Malaikatullah

Malaikatullah

ملائکۃ اللہ

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR

ارکان ایمان کا دوسرا اہم رکن ملائکۃ اللہ پر ایمان لانا ہے۔ ملائکۃ اللہ  کا مضمون نہایت باریک و دقیق ہے۔ اور اس کا صحیح فہم و ادراک نہ ہونے کے نتیجہ میں دنیا کے مختلف اقوام و مذہب شرک میں مبتلا ہیں۔ ملائکہ کا وجود باوجود اس کے کہ ایمانیات اور اسلام کے بنیادی اصول میں شامل ہے مسلمانوں کو بھی اس کی حقیقت معلوم کرنے کی طرف بہت کم توجہ رہتی ہے۔ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۲۸، ۲۹؍ دسمبر ۱۹۲۰ء؁ کو جلسہ سالانہ قادیان کے بابرکت موقع پر ملائکۃ اللہ  کے موضوع پر معارف و حقائق سماوی سے بھرپور روح پرور تقریر ارشاد فرمائی۔ اپنی تقریر میں حضور نے قرآن کریم کی رو سے ملائکۃ اللہ  کی حقیقت و ضرورت، ان کی اقسام، ان کے فرائض و خدمات کے علاوہ فرشتوں کے وجود پر دلائل اور اُن سے متعلق شبہات و اعتراضات اور وہموں اور غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے مفصل و مدلل جوابات پیش فرمائے ہیں۔


Book Content

Page 1

ملائكة الله نظارت نشر و اشاعت قادیان

Page 2

ملائكة الله از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثاني اشر نظارت نشر و اشاعت قادیان.پنجاب

Page 3

نام کتاب مصنف ملائكة الله حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفه امسیح الثانی سن اشاعت کمپوز ڈباراول : 2013 ء تعداد مطبع ناشر 1000: فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمد بی قادیان ضلع گورداسپور، پنجاب، انڈیا.143516 ISBN: 978-81-7912-276-1 MALAIKATULLAH Speech Delivered by: Hadhrat Mirza Bashiruddin Mahmud Ahmad Khalifatul Masih II (ra)

Page 4

بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ ارکان ایمان کا دوسرا اہم رکن ملائکتہ اللہ پر ایمان لانا ہے.ملائکتہ اللہ کا مضمون نہایت باریک و دقیق ہے.اور اس کا صحیح فہم و ادراک نہ ہونے کے نتیجہ میں دنیا کی مختلف اقوام و مذاہب شرک میں مبتلا ہیں.ملائکہ کا وجود باوجود اس کے کہ ایمانیات اور اسلام کے بنیادی اصول میں شامل ہے مسلمانوں کو بھی اس کی حقیقت معلوم کرنے کی طرف بہت کم توجہ رہتی ہے.سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمدخلیفة اسم الثاني لمصلح الموعودرضی اللہ علی عنہ نے ۲۸ ، ۲۹ دسمبر ۱۹۲۰ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے بابرکت موقعہ پر ملائکتہ اللہ کے موضوع پر معارف و حقائق سماوی سے بھر پور روح پرور تقریر ارشاد فرمائی جس کو کتابی شکل میں شائع کرنے کی نظارت نشر و اشاعت قادیان کو توفیق مل رہی ہے.حضور نے اس بار یک و دقیق موضوع پر نہایت سلیس اور بصیرت افروز انداز میں روشنی ڈالی ہے.اپنی اس تقریر میں حضور نے قرآن کریم کی رو سے ملائکۃ اللہ کی حقیقت وضرورت، ان کی اقسام، ان کے فرائض و خدمات کے علاوہ فرشتوں کے وجود پر دلائل اور اُن سے متعلق شبہات و اعتراضات اور وہموں اور غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے مفصل و مدلل جوابات پیش فرمائے ہیں.سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے نظارت نشر و اشاعت قادیان اس معرکۃ الآرا تقریر کو پہلی بار کمپوز کروا کر کتابی شکل میں افادہ عام کے لئے شائع کر رہی ہے.الحمد للہ

Page 5

اللہ تعالیٰ اس کتاب کی اشاعت کو ہر لحاظ سے بابرکت کرے اور مسلمانوں میں موجود فرشتوں کے تعلق سے وہموں کو دور کرے اور ہم سب کو ملائکتہ اللہ کی حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ملائکتہ اللہ کے ذریعہ فیوض و برکات الہیہ کو جذب کرنے کی سعادت عطا فرمائے.آمین خاکار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 6

ملائكة الله ملائكة الله تقریر حضرت فضل عمر خلیفة المسیح الثانی ( جو حضور نے سالانہ جلسہ پر ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۰ء کو مسجد ٹور میں بعد نماز ظہر فرمائی) اشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ امَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ O الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ) الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) (الفاتحه) بات یادرکھنے کا طریق میں نے پچھلے جلسوں پر بھی آپ لوگوں کو بار ہا نصیحت کی ہے اور مشورہ دیا ہے کہ جو لوگ خاص طور پر کسی بات کو یا درکھنا چاہیں ان کے لئے اس کا ایک اعلیٰ درجے کا طریق یہ بھی

Page 7

ملائكة الله ہے کہ لکھتے جائیں کیونکہ انسانی دماغ کی بناوٹ خدا تعالیٰ نے اس طرز کی بنائی ہے کہ جتنے زیادہ حواس کسی چیز کے معلوم کرنے کے لئے لگائے جائیں اسی قدر وہ زیادہ محفوظ رہتی ہے.جس چیز کے دریافت کرنے میں ایک حسن کام کرے اس کا اثر دماغ پر بنسبت اس کے کم ہوگا جس کی دریافت کرنے میں دوستیں لگتی ہیں.اور جب کوئی شخص کسی بات کو سنتا بھی جائے اور ساتھ ساتھ لکھتا بھی جائے تو اس کی دو طاقتیں خرچ ہوں گی.اور کیا بلحاظ اس کے کہ اس کی نظر بھی اس بات پر پڑتی جائے گی اور کیا بلحاظ اس کے کہ اس کی قوت ارادی بہت جوش میں ہوگی اس کے دماغ پر زیادہ گہرا اثر پڑے گا.ہاں وہ لکھنا نہیں جو اخباروں والے لکھتے ہیں کیونکہ ان پر لکھنے کا اتنازیادہ بوجھ ہوتا ہے کہ ان کو یاد نہیں رہ سکتا.انہوں نے چونکہ دوسروں کے لئے لکھنا ہوتا ہے اس لئے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جہاں تک ہو سکے ہر لفظ کو محفوظ کر لیں.لیکن دوسرے چونکہ خلاصہ لکھتے ہیں اس لئے وہ اس پر غور کر سکتے ہیں.اور جب غور کر لینے کے بعد لکھتے ہیں تو ان کے حافظہ سے وہ بات باہر نہیں جاسکتی اور جوں جوں وہ لکھیں گے ان کی نظر اس پر پڑتی جائے گی اور اس طرح وہ بات ان کے حافظہ میں اور زیادہ محفوظ ہوتی جائے گی.یہی وجہ ہے کہ ہمارے پرانے بزرگ اس بات کی احتیاط کرتے تھے کہ جب درس دیتے تو سننے والوں کو کاپی اور قلم دوات کے بغیر نہ بیٹھنے دیتے.لکھا ہے کہ امام مالک درس دیا کرتے تھے ان کے درس میں امام شافعی آگئے.امام مالک مدینہ میں رہتے تھے اور یہ مکہ سے گئے تھے.ان کی عمر بھی چھوٹی تھی.یعنی تیرہ سال کی تھی.جب دو تین دن ان کے درس میں بیٹھے اور انہوں نے دیکھا کہ ان کے پاس کا پی اور قلم دوات نہیں تو امام مالک نے انہیں کہالڑ کے تو کیوں یہاں بیٹھا کرتا ہے؟ امام مالک کو بُرا معلوم ہوا کہ جب درس میں آتا ہے تو لکھتا کیوں نہیں؟ امام شافعی کو خدا نے ایسا حافظہ دیا تھا کہ جو بات سنتے یاد ہو جاتی.انہوں نے کہا پڑھنے کے لئے آیا

Page 8

ملائكة الله ہوں.امام مالک نے کہا پھر لکھتا کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا میں جو کچھ سنتا ہوں یاد ہو جاتا ہے.امام مالک نے کہا اچھا جو کچھ میں نے پڑھایا ہے سناؤ.انہوں نے سنا دیا.امام مالک کے دوسرے شاگرد کہتے ہیں کہ ہماری کا پیوں میں غلطیاں نکلیں مگر انہوں نے صحیح صحیح سنادیا.لیکن ایسا ذہن ہر شخص کا نہیں ہوسکتا.اس لئے ایسے طریق سے کام لینا چاہئے جس سے حافظہ کی کمزوری کی تلافی ہو سکے.اور وہ یہ ہے کہ جو کچھ سنا جائے اسے اپنے طور پر نوٹ کر لیا جائے.اس سے یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ انسان اسے بار بار دیکھ کر یاد کر لیتا ہے.سنتے وقت پوری توجہ کرنی چاہئے اس کے بعد میں آپ لوگوں کو ایک اور نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ سُنتے ہوئے پوری جہ مضمون کی طرف دینی چاہئے کیونکہ جو بات علمی ہو اس کا سمجھنا اور یا درکھنا آسان بات نہیں.اس کے لئے جب تک پوری توجہ نہ دی جائے انسان سننے کے بعد ایسا ہی کورے کا توجه کورا اُٹھتا ہے جس طرح کا کورا آیا تھا.قرآن کریم میں ایسے لوگوں کے متعلق سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں لیکن چونکہ مثال ہے اس لئے بیان کرتا ہوں:.آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں منافق آتے اور باہر جا کر ایک دوسرے سے پوچھتے مَاذَا قَالَ انفا ( محمد : ۱۷) ابھی انہوں نے کیا بات کہی تھی.وہ گو مجلس میں آتے لیکن سُنتے نہ تھے کہ کیا باتیں ہوتی ہیں؟ اس لئے ایک دوسرے سے پوچھتے.اصل بات یہ ہے کہ جب انسان کسی ایسی مجلس میں بیٹھتا ہے جس میں دین کی باتیں ہوتی ہیں تو شیطان اس کی توجہ کو کہیں کا کہیں لے جاتا ہے تا کہ انسان ان باتوں سے فائدہ

Page 9

ملائكة الله نہ اُٹھا سکے اور ٹھوکر کھا جائے.بہت لوگ ہوتے ہیں جو مجلس میں تو بیٹھتے ہیں لیکن جو بات سنائی جائے اس کی طرف تو جہ نہیں کرتے.اور بعض اوقات جب ان سے پوچھا جائے کہ کیا کہا گیا ہے؟ تو کہ دیتے کہ مزا تو بڑا آیا تھا مگر یاد نہیں رہا کہ کیا کہا گیا تھا ؟ ایسے لوگوں کو مزا اس لئے نہیں آتا کہ وہ توجہ سے ٹن رہے تھے بلکہ اس لئے آتا ہے کہ دوسرے واہ واہ کہہ رہے اور مزا اُٹھا رہے تھے.پس جو کچھ کہا جائے اسے غور سے سنو اور توجہ سے سنو.اور جن کے پاس لکھنے کا سامان ہے اور وہ لکھنے کے عادی ہیں وہ لکھتے بھی جائیں.ہاں جو لکھنے کے عادی نہ ہوں وہ لکھیں تا ایسا نہ ہو کہ لکھنے لگیں تو بھول جائیں.جن میں لکھنے کی مشق ہے وہ لکھتے جائیں.یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ بعض دفعہ بیماری یا کسی وجہ سے تقریریں جلدی شائع نہیں ہو سکتیں اور وہ نقوش جو یہاں سے دل پر ہوتے ہیں مٹ جاتے ہیں لیکن جنہوں نے خود لکھا ہوگا وہ اپنے لکھے کو دیکھ کر اپنی یاد تازہ کرسکیں گے.پچھلے سال ایک ایسے اہم مسئلہ پر تقریر ہوئی تھی جو ایمانیات میں داخل ہے مگر ایسے اسباب ہو گئے کہ وہ تقریر جلدی نہ چھپ سکی اور اب چھپی ہے.اب اسے جو پڑھے گا اسے نیا مضمون معلوم ہو گا مگر جنہوں نے نوٹ لکھے ہوں گے انہوں نے بہت فائدہ اُٹھایا ہوگا.مضمون کی اہمیت آج کا جو مضمون ہے وہ بھی بہت اہم ہے اور اسلام کے بنیادی اُصول اور ایمانیات میں سے ہے اور نہایت بار یک مضمون ہے.تقدیر کا مسئلہ مشکل تھا مگر اس طرف عام و خاص کی توجہ چونکہ لگی رہتی ہے، اس کا سمجھنا اس توجہ اور لگاؤ کی وجہ سے آسان تھا مگر یہ

Page 10

ملائكة الله مسئلہ وہ ہے کہ باوجود ایمانیات میں سے ہونے کے اس کی طرف لوگوں کو توجہ نہیں.تقدیر تو ایسا مشہور لفظ ہے کہ جہاں کسی کو نقصان ہوایا فائدہ پہنچا اس نے کہہ دیا تقدیر سے ہوا ہے اور چونکہ اس تقریر میں بار بار تقدیر کا لفظ آتا تھا اس لئے اس کی طرف توجہ رہتی تھی اور چونکہ بالعموم لوگ سوال کرتے ہیں کہ تقدیر کیا ہوتی ہے؟ اس لئے بھی اس کے متعلق جو کچھ کہا گیا اسے توجہ سے سننے کی خواہش ہوتی تھی اور چونکہ تقدیر ہر روز سامنے آتی ہے اس لئے بھی اس کی طرف خیال رہتا تھا.مگر یہ مضمون جو آج بیان ہوگا اگر چہ ایمانیات میں شامل ہے لیکن بار بار انسان کے سامنے نہیں آتا اور لوگ جانتے ہی نہیں اور سمجھتے ہی نہیں کہ اسے ایمانیات میں کیوں داخل کیا گیا ہے؟ اس لئے اس کی طرف خاص توجہ کرنے کی ضرورت ہے.یہ مسئلہ ملائکہ کا وجود ہے.ملائکہ پر ایمان لانا ایمانیات میں داخل ہے ملائکہ کوخدا تعالیٰ نے ایمانیات میں شامل کیا ہے اور جو شخص ملائکہ پر ایمان نہیں لاتا وہ اسلامی نقطۂ خیال سے چاہے کتابوں پر ، رسولوں پر اور آخرت پر ایمان لائے تو بھی مسلمان نہیں ہو سکتا ، کافر ہی رہے گا.اور جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والا کافر ہوگا اسی طرح جبرائیل کا منکر بھی کافر ہوگا.اور جس طرح خدا تعالیٰ کی کتابوں کا انکار کرنے والا کا فر ہو گا اسی طرح ملائکہ کا انکار کرنے والا بھی کافر ہوگا اور جس طرح حشر و نشر پر ایمان نہ لانے والا کافر ہو گا اسی طرح فرشتوں کو نہ ماننے والا بھی کا فر ہوگا.مگر افسوس کہ مسلمانوں نے ملائکہ کی طرف بہت کم توجہ کی ہے.ملائکہ کیا ہوتے ہیں؟ ان کا وجود کیوں منوایا گیا ہے؟ ان کے ماننے سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ اس کو نہیں جانتے.رسول کریم

Page 11

ملائكة الله صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کو ماننے کا تو یہ فائدہ ہے کہ اچھی باتوں کی ہدایت ملتی ہے اور ان پر عمل کر کے انسان اعلیٰ روحانی مدارج حاصل کر سکتا ہے.قیامت کے ماننے کا یہ فائدہ ہے کہ انسان ڈر کے مارے گناہ چھوڑتا اور نیک عمل کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ قیامت کے دن برے کاموں کی سزا ملے گی اور نیک اعمال کا اجر ملے گا.خدا تعالیٰ کو ماننے کا بھی فائدہ ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ رازق ہے، خالق ہے، رحیم ہے، کریم ہے.اس کو مان کر اس کی ان صفات سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے.مگر ملائکہ کیا ہیں جو منوائے جاتے ہیں؟ ان کا کیا فائدہ ہے کہ انہیں مانا جائے؟ ملائکہ کے متعلق عام لوگوں کا ایمان عام طور پر لوگوں کو جو ملائکہ کے متعلق ایمان ہے اس کی نسبت سوچیں کہ وہ اگر جاتا رہے تو ان میں کیا کمی آجائے گی ؟ ہر ایک شخص سوچے کہ اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہوں گا کہ آپ رسول نہیں تو ان کی تعلیم اس سے جاتی رہے گی.اگر قرآن کے متعلق کہوں گا کہ خدا کا کلام نہیں تو اس کی تعلیم کو جواب دینا پڑے گالیکن اگر یہ کہہ دوں کہ فرشتے نہیں تو کیا نقصان ہو گا ؟ لوگوں کو ملائکہ کے متعلق جو ایمان ہے وہ ننانوے فیصدی لوگوں میں اتنا کم ہے کہ اگر اس کی نفی کر دی جائے تو ان کے موجودہ ایمان میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور ان کے ماننے کی وجہ سے ان کے ایمان میں کوئی زیادتی نہیں ہوگی.حالانکہ ہر ایک ایمانی مسئلہ کے یہ معنے ہیں کہ وہ بہت بڑا اہم مسئلہ ہے.اس کے فائدے بھی بہت بڑے ہیں اور اس کو ترک کرنے کے نقصان بھی بہت بڑے ہیں.نہ یہ کہ صرف منہ سے کہہ دیں کہ فلاں بات

Page 12

ملائكة الله ہم نے مان لی تو کافی ہو جاتا ہے.ورنہ نہ اس کے ماننے سے کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ انکار کرنے سے کوئی نقصان.اس طرح تو ہم ہمالیہ پہاڑ پر بھی ایمان لاتے ہیں مگر چونکہ ہمالیہ پر ایمان لانے سے نہ کوئی نفع ہے اور نہ اس کا انکار کرنے سے نقصان اس لئے اسے ایمانیات میں داخل نہیں کیا گیا.مگر ملائکہ پر ایمان لانے کو ایمانیات میں داخل کیا گیا ہے.پس ضروری ہے کہ ان پر ایمان لانے سے بہت بڑا فائدہ ہو اور نہ ایمان لانے سے نقصان.فرشتوں پر کیوں ایمان لائیں غرض یہ ایک نہایت ضروری سوال ہے کہ فرشتوں کو کیوں مانیں؟ ان کا ہمارے ساتھ کیا تعلق ہے؟ ان سے ہمیں کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ اگر ہمیں ان سے کوئی فائدہ نہیں تو ان پر ایمان لانے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر کوئی کہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فرشتے تعلیم لائے اس لئے ان پر ایمان لانا چاہئے تو کہا جا سکتا ہے کہ پھر ہمیں ان سے کیا تعلق ؟ اگر ان کی معرفت وحی کا آنا ہمیں معلوم نہ ہو تو ہمارے ایمان اور ہمارے عمل میں کیا کمی آجائے گی ؟ اگر یہی فرض کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنا کلام بلا واسطہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر نازل فرماتا تھا تو اس سے کیا حرج واقعہ ہوگا؟ اس سے قرآن کریم میں تو کوئی کمی نہیں آجائے گی پھر ہم سے فرشتوں کا وجود کیوں منوایا جاتا ہے؟ اور اتنے زور سے کیوں منوایا جاتا ہے؟ کہ اگر نہ مانیں تو مسلمان ہی نہیں رہتے کافر ہو جاتے ہیں.اس قسم کے خیالات کی وجہ سے یہ مضمون مشکل بھی ہے اور شاید بہتوں کے لئے پھیکا بھی ہو اور ان کی توجہ اس طرف قائم نہ رہے کیونکہ فرشتے ایسی چیز ہیں جو نظر نہیں آتے اور ان سے بظاہر کوئی تعلق بھی نہیں معلوم ہوتا.مسئلہ تقدیر بھی مشکل تھا لیکن جب اس کے

Page 13

ملائكة الله متعلق کہا جاتا تھا کہ خدا نے تقدیر کے ذریعہ کسی کے لئے عذاب نہیں مقرر کر چھوڑا اور ایسا نہیں ہے کہ انسان عذاب سے بچ نہ سکے تو ان خیالات کے باعث جو تقدیر کے متعلق عام طور پر پھیلے ہوئے ہیں جو بوجھ نظر آتا تھا وہ اُتر جاتا تھا اور اس وجہ سے اس مسئلہ کی طرف توجہ قائم رہتی تھی اور لوگ غور سے سنتے تھے.مگر ملائکہ کو چونکہ غیر متعلق چیز سمجھا جاتا ہے اور ان کی کوئی ضرورت بھی نہیں سمجھی جاتی اس لئے شائد توجہ نہ رہے.پھر ملائکہ کے متعلق عام مصنفین نے بھی کچھ نہیں لکھا.انہوں نے ان کی کیفیت کو سمجھا ہی نہیں.حالانکہ ان سے انسان کو ایسے ایسے فوائد پہنچ سکتے ہیں کہ اگر معلوم ہو جائیں تو لوگ بیتاب ہو کر ایسی کتابوں کو پڑھیں جن میں ان کا ذکر ہوتا ہے.صوفیاء نے ان کے ذکر کو لیا ہے اور اپنی تصنیفوں میں بیان کیا ہے مگر پھر بھی بہت تھوڑا بیان کیا ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی انسان نے سب سے زیادہ ان کے متعلق بیان کیا ہے تو مسیح موعود نے ہی بیان کیا ہے.اور آپ ہی نے آکر ان کی حقیقت کے راز سر بستہ کو کھولا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود کے درمیان اور کسی نے نہیں کھولا.قرآنِ کریم نے ان کی حقیقت کو کھولا ہے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات میں ان کا ذکر ہے.باقی صوفیاء کے کلام میں بھی ان کا ذکر ہے مگر بہت کم.اور دوسرے مصنفین نے تو ان کا ذکر ہی نہیں کیا.معمولی معمولی باتوں کے متعلق تو انہوں نے بیسیوں قصے بیان کر دیئے مگر ملائکہ کی نسبت اس طرح چپ چاپ گزر گئے کہ گویا یہ کوئی چیز ہی نہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی حقیقت بیان کرنا بہت مشکل کام تھا اور ان میں بیان کرنے کی طاقت نہ تھی.لیکن اب چونکہ ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ ہر چیز کی حقیقت کو کھول دیا جائے تا کہ کسی کو کسی مسئلہ پر حملہ کرنے کی جرأت نہ رہے اس لئے خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ ملائکہ کی

Page 14

ملائكة الله حقیقت سے بھی دنیا آگاہ ہو جائے.آج کل کے مسلمانوں کے وہی فرشتے چند ہی دن ہوئے ایک آریہ نے بیان کیا کہ مسلمان اسلام سے بدظن ہو رہے ہیں اور اس کے ثبوت میں یہ بات بھی پیش کی ہے کہ سید امیر علی صاحب نے جو مسلمان ہیں لکھا ہے کہ فرشتے ایک وہمی چیز ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے.اس میں شک نہیں کہ آج کل کے مسلمان کہلانے والوں کے ذہن میں جو فرشتے ہیں وہ وہمی ہی ہیں کیونکہ انہیں کچھ پتہ نہیں ہے کہ فرشتے کیا ہیں؟ ان پر ایمان لانے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کے کیا فوائد ہیں؟ مگر میں نے جیسا کہ ابھی بتایا ہے جو بات بھی ایمان میں داخل ہے وہ لغو نہیں ہے بلکہ اس کے بہت بڑے فوائد ہیں.پس چونکہ یہ ایک ایسا مضمون ہے کہ جس سے عام لوگوں کو لگاؤ نہیں اس لئے اس کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے.نئی تعلیم کی وجہ سے ملائکہ پر بھی اعتراض کئے جاتے ہیں مگر ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو ثابت کر سکتے ہیں اور اسی طرح ثابت کر سکتے ہیں جس طرح اور بہت سی چیزوں کو ثابت کیا جاتا ہے جو نظر سے غائب ہوتی ہیں.اور ہم ملائکہ کے متعلق ایسے ثبوت دے سکتے ہیں کہ ہر شخص ان کو سمجھ سکتا ہے بشرطیکہ تعصب کی پٹی اس کی آنکھوں پر نہ بندھی ہو.کیا ملائکہ نہیں ہیں؟ آج کل نئی تعلیم کے اثر سے بالعموم مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ ملائکہ کا

Page 15

ملائكة الله کوئی وجود نہیں ہے.بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو قوت پیدا ہوتی تھی اسی کا نام ملائکہ رکھ دیا گیا ہے.اور یہ جو نام جبرائیل یا میکائیل رکھ دئے گئے ہیں ان کی غرض یہ ہے کہ لوگوں میں چونکہ ان کا خیال پھیلا ہوا تھا اور یہ نام رائج تھے اس لئے اپنی باتوں کو زیادہ مؤثر بنانے کے لئے ان کے نام لے دیئے گئے ہیں.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ملائکہ کا وجود اس زور کے ساتھ تسلیم کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے بعد اگر کثرت کے ساتھ کوئی مسئلہ پایا جاتا ہے تو ملائکہ کا ہی ہے.وحشی سے وحشی قوموں کے حالات سے بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ ملائکہ کو مانتے تھے.بہت سے مذاہب ایسے ہیں جن کی تعلیمیں اب دنیا میں پائی نہیں جاتیں مگر ان کے آثار قدیمہ سے ملائکہ کا پتہ لگتا ہے اور جو مذاہب موجود ہیں ان میں تو نہایت صفائی کے ساتھ ان کا ذکر پایا جاتا ہے.دیگر مذاہب میں ملائکہ کا ذکر چنانچہ قدیمی مذاہب میں سے سب سے زیادہ زرتشتی مذہب میں بیان کیا گیا ہے.اس مذہب کے لوگوں نے جس صفائی کے ساتھ ملائکہ کے متعلق بیان کیا ہے (اگر چہ انہوں نے اس بیان میں غلطیاں بھی کی ہیں) مجھے افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اتنا مسلمانوں نے نہیں کیا.ان لوگوں نے ملائکہ کا ذکر نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے.ان کے بعد دوسرے درجہ پر یہودی ہیں.یہ چونکہ تازہ ہی مذہب ہے اور کوئی بہت زیادہ زمانہ اس پر نہیں گزرا اور اس کی حفاظت بھی ایک حد تک ہوتی رہی ہے.اس میں بھی ملائکہ کے متعلق بہت سی تعلیم موجود ہے.ان کے بعد ہند و ہیں.ان کا مذہب اگر چہ بہت قدیم کا ہے مگر ان میں بھی ملائکہ کو تسلیم کیا گیا ہے.گو آج کل یہ لوگ ان کی اور تشر یکیں

Page 16

ملائكة الله کر دیں.اسی طرح چین کے لوگوں کی جو پرانی کتابیں ہیں ان میں بھی ملائکہ کا ذکر پایا جاتا ہے.پھر مصر اور یونان کے آثار قدیمہ میں بھی ملائکہ کا ثبوت پایا جاتا ہے.اور ایسی وحشی قومیں جن کے نام کا بھی پتہ نہیں لگتا ان کے آثار اور ضرب الامثال سے بھی ملائکہ کا پتہ لگتا ہے.کسی جگہ تو یوں ذکر ہے کہ پروں والی ایک مخلوق ہے جو انسان کو سزا دیتی ہے.اور کسی جگہ اس قسم کی تصویریں ملتی ہیں جو کئی کئی ہزار سال کی ہیں کہ پروں والی تصویریں اوپر سے نیچے کی طرف آرہی ہیں.اس قسم کی باتوں سے پتہ لگتا ہے کہ ان میں بھی ملائکہ کا خیال پایا جا تا تھا.پس تمام اقوام میں ملائکہ کے خیال کا پتہ لگتا ہے.سب سے زیادہ زرتشتیوں میں.ان سے اتر کر یہودیوں میں.ان سے اتر کر ہندوؤں میں.اور دوسری پرانی اقوام میں بھی پایا جاتا ہے اور عیسائیوں میں بھی حتی کہ پولوس نے بحث اُٹھائی ہے کہ ان کی عبادت جائز ہے یا نہیں؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسی تعلیم تھی جس کا اثر تمام قلوب پر تھا.اور جس طرح خدا تعالیٰ کے متعلق ہر ایک قوم کے ایمان کو دیکھ کر انسان کہہ سکتا ہے کہ شروع سے تمام لوگ خدا تعالیٰ کو مانتے چلے آئے ہیں اور یہ ثبوت ہے خدا تعالیٰ کی ہستی کا.اسی طرح جب وہ قومیں جن کے تمدن آپس میں نہیں ملتے ، جن کا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا وہ ساری کی ساری ملائکہ کی قائل پائی جاتی ہیں تو یہ ملائکہ کے ہونے کا ایک زبر دست ثبوت ہے.زرتشتی مذہب میں ملائکہ کا ذکر زرتشتیوں میں یہ عجیب بات پائی جاتی ہے کہ ان میں فرشتوں کے جو نام آئے ہیں اور وہ

Page 17

۱۲ ملائكة الله نام جو مسلمانوں میں ہیں آپس میں ملتے جلتے ہیں اور ان کے کام بھی آپس میں ملتے ہیں.ان کا خیال ہے کہ خدا دو ہیں.ایک تاریکی کا اور ایک ٹور کا.ٹور کے خدا کی یہ منشاء ہے کہ ظلمت کے خدا کو کمزور کر دے.اور کہتے ہیں ایک وقت آئے گا جب ظلمت کا خدا کمزور ہو جائے گا نیکی کے خدا کو یزدان اور بدی کے خدا کو اہرومانہ اور بالعموم اہرمن کہتے ہیں.یعنی تاریکی کا آدمی.اس نام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے معنے شیطان تھے خدا نہ تھے.لیکن وہ کہتے ہیں کہ خدا کے مقابلہ میں یہ بدی کا خدا ہے اور یہی بدیاں کراتا ہے.زرتشتیوں کی مذہبی زبان اوستا میں بڑے فرشتوں کو امیشیا کہتے ہیں جو کہ امیش سے نکلا ہے جس کے معنے غیر فانی کے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ فرشتے غیر فانی ہوتے ہیں.جس طرح انسانی روح فنا سے محفوظ رکھی گئی ہے.اسی طرح ان کو بھی ہمیشہ کی زندگی عطا کی گئی ہے.زرتشتیوں کا عقیدہ ہے کہ فرشتے تمام نیکیوں اور مذہب کا سر چشمہ ہیں اور اصولاً خدا تعالیٰ کے مظاہر ہیں.ان کا خیال ہے کہ فرشتے ہزاروں سال کی ترقی کے بعد اپنے موجودہ درجہ تک پہنچے ہیں.اور وہ فرشتوں کی نسبت خیال کرتے ہیں کہ وہ لاثانی موتی ہیں جو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں لیکن ہمیں نفع رساں ہیں.وہ جواہر نہیں کہلا سکتے کیونکہ یہ ان کی ہتک ہوگی.وہ پھول نہیں جو درختوں پر لٹکے ہوں بلکہ وہ ستاروں کی طرح ہیں جو سورج کے گرد گھوم رہے ہوں وہ خدا کے لئے زینت نہیں بلکہ اس کی ذات کے مظہر ہیں.زرتشتی کتب میں سب سے بڑے فرشتہ کا نام دوہو ماناح لکھا ہے.اسے

Page 18

ملائكة الله و ہشتا ما ناح بھی کہتے ہیں.یعنی سب سے بہتر فرشتہ.دوہو ماناح کے معنے نیک دل یا اصلاح کرنے والے فرشتہ کے ہیں.اور عبرانی اور عربی میں جبر کے معنے بھی اصلاح کے ہیں.پس دونوں ناموں کی مطابقت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہو ماناح درحقیقت جبرائیل کا ہی نام ہے.زرتشتی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی دماغ کو روشنی اس فرشتہ کی وساطت سے آتی ہے.بلکہ زرتشت نے خدا تعالیٰ سے دُعا کی تھی کہ نور اور الہام کی روشنی سے وہ و وہو ماناح کو دیکھے اور آخر وہ فرشتہ اسے ملا.تمام نیک تحریکیں اس فرشتہ کی طرف سے آتی ہیں اور جو لوگ اس فرشتہ کی تحریکات کو قبول نہیں کرتے یہ فرشتہ ان کو چھوڑ دیتا ہے.دوسرا فرشتہ زرتشتیوں کے نزدیک آشنا ہے.یعنی تقویٰ کا فرشتہ ہے.ظاہری اشیاء میں سے آگ آشا کے سپر د ہے کیونکہ ٹور آگ سے پیدا ہوتا ہے اور تقویٰ نور سے پیدا ہوتا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ فرشتہ میکائیل ہے کیونکہ میکائیل دنیاوی ترقی کا فرشتہ ہے اور دنیاوی ترقی کا نشان آگ ہے.ان دونوں فرشتوں کے علاوہ پانچ بڑے فرشتے اور مانتے ہیں اور چھوٹے فرشتوں کا تو کچھ شمار ہی نہیں.اور بڑے فرشتوں کے سپر د تمام انتظام ہے اور ان کا خیال ہے کہ فرشتے ہمیشہ انسان کے دل پر نیک اثر ڈالتے ہیں تا کہ شیطان اس میں نہ گھس سکے.اور کہتے ہیں پیدائش خدا کی طرف سے ہے اور موت شیطان کی طرف سے.اس وجہ سے وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ چونکہ پیدائش خدا کی طرف سے ہوتی ہے اس لئے انسان نیک ہی پیدا ہوتا ہے اور فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں مگر شیطان اس کو بُرائی سکھاتا ہے.اگر انسان اس کی بات مان لے تو فرشتے اسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کہ اب

Page 19

شیطان کا بندہ ہو گیا ہے.۱۴ ملائكة الله پھر ان کا خیال ہے کہ خدا اور شیطان کا مقابلہ ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ ایرانی النسل ایک نبی پیدا ہوگا اور اس کا نام موسیوز بھی ہوگا یعنی مسیح مبارک کے نام سے ایک نبی آئیگا جو زرتشت کی اولاد سے ہوگا.مگر ظاہری اولاد سے نہیں کیونکہ لکھا ہے کہ وہ اس بیوی سے ہو گا جس سے کوئی اولاد نہیں ہوئی.اس کے زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ ہوگی.وہ خدا تعالیٰ سے التجا کرے گا کہ جنگ بہت مہیب ہے تو فرشتے نازل کر.اس پر خدا تعالیٰ فرشتے نازل کرے گا.شیطان مقابلہ کرتا کرتا آخر کا ر تھک جائے گا.اس وقت وہ نبی اس پر فرشتوں کی مدد سے آخری حملہ کرے گا اور خطرناک جنگ ہوگی جس میں شیطان کو شکست ہوگی.اور وہ پکڑا اور مارا جائے گا.اس کے بعد امن ہو جائے گا اور یہ دُنیا بہت پھیل جائے گی اس لئے کہ کوئی آدمی مر نہیں سکے گا کیونکہ شیطان جو مارنے سے تعلق رکھتا ہے خود مر گیا ہو گا.معلوم ہوتا ہے کہ یہ باتیں ایک نبی کی کہی ہوئی ہیں.کیونکہ سچی نکلی ہیں اور پوری ہو رہی ہیں.موسیوز بھی (صحیح مبارک) آیا اور انہی نشانات کے ساتھ آیا جو بیان کئے گئے.پھر یہ بات اور نبیوں نے بھی کہی ہے کہ ایک آخری جنگ شیطان کے ساتھ ہوگی.چنانچہ اب ہو رہی ہے.کئی کئی طریقوں سے کوشش کی جاتی ہے کہ لوگوں کو بچے مذہب سے پھرایا جائے اور لوگ خدا کو چھوڑ دیں.اس کے مقابلہ میں لوگوں کو خدا سے ملانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ ایک نہایت خطرناک جنگ ہے.پھر فرشتے آسمان سے مانگنے والی بات بھی درست نکلی.چنانچہ حضرت مسیح موعود کا

Page 20

۱۵ ملائكة الله ایک کشف ہے کہ آپ نے خدا سے ایک لاکھ فرشتے مانگے ہیں اور خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے پانچ ہزار کافی ہیں ایک لاکھ زیادہ ہیں ( تذکرہ صفحہ ۱۷۸ ایڈیشن چہارم) چونکہ قرآن میں زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار فرشتوں کا ذکر آیا ہے اس لئے اتنے ہی دیئے گئے ان سے زیادہ نہ دیئے گئے.غرض یہ بات بھی سچی نکلی.زرتشتیوں میں فرشتوں کے اعمال کے متعلق بڑی تفصیلیں آتی ہیں.گو انہوں نے ٹھوکریں بھی کھائی ہیں مگر ان کی کتابوں میں ایسے مضامین پائے جاتے ہیں کہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اسلام کو چھوڑ کرکسی مذہب نے ملائکہ کا بیان کیا ہے تو وہ زرتشتی مذہب ہی ہے.یہودی مذہب میں ملائکہ کا ذکر پھر یہودیوں میں بھی ملائکہ کی تعلیم پائی جاتی ہے.وہ جبرائیل کو آگ کا فرشتہ کہتے ہیں مگر ان کو غلطی لگی ہے.کیونکہ یہی نام زرتشتیوں میں پایا جاتا ہے مگر وہ اسے کلام لانے والا فرشتہ کہتے ہیں.چونکہ یہ نام ان میں پہلے کا پایا جاتا تھا اور یہودیوں میں بعد میں آیا ہے اور ان کی ایران سے جلا وطنی کے بعد آیا ہے اس لئے چونکہ جن یہودیوں سے یہ نام لیا ہے ان میں اس کو رحمت کا فرشتہ اور کلام لانے والا مانا جاتا ہے اس لئے آگ کا فرشتہ کہنا غلط ہے.پھر بائیل میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اسے رحمت کا فرشتہ قرار دیا گیا ہے.طالمود میں آتا ہے کہ دانیال نبی کے زمانہ میں جن لوگوں کو آگ میں ڈالا گیا تھا ان کو بچانے والا جبرائیل ہی تھا.چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم کو لوگ آگ میں ڈالنے لگے تو جبرائیل نے عا تذکرہ میں فرشتے کی بجائے فوج کا لفظ ہے.

