Maktubat-e-Ahmad Volume 5

Maktubat-e-Ahmad Volume 5

مکتوبات احمد (جلد پنجم)

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی میں مختلف احباب کو جو خطوط تحریر فرمائے ان کو افادہ عام کے لئے بعد میں کتابی شکل دی گئی ۔ ان مکتوبات میں جو بظاہر متفرق موضوعات پر مختلف احباب کو لکھے گئے یا ان کے خط کے جواب میں بھیجے گئے، ان میں قارئین کے لئے بہت زیادہ علمی و روحانی تسکین کے سامان موجودہیں۔ موجودہ کمپیوٹرائزڈایڈیشن میں مکتوب الیہ کے اعتبار سے مکتوبات کی جلدیں مرتب کی گئی ہیں جن سے مطالعہ میں سہولت ہوجاتی ہے۔ نیزان مکتوبات سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی معاصرہندوو آریہ پنڈتوں،عیسائی پادریوں اور مناظروں، مختلف مسالک کے مسلمان علماء، عشق و وارفتگی سے پُر اپنے معزز اصحاب  اور متفرق احباب سے اعلیٰ برتاؤ اور آپ کی سادگی، روزمرہ زندگی،توکل علیٰ اللہ، بیماری و شدید مالی مشکلات پر صبراور اخلاق حسنہ کی گہرائی کا بھی پتہ چلتا ہے۔


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

Page 7

Page 8

Page 9

Page 10

حضرت مولوی خدابخش صاحب ؓ حضرت اقدس ؑ کی بیعت کے ریکارڈ میں نمبر۹۱ پر مولوی خدا بخشؓ جالندھری کا نام ہے.آپ کی بیعت یکم مئی ۱۸۸۹ء کی ہے.حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانیؓ (یکے از ۳۱۳) جن ایام میں ابتلاء اور امتحان کے دور میں تھے اور قادیان سے ان کے والد صاحب آپ کو دوسری مرتبہ لے گئے تھے اور اس پر ایک عرصہ گزر گیا تو قادیان کے بزرگوں اور دوستوں نے آپ کی خیریت معلوم کرنے کے لئے دریافت حال کی غرض سے حضرت بھائی جی کی تلاش میں آپ کو بھیجا.طویل اور سخت سفروں کی تکالیف برداشت کر کے ایک عرصہ کے بعد حضرت اقدسؑ کے پاس واپس آئے تھے اور حضرت بھائی عبد الرحمن قادیانی رضی اللہ عنہ کے متعلق صرف اتنی خبر پا کر کہ عبد الرحمن زندہ ہے اور دین حق پر قائم ہے تصدیق لے کر قادیان گئے.حضرت میاں صاحب عمر رسیدہ بزرگ تھے.اپنے اندر تبلیغ کا ایک جوش رکھتے تھے اور عموماً سیاحانہ زندگی کے عادی اور واعظ بھی تھے.حضرت ماسٹر عبد الرحمن جالندھری کے قبول حق میں ان کی مساعی کا دخل تھا.آپ کے مزید سوانحی حالات نہیں مل سکے.٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفاصفحہ ۲۶۸

Page 11

مکتوب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلـٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم مولوی خدابخش صاحب سلّمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.مجھے نہایت افسوس ہے کہ میں اس جماعت پرنظر ڈال کر جنہوں نے مجھ سے بیعت کی ہے اپنے دل سے یہ فتویٰ نہیں پاتا کہ وہ لوگ اس کاربراری کاذریعہ ہو سکیں کیونکہ قریباً اکثر لوگ اُن میں سقیم الحال اور مسکین اور تنگدست اور تنگ حال ہیں اور بعض شاید ادنیٰ درجہ کے وسعت رکھتے ہوں مگر ان کے لئے یہ سوال ابتلا اورآزمائش ہوگا جس سے ان کی حالت کے بگڑ جانے کا اندیشہ ہے.کیونکہ آج کل کی طبیعتوںمیں سوء ظن بہت ہے.جنہوں نے بیعت کی ہے بالفعل ان کی اسم نویسی ہوگئی ہے.ابھی میرے پر نہیں کھلا کہ ان میں سے واقعی طور پر سچا معتقد اورمخلص کون ہے اور پھسلنے والا اور لغزش کھانے والا کون ہے.البتہ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا دو تین برسوں تک ایسے آدمیوں کا گروہ پیدا ہو جاوے گا جو سچا اخلاص رکھتے ہوں تب وہ اسلام اور مسلمانوں کے کام آویں گے ابھی ان کچے حالات والوں کو ٹٹولنا فراست ایمانی سے بعید ہے میرا دل صاف شہادت دے رہا ہے کہ ابھی یہ لوگ کوئی کام نہیں کر سکتے مجھے آپ کے کام میں دل وجان سے دریغ نہیں.مگر جو طریق ہونہار نظرنہیں آتا بلکہ اس میں فساد دکھلائی دیتا ہے اس کا اختیار کرناآپ کے لئے کچھ مفید نہیں.لوگ ابھی نہایت کچے ہیں اورادنیٰ خیال سے بگڑنے پر مستعد اور نیز روحانی تعارف مجھ سے نہیں رکھتے.بہت باتیں ایسی بھی ہیں جو اس خط میں قابل تحریر نہیں اگر آپ روبرو ہوں تو آپ پر ظاہر کی جائیں.اس لئے بالفعل یہ راہ مسدود ہے اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو کسی وقت کھل جائے گا.خدائے واحد جلّ شانہٗ شاہد ہے کہ اس عاجز کو آپ کی نسبت نہایت دل سوزی و ہمدردی ہے مگر آپ پر یہ آزمائش کا وقت ہے کہ کامیابی کی راہ میں مشکلات ہیں آپ سب طرف سے پاس کلیّ کرکے خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور

Page 12

استغفار بہت پڑھیں.مجھے کبھی کبھی اپنے حالات سے اطلاع دیتے رہیں اگرچہ وہ ہندو مسلمان ہونے پر کیسا ہی مستعد معلوم ہو مگر میری رائے میں بہتر ہے کہ اُس سے بھی قطع امید کرکے اپنے مولا غفور،رحیم پر نظر رکھیں تا وہ کوئی راہ پیدا کرے.میںآپ کے لئے سوچ میں رہتا ہوں خدا تعالیٰ چاہے گا تو کوئی راہ پیدا کرے گااس پریشانی سے جو آپ لاہور میں گزارتے ہیں اگر آپ میرے پاس رہتے تو بہتر تھا مجھے آپ کے بارے میں دل میں درد اور فکر ہے مگر ایمانی غیرتمندی کی وجہ سے ایسے لوگوں کی طرف دامن سوال پھیلانے سے کارہ ہوں جن کی صحت خلوص واعتقاد میں مجھے کمال درجے کا شک اور اُن کے بگڑ جانے کا قریب قریب یقین کے گمان ہے خصوص ان دنوں میں جو ہر طرف سے فتنے اور سوء ظن کی آوازیں سنتا ہوں مگر یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ جلد ایسے لوگ میرے گروہ میں داخل کردے گا کہ جو اسلام اور مسلمانوں کے کام آویں گے.آخر اس دعاپر ختم کرتاہوں کہ یا اِلٰہَ العالمین اپنے عاجز بندے خدابخش پر بخشش اور رحمت فرما کہ آخر تیرا ہی رحم ہے جو مصیبتوں سے نجات دیتا ہے.آمین ثم آمین.۱۷؍مئی ۱۸۸۹ء خاکسار٭ غلام احمدعفی عنہ اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب ان دنوں میں کشمیر میں ہیں.ایک خط سے معلوم ہوا تھا کہ اُن کی والدہ صاحبہ فوت ہوگئی ہیں جہاں تک مجھے اُن کے ذاتی امور کا بہت علم تھا میں نے زبانی آپ سے بیان کردیا تھا.چندہ کے بارے میں انشاء اللہ ان کی خدمت میں تحریر کروں گا مگر میرے نزدیک بہتر تھا کہ جس وقت وہ جموں آئیں تو آپ تحریری تاکید میری طرف سے لے جاتے اب اگر آپ کا بھیمنشاء ہے تو آپ مجھے اطلاع دیں تو میں خط لکھ کر آپ کے پاس بھیج دوں گا.آپ اس خط کو پڑھ کر خود روانہ کردیں مگر آپ کے اطلاع دینے کے بعد یہ خط تحریر کیا جائے گا.فقط.٭ الحکم نمبر۲۶جلد۷مورخہ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱،۱۲

Page 13

حضرت خان ذو الفقار علی خان صاحب گوہر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 14

حضرت خان ذوالفقار علی خان صاحب گوہرؓ برصغیرہندو پاکستان کے مشہور سیاسی لیڈر علی برادران کے بڑے بھائی ۱۸۶۹ء میں بمقام رام پور ضلع مراد آباد (یو.پی) میں پیدا ہوئے اور ۲۶؍فروری ۱۹۵۴ء کو لاہور میں انتقال فرمایا اور ربوہ میں صحابہ کے قطعہ میں سپرد خاک ہوئے.۱۸۸۸ء میں ’’ریاض الاخبار‘‘ (گورکھپور) میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط الیگزینڈر رسل ویب سفیر امریکہ فلپائن کے نام شائع ہوا تھا جسے دیکھ کر حضرت خان صاحب کو پہلی مرتبہ حضرت اقد س ؑ سے غیبی تعارف ہوا.۱۹۰۰ء میں ’’ازالہ اوہام‘‘ کا مطالعہ کرتے ہی حضور ؑ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا.پہلی بار ۱۹۰۴ء میں بمقام گورداسپور حضور ؑ کی زیارت کا شرف حاصل کیا.اس وقت آپ نائب تحصیل دار تھے.۱۹۲۰ء میں مستقل طور پر قادیان میں ہجرت کر کے آگئے ۱۹۲۴ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ جن خدام کو اپنے ساتھ یورپ لے گئے ان میں حضرت خان صاحب بھی تھے.پاکستان بننے سے قبل کراچی میں کسی کانگرسی لیڈر نے آپ سے پوچھا کہ آپ کے دو چھوٹے بھائیوں نے تو وطن کی آزادی کے لئے جدوجہد کی آپ نے ایسا کیوں نہ کیا.جو اب دیا میں بڑا بھائی تھا اس لئے میں نے اپنے ذمہ بڑا کام لیا.اس نے پوچھا کون سا.فرمایا ساری دنیا شیطان کی غلامی میں پھنسی ہے اور ساری دنیا کو آزاد کرانا ہندوستان کی آزادی سے بڑا کام ہے اس لئے میں اس تحریک میں شامل ہوں اور اس کا سپاہی ہوں جس تحریک کا یہی مقصد ہے یعنی تحریک احمدیت.(رجسٹرروایات صحابہ( غیرمطبوعہ) جلد۶ صفحہ ۳۳۷ تا ۳۷۹.الفضل ۱۳.۱۶.۱۷.مارچ ۱۹۵۴ء)٭ آپ کے ایک صاحبزادے مولانا عبد المالک خان صاحب جماعت کے معروف عالم تھے اور بطور ناظر اصلاح وارشاد مرکزیہ خدمات بجا لاتے رہے.٭ تاریخ احمدیت جلد۲ صفحہ ۱۶۳

Page 15

مکتوبژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط مجھ کو لاہور میں ملا.میری طبیعت علیل تھی اور میرے گھر کے لوگوں کی طبیعت مجھ سے زیادہ علیل ہو گئی تھی.اس لئے تبدیل آب و ہوا کے لئے ہم لاہور میں آ گئے.صاحبزادہ افتخار احمد کومیں نے تاکید کر دی تھی کہ وہ نواب صاحب اور آپ کے خط کی رسید بھیج دیں.یعنی اب آپ کے خط کے جواب میں خواجہ کمال الدین صاحب کو کہا تھا کہ تار بھیج دیں.مگر اب میں نے مناسب سمجھا کہ خود آپ کو اس بات سے اطلاع دوں کہ اب تو میں بیمار ہوں اور اگر میں بیمار بھی نہ ہوتا.تب بھی اس بات کو پسند نہ کرتا کہ دہلی جیسے شہر میں جس کا میں پہلے تجربہ کر چکا ہوں جائوں اور اس جگہ نواب صاحب کی ملاقات کروں.شائد آپ کو معلوم نہیں ہو گا کہ ایک دفعہ میرے جانے پر عوام نے شور برپا کیا تھا اور ہزارہا جاہلوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ قریب تھا کہ کسی کو قتل کر دیتے سو اگرچہ میں ان کی پروا نہیں کرتا مگر ایسی شور انگیز جگہ پر میں مناسب نہیں دیکھتا کہ نواب صاحب کی ملاقات ہو.بلکہ میرے دل میں ایک خیال آیا ہے اور میں جانتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور وہ یہ کہ جب تک خدا تعالیٰ نواب صاحب کی نسبت اور ان کی بہبودی دین و دنیا کے متعلق وہ خدائے قادر کوئی میری دعا قبول نہ کرے اور اس سے مجھ کو اطلاع نہ دے.تب تک نہ ملاقات ضروری ہے اور نہ باہم خط و کتابت کی کچھ حاجت ہے اور اگر جناب الہٰی میں میری کچھ عزت ہے تو میں امید رکھتا ہوں کہ وہ میری دعا

Page 16

قبول کر کے کوئی امر ظاہر کرے گا جو بطور نشان کے ہو گا اور انسان میں سچا اتحاد اور سچا تعلق تبھی پیدا ہو سکتا ہے کہ جب وہ خدا کی طرف سے کچھ دیکھ بھی لے.ورنہ صرف حسن ظن کس کام کا ہے.اس کو معدوم کرنے والے بہت پیدا ہو جاتے ہیں.اس میں کچھ شک نہیں کہ جیسا کہ آپ باربار لکھتے ہیں.نواب صاحب شریف اور سعید اور نیک فطرت انسان ہیں.مگر پھر بھی وہ عالم الغیب تو نہیں.انسان کثرت رائے سے متاثر بھی ہو سکتا ہے.اس لئے میں نے یہ قراردیا ہے اور اپنے ذمہ عہد کر لیا ہے کہ موسم گرما کے نکلنے کے بعد جس میں اکثر میری طبیعت خراب رہتی ہے.نواب صاحب کی بہبودی دارین کے لئے ایک خاص توجہ کروں گا اور بعض وجوہ سے میں مناسب دیکھتا ہوں جن کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس وقت تک کہ میں توجہ کروں اور اس سے اطلاع بھی دیا جائوں.سلسلہ خط و کتابت باہمی کا قطعاً بندرہے اور نہ ملاقات کا کوئی ارادہ ہو اور نہ نواب صاحب کی طرف سے میرا کچھ ذکر ہو.مجھ کو قطعاً فراموش کر دیں.اور اگر کوئی سبّ و شتم یا استہزا سے پیش آئے اور کہے کہ اس کے جواب سے بھی درگذر کی جائے اور جیسا کہ میں نے عہد کیا ہے.اگر سردی کے موسم تک میری زندگی ہوئی یا گرمی کے ایام میں ہی خدا تعالیٰ نے مجھے طاقت دے دی تو میں انشاء اللہ العزیز اس عہد کو پورا کروں گا اور نواب صاحب نے جو اپنے اخلاص و محبت سے کچھ بھیجنے کا ارداہ کیا ہے یہ ان کے اخلاص اور محبت کا نشان ہے اور میں شکریہ کرتا ہوں مگر میرے نزدیک یہ بھی مصلحت کے برخلاف کیا.٭ والسلام مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ نقل لفافہ رجسٹرڈ.بمقام رام پور دارالریاست بمطالعہ محبی عزیزی اخویم محمد ذوالفقار علی خانصاحب سپرنٹنڈنٹ محکمہ آبکاری از لاہور کو ٹھی خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر.۳۰؍اپریل ۱۹۰۸ء ٭ الفضل نمبر۲۵۱ جلد۳۱ مورخہ ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۳ء صفحہ ۳

Page 17

Page 18

Page 19

Page 20

Page 21

Page 22

Page 23

Page 24

مکتوب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مکرمی السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اللہ تعالیٰ اس تعلق کو مبارک کرے.میں دعا کرتا ہوں.آپ کے لئے اجازت ہے.جَزَاکَ اللّٰہُ.٭ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد

Page 25

حضرت سلطان احمد صاحب افغان رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 26

نَحْمَدُہُ اللّٰہَ الْعَلِیَّ الْعَظِیْمَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ افضل الصلوٰت اللہ و برکاتہ علیکم یا مسیح اللہ بندہ را برائے حسب ذیل کتب ضرورت است.اگر برائے مہربانی عنایت فرمائید.نشان آسمانی.درثمین فارسی.چشمہ مسیحی.۲ عدد فقط والصلوۃ و السلام علیکم یا نور اللہ خاکسار سلطان احمد طالب علم افغان از شاخ دینیات مدرسہ تعلیم الاسلام ترجمہ : افضل الصلوٰت اللہ و برکاتہ علیکم یا مسیح اللہ اس بندے کو درج ذیل کتب کی ضرورت ہے.اگر مہربانی کر کے عنایت فرما دیں.نشان آسمانی.درثمین فارسی.چشمہ مسیحی.۲ عدد فقط والصلوۃ و السلام علیکم یا نور اللہ مکتوب (حضور کا جواب) اگر کتب خانہ میں یہ کتابیں ہیں تو میر مہدی حسین دیدیں.٭ والسلام ٭ رجسٹر روایات صحابہ(غیرمطبوعہ)نمبر۱۱ صفحہ ۱۸۸

Page 27

حضرت سلطان محمدنثار صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 28

ایک شخص سلطان محمد نثار احمدی نے حضرت اقدس ؑ سے فارسی زبان میں کتاب ازالہء اوہام کے لئے درخواست کی.حضور نے اس کے رقعہ پر تحریر فرمایا.مکتوب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مدتے شد کہ کتاب ازالۃ الاوہام تقسیم شدہ بجز یک نسخہ کہ من برائے ضرورت خود نزد خود دارم ہیچ جلد باقی نمائدہ البتہ اگر کتاب دیگر درکار باشد( در کتب خانہ) موجود باشد خواہم داد.٭ والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ ترجمہ از ناشر السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مدت ہوئی کہ کتاب ازالۂ اوہام تقسیم ہو چکی ہے اور بجز ایک نسخہکے جو کہ میں اپنی ضرورت کے لئے اپنے پاس رکھتا ہوں.کوئی جلد باقی نہیں رہی البتہ اور کوئی کتاب درکار ہو تو (کتب خانہ )میں موجود ہوئی تو دے دوں گا.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭ رجسٹر روایات صحابہ(غیرمطبوعہ)جلد۱۱ صفحہ ۱۸۸

Page 29

حضرت مرزا سلطان محمود بیگ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 30

حضرت مرزا سلطان محمود بیگ صاحبؓ حضرت مرزا محمود بیگ صاحبؓ ولد مرزا فتح محمد بیگ صاحب اَلسَّابِقُونَ الْاَوَّلُوْنَ میں سے تھے.آپ پٹی ضلع قصور کے رہنے والے تھے.آپ کے والد صاحب عربی کے باقاعدہ تعلیم یافتہ عالم تھے.آپ پٹی کے رئوسا اور کرسی نشینوں میں سے تھے اور منصف تھے.حضرت مرزا محمود بیگ صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ میں ہی حاصل کی.غالباً ۱۸۹۶ء یا ۱۸۹۷ء میں آپ بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.بیعت کے بعد یک لخت ایک غیر معمولی تغیر نیکی اور دین کی طرف ہوا اور جوانی میں ہی طبیعت دنیاوی امور سے نفرت کرنے لگی.بیعت کے بعد آپ نے فرض نمازوں کے علاوہ تہجد بھی باقاعدہ شروع کر دی اور جب نماز پڑھتے تو انتہائی عاجزی اور گریۂ و زاری سے نماز ادا کرتے.آپ غالباً ۱۸۹۸ء میں قصور سے میٹرک پاس کر کے قادیان آ گئے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ملازمت اختیار کرلی اور پھر اپنے اہل و عیال اور چھوٹے بھائی کو بھی قادیان لے گئے لیکن۱۹۰۲ء یا ۱۹۰۳ء میں ملازمت سے علیٰحدگی اختیار کر لی اور حضرت مسیح موعود ؑ کے مشورہ سے گوجرہ ضلع لائلپور (حال ٹوبہ ٹیک سنگھ)میونسپل سکول میں ملازمت اختیار کر لی.جتنا عرصہ آپ گوجرہ میں رہے جماعت کے امام الصلوٰۃ اور پریذیڈنٹ رہے.گوجرہ میں آپ نے تقریباً ۲۰ سال ملازمت کی اور غالباً ۱۹۳۵ء کے قریب ملازمت سے فارغ ہو کر بمع اہل و عیال واپس قادیان دارالامان پہنچ گئے.قادیان میں تجارت کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہو سکی اور تقریباً ۱۹۴۰ء یا ۴۱ء میں قادیان سے واپس اپنی جدّی جائیداد پر قبضہ کے لئے پٹی آ گئے اور کچھ عرصہ بعد

Page 31

اراضیات اپنے چھوٹے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب کو دے کر تقسیم ملک کے بعد ڈگری صوبہ سندھ چلے گئے اور وہیں اپریل ۱۹۵۸ء کو ماہِ رمضان میں خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.آپ قادیان کو اپنا وطن سمجھتے تھے اور گوجرہ رہائش کے دوران میں بمع اہل و عیال اکثر قادیان آتے رہتے تھے اور حضرت مسیح موعود ؑ کے خاندان سے آپ کا خاص تعلق ہونے کی وجہ سے اکثر حضرت اماں جان ؓ کے پاس یا حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے پاس رہائش رکھتے تھے اور آپ کی بیٹی صادقہ صاحبہ کو حضرت مسیح موعود ؑ نے گڑھتی دی تھی.پہلی دفعہ آپ جب حضرت مسیح موعود ؑ سے ملنے قادیان آئے تو آپ کی رہائش حضرت مسیح موعود ؑ کے مکان میں تھی.آپ کی اہلیہ کا نام مبارکہ تھا اور حضرت مسیح موعود ؑ کی صاحبزادی کا نام بھی مبارکہ بیگمؓ تھا اس لئے آپ کی اہلیہ کا نام فضل النساء رکھ دیا گیا چنانچہ وہ اسی نام سے موسوم رہیں.آپ صاحبِ کشف اور رؤیا تھے.آپ حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب غورسے پڑھتے رہتے تھے.آپ نے خطبہ الہامیہ کا اکثر حصہ حفظ کیا ہوا تھا جس کو آپ دوہراتے رہتے تھے.٭ ٭ تلخیص از الفضل مورخہ ۱۵؍جون ۱۹۵۸ء صفحہ۵

Page 32

مکتوب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ عزیزی اخویم مرزا محمود بیگ صاحب سلّمہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آج کی ڈاک میں آپ کا خط مجھ کو ملا اور اوّل سے آخر تک پڑھا گیا.درحقیقت لڑکیوں کے معاملات میں بڑی مشکلات پیش آتی ہیں.اور اگر لڑکا لائق اور نیک چلن اور خوش قسمت نہ ہو تو لڑکی کے لئے مصیبت کے ایام پیش آ جاتے ہیں.ایک کم حیثیت کے آدمی سے جو کمپونڈر ہونے کی لیاقت رکھتا تھا ناطہ ہونا لڑکی سے بڑی سختی ہے.تنگی رزق میں تمام عمر دوزخ کی طرح گزرتی ہے.یہ بہتر ہو گا کہ کوئی لائق لڑکا تلاش کیاجائے.میں بھی اس فکر میں ہوں کہ اپنی اولاد کا کسی جگہ ناطہ کروں مگر میرے لڑکے بہت چھوٹے ہیں.ایک کا اب گیارھواں برس شروع ہوا ہے.دوسرے کا ساتواں جاتا ہے.تیسرے کا پانچواں شروع ہوا ہے.علاوہ اس کے مجھے اپنی اولاد کے لئے یہ خیال ہے کہ ان کی شادیاں ایسی لڑکیوں سے ہوں کہ انہوں نے دینی علوم او ر کسی قدر عربی اور فارسی اور انگریزی میں تعلیم پائی ہو اور بڑے گھروں کے انتظام کرنے کے لئے عقل اور دماغ رکھتی ہوں.سو یہ سب باتیں کہ علاوہ اور خوبیوں کے یہ خوبی بھی ہو.خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہیں.پنجاب کے شریف خاندانوں میں لڑکیوں کی تعلیم کی طرف اسقدر توجہ کم ہے کہ وہ بیچاریاں وحشیوں کی طرح نشوونما پاتی ہیں.اگر قوم کا پاس نہ ہو تو بعض لائق اور شریف نوجوان ہماری جماعت میں موجود ہیں جن سے ایسا تعلق ہو جانا نہایت خوش قسمتی ہے.

Page 33

یہ قومیں جیسے مثلاً جٹ، ارائیں اپنے طور پر شریف ہیں اور بہت سے بااقبال آدمی ان میں پائے جاتے ہیں.مگر افسوس کہ بڑی قوم کے آدمی ان لوگوں کو اپنی لڑکیاں دینا نہیں چاہتے.چنانچہ یہ تجربہ ہو چکا ہے کہ بعض آدمی رشتہ کو قبول کر کے جب سنتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں ذات کا ہے تو پھر منحرف ہو جاتے ہیں اور مردوں کی طرف سے جو جوان اور تعلیم یافتہ ہیں یہ شرط ہوتی ہے کہ جس لڑکی سے ان کی شادی کی تجویز کی جاوے وہ خوبصورت ہو.عقلمند ہو.باسلیقہ ہو.چنانچہ حال میں ہی یہ اتفاق پیش آیا ہے کہ بعض اپنے لائق نوجوان تعلیم یافتہ دوستوں کی کسی جگہ ناطہ کی تجویز کی گئی اور پھر انہوں نے اپنے طور پر جاسوس عورتیں بھیج کر لڑکی کو دکھلایا اور جس جگہ شکل صورت اور لیاقت اور فہم ان کی مرضی کے موافق ثابت نہ ہوئے اس جگہ انہوں نے انکار کر دیا.یہ مشکلات پیش آجاتی ہیں.مگر اللہ تعالیٰ ہر ایک مشکل کشائی پر قادر ہے.آپ کو مناسب ہے کہ کبھی کبھی دو تین ہفتہ کے لئے ہمارے پاس قادیان میں آ جایا کریں.کیونکہ صحبت میں علمی ترقی ہوتی ہے بلکہ اکثر آنا چاہیے.اس میں بہت برکت اور فائدہ ہے.زیادہ خیریت ہے.٭ ۶؍جون ۱۸۹۹ء والسلام خاکسار مرز ا غلام احمد ٭ الفضل نمبر۵۸ جلد۱۰ مورخہ ۲۹ ؍جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ ۲

Page 34

Page 35

حضرت سیدعبد اللہ صاحب بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 36

ایک صاحب المعروف سید عبد اللہ بغدادی جو قبل ازیں قادیان میں کچھ عرصہ رہ کر اب اپنے وطن کو واپس گئے ہیں.ابتدا میں وہ اہل تشیعہ کے مشرب پر تھے.دارالامان قادیان میں کسی شخص کے ساتھ یزید کے بارے میں ان کا تکرار ہوا جس کے باعث جانبین میں طیش آگیا.عبد اللہ بغدادی نے اس امر کی شکایت حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام کے پاس لکھ کر بھیجی.راقم حروف نے عبد اللہ بغدادی کا خط اور اس پر جو جواب حضرت اقدس نے اس کو لکھا استفادہ کے لئے نقل کر لئے تھے جو یہاں بمعہ ترجمہ درج کئے جاتے ہیں.خط عبد اللہ صاحب بغدادی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَّ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ مَسْئَلَۃٌ.اِنْ کَانَ اَحَدٌ مِنْ مُخْلِصِیْکُمْ وَ یَلْعَنُ یَزِیْدًا فَھَلْ یَجُوْزُ اَنْ یُّلْعَنَ اَلْفَ مَرَّۃٍ بِسَبَبٍ اَنَّہٗ لَعَنَ یَزِیْدًا.ثُمَّ نَسْئَلُ مِنْ جَنَابِکُمْ اَنْ تُبَیِّنَ لَنَا مَا قَدْرُ یَزِیْدَ وَ مَاشَانُہٗ وَ ھَلْ یَجُوْزُ عَلَیْہِ اللَّعْنَۃُ اَمْ لَا، وَ ھَلْ ھُوَ ظَالِمٌ اَمْ لَا.أَفْتُوْنَا مِنْ عُلُوْمِکُمْ بِالْجِزْیَۃِ اَفَادَنَا اللّٰہُ مِنْھَا.والسلام (اَقَلُّ الْعِبَادِ خَادِمُکُمْ عَبْدُ اللّٰہ) ترجمہ.ایک مسئلہ درپیش ہے کہ اگر کوئی شخص حضور کے مخلصین میں سے ہواور وہ یزید کو لعنت کرتا ہو تو کیا جائز ہے کہ اس شخص پر کوئی شخص اس سبب سے ہزار بار لعنت باری کرے کہ وہ یزید کو ملعون کہتا ہے.پھر میں حضور سے دریافت کرتا ہوں.ظاہر فرماویں کہ یزید کا کیا قدر اور اس کی کیا شان تھی.کیا یزید پر لعنت بھیجنیجائز ہے یا نہیں.کیا یزید ظالم تھا یا نہیں.اپنے علوم جزایہ سے ہمیں فتویٰ مرحمت کریں تاکہ ہم بہرہ مندی حاصل کریں.٭ کمترین خادم عبد اللہ ٭ الحکم نمبر۴۰ جلد ۸ مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۳

Page 37

مکتوب اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ اِعْلَمُوْا اَنَّ الْاَقْوَالَ الَّتِیْ نُسِبَتْ اِلٰی یَزِیْدَ لَااَعْلَمُ بِالْیَقِیْنِ اَنَّھَا کَیْفَ وَقَعَتْ وَالْاَخْبَارُ مُخْتَلِفَۃٌ وَ الرِّوَایَاتُ کَثِیْرَۃٌ فَمِنَ التَّقْوٰی اَنْ لَّایَلْتَفِتَ الْاِنْسَانُ اِلٰی لَعْنِ الْاٰخِرِیْنَ وَ یَخْشٰی عَلٰی فِسْقِ نَفْسِہٖ وَ یُجَاھِدَ لِتَزْکِیَتِھَا فَاِنَّ فِسْقَ یَزِیْدَ لَایَضُرُّکُمْ فَاِنْ کَانَ السَّبُّ الشَّرَّ فَعَلَیْہِ ’’ یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لَایَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ.‘‘ لِکُلِّ عُضْوٍ مِّنْ اَعْضَآئِ الْاِنْسَانِ سِیْرَۃُ خَیْرٍ یَدْعُو اللّٰہُ اِلَیْھَا فَلِلْاِنْسَانِ الْکَفُّ أَحْسَنُ السِّیَرِ.وَالسَّلَامُ (غلام احمد عفی اللہ عنہ) ترجمہ.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ واضح ہو جن افعال کی نسبت یزید کی طرف منسوب کی جاتی ہے.مجھے یقینا معلوم نہیں کہ وہ کس طرح واقع ہوئے.اس امر میں خبریں مختلف اور روائتیں بہت ہیں.تقویٰ کی یہ شرط ہے کہ انسان دوسروں کی لعنت کی طرف التفات نہ کرے (بلکہ) اپنے ہی نفس کے فسق سے ڈرتا رہے اور اس کی تزکیہ و تصفیہ میں کوشش کرے.کیونکہ یزید کا گناہ تم کو کچھ ضرر نہیں دیتا.اگر اس کی شرارت تھی تو اس کا وبال یزید پر ہی پڑ ے گا لقولہ تعالیٰ.یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لَایَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ.۱؎ یعنی اے ایمان والوں اگر تم خود ہدایت یافتہ ہو گئے تو گمراہ آدمی تم کو ضرر نہیں پہنچا سکتا.انسان کے ہر اندام میں خدا تعالیٰ نے نیک سیرت کی خاصیت رکھی ہے جس کے اظہار کے لئے خدا تعالیٰ انسان کو مدعو کرتا ہے.پس انسان کی زبان کی نیک سیرتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس کو بدگوئی سے روکے.٭ والسلام (غلام احمد عفی اللہ عنہ) ۱؎ المائدۃ : ۱۰۶ ٭ الحکم نمبر۴۰ جلد ۸ مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۳

