.بلکہ طریق عبودیت یہی ہے کہ سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا (البقرۃ:۳۳) کہنے والوں کے ساتھ ہو.دیکھو ستارے جو اتنے بڑے بڑے گولے ہیں آسمان میں بغیر ستون کے لٹکتے ہیں اور خود آسمان بغیر کسی سہارے کے ہزارہا سال سے اسی طرح چلے آئے ہیں.چاند ہر روز دُھلا دُھلایا نکلتا ہے.آفتاب ہر روز طلوع ہوتا ہے اور ٹھیک رفتار اور روش پر چلتا ہے.ہمارے کاموں میں کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہو جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے کام دیکھو کہ یہی چاند سورج اپنے ایک ہی طریق پر چلتے ہیں.اگر ہر روز ان باتوں کو سوچو کہ سورج ہر روز مقررہ طریق پر نکلتا ہے.جہات کو بتلاتا ہے تو دیوانہ ہو جائے.دیکھو ہم پر اتنی حالتیں آتی ہیں اور سورج پر کوئی حالت نہیں آتی.ایک گھڑی جو
دو ہزار روپیہ کی ہو.اگر وہ بارہ کی بجائے دس اور دس کی بجائے بارہ بجائے تو نکمی اور ناقص سمجھی جائے گی.لیکن خدائے تعالیٰ کی قائم کردہ گھڑی ایسی ہے کہ اس میں ذرّہ برابر فرق نہیں اور نہ اس کو کسی چابی کی ضرورت نہ صاف کرنے کی حاجت.کیا ایسے صانع کی طاقتوں کا شمار کر سکتے ہیں.انسان حیران ہو جاتا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ ہماری اشیاء کپڑے، برتن وغیرہ جو استعمال میں آتے ہیں گھستے رہتے ہیں.بچے جوان اور بوڑھے ہو کر مرتے ہیں لیکن جو سورج کل طلوع ہوا تھا آج بھی وہی سورج ہے اور ایک لا تعداد زمانہ سے اسی طرح چلا آیا ہے اور چلا جائے گا مگر اس پر کوئی حالت تحلیل وغیرہ کی یا اثر زمانہ کی نہیں ہوتی.کس قدر گستاخی ہے کہ ایک کیڑے ہو کر اس رافع ذات الٰہی پر حملہ کریں اور جلدی سے حکم کر دیں کہ خدا میں نہیں پایا جاتا.انبیاء علیہم السلام کے معجزات کا مقصد اسلام کا خدا بڑا طاقتور خدا ہے.کسی کو حق نہیں پہنچتا ہے اس کی طاقتوں پر اعتراض کرے.انبیاء علیہم السلام کو جو معجزات دئیے جاتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ انسانی تجارب شناخت نہیں کر سکتے اور جب انسان ان خارق عادت امور کو دیکھتا ہے تو ایک بار تو یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہے.لیکن اگر اپنی عقل کا ادعا کرے اور تفہیم الٰہی کے کوچے میں قدم نہ رکھے تو دونوں طرف سے راہ بند ہو جاتی ہے.ایک طرف معجزات کا انکار، دوسری طرف عقل خام کا ادعا.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان دقیق در دقیق کنہ کے دریافت کرنے کی فکر میں وہ نادان انسان لگ جاتا ہے جو معجزات کی تہ میں ہے اور جس کی فلاسفی زمینی عقل اور سطحی خیالات پر نہیں کھل سکتی.اس سے وہ انکار کی طرف رجوع کرتے کرتے نبوت کے نفس کا ہی منکر ہو جاتا ہے اور شکوک اور وساوس کا ایک بہت سا ذخیرہ جمع کر لیتا ہے جو اس کی شقاوت کا موجب ہو کر رہتا ہے.کبھی یہ کہہ دیتا ہے کہ یہ بھی ہمارے جیسا ایک آدمی ہے جو کھاتا پیتا اور حوائج انسانی رکھتا ہے.اس کی طاقتیں ہم سے کیونکر بڑھ سکتی ہیں؟ اس کی طاقتوں میں روحانیت کی قوت اور دعاؤں میں استجابت کا اثر کیونکر خاص طور پر آجائے گا؟ افسوس ! اس قسم کی باتیں بناتے اور اعتراض کرتے ہیں جس سے جیسا میں نے ابھی کہا نفس نبوت کا
انکار کر دیتے ہیں.سوچنے اور سمجھنے کا مقام ہے کہ معمولی طور پر تو مانتے نہیں اور غیر معمولی طور پر اعتراض کرتے ہیں.اب یہ عمداً اور صریحاً انبیاء علیہم السلام کے وجود کا انکار نہیں تو کیا ہے.کیا انہی عقلوں اور دانشوں پر ناز ہے کہ فلاسفر کہلا کر دہریہ یا بت پرست ہو گئے.اللہ تعالیٰ کی مخفی طاقتیں کبھی الہام اور وحی کے سوا اپنا کرشمہ نہیں دکھا سکتیں.وہ وحی اور الہام ہی کے رنگ میں نظر آتی ہیں.عقل مند وہ ہے جو نبی کو شناخت کرتا ہے یہ خدائے تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمانیت کا تقاضا ہے کہ اس نے دنیا میں اپنے نبی بھیجے.عقل مند وہ ہے جو نبی کو شناخت کرتا ہے کیونکہ وہ خدا کو شناخت کرتا ہے اور بیوقوف وہ ہے جو نبی کا انکار کرتا ہے کیونکہ نبوت کا انکار الوہیت کے انکار کو مستلزم ہے.اور جو ولی کو شناخت کرتا ہے وہ نبی کو شناخت کرتا ہے.دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ نبی الوہیت کے لئے بطور ایک میخ آہنی کے ہے اور ولی نبی کے لئے.اب ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو کہ اللہ تعالیٰ نے تیرہ سو سال پہلے اس سلسلہ کو دنیا میں ظاہر کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ظاہر کیا لیکن آج تیرہ سو سال بعد اور اس وقت کے چودھویں صدی کے بھی پندرہ سال گزر گئے.اس کو آریوں، برہموؤں، طبیعیوں اور دہریوں یا عیسائیوں کے سامنے بیان کرو تو وہ ہنس دیتے ہیں اور تمسخر میں اڑا دیتے ہیں.ایسی مصیبت کے وقت میں کہ ایک طرف علوم جدیدہ کی روشنی دوسری طرف طبیعتوں میں ایک خاص انقلاب پیدا ہو جانے کے بعد مختلف فرقوں اور مذہبوں کی کثرت ہے ان امور کا پیش کرنا اور لوگوں سے منوانا بہت ہی پیچیدہ بات ہو گئی تھی اور اسلام اور اس کی باتیں ایک قصہ کہانی سمجھی جانے لگی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جو اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:۱۰) کا وعدہ دے کر قرآن اور اسلام کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہوتا ہے مسلمانوں کو اس مصیبت سے بچا لیا اور فتنہ میں پڑنے نہ دیا.پس مبارک ہیں وہ لوگ جو اس سلسلہ کی قدر کرتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.بات یہ ہے کہ اگر ثبوت نہ ملے تو یہ بالکل ٹھیک ہے کہ جیسا انسانی طبائع کا خاصہ ہے کہ وہ بدظنی کی طرف جھٹ رجوع کر لیتی ہیں تو اندرونی طور پر ہی لوگ ایک قصہ کہانی سمجھ کر قرآن اور اسلام سے دست بردار
ہوجاتے.مثلاً دیکھو! اگر اندر کھڑکا ہو تو باہر والا خواہ مخواہ خیال کرے گا کہ اندر کوئی آدمی ضرور ہے مگر وہ جب دو چار دن تک دیکھتا ہے کہ اندر سے کوئی نہیں نکلا تو پھر اس کا خیال مبدّل ہونا شروع ہوتا ہے تو پھر بدوں اندر جانے کے ہی وہ سمجھ لیتا ہے کہ اگر انسان ہوتا تو اس کو کھانے پینے کی ضرورت پڑتی اور وہ ضرور باہر آتا.اگر نبوت کے انوار و برکات جو وحی ولایت کے رنگ میں آتے ہیں.اس فلاسفی اور روشنی کے زمانہ میں ظاہر نہ ہوتے تو مسلمانوں کے بچے مسلمانوں کے گھر میں رہ کر اسلام اور قرآن کو ایک قصہ کہانی اور داستان سمجھ لیتے اور اسلام سے ان کو کوئی واسطہ اور تعلق نہ رہتا.اس طرح پر گویا اسلام کو معدوم کرنے کا سلسلہ بندھ جاتا مگر نہیں! اللہ تعالیٰ کی غیرت، اس کا ایفائے وعدہ کا جوش کب ایسا ہونے دیتا تھا.جیسا کہ ابھی میں نے کہا کہ خدا ئے تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ.قرآن کا نام ذکر رکھنے کی وجہ اب دیکھو! قرآن کریم کا نام ذکر رکھا گیا ہے اس لئے کہ وہ انسان کی اندرونی شریعت یاد دلاتا ہے.جب اسم فاعل کو مصدر کی صورت میں لاتے ہیں تو وہ مبالغہ کا کام دیتا ہے جیسا زَیْدٌ عَدْلٌ کیا معنے؟ زید بہت عادل ہے.قرآن کوئی نئی تعلیم نہیں لایا بلکہ اس اندرونی شریعت کو یاد دلاتا ہے جو انسان کے اندر مختلف طاقتوں کی صورت میں رکھی ہے.حلم ہے، ایثار ہے، شجاعت ہے، جبر ہے، غضب ہے، قناعت ہے وغیرہ.غرض جو فطرت باطن میں رکھی تھی قرآن نے اسے یاد دلایا جیسے فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ (الواقعۃ:۷۹) یعنی صحیفہء فطرت میں کہ جو چھپی ہوئی کتاب تھی اور جس کو ہر ایک شخص نہ دیکھ سکتا تھا.اسی طرح اس کتاب کا نام ذکر بیان کیا تاکہ وہ پڑھی جاوے تو وہ اندرونی اور روحانی قوتوں اور اس نور قلب کو جو آسمانی ودیعت انسان کے اندر ہے یاد دلاوے.غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کو بھیج کر بجائے خود ایک روحانی معجزہ دکھایا تا کہ انسان ان معارف اور حقائق اور روحانی خوارق کو معلوم کرے جن کا اسے پتہ نہ تھا مگر افسوس کہ قرآن کی اس علّت غائی کو چھوڑ کر جو هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ (البقرۃ:۳) ہے.اس کو صرف چند قصص کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے اور نہایت بے پروائی اور خود غرضی سے مشرکین عرب
کی طرح اساطیرالاولین کہہ کر ٹالا جاتا ہے.وہ زمانہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اور قرآن کے نزول کا جب وہ دنیا سے گمشدہ طاقتوں کو یاد دلانے کے لئے آیا تھا.اب وہ زمانہ آگیا جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی تھی کہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے قرآن نہ اترے گا.سو اب تم ان آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ لوگ قرآن کیسی خوش الحانی اور عمدہ قراءت سے پڑھتے ہیں لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں گزرتا.اس لئے جیسے قرآن کریم جس کا دوسرا نام ذکر ہے اس ابتدائی زمانہ میں انسان کے اندر چھپی ہوئی اور فراموش ہوئی ہوئی صداقتوں اور ودیعتوں کو یاد دلانے کے لئے آیا تھا.اس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ واثقہ کی رو سے کہ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:۱۰) اس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلّم آیا جو اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ (الجمعۃ:۴) کا مصداق اور موعود ہے.وہ وہی ہے جو تمہارے درمیان بول رہا ہے.میں پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کی طرف عود کر کے کہتا ہوں کہ آپ نے اس زمانہ ہی کی بابت خبر دی تھی کہ لوگ قرآن کو پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہ اُترے گا.اب ہمارے مخالف، نہیں نہیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی قدر نہ کرنے والے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر دھیان نہ دینے والے خوب گلے مروڑ مروڑ کر يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ (اٰل عمران:۵۶) اور فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ (المآئدۃ:۱۱۸) قرآن میں عجیب لہجہ سے پڑھتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں اور افسوس تو یہ ہے کہ اگر کوئی ناصح مشفق بن کر سمجھانا چاہے تو سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے.نہ کریں.اتنا تو کریں کہ اس کی بات ہی ذرا سن لیں.مگر کیوں سنیں؟ وہ گوش شنوا بھی رکھیں.صبر اور حسن ظن سے بھی کام لیں.اگر خدائے تعالیٰ فضل کے ساتھ زمین کی طرف توجہ نہ کرتا تو اسلام بھی اس زمانہ میں مثل دوسرے مذہبوں کے مردہ اور ایک قصہ کہانی سمجھا جاتا.کوئی مردہ مذہب کسی دوسرے کو زندگی نہیں دے سکتا لیکن اسلام اس وقت زندگی دینے کو تیار ہے لیکن چونکہ یہ سنت اللہ ہے کہ کوئی کام خدائے تعالیٰ بغیر اسباب کے نہیں کرتا.
ہاں یہ امر جدا ہے کہ وہ اسباب ہم کو دکھائی دیں یا نہ لیکن اس میں کوئی کلام نہیں کہ اسباب ضرور ہوتے ہیں.اسی طرح آسمان سے انوار اترتے ہیں جو زمین پر پہنچ کر اسباب کی صورت اختیار کر لیتے ہیں.جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو تاریکی اور گمراہی میں مبتلا پایا اور ہر طرف سے ضلالت اور ظلمت کی گھنگھور گھٹا دنیا پر چھا گئی.اس وقت اس تاریکی کو دور کرنے اور ضلالت کو ہدایت اور سعادت سے تبدیل کرنے کے لئے ایک سراج المنیر فاران کی چوٹیوں پر چمکا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے.موجودہ زمانہ کی حالت اور ضرورت مصلح اور ایسا ہی اس زمانہ میں کہ جس میں ہم رہتے ہیں ایمانی طاقتیں مُردہ ہو کر فسق و فجور نے ان کی جگہ لے لی ہے.لوگوں کے معاملات ایک طرف عبادات دوسری طرف، غرض ہر بات میں فتور ہو گیا ہے.صرف یہ آفت ہی اگر ہوتی تو کچھ مضائقہ اور چنداں خطر نہ تھا لیکن ان ساری باتوں کے علاوہ سب سے بڑی آفت جس کا مجھے کئی بار ذکر کرنا پڑا ہے اور جس کو ہر بہی خواہ اسلام کا دل محسوس کر چکا ہے یا کر سکتا ہے وہ زہریلا اثر ہے جو آج کل کی طبعی طبابت اور ہیئت اور جھوٹے فلسفہ کے باعث اسلام اور اہل اسلام پر آرہی ہے.علماء تو اس طرف توجہ نہیں کرتے.ان کو خانہ جنگیوں اور اندرونی جھگڑوں اور ایک دوسرے کی تکفیر بازی سے فرصت ملے تو ادھر توجہ کریں.زاہد اپنی گوشہ نشینی میں بیٹھ کر اگر دعاؤں سے کام لیتے تو بھی کچھ آثار پیدا ہوتے مگر وہ پیر پرستی اور جواز سماع وغیرہ کی بحثوں میں پڑے ہوئے ہیں.حقیقی صوفی ازم کی جگہ اب چند رسومات نے لے لی جن کا قرآن اور سنت سے پتا نہیں چلتا.الغرض ہر طرف سے اسلام عرضۂ تیغِ جہلا و سفہا ہو رہا ہے.اس وقت میں کہ وہ ضرورتیں جو کسی مصلح اور ریفارمر کی آمد کے لئے لازم ہیں پورے انتہائی نقطہ تک پہنچ چکی ہیں.ہر ایک شخص بجائے خود ایک نیا مذہب رکھتا ہے.ان تمام امور اور حالات پر قیاس کرکے اسلام کی عمر خاتمہ کے قریب نظر آتی تھی.ڈاکٹر اور طبیب جب کسی ہیضہ کے مریض کا بدن برف سا سرد یا اسے سرسام میں مبتلا دیکھتے ہیں تو اسے لاعلاج بتلا کر کھسک آتے ہیں اور حالات ردّیہ
دیکھ کر ڈاکٹر حاذق بھی یاس اور نومیدی ظاہر کردیتا ہے.اب اس وقت اسلام کی حالت کچھ شک نہیں کہ اس انتہا کی یاس تک پہنچ گئی تھی لیکن اگر وہ بھی انسان کے اپنے خیالات کا نتیجہ یا اپنی کوششوں کا ثمرہ ہوتا تو ان مصائب اور شدائد کے دوران میں کہ ہر طرف سے اس پر زد پڑتی ہے اور اس کی اپنی اندرونی حالت بوجہ نفاق باہمی کمزور ہوتی گئی ہے.ایسی حالت میں کم ازکم اسلام کا قائم رہنا جس کے معدوم کرنے کے لئے مخالفوں نے ناخنوں تک زور لگایا اور لگا رہے ہیں بہت مشکل ہوجاتا.کوئی سال نہیں جاتا جبکہ کوئی نئی صورت اسلام پر حملہ کرنے کی نہیں تراشی جاتی.اگر کوئی ایجاد یا کَل بنائی جاتی ہے اس کے لئے اصول کو زیر نظر رکھ کر اسلام پر حملہ کر دیا جاتا ہے.آج کل کی ترقی بھی اسلام کا ایک معجزہ ہے الغرض ایسے فتنے کے وقت میں قریب تھا کہ دشمن اکٹھے ہو کر ایک دفعہ ہی مسلمانوں کو برگشتہ کر دیتے لیکن اللہ تعالیٰ کے زبردست ہاتھ نے اسلام کو سنبھالے رکھا یہ بھی ایک دلیل ہے اسلام کی صداقت کی.آجکل کی ترقی بھی اسلام کا ایک معجزہ ہے.پس دیکھو کہ مخالفوں نے اپنی ساری طاقتیں اور قوتیں حتی کہ جان اور مال تک بھی اسلام کے نابود کرنے میں صرف کر دیا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:۱۰) یعنی خدا آپ ہی ان نقوش فطرت کو یاد دلانے والا ہے اور خطرہ کے وقت اس کو بچا لے گا.اسلام کی کشتی خطرہ میں جا پڑی تھی.پادریوں کا حملہ جنہوں نے کروڑہا روپیہ خرچ کر کے اور طرح طرح کے منافع اور وعدے یہاں تک کہ شرمناک نفسانی حظوظ تک بھی دکھا کر لوگوں کو اسلام سے بدظن کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف اسلامی عقائد کو بدنام کرتے ہیں.دیکھو! اِمساکِ بارش کی وجہ سے اِستسقاء کی نماز پڑھی جاتی ہے.اگر کَل سے بارش برسانے میں کامیابی ہو جاوے جیسا کہ آجکل بعض لوگ امریکہ وغیرہ میں کوششیں کرتے ہیں تو اس طرح پر ایک رکن ٹوٹ جائے گا.غرض میں کہاں تک بیان کروں.ہر طرف سے اسلام پر حملے ہو رہے ہیں اور اس کو بدنام کرنے کی کوشش، ہاں انتھک کوشش کی جاتی ہے مگر ان لوگوں کے منصوبے اور ہتھکنڈے کیا کر سکتے ہیں.خدا اس کو خود
ان حربوں سے بچانا چاہتا ہے اور اس زمان ترقی میں اسلام کو بغیر امداد کے نہیں چھوڑا بلکہ اس نے اسلام کی حفاظت کی اور اپنے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں کو سچا ثابت کیا اور اس کی مبارک پیشین گوئیوں کی حقیقت کھول دی اور اس صدی میں ایک شخص پیدا کر دیا.میں بار بار کہتا ہوں کہ وہ وہی ہے جو تمہارے درمیان بول رہا ہے.وہ صداقت کی روح اسلام میں پھونک دے گا.وہ وہی ہے جو گمشدہ صداقتوں کو آسمانوں سے لاتا ہے اور لوگوں تک پہنچاتا ہے.وہ بدظنیوں اور ایمانی کمزوریوں کو دور کرنا چاہتا ہے.بد ظنی بدظنی ایک ایسا مرض ہے اور ایسی بُری بلا ہے جو انسان کو اندھا کر کے ہلاکت کے تاریک کنویں میں گرا دیتی ہے.بدظنی ہی ہے جس نے ایک مُردہ انسان کی پرستش کرائی.بدظنی ہی تو ہے جو لوگوں کو خدائے تعالیٰ کی صفات خَلق، رحم، رازقیت وغیرہ سے معطل کر کے نعوذ باللہ ایک فرد معطل اور شے بیکار بنا دیتی ہے.الغرض اسی بدظنی کے باعث جہنم کا بہت بڑا حصہ اگر کہوں کہ سارا حصہ بھر جائے گا تو مبالغہ نہیں.جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ماموروں سے بدظنی کرتے ہیں وہ خدائے تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے فضل کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں.غرض اگر کوئی ہمارے اس سلسلہ کا جو خدائے تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا انکار کرے تو ہم کو افسوس ہوتا ہے کہ ہائے! ایک روح ہلاکت کے دروازہ کی زنجیر کھٹکھٹاتی ہے اور یہ سلسلہ ایسا روشن ہے کہ اگر کوئی شخص مستعد دل لے کر دو گھنٹہ بھی ہماری باتوں کو سنے تو وہ حق کو پا لے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاقی معجزات اب میں چاہتا ہوں کہ چند باتیں اور کہہ کر اس تقریر کو ختم کر دوں.میں تھوڑی دیر کے لئے معجزات کے سلسلہ کی طرف پھر عود کر کے کہتا ہوں کہ ایک خوارق تو شق القمر وغیرہ کے علمی رنگ کے ہیں اور دوسرے حقائق و معارف کے.تیسرا طبقہ معجزات کا اخلاقی معجزات ہیں.اخلاقی کرامت میں بہت اثر ہوتا ہے.فلاسفر لوگ معارف اور حقائق سے تسلی نہیں پا سکتے.مگر
اخلاق عظیمہ ان پر بہت بڑا اور گہرا اثر کرتے ہیں.حضور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقی معجزات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ آپ ایک درخت کے نیچے سوئے پڑے تھے کہ ناگاہ ایک شور و پکار سے بیدار ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ جنگلی اعرابی تلوار کھینچ کر خود حضور پر آپڑا ہے.اس نے کہا.اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم) بتا اس وقت میرے ہاتھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے؟ آپؐ نے پورے اطمینان اور سچی سکینت سے جو حاصل تھی فرمایا کہ اللہ.آپؐ کا یہ فرمانا عام انسانوں کی طرح نہ تھا.اللہ جو خدائے تعالیٰ کا ایک ذاتی اسم ہے اور جو تمام جمیع صفات کاملہ کا مستجمع ہے.ایسے طور پر آپ کے منہ سے نکلا کہ دل سے نکلا اور دل پر ہی جا کر ٹھہرا.کہتے ہیں کہ اسم اعظم یہی ہے اور اس میں بڑی بڑی برکات ہیں لیکن جس کو وہ اللہ یاد ہی نہ ہو وہ اس سے کیا فائدہ اٹھائے گا.الغرض ایسے طور پر اللہ کا لفظ آپؐ کے منہ سے نکلا کہ اس پر رعب طاری ہو گیا اور ہاتھ کانپ گیا.تلوار گر پڑی.حضرت نے وہی تلوار اٹھا کر کہا کہ اب بتلا.میرے ہاتھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے؟ وہ ضعیف القلب جنگلی کس کا نام لے سکتا تھا.آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھایا اور کہا جا تجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ مروّت اور شجاعت مجھ سے سیکھ.اس اخلاقی معجزہ نے اس پر ایسا اثر کیا کہ وہ مسلمان ہوگیا.سِیَر میں لکھا ہے کہ ابو الحسن خرقانی کے پاس ایک شخص آیا.راستہ میں شیر ملا اور کہا کہ اللہ کے واسطے پیچھا چھوڑ دے.شیر نے حملہ کیا اور جب کہاک ہ ابوالحسن کے واسطے چھوڑ دے تو اس نے چھوڑ دیا.شخص مذکور کے ایمان میں اس حالت نے سیاہی سی پیدا کر دی اور اس نے سفر ترک کیا.واپس آکر یہ عقدہ پیش کیا.اس کو ابوالحسن نے جواب دیا کہ یہ بات مشکل نہیں.اللہ کے نام سے تو واقف نہ تھا.اللہ کی سچی ہیبت اور جلال تیرے دل میں نہ تھا اور مجھ سے تو واقف تھا.اس لئے میری قدر تیرے دل میں تھی.پس اللہ کے لفظ میں بڑی بڑی برکات اور خوبیاں ہیں بشرطیکہ کوئی اس کو اپنے دل میں جگہ دے اور اس کی ماہیت پر کان دھرے.اسی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقی معجزات میں ایک اور معجزہ بھی ہے کہ
آپؐ کے پاس ایک وقت بہت سی بھیڑیں تھیں.ایک شخص نے کہا اس قدر مال اس سے پیشتر کسی کے پاس نہیں دیکھا.حضورؐ نے وہ سب بھیڑیں اس کو دے دیں.اس نے فی الفور کہا کہ لاریب آپ سچے نبی ہیں سچے نبی کے بغیر اس قسم کی سخاوت دوسرے سے عمل میں آنی مشکل ہے.الغرض آنحضرتؐ کے اخلاق فاضلہ ایسے تھے کہ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ (القلم:۵) قرآن میں وارد ہوا.ہماری جماعت کو مناسب ہے کہ وہ اخلاقی ترقی کریں پس ہماری جماعت کو مناسب ہے کہ وہ اخلاقی ترقی کریں.کیونکہ اَلْاِسْتِقَامَۃُ فَوْقَ الْکَرَامَۃِ مشہور ہے.وہ یاد رکھیں کہ اگر کوئی ان پر سختی کرے تو حتی الوسع اس کا جواب نرمی اور ملاطفت سے دیں.تشدد اور جبر کی ضرورت انتقامی طور پر بھی نہ پڑنے دیں.انسان میں نفس بھی ہے اور اس کی تین قسم ہیں.اَمّارَۃ، لَوَّامَۃ، مُطْمَئِنَّۃ.اَمّارہ کی حالت میں انسان جذبات اور بے جا جوشوں کو سنبھال نہیں سکتا اور اندازہ سے نکل جاتا اور اخلاقی حالت سے گر جاتا ہے مگر حالتِ لوّامہ میں سنبھال لیتا ہے.مجھے ایک حکایت یاد آئی جو سعدی نے بوستان میں لکھی ہے کہ ایک بزرگ کو کتے نے کاٹا.گھر آیا تو گھر والوں نے دیکھا کہ اسے کتے نے کاٹ کھایا ہے.ایک بھولی بھالی چھوٹی لڑکی بھی تھی وہ بولی آپ نے کیوں نہ کاٹ کھایا؟ اس نے جواب دیا بیٹی! انسان سے کُت پن نہیں ہوتا.اسی طرح سے انسان کو چاہیے کہ جب کوئی شریر گالی دے تو مومن کو لازم ہے کہ اعراض کرے.نہیں تو وہی کُت پن کی مثال صادق آئے گی.خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں.بہت بری طرح ستایا گیا مگر ان کو اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ (الاعراف:۲۰۰) کا ہی خطاب ہوا.خود اس انسان کامل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بُری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں، بدزبانی اور شوخیاں کی گئیں مگر اس خلق مجسم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا.ان کے لئے دعا کی اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا تو تیری عزت اور جان کو ہم
صحیح و سلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اس پر حملہ نہ کر سکیں گے! چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور کے مخالف آپ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے.غرض یہ صفتِ لوّامہ کی ہے جو انسان کشمکش میں بھی اصلاح کر لیتا ہے.روز مرہ کی بات ہے اگر کوئی جاہل یا اوباش گالی دے یا کوئی شرارت کرے جس قدر اس سے اعراض کرو گے اسی قدر عزت بچا لو گے اور جس قدر اس سے مٹھ بھیڑ اور مقابلہ کرو گے تباہ ہو جاؤ گے اور ذلت خرید لو گے.نفس مطمئنہ کی حالت میں انسان کا ملکہ حسنات اور خیرات ہو جاتا ہے.وہ دنیا اور ماسوی اللہ سے بکلّی انقطاع کر لیتا ہے.وہ دنیا میں چلتا پھرتا اور دنیا والوں سے ملتا جلتا ہے لیکن حقیقت میں وہ یہاں نہیں ہوتا.جہاں وہ ہوتا ہے وہ دنیا اور ہی ہوتی ہے.وہاں کا آسمان اور زمین اور ہوتی ہے.جماعت احمدیہ کے لئے بشارت عظیم اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے وَ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ (اٰل عمران:۵۶) یہ تسلی بخش وعدہ ناصرہ میں پیدا ہونے والے ابن مریم سے ہوا تھا مگر میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یسوع مسیح کے نام سے آنے والے ابن مریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں الفاظ میں مخاطب کر کے بشارت دی ہے.اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدہ عظیم اور بشارت عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں کیا وہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو امارہ کے درجہ میں پڑے ہوئے فسق و فجور کی راہوں پر کار بند ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں.جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کی سچی قدر کرتے ہیں اور میری باتوں کو قصہ کہانی نہیں جانتے تو یاد رکھو اور دل سے سن لو.میں پھرایک بار ان لوگوں کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور وہ تعلق کوئی عام تعلق نہیں بلکہ بہت زبردست تعلق ہے اور ایسا تعلق ہے کہ جس کا اثر میری ذات تک اور نہ صرف میری ذات تک بلکہ اس ہستی تک پہنچتا ہے جس نے مجھے بھی اور اس برگزیدہ انسان کامل کی ذات تک پہنچتا ہے جو دنیا میں صداقت اور راستی کی روح لے کر آیا.میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ان باتوں کا اثر میری ہی ذات تک پہنچتا تو مجھے کچھ بھی اندیشہ اور فکر نہ تھا اور نہ ان کی پروا تھی مگر اس پر بس نہیں ہوتی.اس کا اثر
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خود خدائے تعالیٰ کی برگزیدہ ذات تک پہنچ جاتا ہے.پس ایسی صورت اور حالت میں تم خوب دھیان دے کر سن رکھو کہ اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتے ہو اور اس کے مصداق ہونے کی آرزو رکھتے ہو اور اتنی بڑی کامیابی (کہ قیامت تک مکفّرین پر غالب رہو گے) کی سچی پیاس تمہارے اندر ہے تو پھر اتنا ہی میں کہتا ہوں کہ یہ کامیابی اس وقت تک حاصل نہ ہو گی جب تک لوّامہ کے درجہ سے گزر کر مُطْمَئِنَّہ کے مینار تک نہ پہنچ جاؤ.اس سے زیادہ اور میں کچھ نہیں کہتا کہ تم لوگ ایک ایسے شخص کے ساتھ پیوند رکھتے ہو جو مامور من اللہ ہے.پس اس کی باتوں کو دل کے کانوں سے سنو اور اس پر عمل کرنے کے لئے ہمہ تن تیار ہو جاؤ تاکہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو اقرار کے بعد انکار کی نجاست میں گر کر ابدی عذاب خرید لیتے ہیں.فقط ۹؎ ۳۰ ؍ دسمبر ۱۸۹۷ء حضرت اقدسؑ کی تیسری تقریر بر موقع جلسہ سالانہ دوستوں کے لئے ہمدردی اور غمخواری حضورؑ نے فرمایا.اصل بات یہ ہے کہ ہمارے دوستوں کا تعلق ہمارے ساتھ اعضاء کی طرح سے ہے اور یہ بات ہمارے روزمرہ کے تجربہ میں آتی ہے کہ ایک چھوٹے سے چھوٹے عضو مثلاً انگلی ہی میں درد ہو تو سارا بدن بے چین اور بے قرار ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ٹھیک اسی طرح ہر وقت اور ہر آن میں ہمیشہ اسی خیال اور فکر میں رہتا
ہوں کہ میرے دوست ہر قسم کے آرام اور آسائش سے رہیں.یہ ہمدردی اور یہ غم خواری کسی تکلّف اور بناوٹ کی رو سے نہیں بلکہ جس طرح والدہ اپنے بچوں میں سے ہر واحد کے آرام و آسائش کے فکر میں مستغرق رہتی ہے خواہ وہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں اسی طرح میں للّٰہی دلسوزی اور غم خواری اپنے دل میں اپنے دوستوں کے لئے پاتا ہوں اور یہ ہمدردی کچھ ایسی اضطراری حالت پر واقع ہوئی ہے کہ جب ہمارے دوستوں میں سے کسی کا خط کسی قسم کی تکلیف یا بیماری کے حالات پر مشتمل پہنچتا ہے تو طبیعت میں ایک بے کلی اور گھبراہٹ پیدا ہو جاتی ہے اور ایک غم شامل حال ہو جاتا ہے اور جوں جوں احباب کی کثرت ہوتی جاتی ہے اسی قدر یہ غم بڑھتا جاتا ہے اور کوئی وقت ایسا خالی نہیں رہتا جبکہ کسی قسم کا فکر اور غم شامل حال نہ ہو کیونکہ اس قدر کثیر التعداد احباب میں سے کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی غم اور تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس کی اطلاع پر ادھر دل میں قلق اور بے چینی پیدا ہو جاتی ہے.میں نہیں بتلا سکتا کہ کس قدر اوقات غموں میں گزرتے ہیں.چونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی ہستی ایسی نہیں جو ایسے ہموم اور افکار سے نجات دیوے اس لئے میں ہمیشہ دعاؤں میں لگا رہتا ہوں اور سب سے مقدم دعا یہی ہوتی ہے کہ میرے دوستوں کو ہموم اور غموم سے محفوظ رکھے کیونکہ مجھے تو ان کے ہی افکار اور رنج غم میں ڈالتے ہیں.اور پھر یہ دعا مجموعی ہیئت سے کی جاتی ہے کہ اگر کسی کو کوئی رنج اور تکلیف پہنچی ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کو نجات دے.ساری سرگرمی اور پورا جوش یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کروں.دعا کی قبولیت میں بڑی بڑی امیدیں ہیں.قبولیت دعا کے اصول بلکہ میرے ساتھ میرے مولیٰ کریم کا صاف وعدہ ہے کہ اُجِیْبُ کُلَّ دُعَائِکَ مگر میں خوب سمجھتا ہوں کہ کُلَّ سے مراد یہ ہے کہ جن کے نہ سننے سے ضرر پہنچ جاتا ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ تربیت اور اصلاح چاہتا ہے تو ردّ کرنا ہی اجابت دعا ہوتا ہے.بعض اوقات انسان کسی دعا میں ناکام رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے دعا ردّ کر دی حالانکہ خدائے تعالیٰ اس کی دعا کو سن لیتا ہے اور وہ اجابت بصورت ردّ ہی ہوتی ہے کیونکہ اس کے لئے درپردہ اور حقیقت میں بہتری اور بھلائی اس کے ردّ ہی میں ہوتی ہے.انسان
چونکہ کوتاہ بین اور دور اندیش نہیں بلکہ ظاہر پرست ہے اس لئے اس کو مناسب ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرے اور وہ بظاہر اس کے مفید مطلب نتیجہ خیز نہ ہو تو خدا پر بدظن نہ ہو کہ اس نے میری دعا نہیں سنی.وہ تو ہر ایک کی دعا سنتا ہے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن:۶۱) فرماتا ہے.راز اور بھید یہی ہوتا ہے کہ داعی کے لئے خیر اور بھلائی ردّ دعا ہی میں ہوتی ہے.دعا کا اصول یہی ہے.اللہ تعالیٰ قبول دعا میں ہمارے اندیشہ اور خواہش کے تابع نہیں ہوتا ہے.دیکھو بچے کس قدر اپنی ماؤں کو پیارے ہوتے ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے لیکن اگر بچے بیہودہ طور پر اصرار کریں اور رو کر تیز چاقو یا آگ کا روشن اور چمکتا ہوا چنگارا مانگیں تو کیا ماں باوجود سچی محبت اور حقیقی دلسوزی کے کبھی گوارا کرے گی کہ اس کا بچہ آگ کا انگارہ لے کر ہاتھ جلا لے یا چاقو کی تیز دھار پر ہاتھ مار کر ہاتھ کاٹ لے؟ ہرگز نہیں.اسی اصول سے اجابت دعا کا اصول سمجھ سکتے ہیں.میں خود اس امر میں ایک تجربہ رکھتا ہوں کہ جب دعا میں کوئی جزو مضر ہوتا ہے تو وہ دعا ہرگز قبول نہیں ہوتی ہے.یہ بات خوب سمجھ میں آسکتی ہے کہ ہمارا علم یقینی اور صحیح نہیں ہوتا.بہت سے کام ہم نہایت خوشی سے مبارک سمجھ کر کرتے ہیں اور اپنے خیال میں ان کا نتیجہ بہت ہی مبارک خیال کرتے ہیں مگر انجام کار وہ ایک غم اور مصیبت ہو کر چمٹ جاتا ہے غرض یہ کہ خواہشات انسانی سب پر صاد نہیں کر سکتے کہ سب صحیح ہیں.چونکہ انسان سہو اور نسیان سے مرکب ہے اس لئے ہونا چاہیے اور ہوتا ہے کہ بعض خواہش مضر ہوتی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اس کو منظور کر لے تو یہ امر منصب رحمت کے صریح خلاف ہے.یہ ایک سچا اور یقینی امر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کو قبولیت کا شرف بخشتا ہے مگر ہر رطب و یابس کو نہیں کیونکہ جوش نفس کی وجہ سے انسان انجام اور مآل کو نہیں دیکھتا اور دعا کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ جو حقیقی بہی خواہ اور مآل بین ہے ان مضرتوں اور بدنتائج کو ملحوظ رکھ کر جو اس دعا کے تحت میں بصورت قبول داعی کو پہنچ سکتے ہیں اسے ردّ کر دیتا ہے اور یہ ردّ دعا ہی اس کے لئے قبول دعا ہوتا ہے.پس ایسی دعائیں جن میں انسان حوادث اور صدمات سے محفوظ رہتا ہے.اللہ تعالیٰ قبول کر لیتا ہے مگر مضر دعاؤں کو بصورت رد قبول فرما لیتا ہے.مجھے یہ الہام بار ہا ہو چکا
ہے اُجِیْبُ کُلَّ دُعَائِکَ.دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ ہر ایک ایسی دعا جو نفس الامر میں نافع اور مفید ہے قبول کی جائے گی.میں جب اس خیال کو اپنے دل میں پاتا ہوں تو میری روح لذّت اور سرور سے بھر جاتی ہے.جب مجھے یہ اول ہی اول الہام ہوا قریباً پچیس یا تیس برس کا عرصہ ہوتا ہے تو مجھے بہت ہی خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ میری دعائیں جو میرے یا میرے احباب کے متعلق ہوں گی ضرور قبول کرے گا.پھر میں نے خیال کیا کہ اس معاملہ میں بخل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ ایک انعام الٰہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے متقین کی صفت میں فرمایا ہے وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ (البقرۃ:۴) پس میں نے اپنے دوستوں کے لئے یہ اصول کر رکھا ہے کہ خواہ وہ یاد دلائیں یا نہ یاد دلائیں کوئی امر خطیر پیش کریں یا نہ کریں.ان کی دینی اور دنیوی بھلائی کے لئے دعا کی جاتی ہے.قبولیت دعا کی شرائط مگر یہ بات بھی بحضور دل سن لینی چاہیے کہ قبول دعا کے لئے بھی چند شرائط ہوتی ہیں ان میں سے بعض تو دعا کرنے والے کے متعلق ہوتی ہیں اور بعض دعا کرانے والے کے متعلق.دعا کرانے والے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کو مدنظر رکھے اور اس کے غناءِ ذاتی سے ہر وقت ڈرتا رہے اور صلح کاری اور خدا پرستی اپنا شعار بنا لے.تقویٰ اور راستبازی سے خدائے تعالیٰ کو خوش کرے تو ایسی صورت میں دعا کے لئے باب استجابت کھولا جاتا ہے اور اگر وہ خدائے تعالیٰ کو ناراض کرتا ہے اور اس سے بگاڑ اور جنگ قائم کرتا ہے تو اس کی شرارتیں اور غلط کاریاں دعا کی راہ میں ایک سد اور چٹان ہو جاتی ہیں اور استجابت کا دروازہ اس کے لئے بند ہو جاتا ہے.ہماری دعاؤں کو ضائع ہونے سے بچائیں پس ہمارے دوستوں کے لئے لازم ہے کہ وہ ہماری دعاؤں کو ضائع ہونے سے بچاویں اور ان کی راہ میں کوئی روک نہ ڈال دیں جو ان کی ناشائستہ حرکات سے پیدا ہو سکتی ہے.ان کو چاہیے کہ وہ تقویٰ کی راہ اختیار کریں کیونکہ تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں اور اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو مغز شریعت تقویٰ ہی ہو سکتا ہے.
تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت ہیں لیکن اگر طالب صادق ہو کر ابتدائی مراتب اور مراحل کو استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اور طلب صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پا لیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ (المآئدۃ :۲۸) گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے.یہ گویا اس کا وعدہ ہے اور اس کے وعدوں میں تخلّف نہیں ہوتا جیسا کہ فرمایا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ (الرّعد :۳۲) پس جس حال میں تقویٰ کی شرط قبولیت دعا کے لئے ایک غیر منفک شرط ہے تو ایک انسان غافل اور بے راہ ہو کر اگر قبولیت دعا چاہے تو کیا وہ احمق اور نادان نہیں ہے.لہٰذا ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک ان میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے تا کہ قبولیت دعا کا سرور اور حظّ حاصل کرے اور زیادتی ایمان کا حصہ لے.نفس انسانی کی تین حالتیں قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس انسانی کی تین حالتیں ہیں.ایک اَمّارَۃ، دوسری لَوَّامَۃ، تیسری مُطْمَئِنَّۃ.نفسِ اَمّارہ کی حالت میں انسان شیطان کے پنجہ میں گویا گرفتار ہوتا ہے اور اس کی طرف بہت جھکتا ہے لیکن نفسِ لوّامہ کی حالت میں وہ اپنی خطا کاریوں پر نادم ہوتا اور شرمسار ہو کر خدا کی طرف جھکتا ہے مگر اس حالت میں بھی ایک جنگ رہتی ہے.کبھی شیطان کی طرف جھکتا ہے اور کبھی رحمان کی طرف.مگر نفسِ مُطْمَئِنَّہ کی حالت میں وہ عباد الرحمن کے زُمرہ میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ گویا ارتفاعی نقطہ ہے جس کے بالمقابل نیچے کی طرف امّارہ ہے.اس میزان کے بیچ میں لوّامہ ہے جو ترازو کی زبان کی طرح ہے.انحضاضی نقطہ کی طرف اگر زیادہ جھکتا ہے تو حیوانات سے بھی بدتر اور ارذل ہو جاتا ہے اور ارتفاعی نقطہ کی طرف جس قدر رجوع کرتا ہے اسی قدر اللہ تعالیٰ کی طرف قریب ہوتا جاتا ہے اور سفلی اور ارضی حالتوں سے نکل کر علوی اور سماوی فیضان سے حصہ لیتا ہے.دنیا میں کوئی چیز منفعت سے خالی نہیں یہ بات بھی خوب یاد رکھنی چاہیے کہ ہر بات میں منافع ہوتا ہے.دنیا میں دیکھ لو اعلیٰ درجہ کی
نباتات سے لے کر کیڑوں اور چوہوں تک بھی کوئی چیز ایسی نہیں جو انسان کے لئے منفعت اور فائدہ سے خالی ہو.یہ تمام اشیاء خواہ وہ ارضی ہیں یا سماوی اللہ تعالیٰ کی صفات کے اظلال اور آثار ہیں اور جب صفات میں نفع ہی نفع ہے تو بتلاؤ کہ ذات میں کس قدر نفع اور سود ہوگا.اس مقام پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جیسے ان اشیاء سے ہم کسی وقت نقصان اٹھاتے ہیں تو اپنی غلطی اور نافہمی کی وجہ سے.اس لئے نہیں کہ نفس الامر میں ان اشیاء میں مضرت ہی ہے.نہیں بلکہ اپنی غلطی اور خطا کاری سے.اسی طرح پر ہم اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا علم نہ رکھنے کی وجہ سے تکلیف اور مصائب میں مبتلا ہوتے ہیں ورنہ خدائے تعالیٰ تو ہمہ رحم اور کرم ہے.دنیا میں تکلیف اٹھانے اور رنج پانے کا یہی راز ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں اپنی سوءِ فہم اور قصور علم کی وجہ سے مبتلائے مصائب ہوتے ہیں.پس اس صفاتی آنکھ کے ہی روزن سے ہم اللہ تعالیٰ کو رحیم اور کریم اور حد سے زیادہ قیاس سے باہر نافع ہستی پاتے ہیں اور ان منافع سے زیادہ بہرہ ور وہی ہوتا ہے جو اس کے زیادہ قریب اور نزدیک ہوتا جاتا ہے اور یہ درجہ ان لوگوں کو ہی ملتا ہے جو متقی کہلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں جگہ پاتے ہیں.جوں جوں متقی خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا جاتا ہے ایک نور ہدایت اسے ملتا ہے جو اس کی معلومات اور عقل میں ایک خاص قسم کی روشنی پیدا کرتا ہے اور جوں جوں دور ہوتا جاتا ہے ایک تباہ کرنے والی تاریکی اس کے دل و دماغ پر قبضہ کر لیتی ہے.یہاں تک کہ وہ صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ (البقرۃ:۱۹) کا مصداق ہو کر ذلّت اور تباہی کا مورد بن جاتا ہے مگر اس کے بالمقابل نور اور روشنی سے بہرہ ور انسان اعلیٰ درجہ کی راحت اور عزت پاتا ہے چنانچہ خدائے تعالیٰ نے خود فرمایا ہے يٰۤاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ.ارْجِعِيْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً (الفجر:۲۸،۲۹) یعنی اے وہ نفس جو اطمینان یافتہ ہے اور پھر یہ اطمینان خدا کے ساتھ پایا ہے.بعض لوگ حکومت سے بظاہر اطمینان اور سیری حاصل کرتے.بعض کی تسکین اور سیری کا موجب ان کا مال اور عزت ہو جاتی ہے اور بعض اپنی خوبصورت اور ہوشیار اولاد و احفاد کو دیکھ دیکھ کر بظاہر مطمئن کہلاتے ہیں مگر یہ لذّت اور انواع و اقسام کی لذّات دنیا انسان کو سچا اطمینان اور سچی تسلی نہیں دے سکتیں بلکہ ایک قسم کی ناپاک حرص کو پیدا کرکے طلب اور پیاس
کو پیدا کرتی ہیں.استسقاء کے مریض کی طرح ان کی پیاس نہیں بجھتی یہاں تک کہ ان کو ہلاک کر دیتی ہے مگر یہاں خدائے تعالیٰ فرماتا ہے وہ نفس جس نے اپنا اطمینان خدائے تعالیٰ میں حاصل کیا ہے یہ درجہ بندے کے لئے ممکن ہے اس وقت اس کی خوشحالی باوجود مال و منال کے دنیاوی حشمت اور جاہ و جلال کے ہوتے ہوئے بھی خدا ہی میں ہوتی ہے.یہ زر و جواہر، یہ دنیا اور اس کے دھندے اس کی سچی راحت کا موجب نہیں ہوتے.پس جب تک انسان خدائے تعالیٰ ہی میں راحت اور اطمینان نہیں پاتا وہ نجات نہیں پا سکتا کیونکہ نجات اطمینان ہی کا ایک مترادف لفظ ہے.نفس مُطْمَئِنَّہ کے بغیر انسان نجات نہیں پا سکتا میں نے بعض آدمیوں کو دیکھا اور اکثروں کے حالات پڑھے ہیں جو دنیا میں مال و دولت اور دنیا کی جھوٹی لذّتیں اور ہر ایک قسم کی نعمتیں اولاد احفاد رکھتے تھے.جب مرنے لگے اور ان کو اس دنیا کے چھوڑ جانے اور ساتھ ہی ان اشیاء سے الگ ہونے اور دوسرے عالم میں جانے کا علم ہوا تو ان پر حسرتوں اور بے جا آرزوؤں کی آگ بھڑکی اور سرد آہیں مارنے لگے.پس یہ بھی ایک قسم کا جہنم ہے جو انسان کے دل کو راحت اور قرار نہیں دے سکتا بلکہ اس کو گھبراہٹ اور بے قراری کے عالم میں ڈال دیتا ہے.اس لئے یہ امر بھی میرے دوستوں کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہنا چاہیے کہ اکثر اوقات انسان اہل و عیال اور اموال کی محبت ہاں ناجائز اور بےجا محبت میں ایسا محو ہو جاتا ہے اور اکثر اوقات اسی محبت کے جوش اور نشہ میں ایسے ناجائز کام کر گزرتا ہے جو اس میں اور خدائے تعالیٰ میں ایک حجاب پیدا کر دیتے ہیں اور اس کے لئے ایک دوزخ تیار کر دیتے ہیں.اس کو اس بات کا علم نہیں ہوتا جب وہ ان سب سے یکایک علیحدہ کیا جاتا ہے اس گھڑی کی اسے خبر نہیں ہوتی تب وہ ایک سخت بے چینی میں مبتلا ہو جاتا ہے.یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ کسی چیز سے جب محبت ہو تو اس سے جدائی اور علیحدگی پر ایک رنج اور درد ناک غم پیدا ہو جاتا ہے.یہ مسئلہ اب منقولی ہی نہیں بلکہ معقولی رنگ رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نَارُ اللّٰهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِيْ تَطَّلِعُ عَلَى الْاَفْـِٕدَةِ (الھمزۃ:۸،۷) پس یہ وہی غیر اللہ کی محبت کی آگ ہے جو
انسانی دل کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور ایک حیرت ناک عذاب اور درد میں مبتلا کر دیتی ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ یہ بالکل سچی اور یقینی بات ہے کہ نفس مُطْمَئِنَّہ کے بدوں انسان نجات نہیں پا سکتا.جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے نفس امارہ کی حالت میں انسان شیطان کا غلام ہوتا ہے اور لوامہ میں اسے شیطان سے ایک مجاہدہ اور جنگ کرنا ہوتا ہے.کبھی وہ غالب آجاتا ہے اور کبھی شیطان مگر مُطْمَئِنَّہ کی حالت ایک امن اور آرام کی حالت ہوتی ہے کہ وہ آرام سے بیٹھ جاتا ہے.اس لئے اس آیت میں کہ يٰۤاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ (الفجر:۲۸) یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس آخری حالت میں کس قدر استراحت ہوتی ہے.چنانچہ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے نفس مُطْمَئِنَّہ اللہ کی طرف چلا آ.ظاہر کے لحاظ سے تو یہ مطلب ہے کہ جان کندن کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آتی ہے کہ اے مطمئن نفس! اپنے رب کی طرف چلا آ.وہ تجھ سے خوش ہے اور تو اس سے راضی.چونکہ قرآن کے لئے ظاہر اور باطن دونوں ہے.اس لئے باطن کے لحاظ سے یہ مطلب ہے کہ اے اطمینان پر پہنچے ہوئے نفس اپنے رب کی طرف چلا آ.یعنی تیری طبعاً یہ حالت ہو چکی ہے کہ تو اطمینان اور سکینت کے مرتبہ پر پہنچ گیا ہے اور تجھ میں اور اللہ تعالیٰ میں کوئی بُعد نہیں ہے.لَوَّامَہ کی حالت میں تو تکلیف ہوتی ہے مگر مُطْمَئِنَّہ کی حالت میں ایسا ہوتا ہے کہ جیسے پانی اوپر سے گرتا ہے.اسی طرح پر خدائے تعالیٰ کی محبت انسان کے رگ و ریشہ میں سرایت کر جاتی ہے اور وہ خدا ہی کی محبت سے جیتا ہے.غیر اللہ کی محبت جو اس کے لئے ایک جلانے اور جہنم کے پیدا کرنے والی ہوتی ہے جل جاتی ہے اور اس کی جگہ ایک روشنی اور نور بھر دیا جاتا ہے.اس کی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کی رضا اس کا منشا ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی محبت ایسی حالت میں اس کے لئے بطور جان ہوتی ہے جس طرح زندگی کے لئے لوازم زندگی ضروری ہیں اس کی زندگی کے لئے خدا اور صرف خدا ہی کی ضرورت ہوتی ہے.دوسرے لفظوں میں اس کا یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ ہی اس کی سچی خوشی اور پوری راحت ہوتا ہے.انسانی ہستی کا مدعا نفس مُطْمَئِنَّہ کی یہ نشانی ہے کہ کسی خارجی تحریک کے بدوں ہی وہ ایسی صورت پکڑ جاتا ہے کہ خدا کے بدوں رہ نہیں سکتا اور یہی انسانی ہستی کا
مدعا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے.فارغ انسان شکار، شطرنج، گنجفہ وغیرہ اشغال اپنے لئے پیدا کر لیتے ہیں مگر مُطْمَئِنَّہ جبکہ ناجائز اور عارضی اور بسا اوقات رنج اور کرب پیدا کرنے والے اشغال سے الگ ہو گیا.اب الگ ہو کر منقطع عالم اسے کیوں یاد آوے.اس لئے خدا ہی سے محبت ہو جاتی ہے.یہ امر بھی دل سے محو نہیں ہونا چاہیے کہ محبت دو قسم کی ہوتی ہے.ایک ذاتی محبت ہوتی ہے اور ایک محبت اغراض سے وابستہ ہوتی ہے یا یہ کہو کہ اس کا باعث صرف چند عارضی باتیں ہوتی ہیں جن کے دور ہوتے ہی وہ محبت سرد ہو کر رنج اور غم کا باعث ہو جاتی ہے مگر ذاتی محبت سچی راحت پیدا کرتی ہے.چونکہ انسان فطرتاً خدا ہی کے لئے پیدا ہوا ہے جیسا کہ فرمایا مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذَّاریات:۵۷) اس لئے خدائے تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور اپنے پوشیدہ اور مخفی در مخفی اسباب سے اسے اپنے لئے بنایا ہوا ہے.پس جب انسان جھوٹی اور نمائشی ہاں عارضی اور رنج پر ختم ہونے والی محبتوں سے الگ ہو جاتا ہے پھر وہ خدا ہی کے لئے ہو جاتا ہے اور طبعاً کوئی بُعد نہیں رہتا اور خدا کی طرف دوڑا چلا آتا ہے.پس اس آیت يٰۤاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ میں اسی کی طرف اشارہ ہے.خدائے تعالیٰ کا آواز دینا یہی ہے کہ درمیانی حجاب اٹھ گیا اور بُعد نہیں رہا.یہ متّقی کا انتہائی درجہ ہوتا ہے جب وہ اطمینان اور راحت پاتا ہے.دوسرے مقام پر قرآن شریف نے اس اطمینان کا نام فلاح اور استقامت بھی رکھا ہے اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ میں اسی استقامت یا اطمینان یا فلاح کی طرف لطیف اشارہ ہے اور خود مستقیم کا لفظ بتلا رہا ہے.معجزات یہ سچی بات ہے کہ خدائے تعالیٰ غیر معمولی طور پر کوئی کام نہیں کرتا.اصل بات یہ ہے کہ وہ خَلق اسباب کرتا ہے خواہ ہم کو ان اسباب پر اطلاع ہو یا نہ ہو الغرض اسباب ضرور ہوتے ہیں.اس لئے ’’شق القمر‘‘ یا ’’يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا‘‘ (الانبیآء:۷۰) کے معجزات بھی خارج از اسباب نہیں بلکہ وہ بھی بعض مخفی در مخفی اسباب کے نتائج ہیں اور سچے اور حقیقی سائنس پر مبنی ہیں.کوتاہ اندیش اور تاریک فلسفہ کے دلدادہ اسے نہیں سمجھ سکتے.مجھے تو یہ حیرت آتی ہے کہ جس حال میں یہ ایک امر مسلّم ہے کہ عدم علم سے عدم شے لازم نہیں آتا تو نادان فلاسفر کیوں ان اسباب کی
بے علمی پر جو اِن معجزات کا موجب ہیں اصل معجزات کی نفی کی جرأت کرتا ہے.ہاں ہمارا یہ مذہب ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو اپنے کسی بندے کو ان اسباب مخفیہ پر مطلع کر دے لیکن یہ کوئی لازم بات نہیں ہے.دیکھو! انسان اپنے لئے جب گھر بناتا ہے تو جہاں اَور سب آسائش کے سامانوں کا خیال رکھتا ہے سب سے پہلے اس امر کو بھی ملحوظ رکھ لیتا ہے کہ اندر جانے اور باہر نکلنے کے لئے بھی کوئی دروازہ بنا لے.اور اگر زیادہ ساز و سامان ہاتھی ، گھوڑے ، گاڑیاں بھی پاس ہیں تو علیٰ قدر مراتب ہر ایک چیز اور سامان کے نکلنے اور جانے کے واسطے دروازہ بناتا ہے نہ یہ کہ سانپ کی بانبی کی طرح ایک چھوٹا سا سوراخ.اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کے فعل یعنی قانون قدرت پر ایک وسیع اور پُر غور نظر کرنے سے ہم پتا لگا سکتے ہیں کہ اس نے اپنی مخلوق کو پیدا کر کے یہ کبھی نہیں چاہا کہ وہ عبودیت سے سرکش ہو کر ربوبیت سے متعلق نہ ہو.ربوبیت نے عبودیت کو دور کرنے کا ارادہ کبھی نہیں کیا.سچا فلسفہ یہی ہے جو لوگ عبودیت کو کوئی مستقل اختیار والی شے سمجھتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں.خدا نے اس کو ایسا نہیں بنایا.ہماری معلومات ، خیالات اور عقلوں کا باہم مساوی نہ ہونا اور ہر امر پر پوری اور کماحقہ روشنی ڈالنے کے ناقابل ہونا صریح اس امر کی دلیل ہے کہ عبودیت بدوں فیضان ربوبیت کے نہیں رہ سکتی.ہمارے جسم کا ذرّہ ذرّہ ملائک کا حکم رکھتا ہے.اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر دوا اور اس سے بڑھ کر دعا کا اصول ہی بے فائدہ اور بے جان ہوتا.زمین ، آسمان اور مَافِی الْاَرْضِ وَالسَّمٰوَاتِ پر نظر کرو اور سوچو کہ کیا یہ تمام مخلوقات بذاتہ و بنفسہ اپنے قیام اور ہستی میں مستقل اختیار رکھتے ہیں یا کسی کے محتاج ہیں؟ تمام مخلوقات اجرام فلکی سے لے کر ارضی تک اپنی بناوٹ ہی میں عبودیت کا رنگ رکھتی ہیں.ہر پتّے سے یہ پتا ملتا ہے اور ہر شاخ اور آواز سے یہ صدا نکلتی ہے کہ الوہیت اپنا کام کر رہی ہے.اس کے عمیق در عمیق تصرفات جن کو ہم خیال اور قوت سے بیان نہیں کر سکتے بلکہ کامل طور پر سمجھ بھی نہیں سکتے اپنا کام کر رہے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ (البقرۃ:۲۵۶) یعنی اللہ تعالیٰ ہی ایک ایسی ذات ہے جو جامع صفات کاملہ اور ہر ایک نقص سے منزّہ ہے.وہی مستحق
عبادت ہے.اسی کا وجود بدیہی الثبوت ہے کیونکہ وہ حی بالذّات اور قائم بالذّات ہے اور بجز اس کے اور کسی چیز میں حی بالذّات اور قائم بالذّات ہونے کی صفت نہیں پائی جاتی.کیا مطلب کہ اللہ تعالیٰ کے بدوں اور کسی میں یہ صفت نظر نہیں آتی کہ بغیر کسی علّتِ موجبہ کے آپ ہی موجود اور قائم ہو یا کہ اس عالم کی جو کمال حکمت اور ترتیب محکم و موزوں سے بنایا گیا ہے علّتِ موجبہ ہو سکے.غرض اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو ان مخلوقات عالم میں تغیر و تبدل کر سکتی ہو یا ہر ایک شے کی حیات کا موجب اور قیام کا باعث ہو.صوفیا کے دو مکتبہ ہائے فکر وجودی و شہودی اس آیت پر نظر کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وجودی مذہب حق سے دور چلا گیا ہے اور اس نے صفات الٰہیہ کے سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے.وہ معلوم نہیں کر سکتا کہ اس نے عبودیت اور الوہیت کے ہی رشتہ پر ٹھوکر کھائی ہے.اصل یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان میں سے جو لوگ اہل کشف ہوئے ہیں اور ان میں سے اہل مجاہدہ نے دریافت کرنا چاہا تو عبودیت اور ربوبیت کے رشتہ میں امتیاز نہ کر سکے اور خلق الاشیاء کے قائل ہو گئے.قرآن شریف قلب ہی پر وارد ہو کر زبان پر آتا ہے اور قلب کا کس قدر تعلق تھا کہ کلام الٰہی کا مورد ہو گیا.اس باریک بحث سے وہ دھوکہ کھا سکتے تھے مگر بات یہ ہے کہ انسان جب غلط فہمی سے قدم اٹھاتا ہے تو پھر مشکلات کے بھنور میں پھسل جاتا ہے جیسا میں نے ابھی بیان کیا ہے.خدائے تعالیٰ کے تصرفات انسان کے ساتھ ایسے عمیق در عمیق ہیں کہ کوئی طاقت ان کو بیان نہیں کر سکتی اور اگر ایسا ہوتا تو اس کی ربوبیت اور صفات کاملہ مندرجہ قرآن نہ پائی جاتیں.ہمارا عدم ہی اس کی ہستی کا ثبوت ہے اور یہ ایک سچی بات ہے کہ جب انسان ہر طرح سے بے اختیار ہوتا ہے تو اس کا عدم ہی ہوتا ہے.اس باریک بھید کو بعض لوگ نہ سمجھ کر خَلْقُ الْاَشْیَآءِ ھُوَ عَیْنٌ کہہ اٹھے.وجودی اور شہودی میں سے اول الذکر تو وہی ہیں جو خَلْقُ الْاَشْیَآءِ ھُوَ عَیْنٌ کہتے اور مانتے ہیں اور ثانی الذکر وہ ہیں جو فناء نظری کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ محبت میں انسان اس قدر استغراق کر سکتا ہے کہ وہ فنافی اللہ ہو سکتا ہے اور
پھر اس کے لئے یہ کہنا سزا وار ہوتا ہے من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری # بایں ہمہ تصرفات الٰہیہ کا قائل ان کو بھی ہونا پڑتا ہے خواہ وجودی ہوں یا شہودی ہوں.ان کے بعض بزرگ اور اہل کمال بایزید بسطامی ؒسے لے کر شبلی ؒ، ذوالنون ؒ اور محی الدین ابن عربی ؒ تک کے کلمات علی العموم ایسے ہیں کہ بعض ظاہر طور پر اور بعض مخفی طور پر اسی طرف گئے ہیں.میں یہ بات کھول کر کہنی چاہتا ہوں کہ ہمارا یہ حق نہیں کہ ہم ان کو استہزا کی نظر سے دیکھیں.نہیں نہیں.وہ اہل عقل تھے.بات یوں ہے کہ معرفت کا یہ ایک باریک اور عمیق راز تھا.اس کا رشتہ ہاتھ سے نکل گیا تھا.یہی بات تھی اور کچھ نہیں.خدائے تعالیٰ کے اعلیٰ تصرفات پر انسان ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ہالک الذات.انہوں نے انسان کو ایسا دیکھا اور ان کے منہ سے ایسی باتیں نکلیں اور ذہن ادھر منتقل ہو گیا.پس یہ امر بحضور دل یاد رکھو کہ باوصفیکہ انسان صفائی باطن سے ایسے درجہ پر پہنچتا ہے (جیسا کہ ہمارے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم اس مرتبہ اعلیٰ پر پہنچے) کہ جہاں اسے اقتداری طاقت ملتی ہے لیکن خالق اور مخلوق میں ایک فرق ہے اور نمایاں فرق ہے اس کو کبھی دل سے دور کرنا نہ چاہیے.انسان ہستی کے عوارض سے آزاد نہیں.نہ یہاں نہ وہاں.کھاتا پیتا ہے.معاصی ہوتے ہیں کبائر بھی اور صغائر بھی.اور اسی طرح پر اگلے جہان میں بھی بعض جہنم میں ہوں گے اور بعض جنت الخلد میں.غرض یہ ہے کہ انسان کبھی بھی جامہ عبودیت سے باہر نہیں ہو سکتا تو پھر میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ کون سا حجاب ہے کہ جب وہ اتار کر ربوبیت کا جامہ پہن لیتا ہے.بڑے بڑے زاہدوں اور مجاہدوں کے شامل حال عبودیت ہی رہی.آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عبودیت قرآن کریم کو پڑھ کر دیکھ لو.اَور تو اَور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں کسی کامل انسان کا نمونہ موجود نہیں اور نہ آئندہ قیامت تک ہو سکتا ہے پھر دیکھو کہ اقتداری معجزات کے
ملنے پر بھی حضور کے شامل حال ہمیشہ عبودیت ہی رہی اور بار بار اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ (الکہف :۱۱۱) ہی فرماتے رہے.یہاں تک کہ کلمۂ توحید میں اپنی عبودیت کے اقرار کا ایک جزو لازم قرار دیا جس کے بدوں مسلمان مسلمان ہی نہیں ہو سکتا.سوچو ! اور پھر سوچو !! پس جس حال میں ہادی اکمل کی طرز زندگی ہم کو یہ سبق دے رہی ہے کہ اعلیٰ ترین مقام قرب پر بھی پہنچ کر عبودیت کے اعتراف کو ہاتھ سے نہیں دیا تو اور کسی کا تو ایسا خیال کرنا اور ایسی باتوں کا دل میں لانا ہی فضول اور عبث ہے.تصرفات کی دو قسمیں ہاں! یہ سچی بات ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالیٰ کے تصرفات بے حد و بے شمار ہیں.ان کی تعداد اور گنتی ناممکن ہے.انسان جس قدر زہد اور مجاہدہ کرتا ہے اسی قدر وہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا جاتا ہے اور اس نسبت سے ان تصرفات کا ایک رنگ اس پر آتا جاتا ہے اور تصرفات اللہ کی واقفیت کا دروازہ اس پر کھلتا ہے.اس امر کا بیان کر دینا بھی مناسب موقع معلوم ہوتا ہے کہ تصرفات بھی دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک باعتبار مخلوق کے اور دوسرے باعتبار قرب کے.انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ایک تصرف تو اسی مخلوق کی نوعیت اور اعتبار سے ہوتا ہے جو يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ (الفرقان:۸) وغیرہ کے رنگ میں ہوتا ہے.صحت بیماری وغیرہ اس کے ہی اختیار میں ہوتا ہے اور ایک جدید تصرف قرب کے مراتب میں ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ایسے طور پر ان کے قریب ہوتا ہے کہ ان سے مخاطبات اور مکالمات شروع ہو جاتے ہیں اور ان کی دعاؤں کا جواب ملتا ہے مگر بعض لوگ نہیں سمجھ سکتے اور یہاں تک ہی نہیں بلکہ نرے مکالمہ اور مخاطبہ سے بڑھ کر ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ الوہیت کی چادر ان پر پڑی ہوئی ہوتی ہے اور خدائے تعالیٰ اپنی ہستی کے طرح طرح کے نمونے ان کو دکھاتا ہے اور یہ ایک ٹھیک مثال اس قرب اور تعلق کی ہے کہ جیسے لوہے کو کسی آگ میں رکھ دیں تو وہ اثر پذیر ہو کر سرخ آگ کا ایک ٹکڑا ہی نظر آتا ہے.اس وقت اس میں آگ کی سی روشنی بھی ہوتی ہے اور احراق جو ایک صفت آگ کی ہے وہ بھی اس میں آجاتی ہے.مگر بایں ہمہ یہ ایک بیّن بات ہے کہ وہ لوہا آگ یا آگ کا ٹکڑا نہیں ہوتا.
ایک مقام پر اہل اللہ سے ایسے افعال صادر ہوتے ہیں جو اپنے اندر الوہیت کے خواص رکھتے ہیں اسی طرح سے ہمارے تجربہ میں آیا ہے کہ اہل اللہ قرب الٰہی میں ایسے مقام تک جا پہنچتے ہیں جبکہ ربانی رنگ بشریت کے رنگ و بو کو بتمام و کمال اپنے رنگ کے نیچے متواری کر لیتا ہے اور جس طرح آگ لوہے کو اپنے نیچے ایسا چھپا لیتی ہے کہ ظاہر میں بجز آگ کے اور کچھ نظر ہی نہیں آتا اور ظلی طور پر وہ صفات الٰہیہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرتا ہے.اس وقت اس سے بدوں دعا و التماس ایسے افعال صادر ہوتے ہیں جو اپنے اندر الوہیت کے خواص رکھتے ہیں اور وہ ایسی باتیں منہ سے نکالتے ہیں جو جس طرح کہتے ہیں اسی طرح ہو جاتی ہیں.قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور زبان سے ایسے امور کے صدور کی بصراحت بحث ہے جیسا کہ مَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى (الانفال:۱۸) اور ایسا ہی معجزہ شق القمر اور اسی طرح پر اکثر مریضوں اور سقیم الحال لوگوں کا اچھا کر دینا ثابت ہے.قرآن شریف میں جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ ارشاد ہوا کہ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى (النّجم:۴) یہ اس شدید اور اعلیٰ ترین قرب ہی کی طرف اشارہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال تزکیہ نفس اور قرب الٰہی کی ایک دلیل ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ عبد مومن کے ہاتھ، پاؤں اور آنکھیں وغیرہ وغیرہ ہو جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام اعضاء للّٰہی طاعت کے رنگ سے ایسے رنگین ہو جاتے ہیں کہ گویا وہ ایک الٰہی آلہ ہیں جن کے ذریعہ سے وقتاً فوقتاً افعال الٰہیہ ظہور پذیر ہوتے ہیں یا ایک مصفّا آئینہ ہیں جس میں تمام مرضیات الٰہیہ بصفاء تام عکسی طور پر ظہور پکڑتی رہتی ہیں یا یہ کہو کہ وہ اس حالت میں اپنی انسانیت سے بکلّی دستبردار ہو جاتے ہیں.جیسے جب انسان بولتا ہے تو اس کے دل میں خیال ہوتا ہے کہ لوگ اس کی فصاحت اور خوش بیانی اور قادرالکلامی کی تعریف کریں.مگر وہ لوگ جو خدا کے بلائے بولتے ہیں اور ان کی روح جب جوش مارتی ہے تب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ایک موج اس پر
اثر انداز ہو کر تموّج پیدا کر دیتی ہے اور اپنی آواز اور تکلّم سے وہ نہیں بولتے بلکہ الٰہی حال اور قال اور جوش سے.اور ایسا ہی جب وہ دیکھتے ہیں تو جیسا کہ قاعدہ ہے کہ دیکھنے میں فکر شامل ہے ان کی رویت اپنے دخل سے نہیں بلکہ خدائے تعالیٰ کے نور سے.اور وہ ان کو ایک ایسی چیز دکھا دیتا ہے جو دوسری پُر غور نظر بھی نہیں دیکھ سکتی.مومن کی فراست سے ڈرنا چاہیے جیسے آیا ہے کہ اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ یعنی مومن کی فراست سے بچو کیونکہ تمہاری آورد ہے اور اس کی آمد.تمہارا قال ہے اس کا حال.جیسے ایک گھڑی چلتی ہے اس کے پرزے تو اسے چلاتے رہیں گے.ابر میں تم تین بجے کی جگہ سات بجے کا وقت کہہ سکتے ہو مگر گھڑی جو اسی مطلب کے لئے بنائی گئی ہے وہ تو ٹھیک وقت بتلائے گی اور خطا نہ کرے گی.پس اگر اس سے جھگڑو گے تو بجز خفت کیا لو گے؟ اسی طرح سے یاد رکھو کہ متّقی کا یہ کام نہیں کہ وہ ان لوگوں سے جھگڑے اور مقابلہ کرے جو قرب الٰہی کا درجہ رکھتے ہیں اور دنیا میں مختلف ناموں سے پکارے جاتے ہیں.پس مومن کے مقابلہ کے وقت ڈرو اور اِتَّقُوْا کے مصداق بنو.ایسا نہ ہو کہ تم جھوٹے نکلو اور پھر اس غلط کاری کے بدترین نتائج بھگتو کیونکہ مومن تو اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے اور وہ نور تم کو نہیں ملا.اس لئے تم ٹیڑھے چل سکتے ہو مگر مومن ہمیشہ سیدھا ہی چلتا ہے.تم خود ہی بتلاؤ کہ کیا وہ شخص جو ایک تاریکی میں چل رہا ہے اس آدمی کا مقابلہ کر سکتا ہے جو چراغ کی روشنی میں جا رہا ہے؟ ہرگز نہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَ الْبَصِيْرُ (الانعام:۵۱) کیا اندھا اور بینا مساوی ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں.پس جب ہم اس بات کو دیکھتے ہیں تو پھر کس قدر غلطی ہے کہ ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے.غرض یہ ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرنا چاہیے اور مقابلہ مومن کے لئے تیار ہو جانا دانش مند انسان کا کام نہیں ہے اور مومن کی شناخت انہیں آثار اور نشانات سے ہو سکتی ہے جو ہم نے ابھی بیان کئے ہیں.اسی فراست الٰہیہ کا رعب تھا جو صحابہ کرام ؓ پر تھا اور ایسا ہی انبیاء علیہم السلام کے ساتھ یہ رعب بطور نشان الٰہی آتا ہے.وہ پوچھ لیتے تھے کہ اگر یہ وحی الٰہی ہے تو ہم مخالفت نہیں کرتے اور وہ
ایک ہیبت میں آجاتے تھے.متکلّم کے قدر کے موافق اس کے کلام میں ایک عظمت اور ہیبت ہوتی ہے.دیکھو! دنیاوی حکام کے سامنے جاتے وقت بھی ایک تکلیف اور رعب ہوتا ہے اور خیال ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھ میں قلم ہے.اسی طرح پر جو لوگ یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ مومن کے ساتھ خدا ہے وہ اس کی مخالفت چھوڑ دیتے ہیں اور اگر سمجھ میں نہ آئے تو تنہا بیٹھ کر اس پر غور کرتے ہیں اور مقابلہ کر کے سوچتے ہیں.یہ نہایت ضروری ہوتا ہے کہ واقف راہ اور روشنی والے کے دوسرے تابع ہو جاویں اور یہی اس حدیث اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ کا منشا اور مفہوم ہے.یعنی جب مومن کچھ بیان کرے تو خدائے تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے کیونکہ وہ جو کچھ بولتا ہے وہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے بولتا ہے.مدعا یہ ہے کہ مومن جب خدا سے محبت کرتا ہے تو الٰہی نور کا اس پر احاطہ ہو جاتا ہے اگرچہ وہ نور اس کو اپنے اندر چھپا لیتا ہے اور اس کی بشریت کو ایک حد تک بھسم کر جاتا ہے جیسے آگ میں پڑا ہوا لوہا ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ عبودیت اور بشریت معدوم نہیں ہو جاتی.یہی وہ راز ہے جو قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ (الکہف:۱۱۱) کی تہ میں مرکوز ہے.بشریت تو ہوتی ہے مگر وہ الوہیت کے رنگ کے نیچے متواری ہو جاتی ہے اور اس کے تمام قویٰ اور اعضاء للّٰہی راہوں میں خدا تعالیٰ کے ارادوں سے پُر ہو کر اس کی خواہشوں کی تصویر ہوجاتے ہیں.اور یہی وہ امتیاز ہے جو اس کو کروڑہا مخلوق کی روحانی تربیت کا کفیل بنا دیتا ہے اور ربوبیت تامہ کا ایک مظہر قرار دیتا ہے.اگر ایسا نہ ہو تو کبھی بھی ایک نبی اس قدر مخلوقات کے لئے ہادی اور رہبر نہ ہو سکے.رسول اُمّی صلی اللہ علیہ و سلم کا بے نظیر مقام چونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کل دنیا کے انسانوں کی روحانی تربیت کے لئے آئے تھے اس لئے یہ رنگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام میں بدرجہ کمال موجود تھا اور یہی وہ مرتبہ ہے جس پر قرآن کریم نے متعدد مقامات پر حضور کی نسبت شہادت دی ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے مقابل اور اسی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کا ذکر فرمایا ہے مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا
رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (الانبیاء:۱۰۸) اور ایسا ہی فرمایا قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا (الاعراف:۱۵۹) قرآن شریف کے دوسرے مقامات پر غور کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اُمّی فرمایا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے آپؐکا کوئی استاد نہ تھا مگر بایں ہمہ کہ آپ امی تھے حضور کے دین میں اُمِّیُّوْن اوسط درجہ کے آدمیوں کے علاوہ اعلیٰ درجہ کے فلاسفروں اور عالموں کو بھی کر دیا جس سے قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا کے معنے نہایت ہی لطیف طور پر سمجھ میں آسکتے ہیں.جَمِيْعًا کے دو معنے ہیں.اول تمام بنی نوع انسان یا تمام مخلوق.دوم تمام طبقہ کے آدمیوں کے لئے یعنی متوسط ،ادنیٰ اور اعلیٰ درجہ کے فلاسفروں اور ہر ایک قسم کی عقل رکھنے والوں کے لئے.غرض ہر عقل اور ہر مزاج کا آدمی مجھ سے تعلق کر سکتا ہے.قرآن کریم کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اسی اُمّی نے کتاب اور حکمت ہی نہیں بتلائی بلکہ تزکیۂ نفس کی راہوں سے واقف کیا اور یہاں تک کہ اَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ (المجادلۃ:۲۳) تک پہنچا دیا.دیکھو اور پُر غور نظر سے دیکھو! کہ قرآن شریف ہر طرز کے طالب کو اپنے مطلوب تک پہنچاتا اور ہر راستی اور صداقت کے پیاسے کو سیراب کرتا ہے لیکن خیال تو کرو کہ یہ حکمت اور معرفت کا دریا صداقت اور نور کا چشمہ کس پر نازل ہوا؟ اسی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو ایک طرف تو اُمّی کہلاتا ہے اور دوسری طرف وہ کمالات اور حقائق اس کے منہ سے نکل رہے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر پائی نہیں جاتی.یہ اللہ تعالیٰ کا کمال فضل ہے کہ تا لوگ محسوس کریں کہ اللہ تعالیٰ کے تعلقات انسان کے ساتھ کہاں تک ہو سکتے ہیں؟ ہماری غرض اس بیان سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تعلقات بہت نازک درجہ تک پہنچ جاتے ہیں.مقربین سے الوہیت کا ایسا تعلق ہو جاتا ہے کہ مخلوق پرست انسان ان کو خدا سمجھ لیتے ہیں.یہ بالکل درست اور صحیح ہے کہ مردان خدا، خدا نباشند لیکن ز خدا جدا نباشند # خدائے تعالیٰ ان کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ بغیر دعاؤں کے بھی ان کی امداد کرتا ہے.مدعا یہ ہے کہ انسان کا اعلیٰ درجہ وہی نفس مطمئنہ ہے جس پر میں نے گفتگو شروع کی ہے.اسی حالت میں اور تمام حالتوں
سے ایسے لوازم ہو جاتے ہیں کہ عام تعلق الٰہی سے بڑھ کر خاص تعلق ہو جاتا ہے جو زمینی اور سطحی نہیں ہوتا بلکہ علوی اور سماوی تعلق ہوتا ہے.مطلب یہ ہے کہ یہ اطمینان جس کو فلاح اور استقامت بھی کہتے ہیں اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ (الفاتـحۃ:۶) میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے اور اسی راہ کی دعا تعلیم کی گئی ہے اور یہ استقامت کی راہ ان لوگوں کی راہ ہے جو مُنْعَمْ عَلَیْـھِمْ ہیں.اللہ تعالیٰ کے افضال و اکرام کے مورد ہیں.مُنْعَمْ عَلَیْـھِمْ کی راہ کو خاص طور پر بیان کرنے سے یہ مطلب تھا کہ استقامت کی راہیں مختلف ہیں مگر وہ استقامت جو کامیابی اور فلاح کی راہوں کا نام ہے وہ انبیاء علیہم السلام کی راہیں ہیں.اس میں ایک اور اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ میں دعا انسان کی زبان، قلب اور فعل سے ہوتی ہے اور جب انسان خدا سے نیک ہونے کی دعا کرے تو اسے شرم آتی ہے مگر یہی ایک دعا ہے جو ان مشکلات کو دور کر دیتی ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتـحۃ:۵) تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی امداد چاہتے ہیں.دعا کرنے سے پہلے تمام قویٰ کا خرچ کرنا ضروری ہے اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ پر اِيَّاكَ نَعْبُدُ کو تقدم اس لئے ہے کہ انسان دعا کے وقت تمام قویٰ سے کام لے کر خدائے تعالیٰ کی طرف آتا ہے.یہ ایک بے ادبی اور گستاخی ہے کہ قویٰ سے کام نہ لے کر اور قانون قدرت کے قواعد سے کام نہ لے کر آوے.مثلاً کسان اگر تخمریزی کرنے سے پہلے ہی یہ دعا کرے کہ الٰہی! اس کھیت کو ہرا بھرا کر اور پھل پھول لا تو یہ شوخی اور ٹھٹھا ہے.اسی کو خدا کا امتحان اور آزمائش کہتے ہیں جس سے منع کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ خدا کو مت آزماؤ جیسا کہ مسیح علیہ السلام کے مائدہ مانگنے کے قصہ میں اس امر کو بوضاحت بیان کیا ہے.اس پر غور کرو اور سوچو.یہ سچی بات ہے کہ جو شخص اعمال سے کام نہیں لیتا وہ دعا نہیں کرتا بلکہ خدائے تعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے.اس لئے دعا کرنے سے پہلے اپنی تمام طاقتوں کو خرچ کرنا ضروری ہے اور یہی معنی اس دعا کے ہیں.پہلے لازم ہے کہ انسان اپنے اعتقاد اعمال میں نظر کرے کیونکہ خدائے تعالیٰ کی عادت ہے
کہ اصلاح اسباب کے پیرایہ میں ہوتی ہے.وہ کوئی نہ کوئی ایسا سبب پیدا کر دیتا ہے کہ جو اصلاح کا موجب ہو جاتا ہے.وہ لوگ اس مقام پر ذرا خاص غور کریں جو کہتے ہیں کہ جب دعا ہوئی تو اسباب کی کیا ضرورت ہے.وہ نادان سوچیں کہ دعا بجائے خود ایک مخفی سبب ہے جو دوسرے اسباب کو پیدا کر دیتا ہے اور اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا تقدم اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ پر جو کلمہ دعائیہ ہے اس امر کی خاص تشریح کر رہا ہے.غرض عادۃ اللہ ہم یونہی دیکھ رہے ہیں کہ وہ خلق اسباب کر دیتا ہے.دیکھو! پیاس کے بجھانے کے لئے پانی اور بھوک کے مٹانے کے لئے کھانا مہیا کرتا ہے مگر اسباب کے ذریعہ.پس یہ سلسلہ اسباب یونہی چلتا ہے اور خلق اسباب ضرور ہوتا ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ کے یہ دو نام ہی ہیں.جیسا کہ مولوی محمد احسن صاحب نے ذکر کیا تھا کہ كَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا (النساء:۱۵۹) عزیز تو یہ ہے کہ ہر ایک کام کر دینا اور حکیم یہ کہ ہر ایک کام کسی حکمت سے موقع اور محل کے مناسب اور موزوں کر دینا.دیکھو نباتات ، جمادات میں قسم قسم کے خواص رکھے ہیں.تربد ہی کو دیکھو کہ وہ ایک دو تولہ تک دست لے آتی ہے ، ایسا ہی سقمونیا.اللہ تعالیٰ اس بات پر تو قادر ہے کہ یونہی دست آجائے یا پیاس بدوں پانی ہی کے بجھ جائے مگر چونکہ عجائبات قدرت کا علم کرانا بھی ضروری تھا کیونکہ جس قدر واقفیت اور علم عجائبات قدرت کا وسیع ہوتا جاتا ہے اسی قدر انسان اللہ تعالیٰ کی صفات پر اطلاع پا کر قرب حاصل کرنے کے قابل ہوتا جاتا ہے.طبابت ، ہیئت سے ہزارہا خواص معلوم ہوتے ہیں.خواص الاشیاء کا ہی نام علم ہے علوم ہیں ہی کیا؟ صرف خواص الاشیاء ہی کا تو نام ہے.سیارہ ، ستارہ ، نباتات کی تاثیریں اگر نہ رکھتا تو اللہ تعالیٰ کی صفت علیم پر ایمان لانا انسان کے لئے مشکل ہو جاتا.یہ ایک یقینی امر ہے کہ ہمارے علم کی بنیاد خواص الاشیاء ہے.اس سے یہ غرض ہے کہ ہم حکمت سیکھیں.علوم کا نام حکمت بھی رکھا ہے.چنانچہ فرمایا وَ مَنْ يُّـؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا (البقرۃ:۲۷۰) اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کا مقصد پس اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کا مقصد یہی ہے کہ اس دعا کے وقت ان لوگوں کے اعمال ،
اخلاق ، عقائد کی نقل کرنی چاہیے جو مُنْعَمْ عَلَیْـھِمْ ہیں.جہاں تک انسان سے ممکن ہو عقائد ، اخلاق اور اعمال سے کام لے.اس امر کو تم مشاہدہ میں دیکھ سکتے ہو کہ جب تک انسان اپنے قویٰ سے کام نہیں لیتا وہ ترقی نہیں کر سکتا یا ان کو اصل غرض اور مقصود سے ہٹا کر کوئی اور کام ان سے لیتا ہے جس کے لئے وہ خَلق نہیں ہوئے تو بھی وہ ترقی کی راہ میں نہ بڑھیں گے.اگر آنکھ کو چالیس روز بند رکھا جاوے گا تو اس کے دیکھنے کی طاقت سلب ہو جاوے گی.پس یہ ضروری امر ہے کہ پہلے قویٰ کو ان کے فطرتی کاموں پر لگاؤ تو اور بھی ملے گا.ہمارا اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ جہاں تک عملی طاقتوں سے کام لیا جاوے اللہ تعالیٰ اس پر برکت نازل کرتا ہے.مطلب یہی ہے کہ اول عقائد ، اخلاق ،اعمال کو درست کرو.پھر اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دعا مانگو تو اس کا اثر کامل طور پر ظاہر ہو گا.اُمّت مرحومہ کے کہنے کی وجہ خاص طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اُمّت مرحومہ ایک ایسے زمانہ میں پیدا ہوئی ہے کہ جس کے لئے آفات پیدا ہونے لگی ہیں.انسان کی حرکت گناہوں اور معاصی کی طرف ایسی ہے جیسے کہ ایک پتھر نیچے کو چلا جاتا ہے.اُمّت مرحومہ اس لئے کہلاتی ہے کہ معاصی کا زور ہو گیا.جیسے کہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ (الرّوم:۴۲) اور دوسری جگہ فرمایا يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الرّوم:۲۰) ان سب آیات پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے دو نقشے دکھائے ہیں.اول الذکر میں تو اس زمانہ کا جبکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے.اس وقت بھی چونکہ دنیا کی حالت بہت ہی قابل رحم ہو گئی تھی.اخلاق ، اعمال ، عقاید سب کا نام و نشان اٹھ گیا تھا اس لئے اس اُمّت کو مرحومہ کہا گیا.کیونکہ اس وقت بڑے ہی رحم کی ضرورت تھی اور اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (الانبیآء :۱۰۸) قابل رحم اس شخص کو کہتے ہیں جسے سانپوں کی زمین پر چلنے کا حکم ہو.یعنی خطرات عظیمہ اور آفات شدیدہ درپیش ہوں.پس اُمّت مرحومہ اس لئے کہا کہ یہ قابل رحم ہے.جب انسان کو مشکل
کام دیا جاتا ہے تو وہ مشکل قابل رحم ہوتی ہے.شرارتوں میں تجربہ کار ، بد اندیش خطا کاروں سے مقابلہ ٹھہرا اور پھر اُمّی جیسے حضرت نے فرمایا کہ ہم اُمّی ہیں اور حساب نہیں جانتے پس اُمّیوں کو شریر قوموں کا مقابلہ کرنا پڑا جو مکائد اور شرارتوں میں تجربہ کار تھے ، اس لئے اس کا نام اُمت مرحومہ رکھا.مسلمانوں کو کس قدر خوش ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو قابل رحم سمجھا.پہلے واعظ انبیاء ایسے وقتوں میں آتے تھے کہ لوگ مکائد سے واقف نہ ہوتے تھے اور بعض اپنی ہی قوم میں آتے تھے لیکن اب لوگ مکائد اور دنیا کے علوم و فنون اور فلسفہ و سائنس میں پکے ماہر ہیں اور راستبازوں کو اس جہان کے ظاہری علوم اور مادی عقلوں سے اور ان کے پیچ در پیچ منصوبوں اور داؤں سے بہت کم مناسبت ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ اے عیسٰیؑ ! میں تیرے بعد ایک اُمت کو پیدا کرنے والا ہوں جو نہ عقل رکھے گی اور نہ علم یعنی اُمّی ہوگی.آپ نے عرض کی یَا رَبِّ کَیْفَ یَعْرِفُوْنَکَ؟ اے اللہ! جبکہ وہ علم اور عقل سے بہرہ ور نہ ہوں گے تو تجھے کیونکر پہچانیں گے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اپنا علم اور عقل دوں گا.اہل اسلام کو سماوی علوم سے مناسبت ہے اس سے بڑی بشارت ملتی ہے.جیسے ہمارے مخالفوں کو ارضی علوم سے مناسبت ہے ایسے ہی اہل اسلام کو سماوی علوم سے.ایک گنوار مسلمان کی سچی رؤیا اور خوابیں بڑے بڑے فلاسفروں ، بشپوں اور پنڈتوں کے خوابوں سے طاقت میں بڑھ کر ہیں.ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ (الـجمعۃ:۵) پس مسلمانوں کو واجب ہے کہ اپنے اس محسن حقیقی کا شکر کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَ لَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ (ابراہیم:۸) یعنی اگر تم میرا شکر کرو گے تو میں اپنی دی ہوئی نعمت کو زیادہ کروں گا اور بصورت کفر عذاب میرا سخت ہے.یاد رکھو کہ جب اُمت کو اُمت مرحومہ قرار دیا ہے اور علوم لدنیہ سے اسے سرفرازی بخشی ہے تو عملی طور پر شکر واجب ہے.الغرض اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ میں تمام مسلمانوں کو لازم ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا لحاظ رکھیں کیونکہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کو اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ پر مقدم رکھا ہے.پس پہلے عملی طور پر شکریہ کرنا چاہیے اور یہی مطلب اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ میں رکھا ہے یعنی دعا سے پہلے اسباب ظاہری کی
رعایت اور نگہداشت ضروری طور پر کی جاوے اور پھر دعا کی طرف رجوع ہو.اولاً عقائد ، اخلاق اور عادات کی اصلاح ہو پھر اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.اخلاق انسان کے صالح ہونے کی نشانی ہیں اب میں ایک اور ضروری اور اشد ضروری بات بیان کرنی چاہتا ہوں.ہماری جماعت کو چاہیے کہ لاپروائی اور عدم توجہی سے نہ سنے.یاد رکھو کہ اخلاق انسان کے صالح ہونے کی نشانی ہیں.عام طور پر حدیث شریف میں مسلمان کی یہی تعریف آئی ہے کہ مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان سلامت رہیں.(یہاں تک حضور نے تقریر فرمائی تھی کہ نماز عصر کا وقت ہوگیا.چنانچہ آپ نے اور کل حاضرین نے نہایت خلوص اور سچے جوش سے نماز عصر ادا کی اور پھر سب کے سب ہمہ تن گوش ہو کر ’’مردِ خدا‘‘ کی باتیں سننے لگے اور آپؑ نے تقریر کو پھر شروع کیا.ایڈیٹر) میں نے اس ذکر کو چھوڑا تھا کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دعا تعلیم کرنے میں اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ انسان تین پہلو ضرور مدّنظر رکھے.اول: اخلاقی حالت.دوم: حالت عقائد.سوم:اعمال کی حالت.مجموعی طور پر یوں کہو کہ انسان خداداد قوتوں کے ذریعے سے اپنے حال کی اصلاح کرے اور پھر اللہ تعالیٰ سے مانگے.یہ مطلب نہیں کہ اصلاح کی صورت میں دعا نہ کرے.نہیں اس وقت بھی مانگتا رہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں فاصلہ نہیں ہے البتہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں تقدم زمانی ہے کیونکہ جس حال میں اپنی رحمانیت سے بغیر ہماری دعا اور درخواست کے ہمیں انسان بنایا اور انواع و اقسام کی قوتیں اور نعمتیں عطا فرمائیں اس وقت ہماری دعا نہ تھی اس وقت خدا کا فضل تھا اور یہی تقدم ہے.رحمانیت اور رحیمیت یہ یاد رہے کہ رحم دو قسم کا ہوتا ہے.ایک رحمانیت دوسرا رحیمیت کے نام سے موسوم ہے.رحمانیت تو ایسا فیضان ہے کہ جو ہمارے وجود اور ہستی سے بھی پہلے ہی شروع ہوا.مثلاً اللہ تعالیٰ نے پہلے پہل اپنے علم قدیم سے دیکھ کر اس قسم
کا زمین آسمان اور ارضی اور سماوی اشیاء ایسی پیدا کی ہیں جو سب ہمارے کام آنے والی ہیں اور کام آتی ہیں اور ان سب اشیاء سے انسان ہی عام طور پر فائدہ اٹھاتا ہے.بھیڑ بکری اور دیگر حیوانات جبکہ بجائے خود انسان کے لئے مفید شے ہیں تو وہ کیا فائدہ اٹھاتے ہیں؟ دیکھو جسمانی امور میں انسان کیسی کیسی لطیف اور اعلیٰ درجہ کی غذائیں کھاتا ہے.اعلیٰ درجہ کا گوشت انسان کے لئے ہے.ٹکڑے اور ہڈیاں کتوں کے واسطے.جسمانی طور پر جو حظوظ اور لذّات انسان کو حاصل ہیں گو حیوان بھی اس میں شریک ہیں مگر انسان کو وہ بدرجۂ اعلیٰ حاصل ہیں اور روحانی لذّات میں جانور شریک بھی نہیں ہیں.پس یہ دو قسم کی رحمتیں ہیں.ایک وہ جو ہمارے وجود سے پہلے پیش از وقت کے طور پر تقدمہ کی صورت میں عناصر وغیرہ اشیاء پیدا کیں جو ہمارے کام میں لگی ہوئی ہیں اور یہ ہمارے وجود ، خواہش اور دعا سے پہلے ہیں جو رحمانیت کے تقاضے سے پیدا ہوئے.اور دوسری رحمت رحیمیت کی ہے.یعنی جب ہم دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے.غور کیا جاوے تو معلوم ہوگا کہ قانون قدرت کا تعلق ہمیشہ سے دعا کا تعلق ہے.بعض لوگ آج کل اس کو بدعت سمجھتے ہیں.ہماری دعا کا جو تعلق خدائے تعالیٰ سے ہے میں چاہتا ہوں کہ اسے بھی بیان کروں.ایک بچہ جب بھوک سے بیتاب ہو کر دودھ کے لئے چلاتا اور چیختا ہے تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مار کر آجاتا ہے.بچہ دعا کا نام بھی نہیں جانتا لیکن اس کی چیخیں دودھ کو کیونکر کھینچ لاتی ہیں؟ اس کا ہر ایک کو تجربہ ہے بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ مائیں دودھ کو محسوس بھی نہیں کرتیں مگر بچہ کی چلاہٹ ہے کہ دودھ کو کھینچے لاتی ہے.تو کیا ہماری چیخیں جب اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں تو وہ کچھ بھی نہیں کھینچ کر لا سکتیں؟ آتا ہے اور سب کچھ آتا ہے مگر آنکھوں کے اندھے جو فاضل اور فلاسفر بنے بیٹھے ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے.بچہ کو جو مناسبت ماں سے ہے اس تعلق اور رشتہ کو انسان اپنے ذہن میں رکھ کر اگر دعا کی فلاسفی پر غور کرے تو وہ بہت آسان اور سہل معلوم ہوتی ہے.دوسری قسم کا رحم یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک رحم مانگنے کے بعد پیدا ہوتا ہے.مانگتے جاؤ گے ملتا جاوے گا اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن:۶۱) کوئی لفّاظی نہیں بلکہ یہ انسانی سرشت کا ایک لازمہ ہے.
مانگنا انسان کا خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا مانگنا انسان کا خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا.جو نہیں سمجھتا اور نہیں مانتا وہ جھوٹا ہے.بچہ کی مثال جو میں نے بیان کی ہے وہ دعا کی فلاسفی خوب حل کرکے دکھاتی ہے.رحمانیت اور رحیمیت دو نہیں ہیں.پس جو ایک کو چھوڑ کر دوسری کو چاہتا ہے اسے مل نہیں سکتا.رحمانیت کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ ہم میں رحیمیت سے فیض اٹھانے کی سکت پیدا کرے جو ایسا نہیں کرتا وہ کافرِ نعمت ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے یہی معنی ہیں کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں ان ظاہری سامانوں اور اسباب کی رعایت سے جو تُو نے عطا کئے ہیں.دیکھو یہ زبان جو عروق اور اعصاب سے خَلق کی ہے اگر ایسی نہ ہوتی تو ہم بول نہ سکتے.ایسی زبان دعا کے واسطے عطا کی جو قلب کے خیالات تک کو ظاہر کر سکے.اگر ہم دعا کا کام زبان سے کبھی نہ لیں تو یہ ہماری شور بختی ہے.بہت سی بیماریاں ایسی ہیں کہ اگر وہ زبان کو لگ جاویں تو یک دفعہ ہی زبان اپنا کام چھوڑ بیٹھتی ہے یہاں تک کہ انسان گونگا ہوجاتا ہے.پس یہ کیسی رحیمیت ہے کہ ہم کو زبان دے رکھی ہے.ایسا ہی کانوں کی بناوٹ میں فرق آجاوے تو خاک بھی سنائی نہ دے.ایسا ہی قلب کا حال ہے.وہ جو خشوع و خضوع کی حالت رکھی ہے اور سوچنے اور تفکّر کی قوتیں رکھی ہیں اگر بیماری آجاوے تو وہ سب قریباً بیکار ہو جاتی ہیں.مجنونوں کو دیکھو کہ ان کے قویٰ کیسے بیکار ہو جاتے ہیں.تو پس کیا یہ ہم کو لازم نہیں کہ ان خداداد نعمتوں کی قدر کریں؟ اگر ان قویٰ کو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال فضل سے ہم کو عطا کئے ہیں بیکار چھوڑ دیں تو لارَیب ہم کافر نعمت ہیں.پس یاد رکھو کہ اگر اپنی قوتوں اور طاقتوں کو معطل چھوڑ کر دعا کرتے ہیں تو یہ دعا کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی کیونکہ جب ہم نے پہلے عطیہ ہی سے کچھ کام نہیں لیا تو دوسرے کو کب اپنے لئے مفید اور کار آمد بنا سکیں گے.سچی بصیرت مانگنے کی ہدایت پس اِيَّاكَ نَعْبُدُ یہ بتلا رہا ہے کہ اے رب العالمین ! تیرے پہلے عطیہ کو بھی ہم نے بیکار اور برباد نہیں کیا.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ میں یہ ہدایت فرمائی ہے کہ انسان خدائے تعالیٰ سے سچی بصیرت مانگے.
کیونکہ اگر اس کا فضل اور کرم دستگیری نہ کرے تو عاجز انسان ایسی تاریکی اور اندھکار میں پھنسا ہوا ہے کہ وہ دعا ہی نہیں کر سکتا.پس جب تک انسان خدا کے اس فضل کو جو رحمانیت کے فیضان سے اسے پہنچا ہے کام میں لا کر دعا نہ مانگے کوئی نتیجہ بہتر نہیں نکال سکتا.میں نے عرصہ ہوا انگریزی قانون میں یہ دیکھا تھا کہ تقاوی کے لئے پہلے کچھ سامان دکھانا ضروری ہوتا ہے.اسی طرح سے قانون قدرت کی طرف دیکھو کہ جو کچھ ہم کو پہلے ملا ہے اس سے کیا بنایا؟ اگر عقل و ہوش ،آنکھ ، کان رکھتے ہوئے نہیں بہکے ہو اور حمق اور دیوانگی کی طرف نہیں گئے تو دعا کرو اور بھی فیض الٰہی ملے گا، ورنہ محرومی اور بدقسمتی کے لچھن ہیں.حکمت کے معنی بسا اوقات ہمارے دوستوں کو عیسائیوں سے واسطہ پڑے گا.وہ دیکھیں گے کہ کوئی بھی بات نادانوں میں ایسی نہیں جو حکیم خدا کی طرف منسوب ہو سکے.حکمت کے معنی کیا ہیں ؟ وَضْعُ الشَّیْءِ فِیْ مَـحَلِّہٖ مگر ان میں دیکھو گے کہ کوئی فعل اور حکم بھی اس کا مصداق نظر نہیں آتا.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ پر جب ہم پُر غور نظر کرتے ہیں تو اِشَارۃُ النَّص کے طور پر پتہ لگتا ہے کہ بظاہر تو اس سے دعا کرنے کا حکم معلوم ہوتا ہے کہ صِرَاطَ الْمُسْتَقِيْمِ کی ہدایت مانگنے کی تعلیم ہے لیکن اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اس کے سر پر بتلا رہا ہے کہ اس سے فائدہ اٹھاویں یعنی راہ راست کے منازل کے لئے قوائے سلیم سے کام لے کر استعانت الٰہی کو مانگنا چاہیے.اخلاق سے کیا مراد ہے اب سوچنا چاہیے کہ وہ کون سی باتیں ہیں جو مانگنی چاہئیں.اول اخلاق جو انسان کو انسان بناتا ہے.اخلاق سے کوئی صرف نرمی کرنا ہی مراد نہ لے لے.خَلق اور خُلق دو لفظ ہیں جو بالمقابل معنوں پر دلالت کرتے ہیں.خَلق ظاہری پیدائش کا نام ہے.جیسے کان ، ناک یہاں تک کہ بال وغیرہ بھی سب خَلق میں شامل ہیں اور خُلق باطنی پیدائش کا نام ہے.ایسا ہی باطنی قویٰ جو انسان اور غیر انسان میں مابہ الامتیاز ہیں وہ سب خُلق میں داخل ہیں.یہاں تک کہ عقل فکر وغیرہ تمام قوتیں خُلق ہی میں داخل ہیں.خُلق سے انسان اپنی انسانیت کو درست کرتا ہے.اگر انسانوں کے فرائض نہ ہوں تو فرض کرنا
پڑے گا کہ آدمی ہے ؟ گدھا ہے؟ یا کیا ہے؟ جب خُلق میں فرق آجاوے تو صورت ہی رہتی ہے.مثلاً عقل ماری جاوے تو مجنون کہلاتا ہے صرف ظاہری صورت سے ہی انسان کہلاتا ہے.پس اخلاق سے مراد خدائے تعالیٰ کی رضا جوئی (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی میں مجسم نظر آتی ہے) کا حصول ہے.اس لئے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز زندگی کے موافق اپنی زندگی بنانے کی کوشش کرے.یہ اخلاق بطور بنیاد کے ہیں.اگر وہ متزلزل رہے تو اس پر عمارت نہیں بنا سکتے.اخلاق ایک اینٹ پر دوسری اینٹ کا رکھنا ہے.اگر ایک اینٹ ٹیڑھی ہو تو ساری دیوار ٹیڑھی ہی رہتی ہے.کسی نے کیا اچھا کہا ہے خشت اول چوں نہد معمار کج تا ثریا مے رود دیوار کج # ان باتوں کو نہایت توجہ سے سننا چاہیے.اکثر آدمیوں کو میں نے دیکھا اور غور سے مطالعہ کیا ہے کہ بعض سخاوت تو کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی غصہ ور اور زُود رنج ہیں.بعض حلیم تو ہیں لیکن بخیل ہیں ، بعض غضب اور طیش کی حالت میں ڈنڈے مار مار کر گھائل کر دیتے ہیں مگر تواضع اور انکسار نام کو نہیں.بعض کو دیکھا ہے کہ تواضع اور انکسار تو ان میں پرلے درجہ کا ہے مگر شجاعت نہیں ہے.یہاں تک کہ طاعون اور ہیضہ کا نام بھی سن لیں تو دست لگ جاتے ہیں.میں یہ خیال نہیں کرتا کہ جو ایسے طور پر شجاعت نہیں کرتا اس کا ایمان نہیں.صحابہ کرام ؓ میں بھی بعض ایسے تھے کہ ان کو لڑائی کی قوت اور جانچ نہ تھی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو معذور رکھتے تھے.یہ اخلاق بہت ہیں.میں نے جلسہ مذاہب کی تقریر میں ان سب کو واضح طور پر اور مفصل بیان کیا ہے.ہر انسان جامع صفات بھی نہیں اور بالکل محروم بھی نہیں ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق عالیہ سب سے اکمل نمونہ اور نظیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو جمیع اخلاق میں کامل تھے.اسی لئے آپ کی شان میں فرمایا اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ (القلم:۵) ایک وقت ہے کہ آپ فصاحت بیانی سے ایک گروہ کو تصویر کی صورت حیران کر رہے ہیں.ایک
وقت آتا ہے کہ تیر و تلوار کے میدان میں بڑھ کر شجاعت دکھاتے ہیں.سخاوت پر آتے ہیں تو سونے کے پہاڑ بخشتے ہیں.حلم میں اپنی شان دکھاتے ہیں تو واجب القتل کو چھوڑ دیتے ہیں.الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے نظیر اور کامل نمونہ ہے جو خدائے تعالیٰ نے دکھا دیا ہے.اس کی مثال ایک بڑے عظیم الشان درخت کی ہے جس کے سایہ میں بیٹھ کر انسان اس کے ہر جزو سے اپنی ضرورتوں کو پورا کرلے.اس کا پھل ، اس کا پھول اور اس کی چھال ، اس کے پتّے غرض کہ ہر چیز مفید ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس عظیم الشان درخت کی مثال ہیں جس کا سایہ ایسا ہے کروڑہا مخلوق اس میں مرغی کے پروں کی طرح آرام اور پناہ لیتی ہے.لڑائی میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا تھا کیونکہ آپ بڑے خطرناک مقام میں ہوتے تھے.سبحان اللہ ! کیا شان ہے.اُحد میں دیکھو کہ تلواروں پر تلواریں پڑتی ہیں.ایسی گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے کہ صحابہ ؓ برداشت نہیں کر سکتے مگر یہ مرد میدان سینہ سپر ہو کر لڑ رہا ہے.اس میں صحابہ ؓ کا قصور نہ تھا.اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا بلکہ اس میں بھید یہ تھا کہ تا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کا نمونہ دکھایا جاوے.ایک موقع پر تلوار پر تلوار پڑتی تھی اور آپؐ نبوت کا دعویٰ کرتے تھے کہ محمد رسول اللہ میں ہوں.کہتے ہیں حضرتؐ کی پیشانی پر ستر زخم لگے.مگر زخم خفیف تھے.یہ خلق عظیم تھا.ایک وقت آتا ہے کہ آپ کے پاس اس قدر بھیڑ بکریاں تھیں کہ قیصر و کسریٰ کے پاس بھی نہ ہوں.آپ نے وہ سب ایک سائل کو بخش دیں.اب اگر پاس نہ ہوتا تو کیا بخشتے.اگر حکومت کا رنگ نہ ہوتا تو یہ کیونکر ثابت ہوتا کہ آپ واجب القتل کفار مکہ کو باوجود مقدرت انتقام کے بخش سکتے ہیں.جنہوں نے صحابہ کرام ؓ اور خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور مسلمان عورتوں کو سخت سے سخت اذیتیں اور تکلیفیں دی تھیں.جب وہ سامنے آئے تو آپ نے فرمایا لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (یوسف:۹۳) میں نے آج تم کو بخش دیا.اگر ایسا موقع نہ ملتا تو ایسے اخلاق فاضلہ حضور کے کیونکر ظاہر ہوتے.یہ شان آپؐ کی اور صرف آپ کی ہی تھی.کوئی ایسا خلق بتلاؤ جو آپ میں نہ ہو اور پھر بدرجہٴ غایت کامل طور پر نہ ہو.حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ اُن کے اخلاق بالکل مخفی ہی رہے.شریر یہود
جن کو گورنمنٹ کے ہاں کرسیاں ملتی تھیں اور رومی گورنمنٹ ان کے گروہ کی وجہ سے عزت کرتی تھی مسیح کو تنگ کرتے رہے مگر کوئی اقتدار کا وقت حضرت مسیح کی زندگی میں ایسا نہ آیا جس سے معلوم ہو جاتا کہ وہ کہاں تک باوجود مقدرت انتقام کے عفو سے کام لیتے ہیں مگر برخلاف اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ایسے ہیں کہ وہ مشاہدہ اور تجربہ کی محک پر کامل المعیار ثابت ہوئے.وہ صرف باتیں ہی نہیں بلکہ ان کی صداقت کا ثبوت ہمارے ہاتھ میں ایسا ہی ہے جیسے ہندسہ اور حساب کے اصول صحیح اور یقینی ہیں اور ہم دو اور دو چار کی طرح ان کو ثابت کر سکتے ہیں لیکن کسی اور نبی کا متبع ایسا نہیں کر سکتا.اسی لئے آپؐ کی مثال ایک ایسے درخت سے دی جس کی جڑھ، چھال ، پھل ، پھول ، پتے غرض ہر ایک چیز مفید اور غایت درجہ مفید، راحت رساں اور سرور بخش ہے.چونکہ جناب سرور کائنات علیہ التحیات کے بعد اُمت میں ایک تفرقہ پیدا ہو گیا اس لئے وہ جامعیت اخلاق بھی نہ رہی بلکہ جدا جدا اور متفرق طور پر وہ مجموعہٴ اخلاق پھیل گیا.اس لئے بعض آدمی بعض اخلاق کو آسانی سے صادر کر سکتے ہیں.تزکیہ نفس اور فلاح ہدایت الٰہی تو یہ ہے کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا.وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا (الشّمس:۱۱،۱۰) نجات پائے گا وہ شخص جس نے تزکیہ نفس کیا اور ہلاک ہو گیا وہ آدمی جس نے نفس کو بگاڑا.فلح چیرنے کو کہتے ہیں.فلاحت زراعت کو جانتے ہو.تزکیۂ نفس میں بھی فلاحت ہے.مجاہدہ انسانی نفس کو اس کی خرابیوں اور سختیوں سے صاف کر کے اس قابل بنا دیتا ہے کہ اس میں ایمان صحیحہ کی تخم ریزی کی جاوے پھر وہ شجر ایمان بارور ہونے کے لائق بن جاتا ہے.چونکہ ابتدائی مراحل اور منازل میں متّقی کو بڑی بڑی مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے فلاح سے تعبیر کیا ہے.دوسری جگہ فرمایا ہے قُتِلَ الْخَرّٰصُوْنَ.الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ غَمْرَةٍ سَاهُوْنَ (الذَّارِیَات:۱۲،۱۱) اللہ تعالیٰ کفار کا حال بیان کرتا ہے کہ ستیاناس ہو گیا اٹکل بازیاں کرنے والوں کا جن کے نفوس غمرہ میں پڑے ہوئے ہیں.غمرہ دبانے والی چیز کو کہتے ہیں، جو سر اٹھانے نہ دے.کھیت پر بھی غمرہ پڑتا ہے جیسے کھیتوں پر پڑتا ہے جسے کرنڈ کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اٹکل بازیاں کرنے والوں کا ستیاناس ہو گیا.ہنوز ان کے نفوس غمرہ میں پڑے ہوئے ہیں.
مومنوں کو اس آیت میں ایک نظیر دے کر متنبہ کیا جاتا ہے کہ جب تک غمرہ دور نہ ہو تو علیٰ وجہ البصیرت کام نہیں ہو سکتا اور وہ اولوالابصار نہیں کہلا سکتے.قتل اس لئے فرمایا کہ وہ رحم کی جگہ ہے.گویا وہ فاعل بھی خود ہی ہیں.اپنے آپ کو خود ہلاک کیا.بعض آدمیوں میں خراص ہونے کا مادہ ہوتا ہے.وہ بصیرت اور دور اندیشی سے کام نہیں لیتے بلکہ ظنون فاسدہ اور اٹکلوں سے کام لیتے ہیں اور وہ اسی میں اپنا کمال سمجھتے ہیں.میری غرض یہ تھی کہ حصہ اخلاق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل نمونہ پیش کروں جو ایک فرد اکمل تھے.زاں بعد متفرق طور پر آپ کے اخلاق سے حصہ لیا گیا.کسی نے ایک لیا اور دوسرے نے کوئی اَور.اور ایک کو دوسرے میں غمرہ ہو گیا.جس طرح کسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس غمرہ کو دور کرے ورنہ اس کا نتیجہ دوسرے پودوں پر اچھا نہیں ہو گا اسی طرح ہر ایک انسان کو ضروری ہے کہ وہ اپنے اندرونی غمرہ کو دور کرے ورنہ اندیشہ ہے کہ دوسری صفات حسنہ کو بھی نہ لے بیٹھے.لِکُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ کا وسیع مفہوم یہ بات ٹھیک نہیں کہ بعض اخلاق کے تبدیل پروہ قادر ہے اور بعض پر نہیں.نہیں نہیں! ہر ایک مرض کا علاج موجود ہے لِکُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ.افسوس! لوگ آپ کے اس مبارک قول کی قدر نہیں کرتے اور اس کو صرف ظاہری امراض ہی تک محدود سمجھتے ہیں.یہ کس قدر نادانی اور غلطی ہے.جس حال میں ایک فانی جسم کے لئے اس کی اصلاح اور بھلائی کے کل سامان موجود ہیں تو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ انسان کی روحانی امراض کا مداوا اللہ تعالیٰ کے حضور کچھ بھی نہ ہو؟ ہے اور ضرور ہے.یہ ایک واقعی اور یقینی بات ہے کہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو آپ اپنی مدد کرتے ہیں لیکن جو کسل اور سستی سے کام کرتے ہیں وہ آخر کار ہلاک ہو جاتے ہیں.پیرانہ سالی کی دو قسمیں انسان پر جیسے ایک طرف نَقْص فِی الْـخَلْقِ کا زمانہ آتا ہے جسے بڑھاپا کہتے ہیں اس وقت آنکھیں اپنا کام چھوڑ دیتی ہیں اور کان شنوا نہیں ہو سکتے.غرض کہ ہر ایک عضو بدن اپنے کام سے عاری اور معطل کے قریب قریب ہو جاتا
ہے.اسی طرح سے یاد رکھو کہ پیرانہ سالی دو قسم کی ہوتی ہے.طبعی اور غیر طبعی.طبعی تو وہ ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا.غیر طبعی وہ ہے کہ کوئی اپنی امراض لاحقہ کا فکر نہ کرے تو وہ انسان کو کمزور کر کے قبل از وقت پیرانہ سال بنا دیں.جیسے نظام جسمانی میں یہ طریق ہے ایسا ہی اندرونی اور روحانی نظام میں ہوتا ہے.اگر کوئی اپنے اخلاق فاسدہ کو اخلاق فاضلہ اور خصائل حسنہ سے تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو اس کی اخلاقی حالت بالکل گر جاتی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور قرآن کریم کی تعلیم سے یہ امر ببداہت ثابت ہو چکا ہے کہ ہر ایک مرض کی دوا ہے لیکن اگر کسل اور سُستی انسان پر غالب آجاوے تو پھر بجز ہلاکت کے اور کیا چارہ ہے اگر ایسی بے نیازی سے زندگی بسر کرے جیسی کہ ایک بوڑھا کرتا ہے تو کیونکر بچاؤ ہو سکتا ہے.تبدیل اخلاق مجاہدہ اور دعا سے ممکن ہے جب تک انسان مجاہدہ نہ کرے گا دعا سے کام نہ لے گا وہ غمرہ جو دل پر پڑ جاتا ہے دور نہیں ہو سکتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (الرّعد:۱۲) یعنی خدا ئے تعالیٰ ہر ایک قسم کی آفت اور بلا کو جو قوم پر آتی ہے دور نہیں کرتا ہے جب تک خود قوم اس کو دور کرنے کی کوشش نہ کرے.ہمت نہ کرے.شجاعت سے کام نہ لے تو کیونکر تبدیلی ہو.یہ اللہ تعالیٰ کی ایک لاتبدیل سنت ہے جیسے فرمایا وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا (الاحزاب:۶۳) پس ہماری جماعت ہو یا کوئی ہو وہ تبدیل اخلاق اسی صورت میں کر سکتے ہیں جبکہ مجاہدہ اور دعا سے کام لیں ورنہ ممکن نہیں ہے.تبدیل اخلاق کے متعلق دو مذہب حکماء کے تبدیل اخلاق پر دو مذہب ہیں.ایک تو وہ ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ انسان تبدیل اخلاق پر قادر ہے اور دوسرے وہ ہیں جو مانتے ہیں کہ وہ قادر نہیں.اصل بات یہ ہے کہ کسل اور سستی نہ ہو اور ہاتھ پیر ہلاوے تو تبدیل ہو سکتی ہے.مجھے اس مقام پر ایک حکایت یاد آئی ہے اور وہ یہ ہے.کہتے ہیں کہ یونانیوں کے مشہور فلاسفر افلاطون کے پاس ایک آدمی آیا اور دروازہ پر کھڑے ہو کر
اندر اطلاع کرائی.افلاطون کا قاعدہ تھا کہ جب تک وہ آنے والے کا حلیہ اور نقوش چہرہ کو معلوم نہ کر لیتا تھا اندر نہیں آنے دیتا تھا.اور وہ قیافہ سے استنباط کر لیتا تھا کہ شخص مذکور کیسا ہے کیسا نہیں.نوکر نے آکر اس شخص کا حلیہ حسب معمول بتلایا.افلاطون نے جواب دیا کہ اس شخص کو کہہ دو کہ چونکہ تم میں اخلاق رذیلہ بہت ہیں مَیں ملنا نہیں چاہتا.اس آدمی نے جب افلاطون کا یہ جواب سنا تو نوکر سے کہا کہ تم جا کر کہہ دو کہ جو کچھ آپ نے فرمایا وہ ٹھیک ہے مگر میں نے اپنی عادات رذیلہ کا قلع و قمع کر کے اصلاح کر لی ہے.اس پر افلاطون نے کہا.ہاں یہ ہو سکتا ہے.چنانچہ اس کو اندر بلایا اور نہایت عزت و احترام کے ساتھ اس سے ملاقات کی.جن حکماء کا یہ خیال ہے کہ تبدیل اخلاق ممکن نہیں وہ غلطی پر ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ملازمت پیشہ لوگ جو رشوت لیتے ہیں جب وہ سچی توبہ کردیتے ہیں پھر اگر ان کو کوئی سونے کا پہاڑ بھی دے تو اس پر نگاہ بھی نہیں کرتے.توبہ کے تین شرائط توبہ دراصل حصول اخلاق کے لئے بڑی محرک اور مؤیّد چیز ہے اور انسان کو کامل بنا دیتی ہے.یعنی جو شخص اپنے اَخلاقِ سَیِّئہ کی تبدیلی چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ سچے دل اور پکّے ارادے کے ساتھ توبہ کرے.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ توبہ کے لئے تین شرائط ہیں.بدوں ان کی تکمیل کے سچی توبہ جسے توبۃ النصوح کہتے ہیں حاصل نہیں ہوتی.ان ہرسہ شرائط میں سے پہلی شرط جسے عربی زبان میں اِقْلاع کہتے ہیں.یعنی ان خیالات فاسدہ کو دور کر دیا جاوے جو ان خصائل ردّیہ کے محرک ہیں.اصل بات یہ ہے کہ تصورات کا بڑا بھاری اثر پڑتا ہے کیونکہ حیطہءِ عمل میں آنے سے پیشتر ہر ایک فعل ایک تصوری صورت رکھتا ہے.پس توبہ کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ ان خیالات فاسد و تصورات بد کو چھوڑ دے.مثلاً اگر ایک شخص کسی عورت سے کوئی ناجائز تعلق رکھتا ہو تو اسے توبہ کرنے کے لئے پہلے ضروری ہے کہ اس کی شکل کو بدصورت قرار دے اور اس کی تمام خصائل رذیلہ کو اپنے دل میں مستحضر کرے.کیونکہ جیسا میں نے ابھی کہا ہے تصورات کا اثر بہت زبردست اثر ہے اور میں نے صوفیوں کے تذکروں میں پڑھا ہے کہ انہوں نے
تصور کو یہاں تک پہنچایا کہ انسان کو بندر یا خنزیر کی صورت میں دیکھا.غرض یہ ہے کہ جیسا کوئی تصور کرتا ہے ویسا ہی رنگ چڑھ جاتا ہے.پس جو خیالاتِ بَد لذّات کا موجب سمجھے جاتے تھے ان کا قلع و قمع کرے.یہ پہلی شرط ہے.دوسری شرط نَدَمْ ہے یعنی پشیمانی اور ندامت ظاہر کرنا.ہر ایک انسان کا کانشنس اپنے اندر یہ قوت رکھتا ہے کہ وہ اس کو ہر برائی پر متنبہ کرتا ہے مگر بدبخت انسان اس کو معطل چھوڑ دیتا ہے.پس گناہ اور بدی کے ارتکاب پر پشیمانی ظاہر کرے اور یہ خیال کرے کہ یہ لذّات عارضی اور چند روزہ ہیں اور پھر یہ بھی سوچے کہ ہر مرتبہ اس لذّت اور حظ میں کمی ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ بڑھاپے میں آکر جبکہ قویٰ بیکار اور کمزور ہو جاویں گے آخر ان سب لذّاتِ دنیا کو چھوڑنا ہوگا.پس جبکہ خود زندگی ہی میں یہ سب باتیں چھوٹ جانے والی ہیں تو پھر ان کے ارتکاب سے کیا حاصل؟ بڑا ہی خوش قسمت ہے وہ انسان جو توبہ کی طرف رجوع کرے اور جس میں اول اقلاع کا خیال پیدا ہو یعنی خیالات فاسدہ و تصورات بیہودہ کو قلع وقمع کرے.جب یہ نجاست اور ناپاکی نکل جاوے تو پھر نادم ہو اور اپنے کئے پر پشیمان ہو.تیسری شرط عَزم ہے.یعنی آئندہ کے لئے مصمم ارادہ کر لے کہ پھر ان برائیوں کی طرف رجوع نہ کروں گا اور جب وہ مداومت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق عطا کرے گا یہاں تک کہ وہ سَیِّئَات اس سے قطعاً زائل ہو کر اخلاق حسنہ اور افعال حمیدہ اس کی جگہ لے لیں گے اور یہ فتح ہے اخلاق پر.اس پر قوت اور طاقت بخشنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے کیونکہ تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک وہی ہے.جیسے فرمایا اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًا (البقرۃ :۱۶۶) ساری قوتیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں اور انسان ضعیف البنیان تو کمزور ہستی ہے.خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا (النساء :۲۹) اس کی حقیقت ہے.پس خدائے تعالیٰ سے قوت پانے کے لئے مندرجہ بالا ہر سہ شرائط کو کامل کرکے انسان کسل اور سُستی کو چھوڑ دے اور ہمہ تن مستعدی ہو کر خدائے تعالیٰ سے دعا مانگے.اللہ تعالیٰ تبدیلِ اخلاق کر دے گا.
اصلی شہ زور کون ہے؟ ہماری جماعت میں شہ زور اور پہلوانوں کی طاقت رکھنے والے مطلوب نہیں بلکہ ایسی قوت رکھنے والے مطلوب ہیں جو تبدیلِ اخلاق کے لئے کوشش کرنے والے ہوں.یہ ایک امر واقعی ہے کہ وہ شہ زور اور طاقت والا نہیں جو پہاڑ کو جگہ سے ہٹا سکے.نہیں نہیں.اصل بہادر وہی ہے جو تبدیلِ اخلاق پر مقدرت پاوے.پس یاد رکھو کہ ساری ہمت اور قوت تبدیلِ اخلاق میں صرف کرو کیونکہ یہی حقیقی قوت اور دلیری ہے.خلق عظیم بڑی بھاری کرامت ہے میں نے کل یا پرسوں بیان کیا تھا کہ خلق عظیم بڑی بھاری کرامت ہے جو خارق عادت امور کو بھی مشتبہ کر سکتا ہے.مثلاً اگر آج شق القمر کا معجزہ ہو تو یہ ہیئت و طبعی کے ماہر اور سائنس کے دلدادہ فی الفور اس کو کسوف خسوف کے اقسام میں داخل کر کے اس کی عظمت کو کم کرنا چاہیں گے اور جو پرانا معجزہ اب پیش کرتے ہیں تو اسے قصہ قرار دیتے ہیں.مثلاً یہی کسوف خسوف دیکھو جو رمضان میں ہوا اور جو آیات مہدی میں سے ایک سماوی نشان تھا.میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو علمِ ہیئت کی رو سے ثابت تھا کہ رمضان میں ایسا ہو.یہ کہہ کر گویا وہ اس حدیث کی جو امام محمد باقر علیہ السلام کی طرف سے ہے وقعت کم کرنا چاہتے ہیں مگر یہ احمق اتنا نہیں سوچتے کہ نبوت ہر ایک شخص نہیں کرسکتا.نبوت پیشگوئی کرنے کو کہتے ہیں.یعنی ہر کس و ناکس کا یہ کام نہیں کہ وہ پیشگوئیاں کرتا پھرے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدعی مہدویّت و مسیحیّت کے زمانہ میں یہ کسوف خسوف رمضان میں ہوگا اور ابتدائے آفرینش سے آج تک کبھی نہیں ہوا.پس اگر عقلی طور پر کسی قسم کا اشتباہ ہو تو ایسے مخالفوں کو چاہیے کہ وہ تاریخی طور پر اس پیشگوئی کی عظمت کو کم کر دکھائیں.یعنی کسی ایسے وقت کا پتا دیں جبکہ رمضان میں کسوف خسوف اس طور پر ہو کہ پہلے کسی مدعی نے دعویٰ بھی کیا ہو اور جس امر کا دعویٰ کیا ہو اس امر کے ثبوت میں رمضان کے کسوف خسوف کی پہلے کسی نبی کے زمانہ میں پیشگوئی بھی کی گئی ہو مگر یہ ممکن نہیں کہ کوئی دکھلا سکے.میری غرض اس واقعہ کے بیان سے صرف یہ تھی کہ خوارق پر تو کسی نہ کسی رنگ میں لوگ عذرات
پیش کر دیتے ہیں اور اس کو ٹالنا چاہتے ہیں لیکن اخلاقی حالت ایک ایسی کرامت ہے جس پر کوئی انگلی نہیں رکھ سکتا اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بڑا اور قوی اعجاز اخلاق ہی کا دیا گیا.جیسے فرمایا اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ (القلم:۵) یوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ایک قسم کے خوارق قوت ثبوت میں جملہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات سے بجائے خود بڑھے ہوئے ہیں مگر اخلاقی اعجاز کا نمبر ان سب سے اول ہے جس کی نظیر دنیا کی تاریخ نہیں بتلا سکتی اور نہ پیش کر سکے گی.میں سمجھتا ہوں کہ ہر ایک شخص جو اپنے اخلاق سیّئہ کو چھوڑ کر عادات ذمیمہ کو ترک کرکے خصائل حسنہ کو لیتا ہے اس کے لئے وہی کرامت ہے.مثلاً اگر بہت ہی سخت تند مزاج اور غصہ ور ان عاداتِ بَد کو چھوڑتا ہے اور حلم اور عفو کو اختیار کرتا ہے یا امساک کو چھوڑ کر سخاوت اور حسد کی بجائے ہمدردی حاصل کرتا ہے تو بیشک یہ کرامت ہے اور ایسا ہی خود ستائی اور خود پسندی کو چھوڑ کر جب انکساری اور فروتنی اختیار کرتا ہے تو یہ فروتنی ہی کرامت ہے پس تم میں سے کون ہے جو نہیں چاہتا کہ کراماتی بن جاوے.میں جانتا ہوں ہر ایک یہی چاہتا ہے تو بس یہ ایک مدامی اور زندہ کرامت ہے کہ انسان اخلاقی حالت کو درست کرے کیونکہ یہ ایسی کرامت ہے جس کا اثر کبھی زائل نہیں ہوتا بلکہ نفع دور تک پہنچتا ہے.مومن کو چاہیے کہ خَلق اور خالِق کے نزدیک اہل کرامت ہو جاوے.بہت سے رند اور عیاش ایسے دیکھے گئے ہیں جو کسی خارق عادت نشان کے قائل نہیں ہوئے لیکن اخلاقی حالت کو دیکھ کر انہوں نے بھی سر جھکا لیا ہے اور بجز اقرار اور قائل ہونے کے دوسری راہ نہیں ملی.بہت سے لوگوں کے سوانح میں اس امر کو پاؤ گے کہ انہوں نے اخلاقی کرامات ہی کو دیکھ کر دین حق قبول کرلیا.(حضرت اقدس یہ تقریر نہایت جوش اور مؤثر طریق سے فرما رہے تھے کہ چند سکھ فقیرانہ لباس میں آئے.نشہ میں مدہوش تھے.انہوں نے آکر ایسی بکواس کی کہ ممکن تھا اس بہشتی مجلس میں بھنگ پڑے مگر ہمارے صادق امام علیہ السلام نے اپنے عملی نمونہ سے یہ اخلاقی کرامت جس کی ہدایت فرما رہے تھے دکھائی جس کا اثر سامعین پر ایسا پڑا کہ اکثر ان میں سے چِلّا چِلّا کر فرط جوش سے رو پڑے.وہ شریر آخر
پولیس کے ہاتھ جاکر پٹے اور ان کا نشہ ہرن ہوگیا.ایڈیٹر) میری باتوں کو ضائع نہ کریں پس میں پھر پکار کر کہتا ہوں اور میرے دوست سن رکھیں کہ وہ میری باتوں کو ضائع نہ کریں اور ان کو صرف ایک قصہ گو یا داستان گو کی کہانیوں ہی کا رنگ نہ دیں بلکہ میں نے یہ ساری باتیں نہایت دلسوزی اور سچی ہمدردی سے جو فطرتاً میری روح میں ہے کی ہیں.ان کو گوش دل سے سنو اور ان پر عمل کرو.ہاں خوب یاد رکھو اور اس کو سچ سمجھو کہ ایک روز اللہ تعالیٰ کے حضور جانا ہے.پس اگر ہم عمدہ حالت میں یہاں سے کوچ کرتے ہیں تو ہمارے لئے مبارکی اور خوشی ہے ورنہ بہت خطرناک حالت ہے.یاد رکھو کہ جب انسان بُری حالت میں جاتا ہے تو مکان بعید اس کے لئے یہیں سے شروع ہو جاتا ہے.یعنی نزع کی حالت ہی سے اس میں تغیر شروع ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنَّہٗ مَنۡ یَّاۡتِ رَبَّہٗ مُجۡرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَہَنَّمَ ؕ لَا یَمُوۡتُ فِیۡہَا وَلَا یَحۡیٰی (طٰہٰ :۷۵) یعنی جو شخص مجرم بن کر آوے گا اس کے لئے ایک جہنم ہے جس میں نہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا.یہ کیسی صاف بات ہے.اصل لذّت زندگی کی راحت اور خوشی ہی میں ہے بلکہ اسی حالت میں وہ زندہ متصور ہوتا ہے جبکہ ہر طرح کے امن اور آرام میں ہو.اگر وہ کسی درد مثلاً قولنج یا درد دانت ہی میں مبتلا ہو جاوے تو وہ مُردوں سے بدتر ہوتا ہے اور حالت ایسی ہوتی ہے کہ نہ تو مردہ ہی ہوتا ہے اور نہ زندہ ہی کہلا سکتا ہے.پس اسی پر قیاس کر لو کہ جہنم کے درد ناک عذاب میں کیسی بُری حالت ہوگی.مجرم وہ ہے جو اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق قطع کر لے مجرم وہ ہے جو اپنی زندگی میں خدائے تعالیٰ سے اپنا تعلق کاٹ لیوے.اس کو تو حکم تھا کہ وہ خدائے تعالیٰ کے لئے ہو جاتا اور صادقوں کے ساتھ ہو جاتا مگر وہ ہواوہوس کا بندہ بن کر رہا اور شریروں اور دشمنان خدا و رسول سے موافقت کرتا رہا.گویا اس نے اپنے طرزِ عمل سے دکھا دیا کہ خدائے تعالیٰ سے قطع کر لی ہے.یہ ایک عادۃ اللہ ہے کہ انسان جدھر قدم اٹھاتا ہے اس کی مخالف جانب سے وہ دور ہوتا جاتا ہے.
وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الگ ہو کر اگر ہوا و ہوس نفسانی کا بندہ ہوتا ہے تو خدا اس سے دور ہوتا جاتا ہے اور جوں جوں ادھر تعلقات بڑھتے ہیں ادھر کم ہوتے ہیں.یہ مشہور بات ہے کہ دل رابدل رہے است.پس اگر خدائے تعالیٰ سے عملی طور پر بیزاری ظاہر کرتا ہے تو سمجھ لے کہ خدائے تعالیٰ بھی اس سے بیزار ہے اور اگر خدائے تعالیٰ سے محبت کرتا ہے اور پانی کی طرح اس کی طرف جھکتا ہے تو سمجھ لے کہ وہ مہربان ہے.محبت کرنے والے سے زیادہ اللہ تعالیٰ اس کو محبت کرتا ہے.وہ وہ خدا ہے کہ اپنے محبوں پر برکات نازل کرتا ہے اور ان کو محسوس کرا دیتا ہے کہ خدا ان کے ساتھ ہے.یہاں تک کہ ان کے کلام میں ، ان کے لبوں میں برکت رکھ دیتا ہے اور لوگ اس کے کپڑوں اور اس کی ہر بات سے برکت پاتے ہیں.اُمتِ محمدیہ میں اِس کا بیّن ثبوت اِس وقت تک موجود ہے کہ جو خدا کے لئے ہوتا ہے خدا اس کا ہو جاتا ہے.خدا کی طرف سعی کرنے والا کبھی بھی ناکام نہیں رہتا خدائے تعالیٰ اپنی طرف آنے والے کی سعی اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا.یہ ممکن ہے کہ زمیندار اپنا کھیت ضائع کر لے.نوکر موقوف ہو کر نقصان پہنچاوے.امتحان دینے والا کامیاب نہ ہو مگر خدا کی طرف سعی کرنے والا کبھی بھی ناکام نہیں رہتا.اس کا سچا وعدہ ہے کہ اَلَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) خدائے تعالیٰ کی راہوں کی تلاش میں جو جویا ہوا وہ آخر منزل مقصود پر پہنچا.دنیوی امتحانوں کے لئے تیاریاں کرنے والے، راتوں کو دن بنا دینے والے طالب علموں کی محنت اور حالت کو ہم دیکھ کر رحم کھا سکتے ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ جس کا رحم اور فضل بے حد اور بے انت ہے اپنی طرف آنے والے کو ضائع کر دے گا؟ ہرگز نہیں.ہرگز نہیں.اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ (التوبۃ:۱۲۰) اور پھر فرماتا ہے مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ (الزلزال:۸) ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال ہزارہا طالب علم سالہا سال کی محنتوں اور مشقتوں پر پانی پھرتا ہوا دیکھ کر روتے رہ جاتے ہیں اور خود کشیاں کر لیتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ کا فضل عمیم ایسا ہے کہ وہ ذرا سے عمل کو بھی ضائع نہیں کرتا.پھر کس قدر افسوس کا مقام
ہے کہ انسان دنیا میں ظنی اور وہمی باتوں کی طرف تو اس قدر گرویدہ ہو کر محنت کرتا ہے کہ آرام اپنے اوپر گویا حرام کر لیتا ہے اور صرف خشک امید پر کہ شاید کامیاب ہو جاویں ہزارہا رنج اور دکھ اٹھاتا ہے.تاجر نفع کی امید پر لاکھوں روپے لگا دیتا ہے مگر یقین اسے بھی نہیں ہوتا کہ ضرور نفع ہی ہوگا.مگر خدا تعالیٰ کی طرف جانے والے کی (جس کے وعدے یقینی اور حتمی ہیں کہ جس کی طرف قدم اٹھانے والے کی ذرا بھی محنت رائیگاں نہیں جاتی) مَیں اس قدر دوڑ دھوپ اور سرگرمی نہیں پاتا ہوں.یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے؟ وہ کیوں نہیں ڈرتے کہ آخر ایک دن مَرنا ہے.کیا وہ ان ناکامیوں کو دیکھ کر بھی اس تجارت کے فکر میں نہیں لگ سکتے.جہاں خسارہ کا نام و نشان ہی نہیں اور نفع یقینی ہے.زمیندار کس قدر محنت سے کاشتکاری کرتا ہے مگر کون کہہ سکتا ہے کہ نتیجہ ضرور راحت ہی ہوگا.اللہ تعالیٰ کیسا رحیم ہے اور یہ کیسا خزانہ ہے کہ کوڑی بھی جمع ہو سکتی ہے.روپیہ اور اشرفی بھی.نہ چور چکار کا اندیشہ نہ یہ خطرہ ہے کہ دیوالہ نکل جاوے گا.حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی ایک کانٹا راستہ سے ہٹاوے تو اس کا بھی ثواب اس کو دیا جاتا ہے اور پانی نکالتا ہوا اگر ایک ڈول اپنے بھائی کے گھڑے میں ڈال دے تو خدائے تعالیٰ اس کا بھی اجر ضائع نہیں کرتا.پس یاد رکھو کہ وہ راہ جہاں انسان کبھی ناکام نہیں ہو سکتا وہ خدا کی راہ ہے.دنیا کی شاہراہ ایسی ہے جہاں قدم قدم پر ٹھوکریں اور ناکامیوں کی چٹانیں ہیں.وہ لوگ جنہوں نے سلطنتوں تک کو چھوڑ دیا آخر بیوقوف تو نہ تھے.جیسے ابراہیم ادہم، شاہ شجاع، شاہ عبدالعزیز جو مجدد بھی کہلاتے ہیں.حکومت ، سلطنت اور شوکت دنیا کو چھوڑ بیٹھے.اس کی یہی وجہ تو تھی کہ ہر قدم پر ایک ٹھوکر موجود ہے.خدا ایک موتی ہے اس کی معرفت کے بعد انسان دنیاوی اشیاء کو ایسی حقارت اور ذلت سے دیکھتا ہے کہ ان کے دیکھنے کے لئے بھی اسے طبیعت پر ایک جبر اور اکراہ کرنا پڑتا ہے.پس خدائے تعالیٰ کی معرفت چاہو اور اس کی طرف ہی قدم اٹھاؤ کہ کامیابی اسی میں ہے.اخلاقی کرامت اللہ تعالیٰ سے اصلاح چاہنا اور اپنی قوت خرچ کرنا یہی ایمان کا طریق ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو یقین سے اپنا ہاتھ دعا کے لئے اٹھاتا
ہے اللہ تعالیٰ اس کی دعا رد نہیں کرتا ہے.پس خدا سے مانگو اور یقین اور صدق نیت سے مانگو.میری نصیحت پھر یہی ہے کہ اچھے اخلاق ظاہر کرنا ہی اپنی کرامت ظاہر کرنا ہے.اگر کوئی کہے کہ میں کراماتی بننا نہیں چاہتا تو یہ یاد رکھے کہ شیطان اسے دھوکا میں ڈالتا ہے.کرامت سے عُجب اور پندار مراد نہیں ہے.کرامت سے لوگوں کو اسلام کی سچائی اور حقیقت معلوم ہوتی ہے اور ہدایت ہوتی ہے.میں تمہیں پھر کہتا ہوں کہ عُجب اور پندار تو کرامت اخلاقی میں داخل ہی نہیں.پس یہ شیطانی وسوسہ ہے.دیکھو یہ کروڑہا مسلمان جو روئے زمین کے مختلف حصص میں نظر آتے ہیں کیا یہ تلوار کے زور سے، جبر و اکراہ سے ہوئے ہیں؟ نہیں ! یہ بالکل غلط ہے.یہ اسلام کی کراماتی تاثیر ہے جو ان کو کھینچ لائی ہے.کرامتیں انواع و اقسام کی ہوتی ہیں.منجملہ ان کے ایک اخلاقی کرامت بھی ہے جو ہر میدان میں کامیاب ہے.انہوں نے جو مسلمان ہوئے ، صرف راستبازوں کی کرامت ہی دیکھی اور اس کا اثر پڑا.انہوں نے اسلام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھا نہ تلوار کو دیکھا.بڑے بڑے محقق انگریزوں کو یہ بات ماننی پڑی ہے کہ اسلام کی سچائی کی روح ہی ایسی قوی ہے جو غیر قوموں کو اسلام میں آنے پر مجبور کر دیتی ہے.سلسلہ کی عظمت اور عزت کا خیال رکھیں جو شخص اپنے ہمسایہ کو اپنے اخلاق میں تبدیلی دکھاتا ہے کہ پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے.وہ گویا ایک کرامت دکھاتا ہے.اس کا اثر ہمسایہ پر بہت اعلیٰ درجہ کا پڑتا ہے.ہماری جماعت میں اعتراض کرتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ کیا ترقی ہو گئی ہے اور تہمت لگاتے ہیں کہ افترا، غیظ و غضب میں مبتلا ہیں.کیا یہ ان کے لئے باعث ندامت نہیں ہے کہ انسان عمدہ سمجھ کر اس سلسلہ میں آیا تھا جیسا کہ ایک رشید فرزند اپنے باپ کی نیک نامی ظاہر کرتا ہے کیونکہ بیعت کرنے والا فرزند کے حکم میں ہوتا ہے اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو امہات المؤمنین کہا ہے.گویا کہ حضورؐ عامۃ المومنین کے باپ ہیں.جسمانی باپ زمین پر لانے کا موجب ہوتا ہے اور حیات ظاہری کا باعث مگر روحانی باپ آسمان پر لے جاتا اور اس مرکز اصلی کی طرف عود کرتا ہے.کیا آپ پسند
کرتے ہیں کہ کوئی بیٹا اپنے باپ کو بدنام کرے؟ طوائف کے ہاں جاوے اور قمار بازی کرتا پھرے.شراب پیوے یا اور ایسے افعال قبیحہ کا مرتکب ہو جو باپ کی بدنامی کا موجب ہوں.میں جانتا ہوں کوئی آدمی ایسا نہیں ہو سکتا جو اس فعل کو پسند کرے لیکن جب وہ ناخلف بیٹا ایسا کرتا ہے تو پھر زبان خلق بند نہیں ہو سکتی.لوگ اس کے باپ کی طرف نسبت کر کے کہیں گے کہ یہ فلاں شخص کا بیٹا فلاں بَد کام کرتا ہے.پس وہ ناخلف بیٹا خود ہی باپ کی بدنامی کا موجب ہوتا ہے.اسی طرح پر جب کوئی شخص ایک سلسلہ میں شامل ہوتا ہے اور اسی سلسلہ کی عظمت اور عزت کا خیال نہیں رکھتا اور اس کے خلاف کرتا ہے تو وہ عنداللہ ماخوذ ہوتا ہے کیونکہ وہ صرف اپنے آپ ہی کو ہلاکت میں نہیں ڈالتا بلکہ دوسروں کے لئے ایک بُرا نمونہ ہو کر ان کو سعادت اور ہدایت کی راہ سے محروم رکھتا ہے.پس جہاں تک آپ لوگوں کی طاقت ہے خدائے تعالیٰ سے مدد مانگو اور اپنی پوری طاقت اور ہمت سے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرو.جہاں عاجز آجاؤ وہاں صدق اور یقین سے ہاتھ اٹھاؤ کیونکہ خشوع اور خضوع سے اٹھائے ہوئے ہاتھ جو صدق اور یقین کی تحریک سے اٹھتے ہیں واپس نہیں ہوتے.ہم تجربہ سے کہتے ہیں کہ ہماری ہزارہا دعائیں قبول ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں.یہ ایک یقینی بات ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اندر اپنے ابنائے جنس کے لئے ہمدردی کا جوش نہیں پاتا وہ بخیل ہے.اگر میں ایک راہ دیکھوں جس میں بھلائی اور خیر ہے تو میرا فرض ہے کہ میں پکار پکار کر لوگوں کو بتلاؤں.اس امر کی پروا نہیں ہوتی کہ کوئی اس پر عمل کرتا ہے یا نہیں.کس بشنود یا نشنود من گفتگوئے میکنم # اگر ایک شخص بھی زندہ طبیعت کا نکل آوے تو کافی ہے.میں یہ بات کھول کر بیان کرتا ہوں کہ میرے مناسب حال یہ بات نہیں ہے کہ جو کچھ میں آپ لوگوں کو کہتا ہوں میں ثواب کی نیت سے کہتا ہوں.نہیں! میں اپنے نفس میں انتہا درجہ کا جوش اور درد پاتا ہوں گو وہ وجوہ نامعلوم ہیں کہ کیوں یہ جوش ہے مگر اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ یہ جوش ایسا ہے کہ میں رک نہیں سکتا.اس لئے آپ لوگ ان باتوں کو ایسے آدمی کی وصایا سمجھ کر کہ پھر شاید ملنا نصیب نہ ہو اِن پر ایسے کاربند ہوں کہ ایک نمونہ ہو
اور ان آدمیوں کو جو ہم سے دور ہیں اپنے فعل اور قول سے سمجھا دو.اگر یہ بات نہیں ہے اور عمل کی ضرورت نہیں ہے تو پھر مجھے بتلاؤ کہ یہاں آنے سے کیا مطلب ہے.میں مخفی تبدیلی نہیں چاہتا.نمایاں تبدیلی مطلوب ہے تا کہ مخالف شرمندہ ہوں اور لوگوں کے دلوں پر یک طرفہ روشنی پڑے اور وہ نا امید ہو جاویں کہ یہ مخالف ضلالت میں پڑے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بڑے بڑے شریر آکر تائب ہوئے وہ کیوں؟ اس عظیم الشان تبدیلی نے جو صحابہ ؓ میں ہوئی اور ان کے واجب التقلید نمونوں نے ان کو شرمندہ کیا.عکرمہ کا پاک نمونہ عکرمہ کا حال تم نے سنا ہوگا.اُحد کی مصیبت کا بانی مبانی یہی تھا اور اس کا باپ ابوجہل تھا لیکن آخر اسے صحابہ کرام ؓ کے نمونوں نے شرمندہ کر دیا.میرا مذہب یہ ہے کہ خوارق نے ایسا اثر نہیں کیا جیسا کہ صحابہ کرام ؓ کے پاک نمونوں اور تبدیلیوں نے لوگوں کو حیران کیا.لوگ حیران ہو گئے کہ ہمارا چچازاد کہاں سے کہاں پہنچا.آخر انہوں نے اپنے دھوکا کو سمجھا.عکرمہ نے ایک وقت ذات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کیا اور دوسرے وقت لشکر کفّار کو درہم برہم کیا.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ ؓ نے جو پاک نمونے دکھائے ہیں ہم آج فخر کے ساتھ ان کو دلائل اور آیات کے رنگ میں بیان کر سکتے ہیں.چنانچہ عکرمہ ہی کا نمونہ دیکھو کہ کفر کے دنوں میں کفر.عُجب وغیرہ خصائلِ بَد اپنے اندر رکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ بس چلے تو اسلام کو دنیا سے نابود کر دے مگر جب خدائے تعالیٰ کے فضل نے اس کی دستگیری کی اور وہ مشرف بااسلام ہوا تو ایسے اخلاق پیدا ہوئے کہ وہ عُجب اور پندار نام تک کو باقی نہ رہا اور فروتنی اور انکسار پیدا ہوا کہ وہ انکسار حجۃ الاسلام ہو گیا اور صداقت اسلام کے لئے ایک دلیل ٹھہرا.ایک موقع پر کفار سے مقابلہ ہوا.عکرمہ لشکر اسلام کا سپہ سالار تھا.کفار نے بہت سخت مقابلہ کیا یہاں تک کہ لشکر اسلام کی حالت قریب شکست کھانے کے ہو گئی.عکرمہ نے جب دیکھا تو گھوڑے سے اترا.لوگوں نے کہا کہ آپ کیوں اترتے ہیں.شاید اِدھر اُدھر ہونے کا وقت ہو تو گھوڑا مدد دے.تو اس نے کہا.اس وقت مجھے وہ زمانہ یاد آگیا ہے جب میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا
مقابلہ کرتا تھا.میں چاہتا ہوں کہ جان دے کر گناہوں کا کفارہ کروں.اب دیکھیے کہ کہاں سے کہاں تک حالت پہنچی کہ بار بار محامد سے یاد کیا گیا.یہ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی رضا ان لوگوں کے شامل حال ہوتی ہے جو اس کی رضا اپنے اندر جمع کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جابجا ان کو رضی اللہ عنہ کہا ہے.میری نصیحت یہ ہے کہ ہر شخص ان اخلاق کی پابندی کرے.عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ علاوہ ازیں دو حصے اور بھی ہیں جن کو مدنظر رکھنا صادق اخلاص مند کا کام ہونا چاہیے.ان میں سے ایک عقائد صحیحہ کا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا کمال فضل ہے کہ اس نے کامل اور مکمل عقائد صحیحہ کی راہ ہم کو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بدوں مشقت و محنت کے دکھائی ہے.وہ راہ جو آپ کو اس زمانہ میں دکھائی ہے بہت سے عالم ابھی تک اس سے محروم ہیں.پس خدا تعالیٰ کے اس فضل اور نعمت کا شکر کرو اور وہ شکر یہی ہے کہ سچے دل سے ان اعمال صالحہ کو بجا لاؤ جو عقائد صحیحہ کے بعد دوسرے حصہ میں آتے ہیں اور اپنی عملی حالت سے مدد لے کر دعا مانگو کہ وہ ان عقائد صحیحہ پر ثابت قدم رکھے اور اعمال صالحہ کی توفیق بخشے.حصہ عبادات میں صوم ، صلوٰۃ و زکوٰۃ وغیرہ امور شامل ہیں.اب خیال کرو کہ مثلاً نماز ہی ہے.یہ دنیا میں آئی ہے لیکن دنیا سے نہیں آئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ.نماز کے اوقات روحانی حالتوں کی ایک عکسی تصویر ہے اور یہ بھی یاد رکھو کہ یہ جو پانچ وقت نماز کے لئے مقرر ہیں یہ کوئی تحکّم اور جبر کے طور پر نہیں بلکہ اگر غور کرو تو یہ دراصل روحانی حالتوں کی ایک عکسی تصویر ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ (بنی اسـرآءیل:۷۹) یعنی قائم کرو نماز کو دلوک الشمس سے.اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے یہاں قیامِ صلوٰۃ کو دُلُوْکِ الشَّمْسِ سے لیا ہے.دُلُوْک کے معنوں میں گو اختلاف ہے لیکن دوپہر کے ڈھلنے کے وقت کا نام دُلُوْک ہے.اب دُلُوْک سے لے کر پانچ نمازیں رکھ دیں.اس میں حکمت اور سِر کیا ہے؟ قانون قدرت
دکھاتا ہے کہ روحانی تذلّل اور انکسار کے مراتب بھی دُلُوْک ہی سے شروع ہوتے ہیں اور پانچ ہی حالتیں آتی ہیں.پس یہ طبعی نماز بھی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب حزن اور ہم و غم کے آثار شروع ہوتے ہیں.اس وقت جبکہ انسان پر کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے تو کس قدر تذلّل اور انکساری کرتا ہے.اب اس وقت اگر زلزلہ آوے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ طبیعت میں کیسی رقت اور انکساری پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح پر سوچو کہ اگر مثلاً کسی شخص پر نالش ہو تو سمن یا وارنٹ آنے پر اس کو معلوم ہوگا کہ فلاں دفعہ فوجداری یا دیوانی میں نالش ہوئی ہے.اب بعد مطالعہ وارنٹ اس کی حالت میں گویا نصف النہار کے بعد زوال شروع ہوا کیونکہ وارنٹ یا سمن تک تو اسے کچھ معلوم نہ تھا.اب خیال پیدا ہوا کہ خدا جانے ادھر وکیل ہو یا کیا ہو؟ اس قسم کے تردّدات اور تفکّرات سے جو زوال پیدا ہوتا ہے یہ وہی حالت دُلُوْک ہے اور یہ پہلی حالت ہے جو نماز ظہر کے قائم مقام ہے اور اس کی عکسی حالت نماز ظہر ہے.اب دوسری حالت اس پر وہ آتی ہے جبکہ وہ کمرہ عدالت میں کھڑا ہو.فریق مخالف اور عدالت کی طرف سے سوالات جرح ہو رہے ہیں اور وہ ایک عجیب حالت ہوتی ہے.یہ وہ حالت اور وقت ہے جو نماز عصر کا نمونہ ہے کیونکہ عصر گھوٹنے اور نچوڑنے کو کہتے ہیں.جب حالت اور بھی نازک ہو جاتی ہے اور فرد قرارداد جرم لگ جاتی ہے تو یاس اور ناامیدی بڑھتی ہے کیونکہ اب خیال ہوتا ہے کہ سزا مل جاوے گی یہ وہ وقت ہے جو مغرب کی نماز کا عکس ہے.پھر جب حکم سنایا گیا اور کنسٹیبل یا کورٹ انسپکٹر کے حوالہ کیا گیا تو وہ روحانی طور پر نماز عشاء کی عکسی تصویر ہے.یہاں تک کہ نماز کی صبح صادق ظاہر ہوئی اور اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (الانشـراح:۷) کی حالت کا وقت آگیا تو روحانی نماز فجر کا وقت آگیا اور فجر کی نماز اس کی عکسی تصویر ہے.القصہ میں پھر تم کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ تم جو میرے ساتھ ایک سچا تعلق پیدا کرتے ہو اس سے یہی غرض ہے کہ تم اپنے اخلاق میں ، عادات میں ایک نمایاں تبدیلی کرو جو دوسروں کے لئے ہدایت اور سعادت کا موجب ہو.۱۰؎
۱۴ ؍ جنوری ۱۸۹۸ء آخرت پر نظر رکھیں فرمایا.لوگوں کو لازم ہے کہ آخرت پر نظر رکھیں.عذاب سے پہلے ڈرنا چاہیے مرد آخر بیں مبارک بندہ ایست # دیکھو! لوط وغیرہ قوموں کا انجام کیا ہوا.ہر ایک کو لازم ہے کہ دل اگر سخت بھی ہو تو اس کو ملامت کرکے خشوع و خضوع کا سبق دے.ہماری جماعت کے لئے سب سے ضروری ہے کیونکہ ان کو تازہ معرفت ملتی ہے.اگر کوئی دعویٰ تو معرفت کا کرے مگر اس پر چلے نہیں تو یہ لاف و گزاف ہی ہے.اس لئے ہماری جماعت دوسروں کی غفلت سے خود غافل نہ رہے اور ان کی محبت کو سرد دیکھ کر اپنی محبت کو ٹھنڈی نہ کرے.انسان بہت تمنائیں رکھتا ہے.غیب کی قضا و قدر کی کس کو خبر ہے.آرزوؤں کے موافق زندگی کبھی نہیں چلتی ہے.آرزوؤں کا سلسلہ اور ہے اور قضا و قدر کا سلسلہ اور ہے اور یہی سلسلہ سچا ہے.یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے پاس انسان کے سوانح سچے ہیں.اسے کیا معلوم ہے کہ اس میں کیا کیا لکھا ہے اس لئے دل کو جگاجگا کر متوجہ کرنا چاہیے.(فرمایا).افسوس کی بات ہے کہ عام طور پر مصائب کے آنے کی وجہ سے لوگوں کا عُجب و نَخوت دور نہیں ہوا.میں سچ کہتا ہوں کہ یہ دور نہ ہوں گی جب تک لوگوں کی ضد اور اَڑ دور نہ ہوگی.میں دیکھتا ہوں کہ لوگ خدا تعالیٰ سے پوری مصالحت کے لئے طیار نہیں ہیں.قحط کے دوران میں لوگوں نے محسوس نہیں کیا.ابتدا میں مکہ و مدینہ کا فتویٰ بھی ڈرا دیا کرتا تھا.جب کبھی کوئی کہتا کہ مکہ معظمہ سے یہ فتویٰ آیا ہے تو لوگ ڈر جاتے تھے لیکن اب ان مصائب کو دیکھ کر بھی لوگ نہیں ڈرتے.میری رائے ہے جب تک کہ لوگ کامل طور پر رجوع نہ کریں تقدیر نہ بدلے گی.اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (الرّعد:۱۲) ۱۱؎
عدالتوں کا ذکر اور عدالتوں میں گواہوں کا وکلا اور حکّام کے رعب میں آجانے کا کچھ ذکر ہو رہا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا.عدالتوں میں اکثر گواہوں پر حاکموں اور وکیلوں کا ایسا رعب پڑ جاتا ہے کہ وہ انسانوں کے حقوق کو محفوظ نہیں رکھ سکتے اور کچھ نہ کچھ بے جا اور غلط بات منہ سے نکال دیتے ہیں جس سے ظلم پیدا ہوتا ہے.عدالتوں کا رعب بھی ایک شرک ہے.اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ.فرمایا.بعض انگریز مقدمات کے فیصلہ کرنے میں بہت چھان بین کرتے اور غور سے سوچ سوچ کر فیصلہ کرتے ہیں.قدرت کی بات ہے کہ مَیں مرزا صاحب (والد صاحب) کے وقت میں زمینداروں کے ساتھ ایک مقدمہ پر مَیں امرتسر میں کمشنر کی عدالت میں تھا.فیصلہ سے ایک دن پہلے کمشنر زمینداروں کی نہایت رعایت کرتا ہوا اور ان کی شرارتوں کی پروا نہ کر کے عدالت میں کہتا تھا کہ یہ غریب لوگ ہیں تم ان پر ظلم کرتے ہو.اس رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ انگریز ایک چھوٹے سے بچہ کی شکل میں میرے پاس کھڑا ہے اور میں اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہا ہوں.صبح کو جب ہم عدالت میں گئے تو اس کی حالت ایسی بدلی ہوئی تھی کہ گویا وہ پہلا انگریز ہی نہ تھا.اس نے زمینداروں کو بہت ہی ڈانٹا اور مقدمہ ہمارے حق میں فیصلہ کیا اور ہمارا سارا خرچہ بھی ان سے دلایا.فرمایا.حاکم کے لئے دین کا ایک حصہ یہ ہے کہ وہ مقدمات میں اچھی طرح غور کرے تا کہ کسی کا حق تلف نہ ہو جائے.فرمایا.دیکھو جب تک انسان مستقل مزاج اور ٹھنڈی طبیعت کا نہ ہو تو ان زمینی حاکموں کے سامنے کھڑا ہونا مشکل ہوتا ہے تو کیا حال ہوگا اس وقت جب کہ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ کے سامنے کھڑے کیے جاویں گے.فرمایا.تورات کی رو سے جو زنا کا نطفہ ہو وہ ملعون ہوتا ہے اور جو صلیب دیا جائے وہ بھی ملعون ہوتا ہے.تعجب ہے کہ عیسائیوں نے اپنی نجات کے واسطے کفارہ کا مسئلہ گھڑنے کے واسطے یہ تسلیم کر لیا کہ یسوع صلیب پر جا کر ملعون ہوگیا.جب ایک لعنت کو انہوں نے یسوع کے واسطے روا رکھا ہے تو
پھر دوسری لعنت کو بھی کیوں روا نہیں رکھ لیتے تا کہ کفارہ زیادہ پختہ ہو جائے.جب لعنت کا لفظ آگیا تو پھر کیا ایک اور کیا دو مگر قرآن شریف نے ان دونوں لعنتوں کا ردّ کیا ہے اور دونوں کا جواب دیا ہے کہ ان کی پیدائش بھی پاک تھی اور ان کا مرنا عام لوگوں کی طرح تھا صلیب پر نہ تھا.فرمایا.متّقی خدا کی طرف جاتا ہے اور دنیا اس کے پیچھے خود بخود آتی ہے، پر دنیا دار دنیا کی خاطر رنج اور تکلیف اٹھاتا ہے پھر بھی اسے دنیا سے آرام نہیں ملتا.دیکھو! صحابہ نے دنیا کو ترک کیا اور وہ دنیا میں بھی بڑے مالدار ہوئے اور عاقبت کا بھی پھل کھایا.صادق اور کاذب کی شناخت سوال ہوا کہ بعض مخالف بھی الہامات کا دعویٰ کرتے ہیں تو صادق اور کاذب میں کیا شناخت ہوئی؟ فرمایا.یہ بہت آسان ہے وہ ہمارے مقابل میں آکر یہ دعویٰ شائع کریں کہ اگر ہم سچے ہیں تو ہمارا مخالف ہم سے پہلے مَر جائے گا تو ہمیں پختہ یقین خدا تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے کہ اگر ایک دس برس کا بچہ جس کے واسطے زندگی کے تمام سامان موجود ہوں اور کثیر حصہ اس کی عمر کا باقی ہووے یہ دعویٰ کرکے ہمارے بر خلاف کھڑا ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اسے ہم سے پہلے موت دے گا.۱۲؎ ۱۵ ؍ جنوری ۱۸۹۸ء شیعہ مذہب کے عقائد فرمایا.شیعہ مذہب اسلام کا سخت مخالف ہے.اوّل.شیعہ کا اعتقاد ہے کہ جبرئیل وحی لانے میں غلطی کھا گیا ہے.دوم.صحابہ ؓ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے بعد حاصل ہوئے تھے ان کے نزدیک معاذ اللہ مسلمان نہ تھے.سوم.قرآن شریف جو اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب ہے اور جس کی حفاظت کا خود اللہ تعالیٰ وعدہ کر چکا ہے شیعہ کے اعتقاد کے موافق قرآن شریف اصلی نہیں ہے.امام مہدی اصل قرآن غار میں لے جاکر چھپ رہے.چہارم.بارہ اماموں تک ولایت ختم ہو چکی ، باقی قیامت تک آدمی وحشیوں کی
طرح رہے اور خدا کو ان سے محبت نہیں.پنجم.خدا تعالیٰ کے حبیب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ کو گالیاں دینا درود شریف کے پڑھنے سے بھی زیادہ ثواب سمجھتے ہیں.ششم.کسی اکابر اور اہل اللہ کو نیک نہیں سمجھتے.میں نے اپنے استاد سے حضرت سید عبد القادر جیلانیؒ کی نسبت سنا ہے کہ وہ گالیاں دیتے تھے.اصل بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ بد نام یزید ہے.اگر اس کی شراکت سے امام حسینؓ کی شہادت ہوئی تو بُرا کیا لیکن آجکل کے شیعہ بھی مل کر وہ دینی کام نہیں کر سکتے جو اس نے کیا.طعامِ اہلِ کتاب اہلِ کتاب کے کھانا کھانے پر بابو محمد افضل صاحب کے سوال پر جواب دیا کہ تمدن کے طور پر ہندوؤں کی چیز بھی کھا لیتے ہیں.اسی طرح عیسائیوں کا کھانا بھی درست ہے مگر بایں ہمہ یہ خیال ضروری ہے کہ برتن پاک ہوں، کوئی ناپاک چیز نہ ہو.۱۳؎ ۱۵ ؍ جنوری ۱۸۹۸ء کو خواجہ کمال الدین صاحب بی اے، کے ایل ایل بی کے امتحان میں کامیاب ہونے کی خبر آئی.فجر کی نماز کے بعد حضرت اقدس امام ہمام علیہ السلام بیٹھ گئے اور مندرجہ ذیل مختصر سی تقریر فرمائی.دنیوی کامیابیاں اور خوشیاں دائمی نہیں انسان کو ہر قسم کی کامیابی کے موقع پر ایک خوشی ہوتی ہے.قرآن شریف سے تین قسم کی خوشیاں، لہو، لعب، تفاخر معلوم ہوتی ہیں.لہو میں اشیاء خوردنی شامل ہیں اور لعب میں شادی وغیرہ کی خوشیاں اور تفاخر میں مال وغیرہ کی خوشیاں.یہ تین قسم کی خوشیاں ہیں ان سے باہر کوئی خوشی نہیں ہے.مگر یاد رکھو کہ کامیابیاں اور یہ خوشیاں دائمی نہیں ہوتی ہیں بلکہ ان کے ساتھ دل لگاؤ گے تو سخت حرج ہوگا اور رفتہ رفتہ ایک وقت آتا جاتا ہے کہ ان خوشیوں کا زمانہ تلخیوں سے بدلنے لگتا ہے.