Page 21

۱۶ ملائكة الله خدا تعالیٰ سے کہا مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کو بچاؤں.خدا تعالیٰ نے کہا نہیں تمہیں اس کی اجازت نہیں دی جاتی.ابراہیم بھی زمین میں ایک ہی ہے اور میں بھی ایک ہی ہوں اس لئے میں ہی اسے بچاؤں گا یہ وہی بات ہے جو ہمارے ہاں ہے کہ جب حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالنے لگے تو جبرائیل ان کے پاس آیا اور کہا مجھ سے کچھ مانگ لو.انہوں نے کہا تم سے میں کچھ نہیں مانگتا.اس پر اس نے کہا پھر خدا سے مانگو.انہوں نے کہا خدا سے مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا وہ خود نہیں دیکھتا کہ میری کیا حالت ہے؟ طالمود میں آتا ہے کہ جبرائیل کو خدا نے کہا کہ تو نہیں میں ابراہیم کو بچانے کے لئے جاؤں گا مگر میں تیری اس نیکی کو ضائع نہیں کروں گا.آئندہ ابراہیم کی اولاد میں سے ایک کو بچانے کے لئے تجھے اجازت دوں گا.چنانچہ دانیال کے وقت جو لوگ آگ میں ڈالے گئے تو اس وقت خدا نے جبرائیل کو ان کے بچانے کی اجازت دی اور اس نے انہیں بچایا.غرض یہودیوں میں بھی شروع سے لے کر آخر تک فرشتوں کا ذکر چلتا ہے اور انہیں خدا کا بیٹا کہا گیا ہے.ہندو مذہب میں ملائکہ کا ذکر اسی طرح ہندوؤں میں بھی فرشتوں کا ذکر پایا جاتا ہے ورونہ وغیرہ نام آتے ہیں.عام لوگ ان کو ایسی روحیں سمجھتے ہیں جن کی پوجا کرنی چاہئے.مگر دراصل یہ فرشتے تھے جو خدا کا کلام لاتے تھے کیونکہ دو ہو مانہ اور ورونہ کا کام ایک ہی معلوم ہوتا ہے.وو ہو مانہ کا تعلق بھی سورج سے بتاتے ہیں اور ورونہ کا بھی سورج سے ہی.مگر غلطی سے یہ سمجھا جانے لگا کہ چونکہ سورج سے ان کا تعلق ہے اس لئے سورج خدا ہے اور اس طرح سورج کو خدا ماننے لگ گئے.

Page 22

۱۷ ملائكة الله اس میں شک نہیں کہ ان کا تعلق سورج سے ہے.جیسا کہ اسلام میں سورج کا تعلق جبرائیل سے بتایا گیا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے بھی لکھا ہے کہ اس کا تعلق سورج سے ہے.جبرائیل کا تعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن میں سورج کہا گیا ہے.حضرت مسیح موعود پر جو کفر کے فتوے لگے ان میں ایک بات یہ بھی لکھی گئی تھی کہ آپ فرشتوں کا انکار کرتے ہیں.حضرت صاحب نے توضیح مرام اور آئینہ کمالات اسلام میں فرشتوں کے متعلق بحث کی ہے اور قرآن کریم سے آپ نے ثابت کیا ہے کہ ملائکہ کا تعلق اجرام سماوی سے ہے اور ان کے ذریعہ سے ان کے اثرات دُنیا میں پڑتے ہیں.جس پر علماء نے یہ شبہ پیدا کر کے کہ آپ فرشتوں کے منکر ہیں اور ستاروں کی تاثیرات کے قائل ہیں آپ پر کفر کا فتو ی لگایا ہے.یہ ستاروں کا مضمون ایک علیحدہ مضمون ہے.میں اس وقت اس کے متعلق کچھ بیان کرنا نہیں چاہتا کیونکہ اس طرح بحث کہیں کی کہیں نکل جائے گی.سر دست میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سب مذاہب میں فرشتوں کا خیال پایا جاتا ہے اور اسلام میں بھی جہاں سینکڑوں شرک کی باتوں کا رڈ کیا گیا ہے وہاں فرشتوں کے عقیدہ کو قائم کیا گیا ہے اور اس قدر زور کے ساتھ قائم کیا گیا ہے کہ اگر ان کو نہ مانا جائے تو انسان کا فر ہوجاتا ہے.اور اسلام کا سب مذاہب پر یہ احسان ہے کہ جس طرح نبیوں پر جس قدر اعتراض پڑتے ہیں ان کو اسلام نے دُور کیا ہے اسی طرح فرشتوں پر جس قدر اعتراض پڑتے ہیں ان کو بھی دُور کیا ہے.زرتشتیوں اور یہودیوں کا خیال ہے کہ فرشتے بھی شیطان کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں اور ان ہی کی تقلید میں مسلمانوں نے ہاروت اور ماروت دوفرشتوں کے متعلق ہے

Page 23

۱۸ ملائكة الله سمجھ رکھا ہے کہ انہیں شیطان کے پھندے میں پھنس جانے کی وجہ سے اس وقت تک بابل کے کسی کنویں میں الٹا لٹکایا ہوا ہے.(تفسیر ابن كثير سورة البقرة زير آيت واتبعوا ما تتلوا الشيطين على ملك سليمن، لیکن قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے ایک ایسی مخلوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کچھ بھی نہیں کرتے.چنانچہ آتا ہے.لَا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (التحريم :) اب جبکہ یہ معلوم ہو گیا کہ فرشتوں کا خیال ایک ایسی بات ہے جس کے متعلق سب قوموں کا اتفاق ہے تو ہر ایک سنجیدہ آدمی کو چاہئے کہ سوچے.یہ کوئی بہت ہی بڑی اور اہم بات ہوگی تبھی سب مذاہب کی کتب میں ان کا ذکر ہے اور قرآن سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اتنا پرانا خیال ہے کہ حضرت نوح کے زمانہ میں بھی پایا جاتا تھا.حضرت نوح کے مخالفین کا قول اللہ تعالیٰ نقل فرماتا ہے کہ فَقَالَ الْمَلَو الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُرِيدُ ان يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لاَنْزَلَ مَلَئِكَةً مَّا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي آبَائِنَا الأولين (المؤمنون:۲۵) یعنی حضرت نوح کے منکروں کے سرگروہوں نے کہا.یہ شخص تو تمہارے جیسا ایک آدمی ہے جو تم پر بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے.اور اگر خدا کا منشاء ہوتا تو وہ فرشتے اتارتا.ہم نے تو ایسی بات پہلے بزرگوں کے حق میں نہیں سنی ( یعنی ان میں رسول آیا کرتے تھے.) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی یہ اعتراض کیا گیا ہے:.

Page 24

۱۹ ملائكة الله لَوْ مَا تَأْتِيْنَا بِالْمَلَئِكَةِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّدِقِينَ ( الحجر : ٨) کیوں نہیں تو ہمارے پاس فرشتے لا تا اگر تو سچا ہے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے لوگوں میں بھی ملائکہ کا خیال پایا جاتا تھا.اس مختصر سے ذکر کے بعد میں اسلامی تعلیم کی طرف آتا ہوں اور بتا تا ہوں کہ اسلام نے ملائکہ کے متعلق کیا تعلیم دی ہے؟ ملائکہ کی حقیقت پہلی بات یہ ہے کہ ملائکہ مخلوق ہیں یا نہیں ؟ کیونکہ جو درجہ ان کو دیا گیا ہے اس سے خیال پیدا ہوتا ہے کہ فرشتے مخلوق نہیں.چنانچہ اسی وجہ سے عیسائیوں کو دھوکا لگا ہے اور انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ روح القدس مخلوق نہیں بلکہ خدا کا حصہ ہے اور اس کو بھی خدا بنادیا ہے.لیکن اسلام کہتا ہے کہ فرشتوں کا غیر مخلوق ہونا جھوٹ ہے.وہ مخلوق ہیں.چنانچہ فرشتوں کے مخلوق ہونے کا ثبوت قرآن کریم سے ملتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.آمْ خَلَقْنَا الْمَلْئِكَةَ إِنَانًا وَهُمْ شَهِدُونَ (الصُّقْت: ۱۵۱) کیا جب ملائکہ پیدا کئے گئے اس وقت یہ وہاں موجود تھے؟ کہ کہتے ہیں فرشتے لڑکیاں ہیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے ملائکہ کو پیدا کیا ہے.ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ فنا ہوں گے یا نہیں ؟ جس طرح ارواح انسانی محفوظ رکھی جائیں گی اسی طرح ملائکہ بھی فنا نہیں کئے جائیں گے یا سب فنا ہو جا ئیں گے یا بعض فنا ہو جا ئیں گے بعض باقی رکھے جائیں

Page 25

ملائكة الله گے.یہودیوں کا خیال ہے کہ جب الہام ہوتا ہے تو ہزاروں فرشتے اس حرکت سے جو الہام کے الفاظ کے بیان سے پیدا ہوتی ہے پیدا ہوتے ہیں مگر پھر ساتھ ہی ہلاک ہو جاتے ہیں.مگر زرتشتی فرشتوں کو غیر فانی ہستی مانتے ہیں.دوسری بات ملائکہ کے متعلق یہ یا درکھنی چاہئے کہ یہ ایسی روحانی مخلوق ہیں کہ بندہ کو ان آنکھوں سے اپنے اصلی جسم میں نظر نہیں آ سکتے.اور اگر ان آنکھوں سے نظر آئیں گے تو اپنے اصلی وجود کے سوا غیر وجود میں ہوں گے.گویا فرشتوں کو دیکھنے کے لئے یا تو یہ ظاہری آنکھیں نہیں ہوں گی بلکہ رُوحانی آنکھوں کی ضرورت ہوگی اور اگر ان آنکھوں سے دیکھا جائے گا تو فرشتے اپنے اصلی جسم میں نہیں ہوں گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَلَوْ جَعَلْنَهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنَهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَّا يَلْبِسُونَ (الانعام: ۱۰) یہ لوگ کہتے ہیں کہ فرشتہ کیوں نہیں اترتا.لیکن اگر فرشتہ آ جائے تو آدمی کی شکل میں ہی آئیگا.تب یہ دیکھ سکیں گے.اور جب انسان کی شکل میں آئے گا تو پھر بات مشتبہ رہے گی کہ یہ فرشتہ ہے یا آدمی؟ اور جو شبہ یہ اب پیدا کر رہے ہیں پھر بھی قائم رہے گا کہ یہ کلام خدا کا نہیں بلکہ انسانی بناوٹ ہے.پس فرشتہ تو ہم تب بھیجتے جب اس کا کوئی فائدہ بھی ہوتا.لیکن چونکہ ان آنکھوں سے لوگ فرشتے کو دیکھ نہیں سکتے اور اگر دیکھیں تو انسان کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں اور اس پر وہ پھر اعتراض کریں گے اس لئے فرشتہ نازل نہیں کیا جاتا.پس فرشتوں کا وجود نہانی ہے ان آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا.تیسری بات ان کے متعلق یہ یاد رکھنی چاہئے کہ وہ ایسی مخلوق ہیں کہ نہ نر ہیں نہ مادہ.اس بات کا پتہ اس آیت سے لگتا ہے جو میں نے پہلے پڑھی ہے کہ آم خَلَقْنَا

Page 26

۲۱ ملائكة الله الْمَلَئِكَةَ إِنَانًا وَهُمْ شَهِدُوْنَ (الصُّقْت: ۱۵۱) یہاں خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ تو مرد ہیں.بلکہ یہ کہا ہے کہ یہ کہتے ہیں فرشتے لڑکیاں ہیں.ان کو کیا پتہ ہے کہ وہ کیا ہیں؟ کیا یہ اس وقت موجود تھے؟ جب خدا نے فرشتوں کو بنایا.خدا تعالیٰ نے فرشتوں کے مادہ ہونے سے تو انکار کر دیا مگر ساتھ یہ نہیں فرمایا کہ وہ نر ہیں.پس ان کو نر یا مادہ کہنا غلط ہے.یہ تو مادی چیزوں میں ہوتا ہے.روحانی چیزوں میں نر و مادہ نہیں ہوتا.یہ نہیں کہ مرد کی روح نہ ہو اور عورت کی مادہ.نر اور مادہ تو ظرف کی حالت ہے ان میں جو چیز ہے وہ ایک ہی ہے.چوتھی بات ملائکہ کے متعلق یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کے تین درجے ہیں.وہ سارے کے سارے ایک قسم کے نہیں ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.الَّذِينَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةٌ وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ (المؤمن :) اس آیت سے تین قسم کے فرشتوں کا پتہ چلتا ہے.دو قسم کے فرشتوں کا دلالت القص سے اور تیسری قسم کے فرشتوں کا اشارۃ النص سے.کیونکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک تو وہ فرشتے ہیں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور ایک وہ فرشتے ہیں جو عرش کے گرد رہتے ہیں.یعنی ایک تو وہ فرشتے ہیں جن کے ذریعہ سے احکام الہی جاری ہوتے ہیں.اور ایک وہ فرشتے ہیں جو ان کے نائب اور ان کے احکام کو نچلے طبقہ تک لے جانے والے ہیں.اور اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اور طبقہ فرشتوں کا ہے جو ان عرش کے گرد رہنے والے فرشتوں سے بھی نیچے کا ہے.اور احادیث سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے.کیونکہ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض فرشتے مختلف اشیاء پر مقرر ہیں.پس وہ حَمَلَةُ

Page 27

۲۲ ملائكة الله الْعَرْشِ اور مَنْ حَوْلَہ کے سوا تیسری قسم کے فرشتے ہیں.زرتشتیوں میں بھی اس مسئلہ کا کسی قدر کچھ پتہ لگتا ہے.کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ سات فرشتے ہیں جودُنیا کا کام چلاتے ہیں.قرآن کریم میں آتا ہے کہ قیامت کو آٹھ فرشتے خدا کے تخت کو اُٹھائے ہوئے ہوں گے.تخت سے مراد چاندی سونے کا تخت نہیں بلکہ وہ اعلیٰ صفات مراد ہیں جن سے خدا تعالیٰ کی الوہیت روشن ہوتی ہے.اگلے جہان میں وہ آٹھ ملائکہ کے ذریعہ سے ظاہر ہوگی مگر اس دُنیا میں جیسا کہ استدلال سے ثابت ہوتا ہے سات فرشتوں سے ظاہر ہوتی ہے.تو ایک وہ فرشتے ہیں جو خدا کا عرش اُٹھائے ہوئے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو اُن سے ادنی ہیں مگر خدا تعالیٰ کے مقرب ہیں اور وہ ایسے ہیں جیسے اسسٹنٹ ہوتے ہیں.اصل کام ان کے سپر د نہیں ہوتا وہ ان کے مددگار ہیں اور تیسرے وہ جو ادنیٰ درجہ کے ہیں.پس تین قسم کے فرشتے ہیں :- ا.وہ جو خدا کی صفات ظاہر کرنے والے ہیں.۲.وہ جو اُن کے مددگار اور خدا کے مقرب ہیں.۳.وہ جو مختلف چھوٹے چھوٹے کاموں پر متعین ہیں.اور ان کی تعداد کی تعیین ہی نہیں ہوسکتی کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَط ( المدثر : ٣٢) ان کا اندازہ کوئی انسان کر ہی نہیں سکتا.کیونکہ جیسا کہ نبیوں کے کلام سے ثابت ہوتا ہے ہر کام کا علیحدہ فرشتہ ہوتا ہے.پانچویں بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ملائکہ ایسی مخلوق ہے جو بدی کر ہی نہیں سکتی.انسان میں تو یہ مادہ ہے کہ انبیا حتی کہ خدا کا بھی انکار کر دیتا ہے.اور ایسے لوگ ہوتے ہیں جو

Page 28

۲۳ ملائكة الله خدا کو گالیاں دیتے ہیں.مگر قرآن سے پتہ لگتا ہے کہ ملائکہ ایسی مخلوق ہے کہ اس میں بدی کی قوت ہی نہیں ہے اور انسان کی نسبت ان کا دائرہ عمل محدود ہوتا ہے.انسان حدود کو توڑ دیتا ہے مگر ملائکہ کے لئے جو حدود مقرر ہیں ، ان کو نہیں توڑ سکتے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.لَا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُوْنَ (التحريم :) کہ ملائکہ اللہ کے حکم کو نہیں توڑتے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے.چھٹی بات یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ ملائکہ خدا کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرتے بلکہ ان میں ایسا مادہ ہے کہ خدا کے احکام کو پورے طور پر بجالاتے ہیں.کسی حکم کی خلاف ورزی کرنا اور بات ہوتی ہے اور اس کو پورے طور پر نہ کر سکنا اور بات.مثلاً ایک کمزور شخص کو کہا جائے کہ فلاں چیز اُٹھاؤ لیکن وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اُٹھا نہ سکے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے حکم کی خلاف ورزی کی.ہاں ایک ایسا شخص جو اُٹھانے کی طاقت رکھتا ہو وہ اگر اُٹھانے سے انکار کر دے تو یہ خلاف ورزی ہوگی.فرشتوں کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے ان میں ایسی قابلیت ہوتی ہے کہ جو کام انہیں کرنے کو کہا جاتا ہے اسے وہ من حیث الافراد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں یعنی سب میں اس کے کرنے کی طاقت موجود ہوتی ہے.انسانوں کی طرح نہیں ہوتے کہ بعض آدمیوں میں حکم پورا کرنے کی طاقت ہوتی ہے اور بعض میں نہیں.چنانچہ فرماتا ہے.وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (النحل: ۵۱) انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں.انسان کی یہ حالت نہیں ہوتی.وہ بعض اوقات چاہتا ہے کہ ایک کام کرے لیکن کر نہیں سکتا.مثلاً وہ چاہتا ہے کہ کھڑا ہوکر نماز پڑھے لیکن وہ بیمار ہو تو ایسا نہیں کرسکتا.

Page 29

۲۴ ملائكة الله ساتویں بات ملائکہ کے متعلق یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ اردگرد کے اثرات کو قبول نہیں کرتے.باقی مخلوق زبر دست سے زبردست ہو تو بھی اثر قبول کرتی ہے.ہاں یہ ہوتا ہے کہ بعض اثرات کو قبول کرتی ہے اور بعض کو نہیں بھی قبول کرتی.مثلاً انبیاء ہیں یہ نیکی کے اثر کو قبول کرتے ہیں.یا لڑائی ہو اور وہ اس میں شامل ہوں تو بشریت کے لحاظ سے ان پر بھی اثرات پڑیں گے لیکن نبی بُرے اثرات سے محفوظ ہوتے ہیں.مگر فرشتے ہر رنگ میں محفوظ ہوتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.عَلَيْهَا مَلْئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ (التحريم :) ملائکہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غلاظ اور شداد ہوتے ہیں.دوسری کوئی چیز ان پر اثر نہیں ڈال سکتی.ہاں ان کو جس چیز پر اثر ڈالنے کے لئے کہا جائے اس پر ضرور ڈال دیتے ہیں.یہ طاقت انسان میں نہیں ہوتی.بعض باتوں میں ہوتی ہے اور بعض میں نہیں ہوتی.یعنی بعض صفات میں انسان بھی ایسا ہوتا ہے مگر من کل الوجوہ نہیں ہوتا.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:- مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح: ٣٠) کہ مؤمن بھی اشداء ہوتے ہیں مگر کفار پر.آپس میں وہ ایک دوسرے کا اثر قبول کرتے ہیں.اسی طرح فرماتا ہے:- يَأَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنْفِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ (التوبة: ۷۳) اے نبی ! کفار اور منافقین کا مقابلہ کرو مگر ان کا اثر نہ قبول کرو.تو مؤمنوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ دوسروں پر اپنا اثر ڈالتے بھی ہیں اور ان کا اثر قبول بھی نہیں کرتے مگر بعض امور میں اور ملائکہ من کل الوجوہ ایسے ہوتے ہیں کہ کبھی اثر قبول نہیں کرتے.

Page 30

۲۵ ملائكة الله آٹھویں بات یہ ہے کہ ان کی تعداد انسان کے لئے غیر محدود ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَط ( المدثر : ٣٢) ملائکہ کی تعدادخدا ہی جانتا ہے اور کوئی معلوم نہیں کرسکتا.نویں بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان میں افسر ماتحت بھی ہوتے ہیں یہی نہیں کہ ایک بڑا ہے اور دوسرا چھوٹا مگر اپنے اپنے کام اور جگہ پر سب مستقل ہیں بلکہ وہ افسر اور ماتحت کی حیثیت بھی رکھتے ہیں.چنانچہ ایک جگہ تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.قُلْ يَتَوَفكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِى وَكُلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ (السجده: ١٢) کہہ دے کہ تمہاری روح قبض کرے گاموت کا فرشتہ جس کے سپر دتمہاری جان نکالنے کا کام کیا گیا ہے.پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے.اور دوسری جگہ فرماتا ہے:.وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّلِمُونَ فِي غَمَرَتِ الْمَوْتِ وَالْمَلْئِكَةُ بَاسِطُوا أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا انْفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللهِ غَيْرَ الْحَقِّقِ وَكُنْتُمْ عَنْ ايَتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ (الانعام : ۹۴) یعنی اور کاش کہ تو دیکھے اس گھڑی کو جب کہ ظالم موت کی تکلیف میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھوں کو ان کی طرف دراز کئے ہوئے کہہ رہے ہوں گے کہ نکالو اپنی جانوں کو.آج کے دن تم رسوائی کا عذاب دئے جاؤ گے.یہ سبب تمہارے اللہ تعالیٰ کے متعلق نادرست باتوں کے کہنے کے اور بہ سبب اس کے نشانات سے تکبر کر کے اعراض کرنے

Page 31

۲۶ ملائكة الله کے.اسی طرح فرماتا ہے:.اِنَّ الَّذِينَ تَوَقُهُمُ الْمَلَئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْ (النساء : ٩٨) یعنی ضرور وہ لوگ کہ جن کی ملائکہ روح قبض کریں گے ایسے حال میں کہ وہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہوں گے.ان سے ملائکہ کہیں گے کہ تم کس خیال میں ٹھہرے ہوئے تھے؟ اب ان تینوں آیتوں کو ملا کر دیکھو کہ اول الذکر آیت میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ سب انسانوں کی جانیں نکالنے کا کام صرف ایک ہی فرشتہ کے سپر د کیا گیا ہے.اور دوسری دونوں آیتوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ جان بہت سے فرشتے نکالتے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤکل تو ایک فرشتہ ہے مگر آگے اس کے نائب بہت سے فرشتے ہیں جو اس کی اطاعت میں اس کام کو بجالاتے ہیں.اور جب موت کے انتظام میں افسری ماتحتی کے سلسلہ کو ملحوظ رکھا گیا ہے تو دوسرے امور کو بھی اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے کہ تمام امور جو فرشتوں کے ذریعہ سے ہوتے ہیں.وہ چند بڑے فرشتوں کے سپر د ہیں.اور آگے ان کے ماتحت شمار سے باہر ایک جماعت کام کرتی ہے.دسویں بات یہ ہے کہ فرشتوں میں انسان کی طاقتوں کے مقابلہ میں محدود طاقتیں ہوتی ہیں.ملائکہ ایک ہی حالت میں رہتے ہیں لیکن انسان بہت ترقی کرسکتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَئِكَةِ فَقَالَ انْبِتُونِي بِأَسْمَاءِ هؤلاء إن كُنْتُمْ صَدِقِينَ قَالُوا سُبْحَنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (البقرة: ۳۲-۳۳)

Page 32

۲۷ ملائكة الله اللہ نے آدم کو سارے نام سکھا دیئے اور پھر ملائکہ کے سامنے ان چیزوں کو جن کے نام سکھائے تھے پیش کیا اور پوچھا کہ مجھے ان کے نام بتاؤ اگر تم حق پر ہو.انہوں نے کہا کہ تو پاک ہے.ہمیں کچھ علم نہیں.مگر اتنا ہی جتنا کہ تو نے ہمیں سکھایا ہے.ضرور تو بہت جاننے والا حکمت والا ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم سے کہا کہ وہ نام بتائے اور انہوں نے بتا دیئے.اس جگہ ضمنی طور پر میں اس سوال کا جواب دے دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے خود کیوں نام نہ بتا دیئے؟ آدم سے کیوں کہلوائے؟ سو اس میں یہ حکمت تھی کہ اگر خدا تعالیٰ بتا تا تو ان میں ساری صفتیں آجاتیں.حضرت آدم کو کہا گیا کہ تو بتا.یعنی تیری طرف یہ دیکھ لیں.غرض ملائکہ کی طاقتیں انسان سے محدود ہوتی ہیں.مگر باوجود اس کے ملائکہ جو کچھ کرتے ہیں خدا کے حکم اور منشاء کے ماتحت کرتے ہیں.کسی قسم کی نافرمانی نہیں کر سکتے.گیارہویں بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ملائکہ میں ارادہ ہے مگر بہت محدود.اس کی مثال ایسی ہے جیسے گھوڑے کے گلے میں لمبارسہ ڈال کر ایک کیلے سے باندھ دیا جائے کہ حرکت کرتا رہے لیکن اس حلقہ سے باہر نہ جاسکے.ملائکہ بھی ایک مرکز کے اردگرد حرکت کرتے رہتے ہیں اور اس حد سے باہر نہیں جاسکتے.وہ حد یہی ہے کہ : - لا يَعْصُونَ الله مَا آمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (التحريم :) اس حد سے باہر نہیں جاسکتے.فرشتوں کے ارادہ کا پتہ زمین سے بھی لگتا ہے کہ وہ حضرت آدم کے متعلق کہتے ہیں :.اتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ اليّمَاء (البقرة: ٣١) یہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے سوال کیا ہے کہ ہمیں سمجھائیے کہ آدم دُنیا میں فساد

Page 33

۲۸ ملائكة الله کرے گا اور خون بہائے گا.اس کا کیا انتظام ہوگا ؟ یہ سوال کرنا بتا تا ہے کہ ایک حد تک ان میں ارادہ ہوتا ہے جو نہ تو بدی تک جاتا ہے اور نہ نیکی سے آگے گزر جاتا ہے.مگر اس آیت سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے پوچھا.کہا جا سکتا ہے ممکن ہے کہ خدا نے الہام کیا ہو کہ پوچھو تو انہوں نے پوچھا ہو.اول تو یہی بات غلط ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے کہنے پر پوچھا کیونکہ آگے خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِن كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ اگر تم یہ سوال کرنے میں بچے ہو تو اسماء بتاؤ.اس سے معلوم ہوا کہ ان کا سوال خدا کے حکم کے ماتحت نہ تھا.پھر حدیثوں میں ہم ایسی باتیں پڑھتے ہیں جن سے فرشتوں کا ارادہ ظاہر ہوتا ہے.جیسا کہ آتا ہے:.ایک شخص ایک عالم کے پاس گیا اور جا کر کہا میں نے اتنے گناہ کئے ہیں کیا میں تو بہ کر سکتا ہوں؟ اس نے کہا تمہاری توبہ قبول نہیں.اس نے اسے قتل کر دیا اور پھر ایک اور شخص کے پاس جانے کے لئے روانہ ہوا تا کہ اس کے پاس تو بہ کرے مگر راستے میں ہی مر گیا.اس پر جنت والے فرشتوں نے کہا کہ ہم اسے جنت میں لے جائیں گے کہ یہ تو بہ کی نیت کر چکا تھا اور دوزخ والے فرشتوں نے کہا ہم اسے دوزخ میں لے جائیں گے کہ یہ تو بہ کرنے سے پہلے مر گیا.(مسلم کتاب التوبة باب قبول توبۃ القاتل و ان كثر قتلہ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ میں ارادہ ہوتا ہے.پھر اس آیت سے بھی پتہ لگتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.مَا كَانَ لِي مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَا الْأَعْلَى إِذْ يَخْتَصِمُونَ (ص:۷۰) مجھے کیا معلوم تھا اس بحث کا حال جب فرشتے آپس میں بحث کر رہے تھے.اس سے معلوم ہوا کہ وہ ایک دوسرے سے بحث بھی کر لیتے ہیں.پس ان میں ارادہ پایا جاتا

Page 34

۲۹ ملائكة الله ہے مگر نہایت محدود.بارہویں بات ملائکہ کے متعلق یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ عالم الغیب نہیں ہیں.کیونکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلْئِكَةِ أَهْؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ ) قَالُوا سُبْحَنَكَ أَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُونِهِمْ بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُّؤْمِنُونَ (سبا: ۴۱-۴۲) اور جس دن کہ اللہ ان سب کو اکٹھا کرے گا.پھر ملائکہ سے کہے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کیا کرتے تھے.وہ کہیں گے تو پاک ہے ان سے ہمارا کیا واسطہ ہے.ہمارا دوست تو تُو ہے.یہ لوگ تو جنوں کی عبادت کرتے تھے.اور ان میں سے اکثر ان پر ایمان لاتے تھے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کو علم غیب نہیں.کیونکہ اگر انہیں علم غیب ہوتا تو وہ عبادت سے لاعلمی ظاہر نہ کرتے.یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے یونہی سوال کیا تھا کیونکہ ایسے موقع میں بلاوجہ سوال بھی ایک قسم کا جھوٹ بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے.دوم پچھلی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ فرشتوں کی عبادت کے بھی قائل تھے.پس معلوم ہوتا ہے کہ بعض فرشتے بوجہ عدم علم کے اس امر سے انکار کر دیں گے کہ بعض انسان ان کی عبادت کرتے تھے.بعض حدیثوں سے بھی یہ بات وضاحت کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے کہ فرشتے عالم الغیب نہیں ہوتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.ایک شخص مؤمن کہلاتا اور مؤمنوں والے کام کرتا ہے.اس کے کاتب فرشتے جب اس کے عمل لے کر خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش کرنے کے لئے لے جاتے ہیں.مثلاً وہ نماز پڑھتا ہے اور وہ اس عمل کو اس کے حضور میں پیش کرتے ہیں تو آسمان سے آواز آتی ہے کہ

Page 35

ملائكة الله اسے واپس لے جاؤ اور جا کر اس کے منہ پر مارو.یہ نماز اس نے میرے لئے نہیں پڑھی.اس سے معلوم ہوا کہ ملائکہ کو غیب کا علم نہیں ہوتا اگر ہوتا تو وہ ایسی نماز کو لے ہی کیوں جاتے جو قابل قبول ہی تھی؟ تیرہویں بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ الگ الگ چیزوں کے الگ الگ فرشتے ہوتے ہیں.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ آپ کو اُحد کے دن سے زیادہ بھی کبھی تکلیف پہنچی ہے.آپ نے فرمایا.ہاں.یوم عقبہ کو جب کہ مکہ والوں کے انکار کو دیکھ کر میں نے عبدیالیل کی قوم کی طرف توجہ کی مگر انہوں نے توجہ نہ کی اور میری بات کو ر ڈ کر دیا.اس پر میں سخت غمگین ہو کر بلا کسی خاص جہت کو مد نظر رکھنے کے یونہی ایک طرف کو نکل کھڑا ہوا.راستہ میں میں نے ایک بادل کا ٹکڑا دیکھا.جس میں جبرائیل مجھے نظر آئے اور انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تیری قوم کی بات کوشن کر اور ان کی مخالفت کو دیکھ کر پہاڑ کے فرشتہ کو حکم دیا ہے کہ جو تو اسے حکم کرے وہ کرے.اس پر پہاڑ کے فرشتہ نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ میں انشین کو ( مکہ کے گرد کے دو پہاڑ ) ان پر برابر کر دوں.یعنی ان میں زلزلہ پیدا ہو کر وہ لوگ ہلاک ہو جائیں.میں نے کہا کہ نہیں.میں اُمید کرتا ہوں کہ ان کی اولا د نیک پیدا ہو جائے جو ایک خدا کی پرستش کرنے لگے.(البداية والنهاية جلد ۳ ص ۱۳۵ تا ص ۱۳۷ مطبوعہ بیروت (۱۹۶۶ء) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جبرائیل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اس کا پورا نام عبدیالیل بن عمرو بن عمیر ہے یہ طائف کے رؤسا میں سے ایک تھا.قبیلہ بنو ثقیف سے تعلق تھا.(سیرت ابن ہشام عربی جلد ۲ صفحه ۶۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء)

Page 36

ملائكة الله کہا کہ خدا نے پہاڑ کے فرشتے کو حکم دیا ہے کہ آپ کی مدد کرے.اپنے متعلق نہیں کہا کہ میں مدد کے لئے آیا ہوں.اس سے ظاہر ہے کہ پہاڑ کا فرشتہ الگ تھا اور الگ الگ چیزوں کے علیحدہ علیحدہ فرشتے مقرر ہوتے ہیں.چودھویں بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ملائکہ مختلف صفات الہیہ کے مظہر ہوتے ہیں.بعض کسی ایک طاقت کے اور بعض ایک سے زیادہ طاقتوں کے مظہر ہوتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: الْحَمْدُ لِلهِ فَاطِرِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَئِكَةِ رُسُلًا أُولَىٰ أَجْنِحَةٍ مِّقْلَى وَثُلَثَ وَرُبَعَ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (فاطر 2) سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے پیدا کیا ہے آسمانوں اور زمین کو اور جو فرشتوں کو رسول بنا کر بھیجتا ہے.جن میں سے بعض دو بعض تین اور بعض چار صفات کے مظہر ہوتے ہیں اور اللہ ان میں زیادتی بھی کرتا ہے جتنی چاہتا ہے.اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے.اس آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مختلف فرشتے مختلف صفات کے مظہر ہوتے ہیں اور کوئی تھوڑی صفات کے اور کوئی زیادہ صفات کے.اور یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس زمانہ کے لئے جتنی ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی استعداد کے فرشتے بھیجے جاتے ہیں.انہی فرشتوں کو لوگوں کے پاس بھیجا جاتا رہا جن میں ان لوگوں کے مطابق استعداد ہوتی تھی.اور جب دنیا پورے درجہ تک پہنچ گئی تو اس وقت خدا تعالیٰ نے جبرائیل کو اپنی کامل صورت میں بھیجا جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کے چھ سو پر ہیں جو کامل کتاب لے کر آیا اس سے معلوم ہوا کہ جبرائیل خدا کی چھ سو صفات کے مظہر ہیں.بخاری کتاب التفسير - سورة النجم باب قوله فاوحی الی عبده ما اوحی

Page 37

ملائكة الله یہ کہنا غلطی ہے کہ خدا کی صفات تو تھوڑی ہیں پھر یہ چھ سوصفات کے کیونکر مظہر ہوئے؟ خدا تعالیٰ کی بے شمار صفات ہیں اور چھ سو تو صرف وہ ہیں جو انسان کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہیں.حضرت مسیح موعود نے ایک نہایت لطیف بات لکھی ہے جو یہ ہے کہ قرآن کریم کا علم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جبرائیل سے زیادہ تھا اور یہ بالکل درست بات ہے.وجہ یہ کہ اور ملائکہ بھی آپ کی تائید میں تھے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صفات کے فرشتے تھے.تو معلوم ہوا کہ ملائکہ مختلف صفات کے مظہر ہوتے ہیں.اور اجنحہ کے معنے پر نہیں بلکہ صفات کے ہیں جو اُن میں پائی جاتی ہیں.یہ تو وہ باتیں ہیں جن سے ملائکہ کے متعلق اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کیسی مخلوق ہیں.اس بیان سے بعض کو ملک کے لفظ کے ساتھ اس کی کچھ کچھ صفات کا پتہ بھی لگ گیا ہو گا.اب میں ان کے کام بتا تا ہوں.ملائکہ کے کام ملائکہ کا ایک کام جو بہت بڑا ہے وہ یہ ہے کہ وہ کلامِ الہی لاتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلْئِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ (الحج: ۷۶) اللہ تعالیٰ ملائکہ اور انسانوں سے رسولوں کو چلتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ ملائکہ کا ایک کام خدا کا کلام پہنچانا ہے.دوسرا کام ملائکہ کا جان نکالنا ہے.جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.