Page 38

Page 39

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 40

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ ولادت.اگست.ستمبر ۱۸۷۸ء (بمطابق وصیت فارم.آپ کی تالیف حیات قدسی جلد ۱صفحہ ۶سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت بھادوں کے مہینہ میں ہوئی.ہندی کیلنڈر کی رُو سے یہ اگستیا ستمبر کے ایام تھے.بیعت تحریری ستمبر یا اکتوبر ۱۸۹۷ء (حیات قدسی جلد ۱صفحہ۱۹).زیارت ۱۸۹۹ء (حیات قدسی جلد ۳صفحہ ۶) وفات ۱۵دسمبر ۱۹۶۳ء (الفضل ۱۷ دسمبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۱ ) حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ممتاز صحابی، سلسلہ عالیہ احمدیہ کے جید و متبحر عالم ، صاحب رئویاو کشوف اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے.آپ موضع راجیکی ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کی پیدائش سے قبل خواب میںدیکھا تھا کہ گھر میں ایک چراغ روشن ہے جس کی روشنی سے سارا گھر جگمگا اٹھا ہے.آپ نے ۱۸۹۷ء میں بذریعہ خط بیعت کی اور اس کے دوسال بعد ۱۸۹۹ء میں قادیان حاضر ہو کر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا.بیعت کے بعد علی الخصوص آپ کے علم وعرفان اور تعلق باللہ میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی برکت بخشی اور آپ کو روحانی نعماء سے اس قدر حصہ وافر عطا کیا کہ آپ آسمانِ روحانیت کا ایک درخشندہ ستارہ بن کر نصف صدی سے زائد عرصے تک بھٹکے ہوئوں کو راہِ راست پر لانے کا وسیلہ بنے رہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم و عرفان کے ساتھ ساتھ الہام اور رئویاوکشوف کی نعمت سے نہایت درجہ حصہ عطا فرمایا تھا اور خدمتِ سلسلہ کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت غیر معمولی رنگ میں عطا فرمائی تھی.یوں تو آپ سلسلۂ بیعت میں داخل ہونے کے بعد شروع ہی سے تبلیغ حق میں بے انتہا سرگرم واقع ہوئے تھے اور آپ کی زندگی ہمہ وقت میدانِ تبلیغ میں ہی بسر ہو رہی تھی.لیکن سلسلہ عالیہ احمدیہ

Page 41

کے باقاعدہ مبلغ کے طور پر آپ نے خلافتِ اولیٰ کے زمانے میں کام شروع کیا اور پھر قریباً نصف صدی تک ایسے ایسے عظیم الشان تبلیغی کارنامے سرانجام دیئے کہ جو رہتی دنیا تک یادگار رہیں گے.آپ نے اپنے تبلیغی تجارب اور زندگی میں پیش آنے والے غیر معمولی واقعات کو اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ’’حیاتِ قدسی‘‘ میں محفوظ فرما دیا ہے.آپ نے اپنی زندگی میں آریوں، عیسائیوں اور غیرازجماعت علماء سے صدہا نہایت درجہ کامیاب مناظرے کئے.ہزاروں کی تعداد میں معرکۃ الآراء لیکچر دیئے.اُردو اور عربی میں نہایت اہم علمی موضوعات پر بے شمار قیمتی مضامین رقم فرمائے جو سلسلہ کے جرائد ورسائل اور اخبارات میں شائع ہوئے.آپ کی عربی دانی نہ صرف جماعت میں بلکہ جماعت سے باہر بھی غیرازجماعت اہلِ علم حضرات کے نزدیک مسلم تھی.آپ کے عربی قصائد منقوطہ و غیرمنقوطہ نے آپ کی عربی دانی اور علم لدنی کا سب سے لوہا منوا لیا تھا.آپ کے آقا سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جن کے فیض صحبت سے آ نے بہت کچھ پایا اور آپ کے علم و عرفان کو جلاء نصیب ہوئی.۸؍نومبر ۱۹۴۰ء کو خطبہ جمعہ میں آپ کے علم و فضل اور تبحر علمی کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو حسبِ ذیل سند قبولیت عطا فرمائی کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کا اللہ تعالیٰ نے جو بحر کھولا وہ بھی زیادہ تراسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہے.پہلے ان کی علمی حالت ایسی نہیں تھی مگر بعد میں جیسے یک دَم کسی کو پستی سے اُٹھا کر بلندی تک پہنچا دیا جاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ نے ان کو قبولیت عطا فرمائی اور ان کے علم میں ایسی وسعت پیدا کر دی کہ صوفی مزاج لوگوں میں ان کی تقریر بہت ہی دلچسپ ، دلوں پر اَثر کرنے والی اور شبہات اور وساوس کو دُور کرنے والی ہوتی ہے.‘‘ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے فروری ۱۹۵۷ء میں آپ کو صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا مستقل ممبر مقرر فرمایا چنانچہ اس وقت سے آپ صدرانجمن احمدیہ کے ممبر چلے آرہے تھے.علاوہ ازیں آپ اِفتاء کمیٹی کے بھی رکن تھے.مورخہ ۱۵؍دسمبر ۱۹۶۳ء کو اچانک سینہ میں درد محسوس ہوا اور اس کے چند منٹ بعد آپ مولائے حقیقی سے جا ملے.٭ ٭ تاریخ احمدیت جلد۲۲ صفحہ ۲۷۷ تا ۲۷۹

Page 42

مکتوب مندرجہ ذیل خط پیر سراج الحق صاحب کے قلم کا لکھا ہوا حضرت اقدس ؑ کی طرف سے مجھے موضع راجیکی میں یکم جنوری ۱۹۰۰ء کو موصول ہوا تھا.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم حضرت امام الزمان علیہ الصلوٰۃ و السلام نے آپ کا مکتوب عربی جس کی سطر سطر اور جس کا جملہ جملہ شوق و ذوق سے بھرا ہوا وجد دلانے والا تھا ملا حظہ فرمایا.ارشاد فرمایا کہ گاہِ گاہِ اور بکثرت یہاں آنا چاہیے.خدا تعالیٰ ارحم الراحمین ہے مَنْ جَاہَدَفِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا.٭ یکم جنوری ۱۹۰۰ء و السلام کتبہ سراج الحق از قادیان ٭ حیات قدسی جلد دوم صفحہ ۹۶

Page 43

حضرت سیّدغلام محمد صاحب افغان رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 44

حضرت سیّد غلام محمد صاحب افغان ؓ مکرم سید سلیم احمد صاحب ہاشمی مربی سلسلہ آپ کے بارہ میں تحریر کرتے ہیں.حضرت مولوی سید غلام محمد صاحب افغانؓ کے والد صاحب کا نام سید دین محمد صاحب تھا.(مولوی صاحب کے والد صاحب صحابی تو نہ تھے لیکن انہوں نے اور فیملی کے اکثر افراد نے خطوط کے ذریعے بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شامل ہو گئے تھے) آپ اپنے خاندان میں سے واحد شخص تھے جس کو حضرت مسیح موعود ؑ کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل ہے.حضرت مولوی صاحب افغانستان کے صوبہ پکتیاکی جاجی قوم میں سادات کے معزز اور اہلِ علم خاندان میں سے تھے.آپؓ کی ولادت ۱۵؍جنوری ۱۸۴۹ء میں ہوئی.آپؓ نے اپنی زندگی کے چالیس برس درس و تدریس میں گزارے.ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی.سترہ برس کی عمر میں آپؓ نے حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب شہیدؓ کی شاگردی اختیار کی.چار سال بعد مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کرنے پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے آپ کی دستاربندی کی.اکتوبر ۱۸۹۷ء کو حضرت صاحبزادہ صاحب نے احمدیت قبول کی تو حضرت مولوی سید غلام محمد صاحب افغانؓ نے بھی اپنے استاد کی اقتداء میں فوراً احمدیت قبول کر لی.حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کے مشورہ پر مولوی سید غلام محمد صاحب افغانؓ اور حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب شہیدؓ قادیان چلے گئے.صاحبزادہ صاحبؓ نے اپنی بیعت کا خط بھی حضرت مولوی صاحب ؓ کے سپرد کیا.قادیان پہنچ کر آپؓ کو دستی بیعت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.حضرت مولوی صاحبؓ اپنے علاقے (صوبہ پکتیا) میں عالم باعمل، نیک متقی اور پرہیز گار بزرگ کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے.آپؓ پشتو اور فارسی زبان کے شاعر بھی تھے.ان کے

Page 45

شعروں کا ایک مجموعہ نور نامہ کے نام پر تھا.آپ نہایت خوشخط تھے اور پورے قرآن کریم کو اپنے ہاتھ سے مکمل خوشخطی کے ساتھ لکھا تھا.لیکن افسوس کہ جس وقت مخالفت زور پکڑ گئی اور ہمارے گھر جلائے گئے تو اس وقت وہ نسخہ (قرآن کریم) بھی خاکستر ہو گیا.۱۶؍مارچ ۱۹۰۳ء کو جب حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب شہیدؓ کی گرفتاری کا حکم آیا اور شہید مرحوم کو کابل روانہ کیا تو اس وقت آپؓ بھی ان کے تعاقب میں ان کے پیچھے پیچھے جارہے تھے لیکن حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے انہیں حکماً فرمایا کہ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے وہاں جانے کوکہا ہے.اس لئے آپ خوش ہو جائیں اور میرے پیچھے نہ آئیں.حکم کی اطاعت میں آپؓ واپس ہو گئے.حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی شہادت کے بعد افغانستان میں بالخصوص جہاں جہاں احمدی گھرانے تھے ان پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا.حضرت غلام محمد صاحب افغان ؓ کے گھر سے ایک غیراحمدی رشتہ دار نے مولوی صاحبؓ کا ایک لکھا ہوا خطبہ چرا کر صوبے کیحاکمکے سامنے بطور ثبوت کے پیش کیا.جس کے بعد حضرت مولوی صاحب ؓ پر عرصۂ حیات تنگ کیا گیا.انہیں گرفتار کر کے زدوکوب کیا گیا لیکن جب معاملہ حاکم کے پاس گیا جو زیادہ متعصب نہ تھا اس نے آپؓ کی حالت پر رحم کر کے چھوڑ دیا.چند سال آپؓ اصحاب کہف کی طرح خفیہ زندگی بسر کرتے رہے.آخرآپؓ نے قادیان آنے کا ارادہ کر لیا اور قادیان میں اپنے آقا حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی صحبت سے فیضیاب ہوتے رہے.۲۸؍جولائی ۱۹۳۲ء کو آپ اپنے محبوب حقیقی سے جاملے اور اپنے آقا حضرت مسیح موعود ؑ کے قرب و جوار بہشتی مقبرہ کے قطعہ نمبر۷ میں مدفون ہوئے.آپؓ نے اپنے پسماندگان میں بیوی کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑیں.

Page 46

فہرست مکتوبات بنام حضرت سیّدغلام محمد صاحب افغانؓ مکتوب نمبر تاریخ تحریر صفحہ ۱ بلا تاریخ ۴۰ ۲ بلا تاریخ ۴۳ ۳ بلا تاریخ ۴۶ ۴ بلا تاریخ ۴۸ ۵ بلا تاریخ ۵۳

Page 47

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ بخدمت جناب حضور حضرت اقدس خلیفۃ اللہ ورسول اللہ مسیح موعود ومہدی مسعود علیہ الصلوٰۃوالسلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عرض خاکسار چنین است کہ بیان مسئلہ ذیل مرحمت فرمودہ برائے من عنایت نمودہ شود.آں این است کہ بعضے میگویند کہ رسول خاص است.و نبی عام است.پس ہر رسول نبی است وہر نبی رسول نیست یعنی رسول افضل است از نبی.و بعضے میگویند کہ رسول ونبی یک است غرض نزد مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کدام صحیح ومنظوراست.٭ خاکسار غلام محمد افغان ترجمہ از ناشر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ بخدمت جناب حضور حضرت اقدس خلیفۃ اللہ ورسول اللہ مسیح موعود ومہدی مسعود علیہ الصلوٰۃوالسلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خاکسار کی عرض یہ ہے کہ ذیل کے مسئلہ میں عنایت فرماتے ہوئے جواب سے مطلع فرمائیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں رسول خاص ہے اور نبی عام ہے.پس ہر رسول نبی ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہوتا.یعنی رسول نبی سے افضل ہوتا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ رسول اور نبی ایک ہی ہوتے ہیں.غرض مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے نزدیک کون سے معنی صحیح اور منظورہیں.خاکسار غلام محمد افغان ٭ الحکم نمبر۲۵ جلد۱۲ مورخہ۶؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ۱

Page 48

مکتوب نمبر ۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ واضح باد کہ مارا باقوال دیگراں ہیچ تعلق نیست.آنچہ از قرآن شریف مستنبط میشود ہمیں است کہ رسول آن باشد کہ خدمت رسالت وپیغام رسانی از خدا تعالیٰ بدو سپرد کردہ شود ونبی آنست کہ از خدا خبر ہائے غیب یا بدوبمردم رساند باقی ناحق تکلیف کردہ اندوچیزے نیست.٭ والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ ترجمہ از ناشر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ واضح رہے کہ ہمیںدوسروں کے اقوال سے کوئی تعلق نہیں.قرآن شریف سے جو کچھ مستنبط ہوتا ہے وہ یہی کہ رسول وہ ہوتا ہے جسے رسالت کی خدمت اور پیغام پہنچانا خدا تعالیٰ کی طرف سے سپرد ہوتا ہے اور نبی وہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پائے اور لوگوں تک پہنچائے.باقیوں نے ناحق تکلیف اٹھائی ہے اور کوئی امر نہیں.والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ ٭ الحکم نمبر۲۵ جلد۱۲ مورخہ ۶؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۱

Page 49

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بخدمت جناب حضور حضرت اقدس مسیح موعود ومہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عرض بندہ عاجز چنان است کہ خود این عاجز بجناب حضور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عریضہ کردہ بودم درباب بیان نمودنِ معانی صفاتِ اللہ تعالیٰ مثل وجہ اللہ.ونور.ومحیط.ونحن اقرب.وھو معھم این ما کانوا.وازطرف حضور علیہ السلام چنیں جواب باصواب آمد.’’آنچہ اللہ تعالیٰ جلّ شانہ فرمودہ است برآن ایمان آرید وتفاصیل آن حوالہ بخدا کنید‘‘.الغرض من ایمان آوردہ ام بفرمودۂ اللہ تعالیٰ وتفصیل آن حوالہ بخدا میکنم وکردہ ام.لیکن مطلب من فقط ہمیں است کہ آنچہ اللہ تعالیٰ جل شانہٗ فرمودہ است.مثلاً . ۱؎.ٌ.۲؎  ۳؎ الخ  ۴؎        .۵؎ نزد من بندہ ازروی لغت معانی آیات مکتوبہ چنین ہستند.روئے خدا خدا نور آسمانہا است و نور زمین است.آگاہ باش او بہرچیز گردا گرد است.مانزدیک ہسیتم او اول است و آخر است و آشکارہ است و پنہان است.نیست ہیچ گروہ مگر او چہارم آن است ونہ پنج مگر اوششم آن است ونہ کمتر ازین ونہ زیادہ مگر خدا ہمراہ آنہا است ہر جا کہ باشند علم آور دن برتفصیل وحقیقت آن حوالہ بخدا میکنم زیرا کہ چنانچہ اوبی مثل است ہمیں طور ہر صفت اوبی مثل است الغرض درخواست معانی از مسیح موعود علیہ السلام ازین سبب میکنم کہ مفسرین دیگر طور میگویند.مثلاً ازوجہ توجہ واز نور بدر واز احاطۂ او احاطۂ علم او واز قرب او قرب قدرۃ اوواز ظاہر غالب واز معی معیت علم او مراد میگیر ندو میگو یند کہ فرمودۂ خدا این است لہذا فیصلہ میخوا ہم کہ کدام معانی صحیح ہستندو فرمودۂ خدا کدام معانی است یعنی آن معانی صحیح است کہ بمن معلوم میشود ودیگر تفصیل بخدا حوالہ میکنم وبامعانی دیگر تفا سیر صحیح است کہ ہر صفت راتاویل دادہ است فقط.٭ والسلام العارض غلام محمد افغان ؎ النور : ۳۶ ۲؎ حٰم السجدۃ : ۵۵ ۳؎ قٓ : ۱۷ ۴؎ الحدید : ۴ ۵؎ المجادلۃ : ۸ ٭ الحکم نمبر۴۶ جلد۱۱ مورخہ ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۹‘۱۰

Page 50

ترجمہ از ناشر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ بخدمت جناب حضور حضرت اقدس مسیح موعود ومہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بندہ عاجز کی عرض یہ ہے کہ خود اس عاجز نے جناب حضور مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے بیان کے بارہ میں لکھا تھا مثل وجہ اللّٰہ.ونور.ومحیط.ونحن اقرب.وھو معھم.این ماکانوا.اور حضور علیہ السلام کی طرف سے ایسا جواب با صواب آیا ’’کہ وہ جو اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے فرمایا ہے اُس پر ایمان لے آئیں اور اُس کی تفاصیل کو حوالہ بخدا کریں‘‘ الغرض میں فرمودہ اللہ تعالیٰ کے مطابق ایمان لایا اور اُس کی تفصیل بحوالہ خدا کرتا ہوں اور کردی ہے لیکن میرا مطلب صرف خدا تعالیٰ کے فرمودات پر ایمان رکھتے ہوئے یہی ہے کہ وہ جو اللہ جل شانہٗ نے فرمایا ہے مثلاً ..ٌ. الخ  الخ.   .اس بندہ کے نزدیک لغت کے لحاظ سے مکتوبہ آیات کے معانی اس طرح ہیں.خدا کا چہرہ.خدا آسمانوں کا نور ہے اور زمین کا نور ہے.خبردار! اس نے ہرچیز کا احاطہ کیا ہوا ہے.ہم نزدیک ہیں وہ اوّل ہے اور وہ آخر ہے اور وہ ظاہر ہے اور پوشیدہ ہے.نہیں کوئی گروہ مگر وہ اُن کا چوتھا ہے اور نہ پانچ مگر وہ اُن کا چھٹا ہے اور نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ مگرخدا اُن کے ساتھ ہے جس جگہ بھی ہوں.اس کی تفصیل کے متعلق علم حاصل کرنااور ان کی حقیقت کوخدا کے حوالے کرتا ہوں کیونکہ جیسا کہ وہ بے مثل ہے اسی طرح اُس کی ہر صفت بے مثل ہے.الغرض مسیح موعود علیہ السلام سے معانی کی درخواست اس غرض سے کرتا ہوں کہ مفسرین کچھ اور کہتے ہیں مثلاً وجہ سے توجہ اور نور سے بدر اور اس کے احاطہ سے اس کے احاطۂ علم اور اس کے قرب سے اُس کی قدرت کا قرب اور ظاہر سے غالب اور معی سے اس کے علم کی معیت مراد

Page 51

لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ خدا کے بیان فرمودہ ہیں.اس لئے فیصلہ چاہتا ہوں کہ کونسے معانی صحیح ہیں اور خدا کے بیان فرمودہ معانی کونسے ہیں یعنی وہ معانی ٹھیک ہیں جو مجھے سمجھ آ گئے ہیں اور باقی تفصیل خدا کے حوالے کرتا ہوں اور دوسرے معنوں میںتفاسیر صحیح ہیں کہ ہر صفت کی تاویل کر دی گئی ہے.فقط.والسلام العارض غلام محمد افغان مکتوب نمبر۲ (جواب از طرف حضرت امام الزمان سلمہُ الرحمن) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ واضح باد کہ مذہب ماہمین است کہ درین امر ہیچ دخل نمی بایدداد چرا کہ خدائے تعالیٰ فرمودہ است ۱؎ وآنانکہ دخل دادہ اند آنان اگر خطاکردہ اند ماخوذ بقول خود خواہند شود این قدر کافی است کہ اٰمَنَّا بِہٖ کُلّ مِنْ رَّبِّنَا.٭ والسلام مرزا غلام احمد ترجمہ از ناشر السلام علیکم ورحمۃ اللہ واضح رہے کہ ہمارا یہی مذہب ہے کہ اس معاملہ میں کوئی دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے. اور وہ جنہوں نے دخل اندازی کی ہے اگر اُنہوں نے خطا کی ہے اُن کا اپنے قول پران کا مؤاخذہ ہو گا.اس قدر کافی ہے کہ اٰمَنَّا بِہٖ کُلّ مِنْ رَّبِّنَا.والسلام مرزا غلام احمد ۱؎ الانعام : ۱۰۴ ٭ الحکم نمبر۴۶ جلد۱۱ مورخہ ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰

Page 52

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بخدمت جناب حضرت اقدس خلیفۃ اللہ و رسول اللہ مسیح موعود ومہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اما بعد.عرض چنان است کہ درمعنائی این آیۃ شریف کہ درسورۂ واقعہ است .... ۱؎.کہ مردم مے گویند کہ مقربین گروہ ہستند از اولین کہ صحابہؓ محمد رسول اللہ ہستند ومقربین اندک ہستند از آخرین کہ صحابہؓ مسیح موعود ہستند این معنٰی درنزدمایان درست نیست بلکہ صحیح این است کہ مقربین در اولین صحابہؓ بسیار ہستند ودرآخرین صحابہؓ اندک ہستندو ایضاً درجماعت احمدیہ در مدت اول کہ در بیعت داخل ہستند درآن مقربین بسیار ہستند دآن کسان کہ دربیعت آخرین باشند درآن مقربین کم ہستند ومعنائی اوّل ازین سبب درست نیست کہ از سورہ فاتحہ مخالف است چرا کہ این ہم یک عظیم نعمت است کہ دراتباع مسیح موعود مقربین بسیار باشند ہمان مقدار کہ در صحابہؓ بودند پس این نعمت بہ مسیح موعود چرا دادہ نشدہ است و از حدیث شریف نیز مخالف است کہ حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ است کہ مثال امت من مثل باران است معلوم نمے شودکہ اولش خیر است یا آخرآن ودیگر اینکہ ازین آیۃ شریف نیز معلوم مے شودکہ معنٰی اوّل درست نیست. ۲؎.الخ سورۃ التوبۃ پ۱۱.وازین آیۃ شریف نیز معلوم مے شودکہ درست نیست.۳؎.الخ سورۃ الجمعۃ پ۲۸.الغرض درین امر فیصلہ مے خواہم.دیگر اینکہ دعائے جامع میخواہم کہ درحق مایان عاجزان مرحمت فرمودہ شود.٭ العارض عبدالستار وغلام محمد افغان از قادیان ۱؎ الواقعۃ : ۱۱ تا ۱۵ ۲؎ التوبۃ : ۱۰۰ ۳؎ الجمعۃ : ۴ ٭ اخبار بدر نمبر ۳۸ جلد ۶مؤرخہ ۱۹؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۷

Page 53

ترجمہ از ناشر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْـکَرِیْمِ بخدمت جناب حضرت اقدس خلیفۃ اللہ و رسول اللہ مسیح موعود ومہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اما بعدیہ عرض ہے کہ اس آیۃ شریف کے معنوں میں جو سورہ واقعہ میں ہے کہ .....یعنی لوگ کہتے ہیں کہ اولین میں سے ایک گروہ مقربین کا ہے جو صحابہ ؓ محمد رسول اللہ ہیں اور آخرین میں سے کچھ مقربین ہیں جومسیح موعود علیہ السلام کے صحابہؓ ہیں.یہ معنٰی ہمارے نزدیک درست نہیں بلکہ صحیح یہ ہے کہ اوّلین صحابہؓ میں مقربین زیادہ ہیں اور آخرین میں صحابہؓ تھوڑے ہیں اور اسی طرح جماعت احمدیہ میں شروع میں جو لوگ بیعت میں داخل ہوئے ہیں اُن میں مقربین زیادہ ہیں اور وہ جو بعد کے زمانہ میں بیعت میں داخل ہوئے ہیں اُن میں مقربین کم ہیں اور پہلے معنٰی اس وجہ سے ٹھیک نہیں کہ وہ سورہ فاتحہ کے مخالف ہے کیونکہ یہ بھی ایک عظیم نعمت ہے کہ مسیح موعود کی اتباع میں مقربین بہت سارے ہوں اُسی تعداد میں جو صحابہؓ میں تھے پس یہ نعمت مسیح موعود علیہ السلام کو کیوں نہ دی گئی اور حدیث شریف سے بھی مخالف ہے جو حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے معلوم نہیں کہ اُس کا اوّل بہترہے یا اُس کا آخر نیز یہ کہ اس آیت شریف سے بھی پتہ چلتا ہے کہ پہلے معنی درست نہیں  الخ سورۃ التوبۃ پ ۱۱ اور اس آیت شریف سے بھی پتہ چلتا ہے کہ صحیح نہیں  ا لخ سورۃ الجمعۃ پ۲۸.الغرض اس امر میں فیصلہ چاہتا ہوں دوسرایہ کہ میں چاہتا ہوں کہ ہم عاجزوں کے حق میں جامع دعا مرحمت فرمائیں.العارض عبدالستار وغلام محمد افغان از قادیان

Page 54

مکتوب نمبر۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْـکَرِیْمِ این عاجزاز صبح بیمار است اسہال وپیچش است ازین باعث درین امر زیادہ نتوانم نوشت حق الامر این است کہ درآیۃ  ۱؎ آن واقعہ است کہ درآن زمان بہ ظہور آمدہ ومراد این است کہ آنا نکہ در اوّل حالت اسلام باوجود قلت جماعت و صدہا مصائب وشدائد داخل اسلام شدند وازہمہ نوع مصیبت ہادیدند وصدق و وفا خود ظاہر نمودند وجان ہائی خود درین راہ دادندیا برای دادن طیار شدند آن گروہ مقربین است لیکن این صورت اخلاص آنان راکم میسر آمدہ کہ درحالت فتح ونصرت اسلام وخاتمہ مصائب داخل اسلام شدند پس ازیشان مقربان کم ہستند وہمین قاعدہ بزمانہ مسیح عایدمے شود.واللہ اعلم بالصّواب.٭ مرزا غلام احمد ترجمہ از ناشر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْـکَرِیْمِ یہ عاجز صبح سے بیمار ہے.اسہال اور پیچش ہے جس کی وجہ سے اس بارہ میں زیادہ لکھ نہیں سکتا حقیقت امر یہ ہے کہ آیت  وہ واقعہ ہے کہ جو اُس زمانہ میں ظہور میں آیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو اسلام کی اوائل کی حالت میں جبکہ جماعت تھوڑی سی تھی اورسینکڑوں مصائب وشدائد تھے اسلام میں داخل ہوئے اور ہر قسم کی مصیبتوں کو دیکھا اور اپنے صدق و وفا کو دکھایا اور اپنی جانوں کو اس راہ میں قربان کر دیا وہ مقربین کا گروہ ہے لیکن یہ اخلاص کی صورت اُن لوگوں کو کم میسر ہوئی ہے جو اسلام کی فتح ونصرت کی حالت میں اور مصائب کے ختم ہونے پر اسلام میں داخل ہوئے.پس اُن میں سے مقربین تھوڑے ہیںاوریہی قاعدہ مسیح کے زمانہ میں عاید ہو گا.واللہ اعلم بالصواب.مرزا غلام احمد ۱؎ الواقعۃ :۱۴،۱۵ ٭ بدر نمبر۳۸ جلد۶ مورخہ ۱۹؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۷

Page 55

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بخدمت جناب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امّا بعد عرض مے کنم کہ در ملک خود اہل نسب دارم مثلاً پدر وعم و خال و بر ادر وغیرہ از اقرباء و اہل وطن ہمراہ من خط و کتابت مے کنند بعض از آنہا دربیعت داخل اند و بعض تاحال در بیعت داخل نہ لیکن تابع و تصدیق کنندہ اند ونیز محبت بسیار دارندو بعض در تصدیق ہم سُست اند لیکن میلان دارند ونیز امید من است کہ آنہارا اللہ تعالیٰ ازصادقان مخلصان بگر داند.الغرض اگر من آن کس را کہ دربیعت داخل نیست چنان الفاظ بنو یسیم مثلاً ( اخوی مکرم ) یا مشفق مہربان یا تعظیمات و تسلیمات برائے فلاں کس مثلاً یا دعا و سلام از طرف من برفلاں اخوی ام برسد وغیر ذالک جائز است یا نہ.وآنہا نیز این الفاظ برائے من مے نویسند.٭ فقط والسلام غلام محمد افغان بقلم خود قادیان ترجمہ از ناشر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بخدمت جناب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اما بعد عرض کرتا ہوں کہ میں اپنے ملک میں عزیز و اقارب رکھتا ہوں.جیسے باپ، چچا، ماموں اور بھائی وغیرہ اور مجھ سے یہ اقرباء اور اہل وطن خط و کتابت کرتے ہیں.ان میں سے بعض بیعت کرچکے ہیں جبکہ بعض نے تاحال بیعت نہیں کی لیکن تابع اور تصدیق کرنے والے ہیں نیز بہت محبت رکھتے ہیں.اور بعض تصدیق کرنے میں بھی سست ہیں لیکن اس طرف میلان رکھتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ مولیٰ کریم انہیں بھی مخلص صادقوں میں سے بنا دے گا.الغرض یہ کہ اگر میں ان لوگوں کوجو بیعت میں داخل نہیں.ان الفاظ میں مخاطب کروں کہ مثلاً اخوی مکرم یا مشفق و مہربان یا فلاں شخص سلام و تعظیم یامثال کے طور پر کہ میری طرف سے میرے فلاں بھائی ٭ بدر نمبر۱۷ جلد۶ مورخہ ۲۵ ؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۵

Page 56

کو دعا و سلام پہنچے وغیرہ ذٰلِکَ جائز ہے یا نہیں؟ جبکہ وہ بھی ایسے ہی الفاظ میرے لئے لکھتے ہیں.فقط والسلام غلام محمد افغان بقلم خود قادیان مکتوب نمبر۴ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مکتوب شما بخواندم.نزدمن، ہیچ مضائقہ نیست کہ درخط و کتابت خود نرم الفاظ استعمال کردہ شوند.بنی آدم ہمہ بر ادر یکدیگراند.پس برین تاویل کسے را برادر نوشتن ہیچ مضائقہ نہ دارد.و مہربان نوشتن ہم مضائقہ نیست در فطرت ہر نوع انسان قوت مہربانی و ہمدردی مودّع است.مگر بباعث حُجُب وپردہ ہا پوشیدہ مے ماند.خدا تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام رامے فرمائید. .۱؎ ٭ میرزا غلام احمد ترجمہ از ناشر السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا مکتوب پڑھا.میرے نزدیک اس میں کچھ مضائقہ نہیں کہ خط و کتابت میں نرم الفاظ استعمال کئے جائیں.تمام بنی آدم ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں.پس اس تاویل کی بنا پر کسی کو اپنا بھائی لکھنے میں کوئی حرج نہیں.اسی طرح مہربان لکھنے میں بھی کوئی قباحت نہیں.ہر نوعِ انسان کی فطرت میں مہربانی و ہمدردی کی قوت و دیعت کردی گئی ہے.لیکن حجابوں اور پردوں کے باعث مخفی رہتی ہے.خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرمایا. .پس تم دونوںاُس (فرعون) سے نرم بات کہو.ہوسکتا ہے کہ وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جائے.میرزا غلام احمد ۱؎ طٰہٰ : ۴۵ ٭ بدر نمبر۱۷ جلد۶ مورخہ ۲۵؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۵