دنیا کی کامیابیاں ابتلا سے خالی نہیں ہوتی ہیں.قرآن شریف میں آیا ہے خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ (الملک:۳) یعنی موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ ہم تمہیں آزمائیں.کامیابی اور ناکامی بھی زندگی اور موت کا سوال ہوتا ہے.کامیابی ایک قسم کی زندگی ہوتی ہے.جب کسی کو اپنے کامیاب ہونے کی خبر پہنچتی ہے تو اس میں جان پڑ جاتی ہے اور گویا نئی زندگی ملتی ہے اور اگر ناکامی کی خبر آجائے تو زندہ ہی مر جاتا ہے اور بسا اوقات بہت سے کمزور دل آدمی ہلاک بھی ہو جاتے ہیں.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ عام زندگی اور موت تو ایک آسان امر ہے لیکن جہنمی زندگی اور موت دشوار ترین چیز ہے.سعید آدمی ناکامی کے بعد کامیاب ہو کر اور بھی سعید ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ پر ایمان بڑھ جاتا ہے.اس کو ایک مزہ آتا ہے جب وہ غور کرتا ہے کہ میرا خدا کیسا ہے اور دنیا کی کامیابی خدا شناسی کا ایک بہانا ہو جاتا ہے.ایسے آدمیوں کے لیے یہ دنیوی کامیابیاں حقیقی کامیابی کا (جس کو اسلام کی اصطلاح میں فَلَاح کہتے ہیں) ایک ذریعہ ہو جاتی ہیں.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ سچی خوشحالی، سچی راحت دنیا اور دنیا کی چیزوں میں ہرگز نہیں ہے.حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے تمام شعبے دیکھ کر بھی انسان سچا اور دائمی سرور حاصل نہیں کر سکتا.تم دیکھتے ہوکہ دولتمند زیادہ مال و دولت رکھنے والے ہر وقت خنداں رہتے ہیں مگر ان کی حالت جَرْب یعنی خارش کے مریض کی سی ہوتی ہے جس کو کھجلانے سے راحت ملتی ہے لیکن اس خارش کا آخری نتیجہ کیا ہوتا ہے؟یہی کہ خون نکل آتا ہے.پس ان دنیوی اور عارضی کامیابیوں پر اس قدر خوش مت ہو کہ حقیقی کامیابی سے دور چلے جاؤ بلکہ ان کامیابیوں کو خدا شناسی کا ایک ذریعہ قرار دو.اپنی ہمت اور کوشش پر نازمت کرو اور مت سمجھو کہ یہ کامیابی ہماری کسی قابلیت اور محنت کا نتیجہ ہے بلکہ یہ سوچو کہ اس رحیم خدا نے جو کبھی کسی کی سچی محنت کو ضائع نہیں کرتا ہے ہماری محنت کو بارور کیا ورنہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ صدہا طالب علم آئے دن امتحانوں میں فیل ہوتے ہیں.کیا وہ سب کے سب محنت نہ کرنے والے اور بالکل غبی اور بلید ہی ہوتے ہیں؟ نہیں بلکہ بعض ایسے ذکی اور ہوشیار ہوتے ہیں کہ پاس ہونے والوں میں سے اکثر کے مقابلہ میں ہوشیار ہوتے ہیں.اس لیے واجب اور ضروری ہے کہ ہر کامیابی پر مومن خدا تعالیٰ کے حضور سجدات شکر بجا لائے کہ اس نے محنت کو اکارت تو
نہیں جانے دیا.اس شکر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا تعالیٰ سے محبت بڑھے گی اور ایمان میں ترقی ہوگی اور نہ صرف یہی بلکہ اور بھی کامیابیاں ملیں گی کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میری نعمتوں کا شکر کرو گے تو البتہ میں نعمتوں کو زیادہ کروں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو یادرکھو عذاب سخت میں گرفتار ہوگے.مومن اور کافر کی کامیابی میں فرق اس اصول کو ہمیشہ مدنظر رکھو.مومن کا کام یہ ہے کہ وہ کسی کامیابی پر جو اسے دی جاتی ہے شرمندہ ہوتا ہے اور خدا کی حمد کرتا ہے کہ اس نے اپنا فضل کیا اور اس طرح پر وہ قدم آگے رکھتا ہے اور ہر ابتلا میں ثابت قدم رہ کر انعام پاتا ہے.بظاہر ایک ہندو اور مومن کی کامیابی ایک رنگ میں مشابہ ہوتی ہے لیکن یاد رکھو کہ کافر کی کامیابی ضلالت کی راہ ہے اور مومن کی کامیابی سے اس کے لئے نعمتوں کا دروازہ کھلتا ہے.کافر کی کامیابی اس لئے ضلالت کی طرف لے جاتی ہے کہ وہ خدا کی طرف رجوع نہیں کرتا بلکہ اپنی محنت، دانش اور قابلیت کو خدا بنا لیتا ہے مگر مومن خدا کی طرف رجوع کرکے خدا سے ایک نیا تعارف پیدا کرتا ہے اور اس طرح پر ہر ایک کامیابی کے بعد اس کا خدا سے ایک نیا معاملہ شروع ہو جاتا ہے اور اس میں تبدیلی ہونے لگتی ہے اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا (النّحل:۱۲۹) خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے جو متقی ہوتے ہیں.یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن شریف میں تقویٰ کا لفظ بہت مرتبہ آیا ہے.اس کے معنے پہلے لفظ سے کیے جاتے ہیں.یہاں مَعَ کا لفظ آیا ہے یعنی جو خدا کو مقدم سمجھتا ہے خدا اس کو مقدم رکھتا ہے اور دنیا میں ہر قسم کی ذلتوں سے بچالیتا ہے.میرا ایمان یہی ہے کہ اگر انسان دنیا میں ہر قسم کی ذلت اور سختی سے بچنا چاہے تو اس کے لیے ایک ہی راہ ہے کہ متّقی بن جائے.پھر اس کو کسی چیز کی کمی نہیں.پس مومن کی کامیابیاں اس کو آگے لے جاتی ہیں اور وہ وہیں ہی نہیں ٹھہر جاتا.مبارک وہ ہے جو کامیابی اور خوشی کے وقت تقویٰ سے کام لے اکثر لوگوں کے حالات کتابوں میں لکھے ہیں کہ اوائل میں دنیا سے تعلق رکھتے تھے اور شدید تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے کوئی دعا کی اور وہ دعا قبول ہو گئی.اس کے بعد ان کی حالت ہی بدل گئی، اس لیے اپنی دعاؤں کی
قبولیت اور کامیابیوں پر نازاں نہ ہو بلکہ خدا کے فضل اور عنایت کی قدر کرو.قاعدہ ہے کہ کامیابی پر ہمت اور حوصلہ میں ایک نئی زندگی آجاتی ہے اس زندگی سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ترقی کرنی چاہیے کیونکہ سب سے اعلیٰ درجہ کی بات جو کام آنے والی ہے وہ یہی معرفت الٰہی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم پر غور کرنے سے پیدا ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل کو کوئی روک نہیں سکتا ہے.بہت تنگ دستی بھی انسان کو مصیبت میں ڈال دیتی ہے.اس لیے حدیث میں آیا ہے اَلْفَقْرُسَوَادُ الْوَجْہِ.ایسے لوگ خود میں نے دیکھے ہیں جو اپنی تنگ دستیوں کی وجہ سے دہریہ ہوگئے ہیں مگر مومن کسی تنگی پر بھی خدا سے بدگمان نہیں ہوتا اور اس کو اپنی غلطیوں کا نتیجہ قرار دے کر اس سے رحم اور فضل کی درخواست کرتا ہے اور جب وہ زمانہ گزر جاتا ہے اور اس کی دعائیں باروَر ہوتی ہیں تو وہ اس عاجزی کے زمانہ کو بھولتا نہیں بلکہ اسے یاد رکھتا ہے.غرض اگر اس پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کام پڑنا ہے تو تقویٰ کا طریق اختیار کرو.مبارک وہ ہے جو کامیابی اور خوشی کے وقت تقویٰ اختیار کرلے اور بد قسمت وہ ہے جو ٹھوکر کھا کر اس کی طرف نہ جھکے.۱۴؎ تقریر حضرت اقدس علیہ السلام ۱۸؍جنوری ۱۸۹۸ء تقدیر تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے.ایک کا نام مُعَلّق ہے اور دوسری کو مُبْرَم کہتے ہیں.اگر کوئی تقدیر معلق ہو تو دعا اور صدقات اُس کو ٹلادیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس تقدیر کو بدل دیتا ہے.اور مبرم ہونے کی صورت میں وہ صدقات اور دعا اس تقدیر کے متعلق کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے.ہاں وہ عبث اور فضول بھی نہیں رہتے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف
ہے.وہ اس دعا اور صدقات کا اثر اور نتیجہ کسی دوسرے پیرائے میں اُس کو پہنچا دیتا ہے.بعض صورتوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی تقدیر میں ایک وقت تک توقّف اور تاخیر ڈال دیتا ہے.قضائے معلّق اور مُبرم کا ماخذ اور پتا قرآن کریم سے ملتا ہے.یہ الفاظ گو نہیں.مثلاً قرآن کریم میں فرمایا ہے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن:۶۱) ترجمہ.’’دعا مانگو مَیں قبول کروں گا.‘‘ اب یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا قبول ہوسکتی ہے اور دعا سے عذاب ٹل جاتا ہے اور ہزار ہا کیا کُل کام دعا سے نکلتے ہیں.یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کُل چیزوں پر قادرانہ تصرف ہے.وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.اس کے پوشیدہ تصرفات کی لوگوں کو خواہ خبر ہو یا نہ ہو مگر صدہا تجربہ کاروں کے وسیع تجربے اور ہزار ہا دردمندوں کی دعا کے صریح نتیجے بتلا رہے ہیں کہ اس کا ایک پوشیدہ اور مخفی تصرف ہے.وہ جو چاہتا ہے محو کرتا ہے اور جو چاہتا ہے اثبات کرتا ہے.ہمارے لئے یہ امر ضروری نہیں کہ ہم اس کی تہہ تک پہنچنے اور اس کی کُنہ اور کیفیت معلوم کرنے کی کوشش کریں جبکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ایک شے ہونے والی ہے.اس لئے ہم کو جھگڑے اور مباحثے میں پڑنے کی ضرورت نہیں.خدا تعالیٰ نے انسان کے قضاوقدر کو مشروط بھی کر رکھا ہے جو توبہ، خشوع، خضوع سے ٹل سکتے ہیں.جب کسی قسم کی تکلیف اور مصیبت انسان کو پہنچتی ہے تو وہ فطرتاً اور طبعاً اعمالِ حسنہ کی طرف رُجوع کرتا ہے.اپنے اندر ایک قلق اور کرب محسوس کرتا ہے جو اسے بیدار کرتا اور نیکیوں کی طرف کھینچے لئے جاتا ہے اور گناہ سے ہٹاتا ہے.جس طرح پر ہم ادویات کے اثر کو تجربے کے ذریعہ سے پالیتے ہیں اسی طرح پر ایک مضطربُ الحال انسان جب خدا تعالیٰ کے آستانہ پر نہایت تذلّل اور نیستی کے ساتھ گرتا ہے اور رَبِّیْ رَبِّیْ کہہ کر اس کو پکارتا اور دعائیں مانگتا ہے تو وہ رؤیائے صالحہ یا الہام صحیحہ کے ذریعہ سے ایک بشارت اور تسلّی پالیتا ہے.حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب صبر اور صدق سے دعا انتہا کو پہنچے گی تو وہ قبول ہوجاتی ہے.دعا، صدقہ اور خیرات سے عذاب کا ٹلنا ایسی ثابت شدہ صداقت ہے جس پر ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کا اتفاق ہے اور کروڑہا صُلحاء اور اَتقیاء اور اولیاء اللہ کے ذاتی تجربے اس امر پر گواہ ہیں.
عبادات میں لذّت اور سُرور رکھا گیا ہے نماز کیا ہے؟ یہ ایک خاص دعا ہے مگر لوگ اس کو بادشاہوں کا ٹیکس سمجھتے ہیں.نادان اتنا نہیں جانتے کہ بھلا خدا تعالیٰ کو ان باتوں کی کیا حاجت ہے؟ اس کے غناءِ ذاتی کو اس بات کی کیا حاجت ہے کہ انسان دُعا، تسبیح اور تہلیل میں مصروف ہو بلکہ اس میں انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے کہ وہ اس طریق پر اپنے مطلب کو پہنچ جاتا ہے.مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ آج کل عبادت اور تقویٰ اور دینداری سے محبت نہیں ہے.اس کی وجہ ایک عام زہریلا اثر رسم کا ہے.اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت سرد ہورہی ہے اور عبادت میں جس قسم کا مزا آنا چاہیے وہ مزا نہیں آتا.دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس میں لذّت اور ایک خاص حظّ اللہ تعالیٰ نے رکھا نہ ہو.جس طرح پر ایک مریض ایک عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ چیز کا مزہ نہیں اُٹھا سکتا اور وہ اُسے تلخ یا بالکل پھیکا سمجھتا ہے اسی طرح وہ لوگ جو عبادت الٰہی میں حظّ اور لذّت نہیں پاتے اُن کو اپنی بیماری کا فکر کرنا چاہیے کیونکہ جیسا میں نے ابھی کہا ہے دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں خدا تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی لذت نہ رکھی ہو.اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس عبادت میں اُس کے لئے لذّت اور سُرور نہ ہو.لذّت اور سُرور تو ہے مگر اُس سے حظّ اٹھانے والا بھی تو ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذّاریات :۵۷) اب انسان جب کہ عبادت ہی کے لئے پیدا ہوا ہے ضروری ہے کہ عبادت میں لذّت اور سُرور بھی درجۂ غایت کا رکھا ہو.اس بات کو ہم اپنے روز مرّہ کے مشاہدہ اور تجربے سے خوب سمجھ سکتے ہیں.مثلاً دیکھو اناج اور تمام خوردنی اور نوشیدنی اشیاء انسان کے لئے پیدا کئے ہیں تو کیا اُن سے وہ ایک لذّت اور حظّ نہیں پاتا ہے؟ کیا اس ذائقہ، مزے اور احساس کے لئے اُس کے منہ میں زبان موجود نہیں.کیا وہ خوبصورت اشیاء دیکھ کر نباتات ہوں یا جمادات.حیوانات ہوں یا انسان حظّ نہیں پاتا؟ کیا دل خوش کُن اور سُریلی آوازوں سے اس کے کان محظوظ نہیں ہوتے؟ پھر کیا کوئی دلیل اور بھی اس امر کے اثبات کے لئے مطلوب ہے کہ عبادت میں لذّت نہ ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے عورت اور مرد کو جوڑا پیدا کیا اور مرد کو رغبت دی ہے.اب اس میں زبردستی نہیں
کی بلکہ ایک لذت بھی دکھلائی ہے.اگر محض توالد وتناسل ہی مقصود بالذّات ہوتا تو مطلب پورا نہ ہو سکتا.عورت اور مرد کی برہنگی کی حالت میں ان کی غیرت قبول نہ کرتی کہ وہ ایک دُوسرے کے ساتھ تعلق پیدا کریں مگر اس میں اُن کے لئے ایک حظّ ہے اور ایک لذّت ہے.یہ حظّ اور لذّت اس درجہ تک پہنچی ہے کہ بعض کوتاہ اندیش انسان اولاد کی بھی پروا اور خیال نہیں کرتے بلکہ ان کو صرف حظّ ہی سے کام اور غرض ہے.خدا تعالیٰ کی علّتِ غائی بندوں کا پیدا کرنا تھا اور اس سبب کے لئے ایک تعلق عورت اور مرد میں قائم کیا اور ضمناً اس میں ایک حظّ رکھ دیا جو اکثر نادانوں کے لئے مقصود بالذّات ہوگیا ہے.اسی طرح سے خوب سمجھ لو کہ عبادت بھی کوئی بوجھ اور ٹیکس نہیں.اس میں بھی ایک لذّت اور سُرور ہے اور یہ لذت اور سُرور دنیا کی تمام لذّتوں اور تمام حظوظِ نفس سے بالاتر اور بالاتر ہے.جیسے عورت اور مرد کے باہمی تعلقات میں ایک لذّت ہے اور اس سے وہی بہرہ مند ہوسکتا ہے جو مرد اپنے قویٰ صحیحہ رکھتا ہے.ایک نامرد اور مخنث وہ حظّ نہیں پاسکتا اور جیسے ایک مریض کسی عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ غذا کی لذّت سے محروم ہے اسی طرح پر ہاں ٹھیک ایسا ہی وہ کم بخت انسان ہے جو عبادتِ الٰہی سے لذّت نہیں پاسکتا.عبودیّت اور ربوبیّت کے رشتہ کی حقیقت عورت اور مرد کا جوڑا تو باطل اور عارضی جوڑا ہے.مَیں کہتا ہوں حقیقی ابدی اور لذّت مجسّم جو جوڑ ہے وہ انسان اور خدا تعالیٰ کا ہے.مجھے سخت اضطراب ہوتا اور کبھی کبھی یہ رنج میری جان کو کھانے لگتا ہے کہ ایک دن اگر کسی کو روٹی کھانے کا مزا نہ آئے تو طبیب کے پاس جاتا اور کیسی کیسی منتیں اور خوشامدیں کرتا، روپیہ خرچ کرتا، دُکھ اُٹھاتا ہے کہ وہ مزا حاصل ہو.وہ نامراد جو اپنی بیوی سے لذّت حاصل نہیں کرسکتا بعض اوقات گھبرا گھبرا کر خودکشی کے ارادے تک پہنچ جاتا اور اکثر موتیں اس قسم کی ہوجاتی ہیں.مگر آہ! وہ مریضِ دل، وہ نامراد کیوں کوشش نہیں کرتا جس کو عبادت میں لذّت نہیں آتی؟ اس کی جان کیوں غم سے نڈھال نہیں ہوجاتی؟ دنیا اور اس کی خوشیوں کے لئے کیا کچھ کرتا ہے مگر ابدی اور حقیقی راحتوں کی وہ پیاس اور تڑپ نہیں پاتا.کس قدر بے نصیب ہے! کیسا ہی محروم ہے! عارضی اور فانی لذّتوں کے علاج تلاش کرتا ہے اور پالیتا ہے.
کیا ہوسکتا ہے کہ مُستقل اور ابدی لذت کے علاج نہ ہوں؟ ہیں اور ضرور ہیں مگر تلاشِ حق میں مستقل اور پویہ قدم درکار ہیں.قرآن کریم میں ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے صالحین کی مثال عورتوں سے دی ہے.اس میں بھی سِرّ اور بھید ہے.ایمان لانے والوں کو مریم اور آسیہ سے مثال دی ہے یعنی خدا تعالیٰ مشرکین میں سے مومنوں کو پیدا کرتا ہے.بہرحال عورتوں سے مثال دینے میں دراصل ایک لطیف راز کا اظہار ہے یعنی جس طرح عورت اور مرد کا باہم تعلق ہوتا ہے اسی طرح پر عبودیت اور ربوبیت کا رشتہ ہے.اگر عورت اور مرد کی باہم موافقت ہو اور ایک دوسرے پر فریفتہ ہو تو وہ جوڑا ایک مبارک اور مفید ہوتا ہے ورنہ نظام خانگی بگڑ جاتا ہے اور مقصود بالذّات حاصل نہیں ہوتا ہے.مرد اور جگہ خراب ہوکر صدہا قسم کی بیماریاں لے آتے ہیں.آتشک سے مجذوم ہوکر دنیا میں ہی محروم ہوجاتے ہیں.اور اگر اولاد ہو بھی جاوے تو کئی پُشت تک یہ سلسلہ برابر چلا جاتا ہے اور ادھر عورت بے حیائی کرتی پھرتی ہے اور عزّت وآبُرو کو ڈبو کر بھی سچی راحت حاصل نہیں کرسکتے.غرض اس جوڑے سے الگ ہو کر کس قدر بدنتائج اور فتنے پیدا ہوتے ہیں.اسی طرح پر انسان روحانی جوڑے سے الگ ہوکر مجذوم اور مخذول ہوجاتا ہے.دنیاوی جوڑے سے زیادہ رنج و مصائب کا نشانہ بنتا ہے.جیسا کہ عورت اور مرد کے جوڑے سے ایک قسم کی بقا کے لئے حظّ ہے.اسی طرح پر عبودیت اور ربوبیت کے جوڑے میں ایک ابدی بقا کے لئے حظّ موجود ہے.صوفی کہتے ہیں کہ جس کو یہ حظّ نصیب ہو جاوے وہ دنیا اور مافیہا کے تمام حظوظ سے بڑھ کر ترجیح رکھتا ہے.اگر ساری عمر میں ایک بار بھی اس کو معلوم ہوجاوے تو اس میں ہی فنا ہوجاوے لیکن مشکل تو یہ ہے کہ دنیا میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اس راز کو نہیں سمجھا اور اُن کی نمازیں صرف ٹکریں ہیں اور اوپرے دل کے ساتھ ایک قسم کی قبض اور تنگی سے صرف نشست و برخاست کے طور پر ہوتی ہیں.مجھے اور بھی افسوس ہوتا ہے جب مَیں یہ دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ صرف اس لئے نمازیں پڑھتے ہیں کہ وہ دنیا میں معتبر اور قابلِ عزت سمجھے جاویں اور پھر اس نماز سے یہ بات ان کو حاصل ہوجاتی ہے یعنی وہ نمازی اور پرہیزگار کہلاتے ہیں.پھر اُن کو کیوں یہ کھاجانے والا غم نہیں لگتا کہ جب جھوٹ موٹ اور
بے دلی کی نماز سے ان کو یہ مرتبہ حاصل ہوسکتا ہے تو کیوں ایک سچے عابد بننے سے ان کو عزت نہ ملے گی اور کیسی عزت ملے گی؟ نماز میں لذّت نہ آنے کی وجہ اور اُس کا علاج غرض میں دیکھتا ہوں کہ لوگ نمازوں میں غافل اور سُست اس لئے ہوتے ہیں کہ ان کو اس لذت اور سرور سے اطلاع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے نماز کے اندر رکھا ہے اور بڑی بھاری وجہ اس کی یہی ہے.پھر شہروں اور گاؤں میں تو اور بھی سُستی اور غفلت ہوتی ہے.سو پچاسواں حصہ بھی تو پوری مُستعدی اور سچی محبت سے اپنے مولا حقیقی کے حضور سر نہیں جھکاتا.پھر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیوں اُن کو اس لذّت کی اطلاع نہیں اور نہ کبھی انہوں نے اس مزے کو چکھا.اَور مذاہب میں ایسے احکام نہیں ہیں.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے کاموں میں مبتلا ہوتے ہیں اور مؤذّن اذان دے دیتا ہے.پھر وہ سننا بھی نہیں چاہتے گویا اُن کے دل دُکھتے ہیں.یہ لوگ بہت ہی قابلِ رحم ہیں.بعض لوگ یہاں بھی ایسے ہیں کہ ان کی دُکانیں دیکھو تو مسجدوں کے نیچے ہیں مگر کبھی جاکر کھڑے بھی تو نہیں ہوتے.پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دعا مانگنی چاہیے کہ جس طرح پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذّتیں عطا کی ہیں.نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزہ چکھادے.کھایا ہوا یاد رہتا ہے.دیکھو! اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سُرور کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ اُسے خوب یاد رہتا ہے اور پھر اگر کسی بدشکل اور مکروہ ہیئت کو دیکھتا ہے تو اس کی ساری حالت بہ اعتبار اس کے مجسّم ہو کر سامنے آجاتی ہے.ہاں اگر کوئی تعلق نہ ہو تو کچھ یاد نہیں رہتا.اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نماز ایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اُٹھ کر سردی میں وضو کرکے خوابِ راحت چھوڑ کر اور کئی قسم کی آسائشوں کو کھو کر پڑھنی پڑتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ اسے بیزاری ہے وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا.اس لذت اور راحت سے جو نماز میں ہے اس کو اطلاع نہیں ہے پھر نماز میں لذّت کیونکر حاصل ہو؟ مَیں دیکھتا ہوں کہ ایک شرابی اور نشہ باز انسان کو جب سُرور نہیں آتا تو وہ پَے درپے پیالے پیتا جاتا ہے یہاں تک کہ اُس کو ایک قسم کا
نشہ آجاتا ہے.دانشمند اور بزرگ انسان اس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور وہ یہ کہ نماز پر دوام کرے اور پڑھتا جاوے یہاں تک کہ اُس کو سرور آجاوے اور جیسے شرابی کے ذہن میں ایک لذّت ہوتی ہے جس کا حاصل کرنا اس کا مقصود بالذّات ہوتا ہے اسی طرح سے ذہن میں اور ساری طاقتوں کا رُجحان نماز میں اُسی سُرور کا حاصل کرنا ہو اور پھر ایک خلوص اور جوش کے ساتھ کم از کم اس نشہ باز کے اضطراب اور قلق و کرب کی مانند ہی ایک دعا پیدا ہو کہ وہ لذت حاصل ہو تو مَیں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ یقیناً یقیناً وہ لذت حاصل ہوجاوے گی.پھر نماز پڑھتے وقت اُن مفاد کا حاصل کرنا بھی ملحوظ ہو جو اس سے ہوتے ہیں اور احسان پیشِ نظر رہے اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ (ھود:۱۱۵) نیکیاں بدیوں کو زائل کردیتی ہیں.پس ان حسنات کو اور لذات کو دل میں رکھ کر دعا کرے کہ وہ نماز جو کہ صدیقوں اور محسنوں کی ہے، وہ نصیب کرے.یہ جو فرمایا ہے اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ یعنی نیکیاں یا نماز بدیوں کو دُور کرتی ہے یا دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں مگر نہ روح اور نہ راستی کے ساتھ.وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر وہ ٹکریں مارتے ہیں.اُن کی رُوح مُردہ ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کا نام حسنات نہیں رکھا اور یہاں جو حسنات کا لفظ رکھا الصلوٰۃ کا لفظ نہیں رکھا باوجودیکہ معنے وہی ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ تا نماز کی خوبی اور حسن و جمال کی طرف اشارہ کرے کہ وہ نماز بدیوں کو دُور کرتی ہے جو اپنے اندر ایک سچائی کی روح رکھتی ہے اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے وہ نماز یقیناً یقیناً برائیوں کو دور کرتی ہے.نماز نشست و برخاست کا نام نہیں ہے.نماز کا مغز اور رُوح وہ دعا ہے جو ایک لذّت اور سُرور اپنے اندر رکھتی ہے.ارکانِ نماز کی حقیقت ارکانِ نماز دراصل روحانی نشست و برخاست کے دو حصّے ہیں.انسان کو خدا تعالیٰ کے رُوبرو کھڑا ہونا پڑتا ہے اور قیام بھی آداب خدمت گاراں میں سے ہے.رکوع جو دوسرا حصہ ہے بتلاتا ہے کہ گویا تیاری ہے کہ وہ تعمیل حکم کو
کس قدر گردن جھکاتا ہے اور سجدہ کمالِ ادب اور کمالِ تذلل اور نیستی کو جو عبادت کا مقصود ہے ظاہر کرتا ہے.یہ آداب اور طُرق ہیں جو خدا تعالیٰ نے بطور یادداشت کے مقرر کردیئے ہیں اور جسم کو باطنی طریق سے حصہ دینے کی خاطر ان کو مقرر کیا ہے.علاوہ ازیں باطنی طریق کے اثبات کی خاطر ایک ظاہری طریق بھی رکھ دیا ہے.اب اگر ظاہری طریق میں (جو اندرونی اور باطنی طریق کا ایک عکس ہے) صرف نقال کی طرح نقلیں اتاری جاویں اور اسے ایک بارِگراں سمجھ کر اُتار پھینکنے کی کوشش کی جاوے تو تم ہی بتلاؤ اس میں کیا لذّت اور حظّ آسکتا ہے؟ اور جب تک لذت اور سُرور نہ آئے اُس کی حقیقت کیونکر متحقق ہوگی اور یہ اُس وقت ہوگا جب کہ روح بھی ہمہ نیستی اور تذلّل تام ہوکر آستانہءِ اُلُوہیت پر گرے اور جو زبان بولتی ہے رُوح بھی بولے.اُس وقت ایک سُرور اور نور اور تسکین حاصل ہوجاتی ہے.مَیں اس کو اور کھول کر لکھنا چاہتا ہوں کہ انسان جس قدر مراتب طے کرکے انسان ہوتا ہے.یعنی کہاں نطفہ بلکہ اس سے بھی پہلے نطفہ کے اجزاء یعنی مختلف قسم کی اغذیہ اور اُن کی ساخت اور بناوٹ.پھر نُطفہ کے بعد مختلف مدارج کے بعد بچہ پھر جوان، بُوڑھا.غرض ان تمام عالموں میں جو اُس پر مختلف اوقات میں گزرے ہیں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا معترف ہو اور وہ نقشہ ہر آن اس کے ذہن میں کھنچا رہے تو بھی وہ اس قابل ہوسکتا ہے کہ ربوبیت کے مدِّ مقابل میں اپنی عبودیت کو ڈال دے.غرض مدعا یہ ہے کہ نماز میں لذت اور سُرور بھی عبودیت اور ربوبیت کے ایک تعلق سے پیدا ہوتا ہے.جب تک اپنے آپ کو عدمِ محض یا مشابہ بالعدم قرار دے کر جو ربوبیت کا ذاتی تقاضا ہے نہ ڈال دے اُس کا فیضان اور پَرتو اس پر نہیں پڑتا اور اگر ایسا ہو تو پھر اعلیٰ درجہ کی لذت حاصل ہوتی ہے.جس سے بڑھ کر کوئی حظ نہیں ہے.سچی نماز اس مقام پر انسان کی روح جب ہمہ نیستی ہوجاتی ہے تو وہ خدا کی طرف ایک چشمہ کی طرح بہتی ہے اور ماسوی اللہ سے اُسے انقطاعِ تام ہوجاتا ہے.اس وقت خدائے تعالیٰ کی محبت اس پر گرتی ہے.اس اتصال کے وقت ان دو جوشوں سے جو اُوپر کی طرف سے ربوبیت کا جوش اور نیچے کی طرف سے عبودیت کا جوش ہوتا ہے ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کا نام
صلوٰۃ ہے.پس یہی وہ صلوٰۃ ہے جو سیئات کو بھسم کرجاتی ہے اور اپنی جگہ ایک نور اور چمک چھوڑ دیتی ہے.جو سالک کو راستہ کے خطرات اور مشکلات کے وقت ایک منور شمع کا کام دیتی ہے اور ہر قسم کے خس و خاشاک اور ٹھوکر کے پتھروں اور خاروخس سے جو اس کی راہ میں ہوتی ہیں، آگاہ کرکے بچاتی ہے اور یہی وہ حالت ہے جب کہ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ (العنکبوت:۴۶) کا اطلاق اس پر ہوتا ہے کیونکہ اس کے ہاتھ میں نہیں، نہیں اُس کے شمع دانِ دل میں ایک روشن چراغ رکھا ہوا ہوتا ہے اور یہ درجہ کامل تذلّل، کامل نیستی اور فروتنی اور پوری اطاعت سے حاصل ہوتا ہے.پھر گناہ کا خیال اُسے آکیوں کر سکتا ہے اور انکار اس میں پیدا ہی نہیں ہو سکتا.فحشاء کی طرف اس کی نظر اُٹھ ہی نہیں سکتی.غرض اسے ایسی لذت، ایسا سُرور حاصل ہوتا ہے مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ اُسے کیوں کر بیان کروں.غیراللہ کی طرف رجوع پھر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ نماز جو اپنے اصلی معنوں میں نماز ہے دعا سے حاصل ہوتی ہے.غیراللہ سے سوال کرنا مومنانہ غیرت کے صریح اور سخت مخالف ہے کیونکہ یہ مرتبہ دعا کا اللہ ہی کے لئے ہے.جب تک انسان پورے طور پر خفیف ہوکر اللہ تعالیٰ ہی سے سوال نہ کرے اور اُسی سے نہ مانگے سچ سمجھو کہ حقیقی طور پر وہ سچا مسلمان اور سچا مومن کہلانے کا مستحق نہیں.اسلام کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اس کی تمام طاقتیں اندرونی ہوں یا بیرونی، سب کی سب اللہ تعالیٰ ہی کے آستانہ پر گری ہوئی ہوں.جس طرح پر ایک بڑا انجن بہت سے کَلوں کو چلاتا ہے پس اسی طور پر جب تک انسان اپنے ہر کام اور ہر حرکت وسکون کو اُسی انجن کی طاقتِ عظمیٰ کے ماتحت نہ کر لیوے وہ کیوں کر اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا قائل ہوسکتا ہے اور اپنے آپ کو اِنِّيْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ (الانعام:۸۰) کہتے وقت واقعی حنیف کہہ سکتا ہے؟ جیسے مُنہ سے کہتا ہے ویسے ہی ادھر کو متوجہ ہو تو لاریب وہ مسلم ہے.وہ مومن اور حنیف ہے لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا غیر اللہ سے سوال کرتا ہے اور ادھر بھی جھکتا ہے وہ یاد رکھے کہ بڑا ہی بدقسمت اور محروم ہے کہ اُس پر وہ وقت آجانے والا ہے کہ وہ زبانی اور نمائشی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھک سکے.
ترکِ نماز کی عادت اور کسل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کیونکہ جب انسان غیر اللہ کی طرف جُھکتا ہے تو رُوح اور دل کی طاقتیں اس درخت کی طرح (جس کی شاخیں ابتداءً ایک طرف کردی جاویں اور اُس طرف جھک کر پرورش پالیں) ادھر ہی جھکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک سختی اور تشدد اس کے دل میں پیدا ہو کر اُسے منجمد اور پتھر بنا دیتا ہے جیسے وہ شاخیں.پھر دوسری طرف مُڑ نہیں سکتا.اسی طرح پر وہ دل اور روح دن بدن خدا تعالیٰ سے دُور ہوتی جاتی ہے.پس یہ بڑی خطرناک اور دل کو کپکپا دینے والی بات ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دُوسرے سے سوال کرے.اسی لئے نماز کا التزام اور پابندی بڑی ضروری چیز ہے تاکہ اوّلاً وہ ایک عادتِ راسخہ کی طرح قائم ہو اور رجوع الی اللہ کا خیال ہو پھر رفتہ رفتہ وہ وقت خود آجاتا ہے جب کہ انقطاعِ کلی کی حالت میں انسان ایک نور اور ایک لذّت کا وارث ہوجاتا ہے.مَیں اس امر کو پھر تاکید سے کہتا ہوں.افسوس ہے کہ مجھے وہ لفظ نہیں ملے جس میں غیر اللہ کی طرف رجوع کرنے کی برائیاں بیان کرسکوں.لوگوں کے پاس جاکر منّت وخوشامد کرتے ہیں.یہ بات خدا تعالیٰ کی غیرت کو جوش میں لاتی ہے کیونکہ یہ تو لوگوں کی نماز ہے پس وہ اس سے ہٹتا اور اُسے دُور پھینک دیتا ہے.میں موٹے الفاظ میں اس کو بیان کرتا ہوں گو یہ امر اس طرح پر نہیں ہے مگر سمجھ میں خوب آسکتا ہے کہ جیسے ایک مردِ غیّورکی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ وہ اپنی بیوی کو کسی غیر کے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہوئے دیکھ سکے اور جس طرح پر وہ مرد ایسی حالت میں اس نابکار عورت کو واجب القتل سمجھتا بلکہ بسا اوقات ایسی وارداتیں ہوجاتی ہیں.ایسا ہی جوش اور غیرت الوہیت کا ہے.عبودیت اور دعا خاص اسی ذات کے مدِ مقابل ہیں.وہ پسند نہیں کرسکتا کہ کسی اور کو معبود قرار دیا جاوے یا پکارا جاوے.پس خوب یاد رکھو! اور پھر یاد رکھو! کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے.نماز اور توحید کچھ ہی کہو کیونکہ توحید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے اس وقت بے برکت اور بے سود ہوتی ہے جب اُس میں نیستی اور تذلّل کی رُوح اور حنیف دل نہ ہو.رعایتِ اسباب دعا کا شعبہ ہے سُنو! وہ دُعا جس کے لئے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن:۶۱) فرمایا ہے اس کے لئے یہی سچی روح
مطلوب ہے.اگر اس تضرع اور خشوع میں حقیقت کی رُوح نہیں تو وہ ٹیں ٹیں سے کم نہیں ہے.پھر کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسباب کی رعایت ضروری نہیں ہے؟ یہ ایک غلط فہمی ہے.شریعت نے اسباب کو منع نہیں کیا ہے اور سچ پوچھو تو کیا دُعا اسباب نہیں؟ یا اسباب دعا نہیں؟ تلاشِ اسباب بجائے خود ایک دعا ہے اور دعا بجائے خود عظیم الشان اسباب کا چشمہ.انسان کی ظاہری بناوٹ اس کے دو ہاتھ دو پاؤں کی ساخت ایک دوسرے کی امداد کا ایک قدرتی رہنما ہے.جب یہ نظارہ خود انسان میں موجود ہے پھر کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ وہ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى (المائدۃ:۳) کے معنے سمجھنے میں مشکلات کو دیکھے.ہاں! مَیں کہتا ہوں کہ تلاشِ اسباب بھی بذریعہ دعا کرو!!! امداد باہمی.میں نہیں سمجھتا کہ جب میں تمہیں تمہارے جسم کے اندر اللہ تعالیٰ کا ایک قائم کردہ سلسلہ اور کامل رہنما سلسلہ دکھاتا ہوں، تم اس سے انکار کرو.اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اور بھی صاف کرنے اور وضاحت سے دنیا پر کھول دینے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا ایک سلسلہ دنیا میں قائم کیا.اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا اور قادر ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی قسم کی امداد کی ضرورت ان رسولوں کو باقی نہ رہنے دے.مگر پھر بھی ایک وقت اُن پر آتا ہے کہ وہ مَنْ اَنْصَارِيْۤ اِلَى اللّٰهِ (الصّف:۱۵) کہنے پر مجبور ہوتے ہیں.کیا وہ ایک ٹکڑ گدا فقیر کی طرح بولتے ہیں؟ نہیں.مَنْ اَنْصَارِيْۤ اِلَى اللّٰهِ کہنے کی بھی ایک شان ہوتی ہے.وہ دنیا کو رعایت اسباب سکھانا چاہتے ہیں جو دعا کا ایک شعبہ ہے.ورنہ اللہ تعالیٰ پر اُن کو کامل ایمان، اس کے وعدوں پر پورا یقین ہوتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا (المؤمن:۵۲) ایک یقینی اور حتمی وعدہ ہے.مَیں کہتا ہوں کہ بھلا اگر خدا کسی کے دل میں مدد کا خیال نہ ڈالے تو کوئی کیوں کر مدد کرسکتا ہے.مامور من اللہ کی طلب امداد کا سِرّ اصل بات یہی ہے کہ حقیقی مُعاون و ناصر وہی پاک ذات ہے، جس کی شان نِعْمَ الْمَوْلٰى وَ نِعْمَ النَّصِيْرُ وَ نِعْمَ الْوَكِيْلُ.دنیا اور دنیا کی مددیں اُن لوگوں کے سامنے کَالْمَیّت ہوتی ہیں اور مردہ کیڑے
کے برابر بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں لیکن دنیا کو دعا کا ایک موٹا طریق بتلانے کے لئے وہ یہ راہ بھی اختیار کرتے ہیں.حقیقت میں وہ اپنے کاروبار کا متولّی خدا تعالیٰ ہی کو جانتے ہیں اور یہ بات بالکل سچ ہے وَ هُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ (الاعراف:۱۹۷) اللہ تعالیٰ ان کو مامور کردیتا ہے کہ وہ اپنے کاروبار کو دوسروں کے ذریعہ سے ظاہر کریں.ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مقامات پر مدد کا وعظ کرتے تھے اس لئے کہ وہ وقت نُصرتِ الٰہی کا تھا.اُس کو تلاش کرتے تھے کہ وہ کس کے شامل حال ہوتی ہے.یہ ایک بڑی غور طلب بات ہے.دراصل مامور من اللہ لوگوں سے مدد نہیں مانگتا بلکہ مَنْ اَنْصَارِيْۤ اِلَى اللّٰهِ (الصّف:۱۵) کہہ کر وہ اُس نصرتُ اللہ کا استقبال کرنا چاہتا ہے اور ایک فرطِ شوق سے بے قرار دل کی طرح اس کی تلاش میں رہتا ہے.نادان اور کوتہ اندیش لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں سے مدد مانگتا ہے بلکہ اسی طرح پر اس شان میں وہ کسی دل کے لئے جو اس نصرت کا موجب ہوتا ہے ایک برکت اور رحمت کا موجب ہوتا ہے.پس مامور من اللہ کی طلب امداد کا اصل سِرّ اور راز یہ ہی ہے جو قیامت تک اسی طرح پر رہے گا.اشاعتِ دین میں مامور من اللہ دوسروں سے مدد چاہتے ہیں.مگر کیوں؟ اپنے ادائے فرض کے لئے تاکہ دلوں میں خدا تعالیٰ کی عظمت پیدا کرے ورنہ یہ تو ایک ایسی بات ہے کہ قریب بہ کفر پہنچ جاتی ہے.اگر غیر اللہ کو متولّی قرار دیں اور ان نفوس قدسیہ سے ایسا اِمکان محال مطلق ہے.میں نے ابھی کہا ہے کہ توحید تب ہی پوری ہوتی کہ کل مُرادوں کا مُعطی اور تمام امراض کا چارہ اور مداوا وہی ذاتِ واحد ہو.لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کے معنی یہی ہیں.صوفیوں نے اس میں اِلٰہ کے لفظ سے محبوب، مقصود، معبود مراد لی ہے.بے شک اصل اور سچ یوں ہی ہے جب تک انسان کامل طور پر توحید پر کاربند نہیں ہوتا اس میں اسلام کی محبت اور عظمت قائم نہیں ہوتی اور پھر میں اصلی ذکر کی طرف رجوع کرکے کہتا ہوں کہ نماز کی لذّت اور سرور اسے حاصل نہیں ہوسکتا.مدار اسی بات پر ہے کہ جب تک بُرے ارادے، ناپاک اور گندے منصوبے بھسم نہ ہوں، انانیت اور شیخی دور ہوکر نیستی اور فروتنی نہ آئے خدا کا سچا بندہ نہیں کہلا سکتا اور عبودیت کاملہ کے سکھانے کے لئے بہترین معلم اور افضل ترین ذریعہ نماز ہی ہے.
مَیں پھر تمہیں بتلاتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق، حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو تو نماز پر کاربند ہو جاؤ اور ایسے کاربند بنو کہ تمہارا جسم نہ تمہاری زبان بلکہ تمہاری رُوح، تمہاری روح کے ارادے اور جذبے سب کے سب ہمہ تن نماز ہو جائیں.۱۵؎ عصمتِ انبیاء کا یہی راز ہے یعنی نبی کیوں معصوم ہوتے ہیں؟ تو اس کا یہی جواب ہے کہ وہ استغراقِ محبت الٰہی کے باعث معصوم ہوتے ہیں.مجھے حیرت ہوتی ہے جب ان قوموں کو دیکھتا ہوں جو شرک میں مبتلا ہیں جیسے ہندو جو قسم قسم کے اصنام کی پرستش کرتے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے عورت اور مرد کے اعضاء مخصوصہ تک کی پرستش بھی جائز کر رکھی ہے اور ایسا ہی وہ لوگ جو ایک انسانی لاش یعنی یسوع مسیح کی پرستش کرتے ہیں.اس قسم کے لوگ مختلف صورتوں سے حصولِ نجات یا مکتی کے قائل ہیں مثلاً اول الذکر یعنی ہندو گنگا اِشنان اور تیرتھ یاترا اور ایسے ایسے کفاروں سے گناہ سے موکش چاہتے ہیں اور عیسیٰ پرست عیسائی مسیح کے خون کو اپنے گناہوں کا فدیہ قرار دیتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ جب تک نفسِ گناہ موجود ہے وہ بیرونی صفائی اور خارجی معتقدات سے راحت یا اطمینان کا ذریعہ کیوں کر پاسکتے ہیں جب تک اندر کی صفائی اور باطنی تطہیر نہیں ہوتی ناممکن ہے کہ انسان سچی پاکیزگی اور طہارت جو انسان کو نجات سے ملتی ہے پا سکے.ہاں اس سے ایک سبق لو جس طرح پر دیکھو بدن کی میل اور بدبو بِدوں صفائی کے دور نہیں ہو سکتی اور جسم کو اُن آنے والے خطرناک امراض سے بچا نہیں سکتی اسی طرح پر روحانی کدورات اور میل جو دل پر ناپاکیوں اور قسم قسم کی بے باکیوں سے جم جاتی ہے دور نہیں ہو سکتی جب تک توبہ کا مصفا اور پاک پانی نہ دھو ڈالے.جسمانی سلسلہ میں ایک فلسفہ جس طرح پر موجود ہے اس طرح پر روحانی سلسلہ میں ایک فلسفہ رکھا ہوا ہے.مبارک ہیں وہ لوگ جو اس پر غور کرتے ہیں اور سوچتے ہیں.گناہ کی حقیقت اور اس سے بچنے کے ذرائع میں اس مقام پر یہ بات بھی جتلانا چاہتا ہوں کہ گناہ کیوں کر پیدا ہوتا ہے؟ اس
سوال کا جواب عام فہم الفاظ میں یہی ہے کہ جب غیر اللہ کی محبت انسانی دل پر مستولی ہوتی ہے تو وہ اس مصفّا آئینہ پر ایک قسم کا زنگ سا پیدا کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ بالکل تاریک ہو جاتا ہے اور غیریت اپنا گھر کرکے اسے خدا سے دور ڈال دیتی ہے اور یہی شرک کی جڑ ہے لیکن جس قلب پر اللہ تعالیٰ اور صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اپنا قبضہ کرتی ہے وہ غیریت کو جلا کر اسے صرف اپنے لئے منتخب کرلیتی ہے پھر اس میں ایک استقامت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اصل جگہ پر آجاتی ہے.عضو کے ٹوٹنے اور پھر چڑھنے میں جس طرح سے تکلیف ہوتی ہے لیکن ٹوٹا ہوا عضو کہیں زیادہ تکلیف دیتا ہے جو اسے صرف مکرر چڑھنے سے عارضی طور پر ہوتی ہے اور پھر ایک راحت کا سامان ہو جاتی ہے لیکن اگر وہ عضو اسی طرح ٹوٹا رہے تو ایک وقت آجاتا ہے کہ اس کو بالکل کاٹنا پڑتا ہے اسی طرح سے استقامت کے حصول کے لیے اولاً ابتدائی مدارج اور مراتب پر کسی قدر تکلیف اور مشکلات بھی پیش آتی ہیں لیکن اس کے حاصل ہونے پر ایک دائمی راحت اور خوشی پیدا ہو جاتی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ ارشاد ہوا فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ (ھود:۱۱۳) تو لکھا ہے کہ آپ کے کوئی سفید بال نہ تھا پھر سفید بال آنے لگے تو آپ نے فرمایا مجھے سورہٴ ھود نے بوڑھا کر دیا.غرض یہ ہے کہ جب تک انسان موت کا احساس نہ کرے وہ نیکیوں کی طرف جھک نہیں سکتا.مَیں نے بتلایا ہے کہ گناہ غیر اللہ کی محبت دل میں پیدا ہونے سے پیدا ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ دل پر غلبہ کر لیتا ہے.پس گناہ سے بچنے اور محفوظ رہنے کے لیے یہ بھی ایک ذریعہ ہے کہ انسان موت کو یاد رکھے اور خدائے تعالیٰ کے عجائباتِ قدرت میں غور کرتا رہے کیونکہ اس سے محبتِ الٰہی اور ایمان بڑھتا ہے اور جب خدائے تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا ہو جائے تو وہ گناہ کو خود جلا کر بھسم کر جاتی ہے.دوسرا ذریعہ گناہ سے بچنے کا احساسِ موت ہے.اگر انسان موت کو اپنے سامنے رکھے تو وہ ان بدکاریوں اور کوتاہ اندیشیوں سے باز آجائے اور خدا تعالیٰ پر اسے ایک نیا ایمان حاصل ہو اور اپنے سابقہ گناہوں پر توبہ اور نادم ہونے کا موقع ملے.انسان عاجز کی ہستی کیا ہے؟ صرف ایک دم پر انحصار ہے.پھر کیوں وہ آخرت کا فکر نہیں کرتا اور موت سے نہیں ڈرتا اور نفسانی اور حیوانی جذبات کا مطیع
اور غلام ہو کر عمر ضائع کر دیتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ ہندوؤں کو بھی احساسِ موت ہوا ہے.بٹالہ میں کشن چند نام ایک بھنڈاری ستّر یا بہتّر برس کی عمر کا تھا.اس وقت اس نے گھر بار سب کچھ چھوڑ دیا اور کانشی میں جاکر رہنے لگا اور وہاں ہی مر گیا.یہ صرف اس لیے کہ وہاں مرنے سے اس کی موکش ہوگی مگر یہ خیال اس کا باطل تھا لیکن اس سے اتنا تو مفید نتیجہ ہم نکال سکتے ہیں کہ اس نے احساسِ موت کیا اور احساسِ موت انسان کو دنیا کی لذّات میں بالکل منہمک ہونے سے اور خدا سے دور جا پڑنے سے بچا لیتا ہے.یہ بات کہ کانشی میں مرنا مکتی کا باعث ہوگا یہ اسی مخلوق پرستی کا پردہ تھا جو اس کے دل پر پڑا ہوا تھا مگر مجھے تو سنحت افسوس ہوتا ہے جبکہ میں دیکھتا ہوں کہ مسلمان ہندوؤں کی طرح بھی احساسِ موت نہیں کرتے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھو صرف اس ایک حکم نے کہ فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ نے ہی بوڑھا کر دیا.کس قدر احساسِ موت ہے.آپ کی یہ حالت کیوں ہوئی صرف اس لئے کہ تاہم اس سے سبق لیں.ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اور مقدس زندگی کی اس سے بڑھ کر اَور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہادی کامل اور پھر قیامت تک کے لیے اور اس پر کُل دنیا کے لیے مقرر فرمایا مگر آپ کی زندگی کے کُل واقعات ایک عملی تعلیمات کا مجموعہ ہیں جس طرح پر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی قولی کتاب ہے اور قانونِ قدرت اس کی فعلی کتاب ہے اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھی ایک فعلی کتاب ہے جو گویا قرآن کریم کی شرح اور تفسیر ہے.میرے تیس سال کی عمر میں ہی سفید بال نکل آئے تھے اور مرزا صاحب مرحوم میرے والد ابھی زندہ ہی تھے.سفید بال بھی گویا ایک قسم کا نشانِ موت ہوتا ہے.جب بڑھاپا آتا ہے جس کی نشانی یہی سفید بال ہیں تو انسان سمجھ لیتا ہے کہ مرنے کے دن اب قریب ہیں مگر افسوس تو یہ ہے کہ اس وقت بھی انسان کو فکر نہیں لگتا.مومن تو ایک چڑیا اور جانوروں سے بھی اخلاق فاضلہ سیکھ سکتا ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ کی کھلی ہوئی کتاب اس کے سامنے ہوتی ہے.دنیا میں جس قدر چیزیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں وہ انسان کے لیے جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی راحتوں کے سامان ہیں.میں نے حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کے تذکرے میں پڑھا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے.میں نے مراقبہ بلّی
سے سیکھا ہے.اگر انسان نہایت پُر غور نگاہ سے دیکھے تو اسے معلوم ہوگا کہ جانور کھلے طور پر خُلق رکھتے ہیں.میرے مذہب میں سب چرند و پرند ایک خلق ہیں اور انسان اس کے مجموعہ کا نام ہے.یہ نفس جامع ہے اور اسی لیے عالم صغیر کہلاتا ہے کہ کُل مخلوقات کے کمال انسان میں یکجائی طور پر جمع ہیں اور کُل انسانوں کے کمالات بہ ہیئت مجموعی ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہیں اور اسی لیے آپ کُل دنیا کے لیے مبعوث ہوئے اور رحمۃللعالمین کہلائے.اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ (القلم:۵) میں بھی اسی مجموعہ کمالات انسانی کی طرف اشارہ ہے.اسی صورت میں عظمتِ اخلاق محمدیؐ کی نسبت غور کر سکتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ آپ پر نبوت کاملہ کے کمالات ختم ہوئے.یہ ایک مسلّم بات ہے کہ کسی چیز کا خاتمہ اس کی علتِ غائی کے اختتام پر ہوتا ہے.جیسے کتاب کے جب کُل مطالب بیان ہوجاتے ہیں تو اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے.اسی طرح پر رسالت اور نبوت کی علّت غائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوئی.اور یہی ختمِ نبوت کے معنے ہیں کیونکہ یہ ایک سلسلہ ہے جو چلا آیا ہے اور کامل انسان پر آکر اس کا خاتمہ ہوگیا.استقامت ہی انسان کا اسمِ اعظم ہے میں یہ بھی بتلا دینا چاہتا ہوں کہ استقامت جس پر مَیں نے ذکر چھیڑا تھا وہی ہے جس کو صوفی لوگ اپنی اصطلاح میں فنا کہتے ہیں اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کے معنے بھی فنا ہی کے کرتے ہیں.یعنی رُوح، جوش اور ارادے سب کے سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہو جائیں اور اپنے جذبات اور نفسانی خواہشیں بالکل مَرجائیں.بعض انسان جو اللہ تعالیٰ کی خواہش اور ارادے کو اپنے ارادوں اور جوشوں پر مقدم نہیں کرتے وہ اکثر دفعہ دنیا ہی کے جوشوں اور ارادوں کی ناکامیوں میں اس دنیا سے اُٹھ جاتے ہیں.ہمارے بھائی صاحب مرحوم مرزا غلام قادر کو مقدمات میں بڑی مصروفیت رہتی تھی اور ان میں وہ یہاں تک منہمک اور محو رہتے تھے کہ آخر ان ناکامیوں نے ان کی صحت پر اثر ڈالا اور وہ انتقال کر گئے.اَور بھی بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو اپنے ارادوں کو خدا پر مقدم کر تے ہیں.آخر کار اس تقدیم ہوائے نفس میں بھی وہ کامیاب نہیں ہوتے اور بجائے فائدہ کے نقصانِ عظیم
اُٹھاتے ہیں.اسلام پر غور کرو گے تو معلوم ہوگا کہ ناکامی صرف جھوٹے ہونے کی وجہ سے پیش آتی ہے.جب خدائے تعالیٰ کی طرف سے التفات کم ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہوتا ہے جو اس کو نا مراد اور ناکام بنا دیتا ہے.خصوصاً ان لوگوں کو جو بصیرت رکھتے ہیں جب وہ دنیا کے مقاصد کی طرف اپنے تمام جوش اور ارادے کے ساتھ جُھک جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کو نا مراد کر دیتا ہے لیکن سعیدوں کو وہ پاک اصول پیشِ نظر رہتا ہے جو احساسِ موت کا اصول ہے.وہ خیال کرتا ہے کہ جس طرح ماں باپ کا انتقال ہو گیا ہے یا جس طرح پر اَور کوئی بزرگِ خاندان فوت ہو گیا ہے اسی طرح پر مجھ کو ایک دن مَرنا ہے اور بعض اوقات اپنی عمر پر خیال کرکے کہ بڑھاپا آگیا اور موت کے دن قریب ہیں خدائے تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے.بعض خاندان ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں عمریں علی العموم ایک خاص مقدار تک مثلاً ۵۰ یا ۶۰ تک پہنچتے ہیں.بٹالہ میں میاں صاحب کا جو خاندان ہے اُس کی عمریں بھی علی العموم اسی حد تک پہنچتی ہیں.اس طرح پر اپنے خاندان کی عمروں کا اندازہ اور لحاظ بھی انسان کو احساسِ موت کی طرف لے جاتا ہے.غرض یہ بات خوب ذہن نشین رہنی چاہیے کہ آخر ایک نہ ایک دن دنیا اور اس کی لذّتوں کو چھوڑنا ہے تو پھر کیوں انسان اس وقت سے پہلے ہی ان لذّات کے ناجائز طریقِ حصول چھوڑ دے.موت نے بڑے بڑے راستبازوں اور مقبولوں کو نہیں چھوڑا اور وہ نوجوانوں یا بڑے سے بڑے دولت مند اور بزرگ کی پروا نہیں کرتی پھر تم کو کیوں چھوڑنے لگی.پس دنیا اور اس کی راحتوں کو زندگی کے منجملہ اسباب سے سمجھو اور خدائے تعالیٰ کی عبادت کا ذریعہ.سعدی نے اس مضمون کو یُوں ادا کیا ہے.خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است تو معتقد کہ زیستن از بہر خوردن است # یہ نہ سمجھو کہ خدا ہم سے خواہ مخواہ خوش ہوجائے اور ہم اپنے احتظاظ میں رہیں مگر ایسے اندھوں کو اگر خدا کی طرف سے ہی پروانہ آجائے تو وہ ان لذّتوں کو جو جسمانی خواہشوں اور ارادوں کی پیروی میں سمجھتے ہیں نہ چھوڑیں گے اور ان کو اس لذّت پر جو ایک مومن کو خدا میں ملتی ہے ترجیح دیں گے.
خدائے تعالیٰ کا پروانہ موجود ہے جس کا نام قرآن شریف ہے جو جنت اور ابدی آرام کا وعدہ دیتا ہے مگر اس کی نعمتوں کے وعدہ پر چنداں لحاظ نہیں کیا جاتا اور عارضی اور خیالی خوشیوں اور راحتوں کی جستجو میں کس قدر تکلیفیں غافل انسان اُٹھاتا اور سختیاں برداشت کرتا ہے مگر خدائے تعالیٰ کی راہ میں ذرا سی مشکل کو دیکھ کر بھی گھبرا اُٹھتا اور بدظنّی شروع کر دیتا ہے.کاش وہ ان فانی لذّتوں کے مقابلہ میں ان اَبدی اور مستقل خوشیوں کا اندازہ کر سکتا.ان مشکلات اور تکالیف پر فتح پانے کے لیے ایک کامل اور خطا نہ کرنے والا نسخہ موجود ہے جو کروڑہا راستبازوں کا تجربہ کردہ ہے.وہ کیا؟ وہ وہی نسخہ ہے جس کو نماز کہتے ہیں.نماز کیا ہے؟ ایک قسم کی دعا ہے جو انسان کو تمام برائیوں اور فواحش سے محفوظ رکھ کر حسنات کا مستحق اور انعامِ الٰہیہ کا مورد بنا دیتی ہے.کہا گیا ہے کہ اللہ اسمِ اعظم ہے.اللہ تعالیٰ نے تمام صفات کو اس کے تابع رکھا ہے.اب ذرا غور کرو.نماز کی ابتدا اذان سے شروع ہوتی ہے.اذان اَللّٰهُ اَکْبَرُ سے شروع ہوتی ہے.یعنی اللہ کے نام سے شروع ہو کر لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ یعنی اللہ ہی پر ختم ہوتی ہے.یہ فخر اسلامی عبادت ہی کو ہے کہ اس میں اوّل اور آخر میں اللہ تعالیٰ ہی مقصود ہے نہ کچھ اَور.مَیں دعوے سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی عبادت کسی قوم اور ملّت میں نہیں ہے.پس نماز جو دعا ہے اور جس میں اللہ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسمِ اعظم ہے مقدم رکھا ہے.ایسا ہی انسان کا اسمِ اعظم استقامت ہے.اسمِ اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں.اللہ تعالیٰ نے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ میں اس کی طرف ہی اشارہ فرمایا ہے اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا کہ اَلَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا (حٰـم السجدۃ :۳۱) یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے نیچے آگئے اور اس کے اسمِ اعظم استقامت کے نیچے جب بیضۂ بشریت رکھا گیا.پھر اس میں اس قسم کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے کہ ملائکہ کا نزول اس پر ہوتا ہے اور کسی قسم کا خوف و حزن ان کو نہیں رہتا.میں نے کہا ہے کہ استقامت بڑی چیز ہے.استقامت سے کیا مراد ہے؟ ہر ایک چیز جب اپنے عین محل اور مقام پر ہو وہ حکمت اور استقامت سے تعبیر پاتی ہے.مثلاً دُور بین
کے اجزاء کو اگر جُدا جُدا کرکے ان کو اصل مقامات سے ہٹا کر دوسرے مقام پر رکھ دیں وہ کام نہ دے گی.غرض وَضْعُ الشَّیْءِ فِیْ مَـحَلِّہٖ کا نام استقامت ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہو کہ ہیئت طبعی کا نام استقامت ہے.پس جب تک انسانی بناوٹ کو ٹھیک اسی حالت پر نہ رہنے دیں اور اُسے مستقیم حالت میں نہ رکھیں وہ اپنے اندر کمالات پیدا نہیں کر سکتی.دعا کا طریق یہی ہے کہ دونوں اسمِ اعظم جمع ہوں.اور یہ خدا کی طرف جاوے کسی غیر کی طرف رجوع نہ کرے خواہ وہ اس کی ہوا و ہوس ہی کا بُت کیوں نہ ہو؟ جب یہ حالت ہوجائے تو اس وقت اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن:۶۱) کا مزا آجاتا ہے.پس مَیں چاہتا ہوں کہ آپ استقامت کے حصول کے لیے مجاہدہ کریں اور ریاضت سے اُسے پائیں کیونکہ وہ انسان کو ایسی حالت پر پہنچا دیتی ہے جہاں اُس کی دعا قبولیت کا شرف حاصل کرتی ہے.اس وقت بہت سے لوگ دنیا میں موجود ہیں جو عدم قبولیتِ دعا کے شاکی ہیں.لیکن مَیں کہتا ہوں کہ افسوس تو یہ ہے کہ جب تک وہ استقامت پیدا نہ کریں دعا کی قبولیت کی لذّت کو کیوں کر پا سکیں گے.قبولیتِ دعا کے نشان ہم اسی دنیا میں پاتے ہیں.استقامت کے بعد انسانی دل پر ایک برودت اور سکینت کے آثار پائے جاتے ہیں.کسی قسم کی بظاہر ناکامی اور نامُرادی پر بھی دل نہیں جلتا لیکن دعا کی حقیقت سے ناواقف رہنے کی صورت میں ذرا ذرا سی نامرادی بھی آتشِ جہنّم کی ایک لپٹ ہوکر دل پر مستولی ہوجاتی ہے اور گھبرا گھبرا کر بے قرار کئے دیتی ہے.اسی کی طرف ہی اشارہ ہے نَارُ اللّٰهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِيْ تَطَّلِعُ عَلَى الْاَفْـِٕدَةِ (الھمزۃ :۸،۷) بلکہ حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ تپ بھی نارِ جہنّم ہی کا ایک نمونہ ہے.اُمّت میں سلسلۂ مجدّدین اب یہاں ایک اور بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پاجانا تھا اس لئے ظاہری طور پر ایک نمونہ اور خدا نمائی کا آلہ دنیا سے اُٹھنا تھا.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک آسان راہ رکھ دی کہ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ (اٰل عـمران :۳۲) کیونکہ محبوب اللہ مستقیم ہی ہوتا ہے.زیغ رکھنے والا کبھی محبوب نہیں بن سکتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی ازدیاد اور تجدید کے
لیے ہر نماز میں دُرود شریف کا پڑھنا ضروری ہوگیا تاکہ اس دعا کی قبولیت کے لیے استقامت کا ایک ذریعہ ہاتھ آئے.یہ ایک مانی ہوئی بات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ظلّی طور پر قیامت تک رہتا ہے.صوفی کہتے ہیں کہ مجدّدین کے اسماء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہی ہوتے ہیں.یعنی ظلّی طور پر وہی نام ان کو کسی ایک رنگ میں دیا جاتا ہے.شیعہ لوگوں کا یہ خیال کہ ولایت کا سلسلہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر ختم ہوگیا محض غلط ہے.اللہ تعالیٰ نے جو کمالات سلسلہ نبوت میں رکھے ہیں، مجموعی طور پر وہ ہادیٔ کامل پر ختم ہوچکے.اب ظلّی طور پر ہمیشہ کے لیے مجدّدین کے ذریعہ سے دنیا پر اپنا پرتوہ ڈالتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو قیامت تک رکھے گا.مَیں پھر کہتا ہوں کہ اس وقت بھی خدائے تعالیٰ نے دنیا کو محروم نہیں چھوڑا.اور ایک سلسلہ قائم کیا ہے.ہاں اپنے ہاتھ سے اس نے ایک بندہ کو کھڑا کیا اور وہ وہی ہے جو تم میں بیٹھا ہوا بول رہا ہے.اب خدا تعالیٰ کے نزولِ رحمت کا وقت ہے.دعائیں مانگو.استقامت چاہو اور درود شریف جو حصولِ استقامت کا ایک زبردست ذریعہ ہے بکثرت پڑھو.مگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن اور احسان کو مدِّ نظر رکھ کر اور آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لئے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قبولیتِ دعا کا شیریں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا.قبو لیت دعا کے ذرائع قبو لیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں.اوّل.اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ (اٰل عـمران :۳۲) دوم.يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا (الاحزاب :۵۷) تیسرا موہبتِ الٰہی.اللہ تعالیٰ کا یہ عام قانون ہے کہ وہ نفوسِ انبیاء کی طرح دنیا میں بہت سے نفوسِ قدسیہ ایسے پیدا کرتا ہے جو فطرتاً استقامت رکھتے ہیں.
یہ بات بھی یاد رکھو کہ فطرتاً انسان تین قسم کے ہوتے ہیں ایک فطرتاً ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ.دوسرے مُقْتَصِدٌ یعنی کچھ نیکی سے بہرہ ور اور کچھ برائی سے آلودہ.سوم بُرے کاموں سے متنفر اور سَابِقٌۢ بِالْخَيْرٰتِ.پس یہ آخری سلسلہ ایسا ہوتا ہے کہ اجتباء اور اصطفاء کے مراتب پر پہنچتے ہیں اور انبیاء علیہم السلام کا گروہ ایسے پاک سلسلہ میں سے ہوتا ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری ہے.دنیا ایسے لوگوں سے خالی نہیں.بعض لوگ دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ میرے لئے دعا کرو.مگر افسوس ہے کہ وہ دعا کرانے کے آداب سے واقف نہیں ہوتے.عنایت علی نے دعا کی ضرورت سمجھی اور خواجہ علی کو بھیج دیا کہ آپ جا کر دعا کرائیں.کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا.جب تک دعا کرانے والا اپنے اندر ایک صلاحیت اور اتّباع کی عادت نہ ڈالے دعا کارگر نہیں ہو سکتی.مریض اگر طبیب کی اطاعت ضروری نہیں سمجھتا ممکن نہیں کہ فائدہ اُٹھا سکے.جیسے مریض کو ضروری ہے کہ استقامت اور استقلال کے ساتھ طبیب کی رائے پر چلے تو فائدہ اُٹھائے گا.ایسے ہی دعا کرانے والے کے لئے آداب اور طریق ہیں.تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک بزرگ سے کسی نے دعا کی خواہش کی.بزرگ نے فرمایا کہ دُودھ چاول لاؤ.وہ شخص حیران ہوا.آخر وہ لایا.بزرگ نے دعا کی اور اس شخص کا کام ہوگیا.آخر اسے بتلایا گیا کہ یہ صرف تعلق پیدا کرنے کے لئے تھا.ایسا ہی باوا فرید صاحب کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ ایک شخص کا قبالہ گم ہوا اور وہ دعا کے لئے آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے حلوہ کھلاؤ اور وہ قبالہ حلوائی کی دو کان سے مل گیا.ان باتوں کے بیان کرنے سے میرا یہ مطلب ہے کہ جب تک دعا کرنے والے اور کرانے والے میں ایک تعلق نہ ہو.متاثر نہیں ہوتی.غرض جب تک اضطرار کی حالت پیدا نہ ہو اور دعا کر نے والے کا قلق دعا کرانے والے کا قلق نہ ہو جائے کچھ اثر نہیں کرتی.بعض اوقات یہی مصیبت آتی ہے کہ لوگ دعا کرانے کے آداب سے واقف نہیں ہوتے اور دعا کا کوئی بیّن فائدہ محسوس نہ کرکے خدائے تعالیٰ پر بدظن ہو جاتے ہیں اور اپنی حالت کو قابلِ رحم بنا لیتے ہیں.بالآخر میں کہتا ہوں کہ خود دعا کرو یا دعا کراؤ.پا کیزگی اور طہارت پیدا کرو.استقامت چاہو
اور توبہ کے ساتھ گِر جاؤ کیونکہ یہی استقامت ہے.اس وقت دعا میں قبولیت، نماز میں لذت پیدا ہوگی.ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ ۱۶؎ ۱۹؍جنوری ۱۸۹۸ء (بعد نماز مغرب) چودھویں صدی کے مجدّد کا کام فرمایا.عیسائیوں کا فتنہ اُمّ الفتن ہے اس لیے چودھویں صدی کے مجدّد کا کام یکسـرُ الصلیب ہے.پھر جو علامت اُس پر صادق آئی اس لئے چودھویں صدی کا مجدّد مسیح موعود قرار پایا کیونکہ احادیث سے مسیح موعود کا کام یَکْسِـرُ الصَّلِیْبَ ثابت ہوتا ہے.اب جب کہ ہمارے مخالفوں کو بھی ماننا پڑتا ہے کہ چودھویں صدی کے مجدّد کا کام یَکْسِـرُ الصَّلِیْبَ ہی ہونا چاہیے کیونکہ اس کے سامنے یہی مصیبت ہے پھر انکار کے لئے کون سی گنجائش ہے کہ مسیح موعود چودھویں صدی کا مجدّد ہی ہوگا.ہماری توجہ ان لوگوں کی طرف ہے جن کو حق کی پیاس ہے لیکن جو حق کی تلاش ہی نہیں چاہتے، جن کی طبیعتیں معکوس ہیں وہ ہم سے کیا فائدہ اُٹھاسکتے ہیں؟ یاد رکھو ہدایت تو اُن کو ہوتی ہے جو تعصب سے کام نہیں لیتے.وہ لوگ فائدہ نہیں اُٹھاتے جو تدبّر نہیں کرتے.پس طالب ہدایت سمجھ لے کہ موجودہ حالتوں میں چودھویں صدی کے مجدّد کا یہ کام ہے کہ کسرِ صلیب کرے کیونکہ صلیبی فتنہ خطرناک پھیلا ہوا ہے.اسلام ایسا دین تھا کہ اگر ایک بھی اس سے مرتد ہوجاتا تھا تو قیامت برپا ہوجاتی تھی لیکن اب کس قدر افسوس ہے کہ مرتد ہونے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے اور وہ لوگ جو مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے تھے اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کامل انسان کی نسبت جس کی پاک باطنی کی کوئی نظیر دنیا میں موجود نہیں، قسم قسم کے دل آزار بہتان لگا رہے ہیں.کروڑوں کتابیں اس سیدالمعصُومین کی تکذیب میں اُس گروہ کی طرف سے شائع ہوچکی ہیں.بہت سے مستقل ہفتہ وار اور ماہوار اخبار اور رسالے اس غرض کے لئے جاری کر رکھے ہیں.پھر کیا ایسی حالت میں خدا تعالیٰ کوئی مجدّد نہ
بھیجتا؟ اور پھر اگر کوئی مجدّد آتا تو تم ہی خدا کے واسطے سوچ کر بتاؤ کہ کیا اس کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ رفع یدین کے جھگڑے کرے یا آمین بالجہر پر لڑتا مرتا پھرے.غور تو کرو جو مرض وبا کی طرح پھیل رہا ہے طبیب اس کا علاج کرے گا نہ کسی اور مرض کا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی حد ہوچکی.لکھا ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اپنی ماں سے سُن کر اس کو مار دیا تھا.یہ غیرت اور حمیّت تھی مسلمانوں کی، مگر آج یہ حال ہوگیا ہے کہ توہین کی کتابیں پڑھتے اور سنتے ہیں غیرت نہیں آتی اور اتنا نہیں ہوسکتا کہ اُن سے نفرت ہی کریں بلکہ اُلٹا جو شخص خدا نے خاص اس فتنہ کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور جلال کے لئے خاص قسم کی غیرت لے کر آیا ہے اُس کی مخالفت کرتے ہیں اور اُس پر ہنسی اور ٹھٹھا کرتے ہیں.خدا تعالیٰ ہی ان لوگوں کو بصیرت کی آنکھ دے.آمین آنحضرتؐ کی تائید و نصرت کے متعلق ایک عظیم الشان پیشگوئی فرمایا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سورۃ بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدر اور مرتبہ ظاہر کیا ہے اور وہ سورۃ ہے اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ (الفیل:۲) یہ سورۃ اس حالت کی ہے کہ جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم مصائب اور دُکھ اُٹھا رہے تھے.اللہ تعالیٰ اس حالت میں آپؐ کو تسلی دیتا ہے کہ مَیں تیرا مؤید و ناصر ہوں.اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا کیا؟ یعنی اُن کا مکر اُلٹا کر اُن پر ہی مارا اور چھوٹے چھوٹے جانور اُن کے مارنے کے لئے بھیج دیئے.ان جانوروں کے ہاتھوں میں کوئی بندوقیں نہ تھیں بلکہ مٹی تھی.سجیل بھیگی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں.اس سورۃ شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ قرار دیا ہے اور اصحاب الفیل کے واقعہ کو پیش کرکے آپؐ کی کامیابی اور تائید اور نصرت کی پیشگوئی کی ہے.یعنی آپ کی ساری کارروائی کو برباد کرنے کے لئے جو سامان کرتے ہیں اور جو تدابیر عمل میں
لاتے ہیں ان کے تباہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ان کی ہی تدبیروں کو اور کوششوں کو اُلٹا کر دیتا ہے.کسی بڑے سامان کی ضرورت نہیں ہوتی.جیسے ہاتھی والوں کو چڑیوں نے تباہ کردیا ایسا ہی یہ پیشگوئی قیامت تک جائے گی.جب کبھی کوئی اصحاب الفیل پیدا ہو گا تب ہی اللہ تعالیٰ اُن کے تباہ کرنے کے لئے ان کی کوششوں کو خاک میں ملا دینے کے سامان کر دیتا ہے.پادریوں کا اُصول یہی ہے.اُن کی چھاتی پر اسلام ہی پتھر ہے ورنہ باقی تمام مذاہب اُن کے نزدیک نامَرد ہیں.ہندو بھی عیسائی ہو کر اسلام کے ہی رَدّ میں کتابیں لکھتے ہیں.رامچندر اور ٹھاکرداس نے اسلام کی تردید میں اپنا سارا زور لگا کر کتابیں لکھی ہیں.بات یہ ہے کہ اُن کا کانشنس کہتا ہے کہ اُن کی ہلاکت اسلام ہی سے ہے.طبعی طور پر خوف ان کا ہی پڑتا ہے جن کے ذریعہ ہلاکت ہوتی ہے.ایک مُرغی کا بچہ بلی کو دیکھتے ہی چلّانے لگتا ہے.اسی طرح پر مختلف مذاہب کے پیرو عموماً اور پادری خصوصاً جو اسلام کی تردید میں زور لگا رہے ہیں یہ اسی لئے ہے کہ اُن کو یقین ہے.اندر ہی اندر اُن کا دل اُن کو بتاتا ہے کہ اسلام ہی ایک مذہب ہے جو ملل باطلہ کو پیس ڈالے گا.احمدیت کے ذریعہ اسلام کا دفاع اس وقت اصحاب الفیل کی شکل میں اسلام پر حملہ کیا گیا ہے.مُسلمانوں کی حالت میں بہت کمزوریاں ہیں.اسلام غریب ہے اور اصحاب فیل زور میں ہیں مگر اللہ تعالیٰ وہی نمونہ پھر دکھانا چاہتا ہے.چڑیوں سے وہی کام لے گا.ہماری جماعت اُن کے مقابلہ میں کیا ہے.اُن کے اتفاق اور طاقت اور دولت کے سامنے نام بھی نہیں رکھتے لیکن ہم اصحاب الفیل کا سا واقعہ سامنے دیکھتے ہیں کہ کیسی تسلی کی آیات نازل فرمائی ہیں.مجھے بھی یہی الہام ہوا ہے جس سے صاف صاف پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید اپنا کام کرکے رہے گی.ہاں اس پر وُہی یقین رکھتے ہیں جن کو قرآن سے محبت ہے.اگر قرآن سے محبت نہیں، اسلام سے الفت نہیں، وہ ان باتوں کی کب پروا کرسکتا ہے.اسلام اور ایمان یہی ہے کہ خدا کی رائے سے رائے ملائے.جو اسلام کی عزت اور غیرت نہیں کرتا خواہ وہ کوئی ہو خدا کو اس کی عزت اور غیرت کی پروا نہیں ہوتی اور وہ دیندار مسلمان نہیں.خدا کی باتوں کو
حقیر مت سمجھو اور ان لوگوں کو قابلِ رحم سمجھو جنھوں نے تعصّب کی وجہ سے حق کا انکار کردیا اور کہہ دیا کہ امن کے زمانہ میں کسی کے آنے کی کیا ضرورت ہے.افسوس اُن پر! وہ نہیں دیکھتے کہ اسلام کس طرح دشمنوں کے نرغہ میں پھنسا ہوا ہے.چاروں طرف سے اُس پر حملہ پر حملہ ہورہا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی جاتی ہے.پھر بھی کہتے ہیں کہ کسی کی ضرورت نہیں.قانون سڈیشن سے اسلام ہی فائدہ اُٹھا سکتا ہے قانون سڈیشن ہمارے لئے بہت مفید ہے.صرف ہم ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں.دوسرے مذہبوں کو ہلاک کرنے کے لئے یہ بھی ایک ذریعہ ہوگا کیونکہ ہمارے پاس تو حقائق اور معارف کے خزانے ہیں.ہم ان کا ایک ایسا سلسلہ جاری رکھیں گے جو کبھی ختم نہ ہوگا مگر آریہ یا پادری کون سے معارف پیش کریں گے.پادریوں نے گذشتہ پچاس سال کے اندر کیا دکھایا ہے.کیا گالیوں کے سوا وہ اور کچھ پیش کرسکتے ہیں جو آئندہ کریں گے.ہندوؤں کے ہاتھوں میں بھی اعتراضوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ اگر کسی آریہ یا پادری کو اپنے مذہب کے کمالات اور خوبیاں بیان کرنے کے لئے بلایا جائے تو وہ ہمارے مقابلہ میں ایک ساعت بھی نہ ٹھہرسکے.۱۷؎ کفّارہ مذہب کی اوّل اینٹ خدا شناسی ہے.جب تک وہ درست نہ ہو دوسرے اعمال کیوں کر پاک ہوسکتے ہیں.عیسائی دوسروں کی پاک باطنی پر بڑے اعتراض کیا کرتے ہیں اور کفارہ کا اخلاق سوز مسئلہ مان کر اعتراض کرتے ہیں.میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جب کفارہ کا عقیدہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے مواخذہ کا خوف رہ کیوں کر سکتا ہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے گناہوں کے بدلے مسیح پر سب کچھ وارد ہوگیا.یہاں تک کہ اسے ملعون قرار دیا اور تین دن ھاویہ میں رکھا.ایسی حالت میں اگر گناہوں کے بدلے سزا ہو تو پھر کفارہ کا کیا فائدہ ہوا؟ اصول کفارہ ہی چاہتا ہے
کہ گناہ کیا جاوے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ اُصول کا اثر بہت پڑتا ہے.دیکھو! ہندوؤں کے نزدیک گائے بہت پَـوِتَّـرْ اور قابلِ تعظیم ہے اور اُس کا اثر ان میں اس حد تک ہے کہ اُس کا پیشاب اور گوبر بھی پوتر اور پوتر کرنے والا اُن میں قرار دیا گیا ہے اور گائے کے متعلق اس قدر جوش ان میں ہے جس کی کچھ بھی حد نہیں.یہی وجہ ہے کہ یہ امر اُن میں بطور اُصول داخل کیا گیا ہے.یاد رکھو اصول بطور ماں کے ہوتے ہیں اور اعمال بطور اولاد کے.جب مسیح کفارہ ہوگیا ہے اور اس نے تمام گناہ ایمان لانے والوں کے اُٹھالئے پھر کیا وجہ ہے کہ گناہ نہ کیے جاویں؟ تعجب کی بات ہے کہ عیسائی جب کفارہ کا اُصول بیان کیا کرتے ہیں تو اپنی تقریر کو خدا تعالیٰ کے رحم اور عدل سے شروع کیا کرتے ہیں مگر مَیں پوچھتا ہوں کہ جب زید کے بدلے پھانسی بکر کو ملی تو یہ کون سا انصاف اور رحم ہے؟ جب یہ اصول قرار دے دیا کہ سب گناہ اُس نے اُٹھالئے اور بدوں پیدا ہونے کے بھی گناہ اٹھا لئے پھر گناہ نہ کرنے کے لئے کون سا امر مانع ہو سکتا ہے.اگر یہ ہدایت ہوتی کہ اُس وقت کے عیسائیوں کے لئے کفارہ ہوئے ہیں تو یہ اور بات تھی مگر جب یہ مان لیا گیا ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والوں کے گناہوں کی گٹھڑی یسوع اُٹھا کر لے گیا اور اس نے سزا بھی اُٹھالی.پھر گنہگار کو پکڑنا کس قدر ظلم ہے.اوّل ظلم تو بے گناہ کو گنہ گار کے بدلے سزا دینا ہی ظلم ہے اور پھر دُوسرا ظلم یہ ہے کہ اول گنہ گاروں کے گناہوں کی گٹھڑی یسوع کے سر پر رکھ دی اور گنہ گاروں کو مُژدہ سنا دیا کہ تمہارے گناہ اُس نے اُٹھا لیے اور پھر وہ گناہ کریں تو پکڑے جاویں.یہ عجیب دھوکا ہے جس کا جواب عیسائی کبھی کچھ نہیں دے سکیں گے.کفّارہ پر ایمان لانے سے انسان گناہ پر دلیر ہو جاتا ہے اگر کوئی یہ کہے کہ کفارہ پر ایمان لانے سے انسان گناہ کی زندگی سے نجات پاسکتا ہے اور گناہ کی قوت اس میں نہیں رہتی تو یہ ایک ایسی بات ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں ہے اس لئے کہ یہ اُصول ہی اپنی جڑھ میں گناہ رکھتا ہے.گناہ سے بچنے کی قوت پیدا ہوتی ہے مؤاخذۂ الٰہی کے خوف سے لیکن وہ مواخذہ کا خوف کیوں کر ہوسکتا ہے جب کہ یہ
مان لیا جاوے کہ ہمارے گناہ یسوع نے اُٹھالئے.اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ایسے اُصول کا انسان کبھی متقی نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ ہر ایک کام کو جس کی بِنا تقویٰ کے اُصولوں پر ہو ضروری نہ سمجھے گا.یہ خوب یاد رکھو کہ پاک باطنی ہمیشہ اُصولوں ہی سے شروع ہوتی ہے ورنہ خُبثِ نفس نگردد بسالہا معلوم # پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کفّارہ کا مسئلہ ماننے والوں نے پاک باطنی کی عملی نظیریں کیا قائم کی ہیں؟ یورپ کی بداعمالیاں سب کو معلوم ہیں.شراب جو اُم الجرائم اور اُم الخبائث ہے اس کی یورپ میں اس قدر کثرت ہے کہ اُس کی نظیر کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتی.مَیں نے کسی اخبار میں پڑھا تھا کہ اگر لندن کی شراب کی دوکانوں کو ایک لائن میں رکھا جائے تو پچھتر میل تک چلی جاویں.جس حالت میں اُن کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ہر ایک گناہ کی معافی کا سرٹیفکیٹ دیا گیا ہے اور جس قدر گناہ کوئی کرے وہ معاف ہیں.اب سوچ کر عیسائی ہم کو جواب دیں کہ اس کا اثر کیا پڑے گا.اگر نعوذباللہ ہمارا یہ اصول ہوتا تو ہم پر اس کا کتنا بُرا اثر پڑتا.نفسِ امارہ تو سہارا ہی تلاش کرتا ہے جیسے شیعوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کا سہارا لے لیا اور تقیہ کی آڑ میں جو کچھ کہہ لیں سو تھوڑا ہے.مَیں اسی تقیہ اور امام حسینؓ کے فدیہ کے اصول کی بنا پر دلیری سے کہتا ہوں کہ شیعوں میں مُتّقی کم نکلیں گے.خلیفہ محمد حسن صاحب نے لکھا ہے کہ فَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ (الصافات:۱۰۸) سے جو قرآن میں آیا ہے امام حسینؓ کا شہید ہونا نکلتا ہے اور اس نکتہ پر بہت خوش ہوئے ہیں کہ گویا قرآن شریف کے مغز کو پہنچ گئے ہیں.اُن کی اس نکتہ دانی پر مجھے ایک پوستی کی حکایت یاد آئی.وہ یہ ہے کہ ایک پوستی کے پاس ایک لوٹا تھا اور اُس میں سوراخ تھا.جب رفع حاجت کو جاتا اس سے پیشتر کہ وہ فارغ ہوکر طہارت کرے سارا پانی لوٹے سے نکل جاتا تھا.آخر کئی دن کی سوچ اور فکر کے بعد اس نے یہ تجویز نکالی کہ پہلے طہارت ہی کرلیا کریں اور اپنی اس تجویز پر بہت ہی خوش ہوا.اسی قسم کا نکتہ اور نسخہ ان کو ملاہے جو فَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ (الصافات:۱۰۸) سے امام حسینؓ کی شہادت نکالتے ہیں.شیعہ لوگوں کی مسجدیں تک
تو صاف نہیں رہ سکتی ہیں.ہم ایک شیعہ اُستاد سے پڑھا کرتے تھے اور وہاں کتے پیشاب و پاخانہ پھر جاتے تھے اور مجھے یاد نہیں ہے کہ کسی نے کبھی وہاں نماز پڑھی ہو.شیعہ یہی کہتے ہیں کہ ہمارے لئے امام حسینؓ اور اہل بیت شہید ہوچکے ہیں.اُن کے غم میں رو لینا اور ماتم کر لینا بس یہی کافی ہے.جنت کے لئے اَور کسی عمل کی بجز اس کے ضرورت نہیں اور ایسا ہی عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح کا خون ہمارے لئے مُنجی ہوا.اب ہم پوچھتے ہیں کہ اگر تمہارے گناہوں پر بھی باز پُرس ہونی ہے اور تمہیں بھی ان کی سزا بھگتنی ہے تو پھر یہ نجات کیسی ہے؟ اس اُصول کا اثر درحقیقت بہت بُراپڑا ہے.اگر یہ اصول نہ ہوتا تو یورپ کے ملکوں میں اس کثرت سے فسق و فجور نہ ہوتا اور اس طرح پر بدکاری کا سیلاب نہ آتا جیسے اب آیا ہوا ہے.لنڈن اور پیرس کے ہوٹلوں اور پارکوں میں جاکر دیکھو کیا ہو رہا ہے اور ان لوگوں سے پوچھو جو وہاں سے آتے ہیں.آئے دن اخبارات میں ان بچوں کی فہرستیں جن کی ولادت ناجائز ولادت ہوتی ہے شائع ہوتی ہیں.کفّارہ قانونِ قدرت کے خلاف ہے ہم تو اُصول ہی کو دیکھیں گے.ہمارے اصول میں تو یہ لکھا ہے کہ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ (الزلزال:۸) اب اس کا اثر تم خود سوچ لو گے کیا پڑے گا؟ یہی کہ انسان اعمال کی ضرورت کو محسوس کرے گا اور نیک عمل کرنے کی سعی کرے گا.برخلاف اس کے جب یہ کہا جاوے گا کہ انسان اعمال سے نجات نہیں پاسکتا تو یہ اُصول انسان کی ہمت اور سعی کو پست کردے گا اور اس کو بالکل مایوس کر کے بے دست و پا بنا دے گا.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کفّارہ کا اُصول انسانی قویٰ کی بھی بے حرمتی کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی قویٰ میں ایک ترقی کا مادہ رکھا ہے لیکن کفّارہ اس کو ترقی سے روکتا ہے.ابھی مَیں نے کہا ہے کہ کفّارہ کا اعتقاد رکھنے والوں کے حالاتِ آزادی اور بے قیدی کو جو دیکھتے ہیں تو یہ اسی اصول کی وجہ سے ہے کہ کتّے اور کتیوں کی طرح بدکاریاں ہوتی ہیں.لنڈن کے ہائیڈو پارک میں علانیہ بدکاریاں ہوتی ہیں اور حرامی بچے پیدا ہوتے ہیں.پس ہم کو صرف قیل وقال تک ہی محدود نہ رکھنا چاہیے بلکہ اعمال ساتھ ہونے چاہئیں.جو اعمال کی ضرورت
نہیں سمجھتا وہ سخت ناعاقبت اندیش اور نادان ہے.قانونِ قدرت میں اعمال اور ان کے نتائج کی نظیریں تو موجود ہیں کفّارہ کی نظیر کوئی موجود نہیں.مثلاً بھوک لگتی ہے تو کھانا کھا لینے کے بعد وہ فرو ہوجاتی ہے یا پیاس لگتی ہے پانی سے جاتی رہتی ہے تو معلوم ہوا کہ کھانا کھانے یا پانی پینے کا نتیجہ بھوک کا جاتے رہنا یا پیاس کا بُجھ جانا ہوا.مگر یہ تو نہیں ہوتا کہ بھوک لگے زید کو اور بکر روٹی کھائے اور زید کی بھوک جاتی رہے.اگر قانونِ قدرت میں اس کی کوئی نظیر موجود ہوتی تو شاید کفّارہ کا مسئلہ مان لینے کی گنجائش رکھتا لیکن جب قانونِ قدرت میں اس کی کوئی نظیر ہی نہیں ہے تو انسان جو نظیر دیکھ کر ماننے کا عادی ہے اسے کیوں کر تسلیم کرسکتا ہے.عام قانونِ انسانی میں بھی تو اس کی نظیر نہیں ملتی ہے.کبھی نہیں دیکھا گیا کہ زید نے خون کیا ہو اور خالد کو پھانسی ملی ہو.غرض یہ اِک ایسا اُصول ہے جس کی کوئی نظیر ہرگز موجود نہیں.اعمال صالحہ اور تقویٰ مَیں اپنی جماعت کو مخاطب کرکے کہتا ہوں کہ ضرورت ہے اعمالِ صالحہ کی.خدا تعالیٰ کے حضور اگر کوئی چیز جاسکتی ہے تو وہ یہی اعمال صالحہ ہیں اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ (فاطر:۱۱) خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اس وقت ہمارے قلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلواروں کے برابر ہیں لیکن فتح اور نُصرت اسی کو ملتی ہے جو متّقی ہو.خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ فرما دیا ہے كَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْن (الروم:۴۸) مومنوں کی نصرت ہمارے ذمہ ہے اور لَنْ يَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا (النساء:۱۴۲) اللہ مومنوں پر کافروں کو راہ نہیں دیتا اس لئے یاد رکھو کہ تمہاری فتح تقویٰ سے ہے ورنہ عرب تو نرے لیکچرار اور خطیب اور شاعر ہی تھے.انہوں نے تقویٰ اختیار کیا.خدا تعالیٰ نے اپنے فرشتے ان کی امداد کے لئے نازل کیے.تاریخ کو اگر انسان پڑھے تو اُسے نظر آئے گا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جس قدر فتوحات کیں وہ انسانی طاقت اور سعی کا نتیجہ نہیں ہوسکتا.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تک بیس سال کے اندر ہی اندر اسلامی سلطنت عالمگیر ہوگئی.اب ہم کو کوئی بتاوے کہ انسان ایسا کرسکتا ہے؟ اسی لیے اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ (النحل:۱۲۹) اللہ تعالیٰ
متّقیوں کے ساتھ ہے اور صرف تقویٰ محبت الٰہی کو جذب نہیں کرتا وَالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ بھی ہوں.مُتّقی اور مُحسن مُتّقی کے معنی ہیں ڈرنے والا.ایک ترکِ شر ہوتا ہے اور ایک اِفاضۂ خیر.متّقی ترک شر کا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے اور محسن افاضۂ خیر کو چاہتا ہے.مَیں نے اس کے متعلق ایک حکایت پڑھی ہے کہ ایک بزرگ نے کسی کی دعوت کی اور اپنی طرف سے مہمان نوازی کا پورا اہتمام کیا اور حق ادا کیا.جب وہ کھانا کھا چکے تو بزرگ نے بڑے انکسار سے کہا کہ مَیں آپ کے لائق خدمت نہیں کرسکا.مہمان نے کہا کہ آپ نے مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ مَیں نے احسان کیا ہے کیونکہ جس وقت تم مصروف تھے میں نے تمہارے مکان کو آگ نہیں لگادی اگر میں تمہاری املاک کو آگ لگا دیتا تو کیا ہوتا.غرض متّقی کا کام یہ ہے کہ برائیوں سے باز آوے.اس سے آگے دوسرا درجہ افاضۂ خیر کا ہے جس کو یہاں مُـحْسِنُوْنَ کے لفظ سے ادا کیا گیا ہے کہ نیکیاں بھی کرے.پورا راستباز انسان تب ہوتا ہے جب بدیوں سے پرہیز کرکے یہ مطالعہ کرے کہ نیکی کون سی کی ہے؟ کہتے ہیں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس ایک نوکر چاء کی پیالی لایا.جب قریب آیا تو غفلت سے وہ پیالی آپؓ کے سر پر گر پڑی.آپؓ نے تکلیف محسوس کرکے ذرا تیز نظر سے غلام کی طرف دیکھا.غلام نے آہستہ سے پڑھا اَلْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ (اٰل عمران :۱۳۵) یہ سُن کر امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کَظَمْتُ غلام نے پھر کہا وَ الْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ.کَـــظْم میں انسان غصہ دبا لیتا ہے اور اظہار نہیں کرتا ہے مگر اندر سے پوری رضامندی نہیں ہوتی اس لئے عفو کی شرط لگادی ہے.آپؓ نے کہا کہ مَیں نے عفو کیا.پھر پڑھا وَ اللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ.محبوب الٰہی وہی ہوتے ہیں جو کَظْم اور عفو کے بعد نیکی بھی کرتے ہیں.آپؓ نے فرمایا جا آزاد بھی کیا.راستبازوں کے نمونے ایسے ہیں کہ چاء کی پیالی گرا کر آزاد ہوا.اب بتاؤ کہ یہ نمونہ اصول کی عمدگی ہی سے پیدا ہوا.آنحضرت صلی اللہ وسلم کی قوتِ قُدسی اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ (ھود: ۱۱۳) یعنی سیدھا ہوجا کسی قسم کی
بداعمالی کی کجی نہ رہے پھر راضی ہوں گا.آپ بھی سیدھا ہوجا اور دُوسروں کو بھی کر.عرب کے لئے سیدھا کرنا کس قدر مشکل تھا.۱۸؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے پوچھنے پر فرمایا کہ مجھے سورۂ ھود نے بوڑھا کردیا کیونکہ اس حکم کی رُو سے بڑی بھاری ذمہ داری میرے سُپرد ہوئی ہے.اپنے آپ کو سیدھا کرنا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پوری فرمانبرداری جہاں تک انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتی ہے ممکن ہے کہ وہ اس کو پورا کرے لیکن دوسروں کو ویسا ہی بنانا آسان نہیں ہے.اس سے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان اور قوت قدسی کا پتہ لگتا ہے چنانچہ آپؐ نے اس حکم کی کیسی تعمیل کی.صحابہ کرامؓ کی وہ پاک جماعت طیار کی کہ اُن کو كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (اٰل عـمران:۱۱۱) کہا گیا اور رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ (البینۃ:۹) کی آواز اُن کو آگئی.آپؐ کی زندگی میں کوئی بھی منافق مدینہ طیبہ میں نہ رہا.غرض ایسی کامیابی آپ کو ہوئی کہ اس کی نظیر کسی دوسرے نبی کے واقعاتِ زندگی میں نہیں ملتی.اس سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ تھی کہ قیل و قال ہی تک بات نہ رکھنی چاہیے کیونکہ اگر نِرے قیل و قال اور رِیا کاری تک ہی بات ہو تو دوسرے لوگوں اور ہم میں پھر امتیاز کیا ہوگا اور دوسروں پر کیا شرف؟ تم صرف اپنا عملی نمونہ دکھاؤ اور اس میں ایسی چمک ہوکہ دُوسرے اس کو قبول کرلیں کیونکہ جب تک اس میں چمک نہ ہو کوئی اس کو قبول نہیں کرتا.کیا کوئی انسان میلی کچیلی چیز پسند کرسکتا ہے؟ جب تک کپڑے میں ایک داغ بھی ہو وہ اچھا نہیں لگتا.اسی طرح جب تک تمہاری اندرونی حالت میں صفائی اور چمک نہ ہوگی کوئی خریدار نہیں ہوسکتا.ہر شخص عمدہ چیز کو پسند کرتا ہے اسی طرح جب تک تمہارے اخلاق اعلیٰ درجہ کے نہ ہوں کسی مقام تک نہیں پہنچ سکوگے.انسانی پیدائش کی اصل غرض سورۃ العصر میں اللہ تعالیٰ نے کفار اور مومنوں کی زندگی کے نمونے بتائے ہیں کفار کی زندگی بالکل چوپایوں کی سی زندگی ہوتی ہے.جن کو کھانے اور پینے اور شہوانی جذبات کے سوا اور کوئی کام نہیں ہوتا يَاْكُلُوْنَ كَمَا
تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ (مـحمّد:۱۳) مگر دیکھو اگر ایک بیل چارہ تو کھالے لیکن ہل چلانے کے وقت بیٹھ جائے اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ یہی ہوگا کہ زمیندار اسے بوچڑ خانے میں جاکر بیچ دے گا.اسی طرح ان لوگوں کی نسبت (جو خدا تعالیٰ کے احکام کی پیروی یا پروا نہیں کرتے اور اپنی زندگی فسق وفجور میں گزارتے ہیں) فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُ كُمْ (الفرقان:۷۸) یعنی میرا رب تمہاری کیا پروا کرتا ہے اگر تم اُس کی عبادت نہ کرو.یہ امر بحضور دل یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے محبت کی ضرورت ہے اور محبت دو قسم کی ہوتی ہے.ایک محبت تو ذاتی ہوتی ہے اور ایک اغراض سے وابستہ ہوتی ہے یعنی اس کا باعث صرف چند عارضی باتیں ہوتی ہیں جن کے دور ہوتے ہی وہ محبت سرد ہوکر رنج اور غم کا باعث ہوجاتی ہے مگر ذاتی محبت سچی راحت پیدا کرتی ہے.چونکہ انسان فطرتاً خداہی کے لئے پیدا ہوا ہے جیسا کہ فرمایا مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذَّاریات:۵۷) اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور مخفی در مخفی اسباب سے اُسے اپنے لئے بنایا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصلی غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو مگر جو لوگ اپنی اس اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کی زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سو رہنا ہو جاتی ہے وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دُور جا پڑتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی ذمہ داری اُن کے لئے نہیں رہتی.وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے یہی ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ پرایمان لا کر زندگی کا پہلو بدل لے.موت کا اعتبار نہیں ہے.سعدیؒ کا شعر سچا ہے.مکُن تکیہ بر عمرِ ناپائدار مباش ایمن از بازیٔ روز گار # عُمرِ ناپائدار پربھروسہ کرنا دانش مند کا کام نہیں ہے.موت یونہی آکر لتاڑ جاتی ہے اور انسان کو پتا بھی نہیں لگتا جب کہ انسان اس طرح پر موت کے پنجہ میں گرفتار ہے.پھر اُس کی زندگی کا خدا تعالیٰ کے سوا کون ذمہ دار ہوسکتا ہے؟ خدا کے لیے زندگی اگر زندگی خدا کے لئے ہو تو وہ اس کی حفاظت کرے گا.بخاری میں ایک حدیث ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ سے محبت کا رابطہ پیدا کرلیتا ہے خدا تعالیٰ
اس کے اعضاء ہوجاتا ہے.ایک دوسری روایت میں ہے کہ اُس کی دوستی یہاں تک ہوتی ہے کہ میں اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ حتی کہ اُس کی زبان ہوجاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ جب انسان جذباتِ نفس سے پاک ہوجاتا ہے اور نفسانیت چھوڑ کر خدا کے ارادوں کے اندر چلتا ہے اس کا کوئی فعل ناجائز نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک فعل خدا کے منشا کے موافق ہوتا ہے.اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خدا تعالیٰ اُسے اپنا فعل ہی قرار دیتا ہے.یہ ایک مقام ہے قربِ الٰہی کا جہاں پہنچ کر سلوک کی منزلوں کو پورے طور پر طے نہ کرنے والوں نے یا تو ٹھوکر کھائی ہے یا الٰہیات سے ناواقف اور قربِ الٰہی کے مفہوم کو نہ سمجھنے والوں نے غلط فہمی سے کام لیا ہے اور وحدتِ وجود کا مسئلہ گھڑلیا ہے.اس بات کو بھی ہرگز بھولنا نہ چاہیے کہ جہاں انسان ابتلا میں پڑتا ہے وہ فعل خدا کے ارادہ سے موافق نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ کی رضا اُس کے خلاف ہوتی ہے.ایسا شخص اپنے جذبات کے نیچے ہوتا ہے نہ کہ منشائے الٰہی کے ماتحت لیکن وہ انسان جو اللہ کا ولی کہلاتا ہے اور خدا جس کی زندگی کا ذمہ دار ہوتا ہے وہ وہ ہوتا ہے جس کی کوئی حرکت و سکون بلا استصواب کتابِ الٰہی نہیں ہوتی.وہ اپنی ہر بات اور ارادہ پر کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس سے مشورہ لیتا ہے.پھر آگے کہا ہے کہ اُس کی جان نکالنے میں اللہ تعالیٰ کو بڑا تردّد ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ تردّد سے پاک ہے.مطلب یہ ہے کہ ایک مصلحت کے لیے اُس کو موت دی جاتی ہے اور ایک عظیم مصلحت کے لئے اس کو دوسرے جہان میں لے جایا جاتا ہے.نہیں تو اُس کی بقا خدا کو بڑی پیاری لگتی ہے.پس اگر انسان کی ایسی زندگی نہیں کہ خدا تعالیٰ کو اُس کی جان لینے میں بھی تردّد ہو تو وہ حیوانات سے بھی بدتر ہے.ایک بکری سے بہت سے آدمی گزارہ کر سکتے ہیں اور اس کا چمڑہ بھی کام آسکتا ہے.اور انسان کسی حالت میں کیا مَر کر بھی کام نہیں آتا مگر صالح آدمی کا اثر اس کی ذرّیت پر بھی پڑتا ہے اور وہ بھی اس سے فائدہ اُٹھاتی ہے.اصل یہ ہے کہ درحقیقت وہ مَرتا ہی نہیں مَرنے پر بھی اس کو ایک نئی زندگی دی جاتی ہے.حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا ہے کہ مَیں بچہ تھا، بوڑھا ہوا.مَیں نے کسی خدا پرست کو ذلیل حالت میں نہیں دیکھا اور نہ اُس کے لڑکوں کو دیکھا کہ وہ ٹکڑے مانگتے ہوں، گویا متّقی کی اولاد کا بھی خدا تعالیٰ ذمہ دار ہوتا ہے لی
کن حدیث میں آیا ہے کہ ظالم اپنے اہل و عیال پر بھی ظلم کرتا ہے کیونکہ ان پر بھی اس کا بد اثر پڑتا ہے.انسانی پیدائش کی غرض عبادت ہے پس کس قدر ضرورت ہے کہ تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے لئے بن جاؤ.دنیا تمہاری مقصود بالذّات نہ ہو.مَیں اس لئے بار بار اس ایک امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے اور یہی بات ہے جس سے وہ دور پڑا ہوا ہے.مَیں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو.بیوی بچوں سے الگ ہوکر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو.اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشا نہیں.اسلام تو انسان کو چُست اور ہوشیار اور مُستعد بنانا چاہتا ہے اس لئے مَیں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جدوجہد سے کرو.حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس کا تردّد نہ کرے تو اس سے مواخذہ ہوگا.پس اگر کوئی اس سے یہ مُراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جائے وہ غلطی کرتا ہے.نہیں.اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کاروبار جو تم کرتے ہو اس میں دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اُس کے ارادہ سے باہر نکل کر اپنی اغراض اور جذبات کو مقدّم نہ کرے.۱۹؎ پس اگر انسان کی زندگی کا مدّعا یہ ہوجائے کہ وہ صرف تَنَعُّم ہی میں زندگی بسر کرے اور اس کی ساری کامیابیوں کی انتہا خورونوش اور لباس و خواب ہی ہو اور خدا تعالیٰ کے لئے کوئی خانہ اُس کے دل میں باقی نہ رہے تو یہ یاد رکھو ایسا شخص فطرۃ اللہ کا مُقلّب ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ رفتہ رفتہ اپنے قویٰ کو بیکار کرلے گا.یہ صاف بات ہے کہ جس مطلب کے لئے کوئی چیز ہم لیتے ہیں اگر وہ وہی کام نہ دے تو اُسے بیکار قرار دیتے ہیں.مثلاً ایک لکڑی کُرسی یا میز بنانے کے واسطے لیں اور وہ اس کام کے ناقابل ثابت ہو تو ہم اُسے ایندھن ہی بنالیں گے.اسی طرح پر انسان کی پیدائش کی اصل غرض تو عبادتِ الٰہی ہے لیکن اگر وہ اپنی فطرت کو خارجی اسباب اور بیرونی تعلقات سے تبدیل کرکے بیکار کرلیتا ہے تو خدا تعالیٰ اُس کی پروا نہیں کرتا.اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا
بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ (الفرقان:۷۸) مَیں نے ایک بار پہلے بھی بیان کیا تھا کہ مَیں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک جنگل میں کھڑا ہوں.شرقاً غرباً اس میں ایک بڑی نالی چلی گئی ہے اس نالی پر بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک قصاب کے جو ہر ایک بھیڑ پر مسلّط ہے ہاتھ میں چھری ہے جو انہوں نے اُن کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف مُنہ کیا ہوا ہے.مَیں اُن کے پاس ٹہل رہا ہوں.مَیں نے یہ نظارہ دیکھ کر سمجھا کہ یہ آسمانی حکم کے منتظر ہیں تو میں نے یہی آیت پڑھی قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ.یہ سنتے ہی اُن قصابوں نے فی الفور چھریاں چلادیں اور یہ کہا کہ تم ہو کیا؟ آخر گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو.غرض خدا تعالیٰ متّقی کی زندگی کی پروا کرتا ہے اور اس کی بقا کو عزیز رکھتا ہے اور جو اُس کی مرضی کے برخلاف چلے وہ اس کی پروا نہیں کرتا اور اُس کو جہنم میں ڈالتا ہے.اس لئے ہر ایک کو لازم ہے کہ اپنے نفس کو شیطان کی غلامی سے باہر کرے.جیسے کلوروفارم نیند لاتا ہے اسی طرح پر شیطان انسان کو تباہ کرتا ہے اور اسے غفلت کی نیند سُلاتا ہے اور اسی میں اس کو ہلاک کردیتا ہے.سورۃ العَصْـرِ میں دو سلسلوں کا ذکر مَیں پھر اصل مطلب کی طرف رجوع کرکے کہتا ہوں کہ سورہ وَالعصر میں دو سلسلوں کا ذکر فرمایا ہے.ایک ابرار و اخیار کا سلسلہ ہے اور دُوسرا کُفّار اور فُـجّار کا.کُفّار اور فُـجّار کے سلسلہ کا ذکر یوں فرمایا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ (العصـر:۳) اور دوسرے سلسلہ کو اس طرح پر الگ کیا اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ (العصـر:۴) یعنی ایک وہ ہیں جو خسران میں ہیں، مگر خسران میں مومن اور عملِ صالح کرنے والے نہیں ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ خسران میں وہ ہیں جو مومن اور عملِ صالح کرنے والے نہیں ہیں.یاد رکھو کہ صلاح کا لفظ وہاں آتا ہے جہاں فساد کا بالکل نام و نشان نہ رہے.انسان کبھی صالح نہیں کہلا سکتا جب تک وہ عقائد ردّیہ اور فاسدہ سے خالی نہ ہو اور پھر اعمال بھی فساد سے خالی ہوجائیں.متّقی کا لفظ بابِ افتعال سے آتا ہے اور یہ باب تصنّع کے لئے آتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ متّقی کو بڑا مجاہدہ اور کوشش کرنی پڑتی ہے اور اس حالت میں وہ نفسِ لوّامہ کے نیچے
ہوتا ہے اور جب حیوانی زندگی بسر کرتا ہے اس وقت امّارہ کے نیچے ہوتا ہے اور مجاہدہ کی حالت سے نکل کر جب غالب آجاتا ہے تو مطمئنّہ کی حالت میں ہوتا ہے.متّقی نفسِ امّارہ کی حالت سے نکل کر آتا ہے اور لوّامہ کے نیچے ہوتا ہے.اسی لئے متّقی کی شان میں آیا ہے کہ وہ نماز کو کھڑی کرتے ہیں.گویا اس میں بھی ایک قسم کی لڑائی ہی کی حالت ہوتی ہے.وساوس اور اوہام آآکر حیران کرتے ہیں مگر وہ گھبراتا نہیں اور یہ وساوس اُس کو درماندہ نہیں کرسکتے.وہ بار بار خدا تعالیٰ کی استعانت چاہتا ہے اور خدا کے حضور چلاتا اور روتا ہے یہاں تک کہ غالب آجاتا ہے.ایسا ہی مال کے خرچ کرنے میں بھی شیطان اس کو روکتا ہے اوراسراف اور انفاق فی سبیل اللہ کو یکساں دکھاتا ہے حالانکہ ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.اسراف کرنے والا اپنے مال کو ضائع کرتا ہے مگر فی سبیل اللہ خرچ کرنے والا اس کو پھر پاتا ہے اور خرچ سے زیادہ پاتا ہے.اس لئے ہی مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ (البقرۃ:۴) فرمایا ہے.صراطِ مستقیم بات یہ ہے کہ صلاح کی حالت میں انسان کو ضروری ہوتا ہے کہ ہر ایک قسم کے فساد سے خواہ وہ عقائد کے متعلق ہو یا اعمال کے متعلق پاک ہو.جیسے انسان کا بدن صلاحیت کی حالت اس وقت رکھتا ہے جبکہ سب اخلاط اعتدال کی حالت پر ہوں اور کوئی کم زیادہ نہ ہو لیکن اگر کوئی ایک خلط بھی بڑھ جائے تو جسم بیمار ہوجاتا ہے.اسی طرح پر رُوح کی صلاحیت کا مدار بھی اعتدال پر ہے.اسی کا نام قرآن شریف کی اصطلاح میں صراطِ مستقیم ہے.صلاح کی حالت میں انسان محض خدا کا ہو جاتا ہے.جیسے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حالت تھی.اور رفتہ رفتہ صالح انسان ترقی کرتا ہوا مطمئنّہ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور یہاں ہی اس کا انشراح صدر ہوتا ہے.جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ (الم نشـرح:۲) ہم انشراح صدر کی کیفیت کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے.انسان کا سینہ بیت اللہ ہے اور دل حجرِ اَسود یہ بات بحضورِ دل یاد رکھو کہ جیسے بیت اللہ میں حجرِ اسود پڑا ہوا ہے اسی طرح قلب
سینہ میں پڑا ہوا ہے.بیت اللہ پر بھی ایک زمانہ آیا ہوا تھا کہ کُفّار نے وہاں بُت رکھ دیئے تھے.ممکن تھا کہ بیت اللہ پر یہ زمانہ نہ آتا مگر نہیں.اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک نظیر کے طور پر رکھا.قلبِ انسانی بھی حجرِ اسود کی طرح ہے اور اس کا سینہ بیت اللہ سے مشابہت رکھتا ہے.ماسویٰ اللہ کے خیالات وہ بُت ہیں جو اس کعبہ میں رکھے گئے ہیں.مکہ معظمہ کے بتوں کا قلع وقمع اس وقت ہوا تھا جب کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار قدوسیوں کی جماعت کے ساتھ وہاں جاپڑے تھے اور مکہ فتح ہوگیا تھا.ان دس ہزار صحابہ کو پہلی کتابوں میں ملائکہ لکھا ہے اور حقیقت میں ان کی شان ملائکہ ہی کی سی تھی.انسانی قویٰ بھی ایک طرح پر ملائکہ ہی کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ جیسے ملائکہ کی یہ شان ہے کہ يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ (النحل:۵۱) اسی طرح پر انسانی قویٰ کا خاصہ ہے کہ جو حکم ان کو دیا جائے اُس کی تعمیل کرتے ہیں.ایسا ہی تمام قویٰ اور جوارح حکمِ انسانی کے نیچے ہیں.پس ماسویٰ اللہ کے بتوں کی شکست اور استیصال کے لئے ضروری ہے کہ اُن پر اسی طرح سے چڑھائی کی جاوے.یہ لشکر تزکیۂ نفس سے طیار ہوتا ہے اور اسی کو فتح دی جاتی ہے جو تزکیہ کرتا ہے چنانچہ قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشمس:۱۰) حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر قلب کی اصلاح ہوجاوے تو کُل جسم کی اصلاح ہوجاتی ہے.اور یہ کیسی سچی بات ہے آنکھ، کان، ہاتھ، پاؤں، زبان وغیرہ جس قدر اعضاء ہیں وہ دراصل قلب کے ہی فتویٰ پر عمل کرتے ہیں.ایک خیال آتا ہے پھر وہ جس اعضاء کے متعلق ہو وہ فوراً اس کی تعمیل کے لئے طیار ہوجاتا ہے.میری پیروی کرو اور میرے پیچھے چلے آؤ غرض اس خانہ خدا کو بتوں سے پاک و صاف کرنے کے لئے ایک جہاد کی ضرورت ہے اور اس جہاد کی راہ مَیں تمہیں بتاتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں اگر تم اس پر عمل کرو گے توان بتوں کو توڑ ڈالو گے اور یہ راہ مَیں اپنی خود تراشیدہ نہیں بتاتا بلکہ خدا نے مجھے مامور کیا ہے کہ مَیں بتاؤں.اور وہ راہ کیا ہے؟ میری پیروی کرو اور میرے پیچھے چلے آؤ.یہ آواز نئی آواز نہیں ہے.مکہ کو بتوں سے پاک کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کہا تھا قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ
يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (اٰل عـمران:۳۲) اسی طرح پر اگر تم میری پیروی کرو گے تو اپنے اندر کے بتوں کو توڑ ڈالنے کے قابل ہو جاؤ گے اور اس طرح پر سینہ کو جو طرح طرح کے بتوں سے بھرا پڑا ہے پاک کرنے کے لائق ہو جاؤ گے.تزکیۂ نفس کے لئے چلّہ کشیوں کی ضرورت نہیں ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے چلّہ کشیاں نہیں کی تھیں.ارّہ اور نفی واثبات وغیرہ کے ذکر نہیں کئے تھے بلکہ اُن کے پاس ایک اَور ہی چیز تھی.وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں محو تھے جو نور آپؐ میں تھا وہ اس اطاعت کی نالی میں سے ہوکر صحابہؓ کے قلب پر گرتا تھا اور ماسوی اللہ کے خیالات کو پاش پاش کرتا جاتا تھا.تاریکی کی بجائے اُن سینوں میں نور بھرا جاتا تھا.اس وقت بھی خوب یاد رکھو وہی حالت ہے.جب تک کہ وہ نور جو خدا کی نالی میں سے آتا ہے تمہارے قلب پر نہیں گرتا تزکیہ نفس نہیں ہوسکتا.انسان کا سینہ مہبط الانوار ہے اور اسی وجہ سے وہ بیت اللہ کہلاتا ہے.بڑا کام یہی ہے کہ اس میں جو بت ہیں وہ توڑے جائیں اور اللہ ہی اللہ رہ جائے.حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَللّٰہُ اَللّٰہُ فِیْ اَصْـحَابِیْ میرے صحابہؓ کے دلوں میں اللہ ہی اللہ ہے.دل میں اللہ ہی اللہ ہونے سے یہ مُراد نہیں کہ انسان وحدتِ وجود کے مسئلہ پر عمل کرے اور ہر کتے اور گدھے کو معاذ اللہ خدا قرار دے بیٹھے.نہیں نہیں.اس سے اصل غرض یہ ہے کہ انسان کا جو کام ہو اس میں مقصود فی الذّات اللہ تعالیٰ ہی کی رضا ہو اور نہ کچھ اَور.اور یہ درجہ حاصل نہیں ہوسکتا جب تک خدا تعالیٰ کا فضل شاملِ حال نہ ہو.بر کریماں کار ہا دُشوار نیست ۲۰؎ # قرآن کریم میں عِلمی اور عملی تکمیل کی ہدایت ہے پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم میں علمی اور عملی تکمیل کی ہدایت ہے چنانچہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ (الفاتـحۃ :۶) میں تکمیل علمی کی طرف اشارہ ہے اور تکمیل عملی کا بیان صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتـحۃ :۷) میں فرمایا کہ جو نتائج اکمل اور اَتَم ہیں وہ حاصل
ہوجائیں.جیسے ایک پودا جو لگایا گیا ہے جب تک پورا نشوونما حاصل نہ کرے اس کو پھول پھل نہیں لگ سکتے.اسی طرح اگر کسی ہدایت کے اعلیٰ اور اکمل نتائج موجود نہیں ہیں وہ ہدایت مُردہ ہدایت ہے جس کے اندر کوئی نشوونما کی قوت اور طاقت نہیں ہے.جیسے اگر کسی کو وید کی ہدایت پر پورا عمل کرنے سے کبھی یہ اُمید نہیں ہوسکتی کہ وہ ہمیشہ کی مکتی یا نجات حاصل کرلے گا اور کیڑے مکوڑے بننے کی حالت سے نکل کر دائمی سرور پالے گا تو اس ہدایت سے کیا حاصل مگر قرآن شریف ایک ایسی ہدایت ہے کہ اُس پر عمل کرنے والا اعلیٰ درجہ کے کمالات حاصل کرلیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے اس کا ایک سچا تعلق پیدا ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ اُس کے اعمالِ صالحہ جو قرآنی ہدایتوں کے موافق کیے جاتے ہیں وہ ایک شجرِ طیّب کی مثال پر جو قرآن شریف میں دی گئی ہے بڑھتے ہیں اور پھل پھول لاتے ہیں.ایک خاص قسم کی حلاوت اور ذائقہ اُن میں پیدا ہوتا ہے.پس اگر کوئی شخص اپنے ایمان میں نشوونما کا مادہ نہیں رکھتا بلکہ اس کا ایمان مُردہ ہے تو اس پر اعمالِ صالحہ کے طیّب اشجار کے باروَر ہونے کی کیا اُمید ہوسکتی ہے؟ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتـحۃ :۷) کہہ کر ایک قید لگادی ہے.یعنی یہ راہ کوئی بے ثمر اور حیران اور سرگرداں کرنے والی راہ نہیں ہے بلکہ اس پر چل کر انسان بامراد اور کامیاب ہوتا ہے اور عبادت کے لئے تکمیل عملی ضروری شے ہے ورنہ وہ محض ایک کھیل ہوگا کیونکہ درخت اگر پھل نہ دے خواہ وہ کتنا ہی اُونچا کیوں نہ ہو مفید نہیں ہوسکتا.مامُورمن اللہ کے مخالفوں کا ایمان سَلب ہوجاتا ہے ہمارے مخالفوں کی حالت ایسی ہے جس سے سلبِ ایمان کا اندیشہ ہے.کیونکہ وہ نیک کو بُرا اور مامُورمن اللہ کو کذّاب سمجھتے ہیں جس سے خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک جنگ شروع ہوجاتی ہے.اور اب یہ صاف امر ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے مامور اور مسیح موعود کے نام سے دنیا میں بھیجا ہے جو شخص میری مخالفت کرتے ہیں وہ میری نہیں خدا تعالیٰ کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ جب تک مَیں نے دعویٰ نہ کیا تھا بہت سے اُن میں سے مجھے عزت کی نگاہ
سے دیکھتے تھے اور اپنے ہاتھ سے لوٹا لے کر وضو کرانے کو ثواب اور فخر جانتے تھے اور بہت سے ایسے بھی تھے جو میری بیعت میں آنے کے لئے زور دیتے تھے لیکن جب خدا تعالیٰ کے نام اور اعلام سے یہ سلسلہ شروع ہوا تو وہی مخالفت کے لئے اُٹھے.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ اُن کی ذاتی عداوت میرے ساتھ نہ تھی بلکہ عداوت اُن کو خدا تعالیٰ سے ہی تھی.اگر خدا تعالیٰ کے ساتھ اُن کو سچا تعلق تھا تو اُن کی دینداری اور اتقا اور خداترسی کا تقاضا یہ ہونا چاہیے تھا کہ سب سے اول وہ میرے اس اعلان پر لبیک کہتے اور سجداتِ شکر کرتے ہوئے میرے ساتھ مصافحہ کرتے مگر نہیں.وہ اپنے ہتھیاروں کو لے کر نِکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے مخالفت کو یہاں تک پہنچایا کہ مجھے کافر کہا اور بے دین کہا.دجال کہا.افسوس! ان احمقوں کو یہ معلوم نہ ہوا کہ جو شخص خدا تعالیٰ سے قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اور اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ کی آوازیں سنتا ہو وہ اُن کی بدگوئی اور گالیوں کی کیا پروا کرسکتا ہے.افسوس تو یہ ہے کہ ان نادانوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ کفر اور ایمان کا تعلق دنیا سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے اور خدا تعالیٰ میرے مومن اور مامور ہونے کی تصدیق کرتا ہے.پھر ان کی بیہودگیوں کی مجھے پروا کیا ہوسکتی ہے؟ غرض ان باتوں سے صاف پایا جاتا ہے کہ یہ لوگ میرے مخالف نہ تھے بلکہ خدا تعالیٰ کی باتوں کی انہوں نے مخالفت کی اور یہی وجہ ہے جس سے مامور من اللہ کے مخالفوں کا ایمان سلب ہوجاتا ہے.اب یہ صاف بات ہے کہ میرے مخالف خدا تعالیٰ سے مخالفت کررہے ہیں.میں اگر روشنی کی طرف آرہا ہوں اور یہ یقینی امر ہے کہ مَیں روشنی کی طرف آتا ہوں کیونکہ خدا تعالیٰ کے بے شمار نشان میری تائید میں ظاہر ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں.بارش کی طرح یہ نشان آسمان سے اُتر رہے ہیں.تو پھر یہ بھی یقینی امر ہے کہ میرے مخالف تاریکی کی طرف جاتے ہیں.روشنی اور نور رُوح القدس کو لاتا ہے اور تاریکی شیطان کی قربت پیدا کرتی ہے اور اس طرح پر ولی کی مخالفت سَلْب ایمان کر دیتی ہے اور بِئْسَ الْقَرِیْن سے جا ملاتی ہے.مدعا یہ ہے کہ اصلاح تب ہوتی ہے کہ تکمیلِ عملی کے مراتب حاصل ہوجائیں.پس سورۃ العصر میں جو اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فرمایا ہے اس میں اٰمَنُوْا سے
تکمیل علمی کی طرف اشارہ فرمایا اور عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سے تکمیل عملی کی طرف رہبری کی.حکمت کے بھی دو ہی حصے ہیں.ایک علم اکمل اور اتم ہو.دُوسرے عمل اتم اور اکمل ہو.وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ خسر سے محفوظ رہتے ہیں.اول وہ تکمیل علمی کرتے ہیں اور پھر عمل بھی گندے نہیں کرتے بلکہ علمی تکمیل کو عملی تکمیل تک پہنچاتے ہیں اور پھر یہ کہ جب انہیں کامل بصیرت حاصل ہوجاتی ہے اور ان کے کمال علم کا ثبوت کمالِ عمل سے ملتا ہے تو پھر وہ بخل نہیں کرتے بلکہ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ پر عمل کرتے ہیں.لوگوں کو بھی اس حق کی دعوت کرتے ہیں جو انہوں نے پایا ہے.اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ اعمال کی روشنی سے بھی دکھاتے ہیں.واعظ اگر خود عمل نہیں کرتا تو اس کی باتوں کا کچھ بھی اثر نہیں پڑسکتا.یہ بھی قاعدہ کی بات ہے کہ اگر خود آدمی کہے اور کرے نہیں تو اس کا بہت بُرا اثر پڑتا ہے.اگر زناکار زنا سے منع کرے تو اُس کی اس حالت کے ثابت ہوجانے پر سننے والوں کے دہریہ ہوجانے کا اندیشہ ہے کیونکہ وہ خیال کریں گے کہ اگر زنا کاری واقعی خطرناک چیز ہوتی اور خدا تعالیٰ کے حضور اس ناپاکی پر سزا ملتی ہے اور خدا واقعی ہوتا تو پھر یہ جو منع کرتا تھا خود کیوں اس سے پرہیز نہ کرتا.مجھے معلوم ہے کہ ایک شخص ایک مولوی کی صحبت کے باعث مسلمان ہونے لگا.ایک روز اُس نے دیکھا کہ وہی مولوی شراب پی رہا ہی تھا تو اس کا دل سخت ہوگیا اور وہ رُک گیا.غرض تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ میں یہ فرمایا کہ وہ اپنے اعمال کی روشنی سے دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں.وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ اور پھر ان کا یہ شیوہ ہوتا ہے.تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ یعنی صبر کے ساتھ وعظ و نصیحت کا شیوہ اختیار کرتے ہیں.جلدی جھاگ مُنہ پر نہیں لاتے.اگر کوئی مولوی اور پیش رَو ہوکر امام اور رہنما بن کر جلدی بھڑک اُٹھتا ہے اور اس میں برداشت اور صبر کی طاقت نہیں تو وہ لوگوں کو کیوں نقصان پہنچاتا ہے؟ دوسرے یہ بھی مطلب ہے کہ جو باتیں سننے والا صبر سے نہ سُنے وہ فائدہ نہیں اُٹھاتا.ہمارے مخالف بُردباری کا دل لے کر نہیں آتے اور صبر سے اپنی مشکلات پیش نہیں کرتے بلکہ اُن کا تو یہ حال ہے کہ وہ کتاب تک تو دیکھنا نہیں چاہتے
اور شور مچا کر حق کو ملبّس کرنے کی سعی کرتے ہیں.پھر وہ فائدہ اُٹھائیں تو کیوں کر اُٹھائیں.ابوجہل اور ابولہب میں کیا تھا؟ یہی بے صبری اور بے قراری تو تھی.کہتے تھے کہ تو خدا کی طرف سے آیا ہے تو کوئی نہر لے آ.ان کم بختوں نے صبر نہ کیا اور ہلاک ہوگئے ورنہ زبیدہ والی نہر تو آہی گئی.اسی طرح پر ہمارے مخالف بھی کہتے ہیں کہ ہمارے لئے دعا کرو اور وہ معاً قبول ہوجائے اور پھر اس کو حق وباطل کا معیار ٹھیراتے ہیں اور اپنی طرف سے بعض اُمور پیش کرکے کہتے ہیں کہ یہ ہوجائے اور وہ ہوجائے تو مان لیں لیکن آپ کسی شرط کے نیچے نہیں آتے.افسوس یہی لوگ ہیں جو لَا يَخَافُ عُقْبٰهَا (الشمس:۱۴) کے مصداق ہیں.یاد رکھو صابر ہی شرح صدر کا رتبہ پاتا ہے جو صبر نہیں کرتا وہ گویا خدا پر حکومت کرتا ہے.خود اس کی حکومت میں رہنا نہیں چاہتا.ایسا گُستاخ اور دلیر جو خدا تعالیٰ کے جلال اور عظمت سے نہیں ڈرتا وہ محروم کردیا جاتا ہے اور اُسے کاٹ دیا جاتا ہے.صحبت صادقین پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ صبر کی حقیقت میں سے یہ بھی ضروری بات ہے كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التوبۃ:۱۱۹) صادقوں کی صحبت میں رہنا ضروری ہے.بہت سے لوگ ہیں جو دُور بیٹھے رہتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ کبھی آئیں گے، اس وقت فرصت نہیں ہے.بھلا تیرہ سو (۱۳۰۰) سال کے موعود سلسلہ کو جو لوگ پالیں اور اُس کی نصرت میں شامل نہ ہوں اور خدا اور رسولؐ کے موعود کے پاس نہ بیٹھیں، وہ فلاح پا سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں ایں خیال است و محال است و جنوں # دین تو چاہتا ہے کہ مصاحبت ہو پھر مصاحبت سے گریز ہو تو دینداری کے حصول کی اُمید کیوں رکھتا ہے؟ ہم نے بارہا اپنے دوستوں کو نصیحت کی ہے اور پھر کہتے ہیں کہ وہ بار بار یہاں آکر رہیں اور فائدہ اُٹھائیں مگر بہت کم توجہ کی جاتی ہے.لوگ ہاتھ میں ہاتھ دے کر تو دین کو دنیا پر مقدم کرلیتے ہیں مگر اس کی پروا کچھ نہیں کرتے.یاد رکھو قبریں آوازیں دے رہی ہیں اور موت ہر وقت قریب ہوتی جاتی ہے.ہر ایک سانس تمہیں موت کے قریب کرتا جاتا ہے اور تم اُسے فرصت کی گھڑیاں سمجھتے جاتے ہو.اللہ تعالیٰ سے مکر کرنا مومن کا کام نہیں ہے.جب موت کا وقت آگیا پھر ساعت
آگے پیچھے نہ ہوگی.وہ لوگ جو اس سلسلہ کی قدر نہیں کرتے اور انہیں کوئی عظمت اس کی معلوم ہی نہیں ان کو جانے دو مگر ان سب سے بڑھ کر بدقسمت اور اپنی جان پر ظلم کرنے والا تو وہ ہے جس نے اس سلسلہ کو شناخت کیا اور اُس میں شامل ہونے کی فکر کی لیکن اُس نے کچھ قدر نہ کی.وہ لوگ جو یہاں آکر میرے پاس کثرت سے نہیں رہتے اور اُن باتوں سے جو خدا تعالیٰ ہر روز اپنے سلسلہ کی تائید میں ظاہر کرتا ہے نہیں سُنتے اور دیکھتے وہ اپنی جگہ پر کیسے ہی نیک اور متقی اور پرہیز گار ہوں مگر میں یہی کہوں گا کہ جیسا چاہیے انہوں نے قدر نہیں کی.مَیں پہلے کہہ چکا ہوں کہ تکمیل علمی کے بعد تکمیلِ عملی کی ضرورت ہے.پس تکمیل عملی بدُوں تکمیل علمی کے مُحال ہے اور جب تک یہاں آکر نہیں رہتے تکمیل علمی مشکل ہے.بارہا خطوط آتے ہیں کہ فلاں شخص نے اعتراض کیا اور ہم جواب نہ دے سکے.اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ وہ لوگ یہاں نہیں آتے اور اُن باتوں کو نہیں سنتے جو خدا تعالیٰ اپنے سلسلہ کی تائید میں علمی طور پر ظاہر کررہا ہے.پس اگر تم واقعی اس سلسلہ کو شناخت کرتے ہو اور خدا پر ایمان لاتے ہو اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا سچا وعدہ کرتے ہو تو مَیں پوچھتا ہوں کہ اس پر عمل کیا ہوتا ہے.کیا كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التوبۃ:۱۱۹) کا حکم منسوخ ہوچکا ہے؟ اگر تم واقعی ایمان لاتے ہو اور سچی خوش قسمتی یہی ہے تو اللہ تعالیٰ کو مقدم کرلو.اگر ان باتوں کو ردّی اور فضول سمجھو گے تو یاد رکھو خدا تعالیٰ سے ہنسی کرنے والے ٹھیرو گے.۲۱؎ سورۃ فاتحہ میں قرآنِ کریم کے تمام معارف درج ہیں سورۃ الفاتحہ پر جو قرآن شریف کا باریک نقشہ ہے اور اُمّ الکتاب بھی جس کا نام ہے خوب غور کرو کہ اس میں اجمال کے ساتھ قرآن کریم کے تمام معارف درج ہیں.چنانچہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ سے اس کو شروع کیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ تمام محامد اللہ ہی کے لئے ہیں.اس میں یہ تعلیم ہے کہ تمام منافع اور تمدنی زندگی کی ساری بہبودگیاں اللہ ہی کی
طرف سے آتی ہیں کیونکہ ہر قسم کی ستائش کا سزاوار جب کہ وہی ہے تو معطی حقیقی بھی وہی ہو سکتا ہے ورنہ لازم آئے گا کہ کسی قسم کی تعریف و ستائش کا مستحق وہ نہیں بھی ہے جو کفر کی بات ہے.پس اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ میں کیسی توحید کی جامع تعلیم پائی جاتی ہے جو انسان کو دنیا کی تمام چیزوں کی عبودیت اور بالذّات نفع رساں نہ ہونے کی طرف لے جاتی ہے اور واضح اور بیّن طور پر یہ ذہن نشین کرتی ہے کہ ہر نفع اور سود حقیقی اور ذاتی طور پر خدا تعالیٰ کی ہی طرف سے آتا ہے کیونکہ تمام محامد اسی کے لئے سزا وار ہیں.پس ہر نفع اور سود میں خدا تعالیٰ ہی کو مقدم کرو.اس کے سوا کوئی کام آنے والا نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا کے اگر خلاف ہو تو اولاد بھی دشمن ہوسکتی ہے.اور ہوجاتی ہے.اللہ تعالیٰ کی اُمہاتُ الصفات پھر اسی سورۃ فاتحہ میں اس خدا کا نقشہ دکھایا گیا ہے جو قرآن شریف منوانا چاہتا ہے اور جس کو وہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے.چنانچہ اس کی چار صفات کو ترتیب وار بیان کیا ہے جو اُمہات الصّفات کہلاتی ہیں.جیسے سورۂ فاتحہ اُمّ الکتاب ہے ویسے ہی جو صفات اللہ تعالیٰ کی اس میں بیان کی گئی ہیں وہ بھی اُمّ الصّفات ہی ہیں اور وہ یہ ہیں رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ، الرَّحْمٰنِ، الرَّحِيْمِ، مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ.ان صفاتِ اربعہ پر غور کرنے سے خدا تعالیٰ کا گویا چہرہ نظر آجاتا ہے.ربوبیت کا فیضان بہت ہی وسیع اور عام ہے اور اس میں کل مخلوق کی کل حالتوں میں تربیت اور اس کی تکمیل کے تکفُّل کی طرف اشارہ ہے.غور تو کرو جب انسان اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر سوچتا ہے تو اس کی امید کس قدر وسیع ہوجاتی ہے اور پھر رحمانیت یہ ہے کہ بِدُوں کسی عملِ عامل کے اُن اسباب کو مہیا کرتا ہے جو بقائے وجود کے لئے ضروری ہیں.دیکھو چاند، سورج، ہوا، پانی وغیرہ بدوں ہماری دعا اور التجا کے اور بغیر ہمارے کسی عمل اور فعل کے اس نے ہمارے وجود کے بقا کے لئے کام میں لگا رکھے ہیں اور پھر رحیمیت یہ ہے کہ اعمال کو ضائع نہ کرے اور مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ کا تقاضا یہ ہے کہ بامراد کردے.جیسے ایک شخص امتحان کے لئے بہت محنت سے طیاری کرتا ہے مگر امتحان میں دو چار نمبروں کی کمی رہ جاتی ہے تو دنیوی نظام اور سلسلہ میں تو اس کا لحاظ نہیں کرتے اور اس کو گرا دیتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی رحیمیت اس کی
پردہ پوشی فرماتی ہے اور اس کو پاس کرا دیتی ہے.رحیمیت میں ایک قسم کی پردہ پوشی بھی ہوتی ہے.عیسائیوں کا خدا ذرہ بھی پردہ پوش نہیں ہے ورنہ کفّارہ کی کیا ضرورت رہتی؟ ایسا ہی آریوں کا خدا نہ رب ہے نہ رحمان ہے کیونکہ وہ تو بلا مُزد اور بلا عمل کچھ بھی کسی کو عطا نہیں کرسکتا.یہاں تک کہ ویدوں کے اصول کے موافق گناہ کرنا بھی ضروری معلوم دیتا ہے.مثلاً ایک شخص کو اگر کسی اُس کے عمل کے معاوضہ میں گائے کا دودھ دینا مطلوب ہے تو بالمقابل یہ بھی ضرور ہے کہ کوئی برہمنی (اگر یہ روایت صحیح ہو) زِنا کرے تاکہ اس فسق و فحش کے بدلہ میں وہ گائے کی جون میں جائے اور اس عامل کو دودھ پلائے خواہ وہ اس کا خاوند ہی کیوں نہ ہو.غرض جب تک ایسا سلسلہ نہ ہوگا کوئی عامل اپنے عمل کی جزا ویدک ایشر کے خزانہ سے پا نہیں سکتا کیونکہ اس کا سارا سلسلہ جوڑ توڑ ہی سے چلتا ہے.مگراسلام نے وہ خدا پیش کیا ہے جو جمیع محامد کا سزا وار ہے اس لئے معطی حقیقی ہے وہ رحمن ہے بدُوں عملِ عامل کے اپنا فضل کرتا ہے.پھر مالکیت یوم الدین جیسا کہ مَیں نے ابھی کہا ہے بامراد کرتی ہے.دنیا کی گورنمنٹ کبھی اس امر کا ٹھیکہ نہیں لے سکتی کہ ہر ایک بی اے پاس کرنے والے کو ضرور نوکری دے گی مگر خدا تعالیٰ کی گورنمنٹ، کامل گورنمنٹ اور لااِنتہا خزائن کی مالک ہے.اس کے حضور کوئی کمی نہیں.کوئی عمل کرنے والا ہو.وہ سب کو فائزالمرام کرتا ہے اور نیکیوں اور حسنات کے مقابلہ میں بعض ضعفوں اور سقموں کی پردہ پوشی بھی فرماتا ہے.وہ توّاب بھی ہے اور مستحیی بھی ہے.اللہ تعالیٰ کو ہزارہا عیب اپنے بندوں کے معلوم ہوتے ہیں مگر وہ ظاہر نہیں کرتا.ہاں ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ بیباک ہوکر انسان اپنے عیبوں میں ترقی پر ترقی کرتا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی حیا اور پردہ پوشی سے نفع نہیں اُٹھاتا بلکہ دہریت کی رگ اس میں زور پکڑتی جاتی ہے.تب خدا تعالیٰ کی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ اس بیباک کو چھوڑا جائے اس لئے وہ ذلیل کیا جاتا ہے.مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کو محمد حسین کی نسبت الہام ہوا کہ اس میں کوئی عیب ہے.اس نے چاہا کہ وہ ظاہر کردیں مگر انہوں نے یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی حیا مانع ہے.پھر انہوں نے اس کی نسبت ایک رؤیا میں دیکھا کہ اس کے کپڑے پھٹ گئے ہیں چنانچہ اب وہ رؤیا پوری ہوگئی.
غرض میرا مطلب تو صرف یہ تھا کہ رحیمیت میں ایک خاصّہ پردہ پوشی کا بھی ہے مگر اس پردہ پوشی سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی عمل ہو اور اس عمل کے متعلق اگر کوئی کمی یا نقص رہ جاوے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحیمیت سے اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے.رحمانیت اور رحیمیت میں فرق یہ ہے کہ رحمانیت میں فعل اور عمل کو کوئی دخل نہیں ہوتا مگر رحیمیت میں فعل و عمل کو دخل ہے.لیکن کمزوری بھی ساتھ ہی ہے.خدا کا رحم چاہتا ہے کہ پردہ پوشی کرے.اسی طرح مالک یوم الدین وہ ہے کہ اصل مقصد کو پورا کرے.خوب یاد رکھو کہ یہ اُمہات الصّفات رُوحانی طور پر خدانما تصویر ہیں.ان پر غور کرتے ہی معاً خدا سامنے ہوجاتا ہے اور رُوح ایک لذت کے ساتھ اُچھل کر اس کے سامنے سربسجود ہوجاتی ہے چنانچہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ سے جو شروع کیا گیا تھا تو غائب کی صورت میں ذکر کیا ہے لیکن ان صفات اربعہ کے بیان کے بعد معاً صورت بیان تبدیل ہوگئی ہے کیونکہ ان صفات نے خدا کو سامنے حاضر کردیا ہے.اس لئے حق تھا اور فصاحت کا تقاضا تھا کہ اب غائب نہ رہے بلکہ حاضر کی صورت اختیار کی جاوے.پس اس دائرہ کی تکمیل کے تقاضا نے مخاطب کی طرف منہ پھیرا اور اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتـحۃ :۵) کہا.یاد رکھنا چاہیے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں کوئی فاصلہ نہیں ہے.ہاں اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں ایک قسم کا تقدمِ زمانی ہے کیونکہ جس حال میں محض اپنی رحمانیت سے بغیر ہماری دعا اور درخواست کے ہمیں انسان بنایا اور انواع و اقسام کی قوتیں اور نعمتیں عطا فرمائیں.اس وقت ہماری دعا نہ تھی بلکہ محض اس کا فضل ہمارے شاملِ حال تھا اور یہی تقدم ہے.رحمانیت اور رحیمیت مَیں پھر بیان کرتا ہوں اور یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ رحم دو قسم کا ہوتا ہے.اول رحمانیت اور دوسرا رحیمیت کے نام سے مُوسوم ہے.رحمانیت تو ایسا فیضان ہے کہ جو ہمارے وجود اور ہستی سے بھی پہلے شروع ہوا.مثلاً اللہ تعالیٰ نے ہمارے وجود سے پیشتر ہی زمین و آسمان، چاند و سورج اور دیگر اشیاء ارضی و سماوی پیدا کی ہیں جو سب کی سب ہمارے کام آنے والی ہیں اور کام آتی ہیں.دُوسرے حیوانات بھی اُن سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.مگر وہ جب کہ بجائے خود انسان ہی کے لئے مفید ہیں اور انسان ہی کے کام آتے ہیں.