Page 38

۳۳ ملائكة الله قُلْ يَتَوَفكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وَكُلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ (السجدة:١٢) کہ تمہاری روح قبض کرتا ہے موت کا فرشتہ جس کے سپر دتمہاری جان نکالنے کا کام کیا گیا ہے پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے.تیسرا کام فرشتوں کا یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ شریر لوگ جونبیوں کا مقابلہ کرتے ہیں ان پر عذاب لاتے ہیں.وہ فرشتے جب شریروں سے ملتے ہیں تو ان میں ایسی میگنیٹک طاقت پیدا ہوتی ہے کہ شریر جل جاتے ہیں.جیسے پٹرول کے پاس آگ جلاؤ تو اسے آگ لگ جاتی ہے اسی طرح شریر پٹڑول کی طرح ہوتے ہیں اور ملائکہ آگ کی طرح.جب ان کے ساتھ لگتے ہیں تو شریر جل جاتے ہیں اور جب وہ ان کے پاس آتے ہیں تو انہیں تباہ کر دیتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَئِكَةُ أَوْ يَأْتِي رَبُّكَ أَوْ يَأْتِي بَعْضُ ايْتِ رَبِّكَ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ أَيْتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ أُمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي ايْمَانِهَا خَيْرًاO (الانعام : ۱۵۹) کیا یہ اس بات کی انتظار کرتے ہیں کہ ملائکہ آجائیں.اگر وہ آگئے تو ادھر وہ آئیں گے اُدھر یہ تباہ ہو جائیں گے.وہ ان کے لئے چنگاری ہیں اور یہ ان کے سامنے بارود.چوتھا کام ملائکہ کا یہ ہے کہ مؤمنوں کی مدد کرتے ہیں.کافروں کے لئے تو وہ چنگاری ہیں کہ ادھر وہ قریب ہوئے اور اُدھر وہ جلے لیکن مؤمن ان سے مدد لیتے اور وہ انہیں مدد دیتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا

Page 39

۳۴ ملائكة الله وَلَا تَحْزَنُوا وَابْشِرُ وَ بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَامَا تدعُونَ (لحم السجدة : ۳۱-۳۲) وہ لوگ جو کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے.پھر وہ اس بات پر قائم ہو جاتے ہیں.کوئی چیز انہیں اس سے پھر انہیں سکتی.ان پر ملائکہ اترتے ہیں اور کہتے ہیں تمہیں بشارت ہو جنت کی.تم ڈرو نہیں.ہم تمہارے مددگار ہیں.اس دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.اور جنت میں جو کچھ تم چاہو گے وہی تمہیں ملے گا.اس سے معلوم ہوا کہ بعض فرشتوں کا کام مؤمنوں کی مدد کرنا ہے.پانچواں کام یہ معلوم ہوتا ہے کہ علاوہ اس کے کہ فرشتے جب نظر آ جائیں تو وہ کفار اور مشرکین کو ہلاک کر دیتے ہیں.ایک کام ان کا یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر ملک جو انسان کے ساتھ ہوتا ہے.وہ نبی اور اس کی جماعت کا رُعب انسان کے دل پر ڈالتا رہتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:- إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ الَن تَكْفِيكُمْ أَنْ تُمدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلَثَةِ آلَافٍ مِّن الْمَلئِكَةِ مُنْزَلِينَ (ال عمران: ۱۲۵) کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تین ہزار ملائکہ تمہاری مدد کو آ جائیں.تین ہزار ملائکہ کیوں فرمایا؟ اس لئے کہ اس موقع پر دشمن کی فوج اتنی ہی تھی.اس سے معلوم ہوا کہ یہ اعلیٰ درجہ کے فرشتے نہیں تھے بلکہ وہ تھے جو ہر انسان کے ساتھ ایک ایک لگا ہوا ہے.کیونکہ فرمایا کیا یہ کافی نہیں ہے؟ کہ ہم تین ہزار ملائکہ سے تمہاری مدد کریں.یعنی جب تم دشمن کے مقابلہ پر جاؤ تو وہ تمہارا رعب ہر ایک کے دل میں ڈالنا شروع کر دیں.چنانچہ

Page 40

آگے فرماتا ہے:.۳۵ ملائكة الله سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ (ال عمران: ۱۵۲) کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیا گیا.پس ہر انسان کے ساتھ جو ملگ ہوتا ہے وہ نبی اور اس کی جماعت کا رُعب ڈالتا رہتا ہے.رُعب کی مثال اس زمانہ میں بھی ملتی ہے.حضرت مسیح موعود نے اپنے مخالفین کو بلایا کہ مباہلہ کر لو مگر کوئی سامنے کھڑا نہ ہو سکا.وجہ یہ کہ جب وہ سامنے کھڑے ہونے کا خیال کرتے تو فرشتہ ان کے دل میں رُعب ڈال دیتا کہ مارے جاؤ گے اس لئے وہ ہٹ جاتے.جن دنوں میں شملہ گیا وہاں مجھے ایک آریہ ملنے کے لئے آیا.ویدوں کے متعلق گفتگو ہوئی.میں نے کہا کہ اگر تمہیں ویدوں کے بچے ہونے کا یقین ہے تو قسم کھاؤ.کہنے لگا ہاں میں قسم کھانے کو تیار ہوں.میں نے کہا اس طرح قسم کھاؤ اگر یہ بچے نہ ہوں تو میری بیوی بچوں پر عذاب آ جائے.کہنے لگا یہ تو نہیں ہوسکتا یہ کہتے ہوئے دل ڈرتا ہے.میں نے کہا میں قرآن کے متعلق اسی طرح قسم کھانے کو تیار ہوں کہنے لگا یہ تو بڑی جرات ہے.میں نے کہا کہ جب مجھے یقین ہے کہ قرآن سچا اور خدا کا کلام ہے تو جرأت کیوں نہ ہو؟ بات یہی ہے کہ ایسے لوگوں کے دلوں میں ملائکہ رعب ڈالتے ہیں.اس زمانہ میں بھی اس کی مثال موجود ہے کہ بار بار چیلنج دیا گیا مباہلہ کر لومگر کوئی سامنے کھڑا نہ ہو سکا.ابھی صوفیت کا دعویٰ کرنے والے ایک صاحب حسن نظامی نامی اُٹھے اور انہوں نے لکھا کہ آؤ میں ایک گھنٹہ میں جان نکال لونگا.آخر اتنے ذلیل ہوئے کہ بالکل خاموش ہو گئے.پھر دیو بندیوں کو دیکھو کتنے اشتہار لکھے اور شائع کئے مگر جب ہمارے اشتہار کا کوئی جواب ہی نہیں دیتے جو کئی ماہ سے نکلا ہوا ہے تو مباہلہ کے خیال پر انکے دل پر رعب چھا جاتا ہے.

Page 41

۳۶ ملائكة الله حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور ذکر کیا ابو جہل نے مجھ پر ظلم کر رکھا ہے آپ انصاف کرائیں.اس نے میرا اتنا روپیہ دینا ہے مگر دیتا نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ساتھ لے کر ابو جہل کے پاس گئے اور جا کر پوچھا کہ تم نے اس کا اتنا روپیہ دینا ہے.اس نے کہا ہاں دینا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دے دو.اس نے جھٹ نکال کر دے دیئے.اس پر لوگوں نے ابو جہل کو شرمندہ کیا کہ یہ تم نے کیا کیا ؟ تم تو ہمیں کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں کا مال کھا جانا جائز ہے.پھر تم نے کیوں دے دیا ؟ اس نے کہا تمہیں کیا معلوم ہے مجھے اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دومست اونٹ میرے سامنے کھڑے ہیں.اگر میں نے ذرا انکار کیا تو وہ مجھے چیر ڈالیں گے.دراصل یہ رُعب تھا جو فرشتہ اس کے قلب پر ڈال رہا تھا.غرض ملائکہ کا یہ کام بھی ہے کہ رُعب ڈالتے ہیں.پھر ملائکہ کا چھٹا کام یہ ہے کہ توحید الہی قائم کرتے ہیں.یوں تو سارے ہی کام فرشتے کرتے ہیں مگر یہ خاص کام ہے جو ہر ایک فرشتہ کرتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.شَهِدَ اللهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَئِكَةُ وَأَوْلُوا الْعِلْمِ قَائِماً بِالْقِسْطِ (آل عمران: ۱۹) خدا بھی اپنی توحید پر گواہی دیتا ہے اور ملائکہ بھی گواہی دیتے ہیں.تو ملائکہ توحید کے ثبوت کے لئے اسباب مہیا کرتے ہیں.على السيرة النبوية لابن هشام جلد ۱ صفحه ۲۵۹،۲۵۸ ناشر مكتبة توفيقية الازهر

Page 42

۳۷ ملائكة الله ساتواں کام ملائکہ کا یہ ہوتا ہے کہ انبیاء کی تصدیق ظاہر کرتے ہیں.لوگ انبیاء کو جھٹلاتے ہیں مگر وہ دلوں میں خیال ڈالتے رہتے ہیں کہ یہ جھوٹا نبی نہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:- لَكِنِ اللَّهُ يَشْهَدُ مَا أَنْزَلَ إِلَيْكَ أَنْزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلْئِكَةُ يَشْهَدُوْنَ وَكَفَى بِالله شَهِيدًا (النساء: ۱۶۷) فرمایا خدا گواہی دیتا ہے کہ جو کچھ تجھ پر نازل کیا گیا ہے یہ ہماری طرف سے ہے اور ملائکہ بھی گواہی دیتے ہیں.ملائکہ کئی طرز سے گواہی دیتے ہیں.مثلاً خواب میں نبی کی سچائی ظاہر کر دیتے ہیں.ایک شخص نبی کا دشمن ہوتا ہے اور اسے جھوٹا سمجھتا ہے لیکن ملائکہ ایسی بات اس کے دل میں خواب کے ذریعہ ڈالتے ہیں کہ وہ نبی کو مان لیتا ہے.بات اصل میں یہ ہے کہ ملگ اس موقع کو تاڑ تارہتا ہے کہ کب فلاں شخص کے دل میں نیکی آئے اور ہر انسان پر ایسا وقت آتا ہے خواہ وہ ابوجہل ہو یا فرعون اور جب نیکی کے آنے کا وقت ہوتا ہے تو اس سے ملک فائدہ اُٹھا لیتا اور نبی کی سچائی دل میں ڈال دیتا ہے.آگے یہ انسان کا کام ہوتا ہے کہ اس سے فائدہ اُٹھائے یا نہ اُٹھائے.ہیں.تو ملائکہ کا ایک کام یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں انبیاء کی تصدیق پیدا کرتے رہتے آٹھواں کام ملائکہ کا یہ ہوتا ہے کہ خدا کی تسبیح کرتے رہتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.وَتَرَى الْمَلَئِكَةَ حَاقِيْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَتِهِمْ (الزمر )

Page 43

۳۸ (الزمر: ۷۶) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ خدا کی تسبیح اور تحمید کرتے ہیں.ملائكة الله نواں کام ملائکہ کا یہ ہوتا ہے کہ وہ مؤمنوں کے لئے استغفار کرتے ہیں.یہ خاص ملائکہ ہوتے ہیں.ان کا خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ فرض ہوتا ہے کہ مؤمنوں کے لئے دُعا اور استغفار کرتے رہیں کہ اگر مؤمن سے کوئی کمزوری صادر ہو جائے تو اس پر خدا تعالیٰ پردہ ڈال دے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:- الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ (المؤمن: ۸) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خاص الخاص ملائکہ کا یہ کام ہوتا ہے کہ خاص الخاص مؤمنوں کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں کہ خدا ان کی کمزوریوں کو معاف کر دے.اور جو عام فرشتے ہوتے ہیں، ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ سب کے لئے دُعا کرتے ہیں.عام مؤمنوں حتی کہ کافروں کے لئے بھی دُعا کرتے ہیں اور اس طرح مؤمنوں کو دوہرا فائدہ پہنچتا ہے.ایک تو خاص فرشتے ان کے لئے دُعا کرتے تھے اور دوسرے عام فرشتے جو سب کے لئے دُعا کرتے ہیں ان میں بھی مؤمن شامل ہوتے ہیں.سب کے لئے دُعا کرنے کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے:- وَالْمَلَئِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ (الشورى: ۶) یعنی خدا کی رحمانیت کے فرشتے سب کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں کہ خدا سب کو

Page 44

معاف کر دے.۳۹ ملائكة الله میرا خیال ہے کہ خدا تعالیٰ نے دوزخ کو خالی کرنے کی یہ سبیل رکھی ہے.خدا تعالیٰ فرشتوں کی دُعا کے نتیجہ میں آخر کہے گا کہ جاؤ میں سب کو چھوڑتا ہوں.دسواں کام ملائکہ کا یہ ہے کہ وہ قوانین نیچر کی آخری علت ہیں اور دُنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، سب ملائکہ کے اثر کے ذریعہ سے ہو رہا ہے.مثلاً بارش برستی ہے، ہوا چلتی ہے سورج کی شعائیں پہنچتی ہیں، زہر اثر کرتا ہے، تریاق اثر کرتا ہے وغیرہ وغیرہ.یہ سب کچھ ملائکہ کے اثر کی وجہ سے ہورہا ہے اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اُن کے اثر کے بغیر اثر کر سکتی ہو.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ زہر بجائے خود زہر نہیں ہے اور تریاق اپنی ذات میں تریاق نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس ملک کے ماتحت زہر ہے جب تک وہ زہر کو اجازت نہ دے وہ اثر نہیں کر سکتا ہے اور جس کے ماتحت تریاق ہے جب تک وہ حکم نہ دے تریاق اثر نہیں کر سکتا اور ہر چیز کے متعلق یہی بات ہے چنانچہ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر ذکر آتا ہے کہ بارشیں برسانا، آندھیاں لانا اور دوسرے کئی کام ملائکہ کے سپر د ہیں.یہ ایک لمبا سلسلہ ہے اور بیبیوں مثالیں اس قسم کی مل سکتی ہیں اور کھلی کھلی پندرہ ہیں مثالیں تو مل جاتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ قانونِ قدرت کے مختلف شعبوں کو پورا کر رہے ہیں.اگر چہ چند ایک مثالیں جو کھلی کھلی ہیں ان سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے لیکن اگر کوئی کہے کہ ان کی وجہ سے سب باتوں کے متعلق کس طرح قیاس کیا جاسکتا ہے؟ تو اس کا یہ جواب ہے کہ یہ قیاس يَحْمِلُونَ العَرش سے ہوسکتا ہے کہ ملائکہ ہی خدا کی سب صفات کو ظاہر کرتے ہیں.گیارہواں کام ملائکہ کا یہ ہے کہ وہ استغفار ہی نہیں کرتے کہ لوگوں کے گناہ

Page 45

۴۰ ملائكة الله معاف کئے جائیں بلکہ دعائیں بھی کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر برکتیں نازل کرے.استغفار کرنے کے تو یہ معنے ہیں کہ انسانوں سے جو غلطیاں ہوں ان کو ڈھانپ دیا جائے مگر وہ دعائیں کرتے ہیں کہ خدا اپنی رحمت نازل کرے.چنانچہ آتا ہے:.إِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِي يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تسليما (الاحزاب: ۵۷) یہ فرشتے خدا کی رحمت کے ماتحت ہوتے ہیں جب کوئی شخص خدا کی راہ میں کام کرتا ہے تو ملائکہ اس پر خدا کی برکت نازل ہونے کی دُعائیں کرتے ہیں.وہ خودتو برکت نہیں دے سکتے اس لئے خدا سے دُعائیں کرتے ہیں کہ فلاں پر برکت نازل کرے.ان کا درود ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ہمارا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہوتا ہے کہ ہم خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی برکت نازل کرے.اسی طرح وہ بھی درخواست کرتے ہیں کہ خدا یا اپنے اس بندے پر رحم کر.خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم بھی دُعائیں کرو کیونکہ خدا اور ملائکہ بھی اس کام پر لگے ہوئے ہیں.بارہواں کام ملائکہ میں سے بعض کا یہ ہے کہ وہ سوائے عبادت کے کچھ نہیں کرتے.وہ محض عبادت ہی کر رہے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے حتی کہ اس دُنیا کا خاتمہ ہو جائے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ساتوں آسمانوں پر ایک قدم یا ایک بالشت یا ایک ہتھیلی کے برابر بھی جگہ خالی نہیں سب جگہ فرشتے کھڑے عبادت کر رہے ہیں یا سجدہ میں ہیں یا رکوع میں ہیں.جب قیامت کا دن آئے گا سب کہیں گے تو پاک ہے.ہم نے تیری عبادت اس طرح نہیں کی جو حق تھا.ہاں بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ہم

Page 46

نے تیرا شریک کسی کو نہیں ٹھہرایا.۴۱ ملائكة الله فرشتوں کے اس قول سے مؤمنوں کو بھی سبق لینا چاہئے کہ اس قدر عبادت کرنے کے بعد فرشتے کہیں گے ہم نے کچھ نہیں کیا.مگر بعض لوگ تھوڑی سی عبادت کر کے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے اتنی عبادت کی ہے.فرماتا ہے: تیر ہواں کام ملائکہ کا یہ ہے کہ لوگوں کے اعمال محفوظ رکھتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحفِظِينَ كِرَامًا كَاتِبِينَ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ (الانفطار : ۱۱ تا ۱۳) فرماتا ہے کہ تمہارے او پر فرشتے مقرر کئے گئے ہیں.جن کا کام یہ ہے کہ تمہارے اعمال لکھتے رہتے ہیں جو تم ظاہر میں کرتے ہو.باقی رہی نیت یہ ان ہی کو معلوم ہوتی ہے جن کو محاسبہ قلب کا کام سپرد ہے.چودہواں کام ملائکہ کا یہ ہے کہ جو خدا کے پیارے ہوتے ہیں ان کی محبت دُنیا میں پھیلاتے ہیں اور لوگوں کو تحریک کرتے ہیں کہ ان سے محبت کرو.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ:.إِذَا أَحَبَّ اللهُ الْعَبْدَ نَادَى جِبْرِيلَ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحْبِبْهُ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَاحِبُّوْهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ يُوْضَحُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ (بخاری کتاب بدء الخلق باب ذكر الملئكة) یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل کو پکارتا ہے کہ اللہ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے.اس پر جبرائیل اس سے محبت کرنے لگتا ہے.پھر جبرائیل تمام

Page 47

۴۲ ملائكة الله آسمان والوں میں پکارتا ہے کہ اللہ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے.پس تم بھی اس سے محبت کرو.پس اس پر سب آسمان والے اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں.پھر اس کی قبولیت زمین میں پھیلا دی جاتی ہے.اس زمانہ میں یہ نظارہ دیکھ لو.یہ وہ زمانہ ہے کہ لوگ حکومتوں کو کہہ رہے ہیں کہ ہم تمہیں کیوں مانیں؟ مگر اسی زمانہ میں لوگ حضرت مسیح موعود کی غلامی میں داخل ہو رہے ہیں.اور جو بعد میں داخل ہوتے ہیں انہیں افسوس ہوتا ہے کہ ہم نے پہلے کیوں نہ آپ کو مان لیا؟ یہ ملا کہ ہ کی پھیلائی ہوئی محبت ہے.خدا تعالیٰ کے پیاروں کی صداقت کی یہ ایک لطیف دلیل ہے.جھوٹے مدعی اُٹھتے ہیں بڑا شور مچاتے ہیں لیکن انہیں کوئی پوچھتا تک نہیں.اسی زمانہ میں ایک ظہیر الدین اروپی اور دوسرا عبداللہ یا پوری ہے.بار ہا انہوں نے اپنے متعلق ٹریکٹ لکھ لکھ کر چھپوائے اور شائع کئے مگر کوئی ان کی طرف توجہ بھی نہیں کرتا.مگر حضرت مسیح موعود کے متعلق دیکھو کس طرح آپ کی محبت دنیا میں پھیلی ؟ اور پھیل رہی ہے.پندرہواں کام ملائکہ کا یہ ہوتا ہے کہ کبھی ملائکہ کو خدا کے پیاروں کی خدمت میں لگادیا جاتا ہے.اور ماموروں کے خادم اور غلام بنا دیئے جاتے ہیں.جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ (الحجر: ۳۰،۲۹) خدا تعالیٰ نے ملائکہ کو کہا کہ مٹی سے بشر بنانے والا ہوں.جس وقت میں اس کو بنا چکوں اور اس پر اپنا کلام نازل کروں.یعنی اسے نبی بناؤں اس وقت تم اس کی غلامی میں جھک جانا.گو یا ملائکہ کو نبی کی غلامی میں دیا جاتا ہے اور وہ نبی کے مقام سے نیچے آجاتے ہیں.

Page 48

۴۳ ملائكة الله سولہواں کام ملائکہ کا یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو علم سکھاتے اور تعلیم دیتے ہیں.یعنی ان کو مقرر کیا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو علم کی طرف توجہ کرنے والے ہوں ان کے قلوب پر علم کی روشنی ڈالتے رہو.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ جبرائیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس متمثل ہو کر آئے اور سوال کیا یا رسول اللہ ایمان کیا ہے؟ دین کیا ہے؟ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے رہے.جب چلے گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ کو فرمایا جانتے ہو یہ کون تھا ؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہم تو نہیں جانتے آپ ہی صحابة بتائیے.آپ نے فرما یا یہ جبرائیل تھا جو تمہیں دین سکھانے کے لئے آیا تھا.(بخاری کتاب الایمان باب سؤال جبريل النبي عن الايمان والاسلام) تو ملائکہ کا یہ بھی کام ہوتا ہے کہ علوم سکھاتے ہیں، مگر دینی علوم ہی نہیں.دُنیا کے معاملات کے متعلق علوم بھی سکھاتے ہیں حتی کہ کافروں کو بھی سکھاتے ہیں.میں نے ایڈیسن کی ایک کتاب پڑھی ہے.وہ لکھتا ہے کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جو میں نے ایجاد کر کے نکالی ہو.ایک دم میرے دل میں آکر ایک بات پڑتی اور میں اس کو عمل میں لے آتا.اس کو چونکہ ایسے علوم کا شوق تھا اس لئے اس قسم کی باتیں سکھائی گئیں.نبیوں اور ولیوں میں چونکہ دینی علوم کا شوق ہوتا ہے اس لئے انہیں دینی علوم سکھاتے ہیں.فرشتوں کے علوم سکھانے کا بھی عجیب طریق ہے.وہ جو بات سکھاتے ہیں اسے OBJECTIVE MIND (قلب عامل ) میں نہیں رکھتے بلکہ SUB CONSCIOUS MIND ( قلب غیر عامل ) میں رکھتے ہیں.یعنی دماغ کے پچھلے حصہ میں رکھتے ہیں تا کہ سوچ کر انسان اسے نکال سکے.اس میں ظاہری دماغ سے حفاظت کی زیادہ طاقت ہوتی ہے اور یہ ذخیرہ کے طور پر ہوتا ہے.ملائکہ جو کچھ سکھاتے

Page 49

۴۴ ملائكة الله ہیں اسی حصہ دماغ میں ڈالتے ہیں.الا ماشاء اللہ.دماغ کے تین حصے ہوتے ہیں.ایک وہ حصہ جس کے ذریعہ ہم چیزوں کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں.دوسرا وہ حصہ جو ذخیرہ کے طور پر ہوتا ہے.اس میں باتیں محفوظ رکھی جاتی ہیں جو یاد کرنے پر یاد آجاتی ہیں اور تیسر اوہ حصہ جس میں ذخیرہ تو ہوتا ہے مگر یاد کرنے سے بھی اس میں جو کچھ ہو یا نہیں آتا بلکہ بہت کریدنے سے وہ بات سامنے آتی ہے.ملائکہ کبھی اس تیسرے حصے میں بھی علوم داخل کر جاتے ہیں جب ان کی ضرورت ہو اس وقت ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں کہ وہ علوم سامنے آجاتے ہیں.یوں یاد کرنے سے نہیں آتے.یہ میرا ذاتی تجربہ ہے.میری کوئی ۱۷-۱۸ سال کی عمر ہوگی.حضرت مسیح موعود کا زمانہ تھا.اس وقت میں نے رسالہ تشخیز نکالا تھا.خواب میں میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ آیا ہے جو مجھے کہتا ہے کیا تمہیں کچھ سکھائیں؟ میں نے کہا سکھاؤ.اس نے کہا سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھائیں؟ میں نے کہا ہاں سکھائیے.اس رؤیا کا بھی عجیب نظارہ تھا.یہ شروع اس طرح ہوئی کہ پہلے مجھے ٹن کی آواز آئی اور پھر وہ پھیلنے لگی اور پھیل کر ایک میدان بن گئی.اس میں سے مجھے ایک شکل نظر آنے لگی.جو ہوتے ہوتے صاف ہوگئی.اور میں نے دیکھا کہ فرشتہ ہے.اس نے مجھے کہا تمہیں علم سکھاؤں.میں نے کہا سکھاؤ.اس نے کہا لوسورہ فاتحہ کی تفسیر سیکھو.اس پر اس نے سکھانی شروع کی اور اتياكَ نَعْبُدُ پر پہنچ کر کہا کہ سب نے اسی حد تک تفسیریں لکھی ہیں آگے نہیں لکھیں.میں بھی اس وقت سمجھتا ہوں کہ ایسا ہی ہے.پھر اس نے کہا مگر میں تمہیں اس سے آگے سکھاتا ہوں.چنانچہ اس نے ساری سورۃ کی تفسیر سکھائی اور میری آنکھ کھل گئی.اس وقت مجھے اس کی ایک دو باتیں یاد تھیں جن کی نسبت اتنا یاد ہے کہ نہایت لطیف تھیں مگر دوبارہ سونے کے بعد جب میں اٹھا تو میں وہ بھی بھول گیا.حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کو جب میں نے یہ رویا سنائی تو آپ بہت ناراض ہوئے کہ

Page 50

۴۵ ملائكة الله کیوں اسی وقت نہ لکھ لی ؟ جو کچھ سکھایا گیا تھا اسے اسی وقت لکھ لینا چاہئے تھا.اس دن کے بعد آج تک میں سورہ فاتحہ پر کبھی نہیں بولا کہ مجھے اس کے نئے نئے نکات نہ سمجھائے گئے ہوں.میں سمجھتا ہوں یہ اسی علم کی وجہ ہے جو مجھے سکھایا گیا.ایک دفعہ مجھے اس علم کا خاص طور پر تجربہ ہوا.ہمارے سکول کی ٹیم امرتسر کھیلنے کے لئے گئی.میں اس وقت اگر چہ سکول سے نکل آیا تھا لیکن مدرسہ سے تعلق تھا کیونکہ میں نیا نیا نکلا تھا اس لئے میں بھی ساتھ گیا.وہاں ہمارے لڑکے جیت گئے اس کے بعد وہاں مسلمانوں نے ایک جلسہ کیا اور مجھے تقریر کرنے کے لئے کہا گیا.جب ہم اس جلسہ میں گئے تو راستہ میں میں ساتھیوں کو سنا تا جارہا تھا کہ خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ جب بھی میں سورۃ فاتحہ پر تقریر کروں گا نئے نکات سمجھائے جائیں گے.جلسہ میں پہنچ کر جب میں تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا تو کوئی آیت سوائے سورۃ فاتحہ کے میری زبان پر ہی نہ آئے.آخر میں نے خیال کیا کہ میرا امتحان ہونے لگا ہے اور مجھے مجبور اسورۃ فاتحہ پڑھنی پڑی.اس کے متعلق کوئی بات میرے ذہن میں نہ تھی.میں نے یونہی پڑھی لیکن پڑھنے کے بعد فوراً میرے دل میں ایک نیا نکتہ ڈالا گیا اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب سورۃ فاتحہ اُتری ہے اس وقت آپ کے مخاطب کفار تھے یہودی اور عیسائی نہ تھے مگر دعا اس میں یہ سکھائی گئی ہے کہ ہمیں یہودی اور عیسائی بننے سے بچا کہ ہم ان کی طرح نہ بنیں.حالانکہ چاہئیے یہ تھا کہ جو سامنے تھے ان کے متعلق دعا سکھائی جاتی کہ ہم ان کی طرح نہ بنیں.اس میں یہ نکتہ ہے کہ مشرکین نے چونکہ تباہ و برباد ہوجانا تھا اور بالکل مٹائے جانا تھا اس لئے ان کے متعلق دُعا کی ضرورت نہ تھی لیکن عیسائیوں اور یہودیوں نے چونکہ قیامت تک رہنا تھا اس لئے ان کے متعلق دعا سکھائی گئی.یہ نکتہ معا مجھے سمجھایا گیا اور میں نے خدا تعالیٰ کا شکر یہ ادا کیا کہ اس موقعہ پر اس نے

Page 51

میری آبرور کھ لی.۴۶ ملائكة الله تو یہ علم جو خدا تعالیٰ کی طرف سے سکھایا جاتا ہے.ہمیشہ ضرورت کے وقت کام آتا ہے اور اس کے یاد نہ رہنے میں یہ حکمت ہے کہ اگر بات یاد رہتی تو ایک ہی دفعہ کے لئے وہ ہوتی مگر اس طرح یہ علم ہمیشہ کام آتا ہے.اب کبھی کوئی اعتراض کرے اور کوئی حافظ نہ ہوجس سے قرآن کی کوئی اور آیت پوچھی جا سکے تو خدا تعالیٰ سورۃ فاتحہ سے ہی مجھے اس کا جواب سمجھا دیتا ہے.تو سماوی علوم میں برکت ہوتی ہے کہ جب ضرورت پڑے ان سے کام لیا جا سکتا ہے.پس ملائکہ کے ذریعے علوم سکھائے جاتے ہیں.محی الدین ابن عربی فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں کہ مجھے بہت سے علوم ملائکہ نے سکھائے ہیں (فتوحات مکیہ جلد 1 صفحہ ۶ مطبوعہ مصر ) صوفیاء میں سے بھی ہیں جنہوں نے ملائکہ کے متعلق بحث کی ہے.اگر چہ ان کی بحث حضرت مسیح موعود کے مقابلہ میں دسواں حصہ بھی نہیں ہے.حضرت مسیح موعود بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ کئی ہزار الفاظ کا مادہ آپ کو سکھایا گیا.میں نے بھی اور بہت سی باتیں ملائکہ کے ذریعہ سکھی ہیں.ایک دفعہ گناہ کے مسئلہ کے متعلق اس وسعت کے ساتھ مجھے علم دیا گیا کہ میں اس کا خیال کر کے حیران ہو جاتا ہوں کہ کس عجیب طریق سے کوتاہیوں اور غلط کاریوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے.سترھواں کام ملائکہ کا یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کے دل میں نیک تحریک اور نیک خیال پیدا کرتے ہیں.یہ اس فرشتہ کا کام ہوتا ہے جو ہر ایک انسان کے لئے الگ الگ مقرر ہوتا ہے.اصل میں یہ انتظام جبرائیلی تسلط کے ماتحت ہی ہوتا ہے کہ فرشتہ انسان کے دل میں نیک تحریکیں کرتارہتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.فِي الْقَلْبِ لَمَّتَانِ لَمَّةٌ مِنَ الْمَلَكِ إِيْعَادُ بِالْخَيْرِ وَتَصْدِيقٌ بِالْحَقِّ فَمَنْ وَجَدَ ذَلِكَ

Page 52

۴۷ ملائكة الله فَلْيَعْلَمُ أَنَّهُ مِنَ اللهِ سُبْحَانَهُ فَلْيَحْمَدِ اللهَ وَلَمَّةٌ مِّنَ الْعَدُةِ اِيْعَادُ بِالشَّرِ وَتَكْذِيبُ بِالْحَقِّ وَنَهَى عَنِ الْخَيْرِ فَمَنْ وَجَدَ ذَلِكَ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِن الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ.فرماتے ہیں انسان کے دل میں دو تحریکیں ہوتی ہیں.ایک فرشتے کی طرف سے اس میں نیک باتوں کی تحریک ہوتی اور سچائی کی تصدیق ہوتی ہے پس جس کے دل میں ایسی تحریک ہو جائے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے پس وہ اللہ کا شکر کرے.اور ایک عدو کی طرف سے اس میں بڑی باتوں کی تحریک ہوتی ہے اور سچائیوں کا انکار ہوتا ہے اور نیک باتوں سے روکا جاتا ہے.پس جس کے دل میں ایسی تحریک ہو وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے شیطان سے.یہ میں نے ملائکہ کی حقیقت اور ان کے کام بتائے ہیں.ان سے معلوم ہو گیا ہوگا کہ ملائکہ یونہی نہیں بلکہ ان کا انسان کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے.اس لحاظ سے یہ معمولی مسئلہ نہ رہ گیا جیسا کہ عام لوگ سمجھتے ہیں.بلکہ معلوم ہوا کہ ملائکہ کا وجود بھی ایک نہایت کارآمد چیز ہے.کیا انسان ملائکہ کونفع پہنچا سکتا ہے؟ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آیا ملائکہ کو انسان بھی کوئی فائدہ پہنچا تا ہے یا نہیں ؟ اس کے متعلق جہاں تک میری تحقیق ہے یہی معلوم ہوتا ہے اور میرا قرآن اور حدیث سے استنباط ہے کہ اور تو کسی رنگ میں انسان ملائکہ کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا البتہ ان کے مدارج کی ترقی کے لئے دُعا کر سکتا ہے.چنانچہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم کے پاس فرشتے آئے اور آکر سلام کہا تو حضرت ابراہیم نے بھی آگے سے ان کو جواب دیا.اگر ملائکہ کو اس کا کوئی فائدہ نہ پہنچ سکتا تو وہ سلام کا جواب نہ دیتے کیونکہ سلام سلامتی کی دُعا ہے

Page 53

۴۸ ملائكة الله اور جس کے مدارج میں ترقی نہ ہو سکتی ہو اس کے حق میں دُعا فضول ہے.اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو کہا کہ جبرائیل نے تمہیں السلام علیکم کہا ہے.اس پر حضرت عائشہ نے کہا وعلیکم السلام.اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع نہیں فرمایا.(ابن ماجه کتاب الادب باب رد السلام ) اسی طرح جب تک تشہد نہ اُتر ا تھا صحابہ کہا کرتے تھے خدا تعالیٰ پر سلام، جبرائیل پر سلام ، فلاں فلاں پر سلام.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا پر سلام کہنے سے منع فرمایا لیکن جبرائیل پر سلام کہنے سے منع نہ کیا.اگر جبرائیل کو اس سے کوئی فائدہ نہ ہوتا تو آپ منع کر دیتے.اس سے زیادہ ملائکہ کو فائدہ پہنچانے کا اور کوئی پتہ نہیں لگتا.ملائکہ کے وجود کا ثبوت اب میں اس امر کا ثبوت پیش کرتا ہوں کہ ملائکہ واقع میں ہیں.پہلے تو قرآن سے یہ بتایا گیا ہے کہ ہیں، اب میں دلائل سے ثابت کرتا ہوں کہ کس طرح معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ ہیں؟ (۱) ہم دیکھتے ہیں کہ تمام عالم میں ایک قانون جاری ہے اور وہ ایسا زبردست قانون ہے کہ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور وہ قانون ایک ارادہ کے ماتحت ہے.مثلاً آسمان میں ہم ستاروں کی گردش دیکھتے ہیں.ان میں ایسی حکمت پائی جاتی ہے کہ ان کا انتظام بلا وجہ اور بغیر کسی ارادہ کے نہیں ہو سکتا.پھر یہی زمین ہے جو آباد ہے.اسٹرا نومرز نے اس کو معمولی سیارہ ثابت کرنے کے لئے بڑاز ور مارا ہے اور انہوں نے بڑی کوشش کی سنن نسائی کتاب الافتتاح باب كيف التشهد الاوّل