Page 57

بحضور جناب حضرت اقدس رسول اللہ و خلیفۃ اللہ مسیح موعود ومہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اما بعد عرض بندہ خاکسار این است کہ از جانب والد صاحب من مکتوب آمدہ است.نقلش برپشت این کاغذ نوشتہ ام لیکن حاصلش این است کہ ضرور بخانۂ خود بیائید واگر نیا مدی من در روز آخرت از شما بیزار ہستم ودل من از شما آزردہ است.و خود من درین امر بسیار عذرہا دارم اول این است کہ از حضور حضرت اقدس من دورمے شوم واین دردل من از قتل واز ہر مصیبت واز ہر خسران زیادہ تر محسوس مے شود.دیگر این کہ سبق قرآن شریف میخوانم بعض حاصل کردہ و اکثر ماندہ است وایضاًکتاب ہائے حضرت اقدس مطالعہ مے کنم.اندک اندک مطالعہ کردہ ام اکثر ماندہ است واین ہر دو درآن ملک حاصل نمے شود من محروم مے شوم.این ہم از قتل بدتر وشدید تر است دیگر اینکہ در ملک من خوف ہلاکت جان ہم است و خوف ہلاکت دین ہم است وہر دور امن خود بخود محسوس نمودہ ام وتجربہ کردہ ام چنان کہ صاحب نور مرحوم برادر احمد نور بملک خود آمدہ بود پس براُوسپاہان شدید مقرر شدہ بود لیکن بہ سبب گریخت کردن نجات یافت و الاّ ہلاک بود.وخودمن در ملک خود از صاحب نور مرحوم درباب مریدی مسیح موعودؑ درآن ملک درشہرت کم نیستم بلکہ مشہور ترہستم.چراکہ درزمانہ سابقہ ہمراہ شہید عبدالرحمان اینجا آمدہ و در بیعت داخل شدہ بودم و در ملک خود مردمان راحال من خوب معلوم است وایضاً در حق خود من این تجربہ کردہ ام ومحسوس نمودہ ام کہ بعد از شہادت شہید مرحوم مولویہائے آن ملک ہمراہ من بسیار نزاع کردند.چراکہ درآن ملک مثل روز روشن آشکارہ ہستم کہ این از پیروان ومریدان شہید مرحوم است.بسیار محنت ہا وخوفہا بسر خودمے برداشتم.چراکہ والد صاحب من درآن وقت نیز ہمین گفت کہ اگر شمابرویدمن از شما ناراض ہستم.از سبب لاچاری کاردین راپوشیدہ مے کردم.خوب میدانستم کہ بسیار گنہگار ہستم چراکہ اقوال وافعال من مثل اہل تشیع بود درتقیہ کردن.علاوہ براین بعض دشمنان من کہ نہایت شدید تر مخالف اند بحاکمان آن ملک

Page 58

اطلاع کردن کہ این شخص از اتباع آن شخص است کہ خود را مسیح موعود ومہدی مے گوید واز تلمیذان شہید مرحوم است بایدکہ محبوس شود ومثل استاد خود برجم شود.چراکہ درکفر او ہیچ شک نیست وآنہا این منظور کردہ بودند ونیز مطابق گفتہ آن ہا قصد کردہ بود لیکن محض بہ فضل اللہ تعالیٰ محفوظ شدہ این جا آمدہ ام.چراکہ دل خود فتویٰ داد کہ الحال دراین باب ہجرت اطاعت والدین برمن لازم نیست دراین جاقصد محکم کردم کہ واپس نمیروم.ہجرت اختیار کردم.اہل خانہ خود ومال واسباب خود را خاصۃ للہ گذا شتم الحال اگر بروم.ہجرت نیز شکستہ مے شود.وایضاً وصیتکردہ ام در باب مقبرہ بہشتی از دفن آن نیز محروم مے شوم.چراکہ باز آمدن نمے توانم بہ این سبب کہ ہر وقت کہ من مے آیئم والد صاحب من باز ناراض مے شود حال این است کہ مخالف ہم نیست وبذریعہ کاغذ دربیعت ہم داخل است.و بر این اقوال خود.مولوی عبدالستار صاحب وسید احمد نور صاحب ہر دو شاہدان دارم.الغرض برائے من نہایت ابتلاء پیش شدہ است.چراکہ من تجربہ کردہ ام کہ در آں وطن دین بر دُنیا مقدم نمے شود بلکہ ہرگز محفوظ نمے شود اگر حفاظت دین خود مے کند خودرا درمعرض ہلاک انداختن درحق خود من یقینا محسوس مے بینم چراکہ من خودبخود دیدہ وتجربہ کردہ ام واز دیگر طرف حکم اطاعت والدین است.اوّلاً امید دارم.کہ حضرت اقدس دعا مرحمت نمایند کہ از ہر ابتلا واز ہر شر محفوظ شوم.دوم درخواست فیصلہ این امر مذکور دارم.اگرچہ دل خود فتویٰ مے دہد.کہ من معذور ہستم اطاعت والدین خود برمن لازم نیست لیکن کار دین باریک تراست بغیر از حکم وفیصلہ کردن حضرت اقدس فتویٰ وفیصلہ منظور ومعتبر نیست.٭ العارض خاکسار غلام محمد افغان احمدی از قادیان ٭ بدر نمبر۲۷ جلد۶ مورخہ ۴؍جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۸

Page 59

ترجمہ ازناشر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ بحضور جناب حضرت اقدس رسول اللہ و خلیفۃ اللہ مسیح موعود ومہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اما بعد، بندہ خاکسار کی عرض یہ ہے کہ میرے والد صاحب کی طرف سے خط آیا ہے.اُس کی نقل میں نے اس خط کے پیچھے لکھ دی ہے لیکن اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ تم ضرور اپنے گھر آجاؤ اور اگر نہ آئے تو آخرت کے دن میں تم سے بیزارہو جائوں گا اور میرا دل تم سے ناراض ہے اور میرے خود بھی اس امر میں بہت سارے عذر ہیں پہلا یہ ہے کہ میں حضور حضرت اقدس سے دُور ہو جائوں گا اور یہ میرے دل میں قتل سے اور ہر مصیبت سے اور ہر گھاٹے سے بہت زیادہ محسوس ہوتا ہے اور پھر یہ کہ قرآن شریف کا سبق پڑھتا ہوں.کچھ پڑھا ہے اور زیادہ باقی رہتا ہے اور اسی طرح حضرت اقدس کی کتب کا مطالعہ کرتا ہوں.تھوڑا تھوڑا مطالعہ کیا ہے زیادہ باقی پڑا ہے اور یہ دونوں اُس ملک میں حاصل نہیں ہو سکتے.میں محروم ہو جاؤں گا.یہ بھی قتل سے بدتر اور شدید تر ہے اور یہ کہ میرے ملک میں جان کی ہلاکت کا خوف بھی ہے اور دین کی ہلاکت کا خوف بھی ہے اور دونوں کو میں نے خود بخود محسوس کر لیا ہے اور تجربہ کیا ہواہے جس طرح کہ صاحبِ نور مرحوم احمد نورکا بھائی اپنے ملک آیا تھا اُس کے پیچھے بہت سپاہی لگا دئیے گئے تھے لیکن بھاگ جانے کی وجہ سے جان بچ گئی وگرنہ قتل کر دیا جاتا اور میں خود اپنے ملک میں حضرت مسیح موعود ؑ کی مریدی کے سلسلہ میں صاحب نور مرحوم سے کم شہرت نہیں رکھتا بلکہ اُس سے بھی زیادہ مشہور ہوں اس لئے سابقہ زمانہ میں شہید عبدالرحمن کے ہمراہ یہاں آیا تھا اور بیعت میں داخل ہوا تھا اور میرے وطن میں لوگوں کو میرے حال کا بخوبی علم ہے اور اسی طرح میں نے اپنے حق میں یہ تجربہ کیا ہواہے اور محسوس کیا ہوا ہے کہ شہید مرحوم کی شہادت کے بعد اس ملک کے مولویوں نے میرے ساتھ بہت سارے جھگڑے کئے ہیںاس لئے کہ میں اُس ملک میں روز روشن کی طرح آشکار ہو چکا ہوں کہ یہ شہید مرحوم کے پیرو اور مریدوں میں سے ہے.بہت سختیاں اور خوف میں نے اپنے اوپر برداشت کئے ہیں کیونکہ میرے والد صاحب نے بھی اُس وقت یہی کہا تھا کہ اگر تم چلے گئے تو میں تم سے ناراض ہوں گا.لاچاری کے سبب میں دین کے کام کو

Page 60

پوشیدہ کرتا تھا.مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ بہت گنہگار ہوں کیونکہ میرے اقوال وافعال اہل تشیع کے تقیہ کرنے کی طرح تھے.اس کے علاوہ میرے بعض دشمن جو کہ بہت شدید مخالف ہیں اس ملک کے حاکموں کو اطلاع دی ہے کہ یہ شخص اُس شخص کے متبعین میں سے ہے جو اپنے آپ کو مسیح موعود اور مہدی کہتا ہے اور شہید مرحوم کے شاگردوںمیں سے ہے اور اسے قید کرنا چاہئے اور اپنے استاد کی مانند پتھراؤ (رجم) ہونا چاہئے.کیونکہ اس کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے اور اُنہوں نے یہ منظور کر لیا تھا نیزاُن کے کہنے کے مطابق اُنہوں نے ارادہ کر لیا تھا لیکن محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے محفوظ رہا اور اس جگہ پہنچ گیاہوں کیونکہ میرے دل نے فتویٰ دیا کہ اِن حالات میں ہجرت کرنی چاہیے.والدین کی اطاعت مجھ پر لازم نہیں اور اس جگہ میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ واپس نہیں جاؤں گا.ہجرت اختیار کر لی.اپنے اہل خانہ اورمال واسباب کو خالصۃً لِلّٰہ چھوڑ دیا.اب اگر جاؤں ہجرت بھی ٹوٹ جاتی ہے اور اسی طرح بہشتی مقبرہ کے بارہ میں میں نے وصیت کی ہوئی ہے اور اُس میں دفن ہونے سے بھی محروم ہو جاؤں گا کیونکہ دوبارہ نہیں آسکوں گا اس لئے کہ جس وقت بھی میں آتاہوں میرے والد صاحب ناراض ہوجاتے ہیں حالانکہ مخالف بھی نہیں ہیں اور چٹھی کے ذریعہ بیعت میں بھی داخل ہوئے ہیں اور میں اپنی اس تحریر پر مولوی عبدالستار صاحب اور سید احمد نور صاحب دونوں کو بطور گواہ پیش کرتاہوں.الغرض میرے لئے بہت بڑا ابتلا پیش آیا ہے کیونکہ میں نے تجربہ کیا ہواہے کہ اُس وطن میں دُنیا پر دین مقدم نہیں ہو سکتا بلکہ ہرگز محفوظ نہیں رہ سکتا.اگر اپنے دین کی حفاظت کرتا ہے تو اپنے آپ کو معرض ہلاکت میں ڈالتا ہے اور یہ میں اپنے حق میں یقینا محسوس کرتاہوں کیونکہ میں نے خود دیکھا اور تجربہ کیا ہے اور دوسری طرف والدین کی اطاعت کا حکم ہے اولاً اُمید رکھتا ہوں کہ حضرت اقدس دعا مرحمت فرمائیں گے کہ ہر ابتلا اور شر سے محفوظ رہوں.دوم.مذکورہ معاملہ میںفیصلہ کی درخواست کرتا ہوں.اگرچہ دل میرا فتویٰ دیتا ہے کہ میں معذور ہوں اور اپنے والدین کی اطاعت مجھ پر لازم نہیں لیکن دین کا کام باریک تر ہے ،حضور اقدس کے حکم اور فیصلہ کے بغیر کوئی فتویٰ ا ور فیصلہ منظورومعتبر نہیں ہے.العارض خاکسار غلام محمد افغان احمدی از قادیان

Page 61

مکتوب نمبر۵ (نقل مکتوب حضرت اقدس کہ برپشت مکتوب من نوشتہ بوداین است) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مکتوب شما بغور خواندم نزدم بحکم آیت کریم  ۱؎ کہ معذور ہستید جانِ خود ناحق تلف کردن وایمان را در معرض خطر اندا ختن روانیست.نبویسید کہ من از اطاعت شما بیرون نیستم.واز دل وجان تاحکم شریعت اطاعت شمامے کنم.لیکن چون درآمدن جان خودرا در معرض مے بینم.ازین وجہ معذورم.ازین پیش آنچہ بمولوی عبداللطیف کردہ اند مخفی نیست ومن درآن ملک درین امر شہرت دارم کہ از جماعت مولوی عبداللطیف ہستم و در سلسلہ احمدیہ داخلم.ہان بہتر است کہ زوجۂ من نزدمن بیائد ہیچ مانع نیست غرض دررفتن خطر است درآن ملک خوف خدانیست ومردم وحشی سیرت ہستند.٭ والسلام مرزا غلام احمد ترجمہ از ناشر (حضرت اقدس کے مکتوب کی نقل جو کہ میرے مکتوب کے پیچھے لکھا گیا تھا یہ ہے) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا مکتوب میں نے غور سے پڑھا ہے.میرے نزدیک بحکم آیت کریمہ   کہ آپ معذور ہیں اپنی جان کو ناحق ضائع کرنا اور اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالنا جائز نہیں ہے.آپ لکھ دیں کہ میں آپ کی اطاعت سے باہر نہیں ہوں اور دل وجان سے شریعت کے حکم کے مطابق آپ کی اطاعت کرتا ہوں لیکن چونکہ آنے کی صورت میں اپنی جان کو خطرے میں دیکھتا ہوں اس وجہ سے معذور ہوں.اس سے پہلے جو مولوی عبداللطیف صاحب سے اُنہوں نے کیا ہے وہ مخفی نہیں ہے اور میں اُس ملک میں اس بات کے متعلق شہرت رکھتا ہوں کہ میں مولوی عبداللطیف صاحب کی جماعت سے ہوں اور سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوں.ہاں بہتر ہے کہ میری بیوی میرے پاس آجائے کچھ مانع نہیں ہے.غرضیکہ جانے میں خطرہ ہے.اُس ملک میں خدا کا خوف نہیں ہے اور لوگ وحشی سیرت ہو گئے ہیں.والسلام مرزا غلام احمد ۱؎ البقرۃ:۱۹۶ ٭ بدر نمبر ۲۷ جلد۶ مورخہ ۴؍جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۸، ۹

Page 62

Page 63

حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 64

حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ؓ (ولادت ۱۸۸۷ء بیعت ۱۸۹۹ء وفات ۲۸؍فروری ۱۹۶۰ء) حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ؓسلسلہ احمدیہ کے ان ممتاز اور نامور بزرگوں کی صف اوّل میں شامل تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے قریباً نصف صدی تک ایسی شاندار اور نمایاں دینی خدمات کی توفیق بخشی کہ آنے والی نسلیں قیامت تک آپ پر فخر کرتی چلی جائیں گی.حضرت چوہدری صاحب ۱۸۸۷ء میں اپنے آبائی وطن جوڑا کلاں تحصیل قصور میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم بھی یہیں پائی.آپ کے والد حضرت چوہدری نظام الدین صاحب نے ۱۸۹۷ء میں بیعت کا شرف حاصل کیا.آپ نے جون ۱۸۹۹ء میں قادیان جا کر بیعت کی.آپ مستقل طور پر دسمبر۱۹۰۰ء میں قادیان چلے گئے اور وہاں اسکول میں داخل ہو گئے.آپ ان دنوں پانچویں جماعت میں تھے.آپ نے میٹرک تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے کیا.بعدازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور پھر علیگڑھ سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی.ابھی آپ ایف اے میں تھے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ نے ستمبر۱۹۰۷ء میں وقف زندگی کی تحریک فرمائی.اس تحریک پر جن خوش نصیب جوانوں کو لبیک کہنے کی توفیق ملی، ان میں آپ بھی شامل تھے.جب آپ کی درخواست حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوئی تو حضور نے آپ کا وقف قبول فرما لیا اور آپ ایم اے پاس کرنے کے بعد قادیان میں مستقل طور پر ہجرت کر کے آ گئے.وسط ۱۹۱۳ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے آپ کو خواجہ کمال الدین صاحب کی معاونت کے لئے ووکنگ (انگلستان) بھجوایا.آپ ۲۵؍جولائی ۱۹۱۳ء کو لنڈن پہنچے.آپ کی تبلیغی کوششوںسے تقریباً ایک درجن انگریز مسلمان ہوئے.آپ ۲۹؍مارچ ۱۹۱۶ء کو قادیان واپس تشریف لائے.اور ۱۵؍جولائی ۱۹۱۹ء کو دوبارہ انگلستان کے لئے روانہ ہوئے.جنوری ۱۹۲۰ء میں حضرت مصلح موعود ؓ نے لندن میں مسجد کی تعمیر کے لئے تحریک فرمائی جس پر جماعت نے پرُجوش رنگ میں لبیک کہا اور چوہدری صاحب نے حضور کی زیر ہدایت اگست ۱۹۲۰ء میں لنڈن کے محلہ پٹنی سائوتھ فیلڈ میں

Page 65

ایک قطعہ زمین مع ایک مکان خریدا جو قریباً ایک ایکڑ پر مشتمل تھا.۲۹؍دسمبر۱۹۲۰ء کو آپ رہائشی مکان واقع سٹار سٹریٹ نمبر۴ سے اس عمارت میں منتقل ہو گئے.۶؍فروری ۱۹۲۱ء کو اس نئے دارالتبلیغ کا شاندار افتتاح عمل میں آیا.دینی خدمات بجالانے کے بعد آپ واپس ہندوستان کے لئے روانہ ہوئے اور حج بیت اللہ سے مشرف ہونے اور شریف مکہ سے ملاقات کے بعد ۱۶؍ستمبر ۱۹۲۱ء کو قادیان پہنچے.۱۹۲۲ء میں ’’مجلس شوریٰ ‘‘ کا آغاز ہوا.اس پہلی تاریخی مجلس شوریٰ میں آپ ناظر اشاعت و تربیت کی حیثیت سے شامل ہوئے.۱۹۲۳ء میں ملکانہ قوم میں آریوں کی طرف سے شدھی کی تحریک زورشور سے اٹھ کھڑی ہوئی.حضرت مصلح موعودؓ نے مسلمانوں کو ارتداد کے اس طوفان سے بچانے کے لئے تبلیغی جہاد کا اعلان کیا اور آپ کو ’’امیر المجاہدین‘‘ مقرر فرمایا.۱۹۲۴ء میں سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ پہلی بار یورپ تشریف لے گئے اس تاریخی سفر میں آپ کو بھی حضور کی معیت کا شرف حاصل ہوا.اس سفر سے مراجعت کے بعد حضرت چوہدری صاحب سالہا سال تک ناظر دعوت و تبلیغ اور ناظر اعلیٰ کے ممتاز عہدوں پر فائز رہے.۱۹۴۶ء میں آپ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اس حیثیت سے بھی آپ کو مسلمانوں کی نمایاں خدمات بجالانے کا موقعہ ملا.آپ مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے صدر بھی رہے.آپ کے ایک بیٹے محترم ناصر سیال صاحب کی شادی حضرت مصلح موعود ؓ کی بیٹی صاحبزادی امتہ الجمیل صاحبہ سے ہوئی.آپ نے ۲۸؍فروری ۱۹۶۰ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے.سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ نے آپ کی وفات پر رقم فرمایا.’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان سے بہت محبت کرتے تھے.… جب میں نے تشحیذ الاذہان جاری کیا تو جن لوگوں نے ابتداء میں میری مدد کی ان میں یہ بھی شامل تھے.ملکانہ تحریک ساری انہوں نے چلائی تھی.حضرت خلیفہ اولؓ … کے داماد بھی تھے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور اس کے فرشتے ان کو لینے کے لئے آگے آئیںاور خدا تعالیٰ کی برکتیں ہمیشہ ان پر اور ان کے خاندان پر نازل ہوتی رہیں‘‘.٭ ٭ تلخیص از تاریخ احمدیت جلد ۲۰ صفحہ ۷۶۹ تا ۷۸۷

Page 66

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ہادی و مولانا السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضور بندہ کا مدت سے ارادہ تھا کہ اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی رہ میں وقف کر دوں.اس کا میں نے اپنے والد صاحب سے کئی دفعہ ذکر بھی کیا اور انہوں نے ایسا کرنے کی بندہ کو اجازت دی ہوئی ہے.پہلے بھی اس قسم کی ایک عرضی میں نے حضور کی خدمت مبارک میں لکھی تھی.مگر اس وقت حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب نے فرمایا تھا.کہ تمہارا ابھی وقت نہیں آیا.اس لئے بندہ نے توقف کیا.نہیں تو بندہ کی ہمیشہ یہی خواہش رہی ہے.اب بندہ حضور سے استدعا کرتا ہے کہ اس عرض کو قبول کیا جائے اور دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی اس قربانی کو قبول فرمائے.کیونکہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ اللہ متقی کی قربانی قبول کرتا ہے اور دوسرے کی رد .۱؎ والسلام ۲۵؍ستمبر ۱۹۰۷ء حضور کا ادنیٰ غلام فتح محمد مکتوبژ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ تم نے بھی اپنی زندگی اسلام کی راہ میں وقف کی.خدا تعالیٰ اس پر استقامت بخشے آمین.مناسب ہے کہ مفتی محمد صادق صاحب اس کی فہرست بناتے جائیں.٭ والسلام مرزا غلام احمد ۱؎ المائدۃ : ۲۸ ٭ تاریخ احمدیت جلد۳ صفحہ ۴۶۰،۴۶۱

Page 67

Page 68

Page 69

Page 70

Page 71

مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 72

حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری ؓ آپ کی پیدائش ۱۸۸۲ء قریباً ۱۳۰۰ ھ میں ہوئی.والد کا نام مولوی محمد موسیٰ صاحب تھا.حضرت مسیح موعود ؑ جون ۱۸۸۸ء کو جب سنور ریاست پٹیالہ تشریف لے گئے تو آپ کو حضرت مسیح موعود ؑ سے مصافحہ کرنے کی سعادت ملی اور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری ؓکا حضرت ؑ کو عرض کرنے پر کہ ہمارے دو بچوں کے لئے دعا فرماویں تو حضور ؑ نےآپ کو گود میں لے کر دعا فرمائی.گو آپ نے پہلے ہی حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا تھا مگر دستی بیعت ۱۸۹۸ء میں کی.دستی بیعت کرنے کا سبب سنور کا ایک شخص بنا کہ جب آپ نے اس کو تبلیغ کی تو اس نے دلائل سے لاچار ہو کر آپ کو طعنہ دیا کہ ’’دیکھا نہ بھالا صدقے گئی خالہ‘‘ چنانچہ آپ بٹھنڈہ(ان دنوں آپ اپنے والد صاحب کے ساتھ بٹھنڈہ میں رہتے تھے اور نقشہ نویسی کا کام سیکھتے تھے) سے سوار ہو کر قادیان آئے اور دستی بیعت کی.آپ نے ۱۹۰۲ء یا ۱۹۰۳ء میں محکمہ مال میں ملازمت اختیار کی.حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ آپ کا انتہائی فدائیت کا تعلق تھا جس کی وجہ سے وقتاً فوقتاً ملازمت سے رخصت لے کر قادیان کچھ عرصہ قیام کرتے.جب آپ کی دوسری شادی ہوئی تو کچھ عرصہ بعد ڈاکٹروں نے آپ کو بتایا کہ آپ کی بیوی سے اولاد نہیں ہو سکتی.آپ نے حضرت اقدس ؑ سے اولاد ہونے کے لئے دعا کی درخواست کی تو حضور ؑ نے آپ کی بیوی کو فرمایا کہ ان کو میری طرف سے خط لکھ دو کہ حضرت صاحب فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمہاری اس قدر اولاد ہو گی کہ تم سنبھال نہ سکو گے چنانچہ اللہ کے فضل سے بیٹے ، بیٹیاں ملا کر ۱۴ بچے پیدا ہوئے.خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کو متعدد خدمات خلفاء جماعت احمدیہ و سلسلہ احمدیہ بجالانے کی توفیق ملی.

Page 73

۱۹۱۵ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ارشاد پر چھ ماہ قادیان میں رہ کر جملہ صحابہ کرامؓ سے حضرت مسیح موعود ؑ کی روایات جمع کیں.۱۹۳۶ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے آپ کو ناصر آباد اسٹیٹ کا مینیجر مقرر کیا.آپ ۱۹۵۲ء میں دوبارہ ناصر آباد اسٹیٹ کے مینیجر مقرر ہوئے.ناصر آباد کی زمینوں پر آپ نے بڑی محنت اور دعائوں سے کام کیا کہ ان زمینوں کی پیداوار میں غیر معمولی اضافہ ہوا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ۱۹۵۶ء کی مجلس شوریٰ میں آپ کے اخلاص اور محنت کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا.’’اس سال تو صدر انجمن احمدیہ کو گھاٹا رہا لیکن مجھے نفع آیا ہے.یہ محض منشی قدرت اللہ صاحب سنوری کے سجدوں کی برکت تھی.‘‘آپ ایک پرُجوش احمدیت کی تبلیغ کرنے والے تھے.ایک دفعہ آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ارشاد پر چھ ماہ تک قادیان ٹھہرنا پڑا تو ایک دن حضور کو عرض کیا کہ میں اپنے وطن میں دو تین ماہ کے اندر تبلیغ کی وجہ سے کسی نہ کسی کی بیعت بھیجوا دیا کرتا تھا.اب چھ ماہ یہاں رہا ہوں کوئی بیعت نہیں کروا سکا.حضور نے فرمایا.بہت اچھا میں دعا کروں گا.چنانچہ حضور کی دعا سے صرف ایک ماہ میں ۳۶ احباب کی بیعتوں کی درخواستیں بھجوائیں.۱۹۵۸ء کو آپ کو اور آپ کی اہلیہ کو حج کرنے کی توفیق ملی.٭ آپ ایک عبادت گزار ، صاحب الرؤیا، دعا گو اور حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے خاندان کے بے حد خدمت گزار عاشق تھے.آپ بتاریخ ۱۹؍نومبر۱۹۶۸ء بعمر ۸۶ سال وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے.٭ تلخیص از تجلی ٔ قدرت از حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری

Page 74

حضور نے میرے خط کا جو جواب دیا وہ درج ذیل ہے.مکتوب السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ اجازت ہے.چلے جائیں اور میاں عبد اللہ سنوری کے خط سے حال صحت معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی.اللہ تعالیٰ پوری صحت عطا فرمائے.میری طرف سے کہہ دیں کہ میں دعا کرتا رہوں گا.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.٭ والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ ٭ تجلی ٔ قدرت از حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری ؓ صفحہ ۱۰

Page 75

حضرت قاضی گوہر محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 76

ایک دفعہ( حضرت )قاضی گوہر محمد صاحبؓ آف نور پور ضلع کانگڑہ نے حضور ؑ کی خدمت میں بہت عاجزی کا خط لکھا کہ مجھے براہین احمدیہ حصہ چہارم کی ضرورت ہے.اس پر حضور ؑ نے یہ الفاظ تحریر فرمائے.مکتوب السلام علیکم اگر کوئی حصہ چہارم براہین احمدیہ موجود ہے تو سید مہدی حسین ان کو بھیج دیں اور یہ خط سید مہدی حسین کو دیا جاوے.٭ مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭ رجسٹر روایات صحابہ (غیرمطبوعہ) نمبر ۱۱ صفحہ ۲۹۴

Page 77

حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہیؓ

Page 78

حضرت مولوی سید محمد احسن رضی اللہ عنہ کے والد سید مردان صاحب محلہ شاہ علی سرائے امروہہ کے رہنے والے تھے.آپ نواب صدیق حسن خان آف ریاست بھوپال کی مجلس علماء کے خاص رکن تھے.نواب صاحب کو دینی علم کا خاص شوق تھا.انہوں نے ہندوستان کے چیدہ علماء کی ایک جماعت کو منتخب کر کے اپنے پاس ملازم رکھا ہوا تھا.جو انہیں علمی مواد بہم پہنچاتے رہتے تھے جس کی مدد سے انہوں نے مختلف دینی کتب تصنیف کیں.ان علماء میں حضرت مولوی صاحب بھی شامل تھے.نواب صاحب کے ہاں آپ کی بڑی عزت تھی.آپ ریاست بھوپال میں مہتمم مصارف کے عہدہ پر فائز تھے.آپ نے ۲۳؍اپریل ۱۸۸۹ء کو حضرت اقدس ؑ کی تحریری بیعت کی.رجسٹر بیعت کے مطابق آپ کی بیعت کا نمبر۸۷ ہے.حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے جب ۱۸۹۱ء میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو علماء کی طرف سے مخالفت کا زبردست شور اٹھا.کفر کے فتوے لگائے گئے.حضور ؑ ’’حقیقۃ الوحی‘‘ میں بیان فرماتے ہیں.آپ ایک دفعہ نعمت اللہ ولی کا وہ قصیدہ دیکھ رہے تھے جس میں آپ ؑ کے آنے کی خبر ان کے اس شعر میں ہے.مہدی وقت و عیسیٰ دوراں ہر دو را شہسوار می بینم عین اس شعر کے پڑھنے کے وقت الہام ہوا.از پئے آں محمد احسن را تارک روزگار می بینم یعنی میں دیکھتا ہوں کہ مولوی سید محمد احسن امروہی اس غرض کے لئے اپنی نوکری سے

Page 79

جو ریاست بھوپال میں تھی علیٰحدہ ہو گئے تا خدا کے مسیح کے پاس حاضر ہوں اور اس کے دعوے کی تائید کے لئے خدمت بجا لاویں اور یہ ایک پیشگوئی تھی جو بعد میں نہایت صفائی سے ظہور میں آئی.حضرت مسیح موعود ؑ ’’ازالۂ اوہام‘‘ میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.’’مولوی صاحب موصوف اس عاجز سے کمال درجہ کا اخلاص و محبت اور تعلق روحانی رکھتے ہیں ان کی تالیف کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ لیاقت کے آدمی اور علوم عربیہ میں فاضل ہیں.بالخصوص علم حدیث میں ان کی نظر بہت محیط اور عمیق معلوم ہوتی ہے.حال میں انہوں نے ایک رسالہ اعلام الناّس اس عاجز کے تائید دعویٰ میں بکمال متانت و خوش اسلوبی لکھا ہے.جس کے پڑھنے سے ناظرین سمجھ لیں گے کہ مولوی صاحب موصوف علم دینیہ میں کس قدر محقق اور وسیع النظر اور مدقّق آدمی ہیں.انہوں نے نہایت تحقیق اور خوش بیانی سے اپنے رسالہ میں کئی قسم کے معارف بھر دیئے ہیں.‘‘ آپ نے ۱۵؍جولائی ۱۹۲۶ء کو امروہہ میں وفات پائی اور وہیں تدفین عمل میں آئی.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی.٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۵۶ ، ۵۷