تو گویا مجموعی طور پر انسان ہی اُن سب سے فائدہ اُٹھانے والا ٹھیرا.دیکھو جسمانی اُمور میں کیسی اعلیٰ درجہ کی غذائیں کھاتا ہے.اعلیٰ درجہ کا گوشت انسان کے لئے ہے.ٹکڑے اور ہڈیاں کتوں کے واسطے.جسمانی طور پر تو کسی حد تک حیوان بھی شریک ہیں مگر رُوحانی لذّات میں جانور شریک نہیں ہیں.پس یہ دو قسم کی رحمتیں ہیں.ایک وہ جو ہمارے وجود سے پہلے ہی عطا ہوتی ہیں اور دوسری وہ جو رحیمیت کی شان کے نمونے ہیں اور وہ دعا کے بعد پیدا ہوتے ہیں اور اُن میں ایک فعل کی ضرورت ہوتی ہے.دعا اور قانونِ قدرت کا باہمی تعلق یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس امر کو بیان کر دیا جائے کہ قانونِ قُدرت میں ہمیشہ دعا کا تعلق ہے.آج کل کے نیچری طبع لوگ جو علومِ حقّہ سے محض بے خبر اور ناواقف ہیں اور اُن کی ساری تگ و دو کا نتیجہ یورپ کے طرزِ معاشرت کی نقل اُتارنا ہے، دُعا کو ایک بدعت سمجھتے ہیں اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دعا کے تعلق پر کچھ مختصر سی بحث کی جاوے.دیکھو ایک بچہ جب بھوک سے بیتاب اور بے قرار ہو کر دودھ کے لیے چلّاتا ہے اور چیختا ہے تو ماں کی پستان میں دُودھ جوش مار کر آجاتا ہے حالانکہ بچہ تو دعا کا نام بھی نہیں جانتا لیکن یہ کیا سبب ہے کہ اُس کی چیخیں دُودھ کو جذب کرلاتی ہیں.یہ ایک ایسا امر ہے کہ عموماً ہر ایک صاحب کو اس کا تجربہ ہے.بعض اوقات ایسا دیکھا گیا ہے کہ مائیں اپنی چھاتیوں میں دُودھ کو محسوس بھی نہیں کرتی ہیں اور بسا اوقات ہوتا بھی نہیں، لیکن جونہی بچہ کی درد ناک چیخ کان میں پہنچی فوراً دُودھ اُتر آیا ہے جیسے بچہ کی ان چیخوں کو دُودھ کے جذب اور کشش کے ساتھ ایک علاقہ ہے.مَیں سچ کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری چلّاہٹ ایسی ہی اضطراری ہو تو وہ اُس کے فضل اور رحمت کو جوش دلاتی ہے اور اس کو کھینچ لاتی ہے اور مَیں اپنے تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ خدا کے فضل اور رحمت کو جو قبولیت دعا کی صورت میں آتا ہے میں نے اپنی طرف کھینچتے ہوئے محسوس کیا ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ دیکھا ہے.ہاں آج کل کے زمانہ کے تاریک دماغ فلاسفر اس کو محسوس نہ کرسکیں یا نہ دیکھ سکیں تو یہ صداقت دنیا سے اُٹھ نہیں سکتی اور
خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ مَیں قبولیت دعا کا نمونہ دکھانے لئے ہر وقت طیار ہوں.۲۲؎ تو غرض یہ ہے کہ قانون قدرت میں قبولیت دعا کی نظیریں موجود ہیں اور ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ زندہ نمونے بھیجتا ہے.اسی لئے اس نے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتـحۃ:۷،۶) کی دعا تعلیم فرمائی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا منشا اور قانون ہے اور کوئی نہیں جو اس کو بدل سکے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دعا سے پایا جاتا ہے کہ ہمارے اعمال کو اکمل اور اَتم کر.ان الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر تو اشارۃ النص کے طور پر اس سے دعا کرنے کا حکم معلوم ہوتا ہے کہ صراط مستقیم کی ہدایت مانگنے کی تعلیم ہے لیکن اس کے سر پر اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتـحۃ:۵) بتارہا ہے کہ اس سے فائدہ اُٹھائیں یعنی صراطِ مستقیم کے منازل کے لئے قوائے سلیم سے کام لے کر استعانتِ الٰہی کو مانگنا چاہیے.پس ظاہری اسباب کی رعایت ضروری ہے.جو اس کو چھوڑتا ہے وہ کافرِ نعمت ہے.دیکھو! یہ زبان جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور عروق و اعصاب سے اس کو بنایا ہے اگر ایسی نہ ہوتی تو ہم بول نہ سکتے.ایسی زبان دعا کے لیے عطا کی جو قلب کے خیالات اور ارادوں تک کو ظاہر کرسکے.اگر ہم دعا کا کام زبان سے کبھی نہ لیں تو ہماری شوربختی ہے.بہت سی بیماریاں ایسی ہیں کہ اگر وہ زبان کو لگ جاویں تو وہ یکدفعہ ہی کام چھوڑ بیٹھتی ہے یہ رحیمیّت ہے.ایسا ہی قلب میں خشوع و خضوع کی حالت رکھی اور سوچنے اور تفکّر کی قوتیں ودیعت کی ہیں.پس یاد رکھو! اگر ہم ان قوتوں اور طاقتوں کو معطل چھوڑ کر دعا کرتے ہیں تو یہ دعا کچھ بھی مفید اور کارگر نہ ہوگی کیونکہ جب پہلے عطیہ سے کچھ کام نہیں لیا تو دوسرے سے کیا نفع اُٹھائیں گے، اس لئے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ سے پہلے اِيَّاكَ نَعْبُدُ بتارہا ہے کہ ہم نے تیرے پہلے عطیوں اور قوتوں کو بیکار اور برباد نہیں کیا.یاد رکھو! رحمانیت کا خاصہ یہی ہے کہ وہ رحیمیت سے فیض اُٹھانے کے قابل بنادے، اس لئے خدا تعالیٰ نے جو اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن:۶۱) فرمایا یہ نری لفاظی نہیں ہے بلکہ انسانی شرف اسی کا متقاضی ہے.مانگنا انسانی خاصّہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا.جو نہیں مانتا وہ ظالم ہے.دعا ایک ایسی
سُرور بخش کیفیت ہے کہ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ میں کن الفاظ میں اس لذّت اور سُرور کو دنیا کو سمجھاؤں.یہ تو محسوس کرنے ہی سے پتا لگے گا.مختصر یہ کہ دعا کے لوازمات سے اول ضروری یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ اور اعتقاد پیدا کریں کیونکہ جو شخص اپنے اعتقادات کو درست نہیں کرتا اور اعمال صالحہ سے کام نہیں لیتا اور دعا کرتا ہے وہ گویا خدا تعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے.تو بات یہ ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دعا میں یہ مقصود ہے کہ ہمارے اعمال کو اکمل اور اتم کر اور پھر یہ کہہ کر کہ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اور بھی صراحت کردی کہ ہم اس صراط کی ہدایت چاہتے ہیں جو منعم علیہ گروہ کی راہ ہے اور مغضوب گروہ کی راہ سے بچا جن پر بداعمالیوں کی وجہ سے عذابِ الٰہی آگیا اور اَلضَّالِّیْن کہہ کر یہ دعا تعلیم کی کہ اس سے بھی محفوظ رکھ کہ تیری حمایت کے بِدُوں بھٹکتے پھریں.ایک اور بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس جگہ لف و نشر مرتب ہے.اول اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ اللہ مستجمع جمیع صفات کاملہ، ہر ایک خوبی کو اپنے اندر رکھنے والا اور ہر ایک عیب اور نقص سے منزّہ.دوم رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.سوم الرَّحْمٰنِ.چہارم الرَّحِيْمِ.پنجم مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ.اب اس کے بعد جو درخواستیں ہیں وہ ان پانچوں کے ماتحت ہیں.اب سلسلہ یوں شروع ہوتا ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ.یہ فقرہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کے مقابل ہے.یعنی اے اللہ تُو جو ساری صفاتِ حمیدہ کا جامع ہے اور تمام بدیوں سے منزّہ ہے تیری ہی عبادت کرتے ہیں.مسلمان اس خدا کو جانتا ہے جس میں وہ تمام خوبیاں جو انسانی ذہن میں آسکتی ہیں موجود ہیں اور اس سے بالاتر اور بالاتر ہے کیونکہ یہ سچی بات ہے کہ انسانی عقل اور فکر اور ذہن خدا تعالیٰ کی صفات کا احاطہ ہرگز ہرگز نہیں کرسکتے.ہاں تو مُسلمان ایسے کامل الصفات خدا کو مانتا ہے.ہندوؤں کے نزدیک خدا کا تصور تمام قومیں مجلسوں میں اپنے خدا کا ذکر کرتے ہوئے شرمندہ ہوجاتی ہیں اور اُنہیں شرمندہ ہونا پڑتا ہے.مثلاً ہندوؤں کا خدا جو اُنہوں نے مانا ہے اور کہا ہے کہ ویدوں سے ایسے خدا ہی کا پتا لگتا ہے.جب اس کی نسبت وہ یہ ذکر کریں گے کہ اُس نے دنیا کا ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کیا اور نہ اس نے روحوں کو
پیدا کیا ہے، تو کیا ایسے خدا کے ماننے والے کے لئے کوئی مفر رہ سکتا ہے جب اُسے کہا جائے کہ ایسا خدا اگر مَر جائے تو کیا حرج ہے کیونکہ جب یہ اشیاء اپنا وجود مستقل رکھتی ہیں اور قائم بالذّات ہیں پھر خدا کی زندگی کی ان کی زندگی اور بقا کے لئے کیا ضرورت ہے؟ جیسے ایک شخص اگر تیر چلائے اور وہ تیر ابھی جاہی رہا ہو کہ اُس شخص کا دم نکل جائے تو بتاؤ اس تیر کی حالت میں کیا فرق آئے گا.ہاتھ سے نکلنے کے بعد وہ چلانے والے کے وجود کا محتاج نہیں ہے.اسی طرح پر ہندوؤں کے خدا کے لئے اگر یہ تجویز کیا جائے کہ وہ ایک وقت مَر جاوے تو کوئی ہندو اُس کی موت کا نقصان نہیں بتا سکتا مگر ہم خدا کے لئے ایسا تجویز نہیں کرسکتے کیونکہ اللہ کے لفظ سے ہی پایا جاتا ہے کہ اس میں کوئی نقص اور بدی نہ ہو.ایسا ہی جب کہ آریہ مانتا ہے کہ اجسام اور رُوحیں انادی ہیں یعنی ہمیشہ سے ہیں.ہم کہتے ہیں کہ جب تمہارا یہ اعتقاد ہے پھر خدا کی ہستی کا ثبوت ہی کیا دے سکتے ہو؟ اگر کہو کہ اس نے جوڑا جاڑا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ جب تم پرمانو اور پرکرتی کو قدیم سے مانتے ہو اور ان کے وجود کو قائم بالذات کہتے ہو تو پھر جوڑنا جاڑنا تو ادنیٰ فعل ہے.وہ جڑ بھی سکتے ہیں اور ایسا ہی جب وہ یہ تعلیم بتاتے ہیں کہ خدا نے وید میں مثلاً یہ حکم دیا ہے کہ اگر کسی عورت کے ہاں اپنے خاوند سے بچہ پیدا نہ ہوسکتا ہو تو وہ کسی دوسرے سے ہم بستر ہوکر اولاد پیدا کرلے تو بتاؤ ایسے خدا کی نسبت کیا کہا جاوے گا؟ یا مثلاً یہ تعلیم پیش کی جائے کہ خدا کسی اپنے پریمی اور بھگت کو ہمیشہ کے لئے مکتی یعنی نجات نہیں دے سکتا بلکہ مہاپرلے کے وقت اس کو ضروری ہوتا ہے کہ مکتی یافتہ انسانوں کو پھر اُسی تناسخ کے چکر میں ڈالے یا مثلاً خدا کی نسبت یہ کہنا کہ وہ کسی کو اپنے فضل و کرم سے کچھ بھی عطا نہیں کرسکتا بلکہ ہر ایک شخص کو وہی ملتا ہے جو اُس کے اعمال کے نتائج ہیں پھر ایسے خدا کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے.غرض ایسا خدا ماننے والے کو سخت شرمندہ ہونا پڑے گا.عیسائیوں کے نزدیک خدا کا تصور ایسا ہی عیسائی بھی جب یہ پیش کریں گے کہ ہمارا خدا یسوع ہے اور پھر اُس کی نسبت وہ یہ بیان کریں گے کہ یہودیوں کے ہاتھوں سے اُس نے ماریں کھائیں.شیطان اُسے آزماتا رہا.بھوک
اور پیاس کا اثر اس پر ہوتا رہا.آخر ناکامی کی حالت میں پھانسی پر چڑھایا گیا.تو کون دانشمند ہوگا جو ایسے خدا کے ماننے کے لئے طیار ہوگا.غرض اسی طرح پر تمام قومیں اپنے مانے ہوئے خدا کا ذکر کرتی ہوئی شرمندہ ہوتی ہیں مگر مُسلمان کبھی اپنے خدا کا ذکر کرتے ہوئے کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہوتا کیونکہ جو خوبی اور عمدہ صِفت ہے وہ اُن کے مانے ہوئے خدا میں موجود اور جو نقص اور بدی ہے اُس سے وہ منزّہ ہے.جیسا کہ سُورۃ الفاتحہ میں اللہ کو تمام صفات حمیدہ کا موصوف قراردیا ہے تو اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کے مقابل میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ ہے.اس کے بعد ہے رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.ربوبیت کا کام ہے تربیت اور تکمیل.جیسے ماں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے.اس کو صاف کرتی ہے.ہر قسم کے گنداور آلائش سے دُور رکھتی ہے اور دُودھ پلاتی ہے.دُوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ وہ اُس کی مدد کرتی ہے.اب اس کے مقابل میں یہاں اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ.پھر الرَّحْمٰنِ ہے جو بغیر خواہش، بِدوں درخواست اور بغیر اعمال کے اپنے فضل سے دیتا ہے.اگر ہمارے وجود کی ساخت ایسی نہ ہوتی تو ہم سجدہ نہ کرسکتے اور رکوع نہ کرسکتے اسی لئے ربوبیت کے مقابلہ میں اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ فرمایا.جیسے باغ کا نشوونما پانی کے بغیر نہیں ہوتا اسی طرح پر اگر خدا کے فیض کا پانی نہ پہنچے تو ہم نشوونما نہیں پاسکتے.درخت پانی کو چُوستا ہے.اس کی جڑوں میں دہانے اور سُوراخ ہوتے ہیں.طبعی میں یہ مسئلہ ہے کہ درخت کی شاخیں پانی کو جذب کرتی ہیں.اُن میں قوتِ جاذبہ ہے.اسی طر ح پر عبودیت میں ایک قوت جاذبہ ہوتی ہے جو خدا کے فیضان کو جذب کرتی ہے اور چوستی ہے.پس الرَّحْمٰنِ کے بالمقابل اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ ہے یعنی اگر اس کی رحمانیت ہمارے شاملِ حال نہ ہوتی.اگر یہ قویٰ اور طاقتیں تو نے عطا نہ کی ہوتیں تو ہم اس فیض سے کیوں کر بہرہ ور ہوسکتے.۲۳؎ ہدایت رحمانیت الٰہی سے ملتی ہے پس اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.الرَّحْمٰنِ کے بالمقابل ہے کیونکہ ہدایت پانا کسی کا حق تو نہیں ہے بلکہ محض رحمانیت الٰہی سے یہ فیض حاصل ہوسکتا ہے اور صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.الرَّحِيْمِ کے
بالمقابل ہے کیونکہ اس کا وِرد کرنے والا رحیمیت کے چشمہ سے فیض حاصل کرتا ہے اور اس کے یہ معنی ہیں کہ اے رحمِ خاص سے دُعاؤں کے قبول کرنے والے اُن رُسولوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحوں کی راہ ہم کو دکھا جنھوں نے دعا اور مجاہدات میں مصروف ہوکر تجھ سے انواع و اقسام کے معارف اور حقائق اور کشوف اور الہامات کا انعام پایا اور دائمی دعا اور تضرّع اور اعمال صالحہ سے معرفتِ تامہ کو پہنچے.رحیمیت کے مفہوم میں نقصان کا تدارک کرنا لگا ہوا ہے.حدیث میں آیا ہے کہ اگر فضل نہ ہوتا تو نجات نہ ہوتی.ایسا ہی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے آپؐ سے سوال کیا کہ یا حضرت! کیا آپؐ کا بھی یہی حال ہے.آپؐ نے سر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا.ہاں.نادان اور احمق عیسائیوں نے اپنی نافہمی اور ناواقفی کی وجہ سے اعتراض کئے ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ یہ آپؐ کی کمال عبودیت کا اظہار تھا جو خدا تعالیٰ کی ربوبیت کو جذب کررہا تھا.ہم نے خود تجربہ کرکے دیکھا ہے اور متعدد مرتبہ آزمایا ہے بلکہ ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ جب انکسار اور تذلّل کی حالت انتہا کو پہنچی ہے اور ہماری رُوح اس عُبودیت اور فروتنی میں بہہ نکلتی ہے اور آستانہِ حضرت واہب العطایا پر پہنچ جاتی ہے تو ایک روشنی اور نور اوپر سے اترتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ایک نالی کے ذریعہ سے مصفّا پانی دوسری نالی میں پہنچتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار و برکات پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت جس قدر بعض مقامات پر فروتنی اور انکساری میں کمال پر پہنچی ہوئی نظر آتی ہے.وہاں معلوم ہوتا ہے کہ اسی قدر آپؐ رُوح القدس کی تائید اور روشنی سے مؤیّد اور منور ہیں.جیسا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی اور فعلی حالت سے دکھایا ہے یہاں تک کہ آپؐ کے انوار و برکات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ ابدالآباد تک اسی کا نمونہ اور ظل نظر آتا ہے.چنانچہ اس زمانہ میں بھی جو کچھ خدا تعالیٰ کا فیض اور فضل نازل ہورہا ہے وہ آپؐ ہی کی اطاعت اور آپؐ ہی کی اتباع سے ملتا ہے.مَیں سچ کہتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا
ہوں کہ کوئی شخص حقیقی نیکی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے والا نہیں ٹھہر سکتا اور ان انعام و برکات اور معارف اور حقائق اور کشوف سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا جو اعلیٰ درجہ کے تزکیۂ نفس پر ملتے ہیں جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کھویا نہ جائے اور اس کا ثبوت خود خدا تعالیٰ کے کلام سے ملتا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (اٰل عـمران:۳۲) اور خدا تعالیٰ کے اس دعویٰ کی عملی اور زندہ دلیل مَیں ہوں.ان نشانات کے ساتھ جو خدا تعالیٰ کے محبوبوں اور ولیوں کے قرآن شریف میں مقرر ہیں مجھے شناخت کرو.غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا کمال یہاں تک ہے کہ اگر کوئی بڑھیا بھی آپؐ کا ہاتھ پکڑتی تھی تو آپؐ کھڑے ہوجاتے اور اس کی باتوں کو نہایت توجہ سے سنتے اور جب تک کہ وہ خود آپؐ کو نہ چھوڑتی آپؐ نہ چھوڑتے تھے.مغضوب اور ضالّین کی راہوں سے بچنے کی ہدایت اور پھر غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ.مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ کے بالمقابل ہے.اس کا وِرد کرنے والا چشمہ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ سے فیض پاتا ہے جس کا مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ اے جزا و سزا کے دن کے مالک ہمیں اس سے بچا کہ یہودیوں کی طرح جو دنیا میں طاعون وغیرہ بلاؤں کا نشانہ ہوئے اور اس کے غضب سے ہلاک ہوگئے یا نصاریٰ کی طرح نجات کی راہ کھو بیٹھیں.اس میں یہود کا نام مغضوب اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کی شامتِ اعمال سے دنیا میں بھی اُن پر عذاب آیا کیونکہ اُنہوں نے خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں اور راستبازوں کی تکذیب کی اور بہت سی تکلیفیں پہنچائیں اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے جو یہاں سورۂ فاتحہ میں یہودیوں کی راہ سے بچنے کی ہدایت فرمائی اور اس سورہ کو الضَّآلِّيْنَ پر ختم کیا یعنی اُن کی راہ سے بھی بچنے کی ہدایت فرمائی تو اس میں کیا سِرّ تھا.اس میں یہی راز تھا کہ اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایک قسم کا زمانہ آنے والا ہے جب کہ یہود کی تتبع کرنے والے ظاہر پرستی کریں گے اور استعارات کو حقیقت پر حمل کرکے خدا کے راستباز کی تکذیب کے لئے اُٹھیں گے جیسا کہ یہود نے مسیح ابن مریم کی تکذیب کی تھی اور انہیں یہی مصیبت پیش آئی کہ اُنہوں نے اس کی تاویل پر ٹھٹھا کیا
اور کہا کہ اگر خدا کا یہی مطلب تھا کہ ایلیا کا مثیل آئے گا تو کیوں خدا نے اپنی پیشگوئی میں اس کی صراحت نہ کی.غرض اسی روش اور طریق پر اس وقت ہمارے مخالفوں نے بھی قدم مارا ہے اور میری تکذیب اور ایذا دہی میں انہوں نے کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا.یہاں تک کہ میرے قتل کے فتوے دیئے اور طرح طرح کے حیلوں اور مکروں سے مجھے ذلیل کرنا اور نابود کرنا چاہا.اگر خدا تعالیٰ کے فضل سے گورنمنٹ برطانیہ کا اس ملک میں راج نہ ہوتا تو یہ مدت سے میرے قتل سے دل خوش کرلیتے مگر خدا تعالیٰ نے ان کو ان کی ہر مُراد میں نامراد کیا اور وہ جو اس کا وعدہ تھا کہ وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ وہ پورا ہوا.غرض اس دعا میں غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ کا فرقہ مُسلمانوں کے ایک گروہ کی اس حالت کا پتا دیتا ہے جو وہ مسیح موعود کے مقابل مخالفت اختیار کرے گا اور ایسا ہی الضَّآلِّيْنَ سے مسیح موعود کے زمانہ کا پتا لگتا ہے کہ اس وقت صلیبی فتنہ کا زور اپنے انتہائی نقطہ پر پہنچ جاوے گا.اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے جو سلسلہ قائم کیا جاوے گا وہ مسیح موعود ہی کا سلسلہ ہوگا اور اسی لئے احادیث میں مسیح موعود کا نام خدا تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت کَاسِـرُالصّلیب رکھا ہے.کیونکہ یہ سچی بات ہے کہ ہر ایک مجدّد فتن موجودہ کی اصلاح کے لئے آتا ہے.اب اس وقت خدا کے لئے سوچو تو کیا معلوم نہ ہوگا کہ صلیبی نجات کی تائید میں قلم اور زبان سے وہ کام لیا گیا ہے کہ اگر صفحات عالم کو ٹٹولا جائے تو باطل پرستی کی تائید میں یہ سرگرمی اور زمانہ میں ثابت نہ ہوگی اور جب کہ صلیبی فتنہ کے حامیوں کی تحریریں اپنے انتہائی نقطہ پر پہنچ چکی ہیں اور توحید حقیقی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عفّت، عزّت اور حقانیت اور کتاب اللہ کے منجانب اللہ ہونے پر ظلم اور زور کی راہ سے حملے کئے گئے ہیں تو کیا خدا تعالیٰ کی غیرت کا تقاضا نہیں ہونا چاہیے کہ اُس کَاسِرُالصّلیب کو اس وقت نازل کرے؟ کیا خدا تعالیٰ اپنے وعدہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الـحجر:۱۰) کو بھول گیا؟ یقیناً یاد رکھو کہ خدا کے وعدے سچے ہیں.اُس نے اپنے وعدہ کے موافق دنیا میں ایک نذیر بھیجا ہے.دنیا نے اس کو قبول نہ کیا مگر خدا تعالیٰ اُس کو ضرور قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کرے گا.مَیں تمہیں سچ سچ کہتا
ہوں کہ مَیں خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق مسیح موعود ہوکر آیا ہوں.چاہو تو قبول کرو چاہو تو رَدّ کرو.مگر تمہارے رَدّ کرنے سے کچھ نہ ہوگا.خدا تعالیٰ نے جوارادہ فرمایا ہے وہ ہوکر رہے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے پہلے سے براہین میں فرما دیا ہے صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَکَانَ وَعْدًامَّفْعُوْلًا ۲۴؎ ۲۱؍جنوری ۱۸۹۸ء استغفار عذابِ الٰہی اور مصائب شدیدہ کے لئے سِپر کا کام دیتا ہے بجائے خود مرضِ طاعون عذاب شدید ہے.دُوسرا قانون اس پر سخت ہے.جو دوسرا عذاب ہے اور مرض سے بھی بڑھ کر ہے.عورت ہو یا بچہ ہو الگ کیا جاتا ہے اور گھر کو خالی کرنے کا حکم دیا جاتا ہے.اس مرض اور اس کے قانون پر غور کرکے میرے دل میں ایک درد پیدا ہوا اور مَیں نے تہجد میں اس کے متعلق دعا کی تو الہام ہو ا اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ اب خیال ہوتا ہے کہ وہ الہام جو ہوا تھا کہ ’’کون کہہ سکتا ہے اے بجلی آسمان سے مت گر.‘‘ شاید اسی سے متعلق ہو.مَیں تمہیں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ جو لوگ قبل از نزول بلا دعا کرتے ہیں اور استغفار کرتے اور صدقات دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ اُن پر رحم کرتا ہے اور عذابِ الٰہی سے اُن کو بچا لیتا ہے.میری ان باتوں کو قصہ کے طور پر نہ سنو.میں نُصْحًا لِّلّٰہ کہتا ہوں اپنے حالات پر غور کرو.اور آپ بھی اور اپنے دوستوں کو بھی دعا میں لگ جانے کے لئے کہو.استغفار، عذابِ الٰہی اور مصائب شدیدہ کے لئے سپر کا کام دیتا ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ (الانفال:۳۴) اس لئے اگر تم چاہتے ہو کہ اس عذاب الٰہی سے تم محفوظ رہو تو استغفار کثرت سے پڑھو.گورنمنٹ کو اختیار ہوگا کہ مبتلا اشخاص کو علیحدہ رکھا جائے.گویا وہ لوگ جو علیحدہ کئے جاویں گے
قبروں میں ہی ہوں گے.امیر و غریب، مرد و عورت، بوڑھے، جوان کا کوئی لحاظ نہ کیا جاوے گا.اس لیے خدانخواستہ اگر کسی ایسی جگہ طاعون پھیلے جہاں تم میں سے کوئی ہو تو مَیں تمہیں ہدایت کرتا ہوں کہ گورنمنٹ کے قوانین کی سب سے پہلے اطاعت کرنے والے تم ہو.اکثر مقامات میں سُنا گیا ہے کہ پولیس والوں سے مقابلہ ہوا.میرے نزدیک گورنمنٹ کے قوانین کے خلاف کرنا بغاوت ہے جو خطرناک جُرم ہے.ہاں گورنمنٹ کا بیشک یہ فرض ہے کہ وہ ایسے افسر مقرر کرے جو خوش اخلاق، متدیّن اور ملک کے رسم و رواج اور مذہبی پابندیوں سے آگاہ ہوں.غرض تم خود ان قوانین پر عمل کرو اور اپنے دوستوں اور ہمسایوں کو ان قوانین کے فوائد سے آگاہ کرو.مَیں بار بار کہتا ہوں کہ دُعاؤں کا وقت یہی ہے معلوم ہوتا ہے اس وبا نے پنجاب کا رُخ کرلیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہر ایک متنبہ اور بیدار ہوکر دعا کرے اور توبہ کرے.قرآن شریف کا منشا یہ ہے کہ جب عذاب سر پر آپڑے پھر توبہ عذاب سے نہیں چھڑا سکتی.عذاب الٰہی سے بچنے کے طریقے اس لیے اس سے پیشتر کہ عذاب الٰہی آکر توبہ کا دروازہ بند کردے توبہ کرو.جب کہ دنیا کے قانون سے اس قدر ڈر پیدا ہوتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قانون سے نہ ڈریں.جب بلا سر پر آپڑے تو پھر اس کا مزا چکھنا ہی پڑتا ہے.چاہیے کہ ہر ایک شخص تہجد میں اٹھنے کی کوشش کرے اور پانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملاویں.ہر ایک قسم کی خدا کو ناراض کرنے والی باتوں سے توبہ کریں.توبہ سے یہ مراد ہے کہ ان تمام بدکاریوں اور خدا کی نارضامندی کے باعثوں کو چھوڑ کر ایک سچی تبدیلی کریں اور آگے قدم رکھیں اور تقویٰ اختیار کریں.اخلاق کی تہذیب کریں اس میں بھی خدا کا رحم ہوتا ہے.عادات انسانی کو شائستہ کریں.غضب نہ ہو.تواضع اور انکساری اس کی جگہ لے.اخلاق کی درستی کے ساتھ اپنے مقدور کے موافق صدقات کا دینا بھی اختیار کرو.يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًا (الدّھر:۹) یعنی خدا کی رضا کے لئے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خاص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہم دیتے ہیں اور اس دن
سے ڈرتے ہیں جو نہایت ہی ہولناک ہے.قصہ مختصر دعا سے، توبہ سے کام لو اور صدقات دیتے رہو تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور کرم کے ساتھ تم سے معاملہ کرے.جماعت کے لئے اخلاقی نصاب اخلاقی حالت ایسی درست ہو کہ کسی کو نیک نیتی سے سمجھانا اور غلطی سے آگاہ کرنا ایسے وقت پر ہو کہ اسے برا معلوم نہ ہو.کسی کو استخفاف کی نظر سے نہ دیکھا جاوے.دل شکنی نہ کی جاوے.جماعت میں باہم جھگڑے فساد نہ ہوں.دینی غریب بھائیوں کو کبھی حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو.مال و دولت یا نسبی بزرگی پر بے جا فخر کر کے دوسروں کوذلیل اور حقیر نہ سمجھو.خدا تعالیٰ کے نزدیک مکرم وہی ہے جو متّقی ہے چنانچہ فرمایا ہے اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ (الـحجرات:۱۴) دوسروں کے ساتھ بھی پورے اخلاق سے کام لینا چاہیے.جو بداخلاقی کا نمونہ ہوتا ہے وہ بھی اچھا نہیں.ہماری جماعت کے ساتھ لوگ مقدمہ بازی کا صرف بہانہ ہی ڈھونڈتے ہیں.لوگوں کے لئے ایک طاعون ہے.ہماری جماعت کے لئے دو طاعون ہیں.اگر کوئی جماعت میں سے ایک شخص برائی کرے گا تو اس ایک سے ساری جماعت پر حرف آئے گا.دانش مندی، حلم اور در گزر کے ملکہ کو بڑھاؤ.نادان سے نادان کی باتوں کا جواب بھی متانت اور سلامت روی سے دو.یاوہ گوئی کا جواب یاوہ گوئی نہ ہو.میں جانتا ہوں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم میں بھی کچھ ایسی ہی حکمت عملی تھی کہ اگر ایسا نہ کرتے تو روز ماریں کھاتے پھرتے.رومیوں کی سلطنت تھی.یہود کے فقیہ اور فریسی اس کے مقرب تھے.اس وقت اگر وہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسرا گال نہ پھیرتے تو روز ماریں کھایا کرتے اور روز مقدمے ہوتے.باوجودیکہ وہ ایسی نرم تعلیم دیتے تھے پھر بھی یہود انہیں دم نہ لینے دیتے تھے.اس وقت کی موجودہ حالت انجیل کی تعلیم ہی کو چاہتی ہوگی.اس وقت ہماری جماعت کی حالت بھی قریباً ویسی ہی ہے.کیا تم نہیں دیکھتے کہ مارٹن کلارک عیسائی کے مقدمہ میں محمد حسین نے بھی اسی کی گواہی دی.اب سمجھ لو کہ قوم سے بھی کوئی امید نہیں ہے.رہی گورنمنٹ اس کو بھی بدظن کیا جاتا ہے اور گورنمنٹ کسی حد تک معذور بھی ہے اگر خدا نخواستہ وہ بد ظن ہو کیونکہ وہ عالم الغیب نہیں ہے.اس لئے
ہم کو اکثر مرتبہ گورنمنٹ کے حضور خاص طور پر میموریل بھیجنے پڑے اور اپنے حالات سے خود اس کو مطلع کرنا پڑا تاکہ اس کو صحیح اور سچے واقعات کا علم ہو.مناسب ہے کہ ان ابتلا کے دنوں میں اپنے نفس کو مار کر تقویٰ اختیار کریں.میری غرض ان باتوں سے یہی ہے کہ تم نصیحت اور عبرت پکڑو.دنیا فنا کا مقام ہے آخر مَرنا ہے.خوشی دین ہی کی باتوں میں ہے اصل مقصد تو دین ہی ہے.رمضان کی حقیقت رَمَض سورج کی تپش کو کہتے ہیں.رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے.دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے.روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا.اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینہ میں آیا اس لئے رمضان کہلایا.میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے.کیونکہ عرب کے لئے یہ خصو صیت نہیں ہو سکتی.روحانی رمض سے مراد روحانی ذوق و شوق اور حرارتِ دینی ہوتی ہے.رمض اس حرارت کو بھی کہتے ہیں جس سے پتھر وغیرہ گرم ہو جاتے ہیں.۲۵؎ ۲۹ ؍ جنوری۱۸۹۸ء روحانی طاقتوں پر معبود کا اثر انسان کی روحانی طاقتوں پر اس کے معبود کا بڑا اثر پڑتا ہے.دیکھو! اگر کوئی ہندو آجاوے تو دور ہی سے اس سے غفلت کی بو آتی ہے.کیوں؟ اس لئے کہ ان کا خود ساختہ معبود بھی تو ایسا ہی غافل ہے کہ جب تک ایک انگریز کے کھانے کی گھنٹی کی طرح گھنٹی نہ بجے وہ بیدار ہی نہیں ہوتا.یہی وجہ ہے کہ روحانی زندگی سے جو معرفت اور شفا حاصل ہوتی ہے، اس سے یہ لوگ محروم رہتے ہیں ورنہ جسمانی طور پر تو بڑے متمول اور آسودہ حال ہوتے ہیں.رزق ابتلا اور رزق اصطفا اصل بات یہ ہے کہ رزق دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک ابتلا کے طور پر، دوسرے اصطفا کے طور پر.رزق ابتلا کے طور
پر تو وہ رزق ہے جس کو اللہ سے کوئی واسطہ نہیں رہتا بلکہ یہ رزق انسان کو خدا سے دور ڈالتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو ہلاک کر دیتا ہے.اسی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کرکے فرمایا ہے لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ (المنافقون:۱۰) تمہارے مال تم کو ہلاک نہ کر دیں اور رزق اصطفا کے طور پر وہ ہوتا ہے جو خدا کے لئے ہو.ایسے لوگوں کا متولّی خدا ہو جاتا ہے اور جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے وہ اس کو خدا ہی کا سمجھتے ہیں اور اپنے عمل سے ثابت کر دکھاتے ہیں.صحابہؓ کی حالت کو دیکھو! جب امتحان کا وقت آیا تو جو کسی کے پاس تھا اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دیا.حضرت ابوبکر صدیقؓ سب سے اول کمبل پہن کر آگئے.پھر اس کمبل کی جزا بھی اللہ تعالیٰ نے کیا دی کہ سب سے اول خلیفہ وہی ہوئے.غرض یہ ہے کہ اصلی خوبی، خیر اور روحانی لذّت سے بہرہ ور ہونے کے لئے وہی مال کام آسکتا ہے جو خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے.۲۶؎ ۳۰ ؍ جنوری ۱۸۹۸ء دنیا اور دنیوی خوشیوں کی حقیقت دنیا اور دنیا کی خوشیوں کی حقیقت لہو و لعب سے زیادہ نہیں.یا تو وہ عارضی اور چند روزہ ہیں اور ایسی ہی ہیں اور ان خوشیوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خدا سے دور جا پڑتا ہے.مگر خدا کی معرفت میں جو لذّت ہے وہ ایک ایسی چیز ہے کہ جو نہ آنکھوں نے دیکھی اور نہ کانوں نے سنی نہ کسی اور حس نے اس کو محسوس کیا ہے.وہ ایک چیر کر نکل جانے والی چیز ہے.ہر آن ایک نئی راحت اس سے پیدا ہوتی ہے جو پہلے نہیں دیکھی ہوتی.خدا تعالیٰ کے ساتھ انسان کا ایک خاص تعلق ہے.اہل عرفان لوگوں نے بشریت اور ربوبیّت کے جوڑہ پر بہت لطیف بحثیں کی ہیں.اگر بچّے کا منہ پتھر سے لگائیں تو کیا کوئی دانشمند خیال کر سکتا ہے کہ اس پتھر میں سے دودھ نکل آئے گا اور بچہ سیر ہو جائے گا.ہرگز نہیں.اسی طرح پر جب تک انسان خدا تعالیٰ کے آستانہ پر نہیں گرتا اس کی روح ہمہ نیستی ہو کر ربوبیت سے تعلق پیدا نہیں کرتی اور نہیں کر
سکتی جب تک کہ وہ عدم یا مشابہ بالعدم نہ ہو کیونکہ ربوبیت اسی کو چاہتی ہے.اس وقت تک وہ روحانی دودھ سے پرورش نہیں پاسکتا.لَہْو میں کھانے پینے کی تمام لذّتیں شامل ہیں.ان کاانجام دیکھو کہ بجز کثافت کے اور کیا ہے.زینت، سواری، عمدہ مکانات پر فخر کرنا یا حکومت و خاندان پر فخر کرنا یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ بالآخر اس سے ایک قسم کی حقارت پیدا ہوجاتی ہے جو رنج دیتی اور طبیعت کو افسردہ اور بے چین کر دیتی ہے.لَعْب میں عورتوں کی محبت بھی شامل ہے.انسان عورت کے پاس جاتا ہے مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ محبت اور لذّت کثافت سے بدل جاتی ہے لیکن اگر یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک حقیقی عشق ہونے کے بعد ہو تو پھر راحت پر راحت اور لذّت پر لذّت ملتی ہے.یہاں تک کہ معرفتِ حقہ کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ ایک ابدی اور غیر فانی راحت میں داخل ہو جاتا ہے جہاں پاکیزگی اور طہارت کے سوا کچھ نہیں.وہ خدا میں لذّت ہے.اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اسے ہی پاؤ کہ حقیقی لذّت وہی ہے.۲۶؎ حضرت اقدس کی ایک تقریر فرمودہ ۳۱؍جنوری۱۸۹۸ء (بعد نماز فجر) انسان بالطبع کمال کی پیروی کرنا چاہتا ہے یاد رکھو کہ فضائل بھی امراض متعدیہ کی طرح متعدی ہونے ضروری ہیں.مومن کے لئے حکم ہے کہ وہ اپنے اخلاق کو اس درجہ پر پہنچائے کہ وہ متعدی ہوجائیں.کیونکہ کوئی عمدہ سے عمدہ بات قابل پذیرائی اور واجب التعمیل نہیں ہوسکتی جب تک اس کے اندر ایک چمک اور جذب نہ ہو.اس کی درخشانی دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور جذب ان کو کھینچ لاتا ہے اور پھر اس فعل
کی اعلیٰ درجے کی خوبیاں خود بخود دوسرے کو عمل کی طرف توجہ دلاتی ہیں.دیکھو! حاتم کا نیک نام ہونا سخاوت کے باعث مشہور ہے.گو میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ خلوص سے تھی.ایسا ہی رستم و اسفند یار کی بہادری کے فسانے عام زبان زد ہیں اگرچہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ خلوص سے تھے.میرا ایمان اور مذہب یہ ہے کہ جب تک انسان سچا مومن نہیں بنتا اس کی نیکی کے کام خواہ کیسے ہی عظیم الشان ہوں لیکن وہ ریا کاری کے ملمع سے خالی نہیں ہوتے.لیکن چونکہ ان میں نیکی کی اصل موجود ہوتی ہے اور یہ وہ قابل قدر جوہر ہے جو ہر جگہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس لئے بایں ہمہ ملمع سازی و ریاکاری وہ عزت سے دیکھے جاتے ہیں.خواجہ صاحب نے میرے پاس ایک نقل بیان کی تھی اور خود میں نے بھی اس قصہ کو پڑھا ہے کہ سر فلپ سڈنی ملکہ الزبتھ کے زمانے میں قلعہ زٹفن ملک ہالینڈ کے محاصرہ میں جب زخمی ہوا، تو اس وقت عین نزع کی تلخی اور شدت پیاس کے وقت جب اس کے لئے ایک پیالہ پانی کا جو وہاں بہت کمیاب تھا مہیا کیا گیا تو اس کے پاس ایک اور زخمی سپاہی تھا جو نہایت پیاسا تھا.وہ سر فلپ سڈنی کی طرف حسرت اور طمع کے ساتھ دیکھنے لگا.سڈنی نے اس کی یہ خواہش دیکھ کر وہ پانی کا پیالہ خود نہ پیا بلکہ بطور ایثار یہ کہہ کر اس سپاہی کو دے دیا کہ ’’تیری ضرورت مجھ سے زیادہ ہے‘‘ مرنے کے وقت بھی لوگ ریا کاری سے نہیں رکتے.ایسے کام اکثر ریا کاروں سے ہو جاتے ہیں جو اپنے آپ کو اخلاق فاضلہ والے انسان ثابت کرنا یا دکھانا چاہتے ہیں.غرض کوئی انسان ایسا نہیں ہے کہ اس کی ساری باتیں بری حالت کی اچھی ہوں.لیکن سوال یہ ہے کہ انسان اچھی باتوں کی کیوں پیروی نہیں کرتے؟ میں اس کے جواب میں یہی کہوں گا کہ اصل بات یہ ہے کہ انسان فطرتاً کسی بات کی پیروی نہیں کرتا جب تک کہ اس میں کمال کی مہک نہ ہو اور یہی ایک سِرّ ہے جو اللہ تعالیٰ ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کرتا رہا ہے اور خاتم النبیینؐ کے بعد مجدّدین کے سلسلے کو جاری رکھا ہے کیونکہ یہ لوگ اپنے عملی نمونہ کے ساتھ ایک جذب اور اثر کی قوت رکھتے ہیں اور نیکیوں کا کمال ان کے وجود میں نظر آتا ہے اس لئے کہ انسان بالطبع کمال کی پیروی کرنا چاہتا ہے.اگر انسان کی فطرت میں یہ قوت نہ ہوتی تو انبیاء علیہم السلام کے
سلسلہ کی بھی ضرورت نہ رہتی.مامورین کی مخالفت کا سبب لیکن یہ بات کہ انبیاء علیہم السلام اور خدا تعالیٰ کے ماموروں کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے اور ان کی تعلیم کی طرف عدم توجہی کیوں کی جاتی ہے؟ اس کا باعث زمانہ کی وہ حالت ہوتی ہے جو ان پاک وجودوں کی بعثت کا موجب ہو تی ہے.زمانہ میں فسق و فجور کا ایک دریا رواں ہوتا ہے اور ہر قسم کی بدکاریاں اور برائیاں خدا تعالیٰ سے بُعد اور حرمان اس نیک عمدہ مادے کو اپنے نیچے دبا لیتا ہے.چونکہ بدکاریوں کے کمال کا ظہور ہوا ہوا ہوتا ہے اس لئے طبیعت کا یہ مادہ کہ وہ ہر کمال کی پیروی کرنا چاہتا ہے اس طرف رجوع کر گیا ہوتا ہے اور یہی وہ سِرّ ہوتا ہے کہ ابتداءً انبیاء علیہم السلام اور ماموروں کی مخالفت اور ان کی تعلیم سے بے پروائی ظاہر کی جاتی ہے.آخر ایک وقت آجاتا ہے کہ اس نیکی کے بروز اور کمال کی طرف توجہ ہوجاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِيْنَ (الزخرف:۳۶) ظاہری نفاست کا اثر غرض انسانی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ ہر کمال کی پیروی کرنا چاہتی ہے.دیکھ لو! انگریزوں کی نئی ایجادات سوئے، چاقو وغیرہ تک کی کس قدر عزت کی جاتی ہے اور دیسی اشیاء کے مقابلہ میں ان کو کس قدر پسند کیا جاتا ہے حالانکہ ان میں بعض اشیاء نہیں بلکہ اکثر ملمع کی ہوئی ہوتی ہیں مگر ظاہری چمک دمک ایسی ہوتی ہے کہ آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے اور اس کی روشنی ایک کشش کے ساتھ اپنی طرف متوجہ کرا لیتی ہے.تم نہیں دیکھتے کہ یہ جھوٹے زیور جو ملمع کیے ہوئے بکتے ہیں ان کی تجارت کیسی سرعت کے ساتھ بڑھ رہی ہے.اصلی اشیاء کے مقابلہ میں ان کو رکھ کر دیکھو گے تو معلوم ہوگا کہ اصلی، نقلی معلوم ہوتا ہے اور نقلی اصلی.ان اشیاء کی ظاہری چمک دمک میں ایک روشنی ہے جو ہمارے دیسی صناع اس کو دکھا نہیں سکتے اس لئے باوجودیکہ لوگ صاف جانتے ہیں کہ یہ اشیاء ملمع شدہ ہیں لیکن اس دجل کی کچھ بھی پروا نہیں کرتے.ہر ایک چیز ان کی دیکھو.دیسی کپڑے، دیسی جوتے جنٹلمین تعلیم یافتہ
ان سے بیزاری ظاہر کرتے ہیں.کیوں؟ صرف اس لئے کہ انگریزی اشیاء میں ایک خاص قسم کی نفاست اور عمدگی ہوتی ہے.یہ لوگ چمڑے کو ایسا کماتے ہیں کہ اس میں نرمی اور چمک پیدا کر لیتے ہیں.یہ کیا ہر ایک ادنیٰ سی چیز کو دیکھو ایک تاگے کو ہی دیکھو کیسا خوبصورت ہوتا ہے.غرض ہر ایک دیسی چیز کو بالمقابل نکما کر دیا ہے بلکہ میں نے تو سنا ہے کہ بعض دیسی رئیس دیسی چیزوں سے یہاں تک متنفر ہیں کہ ان کے کپڑے بھی پیرس سے دھل کر آتے ہیں اور پینے کا پانی بھی ولایت سے منگواتے ہیں.اس خریداری کا سِرّ کیا ہے.انہوں نے ظاہری خوبصورتی اور چمک اور خوش نمائی رکھ دی ہے.اس لئے لوگ ادھر جھک گئے ہیں.جب یہ حالت ہے کہ دیانت دار اور بھی ہیں اور کفار کا گروہ بھی ہے لیکن کفار کی طرف رجوع ان کی نفاست اور چمک کی وجہ سے ہے.یہی حال اخلاق اور اعمال کا ہے.پس جب تک ان کی چمک دمک یہاں تک نہ پہنچائی جائے نوع انسان پر اثر نہیں پڑ سکتا.جو لوگ خود کمزور ہوتے ہیں وہ دوسرے کمزوروں کو جذب نہیں کر سکتے.قرآن کریم میں مخلوق کی قسم کھانے کی حقیقت خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَالْعَصْرِ.اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ.اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصـر: ۲تا۴) قسم ہے اس زمانہ کی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی.آجکل ہمارے زمانہ کے کوتاہ اندیش مخالف یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن شریف میں مخلوق کی قسمیں کیوں کھائی گئی ہیں حالانکہ دوسروں کو منع کیا ہے.اور کہیں انجیر کی قسم ہے، کہیں دن اور رات کی اور کہیں زمین کی اور کہیں نفس کی؟ اس قسم کے اعتراضوں کا بہت برا اثر پڑتا ہے.یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تمام قرآن شریف میں یہ ایک عام سنت اور عادت الٰہی ہے کہ وہ بعض نظری امور کے اثبات و احقاق کے لئے کسی ایسے امور کا حوالہ دیتا ہے جو اپنے خواص کا عام طور پر بیّن اور کھلا کھلا اور بدیہی ثبوت رکھتے ہیں.پس ان کی قسم کھانا ان کو بطور دلیل اور نظیر کے پیش کرنا ہوتا ہے.ہم اس اعتراض کا واضح جواب دینے سے پیشتر
ایک ضروری امر اور بیان کرنا چاہتے ہیں.کیا ہندوستان دارالحرب ہے؟ ہر ایک مسلمان کو یاد رہے کہ ہم بلحاظ گورنمنٹ کے ہندوستان کو دار الحرب نہیں کہتے اور یہی ہمارا مذہب ہےـ اگرچہ اس مسئلہ میں علماء مخالفین نے ہم سے سخت اختلاف کیا ہے اور اپنی طرف سے کوئی دقیقہ ہم کو تکلیف دہی کا انھوں نے باقی نہیں رکھا مگر ہم ان عارضی تکالیف اور آنی ضرر رسانیوں کے خوف سے حق کو کیونکر چھوڑ سکتے ہیں.ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ حکومت کے لحاظ سے ہندوستان ہرگز ہرگز دارالحرب نہیں ہے.ہمارا مقدمہ ہی دیکھ لو.اگر یہی مقدمہ سکھوں کے عہد حکومت میں ہوتا اور دوسری طرف ان کا کوئی گرو یا برہمن ہوتا تو بدوں کسی قسم کی تحقیق و تفتیش کے ہم کو پھانسی دے دینا کوئی بڑی بات نہ تھی مگر انگریزوں کی سلطنت اور عہد حکومت ہی کی یہ خوبی ہے کہ مقابل میں ایک ڈاکٹر اور پھر مشہور پادری ہے لیکن تحقیقات اور عدالت کی کارروائی میں کوئی سختی کا برتائو نہیں کیا جاتا.کیپٹن ڈگلس نے اس بات کی ذرا بھی پروا نہیں کی کہ پادری صاحب کی ذاتی وجاہت یا ان کے اپنے عہدہ اور درجہ کا لحاظ کیا جاوے چنانچہ انہوں نے لیمارچنڈ صاحب سے جو پولیس گورداسپور کے اعلیٰ افسر ہیں یہی کہا کہ ہمارا دل تسلّی نہیں پکڑتا.پھر عبدالحمید سے دریافت کیا جاوے.آخرکار انصاف کی رو سے ہم کو اس نے بَری ٹھیرایا.پھر یہ لوگ ہم کو ارکان مذہب کی بجا آوری سے نہیں روکتے بلکہ بہت سے برکات اپنے ساتھ لے کر آئے جس کی وجہ سے ہم کو اپنے مذہب کی اشاعت کا خاطر خواہ موقع ملا اور اس قسم کا امن اور آرام نصیب ہوا کہ پہلی حکومتوں میں ان کی نظیر نہیں ملتی.پھر یہ صریح ظلم اور اسلامی تعلیم اور اخلاق سے بعید ہے کہ ہم ان کے شکر گزار نہ ہوں.یاد رکھو! انسان جو اپنے جیسے انسان کی نیکیوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہوسکتا حالانکہ وہ اسے دیکھتا ہے.تو غیب الغیب ہستی کے انعامات کا شکر گزار کیوں کر ہوگا جس کو وہ دیکھتا بھی نہیں اس لیے محض حکومت کے لحاظ سے ہم اس کو دارالحرب نہیں کہتے.ہاں! ہمارے نزدیک ہندوستان دارالحرب ہے بلحاظ قلم کے.پادری لوگوں نے اسلام کے
خلاف ایک خطرناک جنگ شروع کی ہوئی ہے.اس میدان جنگ میں وہ نیزہ ہائے قلم لے کر نکلے ہیں نہ سنان و تفنگ لے کر.اس لیے اس میدان میں ہم کو جو ہتھیار لے کر نکلنا چاہیے وہ قلم اور صرف قلم ہے.ہمارے نزدیک ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس جنگ میں شریک ہو جاوے.اللہ اور اس کے برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ دل آزار حملے کئے جاتے ہیں کہ ہمارا تو جگر پھٹ جاتا اور دل کانپ اٹھتا ہے.کیا اُمہات المومنین یا دربار مصطفائی کے اسرار جیسی گندی کتاب دیکھ کر ہم آرام کر سکتے ہیں جس کا نام ہی اس طرز پر رکھا گیا ہے جیسے ناپاک ناولوں کے نام ہوتے ہیں.تعجب کی بات ہے کہ دربار لنڈن کے اسرار جیسی کتابیں تو گورنمنٹ کے اپنے علم میں بھی اس قابل ہوں کہ اس کی اشاعت بند کی جائے مگر آٹھ کروڑ مسلمانوں کی دلآزاری کرنے والی کتاب کو نہ روکا جائے.ہم خود گورنمنٹ سے اس قسم کی درخواست کرنا ہرگز ہرگز نہیں چاہتے بلکہ اس کو بہت ہی نامناسب خیال کرتے ہیں جیسا کہ ہم نے اپنے میموریل کے ذریعہ سے واضح کر دیا تھا لیکن یہ بات ہم نے محض اس بنا پر کہی ہے کہ بجائے خود گورنمنٹ کا اپنا فرض ہے کہ وہ ایسی تحریروں کا خیال رکھے.بہر حال گورنمنٹ نے عام آزادی دے رکھی ہے کہ اگر عیسائی ایک کتاب اسلام پر اعتراض کرنے کی غرض سے لکھتے ہیں تو مسلمانوں کو آزادی کے ساتھ اس کا جواب لکھنے اور عیسائی مذہب کی تردید میں کتابیں لکھنے کا اختیار ہے.اسلامی غیرت کا تقاضا میں حلفاً کہتا ہوں کہ جب کوئی ایسی کتاب نظر پڑتی ہے تو دنیا اور مافیہا ایک مکھی کے برابر نظر نہیں آتا.میں پوچھتا ہوں کہ جس کو وقت پر جوش نہیں آتا کیا وہ مسلمان ٹھیر سکتا ہے.کسی کے باپ کو برا بھلا کہا جائے تو وہ مَرنے مارنے کو طیار ہو جاتا ہے لیکن اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی جائیں تو اس کی رگ حمیت میں جنبش بھی نہ آوے اور پروا بھی نہ کرے.یہ کیا ایمان ہے؟ پھر کس منہ سے مَر کر خدا کے پاس جائیں گے.اگر مسلمانوں کا نمونہ دیکھنا چاہو تو صحابہ کرام کی جماعت کو دیکھو جنھوں نے اپنے جان و مال کے کسی قسم کے نقصان کی پروا نہیں کی.اللہ اور اس کے رسولؐ کی رضا کو مقدّم
کرلیا.خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو جانا ہی ایک فعل تھا جو سارا قرآن شریف ان کی تعریف سے بھرا ہوا ہے اور رضی اللہ عنہم کا تمغہ ان کو مل گیا.پس جب تک تم اپنے اندر وہ امتیاز، وہ جوش اور حمیت اسلام کے لیے محسوس نہ کرلو ہرگز اپنے آپ کو کامل نہ سمجھ لو.ہماری جماعت یاد رکھے کہ ہم ہندوستان کو بلحاظ حکومت ہرگز ہرگز دَارُالْـحَرْب قرار نہیں دیتے بلکہ اس امن اور برکات کی وجہ سے جو اس حکومت میں ہم کو ملی ہیں اور اس آزادی کو جو اپنے مذہب کے ارکان کی بجاآوری اور اس کی اشاعت کے لیے گورنمنٹ نے ہم کو دے رکھی ہے.ہمارا دل عطر کے شیشہ کی طرح وفاداری اور شکر گزاری کے جوش سے بھرا ہوا ہے لیکن پادریوں کی وجہ سے ہم اس کو دارالحرب قرار دیتے ہیں.پادریوں نے چھ (۶) کروڑ کے قریب کتابیں اسلام کے خلاف شائع کی ہیں.میرے نزدیک وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں جو ان حملوں کو دیکھیں اور سنیں اور اپنے ہی ہم وغم میں مبتلا رہیں.اس وقت جو کچھ کسی سے ممکن ہو وہ اسلام کی تائید کے لیے کرے اور اس قلمی جنگ میں اپنی وفاداری دکھائے جبکہ خود عادل گورنمنٹ نے ہم کو منع نہیں کیا ہے کہ ہم اپنے مذہب کی تائید اور غیرقوموں کے اعتراضوں کی تردید میں کتابیں شائع کریں بلکہ پریس، ڈاک خانے اور اشاعت کے دوسرے ذریعوں سے مدد دی ہے تو ایسے وقت میں خاموش رہنا سخت گناہ ہے.ہاں ضرورت ہے اس امر کی کہ جو بات پیش کی جاوے وہ معقول ہو.اس کی غرض دل آزاری نہ ہو جو اسلام کے لیے سینہ بریاں اور چشم گریاں نہیں رکھتا وہ یاد رکھے کہ خدا تعالیٰ ایسے انسان کا ذمہ دار نہیں ہوتا.اس کو سوچنا چاہیے کہ جس قدر خیالات اپنی کامیابی کے آتے ہیں اور جتنی تدابیر اپنی دنیوی اغراض کے لیے کرتا ہے اسی سوزش اور جلن اور درد دل کے ساتھ کبھی یہ خیال بھی آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر حملے ہو رہے ہیں میں ان کے دفاع کی بھی سعی کروں؟ اور اگر کچھ اور نہیں ہوسکتا تو کم از کم پُرسوز دل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور دعا کروں؟ اگر اس قسم کی جلن اور درد دل میں ہو تو ممکن نہیں کہ سچّی محبت کے آثار ظاہر نہ ہوں.اگر ٹوٹی ہانڈی بھی خریدی جائے تواس پر بھی رنج ہوتا ہے یہاں تک کہ ایک سوئی کے گم ہو جانے پر بھی افسوس ہوتا ہے.پھر یہ کیسا ایمان اور اسلام ہے کہ
اس خوفناک زمانہ میں کہ اسلام پر حملوں کی بوچھاڑ ہورہی ہے.امن اور آرام کے ساتھ خواب راحت میں سو رہے ہیں.کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہفتہ وار اور ماہواری اخباروں اور رسالوں کے علاوہ ہر روز وہ کس قدر دو ورقہ اشتہار اور چھوٹے چھوٹے رسالے تقسیم کرتے ہیں جن کی تعداد پچاس پچاس ہزار اور بعض وقت لاکھوں تک ہوتی ہے اور کئی کئی مرتبہ ان کو شائع کرنے میں کروڑہا روپیہ پانی کی طرح بہادیا جاتا ہے مسیحیت اسلام کے خلاف کیوں ہے؟ یہ خوب یاد رکھو کہ پادریوں کے ذہن اور تصور میں ہندو کچھ چیز نہیں ہیں اور نہ دوسرے مذاہب وغیرہ کی ان کو چنداں پروا ہے چنانچہ کبھی نہیں سنا ہوگا کہ جس قدر کتابیں اسلام کی تردید میں یہ لوگ شائع کرتے ہیں اس کے مقابلہ میں آدھی بھی ہندو مذہب کے خلاف لکھتے ہوں.یہ لوگ دوسرے مذاہب سے چنداں غرض نہیں رکھتے اس لیے کہ ان میں بجائے خود کوئی حقانیّت اور صداقت کی روح نہیں ہے وہ عیسویّت کی طرح خود مُردہ مذاہب ہیں لیکن اسلام جو ایک زندہ مذہب ہے جو حیّ و قیوم خدا کی طرف سے ہے اس کے خلاف یہ سر توڑ کوشش کرکے اس کو بھی مُردہ ملّت بنانا چاہتے ہیں.چنانچہ میں نے ان کے اعتراضوں کو ایک وقت شمار کیا تھا ان کی تعداد تین ہزار تک پہنچ چکی ہے اور اب تو اس میں اور بھی اضافہ ہوا ہوگا.یاد رکھو مفتری انسان وسوسہ میں ڈالتا ہے.چونکہ اس میں صدق، عفت، راستبازی نہیں ہوتی اس لیے جو چاہتے ہیں کرتے ہیں.امرتسری افغانوں کا پکّا یقین ہے کہ یہ لوگ تارک الصلوٰۃ ہیں اور شراب پیتے ہیں.جب دوسروں کے سامنے وہ اس قسم کے اعتراض کرتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بزرگ زادہ ہیں، کیا جھوٹ بولیں گے؟ اس سے وہ وسوسہ میں پڑتے ہیں اور مان لیتے ہیں کہ ہاں سچ یہی ہے.اسی طرح یہ لوگ ریشہ دوانیاں کرتے ہیں.غرض ایک تو پادری ہیں جو کھلے طور پر اسلام کے خلاف کتابیں لکھتے اور شائع کرتے ہیں.دوسرے انگریزی طرز تعلیم اور کتابوں میں بھی پوشیدہ طور پر زہریلا مادہ رکھا ہوا ہے.فلسفی اپنے طرز پر اور مؤرخ اپنے رنگ میں واقعات کو بری صورت میں پیش کرکے اسلام پر حملہ کرتے ہیں.حاصل کلام یہ ہے کہ اس وقت دو ہی قسم کے حملے ہوتے ہیں ایک
پادریوں کے اور دوسرے فلسفیوں کے.پس اس وقت اپنے اسلام کو ٹٹولنا چاہیے.قرآن کریم میں مخلوق کی قسم کھانے کی فلاسفی میں پھر اصل کلام کی طرف رجوع کرکے کہتا ہوں کہ قرآن شریف کی قسموں پر جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ بھی اسی قسم کا ہے.بڑے غور اور فکر کے بعد یہ راز ہم پر کھلا ہے کہ قرآن شریف کے جس جس مقام پر کوتہ اندیشوں نے اعتراض کئے ہیں اسی مقام پر اعلیٰ درجہ کی صداقتوں اور معارف کا ایک ذخیرہ موجود ہے جس پر ان کو اس وجہ سے اطلاع نہیں ملی کہ وہ حق کے ساتھ عداوت رکھتے ہیں اور قرآن شریف کو محض اس لیے پڑھتے ہیں کہ اس پر نکتہ چینی اور اعتراض کریں.یاد رکھو قرآن شریف کے دو حصّے ہیں بلکہ تین.ایک تو وہ حصہ ہے جس کو ادنیٰ درجہ کے لوگ بھی جو اُمّی ہوتے ہیں سمجھ سکتے ہیں اور دوسرا وہ حصہ ہے جو اوسط درجہ کے لوگوں پر کھلتا ہے.اگرچہ وہ پورے طور پر اُمّی نہیں ہوتے لیکن بہت بڑی استعداد علو م کی بھی نہیں رکھتے اور تیسرا حصہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اعلیٰ درجہ کے علوم سے بہرہ ور ہیں اور فلاسفر کہلاتے ہیں.یہ قرآن شریف ہی کا خاصّہ ہے کہ وہ تینوں قسم کے آدمیوں کو یکساں تعلیم دیتا ہے.ایک ہی بات ہے جو امّی اور اوسط درجہ کے آدمی اور اعلیٰ درجہ کے فلاسفر کو تعلیم دے جاتی ہے.یہ قرآن شریف کا ہی فخر ہے کہ ہر طبقہ اپنی استعداد اور درجہ کے موافق فیض پاتا ہے.الغرض یہ جو قرآن شریف کی قَسم پر اعتراض کیا جاتا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ قَسم ایک ایسی شے ہے جس کو ایک شاہد کے مفقود ہونے کی بجائے دوسرا شاہد قرار دیا جاتا ہے.قانوناً، شرعاً، عرفاً یہ عام مسلّم بات ہے کہ جب گواہ مفقود ہو اور موجود نہ ہوتو صرف قَسم پر اکتفا کی جاتی ہے اور وہ قَسم گواہ ہی کے قائم مقام ہوتی ہے.اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کی سنت قرآن کریم میں اس طرح پر جاری ہے کہ نظریات کو ثابت کرنے کے واسطے بدیہات کو بطور شاہد پیش کرتا ہے تاکہ نظری امور ثابت ہوں.۲۷؎ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن شریف میں یہ طرز اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے کہ نظری امور کے اثبات
کے لیے امور بدیہی کو بطور شواہد پیش کرتا ہے اور یہ پیش کرنا قَسموں کے رنگ میں ہے.اس بات کو بھی ہرگز بھولنا نہ چاہیے کہ اللہ جل شانہ کی قَسموں کو انسانی قَسموں پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے.اللہ تعالیٰ نے جو انسان کو غیر اللہ کی قَسم کھانے سے منع کیا تو اس کا سبب یہ ہے کہ انسان جب قَسم کھاتا ہے تو اس کا مدّعا یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کی قَسم کھائی ہے اس کو ایک ایسے گواہ رؤیت کا قائم مقام ٹھہراوے کہ جو اپنے ذاتی علم سے اس کے بیان کی تصدیق یا تکذیب کر سکتا ہے کیونکہ اگر سوچ کر دیکھا جاوے تو قَسم کا اصل مفہوم جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا تھا شہادت ہی ہوتا ہے.جب انسان معمولی شاہدوں کے پیش کرنے سے عاجز آجاتا ہے تو پھر قَسم کا محتاج ہوتا ہے تا اس سے وہ فائدہ اٹھاوے جو ایک شاہد رؤیت کی شہادت سے اٹھانا چاہتا ہے لیکن ایسا تجویز کرنا یا اعتقاد رکھنا کہ بجز خدا تعالیٰ کے کوئی اور بھی حاضر ناظر ہے اور تصدیق یا تکذیب یا سزادہی یا کسی اور امر پر قادر ہے صریح کلمہ کفر ہے.اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام کتابوں میں انسان کو یہی ہدایت فرمائی ہے کہ غیراللہ کی ہرگز قَسم نہ کھاوے.اب اس بیان سے صاف معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کا قَسم کھانا کوئی اور رنگ اور شان رکھتا ہے اور غرض اس سے یہی ہے کہ تا صحیفۂ قدرت کے بدیہات کو شریعت کے اسرار دقیقہ کے حل و انکشاف کے لیے بطور شاہد پیش کرے اور چونکہ اس مدّعا کو قَسم سے ایک مناسبت تھی اور وہ یہ کہ جیسا ایک قَسم کھانے والا جب مثلاً خدا تعالیٰ کی قَسم کھاتا ہے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس واقعہ پر گواہ ہے.اسی طرح اور ٹھیک اسی رنگ میں اللہ تعالیٰ کے بعض ظاہر در ظاہر افعال، نہاں در نہاں اسرار اور افعال پر بطور گواہ ہیں اس لیے اس نے قَسم کے رنگ میں اپنے افعال بدیہہ کو اپنے افعال نظریہّ کے ثبوت میں جابجا قرآن شریف میں پیش کیا اور یہ کہنا سراسر نادانی اور جہالت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غیر اللہ کی قَسم کھائی کیونکہ اللہ تعالیٰ درحقیقت اپنے افعال کی قَسم کھاتا ہے نہ کسی غیر کی اور اس کے افعال اس کے غیر نہیں ہیں.مثلاً اس کا آسمان یا ستارہ کی قَسم کھانا اس قصد سے نہیں ہے کہ وہ کسی غیر کی قَسم ہے بلکہ اس منشا سے ہے کہ جو کچھ اس کے ہاتھوں کی صنعت اور حکمت آسمان اور ستاروں میں
موجود ہے اس کی شہادت بعض اپنے افعال مخفیہ کے سمجھانے کے لیے پیش کرے.خدا تعالیٰ کی قَسموں میں اسرارِ معرفت غرض خدا تعالیٰ کی قَسمیں اپنے اندر لا محدود اسرار معرفت کے رکھتی ہیں جن کو اہل بصیرت ہی دیکھ سکتے ہیں.پس خدا تعالیٰ قَسم کے لباس میں اپنے قانون قدرت کے بدیہات کی شہادت اپنی شریعت کے بعض دقائق حل کرنے کے لئے پیش کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی فعلی کتاب (قانون قدرت) اس کی قولی کتاب (قرآن شریف) پر شاہد ہو جاوے اور اس کے قول اور فعل میں باہم مطابقت ہو کر طالب صادق کے لئے مزید معرفت اور سکینت اور یقین کا موجب ہو اور یہ طریق قرآن شریف میں عام ہے.مثلاً خدا تعالیٰ برہموؤں اور الہام کے منکروں پر یوں اتمام حجت کرتا ہے.وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ (الطارق:۱۲) قَسم ہے بادلوں کی جن سے مینہ برستا ہے.رَجْعٌ بارش کو بھی کہتے ہیں.بارش کا بھی ایک مستقل نظام ہے جیسے نظام شمسی ہے.رات اور دن کا اور کسوف خسوف کا بجائے خود ایک ایک نظام ہے.مرض کا بھی ایک نظام ہوتا ہے.طبیب اس نظام کے موافق کہہ سکتا ہے کہ فلاں دن بحران ہوگا.غرض یہ نظام ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون قدرت اپنے اندر ایک ترتیب اور کامل نظام رکھتا ہے اور کوئی فعل اس کا ایسا نہیں ہے جو نظام اور ترتیب سے باہر ہو.اللہ تعالیٰ جیسے یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس سے ڈریں ویسے ہی یہ بھی چاہتا ہے کہ لوگوں میں علوم کی روشنی پیدا ہووے اور اس سے وہ معرفت کی منزلوں کو طے کر جاویں کیونکہ علومِ حقّہ سے واقفیت جہاں ایک طرف سچی خشیت پیدا کرتی ہے، وہاں دوسری طرف ان علوم سے خدا پرستی پیدا ہوتی ہے.بعض بدقسمت ایسے بھی ہیں جو علوم میں منہمک ہو کر قضاء و قدر سے دور جا پڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے وجود پر ہی شکوک پیدا کر بیٹھتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو قضاء و قدر کے قائل ہو کر علوم ہی سے دستبردار ہوجاتے ہیں مگر قرآن شریف نے دونوں تعلیمیں دی ہیں اور کامل طور پر دی ہیں.قرآن شریف علومِ حقّہ سے اس لئے واقف کرنا چاہتا ہے اور اس لئے ادھر انسان کو متوجہ کرتا ہے کہ اس سے خشیت الٰہی پیدا ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی معرفت میں جوں جوں ترقی ہوتی ہے اسی قدر خدا تعالیٰ کی
عظمت اور اس سے محبت پیدا ہوتی جاتی ہے.اور انسان کو قضاء و قدر کے نیچے رہنے کی اس لئے تعلیم دیتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل اور بھروسہ کی صفت پیدا ہو اور وہ راضی بہ رضا رہنے کی حقیقت سے آشنا ہو کر وہ سچی سکینت اور اطمینان جو نجات کا اصل مقصد اور منشا ہے حاصل کرے.ابھی جو مثال میں نے قرآن شریف سے قَسم کے متعلق دی ہے کہ وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ یعنی قَسم ہے آسمان کی جس میں اللہ تعالیٰ نے رَجْعٌ کو رکھا ہے.سَمَآءٌ کا لفظ فضا اور جَوّ اور بارش اور بلندی کے معنوں میں بولا جاتا ہے.رَجْعٌ بار بار وقت پر آنے والی چیز کو کہتے ہیں.بارش برسات میں بار بار آتی ہے اس لئے اس کا نا م بھی رَجْعٌ ہے.اسی طرح پر آسمانی بارش بھی اپنے وقتوں پر آتی ہے.وَالْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ (الطارق:۱۳) اور قَسم ہے زمین کی کہ وہ ان وقتوں میں پھوٹ نکلتی ہے اور سبزہ نکالتی ہے.بارش کی جڑ زمین ہے.زمین کا پانی جو بخارات بن کر اوپر اڑ جاتا ہے وہ کُرۂ زَمْہَرِیْر میں پہنچ کر بارش بن کر واپس آتا ہے اور اس صورت میں چونکہ وہ آسمان سے آتا ہے اس لئے آسمانی کہلاتا ہے.پھر بارش کی ضرورت کے لئے ایک اور وقت خاص ہے جب مزار عین کو ضرورت ہوتی ہے.اگر بیائی کے بعد پڑے تو کچھ بھی نہ رہے اور پھر بعض اوقات نشوونما کے لئے ضرورت ہوتی ہے.غرض بارش اور مینہ کی ضرورت اور اس کے مفاد اور اس کے آسمان سے آنے کا نظارہ بالکل بدیہی ہے اور ایک ادنیٰ درجہ کی عقل رکھنے والا گنوار دہقان بھی جانتا ہے.علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر آسمانی بارش نہ ہو تو زمینی پانی بھی خشک ہونے لگتے ہیں چنانچہ امساکِ باراں کے دنوں میں بہت سے کنویں خشک ہو جاتے ہیں اور اکثروں میں پانی بہت ہی کم رہ جاتا ہے لیکن جب آسمان سے بارش آتی ہے تو زمینی پانیوں میں بھی ایک جوش اور تموّج پیدا ہونے لگتا ہے.میرا مطلب اس مقام پر اس مثال کے بیان کرنے سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان قَسموں کو ایک اور امر کے لئے بطور شاہد قرار دیا ہے کیونکہ ان نظاروں سے تو ایک معمولی زمیندار بھی واقف ہی ہے اور وہ امر جو اِن کے ذریعہ ثابت کیا ہے وہ یہ ہے اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ وَّ مَا هُوَ بِالْهَزْلِ (الطارق:۱۵،۱۴) بے شک یہ خدا
کا کلام ہے اور قول فصل ہے اور وہ عین وقت پر ضرورتِ حقّہ کے ساتھ اور حق و حکمت کے ساتھ آیا ہے، بے ہودہ طور پر نہیں آیا.اب دیکھ لو کہ قرآن شریف جس وقت نازل ہوا ہے.کیا اس وقت نظام روحانی یہ نہیں چاہتا تھا کہ خدا کا کلام نازل ہو اور کوئی مردِ آسمانی آوے جو اس گمشدہ متاع کو واپس دلائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ بعثت کی تاریخ پڑھو تو معلوم ہو جاوے گا کہ دنیا کی کیا حالت تھی.خدا تعالیٰ کی پرستش دنیا سے اٹھ گئی تھی اور توحید کا نقشِ پا مٹ چکا تھا.باطل پرستی اور معبودان باطلہ کی پرستش نے اللہ جل شانہ کی جگہ لے رکھی تھی.دنیا پر جہالت اور ظلمت کا ایک خوفناک پردہ چھایا ہوا تھا.دنیا کے تختہ پر کوئی ملک، کوئی قطعہ، کوئی سرزمین ایسی نہ رہ گئی تھی جہاں خدائے واحد، ہاں حیّ و قیوم خدا کی پرستش ہوتی ہو.عیسائیوں کی مُردہ پرست قوم تثلیث کے چکر میں پھنسی ہوئی تھی اور ویدوں میں توحید کا بے جا دعویٰ کرنے والے ہندوستان کے رہنے والے ۳۳ کروڑ دیوتاؤں کے پجاری تھے.غرض خود خدا تعالیٰ نے جو نقشہ اس وقت کی حالت کا ان الفاظ میں کھینچا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ (الرّوم:۴۲) یہ بالکل سچا ہے اور اس سے بہتر انسانی زبان اور قلم اس حالت کو بیان نہیں کر سکتی.اب دیکھو کہ جیسے خدا تعالیٰ کا قانون عام ہے کہ عین امساک بارش کے وقت آخر اس کا فضل ہوتا ہے اور باران رحمت برس کر شادابی بخشتا ہے اسی طرح پر ایسے وقت میں ضرور تھا کہ خدا کا کلام آسمان سے نازل ہوتا.گویا اس جسمانی بارش کے نظام کو دکھا کر روحانی بارش کے نظام کی طرف رہبری کی ہے.اب اس سے کون انکار کرے گا کہ بارش ہمارے مقاصد کے موافق ہوتی ہے.اس سے مطلب یہ ہے کہ جیسے وہ نظام رکھا ہے اسی طرح دوسری بارشوں کے لئے وقت رکھے ہیں.اب دیکھ لو کہ کیا یہ بارش روحانی کا ذکر نہ تھا؟ کس قدر جھگڑے تم لوگوں میں بپا تھے.اعمال گندے اور ایمان بھی گندے تھے اور دنیا ہلاکت کے گڑھے میں گرنے والی تھی، پھر وہ کیوںکر اپنے فضل کا مینہ نہ برساتا.جس نے جسم فانی کی حفاظت کے لئے ایک خاص نظام رکھا ہے پھر روحانی نظام کو کیوں کر چھوڑتا.اس لئے بارش کے نظام کو بطور شاہد پیش کرکے قَسم کے رنگ میں استعمال کیا کیونکہ امرِ نبوت ایک روحانی اور نظری امر تھا اور کفار عرب اس نظام کو نہ سمجھ سکتے تھے اس لئے وہ
پہلا نظام پیش کرکے ان کو سمجھا دیا.غرض یہ ایک سِرّ ہے جس کو جاہلوں نے سمجھا نہیں اور اپنی نادانی اور عداوتِ حق کی بنا پر اعتراض کردیا ہے.اصل مفہوم کو جو اللہ تعالیٰ نے اس میں مقصود رکھا تھا چھوڑ دیا.اللہ کو قرض دینے کا مفہوم اسی طرح پر ایک نادان کہتا ہے کہ مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا (البقرۃ:۲۴۶) (کون شخص ہے جو اللہ کو قرض دے.) اس کا مفہوم یہ ہے کہ گویا معاذ اللہ خدا بھوکا ہے.احمق نہیں سمجھتا کہ اس سے بھوکا ہونا کہاں سے نکلتا ہے؟ یہاں قرض کا مفہوم اصل تو یہ ہے کہ ایسی چیزیں جن کے واپس کرنے کا وعدہ ہوتا ہے اس کے ساتھ افلاس اپنی طرف سے لگا لیتا ہے.یہاں قرض سے مراد یہ ہے کہ کون ہے جو خدا تعالیٰ کو اعمال صالحہ دے.اللہ تعالیٰ ان کی جزا اسے کئی گنا کر کے دیتا ہے.یہ خدا کی شان کے لائق ہے جو سلسلہ عبودیت کا ربوبیت کے ساتھ ہے اس پر غور کرنے سے اس کا یہ مفہوم صاف سمجھ میں آتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ بدوں کسی نیکی، دعا اور التجا اور بدوں تفرقہ کافر و مومن کے ہر ایک کی پرورش فرما رہا ہے اور اپنی ربوبیت اور رحمانیت کے فیض سے سب کو فیض پہنچا رہا ہے.پھر وہ کسی کی نیکیوں کو کب ضائع کرے گا؟ اس کی شان تو یہ ہے مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ (الزلزال:۸) جو ذرّہ بھی نیکی کرے اس کا بھی اجر دیتا ہے اور جو ذرّہ بدی کرے گا اس کی پاداش بھی ملے گی.یہ ہے قرض کا اصل مفہوم جو اس آیت سے پایا جاتا ہے چونکہ اصل مفہوم قرض کا اس سے پایا جاتا تھا اس لئے یہی کہہ دیا مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا اور اس کی تفسیر اس آیت میں موجود ہے مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ.عیسائیوں پر افتاد کی وجہ جاہل عیسائی جنہوں نے ایک عاجز اور ناتواں انسان کو خدا بنا لیا ہے اور اپنی بدکاریوں اور گناہوں کی گٹھڑی اس کے سر پر رکھ دی ہے اور اسے ملعون تسلیم کیا ہے.باوجودیکہ ان کے پاس لعنت کے سوا کچھ بھی نہیں دوسروں پر اعتراض کرتے ہیں.چونکہ خدا تعالیٰ کی پاک شریعت کو کفّارہ کی بنا پر ردّ کر چکے ہیں اعمال صالحہ میں جو ایک لذّت اور سرور ہوتا ہے وہ انہیں حاصل نہیں رہا اور خدا تعالیٰ کے سارے راستبازوں کو
بٹمار اور ڈاکو قرار دینے کی وجہ سے ان پر وہ لعنت پڑی ہے.اس لئے یہ بات کبھی بھولنی نہیں چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے راستبازوں کا انکار اور تکذیب ایک ایسی شے ہے جو انسان کو ہلاک کر دیتی ہے اور اس کی روحانی طاقتوں اور قوتوں کے لئے زہر قاتل کا کام کرتی ہے.جو صادق کی نسبت سوء ظن کرتا ہے اور اس کی بے ادبی کرتا ہے وہ حقائق اور معارف سے بے نصیب کر دیا جاتا ہے.یہ لعنت عیسائیوں پر پڑی ہے کہ انہوں نے سارے راستبازوں کو خطا کار ٹھیرایا.غرض اس آیت میں یہ لطیفہ ہے کہ بارشوں کا جسمانی طور پر ایک نظام ہے.لوگ جانتے ہیں کہ اب بارش کے دن قریب ہیں.مثلاً یہ جانتے ہیں کہ پوہ اور ماگھ کے دنوں میں بارش ہوتی ہے اور ساون اور بھادوں کے دنوں میں ہوتی ہے.پھر ایک یہ راز ہے کہ بارش بے ہودہ کبھی نہیں ہوتی.درحقیقت وہی اوقات بارش کے لئے مفید ہوتے ہیں.اسی طرح پر روحانی بارشوں کا سلسلہ چلتا ہے.یہ ایک نظری بحث ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے موٹی موٹی باتوں کو بطور شواہد کے پیش کیا ہے اور قَسم کا لفظ شاہد کے قائم مقام بیان فرمایا.اس لفظ کو اسی طرح بیان کیا ہے جس طرح پر قرض کے لفظ کو جسے میں ابھی بیان کر چکا ہوں.محدّثین اور مجدّدین کا سلسلہ اب ایک بات اور قابل غور ہے کہ ایک بارش تخم ریزی کے لئے ہوتی ہے اور پھر ایک بارش اس تخم کے نشوونما اور سر سبزی کے لئے ہوتی ہے.اسی طرح پر نبوت کی بارش تخم ریزی کے لئے ہوتی ہے اور محدّثین اور مجدّدین کی بارش جو نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الـحجر:۱۰) کے ضمن میں داخل ہیں.اس تخم کے باروَر کرنے اور نشوونما دینے کے لئے میں نے بارہا اس امر کا ذکر کیا ہے کہ نبوت الوہیت کے لئے بطور میخ کے ہوتی ہے.جو شخص نبوت کا انکار کرتا ہے رفتہ رفتہ وہ الوہیت کے انکار تک پہنچ جاتا ہے.اور نبوت کے لئے ولایت بطور میخ کے ہوتی ہے ولی کے انکار سے رفتہ رفتہ سلبِ ایمان ہو جاتا ہے.اس وقت دیکھو کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرہ سو برس سے زائد عرصہ گزر گیا.اگر خدا تعالیٰ اس وقت تک بالکل خاموش رہتا اور اپنی تجلی نہ فرماتا تو اسلام ایک قصہ اور کہانی سے بڑھ کر کوئی وقعت
نہ رکھتا اور اس کو دوسرے مذاہب پر کوئی خصوصیت اور فضیلت نہ ہوتی.جیسے ہندو اپنے بزرگوں سے منسوب خوارق کو پرانوں اور شاستروں میں لکھا ہوا بیان کرتے ہیں اور دکھا کچھ نہیں سکتے اسی طرح پر اسلام کے اعجازی نشانوں کا ذکر مسلمانوں کی کتابوں ہی میں بتاتے اور دکھا کچھ نہ سکتے تو دوسرے مذاہب پر اس کو کیا فضیلت رہتی اور انسان کی فطرت اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ اگر اسے دوسرے پر کوئی فضیلت نظر نہ آئے تو اس سے بے رغبتی اور بے دلی ظاہر کرتا ہے.اس طرح پر گویا اسلام سے ایک قسم کا ضعفِ ایمان پیدا ہوتا کیونکہ بدوں فضیلت کے ایمان قوی رہ سکتا ہی نہیں.اس لئے نبوت کی زراعت کے واسطے ولایت ایک باڑ لگا دی گئی ہے.پس غور کر کے دیکھو کہ قَسم پر اعتراض کرنے والوں کا جواب کیسا صاف اور لطیف ہے.فترت وحی کی حکمت اس مضمون کو دیکھ کر انسان کس قدر انشراح کے ساتھ قبول کرسکتا ہے کہ قرآن کریم کس قدر عالی مضامین کو کیسے انداز اور طرز سے بیان کرتا ہے.پھر قرآن شریف میں ایک مقام پر رات کی قَسم کھائی ہے.کہتے ہیں کہ یہ اس وقت کی قَسم ہے جب وحی کا سلسلہ بند تھا.یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ایک مقام ہے جو ان لوگوں کے لئے جو سلسلہ وحی سے افاضہ حاصل کرتے ہیں آتا ہے.وحی کے سلسلہ سے شوق اور محبت بڑھتی ہے لیکن مفارقت میں بھی ایک کشش ہوتی ہے جو محبت کے مدارج عالیہ پر پہنچاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی ایک ذریعہ قرار دیا ہے کیونکہ اس سے قلق اور کرب میں ترقی ہوتی ہے اور روح میں ایک بے قراری اور اضطراب پیدا ہوتا ہے جس سے وہ دعاؤں کی روح اس میں نفخ کی جاتی ہے کہ وہ آستانہ الوہیت پر یاربّ! یا ربّ!! کہہ کر اور بڑے جوش اور شوق اور جذبہ کے ساتھ دوڑتی ہے.جیسا کہ ایک بچہ جو تھوڑی دیر کے لئے ماں کی چھاتیوں سے الگ رکھا گیا ہو بے اختیار ہو ہوکر ماں کی طرف دوڑتا اور چلّاتا ہے اسی طرح پر بلکہ اس سے بھی بے حد اضطراب کے ساتھ روح اللہ کی طرف دوڑتی ہے اور اس دوڑ دھوپ اور قلق و کرب میں وہ لذّت اور سرور ہوتا ہے جس کو ہم بیان نہیں کر سکتے.یاد رکھو! روح میں جس قدر اضطراب اور بے قراری خدا تعالیٰ کے لئے ہوگی اسی قدر دعاؤں کی توفیق
ملے گی اور ان میں قبولیت کا نفخ ہوگا.غرض یہ ایک زمانہ ماموروں اور مرسلوں اور ان لوگوں پر جن کے ساتھ مکالمات الٰہیہ کا ایک تعلق ہوتا ہے آتا ہے اور اس سے غرض اللہ تعالیٰ کی یہ ہوتی ہے کہ تا ان کو محبت کی چاشنی اور قبولیت دعا کے ذوق سے حصہ دے اور ان کو اعلیٰ مدارج پر پہنچا دے تو یہاں جو ضحیٰ اور لیل کی قَسم کھائی اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارجِ عالیہ اور مراتبِ محبت کا اظہار ہے اور آگے پیغمبرؐ خدا کا اِبراء کیا کہ دیکھو دن اور رات جو بنائے ہیں ان میں کس قدر وقفہ ایک دوسرے میں ڈال دیا ہے.ضحی کا وقت بھی دیکھو اور تاریکی کا وقت بھی خیال کرو.مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ (الضُّحٰی:۴) خدا تعالیٰ نے تجھے رخصت نہیں کر دیا.اس نے تجھ سے کینہ نہیں کیا بلکہ ہمارا یہ ایک قانون ہے.جیسے رات اور دن کو بنایا ہے اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے ساتھ بھی ایک قانون ہے کہ بعض وقت وحی کو بند کر دیا جاتا ہے تاکہ ان میں دعاؤں کے لیے زیادہ جوش ۲۸؎ پیدا ہو.اور ضحی اور لیل کو اس لیے بطور شاہد بیان فرمایا.تاآپؐ کی امید وسیع ہو اور تسلی اور اطمینان پیدا ہو.مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان قسموں کے بیان کرنے سے اصل مدعا یہ رکھا ہے کہ تا بدیہات کو نظریات کے ذریعہ سمجھاوے.۲۹؎ اب سوچ کر دیکھو کہ یہ کیسا پُر حکمت مسئلہ تھا مگر ان بدبختوں نے اس پر بھی اعتراض کیا.چشم بداندیش کہ بر کندہ باد عیب نماید ہنرش در نظر # ان قَسموں میں ایسا فلسفہ بھرا ہوا ہے کہ حکمت کے ابواب کھلتے ہیں.اس زمانہ کا جہاد غرض یہ حرب ہمارا کام ہے جس کی آج ضرورت ہے.اس سے علوم کے دروازے بھی کھلتے ہیں اور مخالف بھی حجت اور بیّنہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں.اور یہ خدا کا فضل ہے کہ پنجاب کے لوگ جن معارف اور حقائق سے آگاہ ہوتے جاتے ہیں بلادِ شام اور دیگر ممالک اسلامیہ میں ان کا نام و نشان تک نہیں ہے.اس لئے ہم پر تو یہ مصیبت آچکی ہے.ہر طرف سے حملہ پر حملہ ہو رہا ہے.اس لئے ہم کو قوتِ متفکرہ سے کام لینا پڑتا ہے اور دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے حضور ان مشکلات کو پیش کرنا پڑتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ محض
اپنے فضل وکرم سے ہماری دستگیری فرماتا ہے اور اپنی پاک کتاب کے حقائق اور معارف سے اطلاع دیتا ہے.حکماء کہتے ہیں کہ جس قوت کو چالیس دن استعمال نہ کیا جائے وہ بے کار ہو جاتی ہے.ہمارے ایک ماموں صاحب تھے وہ پاگل ہو گئے.ان کی فصدلی گئی اور ان کو تاکید کی گئی کہ ہاتھ نہ ہلائیں.انہوں نے چند مہینے تک ہاتھ نہ ہلایا.نتیجہ یہ ہوا کہ ہاتھ لکڑی کی طرح ہوگیا.غرض یہ ہے کہ جس عضو سے کام نہ لیا جائے وہ بے کار ہو جاتا ہے.ہندوؤں میں جوگی اور ایسا ہی راہب وغیرہ جو عورتوں کے قابل نہیں رہتے اس کے دو ہی سبب ہوتے ہیں یا تو بدمعاشیوں کی کثرت کی وجہ سے یا انقطاعِ کلّی کے بعد اور اس امر کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ جن اعضاء کو بے کار چھوڑا گیا وہ آخر بالکل نکمے ہوگئے.اس وقت جو ہم پر قلم کی تلواریں چلائی جاتی ہیں اور اعتراضوں کے تیروں کی بوچھاڑ ہو رہی ہے.ہمارا فرض ہے کہ اپنی قوتوں کو بے کار نہ کریں اور خدا کے پاک دین اور اس کے برگزیدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اثبات کے لئے اپنے قلموں کے نیزوں کو تیز کریں.خصوصاً ایسی حالت میں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑھ کر ہم کو یہ موقع دیا کہ اس نے سلطنت انگریزی میں ہم کو پیدا کیا.احسان کی قدر کرنا ہماری سرشت میں ہے محسن کے احسانات کی شکر گزاری کے اصول سے ناواقف جاہل ہمارے اس قسم کے بیانات اور تحریروں کو خوشامد کہتے ہیں مگر ہمارا خدا بہتر جانتا ہے کہ ہم دنیا میں کسی انسان کی خوشامد کر سکتے ہی نہیں.یہ قوت ہی ہم میں نہیں ہے.ہاں احسان کی قدر کرنا ہماری سرشت میں ہے اور محسن کشی اور غدّاری کا ناپاک مادہ اس نے اپنے فضل سے ہم میں نہیں رکھا.ہم گورنمنٹ انگلشیہ کے احسانات کی قدر کرتے ہیں اور اس کو خدا کا فضل سمجھتے ہیں کہ اس نے ایک عادل گورنمنٹ کو سکھوں کے پُرجفا زمانہ سے نجات دلانے کے لئے ہم پر حکومت کرنے کو کئی ہزار کوس سے بھیج دیا.اگر اس سلطنت کا وجود نہ ہوتا تو میں سچ کہتا ہوں کہ ہم اس قسم کے اعتراضوں کی بابت ذرا بھی سوچ نہ سکتے چہ جائیکہ ہم ان کا جواب دے سکتے.
اب ہم ان اعتراضوں کا جواب بڑی آزادی سے دے سکتے ہیں.پھر اگر ہم اللہ تعالیٰ کے اس فضل کی قدر نہ کریں تو یقیناً سمجھو کہ بڑے نا قدر شناس اور ناشکر گزار ہوں گے.ہم کو غور اور فکر کا موقع ملا، دعاؤں کا موقع ملا اور اس طرح پر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل کے ابواب ہم پر کھولے اگرچہ مبدءِ افیاض وہی ہے لیکن انسان اپنے میں ایک شے قابل بناتا ہے.اس پر بلحاظ اس کی استعداد اور ظرف کے فیض ملتا ہے.یہ خوشی کی بات ہے کہ اس تقریب کی وجہ سے ہندوستان اور پنجاب کے رہنے والے جوہر قابل بن رہے ہیں اور ان کی علمی طاقتیں بھی ترقی کر رہی ہیں.اس زمانہ کا ہتھیار قلم ہے مختصر یہ کہ یہ مقام دارالحرب ہے پادریوں کے مقابلہ میں.اس لئے ہم کو چاہیے کہ ہرگز بے کار نہ بیٹھیں.مگر یاد رکھو کہ ہماری حرب ان کے ہم رنگ ہو.جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ آئے ہیں اسی طرز کے ہتھیار ہم کو لے کر نکلنا چاہیے اور وہ ہتھیار ہے قلم.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا.اس میں یہی سِرّ ہے کہ یہ زمانہ جنگ و جدل کا نہیں ہے بلکہ قلم کا زمانہ ہے.فتح کے لئے تقویٰ کی ضرورت ہے پھر جب یہ بات ہے تو یاد رکھو کہ حقائق اور معارف کے دروازوں کے کھلنے کے لئے ضرورت ہے تقویٰ کی، اس لئے تقویٰ اختیار کرو کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ (النحل:۱۲۹) اور میں گن نہیں سکتا کہ یہ الہام مجھے کتنی مرتبہ ہوا ہے.بہت ہی کثرت سے ہوا ہے.اگر ہم نری باتیں ہی باتیں کرتے ہیں تو یاد رکھو کچھ فائدہ نہیں ہے.فتح کے لئے ضرورت ہے تقویٰ کی.فتح چاہتے ہو تو متّقی بنو.اشاعتِ اسلام کے لئے مالی قربانیوں کی ضرورت ہے میں ہندوؤں اور عیسائیوں میں دیکھتا ہوں کہ عورتیں بھی بہت بڑی جائیدادیں اور روپیہ اس کام کے لئے وصیت کر جاتی ہیں.آج کل کے مسلمانوں
میں اس قسم کی نظیر نہیں ملتی ہے.ہمارے لئے جو بڑی سے بڑی مشکل ہے وہ اشاعت کے لئے مالی امداد کی ضرورت ہے.یہ تو تم یاد رکھو کہ آخر خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ فرمایا ہے اور خود اپنے ہاتھ سے اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.وہ خود ہی اس کا حامی و ناصر ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ اپنے بندوں کو ثواب کا مستحق بنا وے اس لئے نبیوں کو مالی امداد کی ضرورت ظاہر کرنی پڑتی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدد مانگی اور اسی طرز پر جو منہاجِ نبوت کی طرز ہے ہم بھی اپنے دوستوں کو سلسلہ کی ضروریات سے اطلاع دیا کرتے ہیں مگر میں پھر یہی کہوں گا کہ اگر ہم کچھ روپیہ بھی اشاعت کے لئے جمع کر لیں تو یہ تو ظاہر بات ہے کہ اس قدر نہیں کر سکتے جس قدر پادریوں کے پاس ہے اور اگر اتنا بھی کر لیں تو بھی میرا ایمان یہی ہے کہ فتح اسی کو ملتی ہے جس سے خدا خوش ہو.اخلاق واعمال میں ترقی کریں اس لئے ضروری امر یہ ہے کہ ہم اپنے اخلاق اوراعمال میں ترقی کریں اور تقویٰ اختیار کریں تاکہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور محبت کا فیض ہمیں ملے.پھر خدا کی مدد کو لے کر ہمارا فرض ہے اور ہر ایک ہم سے جو کچھ کر سکتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ ان حملوں کے جواب دینے میں کوئی کوتاہی نہ کرے.ہاں جواب دیتے وقت نیت یہی ہو کہ خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر ہو.۳۰؎ جنوری ۱۸۹۸ء مرکز میں آنے کی تلقین فرمایا.لوگ میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یہ تو کہہ جاتے ہیں کہ دین کو دنیا پر ترجیح دوں گا لیکن یہاں سے جاکر اس بات کو بھول جاتے ہیں.وہ کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اگر وہ یہاں نہ آویں گے؟ دنیا نے ان کو پکڑ رکھا ہے.اگر دین کو دنیا پر
ترجیح ہوتی تو وہ دنیا سے فرصت پاکر یہاں آتے.۳۱؎ یکم فروری ۱۸۹۸ء ’’آج تیسرا روز ہے.الہام ہوا کہ یَوْمَ تَاْتِیْکَ الْغَاشِیَۃُ یَوْمَ تَنْجُوْ کُلُّ نَفْسٍ بِـمَا کَسَبَتْ یَوْمَ نَـجْزِیْ کُلَّ نَفْسٍ بِـمَا کَسَبَتْ.یعنی ایک خوفناک غش ڈالنے والا.انسان کو چاروں طرف سے گھیرنے والا وقت آنے والا ہے.اس وقت ہر ایک شخص اپنے اعمال کے سبب سے نجات پائے گا.اس وقت ہم ہر شخص کو اس کے اعمال کے موافق جزا دیں گے.‘‘ حضرت نے ان الہامات کے بعد جماعت کو بڑی تاکید کی کہ تیاری کرو.نمازوں میں عاجزی کرو.تہجد کی عادت ڈالو.تہجد میں رو رو کر دعائیں مانگو کہ خدا تعالیٰ گڑ گڑانے والوں اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کو ضائع نہیں کرتا.ہمارے مبارک امام علیہ السلام بھی بار بار یہی وصیت فرماتے ہیں کہ جماعت متقی بن جاوے اور نمازوں میں خشوع و خضوع کی عادت کریں اور ایک روز بڑے درد سے فرمایا کہ اصلاح اور تقویٰ پیدا کریں ایسا نہ ہو کہ تم میری راہ میں روک بن جاؤ.۳۲؎ بیرونی ممالک جانے والوں کے لئے خاص نصائح بابو محمد افضل صاحب نے ہندوستان سے مشرقی افریقہ کی طرف روانگی کے موقع پر حضرت مسیح موعودؑ سے عرض کی کہ جس مقام سے میں صدہا قسم کے شکوک و شبہات اور نفسانی ظلمتوں کا ایک امنڈا ہوا دریا ہمراہ لایا تھا اب چونکہ پھر میں نے وہیں روانہ ہونا ہے، اس لئے میرے لئے دعا کی جاوے.حضرت اقدس نے ایسی مشکلات سے نکلنے کے لئے مندرجہ ذیل
چار امر بطور علاج بتائے.(۱) قرآن کی تلاوت کرتے رہنا (۲) مو ت کو یاد رکھنا (۳) سفر کے حالات قلمبند کرتے رہنا (۴) اگر ممکن ہو تو ہر روز ایک کارڈ لکھتے رہنا.۳۳؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا پاک کلمات دعائیہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مبارک ہونٹوں سے نکلے ہوئے ہیں.اے رب العالمین! تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کر سکتا.تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں.میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں.میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہوجائے.میں تیرے وَجْہِ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو.رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے.آمین ثم آمین.۳۴؎ حضرت اقدسؑ کی پاک باتیں ۲۴ ؍فروری ۱۸۹۸ء مرید اور مرشد کا تعلق فرمایا.مرید و مرشد کے تعلقات ایسے ہوتے ہیں کہ ماں باپ اولاد کو اتنا عزیز نہیں سمجھتے جتنا مرشد مرید کو جانتا ہے.ماں باپ جسمانی تربیت اور تعلیم کے لئے کوششیں کرتے ہیں مگر مرشد مرید کی روحانی پیدائش کا موجب ہوتا
ہے اور اس کی اندرونی تعلیم اور تربیت کا ذمہ دار ہوتا ہے بشرطیکہ راستباز ہو.اگر ریاکار اور دھوکاباز ہو تو وہ دشمن سے بھی بدتر ہوتا ہے.۳۵؎ فروری ۱۸۹۸ء کثرت ازدواج کثرت ازدواج کے متعلق صاف الفاظ قرآن کریم میں دو دو، تین تین، چار چار کرکے ہی آئے ہیں مگر اسی آیت میں اعتدال کی بھی ہدایت ہے.اگر اعتدال نہ ہو سکے اور محبت ایک طرف زیادہ ہو جاوے یا آمدنی کم ہو اور یا قوائے رجولیت ہی کمزور ہوں تو پھر ایک سے تجاوز کرنا نہیں چاہیے.ہمارے نزدیک یہی بہتر ہے کہ انسان اپنے تئیں ابتلا میں نہ ڈالے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ (البقرۃ:۱۹۱) حلال پر بھی ایسا زور نہ مارو کہ نفس پرست ہی بن جاؤ.غرض اگر حلال کو حلال سمجھ کر بیویوں ہی کا بندہ ہو جاوے تو بھی غلطی کرتا ہے.ہر ایک شخص اللہ تعالیٰ کی منشا کو نہیں سمجھ سکتا.اس کا یہ منشا نہیں کہ بالکل زن مرید ہو کر نفس پرست ہی ہو جاؤ اور وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ رہبانیت اختیار کرو بلکہ اعتدال سے کام لو اور اپنے تئیں بے جا کارروائیوں میں نہ ڈالو.انبیاء علیہم السلام کے لئے کوئی نہ کوئی تخصیص اگر اللہ تعالیٰ کر دیتا ہے یہ کوتاہ اندیش لوگوں کی ابلہ فریبی اور غلطی ہے کہ وہ اس پر اعتراض کرتے ہیں.دیکھو توریت میں کاہنوں کے فرقہ کے ساتھ خاص مراعات ملحوظ رکھی گئی ہیں اور ہندوؤں کے برہمنوں کے لئے خاص خاص رعائتیں ہیں.پس یہ نادانی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی کسی تخصیص پر اعتراض کیا جاوے.ان کا نبی ہونا ہی سب سے بڑی خصوصیت ہے جو اور لوگوں میں موجود نہیں.خدا کا تلوّن رحمت ہے خدا کا تلوّن بھی رحمت ہے.دیکھو یونس علیہ السلام کی قوم کے معاملہ میں قطعی الہام دے کر جب لوگوں نے چیخنا چلّانا شروع کیا
تو عذاب ٹلادیا اور رحمت کے ساتھ ان پر نگاہ کی.پس خدا کے تلون میں بھی ایک خاص لطف ہے مگر اس کو وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو اس کے سامنے روتے اور عجز و نیاز ظاہر کرتے ہیں.مجھے بارہا تعجب آتا ہے کہ لوگ اپنے جیسے انسان کی خوشامد تو کرتے ہیں مگر افسوس خدا کی خوشامد نہیں کرتے.قبولیت دعا میں توقّف کامیابی کا موجب ہے یہ یاد رکھو کہ دعا کے لئے اگر جلدی جواب مل جاوے تو عموماً اچھا نہیں ہوتا.پس دعا کرتے ناامید نہ ہو.دعا میں جس قدر دیر ہو اور اس کا بظاہر کوئی جواب نہ ملے تو خوش ہو کر سجدہ ہائے شکر بجا لاؤ کیونکہ اس میں بہتری اور بھلائی ہے.توقف کامیابی کا موجب ہوتا ہے.یونس علیہ السلام کی قوم سے عذاب ٹلنے کی وجہ دعا بہت بڑی سپر کامیابی کے لئے ہے.یونس علیہ السلام کی قوم گریہ و زاری اور دعا کے سبب آنے والے عذاب سے بچ گئی.میری سمجھ میں محاوتت مغاضبت کو کہتے ہیں اور حُوت مچھلی کو کہتے ہیں اور نُون تیزی کو بھی کہتے ہیں اور مچھلی کو بھی.پس حضرت یونس ؑ کی وہ حالت ایک مغاضبت کی تھی.اصل یوں ہے کہ عذاب کے ٹل جانے سے ان کو شکوہ اور شکایت کا خیال گزرا کہ پیش گوئی اور دعا یوں ہی رائیگاں گئی اور یہ بھی خیال گزرا کہ میری بات پوری کیوں نہ ہوئی.پس یہی مغاضبت کی حالت تھی.اس سے ایک سبق ملتا ہے کہ تقدیر کو اللہ بدل دیتا ہے اور رونا دھونا اور صدقات فرد قرارداد جرم کو بھی ردّی کر دیتے ہیں.اصول خیرات کا اسی سے نکلا ہے.یہ طریق اللہ کو راضی کرنے کے ہیں.علم تعبیر الرؤیا میں مال کلیجہ ہوتا ہے.اسی لئے خیرات کرنا جان دینا ہوتا ہے.انسان خیرات کرتے وقت کس قدر صدق و ثبات دکھاتا ہے اوراصل بات تو یہ ہے کہ صرف قیل و قال سے کچھ نہیں بنتا جب تک کہ عملی رنگ میں لا کر کسی بات کو نہ دکھایا جاوے.صدقہ اس کو اسی لئے کہتے ہیں کہ صادقوں پر نشان کر دیتا ہے.حضرت یونسؑ کے حالات میں در منثور میں لکھا ہے کہ آپ نے کہا کہ مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ جب تیرے سامنے کوئی آوے گا تجھے رحم آجائے گا ایں مشت خاک را گر نہ بخشم چہ کنم #
نماز عید شہر میں پڑھنے کی تعبیر منشی رستم علی کورٹ انسپکٹر دہلی کے خواب کی تعبیر میں فرمایا کہ نماز عید شہر میں پڑھنا بہت بڑی کامیابی ہے.اَبُوْ لَهَب اور حَمَّالَةَ الْحَطَبْ سے مراد ابولہب قرآن کریم میں عام ہے نہ خاص.مراد وہ شخص ہے جس میں اِلتہاب و اشتعال کا مادہ ہو اسی طرح حَمَّالَةَ الْحَطَبِ ہیزم کش عورت سے مراد ہے.جو سخن چین ہو.آگ لگانے والی چغل خور عورت آدمیوں میں شرارت کو بڑھاتی ہے.سعدی کہتا ہے سخن چین بد بخت ہیزم کش است # سورۃ تَبَّت پر اعتراض سن کر فرمایا دنیا کی دولت اور سلطنت رشک کا مقام نہیں.مگر رشک کا مقام دعا ہے.میں نے اپنے احباب حاضرین اور غیر حاضرین میں سے جن کے نام یاد آئے یا شکل یاد آئی آج بہت دعا کی اور اتنی دعا کی کہ اگر خشک لکڑی پر کی جاتی تو سر سبز ہو جاتی.ہمارے احباب کے لئے یہ بڑی نشانی ہے.رمضان کا مہینہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ گزر گیا.عافیت اور تندرستی سے یہ دن حاصل رہے.پھر اگلا سال خدا جانے کس کو آئے گا.کس کو معلوم ہے کہ اگلے سال کون ہوگا.پھر کس قدر افسوس کا مقام ہوگا اگر اپنی جماعت کے ان لوگوں کو فراموش کر دیا جاوے جو انتقال کر گئے ہیں.یہ ایسے وقت میں فرمایا کہ جب فہرست میں زندوں کے نام ثبت ہو رہے تھے.ظاہر پرستی گمراہی کا موجب ہے ظاہر پرستی سے یہودیوں پر یہ آفت آئی کہ وہ مسیح علیہ السلام کا انکار کرتے رہے اور نہ صرف یہی بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی انکار کرتے رہے.ان کو یہ خیال تھا کہ مسیح آئے گا تو ایک بادشاہ ہو کر آئے گا اور بڑی شان و شوکت سے تخت داؤد پر جلوہ افروز ہوگا اور اس کے آنے سے پیشتر ایلیا آسمان سے اترے گا، مگر جب مسیح آیا تو اس نے ایلیا تو یوحنا کو بتایا اور آپ بجائے بادشاہ ہونے
کے ایسی عاجزی دکھائی کہ سر رکھنے کو بھی جگہ نہ ملی.اب ظاہر پرست یہودی کیونکر مان لیتے.پس انہوں نے بڑے زور سے انکار کیا اور اب تک کر رہے ہیں.یہی مصیبت ہمارے زمانہ کے مولویوں اور ملاؤں کو پیش آئی.وہ منتظر ہیں کہ مسیح اور مہدی آکر لڑائیاں کرے گا مگر خدا تعالیٰ نے یہ امر ہی ملحوظ نہ رکھا تھا اور بخاری نے یَضَعُ الْـحَرْبَ کہہ کر اس کا قضیہ ہی چکا دیا تھا پھر بھی یہ امن اور سلامتی کے خواستگار کو ماننا نہیں چاہتے.۳۶؎ فروری ۱۸۹۸ء آخرت پر نظر رکھنے والے ہمیشہ مبارک ہیں میں دیکھتا ہوں کہ باوجود مصائب پر مصائب آنے کے اور ہر طرف خطرہ ہی خطرہ دکھائی دینے کے لوگ ابھی تک سنگدلی اور عجب و نخوت سے کام لے رہے ہیں.نادان کب تک اس بے فکری میں بسر کریں گے تاوقتیکہ لوگ ضد نہیں چھوڑتے.اپنی بری کرتوتوں سے باز نہیں آتے اور خدا تعالیٰ سے مصالحت نہیں کرتے، یہ بلائیں اور مصیبتیں دور نہیں ہونے کی.میں نے دیکھا ہے اور خوب غور کیا ہے کہ قحط کے دنوں میں لوگوں نے ذرا بھی قحط کی مصیبت کو محسوس نہیں کیا.شراب خانے اسی طرح آباد تھے اور بدکاریوں اور بدمعاشیوں کے بازار برابر گرم تھے.ابتدا میں جب کبھی کوئی برائے نام فتویٰ مکہ مدینہ کے نام سے آجایا کرتا تھا تو لوگ ڈر جایا کرتے تھے اور مسجدیں آباد ہو جاتی تھیں مگر اِس وقت شوخی اور بیباکی حد سے بڑھ چلی ہے.اللہ تعالیٰ ہی فضل کرے.عقلمند وہ ہے جو عذاب آنے سے پیشتر اس کی فکر کرتا ہے اور دور اندیش وہ ہے جو مصیبت سے پہلے اس سے بچنے کی فکر کرے.انسان کو یہی لازم ہے کہ آخرت پر نظر رکھ کر بُرے کاموں سے توبہ کرے کیونکہ حقیقی خوشی اور
سچی راحت اسی میں ہے.یہ ایک یقینی امر ہے کہ کوئی بدکاری اور گناہ کا کام ایک لحظہ کے لئے بھی سچی خوشی نہیں دے سکتا.بدکار، بدمعاش کو تو ہر دم اظہار راز کا خطرہ لگا ہوا ہے.پھر وہ اپنی بدعملیوں میں راحت کا سامان کہاں دیکھے گا.آخرت پر نظر رکھنے والے ہمیشہ مبارک ہیں.مرد آخر بیں مبارک بندہ ایست # دیکھو ان قوموں کا حال جن پر وقتاً فوقتاً عذاب آئے ہر ایک کو یہی لازم ہے کہ اگر دل سخت بھی ہو تو اسے ملامت کر کے خشوع خضوع کا سبق دے.رونا اگر نہیں آتا تو رونی صورت بنا وے پھر خود بخود آنسو بھی نکل آئیں گے.اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کریں ہماری جماعت کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر پاک تبدیلی کریں کیونکہ ان کو تو تازہ معرفت ملتی ہے اور اگر معرفت کا دعویٰ کرکے کوئی اس پر نہ چلے تو یہ نری لاف گزاف ہی ہے.پس ہماری جماعت کو دوسروں کی سُستی غافل نہ کر دے اور اس کو کاہلی کی جرأت نہ دلاوے.وہ ان کی محبت سرد دیکھ کر خود بھی دل سخت نہ کرلے.انسان بہت آرزوئیں و تمنائیں رکھتا ہے مگر غیب کی قضاء و قدر کی کس کو خبر ہے.زندگی آرزؤں کے موافق نہیں چلتی.تمناؤں کا سلسلہ اور ہے.قضاءو قدر کا سلسلہ اور ہے.اور وہی سچا سلسلہ ہے.خدا کے پاس انسان کے سوانح سچے ہیں.اسے کیا معلوم ہے اس میں کیا لکھا ہے.اس لئے دل کو جگا جگا کر غور کرنا چاہیے.توحید کا ایک پہلو توحید کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کے اغراض کو بھی درمیان سے اٹھا دے اور اپنے وجود کو اس کی عظمت میں محو کرے.۳۷؎
یکم مئی۱۸۹۸ء خلاف اسلام کتابوں کی ضبطی جناب مولانا مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کے وہ میموریل پڑھ چکنے کے بعد جو حضرت مسیح موعودؑ نے انجمن حمایت اسلام کے میموریل دربارہ امہات المومنین کی اصلاح کی غرض سے لکھا تھا.حضرت اقدس ؑ نے بآواز بلند فرمایا.چونکہ یہ میموریل اسلام اور اہل اسلام کی حمایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی عزت اور قرآن کریم کی عظمت قائم کرنے اور اسلام کی پاکیزہ اور اصفیٰ شکل کو دکھانے کے لئے لکھا گیا ہے اس لئے اس کے آپ کے سامنے پڑھے جانے سے صرف یہ غرض ہے کہ تا آپ لوگوں سے بطور مشورہ دریافت کیا جاوے کہ آیا مصلحت وقت یہ ہے کہ کتاب کا جواب لکھا جاوے یا میموریل بھیج کر گورنمنٹ سے استدعا کی جاوے کہ وہ ایسے مصنّفین کو سرزنش کرے اور اشاعت بند کرے.پس آپ لوگوں میں سے جو کوئی نکتہ چینی اس پر کرنی چاہے وہ نہایت آزادی اور شوق سے کر سکتا ہے.(مجمع میں سے) صرف ایک شخص بولا اور کہا کہ اگر کتاب کی اشاعت بند نہ ہوئی تو ہمیشہ تک طبع ہوتی رہے گی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.اگر ہم واقعی طور پر کتاب کی اشاعت بند نہ کریں جو اس کے ردّ کرنے کی صورت میں ہو سکتی ہے تو گورنمنٹ سے ایک بار نہیں ہزار دفعہ اس قسم کی مدد لے کر اس کی اشاعت بند کی جاوے وہ رک نہیں سکتی.اگر اس تھوڑے عرصہ کے لئے وہ برائے نام بند بھی ہو جاوے تو پھر بھی بہت سی کمزور طبیعت کے انسانوں اور بعض آنے والی نسلوں کے لئے یہ تجویز زہر قاتل ہوگی کیونکہ جب ان کو یہ معلوم ہوگا کہ فلاں کتاب کا جواب جب نہ ہو سکا تو اس کے لئے گورنمنٹ سے بند کرانے کی کوشش کی.اس سے ایک قسم کی بد ظنّی اپنے مذہب کی نسبت پیدا ہو گی.پس میرا یہ اصول رہا ہے کہ
ایسی کتابوں کا جواب دیا جاوے اور گورنمنٹ کی ایک سچی امداد یعنی آزادی سے فائدہ اٹھایا جاوے اور ایسا کافی جواب دیا جاوے کہ خود ان کو اشاعت کرتے ہوئے ندامت معلوم ہو.دیکھو جیسے ہمارے مقدمہ ڈاکٹر کلارک میں جب ان کو معلوم ہو گیا کہ مقدمہ میں جان نہیں رہی اور مصنوعی جادو کا پُتلا ٹوٹ گیا تو انہوں نے آتھم کی بیوی اور داماد جیسے گواہ بھی پیش نہ کیے.پس میری رائے یہی ہے اور میرے دل کا فتویٰ یہی ہے کہ اس کا دندان شکن جواب نہایت نرمی اور ملاطفت سے دیا جاوے.پھر خدا چاہے گا تو ان کو خود ہی جرأت نہ ہوگی.۳۸؎ ۲ ؍مئی۱۸۹۸ء بروز عید مقام قادیان زیر درخت بڑ.جانب شرقیہ.بعد نماز عید بتقریب جلسہ طاعون.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی.دنیا فانی ہے آپ سب صاحبوں کو معلوم ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ نے قرآن شریف میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث میں بھی فرمایا ہے کہ ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ انسان، حیوان، چرند، پرند، زمین، آسمان اور جو کچھ زمین آسمان میں ہے کسی چیز کا نام و نشان نہ تھا.صرف خدا ہی تھا.یہ اسلام کا عقیدہ ہے.وَلَمْ یَکُنْ مَعَہٗ شَيْـًٔا یعنی خدا کے ساتھ اور کوئی چیز نہ تھی.ہم کو اس نے قرآن اور حدیث کے ذریعہ خبر دی ہے کہ ایک زمانہ اور بھی آنے والا ہے جبکہ خدا کے ساتھ کوئی نہ ہوگا.وہ زمانہ بڑا خوفناک زمانہ ہے.چونکہ اس پر ایمان لانا ہر مومن اور مسلمان کا کام ہے جو اس پر ایمان نہیں لاتا وہ مسلمان نہیں کافر ہے اور بے ایمان ہے جس طرح سے بہشت، دوزخ، انبیاء علیہم السلام اور کتابوں پر ایمان لانے کا حکم ہے ویسا ہی اس ساعت پر ایمان لانا لازم ہے جب نفخِ صور ہو کر سب نیست و نابود ہو جاویں گے.یہ سنت اللہ اور عادت اللہ ہے.
آخرت کے وجود پر تین دلائل اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے سمجھانے کے لئے تین طریق اختیار فرمائے ہیں.ایک یہ کہ انسان کو عقل دی ہے کہ اگر وہ اس سے ذرا بھی کام لے اور غور کرے تو یہ امر نہایت صفائی سے ذہن میں آسکتا ہے کہ انسان کی مختصر سی زندگی دو عدموں کے درمیان واقع ہے اور کبھی بھی باقی نہیں رہ سکتی.قیاس سے مجہولات کا پتا لگ سکتا ہے.انسان معلوم کرسکتا ہے مثلاً اگر ہم غور کریں کہ ہمارے باپ دادے کہاں ہیں.اس پر غور کریں اور سوچیں تو مان لینا پڑے گا کہ سب کو اسی راستہ پر چلنا ہوگا.نادان ہے وہ انسان جس کے سامنے ہزار ہا نمونے ہوں اور وہ ان سے سبق نہ لے.عقل نہ سیکھے.عموماً دیکھا گیا ہے اور یہ ایک مانی ہوئی بات ہے کہ ہر گاؤں اور شہر میں زندوں سے قبریں زیادہ ہوتی ہیں.بعض مخفی اور بعض ظاہر ہوتی ہیں.بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ جب شہر میں کوئی کنواں کھودتے ہیں.تو اس میں سے ہڈیاں نکلتی ہیں.عموماً قبریں ہی قبریں ہر جگہ موجود ہیں.یہ ایک دوسری بات ہے کہ وہ نمودار نہ ہوں.اس سے نابود شدہ طبقہ انسان کا پتا لگتا ہے.دوسری ایک یہ دلیل عقلی اس زمانہ کے وجود پر موجود ہے کہ جس طرح پر کھیت میں سبزہ نکلتا ہے.خوش نما معلوم ہوتا ہے پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ زرد ہو کر خشک ہونے لگتا ہے اور پھر ایک حالت اُس پر آتی ہے کہ وہ گرنے لگتا ہے کہ اس وقت جب نقصان ہونے لگتا ہے تو بونے والا کسان اس کو خود ہی کاٹ ڈالتا ہے تا کہ ایسا نہ ہو اسی طرح پر اُڑ اُڑ ہی کر ضائع جاوے.دنیا خدا تعالیٰ کا کھیت ہے.جس طرح زمیندار مصلحت اور انجام بینی سے کبھی کچا ہی کاٹ لیتا ہے کبھی ذرا پختہ ہوتا ہے تو کاٹتا ہے.اسی طرح سے ہم بھی پرورش پا کر خداوندی مشیت اور ارادے کے موافق ٹھیک اپنے اپنے وقت پر کاٹے جاتے ہیں.زمیندار کے فعل سے سبق اور عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ انسان کی زندگی کا بھی ٹھیک یہی طرز ہے جیسے بعض دانے اگنے بھی نہیں پاتے بلکہ زمین کے اندر ہی اندر ضائع ہو جاتے ہیں اسی طرح بعض بچے شکمِ مادر ہی سے ضائع ہو جاتے ہیں اور بعض پیدا ہونے کے چند روز بعد مَرتے ہیں.غرض ٹھیک اسی قانون اور عمل کے موافق انسان بچہ، جوان اور
بوڑھا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی مرضی کی درانتی اسے وقتاً فوقتاً مصلحت سے کاٹتی جاتی ہے کبھی بچے مَرتے ہیں جن کو کہتے ہیں کہ اٹھرا سے مَرتے ہیں.صحیح البدن توانا و تندرست جوان بھی مَرتے ہیں.عمر رسیدہ ہو کر پیر ناتواں بھی آخر اُٹھ جاتے ہیں.غرض یہ سلسلہ قطع و برید کا دنیا میں ایسا جاری ہے جو ہر آن انسان کو سبق دیتا ہے کہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں.پس یہ بھی ایک دلیل اس زمانہ کی آمد پر ہے.اس کے علاوہ ایک اور دلیل خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کی حقِّیَّت کو سمجھانے کے لئے پیش کی ہے اور وہ انبیاء علیہم السلام کے قہری معجزات ہیں جن سے ایک ایک وقت دنیا کے تختے الٹ گئے.اور خلقت کا نام و نشان تک قریباً مٹ گیا ہے.انسان خدا تعالیٰ کے قہر کے ہاتھ میں ہے جب چاہے وہ نابود کر دے.پھر اس کو اور دلیل کے رنگ میں پیش کیا ہے کہ بعض امراض اس ہیبت اور شدت سے پھیلتی ہیں کہ جنہوں نے ان کا دورہ دیکھا ہوگا وہ کہہ سکتے ہیں کہ قیامت ہی کا نمونہ ہوتا ہے.منجملہ ان امراضِ شدیدہ کے ایک طاعون بھی ہے جو اس وقت ہمارے ملک میں پڑی ہوئی ہے جس نے کراچی، بمبئی میں بہت کچھ صفائی کر دی ہے اور پہاڑ پر بھی پالم پور سے اور کلکتہ سے بھی طاعون کی متوحش خبریں موصول ہوئی ہیں.غرض ایک بڑا بھاری خطرہ ہے جو اس وقت سامنے ہے.اور اس تقریر کے بیان کرنے سے یہ غرض ہے کہ چونکہ انسان کو بڑے بڑے ابتلا آتے رہتے ہیں جیسا خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ...الایۃ(البقرۃ:۱۵۶) ہم تمہیں آزماتے رہیں گے کبھی ڈر سے اور کبھی مالوں میں نقصان کرنے سے اور کبھی ثمرات کو تلف کرنے سے.اتلافِ ثمرات سے مراد اتلاف ثمرات سے مراد تفاسیر میں اولاد بھی لکھی ہے اور اس میں کوششوں کا ضائع ہونا بھی شامل ہے.مثلاً حصول علم کی کوشش، تجارت میں کامیابی کی کوشش، زمینداری کی کوشش.غرض ان کوششوں کا ضائع ہونا بڑی مصیبت ہوتی ہے.ہر وقت انسان کو خیال ہوتا ہے کہ کامیاب ہو جاؤں گا.آخر خدا تعالیٰ کے علم میں ان کی مصلحت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ وہ ناکام رہے یا کھیتی نہیں لگتی یا تجارت میں کامیاب نہیں ہوتے.
طاعون ایک قہری نشان اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار امتحان رکھے ہیں.ایک خوف.دوم کبھی نقصانِ مال اور تیسرے نقصانِ جان.چہارم تلفِ ثمرات.مگر یہ ایک دہشت ناک مقام اور خوفناک جگہ ہے کہ اس طاعون میں یہ ہر چہار امتحان مجموعی طور پر اکٹھے ہو گئے ہیں.جن کو یہ خبر ہے کہ اس وقت کیا ہو رہا ہے اور کیا بھگتنا پڑتا ہے.وارداتِ طاعون سے حقیقت میں یہ چاروں امتحان یکے بعد دیگرے پیش آجاتے ہیں.یہی نہیں کہ آدمی مَر جاتا ہے گورنمنٹ انگلشیہ نے ایک ضرورت اور اشد ضرورت کی وجہ سے اور پھر ایسی مصلحت اور ضرورت سے جیسی مہربان ماں کو اپنے بچوں کی غور و پرداخت اور نگہداشت میں کبھی کبھی پیش آجاتی ہے یہ قانون پاس کیا ہے کہ جس گھر میں طاعون کی واردات ہو اس گھر کے رہنے والے باہر نکال دیئے جاویں اور عند الضرورت ہمسائے اور محلّہ دار اور اشد ضرورت کی صورت میں گاؤں کا گاؤں ہی خالی کر دیا جاوے.بیمار الگ رکھے جاویں اور تندرست الگ رکھے جاویں.اور وہ مقام جہاں ایسے لوگ رکھے جاویں ہلکی ہوا میں ایسی جگہ پر ہو جس کے نشیب میں پانی نہ ہو اور خوب آمد رفت ہوسکے.اور اس کے متّصل ہی قبرستان بھی ہوتا کہ مرنے والوں کو جلدی دفن کرسکیں تا ایسا نہ ہو کہ ان کے تعفن سے ہوا اور زہریلی ہو.یہ ایک ایسا شدید ابتلا ہے جس کی وجہ سے بمبئی، پونا اور بعض دیگر مقامات وغیرہ میں لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے.غرض گورنمنٹ نے ان تدابیر کے اختیار کرنے سے جو نیکی سوچی ہے اور درحقیقت اس میں نیکی ہی ہے اس کو بدی قرار دیا جاتا ہے.یہ افسوس اور سخت افسوس کی بات ہے کہ جس سے نیکی کی جاوے وہ اس نیکی کو بدی سمجھتا ہے.پھر اس پر حیرت اور تعجب تو یہ ہے کہ گورنمنٹ نے تدابیر انسداد کچھ اپنے گھر سے وضع نہیں کرلئے ہیں.یونانی طبیبوں کا اس پر اتفاق ہوا ہے کہ طاعون جس گھر میں ہو وہ اس گھر بلکہ شہر بلکہ ملک تک کو صاف کر دیتی ہے.اس کی بہت سی نظیریں بھی اس گروہ نے دی ہیں کہ طاعون جیسی خوفناک مرض نے بس نہیں کیا جب تک کہ آبادی سے جنگل نہیں بنا دیا اور اجاڑ کرکے نہیں دکھا دیا اکثر لوگوں کو خبر نہیں ہے.مجھے افسوس ہے کہ باوجودیکہ یہ خطرناک مرض بہت بُری طرح پھیل رہا ہے اور ملک کے ایک بڑے حصہ کو تباہ کر دینے کی
دھمکی دے رہا ہے لیکن میں نہیں دیکھتا کہ لوگوں کو ایک کھا جانے والا غم پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ توبہ اور استغفار میں مصروف ہوں.میں نہیں دیکھتا کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کرتے ہوں یا نمازوں کی پابندی کا التزام کرتے ہوں.بلکہ ظلم اور بداخلاقی کے طریقے استعمال میں آرہے ہیں.طاعون کا قاعدہ ہے کہ وہ سخت پرواز کرکے پرندے کی طرح دوسرے مقام میں پہنچتی ہے.اس کی رفتار میں ایسا نظام نہیں ہے کہ منزل بہ منزل جاوے بلکہ دو چار سو کوس کا فاصلہ طے کرکے یکلخت جا پہنچتی ہے.اب بمبئی اور جالندھر کی ہی بابت خیال کرو کہ ان میں کس قدر فاصلہ ہے.اب بتلاؤ کہ انسان اس کے جالندھر میں پہنچنے کی بابت کیا نظام رفتار کا قائم کر سکتا ہے.الغرض اس کی رفتار کی نسبت کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا.آج عافیت سے گزرتی ہے کل کیا ہو.یہ خطرناک بات ہے.اس کے دورے بڑے لمبے ہوتے ہیں.بعض اوقات ساٹھ ساٹھ سال تک اس کا دورہ ہوتا ہے اور یہ ایک مسلّم اور مقبول بات ہے.ہیضہ کی طرح نہیں کہ ساون بھادوں کے مہینے میں آگیا اور بیس پچیس دن رہ کر رخصت ہوا.طاعون کو حکیموں نے نیزے سے مارنے والی لکھا ہے.طاعون مبالغہ کا صیغہ ہے جس کا نشانہ خطا نہیں جاتا.اور کثرتِ اموات بہت ہوتی ہے.تورات میں بھی اس کا ذکر ہے.موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں یہودیوں پر پڑی تھی.تورات میں خدا نے جہاں پھوڑوں کی مار سے ڈرایا ہے اس سے طاعون ہی مراد ہے.قرآن کریم میں بھی یہودیوں کو نافرمانی پر طاعون سے ہلاک کرنے کا ذکر ہے.طاعون آنے کی وجہ ان مقامات تورات اور قرآن کریم پر غور کرنے سے پتا لگتا ہے کہ یہ انسان کی نافرمانی اور بدکاری سے علاقہ رکھتی ہے کیونکہ سنت اللہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ معصیت کے وقت اسی بیماری سے ہلاک ہوئے.یہ خدا تعالیٰ کا ایک قہری نشان ہے.جیسا میں نے پہلے بیان کیا کہ یہ تیسرا قیامت کا نشان ہے اس سے قیامتِ صغریٰ پیدا ہوتی ہے.شاید وہ لوگ جن کو خبر نہیں اس کو افسانہ سمجھیں کہ یورپ اور بلاد شام اور عراق عجم میں تو گویا اس کا ڈیرا جم گیا تھا.ابھی یہاں نیا مسافر ہے اس لئے لوگوں کو اس کے اخلاق اور عادات کی خبر
نہیں.ایک طرف تو وہ خدا سے بے خوف اور بے خبر ہیں اور استغفار نہیں کرتے.دوسری طرف گورنمنٹ کی تجاویز پر بھی تو عمل درآمد نہیں کرتے اور ان کو بدظنی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور مخالفت کا شور مچاتے ہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں مداہنہ کے طور پر تعریف کرنا ہمارا کام نہیں.یہ اصول کہ جس گاؤں میں بیماری ہو وہاں کے لوگ الگ کئے جاویں اور آمد رفت کے راستہ بند کئے جاتے ہیں اور مریضوں کو ایک کھلے میدان میں رکھا جاتا ہے اور بسا اوقات سارے گاؤں کو الگ کر دیا جاتا ہے گویا اس سرزمین سے سب کو نکال دیا جاتا ہے ہماری کتابوں سے معلوم ہوتا ہے اور تورات سے بھی یہی پتا لگتا ہے کہ اس کے مواد زمین سے ہی شروع ہوتے ہیں.یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مرض چوہوں سے پھیلتا ہے.یہ بھی منجملہ دیگر اسباب کے ایک سبب ہے.دراصل جو زمین بدکاریوں اور جفاکاریوں سے لعنتی زمین ہو جاتی ہے اس میں یہ سمیّت پیدا ہو جاتی ہے اور بڑے بڑے خوفناک طریق پر وہ مبتلائے عذاب ہو جاتی ہے.مگر کوئی ہم کو یہ تو بتلائے کہ گورنمنٹ نے کیا برائی کی جو یہ کہا کہ وبازدہ مکان کو چھوڑ دو.جو کام ہماری بھلائی کے لئے ہو اس میں برائی کا خیال پیدا کرنا دانشمند انسان کا کام نہیں.میں نے جیسا کہا ہے کہ اگر گورنمنٹ یہ حکم دیدے کہ کوئی نہ نکلے تو لوگ اس حکم کو اس سے بھی زیادہ ناگوار سمجھیں کیونکہ جب گاؤں میں طاعون پھیلے اور لوگ مَرنے لگیں تو کوئی بھی برداشت نہ کرے گا کہ اس گھر میں رہے.دیکھو! جس گھر یا مکان سے کبھی سانپ نکلے لوگ دہشت کھاتے ہیں.خواہ وہ سانپ مار بھی دیا جاوے.پھر بھی اندھیرے میں اس مکان کے اندر داخل نہیں ہوتے.یہ انسان کی ایک طبعی عادت ہے.حیرت ہے کہ انسان اندیشہ کی جگہ سے واقف ہو اور پھر امن اور چین کے ساتھ اس میں رہے.کیا ہو سکتا ہے کہ جس گھر سے مُردہ پر مُردہ نکلنا شروع ہو جاوے اور اہل خانہ اس میں بیٹھے رہیں؟ فی الفور خود ہی چھوڑیں گے اور اسے منحوس بتلا کر کنارہ کر جائیں گے.اگر یہ لوگ اسی حالت میں چھوڑے جاتے اور گورنمنٹ کسی قسم کا دخل نہ دیتی پھر بھی یہ لوگ وہی کرتے جو آج گورنمنٹ کر رہی ہے.اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کو طاعون کی خبر نہیں وہ اس کو نزلہ زکام کی طرح ایک عام مرض سمجھتے ہیں.
طاعون عذاب ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا نام رُجْز رکھا ہے.رُجْز عذاب کو بھی کہتے ہیں.لغت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اونٹ کی بُنِ ران میں یہ مرض ہوتا ہے اور اس میں ایک کیڑا پڑ جاتا ہے جسے نَغَفْ کہتے ہیں.اس سے ایک لطیف نکتہ سمجھ میں آتا ہے کہ چونکہ اونٹ کی وضع میں ایک قسم کی سرکشی پائی جاتی ہے.تو اس سے یہ پایا گیا کہ جب انسانوں میں وہ سرکشی کے دن پائے جاویں تو یہ عذاب الیم ان پر نازل ہوتا ہے.اور رُجْز کے معنے لغت میں دوام کے بھی آئے ہیں.اور یہ مرض بھی دیرپا ہوتا ہے اور گھر سے سب کو رخصت کر کے نکلتا ہے.اس میں یہ بھی دکھایا ہے کہ یہ بلا گھروں کی صفائی کر نے والی ہے بچوں کو یتیم بناتی اور بے شمار بیکس عورتوں کو بیوہ کر دیتی ہے.غیر صحت مندانہ ماحول بھی طاعون کا باعث ہے اور رُجْز کے معنے میں غور کرنے سے اس کا باعث بھی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ مرض پلیدی اور ناپاکی سے پیدا ہوتا ہے.جہاں اچھی صفائی نہیں ہوتی، مکان کی دیواریں بدنما اور قبروں کا نمونہ ہیں، نہ روشنی ہے نہ ہوا آسکتی ہے، وہاں عفونت کا زہریلا مادہ پیدا ہو جاتا ہے.اس سے یہ بیماری پیدا ہو جاتی ہے.قرآن کریم میں جو آیا ہے وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ (المدّثر:۶) ہر ایک قسم کی پلیدی سے پرہیز کرو.ہجر دور چلے جانے کو کہتے ہیں.اس سے یہ معلوم ہوا کہ روحانی پاکیزگی چاہنے والوں کے لئے ظاہری پاکیزگی اور صفائی بھی ضروری ہے.کیونکہ ایک قوت کا اثر دوسری پر اور ایک پہلو کا اثر دوسرے پر ہوتا ہے.ظاہری پاکیزگی کا اثر باطن پر دو حالتیں ہیں.جو باطنی حالت تقویٰ اور طہارت پر قائم ہونا چاہتے ہیں وہ ظاہری پاکیزگی بھی چاہتے ہیں.ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ (البقرۃ:۲۲۳) یعنی جو باطنی اور ظاہری پاکیزگی کے طالب ہیں مَیں ان کو دوست رکھتا ہوں.ظاہری پاکیزگی باطنی طہارت کی ممد اور معاون ہے.اگر انسان اس کو چھوڑ دے اور پاخانہ پھر کر بھی طہارت نہ کرے تو
اندرونی پاکیزگی پاس بھی نہ پھٹکے.پس یاد رکھو کہ ظاہری پاکیزگی اندرونی طہارت کو مستلزم ہے.اس لئے لازم ہے کہ کم از کم جمعہ کو غسل کرو.ہر نماز میں وضو کرو.جماعت کھڑی کرو تو خوشبو لگالو.عیدین میں اور جمعہ میں خوشبو لگانے کا جو حکم ہے وہ اسی بنا پر قائم ہے.اصل وجہ یہ ہے کہ اجتماع کے وقت عفونت کا اندیشہ ہے.پس غسل کرنے اور صاف کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے سے سـمّیّت اور عفونت سے روک ہوگی.جیسا اللہ تعالیٰ نے زندگی میں یہ مقرر کیا ہے ویسا ہی قانون مَرنے کے بعد بھی رکھا ہے.کافور کے خواص مسلمان کو مَرتے وقت کافور کا استعمال کرنا سنّت ہے.یہ اس لئے کہ کافور ایسی چیز ہے جو وبائی کیڑوں کو مارتی اور سـمّیّت کو دور کرتی ہے.انسان کے لئے ٹھنڈک پہنچاتی ہے.بہت سی عفونتی بیماریوں کو روکتی ہے اس لئے قرآن میں حکم ہے کہ مومنوں کو کافوری شربت پلایا جاوے گا.اور آج کل بھی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ کافور جیسا ہیضہ کے لئے مفید ہے ویسا ہی طاعون کے لئے مفید ہے.میں اپنی جماعت کو بتلاتا ہوں کہ یہ بہت مفید چیز ہے.اور میرا اعتقاد ہے کیونکہ قرآن کریم نے بتلایا ہے کہ یہ جلن کو روکتا ہے اور اس کو سکینت اور تفریح دیتا ہے.یہ ہم کو اس طرف رغبت دلاتا ہے کہ کافور کا استعمال کیا کریں.آج کل ایک بات اور ثابت ہوئی ہے کہ کافور کے ساتھ جدوار استعمال کریں.پس جدوار کو لے کر سرکہ میں ملا کر گولیاں بنانی چاہئیں اور دو دو رتی کی گولیاں بنا کر تازہ لسی کے ساتھ استعمال کرو.عورتوں اور بچوں کو یہ گولیاں روزمرہ اگر استعمال کرائی جاویں تو بہت مفید ہیں.ہم بھی ایک دوا تیار کر رہے ہیں جو خدا تعالیٰ چاہے گا بہت فائدہ مند ہوگی.دراصل یہ کمبخت مرض تو ایسا ہے کہ کسی علاج پر بھروسہ کرنا تو غلطی ہے جب تک اللہ تعالیٰ ہی کا فضل نہ ہو مگر عام اسباب تندرستی اور قانون صحت میں سے حفظ ما تقدم بھی ایک عمدہ چیز ہے اور فائدہ مند ثابت ہوا ہے پس مناسب ہے کہ سـمّیّت اور عفونت پیدا کرنے والی چیزوں سے پرہیز کیا جاوے.اور بعض تیز غذاؤں سے جو دوران خون کو تیز کرتی ہیں جیسے بہت گوشت اور بہت میٹھا یا حد سے زیادہ دھوپ میں پھرنا یا سخت اور شدید محنت کرنا ان سے پرہیز کرنا مناسب ہے.
رعایت اسباب منع نہیں ہے رعایت اسباب ہماری شریعت میں منع نہیں ہے.کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ کیا ہم دوا کریں.آپؐ نے فرمایا کہ ہاں دوا کرو.کوئی مرض ایسا نہیں جس کی دوا نہ ہو.ہاں یہ بالکل سچی بات ہے کہ کوئی بید یا ڈاکٹر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ فلاں دوا فائدہ کرے گی.اگر ایسا ہوتا تو پھر کوئی کیوں مَرتا.طبیبوں اور ڈاکٹروں کو چاہیے کہ متّقی بن جاویں.دوا بھی کریں اور دعا بھی.تنہائی میں دعا مانگیں.جنہوں نے گھمنڈ کیا تھا خدا نے ان کو ہی ذلیل کیا ہے.لکھا ہے کہ جالینوس کو اسہال کے بند کرنے کا بڑا دعویٰ تھا.خدا کی شان ہے کہ وہ خود اسی مرض کا شکار ہوا.اسی طرح بعض طبیب مدقوق ہوکر اور بعض مسلول ہو کر اس تختہءِ دنیا سے چل دیئے.اللہ تعالیٰ پر ہی کامل بھروسہ کرنا چاہیے میری غرض اس سے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کے دعووں کی حقیقت کھول دی اور بے جا شیخی کا بھانڈا پھوڑ کر دکھایا.جو دعویٰ کیا اسی دعوے میں پست ہوئے.معلوم ہوا کہ دعویٰ نہیں کرنا چاہیے.ہمارے والد صاحب مرحوم بھی مشہور طبیب تھے اور پچاس برس کا تجربہ تھا.وہ کہا کرتے تھے کہ حکمی نسخہ کوئی نہیں.حقیقت یہی ہے.تصرف اللہ کا خانہ خالی رہتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے والا سعادت مند ہے.مصیبت میں شیخی میں نہ آوے.غیر اللہ پر بھروسہ نہ کرے.یک دفعہ ہی خفیف عوارض شدید ہونے لگتے ہیں.کبھی قلب کا علاج کرتے کرتے دماغ پر آفت آجاتی ہے کبھی سردی کے پہلو پر علاج کرتے کرتے گرمی کا زور چڑھ جاتا ہے.کون اس کو طے کر سکتا ہے.خدا پر بھروسہ کرنا چاہیے.ان حشرات الارض اور سمّیات کو کوئی کب گن سکتا ہے.بیماریوں کو بھی نہیں گن سکتے.لکھا ہے کہ آنکھ ہی کی تین ہزار بیماریاں ہیں.بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ ایسے طور پر غلبہ کرتی ہیں کہ ڈاکٹر نسخہ نہیں لکھ چکتا جو بیمار کا خاتمہ ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ میں آنا چاہیے آج کل دیکھا جاتا ہے کہ لوگوں کو خدا سے سخت غفلت اور استغنا ہے.قبریں کھودی جا رہی ہیں.فرشتے ہلاکت کے مواد تیار کر رہے ہیں اور لوگ کاٹے جاتے ہیں.اس پر بھی نادان دھیان نہیں
کرتے.وبا قادیان سے ۳۵ کوس کے فاصلے پر ہے.گو شدتِ حرارت کی وجہ سے کم ہوتی جاتی ہے مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ شدتِ حرارت میں کم ہو گئی تو آئندہ سال نہ آئے گی مجھے چند مرتبہ بذریعہ الہام اور رؤیا سے معلوم ہوا ہے کہ وبا ملک میں پھیلے گی اور میں اس کو پیشتر شائع کر چکا ہوں کہ سیاہ رنگ کے پودے لگائے جا رہے ہیں.لگانے والوں سے پوچھا تو انہوں نے طاعون کے درخت بتلائے.یہ بڑی خطرناک بات ہے.وعیدی پیشگوئیاں توبہ اور استغفار سے ٹل سکتی ہیں ایسا ہی میں یہ بھی بتلا چکا ہوں کہ وعید کی پیشگوئیاں توبہ اور استغفار سے ٹل سکتی ہیں یہاں تک کہ دوزخ کا وعید بھی ٹل سکتا ہے.لوگ اس طرف رجوع کریں اور توجہ کریں تو اللہ تعالیٰ اس ملک اور خطے کو چاہے گا تو محفوظ رکھ لے گا.وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.مگر فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ (الفرقان:۷۸) ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم میری بندگی نہ کرو تو پروا کیا ہے.لوگ کہتے ہیں گلی گلی میں حکیم ہیں، ڈاکٹر موجود ہیں، شفا خانے کھلے ہیں وہ فوراً علاج کرکے اچھے ہو جائیں گے؟ مگر ان کو معلوم نہیں کہ خود بمبئی اور کراچی میں بڑے بڑے ڈاکٹر کتنے مبتلا ہوکر چل بسے ہیں؟ جو اس خدمت پر مامور ہو کر گئے تھے خود ہی شکار ہو گئے.یہ خدا تعالیٰ اپنے تصرفات کا مشاہدہ کراتا ہے کہ محض ڈاکٹروں یا علاج پر بھروسہ کرنا دانشمندی نہیں.خدا چاہتا ہے کہ دوسرے عالم پر بھی ایمان پیدا ہو.اب لوگ زور لگا کر دکھاویں جس طرح انسان ایک بالشت بھر زمین کے لئے مرتا ہے، سازشیں کرتا اور مقدمات کی زیر باریاں اٹھاتا ہے کیا وہ خدا تعالیٰ کے کسی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر بھی ویسا ہی قلق اور کرب اپنے اندر پاتا ہے؟ ہرگز نہیں.نادان انسان جب شدید امراض میں مبتلا ہوتا ہے تو خدا کو پکارتا ہے لیکن یونہی آزمائشی طور پر اسے مہلت ملتی ہے تو پھر ایک ایسا اصول قائم کرتا ہے اور ایسی چال چلتا ہے کہ گویا مَرنا ہی نہیں.معمولی امراض سے مَرجانے پر بھی بہت تھوڑا اثر اب دلوں پر ہوتا ہے.دو تین روز تک برائے نام قائم رہتا ہے پھر وہی ہنسی مخول اور مُزخرفات، قبرستان میں جاتے ہیں اور مُردے گاڑتے ہیں مگر کبھی نہیں سوچتے کہ آخر ایک دن مَر کر ہم
نے بھی خدا کے حضور جانا ہے.اب خدا تعالیٰ نے دیکھا کہ معمولی اموات بھی اثر انداز نہیں ہوتی ہیں.امرتسر، لاہور میں ساٹھ ستر روزانہ اموات کی تعداد ہوتی ہوگی.کلکتہ اور بمبئی میں اس سے زیادہ مَرتے ہیں.گو نفس الامر میں یہ نظارہ خوفناک ہے مگر کون دیکھتا ہے.کوتاہ اندیش انسان کہہ اٹھتا ہے کہ یہ اموات آبادی کے لحاظ سے ہیں اور پروا نہیں کرتا.دوسروں کی موت سے خود کچھ نفع نہیں اٹھا سکتا اس لئے خدا تعالیٰ نے دوسرا نسخہ اختیار کیا ہے اور طاعون کے ذریعہ لوگوں کو متنبہ کرنا چاہا ہے لیکن میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اب جو ہونا ہے سو ہونا ہے ایسا نہ ہو کہ یہ سمجھ کر تم خدا تعالیٰ کو بھی ناراض کرو اور گورنمنٹ کو بھی خطاکار ٹھہراؤ.گورنمنٹ کو بدنام کرنے سے کیا حاصل؟ طاعون تمہاری اپنی شامت اعمال سے آئی اور گورنمنٹ پر تمہاری بدولت آفت آئی.طاعون کے ایام میں گورنمنٹ کے اقدامات درست تھے گورنمنٹ کو اگر تمہارے ساتھ سچی ہمدردی نہیں تو تم خود ہی بتلاؤ کہ اس قدر روپیہ وہ کیوں خرچ کرتی ہے.شفاخانے اور ڈاکٹر کیوں مقرر کئے جاتے ہیں.ہزاروں پولیس کے آدمی انتظام کے لئے کیوں مقرر کئے.کیا اسے کچھ شوق ہے کہ اس قدر خرچ اٹھائے؟ نہیں.بلکہ ملک کی یہ حالت دیکھ کر وہ اندر ہی اندر مہربان ماں کی طرح بے چین ہو رہی ہے.گورنمنٹ بھی رعایا ہی سے ہے.لوگوں کو شاید خبر نہیں.حدیث میں آیا ہے کہ قیامت میں لوگ طاعون سے مارے جاویں گے.مُنَجموں کی باتیں گو قابل ذکر نہیں مگر ہند اور یورپ کے مُنَجم کہتے ہیں کہ نومبر ۱۸۹۹ء میں ستارے جمع ہوں گے اور خوفناک وقت آئے گا.ہم کو اس کی تو پروا نہ تھی مگر ہم کو تو یہ غم ہے کہ ہمارے الہام میں بھی آئندہ دو جاڑوں کا سخت اندیشہ ہے بشرطیکہ لوگ راہ راست اختیار نہ کریں اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع نہ کریں.بدکاریاں، زناکاریاں، چوریاں اور ہر ایک قسم کے مکر و فریب اور بداعمال چھوڑ کر ہر طرح کی بداعمالیوں سے اجتناب نہ کریں تو سخت خطرہ اور اندیشہ ہے.ایک سہم ناک اور ترسناک نظارہ ہمارے سامنے ہے.اب بتلاؤ کہ ہم گورنمنٹ کو
کیوں قصور وار ٹھہرائیں؟ پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کو مناسب نہیں ہے کہ وہ جاہلوں کی روش اختیار کریں اور احمقوں اور کوتاہ اندیشوں کی چال چلیں.میں تم کو یقین دلاتا ہوں کہ گورنمنٹ نے جس قدر ہدایات جاری کی ہیں وہ صحت کے لئے بہت مفید ہیں.ہماری تاریخ کی کتابوں میں مثل طبری وغیرہ کی جو ہزار سال سے پہلے کی تصنیف ہے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں جب لشکر ملک شام میں تھا وبا پڑی.اس وقت لشکر کو پہاڑ پر بھیجنا پڑا.تو یہ گورنمنٹ ہی کا مخترعہ نسخہ نہیں بلکہ طریق اہل اسلام بھی یونہی ثابت ہوتا ہے.جیسے انہوں نے نشیب کو چھوڑ کر پہاڑ کی بلندی کو اختیار کیا اسی طرح اب بھی مرطوب اور نشیبی مکانات کو چھوڑ کر کھلے میدانوں میں مریضوں کو رکھا جاتا ہے.بو علی سینا نے بھی اس امر پر زور دیا ہے کہ اُن گھروں کی صفائی کی جاوے کیونکہ جب تک سبب موجود ہے نتیجہ زائل نہیں ہوسکتا.طبیب کیا کر سکتا ہے ماشہ دو ماشہ دوا دے گا مگر وہ عفونت جو سانس کے ذریعہ اندر چلی جاتی ہے اس کو وہ دوا کیا کرے گی؟ اس گھر میں بیٹھ کر طاعون کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟ لوگوں نے طاعون کے ہاتھ دیکھے نہیں.جہاں کوئی مَرتا ہے وہاں ناک نہیں دیا جاتا.گورنمنٹ کی نسبت بدظنی ناپاک خیالات ہیں.گورنمنٹ نے جو سوچا ہے وہ صحیح ہے.ہماری جماعت کو لازم ہے کہ گورنمنٹ کی مدد کریں اور ہندو ہوں یا مسلمان اپنے ہمسائیوں دوستوں کو سمجھاویں اور اس دھوکا اور غلط فہمیوں کو دور کریں کہ گورنمنٹ نے مارنے کی تجویز کی ہے.کوئی ان نادانوں سے پوچھے کہ لکھوکہا روپیہ گورنمنٹ مارنے کے واسطے صرف کر رہی ہے اور اس قدر تکالیف اٹھانے کا اسے شوق ہے.طاعون کیا ہوتی ہے اصل بات یہ ہے کہ طاعون بہت مہلک مرض ہے.اوّل سمجھ لینا چاہیے کہ طاعون کیا ہوتی ہے.وہ ایک شدید تپ آتا ہے.غشی، متلی، درد سر، نسیان ہوتا ہے، لرزہ بہت ہوتا ہے، بے چینی اور سراسیمگی ہوتی ہے.پھر چند روز کے بعد ایک پھوڑا نکل آتا ہے کبھی تو وہ چھوٹی پھنسی ہوتی ہے اور کبھی زیادہ اور کبھی یہ بُنِ ران میں نکلتا ہے.کبھی پسِ گوش اور
کبھی گردن میں نکلتا ہے یہاں تک کہ سرسام ہوجاتا ہے غالباً یہ سب کچھ چوبیس گھنٹہ میں ہو جاتا ہے.گورنمنٹ کو پتا بمشکل ملتا ہے.اور بیس گھنٹہ تک تو لوگ کچھ تو معمولی بخار سمجھ کر اور پھر آثار طاعون دیکھ کر اسے چھپاتے ہیں اور جب اثر ہو چکتا ہے تو کہیں جا کر گورنمنٹ کو پتا ملتا ہے.اب ایک دو گھنٹہ وہاں رہ کر اگر وہ مَرے نہ تو اور کیا ہو.پس یہ نادانی اور حماقت ہے کہ قصور اپنا ہے اور اسے تھوپا جاتا ہے گورنمنٹ کے سر.اگر گورنمنٹ غلطی کرے تو ہمارا حق ہے کہ ہم اس کو بیان کریں بلکہ گورنمنٹ کی نیک نیتی اور خیر طلبی تو یہاں تک ہے کہ اس نے خود مشورے لئے مگر ہمارا ملک واقعی نیم وحشی اور جاہل ہے.غصہ اور بدظنی کے سوا ہاتھ میں کچھ نہیں.اپنی غلط کاریوں کا الزام گورنمنٹ کو دیتے ہیں اور کچھ نہیں سوچتے.کاش یہ صدہا انجمنیں جو ملک میں پھیل رہی ہیں اس کام کی طرف توجہ کریں اور جہلاء کے دلوں سے یہ بدظنیاں گنوائیں تو کس قدر بھلائی بنی نوع کی ہو.تم غفلت کے لحافوں میں پڑے سو رہے ہو جن بے آرامیوں اور تکالیف میں تمہارے ہم جنس مبتلا ہیں تمہیں ان کی خبر نہیں.گورنمنٹ جس قدر روپیہ ان مصائب سے نجات پانے کے لئے اپنی پیاری رعایا کی خاطر صرف کر رہی ہے اگر چندہ کرکے وہ صرف کرنا پڑتا اور یہ حکم ہوتا کہ گاؤں گاؤں کے لوگ چندہ کریں تو کوئی ایک پیسہ بھی دینے پر راضی نہ ہوتا.میں نے بھی ایک دوا تیار کرنی چاہی ہے اور میں اس کے تیار کرنے میں لگا ہوا ہوں.خدا شیخ رحمت اللہ صاحب کو جزائے خیر دے جنہوں نے خدا تعالیٰ ہی کے لئے دو سو روپیہ اس کار خیر میں دیا ہے.میں نے اس مرض کے اسباب کو خوب زیر نظر رکھ لیا ہے.بات یہ ہے کہ اس مرض کے کئی حصے ہوتے ہیں اس لئے طبیب کو مناسب اور لازم ہے کہ وہ ہر حصہ اور سبب کی رعایت ملحوظ رکھے.ردّی غذائیں اور سمّی ہوائیں اس مرض کو بہت زیادہ پھیلاتی اور خطرناک بنا دیتی ہیں.زمین کے نشیبی حصہ سے ایسی سمّی ہوائیں تنفس کے ذریعہ یا غذا کے ذریعہ انسان کے خون میں سمّیّت اور عفونت پیدا کرتی ہیں.جدید سائنسی تحقیقات سے اسلام کی تائید آج کل کی تحقیقات میں طاعون کی جڑ کیڑے یا اجرام صغیرہ ثابت ہوتے
ہیں.میں بھی اس تحقیقات کو پسند کرتا ہوں کیونکہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت اور اسلام کی صداقت ثابت ہوتی ہے.حدیث شریف میں جہاں یہ ذکر آیا ہے وہاں نَغَفْ اس کا نام رکھا گیا ہے اور نَغَفْ اس کیڑے کو کہتے ہیں جو بکری اور اونٹ کے ناک سے نکلتا ہے اور اسے طاعون قرار دیا گیا ہے.آج کل کی تحقیقات پر بڑا فخر کیا جاتا ہے مگر جس نے مقدس اسلام کے بانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاک کلام کو پڑھا ہے اسے کس قدر لطف اور مزا آتا ہے جب وہ تیرہ سو برس پیشتر اس کے پاک ہونٹوں سے ان باتوں کو نکلتے ہوئے دیکھتا ہے.قرآن کریم بھی اس کو کیڑا ہی بتلاتا ہے.اب اے نئی تحقیقات پر اِترانے والو! خدا کے لئے ذرا انصاف کو کام میں لاؤ اور بتلاؤ کہ کیا وہ مذہب انسانی افترا ہو سکتا ہے جس میں ایسے حقائق پہلے سے موجود ہوں جو تیرہ سو سال کی محنتوں اور تحقیقاتوں اور جان کنیوں کا نتیجہ ہوں.یہ قرآن کریم اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے معقولی معجزات ہیں.دیکھو قلب دل کو کہتے ہیں اور قلب گردش دینے والے کو بھی کہتے ہیں.دل پر مدار دوران خون کا ہے.آج کل کی تحقیقات نے تو ایک عرصہ دراز کی محنت اور دماغ سوزی کے بعد دورانِ خون کا مسئلہ دریافت کیا مگر اسلام نے پہلے ہی سے دل کا نام قلب رکھ کر اسی صداقت کو مرکوز اور محفوظ کر دیا.طاعون کے اسباب اب میں پھر اصل مضمون کی طرف عود کرتا ہوں.دوسرا سبب پلیدی، تیسرا سبب سـمّیّت، چوتھا سبب تپ، پانچواں پھوڑے.اب اس میں ایک اختلاف ہے کہ آیا اصل پھوڑے ہیں یا تپ.ڈاکٹر تپ کو اصل بتلاتے ہیں اور یونانی پھوڑہ کو اصل ٹھیراتے ہیں.میرے نزدیک یونانیوں کی رائے صحیح ہے.کیونکہ تورات میں بھی پھوڑوں کا ہی ذکر ہے.(اللہ اللہ کس قدر ایمانی طاقت بڑھی ہوئی ہے.تورات میں اصل پھوڑے قرار دیئے ہیں جو خدا کا کلام ہے.ایڈیٹر) ہاں تپ لازمی ہے.بعض اوقات تپ قائم مقام ہوتا ہے اور کبھی نہیں بھی بلکہ بیمار تپ سے پہلے ہی رخصت ہوجاتا ہے.طبابت کے رو سے ثابت ہوا ہے کہ تپ سے پہلے بھی رخصت ہو جاتا ہے.غرض اصل تپ نہیں بلکہ پھوڑا ہے.پھوڑا اگر چیرا جاتا ہے اور مواد نکل جاتا ہے
تو تپ بھی کم ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ اچھا ہو جاتا ہے.بہرحال یہ مرض مہلک اور خوفناک ہے اور یہی وجہ ہے کہ گورنمنٹ باجودیکہ وہ سچی ہمدردی اور پوری غم خواری کے ساتھ رعیت کی بھلائی میں مصروف ہے مگر بدنام ہو گئی ہے.وجہ اس کی یہ ہے کہ گورنمنٹ کو جلد خبر نہیں ملتی ہے اور اگر ملتی بھی ہے تو کیا کیا جاوے؟ مریض اس کے اختیار میں نہیں.جہاں تک نیک نیتی اور بنی نوع انسان کی اس غمخواری کے خیال سے جو خود اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈال رکھا ہے میں نے ان تجاویز پر جو گورنمنٹ نے مریضانِ طاعون کے متعلق شائع کی ہیں.غور کیا ہے اور میں بلا خوف لَوم لائم کہتا ہوں کہ یہ تجاویز بہت ہی مناسب اور موزوں ہیں.مثلاً یہ کہ اس گھر کو یا بعض اوقات عند الضرورت محلہ کو خالی کیا جاوے اور مریض کو الگ رکھا جاوے.یہ سب بالکل ٹھیک اور درست ہیں.ہاں اگر کوئی یہ کہے کہ بچہ اگر طاعون کا بیمار ہو اور وہ قواعد کے رو سے علیحدہ کیا جاوے تو ماں باپ سے جدا ہو کر وہ مَر جاوے گا لیکن ایسا اعتراض کرنے والوں کو معلوم ہو کہ ماں باپ اس کے ساتھ جا سکیں گے مگر وہ بھی اس کے ساتھ طاعون ہی کے مریض قرار دیئے جاویں گے.اِنَّـمَا الْاَعْـمَالُ بِالنِّیَّاتِ گورنمنٹ کی نیت بالکل نیک ہے وہ لوگوں کو تفرقہ میں ڈالنا نہیں چاہتے.گورنمنٹ نے بدنیتی یا برائی کے خیال سے ایسا نہیں کیا.اُولی الامر کی اطاعت اور میری تو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ گورنمنٹ کو فائدہ کیا ہو سکتا ہے.قرآن میں حکم ہے اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ (النساء:۶۰) اب اُولِي الْاَمْرِ کی اطاعت کا صاف حکم ہے.اگر کوئی کہے کہ گورنمنٹ مِنْكُمْ میں داخل نہیں تو یہ اس کی صریح غلطی ہے.گورنمنٹ جو بات شریعت کے موافق کرتی ہے وہ مِنْكُمْ میں داخل ہے.جو ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ ہم میں داخل ہے.اشارۃ النص کے طور پر قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہیے اور اس کی باتیں مان لینی چاہئیں.عام طور پر مسلمانوں کو تو یہ چاہیے تھا کہ انسداد طاعون کے متعلق شکر گزاریٔ گورنمنٹ کے میموریل بھیجتے.بجائے شکر گزاری کے ناشکر گزاری ہوئی اور کوئی وجہ ناراضی کی بجز اس کے نہیں معلوم ہوتی کہ عورتوں کی نبضیں دیکھتے ہیں.اول تو گورنمنٹ نے اس اعتراض پر پوری توجہ کرکے اس کو رفع بھی کر دیا اور
دائیاں مقرر کر دیں مگر میں کہتا ہوں کہ اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو بھی اعتراض کی گنجائش نہ تھی.ایسی صورت اور حالت میں جہاں قہر خدا نازل ہو اور ہزاروں لوگ مَریں وہ تشدّد پردہ جائز نہیں ہے.کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ کی بیوی مَر گئی اور کوئی اس کے اٹھانے والا بھی نہ رہا اب اس حالت میں پردہ کیا کر سکتا تھا.مثل مشہور ہے ’’مَرتا کیا نہ کرتا.‘‘ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر بچہ رحم میں ہو تو کبھی مرد اس کو نکال سکتا ہے.ہمارے دین میں حرج نہیں ہے.جو حرج کرتا ہے وہ اپنی نئی شریعت بناتا ہے.گورنمنٹ نے بھی پردہ میں کوئی حرج نہیں کیا اور قواعد بھی اب بہت آسان ہوتے جاتے ہیں جو تجاویز اور اصلاحیں لوگ پیش کرتے ہیں گورنمنٹ انہیں توجہ سے سنتی اور ان پر مناسب اور مصلحت وقت کے موافق غور کرتی ہے.کوئی مجھے یہ تو بتلاوے کہ پردہ میں نبض دکھانا کہاں منع رکھا ہے.سعادت کی راہیں اختیار کریں بات یہ ہے کہ نیک بختی اور تقویٰ کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور سعادت کی راہیں اختیار کرنی چاہئیں.تب ہی کچھ ہوتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (الرّعد:۱۲) خدا تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ خود قوم اپنی حالت کو تبدیل نہ کرے.خواہ نخواہ کے ظن کرنے اور بات کو انتہا تک پہنچانا بالکل بے ہودہ بات ہے.ضروری بات یہ ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں.نماز پڑھیں، زکوٰۃ دیں، اتلافِ حقوق اور بدکاریوں سے باز آئیں.یہ بات خوب طور پر ثابت ہے کہ بعض اوقات جب ایک بدی کرتا ہے تو وہ سارے شہر اور گھر کی ہلاکت کا موجب ہو جاتی ہے.پس بدیاں چھوڑ دیں کہ وہ ہلاکت کا موجب ہیں.جالندھر اور ہوشیارپور کے ۸۰ گاؤں مبتلا ہیں.پھر کیوں غفلت کی جاوے.اور گورنمنٹ پر جاہلانہ طور پر بدگمانی نہ کرو.اگر تمہارا ہمسایہ بدگمانی کرتا ہو تو اسے سمجھا دو.کہاں تک انسان غفلت کرے گا.اس دن سے ڈرنا چاہیے جب ایک دفعہ ہی وبا آپڑے اور تباہ کر ڈالے.حدیث میں آیا ہے کہ قبل از وقت دعا قبول ہوتی ہے.خوف و خطر میں جب انسان مبتلا ہوتا ہے تو ایسے وقت میں تو ہر شخص دعا اور رجوع کر سکتا ہے.سعادت مند وہی ہے جو امن کے وقت دعا کرے.انسان ان لوگوں کی حالت کو معائنہ
کرے جو اس خطرہ میں مبتلا ہیں.یہاں سے تو بہت قریب ہے.آدمی وہاں کے حالات دریافت کرے.ابھی تک جالندھر کے ضلع میں ترقی پر ہے.گو ہوشیار پور کے ضلع میں کمی پر ہے.نمازوں کو باقاعدہ التزام سے پڑھو مگر میں یقین نہیں کرتا ابھی جاڑا آتا ہے.پس خدا تعالیٰ کی طرف پناہ لو اور نمازوں کو باقاعدہ التزام سے پڑھو.کبھی لوگ ایک ہی وقت کی نماز پڑھ لیتے ہیں.نمازیں معاف نہیں ہوتیں.پیغمبروں کو بھی معاف نہیں ہوئیں.ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک نئی جماعت آئی.انہوں نے نماز کی معافی چاہی.آپ نے فرمایا کہ جس مذہب میں عمل نہیں وہ مذہب کچھ نہیں.اس بات کو خوب یاد رکھو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان ہے کہ آسمان اور زمین اس کے امر سے قائم رہ سکتے ہیں.کبھی کبھی لوگ جو طبیعیات کی طرف مائل ہوجاتے ہیں کہتے ہیں کہ نیچری مذہب قابل اتباع ہے.حفظ صحت کے اسباب استعمال نہ کریں تو تقویٰ اور طہارت کا کیا فائدہ ہو گا؟ اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے یہ بھی ایک نشان ہے کہ بعض وقت ادویات بے کار ہو جاتی ہیں اور حفظِ صحت کے اسباب کام نہیں آسکتے.نہ دوا کام آسکتی ہے اور نہ طبیب لیکن اس کا امر ہو تو الٹا سیدھا ہو جاتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ابتلا دیکھو حضرت ابراہیمؑ کا ابتلا کہ بچے اور اس کی ماں کو کنعان سے دور لے جاؤ.وہ اپنے عیال کو وہاں لے گئے جہاں اب مکہ واقع ہے.ایسی جگہ جہاں نہ دانہ تھا نہ پانی وہاں پہنچ کر کہا کہ اے اللہ! میں اپنی ذرّیت کو ایسی جگہ چھوڑتا ہوں جہاں دانہ پانی نہیں ہے.حضرت سارہؓ کا ارادہ تھا کہ کسی طرح سے اسماعیلؑ مَر جاوے.انہوں نے کہا کہ اس کو ایسی جگہ چھوڑ.ان کو یہ بات بُری معلوم ہوئی مگر خدا نے کہا کہ سارہؓ جو کہتی ہے وہی کرنا ہوگا.اس لئے نہیں کہ سارہؓ کا پاس زیادہ تھا.سارہؓ نے ہاجرہؓ کو اس سے پہلے بھی نکالا تھا.فرشتہ اس وقت بھی بولا تھا.نبیوں کے سوا بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے.چنانچہ ہاجرہؓ سے دو مرتبہ مکالمہ ہوا.غرض ابراہیم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا.کچھ مختصر سا پانی اور تھوڑی سی
کھجوریں لے کر چلے گئے اور چھوڑ کر آگئے.چند روز بعد نہ دانہ رہا نہ پانی رہا تو اسماعیلؑ مَرنے لگے.اس وقت ماں نے نہ چاہا کہ مَیں اس کی موت دیکھ سکوں.چند مرتبہ اِدھر اُدھر دوڑیں کہ شاید کوئی قافلہ آتا ہو.دور جا کر ٹیلے پر چڑھ کر چیخنے لگیں.اب وہ وقت تھا کہ ایک ہی بچہ تھا اور آپ خاوند سے الگ تھیں.گویا بیوہ ہی کی طرح تھیں.آگے بچہ پیدا ہونے کی امید نہیں تھی.چیخنے لگیں.اس وقت فرشتہ نے آواز دی کہ ہاجرہ.ہاجرہ.اِدھر دیکھا.اُدھر دیکھا کوئی نظر نہ آیا.پھر دیکھا کہ بچے کے اِدھر اُدھر پانی رواں ہو رہا ہے گویا مُردہ زندہ ہوا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اگر پانی روکا نہ جاتا تو تمام دنیا میں بہہ نکلتا.اس قصہ کے بیان سے یہ مطلب ہے اگرچہ ایسی جگہ ہو جہاں دانہ پانی نہ ہو.جب بھی خدا تعالیٰ اپنی قدرت کا کرشمہ دکھاتا ہے چنانچہ پہلا کرشمہ یہ پانی تھا.اور اس بات کی طرف بھی اشارہ تھا کہ وہ پانی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھیلایا.اس کی شان یہ ہے کہ اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الـحدید:۱۸) اس پانی سے تو اسماعیل زندہ ہوا تھا اور اس سے دنیا زندہ ہوئی.مدعا یہ ہے کہ جہاں ظاہری تجویز نہ تھی وہاں اللہ تعالیٰ نے بچاؤ کی ایک راہ نکال دی.اور اللہ تعالیٰ جو یہ فرماتا ہے کہ اس کے امر سے زمین آسمان رہ سکتے ہیں دیکھو! وہ جنگل جہاں اس قدر گرمی پڑتی ہے اور ایک انسان نہ تھا اس کو خدا نے کیسا بنا دیا کہ کروڑ ہا مخلوق وہاں جاتی ہے اور ہر ایک جگہ سے لوگ جاتے ہیں.وہ میدان جہاں حج کے لئے لوگ جمع ہوتے ہیں وہی ہے جہاں نہ دانہ تھا نہ پانی.اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کرو اصل بات یہ ہے کہ خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے.ویرانہ کو آبادی اور بڑی آبادی کو ویرانہ بنا دیتا ہے.بابل کو کیا کیا؟ جہاں انسان کا منصوبہ تھا کہ آباد ہو وہاں ویرانہ ہوا اور اُلوؤں کا مسکن بنا اور جہاں انسان چاہتا تھا کہ ویرانہ ہو وہ دنیا بھر کا مرجع ہوا.پس خوب یاد رکھو کہ دوا اور تدبیر پر خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر بھروسہ کرنا حماقت ہے.ایسی زندگی چاہیے جو بالکل نئی ہو.استغفار کی کثرت ہو.جن کو بہت کثرت اشغال ہیں ان کو زیادہ ڈرنا چاہیے.ملازمت پیشہ لوگوں کے اکثر فرائض فوت ہو جاتے ہیں.پس بعض اوقات ظہر اور عصر کا جمع اور مغرب اور عشاء کا جمع کرنا جائز ہے.میں جانتا ہوں کہ حکّام سے بھی اگر نماز کے
لئے پوچھیں تو اجازت دے دیتے ہیں اور اعلیٰ حکام کی ماتحت افسروں کو ہدایتیں ہوتی ہیں.ترکِ نماز میں ایسے بیجا عذر بجز اپنے نفس کے کچے پن کے اور کچھ نہیں.حقوق العباد اور حقوق اللہ میں ظلم نہ کرو.اپنے فرائض منصبی بجا لاؤ گورنمنٹ پر ایک سیکنڈ کے لئے بھی بدظنی نہ کرو.کیا تم نہیں جانتے کہ سکھوں کے عہد میں کیا حال تھا؟ مسجدوں میں اذان موقوف ہو گئی تھی.گائے کے تھوڑے سے گوشت پر سخت ایذائیں اور بے حد ظلم ہوتے تھے.پس اللہ تعالیٰ دور سے اس سلطنت کو لایا جس سے ہم نے فائدہ اٹھایا.امن سے اپنے مذہبی فرائض بجا لانے لگے ہیں پس کس قدر شکر ہم کو اس گورنمنٹ کا کرنا چاہیے.خوب یاد رکھو کہ جو انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خدا کا بھی نہیں کرتا.یہ قاعدہ ہے کہ اگر انسان کسی عضو سے کام نہ لے تو بیکار ہو جاوے.کہتے ہیں آنکھ کو چالیس دن بند رکھیں تو اندھی ہو جاوے.اس لئے میں تم کو بتاکید کہتا ہوں کہ گورنمنٹ کے احسان ہم پر بہت ہیں.کس قدر حقائق اور معارف کی کتابیں کہاں کہاں سے آتی ہیں.آزادی سے ہم نے فائدہ اٹھایا.مذہب پر حملے ہوئے اور مشکلات پڑے.ہم نے غور کیا اور فکر کی تو اللہ تعالیٰ نے حسب وعدہ وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) ہم پر معارف اور حقائق کھولے.اسی لحاظ سے گورنمنٹ بھی ان معارف کے کھلنے کا ایک باعث ہے.پس بالآخر میں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے سچا رشتہ قائم کرو اور گورنمنٹ پر بدظنی سے نہ دیکھو بلکہ اس کی ہدایات کی تعمیل کرو اور اس کو مدد دو.فقط.۳۹؎ ۱۶؍مئی۱۸۹۸ء تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہو جاؤ دن بہت ہی نازک ہیں.اللہ تعالیٰ کے غضب سے سب کو ڈرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ کسی کی پروا نہیں کرتا مگر صالح بندوں کی.آپس میں اخوت اور محبت کو پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو.ہر ایک قسم کے ہزل اور تمسخر سے مطلقًا کنارہ کش ہو جاؤ کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت
سے دور کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے.آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزت سے پیش آؤ.ہر ایک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دیوے.اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کرلو اور اس کی اطاعت میں واپس آجاؤ.اللہ تعالیٰ کا غضب زمین پر نازل ہو رہا ہے اور اس سے بچنے والے وہی ہیں جو کامل طور پر اپنے سارے گناہوں سے توبہ کر کے اس کے حضور میں آتے ہیں.تم یاد رکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاؤ گے اور اس کے دین کی حمایت میں ساعی ہو جاؤ گے تو خدا تمام رکاوٹوں کو دور کر دے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کسان عمدہ پودوں کی خاطر کھیت میں سے ناکارہ چیزوں کو اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے اور اپنے کھیت کو خوش نما درختوں اور بار آور پودوں سے آراستہ کرتا اور ان کی حفاظت کرتا اور ہر ایک ضرر اور نقصان سے ان کو بچاتا ہے مگر وہ درخت اور پودے جو پھل نہ لاویں اور گلنے اور خشک ہونے لگ جاویں ان کی مالک پروا نہیں کرتا کہ کوئی مویشی آکر ان کو کھا جاوے یا کوئی لکڑہارا ان کو کاٹ کر تنور میں پھینک دیوے.سو ایسا ہی تم بھی یاد رکھو.اگر تم اللہ تعالیٰ کے حضور میں صادق ٹھہرو گے تو کسی کی مخالفت تمہیں تکلیف نہ دے گی.پر اگر تم اپنی حالتوں کو درست نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے فرمانبرداری کا ایک سچا عہد نہ باندھو تو پھر اللہ تعالیٰ کو کسی کی پروا نہیں.ہزاروں بھیڑیں اور بکریاں روز ذبح ہوتی ہیں پر ان پر کوئی رحم نہیں کرتا اور اگر ایک آدمی مارا جاوے تو اتنی باز پرس ہوتی ہے.سو اگر تم اپنے آپ کو درندوں کی مانند بے کار اور لاپروا بناؤ گے تو تمہارا بھی ایسا ہی حال ہوگا.چاہیے کہ تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہوجاؤ تا کہ کسی وبا کو یا آفت کو تم پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہو سکے کیونکہ کوئی بات اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر ہو نہیں سکتی.ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنیٰ باتوں سے اعراض کر کے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ.لوگ تمہاری مخالفت کریں گے اور انجمن کے ممبر تم پر ناراض ہوں گے.پر تم ان کو نرمی سے سمجھاؤ اور جوش کو ہرگز کام میں نہ لاؤ.یہ میری وصیت ہے.اور اس بات کو وصیت کے طور پر یاد رکھو کہ ہر گز تندی اور سختی سے کام نہ لینا بلکہ نرمی اور آہستگی اور خلق سے ہر ایک کو سمجھاؤ اور انجمن کے
ممبروں کو ذہن نشین کراؤ کہ ایسا میموریل ۴۰؎ فی الحقیقت دین کو ایک نقصان دینے والا امر ہے اور اسی واسطے ہم نے اس کی مخالفت کی کہ دین کو صدمہ پہنچتا ہے.۴۱؎ ۲۵ ؍ جولائی۱۸۹۸ء گالیوں کا اَحسن جواب مولوی محمد حسین صاحب بطالوی نے اپنے رسالہ اشاعت السنہ نمبر پنجم لغایت دوازدہم جلد ہژدہم بابت ۱۸۹۵ء بدست محمد ولد چوغطہ قوم اعوان ساکن ہموں گکھڑ ضلع سیالکوٹ بھیجا.جس میں حضرت مسیح موعودؑ پر بہت ناواجب حملے کیے گئے تھے.آپؑ نے ۲۵ جولائی ۱۸۹۸ء کی سہ پہر کو اصل مرسلہ رسالہ کی پیشانی پر مندرجہ ذیل عبارت لکھ کر قاصد کو دے دیا.۴۲؎ ’’رَبِّ اِنْ کَانَ ھٰذَا الرَّجُلُ صَادِقًا فِیْ قَوْلِہٖ فَاَکْرِمْہُ وَاِنْ کَانَ کَاذِبًا فَـخُذْہُ.آمین.‘‘ ۴۳؎ یکم اگست ۱۸۹۸ء صبح کی نماز کے بعد حضرت اقدس نے فرمایا.خواب میں ہاتھ سے دانت کا گرانا منذر ہوتا ہے میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک ڈاڑھ کا حصہ جو بوسیدہ ہو
گئی ہے اس کو میں نے منہ سے نکالا اور وہ بہت صاف تھا اور اسے ہاتھ میں رکھا.پھر فرمایا کہ خواب میں دانت اگر ہاتھ سے گرایا جاوے تو وہ منذر ہوتا ہے ورنہ مبشر.زاں بعد محمد صادق نے اپنے دو خواب سنائے جن میں سے ایک میں نور کے کپڑوں کا ملنا اور دوسرے میں حضرت اقدسؑ کے دیئے ہوئے مضمون کا خوشخط نقل کرنا تھا.جس کی تعبیر حضرت اقدسؑ نے کامیابی مقاصد فرمائی.اس کے بعد حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ تائید الٰہی سے مضامین کا دل پر نزول تائیداتِ الٰہیہ ایک تو بیّن اور ظاہر طور پر ظہور پذیر ہوتی ہیں اور عام لوگ ان کو دیکھ سکتے ہیں مگر بعض مخفی تائیدات ایسی ہوتی ہیں جن کے لئے میری سمجھ میں کوئی قاعدہ نہیں آتا کہ عوام النّاس کو کیوں کر دکھا سکوں.مثلاً یہی عربی تصنیف ہے.میں خوب جانتا ہوں کہ عربی ادب میں مجھے کہاں تک دسترس ہے لیکن جب میں تصنیف کا سلسلہ شروع کرتا ہوں تو یکے بعد دیگرے اپنے اپنے محل اور موقع پر موزوں طور پر آنے والے الفاظ القا ہوتے جاتے ہیں.اب کوئی بتلائے کہ ہم کیوں کر اس تائید الٰہی کو دکھا سکیں کہ وہ کیونکر سینہ پر الفاظ نازل کرتا ہے.اور دیکھو اس ایام الصلح میں اکثر مضامین ایسے آئے ہیں جن کا میری پہلی تصنیفات میں نام تک نہیں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اس سے پہلے وہ کبھی ذہن میں نہ گزرے تھے لیکن اب وہ ایسے طور پر آکر قلب پر نازل ہوئے کہ سمجھ میں نہیں آسکتا جب تک خود تائید الٰہی شامل حال ہو کر اس کو اس قابل نہ بنا دیوے اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جو وہ ایسے بندوں پر کرتا ہے جن سے کوئی کام لینا ہوتا ہے.یہ بھی ایک سچی بات ہے کہ تصنیفات کے لئے جب تک صحت اور فراغت نہ ہو یہ کام نہیں ہوسکتا اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ان لوگوں ہی کو ملتا ہے جن سے وہ کوئی کام لینا چاہتا ہے.پھر ان کو یہ سب سامان جو تصنیف کے لئے ضروری ہوتے ہیں یکجا جمع کر دیتا ہے.