Page 54

۴۹ ملائكة الله ہے کہ اس کو چھوٹا سا سیارہ ثابت کریں مگر کہتے ہیں کہ یہ مرکز میں ہے.ہم کہتے ہیں اسے کیوں مرکز میں جگہ ملی ہے؟ بات اصل میں یہ ہے کہ چونکہ بنی نوع انسان اس پر بستے ہیں اس لئے ضروری تھا کہ سارے ستارے اس پر اثر ڈالتے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا تھا کہ یہ مرکز میں ہوتی.اس سے معلوم ہوا کہ یہ ارادہ کے ماتحت بنائی گئی ہے یونہی نہیں بنائی گئی.اسی طرح باقی سارا انتظام ہے.کئی سال ہوئے ایک ستارہ نمودار ہوا تھا جس کے متعلق خیال کیا گیا تھا کہ وہ زمین سے ٹکرائے گا اور ساری دُنیا تباہ ہو جائے گی مگر کچھ عرصہ کے بعد اس کا رُخ بدل گیا اور کچھ بھی نہ ہوا.کئی دفعہ ایسا ہوا ہے اور یہی خیال کیا جاتا رہا ہے کہ ستارہ کے زمین کے ساتھ ٹکر انے سے زمین تباہ ہو جائے گی.جو ایسے ٹھوس ستارے ہوتے ہیں کہ ان کے ٹکرانے سے زمین تباہ ہو جاتی ہے وہ جب اس حد پر پہنچتے ہیں کہ زمین سے ٹکرائیں تو اس وقت اپنا راستہ بدل لیتے ہیں.اور یہ عجیب بات ہے کہ دمدار ستارے جن کے ٹکرانے سے کوئی نقصان نہیں ہوسکتا وہ زمین کے پاس آ جاتے ہیں اور ان کی دُم زمین سے ٹکرا جاتی ہے.مگر وہ ایسے باریک ذروں سے بنی ہوئی ہے کہ دُنیا کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا.ایک دفعہ یورپ کے سائنس دانوں نے اعلان کیا تھا کہ اب ستارہ زمین کے پاس سے گزرے گا جس سے دُنیا تباہ ہو جائے گی.اس پر کئی لوگ خود کشی کر کے مر گئے کہ نہ معلوم اس وقت کس قدر دکھ اور تکلیف سے مریں.مگر وہ ستارہ آیا اور گزر گیا اس سے کچھ نقصان نہ ہو ا.اس پر ہیئت دانوں نے بتایا کہ اس کے ذرات اتنے باریک تھے کہ جب وہ سورج کے مقابلہ میں آیا تو اس کی دُم سُورج کی شعاؤں کے دباؤ سے ہٹ کر دائیں سے

Page 55

بائیں طرف ہوگئی.ملائكة الله اس قسم کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتب قانون ہے جس کے ماتحت سب کام ہو رہا ہے.اگر ایک بالا رادہ ہستی پیچھے نہ ہوتی تو پھر یہ کام کس طرح چلتا ؟ اب سوال یہ ہے کہ وہ بالا رادہ ہستی کون ہے؟ اس کا فیصلہ خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ ملائکہ ہیں.پس ہر ایک چیز پر ملائکہ کا قبضہ ہے اور ان کے ذریعہ یہ انتظام چل رہا ہے.مجھے ذاتی طور پر اس بات کا تجربہ ہے کہ ہر چیز پر ملائکہ کا قبضہ ہے اور ان کے ارادے کے ماتحت وہ چیز کام کرتی ہے.ایک دفعہ مجھے بخار ہوا.ڈاکٹر نے دوائیں دیں مگر کوئی فائدہ نہ ہوا.ایک دن چودھری ظفر اللہ خان صاحب آئے ان کے ساتھ ایک غیر احمدی بھی تھا.ان کو میں نے اپنے پاس بلالیا.ان کے آنے سے پہلے مجھے غنودگی آئی اور ایک مچھر میرے سامنے آیا اور کہا آج تپ ٹوٹ جائے گا.جب ڈاکٹر صاحب اور چودھری صاحب اور ان کا غیر احمدی دوست اور بعض اور احباب آئے تو میں نے ان کو وہ کشف بتا دیا.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد جب ڈاکٹر صاحب نے تھرما میٹر لگا کر دیکھا تو اس وقت تپ نہیں تھا.در اصل وہ مچھر نہیں بولا تھا بلکہ اس کی طرف سے وہ فرشتہ بولا تھا جس کا مچھر پر قبضہ تھا تو ہر ایک چیز جو انتظام اور ارادہ کے ماتحت کام کر رہی ہے ملائکہ کی ہستی کا ثبوت ہے.(۲) جسمانی بناوٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ ملائکہ ہیں کیونکہ موجودہ تحقیقات سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ جو چیزیں دُنیا میں ہمیں نظر آتی ہیں یہ اصل میں ایسی ہی نہیں ہیں.مثلاً انسان جو ہمیں نظر آتا ہے یہ ایک ہی چیز سے بنا ہو انہیں ہے بلکہ کروڑوں ذرات سے مل کر بنا ہوا ہے.پھر وہ ذرے بھی آگے کئی کروڑ ذرّوں سے مل کر بنے ہیں.پھر وہ بھی بار یک در

Page 56

۵۱ ملائكة الله بار یک ذروں کا مجموعہ ہیں.حتی کہ امریکہ کے ایک سائنس دان نے ایسا ذرہ دریافت کیا ہے کہ جو انسان کے جسم میں سے گزر جاتا ہے.ہوا جسم میں سے نہیں گزر سکتی مگر وہ ذرہ جب جسم پر لگتا ہے تو دوسری طرف نکل جاتا ہے.پس یہ مادی تحقیقات سے ثابت ہے کہ جو چیز بھی ہمیں نظر آتی ہے وہ بار یک در باریک ہوتی جاتی ہے اور نہایت لطیف در لطیف ذروں کا مجموعہ ہوتی ہے.جب ہر ایک چیز اپنی طاقت ایسے لطیف منبع سے حاصل کرتی ہے جو نظروں سے پوشیدہ ہے تو ماننا پڑتا ہے کہ اس لطافت کی طرف جانے میں کوئی حکمت ہے.اور وہ یہی ہے کہ اشیاء پر ملائکہ کا تصرف ہے جو خود نہایت لطیف ہیں.غرض دُنیا کی اشیاء کا سلسلہ ایک بار یک در باریک ذرات کی طرف جانا بتاتا ہے کہ باریک ہی ان کے منتظم ہوں.اور اشیاء کی لطافت دلالت کرتی ہے کہ ان پر لطیف ارواح ہی کام کر رہی ہیں اور وہی ملائکہ ہیں.(۳) معتبر شہادت سے بھی کسی چیز کے ہونے کا ثبوت ملتا ہے.مثلاً جب لوگ لندن سے آکر کہتے ہیں کہ لندن ایک شہر ہے تو لوگ ان کی اس بات پر اعتبار کر لیتے ہیں.اسی طرح ملائکہ کے وجود کے متعلق جب اتنے معتبر آدمی کہتے چلے آئے ہیں کہ ہیں تو پھر ان کو کیوں نہ مانیں؟ اگر شہادت پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا تو پھر لندن بھی انہی لوگوں کے نزدیک ہونا چاہئے جو اسے دیکھ آئیں.اور جو نہیں دیکھ آئے ان کے نزدیک لندن کی بھی کچھ حقیقت نہیں ہونی چاہئے.کوئی کہے کہ لندن تو ہر شخص جا کر دیکھ سکتا ہے مگر ملائکہ کو تو ہر شخص نہیں دیکھ سکتا.ہم کہتے ہیں یہ غلط ہے کہ ہر شخص لندن کو دیکھ سکتا ہے لندن وہی شخص دیکھ سکتا ہے جس کے پاس پیسہ ہو.اسی طرح ہم کہتے ہیں ملائکہ کو دیکھنے کی جس میں قوت

Page 57

۵۲ ملائكة الله ہوتی ہے وہ ملائکہ کو بھی دیکھ سکتا ہے.اگر کوئی شخص روپیہ جمع کر کے لندن دیکھ سکتا ہے تو ملائکہ کو دیکھنے کی قوت پیدا کرنے سے ملائکہ کو بھی دیکھ سکتا ہے.پس ملائکہ کے متعلق سینکڑوں اور ہزاروں آدمیوں کی جو شہادت ملتی ہے وہ بھی ان کی ہستی کا ثبوت ہے.(۴) ثبوت یہ ہے جو روزانہ مشاہدوں میں آتا ہے.اور اگر روزانہ نہیں تو ایک عرصہ کے بعد ہر شخص کے مشاہدہ میں آتا ہے کہ بار ہا ایسا ہوتا ہے کہ اس کے قلب پر ایک ایسی بات اثر کرتی ہے جس کا اس کے خیالات سے بالکل کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات اس کے خیالات کے اُلٹ وہ تحریک ہوتی ہے اور اس کے کرنے کے لئے انسان ایسا مجبور ہوتا ہے کہ چھوڑ نہیں سکتا.ہر انسان پر کبھی نہ کبھی ایسا وقت ضرور آتا ہے حتی کہ کفار پر بھی آتا ہے.دہریوں پر بھی آتا ہے.چنانچہ دہریوں کے ایسے واقعات لکھے ہیں.مثلاً وہ کہتے ہیں ہمارے دل میں ایسی تحریک پیدا ہوئی جو مجبور کر کے ایک جگہ لے گئی اور وہاں دیکھا کہ لاش پڑی ہے.اس قسم کی تحریک کے محرک کون ہوتے ہیں؟ ملائکہ.تو اس قسم کی شہادت مادی لوگوں میں بھی پائی جاتی ہے.اور روحانی لوگوں کی تو بہت ہی شہادتیں اس کے متعلق ملتی ہیں کہ یکلخت دل میں ایک تحریک ہوتی ہے جس کا خیالات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور اس پر عمل کرنا پڑتا ہے.یہ تحریک ملائکہ کی طرف سے ہی ہوتی ہے اور یہ ان کی ہستی کا ثبوت ہے.

Page 58

۵۳ ملائكة الله ملائکہ کی ضرورت یہ تو میں نے ملائکہ کے ثبوت کے عقلی دلائل بتائے ہیں.اب یہ بتاتا ہوں کہ ملائکہ کی ضرورت کیا ہے؟ ضرورت بھی کسی چیز کا ثبوت ہوتی ہے کیونکہ جس چیز کی ضرورت ثابت ہو جائے قانونِ قدرت کے وسیع مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہوتی بھی ضرور ہے.پس کسی چیز کی ضرورت بھی اس کے ہونے کا ثبوت ہے مگر یہ ثبوت بالواسطہ ہے بلا واسطہ نہیں ہوتا اس لئے میں ملائکہ کی ضرورت بتا تا ہوں.پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ روحانی اور جسمانی نظام میں مشابہت ہوتی ہے اور ہونی چاہئے.روحانی امور کو جسمانی پر قیاس کر لیا جاتا ہے کیونکہ یہ دونوں سلسلے ایک جیسے چلتے ہیں سوائے اس کے کہ جہاں ان کا ایک جیسا نہ چلنا ضروری ہوتا ہے.اور جسمانی معاملات میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسباب کا ایک وسیع سلسلہ چلتا ہے اور مخفی در مخفی اسباب چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ نہایت باریک گیسوں تک پہنچتا ہے بلکہ کہتے ہیں کہ ان سے بھی آگے چل کر مادی طاقتوں میں منتقل ہو جاتا ہے اور انہی طاقتوں کے منبعوں کا نام ہم ملائکہ رکھتے ہیں.غرض جسمانی سلسلہ اس طرز پر واقع ہوا ہے کہ لطیف ہوتے ہوتے بالکل غائب ہو جاتا ہے اور کوئی ذریعہ اس کے دیکھنے کا نہیں ہوسکتا.ایسا ہی رُوحانی سلسلہ کے لئے بھی ہونا ضروری ہے اور ہے.اور اس سلسلہ کی آخری کڑی ملک ہیں.یہ کہنا کہ روحانی امور میں سب نہیں ہوتا صرف جسمانی امور میں ہوتا ہے غلطی ہے.جسمانیات کے متعلق ایک فلاسفر نے یہاں تک لکھا ہے کہ کوئی بات یونہی نہیں ہو جاتی بلکہ ہر ایک بات کے

Page 59

۵۴ ملائكة الله اسباب دُور دُور سے چلے آتے ہیں.پس جب جسمانیات میں کوئی بات بغیر سلسلہ اسباب کے نہیں ہوتی تو کیا روحانی اُمور ہی ایسے ہیں کہ ان میں اسباب کا سلسلہ نہ مانا جائے.جب جسمانی امور کا سلسلہ چلتا ہے تو ضروری ہے کہ مشابہت کے لئے رُوحانی امور میں بھی چلے اور روحانی امور کے سلسلہ کی آخری کڑی ملائکہ ہیں.پس رُوحانیات کے لئے ملائکہ کی ضرورت ہے.(۲) ہم ہر چیز میں ارتقاء پاتے ہیں اور اسی مسئلہ ارتقاء کی عمومیت کو دیکھ کر سائنس دان اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ جو انسان موجود ہے یہ پہلے سے ہی ایسا نہ تھا.پہلے یہ ایک کیڑے کی شکل میں تھا پھر ترقی کر کے بڑھا پھر اور بڑھا حتی کہ موجودہ حالت کو پہنچ گیا.مسئلہ ارتقاء کا یہ استعمال تو غلط معلوم ہوتا ہے اور کئی طرح سے رد کیا جا سکتا ہے.مگر اس میں شک نہیں کہ اس مسئلہ پر غور کرنے سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے متغائر حالات میں تبدیلی یا تو مختلف مدارج کو چاہتی ہے یا وسائط کی محتاج ہے.یکدم بالکل متفائر حالات کی طرف انتقال بالکل محال ہے.پس ایک طرف انسان کے اندر اعلیٰ سے اعلیٰ ترقیات کے حصول کی خواہش اور خدا تعالیٰ سے وصال کی تڑپ کا ہونا اور دوسری طرف اس کی موجودہ کثافت کا اس سے ملنے میں روک ہونا دونوں امر اس نتیجہ پر ہمیں پہنچاتے ہیں کہ انسان اور خدا تعالیٰ کے درمیان ایک اور واسطہ ہونا چاہئے جو ایک طرف تو مخلوق ہو اور دوسری طرف نیک اور روحانی ہو اور اس واسطہ کو ملائکہ کہتے ہیں.کہتے ہیں کہ ایک شخص کسی بلند مینار پر چڑھا مگر اتر نہ سکتا تھا.کسی نے تیر کے ساتھ بار یک تاگے کی ریل باندھ کر تیر اس کی طرف مارا اور اس نے پکڑ لیا.اس بار یک تاگے کو

Page 60

۵۵ ملائكة الله اس نے نیچے لٹکا دیا اور نیچے والے نے اس کے ساتھ ذرا موٹا تا گا باندھ دیا جسے اس نے او پر کھینچ لیا.پھر اس کے ساتھ اور زیادہ موٹا تا گا باندھا گیا حتی کہ ایک زنجیر با ندھی گئی اور وہ اس کے ذریعہ نیچے اُتر آیا.اسی طرح ملائکہ کے ذریعہ بندہ کا تعلق خدا سے ہوتا جاتا ہے.وہ درمیانی کڑی ہیں جن کے ذریعہ بندہ کا خدا سے تعلق ہوتا ہے اور وہ اس کے فیوض کو اپنے اندر جذب کرتا ہے.پس خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے ملائکہ کا وجود دضروری ہے.تیسری ضرورت ملائکہ کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہم ظاہری عالم میں دیکھتے ہیں کہ جسمانی تربیت کے لئے دو سلسلے ہیں ایک وہ جو بغیر انسان کے علم اور اس کے دخل کے اس کا کام کر رہا ہے.جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَرَتْ بِأَمْرِه (النحل: ۱۳) کہ خدا کے حکم کے ماتحت رات اور دن ،سورج اور چاند اور ستارے بغیر تمہاری کسی محنت کے تمہارے لئے کام کر رہے ہیں.مستر عربی میں اس کو کہتے ہیں جس پر کچھ خرچ نہ ہو اور وہ کام دے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تمہارے لئے رات اور دن ، سورج اور چاند اور ستاروں کو کام میں لگا دیا ہے تمہیں ان کے لئے کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی.رات آتی ہے اور دن چڑھتا ہے لیکن تم اس کے لئے کوئی محنت نہیں کرتے اور تمہارا ان پر کچھ خرچ نہیں ہوتا.اسی طرح سُورج دھوپ نازل کرتا ہے.چاند روشنی کرتا ہے.ستارے طرح طرح کے اثرات ڈال رہے ہیں.لیکن تمہیں ان کے لئے کچھ نہیں کرنا پڑتا یہ انتظام جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ

Page 61

۵۶ ملائكة الله فرمایا ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک ایسا سلسلہ ہمارے فائدہ کیلئے رکھا ہوا ہے جو آپ ہی آپ کام کرتا رہتا ہے.ہمارا اس میں کچھ دخل نہیں ہوتا.مثلاً سورج کی شعاعوں میں ایسی طاقت ہے کہ پانی کو مختلف رنگ کی شیشیوں میں ڈال کر اگر اس کے سامنے رکھ دیا جائے تو اس میں ایسی طاقت پیدا ہو جائے گی کہ اس سے کئی بیماریوں کا علاج کیا جا سکتا ہے.اسی طرح چاند کی روشنی سے بعض سبزیاں بڑھتی اور پکتی ہیں.لکڑی کو تو میں نے خود دیکھا ہے کہ چاندنی رات میں اس قدر جلدی بڑھتی ہے کہ اس کے بڑھنے کی صر صر کی آواز آتی ہے.اور بھی نباتات ایسی ہیں کہ چاند کی روشنی کا ان پر بڑا اثر ہوتا ہے اور یہ تو ایک دو مثالیں ہیں.ان چیزوں کے ہزاروں ہی اثرات ہیں جو ہمیں معلوم ہیں.اور جو ہمیں معلوم نہیں وہ تو نہ معلوم کتنے ہوں گے؟ پس یہ چاند اور سورج اور ستارے سب اثر ڈال رہے ہیں اور اب یہ بات دریافت کی گئی ہے کہ سل کے کیڑوں کی قاتل دھوپ ہے اس لئے دھوپ کو بھی علاج کے طور پر استعمال کرتے ہیں.اسی بات کو مد نظر رکھ کر دیکھو کہ سورج کس طرح انسانوں کی خدمت کر رہا ہے.ایک شخص سل کے بیمار کے پاس جاتا ہے ممکن ہے کہ اس کے اندرسل کے کیڑے داخل ہو کر اس کی ہلاکت کا باعث ہوں مگر جب وہ سورج کی تیز دھوپ میں سے گزرتا ہے تو وہ کیڑے خود بخو دمر جاتے ہیں اور اس بات کا اسے پتہ بھی نہیں ہوتا اور اس طرح وہ بیچ جاتا ہے.پس ایک تو یہ سلسلہ ہے جو انسان کی محنت اور کوشش کے بغیر اس کے فائدہ کے لئے کام کر رہا ہے.اور وہ دوسر ا سلسلہ ہے جو انسان محنت اور کوشش کر کے کسی چیز سے فائدہ اُٹھا تا اور اپنے لئے مفید بناتا ہے.جیسے غلہ سے روٹی پکانا مٹی سے مکان بنانا، لو ہے اور.

Page 62

۵۷ ملائكة الله لکڑی سے گاڑی ،گھی، ریل کا تیار کرنا علم حاصل کرنا.اب غور کا مقام ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ انسان کی جسمانی تربیت اور انتظام کے لئے تو یہ دوسلسلے ہوں لیکن اس کی روحانیت کے لئے خدا نے کچھ بھی نہ کیا ہو؟ ادھر روحانی اور جسمانی سلسلوں کی مشابہت بتاتی ہے کہ جس طرح چاند ، شورج اور ستاروں کے اثرات خود بخود انسان کے جسمانی انتظام پر پڑ رہے اور فائدہ پہنچارہے ہیں اسی طرح روحانیت کے لئے بھی کوئی سلسلہ ہونا چاہئے جس سے انسان کی رُوحانیت کو فائدہ پہنچے.اس کے لئے خدا تعالیٰ نے ملائکہ رکھتے ہیں جو انسان میں روحانیت پیدا کرتے اور اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں.ہاں جب بیماری بڑھ جاتی ہے تو جس طرح سورج کی دھوپ سل کے کیڑوں کو نہیں مارسکتی بلکہ دوائی دینے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح جب روحانیت کی بیماری بڑھ جاتی ہے تو اس کے لئے بھی اور سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے.یہ ملائکہ کے ہونے کی ضروریات ہیں.ملائکہ کے وجود پر اعتراض اور ان کے جواب اب میں ان اعتراضات کے جواب دیتا ہوں جو ملائکہ کے متعلق کئے جاتے ہیں :.پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ملائکہ ہیں تو ہمیں نظر کیوں نہیں آتے؟ یہ ایسا اعتراض ہے جس کو سُن کر ہنسی آتی ہے کیونکہ سینکڑوں چیزیں دنیا کی ایسی ہیں کہ جو نظر نہیں آتیں لیکن لوگ ان کو مانتے ہیں.میں کہتا ہوں کیا مٹھاس کسی کو نظر آتی ہے؟ اس کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ زبان سے تعلق رکھنے والی چیز ہے نظر نہیں آیا کرتی.میں کہتا ہوں کیا آواز کسی کو نظر آتی ہے؟ کہا جائیگا اس کا تعلق کان سے ہے.پھر میں کہتا ہوں کہ سختی یا نرمی کسی کو

Page 63

۵۸ ملائكة الله نظر آتی ہے؟ یہی کہا جائے گا کہ یہ چھونے کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.پھر میں کہتا ہوں خوشبو یا بد بوکسی کو نظر آتی ہے؟ یہی کہا جائیگا کہ یہ ناک سے تعلق رکھتی ہیں.ان جوابات سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کے معلوم کرنے کا یہی ذریعہ نہیں کہ وہ نظر آئے بلکہ اور حواس بھی ہیں.جن سے ان کا ہو نا معلوم کیا جاتا ہے.پھر میں کہتا ہوں ہوا کو کسی نے دیکھا ہے.جب ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہوا ہلا رہی ہے ورنہ نظر نہیں آتی.اسی طرح اور بہت سی طاقتیں ہیں.مثلا قوت حافظہ ہے.کون ہے جو اس کو چکھ کر یا سونگھ کر یا دیکھ کر مانتا ہے؟ اس کے اثرات سے ہی اس کا پتہ لگایا جاتا ہے.پس معلوم ہوا کہ ایسی چیزیں بھی ہیں جن کو دیکھنے کے بغیر اور ذرائع سے مانا جاتا ہے اور ان کے اثرات کو دیکھ کر ان کو مانا جاتا ہے.اسی طرح ملائکہ بھی اثرات کے ذریعہ مانے جاسکتے ہیں یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ نظر ہی آئیں.ان کے اثرات سے ان کا پتہ لگ جاتا ہے.دوسرا اعتراض ایسا ہے جسے علماء کا اعتراض کہا جا تا اور بڑا پکا قرار دیا جاتا ہے لیکن میں کہتا ہوں یہ ایسا جاہلانہ اعتراض ہے کہ اس سے بڑھ کر جہالت اور نہیں ہوسکتی.وہ اعتراض یہ ہے کہ کہا جاتا ہے، کیا خدا ملائکہ کا محتاج ہے؟ کہ ان کو اس نے بنایا ہے.ہم کہتے ہیں کہ خدا ملائکہ کا خالق ہے اور کسی چیز کا خالق اس کا محتاج نہیں ہو ا کرتا.خدا تعالیٰ کو ملائکہ کا محتاج تب کہا جاتا جب خداملائکہ کوکسی اور جگہ سے لا تا لیکن خدا تو ملائکہ کوخود پیدا کرتا ہے پھر ان کا محتاج کیونکر ہوا ؟ احتیاج إلی الغیر ہوا کرتی ہے نہ کہ اپنے قبضہ اور اختیار کی احتیاج ہوتی ہے.پس چونکہ خدا تعالیٰ نے ملائکہ کو خود پیدا کیا ہے اس لئے وہ ان کا محتاج نہیں ہے اور یہ جاہلانہ اعتراض ہے.

Page 64

۵۹ ملائكة الله دوسرے اس اعتراض کا رڈ اس طرح بھی ہو جاتا ہے کہ مادی دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ایک چیز کے اسباب مقرر ہیں.وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ملائکہ کو ماننے سے خدا کو ان کا محتاج ماننا پڑیگا وہ مانتے ہیں کہ کھانے کے ذریعے پیٹ کا بھر نا خدا کا قانون ہے.ہم کہتے ہیں کیا کھانے کے ذریعہ پیٹ بھرنے کا قانون بنانے سے خدا اس بات کا محتاج ہو گیا کہ وہ بندہ کا پیٹ کھانے سے بھرے؟ اسی طرح بیماری ہے خدا نے دوائی کے ذریعہ اس کا علاج مقرر کیا ہے.کیا خدا دوائی کا محتاج ہو گیا ؟ اسی طرح روشنی کے لئے خدا نے سُورج بنایا ہے کیا خدا سورج کا محتاج ہو گیا؟ وجہ کیا ہے کہ جسمانی سلسلہ میں اسباب مقرر کرنے سے تو محتاج نہیں ہوتا لیکن اگر روحانی سلسلہ میں فرشتوں کو اسباب مقرر کرے تو محتاج ہو جاتا ہے.تیسرارڈ اس اعتراض کا یہ ہے کہ وہی اسباب دنیا میں کمزوری ظاہر کیا کرتے ہیں جن کے بغیر کوئی کام نہ کر سکے وہ اسباب کمزوری کا باعث نہیں ہوتے جو اپنے قبضہ اور اختیار میں ہوتے ہیں.مثلاً ایک شخص کسی سے ناراض ہے اور اس سے بولتا نہیں.لیکن ایک اور شخص کو اس کے متعلق کہہ دیتا ہے کہ فلاں شخص یہاں نہ آئے.تو کیا وہ کہے گا کہ یہ گونگا ہے؟ بول ہی نہیں سکتا کہ مجھ سے نہیں بولا نہیں.یہ اعتراض غلط ہوگا کیونکہ وہ دوسروں سے بولتا ہے.اسی طرح ہم دیکھتے ہیں خدا نے ملائکہ کو بلا اسباب کے پیدا کر لیا کہ نہیں.اگر ان کو پیدا کرلیا تو معلوم ہوا کہ بلا اسباب کے بھی خدا کام تو کر سکتا ہے لیکن ملائکہ کو اس نے کسی حکمت کے ماتحت اسباب مقرر کیا ہے.پس ملائکہ کی پیدائش جب ایسی ہے کہ خدا نے بلا اسباب کے کی ہے تو معلوم ہوا کہ ان کا مقرر کرنا کسی حکمت کے ماتحت ہے نہ کہ خدا ان کا محتاج ہے اور ان کے بغیر وہ کچھ کر نہیں سکتا.

Page 65

ملائكة الله چو تھا جواب اس کا یہ ہے کہ تم ملائکہ کے مقرر کرنے کو احتیاج کہتے ہو ہم اسے حکمت کہتے ہیں اور ملائکہ کے مقرر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ علوم کی وسعت ان کے مخفی اسباب اور پھر ان کی کثرت کی وجہ سے ہوتی ہے.مثلاً کونین میں جو صفات تھیں وہ اگر مخفی نہ ہوتیں تو اس کے متعلق جو علم نے ترقی کی ہے وہ نہ ہوتی.پس علوم کی وسعت کے لئے مخفی سامانوں کا ہونا ضروری ہے.جب تک اسباب مخفی نہ ہوں وسعت نہیں ہوسکتی کیونکہ جو بات ظاہر ہو اس میں وسعت کہاں پیدا کی جاسکتی ہے؟ پس علوم میں وسعت کے لئے خدا تعالیٰ نے مخفی سامان رکھے ہیں.اور جوں جوں ان کو دریافت کیا جاتا ہے علوم میں وسعت پیدا ہوتی جاتی ہے اور جس قدر کوئی ان کے دریافت کرنے میں زیادہ محنت اور کوشش کرتا ہے اسی قدر زیادہ فائدہ اور ناموری حاصل کرتا ہے.اگر یونہی تپ اتر جایا کرتا تو وہ ڈاکٹر جس نے اس کے اسباب پر غور و فکر کرتے کرتے اس کا علاج کو نین دریافت کیا، اس میں اور دوسرے لوگوں میں کیا فرق ہوتا اور اس علم میں جو ترقی ہو رہی ہے وہ کس طرح ہوتی ؟ پس دنیا میں ترقی اور درجہ حاصل کرنے کا مخفی اسباب بہت بڑا ذریعہ ہیں.اگر یہ نہ ہوتے تو نہ کوئی ترقی کرسکتا اور نہ اعلیٰ درجہ حاصل کر سکتا.یہی حالت روحانیت کی ہے.انسان اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ رُوحانی ترقی حاصل کرے اس کے لئے روحانی اسباب بھی مخفی رکھے گئے ہیں جو اُن سے کام لیتا ہے وہ انعام اور درجہ حاصل کرتا ہے.پس ترقیات کے لئے اختفاء کی بہت سخت ضرورت ہے.اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ اگر مخفی اسباب مانے جائیں تو خدا کو ان کا محتاج قرار دینا پڑے گا.مخفی اسباب کا ہونا خدا تعالیٰ کی احتیاج نہیں ثابت کرتا بلکہ بندہ کی احتیاج ثابت کرتا ہے کہ بندہ ان کے ذریعہ ترقی کرے.خدا نے اگر یہ قانون مقرر کیا ہے کہ زمین کو ایک خاص حد

Page 66

บ ملائكة الله تک کھودا جائے تو اچھا پھل پیدا ہوگا یہ اس لئے نہیں کہ خدا اس کا محتاج ہے بلکہ اس لئے کہ زمینداروں میں سے جو بڑا زمیندار بنا چاہتا اور اچھی کھیتی پیدا کرنا چاہتا ہے اس کو اس کی احتیاج ہے.اگر زمین کا عمدہ پھل لاناکسی محنت یا علم پر نہ رکھا جاتا تو کسی زمیندار کو دوسرے پر فضیلت نہ ہوتی اور مقابلہ کی جو روح اس وقت کام کر رہی ہے بالکل مفقود ہو جاتی.دوسرے یہ بھی بات ہے کہ اگر مخفی اسباب نہ ہوتے تو خدا کا جلال لوگوں پر ظاہر نہ ہوتا اور اس کی قدرت کی قدر وہ نہ کرتے.اگر سب باتیں پہلے سے ہی معلوم ہوتیں تو خدا کا جلال کس طرح بندوں پر ظاہر ہوتا ؟ یہ اسی طرح ظاہر ہوتا کہ انسان کسی بات کے متعلق جتنی تلاش اور جستجو کرتا ہے اتنا ہی اس کے متعلق نئی نئی باتیں دریافت کرتا جاتا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ کی قدرت کا اسے اعتراف کرنا پڑتا ہے.پس مخفی اسباب کا پیدا کر نا خدا کی احتیاج کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ یہ بندہ کی اصلاح اور فائدہ کے لئے ہے.اور یہ مخفی اسباب جن کے دریافت کرنے سے درجہ اور ترقی اور عزت حاصل ہوسکتی ہے ان کی آخری کڑی ملائکہ ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اسباب اس وسعت کے ساتھ ظاہر ہوئے کہ آپ کو جو ترقی اور درجہ حاصل ہو اوہ اور کسی کو حاصل نہ ہو سکا.اسی طرح حضرت مسیح موعود پر یہ اسباب ظاہر ہوئے اور آپ کو بھی اعلیٰ عزت اور رتبہ نصیب ہو گیا.پھر ان کے ذریعہ مجھ پر بھی یہ اسباب ظاہر ہوئے اور مجھے بھی خدا تعالیٰ نے عزت اور رتبہ عطا کیا.تو یہ مدارج کا تفاوت بھی نہ ہوتا اور سب ایک ہی جیسے ہوتے.لیکن مخفی اسباب کی وجہ سے جتنے جتنے اسباب کسی پر ظاہر ہوئے انہی کے مطابق اس کو درجہ بھی ملا.اس امر میں کیا شبہ ہے کہ بالعموم مسبب ظاہر ہوتا ہے اور سبب مخفی.اور مخفی کے دریافت کرنے کے لئے انسان کو محنت برداشت کرنی پڑتی ہے جو اس کے لئے موجب

Page 67

۶۲ ملائكة الله ثواب اور زیادت علم ہوتی ہے اور اس کی دلچسپی کو بڑھاتی ہے.یہ ایک طبعی خاصہ ہے کہ مخفی ھے انسان کی دلچسپی کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے.دوائیوں کی تاثیرات اور ایجادات اس قبیل میں سے ہیں.اور ان اسباب کا دریافت کرنا ہی مدارج انسانی قائم کرتا ہے.پس روحانی اسباب مخفیہ بھی ضروری تھے تا انسان کے علم باطن میں بھی زیادتی ہو اور کوشش اور سعی میں بھی تفاوت ہو اور روحانی آدمی ایک دوسرے کے مقابلہ میں فضیلت حاصل کریں اور مسابقت کا موقعہ ملے اور مخفی در مخفی علوم کی واقفیت حاصل کر کے اس کے یقین میں ترقی اور حوصلہ میں زیادتی ہو اور خدا تعالیٰ کی غیر محدود طاقتیں اس کے سامنے ظاہر ہوں.بھلا یہ کیونکر ہوسکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو جو اس کا وجود مخفی کرتا تھا اسقدر شاندار بناتا اور اس سلسلہ کو جو اس کا وجود ظاہر کرتا ہے بالکل محدود کر دیتا.پس اسباب کی احتیاج کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ہر چیز کا دُنیا میں ہمیں سبب نظر آتا ہے پھر اس بات کو کس طرح مان لیں کہ وہ فرشتوں کے ذریعہ ہوتی ہیں؟ مثلاً آندھی آتی ہے اس کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ جب جو میں بعض خاص قسم کے تغیرات ہوں تو آتی ہے یا بادل آتے ہیں.ہم جانتے ہیں کہ سورج کے ذریعہ پانی کے بخارات اُٹھتے ہیں اور وہی برستے ہیں.یہ کس طرح مان لیں کہ فرشتوں کے ذریعہ ایسا ہوتا ہے؟ یہ جہالت کی باتیں ہیں اور اُس زمانہ کی ہیں جب کہا جاتا تھا کہ فرشتہ سمندر سے پانی پی کر آتا ہے اور پھر آکر بارش برساتا ہے اس قسم کی باتیں اب علم اور تحقیقات کے زمانہ میں کون مان سکتا ہے؟ مگر اس اعتراض کے پیش کرنے والوں نے فرشتوں کے متعلق جو صحیح عقیدہ ہے، اس کو سمجھا نہیں.ہم یہ نہیں کہتے کہ بارش برسنے کا قریبی سبب فرشتہ ہے اور فرشتہ سمندر سے

Page 68

۶۳ ملائكة الله پانی لا کر برساتا ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ ان بخارات کو قائم کرنے والا فرشتہ ہے جن سے بارش بنتی ہے.ہم تو آخری سبب کو فرشتہ کہتے ہیں نہ یہ کہ کوئی اور سبب ہی نہیں ہوتا.ہر چیز کے سبب ہیں مگر سب اسباب کے آخر میں فرشتہ کام کر رہا ہوتا ہے.یہ ٹھیک ہے کہ مختلف تغییرات اسباب کے ماتحت ہوتے ہیں اور ایک سبب کے پیچھے دوسرا، دوسرے کے پیچھے تیسر ا حتی کہ سینکڑوں ایسے سبب بھی ہوں گے جن کو دنیا جانتی بھی نہیں.مگر سب کے پیچھے فرشتہ ہو گا.درمیانی اسباب خواہ کروڑوں ہوں ہم ان کا انکار نہیں کرتے لیکن سب کے آخر میں فرشتہ مانتے ہیں.چوتھا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جو تغیرات ہوتے ہیں.وہ مقررہ قانون کے ماتحت ہوتے ہیں مثلاً کسی کو تپ چڑھتا ہے اگر تپ چڑھانے والا فرشتہ ہے تو کونین دینے سے کیوں اتر جاتا ہے؟ اور جب علاج سے مرض دُور ہو جاتی ہے تو کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ فرشتے نے تپ چڑھایا ؟ اسی طرح اگر کھانسی فرشتہ لگا تا ہے تو دوائی دینے سے کیوں دور ہو جاتی ہے؟ کیا اس وقت فرشتہ بھاگ جاتا ہے؟ یہ اعتراض بھی جاہلانہ ہے کیونکہ ہم یہ نہیں کہتے کہ فرشتے کوئی قادر مطلق ہستی ہیں بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ فرشتے خواص الاشیاء کو ظاہر کرتے ہیں.جب کوئی شخص ان اشیاء کو استعمال کرتا ہے جن کے نتیجہ میں تپ چڑھایا جانا مقدر ہے تو جو فرشتہ ان اشیاء کے خواص کے ظہور کے ابتدائی اسباب کا مؤکل ہے اس کا نتیجہ بخار پیدا کرتا ہے.لیکن جب انسان ان اشیاء کو استعمال کرتا ہے جن کے خواص مخفی در مخفی سلسلہ اسباب کے نتیجہ میں بخار کواُتارنے کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں تو اس وقت ان اشیاء کا آخری مؤکل فرشتہ اپنا اثر ظاہر کرنا شروع کرتا ہے اور پہلا فرشتہ بموجب مقررہ قواعد کے اپنے اثر کو ہٹانا شروع کر دیتا ہے.