Page 80

Page 81

مکتوب نمبر۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مکرم مولوی سیدمحمد احسن صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مدت کے بعد عنایت نامہ پہنچا کبھی کبھی اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں گو اس عاجز کی طرف سے بوجہ کم فرصتی جواب بھیجنے میں کچھ تاخیر بھی ہو جایا کرے.مولوی محمد بشیر صاحب بلاشبہ اُن لوگوں میں سے ہیں جو اخلاص سے خدا تعالیٰ کا راہ طلب کرتے ہیں مگر انسان بعض شبہات کے پیدا ہونے سے مجبور ہو جاتا ہے ہر یک دل اللہشانہٗ کے دستِ تصرّف میں ہے جس طرف چاہتا ہے پھیرتا ہے.یہ عاجز اگر وقت ہاتھ آیا اور اللہ شانہٗ نے ارادہ فرمایا تو کسی وقت مولوی صاحب موصوف کے لیے دعا کرے گا.خدا تعالیٰ طالب ِ صادق کو ضائع نہیں کرتا اور بااستعداد آدمی کو محجوب رہنے نہیں دیتا.خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو ایک مصلحت عظیم کے لیے برپا کیا ہے اور صادقین اور متقین کو اس میں داخل کرنا چاہا ہے سو وہ خود اپنے قوی ہاتھ سے اپنے لوگوں کو اس طرف کھینچ لائے گااگر کوئی راست باز آدمی کچھ مدت تک بعض خدشات کی وجہ سے متخالف رہے تو یہ کچھ اندیشہ کی بات نہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے مخلص قوی الایمان چار برس کے بعد ایمان لائے.مجھے قریب قریب یقین کے معلوم ہوتا ہے کہ کسی وقت خدا تعالیٰ مولوی محمد بشیر صاحب کو اطمینان بخش دے گا..۱؎ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب نے چند خط درباب الہامات ضرور لکھے تھے مگر چونکہ یہ عاجز بدل اس بات سے متنفرّ ہے کہ اپنے ہم مشرب بھائیوں سے جو تعلق محبت بھی رکھتے ہیں ظاہری جھگڑوں اور مناظرات میں اُلجھا رہے اس لئے ایک دن بھی وہ خط بحفاظت نہیں رکھے گئے کیونکہ اُن کے کسی آخری نتیجہ سے کچھ غرض نہیں تھی مولوی صاحب کو نرمی سے سمجھایا گیا تھا کہ ۱؎ الملک : ۲

Page 82

آپ اس رائے میں غلطی پر ہیں اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو مولوی صاحب اُن وجوہات کو جو پیش کی گئی تھیں سمجھ لیتے وہ میرے ایک پُرانے دوست ہیں اور اُن کی نسبت میرا نیک ظن ہے اور گو وہ اپنے خیال میں اب بہت دور جا پڑے ہیں مگر مجھے اس تصور سے بغایت درجہ دل دردمند ہے کہ ایسا دوست محروموں اور محجوبوں کی طرح ہو جائے میرے دل میں پختہ ارادہ ہے کہ ان کے لئے غائبانہ کوشش کروں اور اُس قادر مطلق سے جس پر میرا بھروسہ ہے اُن کی رہائی چاہوں ظاہری بحثوں اور مناظرات سے دل نرم نہیں ہو سکتا بلکہ جہاں تک میرا تجربہ ہے میں دیکھتا ہوں کہ آج کل کے مباحثات ومناظرات مخالفت وکینہ وبخل کو بڑھانے والے ہیں اور ان کا ضرر ان کے فائدہ سے بہت زیادہ ہے یہ بھی دیکھا ہے کہ مجرد مشاہدہ خوارق اور کرامات کا کسی کی ہدایت کے لئے کافی نہیں بلکہ ہدایت امر منجانب اللہ ہے جو سعید روحیں ہیں بہرحال اُس کو پا لیتی ہیں.یاد پڑتا ہے کہ ایک مرتبہ مولوی محمد حسین صاحب نے کچھ عرصہ قادیان میں رہنے کے لئے مجھے لکھا تھا اُس وقت میں نے اُس وقت کے مصالح کے موافق بھی مناسب سمجھا تھا کہ ابھی وہ اپنے مکان میں اپنے کام میں لگے رہیں لیکن میری دانست میں اس وقت کی حالت قرب کو چاہتی ہے مولوی صاحب کے دل میں طرح طرح کے شکوک وشبہات ہیں اور میری دانست میں جو کچھ ان کے دل میں ہے وہ بہت زیادہ اُس سے ہے کہ جو اُن کی زبان سے نکلتا ہے مگر بوجہ منطقی طبع ہونے اور نیز بباعث علاقہ دوستی ومحبت کے وہ اپنے دل کے پورے شبہات وبخارات کو ظاہر نہیں فرما سکتے کیونکہ وہ ایسا فعل برخلاف طریق واتقا واخلاص کے خیال کرتے ہیں لیکن اگر اُنھیں الہامات اور اُن انوار الٰہیہ میں تأ ّمل ہے کہ جو اس عاجز پر نازل ہو رہے ہیں تو اس سے بہتر کوئی طریق نہیں کہ مولوی صاحب اپنی پہلی درخواست کے موافق تین چار ماہ تک درویشانہ حالت میں اس عاجز کے پاس گوشہ گزین ہوں اور یہ عاجز وعدہ کرتا ہے کہ اگر مولوی صاحب قادیان میں اس قدر مدت تک رہیں تو جہاں تک طاقت ہے اُن کے لیے دُعا کروں گا اور خدا تعالیٰ سے اُن کی تفہیم چاہوں گا اللہ شانہٗ کے اختیار میں ہے کہ جو چاہے ظہور میں لاوے لیکن اگر کچھ آثار نہ ہوں تو کم سے کم مولوی صاحب کے ہاتھ میں یہ بات تو ضرور آجائے گی کہ یہ شخص مقبولین میں سے نہیں ہے کیونکہ مقبولین جب جوش دل سے اضطرار کے وقت میں اپنے ربِّ جلیل سے

Page 83

کچھ مانگتے ہیں تو بے شک وہ اُن کی ُسنتا ہے اور جب ایسی حالت میں وہ تضرّع کرتے ہیں تو بلاشبہ اراداتِ الٰہیہ اُن کی طرف توجہ کرتی ہیں کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے پیارے بندے اور مخلص ہیں جن کے لئے وہ بڑے بڑے کام کر دکھاتا ہے.اور یہ جو میں نے کہا کہ مولوی صاحب تین چار ماہ تک اس جگہ رہیں یہ اپنے جوش کے لیے ایک حیلہ سوچتا ہوں کیونکہ جوش تضرّع میرے اختیار میں نہیں مولوی محمد حسین صاحب جیسے ایک جیّد فاضل میرے دروازہ پر ہوں گے تا امتحان کریں تو یہ بات جوش پیدا کرنے کے لئے بڑی مؤثر ہو گی.٭ خاکسار مرزا غلام احمد مکتوب نمبر۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۱؎ عنایت نامہ پہنچا یقینا یہ بات سچ ہے کہ کتابوں کی طبع میں حد سے زیادہ توقف ہو گیا ہے لیکن یہ توقف محض حکمت و مصلحتِ الٰہی سے ظہور میں آئی ہے اور بہت سی درمیانی بابرکت رکاوٹیں جس کا ذکر موجب تطویل ہے جو اس توقف کا موجب ہو گئی ہیں قرآن شریف بھی اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو ایک ہی دن میں نازل ہو سکتا تھا لیکن تمام کام خدا تعالیٰ کے وقفہ اور تأنیّ سے ہوتے ہیں.اب یہ عاجز بہت کوشش میں ہے.یقین ہے کہ جلد تر سب کام انجام پذیر ہو جائیں گے.ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں.٭٭ ۱۷؍اپریل ۱۸۸۸ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ ٭ الحکم نمبر۲۹ جلد۷ مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳ ۱؎ حضرت اقدس نے مکرّر ہی لکھا ہے.(ناشر) ٭٭ الحکم نمبر۲۳ جلد۷ مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۳

Page 84

مکتوب نمبر ۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالْمَنَّۃُ کہ خداوند کریم و رحیم نے آپ کو شفا بخشی.نہایت خوشی ہوئی.طبع کتاب میں منجانب اللہ ایسی روکیں اور ایسے موانع پیش آتے رہے ہیں کہ جن کی وجہ سے آج تک طبع حصہ پنجم و دیگر رسائل معرضِ توقف میں ہوتا گیا.مگر یہ حکمت ِ الٰہی ہے دیرآید درست آید.امید رکھتا ہوں کہ اللہ جلّ شانہٗ اپنے فضل و کرم سے خو د تمام کام انجام پذیر کر دے گا کہ سب کام اُس کے ہاتھ میں ہے.ایک اشتہار ارسال خدمت ہے اِس کو جہاں تک ممکن ہو شائع کر دیں.زیادہ خیریت ہے.٭ والسلام ۷؍جنوری ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.مولوی محمد صدیق حسن صاحب کے لئے جیسا کہ اشارہ ہوا تھا.اس عاجز نے دعا ئِ مغفرت کی تھی.امید کی جاتی ہے کہ اُن کے حق میں بہتر ہے.انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے حالات سے مطلع و مطمئن فرماتے رہیں.زیادہ خیریت ہے.٭٭ والسلام ۲۷؍مارچ ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ ٭ الحکم نمبر۲۳ جلد۷ مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۳،۴ ٭٭ ؍؍ ؍؍ ؍؍ صفحہ ۴

Page 85

مکتوب نمبر۵ بطرف مولوی سید محمد اَحسن صاحب امروہی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خدا آپ کو امراض بدنی و روحانی سے نجات بخشے.ہمت کو بلند کرو اور نظر اٹھا کر دیکھو کہ دنیا جس کے لئے انسان مرتا ہے اورکاہلی اختیار کرتاہے کس قدر ثبات و استحکام رکھتی ہے کیا حباب کی طرح نہیں جس کے عدم اور وجود کا گویاایک ہی زمانہ ہے.خدا تعالیٰ سے ہر وقت بصیرت چاہو.تا وُہ دنیا کی بے ثباتی ظاہر کرے اور قوت چاہو تااس کی طرف قدم اٹھا سکو.انسان کو اس سے کیا فائدہ کہ وہ ایک عرصہ اور مدت دراز اپنے اہل و عیال میں امن اور خوشی اور راحت کے گزارے اور پھرآخرکار خالی ہاتھ جائے.شیطان انسان کا سخت دشمن ہے اور پھر وہی فتح پاتا ہے جو خدا تعالیٰ سے بیعت الموت کرے.جو بیعت الموت خدا تعالیٰ سے کرتا ہے.اس کو غیبی قوت ملتی ہے اور جس طرح ستارے بے ستون کھڑے ہیںاور گرتے نہیں.اسی طرح وہ بھی خدا تعالیٰ کے عہد پر کھڑا رہتا ہے اور گرتا نہیں.بے آرامی میں رہو جب تک سچا آرام نہ پائو.دنیا میں ایسے لوگ بہت ہیں کہ اسلام کی حقیقت سے بے خبر اور اسلام کی صورت پر ناز کر رہے ہیں.مگر تمام حقیقت اسلام کی یہی ہے کہ انسان بکلّی خدا کی طرف چلا آوے.اور جان اور مال اور اہل و عیال وغیرہ لوازم زندگی میں سے کوئی چیز اس کے روکنے والی نہ ہو..۱؎ ٭ والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ٭٭ ۱؎ اٰل عمران : ۹۳ ٭ الحکم نمبر۲۶ جلد ۳۸ مورخہ ۲۱؍جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۱ ٭٭ الفضل نمبر۱۶۱ جلد۳۴ مورخہ ۱۱؍جولائی ۱۹۴۶ء صفحہ ۳

Page 86

مکتوب نمبر۶ محبیّ مکرمی اخویم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا.اشتہارات آپ کی خدمت میں بھیجے گئے ہیں.یہ عاجز آپ کے لئے دعا کرنے سے غافل نہیں.اللہ جلّ شانہٗ جب چاہے گا تو کوئی ایسا وقت آ جائے گا کہ دعا کی جائے گی اور قبول ہو جائے گی.ذوق اور بے ذوقی کی حالت میں جس طرح ہو سکے اعمالِ صالحہ کی بجا آوری میں لگے رہیں جب انسان پختہ عہد کر کے ثابت قدمی سے طاعت ِ الٰہی میں مشغول ہو تا ہے تو بے ذوقی سے ذوق اور بے حضوری سے حضور پیدا ہو جاتا ہے.نماز میں سورۂ فاتحہ کی دعا کا تکرار نہایت مؤثر چیز ہے کیسی ہی بے ذوقی اور بے مزگی ہو اس عمل کو برابر جاری رکھنا چاہیے.یعنی کبھی تکرار آیت  کا اور کبھی تکرار آیت  کا اور سجدہ میں یَاحَیُّ یَاقَـیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ.زندگی کا ذرہ اعتبار نہیں اور دنیا کی خواب گاہ نہایت دھوکا دینے والی چیز ہے.رات کو دعا کرو صبح کو دعا کرو کبھی جنگل میں جا کر دعا کرو.کبھی جماعت کے ساتھ اور کبھی خلوت میں دروازے بند کر کے دعا کرو تا خدا تعالیٰ نفس امارہ سے آزادی بخشے.جہاں تک ہو سکے گریہ و زاری کی عادت ڈالو کہ رونے والوں پر اس کو رحم آتا ہے کوشش کرو کہ تا خدا تعالیٰ کے روبرو ایسے صاف و پاک ہو جائو کہ جیسے قرآن شریف کی ہدایتوں کے رو سے اس کا منشاء ہے.کاہلی کچھ چیز نہیں اور بے مجاہدہ کوئی کسی منزل تک پہنچ نہیں سکتا.٭ ۱۶؍جون ۱۸۸۹ء والسلام خاکسار غلام احمدعفی عنہ ٭ الفضل نمبر ۱۶۱ جلد ۳۴ مورخہ ۱۱؍جولائی ۴۶ء صفحہ۳

Page 87

مکتوب نمبر۷محبیّ مکرمی اخویم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ مخلص دوست ہیں.خدا تعالیٰ اپنی محبت سے رنگین کرے کہ دنیا میں آنے سے یہی غرض اور یہی عمدہ تحفہ ہے جو دنیا سے لے جا سکتے ہیں.٭ ۲۵؍اگست ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدوم مکرم مولوی سیّد محمد احسن صاحب سلمہ ٗتعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ مع ایک خط و نقل جوابات پہنچا.آپ نے جو کچھ لکھا ہے بہت مناسب لکھا ہے اور اگر تحریر نہ فرماتے تب بھی کچھ مضائقہ نہیں تھا جن لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ نے مناسبت پیدا نہیں کی اور نیک ظنی کی قوت نہیں بخشی وہ انبیاء علیہم السلام سے بھی اصلاح پذیر نہیں ہو سکے.ہر ایک انسان کا فطرتی مادہ اپنی کیفیت کی طرف اس کو کھینچ رہا ہے..۱؎ زیادہ خیریت ہے.٭٭ والسلام ۲۶؍اگست ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ ٭ الفضل نمبر۱۶۱ جلد ۳۴ مورخہ ۱۱؍جولائی ۱۹۴۶ء صفحہ۳ ۱؎ بنی اسرآء یل : ۸۵ ٭٭ الحکم نمبر۲۳ جلد۷ مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۳

Page 88

مکتوب نمبر۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مشفقی محبیّ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اخلاص نامہ آنمکرم پہنچ کر بدریافت خیروعافیت خوشی ہوئی.یہ عاجز اب بفضلہ تعالیٰ تندرست ہے مگر اِس عاجز کے لڑکے کی طبیعت کسی قدر علیل ہے چونکہ ڈاکٹر کا علاج مناسب تھا اس لئے بٹالہ ضلع گورداسپور میں مع عیال یہ عاجز آگیا ہے اور علاج ہوتا ہے.ابھی کوئی حصہ چھپنا شروع نہیں ہوا.دن رات اسی فکر میں ہوں کہ یہ کام جلد انجام پذیر ہو جاوے.خدا تعالیٰ آپ کو اپنی محبت عطا فرماوے.آمین ثم آمین.٭ خاکسار غلام احمد عفی عنہ نوٹ: اس خط پر بھی کوئی تاریخ ثبت نہیں البتہ ڈاکخانہ بٹالہ کی مہر ۷؍اکتوبر ۱۸۸۹ء کی اور بھوپال کی ۱۲؍اکتوبر ۱۸۸۹ء کی ہے.ایڈیٹر ٭ الحکم نمبر۲۳ جلد۷ مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۴

Page 89

مکتوب نمبر۱۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ عاجز بباعث ضعف دماغ ایسا علیل ہو رہا ہے کہ ایک کارڈ لکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے.کتاب براہین احمدیہ مِنْ وَجْہٍ مکمل اور مِنْ وَجْہٍ غیر مکمل ہے جس قدر امور بعد مخالف تالیفوں کے ان کے جواب میں اس عاجز پر منکـشف ہوئے ہیں یا جو کچھ وقتاً فوقتاً بعض دقائق و معارف بعد میں تاایندم اس عاجز پر کھلتے گئے ہیں وہ ابھی تک اس کتاب میں شامل نہیں کئے گئے اور اپنی تالیفات کا گھٹانا یا بڑھانا مفصّل کرنا یا مجمل رکھنا اپنے اختیار میں ہوا کرتا ہے.پس جس نے ایسا اعتراض کیا ہے وہ اعتراض قلت ِ تدبرّ کی وجہ سے ہے میں اس وقت لُدھیانہ میں ہوں شاید پندرہ روز اور اس جگہ رہوں.٭ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ: اس خط پر کوئی مہر نہیں ہے لیکن ڈاکخانہ لُدھیانہ کی مہر ۱۱؍فروری ۱۸۹۰ء کی ہے.ایڈیٹر ٭ الحکم نمبر۲۳ جلد۷ مورخہ ۲۴ ؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ۳

Page 90

مکتوب نمبر۱۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مکرمی محبیّ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچ کر موجب فرحت ومسرت ہوا یہ عاجز اس بات کے دریافت سے بہت خوش ہوا کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے حسنِ ظن وذہن سلیم بخشا ہوا ہے خدا تعالیٰ آپ کو اس پر استقامت بخشے رسالہ ازالۂ اوہام چھپ رہا ہے شاید ایک ماہ تک چھپ کر شائع ہو جائے گا باقی دونوں رسالے فتح اسلام وتوضیح مرام آپ دیکھ چکے ہیں لیکن ازالہ اوہام اِنْشَائَ اللّٰہُ الْقَدِیْرُ تمام امور کا فیصلہ کرنے والا ہے.بفضلِ اللہ تعالیٰ قریب بیس جزو کے ہو گا.اِنْشَائَ اللّٰہُ الْقَدِیْرُ.تمام مخالفین شکست کھائیں گے اور حق غالب ہو گا.  ۱؎ یہ عاجز چند روز سے لُدھیانہ میں آگیا ہے شاید تین چار ماہ اسی جگہ رہوں ہمیشہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں.٭ ۸؍مارچ ۱۸۹۱ء والسلام خاکسار غلام احمداز لدھیانہ محلہ اقبال گنج ۱؎ المجادلۃ : ۲۲ ٭ الحکم نمبر۲۹ جلد۷ مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳

Page 91

مکتوب نمبر۱۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مکرمی محبیّ اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچ کر آپ کی محبت اور اخلاص اور اعتقاد پر اس امتحان کے وقت میں خبر پا کر نہایت درجہ کی خوشی ہوئی خدا تعالیٰ آپ کو اس سے بھی بڑھ کر استقامت بخشے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بار بار اپنے خطوط میں اپنی مخالفت کا اظہار کر رہے ہیں.میں نے مولوی صاحب کو لکھا تھا کہ آپ اوّل ایک جلسہ عام علماء وغیرہ کا کر کے بعض شکوک اپنے تحریری طور پر پیش کیجئے اور اسی جلسہ میں تحریری طور پر آپ کو جواب دیا جائے گا اور وہ دونوں تحریریں عام لوگوں کو سنا دی جائیں گی.اگر یہ طریق شافی وکافی نہیں ہو گا تو پھر آپ اشاعۃ السنہ میں درج کریں بالمواجہ گفتگو میں ایک خاص برکات ہوتے ہیں جو اُس مخالفانہ تحریرمیں ایک ربانی الہام کا مخالف ہرگز نہیں پا سکتا جو ایک گوشہ میں بیٹھ کر کوئی یکطرفہ تحریر کرنا چاہتا ہے لیکن مولوی محمد حسین صاحب ایسے جلسہ کو قبول نہیں کرتے لیکن اپنے طور پر اپنی مخالفت عام طور پر یہ مشہور کر رہے ہیں اور اب اشاعۃ السنہ میں اپنے خیالات کو تحریر کرنا چاہتے ہیں اس عاجز نے محض لِلّٰہ بہت سمجھایا کہ آپ بمقام امرتسر علماء کے جلسہ میں تحریری طور پر مجھ سے گفتگو کریں شاید خدا تعالیٰ آپ کے دل کو راستی کی طرف پھیر دیوے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے لیکن اب تک انہوں نے قبول نہیں کیا آج پھر اس عاجز نے خط لکھا ہے رسالہ ازا لۂ اوہام شاید بیس دن تک چھپ جائے بیس جزو کے قریب ہوگا اِنْشَائَ اللّٰہُ الْقَدِیْرُ چھپنے کے بعد آپ کی خدمت میں بھیجوں گا اگر آنمکرم کے پاس وہ کاغذات پہنچے ہوں جو مولوی عبدالجبار صاحب اور مولوی محمد اسمٰعیل صاحب نے لکھے ہیں تو مہربانی فرما کر ارسال فرماویں.٭ والسلام ۱۴؍ مارچ ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ ٭ الحکم نمبر۲۹ جلد۷ مورخہ ۱۰؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳، ۱۴

Page 92

مکتوب نمبر۱۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مخدومی مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ اور کارڈ بھی پہنچا جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا مَنْ یَّنْصُرُاللّٰہَ یَنْصُرُہٗ آپ کے رسالہ اعلام الناّس کا انتظار ہے معلوم نہیں کہ قول فصیح مؤلفہ مولوی عبدالکریم صاحب آپ کی خدمت میں پہنچ گیا یا نہیں اگر نہیں پہنچا تو یہ عاجز بھیج دیوے.کارڈ واپس ارسال خدمت ہے.مولوی محمد حسین صاحب نے تار بھیج کر مباحثہ چاہا جب اس طرف سے تیاری ہوئی تو پھر بحث کرنے سے انکار کر دیا اور یہ کہ مباہلہ کے اشتہارات آپ کی خدمت میں پہنچ گئے ہوں گے.باقی سب خیریت ہے.٭ ۷؍ اپریل ۱۸۹۱ء والسلام خاکسار غلام احمد از لدھیانہ محلہ اقبال گنج ٭ الحکم نمبر۲۹ جلد ۷ مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴

Page 93

مکتوب نمبر۱۴ بخدمت مکرمی اخویم سیّد محمد احسن صاحب بعدالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے آپ کا نام اس کتاب میں لکھ لیا ہے جو بیعت کرنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے لیکن اس فعل کا بطریق سنّت واقعہ ہونا ضروری ہے کہ اس میں برکات ہیں جس وقت آپ کو فرصت ہو اور حرج نہ ہو یا جس وقت اخویم مولوی محمد بشیر صاحب کو اس امر میں صحت نیت پیدا ہو جاوے اور وہ اس غرض کے لئے سفر کریں تب آپ مسنون طور پر عمل کرنے کے لئے تشریف لاویں.سورۃ فاتحہ کا ورد نماز میں بہتر ہے بہتر ہے کہ نمازِ تہجد میں کا بدلی توجہ و خضوع و خشوع تکرارکریں اور اپنے دل کو نزول انوار ِالٰہیہّ کے لئے پیش کریں اور کبھی تکرار آیت کا کیا کریں.ان دونوں آیتوں کا تکراراِنْشَائَ اللّٰہُ الْقَدِیْرُ تنویر قلب و تزکیۂ نفس کا موجب ہوگا.دوم.استغفار طالب کے لئے ضروری ہے.خدا تعالیٰ اپنی محبت میں آپ کو ترقی بخشے اور استقامت نصیب کرے.آمین ثم آمین.٭ خاکسار غلام احمد عفی عنہ ٭ الحکم نمبر ۲۳ جلد ۷ مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۳

Page 94

مکتوب نمبر۱۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْم مکرمی محبیّ اخویم مولوی سیّد محمد احسن صاحب سلّمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ جو اخلاص اور محبت سے بھرا ہوا تھا پہنچا.دنیا کے لوگ ہر ایک اہلِ حق سے دشمنی کرتے رہے ہیں پھر آنمکرم سے بھی اگر کریں تو کوئی نئی بات نہیں ہے صرف اس قدر ضروری ہے کہ ہر ایک حاسد کے جور و جفا کے اخلاق سے برداشت کرنی چاہیے اور خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنا چاہئے اور کثرت استغفار کی اپنی عادت ڈالنی چاہئے.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور ابتلا اور امتحان سے بچاوے ہمیشہ اپنی خیر و عافیت سے مطلع فرماتے رہیں.’’ازالۂ اوہام‘‘ اب ہفتہ عشرہ تک انشاء اللہ نکلنے والا ہے.٭ ۱۶؍ اگست ۱۸۹۱ء والسلام خاکسار غلام احمد از لدھیانہ محلہ اقبال گنج ٭ الحکم نمبر ۲۳ جلد ۷ مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۳

Page 95

حضرت جریّ اللہ فی حلل الانبیاء السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ دفتر میں نسخہ ’’چشمہ مسیحی‘‘ کے صرف بست نسخے باقی ہیں.خاکسار کو ایک نسخے کی ضرورت ہے اگر کوئی حرج نہ ہو تو ایک نسخہ لے لیا جائے ورنہ جب حکم ہو.مورخہ۳۱؍مئی ۱۹۰۶ء محمد احسن مکتوب نمبر۱۶ جواب میں حضور نے لکھا السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ ایک نسخہ لے لیں.٭ والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭ رجسٹر روایات صحابہ(غیرمطبوعہ) نمبر۱۱ صفحہ ۲۹۳

Page 96

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ حضرت مسیح موعود و مہدی معہود السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مبارک ہو کہ الہام غَاسِقُ اللّٰہِ ۱؎ پورا ہوا.اعنی بشرنی بخامس کی نسبت جو خیال اس میں ہم کو یا حضور کو تھا اس کی تفسیر اس الہام حال نے بخوبی کر دی یعنی وہ قمر جو اس وقت میںظہور اس کا تمہارے خیال میں ہے اس وقت موجود نہیں ہو گا بلکہ کسی دوسرے وقت میں موجود ہو گا جیسا کہ غاسق بعدَ وقت ٍ ما ظہور کرتا ہے اور اللہ کا بھی اسی پر دلالت کر رہا ہے کہ وہ غاسق عنداللہ موجود ہے.لیکن اس وقت مثل قمر منخسف کے، لوگوں کی نظروں میں ظاہر نہیں مگر معدوم محض بھی نہیں.اور دوسری مرتبہ یہ مبارکباد ہو کہ حضرت اہل بیت مقدس و مطہر نے اس تہلکہ سے نجات و خلاصی پائی.و الحمد للہ.۲۸؍جنوری ۱۹۰۳ء خاکسار محمد احسن --------------------- حضرت اقدس نے ۹ بجے کے قریب اس کا جواب یہ ارسال فرمایا.مکتوب نمبر۱۷ حضرت اخویم مولوی صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میرے خیال میں تو یہ ہے کہ حسب آیت کریمہ  ۲؎ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ دشمنوں کی نظر میں جائے اعتراض ہو گا اور جیسا کہ قمر غاسق ہونے کی حالت میں تاریکی میں ہوتا ہے.یہ امر ان کے خیال میں تاریکی میں نظر آئے گا.غرض پہلے اس سے تو۱؎ تذکرہ صفحہ ۳۷۴ ایڈیشن ۲۰۰۴ء ۲؎ الفلق : ۴

Page 97

میں نے غاسق کے لفظ سے موت بچے کی اجتہادی طور پر خیال کی تھی.اب خیال میں آتا ہے کہ یہ تاریکی دشمنوں کے اعتراض کی ہے کیونکہ مواہب الرحمن کے آخر میں یہ عبارت ہے کہ بَشَّرَنِیْ بِخَامِسٍ فِیْ حِیْنٍ مِّنَ الْاَحْیَانِ.پس اب وہ لفظ مِنَ الْاَحْیَانِ کو کھا جائیں گے اور خواہ نخواہ صورت تکذیب پیدا کریں گے جیسا کہ منافقوں نے حدیبیہ میں کی تھی.یہی معنے سچے معلوم ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ مخالفوں کو بھی جھوٹی خوشی پہنچاتا ہے. ۱؎ اس پر گواہ ہے اس تقریر کو جماعت پہ واضح کر دیں اور آج ایک نہایت مبشر الہام مجھے معلوم ہوا ہے.وہ علٰیحدہ بیان کروں گا اس میں گنجائش نہیں ہے.٭ والسلام خاکسار غلام احمد ۱؎ آل عمران : ۱۴۱ ٭ بدر نمبر۱،۲ جلد۲ مورخہ ۲۳ تا ۳۰؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۸

Page 98

Page 99

حضرت محمد انوار حسین خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ شاہ آباد.ہردوئی

Page 100

حضرت محمد انوار حسین خان صاحبؓ شاہ آباد.ہردوئی حضرت حکیم محمد انوار حسین خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد محترم فضل حسین خان صاحب قوم پٹھا ن شاہ آباد ضلع ہردوئی (یو.پی) کے معروف رئیس اور زمیندار تھے.آپ کی پیدائش تقریباً ۱۸۵۰ء میں ہوئی.دارالعلوم دیوبند کے دستار بند مولوی تھے.اس لحاظ سے دینی علوم سے اچھی واقفیت رکھتے تھے.آپ کے بالخصوص آم کے باغات تھے.اعلیٰ اقسام کو ملا کرپیوند کرنے کا آپ کوبہت شوق تھا.جو بہترین پھل ہوتے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی خدمت میں بھجواتے.حضرت صوفی (منشی) احمد جان صاحب ؓنے ایک کتاب ’’طب روحانی‘‘ لکھی انہوں نے اس کا پہلا حصہ دیکھا اور کہا کہ دوسرا بھی روانہ کر دیں.حضرت منشی صاحب کی طرف سے جواب گیا کہ اس کے چھپنے کی نوبت نہیں آئی.آپ نے کہا اس کا مسودہ ہی بھجوا دیں.جواب آیا کہ مسودہ بھی پھاڑ کر پھینک دیا ہے.انہوں نے کہا کہ وہ پھاڑا ہوا مسودہ ہی بھجوادیں.اس پر حضرت منشی صاحب نے جواب دیا کہ ’’آں قدح بشکست و آں ساقی نماند پنجاب میں آفتاب نکلا ہے.اب ستارے راہبری نہیں کر سکتے.اس کا نام مرزا غلام احمد ہے.اس نے کتاب براہین احمدیہ لکھی ہے.وہ منگوا کر مطالعہ کریں.‘‘ براہین احمدیہ پڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کی درخواست کی.حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ بیعت کا اِذن نہیں ہوا مگر آپ کا تعلق عقیدت قائم رہا اور جب بیعت کا اشتہار

Page 101

حضرت اقدسؑ کی طرف سے شائع ہوا توآپ نے دو سال بعد ۱۸۹۱ء میں لدھیانہ کے مقام پر بیعت کی.آپ حضرت اقدسؑ کے ہاں گول کمرہ میں مہمان ہوا کرتے تھے.حضرت اقدس ؑ نے آئینہ کمالات اسلام میں ۲۸۰ نمبر پر جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والوں میں ’’مولوی انوار حسین خان صاحب‘‘ تحریر فرمایا ہے اور کتاب البریہ میں ۱۶۰ نمبر پر سیدانوار حسین شاہ رئیس شاہ آباد ضلع ہردوئی کا نام اپنی پرُامن جماعت کی فہرست میں تحریر فرمایا ہے.آریہ دھرم میں بھی آپ کا ذکر فہرست دستخط کنندگان میں فرمایا ہے.ضمیمہ انجام آتھم میں آپ کا نام مالی مصارف کرنے والے احباب میں درج ہے.۲۷؍جولائی ۱۹۳۱ء کو آپ کی وفات ہوئی اورآپ کی وصیت نمبر۲۸۷۹ ہے اور تدفین بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر۵ حصہ نمبرا میں ہوئی.٭ فہرست مکتوبات بنام حضرت محمد انوار حسین خان صاحبؓ شاہ آباد.ہردوئی ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۱۰۱ ، ۱۰۲