رعایتِ اسباب جناب مولانا مولوی نور دین صاحب سَلّمَہٗ رَبُّہٗ کی طبیعت ۳۱؍ جولائی ۱۸۹۸ء سے بعارضہ درد شکم بیمار تھی حضرت اقدسؑ نے آدمی بھیج کر خبر منگوائی اور افاقہ کی خبر سن کر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ فرمایا اور فرمایا.مولوی صاحب کا سِن اب انحطاط کا ہےاس لئے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے گویا پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے.زندگی اور موت تو اللہ تعالیٰ کے قبضہءِ قدرت میں ہے لیکن انسان کو یہ بھی مناسب نہیں کہ وہ اسباب کی رعایت نہ رکھے.پھر فرمایا کہ دراصل انحطاط کا زمانہ ۳۰ سال کے بعد سے شروع ہو جاتا ہے.افراط اور تفریط اس سِن میں اچھی نہیں ہوتی.میں نے بعض آدمی دیکھے ہیں کہ گنا نپا آٹا دیتے اور پانی بھی اندازہ اور وزن کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں اور بعض یہاں تک بڑھ جاتے ہیں کہ ان کو کسی قسم کا اندازہ ہی نہیں رہتا.یہ دونوں باتیں ٹھیک ہیں جیسا میں نے کہا زمانہءِ شباب تیس ہی سال تک ہے اور یہ بھی اس صورت میں کہ قوی مضبوط اور تندرست ہوں ورنہ بعض تو اوائل ہی میں تَشبّہ بالشیوخ رکھتے ہیں.۴۴؎ ۲۳؍اگست۱۸۹۸ء کی شام جدید فلسفہ بے دینی کیوں پیدا کرتا ہے؟ حضورؑ نے پوچھا کہ یہ موجودہ فلسفہ اکثر طبیعتوں میں بے دینی کیوں پیدا کر دیتا ہے؟ ماسٹر غلام محمد صاحب سیالکوٹی نے کہاکہ دراصل جو طبیعتیں پہلے ہی سے بے دینی کی طرف مائل ہوتی ہیں وہی اس سے اثر پذیر ہوتی ہیں ورنہ اکثر بڑے بڑے فلاسفر مزاج پادری اپنے مذہب میں پکے ہوتے ہیں.
حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان باتوں پر غور کرنے کے بعد افسوس کے ساتھ ذہن دوسری طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ ایک طرف تو یہ پادری لوگ کالجوں اور سکولوں میں فلسفہ اور منطق پڑھاتے ہیں دوسری طرف مسیح کو اِبْنُ اللہ اور اللہ مانتے ہیں اور تثلیث وغیرہ عقائد کے قائل ہیں جو سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ کیوں کر اس کو فلاسفہ سے مطابق کرتے ہیں.انگریزی منطق کی بنا تو منطق استقرائی ہی پر ہے.پھر یہ کون سا استقراء ہے کہ یسوع اِبْنُ اللہ ہے.کون سی شکل پیدا کرتے ہوں گے.یہی ہوگا کہ مثلاً اس قسم کے خواص جن لوگوں کے اندر ہوں وہ خدا یا خدا کے بیٹے ہوتے ہیں اور مسیح میں یہ خواص تھے.پس وہ بھی خدا یا خدا کا بیٹا تھا.اس سے تو کثرت لازم آتی ہے جو محال مطلق ہے.میں تو جب اس پر غور کرتا ہوں، حیرت بڑھتی ہی جاتی ہے.نہیں معلوم یہ لوگ کیوں نہیں سوچتے؟ اسلام کے پاک اصول ایسے نہیں ہیں کہ فلسفہ یا استقراء کی محک پر بھی کامل المعیار ثابت نہ ہوں.بلکہ میں نے بارہا غور کی ہے کہ قرآن کریم کی نسبت جو آیا ہے فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ (الواقعۃ:۷۹) یہ کتاب مکنون زمین اور آسمان کی چھپی ہوئی کتاب ہے جس کے پڑھنے پر ہر شخص قادر نہیں ہوسکتا اور قرآن کریم اسی کتاب کا آئینہ ہے اور قرآن نے وہی خدا دکھایا ہے جس پر آسمان و زمین شہادت دیتے ہیں مگر یہ انیس سو برس کا تراشہ ہوا جعلی مُردہ خدا کس سند اور شہادت پر خدا بنایا گیا ہے.پس یہ اسلام ہی کی خوبی اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی فخر ہے کہ وہ ایسا دین لے کر آئے کہ جو ہمیشہ سے ہے اور جس کی تعلیم زمین اور آسمان کے اوراق میں بھی واضح طور پر موجود ہے.۴۵؎ ۲۵؍اگست۱۸۹۸ء موجودہ فارسی ۲۵؍اگست کی صبح کو فارسی زبان پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے فرمایا کہ ایرانیوں نے آج کل اپنی توجہ تصنیفات کی طرف بہت مبذول کی ہے اور اس کثرت سے عربی الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ بجز روابط کے فارسی زبان کو
کم دخل دیتے ہیں اور باب مُفَاعَلَہ، اِنْفِعَال، اِسْتِفْعَال وغیرہ کو اس قدر کثرت سے استعمال کرتے ہیں کہ عقل حیران ہوتی ہے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ فہمیدن وغیرہ قدیم زمانے میں استعمال کرتے تھے.آج کل بہت کم استعمال رہ گیا.مولانا عبدالکریم صاحب نے عرض کی کہ ’’آج کل تو مفاہمہ، تفہیم وغیرہ ہی بولتے ہیں.‘‘ عربی زبان کی وسعت اور اسلام کی تائید اس کے بعد اسی سلسلے میں حضرتؑ نے فرمایا کہ عربی زبان بہت وسیع ہے اور ہر ایک قسم کی اصطلاحیں اس میں موجود ہیں اور تصنیفات اس قدر کثرت سے ہو رہی ہیں کہ جن کا علم بجز خدا کے اور کسی کو نہیں ہو سکتا.صرف حدیث ہی کو دیکھو کہ کوئی کامل طور پر دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے علم حدیث کی کل کتابوں کو دیکھا ہو.پھر مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے علیٰ سبیل الذکر فرمایا کہ حال ہی میں مولوی صاحب (جناب مولوی نور الدین صاحب سلَّمَہٗ رَبُّہٗ مراد ہیں) کے پاس مصر سے کتب خانہ خدیویہ کی ایک فہرست سات جلدوں میں آئی ہے.وہ فہرست ایسے طور پر مرتّب کی گئی ہے کہ اس کو پڑھ کر بھی ایک مزا آتا ہے.ایسے ڈھنگ پر کتابوں کے نمبر دیئے ہیں کہ ایک بالکل اجنبی بھی اگر لائبریری میں چلا جاوے تو وہ بلا تکلیف عین کتاب پر ہاتھ ڈالے گا بشرطیکہ اس نے فہرست کو ایک بار دیکھا ہو.اس پر حضرت اقدسؑ نے پوچھا کہ وہ کتابیں باہر جا سکتی ہیں؟ مولوی صاحب موصوف نے فرمایا.ہاں.وہ لائبریریاں ایسی نہیں.کتابیں نقل ہو سکتیں ہیں.وغیرہ وغیرہ.اس پر جناب امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کی کس قدر تائید کی ہے اگر کوئی نادان اسلام کی اس تائید الٰہی کا انکار کرتا ہے تو اسے ماننا پڑے گا کہ کبھی بھی دنیا میں خدا نے کسی کی تائید نہیں کی.زبان کا اس قدر وسیع ہونا اور
پھر اس میں اس قدر کثرت سے تصنیفات کا ہونا بھی اسلام ہی کی تائید ہے کیونکہ قرآن شریف ہی کی تائید ہوئی ہے.کوئی اہل لغت جب کسی لفظ کے معنے لکھتا ہے تو اگر وہ لفظ قرآن کریم میں آیا ہے ساتھ ہی اس نے وہ آیت بھی ضرور ہی لکھ دی ہے.یہاں مولانا عبد الکریم صاحب نے فرمایا کہ لسان العرب نے تو یہ طریق لازمی طور پر رکھا ہے.پھر حضرتؑ نے اپنے سلسلہ تقریر میں فرمایا کہ سنسکرت وغیرہ زبانیں تو قریب مردہ ہو گئی ہیں.نہ ان میں تصنیفات ہیں نہ کچھ اور.ایسا ہی عیسائیوں کا حال ہے کہ ان کی انجیل کی اصلی زبان کی طرف توجہ ہی نہیں رہی.اسلام کا پیدا کردہ روحانی انقلاب پھر اسی سلسلہ میں حضور نے فرمایا کہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ پھر اسلام سے کیوں پرخاش رکھی جاتی ہے.اسلام کا خدا کوئی مصنوعی خدا نہیں بلکہ وہی قادر خدا ہے جو ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور پھر رسالت کی طرف دیکھو کہ اصل غرض رسالت کی کیا ہوتی ہے؟ اوّل یہ کہ رسول ضرورت کے وقت پر آئے اور پھر اس ضرورت کو بوجہ احسن پورا کرے.سو یہ فخر بھی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے.عرب اور دنیا کی حالت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے کسی سے پوشیدہ نہیں.بالکل وحشی لوگ تھے.کھانے پینے کے سوا کچھ نہ جانتے تھے.نہ حقوق العباد سے آشنا اور نہ حقوق اللہ سے آگاہ.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایک طرف ان کا نقشہ کھینچ کر بتلایا کہ يَاْكُلُوْنَ كَمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ (مـحمد:۱۳) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم نے ایسا اثر کیا يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا (الفرقان:۶۵) کی حالت ہو گئی.یعنی اپنے رب کی یاد میں راتیں سجدے اور قیام میں گزار دیتے ہیں.اللہ!اللہ!! کس قدر فضیلت ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب سے ایک بینظیر انقلاب اور عظیم الشان تبدیلی واقع ہو گئی.حقوق العباد اور حقوق اللہ دونوں کو میزان اعتدال پر قائم کردیا اور مُردار خوار اور مُردہ قوم کو ایک اعلیٰ درجہ کی زندہ اور پاکیزہ قوم بنا دیا.دو ہی خوبیاں ہوتی ہیں.علمی یا عملی.عملی حالت کا تو یہ حال کہ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا اور علمی کا یہ حال کہ اس قدر کثرت سے
تصنیفات کا سلسلہ اور توسیع زبان کی خدمت کا سلسلہ جاری ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.دوسری طرف جب عیسائیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے حیران ہی ہونا پڑتا ہے کہ حواریوں نے عیسائی ہوکر کیا ترقی کی.یہودہ اسکریوطی جو یسوع کا خزانچی تھا.کبھی کبھی تغلب بھی کر لیا کرتا تھا اور تیس روپیہ لے کر استاد کو پکڑوانا تو اس کا ظاہر ہی ہے.یسوع کی تھیلی میں دو ہزار روپیہ رہا کرتے تھے.ایک طرف تو ان کا یہ حال ہے بالمقابل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال کہ بوقت وفات پوچھا کہ کیا گھر میں کچھ ہے.جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ ایک دینار ہے.حضور نے فرمایا کہ اسے تقسیم کر دو.کیا یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ کا رسول خدا تعالیٰ کی طرف سفر کرے اور گھر میں ایک دینار چھوڑ جاوے.مجھے تو حیران ہی ہونا پڑتا ہے کہ عیسائی لوگ فلسفہ فلسفہ پکارتے ہیں.ان کی الٰہیات کی فلاسفی خدا جانے کہاں گئی.کفّارہ ہی کو دیکھو.ایک تصوری جانور کی طرح ہے.کفّارہ نے کیا بنایا.علمی دلائل کو چھوڑ دیا جاوے تو بھی دیکھو کہ حواریوں کی نہ تو علمی اصلاح ہوئی اور نہ عملی.علمی اصلاح کے لئے تو انجیل نے خود فیصلہ کر دیا کہ وہ موٹی عقل والے تھے اور کم فہم اور لالچی تھے اور عملی اصلاح کا خاکہ بھی انجیل ہی نے کھینچ کر دکھلا دیا کہ کوئی لعنتیں بھیجتا ہے اور کوئی تیس روپیہ پر پکڑواتا ہے اور کیا کچھ گناہ کے آثار.تاریکی اور ظلمت تو اس دنیا ہی میں شروع ہو جاتی ہے.جیسے فرمایا مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسـرآءیل :۷۳) اب یسوع کے شاگردوں کو دیکھو کہ کیا ان کی حالت میں تبدیلی ہوئی.گناہ کے دور ہونے سے تو ایک قسم کی بصیرت اور روشنی پیدا ہوتی ہے مگر ان میں کہاں.پھر کفّارہ نے کیا بنایا.۴۶؎ ۲۶؍ستمبر۱۸۹۸ء کامیابی کی بشارت ۲۶ ؍ستمبر کی صبح کو بعد نماز فجر حضرت اقدس نے فرمایا کہ اب میری حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اگر کوئی خواب بھی آتا ہے تو میں اسے اپنی ذات یا نفس سے مخصوص نہیں سمجھتا بلکہ اسلام اور اپنی جماعت ہی کے متعلق سمجھتا
ہوں اور میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ اپنے نفس کا ذرا بھی خیال نہیں ہوتا.چنانچہ رات میں نے دیکھا کہ ایک بڑا پیالہ شربت کا پیا.اس کی حلاوت اس قدر ہے کہ میری طبیعت برداشت نہیں کرتی بایں ہمہ مَیں اس کو پیئے جاتا ہوں اور میرے دل میں یہ خیال بھی گزرتا ہے کہ مجھے پیشاب کثرت سے آتا ہے اتنا میٹھا اور کثیر شربت میں کیوں پی رہا ہوں مگر اس پر بھی میں اس پیالے کو پی گیا.شربت سے مراد کامیابی ہوتی ہے اور یہ اسلام اور ہماری جماعت کی کامیابی کی بشارت ہے.اصل بات یہ ہے کہ جس قدر تعلقات انسان کے وسیع ہوتے ہیں اسی قدر سلسلہ اس کے خواب کا بلحاظ تعلقات وسیع ہوتا جاتا ہے.مثلاً اگر کلکتہ کا کوئی ایسا شخص ہو جس کو ہم جانتے بھی نہیں تو اس کے متعلق کوئی خواب بھی نہ آئے گی چنانچہ کئی سال پہلے جب مجھے صرف چند آدمی جانتے تھےاس وقت جو خواب آتی تھی وہ ان تک ہی محدود ہوتی تھی اور اب کئی ہزار سے تعلق رکھتی ہے.ادویات کے متعلق گفتگو کا سلسلہ چل پڑا اور وہ اس تقریب پر کہ مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کو کوئی دوا حضرت اقدس نے شب گذشتہ کو دی تھی.اس کے اثر کے متعلق حضرت نے دریافت فرمایا.اسی ضمن میں ایسٹرن سیرپ اور کچلہ وغیرہ پر مختلف ذکر ہوتا رہا اور ان کے خواص میں سے اعصاب کی تقویت کا تذکرہ ہوا.عربی زبان کے کمالات جس پر حضرت اقدس کو مولانا مولوی عبدالکریم نے اس امر کی طرف توجہ دلادی کہ عصب کے لفظ میں فلاسفی بھری ہوئی ہے.کیونکہ عصب کے معنی ہیں باندھنا اور پٹھے بھی انسان کے اعضاء کو رسیوں کی طرح باندھے رکھتے ہیں اور بالمقابل نرو (Nerve) کے لفظ میں بجز لفظ کے کچھ بھی نہیں.اس پر حضرت نے فرمایا.یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا معجزہ ہے کہ الفاظ کے اندر علمی باتیں بھری ہوئی ہیں اور عربی زبان اسی لئے خاتم الالسنہ ہے.چونکہ قرآن جیسا عظیم الشان معجزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا اس لئے اس کی عظمت علمی پہلو سے بہت بڑی ہے.
پھر اسی کے ضمن میں منن الرحمن کی اشاعت کے متعلق تذکرہ ہوتا رہا.حضرتؑ نے فرمایا کہ بعض اسباب اور سامان کے بہم پہنچ جانے پر جو اس کے لئے ضروری ہیں شائع ہوگی.اپنی صداقت پر چار قسم کے نشانات پھر اسی ذکر میں آپؑ نے فرمایا.میں نے بار ہا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار قسم کے نشان مجھے دیئے ہیں اور جن کو میں نے بڑے دعوے کے ساتھ متعدد مرتبہ لکھا اور شائع کیا ہے.اوّل.عربی دانی کا نشان ہے.اور یہ اس وقت سے مجھے ملا ہےجب سے کہ محمد حسین (بٹالوی صاحب) نے یہ لکھا کہ یہ عاجز عربی کا ایک صیغہ بھی نہیں جانتا حالانکہ ہم نے کبھی دعویٰ بھی نہیں کیا تھا کہ عربی کا صیغہ آتا ہے.جو لوگ عربی املاء اورانشاء میں پڑے ہیں وہ اس کی مشکلات کا اندازہ کر سکتے ہیں اور اس کی خوبیوں کا لحاظ رکھ سکتے ہیں.مولوی صاحب (مولوی عبدالکریم صاحب سے مراد تھی) شروع سے دیکھتے رہے ہیں کہ کس طرح پر اللہ تعالیٰ نے اعجازی طور پر مدد دی ہے.بڑی مشکل آکر پڑتی ہے جب ٹھیٹھ زبان کا لفظ مناسب موقع پر نہیں ملتا، اس وقت خدا تعالیٰ وہ الفاظ القا کرتا ہے.نئی اور بناوٹی زبان بنا لینا آسان ہے مگر ٹھیٹھ زبان مشکل ہے.پھر ہم نے ان تصانیف کو بیش قرار انعامات کے ساتھ شائع کیا ہے اور کہا ہے کہ تم جس سے چاہو مدد لے لو اور خواہ اہل زبان بھی ملالو.مجھے خدا تعالیٰ نے اس بات کا یقین دلادیا ہے کہ وہ ہر گز قادر نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ نشان قرآن کریم کے خوارق میں سے ظلّی طور پر مجھے دیا گیا ہے.دوم.دعاؤں کا قبول ہونا.میں نے عربی تصانیف کے دوران میں تجربہ کرکے دیکھ لیا ہے کہ کس قدر کثرت سے میری دعائیں قبول ہوئی ہیں.ایک ایک لفظ پر دعا کی ہے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو مستثنیٰ کرتا ہوں.(کیونکہ ان کے طفیل اور اقتدا سے تو یہ سب کچھ ملا ہی ہے) اور میں کہہ سکتا ہوں کہ میری دعائیں اس قدر قبول ہوئی ہیں کہ کسی کی نہیں ہوئی ہوں گی.میں نہیں کہہ سکتا دس ہزار یا دو لاکھ یا کتنے اور بعض نشانات قبولیتِ دعا کے تو ایسے ہیں کہ ایک عالم ان کو جانتا ہے.تیسرا نشان پیش گوئیوں کا ہے یعنی اظہار علی الغیب.یوں تو نجومی اور رَمّال لوگ بھی اٹکل بازیوں
سے بعض باتیں ایسی کہہ دیتے ہیں کہ ان کا کچھ نہ کچھ حصہ ٹھیک ہوتا ہے اور ایسا ہی تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی کاہن لوگ تھے جو غیب کی خبریں بتلاتے تھے چنانچہ سطیح بھی ایک کاہن تھا، مگر ان اٹکل باز رَمّالوں اور کاہنوں کی غیب دانی اور مامور من اللہ اور ملہم کے اظہار غیب میں یہ فرق ہوتا ہے کہ ملہم کا اظہار غیب اپنے اندر الٰہی طاقت اور خدائی ہیبت رکھتا ہے چنانچہ قرآن کریم نے صاف طور پر فرمایا ہے لَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ (الـجن:۲۸،۲۷) یہاں اظہار کا لفظ ہی ظاہر کرتا ہے کہ اس کے اندر ایک شوکت اور قوت ہوتی ہے.چوتھا نشان قرآن کریم کے دقائق اور معارف کا ہے کیونکہ معارف قرآن اس شخص کے سوا اور کسی پر نہیں کھل سکتے جس کی تطہیر ہو چکی ہو.لَا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۠ (الواقعۃ:۸۰) میں نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ میرے مخالف بھی ایک سورۃ کی تفسیر کریں اور میں بھی تفسیر کرتا ہوں.پھر مقابلہ کر لیا جاوے مگر کسی نے جرأت نہیں کی.محمد حسین وغیرہ نے یہ تو کہہ دیا کہ ان کو عربی کا صیغہ نہیں آتا اور جب کتابیں پیش کی گئیں تو بودے اور رکیک عذر کر کے ٹال دیا کہ یہ عربی تو اربی کچالو ہے مگر یہ نہ ہوسکا کہ ایک صفحہ ہی بنا کر پیش کردیتا اور دکھا دیتا کہ عربی یہ ہے.غرض یہ چار نشان ہیں جو خاص طور پر میری صداقت کے لیے مجھے ملے ہیں.۴۷؎ ۳؍اکتوبر ۱۸۹۸ء ایک رؤیا ۳؍اکتوبر کی صبح کو بعد نماز فجر فرمایا کہ رات کو بعد تہجد لیٹ گیا تو تھوڑی سی غنودگی کے بعد دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ’’سرمہ چشم آریہ‘‘ کے چار ورق ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ آریہ لوگ اب خود اس کتاب کو چھپوا رہے ہیں.تعبیر میں فرمایا کہ شاید اس سے یہ مراد ہو کہ آریہ لوگوں کو جو بعض حجاب اور وساوس ہماری
پیشگوئیوں مثل پیشگوئی متعلقہ لیکھرام وغیرہ کے متعلق ہیں وہ دور ہو جاویں اور ان پر اصل حقیقت کا انکشاف ہو جاوے.مقدمہ کلارک میں رام بھجدت وکیل آریہ تھا.جب امرت سر کے سٹیشن پر مجھ سے ملا تو اس نے صاف کہا کہ میں بلا فیس اس مقدمہ میں اس لیے گیا تھا کہ شاید قتل لیکھرام کا کوئی سراغ ملے کیونکہ اس کے قتل کا یقین ہم کو آپ پر تھا.ایسا ہی اور اقوام کو ایسا خیال ہو سکتا ہے.پس اس خواب سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان پر اصل حقیقت کھول کر حجتِ ملزمہ قائم کردے.پھر فرمایا کہ پٹی والے جو اشتہار دکھائے گئے تھے اس میں بھی یہی تھا کہ وہ لوگ خود چھپوا رہے ہیں.پیشگوئی کی عظمت اس پر مولانا مولوی نورالدین صاحبؓ نے فرمایا کہ جب وہ اَمر پورا ہوگا.جس قدر عظمت اور قدر ہم کو ہوگی اور لوگوں کو کہاں.ہم تو دیکھتے ہیں کہ کیسے مشکلات درپیش ہیں.حضرتؑ نے فرمایا کہ بیشک صرف اسی میں نہیں بلکہ ہر دعا اور پیشگوئی کی عظمت اور قبولیت میں یہی حال ہوتا ہے.مثلاً اگر کسی لق و دق میدان میں جہاں ہزارہا کوس تک پانی نہیں ملتا کوئی شخص دعا کرے اور خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اسے پانی کا پیالہ عطا کرے تو اس امر کو مجمل طور پر ان مشکلات اور لوازمات کو نظر انداز کرکے بیان کیا جاوے تو لوگ جو کل حالات پر آگاہ نہیں بجائے عظمت کے ہنسی کریں گے مگر جب مشکلات سے واقف ہوں تو پھر ایک خاص عظمت اور ہیبت سے اس کو دیکھیں گے.ایسا ہی اگر کوئی ناخواندہ اور اُمّی آدمی انگریزی کی کتاب پڑھ جاوے تو اس کی اُمّیت سے واقف لوگ اسے عظمت کی نگاہ سے دیکھیں گے مگر ایک ایم.اے اور بی.اے اگر اس کتاب کو پڑھ جاوے تو چنداں کیا بالکل وقعت نہ دیں گے معمولی امر خیال کریں گے.غرض ہر ایک امر کی عظمت اور عدم عظمت اس کے حصول کے لوازمات اور مشکلات پر ہوتی ہے.تیس ہزار دعاؤں کی قبولیت پھر فرمایا کہ لوگ اس امر کو بھی جھوٹ جانیں گے جو ہم نے لکھ دیا ہے کہ میری تیس ہزار دعائیں کم از کم قبول ہوئی ہیں مگر میرا خدا خوب جانتا ہے کہ یہ سچ ہے اور اس
میں ذرابھی جھوٹ نہیں.کیونکہ ہر ایک کام کے لیے خواہ دینی ہو خواہ دنیوی دعا کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے موزوں اور طیّب بنا دیا ہے.عربی تصنیفات میں دعا کے اثرات عربی تصنیفات میں ایک ایک لفظ دعا ہی کا اثر ہے ورنہ انسانی طاقت کا کام نہیں کہ تحدّی کرے.اگر دعا کا اثر نہیں تو پھر کیوں کوئی مولوی یا اہل زبان دم نہیں مار سکتا.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اہل زبان کے رنگ اور محاورہ پر ہماری کتب تصنیف ہوئی ہیں ورنہ اہل زبان بھی سارے اس پر قادر نہیں ہوتے کہ کُل مسلّم محاورات زبان پر اطلاع رکھتے ہوں پس یہ خداہی کا فضل ہے.۴۸؎ ۲؍جنوری ۱۸۹۹ ء رسالہ کشف الغطاء کی تصنیف کا مقصد ۸ بجے دن کے حضرت اقدس امامِ ہمامؑ ایک کثیر التعداد احباب کے ہمراہ سیر کو تشریف لے گئے.اثنائے راہ میں فرمایا.یہ تکالیف اور ایذائیں جو مخالف کبھی بدزبانیوں کے رنگ میں اور جھوٹ اور افترا سے بھرے ہوئے اشتہاروں کے ذریعے اور کبھی گورنمنٹ اور حکومت کو خلاف واقعہ اور محض جھوٹی باتوں کے بیان کرنے سے بدظن کرکے ہم کو پہنچاتے ہیں.اگر ہماری اپنی ہی ذات تک محدود اور مخصوص ہوتی ہیں تو خدائے تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ہم کو ذرا بھی خیال نہ ہوتا کیونکہ ہم تو قربانی کے بکرے کی طرح اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر وقت تیار ہیں مگر اس کا اثر ہماری قوم پر پہنچتا ہے.اور بعض لوگ ابھی ایسے کمزور بھی ہیں جو ابتلا برداشت نہیں کر سکتے اس لیے ہم نے مناسب سمجھا ہے کہ ان کُل حالات کو چھاپ کر گورنمنٹ کے پاس بھیج دیں کیونکہ اگر ہم خاموش رہیں تو ادھر مخالف ریشہ دوانیاں کرتے ہیں.پھر اس کا اثر اچھا نہیں پڑتا.چونکہ ہمارے دل صاف ہیں اور ہم بدباطن لوگوں کی طرح نفاق اور مداہنت سے کام نہیں
لیتے اس لیے ہم کو کامل امید ہے کہ یہ رسالہ کشف الغطاء گورنمنٹ عالیہ کو ہمارے حالات اور ہماری تعلیمات سے اطلاع دے گا اور ہمارے ہر دوست کے پاس بطور سارٹیفکٹ کے رہے گا.۵ ؍جنوری ۱۸۹۹ء مہر نبوت کی اصل حقیقت بعد نماز صبح مولوی قطب الدین صاحب ساکن بدو ملہی نے سوال کیا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کَتْفَیْنِ مبارک کے درمیان جو مہر نبوت بتلائی جاتی ہے اور کہتے ہیں کہ رسولی کی طرح تھی.اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟ فرمایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کے متعلق جو اعتراض کیا جاتا ہے ہمارے خیال میں یہ ایک فروعی بات ہے مگر میں یہ بات اپنے سچے جوش اور اخلاص سے کہتا ہوں کہ میرا ایمان یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی نشان نبوت کو رسولی وغیرہ الفاظ سے نسبت دینا ایک مومن اور سچے مسلمان کا کام نہیں.یہ گستاخی اور شوخی ہے جو کفر کی حد تک پہنچ جاتی ہے.ہم کو ایسے معاملات میں زیادہ تفتیش اور چھان بین کی ضرورت نہیں کہ وہ مہر نبوت کیا تھی؟ اور کیسی تھی؟ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار نشانات بیّن اور واضح طور پر رکھے تھے.ان میں سے ایک مہر نبوت بھی تھی.اصل بات یہ ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود سے انبیاء علیہم السلام کو ایسی ہی نسبت ہے جیسی کہ ہلال کو بدر سے ہوتی ہے.ہلال کا وجود ایک تاریکی میں ہوتا ہے لیکن جب وہ اپنے کمال کو پہنچ کر بدر بن جاتا ہے تو وہ بدر اپنی پہلی حالت ہلال کا مثبت اور مصدق ہو جاتا ہے.پس یقیناً سمجھو کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آتے تو پہلے نبی اور ان کی نبوتوں کے پہلو مخفی رہتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مسیح علیہ السلام پر احسان اب سوچو اور بتلاؤ کہ کیا موجودہ اناجیل سے انسان طریق توحید کا پتا لگا سکتا ہے.کیسی حیران کرنے والی بات ہے کہ خدائے تعالیٰ کا نبی اس کی توحید کو قائم کرنے آیا
کرتا ہے یا اپنی خدائی منوانے؟ پس اب موجودہ انجیل نے یہی نہیں کہ طریق توحید کو گم کیا بلکہ ساتھ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت اور نبوت کو اڑا دیا اور چہ جائیکہ وہ خدا یا ابن خدا بنتے ان کو نبی کے درجہ سے بھی گرا کر معاذ اللہ بہت بُرے درجہ کا آدمی بنا دیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات نے آکر ان کی تعلیم کو زندہ کیا اور خود مسیح کی اپنی ذات اور وجود کے لئے مسیحائی کی کہ اس کو مُردوں سے نکال کر اس زندگی میں داخل کیا جو اللہ تعالیٰ کے بر گزیدہ بندوں اور رسولوں کو دی جاتی ہے.اسلام کی برتری تعلیم وہی کامل ہوسکتی ہے جو انسانی قویٰ کی پوری مربّی اور متکفّل ہو نہ یہ کہ ایک ہی پہلو پر واقع ہوئی ہو.انجیل کی تعلیم کو دیکھو کہ وہ کیا کہتی ہے اور اس کے بالمقابل قویٰ کیا تعلیم دیتے ہیں؟ انسانی قویٰ اور فطرت خدائے تعالیٰ کی فعلی کتاب ہے.پس اس کی قولی کتاب جو کتاب اللہ کہلاتی ہے یا اسے تعلیم الٰہی کہو اس کی ساخت اور بناوٹ کے مخالف اور متضاد کیوں کر ہوگی.اسی طرح پر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آتے تو انبیاء سابقین کے اخلاق، ہدایات، معجزات اور قوت قدسیہ پر اعتراض ہوتے مگر حضور نے آکر ان سب کو پاک ٹھہرایا.اس لئے آپ کی نبوت کے نشانات سورج سے زیادہ روشن ہیں اور بے انتہا اور بے شمار ہیں.پس آپ کی نبوت یا نشانات نبوت پر اعتراض کرنا ایسا ہی ہے جیسے کہ دن چڑھا ہوا ہو اور کوئی احمق نابینا کہہ دے کہ ابھی تو رات ہی ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ دوسرے مذاہب تاریکی ہی میں رہتے اگر اب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نہ آتے.ایمان تباہ ہو جاتا اور زمین لعنت اور عذابِ الٰہی سے تباہ ہو جاتی.اسلام شمع کی طرح منور ہے جس نے دوسروں کو بھی تاریکی سے نکالا ہے.توریت کو پڑھو تو بہشت اور دوزخ کا پتا ہی ملنا مشکل ہو جاتا ہے.انجیل کو دیکھو تو توحید کا نشان نہیں ملتا.اب بتلاؤ کہ اس میں تو شک نہیں کہ یہ دونوں کتابیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے تھیں اور ہیں.لیکن ان میں کون سی روشنی مل سکتی ہے.سچی روشنی اور حقیقی نور جو نجات کے لئے مطلوب ہے وہ اسلام ہی میں ہے.توحید ہی کو دیکھو کہ جہاں سے قرآن کو کھولو وہ ایک شمشیر برہنہ نظر آتا ہے کہ شرک کی جڑ کاٹ رہا ہے.ایسا ہی نبوت کے تمام پہلو ایسے صاف اور روشن نظر آتے ہیں کہ ان سے
بڑھ کر ممکن نہیں.ختم نبوت کی حقیقت ختم نبوت کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں تک دلائل اور معرفت طبعی طور پر ختم ہوجاتے ہیں وہ وہی حد ہے جس کو ختم نبوت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے.اس کے بعد ملحدوں کی طرح نکتہ چینی کرنا بے ایمانوں کا کام ہے.ہر بات میں بیّنات ہوتے ہیں اور ان کا سمجھنا معرفت کاملہ اور نور بصر پر موقوف ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے ایمان اور عرفان کی تکمیل ہوئی، دوسری قوموں کو روشنی پہنچی.کسی اور قوم کو بیّن اور روشن شریعت نہیں ملی.اگر ملتی تو کیا وہ عرب پر اپنا کچھ بھی اثر نہ ڈال سکتی.عرب سے وہ آفتاب نکلا کہ اس نے ہر قوم کو روشن کیا اور ہر بستی پر اپنا نور ڈالا.یہ قرآن کریم ہی کو فخر حاصل ہے کہ وہ توحید اور نبوت کے مسئلہ میں کُل دنیا کے مذاہب پر فتحیاب ہو سکتا ہے.یہ فخر کا مقام ہے کہ ایسی کتاب مسلمانوں کو ملی ہے.جو لوگ حملہ کرتے ہیں اور تعلیم و ہدایت اسلام پر معترض ہوتے ہیں وہ بالکل کور باطنی اور بے ایمانی سے بولتے ہیں.تعدّد ازدواج کی اجازت مثلاً کثرت ازدواج پر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے بہت عورتوں کی اجازت دی ہے.ہم کہتے ہیں کہ کیا کوئی ایسا دلیر اور مرد میدان معترض ہے جو ہم کو یہ دکھلا سکے کہ قرآن کہتا ہے ضرور ضرور ایک سے زیادہ عورتیں کرو.ہاں یہ ایک سچی بات ہے اور بالکل طبعی امر ہے کہ اکثر اوقات انسان کو ضرورت پیش آجاتی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ عورتیں کرے.مثلاً عورت اندھی ہوگئی یا کسی اور خطر ناک مرض میں مبتلا ہوکر اس قابل ہو گئی کہ خانہ داری کے امور سر انجام نہیں دے سکتی اور مرد از راہ ہمدردی یہ بھی نہیں چاہتا کہ اسے علیحدہ کرے یا رحم کی خطر ناک بیماریوں کا شکار ہوکر مرد کی طبعی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتی تو ایسی صورت میں اگر نکاح ثانی کی اجازت نہ ہو تو بتلاؤ کیا اس سے بدکاری اور بداخلاقی کو ترقی نہ ہو گی؟ پھر اگر کوئی مذہب یا شریعت کثرت ازدواج کو روکتی ہے تو یقیناً وہ بدکاری اور بداخلاقی کی مؤید ہے لیکن اسلام جو دنیا سے بداخلاقی اور بدکاری کو دور کرنا چاہتا ہے اجازت دیتا ہے کہ ایسی ضرورتوں
کے لحاظ سے ایک سے زیادہ بیویاں کرے.ایسا ہی اولاد کے نہ ہونے پر جبکہ لا ولد کے پسِ مرگ خاندان میں بہت سے ہنگامے اور کشت و خون ہونے تک نوبت پہنچ جاتی ہے.ایک ضروری امر ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں کرکے اولاد پیدا کرے بلکہ ایسی صورت میں نیک اور شریف بیبیاں خود اجازت دے دیتی ہیں پس جس قدر غور کرو گے یہ مسئلہ صاف اور روشن نظر آئے گا.عیسائی کو تو حق ہی نہیں پہنچتا کہ اس مسئلہ پر نکتہ چینی کرے کیونکہ ان کے مسلّمہ نبی اور ملہم بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بزرگوں نے سات سات سو اور تین تین سو بیبیاں کیں اور اگر وہ کہیں کہ وہ فاسق فاجر تھے تو پھر ان کو اس بات کا جواب دینا مشکل ہوگا کہ ان کے الہام خدا کے الہام کیوں کر ہو سکتے ہیں؟ عیسائیوں میں بعض فرقے ایسے بھی ہیں جو نبیوں کی شان میں ایسی گستاخیاں جائز نہیں رکھتے.علاوہ ازیں انجیل میں صراحت سے اس مسئلہ کو بیان ہی نہیں کیا گیا.لنڈن کی عورتوں کا زور ایک باعث ہو گیا کہ دوسری عورت نہ کریں.پھر اس کے نتائج خود دیکھ لو کہ لنڈن اور پیرس میں عفت اور تقویٰ کی کیسی قدر ہے.اسلام کی لڑائیاں دفاعی تھیں ایسا ہی دوسرے مسائل غلامی اور جہاد پر بھی ان کے اعتراض درست نہیں کیونکہ توریت میں ایک لمبا سلسلہ ایسی جنگوں کا چلتا ہے حالانکہ اسلام کی لڑائیاں ڈیفنسو ۴۹؎ (دفاعی) تھیں اور وہ صرف دس سال ہی کے اندر ختم ہو گئیں.میں دعوے سے کہتا ہوں کہ یہ مسائل ان کی کتابوں میں نکال سکتا ہوں.اور ایسا ہی میرا دعویٰ ہے کہ تمام صداقتیں قرآن کریم میں موجود ہیں.اگر کوئی مدعی ایسی صداقت پیش کرے کہ وہ قرآن میں نہیں.میں اسے نکال کر دکھانے کو تیار ہوں.اسلامی شریعت نے وہ مسائل لئے ہیں جو طبعی اور فطرتی طور پر انسان کے لئے مطلوب ہیں اور جو ہر پہلو سے اس کے قویٰ کی تربیت کرتے ہیں.ان پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.ہاں! اسلام کے جو اعتراض غیر مذاہب پر ہیں وہ ان کا جواب نہیں دے سکتے.
سعید اور شقی کا چہرہ پس میں پھر کہتا ہوں کہ میری باتوں کو استخفاف اور استہزا کی نظر سے نہ دیکھیں.استہزا سے کفر کا اندیشہ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا ادب اور خوف ہونا چاہیے.ہر ایک عارف ان باتوں کے ہزارہا جواب دے سکتا ہے.کیا چہروں میں ایسی علامات نہیں ہوتیں جن کو دیکھ کر ہم ایک سعید اور شقی، بدمعاش اور خوش اطوار میں تمیز کر سکتے ہیں اور پہچان لیتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت لکھا ہے کہ ایک شخص نے آپ کو دیکھ کر کہا کہ یہ جھوٹوں کا منہ نہیں.اب وہ کونسا نشان تھا جو جھوٹوں میں ہوتا ہے اور آپ میں نہ تھا.ایک امتیاز تو تھا جس کو بصیرت والا انسان دیکھ سکتا ہے.ایسا اَبلہ اور اَحمق کون ہے جو نیک اور بد کو چہرہ سے دیکھ کر تمیز نہیں کر سکتا.مومن کا چہرہ اور ہر عضو اس کو ایک امتیاز بخشتا ہے اور اس کے باخدا ہونے پر دلالت کرتا ہے.پھر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت میں ایک خصوصیت ہو تو بتلاؤ اس سے کیا استبعاد لازم آتا ہے.سب کچھ ممکن ہے.صرف امور ایمانی پر ایمان لانا ضروری ہے بالآخر یاد رکھو کہ یہ ایک فروعی بات ہے ہم کو ضرورت نہیں کہ ان باتوں میں پڑیں.اصول پر بحث ہونی چاہیے اصول کے اثبات پر فرع خود ہی ثابت ہو جاتی ہے.ایمان لانا ضروری ہے.اس کی کیفیت اور کنہ تک پہنچنے کی کوشش کرنا ضروری نہیں.دشمن اگر گفتگو کرے تو ہم اس کو روک سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات پر، ملائکہ اور اللہ تعالیٰ کی کتابوں اور انبیاء علیہم السلام وغیرہ امور ایمانی پر ایمان لانا ضروری ہے اور ان سب باتوں کا ماننا اصول ہے اور باقی امور ان پر متفرع ہیں اور یہ سب صفائی کے ساتھ ثابت شدہ صداقتیں ہیں.تعلیم اسلام ایسی صاف ہے کہ ہر قوت کو اعتدال اور عین محل پر رکھتی اور تربیت کرتی ہے اور یہ عظیم الشان معجزہ ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا.دوسری تعلیمیں ایسی نہیں.کسی کا ناک نہیں تو کسی کے کان نہیں ہیں.غرض وہ ناقص اور ادھوری ہیں.مکمل خلقت تعلیم اسلام ہی کی ہے.توحید، صفات باری تعالیٰ، نبوت اور اخلاق فاضلہ، تکمیل نفس وغیرہ ضروری امور جن کا انسان محتاج ہے وہ ایسے کامل اور روشن طور پر
بیان ہوئے ہیں کہ ان میں زیادہ بحث کی ضرورت نہیں پڑتی.باقی امور کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں کر کھاتے تھے.کتنے بڑے نوالے لیتے تھے.ان جھگڑوں میں پڑنے کی مومن کو کیا ضرورت ہے؟ مدار نجات ان باتوں پر نہیں ہے.ایسی باتیں جو اثر کے طور پر لکھی گئی ہیں.اگر وہ نبوت حقّہ کے خلاف نہیں بلکہ مشابہ ہیں تو ایمان لائیں ورنہ تاویل کریں.کچھ ضرورت نہیں کہ اس پر چناں اور چنیں کر کے لمبی اور فضول بحثوں میں پڑیں.خَاتَم النّبیین کے معنی ختم نبوت کے متعلق میں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ خاتم النّبیّین کے بڑے معنی یہی ہیں کہ نبوت کے امور کو آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم کیا.یہ تو موٹے اور ظاہر معنی ہیں.دوسرے یہ معنی ہیں کہ کمالات نبوت کا دائرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گیا.یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ قرآن نے ناقص باتوں کا کمال کیا اور نبوت ختم ہوگئی، اس لئے اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المآئدۃ:۴) کا مصداق اسلام ہوگیا.غرض یہ نشاناتِ نبوت ہیں.ان کی کیفیّت اور کنہ پر بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.اصول صاف اور روشن ہیں اور وہ ثابت شدہ صداقتیں کہلاتی ہیں.ان باتوں میں پڑنا مومن کو ضروری نہیں ایمان لانا ضروری ہے.اگر کوئی مخالف اعتراض کرے تو ہم اس کو روک سکتے ہیں.اگر وہ بند نہ ہو تو ہم اس کو کہہ سکتے ہیں کہ پہلے اپنے جزئی مسائل کا ثبوت دے.الغرض مہر نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات نبوت میں سے ایک نشان ہے جس پر ایمان لانا ہر مسلمان مومن کو ضروری ہے.۵۰؎ ۵ ؍ جنوری ۱۸۹۹ء قبر سے روح کا تعلق (سوال مولوی قطب الدین صاحب) روح کا جو تعلق قبور سے بتلایا گیا ہے.اس کی اصلیت کیا ہے؟ فرمایا.اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ ارواح کے تعلق قبور کے متعلق احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
میں آیا ہے وہ بالکل سچ اور درست ہے.ہاں یہ دوسرا امر ہے کہ اس تعلق کی کیفیت اور کنہ کیا ہے؟ جس کے معلوم کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں البتہ یہ ہمارا فرض ہوسکتا ہے کہ ہم یہ ثابت کر دیں کہ اس قسم کا تعلق قبور کے ساتھ ارواح کا ہوتا ہے اور اس میں کوئی محال عقلی لازم نہیں آتا.اور اس کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت میں ایک نظیر پاتے ہیں.درحقیقت یہ امر اسی قسم کا ہے جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض امور کی سچائی اور حقیقت صرف زبان ہی سے معلوم ہوتی ہے اور اس کو ذرا وسیع کر کے ہم یوں کہتے ہیں کہ حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقے رکھے ہیں.بعض خواص آنکھ کے ذریعے معلوم ہوتے ہیں اور بعض صداقتوں کا پتا صرف کان لگاتا ہے اور بعض ایسی ہیں کہ حس مشترک سے ان کا سراغ چلتا ہے اور کتنی ہی سچائیاں ہیں کہ وہ مرکز قوت یعنی دل سے معلوم ہوتی ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے صداقت کے معلوم کرنے کے لئے مختلف طریق اور ذریعے رکھے ہیں.مثلاً مصری کی ایک ڈلی کو اگر کان پر رکھیں تو وہ اس کا مزہ معلوم نہ کر سکیں گے اور نہ اس کے رنگ کو بتلا سکیں گے.ایسا ہی اگر آنکھ کے سامنے کریں گے تو وہ اس کے ذائقہ کے متعلق کچھ نہ کہہ سکے گی.اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے کے لئے مختلف قویٰ اور طاقتیں ہیں.اب آنکھ کے متعلق اگر کسی چیز کا ذائقہ معلوم کرنا ہو اور وہ آنکھ کے سامنے پیش ہو تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ اس چیز میں کوئی ذائقہ ہی نہیں یا آواز نکلتی ہو اور کان بند کر کے زبان سے وہ کام لینا چاہیں تو کب ممکن ہے.آج کل کے فلسفی مزاج لوگوں کو یہ بڑا دھوکا لگا ہوا ہے کہ وہ اپنے عدم علم کی وجہ سے کسی صداقت کا انکار کر بیٹھتے ہیں.روز مرہ کے کاموں میں دیکھا جاتا ہے کہ سب کام ایک شخص نہیں کرتا بلکہ جداگانہ خدمتیں مقرر ہیں.سقّہ پانی لاتا ہے.دھوبی کپڑے صاف کرتا ہے.باورچی کھانا پکاتا ہے.غرض کہ تقسیم محنت کا سلسلہ ہم انسان کے خود ساختہ نظام میں بھی پاتے ہیں.پس اس اصل کو یاد رکھو کہ مختلف قوتوں کے مختلف کام ہیں.انسان بڑے قویٰ لے کر آیا ہے اور طرح طرح کی خدمتیں اس کی تکمیل کے لئے ہر ایک قوت کے سپرد ہیں.نادان فلسفی ہر بات کا فیصلہ اپنی عقلِ خاص سے چاہتا ہے حالانکہ یہ بات غلط محض
ہے.تاریخی اُمور تو تاریخ ہی سے ثابت ہوں گے اور خواص الاشیاء کا تجربہ بدوں تجربۂ صحیحہ کے کیوں کر لگ سکے گا.امورِ قیاسیہ کا پتا عقل دے گی.اسی طرح پر متفرق طور پر الگ الگ ذرائع ہیں.انسان دھوکا میں مبتلا ہوکر حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے سے تب ہی محروم ہوجاتا ہے جب کہ وہ ایک ہی چیز کو مختلف اُمور کی تکمیل کا ذریعہ قرار دے لیتا ہے.مَیں اس اُصول کی صداقت پر زیادہ کہنا ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ ذرا سے فکر سے یہ بات خوب سمجھ میں آجاتی ہے اور روز مرّہ ہم ان باتوں کی سچائی کو دیکھتے ہیں.پس جب رُوح جسم سے مفارقت کرتا ہے یا تعلق پکڑتا ہے تو ان باتوں کا فیصلہ عقل سے نہیں ہوسکتا.اگر ایسا ہوتا تو فلسفی اور حکماء ضلالت میں مبتلا نہ ہوتے.رُوح کے متعلق علوم چشمۂ نبوت سے ملتے ہیں اسی طرح پر قبور کے ساتھ جو تعلق ارواح کا ہوتا ہے یہ ایک صداقت تو ہے مگر اس کا پتا دینا اس آنکھ کا کام نہیں.یہ کشفی آنکھ کا کام ہے کہ وہ دکھلاتی ہے.اگر محض عقل سے اس کا پتا لگانا چاہو تو کوئی عقل کا پُتلا اتنا ہی بتلائے کہ رُوح کا وجود بھی ہے یا نہیں؟ ہزار اختلاف اس مسئلہ پر موجود ہیں اور ہزار فلاسفر دہریہ مزاج موجود ہیں جو منکر ہیں.اگر نری عقل کا یہ کام تھا تو پھر اختلاف کا کیا کام؟ کیونکہ جب آنکھ کا کام دیکھنا ہے تو مَیں نہیں کہہ سکتا کہ زید کی آنکھ تو سفید چیز کو دیکھے اور بکر کی ویسی ہی آنکھ اس سفید چیز کا ذائقہ بتلائے.میرا مطلب یہ ہے کہ نری عقل روح کا وجود بھی یقینی طور پر نہیں بتلا سکتی چہ جائیکہ اس کی کیفیت اور تعلقات کا علم پیدا کرسکے.فلاسفر تو روح کو ایک سبز لکڑی کی طرح مانتے ہیں اور رُوح فی الخارج ان کے نزدیک کوئی چیز ہی نہیں.یہ تفاسیر رُوح کے وجود اور اس کے تعلق وغیرہ کی چشمۂ نبوت سے ملی ہیں اور نِرے عقل والے تو دعویٰ ہی نہیں کرسکتے.اگر کہو کہ بعض فلاسفروں نے کچھ لکھا ہے تو یاد رکھو کہ اُنہوں نے منقولی طور پر چشمۂ نبوت سے کچھ لے کر کہا ہے.پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ رُوح کے متعلق علوم چشمۂ نبوت سے ملتے ہیں تو یہ امر کہ ارواح کا قبور کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اُسی چشم سے دیکھنا چاہیے اور کشفی آنکھ نے بتلایا ہے کہ اس تودۂ خاک سے رُوح کا ایک تعلق ہوتا ہے اور
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَااَھْلَ الْقُبُوْرِ کہنے سے جواب ملتا ہے.پس جو آدمی ان قویٰ سے کام لے جن سے کشفِ قبور ہوسکتا ہے وہ اُن تعلقات کو دیکھ سکتا ہے.ہم ایک بات مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ایک نمک کی ڈلی اور ایک مصری کی ڈلی رکھی ہو.اب عقل محض ان پر کیا فتویٰ دے سکے گی.ہاں! اگر اُن کو چکھیں گے تو دو جُداگانہ مزوں سے معلوم ہو جاوے گا کہ یہ نمک ہے اور وہ مصری ہے، لیکن اگر حسِ لِسان ہی نہیں تو نمکین اور شیریں کا فیصلہ کوئی کیا کرے گا؟ پس ہمارا کام صرف دلائل سے سمجھا دینا ہے.آفتاب کے چڑھنے میں جیسے ایک اندھے کے انکار سے فرق نہیں آسکتا اور ایک مسلوب القوۃ کے طریقِ استدلال سے فائدہ نہ اٹھانے سے اس کا ابطال نہیں ہوسکتا اسی طرح پر اگر کوئی شخص کشفی آنکھ نہیں رکھتا تو وہ اُس تعلقِ ارواح کو کیونکر دیکھ سکتا ہے؟ پس اس کے انکار سے محض اس لیے کہ وہ دیکھ نہیں سکتا اس کا انکار جائز نہیں ہے.ایسی باتوں کا پتا نِری عقل اور قیاس سے کچھ نہیں لگتا.اللہ تعالیٰ نے اس لیے انسان کو مختلف قویٰ دیئے ہیں.اگر ایک ہی سب کام دیتا تو پھر اس قدر قویٰ کے عطا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ بعض کا تعلق آنکھ سے ہے اور بعض کا کان سے، بعض زبان سے متعلق ہیں اور بعض ناک سے مختلف قسم کی حِسّیں انسان رکھتا ہے.قبور کے ساتھ تعلقِ ارواح کے دیکھنے کے لئے کشفی قوت اور حِس کی ضرورت ہے.اگر کوئی کہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے تو وہ غلط کہتا ہے.انبیاء علیہم السلام کی ایک کثیر تعداد کروڑہا اولیاء و صُلحاء کا سلسلہ دنیا میں گزرا ہے اور مجاہدات کرنے والے بے شمار لوگ ہو گزرے ہیں اور وہ سب اس امر کی زندہ شہادت ہیں.گو اس کی اہمیت اور تعلقات کی وجہ عقلی طور پر ہم معلوم کرسکیں یا نہ مگر نفسِ تعلق سے انکار نہیں ہوسکتا.غرض کشفی دلائل ان ساری باتوں کا فیصلہ کئے دیتے ہیں.کان اگر دیکھ نہ سکیں تو ان کا کیا قصور؟ وہ اور قوت کا کام ہے.ہم اپنے ذاتی تجربہ سے گواہ ہیں کہ رُوح کا تعلق قبر کے ساتھ ضرور ہوتا ہے.انسان میّت سے کلام کرسکتا ہے رُوح کا تعلق آسمان سے بھی ہوتا ہے جہاں اس کے لئے ایک مقام ملتا ہے.مَیں پھر کہتا ہوں کہ یہ ایک ثابت شدہ صداقت ہے.ہندوؤں کی کتابوں میں بھی اس کی گواہی موجود ہے.یہ مسئلہ عام طور پر مسلّمہ مسئلہ ہے.بجز اس فرقہ کے جو نفی بقائے رُوح کرتا ہے اور
یہ امر کہ کس جگہ تعلق ہے کشفی قوت خود ہی بتلادے گی.جیالوجسٹ (عالمِ علم طبقات الارض) بتلا دیتے ہیں کہ یہاں فلاں دھات ہے اور وہاں فلاں کان ہے.دیکھو! ان میں یہ ایک قوت ہوتی ہے جو فی الفور بتلا دیتی ہے.پس یہ بات ایک سچی بات ہے کہ ارواح کا تعلق قبور سے ضرور ہوتا ہے.یہاںتک کہ اہل کشف توجہ سے میت کے ساتھ کلام بھی کرسکتے ہیں اور اوہام اور اعتراضوں کا سلسلہ تو ایسا لمبا ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا.۵۱؎ دعا کی برکات اگر دعا نہ ہوتی تو کوئی انسان خدا شناسی کے بارے میں حق الیقین تک نہ پہنچ سکتا.دعا سے الہام ملتا ہے.دعا سے ہم خدا تعالیٰ سے کلام کرتے ہیں.جب انسان اخلاص اور توحید اور محبت اور صدق اور صفا کے قدم سے دُعا کرتا کرتا فنا کی حالت تک پہنچ جاتا ہے تب وہ زندہ خدا اس پر ظاہر ہوتا ہے جو لوگوں سے پوشیدہ ہے.مبارک وہ جو سمجھے خدا سے صُلح کرو.سچی پرہیزگاری سے کام لو.آسمان اپنے غیر معمولی حوادث سے ڈرا رہا ہے.زمین بیماریوں سے انذار کررہی ہے.مبارک وہ جو سمجھے.۵۲؎ ۲۶؍جنوری ۱۸۹۹ء ایڈیٹر صاحب اخبار الحکم لکھتے ہیں.جب لِیل (دھاریوال کے پا س ایک گاؤں ہے) جہاں حضرت اقدس ؑ نے بغرض پیروی مقدمہ ضمانت برائے حفظِ امن منجانب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی، دھاریوال تشریف لے جاتے ہوئے قیام فرمایا تھا.(مرتّب) سے روانہ ہوکر کَھنڈہ (جہاں حضرت اقدس ؑ تشریف فرماتے تھے.(مرتّب) آ پہنچے.تو حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں مصلحت ہے.چونکہ سنا گیا ہے کہ محمد حسین بھی وہیں اُترنے والا تھا.
اس لیے اچھا ہوا کہ ہم وہاں نہیں ٹھہرے.ایسے لوگوں سے دور ہی رہنا اچھا ہے.(نوٹ از مرتب) تبدیلِ فرود گاہ کا باعث یہ ہوا کہ حضرت اقدس ؑ بسواری پالکی روانہ ہوئے تھے اور حضرت مولانا نورالدین صاحب ؒ اور چند اور دوست بٹالہ کے راستہ سے گاڑی پر سوار ہوئے تھے اور یہ امر مقرر شدہ تھا کہ مقامِ نزول لِیل ہی ہوگا، مگر حضرت اقدسؑ کو راستہ میں رانی ایشر کور (سکنہ دھام.سردار جیمل سنگھ کی بیوہ بہو) کا خاص آدمی پیغام لے کر ملا کہ آپؑ میرے ہاں قیام فرماویں؛ چنانچہ حضرت اقدسؑ نے اس کا پیغام منظور فرما لیا اور وہیں قیام فرما ہوئے، مگر گاڑی والے دوستوں کو اطلاع نہ ہوئی اس لیے وہ لِیل ہی پہنچے.بعد میں حضرت اقدسؑ کے بُلوانے پر سب وہیں اکٹھے ہوگئے.) غیر مسلم کی دعوت اور نذر تھوڑی دیر کے بعد رانی ایشر کور نے اپنے اہلکاروں کے ہاتھ ایک تھال مصری کا اور ایک باداموں کا بطور نذر پیش کیا اور کہلا بھیجا، بڑی مہربانی فرمائی.میرے واسطے آپؑ کا تشریف لانا ایسا ہے جیسے سردار جیمل سنگھ آنجہانی کا آنا.حضرت اقدس ؑ نے نہایت سادگی اور اُس لہجہ میں جو ان لوگوں میں خداداد ہوتا ہے فرمایا کہ اچھا آپ نے چونکہ دعوت کی ہے ہم یہ نذر بھی لے لیتے ہیں.استقلال کھانا کھاچکنے کے بعد ایک سفید ریش شخص کی بابت عرض کیا گیا کہ وہ کچھ عرض کرنا چاہتا ہے.حضرت اقدسؑ نے نہایت فراخدلی سے فرمایا ’’ہاں‘‘ چنانچہ وہ شخص پیش ہوا اور اس نے اپنی درخواست منظوم پیش کی.حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ استقلال سے اگر طبیب کاعلاج کیا جاوے وہ بہت مہربان ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ فائدہ بھی دیتا ہے.سفر میں روزہ آپؑ سے دریافت کیا گیا کہ سفر کے لئے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟ آپؑ نے فرمایا کہ قرآن کریم سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ (البقرۃ:۱۸۵) یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے.اس میں امر ہے.یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ جس کا اختیار ہو رکھ لے، جس کا اختیار ہو نہ رکھے.میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہیں
رکھنا چاہیے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیں، اس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی حرج نہیں مگر عِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہیے.اس پر مولوی نور الدین صاحبؓ نے فرمایا کہ’’یوں بھی توانسان کو مہینے میں کچھ روزے رکھنے چاہئیں.ہم اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت اقدسؑ نے بھی فرمایا تھا کہ ’’سفر میں تکالیف اٹھا کر جو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے.اس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا.یہ غلطی ہے.اللہ تعالیٰ کی اطاعت امر اور نہی میں سچا ایمان ہے.‘‘ ۵۳؎ ۲۷ ؍جنوری ۱۸۹۹ء بعد نماز صبح روانگی کا حکم ہوا.جب کارخانہ (دھاریوال) کے قریب سے گزرے تو اس کے متعلق ذکر میں فرمایا.اس کو کسی وقت دیکھنا چاہیے.دیکھی ہوئی چیز کچھ کام ہی دیتی ہے.ایک شخص نے کہا کہ حضرت میں نے ایک بار دیکھا، تو مجھے خدا تعالیٰ کی قدرت پر عجیب جوش آیا اور جب تک میں نے چار رکعت نماز نہ پڑھ لی صبر نہ آیا.حضرت نے فرمایا.اصل بات یہ ہے کہ یہ ساری باتیں اس لئے ہیں کہ وہ اپنا جلوہ دکھا رہا ہے.دیکھو کیڑے تک کو کس قدر طاقتیں دیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں تو ساری طاقتیں اور قوتیں ہیں.حضور کے لئے خیمہ چونکہ نہر پر لگایا گیا تھا.نہر کو دیکھ کر اور اس کے ارد گرد درختوں کے نظارہ کو دیکھ کر فرمایا کہ بہت اچھی جگہ ہے.۵۴؎
۲۶؍فروری ۱۸۹۹ء حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے ایک لیکچر کی تعریف حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹیؓ کے لیکچر (موسومہ حضرت اقدسؑ مرزا غلام احمد قادیانی نے کیا اصلاح اور تجدید کی) کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے پڑھا اور ۲۶؍ فروری ۱۸۹۹ء کو مسجد مبارک میں احباب سے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے سب دوست اسے ضرور پڑھیں.اس لئے کہ اس میں بہت سے نکات لطیفہ ہیں اور یہ نمونہ ہے ایک شخص کی قوت تقریر کا اور اسی منوال پر مخصوصاً ہماری جماعت کو مقرر بننے کی کوشش کرنی چاہیے.۵۵؎ ۱۰؍مارچ ۱۸۹۹ء بلند ہمتی اور شجاعت صبح سیر کو جاتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا.ہمت نہیں ہارنی چاہیے.ہمت اخلاق فاضلہ میں سے ہے اور مومن بڑا بلند ہمت ہوتا ہے ہر وقت خدا تعالیٰ کے دین کی نصرت اور تائید کے لئے طیار رہنا چاہیے اور کبھی بزدلی ظاہر نہ کرے.بزدلی منافق کا نشان ہے.مومن دلیر اور شجاع ہوتا ہے مگر شجاعت سے یہ مراد نہیں ہے کہ اس میں موقع شناسی نہ ہو.موقع شناسی کے بغیر جو فعل کیا جاتا ہے وہ تہوّر ہوتا ہے.مومن میں شتاب کاری نہیں ہوتی بلکہ وہ نہایت ہوشیاری اور تحمل کے ساتھ نصرت دین کے لئے طیار رہتا ہے اور بزدل نہیں ہوتا.انسان سے کبھی ایسا کام ہو جاتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کو ناراض کر دیتا ہے اور کبھی ناپسند کر دیتا ہے.مثلاً کسی سائل کو اگر دھکا دیا تو سختی کا موجب ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ
کو ناراض کرنے والا فعل ہوتا ہے اور اسے توفیق نہیں ملے گی کہ وہ اس کو کچھ دے سکے لیکن اگر نرمی یا اخلاق سے پیش آوے گا اور خواہ اسے پیالہ پانی ہی کا دے دے تو وہ ازالہءِ قبض کا موجب ہوجاوے گا.استغفار.قبض کا علاج انسان پر قبض اور بسط کی حالت آتی ہے.بسط کی حالت میں ذوق اور شوق بڑھ جاتا ہے اور قلب میں ایک انشراح پیدا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف توجہ بڑھتی ہے.نمازوں میں لذّت اور سرور پیدا ہوتا ہے لیکن بعض وقت ایسی حالت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ذوق اور شوق جاتا رہتا ہے اور دل میں ایک تنگی کی سی حالت ہو جاتی ہے.جب یہ صورت ہو تو اس کا علاج یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور پھر درود شریف بہت پڑھے.نماز بھی بار بار پڑھیں.قبض کے دور ہونے کا یہی علاج ہے.حقیقی علم علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں ہے بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے.یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہوتا ہے اور خشیتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓـؤُا (فاطر:۲۹) اگر علم سے اللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہوئی تو یاد رکھو کہ وہ علم ترقی معرفت کا ذریعہ نہیں ہے.۵۶؎ ۲۰؍اپریل۱۸۹۹ء (بوقت عصر) خدا کا بھروسہ اسلام کا خاصّہ ہے کہ خدا پر بھروسہ ہوتا ہے.مسلمان وہی ہے جو صدقات اور دعا کا قائل ہو.عیسائیوں کو اس بات پر یقین نہیں.کیوں؟ انہوں نے جسمانی خدا بنایا ہے.انسان کی بڑی خوشی جو زوال پذیر نہیں ہوتی اور خطرات کے وقت اسے سنبھال لیتی ہے وہ خدا پر بھروسہ ہے.اور یہ صرف اسلام ہی کی تعلیم ہے کہ خدا پر بھروسہ کرو.۵۷؎
۲۱؍اپریل ۱۸۹۹ء (یوم عید الضحیٰ) والدہ کی خدمت پہلی حالت انسان کی نیک بختی کی ہے کہ والدہ کی عزت کرے.اویس قرنی ؓ کے لئے بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یمن کی طرف کو منہ کرکے کہا کرتے تھے کہ مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے.آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی والدہ کی فرمانبرداری میں بہت مصروف رہتا ہے اور اسی وجہ سے میرے پاس بھی نہیں آسکتا.بظاہر یہ بات ایسی ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں مگر وہ ان کی زیارت نہیں کر سکتے.صرف اپنی والدہ کی خدمت گزاری اور فرمانبرداری میں پوری مصروفیت کی وجہ سے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہی آدمیوں کو السلام علیکم کی خصوصیت سے وصیت فرمائی.یا اویسؓ کو یا مسیحؑ کو.یہ ایک عجیب بات ہے جو دوسرے لوگوں کو ایک خصوصیت کے ساتھ نہیں ملی چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت عمرؓ ان سے ملنے کو گئے تو اویس نے فرمایا کہ والدہ کی خدمت میں مصروف رہتا ہوں اور میرے اونٹوں کو فرشتے چرایا کرتے ہیں.ایک تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے والدہ کی خدمت میں اس قدر سعی کی اور پھر یہ قبولیت اور عزت پائی.ایک وہ ہیں جو پیسہ پیسہ کے لئے مقدمات کرتے ہیں اور والدہ کا نام ایسی بُری طرح لیتے ہیں کہ رذیل قومیں چوہڑے چمار بھی کم لیتے ہوں گے.ہماری تعلیم کیا ہے؟ صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک ہدایت کا بتلا دینا ہے.اگر کوئی میرے ساتھ تعلق ظاہر کرکے اس کو ماننا نہیں چاہتا تو وہ ہماری جماعت میں کیوں داخل ہوتا ہے؟ ایسے نمونوں سے دوسروں کو ٹھوکر لگتی ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں جو ماں باپ تک کی بھی عزت نہیں کرتے.مادر پدر آزاد کبھی خیر و برکت کا منہ نہ دیکھیں گے میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ مادر پدر آزاد کبھی خیر و برکت کا منہ نہ دیکھیں گے.پس نیک نیتی کے ساتھ اور پوری اطاعت اور وفاداری کے رنگ میں خدا رسول
کے فرمودہ پر عمل کرنے کو طیار ہو جاؤ.بہتری اسی میں ہے ورنہ اختیار ہے.ہمارا کام صرف نصیحت کرنا ہے.عربی اور انگریزی سیکھنے کی تلقین میں یہ بھی اپنی جماعت کو نصیحت کرنی چاہتا ہوں کہ وہ عربی سیکھیں کیونکہ عربی کی تعلیم کے بدوں قرآن کریم کا مزا نہیں آتا پس ترجمہ پڑھنے کے لئے جو ضروری ہے مناسب ہے کہ تھوڑا تھوڑا عربی زبان کو سیکھنے کی کوشش کریں.آج کل تو آسان آسان طریق عربی پڑھنے کے نکل آئے ہیں.قرآن شریف کا پڑھنا جبکہ ہر مسلمان کا فرض ہے پھر اس کے کیا معنے ہیں کہ عربی زبان سیکھنے کی کوشش نہ کی جاوے اور ساری عمر انگریزی اور دوسری زبانوں کے حاصل کرنے میں کھو دی جاوے.مگر یہ بات بھی یاد رکھو کہ چونکہ استحکام گورنمنٹ نے ایک قومی گورنمنٹ کی صورت اختیار کرلی ہے اس لئے قومی گورنمنٹ کی زبان بھی ایک قومیت کا رنگ رکھتی ہے.پس ضروری ہوا کہ اپنے مطالب و اغراض کو حکام کے پورے طور پر ذہن نشین کرنے کے لئے انگریزی پڑھو تاکہ تم گورنمنٹ کو فائدہ اور مدد پہنچا سکو.فونو گراف پھر زبانوں کے تذکرے پر فرمایا.فونو گراف کیا ہے؟ گویا مطبع ناطق ہے.تکلیف کی دو حیثیتیں کوئی تکلیف نہیں پہنچتی جب تک آسمان پر فتویٰ نہ ہو اگرچہ تکالیف تو پیغمبروں کو بھی پہنچتی ہیں مگر وہ از راہِ محبت کے ہوتی ہیں اور ان میں ایک قسم کی تعلیم مخفی ہوتی ہے جو ان مشکلات میں انبیاء علیہم السلام کا پاک گروہ اپنے طرز عمل اور چال چلن سے دیتا ہے اور بعض لوگوں پر دکھ کی مار ہوتی ہے اور وہ ان کی اپنی ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہے.مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ (الزلزال:۹) پس آدمی کو لازم ہے کہ توبہ و استغفار میں لگا رہے اور دیکھتا رہے کہ ایسا نہ ہو بد اعمالیاں حد سے گزر جاویں اور خدا تعالیٰ کے غضب کو کھینچ لاویں.توبہ و استغفار جب خدا تعالیٰ کسی پر فضل کے ساتھ نگاہ کرتا ہے تو عام طور پر دلوں میں اس کی محبت کا القا کر دیتا ہے لیکن جس وقت انسان کا شر حد سے گزر جاتا ہے اس وقت
آسمان پر اس کی مخالفت کا ارادہ ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کے منشا کے موافق لوگوں کے دل سخت ہوجاتے ہیں مگر جونہی وہ توبہ و استغفار کے ساتھ خدا کے آستانہ پر گر کر پناہ لیتا ہے تو اندر ہی اندر ایک رحم پیدا ہو جاتا ہے اور کسی کو پتا بھی نہیں لگتا کہ اس کی محبت کا بیج لوگوں کے دلوں میں بو دیا جاتا ہے.غرض توبہ و استغفار کا ایسا مجرب نسخہ ہے کہ خطا نہیں جاتا.۵۸؎ ۲۱ ؍اپریل۱۸۹۹ء (قبل مغرب) مسیح موعود کا کارنامہ کسرِ صلیب یہ کتاب ۵۹؎ جو لکھی گئی ہے، جب شائع ہوگی تو ان لوگوں کو بھی پتا لگ جاوے گا جو بار بار اعتراض کرتے ہیں کہ آکر کیا بنایا؟ میں حیران ہو جاتا ہوں جب اس قسم کے اعتراض سنتا ہوں.کیا پھونک مار کر کچھ بنا دیا جاتا؟ بھلا یہ تو بتلائیں کہ نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس دعوت کی ان کے اعتقاد کے موافق کیا بنایا؟ مگر یہ لوگ دیکھیں گے اور خدا تعالیٰ نمایاں طور پر دکھادے گا کہ کیا بنایا ہے.کاش یہ لوگ موجودہ حالت وقت پر غور کرتے.صدی میں سے سولہ (۱۶) سال گزر گئے.ظلمت انتہا تک پہنچ گئی اور کوئی نہ آیا جو اصلاح کرتا.یہ لوگ ذرا بھی انصاف نہیں کرتے.مجھ پر اعتراض کرتے کرتے خدا پر اعتراض جا کرتے ہیں.کیونکہ میں نے تو آکر کچھ بنایا نہیں اور خدا نے بنانے والا بھیجا نہیں بلکہ باوجود اس کے کہ اور ضرورتیں اگر چھوڑ بھی دی جاویں تو ان ناعاقبت اندیش معترضوں کے موافق ایک گمراہ کرنے والا بھی آگیا اور پھر بھی وہ اصل مہدی نہ آیا اور نہ خدا نے اسے بھیجا.چودھویں صدی کو مبارک سمجھتے تھے پر کیا خاک مبارک نکلی جب کہ ایک دجّال آگیا!!! صدیق حسن اور عبدالحیٔ جو دعویٰ کرنے والے تھے وہ صدی کے سر پر ہی فوت ہو گئے ورنہ شاید وہی ان لوگوں کا سہارا ہوتے لیکن خدا نے اپنے فضل سے دکھا دیا کہ یہ کام ان کا نہ تھا بلکہ کسی اور کا.
مجدّد جو آیا کرتا ہے وہ ضرورتِ وقت کے لحاظ سے آیا کرتا ہے نہ استنجے اور وضو کے مسائل بتلانے.خدا جو مدبّر اور حکیم خدا ہے، کیا وہ نہیں دیکھتا کہ دنیا پر طبیعیات اور فلسفہ کی زہریلی ہوا چلی ہے جس نے ہزار ہا انسانوں کو ہلاک کر دیا ہے.صلیب پرست عیسائیوں نے کس کس رنگ میں لکھوکھا روحوں کو خدا سے دور پھینک دیا ہے.تو پھر کیا اس وقت ایسے مجدّد کی ضرورت نہ تھی جو کسر صلیب کرے اور دلائل و بیّنات سے دکھاوے کہ صلیبی مذہب میں حقانیّت کا نور نہیں اور ایک لکڑی پر ایمان لا کر انسان نجات کا وارث نہیں ٹھہر سکتا.آئے دن پچاس (۵۰) پچاس (۵۰) ہزار اور ایک ایک لاکھ اشتہار چھاپ چھاپ کر یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں اور ٹڈی دل کی طرح عورتیں، بچے، جوان، بوڑھے لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح پر اسلام پر حملہ کریں.اس وقت اسلام پر وہ حملہ ہوا ہے جس کی انتہا نہیں.ادھر خدا کا یہ وعدہ کہ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الـحجر:۱۰) اور ادھر اُن ناعاقبت اندیش معترضین کی یہ دانائی کہ اسلام میں حفاظت دین کے لئے معرفت کا نُور لے کر کوئی نہیں آیا، بلکہ دجّال آیا ہے.افسوس! صد افسوس!! آہ! صد آہ!!! یہی تو وقت تھا کہ خدا اپنی نصرت اور تائید کا روشن ہاتھ دکھاتا.مگر میں کہتا ہوں کہ اس نے دکھایا اور وہ اپنی چمکار دکھائے گا اور مخالفوں کو شرمندہ کر کے بتلا دے گا کہ آنے والے نے آکر کیا بنایا.۶۰؎ ۲۱؍اپریل ۱۸۹۹ء ستّاری خدائے تعالیٰ کی ستّاری ایسی ہے کہ وہ انسان کے گناہ اور خطاؤں کو دیکھتا ہے لیکن اپنی اس صفت کے باعث اس کی غلط کاریوں کو اس وقت تک جب تک کہ وہ اعتدال کی حد سے نہ گزر جاویں ڈھانپتا ہے، لیکن انسان کسی دوسرے کی غلطی دیکھتا بھی نہیں اور شور مچاتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ انسان کم حوصلہ ہے اور خدائے تعالیٰ کی ذات حلیم و کریم ہے.ظالم انسان اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھتا ہے اور کبھی کبھی خدائے تعالیٰ کے حلم پر پوری اطلاع نہ رکھنے کے باعث بے باک ہو جاتا ہے اس وقت ذوانتقام کی صفت کام کرتی ہے اور پھر اسے پکڑ لیتی ہے.ہندو لوگ کہا کرتے
ہیں کہ پرمیشر اور اَتْ میں ویر ہے.یعنی خدا حد سے بڑھی ہوئی بات کو عزیز نہیں رکھتا.بایں ہمہ بھی وہ ایسا رحیم کریم ہے کہ ایسی حالت میں بھی اگر انسان نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ آستانہ الٰہی پر جا گرے تو وہ رحم کے ساتھ اس پر نظر کرتا ہے.غرض یہ ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ ہماری خطاؤں پر معاً نظر نہیں کرتا اور اپنی ستّاری کے طفیل رسوا نہیں کرتا تو ہم کو بھی چاہیے کہ ہر ایسی بات پر جو کسی دوسرے کی رسوائی یا ذلّت پر مبنی ہو فی الفور منہ نہ کھولیں.غفلت کا علاج استغفار ہے بعض لوگوں کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ ان کو ایسے اسباب پیش آجاتے ہیں مثلاً ملازمت یا کوئی اور وجہ کہ ان کی عمر کا ایک بڑا حصہ ظلمانی حالت میں گزرتا ہے.نہ پابندی نماز کی طرف توجہ کرتے ہیں نہ قَالَ اللّٰہ اور قَالَ الرَّسُوْل سننے کا موقع ملتا ہے.کتاب اللہ پر غور کرنے کا ان کو خیال تک بھی نہیں آتا.ایسی صورت میں جب ایک زمانہ ظلمت کا گزر جاوے تو یہ خیالات راسخ ہو کر طبیعت ثانیہ کا رنگ پکڑ جاتے ہیں.پس اس وقت اگر انسان توبہ اور استغفار کی طرف توجہ نہ کرے تو سمجھو کہ بڑا ہی بدقسمت ہے.غفلت اور سُستی کا بہترین علاج استغفار ہے.سابقہ غفلتوں اور سُستیوں کی وجہ سے کوئی ابتلا بھی آجاوے تو راتوں کو اٹھ اٹھ کر سجدے اور دعائیں کرے اور خدائے تعالیٰ کے حضور ایک سچی اور پاک تبدیلی کا وعدہ کرے.۲۲؍اپریل ۱۸۹۹ء افترا کرنے والا کبھی مہلت نہیں پا سکتا ہمارے دعویٰ الہام و مکالمہ الٰہیہ کی اشاعت کو یوں تو بہت سال گزرے لیکن اگر براہین کی اشاعت سے بھی لیا جائے تو بیس سال ہو چکے.ہمارے مخالف جو ہم کو جھوٹا اور اپنے دعوے میں مفتری قرار دیتے ہیں ان سے کوئی سوال کرے کہ خدائے تعالیٰ تو کسی ایسے مفتری کو جو اس پر الہام اور مکالمہ کا افترا کرے مہلت نہیں دیتا.یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فرمایا کہ اگر تو
بعض باتیں اپنی طرف سے کہتا تو ہم شاہ رگ سے پکڑ لیتے.پھر کسی اور کی کیا خصوصیت ہو سکتی ہے؟ اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر الہام کا افترا کرنے والا کبھی بھی مہلت نہیں پا سکتا.اب ہم پوچھتے ہیں کہ اگر یہ ہمارا سلسلہ خدائے تعالیٰ کا قائم کردہ نہیں ہے تو کسی قوم کی تاریخ سے ہم کو پتا دو کہ خدائے تعالیٰ پر کسی نے افترا کیا ہو اور پھر اسے مہلت دی گئی ہو.ہمارے لئے تو یہ معیار صاف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ۲۳ سال تک کا ایک دراز زمانہ ہے.اس صادق اور کامل نبی کے زمانہ سے قریباً ملتا ہوا زمانہ اللہ تعالیٰ نے اب تک ہم کو دیا.کیونکہ براہین کی اشاعت پر بیس سال ہولئے جو ناعاقبت اندیش معترضوں کے نزدیک افترا کا پہلا زمانہ ہے.اب ہم تو ایک مسلّم صادق بلکہ جملہ صادقوں کے سرتاج صادق کے زمانہ سے ملتا ہوا زمانہ پیش کرتے ہیں اور یہ ظالم اب تک بھی کہے جاتے ہیں کہ جھوٹ ہے.افسوس ہماری تکذیب کے خیال میں یہ لوگ یہاں تک اندھے ہو گئے ہیں کہ ان کو یہ بھی نظر نہیں آتا کہ اس انکار کی زد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسی پڑتی ہے.کیونکہ اگر بیس بائیس سال تک بھی خدا کسی مفتری کو مدد دے سکتا ہے تو پھر مجھے تو تعجب ہی آتا ہے.نہیں بلکہ دل کانپ اٹھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر یہ کیا دلیل پیش کریں گے؟ ایک مسلمان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے متبع کے منہ سے جب وہ اتنا دراز عرصہ ایک مدعی کو مہلت پاتے ہوئے دیکھ لے کبھی یہ نہیں نکل سکتا کہ جھوٹا اور کاذب بھی اس قدر عرصہ دراز کی مہلت پا لیتا ہے.اگر اور کوئی بھی نشان اور دلیل ایسے مدعی کی صداقت کی نہ ملے تب بھی ایک سچے مسلمان کو حسن ظن اور ایمانداری کے رو سے لازم آتا ہے کہ انکار نہ کرے کیونکہ اس کا زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے مشابہ ہو گیا ہے.اگر کوئی عیسائی کہے کہ مفتری کو مہلت مل سکتی ہے تو وہ اس امر کا ثبوت دے مگر مسلمان تو ایسا کہہ ہی نہیں سکتا.پس اب ہمارے مخالف بتلائیں کہ ایک کاذب دجال، مفتری علی اللہ طرز استدلال نبوت میں شریک ہو سکتا ہے؟ ماننا پڑے گا کہ ہر گز نہیں.پھر وہ ہمارے دعوے کو سوچیں اور اس زمانہ پر غور کریں جو استدلالِ نبوت کا زمانہ ہے.غرض ہر پہلو میں بہت سی باتیں ہیں جو سوچنے والے کو مل سکتی ہیں اور ایک دور اندیش ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.۶۱؎
۲۲؍جون ۱۸۹۹ء حضرت اقدس نے کل باتوں باتوں میں فرمایا کہ یقیناً یاد رکھو کہ خدا اپنے بندہ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا اور ہر گز نہیں اُٹھائے گا جب تک اُس کے ہاتھ سے وہ باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کے لیے وہ آیا ہے.اسے کسی کی خصومت اور کسی کی بددعا کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتی.اس کی تحریک یوں ہوئی کہ کسی نے کہا کہ اب مخالف مُلہم ۶۲؎ صاحب کہتے ہیں کہ اس سلسلہ کی تباہی اب قریب ہے.كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ اِنْ يَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا (الکہف:۶) پھر بڑے دردِ دل سے فرمایا کہ تقویٰ و طہارت کل (یعنی ۲۲ جون ۱۸۹۹ء) بہت دفعہ خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ تم لوگ متّقی بن جاؤ اور تقویٰ کی باریک راہوں پر چلو تو خدا تمہارے ساتھ ہوگا.فرمایا.اس سے میرے دل میں بڑا درد پیدا ہوتا ہے کہ میں کیا کروں کہ ہماری جماعت سچی تقویٰ و طہارت اختیار کرلے.پھر فرمایا کہ میں اتنی دعا کرتا ہوں کہ دعا کرتے کرتے ضعف کا غلبہ ہوجاتا ہے اور بعض اوقات غشی اور ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے.فرمایا.جب تک کوئی جماعت خدا کی نگاہ میں متّقی نہ بن جائے خدا کی نُصرت اس کے شامل حال ہو نہیں سکتی.فرمایا.تقویٰ خُلاصہ ہے تمام صُحف مقدسہ اور توریت و انجیل کی تعلیمات کا.قرآن کریم نے ایک ہی لفظ میں خدا تعالیٰ کی عظیم الشان مرضی اور پوری رضا کا اظہار کر دیا ہے.فرمایا.میں اس فکر میں بھی ہوں کہ اپنی جماعت میں سے سچے متّقیوں دین کو دنیا پر مقدم کرنے والوں اور منقطعین الی اللہ کو الگ کروں اور بعض دینی کام انہیں سپرد کروں اور پھر میں دنیا کے ہم و غم میں
مبتلا رہنے والوں اور رات دن مُردارِ دنیا ہی کی طلب میں جان کھپانے والوں کی کچھ بھی پروا نہ کروں گا.رات کس درد سے حضرت امامؑ فرماتے ہیں.آہ! اب تو خدا کے سوا کوئی بھی ہمارا نہیں.اپنے پرائے سب ہی اس پر تُلے ہوئے ہیں کہ ہمیں ذلیل کر دیں.رات دن ہماری نسبت مصائب اور گردشوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں.اب اگر خدا تعالیٰ ہماری مدد نہ کرے تو ہمارا ٹھکانہ کہاں.۶۳؎ ۲۵ ؍جون ۱۸۹۹ء صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کا عقیقہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کے عقیقہ کے لیے ۲۵ جون اتوار کا دن مقرر تھا.حضرت اقدسؑ نے اس کام کا اہتمام منشی نبی بخش صاحب کے سپرد کیا تھا، مگر اس دن چونکہ بارش تھی اور ہوا خوب سرد چل رہی تھی اور بادل کی وجہ سے تاریکی بھی تھی یہ سب سامان ہم لوگوں کے لئے افسانہ خواب ہو گیا حضرت بھی سوگئے اور مہتمم صاحب بھی اپنے بسیرے میں جا لیٹے.دن خوب چڑھ گیا حضرت اٹھے اور دریافت کیا کہ عقیقہ کا کوئی سامان نظر نہیں آتا.گاؤں کے لوگوں کو دعوت کی گئی تھی اور باہر سے بھی کچھ احباب تشریف لائے تھے.حضرتؑ کو فکر ہوئی کہ مہمانوں کو ناحق تکلیف ہوئی.ادھر ہمارے دوست نبی بخش صاحب بڑے مضطرب اور نادم تھے کہ حضور پاک میں کیا عذر کروں.منشی صاحب حاضر ہوئے اور معذرت کا دامن پھیلایا.خیر کریم انسان اور رحیم ہادی اس کی ذات میں درشتی اور سخت نکتہ چینی تو ہے ہی نہیں.فرمایا اچھا فُعِلَ مَا قُدِّرَ.مگر ہمارے ذکی الحواس دوست منشی صاحب کو صبر کہاں.یہ دل ہی دل میں کڑھیں اور پشیمان ہوں اور دوڑے جائیں.اُن کے اس حال کو دیکھ کر حضرت اقدسؑ کو اپنی ایک رؤیا یاد آگئی جو چودہ سال ہوئے دیکھی تھی.جس کا مضمون یہ ہے کہ ’’ایک چوتھا بیٹا ہوگا اور اس کا عقیقہ سوموار کو ہوگا.‘‘ خدا تعالیٰ کی بات کے پورا ہونے اور اللہ تعالیٰ کے اس عجیب تصّرف سے حضرت اقدسؑ کو جو خوشی ہوئی
اس نے ساری ملامت اور عدم سامان کی کوفت کو دور کردیا اور دوسرے دن سوموار کو جب ہم سب خدّام صحن اندرون خانہ میں بیٹھے تھے اور صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کا سر مونڈا جا رہا تھا.حضرت اقدسؑ نے کس جوش سے یہ رؤیا سنائی.۶۴؎ ۳۰ ؍جون ۱۸۹۹ء رات کو امراض وبائیہ کا تذکرہ ہوا.فرمایا.یہ ایّام برسات کے معمولاً خطرناک ہوا کرتے ہیں.ہند کے طبیب کہتے ہیں ان تین مہینوں میں جو بچ رہے وہ گویا نئے سرے پیدا ہوتا ہے.پھر فرمایا.یہ جاڑا بھی خوفناک ہی نظر آتا ہے.فرمایا.اطبّاء بڑے بڑے پرہیزوں اور حفظِ ماتقدم کے لیے احتیاطیں بتاتے ہیں اگرچہ سلسلہ اسباب کا اور اُن کی رعایت درست ہے، مگر میں کہتا ہوں کہ محدودالعلم ضعیف انسان کہاں تک بچار بچار کر غذا اور پانی کا استعمال کیا کرے.میرے نزدیک تو استغفار سے بڑھ کر کوئی تعویذ و حرز اور کوئی احتیاط و دوا نہیں.میں تو اپنے دوستوں کو کہتا ہوں کہ خدا سے صلح و موافقت پیدا کرو اور دعاؤں میں مصروف رہو.ایک حدیث کا مطلب فرمایا.میں تو بڑی آرزو رکھتا ہوں اور دعائیں کرتا ہوں کہ میرے دوستوں کی عمریں لمبی ہوں تو کہ اس حدیث کی خبر پوری ہو جائے جس میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے زمانے میں چالیس برس تک موت دنیا سے اٹھ جائے گی.فرمایا.اس کا مطلب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تمام جانداروں سے اس عرصہ میں موت کا پیالہ ٹل جائے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں جو نَافِعُ النَّاس اور کام کے آدمی ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کی زندگی میں برکت بخشے گا.۶۵؎
۱۰؍جولائی ۱۸۹۹ء سے قبل مجھے خوب یاد ہے کہ جس روز ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ صاحب قادیان میں حضرت کے مکان کی تلاشی کے لئے آئے تھے اور قبل از وقت اس کا کوئی پتہ اور خبر نہ تھی اور نہ ہو سکتی تھی.اللہ تعالیٰ مامورین کی رسوائی پسند نہیں کرتا اس کی صبح کو کہیں سے ہمارے میر صاحب نے سن لیا کہ آج وارنٹ ہتھکڑی سمیت آوے گا.میر صاحب حواس باختہ سرازپا نشناختہ حضرت کو اس کی خبر کرنے اندر دوڑے گئے اور غلبہ رقت کی وجہ سے بصد مشکل اس ناگوار خبر کے منہ سے برقع اتارا.حضرت اس وقت نور القرآن لکھ رہے تھے اور بڑا ہی لطیف اور نازک مضمون در پیش تھا.سر اٹھا کر اور مسکرا کر فرمایا کہ میر صاحب! لوگ دنیا کی خوشیوں میں چاندی، سونے کے کنگن پہنا ہی کرتے ہیں.ہم سمجھ لیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں لوہے کے کنگن پہن لئے.پھر ذرا تامل کے بعد فرمایا.مگر ایسا نہ ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ کی اپنی گورنمنٹ کے مصالح ہوتے ہیں وہ اپنے خلفائے مامورین کی ایسی رسوائی پسند نہیں کرتا.۶۶؎ ۱۰ ؍جولائی ۱۸۹۹ء (ہفتہ مختتمہ) ایک دینی خوشخبری پر بے پایاں مسرت اِس ہفتہ میں سب سے عجیب اور دلچسپ بات جو واقع ہوئی اور جس نے ہمارے ایمانوں کو بڑی قوت بخشی وہ ایک چٹھی کا حضرت کے نام آنا تھا.اس میں پختہ ثبوت اور تفصیل سے لکھا ہے کہ جلال آباد (علاقہ کابل) کے علاقے میں یوز آسف نبی کا چبوترہ موجود ہے اور وہاں مشہور ہے کہ دو ہزار برس ہوئے کہ یہ نبی شام سے یہاں آیا تھا اور سرکار کابل کی طرف سے کچھ جاگیر بھی اس چبوترہ کے نام ہے.
زیادہ تفصیل کا محل نہیں.اس خط سے حضرت اقدس اس قدر خوش ہوئے کہ فرمایا.اللہ تعالیٰ گواہ اور علیم ہے کہ اگر مجھے کوئی کروڑوں روپے لا دیتا تو میں کبھی اتنا خوش نہ ہوتا جیسا اس خط نے مجھے خوشی بخشی ہے.برادران! دینی بات پر یہ خوشی کیا یہ منجانب اللہ ہونے کا نشان نہیں؟ کون ہے آج جو اعلائے کلمۃ اللہ کی باتوں پر ایسی خوشی کرے؟ ایک رؤیا اور اس کی تعبیر ہمارے ایمان کی تجدید و تقویت کے لئے ایک نشان یہ ظاہر ہوا کہ ظہر کے وقت اچانک یہ خط آتا ہے اور صبح حضرت اقدس کو یہ رؤیا ہوتی ہے کہ حضرت ملکہ معظمہ قیصرہ ہند سلّمہا اللہ تعالیٰ گویا حضرت اقدسؑ کے گھر میں رونق افروز ہوئی ہیں.حضرت اقدس رؤیا میں عاجز راقم عبد الکریم کو جو اس وقت حضور اقدس کے پاس بیٹھا ہے.فرماتے ہیں کہ حضرت ملکہ معظمہ کمال شفقت سے ہمارے ہاں قدم رنجہ فرما ہوئی ہیں اور دو روز قیام فرمایا ہے.ان کا کوئی شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے.اس رؤیا کی تعبیر یہ تھی کہ حضرت کے ساتھ کوئی نصرتِ الٰہی شامل ہوئی چاہتی ہے اس لئے کہ حضرت ملکہ معظمہ کا اسم مبارک وکٹوریہ ہے جس کے معنی ہیں مظفرہ منصورہ اور نیز چونکہ اس وقت حضرت ملکہ معظمہ کُل روئے زمین کے سلاطین میں سب سے زیادہ کامیاب اور خوش نصیب ہیں اس لئے آپ کا مہربانی کے لباس میں آپ کے مکان میں تشریف لانا بڑی برکت و کامیابی کا نشان ہے.خدا کا علم و قدرت دیکھیے.ظہر کے وقت اس رؤیا کی صحیح تعبیر پوری ہو گئی.اللہ اللہ! اس سے زیادہ نصرت کیا ہے کہ ایسے سامان مل رہے ہیں کہ جن سے دنیا کے کل نصاریٰ پر خدا کی روشن حجت پوری ہوتی ہے.مسیح موعود کا مشن حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا.میں حیران ہوتا ہوں کہ ان کا فرضی مسیح اَور کام کیا کرتا یا کرے گا؟ اس کی اوقات زندگی کی یہی تقسیم بتاتے ہیں کہ دن کا ایک حصہ تو لکڑی یا لوہے یا پیتل یا سونے چاندی کی صلیبوں کے توڑنے میں بسر کرے گا اور ایک حصّہ سؤروں کے قتل کرنے میں صرف کرے گا.بس یہی کہ کچھ اور بھی؟ فرمایا.یہ لوگ نہیں سوچتے کہ وہ بات کیا ہو جس سے اتنے کروڑ نصاریٰ پر حجت حق پوری ہو
کیونکہ اگر نری تلوار ہو تو وہ تو احقاقِ حق کے لئے کبھی آلہ بن نہیں سکتی.کیا ایمان کبھی درشتی سے دلوں میں اتر سکتا اور حجت اللہ اکراہ سے کسی کے دل کو فریفتہ کر سکتی ہے؟ وہ تو اور بھی الزام کا موجب ہے کہ ان لوگوں کے ہاتھ میں بجز لٹھم لٹھا ہونے کے دلیل کوئی نہیں.فرمایا.آگے تھوڑا اور ناحق کا الزام لگاتے ہیں کہ اسلام بزور شمشیر پھیلایا گیا اور اب یوں اسے سچا کر دینا چاہتے ہیں اور معمولی کرامات و معجزات سے بھی یورپ و دیگر نصاریٰ پر اثر نہیں پڑ سکتا اس لئے کہ ان میں لکھا ہے کہ بہت سے جھوٹے نبی آئیں گے جو نشان دکھائیں گے.پھر اب کیا ہے بجز اس کے کہ کوئی ایسی حجت ظاہر ہو جس کے آگے گردنیں خم ہو جائیں اور وہ وہی راہ ہے جو خدا میرے ہاتھ سے پوری کرے گا.مامور سے مقابلہ کی تین راہیں اور اس ہفتہ میں لاہوری ملہم صاحب کا خط آیا جس میں انہوں نے حضرت اقدسؑ اور آپ کے سلسلہ کے خلاف ایک دو پیشگوئیاں کی تھیں.اس کے متعلق آپؑ نے فرمایا.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ان لوگوں کی ہمدردی کے لئے کس قدر میرے دل میں تڑپ اور جوش ہے اور میں حیران ہوں کہ کس طرح ان لوگوں کو سمجھاؤں.یہ لوگ کسی طرح بھی مقابلہ میں نہیں آتے.تین ہی راہیں ہیں یا گذشتہ کے نشانوں سے میرے اپنے نشانوں کا مقابلہ کر لیں یا آیندہ نشانوں میں مقابلہ کر لیں یا اور نہیں تو یہی دعا کریں کہ جس کا وجود نافع الناس ہے وہ بموجب وعدۂ الٰہی وَ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ (الرّعد:۱۸) دراز زندگی پائے.پھر عیاں ہو جائے گا کہ خدا کی نگاہ میں کون مقبول و منظور ہے.خدائی الہام کا معیار فرمایا.افسوس یہ لوگ چھوٹے چھوٹے معمولی الہامی ٹکڑوں اور خوابوں پر اترائے بیٹھے ہیں اور سمجھ نہیں سکتے کہ کسی الہام کے خدا کی طرف سے ہونے اور دخل شیطان سے پاک ہونے کا معیار کیا ہے؟ معیار یہی ہے کہ اس کے ساتھ نصرتِ الٰہی ہو اور اقتداری علم غیب اور قاہر پیش گوئی اس کے ساتھ ہو ورنہ وہ فضول باتیں ہیں جو نافع الناس نہیں ہو سکتیں.
فرمایا.اگر کوئی شخص کسی جلسہ کے وقت دور بیٹھا ہوا کسی عظیم الشان بادشاہ کی باتیں معمولاً سن لے اور آکر کہے کہ میں نے فلاں بادشاہ کی باتیں سنی ہیں تو اس سے اسے اور دوسروں کو کیا حاصل؟ تقرب سلطانی کے بعد کی باتوں کے نشان اور ہی ہوا کرتے ہیں.جنھیں دیکھ کر ایک عالم پکار اٹھتا ہے کہ فلاں درحقیقت بادشاہ کا مہبطِ کلام و سلام ہے.فرمایا.اگر میرے الہامات بھی ویسے ہی معمولی اور فضول ٹکڑے ہوتے اور ہر ایک میں علم غیب اور اقتداری پیشگوئیاں نہ ہوتیں تو میں انہیں محض ہیچ سمجھتا.فرمایا.بھلا کوئی لیکھرام والی پیش گوئی کے برابر کوئی ایک ہی الہام بتاوے.فرمایا.میرے الہاموں سے قوم کا فائدہ اوراسلام کا فائدہ ہوتا ہے اور یہی معیار بڑا بھاری معیار ہے جو ان کے منجانب اللہ ہونے پر دلالت کرتا ہے.فرمایا.میرے ساتھ خدا کے معاملات اور تصرفات اور اس کے نشان میری تائید میں عجیب ہیں کچھ تو میری ذات کے متعلق ہیں.کچھ میری اولاد کے متعلق ہیں اور کچھ میرے اہل بیت کے متعلق ہیں اور کچھ میرے دوستوں کے متعلق ہیں اور کچھ مخالفوں کے متعلق ہیں اور کچھ عَامَۃُ النَّاس کے متعلق ہیں.لاہوری ملہم کے مکرم دوستوں میں سے ایک حافظ صاحب کا پیغام پہنچا کہ وہ گزشتہ نشانوں کو بے پروائی سے دیکھتے ہیں اور ان کا حوالہ سننا نہیں چاہتے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.بار بار ملنے کی تلقین افسوس یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ خدا کی کوئی بات بھی ناقدر دانی کے قابل نہیں ہوتی.ایک قوم کو کیا پہلے بھی خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہا اَوَ لَمْ يَكْفِهِمْ اَنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ يُتْلٰى عَلَيْهِمْ (العنکبوت :۵۲) کیا یہ گذشتہ نشان کا حوالہ نہیں.فرمایا.اب ایسا وقت ہے کہ ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ بہت دفعہ ملاقات کیا کریں تو کہ نئے نئے نشانوں کو دیکھنے سے جو روز بروز نازل ہوتے ہیں ان کے ایمان و تقویٰ میں ترقی ہو.۶۷؎
سلسلہ احمدیہ کے قیام کا مقصد جولائی ۱۸۹۹ء ایک معزز افسر جو کسی تقریب پر اگلے دن قادیان تشریف لائے تو حضرت اقدس امامنا مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان نے بھی ان کی دعوت کی جب کہ سب مہمان کھانے کے واسطے جمع ہوئے تو دستر خوان کے بچھائے جانے سے پہلے حضرت اقدس نے اس مہمان کو اور دوسرے احباب کو مخاطب کرکے فرمایا.۶۸؎ جب کبھی آپ اس جگہ قادیان میں تشریف لاویں بے تکلف ہمارے گھر میں تشریف لایا کریں.ہمارے ہاں مطلقاً تکلّف نہیں ہے.ہمارا سب کاروبار دینی ہے اور دنیا اور اس کے تعلقات اور تکلفات سے ہم بالکل جدا ہیں.گویا کہ ہم دنیاداری کے لحاظ سے مثل مُردہ کے ہیں.ہم محض دین کے ہیں اور ہمارا سب کارخانہ دینی ہے جیسا کہ اسلام میں ہمیشہ بزرگوں اور اماموں کا ہوتا آیا ہے.اور ہمارا کوئی نیا طریق نہیں بلکہ لوگوں کے اس اعتقادی طریق کو جو کہ ہر طرح سے ان کے لئے خطرناک ہے دور کرنا اور ان کے دلوں سے نکالنا ہمارا اصل منشا اور مقصود ہے مثلاً بعض نادان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ غیر قوموں کے لوگوں کی چیزیں چرا لینا جائز ہے اور کافروں کا مال ہمارے لئے حلال ہے اور پھر اپنی ان نفسانی خواہشوں کی خاطر اس کے مطابق حدیثیں بھی گھڑ رکھی ہیں.پھر وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ جو دوبارہ دنیا میں آنے والے ہیں تو ان کا کام لاٹھی مارنا اور خونریزیاں کرنا ہے حالانکہ جبر سے کوئی دین دین نہیں ہو سکتا.غرض اسی قسم کے خوفناک عقیدے اور غلط خیالات ان لوگوں کے دلوں میں پڑے ہوئے ہیں جن کو دور کرنے کے واسطے اور پُرامن عقائد ان کی جگہ قائم کرنے
کے واسطے ہمارا سلسلہ ہے.جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے کہ مصلحوں کی اور اولیاء اللہ کی اور نیک باتیں سکھانے والوں کی دنیادار مخالفت کرتے ہیں ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے اور مخالفوں نے غلط خبریں محض افترا اور جھوٹ کے ساتھ ہمارے بر خلاف مشہور کیں یہاں تک کہ ہم کو ضرر پہنچانے کے واسطے گورنمنٹ تک غلط رپورٹیں کیں کہ یہ مفسد آدمی ہیں اور بغاوت کے ارادے رکھتے ہیں اور ضرور تھا کہ یہ لوگ ایسا کرتے کیونکہ نادانوں نے اپنے خیر خواہوں یعنی انبیاء اور ان کے وارثین کے ساتھ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں ایسا ہی سلوک کیا ہے مگر خدا تعالیٰ نے انسان میں ایک زیرکی رکھی ہے اور گورنمنٹ کے کارکن ان لوگوں کو خوب جانتے ہیں.کپتان ڈگلس کی دانائی اور انصاف چنانچہ کپتان ڈگلس صاحب کی دانائی کی طرف خیال کرنا چاہیے کہ جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے میری نسبت کہا کہ یہ بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اشتہار اس کے سامنے پڑھا گیا تو اس نے بڑی زیرکی سے پہچانا کہ یہ سب ان لوگوں کا افترا ہے اور ہمارے مخالف کی کسی بات پر توجہ نہ کی کیونکہ اس میں شک نہیں کہ ازالہ اوہام وغیرہ دوسری کتب میں ہمارا لقب سلطان لکھا ہے مگر یہ آسمانی سلطنت کی طرف اشارہ ہے اور دنیوی بادشاہوں سے ہمارا کچھ سروکار نہیں ایسا ہی ہمارا نام حَکم عام بھی ہے.جس کا ترجمہ اگر انگریزی میں کیا جائے تو گورنر جنرل ہوتا ہے اور شروع سے یہ سب باتیں ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیش گوئیوں میں موجود ہیں کہ آنے والے مسیح کے یہ نام ہیں.یہ سب ہمارے خطاب کتابوں میں موجود ہیں اور ساتھ ہی ان کی تشریح بھی موجود ہے کہ یہ آسمانی سلطنتوں کی اصطلاحیں ہیں اور زمینی بادشاہوں سے ان کا تعلق نہیں ہے.اگر ہم شَر کو چاہنے والے ہوتے تو ہم جہاد وغیرہ سے لوگوں کو کیوں روکتے اور درندگی سے ہم مخلوقات کو کیوں منع کرتے.غرض کپتان ڈگلس صاحب عقل سے ان سب باتوں کو پاگیا اور پورے پورے انصاف سے کام لیا اور دونوں فریق میں سے ذرا بھی دوسرے فریق کی طرف نہیں جھکا اور ایسا نمونہ انصاف پروری اور دادرسی کا دکھلایا کہ ہم بدل خواہش مند ہیں کہ ہماری گورنمنٹ کے تمام معزز حکام ہمیشہ اسی اعلیٰ درجہ
کے نمونہ انصاف کو دکھلاتے رہیں جو نوشیروانی انصاف کو بھی اپنے کامل انصاف کی وجہ سے ادنیٰ درجہ کا ٹھیراتا ہے اور یہ کس طرح سے ہوسکتا ہے کہ کوئی اس گورنمنٹ کے پُرامن زمانہ کو برا خیال کرے اور اس کے برخلاف منصوبہ بازی کی طرف اپنا ذہن لے جاوے.سکھوں کے زمانے میں مسلمانوں پر مظالم حالانکہ یہ ہمارے دیکھنے کی باتیں ہیں کہ سکھوں کے زمانہ میں مسلمانوں کو کس قدر تکلیف ہوتی تھی.صرف ایک گائے کے اتفاقاً ذبح کیے جانے پر سکھوں نے چھ سات ہزار آدمیوں کو تہ تیغ کر دیا تھا اور نیکی کی راہ اس طرح پر مسدود تھی کہ ایک شخص مسمّی کمّے شاہ اس آرزو میں ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر دعائیں مانگتا تھا کہ ایک دفعہ صحیح بخاری کی زیارت ہو جائے اور دعا کرتا کرتا رو پڑتا تھا اور زمانہ کے حالات کی وجہ سے ناامید ہو جاتا تھا.آج گورنمنٹ کے قدم کی برکت سے وہی صحیح بخاری چار پانچ روپے میں مل جاتی ہے.اور اُس زمانہ میں لوگ اس قدر دُور جا پڑے تھے کہ ایک مسلمان نے جس کا نام خدا بخش تھا اپنا نام خدا سنگھ رکھ لیا تھا.بلکہ اس گورنمنٹ کے ہم پر اس قدر احسان ہیں کہ اگر ہم یہاں سے نکل جائیں تو نہ ہمارا مکّہ میں گزارہ ہو سکتا ہے اور نہ قسطنطنیہ میں تو پھر کس طرح سے ہو سکتا ہے کہ ہم اس کے بر خلاف کوئی خیال اپنے دل میں رکھیں.اگر ہماری قوم کو خیال ہے کہ ہم گورنمنٹ کے برخلاف ہیں یا ہمارا مذہب غلط ہے تو ان کو چاہیے کہ وہ ایک مجلس قائم کریں اور اس میں ہماری باتوں کو ٹھنڈے دل سے سُنیں تاکہ ان کی تسلّی ہو اور اُن کی غلط فہمیاں دور ہوں.جھوٹے کے مُنہ سے بدبو آتی ہے اور فراست والا اُس کو پہچان جاتا ہے.صادق کے کام سادگی اور یک رنگی سے ہوتے ہیں اور زمانہ کے حالات اس کے مؤید ہوتے ہیں.ضرورتِ زمانہ آج کل دیکھنا چاہیے کہ لوگ کس طرح عقائد حقّہ سے پھر گئے ہیں.۲۰ کروڑ کتاب اسلام کے بر خلاف شائع ہوئی ہیں اور کئی لاکھ آدمی عیسائی ہوگئے ہیں.ہر ایک بات کے لیے ایک حد ہوتی ہے اور خشک سالی کے بعد جنگل کے حیوان بھی بارش کی امید میں آسمان کی طرف مُنہ اُٹھاتے ہیں.آج ۱۳۰۰ برس کی دھوپ اور اِمساک باراں کے بعد آسمان
سے بارش اُتری ہے.اب اس کو کوئی روک نہیں سکتا.برسات کا جب وقت آگیا ہے تو کون ہے جو اُس کو بند کرے.یہ ایسا وقت ہے کہ لوگوں کے دل حق سے بہت ہی دُور جا پڑے ہیں.ایسا کہ خود خدا پر بھی شک ہوگیا ہے.ایمان باللہ کی اہمیّت حالانکہ تمام اعمال کی طرف حرکت صرف ایمان سے ہوتی ہے.مثلاً سمّ الفار کو اگر کوئی شخص طباشیر سمجھ لے تو بلا خوف و خطر کئی ماشوں تک کھا جاوے گا.اگر یقین رکھتا ہو کہ یہ زہر قاتل ہے تو ہرگز اس کو مُنہ کے قریب بھی نہ لائے گا.حقیقی نیکی کے واسطے یہ ضروری ہے کہ خدا کے وجود پر ایمان ہو کیونکہ مجازی حکام کو یہ معلوم نہیں کہ کوئی گھر کے اندر کیا کرتا ہے اور پسِ پردہ کسی کا کیا فعل ہے.اور اگرچہ کوئی زبان سے نیکی کا اقرار کرے مگر اپنے دل کے اندر وہ جو کچھ رکھتا ہے اس کے لیے اُس کو ہمارے مؤاخذہ کا خوف نہیں اور دنیا کی حکومتوں میں سے کوئی ایسی نہیں جس کا خوف انسان کو رات میں اور دن میں، اندھیرے میں اور اُجالے میں، خَلوت میں اور جَلوت میں، ویرانے میں اور آبادی میں، گھر میں اور بازار میں ہر حالت میں یکساں ہو.پس درستیءِ اخلاق کے واسطے ایسی ہستی پر ایمان کا ہونا ضروری ہے جو ہر حال اور ہر وقت میں اس کی نگران اور اس کے اعمال اور افعال اور اس کے سینہ کے بھیدوں کی شاہد ہے.کیونکہ دراصل نیک وہی ہے جس کا ظاہر اور باطن ایک ہو اور جس کا دل اور باہر ایک ہے.وہ زمین پر فرشتہ کی طرح چلتا ہے.دہریہ ایسی گورنمنٹ کے نیچے نہیں کہ وہ حُسنِ اخلاق کو پاسکے.تمام نتائج ایمان سے پیدا ہوتے ہیں چنانچہ سانپ کے سُوراخ کو پہچان کر کوئی انگلی اس میں نہیں ڈالتا.جب ہم جانتے ہیں کہ ایک مقدار اسٹرکنیا کی قاتل ہے تو ہمارا اس کے قاتل ہونے پر ایمان ہے اور اس ایمان کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اس کو مُنہ نہیں لگائیں گے اور مَرنے سے بچ جائیں گے.خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت تقدیر یعنی دنیا کے اندر تمام اشیاء کا ایک اندازہ اور قانون کے ساتھ چلنا اور ٹھیرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا کوئی مُقدّر یعنی اندازہ باندھنے والا ضرور ہے.گھڑی کو اگر کسی نے بالارادہ نہیں بنایا تو وہ
کیوں اس قدر ایک باقاعدہ نظام کے ساتھ اپنی حرکت کو قائم رکھ کر ہمارے واسطے فائدہ مند ہوتی ہے.ایسا ہی آسمان کی گھڑی کہ اُس کی ترتیب اور باقاعدہ اور باضابطہ انتظام یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بالارادہ خاص مقصد اور مطلب اور فائدہ کے واسطے بنائی گئی ہے.اس طرح انسان مصنُوع سے صانع کو اور تقدیر سے مقدر کو پہچان سکتا ہے.لیکن اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کے ثبوت کا ایک اور ذریعہ قائم کیا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ قبل از وقت اپنے برگزیدوں کو کسی تقدیر سے اطلاع دے دیتا ہے اور اُن کو بتلا دیتا ہے کہ فلاں وقت اور فلاں دن میں مَیں نے فلاں امر کو مقدر کردیا ہے چنانچہ وہ شخص جس کو خدا نے اس کام کے واسطے چُنا ہوا ہوتا ہے پہلے سے لوگوں کو اطلاع دے دیتا ہے کہ ایسا ہوگا اور پھر ایسا ہی ہوجاتا ہے جیسا کہ اُس نے کہا تھا.اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت کے واسطے یہ ایسی دلیل ہے کہ ہر ایک دہریہ اس موقع پر شرمندہ اور لاجواب ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہزاروں ایسے نشانات عطا کیے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر لذیذ ایمان پیدا ہوتا ہے.ہماری جماعت کے اس قدر لوگ اس جگہ موجود ہیں.کون ہے جس نے کم از کم دو چار نشان نہیں دیکھے اور اگر آپ چاہیں تو کئی سو آدمی کو باہر سے بلوائیں اور اُن سے پوچھیں.اس قدر احبار اور اخیار اور متّقی اور صالح لوگ جو کہ ہر طرح سے عقل اور فراست رکھتے ہیں اور دنیوی طور پر اپنے معقول روز گاروں پر قائم ہیں.کیا ان کو تسلی نہیں ہوئی.کیا انھوں نے ایسی باتیں نہیں دیکھیں جن پر انسان کبھی قادر نہیں ہے.اگر ان سے سوال کیا جائے تو ہر ایک اپنے آپ کو اوّل درجہ کا گواہ قرار دے گا.کیا ممکن ہے کہ ایسے ہر طبقہ کے انسان جن میں عاقل اور فاضل اور طبیب اور ڈاکٹر اور سوداگر اور مشائخ سجادہ نشین اور وکیل اور معزز عہدہ دار ہیں بغیر پوری تسلی پانے کے یہ اقرار کر سکتے ہیں کہ ہم نے اس قدر آسمانی نشان بچشم خود دیکھے؟ اور جبکہ وہ لوگ واقعی طور پر ایسا اقرار کرتے ہیں جس کی تصدیق کے لیے ہر وقت شخص مکذب کو اختیار ہے تو پھر سوچنا چاہیے کہ ان مجموعہ اقرارات کا طالب حق کے لیے اگر وہ فی الحقیقت طالب حق ہے کیا نتیجہ ہونا چاہیے.کم سے کم ایک ناواقف اتنا تو ضرور سوچ سکتا ہے کہ اگر اس گروہ میں جو لوگ ہر طرح سے تعلیمیافتہ اور دانا اور
آسودۂِ روزگار اور بفضل الٰہی مالی حالتوں میں دوسروں کے محتاج نہیں ہیں.اگر اُنھوں نے پورے طور پر میرے دعوے پر یقین حاصل نہیں کیا اور پوری تسلی نہیں پائی تو کیوں وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر اور عزیزوں سے علیحدہ ہو کر غربت اور مسافری میں اس جگہ میرے پاس بسر کرتے ہیں اور اپنی اپنی مقدرت کے موافق مالی امداد میں میرے سلسلہ کے لیے فدا اور دلدادہ ہیں.ہر ایک بات کا وقت ہے.بہار کا بھی وقت ہے اور برسات کا بھی وقت ہے اور کوئی نہیں جو خدا کے ارادے ٹال دے.۶۹؎ یکم اگست ۱۸۹۹ء معرفت الٰہی کے موضوع پر ایک ہندو سادھو سے مکالمہ یکم اگست ۱۸۹۹ء کو بعد مغرب حضرت اقدس کی ملاقات کے لیے ایک ہندو سادھو صاحب جو اپنے طبقہ میں مشہور گرو ہیں تشریف لائے اور حضورؑ سے باتیں کرتے رہے.یہ اس گفتگو کا خلاصہ یا مفہوم ہے جس کو حافظہ کی مدد سے ہم نے اپنے الفاظ میں قلم بند کیا ہے.(ایڈیٹر الحکم) حضرت اقدسؑ.آپ کے ہاں جوگ کا طریق سناتن دھرم کے اُصول پر ہے یا آریہ سماج کے اصول پر.سادھو.سناتن دھرم کے موافق.حضرت اقدسؑ.آریہ سماج ایک ایسا فرقہ ہے جس میں صرف کہنا ہے کرنا نہیں.سادھو.بے شک یہ لوگ گُرو کی ضرورت نہیں سمجھتے اور یہاں تک کہ دیانند کو بھی گرو کی حیثیت سے نہیں مانتے.کہتے ہیں کہ وہ ایک راہ بتا گیا ہے، اس پر چلنا چاہیے.حضرت اقدسؑ.آپ کے جوگ کے لئے بڑی بڑی مشقتیں ہیں.سادھو.جی ہاں.
حضرت اقدسؑ.اس مشقّت کے بعد کیا کوئی ایسی قوت اور طاقت پیدا ہو جاتی ہے جس سے اس پریم کا پتا لگ جاوے جو اس ریاضت کرنے والے کو خدا کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ محبت کا پتا اور وجود اس وقت تک نہیں ملتا جب تک کہ دونوں طرف سے کامل محبت کا اظہار نہ ہو.اِدھر سے محبت کے جوش میں ہر قسم کے دکھ اور تکلیف کو برداشت کرنے کے لئے طیار ہو اور اُدھر سے یعنی پرمیشر کی طرف سے ایسا پرکاش (روشنی یا نور) اس کو ملے کہ وہ عام طور پر لوگوں میں متمیز ہو جاوے.سادھو.ہاں کچھ بل اور طاقت آہی جاتا ہے.حضرت اقدسؑ.بھلا کوئی ایسی طاقت اور بل کی بات آپ سنائیں جو آپ کی سنی ہوئی نہ ہو بلکہ دیکھی ہوئی ہو.یعنی آپ کے گرو میں یا ان کے گرو میں.کیونکہ بات یہ ہے کہ سنی ہوئی بات کچھ ایسی مؤثر نہیں ہوتی خواہ وہ کتنی ہی صحیح کیوں نہ ہو قصے کہانی کے ذیل میں سمجھی جاتی ہے.جیسے مثلاً کوئی کہے کہ ایک دیش ہے، وہاں آدمی اڑا کرتے ہیں.اب ہم کو اس کے ماننے میں ضرور تامل ہوگا کیونکہ ہم نے نہ تو ایسے اُڑتے دیکھے ہیں اور نہ خود اُڑے ہیں.پس قوت ایمان اور یقین کے بڑھانے کے لئے سنی سنائی باتیں فائدہ نہیں پہنچاتی ہیں بلکہ تازہ بتازہ جو سامنے دیکھی جاویں اور اس سے بھی بڑھ کر وہ جو خود انسان کی اپنی حالت پر وارد ہوں.پس میرے اس سوال سے یہ غرض ہے کہ آپ کوئی ایسی بات بتلائیں جو اس ریاضت کرنے والوں میں آپ نے دیکھی ہوں یا سنی ہوں.سادھو.ہاں ہمارے جو گرو تھے ان میں بعض بعض باتیں ایسی تھیں جو دوسرے کے من کی بات بوجھ لیتے تھے اور پھر جو منہ سے کہہ دیتے تھے ہو جاتا تھا اور جو اُن کے گرو تھے ان میں بھی بہت سی باتیں ایسی ہوتی تھیں مگر ان کو دیکھا نہیں؛ تاہم دیکھنے کے برابر ہے، کیونکہ ان کو مرے کوئی اَسّی برس کے قریب ہوئے اور ان کے دیکھنے والے ابھی موجود ہیں.حضرت اقدسؑ.آپ نے بھی کوئی ریاضتیں کی تھیں؟ سادھو.جی ہاں.میں نے بھی کی ہیں.حضرت اقدس.کیا کِیا؟ سادھو.پہلے چلّہ کشی کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آٹھ مہینے کا ایک ہی چلّہ تھا.
حضرت اقدسؑ.اس میں کیا کھاتے تھے؟ سادھو.پہلے چاولوں کاآٹا کھایا کرتے تھے.پھر صرف پانی جو پکا کر رکھا ہوا تھا یعنی ایک گاگر کا نصف جب رہ جاوے تو وہ رکھ لیا کرتے تھے اور اس میں سے سیر کچا صبح کو پی لیا کرتے تھے اور اسی وقت پیشاب کر لیا کرتے تھے اور پھر کچھ نہیں.حضرت اقدسؑ.کیااس میں لوہا وغیرہ تو نہ ہوتا تھا؟ سادھو.نہیں.حضرت اقدسؑ.پھر کیا اس ریاضت کی حالت میں آپ کو کچھ عجیب و غریب نظارے نظر آئے؟ سادھو.ہاں کبھی روشنی نظر آتی تھی جو اندر ہو جاتی تھی اور دور دور سے آتے جاتے آدمی نظر آجاتے تھے.(اس کے بعد چند منٹ خاموشی رہی.پھر اس مہر سکوت کو سادھو صاحب نے اپنے اس ایک سوال سے توڑا) (ایڈیٹر) سادھو.کیا آپ پرمیشر کو اکار مانتے ہیں یا نرا کار؟ (حضرت مولوی نور الدین صاحب نے اس موقع پر بطور تشریح عرض کیا کہ مورتی کے قابل یا ایسا خدا کہ مورتی کی ضرورت نہ ہو) اسلام کا خدا حضرت اقدسؑ.ہم جس خدا کو مانتے ہیں اس کی عبادت اور پرستش کے لئے نہ تو ان مشقتوں اور ریاضتوں کی ضرورت ہے اور نہ کسی مورتی کی حاجت ہے.اور ہمارے مذہب میں خدا تعالیٰ کو حاصل کرنے اوراس کی قدرت نمائیوں کے نظارے دیکھنے کے لئے ایسی تکالیف کے برداشت کرنے کی کچھ بھی حاجت نہیں بلکہ وہ اپنے سچے پریمی بھگتوں کو آسان طریق سے جو ہم نے خود تجربہ کرکے دیکھ لیا ہے بہت جلد ملتا ہے.انسان اگر اس کی طرف ایک قدم اٹھاتا ہے تو وہ دو قدم اٹھاتا ہے.انسان اگر تیز چلتا ہے تو وہ دوڑ کر اس کے ہردے میں پرکاش کرتا ہے.
اللہ تعالیٰ کی حالت غیب میں رہنے کی حکمت میرے نزدیک مورتی بنانے والوں نے خدا تعالیٰ کی اس حکمت اور راز کو نہیں سمجھا جو اس نے اپنے آپ کو بظاہر ایک حالت غیب میں رکھا ہے.خدا تعالیٰ کا غیب میں ہی ہونا انسان کے لئے تمام تلاش اور جستجو اور کل تحقیقاتوں کی راہوں کو کھولتا ہے.جس قدر علوم اور معارف انسان پر کھلے ہیں وہ گو موجود تھے اور ہیں لیکن ایک ایک وقت میں وہ غیب میں تھے.انسان کی سعی اور کوشش کی قوت نے اپنی چمکار دکھائی اور گوہر مقصود کو پا لیا.جس طرح پر ایک عاشق صادق ہوتا ہے.اس کے محبوب اور معشوق کی غیر حاضری اورآنکھوں سے بظاہر دور ہونا اس کی محبت میں کچھ فرق نہیں ڈالتا بلکہ وہ ظاہری ہجر اپنے اندر ایک قسم کی سوزش پیدا کر کے اس پریم بھاؤ کو اور بھی ترقی دیتا ہے.اسی طرح پر مورتی لے کر خدا کو تلاش کرنے والا کب سچی اور حقیقی محبت کا دعویدار بن سکتا ہے جبکہ مورتی کے بدوں اس کی توجہ کامل طور پر اس پاک اور کامل حسن ہستی کی طرف نہیں پڑ سکتی.انسان اپنی محبت کا خود امتحان کرے.اگر اس کو اس سوختہ دل عاشق کی طرح چلتے پھرتے، بیٹھتے اٹھتے غرض ہر حالت میں بیداری کی ہو یا خواب کی، اپنے محبوب کا ہی چہرہ نظر آتا ہے اور کامل توجہ اسی طرف ہے تو سمجھ لے کہ واقعی مجھے خدا تعالیٰ سے ایک عشق ہے اور ضرور ضرور خدا تعالیٰ کا پر کاش اور پریم میرے اندر موجود ہے لیکن اگر درمیانی امور اور خارجی بندھن اور رکاوٹیں اس کی توجہ کو پھرا سکتی ہیں اور ایک لحظہ کے لئے بھی وہ خیال اس کے دل سے نکل سکتا ہے تو میں سچ کہتا ہوں کہ وہ خدا تعالیٰ کا عاشق نہیں اور اس سے محبت نہیں کرتا اور اسی لئے وہ روشنی اور نور جو سچے عاشقوں کو ملتا ہے اسے نہیں ملتا.یہی وہ جگہ ہے جہاں آکر اکثر لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے اور خدا کا انکار کر بیٹھے ہیں.نادانوں نے اپنی محبت کا امتحان نہیں کیا اور اس کا وزن کئے بدوں ہی خدا پربد ظن ہو گئے ہیں.پس میرے خیال میں خدا تعالیٰ کا غیب میں رہنا انسان کی سعادت اور رشد کو ترقی دینے کی خاطر ہے اور اس کی روحانی قوتوں کو صاف کرکے جلا دینے کے لئے تاکہ وہ نور اس میں پرکاش ہو.ہم جو بار بار اشتہار دیتے ہیں اور لوگوں کو تجربہ کے لئے بلاتے ہیں.بعض لوگ ہم کو دوکان دار کہتے
ہیں.کوئی کچھ بولتا ہے کوئی کچھ.غرض ان بھانت بھانت کی بولیوں کو سن کر جوہر ملک میں جو اس دنیا پر آباد ہے یورپ،امریکہ وغیرہ میں اشتہار دیتے ہیں اس کی غرض کیا ہے.ہماری غرض ہماری غرض بجز اس کے اور کچھ نہیں تاکہ لوگوں کو اس خدا کی طرف رہنمائی کریں جسے ہم نے خود دیکھا ہے.سنی سنائی بات اور قصہ کے رنگ میں ہم خدا کو دکھانا نہیں چاہتے بلکہ ہم اپنی ذات اور اپنے وجود کو پیش کرکے دنیا کو خدا تعالیٰ کا وجود منوانا چاہتے ہیں.یہ ایک سیدھی بات ہے.خدا تعالیٰ کی طرف جس قدر کوئی قدم اٹھاتا ہے خدا تعالیٰ اس سے زیادہ سُرعت اور تیزی کے ساتھ اس کی طرف آتا ہے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایک معزز آدمی کا منظور نظر عزیز اور واجب التعظیم سمجھا جاتا ہے تو کیا خدا تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے والا اپنے اندر ان نشانات میں سے کچھ بھی حصہ نہ لے گا جو خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور بے انتہا طاقتوں کا نمونہ ہوں.مقربانِ بارگاہِ الٰہی کا مقام یہ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی غیرت کبھی تقاضا نہیں کرتی کہ اس کو ایسی حالت میں چھوڑے کہ وہ ذلیل ہو کر پیسا جاوے.نہیں بلکہ جیسے وہ خود وحدہٗ لا شریک ہے وہ اپنے اس بندہ کو بھی ایک فرد اور وحدہٗ لاشریک بنادیتا ہے.دنیا کے تختہ پر کوئی انسان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.ہر طرف سے اس پر حملے ہوتے ہیں اور ہر حملہ کرنے والا اس کی طاقت کے اندازہ سے بے خبر ہو کر جانتا ہے کہ میں اسے تباہ کر ڈالوں گا لیکن آخر اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا بچ نکلنا انسانی طاقت سے باہر کسی قوت کا کام ہے کیونکہ اگر اسے پہلے سے یہ علم ہوتا تو وہ حملہ بھی نہ کرتا.پس وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے حضور ایک تقرب حاصل کرتے ہیں اور دنیا میں اس کے وجود اور ہستی پر ایک نشان ہوتے ہیں.بظاہر اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ہر ایک مخالف اپنے خیال میں یہ سمجھتا ہے کہ میرے مقابلہ میں یہ بچ نہیں سکتا کیونکہ ہر قسم کی تدبیر اور کوشش کے نتائج اسے یہیں تک پہنچاتے ہیں لیکن جب وہ اس زد میں سے ایک عزت اور احترام کے ساتھ اور سلامتی سے نکلتا تھا تو ایک دم کے لئے تو اسے حیران ہونا پڑتا ہے کہ اگر انسانی طاقت کا ہی کام تھا تو اس کا بچنا محال تھا لیکن اب اس کا صحیح سلامت رہنا انسان نہیں بلکہ خدا کا کام ہے.
پس اس سے معلوم ہو اکہ مقربانِ بارگاہِ الٰہی پر جو مخالفانہ حملے ہوتے ہیں وہ کیوں ہوتے ہیں؟ معرفت اور گیان کے کوچہ سے بے خبر لوگ ایسی مخالفتوں کو ایک ذلت سمجھتے ہیں مگر ان کو کیا خبر ہوتی ہے کہ اس ذلت میں ان کے لئے ایک عزت اور امتیاز نکلتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجود اور ہستی پر ایک نشان ہوتا ہے.اسی لئے یہ وجود آیات اللہ کہلاتے ہیں.غرض ہم جو اشتہار دے دے کر لوگوں کو بلاتے ہیں تو ہماری یہی آرزو ہے کہ ان کو اس خدا کا پتا دیں جسے ہم نے پایا اور دیکھا ہے اور وہ اقرب راہ بتلائیں جس سے انسان جلد باخدا ہو جاتا ہے.پس ہمارے خیال میں قصہ کہانی سے کوئی معرفت اور گیان ترقی نہیں پاسکتا جب تک کہ خود عملی حالت سے انسان نہ دیکھے اور یہ بدوں اس راہ کے جو ہماری راہ ہے میسر نہیں اور اس راہ کے لئے ایسی صعوبتوں اور مشقتوں کی ضرورت نہیں.یہاں دل بکار ہے.خدا تعالیٰ کی نگاہ دل پر پڑتی ہے اور جس دل میں محبت اور عشق ہو اس کو مورتی سے کیا غرض؟ مورتی پوجا سے انسان کبھی صحیح اور یقینی نتائج پر پہنچ نہیں سکتا.خدا تعالیٰ اخلاص و محبت کو دیکھتا ہے خدا تعالیٰ کی نگاہ انسانِ مخلص کے دل کے ایک نقطہ پر ہوتی ہے جسے وہ دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اس کی خاطر وہ خوشئِ دل سے ہر صعوبت و مکروہ کو برداشت کر لے گا.یہ ضرور نہیں کہ کوئی بڑی بڑی مشقتیں کرے اور دائم حاضر باش رہے.ہم دیکھتے ہیں کہ خاکروب ہمارے مکان میں آکر بڑی تکلیف اٹھاتا ہے اور جو کام وہ کرتا ہے ہمارا ایک بڑا معزز، مخلص دوست وہ کام نہیں کر سکتا تو کیا ہم اپنے وفادار احباب کو بے قدر سمجھیں اور خاکروب کو معزز و مکرم خیال کریں.بعض ہمارے ایسے بھی احباب ہیں جو مدتوں کے بعد تشریف لاتے ہیں اور انہیں ہر وقت ہمارے پاس بیٹھنا میسر نہیں آتا، مگر ہم خوب جانتے ہیں کہ ان کے دلوں کی بناوٹ ایسی ہے اور وہ اخلاص و مودّت سے ایسے خمیر کئے گئے ہیں کہ ایک وقت ہمارے بڑے بڑے کام آسکتے ہیں.نظام قدرت میں بھی ہم ایسا ہی دیکھتے ہیں کہ جتنا شرف بڑھ جاتا ہے، محنت اور کام ہلکا ہو جاتا ہے.ایک مذکوری کو دیکھ لو.انبار پروانوں کا اسے دیا جاتا ہے اور ایک ہفتہ کے اندر حکم ہے کہ تعمیل کرکے حاضر ہو.برسات ہو،
دھوپ ہو، جاڑا ہو، دیہات کے راستے خراب ہوں کوئی عذر سنا نہیں جاتا اور تنخواہ پوچھو تو پانچ روپے.اور حکام بالا دست کا معاملہ اس کے بالکل بر خلاف ہے.رہبانیت معرفتِ تامہ کا ذریعہ نہیں ہے اس قانون سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قانون بھی اپنے برگزیدوں سے ایسا ہی ہے.خطرناک ریاضتیں کرنا اور اعضاء اور قویٰ کو مجاہدات میں بے کار کر دینا محض نکمی بات اور لا حاصل ہے.اسی لئے ہمارے ہادی کامل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: لَا رَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ یعنی جب انسان کو صفت اسلام (گردن نہادن برحکم خدا و مواقفت تامہ بمقادیر الٰہیہ) میسر آجائے، تو پھر رہبانیت یعنی ایسے مجاہدوں اور ریاضتوں کی کوئی ضرورت نہیں.(اس کے بعد سادھو صاحب تشریف لے گئے اور کھانا رکھا گیا.حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ) یہی وجہ ہے کہ اسلام نے رہبانیت کو نہیں رکھا.اس لئے کہ وہ معرفت تامہ کا ذریعہ نہیں ہے.۷۰؎ ۱۰؍ اگست۱۸۹۹ء سے قبل دنیا کی خوشامد حضرت مولوی عبدالکریم صاحب تحریر فرماتے ہیں میں نے بارہا اپنے محبوب مرشد سید الاولیا عیسیٰ موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے سنا ہے.آپ فرماتے ہیں.ہم اس پر قادر ہیں کہ ایسی تقریریں کریں اور ایسی تحریریں شائع کریں کہ لوگوں کی مصطلح صُلح کُل کے ڈھانچہ میں ڈھلی ہوئی ہوں اور سب قومیں علی اختلاف المشارب خوش ہوجاویں اور حکام و رعایا میں سے کسی کو بھی کبھی اُن پر نکتہ چینی کا موقع نہ مل سکے مگر اس خسیس دنیا کو خوش کرکے اپنے خدا کی دھتکار کی طاقت ہم کہاں رکھ سکتے ہیں.۷۱؎
ہفتہ مختتمہ ۱۱؍اگست۱۸۹۹ء بعض لوگ حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا کرتے تھے.جس کے جواب میں ان کو تحریر کیا جاتا تھا کہ دعا کی گئی، مگر بعد ازاں وہ دوبارہ لکھ دیا کرتے کہ ’’کچھ فائدہ نہیں ہوا.اور دوحال سے خالی نہیں.یا تو آپ نے دعا نہیں کی یا اگر کی ہے تو توجہ سے نہیں کی.‘‘ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے ایک دن عرض کی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.دعا کی حقیقت سخت ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ دعا کے مضمون پر پھر قلم اٹھایا جائے اور پہلے مضمون کافی ثابت نہیں ہوئے.دعا نہایت نازک امر ہے اس کے لئے شرط ہے کہ مستدعی اور داعی میں ایسا رابطہ مستحکم ہو جائے کہ اس کا درد اس کا درد ہو جائے اور اس کی خوشی اس کی خوشی ہو جائے.جس طرح شیر خوار بچہ کا رونا ماں کو بے اختیار کر دیتا اور اس کی چھاتیوں میں دودھ اتر آتا ہے ویسے ہی مستدعی کی حالت زار اور استغاثہ پر داعی سراسر رقّت اور عقد ہمت بن جائے.توجہ اور رقّت بھی خدا تعالیٰ کے ہاں سے نازل ہوتی ہے فرمایا.اصل بات یہ ہے کہ یہ سب امور خدا تعالیٰ کی موہبت ہیں اکتساب کو ان میں دخل نہیں.توجہ اور رقّت بھی خدا کے ہاں سے نازل ہوتی ہے جب خدا چاہتا ہے کہ کسی کے لئے کامیابی کی راہ نکال دے.مگر سلسلہ اسباب میں ضروری ہوتا ہے کہ داعی کو کوئی محرک شدید جنبش دے سکنے والا ہو.اس کی تدبیر بجز اس کے نہیں کہ مستدعی اپنی حالت ایسی بنائے کہ اضطراراً داعی کو اس کی طرف توجہ ہو جائے.دعا اور خدمت دین فرمایا کہ جو حالت میری توجہ کو جذب کرتی اور جسے دیکھ کر میں دعا کے لئے اپنے اندر تحریک پاتا ہوں.وہ ایک ہی بات ہے کہ میں کسی
شخص کو معلوم کرلوں کہ یہ خدمت دین کے سزاوار ہے اور اس کا وجود خدا کے لئے، خدا کے رسول کے لئے، خدا کی کتاب کے لئے اور خدا کے بندوں کے لئے نافع ہے.ایسے شخص کو جو درد و الم پہنچے وہ درحقیقت مجھے پہنچتا ہے.فرمایا.ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے دلوں میں خدمت دین کی نیت باندھ لیں جس طرز اور رنگ کی خدمت جس سے بن پڑے.پھر فرمایا.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک قدر و منزلت اس شخص کی ہے جو دین کا خادم اور نَافع النَّاس ہے.ورنہ وہ کچھ پروا نہیں کرتا کہ لوگ کتوں اور بھیڑوں کی موت مَر جائیں.خدا تعالیٰ اور بندہ کا رابطہ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ دو دوستوں میں دوستی اسی صورت میں نبھ سکتی ہے کہ کبھی وہ اس کی مان لے اور کبھی یہ اس کی.اگر ایک سدا اپنی ہی منوانے کے درپے ہو جائے تو معاملہ بگڑ جاتا ہے.یہی حال خدا اور بندہ کے رابطہ کا ہونا چاہیے.کبھی اللہ تعالیٰ اس کی سن لے اور اس پر فضل کے دروازے کھول دے اور کبھی بندہ اس کی قضاء و قدر پر راضی ہو جائے.حقیقت یہ ہے کہ حق خدا تعالیٰ کا ہی ہے کہ وہ بندوں پر امتحان ڈالے اور یہ امتحان اس کی طرف سے انسان کے فوائد کے لئے ہوتے ہیں.اس کا قانون قدرت ایسا ہی واقع ہوا ہے کہ امتحان کے بعد جو اچھے نکلیں انہیں اپنے فضلوں کا وارث بناتا ہے.دنیاوی امور میں کھویا جانا خسارتِ آخرت کا موجب ہوتا ہے ایک نوجوان شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر دنیاوی مصائب کی کہانی شروع کی اور اپنے طرح طرح کے ہم و غم بیان کئے.حضرت مسیح موعودؑ نے بہت سمجھایا اور فرمایا کہ ہمہ تن ان امور میں کھویا جانا خسارت آخرت کا موجب ہوتا ہے.اس قدر جزع فزع مومن کو نہیں چاہیے.