Page 69

۶۴ ملائكة الله پس یہ کہنا درست نہیں کہ دوا سے بیماری کا اثر ظاہر کرنے والا فرشتہ بھاگ جاتا ہے بلکہ امر واقع یہ ہے کہ جب دوا کے فرشتہ کا اثر ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے تو بیماری کے آثار ظاہر کرنے والا فرشتہ اپنے اثر کو ہٹانا شروع کر دیتا ہے.ملائکہ پر ایمان لانے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ اب میں اس بات کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ ملائکہ پر ایمان لانے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ مانا کہ ملائکہ اچھی چیز ہیں اور ان کے ذریعہ چیزوں کا اثر ظاہر ہوتا ہے لیکن کو نین بھی تو مفید چیز ہے اس سے تپ اُتر جاتا ہے، اس پر ایمان لانے کا کیوں حکم نہیں دیا گیا؟ اسی طرح تم کہتے ہو ملائکہ بارشیں برساتے ہیں مگر سورج بھی تو بارشیں برسنے کا ذریعہ ہوتا ہے اس پر ایمان لانے کا کیوں نہیں حکم دیا گیا ؟ ملائکہ پر ایمان لانے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ اس کے متعلق غور کرنے کے لئے آؤ یہ معلوم کریں کہ رسولوں، کتابوں پر ایمان لانے کا کیوں حکم دیا گیا ہے؟ جب یہ معلوم ہو جائے گا تو ہمیں اس اصل کا پتہ لگ جائے گا جس کی وجہ سے کسی شئے پر ایمان لانے کا حکم دیا جاتا ہے، اس کو ملائکہ کے متعلق بھی چسپاں کر کے دیکھیں گے.حقیقت یہ ہے کہ وہ ہستی جو بالذات ایمان کی مستحق ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہے.رسول اور کتا بیں وہ ذرائع ہیں جن سے خدا پر ایمان لایا جاتا ہے.ورنہ اصل میں وہ مقصود بالذات نہیں ہیں.آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کا اس لئے حکم دیا گیا ہے کہ ان کے ذریعہ خدا کی شناخت ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ سے ملاقات ہوتی ہے.چونکہ وہ خدا کا کلام ہوتی ہیں اس لئے ان کے ذریعہ انسان خدا کی ذات کی طرف متوجہ ہو جاتا

Page 70

ملائكة الله ہے.اسی طرح رسولوں پر ایمان لانے کی یہ وجہ ہے کہ رسول خدا تعالیٰ کی ہستی کا نشانات کے ذریعہ ہونا ثابت کرتے ہیں تو رسول پر ایمان لانا ان کی اپنی ذات کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ رسول خدا پر ایمان لانے کا ذریعہ ہوتے ہیں.پس رسولوں پر، کتب پر، قیامت پر ایمان لا ناخدا تعالیٰ پر ایمان لانے کا ذریعہ ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے سوا پانچ اور امر ہیں جن پر ایمان لانا ضروری ہے:.ملائکہ کتب رسل تقدیر قیامت ۵ ان پر ایمان لانا خدا ہی کی ہستی پر ایمان لانے کے لئے ہے کیونکہ یہ خدا پر ایمان کے حاصل ہونے کے ذرائع ہیں.ملائکہ کے متعلق تو اس وقت بحث ہی ہے باقی جتنے امور ہیں ان کو دیکھ لو ان پر ایمان لانے کی یہی غرض ہے کہ وہ خدا کی طرف متوجہ کرنے کے محرک ہیں.اس اصل کے مطابق ہم کہتے ہیں کہ اگر ملائکہ کے ذریعہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پھرتی ہے تو ان پر ایمان لانا بھی ضروری ہے.دُنیا میں عام طور پر جو لوگ خدا کو چھوڑتے ہیں وہ اسی دھوکا کی وجہ سے چھوڑتے ہیں کہ ان کی نظر ظاہری اسباب پر ہوتی ہے.مثلاً کونین کے متعلق جب دیکھتے ہیں کہ اس سے تپ اُترتا ہے تو کہتے ہیں خدا کیا ہوتا ہے.یہی ہے جس سے تپ اُترتا ہے.اسی طرح اور امور کے متعلق کہتے ہیں اور ظاہری اسباب کو دیکھ کر خدا کا انکار کر دیتے ہیں.لیکن فرشتوں پر ایمان لانے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر ایک چیز کا آخری سبب فرشتہ ہے اور یہ ایسا حکم ہے کہ ساری سائنس اسی سے نکل آتی ہے کیونکہ اس میں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ہر چیز کی اگر حقیقت تم تلاش کرنے لگو گے تو اس کے مخفی در مخفی اسباب نکلتے آئیں گے.اس وقت جب دنیا چیزوں کے قریب قریب اور ظاہری اسباب سمجھ رہی تھی اس وقت اسلام یہ بتا

Page 71

។។ ملائكة الله رہا تھا کہ ہر چیز کے باریک در بار یک اسباب ہیں.خوردبین نے اب بتایا ہے کہ طاعون کی گلٹی یونہی نہیں ہوتی بلکہ اس کا باعث کیڑے ہوتے ہیں وہ ان کی وجہ سے ہوتی ہے.پھر ان کیڑوں کے پیدا ہونے کے اور اسباب ہیں.پھر ان کے اور اسباب ہیں.اسی طرح اسباب در اسباب ہیں.انہی اسباب کا آخری اور انتہائی سبب ملائکہ ہیں اور ان کے اوپر خدا ہے.تو ملائکہ پر ایمان لانے سے اسباب کی آخری کڑی پر ایمان حاصل ہوتا ہے اور اس سے خدا پر ایمان حاصل ہوتا ہے اور ملائکہ پر ایمان لانے کی یہی وجہ ہے.پھر ایمان قرآن کریم میں اور معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے.ماننے کو بھی ایمان کہا جاتا ہے لیکن صرف کسی وجود کا مانناہی نہیں ، اس کی تحریکات کو ماننا بھی ایمان کہلاتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنُ بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (البقرة: ۲۵۷) جو شخص طاغوت کا انکار کرتا ہے اور اللہ پر ایمان لاتا ہے وہ ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لیتا ہے کہ جو ٹوٹتا ہی نہیں اور اللہ سنے والا جاننے والا ہے.طاغوت شیطان کو کہتے ہیں.اب اگر انکار کے معنے کسی شئے کی ذات کے انکار ہی لئے جاویں تو اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ہلاکت سے وہی شخص بچتا ہے جو شیطان کے وجود کا انکار کرے اور اللہ تعالیٰ کے وجود کا اقرار حالانکہ یہ معنی سراسر غلط ہیں.کیونکہ قرآن کریم صاف طور پر خدا تعالیٰ کے وجود کا بھی اقرار کرتا ہے اور شیطان کے وجود کا بھی اقرار کرتا ہے.پس اقرار سے اور ایمان سے اس آیت میں یہی مراد ہے کہ شیطان کی باتوں کو رد کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی باتوں کو مانتا ہے.اب اگر یہی معنی ایمان کے ملائکہ کے متعلق

Page 72

۶۷ ملائكة الله کئے جائیں تو ان پر ایمان لانے کا یہ مطلب ہوگا کہ انکی تحریکات کو مانا کرو.اسی طرح کتابوں اور رسولوں پر ایمان لانے کے یہ معنے ہوں گے کہ جو احکامِ الہی کتابوں میں ہوں ان کو مانو.جو کچھ رسول تم کو حکم دیں ان کو مانو.اور قیامت پر ایمان لانے کے یہ معنے ہوئے کہ اس کا خیال کر کے بڑی باتوں سے بچو.تو خدا، ملائکہ، کتب، اور رسولوں پر ایمان لانے سے مراد ان کے احکام ماننا ہے.کوئی کہ سکتا ہے کہ اگر ایمان لانے کا یہ مطلب ہے تو پھر ان چاروں پر ایمان لانے کا کیوں حکم دیا گیا ہے.ان کے علاوہ مسجد دبھی ہوتے ہیں اور انبیاء کے خلفاء بھی ہوتے ہیں ان کے احکام مانتا بھی ایمان میں داخل ہونا چاہئے اور ان کا انکار کفر ہونا چاہئے.لیکن جب ان کا انکار کفر نہیں تو پھر باقیوں کا انکار کیوں کفر ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ خلفاء اور محد دین بھی اچھی باتیں بتاتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ، نبیوں ، ملائکہ اور کتب کی باتوں اور ان کی باتوں میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ ایمانیات میں وہ داخل ہیں جن کی کسی چھوٹی سے چھوٹی بات سے اختلاف کرنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے.مثلاً اگر کوئی یہی کہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے وقت پاؤں دھونے کا جو حکم دیا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے تو وہ کافر ہو جائے گا مگر خلیفہ سے تفصیلات میں اختلاف ہو سکتا ہے.مثلاً خلیفہ ایک آیت کے جو معنے سمجھتا ہے وہ دوسرے شخص کی سمجھ میں نہ آئیں اور وہ ان کو نہ مانے تو اس کے لئے جائز ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو کہے کہ فلاں آیت کے آپ نے جو معنے کئے ہیں میں ان کو نہیں مانتا تو کافر ہو جائے گا.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ میں سے ایک شوشہ بھی رد کرنا کسی کے لئے جائز نہیں ہے.گو خلفاء کے احکام ماننا ضروری ہوتے ہیں لیکن ان کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں ہوتا.ممکن ہے کہ خلیفہ

Page 73

۶۸ ملائكة الله کسی امر کے متعلق جو رائے دے اس سے کسی کو اتفاق نہ ہو.چنانچہ حضرت ابوبکر نے ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تھا یہ کہا تھا کہ ان کو غلام بنا لینا جائز ہے کیونکہ وہ مرتد اور کافر ہیں.مگر اس کے متعلق حضرت عمر اخیر تک کہتے رہے کہ مجھے اس سے اتفاق نہیں.لیکن اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے تو اس سے اختلاف کرنا ان کے لئے جائز نہ تھا.انبیاء سے چونکہ اصول کا تعلق ہوتا ہے اس لئے ان سے اختلاف کرنا ہرگز جائز نہیں ہوتا.ہاں تفصیلات میں خلفاء سے اختلاف ہوسکتا ہے.چنانچہ اب بھی کسی علمی مسئلہ میں اختلاف ہو جاتا ہے.اور پہلے بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ خلفاء کو دوسروں کی بات ماننی پڑی ہے اور بعض دفعہ خلفاء کی بات دوسروں کو ماننی پڑی ہے چنانچہ حضرت عمر اور صحابہ میں یہ مسئلہ اختلافی رہا کہ جنبی خروج ماء سے ہوتا ہے یا محض صحبت سے.غرض خلفاء سے اس قسم کی باتوں میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن انبیاء سے نہیں کیا جا سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر کوئی التحیات میں اُنگلی اُٹھانے کے متعلق اختلاف کرے گا تو بھی کافر ہو جائے گا.لیکن مجد دین اور خلفاء ایسے نہیں ہوتے کہ مسائل میں بھی اگر ان سے اختلاف ہو جائے تو انسان کا فر ہو جائے مگر انبیاء کی چھوٹی سے چھوٹی بات سے اختلاف کرنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے.ان کی کوئی بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے یہی کہنا فرض ہے کہ جو نبی کہتا ہے وہی سچ ہے.غرض ملائکہ پر ایمان لانے کے یہ معنے ہیں کہ ملائکہ جو کہتے ہیں وہ صحیح ہے.اس لئے یہی حکم دیا کہ ملائکہ جو کہیں اس کو مانو یعنی ایمان لاؤ.اور اس کا ثبوت قرآن سے ملتا ہے کہ ملائکہ جو کہتے ہیں وہ صحیح ہوتا ہے.

Page 74

۶۹ ملائكة الله قرآن کریم میں مثال کے ذریعہ بتایا گیا ہے کہ ملائکہ کو نہ ماننے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَئِكَةِ اسْجُدُوا لِأَدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبِى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ(البقرة: ۳۵) اللہ نے جب ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا.لیکن ابلیس نے انکار کر دیا اور کافر ہو گیا.اب یہ قرآن سے پتہ لگتا ہے کہ ابلیس ملک نہ تھا بلکہ جن تھا اور ملائکہ کا غیر تھا.اور غیر کو کس طرح معلوم ہو گیا کہ آدم کو سجدہ کرنا چاہئے کیونکہ حکم تو ملائکہ کو ہی دیا گیا.اسے اسی طرح معلوم ہوسکتا تھا کہ ملائکہ نے اس کو سجدہ کرنے کی تحریک کی ہومگر اس نے اس کو نہ مانا.نتیجہ کیا ہوا؟ کافر ہو گیا.تو ملائکہ کی تحریکیں ماننا بھی فرض ہیں اور وہ نیک ہی ہوتی ہیں.اب میں یہ بتا چکا ہوں کہ ملائکہ کیا چیز ہیں، ان کا کیا کام ہے؟ اور یہ بھی کہ ان پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے؟ ان کی کیا ضرورت ہے؟ پھر ان پر جو اعتراض پڑتے ہیں ان کے جواب بھی دے چکا ہوں.مگر ان کے متعلق اور بھی سوال پیدا ہوتے ہیں اور میں اب ان سوالوں کا جواب دیتا ہوں.ملائکہ اور ان کا تعلق کتنی اقسام کا ہوتا ہے؟ اب میں یہ بیان کرتا ہوں کہ ملائکہ کا فیضان کتنی اقسام کا ہے؟ لیکن چونکہ ملائکہ کے فیضان کے ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ شیطان کا انسان کے ساتھ کس قسم کا تعلق ہے کیونکہ یہ دونوں ہستیاں بالمقابل ہیں اس لئے میں ساتھ ہی اس کا بھی ذکر

Page 75

کروں گا.ملائكة الله یا درکھنا چاہئے کہ ملائکہ کے اثرات تین اقسام کے ہیں اور شیطان کے اثرات بھی تین قسم کے ہیں.ملک کا پہلا تعلق انسان سے وہ ہوتا ہے جسے لمہ ملکیہ کہتے ہیں یعنی فرشتے کی تحریک.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کہ رستہ چلتے چلتے انسان بھولنے لگ جاتا ہے کہ ایک آدمی اسے کہہ دیتا ہے یہ سڑک نہیں، وہ ہے جس پر تمہیں جانا چاہئے.اسی طرح ملائکہ کی طرف سے تحریک ہو جاتی ہے اور یہ تعلق ایسا ہی ہوتا ہے جیسا ایک کا اجنبی سے ہوتا ہے.اس سے اوپر جب تعلق بڑھتا ہے تو ایسا ہوتا ہے جیسا سفر میں دوست کا دوست سے ہوتا ہے جو دوست کسی رستے کا واقف ہوتا ہے جدھر وہ جاتا ہے اُدھر ہی اس کا ساتھی بھی جاتا ہے.یہ نہیں کہ ہر قدم پر اس سے پوچھتا ہے کہ کدھر جا رہے ہو؟ اسی طرح اس مرتبہ میں جب فرشتہ ساتھ ہو جاتا ہے تو انسان اور فرشتہ دونوں ایک ہی طرف چلتے ہیں اس کو تائید روح القدس کہتے ہیں اور یہ تائید نزول کے لفظ کے ساتھ تعبیر کی جاتی ہے.جب کسی کو نزولِ رُوح القدس کا مقام حاصل ہو جاتا ہے تو یہ تعلق دائی ہوتا ہے مگر پہلا یعنی لمہ ملکی کا تعلق عارضی ہوتا ہے.اس سے بڑھ کر تیسرا درجہ ہوتا ہے جس میں فرشتہ اور انسان کا تعلق غلام و آقا کا ہو جاتا ہے یعنی فرشتہ محض ساتھی نہیں ہوتا بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کی اطاعت اور خدمت کا بھی حکم مل جاتا ہے اور وہ دوست کی طرح نہیں خادموں کی طرح ساتھ رہتا ہے.یہی وہ مرتبہ ہے جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود کو الہام ہؤا کہ ” آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.“ ( تذکرہ صفحہ ۳۹۷ ایڈ یشن چہارم) آگ کے غلام ہونے کا

Page 76

ملائكة الله یہی مطلب ہے کہ آگ کا فرشتہ آپ کا غلام تھا.اور فَقَعُوا لَهُ سُجِدِينَ (الحجر:۳۰) کے بھی یہی معنی ہیں کہ آدم اول کے متعلق فرشتوں کو حکم ہوا کہ اس کے فرمانبردار اور غلام ہو جاؤ.جب آدم اول کے متعلق فرشتوں کو حکم ہو اتو آدم ثانی ( حضرت مسیح موعود ) جو آدم سے شان میں بڑھا ہوا تھا اس کے لئے کیوں یہ نہ کہا جاتا کہ آگ تمہاری غلام بلکہ تمہارے غلاموں کی غلام ہے.اس مرتبہ کے انسان کے لئے فرشتہ کی حالت عبد کی سی ہوتی ہے اور اس کو اس سے علیحدہ ہونے اور اسے چھوڑنے کا اختیار نہیں ہوتا.ایک نوکر نوکری چھوڑ کر علیحدہ ہوسکتا ہے مگر فرشتہ علیحدہ نہیں ہوسکتا.یہ انبیاء کا درجہ ہوتا ہے.انہی درجوں کے مشابہ شیطان اور انسان کے تعلقات ہوتے ہیں.شیطان سے تعلق والوں کا پہلا درجہ شیطانی کا ہوتا ہے.جیسے کوئی سیدھے رستہ پر جا رہا ہوتا ہے اور شریر آدمی اسے کہہ دیتے ہیں کہ ادھر نہ جاؤ بلکہ ادھر جاؤ، یونہی تمسخر سے کہتے ہیں.اگر کوئی ان کی بات مان لیتا ہے تو گمراہ ہو جاتا ہے.اسی طرح شیطان ابتداء میں اسی طرح دھوکا دیتا ہے اور جب کوئی اس کے دھوکا میں آجاتا ہے تو اسے گمراہ کر دیتا ہے.لیکن اس وقت اس کے ساتھ ملائکہ موجود ہوتے ہیں وہ سید ھے رستہ پر لانے کی کوشش کرتے ہیں.مگر جب کوئی بار بار شیطان کی بات ماننے لگتا ہے تو اس حالت سے اور زیادہ بری حالت میں چلا جاتا ہے اور شیطان کے ساتھ بار بار ملنے کی وجہ سے ان کا آپس میں دوستانہ تعلق ہو جاتا ہے.جس کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.وَمَنْ يَكُنِ الشَّيْطَنُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِيئًا ( النساء: ٣٩)

Page 77

۷۲ ملائكة الله ہوتا ہے.که شیطان ان کا قرین بن جاتا ہے اور یہ بہت بُرا دوست ہے.یہ دوسرا درجہ پھر تیسرا درجہ شروع ہوتا ہے.یعنی شیطان آقا بن جاتا ہے اور انسان اس کا غلام.ایسے ہی لوگوں کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ عبد الطَّاغُوتِ ہیں.یعنی وہ شیطان کی عبادت کرتے ہیں اور اس کے غلام ہو جاتے ہیں.گویا وہ جو نیکی کی طرف جا رہا ہوتا ہے وہ تو آخر ملک پر سوار ہو جاتا ہے اور یہ جو بدی کی طرف جارہا ہوتا ہے اس پر آخر شیطان سوار ہو جاتا ہے.یہ تین سلسلے ہیں نیکی بدی کے جو بندوں سے تعلق رکھتے ہیں.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر انسان کی ان حالتوں میں سے کوئی حالت ہوتی ہے تو کیا ہر انسان کے ساتھ علیحدہ علیحدہ فرشتے ہوتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ہر انسان کے ساتھ علیحدہ علیحدہ فرشتے ہوتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ میں پہلے بیان کر آیا ہوں فرشتے دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو وہ کہ ہر انسان کے ساتھ ان میں سے ایک ایک دود و مقرر ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْهَا حَافِظ (الطارق:۵) کوئی نفس نہیں جس پر ایک نگران مقرر نہیں.اس سے معلوم ہوا کہ ہر انسان کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر ہے.دوسرے فرشتے وہ ہوتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کا ہر انسان سے تعلق ہوتا ہے اور ہر انسان پر ان کا اثر کم و بیش پڑ رہا ہوتا ہے.چنانچہ جبرائیل سب پر اثر ڈالتا ہے.ایسے فرشتوں کے آگے خادم ہوتے ہیں وہ ان کے اثرات دیگر اشیاء تک پہنچاتے ہیں.

Page 78

۷۳ ملائكة الله اب سوال ہوتا ہے کہ اگر ایک ہی فرشتہ سب انسانوں پر اثر ڈالتا ہے تو پھر فرشتے نازل کس طرح ہوتے ہیں.اس کے لئے یاد رکھو کہ ملائکہ کا نزول قرآن کریم کی اصطلاح ہے.اس کے یہ معنے نہیں کہ ضرور فرشتہ آتا ہے بلکہ یہ ہے کہ دائمی طور پر اثر ڈالتا ہے دیکھو خدا تعالیٰ کے لئے بھی نزول کا لفظ آتا ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ لیلتہ القدر کے آخری حصہ میں خدا نیچے اُترتا ہے.اس کا یہی مطلب ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ اپنا بہت زیادہ اثر ڈالتا ہے.یہی معنے جبرائیل کے نزول کے ہوں گے کہ جبرائیل بھی بذات خود نہیں اترتا کیونکہ وہ تو مقام معلوم پر ہوتا ہے اور اس سے نہیں ہلتا اسی اپنے مقام پر بیٹھا اثر ڈالتا ہے.دیکھو جب سورج شیشے میں اثر ڈالتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ اس میں اُتر آتا ہے.اسی طرح جبرائیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں آتا تھا بلکہ اُس کا عکس آتا تھا.انسان کی شکل میں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو وہ خود نہیں آیا تھا بلکہ اس نے اپنے اثر سے انسان کی ایک شکل پیدا کی تھی وہ آئی تھی.ورنہ وہ تو جہاں ہے وہیں موجود رہتا ہے.پس اس کے نزول کے معنے صرف یہ ہیں کہ جس طرح شیشے میں سورج عکس ڈالتا ہے.اسی طرح جبرائیل ایسے دل میں جو اس کا اثر قبول کرنے کے قابل ہوتا ہے اپنا اثر ڈالتا ہے اور یہی اس کا نزول ہے.جب یہ نزول ہوتا ہے تب روح القدس انسان کے ساتھ ہو جاتی ہے اور وہ ہر کام اسی کے ذریعہ کرتا ہے.یہی بات حضرت عیسی کے متعلق آئی.عیسائی کہتے ہیں کہ شیطان ان کو دھوکا دیتا تھا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان ان کو کس طرح دھوکا دے سکتا تھا ان کے ساتھ تو جبرائیل تھا.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جبرائیل کے نازل ہونے کا یہ مطلب ہے کہ

Page 79

۷۴ ملائكة الله وہ اپنا عکس ڈالتا ہے تو جس قدر انسان ایسے ہوئے ہیں کہ ان پر جبرائیل کا عکس پڑتا تھا وہ سب ایک جیسے ہونے چاہئیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت موسی ، حضرت عیسی ان سب کا ایک ہی درجہ ہونا چاہئے.مگر یہ غلط ہے کیونکہ عکس مختلف ہوتے ہیں اور اس کے لئے یہی نہیں دیکھا جاتا کہ عکس کس کا ہے؟ بلکہ یہ بھی دیکھناضروری ہے کہ عکس کس پر پڑا ہے.لوہے کی چادر پر سورج کا جو عکس پڑے گا وہ اور شان کا ہوگا اور شیشے پر جو عکس پڑے گا وہ اور شان کا.بیشک جبرائیل ایک ہی تھا اور اس کا عکس بھی ایک ہی ہے.مگر آگے جتنے جتنے قلب مصفی تھے اتنی ہی اس کی شکل اعلیٰ درجہ کی دکھائی دی.یہی وجہ ہے که با وجود اس کے کہ جبرائیل ایک ہی تھا آگے جن پر عکس پڑا وہ الگ الگ درجہ کے تھے.موسی موسیٰ ہی تھا اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) محمد ہیں.اور یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء سے اعلیٰ رتبے اور درجہ والے قرار پائے کہ ایک ہی نے سب نبیوں پر عکس ڈالا ور نہ اگر عکس ڈالنے والے الگ الگ ہوتے تو کہا جاتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر عکس ڈالنے والا چونکہ اعلیٰ درجہ کا تھا اس لئے آپ کو اعلیٰ درجہ حاصل ہوا اور دوسرے انبیاء پر عکس ڈالنے والے ایسے نہ تھے اس لئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کم درجہ پر رہے.اگر ان پر بھی وہی عکس ڈالتا جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈالا تو وہ اسی درجہ کو حاصل کر لیتے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہو ا.لیکن اب چونکہ ایک ہی عکس ڈالنے والا ہے اس لئے ان کے مدارج میں جو فرق ہے وہ ان کے اپنے اپنے قلب کی صفائی سے تعلق رکھتا ہے.کیونکہ ایک ہی چیز جب مختلف چیزوں پر برا براثر ڈالے تو ان کے اپنے اپنے ظرف کے مطابق نتیجہ مرتب ہوگا.جبکہ جن پر عکس

Page 80

۷۵ ملائكة الله پڑے ان کے اندرونے میں فرق ہو تو با وجود ایک شئے کا ہی عکس پڑنے کے پھر بھی نتیجہ میں فرق ہو گا.اور یہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب انبیاء پر فضیلت ہے کہ آپ کا سینہ سب سے اعلیٰ اور مصفی تھا اور اس پر جو عکس پڑا وہ سب سے بڑھ کر تھا.اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ کبھی فیضان کی نوعیت کے لحاظ سے اس کے نام مختلف رکھ دیئے جاتے ہیں.یوں وہ روح القدس کا ہی فیضان ہوتا ہے اور فیضان کی نوعیت قلب کی صفائی کے مطابق ہوتی ہے.دیکھو جب سورج کا عکس لینا ہو اور معلوم ہو کہ اس کے لئے شیشہ بہت بہتر ہے تو اسی پر لیں گے نہ کہ لوہے کے ٹکڑے پر لیں گے.چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب بہترین قلب تھا اس لئے آپ پر فیضان کا جو عکس پڑا وہ چونکہ سب سے اعلیٰ اور بڑھ کر تھا اس لئے وہی قیامت تک رہے گا اور اس طرح فیضان کی نوعیت بدل گئی.دیکھو حضرت مسیح کو جبرائیل کے فیضان کی شکل کشف میں کبوتر کی دکھائی گئی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ فیض آدمی کی شکل میں آیا جو بہت اعلیٰ اور اکمل فیضان تھا.تو فیضان کی نوعیت کا بھی فرق ہوتا ہے.اسی نوعیت کے فرق کی وجہ سے جبرائیل کے کئی نام ہیں.روح القدس ، روح الامین وغیرہ.روح القدس جبرائیل کا نام اس کلام پاک کی وجہ سے ہے جو وہ نازل کرتا ہے اور روح الامین اس کا لقب اس کلام پاک کے نازل کرنے کی وجہ سے ہے جس کی ہمیشہ اس نے حفاظت بھی کرنی تھی اور جس کلام کو ہر قسم کے نقص سے محفوظ رکھنا اس کا فرض تھا.ہے نام جبرائیل کے لئے اسی فیضان کی وجہ سے ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر

Page 81

ملائكة الله پڑا.گو یا جبرائیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ممنون احسان ہے کہ آپ کے سبب اسے ایک اور خطاب ملا.غرض دوسرے انبیاء پر روح القدس کے رنگ میں جبرائیلی پڑا.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر روح الامین کے رنگ میں پر تو پڑا.جس کا یہی کام نہیں کہ پاکیزگی پیدا کرے بلکہ یہ بھی ہے کہ پاکیزگی ہمیشہ کے لئے قائم بھی رکھی جائے.روح الامین میں قدوسیت بھی آگئی اور اس کے ساتھ ہی ہمیشگی بھی پائی گئی اس لئے یہ نام روح القدس کی نسبت اعلیٰ ہے.ملک افضل ہے یا انسان؟ اب میں اس سوال کا جواب دیتا ہوں کہ ملک افضل ہے یا انسان؟ کیونکہ پیچھے جو اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ عیسی موسی ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیلی پر تو سے اس درجہ کو پہنچے تو اس کے متعلق کسی کے دل میں خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ افضل ہو ا جس نے ان پر پر تو ڈالا نہ کہ وہ جو اس کے پرتو سے اعلیٰ مقام پر پہنچے.یا درکھنا چاہئے کہ باوجود اس کے کہ حضرت عیسی ، حضرت موسی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جبرائیل کا پر تو پڑا یہ جبرائیل سے اعلیٰ ہیں اور اس کے کئی وجوہ ہیں.(۱) جبرائیل بے شک پر تو ڈالنے والا ہے مگر بطور واسطہ کے ورنہ اصل عکس ڈالنے والا خدا ہی ہے.اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ سورج کا عکس شیشے پر پڑے اور اس سے کسی اور چیز پر پڑے.جبرائیل خدا تعالیٰ سے نور اخذ کر کے آگے

Page 82

LL ملائكة الله ڈالتا ہے نہ کہ اپنی ذات سے.اور واسطہ کبھی اعلیٰ ہوتا ہے اور کبھی ادنی.اعلیٰ کی مثال تو شیشے کی ہے جس پر سورج کا عکس پڑے.شیشہ اس چیز سے اعلیٰ ہوگا جس پر اس کے واسطہ سے عکس پڑے گا.اور ادنیٰ کی مثال یہ ہے کہ بادشاہ چٹھی لکھ کر چپڑاسی کو دے کہ فلاں وزیر کو پہنچا دے وہ نہیں جانتا کہ چٹھی میں کیا ہے یا کیا نہیں ؟ اس کا کام پہنچادینا ہے.یا مثلاً اس کے ہاتھ زبانی پیغام بھی کہلا بھیجے.تب بھی وزیر جو کچھ اس سے کہے گا وہ پیغامبر سے اکمل مفہوم ہو گا.اس مثال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کا پر تو جبرائیل کے ذریعہ نبی پر پڑے مگر جبرائیل کو معلوم ہی نہ ہو کہ کیا ہے؟ اس کا پتہ حدیث سے بھی لگتا ہے.معراج کی حدیث میں آتا ہے کہ ایک مقام پر جا کر جبرائیل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا، آگے آپ ہی جائے میں نہیں جا سکتا.تو جبرائیل کے ذریعہ جو کچھ پہنچایا گیا وہ ایسا ہے جیسا کہ کسی کو ایک پیغام دے کر کسی کے پاس بھیجا جائے جس میں سے کچھ تو وہ سمجھ لے اور کچھ ایسے اشارے ہوں جنہیں وہی سمجھ سکتا ہو جس کے پاس پیغام بھیجا گیا یا وہ سمجھ سکتا ہے جس نے پیغام بھیجا.اسی طرح جبرائیل کو جو کچھ دیا گیا وہ لے تو گیا مگر اس میں ایسی باتیں بھی ہیں جنہیں خدا اور رسول ہی سمجھ سکتے ہیں.یہ مثال تو ایسی ہے کہ جبرائیل جو کچھ لے گیا اسے وہ سمجھ نہ سکتا تھا.اس کے علاوہ وہ حصہ جو جبرائیل سمجھ سکتا تھا اس میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بڑھے ہوئے تھے.اس کو مثال کے ذریعہ سمجھاتا ہوں.دو آدمی بخار میں مبتلاء ہوں اور دونوں کو کونین دی جائے تو بسا اوقات ایک کو تو جھٹ اثر ہو جائے گا اور ایک کو دیر میں ہوگا.ایسا کیوں ہوگا؟ ظاہر ہے کہ یہ فرق ان دونوں کی ذاتی قوتوں کی وجہ سے پڑے گا جس کے جسم میں

Page 83

ملائكة الله ایسے مادے ہوں گے کہ جو کونین پر غالب آجائیں اس پر کم اور دیر سے ہوگا اور جس کا جسم صاف ہو گا اس پر فوراً اثر ہو گا اور بخار اتر جائے گا.یہ مثال تو دفع شر کی قوتوں کے اختلاف کی ہے.جلب خیر میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے.دو آدمی ایک ہی خوراک کھاتے ہیں ایک بہت موٹا اور مضبوط ہو جاتا ہے دوسرا اس قدر فائدہ نہیں اُٹھاتا.گو بسا اوقات وہ پہلے سے غذاء مقدار میں بھی زیادہ کھا لیتا ہے اسی طرح وہ تعلیم جس کو دونوں یعنی جبرائیل اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے اس میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم افضل تھے کیونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کے قومی کے مطابق اثر ڈالتی تھی اور حضرت جبرائیل پر ان کے قومی کے مطابق.یہ بات اس طرح اور زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھ میں آسکتی ہے کہ میں اس وقت یہ مضمون اُردو میں بیان کر رہا ہوں اور ہر شخص اسے سمجھ سکتا ہے مگر ہر ایک ایک جیسا نہیں سمجھ سکتا اور نہ ہر ایک پر ایک جیسا اثر ہوتا ہے.پھر قلب کا اثر بھی بات پر جا پڑتا ہے.دیکھو سورہ فاتحہ ہی ہے.کوئی شخص اسے پڑھتا ہے تو اس کی چیخیں نکل جاتی ہیں.اور کوئی پڑھتا ہے تو اس کے چہرہ پر بشاشت آجاتی ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ جس کے قلب کے اندر رونے کا مادہ ہوتا ہے اور وہ مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے وہ اسے پڑھ کر سمجھتا ہے خدا ہی ہے جو میری مصیبت کو دور کر سکتا ہے اور اس سے اس کی چیخیں نکل جاتی ہیں لیکن دوسرا شخص جو کامیابیوں کو اپنے گرد و پیش پاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا ہی میری حفاظت کرنے والا ہے کون ہے جو مجھے تباہ کر سکے.اس سے اس کے پڑھنے سے چہرہ پر بشاشت آجاتی ہے.تو ایک ہی بات کا قلب کی حالت کے لحاظ سے مختلف اثر ہوتا ہے.