Page 102

یہ مکتوب دراصل ایک پوسٹ کارڈ ہے جس کی ایک جانب حضورؑ کے دست مبارک سے رقم کردہ آپ کا پتہ اس طرح درج ہے.شاہ آباد ضلع ہردوئی بخدمت محترم مولوی انوار حسین خان صاحب رئیس سلمہُ اللہ تعالیٰ اور دوسری جانب خط کا مضمون اس طرح درج ہے.مکتوب نمبر۱ ژ بعد سلام مسنون بصیغہ ضروری دوامر نگارش ہیں.(۱) تو یہ ہے کہ جو نوٹس وغیرہ آپ کی خدمت میں روانہ ہو ا وہ بدین غرض ہے کہ نوٹس کے تحت… جملہ احباب و مخلصین کے دستخط ثبت کرا کے بہت جلد روانہ فرمائیں کیونکہ رسالہ آریہ دھرم میں یہ جملہ دستخط طبع ہو کر شایع ہونے والے ہیں تاکہ اس سے مخالفین کا منہ … قانون پر اعتراضوں سے بند ہو جاوے کیونکہ قانون کے پاس ہونے میں کسی قدر تاخیر نہ ہو گی.(۲) کہ جو درخواست گورنمنٹ میں بھیجی جاوے گی اس کے ساتھ نقشہ منسلکہ پر دستخط و مواہیر ہر یک اسلام معززین کے جہاں تک کثرت سے ممکن ہو ثبت ہو کر یہاں آنے ضروری ہیں.چونکہ درخواست منظور ہونے اور نیز مواہیر و دستخط کثیر حصہ ایک اسلام کے کرانے میں دیر ہو گی لہٰذا نمبر اُولیٰ کی کارروائی مقدم ہو گئی ہے… اور نمبر دوئم کی کارروائی جاری رہے.جزاوّل میں اگر کوئی صاحب مخالف بھی دستخط کریں تو مجاز ہیں.۲۰؍ستمبر ۹۵ء مرزا غلام احمد بقلم محمد احسن از قادیان

Page 103

مکتوب نمبر۲ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ محبیّ اخویم خان صاحب محمد انوار حسین خان صاحب سلّمہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچ کر اور حال وفات فرزند عزیز آں محب سے اطلاع پا کر بہت غم اور اندوہ ہوا، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.چونکہ ہم سب لوگ خدا تعالیٰ کی امانت اور ودیعت ہیں اس لئے صبر اور رضا برضائے الٰہی بہتر ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اجر بخشے اور اس کا عوض عطا کرے.معلوم نہیں ہوا کہ اس لڑکے کی کیا عمر تھی… ایام… آزمائش ہیں کہ جلد جلد صحت عافیت عزیزوں سے مطلع فرماتے رہیں.پہلے اس سے کم اتفاق گذرا ہے کہ بارش سے پہلے ہیضہ ظاہر ہوا ہو.خدا جانے کوئی حاضر اسباب ہوں گے.اس ملک میں اب تک اللہ تعالیٰ کے رحم اور کرم سے نام و نشان ہیضہ کا نہیں، نہ امرتسر میں، نہ لاہور میں ، نہ دہلی میں.ابھی کوئی تازہ کتاب تالیف نہیں ہوئی.گرمی بہت پڑتی رہی ہے.اب انشاء اللہ یہ کام شروع ہو گا.۱۶؍اگست ۹۶ء والسلام خاکسار مولوی صاحب اس وقت تشریف نہیں رکھتے.غلام احمد نوٹ: یہ مکتوبات حضرت حکیم مولوی انوار حسین خان صاحبؓ کے پوتے مکرم سہیل احمد خان صاحب ابن مکرم عبد الکریم خان صاحب کراچی حال کینیڈا سے مہیاّ ہوئے ہیں ، فَجَزَاہُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ اصل مکتوب ان ہی کے پاس محفوظ ہیں.مکتوب میں جہاں الفاظ کی سمجھ نہیں آئی وہاں نقطے ڈال دیے گئے ہیں.(ناشر)

Page 104

Page 105

Page 106

Page 107

Page 108

Page 109

Page 110

Page 111

حضرت میاں محمد بخش صاحب ملتانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 112

حضرت میاں محمد بخش صاحب ملتانی ؓ ذیل میں سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آج سے ۴۰ سال قبل کے ۲مکتوب گرامی شائع کئے جا رہے ہیں جو حضور علیہ السلام نے میاں محمد بخش صاحب ملتانی مرحوم کے استفسار پر اس وقت رقم فرمائے تھے جبکہ مرحوم ۱۹۰۳ء میں دارالامان میں قیام پذیر تھے.حضور علیہ السلام کی اصل تحریر مرزا محمد ابراہیم صاحب نسیم آباد سٹیٹ (سندھ) کے پاس محفوظ ہے.٭ خاکسار ملک فضل حسین کارکن صیغہ تالیف و تصنیف ٭ الفضل نمبر۲۵۲ جلد۳۱ مورخہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۳ء صفحہ ۳

Page 113

مکتوب نمبر۱ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ امر اوّل کا جواب یہ ہے کہ نصوص حدیثیہ اور قرآنیہ سے ثابت ہے کہ جو شخص خدا اور رسول کے وصایا اور احکام کی سرکشی کرے گا.وہ قیامت کو قابل مؤاخذہ ہو گا اور مجرموں میں شمار کیا جائے گا.قال اللہ تعالیٰ.  ۱؎ اور دوسری جگہ فرماتا ہے ..۲؎ اور ۳؎ اور پھر فرمایا      ۴؎.پس مسیح موعود کا آنا خدا اور رسول کی طرف سے ایک خبر دے رکھی تھی اور اطاعت کے لئے وصیت تھی.اس سے انکار کیوں موجب مؤاخذہ نہ ہو.ایسا ہی حدیثوں میں ہے کہ مسیح اور مہدی جب ظاہر ہو گا تو ہر یک کو چاہئے کہ اس کی طرف دوڑے.اگرچہ گھٹنوں کے بل جانا پڑے اور آیا ہے کہ جو شخص اس کو تسلیم اور قبول نہیں کرے گا تو خدا اس سے مؤاخذہ کرے گا اور آپ کا یہ استفسار کہ خدا تعالیٰ جو کچھ کسی نبی یارسول کو الہام کرتا ہے اس کے معنے کھول دیتا ہے.ایسا دعویٰ تو قرآن کے برخلاف ہے.اللہ تعالیٰ قرآن میں صاف فرماتا ہے کہ بعض آیات بیّنات ہیں جن میں تصریح کی گئی ہے اور بعض متشابہات ہیں جس کی حقیقت کسی پر کھولی نہیں گئی.ویسا ہی مقطعات قرآنی ہیں.اور احادیث سے ثابت ہے کہ بعض آیات کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ فلاں وقت فلاں آیت کے معنے مجھ پر کھلے.پہلے معلوم نہ تھے اور نیز احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف میں بے شمار عجائبات ہیں جو وقتاً فوقتاً ظاہر ہوں گے.ان تمام آیات سے علم ہوتا ہے کہ نبی بھی بموجب آیت ۵؎ ایک حد تک کتاب اللہ کا علم رکھتے تھے.نہ کہ خدا کے برابر.٭ والسلام ۳۱؍مئی ۱۹۰۳ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۱؎ النسآء : ۶۰ ۲؎ الّیل : ۱۶ ۳؎ الاعراف : ۳۸ ۴؎ المومنون : ۱۰۵، ۱۰۶ ۵؎ البقرۃ: ۳۳ ٭ الفضل نمبر۲۵۲ جلد ۳۱ مورخہ ۲۷ ؍ اکتوبر ۱۹۴۳ء صفحہ ۳

Page 114

مکتوب نمبر۲ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ پہلے سوال کی نسبت میرا صرف یہ مطلب تھا کہ جو شخص قال اللہ قال الرسول سے سرکشی کرے گا وہ ضرور قابل مؤاخذہ ہو گا.پس جبکہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول نے صریح اور صاف لفظوں میں خبر دی ہے کہ اسی امت میں سے مسیح موعود ہو گا اور وعید کے طور پر فرمایا ہے کہ جو شخص اس کو اپنا حَکَم نہیں ٹھہرا ئے گا وہ عذاب اور مؤاخذہ الٰہی کامستحق ہو گا اور پھر کون دانا اس سے انکار کر سکتا ہے کہ مسیح موعود کو نہ ماننا موجب سخط اور غضب الٰہی اور خدا اور رسول کی نافرمانی ہے.رہی یہ بات کہ ایساشخص جو نماز پڑھتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لاتا ہے.وہ مسیح موعود کے نہ ماننے سے ایماندار ہے یا کافر.اس کا جواب یہی ہے کہ خدا کے احکام میں سے کسی حکم کو بھی نہ مانناموجب کفر ہے.جو شخص مثلاً نماز پڑھتا ہے مگر کہتا ہے کہ چوری کرنا اور زنا کرنا اور شراب پینا اور جھوٹ بولنا اور سوُد کھانا اور خون کرنا کچھ گناہ نہیں ہے.وہ کافر ہے کیونکہ اس نے خدا تعالیٰ کے احکام کی تکذیب کی اور ان سے انکار کیا.زنا کرنا اور شراب پینا وغیرہ معاصی موجب کفر نہیں ہیں.وہ سب گناہ ہیں.مگر ان بدکار یوں کو حلال ٹھہرانا موجب کفر ہیں.پس اسی طرح مسیح موعود سے انکار کرنا اس وجہ سے کفر ہے کہ اس میں خدا اور رسول کے وعدہ اور متواتر پیشگوئی سے انکار ہے.یہ ایسا مسئلہ ہے کہ ہر ایک مسلمان جو ادنیٰ علم بھی رکھتا ہو.اس سے واقف ہے خدا کی حدود کو توڑنا کافر نہیں کرتا.البتہ فاسق کرتا ہے.مگر خدا کے قول کے برخلاف بولنا کافر کرتا ہے.اس سے کسی کو بھی انکار نہیں.اور امر دوم بھی صاف ہے

Page 115

اسلام میں کوئی بھی ایسا فرقہ نہیں جس کا یہ عقیدہ ہو کہ نبی کا علم خدا کے علم کے موافق ہوتا ہے.یا خدا پر فرض ہوتا ہے کہ اپنے کلام کے تمام حقائق و دقائق نبی کو سمجھادے.ہاں جسقدرحصہ کلامِ الٰہی کا تبلیغ کے لئے ضروری ہے وہ تو نبی کو سمجھایا جاتا ہے اور جو ضروری نہیں اس کا سمجھانا ضروری نہیں.یعقوبؑ کو چالیس برس تک باوجود متواتر دعائوں کے خبر نہ ہوئی کہ یوسف ؑ کہاں ہے اور پہلی کتابوں میں لکھا تھا کہ جب تک الیاس نبی نہیں آئے گا عیسیٰ بن مریم نہیں آئے گا اور کسی نبی کو خبر نہ ہوئی کہ الیاس سے مراد اس کا مثیل ہے.جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے اور ان پر اعتراض کیا گیا کہ الیاس نبی تو اب تک آسمان سے نہیں آیا تم کس طرح آ گئے تب خدا سے اطلاع پا کر انہوں نے جواب دیا کہ الیاس سے مراد یحییٰ نبی ہے اسی کو الیاس سمجھ لو اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حدیبیہ کے سفر میں خبر نہ ہوئی کہ ہم اس سفر میں ناکام رہیں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی ہوئی کہ پتھر یلی اور کھجوروں والی زمین ان کی ہجرت گاہ ہو گی.پس آپ نے سمجھنے میںغلطی کھائی اور خیال کیا کہ وہ یمامہ ہے حالانکہ وہ مدینہ تھا.ایسا ہی لکھا ہے اور غالباًتفسیر معالم میں بھی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی .۱؎ تو آپ نے فرمایا کہ اس کے معنے مجھے معلوم نہیں اور مقطعات کے معنوں میں آپ کی طرف سے کوئی قطعی اور یقینی تاویل مروی نہیں اگر آپ کو ان کا علم دیا جاتا تو ضرور آپ فرما دیتے.ماسوا اس کے میں خدا تعالیٰ کی طر ف سے علم پاتا ہوں مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی معلوم ہے کہ خدا پر حق واجب نہیں کہ ہر یک بات نبی کو سمجھادے اس کا اختیار ہے کہ بعض امور کو کسی وقت تک مخفی رکھے.دیکھو اُحد اور حنین کی لڑائی میں کیسے کیسے ابتلا پیش آئے.اگر اللہ تعالیٰ پہلے سے اپنے نبی کو سمجھا دیتا تو کیوں وہ ابتلا پیش آتے جو شخص نبی کا علم خدا تعالیٰ کے علم کی طرح غیرمحدود سمجھتا ہے یا خدا تعالیٰ پر واجب سمجھتا ہے ہر یک امر ہر یک مخفی حقیقت نبی کو بتلادے وہ گمراہ ہے اور قریب ہے کہ اس گمراہی پر اصرار کر کے کافر ہو جائے.۱؎ القمر : ۳

Page 116

ہاں جس قدر عقائد اور اعمال اور حدود کی تعلیم کے متعلق امور ہیں جو انسانوں کے لئے مدار نجات ہیں وہ نبی کو بتلائے جاتے ہیں.تا امت اور خود نفس اس کا ان احکام سے محروم نہ رہے.ایسے جاہلانہ خیالات سے توبہ کرو کہ ایمان ایک نازک چیز ہے.خبیث فرقہ نصاریٰ کا اسی سے گمراہ ہو گیا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کے بارہ میں اطراء کیا اور صفات میں خدا تعالیٰ کے برابر ٹھہرا دیا.انبیاء خدا تعالیٰ کے عاجز بندے ہیں.اسی قدر علم رکھتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے پاتے ہیں.ایسا انسان سخت جاہل بلکہ خبیث اور ناپاک طبع ہے جو خیال رکھتا ہے کہ ہر یک ضروری غیرضروری امر کا علم انبیاء کو دیا جاتا ہے.نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. ۱؎ یعنی ہمارے پاس ہر ایک چیز کے خزانے ہیں.مگر ہم بقدر معلوم زمین پر اتارا کرتے ہیں.والسلاماب میں نے صاف صاف لکھ دیا ہے.مجھ کو فرصت نہیں ہے کہ اس تفصیل کے بعد وقت ضائع کروں.اگر مادہ فہم کا ہے تو خود سمجھ لو ورنہ خیر.٭ ۶؍جون۰۳ء غلام احمد عفی عنہ ۱؎ الحجر :۲۲ ٭ الفضل نمبر۲۵۲ جلد ۳۱ مورخہ ۲۷ ؍ اکتوبر ۱۹۴۳ء صفحہ ۳

Page 117

حکیم محمد حسین صاحب قریشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (مندرجہ ذیل تمام مکتوبات حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی ؓکی کتاب ’’خطوط امام بنام غلام‘‘ سے لئے گئے ہیں.ناشر)

Page 118

حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی ؓ حضرت حکیم محمد حسین رضی اللہ عنہ ۳؍مئی ۱۸۶۹ء میں پیدا ہوئے.آپ حافظ قرآن بھی تھے.آپ کے والد صاحب کا نام مولوی الٰہی بخش صاحب تھا.دادا کا نام مولوی محمد بخش صاحب تھا.(لاہور تاریخ احمدیت) ابتدائی تعلیم حضرت مولوی رحیم اللہ صاحبؓ سے حاصل کی.۱۸۸۶ء میں آپ گورنمنٹ سکول لاہور کی مڈل کلاس میں داخل ہوئے.طبی تعلیم کی تکمیل کے لئے آپ نے ’’حکیم حاذق‘‘ ’’عمدۃ الحکماء‘‘ اور ’’زبدۃ الحکماء‘‘ کے امتحانات پاس کئے.آپ حضرت حکیم محمد حسین صاحب ؓ موجد مفرح عنبری کے طور پر معروف ہیں.آپ کو’’ براہین احمدیہ‘‘ پڑھنے کا موقع ملا اور حضرت اقدس ؑ کی محبت کا جوش پیدا ہوا.۱۴؍جولائی ۱۸۹۱ء میں آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.رجسٹر بیعتِ اُولیٰ میں آپ کا نام ۱۴۳نمبر پر درج ہے.تاریخ بیعت ۱۴؍جولائی ۱۸۹۱ء کی ہے جہاں پوتامیاں چٹو ساکن لاہور تحریر ہے.(چونکہ دادا کا رنگ بہت گورا تھا اس لئے میاں چٹو یعنی چٹا مشہور تھے.اصل نام مولوی محمد بخش صاحب تھا) آپ نے طب کی مزید تعلیم حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ سے جموں میں حاصل کی.حضرت اقدس ؑ نے ’’آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ میں لنگے منڈی کے تعارف سے جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والے احباب میں ذکر کیا ہے.’’تحفہ قیصریہ‘‘ اور’’ کتاب البریہ‘‘ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی کے شرکاء اور پرُامن جماعت کے ضمن میں ذکر فرمایا ہے.آپ جماعت احمدیہ لاہور کے سرگرم رکن تھے.جماعت احمدیہ لاہور کے جنرل سیکرٹری بھی رہے.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحبؓ کے ۱۹۲۴ء میں یورپ جانے پر قائم مقام امیر بھی رہے.مسجد احمدیہ کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.آپ کی وفات ۱۲؍اپریل ۱۹۳۲ء کو ہوئی.٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۲۹۶،۲۹۷

Page 119

Page 120

مکتوب نمبر۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ مشفقی اخویم حکیم محمد حسین صاحب قریشی سلمہُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا آپ کے لخت جگر محمد بشیر کا واقعہ وفات درحقیقت سخت صدمہ تھا.اللہ تعالیٰ آپ کو اور اس مرحوم بچہ کی ماں کو صبر عطا فرماوے اور نعم البدل عطا فرماوے.آمین ثم آمین.اے عزیز ! دنیا ہر ایک مومن کے لئے دارالامتحان ہے.خدا تعالیٰ آزماتا ہے کہ اس کی قضا وقدر پر صبر کرتے ہیں یا نہیں.بچہ والدین کے لئے فرط ہوتا ہے.یعنی ان کی نجات کے لئے پیش خیمہ ہوتا ہے.چاہیے کہ ہمیشہ درود شریف (جو درود یاد ہو) اور نیز استغفار (جو استغفار یادہو) آپ دونوں پڑھا کریں.میں نے بہت دعا کی ہے کہ خدا تعالیٰ سلامتی ایمان اور اس بچہ کا بدل بخشے اور امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس دعا کو منظور فرماوے.باقی سب خیریت ہے.والسلام ۱۴؍جنوری ۹۸ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ محبیّ اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وقت بموجب تاکید والدہ محمود لکھتا ہوں کہ آپ مبارکہ میری لڑکی کے لئے ایک قمیص ریشمی یا جالی کی جو چھ روپے قیمت سے زیادہ نہ ہو اور گوٹہ لگا ہوا ہو.عید سے پہلے طیار کرا کر بھیج دیں.قیمت اس کی کسی کے ہاتھ بھیج دی جاوے گی یا آپ کے آنے پر آپ کو دی جاوے گی.رنگ کوئی ہو مگر پارچہ ریشمی یا جالی ہو.اندازہ قمیص کا آپ کی لڑکی زینب کے اندازہ پر ہو.والسلام ۱۴؍ فروری ۱۹۰۴ء خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 121

مکتوب نمبر۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الْـکَرِیْمِ محبیّ اخویم حکیم محمد حسین صاحب قریشی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ براہ مہربانی ایک تولہ مشک خالص جس میں ریشہ اور جھلّی اور صوف نہ ہوں اور تازہ و خوشبودار ہو.بذریعہ ویلیوپے ایبل پارسل ارسال فرما ویں کیونکہ پہلی مشک ختم ہو چکی ہے اور باعث دورۂ مرض ضرورت رہتی ہے.یہ لحاظ رکھیں کہ اکثر مشک میں ایک چمڑا جیسا ملا دیتے ہیں یا پرانی اور ردّی ہوتی ہے اور خوشبو نہیں رکھتی.ان باتوں کا لحاظ رہے.تلاش کر کے جہاں تکممکن ہو جلد بھیج دیں.۷؍مئی کو انشاء اللہ گورداسپور جاؤں گا.والسلام ۲۸؍ اپریل ۱۹۰۴ء خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الْـکَرِیْمِ محبیّ اخویم حکیم محمد حسین صاحب قریشی سلمہ ُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وقت چند ضروری چیزوں کے خریدنے کے لئے میاں یار محمد آپ کے پاس پہنچتے ہیں.آپ براہِ مہربانی اپنے ہاتھ سے وہ چیزیں خرید دیں اور اگر روپیہ مرسلہ خرید شدہ اشیاء سے کم نکلے تو اپنے پاس سے دے دیں اور مجھے اطلاع دے دیں.میں اُس قدر روپیہ بھیج دوں گا اور میں انشاء اللہ ہفتہ تک سیالکوٹ کی طرف جانے والا ہوں.اُمید کہ لاہور میں آپ کی ملاقات ہو جائے گی.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 122

مکتوب نمبر۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الکَرِیْمِ محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب قریشی سلمہُا للہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ چونکہ میرے گھر میں بباعث بیماری کے مشک خالص کی ضرورت ہے اور مجھے بھی سخت ضرورت ہے اورپہلی مشک ختم ہو چکی ہے.اس لئے پچاس روپے بذریعہ منی آرڈر آپ کی خدمت میں ارسال ہیں.آپ دو تولہ مشک خالص دو شیشیوں میں علیٰحدہ علیٰحدہ یعنی تولہ تولہ ارسال فرما ویں اور میں انشاء اللہ بروز پنجشنبہ یہاں سے روانہ ہو کر سیالکوٹ کی طرف جاؤں گا.بہتر ہو گا کہ آپ اسٹیشن پر مجھے ہر دو شیشی دے دیں.باقی سب طرح سے خیریت ہے.۲۴؍اکتوبر۱۹۰۴ء والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ دو تاریں پہنچیں.نہایت فکر ہوا.بیتُ الدُّعا میں بہت دعا کی گئی.خدا تعالیٰ شفا بخشے.پہلے اس سے الہام ہوا تھا کہ لاہور سے افسوسناک خبر آئی.وہی خبر پہنچ گئی.خدا تعالیٰ آپ پر رحم کرے.آمین.پھر بھی میں دعا کروں گا.والسلام ۲۲؍مارچ ۱۹۰۷ء مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 123

مکتوب نمبر۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الکَرِیْمِ محبیّ اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج کے خط سے واقعہ معصومہ زینب پر اطلاع ہوئی :..خدا تعالیٰ آپ کو معہ اُس کی والدہ کے صبر بخشے اور بعد میں ہر یک بلا سے بچاوے.آمین.دعا تو بہت کی گئی تھی مگر تقدیر مبرم کا کیا علاج ہے.میں نے پہلے اس سے دیکھا تھا یعنی الہام ہوا تھا کہ لاہور سے ایک خوفناک خبر آئی.اس الہام کو میں نے اخبار میں شائع کر دیا تھا.سو وہ بات پوری ہوئی… اور اب صبر کریں.خدا تعالیٰ صبر پر اس کا اجر دے گا.والسلام ۲۷؍مارچ ۱۹۰۷ء مرزا غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر ۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الکَرِیْمِ محبیّ اخویم حکیم محمد حسین صاحب قریشی سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وقت والدہ محمود احمد ہوا کی تبدیلی کے لئے لاہور آتی ہیں.غالباً انشاء اللہ تعالیٰ دس دن تک لاہور میں رہیں گی اور بعض ضروری چیزیں پارچات وغیرہ خریدیں گی.اس لئے اس خدمت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے آپ سے بہتر اور کسی شخص کو میں نہیں دیکھتا.لہٰذا اس غرض سے آپ کو یہ خط لکھتا ہوں کہ آپ جہاں تک ہو سکے اِس خدمت کے ادا کرنے میں اُن کی خوشنودی حاصل کریں اور خود تکلیف اُٹھا کر عمدہ چیزیں خرید دیں.باقی سب طرح سے خیریت ہے.۴؍ جون ۱۹۰۷ء مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 124

مکتوب نمبر ۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الکَرِیْمِ محبیّ اخویم حکیم محمد حسین صاحب قریشی سلمہُاللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ چونکہ چھوٹا لڑکا میرا مبارک کمال ضعف ہضم سے بیمار ہے جو کچھ کھاتا ہے ہضم نہیں ہوتا قے ہو جاتی ہے یا دست آجاتے ہیں اس لئے مکلف ہوں کہ اخویم سید ڈاکٹر محمد حسین صاحب کی صلاح او ر مشورہ سے شربت فولادی (پیرش کیمیکل فوڈ) جو بچوں کے لئے تیار ہو کر ولایت سے آتا ہے.جو مقوی معدہ اور ہاضم ہوتا ہے.ایک بوتل اس کی خرید کر بھیج دیں اور جلد بھیج دیں.جو قیمت اس کی ہوگی بھیج دی جاوے گی اور ساتھ کبھی تپ بھی ہو جاتا ہے.اُمُّ الصبیان کا بھی عارضہ ہے جو شدت تپ کے وقت میں اس کی نوبت ہو جاتی ہے.اس کے ساتھ اگر اور تجویز بھی ہو وہ دوا بھی بھیج دیں.جگر کا بھی لحاظ رہے.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار جگر ضعیف معلوم ہوتا ہے.مرزا غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر۱۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج ۱۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء کو مبارک احمد بقضائے الٰہی فوت ہو گیا..ہم خدا تعالیٰ کی مرضی پر راضی ہیں اُس کے کام حکمت اور مصلحت سے بھرے ہوئے ہیں.اب برف کو نہ بھیجیں.والسلام ۱۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 125

مکتوب نمبر۴۰ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں دہلی میں ہوں.تجویز بحث ہو رہی ہے.آپ اگر پہنچ سکتے ہیں تو تشریف لاویں لیکن ۱۷؍اکتوبر ۱۸۹۱ء تک آنا چاہئے.والسلام خاکسار غلام احمد از دہلی بازار بلیماراں کوٹھی نواب لوہارو خخخ مکتوب نمبر۴۱ ژ مکرمی اخویم صاحبزادہ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ میں بخیریت قادیان میں پہنچ گیا ہوں اور ہر طرح سے خیروعافیت ہے.آپ کی جدائی سے بہت رنج ہے لیکن ہر ایک امر اپنے وقت سے وابستہ ہے اگر خدائے تعالیٰ چاہے گا تو پھر ملاقات ہو جاوے گی.اُمید کہ تاوقت ملاقات ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع ومسرور الوقت فرماتے رہیں.۱۳؍نومبر ۱۸۹۱ء الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 126

مکتوب نمبر۱۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الکَرِیْمِ محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب قریشی سلمہ ُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خط پہنچا٭آپ بیشک ایک تولہ مشک بقیمت( تینتیس روپے )خرید کر کے بذریعہ وی.پی بھیج دیں.ضرور بھیج دیں اور چونکہ رسالہ ابھی شائع نہیں ہوا کیونکہ اس کا دوسرا حصہ جوبہت ضروری ہے طیار ہو رہا ہے اس لئے بعد تکمیل آپ یاد دلا ویں.باقی سب خیریت ہے.والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ ٭نوٹ:.اس امر کا اظہار بھی میں اپنے لئے خدا کے فضل سے موجب فخر سمجھتا ہوں کہ حضرت کے ہاں جس قدر مشک خرچ ہوتی تھی سوائے میرے دوسری جگہ یا کسی دوسرے کی بھیجی ہوئی نہیں پسند فرماتے تھے اور درحقیقت مشک خالص اور اعلیٰ کا ملنا کوئی آسان کام بھی نہیں کہ ہر ایک کو میسر آسکے.اگرچہ سینکڑوں روپے کی روزمرّہ شہروں میں بکتی رہتی ہے.میرے ہاں چونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مفرح عنبری کے لئے بہت بڑی مقدار کی سالانہ ضرورت رہتی ہے اور چونکہ اس کے مہیا کرنے کا خاص انتظام کیا ہوا ہے.اس لئے حضرت وہی مشک پسند فرماتے تھے جو میں ان کی خدمت میں بھیجتا تھا.ایک دفعہ ایک خادم جو حضرت صاحب کا سودا لینے آیا کرتے تھے مجھ سے کچھ اپنی زود رنجی کے باعث ناراض ہو گئے.دوسری دفعہ جو حضرت نے مشک لینے کو بھیجا تو انہوںنے اپنے ہی اجتہاد سے یہ سمجھ لیا کہ قریشی کی اس میں کونسی خصوصیت ہے چلو اس دفعہ امرتسر سے فلاں حکیم صاحب کی معرفت (جو بڑے مخلص احمدی بھی ہیں) مشک خرید لی جاوے.غرض انہوں نے امرتسر سے بڑی محنت سے حکیم صاحب موصوف کی معرفت مشک خرید لی اور لے گئے جب حضرت کے پاس وہ مشک پہنچی تو حضرت نے معاً دیکھتے ہی کہا کہ یہ کہاں سے لائے ہو تو خادم نے عرض کیا حضور اس دفعہ فلاں بھائی حکیم صاحب کی معرفت بڑی چھان بین اور محنت کے ساتھ امرتسر سے خرید کر لایا ہوں.آپ نے فرمایا اسی وقت جائو اور اسے واپس کرو اور قریشی کے پاس سے جا کر لائو … فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.(قریشی)

Page 127

مکتوب نمبر۱۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الکَرِیْمِ محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب قریشی سلمہُاللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کے خط میں سہو سے میں اُس بستر کی رسید بھیجنا بھول گیا جو آپ نے بڑی محبت اور اخلاص کی راہ سے بھیجا تھا.درحقیقت وہ بستر اس سخت سردی کے وقت میرے لئے نہایت عمدہ اور کارآمد چیز ہے جو عین وقت پر پہنچا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ.باقی سب طرح سے خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۱۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الکَرِیْمِ محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب سلمہُاللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اِس وقت دو دواؤں کی ضرورت ہے ایک کیلورانہ جو دو دفعہ پہلے منگوا چکے ہیں.عزیزی میر محمد اسمٰعیل کو وہ دوا معلوم ہے جو شاید (چار روپیہ) قیمت پر آتی ہے.دوسری دوا وائی بیوٹر جو رِحم کے امراض کی دوا ہے یہ بھی میر محمد اسماعیل کو معلوم ہے.اس کی قیمت سے اطلاع نہیں.یہ دونوں دوائیں بذریعہ ویلیوپے ایبل بھیج دیں.وائی بیوٹر (دو روپیہ) کی کافی ہو گی اور اگر خاص شیشی ہو تو جس قدر قیمت ہو مگر جلد بھیج دیں.مناسب ہے کہ ویلیوپے ایبل بھیج دیںکیونکہ اس طرح قیمت کا پہنچ جانا بہت آسان ہوتا ہے ورنہ علیٰحدہ منی آرڈر میں دقّت ہوتی ہے اور توقف ہو جاتی ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 128

مکتوب نمبر۱۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الکَرِیْمِ محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب سلمہُاللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ وحی الٰہی کی بنا پر مکان ہمارا خطرناک ہے (یہ باغ والے مکان کی طرف اشارہ ہے جو بالکل ایک طرف جنگل میں واقع ہے کیونکہ اُن دنوں اُسی مکان میں حضرت تشریف فرما تھے) اس لئے آج (دو سوساٹھ ) روپیہ خیمہ خریدنے کے لئے شیخ عبدالرحیم صاحب کے ہاتھ بھیجتا ہوں.چاہئے کہ آپ… اور دوسرے چند دوست داروں کے ساتھ جو تجربہ کار ہوں بہت عمدہ خیمہ معہ قناتوں اور دوسرے سامانوں کے بہت جلد روانہ فرماویں اور کسی کو بیچنے والوں میں سے یہ خیال پیدا نہ ہو کہ کسی نواب صاحب نے یہ خیمہ خریدنا ہے کیونکہ یہ لوگ نوابوں سے دو چندسہ چند مول لیتے ہیں اور خیمہ کو ہر طرح سے دیکھ لیا جائے کہ پورانہ اور بوسیدہ نہ ہو اور تمام سامان قنات اور پاخانہ وغیرہ کا ساتھ ہو.کوئی نقص نہ ہو اور اشتہار جو لاہور سے پہنچا ہے.افسوس اس میں کئی جگہ غلطیاں رہ گئی ہیں.بہرحال جہاں تک جلدی ہو سکے لاہور سے ہی قریب وبعید دوستوں کی خدمت میں اور اخباروں میں اور دوسرے فرقوں میں تقسیم ہونا چاہئے.والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر۱۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الکَرِیْمِ محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب سلمہُاللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وقت میاں یار محمد بھیجا جاتا ہے.آپ اشیاء خریدنی خود خرید دیں اور ایک بوتل ٹانک وائین کی پلومر کی دوکان سے خرید دیں مگر ٹانک وائین چاہئے.اس کا لحاظ رہے.باقی خیریت ہے.والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 129