آخر وہ زور زور سے رونے لگا.جس پر آپ نے سخت ناراضگی اور ناپسندیدگی کا اظہار فرما کر کہا کہ بس کرو.میں ایسے رونے کو جہنم کا موجب جانتا ہوں.میرے نزدیک جو آنسو دنیا کے ہم و غم میں گرائے جاتے ہیں وہ آگ ہیں جو بہانے والے کو ہی جلا دیتے ہیں.میرا دل سخت ہو جاتا ہے ایسے شخص کے حال کو دیکھ کر جو ایسے جیفہ کی تڑپ میں کڑھتا ہے.مثالی توکّل کی کیفیت ایک دن مجلس مسیح موعودؑ میں توکّل کی بات چل پڑی، جس پر آپ نے فرمایا.میں اپنے قلب کی عجیب کیفیت پاتا ہوں جیسے سخت حبس ہوتا اور گرمی کمال شدت کو پہنچ جاتی ہے لوگ وثوق سے امید کرتے ہیں کہ اب بارش ہوگی.ایسا ہی جب اپنی صندوقچی کو خالی دیکھتا ہوں تو مجھے خدا کے فضل پر یقین واثق ہوتا ہے کہ اب یہ بھرے گی اور ایسا ہی ہوتا ہے.اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر فرمایا کہ جب میرا کیسہ خالی ہوتا ہے جو ذوق و سرور خدا تعالیٰ پر توکل کا اس وقت مجھے حاصل ہوتا ہے میں اس کی کیفیت بیان نہیں کرسکتا اور وہ حالت بہت ہی زیادہ راحت بخش اور طمانیت انگیز ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کہ کیسہ بھرا ہوا ہو.اور فرمایا.ان دنوں میں جبکہ دنیوی مقدمات کی وجہ سے والد صاحب اور بھائی صاحب طرح طرح کے ہموم و غموم میں مبتلا رہتے تھے وہ بسا اوقات میری حالت دیکھ کر رشک کھاتے اور فرماتے تھے کہ یہ بڑا ہی خوش نصیب آدمی ہے.اس کے نزدیک کوئی غم نہیں آتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین رضی اللہ عنہما کا مقام ایک دفعہ ایک دوست نے جو محبت مسیح موعود ؑ میں فناشدہ ہیں آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ کیوں نہ ہم آپؑ کو مدارج میں شیخین سے افضل سمجھا کریں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب قریب مانیں؟ اللہ اللہ! اس بات کو سن کر حضرت اقدس علیہ السلام کا رنگ اڑ گیا اور آپ کے سراپا پر عجیب اضطراب وبیتابی مستولی ہو گئی.میں خدائے غیور قدوس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس گھڑی نے میرا ایمان حضور اقدس کی نسبت اور بھی زیادہ کر دیا.آپ نے برابر چھ گھنٹے کامل تقریر فرمائی بولتے وقت میں نے گھڑی دیکھی تھی اور جب آپ نے تقریر ختم کی.جب بھی دیکھی.
پورے چھ ہوئے.ایک منٹ کا فرق بھی نہ تھا.اتنی مدت تک ایک مضمون کو بیان کرنا اور مسلسل بیان کرنا ایک خرق عادت تھا.اس سارے مضمون میں آپ نے رسول کریم علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیمات کے محامد و فضائل اور اپنی غلامی اور کفش برداری کی نسبت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے اور جناب شیخین علیھما السلام کے فضائل مذکور فرمائے اور فرمایا.میرے لئے یہ کافی فخر ہے کہ میں ان لوگوں کا مداح اور خاکِ پا ہوں.جو جزئی فضیلت خدا تعالیٰ نے انہیں بخشی ہے وہ قیامت تک کوئی اور شخص پا نہیں سکتا.کب دوبارہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں پیدا ہوں اور پھر کسی کو ایسی خدمت کا موقع ملے جو جناب شیخین علیہما السلام کو ملا.۷۲؎ ۱۷؍اگست۱۸۹۹ء چند روز ہوئے بریلی سے ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں لکھا.کیا آپ وہی مسیح موعود ہیں جس کی نسبت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے احادیث میں خبر دی ہے؟ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر آپ اس کا جواب لکھیں.میں نے معمولاً رسالہ ’’تریاق القلوب‘‘ سے دو ایک ایسے فقرے جو اس کا کافی جواب ہوسکتے تھے لکھ دئے.وہ شخص اس پر قانع نہ ہوا اور پھر مجھے مخاطب کرکے لکھا کہ میں چاہتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحبؑ خود اپنے قلم سے قسمیہ لکھیں کہ آیا وہ وہی مسیح موعود ہیں جس کا ذکر احادیث اور قرآن شریف میں ہے؟ میں نے شام کی نماز کے بعد دوات قلم اور کاغذ حضرت کے آگے رکھ دیا اور عرض کیا کہ ایک شخص ایسا لکھتا ہے.حضرت نے فوراً کاغذ ہاتھ میں لیا اور یہ چند سطریں لکھ دیں.میں نے پہلے بھی اس اقرار مفصّل ذیل کو اپنی کتابوں میں قسم کے ساتھ لوگوں پر ظاہر کیا ہے اور اب بھی اس پرچہ میں اس خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر لکھتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میں وہی مسیح موعود ہوں جس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان احادیث صحیحہ میں دی ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور دوسری صحاح میں درج ہیں.وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًا.الراقم مرزا غلام احمد عفااللہ عنہ واَیَّد ۱۷؍ اگست ۱۸۹۹ء
اس ذکر سے میری دو غرضیں ہیں.ایک یہ کہ اپنی جماعت کا ایمان بڑھے اور انہیں وہی ذوق اور سرور حاصل ہو جو یہاں کے خوش قسمت حاضرین کو اس گھڑی حاصل ہوا اور انہوں نے سچے دل سے اعتراف کیا کہ ان کو نیا ایمان ملا ہے اور دوسرے یہ کہ منکرین اور بدظن اس علیٰ بصیرۃ قَسم میں ٹھنڈے دل سے غور کریں اور سوچیں کہ متعمّد کذّاب اور مفتری مُـخْتَلِقْ کی یہ شان اور اسے یہ جرأت ہو سکتی ہے کہ ذوالجلال خدا کی ایسی اور اس طرح اور ایسے مجمع میں قسم کھائے.اللہ اکبر! اللہ اکبر!! اللہ اکبر!!! ۷۳؎ ۲۱؍اکتوبر ۱۸۹۹ء لالہ کیشو داس صاحب تحصیلدار بٹالہ اتفاق حسنہ سے قادیان میں وارد ہوئے اور حضرت اقدسؑ کی ملاقات کے لئے تشریف لائے اور عرض کیا کہ مجھے فقراء سے ملنے کا کمال شوق ہے.اور اسی شوق کی وجہ سے آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوا.حضرت اقدسؑ نے فرمایا.مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض.زندہ خدا پر زندہ ایمان پیدا کرنا بے شک اگر آپ کے دل میں اہلِ دل لوگوں کے ساتھ محبت نہ ہوتی تو آپ ہمارے پاس کیوں آتے اور ایک دنیا دار کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ ایک دنیا سے الگ گوشہ نشین کے پاس جاوے.مناسبت ایک ضروری شے ہے اور اصل تو یہ ہے کہ جب کہ انسان ایک فنا ہونے والی ہستی ہے اور موت کا کچھ بھی پتا نہیں کہ کب آجاوے اور عمر ایک ناپائیدار شے ہے پھر کس قدر ضروری ہے کہ اپنی اصلاح اور فلاح کی فکر میں لگ جاوے مگر میں دیکھتا ہوں کہ دنیا اپنی دھن میں ایسی لگی ہے کہ اس کو آخرت کا کچھ فکر اور خیال ہی نہیں.خدا تعالیٰ سے ایسے لا پروا ہو رہے ہیں گویا وہ کوئی ہستی ہی نہیں.ایسی حالت میں جبکہ دنیا کی ایمانی حالت اس حد تک کمزور ہو چکی ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے تاکہ میں زندہ ایمان زندہ خدا پر پیدا کرنے کی راہ بتلاؤں.جیسا کہ خدا تعالیٰ کا عام قانون ہے.بہت لوگوں نے
جو سعادت اور رُشد سے حصہ نہ رکھتے تھے.خدا ترسی اور انصاف سے بے بہرہ تھے.مجھے جھوٹا اور مفتری کہا اور ہر پہلو سے مجھے دکھ دینے اور تکلیف پہنچانے کی کوشش کی.کفر کے فتوے دے کر مسلمانوں کو بدظن کرنا چاہا اور خلاف واقعہ امور کو گورنمنٹ کے سامنے پیش کر کے اس کو بھڑکانے کی کوشش کی.جھوٹے مقدمات بنائے.گالیاں دیں.قتل کرنے کے منصوبے کئے.غرض کون سا اَمر تھا جو اُنھوں نے نہیں کیا مگر میرا خدا ہر وقت میرے ساتھ ہے.اُس نے مجھے اُن کی ہر شرارت سے پہلے اُن کے فتنہ اور اس کے انجام کی خبر دی اور آخر وہی ہوا جو اُس نے ایک عرصہ پہلے مجھے بتلایا تھا.اور کچھ وہ لوگ بھی ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے سعادت، خدا ترسی اور نور ایمان سے حصّہ دیا ہے جنھوں نے مجھے پہچانا اور اُس نُور کے لینے کے واسطے میرے گرد جمع ہوگئے جو مجھے خدا تعالیٰ نے اپنی بصیرت اور معرفت بخشی ہے.ان لوگوں میں بڑے بڑے عالم ہیں.گریجویٹ ہیں.وکیل اور ڈاکٹر ہیں.معزز عہدہ داران گورنمنٹ ہیں.تاجر اور زمیندار ہیں اور عام لوگ بھی ہیں.افسوس تو یہ ہے کہ نااہل مخالف اتنا بھی تو نہیں کرتے کہ ایک حق بات جو ہم پیش کرتے ہیں اس کو آرام سے سن ہی لیں.اُن میں ایسے اخلاق فاضلہ کہاں؟ ورنہ حق پرستی کا تقاضا تو یہ ہے مرد باید کہ گیرد اندر گوش گر نوشت ست پند بر دیوار # مذہب حق اور توحید اس زمانہ میں مذہب کے نام سے بڑی نفرت ظاہر کی جاتی ہے اور مذہب حقّہ کی طرف آنا تو گویا موت کے منہ میں جانا ہے.مذہب حق وہ ہے جس پر باطنی شریعت بھی شہادت دے اُٹھے.مثلاً ہم اسلام کے اصول توحید کو پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی حقانی تعلیم ہے کیونکہ انسان کی فطرت میں توحید کی تعلیم ہے اور نظارۂ قدرت بھی اس پر شہادت دیتا ہے.خدا تعالیٰ نے مخلوق کو متفرق پیدا کرکے وحدت ہی کی طرف کھینچا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وحدت ہی منظور تھی.پانی کا ایک قطرہ اگر چھوڑیں تو وہ گول ہوگا.چاند، سورج سب اجرام فلکی گول ہیں اور کرویّت وحدت کو چاہتی ہے.
تثلیث ہم اس وقت بے انتہا خداؤں کا ذکر چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ یہ تو ہے ہی ایک بیہودہ اور بے معنی اعتقاد اور بے شمار خدا ماننے سے امان اُٹھ جاتا ہے مگر ہم تثلیث کا ذکر کرتے ہیں.ہم نے جیسا کہ قدرت کے نظائر سے ثابت کیا ہے کہ خدا ایک ہی ہے.اس طرح پر اگر خدا معاذ اللہ تین ہوتے جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں تو چاہیے تھا کہ پانی، آگ کے شعلے اور زمین آسمان کے اجرام سب کے سب سہ گوشہ ہوتے تاکہ تثلیث پر گواہی ہوتی.اور نہ انسانی نُور قلب کبھی تثلیث پر گواہی دیتا ہے.پادریوں سے پوچھا ہے کہ جہاں انجیل نہیں گئی وہاں تثلیث کا سوال ہوگا یا توحید کا تو انھوں نے صاف اقرار کیا ہے کہ توحید کا، بلکہ ڈاکٹر فنڈر نے اپنی تصنیف میں یہ اقرار درج کر دیا ہے.اب ایسی کھلی شہادت کے ہوتے پھر مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ تثلیث کا عقیدہ کیوں پیش کر دیا جاتا ہے.پھر یہ سہ گوشہ خدا بھی عجیب ہیں.ہر ایک کے کام الگ الگ ہیں.گویا ہر ایک بجائے خود ناقص اور ناتمام ہے اور ایک دوسرے کا متمم ہے.مسیح کی الُوہیّت اور مسیح جس کو خدا بنایا جاتا ہےاس کا تو کچھ پوچھو ہی نہیں.ساری عمر پکڑ دھکڑ میں گزری اور ابن آدم کو سر دھرنے کو جگہ ہی نہ ملی.اخلاق کا کوئی کامل نمونہ ہی موجود نہیں.تعلیم ایسی ادھوری اور غیر مکتفی کہ اس پر عمل کرکے انسان بہت نیچے جا گرتا ہے.وہ کسی دوسرے کو اقتدار اور عزت کیا دے سکتا ہے جو اپنی بے بسی کا خود شاکی ہے.اوروں کی دعاؤں کو کیا سن سکتا ہے جس کی اپنی ساری رات کی گریہ و زاری اکارت گئی اور چلاّچلّا کر ایلی ایلی لما سبقتانی بھی کہا مگر شنوائی ہی نہ ہوئی اور پھر اس پر طُرّہ یہ کہ آخر یہودیوں نے پکڑ کر صلیب پر لٹکا دیا اور اپنے اعتقاد کے موافق ملعون قرار دیا.خود عیسائیوں نے لعنتی مانا مگر یہ کہہ دیا کہ ہمارے لئے لعنتی ہوا حالانکہ لعنت ایک ایسی چیز ہے کہ انسان اس سے سیاہ باطن ہو جاتا ہے اور وہ خدا سے دور اور خدا اس سے دور ہو جاتا ہے.گویا خدا سے اس کو کچھ تعلق ہی نہیں رہتا اس لئے ملعون شیطان کا نام بھی ہے.اب اس لعنت کو مان کر اور مسیح کو ملعون قرار دے کر عیسائیوں کے پاس کیا رہ جاتا ہے.سچ تو یہ ہے کہ ’’لعنت نال ککھ نئیں رہندا.‘‘ گلے پڑا ڈھول ہے جو یہ لوگ بجا رہے ہیں.غرض ان لوگوں کے
عقائد کا کہاں تک ذکر کیا جاوے.حقیقت وہی ہے جو اسلام لے کر آیا اور خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا کہ میں اس نور کو جو اسلام میں ملتا ہے ان کو جو حقیقت کے جویاں ہوں دکھاؤں.سچ یہی ہے کہ خدا ہے اور ایک ہے اور میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر انجیل اور قرآن کریم اور تمام صحف انبیاء بھی دنیا میں نہ ہوتے تو بھی خدا تعالیٰ کی توحید ثابت تھی کیونکہ اس کے نقوش فطرت انسانی میں موجود ہیں.مسیح کی ابنیت خدا کے لئے بیٹا تجویز کرنا گویا خدا تعالیٰ کی موت کا یقین کرنا ہے کیونکہ بیٹا تو اس لئے ہوتا ہے کہ وہ یاد گار ہو.اب اگر مسیح خدا کا بیٹا ہے تو پھر سوال ہوگا کہ کیا خدا کو مَرنا ہے؟ مختصر یہ ہے کہ عیسائیوں نے اپنے عقائد میں نہ خدا کی عظمت کا لحاظ رکھا اور نہ قوائے انسان کی قدر کی ہے اور ایسی باتوں کو مان رکھا ہے کہ جن کے ساتھ آسمانی روشنی کی تائید نہیں ہے.ایک بھی عیسائی ایسا نظر نہ آیا جو خوارق دکھا سکے اور اپنے ایمان کو ان نشانات سے ثابت کر سکے جو مومنوں کے ہوتے ہیں.یہ فضیلت اور فخر اسلام ہی کو ہے کہ ہر زمانہ میں تائیدی نشان اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور اس زمانہ کو بھی خدا نے محروم نہیں رکھا.مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے کہ ان تائیدی نشانوں سے جو اسلام کا خاصّہ ہے اس زمانہ میں اسلام کی صداقت دنیا پر ظاہر کروں.مبارک وہ جو ایک سلیم دل لے کر میرے پاس حق لینے کے لئے آتا ہے اور پھر مبارک وہ جو حق دیکھ کر اس کو قبول کرتا ہے.۷۴؎
جلسۃ ۷۵؎ الوداع کی تقریب پر حضرت اقدسؑ کی تقریر بعثت کی غرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب پر سے زندہ اتر آنے اور اس حادثہ سے بچ جانے کا قرآن شریف میں صحیح اور یقینی علم دیا گیا ہے مگر افسوس ہے کہ پچھلے ہزار برس میں جہاں اسلام پر اور بہت سی آفتیں آئیں وہاں یہ مسئلہ بھی تاریکی میں پڑ گیا اور مسلمانوں میں بدقسمتی سے یہ خیال راسخ ہو گیا کہ حضرت مسیحؑ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور وہ قیامت کے قریب آسمان سے اتریں گے مگر اس چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا تا کہ میں اندرونی طور پر جو غلطیاں مسلمانوں میں پیدا ہو گئی ہیں ان کو دور کروں اور اسلام کی حقیقت دنیا پر ظاہر کروں.اور بیرونی طور پر جو اعتراضات اسلام پر کئے جاتے ہیں ان کا جواب دوں اور دوسرے مذاہب باطلہ کی حقیقت کھول کر دکھاؤں.خصوصیت کے ساتھ وہ مذہب جو صلیبی مذہب ہے یعنی عیسائی مذہب،اس کے غلط اعتقادات کا استیصال کروں جو انسان کے لئے خطرناک و مضر ہیں اور انسان کی روحانی قوتوں کے نشوونما اور ترقیوں کے لئے ایک روک ہیں.عیسیٰ ابن مریم کے متعلق اصل حقائق منجملہ ان کے ایک یہی مسئلہ ہے جو مسیح کے آسمان پر جانے کے متعلق ہے اور جس میں بدقسمتی
سے بعض مسلمان بھی ان کے شریک ہو گئے ہیں.اسی ایک مسئلے پر عیسائیت کا دارومدار ہے کیونکہ عیسائیت کی نجات کا مدار اسی صلیب پر ہے.ان کا عقیدہ ہے کہ مسیح ہمارے لئے مصلوب ہوا اور پھر وہ زندہ ہو کر آسمان پر چلا گیا، جو گویا اس کی خدائی کی دلیل ہے.جن مسلمانوں نے اپنی غلطی سے ان لوگوں کا ساتھ دیا ہے وہ یہ تو نہیں مانتے کہ مسیح صلیب پر مَر گیا مگر وہ اتنا ضرور مانتے ہیں کہ وہ آسمان پر اٹھایا گیا ہے.لیکن جو حقیقت اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھولی ہے وہ یہ ہے کہ مسیحؑ ابن مریم اپنے ہم عصر یہودیوں کے ہاتھوں سخت ستایا گیا جس طرح پر راست باز اپنے زمانہ میں نادان مخالفوں کے ہاتھوں ستائے جاتے ہیں اور آخر ان یہودیوں نے اپنی منصوبہ بازی اور شرارتوں سے یہ کوشش کی کہ کسی طرح پر ان کا خاتمہ کر دیں اوران کو مصلوب کرا دیں.بظاہر وہ اپنی ان تجاویز میں کامیاب ہوگئے کیونکہ حضرت مسیحؑ ابن مریم کو صلیب پر چڑھائے جانے کا حکم دیا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے جو اپنے راستبازوں اور ماموروں کو کبھی ضائع نہیں کرتا ان کو اس لعنت سے جو صلیب کی موت کے ساتھ وابستہ تھی بچا لیا اور ایسے اسباب پیدا کر دئیے کہ وہ اس صلیب پر سے زندہ اُتر آئے.اس امر کے ثبوت کے لئے بہت سے دلائل ہیں جو خاص انجیل ہی سے ملتے ہیں لیکن اس وقت اس کا بیان کرنا میری غرض نہیں ان واقعات کو جو صلیب کے واقعات ہیں انجیل میں پڑھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ مسیحؑ ابن مریم صلیب پر سے زندہ اُتر آئے اور پھر یہ خیال کر کے کہ اس ملک میں اُن کے بہت سے دشمن ہیں اور دشمن بھی دشمنِ جان اور جیسا کہ وہ پہلے کہہ چکے تھے کہ نبی بے عزت نہیں ہوتا مگر اپنے وطن میں.جس سے ان کی ہجرت کا پتا ملتا تھا انھوں نے ارادہ کر لیا کہ اس ملک کو چھوڑ دیں اور اپنے فرضِ رسالت کو پورا کرنے کے لیے وہ بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں نکلے اور نصیبین کی طرف سے ہوتے ہوئے افغانستان کے راستہ کشمیر میں آکر بنی اسرائیل کو جو کشمیر میں موجود تھے تبلیغ کرتے رہے اور اُن کی اصلاح کی اور آخر اُن میں ہی وفات پائی.یہ امر ہے جو مجھ پر کھولا گیا ہے.
اس مسئلہ کی اہمیت اس ایک مسئلہ سے عیسائیت کا ستون بھی ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ جب صلیب پر مسیحؑ کی موت ہی نہیں ہوئی اور وہ تین دن کے بعد زندہ ہو کر آسمان پر ہی نہیں گئے تو الوہیت اور کفّارہ کی عمارت تو بیخ و بنیاد سے گر پڑی اور مسلمانوں کا غلط خیال (جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت توہین ہوتی تھی کہ وہ زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں اور پھر نازل ہوں گے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا، پرانا نبی نہیں آسکتا جس کی نبوت پر آپؑ کی مُہر نہ ہو) بھی دور ہو گیا.اور قرآن شریف کی اصل اور پاک تعلیم سچی ثابت ہو گئی.کیونکہ قرآن شریف میں تو مسیح علیہ السلام کا صاف اقرار فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ کا موجود ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا.وفات مسیح کے مسئلہ پر زور دینے کی وجہ یہی وجہ ہے کہ ہم وفات مسیح کے مسئلہ پر زیادہ زور دیتے ہیں کیونکہ اسی موت کے ساتھ عیسائی مذہب کی بھی موت ہے.اسی غرض سے میں نے کتاب مسیح ہندوستان میں لکھنی شروع کی ہے اور اس کتاب کے بعض مطالب کی تکمیل کے لیے میں نے مناسب سمجھا ہے کہ اپنی جماعت میں سے چند آدمیوں کو بھیجوں.جو اُن علاقہ جات میں جا کر ان آثار کا پتا لاویں جن کا وہاں موجود ہونا بتایا جاتا ہے.چنانچہ اس غرض کو مدنظر رکھ کر ہم نے یہ جلسہ کیا ہے تاکہ ان دوستوں کو رخصت کرنے سے پہلے ہم سب مل کر اُن کے لیے دعائیں کریں کہ وہ خیر و عافیت کے ساتھ اس مبارک سفر کے لیے رخصت ہوں اور کامیاب ہو کر واپس آئیں.حضرت مسیح کا واقعہ صلیب کے بعد نصیبین جانا اگرچہ میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سفر جو تجویز کیا گیا ہے اگر نہ بھی کیا جاتا تو بھی خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اس قدر شواہد اور دلائل ہم کو اس امر کے لیے دے دیئے ہیں جن کو مخالف کا قلم اور زبان توڑ نہیں سکتی لیکن مومن ہمیشہ ترقیات کی خواہش کرتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ حقائق اور معارف کا بھوکا پیاسا ہوتا ہے کبھی ان سے سیر نہیں ہوتا اس لیے
ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ جس قدر ثبوت اور دلائل اور مل سکیں وہ اچھا ہے.اسی مقصد کے لیے یہ تقریب پیش آئی ہے کہ ہم اپنے دوستوں کو نصیبین کی طرف بھیجتے ہیں.جس کے متعلق ہمیں پتا ملا ہے کہ وہاں کے حاکم نے حضرت مسیح کو (جبکہ وہ اپنی ناشکرگزار قوم کے ہاتھ سے تکلیفیں اٹھا رہے ہیں) لکھا تھا کہ آپ میرے پاس چلے آئیں اور واقعہ صلیب سے بچ جانے کے بعد اس مقام پر پہنچ کر انہوں نے بدقسمت قوم کے ہاتھ سے نجات پائی.وہاں کے حاکم نے یہ بھی لکھا تھا کہ آپ میرے پاس آجائیں گے تو آپ کی خدمت کی سعادت حاصل کروں گا اور میں بیمار ہوں میرے لیے دعا بھی کریں اگرچہ یہ ایک انگریزی کتاب سے ہمیں معلوم ہوا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ روضۃ الصفا جو ایک اسلامی تاریخ ہے اس قسم کا مفہوم اس سے بھی پایا جاتا ہے.اس لیے یہ یقین ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نصیبین میں ضرور آئے اور اسی راستہ سے وہ ہندوستان کو چلے آئے ہیں.سارا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے لیکن ہمارا دل گواہی دیتا ہے کہ اس سفر میں انشاءاللہ حقیقت کھل جائے گی اور اصل معاملہ صاف ہو جائے گا.ممکن ہے کہ اس سفر میں ایسی تحریریں پیش ہو جاویں یا ایسے کتبے نکل آویں جو مسیح علیہ السلام کے اس سفر کے متعلق بعض امور پر روشنی ڈالنے والے ہوں یا حواریوں میں سے کسی کی قبر کا کوئی پتا چل جاوے یا اور اس قسم کے بعض امور نکل آویں جو ہمارے اس مقصد میں مؤیّد ثابت ہو سکیں اس لئے میں نے اپنی جماعت میں سے تین آدمیوں کو اس سفر کے لئے طیار کیا ہے.ان کے لئے ایک عربی تصنیف بھی میں کرنی چاہتا ہوں جو بطور تبلیغ کے ہو اور جہاں جہاں وہ جاویں اس کو تقسیم کرتے رہیں.اس طرح پر اس سفر سے یہ بھی فائدہ ہوگا کہ ہمارے سلسلہ کی اشاعت بھی ہوتی جاوے گی.ایک مخلص اور وفا دار جماعت اور میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لئے میں ان کو بلاتا ہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے میری طرف سے کسی امر کا اشارہ ہوتا ہے اور وہ تعمیل کے لئے طیار.
حقیقت میں کوئی قوم اور جماعت طیار نہیں ہو سکتی جب تک اس میں اپنے امام کی اطاعت اور اتباع کے واسطے اس قسم کا جوش اور اخلاص اور وفا کا مادہ نہ ہو.حضرت مسیح علیہ السلام کو جو مشکلات اور مصائب اٹھانے پڑے ان کے عوارض اور اسباب میں سے جماعت کی کمزوری اور بےدلی بھی تھی.چنانچہ جب ان کو گرفتار کیا گیا تو پطرس جیسے اعظم الحواریّین نے اپنے آقا اور مرشد کے سامنے انکار کر دیا اور نہ صرف انکار کیا بلکہ تین مرتبہ لعنت بھی بھیج دی اور اکثر ان کو چھوڑ کر بھاگ گئے.اس کے برخلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے وہ صدق و وفا کا نمونہ دکھایا جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی.انہوں نے آپ کی خاطر ہر قسم کا دکھ اٹھانا سہل سمجھا یہاں تک کہ عزیز وطن چھوڑ دیا اپنے املاک و اسباب اور احباب سے الگ ہو گئے اور بالآخر آپؐ کی خاطر جان تک دینے سے تامل اور افسوس نہیں کیا.یہی صدق اور وفا تھی جس نے ان کو آخر کار بامراد کیا.اسی طرح میں اب دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری جماعت کو بھی اس کی قدر اور مرتبہ کے موافق ایک جوش بخشا ہے اور وہ وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھاتے ہیں.جس دن سے میں نے نصیبین کی طرف ایک جماعت کے بھیجنے کا ارادہ کیا ہے ہر ایک شخص کوشش کرتا ہے کہ اس خدمت پر میں مامور کیا جاؤں اور دوسرے کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور آرزو کرتا ہے کہ اس کی جگہ اگر مجھے بھیجا جاوے تو میری بڑی ہی خوش قسمتی ہے.بہت سے احباب نے اس سفر پر جانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا.میں ان درخواستوں سے پہلے مرزا خدا بخش صاحب کو اس سفر کے واسطے منتخب کر چکا تھا اور مولوی قطب الدین اور میاں جمال الدین کو ان کے ساتھ جانے کے واسطے تجویز کر لیا تھا اس واسطے مجھے ان احباب کی درخواستوں کو واپس کر دینا پڑا.تاہم میں جانتا ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے بعہد کامل اور سچے اخلاص کے ساتھ اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کیا ہے اللہ تعالیٰ ان کی پاک نیتوں کے ثواب کو ضائع نہیں کرے گا اور وہ اپنے اخلاص کے موافق اجر پائیں گے.خدا تعالیٰ کی خاطر سفر کی عظمت دور دراز بلاد اور ممالکِ غیر کا سفر آسان امر نہیں ہے اگرچہ یہ سچ ہے کہ اس وقت سفر آسان ہو گئے ہیں.
لیکن پھر بھی یہ کس کو علم ہو سکتا ہے کہ اس سفر سے کون زندہ آئے گا.چھوٹے چھوٹے بچے اور بیویوں اور دوسرے عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر جانا کوئی سہل بات نہیں.اپنے کاروبار اور معاملات کو ابتری اور پریشانی کی حالت میں چھوڑ کر ان لوگوں نے اس سفر کو اختیار کیا ہے اور انشراح صدر سے اختیار کیا ہے.جس کے لئے میں یقین رکھتا ہوں کہ بڑا ثواب ہے.ایک تو سفر کا ثواب ہے کیونکہ یہ سفر محض خدا تعالیٰ کی عظمت اور توحید کے اظہار کے واسطے ہے.دوسرے اس سفر میں جو جو مشقتیں اور تکالیف ان لوگوں کو اٹھانی پڑیں گی ان کا ثواب بھی ہے.اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا جبکہ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ (الزلزال:۸) کے موافق وہ کسی کی ذرّہ بھر نیکی کے اجر کو بھی ضائع نہیں کرتا تو اتنا بڑا سفر جو اپنے اندر ہجرت کا نمونہ رکھتا ہے اس کا اجر کبھی ضائع ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.ہاں یہ ضروری ہے کہ صدق اور اخلاص ہو.ریا اور دوسرے اغراض شہرت و نمود کے نہ ہوں اور میں جانتا ہوں کہ بَر و بحر کے شدائد و مصائب کو برداشت کرنا اور ایک موت کا قبول کر لینا بجز صدق کے نہیں ہو سکتا.بہت سے بھائی ان کے لئے دعائیں کرتے رہیں گے اور میں بھی ان کے واسطے دعاؤں میں مصروف رہوں گا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس مقصد میں کامیاب کرے اور خیر و عافیت سے واپس لاوے اور سچ تو یہ ہے کہ ملائکہ بھی ان کے واسطے دعائیں کریں گے اور وہ ان کے ساتھ ہوں گے.جماعت کی مروّت اور ہمت اب میں یہ بھی ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ اس موقع پر ہماری جماعت نے دو قسم کی مروّت اور ہمت دکھائی ہے.ایک تو یہ گروہ ہے جنہوں نے سفر اختیار کیا ہے اور اپنے آپ کو سفر کے خطرات میں ڈالا ہے اور ان مصائب و شدائد کے برداشت کرنے کو تیار ہو گئے ہیں جو اس راہ میں انہیں پیش آئیں گی.دوسرا وہ گروہ ہے جنہوں نے میرے دینی اغرا ض و مقاصد میں ہمیشہ دل کھول کر چندے دیئے ہیں.مَیں کچھ ضرورت نہیں سمجھتا کہ تفصیل کروں کیونکہ ہر شخص کم و بیش اپنی استطاعت اور مقدرت کے موافق حصہ لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ کس اخلاص اور وفاداری سے ان چندوں میں شریک ہوتے ہیں.مَیں یہ
خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت نے وہ صدق اور وفا دکھایا ہے جو صحابہ ؓ ساعۃ العُسـر میں دکھاتے تھے اگرچہ اشتہار میں مَیں نے چند دوستوں کے نام لکھے ہیں جنھوں نے اپنے صدق و ہمت کا نمونہ دکھایا ہے لیکن اس سے یہ نہیں ظاہر ہوتا کہ میں دوسروں سے بے خبر ہوں یااُن کی خدمات کو قابلِ قدر نہیں سمجھتا.مَیں خوب جانتا ہوں کہ کون سرگرمی اور اخلاص کے ساتھ میری راہ میں دوڑتا ہے.میں چونکہ بیمار تھا اور ابھی تک طبیعت ناساز ہے اس لئے میں پوری تفصیل نہیں دے سکا اور نہ مختصر سے اشتہار میں اتنی تفصیل ہوسکتی تھی.پس جن لوگوں کے نام درج نہیں ہوئے اُن کو افسوس نہیں کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ اُن کے صدق اور اخلاص کو خُوب جانتا ہے.مالی قربانی محض لِلّٰہ ہو اگر کوئی شخص اس غرض کے لئے چندہ دیتا ہے یا ہماری دینی ضروریات میں شریک ہوتا ہے کہ اُس کا نام شائع کیا جاوے تو یقیناً سمجھو کہ وہ دنیا کی شہرت اور نام و نمود کا خواہشمند ہے لیکن جو محض اللہ تعالیٰ کے لئے اس راہ میں قدم رکھتا ہے اور خدمتِ دین کے لئے کمربستہ ہوتا ہے اُس کو اس بات کی کچھ بھی پروا نہیں ہوتی.دنیا کے نام کی کچھ حقیقت اور اثر اپنے اندر نہیں رکھتے ہیں.نام وہی بہتر ہوتے ہیں جو آسمان پر لکھے جاویں.کاغذات کا کیا اثر ہے.ایک دن ہوتے ہیں اورایک وقت ضائع ہوجاتے ہیں لیکن جو کچھ آسمان پر لکھا جاتا ہے وہ کبھی محو نہیں ہوسکتا.اس کااثر ابدالآباد کے لئے ہوتا ہے.میرے بہت سے مخلص احباب ایسے ہیں جن کو تم میں سے شاید بہت کم جانتے ہوں لیکن انہوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا ہے.مثلاً مَیں نظیر کے طور پر کہتا ہوں کہ مرزا یوسف بیگ صاحب میرے بہت ہی مخلص اور صادق دوست ہیں.مَیں نے اُن کا ذکر اس واسطے کیا ہے کہ اس طرح پر بھائیوں میں باہم تعارف بڑھتا ہے اور محبت پیدا ہوتی ہے.مرزا صاحب اس وقت سے میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جبکہ میں گوشہ نشینی کی زندگی بسر کررہا تھا.مَیں دیکھتا ہوں کہ اُن کا دل محبت اور اخلاص سے بھرا ہوا ہے اور وہ ہر وقت سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنے اندر ایک جوش رکھتے ہیں.ایسا ہی اور بہت سے عزیز دوست ہیں اور سب اپنے اپنے ایمان اور معرفت کے موافق اخلاص اور جوشِ محبت سے لبریز ہیں.
جب تک ایمان قوی نہ ہو کچھ نہیں ہوتا اگرچہ مَیں جانتا ہوں کہ اعمال کی توفیق رفتہ رفتہ ملتی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک ایمان قوی ہوتا ہے اسی قدر اعمال میں بھی قوت آتی ہے یہاں تک کہ اگر یہ قوتِ ایمانی پورے طور پر نشو و نما پا جاوے تو پھر ایسا مومن شہید کے مقام پر ہوتا ہے کیونکہ کوئی امر اس کے سدِّ راہ نہیں ہوسکتا.وہ اپنی عزیز جان تک دینے میں بھی تامّل اور دریغ نہ کرے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور قرآن کریم کے نزول کی غرض میں نے کئی دفعہ اس سے پہلے بھی بیان کیا ہے اور اب بھی اس کا بیان کرنا فائدہ سے خالی نہیں ہے.اس لیے مَیں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جو انبیاء علیہم السلام کو بھیجتا ہے اور آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے دنیا کی ہدایت کے واسطے بھیجا اور قرآن مجید کو نازل فرمایا تو اس کی غرض کیا تھی؟ ہر شخص جو کام کرتا ہے اس کی کوئی نہ کوئی غرض ہوتی ہے.ایسا خیال کرنا کہ قرآن شریف کے نازل کرنے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجنے سے اللہ تعالیٰ کی کوئی غرض اور مقصد نہیں ہے کمال درجہ کی گستاخی اور بے ادبی ہے.کیونکہ اس میں (مَعَاذَ اللّٰہِ) اللہ تعالیٰ کی طرف ایک فعلِ عبث کو منسوب کیا جائے گا اور حالانکہ اس کی ذات پاک ہے (سُبْـحَانَہٗ وَتَعَالٰی شَاْنُہٗ).پس یاد رکھو کہ کتابِ مجید کے بھیجنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ دنیا پر عظیم الشان رحمت کا نمونہ دکھاوے.جیسے فرمایا مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (الانبیاء:۱۰۸) اور ایسا ہی قرآن مجید کے بھیجنے کی غرض بتائی کہ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ (البقرۃ:۳) یہ ایسی عظیم الشان اغراض ہیں کہ اُن کی نظیر نہیں پائی جاسکتی.اسی لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ جیسے تمام کمالاتِ متفرقہ جو انبیاء علیہم السلام میں تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں جمع کردیئے اور تمام خوبیاں اور کمالات جو متفرق کتابوں میں تھے وہ قرآن شریف میں جمع کردیئے.اور ایسا ہی جس قدر کمالات تمام اُمتوں میں تھے وہ اس اُمت میں جمع کردیئے.پس خدا تعالیٰ چاہتا
ہے کہ ہم ان کمالات کو پالیں اور یہ بات بھی بھولنی نہیں چاہیے کہ جیسے وہ عظیم الشان کمالات ہم کو دینا چاہتا ہے اُسی کے موافق اس نے ہمیں قویٰ بھی عطا کیے ہیں کیونکہ اگر اس کے موافق قویٰ نہ دیئے جاتے تو پھر ہم ان کمالات کو کسی صورت اور حالت میں پا ہی نہیں سکتے تھے.اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص ایک گروہ کی دعوت کرے تو ضرور ہے کہ وہ اُس گروہ کے موافق کھانا طیار کرے اور اُسی کے موافق ایک مکان ہو.یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ دعوت تو ایک ہزار آدمی کی کردے اور اُن کے بٹھانے کے واسطے ایک چھوٹی سے کُٹیا بنا دے.نہیں.بلکہ وہ اُس تعداد کا پورا لحاظ رکھے گا.اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی کتاب بھی ایک دعوت اور ضیافت ہے جس کے لئے کل دنیا کو بلایا گیا ہے.اس دعوت کے لئے خدا تعالیٰ نے جو مکان طیار کیا ہے وہ قویٰ ہیں جو اُن لوگوں کو دیئے گئے ہیں.قویٰ کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا.اب اگر بیل، کتے یا کسی اور جانور کے سامنے قرآن کریم کی تعلیمات کو پیش کریں وہ نہیں سمجھ سکتے اس لیے کہ اُن میں وہ قویٰ نہیں ہیں جو قرآن کریم کی تعلیمات کو برداشت کرسکیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم کو وہ قویٰ دیئے ہیں اور ہم اُن سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقامِ خاتم النّبیّین ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہ نبی دیا جو خاتم المومنین، خاتم العارفین اور خاتم النّبیّین ہے اور اسی طرح وہ کتاب اُس پر نازل کی جو جامع الکتب اور خاتم الکتب ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم النّبیّین ہیں اور آپؐ پر نبوت ختم ہوگئی تو یہ نبوت اس طرح پر ختم نہیں ہوئی جیسے کوئی گلا گھونٹ کر ختم کردے.ایسا ختم قابلِ فخر نہیں ہوتا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہونے سے یہ مراد ہے کہ طبعی طور پر آپؐ پر کمالاتِ نبوت ختم ہوگئے.یعنی وہ تمام کمالاتِ متفرقہ جو آدم سے لے کر مسیح ابن مریم تک نبیوں کو دیئے گئے تھے.کسی کو کوئی اور کسی کو کوئی وہ سب کے سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع کر دیئے گئے اور اس طرح پر آپ طبعاً خاتم النّبیّین ٹھیرے اور ایسا ہی وہ جمیع تعلیمات، وصایا اور معارف جو مختلف کتابوں میں چلے آتے ہیں، وہ قرآن شریف پر آکر ختم ہوگئے اور قرآن شریف خاتم الکتب ٹھیرا.
ہم بصیرتِ تام سے رسول اللہ کو خاتَم النّبیّین مانتے ہیں اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النّبیّین نہیں مانتے یہ ہم پر افترائے عظیم ہے.ہم جس قوتِ یقین، معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی وہ نہیں مانتے اور ان کا ایسا ظرف ہی نہیں ہے.وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت میں ہے سمجھتے ہی نہیں ہیں.انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے اور اُس کی حقیقت سے بے خبر ہیں وہ نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا؟ مگر ہم بصیرت تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہم پر ختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذّت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا بجز ان لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ہوں.دنیا کی مثالوں میں سے ہم ختم نبوت کی مثال اس طرح پر دے سکتے ہیں کہ جیسے چاند ہلال سے شروع ہوتا ہے اور چودھویں تاریخ پر آکر اُس کا کمال ہو جاتا ہے جب کہ اُسے بدر کہا جاتا ہے.اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر کمالاتِ نبوت ختم ہوگئے.جو یہ مذہب رکھتے ہیں کہ نبوت زبردستی ختم ہوگئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یونس ؑ بن متیٰ پر بھی ترجیح نہیں دینی چاہیے.اُنہوں نے اس حقیقت کو سمجھا ہی نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور کمالات کا کوئی علم ہی اُن کو نہیں ہے.باوجود اس کمزوریٔ فہم اور کمیٔ علم کے ہم کو کہتے ہیں کہ ہم ختم نبوت کے منکر ہیں.میں ایسے مریضوں کو کیا کہوں اوراُن پر کیا افسوس کروں.اگر اُن کی یہ حالت نہ ہوگئی ہوتی اور حقیقت اسلام سے بکلّی دور نہ جاپڑے ہوتے تو پھر میرے آنے کی ضرورت کیا تھی؟ ان لوگو ں کی ایمانی حالتیں بہت کمزور ہوگئی ہیں اور وہ اسلام کے مفہوم اور مقصد سے محض ناواقف ہیں ورنہ کوئی وجہ نہیں ہوسکتی تھی
کہ وہ اہل حق سے عداوت کرتے جس کا نتیجہ کافر بنا دیتا ہے.اعمالِ صالحہ کی پہچان یہ لوگ سمجھتے نہیں کہ ہم میں کون سی بات اسلام کے خلاف ہے.ہم لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ کہتے ہیں اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور روزے کے دنوں میں روزے بھی رکھتے ہیں اور زکوٰۃ بھی دیتے ہیں.مگر مَیں کہتا ہوں کہ یہ تمام اعمال اعمالِ صالحہ کے رنگ میں نہیں ہیں بلکہ محض ایک پوست کی طرح ہیں جن میں مغز نہیں ہے ورنہ اگر یہ اعمالِ صالحہ ہیں تو پھر ان کے پاک نتائج کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ اعمالِ صالحہ تو تب ہوسکتے ہیں کہ وہ ہر قسم کے فساد اور ملاوٹ سے پاک ہوں لیکن اُن میں یہ باتیں کہاں ہیں؟ میں کبھی یقین نہیں کر سکتا کہ ایک مومن متّقی ہو اور اعمال صالحہ کرنے والا ہو اور وہ اہل حق کا دشمن ہو حالانکہ یہ لوگ ہم کو بےقید اور دہریہ کہتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے.اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کرکے بھیجا ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی عظمت کچھ بھی ان کے دل میں ہوتی تو وہ انکار نہ کرتے اور اس سے ڈر جاتے کہ ایسا نہ ہو ہم خدا تعالیٰ کے نام کی تخفیف کرنے والے ٹھہریں لیکن یہ تب ہوتا کہ انہیں حقیقی اور اعلیٰ ایمان خدا پر ہوتا اور وہ یوم الجزاء سے ڈرتے اور لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ (بنی اسـرآءِیل:۳۷) پر ان کا عمل ہوتا.اولیاء اللہ کا انکار سلبِ ایمان کا موجب ہو جاتا ہے ان کی دماغی قوت اور ایمانی طاقت نے تو یہاں تک انہیں پہنچایا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ نبی کا منکر تو کافر ہوتا ہے مگر ولی کے انکار سے کفر کیونکر لازم آتا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ ایک شخص کے انکار سے کیا حرج؟ ۷۶؎ یہ لوگ انکار اولیاء اللہ کو معمولی بات سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے کیا بگڑتا ہے؟مگر حقیقت یہ ہے کہ اولیا ء اللہ کا انکار سلبِ ایمان کا موجب ہوتا ہے.جو شخص اس معاملہ میں غور کرے گا اسے اچھی طرح نظر آجائے گا بلکہ ایسے طور پر نظر آجائے گا جیسے شیشے میں کوئی شکل دیکھ لیتا ہے.
یاد رکھنا چاہیے کہ سلبِ ایمان دو طرح پر ہوتا ہے.ایک تو انبیاء علیہم السلام کے انکار سے اس سے تو کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا اور یہ مسلّم بات ہے.دوسرا اولیاء اللہ اور مامورین کے انکار سے سلبِ ایمان ہوتا ہے.انبیاء علیہم السلام کے انکار سے سلبِ ایمان تو بالکل واضح امر ہے اور سب مانتے ہیں لیکن پھر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ انبیاء علیہم السلام کے انکار سے سلب ایمان اس لئے ہوتا ہے کہ نبی کہتے ہیں ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ جو کچھ یہ کہتے ہیں یہ میرا قول ہے.یہ میرا نبی ہے.اس پر ایمان لاؤ.میری کتاب کو مانو اور میرے احکام پر عمل کرو.جو شخص اللہ تعالیٰ کی کتاب پر ایمان نہیں لاتا اور ان وصایا اور حدود پر جو اس میں بیان کئے گئے ہیں عمل نہیں کرتا ہے وہ ان سے منکر ہو کر کافر ہو جاتا ہے.لیکن وہ صورت جس سے اولیاء اللہ کے انکار سے سلب ایمان ہوتا ہے.اور ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ عَادَ لِیْ وَلِیًّا فَاٰذَنْتُہٗ لِلْحَرْبِ یعنی جو شخص میرے ولی کے ساتھ دشمنی کرتا ہے وہ گویا میرے ساتھ جنگ کرنے کو طیار ہوتا ہے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے محبت کرتا ہو ایسی محبت جیسے کوئی اپنی اولاد سے کرتا ہے اور ایک اور شخص بار بار کہے کہ یہ مَر جاوے یا اور اسی قسم کی دلآزاری کی باتیں کرے اور اسے تکلیف دے تو وہ شخص اس سے کیونکر خوش ہو سکتا ہے اور وہ باپ جس کے بچے کے لئے کوئی بددعائیں کر رہا ہے یا رنج دِہ کلمات اس کے حق میں کہہ رہا ہے ایسے شخص سے کب محبت کر سکتا ہے؟ اسی طرح پر اولیاء اللہ بھی اطفال اللہ کا رنگ رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے جسمانی بلوغ کا چولا اتار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی آغوش رحمت میں پرورش پاتے ہیں.وہ ان کا متولّی، متکفّل اور ان کے لئے غیرت رکھنے والا ہوتا ہے.جب کوئی شخص (خواہ وہ کیسا ہی نماز، روزہ رکھنے والا ہو) ان کی مخالفت کرتا ہے اور ان کے دکھ دینے پر کمر بستہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش مارتی ہے اور ان مخالفت کرنے والوں پر اس کا غضب بھڑکتا ہے اس لئے کہ انہوں نے اس کے ایک محبوب کو دکھ دینا چاہا ہے.اس وقت پھر نہ وہ نماز کام آتی ہے نہ روزہ کیونکہ نماز اور روزہ کے ذریعہ سے اسی ذات کو خوش کرنا تھا جس کو
ایک دوسرے فعل سے ناراض کر لیا ہے.پھر وہ رضا کا مقام کیوں کر ملے جب تک غضب الٰہی دور نہ ہو.اور وہ نادان ان اسبابِ غضب سے ناواقف ہوتا ہے بلکہ اپنے نماز روزہ پر اسے ایک ناز اور گھمنڈ ہوتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا غضب دن بدن بڑھتا جاتا ہے اور وہ بجائے اس کے قرب حاصل کرنے کے دن بدن اللہ تعالیٰ سے دور ہٹتا جاتا ہے یہاں تک کہ بالکل راندۂ درگاہ ہوجاتا ہے.اس طرح پر وہ شخص جو بالکل فنا کی حالت میں ہے اور آستانہ الوہیت پر گرا ہوا ہے اور آغوشِ ربوبیت میں پرورش پا رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی رحمت نے اسے ڈھانپ لیا ہے.یہاں تک کہ اس کا بات کرنا خدا کا بات کرنا ہوتا ہے.اس کا دوست خدا کا دوست اور اس کا دشمن خدا کا دشمن ہو جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ کا دشمن رہ کر کوئی شخص مومن کامل کیوں کر ہو سکتا ہے.اس طرح پر اس کا ایمان سلب ہوجاتا ہے اور اسے مغضوب علیہم میں سے بنا دیتا ہے.خدا تعالیٰ کے ماموروں اور اولیاء اللہ کی مخالفت اور ان کو ایذا رسانی کبھی اچھا پھل نہیں دے سکتی.جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں ان کو ستا کر اور دکھ دے کر بھی آرام پا سکتا ہوں وہ سخت غلطی کرتا ہے اور نفس اس کو دھوکا دے رہا ہے.دوسری وجہ سلب ایمان کی یہ ہوتی ہے کہ ولی اللہ خدا کے مقرب ہوتے ہیں کیونکہ ولی کے معنی قریب کے ہیں.یہ لوگ گویا اللہ تعالیٰ کو سامنے دیکھتے ہیں اور دوسرے لوگ ایک محجوب کی طرح ہوتے ہیں جن کے سامنے ایک دیوار حائل ہو.اب یہ دونوں برابر کیوں کر ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک تو ان میں سے ایسا ہے کہ جس کے سامنے کوئی پردہ ہی نہیں ہے.خدا تعالیٰ نے اس کو آنکھیں دے دی ہیں اور ایک بصیرت ایسی عطا کی گئی ہے اس لئے اس کا ہر قول و فعل علیٰ وجہ البصیرت ہے.اعمیٰ کی طرح نہیں جو ٹھوکریں کھاتا پھرے اور ٹکریں مارتا ہو بلکہ اس کے دل پر تو خدا تعالیٰ کا نزول ہوتا ہے اور ہر قدم پر وہی اس کا رہنما اور متکفّل بن جاتا ہے.شیطان کی شرارت کی تاریکی اس کے نزدیک نہیں آسکتی بلکہ وہ ظلمت جل کر بھسم ہو جاتی ہے پھر سب کچھ نظر آتا ہے.وہ جو کچھ بیان کرتا ہے وہ حقائق و معارف ہوتے ہیں.وہ جواحادیث کی تاویل کرتا ہے وہ صحیح ہوتی ہے کیونکہ وہ براہ راست بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سن لیتا ہے اوراس کی اپنی روایت ہوتی ہے اور دوسرے لوگوں کو
تیرہ (۱۳) سو برس کے وسائط سے کہنا پڑتا ہے جو کچھ کہنا پڑتا ہے.پھر ان دونوں کو باہم کیا نسبت؟ اس کا سارا ذخیرہ پاک معارف اور نور ہوتے ہیں لیکن جو اس سے عداوت کرتا ہے وہ اس کی ہر بات کی تکذیب کرتا ہے اور گویا وہ یہ شرط کر لیتا ہے کہ ہر نکتہ معرفت کا انکار کرے گا اور اس طرح پر وہ ہر بات کا انکار کرتا رہتا ہےاور اس کی ایمانی عرفانی دیوار کی اینٹیں گرنی شروع ہو جاتی ہیں.جب ایک شخص صراطِ مستقیم بتلا رہا ہے اور معارف اور حقائق کھول کھول کر بیان کر رہا ہے اور دوسرا اس کی تکذیب کرتا رہے گا.اس مقابلہ میں انجام کار نتیجہ کیا ہوگا؟ یہی کہ وہ قرآن شریف کے عقائد کے مجموعہ کی تکذیب کرتا ہے.کرتا رہے گا اور اسی لیے وہ خدا تعالیٰ کا بھی منکر ہوجاتا ہے اور سلبِ ایمان کا باعث بنتا ہے.غرض اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اولیاء اللہ کے انکار سے سلب ایمان ہو جاتا ہے.اس واسطے ہمیشہ اولیاء اللہ کے انکار سے بچنا چاہیے.یہودیوں پر جو آفت آئی اور وہ مغضوب ہوئے.اس کی بڑی بھاری وجہ یہی تھی کہ وہ خدا تعالیٰ کے ماموروں اور مرسلین سے انکار کرتے رہے اور ہمیشہ ان کی مخالفت اور ایذا رسانی میں حصہ لیتے رہے.اس کا انجام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا غضب ان پر نازل ہوا.آنحضرتؐ کے خاتم النّبیّین ہونے کا ایک اور پہلو پھر میں اپنے پہلے کلام کی طرف رجوع کر کے کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النّبیّین ہونے کا یہ بھی ایک پہلو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس امت میں بڑی بڑی استعدادیں رکھ دی ہیں یہاں تک کہ عُلَمَآءُ اُمَّتِیْ کَاَ نْبِیَآءِ بَنِیْ اِسْـرَآءِیْلَ بھی حدیث میں آیا ہے اگرچہ محدّثین کو اس پر جرح ہو مگر ہمارا نور قلب اس حدیث کو صحیح قرار دیتا ہے اور ہم بُعد چون و چرا کے اس کو تسلیم کرتے ہیں اور بذریعہ کشف بھی کسی نے اس حدیث کا انکار نہیں کیا بلکہ اگر کی ہے تو تصدیق ہی کی ہے.اس حدیث کے یہ معنی نہیں کہ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں جیسے ہیں.لیکن علماء کے لفظ سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے.یہ لوگ الفاظ پر اڑے ہوئے ہیں اور ان کے معنی کی تہہ تک نہیں پہنچتے.یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ قرآن شریف کی
تفسیر میں آگے نہیں چلتے.عالِم ربّانی کی تعریف عَالم ربّانی سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ صرف و نحو یا منطق میں بے مثل ہو بلکہ عالم ربّانی سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور اس کی زبان بے ہودہ نہ چلے، مگر آج یہ زمانہ ایسا آگیا ہے کہ مردہ شوتک بھی اپنے آپ کو علماء کہلاتے ہیں اور اس لفظ کو ذات میں داخل کر لیا ہے.اس طرح پر اس لفظ کی بڑی تحقیر ہوئی ہے اور خدا تعالیٰ کے منشا اور مقصد کے خلاف اس کا مفہوم لیا گیا ہے ورنہ قرآن شریف میں تو علماء کی یہ صفت بیان کی گئی ہے اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓـؤُا (فاطر :۲۹) یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے اللہ تعالیٰ کے وہ بندے ہیں جو علماء ہیں.اب یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ جن لوگوں میں یہ صفات خوف و خشیت اور تقوی اللہ کی نہ پائی جاویں وہ ہرگز ہرگز اس خطاب سے پکارے جانے کے قابل نہیں ہیں.اصل میں علماء عالم کی جمع ہے اور اس چیز کو کہتے ہیں جو یقینی اور قطعی ہو اور سچا علم قرآن کریم سے ملتا ہے.یہ نہ یونانیوں کے فلسفہ سے ملتا ہے، نہ حال کے انگلستانی فلسفہ سے، بلکہ یہ سچا ایمانی فلسفہ سے حاصل ہوتا ہے اور مومن کا معراج اور کمال یہی ہے کہ وہ علماء کے درجہ پر پہنچے اور وہ حق الیقین کا مقام اسے حاصل ہو جو علم کا انتہائی درجہ ہے لیکن جو شخص علومِ حقّہ سے بہرہ ور نہیں ہیں اور معرفت اور بصیرت کی راہیں ان پر کھلی ہوئی نہیں ہیں وہ خود عالم کہلائیں مگر علم کی خوبیوں اور صفات سے بالکل بے بہرہ ہیں اور وہ روشنی اور نور جو حقیقی علم سے ملتا ہے ان میں پایا نہیں جاتا بلکہ ایسے لوگ سراسر خسارہ اور نقصان میں ہیں.یہ اپنی آخرت دُخان اور تاریکی سے بھر لیتے ہیں.انہیں کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسـرآءیل:۷۳) جو اس دنیا میں اندھا ہوتا ہے، وہ آخرت میں بھی اندھا اٹھایا جاوے گا.جس کو یہاں علم و بصیرت اور معرفت نہیں دی گئی اسے وہاں کیا علم ملے گا.اللہ تعالیٰ کو دیکھنے والی آنکھ اسی دنیا سے لے جانی پڑتی ہے جو یہاں ایسی آنکھ پیدا نہیں کرتا اسے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھے گا.
لیکن جن لوگوں کو سچی معرفت اور بصیرت دی جاتی ہے اور وہ علم جس کا نتیجہ خشیت اللہ ہے عطا کیا جاتا ہے وہ وہ ہیں جن کو اس حدیث میں انبیاء بنی اسرائیل سے تشبیہ دی گئی ہے.سچے علوم کا سرچشمہ قرآن مجید ہے اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے سچے علوم کا منبع اور سرچشمہ قرآنِ شریف اس امت کو دیا ہے.جو شخص ان حقائق و معارف کو پا لیتا ہے جو قرآن شریف میں بیان کئے گئے ہیں اور جو حقیقی تقویٰ اور خشیت اللہ سے حاصل ہوتے ہیں اسے وہ علم ملتا ہے جو اس کو انبیاء بنی اسرائیل کا مثیل بنا دیتا ہے.ہاں یہ بات بالکل سچ ہے کہ ایک شخص کو جو ہتھیار دیا گیا ہے اگر وہ اس سے کام نہ لے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے نہ کہ اس ہتھیار کا.اس وقت دنیا کی یہی حالت ہو رہی ہے.مسلمانوں نے باوجودیکہ قرآن شریف جیسی بے مثل نعمت ان کے پاس تھی جو ان کو ہر گمراہی سے نجات بخشتی اور ہر تاریکی سے نکالتی ہے لیکن انہوں نے اس کو چھوڑ دیا اور اس کی پاک تعلیموں کی پروا نہیں کی.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اسلام سے بالکل دور جا پڑے ہیں یہاں تک کہ اب اگر حقیقی اسلام ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو چونکہ وہ اس سے بکلی بے خبر اور غافل ہیں اس لئے حقیقی مومن کو بھی کافر کہہ دیتے ہیں.۷۷؎ ولی بننے کے لئے خداداد قویٰ سے کام لو بہت سے لوگ ہیں جو اوباشانہ اور عیاشانہ حالات زندگی رکھتے ہیں اور وہ دنیا کا فخر، دنیا کی عزت اور املاک و دولت چاہتے ہیں.اس قسم کی آرزوؤں اور تمناؤں اور ان کے پورا کرنے کی تدبیروں اور تجویزوں میں ہی اپنی عمر کھو بیٹھتے ہیں.ان کی آرزوؤں کی انتہا نہیں ہوتی کہ پیغامِ موت آجاتا ہے.اب ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے قویٰ تو دیئے تھے.انہیں قویٰ سے اگر کام لیتے تو حق کو پا لیتے.اللہ تعالیٰ نے تو بخل نہیں کیا مگر انہوں نے قویٰ سے کام نہ لیا یہ ان کی اپنی بد بختی ہے.نیک بخت اور مبارک ہے وہ شخص جو ان قویٰ سے کام لے.بہت سے آدمی ایسے بھی ہیں کہ جب ان کو کہا جاتا ہے کہ تم خدا تعالیٰ سے ڈرو اور اس کے اوامر کی پابندی کرو اور نواہی سے پرہیز کرو.تو وہ کہہ دیتے
ہیں کہ ہم نے کیا ولی بننا ہے؟ اس قسم کا کلمہ میرے نزدیک کفر ہے.خدا تعالیٰ پر بد گمانی ہے.خدا تعالیٰ کے حضور کیا کمی ہے.وہ کوئی سرکار کی محدود نوکریاں تو نہیں ہیں جو ختم ہو جائیں بلکہ جو کوئی خدا تعالیٰ کے ساتھ سچے تعلقات پیدا کر لے وہ ان فیوض سے بہرہ ور ہو سکتا ہے جو پہلے راستبازوں کو دیئے گئے ہیں.بر کریماں کار ہا دشوار نیست # خدا نے جو ان کا نام ولی رکھا ہے تو کیا ولی بننا خدا تعالیٰ کے نزدیک مشکل ہو سکتا ہے بلکہ بہت ہی سہل ہے.ہاں اس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ راستی سے قدم رکھنے والا ہو اور اس کی راہ میں صبر و استقلال اور وفاداری کے ساتھ چلنے والا ہو کوئی دکھ اور کوئی تکلیف اور مصیبت اس کے قدم کو ڈگمگا نہ سکے.جب انسان خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرتا ہے اور ان باتوں سے الگ ہو جاتا ہے جو خدا تعالیٰ کی نارضامندی کا موجب ہوتی ہیں بلکہ پاکیزگی اور طہارت اختیار کرتا ہے اور گندی باتوں سے پرہیز کرتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس سے ایک تعلق پیدا کر لیتا ہے اور اس کے قریب ہو جاتا ہے لیکن اگر کوئی خدا تعالیٰ سے دور ہوتا جاوے اور گندگی سے نکلنے کی کوشش نہ کرے تو پھر خدا تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا جیسے فرمایا ہے فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ (الصّف:۶) سلوک کی آسان راہ ہماری جماعت کو چاہیے کہ ہمت نہ ہار بیٹھے.یہ بڑے مشکلات نہیں ہیں.میں تمہیں یقیناً کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے مشکلات آسان کر دئیے ہیں کیونکہ ہمارے سلوک کی راہیں اور ہیں.ہمارے ہاں یہ حالت نہیں ہے کہ کمریں جھک جائیں یا ناخن بڑھائیں یا پانی میں کھڑے رہیں اور چلہ کشیاں کریں یا ہاتھ خشک کریں اور یہاں تک کہ صورتیں بھی مسخ ہو جائیں.ان صورتوں کے اختیار کرنے سے وہ لوگ بخیال خویش با خدا ہونا چاہتے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ خدا تو کیا ملنا ہے انسانیت بھی جاتی رہتی ہے مگر ہمارے سلوک کا یہ طریق نہیں ہے بلکہ اسلام نے بہت ہی آسان راہ رکھی ہے اور وہ کشادہ راہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ (الفاتـحۃ:۶) اب اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا سکھائی ہے تو اس طور پر نہیں کہ دعا تو سکھا دی لیکن سامان کچھ نہیں بلکہ جہاں دعا سکھائی ہے
وہاں سب کچھ موجود ہے.چنانچہ اگلی سورت میں اس قبولیت کا اشارہ ہے جہاں فرمایا ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ (البقرۃ:۳) یہ ایسی دعوت ہے کہ دعوت کا سامان پہلے سے طیار ہے.غرض یہ قویٰ جو انسان کو دیئے گئے ہیں اگر وہ ان سے کام لے تو یقیناً ولی ہو سکتا ہے.میں یقیناً کہتا ہوں کہ اس اُمت میں بڑی قوت کے لوگ آتے ہیں وہ نور اور صدق اور وفا کے لوگ آتے ہیں.کوئی شخص اپنے آپ کو محروم نہ سمجھے.کیا خدا تعالیٰ نے کوئی فہرست شائع کر دی ہے جو یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ہمیں حصہ نہیں ملے گا.خدا تعالیٰ بڑا کریم ہے.اس کی کریمی کا بڑا گہرا سمندر ہے جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا اور کوئی تلاش کرنے والا اور طلب کرنے والا محروم نہیں رہا ہے.اس لئے تمہیں چاہیے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعا مانگو اور اس کے فضل کو طلب کرو.ہر ایک نماز میں دعا کے واسطے کئی موقعے ہیں.رکوع، قیام، قعدہ، سجدہ وغیرہ.آٹھ پہروں میں پانچ مرتبہ نماز پڑھنی پڑتی ہے.فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور اس پر ترقی کر کے اشراق اور تہجد کی نمازیں ہیں.یہ سب دعا ہی کے لئے موقعے ہیں.نماز کی اصلی غرض اور مغز دعا ہے اصل غرض اور مغز نماز کا دعا ہی ہے اور دعا خدا تعالیٰ کے قانون قدرت کے موافق ہے.عام طور پر دیکھو کہ جب بچہ روتا دھوتا ہے اور اضطراب ظاہر کرتا ہے تو ماں کس قدر بے قرار ہو کر اس کو دودھ دیتی ہے.الوہیت اور عبودیت میں اسی قسم کا ایک تعلق ہے جس کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا.جب انسان خدا تعالیٰ کے دروازہ پر گرتا ہے اور نہایت عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ گرتا ہے اوراپنے حالات کو پیش کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجات کو مانگتا ہے تو الوہیت کا کرم جوش میں آتا ہے اور اس پر رحم کیا جاتا ہے.گریہ و زاری خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کا دودھ بھی ایک گریہ کو چاہتا ہے اس لئے اس کے حضور رونے والی آنکھ پیش کرنی چاہیے.یہ خیال غلط اور باطل ہے جو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور رونے دھونے سے کچھ نہیں ملتا.ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی صفات قدرت و تصرف پر ایمان نہیں لاتے ہیں.اگر وہ حقیقی ایمان پیدا کرتے تو یہ کبھی نہ کہتے.جب کبھی
کوئی خدا تعالیٰ کے حضور آیا ہے اور اس نے سچی توبہ کے ساتھ رجوع کیا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنا فضل کیا ہے.یہ بالکل سچ ہے جو کسی نے کہا ہے عاشق کہ شد کہ یار بحالش نظر نہ کرد اے خواجہ درد نیست وگرنہ طبیب ہست # خدا تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ تم اس کے حضور پاک دل لے کر آجاؤ.صرف اتنی شرط ہے کہ اس کے مناسب حال اپنے آپ کو بناؤ اور وہ سچی تبدیلی پیدا کرو.خدا تعالیٰ میں عجیب در عجیب قدرتیں ہیں اور اس میں لا انتہا فضل و برکات ہیں مگر ان کے دیکھنے اور پانے کے لئے محبت کی آنکھ پیدا کرو.اگر سچی محبت ہو تو خدا تعالیٰ بہت دعائیں سنتا ہے اور تائیدیں کرتا ہے.لیکن شرط یہی ہے کہ محبت اور اخلاص خدا تعالیٰ سے ہو.خدا کی محبت اور فضل محبت ایک ایسی شے ہے کہ انسان کی سفلی زندگی کو جلا کر اسے ایک نیا اور مصفّٰی انسان بنا دیتی ہے.پھر وہ وہ دیکھتا ہے جو پہلے نہیں دیکھتا تھا.وہ وہ سنتا ہے جو پہلے نہیں سنتا تھا.غرض خدا تعالیٰ نے جو کچھ مائدہ فضل و کرم کا انسان کے لئے طیار کیا ہے اس کے حاصل کرنے اور فائدہ اٹھانے کے لئے استعدادیں بھی عطا کی ہیں.اگر وہ استعدادیں تو عطا کرتا لیکن سامان نہ ہوتا تب بھی ایک نقص تھا اور یا سامان تو ہوتا لیکن استعدادیں نہ ہوتیں مگر نہیں، یہ بات نہیں ہے.استعداد بھی دی اور سامان بھی مہیا کیا.جس طرح پر ایک طرف روٹی کا سامان ہو دوسری طرف آنکھ، زبان، دانت اور معدہ دے دیا اور جگر اور امعاء کو کام میں لگا دیا اور ان تمام کاموں کا مدار غذا پر رکھ دیا.اگر اندر ہی کچھ نہ جائے گا تو دل میں خون کہاں سے آئے گا.کیلوس کہاں سے بنے گا.اسی طرح پر سب سے اول اس نے یہ فضل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام ایسا مکمل دین دے کر بھیجا اور آپ کو خاتَم النّبیّینؐ ٹھہرایا اور قرآن شریف ایسی کامل اور خاتم الکتب کتاب عطا فرمائی.اور اب قیامت تک نہ کوئی کتاب آئے گی اور نہ کوئی نیا نبی شریعت لے کر آئے گا.پھر جو قویٰ سوچ اور فکر کے ہیں ان سے اگر ہم کام نہ لیں اور خدا تعالیٰ کی طرف قدم نہ اٹھائیں تو کس قدر سُستی اور کاہلی اور ناشکری ہے.
انسانی زندگی کا مقصد غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اس پہلی ہی سورت میں ہمارے لئے کس قدر مبسوط طریق پر فضل کی راہ بتا دی ہے.اس سورت میں جس کا نام خاتم الکتاب اور اُمّ الکتاب بھی ہے صاف طور پر بتا دیا ہے کہ انسانی زندگی کا کیا مقصد ہے اور اس کے حصول کی کیا راہ ہے؟ اِيَّاكَ نَعْبُدُ گویا انسانی فطرت کا اصل تقاضا اور منشا ہے اور وہ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتـحۃ:۵) کے بغیر پورا نہیں ہوتا لیکن اِيَّاكَ نَعْبُدُ کو اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ پر مقدم کر کے یہ بتایا ہے کہ پہلے ضروری ہے کہ جہاں تک انسان کی اپنی طاقت، ہمت اور سمجھ میں ہو خدا تعالیٰ کی رضا مندی کی راہوں کے اختیار کرنے میں سعی اور مجاہدہ کرے اور خدا تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں سے پورا کام لے اور اس کے بعد پھر خدا تعالیٰ سے اس کی تکمیل اور نتیجہ خیز ہونے کے لیے دعا کرے.انسانی زندگی کا مقصد اور غرض صراط مستقیم پر چلنا اور اس کی طلب ہے.جس کو اس سورۃ میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتـحۃ:۶،۷) یا اللہ ہم کو سیدھی راہ دکھا.ان لوگوں کی اور جن پر تیرا انعام ہوا.یہ وہ دعا ہے جو ہر وقت، ہر نماز میں اور ہر رکعت میں مانگی جاتی ہے.اس قدر اس کا تکرار ہی اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے.جماعت احمدیہ کا نصب العین ہماری جماعت یاد رکھے کہ یہ معمولی سی بات نہیں ہے اور صرف زبان سے طوطے کی طرح ان الفاظ کا رٹ دینا اصل مقصود نہیں ہے بلکہ یہ انسان کو انسان کامل بنانے کا ایک کارگر اور خطا نہ کرنے والا نسخہ ہے جسے ہر وقت نصب العین رکھنا چاہیے اور تعویذ کی طرح مدنظر رہے.اس آیت میں چار قسم کے کمالات کے حاصل کرنے کی التجا ہے.اگر یہ ان چار قسم کے کمالات کو حاصل کرے گا تو گویا دعا مانگنے اور خلق انسانی کے حق کو ادا کرے گا اور ان استعدادوں اور قویٰ کے بھی کام میں لانے کا حق ادا ہو جائے گا جو اس کو دی گئی ہیں.آیت اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی تفسیر اس بات کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے کہ قرآن شریف کے بعض حصے دوسرے کی تفسیر اور شرح ہیں.ایک جگہ ایک
امر بطریق اجمال بیان کیا جاتا ہے اور دوسری جگہ وہی امر کھول کر بیان کر دیا گیا ہے.گویا دوسرا پہلے کی تفسیر ہے.پس اس جگہ جو یہ فرمایا صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتـحۃ:۷) تو یہ بطریق اجمال ہے لیکن دوسرے مقام پر منعم علیہم کی خود ہی تفسیر کر دی ہے مِنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيْنَ (النسآء:۷۰) منعم علیہ چار قسم کے لوگ ہوتے ہیں.نبی، صدیق، شہدا اور صالح.انبیاء علیہم السلام میں چاروں شانیں جمع ہوتی ہیں کیونکہ یہ اعلیٰ کمال ہے.ہر ایک انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کمالات کے حاصل کرنے کے لیے جہاں مجاہدہ صحیحہ کی ضرورت ہے اس طریق پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے دکھایا ہے کوشش کرے.آنحضرت کی راہ کو ہر گز نہ چھوڑو میں یہ بھی تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ بہت سے لوگ ہیں جو اپنے تراشے ہوئے وظائف اور اَوراد کے ذریعہ سے ان کمالات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار نہیں کیا وہ محض فضول ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم سے بڑھ کر منعم علیہ کی راہ کا سچا تجربہ کار اور کون ہو سکتا ہے.جن پر نبوّت کے بھی سارے کمالات ختم ہو گئے.آپ نے جو راہ اختیار کیا ہے وہ بہت ہی صحیح اور اقرب ہے.اس راہ کو چھوڑ کر اور ایجاد کرنا، خواہ وہ بظاہر کتنا ہی خوش کرنے والا معلوم ہوتا ہو میری رائے میں ہلاکت ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظاہر کیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے اتباع سے خدا ملتا ہے اور آپ کے اتباع کو چھوڑ کر خواہ کوئی ساری عمر ٹکریں مارتا رہے گوہر مقصود اس کے ہاتھ میں نہیں آسکتا.چنانچہ سعدی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی ضرورت بتاتا ہے.بزہد و ورع کوش و صدق و صفا و لیکن میفزائے بر مصطفیٰ # آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ کو تو نہ چھوڑو.میں دیکھتا ہوں کہ قسم قسم کے وظیفے لوگوں نے ایجاد کر لئے ہیں.الٹے سیدھے لٹکتے ہیں اور جوگیوں کی طرح راہبانہ طریقے اختیار کئے جاتے ہیں لیکن یہ سب بے فائدہ ہیں.انبیاء علیہم السلام کی یہ سنّت نہیں کہ وہ الٹے سیدھے لٹکتے رہیں یا نفی اثبات کے ذکر کریں اور ارّہ کے ذکر کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اسوۂ حسنہ فرمایا
لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب:۲۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلو ایک ذرّہ بھر بھی اِدھر یا اُدھر ہونے کی کوشش نہ کرو.جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد غرض منعم علیہم لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتـحۃ:۷) میں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ان کو حاصل کرنا ہر انسان کا اصل مقصد ہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کے قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کی تھی تاکہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے.مقامِ نبوت ان کمالات میں سے جو منعم علیہم کو دیئے جاتے ہیں پہلا کمال نبوت کا کمال ہے جو بہت ہی اعلیٰ مقام پر واقع ہے.ہمیں افسوس ہے کہ وہ الفاظ نہیں ملتے جن میں اس کمال کی حقیقت بیان کر سکیں.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر کوئی چیز اعلیٰ ہو اس کے بیان کرنے کے واسطے اسی قدر الفاظ کمزور ہوتے ہیں اور نبوت تو ایسا مقام ہے کہ انسان کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی درجہ اور مرتبہ نہیں ہے تو پھر یہ کیوں کر بیان ہو سکے.مختصر اور ناکافی طور پر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ انسان جب سفلی زندگی کو چھوڑ دیتا ہے اور بالکل سانپ کی کینچلی کی طرح اس زندگی سے الگ ہو جاتا ہے اس وقت اس کی حالت اور ہو جاتی ہے.وہ بظاہر اسی زمین پر چلتا پھرتا کھاتا پیتا ہے اس پر قانون قدرت کا ویسا ہی اثر ہوتا ہے جیسا دوسرے لوگوں پر لیکن باوجود اس کے بھی وہ اس دنیا سے الگ ہوتا ہے.وہ ترقی کرتے کرتے اس مقام پر جا پہنچتا ہے جو نقطۂ نبوت کہلاتا ہے اور جہاں وہ خدا تعالیٰ سے مکالمہ کرتا ہے.یہ مکالمہ یوں شروع ہوتا ہے کہ جب وہ نفس اور اس کے تعلقات سے الگ ہو جاتا ہے تو پھر اس کا تعلق اللہ تعالیٰ ہی سے ہوتا ہے اور اسی سے وہ مکالمہ کرتا ہے.کلامِ نفس انسان کی حالت ایسی واقع ہوئی ہے کہ یہ کبھی نکما اور بے کار نہیں رہتا ہے اور نفس کلام سے بھی کبھی فارغ نہیں ہوتا ہے.نفس اور شیطان سے ہی اس کا مکالمہ شروع رہتا ہے اگر کوئی اور بات کرنے والا نہ ہو.بعض اوقات لوگ دیکھتے ہیں کہ وہ بالکل خاموش رہتا ہے
لیکن درحقیقت وہ خاموش نہیں ہوتا.اس کا سلسلہ کلام اپنے نفس سے شروع ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ بہت ہی لنبا ہوتا ہے اور شیطانی رنگ میں اسے خود لنبا کرتا ہے اور بے شرمی سے اسے لنبا ہونے دیتا ہے.یہ سلسلہ کلام کبھی خیالی فسق کے رنگ میں ہوتا ہے اور کبھی بے ہودہ اور جھوٹی تمناؤں کے رنگ میں اور اس سے وہ کبھی فارغ نہیں رہتا جب تک کہ اس سفلی زندگی کو چھوڑ نہ دے.یہ بھی یاد رکھو کہ اس قسم کے خطرات اور خیالات کا سلسلہ جو لنبا ہونے نہیں دیتا اور ایک معمولی خیال کی طرح آکر دل سے محو ہو جاتے ہیں وہ معاف ہیں.لیکن جب اس سلسلہ کو لنبا کرتا ہے اور اس پر عزیمت کرتا ہے تو وہ گناہ ہیں اور ان کی جواب دہی کرنی پڑے گی.۷۸؎ جب ان خیالات کو جو انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں وہ دور کرتا ہے اور ان کو لنبا ہونے نہیں دیتا تو کچھ شک نہیں کہ وہ معافی کے قابل ہیں لیکن جب اس کے سلسلہ کی درازی میں ایک لذّت پاتا ہے اور اس کو بڑھاتا جاتا ہے پھر وہ قابلِ مؤاخذہ ہو جاتے ہیں کیونکہ ان میں عزیمت شامل ہو جاتی ہے.جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا ہے اس بات کو خوب یاد رکھو کہ کلام نفسی دو قسم کا ہوتا ہے.کبھی شیطانی جو خیالی فسق و فجور کے سلسلہ میں چلا جاتا ہے اور آرزوؤں کا ایک لنبا سلسلہ ہوتا ہے.جب تک ان دونوں سلسلوں میں انسان پھنسا ہوا ہے شیطانی دخل کا اسے اندیشہ ہے اور ممکن ہے کہ وہ نقصان اٹھاوے اور شیطان اسے زخمی کرے.مثلاً کبھی کوئی منصوبہ ہی باندھتا ہے کہ فلاں شخص میری فلاں غرض اور مقصد میں بڑا مخل ہے اس کو مارا جاوے.اس نے مجھے تو کہا ہے اس کا بدلہ لیا جاوے.اس کی ناک کاٹنی چاہیے اس قسم کے منصوبے اور ادھیڑ بن میں لگا رہتا ہے.یہ مریض سخت خطرناک حالت میں ہے.وہ نہیں سمجھتا ہے کہ نفس کا مَیں کیا نقصان کر رہا ہوں اور اس سے میری اخلاقی اور روحانی قوتوں پر کس قسم کا برا اثر پڑرہا ہے.اس قسم کے خیالات سے ہمیشہ بچنا چاہیے.جب کبھی کوئی ایسا بیہودہ سلسلہ شروع ہو فوراً اس کے دفع کرنے کی کوشش کرو.استغفار پڑھو.لاحول کے ذریعہ خدا سے مدد اور توفیق چاہو اور خدا تعالیٰ کی کتاب کے پڑھنے میں اپنے آپ کو مصروف کر دو اور یہ سمجھ لو کہ اس سلسلہ سے فائدہ کچھ نہیں نقصان ہی نقصان ہے.اگر کوئی دشمن مَر بھی جاوے تو کیا اور زندہ رہے تو
کیا؟ نفع و نقصان کا پہنچانا یہ خدا تعالیٰ کے قبضہ و اختیار میں ہے.کوئی شخص کسی کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا.سعدی نے گلستان میں ایک حکایت لکھی ہے کہ نوشیرواں کے پاس کوئی شخص خوشخبری لے کر گیا کہ تیرا فلاں دشمن مارا گیا ہے اور اس کا ملک اور قلعہ ہمارے قبضہ میں آگیا ہے.نوشیرواں نے اس کا کیا اچھا جواب دیا.مرا بمرگ عدو جائے شادمانی نیست کہ زندگانی مانیز جاودانی نیست # پس آدمی غور کرے کہ اس قسم کے منصوبوں اور ادھیڑبن سے کیا فائدہ اور کیا خوشی.یہ سلسلہ تو بہت ہی خطرناک ہے اور اس کاعلاج ہے توبہ، استغفار، لاحول اور خدا کی کتاب کا مطالعہ، بیکاری اور بے شغلی میں اس قسم کا سلسلہ بہت لنبا ہوتا ہے.دوسری قسم کلام نفس کی اَمَانی سلسلے کو لنبا کرتے رہنا ہے.یہ سلسلہ بھی چونکہ بےجا خواہشوں کو پیدا کرتا ہے اور طمع، حسد، خودغرضی کے امراض اس سے پیدا ہوتے ہیں.اس لیے جونہی یہ سلسلہ پیدا ہو اس کی صف فوراً لپیٹ دو.میں نے یہ تقسیمِ کلامِ نفس کی ہے اور یہ دونوں انجام کار انسان کو ہلاک کر دیتے ہیں لیکن نبی ان دونوں قسم کے سلسلہ کلام سے پاک ہوتا ہے.مقامِ نبوت کی حقیقت نبوت کیا ہے؟ یہ ایک جوہر خدا داد ہے.اگر کسب سے ہوتا تو سب نبی ہو جاتے.ان کی فطرت ہی اس قسم کی نہیں ہوتی کہ وہ ان بے جا سلسلہ کلام میں مبتلا ہوں.وہ نفسی کلام کرتے ہی نہیں.دوسرے لوگوں میں تو یہ حال ہوتا ہے کہ وہ ان سلسلوں میں کچھ ایسے مبتلا ہوتے ہیں کہ خدا کا خانہ ہی خالی رہتا ہے لیکن نبی ان دونوں سلسلوں سے الگ ہو کر خدا میں کچھ ایسے گم ہوتے ہیں اور اس کے مخاطبہ مکالمہ میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ ان سلسلوں کے لئے ان کے دل و دماغ میں سمائی اور گنجائش ہی نہیں ہوتی بلکہ خدا ہی کا سلسلہ کلام رہ جاتا ہے.چونکہ وہی حصہ باقی ہوتا ہے اس لئے خدا ان سے کلام کرتا ہے اور وہ خدا کو مخاطب کرتے رہتے ہیں.تنہائی اور بے کاری میں بھی جب ایسے خیالات کا سلسلہ ایک انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے اس وقت اگر نبی کو بھی ویسی ہی حالت میں دیکھو تو شاید غلطی اور ناواقفی سے یہ سمجھ لو کہ اب اس کا سلسلہ تو خدا سے کلام کا نہ ہوگا مگر نہیں وہ ہر وقت خدا ہی سے باتیں کرتا ہے کہ اے خدا میں تجھ سے پیار کرتا
ہوں اور تیری رضا کا طالب ہوں.مجھ پر ایسا فضل کر کہ میں اس نقطہ اور مقام تک پہنچ جاؤں جو تیری رضا کا مقام ہے.مجھے ایسے اعمال کی توفیق دے جو تیری نظر میں پسندیدہ ہوں.دنیا کی آنکھ کھول کہ وہ تجھے پہچانے اور تیرے آستانے پر گرے.یہ اس کے خیالات ہوتے ہیں اور یہ اس کی آرزوئیں.اس میں ایسا محو اور فنا ہوتا ہے کہ دوسرا اس کو شناخت نہیں کر سکتا.وہ اس سلسلہ کو ذوق کے ساتھ دراز کرتا ہے اور پھر اس میں اس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ اس کا دل پگھل جاتا ہے اور اس کی روح بہہ نکلتی ہے.وہ پورے زور اور طاقت کے ساتھ آستانہ الوہیت پر گرتی اور اَنْتَ رَبِّیْ، اَنْتَ رَبِّیْ کہہ کر پکارتی ہے.تب اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم جوش میں آتا ہے اور وہ اس کو مخاطب کرتا اور اپنے کلام سے اس کو جواب دیتا ہے.یہ ایسا لذیذ سلسلہ ہے کہ ہر شخص اس کو سمجھ نہیں سکتا اور یہ لذّت ایسی ہے کہ الفاظ اس کو ادا نہیں کر سکتے.پس وہ بار بار مستسقی کی طرح باب ربوبیت ہی کو کھٹکاتا رہتا ہے اور وہاں ہی اپنے لئے راحت و آرام پاتا ہے.وہ دنیا میں ہوتا ہے لیکن دنیا سے الگ ہوتا ہے.وہ دنیا کی کسی چیز کا آرزو مند نہیں ہوتا لیکن دنیا اس کی خادم ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس کے قدموں پر دنیا کو لا ڈالتا ہے.یہ ہے مختصر حقیقت نبوت کے مقام کی.یہاں کلام نفسی کے دونوں سلسلے بھسم ہو جاتے ہیں اور تیسرا سلسلہ شروع ہوتا ہے.جس کا مبدء اور منتہا خدا ہی ہوتا ہے.اس وقت وہ خدا تعالیٰ کے کلام کو جذب کرتا ہے جس میں اس قسم کے دُخان اور اَضْغَاث اَحْلَام نہیں ہوتے جو نفسِ کلام میں ہوتے ہیں.بلکہ وہ دنیا سے انقطاع کلّی کئے ہوئے ہوتا ہے.جیسے ایک نفسانی خواہشوں کا اسیر اعلیٰ درجہ کا محبوبہ سے تعلق پیدا کر کے ہمہ گوش ہو کر تصور کرتا ہے اور اسے نفسانی لذّات کا معراج پاتا ہے اور قطعاً نہیں چاہتے کہ کسی دوسرے کو ملیں.اسی طرح پر نبی خدا تعالیٰ سے اپنے تعلقات کو یہاں تک پہنچاتا ہے کہ وہ اس تنہائی اور خلوت میں کسی دوسرے کا دخل ہرگز پسند نہیں کرتے.وہ اپنے محبوب سے ہم کلام ہوتے ہیں اور اسی میں لذّت و راحت پاتے ہیں.وہ ایک دم کے لئے بھی اس خلوت کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے.لیکن خدا تعالیٰ انہیں دنیا کے سامنے لاتا ہے تاکہ وہ دنیا کی اصلاح کریں اور خدا نما آئینہ ٹھہریں.نبی طبعاً ایک لذّت اور کیفیت پاتا ہے اور اسے خدا تعالیٰ ہی میں چاہتا ہے.اس سے زیادہ مَیں اس کیفیت کو بیان نہیں کر سکتا اگرچہ دل اس لذّت سے بھرا ہوا ہے اگرچہ اس ذکر کی درازی اور
بھی لذّت بخش ہے.مگر وہ الفاظ کہاں سے لاؤں جس میں مَیں اس کو ظاہر کر سکوں.کیا وجہ ہے کہ انبیاءؑ بیویاں اور بچے بھی رکھتے ہیں؟ بعض نادان لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ جب کہ انبیاء علیہم السلام ایسے فنافی اللہ ہوتے ہیں اور دنیا اور اس کی لذّتوں سے دور بھاگتے ہیں پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ وہ بیویاں اور بچے بھی رکھتے ہیں؟ یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ ایک شخص تو ان باتوں کا اسیر اور ان فانی لذّتوں میں فنا ہوجاتا ہے مگر یہ گروہ ان باتوں سے پاک ہوتا ہے.یہ چیزیں ان کے لئے محض خادم کے طور پر ہوتی ہیں اور اس کے علاوہ انبیاء علیہم السلام ہر قسم کی اصلاح کے لئے آتے ہیں.پس اگر وہ بیوی بچے نہ رکھتے ہوں تو اس پہلو میں تکمیل اصلاح کیون کر ہوتی.اسی لئے میں کہتا ہوں کہ عیسائی لوگ معاشرت کے متعلق مسیحؑ کا کیا نمونہ پیش کر سکتے ہیں؟ کچھ بھی نہیں.جب وہ اس راہ سے ناواقف ہیں اور ان مدارج سے بے خبر ہیں وہ کیا اصلاح کریں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی کمال ہے کہ ہر پہلو میں آپ کا نمونہ کامل ہے.دنیا اور اس کی چیزیں انبیاء علیہم السلام پر کوئی اثر نہیں ڈالتی ہیں وہ فانی لذّتوں کی کچھ بھی پروا نہیں کرتے بلکہ ان کا دل خدا تعالیٰ کی طرف دریا کی ایک تیز دھاری کی طرح جو پہاڑ سے گرتی ہے بہتا ہے اور اس کے رَو میں سب خس و خاشاک بہہ جاتا ہے.غرض انبیا علیہم السلام ان چیزوں کے غلام نہیں ہوتے بلکہ یہ چیزیں ان کے لئے بطور خادم ہوتی ہیں اور ان کے اعلیٰ درجہ کے اخلاقی کمالات کا نمونہ ان کے اس ذکر اور ذوق میں جو خدا تعالیٰ کے تصور اور محویت میں انہیں ملتا ہے ان سے کچھ حرج پیدا نہیں ہوتا.وہ کچھ ایسے محو اور فنا ہوتے ہیں کہ دنیا سے بالکل الگ ہوتے ہیں.جب اس قسم کی ربودگی ہوتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے آوازیں آنے لگتی ہیں اور مکالمات ہوتے ہیں.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جو جذب کی قوت لے کر نکلتی ہے وہ دوسرے کو جذب کرتی ہے.اس جذب میں اس قدر قوت ہوتی ہے کہ دنیا اور مافیہا کی ساری باتیں اس میں بھسم ہو جاتی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل اور فیض کو اپنی طرف کھینچنے لگتی ہے اور اسی سلسلہ کو باقی تمام سلسلوں پر تقدم اور فوق ہو جاتا ہے لیکن اس کے لئے مجاہدہ صحیحہ کی ضرورت ہے.اس کے بغیر یہ راہ نہیں کھلتی جیسا کہ فرمایا ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) اور
اسی کی طرف اشارہ ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں.اگرچہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کو اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ پر تقدم ہے لیکن پھر بھی اگر غور کیا جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت نے سبقت کی ہوئی ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ بھی کسی قوت نے کہلوایا ہے اور وہ قوت جو پوشیدہ ہی پوشیدہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا اقرار کراتی ہے کہاں سے آئی؟ کیا خدا تعالیٰ نے ہی وہ عطا نہیں فرمائی ہے؟ بے شک وہ خدا تعالیٰ کا ہی عطیہ ہے جو اس نے محض رحمانیت سے عطا فرمائی ہے.اس کی تحریک اور توفیق سے یہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ بھی کہتا ہے.اس پہلو سے اگر غور کریں تو اس کو تأخّر ہے اور دوسرے پہلو سے اس کو تقدم ہے.یعنی جب یہ قوت اس کو اس بات کی طرف لاتی ہے تو یہ تأخّر ہو گیا اور بصورت اوّل تقدم.اسی طرح پر سلسلہ نبوت کی فلاسفی کا خلاصہ یا مفہوم ہے.۷۹؎ لوازمِ نبوت یہ تو ممکن ہے کہ ہزاروں ہزار انسان ملہم ہونے کا دعویٰ کریں اور اثبات نبوت اور کلام الٰہی کی حجت قائم کرنے کے واسطے یہ ضروری اَمر ہے مگر اَمرِ نبوت میں مقصود بالذّات ایک اور اَمر ہوتا ہے جو خاص نبیوں سے مخصوص ہوتا ہے اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب کوئی شَے آتی ہے تو اس کے لوازم اس کے ساتھ ہوتے ہیں.یہ نہیں کہ وہ لوازم سے الگ ہو.مثلاً جب کھانا آئے گا تو اس کے لوازم ساتھ ہی ہوں گے.ہر قسم کے برتن، پانی یہاں تک کہ خلال بھی دے دیں گے.اسی طرح پر لوازماتِ نبوت اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور منجملہ ان کے ایک یہ بھی ہے کہ کلام نفسانی کا سلسلہ بالکل ختم ہو جاتا ہے اور یہ اَمر اصل کیفیت کے لوازم میں سے ہے اور اس کے آثار و علامات کی دلیل وہ پیشگوئیاں ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ انہیں عطا کرتا ہے.یہ بھی یاد رکھو کہ نبیوں کا ایک اور نام آسمان پر ہوتا ہے جس سے دوسرے لوگ آشنا بھی نہیں ہوتے اور بعض وقت جب وہ آسمانی نام دنیا میں پیش ہوتا ہے تو لوگوں کو ٹھوکر لگ جاتی ہے.مثلاً میرے ہی معاملہ میں خدا نے میرا نام مسیح ابن مریم بھی رکھا ہے.بعض نادان اعتراض کرتے ہیں کہ تمہارا نام تو غلام احمد ہے وہ اس راز کو سمجھ نہیں سکتے.یہ اسرارِ نبوت میں سے ایک بات ہے.غرض جب دونو قسم کے جھوٹے مکالمے ختم ہو جاتے ہیں تو پھر دل بولتا ہے.ہر وقت بولتا رہتا ہے.
حرکت کرتا ہے تب بھی اس سے آواز آتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہزاروں ہزار لوگ اس کے پاس اَور اَور قسم کی باتوں میں مشغول ہوں یہ اپنے اس سلسلہ میں لذّت پاتا ہے اور اپنے محبوب سے کلام کرنے میں مصروف ہوتا ہے.یہی وجہ ان کی جمعیّت قلب کی ہوتی ہے.کوئی شوروشر اس کو پراگندہ نہیں کر سکتا.عام طور پر ایک عاشق چاہتا ہے کہ وہ اپنے معشوق اور محبوب کے حسن و جمال پر پوری اطلاع پالے اور ہر وقت اس سے کلام کریں مگر یہ سب کچھ نہیں ہے اور یہ خواہشیں ذلیل ہیں مگر خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے والا اور اس کے عشق میں گمشدہ قوم نبیوں کی ان جھوٹے اور فانی عاشقوں کے عشق سے کہیں بڑھ کر اپنے اندر جوش رکھتے ہیں کیونکہ وہ خدا وہ ہے جو جھکنے والوں کی طرف جھکتا ہے یہاں تک کہ اس سے زیادہ توجہ کرتا ہے.خدا کی طرف آنے والا اگر معمولی چال سے چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے.پس ایسے خدا کی طرف جس کی توجہ ہو جاوے اور وہ اس کی محبت میں کھویا جاوے وہ محبت اور عشق الٰہی کی آگ ان امانی اور نفسانی خیالات کو جلا دیتی ہے پھر ان کے اندر روح ناطق ہو جاتی ہے اور پاک نُطق جو ادھر سے شروع ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا نُطق ہوتا ہے.دوسرے رنگ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ دعا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو جواب دیتا ہے.پس یہ ایک کمال نبوت ہے اور اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں رکھا گیا ہے.اس لیے جب انسان اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتـحۃ:۶، ۷) کی دعا مانگے تو اس کے ساتھ ہی یہ امر پیش نظر رہے کہ اس کمالِ نبوت کو حاصل کرے.مقامِ صدّیقیت پھر دوسرا کمال صدیقوں کا کمال ہے.صدیق مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی جو بالکل راستبازی میں فنا شدہ ہو اور کمال درجہ کا پابندِ راستبازی اور عاشق صادق ہو اس وقت وہ صدیق کہلاتا ہے.یہ ایک ایسا مقام ہے جب ایک شخص اس درجہ پر پہنچتا ہے تو وہ ہر قسم کی صداقتوں اور راستبازیوں کا مجموعہ اور ان کو کشش کرنے والا ہو جاتا ہے جس طرح پر آتشی شیشہ سورج کی شعاعوں کو اپنے اوپر جمع کر لیتا ہے اسی طرح پر صدیق کمالات صداقت کا جذب کرنے والا ہوتا ہے.بقول شخصے زر زر کشد در جہاں گنج گنج # جب ایک شَے بہت بڑا ذخیرہ پیدا کر لیتی ہے تو اسی قسم کی اشیاء کو جذب کرنے کی قوت اس میں
پیدا ہو جاتی ہے.کمال صدّیقیت کے حصول کا فلسفہ اور حیثیت کے موافق اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتا ہے اور صدق اختیار کرتا اور جھوٹ کو ترک کر دیتا ہے اور ہر قسم کے رِجس اور پلیدی سے جو جھوٹ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے دور بھاگتا ہے اور عہد کر لیتا ہے کہ کبھی جھوٹ نہ بولوں گا، نہ جھوٹی گواہی دوں گا اور جذبۂ نفسانی کے رنگ میں کوئی جھوٹی کلام نہ کروں گا.نہ لغو طور پر، نہ کسبِ خیر کے لئے، نہ دفعِ شر کے لئے یعنی کسی رنگ اور حالت میں بھی جھوٹ کو اختیار نہیں کروں گا.جب اس حد تک وعدہ کرتا ہے تو گویا اِيَّاكَ نَعْبُدُ پر وہ ایک خاص عمل کرتا ہے اور وہ عمل اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ سے آگے اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ہے.خواہ یہ اس کے منہ سے نکلے یا نہ نکلے لیکن اللہ تعالیٰ جو مبدء الفیوض اور صدق اور راستی کا چشمہ ہے اس کو ضرور مدد دے گا اور صداقت کے اعلیٰ اصول اور حقائق اس پر کھول دے گا.جیسے یہ قاعدہ کی بات ہے کہ کوئی تاجر جو اچھے اصولوں پر چلتا ہے اور راستبازی اور دیانتداری کو ہاتھ سے نہیں دیتا اگرچہ وہ ایک پیسہ سے تجارت کرے اللہ تعالیٰ اسے ایک پیسہ کے لاکھوں لاکھ روپیہ دیتا ہے.صدّیق پر معارف قرآنی کھولے جاتے ہیں اسی طرح پر جب عام طور پر انسان راستی اور راستبازی سے محبت کرتا ہے.اور صدق کو اپنا شعار بنا لیتا ہے تو وہی راستی اس عظیم الشان صدق کو کھینچ لاتی ہے جو خدا تعالیٰ کو دکھا دیتی ہے اور وہ صدق مجسم قرآن کریم ہے اور وہ صدق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے.ایسا ہی خدا تعالیٰ کے مامور و مرسل حق اور صدق ہوتے ہیں.پس وہ اس صدق تک پہنچ جاتے ہیں تب ان کی آنکھ کھلتی ہے اور ایک خاص بصیرت ملتی ہے جس سے معارف قرآنی کھلنے لگتے ہیں.میں اس بات کے ماننے کے واسطے کبھی طیار نہیں ہوں کہ وہ شخص جو صدق سے محبت نہیں رکھتا اور راستبازی کو اپنا شعار نہیں بناتا وہ قرآن کریم کے معارف کو سمجھ بھی سکے اس واسطے کہ اس کے قلب کو مناسبت ہی نہیں.یہ تو صدق کا چشمہ ہے اسے وہی پی سکتا ہے جس کو صدق سے محبت ہو.
اور پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ معارف قرآنی صرف اسی بات کا نام نہیں کہ کبھی کسی نے کوئی نکتہ بیان کر دیا.اس کی تو وہی مثال ہے.گاہ باشد کہ کود کے نادان بغلط بر ہدف زند تیرے # انہیں قرآنی حقائق اور معارف کے بیان کرنے کے لئے قلب کو مناسبت اور کشش اور تعلق حق اور صدق سے ہو جاتا ہے پھر یہاں تک اس میں ترقی اور کمال ہوتا ہے کہ وہ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى (النجم:۴) کا مصداق ہو جاتا ہے.اس کی نگاہ جب پڑتی ہے صدق پر ہی پڑتی ہے.اس کو ایک خاص قوت اور امتیازی طاقت دی جاتی ہے جس سے وہ حق و باطل میں فی الفور امتیاز کر لیتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل میں ایک قوت آجاتی ہے جو ایسی تیز حس ہوتی ہے کہ اسے دور سے ہی باطل کی بو آجاتی ہے.یہی وہ سِرّ ہے جو لَا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ (الواقعۃ:۸۰) میں رکھا گیا ہے.جھوٹ ترک کئے بغیر انسان مطہّر نہیں ہو سکتا حقیقت میں جب تک انسان جھوٹ کو ترک نہیں کرتا وہ مطہّر نہیں ہو سکتا.نابکار دنیا دار کہتے ہیں کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا یہ ایک بے ہودہ گوئی ہے.اگر سچ سے گزارہ نہیں ہو سکتا تو جھوٹ سے ہر گز نہیں ہو سکتا.افسوس ہے کہ یہ بد بخت خدا کی قدر نہیں کرتے.وہ نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بدوں گزارہ نہیں ہو سکتا.وہ اپنا معبود اور مشکل کشا جھوٹ کی نجاست کو سمجھتے ہیں اسی لیے خدا تعالیٰ نے جھوٹ کو بتوں کی نجاست کے ساتھ وابستہ کر کے قرآن کریم میں بیان کیا ہے.یقیناً سمجھو کہ ہم ایک قدم کیا ایک سانس بھی خدا کے فضل کے بغیر نہیں لے سکتے.ہمارے جسم میں کیا کیا قویٰ ہیں لیکن ہم اپنی طاقت سے کیا کر سکتے ہیں؟ کچھ بھی نہیں.خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کے معنی جو لوگ اپنی قوتِ بازو پر بھروسہ کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا.اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ رہنے کا نام خدا پر بھروسہ ہے.اسباب سے کام لینا اور خدا تعالیٰ کے عطا کردہ قویٰ کو کام میں لگانا یہ بھی خدا تعالیٰ کی قدر ہے جو لوگ ان قویٰ سے کام نہیں لیتے اور
منہ سے کہتے ہیں کہ ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں وہ بھی جھوٹے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی قدر نہیں کرتے خدا تعالیٰ کو آزماتے ہیں اور اس کی عطا کی ہوئی قوتوں اور طاقتوں کو لغو قرار دیتے ہیں اور اس طرح پر اس کے حضور شوخی اور گستاخی کرتے ہیں.اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے مفہوم سے دور جا پڑتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے اور اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کا ظہور چاہتے ہیں یہ مناسب نہیں جہاں تک ممکن اور طاقت ہو رعایتِ اسباب کرے لیکن ان اسباب کو اپنا معبود اور مشکل کشا قرار نہ دے بلکہ کام لے کر پھر تفویض الی اللہ کرے اور اس بات پر سجدات شکر بجا لائے کہ اسی خدا نے وہ قویٰ اور طاقتیں اس کو عطا فرمائی ہیں.۸۰؎ فانی فی اللہ کا مقام خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا.جب اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کھینچا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ میں فنا ہوجاتا ہے تو اس سے وہ کام صادر ہوتے ہیں جو خدائی کام کہلاتے ہیں.اس پر اعلیٰ سے اعلیٰ انوار ظاہر ہونے لگتے ہیں.انسانی کمزوری کا تو کچھ ٹھکانا ہی نہیں ہے.وہ ایک قدم بھی خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید کے بغیر نہیں چل سکتا.میں تو یہاں تک یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے مدد نہ ملے تو وہ رفع حاجت کے بعد ازار بند تک بھی باندھنے کی طاقت نہیں رکھ سکتا.طبیبوں نے ایک مرض لکھی ہے کہ انسان چھینک کے ساتھ ہی ہلاک ہو جاتا ہے.یقیناً یاد رکھو کہ انسان کمزوریوں کا مجموعہ ہے اور اسی لیے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا (النساء:۲۹) اس کا اپنا تو کچھ بھی نہیں ہے.سر سے پاؤں تک اتنے اعضاء نہیں جس قدر امراض اس کو لاحق ہوتے ہیں.پھر جب وہ اس قدر کمزوریوں کا نشانہ اور مجموعہ ہے تو اس کے لیے امن اور عافیت کی یہی سبیل ہے کہ خدائے تعالیٰ کے ساتھ اس کا معاملہ صاف ہو اور وہ اس کا سچا اور مخلص بندہ بنے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ صدق کو اختیار کرے.جسمانی نظام کی کَل بھی صدق ہی ہے.جو شخص صدق کو چھوڑتے ہیں اور خیانت کر کے جرائم کو پناہ میں لانے والی سِپر کذب کو خیال کرتے ہیں.وہ سخت غلطی پر ہیں.کِذب اختیار کرنے سے انسان کا دل تاریک ہو جاتا ہے آنی اور عارضی طور پر شاید کوئی فائدہ
انسان سمجھ لے لیکن فی الحقیقت کذب اختیار کرنے سے انسان کا دل تاریک ہو جاتا ہے اور اندر ہی اندر اسے ایک دیمک لگ جاتی ہے.ایک جھوٹ کے لیے پھر اسے بہت سے جھوٹ تراشنے پڑتے ہیں کیونکہ اس جھوٹ کو سچائی کا رنگ دینا ہوتا ہے.پس اسی طرح اندر ہی اندر اس کے اخلاقی اور رُوحانی قویٰ زائل ہو جاتے ہیں اور پھر اُسے یہاں تک جرأت اور دلیری ہو جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ پر بھی افترا کر لیتا اور خدا کے مُرسلوں اور ماموروں کی تکذیب بھی کر دیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ اَظْلَم ٹھیرتا ہے.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِهٖ (الانعام:۲۱) یعنی اُس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور افترا باندھے یا اس کی آیات کی تکذیب کرے.یقیناً یاد رکھو کہ یہ جھوٹ بہت ہی بُری بَلا ہے انسان کو ہلاک کر دیتا ہے.اس سے بڑھ کر جھوٹ کا خطرناک نتیجہ کیا ہوگا کہ انسان خدا تعالیٰ کے مرسلوں اور اُس کی آیات کی تکذیب کر کے سزا کا مستحق ہو جاتا ہے.پس صِدق اختیار کرو.صِدق کے متعلق حضرت سید عبدالقادر جیلانی کا واقعہ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ذکر میں درج ہے کہ جب وہ اپنے گھر سے طلب علم کے لیے نکلے تو ان کی والدہ صاحبہ نے ان کے حصہ کی اسی (۸۰) اشرفیاں اُن کی بغل کے نیچے پیراہن میں سی دیں اور یہ نصیحت کی کہ بیٹا جھوٹ نہ بولنا.سید عبدالقادرؒ جب رخصت ہوئے تو پہلی ہی منزل میں ایک جنگل میں سے اُن کا گزر ہوا جہاں چوروں اور قزاقوں کا ایک بڑا قافلہ رہتا تھا.چوروں کا ایک گروہ ان کو ملا.اُنھوں نے ان کو پکڑ کر پوچھا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟انہوں نے دیکھا کہ یہ تو پہلی ہی منزل میں امتحان پیش آیا.والدہ کی آخری نصیحت پر غور کی اور کہا کہ میرے پاس اسی (۸۰) اشرفیاں ہیں جو میری بغل کے نیچے میری والدہ نے سی دی ہیں.وہ چور یہ سن کر سخت حیران ہوئے کہ یہ فقیر کیا کہتا ہے! ایسا راستباز ہم نے کبھی نہیں دیکھا.وہ انہیں پکڑ کر اپنے سردار کے پاس لے گئے اور سارا قصہ بیان کیا.اس نے جب سوال کیا تب پھر سید عبد القادر جیلانیؒ نے وہی جواب دیا.آخر جب ان کے پیراہن کے اس حصہ کو پھاڑ کر دیکھا گیا تو واقعی اس میں اسی (۸۰) اشرفیاں تھیں.اُن سب کو حیرانی ہوئی اور اس سردار نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ اس پر سید عبد القادر جیلانیؒ
نے اپنی والدہ کی نصیحت کا ذکر کیا اور کہا کہ میں طلبِ دین کے لئے چلا ہوں اگر پہلی ہی منزل پر جھوٹ بولتا تو اَور کیا حاصل کرتا.اس لئے میں نے سچ کو نہیں چھوڑا.جب انہوں نے یہ بیان کیا تو وہ سردار چیخیں مار کر رو پڑا اور آپ کے قدموں پر گر گیا اور اپنے گناہوں سے توبہ کی.کہتے ہیں کہ پہلا مرید آپ کا وہی ہوا تھا.غرض صدق ایسی شے ہے جو انسان کو مشکل سے مشکل اوقات میں بھی نجات دیتا ہے.سعدی نے سچ کہا ہے کہ کس ندیدم کہ گم شد از راہ راست # پس جس قدر انسان صدق کو اختیار کرتا ہے اور صدق سے محبت کرتا ہے اسی قدر اس کے دل میں خدا کے کلام اور نبیوں کی محبت اور معرفت پیدا ہوتی ہے کیونکہ وہ تمام راستبازوں کے نمونے اور چشمے ہوتے ہیں.كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ(التوبۃ:۱۱۹)کا ارشاد اسی اصول پر ہے.صدّیق پر قرآن کریم کے معارف کا فیضان مختصر یہ کہ دوسرا کمال اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں صدیقوں کا کمال ہے اس کمال کے حاصل ہونے پر قرآن شریف کے حقائق اور معارف کھلتے ہیں لیکن یہ فضل اور فیض بھی الٰہی تائید سے آتا ہے.ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ خدا تعالیٰ کی تائید اور فضل کے بغیر ایک انگلی کا ہلانا بھی مشکل ہے.ہاں یہ انسان کا فرض ہے کہ سعی اور مجاہدہ کرے جہاں تک اس سے ممکن ہے اور اس کی توفیق بھی خدا تعالیٰ ہی سے چاہے کبھی اس سے مایوس نہ ہو کیونکہ مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خود بھی فرمایا لَا يَايْـَٔسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ (یوسف:۸۸) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کافر ناامید ہوتے ہیں.نا امیدی بہت ہی بُری چیز ہے.اصل میں نا امید وہ ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ پر بدظنی کرتا ہے.بدظنی صدق کی جڑ کاٹنے والی چیز ہے یہ خوب یاد رکھو کہ ساری خرابیاں اور برائیاں بد ظنی سے پیدا ہوتی ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس سے بہت منع کیا ہے اور فرمایا اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (الـحجرات:۱۳) اگر مولوی ہم سے بد ظنی
نہ کرتے اور صدق اور استقلال کے ساتھ آکر ہماری باتیں سنتے، ہماری کتابیں پڑھتے اور ہمارے پاس رہ کر ہمارے حالات کا مشاہدہ کرتے تو وہ الزام جو ہم پر لگاتے ہیں نہ لگاتے.لیکن جب انہوں نے خدا تعالیٰ کے اس ارشاد کی عظمت نہ کی اور اس پر کار بند نہ ہوئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھ پر بدظنی کی اور میری جماعت پر بھی بدظنی کی اور جھوٹے الزام اور اتہام لگانے شروع کر دیئے یہاں تک کہ بعض نے بڑی بے باکی سے لکھ دیا کہ یہ تو دہریوں کا گروہ ہے.نمازیں نہیں پڑھتے.روزے نہیں رکھتے.وغیرہ وغیرہ.اب اگر وہ اس بدظنی سے بچتے تو ان کو جھوٹ کی لعنت کے نیچے نہ آنا پڑتا وہ اس سے بچ جاتے.میں سچ کہتا ہوں کہ یہ بدظنی بہت ہی بُری بلا ہے انسان کے ایمان کو تباہ کر دیتی ہے اور صدق اور راستی سے دور پھینک دیتی ہے.دوستوں کو دشمن بنا دیتی ہے.صدیقوں کے کمال کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان بدظنی سے بہت ہی بچے.اور اگر کسی کی نسبت کوئی سوء ظن پیدا ہو تو کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرے تاکہ اس معصیت اور اس کے بُرے نتیجے سے بچ جاوے جو اس بدظنی کے پیچھے آنے والا ہے.اس کو کبھی معمولی چیز نہیں سمجھنا چاہیے.یہ بہت ہی خطرناک بیماری ہے جس سے انسان بہت جلد ہلاک ہو جاتا ہے.۸۱؎ غرض بدظنی انسان کو تباہ کر دیتی ہے یہاں تک کہ جب دو زخی جہنم میں ڈالے جاویں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو یہی فرمائے گا کہ تمہارا یہ گناہ ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ سے بد ظنی کی.بعض لوگ اس قسم کے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خطا کاروں کو معاف کر دے گا اور نیکو کاروں کو عذاب کرے گا.یہ بھی خدا تعالیٰ پر بدظنی ہے اس لئے کہ اس کی صفت عدل کے خلاف کرنا ہے اور نیکی اور اس کے نتائج کو جو قرآن شریف میں اس نے مقرر فرمائے ہیں بالکل ضائع کر دینا اور بے سود ٹھہرانا ہے.پس یاد رکھو کہ بدظنی کا انجام جہنم ہے.اس کو معمولی مرض نہ سمجھو.بدظنی سے ناامیدی اور ناامیدی سے جرائم اور جرائم سے جہنم ملتا ہے.اور یہ صدق کی جڑ کاٹنے والی چیز ہے.اس لئے تم اس سے بچو اور صدیق کے کمالات کو حاصل کرنے کے لئے دعائیں کرو.
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا بے نظیر صدق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صدّیق کا خطاب دیا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ میں کیا کیا کمالات تھے.یہ بھی فرمایا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اس چیز کی وجہ سے ہے جو اس کے دل کے اندر ہے اور حقیقت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو صدق دکھایا ہے اس کی نظیر ملنی مشکل ہے.اور سچ تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں جو شخص صدیق کے کمالات حاصل کرنے کی خواہش کرے اسے ضروری ہے کہ ابوبکری خصلت اور فطرت کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے جہاں تک ممکن ہے مجاہدہ کرے اور پھر جہاں تک ہوسکے دعا کرے.جب تک ابوبکری فطرت کا سایہ اپنے اوپر ڈال نہیں لیتا اور اسی رنگ میں رنگین نہیں ہو جاتا وہ کمالات حاصل نہیں ہو سکتے.ابو بکری فطرت کیا ہے؟ ابوبکری فطرت کیا تھی؟ اس پر مفصل بحث اور کلام کا یہ موقع نہیں کیونکہ بہت عرصہ اس کے بیان کے لئے درکار ہے.مختصر طور پر مَیں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار نبوت فرمایا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ شام کی طرف گئے ہوئے تھے جب واپس آئے تو ابھی راستہ ہی میں تھے کہ ایک شخص ان سے ملا.اس سے مکہ کے حالات پوچھے اور کہا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان سفر سے واپس آتا ہے تو اگر کوئی اہل وطن مل جاوے تو اس سے وطن کے حالات پوچھتا ہے.اس نے کہا کہ نئی بات یہ ہے کہ تیرے دوست محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے آپ نے سنتے ہی کہا اگر اس نے یہ دعویٰ کیا ہے تو بے شک وہ سچا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ پر کس قدر حسن ظن تھا.معجزے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی اور حقیقت یہ ہے کہ معجزہ وہ شخص مانگتا ہے جو حالات سے واقف نہ ہو اور جہاں غیریت ہو اور وہ تسلی پانے کے لئے کہتا ہو.لیکن جس کو انکار ہی نہیں ہے اس کو معجزہ کی کیا ضرورت؟ غرض حضرت ابوبکر صدیق راستہ ہی میں سن کر ایمان لے آئے اور جب مکہ پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ کیا آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں درست ہے.اس پر حضرت ابوبکر صدیق نے کہا کہ آپ گواہ رہیں میں آپ کا پہلا مصدق ہوں لیکن یہ صرف
قول ہی قول نہ تھا بلکہ اپنے فعل کے ساتھ اس کو مطابق کر کے دکھایا اور ایسا مطابق کیا کہ اخیر دم تک اسے نبھایا اور بعد مرنے کے بھی ساتھ نہ چھوڑا.قول اور فعل میں مطابقت حقیقت میں اس امر کی بہت بڑی ضرورت ہے کہ انسان کا قول اور فعل باہم ایک مطابقت رکھتے ہوں.اگر ان میں مطابقت نہیں تو کچھ بھی نہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ (البقرۃ:۴۵) یعنی تم لوگوں کو تو نیکی کا امر کرتے ہو مگر اپنے آپ کو اس امر نیکی کا مخاطب نہیں بناتے بلکہ بھول جاتے ہو.اور پھر دوسری جگہ فرمایا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصّف:۳) مومن کو دو رنگی اختیار نہیں کرنی چاہیے.یہ بزدلی اور نفاق اس سے ہمیشہ دور ہوتا ہے.ہمیشہ اپنے قول اور فعل کو درست رکھو اوران میں مطابقت دکھاؤ.جب صحابہؓ نے اپنی زندگیوں میں دکھایا تم بھی ان کے نقش قدم پر چل کر اپنے صدق اور وفا کے نمونے دکھاؤ.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نمونہ اپنے سامنے رکھو حضرت ابو بکرصدیقؓ کے نمونے کو ہمیشہ سامنے رکھو.آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اُس زمانہ پر غور کرو جب ہر طرف سے قریش شرارت پر تلے ہوئے تھے اور کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل کا منصوبہ کیا وہ زمانہ بڑے ابتلا کا زمانہ تھا.آج جس قدر تم بیٹھے ہوئے ہو اپنی اپنی جگہ سوچو کہ اگر اس قسم کا کوئی ابتلا آجاوے تو کون ہے جو ساتھ دے.یا مثلاً گورنمنٹ ہی کی طرف سے یہ تفتیش شروع ہو کہ کس کس نے اس شخص کی بیعت کی ہے تو کتنے ہوں گے جو دلیری کے ساتھ کہہ دیں کہ ہم مبایعین میں داخل ہیں.میں جانتا ہوں کہ بعضوں کے ہاتھ پاؤں سن ہو جاویں.انہیں فوراً اپنی جائیدادوں اور رشتہ داروں کے خیالات آجاویں کہ ہمیں یہ چھوڑنے پڑیں گے.مشکلات کے وقت ساتھ دینا ہمیشہ کامل الایمان لوگوں کا کام ہوتا ہے تو اس زمانہ میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر سخت ابتلا کا زمانہ تھا اور آپ کے قتل کے منصوبے ہو رہے تھے حضرت ابوبکر صدیق نے وہ حقِ رفاقت ادا کیا کہ اس کی نظیر دنیا میں پائی نہیں جاتی.یہ طاقت اور قوت بجز ایمان کے نہیں آتی.جب تک عملی طور پر
انسان ایمان کو اپنے اندر داخل نہ کرے کچھ نہیں بنتا.بہانہ سازی اس وقت تک دور ہی نہیں ہوتی.عملی طور پر جب آگ لگی ہوئی ہو تو ثابت قدم نکلنے والے تھوڑے ہی ہوتے ہیں.حضرت مسیح کے حواری اس آخری گھڑی میں جو مصیبت کی گھڑی تھی ان کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور بعض نے سامنے ہی لعنت بھی کر دی.حقیقت میں یہ بڑی عبرت کا مقام ہے.حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پر ایک وقت آیا تھا کہ مسلم نے ۷۰ ہزار آدمیوں کے ساتھ نماز پڑھی اورعہد کیا.کسی نے آکر یزید کی خبر دی سب کے سب چھوڑ بھاگے.عمل ایمان کا زیور ہے اِس قسم کے واقعات ڈراتے ہیں.اپنے ایمان کا وزن کرو.عمل ایمان کا زیور ہے.اگر عملی حالت درست نہیں ہے تو حقیقت میں ایمان بھی نہیں ہے.مومن حسین ہوتا ہے.جیسے ایک خوبصورت کو معمولی اور ہلکا سا کڑا بھی پہنا دیا جاوے تو اسے زیادہ خوبصورت بنا دیتا ہے اسی طرح پر ایماندار کو عمل اور بھی خوبصورت دکھاتا ہے اور اگر بدعمل ہے تو کچھ بھی نہیں.حقیقی ایمان جب انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے تو اعمال میں ایک لذّت پیدا ہو جاتی ہے.اس کی معرفت کی آنکھ کھل جاتی ہے.وہ نماز پڑھتا ہے جو نماز پڑھنے کا حق ہے.گناہوں سے اسے بیزاری پیدا ہوتی ہے.ناپاک مجلسوں سے نفرت کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی عظمت اور جلال کے ظاہر کرنے کے واسطے اپنے دل میں ایک جوش اور تڑپ دیکھتا ہے.وہی ایمان اسے مسیحؑ کی طرح صلیب پر چڑھانے سے نہیں روکتا.وہ خدا کے لئے ہاں خدا ہی کے لئے ابراہیم ؑ کی طرح آگ میں بھی پڑ جانے پر راضی ہوتا ہے.جب وہ اپنی رضا کو رضائے الٰہی کے ماتحت کر دیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ جو عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ہے اس کا محافظ اور نگران ہو جاتا ہے.وہ صلیب پر سے بھی زندہ اتار لیتا ہے اور آگ میں سے بھی صحیح و سلامت نکال لیتا ہے.ان عجائبات کو وہی دیکھتے ہیں جو خدا تعالیٰ پر پورا ایمان لاتے ہیں.غرض ابو بکر صدیقؓ کا صدق اس آگ کے وقت ظاہر ہوا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محاصرہ کیا گیا.گو بعض کی رائے اخراج کی بھی تھی لیکن اصل قتل ہی تھا.ایسی حالت میں حضرت ابوبکر صدیق
نے اپنے صدق و وفا کا وہ نمونہ دکھایا جو ابدا لآباد کے لئے نمونہ رہے گا.اس مصیبت کی گھڑی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انتخاب ہی حضرت صدیقؓ کی فضیلت اور اعلیٰ وفاداری کی ایک زبردست دلیل ہے.دیکھو! اگر وائسرائے ہند کسی شخص کو کسی خاص کام کے لئے انتخاب کرے تو وہ رائے بہتر اور صائب ہوگی یا ایک چوکیدار کی.ماننا پڑے گا کہ وائسرائے کا انتخاب بہرحال موزوں اور مناسب ہوگا کیونکہ جس حال میں سلطنت کی طرف سے وہ نائب السلطنت مقرر کیا گیا ہے تو اس کی وفاداری، فراست اور پختہ کاری پر سلطنت نے اعتماد کیا ہے.تب زمام سلطنت اس کے ہاتھ میں دی ہے.پھر اس کی صائب تدبیری اور معاملہ فہمی کو پس پشت ڈال کر ایک چوکیدار کے انتخاب اور رائے کو صحیح سمجھ لیا جاوے یہ نامناسب امر ہے.ہجرت میں رفاقت کے لئے حضرت ابو بکرؓ کے انتخاب کا سِرّ اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب تھا.اس وقت آپ کے پاس ستر (۷۰) اسی (۸۰) صحابہ موجود تھے.حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی آپ کے پاس ہی تھے مگر آپ نے ان سب میں سے حضرت ابو بکرؓ ہی کو منتخب کیا.اس میں سِرّ کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ نبی خدا تعالیٰ کی آنکھ سے دیکھتا ہے.اس کا فہم خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کشف اور الہام سے بتا دیا تھا کہ اس کام کے لئے سب سے بہتر اور موزوں حضرت ابو بکر صدیقؓ ہی ہیں.۸۲؎ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس ساعت عُسر میں آپ کے ساتھ ہوئے.یہ وقت خطر ناک آزمائش کا تھا.حضرت مسیحؑ پر جب اس قسم کا وقت آیا تو ان کے شاگرد اُن کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور ایک نے سامنے ہی لعنت بھی کی مگر صحابہ کرامؓ میں سے ہر ایک نے پوری وفاداری کا نمونہ دکھایا.غرض حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آپ کا پورا ساتھ دیا اور ایک غار میں جس کو غارِ ثور کہتے ہیں آپ جا چھپے.شریر کفار جو آپ کی ایذارسانی کے لئے منصوبے کر چکے تھے تلاش کرتے ہوئے اس غار تک پہنچ گئے.حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عرض کی کہ اب تو یہ بالکل سر پر ہی آ پہنچے ہیں اور اگر کسی نے ذرا نیچے نگاہ کی تو وہ دیکھ لے گا اور ہم
پکڑے جاویں گے.اس وقت آپؐ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا (التوبۃ:۴۰) کچھ غم نہ کھاؤ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.اس لفظ پر غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں یہ فرمایا اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا.مَعَنَا میں آپ دونوں شریک.یعنی تیرے اور میرے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک پلّہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رکھا ہے اور دوسرے پر حضرت صدیقؓ کو.اس وقت دونو ابتلا میں ہیں کیونکہ یہی وہ مقام ہے جہاں سے یا تو اسلام کی بنیاد پڑنے والی ہے یا خاتمہ ہو جانے والا ہے.دشمن غار پر موجود ہیں اور مختلف قسم کی رائے زنیاں ہو رہی ہیں.بعض کہتے ہیں کہ اس غار کی تلاشی کرو کیونکہ نشانِ پا یہاں تک ہی آکر ختم ہو جاتا ہے لیکن ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہاں انسان کا گزر اور دخل کیسے ہوگا.مکڑی نے جالا تنا ہوا ہے، کبوتر نے انڈے دیئے ہوئے ہیں.اس قسم کی باتوں کی آوازیں اندر پہنچ رہی ہیں اور آپ بڑی صفائی سے ان کو سن رہے ہیں.ایسی حالت میں دشمن آئے ہیں کہ وہ خاتمہ کرنا چاہتے ہیں.اور دیوانے کی طرح بڑھے آئے ہیں لیکن آپ کی کمال شجاعت کو دیکھو کہ دشمن سر پر ہے اور آپ اپنے رفیقِ صادق صدیق کو فرماتے ہیں لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا.یہ الفاظ بڑی صفائی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ نے زبان ہی سے فرمایا کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں.اشارہ سے کام نہیں چلتا.باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم و مخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں.اس امر کی پروا نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن لیں گے.یہ اللہ تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے.خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کے لئے تو یہ نمونہ کافی ہے.ابو بکر صدیق کی شجاعت کے لئے ایک دوسرا گواہ اس واقعہ کے سوا اَور بھی ہے.آنحضرتؐ کی رحلت کے وقت حضرت ابو بکرؓ کی شجاعت جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ تلوار کھینچ کر نکلے کہ اگر کوئی کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال کیا ہے تو میں اسے قتل کروں گا.ایسی حالت میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بڑی جرأت اور دلیری سے کلام کیا اور کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا مَا مُحَمَّدٌ
اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ (اٰل عـمران:۱۴۵) یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی اللہ تعالیٰ کے ایک رسول ہی ہیں اور آپؐ سے پہلے جس قدر نبی ہو گزرے ہیں سب نے وفات پائی ہے.اس پر وہ جوش فرو ہوا.اس کے بعد بادیہ نشین اعراب مرتد ہوگئے.ایسے نازک وقت کی حالت کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یوں ظاہر کیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوچکا ہے اور بعض جھوٹے مدعی نبوت کے ہوگئے ہیں اور بعضوں نے نمازیں چھوڑ دیں اور رنگ بدل گیا ہے.ایسی حالت میں اور اس مصیبت میں میرا باپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ اور جانشین ہوا.میرے باپ پر ایسے ایسے غم آئے کہ اگر پہاڑوں پر آتے تو وہ بھی نابود ہوجاتے.اب غور کرو کہ مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑنے پر بھی ہمت اور حوصلہ کو نہ چھوڑنا یہ کسی معمولی انسان کا کام نہیں.یہ استقامت صدق ہی کو چاہتی تھی اور صدیق ؓ ہی نے دکھائی.ممکن نہ تھا کہ کوئی دوسرا اس خطرہ کو سنبھال سکتا.تمام صحابہ ؓ اس وقت موجود تھے.کسی نے نہ کہا کہ میرا حق ہے.وہ دیکھتے تھے کہ آگ لگ چکی ہے.اس آگ میں کون پڑے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حالت میں ہاتھ بڑھا کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر سب نے یکے بعد دیگرے بیعت کرلی.یہ اُن کا ہی صدق تھا کہ اس فتنہ کو فرو کیا اور اُن موذیوں کو ہلاک کیا.مسیلمہ کے ساتھ ایک لاکھ آدمی تھا اور اس کے مسائل اباحت کے مسائل تھے.لوگ اس کی اباحتی باتوں کو دیکھ دیکھ کر اُس کے مذہب میں شامل ہوتے جاتے تھے لیکن خدا تعالیٰ نے اس معیت کا ثبوت دیا اور ساری مشکلات کو آسان کردیا.عیسائیت قبول کرنے کی ترغیبات خونِ مسیحؑ پرایمان لانا بھی سہل ہوا ہوا ہے کیونکہ اس پر ایمان لانے سے ایک تو روٹی مِل جاتی ہے دوسرے اباحت کی زندگی.پہلے تو اَللّٰہُ اَکْبَرُ کی آواز سے ہی نماز کے لئے اُٹھنا پڑتا اور اب یہ حال کہ خونِ مسیحؑ پر ایمان لاکر رات کو شراب پی کر سوگئے اور جب جی چاہا اُٹھے.کوئی باز پُرس نہیں.کچھ نہیں.ایسی حالت میں لوگوں کا رجوع عیسائیت کی طرف ہونا لازمی اَمر ہے.لوگوں کی حالت کچھ اس قسم کی ہوگئی ہے کہ کہتے ہیں.’’ایہہ جہان مٹھا، اگلا کس نے ڈِٹھا.‘‘ اس جہان میں بدمعاشیاں کرلو، آگے دیکھا جاوے گا.اس قسم کے لوگ روٹی، بے قیدی اور
آرام کی زندگی عیسائیت ہی میں پاسکتے ہیں.اُن کے لیے کوئی ضروری اَمر نہیں.خواہ دس برس تک بھی غُسلِ جنابت نہ کریں.پس ان لوگوں کو جو عیسائی ہوئے ہیں دیکھ کر تعجب نہیں کرنا چاہیے.یہ دہریہ منش جو مرتد ہوئے ہیں اگر عیسائی نہ ہوتے تو باطنی طور پر بھی تو مرتد ہی تھے.چار قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک ازلی کافر جو بے قیدی اور اباحت کی زندگی کو چاہتے ہیں.اور تین قسم کے مومن ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ، مُقْتَصِدٌ، سَابِقٌۢ بِالْخَيْرٰتِ.پہلی قسم کے مومن وہ ہیں جو ظالم ہیں یعنی ان پر کچھ کچھ جذباتِ نفس غالب آجاتے ہیں.دوسرے میانہ رو اور تیسرے خیرِ مجسّم.اب ازلی کافر جو نفس کے غلام اور بندے ہیں جن کی غرض و غایت بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ بے قیدی کی زندگی بسر ہو اور روپیہ بھی مل جاوے.اُن کو اسلام سے کیا مناسبت وہ تو عیسائیت کو پسند کریں گے جہاں تنخواہ مل جاوے اور کسی چیز کی ضرورت نہ رہے.گرجا میں گئے تو وہاں بھی محض اس غرض سے کہ صدہا خوبصورت عورتیں اچھے لباس پہن کر جاتی ہیں.وہاں بدنظری کے لئے جا بیٹھے.غرض اس قسم کی اباحتی زندگی والوں کو اسلام سے کوئی مناسبت ہو ہی نہیں سکتی.حضرت ابوبکر ؓ اسلام کے لئے آدمِ ثانی ہیں اُس زمانہ میں بھی مسیلمہ نے اباحتی رنگ میں لوگوں کو جمع کر رکھا تھا.ایسے وقت میں حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ ہوئے تو انسان خیال کرسکتا ہے کہ کس قدر مشکلات پیدا ہوئے ہوں گے.اگر وہ قوی دِل نہ ہوتا اور ایمانِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کارنگ اُس کے ایمان میں نہ ہوتا تو بہت ہی مشکل پڑتی اور گھبرا جاتا لیکن صدیق ؓ نبیؐ کا ہمسایہ تھا.آپ کے اخلاق کا اثر ان پر پڑا ہوا تھا اور دل نورِ یقین سے بھرا ہوا تھا اس لیے وہ شجاعت اور استقلال دکھایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُس کی نظیر ملنی مشکل ہے.اُن کی موت اسلام کی زندگی تھی.یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس پر کسی لنبی بحث کی حاجت ہی نہیں.اُس زمانہ کے حالات پڑھ لو اور پھر جو اسلام کی خدمت ابوبکر نے کی ہے اس کااندازہ کرو.مَیں سچ کہتا ہوں کہ ابوبکر صدیقؓ اس اسلام کے لئے آدمِ ثانی ہیں.مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر صدیقؓ کا وجود نہ ہوتا، تو اسلام بھی نہ ہوتا.ابوبکر صدیقؓ کا بہت بڑا احسان ہے اُس نے اسلام کو دوبارہ قائم کیا.اپنی قوتِ ایمانی سے کُل باغیوں کو
سزا دی.اور امن کو قائم کردیا.اسی طرح پر جیسے خدا تعالیٰ نے فرمایا اور وعدہ کیا تھا کہ مَیں سچے خلیفہ پر امن کو قائم کروں گا.یہ پیشگوئی حضرت صدیقؓ کی خلافت پر پوری ہوئی اور آسمان نے اور زمین نے عملی طور پر شہادت دے دی.پس یہ صدیق کی تعریف ہے اُس میں صدق اس مرتبہ اور کمال کا ہونا چاہیے.نظائر سے مسائل بہت جلد حل ہوجاتے ہیں.حضرت یوسف علیہ السلام کا مقامِ صدّیقیت اگر گذشتہ زمانہ میں اس کی نظیر دیکھی جاوے تو پھر یوسفؑ کاصدق ہے.ایسا صدق دکھایا کہ یوسف ؑصدیق کہلایا.ایک خوبصورت، معزز اور جوان عورت جو بڑے بڑے دعوے کرتی ہے، عین تنہائی اور تخلیہ میں ارتکابِ فعل بد چاہتی ہے لیکن آفرین ہے اس صدیق پر کہ خدا تعالیٰ کے حدود کو توڑنا پسند نہ کیا اور اس کے بالمقابل ہر قسم کی آفت اور دُکھ اُٹھانے کو آمادہ ہوگیا.یہاں تک کہ قیدی کی زندگی بسر کرنی منظور کرلی چنانچہ کہا رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَيَّ مِمَّا يَدْعُوْنَنِيْۤ اِلَيْهِ (یوسف:۳۴) یعنی یوسفؑ نے دعا کی کہ اے رب مجھ کو قید پسند ہے اس بات سے جس کی طرف وہ مجھے بلاتی ہے.اس سے حضرت یوسف علیہ السلام کی پاک فطرت اور غیرت نبوت کا کیسا پتا لگتا ہے کہ دوسرے امر کا ذکر تک نہیں کیا.کیا مطلب کہ اُس کا نام نہیں لیا.یوسفؑ اللہ تعالیٰ کے حُسن واحسان کے گرویدہ اور عاشقِ زار تھے.اُن کی نظر میں اپنے محبوب کے سوا دوسری کوئی بات جچ سکتی نہ تھی.وہ ہرگز پسند نہ کرتے تھے کہ حدُود اللہ کو توڑیں.کہتے ہیں کہ ایک لنبا زمانہ جو بارہ برس کے قریب بتایا جاتا ہے وہ جیل میں رہے لیکن اس عرصہ میں کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ آیا.اللہ تعالیٰ اور اُس کی تقدیر پر پورے راضی رہے.اس عرصہ میں بادشاہ کو کوئی عرضی بھی نہیں دی کہ اُن کے معاملہ کو سوچا جاوے یا اُنہیں رہائی دی جاوے.بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس اہلِ غرض عورت نے تکالیف کا سلسلہ بڑھا دیا کہ کسی طرح پر وہ پھسل جاویں مگر اس صدیق نے اپنا صدق نہ چھوڑا.خدا نے ان کو صدیق ٹھہرایا.یہ بھی صدیق کا ایک مقام ہے کہ دنیا کی کوئی آفت، کوئی تکلیف اور ذلت اُسے حدود اللہ کے توڑنے پر آمادہ نہیں کرسکتی.جس قدر اذیتیں اور بلائیں بڑھتی جاویں وہ اُس کے مقام صدق کو زیادہ مضبوط اور لذیذ بناتی جاتی ہیں.
خلاصہ یہ کہ جیسا کہ مَیں بیان کرچکا ہوں کہ جب انسان اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہہ کر صدق اور وفاداری کے ساتھ قدم اُٹھاتا ہے تو خدا تعالیٰ ایک بڑی نہر صدق کی کھول دیتا ہے جو اس کے قلب پر آکر گرتی ہے اور اُسے صدق سے بھر دیتی ہے.وہ اپنی طرف سے بِضَاعَةٍ مُّزْجٰىةٍ لاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اعلیٰ درجہ کی گراں قدر جنس اس کو عطا کرتا ہے.اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس مقام میں انسان یہاں تک قدم مارے کہ وہ صدق اس کے لیے ایک خارق عادت نشان ہو.اس پر اس قدر معارف اور حقائق کا دریا کھلتا ہے اور ایسی قوت دی جاتی ہے کہ ہر شخص کی طاقت نہیں ہے کہ اس کا مقابلہ کرے.۸۳؎ مقامِ شہادت تیسرا کمال شہداء کا ہے.عام لوگ تو شہید کے لئے اتنا ہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ شہید وہ ہوتا ہے جو تیر یا بندوق سے مارا جاوے یا کسی اور اتفاقی موت سے مَر جاوے مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہادت کا یہی مقام نہیں ہے.مَیں افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ سرحد کے پٹھانوں کو یہ بھی ایک خبط سمایا ہوا ہے کہ وہ انگریز افسروں پر آکر حملے کرتے ہیں اوراپنی شوریدہ سری سے اسلام کو بدنام کرتے ہیں.انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ اگر ہم کسی کافر یا غیر مذہب والے کو ہلاک کردیں گے تو ہم غازی ہوں گے اور اگر مارے جاویں گے تو شہید ہوں گے.مجھے ان کمینہ فطرت مُلانوں پر بھی افسوس ہے جوان شوریدہ سر پٹھانوں کو اُکساتے ہیں.وہ انہیں نہیں بتاتے کہ تم اگر کسی شخص کو بلاوجہ قوی قتل کرتے ہو تو غازی نہیں ظالم ٹھیرتے ہو اور اگر وہاں ہلاک ہو جاتے ہو تو شہید نہیں بلکہ خودکشی کر کے حرام موت مَرتے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے لَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرۃ:۱۹۶) وہ اپنے آپ کو خود ہلاکت میں ڈالتے ہیں اور فساد کرتے ہیں.مَیں یقین رکھتا ہوں کہ وہ سخت سزا کے مستوجب ہیں.غرض عام لوگوں نے تو شہادت اتنی سمجھ رکھی ہے اور شہید کا یہی مقام ٹھیرا لیا ہے مگر میرے نزدیک شہید کی حقیقت قطع نظر اس کے کہ اس کا جسم کاٹا جاوے کچھ اور ہی ہے اور وہ ایک کیفیت ہے جس کا تعلق دل سے ہے.یاد رکھو کہ صدیق نبی سے ایک قُرب رکھتا ہے اور وہ اس کے دُوسرے درجہ پر ہوتا ہے اور شہید صدیق کا ہمسایہ ہوتا ہے.
نبی میں تو سارے کمالات ہوتے ہیں یعنی وہ صدیق بھی ہوتا ہے اور شہید بھی ہوتا ہے صالح بھی ہوتا ہے.لیکن صدیق اور شہید ایک الگ الگ مقام ہیں.اس بحث کی بھی حاجت نہیں کہ آیا صدیق شہید ہوتا ہے یا نہیں؟ وہ مقام کمال جہاں ہر ایک امر خارق عادت اور معجزہ سمجھا جاتا ہے وہ ان دونوں مقاموں پر اپنے رُتبہ اور درجہ کے لحاظ سے جدا ہے.اس لیے اللہ تعالیٰ اُسے ایسی قوت عطا کرتا ہے کہ جو عمدہ اعمال ہیں اور جو عمدہ اخلاق ہیں.وہ کامل طور پر اور اپنے اصلی رنگ میں اس سے صادر ہوتے ہیں اور بلاتکلف صادر ہوتے ہیں.کوئی خوف اور رجاء اُن اعمالِ صالحہ کے صدور کا باعث نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ اُس کی فطرت اور طبیعت کا ایک جُزو ہوجاتے ہیں.تکلّف اُس کی طبیعت میں نہیں رہتا.جیسے ایک سائل کسی شخص کے پاس آوے تو خواہ اُس کے پاس کچھ ہو یا نہ ہو تو اُسے دینا ہی پڑے گا.اگر خدا کے خوف سے نہیں تو خلقت کے لحاظ سے.مگر اس قسم کا تکلّف شہید میں نہیں ہوتا اور یہ قوت اور طاقت اُس کی بڑھتی جاتی ہے جوں جوں بڑھتی ہے اسی قدر اس کی تکلیف کم ہوتی جاتی ہے اور وہ بوجھ کا احساس نہیں کرتا.مثلاً ہاتھی کے سر پر ایک چیونٹی ہو تو وہ اس کا کیا احساس کرے گا.کیا کِسی مقام پر نماز ساقط ہوجاتی ہے؟ ’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ کی ایک عبارت کی تشریح فتوحات میں اس مقام کی طرف اشارہ کرکے ایک لطیف بات لکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب انسان کامل درجہ پر پہنچتا ہے تو اُس کے لئے نماز ساقط ہوجاتی ہے جاہلوں نے اس سے یہ سمجھ لیا کہ نماز ہی معاف ہوجاتی ہے جیسا کہ بعض بے قید فقیر کہتے ہیں.اُن کو اس مقام کی خبر نہیں اور اس لطیف نکتہ کی اطلاع نہیں.اصل بات یہ ہے کہ ابتدائی مدارجِ سلوک میں نماز اور دوسرے اعمالِ صالحہ ایک قسم کا بوجھ معلوم ہوتے ہیں اور طبیعت میں ایک کسل اور تکلیف محسوس ہوتی ہے لیکن جب انسان خدا تعالیٰ سے قوت پاکر اس مقام شہید پر پہنچتا ہے تو اس کو ایسی طاقت اور استقامت دی جاتی ہے کہ اُسے اُن اعمال میں کوئی تکلیف محسوس ہی نہیں ہوتی.گویا وہ اُن اعمال پر سوار ہوتے ہیں اور صوم، صلوٰۃ، زکوٰۃ، ہمدردیِ بنی نوع، مروّت، فتوت غرض تمام اعمالِ صالحہ اور اخلاق فاضلہ کا صدور قوتِ ایمانی سے ہوتا ہے.کوئی مصیبت،
دُکھ اور تکلیف خدا تعالیٰ کی طرف قدم اُٹھانے سے اُسے روک نہیں سکتی.شہید اُسی وقت کسی کو کہیں گے جب اُس کی قوتِ ایمانی اس سے وہ فعل دکھاتی ہے کہ آرام سے ان افعال کا صدور ہو.جیسے پانی اُوپر سے نیچے کو گرتا ہے اسی طرح پر شہید سے اعمالِ صالحہ کا صدور ہوتا ہے.شہید اللہ تعالیٰ کو گویا دیکھتا ہے اور اُس کی طاقتوں کا مشاہدہ کرتا ہے.جب یہ مقام کامل درجہ پر پہنچے تو یہ ایک نشان ہوتا ہے.ابتلا اور آزمائش میں شہید کا رویّہ بعض آدمی دیکھے گئے ہیں کہ جب کوئی ابتلا آجاوے تو گھبرا اُٹھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کا شکوہ کرنے لگتے ہیں.اُن کی طبیعت میں ایک افسردگی پائی جاتی ہے کیونکہ وہ صلح کُلّی طور پر جو خدا تعالیٰ سے ہونی چاہیے اُن کو حاصل نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ سے اسے اُسی وقت تک صلح رہ سکتی ہے جب تک اُس کی مانتا رہے.یہ بھی یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کا معاملہ ایک دوست کا سا معاملہ ہے کبھی ایک دوست دوسرے دوست کی مان لیتا ہے اور دوسرے وقت اس کو اس دوست کی ماننی پڑتی ہے اور یہ تسلیم خوشی اور انشراح صدر سے ہو نہ کہ مجبوراً.خدا تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ (البقرۃ:۱۵۶) یعنی ہم آزماتے رہیں گے کبھی ڈرا کر، کبھی بھوک سے کبھی مالوں اور ثمرات وغیرہ کا نقصان کرکے.ثمرات میں اولاد بھی داخل ہے اور یہ بھی کہ بڑی محنت سے کوئی فصل طیار کی اور یکایک اُسے آگ لگی اور وہ تباہ ہوگئی یا اور اُمور کے لئے محنت مشقّت کی نتیجہ میں ناکام رہ گیا.غرض مختلف قسم کے ابتلا اور عوارض انسان پر آتے ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کی آزمائش ہے.ایسی صُورت میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی اور اس کی تقدیر کے لئے سرِ تسلیم خم کرتے ہیں وہ بڑی شرح صدر سے کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ:۱۵۷) کسی قسم کا شکوہ اور شکایت یہ لوگ نہیں کرتے.ایسے لوگوں کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُولٰٓىِٕكَ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ.الخ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جن کے حصہ میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت آتی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کو مشکلات میں راہ دکھا دیتا ہے.یاد رکھو اللہ تعالیٰ بڑا ہی کریم و رحیم اور بامروّت ہے.جب کوئی اس کی رضا کو مقدّم کرلیتا ہے اور اُس کی مرضی پر راضی ہوجاتا ہے تو وہ اُس کو اُس کا بدلہ دیئے بغیر نہیں چھوڑتا.غرض یہ تو وہ مقام اور مرحلہ ہے جہاں وہ اپنی بات منوانی چاہتا ہے.
دوسرا مقام اور مرحلہ وہ ہے جو اس نے اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن:۶۱) میں فرمایا ہے.یہاں وہ اس کی بات ماننے کا وعدہ فرماتا ہے.پس شہید اس پہلے مقام پر کھڑا ہوتا ہے یعنی انشراح صدر کے ساتھ اس کی بات مانتا ہے وہ دوست کے ایلام کو برنگِ انعام مشاہدہ کرتا ہے.مقامِ صالحیت چوتھا درجہ صالحین کا ہے یہ بھی جب کمال کے درجہ پر ہو تو ایک نشان اور معجزہ ہوتا ہے.کامل صلاح یہ ہے کہ کسی قسم کا کوئی بھی فساد باقی نہ رہے.بدن صالح میں کسی قسم کا کوئی خراب اور زہریلا مادہ نہیں ہوتا بلکہ صاف اور مؤیّد صحت مواد اس میں ہو اس وقت صالح کہلاتا ہے.جب تک صالح نہیں لوازم بھی صالح نہیں ہوتے یہاں تک کہ مٹھاس بھی اُسے کڑوی معلوم ہوتی ہے.اسی طرح پر جب تک صالح نہیں بنتا اور ہر قسم کی بدیوں سے نہیں بچتا اور خراب مادے نہیں نکلتے اس وقت تک عبادات کڑوی معلوم ہوتی ہیں.نماز میں جاتا ہے مگر اُسے کوئی لذت اور سُرور نہیں آتا.وہ ٹکریں مار کر منحوس مُنہ سے سلام پھیر کر رخصت ہوتا ہے لیکن مزا اس وقت آتا ہے جب گندے مواد نکل جاتے ہیں تو اُنس اور ذوق شوق پیدا ہوتا ہے اور اصلاحِ انسانی اسی درجہ سے شروع ہوتی ہے.۸۴؎ (اس قدر تقریر کے بعد حضرت مسیح موعود ؑ نے دعا فرمائی اور جلسہ برخاست ہوگیا) ۱۰؍دسمبر۱۸۹۹ء ۸۵؎ ( بروز اتوار ۹؍بجے صُبح.قادیان) تین سال کے اندر طلب نشان والی پیشگوئی کے اشتہار کا انگریزی میں ترجمہ ہو کر لاہور میں طبع ہونے کے واسطے آیا ہوا تھا.اس کو لے کر ہفتہ کی شام کو میں یہاں سے روانہ ہوا.اور چھینہ کے اسٹیشن پر اُتر کر
دارالامان کو روانہ ہوا.راستہ میں سے شیخ چراغ علی صاحب جو کہ شیخ حامد علی صاحب کے چچا ہیں نہایت مہربانی سے میرے ساتھ ہوئے اور میرا بوجھ اُٹھایا اور مجھے راستہ دکھایا اور ہم دارالامان میں پہنچے.فالحمد للہ علی ذٰلک.نماز فجر کے وقت حضور اقدسؑ کی زیارت مسجد میں ہوئی جس سے قلب کو نور حاصل ہوا اور بعد نماز فجر آپ نے وہ انگریزی اشتہار اوّل سے آخر تک سنا.عبارت انگریزی پڑھ کر اور ہر ایک فقرہ کے ساتھ ترجمہ کرکے میں نے سنایا اور اس کے بعد آپ اندر تشریف لے گئے اور پھر نو بجے کے قریب سیر کے واسطے تشریف لائے.ملتے ہی فرمایا.آپ نے اس کام میں خوب ہمت کی.انگریزی دانوں کے لئے حصول ثواب کی راہ فرمایا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ہم نے انگریزی نہیں پڑھی کہ آپ لوگوں کو ثواب میں شامل کرنا چاہتا ہے.انگریزی اگر ہم پڑھے ہوئے ہوتے تو اردو کی طرح اس کے بھی دو چار صفحے ہر روز ہم لکھ دیا کرتے مگر وہ خدا نے چاہا کہ جیسے آپ ہیں اور مولوی محمد علی صاحب ہیں آپ لوگوں کو بھی یہ ثواب دیا جاوے.میں نے عرض کی کہ یہ ہمت اور ثواب تو مولوی محمد علی صاحب کا ہی ہے.فرمایا کہ عالمگیر کے زمانہ میں مسجد شاہی کو آگ لگ گئی تو لوگ دوڑے دوڑے بادشاہ سلامت کے پاس پہنچے اور عرض کی کہ مسجد کو تو آگ لگ گئی.اس خبر کو سن کر وہ فوراً سجدہ میں گرا اور شکر کیا.حاشیہ نشینوں نے تعجب سے پوچھا کہ حضور سلامت! یہ کون سا وقت شکر گذاری کا ہے کہ خانہءِ خدا کو آگ لگ گئی ہے اور مسلمانوں کے دلوں کو سخت صدمہ پہنچا ہے.تو بادشاہ نے کہا کہ میں مدت سے سوچتا تھا اور آہ سرد بھرتا تھا کہ اتنی بڑی عظیم الشان مسجد جو بنی ہے اور اس عمارت کے ذریعہ سے ہزارہا مخلوقات کو فائدہ پہنچتا ہے کاش کوئی ایسی تجویز ہوتی کہ اس کارِ خیر میں کوئی میرا بھی حصہ ہوتا لیکن چاروں طرف سے میں اس کو ایسا مکمل اور بے نقص دیکھتا تھا کہ مجھے کچھ سوجھ نہ سکتا کہ اس میں میرا ثواب کس طرح ہوجاوے.سو آج خدا نے میرے واسطے حصولِ ثواب کی ایک راہ نکال دی.وَاللّٰهُ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ.