Page 84

ملائكة الله ۷۹ پس وہ کلام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو اوہ ان بشری قومی سے مل کر جو آپ کے اندر تھے اور نتیجہ اور مطلب پیدا کرتا اور جبرائیل کے اندر چونکہ اور قومی تھے اس لئے ان کے ساتھ مل کر اور نتیجہ پیدا ہوتا.اور یہ صاف بات ہے کہ مختلف چیزوں کی ترکیب سے مختلف نتائج پیدا ہوا کرتے ہیں.مثلاً چونا ہے اس پر اینٹیں رکھ دی جائیں تو کچھ نہیں ہو گا لیکن اگر پانی ڈالا جائے تو آگ پیدا ہو جائے گی کیونکہ چونا اور پانی کے ملنے سے یہ نتیجہ پیدا ہوا کرتا ہے.تو باوجود اس کے کہ جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جبرائیل کے ذریعہ سے اترا اسے جبرائیل سمجھتے تھے مگر جو قوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھے وہ ان کو حاصل نہ تھے اس لئے ایسا نہ سمجھ سکتے تھے جیسا رسول کریم سمجھتے اور اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں بھی فضیلت حاصل ہے.اس جگہ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ہر انسان ملک سے افضل نہیں ہوتا.خاص انسان خاص ملائکہ سے افضل ہوتے ہیں اور جو عام مؤمن ہوتے ہیں وہ عام ملائکہ سے افضل ہوتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی ملائکہ کی نسبت وسیع ذمہ داریاں ہیں اور انسان تو ایسا ہے کہ اسے جہنم میں بھی ڈالا جا سکے گا لیکن ملائکہ کے لئے یہ نہیں ہے.وہ مجبور ہیں کہ بدی نہ کریں مگر انسان دونوں طرف جا سکتا ہے بدی بھی کر سکتا ہے اور نیکی بھی اس لئے وہ انسان جو نیکی کرتے ہیں خواہ وہ معمولی درجہ کے مؤمن ہوں وہ عام ملائکہ پر فضیلت رکھتے ہیں......000

Page 85

۸۰ ملائكة الله بقیہ تقریر ( جو حضرت خلیفۃ السی الثانی نے ۲۹ دسمبر ۱۹۲۱ءکومسجدٹور میں ساڑھے نو بجے فرمائی ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.ایک صاحب نے سوال کیا ہے کہ یہ کیوں نہ مانا جائے کہ اشیاء کے خواص اشیاء سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور ملائکہ کے اثر کے نیچے نہیں ہیں.اس بات کے تسلیم کرنے کی کیا وجہ ہے کہ اشیاء کے خواص ملائکہ کے اثر کے نیچے ہوتے ہیں.میں نے ملائکہ کا ثبوت دیتے ہوئے بعض دلائل بیان کئے ہیں اور ان کے ذریعہ ملائکہ کا وجود ثابت کیا ہے اور جب ملائکہ کا وجود ثابت ہو گیا تو خود بخود ان کی ضرورت ثابت ہوگئی اور جب کوئی بات دلائل کے ساتھ ثابت ہو جائے تو پھر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چونکہ اس کے امکان کی کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے.اس لئے کیوں نہ اسی وجہ کو مانا جائے.مثلاً ہوا کاغذ کو اڑاتی اور کاغذ اس کے ذریعہ اڑ کر میز پر پڑسکتا ہے.لیکن اگر کسی شخص کو کاغذ لا کر میز پر رکھتے دیکھ لیں تو یہ سوال نہیں کیا جاسکتا کہ کیوں نہ مانا جائے کہ کاغذ ہوا ہی اُڑا کر لائی ہے.پس جب ملائکہ کا وجود ثابت ہو گیا تو پھر یہ امکان کہ اشیاء کے خواص اشیاء سے ہی تعلق رکھتے ہیں ملائکہ کا ان سے تعلق نہیں باطل ہو گیا.امکان اور ہوتا ہے اور کسی واقعہ کا

Page 86

ΔΙ ملائكة الله دلائل سے ثابت ہونا اور.مثلاً یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسی آسمان پر نہیں گئے تو اس لئے نہیں کہا جاتا کہ ان کا آسمان پر جانا ممکن نہیں بلکہ اس لئے کہ اس کے خلاف دلائل موجود ہیں تو پھر قیاس نہیں چلایا جا سکتا.قیاس اسی وقت چلتا ہے جب دلائل موجود نہ ہوں.قیاس اور امکان کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اور بھی صورتیں ہو سکتی ہیں لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ سارے امکان ایک بات میں پائے بھی جاتے ہیں.پس ہوسکتا تھا کہ اشیاء کے خواص اشیاء سے ہی متعلق ہوں اور یہ امکان ہے مگر دوسرے شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ خواص کا تعلق ملائکہ سے ہے.پھر ہم یہ نہیں کہتے کہ اشیاء میں خواص نہیں.ہمارا یہ دعویٰ نہیں.بلکہ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ اشیاء کے خواص کے ظہور کے ابتدائی محرک ملائکہ ہیں.ملائکہ کوحکم ہوتا ہے اور وہ اپنے سے اگلے سبب پر اثر کرتے ہیں.وہ اپنے سے اگلے پر اور اسی طرح ہوتے ہوتے ظاہری موجودات پر اس کا اثر ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے.وہ لوگ جو خدا کو مانتے ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ خدا نے مادہ پیدا کیا ہے، ان کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جتنی چیزیں ہیں ان کی خاصیتیں خدا نے ہی رکھی ہیں.ورنہ یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ مادہ غیر مخلوق ہے خدا نے پیدا نہیں کیا بلکہ اپنے آپ ہی ہے اور خدا کوئی ہستی نہیں ہے.اگر کوئی یہ خیال رکھتا ہے تو اس کو ملائکہ کے متعلق کچھ بتانے سے قبل خدا کی ہستی کا قائل کرانا ہوگا.پھر اگر خدا کی ہستی کا کوئی قائل ہو جائے لیکن یہ کہے کہ ہر چیز اپنے آپ ہی پیدا ہو گئی ہے تو پھر ملائکہ کے متعلق اسے کچھ کہا جائے گا.ہاں جب یہ بھی تسلیم کرلے کہ ہر ایک چیز کو پیدا کرنے والا خدا ہے تو پھر اس کے سامنے یہ سوال رکھا جائے گا کہ ملائکہ کا وجود بھی ثابت ہے.پس یہ سوال تب اُٹھایا جا سکتا ہے جب کوئی یہ

Page 87

۸۲ ملائكة الله تسلیم کر لے کہ خدا ہے اور اس نے مادہ پیدا کیا ہے ورنہ نہیں.یہی وجہ ہے کہ وہ قو میں جو خدا کی ہستی کی قائل نہیں یا خدا کی تو قائل ہیں لیکن مادہ کو مخلوق نہیں مانتیں وہ فرشتوں کی قائل نہیں ہوتیں.پس پہلے یہ اُمور فیصلہ کئے جائیں گے اور ان کے بعد ملائکہ پر بحث ہو سکے گی.اور جب ملائکہ پر بحث ہوگی تو اس کے ساتھ ہی یہ بات تسلیم شدہ قرار دی جائے گی کہ خدا کی ہستی اور مادہ کا مخلوق ہونا تسلیم کیا جاتا ہے اور جب کوئی یہ باتیں تسلیم کرے گا تو اسے یہ بھی ماننا پڑیگا کہ خدا نے چیزوں میں صفات رکھی ہیں اس کے متعلق ہمارا دعویٰ صرف یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اشیاء میں صفات براہ راست نہیں رکھیں بلکہ ملائکہ کے توسط سے رکھی ہیں.کیونکہ چیزیں کثیف ہیں اور خدا تعالیٰ لطیف.اور ہم قوانین نیچر کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کثیف اشیاء پر اثر ڈالنے کے لئے وسائط مقرر فرمائے ہیں.سب لطیف چیزوں کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ کثیف کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے لئے وسائط ہوتے ہیں.خود کثیف چیز لطیف سے تعلق نہیں رکھ سکتی.انسان کو ہی دیکھ لو اس میں قلب، روح یا MIND کچھ کہ لوکوئی چیز ہے جس کی وجہ سے انسان سب کام کرتا ہے اور جب وہ نہیں رہتی تو انسان بے جان ہو جاتا ہے لیکن وہ چیز جو اس کے اندر ہے وہ اسے نہیں کہتی کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو بلکہ وہ نہایت باریک اعصاب پر اثر کرتی ہے اور وہ آگے بار یک شاخوں پر اثر کرتے ہیں اور اس طرح ہوتے ہوتے کسی عضو میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ کام کرتا ہے.مثلاً آنکھ کو براہ راست روح یا مائنڈ کوئی حکم نہیں دیتی بلکہ نہایت بار یک اعصاب پر اثر کر کے تدریجی طور پر اس پر اپنے منشاء کا اظہار کرتی ہے.غرض جتنی لطیف اشیاء ہیں وہ کثیف کے ساتھ وسائط کے ذریعہ تعلق پیدا کرتی ہیں.پس ہم کہتے ہیں کہ خدا کا

Page 88

۸۳ ملائكة الله بي وجود ثابت ہے اور اس کا ہر چیز کا خالق ہو نا مسلم ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس کا تعلق اشیاء سے کسی ذریعہ سے ہے اور اسی ذریعہ کو ہم ملائکہ کہتے ہیں.لیکن جو یہ نہیں مانتا کہ خدا ہے یا وہ سب اشیاء کا خالق ہے تو اس کے سامنے ہم ملائکہ کی بحث نہیں پیش کریں گے بلکہ اس سے پہلے یہ منوائیں گے کہ خدا ہے اور وہ دُنیا کا خالق ہے.اور جو اس کو مان لے گا اسے قانون قدرت پر نگاہ کر کے لازما یہ ماننا پڑے گا کہ کوئی لطیف مگر مخلوق ہستیاں ایسی ہیں جو اللہ اور موجودات ظاہری کے درمیان بطور واسطہ ہیں اور یہ ایسی بات ہے جو سائنس کی رو سے ثابت ہے.سائنس کا مسئلہ ہے کہ ہر ایک چیز کے اسباب ہیں.لطیف سبب اپنے سے موٹے سبب پر اثر ڈالتا ہے اور وہ اپنے سے موٹے پر اور یہ سلسلہ اسی طرح آگے چلتا ہے.پس ہم مانتے ہیں کہ کونین میں جو خاصیت آئی ہے وہ اور اسباب کے ذریعہ آئی ہے.اور کونین بھی کئی اجزاء سے مرکب ہے اور کوئی بھی چیز مفرد نہیں سب مرتب ہیں.کونین کے اندر ایک خاص جزو ہے جس کا اثر بخار پر ہوتا ہے اور اس جزو کا اثر بعض اور مخفی اسباب کی وجہ سے ہے اور وہ مخفی اسباب کی طرف منتقل ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ آخری ذریعہ ملائکہ ہیں.اور وہ خدا تعالیٰ سے براہ راست فیضان حاصل کرتے ہیں کیونکہ اصل خالق وہی ہے.اگر یہ نہ مانا جائے بلکہ یہ کہا جائے کہ ہر چیز کی ذاتی خاصیت ہوتی ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خدا چیزوں کا خالق نہیں ہے اور اگر خدا کو چیزوں کا خالق مانا جائیگا تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہر چیز میں خاصیت خدا کی طرف سے ہے اور خواص اشیاء کو مختلف اسباب مخفیہ کا نتیجہ دیکھ کر بھی ماننا پڑے گا کہ انہی اسباب مخفیہ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کا حکم ان تک پہنچتا ہے اور انہی کی آخری کڑی کا نام ملک ہے.

Page 89

۸۴ ملائكة الله لمہ ملکیہ ترقی کرتا ہے اب میں یہ بتاتا ہوں کہ لمہ ملکیہ ترقی کرتا ہے اور ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ ایک لمہ سے دو ہو جاتے ہیں.اور اگر کسی نے نہ سمجھے ہوں تو پھر بتائے دیتا ہوں کہ اس کے معنے تحریک کے ہیں اور اس کی ترقی کرنے کا یہ مطلب ہے کہ فرشتے جو تحریکیں کرتے ہیں وہ بڑھتی جاتی ہیں.ایک سے دو، دو سے تین ، تین سے چار حتی کہ کئی ہو جاتی ہیں.جب کوئی شخص ایک تحریک کو قبول کرتے کرتے اس مقام پر آ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ دیکھتا ہے کہ وہ زیادہ کا مستحق ہے تو اسے اور زیادہ طاقت دے دی جاتی ہے پھر گویا دو فرشتے اس کے اندر تحریک کرتے ہیں.اس کے دو محافظ ہو جاتے ہیں پھر تین اور اسی طرح بڑھتے جاتے ہیں.اور یہ بات ہم قانونِ قدرت میں بھی دیکھتے ہیں کہ جو شخص کسی چیز کا صحیح طور پر استعمال کرتا ہے اس کی اس کے متعلق طاقتیں بڑھ جاتی ہیں.مثلاً جو لوگ علوم پڑھتے ہیں ان پر نئی نئی باتیں منکشف ہوتی رہتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس اصل کے متعلق فرمایا ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: ۷۰) کہ جو لوگ ہمارے رستہ پر چلتے ہیں تو ان کو ہم کئی رستے بتا دیتے ہیں.جب خدا تعالیٰ تک پہنچانے والے ایک رستہ پر چلتے ہیں تو انہیں قرب کے اور رستے بتا دیئے جاتے ہیں.یعنی جب وہ ایک نیکی پر عمل کرتے ہیں تو اور نئی نئی نیکیوں کا انہیں علم حاصل ہو جاتا ہے اور وہ ان کو عمل میں لاتے ہیں.اور ایسی نیکیاں جو پہلے وہم و خیال میں بھی نہیں ہوتیں خدا کے رستہ میں کوشش کرنے والے کو بتائی جاتی ہیں.چنانچہ اس کا ثبوت قرآن سے ملتا ہے.ایک جگہ تو خدا تعالیٰ

Page 90

۸۵ ملائكة الله فرماتا ہے اِن كُلُّ نَفْسٍ لَّمَا عَلَيْهَا حَافِظ (الطارق:۵) کہ ہر ایک انسان پرفرشته مقرر ہے جو اسے شیطانی تحریکوں سے بچاتا ہے اور نیکی کی تحریکیں کرتا ہے مگر ایک دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان اس فرشتہ کی تحریکوں کو مان لیتا ہے تو ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ اب شیطان اس کے ساتھ ہی نہ رہے اور اسے بالکل محفوظ کر دیتا ہے اور وہ اس طرح کہ انسان کے قلب پر اثر کئی ذرائع سے ہوتا ہے کبھی آنکھ کے ذریعہ کبھی ناک کے ذریعہ، کبھی کان کے ذریعہ، کبھی زبان کے ذریعہ غرضیکہ کئی ذرائع ہیں خدا تعالیٰ ان سب ذرائع کے لئے محافظ مقرر کر دیتا ہے.گویا جب کوئی انسان نیک تحریکوں کو مانتا جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اور فرشتے اس کے محافظ مقرر کر دیتا ہے جو اُن دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں جن کے ذریعہ شیطان داخل ہو کر قلب پر اثر ڈالتا ہے.پہلے تو سب دروازوں پر ایک فرشتہ تھا کہ وہ چکر لگا تا اور دیکھتا رہے کہ کسی دروازے سے شیطان داخل نہ ہو سکے پھر ترقی کرتے کرتے اس طرح ہوتا ہے کہ ہر سوراخ پر فرشتہ مقرر ہو جاتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.لَهُ مُعَقِّبَت من b بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ الله (الرعد:۱۲) لوگوں نے غلطی سے اس آیت کو ہر انسان کے متعلق سمجھا ہے مگر اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ذکر ہے.اور آہ کی ضمیر آپ ہی کی طرف جاتی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ہمارا ایسا بندہ ہے کہ اس کے آگے اور پیچھے محافظ مقرر ہیں.کوئی شیطانی تحریک نہیں جو شیطانی ہو کر اس کے پاس پہنچے ہر ایک شیطانی تحریک اس کے پاس آکر رُک جائے گی اور اس تک نہیں پہنچ سکے گی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے لئے ایک ہی فرشتہ مقرر ہوتا ہے لیکن جو خدا

Page 91

۸۶ ملائكة الله کے خاص مقرب ہوتے ہیں ان کے لئے کئی کئی ہوتے ہیں.چنانچہ اس کا لطیف ثبوت دوسری جگہ سے بھی ملتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ترقی کرتے کرتے مؤمن اس درجہ کو پہنچ جاتا ہے کہ اس کے ہر سوراخ پر فرشتے بیٹھ جاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.وَالْمَلَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ سَلَمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدار (الرعد: ۲۴-۲۵) فرمایا.جب انسان مرنے کے بعد جنت میں جائیں گے تو ملائکہ ہر دروازے سے آکر ان کو سلام کریں گے اور کہیں گے کہ تمہارے صبر کے بدلہ میں تم پر سلامتی ہو.اس آیت کے یہ معنے نہیں کہ بہت سارے فرشتے ہوں گے اس لئے مختلف دروازوں سے آکر سلام کریں گے کیونکہ اگر بہت فرشتے ہوں تو وہ بھی ایک ہی دروازہ سے آسکتے ہیں.اور اگر کہا جائے کہ اتنا ہجوم ہو گا کہ ایک دروازہ سے نہیں آسکیں گے تو پھر اس کے بیان کرنے کی کیا ضرورت اور کیا فائدہ ہو سکتا ہے.ایک دروازہ سے آئیں یا مختلف دروازوں سے آئیں ایک ہی بات ہو گی.اصل میں اس کے یہی معنے ہیں کہ قیامت کے دن ہر دروازہ کا فرشتہ آئیگا اور آکر مبارک باد دے گا کہ تم اس میں کامیاب ہو گئے ہو جس میں میں اور تم دونوں مل کر شیطان کا مقابلہ کرتے رہے تھے.اس وقت فرشتہ کو بھی خوشی ہوگی اور انسان کو بھی.تو ہر سوراخ کا فرشتہ اسے سلامتی کی دُعا دے گا.رہی یہ بات کہ آیا کئی دروازے ہوتے ہیں یا نہیں یہ موٹی بات ہے اور ہر انسان جانتا ہے کہ بیرونی چیزوں کے اثر کرنے کے کئی ذرائع ہیں.کبھی انسان آنکھ سے روپی دیکھتا ہے تو اس کے دل میں لالچ پیدا ہوتی ہے اور وہ چوری کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے.اگر اس کی آنکھیں نہ دیکھتیں تو یہ خیال بھی اس کے دل میں نہ پیدا ہوتا.پھر کبھی

Page 92

۸۷ ملائكة الله انسان سنتا ہے کہ فلاں کے پاس بہت مال ہے تو چوری کا خیال پیدا ہو جاتا ہے.اگر وہ نہ سنتا تو یہ خیال بھی اسے پیدا نہ ہوتا.اسی طرح بعض خیال چھونے کے ذریعہ سے، بعض سونگھنے کے ، بعض چکھنے کے ذریعہ سے پیدا ہو جاتے ہیں.تو بدی یا نیکی کی تحریکیں انہی ذرائع سے پیدا ہوتی ہیں اور ان ہی راستوں کے ذریعہ شیطان اس کے اندر داخل ہوتا ہے ان پر ایک ایک فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے جو حفاظت کرتا رہتا ہے اور کسی بری تحریک کو اندر نہیں جانے دیتا.لیکن خاص اور عام لوگوں کے ان محافظ فرشتوں میں ایک فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ عام کے محافظ تو صرف بُڑی تحریکوں کو اندر جانے سے روکتے ہیں لیکن خاص کے محافظ بڑی تحریکوں کو بھی نیک کر کے اندر جانے دیتے ہیں.مثلاً ایسا انسان جب سنتا ہے کہ فلاں دولت مند ہے تو بجائے اس کے کہ اس کے دل میں یہ تحریک ہو کہ ڈاکہ مار کر اس کا مال حاصل کرے اس کے دل میں یہ تحریک ہوتی ہے کہ خدا اسے اور بھی دے اور یہ نیک کاموں میں صرف کرے.غرض اس طرح ان کے اندر ہر تحریک نیک ہو کر جاتی ہے مگر خدا کے نبیوں کے ساتھ ان فرشتوں کے یہی دو کام نہیں ہوتے کہ اول کسی بڑی تحریک کو اندر نہیں جانے دیتے اور دوسرے اس کو نیک کر کے اندر جانے دیتے ہیں بلکہ ان کے دل میں پیدا ہونے والی تحریکوں کے باہر بھی نیک اثرات پیدا کرتے ہیں.خدا کے نبی کے بات کرتے وقت ، اس کے کسی کی طرف دیکھتے وقت، کسی کو چھوتے وقت، غرضیکہ ان کی ہر حالت میں فرشتے نیک اثر پیدا کرتے رہتے ہیں.شاید کوئی کہے کہ کسی کے مال کو دیکھ کر جب کسی کے دل میں چوری کا خیال پیدا ہوتا ہے تو یہ اس کے اندر پیدا ہوتا ہے، باہر نہیں پیدا ہوتا.اس لئے فرشتے اس کے متعلق

Page 93

۸۸ ملائكة الله کیا حفاظت کر سکتے ہیں.گو یہ بات غلط ہے کیونکہ چوری کا جو خیال پیدا ہوگا وہ کسی محرک سے ہی پیدا ہوگا اور محترک چیز باہر ہی ہو گی.مگر یہ بھی ہوتا ہے کہ دوسروں کے بد خیالات کا بھی اثر ہوتا ہے.ایک کے بُرے خیالات دوسرے کے دل پر اثر کر دیتے ہیں.اور یہ اثر چھونے ، باتیں کرنے یا پاس بیٹھنے سے ہوتا ہے یہ بات علمی طور پر بھی ثابت ہے.مسمریزم ایک علم ہے.اس میں ایک شخص دوسرے کو کہتا ہے.سو گیا سو گیا.اور اپنے دل میں خیال لاتا ہے کہ سو گیا.جب زور سے یہ خیال اس کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے تو وہ شخص فی الواقع سو جاتا ہے.پھر یہاں تک ہو جاتا ہے کہ اسے کہا جاتا ہے، لکڑی کی طرح سخت ہو جا تو وہ ایسا ہی ہو جاتا ہے.اس وقت اگر اسے ایسی طرز پر لٹا کر کہ اس کی کمر کے نیچے کوئی سہارا نہ ہو.اس پر بوجھ بھی رکھ دیا جائے تو اس کی کمر ٹیڑھی نہیں ہوگی.اسی طرح اگر کہا جائے تو ہکی ہو گیا تو وہ بلی کی طرح میاؤں میاؤں کرنے لگ جائے گا یا اگر کہا جائے کہ گنا ہو گیا تو کتے کی طرح بھونکنے لگ جائے گا.تو ایک شخص کے خیال کا اثر دوسرے پر ہوتا ہے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگ موجود ہیں جن کا بُرا اثر اس ملک میں جہاں وہ رہتے ہیں اس شہر میں جہاں وہ بستے ہیں اس گاؤں میں جہاں وہ سکونت رکھتے ہیں پڑتا ہے اور ہر انسان اس کا تجربہ کر سکتا ہے کہ ایک شخص کے خیال کا اثر دوسروں پر پڑ رہا ہے.حتی کہ بچے بھی اس اثر کو محسوس کرتے ہیں.چنانچہ ایک بچہ کی آنکھیں بند کر کے کوئی چیز کہیں چھپا کر رکھ دیتے ہیں اور پھر سب خیال کرنے لگتے ہیں کہ وہ لڑکا اس طرف چلے جہاں وہ چیز رکھی ہوئی ہے تو وہ ادھر ہی چلا جاتا ہے اور اس چیز کے پاس پہنچ کر اسے اُٹھا لیتا ہے.

Page 94

۸۹ ملائكة الله ایک دفعہ ایک سکھ طالب علم نے جو گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا اور حضرت مسیح موعودؓ سے اخلاص رکھتا تھا حضرت صاحب کو کہلا بھیجا کہ پہلے مجھے خدا پر یقین تھا مگر اب میرے دل میں اس کے متعلق شکوک پڑنے لگ گئے ہیں.حضرت صاحب نے اسے کہلا بھیجا کہ جہاں تم کالج میں بیٹھتے ہو اس جگہ کو بدل لو.چنانچہ اس نے جگہ بدل لی اور پھر بتایا کہ اب کوئی شک نہیں پیدا ہوتا.جب یہ بات حضرت صاحب کو سنائی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اس پر ایک شخص کا اثر پڑ رہا تھا جو اس کے پاس بیٹھتا تھا اور وہ دہریہ تھا.جب جگہ بدل لی تو اس کا اثر پڑنا بند ہو گیا اور شکوک بھی نہ رہے.تو بڑے آدمی کے پاس بیٹھنے سے بھی بلا اس کے کہ وہ کوئی لفظ کہے اثر پڑتا ہے اور اچھے آدمی کے پاس بیٹھنے سے ہلا اس کے کہ وہ کچھ کہے اچھا اثر پڑتا ہے.پس دُنیا میں خیالات ایک دوسرے پر اثر کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کا پتہ نہیں لگتا.ایک شخص کسی مجلس میں جاتا ہے جہاں کسی شخص کے دل میں کوئی برا خیال ہوتا ہے اور کسی کے دل میں کوئی.وہ اس کے دل پر اثر کر رہے ہوتے ہیں اور اسے پتہ بھی نہیں ہوتا مگر جب ملائکہ اس کے ہر دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں ہاتھ ، کان، ناک، منہ اور آنکھ وغیرہ دروازوں پر تو ایسے لوگ جب کسی مجلس میں جاتے ہیں ان پر کوئی بڑا اثر نہیں ہوسکتا.ان پر پاک ہی پاک اثر ہوتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود تو پاک تھے مگر دوسروں کو سکھانے کے لئے جب آپ کسی مجلس میں بیٹھتے تو ستر دفعہ استغفار کرتے.اس سے آپ نے مسلمانوں کو سکھایا کہ وہ بھی ایسا ہی کیا کریں.تو خیالات کا اثر یقینی اور ثابت شدہ اثر ہے.جو لوگ زیادہ نیک اور متقی ہوتے ہیں انکے ہر دروازہ پر کہ جس سے خیالات کا اثر اندر آتا ہے فرشتے متعین ہوتے ہیں جو انہیں بُرے اثرات سے محفوظ کر دیتے ہیں.

Page 95

۹۰ ملائكة الله شیطان سے کیا مراد ہے اب میں یہ بتاتا ہوں کہ شریعت نے انسان کے ذاتی بُرے خیالات کو بھی شیطانی قرار دیا ہے اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ شیطان کا وجود ہی نہیں ہے کیونکہ میرا یہ بھی یقین ہے کہ ہر نیک تحریک در حقیقت انسان کے قلب سے ہی پیدا ہوتی ہے.حالانکہ میں ملائکہ اور ان کے اثرات کا قائل ہوں.پس میرے قول کا یہ مطلب ہے کہ شریعت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی خیالات کو بھی شریعت نے شیطانی قرار دیا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ جب انسان کے دل میں بدخیال آئے تو شیطان اس پر اپنا پر تو ڈال کر اس کو بڑھا دیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا.ایک وضوء کا شیطان ہے اس کا نام ولہان ہے.اس کا کام یہ ہے کہ پانی زیادہ گرواتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا اس جگہ یہ مطلب نہیں کہ واقع میں کوئی وضوء کا شیطان ہے بلکہ آپ نے دل کے خطرہ کا نام شیطان رکھا ہے.شیطان کا کام تو خدا تعالیٰ سے دُور کرنا ہے پانی سے اس کا تعلق نہیں.اور ولہان کے معنے ہیں ایسا متفکر کہ جسے ایک خیال کے سوا اور کوئی خیال ہی نہ رہے اور اسی حالت کا نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ولہان نامی شیطان رکھا ہے.اس حالت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کو کچھ ہوش ہی نہیں رہتی اور بجائے اس کے کہ وضوء کے وقت اسے نماز کی طرف توجہ ہو.وہ اپنے خیالات میں محو ہو کر پانی بہاتا چلا جاتا ہے.ورنہ فی الواقع شیطان اس کو پانی گرانے کے لئے نہیں کہتا کیونکہ شیطان کو زیادہ ترمذی ابواب الطهارة باب كراهية الاسراف فى الوضوء

Page 96

یا کم پانی کرانے سے کیا تعلق.۹۱ ملائكة الله اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کا بھی ایک شیطان ہے جونماز میں وسوسہ ڈالتا ہے.ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی جب میں نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں تو مختلف خیالات میرے دل میں آنے لگ جاتے ہیں.آپ نے فرمایا یہ شیطان ہے اور اس کا نام خنزب ہے.درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے شیطان کا نام خنزب بتایا ہے.یہ مرکب لفظ ہے خئی اور از یب سے خنی کے معنے نوائب الدھر کے ہیں.اور ازیب کے معنے داہیہ کے ہیں یعنی آفات اور بلائیں اور مصیبتیں.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ دُنیا کے حوادث انسان کو اپنی طرف کھینچتے ہیں.اگر انسان دُنیا میں حتی المقدور علیحدگی اختیار کرے تو وہ اس حالت سے بچ سکتا ہے.غرض دل کے بُرے خیالات کا نام بھی شیطان رکھا گیا ہے.لمہ ملکی اور شیطانی انسان کی قلبی حالت کا نتیجہ ہوتے ہیں اب میں یہ بتاتا ہوں کہ پہلے ملک یا شیطان کی تحریک نہیں ہوتی.پہلی تحریک خواہ بُری ہو یا اچھی انسان کے اپنے قلب سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر انسان فطرت پر پیدا کیا گیا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ ہر انسان نیکی پر پیدا کیا گیا ہے پھر حالات اور صحبتوں سے اس کے قلب میں خیال پیدا ہوتے ہیں.ان خیالات کو بڑھانے کے لئے مسلم کتاب السلام باب التعوذ من الشيطان الوسوسة في الصلوة

Page 97

۹۲ ملائكة الله جو نیک ہوتے ہیں ملائکہ آجاتے ہیں اور بد کے لئے شیطان.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَن كَانَ لَهُ مِنْ قَلْبِهِ وَاعِظُ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ اللَّهِ حافظ جس کے اپنے دل میں نیک خیال پیدا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی اس کے لئے ایک نگران فرشتہ کو مقرر کر دیتا ہے اور یہی حال بُری تحریکوں کا ہوتا ہے جس کے دل میں بڑے خیالات پیدا ہونے لگتے ہیں اس کے اوپر ایک شیطان مسلط ہو جاتا ہے.پس معلوم ہوا کہ نیکی اور بدی پہلے انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے.گو اس کی تحریک بیرونی اسباب سے ہوتی ہو.اور پھر اگر نیک تحریک ہو تو ملک اس کو بڑھاتا ہے اور اگر بد ہو تو شیطان ایسے آدمی کے ساتھ لگ جاتا ہے.ورنہ اگر تحریک پہلے ہی سے باہر سے آتی اور قلب کا اس سے تعلق نہ ہوتا اور اس کے قبول کرنے یا رد کرنے میں اس کا کوئی دخل نہ ہوتا تو پھر انسان مجبور ہوتا.لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ ”کند ہم جنس با ہم جنس پرواز“ کے ماتحت جب قلب میں نیکی کی تحریک پیدا ہوتی ہے تو ملائکہ سے تعلق ہو جاتا ہے اور جب برائی کی تحریک ہوتی ہے تو بد ارواح تعلق پیدا کر لیتی ہیں.پس یہ جو دونوں تحریکیں ہیں ان کے متعلق یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے.بہت لوگ سوال کیا کرتے ہیں کہ ہم روحانی ترقی کس طرح حاصل کریں.ان کا جواب یہ ہے کہ روحانی ترقی حاصل کرنے کا طریق یہ ہے کہ انسان اپنے قلب کا مطالعہ کرتا رہے.روحانی ترقی یہی ہوتی ہے کہ انسان کو اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج اور مراتب کا حال معلوم ہوتا جائے اور اس کا ذریعہ یہی ہے کہ انسان دیکھے کہ اس کے قلب میں نیک احیاء علوم الدین مؤلف امام غزالی جزء ۳ کتاب شرح عجائب القلب بيان مجامع أوصاف القلب و امثلته مطبوعہ بیروت

Page 98

۹۳ ملائكة الله تحریکیں زیادہ ہوتی ہیں یا بد.اگر نیکی کی تحریکیں زیادہ ہوں تو سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی طرف ملائکہ اس کا قدم بڑھا رہے ہیں.پس بجائے اس کے کہ انسان اپنی نمازوں کو، اپنے روزوں کو ، اپنے چندوں کو دیکھے کہ ان میں میں نے کس قدر ترقی کی ہے، اسے یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کے قلب میں کیا تحریکیں ہوتی ہیں.اس کا قلب اسے زیادہ نماز ، زیادہ روزے اور زیادہ نیکی کرنے کا حکم دیتا ہے یا نہیں.اگر قلب حکم نہیں دیتا تو سمجھ لے کہ جو کچھ کر رہا ہے وہ صرف ایک ابتدائی کوشش ہے یا عادت ہے یا ریاء ہے اور خدائی کام نہیں.اگر نمازیں پانچ چھوڑ دس بھی پڑھتا ہے یعنی علاوہ فرائض کے پانچ وقت نوافل ادا کرتا ہے مگر اس کا قلب نماز سے متنفر ہے تو معلوم کر لے کہ ابھی وہ ایسے مقام پر نہیں پہنچا کہ ملائکہ کا اس سے تعلق قائم ہو جائے بلکہ ممکن ہے کہ ابھی وہ ابتدائی کوشش کے مقام پر بھی نہیں پہنچا بلکہ اس کا نفس رسما یا عادتا یار یاؤ اس سے نمازیں پڑھوا رہا ہے.اور اگر اسے ابھی عمل کی توفیق نہیں ملی مگر اس کے دل میں نیک تحریکیں پیدا ہو رہی ہیں تو سمجھے کہ فرشتے اس سے تعلق پیدا کر رہے ہیں پس تم اپنی نمازوں ، روزوں وغیرہ سے اپنی حالت کا اندازہ نہ کرو بلکہ تمہارے دل میں جو کچھ ہو اس کو دیکھو.جن قوموں کے دل خراب ہو جاتے ہیں وہ خواہ ظاہرہ طور پر کتنی ہی مضبوط ہوں گر پڑتی ہیں.روس کو ہی دیکھ لو کتنی بڑی حکومت تھی لیکن حضرت مسیح موعود کی اس کے متعلق چونکہ پیشگوئی تھی اس لئے ان لوگوں کے دل خراب ہو گئے اور اس سے ساری سلطنت خراب ہو گئی.حالانکہ ظاہری خرابی سے معا پہلے وہ ایک زبر دست حکومت سمجھی جا رہی تھی.تو کسی انسان کو اپنے متعلق نمازوں، روزوں اور زکوۃ سے فیصلہ نہیں کرنا چاہئے کہ میں نے نیکی اور تقویٰ میں کس قدر ترقی کی ہے بلکہ اپنے قلب

Page 99

۹۴ ملائكة الله کے اندر جو چیز ہے اس سے اپنی نیکی اور تقویٰ کو دیکھے.اگر اس کے دل میں نیک تحریکیں بڑھ رہی ہوں تو سمجھ لے کہ ملائکہ کا پر تو جو اس پر پڑتا ہے وہ بڑھ رہا ہے خواہ ابھی تک بعض گناہ اس سے نہ چھوٹے ہوں.اور اگر برائی کی تحریکیں اس کے قلب میں بڑھ رہی ہوں ، تو خواہ اچھا کام کر رہا ہو یہی خیال کرے کہ اس کا شیطان سے تعلق بڑھ رہا ہے.پس نمازیں زیادہ پڑھنا یا روزے رکھنا ایمان کی علامات نہیں.تمہیں اپنے قلوب کو دیکھنا اور ان کا مطالعہ کرنا چاہئے.لوگوں کا کام تمہارے متعلق یہ ہے کہ تمہارے اعمال کا مطالعہ کریں لیکن تمہارا کام اپنے متعلق یہ ہے کہ اپنے قلب کا مطالعہ کرو.لمہ ملکی اور لمہ شیطانی کا موازنہ کرنے کا طریق اب میں ایک موٹا اصول بتا تا ہوں کہ کس طرح معلوم ہو کہ تمہاری تحریکوں میں شیطان کا دخل زیادہ ہے یا ملائکہ کا.پہلے میں نے بتایا ہے کہ اصل تحریکیں خواہ بری ہوں یا اچھی ، تمہاری اپنی ہوتی ہیں.فرشتے یا شیطان کی نہیں ہوتیں اس لئے تمہیں اپنے قلب کو دیکھنا چاہئے اور اس کو دیکھ کر معلوم کرنا چاہئے کہ تمہارے ساتھ کس کا تعلق زیادہ ہے.اوّل.اگر تم دیکھو کہ پہلے دل میں نیک خیال پیدا ہوتا ہے اور پھر بد تو سمجھ لو کہ فرشتہ کا تعلق تم سے شیطان کی نسبت زیادہ ہے.فرشتہ اپنے تعلق کو بڑھانا چاہتا ہے مگر شیطان اس میں رکاوٹ ڈالتا ہے.تو ہمیشہ جب کسی بدی کا خیال پیدا ہو یہ دیکھو کہ اس سے پہلے نیکی کا خیال تم میں پیدا ہوا تھا یا نہیں.اگر پیدا ہوا تھا تو ملک کا تعلق تم سے بہت زیادہ ہے

Page 100

۹۵ ملائكة الله بنسبت شیطان کے.مثلاً تم نماز پڑھنے کے لئے آئے ہو مگر تمہارے دل میں وسوسے پڑتے ہیں تو معلوم ہوا کہ ملائکہ کا تم سے زیادہ تعلق ہے.تم نیکی کرنے آتے ہو اور شیطان اسے خراب کرنے لگتا ہے.دوم.اگر تم دیکھو کہ جب کوئی برا خیال تمہارے دل میں پیدا ہوتا ہے تو جھٹ ساتھ ہی نیک خیال بھی پیدا ہو جاتا ہے.مثلاً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ مسجد میں چلولوگ دیکھیں گے کہ میں بھی نماز پڑھتا ہوں اور بعد میں یہ خیال آجاتا ہے کہ نماز پڑھنی ہے تو پھر اللہ ہی کی پڑھوں گا.تو ایسی صورت میں سمجھ لو کہ ملائکہ کا تعلق تم سے زیادہ نہیں مگر پھر بھی ملائکہ نے تم کو بالکل چھوڑ بھی نہیں دیا.جب انہوں نے موقع دیکھا جھٹ آجاتے ہیں تا کہ نیکی کی طرف لے آئیں.اس حد تک انسان محفوظ ہوتا ہے کیونکہ ملائکہ نے اس سے محبت کا تعلق ترک نہیں کیا ہوتا.پہلا درجہ تو یہ تھا کہ وہ اسے اوپر اُٹھاتے تھے اور شیطان نیچے کھینچتا تھا.دوسرا یہ کہ وہ ڈوبنے لگتا تھا تو ملائکہ اسے بچاتے تھے.جو انسان اس حالت میں ہو وہ بھی سمجھ لے کہ وہ ایسے مقام پر ہے کہ ترقی کر سکتا ہے مایوسی کی حد تک نہیں پہنچا.سوم.تیسرا درجہ نہایت نازک ہے اور وہ یہ ہے کہ تم محسوس کرو کہ بدی کی تحریک ہوتی ہے مگر ساتھ اس کے نیکی کی تحریک نہیں ہوتی.گھنٹہ پر گھنٹہ اور دن پر دن گزرتا جاتا ہے مگر دل میں اس تحریک کے خلاف جوش نہیں پیدا ہوتا.اگر یہ حالت ہے تو سمجھ لو کہ تم کو ملائکہ بالکل چھوڑ گئے ہیں اور تم بالکل شیطان کے قبضہ میں پڑ گئے ہو.یہ تین درجے تو وہ ہیں جن میں بدی کی تحریک نیکی کے برابر یا اس سے زیادہ ہوتی ہے اور ان میں سے ایک درجہ پر قائم شخص کو بہت ہوشیار رہنا چاہئے.ان سے اوپر دو اور