مکتوب نمبر۱۷ ذیل کا خط بجواب میرے ایک عریضہ کے ہے جبکہ ہم بمعہ عیال و اطفال قادیان میں تھے اور واپسی کے وقت چونکہ برسات کے دن تھے راستہ سخت خطرناک تھا اور میں نے اپنے گھر کے لوگوں کے لئے یعنی برخوردار محمد یوسف کی والدہ کے لئے ضرورتاً حضرت سے اُن کی پینس طلب کی کیونکہ یکیّ کی سواری حالتِ حمل میں خطرناک ہوتی ہے اس پر حضور نے کمال مہربانی و شفقت سے ذیل کا خط لکھا.(قریشی) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ انشاء اللہ دعا کروں گا.آپ کو اختیار ہے کہ پینس لے جائیں مگر میں نے سنا ہے کہ بٹالہ کی سڑک تک راستہ نہایت خراب ہے پینس کی سواری خطرناک ہے اور ایسا ہی دوسری سواری بھی شاید دس روز تک راستہ کسی قدر درست ہو جائے گا.میں گزشتہ دنوں میں اس وقت گورداسپور سے بٹالہ کی راہ آیا تھا.جب بارش پر ایک مہینہ گزر چکا تھا.تب بھی خوفناک راہ تھا.تو اب تو بہت ہی خطرناک ہوگا.حمل کی حالت میں ان دنوں میں ساتھ لے جانا گویا عمداً ہلاکت میں ڈالنا ہے.آپ خود بٹالہ کی سڑک تک راہ کی حالت دیکھ لیں.میرے نزدیک تو اب بغیر گزرنے دس بارہ روز کے سخت خطرناک اور خوفناک ہے.والسلام غلام احمد عفی عنہ

Page 130

مکتوب نمبر۱۸ (دستی خط معرفت مولوی یار محمد صاحب) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں چند روز سے سخت بیمار ہوں.بعض وقت جب دورہ دورانِ سر شدت سے ہوتاہے تو خاتمہ زندگی محسوس ہوتا ہے.ساتھ ہی سر درد بھی ہے.ایسی حالت میں روغن بادام سر اور پیروں کی ہتھیلیوں پر ملنا اور پینا فائدہ مند محسوس ہوتا ہے.اس لئے میں مولوی یار محمد صاحب کو بھیجتا ہوں کہ آپ خاص تلاش سے ایسا روغن بادام کہ جو تازہ ہو.اور ُکہنہ نہ ہو اور نیز اس کے ساتھ کوئی ملونی نہ ہو ایک بوتل خرید کر بھیج دیں.پانچ روپیہ قیمت اس کی ارسال ہے اور نیز ہمارا پہلا کلاک یعنی گھنٹہ بگڑ گیا ہے.اس لئے ایک کلاک عمدہ دوسرا خرید کرنے کے لئے مبلغ (نو روپے) بھیجتا ہوں.یہ کلاک بخوبی امتحان کرکے ارسال فرماویں.اس میں یہ بھی شرط ہے کہ اس کے ساتھ نیم گھنٹہ کی آواز دینے والی کل ہرگز نہ ہو صرف گھنٹوں کی آواز دے کہ اس صورت میں بسا اوقات دھوکہ ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ کئی دوسری چیزیں بھی خریدنی ہیں…اُن چیزوں کی تفصیل ذیل میں ہے.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 131

مکتوب نمبر۱۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الکَرِیْمِ محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب قریشی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج مولوی یار محمد لاہور بھی گئے مگر افسوس نہایت ضروری کام یاد نہ رہا.اس لئے تاکیداً لکھتا ہوں کہ ایک تولہ مشک عمدہ جس میں چھیچھڑا نہ ہو اور اوّل درجہ کی خوشبودار ہو.اگر شرطی ہو تو بہتر ہو.ورنہ اپنی ذمہ واری پر بھیج دیں اور دو ڈبیاں سردرد کی ٹکیا کی جس میں پتاشہ کی طرح ٹکیا ہوتی ہے مگر بڑی ٹکی ہو.دونوں بذریعہ وی.پی روانہ فرماویں.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر۲۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ایک ضروری کام تھا کہ میں ملاقات کے وقت اس کا ذکر کرنا بھول گیا.وہ یہ ہے کہ پہلی مشک جو لاہور سے آپ نے بھیجی تھی وہ اب نہیں رہی.آپ جاتے ہی ایک تولہ مشک خالص جس میں چھیچھڑا نہ ہو اور بخوبی جیسا کہ چاہئے خوشبودار ہو ضرور ویلیوپے ایبل کرا کر بھیج دیں.جس قدر قیمت ہو مضائقہ نہیں مگر مشک اعلیٰ درجہ کی ہو چھیچھڑا نہ ہو اور جیسا کہ عمدہ اور تازہ مشک میں تیز خوشبو ہوتی ہے وہی اس میں ہو اور ساتھ اس کے انگریزی دُکان سے ایک روپیہ کا ٹنکچر لونڈر جو ایک سُرخ رنگ عرق ہے بہت احتیاط سے بند کر کے بذریعہ ڈاک وی.پی کر کے بھیج دیں اور جہاں تک ممکن ہو پرسوں تک یہ دونوں چیزیں روانہ کر دیں کیونکہ مجھ کو اپنی بیماری کے دورہ میں اُن کی ضرورت ہوتی ہے زیادہ خیریت.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 132

مکتوب نمبر۲۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب قریشی سلمہُاللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اشیاء مفصلہ ذیل ہمراہ لیتے آویں اور اگر خدانخواستہ ایسی مجبوری ہو تو کسی اور آنے والے کے ہاتھ بھیج دیں.وائی بیوٹر جو ایک رِحم کے متعلق دوائی ہے پلومر کی دوکان سے( )ایک روپیہ آٹھ آنے.مشک خالص عمدہ جس میں چھیچھڑا نہ ہو ایک تولہ( )ستائیس روپے.پان عمدہ بیگمی یک روپیہ اور ایک انگریزی وضع کا پاخانہ جو ایک چوکی ہوتی ہے اور اُس میں ایک برتن ہوتا ہے اس کی قیمت معلوم نہیں.آپ ساتھ لاویں.قیمت یہاں سے دی جاوے گی.مجھے دورانِ سر کی بہت شدت سے مرض ہو گئی ہے.پیروں پر بوجھ دے کر پاخانہ پھرنے سے مجھے سر کو چکر آتا ہے اس لئے ایسے پاخانہ کی ضرورت پڑی.اگر شیخ صاحب کی دوکان میں ایسا پاخانہ ہو تو وہ دے دیں گے مگر ضرور لانا چاہئے اور (۳۰ روپے) کا منی آرڈر آپ کی خدمت میں بھیجا جاتا ہے باقی سب خیریت ہے.والسلام مرزا غلام احمد مکتوب نمبر۲۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب قریشی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مجھے قریباً دو ماہ سے کثرت پیشاب کی بہت شکایت ہے.تمام رات بار بار پیشاب آنے سے بہت تکلیف ہوتی ہے.پہلے میں نے سوڈا سیلی سلاس استعمال کیا تھا جو ایک سفید چمکتی ہوئی دوا ہوتی ہے اور پانی پینے سے کچھ شیریں معلوم ہوتی ہے اس سے فائدہ معلوم ہوا تھا.آپ براہِ مہربانی

Page 133

()چار آنہ کی وہ دوا خرید کر کے اور ایک شیشی میں بند کر کے بھیج دیں مگر تازہ ہو.اس کی علامت یہ ہے کہ بہت سفید اور بہت چمکیلی ہوتی ہے اور ذرّے اُس کے ریت کے ذرّات کی طرح چمکتے ہیں اور سفید براق ہوتی ہے قریب دو تولہ کے بھیج دیں اور اس قدر کی قیمت زیادہ ہو تو زیادہ دے دیں اور اس کے ساتھ آٹھ جوڑہ جراب عمدہ مضبوط ولائتی.جس کی فی جوڑہ آٹھ آنہ قیمت ہو، مردانہ.بذریعہ ویلیوپے ایبل بھیج دیں اور جہاں تک ممکن ہو جلد تر بھیج دیں جو ایک طرف کثرت پیشاب کی تکلیف ہے اور ایک طرف پاؤں کو سردی کی بھی تکلیف.اور اگر کوئی پشمی پوستین جو نئی اور گرم ہو اور کشادہ ہو جو کابل کی طرف سے آتی ہیں مل سکے تو اُس کی قیمت سے اطلاع دیں.تا اگر گنجائش ۱؎ ہو تو قیمت بھیج کر منگوا لوں.ضرور اس کا خیال رکھیں اور یہ دونوں چیزیں جلد تر بذریعہ ویلیوپے ایبل بھیج دیں اور جوڑہ جراب خواہ سیاہ رنگ ہو یا کوئی اور رنگ ہو مضائقہ نہیں.اس قدر پاؤں کو سردی ہے کہ اُٹھنا مشکل ہے.والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ ۱؎ نوٹ:.یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب یہ گنجائش کا فقرہ بعض مخلص دوستوں نے سُنا تو بے تحاشا ہر ایک نے خواہش کی کہ پوستین ہماری طرف سے خرید کر بھیج دیا جاوے.حضرت کو قیمت سے اطلاع دینے کی ضرورت نہیں.چنانچہ میں اور مستری محمد موسیٰ صاحب بائیسکل کے سوداگر.انارکلی میں سوداگروں کے ہاں پوستین کی تلاش کو نکلے چنانچہ ایک دوکان پر ایک پوستین(۴۰روپے )کی پسند آئی.مستری صاحب نے خواہش کی کہ اس کی قیمت میں دوں گا.میں نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا.آپ شامل ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ میں نے کہا زیادہ سے زیادہ آپ نصف قیمت (۲۰روپے) دے دیں.باقی ہم دیں گے.غرض مستری صاحب نے اس قدر اصرار کیا کہ ہم مجبور ہو گئے اور وہ پوستین خرید کر مستری صاحب کی طرف سے حضرت کی خدمت میں بھیجی گئی.فَجَزَاھُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ.(قریشی)

Page 134

مکتوب نمبر۲۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الکَرِیْمِ اخویم حکیم محمد حسین صاحب قریشی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.میری رائے میں وہ مشک بہت عمدہ تھی اگر چند ہفتوں میں مجھے گنجائش ہوئی تو میں منگوا لوں گا.بباعث کثرت اخراجات ابھی گنجائش نہیں مگر ضرورت کے وقت جس طرح بن پڑے منگوانی پڑتی ہے.وہ مشک تھوڑی سی موجود ہے باقی سب خرچ ہو گئی ہے.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۲۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الکَرِیْمِ محبیّ اخویم حکیم محمد حسین صاحب قریشی سلمہُاللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وقت رات کا وقت ہے میں قیمت نہیں بھیج سکتا.آپ مفصلہ ذیل کپڑے ساتھ لے آویں.آپ کے آنے پر قیمت دی جاوے گی.بہرحال اتوار کو ۱؎ آجائیں.والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ ۱؎ نوٹ:.یہ اُس موقع پر حضور پُر نور نے مجھ خاکسار کو کمال مہربانی سے یاد فرمایا تھا جبکہ صاحبزادی مبارکہ بیگم کے نکاح کی تقریب سعید اگلے روز قرار پا چکی تھی اور بحمد اللّٰہ کہ ہم چند خادمان لاہور جن کو حضور نے یاد فرمایا تھا موقع پر پہنچ کر اس مبارک تقریب میں شامل ہوئے.(قریشی)

Page 135

مکتوب نمبر۲۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الکَرِیْمِ محبیّ اخویم حکیم محمد حسین صاحب سلمہُاللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میرے گھر کی طرف سے پیام ہے کہ جو( چار روپے تیرہ آنے) ہماری طرف نکلتے تھے وہ مولوی محمدعلی صاحب کو دے دئیے ہیں اُن سے وصول کر لیں اور یہ تمام چیزیں اپنی ذمہ داری سے اور اپنی کوشش اور دیکھ بھال سے خرید کر کے بھیج دیں اور بادام روغن میری بیماری کے لئے خریدا جاوے گا.نیا اور تازہ ہو اور عمدہ ہو یہ آپ کا خاص ذمہ ہے.والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ چونکہ خدا تعالیٰ نے حادثہ آنے والے کی کوئی تاریخ نہیں بتلائی.اس لئے میں کچھ نہیں کہہ سکتا.میں بباعث آمد برسات قادیان میں آگیا ہوں.میرے نزدیک مناسب ہے کہ شہر میں آجائیں کہ برسات میں باہر تکلیف نہ ہو.اگر خدا تعالیٰ نے آئندہ کوئی خاص اطلاع دی تو میں اطلاع دوں گا.مرزا غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر۲۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْْلِہِ الکَرِیْمِ محبیّ اخویم حکیم محمد حسین صاحب سلمہُاللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ مہربانی فرما کر یہ تمام چیزیں اور کپڑے جو میرے گھر کا ہے بڑی احتیاط سے خرید دیں …مکرر یہ کہ حماموں کی قیمت مع کرایہ وغیرہ مبلغ (تیرہ روپے آٹھ آنے) مولوی محمد علی صاحب کو دیئے گئے ہیں.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 136

Page 137

حضرت منشی محمد حسین صاحب کلرکؓ

Page 138

سن بیعت ۱۹۰۴ء حضرت منشی محمد حسین صاحبؓ کاتب ولد میاں نبی بخش صاحب حال مقیم قادیان دارالامان آپ بیان کرتے ہیں کہ میں چھوٹا بچہ ہی تھا.قریبا۷ یا ۸ سال کی عمر ہو گی کہ ایک مرتبہ چھوٹے بچے جن میں میں بھی تھا، رات کے وقت کاغذ کی پتلیوں کا تماشہ حضور ؑ کے گھر کے صحن میں کر کے کھیل رہے تھے کہ حضور ؑ تشریف لائے تو اس وقت میم کا سوانگ ایک لڑکے کو بنایا ہوا تھا تو آپ ؑ دیکھ کر خفا ہوئے اور منع فرمایا کہ کسی کی نقل اور سوانگ نہیں بھرنا چاہیے.کیونکہ جو کوئی کسی قوم کا مثیل بنتا ہے وہ انہیں میں سے ہوتا ہے.آپؑ نے منع فرمایا اور روکا.اسی طرح ایک دفعہ ایک انگریز اور ایک لیڈی امریکہ سے حضورؑ کی زیارت کے لئے قادیان آئے تو ان دنوں دفتر محاسب بیت المال ابھی نیا نیا بنا تھا.یہاں ان کو ٹھہرایا گیا اور حضور ؑ کو اطلاع دی گئی.حضور ؑ کی طبیعت قدرے ناساز تھی.لمبا چُغہ اور کمر میں پٹکا پہن کر تشریف لائے.انگریز سے حضور ؑ نے مصافحہ کیا لیکن لیڈی سے مصافحہ نہ کیا.جس پر وہ شکستہ خاطر ہو گئی.پھر اسے سمجھایا گیا کہ اسلام میں نامحرم عورتوں سے مصافحہ کرنا ناجائز ہے.ترجمان حضرت مفتی محمد صادق صاحب تھے.انہوں نے پوچھا کہ آپ کا مسیح ہونے کا دعویٰ ہے.حضور ؑ نے فرمایا کہ ہاں اس پر انگریز نے پوچھا.آپ کا کوئی نشان اور معجزہ.تو حضور ؑنے فرمایا کہ آپ کا یہاں قادیان میں آنا بھی میرا نشان اور معجزہ ہے کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلے خبر دی ہوئی ہے کہ دور دور سے لوگ تیرے پاس آئیں گے.یہاں قادیان میں کوئی سیرگاہ نہیں.دارالخلافہ نہیں.بڑا شہر نہیں.تجارتی منڈی نہیں.محض ایک گائوں ہے.آپ کس واسطے تشریف لائے ہیں.محض میری خاطر آپ آئے ہیں.یہ آپ کا آنا میرا ایک نشان اور معجزہ ہے.پھر میاں عبد الحی مرحوم چھوٹے بچے تھے غالباً چھ، سات سال کے ہوں گے.خدا ان کی مغفرت کرے اور جنت میں جگہ دے.وہاں موجود تھے.ان کو پیش کیا گیا.حضور نے فرمایا کہ یہ لڑکا میری دعا سے پیدا ہوا ہے اور پیدا ہونے سے پہلے مجھے میرے اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی تھی کہ اس کے جسم پر داغِ

Page 139

دُنبل ہوں گے.چنانچہ وہ داغ دُنبل ان کے جسم پر سے دکھائے گئے.پھر تھوڑی دیر ٹھہرے.کھانا کھایا.چائے پی اور چلے گئے.خاکسار اخبار بدر میں کتابت کا کام کیا کرتا تھا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر اخبار تھے.بعض وقت مجھے رقعہ لکھ دیا کرتے کہ رقعہ لے جائو اور حضور ؑ سے خدا کی تازہ وحی یعنی تازہ الہامات لکھوا لائو.چنانچہ خاکسار آتااور دروازہ پر دستک دیتا تو بعض وقت حضور ؑ خود دروازہ پر آ جاتے ورنہ کوئی خادمہ رقعہ لے جاتی اور حضور ؑ سے تازہ الہامات لکھوا کر لے آتی.اور کبھی حضور ؑ خود لکھ کر لے آتے اور دے دیتے.ایک مرتبہ حضور ؑ فرما رہے تھے کہ بعض وقت اشعار میں اپنے مضامین کو بیان کرنے کی ہمیں ضرورت اس لئے پیش آئی کہ بعض طبائع اس قسم کی ہوتی ہیں کہ ان کو نثر عبارت میں ہزار پیرایہ لطیف ہی کوئی صداقت بتلائی جاوے مگر نہیں سمجھتے.لیکن اسی مفہوم کو اگر ایک برجستہ شعر میں منظوم کر کے سنایا جاوے تو شعر کی لطافت ان پر بہت کچھ اثر کر جاتی ہے.ایک مرتبہ مرزا غلام اللہ مرحوم کے پاس رتّڑ چھتّڑ ضلع گورداسپور والے صاحبزادے آئے اور ان کے پاس ٹھہرے.حضور ؑ کی زیارت کی خواہش کی.دونوں صاحبزادے وضو کر کے مسجد مبارک میں پہلی صف میں جا بیٹھے.حضور ؑ نماز کے لئے تشریف لائے اور نماز پڑھا کر بیٹھ گئے.حضور ؑ نے مسنون طریق پر صاحبزادگان سے خیروعافیت پوچھی.تھوڑی دیر کے بعد چھوٹے صاحبزادے نے عرض کیا کہ حضور ہم پیری مریدی کا کام کرتے ہیں اور بعض وقت ہمیں رمضان شریف بھی باہر ہی آجاتا ہے اور سارا سارا سال ہی سفر میں گذر جاتا ہے.حضور ؑ نے فرمایا.تو پھر یہ آپ کا سفر سفر نہیں ہے.آپ پوری نمازیں پڑھیں.لیکن اس بات کے سننے سے حضور ؑ کا چہرہ سرخ ہو گیا کہ یہ اب اسلام کی حالت ہو گئی ہے کہ لوگوں کے دروازوں پر دھکے کھاتا ہے.فرمایا جب آپ ہادی ہیں اور رہبر ہیں اور چشمہ ہدایت کے ہیں تو پھر کیوں آپ لوگوں کے دروازوں پر جاتے ہیں.لوگوں کو چاہیے کہ آپ کے پاس آئیں اور آپ سے سیراب ہوں.کیونکہ ہمیشہ پیاسا چشمے پر آتا ہے تاکہ اپنی پیاس دور کرے.کبھی چشمہ چل کر پیاسے کے پاس نہیں گیاکہ آ تجھے پیاس لگی ہے مجھ سے پانی پی لے.٭ ٭ تلخیص از رجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ) نمبر۷ صفحہ ۵۲ تا ۵۶

Page 140

مکتوب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعداس کے واضح ہو کہ آپ کا خط مجھ کو ملا.آپ اپنے گھر میں سمجھا دیں کہ اس طرح شک وشبہ میں پڑنا بہت منع ہے.شیطان کا کام ہے جو ایسے وسوسے ڈالتا ہے.ہرگز وسوسہ میں نہیں پڑنا چاہئے.گناہ ہے اور یاد رہے کہ شک کے ساتھ غسل واجب نہیں ہوتا.اورنہ صرف شک سے کوئی چیز پلید ہو سکتی ہے.ایسی حالت میں بے شک نماز پڑھنا چاہئے اور میں انشاء اللہ دعا بھی کروں گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب وہمیوں کی طرح ہر وقت کپڑا صاف نہیں کرتے تھے.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اگر کپڑہ پر منی گرتی تھی تو ہم اس منی خشک شدہ کو صرف جھاڑ دیتے تھے.کپڑا نہیں دھوتے تھے اور ایسے کنواں سے پانی پیتے تھے جس میں حیض کے لتے پڑتے تھے.ظاہری پاکیزگی سے معمولی حالت پرکفایت کرتے تھے.عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھالیتے تھے.حالانکہ مشہور تھا کہ سؤر کی چربی اس میں پڑتی ہے.اصول یہ تھا کہ جب تک یقین نہ ہو ہر یک چیز پاک ہے.محض شک سے کوئی چیز پلید نہیں ہوتی.اگر کوئی شیرخواربچہ کسی کپڑے پر پیشاب کردے تو اس کپڑے کو دھوتے نہیں تھے.محض پانی کا ایک چھینٹا اس پر ڈال دیتے تھے.اورباربار آنحضرت فرمایا کرتے تھے کہ روح کی صفائی کرو صرف جسم کی صفائی اورکپڑے کی صفائی بہشت میں داخل نہیں کرے گی اورفرمایا کرتے تھے کہ کپڑوں کے پاک کرنے میں وہم سے بہت مبالغہ کرنا اور وضو پربہت پانی خرچ کرنا اور شک کو یقین کی طرح سمجھ

Page 141

لینا یہ سب شیطانی کام ہیں اور سخت گناہ ہیں.صحابہ رضی اللہ عنہم کسی مرض کے وقت میں اونٹ کا پیشاب بھی لیتے تھے.فقط خوابوں کی تفصیل وتعبیر کرنے کی گنجائش نہیں اتنا لکھنا کافی ہے کہ سب خوابیں اچھی ہیں.بشارتیں ہیں.کوئی بُری نہیں ہے.٭ والسلام خاکسار مہرحضرت اقدس مرزا غلام احمدعفی عنہ از قادیان نقل مطابق اصل لفافہ کا پتہ بمقام لاہور.دفتر سرکاری وکیل.بخدمت اخویم منشی محمدحسین صاحب کلرک دفتر سرکاری وکیل.مہرقادیان ۲۵؍نومبر ۱۹۰۳ء.مہرلاہور ۲۷؍نومبر ۱۹۰۳ء.راقم خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ از قادیان ٭ الفضل نمبر۶۶ جلد۱۱ مورخہ ۲۲؍فروری ۱۹۲۴ء صفحہ ۹

Page 142

Page 143

حضرت ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 144

حضرت ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحبؓ حضرت ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحبؓ کے والد کا نام سید اصغر علی شاہ صاحب تھا.آپ دہرم کوٹ رندھاواکے رہنے والے تھے اور ڈاکٹری تعلیم کے لئے ۱۸۹۶ء میں لاہور میڈیکل سکول (میو ہاسپیٹل) میں داخل ہوئے.۱۸۹۷ء میں لیکھرام کی نعش کو آپ نے میوہسپتال کے ایک میز پر پڑے دیکھا جبکہ کئی مہاشے اس کی نعش کے گرد جمع تھے اور ایک فوٹو گرافر فوٹو لینے کے لئے بھی.۱۲.۱۹۱۱ء میں جبکہ آپ کو سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے ابھی چند سال ہی ہوئے تھے، آپ کے والد صاحب سید اصغر علی شاہ صاحب ساکن ڈیرہ نانک صاحب آپ کے احمدیت میں داخل ہونے سے بہت ہی رنجیدہ تھے کہ باوجود سیّد ہونے کے ایک مغل کی بیعت اختیار کی ہے.جن دنوں آپ نوشہرہ چھائونی ضلع پشاور میں ملازمت کرتے تھے تو آپ چند روز کے لئے والد صاحب کو ملنے کے لئے ڈیرہ بابا نانک گئے.انہوں نے کہا کہ تم نے بہت ہی غلط راستہ اختیار کیا ہے.اگر تم پر صحیح راستہ ظاہر کیا جاوے تو اسے تسلیم کر لو گے.آپ نے کہا کہ ازروئے قرآن و حدیث اگر احمدیت سے بڑھ کر کوئی راستہ معلوم ہو جائے تو اس کو قبول کرنے میں مجھے کوئی عذر نہیں ہو گا.آپ فرماتے ہیں کہ میرے والد صاحب چونکہ اہل تشیع خیال کے تھے چنانچہ انہوں نے ٹانگہ کرایہ پر لیا اور بٹالہ میں مولوی باقر علی صاحب کے ہاں لے گئے مگر وہ اتفاق سے گورداسپور گئے ہوئے تھے.تب انہوں نے اپنے دس بارہ رشتہ داروں کو دوپہر کے وقت ایک مکان میں اکٹھا کیا اور مجھ سے احمدیت کے حوالہ سے گفتگو کرنے لگ گئے یہاں تک کہ عشاء کا وقت ہو گیا.اثنائے گفتگو انہوں نے کہا کہ تو ہماری باتوں کو نہیں مانتا.اب ہم ایک

Page 145

ایسا شخص لاتے ہیں جو مرزا صاحب کا مختار رہ چکا ہے اور ان کے اندرونی اور بیرونی حالات سے بہت ہی آگاہ ہے.چنانچہ ایک معمر شخص جس کا نام مہر نبی بخش تھا لایا گیا.میرے والد صاحب کی طرف اشارہ کر کے اس کو بتایا گیا کہ اس کا یہ ایک ہی بیٹا ہے جو مرزائی ہو گیا ہے.جس کی وجہ سے اس کو بہت ہی صدمہ ہوا ہے.آپ مرزا صاحب کے مختار رہ چکے ہیں اس لئے کوئی ایسا واقعہ سنائیں جس سے اس لڑکے یعنی ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب کو فائدہ ہو.انہوں نے مرزا صاحب کے وسیع الظرف ہونے اور اپنی مشکلات کا حل بذریعہ مرزا صاحب کی دعائوں سے ہونے کا واقعہ ان کو سنایا.یہ واقعہ سن کر ڈاکٹر صاحب کے رشتہ داروں کا تو مقصد حل نہ ہوا مگر ڈاکٹر صاحب کے ایمان میں اضافے اور پختگی کا مزید ثبوت بنا.٭ ٭ تلخیص از رجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ) نمبر۱۴ صفحہ ۲۰۲ تا ۲۰۷

Page 146

مکتوب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب سلّمہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اور جو خط مولوی محمد علی صاحب کے نام آیا تھا.میں نے اس کو سنا ہے.مجھے تعجب ہے کہ کیونکر مخالف لوگ ہم پر تہمتیں لگاتے ہیں.تکفیر کے معاملہ میں اصل بات یہ ہے کہ پہلے میں ان تمام لوگوں کو کلمہ گو خیال کرتا تھا اور کبھی میرے دل میں نہیں آیا کہ ان کو کافر قرار دوں پھر ایسا اتفاق ہوا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے میری نسبت ایک استفتاء تیار کیا اور وہ استفتا ء مولوی نذیر حسین دہلوی کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے فتویٰ دیا کہ یہ شخص اور اس کی جماعت کافر ہیں.اگر مر جاویں تو مسلمانوں کی قبروں میں ان کو دفن نہیں کرنا چاہیے.پھر بعد اس کے دو سو مہر تکفیر کی اس فتوے پر مولویوں کی لگائی گئیں.یعنی تمام پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں نے اس پر مہریں لگا دیں کہ درحقیقت یہ شخص کافر ہے.بلکہ یہود و نصاریٰ سے بھی زیادہ کافر ہیں.اور اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر ہم کافر ہیں کیونکر حدیث صحیح میں آیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کو کافر کہے تو کفر اُلٹ کر اسی پر پڑتا ہے.پس اس بنا پرہمیں ان لوگوں کو کافر ٹھہرانا پڑا.ورنہ ہماری طرف سے ہرگز اس بات کی سبقت نہیں ہوئی کہ یہ لوگ کافر ہیں.ان لوگوں نے خود سبقت کی.اس کا فتویٰ پہلے ان لوگوں کی طرف سے شائع ہوا.ہم نے کوئی کاغذان لوگوں کی تکفیر کا شائع نہیں کیا.اب جس شخص کو یہ امر گراں گذرتا ہو کہ اس کو کیوں کافر کہا جائے تو اس کے لئے یہ سہل امر ہے کہ وہ اس بارہ کااقرار شائع کر دے.کہ میں ان لوگوں کو کافر نہیں جانتا بلکہ وہ لوگ کافر ہیں جنہوں نے ان کو کافر ٹھہرایا.اسی بات کا ہمارے مکفروں مولوی محمد حسین وغیرہ کو اقرار ہے کہ بموجب اصول اسلام کے مسلمان کو کافر کہنے والا خود کافر ہو جاتا ہے پس جبکہ پنجاب ہندوستان کے تمام مولویوں نے مجھے اور میری جماعت کو کافر ٹھہرایا اور عدالتوں میں بھی لکھا دیا کہ یہ کافر

Page 147

اور دین اسلام سے خارج ہیں.تو پھر اس میں ہمارا کیا گناہ ہے ان کو پوچھ کر دیکھ لیا جاوے.خود کہتے ہیں کہ مسلمان کو کافر ٹھہرانے والا خود کافر ہو جاتا ہے اور اگر ہم نے اس فتویٰ کفر کے پہلے ان کو کافر ٹھہرایا.تو وہ کاغذ پیش کرنا چاہیے.پھر جو شخص مولوی محمد حسین اور نذیر حسین وغیرہ کو باوجود اس فتویٰ کے مسلمان جانتا ہے.تو کیوں کر ہمیں مسلمان کہہ سکتا ہے اور اگر ہمیں مسلمان جانتا ہے تو کیونکر ان کو مسلمان قرار دیتا ہے.پس یہ ہے اصلیت اس امرکی کہ ہم ان لوگوں کو کافر کہنے کے لئے مجبور ہوئے.والسلام٭ نقل دستخط خاکسار مرزا غلام احمد صاحب میرزا غلام احمد ٭ الحکم نمبر۳۰ جلد ۱۰ مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۶ء صفحہ ۳

Page 148

Page 149

حضرت میاں محمددین صاحب پٹواری رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 150

حضرت میاں محمد دین صاحب پٹواری ؓ حضرت میاں محمد دین رضی اللہ عنہ موضع حقیقہ پنڈی کھاریاں ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.آپ کی ولادت ۱۸۷۳ء میں ہوئی.آپ کے والد صاحب کا نام میاں نور الدین صاحب تھا.ایک روایت کے مطابق آپ شاہ پور کے علاقہ میں جھمٹ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جہاں سے آپ کے بزرگ نقل مکانی کر کے کھاریاں کے علاقے میں آ گئے تھے.آپ ابتداء سے پٹواری تھے.۱۸۸۹ء میں تقرری موضع بلانی میں ہوئی.بعد میں ترقی پا کر گرداور ، قانونگو اور واصل باقی نویس بنے.آپ ۱۹۲۹ء میں ریٹائر ہوئے.۱۸۹۳ء میں حضرت منشی جلال الدین صاحب بلانویؓ کے بیٹے مرزا محمد قیم صاحب نے آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی کتاب براہین احمدیہ پڑھنے کو دی.جس نے آپ کی کایا پلٹ دی.حضرت منشی جلال الدین بلانویؓ جب سیالکوٹ سے تشریف لائے تو ان سے پتہ پوچھ کر بیعت کا خط لکھ دیا اور ۵؍جون ۱۸۹۵ء کو حضرت اقدس ؑ سے دستی بیعت کی.آپ نے ریٹائر ہونے کے بعد قادیان میں سکونت اختیار کی.سندھ کی زرعی زمینوں کے نگران رہے.تقسیم ملک کے بعد قادیان میں درویش کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے.(۱۹۳۰ء میں آپ نے خدمت ِ دین کے لئے وقف ِ زندگی کی تھی.) حضرت اقدس ؑ نے کتاب البریہ میں اپنی پرُامن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.قادیان میں یکم نومبر ۱۹۵۱ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی.آپ کا وصیت نمبر ۱۸۵ ہے.۲۳؍اکتوبر ۱۹۰۶ء کو آپ نظام وصیت میں شامل ہوئے.٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۲۲ ، ۲۳

Page 151

فہرست مکتوبات بنام حضرت میاں محمد دین صاحب پٹواری ؓ نوٹ : مندرجہ بالاتمام مکتوبات رجسٹرروایات صحابہ(غیرمطبوعہ)نمبر۱۴ سے لیے گئے ہیں.(ناشر)

Page 152

مکتوب نمبر۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ بخدمت محترم محبیّ محمد الدین صاحب سلّمہُ اللہ تعالیٰ حضور امام ہمام مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ فرماتے ہیں کہ آپ کا عنایت نامہ صادر ہوا.آپ کا نام مبائعین کی فہرست میں داخل کر لیا گیا ہے اور آپ کے لئے دُعا دینی و دنیاوی کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اتباع رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کرتے رہو اور دین کو دُنیا پر مقدم سمجھو اور جب موقعہ ملے تو ظاہری بیعت بھی ضروری ہے.پہلے جو آپ کا خط آیا تھا.اُس میں آپ کا پتہ کامل نہیں تھا.اس لئے جواب میں توقف ہوا.اللہ تعالیٰ آپ کو صراط مُستقیم عطا فرماوے.والسلام ۶؍مئی ۱۸۹۵ء کتبہ سراج الحق نعمانی بحکم حضرت امام علیہ السلام از قادیان دارالامان مکتوب نمبر ۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بخدمت محبیّ مخلصی محمد الدین صاحب پٹواری بلانی سلّمہُ اللہ تعالیٰ حضرت کامل فرماتے ہیں.درود، استغفار، لاحول کا بہت ورد کیا کرو اور نماز میں اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ بار بار پڑھا کرو.تہجد کا ورد ضروری ہے.قرآن شریف معہ ترجمہ پڑھنا چاہئے.تدبرّ اور تفکّر بھی چاہئے.خدا تعالیٰ کوئی باعث پیدا کرے کہ ملاقات ہو اور دل سے عزم بھی کرنا چاہئے.والسلام ۱۶؍نومبر ۱۸۹۶ء از قادیان تا بارد ابر کے خندد چمن تانہ گرید طفل کے جوشد لبن کتبہ سراج الحق نعمانی بحکم حضرت امام صادق علیہ السلام چار روز سے منشی جلال الدین صاحب قادیان میں ہیں اور ابھی قیام کریں گے.