تین آریہ معاندین اسلام پھر لیکھرام کے متعلق دیر تک باتیں ہوتی رہیں.فرمایا.اسلام پر حملہ کرنے میں اور مسلمانوں کا بے جا دل دُکھانے میں آریوں کے درمیان ایک طرح کی تریمورتی تھی جن میں سے سب سے بڑھ کر لیکھرام تھا اور اس کے بعد اندرمن اور الکھ دھاری تھے.فرمایا.ان تینوں نے اور خصوصاً لیکھرام نے بڑی بے ادبیاں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کی تھیں.اللہ تعالیٰ کا طریق ہے کہ جس راہ سے کوئی بدی کرے اسی راہ سے گرفتار کیا جاتا ہے.چونکہ لیکھرام نے زبان کی چُھری کو اسلام اور اس کے بر خلاف حد سے بڑھ کر چلایا.اس واسطے خدا نے اس کو چُھری سے سزا دی.فرمایا.لیکھرام کے معاملہ میں غیب کا ہاتھ کام کرتا ہوا صاف دکھائی دیتا ہے.اس شخص کا شدھ ہونے کے لیے اس کے پاس آنا، اس کا اس پر بھروسہ کرنا یہاں تک کہ اپنے گھر میں بلا تکلّف اس کو لے جانا، شام کے وقت دیگر ملاقاتیوں کا چلا جانا، ان کا اکیلا رہ جانا، عین عید کے دوسرے دن اس کا اس کام کے لیے عازم ہونا، لیکھرام کا لکھتے لکھتے کھڑے ہو کر انگڑائی لینا اور اپنے پیٹ کو سامنے نکالنا اور چُھری کا وار کاری پڑنا، مَرتے وقت تک اس کی زبان کو خدا نے ایسا بند کرنا کہ باوجود ہوش کے اور اس علم کے کہ ہم نے اس کے برخلاف پیشگوئی کی ہوئی ہے ایک سیکنڈ کے واسطے اس شبہ کا اظہار بھی نہ کرنا کہ مجھے مرزا صاحب پر شک ہے.پھر آج تک اس کے قاتل کا پتا نہ چلنا، یہ سب خدا کے فعل ہیں جو ہیبت ناک طور پر اس کی قدرت اور طاقت کو جلوہ دے رہے ہیں.فرمایاکہ لیکھرام بڑا ہی زبان دراز تھا اور اس کے بعد ایسا پیدا نہیں ہوا کیونکہ اِذَا ھَلَکَ کِسْـرٰی فَلَا کِسْـرٰی بَعْدَہٗ اب اللہ تعالیٰ زمین کو ایسے سے پاک رکھے گا.معجزات اور شعبدہ بازی میں فرق فرمایا کہ دنیا کے اندر جو نشانات حضرت موسیٰ یا دیگر انبیاء نے اس طرح کے دکھائے جیسا کہ سوٹے سے رسی کا بنانا.یہ سب شبہ میں ڈالنے والی باتیں ہیں.خصوصاً اس زمانہ کے درمیان جب کہ ہر طرح
کی شعبدہ بازیاں مداری لوگ دکھاتے ہیں کہ انسان کی سمجھ میں ہرگز نہیں آتا کہ یہ امر کس طرح سے ہو گیا اور انگریز لوگ ایسے ایسے کرتوت شعبدہ بازی کے دکھاتے ہیں کہ مَرا ہوا آدمی واپس آجاتا ہے اور ٹوٹی ہوئی چیزیں ثابت دکھائی دیتی ہیں جیسا کہ آئین اکبری میں بھی ابوالفضل نے ایک قصہ بیان کیا ہے کہ ایک شعبدہ باز آسمان پر لوگوں کے سامنے چڑھ گیا اور اُوپر سے اس کے اعضاء ایک ایک ہو کر گرے اور اس کی بیوی ستی ہوگئی لیکن وہ آسمان سے پھر اُتر آیا اور اس نے اپنی بیوی کے لیے مطالبہ کیا اور ایک وزیر پر شبہ کیا کہ اُس نے چھپا رکھی ہے اور یہ اس پر عاشق ہے اور پھر اس کی تلاشی کی اجازت بادشاہ سے لے کر اسی کی بغل سے نکال لی.فرمایا.ایسی صورتوں میں پھر سوائے اس کے اور کچھ بات باقی نہیں رہتی ہے کہ انسان ایمان سے کام لے اور انبیاء کے کاموں کو خدا کی طرف سے سمجھے اور شعبدہ بازوں کے کاموں کو دھوکا اور فریب خیال کرے اور اس طرح سے یہ معاملہ بہت نازک ہو جاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کو جو معجزہ عطا فرمایا ہے وہ اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تعلیم اور اصولِ تمدن کا ہے اور اس کی بلاغت اور فصاحت کا ہے جس کا مقابلہ کوئی انسان کر نہیں سکتا اور ایسا ہی معجزہ غیب کی خبروں اور پیشگوئیوں کا ہے.اس زمانہ کا کوئی شعبدہ بازی میں استاد ہرگز ایسا کرنے کا دعویٰ نہیں کرتا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے نشانات کو ایک تمیز صاف عطا فرمائی ہے تاکہ کسی شخص کو حیلہ حجت بازی کا نہ رہے اور اس طرح خدا نے اپنے نشانات کھول کھول کر دکھائے ہیں جن میں کوئی شک و شبہ اپنا دخل نہیں پیدا کرسکتا.ایک شخص نے کہا کہ کوئی اعتراض کرتا تھا کہ مرزا صاحب نے لیکھرام کو آپ مروا ڈالا.فرمایا.یہ ایک بیہودہ اور جھوٹ بات ہے مگر ان لوگوں کو یہ تو خیال کرنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع اور کعب کو کیوں قتل کروایا تھا؟ فرمایا.ہماری پیشگوئیاں سب اقتداری پیشگوئیاں ہیں اور یہ نشان ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں.قرآن شریف کا اعجاز فرمایا.لوگوں کی فصاحت اور بلاغت الفاظ کے ماتحت ہوتی ہے اور اس میں سوائے قافیہ بندی کے اور کچھ نہیں ہوتا.جیسے ایک عرب نے
لکھا ہے سَافَرْتُ اِلٰی رُوْمِ وَاَنَا عَلٰی جَـمَلٍ مَاْتُوْمِ میں روم کو روانہ ہوا اور میں ایک ایسے اونٹ پر سوار ہوا جس کا پیشاب بند تھا.یہ الفاظ صرف قافیہ بندی کے واسطے لائے گئے ہیں.یہ قرآن شریف کا اعجاز ہے کہ اس میں سارے الفاظ ایسے موتی کی طرح پروئے گئے ہیں اور اپنے اپنے مقام پر رکھے گئے ہیں کہ کوئی ایک جگہ سے اُٹھا کر دوسری جگہ نہیں رکھا جا سکتا اور کسی کو دوسرے لفظ سے بدلا نہیں جاسکتا.لیکن باوجود اس کے قافیہ بندی اور فصاحت و بلاغت کے تمام لوازم موجود ہیں.کلمہ طیّبہ کے بغیر حقیقی شجاعت پیدا نہیں ہوتی ایک شخص نے کسی صوفی گدی نشین کی تعریف کی کہ وہ آدمی بظاہر نیک معلوم ہوتا ہے اور اگر اس کو سمجھایا جاوے تو اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس بات کو پا جاوے اور عرض کی کہ میرا اس کے ساتھ ایک ایسا تعلق ہے کہ اگر حضور مجھے ایک خط ان کے نام لکھ دیں تو میں لے جاؤں اور امید ہے کہ ان کو فائدہ ہو.فرمایا.آپ دو چار دن اور یہاں ٹھہریں.میں انتظار کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ خود بخود استقامت کے ساتھ کوئی بات دل میں ڈال دے تو میں آپ کو لکھ دوں.پھر فرمایا کہ جب تک ان لوگوں کو استقامت، حسن نیت کے ساتھ چند دن کی صحبت نہ حاصل ہو جاوے تب تک مشکل ہے.چاہیے کہ نیکی کے واسطے دل جوش مارے اور خدا کی رضا کے حصول کے لیے دل ترساں ہو.اس شخص نے عرض کی کہ ان لوگوں کو اکثر یہ حجاب بھی ہوتا ہے کہ شاید کسی کو معلوم ہو جاوے تو لوگ ہمارے پیچھے پڑ جاویں.فرمایا.اس کا سبب یہ ہے کہ ایسے لوگ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کے قائل نہیں ہوتے اور سچے دل سے اس کلمہ کو زبان سے نکالنے والے نہیں ہوتے.فرمایا.جب زید و بکر کا خوف درمیان میں ہے تب تک لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کا نقش دل میں نہیں جم سکتا.فرمایا.یہ جو رات دن مسلمانوں کو کلمہ طیّبہ کہنے کے واسطے تائید اور تاکید ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ بغیر اس کے کوئی شجاعت پیدا نہیں ہو سکتی.جب آدمی لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کہتا ہے تو تمام انسانوں
اور چیزوں اور حاکموں اور افسروں اور دشمنوں اور دوستوں کی قوت اور طاقت ہیچ ہو کر انسان صرف اللہ کو دیکھتا ہے اور اس کے سوائے سب اس کی نظروں میں ہیچ ہو جاتے ہیں پس وہ شجاعت اور بہادری کے ساتھ کام کرتا ہے اور کوئی ڈرانے والا اس کو ڈرا نہیں سکتا.فراست فرمایا.فراست بھی ایک چیز ہے جیسا کہ اس یہودی نے دیکھتے ہی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ دیا کہ میں ان میں نبوت کے نشان پاتا ہوں اور ایسا ہی مباہلہ کے وقت عیسائی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ آئے کیونکہ ان کے مشیر نے ان کو کہہ دیا تھا کہ میں ایسے مونہہ دیکھتا ہوں کہ اگر وہ کہیں پہاڑ کو کہیں گے کہ یہاں سے ٹل جا تو وہ ٹل جائے گا.فرمایا.اگر کسی کے باطن میں کوئی حصہ روحانیت کا ہے تو وہ مجھ کو قبول کرے گا.ایک کتاب لکھنے کی خواہش فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ ایک کتاب تعلیم کی لکھوں اور مولوی محمد علی صاحب اس کا ترجمہ کریں.اس کتاب کے ۳ حصے ہوں گے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہمارے کیا فرائض ہیں اور دوسرے یہ کہ اپنے نفس کے کیا کیا حقوق ہم پر ہیں اور تیسرے یہ کہ بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟ اولیاء کی کرامات مشہورہ فرمایا.زمانہ نبوت تو نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ تھا اور ایک آفتاب تھا لیکن اس کے بعد کے اولیاؤں کے جو خوارق و کرامات بتلائے جاتے ہیں وہ اپنے ساتھ انکشاف نہیں رکھتے اور ان کی تاریخ کا صحیح پتا نہیں لگ سکتا.چنانچہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے کرامات ان کے دو سو سال بعد لکھے گئے اور علاوہ اس کے ان لوگوں کو یہ موقع مقابلہ دشمن کا نہیں ملا اور نہ ان کو ایسا فتنہ در پیش آیا جیسا کہ ہم کو.ایسی ہی باتوں پر سیر کا وقت ختم ہوا اور روحوں کو ایک تازگی حاصل ہوئی.لوقا کے بارہ میں تحقیق کی ضرورت اس کے بعد حضور اقدسؑ ظہر اور عصر کی نماز میں ہمارے ساتھ شامل ہوئے اور مغرب سے عشاء کے پڑھ چکنے تک
باہر تشریف فرما رہے اور مغرب کے بعد آپ نے ایک مخلص کا ایک خط سنا اور دو اخباریں سنیں ایک تو سیالکوٹ کی جن میں مرہم عیسیٰ کا ذکر ہے اور اس کو سن کر بہت محظوظ ہوئے.میں اُمید کرتا ہوں کہ لکھنے والے کا اجر قائم ہو گیا.خصوصاً ڈاکٹر لوقا کے لفظ پر بہت خوش ہوئے اور اس کے ڈاکٹر ہونے کے متعلق زیادہ تحقیقات کرنے کے واسطے اس عاجز کو ارشاد صادر فرمایا....اسی وقت حامد شاہ صاحب سیالکوٹی کی ایک نظم حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھی....نظم کو سن کر حضرت اقدس بمعہ جماعت بہت خوش ہوئے اور حضرت نے فرمایا کہ اس کو کہیں چھپوا دینا چاہیے.....ڈنکا بجا جہاں میں مسیحا کے نام کا خادم ہے دینِ پاک رسول اَنام کا....نماز فجر کے وقت حضرت اقدس تشریف لائے اور نماز کے بعد اندر چلے گئے اور اس کے بعد نو بجے کے قریب سیر کے واسطے تشریف لائے اور احباب ہمہ گوش ہو کر ساتھ ہو لیے.وہی رات والے مضمون ڈاکٹر لوقا کا ذکر درمیان آیا.میاں اللہ دیا صاحب لدھیانوی بھی اتفاقاً ساتھ تھے انہوں نے بھی تصدیق کی کہ لوقا ڈاکٹر تھا مگر یہ ثابت نہیں ہوتا تھا کہ حضرت مسیح کے زمانہ میں تھا.اس کے واسطے زیادہ تحقیقات کے لیے میاں اللہ دیا کو بھی ارشاد ہوا.اسی پر بہت دیر تک گفتگو ہوتی ہوئی چلی گئی.حضرت نے فرمایا.عربی میں لق چٹنی کو بھی کہتے ہیں.میں نے عرض کی کہ انگریزی میں لق چاٹنے کو کہتے ہیں.فرمایا.چٹنی تک تو بات پہنچ گئی ہے اُمید ہے کہ مرہم پٹی تک بھی بات نکل آوے.فرمایا کہ انگریزی کتابوں اور تاریخ کلیسا سے اس کے حالات کے متعلق تحقیقات کرنی چاہیے یہ ایک نئی بات نکلی ہے.پھر فرمایا کہ یہ کچھ مشکل امر نہیں ہے.اگر ہم چاہیں تو لوقا پر توجہ کریں اور اس سے سب حال دریافت کریں مگر ہماری طبیعت اس اَمر سے کراہت کرتی ہے کہ ہم اللہ کے سوائے کسی اور کی طرف توجہ کریں.خدا تعالیٰ آپ ہمارے سب کام بناتا ہے.کشفِ قبور پھر فرمایا کہ یہ لوگ جو کشف قبور لیے پھرتے ہیں یہ سب جھوٹ اور لغو اور بیہودہ بات ہے اور شرک ہے.ہم نے سنا ہے کہ اس طرف ایک شخص پھرتا ہے اور اس کو
بڑا دعویٰ کشف قبور کا ہے اگر اس کا علم سچا ہے تو چاہیے کہ وہ ہمارے پاس آئے اور ہم اس کو ایسی قبروں پر لے جائیں گے جن سے ہم خوب واقف ہیں.مگر یہ سب بیہودہ باتیں ہیں اور ان کے پیچھے پڑنا وقت کو ضائع کرنا ہے.سعید آدمی کو چاہیے کہ ایسے خیالات میں اپنے اوقات کو خراب نہ کرے اور اس طریق کو اختیار کرے جو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے صحابہ ؓ نے اختیار کیا.گدّی نشینوں کے عرس اس کے بعد صاحبزادہ سراج الحق صاحب نے ایک اشتہار پڑھا جو کہ ان کے بھائی صاحب نے اپنے سلسلہ کے عرس کے واسطے مریدین کو دیا ہے.اس میں ہر قسم کے کھانوں اور ہر قسم کے کھیل تماشوں اور ناچ رنگوں اور آتش بازیوں کا نقشہ بڑی مقفّٰی عبارت میں اور رنگین فقروں میں کھچا ہوا تھا.اس پر گدی نشینوں کے حالات پر افسوس ہوتا رہا اور مولوی برہان الدین صاحب نے اپنے مشاہدہ کی چند گدیوں اور ان کی مجلسوں کا نقشہ کھینچ کر احباب کو خوش کیا.چونکہ اس میں سرود سے حظّ اُٹھانے اور سرور لینے کا ذکر تھا.اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ انسان میں ایک ملکہ احتظاظ کا ہوتا ہے کہ وہ سرود سے حظّ اُٹھاتا ہے اور اس کے نفس کو دھوکا لگتا ہے کہ میں اس مضمون سے سرور پا رہا ہوں مگر دراصل نفس کو صرف حظّ در کار ہوتا ہے خواہ اس میں شیطان کی تعریف ہو یا خدا کی.جب یہ لوگ اس میں گرفتار ہو کر فنا ہو جاتے ہیں تو ان کے واسطے شیطان کی تعریف یا خدا کی سب برابر ہو جاتے ہیں.ہماری مخفی جماعت اس پر آج کا سیر ختم ہوا.لیکن کل کے سیر میں سے ایک بات رہ گئی تھی جس کو اب میں عرض کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ نے فرمایا.ابھی ہمارے مخالفوں میں سے بہت سے ایسے آدمی بھی ہیں جن کا ہماری جماعت میں داخل ہونا مقدّر ہے.وہ مخالفت کرتے ہیں پر فرشتے ان کو دیکھ کر ہنستے ہیں کہ تم بالآخر انہی لوگوں میں شامل ہو جاؤ گے وہ ہماری مخفی جماعت ہے جو کہ ہمارے ساتھ ایک دن مل جائے گی.خدا تعالیٰ کی توحید و تفرید کے لئے جوش کی ضرورت پھر کھانے کے وقت حضور اقدسؑ تشریف لائے اور روٹی کھانے کے بعد حضور اقدسؑ نے ایک تقریر فرمائی جو دلوں کے واسطے نور اور ہدایت کے حاصل
کرنے کا موجب ہوئی.جو کچھ اس میں سے میں ضبط رکھ سکا وہ آپ کو سناتا ہوں آپ توجہ سے سنیں.اس زمانہ کے فتنہ و فساد کا ذکر تھا.فرمایا.ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس زمانہ کے درمیان جو فتنہ اسلام پر پڑا ہوا ہے اس کے دُور کرنے میں کچھ حصہ لے جاوے.بڑی عبادت یہی ہے کہ اس فتنہ کے دُور کرنے میں ہر ایک حصہ لے.اس وقت جو بدیاں اور گستاخیاں پھیلی ہوئی ہیں چاہیے کہ اپنی تقریر اور علم کے ساتھ اور ہر ایک قوت کے ساتھ جو اس کو دی گئی ہے مخلصانہ کوشش کے ساتھ ان باتوں کو دنیا سے اُٹھاوے.اگر اسی دنیا میں کسی کو آرام اور لذّت مل گئی تو کیا فائدہ؟ اگر دنیا میں بھی اجر پا لیا تو کیا حاصل؟ عقبیٰ کا ثواب لو جس کا انتہا نہیں.ہر ایک کو خدا کی توحید و تفرید کے لیے ایسا جوش ہونا چاہیے جیسا خود خدا کو اپنی توحید کا جوش ہے غور کرو کہ دنیا میں اس طرح کا مظلوم کہاں ملے گا جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.کوئی گند اور گالی اور دشنام نہیں جو آپ کی طرف نہ پھینکی گئی ہو.کیا یہ وقت ہے کہ مسلمان خاموش ہو کر بیٹھ رہیں؟ اگر اس وقت میں کوئی کھڑا نہیں ہوتا اور حق کی گواہی دے کر جھوٹے کے منہ کو بند نہیں کرتا اور جائز رکھتا ہے کہ کافر بے حیائی سے ہمارے نبی پر اتہام لگائے جائے اور لوگوں کو گمراہ کرتا جائے تو یاد رکھو کہ وہ بے شک بڑی باز پرس کے نیچے ہے.چاہیے کہ جو کچھ علم اور واقفیت تم کو حاصل ہے وہ اس راہ میں خرچ کرو اور لوگوں کو اس مصیبت سے بچاؤ.حدیث سے ثابت ہے کہ اگر تم دجّال کو نہ مارو تب بھی وہ تو مَر ہی جائے گا.مثل مشہور ہے ہر کمالے را زوالے.تیرھویں صدی سے یہ آفتیں شروع ہوئیں اور اب وقت قریب ہے کہ اس کا خاتمہ ہوجاوے.ہر ایک کا فرض ہے کہ جہاں تک ہو سکے پوری کوشش کرے نور اور روشنی لوگوں کو دکھائے.خدا کے نزدیک ولی اللہ اور صاحب برکات وہی ہے جس کو یہ جوش حاصل ہو جائے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کا جلال ظاہر ہو.نماز میں جو سُبْـحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْم اور سُبْـحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہا جاتا ہے وہ بھی خدا کے جلال کے ظاہر ہونے کی تمنا ہے خدا کی ایسی عظمت ہو کہ اس کی نظیر نہ ہو.نماز میں تسبیح و تقدیس کرتے ہوئے یہی حالت ظاہر ہوتی ہے کہ خدا نے ترغیب دی ہے کہ طبعاً
جوش کے ساتھ اپنے کاموں سے اور اپنی کوششوں سے دکھاوے کہ اس کی عظمت کے بر خلاف کوئی شے مجھ پر غالب نہیں آسکتی.یہ بڑی عبادت ہے جو اس کی مرضی کے مطابق جوش رکھتے ہیں وہی مؤید کہلاتے ہیں اور وہی برکتیں پاتے ہیں.جو خدا کی عظمت اور جلال اور تقدیس کے واسطے جوش نہیں رکھتے ان کی نمازیں جھوٹی ہیں اور ان کے سجدے بیکار ہیں.جب تک خدا کے لئے جوش نہ ہو یہ سجدے صرف منتر جنتر ٹھہریں گے جن کے ذریعہ سے یہ بہشت کو لینا چاہتا ہے.یاد رکھو کوئی جسمانی بات جس کے ساتھ کیفیت نہ ہو فائدہ مند نہیں ہو سکتی جیسا کہ خدا کو قربانی کے گوشت نہیں پہنچتے ایسے تمہارے رکوع اور سجود بھی نہیں پہنچتے جب تک ان کے ساتھ کیفیت نہ ہو.خدا کیفیت کو چاہتا ہے.خدا ان سے محبت کرتا ہے جو اس کی عزت اور عظمت کے لئے جوش رکھتے ہیں.جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ ایک باریک راہ سے جاتے ہیں اور کوئی دوسرا ان کے ساتھ نہیں جاسکتا.جب تک کیفیت نہ ہو انسان ترقی نہیں کر سکتا گویا خدا نے قسم کھائی ہے کہ جب تک اس کے لیے جوش نہ ہو کوئی لذّت نہیں دے گا.ہر ایک آدمی کے ساتھ ایک تمنّا ہوتی ہے پر مومن نہیں بن سکتا جب تک ساری تمنّاؤں پر خدا کی عظمت کو مقدم نہ کر لے.ولی قریب اور دوست کو کہتے ہیں جو دوست چاہتا ہے وہی یہ چاہتا ہے تب یہ ولی کہلاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذّٰرِیٰت:۵۸) چاہیے کہ یہ خدا کے لیے جوش رکھے.پھر یہ اپنے ابنائے جنس سے بڑھ جائے گا.خدا کے مقرب لوگوں میں سے بن جائے گا.مُردوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے کہ مُردہ کے منہ میں ایک شے ایک طرف سے ڈالی جاتی ہے تو دوسری طرف سے نکل آتی ہے اسی طرح شقاوت کے وقت کوئی چیز اچھی ہو اندر نہیں جاتی.یاد رکھو کہ کوئی عبادت اور صدقہ قبول نہیں جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے لیے جوش نہ ہو.ذاتی جوش نہ ہو.جس کے ساتھ کوئی ملونی ذاتی فوائد اور منافع کی نہ ہو.ایسا ہو کہ خود بھی نہ جانے کہ یہ جوش میرے میں کیوں ہے.بہت ضرورت ہے کہ ایسے لوگ بکثرت پیدا ہوں مگر سوائے خدا کے
ارادہ کے کچھ ہو نہیں سکتا اور جو لوگ اس طرح دینی خدمات میں مصروف ہوئے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ خدا پر کوئی احسان نہیں کرتے.جیسا کہ ہر ایک فصل کے کاٹنے کا وقت آ جاتا ہے ایسا ہی مفاسد کے دُور کر دینے کا اب وقت آگیا ہے.عیسائیت کے زوال کا وقت آگیا ہے تثلیث پرستی حد کو پہنچ گئی ہے صادق کی توہین و گستاخی انتہا تک کی گئی ہے.رسول اللہ کا قدر مکھی اور زنبور جتنا نہیں کیا گیا.زنبور سے بھی آدمی ڈرتا ہے اور چیونٹی سے بھی اندیشہ کرتا ہے مگر حضرت رسول کریم کو بُرا کہنے میں کوئی نہیں جھجکا.كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا (البقرۃ:۴۰) کے مصداق ہو رہے ہیں.جتنا منہ اُن کا کھل سکتا ہے انہوں نے کھولا اور منہ پھاڑ پھاڑ کر سبّ و شتم کہے.اب وہ وقت واقعی آگیا ہے کہ خدا ان کا تدارک کرے.ایسے وقت میں وہ ہمیشہ ایک آدمی کو پیدا کیا کرتا ہے.وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا (الاحزاب:۶۳) وہ ایسے آدمی کو پیدا کرتا ہے جو اس کے عظمت و جلال کے لئے بہت ہی جوش رکھتا ہو.باطنی مدد کا اس آدمی کو سہارا ہوتا ہے.دراصل سب کچھ خدا تعالیٰ آپ کرتا ہے مگر اس کا پیدا کرنا صرف ایک سنّت کا پورا کرنا ہوتا ہے.اب وقت آگیا ہے.خدا نے عیسائیوں کو قرآن کریم میں نصیحت کی تھی کہ اپنے دین میں غُلو نہ کریں پر انہوں نے اس نصیحت پر عمل نہ کیا اور پہلے وہ صرف ضالّین تھے پر اب مضلّین بھی بن گئے.خدا کے صحفِ قدرت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بات حد سے گذر جاتی ہے تو آسمان پر طیاری کی جاتی ہے.یہی اس کا نشان ہے کہ یہ طیاری کا وقت آ گیا ہے.سچے نبی رسول مجدّد کی بڑی نشانی یہی ہے کہ وہ وقت پر آوے، ضرورت کے وقت آوے.لوگ قسم کھا کر کہیں کہ کیا یہ وقت نہیں کہ آسمان پر کوئی طیاری ہو؟ مگر یاد رکھو کہ خدا سب کچھ آپ کرتا ہے.ہم اور ہماری جماعت اگر سب کے سب حجروں میں بیٹھ جاویں تب بھی کام ہو جاوے گا اور دجّال کو زوال آوے گا تِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا (اٰلِ عمران:۱۴۱)
اس کا کمال بتاتا ہے کہ اب اس کے زوال کا وقت ہے.اس کا ارتفاع ظاہر کرتا ہے کہ اب وہ نیچا دیکھے گا.اس کی آبادی اس کی بربادی کا نشان ہے.ہاں ٹھنڈی ہوا چل پڑی ہے.خدا کے کام آہستگی کے ساتھ ہوتے ہیں.اگر ہمارے پاس کوئی دلیل بھی نہ ہوتی تو پھر بھی مسلمانوں کو چاہیے تھا کہ دیوانہ وار پھرتے اور تلاش کرتے کہ مسیح اب تک کیوں نہیں آیا؟ یہ کسرِ صلیب کے لئے آیا ہے ان کو چاہیے نہیں تھا کہ یہ اس کو اپنے جھگڑوں کے لئے بلاتے؟ اس کا کام کسرِ صلیب ہے اور اسی کی زمانہ کو ضرورت ہے اور اسی واسطے اس کا نام مسیح موعود ہے.اگر ملانوں کو نوع انسان کی بہبودی مدّنظر ہوتی تو وہ ہرگز ایسا نہ کرتے.ان کو سوچنا چاہیے تھا کہ ہم نے فتویٰ لکھ کر کیا بنا لیا ہے جس کو خدا نے کہا کہ ہو جاوے اس کو کون کہہ سکتا ہے کہ نہ ہووے؟ یہ ہمارے مخالف بھی ہمارے نوکر چاکر ہیں کہ مشرق و مغرب میں ہماری بات کو پہنچا دیتے ہیں.ابھی ہم نے سنا ہے کہ گولڑے والا پیر ایک کتاب ہمارے بر خلاف لکھنے والا ہے سو ہم خوش ہوئے کہ اس کے مریدوں میں سے جس کو خبر نہ تھی اس کو بھی خبر ہو جاوے گی اور ان کو ہماری کتابوں کے دیکھنے کے لیے ایک تحریک پیدا ہوگی.اس کے بعد آپ اندر تشریف لے گئے.ایک اور وقت میں فرمایا کہ یہ جو حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں ذلیل لوگ عزت پا جائیں گے.سو یہ بات چوہڑوں اور چماروں کے عیسائی ہونے میں پوری ہوئی کہ ان کو انگریزی کی تعلیم دے کر اور انگریزی نام رکھ کر دفتروں میں افسر کیا جاتا ہے اور بڑے بڑے خاندانی ان کے سامنے ایک ذلیل کی طرح کھڑے ہوتے ہیں.وحدت شہود صاحبزادہ سراج الحق صاحب نے ایک لطیفہ سنایا کہ میں وحدت وجود کے مسئلہ کا قائل تھا اور شہودیوں کا سخت مخالف.جب میں پہلے پہلے حضرت اقدس مرزا صاحب کی
خدمت میں پہنچا تو میں نے آپ سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ ایک سمندر ہے جس سے سب شاخیں نکلتی ہیں مگر ہمیں شہودیوں والی بات درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ قرآن شریف کے شروع ہی میں جو کہا گیا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (الفاتحۃ:۲) عالمین کا ربّ تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ربّ اور ہے اور عالَم اور ہے.ورنہ اگر وحدتِ وجود والی بات صحیح ہوتی تو ربّ العین کہا جاتا.۸۶؎ ۲۸؍دسمبر۱۸۹۹ء حضرت اقدسؑ کی پہلی تقریر برموقع جلسہ سالانہ تقریر اور وعظ میں محض للہیت مقصود ہو سب صاحبان متوجہ ہوکر سنیں.مَیں اپنی جماعت اور خود اپنی ذات اور اپنے نفس کے لئے یہی چاہتا اور پسند کرتا ہوں کہ ظاہری قیل و قال جو لیکچروں میں ہوتی ہے اُس کو ہی پسند نہ کیا جاوے اور ساری غرض و غایت آکر اُس پر ہی نہ ٹھہر جائے کہ بولنے والا کیسی جادو بھری تقریر کررہا ہے.الفاظ میں کیسا زور ہے.مَیں اس بات پر راضی نہیں ہوتا.مَیں تو یہی پسند کرتا ہوں اور نہ بناوٹ اور تکلف سے بلکہ میری طبیعت اور فطرت کا ہی یہی اقتضا ہے کہ جو کام ہو اللہ کے لئے ہو جو بات ہو خدا کے واسطے ہو.اگر اللہ کی رضا اور اس کے احکام کی تعمیل میرا مقصد نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مجھے تقریریں کرنی اور وعظ سنانا تو ایک طرف مَیں تو ہمیشہ ہمیشہ خلوت ہی کو پسند کرتا ہوں اور تنہائی میں وہ لذّت پاتا ہوں جس کو بیان نہیں کرسکتا مگر کیا کروں بنی نوع کی ہمدردی کھینچ کھینچ کر باہر لے آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس نے مجھے تبلیغ پر مامور کیا ہے.مَیں نے یہ بات کہ ظاہری قیل و قال ہی کو پسند نہ کیا جائے اس لیے بیان کی ہے کہ ہر خیر میں بھی شیطان کا حصہ
رکھا ہوا ہوتا ہے.پس انسان جب وعظ کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اس میں شک نہیں کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر بہت ہی عمدہ کام ہے مگر اس منصب پر کھڑے ہونے والے کو ڈرنا چاہیے کہ اس میں مخفی طور پر شیطان کا بھی حصہ ہے.کچھ تو واعظ کے بخرہ میں آتا ہے اور کچھ سننے والوں کے حصہ میں.اس کی حقیقت یہ ہے کہ جب واعظ وعظ کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو مقصد اور دلی تمنّا صرف یہ ہوتی ہے کہ مَیں ایسی تقریر کروں کہ سامعین خوش ہوجائیں.ایسے الفاظ اور فقرات بولوں کہ ہر طرف سے واہ وا کی آوازیں آئیں.مَیں اس قسم کی تقریر کرنے والوں کے مقاصد کو اس سے بڑھ کر نہیں سمجھتا جیسے بھڑوے، نقّال، قوّال، گویّے یہی کوشش کرتے ہیں کہ اُن کے سننے والے ان کی تعریفیں کریں.پس جب ایک مجمع کثیر سننے والا ہو اور اس میں ہر ایک مذاق اور درجہ کے لوگ موجود ہوں تو خدا کی طرف کی آنکھ کھلی نہیں ہوتی.اِلَّا مَاشَاءَ اللہ مقصود یہی ہوتا ہے کہ سننے والے واہ وا کریں.تالیاں بجائیں اور چیئرز دیں.غرض یہ حصہ شیطان کا واعظ یا بولنے والے میں ہوتا ہے اور سامعین میں شیطانی حصہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بولنے والے کی فصاحت و بلاغت، زبان پر پوری حکومت اور قادرالکلامی، برمحل اشعار، کہانیوں اور ہنسانے والے لطیفوں کو پسند کریں اور داد دیں تاکہ سخن فہم ثابت ہوں.گویا اُن کا مقصود بجائے خود خدا سے دُور ہوتا ہے اور بولنے والے کا الگ.وہ بولتا ہے مگر خدا کے لئے نہیں اور یہ سنتے ہیں مگر ان باتوں کو دل میں جگہ نہیں دیتے اس لیے کہ وہ خدا کے لئے نہیں سنتے.یہ کیوں ہوتا ہے؟ صرف اس بات کے واسطے کہ ایک لذّت حاصل کریں.یاد رکھو! انسان دو قسم کی لذّتوں کا مجموعہ ہے.ایک رُوح کی لذّت ہے.دُوسری نفس کی لذّت.رُوحانی لذّت تو ایک باریک اور عمیق راز ہے جس پر اگر کسی کو اطلاع مل جائے اور ساری عمر میں ایک مرتبہ بھی جس کو یہ سرور اور ذوق مل جائے وہ اس سے سرشار اور مست ہو جائے.نفسانی لذّتیں ایسی ہیں کہ ہمیشہ آنی اور فانی ہوتی ہیں.نفسانی لذّت وہ لذّت ہے جس کے ساتھ ایک طوائف بازاروں میں ناچ کرتی ہے.وہ بھی اس لذّت میں شریک ہیں.جیسے مولوی واعظ کی حیثیت میں گاتا
ہے اور لوگ اس کو پسند کرتے ہیں.ویسے ہی بازاری عورت گاتی ہے اسے بھی پسند کرتے ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نفس یہی چیز ہے جو ایک واعظ کے وعظ سے بھی لذّت اٹھاتا ہے اور دوسری طرف ایک بدکار عورت کے گانے سے بھی لذّت اٹھاتا ہے حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ یہ عورت بدکار ہے.اس کے اخلاق،اس کی معاشرت بہت ہی قابل نفرت ہے لیکن اس پر بھی اگر وہ اس کی باتوں اور اس کے گانے سے لذّت اٹھاتا ہے اور اس کو نفرت اور بدبو نہیں آتی، تو یقیناً سمجھو کہ یہ نفسانی لذّت ہے ورنہ روح تو ایسی گھناؤنی اور متعفّن شَے پر راضی نہیں ہو سکتی.اس قابلِ رحم واعظ کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ مجھ میں پاک حصہ نہیں ہے.ایسا ہی وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے سامعین نہیں سمجھتے کہ ہم یہاں صرف نفسانی لذّت کے لئے بیٹھے ہیں اور خدا کا بخرہ ہم میں نہیں ہے.پس میں خدا تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ ہماری تقریروں ہمارے بولنے والوں اور سننے والوں میں سے اس ناپاک اور خبیث روح کے حصہ کو نکال کر محض للہیت بھر دے.ہم جو کچھ کہیں خدا کے لئے، اس کی رضا حاصل کرنے کے واسطے اور جو کچھ سنیں خدا کی باتیں سمجھ کر سنیں اور نیز عمل کرنے کے واسطے سنیں اور مجلس وعظ سے ہم صرف اتنا ہی حصہ نہ لے جائیں کہ یہ کہیں آج بہت اچھا وعظ ہوا.راستبازی اور ربّانی واعظ مسلمانوں میں اِدبار اور زوال آنے کی یہ بڑی بھاری وجہ ہے ورنہ اس قدر کانفرنسیں اور انجمنیں اور مجلسیں ہوتی ہیں اور وہاں بڑے بڑے لسَّان اور لیکچرار اپنے لیکچر پڑھتے اور تقریریں کرتے، شاعر قوم کی حالت پر نوحہ خوانیاں کرتے ہیں.وہ بات کیا ہے کہ اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا؟ قوم دن بدن ترقی کی بجائے تنزل ہی کی طرف جاتی ہے.بات یہی ہے کہ ان مجلسوں میں آنے جانے والے اخلاص لے کر نہیں جاتے.وہاں لیکچراروں کی غرض جیسا کہ مَیں نے ابھی بیان کیا ہے خواہ نخواہ مولوی ہوں یا نئے تعلیم یافتہ مشائخ ہوں یا صُوفی ان سب کی غرض صرف واہ وا سننا ہوتا ہے.تقریر کرتے وقت ان کے معبود سامعین ہوتے ہیں جن کی خوشی اور رضامندی اُن کو مطلوب ہوتی ہے نہ خدا کی رضا.لیکن راست باز حقّانی لوگ جو قیامت تک ہوں گے اُن کا یہ مقصد اور منشا کبھی نہیں ہوتا.اُن کا مقصود اور
مطلوب خدا ہوتا ہے اور بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی اور غمگساری جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے وہ دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں جو خود اُنہوں نے دیکھا ہے.اللہ تعالیٰ کا جلال ظاہر کرنا اُن کی تمنّا ہوتی ہے اس لیے وہ جو کچھ کہتے ہیں بلا خوفِ لومۃ لائم کہتے ہیں.اُن کی نگاہ میں سامعین ایک مُردہ کیڑے ہوتے ہیں.نہ اُن سے کوئی اجر مقصود ہوتا ہے نہ اُن کے واہ وا کی غرض.یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات لوگ اُن کی باتیں سن کر گھبرا جاتے ہیں اور درمیان تقریر سے اٹھ اُٹھ کر چلے جاتے ہیں اور بسا اوقات گالیاں دیتے اور دُکھ دینے والی باتوں ہی پر اکتفا نہ کرکے قسم قسم کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچاتے ہیں.اس سے صاف پتا لگ جاتا ہے کہ نفسانی لذّت کا طالب اور خواہشمند کون ہوتا ہے اور نفسانی لذّت ہوتی کیا ہے؟ ایک طوائف کا ناچ ہو تو ساری رات بھی جاگنا اور زر دادن و دردِ سر خریدن # کا مصداق ہونا بھی منظور لیکن ایک حقانی واعظ کے چند کلمے جو نہایت خلوص اور سچے جوش اور حقیقی ہمدردی کی بنا پر اس کے پاک مُنہ سے نکلتے ہیں.اُن کے لئے سننا دشوار اور گراں مگر یہ حقانی واعظوں کی جماعت ان باتوں سے نہ کبھی گھبراتی اور نہ تھکتی ہے.کیوں؟ ان کے پیش نظر خدا ہوتا ہے جو اپنی لاانتہا قدرتوں اور فوق الفوق طاقتوں کے ساتھ اُن پر جلوہ نمائی کرتا ہے جو اُن پر سکینت اور استقلال نازل فرماتا ہے پھر وہ مُردہ دنیا داروں کی پَروا کیا کرسکتے ہیں.ربّانی واعظ کا اثر رُوح پر یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کی پیدائش میں ایک رُوح کا حصہ ہے دوسرا نفس کا جو بہت پھیلا ہوا ہے.اب آپ لوگ یہ بات آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں کہ جو چیز زیادہ ہوگی اُس کا اثر زیادہ ہوگا.رُوح کا جوش ایسا ہے جیسے کوئی غریب الوطن ناواقف لوگوں میں آکر بسے.پس رُوح جو گمنام حالت میں ہوتی ہے اُس پر بہت کم اثر ہوتا ہے.روح کے اثر کی علامت یہ ہے کہ جب ربّانی واعظ اور حقّانی ریفارمر بولتا ہے تو وہ اپنے وعظ میں سامعین کو کالعدم سمجھتا ہے اور پیغام رساں ہوکر باتیں پہنچاتا ہے.ایسی صورت میں رُوح میں ایک گدازش پیدا ہوتی ہے.یہاں تک کہ وہ پانی کے ایک آبشار کی طرح جو پہاڑ کے بلند کڑاڑے سے نشیب کی طرف گرتا ہے بے اختیار ہوکر گرتی ہے.خدا تعالیٰ کی طرف بہتی ہے اور
اس بہاؤ میں وہ ایک ایسی لذّت اور سرور محسوس کرتی ہے جس کو مَیں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا.پس وہ اپنے بیان اور اپنی تقریر میں وجہ اللہ کو دیکھتا ہے.سامعین کی اُسے پروا بھی نہیں ہوتی کہ وہ سن کر کیا کہیں گے.اس کو ایک اور طرف سے ایک لذّت آتی ہے اور اندر ہی اندر خوش ہوتا ہے کہ میں اپنے مالک اور حکمران کے حکم اور پیغام کو پہنچا رہا ہوں.اس پیغام رسانی میں جو مشکلات اور تکالیف اُسے پیش آتی ہیں وہ بھی اُس کے لئے محسوس اللذّات اور مدرک الحلاوت ہوتی ہیں.چونکہ بنی نوع کی ہمدردی میں محو ہوتے ہیں اس لئے رات دن سوچتے رہتے ہیں اور اسی فکر میں کڑھتے ہیں کہ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح اس راہ پر آجائیں اور ایک باراس چشمہ سے ایک گھونٹ پی لیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حددرجہ ہمدردی و غمگساری یہ ہمدردی، یہ جوش ہمارے سید و مولیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں غایت درجہ کا تھا.اس سے بڑھ کر کسی دوسرے میں ہوسکتا ہی نہیں.چنانچہ آپ کی ہمدردی اور غمگساری کا یہ عالم تھا کہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کا نقشہ کھینچ کر دکھایا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ (الشعرآء:۴) یعنی کیا تو اپنی جان کو ہلاک کردے گا اس غم میں کہ یہ کیوں مومن نہیں ہوتے.اس آیت کی حقیقت آپ پورے طور پر نہ سمجھ سکیں تو جدا اَمر ہے مگر میرے دل میں اس کی حقیقت یوں پھرتی ہے جیسے بدن میں خون.بدل دردیکہ دارم از برائے طالبانِ حق نمے گرد دبیان آں درد از تقریر کوتاہم # میں خوب سمجھا ہوں کہ ان حقّانی واعظوں کو کس قسم کا جان گزا درد اصلاحِ خلق کا لگا ہوا ہوتا ہے.متأثر ہونے کی اِستعداد پھر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ معلّم جس رنگ اور طاقت کا ہو اس کا اثر اسی حیثیت سے حسبِ استعداد سننے والوں پر ہوتا ہے بشرطیکہ استعداد میں قابلیت ہو.جو لوگ خدا تعالیٰ سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں اور خوف اور خشیت رکھتے ہیں اُن پر اثر زیادہ ہوتا ہے.اس کا نشان یہ ہے کہ روح تزکیۂ نفس کے لئے دوڑتی ہے اور بے اختیار ہو ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف جاتی ہے.اگر نفسِ امّارہ کے ساتھ تعلق زیادہ ہے اور اس کی حکومت کے
نیچے ہے تو طبیعت میں ایک اضطراب اور قلق سا پیدا ہوتا ہے.اُس کی باتوں سے نفرت معلوم ہوتی ہے.وہاں بیٹھنے اور سننے کو جی نہیں چاہتا بلکہ گھبراہٹ معلوم ہوتی ہے.جب انسان اس قسم کی بے چینی اور بے لذّتی ایک حقّانی واعظ کی باتوں سے اپنے دل میں پائے تو اُس کو واجب ہے کہ وہ اپنی رُوح کی فکر کرے کہ وہ ہلاکت کے گڑھے پر پہنچی ہوئی ہے.خدا کی باتوں سے بے لطفی اور بے ذوقی.رُوحانی بیماریوں کا علاج اِس سے بڑھ کر دنیا میں ہلاک کرنے والی چیز کیا ہوگی، اس کا علاج کیا ہے؟ اس کا علاج استغفار، خدا کے حضور رجوع، اپنے گناہوں کی معافی کے لئے دعائیں اور اُن پر دوام.اگر اس نسخہ کو استعمال کیا جائے تو مَیں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ اس بے لطفی سے ایک لطف اور اس بے ذوقی میں سے ایک ذوق پیدا ہوجائے گا.پھر وہی رُوح جو خدا کے حضور جانے سے بھاگتی اور خدا کی باتوں کے سننے سے نفرت کرتی تھی خدا کی طرف گیند کی طرح لڑھکتی ہوئی چلی جائے گی.نفس کی تین اقسام نفس کی تین قسمیں ہیں اَمَّـارَۃ، لَــوَّامَــۃ، مُــطْــمَـئِنَّۃ.مُطْمَئِنَّۃ کی ایک حالت نفسِ زکیّہ کہلاتی ہے.نفسِ زکیہ بچوں کا نفس ہوتا ہے جس کو کوئی ہوا نہیں لگی ہوتی ہے اور وہ ہر قسم کے نشیب و فراز سے ناواقف ایک ہموار سطح پر چلتے ہیں.نفس امّارہ وہ ہے جب کہ دنیا کی ہوا لگتی ہے.نفس لوّامہ وہ نفس ہے جب کہ ہوش آتی ہے اور لغزشوں کو سوچتا ہے اور کوشش کرتا ہے اور بدیوں سے بچنے کے لئے دعا کرتا ہے.اپنی کمزوریوں سے آگاہ ہوتا ہے.اور نفسِ مطمئنہ وہ ہوتا ہے جبکہ ہر قسم کی بدیوں سے بچنے کی بفضل الٰہی قوت اور طاقت پاتا ہے اور ہر قسم کی آفتوں اور مصیبتوں سے اپنے آپ کو امن میں پاتا ہے اور اس طرح پر ایک برودت اور اطمینان قلب کو حاصل ہوتا ہے.کسی قسم کی گھبراہٹ اور اضطراب باقی نہ رہے.دماغ، دل اور زبان کا دائرۂ کار اس کی مثال اس طرح کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود میں تین قسم کی حکومت رکھی ہے.ایک دماغ، دوسرا دل، تیسری زبان.دماغ عقول اور براہین سے کام لیتا ہے اور اُس کا یہ کام ہے کہ ہر وقت وہ
ایک تراش خراش میں لگا رہتا ہے اور نئی نئی براہین اور حجج کو سوچتا رہتا ہے.اس کے سپرد یہی خدمت ہے کہ وہ مقدمات مرتب کرکے نتائج نکالتا رہتا ہے.قلب تمام وجود کا بادشاہ ہے.یہ دلائل سے کام نہیں لیتا.چونکہ اس کا تعلق ملک الملوک سے ہے اس لیے کبھی صریح الہام سے کبھی خفی الہام سے اطلاع پاتا ہے.یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دماغ وزیر ہے.وزیر مدبّر ہوتے ہیں.اس لئے دماغ تجاویز، اسباب، دلائل اور نتائج کے متعلق کام میں لگا رہتا ہے.قلب کو اُن سے کام نہیں ہے.اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے قوت حاسہ رکھی ہے جیسے چیونٹی جہاں کوئی شیرینی رکھی ہوئی ہو معاً اس جگہ پر پہنچ جاتی ہے حالانکہ اس کے لئے کوئی دلیل اس اَمر کی نہیں ہوتی کہ وہاں شیرینی ہے بلکہ خدا تعالیٰ نے اس میں ایک قوتِ حاسہ رکھی ہوئی ہوتی ہے جو اس کی رہبری کرتی ہے.اسی طرح پر قلب کو چیونٹی کے ساتھ مشابہت ہے کیونکہ اس میں بھی وہ قوتِ حاسہ موجود ہے جو اس کی رہنمائی کرتی ہے اور وہ دلائل و براہین اور ترتیب مقدمات اور استخراج نتائج کی ضرورت نہیں رکھتا.گو یہ امر دیگر ہے کہ دماغ اس کے لئے یہ اسباب اور اُمور بھی بہم پہنچا دیتا ہے.قلب کے معنی قلب کے معنے ایک ظاہری اور جسمانی ہیں اور ایک رُوحانی.ظاہری معنی تو یہی ہیں کہ پھرنے والا.چونکہ دورانِ خون اسی سے ہوتا ہے اس لئے اس کو قلب کہتے ہیں.روحانی طور پر اس کے یہ معنی ہیں کہ جو ترقیات انسان کرنا چاہتا ہے وہ قلب ہی کے تصرف سے ہوتی ہیں.جس طرح پر دورانِ خون جو انسانی زندگی کے لئے ایک اشد ضروری چیز ہے اسی قلب سے ہوتا ہے اسی طرح پر روحانی ترقیوں کا اسی کے تصرف پر انحصار ہے.قلب اور دماغ کی ماہیّت بعض نادان آج کل کے فلسفی بے خبر ہیں.وہ تمام عمدہ کاروبار کو دماغ سے ہی منسوب کرتے ہیں مگر وہ اتنا نہیں جانتے کہ دماغ تو صرف دلائل و براہین کا ملکہ ہے.قوتِ متفکرہ اور حافظہ دماغ میں ہے لیکن قلب میں ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے وہ سردار ہے یعنی دماغ میں ایک قسم کا تکلّف ہے اور قلب میں نہیں بلکہ وہ بلا تکلّف ہے.اس لیے قلب رب العرش سے ایک مناسبت رکھتا ہے.صرف قوتِ حاسہ
کے ذریعہ دلائل و براہین کے بغیر پہچان جاتا ہے.اسی لیے حدیث شریف میں آیا ہے کہ اِسْتَفْتِ الْقَلْبَ یعنی قلب سے فتویٰ پوچھ لے.یہ نہیں کہا کہ دماغ سے فتویٰ پوچھ لو.الوہیت کی تار اسی کے ساتھ لگی ہوئی ہے کوئی اس کو بعید نہ سمجھے.یہ بات ادق اور مشکل تو ہے مگر تزکیۂ نفس کرنے والے جانتے ہیں کہ یہ مکرّماتِ قلب میں موجود ہیں.اگر قلب میں یہ طاقتیں نہ ہوتیں تو انسان کا وجود ہی بے کار سمجھا جاتا.صوفی اور مجاہدہ کرنے والے لوگ جو تصوّف اور مجاہدات کے مشاغل میں مصروف ہوتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ قلب سے روشنی اور نور کے ستون شہودی طور پر نکلتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ایک خط مستقیم میں آسمان کو جاتے ہیں.یہ مسئلہ بدیہی اور یقینی ہے.میں اس کو خاص مثال کے ذریعہ سے بیان نہیں کر سکتا.ہاں جن لوگوں کو مجاہدات کرنے پڑتے ہیں یا جنہوں نے سلوک کی منزلوں کو طے کرنا چاہا ہے انہوں نے اس کو اپنے مشاہدہ اور تجربہ سے صحیح پایا ہے.قلب اور عرش کے درمیان گویا باریک تار ہے.قلب کو جو حکم کرتا ہے اس سے ہی لذّت پاتا ہے.خارجی دلائل اور براہین کا محتاج نہیں ہوتا ہے بلکہ ملہم ہو کر خدا سے اندر ہی اندر باتیں پا کر فتویٰ دیتا ہے.ہاں یہ بات سچ ہے کہ جب تک قلب قلب نہ بنے لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ (الملک:۱۱) کا مصداق ہوتا ہے.یعنی انسان پر ایک وہ زمانہ آتا ہے کہ جس میں نہ قلب و دماغ کی قوتیں اور طاقتیں ہوتی ہیں.پھر ایک زمانہ دماغ کا آتا ہے.دماغی قوتیں اور طاقتیں نشوونما پاتی ہیں اور ایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ قلب منور اور مشتعل اور روشن ہو جاتا ہے.جب قلب کا زمانہ آتا ہے اس وقت انسان روحانی بلوغ حاصل کرتا ہے اور دماغ قلب کے تابع ہو جاتا ہے اور دماغی قوتوں کو قلب کی خاصیتوں اور طاقتوں پر فوق نہیں ہوتا.یہ بھی یاد رہے کہ دماغی حالتوں کو مومنوں سے ہی خصوصیت نہیں ہے.ہندو اور چوہڑے وغیرہ بھی سب کے سب ہر ایک دماغ سے کام لیتے ہیں.جو لوگ دنیوی معاملات اور تجارت کے کاروبار میں مصروف ہیں وہ سب کے سب دماغ سے کام لیتے ہیں.ان کی دماغی قوتیں پورے طور پر نشوونما پائی ہوئی ہوتی ہیں اور ہر روز نئی نئی باتیں اپنے کاروبار کے متعلق ایجاد کرتے ہیں.یورپ اور نئی دنیا کو دیکھو کہ یہ لوگ کس قدر دماغی قوتوں سے کام لیتے ہیں
اور کس قدر آئے دن نئی ایجادیں کرتے ہیں.قلب کا کام جب ہوتا ہے، جب انسان خدا کا بنتا ہے اس وقت اندر کی ساری طاقتیں اور ریاستیں معدوم ہو کر قلب کی سلطنت ایک اقتدار اور قوت حاصل کرتی ہے.تب انسان کامل انسان کہلاتا ہے.یہ وہی وقت ہوتا ہے جبکہ وہ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ (الـحجر:۳۰) کا مصداق ہوتا ہے اور ملائکہ تک اسے سجدہ کرتے ہیں.اس وقت وہ ایک نیا انسان ہوتا ہے.اس کی روح پوری لذّت اور سرور سے سرشار ہوتی ہے.یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ لذّت ایسی لذّت نہیں جیسا کہ ایک ناعاقبت اندیش بدکار زنا کرنے میں پاتا ہے یا خوش الحانی کا شائق سرود اور خوش گلو کے گانے میں پاتا ہے.نہیں بلکہ اس سے دھوکا نہ کھانا چاہیے.روح کی لذّت ۸۷؎ اس وقت ملتی ہے جب انسان گداز ہو کر پانی کی طرح بہنا شروع ہوتا ہے اور خوف و خشیت سے بہہ نکلتا ہے.ا س مقام پر وہ کلمہ بنتا ہے اور اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ (یٰسٓ:۸۳) کا مفہوم اس میں کام کرنے لگتا ہے.کلمۃ اللہ اور روح کی حقیقت لوگوں نے کلمۃ اللہ کے لفظ پر جو مسیح کی نسبت آیا ہے سخت غلطی کھائی ہے اور مسیح کی کوئی خصوصیت سمجھی ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے.ہر انسان جب نفسانی ظلمتوں اور گندگیوں اور تیرگیوں سے نکل آتا ہے اس وقت وہ کلمۃ اللہ ہوتا ہے.یاد رکھو ہر انسان کلمۃ اللہ ہے کیونکہ اس کے اندر روح ہے جس کا نام قرآن شریف میں اَمْرِ رَبّی رکھا گیا ہے.لیکن انسان نادانی اور ناواقفی سے روح کی کچھ قدر نہ کرنے کے باعث اس کو انواع و اقسام کی سلاسل اور زنجیروں میں مقید کر دیتا ہے اور اس کی روشنی اور صفائی کو خطر ناک تاریکیوں اور سیاہ کاریوں کی وجہ سے اندھا اور سیاہ کر دیتا ہے اور اسے ایسا دھندلا بناتا ہے کہ پتا بھی نہیں لگتا.لیکن جب توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنی ناپاک اور تاریک زندگی کی چادر اتار دیتا ہے تو قلب منور ہونے لگتا ہے اور پھر اصل مبدء کی طرف رجوع شروع ہوتا ہے.یہاں تک کہ تقویٰ کے
انتہائی درجہ پر پہنچ کر سارا میل کچیل اتر کر پھر وہ کلمۃ اللہ ہی رہ جاتا ہے.یہ ایک باریک علم اور معرفت کا نکتہ ہے.ہر شخص اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا.انسان کا کمال انسان کا کمال یہ ہے کہ اس میں حقیقی معرفت اور سچی فراست جو ایمانی فراست کہلاتی ہے (جس کے ساتھ اللہ کا ایک نور ہوتا ہے جو اس کی ہر راہ میں رہنمائی کرتا ہے) پیدا ہو.بدوں اس کے انسان دھوکے سے نہیں بچ سکتا اور رسم و عادت کے طور پر کبھی کبھی نہیں بلکہ بسا اوقات سم قاتل پر بھی خوش ہو جاتا ہے.پنجاب و ہندوستان کے سجادہ نشین اور گدیوں کے پیرزادے قوالوں کے گانے سے اور ھُوَحَقّ کے نعرے مارنے اور الٹے سیدھے لٹکنے ہی میں اپنی معرفت اور کمال کا انتہا جانتے ہیں اور ناواقف پیر پرست ان باتوں کو دیکھ کر اپنی روح کی تسلی اور اطمینان ان لوگوں کے پاس تلاش کرتے ہیں.مگر غور سے دیکھو کہ یہ لوگ اگر فریب نہیں دیتے تو اس میں شک نہیں ہے کہ فریب خوردہ ضرور ہیں.کیونکہ وہ سچا رشتہ جو عبودیت اور الوہیت کے درمیان ہے جس کے حقیقی پیوند سے ایک نور اور روشنی نکلتی ہے اور ایسی لذّت پیدا ہوتی ہے کہ دوسری کوئی لذّت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اس کو ان قلابازیوں سے کچھ بھی تعلق نہیں.ہم نہایت نیک نیتی کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہماری نیت کیسی ہے پوچھتے ہیں کہ اگر اس قسم کے مشغلے عبادتِ الٰہی اور معرفت الٰہی کا موجب ہوسکتے ہیں اور انسانی روح کے کمال کا باعث بن سکتے ہیں تو پھر بازیگروں کو معرفت کی معراج پر پہنچا ہوا سمجھنا چاہیے اور انگریزوں نے تو ان کھیلوں اور کرتبوں میں اور بھی حیرت انگیز ترقیاں کی ہیں اور باوجود ان ترقیوں کے ان کی معرفت خدا کی نسبت یا تو یہ ہے کہ وہ سرے سے ہی منکر اور دہریہ ہیں اور اگر اقرار بھی کیا ہے تو یہ کہ ایک ناتواں بیکس انسان کہ جو ایک عورت مریم کے پیٹ سے پیدا ہوا خدا بنا لیا اور ایک خدا کو چھوڑ کر تین خداؤں کے قائل ہوئے.جن میں سے ایک کو ملعون اور ہاویہ میں تین دن رہنے والا تجویز کیا.اب اے دانشمندو! سوچو! اور اے سلیم الفطرت والو! غور کرو کہ اگر یہی الٹا سیدھا لٹکنا اور طبلہ اور سارنگی ہی کے ذریعہ خدا کی معرفت اور انسانی کمال حاصل ہوسکتا تھا تو پھر کیا وجہ ہے کہ
اس فن میں ماہر اور موجد انگریزوں کو جو قسم قسم کے باجے اور گانے کے سامان نکالتے ہیں ایسی ٹھوکر لگی کہ وہ خدا کے بالکل منکر یا تثلیث کے قائل ہو گئے باوجودیکہ دنیوی امور میں ایجادات و اختراعات میں ان کی عقلیں ترقی پذیر سمجھی جاتی ہیں.پھر اس پر اور بھی غور کرو اور سوچو کہ اگر یہی معرفت کا ذریعہ تھا تو تھیٹروں میں ناچنے والے اور تمام ناچنے گانے والے پھر اعلیٰ درجہ کے صاحب دل اور صاحب کمال ماننے پڑیں گے.افسوس ان لوگوں کو خبر ہی نہیں کہ خدا کی معرفت ہوتی کیا ہے؟ اور انسانی کمال نام کس کا ہے؟ وہ شیطانی حصہ کی شناخت نہیں کر سکے.رقّت اور گریہ و بکا انہوں نے صرف چند قطرے آنسوؤں کے بہا لینا اور دو تین چیخیں مار دینا ہی روح کی تسلی اور اطمینان کا موجب سمجھ رکھا ہے.بسا اوقات انسان ناول پڑھتا ہے.جب اس میں کسی درد ناک حصہ پر پہنچتا ہے باوصفیکہ جانتا ہے کہ یہ ایک فرضی کہانی اور جھوٹا قصہ ہے لیکن پھر بھی وہ ضبط نہیں کرسکتا اور بعض دفعہ چیخیں مار مار کر رو پڑتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ محض رونا اور چلّانا بھی اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتا.میں نے سنا ہے کہ ملوک چغتائیہ کے عہد سلطنت میں بعض لوگ ایسے ہوتے تھے جو شرط لگا کر یقیناً رلا دیتے تھے اور ہنسا دیتے تھے اور اب تو صریح یہ بات موجود ہے کہ طرح طرح کے ناول موجود ہیں.بعض ایسے ہیں کہ اُن کو پڑھ کر بے اختیار ہنسی آتی ہے اور بعض ایسے ہیں کہ ان کو پڑھ کر دل بے اختیار ہو کر درد مند ہو جاتا ہے حالانکہ ان کو یقیناً بناوٹی قصے اور فرضی کہانیاں جانتے ہیں.اس سے صاف معلوم ہوگیا کہ انسان دھوکا کھاتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان نفسانی اغراض اور روحانی مطالب میں تمیز نہیں کرتا.جس قدر لوگ دنیا میں ہیں ان میں سے ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو علامات حقیقیہ سے بے نصیب ہیں.ان کے منہ سے معارف اور حقائق نہیں نکلتے پھر رلا دیتے ہیں.اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ وہ حقائق اور معارف سے بہرہ ور ہیں جو عبودیت کے رنگ سے رنگین ہو کر الوہیت کے عظمت و جلال سے خائف اور ترساں ہو کر بولتے ہیں بلکہ اس کی تہہ میں وہی بات ہوتی ہے جو میں نے ابھی ناولوں اور کہانیوں کے متعلق بیان کی ہے.
وہ خود بھی نفس کی ہوا میں مبتلا ہوتے ہیں اور یوں رونا کچھ فائدہ نہیں رکھتا.آنسو کا ایک قطرہ بھی دوزخ کو حرام کردیتا ہے ہاں اگر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت اور اس کی خشیت کا غلبہ دل پر ہو اور اس میں ایک رقّت اور گدازش پیدا ہوکر خدا کے لئے ایک قطرہ بھی آنکھ سے نکلے تو وہ یقیناً دوزخ کو حرام کردیتا ہے.پس انسان اس سے دھوکا نہ کھائے کہ مَیں بہت روتا ہوں.اس کا فائدہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ آنکھ دُکھنے آجائے گی اور یوں امراضِ چشم میں مبتلا ہوجائے گا.مَیں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا کے حضور اس کی خشیت سے متاثر ہوکر رونا دوزخ کو حرام کردیتا ہے لیکن یہ گریہ و بکا نصیب نہیں ہوتا جب تک کہ خدا کو خدا اور اس کے رسول کو رسول اور اس کی سچی کتاب پر اطلاع نہ ہو نہ صرف اطلاع بلکہ ایمان.طبیب جیسے ایک مریض کو جُلاب دیتا ہے اور اس کو ہلکے ہلکے دست آتے ہیں وہ مرض کو ضائع نہیں کرتے جب تک کہ جگری دست نہ آویں.وہ اپنے ساتھ تمام مواد ردّیہ اور فاسدہ کو لے کر نکلتے ہیں اور ہر قسم کی عفونتیں اور زہریں جنہوں نے مریض کو اندر اندر ہی مضمحل اور مضطرب کر رکھا تھا اُس کے ساتھ نکل جاتے ہیں اور اُس کو شفا ہوتی ہے.اسی طرح پر جگری گریہ و بکا آستانہٴ الوہیت پر ہر ایک قسم کی نفسانی گندگیوں اور مُفسد مواد کو لے کر نکل جاتا ہے اور اس کو پاک و صاف بنا دیتا ہے.اہل اللہ کا ایک آنسو جو تَوْبَۃُ النّصوح کے وقت نکلتا ہے ہوا و ہوس کے بندے اور ریاکاری اور ظلمتوں کے گرفتار کے ایک دریا بہا دینے سے افضل اور اعلیٰ ہے کیونکہ وہ خدا کے لئے ہے اور یہ خَلق کے لئے یا اپنے نفس کے واسطے.اِس بات کو کبھی اپنے دل سے محو نہ کرو کہ خدا تعالیٰ کے حضور اخلاص اور راستبازی کی قدر ہے.تکلّف اور بناوٹ اُس کے حضور کچھ کام نہیں دے سکتی.اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کے ذرائع اب اگر یہ سوال ہو کہ پھر اس درجہ کے حصول کے لئے کیا کیا جائے اور قرآن کریم نے
اس درجہ پر پہنچنے کا کیا ذریعہ بتایا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے لئے دو باتیں بطور اُصول کے رکھی ہیں.اوّل یہ کہ دعا کرو.یہ سچی بات ہے خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا (النساء:۲۹) انسان کمزور مخلوق ہے.وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم کے بدوں کچھ بھی نہیں کرسکتا.اس کا وجود اور اس کی پرورش اور بقا کے سامان سب کے سب اللہ تعالیٰ ہی کے فضل پر موقوف ہیں.احمق ہے وہ انسان جو اپنی عقل و دانش یا اپنے مال و دولت پر ناز کرتا ہے کیونکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کا عطیہ ہے.وہ کہاں سے لایا؟ اور دعا کے لئے یہ ضروری بات ہے کہ انسان اپنے ضُعف اور کمزوری کا پورا خیال اور تصور کرے.جوں جوں وہ اپنی کمزوری پر غور کرے گا اسی قدر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مدد کا محتاج پائے گا.اور اس طرح پر دعا کے لئے اس کے اندر ایک جوش پیدا ہوگا.جیسے انسان جب مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور دکھ یا تنگی محسوس کرتا ہے تو بڑے زور کے ساتھ پکارتا اور چلّاتا ہے اور دوسرے سے مدد مانگتا ہے.اسی طرح اگر وہ اپنی کمزوریوں اور لغزشوں پر غور کرے گا اور اپنے آپ کو ہر آن اللہ تعالیٰ کی مدد کا محتاج پائے گا تو اس کی روح پورے جوش اور درد سے بے قرار ہوکر آستانہ الوہیت پر گرتی اور چلّاتی ہے اور یَارَبّ یَارَبّ کہہ کر پکارتی ہے.غور سے قرآن کریم کو دیکھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ پہلی ہی سورہ میں اللہ تعالیٰ نے دعا کی تعلیم دی ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ (الفاتـحۃ:۶، ۷) دعا تب ہی جامع ہوسکتی ہے کہ وہ تمام منافع اور مفاد کو اپنے اندر رکھتی ہو اور تمام نقصانوں اور مضرتوں سے بچاتی ہو.پس اس دعا میں تمام بہترین منافع جو ہوسکتے ہیں اور ممکن ہیں وہ اس دعا میں مطلوب ہیں اور بڑی سے بڑی نقصان رساں چیز جو انسان کو ہلاک کردیتی ہے اُس سے بچنے کی دعا ہے.منعم علیہ گروہ کی چار اقسام میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ منعم علیہ چار قسم کے لوگ ہیں.اوّل نبی.دوم صدیق.سوم شہید.چہارم صالحین.پس اس دعا میں گویا ان چاروں گروہوں کے کمالات کی طلب ہے.نبی نبیوں کا عظیم الشان کمال یہ ہے کہ وہ خدا سے خبریں پاتے ہیں چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے لَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ (الـجن : ۲۸،۲۷) یعنی خدا تعالیٰ کے
غیب کی باتیں کسی دوسرے پر ظاہر نہیں ہوتیں ہاں اپنے نبیوں میں سے جس کو وہ پسند کرے.جو لوگ نبوت کے کمالات سے حصہ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو قبل از وقت آنے والے واقعات کی اطلاع دیتا ہے اور یہ بہت بڑا عظیم الشان نشان خدا کے مامور اور مرسلوں کا ہوتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کوئی معجزہ نہیں.پیش گوئی بہت بڑا معجزہ ہے.تمام کتب سابقہ اور قرآن کریم سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہے کہ پیشگوئی سے بڑھ کر کوئی نشان نہیں ہوتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مستقل اور دائمی معجزات نادان اور بداندیش مخالفوں نے اس علم پر کبھی غور نہیں کی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات پر اعتراض کیا ہے.مگر افسوس ہے اُن آنکھ بند کرکے اعتراض کرنے والوں کو یہ معلوم نہ ہوا کہ جس قدر معجزات ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ظاہر ہوئے ہیں دنیا میں کل نبیوں کے معجزات کو بھی اگر اُن کے مقابلہ میں رکھیں تو میں ایمان سے کہتا ہوں کہ ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات بڑھ کر ثابت ہوں گے.قطع نظر اس بات کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں سے قرآن شریف بھرا پڑا ہے اور قیامت تک اور اس کے بعد تک کی پیشگوئیاں اس میں موجود ہیں.سب سے بڑھ کر ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کا یہ ہے کہ ہر زمانہ میں اُن پیشگوئیوں کا زندہ ثبوت دینے والا موجود ہوتا ہے چنانچہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بطور نشان کھڑا کیا اور پیشگوئیوں کا ایک عظیم الشان نشان مجھے دیا تا میں اُن لوگوں کو جو حقائق سے بے بہرہ اور معرفت الٰہی سے بے نصیب ہیں روزِ روشن کی طرح دکھادُوں کہ ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کیسے مستقل اور دائمی ہیں.زندہ رسول ابدالآباد کے لئے صرف محمد رسول اللہ ؐ ہی ہیں کیا بنی اسرائیل کے بقیہ یہود یا حضرت مسیح علیہ السلام کو خداوند خداوند پکارنے والے عیسائیوں میں کوئی ہے جو ان نشانات میں میرا مقابلہ کرے.میں پکار کر کہتا ہوں کہ کوئی بھی نہیں.ایک بھی نہیں.پھر یہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداری معجزہ نمائی
کی قوت کا ثبوت ہے کیونکہ یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ نبی متبوع کے معجزات ہی وہ معجزات کہلاتے ہیں جو اس کے کسی متبع کے ہاتھ پر سرزد ہوں.پس جو نشانات خوارق عادات مجھے دیئے گئے ہیں.جو پیشگوئیوں کا عظیم الشان نشان مجھے عطا ہوا ہے یہ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ معجزات ہیں اور کسی دوسرے نبی کے متبع کو یہ آج فخر نہیں ہے کہ وہ اس طرح پر دعوت کر کے ظاہر کر دے کہ وہ بھی اپنے اندر اپنے نبی متبوع کی قُدسی قوت کی وجہ سے خوارق دکھا سکتا ہے.یہ فخر صرف اسلام کو ہے اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ زندہ رسول ابدالآباد کے لیے صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہو سکتے ہیں جن کے نفوس طیبہ اور قوت قدسیہ کے طفیل سے ہر زمانہ میں ایک مردِ خدا خدانمائی کا ثبوت دیتا رہتا ہے.نبی کا سب سے بڑا کمال، اظہار علَی الغیب غرض بات تو یہ تھی کہ اس دعا میں نبیوں کے کمالات سے حصہ لینے کی بھی دعا ہے کیونکہ منعم علیہ گروہ میں سب کا سردار انبیاء علیہم السلام کا گروہ ہے اور اُس کے کمالات میں سے سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اُن پر غیب کی باتیں جن کو پیش گوئیاں بھی کہتے ہیں ظاہر کی جاتی ہیں.یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس دعا میں درحقیقت پیشگوئیاں مانگنے کی دعا نہیں ہے بلکہ اس مرتبہ کے حصول کی ہی دعا ہے جہاں پہنچ کر پیش گوئی کرتا ہے.پیش گوئی کا مقام اللہ تعالیٰ کے اعلیٰ درجہ کے قرب کے بدوں ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں وہ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى (النجم:۴) کا مصداق ہوتا ہے اور یہ درجہ تب ملتا ہے جب دَنَا فَتَدَلّٰى (النجم:۹) کے مقام پر پہنچے.جب تک ظلّی طور پر اپنی انسانیت کی چادر کو پھینک کر الوہیت کی چادر کے نیچے اپنے آپ کو نہ چھپائے یہ مقام اسے کب مل سکتا ہے.یہ وہ مقام ہے جہاں بعض سلوک کی منزلوں سے ناواقف صوفیوں نے آکر ٹھوکر کھائی ہے اور اپنے آپ کو وہ خدا سمجھ بیٹھے ہیں اور اُن کی اس ٹھوکر سے ایک خطرناک غلطی پھیلی ہے جس نے بہتوں کو ہلاک کر ڈالا اور وہ وحدتِ وجود کا مسئلہ ہے جس کی حقیقت سے یہ لوگ ناواقفِ محض ہوتے ہیں.میرا مطلب صرف اسی قدر ہے کہ مَیں تمہیں یہ بتاؤں کہ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى کے درجہ پر
جب تک انسان نہ پہنچے اس وقت تک اُسے پیشگوئی کی قوت نہیں مل سکتی اور یہ درجہ اُس وقت حاصل ہوتا ہے جبکہ انسان قربِ الٰہی حاصل کرے.قربِ الٰہی کے لئے یہ ضروری بات ہے کہ تَـخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ پر عمل ہو کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ کی صفات کو ملحوظ خاطر رکھ کر اُن کی عزت نہ کرے گا اور اُن کا پَرتَو اپنی حالت اور اخلاق سے نہ دکھائے وہ خدا کے حضور کیوںکر جاسکتا ہے.مثلاً خدا کی ایک صفت قدوس ہے.پھر ایک ناپاک، غلیظ، ہر قسم کے فسق و فجور کی ناپاکی میں مبتلا انسان اللہ تعالیٰ کے حضور کیوں کر جاسکتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے تعلق کیوںکر پیدا کرسکتا ہے.۸۸؎ غرض اس دعا میں اوّل منعم علیہ گروہ کے کماِل مراتب کے حصول کی دعا ہے.پس جب تک انسان اپنے اندرونی سلسلہ خیالات کو چھوڑ کر اَنَا الْمَوْجُوْدُ کی آواز نہ سُنے دعاؤں میں لگا رہے.یہ کمال تام کا درجہ ہوتا ہے.صدّیق پھر دوسرا مرتبہ صدّیق کا ہے.صدق کامل اس وقت تک جذب نہیں ہوتا جب تک توبۃ النصوح کے ساتھ صدق کو نہ کھینچے.قرآن کریم تمام صداقتوں کا مجموعہ اور صدق تام ہے.جب تک خود صادق نہ بنے صدق کے کمال اور مراتب سے کیوں کر واقف ہوسکتا ہے.صدیق کے مرتبہ پر قرآن کریم کی معرفت اور اس سے محبت اس کے نکات و حقائق پر اطلاع ملتی ہے کیونکہ کذب کذب کو کھینچتا ہے، اس لیے کبھی بھی کاذب قرآنی معارف اور حقائق سے آگاہ نہیں ہوسکتا.یہی وجہ ہے کہ لَا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۠ (الواقعۃ:۸۰) فرمایا گیا ہے.شہید پھر تیسرا مرتبہ شہید کا ہے.عام لوگوں نے شہید کے معنی صرف یہی سمجھ رکھے ہیں کہ جو شخص لڑائی میں مارا گیا یا دریا میں ڈوب گیا یا وبا میں مرگیا وغیرہ.مگر مَیں کہتا ہوں کہ اسی پر اکتفا کرنا اور اسی حد تک اس کو محدود رکھنا مومن کی شان سے بعید ہے.شہید اصل میں وہ شخص ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ سے استقامت اور سکینت کی قوت پاتا ہے اور کوئی زلزلہ اور حادثہ اس کو متغیر نہیں کرسکتا.وہ مصیبتوں اور مشکلات میں سینہ سپر رہتا ہے.یہاں تک کہ اگر محض خدا تعالیٰ کے لئے اُس
کو جان بھی دینی پڑے تو فوق العادت استقلال اُس کو ملتا ہے اور وہ بدوں کسی قسم کا رنج یا حسرت محسوس کیے اپنا سر رکھ دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ بار بار مجھے زندگی ملے اور بار بار اس کو اللہ کی راہ میں دوں.ایک ایسی لذّت اور سرور ان کی روح میں ہوتا ہے کہ ہر تلوار جو اُن کے بدن پر پڑتی ہے اور ہر ضرب جو اُن کو پیس ڈالے، اُن کو پہنچتی ہے وہ اُن کو ایک نئی زندگی، نئی مسرت اور تازگی عطا کرتی ہے.یہ ہیں شہید کے معنی.پھر یہ لفظ شہد سے بھی نکلا ہے.عبادتِ شاقہ جو لوگ برداشت کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں ہر ایک تلخی اور کدورت کو جھیلتے ہیں اور جھیلنے کے لیے طیار ہوجاتے ہیں.وہ شہد کی طرح ایک شیرینی اور حلاوت پاتے ہیں اورجیسے شہد فِيْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ (النحل:۷۰) کا مصداق ہے.یہ لوگ بھی ایک تریاق ہوتے ہیں.اُن کی صحبت میں آنے والے بہت سے امراض سے نجات پاجاتے ہیں.اور پھر شہید اس درجہ اور مقام کا نام بھی ہے جہاں انسان اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے یا کم از کم خدا کو دیکھتا ہوا یقین کرتا ہے.اس کا نام احسان بھی ہے.صالح چوتھا درجہ صالحین کا ہے.جن کو موادِ ردّیہ سے صاف کردیا گیا ہے اور اُن کے قلوب صاف ہو گئے ہیں.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب تک موادِ ردّیہ دور نہ ہوں اور سوء مزاج رہے تو مزہ زبان تک کا بھی بگڑ جاتا ہے، تلخ معلوم دیتا ہے اور جب بدن میں پوری صلاحیت اور اصلاح ہو اس وقت ہر ایک شے کا اصل مزہ معلوم ہوتا ہے اور طبیعت میں ایک قسم کی لذت اور سرور اور چستی اور چالاکی پائی جاتی ہے.اسی طرح پر جب انسان گناہ کی ناپاکی میں مُبتلا ہوتا ہے اور روح کا قوام بگڑ جاتا ہے پھر روحانی قوتیں کمزور ہونی شروع ہوجاتی ہیں یہاں تک کہ عبادات میں مزہ نہیں رہتا.طبیعت میں ایک گھبراہٹ اور پریشانی پائی جاتی ہے.لیکن جب موادِ ردّیہ جو گناہ کی زندگی سے پیدا ہوئے تھے توبۃ النصوح کے ذریعہ خارج ہونے لگیں تو روح میں وہ اضطراب اور بے چینی کم ہونے لگتی ہے یہاں تک کہ آخر ایک سکون اور تسلّی ملتی ہے.پہلے جو گناہ کی طرف قدم اُٹھانے میں راحت محسوس ہوتی تھی اور پھر اُسی فعل میں جو نفس کی خواہش کا نتیجہ ہوتا تھا اور جھکنے میں خوشی ملتی
تھی اس طرف جھکتے ہوئے دکھ اور رنج معلوم ہوتا ہے.روح پر ایک لرزہ پڑجاتا ہے.اگر اس تاریک زندگی کا وہم یا تصور بھی آجائے اور پھر عبادات میں ایک لطف، ذوق، جوش اور شوق پیدا ہونے لگتا ہے رُوحانی قویٰ جو گناہ آمیز زندگی سے مردہ ہو چلے تھے اُن کا نشوونما شروع ہوتا ہے اور اخلاقی طاقتیں اپنا ظہور کرتی ہیں.یہ چار چیزیں ہیں جن کے لئے ہر انسان دنیا میں مامور کیا گیا ہے اور اس کے حصول کے لئے دعا ہی ایک زبردست ذریعہ ہے اور ہم کو موقع دیا گیا ہے کہ پانچ وقت اُن مراتب کو مانگیں لیکن یہاں ایک اور مشکل ہے کہ اگرچہ اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن:۶۱) فرمایا اور کہا گیا ہے اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرۃ:۱۸۷) اور قرآن شریف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتا ہے اور وہ بہت ہی قریب ہے.قبولیّتِ دعا کے آداب لیکن اگر خدا تعالیٰ کی صفات اور اسماء کا لحاظ نہ کیا جائے اور دعا کی جائے تو وہ کچھ بھی اثر نہیں رکھتی.صرف اس ایک راز کے معلوم نہ ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ معلوم نہ کرنے کی وجہ سے دنیا ہلاک ہو رہی ہے.مَیں نے بہت لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ ہم نے بہت دُعائیں کیں اور ان کا نتیجہ کچھ نہیں ہوا اور اس نتیجہ نے اُن کو دہریہ بنادیا.بات اصل میں یہ ہے کہ ہر اَمر کے لیے کچھ قواعد اور قوانین ہوتے ہیں.ایسا ہی دعا کے واسطے بھی قواعد و قوانین مقرر ہیں.یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوئی اس کا باعث یہی ہے کہ وہ ان قواعد اور مراتب کا لحاظ نہیں رکھتے جو قبولیت دعا کے واسطے ضرور ہیں.اللہ تعالیٰ نے جب کہ ایک لانظیر اور بیش بہا خزانہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور ہم میں سے ہر ایک اس کو پاسکتا ہے اور لے سکتا ہے کیونکہ یہ کبھی بھی جائز نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو قادر خدا مان کر یہ تجویز کریں کہ جو کچھ اس نے ہمارے سامنے رکھا ہے اور جو ہمیں دکھایا ہے یہ محض سراب اور دھوکا ہے.ایسا وہم بھی انسان کو ہلاک کرسکتا ہے.نہیں بلکہ ہر ایک اس خزانہ کو لے سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی کمی نہیں.وہ ہر ایک کو یہ خزانے دے سکتا ہے اور پھر بھی اس میں کمی نہیں آسکتی.
غرض وہ تو ہم کو نبوت کے کمالات تک دینے کو طیار ہے لیکن ہم اس کے لینے کی بھی سعی کریں.پس یاد رکھو کہ یہ شیطانی وسوسہ اور دھوکا ہے جو اس پیرایہ میں دیا جاتا ہے کہ دعا قبول نہیں ہوئی.اصل یہی ہے کہ وہ دعا قبولیت کے آداب اور اسباب سے خالی محض ہے.پھر آسمان کے دروازے اس کے لئے نہیں کھلتے.سنو! قرآن شریف نے کیا کہا ہے اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ (المائدۃ:۲۸) اللہ تعالیٰ متّقیوں کی دُعائیں قبول کرتا ہے.جو لوگ متّقی نہیں ہیں ان کی دُعائیں قبولیت کے لباس سے ننگی ہیں.ہاں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحمانیت ان لوگوں کی پرورش میں اپنا کام کررہی ہے.متّقی کی بعض دعاؤں کے حسبِ منشا پورا نہ ہونے کی حکمت دعاؤں کی قبولیت کا فیض ان لوگوں کو ملتا ہے جو متّقی ہوتے ہیں.اب میں بتاؤں گا کہ متّقی کون ہوتے ہیں.مگر ابھی مَیں ایک اور شبہ کا ازالہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بعض لوگ جو متّقی ہوتے ہیں بظاہر اُن کی بعض دعائیں اُن کے حسب منشا پوری نہیں ہوتی ہیں یہ کیوں ہوتا ہے؟ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ان لوگوں کی کوئی بھی دعا درحقیقت ضائع نہیں جاتی لیکن چونکہ انسان عالم الغیب نہیں ہے اور وہ نہیں جانتا کہ اس دعا کے نتائج اس کے حق میں کیا اثر پیدا کرنے والے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کمال شفقت اور مہربانی سے اس دعا کو اپنے بندہ کے لئے اس صورت میں منتقل کردیتا ہے جواس کے واسطے مفید اور نتیجہ خیز ہوتی ہے.جیسے ایک نادان بچہ سانپ کو ایک نرم اور خوبصورت شے سمجھ کر پکڑنے کی جرأت کرے یا آگ کو روشن دیکھ کر اپنی ماں سے مانگ بیٹھے تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ ماں خواہ وہ کیسی ہی نادان سے نادان بھی کیوں نہ ہو کبھی پسند کرے گی کہ اُس کا بچہ سانپ کو پکڑے یا اپنی خواہش کے موافق آگ کا ایک روشن کوئلہ اُس کے ہاتھ پر رکھ دے؟ ہرگز نہیں.کیونکہ وہ جانتی ہے کہ یہ اُس کی زندگی کو گزند پہنچائے گا.پس اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب اور عالم الکل ہے اور مہربان ماں سے بھی زیادہ رحیم کریم ہے اور ماں کے دل میں بھی یہ رأفت اور محبت اُسی نے ڈالی ہے وہ کیوں کر گوارا کرسکتا ہے کہ اگر اس کا عزیز بندہ اپنی کمزوری اور غلطی اور ناواقفی کی وجہ سے کسی ایسی چیز کے لئے دعا کر بیٹھے
جو اس کے حق میں مضرت بخش ہے تو وہ اس کو فی الفور منظور کرلے.نہیں بلکہ وہ اس کو رَدّ کردیتا ہے اور اس کے بجائے اس سے بھی بہتر اُس کو عطا کرتا ہے اور وہ یقیناً سمجھ لیتا ہے کہ یہ میری فلاں دعا کا اثر اور نتیجہ ہے.اپنی غلطی پر بھی اس کو اطلاع ملتی ہے.غرض یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ متّقیوں کی بھی بعض دُعا قبول نہیں ہوتی.نہیں اُن کی تو ہر دعا قبول ہوتی ہے.ہاں اگر وہ اپنی کمزوری اور نادانی کی وجہ سے کوئی ایسی دعا کر بیٹھیں جو ان کے لئے عمدہ نتائج پیدا کرنے والی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس دعا کے بدلہ میں اُن کو وہ چیز عطا کرتا ہے جو اُن کی شے مطلوبہ کا نعم البدل ہو.متّقی کون ہوتے ہیں؟ اب اس کے بعد پھر میں اصل مطلب کی طرف آتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ متّقی کون ہوتے ہیں؟ درحقیقت متّقیوں کے واسطے بڑے بڑے وعدے ہیں اور اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ اللہ متّقیوں کا ولی ہوتا ہے.جھوٹے ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ ہم مقربِ بارگاہ الٰہی ہیں اور پھر متّقی نہیں ہیں بلکہ فسق و فجور کی زندگی بسر کرتے ہیں اور ایک ظلم اور غضب کرتے ہیں جبکہ وہ ولایت اور قربِ الٰہی کے درجہ کو اپنے ساتھ منسوب کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ متّقی ہونے کی شرط لگا دی ہے.نصرت پھر ایک اور شرط لگاتا ہے یا یہ کہو متّقیوں کا ایک نشان بتاتا ہے اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا.خدا اُن کے ساتھ ہوتا ہے یعنی اُن کی نصرت کرتا ہے جو متّقی ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی معیت کا ثبوت اس کی نصرت ہی سے ملتا ہے.پہلا دروازہ ولایت کا ویسے بند ہوا.اب دوسرا دروازہ معیت اور نصرت الٰہی کا اس طرح پر بند ہوا.یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی نصرت کبھی بھی ناپاکوں اور فاسقوں کو نہیں مل سکتی.اس کاانحصار تقویٰ ہی پر ہے.خدا کی اعانت متّقی ہی کے لئے ہے.معاشی وسعت پھر ایک اور راہ ہے کہ انسان مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوتا ہے اور حاجاتِ مختلفہ رکھتا ہے.اُن کے حل اور روا ہونے کے لیے بھی تقویٰ ہی کو اصول قرار دیا ہے.معاش کی تنگی اور دوسری تنگیوں سے راہِ نجات تقویٰ ہی ہے.فرمایا.مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق:۴،۳) متّقی کے لئے ہر مشکل سے
ایک مخرج پیدا کردیتا ہے اور اس کو غیب سے اُس سے مخلصی پانے کے اسباب بہم پہنچا دیتا ہے.اُس کو ایسے طور سے رزق دیتا ہے کہ اُس کو پتا بھی نہ لگے.اب غور کرکے دیکھ لو کہ انسان اَور دنیا میں چاہتا کیا ہے.انسان کی بڑی سے بڑی خواہش دنیا میں یہی ہے کہ اس کو سُکھ اور آرام ملے اور اُس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی راہ مقرر کی ہے جو تقویٰ کی راہ کہلاتی ہے اور دوسرے لفظوں میں اُس کو قرآن کریم کی راہ کہتے ہیں اور یا اس کا نام صراط مستقیم رکھتے ہیں.کفار کے مال و دولت کوئی یہ نہ کہے کہ کُفّار کے پاس بھی مال و دولت اور املاک ہوتے ہیں اور وہ اپنی عیش و عشرت میں منہمک اور مست رہتے ہیں.میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ وہ دنیا کی آنکھ میں بلکہ ذلیل ذلیل دنیاداروں اور ظاہر پرستوں کی آنکھ میں خوش معلوم دیتے ہیں مگر درحقیقت وہ ایک جلن اور دکھ میں مبتلا ہوتے ہیں.تم نے ان کی صورت کو دیکھا ہے مگر میں ایسے لوگوں کے قلب پر نگاہ کرتا ہوں تو ایک سَعِیْـر اور سَلَاسِل واَغْلَال میں جکڑے ہوئے ہیں.جیسے فرمایا ہے اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ سَلٰسِلَاۡ وَ اَغْلٰلًا وَّ سَعِيْرًا (الدھر:۵) وہ نیکی کی طرف آہی نہیں سکتے اور ایسے اغلال ہیں کہ خدا کی طرف ان اغلال کی وجہ سے ایسے دبے پڑے ہیں کہ حیوانوں اور بہائم سے بھی بدتر ہو جاتے ہیں.ان کی آنکھ ہر وقت دنیا ہی کی طرف لگی رہتی ہے اور زمین کی طرف جھکتے جاتے ہیں.پھر اندر ہی اندر ایک سوزش اور جلن بھی لگی ہوئی ہوتی ہے.اگر مال میں کمی ہو جائے یا حسب مراد تدبیر میں کامیابی نہ ہو تو کڑھتے اور جلتے ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات سودائی اور پاگل ہو جاتے ہیں یا عدالتوں میں مارے مارے پھرتے ہیں.یہ واقعی بات ہے کہ بے دین آدمی سعیر سے خالی نہیں ہوتا اس لئے کہ اس کو قرار اور سکون نصیب نہیں ہوتا جو راحت اور تسلی کا لازمی نتیجہ ہے.جیسے شرابی ایک جام شراب پی کر ایک اور مانگتا ہے اور مانگتا ہی جاتا ہے اور ایک جلن سی لگی رہتی ہے ایسا ہی دنیا دار بھی سعیر میں ہے.اس کی آتش آز ایک دم بھی بجھ نہیں سکتی.سچی خوشحالی حقیقت میں ایک متّقی ہی کے لئے ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اس کے لئے دو جنت ہیں.
سچی خوشحالی متقی سچی خوشحالی ایک جھونپڑی میں پا سکتا ہے جو دنیادار اور حرص و آز کے پرستار کو رفیع الشان قصر میں بھی نہیں مل سکتی.جس قدر دنیا زیادہ ملتی ہے اسی قدر بلائیں زیادہ سامنے آجاتی ہیں.پس یاد رکھو کہ حقیقی راحت اور لذّت دنیادار کے حصہ میں نہیں آتی.یہ مت سمجھو کہ مال کی کثرت، عمدہ عمدہ لباس اور کھانے کسی خوشی کا باعث ہو سکتے ہیں ہرگز نہیں بلکہ اس کا مدار ہی تقویٰ پر ہے.زبان کی حفاظت جبکہ اِن ساری باتوں سے معلوم ہوگیا کہ سچے تقویٰ کے بغیر کوئی راحت اور خوشی مل ہی نہیں سکتی تو معلوم کرنا چاہیے کہ تقویٰ کے بہت سے شعبے ہیں جو عنکبوت کے تاروں کی طرح پھیلے ہوئے ہیں.تقویٰ تمام جوارح انسانی اور عقائد زبان اخلاق وغیرہ سے متعلق ہے.نازک ترین معاملہ زبان سے ہے.بسا اوقات تقویٰ کو دور کرکے ایک بات کہتا ہے اور دل میں خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے یوں کہا اور ایسا کہا حالانکہ وہ بات بُری ہوتی ہے.مجھے اس پر ایک نقل یاد آئی ہے کہ ایک بزرگ کی کسی دنیا دار نے دعوت کی.جب وہ بزرگ کھانا کھانے کے لئے تشریف لے گئے تو اس متکبر دنیادار نے اپنے نوکر کو کہا کہ فلاں تھال لانا جو ہم پہلے حج میں لائے تھے اور پھر کہا دوسرا تھال بھی لانا جو دوسرے حج میں لائے تھے اور پھر کہا کہ تیسرے حج والا بھی لیتے آنا.اس بزرگ نے فرمایا کہ تُو تو بہت ہی قابل رحم ہے.ان تین فقروں میں تو نے اپنے تین ہی حجوں کا ستیاناس کر دیا.تیرا مطلب اس سے صرف یہ تھا کہ تو اس امر کا اِظہار کرے کہ تو نے تین حج کئے ہیں.اس لئے خدا نے تعلیم دی ہے کہ زبان کو سنبھال کر رکھا جائے اور بے معنی، بےہودہ، بے موقع، غیر ضروری باتوں سے احتراز کیا جائے.دیکھو! اللہ تعالیٰ نے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کی تعلیم دی ہے.اب ممکن تھا کہ انسان اپنی قوت پر بھروسہ کرلیتا اور خدا سے دور ہو جاتا.اس لئے ساتھ ہی اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی تعلیم دے دی کہ یہ مت سمجھو کہ یہ عبادت جو میں کرتا ہوں اپنی قوت اور طاقت سے کرتا ہوں ہرگز نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی استعانت جب تک نہ ہو اور خود وہ پاک ذات جب تک توفیق اور طاقت نہ دے کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور پھر
اِیَّاکَ اَعْبُدُ یا اِیَّاکَ اَسْتَعِیْنُ نہیں کہا.اس لئے کہ اس میں نفس کے تقدم کی بُو آتی تھی اور یہ تقویٰ کے خلاف ہے.تقویٰ والا کل انسانوں کو لیتا ہے.زبان سے ہی انسان تقویٰ سے دور چلا جاتا ہے.زبان سے ہی تکبر کر لیتا ہے اور زبان سے ہی فرعونی صفات آجاتی ہیں اور اسی زبان کی وجہ سے پوشیدہ اعمال کو ریاکاری سے بدل لیتا ہے اور زبان کا زیاں بہت جلد پیدا ہوتا ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص ناف کے نیچے کے عضو اور زبان کو شر سے بچاتا ہے اس کی بہشت کا ذمہ دار میں ہوں.حرام خوری اس قدر نقصان نہیں پہنچاتی جیسے قولِ زور.اس سے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ حرام خوری اچھی چیز ہے.یہ سخت غلطی ہے اگر کوئی ایسا سمجھے.میرا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص جو اضطراراً سؤر کھا لے تو یہ اَمر دیگر ہے لیکن اگر وہ اپنی زبان سے خنزیر کا فتویٰ دے دے تو وہ اسلام سے دور نکل جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے حرام کو حلال ٹھیراتا ہے.غرض اس سے معلوم ہوا کہ زبان کا زیاں خطرناک ہے.اس لئے متّقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے.اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی جو تقویٰ کے خلاف ہو.پس تم اپنی زبانوں پر حکومت کرو نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں اور اناپ شناپ بولتے رہو.ہر ایک بات کہنے سے پہلے سوچ لو کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا.اللہ تعالیٰ کی اجازت اس کے کہنے میں کہاں تک ہے.جب تک یہ نہ سوچ لو مت بولو.ایسے بولنے سے جو شرارت کا باعث اور فساد کا موجب ہو نہ بولنا بہتر ہے لیکن یہ بھی مومن کی شان سے بعید ہے کہ امر حق کے اظہار میں رکے.اس وقت کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اور خوف زبان کو نہ روکے.دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا تو اپنے پرائے سب کے سب دشمن ہوگئے مگر آپ نے ایک دم بھر کے لئے کبھی کسی کی پروا نہ کی.یہاں تک کہ جب ابوطالب آپ کے چچا نے لوگوں کی شکایتوں سے تنگ آکر کہا.اُس وقت بھی آپ نے صاف طور پر کہہ دیا کہ میں اس کے اظہار سے نہیں رک سکتا.آپ کا اختیار ہے میرا ساتھ دیں یا نہ دیں.پس زبان کو جیسے خدا تعالیٰ کی رضامندی کے خلاف کسی بات کے کہنے سے روکنا ضروری ہے.اسی قدر اَمرِ حق کے اظہار کے لئے کھولنا لازمی اَمر ہے.يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهَوْنَ
عَنِ الْمُنْكَرِ (اٰل عـمران:۱۱۵) مومنوں کی شان ہے.امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنی عملی حالت سے ثابت کر دکھائے کہ وہ اس قوت کو اپنے اندر رکھتا ہے کیونکہ اس سے پیشتر کہ وہ دوسروں پر اپنا اثر ڈالے اس کو اپنی حالت اثر انداز بھی تو بنانی ضروری ہے.پس یاد رکھو کہ زبان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کبھی مت روکو.ہاں محل اور موقع کی شناخت بھی ضروری ہے اور انداز بیان ایسا ہونا چاہیے جو نرم اور سلاست اپنے اندر رکھتا ہو اور ایسا ہی تقویٰ کے خلاف بھی زبان کا کھولنا سخت گناہ ہے.۸۹؎ قرآن کریم کی علّتِ غائی تقویٰ ہے پھر دیکھو کہ تقویٰ کو ایسی اعلیٰ درجہ کی ضروری شے قرار دیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی علت غائی اسی کو ٹھہرایا ہے چنانچہ دوسری سورۃ کو جب شروع کیا ہے تو یوں ہی فرمایا ہے الٓمّٓ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ (البقرۃ:۳،۲) میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن کریم کی یہ ترتیب بڑا مرتبہ رکھتی ہے.خدا تعالیٰ نے اس میں علل اربعہ کا ذکر فرمایا ہے.علت فاعلی، مادی، صوری، غائی.ہر ایک چیز کے ساتھ یہ چار ہی علل ہوتی ہیں.قرآن کریم نہایت اکمل طور پر ان کو دکھاتا ہے.الٓمّٓ اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بہت جاننے والا ہے اس کلام کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے.یعنی خدا اس کا فاعل ہے.ذٰلِكَ الْكِتٰبُ یہ مادہ بتایا.یہ کہو کہ یہ علت مادی ہے.عِلّتِ صُوَری لَا رَيْبَ فِيْهِ ہر ایک چیز میں شک و شبہ اور ظنون فاسد پیدا ہوسکتے ہیں مگر قرآن کریم ایسی کتاب ہے کہ اس میں کوئی رَيْب نہیں ہے.لاریب اسی کے لئے ہے یعنی سب قسم کے رَيْب.اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی شان یہ بتائی کہ لَا رَيْبَ فِيْهِ تو طبعاً ہر ایک سلیم الفطرت اور سعادت مند انسان کی روح اچھلے گی اور خواہش کرے گی کہ اس کی ہدایتوں پر عمل کرے.ہم افسوس سے کہتے ہیں کہ قرآن شریف کی اَجْلٰی اور اَصفٰی شان کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا ورنہ قرآن شریف کی خوبیاں اور اس کے کمالات، اس کا حسن اپنے اندر ایک ایسا کشش اور جذب رکھتا
ہے کہ بے اختیار ہو ہو کر دل اس کی طرف چلے آئیں.مثلاً اگر ایک خوشنما باغ کی تعریف کی جاوے اس کے خوشبودار درختوں اور دل کو تروتازہ کرنے والی بوٹیوں اور روشوں اور مصفّا پانی کی بہتی ہوئی ندیوں اور نہروں کا تذکرہ کیا جاوے تو ہر ایک شخص دل سے چاہے گا کہ اس کی سیر کرے اور اس سے حظ اٹھاوے.اور اگر یہ بھی بتایا جاوے کہ اس میں بعض چشمے ایسے جاری ہیں جو امراض مُزمنہ اور مہلکہ کو شفا دیتے ہیں تو اور بھی زیادہ جوش اور طلب کے ساتھ لوگ وہاں جائیں گے.اسی طرح پر قرآن شریف کی خوبیوں اور کمالات کو اگر نہایت ہی خوبصورت اور مؤثر الفاظ میں بیان کیا جاوے تو روح پورے جوش کے ساتھ اس طرف دوڑتی ہے.قرآنی علوم کے انکشاف کے لئے تقویٰ شرط ہے اور حقیقت میں روح کی تسلی اور سیری کا سامان اور وہ بات جس سے روح کی حقیقی احتیاج پوری ہوتی ہے قرآن کریم ہی میں ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ اور دوسری جگہ کہا لَا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۠ (الواقعۃ:۸۰) مُطَھَّرُوْن سے مراد وہی متّقین ہیں جو هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ میں بیان ہوئے ہیں.اس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ قرآنی علوم کے انکشاف کے لئے تقویٰ شرط ہے.علوم ظاہری اور علوم قرآنی کے حصول کے درمیان ایک عظیم الشان فرق ہے.دنیوی اور رسمی علوم کے حاصل کرنے کے واسطے تقویٰ شرط نہیں ہے.صرف و نحو، طبعی، فلسفہ، ہیئت و طبابت پڑھنے والے کے واسطے یہ ضروری امر نہیں ہے کہ وہ صوم و صلوٰۃ کا پابند ہو.اوامر الٰہی اور نواہی کو ہر وقت مد نظر رکھتا ہو.اپنے ہر فعل و قول کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی حکومت کے نیچے رکھے.بلکہ بسا اوقات کیا عموماً دیکھا گیا ہے کہ دنیوی علوم کے ماہر اور طلب گار دہریہ منش ہوکر ہر قسم کے فسوق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں.آج دنیا کے سامنے ایک زبردست تجربہ موجود ہے.یورپ اور امریکہ باوجودیکہ وہ لوگ ارضی علوم میں بڑی بڑی ترقیاں کر رہے ہیں اور آئے دن نئی ایجادات کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی روحانی اور اخلاقی حالت بہت کچھ قابل شرم ہے.لنڈن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے حالات جو کچھ شائع ہوئے ہم تو ان کا ذکر بھی نہیں کر سکتے.مگر علومِ آسمانی
اور اسرارِ قرآنی کی واقفیت کے لئے تقویٰ پہلی شرط ہے.اس میں توبۃ النصوح کی ضرورت ہے.جب تک انسان پوری فروتنی اور انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کو نہ اٹھالے اور اس کے جلال اور جبروت سے لرزاں ہو کر نیاز مندی کے ساتھ رجوع نہ کرے قرآنی علوم کا دروازہ نہیں کھل سکتا اور روح کے ان خواص اور قویٰ کی پرورش کا سامان اس کو قرآن شریف سے نہیں مل سکتا جس کو پا کر روح میں ایک لذّت اور تسلّی پیدا ہوتی ہے.قرآن شریف اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اس کے علوم خدا کے ہاتھ میں ہیں.پس اس کے لئے تقویٰ بطور نردبان کے ہے.پھر کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے کہ بے ایمان، شریر، خبیث النفس، ارضی خواہشوں کے اسیر اِن سے بہرہ ور ہوں.اس واسطے اگر ایک مسلمان مسلمان کہلا کر خواہ وہ صرف و نحو، معانی و بدیع وغیرہ علوم کا کتنا ہی بڑا فاضل کیوں نہ ہو دنیا کی نظر میں شیخ الکُل فی الکُل بنا بیٹھا ہو لیکن اگر تزکیہ نفس نہیں کرتا قرآن شریف کے علوم سے اس کو حصہ نہیں دیا جاتا.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت دنیا کی توجہ ارضی علوم کی طرف بہت جھکی ہوئی ہے اور مغربی روشنی نے عالم کو اپنی نئی ایجادوں اور صنعتوں سے حیران کر رکھا ہے.مسلمانوں نے بھی اگر اپنی فلاح اور بہتری کی کوئی راہ سوچی تو بدقسمتی سے یہ سوچی ہے کہ وہ مغرب کے رہنے والوں کو اپنا امام بنا لیں اور یورپ کی تقلید پر فخر کریں.یہ تو نئی روشنی کے مسلمانوں کا حال ہے.جو لوگ پرانے فیشن کے مسلمان کہلاتے ہیں اور اپنے آپ کو حامی دینِ متین سمجھتے ہیں ان کی ساری عمر کی تحصیل کا خلاصہ اور لُبّ لُباب یہ ہے کہ صرف و نحو کے جھگڑوں اور الجھیڑوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ضالّین کے تلفظ پر مَر مٹے ہیں.قرآن شریف کی طرف بالکل توجہ ہی نہیں اور ہو کیوں کر جبکہ وہ تزکیہ نفس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.ہاں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو تزکیہ نفس کے دعوے کرتا ہے.وہ صوفیوں اور سجادہ نشینوں کا گروہ ہے مگر ان لوگوں نے قرآن شریف کو تو چھوڑ دیا ہے اور اپنے ہی طریق اختراع کرلئے ہیں.کوئی چلّہ کشیاں کرتا ہے.کوئی اِلَّا اللّٰہُ کے نعرے مارتا ہے.کوئی نفی اثبات.توجہ.حبس دم وغیرہ میں مبتلا ہیں.غرض ایسے طریقے نکالے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتے اور نہ قرآن شریف کا یہ منشا ہے اور نہ کبھی سلسلہ نبوت نے ایسے طریقوں کو پسند کیا.غرض یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک
انسان ایک پاک تبدیلی نہیں کرتا ہے اور نفس کا تزکیہ نہیں کرتا قرآن شریف کے معارف اور خوبیوں پر اطلاع نہیں ملتی.قرآن شریف میں وہ نکات اور حقائق ہیں جو روح کی پیاس کو بجھا دیتے ہیں.کاش دنیا کو معلوم ہوتا کہ روح کی لذّت کس چیز میں ہے اور پھر وہ معلوم کرتی کہ وہ قرآن شریف اور صرف قرآن شریف میں موجود ہے اَبدال کون ہیں دیکھو! جس جس قدر انسان تبدیلی کرتا جاتا ہے اسی قدر وہ ابدال کے زمرہ میں داخل ہوتا جاتا ہے.حقائق قرآنی نہیں کھلتے جب تک ابدال کے زمرہ میں داخل نہ ہو.لوگوں نے ابدال کے معنی سمجھنے میں غلطی کھائی ہے اور اپنے طور پر کچھ کا کچھ سمجھ لیا ہے.اصل یہ ہے کہ ابدال وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اندر پاک تبدیلی کرتے ہیں اور اس تبدیلی کی وجہ سے ان کے قلب گناہ کی تاریکی اور زنگ سے صاف ہو جاتے ہیں.شیطان کی حکومت کا استیصال ہوکر اللہ تعالیٰ کا عرش ان کے دل پر ہوتا ہے.پھر وہ روح القدس سے قوت پاتے اور خدا تعالیٰ سے فیض پاتے ہیں.تم لوگوں کو میں بشارت دیتا ہوں کہ تم میں سے جو اپنے اندر تبدیلی کرے گا وہ ابدال ہے.انسان اگر خدا کی طرف قدم اٹھائے تو اللہ تعالیٰ کا فضل دوڑ کر اس کی دستگیری کرتا ہے.یہ سچی بات ہے اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ چالاکی سے علوم القرآن نہیں آتے.دماغی قوت اور ذہنی ترقی قرآنی علوم کو جذب کرنے کا اکیلا باعث نہیں ہو سکتا.اصل ذریعہ تقویٰ ہی ہے.متّقی کا معلّم خدا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ نبیوں پر اُمّیّت غالب ہوتی ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی لئے اُمّی بھیجا کہ باوجودیکہ آپ نے نہ کسی مکتب میں تعلیم پائی اور نہ کسی کو استاد بنایا.پھر آپ نے وہ معارف اور حقائق بیان کئے جو دنیوی علوم کے ماہروں کو دنگ اور حیران کر دیا.قرآن شریف جیسی پاک، کامل کتاب آپ کے لبوں پر جاری ہوئی.جس کی فصاحت و بلاغت نے سارے عرب کو خاموش کرا دیا.وہ کیا بات تھی جس کے سبب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علوم میں سب سے بڑھ گئے.وہ تقویٰ ہی تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مطہر زندگی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ قرآن شریف جیسی کتاب وہ لائے جس کے علوم نے دنیا کو حیران کر دیا ہے.
آپ کا اُمّی ہونا ایک نمونہ اور دلیل ہے اس اَمر کی کہ قرآنی علوم یا آسمانی علوم کے لئے تقویٰ مطلوب ہے نہ دنیوی چالاکیاں.تلاوتِ قرآن کریم کی غرض غرض قرآن شریف کی اصل غرض اور غایت دنیا کو تقویٰ کی تعلیم دینا ہے.جس کے ذریعہ وہ ہدایت کے منشا کو حاصل کرسکے.اب اس آیت میں تقویٰ کے تین مراتب کو بیان کیا ہے اَلَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ (البقرۃ:۴) لوگ قرآن شریف پڑھتے ہیں مگر طوطے کی طرح سے یونہی بغیر سوچے سمجھے چلے جاتے ہیں.جیسے ایک پنڈت اپنی پوتھی کو اندھا دھند پڑھتا جاتا ہے.نہ خود کچھ سمجھتا ہے اور نہ سننے والوں کو پتا لگتا ہے.اسی طرح پر قرآن شریف کی تلاوت کا طریق صرف یہ رہ گیا ہے کہ دو چار سپارے پڑھ لیے اور کچھ معلوم نہیں کہ کیا پڑھا.زیادہ سے زیادہ یہ کہ سُر لگا کر پڑھ لیا اور ق اور ع کو پورے طور پر ادا کر دیا.قرآن شریف کو عمدہ طور پر اور خوش الحانی سے پڑھنا یہ بھی ایک اچھی بات ہے مگر قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر کرے.نظامِ قرآنی اور آیت اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ کے الفاظ کی ترتیب یہ یاد رکھو کہ قرآن شریف میں ایک عجیب و غریب اور سچا فلسفہ ہے.اس میں ایک نظام ہے جس کی قدر نہیں کی جاتی.جب تک نظام اور ترتیب قرآنی کو مدِّنظر نہ رکھا جاوے اور اس پر پورا غور نہ کیا جاوے قرآن شریف کی تلاوت کے اغراض پورے نہ ہوں گے.اگر یہ لوگ جو قرآن شریف کے ق اور عین اور ضاد پر لڑتے جھگڑتے ہیں اور ایک دوسرے کی تفسیق اور تکفیر پر منہ کھولتے ہیں نظامِ قرآنی کی قدر کرتے تو اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ (اٰل عـمران :۵۶) میں میرے ساتھ کیوں بَر سرِ پَرخاش ہوتے جبکہ وہ دیکھتے کہ قرآن شریف ایک ترتیب کے طور پر ان واقعات کو بیان کرتا ہے جو خارجی طور پر اپنا ایک وجود رکھتے ہیں.کہ اے عیسیٰ! میں تجھے وفات دینے
والا ہوں.سوچنا چاہیے تھا کہ يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ قرآن شریف نے کہا کیوں.اس کی ضرورت کیا پیش آئی تھی؟ یہودیوں ہی سے پوچھ لیتے تو یہ پتہ لگ جاتا.اصل بات جس کو میں نے بارہا بیان کیا ہے یہ ہے کہ یہود حضرت مسیحؑ کو ملعون قرار دیتے ہیں.مَعَاذَ اللّٰہ.اور اس کا ثبوت وہ یہ دیتے ہیں کہ اُنہوں نے مسیحؑ کو صلیب کے ذریعہ قتل کر دیا مگر قرآن شریف نے اس الزام کو دور کیا ہے اور یہود کو ملزم کیا ہے.اللہ تعالیٰ کبھی بھی اپنے پاک بندوں کو ذلیل نہیں کرتا اور لَنْ يَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا (النسآء:۱۴۲) اس کا سچا وعدہ ہے.حضرت مسیحؑ جب صلیب پر چڑھائے گئے تو اُن کو اندیشہ ہوا کہ یہ لوگ مجھے صلیبی موت سے ہلاک کرنے کا موجب ٹھہرے ہیں اور اس طرح پر یہ لعنتی موت ہوگی.اس ہلاکت کی گھڑی میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحؑ کو یہ بشارت دی کہ میں تجھے طبعی موت سے وفات دوں گا اور تجھے رفع کرنے والا ہوں اور تجھے پاک کرنے والا ہوں.اس آیت کا ایک ایک لفظ اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے، مگر افسوس یہ لوگ کچھ بھی غور نہیں کرتے اور قرآن کریم کی ترتیب کو بدل کر تحریف کرنا چاہتے ہیں.کیا اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہ تھا جو یوں کہہ دیتا کہ یَا عِیْسٰی اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَی السَّمَآءِ.پھر وہ کون سی دقّت اور مشکل اُس کو پیش آگئی تھی جو يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ ہی کہا.۹۰؎ غرض اس آیت میں جو ترتیب رکھی گئی ہے وہ واقعات کی بنا پر ہے.وہ احمق ہے جو کہتا ہے کہ ترتیب واؤ سے نہیں ہوتی ہے.اگر ایسا ہی غبی ہے کہ وہ اس کو نہیں سمجھ سکتا تو اُس کو واقعات پر نظر کرنی چاہیے اور دیکھے کہ تطہیر رفع کے بعد ہوتی ہے یا پہلے.اس تطہیر میں دراصل اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ تیرے بعد ایک رسول آئے گا جو حَکم ہو کر تیری نسبت جھگڑے کو فیصل کردے گا اور جس قدر الزامات یہودی تجھ پر لگاتے ہیں اُن سے تجھے پاک ٹھہرائے گا.تین ترتیبوں کے تو یہ مخالف بھی قائل ہیں یعنی رَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا.یہ تو مانتے ہیں کہ مرتب کلام ہے.
اس میں جو کچھ وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ پورا ہوگیا.جسمانی رفع کے قائل اس میں کچھ کہہ نہیں سکتے مگر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب تین ترتیبوں کے وہ قائل ہیں اور انہیں نے اس کو تسلیم کرلیا ہے تو تَوَفّی کے لفظ کو اُٹھانے کی بے فائدہ کوشش کیوں کرتے ہیں؟ بھلا یہ یہودی سیرت اختیار کرکے بتاؤ تو سہی اس لفظ کو رکھو گے کہاں؟ اگر رفع کے بعد رکھو تو واقعاتِ خارجہ کے خلاف ہے.رفع اور تطہیر میں فاصلہ نہیں ہے، بلکہ رفع کے بعد تطہیر ہی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے اس الزام سے کہ وہ نبی بھی نہیں مانتے تھے اور ملعون قرار دیتے تھے اور عیسائی کہتے تھے کہ ابن اللہ اور اللہ ہیں جس کو آسمان پر اُٹھایا گیا اور وہ ہمارے لئے ملعون ہوا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بَری کیا ہے.یہ دو انگلیوں کی طرح ہیں اُن کو الگ کرسکتے ہی نہیں.اور جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ کو دیکھو تو وہ قیامت تک مُطَهِّرُكَ کے بعد کسی دوسرے لفظ کو آنے ہی نہیں دیتا پھر اس کو رکھو گے تو کہاں رکھو گے.جس طرح پر واقعات ظہور میں آئے اسی طرز سے بیان کیا ہے.اب اُلٹ پُلٹ کر کہاں رکھ سکتے ہو.مَیں تو یہ کہتا ہوں کہ تمہیں خدا تعالیٰ کے کلام کے ساتھ اس قدر دشمنی کیوں ہے جو اس کی ترتیب کو توڑنا چاہتے ہو.عقیدہ حیاتِ مسیحؑ کے نقصانات کیا تم کو یہی اچھا معلوم ہوتا ہے کہ مسیحؑ کی خدائی ثابت کرو؟ عیسائیوں کے اس مُردہ خدا کو کہیں تو مرنے دو.تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو تم کہتے ہو کہ ہم مسیح ؑ کو محض ایک بندہ اور نبی مانتے ہیں دُوسری طرف اُن کی نسبت ایسے عقیدے رکھنے چاہتے ہو جو اُن کو خدا بناتے ہیں.اس کی وہی مثال ہے کہ ایک شخص تو کسی کی نسبت کہتا ہے کہ وہ مَر گیا مگر دوسرا کہتا ہے کہ نہیں مَرا تو نہیں مگر نبض اُس کی نہیں چلتی.بدن بھی ٹھنڈا ہوگیا ہے.سانس بھی نہیں آتا.اے دانشمندو! غور تو کرو اُس کے مرنے میں کیا شک رہا جس کی زندگی کا کوئی بھی اثر نہیں پایا جاتا.کہتے ہو مسیحؑ خدا نہیں مگر مانتے ہو کہ وہ آج تک زندہ ہے اور زمانہ کے اثر سے محفوظ اور لاتبدیل
غیر متغیر ہے.کہتے ہو مسیحؑ خالق نہیں مگر مانتے ہو کہ اس نے بھی کچھ چڑیاں بنائی تھیں جو اِن چڑیوں میں مل گئی ہیں.کہتے ہو مسیحؑ عالم الغیب نہیں مگر یہ مانتے ہو کہ وہ تمہارے کھانے پینے کی چیزوں اور تمہارے گھروں کے ذخیروں کی اطلاع دے دیتا تھا.بڑے شرم کی بات ہے کہ مسلمان کہلا کر ایک خدا کو تمام صفاتِ کاملہ سے موصوف مان کر پھر اُس کی صفات ایک عاجز انسان کو دو.کچھ تو خدا کا خوف بھی کرو.یہی باتیں ہیں جنہوں نے نصاریٰ کی قوم کو جرأت دلا دی ہے اور تمہاری قوم کا ایک بڑا حصہ گمراہ کر ڈالا.تمہیں کب خبر ہوگی جب سارا گھر لُٹ چکے گا؟ تم میرے ساتھ دشمنی نہیں کرتے مگر اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہو.مَیں نے کونسی انوکھی بات کہی تھی.مَیں تم سے کیا کچھ مانگتا ہوں.پھر مجھ سے عداوت کی کیا وجہ؟ کیا اس لیے کہ مَیں کہتا ہوں کہ ایک ہی کامل الصفات ذات ہے جو عبادت کے قابل ہے.اس کے صفات کسی انسان کو نہ دو.کیا اس لیے کہ مَیں یہ کہتا ہوں کہ دنیا میں ایک ہی کامل انسان گزرا ہے جس کا نام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.کیا اس لیے کہ میں کہتا ہوں کہ مسیح کے درجات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درجات سے ہرگز نہ بڑھاؤ.اس لیے کہ وہ اُن صفات سے ہرگز موصُوف نہیں جن سے موصوف تم مانتے ہو.خدا کے لئے سوچو! یہ یاد رکھو کہ آخر مَرنا ہے اور خدا کے حضور جانا ہے.تقویٰ کے تین مراتب غرض بات یہ تھی کہ قرآن شریف میں ترتیب کو مدنظر رکھنا ضروری ہے اور یہ آیتیں جو مَیں نے پڑھی تھیں،اُن میں ترتیب کو ملحوظ رکھا گیا ہے.يُؤْمِنُوْنَ ۱؎ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيْمُوْنَ ۲؎ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا ۳؎ رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ (البقرۃ:۴) یاد رکھو اِتّقَا تین قسم کا ہوتا ہے.پہلی قسم اِتّقَا کی علمی رنگ رکھتی ہے.یہ حالت ایمان کی صورت میں ہوتی ہے.دوسری قسم عملی رنگ رکھتی ہے جیسا کہ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ میں فرمایا ہے.انسان کی وہ نمازیں جو شبہات اور وساوس میں مبتلا ہیں کھڑی نہیں ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے یَقْرَؤُوْنَ نہیں فرمایا بلکہ يُقِيْمُوْنَ فرمایا یعنی جو حق ہے اُس کے ادا کرنے کا.سنو! ہر ایک چیز کی ایک علّتِ غائی ہوتی ہے.
اگر اس سے رہ جاوے تو وہ بے فائدہ ہوجاتی ہے.مثلاً ایک بیل جو قلبہ رانی کے واسطے خریدا گیا ہے اپنے منصب پر اُس وقت قائم سمجھا جاوے گا کہ وہ کرکے دکھا دے، نہ صرف یہ کہ اس کی غرض و غایت کھانے پینے ہی تک محدود رہے، وہ اپنی علّتِ غائی سے دُور ہے اور اس قابل ہے کہ اُس کو ذبح کیا جاوے.اقامتِ صلوٰۃ اسی طرح يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ سے لوازم الصلوٰۃ معراج ہے اور یہ وہ حالت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق شروع ہوتا ہے.مکاشفات اور رؤیاءِ صالحہ آتے ہیں لوگوں سے انقطاع ہوتا جاتا ہے اور خدا کی طرف ایک تعلق پیدا ہونے لگتا ہے.یہاں تک کہ تبتّلِ تام ہوکر خدا میں جا ملتا ہے.صلٰی جلنے کو کہتے ہیں.جیسے کباب کو بھونا جاتا ہے اسی طرح نماز میں سوزش لازمی ہے.جب تک دل بریاں نہ ہو نماز میں لذّت اور سرور پیدا نہیں ہوتا اور اصل تو یہ ہے کہ نماز ہی اپنے سچے معنوں میں اُس وقت ہوتی ہے.نماز میں یہ شرط ہے کہ وہ بجمیع شرائط ادا ہو.جب تک وہ ادا نہ ہو وہ نماز نہیں ہے اور نہ وہ کیفیت جو صلوٰۃ میں میلِ نماز کی ہے حاصل ہوتی ہے.یاد رکھو صلوٰۃ میں حال اور قال دونوں کا جمع ہونا ضروری ہے.بعض وقت اعلام تصویری ہوتا ہے.ایسی تصویر دکھائی جاتی ہے جس سے دیکھنے والے کو پتہ ملتا ہے کہ اُس کا منشا یہ ہے.ایسا ہی صلوٰۃ میں منشائے الٰہی کی تصویر ہے.نماز میں جیسے زبان سے کچھ پڑھا جاتا ہے ویسے ہی اعضا اور جوارح کی حرکات سے کچھ دکھایا بھی جاتا ہے.جب انسان کھڑا ہوتا ہے اور تحمید و تسبیح کرتا ہے، اس کا نام قیام رکھا ہے.اب ہر ایک شخص جانتا ہے کہ حمدوثنا کے مناسبِ حال قیام ہی ہے.بادشاہوں کے سامنے جب قصائد سنائے جاتے ہیں تو آخر کھڑے ہوکر ہی پیش کرتے ہیں.اِدھر تو ظاہری طور پر قیام رکھا ہی ہے اور زبان سے حمدوثنا بھی رکھی ہے.مطلب اس کا یہی ہے کہ روحانی طور بھی اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہو.حمد ایک بات پر قائم ہوکر کی جاتی ہے.جو شخص مُصدق ہوکر کسی کی تعریف کرتا ہے تو وہ ایک رائے پر قائم ہوجاتا ہے.اس اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کہنے والے کے واسطے یہ ضروری ہوا کہ وہ سچے طور پر
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ اسی وقت کہہ سکتا ہے کہ پورے طور پر اس کو یقین ہوجائے کہ جمیع اقسام محامد کے اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں.جب یہ بات دل میں انشراح کے ساتھ پیدا ہوگئی تو یہ روحانی قیام ہے.کیونکہ دل اس پر قائم ہوجاتا ہے اور وہ سمجھا جاتا ہے کہ کھڑا ہے.حال کے موافق کھڑا ہوگیا تاکہ روحانی قیام نصیب ہو.پھر رکوع میں سُبْـحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم کہتا ہے.قاعدہ کی بات ہے کہ جب کسی کی عظمت مان لیتے ہیں تو اس کے حضور جھکتے ہیں.عظمت کا تقاضا ہے کہ اس کے لئے رکوع کرے.پس سُبْـحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم زبان سے کہا اور حال سے جھکنا دکھایا.یہ اُس قول کے ساتھ حال دکھایا.پھر تیسرا قول ہے سُبْـحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی.اَعْلٰی اَفْعَلُ التَّفْضِیْل ہے.یہ بالذّات سجدہ کو چاہتا ہے.اس لیے اُس کے ساتھ حالی تصویر سجدہ میں گرے گا اور اس اقرار کے مناسب حال ہیئت فی الفور اختیار کرلی.اس قال کے ساتھ تین حال جسمانی ہیں.ایک تصویر اس کے آگے پیش کی ہے ہر ایک قسم کا قیام بھی کرتا ہے.زبان جو جسم کا ٹکڑا ہے اس نے بھی کہا اور وہ شامل ہوگئی.تیسری چیز اَور ہے وہ اگر شامل نہ ہو تو نماز نہیں ہوتی.وہ کیا ہے؟ وہ قلب ہے.اس کے لیے ضروری ہے کہ قلب کا قیام ہو.اور اللہ تعالیٰ اس پر نظر کرکے دیکھے کہ درحقیقت وہ حمد بھی کرتا ہے اور کھڑا بھی ہے اور روح بھی کھڑا ہوا حمد کرتا ہے جسم ہی نہیں بلکہ روح بھی کھڑا ہے اور جب سُبْـحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم کہتا ہے تو دیکھے کہ اتنا ہی نہیں کہ صرف عظمت کا اقرار ہی کیا ہے.نہیں بلکہ ساتھ ہی جھکا بھی ہے اور اس کے ساتھ ہی روح بھی جھک گیا ہے.پھر تیسری نظر میں خدا کے حضور سجدہ میں گرا ہے.اس کی علُو شان کو ملاحظہ میں لاکر اُس کے ساتھ ہی دیکھے کہ روح بھی الوہیت کے آستانہ پر گرا ہوا ہے.غرض یہ حالت جب تک پیدا نہ ہولے.اس وقت تک مطمئن نہ ہو کیونکہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہی معنی ہیں.اگر یہ سوال ہو کہ یہ حالت پیدا کیوں کر ہو تو اس کا جواب اتنا ہی ہے کہ نماز پر مداومت کی جاوے اور وساوس اور شبہات سے پریشان نہ ہو.ابتدائی حالت میں شکوک و شبہات سے
ایک جنگ ضرور ہوتی ہے.اس کاعلاج یہی ہے کہ نہ تھکنے والے استقلال اور صبر کے ساتھ لگا رہے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتا رہے آخر وہ حالت پیدا ہو جاتی ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.یہ تقویٰ عملی کا ایک جزو ہے.انفاقِ رزق اور دوسری جزو اس کی مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ (البقرۃ:۴) ہے جو کچھ دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.عام لوگ رزق سے مراد اشیاءِ خوردنی لیتے ہیں یہ غلط ہے.جو کچھ قویٰ کو دیا جاوے وہ بھی رزق ہے.علوم و فنون وغیرہ معارف حقائق عطا ہوتے ہیں یا جسمانی طور پر معاش مال میں فراخی ہو.رزق میں حکومت بھی شامل ہے اور اخلاقِ فاضلہ بھی رزق ہی میں داخل ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کچھ ہم نے دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں یعنی روٹی میں سے روٹی دیتے ہیں.علم میں سے علم اور اخلاق میں سے اخلاق.علم کا دینا تو ظاہر ہی ہے.بُخل یہ یاد رکھو کہ وہی بخیل نہیں ہے جو اپنے مال میں سے کسی مستحق کو کچھ نہیں دیتا بلکہ وہ بھی بخیل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا ہو اور وہ دوسروں کو سکھانے میں مضائقہ کرے.محض اس خیال سے اپنے علوم و فنون سے کسی کو واقف نہ کرنا کہ اگر وہ سیکھ جاوے گا تو ہماری بے قدری ہوجائے گی یا آمدنی میں فرق آجائے گا شرک ہے کیونکہ اس صورت میں وہ اس علم یا فن کو ہی اپنا رازق اور خدا سمجھتا ہے.اسی طرح پر جو اپنے اخلاق سے کام نہیں لیتا وہ بھی بخیل ہے.اخلاق کا دینا یہی ہوتا ہے کہ جو اخلاقِ فاضلہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے دے رکھے ہیں اُس کی مخلوق سے اُن اخلاق سے پیش آوے.وہ لوگ اس کے نمونہ کو دیکھ کر خود بھی اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.خُلق کی تعریف اخلاق سے اس قدر ہی مراد نہیں ہے کہ زبان کی نرمی اور الفاظ کی نرمی سے کام لے.نہیں بلکہ شجاعت، مروّت، عفّت، جس قدر قوتیں انسان کو دی گئی ہیں دراصل سب اخلاقی قوتیں ہیں، اُن کا برمحل استعمال کرنا ہی اُن کو اخلاقی حالت میں لے آتا
ہے.ایک موقع مناسب پر غضب کا استعمال بھی اخلاقی رنگ حاصل کرلیتا ہے.یہ نہیں کہ انجیل کی تعلیم کی طرح ایک ہی پہلو اپنے اندر رکھتی ہے کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دو.یہ اخلاق نہیں ہے اور نہ یہ تعلیم حکمت کے اُصول پر مبنی ہوسکتی اگر ایسا ہو تو تمام فوجوں کا موقوف کردینا اور ہر قسم کے آلات حرب کو توڑ دینا لازم آئے گا اور مسیحی دنیا کو بطور ایک خادم کے رہنا پڑے گا کیونکہ اگر کوئی کرتہ مانگے تو چُغہ بھی دینا پڑے گا.ایک کوس بیگار لے جانا چاہے تو دو کوس جانے کا حکم ہے.پھر عیسائی لوگوں کو کس قدر مشکلات پیش آئیں اگر اس تعلیم پر عمل کریں نہ اُن کے پاس ضروریاتِ زندگی بسر کرنے کو کچھ رہے اور نہ کوئی آرام کی صورت کیونکہ جو کچھ اُن کے پاس ہو کوئی مانگ لے تو پھر اُن کے پاس خاک رہ جاوے؟ اگر محنت مزدوری سے کمانا چاہیں تو کوئی بیگار میں لگادے.غرض اس تعلیم پر زور تو بہت دیا گیا ہے اور پادریوں کو دیکھا ہے کہ وہ بازاروں میں اس تعلیم کی بڑے شدومد سے تعریف کرکے وعظ کرتے ہیں لیکن جب عمل پوچھو تو کچھ نہیں ہے.گویا بگفتن ہی سب کچھ ہے.کرنے کے واسطے کچھ نہیں.اس لئے اس کا نام اخلاق نہیں ہے.اخلاق یہ ہے کہ تمام قویٰ کو جو اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں برمحل استعمال کیا جاوے.مثلاً عقل دی گئی ہے اور کوئی دوسرا شخص جس کو کسی اَمر میں واقفیت نہیں اس کے مشورہ کا محتاج ہے اور یہ اس کی نسبت پوری واقفیت رکھتا ہے تو اخلاق کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ اپنی عقلِ سلیم سے اس کو پوری مدد دے اور اس کو سچا مشورہ دے.لوگ ان باتوں کو معمولی نظر سے دیکھتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا کیا بگڑتا ہے.اس کو خراب ہونے دو.یہ شیطانی فعل ہے.انسانیت سے بعید ہے کہ وہ کسی دوسرے کو بگڑتا دیکھے اور اُس کی مدد کے لئے طیار نہ ہو.نہیں بلکہ چاہیے کہ نہایت توجہ اور دل دہی سے اس کی بات سُنے اور اپنی عقل و سمجھ سے اُس کو ضروری مدد دے.لیکن اگر کوئی یہاں یہ اعتراض کرے کہ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ کیوں فرمایا؟ مِمَّا کے لفظ سے بخل کی بو آتی ہے.چاہیے تھا کہ ہر چہ داری خرچ کن در راہِ اُو #
اصل بات یہ ہے کہ اس سے بخل ثابت نہیں ہوتا.قرآن شریف خدائے حکیم کا کلام ہے.حکمت کے معنی ہیں شے را برمحل داشتن #.پس مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ میں اسی اَمر کی طرف اشارہ ہے کہ محل اور موقع کو دیکھ کر خرچ کرو.جہاں تھوڑا خرچ کرنے کی ضرورت ہے وہاں تھوڑا خرچ کرو اور جہاں بہت خرچ کرنے کی ضرورت ہے وہاں بہت خرچ کرو.عفو اب مثلاً عفو ہی ایک اخلاقی قوت ہے.اس کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا عفو کے لائق ہے یا نہیں.مجرم دو قسم کے ہوتے ہیں.بعض تو اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان سے کوئی حرکت ایسی سرزد ہوجاتی ہے جو غصہ تو لاتی ہے لیکن وہ معافی کے قابل ہوتے ہیں اور ایسے ہوتے ہیں کہ اگر اُن کی کسی شرارت پر چشم پوشی کی جاوے اور اُن کو معاف کردیا جاوے تو وہ زیادہ دلیر ہوکر مزید نقصان کا باعث بنتے ہیں.مثلاً ایک خدمت گار ہے جو بڑا نیک اور فرماں بردار ہے.وہ چاء لایا.اتفاق سے اُس کو ٹھوکر لگی اور چاء کی پیالی گر کر ٹوٹ گئی اور چاء بھی مالک پر گر گئی اگر اُس کو مارنے کے لئے اُٹھ کھڑا ہو اور تیز و تُند ہوکر اُس پر جا پڑے تو یہ سفاہت ہوگی.یہ عفو کا مقام ہے کیونکہ اس نے عمداً شرارت نہیں کی ہے اور عفو اس کو زیادہ شرمندہ کرتا اور آئندہ کے لئے محتاط بناتا ہے لیکن اگر کوئی ایسا شریر ہے کہ وہ ہر روز توڑتا ہے اور یوں نقصان پہنچاتا ہے اس پر رحم یہی ہوگا کہ اُس کو سزادی جاوے.پس یہی حکمت ہے مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ میں.ہر ایک مومن اپنے نفس کا مجتہد ہوتا ہے.وہ محل اور موقع کی شناخت کرے اور جس قدر مناسب ہو خرچ کرے.انجیل کی ناقابلِ عمل تعلیم مَیں ابھی بتاچکا ہوں کہ قرآن شریف کی تعلیم حکیمانہ نظام اپنے اندر رکھتی ہے.اس کے بالمقابل انجیل کی تعلیم کو دیکھو کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دے وغیرہ وغیرہ.کیسی قابلِ اعتراض ہے کہ اس کی پردہ پوشی نہیں ہوسکتی اور اس کی تمدنی صورت ممکن ہی نہیں ہے یہاں تک کہ بڑے سے بڑا نرم خو اور تقدس مآب پادری بھی اس تعلیم پر عمل نہیں کرسکتا.اگر کوئی انجیل کی اس تعلیم کا عملی ثبوت لینے کے لئے کسی پادری صاحب کے مُنہ پر طمانچہ مارے تو وہ بجائے اس کے کہ دوسری گال پھیرے پولیس کے پاس دوڑا جاوے گا
اور اس کو حکّام کے سپُرد کرا دے گا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انجیل معطّل پڑی ہے اور قرآن شریف پر عمل ہورہا ہے.ایک مفلس اور نادار بڑھیا بھی جس کے پاس ایک جَو کی روٹی کا ٹکڑا ہے اس ٹکڑے میں سے ایک حصہ دے کر مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ میں داخل ہوسکتی ہے.لیکن انجیل کے طمانچہ کھاکر گال پھیرنے کی تعلیم میں مقدس سے مقدس پادری بھی شامل نہیں ہوسکتا.بہ بیں تفاوتِ راہ از کُجاست تا بہ کجا # انجیل تو اس پہلو میں یہاں تک گری ہوئی ثابت ہوتی ہے کہ اور تو اور خود حضرت مسیح بھی اس پر پورا عمل نہ دکھا سکے اور وہ تعلیم جو خود پیش کی تھی عملی پہلو میں اُنہوں نے ثابت کردیا کہ وہ کہنے ہی کے لئے ہے ورنہ چاہیے تھا کہ اس سے پیشتر کہ وہ گرفتار ہوتے خود اپنے آپ کو دشمنوں کے حوالے کردیتے اور دعائیں مانگنے اور اضطراب ظاہر کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی.اس سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں کرکے بھی دکھاتے ہیں بلکہ یہ بھی ثابت ہوجاتا کہ وہ کفّارہ ہی کے لئے آئے ہیں کیونکہ اگر اُن کی زندگی کا یہی کام تھا کہ وہ خودکشی کے طریق سے دنیا کو نجات دیں اور بقول عیسائیوں کے خدا بجز اس صورت کے نجات دے ہی نہیں سکتا تھا تو اُن کو چاہیے تھا کہ جس کام کے لئے وہ بھیجے گئے تھے وہ تو یہی تھا پھر وعظ اور تبلیغ کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیوں نہ آتے ہی یہ کہہ دیا کہ مجھے پکڑو اور پھانسی دے دو.تاکہ دنیا کی رُستگاری ہو.۹۱؎ قرآنی تعلیم انسانی قویٰ کی تکمیل کرتی ہے غرض قرآن شریف کی تعلیم ثابت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور ذرّہ ذرّہ اس کے آگے ہے اور اس نے ایسی تعلیم دی ہے جو انسانی قویٰ کی تکمیل کرتی ہے اور عفو اور انتقام کو محل اور موقع پر رکھنے کے واسطے اس سے بڑھ کر تعلیم نظر نہیں آئے گی.اگر کوئی اس تعلیم کے خلاف اور کچھ پیش کرتا ہے تو وہ گویا قانونِ الٰہی کو درہم برہم کرنا چاہتا ہے.بعض طبائع طبعاً عفو چاہتی ہیں اور بعض
مار کھانے کے قابل ہوتی ہیں.سب عدالتیں قرآن شریف کی تعلیم کے موافق کھلی رہ سکتی ہیں.اگر انجیل کے مطابق کریں تو آج ہی سب کچھ بند کرنا پڑے اور پھر دیکھو کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے.انسان انجیلی تعلیم پر عمل نہیں کرسکتا.پس یہ دو نمونے علمی اور عملی تقویٰ کے ہوتے ہیں.کلامِ الٰہی پر ایمان لیکن اس کے سوا تیسری قسم تقویٰ کی ہے يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ (البقرۃ:۵) انسان قوتِ شہادت کا محتاج ہے.ایسی راہ اختیار نہ کرے کہ پاک شہادتوں سے دور ہو.وہ راہ خطرناک راہ ہے جس میں راستبازوں کی شہادتیں موجود نہیں ہیں.تقویٰ کی راہ یہی ہے کہ جس میں زبردست شہادتیں ہر زمانہ میں زندہ موجود ہوں.مثلاً تم نے راہ پوچھا کسی نے کچھ کہا کہ یہ راہ فلاں طرف جاتا ہے مگر دس کہتے ہیں کہ نہیں یہ تو فلاں طرف جاتا ہے تو اب تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ ان بھلے مانس آدمیوں کی بات مان لو.یاد رکھو کہ شہادت پاکبازوں کی ہی مقبول اور موزوں ہوتی ہے.بد معاشوں کی شہادت کبھی مقبول نہیں ہوسکتی.یہ تیسری قسم تقویٰ کی ہے جو يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ میں بیان ہوئی ہے.اس کو چھوڑ کر بھی لوگ بہت خراب ہوتے ہیں.ہمارے ساتھ جو لوگوں نے مخالفت کی ہے تو اسی وجہ سے کہ انہوں نے تقویٰ کی اس قسم کو چھوڑ دیا ہے.وفاتِ مسیح خدا تعالیٰ کا کلام تیس (۳۰) آیتوں میں ہمارا مؤیّد ہے.کبھی وہ يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ (اٰل عـمران:۵۶) کہہ کر کبھی فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ کہہ کر کبھی مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (اٰل عـمران:۱۴۵) کہہ کر.غرض کبھی کسی پیرایہ میں کبھی کسی صورت میں پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہی راہ سچی ہے جس پر ہم بفضلہ تعالیٰ قائم ہیں اور اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح کو حضرت یحیٰیؑ کے ساتھ معراج میں دیکھتے ہیں.اور یہ پکی بات ہے کہ ان دونوں میں کوئی خاص فرق جو زندوں اور مُردوں میں ہونا چاہیے نہیں بتایا.کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عمر بتا کر یہ شہادت دیتے ہیں کہ وہ مَر گیا اور کبھی آنے والے مسیح موعود اور اسرائیلی مسیح کا حلیہ جدا جدا بتا کر سمجھاتے ہیں کہ وہ مَر گیا.یہ شہادتیں تو حدیث اور قرآن کی ہیں.اس کے علاوہ تمام صحابہ کی شہادت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہی پر یہ ہوتی ہے کہ سب نبی مَر گئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہا کہ ابھی نہیں مَرے اور تلوار کھینچ کر کھڑے ہو جاتے ہیں مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر یہ خطبہ پڑھتے کہ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (اٰل عـمران:۱۴۵) اب اس موقع پر جوایک قیامت ہی کا میدان تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور کل صحابہؓ جمع ہیں.یہاں تک کہ اسامہؓ کا لشکر بھی روانہ نہیں ہوا.حضرت عمر ؓ کے کہنے پر حضرت ابو بکرؓ بآواز بلند کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوگئی اور اس پر استدال کرتے ہیں مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ سے.اب اگر صحابہؓ کے وہم و گمان میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہوتی تو ضرور بول اٹھتے مگر سب خاموش ہو گئے اور بازاروں میں یہ آیت پڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ گویا یہ آیت آج اتری ہے.معاذ اللہ صحابہ ؓمنافق نہ تھے جو وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے رعب میں آکر خاموش ہو رہے اور حضرت ابو بکرؓ کی تردید نہ کی.نہیں اصل بات یہی تھی جو حضرت ابو بکر ؓنے بیان کی اس لئے سب نے گردن جھکا لی.یہ ہے اجماع صحابہ کا.حضرت عمرؓ بھی تو یہی کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر آئیں گے.اگر یہ استدلال کامل نہ ہوتا (اور کامل تب ہی ہوتا کہ کسی قسم کا استثنا نہ ہوتا کیونکہ اگر حضرت عیسٰیؑ زندہ آسمان پر چلے گئے تھے اور انہوں نے پھر آنا تھا تو پھر یہ استدلال کیا یہ تو ایک مسخری ہوتی) تو خود حضرت عمرؓ ہی تردید کرتے.حضرت ابوبکرؓ کا فہم قرآن جبکہ آیت میں استثنا نہ تھا اور امر واقعہ یہی تھا.اس لئے سب صحابہؓ نے بالاتفاق اس اَمر کو تسلیم کر لیا اور حضرت ابو بکرؓ جن کو قرآن شریف کا یہ فہم ملا تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ (المائدۃ:۴) پڑھی تو حضرت ابو بکرؓ رو پڑے.کسی نے پوچھا کہ یہ بڈھا کیوں روتا ہے تو آپ نے کہا کہ مجھے اس آیت سے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی بو آتی ہے.انبیاء علیہم السلام بطور حکام کے ہوتے ہیں.جیسے بندوبست کا ملازم جب اپنا کام کر چکتا ہے تو
وہاں سے چل دیتا ہے.اسی طرح پر انبیاء علیہم السلام جس کام کے واسطے دنیا میں آتے ہیں جب اس کو کر لیتے ہیں تو پھر وہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں.بس جب اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ کی صدا پہنچی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سمجھ لیا کہ یہ آخری صدا ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کا فہم بہت بڑھا ہوا تھا اور یہ جو احادیث میں آیا ہے کہ مسجد کی طرف سب کھڑکیاں بند کی جاویں مگر ابو بکرؓ کی کھڑکی مسجد کی طرف کھلی رہے گی.اس میں یہی سِرّ ہے کہ مسجد چونکہ مظہرِ اسرارِ الٰہی ہوتی ہے اس لئے حضرت ابو بکر صدیقؓ کی طرف یہ دروازہ بند نہیں ہوگا.انبیاء علیہم السلام استعارات اور مجازات سے کام لیتے ہیں.جو شخص خشک ملاؤں کی طرح یہ کہتا ہے کہ نہیں ظاہر ہی ظاہر ہوتا ہے وہ سخت غلطی کرتا ہے.مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے کو کہنا کہ یہ دہلیز بدل دے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سونے کے کڑے دیکھنا وغیرہ امور اپنے ظاہری معنوں پر نہیں تھے بلکہ استعارہ اور مجاز کے طور پر تھے ان کے اندر ایک اور حقیقت تھی.غرض مدعا یہ ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کو فہم قرآن سب سے زیادہ دیا گیا تھا.اب جبکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ استدلال کیا.میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر یہ معنی بظاہر معارض بھی ہوتے.تب بھی تقویٰ اور دیانتداری کا تقاضا تو یہ تھا کہ ابو بکرؓ ہی کی مانتے.مگر یہاں تو ایک بھی لفظ قرآن شریف میں ایسا نہیں ہے جو حضرت ابو بکرؓ کے معنوں کا معارض ہو.اب مولویوں سے پوچھو کہ ابو بکرؓ دانش مند تھا یا نہیں؟ کیا یہ وہ ابو بکرؓ نہیں جو صدیق کہلایا؟ کیا یہی وہ شخص نہیں جو سب سے پہلے خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا بنا؟ جس نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی کہ خطرناک ارتداد کی وبا کو روک دیا.اچھا اور باتیں جانے دو.یہی بتاؤ کہ ابو بکرؓ کو منبر پر چڑھنے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی؟ پھر تقویٰ سے یہ بتاؤ کہ انہوں نے جو مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ پڑھا تو اس سے استدلال تام کرنا تھا یا ایسا ناقص کہ ایک بچہ بھی کہہ سکتا کہ عیسٰیؑ کو موتٰی سمجھنے والا کافر ہوتا ہے.افسوس! ان مخالفوں نے میری مخالفت اور عداوت میں یہی نہیں کہ قرآن کو چھوڑا بلکہ میری
عداوت نے ان کی یہاں تک نوبت پہنچائی ہے کہ صحابہ ؓ کی کل جماعت پر انھوں نے اپنے طریقِ عمل سے کفر کا فتویٰ دے دیا اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کے استدلال کو استخفاف کی نظر سے دیکھا.وفاتِ مسیحؑ پر اجماع سارا قرآن شریف ہمارے ساتھ ہے.تیس (۳۰) آیات مخصوصاً مسیح علیہ السلام کی وفات پر گواہ ہیں.معراج کی رات، ابو بکر صدیقؓ کی تقریر اور صحابہؓ کا اجماع شاہد ہے.یہ لوگ جو ہمارے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے اجماع کے خلاف ایک بات کہی یہ جھوٹ بولتے ہیں.اجماع ان کے ساتھ ہرگز نہیں ہے.اوّل تو اجماع صحابہؓ ہی تک ہے اور ہم نے ابھی بتایا ہے کہ صحابہؓ کا اجماع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر مسیح کی وفات پر ہو چکا ہے.امام احمد حنبلؒ کہتے ہیں کہ صحابہ ؓ کے بعد اجماع کا دعویٰ جھوٹا ہے ماسوائے اس کے بھی بہت سے لوگ ان کے خلاف اور ہمارے ساتھ ہیں.معتزلہ مسیحؑ کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کے قائل نہیں ہیں.صوفیوں کا یہی مذہب ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مسیح کی آمد بروزی ہے.وَقَالَ مَالِکٌ مَاتَ.امام مالکؒ موت ہی کے قائل ہیں.ابن حزم کا بھی یہی مذہب ہے.اب مالکی.ابن حزم کے ماننے والے اور معتزلہ اس مسئلہ میں ہمارے ساتھ ہیں.لیکن پھر بھی علیٰ سبیل تنزّل اگر ہم مان لیں کہ کوئی بھی ہمارے ساتھ ان میں سے نہیں تو بھی ہم تو یہ کہتے ہیں کہ قرونِ ثلاثہ کے بعد زمانہ کا نام فَیْجِ اَعْوَجْ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے رکھا ہے.یعنی ایک ٹیٹرھا گروہ اور ان کی نسبت فرمایا لَیْسُوْامِنِّیْ وَلَسْتُ مِنْھُمْ.اب ان کے ہاتھ میں کیا رہا.۹۲؎ صحابہؓ کے وارث ہم، قرآن اور حدیث کے مغز کے وارث تو ہم ہی ٹھہرے.باقی رہی یہ بات کہ لکھا ہوا ہے کہ مسیح نازل ہو گا.پس یاد رہے کہ نزول کا لفظ کس قدر وسیع ہے.نزیل مسافر کو بھی کہتے ہیں.مسئلہ بروز ماسوا اس کے اصل بات یہ ہے جس کو یاد رکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو آخری زمانہ کا علم دیا گیا تھا.آپ نے اس علم کے موافق دو بروزوں کی خبر دی تھی اہل اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ مراتب وجود دو ہی ہیں.میں اس کو مانتا ہوں.قرآن شریف سے
یہی مستنبط ہوتا ہے.صوفیائے کرام اس کو مانتے ہیں کہ کسی گزرے ہوئے انسان کی طبیعت، خو، اخلاق ایک اَور میں آتے ہیں.ان کی اصطلاح میں یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص قدم آدم پر ہے یا قدم نوح پر ہے.اس کو بعض بروز بھی بولتے ہیں.ان کا مذہب یہ ہے کہ ہر زمانے کے لئے بروز ہے.جیسے ہابیل کا بروز شیث علیہ السلام تھے اور یہ پہلا بروز تھا.ہبل نوحہ کو کہتے ہیں.خدا نے شیثؑ کو یہ بروز دیا.پھر یہ سلسلہ برابر چلا گیا یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بروز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے.اسی لئے عَلٰى مِلَّةِ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا فرمایا.اس میں یہی سِرّ ہے.دو اڑھائی ہزار سال کے بعد عبد اللہ کے گھر میں ظاہر ہوا.غرض بروز کا مذہب ایک متفق علیہ مسئلہ ظہورات کا ہے.آخری زمانہ کے دو (۲) فتنے اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے کے واسطے خبر دی تھی کہ اس وقت دو رنگ کے فتنے ہوں گے.ایک اندرونی دوسرا بیرونی.اندرونی فتنہ یہ ہوگا کہ سچی ہدایت پر قائم نہ رہیں گے اور شیطانی عمل دخل کے نیچے آجائیں گے.قمار بازی، زنا کاری، شراب خوری اور ہر قسم کے فسق وفجور میں مبتلا ہو کر حدود اللہ سے نکل جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی نواہی کی پروا نہ کریں گے.صوم و صلوٰۃ کو ترک کردیں گے اور اَمرِالٰہی کی بے حرمتی کی جائے گی اور قرآنی احکام کے ساتھ ہنسی ٹھٹھا کیا جائے گا.بیرونی فتنہ یہ ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر افترا کئے جائیں گے اور ہر قسم کے دل آزار حملوں سے اسلام کی توہین اور تخریب کی کوشش کی جاوے گی.مسیحؑ کی خدائی کو منوانے کے لئے اور اس کی صلیبی لعنت پر ایمان لانے کے واسطے ہر قسم کے حیلے اور تدابیر عمل میں لائی جاویں گی.غرض ان دونوں اندرونی اور بیرونی عظیم الشان فتنوں کی اطلاع کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ ہی یہ بشارت ملی کہ ایک شخص آپ کی اُمت میں سے مبعوث کیا جاوے گا جو بیرونی فتنہ اور صلیبی مذہب کی حقیقت کو کھول کر دکھا دینے اور صلیب کو توڑ دینے والا ہوگا اور اسی لحاظ سے وہ مسیح ابن مریم ہوگا اور اندرونی تفرقوں اور بے راہیوں کو دور کرکے ہدایت کی سچی راہ پر قائم کرے گا اس لئے
مہدی کہلائے گا.اسی بشارت کی طرف وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ (الجمعۃ:۴) میں بھی اشارہ ہے.جبکہ یہ دونوں فتنے ہوں گے.ان فتنوں کی بنیاد دو خبیث چیزوں پر ہوگی.ایک فرقہ ہوگا جو اَلدَّجَّال کہلائے گا اور ایک اَلْـجَاجُوْج.دجال اَلدَّجَّال.دجل یہ ہے کہ اندر ناقص چیز ہو اور اوپر کوئی صاف چیز ہو.مثلاً اوپر سونے کا ملمع ہو اور اندر تانبہ ہو.یہ دجل ابتدائے دنیا سے چلا آتا ہے.مکر و فریب سے کوئی زمانہ خالی نہیں رہا.زرگر کیا کرتے ہیں.جیسے دنیا کے کاموں میں دجل ہے ویسے ہی روحانی کاموں میں بھی دجل ہوتا ہے يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ (النّسآء:۴۷) بھی دجل ہی ہے.جو يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ (اٰل عـمران:۵۶) کو الٹاتے ہیں یہ بھی دجل ہے.مگر آخری زمانہ کا دجل عظیم الشان دجل ہوگا.گویا دجّالیت کا ایک دریا بہہ نکلے گا.اَلدَّجَّال پر ال استغراق کا ہے.پس اَلدَّجَّال دجا جلہ مختلفہ کا بروز ہے یعنی پہلے جس قدر مختلف اور متفرق کید، حیلے، ضلالت اور کفر کے تھے.کسی زمانہ میں نابکار لوگوں نے کچھ کہا.کسی نے کچھ کہا.متفرق طور پر جس قدر اعتراضات اسلام پر کئے جاتے تھے مگر وہ ایک حد تک تھے لیکن اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ اس وقت اعتراضات کا ایک دریا بہہ نکلے گا.جیسے چھوٹی چھوٹی نہریں اور ندیاں مل کر ایک دریا بن جاتا ہے اسی طرح کل دجل مل کر ایک بڑا دجل ہوگا.چنانچہ اس زمانہ میں دیکھ لو کہ کتنا بڑا دجل ہو رہا ہے.ہر طرف سے اسلام پر نکتہ چینیاں اور اعتراض کیے جاتے ہیں.اور عیسائیوں نے تو حد کر دی ہے.میں نے ان اعتراضوں کو جمع کیا ہے جو عیسائیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے ہیں.اُن کی تعداد تین ہزار تک پہنچی ہے اور جس قدر کتابیں اور رسالے اور اشتہار آئے دن ان لوگوں کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضوں کی شکل میں شائع ہوتے ہیں اُن کی تعداد چھ کروڑ تک پہنچ چکی ہے.گویا ہندوستان کے مسلمانوں میں سے ہر ایک آدمی کے ہاتھ میں یہ لوگ کتاب دے سکتے ہیں.پس سب سے بڑا فتنہ یہی نصاریٰ کا فتنہ ہے اور اَلدَّجَّال کا بُروز ہے.