Page 101

۹۶ ملائكة الله درجے ہیں جن میں لمعہ ملکی اور لمہ شیطانی سے انسان کا واسطہ پڑتا ہے مگر لمہ ملکی غالب ہوتا ہے اور وہ یہ ہیں : (۱) پہلے نیک خیال پیدا ہوتا ہو اور اس کے بعد بد خیال پیدا ہوتا ہو.جب یہ حالت ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ گو فرشتے پورے طور پر اس کے اردگر د نہیں ہیں لیکن اصل تعلق فرشتوں کا ہے شیطان صرف ترقی روکنے کے لئے زور لگا رہا ہے.(۲) دوسری حالت یہ ہے کہ نیک خیالات پہلے پیدا ہوں اور بد بعد میں مگر بد خیالات بہت کم پیدا ہوں یا یہ کہ مختلف قسم کی نیک تحریکوں میں سے بعض کے متعلق دل میں خیال پیدا ہوں بعض کے متعلق نہیں.اس حالت کے متعلق جان لینا چاہئے کہ فرشتوں کا تعلق مضبوط ہو رہا ہے اور شیطان کا کم.اور کوئی دروازہ اس کے لئے کھلا رہ گیا ہے.جب اس سے اوپر انسان ترقی کرتا ہے تو پھر شیطانی حملہ سے بالکل محفوظ ہو جاتا ہے.ان پانچوں ذریعوں سے پتہ لگ سکتا ہے کہ انسان بدی میں بڑھ رہا ہے یا نیکی میں ترقی کر رہا ہے.اب یہ سوال ہوتا ہے کہ انسان کے اندر کون سی تحریک زیادہ زبردست ہے آیا ملکی تحریک یا شیطانی؟ اور انسان کے لئے کون سے راستے زیادہ کھلے ہیں؟ ملائکہ کے رستے یا شیطان کے.اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے انسانی ترقی کے زیادہ سامان رکھے ہیں یا گمراہی کے؟ صوفیاء سے ایک غلطی ہوئی ہے.یا یوں کہنا چاہئے کہ ان سے ٹیکنیکل یعنی اصطلاحی غلطی ہوئی ہے حقیقی غلطی نہیں اور وہ یہ کہ ایک چیز کا مفہوم سمجھنے میں انہوں نے غلطی کھائی ہے.عام طور پر بلکہ سارے کے سارے لکھتے ہیں کہ فرشتہ کا ایک ہی رستہ ہے اور شیطان کے انسان کے اندر داخل ہونے کے کئی دروازے ہیں، مگر یہ غلط ہے.اوّل تو قانونِ قدرت سے یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے.پھر قرآن کریم کی رو سے بھی غلط

Page 102

۹۷ ملائكة الله ہے.قانونِ قدرت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر خیالات بیرونی اثرات سے پیدا ہوتے ہیں.مثلاً ایک شخص کے دل میں چوری کا خیال اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ کوئی چیز باہر دیکھتا ہے اسی طرح اور باتوں کے متعلق ہوتا ہے.اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن ذرائع سے انسان کے اندر بُرے خیالات کی تحریک جاتی ہے انہی ذرائع سے نیکی کے خیالات کی تحریک بھی جاتی ہے.مثلاً جہاں دیکھنے سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ فلاں مال چرا لیا جائے وہاں دیکھنے سے ہی یہ بھی خیال پیدا ہوتا ہے کہ فلاں غریب ہے اس کی مدد کی جائے.اسی طرح جہاں کان کے ذریعہ ایک بات سُن کر برا خیال پیدا ہوسکتا ہے وہاں کان ہی کے ذریعہ نیک خیال بھی پیدا ہوتا ہے.اسی طرح چھونے ، دیکھنے اور چکھنے سے ہوتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ ہر چیز ایسی ہے کہ بدطور پر بھی استعمال کی جاسکتی ہے اور نیک طور پر بھی.اس لئے جن ذرائع سے شیطان اندر داخل ہوسکتا ہے انہی ذرائع سے فرشتے داخل ہو کر نیکی کی تحریک بھی کرتے ہیں.پھر قرآن کریم سے بھی یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے کہ شیطان کے گمراہ کرنے کے تو بہت سے راستے ہیں لیکن ملائکہ کا ایک ہی راستہ ہے.ان کو دھوکا اس آیت سے لگا ہے کہ وَانَّ هَذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سبيله (الانعام : ۱۵۴) خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرا سیدھا رستہ ہے اس کی اتباع کرو اور مختلف رستوں کی اتباع نہ کرو.وہ تمہیں کہیں کا کہیں پہنچا دیں گے.اس سے معلوم ہؤا کہ خدا کا ایک ہی رستہ ہے اور شیطان کے کئی رستے ہیں مگر اس آیت کے معنے سمجھنے میں انہیں غلطی لگی ہے.اول تو قرآن کریم میں ہی خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَاط (العنكبوت ۷۰ ) کہ جو لوگ ہمارے رستہ میں

Page 103

۹۸ ملائكة الله کوشش کرتے ہیں انہیں ہم مختلف رستے دکھاتے ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ نیکی کے بھی مختلف رستے ہیں.دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں جو ایک رستہ اور کئی رستے بتائے گئے ہیں اس سے یہ بات بتائی ہے کہ خدا تک پہنچنے کے لئے کئی مذاہب قبول کرنے کی ضرورت نہیں.صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کے قبول کرنے سے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے.ہاں آگے اسلام نے روحانی ترقیوں کے لاتعداد رستے بتائے ہیں.تو اس آیت میں نفی اس بات کی کی گئی ہے کہ جس طرح شیطان نے گمراہ کرنے کے کئی رستے رکھے ہوئے ہیں.کہیں عیسائی بنے کی تحریک کرتا ہے، کہیں آریہ بنے کی کہیں کوئی اور جھوٹا مذہب قبول کرنے کی.اس طرح خدا نے نہیں کیا بلکہ خدا نے ایک مذہب رکھا ہے ہاں وہ مذہب ایسا ہے جو کئی رستوں پر حاوی ہے.اسی بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے صوفیاء نے غلطی کھائی ہے.اصل میں خدا تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے شیطان کے گمراہ کن طریقوں سے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے رحمتي وَسِعَتْ كُلّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) کہ میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے.اب میں اس سوال کی طرف آتا ہوں کہ اگر نیکی کی تحریک کے بھی زیادہ ذرائع ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ دنیا میں شیطانی انسان زیادہ ہوتے ہیں اور دوسرے کم.اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیطانی اثر ملائکہ کے اثرات کی نسبت زیادہ ہیں.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ شیطانی اور ملائکہ کی تحریکات کا مقابلہ اس طرح نہیں کرنا چاہئے کہ بڑے لوگ زیادہ ہوتے ہیں یا نیک بلکہ اس طرح کرنا چاہئے کہ ہر انسان کے اندر نیکی کی تحریک زیادہ ہوتی ہے یا برائی کی.اس بات کو دیکھنے سے معلوم ہو

Page 104

۹۹ ملائكة الله جاتا ہے کہ لوگوں کے اکثر کام نیکی پر زیادہ مشتمل ہوتے ہیں بنسبت بدی کے.اور بدی صرف اس لئے زیادہ نظر آتی ہے کہ وہ گھناؤنی کئے ہونے کے سبب نمایاں نظر آتی ہے.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک وقت سب لوگ جہنم سے نکل آئیں گے.(مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحه ۱۰۲ حاشیه ) ایک شخص جو چوری کرتا ہے اسے بڑا بد معاش اور بُرا انسان کہا جائے گا مگر اور کئی عیب ہوں گے جو اس میں نہیں ہوں گے اور کئی اچھی باتیں ہوں گی جو اس میں پائی جاتی ہوں گی.گویا اس میں کئی نیکیاں ہوں گی اور چوری کرنا ایک برائی ہوگی.اور کوئی شخص ایسا نہ ہوگا جس میں برائیاں زیادہ ہوں اور ان کے مقابلہ میں نیکیاں کم ہوں.تو نیکی دُنیا میں زیادہ ہوتی ہے اور برائی کم.مگر چونکہ برائی پر ہر ایک کی نظر پڑتی ہے اس لئے وہ نمایاں طور پر نظر آجاتی ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا ہو جس کا صرف ناک کٹا ہو اور باقی اعضاء بالکل درست ہوں تو اس کے ناک پر ہی نظر پڑے گی اور باقی اعضاء کی خوبصورتی کوئی نہ دیکھے گا.تو نیکیاں زیادہ ہوتی ہیں لیکن لوگوں کی نظر بُرائی پر پڑتی ہے اس لئے اسی کو زیادہ نمایاں سمجھا جاتا ہے.اب میں یہ بتا تا ہوں کہ فرشتہ دل میں تحریک کس طرح کرتا ہے اور اس کے تحریک کرنے کا کیا ذریعہ ہے؟ اس کی تحریک کرنے کے متعلق اپنے تجربہ سے اور خدا کے ان مقرب لوگوں کے تجربہ سے جنہیں علم دیا گیا ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان کوئی نیک کام کرتا ہے تو ملک اس کے دل میں اس کام کی محبت پیدا کر دیتا ہے اور جب کوئی انسان ارادہ کر لیتا ہے کہ میں نیکی کے اس راستہ پر چلوں گا تو ملک ہر موقع کے آنے پر اسے اطلاع دیتا رہتا ہے کہ موقع آگیا ہے اس سے فائدہ اُٹھالو.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ملک انسان

Page 105

ملائكة الله کو مجبور کر کے وہ کام کراتا ہے بلکہ یہ ہے کہ اسے اطلاع دیتا رہتا ہے.دوسرا ذریعہ ملک کے تحریک کرنے کا یہ ہے کہ علم کی زیادتی کرتارہتا ہے.اس سے انسان کو نیکی کرنے کی تحریکیں پیدا ہوتی رہتی ہیں کہ یہ بھی نیکی ہے اسے کرلوں.یہ بھی نیکی ہے اس کو عمل میں لے آؤں.مگر اصل منبع نیکی کا قلب ہی ہوتا ہے اسی پر ملک روشنی اور پر تو ڈالتا ہے اور اس کا کام ان تحریکوں پر چلانا ہوتا ہے.یعنی ملائکہ خود انسان سے نیکی نہیں کراتے بلکہ نیکی کرانے کے لئے آسانی پیدا کرتے رہتے ہیں.اس کی مثال یہ ہے کہ مثلاً ایک معزز شخص بہت سے لوگوں میں سے گزرے اور وہ لوگ اس کو آگے سے رستہ دیتے جائیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ لوگ اسے چلاتے ہیں.چلتا تو وہ خود ہے ہاں اس کے چلنے میں وہ لوگ آسانی پیدا کر دیتے ہیں.فرشتے بھی انسان کے لئے ایسے ذرائع پیدا کرتے ہیں کہ وہ بآسانی نیکی کر سکے.اسی طرح شیطان یہ نہیں کرتا کہ کسی سے جبراً کوئی برائی کراتا ہے بلکہ جب کوئی شخص ایک بُرائی کا ارتکاب کر لیتا ہے تو شیطان اس کے سامنے دوسری رکھ دیتا ہے اور جب دوسری کر لیتا ہے تو تیسری.اسی طرح آگے آگے چلاتا جاتا ہے.مثلاً چلتے چلتے کسی کو خیال پیدا ہوا کہ چوری کروں.اس خیال کے آنے پر شیطان نے اس کی توجہ اس طرف پھرادی کہ فلاں شخص مالدار ہے.گویا شیطان کا اتنا ہی کام ہے کہ مشورہ دے.یہ نہیں کہ قلب پر قبضہ پالے.اس لئے جو نیکی یا بدی انسان کرتا ہے وہ اس کا اپنا ہی فعل ہوتا ہے.ملک یا شیطان صرف تحریک کر دیتا ہے.تیسرا ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ فرشتہ انسان کو ایسی جگہ لے جاتا ہے جہاں نیکی کی تحریک پیدا ہو سکے.آگے اس تحریک کا حاصل کرنا انسان کے دل کا کام ہوتا ہے.

Page 106

1+1 ملائكة الله اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے.اور وہ یہ کہ جب انسان کو ملائکہ یا شیطان کی طرف سے مدد آتی ہے.نیک باتیں فرشتہ سمجھاتا ہے اور بُری باتیں شیطان.تو پھر بُرائی کرنے میں انسان کا گناہ کیا ہوا.مان لیا کہ برائی انسان نے کی مگر شیطان نے بھی تو اس میں امداد دی.اس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ شیطان کی تحریک پیدا ہونے پر انسان کو گناہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے دبانے اور اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں اسے ثواب ہوتا ہے.ہاں اگر اس پر عمل کرے تو پھر گناہ ہوتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور آکر کہا میرے دل میں ایسے ایسے بُرے خیال آتے ہیں کہ زبان کٹ جائے.انہیں بیان کرنے کو دل نہیں چاہتا.فرمایا یہی بات ہے جو نور ایمان ہے.تو شیطانی تحریک جو ہے وہ خود گناہ نہیں ہوتی.اگر انسان کے دل میں کوئی وسوسہ پیدا ہو اور وہ اسے ترک کر دے تو گناہگار نہ ہوگا.چنانچہ قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحاسِبكُمْ بِهِ الله ط (البقرة: ۲۸۵) تمہارے دل میں جو کچھ ہے تم اسے چھپا رکھو یا ظاہر کر وہ تم سے خدا حساب لے گا.اس میں بتایا ہے کہ یہ نہیں کہ کوئی خیال پیدا ہونے پر سزادی جائے گی بلکہ اگر اسے دل میں محفوظ رکھ چھوڑو گے یا پھیلا ؤ گے تو تمہارا محاسبہ ہوگا.پس شیطانی تحریک کو ظلم نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس پر کوئی گرفت نہ ہوگی.ایسی تحریک ہزار بار ہوا گر انسان اسے نہیں مانتا تو گنہگار نہیں ہوگا بلکہ اسے ثواب ہوتا رہے گا.اب یہ سوال ہے کہ تحریک شیطان کی ہوتی کس طرح ہے؟ اور کس رنگ میں شیطان تحریک کرتا ہے؟ سو یا درکھنا چاہئے کہ جو انسان نیک ہوتا ہے اور جس نے اپنے آپ کو شیطان کے قبضہ میں نہیں دیا ہوتا بلکہ اس کا تعلق ملائکہ سے ہی ہوتا ہے اس کو شیطان نیک

Page 107

۱۰۲ ملائكة الله تحریکات کے ذریعہ ہی گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے.ہاں جب وہ شیطان کے قبضہ میں چلا جاتا ہے تب بڑی تحریکوں کے ذریعہ گمراہ کرتا ہے.اس کی تشریح میں آگے چل کر کروں گا.اس وقت اتنا بتا تا ہوں کہ شیطان کی تحریک کی دوشاخیں ہوتی ہیں.ایک نیکی کی اور دوسری بدی کی.اس کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب شیطان بھی نیکی کی تحریک کرتا ہے تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ انسان اس کی تحریکوں سے بچے؟ ممکن ہے انسان ایک نیک کام کرے مگر شیطان اس سے کرا رہا ہو.جب بُرا کام ہو تب تو معلوم ہوسکتا ہے کہ شیطانی ہے لیکن یہ کیونکر معلوم ہو کہ ایک نیک کام بھی شیطان کی تحریک کے ماتحت ہو سکتا ہے.اس کے لئے میں موازنہ کر کے بتاتا ہوں کہ فرشتے اور شیطان کی تحریک میں کیا امتیازات ہوتے ہیں.اوّل یہ بات یاد رکھو کہ فرشتے کی طرف سے وہی تحریک ہوگی جس کا نتیجہ نیک ہوگا.بعض دفعہ ایک تحریک بظاہر نیک معلوم ہوتی ہے لیکن اس کا نتیجہ بد ہوتا ہے اور بعض دفعہ نیک تحریک ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ بھی نیک ہوتا ہے.پس جب کسی تحریک پر عمل کرنے لگو تو سوچ لو کہ اس کا نتیجہ تو بد نہیں ہوگا.مثلاً نیکی کی تحریک ہوئی کہ فلاں بھائی نماز نہیں پڑھتا اس کو سمجھا ئیں مگر جب سمجھانے لگے تو اس کا طریق یہ اختیار کیا کہ جہاں بہت سے آدمی بیٹھے تھے وہاں اسے کہہ دیا کہ تو نماز نہیں پڑھتا اس لئے منافق ہے اس منافقت کو چھوڑ دے.یہ تحریک تو نیک تھی لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اتنے آدمیوں کے سامنے جو اس کو اس طرح کہا جائے گا تو وہ نماز کا ہی انکار کر دے گا.حضرت خلیفہ اول سناتے تھے کہ آپ کا ایک داماد وہابی تھا.آپ سے ملنے کے لئے ایک رئیس آیا جس کا پاجامہ ٹخنے سے نیچے تھا.اس نے اس کے ٹخنے پر مسواک ماری اور کہا تو جہنمی ہے کہ اس طرح پاجامہ پہنے ہوئے ہے.اس پر

Page 108

۱۰۳ ملائكة الله رئیس نے گالی دے کر کہا میں خدا اور رسول کو ہی نہیں مانتا وہ کیا ہوتے ہیں؟ حضرت خلیفہ اول نے اپنے داماد کو کہا تو نے اچھی نصیحت کی ہے کہ اسے کافر بنادیا.غرض ایک تحریک بظاہر نیک معلوم ہوتی ہے مگر اس کا نتیجہ بد نکلتا ہے.یہ تحریک ملک کی طرف سے نہیں ہوتی.ملک وہی تحریک کرے گا کہ جس کا نتیجہ بھی نیک ہی ہوگا.فرشتہ کی تحریک چونکہ خدا تعالیٰ کی تحریک کے ماتحت ہوتی ہے اس لئے وہ بدنتیجہ نہیں پیدا کر سکتی.پس کسی تحریک کے پیدا ہونے پر جہاں یہ دیکھ لو کہ نیک ہے وہاں یہ بھی دیکھ لو کہ اس کا نتیجہ بھی نیک ہے یا نہیں.اگر نتیجہ بد ہو تو سمجھ لو کہ شیطان کی طرف سے ہے ملک کی طرف سے نہیں.ہاں اگر نتیجہ نیک ہے تو ملک کی طرف سے ہوگی.دوسرا طریق شیطان اور ملک کی تحریک میں موازنہ کرنے کا یہ ہے کہ فرشتے کی تحریک میں موازنہ ہوتا ہے لیکن شیطان کی تحریک ایسی نہیں ہوتی.شیطان ایک نیکی کراتا ہے لیکن اس کی وجہ سے اس سے بڑی نیکی کو چھڑانا اس کے مد نظر ہوتا ہے.مثلا نماز کی جماعت ہو رہی ہے ادھر خیال پیدا ہوتا ہے کہ نفل پڑھیں، اب اگر جماعت کے چھوٹ جانے کی پرواہ نہ کی جائے اور نفل پڑھے جائیں تو یہ شیطانی تحریک ہوگی کیونکہ بڑی نیکی کو چھوٹی نیکی کے لئے ترک کر دیا گیا.سرسید احمد صاحب کو جب کہا گیا کہ آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے تو انہوں نے کہا کہ یہ کام بھی دین ہی کا ہے جو میں کرتا ہوں ان کے کام کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس میں فنا ہو گئے ہیں.اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ اس کام کو بدی سمجھ کر کرتے تھے.نیک سمجھ کر ہی کرتے تھے مگر چھوٹی نیکی پر انہوں نے بڑی کو قربان کر دیا.اس لئے یہ کام ان کا فرشتے کی تحریک سے نہیں کہلا سکتا.غرض بعض دفعہ شیطانی تحریک بھی نیک ہی ہوتی ہے مگر بڑی نیکی کو چھڑ ا کر چھوٹی

Page 109

۱۰۴ ملائكة الله نیکی کرائی جاتی ہے.شاہ ولی اللہ صاحب اپنے خاندان کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے خاندان کی ایک عورت بہت ذکر اللہ کیا کرتی تھیں اور ان کے ایک بھائی ان کو اس امر سے روکتے تھے اور کہتے تھے کہ نماز زیادہ پڑھا کرو.وہ جواب دیتیں کہ مجھے اس میں بہت لطف آتا ہے.اس پر وہ کہتے تھے کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے.آخر بڑھتے بڑھتے سنتیں اور پھر فرض شیطان چھڑوائے گا.کچھ مدت کے بعد بہن نے بھائی کو بتایا کہ واقع میں اب ایسا ہونے لگا ہے کہ سنتوں میں بھی مزا جاتا رہا ہے آپ علاج بتا ئیں.انہوں نے ایک لاحول پڑھنے کے لئے کہا.آخر ان کو کشف میں ایک بند ر نظر آیا جس نے کہا میں شیطان ہوں اگر تم لاحول نہ پڑھتی اور تمہارے بھائی تم کو نہ سمجھاتے تو میں نے فرض بھی چھڑوا دینے تھے.غرض شیطان کی تحریک کبھی نیکی کی شکل میں پیش کی جاتی ہے لیکن اس میں قدر مراتب کا خیال نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ کے ہر قانون میں موازنہ ہوتا ہے اور ہر بڑی چیز کے مقابلہ میں چھوٹی قربان ہوتی ہے.لیکن جہاں بڑی چیز چھوٹی کے لئے قربان ہونے لگے وہاں سمجھ لو کہ یہ شیطانی تحریک ہے یہ طریق وسوسہ کا بہت عام ہے.چنانچہ بعض لوگ سوال کیا کرتے ہیں کہ تعلیم کے بغیر کوئی ترقی حاصل نہیں ہو سکتی.اس لئے پہلے تعلیم ہونی چاہئے اور پھر تبلیغ کا کام شروع کرنا چاہئے.اس لئے جتنا روپیہ جمع ہو سکے وہ سب تعلیم پر خرچ کرنا چاہئے.اس سوال کا جواب دینے والا یہ تو کہہ نہیں سکتا کہ تعلیم اچھی نہیں اس لئے اس کا انتظام نہیں ہونا چاہئے اس لئے وہ بالعموم اس سوال سے متاثر ہو جاتا ہے.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ ایک وسوسہ ہے کیونکہ تعلیم بطور تزئین کے ہے جو دین کے لئے ایک زائد چیز ہے.بے شک اس

Page 110

۱۰۵ ملائكة الله کا خیال رکھنا ضروری ہے لیکن سب کچھ اسی پر خرچ کر دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ دس آدمیوں کو زندہ رکھنے کے لئے کھانا تیار کرنے کا جو سامان ہو اس سے ایک ہی آدمی کے لئے پلاؤ پکا لیا جائے اور باقی سب کو بھو کا مر جانے دیا جائے.دس آدمیوں کو زندہ رکھنا بہتر ہے بنسبت اس کے کہ ایک کو پر تکلف کھانا کھلا دیا جائے.پس تعلیم پر سارا روپیہ اور ساری محنت خرچ کرنے کی نسبت یہ بہت ضروری ہے کہ لوگوں کو رُوحانی زندگی حاصل کرانے کی کوشش کی جائے.اور اس بڑے کام کو چھوٹے کام کے لئے نہ چھوڑا جائے ورنہ اعلیٰ اور ادنی کام میں مواز نہ نہیں رہے گا.موازنہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت لطیف پیرائے میں اشارہ فرمایا ہے.آپ سے پوچھا گیا کہ حرام اور حلال چیز کا کس طرح پتہ لگے فرمایا: الْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ اپنے دل سے پوچھ لینا چاہئے.اگر ساری دُنیا کے مولوی کہتے رہیں کہ فلاں بات ناجائز ہے لیکن دل فتوی دے کہ جائز ہے تو جائز ہوگی.یہ بات ان امور کے متعلق نہیں جن کے جائز و نا جائز ہونے کا فیصلہ شریعت نے کر دیا ہے بلکہ ان کے متعلق ہے جن کا کرنا بعض لحاظ سے نیکی معلوم ہو اور بعض لحاظ سے بدی.اگر ایسی بات کے کرنے کو دل نہ مانے تو نہ کی جائے.مثلاً ذکر ہے اس کے متعلق اگر کسی مولوی سے پوچھا جائے گا تو وہ کہے گا کہ اچھا ہے.مگر یہ کہ نفل پڑھنے اس کے لئے چھوڑ دئے جائیں.یہ اس کے اپنے دل کی بات ہوگی.اس کا فیصلہ اس کا دل ہی کر سکے گا.یا مثلاً کوئی کہے کیوں جی! کسی کی خاطر داری یا کسی کو تحفہ دینا کیسا ہے؟ ایک عالم یہی جواب دے گا کہ اچھی بات ہے لیکن اگر اس تحفہ کا مطلب وہ اپنے دل میں کسی کو رشوت اور ڈالی رکھ لے تو گو اس کو فتویٰ مل گیا کہ جائز ہے لیکن اس کی جو نیت اس فتویٰ کے حاصل کرنے کے وقت تھی مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۲۲۷

Page 111

1+4 ملائكة الله اس کو اس کا دل ہی جانے گا، اس وقت اسے اپنے دل کی بات کو ہی ماننا چاہئے جو کہ رہا ہوگا کہ یہ نا جائز ہے.فتویٰ کو نہیں ماننا چاہئے.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خواہ کوئی فتویٰ دے دے کہ فلاں بات کر لو لیکن اگر اپنے دل میں اس کا کوئی بد پہلو پیدا ہو تو اسے نہیں کرنا چاہئے اور چھوڑ دینا چاہئے.ملکی اور شیطانی تحریک میں تیسرا فرق یہ ہے کہ ملک کی تحریک میں ترتیب ہوتی ہے وہ درجہ بدرجہ ترقی کرتی ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے بچہ کو ماں پہلے اٹھا کر چلتی ہے.پھر اسے پکڑ کر چلاتی ہے اور اس طرح آہستہ آہستہ بچہ چلنا سیکھ جاتا ہے.لیکن شیطانی تحریک کی یہ مثال ہوگی کہ جس طرح دشمن بچہ کو اٹھا کر پھینک دے.یا پھر ملکی اور شیطانی تحریک کی مثال یہ ہے کہ جو استا دلڑ کے کا خیر خواہ ہوگا وہ تو اسے ا.ب شروع کرائے گا اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کراتا جائے گالیکن اگر دشمن استاد ہوگا تو پہلے ہی ایسا مشکل سبق پڑھائے گا کہ لڑکا اُکتا کر بھاگ جائے گا.تو ملکی تحریک درجہ بدرجہ ہوگی یکدم کسی بات کا بوجھ انسان پر نہیں آ پڑے گا اور کسی امر میں جلدی نہیں کرائی جائے گی.لیکن جب ایسا نہ ہو ، یکلخت کوئی بوجھ پڑتا ہو اور جلدی کی تحریک ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ ملکی نہیں بلکہ شیطانی تحریک ہے.مثلاً شیطان اس طرح تحریک کرے گا کہ آج ہی ولی بن جاؤ اور اس کے لئے سارا دن نماز پڑھو اور تمام سال روزے رکھو لیکن اگر کوئی اس پر عمل کرے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اُکتا کر اور بد دل ہو کر نماز اور روزہ کو بالکل ہی چھوڑ دے گا.یہی وجہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ بعض لوگ ساری رات تہجد پڑھتے رہتے اور دن کو روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے اس کو پسند نہ کیا اور فرمایا یہ

Page 112

1+2 ملائكة الله نیکی نہیں ہے کہ اس طرح تم دوسروں کے حقوق جو تم پر ہیں، مارتے ہو یا نیکی یہی ہے کہ انسان تدریجی کام کرے.پہلے ایک قدم اُٹھائے، پھر دوسرا اور پھر تیسرا، یہ ملکی تحریک کی علامت ہوتی ہے.اور شیطانی تحریک یکدم ایک کام کرانا چاہتی ہے.مثلاً ایک شخص جو پہلے کچھ بھی دین کے لئے چندہ نہیں دیتا اسے تحریک ہو کہ میں اگلے مہینے سارا مال چندہ میں دے دوں گا تو چونکہ یہ اس کی حقیقی خواہش نہ ہوگی اس لئے جب دے دے گا تو پھر اس کو ملال پیدا ہوگا اور جب ملال پیدا ہو گا تو اس پر شیطان کا قبضہ ہو جائے گا جو اسے بالکل گمراہ کر دے گا.پس شیطانی تحریک کی یہ صورت ہوگی کہ وہ مجبلت کی طرف لے جائے گا اور یکدم بہت زیادہ بوجھ رکھ دے گا.پہلے تو یہ تحریک کرے گا کہ آج ہی تو خدا سے مل جا، جب یہ بات حاصل نہ ہوگی تو انسان کے دل میں مایوسی پیدا کر دے گا.کئی لوگ ہوتے ہیں جو ہفتہ بھر نمازیں پڑھ کر کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں تو خدا نہیں ملا.اور بہت ایسے ہوتے ہیں جو چند دن نمازیں پڑھ کر خواہش کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ملیں حالانکہ یہ سب شیطانی وسوسے ہوتے ہیں.جب انسان خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے قابل بن جائے گا تب دیکھ سکے گا.یونہی کس طرح دیکھ لے تو اس قسم کی مجلت شیطان کی طرف سے ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب انسان کو وہ بات حاصل نہیں ہوتی جس کی اسے اُمید ہوتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے اور پھر بالکل چھوڑ چھاڑ کر علیحدہ ہو جاتا ہے.بخاری کتاب التهجد باب ما يكره من ترك قيام الليل لمن كان يقومه

Page 113

ملائكة الله چوتھا فرق یہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسا امرجس میں مشتبہ باتیں بھی ہوں.یعنی جن کے متعلق خیال ہو کہ ممکن ہے اچھی ہوں اور ممکن ہے بری ہوں.اس کے متعلق جب ملائکہ کی طرف سے تحریک ہوگی تو اس طرح ہوگی کہ مشتبہ باتوں کو چھوڑ دیا جائے اور ان کو عمل میں نہ لایا جائے.لیکن شیطانی تحریک اس طرح ہوگی کہ ان کے کرنے میں حرج کیا ہے، کر لی جائیں.اس طرح ان پر وہ عمل کرالیتا ہے اور جب ان پر عمل کرالیتا ہے تو اس کو مقام قرار دے دیتا ہے اور اس سے اگلی باتوں کو حد ٹھہرا دیتا ہے.پھر اس سے آگے چلاتا ہے اور حد پر عمل کرا کر اسے مقام بنا دیتا ہے.اسی طرح آگے ہی آگے چلاتا جاتا ہے اور بڑی بڑی بدیاں کرالیتا ہے.پھر ایک اور بھی فرق ہے.اور وہ یہ کہ ملکی تحریک وہ ہوتی ہے کہ جس میں انسان جب مشغول ہو تو اس میں ترقی دی جاتی ہے.مثلاً نماز میں مشغول ہو تو اور عمدگی سے پڑھنے کی تحریک ہوگی مگر شیطانی تحریک یہ ہوگی کہ جس میں انسان مشغول ہوگا وہ چھڑ اکر دوسری پر عمل کرایا جائے گا.غرض اس سے شیطان کی یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ ایک شخص نیکی کا کام کر رہا ہے یہ تو اس سے چُھڑاؤ.اور جب اس کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرے گا تو پھر و اس کو دیکھا جائے گا.چھٹا فرق یہ ہوتا ہے کہ شیطانی تحریک کبھی اس قسم کی ہوتی ہے کہ انسان پر دوسرے کے عیبوں اور نقصوں کو ظاہر کیا جاتا ہے.مگر ملک کی تحریک والا شخص دوسرے کے متعلق نیک ہی خیال کریگا کیونکہ ملائکہ کی طرف سے حسن ظنی کا ہی خیال ڈالا جاتا ہے مگر شیطانی تحریک میں لوگوں کے عیب ظاہر کئے جاتے ہیں اور اس طرح یہ خیال پیدا کیا جاتا ہے کہ فلاں میں یہ عیب ہے فلاں میں یہ عیب ہے لیکن میں بڑا ولی ہوں عیسائیوں کی طرح کہ وہ

Page 114

1+9 ملائكة الله کہتے ہیں کہ ابراہیم ، موسی، داؤ د غر ضیکہ سب نبی گنہ گار تھے اس لئے مسیح کا درجہ ان سب سے بڑا ہے.مگر یہ ایسی ہی مثال ہے جس طرح کوئی کہے کہ فلاں فلاں جو مُردہ پڑے ہیں میں ان کی نسبت زیادہ طاقتور ہوں.ایسا ہی خیال شیطان پیدا کرتا ہے کہ لوگوں کو حقارت سے انسان کی نظر میں گرا کر اسے یہ خیال پیدا کر دیتا ہے کہ میں بہت بڑا ہوں اور اس طرح عُجب اور تکبر پیدا کر کے اسے ہلاک کر دیتا ہے.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نیکیوں میں موازنہ کا فرق نہیں ہوتا.یعنی کبھی تو یہ ہوتا ہے کہ بڑی نیکی کو چھوٹی نیکی کے لئے قربان کر دیتا ہے مگر کبھی اس طرح ہوتا ہے کہ نیکیاں تو ایک ہی جیسی ہوتی ہیں لیکن وہ ایک ہی کی طرف رکھتا ہے اور دوسری نیکی کو بالکل چھڑ دیتا ہے.مثلاً ایک شخص جو تبلیغ کرتا ہے اسے شیطان تحریک کرے گا کہ چندہ دینے کی تمہیں کیا ضرورت ہے ایک کام جو کرتے ہو.یا جو چندہ دے گا اسے کہے گا تبلیغ کرنا ضروری نہیں چندہ جو دے دیتے ہو.مگر فرشتہ یہی کہتا ہے کہ تبلیغ کرنا بھی نیکی ہے اسے بھی کرو اور چندہ دینا بھی نیکی ہے اسے بھی بجالا ؤ.آٹھویں بات یہ ہوتی ہے جو بڑی خطرناک ہے کہ جب انسان کوئی نیکی کرنے لگتا ہے اور ایسا انسان ادنیٰ درجہ کا ہوتا ہے اعلیٰ درجہ کا نہیں ہوتا تو شیطان اس کے دل میں یہ خیال پیدا کر دیتا ہے کہ لوگ کہیں گے کہ یہ ریاء کے طور پر کرتا ہے اس لئے کرنا ہی نہیں چاہئے.مثلاً ایسا شخص جب مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جانے لگے گا تو شیطان اس کے دل میں ڈال دے گا کہ لوگ تجھے دیکھیں گے اور کہیں گے یہ بھی نمازی ہے اور اس طرح ریاء ہو جائے گا اس لئے مسجد میں جانا ہی نہیں چاہئے.اس طرح شیطان نماز باجماعت سے روک دے گا لیکن ملائکہ کی طرف سے جو تحریک ہوتی ہے اس میں شریعت کے ادب کو

Page 115

ملائكة الله ملحوظ رکھا جاتا ہے.ایسی شیطانی تحریکوں پر مؤمن کو چاہئے کہ اپنے نفس سے کہے کہ چاہے لوگ کچھ کہیں میں تو شریعت کے حکم کو ضرور بجالاؤں گا اور اس قسم کی باتوں کی کوئی پرواہ نہ کرے اور خدا تعالیٰ کا جو حکم ہوا سے بجالائے.ان صورتوں میں یہ بات خوب اچھی طرح یا درکھنی چاہئے کہ مؤمن کا طریق یہی ہے کہ وہ ایسی تمام صورتوں میں یہ احتیاط کر لیا کرے کہ جس نیکی میں دیکھے کہ اس کی توجہ نہیں پیدا ہوتی اس کی وجہ شیطانی تحریک سمجھے اور ایسی بات پر اور زیادہ زور دے، مثلاً چندہ دیتا ہے لیکن تبلیغ نہیں کرتا اور خیال پیدا ہوتا ہے کہ تبلیغ کرنا ضروری نہیں تو تبلیغ پر زیادہ زور دے.جس طرح لڑکے جس مضمون میں کمزور ہوتے ہیں اسی پر زیادہ زور دیتے ہیں.اسی طرح تم بھی جس نیکی میں کمزوری پاؤ اس پر زیادہ زور دو اور جو کی اس میں ہواس کو پورا کرو.اب میں یہ بتا تا ہوں کہ تحریک شیطانی سے بچنے کا کیا طریق ہے.جب شیطان کسی نیکی کی تحریک کرے اور غرض اس کی یہ ہو کہ کسی بڑی نیکی کو چھڑا کر بدی کرائے تو ایسے موقع پر موازنہ کر لینا چاہئے اور جس نیکی سے شیطان باز رکھنا چاہے وہ بھی کر لی جائے اور جو نیکی کرائے وہ بھی کر لینی چاہئے.مثلاً ذکر کرنے میں انسان کمزور ہے اس کے متعلق شیطان نے تحریک کی تو یہ بھی کرے اور ساتھ ہی فرائض میں بھی کمی نہ آنے دے ان کو بھی پورا کرے اس طرح شیطان اس سے مایوس ہو جائے گا اور پھر اس قسم کی تحریک کرنے کی جرات نہیں کرے گا.حضرت مسیح موعود سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت معاویہ کی صبح کے وقت آنکھ نہ کھلی اور جب کھلی تو دیکھا کہ نماز کا وقت گزر گیا ہے اس پر وہ سارا دن روتے رہے.