Page 153

مکتوب نمبر۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ میاں محمد دین پٹواری موضع بلانی ڈاک خانہ بیلہ ضلع گجرات پنجاب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ تمہارا کارڈ دیکھنے پر خوشی ہوئی.خداوندکریم سب پیاروں کو مطالب دارین پر کامیاب فرمائے اور اپنا ذوق شوق بخشے اور تابعداری حبیب اپنے کی نصیب کرے.۶؍دسمبر۱۸۹۶ء بحکم حضرت امام زمان کاتب الحروف جلال الدین سے السلام علیکم مکتوب نمبر ۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ اخویم محمد دین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کارڈ آپ کا پہنچا.اللہ تعالیٰ آپ کو قرآن کریم کی فہم اور پھر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماوے اور اپنی رضامندی کے کام لیوے.آمین.مولوی جلال الدین صاحب، رستم علی خان صاحب کے لئے بھی دُعا کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ اپنا فضل و رحم ان سب کے شاملِ حال فرماوے.آمین از جانب راقم الحروف بخدمت جملہ احباب و بخدمت مولوی جلال الدین صاحب و محمد الدین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۲۱؍اکتوبر ۱۸۹۷ء رقیمہ عبد اللہ الاحد حضرت مرزا غلام احمد عافاہ اللہ وایّد بقلم احمد اللہ خان از قادیان

Page 154

مکتوب نمبر۵ برادر محمد دین صاحب پٹواری السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت اقدس آپ کے اخلاص پر از بس خوش ہیں.خدا تعالیٰ آپ کو استقامت عطا فرمائے.منشی جلال الدین صاحب بعافیت اور سلام عرض کرتے ہیں.۱۹؍اگست ۱۸۹۸ء عبد الکریم از قادیان موضع بلانی.ڈاکخانہ بیلہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات مکتوب نمبر۶ برادر منشی محمد دین صاحب پٹواری السلام علیکم  ۱؎ جن کی مقدس کتاب میں ہو اُن سے زیادہ کوئی خوش نصیب ہے! نماز کا علاج نماز ہی سے ہمارا اصول ہے.اضطراب نہ کرو.حضرت اقدس دُعا کریں گے.منشی صاحب کی خدمت میں سلام عرض کریں.۱۹ ؍جون ۱۸۹۹ء عبدالکریم از قادیان موضع بلانی ڈاکخانہ بیلہ ضلع گجرات ۱؎ الزّمر : ۵۴

Page 155

دستی رقعہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ عاجز کی اپنی چند عرضیں ہیں.جن کو خلوت میں عرض کرنا چاہتا ہوں.اگر کوئی موقعہ ہو تو مطلع فرمایا جاوے.تا اس وقت عرض کرلوں.زیادہ از حد ادب ۵ ؍جنوری ۱۹۰۰ء خاکسار محمد دین پٹواری مقیم قادیان دارالامان مکتوب نمبر۷ السلام علیکم اِنْشَائَ اللّٰہ شام کے بعد یعنی نماز عشاء کے بعد آپ اطلاع دیویں.اس وقت بُلالوں گا.مرزا غلام احمد مکتوب نمبر۸ برادر منشی محمد دین صاحب پٹواری السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا مضمون مفاسد زمانہ پر حضرت صاحب نے بہت نہایت ہی پسند فرمایا.جَزَاکَ اللّٰہُ.مکرم منشی جلال الدین صاحب، منشی رستم علی صاحب اور محمد اشرف صاحب کی خدمت میں سلام عرض کریں.عاجز عبدالکریم ۲۵؍ مارچ ۱۹۰۰ء

Page 156

مکتوب نمبر۹ منشی محمد دین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت اقدس علیہ السلام آپ کے فرزند کا نام غلام مصطفی تجویز فرماتے ہیں.مبارک ہو.۱۸؍اپریل۱۹۰۱ء عاجز عبدالکریم بلانی.بیلہ.گجرات قادیان مکتوب نمبر۱۰ برادر منشی محمد دین صاحب پٹواری بلانی.بیلہ.گجرات السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت اقدس علیہ السلام قبول فرماتے ہیں بیعت میاں غلام غوث صاحب کی.آپ انہیں مطلع کر دیں.منشی جلال الدین صاحب پر سلام عرض کریں.فقیر ۱۳؍مئی ۱۹۰۲ء عبد الکریم مکتوب نمبر۱۱ منشی محمد دین صاحب پٹواری بلانی.بیلہ.گجرات السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت اقدس قبول فرماتے ہیں بیعت شہزادہ بیگم کی اور دعا کرتے ہیں تمام مبائعات اور مبائعین کے حق میں.میراسلام منشی صاحب اور دوسرے احباب پر.۲۰؍مئی ۱۹۰۲ء عبد الکریم قادیان

Page 157

مکتوب نمبر۱۲ برادر منشی محمد دین صاحب پٹواری بلانی.بیلہ.گجرات السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آج جمعہ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منشی جلال الدین صاحب مرحوم و مغفور کا جنازہ پڑھا.خدا تعالیٰ مرحوم مبرور کے متعلقین کو صبر کی قوت دے.۱۸؍اگست ۱۹۰۲ء والسلام عبد الکریم قادیان نوٹ : منشی صاحب مرحوم ۲؍اگست ۱۹۰۲ء کو فوت ہوئے.مکتوب نمبر۱۳ منشی محمد دین صاحب پٹواری بلانی.بیلہ.گجرات السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت اقدس علیہ السلام قبول فرماتے ہیں بیعت میاں محمد عالم کی.آپ اطلاع دیں.خورشید بی بی صاحبہ کے لئے دعا ہوئی.۱۶؍ستمبر ۱۹۰۲ء عبد الکریم از قادیان

Page 158

مکتوب نمبر۱۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ بخدمت میاں محمد دین صاحب پٹواری حلقہ بلانی.ڈاکخانہ بیلہ ضلع گجرات السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ خط آپ کا دعا کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں آیا.حضرت صاحب دعا فرماتے ہیں.۱۸؍اپریل ۱۹۰۳ء والسلام عبد الکریم قادیان

Page 159

حضرت مولوی محمد دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (سابق صدر ، صدر انجمن احمدیہ)

Page 160

حضرت مولوی محمد دین صاحب ؓ حضرت مولوی صاحب ؓ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت سے جہاں گفتار اور کردار میں اسلامی تعلیمات کا حسین مرقع تھے وہاں آپ اللہ تعالیٰ کی راہ میں استقامت اور وفا کا اعلیٰ نمونہ بھی تھے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل کے تحت ۱۹۰۱ء میں سیدنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے مبارک ہاتھوں پر بیعت ہونے کی سعادت بخشی جبکہ آپ کی عمر قریباً بیس سال تھی.آپ ۱۹۰۳ء میں اپنے وطن لاہور سے ہجرت کر کے قادیان میں اپنے آقا حضرت مسیح موعود ؑ کے قدموں میں دھونی رما کر بیٹھ گئے اور ہمیشہ کے لئے یہیں کے ہو گئے.ستمبر ۱۹۰۷ء میں سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ نے جب وقف ِزندگی کی پہلی منظم تحریک شروع فرمائی تو اپنے آقا کی آسمانی آواز پر دل و جان سے لبیک کہنے والے ابتدائی تیرہ خوش نصیبوں میں آپ کا ساتواں نمبر تھا جن کی درخواست پر حضرت امام ہمام علیہ السلام نے اپنے قلم مبارک سے تحریر فرمایا.’’نتیجہ نکلنے کے بعد اس خدمت پر لگ جائیں.‘‘ آپ اس وقت علیگڑھ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے اور وہاں سے فراغت پر آقا کے ارشاد کی تعمیل میں خدمت پر ایسے لگے کہ آخری سانس تک بفضلِ ایزدی اپنے عہدِ وقف کو عمدگی اور وفاشعاری سے نبھایا.حضرت مولوی صاحب کی طویل زندگی کا معتدبہ حصہ علم کے میدان میں گزرا جب خود طالبعلم تھے تو ہمیشہ امتحانات میں امتیازی کا میابی حاصل کر کے وظائف کے مستحق قرار پاتے رہے اور جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی سربراہی کا

Page 161

اعزاز آپ کوحاصل رہا.چنانچہ آپ نے ۱۹۰۹ء.۱۹۱۰ء میں سینئر ٹرینڈ مدرس تعلیم الاسلام سکول قادیان کی حیثیت سے سلسلہ کی دینی و تعلیمی خدمات کا آغاز فرمایا.۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۱ء تک تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ہیڈماسٹر رہے.اسی دوران کچھ عرصہ کے لئے ریویوآف ریلیجنز اُردو و انگریزی کے ایڈیٹر بھی رہے.جنوری ۱۹۲۳ء سے دسمبر ۱۹۲۵ء تک آپ امریکہ میں تبلیغ اسلام کے فرائض سرانجام دیتے رہے.۱۹۲۶ء سے ۱۹۴۲ء تک دوبارہ ہیڈماسٹر کی حیثیت سے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں خدمات بجا لائے.۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۷ء تک گرلزہائی سکول قادیان کے ہیڈماسٹر اور مینیجر کے عہدہ پر مامور رہے.ہجرت کے بعد اکتوبر ۱۹۴۷ء سے لے کر اپریل ۱۹۶۵ء تک صدرانجمن احمدیہ میں بطور ناظر تعلیم جماعت کے تعلیمی اداروں کی نگرانی و راہنمائی کا فریضہ بجا لاتے رہے.بعد ازاں مئی ۱۹۶۶ء سے لے کر مارچ ۱۹۸۳ء تک آپ صدر انجمن احمدیہ کے صدر کے منصبِ جلیلہ پر فائز رہے اور اس طرح ۱۹۰۷ء سے لے کر ۱۹۸۳ء تک عہدِ وقف اور عہدِ خدمت کو نہایت شاندار اور قابلِ رشک انداز سے نبھاکر ایک حسین نمونہ قائم فرما گئے.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍مارچ ۱۹۸۳ء میں آپ کے متعلق فرمایا کہ ’’… تمام عمر آپ ایک نہایت ہی پاک نفس اور درویش صفت انسان کے طور پر زندہ رہے.کوئی انانیت نہیں تھی کوئی تکبر نہیں تھا… ایسا بچھا ہوا وجود تھا جو خدا کی راہوں میں بچھ کر چلتا تھا.ذکرِ الٰہی سے ہمیشہ آپ کی زبان تر رہتی.آپ زندگی کے آخری سانس تک داعی الی اللہ رہے‘‘.آپ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریباً ۱۰۲ سال کی عمر پائی اور اپنی زندگی کا ہر لمحہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی خاطر صرف کیا.٭ ٭ تلخیص از قرارداد تعزیت صدرانجمن احمدیہ بر وفات حضرت مولوی محمد دین صاحب

Page 162

مکتوب ژ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ میں اس درخواست کو پڑھ کر بہت خوش ہوا اور اس دن اس سے بھی بڑھ کر خوشی ہو گی جبکہ اس خدمت پرآپ کو مصروف پائوں گا.مناسب ہے کہ بی.اے کے امتحان کو دیکھ لیں اور اس کے بعد کامیابی یا ناکامی کی پروانہ کریں جبکہ خدا تعالیٰ کے لئے زندگی بسر کرنی ہے تو پھر یہ خیالات لغو ہیں.والسلام مرزا غلام احمد اپنا نام مفتی صاحب کی فہرست میں درج کرا دیں.

Page 163

Page 164

Page 165

Page 166

Page 167

حضرت مولوی محمد شاہ صاحب تونسوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 168

حضرت مولوی محمد شاہ صاحب تونسویؓ حضرت مولوی محمد شاہ صاحب تونسویؓ ولد مکرم محمود شاہ صاحب سکنہ بستی مندرانی تحصیل تونسہ ضلع ڈیرہ غازی خان کے رہنے والے تھے.آپ ڈکھنہ قوم سے تعلق رکھتے تھے.آپ کا اصل نام محمد اور بعد ازاں محمد شاہ کے نام سے شہرت پائی.آپ جماعت کے معروف شاعر مکرم مولوی ظفر محمد صاحب ظفر کے رشتے میں ماموں تھے.آپ تحصیل علم کے لئے راولپنڈی گئے اور وہیں ایک حکیم صاحب سے طبابت سیکھنے لگے.حکیم صاحب احمدی تھے چنانچہ انہیں کی وساطت سے آپ ۱۹۰۱ء سے قبل قادیان دارالامان پہنچے تاکہ حضرت حکیم نور الدین صاحب سے فن طبابت سیکھ سکیں.قادیان پہنچنے پر جہاں آپ نے حضرت حکیم الامت کی شاگردی اختیار کی.وہیں آپ کو حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت کرنے کی بھی سعادت نصیب ہوئی.آپ کے قیام و طعام کا بندوبست حضرت مولوی صاحب نے کیا اور آپ نے وہیں حضرت مولوی صاحب کے کتب خانہ میں رہائش اختیار کی.ادھر اپنی بستی مندرانی کے لوگوں سے خطوط کے ذریعہ امام مہدی ؑکی سچائی بتلاتے رہتے تھے.قادیان میں قیام کے کچھ عرصہ گزرنے پر آپ نے حضرت مسیح موعود ؑ سے اپنے گائوں جانے کی اجازت چاہی تو آپ ؑ نے ان کو دعا اور نصیحت کے ساتھ اجازت عطا کی.گائوں میں آپ کی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں ۱۵ افراد کو تحریری بیعت کی توفیق ملی جن میں سے آٹھ بزرگوں کو مختلف مواقع پر براہِ راست قادیان پہنچنے اور حضرت مسیح موعود ؑ کی دستی بیعت کرنے کا شرف نصیب ہوا.اس طرح بستی مندرانی میں جماعت کے قیام کا سہرا

Page 169

آپ کے سر ہے.خلافت اولیٰ میں دعوت سلسلہ کی توسیع کے لئے مختلف علاقوں میں مربیان بھیجے گئے تو حضرت مولوی محمد شاہ صاحب کو آسنور کشمیر بھیجا گیا.آپ ایک لمبا عرصہ وہاں مقیم رہے اور دعوت سلسلہ کا فریضہ انجام دیتے رہے.آپ کی شادی بھی کشمیر میں ہی فقیر محمد صاحب بھٹی کی لڑکی سے ہوئی جس سے آپ کو اللہ تعالیٰ نے اولاد بھی عطا کی.آپ نے آسنور میں ہی وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے.آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.بہشتی مقبرہ قادیان میں آپ کا یادگاری کتبہ نمبر۲۸۵ ہے.جس پر آپ کی عمر ۶۵ سال اور تاریخ وفات ۱۸؍مارچ ۱۹۲۰ء درج ہے.٭ ٭ تلخیص از روزنامہ الفضل مورخہ ۱۰؍فروری ۲۰۰۷ء صفحہ ۵،۶

Page 170

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بحضور مسیح موعود علیہ السلام علیہ الفُ الفِ تحیۃً و سلاماً السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ عرض خاکسار یہ ہے کہ مدت سے خاکسار نابکار گھر سے اس نیت پر کہ علم حاصل کروں نکلا تھا تو بعد تکلفات کثیرہ سفر کے اور بکثرت عبادت قبروں اور پیرپرستی کے اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اس نابکار کو حضور کے قدموں میں لایا اور حضور کی کتابوں سے ہی علم حاصل کی اور اللہ تعالیٰ نے حضور کی برکت سے ہی اس نابکار کو سمجھ عطا فرمائی اور حضور کے پاک انفاس سے وہ وہ حقائق اور معارف سنے کہ کسی گدی نشین وغیرہ کے منہ سے عمر بھر میں نہیں سُنے تھے اور یہ ایک خاص اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ مجھے ایسے دھوکوں سے بچایا کہ جن کا مجھے نہایت خطرہ تھا اور مجھے اب یقین کامل ہے کہ اگر میں تونسہ میں ہی چلا جائوں تو ان گدی والوں کی عظمت میرے واہمہ تک ہی مشکل ہے بلکہ ان کی عظمت کا خدا تعالیٰ کی جانب سے ہونے کا تصور کرنا ہی کفر سمجھتا ہوں کیونکہ پہلے زمانہ میں ہم یقین کرتے تھے کہ یہ لوگ گدی نشین کلام ہی نہیں کرتے جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو.اب صاف پتہ لگا کہ یہ سب دھوکہ باز ہیں.اب میں چاہتا ہوں کہ گھر کو جائوں اور اپنے اہل اقارب کو ملوں اور دیکھوں کہ حضور کی تبلیغ کو قبول کرتے ہیں یا نہیں.امید ہے کہ اکثر قبول کر لیں گے.مگر جو اس وقت گدی نشین تونسہ ہے وہ نہایت ہماری جماعت کو شرارت سے پیش آتا ہے.جیسے مولوی ابوالحسن کے مقدمہ میں جو کہ بناوٹ سے ان پر کیا گیا تھا.تحصیلدار کو سفارش کر بھیجی کہ جہاں تک ہو سکے اس کو قید کردو کیونکہ یہ مرزائی ہے تو اسی لئے حضور سے اجازت چاہتا ہوں کہ حضور دعا فرماویں کہ میں گھر کو جائوں اور ان کی شرارتوں سے اللہ تعالیٰ محفوظ فرماوے.والسلام جواب سے عنایت فرماویں.خاکسار محمد شاہ از کتب خانہ

Page 171

مکتوبژ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ انسان جب سچے دل سے خدا کا ہو کر اس کی راہ اختیار کرتا ہے تو خود اللہ تعالیٰ اس کو ہر یک بلا سے بچاتا ہے اور کوئی شریر اپنی شرارت سے اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا.کیونکہ اس کے ساتھ خدا ہوتا ہے.سو چاہیے کہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کو یاد رکھو اور اس کی پناہ ڈھونڈو اور نیکی اور راستبازی میں ترقی کرو اور اجازت ہے کہ اپنے گھر چلے جائو اور اس راہ کوجو سکھلایا گیا ہے.فراموش مت کرو کہ زندگی دنیا کی ناپائدار اور موت درپیش ہے.یکم اپریل ۱۹۰۳ء والسلام خاکسار اور میں انشاء اللہ دعا کروں گا.فقط مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 172

Page 173

Page 174

Page 175

Page 176

Page 177

حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مفتی صاحب کے نام حضور علیہ السلام کے بیشتر خطوط مفتی صاحب کی کتاب ’’ذکر حبیب‘‘ سے لیے گئے ہیں.چند خطوط جن کے چربے میسر تھے ان کے چربے شامل کر دیئے ہیں.ان کے علاوہ دیگر خطوط کے نیچے حوالے دے دیئے گئے ہیں.(ناشر)

Page 178

حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب ؓ حضرت مفتی محمد صادق رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام مفتی عنایت اللہ قریشی عثمانی تھا.آپ کی ولادت بھیرہ ضلع شاہ پور (حال ضلع سرگودھا) میں ہوئی.آپ کی تاریخ ولادت ۱۱؍جنوری ۱۸۷۳ء ہے.آپ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے عزیزوں میں سے تھے اور حضرت مولوی صاحب کے زیر سایہ جموں میں ہی تعلیم پائی.۱۸۹۰ء میں جب پہلی بار آپ قادیان گئے تو حضرت اقدس ؑ کے نام حضرت حکیم مولانا نور الدین (خلیفۃ المسیح الاوّلؓ) کا تعارفی رقعہ بھی ساتھ لے گئے.اگلے روز صبح سیر کے دوران سید فضل شاہ صاحب نے چند سوال کئے.آپ اس ملاقات کے تاثرات میں لکھتے ہیں کہ ’’میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے مجھے حضرت صاحب کی صداقت کو قبول کرنے اور آپ کی بیعت کر لینے کی طرف کشش کی سوائے اس کے کہ آپ کا چہرہ مبارک ایسا تھا جس پر یہ گمان نہ ہو سکتا تھا کہ وہ جھوٹا ہو.‘‘ آپ نے ۳۱؍جنوری ۱۸۹۱ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت اولیٰ میں۲۱۷ نمبر پر آپ کا نام درج ہے.ایک سرکاری عہدہ سے استعفیٰ دے کر آپ نے ۱۹۰۰ء میں قادیان میں مستقل رہائش اختیار کر لی.حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریک پر آپ نے لاہور میں ایک یہودی عورت تفّاحہ (سیب) نامی کے ایک عزیز مسلمان سے عبرانی سیکھی جو بعد میں احمدی ہو گیا.آپ پہلے مدرسہ احمدیہ میں استاد اور بعد ازاں ۱۹۰۳ء میں ہیڈماسٹر مقرر ہوئے.۱۹۰۵ء میں منشی محمد افضل

Page 179

صاحب ؓ ایڈیٹر البدر کی وفات پر ایڈیٹر مقرر ہوئے.پھر جب البدر بہ سبب طلب ضمانت کے بند ہوا تو آپ بنگال، اُڑیسہ، احمد آباد اور حیدرآباد میں مبلغ رہے.مارچ ۱۹۱۷ء میں خدمت دین کے لئے انگلستان تشریف لے گئے.جنوری ۱۹۲۰ء میں انگلستان سے امریکہ پہلے مبلغ کے طور پر پہنچے اور لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی.جہاں آپ نے The Muslim Sunrise رسالہ جاری کیا جو آج بھی سہ ماہی رسالہ کے طور پر جاری ہے.آپ سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ ، نائب امیر مقامی قادیان اور پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الثانی (مصلح موعودؓ) بھی رہے.حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کو انگریزی اخبارات اور کتب کا ترجمہ سنایا کرتے تھے.انگریزی زبان میں خط و کتابت آپ کے ذریعہ بھی ہوا کرتی تھی.انگریزوں میں تبلیغ کرنے کا بہت شوق تھا.حضرت اقدس ؑ کے الہامات اور ملفوظات لکھنے کا کام جس طرح حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ ایڈیٹر الحکم نے کیا بالکل اسی طرح حضرت مفتی صاحب کرتے رہے.آپ اخبار بدر قادیان کے ایڈیٹر لمبا عرصہ رہے.آپ نے کئی عمدہ اور اعلیٰ علمی کتابیں بھی تصنیف کیں مثلاً ذکرِ حبیب، بائبل کی بشارات بحق سرورکائنات ، تحفہ بنارس، تحقیقات قبر مسیح، واقعات صحیحہ، آپ بیتی، لطائف صادق وغیرہ.انجام آتھم میں مالی معاونت کرنے والوں میں آپ کا نام درج ہے.کتاب منن الرحمن میں حضرت اقدس ؑ نے اشتراک السنہ میں جان فشانی کرنے والے احباب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آپ کا ذکر فرمایا ہے.ازالہ اوہام میں اپنے مخلصین میں حضرت اقدس ؑ نے آپ کا نام درج کیا ہے.سراج منیر میں چندہ مہمان خانہ ،کتاب البریہ و آریہ دھرم میں پرُامن جماعت ، تحفہ قیصریہ میں، جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں شرکت ، حقیقۃ الوحی میں نشان کے گواہ اور ملفوظات میں کئی موقعوں پر ذکر فرمایا ہے.۱۳؍جنوری ۱۹۵۷ء کو آپ نے وفات پائی اور آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ نمبر۱۰ حصہ نمبر ۱۷ میں ہوئی.٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۱۱۵ تا ۱۱۷

Page 180

فہرست مکتوبات بنام حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب ؓ

Page 181

Page 182

خطوط امام بنام غلام اﷲ تعالیٰ کا فضل ہو حکیم محمدحسین صاحب قریشی (موجد مفرّح عنبری) پر اور ان کی اَولاد پر.حکیم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پُرانے خدام میں سے ہیں اور حضرت صاحب کو جو ادویہ وغیرہ لاہور سے منگوانی ہوتی تھیں.وہ بعض دفعہ حکیم صاحب کے ذریعہ سے منگواتے تھے اور بعض دفعہ منشی تاج الدین صاحب مرحوم ۱؎کے ذریعہ سے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال پر حکیم صاحب موصوف نے اُن تمام خطوط کو جو اُنہیں وقتاً فوقتاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھے تھے، جمع کر کے ایک رسالہ کی صورت میں چھاپ کر شائع کیا تھا.اور اس رسالہ کا نام خطوط اِمام بنام غلام رکھا تھا.اُن کی طرح مَیں بھی اِس باب کا یہ نام رکھتا ہوں.مجھے حضرت صاحبؑ کے دستی خطوط سب سے پہلے جموں میں ملے تھے.جہاں مَیں ۱۸۹۰ء سے ۱۸۹۵ء تک مدرس رہا.مگر وہ خطوط محفوظ نہیں رہے.ان دنوں حضرت صاحبؑ کے ایک صاحبزادے مرزا فضل احمد صاحب مرحوم بھی جموں پولیس میں ملازم تھے.اور وہ خطوط زیادہ تر اُنہیں کے حالات کے استفسار پر تھے.۱۸۹۸ء سے ۱۹۰۰ء تک عاجزلاہور میں پہلے قریب چھ۶ ماہ مدرسہ انجمن حمایت اسلام شیرانوالہ دروازہ میں مدرّس رہا.اور اس کے بعد ہجرت کرکے قادیان جانے تک دفتر اکونٹنٹ جنرل پنجاب میں بطور کلرک ملازم رہا.اس عرصہ میں عاجز اکثر قادیان آتا رہتا تھا.اس واسطے خط و کتابت کی چنداں ضرورت نہ رہتی تھی.تاہم ان ایّام میں جو خطوط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے عاجز کو پہنچے.اُن میں سے بعض اب تک محفوظ ہیں.درج ذیل کئے جاتے ہیں.بعض خطوط کے مضامین کی وضاحت کے واسطے مَیں ساتھ ہی اپنا خط بھی چھاپ دیتا ہوں جس کے جواب میں وہ خط ہے.تاکہ مطلب اچھی طرح سے سمجھ میں آئے:٭ ۱؎ منشی صاحب مرحوم کے فرزند شیخ مظفر الدین صاحب آج کل پشاور میں سامان بجلی کا کاروبار کرتے ہیں اور مخلص احمدی ہیں.(مؤلف) ٭ ذکر حبیب صفحہ ۳۳۸، ۳۳۹ از حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ

Page 183

مکتوب نمبر ۱ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ محبیّ عزیزی اخویم مفتی محمد صادق صاحب سلّمہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا.میں آپ کے لئے ہمیشہ دعا کرتا ہوں اور مجھے نہایت قوی یقین ہے کہ آپ تزکیہ نفس میں ترقی کریں گے.اور آخر خدا تعالیٰ سے ایک قوت ملے گی جو گناہ کی زہریلی ہوا ، اور اُس کے اُبال سے بچائے گی آج مجھے بیٹھے بیٹھے یہ خیال ہوا ہے کہ کسی قدر عبرانی کو بھی سیکھ لوں.اگر خدا تعالیٰ چاہے تو زبان کا سیکھنا بہت سہل ہو جاتا ہے.آپ نے مجھے انگریزی میں تو بہت مدد دی ہے اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ وقت ملنے پر میں جلد تر بہت کچھ انگریزی میں دخل پیدا کر سکتا ہوں.اب اس میں بالفعل آپ سے یہ مدد چاہتا ہوں کہ آپ عبرانی کے جُدا جُدا حروف سے مجھے ایک نمونہ کاملہ بھیج کر اطلاع دیں اور اس کے ساتھ ایک حصہ ترکیب کا بھی ہو.اس نمونہ پر صورت حرف در فارسی صورت حرف در عبرانی.ایسا کریں جس سے مجھے تین حرف کے جوڑنے میں قدرت ہو جائے.باقی خیریت ہے.والسلام مرزا غلام احمد عفی اﷲ عنہ ایک اور ضرورت ہے کہ مجھے انگریزی کے شکستہ حروف کی شناخت کرنے میں دقّت ہوتی ہے.میں چاہتا ہوں کہ اگر ایسی کوئی چھپی ہوئی کاپی مل سکے تو بہتر ہے یعنی ایسی کاپی جس میں انگریزی مفرد حرف شکستہ میں لکھے ہوئے ہوں.جو کتابی حروف کے مقابل پر لکھے گئے ہوں.باقی خیریت والسلام مر زا غلام احمدعفی اﷲ عنہ

Page 184

مکتوب نمبر ۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم مفتی صاحب سلمہُ اﷲ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ براہ مہربانی اس وقت جہاں تک جلد ممکن ہو.تین باتوں کی نقل کر کے بھیج دیں.اوّل وہ انجیل جس کا رات کو ذکر ہوا تھا.اس کا نام اور باب اور ایک وہ جس کا یہ مضمون ہے کہ مسیح صلیب سے نہیں مرا.گلیل میں موجود ہے.دوسر۲ے پطرس کی تحریر معہ حوالہ.تیسر۳ے.جرمن کے پچاس پادریوں کا قول کہ مسیح صلیب سے نہیں مرا.شاید اِنسائیکلو پیڈیا میں یہ قول ہے.اِس وقت یہ مضمون لِکھ رہا ہوں.اگر جلد یہ تحریریں آ جائیں تو بہتر ہو گا.والسلام مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ ---------------------------------- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آج رات عاجز نے خواب میں دیکھا کہ ایک مکان میں بیٹھا ہوں اور کہتا ہوں مجھے کیا پڑھنا چاہئیے.اتنے میں ابوسعید عرب کو ٹھے پر سے نمودار ہوئے کہنے لگے: طِب.طِب.طِب.طِب.طِب.روحانی اور جسمانی فقط.اِس خواب کی تعبیر کیا ہے اور اس کو کس طرح سے پُورا کرنا چاہیے.مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ ایک کتاب حدیث اور ایک کتاب طِب شروع کر دو.عاجز محمد صادق عفی اﷲ عنہ

Page 185

مکتوب نمبر ۳ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مولوی صاحب نے صحیح فرمایا ہے.اس میں دونوں طِب آگئی ہیں.بیشک.خدا مبارک کرے.ایک روپیہ پہنچا.والسلام مرزا غلام احمد عفی اﷲ عنہ مکتوب نمبر ۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم مفتی محمد صادق صاحب سلّمہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا چندہ جو محض محبت لِلّٰہ سے آپ نے اپنے ذمہ مقررکیا ہوا ہے.مجھ کو پہنچ گیا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَالْجَزَائِ.تردّد پیش آمدہ کے رفع سے ضرور مجھے مطلع فرما دیں کہ جو ڈاکٹر نے عمر کی نسبت جرح کیا تھا اُس کا تصفیہ ہو گیا ہے.باقی خیریت ہے.والسلام ۵؍ جولائی ۱۸۹۶ء خاکسار بمقام لاہور دفتر اکونٹنٹ جنرل غلام احمد عفی اللہ عنہ بخدمت محبی اخویم مفتی محمد صادق صاحب کلرک

Page 186

مکتوب نمبر۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ عزیزی اخویم مفتی صاحب سلمہُ اﷲ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ محبت نامہ آپ کا پہنچا.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اور مکروہات دین و دُنیا سے بچائے.آمین ثم آمین.فیصلہ عمر سے خوشی ہوئی.الحمد ﷲ.آپ کے اخلاص اور محبت سے نہایت دل خوش ہے.خدا تعالیٰ ربّانی طاقت سے آپ کو بے نظیر استقامت بخشے.والسلام ۱۸؍جولائی ۱۸۹۶ء خاکسار بمقام لاہور دفتر اکونٹنٹ جنرل غلام احمدعفی اﷲ عنہ عزیزی محبی اخویم مفتی محمد صادق صاحب کلرک دفتر مکتوب نمبر ۶ ِبسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزی اخویم مفتی صاحب سلمہُ اﷲ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ہدیہ مرسلہ آپ کا پہنچ گیا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَالْجَزَائِ فِی الدُّنْیَا وَ الْعُقْبٰی.اگر خواجہ کمال الدین صاحب ملیں تو آپ تاکید فرماویں کہ طہرانی صاحب کے ردّ میں جو اشتہار بھیجا گیا ہے اس کو موافقین اور مخالفین میں خوب مشہور کر دیں.لاہور میں خوب اس کی شہرت ہو جانی چاہئیے.طہرانی صاحب کو بطور ہدیہ سرالخلافہ بھی دے دیں.والسلام مہر قادیان ۵؍ فروری ۱۸۹۷ء خاکسار مہر لاہور ۶؍ فروری ۱۸۹۷ء غلام احمدعفی عنہ بمقام لاہور دفتر اکونٹنٹ جنرل بخدمت محبیّ اخویم مفتی محمدصادق صاحب کے پہنچے.