یاجُوج و ماجُوج ایسا ہی یاجوج.یہ لفظ اجیج سے مشتق ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آتشی کاموں کے ساتھ اُن کا بہت بڑا تعلق ہوگا اور وہ آگ سے کام لینے میں بہت مہارت رکھیں گے.گویا آگ اُن کے قابو میں ہوگی اور دوسرے لوگ اس آتشی مقابلہ میں ان سے عاجز رہ جائیں گے.اب یہ کیسی صاف بات ہے.دیکھ لو کہ آگ کے ساتھ اس قوم کو کس قدر تعلق ہے.کَلیں کس قدر جاری ہیں اور دن بدن آگ سے کام لینے میں ترقی کر رہے ہیں.یہ دونوں بروز ہیں اور یہ دونوں کیفیتیں جو متفرق طور پر تھیں ایک میں آئی ہیں.ایسا ہی ماجوج میں اور یہ ایک پکی بات ہے کہ اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ.انسان پر ملوک کا بہت بڑا اثر پڑتا ہے.ملوک تو ملوک ہوتے ہیں.ادنیٰ درجہ کے نمبرداروں تک کا اثر پڑتا ہے.سکھوں کے زمانہ میں بہت سے لوگوں نے کیس رکھ لیے تھے اور کَچھ پہن لیے تھے.ایک شخص ہمارے قریب ایک گاؤں میں بھی رہتا تھا.اس کا نام خدا بخش تھا.اس نے اپنا نام خدا سنگھ رکھ لیا تھا.موضع ڈلّہ میں گلاب شاہ اور مہتاب شاہ دو بھائی تھے.وہ گرنتھ ہی پڑھا کرتے تھے اور یہ معمولی بات ہے ملوک کے خیالات کا مذہب، طرز لباس وغیرہ ہر قسم کے اُمور کا اخلاقی ہوں یا مذہبی بہت بڑا اثر رعایا پر پڑتا ہے.جیسے ذکور کا اثر اِنَاث پر پڑتا ہے.اس لیے فرمایا گیا ہے اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (النّسآء:۳۵) اسی طرح پر رعایا پر ملوک کا اثر ضروری ہے.سکھوں کی عملداری میں وہ پگڑیاں باندھا کرتے تھے اور اب تک بھی ریاستوں میں اس کا بقیہ چلا جاتا ہے اور جب ایک دوسرے سے ملا کرتے تھے تو سب ایک ہی لفظ بولا کرتے تھے.’’سکھ ہے‘‘ ایسا ہی اب اس عملداری میں سلطنت کا اثر رعایا پر پڑا ہے.طرزلباس ہی کو دیکھو کہ ہر ایک شخص انگریزی لباس کوٹ پتلون کو پہن کر فخر کرتا ہے اور بعض ایسے بھی ہیں جو انگریزی ٹوپیاں بھی پہنتے ہیں.سلطنت کی طرف سے کسی قسم کی ترغیب نہیں دی جاتی، کوئی حکم جاری نہیں کیا جاتا کہ لوگ اس قسم کا پہنیں مگر خود بخود طبائع میں ایک شوق دن بدن بڑھتا چلا جاتا ہے.باوجودیکہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جواس لباس کی تبدیلی کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور اپنی جگہ سعی بھی کرتے ہیں کہ یہ
طریق ترقی نہ پکڑے مگر نہیں یہ ایک دریا ہے جو بہتا چلاجاتا ہے اور رُک نہیں سکتا.انگریزی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی طرز لباس ترقی پر ہے.یہاں تک کہ حجامت بنوانے میں بھی انگریزی طرز اور فیشن کو مقدم سمجھا جاتا ہے.یہ کیوں؟ صرف اس لیے کہ اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ.یہ مت سمجھو کہ طرز لباس ہی نے ترقی کی ہے.نہیں یہ طرز بجائے خودایک خطرناک ترغیب ہے اَور بہت سی باتوں کے لیے.انگریزی لباس کے بعد انگریزی طرز کی مجلسوں کا مذاق ترقی کرے گا اور کر رہا ہے.عیسائیت نے خَـمْر کو حرام نہیں کیا.اس میں پردہ بھی ضروری نہیں.قماربازی بھی ممنوع نہیں ہے.پھر کھانے میں حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں.پس اس آزادی کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب حقیقی جو انسان کو ایک حد بندی کے درمیان رکھنا چاہتا ہے اس سے لوگوں نے تجاوز شروع کیا.انگریزی مجلسی مذاق میں شراب کا پینا لازمی اَمر ہے.جس محفل میں شراب نہ ہو وہ گویا مجلس ہی قابل نفرت ہے.پس وہ لوگ جو انگریزی طرز اور فیشن کے دلدادہ ہیں وہ کب دین کی حدود کے اندر آنے لگے؟ اور مذہب کی طرف بُلانے والوں کی طرف اُن کو رغبت ہو تو کس طرح؟ میں سچ کہتا ہوں کہ لوگوں نے اس اَمر پر غور نہیں کی ہے کہ عیسائیت کیوں کر اندر ہی اندر سرایت کر رہی ہے.میں نے اس پر بہت غور کی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ہر ایک اس وقت عیسائیت کی طرف لے جانا چاہتا ہے.خصوصاً ایسی حالت میں کہ ان پادریوں نے اپنی طرف سے کوئی دقیقہ بھی اُس کے پھیلانے میں فروگزاشت نہیں کیا.ہر قسم کے طریق اشاعت کو اُنھوں نے اختیار کیا ہے.قطع نظر اس کے کہ وہ جائز ہے یا ناجائز.یہ انگریزی فیشن ہی کا اثر ہے کہ اب علانیہ شراب پی جاتی ہے.زناکاری کے لیے کوئی اَمر مانع نہیں ہے بلکہ اس کے ممد اور معاون امور پیدا ہوتے جاتے ہیں.قمار بازی گو قانوناً جرم ہو مگر اُس کی بعض ایسی صورتیں پیدا کرلی گئی ہیں کہ وہ قانوناً جائز ہی قرار دی گئی ہیں.عیسائی عورتوں کا بے پردہ پھرنا اور عام طور پر غیرمردوں سے ملنا جلنا اس نے ایسا خطرناک اثر کیا ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جو عورتوں کو بے پردہ سیر کرانا پسند کرتے ہیں اور مسلمانوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ
عورت اور مرد کے حقوق مساوی ہیں ان کو پردہ میں نہ رکھا جاوے.یہ ظلم ہے.اسلامی پردہ اسلامی پردہ پر اعتراض کرنا اُن کی جہالت ہے اللہ تعالیٰ نے پردہ کا ایسا حکم دیا ہی نہیں جس پر اعتراض وارد ہو.قرآن مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ غضِّ بصر کریں.جب ایک دوسرے کو دیکھیں ہی گے نہیں تو محفوظ رہیں گے.یہ نہیں کہ انجیل کی طرح یہ حکم دے دیتا کہ شہوت کی نظر سے نہ دیکھ.افسوس کی بات ہے کہ انجیل کے مصنف کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ شہوت کی نظر کیا؟ نظر ہی تو ایک ایسی چیز ہے جو شہوت انگیز خیالات کو پیدا کرتی ہے.اس تعلیم کا جو نتیجہ ہوا ہے وہ اُن لوگوں سے مخفی نہیں ہے جو اخبارات پڑھتے ہیں اُن کو معلوم ہوگا کہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے کیسے شرمناک نظارے بیان کیے جاتے ہیں.اسلامی پردہ سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے.قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں.وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں.جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی اُمور کے لیے پڑے اُن کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے وہ بے شک جائیں لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے.مساوات کے لیے عورتوں کے نیکی کرنے میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے اور نہ اُن کو منع کیا گیا ہے کہ وہ نیکی میں مشابہت نہ کریں.اسلام نے یہ کب بتایا ہے کہ زنجیر ڈال کر رکھو.اسلام شہوات کی بنا کو کاٹتا ہے.یورپ کو دیکھو کیا ہو رہا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ کتوں اور کتیوں کی طرح زنا ہوتا ہے اور شراب کی اس قدر کثرت ہے کہ تین میل تک شراب کی دکانیں چلی گئی ہیں.یہ کس تعلیم کا نتیجہ ہے؟ کیا پردہ داری کا یا پردہ دری کا؟ اسلام کی بات کو بگاڑنا اور اندھا دُھند اعتراض کرنا ظلم ہے.اسلام تقویٰ سکھانے کے واسطے دنیا میں آیا ہے.میں یہ بیان کر رہا تھا کہ لوگ مُلوک کے دین پر ہوتے ہیں اور میں نے مختلف مثالوں کے ذریعہ اس اَمر کو بیان کر دیا ہے.اب دیکھ لو کہ جو حالات اَبتر اس ملک میں ہوتے ہیں وہ کسی اَور ملک میں نہیں ہیں یہاں تک کہ مکہ مدینہ میں بھی نہیں ہوئے.ایسی آزادی اور اباحت جو یہاں ہے اس کی نظیر کسی دوسرے ملک میں نہ ملے گی اور ان ملکوں میں چونکہ اس قسم کے محرکات پیش نہیں آئے اس لیے
وہاں خیالات بھی بہت اَبتر نہیں ہوئے.برائی کے دو بروز.دجّال اور یاجوج و ماجوج اب میں پھر اصل مطلب کی طرف آتا ہوں.میں نے یہ بیان کیا ہے کہ دو بروز ہیں ایک اَلدَّجَّال کا دوسرا یا جوج ماجوج کا.اَلدَّجَّال کا بروز وہ ہے جو آدم علیہ السلام سے لے کر ایک سلسلہ چلا جاتا تھا.جس قسم کی بدیاں اور شرارتیں مختلف طور پر مختلف وقتوں میں ظاہر ہوئیں آج ان سب کو جمع کر دیا گیا ہے اور ایک عجیب نظارہٴ قدرت دکھایا ہے.چونکہ اب انسانی عمروں کا خاتمہ ہے اس لیے خاتمہ پر ایک بدیوں کا اور ایک نیکیوں کا بروز بھی دکھایا.بدیوں کا بروز وہی ہے جس کو میں نے اَلدَّجَّال کہا ہے.تمام مکائد اور شراتوں کا وہ مجموعہ ہے.اس آخری زمانہ میں ایک گروہ کو سفلی عقل اس قدر دی گئی ہے کہ تمام چھپی ہوئی چیزیں پیدا ہو گئی ہیں.اس نے دو قسم کا دجل دکھایا.ایک قسم کا حملہ نبوت پر کیا اور ایک خدا پر.نبوت پر تو یہ حملہ تھا کہ منشاءِ الٰہی کو بگاڑا اور دماغی طاقتوں کو انتہائی مدارج پر پہنچا کر الوہیت پر تصرّف کرنے کے لیے خدا پر حملہ کیا.امراضِ مُزمنہ کے علاج کی طرف توجہ اور ایک کا نطفہ لے کر رحم میں بذریعہ کَل ڈالنا.بارش برسانے کے آلات کا ایجاد کرنا وغیرہ وغیرہ.یہ سب امور اس قسم کے ہیں جن سے پایا جاتا ہے کہ یہ لوگ الوہیت پر تصرف کرنا چاہتے ہیں.یہ گروہ خود خدا بن رہا ہے اور دوسرا گروہ کسی اور انسان کو خدا بناتا ہے.جو کچھ آج کل یورپ اور امریکہ میں ہو رہا ہے اس کی غرض کیا ہے؟ یہی کہ ایک آزادی اور حرص جو پیدا ہوگئی ہے اس کو پورے طور پر کام میں لا کر ربوبیت کے بھیدوں کو معلوم کرکے خدا سے آزاد ہو جاویں.غرض جان ڈالنے کے، مُردوں کو زندہ کرنے کے، بارش برسانے کے تجربے کرتے ہیں.یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کی تو کوشش یہ ہو رہی ہے کہ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ سب ہمارے ہی قبضہ میں آجاوے.اگرچہ میں اس بات کو مانتا ہوں کہ تدبیر کرنا منع نہیں ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ گناہ ہمیشہ افراط یا تفریط سے پیدا ہوتا ہے.مثلاً اگر انسان کو صرف ہاتھ لگا دو تو گناہ نہیں ہے لیکن اگر اس کو ایک
مکّا مار دو تو یہ گناہ ہے.یہ افراط ہے اور تفریط یہ ہے کہ اگر کسی کو ایک پیالہ پانی دینے کی ضرورت ہو مگر وہ اس کو ایک قطرہ دے.غرض موجودہ زمانہ میں دجال کا بروز ایک معجون مرکب ہے.ایک حملہ خدا پر ہو رہا ہے اور ایک نبوت پر.ایک خدا کو انسان بناتا ہے دوسرا آپ ہی خدا بنتا ہے؟ کیا یہ بات سچ نہیں ہے.کتابیں دیکھو، اخبارات پڑھو تو پتہ لگے گا کہ کس قدر فساد برپا ہورہا ہے.اور یہ دو رنگی ظلم ڈھارہی ہے.یاجوج ماجوج کے فساد کی نسبت میں نے بتادیا ہے کہ اس کا اثر دل پر پڑتا ہے.اس کو شوکت ہے.خدا کی طرف رجوع کرنا، امانت دیانت کا اختیار کرنا، شراب، زنا، بدنظری، قماربازی سے بچنا مشکل ہو رہا ہے.بہت ہی تھوڑے شاید ایک آدمی فی ہزار ہو تو ہو جو بچتے ہوں گے.نیکی کے دو بروز اب یہ بات کیسی صاف ہے کہ جبکہ بدی کے دو بروز تھے ایسا ہی نیکی کے بھی دو بروز بدی کے مقابل ضروری تھے چنانچہ دو بروز نیکی کے بھی رکھے.دراصل وہ بھی ایک ہی چیز ہے جس کے دو نام ہیں.جیسے ایک ہی حالت میں مجسڑیٹ اور کلکٹر دو جداگانہ عہدے ہوتے ہیں.وہ نیکی کے بروز یہ ہیں کہ ایک تو اندرونی لحاظ سے ہے اور دوسرا بیرونی لحاظ سے.اندرونی لحاظ سے وہ مہدی ہے اور بیرونی لحاظ سے مسیح ابن مریم.مسیح بن مریم بیرونی طور پر مسیح کا کام کیا ہے جو اس کا یہ نام رکھا؟ مسیح ابن مریم کا کام دفع شر ہوگا اور مہدی کا کام کسب خیر.چنانچہ غور کرو کہ مسیح کا کام یَقْتُلُ الْـخِنْـزِیْرَ اور یَکْسُـرُ الصَّلِیْبَ بتایا ہے یہی دفعِ شر ہے لیکن ہمارا یہ مذہب ہرگز نہیں ہے کہ وہ دفعِ شر کے لیے تیغ و سنان لے کر جنگ کے واسطے نکلے گا.علماء جو یہ کہتے ہیں کہ وہ جنگ کرے گا یہ صحیح نہیں بلکہ بالکل غلط ہے.یہ کیا اصلاح ہوئی کہ ابھی آپ آئے اور آتے ہی تلوار پکڑ کر لڑائی کے واسطے میدان میں نکل آئے.یہ نہیں ہو سکتا.صحیح اور سچی بات وہی ہے جو خدا تعالیٰ نے ہم پر کھولی جو احادیث کے منشا کے موافق ہے کہ مسیح کوئی خونی جنگ نہ کرے گا اور نہ تلوار پکڑ کر لڑنا اس کا منصب ہے بلکہ وہ تو اصلاح کے لیے آئے گا.ہاں یہ ہم مانتے ہیں کہ اس کا کام دفعِ شر ہے اور وہ حجج اور براہین سے کرے گا.
مہدی اور مہدی کا کام کسب خیر ہے.یعنی جو بدعادات اور فسق و فجور پھیلا ہوا ہوگا وہ اس کو ہدایت سے بدل دے گا.عیسیٰ کا لفظ عَوس سے لیا ہے جو دفعِ شر کی طرف ایما ہے.ان ہر دو بروزوں میں سِرّ یہ ہے کہ مہدی کا بروز اکمل ہے کیونکہ اس کا کام ہے افاضہ خیر اور افاضہ خیر دفع شر کی نسبت اکمل بات ہے.ایک شخص ہے جو کسی کی راہ سے صرف کانٹے اٹھاوے.یہ بے شک بڑا کام ہے لیکن جو اس کو سواری دے اور اپنے گھر لے جا کر روٹی بھی کھلائے یہ اس سے بھی بڑھ کر ہے.پس مہدی اکمل ہے.اسی لئے وہ خلیفۃ اللہ ہے.عیسیٰ ابن مریم جو مہدی خلیفۃ اللہ کی بیعت کرے گا اس میں یہی سِرّ ہے اور مہدی کا بروز یوں بھی اکمل ہے کہ وہ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز ہوگا اور آپ خاتم الانبیاء تھے اور اکمل الانبیاء اس لئے اس کا بروز بھی اکمل ہی ہوگا.یہ دو بروز تھے.علماء نے کیسا ظلم کیا کہ ایک بروز کو تو انہوں نے مان لیا کہ مہدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خُلق اور نام پر ہوگا لیکن عیسیٰ ابن مریمؑ کی نسبت یہی تجویز کیا کہ وہی آسمان سے اتر کر آئے گا.کس قدر تعجب کی بات ہے کہ کیسے ذہن متنزل ہو گئے ہیں جو تناقض پیدا کرتے ہیں اور نہیں سمجھتے.ایک جگہ تو بروز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مان لیا.اس کا قائم مقام خلیفۃ اللہ بن گیا.مگر پھر یہ کیا ہوا کہ جو چھوٹا تھا اسے خود کیوں آنا پڑا؟ وہ مہدی جس کو افاضہ خیر دیا گیا ہے اور جو اکمل ہے اس کو بروزی رنگ میں لاتے اور مسیح ابن مریم کو اس کی بیعت کرانے کے واسطے خود اتارتے ہو.ببیں تفاوت راہ از کجاست تا بکجا # اَلْاَئِـمَّۃُ مِنَ الْقُرَیْشِ کے معنی جب ان سے پوچھا جاوے کہ تم ایک نبی کو اتار کر جو اس کی بیعت مہدی کے ہاتھ پر کراتے ہو یہ کیا بات ہے؟ تو جواب دیتے ہیں کہ کیا کیا جاوے، حدیث میں آیا ہے اَلْاَئِـمَّۃُ مِنَ الْقُرَیْشِ.ہم کہتے ہیں کہ اگر اس حدیث کے وہی معنی ہوں جو تم قرار دیتے ہو تو چاہیے تھا کہ سلطنت روم کے سب باغی ہوتے اگر پیش گوئی کے طور پر بھی نہ سمجھا جاوے.
پھر جو سلطان روم کو خلیفۃ المسلمین قرار دیتے ہیں اس کے کیا معنی ہوئے؟ اصل بات یہ ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو کشفی طور پر دکھایا گیا تھا کہ خلیفہ قریش سے ہوں گے.خواہ حقیقی طور پر یا بروزی طور پر.جیسے دجال کا بروز بتایا.اسی طرح پر سلاطین مغلیہ وغیرہ بروزی طور پر قریش ہی ہیں.خدا نے جو عہد ان کو دیا وہ اس کے متکفل رہے.جب تک خدا نے چاہا وہ سلطنت کرتے رہے.جب تک کوئی بروز کے مسئلہ کو نہیں سمجھتا، اس پیش گوئی کی حقیقت کو سمجھ نہیں سکتا اور آخر اس کو اس پیش گوئی کو جھٹلانا پڑے گا.جب اصل قریش میں استعداد نہ رہی اور اس قوم میں وہ استعداد پائی گئی تو خدا نے وہ عہدہ اس کے حوالہ کیا.یہی وجہ ہے کہ طبعاً سلطان روم کی متابعت اختیار کی اور سچی محبت سے اس کو قبول کیا.یہ تصنّع اور بناوٹ سے نہیں ہوا بلکہ دلوں نے فتویٰ دیا کہ وہ خادم حرمین الشریفین ہے.اظلالی امور ہمیشہ ہوتے ہیں اور ہوں گے یہ معنی ہیں اَلْاَئِـمَّۃُ مِنَ الْقُرَیْشِ کے.غرض یہ دو نام ایک ہی شخص کے تھے.ایک کو افاضہ خیر کا درجہ ملا.دوسرے کو دفع شر.افاضہ خیر چونکہ بڑھ کر ہے اس کو دفع شر پر بزرگی دی جاتی ہے اس لئے اس حیثیت سے وہ خلیفۃ اللہ کہلایا پس جیسے مقابل پر دو خبیث بروز تھے یہ خیر کے بروز تھے.اب اس کے متعلق میں ایک اور نکتہ بیان کرکے اس بیان کو ختم کرنا چاہتا ہوں.عیسیٰ کے نام میں دفع شر کا مفہوم پایا جاتا ہے اور احمدؐ یا محمدؐ کے نام میں افاضۂ خیر کا مفہوم ہے نہایت ہی تعریف کیا گیا.تعریف اس نام پر ہوتی ہے جس کو خیر پہنچاؤ گے وہ بے اختیار تعریف کرے گا.حمد کرنے کے ساتھ لازمی طور پر منعم علیہ ہونا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد اس لئے ہی تھا کہ وہ افاضہ خیر ہے جو خَلق کی طرف کرتا ہے.احمد منعم ہے اور محمد منعم علیہ ہے اور عیسیٰ کے معنی ہیں بچایا گیا ہے.یہ دفع شر کی طرف اشارہ ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا نے وہ قصہ یاد دلایا اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً (البقرۃ:۳۱) اس قصہ میں پیش گوئی ہوتی ہے.اب میں اس کا بیان لمبا کرنا نہیں چاہتا.بس اسی پر ختم کرتا ہوں کہ مسیح اور مہدی دراصل ایک ہی شخص کے دو نام ہیں جو اس کی دو مختلف حیثیتوں
کو ظاہر کرتے ہیں جو دفع شر اور افاضہ خیر ہیں.افسوس ان علماء پر کہ انہوں نے افاضہ خیر کے بروز کو مانا اور دفع شر کے بروز سے انکار کیا.۹۳؎ مرکز میں بار بار آنے کی تاکید دسمبر ۱۸۹۹ء کے جلسہ سالانہ پر بہت کم لوگ آئے.اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بہت اظہار افسوس کیا اور فرمایا.ہنوز لوگ ہمارے اغراض سے واقف نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں کہ وہ بن جائیں.وہ غرض جو ہم چاہتے ہیں اور جس کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے وہ پوری نہیں ہو سکتی جب تک لوگ یہاں بار بار نہ آئیں اور آنے سے ذرا بھی نہ اکتائیں.اور فرمایا.جو شخص ایسا خیال کرتا ہے کہ آنے میں اُس پر بوجھ پڑتا ہے یا ایسا سمجھتا ہے کہ یہاں ٹھیرنے میں ہم پر بوجھ ہوگا اسے ڈرنا چاہیے کہ وہ شرک میں مُبتلا ہے.ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اگر سارا جہان ہمارا عیال ہو جائے تو ہماری مُہمات کا متکفّل خدا تعالیٰ ہے.ہم پر ذرا بھی بوجھ نہیں.ہمیں تو دوستوں کے وجود سے بڑی راحت پہنچتی ہے.یہ وسوسہ ہے جسے دلوں سے دُور پھینکنا چاہیے.میں نے بعض کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہم یہاں بیٹھ کر کیوں حضرت صاحب کو تکلیف دیں.ہم تو نکمے ہیں یُوں ہی روٹی بیٹھ کر کیوں توڑا کریں.وہ یاد رکھیں یہ شیطانی وسوسہ ہے جو شیطان نے اُن کے دلوں میں ڈالا ہے کہ اُن کے پَیر یہاں جمنے نہ پائیں.ایک روز حکیم فضل دین صاحب نے عرض کیا کہ حضور میں یہاں نکما بیٹھا کیا کرتا ہوں.مجھے حکم ہو تو بھیرہ چلا جاؤں وہاں درس قرآن کریم ہی کروں گا.یہاں مجھے بڑی شرم آتی ہے کہ میں حضورؑ کے کسی کام نہیں آتا اور شاید بیکار بیٹھنے میں کوئی معصیت نہ ہو.فرمایا.آپ کا یہاں بیٹھنا ہی جہاد ہے اور یہ بیکاری ہی بڑا کام ہے.غرض بڑے دردناک اور افسوس بھرے لفظوں میں نہ آنے والوں کی شکایت کی اور فرمایا.یہ عذر کرنے والے وہی ہیں جنھوں نے حضور میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلّم کے عذر کیا تھا
اِنَّ بُيُوْتَنَا عَوْرَةٌ اور خدا تعالیٰ نے ان کی تکذیب کر دی کہ اِنْ يُّرِيْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا (الاحزاب:۱۴) فرمایا.ہمارے دوستوں کو کس نے بتایا ہے کہ زندگی بڑی لمبی ہے.موت کا کوئی وقت نہیں کہ کب سر پر ٹوٹ پڑے.اس لیے مناسب ہے کہ جو وقت ملے اُسے غنیمت سمجھیں.فرمایا.یہ ایّام پھر نہ ملیں گے اور یہ کہانیاں رہ جائیں گی.اپنے نفس پر قابو فرمایا.میں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے بیٹھ کر میرے نفس کو گندی سے گندی گالی دیتا رہے آخر وہی شرمندہ ہوگا اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا.لوگوں کی تکالیف اور شرارتوں سے آپ کبھی مرعوب نہیں ہوئے.اس بارہ میں فرمایا.کوئی معاملہ زمین پر واقع نہیں ہوتا جب تک پہلے آسمان پر طے نہ ہو جائے اور خدا تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور وہ اپنے بندہ کو ذلیل اور ضائع نہیں کرے گا.ابتلا کے وقت حضرت اقدسؑ کا حال جالندھر کے مقام میں فرمایا.ابتلا کے وقت ہمیں اندیشہ اپنی جماعت کے بعض ضعیف دلوں کا ہوتا ہے.میرا تو یہ حال ہے کہ اگر مجھے صاف آواز آوے کہ تو مخذول ہے اور تیری کوئی مراد ہم پوری نہ کریں گے تو قسم ہے مجھے اس کی ذات کی اس عشق و محبت الٰہی اور خدمت دین میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی.اس لئے کہ میں تو اسے دیکھ چکا ہوں.پھر یہ پڑھا هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِيًّا (مریم:۶۶) عفو و در گزر اپنے خادم حامد علی کو اپنی ڈاک ڈاکخانہ میں ڈالنے کو دی.اس سے وہ کہیں فراموش ہوگئی.ایک ہفتے کے بعد کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے اس کے برآمد ہونے پر حامد علی کو بلا کر اور خطوط دکھا کر بڑی نرمی سے صرف اتنا کہا.حامد علی.تمہیں نسیان بہت ہوگیا ہے.فکر سے کام کیا کرو.
دین کی ہتک حرمات اللہ کی ہتک آپ کو گوارا نہ تھی.اس بارہ میں فرمایا.میری جائیداد کا تباہ ہونا اور میرے بچوں کا میری آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے ہونا مجھ پر آسان ہے بہ نسبت دین کی ہتک اور استخفاف کے دیکھنے اور اس پر صبر کرنے کے.نیکی کا اخفا اخراجات کے بارہ میں احباب کے خیالات پر آپ نے فرمایا.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کھانے کے متعلق میں اپنے نفس میں اتنا تحمل پاتا ہوں کہ ایک پیسہ پر دو دو وقت بڑے آرام سے بسر کرسکتا ہوں.ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ انسان کہاں تک بھوک کی برداشت کر سکتا ہے.اس کے امتحان کے لئے چھ ماہ تک میں نے کچھ نہ کھایا.کبھی کوئی ایک آدھ لقمہ کھا لیا اور چھ ماہ کے بعد میں نے اندازہ کیا کہ چھ سال تک بھی یہ حالت لمبی کی جاسکتی ہے.اس اثنا میں دو وقت کھانا گھر سے برابر آتا تھا اور مجھے اپنی حالت کا اخفا منظور تھا.اس اخفا کی تدابیر کے لئے جو زحمت مجھے اٹھانی پڑتی تھی شاید وہ زحمت اَوروں کو بھوک سے نہ ہوتی ہوگی.میں وہ دو وقت کی روٹی دو تین مسکینوں میں تقسیم کر دیتا.اس حال میں نماز پانچوں وقت مسجد میں پڑھتا اور کوئی میرے آشناؤں میں سے کسی نشان سے پہچان نہ سکا کہ میں کچھ نہیں کھایا کرتا.مناسبِ حال قویٰ خدا تعالیٰ نے جس کام کے لئے کسی کو پیدا کیا ہے اس کی تیاری اور لوازم اور اس کے سر انجام اور مہمات کے طے کے لئے ان میں قویٰ بھی مناسب حال پیدا کیے ہیں.دوسرے لوگ جو حقیقتاً فطرت کے مقتضا سے وہ قویٰ نہیں رکھتے اور ریاضتوں میں پڑ جاتے ہیں.آخر کار دیوانے اور مخبط الحواس ہو جاتے ہیں.اسی ضمن میں فرمایا.نزول الہام کی کیفیت طبیبوں نے نیند کے لئے طبعی اسباب مقرر کیے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ ہم سے کلام کرے.اس
وقت پوری بیداری میں ہوتے ہیں اور یک دم ربودگی اور غنودگی وارد کر دیتا ہے اور اس جسمانی عالم سے قطعاً باہر لے جاتا ہے اس لئے کہ اس عالم سے پوری مناسبت ہو جائے.پھر یوں ہوتا ہے کہ جب ایک مرتبہ کلام کر چکتا ہے پھر ہوش و حواس واپس دے دیتا ہے اس لئے کہ ملہم اس کلام کو محفوظ کرلے.اس کے بعد پھر ربودگی طاری کرتا ہے پھر یاد کرنے کے لئے بیداری کر دیتا ہے.غرض اس طرح کبھی پچاس دفعہ تک نوبت پہنچ جاتی ہے.وہ ایک تصرفِ الٰہی ہوتا ہے.اس طبعی نیند سے اس کو کوئی تعلق نہیں اور اطباء اور ڈاکٹر اس کی ماہیت کو سمجھ ہی نہیں سکتے.سائل کے لئے بے قراری ایک دن ایک سائل نے بعد فراغتِ نماز جبکہ آپ اندرونِ خانہ تشریف لے جارہے تھے سوال کیا.مگر ہجوم کے باعث اس کی آواز اچھی طرح نہ سنی جا سکی.اندر جا کر واپس تشریف لائے اور خدام کو سوالی کے بلانے کے لئے اِدھر اُدھر دوڑایا مگر وہ نہ ملا.شام کو وہ پھر آیا.اس کے سوال کرنے پر آپ نے اپنی جیب سے نکال کر کچھ دیا.چند یوم بعد کسی تقریب پر فرمایا کہ اس دن جو وہ سائل نہ ملا میرے دل پر ایسا بوجھ تھا کہ مجھے سخت بے قرار کر رکھا تھا اور میں ڈرتا تھا کہ مجھ سے معصیت سر زد ہوئی ہے کہ میں نے سائل کی طرف دھیان نہیں کیا اور یوں جلدی اندر چلا گیا.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ شام کو واپس آگیا ورنہ خدا جانے میں کس اضطراب میں پڑا رہتا اور میں نے دعا بھی کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اسے واپس لاوے.۹۴؎ ۱۸۹۹ء کوئی نسخہ حکمی نہیں ہمارے گھر میں مرزا صاحب (مراد اپنے والد بزرگوار مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم) پچاس برس تک علاج کرتے رہے.وہ اس فن طبابت میں بہت مشہور تھے مگر ان کا قول تھا کہ کوئی حکمی نسخہ نہیں ملا.حقیقت میں انہوں نے سچ فرمایا
کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی ذرّہ جو انسان کے اندر جاتا ہے کچھ اثر نہیں کرسکتا.حکّام اور برادری سے حسن سلوک ایک شخص نے پوچھا کہ حکام اور برادری سے کیسا سلوک کریں.فرمایا.ہر ایک سے نیک سلوک کرو حکّام کی اطاعت اور وفاداری ہر مسلمان کا فرض ہے.وہ ہماری حفاظت کرتے ہیں اور ہر قسم کی مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے.میں اس کو بڑی بے ایمانی سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری سچے دل سے نہ کی جاوے.برادری کے حقوق ہیں.ان سے بھی نیک سلوک کرنا چاہیے البتہ ان باتوں میں جو اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے خلاف ہیں ان سے الگ رہنا چاہیے.ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو اور خدا تعالیٰ کی کل مخلوق سے احسان کرو.دعا اور قضاء و قدر جب اللہ تعالیٰ کا فضل قریب آتا ہے.تو وہ دعا کی قبولیت کے اسباب پہنچا دیتا ہے.دل میں ایک رقت اور سوز و گداز پیدا ہوجاتا ہے لیکن جب دعا کی قبولیت کا وقت نہیں ہوتا تو دل میں اطمینان اور رجوع پیدا نہیں ہوتا.طبیعت پر کتنا ہی زور ڈالو مگر طبیعت متوجہ نہیں ہوتی.اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی خدا تعالیٰ اپنی قضا و قدر منوانا چاہتا ہے اور کبھی دعا قبول کرتا ہے.اس لئے میں تو جب تک اذنِ الٰہی کے آثار نہ پالوں قبولیت کی کم امید کرتا ہوں اور اس کی قضاء و قدر پر اس سے زیادہ خوشی کے ساتھ جو قبولیت دعا میں ہوتی ہے راضی ہو جاتا ہوں، کیونکہ اس رضا بالقضاء کے ثمرات اور برکات اس سے بہت زیادہ ہیں.نسب کا تکبر نیکیوں سے محروم کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا.وہ تو روحانیت اور مغز کو قبول کرتا ہے.اس لئے فرمایا لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ (الـحج:۳۸) اور دوسری جگہ فرمایا اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ (المائدۃ:۲۸) حقیقت میں یہ بڑی نازک جگہ ہے.یہاں پیغمبر زادگی بھی کام نہیں آسکتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بھی ایسا ہی فرمایا
قرآن شریف میں بھی صاف الفاظ میں فرمایا اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ (الـحجرات:۱۴) یہودی بھی تو پیغمبر زادے ہیں.کیا صدہا پیغمبر اُن میں نہیں آئے تھے؟ مگر اس پیغمبر زادگی نے ان کو کیا فائدہ پہنچایا اگر اُن کے اعمال اچھے ہوتے تو وہ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ (البقرۃ:۶۲) کے مصداق کیوں ہوتے.خدا تعالیٰ تو ایک پاک تبدیلی کو چاہتا ہے.بعض اوقات انسان کو تکبر نسب بھی نیکیوں سے محروم کر دیتا ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ میں اسی سے نجات پا لوں گا جو بالکل خیالِ خام ہے.کبیر کہتا ہے کہ اچھا ہوا.ہم نے چماروں کے گھر جنم لیا.کبیر اچھا ہوا ہم نیچے بھلے سب کو کریں سلام.خدا تعالیٰ وفاداری اور صدق کو پیار کرتا ہے اور اعمال صالحہ کو چاہتا ہے.لاف و گزاف اسے راضی نہیں کر سکتے.رفع کے معنی فرمایا.قرآن شریف تو رفع اختلاف کے لئے آیا ہے.اگر ہمارے مخالف رَافِعُكَ اِلَيَّ کے یہ معنی کرتے ہیں کہ مسیحؑ جسم سمیت آسمان پر چڑھ گیا تو وہ ہمیں یہ بتائیں کہ کیا یہود کی یہ غرض تھی؟ اور وہ یہ کہتے تھے کہ مسیح آسمان پر نہیں چڑھا؟ ان کا اعتراض تو یہ تھا کہ مسیح کا رفع الی اللہ نہیں ہوا.اگر رَافِعُكَ اِلَيَّ اس اعتراض کا جواب نہیں تو پھر چاہیے کہ اس اعتراض کا جواب دیا اور دکھایا جاوے.مرکز میں رہائش کی غرض دین ہو ایک مرتبہ کسی دوست نے عرض کی کہ وہ تجارت کے لئے قادیان آنا چاہتا ہے.اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا.یہ نیت ہی فاسد ہے.اس سے توبہ کرنی چاہیے.یہاں تو دین کے واسطے آنا چاہیے اور اصلاح عاقبت کے خیال سے یہاں رہنا چاہیے.نیت تو یہی ہو اور اگر پھر اس کے ساتھ کوئی تجارت وغیرہ یہاں رہنے کی اغراض کو پورا کرنے کے لئے ہو تو حرج نہیں ہے.اصل مقصد دین ہو نہ دنیا.کیا تجارتوں کے لئے شہر موزوں نہیں.یہاں آنے کی اصل غرض کبھی دین کے سوا اور نہ ہو.پھر جو کچھ حاصل ہو جاوے وہ خدا کا فضل سمجھو.ہمدردی خلائق میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں.میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو میں تو یہ چاہتا ہوں کہ نماز
توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں.یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے.اگر تم کچھ بھی اس کے لئے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو.اپنے تو درکنار میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو.لااُبالی مزاج ہر گز نہیں ہونا چاہیے.ایک مرتبہ میں باہر سیر کو جارہا تھا.ایک پٹواری عبد الکریم میرے ساتھ تھا.وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے.راستہ میں ایک بڑھیا کوئی ۷۰ یا ۷۵ برس کی ضعیفہ ملی.اس نے ایک خط اسے پڑھنے کو کہا مگر اس نے اس کو جھڑکیاں دے کر ہٹا دیا.میرے دل پر چوٹ سی لگی.اس نے وہ خط مجھے دیا.میں اس کو لے کر ٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا.اس پر اسے بہت شرمندہ ہونا پڑا کیونکہ ٹھہرنا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا.جماعت کے مستقبل کے بارے میں ایک کشف مجھے بڑے ہی کشف صحیح سے معلوم ہوا ہے کہ ملوک بھی اس سلسلہ میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ وہ ملوک مجھے دکھائے بھی گئے ہیں.وہ گھوڑوں پر سوار تھے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں تجھے یہاں تک برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اللہ تعالیٰ ایک زمانہ کے بعد ہماری جماعت میں ایسے لوگوں کو داخل کرے گا اور پھر ان کے ساتھ ایک دنیا اس طرف رجوع کرے گی.۹۵؎ صُحبت صالحین قرآن شریف میں آیا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشّمس:۱۰) اس نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا.تزکیہ نفس کے واسطے صحبت صالحین
اور نیکوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنا بہت مفید ہے.جھوٹ وغیرہ اخلاق رذیلہ دور کرنے چاہئیں اور جو راہ پر چل رہا ہے اس سے راستہ پوچھنا چاہیے.اپنی غلطیوں کو ساتھ ساتھ درست کرنا چاہیے.جیسا کہ غلطیاں نکالنے کے بغیر املا درست نہیں ہوتا ویسا ہی غلطیاں نکالنے کے بغیر اخلاق بھی درست نہیں ہوتے.آدمی ایسا جانور ہے کہ اس کا تزکیہ ساتھ ساتھ ہوتا رہے تو سیدھی راہ پر چلتا ہے ورنہ بہک جاتا ہے.۹۶؎ خوفِ خدا فرمایا.رات کے وقت جب سب طرف خاموشی ہوتی ہے اور ہم اکیلے ہوتے ہیں، اس وقت بھی خدا کی یاد میں دل ڈرتا رہتا ہے کہ وہ بے نیاز ہے.انکسار فرمایا.جب انسان کو کامیابی حاصل ہوجاتی ہے اور عجز و مصیبت کی حالت نہیں رہتی تو جو شخص اس وقت انکسار کو اختیار کرے اور خدا کو یاد رکھے وہ کامل ہے.چوں بدولت برسی مست نگردی مردی # رؤیائے صادقہ خدا کے وجود پر دلیل ہیں مفتی محمد صادق صاحب نے اپنے گزشتہ رات کے خواب کا ذکر کیا جو صبح پورا ہوا اس پر حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا.جس چیز کا وجود نہیں اور وہ چیز موجود نہیں.اللہ تعالیٰ پہلے سے اس کی خبر دیتا ہے.دہریہ لوگ کیوں اس پر غور نہیں کرتے.ایک الہام فرمایا.مجھے الہام ہوا ہے.گورنر جنرل کی دعاؤں کی قبولیت کا وقت آگیا.فرمایا.’’گورنر جنرل‘‘ سے مراد ’’روحانی عہدہ‘‘ ہے.۹۷؎
۶؍جنوری ۱۹۰۰ء حُسنِ معاشرت عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا.فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں.اور فرمایا.ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں.ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ درحقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے.اس کا شکر یہ ہے کہ عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں.ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بد زبانی کا ذکر ہوا اور شکایت ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے.حضورؑ اس بات سے بہت کبیدہ خاطر ہوئے اور فرمایا.ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہیے.حضور بہت دیر تک معاشرتِ نسواں کے بارہ میں گفتگو فرماتے رہے اور آخر پر فرمایا.میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا.اس کے بعد مَیں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع و خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الٰہی کا نتیجہ ہے.عفوو در گزر ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ محمود ۹۸؎ چار ایک برس کا تھا.حضرت معمولاً اندر بیٹھے لکھ رہے تھے اور مسودات لکھے ہوئے سارے رکھے تھے.میاں محمود دیا سلائی لے کر وہاں تشریف لائے اور آپ کے ساتھ بچوں کا ایک غول بھی تھا.پہلے کچھ دیر تک آپس میں کھیلتے جھگڑتے رہے پھر جو کچھ دل میں آئی ان مسودات کو آگ لگا دی اور آپ لگے خوش ہونے اور تالیاں بجانے.اور حضرت لکھنے میں مصروف ہیں.سر اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے.اتنے میں آگ بجھ گئی اور قیمتی
مسودے راکھ کا ڈھیر ہو گئے اور بچوں کو کسی اور مشغلہ نے اپنی طرف کھینچ لیا.حضرت کو کسی عبارت کا سیاق ملانے کے لئے کسی گزشتہ کاغذ کے دیکھنے کی ضرورت ہوئی.اِس سے پوچھتے ہیں.خاموش.اُس سے پوچھتے ہیں دبکا جاتا ہے.آخر ایک بچہ بول اُٹھا کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دیئے.عورتیں بچے اور گھر کے سب لوگ حیران اور انگشت بد نداں کہ اب کیا ہوگا.....حضرت مسکرا کر فرماتے ہیں.خوب ہوا.اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہوگی اور اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے.اسی طرح ایک دفعہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے ایک مضمون حضرت مسیح موعودؑ کا گم ہو گیا.جس کی تلاش میں انہیں بڑی تشویش ہوئی.جب حضرتؑ کو خبر ملی تو حضورؑ نے آکر مولوی صاحب سے بڑا عذر کیا کہ کاغذ کے گم ہو جانے سے انہیں بڑی تشویش ہوئی.پھر فرمایا.مجھے افسوس ہے کہ اس کی جستجو میں اس قدر دَوادُو اور تگاپو کیوں کیا گیا.میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی بہتر ہمیں عطا فرمائے گا.حیا ایک دفعہ کا ذکر ہے آپ کو سخت سر درد ہو رہا تھا.پاس عورتوں اور بچوں کا شور و غل برپا تھا.مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کی کہ جناب کو اس شور سے تکلیف تو نہیں ہوتی.حضور نے فرمایا.ہاں اگر چپ ہو جائیں تو آرام ملتا ہے.مولوی صاحب نے عرض کی کہ پھر حضور کیوں حکم نہیں فرماتے.حضورؑ نے فرمایا.آپ ان کو نرمی سے کہہ دیں.میں تو کہہ نہیں سکتا.چشم پوشی ایک خادمہ نے گھر سے چاول چرائے اور پکڑی گئی گھر کے سب لوگوں نے اس کو ملامت شروع کر دی.اتفاقاً حضور اقدسؑ کا بھی اس طرف سے گزر ہوا.واقعہ سنائے جانے پر حضورؑ نے فرمایا.محتاج ہے.کچھ تھوڑے سے اسے دے دو اور فضیحت نہ کرو.اور خدا تعالیٰ کی ستاری کا شیوہ
اختیار کرو.خدمتِ خلق دہقانی عورتیں ایک دن بچوں کی دوائی وغیرہ لینے کے لئے آئیں.حضور ان کو دیکھنے اور دوائی دینے میں مصروف رہے.اس پر مولوی عبدالکریم صاحب نے عرض کیا کہ حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح حضور کا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے.اس کے جواب میں حضور نے فرمایا.یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے.یہ مسکین لوگ ہیں.یہاں کوئی ہسپتال نہیں.میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا رکھا کرتا ہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں.یہ بڑا ثواب کا کام ہے.مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پروا نہ ہونا چاہیے.بچوں کو مارنا شرک میں داخل ہے ایک مرتبہ ایک دوست نے اپنے بچے کو مارا.آپ اس سے بہت متاثر ہوئے اور انہیں بلا کر بڑی درد انگیز تقریر فرمائی اور فرمایا.میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شرک میں داخل ہے.گویا بدمزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے.ایک جوش والا آدمی جب کسی بات پر سزا دیتا ہے اشتعال میں بڑھتے بڑھتے ایک دشمن کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور جرم کی حد سے سزا میں کوسوں تجاوز کرجاتا ہے.اگر کوئی شخص خود دار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا اور پورا متحمل اور بُردبار اور باسکون اور باوقار ہو تو اسے البتہ حق پہنچتا ہے کہ کسی وقتِ مناسب پر کسی حد تک بچہ کو سزا دے یا چشم نمائی کرے مگر مغلوب الغضب اور سبک سر اور طائش العقل ہر گز سزا وار نہیں کہ بچوں کی تربیت کا متکفّل ہو.جس طرح اور جس قدر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لئے سوز دل سے دعا کرنے کو ایک حزب مقرر ٹھیرا لیں.اس لئے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے.حضور کی چند دعائیں فرمایا.میں التزاماً چند دعائیں ہر روز مانگا کرتا ہوں.اوّل اپنے نفس کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ خداوند کریم مجھ سے وہ کام لے جس سے
اس کی عزت و جلال ظاہر ہو اور اپنی رضا کی پوری توفیق عطا کرے.دوم.پھر اپنے گھر کے لوگوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ ان سے قرۃ عین عطا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پر چلیں.سوم.پھر اپنے بچوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ یہ سب دین کے خدام بنیں.چہارم.پھر اپنے مخلص دوستوں کے لئے نام بنام.پنجم.اور پھر ان سب کے لئے جو اس سلسلہ سے وابستہ ہیں خواہ ہم انہیں جانتے ہیں یا نہیں جانتے.تربیتِ اولاد فرمایا.حرام ہے مشیخی کی گدی پر بیٹھنا اور پیر بننا اس شخص کو ۹۹؎ جو ایک منٹ بھی اپنے متوسلین سے غافل رہے.فرمایا.ہدایت اور تربیت حقیقی خدا کا فعل ہے.سخت پیچھا کرنا اور ایک اَمر پر اصرار کو حد سے گزار دینا یعنی بات بات پر بچوں کو روکنا اور ٹوکنا یہ ظاہر کرنا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں اور ہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے.یہ ایک قسم کا شرک خفی ہے.اس سے ہماری جماعت کو پرہیز کرنا چاہیے.آپ نے قطعی طور پر فرمایا اور لکھ کر بھی ارشاد کیا کہ ہمارے مدرسہ میں جو استاد مارنے کی عادت رکھتا اور اپنے اس ناسزا فعل سے باز نہ آتا ہو اسے یکلخت موقوف کر دو.فرمایا.ہم تو اپنے بچوں کے لئے دعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آداب تعلیم کی پابندی کراتے ہیں.بس اس سے زیادہ نہیں اور پھر اپنا پورا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں.جیسا کسی میں سعادت کا تخم ہوگا وقت پر سرسبز ہو جائے گا.تکلّفات سے پرہیز جب مہمانوں کی ضرورت کے لئے مکان بنوانے کی ضرورت پیش آئی تو بار بار یہی تاکید فرمائی کہ اینٹوں اور پتھروں پر پیسہ خرچ کرنا عبث ہے.اتنا ہی کام کرو جو چند دن بسر کرنے کی گنجائش ہو جائے.نجار تیر بندیاں اور تختے رندے سے صاف کر رہا تھا.حضور نے اسے روک دیا اور فرمایا.یہ محض تکلّف ہے اور ناحق کی دیر لگانا ہے.مختصر کام کرو.فرمایا.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہمیں کسی مکان سے کوئی اُنس نہیں.ہم اپنے مکانوں کو اپنے
اور اپنے دوستوں میں مشترک جانتے ہیں اور بڑی آرزو ہے کہ مل کر چند روز گزارہ کرلیں.اور فرمایا.میری بڑی آرزو ہے کہ ایسا مکان ہو کہ چاروں طرف ہمارے احباب کے گھر ہوں اور درمیان میرا گھر ہو اور ہر ایک گھر میں میری ایک کھڑکی ہو کہ ہر ایک سے ہر ایک وقت واسطہ و رابطہ رہے.وقت کی قدر تکلفّات میں وقت ضائع کرنا حضورؑ کو ناپسند تھا.اس کے متعلق حضور نے فرمایا.میرا تو یہ حال ہے کہ پاخانہ اور پیشاب پر بھی مجھے افسوس آتا ہے کہ اتنا وقت ضائع جاتا ہے یہ بھی کسی دینی کام میں لگ جائے اور فرمایا.کوئی مشغولی اور تصرف جو دینی کاموں میں حارج ہو اور وقت کا کوئی حصہ لے مجھے سخت ناگوار ہے.اور فرمایا.جب کوئی دینی ضروری کام آپڑے تو میں اپنے اوپر کھانا پینا اور سونا حرام کرلیتا ہوں جب تک وہ کام نہ ہو جائے.فرمایا.ہم دین کے لئے ہیں اور دین کی خاطر زندگی بسر کرتے ہیں.بس دین کی راہ میں ہمیں کوئی روک نہ ہونی چاہیے.خدمت گزاری ایک دفعہ نئے مکان میں چارپائی پڑی ہوئی تھی جس پر مولوی عبدالکریم صاحب سو رہے تھے.وہاں حضور ٹہل رہے تھے.تھوڑی دیر بعد جاگا تو دیکھا کہ حضور فرش پر چار پائی کے نیچے لیٹے ہوئے ہیں.مولوی صاحب ادب سے اٹھ کھڑے ہوئے.حضور نے بڑی محبت سے پوچھا کہ کیوں اٹھ کھڑے ہوئے؟ انہوں نے پاس ادب کا عذر کیا.اس پر حضور نے فرمایا.میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا.لڑکے شور کرتے تھے انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے.خاکساری لوگوں کو حضورؑ سے بات کرنے میں کمال آزادی تھی اور ہر شخص بلا روک ٹوک حضور سے بات چیت کر سکتا تھا.اس بارے میں حضور نے فرمایا کہ میرا یہ مسلک نہیں کہ میں ایسا تُندخُو اور بھیانک بن کر بیٹھوں کہ لوگ مجھ سے ایسے ڈریں جیسے درندہ سے ڈرتے ہیں اور میں بت بننے سے سخت نفرت رکھتا ہوں.میں تو بت پرستی کے رد کرنے کو آیا ہوں نہ یہ کہ میں خود بت بنوں اور لوگ میری پوجا کریں.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں اپنے نفس کو
دوسروں پر ذرا بھی ترجیح نہیں دیتا.میرے نزدیک متکبر سے زیادہ کوئی بُت پرست اور خبیث نہیں.متکبر کسی خدا کی پرستش نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی پرستش کرتا ہے.خلوت پسندی حضرت اقدسؑ خلوت کو بہت پسند فرماتے تھے.اس بارہ میں فرمایا.اگر خدا تعالیٰ مجھے اختیار دے کہ خلوت اور جلوت میں سے تُو کس کو پسند کرتا ہے.تو اس پاک ذات کی قسم ہے کہ میں خلوت کو اختیار کروں.مجھے تو کشاں کشاں میدانِ عالم میں انہوں نے نکالا ہے جو لذّت مجھے خلوت میں آتی ہے اس سے بجز خدا تعالیٰ کے کون واقف ہے.میں قریب ۲۵ سال تک خلوت میں بیٹھا رہا ہوں اور کبھی ایک لحظہ کے لئے بھی نہیں چاہا کہ دربارِ شہرت میں کرسی پر بیٹھوں.مجھے طبعاً اس سے کراہت ہے کہ لوگوں میں مل کر بیٹھوں مگر اَمرِآمر سے مجبور ہوں.فرمایا.میں جو باہر بیٹھتا ہوں یا سیر کرنے جاتا ہوں اور لوگوں سے بات چیت کرتا ہوں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اَمر کی تعمیل کی بنا پر ہے.خادمِ دین ہی ہماری دعاؤں کا مستحق ہے تائید الٰہی پر اگر کوئی قلم اٹھائے یا کوشش کرے تو حضور بڑی قدر کرتے تھے.اس بارہ میں فرمایا.اگر کوئی تائید دین کے لئے ایک لفظ نکال کر ہمیں دے تو ہمیں موتیوں اور اشرفیوں کی جھولی سے بھی زیادہ بیش قیمت معلوم ہوتا ہے.جو شخص چاہے کہ ہم اس سے پیار کریں اور ہماری دعائیں نیاز مندی اور سوز سے اس کے حق میں آسمان پر جائیں.وہ ہمیں اس بات کا یقین دلاوے کہ وہ خادمِ دین ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے.بارہا قسم کھا کر فرمایا ہے کہ ہم ہر ایک شے سے محض خدا تعالیٰ کے لئے پیار کرتے ہیں.بیوی ہو، بچے ہوں دوست ہوں.سب سے ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ کے لئے ہے.۱۰۰؎ عہدِ دوستی کی رعایت میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص ایک دفعہ مجھ سے عہدِ دوستی باندھے.مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے میں اس سے قطع نہیں کر سکتا.ہاں اگر وہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لاچار ہیں
ورنہ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گرا ہوا ہو اور لوگوں کا ہجوم اس کے گرد ہو تو بلا خوف لَوْمَۃَ لَائِم کے اسے اٹھا کر لے آئیں گے.فرمایا.عہدِ دوستی بڑا قیمتی جوہر ہے اس کو آسانی سے ضائع کر دینا نہ چاہیے اور دوستوں سے کیسی ہی نا گوار بات پیش آوے اسے اغماض اور تحمل کے محل میں اتارنا چاہیے.۱۰۱؎ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۰ء سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی نے اپنے کسی ضروری کام کے لئے مدراس واپس جانے کی اجازت طلب کی کیونکہ ان کو واپسی کے لئے تار بھی آیا تھا.اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا.رمضان المبارک میں حضور کی مصروفیات آپ کا اس مبارک مہینہ (رمضان) میں یہاں رہنا از بس ضروری ہے.اور فرمایا.ہم آپ کے لئے وہ دعا کرنے کو تیار ہیں جس سے باذن اللہ پہاڑ بھی ٹل جائے.فرمایا.میں آج کل احباب کے پاس کم بیٹھتا ہوں اور زیادہ حصہ اکیلا رہتا ہوں.یہ احباب کے حق میں از بس مفید ہے.میں تنہائی میں بڑی فراغت سے دعائیں کرتا ہوں اور رات کا بہت سا حصہ بھی دعاؤں میں صرف ہوتا ہے.۱۰۲؎ ۲؍فروری۱۹۰۰ء اسلام ایک پاکیزہ دین عید الفطر کی تقریب پر حضرت اقدس ؑ نے ایک خاص جلسہ اس غرض کے لئے منعقد فرمایا تاکہ جنگ ٹرانسوال کی کامیابی کے لئے دعا کی جاوے اور مسلمانوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کے حقوق اور ان کے فرائض سے آگاہ کیا جاوے.
حضرت اقدس نے عید الفطر کے خطبہ میں مفصّلہ ذیل تقریر فرمائی.مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کا بہت شکر کرنا چاہیے جس نے ان کو ایک ایسا دین بخشا ہے جو علمی اور عملی طور پر ہر ایک قسم کے فساد اور مکروہ باتوں اور ہر ایک نوع کی قباحت سے پاک ہے.حمد کا حقیقی مستحق اللہ تعالیٰ ہے اگر انسان غور اور فکر سے دیکھے تو اس کو معلوم ہوگا کہ واقعی طور پر تمام محامد اور صفات کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی انسان یا مخلوق واقعی اور حقیقی طور پر حمد و ثنا کا مستحق نہیں ہے.اگر انسان بغیر کسی قسم کی غرض کی ملونی کے دیکھے تو اس پر بدیہی طور پر کھل جاوے گا کہ کوئی شخص جو مستحق حمد قرار پاتا ہے وہ یا تو اس لیے مستحق ہو سکتا ہے کہ کسی ایسے زمانہ میں جبکہ کوئی وجود اور وجود کی خبر نہ تھی وہ اس کا پیدا کرنے والا ہو یا اس وجہ سے کہ ایسے زمانہ میں کہ کوئی وجود نہ تھا اور نہ معلوم تھا کہ وجود اور بقاءِ وجود اور حفظِ صحت اور قیام زندگی کے لیے کیا کیا اسباب ضروری ہیں اور اُس نے وہ سب سامان مہیا کیے ہوں یا ایسے زمانہ میں کہ اس پر بہت سی مصیبتیں آسکتی تھیں اُس نے رحم کیا ہو اور اُس کو محفوظ رکھا ہو اور یا اس وجہ سے مستحق تعریف ہو سکتا ہے کہ محنت کرنے والے کی محنت کو ضائع نہ کرے اور محنت کرنے والوں کے حقوق پورے طور پر ادا کرے اگرچہ بظاہر اجرت کرنے والے کے حقوق کا دینا معاوضہ ہے لیکن ایسا شخص بھی محسن ہو سکتا ہے جو پورے طور پر حقوق دے.یہ صفات اعلیٰ درجہ کی ہیں جو کسی کو مستحق حمدوثنا بنا سکتی ہیں.اب غور کرکے دیکھ لو کہ حقیقی طور پر ان سب محامد کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جو کامل طور پر ان صفات سے متصف ہے.اَور کسی میں یہ صفات نہیں ہیں.اوّل دیکھو صفتِ خلق اور پرورش.یہ صفت اگرچہ انسان گمان کر سکتا ہے کہ ماں باپ اور دیگر محسنوں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن اگر انسان زیادہ غور کرے گا تو اُس کو معلوم ہو جاوے گا کہ ماں باپ اور دیگر محسنوں کے اغراض و مقاصد ہوتے ہیں جن کی بنا پر وہ احسان کرتے ہیں.اس پر دلیل یہ ہے کہ مثلاً بچہ تندرست، خوبصورت، توانا پیدا ہو تو ماں باپ کو خوشی ہوتی ہے اور اگر لڑکا ہو تو پھر یہ خوشی اور بھی بڑی ہوتی ہے.شادیانے بجائے جاتے ہیں.لیکن اگر لڑکی ہو تو گویا وہ گھر ماتم کدہ
اور وہ دن سوگ کا دن ہو جاتا ہے اور اپنے تئیں منہ دکھانے کے قابل نہیں سمجھتے.بسا اوقات بعض نادان مختلف تدابیر سے لڑکیوں کو ہلاک کر دیتے یا اُن کی پرورش میں کم التفات کرتے ہیں اور اگر بچہ لُنجا، اندھا، اپاہج پیدا ہو تو چاہتے ہیں کہ وہ مَر جاوے اور اکثر دفعہ تعجب نہیں کہ خود بھی وبالِ جان سمجھ کر مار دیں.میں نے پڑھا ہے کہ یونانی لوگ ایسے بچوں کو عمداً ہلاک کر دیتے تھے بلکہ اُن کے ہاں شاہی قانون تھا کہ اگر کوئی ناکارہ بچہ اپاہج، اندھا وغیرہ پیدا ہو تو اُس کو فوراً مار دیا جاوے.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ انسانی خیالات پرورش اور خبر گیری کے ساتھ ذاتی اور نفسانی اغراض ملے ہوئے ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی اس قدر مخلوق کی (جس کے تصور اور بیان سے وہم اور زبان قاصر ہے اور جو زمین اور آسمان میں بھری پڑی ہے) خَلق اور پرورش سے کوئی غرض ہرگز نہیں ہے.وہ والدین کی طرح خدمت اور رزق نہیں چاہتا بلکہ اُس نے مخلوق کو محض ربوبیت کے تقاضے سے پیدا کیا ہے.ہر ایک شخص مان لے گا کہ بوٹا لگانا پھر آب پاشی کرنا اور اس کی خبر گیری رکھنا اور ثمر دار درخت ہونے تک محفوظ رکھنا ایک بڑا احسان ہے.پس انسان اور اُس کی حالت اور غور و پرداخت پر غور کرو تو معلوم ہوگا کہ خدا تعالیٰ نے کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ اس قدر انقلابات اور بے کسیوں کے تغیرات میں اس کی دستگیری فرمائی ہے.دوسرا پہلو جو ابھی میں نے بیان کیا ہے کہ قبل از پیدائش وجود ایسے سامان ہوں کہ تمدنی زندگی اور قویٰ کے کام کے لیے پورا پورا سامان موجود ہو.دیکھو! ہم ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے کہ سامان پہلے ہی پیدا کر دیا.منور سورج جو اب چڑھا ہوا ہے اور جس کی وجہ سے عام روشنی پھیلی ہوئی ہے اور دن چڑھا ہوا ہے اگر نہ ہوتا تو کیا ہم دیکھ سکتے تھے یا روشنی کے ذریعہ جو فوائد اور منافع ہمیں پہنچ سکتے ہیں ہم کس ذریعہ سے حاصل کر سکتے؟ اگر سورج اور چاند یا اور کسی قسم کی روشنی نہ ہوتی تو بینائی بے کار ہوتی اگرچہ آنکھوں میں ایک قوت دیکھنے کی ہے مگر وہ بیرونی اور خارجی روشنی کے بدوں محض نکمی ہے.پس یہ کس قدر احسان ہے کہ قویٰ سے کام لینے کے لیے اُن ضروری سامانوں کو پہلے سے مہیا کر دیا اور پھر یہ کس قدر رحمت ہے کہ ایسے قویٰ دیئے ہیں اور ان میں بالقوہ استعدادات رکھ دی ہیں جو انسان کی تکمیل اور وصول الی الغایۃ کے لیے از بس ضروری ہیں.دماغ میں، اعصاب میں، عروق میں
ایسے خواص رکھے ہیں کہ انسان اُن سے کام لیتا ہے اور اُن کی تکمیل کرسکتا ہے اس لیے کہ قوتوں کی تکمیل کا سامان ساتھ ہی پیدا کر دیا ہے.یہ تو اندرونی نظام کا حال ہے کہ ہر ایک قوت اُس منشا اور مفاد سے پوری مناسبت رکھتی ہے جس میں انسان کی فلاح ہے اور بیرونی طور پر بھی ایسا ہی انتظام رکھا ہے کہ ہر شخص جس قسم کا حرفہ رکھتا ہے اس کے مناسب حال ادوات و آلات قبل از وجود مہیا کر رکھے ہیں.مثلاً اگر کوئی جوتا بنانے والا ہے تو اس کو چمڑا اور دھاگہ نہ ملے تو وہ کہاں سے لائے اور کیوں کر اپنے حرفہ کی تکمیل کرے؟ اسی طرح درزی کو اگر کپڑا نہ ملے تو کیوں کر سیئے؟ اسی طرح ہر متنفس کا حال ہے.طبیب کیسا ہی حاذق اور عالم ہو لیکن اگر ادویہ نہ ہوں تو وہ کیا کر سکتا ہے؟بڑی سوچ اور فکر سے ایک نسخہ لکھ کر دے گا لیکن بازار میں دوا نہ ملے تو کیا کرے گا؟ کس قدر فضل ہے کہ ایک طرف علم دیا ہے اور دوسری طرف نباتات، جمادات، حیوانات جو مریضوں کے مناسب حال تھے پیدا کر دیئے ہیں اور ان میں قسم قسم کے خواص رکھے ہیں جو ہر زمانہ میں نااندیشیدہ ضروریات کے کام آسکتے ہیں.غرض خدا تعالیٰ نے کوئی چیز بھی غیر مفید پیدا نہیں کی اور جس کے خواص محدود ہوں یہاں تک کہ پسو اور جوں تک بھی غیر مفید نہیں.لکھا ہے کہ اگر کسی کا پیشاب بند ہو تو بعض وقت جوں کو احلیل میں دینے سے پیشاب جاری ہو جاتا ہے.انسان ان اشیاء کی مدد سے کہاں تک فائدہ اٹھاتا ہے.کوئی تصور کر سکتا ہے؟ پھر چوتھی بات پاداش محنت ہے.اس کے لئے بھی خدا کا فضل درکار ہے.مثلاً انسان کس قدر محنت و مشقت سے زراعت کرتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ نہ ہو تو کیوں کر اپنے گھر میں غلّہ لا سکے.اسی کے فضل و کرم سے اپنے وقت پر ہر ایک چیز ہوتی ہے چنانچہ اب قریب تھا کہ اس خشک سالی میں لوگ ہلاک ہو جاتے مگر خدا نے اپنے فضل سے بارش کردی اور بہت سے حصۂ مخلوق کو سنبھال لیا.غرض اوّلًا و بالذّات اکمل اور اعلیٰ مستحق تعریف کا خدا تعالیٰ ہے.اس کے مقابلہ میں کسی دوسرے کا ذاتی طور پر کوئی بھی استحقاق نہیں.سُورۃ النّاس میں تین حقوق کا بیان اگر کسی دوسرے کو استحقاق تعریف کا ہے تو صرف طفیلی طور پر ہے.یہ بھی خدا تعالیٰ کا رحم ہے کہ
باوجودیکہ وہ وحدہ لا شریک ہے مگر اس نے طفیلی طور پر بعض کو اپنے محامد میں شریک کر لیا ہے.جیسے اس سورہ شریفہ میں بیان فرمایا ہے قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ اِلٰهِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ (النّاس:۲تا ۷) اس میں اللہ تعالیٰ نے حقیقی مستحق حمد کے ساتھ عارضی مستحق حمد کا بھی اشارۃً ذکر فرمایا ہے.اور یہ اس لئے ہے کہ اخلاق فاضلہ کی تکمیل ہو چنانچہ اس سورۃ میں تین قسم کے حق بیان فرمائے ہیں.فرمایا.تم پناہ مانگو اللہ کے پاس جو جامع جمیع صفات کاملہ کا ہے اور جو ربّ ہے اور جو مَلِک ہے لوگوں کا اور پھر جو معبود و مطلوب حقیقی ہے لوگوں کا.یہ سورۃ اس قسم کی ہے کہ اس میں اصل توحید کو تو قائم رکھا ہے مگر معًا یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ دوسرے لوگوں کے حقوق بھی ضائع نہ کریں جو ان اسماء کے مظہر ظلّی طور پر ہیں.ربّ کے لفظ میں اشارہ ہے کہ گو حقیقی طور پر خدا ہی پرورش کرنے والا اور تکمیل تک پہنچانے والا ہے.ربُوبیّت کے دو مظہر والدین اور روحانی مرشد لیکن عارضی اور ظلّی طور پر دو اور بھی وجود ہیں جو ربوبیت کے مظہر ہیں.ایک جسمانی طور پر.دوسرا روحانی طور پر.جسمانی طور پر والدین ہیں اور روحانی طور پر مرشد اور ہادی ہے.دوسرے مقام پر تفصیل کے ساتھ بھی ذکر فرمایا ہے وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا (بنی اسـرآءیل: ۲۴) یعنی خدا نے یہ چاہا ہے کہ کسی دوسرے کی بندگی نہ کرو اور والدین سے احسان کرو.حقیقت میں کیسی ربوبیت ہے کہ انسان بچہ ہوتا ہے اور کسی قسم کی طاقت نہیں رکھتا.اس حالت میں ماں کیا کیا خدمات کرتی ہے اور والد اس حالت میں ماں کی مہمات کا متکفّل ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ناتواں مخلوق کی خبرگیری کے لیے دو محل پیدا کردئیے ہیں اور اپنی محبت کے انوار سے ایک پَرتَو محبت کا اُن میں ڈال دیا مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ماں باپ کی محبت عارضی ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت حقیقی ہے اور جب تک قلوب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا القا نہ ہو کوئی فرد بشر خواہ دوست ہو یا کوئی برابر کے درجہ کا ہو یا کوئی حاکم ہو
کسی سے محبت نہیں کر سکتا اور یہ خدا کی کمال ربوبیت کا راز ہے کہ ماں باپ بچوں سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ اُن کے تکفّل میں ہر قسم کے دکھ شرح صدر سے اُٹھاتے ہیں یہاں تک کہ اُن کی زندگی کے لیے مَرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے.پس خدا تعالیٰ نے تکمیل اخلاق فاضلہ کے لیے ربِّ النَّاس کے لفظ میں والدین اور مرشد کی طرف ایما فرمایا ہے تو کہ اس مجازی اور مشہود سلسلہ شکر گزاری سے حقیقی ربّ و ہادی کی شکر گزاری میں لے لئے جائیں.اسی راز کے حل کی یہ کلید ہے کہ اس سورہ شریفہ کو رَبِّ النَّاسِ سے شروع فرمایا ہے اِلٰہِ النَّاسِ سے آغاز نہیں کیا چونکہ مرشد روحانی تربیت خدا تعالیٰ کے منشا کے موافق اس کی توفیق و ہدایت سے کرتا ہے.اس لئے وہ بھی اسی میں شامل ہے.پھر دوسرا ٹکڑا اس میں مَلِکِ النَّاسِ ہے.تم پناہ مانگو خدا کے پاس جو تمہارا بادشاہ ہے.یہ ایک اور اشارہ ہے تا لوگوں کو متمدن دنیا کے اصول سے واقف کیا جاوے اور مہذب بنایا جاوے.حقیقی طور پر تو اللہ تعالیٰ ہی بادشاہ ہے مگر اس میں اشارہ ہے کہ ظلّی طور پر دنیا میں بھی بادشاہ ہوتے ہیں اور اسی لئے اس میں اشارۃً مَلِک وقت کے حقوق کی نگہداشت کی طرف بھی ایما ہے.یہاں کافر اور مشرک اور مؤحّد بادشاہ کسی قسم کی قید نہیں بلکہ عام طور پر ہے.کسی مذہب کا بادشاہ ہو.مذہب اور اعتقاد کے حصے جدا ہیں.قرآن میں جہاں جہاں خدا نے محسن کا ذکر فرمایا ہے وہاں کوئی شرط نہیں لگائی کہ وہ مسلمان ہو اور مؤحّد ہو اور فلاں سلسلہ کا ہو بلکہ عام طور پر محسن کی نسبت فرمایا خواہ وہ کوئی مذہب رکھتا ہو.هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ (الرَّحـمٰن:۶۱) کہ کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا بھی ہو سکتا ہے.سکھوں کا زمانہ ایک آتشی تنور تھا اب ہم اپنی جماعت کو اور تمام سننے والوں کو بڑی صفائی اور وضاحت سے سناتے ہیں کہ سلطنت انگریزی ہماری محسن ہے.اس نے ہم پر بڑے بڑے احسان کیے ہیں.جس کی عمر ۶۰ یا ۷۰ برس کی ہوگی وہ خوب جانتا ہوگا کہ ہم پر سکھوں کا ایک زمانہ گزرا ہے.اس وقت مسلمانوں پر جس قدر آفتیں تھیں وہ پوشیدہ نہیں ہیں.ان کو یاد کرکے بدن پر لرزہ پڑتا ہے اور دل کانپ اٹھتا ہے.اس وقت مسلمانوں کو عبادات اور فرائض مذہبی کی بجا آوری سے جو اُن کو جان سے عزیز تر ہیں روکا گیا تھا.بانگ نماز جو
نماز کا مقدمہ ہے اس کو بآواز بلند پکارنے سے روکا گیا تھا.اگر کبھی مؤذّن کے منہ سے سہواً اَللّٰہُ اَکْبَرُ بآواز بلند نکل جاتا تو اس کو مار دیا جاتا تھا.اسی طرح پر مسلمانوں کے حلال و حرام کے معاملہ میں بےجا تصرف کیا گیا تھا.ایک گائے کے مقدمہ میں ایک دفعہ پانچ ہزار غریب مسلمان قتل کئے گئے.بٹالہ کا واقعہ ہے کہ ایک سید وہیں کا رہنے والا باہر سے دروازہ پر آیا.وہاں گائیوں کا ہجوم تھا.اس نے تلوار کی نوک سے ذرا ہٹایا اور ایک گائے کے چمڑے کو خفیف سی خراش پہنچ گئی.وہ بے چارہ پکڑ لیا گیا.اور اس امر پر زور دیا گیا کہ اس کو قتل کر دیا جائے.آخر بڑی سفارشوں کے بعد اس کا ہاتھ کاٹا گیا.مگر اب دیکھو کہ ہر قوم و مذہب کو کیسی آزادی ہے.ہم صرف مسلمانوں کا ذکر کرتے ہیں.فرائض مذہبی اور عبادات کے بجا لانے میں سلطنت نے پوری آزادی دے رکھی ہے.اور کسی کے مال و جان و آبرو سے کوئی ناحق کا تعرض نہیں.بر خلاف اُس پُر فتن وقت کے کہ ہر ایک شخص کیسا ہی اس کا حساب پاک ہو اپنی جان و مال پر لرزتا رہتا تھا.اب اگر کوئی خود اپنا چلن خراب کرلے اور اپنی بے اندامی اور ارتکاب جرائم سے خود مستوجب عقوبت ٹھہر جائے تو اور بات ہے یا خود ہی سوء اعتقاد اور غفلت کی وجہ سے عبادت میں کوتاہی کرے تو جدا اَمر ہے لیکن گورنمنٹ کی طرف سے ہر طرح کی پوری آزادی ہے.اس وقت جس قدر عابد بننا چاہو بنو کوئی روک نہیں.گورنمنٹ خود معابد مذہبی کی حرمت کرتی ہے اور اُن کی مرمت وغیرہ پر ہزاروں روپیہ خرچ کر دیتی ہے.سکھوں کے زمانہ میں اس کے خلاف یہ حال تھا کہ مسجدوں میں بھنگ گھٹتی تھی اور گھوڑے بندھتے تھے جس کا نمونہ خود یہاں قادیان میں موجود ہے اور پنجاب کے بڑے بڑے شہروں میں اس کے نمونے ملیں گے.لاہور میں آج تک کئی ایک مسجدیں سکھوں کے قبضہ میں ہیں.آج اس کے مقابل میں گورنمنٹ انگلشیہ ان بزرگ مکانوں کی ہر قسم کی واجب عزت کرتی ہے اور مذہبی مکانات کی تکریم اپنے فرائض میں سے سمجھتی ہے جیسا کہ انہی دنوں حضور وائسرائے لارڈ کرزن صاحب بہادر بالقابہ نے دہلی کی جامع مسجد میں جوتا پہن کر جانے کی مخالفت اپنی عملی حالت سے ثابت کر دی اور قابلِ اقتدا نمونہ بادشاہانہ اخلاق فاضلہ کا دیا اور اُن کی ان تقریروں سے جو وقتاً فوقتاً انھوں نے مختلف موقعوں
پر کی ہیں، صاف معلوم ہو گیا ہے کہ وہ مذہبی مکانات کی کیسی عزت کرتے ہیں.پھر دیکھو کہ گورنمنٹ نے کہیں منادات نہیں کی کہ کوئی بآواز بلند بانگ نہ دے یا روزہ نہ رکھے بلکہ انھوں نے ہر قسم کی تغذیہ کے سامان مہیا کیے ہیں جس کا سکھوں کے ذلیل زمانہ میں نام و نشان تک نہ تھا.برف، سوڈا واٹر اور بسکٹ، ڈبل روٹی وغیرہ ہر قسم کی غذائیں بہم پہنچائیں اور ہر قسم کی سہولت دی ہے.یہ ایک ضمنی امداد ہے جو ان لوگوں سے ہمارے شعائر اسلام کو پہنچی ہے.اب اگر کوئی خود روزہ نہ رکھے تو یہ اور بات ہے.افسوس کی بات ہے کہ مسلمان خود شریعت کی توہین کرتے ہیں.چنانچہ دیکھو! جنہوں نے ان دنوں روزے رکھے ہیں وہ کچھ دُبلے نہیں ہو گئے اور جنہوں نے استخفاف کے ساتھ اس مہینہ کو گزارا ہے وہ کچھ موٹے نہیں ہو گئے.اِن کا بھی وقت گزر گیا اور اُن کا بھی زمانہ گزر گیا.جاڑے کے روزے تھے.صرف غذا کے اوقات کی ایک تبدیلی تھی.سات آٹھ بجے نہ کھائی چار پانچ بجے کھالی.باوجود اس قدر رعایت کے پھر بھی بہتوں نے شعائر اللہ کی عظمت نہیں کی اور خدا تعالیٰ کے اس واجب التکریم مہمان ماہِ رمضان کو بڑی حقارت سے دیکھا.اس قدر آسانی کے مہینوں میں رمضان کا آنا ایک قسم کا معیار تھا اور مطیع و عاصی میں فرق کرنے کے لیے یہ روزے میزان کا حکم رکھتے تھے.خدا تعالیٰ کی طرف سے آسانی تھی.سلطنت نے ہر قسم کی آزادی دے رکھی ہے.طرح طرح کے پھل اور غذائیں میسر آتی ہیں.کوئی آسائش و آرام کا سامان نہیں جو آج مہیا نہ ہو سکتا ہو.بایں ہمہ جو پروا نہیں کی گئی اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ دلوں میں خدا پر ایمان نہیں رہا.افسوس خدا کا ایک ادنیٰ بھنگی کے برابر بھی لحاظ نہیں کیا جاتا.گویا یہ خیال ہے کہ خدا سے کبھی واسطہ ہی نہ ہوگا اور نہ اس سے کبھی پالا پڑے گا اور اس کی عدالت کے سامنے جانا ہی نہیں.کاش منکر غور کریں اور سوچیں کہ کروڑوں سُورجوں کی روشنی سے بھی بڑھ کر خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت ہیں.افسوس کی جگہ ہے کہ ایک جوتا کو دیکھ کر یقینی طور پر سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس کا کوئی بنانے والا ہے مگر یہ کس قدر بدبختی ہے کہ خدا تعالیٰ کی بے انتہا مخلوق کو دیکھ کر بھی اس پر ایمان نہ ہو یا ایسا ایمان ہو جو نہ ہونے میں داخل ہے.خدا تعالیٰ کی ہم پر بہت رحمتیں ہیں.ازاں جملہ ایک یہ ہے کہ اس نے ہم کو جلتے
ہوئے تنور سے نکالا.سکھوں کا زمانہ ایک آتشی تنور تھا اور انگریزوں کا قدم رحمت و برکت کا قدم ہے.میں نے سنا ہے کہ جب اوّل ہی اوّل انگریز آئے تو ہوشیار پور میں کسی مؤذن نے اونچی اذان کہی چونکہ ابھی ابتدا تھی اور ہندوؤں اور سکھوں کا خیال تھا کہ یہ بھی اُونچی اذان کہنے پر روکیں گے یاان کی طرح اگر گائے کو کسی سے زخم لگ جاوے تو اس کا ہاتھ کاٹیں گے اس اونچی اذان کہنے والے مؤذن کو پکڑ لیا.ایک بڑا ہجوم ہوگیا اور ڈپٹی کمشنر کے سامنے وہ لایا گیا.بڑے بڑے رئیس مہاجن جمع ہوئے اور کہا حضور! ہمارے آٹے بھرشٹ ہوگئے.ہمارے برتن ناپاک ہوگئے.جب یہ باتیں اس انگریز کو سنائی گئیں تو اسے بڑا تعجب ہوا کہ کیا بانگ میں ایسی خاصیت ہے کہ کھانے کی چیزیں ناپاک ہو جاتی ہیں.اس نے سررشتہ دار سے کہا کہ جب تک تجربہ نہ کر لیا جاوے اس مقدمہ کو نہ کرنا چاہیے چنانچہ اس نے مؤذن کو حکم دیا کہ تو پھر اسی طرح بانگ دے وہ ڈرا کہ شاید دوسرا جرم نہ ہو مگر جب اس کو تسلی دی گئی اس نے اسی قدر زور سے بانگ دی.صاحب بہادر نے کہا کہ ہم کو تو اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچا.سررشتہ دار سے پوچھا کہ تم کو کوئی ضرر پہنچا.اس نے بھی کہا کہ حقیقت میں کوئی ضرر نہیں.آخر اس کو چھوڑ دیا گیا اور کہا گیا جاؤ جس طرح چاہو بانگ دو.اَللّٰہُ اَکْبَرُ! یہ کس قدر آزادی ہے اور کس قدر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے.پھر ایسے احسان پر اور ایسے انعام صریح پر بھی اگر کوئی دل گورنمنٹ انگریزی کا احسان محسوس نہیں کرتا.وہ دل بڑا کافرِ نعمت اور نمک حرام اور سینہ سے چیر کر نکال ڈالنے کے لائق ہے.مذہبی آزادی خود ہمارے اس گاؤں میں جہاں ہماری مسجد ہے.کارداروں کی جگہ تھی.ہمارے بچپن کا زمانہ تھا لیکن میں نے معتبر آدمیوں سے سنا ہے کہ جب انگریزی دخل ہوگیا تو چند روز تک وہی قانون رہا.ایک کاردار آیا ہوا تھا اس کے پاس ایک مسلمان سپاہی تھا.وہ مسجد میں آیا اور مؤذن کو کہا کہ بانگ دے.اس نے وہی گنگنا کر اذان دی.سپاہی نے کہا کہ کیا تم اسی طرح پر بانگ دیتے ہو؟ مؤذن نے کہا ہاں! اسی طرح دیتے ہیں.سپاہی نے کہا کہ نہیں کوٹھے پر چڑھ کر اونچی آواز سے اذان دے اور جس قدر زور سے ممکن ہے دے.وہ ڈرا آخر
اس نے زور سے بانگ دی.تمام ہندو اکٹھے ہوگئے اور مُلّاں کو پکڑ لیا.وہ بے چارہ بہت ڈرا اور گھبرایا کہ کاردار مجھے پھانسی دے دے گا.سپاہی نے کہا کہ میں تیرے ساتھ ہوں.آخر سنگ دل چھری مار برہمن اس کو پکڑ کر کاردار کے پاس لے گئے اور کہا کہ مہاراج! اس نے ہم کو بھرشٹ کر دیا.کاردار تو جانتا تھا کہ سلطنت تبدیل ہوگئی ہے اور اب وہ سکھا شاہی نہیں رہی مگر ذرا دبی زبان سے پوچھا کہ تو نے اونچی آواز سے کیوں بانگ دی؟ سپاہی نے آگے بڑھ کر کہا کہ اس نے نہیں میں نے بانگ دی.کار دار نے کہا کہ کم بختو! کیوں شور ڈالتے ہو.لاہور میں تو اب کھلے طور سے گائے ذبح ہوتی ہے.تم ایک اذان کو روتے ہو.جاؤ چپکے ہو کر بیٹھ رہو.الغرض یہ واقعی اور سچی بات ہے جو ہمارے دل سے نکلتی ہے.جس قوم نے ہم کو تحت الثریٰ سے نکالا ہے اس کا احسان ہم نہ مانیں یہ کس قدر ناشکری اور نمک حرامی ہے.پریس کی سہولت اس کے علاوہ بڑی جہالت پھیلی ہوئی تھی.ایک بڈھے کمّے شاہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے استاد کو دیکھا ہے کہ وہ بڑے تضرّع سے دعا کرتے تھے کہ صحیح بخاری کی ایک دفعہ زیارت ہو جائے اور بعض وقت اس خیال سے کہ کہاں ممکن ہے.دعا کرتے کرتے اُن کی ہچکیاں بندھ جاتی تھیں.اب وہی بخاری دو چار روپیہ میں امرتسر اور لاہور سے ملتی ہے.ایک مولوی شیر محمد صاحب تھے.کہیں دو چار ورق احیاء العلوم کے ان کو مل گئے.کتنی مدت تک ہر نماز کے بعد نمازیوں کو بڑی خوشی اور فخر سے دکھایا کرتے تھے کہ یہ احیاء العلوم ہے اور تڑپتے تھے کہ پوری کتاب کہیں سے مل جائے.اب جا بجا احیاء العلوم مطبوعہ موجود ہے.غرض انگریزی قدم کی برکت سے لوگوں کی دینی آنکھ بھی کھل گئی ہے اور خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اسی سلطنت کے ذریعہ دین کی کس قدر اعانت ہوئی ہے کہ کسی سلطنت میں ممکن ہی نہیں.پریس کی برکت اور قسم قسم کے کاغذ کی ایجاد سے ہر قسم کی کتابیں تھوڑی تھوڑی قیمت پر میسر آسکتی ہیں اور پھر ڈاک خانہ کے طفیل سے کہیں سے کہیں گھر بیٹھے بٹھائے پہنچ جاتی ہیں اور یوں دین کی صداقتوں کی تبلیغ کی راہ کس قدر سہل اور صاف ہوگئی ہے.
مذہبی آزادی کے فوائد پھر منجملہ اور برکات کے جو تائید دین میں اس گورنمنٹ کے عہد میں ملی ہیں.ایک یہ بھی ہے کہ عقلی قویٰ اور ذہنی طاقتوں میں بڑی ترقی ہوئی ہے اور چونکہ گورنمنٹ نے ہر ایک مذہب کو اس کے مذہب کی اشاعت کی آزادی دی ہے.اسی طرح پر لوگوں کو ہر ایک مذہب کے اصول اور دلائل پرکھنے اور ان پر غور کرنے کا موقع مل گیا ہے.اسلام پر جب مختلف مذہب والوں نے حملے کئے تو اہل اسلام کو اپنے مذہب کی تائید اور صداقت کے لئے اپنی مذہبی کتابوں پر غور کرنے کا موقع ملا اور ان کی عقلی قوتوں میں ترقی ہوئی.قاعدہ کی بات ہے کہ جیسے جسمانی قویٰ ریاضت کرنے سے بڑھتے ہیں ایسا ہی روحانی قویٰ بھی ریاضت سے نشوونما پاتے ہیں.جیسا گھوڑا چابک سوار کے نیچے آ کر درست ہوتا ہے اسی طرح سے انگریزوں کے آنے سے مذہب کے اصولوں پر غور کرنے کا موقع ملا اور تدبر کرنے والوں کو استقامت اور استحکام مذہبِ حق میں زیادہ مل گیا اور جس جس موقع پر قرآن کریم کے مخالفوں نے انگشت رکھی وہیں سے غور کرنے والوں کو ایک گنج معارف کا ملا اور اس آزادی کی وجہ سے علم کلام نے معتدبہ ترقی کی اور وہ مخصوصاً اس جگہ ہوئی ہے.اب اگر روم یا شام کا رہنے والا خواہ وہ کیسا ہی عالم و فاضل کیوں نہ ہو آجاوے تو وہ عیسائیوں کے یا آریوں کے اعتراضات کا کافی جواب نہ دے سکے گا کیونکہ اس کو ایسی آزادی اور وسعت کے ساتھ مختلف مذاہب کے اصولوں کے موازنہ کرنے کا موقع نہیں ملا.غرض جیسے جسمانی طور پر گورنمنٹ انگلشیہ سے ملک میں امن ہوا ایسے ہی روحانی امن بھی پوری طرح پھیلا.چونکہ ہمارا تعلق دینی اور روحانی باتوں سے ہے اس لئے ہم زیادہ تر ان امور کا ذکر کریں گے جو فرائض مذہب کے ادا کرنے میں گورنمنٹ کی طرف سے ہم کو بطور احسان ملے ہیں.عبادات بجا لانے کی شرائط پس یاد رکھنا چاہیے کہ انسان پوری آزادی اور اطمینان کے ساتھ عبادات کو تب ہی بجا لا سکتا ہے کہ اس میں چار شرطیں موجود ہوں اور وہ یہ ہیں.اوّل.صحت.اگر کوئی شخص ایسا ضعیف ہو کہ چار پائی سے اٹھ نہ سکے وہ صوم و صلوٰۃ کا کیا پابند
ہوسکتا ہے.اسی طرح پر حج زکوٰۃ وغیرہ بہت سے ضروری امور کی بجا آوری سے قاصر رہے گا.اب دیکھنا چاہیے کہ گورنمنٹ کے طفیل سے ہم کو صحت جسمانی کے بحال رکھنے کے لئے کس قدر سامان ملے ہیں.ہر بڑے شہر اور قصبہ میں کوئی نہ کوئی ہسپتال ضرور ہے جہاں مریضوں کا علاج نہایت دل سوزی اور ہمدردی سے کیا جاتا ہے اور دوا، غذا وغیرہ مفت دی جاتی ہیں.بعض بیماروں کو ہسپتال میں رکھ کر ایسے طور پر ان کی نگہداشت اور غور و پرداخت کی جاتی ہے کہ کوئی اپنے گھر میں بھی ایسی آسانی اور سہولت اور آرام کے ساتھ علاج نہیں کر سکتا.حفظانِ صحت کا ایک الگ محکمہ بنا رکھا ہے جس پر کروڑ ہا روپیہ سالانہ خرچ ہوتا ہے.قصبات اور شہروں کی صفائی کے بڑے بڑے سامان بہم پہنچائے ہیں.گندے پانی اور موادِ رَدّیہ مضر صحت کے دفع کرنے کے لئے الگ انتظام ہیں.پھر ہر قسم کی سریع الاثر ادویہ طیار کرکے بہت کم قیمت پر مہیا کی جاتی ہیں یہاں تک کہ ہر ایک آدمی چند دوائیں اپنے گھر میں رکھ کر بوقت ضرورت علاج کر سکتا ہے.بڑے بڑے میڈیکل کالج جاری کرکے طبّی تعلیم کو کثرت سے پھیلایا یہاں تک کہ دیہات میں بھی ڈاکٹر ملتے ہیں.بعض خطرناک امراض چیچک، ہیضہ، طاعون وغیرہ کے دفعیہ کے لئے الگ محکمے ہیں.جو ابھی طاعون کے متعلق جس قدر کاروائی گورنمنٹ کی طرف سے عمل میں آئی ہے وہ بہت ہی کچھ شکر گزاری کے قابل ہے.غرض صحت کے لحاظ سے گورنمنٹ نے ہر قسم کی ضروری امداد دی ہے اور اس طرح پر عبادت کے لئے پہلی اور ضروری شرط پورا کرنے کے واسطے بہت بڑی مدد دی ہے.دوسری شرط ایمان ہے.اگر خدا تعالیٰ اور اس کے احکام پر ایمان ہی نہ رہا ہو اور اندر ہی اندر بے دینی اور الحاد کا جذام لگ گیا ہو پھر بھی تعمیل احکامِ الٰہی نہیں ہوتی.جیسے بہت لوگ کہتے ہیں ’’ایہہ جگ مٹھا تے اگلا کن ڈٹھا.‘‘ افسوس ہے دو آدمیوں کی شہادت پر ایک مجرم کو پھانسی مل سکتی ہے مگر باوجودیکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اور بے انتہا ولیوں کی شہادت موجود ہے لیکن ابھی تک اس قسم کا الحاد ان لوگوں کے دلوں سے نہیں گیا.ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ اپنے مقتدر نشانوں اور معجزات سے اَنَا الْمَوْجُوْد کہتا ہے مگر یہ کم بخت کان رکھتے ہوئے بھی نہیں سنتے.غرض یہ شرط بھی بہت بڑی ضروری
شرط ہے.اس کے لئے بھی ہمیں گورنمنٹ انگلشیہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ ایمان و اعتقاد پختہ کرنے کے لئے عام تعلیم مذہبی کی ضرورت تھی اور مذہبی تعلیم کا انحصار مذہبی کتابوں کی اشاعت سے وابستہ تھا.پریس، ڈاکخانہ کی برکت سے ہر قسم کی مذہبی کتابیں مل سکتیں ہیں اور اخبارات کے ذریعہ تبادلہ خیالات کا موقع ملتا ہے.سعید الفطرت لوگوں کے لئے بڑا بھاری موقع حاصل ہے کہ ایمان و اعتقاد میں رسوخ حاصل کریں.ان باتوں کے علاوہ جو ضروری اور اشد ضروری بات ایمان کے رسوخ کے لئے ہے وہ خدا تعالیٰ کے نشانات ہیں جو اس شخص کے ہاتھ پر سرزد ہوتے ہیں جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر آتا ہے اور اپنے طرز عمل سے گمشدہ صداقتوں اور معرفتوں کو زندہ کرتا ہے.سو خدا کا شکر کرنا چاہیے کہ اس نے اس زمانہ میں جس کو پھر ایمان زندہ کرنے کے لئے مامور کیا اور اس لئے بھیجا کہ تا لوگ قوت یقین میں ترقی کریں وہ بھی اسی مبارک گورنمنٹ کے عہد میں آیا.وہ کون؟ وہی جو تم میں کھڑا ہوا بول رہا ہے.چونکہ یہ مسلّم بات ہے کہ جب تک پورے طور پر ایمان نہ ہو نیکی کے اعمال انسان علیٰ وجہ الاتم بجا نہیں لا سکتا.جس قدر کوئی پہلو یا کنگرہ ایمان کا گرا ہوا ہو اسی قدر انسان اعمال میں سست اور کمزور ہوگا.اس بنا پر ولی وہ کہلاتا ہے جس کا ہر پہلو سالم ہو اور وہ کسی پہلو سے کمزور نہ ہو.اس کی عبادات اکمل و اتم طور پر صادر ہوتی ہیں.غرض دوسری شرط ایمان کی سلامتی ہے.تیسری شرط انسان کے لئے طاقت مالی ہے.مساجد کی تعمیر اور امور متعلقہ اسلام کی بجاآوری مالی طاقت پر منحصر ہے.اس کے سوا تمدنی زندگی اور تمام امور کا اور خصوصاً مساجد کا انتظام بہت مشکل سے ہوتا ہے.اب اس پہلو کے لحاظ سے گورنمنٹ انگلشیہ کو دیکھو.گورنمنٹ نے ہر قسم کی تجارت کو ترقی دی.تعلیم پھیلا کر ملک کے باشندوں کو نوکریاں دیں اور بڑے بڑے عہدے دیئے.سفر کے وسائل بہم پہنچا کر دوسرے ملکوں میں جاکر روپیہ کما لانے میں مدد دی.چنانچہ ڈاکٹر، پلیڈر، عدالتوں کے عہدہ دار، سررشتہ تعلیم وغیرہ بہت سے ذریعوں سے لوگ معقول روپیہ کماتے ہیں اور تجارت کرنے والے سوداگر قسم قسم کے تجارتی مال ولایت اور دور دراز ملکوں افریقہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں جاکر مالا مال ہو کر آتے ہیں.غرض روز گار عام کر دیا اور روپیہ کمانے کے بہت سے
ذریعے پیدا کر دیئے.چوتھی شرط امن ہے.یہ امن کی شرط انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہے.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اس کا انحصار علی الخصوص سلطنت پر رکھا گیا ہے.جس قدر سلطنت نیک نیت اور اس کا دل کھوٹ سے پاک ہوگا اسی قدر یہ شرط زیادہ صفائی سے پوری ہوگی.اب اس زمانہ میں امن کی شرط اعلیٰ درجہ پر پوری ہو رہی ہے.میں خوب یقین رکھتا ہوں کہ سکھوں کے زمانہ کے دن انگریزوں کے زمانہ کی راتوں سے بھی کم درجہ پر تھے.یہاں سے قریب ہی بوٹر ایک گاؤں ہے.وہاں اگر کوئی عورت جایا کرتی تھی تو رو رو کر جایا کرتی تھی کہ خدا جانے پھر واپس آنا ہوگا یا نہیں.اب یہ حالت ہے کہ زمین کی انتہا تک چلا جاوے کسی قسم کا خطرہ نہیں.سفر کے وسائل ایسے آسان کر دیئے ہیں کہ ہر ایک قسم کا آرام حاصل ہے.گویا گھر کی طرح ریل میں بیٹھا ہوا یا سویا ہوا جہاں چاہے چلا جاوے.مال و جان کی حفاظت کے لئے پولیس کا وسیع صیغہ موجود ہے.حقوق کی حفاظت کے لئے عدالتیں کھلی ہیں.جہاں تک چاہے چلا جاوے.یہ کس قدر احسان ہیں جو ہماری عملی آزادی کا موجب ہوئے ہیں.پس اگر ایسی حالت میں جب کہ جسم و روح پر بے انتہا احسان ہو رہے ہیں ہم میں صلح کاری اور شکر گزاری کا مادہ پیدا نہیں ہوتا تو تعجب کی بات ہے!! جو مخلوق کا شکر نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرسکتا.وجہ کیا ہے؟ اس لئے کہ وہ مخلوق بھی تو خدا ہی کا فرستادہ ہوتا ہے اور خدا ہی کے ارادہ کے تحت میں چلتا ہے.الغرض یہ سب امور جو میں نے بیان کئے ہیں ایک نیک دل انسان کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ ایسے محسن کا شکر گزار ہو.یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار اپنی تصنیفات میں اور اپنی تقریروں میں گورنمنٹ انگلشیہ کے احسانوں کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ ہمارا دل واقعی اس کے احسانات کی لذّت سے بھرا ہوا ہے.احسان فراموش نادان اپنی منافقانہ فطرتوں پر قیاس کرکے ہمارے اس طریق عمل کو جو صدق اخلاص سے پیدا ہوتا ہے جھوٹی خوشامد پر حمل کرتے ہیں.سچی توحید اب میں پھر اصل بات کی طرف عود کرکے بتلانا چاہتا ہوں کہ پہلے اس صورت میں خدا تعالیٰ نے رَبّ النَّاس فرمایا پھر مَلِکِ النَّاس آخر میں اِلٰہِ النَّاس فرمایا جو
اصلی مقصود اور مطلوب انسان کا ہے.اِلٰہ کہتے ہیں معبود، مقصود، مطلوب کو لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے معنی یہی ہیں کہ لَا مَعْبُوْدَ لِیْ وَلَا مَقْصوْدَ لِیْ وَلَا مَطْلُوْبَ لِیْ اِلَّا اللّٰہُ.یہی سچی توحید ہے کہ ہر مدح و ستائش کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی کو ٹھیرایا جاوے.خَنَّاس کون ہے؟ پھر فرمایا مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ (النّاس:۵) یعنی وسوسہ ڈالنے والے خَنَّاس کے شر سے پناہ مانگو.خَنَّاس عربی میں سانپ کو کہتے ہیں جسے عبرانی میں نحاش کہتے ہیں اس لئے کہ اس نے پہلے بھی بدی کی تھی.یہاں ابلیس یا شیطان نہیں فرمایا تا کہ انسان کو اپنی ابتدا کی ابتلا یاد آوے کہ کس طرح شیطان نے ان کے اَبَوَیْن کو دھوکا دیا تھا.اس وقت اس کا نام خَنَّاس ہی رکھا گیا تھا.یہ ترتیب خدا نے اس لئے اختیار فرمائی ہے تا کہ انسان کو پہلے واقعات پر آگاہ کرے کہ جس طرح شیطان نے خدا کی اطاعت سے انسان کو فریب دے کر روگرداں کیا ویسے ہی وہ کسی وقت مَلِک وقت کی اطاعت سے بھی عاصی اور روگرداں نہ کرا دے.یوں انسان ہر وقت اپنے نفس کے ارادوں اور منصوبوں کی جانچ پڑتال کرتا رہے کہ مجھ میں مَلِک وطن کی اطاعت کس قدر ہے اور کوشش کرتا رہے اور خدا تعالیٰ سے دعا مانگتا رہے کہ کسی مدخل سے شیطان اس میں داخل نہ ہو جائے.اب اس سورۃ میں جو اطاعت کا حکم ہے وہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کا حکم ہے کیونکہ اصلی اطاعت اسی کی ہے مگر والدین، مرشد و ہادی اور بادشاہ وقت کی اطاعت کا بھی حکم ہے کیونکہ ان کی اطاعت کا بھی حکم خدا ہی نے دیا ہے اور اطاعت کا فائدہ یہ ہو گا کہ خَنَّاس کے قابو سے بچ جاؤ گے.پس پناہ مانگو کہ خَنَّاس کی وسوسہ اندازی کے شر سے محفوظ رہو کیونکہ مومن ایک ہی سوراخ سے دو مرتبہ نہیں کاٹا جاتا.ایک بار جس راہ سے مصیبت آئے دوبارہ اس میں نہ پھنسو.پس اس سورۃ میں صریح اشارہ ہے کہ بادشاہ وقت کی اطاعت کرو.خَنَّاس میں خواص اسی طرح ودیعت رکھے گئے ہیں جیسے خدا تعالیٰ نے درخت، پانی، آگ وغیرہ چیزوں اور عناصر میں خواص رکھے ہیں.عنصر کا لفظ اصل میں عن سر ہے.عربی میں ص اور س کا بدل ہو جاتا ہے.یعنی یہ چیز اسرار الٰہی میں سے ہے.درحقیقت یہاں آکر انسان کی تحقیقات رک جاتی ہے.
غرض ہر ایک چیز خدا ہی کی طرف سے ہے.خواہ وہ بسائط کی قسم سے ہو خواہ مرکبات کی قسم سے.جبکہ یہ بات ہے کہ ایسے بادشاہوں کو بھیج کر اس نے ہزار ہا مشکلات سے ہم کو چھڑایا اور ایسی تبدیلی بخشی کہ ایک آتشی تنور سے نکال کر ایسے باغ میں پہنچا دیا جہاں فرحت افزا پودے ہیں اور ہر طرف ندیاں جاری ہیں اور ٹھنڈی خوش گوار ہوائیں چل رہی ہیں پھر کس قدر ناشکری ہوگی اگر کوئی اس کے احسانات کو فراموش کر دے.خاص کر ہماری جماعت کو جس کو خدا نے بصیرت دی ہے اور اُن میں نفاق نہیں ہے کیونکہ انہوں نے جس سے تعلق پیدا کیا ہے اس میں نفاق نہیں شکر گزاری کا بڑا عمدہ نمونہ بننا چاہیے.جماعت احمدیہ کی ایمانی فراست مجھے کامل یقین ہے کہ میری جماعت میں نفاق نہیں ہے اور میرے ساتھ تعلق پیدا کرنے میں ان کی فراست نے غلطی نہیں کی اس لئے کہ میں درحقیقت وہی ہوں جس کے آنے کو ایمانی فراست نے ملنے پر متوجہ کیا ہے اور خدا تعالیٰ گواہ اور آگاہ ہے کہ میں وہی صادق اور امین اور موعود ہوں جس کا وعدہ لوگوں کو ہمارے سید و مولیٰ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے دیا گیا تھا مگر جنہوں نے مجھ سے تعلق پیدا نہیں کیا وہ اس نعمت سے محروم ہیں.فراست گویا ایک کرامت ہے.یہ لفظ فراست بفتح الفاء بھی ہے اور بکسر الفاء بھی.زبر کے ساتھ اس کے معنی ہیں گھوڑے پر چڑھنا.مومن فراست کے ساتھ اپنے نفس کا چابک سوار ہوتا ہے.خدا کی طرف سے اس کو نور ملتا ہے.جس سے وہ راہ پاتا ہے.اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِتَّقُوْا فَرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ یعنی مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ نور اللہ سے دیکھتا ہے.غرض ہماری جماعت کی فراست حقّہ کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے خدا کے نور کو شناخت کیا.نیکی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کرو اسی طرح میں امید رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت عملی حالت میں ترقی کرے گی کیونکہ وہ منافق نہیں ہے اور وہ ہمارے مخالفوں کے اس طرز عمل سے بالکل پاک ہے کہ جب حکام سے ملتے ہیں
تو ان کی تعریفیں کرتے ہیں اور جب گھر میں آتے ہیں تو کافر بتلاتے ہیں.سنو اور یاد رکھو کہ خدا اس طرز عمل کو پسند نہیں فرماتا.تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو اور محض خدا کے لئے رکھتے ہو.نیکی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کرو اور بدی کرنے والوں کو معاف کرو.کوئی شخص صدیق نہیں ہو سکتا جب تک وہ یک رنگ نہ ہو.جو منافقانہ چال چلتا ہے اور دورنگی اختیار کرتا ہے وہ آخر پکڑا جاتا ہے.مثل مشہور ہے.دروغ گورا حافظہ نباشد.اس وقت میں ایک اور ضروری بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ سلاطین کو اکثر مہمیں پیش آتی ہیں اور وہ بھی رعایا ہی کے بچاؤ اور حفاظت کے لئے ہوتی ہیں.تم نے دیکھا ہے کہ ہماری گورنمنٹ کو سرحد پر کئی بار جنگ کرنا پڑی ہے گو سرحدی لوگ مسلمان ہیں مگر ہمارے نزدیک وہ حق پر نہیں ہیں.ان کا انگریزوں کے ساتھ جنگ کرنا کسی مذہبی حیثیت اور پہلو سے درست نہیں ہے اور نہ وہ حقیقتاً مذہبی پہلو سے لڑتے ہیں.کیا وہ بتلا سکتے ہیں کہ گورنمنٹ نے مسلمانوں کو آزادی نہیں دے رکھی؟ بے شک دے رکھی ہے اور ایسی آزادی دے رکھی ہے جس کی نظیر کابل اور نواح کابل میں رہ کر بھی نہیں مل سکتی.امیر کے حالات اچھے سننے میں نہیں آتے.ان سرحدی مجنونوں کے لڑنے کی کوئی وجہ بجز پیٹ کے نہیں ہے.دس بیس روپے مل جاویں تو وہ غازی پن غرق ہو جاتا ہے.یہ لوگ ظالم طبع ہیں جو اسلام کو بدنام کرتے ہیں.بادشاہ اور محسن کے حقوق اسلام بادشاہ وقت اور محسن کے حقوق قائم کرتا ہے.یہ دنی ُّالطبع لوگ اپنے پیٹ کی خاطر حدود اللہ کو توڑتے ہیں اور ان کی رذالت اور سفاہت اور سفاکی کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ ایک روٹی کے لئے باآسانی ایک انسان کا خون کر دیتے ہیں.ایسا ہی آج کل ہماری گورنمنٹ کو ٹرانسوال کی ایک چھوٹی سی جمہوری سلطنت کے ساتھ مقابلہ ہے.وہ سلطنت پنجاب سے بڑی نہیں ہے اور یہ سراسر اس کی حماقت ہے کہ اس قدر بڑی سلطنت کے ساتھ مقابلہ شروع کیا ہے لیکن اس وقت جب کہ مقابلہ شروع ہو گیا ہے ہر ایک مسلمان کا حق ہے کہ انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعا کرے.ہم کو ٹرانسوال سے کیا غرض؟ جس کے ہم پر ہزاروں احسان ہیں ہمارا فرض ہے کہ اس کی خیر خواہی کریں.ایک ہمسایہ کے اتنے حقوق ہیں کہ
اس کی تکلیف سن کر اس کا پِتّا پانی ہو جاتا ہے تو کیا اب ہمارے دلوں کو سرکار انگلشیہ کے وفادار سپاہیوں کے مصائب پڑھ کر صدمہ نہیں پہنچتا.میرے نزدیک وہ بڑا سیاہ دل ہے جسے گورنمنٹ کے دکھ اپنے دکھ معلوم نہیں ہوتے.یاد رکھو جذام کئی قسم کے ہوتے ہیں.ایک جذام جسم کو لگ جاتا ہے جس کو کوڑھ کہتے ہیں.اور ایک جذام روح کو لگ جاتا ہے.ہمارے یہاں ایک شخص بازار میں رہا کرتا تھا.اگر کوئی مقدمہ کسی پر ہو جاتا تو پوچھا کرتا تھا کہ مقدمہ کی کیا صورت ہے؟ اگر کسی نے کہہ دیا کہ وہ بری ہو گیا یا اچھی صورت ہے تو اس پر آفت آجاتی اور چپ ہو جاتا اگر کوئی کہہ دیتا کہ فرد قرارداد جرم لگ گئی تو بہت خوش ہوتا اور اس کو پاس بٹھا کر سارا قصہ سنتا.غرض بعض آدمیوں کی فطرت میں بداندیشی کا مادہ ہوتا ہے کہ وہ بری خبریں سننا چاہتے ہیں اور کسی کی برائی پر خوش ہوتے ہیں.چونکہ شیطان کی سیرت ان کے اندر ہوتی ہے.پس بدخواہی کسی انسان کی بھی اچھی نہیں چہ جائیکہ محسن کی ہو لہٰذا میں اپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ وہ ایسے لوگوں کا نمونہ اختیار نہ کریں بلکہ پوری ہمدردی اور سچی خیر خواہی کے ساتھ برٹش گورنمنٹ کی کامیابی کے لئے دعا کریں اور عملی طور پر بھی وفاداری کے نمونے دکھائیں.مُحسِن کا شکر کرو ہم یہ باتیں کسی صلہ یا انعام کی خاطر نہیں کرتے.ہم کو صلہ اور انعام اور دنیوی خطابات سے کیا غرض.ہماری نیات کو علیم خدا خوب جانتا ہے کہ ہمارا کام محض اس کے لئے اور اسی کے اَمر سے ہے.اسی نے ہم کو تعلیم دی ہے کہ محسن کا شکر کرو.ہم اس شکر گزاری میں اپنے مولا کریم کی اطاعت کرتے ہیں اور اسی سے انعام کی امید رکھتے ہیں.سو تم جو میری جماعت ہو اپنی محسن گورنمنٹ کی خوب قدر کرو.اب میں چاہتا ہوں کہ ٹرانسوال کی جنگ کے لئے ہم دعا کریں.(اس کے بعد حضرت اقدس نے نہایت جوش اور خلوص کے ساتھ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور سب حاضرین نے جن کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز تھی.دعا کی.) ۱۰۳؎
۱۱؍اپریل۱۹۰۰ء یوم العرفات کو دعا یوم العرفات کو علی الصبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بذریعہ ایک خط کے حضرت مولانا نور الدین صاحب کو اطلاع دی کہ میں آج کا دن اور رات کا کسی قدر حصہ اپنے اور اپنے دوستوں کے لئے دعا میں گزارنا چاہتا ہوں اس لئے وہ دوست جو یہاں موجود ہیں اپنا نام اور جائے سکونت لکھ کر میرے پاس بھیج دیں تاکہ دعا کرتے وقت مجھے یاد رہے.اس پر تعمیل ارشاد میں ایک فہرست احباب کی ترتیب دے کر حضورؑ کی خدمت میں بھیج دی گئی.اس کے بعد اور احباب باہر سے آگئے جنہوں نے زیارت و دعا کے لئے بے قراری ظاہر کی اور رقعے بھیجنے شروع کر دیئے.حضور نے دوبارہ اطلاع بھیجی کہ میرے پاس کوئی رقعہ وغیرہ نہ بھیجے.اس طرح پر سخت حرج ہوتا ہے.مغرب اور عشاء میں حضور تشریف لائے جو جمع کرکے پڑھی گئیں.بعد فراغت فرمایا.چونکہ میں خدا تعالیٰ سے وعدہ کر چکا ہوں کہ آج کا دن اور رات کا حصہ دعاؤں میں گزاروں اس لئے میں جاتا ہوں تا کہ تخلّفِ وعدہ نہ ہو.یہ فرما کر حضور تشریف لے گئے اور دعاؤں میں مشغول ہو گئے.دوسری صبح عید کے دن مولوی عبدالکریم صاحب نے اندر جا کر تقریر کرنے کے لئے خصوصیت سے عرض کی.اس پر حضور نے فرمایا.خدا نے ہی حکم دیا ہے.اور پھر فرمایا کہ رات الہام ہوا ہے کہ مجمع میں کچھ عربی فقرے پڑھو.میں کوئی اور مجمع سمجھتا تھا.شاید یہی مجمع ہو.۱۰۴؎
۱۲؍اپریل ۱۹۰۰ء حضرت اقدس ؑ کی دلی آرزُو حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دلی آرزُو اور تمنّا رہتی ہے کہ ہمارے احباب کو یہاں دارالامان میں بار بار آنے کا موقع ملے اور اس طرح پر یہاں رہ کر ہر ایک شخص کو اپنے تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطنی اور تجلیۂ رُوح کے لئے عملی ہدایتیں مل سکیں.اس غرض کے پورا کرنے کے لئے آپؑ نے سال میں تین جلسے مقرر کر رکھے ہیں.عیدین اور بڑے دن کی تعطیلوں میں.روئداد جلسہ عیدالاضحیہ درج ذیل ہے.آنحضرتؐ اور مسیح موعودؑ کی عیدالاضحیہ سے مناسبت فرمایا.آج عیدالضحٰی کا دن ہے اور یہ عید ایک ایسے مہینے میں آتی ہے جس پر اسلامی مہینوں کا خاتمہ ہوتا ہے.یعنی پھر محرم سے نیا سال شروع ہوتا ہے.یہ ایک سِرّ کی بات ہے کہ ایسے مہینہ میں عید کی گئی ہے جس پر اسلامی مہینہ کا یا زمانہ کا خاتمہ ہے.اور یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اس کو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آنے والے مسیحؑ سے بہت مناسبت ہے.وہ مناسبت کیا ہے؟ ایک یہ کہ ہمارے نبی کریم محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم آخر زمانہ کے نبی تھے اور آپؐ کا وجود باجود اور وقت بعینہٖ گویا عیداضحٰی کا وقت تھا چنانچہ یہ اَمر مسلمانوں کا بچہ بچہ بھی جانتا ہے کہ آپؐ نبی آخرالزمان تھے اور یہ مہینہ بھی آخرالشہور ہے اس لیے اس مہینہ کو آپؐ کی زندگی اور زمانہ سے مناسبت ہے.دوسری مناسبت.چونکہ یہ مہینہ قربانی کا مہینہ کہلاتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حقیقی قربانیوں کا کامل نمونہ دکھانے کے لئے تشریف لائے تھے.جیسے آپ لوگ بکری، اُونٹ، گائے، دُنبہ ذبح کرتے ہو ایسا ہی وہ زمانہ گزرا ہے کہ آج سے تیرہ سو سال پیشتر خدا تعالیٰ کی راہ میں انسان ذبح ہوئے.حقیقی طور پر عیداضحی وہی تھی اور اُسی میں ضحٰی کی روشنی تھی.قربانی کی حقیقت یہ قربانیاں اس کا لُب نہیں پوست ہیں.روح نہیں جسم ہیں.اس سہولت اور آرام کے زمانہ میں ہنسی خوشی سے عید ہوتی ہے اور عید کی انتہا ہنسی خوشی
اور قسم قسم کے تعیشات قرار دئیے گئے ہیں.عورتیں اسی روز تمام زیورات پہنتی ہیں.عمدہ سے عمدہ کپڑے زیب تن کرتی ہیں.مرد عمدہ پوشاکیں پہنتے ہیں اور عمدہ سے عمدہ کھانے بہم پہنچاتے ہیں اور یہ ایسا مسرت اور راحت کا دن سمجھا جاتا ہے کہ بخیل سے بخیل انسان بھی آج گوشت کھاتا ہے.خصوصاً کشمیریوں کے پیٹ تو بکروں کے مدفن ہو جاتے ہیں.گو اور لوگ بھی کمی نہیں کرتے.الغرض ہر قسم کے کھیل کود، لہو، لعب کا نام عید سمجھا گیا ہے مگر افسوس ہے کہ حقیقت کی طرف مطلق توجہ نہیں کی جاتی.عیدالاضحیہ کی حقیقت درحقیقت اس دن میں بڑا سر یہ تھا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جس قربانی کا بیج بویا تھا اور مخفی طور پر بویا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے لہلہاتے کھیت دکھائے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے ذبح کرنے میں خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں دریغ نہ کیا.اس میں مخفی طور پر یہی اشارہ تھا کہ انسان ہمہ تن خدا کا ہو جائے اور خدا کے حکم کے سامنے اُس کی اپنی جان، اپنی اولاد، اپنے اقربا و اعزا کا خون بھی خفیف نظر آوے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو ہر ایک پاک ہدایت کا کامل نمونہ تھے کیسی قربانی ہوئی.خونوں سے جنگل بھر گئے.گویا خون کی ندیاں بہہ نکلیں.باپوں نے اپنے بچوں کو، بیٹوں نے اپنے باپوں کو قتل کیا اور وہ خوش ہوتے تھے کہ اسلام اور خدا کی راہ میں قیمہ قیمہ اور ٹکڑے بھی کیے جاویں تو ان کی راحت ہے.مگر آج غور کرکے دیکھو کہ بجز ہنسی اور خوشی اور لہو و لعب کے روحانیت کا کونسا حصہ باقی ہے.یہ عید اضحی پہلی عید سے بڑھ کر ہے اور عام لوگ بھی اس کو بڑی عید تو کہتے ہیں مگر سوچ کر بتلاؤ کہ عید کی وجہ سے کس قدر ہیں جو اپنے تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور روحانیت سے حصہ لیتے ہیں اور اُس روشنی اور نور کو لینے کی کوشش کرتے ہیں جو اس ضحی میں رکھا گیا ہے.عید رمضان اصل میں ایک مجاہدہ ہے اور ذاتی مجاہدہ ہے اور اس کا نام بذل الروح ہے.مگر یہ عید جس کو بڑی عید کہتے ہیں ایک عظیم الشان حقیقت اپنے اندر رکھتی ہے اور جس پر افسوس! کہ توجہ نہیں کی گئی.خدا تعالیٰ نے جس کے رحم کا ظہور کئی طرح پر ہوتا ہے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہ بڑا بھاری رحم کیا ہے کہ اور اُمتوں میں جس قدر باتیں پوست اور
قشر کے رنگ میں تھیں اُن کی حقیقت اس اُمت مرحومہ نے دکھلائی ہے.سورۃ الفاتحہ میں جو خدا تعالیٰ کی یہ چار صفات بیان ہوئی ہیں کہ رَبُّ الْعَالَمِیْن، اَلرَّحْـمٰن، اَلرَّحِیْم، مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن اگرچہ عام طور پر یہ صفات اس عالم پر تجلّی کرتی ہیں لیکن اُن کے اندر حقیقت میں پیشگوئیاں ہیں جن پر کہ لوگ بہت کم توجہ کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ صفات الٰہیّہ کے حقیقی مظہر صرف آنحضرتؐ تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چاروں صفتوں کا نمونہ دکھایا.کیونکہ کوئی حقیقت بغیر نمونہ کے سمجھ میں نہیں آسکتی.رب العالمین کی صفت نے کس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں نمونہ دکھایا؟ آپؑ نے عین ضعف میں پرورش پائی.کوئی موقع مدرسہ مکتب نہ تھا جہاں آپؐ اپنے روحانی اور دینی قویٰ کو نشو و نما دے سکتے.کبھی کسی تعلیم یافتہ قوم سے ملنے کا موقع ہی نہ ملا.نہ کسی موٹی سوٹی تعلیم کا ہی موقع پایا اور نہ فلسفہ کے باریک اور دقیق علوم کے حاصل کرنے کی فرصت ملی.پھر دیکھو کہ باوجود ایسے مواقع کے نہ ملنے کے قرآن شریف ایک ایسی نعمت آپؐ کو دی گئی جس کے علوم عالیہ اور حقّہ کے سامنے کسی اور علم کی ہستی ہی کچھ نہیں.جو انسان ذرا سی سمجھ اور فکر کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھے گا اس کو معلوم ہو جاوے گا کہ دنیا کے تمام فلسفے اور علوم اُس کے سامنے ہیچ ہیں اور سب حکیم اور فلاسفر اس سے بہت پیچھے رہ گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتر دو عظیم الشان نبی گزرے ہیں.ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام دوسرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام.مگر ان دونوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا.اُن میں سے کسی کی نسبت نبی اُمی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا گیا.یہ تحدّی اور دعویٰ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ہوا چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَ لَا الْاِيْمَانُ وَ لٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِيْ بِهٖ مَنْ نَّشَآءُ مِنْ عِبَادِنَا (الشورٰی:۵۳) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو گویا شاہزادوں کی طرح تعلیم پائی تھی اور فرعون کی گود میں شاہانہ نشوونما پایا.ان کے لیے اتالیق مقرر کیے گئے کیونکہ اس زمانہ میں بھی اتالیق مقرر ہوتے تھے اور اگر
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فقر نہ ملتا تو گویا فرعون کے بعد گدّی نشین آپؑ ہی تھے اور اگر خدا کا فضل نہ ہوتا تو نعوذ باللہ آپؑ کو فرعون بھی بننا تھا.یاد رہے کہ فرعون کا لفظ بُرا نہیں.اصل میں شاہانِ مصر کا یہ لقب تھا.جس طرح پر قیصر و کسریٰ شاہان روم و ایران کا لقب تھا اور جس طرح پر آج زار روس اور سلطان روم کا لقب ہے.میرا مطلب اس بیان سے صرف یہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ یہ دوسرا سلسلہ نہ شروع کر دیتا تو ضرور تھا کہ وہی تخت نشین ہوتے اور یہ بھی سچی بات ہے کہ گو موسٰی کی ماں کو بھی ایک درد اور دکھ پہنچا تھا کہ جیتی جان کو دریا میں ڈالا لیکن اُس کی راحت اور مسرت کی کیا انتہا ہو سکتی ہے جب کہ خود خدا تعالیٰ نے موسٰی کی واپسی کا اس کو وعدہ دیا تھا.الغرض موسٰی کی تعلیم تو یوں شاہانہ رنگ میں ہوئی.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم بھی باقاعدہ ہوئی.میرے پاس ایک یہودی مصنف کی کتاب ہے.اس نے صاف اور واضح طور پر لکھا ہے بلکہ مسیحؑ کے اُستاد کا نام تک بتایا ہے اور پھر زد بھی کی ہے کہ اسی وقت سے توریت اور صحف انبیاء کے مضامین پسند آئے تھے اور جو کچھ انجیل میں ہے وہ صحف انبیاء سے زائد نہیں.اس نے بتلایا ہے کہ ایک مدت دراز تک وہ یہود کے شاگرد رہے تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کسی یہودی، نصاریٰ، ہندی سے پوچھو کہ آپ نے بھی کہیں تعلیم پائی تھی تو وہ صاف کہے گا کہ ہر گز نہیں!!! کتنی بڑی ربوبیت کا مظہر ہے.انسان جب بچپن کی حالت سے آگے نکلتا ہے جو بلوغ سے پہلے ہے تو عام طور پر مکتب میں بٹھا دیاجاتا ہے.یہ پہلا قدم ہوتا ہے مگر آپؐ کی زندگی کا پہلا قدم ہی گویا اعجاز تھا.چونکہ آپؐ کو خاتم الانبیاء ٹھیرایا تھا اس لیے آپؐ کے وجود میں حرکات و سکنات میں بھی اعجاز رکھ دیئے تھے.آپؐ کی طرز زندگی کہ ا.ب تک نہیں پڑھا اور قرآن جیسی بے نظیر نعمت لائے اور ایسا عظیم الشان معجزہ امت کو دیا.پہلے نبی آئے اور ایک خاص وقت تک دنیا میں رہ کر چل دئیے اور دین وہیں کالعدم ہو گیا اور خدا کو ان کا محو کرنا ہی منظور تھا مگر اس دین کے اظلال و آثار کا قیام منظور تھا اور چونکہ کوئی دین معجزات کے بدوں رہ نہیں سکتا ورنہ چند روز تک سماعی باتوں
پر یقین رہتا ہے پھر کہہ دیتے ہیں کہ ’’ایہہ جہاں مٹھا تے اگلا کن ڈٹھا.‘‘ اس لیے خدا نے چاہا کہ اسلام کے ساتھ زندہ معجزہ ہو.صداقتِ اسلام کا نشان کس قوت اور تحدّی اور تعیین سے بتایا گیا تھا اور اس ذریعہ سے اسلام کا نور ابد تک درخشاں رہے چنانچہ اس زندہ نور کی تصدیق کے لئے اس زمانہ میں ہی دیکھو کہ لیکھرام کے قتل ہونے سے پیشتر کہ وہ چھ سال کے اندر ہلاک ہو جاوے گا.غور کرو کہ وقت، مدت، صورت موت کا بتا دینا کیا انسان کے اپنے اختیار میں ہے اور پھر وہ اسی طرح مارا گیا جیسا کہ دعویٰ کیا گیا تھا.جب یہ پیش گوئی کی گئی تھوڑے ہی عرصہ میں کروڑہا انسانوں میں مشہور ہوگئی.ہندو، مسلمان، عیسائی، سکھ ہر قوم و ملت کے لوگ اس سے واقف ہوگئے.یہاں تک کہ عام بازاری لوگوں سے لے کر گورنمنٹ تک کو اطلاع ہوگئی اور خود آریوں نے بڑے زور و شور کے ساتھ اس کو مشتہر کیا اور جہاں لیکھرام خود جاتا اس پیشگوئی کا ذکر کرتا اور شہرت دیتا اور جب پیشگوئی پوری ہوئی تو ایک عام شور برپا ہوگیا یہاں تک کہ ہماری بھی خانہ تلاشی ہوئی تاکہ اس کی صداقت اور شہرت اس خاص ذریعہ سے اور بھی ہو اور یہ نشان ہمیشہ صفحہ دہر پر ثبت رہے.پھر مقدمات کے دوران میں سرکاری کاغذات اور مثلوں میں اس پیشگوئی کے متعلق بیانات اور کاغذات درج اور شامل ہوئے.الغرض یہ ایسا عظیم الشان نشان ہے جس کی نظیر کوئی قوم دکھلا نہیں سکتی.کیا کسی انسانی طاقت اور فراست کا کام ہے کہ وہ کسی کی نسبت چار دن کی خبر بھی دے کہ فلاں وقت پر فلاں موت سے مَر جاوے گا مگر یہاں چھ سال پہلے وقت، صورت موت وغیرہ سے اطلاع دی گئی حالانکہ وہ تیس برس کا ایک مضبوط جوان آدمی تھا اور اس نے بھی تو میری نسبت کہا کہ میں تین سال کے اندر ہیضہ سے مَر جاؤں گا اور میں اس کی نسبت عمر میں بہت بڑا اور ضعیف اور قریباً دائم المریض تھا مگر خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ کی چمکار دکھلائی اور اس کو ہلاک کرکے اپنے سچے دین کی صداقت پر مہر کر دی.
آریوں میں خدا شناسی نہیں اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ جو آریہ کہلاتے ہیں اصلاً خدا کو پہچانتے ہی نہیں.پھر ان میں خدا شناسی اور خدا بینی اور خدا نمائی کی قوت کیوں کر پیدا ہو.ان کا تو پہلا قدم ہی غلط ہے.ان کے نزدیک تو مرنا جینا، عورت یا مرد ہونا، بکری یا بیل بننا یہ سب کچھ شامت اعمال کا نتیجہ ہے.جب کہ یہ جنم اور اشیاء اعمال ہی کا نتیجہ ہیں تو پھر خدا کیا اور اس کے وجود کے اثبات کے لیے نئے نئے نشان اور معجزات کیا اور ان کی ضرورت ہی کیا رہی.ان کا مذہب ہے کہ خدا پیدا کرنے والا نہیں بلکہ صرف جوڑنے جاڑنے والا ہے.جیسے معمار یا کمہار ہوتے ہیں.مادہ موجود تھا.ارواح بھی اتفاق سے موجود تھیں.پر میشر نے جھٹ جوڑ جاڑ کر مخلوق بنا لی نعوذباللہ.مگر ہم پوچھتے ہیں کہ جب کہ ارواح اور ذرّات قدیم سے موجود ہیں تو اس پر کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ جوڑنا جاڑنا پرمیشر کے بدوں نہ ہو بلکہ طبعی طور پر دلیل تو یہ ملتی ہے کہ اشیاء کو طبعی طور پر تجاذب کی طرف میلان ہوتا ہے.اگر یہ تجاذب اور کشش نہ ہو تو نہ اینٹ بن سکے اور نہ مکان رہ سکے اور نہ کوئی اور چیز دنیا میں موجود بوجود رہ سکے.پس جب کہ آریہ لوگوں کے عقیدہ کے موافق روح اور مادہ قدیم سے ہیں اور طبیعات سے دلیل ملتی ہے کہ تجاذب کا خاصّہ تو آریوں کو پرمیشر سے تو فراغت اور فرصت ہوگئی.اب آریہ کے پاس پرمیشر کے ہونے کا کیا ثبوت اور نشان ہے.ایک طرف تو یہ ناپاکی ہے کہ خدا ہی کا پتہ نہیں چہ جائیکہ خدا بینی اور خدا نمائی کی راہیں بیان کر سکیں.پھر یہ ظلم عظیم کہ ہر قسم کی چیزوں میں روحیں اعمال کا بدلہ پانے کے لئے آتی ہیں.کبھی سؤر بنتے ہیں، کبھی کتا، کبھی بلی وغیرہ.تناسخ اس پر سوال ہوتا ہے کہ اگر کسی کی ماں مَر جاوے جب کہ وہ ابھی بچہ ہی تھا اور اس نے کسی دوسری جگہ پر جنم لیا اور جب دونوں بلوغ کو پہنچے اور باہم ناطہ رشتہ ہو کر بیاہ ہوگیا اور ہم بستری ہو کر اولاد کا سلسلہ چلا.اس سے تو بڑی بے شرمی اور پرلے درجہ کی بے حیائی کی بنیاد پڑی اور نہایت قابل شرم مذہب یہ مذہب ٹھہر گیا.پرمیشر نے کوئی فہرست تو دی نہیں کہ اس قسم کے نشان
سے ماں بہن شناخت ہو جائے گی اور حق تو یہ تھا کہ وید کے ذمہ یہ فرض تھا کہ جہاں اس نے یہ پاکیزگی اور اخلاق کی جڑ کاٹنے والا مسئلہ ایجاد کیا تھا اگر اسے کوئی سوجھ اور سوچ بچار کی طاقت ہوتی تو ساتھ ہی علامات بھی بیان کر دیتا.جس سے ایسے رشتوں سے اجتناب کرنے کی کلید ہاتھ میں آریوں کے آجاتی مگر ضروری تھا کہ وید کی تعلیم کی پیشانی پر نقص کا داغ لگا رہتا تو کہ ہر زمانہ میں تدبر کرنے والے اس کے بطلان میں پہچانے جا سکیں.ایک طرف تو یہ حال ہے کہ نانی اور نانی کی بھی پڑ نانی تک کے رشتہ میں ناطہ نہیں کرتے اور ہم لوگوں میں جو چچا یا ماموں کی بیٹی سے رشتہ کرتے ہیں اس پر اعتراض کرتے ہیں.مگر دوسری طرف آپ ماں بہن کے بیاہ لانے پر کوئی دلیل نہیں دیتے.یا تو ہزاروں کوس چلے گئے یا ماں بہن کو بھی بیاہ لائے.کسی قوم میں ایسا اندھیر نہیں.افسوس ان کے پرمیشر نے ان کو ناپاکی میں تو ڈال دیا اور پھر کوئی فہرست بھی نہ دی اور نہ بتایا کہ فلاں گدھے یا بیل سے کام نہ لینا.یہ تیرے فلاں رشتہ دار ہیں.اور فلاں فلاں علامت والی عورت سے رشتہ نہ کرنا کہ وہ تیری حقیقی ماں یا دادی یا خالہ یا بہن یا بھتیجی جنم لے کر دوبارہ آئی ہے.اصل میں یہ لوگ تو معذور ہیں.یہ سارا ظلم پرمیشر کی گردن پر جس نے فہرست نہ دی.نیوگ پھر تیسری ناپاکی جو ویدوں کی تعلیم کا عرق اور گل سر سبد بتائی گئی ہے نیوگ ہے.جس کی تفسیر یہ ہے کہ ایک عورت جیتے جاگتے خاوند کے روبرو گیارہ آدمیوں سے ہم بستر ہو سکتی ہے.اگر مرد عورت جوان ہوں اور چند سال شادی پر گزر جاویں اور اولاد نہ ہو تو دوسرے کا نطفہ لینے کے لئے عورت اس سے ہم بستر ہو اس لئے کہ بدوں اولاد کے سُرَگ کا ملنا محال ہے اور دیوث شوہر کو لازم ہے کہ بیرج داتا کے لئے عمدہ معجونات اور لطیف مقویات طیار کرائے تا کہ وہ تھک نہ جاوے اور کوئی ضعف اسے لاحق نہ ہو جائے اور وید کی رو سے بستر، رضائی اور چارپائی سب اسی کی ہو اور غذا بھی اسی کی کھاوے اور نصف بچے بھی لے لیوے.سوچو! یہ کیسا خاوند ہے کہ ایک کوٹھری میں آپ دیوث ہے اور دوسری کوٹھری میں اس کی بیاہتا بیوی غیر مرد سے منہ کالا کرا رہی ہے اور آریہ ان کی حرکات کی آوازیں سنتا ہے اور دل میں خوش ہو رہا ہے کہ اب اس پانی سے اس کی امید کا کھیت
ہرا بھرا ہو جائے گا.حیف ہے ایسے مذہب پر! خدا پر وہ ظلم!! عزت و آبرو پر یہ ظلم!!!وید ایسے کاموں کی اجازت دیتا ہے کہ ناپاک سے ناپاک آدمی بھی ان کے ارتکاب سے شرم کرتے ہیں.دیانند نے لکھا ہے کہ یہ شبھ کرم یعنی مبارک کام بیچ میں ترک ہو گیا تھا.اب آریہ ورت کے آریہ جاری کریں کہ اس میں ثواب ملتا ہے.ہم کو ضرورت نہیں کہ اس کو طول دیں.آریوں کی کتب مذہبی اور معتقدات کو کوئی دیکھے اور خود ان ہی بزرگوں سے پوچھ دیکھے.امید ہے کہ بڑے فخر سے اس فعل عجیب کی خوبیاں بیان کریں گے.اسلام کی پاکیزہ تعلیم ان تمام مذاہب کو سامنے رکھ کر اور ان کی تعلیمات و عقائد کی خوب چھان بین کر کر اسلام کی ضرورت اور عزت محسوس ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کے عظیم فضل کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس نے اسلام کو ایسے ناپاک عقیدوں سے پاک رکھا اور اس کی تعلیم کے ہر شعبہ میں کمال اور اعجاز کا جلوہ دکھایا چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم میں قصاص پر بڑا زور تھا کہ دانت کے بدلے دانت، کان کے بدلے کان، آنکھ کے بدلے آنکھ ہو اور مسیح علیہ السلام کی تعلیم میں اس بات پر زور تھا کہ بدی کا مقابلہ نہ کیا جاوے.اگر کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسری بھی پھیر دے.کوئی ایک کوس بیگار لے جاوے تو دو کوس چلا جاوے.کرتہ مانگے تو چادر بھی دے دے.وغیرہ وغیرہ.اب ہم کو دکھلاؤ کہ کیا کوئی پادری اس پر عمل بھی کرتا ہے؟ کوئی کسی پادری کے منہ پر طمانچہ مار کر تو دیکھ لے.یقیناً دوسرا گال پھیرنے کی بجائے کچہری میں گھسیٹ کر لے جائے گا اور ہر قسم کے جھوٹ اور فریب سے سزا دلوانے کی فکر کرے گا مگر اسلام نے یہ تعلیم نہیں دی بلکہ وہ پاک تعلیم دی جو دنیا کی جان ہے اور انسان فطرتاً اس پر عمل کرتا ہے اور وہ یہ ہے جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ (الشورٰی: ۴۱) یعنی بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے لیکن اگر کوئی عفو کرے مگر وہ عفو بے محل نہ ہو بلکہ اس عفو سے اصلاح مقصود ہو تواس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے.مثلاً اگر چور کو چھوڑ دیا جائے تو وہ دلیر ہو کر ڈاکہ زنی کرے گا اس کو سزا ہی دینی چاہیے.لیکن اگر دو نوکر ہوں اور ایک ان میں سے ایسا ہو کہ ذرا سی چشم نمائی ہی
اس کو شرمندہ کر دیتی ہے اور اس کی اصلاح کا موجب ہوتی ہے تو اس کو سخت سزا مناسب نہیں مگر دوسرا عمداً شرارت کرتا ہے اس کو عفو کریں تو بگڑتا ہے اس کو سزا ہی دی جاوے تو بتاؤ کہ مناسب حکم وہ ہے جو قرآن حکیم نے دیا ہے یا وہ جو انجیل پیش کرتی ہے؟قانون قدرت کیا چاہتا ہے؟ وہ تقسیم اور رویت محل چاہتا ہے.یہ تعلیم کہ عفو سے اصلاح مد نظر ہو ایسی تعلیم ہے جس کی نظیر نہیں اور اسی پر آخر متمدّن انسان کو چلنا پڑتا ہے اور یہی تعلیم ہے جس پر عمل کرنے سے انسان میں قوت اجتہاد اور تدبر اور فراست بڑھتی ہے.گویا یوں کہا گیا ہے کہ ہر طرح کی شہادت سے دیکھو اور فراست سے غور کرو.اگر عفو سے فائدہ ہو تو معاف کرو لیکن اگر خبیث اور شریر ہے تو پھر جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا پر عمل کرو.اسی طرح پر اسلام کی دوسری پاک تعلیمات ہیں جو ہر زمانہ میں روز روشن کی طرح ظاہر ہیں.آفتاب پر بھی کسی وقت بادل آجاتا ہے اور بظاہر ایک قسم کا دھندلا سا نظر آتا ہے لیکن اسلام کا چہرہ اس سے بھی مصفّا ہے.عدم معرفت نے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے اور بغض کی نظر سے دیکھتے ہیں.اس لئے موتیا بند کی حالت سے بھی گئے گزرے ہیں پھر کیا فیصلہ کریں؟ عیسائیت کے عقائد جس قدر مذہب دنیا میں موجود ہیں سب کے سب بے برکت اور بے نور اور مُردہ ہیں اور پاک تعلیم سے بے بہرہ محض ہیں.ہندوؤں نے مذہب کا وہ نمونہ دکھایا.عیسائیوں نے یہ نمونہ دکھایا کہ ایک عاجز بندہ کو خدا بنا دیا جس نے یہودیوں جیسی تباہ حال قوم سے جو ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ (البقرۃ:۶۲) کی مصداق تھی ماریں کھائیں اور آخر صلیب پر لٹکایا گیا اور ان کے عقیدہ کے موافق ملعون ہو کر ایلی ایلی لما سبقتنی کہتے ہوئے جان دے دی.غور تو کرو کہ کیا ایسی صفات والا کبھی خدا ہو سکتا ہے؟ وہ تو خدا پرست بھی نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ وہ خود خدا ہو.عیسائی دکھاتے ہیں کہ اس کی وہ ساری رات کی پُر سوز دعا محض بے اثر گئی.اس سے زیادہ بے برکتی کا ثبوت کیا ہو سکتا ہے؟ اور اس سے کیا توقع ہو سکتی ہے کہ وہ دوسروں کے لئے شفیع ہو سکتا ہے؟ ہم کو یاد نہیں کہ دو گھنٹے بھی دعا کے لئے ملے ہوں اور وہ دعا قبول نہ ہوئی ہو.ابن اللہ بلکہ خود خدا کا معاذ اللہ یہ حال ہے کہ ساری رات رو رو کر چلّا چلّا کر خود بھی دعا
کرتا رہا اور دوسروں سے بھی دعا کراتا رہا اور کہتا رہا کہ اے خدا! تیرے آگے کوئی چیز اَن ہونی نہیں اگر ہو سکے تو یہ پیالہ ٹل جائے مگر وہ دعا قبول ہی نہیں ہوتی.اگر کوئی کہے کہ وہ کفّارہ ہونے کے واسطے آئے تھے اس لئے یہ دعا قبول نہیں ہوئی ہے.ہم کہتے ہیں کہ جب ان کو معلوم تھا کہ وہ کفارہ کے لئے آئے ہیں پھر اس قدر بزدلی کے کیا معنی ہیں؟ اگر ایک افسر طاعون کی ڈیوٹی پر بھیجا جائے اور وہ کہہ دے کہ یہاں خطرہ کا محل ہے مجھے فلاں جگہ بھیج دو تو کیا وہ احمق نہ سمجھا جائے گا.جبکہ مسیح کو معلوم تھا کہ وہ صرف کفارہ ہی ہونے کو بھیجے گئے ہیں تو اس قدر لمبی دعاؤں کی کیا ضرورت تھی؟ ابھی کیا کفارہ زیر تجویز اَمر تھا یا ایک مقرر شدہ اَمر تھا.غرض ایک داغ ہو.دو داغ ہوں.جس پر بے شمار داغ ہوں کیا وہ خدا ہو سکتا ہے؟ خدا تو کیا وہ تو عظیم الشان انسان بھی نہیں ہو سکتا.یہودیت یہودی بے چارے خود ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ کے مصداق.ان کی وہ حالت تھی کہ صورت ببیں حالش مپرس.دنیا پرستی کے سوا کچھ جانتے ہی نہیں.ہمارے یہاں ایک اسرائیلی محمد سلمان مسلمان ہوا ہے اس سے پوچھو.یہودیوں نے کھانے پینے کے سوا اور کوئی مقصود ہی نہیں رکھا.خدا کی قدرت ہے جب ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ کی حالت آئی تو وہ افعال بھی آگئے جو ذلّت کے جالب اور ذلّت کے نتائج تھے.اگر وہ تائب ہو جاتے تو پھر ضُرِبَتْ کیوںکر صادق آتا.اس پیش گوئی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شامت اعمال ان کے گلے کا ہار ہی رہے گی.مرد صالح کے ساتھ ذلّت اور بے رزقی نہیں ہوتی.خدا کا نام عزیز ہے.خدا میں ہو کر زندگی بسر کرنے والا ذلیل ہو نہیں سکتا.یہودیوں کی زندگی اگر ناپاکیوں کا مجموعہ نہ تھی تو پھر ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ کی مار ان پر کیوں کر پڑتی؟ اس پر خوب غور کرو.اس کے اندر یہ مخفی اسرار ہیں اور پتا ملتا ہے کہ یہودی قوم کے اطوار بگڑ جاویں گے.اب ان مذاہب پر نظر ڈال کر صدقِ دل سے بتاؤ کہ کیا اسلام کے سوا کوئی اور طریق ہے جس سے تمہارے دل ٹھنڈے ہو سکتے ہیں.کیا ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ کے مصداق یہودیوں سے کوئی روشنی اور نور پا سکتے ہو؟ کیا ایسے عیسائی جو ایک عاجز، کمزور، ناتواں، نامراد انسان کو خدا بناتے ہیں کوئی
کامیابی کسی کو دے سکتے ہیں؟ جس کی اپنی ساری رات کی دعائیں اکارت اور بےسود گئی ہیں وہ دوسروں کی دعاؤں پر کون سے ثمرات مرتب کر سکتا ہے؟ جو خود ایلی ایلی لما سبقتنی کہہ کر اقرار کرتا ہے کہ خدا نے اسے چھوڑ دیا، وہ دوسروں کو کب خدا سے ملا سکتا ہے؟ زندہ برکات صرف اسلام میں ہیں دیکھو اور غور سے سنو! یہ صرف اسلام ہی ہے جو اپنے اندر برکات رکھتا ہے اور انسان کو مایوس اور نا مراد ہونے نہیں دیتا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ میں اس کے برکات اور زندگی اور صداقت کے لئے نمونہ کے طور پر کھڑا ہوں.کوئی عیسائی نہیں جو یہ دکھا سکے کہ اس کا کوئی تعلق آسمان سے ہے.وہ نشانات جو ایمان کے نشان ہیں اور مومن عیسائی کے لئے مقرر ہیں کہ اگر پہاڑ کو کہیں تو جگہ سے ٹل جاوے.اب پہاڑ تو پہاڑ کوئی عیسائی نہیں جو ایک الٹی ہوئی جوتی کو سیدھی کر دکھائے.مگر میں نے اپنے پُر زور نشانوں سے دکھایا ہے اور صاف صاف دکھایا ہے کہ زندہ برکات اور زندہ نشانات صرف اسلام کے لئے ہیں.میں نے بے شمار اشتہار دیئے ہیں اور ایک مرتبہ سولہ ہزار اشتہار شائع کئے.اب ان لوگوں کے ہاتھ میں بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ جھوٹے مقدمات کیے اور قتل کے الزام دیئے.اوراپنی طرف سے ہمارے ذلیل کرنے کے منصوبے گانٹھے مگر عزیز خدا کا بندہ ذلیل کیوں کر ہو سکتا ہے جس میں ان لوگوں نے ہماری ذلت چاہی.اسی ذلّت سے ہمارے لئے عزت نکلی ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ (الـجمعۃ:۵) دیکھو! اگر کلارک کا مقدمہ نہ ہوتا تو اِبراء کا الہام کیونکر پورا ہوتا جو مقدمہ سے بھی پہلے سینکڑوں انسانوں میں شائع ہو چکا تھا.یہ اسلام ہی ہے جس کے ساتھ معجزات اور ثبوت ہیں.اسلام دوسرے چراغ کا محتاج نہیں بلکہ خود ہی چراغ ہے.اور اس کے ثبوت ایسے اجلٰی بدیہیات ہیں کہ ان کا نمونہ کسی مذہب میں نہیں.غرض اسلام کی کوئی تعلیم ایسی نہ ہوگی جس کا نمونہ موجود نہ ہو.آنحضرتؐ صفات الٰہی کا مظہر ہیں میں نے سورۃ الفاتحہ (جس کو ام الکتاب اور مثانی بھی کہتے ہیں اور جو قرآن شریف کی عکسی تصویر اور
خلاصہ ہے) کے صفات اربعہ میں دکھانا چاہا ہے کہ وہ چاروں نمونے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہیں اور خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں ان صفات اربعہ کا نمونہ دکھایا.گویا وہ صفات دعویٰ تھیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود بطور دلیل کے ہے چنانچہ ربوبیت کا آپ کے وجود میں کیسا ثبوت دیا کہ مکہ کے جنگلوں کا سر گردان اور دس برس تک حیران پھرنے والا جس کے لئے کوئی راہ کھلی نظر نہ آتی تھی اس کی تربیت کا کس کو خیال تھا کہ اسلام روئے زمین پر پھیل جاوے گا اور اس کے ماننے والے ۹۰ کروڑ تک پہنچیں گے.مگر آج دیکھو کہ دنیا کا کوئی آباد قطعہ ایسا نہیں جہاں مسلمان نہیں.پھر الرحمن کی صفت کو دیکھو.جس کا منشا یہ ہے کہ عمل کے بدوں کامیابی اور ضرورتوں کے سامان بہم پہنچائے.کیسی رحمانیت تھی کہ آپ کے آنے سے پیشتر ہی استعدادیں پیدا کر دیں.عمر رضی اللہ عنہ بچوں کی طرح کھیلتا تھا.ابو بکر رضی اللہ عنہ جو کافروں کے گھر میں پیدا ہوا تھا اور ایسا ہی اور بہت سے صحابہ آپ کے ساتھ ہوگئے.گویا ان کو آپ کے لئے رحمانیت الٰہی نے پہلے ہی تیار کر رکھا تھا اور اس قدر امور رحمانیت کے اسلام کے ساتھ ہیں کہ ہم ان کو مفصل بیان بھی نہیں کر سکتے.اُمّیّت رحمانیت کو چاہتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا (الـجمعۃ:۳) رحمانیت کا منشا اس ضرب المثل سے خوب ظاہر ہے.’’کر دے کرا دے اور اٹھانے والا ساتھ دے.‘‘ اور یہ ظہور اسلا م کے ساتھ ہوا.اسلام گویا خدا کی گود میں بچہ ہے.اس کا سارا کام کاج سنوارنے والا اور اس کے سارے لوازم بہم پہنچانے والا خود خدا ہے.کسی مخلوق کا بارِ احسان اس کی گردن پر نہیں.اسی طرح رحیم جو محنتوں کو ضائع نہ کرے.اس کے خلاف یہ ہے کہ محنت کرتا رہے اور ناکام رہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رحیمیت کا اظہار دیکھو کیسے واضح طور پر ہوا.کوئی لڑائی ایسی نہیں جس میں فتح نہ پائی ہو.تھوڑا کام کرکے بہت اجر پایا ہے.بجلی کے کوندنے کی طرح فتوحات چمکیں.فتوحات الشام، فتوحات المصر ہی دیکھو.صفحہ تاریخ میں کوئی ایسا انسان نہیں جس نے صحیح معنوں میں کامیابیاں پائی ہوں.جیسے کامیابیاں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملیں.