Page 116

ملائكة الله دوسرے دن انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی آیا اور نماز کے لئے اُٹھاتا ہے.انہوں نے پوچھا تو کون ہے.اس نے کہا میں شیطان ہوں جو تمہیں نماز کے لئے اُٹھانے آیا ہوں.انہوں نے کہا تجھے نماز کے لئے اُٹھانے سے کیا تعلق؟ یہ بات کیا ہے؟ اس نے کہا کل جو میں نے تمہیں سوتے رہنے کی تحریک کی اور تم سوتے رہے اور نماز نہ پڑھ سکے اس پر تم سارا دن روتے رہے خدا نے کہا اسے نماز باجماعت پڑھنے سے کئی گنا بڑھ کر ثواب دے دو.مجھے اس بات کا صدمہ ہوا کہ نماز سے محروم رکھنے پر تمہیں اور زیادہ ثواب مل گیا.آج میں اس لئے جگانے آیا ہوں کہ آج بھی کہیں تم زیادہ ثواب نہ حاصل کر لو.تو شیطان تب پیچھا چھوڑتا ہے جب کہ انسان اس کی بات کا توڑ کرتا رہے.اس سے وہ مایوس ہو جاتا ہے اور چلا جاتا ہے.اور یہ بات اسلام سے ثابت ہے کہ شیطان مایوس ہو جاتا ہے.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ شیطان کی تحریک کو انسان نیکی کے رنگ میں استعمال کر سکتا ہے اور وہ نیکی کے رنگ میں تبدیل ہو جاتی ہے.یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ شیطان کے دو قسم کے اثر ہوتے ہیں.ایک عام اثرات جیسے بدخیال پیدا کرنا جن کا اثر دوسروں پر بھی پڑتا ہے.ایسے خیالات کے اثر ہم میں سے ہر شخص پر حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پڑیں گے.یہ اور بات ہے کہ آگے کوئی شاید کسی کے دل میں یہ شبہ گزرے کہ ملائکہ تو خدا تعالیٰ سے فیضان حاصل کر کے انسان کو پہنچاتے ہیں.شیطان کس سے فیضان حاصل کرتا ہے اور پھر اس کا اثر لوگوں پر ڈالتا ہے.سو اس کا جواب یہ ہے کہ دوسروں کو دینے والے کے لئے ذخیرہ اور خزانہ کی ضرورت ہوتی ہے.چھینے والے کو کسی ذخیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی.شیطان کا کام چونکہ کس کو کچھ دینا نہیں بلکہ چھینا ہے اس لئے اسے ذخیرہ اور خزانہ کی بھی ضرورت نہیں ہے اور نہ وہ کسی سے فیضان حاصل کرتا ہے.

Page 117

۱۱۲ ملائكة الله انہیں قبول کرے یا نہ کرے لیکن پڑیں گے ضرور.دوسرے خاص اثرات ہوتے ہیں جو انہی لوگوں پر پڑتے ہیں جو شیطان سے محفوظ نہیں ہوتے یا اس کے زیر اثر ہو چکے ہوتے ہیں.ان دونوں قسم کے اثرات کو جو شخص قبول کر لیتا ہے وہ محفوظ نہیں ہوتا اور جو قبول نہیں کرتا وہ ان سے فائدہ اُٹھا لیتا ہے.شیطان بداثر ڈالتا ہے لیکن وہ اسے نیک بنالیتا ہے اور بجائے شیطان سے بدی کی تعلیم حاصل کرنے کے اس سے نیک کام لے لیتا ہے.اس کا طریق یہ ہے کہ شیطان کا حملہ جذبات کے ذریعہ ہوتا ہے.شیطان ان کو ابھار دیتا ہے اور وہ بدی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.لیکن اگر انسان ارادہ کی قوت کو بڑھالے تو جتنی قوت ارادی بڑھ جائے گی اتنا ہی زیادہ وہ نیکی میں بڑھ جائے گا.جب قوتِ ارادی کم ہوتب ہی انسان پر شیطانی تحریک کا اثر ہوتا ہے.مثلاً ناجائز طور پر شہوت پیدا ہوتی ہے یا مال کی محبت پیدا ہوتی ہے.اب اگر قوت ارادی کم ہوگی تو ان جذبات کو انسان غلط طور پر استعمال کرے گا.لیکن اگر قوت ارادی زیادہ ہوگی تو ان کو اپنی جگہ اور محل پر عمدہ طریق سے استعمال کرے گا.تو قوت ارادی کے بڑھانے سے انسان شیطان کی بری تحریکوں سے بھی فائدہ اُٹھا سکتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں ایسا ہی کرتا ہوں.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا تم میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کے لئے شیطان مقرر نہیں.صحابہ نے پوچھا کیا آپ بھی ؟ آپ تو محفوظ ہوں گے؟ فرمایا ہاں میں بھی ایسا ہی ہوں مگر مجھے خدا نے طاقت دی ہے اور میں شیطان پر غالب آ گیا ہوں.جب مجھے وہ کوئی تعلیم دیتا ہے تو نیکی کی ہی دیتا ہے برائی کی نہیں دیتا.(مسلم.كتاب صفة القيامة و الجنة والنار باب تحريش الشيطان و بعثه سراياه

Page 118

ملائكة الله لفتنة الناس و ان مع كل انسان قريباً ) اس حدیث کے یہ معنی نہیں کہ ایک ایک شیطان ہر انسان کے لئے مقرر ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شیطان نیکی کی تحریک کرتا تھا.اگر وہ الگ وجود تھا اور اس نے بدی کی تحریک چھوڑ کر نیکی کی تحریک شروع کر دی تھی تو پھر وہ شیطان کس طرح رہا.پھر تو وہ فرشتہ ہو گیا.اگر کہو کہ وہ پہلے شیطان تھا لیکن جب نیکی کی تحریک کرنے لگا تو فرشتہ ہو گیا تو یہ بھی درست نہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نیکی کی تحریک کرنے کا ذکر کرتے وقت بھی اسے شیطان ہی کہا ہے.اگر اس کا یہ جواب دیا جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام شیطان اس کی پہلی حالت کی وجہ سے رکھا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس نے شیطنت کو چھوڑ دیا تھا تو یہ عظیم الشان اثر تو اس کے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہوا.چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں کہ سلطینی.اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر تسلط دے دیا.پس اس کا اسلام تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے تھا.پھر اس کو یہ درجہ کہاں سے ملا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں نیک تحریکیں کرنے لگا.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ مجھے نیک تحریکیں کرتا ہے.پس یہ معنے اس کے بالبداہت غلط ہیں.اور اس کے اور ہی معنے ہیں جو یہ ہیں کہ وہ عام اثرات شیطان کے جو ہر ایک انسان پر پڑ رہے ہیں اور جن سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا ان کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب شیطان کا کوئی ایسا اثر مجھ پر آ کر پڑتا ہے تو وہ نیکی ہو جاتی ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسے گندہ پانی جب فلٹر میں سے گزرتا ہے تو صاف ہو جاتا ہے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر جو بُرا اثر پڑتا وہ آپ کے ذریعہ نیک ہو جاتا.یا اس کی مثال گنے پہلینے والے بیلنے کی ہے کہ جب اس میں گنا

Page 119

۱۱۴ ملائكة الله رکھا جاتا ہے تو رس ایک طرف نکل آتی ہے اور چھلکا دوسری طرف گر پڑتا ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب کوئی ایسی بات پڑتی جو پاک نہ ہوتی اس کی ناپا کی علیحدہ ہو جاتی اور باقی پاک رہ جاتی اور اسی کا نام آپ نے یہ رکھا ہے کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے.غرض شیطانی تحریکوں کو بھی نیک استعمال کیا جاسکتا ہے.اب میں آخری بات بتاتا ہوں اور وہ یہ کہ فرشتہ کی تحریک کو بڑھایا کس طرح جا سکتا ہے.اس کے لئے دیکھنا چاہئے کہ قانونِ قدرت میں ہر ایک چیز کے بڑھانے کا اصل قاعدہ کیا ہے؟ ادنی تدبر سے معلوم ہوگا کہ وہ قاعدہ یہی ہے کہ اسے عمدگی سے استعمال کیا جائے.دیکھو جولوگ ابتداء سے ذرا ذرا سنکھیا کھانا شروع کرتے ہیں.آخر تولہ تولہ کھا کر ہضم کر لیتے ہیں.کوئی دوسرا اگر تھوڑا سا بھی سنکھیا کھالے تو اس کی جان نکل جائے.مگر وہ چونکہ بڑھاتے بڑھاتے اپنی عادت بنا لیتے ہیں اس لئے انہیں کوئی نقصان نہیں ہوتا.اسی طرح جسم کی طاقت ہے.جو لوگ ہاتھوں سے زور کا کام کرتے ہیں ان کے ہاتھ موٹے اور مضبوط ہو جاتے ہیں.جو لوگ زیادہ کھانے کی عادت ڈالتے ہیں وہ چار چار پانچ پانچ آدمیوں کی خوراک اکیلے کھا جاتے ہیں.تو جتنا کسی چیز کا زیادہ استعمال کیا جائے اتنی ہی وہ زیادہ بڑھتی ہے، یہی حال فرشتے کی تحریک کا ہوتا ہے.جتنی اس کی تحریک انسان زیادہ قبول کرتا جائے اور اس کو استعمال میں لائے اتنی ہی زیادہ فرشتے کی تحریک زیادہ جذب کی جاسکتی ہے.یہاں ایک سوال ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ جسمانی امور میں تو یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی آدمی زیادہ کھائے گا تو چار پانچ یا زیادہ سے زیادہ آٹھ دس آدمیوں کی خوراک کھالے گا ہو یا ہزار آدمی کی خوراک نہیں کھالے گا.کیا اسی طرح فرشتوں کی تحریک کے متعلق بھی کوئی حد مقرر ہے کہ اس سے زیادہ قبول نہیں کر سکتا.

Page 120

۱۱۵ ملائكة الله یا درکھنا چاہئے کہ یہ مقابلہ مسیح نہیں ہے کیونکہ انسان کا جسم چند روز کے لئے ہے اور جسم اور روح کا مقابلہ دلالت بالا ولی کے طور پر ہے نہ کہ کلی طور پر.جسم چونکہ تھوڑے عرصہ کے لئے ہے اس لئے اس کی قوتیں محدود ہیں.مگر روح چونکہ ہمیشہ کے لئے ہے.اس لئے اس کی طاقتیں بھی غیر محدود ہیں.اور روح کو خدا تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ جتنا کوئی اسے بڑھائے بڑھتا جاتا ہے اور جتنی انسان ترقی کرنا چاہے اتنی ہی کر سکتا ہے.پس روحانی طاقت نے چونکہ ہمیشہ کام آنا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کے بڑھانے کے غیر محدود ذرائع رکھے ہیں.اور جسمانی طاقت چونکہ ختم ہونے والی ہے کیونکہ جسم کے ختم ہونے کے ساتھ ہی اس کی طاقتیں بھی ختم ہو جاتی ہیں اس لئے ان کے بڑھانے کے محدود ذرائع رکھے گئے ہیں.اس کا ثبوت ہم خدا تعالیٰ کی پیدائش سے دیتے ہیں.یہ ثابت شدہ بات ہے کہ تمام جسمانی طاقتیں ایسی ہیں جو محدود ہیں.ایک حد تک بڑھ سکتی ہیں اور اس سے آگے نہیں جاسکتیں.مثلاً معدہ ہے یہ ایک حد تک بڑھے گا اس سے آگے نہیں.اسی طرح سینہ ہے یہ بھی ایک حد تک بڑھے گا.اسی طرح سر ہے اس کے بڑھنے کی بھی ایک حد ہے.یہ نہیں کہ بڑھتے بڑھتے مٹکے کے برابر ہو جائے یا قد ہے چھ سات یا زیادہ سے زیادہ نوفٹ ہو جائے گا مگر ہیں پچیس فٹ تک نہیں جا سکے گا.تو جس قدر جسمانی چیزیں ہیں ان کی حد مقرر ہے.لیکن وہ قو تیں جو روحانیت سے تعلق رکھتی ہیں وہ کبھی ختم نہیں ہوتیں.مثلاً دماغ میں باتوں کو محفوظ رکھنے کے ذرات ہیں ان کو جتنا بڑھاؤ بڑھتے جاتے ہیں اور خواہ کوئی کتنا بڑا عالم ہو جائے اس کے یہ ذرات ختم نہیں ہو جائیں گے اور یہ طاقت بڑھتی جائے گی کیونکہ یہ روحانیت سے تعلق رکھتی ہے.اور جسم اور روح کا واسطہ دماغ ہی ہے.مگر معدہ وغیرہ کے

Page 121

ملائكة الله لئے یہ بات نہیں ہے.تو فرشتوں کی تحریک سے انسان جتنا زیادہ کام لیگا طاقت اتنی ہی زیادہ بڑھتی جائے گی.دوسری بات جو قرآن سے معلوم ہوتی ہے وہ ایک عام قاعدہ ہے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ”کند ہم جنس یا ہم جنس پرواز جو ہم جنس ہو جاتے ہیں ان کو آپس میں تعلق پیدا ہو جاتا ہے.اس قاعدہ کے ماتحت جو لوگ ملائکہ کی طرح ہو جاتے ہیں ان کے لئے ملائکہ کے فیوض بھی بڑھتے جاتے ہیں.ملائکہ کی صفت خدا تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ لَا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (التحریم : ۷ ) وہ خدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے.جو حکم بھی انہیں ملتا ہے اسے بجالاتے ہیں.جب کوئی شخص اسی صفت کو اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے تو اس کے ساتھ ملائکہ کا تعلق ہو جاتا ہے.کوئی کہے یہ تو بڑے لوگوں کا کام ہے چھوٹے درجہ کے لوگ کیا کریں لیکن ایسے لوگوں کے لئے بھی کچھ ذرائع ہیں.ان ذرائع کو بیان کرتے ہوئے میں سب سے پہلے اس ذریعہ کو لیتا ہوں جو حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے.پہلا ذریعہ جو حضرت صاحب نے فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ جس انسان پر جبرائیل نازل ہو اس کے پاس بیٹھنے سے یہ بات حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ اس کی آنکھوں سے،اس کے ہاتھوں سے، اس کے ناک سے، اس کے منہ سے ، غرض کہ اس کے جسم کے ہر ذرے سے ایسی نورانی شعاعیں نکلتی ہیں جو قلوب پر اثر کرتی ہیں اور اس طرح ملک انسان پر بالواسطہ نازل ہوتا رہتا ہے.قرآن کریم سے اس کے متعلق اس طرح استدلال ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبۃ: ۱۱۹) صادقوں کے ساتھ مل جاؤ.اس کا یہی مطلب ہے کہ صادقوں سے ایسا تعلق پیدا کرو کہ جبرائیل کا جو اثر ان پر ہوتا ہے

Page 122

112 ملائكة الله اس سے تمہیں بھی سہار امل جائے.ایک گرے ہوئے کے اُٹھانے کا کیا ذریعہ ہے یہی کہ وہ دوسرے کو پکڑ کر اس کا سہارا لے کر کھڑا ہو جائے.ایسا ہی جبرائیل جس پر نازل ہوتا ہواس کا سہارا لے کر ایسے لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں.دوسرا ذریعہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے اور یہ بھی قرآن سے معلوم ہوتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّ اللَّهَ وَمَلَيْكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ - يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب:۵۷) اللہ اور اس کے ملائکہ اس نبی پر ہر وقت برکتیں بھیج رہے ہیں اور جب وہ برکتیں بھیجتے ہیں تو مؤمنو! تمہارا بھی یہ کام ہے کہ تم بھی برکتیں بھیجو.اس کے متعلق سوال ہو سکتا ہے کہ یہ بات بیشک مانی کہ اس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا حکم ہے مگر یہ کس طرح معلوم ہوا ہے کہ اس کے نتیجہ میں ملائکہ سے تعلق ہو جاتا ہے.اس کا ثبوت قرآن سے ہی ملتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے : يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا O وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا هُوَ الَّذِي يُصَلِّى عَلَيْكُمْ وَمَلْئِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ (الاحزاب : ۴۲.۴۴) اے مومنو! اللہ کا کثرت سے ذکر کرو.اور صبح شام تسبیح کرو.وہ خدا ہی ہے اور اس کے ملائکہ جو تم پر درود بھیجتے ہیں تا کہ تم کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے جاویں.ایک جگہ تو حکم دیا ہے کہ چونکہ خدا اور ملائکہ اس نبی پر درود بھیجتے ہیں اس لئے تم بھی بھیجو.اور دوسری جگہ یہ فرمایا کہ خدا اور ملائکہ تم پر درود بھیجتے ہیں.پہلی آیت کے مطابق یہاں بھی یہ چاہئے تھا کہ چونکہ خدا اور ملائکہ تم پر درود بھیجتے ہیں اس لئے تم بھی ایک دوسرے پر درود بھیجو

Page 123

۱۱۸ ملائكة الله لیکن یہ نہیں کہا گیا.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ پہلی بات مستقل حکم کا رنگ رکھتی تھی.یعنی چونکہ خدا اور ملائکہ اس رسول پر درود بھیجتے ہیں اس لئے تم بھی بھیجو.اور دوسری آیت میں اس فعل کی جزاء بتائی کہ چونکہ تم نے اس حکم کی تعمیل کی اس لئے اس کی جزاء میں خدا اور رسول ان پر بھیجنے لگ گئے.گویا وہاں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ کی وجہ سے درود کا حکم دیا گیا تھا اور یہاں اس کی جزاء کو بیان کیا گیا ہے اور چونکہ جزاء کے بدلے میں پھر اور حکم نہیں دیا جاتا اس لئے آگے یہ نہیں فرمایا کہ تم دوسرے بندوں پر بھی درود بھیجو مثلاً جب ہم روپیہ دے کر کپڑا خریدیں تو کپڑا دینے والا یہ نہیں کہ سکتا کہ میں نے جو کپڑا دیا ہے اس کا تم نے کوئی بدلہ نہیں دیا.تو پہلی آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے، چونکہ خدا اور ملائکہ اس رسول پر درود بھیجتے ہیں اس لئے تم بھی بھیجو.مگر مؤمنوں کے لئے یہی فرمایا کہ ہم اور ملائکہ ان پر درود بھیجتے ہیں.اس کے ساتھ یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی اپنے بھائیوں پر درود بھیجو.غرض اس آیت سے ثابت ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے ملائکہ کیسا تھ تعلق ہو جاتا ہے.پس جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں گے ان کی ملائکہ سے ایک نسبت ہو جائے گی اور اس طرح ان سے تعلق ہے ہو جائے گا.یہی وجہ ہے کہ صلحاء نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کو بڑا اعلیٰ عمل قرار دیا ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ دُعا جس میں خدا کی حمد اور مجھ پر درود نہ ہو وہ دُعا قبول نہیں ہوگی (سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب الدعاء) اس کا یہی مطلب ہے کہ جس دُعا میں خدا تعالیٰ کی حمد اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ہوگا وہ زیادہ قبول ہوگی.یا درکھنا چاہئے کہ دنیا میں جو چیزیں ایک طرح کی ہوتی ہیں ان کا آپس میں بہت

Page 124

119 ملائكة الله تعلق ہوتا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.قُل لَّوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلْئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّيْنَ لنَزَلْنَا عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا (بنی اسرائیل: ۹۶) اگر دنیا میں ملائکہ ہوتے تو ہم بھی فرشتے رسول بنا کر نازل کرتے.گویا خدا تعالیٰ فرماتا ہے اگر لوگ ترقی کرتے کرتے ملائکہ ہو جاتے تو ہم ان پر ملائکہ ہی نازل کرتے.یعنی ملائکہ جیسے ہونے سے وہ نازل ہوتے ہیں.اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ انسان ملائکہ جیسا کس طرح ہوتا ہے؟ اول طریق ملائکہ سے مشابہت حاصل کرنے کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے نبیوں کا پیغام دنیا کو پہنچایا جائے.اللہ تعالیٰ ملائکہ سے فرماتا ہے.فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ ( الحجر : ۳۰) یعنی اے فرشتو! جب میں انسان کو پیدا کروں اور پھر وہ اپنے کمال کو پہنچ جائے اور میں اس پر اپنا کلام نازل کروں تو تم اس کے کام میں ہر طرح مدد کرو اور اس کی پوری طرح فرمانبرداری کرو.گویا نبی کے ساتھ ہونا اور اس کے مشن کی تبلیغ کرنا ملائکہ کا کام ہے.اب جو شخص نبی کے ساتھ ہو جائے گا اور تبلیغ کرے گا وہ چونکہ ملائکہ جیسا کام کرے گا اس لئے انہی کی طرح کا ہو جائے گا اور جب وہ ایسا ہو جائے گا تو ملائکہ اس سے اُنس کرنے لگیں گے اور اس سے تعلق پیدا کر لیں گے.دوسرا طریق جو ملائکہ سے مشابہت پیدا کرنے سے ہی تعلق رکھتا ہے یہ ہے کہ توحید کی اشاعت کی جائے.کیونکہ خدا تعالیٰ ملائکہ کے متعلق فرماتا ہے کہ شَهِدَ اللهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَئِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الحكيم ( ال عمران:۱۹ ) اللہ کی توحید کی خدا بھی گواہی دیتا ہے اور ملائکہ بھی.اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی توحید کی اشاعت کرنا بھی ملائکہ کا ایک کام ہے اور جو اس کام کو کرتے

Page 125

۱۲۰ ملائكة الله ہیں وہ بھی ان سے برکت حاصل کر سکتے ہیں.اور ہم تو یہاں تک دیکھتے ہیں کہ جولوگ جھوٹے طور پر خدا کی وحدانیت کی اشاعت کرتے ہیں وہ بھی فائدہ اُٹھا لیتے ہیں.ہندوستان میں رام موہن رائے اور پنڈت دیا نند کی قوموں کو جتنی ترقی ہوئی اتنی دوسرے ہندوؤں کو نہیں ہوئی.وجہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کے مقابلہ میں خدا کی توحید کے قائل ہیں اور اس کی اشاعت کرتے ہیں.پس توحید الہی کے متعلق غیرت رکھنے والا انسان بہت بڑی برکات ملائکہ سے پالیتا ہے.تیسرا طریق: ملائکہ سے مشابہت حاصل کرنے کی تیسری تدبیر یہ ہے کہ انسان کے قلب میں یہ تحریک ہو کہ عفو اور درگز رکو قائم کرے اور بدظنی کو ترک کرے.جتنی یہ عادت زیادہ ہوگی اتنی ہی ملائکہ کی تحریک زیادہ ہوگی.دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنا اور عفو سے کام لینا ملائکہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا (المؤمن:۸) ملائکہ مؤمنوں کے گناہوں کے لئے معافی مانگتے ہیں.جو انسان اپنے اندر اس صفت کو زیادہ پیدا کر لیتا ہے اس کا تعلق ملائکہ سے ہو جاتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں.چنانچہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے بھائی کے لئے دعا کرتا ہے ملائکہ اس کے لئے دعا کرتے ہیں پس لوگوں کے گناہوں کو معاف کرنا اور غیظ وغضب کا پتلا نہ بننا فرشتوں سے تعلق پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہے.چوکھا طریق جو ملائکہ سے مشابہت پیدا کرنے کی چوتھی تدبیر ہے یہ ہے که انسان تسبیح و تحمید کرے.خدا تعالیٰ نے ملائکہ کو یہ کام بتایا ہے کہ وَتَرَى الْمَلِئِكَةٌ مسلم - كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار باب فضل الدعاء بظهر الغيب

Page 126

۱۲۱ ملائكة الله حَافِينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِم (الزمر :۷۶ ) کہ وہ خدا کی تسبیح اور حمد کرتے ہیں.پس تسبیح و تحمید کرنے والے کا بھی ملائکہ سے خاص تعلق پیدا ہو جاتا ہے.اس کا ثبوت بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے ملتا ہے.فرماتے ہیں جہاں کوئی خدا کا ذکر کر رہا ہوتا ہے وہاں ملائکہ نازل ہوتے ہیں.اس کے متعلق یہ بھی یاد رکھو کہ بالعموم میں قرآن سے استدلال کرتا ہوں اور وہی بات حدیث میں مل جاتی ہے.جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرآن سے اخذ کر کے یہ باتیں فرماتے تھے.ہاں آپ کا علم چونکہ بہت وسیع اور نہایت کامل تھا اس لئے آپ زیادہ اعلیٰ طور پر ان باتوں کا اخراج کر لیتے تھے.يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِرم سے میں نے تسبیح کر ناملائکہ کا کام بتا یا تھا اور حدیث سے یہ معلوم ہو گیا کہ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں انہیں ملائکہ سے مشابہت پیدا ہو جاتی ہے اور ان سے تعلق ہو جاتا ہے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جہاں خدا کا ذکر ہو رہا ہو وہاں فرشتے نازل ہوتے ہیں یعنی اس جگہ اپنا فیضان نازل کرتے ہیں.چند سال ہوئے میں نے ذکر الہی پر تقریر کی تھی اس کے متعلق ایک صاحب نے جو غیر احمدی تھے اور ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے بتایا کہ میں فرشتوں کے فیضان کی زندہ شہادت ہوں.ان دنوں میری آنکھیں بیمار تھیں اور میں اس دن بڑی مشکل سے دوسروں کے ذریعہ جلسہ گاہ میں گیا تھا لیکن تقریر سننے کے بعد میری آنکھیں اچھی ہوگئیں اور میں خود واپس آ گیا.مسلم کتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار باب فضل مجالس الذكر

Page 127

۱۲۲ ملائكة الله پھر ایک تو ذکر ستر ی ہوتا ہے کہ انسان الگ بیٹھ کر خدا تعالیٰ کی تسبیح کرے اور ایک جہری ذکر ہوتا ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کو جا کر سنائے اور ان کو تبلیغ کرے.یہ دونوں ذرائع ایسے ہیں جن کو اختیار کر کے انسان ملائکہ سے تعلق پیدا کر سکتا ہے.پانچواں طریق یہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کی جائے اس سے بھی ملائکہ سے تعلق پیدا ہوتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جہاں قرآن پڑھا جائے وہاں ملائکہ نازل ہوتے ہیں پس یہ بات یاد رکھو کہ جو کام بھی ملک کرتا ہے جب وہی کام انسان کرے گا تو اس سے ملائکہ کا تعلق پیدا ہو جائے گا.چھٹا طریق.جو کتا ہیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کے پڑھنے سے بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں.چنانچہ حضرت صاحب کی کتا ہیں جو شخص پڑھے گا اس پر فرشتے نازل ہوں گے.یہ ایک خاص نکتہ ہے کہ کیوں حضرت صاحب کی کتابیں پڑھتے ہوئے نکات اور معارف کھلتے ہیں.اور جب پڑھو جب ہی خاص نکات اور برکات کا نزول ہوتا ہے.براہین احمدیہ خاص فیضان الہی کے ماتحت لکھی گئی ہے.اس کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ جب کبھی میں اس کو لے کر پڑھنے کے لئے بیٹھا ہوں.دس صفحے بھی نہیں پڑھ سکا کیونکہ اس قدر نئی نئی باتیں اور معرفت کے نکتے کھلنے شروع ہو جاتے ہیں کہ دماغ انہیں میں مشغول ہو جاتا ہے.تو حضرت صاحب کی کتا میں بھی خاص فیضان رکھتی ہیں.ان کا پڑھنا بھی بخاری کتاب فضائل القرآن باب نزول السكينة والملائكة عند قراءة القرآن

Page 128

۱۲۳ ملائكة الله ملائکہ سے فیضان حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، اور انکے ذریعہ نئے نئے علوم کھلتے ہیں.دوسری اگر کوئی کتاب پڑھو تو اتنا ہی مضمون سمجھ میں آئے گا جتنا الفاظ میں بیان کیا گیا ہو گا مگر حضرت صاحب کی کتابیں پڑھنے سے بہت زیادہ مضمون گھلتا ہے بشرطیکہ خاص شرائط کے ماتحت پڑھی جائیں.اس سے بھی بڑھ کر قرآن کریم کے پڑھنے سے معارف کھلتے ہیں اگر چہ ان شرائط کا بتانا جن کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھنی چاہئیں اس مضمون سے بے تعلق ہے جو میں بیان کر رہا ہوں مگر پھر بھی ایک شرط کا ذکر کر دیتا ہوں.اسی وقت دوسری چیز داخل ہو سکتی ہے جبکہ پہلی نکال دی جائے.مثلاً ایک جگہ لوگ بیٹھے ہوں تو جب تک وہ نہ نکلیں تب تک اور آدمی نہیں آ سکتے.اس کے سوا نہیں.پس حضرت صاحب کی کوئی کتاب پڑھنے سے پہلے چاہئے کہ اپنے اندر سے سب خیالات نکال دیئے جائیں اور اپنے دماغ کو بالکل خالی کر کے پھر ان کو پڑھا جائے.اگر کوئی اس طرح ان کو پڑھے گا تو بہت زیادہ اور صحیح علم حاصل ہو گا لیکن اگر اپنے کسی عقیدہ کے ماتحت رکھ کر ان کو پڑھے گا تو یہ نتیجہ نہ نکلے گا.پس حضرت صاحب کی کتاب میں بالکل خالی الذہن ہوکر پڑھنی چاہئیں.اگر کوئی اس طرح کرے گا تو اسے بہت سی برکات نمایاں طور پر نظر آئیں گے.ساتواں طریق ملائکہ سے فیضان حاصل کرنے کا یہ ہے کہ جس مقام پر ملائکہ کا خاص نزول ہوا ہو انسان وہاں جائے.اس سے پہلے میں بتا چکا ہوں کہ جس انسان پر جبرائیل اور ملائکہ نازل ہوں اس کے پاس بیٹھنے سے فیضان حاصل ہوتا ہے.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس جگہ ملائکہ خاص طور پر نازل ہوں وہاں جانے سے بھی ملائکہ کا خاص

Page 129

۱۲۴ ملائكة الله نزول ہوتا ہے.چنانچہ اس قاعدہ کے ماتحت نماز جمعہ میں جانا بہت مفید ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خطبہ شروع ہونے سے پہلے جو لوگ مسجد میں جاتے ہیں ملائکہ ان کے نام لکھتے ہیں اور جب خطبہ شروع ہو جا تا ہے تو پھر نہیں لکھتے.(مسنداحمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۲۳۹) تو نماز جمعہ میں با قاعدہ اور بار بار جانے سے ملائکہ سے تعلق اور مؤانست پیدا ہو جاتی ہے اور ان سے فیوض حاصل ہو سکتے ہیں.آٹھواں طریق ملائکہ سے فیوض حاصل کرنے کا یہ ہے کہ خلیفہ کے ساتھ تعلق ہو.یہ بھی قرآن سے ثابت ہے.جیسا کہ آتا ہے.وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةً مُلْكِةٍ آنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِيْنَةٌ مِنْ رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ الُ مُوسَى وَالُ هَرُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلئِكَةُ (البقرۃ:۲۴۹) کہ ایک زمانہ میں ایک نبی سے لوگوں نے کہا کہ ہمارے لئے اپنا ایسا جانشین مقرر کر دیجئے جس سے ہم دنیاوی معاملات میں مدد حاصل کریں لیکن جب ان کے لئے ایک شخص کو جانشین مقرر کیا گیا تو انہوں نے کہ دیا، اس میں وہ کون سی بات ہے جو ہمارے اندر نہیں ہے جیسا کہ اب پیغامی کہتے ہیں.نبی نے کہا.آؤ بتا ئیں اس میں کون سی بات ہے جو تم میں نہیں.اور وہ یہ کہ جو لوگ اس سے تعلق رکھیں گے ان کو فرشتے تسکین دیں گے.اس سے ظاہر ہے کہ خلافت کیساتھ وابستگی بھی ملائکہ سے تعلق پیدا کراتی ہے کیونکہ بتایا گیا ہے کہ ان کے دل فرشتے اُٹھائے ہوئے ہوں گے.تابوت کے معنے دل اور سینہ کے ہیں.فرمایا خلافت سے تعلق رکھنے والوں کی یہ علامت ہوگی کہ ان کو تسلی حاصل ہوگی اور پہلے صلحاء اور انبیاء کے علم ان پر ملائکہ نازل کریں گے.پس ملائکہ کا نزول خلافت سے وابستگی پر بھی ہوتا ہے.ایک سوال کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر رسول کے ساتھ ہر وقت جبرئیل ہوتا ہے تو

Page 130

۱۲۵ ملائكة الله پھر وہ کوئی غلطی کیوں کرتے ہیں؟ اس کا جواب حضرت صاحب نے دیا ہے کہ جان کر نبی کی آنکھ بعض اوقات بند رکھی جاتی ہے اور اس میں بڑی بڑی حکمتیں ہوتی ہیں.یہ وہ ذرائع ہیں جن سے ملائکہ کے ساتھ تعلق بڑھتا ہے اور بعض ایسی باتیں ہیں جن کی وجہ سے تعلق کم بھی ہو جاتا ہے.مثلاً وہ امور جو ان امور کے مخالف ہوں جو اوپر بیان کئے گئے ہیں.یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ ظاہری طہارت کا بھی فرشتوں کے تعلق سے بڑا تعلق ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی انسان اس حالت میں سوتا ہے کہ اسے غلاظت لگی ہوئی ہے اور شیطان اسے چھیڑے تو وہ اپنے آپ کو ملامت کرے.پھر فرمایا فرشتے بھی ان چیزوں سے نفرت رکھتے ہیں جن سے انسان نفرت کرتا ہے.پھر فرمایا کتوں سے کھیلنا بھی فرشتوں کی رکاوٹ کا باعث ہوتا ہے اور تصویر کے متعلق فرمایا کہ جو لوگ اپنے گھروں میں تصویریں لگاتے ہیں ان کے گھروں میں فرشتے داخل نہیں ہوتے پھر بد بودار چیزوں مثلاً پیاز وغیرہ کھانا یا کھانا کھانے کے بعد منہ صاف نہ کرنا اور کھانے کے ریزوں کا منہ میں سڑ جانا اس قسم کی غلاظتوں میں ملوث ہونے والوں کے ساتھ بھی فرشتے تعلق نہیں رکھتے.اسی ذیل میں حقہ پینے والے بھی آگئے.حقہ پینے والے کو بھی صحیح الہام ہونا ناممکن ہے.آخر میں میری یہ دُعا ہے کہ خدا تعالیٰ ہم سب کو ملائکہ کے ذریعہ مدد دے اور اس میں کامیاب کرے جس لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں اور اُس کی طرف سے جو تعلیم آئی ہے اس کو اپنے نفس پر قائم کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق دے.ہماری تمام غلطیاں اور کمزوریاں معاف کرے.ہمیں نیکی اور تقویٰ کی راہوں پر چلائے.ہر میدان میں ہمیں سنن ابی داود کتاب الطهارة باب الجنب يؤخر الغسل.مؤطا امام مالک صفحہ ۷۲۶

Page 131

ملائكة الله ۱۲۶ غلبہ دے.ہر جگہ اور ہر موقع پر ہماری نصرت اور تائید فرمائے اور ہر مقام پر ہمارے دشمنوں کو ذلیل اور نا کام کرے اور ہمیں دینی اور دنیوی آفتوں سے بچائے.آمین.****

Page 131