صحابہ ؓ نے دنیا میں کامیابی حاصل کی پھر مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ جزا و سزا کا مالک.اچھے کام کرنے والوں کو جزا دی جاوے اگرچہ کامل طور پر یہ آخرت کے لیے ہے اور سب قومیں جزاوسزا کو آخرت ہی پر ڈالتی ہیں مگر خدا نے اس کا نمونہ اسلام کے لیے اس دنیا میں رکھا.ابوبکر رضی اللہ عنہ جو دوپہر کی دُھوپ میں گھر بار مال و متاع چھوڑ کر اُٹھ کھڑا ہوا تھا اور جس نے ساری جائیداد کو دیکھ کر کہہ دیا کہ.بر باد شُد، برباد باشد.سب سے انقطاع کرکے ساتھ ہی ہو لیا تھا.اُس نے یہ مزہ پایا کہ آپؐ کے بعد سب سے پہلا خلیفہ بلا فصل یہی ہوا.حضرت عمرؓ جو صدق اخلاص سے بھر گئے تھے.اُنھوں نے یہ مزہ پایا کہ اُن کے بعد خلیفہ ثانی ہوئے.غرض اسی طرح پر ہر ایک صحابی نے پوری عزت پائی.قیصر و کسریٰ کے اموال اور شاہزادیاں اُن کے ہاتھ آئیں.لکھا ہے ایک صحابی کسریٰ کے دربار میں گیا.ملازمان کسریٰ نے سونے چاندی کی کرسیاں بچھوا دیں اور اپنی شان و شوکت دکھائی.اُس نے کہا کہ ہم اس مال کے ساتھ فریفتہ نہیں ہوئے ہم کو تو وعدہ دیا گیا ہے کہ کسریٰ کے کڑے بھی ہمارے ہاتھ آجائیں گے چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ کڑے ایک صحابی کو پہنا دیئے تاکہ وہ پیشگوئی پوری ہو.اسلام کا جادہ اعتدال مذہب اسلام چونکہ اعتدال پر واقع ہوا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے تعلیم یہی دی ہے اور مغضوب اور ضالین سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے.ایک سچا مسلمان نہ مغضوب ہوسکتا ہے نہ ضالین کے زمرہ میں شامل ہو سکتا ہے.مغضوب وہ قوم ہے جس پر خدا تعالیٰ کا غضب بھڑکا.چونکہ وہ خود غضب کرنے والے تھے اس لیے خدا کے غضب کو کھینچ لائے اور وہ یہودی ہیں اور ضال سے مراد عیسائی ہیں.غضب کی کیفیت قوت سبعی سے پیدا ہوتی ہے اور ضلالت وہمی قوت سے پیدا ہوتی ہے.اور وہمی قوت حد سے زیادہ محبت سے پیدا ہوتی ہے.بےجا محبت والا انسان بہک جاتا ہے حُبُّکَ الشَّیْءَ یُعْمِیْ وَیُصِمُّ اس کا مبدء اور منشا قوت وہمی ہے.اس کی مثال یہ ہے کہ چادر کو بیل سمجھتا ہے اور رسّی کو سانپ بناتا ہے.یہی وجہ ہے کہ کسی شاعر نے اپنا معشوق ایسا قرار نہیں دیا جو دوسروں سے بڑھ کر نہ
ہو.ہر ایک کے واہمہ نے نئی تصویر ایجاد کی.قوت بہیمی میں جوش ہو کر انسان جادہٴ اعتدال سے نکل جاتا ہے چنانچہ غضب کی حالت میں درندہ کا جوش بڑھ جاتا ہے.مثلاً کتّا پہلے آہستہ آہستہ بھونکتا ہے پھر کوٹھا سر پر اُٹھا لیتا ہے.آخر کار درندے طیش میں آکر نوچتے اور پھاڑ کھاتے ہیں.یہود نے بھی اسی طرح ظلم وتعدّی کی بُری عادتیں اختیار کیں اور غضب کو حد تک پہنچا دیا.آخر خود مغضوب ہوگئے.قوت وہمی کا جب استیلا ہوتا ہے تو انسان رسی کو سانپ بناتا اور درخت کو ہاتھی بتلاتا ہے اور اس پر کوئی دلیل نہیں ہوتی.یہ قوت عورتوں میں زیادہ ہوتی ہے.اسی واسطے عیسائی مذہب اور بت پرستی کا بڑا سہارا عورتیں ہیں.غرض اسلام نے جادہٴ اعتدال پر رہنے کی تعلیم دی جس کا نام اَلصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم ہے.میں اب چند فقرے عربی میں سناؤں گا کیونکہ مجھے خدا تعالیٰ نے مجمع میں کچھ عربی فقرے بولنے کا حکم دیا تھا.پہلے میں نے خیال کیا کہ شاید کوئی اور مجمع ہوگا جس میں یہ خدا کی بات پوری ہو مگر خدا تعالیٰ مولوی عبدالکریم صاحب کو جزائے خیر دے کہ اُنھوں نے تحریک کی اور اس تحریک سے زبردست قوت دل میں پیدا ہوئی اور اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ اور نشان آج پورا ہو.قریب تھا کہ حضور عربی خطبہ شروع کر دیتے مولانا عبدالکریم صاحب نے عرض کیا کہ حضور! کچھ جماعت کے باہمی اتفاق و محبت پر بھی فرمایا جاوے.اس پر حضرت اقدسؑ نے پھر مندرجہ ذیل تقریر فرمائی.باہم اتفاق و محبت جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو.خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وجود واحد رکھو ورنہ ہوا نکل جائے گی.نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑا ہونے کا حکم اسی لیے ہے کہ باہم اتحاد ہو.برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی.اگر اختلاف ہو اتحاد نہ ہو تو پھر بے نصیب رہو گے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دعا کرو.اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ
کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی ایسا ہی ہو.کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے.اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو تو فرشتہ کی تو منظور ہوتی ہے.میں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو.میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں.اول خدا کی توحید اختیار کرو.دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو.وہ نمونہ دکھاؤ کہ غیروں کے لیے کرامت ہو.یہی دلیل تھی جو صحابہؓ میں پیدا ہوئی تھی كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ (اٰل عـمران: ۱۰۴) یاد رکھو! تالیف ایک اعجاز ہے.یاد رکھو! جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.وہ مصیبت اور بلا میں ہے.اس کا انجام اچھا نہیں.میں ایک کتاب بنانے والا ہوں.اس میں ایسے تمام لوگ الگ کر دئیے جائیں گے جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتے.چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہوتی ہے.مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ کسی بازیگر نے دس گز کی چھلانگ ماری ہے.دوسرا اُس پر بحث کرنے بیٹھتا ہے اور اس طرح پر کینہ کا وجود پیدا ہو جاتا ہے.یاد رکھو بغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے اور کیا وہ علامت پوری نہ ہوگی.وہ ضرور ہوگی.تم کیوں صبر نہیں کرتے.جیسے طبّی مسئلہ ہے کہ جب تک بعض امراض میں قلع قمع نہ کیا جاوے مرض دفع نہیں ہوتا.میرے وجود سے انشاء اللہ ایک صالح جماعت پیدا ہوگی.باہمی عداوت کا سبب کیا ہے.بخل ہے، رعونت ہے، خود پسندی ہے اور جذبات ہیں.میں نے بتلایا ہے کہ میں عنقریب ایک کتاب لکھوں گا اور ایسے تمام لوگوں کو جماعت سے الگ کردوں گا جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتے اور باہم محبت و اخوت سے نہیں رہ سکتے.جو ایسے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں جب تک کہ عمدہ نمونہ نہ دکھائیں.میں کسی کے سبب سے اپنے اُوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا.ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشا کے موافق نہ ہو وہ خشک ٹہنی ہے.اُس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے؟ خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی تو چوستی ہے مگر وہ اُس کو سر سبز نہیں کر سکتا بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے.پس ڈرو! میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا.چونکہ یہ سب باتیں میں کتاب میں
مفصل لکھوں گا اس لیے اب میں چند عربی فقرے کہہ کر فرض ادا کرتا ہوں.۱۰۵؎ خطبہ الہامیہ کا نشان یہ خطبہ جو اللہ تعالیٰ کے القا وایما کے موافق حضور نے عربی زبان میں پڑھا.یہ خطبہ آیات اللہ میں سے ایک زبر دست آیت اور لا نظیر نشان ہے جو ایک عظیم الشان گروہ کے سامنے پورا ہوا اور ’’خطبہ الہامیہ‘‘ کے نام سے شائع فرما دیا گیا.جب حضرت اقدسؑ عربی خطبہ پڑھنے کے لئے تیار ہوئے تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کو حکم دیا کہ وہ قریب تر ہوکر اس خطبہ کو لکھیں.جب حضرات مولوی صاحبان تیار ہوگئے تو حضورؑ نے یَاعِبَادَاللّٰہِ کے لفظ سے عربی خطبہ شروع فرمایا.اِثناءِ خطبہ میں حضرت اقدس ؑ نے یہ بھی فرمایا کہ اب لکھ لو پھر یہ لفظ جاتے ہیں.جب حضرت اقدس ؑ خطبہ پڑھ کر بیٹھ گئے تو اکثر احباب کی درخواست پر مولانا مولوی عبدالکریم صاحب اُس کا ترجمہ سُنانے کے لئے کھڑے ہوئے.اس سے پیشتر کہ مولانا موصوف ترجمہ سنائیں حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ اس خطبہ کو کل عَرفہ کے دن اور عید کی رات میں جو مَیں نے دعائیں کی ہیں ان کی قبولیت کے لئے نشان رکھا گیا تھا کہ اگر مَیں یہ خطبہ عربی زبان میں اِرتجالاً پڑھ گیا تو وہ ساری دعائیں قبول سمجھی جائیں گی.اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہ وہ ساری دعائیں بھی خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق قبول ہوگئیں.سجدۂ شکر اور اس کی قبولیّت ابھی مولانا عبدالکریم صاحب ترجمہ سُنا ہی رہے تھے کہ حضرت اقدس ؑ فرطِ جوش کے ساتھ سجدۂ شکر میں جا پڑے.حضورؑ کے ساتھ تمام حاضرین نے سجدۂ شکرادا کیا.سجدہ سے سر اُٹھا کر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا.ابھی مَیں نے سُرخ الفاظ میں لکھا دیکھا ہے کہ ’’مبارک‘‘ یہ گویا قبولیت کا نشان ہے.۱۰۶؎
دو انگریزوں کا قتل علاقہ پشاور میں ان دنوں کسی سفاک پٹھان نے دو بے گناہ انگریزوں کو قتل کر دیا.اس پر حضرت اقدسؑ نے ایک مجمع میں فرمایا.یہ جو دو انگریزوں کو مار دیا ہے.یہ کیا جہاد کیا ہے؟ ایسے نابکار لوگوں نے اسلام کو بدنام کر رکھا ہے.چاہیے تو یہ تھا کہ ان لوگوں کی ایسی خدمت کرتا اور ایسے عمدہ طور پر ان سے برتاؤ کرتا کہ وہ اس کے اخلاق اور حسن سلوک کو دیکھ کر مسلمان ہو جاتے.مومن کا کام تو یہ ہے کہ اپنی نفسانیت کو کچل ڈالے.لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک کافر سے لڑے.حضرت علیؓ نے اُس کو نیچے گرا لیا اور اس کا پیٹ چاک کرنے کو تھے کہ اس نے حضرت علیؓ پر تھوکا.حضرت علیؓ یہ دیکھ کر اس کے سینے پر سے اُتر آئے.وہ کافر حیران ہوا اور پوچھا کہ اے علیؓ! یہ کیا بات ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ میرا جنگ تیرے ساتھ خدا کے واسطے تھا لیکن جب کہ تو نے میرے منہ پر تھوکا تو میرے نفس کا بھی کچھ حصہ مل گیا.اس لئے میں نے تجھے چھوڑ دیا.حضرت علیؓ کے اس فعل کا اس پر بہت بڑا اثر ہوا.میں جب کبھی ان لوگوں کی بابت ایسی خبریں سنتا ہوں تو مجھے سخت رنج ہوتا ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم سے بہت دور جا پڑے ہیں اور بے گناہ انسانوں کا قتل ثواب کا موجب سمجھتے ہیں.بعض مولوی مجھے اس لیے دجال کہتے ہیں کہ میں انگریزوں کے ساتھ محاربہ جائز نہیں رکھتا مگر مجھے سخت افسوس ہے کہ یہ لوگ مولوی کہلا کر اسلام کو بدنام کر رہے ہیں.کوئی ان سے پوچھے کہ انگریزوں نے تمہارے ساتھ کیا برائی کی ہے اور کیا دُکھ دیا ہے.شرم کی بات ہے کہ وہ قوم جس کے آنے سے ہم کو ہر قسم کی راحت اور آرام ملا.جس نے آکر ہم کو سکھوں کے خون خوار پنجہ سے نجات دی اور ہمارے مذہب کی اشاعت کے لیے ہر قسم کے موقع اور سہولتیں دیں اُن کے احسان کا یہ شکر ہے کہ بے گناہ انگریزی افسروں کو قتل کر دیا جائے؟ میں تو صاف طور پر کہتا ہوں کہ وہ لوگ جو خون ناحق سے نہیں ڈرتے اور محسن کے حقوق ادا نہیں کرتے وہ خدا تعالیٰ کے حضور سخت جواب دِہ ہیں.ان مویولوں کا فرض ہونا چاہیے کہ وہ اپنے جمہوری اتفاق سے اس مسئلہ کو اچھی طرح شائع کریں اور ناواقف اور جاہل لوگوں کو فہمائش کریں کہ گورنمنٹ برطانیہ کے زیر سایہ وہ امن، آزادی سے زندگی بسر
کرتے ہیں اور اس کے عطیات سے ممنون منت اور مرہون احسان ہیں اور یہ مبارک سلطنت نیکی اور ہدایت پھیلانے میں کامل مددگار ہے.پس اس کے خلاف محاربہ کے خیالات رکھنے سخت بغاوت ہے اور یہ قطعی حرام ہے.وہ اپنے قلم اور زبان سے جاہلوں کو سمجھائیں اور اپنے دین کو بدنام کر کے دنیا کو ناحق کا ضرر نہ پہنچائیں.ہم تو گورنمنٹ برطانیہ کو آسمانی برکت سمجھتے ہیں اور اس کی قدر کرنا اپنا فرض.افسوس ہے مولویوں نے خود تو اس کام کو کیا نہیں اور ہم نے جب ان جاہلانہ خیالات کو دلوں سے مٹانا چاہا تو ہم کو دجال کہا.صرف اس واسطے کہ ہم محسن گورنمنٹ کے شکر گزار ہیں.مگر ان کی مخالفت ہمارا کیا بگاڑ سکتی تھی.ہم نے بیسیوں رسالے اس مضمون کے عربی، فارسی، اردو، انگریزی میں شائع کیے اور ہزاروں اشتہار مختلف بلاد و امصار میں تقسیم کر دئیے ہیں.اس لئے نہیں کہ گورنمنٹ سے ہم کوئی عزت چاہتے ہیں.بلکہ خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہم اس کام کو اپنا ضروری فرض سمجھتے ہیں اور اگر ہم کواس خدمت کے بجا لانے میں تکلیف بھی ہو تو ہم پروا نہیں کرتے کیونکہ خدا نے فرمایا ہے کہ احسان کی جزا احسان ہے.پس پوری اطاعت اور وفاداری گورنمنٹ برطانیہ کی مسلمانوں کا فرض ہے.۱۰۷؎ مئی۱۹۰۰ء انبیاء میں ہمدردی کا جوش نبی کا آنا ضروری ہوتا ہے.اس کے ساتھ قوتِ قُدسی ہوتی ہے اور اُن کے دل میں لوگوں کی ہمدردی، نفع رسانی اور عام خیر خواہی کا بے تاب کرا دینے والا جوش ہوتا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ (الشعراء:۴) یعنی کیا تُو اپنی جان کو ہلاک کردے گا اس خیال سے کہ وہ مومن نہیں ہوتے؟ اس کے دو (۲) پہلو ہیں ایک کافروں کی نسبت کہ وہ مسلمان کیوں نہیں ہوتے.دوسرا مسلمانوں کی نسبت کہ اُن میں وہ اعلیٰ درجہ کی رُوحانی قوت کیوں نہیں پیدا ہوتی جو
آپؐ پاتے ہیں چونکہ ترقی تدریجاً ہوتی ہے اس لیے صحابہ کی ترقیاں بھی تدریجی طور پر ہوئی تھیں مگر انبیاء کے دل کی بناوٹ بالکل ہمدردی ہی ہوتی ہے اور پھر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو جامع جمیع کمالاتِ نبوت تھے.آپؐ میں یہ ہمدردی کمال درجہ پر تھی.آپؐ صحابہ کو دیکھ کر چاہتے تھے کہ پوری ترقیات پر پہنچیں.لیکن یہ عروج ایک وقت پر مقدر تھا.آخر صحابہ نے وہ پایا جو دنیا نے کبھی نہ پایا تھا اور وہ دیکھا جو کسی نے نہ دیکھا تھا.سارا مدار مجاہدہ پر ہے سارا مدار مجاہدہ پر ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) جو لوگ ہم میں ہوکر کوشش کرتے ہیں.ہم اُن کے لیے اپنی تمام راہیں کھول دیتے ہیں.مجاہدہ کے بدوں کچھ بھی نہیں ہوسکتا.جو لوگ کہتے ہیں کہ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک نظر میں چور کو قُطب بنا دیا دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں اور ایسی ہی باتوں نے لوگوں کو ہلاک کردیا ہے.لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی کی جھاڑ پھونک سے کوئی بزرگ بن جاتا ہے.جو لوگ خدا کے ساتھ جلدی کرتے ہیں وہ ہلاک ہوجاتے ہیں.دنیا میں ہر چیز کی ترقی تدریجی ہے.رُوحانی ترقی بھی اسی طرح ہوتی ہے اور بدوں مجاہدہ کے کچھ بھی نہیں ہوتا.اور مجاہدہ بھی وہ ہو جو خدا تعالیٰ میں ہو کر.یہ نہیں کہ قرآن کریم کے خلاف خود ہی بے فائدہ ریاضتیں اور مجاہدہ جوگیوں کی طرح تجویز کر بیٹھے.یہی کام ہے جس کے لئے خدا نے مجھے مامور کیا ہے تاکہ مَیں دنیا کو دکھلادُوں کہ کس طرح پر انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے.یہ قانونِ قُدرت ہے.نہ سب محروم رہتے ہیں اور نہ سب ہدایت پاتے ہیں.۱۰۸؎
۱۴؍مئی ۱۹۰۰ء صحبتِ صالحین کی غرض بات یہ ہے کہ مُردوں سے مدد مانگنے کے طریق کو ہم نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.یہ ضعیف الایمان لوگوں کا کام ہے کہ مُردوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور زندوں سے دُور بھاگتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی میں لوگ اُن کی نبوت کا انکار کرتے رہے اور جس روز انتقال کرگئے تو کہا کہ آج نبوت ختم ہوگئی.اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی مُردوں کے پاس جانے کی ہدایت نہیں فرمائی بلکہ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التوبۃ:۱۱۹) کا حکم دے کر زندوں کی صحبت میں رہنے کا حکم دیا.یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے دوستوں کو بار بار یہاں آنے اور رہنے کی تاکید کرتے ہیں.اور ہم جو کسی دوست کو یہاں رہنے کے واسطے کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ محض اس کی حالت پر رحم کرکے ہمدردی اور خیر خواہی سے کہتے ہیں.مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایمان دُرست نہیں ہوتا جب تک انسان صاحبِ ایمان کی صحبت میں نہ رہے اور یہ اس لیے کہ چونکہ طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں.ایک ہی وقت میں ہر قسم کی طبیعت کے موافقِ حال تقریر ناصح کے مُنہ سے نہیں نکلا کرتی.کوئی وقت ایسا آجاتا ہے کہ اس کی سمجھ اور فہم کے مطابق اُس کے مذاق پر گفتگو ہوجاتی ہے جس سے اُس کو فائدہ پہنچ جاتا ہے اور اگر آدمی بار بار نہ آئے اور زیادہ دِنوں تک نہ رہے تو ممکن ہے کہ ایک وقت ایسی تقریر ہو جو اُس کے مذاق کے موافق نہیں ہے.اور اُس سے اُس کو بددلی پیدا ہو اور وہ حسنِ ظن کی راہ سے دُور جا پڑے اور ہلاک ہوجاوے.غرض قرآن کریم کے منشا کے موافق تو زندوں ہی کی صحبت میں رہنا ثابت ہوتا ہے.مدد خدا تعالیٰ سے ہی مانگنی چاہیے اور استعانت کے متعلق یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ اصل استمداد کا حق اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے اور اسی پر قرآن کریم نے زور دیا ہے چنانچہ فرمایا کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتـحۃ:۵) پہلے صفاتِ الٰہی رَبّ، رحـمٰن، رحیم، مالک یوم الدین کا اظہار فرمایا.پھر سکھایا کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ
وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ یعنی عبادت بھی تیری کرتے ہیں اور استمداد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ اصل حق استمداد کا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے.کسی انسان، حیوان، چرند، پرند غرضیکہ کسی مخلوق کے لئے نہ آسمان پر نہ زمین پر یہ حق نہیں ہے مگر ہاں دوسرے درجہ پر ظلّی طور سے یہ حق اہل اللہ اور مردانِ خدا کو دیا گیا ہے.ہم کو نہیں چاہیے کہ کوئی بات اپنی طرف سے بنالیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے اندر اندر رہنا چاہیے اسی کا نام صراطِ مستقیم ہے اور یہ اَمر لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ سے بھی بخوبی سمجھ میں آسکتا ہے.اس کے پہلے حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا محبوب، معبود اور مطلوب اللہ تعالیٰ ہی ہونا چاہیے.رسالتِ محمدیہ کی حقیقت اور دوسرے حصے سے رسالتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت کا اظہار ہے.یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ رسالت میں ایک اَمر ظاہر ہوتا ہے اور ایک مخفی ہوتا ہے.مثلاً لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ایک کلمہ ہے جسے رسالت مآب نے بایں الفاظ لوگوں کو پہنچا دیا ہے.لوگ مانیں یا نہ مانیں.یعنی رسالت کا کام صرف پہنچا دینا تھا مگر رسالت کے یہ ظاہری معنی ہیں.ہم جب اور زیادہ غور کرکے بطون کی طرف جاتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت جو لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کے ساتھ بطور ایک جز غیرمنفک کے شامل ہوتی ہے.یہ صورت ابلاغ تک ہی محدود نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوتِ قدسیہ کے زور سے اس تبلیغ کو بااثر بنانے میں لانظیر نمونہ دکھلایا ہے.نبی کی مادرانہ عطوفت اور قرآن کریم سے یہ بھی پتا لگتا ہے کہ آپؐ کو کس قدر سوزش اور گدازش لگی ہوئی تھی.چنانچہ فرمایا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ (الشعرآء:۴) یعنی کیا تو اپنی جان کو ہلاک کردے گا اس فکر میں کہ یہ مومن کیوں نہیں بنتے.یہ پکّی بات ہے کہ ہر نبی صرف لفظ لے کر نہیں آتا بلکہ اپنے اندر وہ ایک درد اور سوز و گداز بھی رکھتا ہے جو اپنی قوم کی اصلاح کے لئے ہوتا ہے اور یہ درد اور اضطراب کسی بناوٹ سے نہیں ہوتا بلکہ فطرتاً اضطراری طور پر اس سے صادر ہوتا ہے جیسے ایک ماں اپنے بچے کی پرورش میں مصروف
ہوتی ہے.اگر بادشاہ کی طرف سے اُس کو حکم بھی دیا جاوے کہ اگر وہ اپنے بچے کو دودھ نہ بھی دے اور اس طرح پر اُس کے ایک دو بچے مَر بھی جاویں تو اس کو معاف ہیں اور اس سے کوئی بازپرس نہ ہوگی تو کیا بادشاہ کے ایسے حکم پر کوئی ماں خوش ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ بادشاہ کو گالیاں دے گی.وہ دُودھ دینے سے رُک سکتی ہی نہیں.یہ بات اس کی طبیعت میں طبعاً موجود ہے اور دُودھ دینے میں اس کو کبھی بھی بہشت میں جانا یا اُس کا معاوضہ پانا مرکوز اور ملحوظ نہیں ہوتا اور یہ جوش طبعی ہے جو اُس کو فطرت نے دیا ہے.ورنہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو چاہیے تھا کہ جانوروں کی مائیں بکری، بھینس یا گائے یا پرندوں کی مائیں اپنے بچوں کی پرورش سے علیحدہ ہوجاتیں.ایک فطرت ہوتی ہے، ایک عقل ہوتی ہے اور ایک جوش ہوتا ہے.ماؤں کا اپنے بچوں کی پرورش میں مصروف ہونا یہ فطرت ہے.اسی طرح پر مامورین جوآتے ہیں اُن کی فطرت میں بھی ایک بات ہوتی ہے.وہ کیا؟ مخلوق کے لئے دلسوزی اور بنی نوع انسان کی خیر خواہی کے لیے ایک گدازش.وہ طبعی طور پر چاہتے ہیں کہ لوگ ہدایت پاجاویں اور خدا تعالیٰ میں زندگی حاصل کریں.پس یہ وہ سِرّ ہے جو لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے دُوسرے حصہ میں یعنی اظہار رسالتِ محمدؐیہ میں رکھا ہو اہے جیسے پیغام پہنچانے والے عام طور پر پیغام پہنچا دیتے ہیں اور اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ اس پر عمل ہو یا نہ ہو.گویا وہ تبلیغ صرف کان ہی تک محدود ہوتی ہے.برخلاف اس کے ماموران الٰہی کان تک بھی پہنچاتے ہیں اور اپنی قوت قدسی کے زور اور ذریعہ سے دل تک بھی پہنچاتے ہیں اور یہ بات کہ جذب اور عقدِ ہمت ایک انسان کو اس وقت دیا جاتا ہے جبکہ وہ خدا تعالیٰ کی چادر کے نیچے آجاتا ہے اور ظل اللہ بنتا ہے.پھر وہ مخلوق کی ہمدردی اور بہتری کے لئے اپنے اندر ایک اضطراب پاتا ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مرتبہ میں کل انبیاء علیہم السلام سے بڑھے ہوئے تھے.اس لیے آپؐ مخلوق کی تکلیف دیکھ نہیں سکتے تھے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ (التوبۃ : ۱۲۹) یعنی یہ رسول تمہاری تکلیف کو دیکھ نہیں سکتا.وہ اس پر سخت گراں ہے اور اُسے ہر وقت اس بات کی تڑپ لگی رہتی ہے کہ تم کو بڑے بڑے منافع پہنچیں.ان
ساری باتوں کو یکجائی طور پر دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اوّل خدا تعالیٰ مدد دیتا ہے پھر دُوسرے درجہ پر مامور من اللہ.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں جوش ڈالا ہے اور وہ اِسی جوش اور تقاضائے فطرت کے ساتھ مخلوق کی بہتری میں ہر ایک قسم کی کوشش کرتے ہیں جیسے ماں اپنے بچے کو دودھ دیتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.اس لیے کہ والدہ کا نفس مزکی نہیں ہے اور یہ مزکی النفس لوگ ہوتے ہیں.انہیں کو صادقین اس آیت كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التوبۃ : ۱۱۹) میں فرمایا گیا ہے.منعم علیہ گروہ اب مَیں سورۃ الفاتحہ کی طرف رجوع کرکے کہتا ہوں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ (الفاتـحۃ:۶) میں اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی راہ طلب کی گئی ہے اور مَیں نے کئی مرتبہ یہ بات بیان کی ہے کہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں چار گروہوں کا ذکر ہے.نبی، صدیق، شہید، صالح.پس جبکہ ایک مومن یہ دعا مانگتا ہے تو ان کے اخلاق اور عادات اور علوم کی درخواست کرتا ہے.اس پر اگر ان چار گروہوں کے اخلاق حاصل نہیں کرتا تو یہ دعا اُس کے حق میں بے ثمر ہوگی اور وہ بے جان لفظ بولنے والا حیوان ہے.یہ چار طبقے ان لوگوں کے ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ سے علومِ عالیہ اور مراتب عظیمہ حاصل کیے ہیں.نبی وہ ہوتے ہیں جن کا تبتل الی اللہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ خدا سے کلام کرتے اور وحی پاتے ہیں اور صدیق وہ ہوتے ہیں جو صدق سے پیار کرتے ہیں.سب سے بڑا صدق لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے اور پھر دوسرا صدق مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے.وہ صدق کی تمام راہوں سے پیار کرتے ہیں اور صدق ہی چاہتے ہیں.تیسرے وہ لوگ ہیں جو شہید کہلاتے ہیں.وہ گویا خدا تعالیٰ کا مشاہدہ کرتے ہیں.شہید وہی نہیں ہوتا جو قتل ہو جاوے.کسی لڑائی یا وبائی امراض میں مارا جاوے بلکہ شہید ایسا قوی الایمان انسان ہوتا ہے جس کو خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے سے بھی دریغ نہ ہو.صالحین وہ ہوتے ہیں جن کے اندر سے ہر قسم کا فساد جاتا رہے.جیسے تندرست آدمی جب ہوتا ہے تو اس کی زبان کا مزا بھی درست ہوتا ہے.پورے اعتدال کی حالت میں تندرست کہلاتا ہے.کسی قسم کا فساد اندر نہیں رہتا.اسی طرح پر صالحین کے اندر کسی قسم کی روحانی مرض نہیں ہوتی اور کوئی مادہ فساد کا نہیں ہوتا.اس کا کمال اپنے نفس میں نفی کے وقت ہے اور
شہید، صدیق، نبی کا کمال ثبوتی ہے.شہید ایمان کو ایسا قوی کرتا ہے گویا خدا کو دیکھتا ہے.صدیق عملی طور پر صدق سے پیار کرتا اور کذب سے پرہیز کرتا ہے.اور نبی کا کمال یہ ہے کہ وہ ردائے الٰہی کے نیچے آجاتا ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کمال کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہوسکتے اور مولوی یا علماء کہتے ہیں کہ بس ظاہری طور پر کلمہ پڑھ لے اور نماز روزہ کے احکام کا پابند ہو جاوے اس سے زیادہ ان احکام کے ثمرات اور نتائج کچھ نہیں اور نہ ان میں کچھ حقیقت ہے.یہ بڑی بھاری غلطی ہے اور ایمانی کمزوری ہے.انہوں نے رسالت کے مدعا کو نہیں سمجھا.مامورین کی غرض اللہ تعالیٰ جو ماموروں اور مرسلوں کو خلق اللہ کی ہدایت کے واسطے بھیجتا ہے.کیا اس لئے بھیجتا ہے کہ لوگ ان کی پرستش کریں.نہیں بلکہ ان کو نمونہ بنا کر بھیجا جاتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے بادشاہ اپنے ملک کے کاریگروں کو کوئی تلوار دے تو اس کی مراد یہی ہے کہ وہ بھی ویسی تلوار بنانے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو مامور اور مرسل ہوتے ہیں.اخلاق فاضلہ اور اوصاف حمیدہ سے متّصف بناتا ہے اور دنیا کی طرف مامور کرتا ہے تا لوگ ان کے اخلاق اور کمالات سے حصہ لیں اور اسی طرز و روش پر چلیں کیونکہ یہ لوگ اس وقت تک فائدہ پہنچاتے ہیں جب تک زندہ ہوں.گزرنے کے بعد تبتّل ہوجاتا ہے.اس واسطے صوفی لوگ کہتے ہیں کہ زندہ بلّی مردہ شیر سے بہتر ہوتی ہے.خدا تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے الٓرٰ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ (ھود:۲) الف سے مراد اللہ اور ل سے مراد جبرائیل اور ر سے مراد رسل ہیں.چونکہ اس میں یہی قصہ ہے کہ کون سی چیزیں انسانوں کو ضروری ہیں.اس لئے فرمایا كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ یہ کتاب ایسی ہے کہ اس کی آیات پکّی اور استوار ہیں.استحکام کتاب اللہ قرآن کریم کی تعلیموں کو اللہ تعالیٰ نے کئی طرح پر مستحکم کیا تاکہ کسی قسم کا شک نہ رہے اور اسی لیے شروع میں ہی فرمایا لَا رَيْبَ فِيْهِ (البقرۃ:۳) یہ استحکام کئی طور پر کیا گیا ہے.اوّلاً.قانون قدرت سے استواری اور استحکام قرآنی تعلیموں کا قانون قدرت سے کیا گیا.
جو کچھ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے قانون قدرت اس کو پوری مدد دیتا ہے.گویا جو قرآن میں ہے وہی کتاب مکنون میں ہے.اس کا راز انبیاء علیہم السلام کی پیروی کے بدوں سمجھ میں نہیں آسکتا اور یہی وہ سرّ ہے جو لَا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ (الواقعۃ:۸۰) میں رکھا گیا ہے.غرض پہلے قرآنی تعلیم کو قانون قدرت سے مستحکم کیا ہے.مثلاً قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی صفت وحدہ، لاشریک بتلائی.جب ہم قانون قدرت میں نظر کرتے ہیں تو ماننا پڑتا ہے کہ ضرور ایک ہی خالق و مالک ہے.کوئی اس کا شریک نہیں.دل بھی اُسے ہی مانتا ہے اور دلائل قدرت سے بھی اسی کا پتا لگتا ہے کیونکہ ہر ایک چیز جو دنیا میں موجود ہے وہ اپنے اندر کرویت رکھتی ہے.جیسے پانی کا قطرہ اگر ہاتھ سے چھوڑیں تو وہ کروی شکل کا ہوگا اور کروی شکل توحید کو مستلزم ہے اور یہی وجہ ہے کہ پادریوں کو بھی ماننا پڑا کہ جہاں تثلیث کی تعلیم نہیں پہنچی وہاں کے رہنے والوں سے توحید کی پرسش ہوگی.چنانچہ پادری فنڈر نے اپنی تصنیفات میں اس اَمر کا اعتراف کیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر قرآن کریم دنیا میں نہ بھی ہوتا تب بھی ایک ہی خدا کی پرستش ہوتی.اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کا بیان صحیح ہے کیونکہ اس کا نقش انسانی فطرت اور دل میں موجود ہے اور دلائل قدرت سے اس کی شہادت ملتی ہے.برخلاف اس کے انجیلی تثلیث کا نقش نہ دل میں ہے نہ قانونِ قدرت اس کا مؤیّد ہے.یہی معنے ہیں كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ کے.یعنی قانون قدرت سے اس کی تعلیموں کو ایسا اِحکام اور استوار کیا گیا ہے کہ مشرک و عیسائی کو بھی ماننا پڑا کہ انسان کے مادہ فطرت سے توحید کی باز پرس ہوگی.دوسری وجہ استحکام کی خدا تعالیٰ کے نشانات ہیں.کوئی نبی، کوئی مامور دنیا میں ایسا نہیں آتا جس کے ساتھ تائیداتِ الٰہی شامل نہ ہوں اور یہ تائیدات اور نشانات ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت پُرشوکت اور پُرقوت تھے.آپؐ کے حرکات سکنات میں، کلام میں نشانات تھے.گویا آپؐ کا وجود از سر تا پا نشانات الٰہی کا پُتلا تھا.تیسرا احکام نبی کا پاک چال چلن اور راستبازی ہے یہ منجملہ ان باتوں کے ہے جو عقلمندوں کے نزدیک امین ہونا بھی ایک دلیل ہے.جیسے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اس سے دلیل پکڑی.
چوتھا احکام جوایک زبردست وجہ استواری اور استحکام کی ہے نبی کی قوت قدسیہ ہے جس سے فائدہ پہنچتا ہے.جیسے طبیب خواہ کتنا ہی دعویٰ کرے کہ مَیں ایسا ہوں اور ویسا ہوں اور اس کو سدیدی خواہ نوکِ زبان ہی کیوں نہ ہو، لیکن اگر لوگوں کو اُس سے فائدہ نہ پہنچے تو یہی کہیں گے کہ اُس کے ہاتھ میں شِفا نہیں ہے.اسی طرح پر نبی کی قوتِ قدسی جس قدر زبردست ہو اُسی قدر اُس کی شان اعلیٰ اور بلند ہوتی ہے.قرآن کریم کی تعلیم کے استحکام کے لئے یہ پشتیبان بھی سب سے بڑا پشتیبان ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی ہمارے پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی اس درجہ پر پہنچی ہے کہ اگر تمام انبیاء علیہم السلام کے مقابلہ میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کسی نے آپؐ کے مقابلہ میں کچھ نہیں کیا.یہودی دنیا کے کتّے ہیں.عیسائیوں کو دیکھو تو وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے چشمے سے دُور جا پڑے.کوئی حضرت مریمؑ کی پرستش کرتا ہے.کوئی مسیحؑ کو خدا جانتا ہے اور دنیا پرستی ہی شب و روز کا شغل اور کام ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طیار کردہ جماعت کو اگر دیکھا جاوے تو وہ ہمہ تن خدا ہی کے لئے نظر آتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں کوئی نظیر نہیں رکھتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مُبارک اور کامیاب زندگی کی تصویر یہ ہے کہ آپؐ ایک کام کے لئے آئے اور اُسے پورا کرکے اس وقت دنیا سے رُخصت ہوئے جس طرح بندوبست والے پورے کاغذات پانچ برس میں مرتب کرکے آخری رپورٹ کرتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں.اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتا ہے.اُس دن سے لے کر جب قُمْ فَاَنْذِرْ (المدثر:۳) کی آواز آئی پھر اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ (النصـر:۲) اور اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المائدۃ:۴) کے دن تک نظر کریں تو آپؐ کی لانظیر کامیابی کا پتا ملتا ہے.ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ خاص طور پر مامور تھے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آپ کی زندگی میں وہ کامیابی نصیب نہ ہوئی جو اُن کی رسالت کا منتہا تھی.وہ ارضِ مقدس اور موعود سرزمین کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ سکے بلکہ راہ ہی میں فوت ہوگئے.کافر کب مان سکتا ہے اور ایک بے ایمان آدمی راہ میں فوت ہوجانے اور وعدہ کی زمین میں نہ پہنچ سکنے کے وُجوہات کب سننے لگا.وہ تو یہی کہے گا
کہ اگر مامور تھے تو وہ وعدے زندگی میں کیوں پورے نہ ہوئے.سچی بات یہی ہے کہ سب نبیوں کی نبوت کی پردہ پوشی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہوئی.تصویر یُسوع ایسا ہی مسیح علیہ السلام کی زندگی پر نظر کرو.ساری رات خود دعا کرتے رہے.دوستوں سے کراتے رہے.آخر شکوہ پر اُتر آئے اور ایلی ایلی لما سبقتنی بھی کہہ دیا یعنی اے میرے خدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ اب ایسی حسرت بھری حالت کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ مامُور من اللہ ہے.جو نقشہ پادریوں نے مسیح کی آخری حالت کا جما کر دکھایا ہے وہ تو بالکل مایُوسی بخشتا ہے.لافیں تو اتنی تھیں کہ خدا کی پناہ اور کام کچھ بھی نہ کیا.ساری عمر میں کل ایک سو بیس آدمی طیار کیے اور وہ بھی ایسے پست خیال اور کم فہم جو خدا کی بادشاہت کی باتوں کو سمجھ ہی نہ سکتے تھے اور سب سے بڑا مصاحب جس کی بابت یہ فتویٰ تھا کہ جو زمین پر کرے آسمان پر ہوتا ہے اور بہشت کی کنجیاں جس کے ہاتھ میں تھیں اُسی نے سب سے پہلے لعنت کی.اور وہ جو امین اور خزانچی بنایا ہوا تھا جس کو چھاتی پر لٹاتے تھے اُسی نے تیس درم لے کر پکڑوا دیا.اب ایسی حالت میں کب کوئی کہہ سکتا ہے کہ مسیحؑ نے واقعی ماموریت کا حق ادا کیا.اور اس کے مقابل ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیسا پکّا کام ہے اس وقت سے جب سے کہا کہ مَیں ایک کام کرنے کے لئے آیا ہوں.جب تک یہ نہ سُن لیا کہ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المائدۃ:۴) آپؐ دنیا سے نہ اُٹھے.جیسے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا (الاعراف: ۱۵۹) اس دعویٰ کے مناسب حال یہ ضروری تھا کہ کل دنیا کے مکر و مکاید متفق طور پر آپؐ کی مخالفت میں کیے جاتے.آپؐ نے کس حوصلے اور دلیری کے ساتھ مخالفوں کو مخاطب کرکے کہا کہ فَكِيْدُوْنِيْ جَمِيْعًا (ہود:۵۶) یعنی کوئی دقیقہ مکر کا باقی نہ رکھو.سارے فریب مکر استعمال کرو.قتل کے منصوبے کرو.اخراج اور قید کی تدبیریں کرو مگر یاد رکھو سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ (القمر:۴۶) آخر فتح میری ہے.تمہارے سارے منصوبے خاک میں مل جاویں گے.تمہاری ساری جماعتیں منتشر اور پراگندہ ہوجاویں گی اور
پیٹھ دے نکلیں گی.جیسے وہ عظیم الشان دعویٰ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا کسی نے نہیں کیا اور جیسے فَكِيْدُوْنِيْ جَمِيْعًا کہنے کو کسی کی ہمت نہ ہوئی.یہ بھی کسی کے منہ سے نہ نکلا سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ یہ الفاظ اسی منہ سے نکلے جو خدا تعالیٰ کے سائے کے نیچے الوہیت کی چادر میں لپٹا ہوا پڑا تھا.غرض ان وجوہات پر ایک اجنبی آدمی بھی نظر ڈالے تو اُس کو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے صاف اور واضح طور پر کتاب اللہ کو مضبوط و مستحکم فرمایا ہے.اگر کوئی قانونِ قدرت پر نظر کرتا ہے تو قول اور فعلِ الٰہی کو باہم مطابق پاتا ہے.پھر اگر خوارق پر نظر کرتا ہے تو اِس قدر کثرت سے ہیں کہ حدِ شمار سے باہر ہیں.یہاں تک کہ آپؐ کا قول، فعل و حرکات و سکنات سب خوارق ہیں.قوتِ قُدسیہ کو دیکھتا ہے تو صحابہ کرامؓ کی پاک تبدیلی حیرت میں ڈالتی ہے.پھر کامیابی کو دیکھتا ہے تو دنیا بھر کے ماموروں اور مُرسلوں سے بڑھ کر تھے.اِن وجوہات احکام آیات کے علاوہ میرے نزدیک اور بھی بہت سے وجوہات ہیں.منجملہ ان کے ایک الٓرٰ کے لفظ رٰ سے پتا لگتا ہے کہ یہ لفظ مجدّدوں اور مُرسلوں کے سلسلۂ جاریہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو قیامت تک جاری ہے.اب اس سلسلہ میں آنے والے مجدّدوں کے خوارق ان کی کامیابیوں، ان کی پاک تاثیروں وغیرہ وجوہات، احکام، آیات کو گن بھی نہیں سکتے.متبعین کی کامیابیاں متبوع کی ہی کامیابیاں ہوتی ہیں اور یہ سب خوارق اور کامیابیاں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپؐ کے متبعین مجدّدوں کے ذریعہ سے ہوئیں اور قیامت تک ہوں گی درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی کامیابیاں ہیں.غرض ہر صدی کے سر پر مجدّد کا آنا صاف طور پر بتلارہا ہے کہ مُردوں سے استمداد خدا تعالیٰ کی منشا کے موافق نہیں.اگر مُردوں سے مدد کی ضرورت ہوتی تو پھر زندوں کے آنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہزاروں ہزار جو اولیاء اللہ پیدا ہوئے ہیں اس کا کیا مطلب تھا؟ مجدّدین کا سلسلہ کیوں جاری کیا جاتا؟ اگر اسلام مُردوں کے حوالے کیا جاتا تو یقیناً سمجھو کہ اس کا نام و نشان مِٹ گیا ہوتا.یہودیوں کا مذہب مُردوں کے حوالے کیا گیا.نتیجہ کیا ہوا؟ عیسائیوں نے مُردہ پرستی سے
بتلاؤ کیا پایا؟ مُردوں کو پُوجتے پُوجتے خود مُردہ ہوگئے.نہ مذہب میں زندگی کی رُوح رہی نہ ماننے والوں میں زندگی کے آثار باقی رہے.اول سے لے کر آخر تک مُردوں ہی کا مجمع ہوگیا.اسلام کا حیّ وقیوم خدا اسلام ایک زندہ مذہب ہے.اسلام کا خدا حیّ و قیوم خدا ہے.پھر وہ مُردوں سے پیار کیوں کرنے لگا.وہ حیّ و قیوم خدا تو بار بار مُردوں کو جلاتا ہے.يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحدید:۱۸) تو کیا مُردوں کے ساتھ تعلق پیدا کرا کر جلاتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں.اسلام کی حفاظت کا ذمہ اسی حیّ وقیوم خدا نے اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:۱۰) کہہ کر اُٹھایا ہو اہے.پس ہر زمانہ میں یہ دین زندوں سے زندگی پاتا ہے اور مُردوں کو جِلاتا ہے.یاد رکھو اس میں قدم قدم پر زندے آتے ہیں.قرآن کریم کی تفصیل پھر فرمایا ثُمَّ فُصِّلَتْ (ھود :۲) ایک تو وہ تفصیل ہے جو قرآن کریم میں ہے.دوسری یہ کہ قرآن کریم کے معارف و حقائق کے اظہار کا سلسلہ قیامت تک دراز کیا گیا ہے.ہر زمانے میں نئے معارف اور اسرار ظاہر ہوتے ہیں.فلسفی اپنے رنگ میں، طبیب اپنے مذاق پر، صوفی اپنے طرز پر بیان کرتے ہیں اور پھر یہ تفصیل بھی حکیم و خبیر خدا نے رکھی ہے.حکیم اس کو کہتے ہیں کہ جن چیزوں کا علم مطلوب ہو وہ کامل طور پر ہو اور پھر عمل بھی کامل ہو.ایسا کہ ہر ایک چیز کو اپنے اپنے محل و موقع پر رکھ سکے.حکمت کے معنی وَضْعُ الشَّیْءِ فِیْ مَـحَلِّہٖ اور خبیر مبالغہ کا صیغہ ہے.یعنی ایسا وسیع علم کہ کوئی چیز اس کی خبر سے باہر نہیں چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب مجید کو خاتم الکتب ٹھہرایا تھا اور اس کا زمانہ قیامت تک دراز تھا.وہ خوب جانتا تھا کہ کس طرح پر یہ تعلیمیں ذہن نشین کرنی چاہئیں چنانچہ اسی کے مطابق تفاصیل کی ہیں.پھر اس کا سلسلہ جاری رکھا کہ جو مجدّد و مصلح احیاءِ دین کے لئے آتے ہیں وہ خود مفصّل آتے ہیں.قرآن کریم کا خلاصہ اور مغز اس کے بعد ایک عجیب بات سوال مقدر کے جواب کے طور پر بیان کی گئی ہے یعنی اس قدر تفاصیل جو بیان کی جاتی ہیں ان کا خلاصہ اور مغز کیا ہے اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَ (ہود:۳) خدا تعالیٰ کے سوا ہرگز ہرگز کسی کی پرستش نہ
کرو.اصل بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کی علّت غائی یہی عبادت ہے.جیسے دوسری جگہ فرمایا ہے وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذّٰریات:۵۷) عبادت کی حقیقت عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت، کجی کو دُور کرکے دل کی زمین کو ایسا صاف بنادے جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے.عرب کہتے ہیں مور معبد جیسے سُرمہ کو باریک کرکے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنالیتے ہیں.اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر، پتھر، ناہمواری نہ رہے اور ایسی صاف ہو کہ گویا رُوح ہی رُوح ہو اس کا نام عبادت ہے چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی کی جاوے تو اس میں شکل نظر آجاتی ہے اور اگر زمین کی کی جاوے تو اس میں انواع و اقسام کے پھل پیدا ہوجاتے ہیں.پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کجی اور ناہمواری، کنکر، پتھر نہ رہنے دے تو اس میں خدا نظر آئے گا.مَیں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے درخت اُس میں پیدا ہوکر نشوونما پائیں گے اور وہ اثمار شیریں و طیب ان میں لگیں گے جو اُكُلُهَا دَآىِٕمٌ (الرّعد:۳۶) کے مصداق ہوں گے.یاد رکھو کہ یہ وہی مقام ہے جہاں صوفیوں کے سلوک کا خاتمہ ہے.جب سالک یہاں پہنچتا ہے تو خدا ہی خدا کا جلوہ دیکھتا ہے.اس کا دل عرش الٰہی بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُس پر نزول فرماتا ہے.سلوک کی تمام منزلیں یہاں آکر ختم ہوجاتی ہیں کہ انسان کی حالتِ تعبد درست ہو جس میں رُوحانی باغ لگ جاتے ہیں اور آئینہ کی طرح خدا نظر آتا ہے.اسی مقام پر پہنچ کر انسان دنیا میں جنت کا نمونہ پاتا ہے اور یہاں ہی ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَاُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہً (البقرۃ:۲۶) کہنے کا حظ اور لُطف اُٹھاتا ہے.غرض حالت تعبد کی درستی کا نام عبادت ہے.پھر فرمایا اِنَّنِيْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ وَّ بَشِيْرٌ (ھود:۳) چونکہ یہ تعبد تام کا عظیم الشان کام انسان بدُوں کسی اُسوۂ حسنہ اور نمونہٴ کاملہ کے اور کسی قوتِ قدسی کے کامل اثر کے بغیر نہیں کرسکتا تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَیں اسی خدا کی طرف سے نذیر اور بشیر ہوکر آیا ہوں اگر میری اطاعت کرو گے اور مجھے قبول کرو گے تو تمہارے لیے بڑی
بڑی بشارتیں ہیں.کیونکہ مَیں بشیر ہوں اور اگر ردّ کرتے ہو تو یاد رکھو کہ مَیں نذیر ہوکر آیا ہوں.پھر تم کو بڑی بڑی عقوبتوں اور دُکھوں کا سامنا ہوگا.بہشت اور جہنم اصل بات یہ ہے کہ بہشتی زندگی اِسی دنیا سے شروع ہوجاتی ہے اور اسی طرح پر کورانہ زیست جو خدا تعالیٰ اور اس کے رسول سے بالکل الگ ہوکر بسر کی جائے جہنمی زندگی کا نمونہ ہے اور وہ بہشت جو مَرنے کے بعد ملے گا اسی بہشت کا اصل ہے اور اسی لیے تو بہشتی لوگ نعماء جنت کے حظ اُٹھاتے وقت کہیں گے هٰذَا الَّذِيْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ (البقرۃ:۲۶) دنیا میں انسان کو جو بہشت حاصل ہوتا ہے وہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشّمس:۱۰) پر عمل کرنے سے ملتا ہے.جب انسان عبادت کا اصل مفہوم اور مغز حاصل کرلیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے انعام و اکرام کا پاک سلسلہ جاری ہوجاتا ہے اور جو نعمتیں آئندہ بعد مُردن ظاہری.مرئی اور محسوس طور پر ملیں گی وہ اب رُوحانی طور پر پاتا ہے.پس یاد رکھو کہ جب تک بہشتی زندگی اسی جہان سے شروع نہ ہو اور اس عالم میں اُس کا حظ نہ اُٹھاؤ اُس وقت تک سیر نہ ہو اور تسلی نہ پکڑو کیونکہ وہ جو اس دنیا میں کچھ نہیں پاتا اور آئندہ جنت کی اُمید کرتا ہے وہ طمع خام کرتا ہے.اصل میں وہ مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسـرآءیل:۷۳) کا مصداق ہے.اس لیے جب تک ماسوی اللہ کے کنکر اور سنگ ریزے زمین دِل سے دُور نہ کرلو اور اُسے آئینہ کی طرح مُصفّا اور سرمہ کی طرح باریک نہ بنالو صبر نہ کرو.مُرشدِ کامل کی ضرورت ہاں یہ سچ ہے کہ انسان کسی مُزَکی النفس کی امداد کے بغیر اس سلوک کی منزل کو طَے نہیں کرسکتا.اسی لیے اس کے انتظام و انصرام کے لئے اللہ تعالیٰ نے کاملِ نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا اور پھر ہمیشہ کے لئے آپؐ کے سچے جانشینوں کا سلسلہ جاری فرمایا تاکہ ناعاقبت اندیش برہموؤں کا رَدّ ہو.جیسے یہ امر ایک ثابت شدہ صداقت ہے کہ جو کسان کا بچہ نہیں ہے نلائی (گوڈی دینے) کے وقت اصل درخت کو کاٹ دے گا.اسی طرح پر یہ زمینداری جو رُوحانی زمینداری ہے کامل طور پر کوئی نہیں کرسکتا جب تک کسی کامل
انسان کے ماتحت نہ ہو.جو تخم ریزی، آبپاشی، نلائی کے تمام مَرحلے طے کرچکا ہو.اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ مُرشد کامل کی ضرورت انسان کو ہے.مُرشد کامل کے بغیر انسان کا عبادت کرنا اسی رنگ کا ہے جیسے ایک نادان و ناواقف بچہ ایک کھیت میں بیٹھا ہوا اصل پودوں کو کاٹ رہا ہے اور اپنے خیال وہ سمجھتا ہے کہ وہ گوڈی کررہا ہے.یہ گمان ہر گز نہ کرو کہ عبادت خود ہی آجاوے گی.نہیں جب تک رسول نہ سکھلائے انقطاع الی اللہ اور تبتلِ تام کی راہیں حاصل نہیں ہوسکتیں.اِستغفار اور توبہ پھر طبعاً سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مشکل کام کیونکر حل ہو؟ اس کا علاج خود ہی بتلایا اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَيْهِ (ھود:۴) یاد رکھو کہ دو چیزیں اس امت کو عطا فرمائی گئی ہیں.ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے، دوسری حاصل کردہ قوت کو عملی طور پر دکھانے کے لئے.قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں.صوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کے اُٹھانے اور پھیرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے اسی طرح پر رُوحانی مگدر استغفار ہے اس کے ساتھ رُوح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے.جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے.غفر ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں.استغفار سے انسان اُن جذبات اور خیالات کو ڈھانپنے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے جو خدا تعالیٰ سے روکتے ہیں.پس استغفار کے یہی معنے ہیں کہ زہریلے مواد جو حملہ کرکے انسان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں اُن پر غالب آوے اور خدا تعالیٰ کے احکام کی بجاآوری کی راہ کی روکوں سے بچ کر انہیں عملی رنگ میں دکھائے.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں دو قسم کے مادے رکھے ہیں.ایک سمی مادہ ہے جس کا موکل شیطان ہے اور دوسرا تریاقی مادہ ہے.جب انسان تکبر کرتا ہے اور اپنے تئیں کچھ سمجھتا ہے اور تریاقی چشمہ سے مدد نہیں لیتا تو سمّی قوت غالب آجاتی ہے لیکن جب اپنے تئیں ذلیل و حقیر سمجھتا ہے اور اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت محسوس کرتا ہے اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک چشمہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے اس کی روح گداز ہو کر بہہ نکلتی ہے.اور یہی استغفار کے معنی ہیں.
یعنی یہ کہ اس قوت کو پا کر زہریلے مواد پر غالب آجاوے.غرض اس کے معنی یہ ہیں کہ عبادت پر یوں قائم رہو.اوّل.رسول کی اطاعت کرو.دوسرے ہر وقت خدا سے مدد چاہو.ہاں پہلے اپنے رب سے مدد چاہو.جب قوت مل گئی تو تُوْبُوْۤا اِلَيْهِ یعنی خدا کی طرف رجوع کرو.استغفار کو توبہ پر تقدم حاصل ہے استغفار اور توبہ دو چیزیں ہیں.ایک وجہ سے استغفار کو توبہ پر تقدم ہے.کیونکہ استغفار مدد اور قوت ہے جو خدا سے حاصل کی جاتی ہے اور توبہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے.عادۃ اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے گا تو خدا تعالیٰ ایک قوت دے دے گا اور پھر اس قوت کے بعد انسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاوے گا اور نیکیوں کے کرنے کے لئے اس میں ایک قوت پیدا ہو جاوے گی جس کا نام تُوْبُوْۤا اِلَيْهِ ہے اس لئے طبعی طور پر بھی یہی ترتیب ہے.غرض اس میں ایک طریق ہے جو سالکوں کے لئے رکھا ہے کہ سالک ہر حالت میں خدا سے استمداد چاہے.سالک جب تک اللہ تعالیٰ سے قوت نہ پائے گا کیا کر سکے گا؟ توبہ کی توفیق استغفار کے بعد ملتی ہے.اگر استغفار نہ ہو تو یقیناً یاد رکھو کہ توبہ کی قوت مَر جاتی ہے.پھر اگر اس طرح پر استغفار کرو گے اور پھر توبہ کرو گے تو نتیجہ یہ ہو گا يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى (ھود:۴) سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر استغفار اور توبہ کرو گے تو اپنے مراتب پالو گے.ہر ایک شخص کے لئے ایک دائرہ ہے جس میں وہ مدارج ترقی کو حاصل کرتا ہے.ہر ایک آدمی نبی، رسول، صدیق، شہید نہیں ہو سکتا.غرض اس میں شک نہیں کہ تفاضل درجات اَمر حق ہے.اس کے آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان امور پر مواظبت کرنے سے ہر ایک سالک اپنی اپنی استعداد کے موافق درجات اور مراتب کو پالے گا.یہی مطلب ہے اس آیت کا وَ يُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ (ھود:۴) لیکن اگر زیادت لے کر آیا ہے تو خدا تعالیٰ اس مجاہدہ میں اس کو زیادت دے دے گا اور اپنے فضل کو پالے گا جو طبعی طور پر اس کا حق ہے.ذی الفضل کی اضافت ملکی ہے.مطلب یہ ہے کہ خدا محروم نہ رکھے گا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ میاں ہم نے ولی بننا ہے؟ جو ایسا کہتے ہیں وہ دنیُّ الطبع کافر ہیں.انسان
کو مناسب ہے کہ قانون قدرت کو ہاتھ میں لے کر کام کرے.مُردہ سے مدد مانگنا جائز نہیں اب ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ مُردوں سے مدد مانگنے کا خدا نے کہیں ذکر نہیں کیا بلکہ زندوں ہی کا ذکر فرمایا.خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا جو اسلام کو زندوں کے سپرد کیا.اگر اسلام کو مُردوں پر ڈالتا تو نہیں معلوم کیا آفت آتی.مُردوں کی قبریں کہاں کم ہیں.کیا ملتان میں تھوڑی قبریں ہیں.’’گردو گرما گداو گو رستان‘‘ # اس کی نسبت مشہور ہے.میں بھی ایک بار ملتان گیا.جہاں کسی قبر پر جاؤ مجاور کپڑے اتارنے کو گرد ہوجاتے ہیں.پاک پٹن میں مُردوں کے فیضان سے دیکھ لو کیا ہو رہا ہے؟اجمیر میں جا کر دیکھو.بدعات اور محدثات کا بازار کیا گرم ہے.غرض مُردوں کو دیکھو گے تو اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ ان کے مشاہد میں سوا بدعات اور ارتکاب مناہی کے کچھ نہیں.خدا تعالیٰ نے جو صراط المستقیم مقرر فرمایا ہے وہ زندوں کی راہ ہے، مُردوں کی راہ نہیں.پس جو چاہتا ہے کہ خدا کو پائے اور حیّ و قیوم خدا کو ملے تو وہ زندوں کو تلاش کرے کیونکہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے نہ مُردہ جن کا خدا مُردہ ہے جن کی کتاب مُردہ وہ مُردوں سے برکت چاہیں تو کیا تعجب ہے.لیکن اگر سچا مسلمان جس کا خدا زندہ خدا، جس کا نبی زندہ نبی، جس کی کتاب زندہ کتاب ہے اور جس دین میں ہمیشہ زندوں کا سلسلہ جاری ہو اور ہر زمانہ میں ایک زندہ انسان خدا تعالیٰ کی ہستی پر زندہ ایمان پیدا کرنے والا آتا ہو وہ اگر اس زندہ کو چھوڑ کر بوسیدہ ہڈیوں اور قبروں کی تلاش میں سر گرداں ہو تو البتہ تعجب اور حیرت کی بات ہے!!! زندوں کی صحبت تلاش کرو پس تم کو چاہیے کہ تم زندوں کی صحبت تلاش کرو اور باربار اُس کے پاس آکر بیٹھو.ہاں ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک دو مرتبہ میں تاثیر نہیں ہوتی.سنّت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ ترقی تدریجاً ہوتی ہے.جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں تدریجی ترقی ہوئی.جو سلسلہ منہاج نبوۃ پر قائم ہوگا اس میں بھی تدریجی ترقی کا قانون کام کرتا ہوگا.پس چاہیے کہ صحابہؓ کی طرح اپنے کاروبار چھوڑ کر یہاں آکر بار بار اور عرصہ تک صُحبت میں رہو تاکہ تم دیکھو جو صحابہ ؓ نے دیکھا اور وہ پاؤ جو ابوبکر ؓ اور عمرؓ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے
پایا.کسی نے کیا سچ کہا ہے.یا تُوں لوڑ مقدمے یا توُں اللہ نُوں لوڑ تم دیکھتے ہو کہ میں بیعت میں یہ اقرار لیتا ہوں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.یہ اس لیے تاکہ مَیں دیکھوں کہ بیعت کنندہ اس پر کیا عمل کرتا ہے؟ ذرہ سی نئی زمین کسی کو مل جاوے تو وہ گھربار چھوڑ کر وہاں جابیٹھتا ہے اور ضروری ہوتا ہے کہ وہ وہاں رہے تا وہ زمین آباد ہو.محمد حسین جیسے کو بھی بار میں جاکر ٹھہرنے کی ضرورت آپڑی.پھر ہم جو ایک نئی زمین اور ایسی زمین دیتے ہیں جس میں اگر صفائی اور محنت سے کاشت کی جاوے تو ابدی پھل لگ سکتے ہیں.کیوں یہاں آکر لوگ گھر نہیں بناتے اور اگر اس بے احتیاطی کے ساتھ اس زمین کو کوئی لیتا ہے کہ بیعت کے بعد یہاں آنا اور چند روز ٹھہرنا بھی دوبھر اور مشکل معلوم دیتا ہے تو پھر اس کی فصل کے پکنے اور بارآور ہونے کی کیا اُمید ہوسکتی ہے.خدا تعالیٰ نے قلب کا نام بھی زمین رکھا ہے اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الـحدید:۱۸) زمیندار کو کس قدر تردّد کرنا پڑتا ہے.بیل خریدتا ہے.ہل چلاتا ہے.تخم ریزی کرتا ہے.آبپاشی کرتا ہے.غرضیکہ بہت بڑی محنت کرتا ہے اور جب تک خود دخل نہ دے کچھ بھی نہیں بنتا.لکھا ہے کہ ایک شخص نے پتھر پر لکھا دیکھا کہ ’’زرع زر ہی زر ہے.‘‘ کھیتی تو کرنے لگا مگر نوکروں کے سُپرد کردی لیکن جب حساب لیا کچھ وصول ہونا تو درکنار کچھ واجب الادا ہی نکلا.پھر اُس کو اس موقع پر شک پیدا ہوا تو کسی دانش مند نے سمجھایا کہ نصیحت تو سچی ہے لیکن تمہاری بے وقوفی ہے.خود مہتمم بنو تب فائدہ ہوگا.ٹھیک اسی طرح پر ارضِ دل کی خاصیت ہے جو اُس کو بے عزتی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس کو خدا تعالیٰ کا فضل اور برکت نہیں ملتی.یاد رکھو مَیں جو اصلاحِ خلق کے لئے آیا ہوں جو میرے پاس آتا ہے وہ اپنی استعداد کے موافق ایک فضل کا وارث بنتا ہے لیکن مَیں صاف طور پر کہتا ہوں کہ وہ جو سرسری طور پر بیعت کرکے چلا جاتا ہے اور پھر اُس کا پتا بھی نہیں ملتا کہ کہاں ہے اور کیا کرتا ہے اُس کے لئے کچھ نہیں ہے وہ جیسا تہی دست آیا تھا، تہی دست جاتا ہے.یہ فضل اور برکت صحبت میں رہنے سے ملتی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صحابہؓ
بیٹھے.آخر نتیجہ یہ ہوا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَللّٰہُ اَللّٰہُ فِیْ اَصْحَابِیْ.گویا صحابہؓ خدا کا رُوپ ہوگئے.یہ درجہ ممکن نہ تھا کہ اُن کو ملتا اگر دُور ہی بیٹھے رہتے.یہ بہت ضروری مسئلہ ہے.خدا کا قُرب، بندگانِ خدا کا قرب ہے اور خدا تعالیٰ کا ارشاد كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التوبۃ: ۱۱۹) اس پر شاہد ہے.یہ ایک سِرّ ہے جس کو تھوڑے ہیں جو سمجھتے ہیں.مامور من اللہ ایک ہی وقت میں ساری باتیں کبھی بیان نہیں کرسکتا بلکہ وہ اپنے دوستوں کے امراض کی تشخیص کرکے حسبِ موقع اُن کی اصلاح بذریعہ وعظ و نصیحت کرتا رہتا ہے اور وقتاً فوقتاً اُن کے امراض کا ازالہ کرتا رہتا ہے.اب جیسے آج میں ساری باتیں بیان نہیں کرسکتا.ممکن ہے کہ بعض آدمی ایسے ہوں جو آج ہی کی تقریر سُن کر چلے جاویں اور بعض باتیں ان میں اُن کے مذاق اور مرضی کے خلاف ہوں تو وہ محروم گئے لیکن جو متواتر یہاں رہتا ہے وہ ساتھ ساتھ ایک تبدیلی کرتا جاتا ہے اور آخر اپنے مقصد کو پالیتا ہے.ہر ایک آدمی سچی تبدیلی کا محتاج ہے.جس میں تبدیلی نہیں ہے وہ مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى کا مصداق ہے.جماعت میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہو مجھے بہت سوز و گداز رہتا ہے کہ جماعت میں ایک پاک تبدیلی ہو.جو نقشہ اپنی جماعت کی تبدیلی کا میرے دل میں ہے وہ ابھی پیدا نہیں ہوا اور اس حالت کو دیکھ کر میری وہی حالت ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ (الشعرآء:۴) مَیں نہیں چاہتا کہ چند الفاظ طوطے کی طرح بیعت کے وقت رَٹ لیے جاویں اس سے کچھ فائدہ نہیں.تزکیہٴ نفس کا علم حاصل کرو کہ ضرورت اسی کی ہے.ہماری یہ غرض ہرگز نہیں کہ مسیحؑ کی وفات، حیات پر جھگڑے اور مباحثہ کرتے پھرو.یہ ایک ادنیٰ سی بات ہے اسی پر بس نہیں ہے.یہ تو ایک غلطی تھی جس کی ہم نے اصلاح کر دی لیکن ہمارا کام اور ہماری غرض ابھی اس سے بہت دُور ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرو اور بالکل ایک نئے انسان بن جاؤ اس لیے ہر ایک کو تم میں سے ضروری ہے کہ وہ اس راز کو سمجھے اور ایسی تبدیلی کرے کہ وہ کہہ سکے کہ مَیں اور ہوں.مَیں پھر کہتا ہوں کہ یقیناً یقیناً جب تک ایک مدت تک ہماری صحبت میں رہ کر کوئی یہ نہ سمجھے کہ مَیں اور ہوگیا ہوں اسے فائدہ نہیں پہنچتا.
فطرت اور عقلی حالت اور جذبات کی حالت میں اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل ہو جاوے تو کچھ بات ہے ورنہ کچھ بھی نہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کے اشغال چھوڑ دو.خدا تعالیٰ نے دنیا کے شغلوں کو جائز رکھا ہے کیونکہ اس راہ سے بھی ابتلا آتا ہے اور اسی ابتلا کی وجہ سے انسان چور، قمار باز، ٹھگ، ڈکیت بن جاتا ہے اور کیا کیا بُری عادتیں اختیار کرلیتا ہے مگر ہر ایک چیز کی ایک حد ہوتی ہے.دنیوی شغلوں کو اس حد تک اختیار کرو کہ وہ دین کی راہ میں تمہارے لیے مدد کا سامان پیدا کرسکیں اور مقصود بالذّات اس میں دین ہی ہو.پس ہم دنیوی شغلوں سے بھی منع نہیں کرتے اور یہ بھی نہیں کہتے کہ دن رات دنیا ہی کے دھندوں اور بکھیڑوں میں منہمک ہوکر خدا تعالیٰ کا خانہ بھی دنیا ہی سے بھر دو.اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ محرومی کے اسباب بہم پہنچاتا ہے اور اس کی زبان پر نرا دعویٰ ہی رہ جاتا ہے.الغرض زندوں کی صحبت میں رہو تاکہ زندہ خدا کا جلوہ تم کو نظر آوے.۱۰۹؎ ۹؍جولائی ۱۹۰۰ء دعا بہترین ہمدردی ہے یاد رکھو! ہمدردی تین قسم کی ہے.اوّل جسمانی، دوم مالی، تیسری قسم ہمدردی کی دعا ہے.جس میں نہ صرف زر ہوتا ہے اور نہ زور لگانا پڑتا ہے اور اس کا فیض بہت ہی وسیع ہے کیونکہ جسمانی ہمدردی تو اس صورت میں ہی انسان کرسکتا ہے جب کہ اس میں طاقت بھی ہو.مثلاً ایک ناتواں مجروح مسکین اگر کہیں پڑا تڑپتا ہو تو کوئی شخص جس میں خود طاقت و توانائی نہیں ہے کب اُس کو اُٹھا کر مدد دے سکتا ہے.اسی طرح پر اگر کوئی بے کس بے بس، بے سرو سامان انسان بھوک سے پریشان ہو تو جب تک مال نہ ہو اس کی ہمدردی کیونکر ہوگی.مگر دعا کے ساتھ ہمدردی ایک ایسی ہمدردی ہے کہ نہ اس کے واسطے کسی مال کی ضرورت ہے اور نہ کسی طاقت کی حاجت بلکہ جب تک انسان انسان ہے وہ دُوسرے کے لیے دعا کرسکتا ہے اور اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہے.اس ہمدردی کا فیض بہت وسیع ہے اور اگر اس ہمدردی سے
انسان کام نہ لے تو سمجھو بہت ہی بڑا بدنصیب ہے.مَیں نے کہا ہے کہ مالی اور جسمانی ہمدردی میں انسان مجبور ہوتا ہے مگر دعا کے ساتھ ہمدردی میں مجبور نہیں ہوتا.میرا تو یہ مذہب ہے کہ دعا میں دشمنوں کو بھی باہر نہ رکھے.جس قدر دعا وسیع ہوگی اسی قدر فائدہ دعا کرنے والے کو ہوگا اور دعا میں جس قدر بخل کرے گا اسی قدر اللہ تعالیٰ کے قُرب سے دُور ہوتا جاوے گا اور اصل تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے عطیہ کو جو بہت ہی وسیع ہے جو شخص محدود کرتا ہے اس کا ایمان بھی کمزور ہے.لمبی عمر پانے کا نسخہ دُوسروں کے لئے دعا کرنے میں ایک عظیم الشان فائدہ یہ بھی ہے کہ عمر دراز ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ وعدہ کیا ہے کہ جو لوگ دوسروں کو نفع پہنچاتے ہیں اور مفید وجود ہوتے ہیں اُن کی عمر دراز ہوتی ہے جیسے کہ فرمایا اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ (الرّعد:۱۸) اور دوسری قسم کی ہمدردیاں چونکہ محدود ہیں اس لئے خصوصیت کے ساتھ جو خیر جاری قرار دی جاسکتی ہے وہ یہی دعا کی خیر جاری ہے.جب کہ خیر کا نفع کثرت سے ہے تو اس آیت کا فائدہ ہم سب سے زیادہ دعا کے ساتھ اُٹھاسکتے ہیں اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ جو دنیا میں خیر کا موجب ہوتا ہے اس کی عمر دراز ہوتی ہے اور جو شر کا موجب ہوتا ہے وہ جلدی اُٹھا لیا جاتا ہے.کہتے ہیں شیر سنگھ چڑیوں کو زندہ پکڑ کر آگ پر رکھا کرتا تھا.وہ دو برس کے اندر ہی مارا گیا.پس انسان کو لازم ہے کہ وہ خَیْرُالنَّاسِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاسَ بننے کے واسطے سوچتا رہے اور مطالعہ کرتا رہے.جس طرح طبابت میں حیلہ کام آتا ہے اسی طرح نفع رسانی اور خیر میں بھی حیلہ ہی کام دیتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ انسان ہر وقت اس تاک اور فکر میں لگا رہے کہ کس راہ سے دُوسرے کو فائدہ پہنچا سکتا ہے.سائل کو جھڑکنا نہیں چاہیے بعض آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ سائل کو دیکھ کر چڑ جاتے ہیں اور اگر کچھ مولویت کی رگ ہو تو اس کو بجائے کچھ دینے کے سوال کے مسائل سمجھانے شروع کردیتے ہیں اور اس پر اپنی مولویت کا رُعب بٹھا کر بعض اوقات سخت سُست بھی کہہ بیٹھتے ہیں.افسوس ان لوگوں کو عقل نہیں اور سوچنے کا مادہ نہیں رکھتے جو
ایک نیک دل اور سلیم الفطرت انسان کو ملتا ہے.اتنا نہیں سوچتے کہ سائل اگر باوجود صحت کے سوال کرتا ہے تو وہ خود گناہ کرتا ہے.اس کو کچھ دینے میں تو گناہ لازم نہیں آتا بلکہ حدیث شریف میں لَوْ اَتَاکَ رَاکِبًا کے الفاظ آئے ہیں.یعنی خواہ سائل سوار ہوکر بھی آوے تو بھی کچھ دے دینا چاہیے اور قرآن شریف میں وَ اَمَّا السَّآىِٕلَ فَلَا تَنْهَرْ (الضّحٰی:۱۱) کا ارشاد آیا ہے کہ سائل کو مت جھڑک.اس میں یہ کوئی صراحت نہیں کی گئی کہ فلاں قسم کے سائل کو مت جھڑک اور فلاں قسم کے سائل کو جھڑک.پس یاد رکھو کہ سائل کو نہ جھڑکو کیونکہ اس سے ایک قسم کی بداخلاقی کا بیج بویا جاتا ہے.اخلاق یہی چاہتا ہے کہ سائل پر جلدی ناراض نہ ہو.یہ شیطان کی خواہش ہے کہ وہ اس طریق سے تم کو نیکی سے محروم رکھے اور بدی کا وارث بنادے.ایک نیکی سے دوسری نیکی پیدا ہوتی ہے غور کرو کہ ایک نیکی کرنے سے دوسری نیکی پیدا ہوتی ہے اور اسی طرح پر ایک بدی دوسری بدی کا موجب ہوجاتی ہے.جیسے ایک چیز دوسری کو جذب کرتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے یہ تجاذب کا مسئلہ ہر فعل میں رکھا ہوا ہے.پس جب سائل سے نرمی کے ساتھ پیش آئے گا اور اس طرح پر اخلاقی صدقہ دے دے گا تو قبض دور ہوکر دوسری نیکی بھی کرلے گا اور اُس کو کچھ دے بھی دے گا.اخلاق نیکیوں کی کلید ہے اخلاق دوسری نیکیوں کی کلید ہے.جو لوگ اخلاق کی اصلاح نہیں کرتے وہ رفتہ رفتہ بے خیر ہوجاتے ہیں.میرا تو یہ مذہب ہے کہ دنیا میں ہر ایک چیز کام آتی ہے.زہر اور نجاست بھی کام آتی ہے.اسٹرکنیا بھی کام آتا ہے.اعصاب پر اپنا اثر ڈالتا ہے.مگر انسان جو اخلاقِ فاضلہ کو حاصل کرکے نفع رساں ہستی نہیں بنتا ایسا ہوجاتا ہے کہ وہ کسی بھی کام نہیں آسکتا.مُردار حیوان سے بھی بدتر ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی تو کھال اور ہڈیاں بھی کام آجاتی ہیں.اُس کی تو کھال بھی کام نہیں آتی.اور یہی وہ مقام ہوتا ہے.جہاں انسان بَلْ ھُمْ اَضَلُّ (الاعراف:۱۸۰) کا مصداق ہوجاتا ہے.پس یاد رکھو کہ اخلاق کی درستی بہت ضروری چیز ہے کیونکہ نیکیوں کی ماں اخلاق ہی ہے.
خیر کا پہلا درجہ جہاں سے انسان قوت پاتا ہے اخلاق ہے.دو لفظ ہیں.ایک خَلق دوسرا خُلق.خَلق ظاہری پیدائش کا نام ہے اور خُلق باطنی پیدائش کا.جیسے ظاہر میں کوئی خوب صورت ہوتا ہے اور کوئی بہت ہی بدصورت.اسی طرح پر کوئی اندرونی پیدائش میں نہایت حسین اور دلربا ہوتا ہے اور کوئی اندر سے مجذوم اور مبروص کی طرح مکروہ.لیکن ظاہری صورت چونکہ نظر آتی ہے اس لیے ہر شخص دیکھتے ہی پہچان لیتا ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ بدصورت اور بدوضع ہو مگر چونکہ اس کو دیکھتا ہے اس لیے اُس کو پسند کرتا ہے اور خُلق کو چونکہ دیکھا نہیں اس لیے اُس کی خوبی سے ناآشنا ہوکر اُس کو نہیں چاہتا.ایک اندھے کے لئے خوبصورتی اور بدصورتی دونوں ایک ہی ہیں.اسی طرح پر وہ انسان جس کی نظر اندرونہ تک نہیں پہنچتی اس اندھے کی ہی مانند ہے.خَلق تو ایک بدیہی بات ہے.مگر خُلق ایک نظری مسئلہ ہے.اگر اخلاقی بدیاں اور ان کی لعنت معلوم ہو تو حقیقت کھلے.غرض اخلاقی خوبصورتی ایک ایسی خوبصورتی ہے جس کو حقیقی خوبصورتی کہنا چاہیے.بہت تھوڑے ہیں جو اس کو پہچانتے ہیں.اخلاق نیکیوں کی کلید ہے.جیسے باغ کے دروازہ پر قفل ہو.دُور سے پھل پھول نظر آتے ہیں مگر اندر نہیں جاسکتے.لیکن اگر قفل کھول دیا جائے تو اندر جاکر پوری حقیقت معلوم ہوتی ہے اور دل و دماغ میں ایک سرور اور تازگی آتی ہے.اخلاق کا حاصل کرنا گویا اس قفل کو کھول کے اندر داخل ہونا ہے.ترکِ اخلاق ہی بدی اور گناہ ہے کسی کو اخلاق کی کوئی قوت نہیں دی گئی مگر اس کو بہت سی نیکیوں کی توفیق ملی.ترکِ اخلاق ہی بدی اور گناہ ہے.ایک شخص جو مثلاً زنا کرتا ہے اُس کو خبر نہیں کہ اُس عورت کے خاوند کو کس قدر صدمہ عظیم پہنچتا ہے.اب اگر یہ اُس تکلیف اور صدمہ کو محسوس کرسکتا اور اس کو اخلاقی حصہ حاصل ہوتا تو ایسے فعلِ شنیع کا مُرتکب نہ ہوتا.اگر ایسے نابکار انسان کو یہ معلوم ہوجاتا کہ اس فعلِ بد کے ارتکاب سے نوعِ انسان کے لئے کیسے کیسے خطرناک نتائج پیدا ہوتے ہیں تو ہٹ جاتا.ایک شخص جو چوری کرتا ہے کم بخت ظالِم اتنا بھی تو نہیں کرتا کہ رات کے کھانے کے واسطے ہی چھوڑ جائے.اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک غریب کی
کئی سالوں کی محنت کو ملیا میٹ کردیتا ہے اور جو کچھ گھر میں پاتا ہے سب کا سب لے جاتا ہے.ایسی قبیح بدی کی اصل جڑ کیا ہے؟ اخلاقی قوت کا نہ ہونا.اگر رحم ہوتا اور وہ یہ سمجھ سکتا کہ بچے بھوک سے بلبلائیں گے.جن کی چیخوں سے دشمن کا بھی کلیجہ لرزتا ہے اور یہ معلوم کرکے کہ رات سے بھوکے ہیں اور کھانے کو ایک سوکھا ٹکڑا بھی نہیں ملا تو پِتّا پانی ہوجاتا ہے.اب اگر ان حالتوں کو محسوس کرتا اور اخلاقی حالت سے اندھا نہ ہوتا تو کیوں چوری کرتا.آئے دن اخبارات میں دردناک موتوں کی خبریں پڑھنے میں آتی ہیں کہ فلاں بچہ زیور کے لالچ سے مارا گیا.فلاں جگہ کسی عورت کو قتل کر ڈالا.مَیں خود ایک مرتبہ اسیسر ہوکر گیا تھا.ایک شخص نے ۱۲؍(بارہ آنے) یا عہ۴؍ (سوا روپیہ) میں ایک بچہ کا خون کیا تھا.اب سوچ کر دیکھو کہ اگر اخلاقی حالت دُرست ہو تو ایسی مصیبتیں کیوں آئیں؟ ممکن ہے کہ اپنے جیسے انسان پر مصیبت آئے اور یہ محسوس نہ کرے؟ چارپایوں جیسے خصائل يَاْكُلُوْنَ كَمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ (مـحمد : ۱۳) چارپایوں کی طرح کھاتے ہیں.اس کے کئی پہلو ہیں.اول.چارپایہ کیفیت اور کمیت میں فرق نہیں کرسکتا اور جو کچھ آگے آتا ہے اور جس قدر آتا ہے کھاتا ہے.جیسے کتّا اس قدر کھاتا ہے کہ آخر قے کرتا ہے.دوسرا.یہ کہ اَنعام حلال اور حرام میں تمیز نہیں کرتے.ایک بیل کبھی یہ تمیز نہیں کرتا کہ یہ ہمسایہ کا کھیت ہے اس میں نہ جاؤں.ایسا ہی ہر ایک اَمر جو کھانے کے لحاظ سے ہو نہیں کرتا.کتّے کو ناپاکی، پاکی کے متعلق کوئی لحاظ نہیں اور پھر چارپایہ کو اعتدال نہیں.یہ لوگ جو اخلاقی اُصولوں کو توڑتے ہیں اور پروا نہیں کرتے کہ گویا انسان نہیں.پاک پلید کا تو یہ حال عرب میں مُردے کتّے کھالیتے تھے.اب تک اکثر ممالک میں یہ حال ہے کہ چوہوں اور کتوں اور بلیوں کو بڑے لذیذ کھانے سمجھ کر کھایا جاتا ہے.چوہڑے، چمار، مُردار خوار قومیں یہاں بھی موجود ہیں.پھر یتیموں کا مال کھانے میں کوئی تردّد و تأمل نہیں.جیسے یتیم کا گھاس گائے کے سامنے رکھ دیا جائے بلا تردّد کھالے گی.ایسا ہی ان لوگوں کا حال ہے.یہی معنے ہیں وَ النَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ (مـحمد:۱۳) ان کا ٹھکانا دوزخ
ہوگا.غرض یاد رکھو کہ دو پہلو ہیں.ایک عظمت الٰہی کا جو اُس کے خلاف ہے وہ بھی اخلاق کے خلاف ہے اور دوسرا شفقت علیٰ خلق اللہ کا.پس جو نوعِ انسان کے خلاف ہو وہ بھی اخلاق کے برخلاف ہے.آہ! بہت تھوڑے لوگ ہیں جو ان باتوں پر جو انسان کی زندگی کا اصل مقصد اور غرض ہیں غور کرتے ہیں.خود ساختہ وظائف و اذکار بڑے بڑے صوفیوں، سجادہ نشینوں نے اپنا کمال اس میں سمجھ رکھا ہے کہ بڑے لمبے چوڑے وظائف اور اذکار و اشغال خود ہی تجویز کر لئے ہیں اور اُن میں پڑ کر اصل کو بھی کھو بیٹھے ہیں.پھر بڑے سے بڑا کام کیا تو یہ کرلیا کہ چلّہ کرتے ہیں.کچھ جو ساتھ لے جاتے ہیں.ایک آدمی مقرر کرلیتے ہیں جو ہر روز دودھ یا اور کوئی چیز پہنچا آتا ہے.ایک تنگ و تاریک گندی سی کوٹھڑی یا غار ہوتی ہے اور اس میں پڑے رہتے ہیں.خدا جانے وہ اس میں کس طرح رہتے ہیں.پھر بُری بُری حالتوں میں باہر نکلتے ہیں.یہ اسلام رہ گیا ہے.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان چلّہ کشیوں سے اسلام اور مسلمانوں یا عام لوگوں کو کیا فائدہ پہنچتا ہے اور اس میں اخلاق میں کیا ترقی ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی علوِّ شان سب عزتوں سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہے جس کا کل اسلامی دنیا پر اثر ہے.آپؐ ہی کی غیرت نے پھر دنیا کو زندہ کیا.عرب جن میں زنا، شراب اور جنگ جوئی کے سوا کچھ رہا ہی نہ تھا اور حقوق العباد کا خون ہوچکا تھا.ہمدردی اور خیر خواہی نوعِ انسان کا نام و نشان تک مِٹ چکا تھا اور نہ صرف حقوق العباد ہی تباہ ہوچکے تھے بلکہ حقوق اللہ پر اس سے بھی زیادہ تاریکی چھاگئی تھی.اللہ تعالیٰ کی صفات پتھروں، بوٹیوں اور ستاروں کو دی گئی تھیں.قسم قسم کا شرک پھیلا ہوا تھا.عاجز انسان اور انسان کی شرمگاہوں تک کی پوجا دنیا میں ہورہی تھی.ایسی حالتِ مکروہ کا نقشہ اگر ذرا دیر کے لیے بھی ایک سلیم الفطرت انسان کے سامنے آجاوے تو وہ ایک خطرناک ظلمت اور ظلم و جور کے بھیانک اور خوفناک نظارہ کو دیکھے گا.فالج ایک طرف گرتا ہے مگر یہ فالج ایسا فالج تھا کہ دونوں طرف گرا تھا.فساد کامل دنیا میں برپا ہوچکا تھا.نہ بحَر میں امن و سلامتی تھی اور نہ بَرّ پر
سکون وراحت.اب اس تاریکی اور ہلاکت کے زمانہ میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں آپؐ نے آکر کیسے کامل طور پر اس میزان کے دونوں پہلو درست فرمائے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو اپنے اصلی مرکز پر قائم کر دکھایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی طاقت کا کمال اس وقت ذہن میں آسکتا ہے جبکہ اُس زمانہ کی حالت پر نگاہ کی جاوے.مخالفوں نے آپؐ کو اور آپؐ کے متبعین کو جس قدر تکالیف پہنچائیں اور اس کے بالمقابل آپؐ نے ایسی حالت میں جب کہ آپؐ کو پورا اقتدار اور اختیار حاصل تھا ان سے جو کچھ سلوک کیا وہ آپؐ کی علوِّ شان کو ظاہر کرتا ہے.ابوجہل اور اس کے دُوسرے رفیقوں نے کون سی تکلیف تھی جو آپؐ کو اور آپؐ کے جاں نثار خادموں کو نہیں دی.غریب مسلمان عورتوں کو اُونٹوں سے باندھ کر مخالف جہات میں دوڑایا اور وہ چیری جاتی تھیں.محض اس گُناہ پر کہ وہ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ پر کیوں قائل ہوئیں.مگر آپؐ نے اس کے مقابل صبر و برداشت سے کام لیا.اور جبکہ مکہ فتح ہوا تو لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (یوسف:۹۳) کہہ کر معاف فرمایا.یہ کس قدر اخلاقی کمال ہے جو کسی دُوسرے نبی میں نہیں پایا جاتا.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُـحَمَّدٍ.غرض بات یہ ہے کہ اخلاقِ فاضلہ حاصل کرو کہ نیکیوں کی کلید اخلاق ہی ہیں.۱۱۰؎ ۱۶؍ جولائی ۱۹۰۰ء دو لطیف شعر ہر کہ روشن شُد دل و جان و درُوں از حضرتش کیمیا باشد بسر برون دمے در صحبتش # چیست دنیا چوں شبِ تار و زماں ابر سیاہ آفتابی رہنما یک ساعتی در خدمتش #
عزیر نبی کی دوبارہ زندگی کا راز اور مسئلہ وفات و حیات مسیحؑ مسیح علیہ السلام کی وفات کے منکر اپنے دلائل میں حضرت عزیر ؑکی زندگی کا سوال پیش کرتے ہیں کہ وہ سو برس مر کر پھر زندہ ہوا.مگر یاد رہے کہ یہ احیاء بعد الاماتت ہے اور احیاء کی کئی قسمیں ہیں.اول یہ کہ کوئی آدمی مَرنے کے بعد ایسے طور پر زندہ ہو جاوے کہ قبر پھٹ جاوے اور وہ اپنا بوریا بدھنا استر بستر اٹھا کر دنیا میں آجاوے.دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ایک نئی زندگی بخشے.جیسے اہل اللہ کو ایک دوسری زندگی دی جاتی ہے جس طرح پر ایک شخص نے خدا سے ڈر کر کہا تھا کہ میری راکھ اڑا دی جاوے.اس پر خدا تعالیٰ نے اس کو زندہ کیا.یہ راکھ کا اکٹھا کرنا بھی ایک جسمانی زندگی تھی.مَرنے کے بعد جو زندگی ملتی ہے.وہاں تو راکھ کا اکٹھا کرنا نہیں ہے.ہم کہتے ہیں کہ سب کچھ ہوا مگر اپنے گھر تو نہ آیا.مولوی صاحب نے کہا تھا کہ تسلی کے لئے ایک بات باقی ہے کہ ہم تجھ کو لوگوں کے لئے نشان بناویں گے.میں نے کہا تھا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ لوگوں کے سمجھے ہوئے کے موافق نشان ہو اور ایسا ہو کہ قبر پھٹ جاوے اور مُردہ نکل آوے.یہ غلط بات ہے.بعض آدمی حجۃ اللہ آیات اللہ کہلاتے ہیں.بعض وجود ہی نشان ہوتے ہیں.بعض کے مَرنے کے بعد نشان قائم رہتے ہیں.یہ بیان کرنا ضروری تھا کہ اس اعتراض کا منشا کیا ہے جس راہ کو ہم نے اختیار کیا ہے اس کے خلاف ہے.ہمارے مخالفوں کا مسیح کی نسبت تو یہ اعتقاد ہے کہ وہ زندہ ہی آسمان پر گئے اور زندہ ہی واپس آئیں گے، عزیر کے قصہ سے اس کو کیا تعلق اور کیا مشابہت ہے؟ یہ مشابہت تو تب ہوتی اگر معترض کا یہ مذہب ہوتا کہ مسیح علیہ السلام قبر پھٹ کر نکلیں گے.جبکہ ان کا یہ مذہب ہی نہیں تو پھر تعجب کی بات ہے کہ اس قصہ کو جو قیاس مع الفارق ہے کیوں پیش کرتے ہیں؟ ان کے معتقدات میں تو یہ ہے کہ کوئی اور شخص مسیح کا ہم شکل بن کر پھانسی ملا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام
زندہ اسی جسم سمیت اور اسی لباس میں آسمان پر اٹھائے گئے اور پھر یہ بھی تو نہیں بتلاتے کہ وہ آسمان پر بیٹھے کرتے کیا ہیں؟ بہشت میں نجاری کا کام ہی کرتے اور بہشتیوں کے لئے تخت بناتے.خیر ہم کو اس سے بحث نہیں ہے مگر جو نقشہ پیش کرتے ہیں اس کو عزیر کے قصہ سے کیا تعلق اور نسبت ہے؟ غرض اس سلسلہ میں یعنی مسیح کے قصہ میں عزیر کا قصہ داخل کرنا خلط مبحث ہے.ہمارا یہ مذہب ہے کہ عزیر کے قصہ کو مسیح کے آنے نہ آنے سے کچھ تعلق نہیں ہے.ہاں اگر رنگ سوال اَور ہو تو اَور بات ہے.یعنی عزیر کیونکر زندہ ہوا؟ ہم اس قسم کی حیات کے منکر ہیں اور سارا قرآن اول سے آخر تک منکر ہے.اللہ تعالیٰ نے جو تجویز بندوں کے لئے رکھی ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں وغیرہ پر ایمان رکھ کر خاتمہ اس طرح پر ہوتا ہے کہ فرشتہ ملک الموت آکر قبض روح کر لیتا ہے اور پھر اور واقعات پیش آتے ہیں.منکر نکیر آتے ہیں.اعمال آتے ہیں پھر کھڑکی نکالی جاتی ہے.پھر قرآن کریم کہتا ہے کہ موتٰی قیامت ہی کو اٹھیں گے یَبْعَثُ اللّٰہُ الْمَوْتٰی.معالم میں لکھا ہے کہ رجوع موتٰی نہیں ہوتا.ایک اہم نکتہ قرآن کریم کے دو حصے ہیں کوئی بات قصہ کے رنگ میں ہوتی ہے اور بعض احکام ہدایت کے رنگ میں ہوتے ہیں.بحیثیت ہدایت جو پیش کرتا ہے اس کا منشا ہے کہ مان لو جیسے اَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ (البقرۃ:۱۸۵) اب صوم شتر مرغ کی بیٹ کو کہتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں احکام میں صفائی ہوتی ہے جبکہ اسی ہدایت کے سلسلہ میں یہ فرمایا کہ ملک الموت آتا ہے اور پھر رفع ہوتا ہے اور حدیث میں اس کی تائید آئی ہے.ایک جگہ فرمایا ہے فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ (الزّمر:۴۳) یعنی جس نفس پر موت کو حکم دے دیتا ہے اس کو واپس نہیں آنے دیتا.دیکھو! یہ خدا کا کلام ہے.قصہ کے رنگ میں نہیں بلکہ ہدایت کے رنگ میں ہے.جو لوگ قصص اور ہدایات میں تمیز نہیں کرتے ان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قرآن کریم میں اختلاف ثابت کرنے کے موجب ہوتے ہیں اور گویا اپنی عملی صورت میں قرآن کریم کو ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں کیونکہ قرآن شریف کی نسبت تو خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ
غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا (النسآء:۸۳) اور عدم اختلاف اس کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل ٹھیرائی گئی ہے، لیکن یہ ناعاقبت اندیش قصص اور ہدایات میں تمیز نہ کرنے کی وجہ سے اختلاف پیدا کر کے اس کو مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ ٹھہراتے ہیں.افسوس ان کی دانش پر!!! ان لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ مقدم ہدایات ہیں یا قصص؟ اور اگر دونوں میں تناقض پیدا ہو تو مقدم کس کو رکھو گے؟ اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ جو مَر جاتے ہیں وہ واپس نہیں آتے اور ترمذی میں حدیث موجود ہے کہ ایک صحابی شہید ہوئے.انہوں نے عرض کی کہ یا الٰہی! مجھے دنیا میں پھر بھیجو تو خدا تعالیٰ نے جواب یہی دیا قَدْ سَبَقَ الْقَوْلُ مِنِّیْ (الحدیث) حَرٰمٌ عَلٰى قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ (الانبیاء:۹۶) اب قرآن کریم موجود ہے.اس کی شرح حدیث شریف میں صاف الفاظ میں موجود ہے.اس کے مقابلہ میں ایک خیالی اور فرضی کہانی کی کیا وقعت ہو سکتی ہے؟ ہم پوچھتے ہیں کہ اس کے بعد کیا چاہتے ہو.ہم قرآن اور حدیث پیش کرتے ہیں.پھر عقل سلیم اور تجربہ بھی اس کا شاہد ہے.ہماری طرف سے خود ساختہ بات ہوتی تو تم قصہ پیش کر دیتے مگر یہاں تو ہدایت اور اس کی تائید میں حدیث پیش کی جاتی ہے.اس کے بعد اور کیا چاہیے فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ (یونس:۳۳) قصوں کے حقائق بتانے خدا تعالیٰ کو ضرور نہیں ان پر ایمان لاؤ اور ان کی تفاسیر حوالہ بخدا کرو.صوم کے لئے تو اعرابی بھی پوچھتے تھے، ہر آیت میں حق ظاہر ہوتا ہے.قصوں میں یہ بات ضرور نہیں.مثلاً اب یہ ضرور نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مخالف بت پرستوں کے بتوں کا حلیہ بھی بتایا جاوے.اس قسم کے خیالات سوء ادبی پر مبنی ہوتے ہیں.غرض یاد رکھو کہ قصص قرآنی میں بیہودہ چھیڑ چھاڑ درست نہیں ہے.انسان پابند ہدایت نہیں ہو سکتا جب تک کہ تصریح نہ ہو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ہدایتوں کو آسان کر دیا ہے.اسی طرز پر اللہ تعالیٰ نے یہ صراحت کی ہے کہ مُردے واپس نہیں آتے.
ہمارے مخالفوں میں اگر دیانت اور خدا ترسی ہو تو عزیر کا قصہ بیان کرتے وقت ضرور ہے کہ وہ ان آیات کو بھی ساتھ رکھیں جس میں لکھا ہے کہ مُردے واپس نہیں آتے.پھر ہم بطریق تنزّل ایک اور جواب دیتے ہیں.اس بات کو ہم نے بیان کردیا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ قصوں کے لئے اجمالی ایمان کافی ہے.ہدایات میں چونکہ عملی رنگ لانا ضروری ہوتا ہے اس لیے اُس کا سمجھنا ضروری ہے.ماسوا اس کے یہ جو لکھا ہے کہ سو برس تک مُردہ رہے اَمَات کے معنے اَنام بھی آئے ہیں اور قوتِ نامیہ اور حسیہ کے زوال پر بھی موت کا لفظ قرآن کریم میں بولا گیا ہے.بہر حال ہم سونے کے معنے بھی اصحابِ کہف کے قصہ کی طرح کرسکتے ہیں.اصحابِ کہف اور عزیر کے قصہ میں فرق اتنا ہے کہ اصحابِ کہف کے قصہ میں ایک کتّا ہے اور یہاں گدھا ہے اور نفس کتّے اور گدھے دونو سے مشابہت رکھتا ہے.خدا نے یہودیوں کو گدھا بنایا ہے اور کتّے کو بلعم کے قصہ میں بیان فرمایا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ نفس پیچھا نہیں چھوڑتا.جو بےہوش ہوتا ہے اُس کے ساتھ یا کتّا ہوگا یا گدھا.غرض دوسرے طریق پر جس کا ہم نے ذکر کیا ہے اَمَات کے معنی اَنَام کرتے ہیں اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ سو برس چھوڑ کر کوئی دو لاکھ برس تک سویا رہے، ہماری بحث یہ ہے کہ روح ملک الموت لے جاوے پھر واپس دنیا میں نہیں آتی.سونے میں بھی قبضِ رُوح تو ہوتا ہے مگر اس کو ملک الموت نہیں لے جاتا.اور عرصہ دراز تک سوئے رہنا ایک ایسا اَمر ہے کہ اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہوسکتا.ہندوؤں کی کتابوں میں دَم سادھنے (حبسِ دم کرنے) کی ترکیبیں لکھی ہوئی ہیں اور جوگ ابھیاس کی منزلوں میں دَم سادھنا بھی ہے.ابھی تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ اخبارات میں لکھا تھا کہ ریل کی سڑک طیار ہوتی تھی تو ایک سادھو کی کٹیا نکلی ایسا ہی اخبارات میں ایک لڑکے کی بیس سال تک سوئے رہنے کی خبر گشت کررہی تھی.غرض یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے کہ ایک آدمی سو سال تک سویا رہے.لَمْ یَتَسَنَّہ کی حقیقت پھر یہ لفظ لَمْ یَتَسَنَّہ قابلِ غور ہے اور موجودہ زمانہ کے تجربہ پر لحاظ کرنے کے بعد لَمْ یَتَسَنَّہ کی حقیقت سمجھ لینا کچھ بھی مشکل
نہیں ہے.ایک ثقہ آدمی لکھتا ہے کہ مَیں نے گوشت کھایا ہے جو میری پیدائش سے ۳۰ برس پہلے کا پکا ہوا تھا.ہوا نکال کر بند کرلیا گیا تھا.اب ولایت یورپ اور امریکہ سے ہر روز ہزاروں، لاکھوں بوتلوں میں لَمْ یَتَسَنَّہ کھانے پکے پکائے چلے آتے ہیں.لَمْ یَتَسَنَّہ کا اثر تو ہندوؤں کے جوگ پر پڑتا ہے اور آج کل کی علمی بلند پروازیوں کی حقیقت کھولتا ہے کہ قرآن کریم میں پہلے سے درج ہے.اصل بات یہ ہے کہ جیسے ہوا کے ایک خاص اثر سے کھانا مَر جاتا ہے اسی طرح انسان پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے اب اگر خاص ترکیب سے کھانے کو اس ہوا کے اثر سے محفوظ رکھ کر زندہ رکھا جاتا ہے تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے.ممکن ہے کہ آئندہ کسی زمانہ میں یہ حقیقت بھی کُھل جائے کہ انسان پر کھانے کی طرح عمل ہوسکتا ہے.یہ علوم ہیں.اُن کے ماننے سے کوئی حَرج لازم نہیں آتا.آج کل کی تحقیقات اور علمی تجربوں نے ایسے موزے بنالیے ہیں کہ انسان اُن کو پہن کر دریا پر چل سکتا ہے اور ایسے کوٹ ایجاد ہوگئے ہیں کہ آگ یا بندوق کی گولی اُن پر اپنا اثر نہیں کرسکتی.اسی طرح سے لَمْ یَتَسَنَّہ کی حقیقت جو قرآن کریم کے اندر مرکوز ہے علمی طور پر بھی ثابت ہوجاوے تو کیا تعجب ہے؟ ہوا کا اثر کھانے کو تباہ کرتا ہے اور انسان کے لئے بھی ہوا کا بڑا تعلق ہے.ہوا کے دو حصے ہیں ایک قسم کی ہوا اندر جاتی ہے تو اندر تازگی پیدا ہوتی ہے.دوسری دم کے ساتھ باہر آتی ہے جو جلی ہوئی متعفن ہوا ہوتی ہے.غرض اگر لَمْ یَتَسَنَّہ والی بات نکل آوے تو ہمارا تو کچھ بھی حرج نہیں بلکہ جس قدر علوم طبعی پھیلتے جاتے ہیں اور پھیلیں گے اسی قدر قرآن کریم کی عظمت اور خوبی ظاہر ہوگی.ہم تو آئے دن دیکھتے ہیں کہ ولایت کے پکے ہوئے شوربے اور گوشت ہندوستان میں آتے ہیں اور بگڑتے نہیں.ولایتی ادویات ہزاروں میل سے آتی ہیں اور مہینوں برسوں پڑی رہتی ہیں خراب نہیں ہوتی ہیں.مجھے ایک شخص نے بتلایا کہ اگر انڈے کو سرسوں کے تیل میں رکھ چھوڑیں تو نہیں بگڑتا.اس طرح پر ممکن ہے کہ انسان کے شباب اور طاقتوں پر بھی اثر پڑے.بعض مسلمانوں نے بھی
دم سادھنے کی کوشش کی ہے.خود میرے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ مَیں دن میں دو بار سانس لیتا ہوں.یہ عملی شہادت ہے کہ ہوا کو سڑنے میں دخل ہے.اس قسم کی ہوا سے جب بچایا جاوے تو انسان کی عمر بڑھ جاوے تو حرج کیا ہے اور عمر کا بڑھنا مان لیں تو کیا حرج ہے.قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر حکمتیں ایجاد ہوتی ہیں یا تو طبعی طور پر خدا نے قاعدہ رکھا ہوا ہے یا عناصر کے نظام میں بات رکھی ہوتی ہے.کوئی محقق دیکھ کر بات نکال لیتا ہے.ہم کو اس پر کوئی بحث نہیں ہے.ہمارا تو مذہب یہ ہے کہ علومِ طبعی جس قدر ترقی کریں گے اور عملی رنگ اختیار کریں گے.قرآن کریم کی عظمت دنیا میں قائم ہوگی.۱۱۱؎ ۱۷؍ اگست ۱۹۰۰ء مولانا عبدالکریم ؓ کا خطبہ اور حضرت اقدسؑ کی تعریف مولانا عبدالکریم ؓ صاحب نے جو خطبہ ۱۷؍اگست۱۹۰۰ء کو پڑھا.حضرت اقدس ؑ نے اُس کی تعریف فرمائی.مولانا نے دوبارہ اس خطبہ کو اپنے قلم سے لکھا ہے اور کہا کہ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ میری یہ دل کی باتیں قبول کا شرف پائیں گی.کل صُبح کی اذان سے قبل مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے داہنے کان کے ساتھ بہت سے ٹیلیفون لگے ہیں.اور مختلف شہروں سے مختلف دوستوں کی طرف سے آوازیں آرہی ہیں کہ ’’جو کچھ آپ ہمارے مسیح موعود ؑ کی نسبت کہتے ہیں.ہم اُس کو خوب سمجھتے ہیں.‘‘ مجھے خیال پڑتا ہے کہ کسی نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’ہم اس کا اعتراف کرتے ہیں.‘‘ تحدیث بالنعمت کے طور پر مَیں یہ بھی لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بعد نماز جمعہ حضرت اقدس ؑ سے کچھ عرض کرنے کے لئے اندر گیا.بعد اِدھر اُدھر کے ذکر کے مَیں نے خطبہ کی نسبت حضور ؑ سے پوچھا.فرمایا.یہ بالکل میرا مذہب ہے جو آپ نے بیان کیا.
اور فرمایا.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ آپ معارفِ الٰہیہ کے بیان میں بلند چٹان پر قائم ہوگئے ہیں.۱۱۲؎ ۲۶،۲۵ ؍اگست ۱۹۰۰ء کی درمیانی شب کسی زبردست نشان کا پیش خیمہ جمعہ کے دن لاہور اسٹیشن پر سب مختلف المشارب لوگ جو ہمارے بغض میں ایک گھاٹ پانی پینے لگ گئے ہیں.یوں جمع ہوگئے اور پیر صاحب گولڑوی کو سوار کراکر شہر کے اندر سے اس طرح پر تبرا کرتے گزرے جیسے روافض سینہ پیٹتے اور قدوسیوں کو کوستے جاتے ہیں.بطلان نے اسی طرح رونق پیدا کرلی جیسے اُس دن جب کہ دو جہاں کے سردارؐ کو مکہ سے نکالا گیا تھا اور کفارِ قریش نے چند روز کے لئے چراغاں کرکے جھوٹی خوشی منائی تھی.آج حق کو جھوٹا کہا جارہا ہے اور راستی پاؤں تلے کچلی جارہی ہے اور بہت سے شقی چاروں طرف سے اُٹھے ہیں.آج وہ الہام پورا ہوا جو کچھ مدت ہوئی شائع کیا تھا.’’وہ بیت الصدق کو بیت التزویر بنانا چاہتے ہیں.‘‘ رات حضرت مرسل اللہ علیہ وسلم اس امر پر دیر تک گفتگو فرماتے رہے.فرمایا.ان شوروں سے ہم پر کیا رُعب پڑ سکتا ہے.ہمیں تو یہ سارے شور ایک تمہید معلوم ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کی اُس نصرت کی آمد کے لئے جو دیر سے معرضِ التوا میں ہے.عادت اللہ ہمیشہ یوں ہی ہے کہ جب تکذیب شدت سے ہوتی ہے تو غیرتِ الٰہی بھی اسی قدر نُصرت کے لئے جوش مارتی ہے.آتھم کے شور پر جو ہماری تکذیب اور اہانت ہوئی.خدا تعالیٰ کی غیرت نے بہت جلد لیکھرام کا نشان ظاہر کیا.اسی طرح ہم قوی اُمید رکھتے ہیں کہ یہ شورِ تکذیب پیش خیمہ ہے کِسی زبردست نشان کا.ممکن ہے کہ کوئی بدقسمت اس شور کے رُعب میں آکر کٹ جائے.اُس کا علاج ہم کیا کرسکتے ہیں.اس لیے کہ سنّت اللہ یہی ہے.۱۱۳؎
اگست ۱۹۰۰ء حقیقی نفع رساں اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے دنیا میں لوگ حکام یا دُوسرے لوگوں سے کسی قسم کا کوئی نفع اُٹھانے کی ایک خیالی اُمید پر ان کو خوش کرنے کے واسطے کس کس قسم کی خوشامد کرتے ہیں.یہاں تک کہ ادنیٰ ادنیٰ درجہ کے اردلیوں اور خدمت گاروں تک کو خوش کرنا پڑتا ہے حالانکہ اگر وہ حاکم راضی اور خوش بھی ہو جاوے تو اس سے صرف چند روز تک یا کسی موقعِ مخصوص پر نفع پہنچنے کی اُمید ہوسکتی ہے.اس خیالی اُمید پر انسان اُس کے خدمتگاروں کی ایسی خوشامدیں کرتا ہے کہ مَیں تو ایسی خوشامدوں کے تصور سے بھی کانپ اُٹھتا ہوں اور میرا دل ایک رنج سے بھر جاتا ہے کہ نادان انسان اپنے جیسے انسان کی ایک وہمی اور خیالی اُمید پر اس قدر خوشامد کرتا ہے.مگر اُس مُعطیِ حقیقی کی جس نے بدوں کسی معاوضہ کے اور التجا کے اس پر بے انتہا فضل کیے ہیں ذرا بھی پروا نہیں کرتا حالانکہ اگر وہ انسان اُس کو نفع پہنچانا بھی چاہے تو کیا؟ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی نفع خدا تعالیٰ کے بدُوں پہنچ ہی نہیں سکتا.ممکن ہے اس سے پیشتر کہ وہ نفع اُٹھاوے نفع پہنچانے والا یا خود یہ اس دنیا سے اُٹھ جائے یا کِسی ایسی خطرناک مرض میں مبتلا ہوجائے کہ کوئی حظ اور فائدہ ذاتی اس سے اُٹھا نہ سکے.غرض اصل بات یہی ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم انسان کے شاملِ حال نہ ہو.انسان کسی سے کوئی فائدہ اُٹھا ہی نہیں سکتا.پھر جبکہ حقیقی نفع رساں اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے.پھر کس قدر بے حیائی ہے کہ انسان غیروں کے دروازہ پر ناک رگڑتا پھرے.ایک خدا ترس مومن کی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ وہ اپنے جیسے انسان کی ایسی خوشامد کرے جو اُس کا حق نہیں ہے.متقی کے لئے خود اللہ تعالیٰ ہر ایک قسم کی راہیں نکال دیتا ہے.اُس کو ایسی جگہ سے رزق ملتا ہے کہ کسی دوسرے کو علم بھی نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ خود اس کا ولی اور مربّی ہوجاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے بندے جو دین کو دنیا پر مقدم کرلیتے ہیں اُن کے ساتھ وہ رأفت اور محبت کرتا ہے چنانچہ خود فرماتا ہے وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ (البقرۃ:۲۰۸)
خدا تعالیٰ کے بندے کون ہیں؟ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو جو اللہ تعالیٰ نے اُن کو دی ہے اللہ تعالیٰ کی ہی راہ میں وقف کردیتے ہیں اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں قربان کرنا، اپنے مال کو اُس کی راہ میں صرف کرنا اُس کا فضل اور اپنی سعادت سمجھتے ہیں مگر جو لوگ دنیا کی املاک و جائیداد کو اپنا مقصود بالذّات بنا لیتے ہیں وہ ایک خوابیدہ نظر سے دین کو دیکھتے ہیں مگر حقیقی مومن اور صادق مُسلمان کا یہ کام نہیں ہے.سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کردے تاکہ وہ حیاتِ طیبہ کا وارث ہو چنانچہ خود اللہ تعالیٰ اس للّٰہی وقف کی طرف ایما کرکے فرماتا ہے مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ وَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (البقرۃ:۱۱۳) اس جگہ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ کے معنی یہی ہیں کہ ایک نیستی اور تذلل کا لباس پہن کر آستانہ الوہیت پر گرے اور اپنی جان، مال، آبرو غرض جو کچھ اس کے پاس ہے خدا ہی کے لیے وقف کرے اور دنیا اور اُس کی ساری چیزیں دین کی خادم بنادے.حصولِ دنیا میں مقصود بالذّات دین ہو کوئی یہ نہ سمجھ لیوے کہ انسان دنیا سے کچھ غرض اور واسطہ ہی نہ رکھے.میرا یہ مطلب نہیں ہے اور نہ اللہ تعالیٰ دنیا کے حصول سے منع کرتا ہے بلکہ اسلام نے رہبانیت کو منع فرمایا ہے.یہ بزدلوں کا کام ہے.مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وہ اس کے مراتب عالیہ کا موجب ہوتے ہیں کیونکہ اُس کا نصب العین دین ہوتا ہے اور دنیا اُس کا مال و جاہ دین کا خادم ہوتا ہے.پس اصل بات یہ ہے کہ دنیا مقصود بالذّات نہ ہو.بلکہ حصولِ دنیا میں اصل غرض دین ہو اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جاوے کہ وہ دین کی خادم ہو.جیسے انسان کسی جگہ سے دوسری جگہ جانے کے واسطے سفر کے لئے سواری یا اور زادِ راہ کو ساتھ لیتا ہے تو اس کی اصل غرض منزلِ مقصود پر پہنچنا ہوتا ہے نہ خود سواری اور راستہ کی ضروریات.اسی طرح پر انسان دنیا کو حاصل کرے مگر دین کا خادم سمجھ کر.اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً
وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ: ۲۰۲) اس میں بھی دنیا کو مقدم کیا ہے لیکن کس دنیا کو؟ حسنۃ الدّنیا کو جو آخرت میں حسنات کی موجب ہوجاوے.اس دعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ مومن کو دنیا کے حصول میں حسنات الآخرۃ کا خیال رکھنا چاہیے اور ساتھ ہی حسنۃ الدّنیا کے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائع حصول دنیا کا ذکر آگیا ہے جو ایک مومن مسلمان کو حصول دنیا کے لئے اختیار کرنے چاہئیں.دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو.نہ وہ طریق کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسانی کا موجب ہو.نہ ہم جنسوں میں کسی عاروشرم کا باعث.ایسی دنیا بے شک حسنۃ الاٰخرۃ کا موجب ہوگی.سُست نہ بنو پس یاد رکھو کہ جو شخص خدا کے لئے زندگی وقف کردیتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ وہ بےدست و پا ہو جاتا ہے.نہیں ہرگز نہیں.بلکہ دین اور للّٰہی وقف انسان کو ہوشیار اور چابکدست بنا دیتا ہے.سُستی اور کسل اُس کے پاس نہیں آتا.حدیث میں عمار بن خزیمہ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے میرے باپ کو فرمایا کہ تجھے کس چیز نے اپنی زمین میں درخت لگانے سے منع کیا تو میرے باپ نے جواب دیا کہ مَیں بڈھا ہوں.کل مَرجاؤں گا.پس اُس کو حضرت عمرؓ نے فرمایا تجھ پر ضرور ہے کہ درخت لگاوے.پھر میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ خود میرے باپ کے ساتھ مل کر ہماری زمین میں درخت لگاتے تھے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عجز اور کسل سے پناہ مانگا کرتے تھے.مَیں پھر کہتا ہوں کہ سُست نہ بنو.اللہ تعالیٰ حصولِ دنیا سے منع نہیں فرماتا، بلکہ حسنۃ الدّنیا کی دعا تعلیم فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ انسان بے دست و پا ہوکر بیٹھ رہے بلکہ اُس نے صاف فرمایا ہے لَيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى (النجم:۴۰) اس لیے مومن کو چاہیے کہ وہ جدوجہد سے کام کرے، لیکن جس قدر مرتبہ مجھ سے ممکن ہے یہی کہوں گا کہ دنیا کو مقصود بالذّات نہ بنالو.دین کو مقصود بالذّات ٹھیراؤ اور دنیا اس کے لئے بطور خادم اور مَرکب کے ہو.دولت مندوں سے بسا اوقات ایسے کام ہوتے ہیں کہ غریبوں اور مُفلسوں کو وہ موقع نہیں ملتا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں خلیفہ اول نے جو بڑے مَلِکُ التُّجَّار تھے مسلمان ہوکر
لانظیر مدد کی اور آپ کو یہ مرتبہ ملا کہ صدیق کہلائے اور پہلے رفیق اور خلیفہ اول ہوئے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان لکھا ہے کہ جب آپ تجارت سے واپس آئے تھے اور ابھی مکہ میں نہ پہنچے تھے کہ راستہ میں ہی ایک شخص ملا.اس سے پوچھا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ.اس نے کہا کہ اور تو کوئی تازہ خبر نہیں.ہاں یہ بات ضرور ہے کہ تمہارے دوست نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے.ابوبکرؓ نے وہیں کھڑے ہوکر کہا کہ اگر اُس نے یہ دعویٰ کیا ہے تو سچا ہے چنانچہ جب مکہ میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپ سے دریافت کیا کہ کیا آپؐ نے واقعی پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں.اُسی وقت مشرف باسلام ہوگئے.۱۱۴؎ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قبول اسلام کے لیے کسی اعجاز کی ضرورت نہ پڑی.اعجاز بینی کے خواہش مند وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو تعارفِ ذاتی نہیں ہوتا لیکن جس کو تعارفِ ذاتی ہوجاوے اُسے اعجاز کی ضرورت اور خواہش ہوتی ہی نہیں.یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے معجزہ نہیں مانگا کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے خوب واقف تھے اور خوب جانتے تھے کہ وہ راستباز اور امین ہے جھوٹا اور مفتری نہیں جب کہ کسی انسان پر کبھی افترا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ پر افترا کرنے کی کبھی جرأت نہیں کرسکتا.پس یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نشان صرف اس لیے مانگا جاتا ہے کہ اس بات کے امکان کا اندیشہ گزرتا ہو کہ شاید جھوٹ ہی بولا ہو مگر جب یہ بات اچھی طرح پر معلوم ہو کہ مدعی صادق اور امین ہے پھر نشان بینی کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی.یہ بھی یاد رہے کہ جو لوگ نشان دیکھنے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں.ایسے لوگ راسخ الایمان نہیں ہوسکتے بلکہ ہر وقت خطرہ کے محل میں رہتے ہیں.ایمان بالغیب کے ثمرات اُن کو نہیں ملتے کیونکہ ایمان بالغیب کے اندر ایک فعل نیکی کا حُسن ظن بھی ہے.جس سے وہ جلد باز بے نصیب رہ جاتا ہے جو نشان دیکھنے کے لئے جلدی کرتا اور زور دیتا ہے.مسیح علیہ السلام کے حواریوں نے نزول مائدہ کے لئے زور دیا تو خدا تعالیٰ نے ان کو زجر
بھی کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہم تو مائدہ نازل کریں گے لیکن بعد نزول مائدہ جو انکار کرے گا اس پر سخت عذاب نازل ہوگا.قرآن شریف میں اس قصہ کے ذکر سے یہ فائدہ ہے کہ تا بتلایا جاوے کہ بہترین ایمان کون سا ہے.اور اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانات یوں تو اجلٰی بدیہیات سے ہوتے ہیں لیکن اُن کے ساتھ ایک طرف اتمام حجت منظور ہوتا ہے اور دوسری طرف ابتلائے اُمت.اس لیے بعض اُمور اُن میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ ایک ابتلا رکھتے ہیں اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ نشان مانگنے والے لوگ مستعجل اور حسن ظن سے حصہ نہ رکھنے والے ہوتے ہیں اور اُن کی طبیعت میں ایک احتمال اور شک پیدا کرنے کا مادہ ہوتا ہے تب ہی تو وہ نشان مانگتے ہیں.اس لیے جب نشان دیکھتے ہیں تو پھر بے ہودہ طور پر اس کی تاویلیں کرنی شروع کردیتے ہیں اور اس کو کبھی سحر کہتے ہیں، کبھی کچھ نام رکھتے ہیں.غرض وہ وہم پیدا کرنے والی طبیعت اُن کو اَمر حق سے دُور لے جاتی ہے.اس لیے مَیں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم وہ ایمان پیدا کرو جو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صحابہ کا ایمان تھا.رضی اللہ عنہم کیونکہ اس میں حُسنِ ظن اور صبر ہے اور وہ بہت سے برکات اور ثمرات کا منتج ہے اور نشان دیکھ کر ماننا اور ایمان لانا اپنے ایمان کو مشروط بنانا ہے.یہ کمزور ہوتا ہے اور عموماً باروَر نہیں ہوتا.ہاں جب انسان حُسنِ ظن کے ساتھ ایمان لاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے مومن کو وہ نشان دکھاتا ہے جو اُس کے ازدیادِ ایمان کا موجب اور انشراح صدر کا باعث ہوتے ہیں.خود اُن کو نشان اور آیت اللہ بنا دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اقتراحی نشان کسی نبی نے نہیں دکھلائے.مومن صادق کو چاہیے کہ کبھی اپنے ایمان کونشان بینی پر مبنی نہ کرے.انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت مَیں پھر اصل بات کی طرف رجوع کرکے کہتا ہوں کہ دولت مند اور متموّل لوگ دین کی خدمت اچھی طرح کر سکتے ہیں.اسی لئے خدا تعالیٰ نے مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ (البقرۃ:۴) متّقیوں کی صفت کا ایک جزو قرار دیا ہے.یہاں مال کی کوئی خصوصیت نہیں ہے.جو کچھ اللہ تعالیٰ نے کسی کو دیا ہے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے.مقصود اس سے یہ ہے کہ انسان اپنے بنی نوع کا ہمدرد اور معاون بنے.اللہ تعالیٰ کی
شریعت کا انحصار دو ہی باتوں پر ہے.تعظیم لِاَمْر اللہ اور شفقت علیٰ خلق اللہ.پس مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ میں شفقت علیٰ خلق اللہ کی تعلیم ہے.دینی خدمات کے لئے متموّل لوگوں کو بڑے بڑے موقعے مل جاتے ہیں.ایک دفعہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روپیہ کی ضرورت بتلائی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ گھر کا کل اثاث البیت لے کر حاضر ہوگئے.آپؐ نے پوچھا ابوبکر! گھر میں کیا چھوڑ آئے تو جواب میں کہا کہ اللہ اور رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نصف لے آئے.آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پوچھا.عمر! گھر میں کیا چھوڑ آئے تو جواب دیا کہ نصف.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر و عمر کے فعلوں میں جو فرق ہے وہی اُن کے مراتب میں فرق ہے.دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے.اسی واسطے علمِ تعبیر الرؤیا میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دیا ہے تو اس سے مُراد مال ہے.یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقا اور ایمان کے حصول کے لیے فرمایا لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (اٰل عـمران: ۹۳) حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک کہ تم عزیز ترین چیز خرچ نہ کرو گے کیونکہ مخلوقِ الٰہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے اور ابنائے جنس اور مخلوقِ الٰہی کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے جو ایمان کا دُوسرا جزو ہے جس کے بدُوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا.جب تک انسان ایثار نہ کرے.دُوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے.دُوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثار ضروری شے ہے اور اس آیت لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے.پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے.ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں للّٰہی وقف کا معیار اور محک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضرورت بیان کی اور وہ کل اثاث البیت لے کر حاضر ہوگئے.
انبیاء علیہم السلام کو ضرورتیں کیوں لاحق ہوتی ہیں مَیں یہاں ایک ضروری امر بیان کرنا چاہتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کو ضرورتیں کیوں لاحق ہوتی ہیں؟ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ اُن کو کوئی ضرورت پیش نہ آوے مگر یہ ضرورتیں اس لیے لاحق ہوتی ہیں تاکہ للّٰہی وقف کے نمونے مثال کے طور پر قائم ہوں اور ابوبکرؓ کی زندگی کا وقف ثابت ہوا ور دنیا میں خدائے مقتدر کی ہستی پر ایمان پیدا ہو اور ایسے للّٰہی وقف کرنے والے دنیا کے لیے بطور آیات اللہ کے ٹھیریں اور اس مخفی محبت اور لذّت پر دنیا کو اطلاع ملے جس کے سامنے مال و دولت جیسی محبوب و مرغوب شے بھی آسانی اور خوشی کے ساتھ قربان ہوسکتی ہے اور پھر مال و دولت کے خرچ کے بعد للّٰہی وقف کو مکمل کرنے کے واسطے وہ قوت اور شجاعت ملے کہ انسان جان جیسی شے کو بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں دینے میں دریغ نہ کرے.غرض انبیاء علیہم السلام کی ضرورتوں کی اصل غرض دنیا کی جھوٹی محبتوں اور فانی چیزوں سے منہ موڑنے کی تعلیم دینے.اللہ تعالیٰ کی ہستی پر لذیذ ایمان پیدا کرنے اور ابنائے جنس کی بہتری اور خیر خواہی کے لیے ایثار کی قوت پیدا کرنے کے واسطے ہوتا ہے ورنہ یہ پاک گروہ خَزَآىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کے مالک کی نظر میں چلتا ہے.ان کو کسی چیز کی ضرورت ہو سکتی ہے؟ وہ ضرورتیں تعلیم کو کامل اور انسان کے اخلاق اور ایمان کے رسوخ کے لیے پیش آتی ہیں.۱۱۵؎ یقین کا کامل مرتبہ مفسر کہتے ہیں کہ یقین سے مراد موت ہے مگر موت روحانی مراد ہے اور یہ ظاہری بات ہے کہ اس کا مقصود بالذّات کیا ہو جس کی تلاش کرنے کے لئے یہاں ایما اور اشارہ ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ وہ روحانی موت ہو یا تمہاری زندگی خدا ہی کی راہ میں وقف ہو.مومن کو لازم ہے کہ اس وقت تک عبادت سے نہ تھکے اور سُست نہ ہو.جب تک یہ جھوٹی زندگی بھسم نہ ہو جاوے اور اس کی جگہ نئی زندگی جو ابدی اور راحت بخش زندگی ہے اس کا سلسلہ شروع نہ ہو جاوے اور
جب تک اسی عارضی حیات دنیا کی سوزش اور جلن دور ہو کر ایمان میں ایک لذّت اور روح میں ایک سکینت اور استراحت پیدا نہ ہو.یقیناً سمجھو کہ جب تک انسان اس حالت تک نہ پہنچے ایمان کامل اور ٹھیک نہیں ہوتا.اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے کہ تو عبادت کرتا رہ جب تک کہ تجھے یقین کامل کا مرتبہ حاصل نہ ہو اور تمام حجاب اور ظلماتی پردے دور ہو کر یہ سمجھ میں آجاوے کہ اب میں وہ نہیں ہوں جو پہلے تھا بلکہ اب تو نیا ملک، نئی زمین، نیا آسمان ہے اور میں بھی کوئی نئی مخلوق ہوں.یہ حیات ثانی وہی ہے جس کو صوفی بقا کے نام سے موسوم کرتے ہیں.جب انسان اس درجہ پر پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی روح کا نفخ اس میں ہوتا ہے.ملائکہ کا اس پر نزول ہوتا ہے.یہی وہ راز تھا جس پر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نسبت فرمایا کہ اگر کوئی چاہے کہ مُردہ میت کو زمین پر چلتا ہوا دیکھے تو وہ ابوبکرؓ کو دیکھے.اور ابو بکرؓ کا درجہ اس کے ظاہری اعمال سے ہی نہیں بلکہ اس بات سے ہے جو اس کے دل میں ہے.ایمان ایک راز ہے یاد رکھو.ایمان ایک راز ہوتا ہے جو مومن اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوتا ہے اور جس کو مخلوق میں سے اس مومن کے سوا دوسرا نہیں جان سکتا اَ نَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ کی حقیقت یہی ہے.بعض اوقات وہ لوگ جو علومِ حقّہ اور معارف الٰہیہ سے بہرہ ور نہیں ہوتے کسی مومن کے ان تعلقات کے عدم علم کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کو ہوتے ہیں اس کی بعض حالتوں مثلاً معاملات رزق و معاش پر حیرت اور تعجب ظاہر کرتے ہیں اور کبھی یہ تعجب ان کو بدظنی اور گمراہی تک لے جاتا ہے اس لیے کہ ان کی نظر اپنے ہی محدود اسباب تک ہوتی ہے اور وہ اس راز اور سِرّ سے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ وہ رکھتا ہے ناواقف ہوتے ہیں.میں چاہتا ہوں کہ ہمارے دوست اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے اس راز کو ایسا بنائیں جو صحابہ کرامؓ کا تھا.اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کریں غرض یہ ہے کہ انسان کو ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف کرے.
میں نے بعض اخبارات میں پڑھا ہے کہ فلاں آریہ نے اپنی زندگی آریہ سماج کے لیے وقف کردی ہے اور فلاں پادری نے اپنی عمر مشن کو دے دی ہے.مجھے حیرت آتی ہے کہ کیوں مسلمان اسلام کی خدمت کے لیے اور خدا کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف نہیں کر دیتے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ پر نظر کرکے دیکھیں تو ان کو معلوم ہو کہ کس طرح اسلام کی زندگی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کی جاتی تھیں.یاد رکھو یہ خسارہ کا سودا نہیں ہے بلکہ بے قیاس نفع کا سودا ہے.کاش مسلمانوں کو معلوم ہوتا اور اس تجارت کے مفاد اور منافع پر ان کو اطلاع ملتی جو خدا کے لیے اس کے دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرتا ہے.کیا وہ اپنی زندگی کھوتا ہے؟ ہرگز نہیں فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ وَ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ (البقرۃ:۱۱۳) اس للّٰہی وقف کا اجر ان کا رب دینے والا ہے.یہ وقف ہر قسم کے ہموم و غموم سے نجات اور رہائی بخشنے والا ہے.مجھے تو تعجب ہوتا ہے کہ جبکہ ہر ایک انسان بالطبع راحت اور آسائش چاہتا ہے اور ہموم و غموم اور کرب و افکار سے خواستگار نجات ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ جب اس کو ایک مجرب نسخہ اس مرض کا پیش کیا جاوے تو اس پر توجہ ہی نہ کرے.کیا للّٰہی وقف کا نسخہ ۱۳۰۰ برس سے مجرب ثابت نہیں ہوا؟ کیا صحابہ کرامؓ اسی وقف کی وجہ سے حیات طیبہ کے وارث اور ابدی زندگی کے مستحق نہیں ٹھیرے؟ پھر اب کون سی وجہ ہے کہ اس نسخہ کی تاثیر سے فائدہ اٹھانے میں دریغ کیا جا وے.بات یہی ہے کہ لوگ اس حقیقت سے ناآشنا اور اس لذت سے جو اس وقف کے بعد ملتی ہے ناواقف محض ہیں ورنہ اگر ایک شمہ بھی اس لذّت اور سرور سے ان کو مل جاوے تو بے انتہا تمناؤں کے ساتھ وہ اس میدان میں آئیں.اپنا ذاتی تجربہ اور وصیّت میں خود جو اس راہ کا پورا تجربہ کار ہوں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض سے میں نے اس راحت اور لذّت سے حظ اٹھایا ہے یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کے لیے اگر مَر کے پھر زندہ ہوں
اور پھر مَروں اور زندہ ہوں تو ہر بار میرا شوق ایک لذّت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے.پس میں چونکہ خود تجربہ کار ہوں اور تجربہ کرچکا ہوں اور اس وقف کے لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ جوش عطا فرمایا ہے کہ اگر مجھے یہ بھی کہہ دیا جاوے کہ اس وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں ہے بلکہ تکلیف اور دکھ ہوگا تب بھی میں اسلام کی خدمت سے رک نہیں سکتا اس لئے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہنچا دوں آئندہ ہر ایک کا اختیار ہے کہ وہ اِسے سُنے یا نہ سُنے کہ اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیات طیبہ اور ابدی زندگی کا طلب گار ہے تو وہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی، میری موت، میری قربانیاں، میری نمازیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور حضرت ابراہیم کی طرح اس کی روح بول اٹھے اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (البقرۃ:۱۳۲) جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا، خدا میں ہو کر نہیں مرتا وہ نئی زندگی پا نہیں سکتا.پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تم دیکھتے ہو کہ خدا کے لئے زندگی کا وقف میں اپنی زندگی کی اصل اور غرض سمجھتا ہوں.پھر تم اپنے اندر دیکھو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اس فعل کو اپنے لئے پسند کرتے اور خدا کے لئے زندگی وقف کرنے کو عزیز رکھتے ہیں.۱۱۶؎ انسان اگر اللہ تعالیٰ کے لئے زندگی وقف نہیں کرتا تو وہ یاد رکھے کہ ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے جہنم کو پیدا کیا ہے.اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ بعض خام خیال کوتاہ فہم لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ہر ایک آدمی کو جہنم میں ضرور جانا ہو گا.یہ غلط ہے.ہاں اس میں شک نہیں کہ تھوڑے ہیں جو جہنم کی سزا سے بالکل محفوظ ہیں اور یہ تعجب کی بات نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے قَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ (سبا:۱۴) جہنم کی حقیقت اب سمجھنا چاہیے کہ جہنم کیا چیز ہے؟ ایک جہنم تو وہ ہے جس کا مَرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے وعدہ دیا ہے اور دوسرے یہ زندگی بھی اگر خدا تعالیٰ کے لئے نہ
ہو تو جہنم ہی ہے.اللہ تعالیٰ ایسے انسان کا تکلیف سے بچانے اور آرام دینے کے لئے متولّی نہیں ہوتا.یہ خیال مت کرو کہ کوئی ظاہری دولت یا حکومت یا مال و عزت،اولاد کی کثرت کسی شخص کے لئے کوئی راحت یا اطمینان اور سکینت کا موجب ہو جاتی ہے اور وہ دم نقد بہشت میں ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں.وہ اطمینان اور وہ تسلی اور وہ تسکین جو بہشت کے انعامات میں سے ہے ان باتوں سے نہیں ملتی.وہ خدا ہی میں زندہ رہنے اور مرنے سے مل سکتی ہے جس کے لئے انبیاء علیہم السلام خصوصاً ابراہیم اور یعقوب علیہما السلام کی یہی وصیت تھی کہ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (البقرۃ:۱۳۳) لذّات دنیا تو ایک قسم کی ناپاک حرص پیدا کرکے طلب اور پیاس کو بڑھا دیتی ہیں.استسقاء کے مریض کی طرح پیاس نہیں بجھتی.یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو جاتے ہیں.پس یہ بے جا آرزو اور حسرتوں کی آگ بھی منجملہ اسی جہنم کی آگ کے ہے جو انسان کے دل کو راحت اور قرار نہیں لینے دیتی بلکہ اس کو ایک تذبذب اور اضطراب میں غلطاں پیچاں رکھتی ہے.اس لئے میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر ہرگز پوشیدہ نہ رہے کہ انسان مال و دولت یا زن و فرزند کی محبت کے جوش اور نشہ میں ایسا دیوانہ اور از خود رفتہ نہ ہو جاوے کہ اس میں اور خدا تعالیٰ میں ایک حجاب پیدا ہو جاوے.مال اور اولاد اسی لئے تو فتنہ کہلاتی ہے.ان سے بھی انسان کے لئے ایک دوزخ طیار ہوتا ہے اور جب وہ ان سے الگ کیا جاتا ہے تو سخت بے چینی اور گھبراہٹ ظاہر کرتا ہے اور اس طرح پر یہ بات کہ نَارُ اللّٰهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِيْ تَطَّلِعُ عَلَى الْاَفْـِٕدَةِ (الھمزۃ:۸،۷) منقولی رنگ میں نہیں رہتا بلکہ معقولی شکل اختیار کر لیتا ہے.پس یہ آگ جو انسانی دل کو جلا کر کباب کر دیتی اور ایک جلے ہوئے کوئلہ سے بھی سیاہ اور تاریک بنا دیتی ہے.یہ وہی غیر اللہ کی محبت ہے.دو چیزوں کے باہم تعلق اور رگڑ سے ایک حرارت پیدا ہوتی ہے اسی طرح پر انسان کی محبت اور دنیا اور دنیا کی چیزوں کی محبت کی رگڑ سے الٰہی محبت جل جاتی ہے اور دل تاریک ہوکر خدا سے دور ہو جاتا ہے اور ہر قسم کی بے قراری کا شکار ہو جاتا ہے.لیکن جب کہ دنیا کی چیزوں سے جو تعلق ہو وہ خدا میں ہو کر ایک تعلق ہو اور ان کی محبت خدا کی محبت میں ہو کر ہو اس وقت باہمی رگڑ سے غیر اللہ کی محبت
جل جاتی ہے اور اس کی جگہ ایک روشنی اور نور بھر دیا جاتا ہے.پھر خدا کی رضا اس کی رضا اور اس کی رضا خدا کا منشا ہو جاتا ہے.اس حالت پر پہنچ کر خدا کی محبت اس کے لئے بمنزلہ جان ہوتی ہے اور جس طرح زندگی کے واسطے لوازم زندگی ہیں اس کی زندگی کے واسطے خدا اور صرف خدا ہی کی ضرورت ہوتی ہے.دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس کی خوشی اور راحت خدا ہی میں ہوتی ہے.پھر دنیا داروں کے نزدیک اگر اسے کوئی رنج اور کرب پہنچے تو پہنچے لیکن اصل یہی بات ہے کہ اس ہم و غم میں بھی وہ اطمینان اور سکینت سے الٰہی لذّت لیتا ہے جو کسی دنیا دار کی نظر کے بڑے سے بڑے فارغ البال کو بھی نصیب نہیں.بر خلاف اس کے جو کچھ حالت انسان کی ہے وہ جہنم ہے.گویا خدا تعالیٰ کے سوا زندگی بسر کرنا یہ بھی جہنم ہے.پھر حدیث شریف سے یہ بھی پتا لگتا ہے کہ تپ بھی حرارت جہنم ہی ہے.امراض اور مصائب جو مختلف قسم کے انسان کو لاحق حال ہوتے ہیں یہ بھی جہنم ہی کا نمونہ ہیں اور یہ اس لئے کہ تا دوسرے عالم پر گواہ ہوں اور جزا و سزا کے مسئلہ کی حقیقت پر دلیل ہوں اور کفارہ کے لغو مسئلہ کی تردید کریں.مثلاً جذام ہی کو دیکھو کہ اعضا گر گئے ہیں اور رقیق مادہ اعضا سے جاری ہے.آواز بیٹھ گئی ہے.ایک تو یہ بجائے خود جہنم ہے.پھر لوگ نفرت کرتے ہیں اور چھوڑ جاتے ہیں.عزیز سے عزیز بیوی، فرزند، ماں باپ تک کنارہ کش ہو جاتے ہیں.بعض اندھے اور بہرے ہو جاتے ہیں.بعض اور خطرناک امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں.پتھریاں ہو جاتی ہیں، اندر پیٹ میں رسولیاں ہو جاتی ہیں.یہ ساری بلائیں اس لئے انسان پر آتیں ہیں کہ وہ خدا سے دور ہو کر زندگی بسر کرتا ہے اور اس کے حضور شوخی اور گستاخی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کی عزت اور پروا نہیں کرتا ہے.اس وقت ایک جہنم پیدا ہو جاتا ہے.اب میں پھر اصل مطلب کی طرف رجوع کرکے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے جہنم کے لئے اکثر انسانوں اور جنّوں کو پیدا کیا ہے اور پھر فرمایا کہ وہ جہنم انہوں نے خود ہی بنا لیا ہے.ان کو جنت کی طرف بلایا جاتا ہے.پاک دل پاکیزگی سے باتیں سنتا ہے اور ناپاک خیال
انسان اپنی کورانہ عقل پر عمل کر لیتا ہے.پس آخرت کا جہنم بھی ہوگا اور دنیا کے جہنم سے بھی مخلصی اور رہائی نہ ہو گی کیونکہ دنیا کا جہنم تو اس جہنم کے لئے بطور دلیل اور ثبوت کے ہے.۱۱۷؎ وعظ کا منصب نا اہل پلید لوگ سچی اور حق و حکمت کی بات سن ہی نہیں سکتے اور جب کبھی کوئی بات معرفت اور حکمت کی ان کے سامنے پیش کی جاوے تو وہ اس پر توجہ نہیں کرتے بلکہ لاپروائی سے ٹال دیتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ وہ لوگ جو حق کہیں وہ بھی تھوڑے ہیں.محض اللہ تعالیٰ کے لئے کسی کو حق کہنے والے لوگوں کی تعداد بہت ہی کم ہے.گویا ہے ہی نہیں.علی العموم واعظ وعظ کہتے ہیں لیکن ان کی اصل غرض اور مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ لوگوں سے کچھ وصول کریں اور دنیا کماویں.یہ غرض جب اس کی باتوں کے ساتھ ملتی ہے تو حقانیت اور للہیت کو اپنی تاریکی میں چھپا لیتی ہے اور وہ لذت اور معرفت کی خوشبو جو کلامِ الٰہی کے سننے سے دل و دماغ میں پہنچتی اور روح کو معطر کر دیتی ہے.وہ خود غرضی اور دنیا پرستی کے تعفن میں دب کر رہ جاتی ہے اور اسی مجلس وعظ میں اکثر لوگ کہہ اٹھتے ہیں.میاں یہ ساری باتیں ٹکڑا کمانے کی ہیں.اس میں شک نہیں کہ اکثر لوگوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ذریعہ معاش قرار دے لیا ہے لیکن ہر ایک ایسا نہیں ہے.ایسے پاک دل انسان بھی ہوتے ہیں جو صرف اس لیے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں لوگوں تک پہنچاتے ہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے وہ مامور ہیں اور اس کو فرض سمجھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کریں.وعظ کا منصب ایک اعلیٰ درجہ کا منصب ہے.اور وہ گویا شان نبوت اپنے اندر رکھتا ہے.بشرطیکہ خدا ترسی کو کام میں لایا جاوے.وعظ کہنے والا اپنے اندر خاص قسم کی اصلاح کا موقع پا لیتا ہے کیونکہ لوگوں کے سامنے یہ ضروری
ہوتا ہے کہ کم از کم اپنے عمل سے بھی ان باتوں کو کرکے دکھاوے جو وہ کہتا ہے.بہر حال اگر ایک آدمی اپنی ہی غرض و منشا کے لئے کوئی بھلی بات کہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے اس لئے اعراض کیا جاوے کہ وہ اپنی کسی ذاتی غرض کی بنا پر کہہ رہا ہے.وہ بات جو کہتا ہے وہ تو بجائے خود ایک عمدہ بات ہے.نیک دل انسان کو لازم ہے کہ وہ اس بات پر غور کرے جو وہ کہہ رہا ہے.یہ ضروری نہیں کہ ان اغراض و مقاصد پر بحث کرتا رہے جن کو ملحوظ رکھ کر وعظ کہہ رہا ہے.سعدی نے کیا خوب کہا ہے.مرد باید کہ گیرد اندر گوش گر نوشت است پند بر دیوار # قائل کی بجائے قول کی طرف دیکھو یہ بالکل سچی بات ہے کہ قول کی طرف دیکھو.قائل کی طرف مت خیال کرو.اس طرح پر انسان سچائی کے لینے سے محروم رہ سکتا ہے اور اندر ہی اندر ایک عجب و نخوت کا بیج پرورش پا جاتا ہے کیونکہ یہ اگر صرف سچائی اور صداقت کا طالب ہے تو پھر دوسروں کی عیب شماری سے اس کو کیا غرض.واعظ اپنے لئے کوئی ایک بات نکال لے مگر تم کو اس سے کیا غرض.تمہارا مقصود اصلی تو طلب حق ہے.اس میں شک نہیں کہ یہ لوگ بے موقع، بے محل، بے ربط بات شروع کر دیتے ہیں اور پندونصیحت کرتے وقت امور مقتضائے وقت کا ذکر نہیں کرتے اور نہ ان امراض کا لحاظ رکھتے ہیں جن میں مخاطب مبتلا ہوتے ہیں بلکہ اپنے سوال کو ہی مختلف پیرایوں میں بیان کرتے ہیں.رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز بیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز بیان کو اگر غور سے دیکھتے تو ان کو وعظ کہنے کا بھی ڈھنگ آجاتا.ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ سب سے بہتر نیکی کون سی ہے.آپ اس کو جواب دیتے ہیں کہ سخاوت.دوسرا آکر یہی سوال کرتا ہے تو اس کو جواب ملتا ہے.ماں باپ کی خدمت.تیسرا آتا ہے.اس کو جواب کچھ اور ملتا ہے.سوال ایک ہی ہوتا ہے.جواب مختلف.
اکثر لوگوں نے یہاں پہنچ کر ٹھوکر کھائی ہے اور عیسائیوں نے بھی ایسی حدیثوں پر بڑے بڑے اعتراض کیے ہیں مگر احمقوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مفید اور مبارک طرز جواب پر غور نہیں کی.اس میں سِرّ یہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جس قسم کا مریض آتا تھا اس کے حسب حال نسخہ شفا بتلا دیتے تھے.جس میں مثلاً بخل کی عادت تھی اس کے لئے بہترین نیکی یہی ہو سکتی تھی کہ اس کو ترک کرے.جو ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا تھا بلکہ ان سے سختی کے ساتھ پیش آتا تھا اس کو اسی قسم کی تعلیم کی ضرورت تھی کہ وہ ماں باپ کی خدمت کرے.جماعت کو نصیحت طبیب کے لئے جیسا ضروری ہے کہ تشخیص عمدہ طور پر کرے اسی طرح پر واعظ کے منصب کا یہ فرض ہے کہ وعظ و پند سے پہلے ان لوگوں کے امراض کو مدّ نظر رکھے جن میں وہ مبتلا ہیں.مگر مشکل تو یہی ہے کہ یہ فراست اور یہ معرفت حقانی واعظ کے سوا دوسرے کو ملتی ہی کم ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں باوصفیکہ سینکڑوں، ہزاروں واعظ پھرتے ہیں لیکن عملی حالت ملک کی دن بدن پستی کی طرف جارہی ہے.ہر قسم کی اعتقادی، ایمانی، اخلاقی غلطیاں اور کمزوریاں اپنا اثر کرتی جاتی ہیں.یہ اس لئے کہ وعظوں میں حقانیت نہیں، روح نہیں.یہ سب کچھ ہے مگر میں اس وقت اپنے دوستوں کو پھر یہی بتلانا چاہتا ہوں کہ چونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے دلوں میں طلب حق کی پیاس کو محسوس کیا ہے وہ راستی اور صداقت کے لینے میں مضائقہ نہ کریں.گو واعظ مختلف رنگوں اور پیرایوں میں اپنا سوال ہی پیش کرے مگر تم کو نہیں چاہیے کہ صرف اس ایک وجہ سے اصل حکمت کو چھوڑ دو کیونکہ وہ جو اُن کے سوال کو سن کر ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے وہ بھی تو غلطی پر ہے.کیا کسی لعل اور گوہر نایاب کو محض اس لیے پھینک دیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بدبودار اور میلی کچیلی ٹلی (دھجی کپڑے کی) میں بندھا ہوا ہے؟ ہرگز نہیں.اس کے سوا اگر واعظ سوال کرتا ہے تو کیا تمہیں خبر نہیں کہ تمہیں تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وَ اَمَّا السَّآىِٕلَ فَلَا تَنْهَرْ (الضحٰی: ۱۱) اور سائل خواہ گھوڑے پر ہی سوار ہو کر آیا ہے پھر بھی واجب نہیں کہ اس کو رد کیا جاوے.تیرے لیے یہ حکم ہے کہ تو اس کو جھڑک نہیں.ہاں خدا نے اس کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ سوال نہ کرے.وہ اپنی
خلاف ورزی کی خود سزا پالے گا لیکن تمہیں یہ مناسب نہیں کہ تم خدا تعالیٰ کے ایک واجب العزت حکم کی نا فرمانی کرو.غرض اس کو کچھ دے دینا چاہیے اگر پاس ہو اور اگر پاس کچھ نہیں تو نرم الفاظ سے اس کو سمجھا دو.۱۱۸؎ بد ظنی فساد اس سے شروع ہوتا ہے کہ انسان ظنون فاسدہ اور شکوک سے کام لینا شروع کرے.اگر نیک ظن کرے تو پھر کچھ دینے کی توفیق بھی مل جاتی ہے.جب پہلی ہی منزل پر خطا کی تو پھر منزل مقصود پر پہنچنا مشکل ہے.بدظنی بہت بری چیز ہے.انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کر دیتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ انسان خدا پر بدظنی شروع کردیتا ہے.اگر بدظنی کا مرض نہ بڑھ گیا ہوتا تو بتلاؤ کہ ان مولویوں کو جنہوں نے میری تکفیر اور ایذا دہی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا اور کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی کون سی وجوہ کفر کی اور میری تکذیب کی نظر آئی تھی.میں نے پکار پکار کر اور خدا تعالیٰ کی قسمیں کھا کھا کر کہا کہ میں مسلمان ہوں.قرآن کریم کو خاتم الکتب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الا نبیاء مانتا ہوں اور اسلام کو ایک زندہ مذہب اور حقیقی نجات کا ذریعہ قرار دیتا ہوں.خدا تعالیٰ کی مقادیر اور قیامت کے دن پر ایمان لاتا ہوں.اسی قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہوں.اتنی ہی نمازیں پڑھتا ہوں.رمضان کے پورے روزے رکھتا ہوں.پھر وہ کون سی نرالی بات تھی جو انہوں نے میرے کفر کے لئے ضروری سمجھی.صریح ظلم ہے.وہ اپنے گندے اعمال اور زندگی کو نہیں دیکھتے.وہ زمین اور آسمان پر غور اور تدبر کر کے یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ان مصنوعات کا خالق ہے.لیکھرام کے نشان سے مولویوں نے کیا فائدہ اٹھایا؟ آتھم کا نشان پھر آتھم کی پیش گوئی سے کیا فائدہ حاصل کیا.اللہ اللہ کیسی صاف نکلی بلکہ اس کو مشکوک کرنے کی سعی کی حالانکہ اس میں اگر کوئی الزام باقی ہے تو آتھم پر جس نے اپنی خاموشی اور ہمارے مطالبات کے جواب نہ دینے سے اس کی سچائی پر مہر کر دی جبکہ اس میں صریح شرط موجود تھی.پھر ایک قانونی طبیعت کا آدمی بھی اس کے دو ہی معنی کرے گا.ایک یہ کہ
اگر شرط کی رعایت کرے تو بچ رہے.ورنہ مَر جاوے.پھر بچ جانے کی صورت میں مومن کو چاہیے تھا کہ وہ اس اَمر کو تنقیح طلب قرار دیتا کہ آیا اس نے رعایت کی یا نہیں؟ یاد رکھو یہاں تو صریح اور صاف شرط موجود تھی کہ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے لیکن بعض انذاری پیش گوئیاں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ بظاہر ان میں کوئی شرط نہیں ہوتی اور حقیقت میں وہ مشروط ہوتی ہیں.یونس نبی کا قصہ صاف موجود ہے.تفسیروں میں دیکھ لو کیا لکھا ہوا ہے؟ باوصفیکہ ایک ایسی نظیر قرآن شریف اور تمام کتب سابقہ میں موجود ہے لیکن ہمارے معاملہ میں اسی بدظنی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ایک مقررہ قانون کی بھی پروا نہیں کرتے حالانکہ اس میں صریح شرط موجود ہے.اور اس کا زندہ رہنا اور بچ جانا اس امر کی دلیل ہے کہ اس نے اس شرط سے فائدہ اٹھایا مگر اس شرط سے فائدہ اٹھانے کے ہمارے پاس تو اس سے بھی بڑھ کر دلائل ہیں جو ایک موٹی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے.ہماری طرف سے متواتر اشتہار پر اشتہار جاری ہوئے اور اس کو دعوت کی گئی کہ تم قسم کھاؤ اور اگر جھوٹی قسم کی پاداش میں ایک سال کے اندر ہلاک نہ ہو جاؤ تو میں اپنے آپ کو جھوٹا قرار دوں گا.اور اس قسم کے لئے چار ہزار روپے تک انعام بھی دینا چاہا اور یہ بھی ثابت کر کے دکھلا دیا کہ بائیبل سے ایسی قسم کا کھانا گناہ نہیں بلکہ انکار کرنا گناہ ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہم پر نالش کرو.پادریوں نے بھی اس کو اکسایا اور ترغیب دی کہ تم نالش کرو لیکن اس قدر کوششوں پر بھی وہ میدان میں نہ آیا اور اپنی خاموشی اور اسلام پر نکتہ چینی اور اس کے خلاف تحریروں کی اشاعت سے رک کر اس نے بتلا دیا کہ حقیقت میں پیش گوئی کے موافق اس نے شرط سے فائدہ اٹھایا.پیش گوئی میں شرط کا موجود ہونا خود ایک پیش گوئی ہے.اگر اس نے شرط سے فائدہ نہیں اٹھانا تھا تو اس کو مشروط کرنے کے معنی ہی کیا ہوئے.اب ایک متدیّن اور خدا ترس کو چاہیے کہ سوچے کہ آیا آتھم نے رجوع الی الحق کی شرط سے فائدہ اٹھایا ہے یا نہیں اور قسم کھانا اگر خلاف شرع تھا تو کلارک اور پریم داس وغیرہ عیسائیوں نے قسم کھائی تھی
یا نہیں.علاوہ ازیں ہم نے تو ثابت کرکے دکھا دیا تھا کہ فیصلہ صحیحہ کے لئے قسم کھانا عیسائی پر واجب ہے.غرض یہ پیش گوئی مشروط تھی.وہ سراسیمہ رہا.شہر بہ شہر پھرتا رہا.اگر اس کو اپنے خداوند مسیح پر پورا یقین اور بھروسہ ہوتا پھر اس قدر گھبراہٹ کے کیا معنی؟ لیکن ساتھ ہی جب اس نے اخفائے حق کیا اور ایک دنیا کو گمراہ کرنا چاہا، کیونکہ اخفائے حق بعض ناواقفوں کی راہ میں ٹھوکر کا پتھر ہو سکتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے صادق وعدہ کے موافق ہمارے آخری اشتہار سے سات مہینے کے اندر اس کو دنیا سے اٹھا لیا اور جس موت سے وہ ڈرتا اور بھاگتا پھرتا تھا اس نے اس کو آلیا.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آتھم کے معاملہ میں لوگوں کو کیا مشکل پیش آسکتی ہے.اس قدر قوی قرائن موجود ہیں.اور پھر انکار!!! قرائن قویہ سے تو عدالتیں مجرموں کو پھانسی دے دیتی ہیں.غرض یہ آتھم کا ایک بڑا نشان تھا اور براہین احمدیہ میں اس فتنہ کی طرف صاف اور واضح لفظوں میں الہام درج ہو چکا ہے.نشان مہو تسو پھر جلسہ مذاہب کا نشان ایک بڑا نشان ہے.خواجہ کمال الدین صاحب اور بہت سے دوست اس بات کے گواہ ہیں اور وہ قسم کھا کر بتلا سکتے ہیں کہ قبل از وقت ان کو بتلا دیا گیا تھا اور اشتہار چھاپ کر شائع کر دیا گیا تھا کہ ہمارا مضمون بالا رہا اور ٹھیک اسی الہام کے موافق یہ نشان ہزار ہا انسانوں کے رو برو پورا ہوا اور اردو انگریزی اخبارات نے متفق اللفظ ہوکر اقرار کیا کہ ہمارا مضمون سب سے بڑھ کر رہا.بریت کا نشان پھر جو مقدمہ ہم پر اقدام قتل عمد کا قائم ہوا جس میں ڈاکٹر کلارک جیسے لوگ شامل تھے اور مولوی محمد حسین نے بھی جاکر گواہی دی اور رام بھجدت وکیل مشہور آریہ بھی پیروی مقدمہ کے لئے آیا.کئی سو آدمی اس اَمر کے گواہ موجود ہیں کہ کس طرح پر قبل از وقت اس مقدمہ کی ساری کیفیت اور صورت سے اطلاع دی گئی اور آخر بریت کی بھی اطلاع دے دی جو اللہ تعالیٰ نے ابراء (بے قصور ٹھہرانا) کے الہام سے خبر دی تھی.یہ خدا کے غیب کی باتیں ہیں.کیا انسانی طاقت میں ہے کہ اس طرح پر پیش گوئی کر سکے اور
ایسے وقت میں کہ ابھی مقدمہ کا نام و نشان بھی نہیں.اس کا سارا نقشہ کھینچ کر دکھلایا جاوے.لیکھرام کا نشان پھر لیکھرام کا نشان ایک شمشیر برہنہ کی طرح تھا.پانچ سال پیشتر بذریعہ اشتہارات فریقین کی طرف سے یہ پیش گوئی شائع کی گئی اور خود لیکھرام جہاں جاتا اس پیش گوئی کو سناتا.اس میں کوئی شرط نہ تھی اور وہ صاف تھی.اگر وہ زندہ رہتا تو بے شک قیامت برپا ہو جاتی.لیکن یہ تب ہوتا اگر خدا تعالیٰ کی باتیں نہ ہوتیں.بے شک پھر انجام رسوائی کے ساتھ ہوتا.کیا محمد حسین چپ رہتا؟ اب بھی جب کہ یہ نشان پورا ہوگیا اور لاکھوں انسانوں نے اس پیش گوئی کی صداقت کو تسلیم کرلیا.وہ کہتا ہے کہ جماعت کے کسی آدمی نے قتل کر دیا ہوگا.افسوس یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ وہ مرید کیسا خوش اعتقاد ہوگا جو ایسے پیر پر بھی اعتقاد رکھ سکتا ہے جو اسے قتل کی ترغیب دے اور اپنی پیش گوئیوں کو اپنی صداقت کا معیار قائم کرے.اور پھر ان کے پورا کرنے کے لئے مریدوں کو ناجائز وسائل اختیار کرنے کی تعلیم دے؟ شرم ہے ایسے خیالات پر.جو لوگ اس قسم کا خیال رکھتے ہیں وہ گویا ہماری نیک نہاد، انصاف پرور اور ہوشیار گورنمنٹ کو بھی بدنام کرنا چاہتے ہیں.گورنمنٹ نے اپنی طرف سے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا، لیکھرام کے قتل کے متعلق اس نے پوری سرگرمی سے تحقیقات کی لیکن ہمارا اور ہماری جماعت کا دامن اس خون سے بالکل پاک صاف ثابت ہوا.افسوس یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ کیا لیکھرام نے میرے کسی باپ اور دادا کو قتل کر دیا تھا؟ اس نے میری ذات کو کسی قسم کی کوئی تکلیف اور ایذا نہیں دی.ہاں اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر وہ گستاخانہ حملے کیے اور وہ بے ادبیاں کیں کہ میرا دل کانپ اٹھا اور میرا جگر پارا پارا ہوگیا.میں نے اس کی بے ادبیوں اور شوخیوں کو ٹکڑے ہوئے ہوئے دل کے ساتھ خدا کے حضور پیش کیا.اس نے ان شوخیوں اور گستاخیوں کے عوض میں اس کی نسبت مجھے یہ پیش گوئی عطا فرمائی.پھر اسی پیش گوئی میں اس کی موت، وقت موت، صورت موت وغیرہ امور کو بخوبی بتلایا گیا تھا.ہاتھ کا نشان بنایا جانا اور ’’بترس از تیغِ بُرّانِ محمدؐ‘‘ # کہنا یہ سب امور واضح طور پر درج ہیں.اب کوئی بتلاوے کہ کیا اس وقت جب کہ وہ ابھی چوبیس (۲۴) پچیس برس کا نوجوان تھا.پانچ سال پیشتر اس قسم کی
اطلاع دینا انسانی منصوبہ اور دخل ہو سکتا ہے.ہرگز نہیں.یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے.انسانی طاقت، انسانی فہم و فراست سے بالاتر اور بالاتر ہے.۱۱۹؎ نشانات کی ضرورت اب بتلاؤ کہ کیا یہ نشانات اپنی صداقت اور ثبوت میں کسی اور خارجی دلیل کے محتاج ہیں؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ معجزات میں سے ایک ہی کافی ہے چنانچہ جب ان سے معجزہ مانگا گیا تو یہی کہتے رہے کہ یونس ؑ نبی کے نشان کے سوا اور کوئی نشان نہ دیا جاوے گا.میں نے پہلے بتلا دیا ہے کہ جو لوگ اندرونی حالات سے واقف ہوتے ہیں ان کے لئے نشانات کی بڑی ضرورت نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ صرف رحم کرکے ان کے مزید اطمینان اور اپنی ہستی منوانے کے لئے نشانات ظاہر فرماتا ہے.مجھ کو تعجب پر تعجب اور حیرت پر حیرت ہوتی ہے کہ لوگ اولیاء اللہ کے معجزات کے قائل ہیں اور ایسے ایسے خوارق ان کے بیان کرتے ہیں جن کے لئے نہ کوئی دلیل ہے نہ عقلی یا نقلی ثبوت ہے اور وہ بطور کتھا اور کہانی کے ان کے زمانہ کے بہت عرصہ بعد لوگوں میں مشہور ہوئے ہیں.مثلاً شیعہ ہی سے اگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے معجزات مانگو تو وہ اس قدر بیان کریں گے کہ گنتے گنتے تھک جائیں مگر جب ثبوت مانگیں تو کچھ بھی نہیں.سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے خوارق بکثرت بیان کیے جاتے ہیں مگر ان کی کسی کتاب میں منقول نہیں ہیں.اب لوگ خدا سے ڈریں اور سوچ کر جواب دیں کہ جو باتیں صدہا سال بعد لکھی گئی ہیں ان کی تو تصدیق کی جاتی ہے لیکن جو آنکھوں سے دیکھے گئے ہیں ان کی تکذیب کی جاتی ہے.افسوس یہ لوگ اتنا بھی تو نہیں سوچتے کہ خبر معائنہ کے برابر نہیں ہوتی.سنی ہوئی بات کسی واقعہ صحیحہ کی برابری نہیں کر سکتی.اب میرے نشانات دیکھ کر جو ان نشانوں کی تکذیب کی جاتی ہے یہ میری تکذیب نہیں یہ واقعات صحیحہ کی تکذیب ہے.نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی تکذیب ہے.یہ یاد رکھو کہ یہ مصیبت اس لئے آئی ہے کہ تقویٰ اور طہارت اٹھ گیا اور قانون الٰہی یہی ہے کہ
جب اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت اُٹھ جاتی ہے اور دلوں میں رقت اور روح میں گدازش نہیں رہتی؟ اس وقت منذر نشان پیدا ہوتے ہیں.یہ مقام تو ڈرنے کا تھا مگر افسوس ان لوگوں نے اندھے اور بہرے ہو کر ان نشانات الٰہیہ کو (جو تضرّع اور ابتہال پیدا کر سکتے تھے،ایمان میں ایک نئی زندگی بخش سکتے تھے) چھوڑ دیا اور صُمٌّ بُکْمٌ ہو کر گزر گئے.ایسے لوگوں کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں.ایسے لوگوں پر خدا کا فتویٰ لگ چکا ہے صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ (البقرۃ:۱۹) ہماری جماعت کا فرض مگر ہماری جماعت جس نے مجھے پہچانا ہے کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ان نشانات کو باسی نہ ہونے دے.اس سے قوت یقین پیدا ہوتی ہے.اس لئے ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ ان نشانات کو پوشیدہ نہ رکھے اور جس نے دیکھے ہیں وہ ان کو بتلا دے جو غائب ہیں تاکہ برائیوں سے بچیں اور خدا پر تازہ ایمان پیدا کریں اور ان نشانات کو عمدہ براہین سے سجا سجا کر پیش کریں.یاد رکھو! خدا کے دلائل اور براہین کو جو غور سے نہیں دیکھتے وہ اندھے ہوتے ہیں اور حق کو دیکھ نہیں سکتے اور ان کے سننے کے کان نہیں ہوتے.یہ لوگ چارپائے بلکہ ان سے بھی بدتر ہوتے ہیں اور خدا ان کی زندگی کا متکفّل نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ متّقی اور مومن کی زندگی کا ذمہ دار ہے.هُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ (الاعراف:۱۹۷) اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی راہ سے دور اور چوپایوں کے مشابہ ہیں ان کی زندگی کا کفیل نہیں.بھلا بتلاؤ تو سہی کہ کوئی آدمی ذبح ہوتے ہوئے بکروں کے سر پر بھی بیٹھ کر روتا ہے؟ پھر جو لوگ بکروں سے بھی گئے گزرے ہیں ان کی زندگی کی کیا پروا ہوسکتی ہے.جانوروں کی زندگی دیکھ لو کہ محنتیں ان سے لی جاتی ہیں اور ان کو ذبح کیا جاتا ہے.پس جو انسان خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کرتا ہے اس کی زندگی کی ضمانت نہیں رہتی چنانچہ فرمایا قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ (الفرقان:۷۸) یعنی اگر تم اللہ کو نہ پکارو تو میرا رب تمہاری پروا ہی کیا رکھتا ہے.یاد رکھو جو دنیا کے لئے خدا کی عبادت کرتے ہیں یا اس سے تعلق نہیں رکھتے.اللہ تعالیٰ ان کی کچھ پروا نہیں رکھتا.۱۲۰؎