Page 187

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی مسعودؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اگر حضور ؑ اجازت دیں تو میں بعض بڑے بڑے انگریزی اخباروں میں مضمون دیا کروں کہ زباندانی میں ترقی ہو کر دینی خدمات میں ترقی کا موجب ہو اور نیز آمدنی کا ایک ذریعہ ہے.یکم جنوری ۱۸۹۸ء حضورکی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق لاہور مکتوب نمبر ۷ محبی اخویم مفتی صاحب سلّمہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میرے نزدیک یہ تجویز بہت مناسب ہے.اِس طرح پر انشاء اﷲ زبان جلد صاف ہو جائے گی اور محاورات کا علم بخوبی ہو جائے گا.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مرشدنا و مہدینا نائب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ گذشتہ ہفتہ میں مَیں نے حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپؐ ایک کُرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور میں ذرا ہٹ کر خادموں کی طرح پاس کھڑا ہوں.اتنے میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ و بارک وسلم نے اپنے کپڑوں کی ایک بستنی کھولی اور اس میں سے آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

Page 188

نے ایک بوٹ نکالا.جو کہ بادامی رنگ کا مضبوط بنا ہوا دکھائی دیتا تھا اور اس پر بادامی ہی رنگ کے گول گول بٹن بھی لگے ہوئے تھے جو کہ صرف زیبائش کے لئے لگائے جاتے ہیں.میرے دِل میں یہ خیال ہے کہ یہ میں نے ہی حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھیجا تھا.سو وہ بوُٹ آنحضرت صلی اﷲ علیہ بارک وسلم نے ہاتھ میں لیا.اور میری طرف دیکھ کر کچھ ناراضگی کے طور سے ارشاد فرمایا.کہ ’’کیوں جی یہ کیا‘‘ اِس فقرہ سے میں اپنے دل میں خواب کے اندر یہ سمجھا کہ آپؐ فرماتے ہیں کہ اس سے عمدہ قسم کے بوٹ ہمیں تم سے آنے کی اُمید تھی.مگر میں شرمندگی سے خاموش ہوں کہ اتنے میں میری آنکھ کھل گئی.اس وقت سے میرے دل کو ایک تشویش ہے اور اس خواب کی ایک تعبیر میں نے یہ سمجھی ہے کہ اِس سے مُراد اُس خدمت میں کمی اور نقص ہے جو کہ میں حضورؑ اقدس کی کرتا ہوں کیونکہ میں اپنے خطوط میں لکھا کرتا ہوں کہ میں حضور اقدس ؑ نائب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی جوتیوں کا غلام ہوں.اور خواب میں بھی مجھے یہ دکھلایا گیا ہے کہ گویا میں نے آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے لئے ایک جوتی بھیجی ہے سو میں نے ایک تو یہ ارادہ کیا ہے کہ بجائے (تین روپے)کے جو میں ماہوار ارسال خدمت کیا کرتاہوں آئندہ (دس روپے)روپیہ ماہوار ارسال کیا کروں.وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ.میں ڈرتا ہوں کہ اس اولوالعزم نبی حبیبِ خدا محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ناراضگی کے سبب ہلاک نہ ہو جائوں.میں یہ نہیں کہتا کہ صرف دس۱۰ روپیہ ماہوار ہی ارسال کروں بلکہ اس سے بھی زیادہ جو حضورؑ حکم فرماویں.انشراح صدر کے ساتھ حاضر خدمت کرنے کو طیّار ہوں.اور تھوڑی رقم پر غریبی کے ساتھ اپنا گذارہ کرنے کو راضی ہوں.اس رحمٰن رحیم اﷲ کے واسطے جس نے آپ ؑ کو اس زمانہ میں اپنے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کا نائب بنا دیا.حضورؑ میرے لئے دُعا اور شفاعت کریں تاکہ میں ہلاک نہ ہو جائوں.اﷲ تعالیٰ آپ کی ہر ایک دُعا کو قبول کرتا ہے.اور آپؑ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی دستار مبارک ہیں.پس آپؑ میرے لئے سفارش کریں.اور مجھے وہ طریق سکھلائیں اور اُن پر چلائیں جن سے میں اﷲ اور اُس کے رسول ؐ کو راضی کر لوں.۱۸؍ مارچ ۱۸۹۸ء آپ ؑ کی جوتیوں کا غلام محمد صادق

Page 189

مکتوب نمبر ۸ بسمہٖ محبیّ اخویم مفتی محمد صادق صاحب سلمہ ُ اﷲ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ میں نے آپ کا خط پڑھا.میں اِنْشَائَ اﷲ الْکَرِیْم آپ کے لئے دُعا کروں گا تا یہ حالت بدل جائے.اور انشاء اﷲ دُعا قبول ہو گی.مگر مَیں آپ کو ابھی صلاح نہیں دیتا کہ اس تنخواہ پر آپ دس۱۰ روپیہ بھیجا کریں.کیونکہ تنخواہ قلیل ہے.اور اہل و عیال کا حق ہے بلکہ میں آپ کو تاکیدی طور پر اور حکماً لِکھتا ہوں.کہ آپ اس وقت تک کہ خدا تعالیٰ کوئی باگنجائش اور کافی ترقی بخشے یہی تین روپیہ بھیج دیا کریں.اگر میرا کانشنس اس کے خلاف کہتا تو میں ایسا ہی لکھتا.مگر میرا نورِ قلب یہی مجھے اجازت دیتا ہے کہ آپ اُسی مقررہ چندہ پر قائم رہیں.ہاں بجائے زیادت کے درود شریف بہت پڑھا کریں کہ وہی ہدیہ ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس پہنچتا ہے.ممکن ہے کہ اس ہدیہ کے ارسال میں آپ سے سُستی ہوئی ہو.۱۸؍مارچ ۹۸ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 190

مکتوب نمبر ۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم مفتی محمد صادق صاحب سلّمہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ چونکہ قیمت کم تھی.آج احتیاطاً مبلغ پچاس  روپیہ اور بھیج دئے گئے ہیں.آپ شیخ عبداﷲ صاحب کو بہت تاکید کر دیں کہ نہایت احتیاط سے شربت کلورا فارم طیار کریں.اور کلکتہ سے جو دوائی منگوانی ہے.وہ ضرور کلکتہ سے منگوائی جاوے.تا عمدہ اور سستی آئے.زیادہ خیریت ہے.۱۸؍ مئی ۹۸ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان کلکتہ سے دوا لاہور میں بنام شیخ صاحب آنی چاہئیے اور پھر کسی کے ہاتھ قادیان میں بھیج دی جائے.لفافہ بمقام لاہور دفتر اکونٹنٹ جنرل آفس بخدمت محبیّ اخویم مفتی محمد صادق صاحب کلرک دفتر ۱۸؍ مئی ۹۸ء راقم خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان

Page 191

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود ومہدی معہودؑنائب رسول کریم اَلصّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ امابعد گذارش ہے کہ اس عاجز نے گذشتہ تین چار دنوں میں کئی دفعہ اﷲ تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہوئے اور اپنی کمزوریوں کا اظہار کرتے ہوئے استخارہ کیا ہے.اور اُس کے بعد اپنے دینی اور دنیوی فوائد کو یہ عاجز اسی میں دیکھتا ہے کہ حضور کی جوتیوں میں حاضر رہے.اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اس امر کے لئے اس عاجز کو انشراح صدر عطا فرمایا ہے.پھر جیسا حضور اقدس حکم فرماویں کہ آپ اﷲ کے رسول ہیں.اور آپ کی متابعت میں اﷲ تعالیٰ کی رضا ہے.میرے قلب کا میلان بعد دعائے اِستخارہ کے بالکل اس طرف ہو گیا ہے.اے خدا !میرے گناہوں کو بخش دے.میری کمزوریوں کو دور فرما.اور مجھے صراط مستقیم پر چلا.اﷲ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو.اور آپ کے دشمنوں کو رُو سیاہ کرے.آمین ثم آمین.آج ۷ تاریخ ہے اس واسطے اب لاہور خط لکھ دینا چاہئیے.۷ ؍ جولائی ۱۹۰۱ء حضورکی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق قادیان

Page 192

مکتوب نمبر ۱۰ژ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ جبکہ آپ کا دل استخارہ کے بعد قائم ہو گیا ہے.تو یہ امر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.خدا تعالیٰ آپ کو مبارک کرے.ہمیں بہت خوشی اور عین مراد ہے کہ آپ اس جگہ رہیں.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ہماری طرف سے بہت بہت مبارک ہو.والسلام نور الدین (بھیروی) بَارَکَ اللّٰہُ فِی ارَادَتِکَ وَ یَغْفِرُلَکَ اللّٰہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ.فضل دین (بھیروی) --------------------- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا ومسیح موعود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ (۱) جو دوائی حضورؑ نے عنایت فرمائی ہے اس کے ساتھ کسی پرہیز کی ضرورت ہو تو ارشاد فرمائیں.(۲) جو نِب انگلینڈ سے منگوائے تھے.ان میں سے د۲و مرحمت فرماویں.اگر وہ قریب الاختتام ہوں تو اور منگوائے جائیں.یکم جولائی ۱۹۰۲ء حضور کی جوتیوں کا غلام محمد صادق

Page 193

مکتوب نمبر ۱۱ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ پرہیز صرف ترشی اور بادی چیزوں سے ہے.اور نب ابھی بہت ہیں.شاید تین ماہ تک کافی ہو ں گے.والسلام غلام احمد عفی عنہ --------------------- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا مسیح موعود مہدیٔ معہود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ گذشتہ رات کو جو حضورؑ نے حکم فرمایا تھا کہ جرمن زبان کو اور آزمائو.اِس امر کے واسطے آج رات میں نے استخارہ کیا.مَیں نے رؤیا دیکھے جو عرض کرتا ہوں.(۱) حضرت مولوی نور الدین صاحبقرآن شریف پڑھ رہے ہیں.اور اس میں فرماتے ہیں کہ نوح ؑنے ارادہ کیا تھا کہ ایک ملک میں ایک عورت سے شادی کرے.مگر جب وہاں پہنچا تو سب عورتوں کو نہایت خوبصورت دیکھ کر وہ ڈرا کہ میں ابتلا میں پڑوں گا.تب وہاں سے چلا آیا اور اسے معلوم ہوا کہ ہر شے اﷲ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.بہت استغفار کرو.(۲) میں نے کچھ آپؑ کے سامنے بیان کیاہے (یاد نہیں رہا) آپؑ نے فرمایا تب تو نہیں چاہئیے.

Page 194

(۳) میں نے آپؑ حضور کی خدمت میں ایک رقعہ لکھا ہے (غالباً جرمن زبان پڑھنے کے متعلق) آپؑ نے جواب میں عبدالمجید کے ہاتھ مجھے ایک سنہری لونگ بھیجا ہے.جو عورتیں ناک میں لگاتی ہیں اور اس پر سفید موتی جڑے ہوئے ہیں.میری بیوی نے بھی میرے واسطے استخارہ کیا تھا.اُس نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ اپنا گوشت کاٹ کاٹ کر ہمارے آدمیوں کو دے رہے ہیں.چند روز ہوئے میں نے رؤیا میں دیکھا تھا کہ میں حضورؑ کے ساتھ کہیں جا رہا ہوں.حضورؑ کا لباس سفید ہے اور حضورؑ کا نام الیگزنڈر (سکندر) بلے ٹیور ہے.اور تفہیم یہ ہے کہ یہ جرمن لفظ ہے.اور اس کے معنے ہیں صادق.پھر رؤیا میں معلوم ہوا کہ اس کے معنے ہیں شفادہندہ.پس اگر حضورؑ کا حکم ہو تو میں آج جرمن زبان کا پڑھنا شروع کر دوں.۱۹؍مارچ۱۹۰۳ء حضورکی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق مکتوب نمبر ۱۲ عزیزی اخویم مفتی صاحب سلمہُاﷲ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ان خوابوں سے تو کچھ بھی اجازت محسوس نہیں ہوتی.بہتر ہے.ذرا صبر کریں.جب تک جرمن کی حقیقت اچھی طرح کُھل جائے.معلوم نہیں کہ جرمن سے کوئی عربی اخبار بھی نکلتا ہے.جیسا کہ عربی اخبار امریکہ سے نکلتاہے.کوئی اور کوئی سبیل اشاعت ڈھونڈنا چاہئیے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 195

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میرے لڑکے محمد منظور نے ایک خواب دیکھا ہے کہ ’’ایک چیل ہمارے مکان کے صحن میں بیٹھی ہے اور ایک اُس کے ساتھ اَور ہے اور مجھے گیت سناتی ہے.پھر وہ ایک کیڑا بن کر زمین میں گھس گئی.‘‘ ’’پھر باہر نکلی اور مجھے پنجہ مارنا چاہا.میںنے کہا میں تم کو روٹی دوں گا.تب اُس نے پنجہ نہ مارا.اور میں نے روٹی دے دی.تب ہم نے اُس کے خوف سے مکان بدل لیا‘‘ تو وہ چیل وہاں بھی آ گئی اور کہنے لگی.’’ میں سب شہروں اور گلیوں سے واقف ہوں.مگر تم مجھ سے نہ ڈرو تم کو کچھ نہ کہوں گی مجھے روٹی دے دیا کرو.‘‘ یہ لڑکے کا بیان ہے.اس کی تعبیر سے مطلع فرماویں.اگر غلام جیلانی والے مکان کے متعلق کچھ فیصلہ نہیں ہوا تو فی الحال میں وہی لے لُوں کیونکہ اس کی ہوا اُس کی نسبت جس میں ہم رہتے ہیں بہتر معلوم ہوتی ہے.وہ کرایہ کے متعلق تو اب تنگ نہیں کرتے مگر اس میں ہوا اور روشنی نہیں ہے.جیسا حضور فرماویں.حضورکی جوتیوں کا غلام ۲۸؍ مارچ ۱۹۰۳ء عاجز محمد صادق مکتوب نمبر ۱۳ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ چیل سے مُراد تو طاعون ہی معلوم ہوتی ہے.معبّرین نے چیل سے مراد فرشتہ ملک الموت لکھا ہے.کہ جو شکار کر کے آسمان کی طرف اُڑ جاتا ہے.خدا تعالیٰ خیر رکھے ایسا نہ ہو کہ قادیان میں پھر طاعون پھیل جائے.مکان کا بدلا لینا ضروری ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ

Page 196

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود ومہدی معہود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ایک شخص بسنت سنگھ نام ذیلدار ڈلّہ ایک پروانہ سرکاری لے کر سب لوگوں سے لکھاتا پھرتا ہے کہ وہ کہاںکے باشندے ہیں.یہاں کیوں سکونت اختیار کی ہے.کیا کام کرتے ہیں.ایک فہرست تیار کر رہا ہے.احباب نے لکھ دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں رہنے کے واسطے یہاں سکونت پذیر ہیں اور فلاں فلاں کام کرتے ہیں.غالباً یہ ضلع کی ایک معمولی فہرست ہے.اطلاعاً گذارش ہے.۳؍مئی ۱۹۰۳ء حضور ؑکی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق مکتوب نمبر ۱۴ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ یہ دریافت کرنا چاہئیے کہ وہ تحصیلدار بٹالہ کا پروانہ ہے یا ڈپٹی کمشنر کا.تااصل حال معلوم ہو سکے اور دوسرے یہ ضرور لکھنا چاہئیے کہ ہماری جماعت میں دو قسم کے آدمی ہیں.بعض تو وہ ہیں کہ مُرید ہو کر اپنے وطن چلے جاتے ہیں اور بعض نے اسی جگہ قادیان میں سکونت مستقل کر لی ہے.اور جو لوگ چلے جاتے ہیں اِسی طرح آمد رفت اُن لوگوں کی جاری رہتی ہے.کوئی آتا ہے اور کوئی چلا جاتا ہے.اور ایسے لوگ جو مُرید ہوتے ہیں اُن کے ناموں کو یاد رکھنے کے لئے یہاں ایک رجسٹر رکھا رہتا ہے اور ایک شخص ان کے لکھنے پر مقرر ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 197

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ گلے کہ رُوئے خزاں را گہے نخواہد دید بباغِ تُست اگر قِسمتم رسا باشد پناہِ بیضۂ اسلام.پہلوانِ ربّ جلیل.پنہِ ملّت الہدٰی.خلیفۂ شاہِ ارض و سمٰوات.مسیح خدائے قدیر.بعد از صد صلوٰۃ و سلام ایں نابکار و شرمسار برائے یک نظرِ رحمت بَردرِ تو امیدوار عرضگذاراست کہ در اخبارے کہ از ملکِ امریکہ رسیدہ بُود خواندہ بودم کہ دوائے جدید بَرائے دَرد گُردہ و امراض مثانہ و کثرت پیشاب نوَ ایجاد شدہ است یک شیشۂ خورد کہ برائے تجربہ مفت مے فریسند طلب کردم ہماں ارسال خدمت اقدس ؑ است.۱۴؍ جون ۱۹۰۳ء والسلام گداگرِ صاحبِ بیت الدُّعاء عاجز محمد صادق عفی اﷲ عنہ مکتوب نمبر ۱۵ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًاکَثِیْرًا فِی الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ.دَوا پہنچ گئی.ایک اشتہار بالوں کی کثرت کا شاید لندن میں کسی نے دیا ہے.اور مفت دوا بھیجتا ہے.آپ وہ دوا بھی منگوا لیں کہ تا آزمائی جائے.لکھتا ہے کہ اس سے گنجے بھی شفاء پاتے ہیں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ

Page 198

وَیَنْصُرُکَ اللّٰہُ نَصْرًا عَزِیْزًا حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مولوی کرم دین بھیں کو اکثر اخباروں میں مضامین دینے کی عادت معلوم ہوتی ہے.زیادہ تر سراج الاخبار میں.ممکن ہے اُس کی کوئی تصنیف یا تالیف بھی ہو.اگر اُس کے مضامین پڑھے جائیں تو اﷲ تعالیٰ چاہے تو اُس کے اپنے استعمال شدہ الفاظ ، لئیم ، بہتان، افتراء وغیرہ مل جائیں جن سے مقدمہ میں بہت مدد مل سکے.اگر حضور مناسب خیال فرماویں تو کسی شخص کو اس کام پر متعین فرماویں کہ لاہور یا جہلم سے سراج الاخبار کے پُرانے فائل دیکھ کر یہ کام پُورا کرے.۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۳ء والسلام حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی عنہ مکتوب نمبر ۱۶ محبیّ اخویم مفتی صاحب سلمہ ُ اﷲ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اب تاریخ مقدمہ بہت نزدیک آ گئی ہے.اب کوئی وقت نہیں ہے.ہاں دوسری تاریخ میں ایسا ہو سکتا ہے.بالفعل یہ کوشش کرنی چاہئیے کہ میری کتابوں میں سے یہ لفظ نکل آوے خاص کر مواہب الرحمن میں.لغت کی کتابیں تو موجود ہیں.انشاء اﷲ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نہ کوئی صورت پیدا ہو جائے گی.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 199

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ بباعث حمل کچھ عرصہ سے میرے گھر میں ایسی تکلیف ہے کہ گھر میں کھانا تیار ہو نہیں سکتا.روٹی تو تنور پر پکوا لی جاتی ہے.مگر ہانڈی کے واسطے دقّت ہے.اس واسطے عرض پرداز ہوں کہ کچھ عرصہ لنگر سے سالن مرحمت فرمایا جایا کرے.۹؍فروری ۱۹۰۴ء والسلام حضورکی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق مکتوب نمبر ۱۷ میاں نجم الدین صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مفتی صاحب کو دو وقت لنگر سے سالن عمدہ دے دیا کریں.تاکید ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 200

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود ومہدی معہود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حسب الحکم تحقیقات کی گئی.کرم داد اور ایک طالب علم عمر پندرہ سال شہادت دیتے ہیں کہ ہم نے بُدھ کی شام کو چاند دیکھا تھا.پہلے کرم داد نے دیکھا.اور کرم داد کے دکھانے سے اس طالب علم نے دیکھا.کہتے ہیں کہ چاند باریک دُھندلا اور شفق کے قریب تھا.اور بھی کئی لوگ مسجد میں موجود تھے.مگر باوجود ان کے بتانے کے اور کسی کو نظر نہ آیا.اور جلد غائب ہو گیا.یہ اُن کے بیانات ہیں.اُن کا تحریری حلفی بیان شامل ہذا ہے.جنتریوں میں بالاتفاق پہلی تاریخ جمعہ لکھی ہے.لاہور، امرتسر، بٹالہ، گورداسپور بھی میں نے خطوط لکھے ہیں.آئندہ جو حضورؑ فیصلہ فرماویں.ایک اور عرض سیالکوٹ سے مولوی مبارک علی صاحب کا خط تاکیدی آیا ہے کہ میری گواہی کی اُن کو سخت ضرورت ہے.ا ور تاریخ ۲۵؍ فروری مقرر ہے.جس کے واسطے مجھے ۲۳ کو یہاں سے چلنا چاہیے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ حضوراقدس ؑ نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ میں چلا جائوں.سو میں طیار ہوں.سُنا گیا ہے کہ سیالکوٹ میں تاحال کچھ کچھ طاعون بھی ہے.لیکن چھائونی سیالکوٹ میں نہیں ہے.اور مولوی مبارک علی صاحب کا مکان بھی

Page 201

چھائونی میں ہے.پس اس صورت میں مجھے کہاں رہنا مناسب ہو گا.۲۰ ؍فروری ۱۹۰۴ء والسلام حضورکی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی عنہ مکتوب نمبر ۱۸ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ مناسب ہے کہ ایک دن کے لئے ہو آویں.دل تو نہیں چاہتا کہ آپ جاویں.خیر ہو آویں.مگر شہر میں ہرگز نہیں جانا چاہیے.کرم داد کی شہادت میں ابھی شک ہے.امرتسر، لاہور سے شہادت آجائے تو بہتر ہے.بسا اوقات بادل کا ٹکڑہ خیال کے غلبہ سے ہلال معلوم ہوتا ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 202

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود مہدی معہود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ قادیان کے اکثر حصوں سے مدرسہ میں طالب علم جمع ہوتے ہیں.اور دن بھر خلط ملط رہتاہے.چونکہ گائوں کے بعض حصوں میں بیماری کا زور ہے.اس واسطے اگر حضور مناسب خیال فرماویں.تو میرا خیال ہے کہ مدرسہ ایک ہفتہ کے لئے بند کر دیا جاوے.۲۹؍مارچ ۱۹۰۴ء والسلام حضورکی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی عنہ مکتوب نمبر ۱۹ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میرے نزدیک تو مناسب ہے کہ دس روز تک ان کو رخصت دی جاوے.امید کہ دس۱۰ اپریل ۱۹۰۴ء تک تغیر موسم ہو جاوے گا.اور اس عرصہ تک انشاء اﷲ تعالیٰ طاعون نابُود ہوجائے گی.واﷲ اعلم.خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 203

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مُرشدنا و مہدینا مسیح موعود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اﷲ دتا نان ُپز کا لڑکا بھٹہ پر فوت ہو گیا ہے.اس کو کہلا بھیجا گیا ہے کہ خود ہی غسل دے کر باہر باہر دفن کر دے.اور خود بھی دس روز تک شہر میں نہ آوے.اطلاعاً گذارش ہے.۱۰؍ اپریل ۱۹۰۴ء حضور کی جوتیوں کا غلام محمد صادق مکتوب نمبر۲۰ محبیّ اخویم مفتی صاحب سلّمہُ اﷲ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس طاعون کا مادہ بہت تیز ہے.ہرگز اُسے شہر میں نہ آنا چاہیے اور وہ لڑکا باہر کا باہر دفن کیا جائے.اور غالباً یہ نان ُپز بھی متأثر ہو گا.شاید بعد ا س کے وہ بھی طاعون میں گرفتار ہو جائے.بہتر ہے کہ اس کو بالکل رخصت کر دیا جائے.سُنا ہے کہ شیخ عبدالرحیم کے گھر میں اس کی لڑکی خدمت کرتی ہے.اگر چاہے تو وہ بھی ساتھ چلی جائے.اگر لڑکی رہنا چاہے تو اس کو نہ ملے.مدرسہ کی صفائی کا بندوبست چاہیئے.انگیٹھی سے تپایا جائے.گندھک کی دُھونی دی جائے.فینائل چھڑکی جائے.خُدا تعالیٰ فتنہ سے بچائے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی اللہ مکرر یہ کہ نان ُپز کا رخصت کر دینا بہتر ہے تا اس کا اثر نہ پھیلے.

Page 204

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ گذشتہ تجویز کے مطابق مدرسہ یکم مئی کو کُھلنا چاہئیے.مگر تاحال شہر کی صورت ایسی نظر نہیں آتی کہ لڑکوں کو واپس بُلانا مناسب ہو.اس واسطے مناسب معلو م ہوتا ہے کہ مدرسہ کچھ دن کے لئے اور بند کیا جائے اور ابھی سے اس اَمر کی اطلاع طلباء کو بذریعہ ڈاک کر دی جائے.ورنہ دو تین روز تک طلباء واپس آنے شروع ہو جائیں گے.بعد اس کے کہ شہر میں بالکل امن ہو جائے.تین چار روز مدرسہ کی صفائی وغیرہ کے واسطے بھی مطلوب ہوں گے.لہٰذا مناسب معلوم ہوا کہ مدرسہ ۱۵؍ مئی تک اور بند کیا جائے.اور طلباء کو اطلاع کر دی جائے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی محمد علی صاحب سے بھی میں نے مشورہ کر لیا ہے.ان کی بھی یہی رائے ہے.پھر جو حکم حضورؑ کا ہو.۲۴؍ اپریل ۱۹۰۴ء والسلام حضور ؑکی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی عنہ مکتوب نمبر۲۱ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میرے نزدیک یہ تجویز بہت مناسب ہے.۱۵؍ مئی ۱۹۰۴ء تک ضرور مدرسہ بند رہنا چاہئیے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 205

مکتوب نمبر ۲۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم مفتی صاحب سلّمہُ اﷲ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ چونکہ گھر میں میرے ایّام امیدواری ہیں اور اب نوا۹ں مہینہ ہے اور اُن کو گرمی کی وجہ سے بہت گھبراہٹ ہے.اور خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے اب طاعون دُور ہو گئی ہے.اور گرمی سخت ہو گئی ہے.اس لئے یہ تجویز ہوئی کہ آپ آج پہلے مکان مدرسہ میں چلے جائیں.کیونکہ اب کچھ بھی خطرہ نہیں ہے اور میرے گھر کے لوگ اُس کمرہ میں آ جائیں گے.جہاں آپ رہتے ہیں.چونکہ کل آپ میرے ساتھ جائیں گے.اس لئے ابھی یہ تجویز ہونی چاہیے.۷؍ مئی ۱۹۰۴ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 206

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ تحریر کرتے ہیں.جب میں قادیان کے ہائی اسکول کا ہیڈماسٹر تھا.اُنہی ایّام میں مقدمہ کرم دین پیش آیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُس مقدمہ کے دَ وران میں جب گورداسپور وغیرہ کو جانا ہوتا.تو ہمیشہ عاجز کو اپنے ہمرکاب رکھتے.اور عاجز حسب استطاعت ضروریات مقدمہ میں خدمات انجام دیتا رہتا.ان مقدمات کے خاتمہ پر حسب درخواست جماعت سیالکوٹ.حضورؑ اکتوبر، نومبر ۱۹۰۴ء میں سیالکوٹ تشریف لے گئے تو عاجز کو بھی بمعہ اہل بیت خود سیالکوٹ ساتھ جانے کا حکم ہوا.اِس پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم رضی اﷲ عنہ نے جو اس وقت سیالکوٹ میں تھے.مجھے خط لکھا کہ ’’میرے نزدیک آپ کی غیبوُبت مدرسہ سے سخت مضرت پیدا کرے گی.دُنیا کے انتظام دُنیا کے اصول کی پیروی سے چلتے ہیں.آخر مقدمات میں آپ نے کیا عمل دکھایا ہے.جس طرح وہاں قانون مسلم دُنیا کی پیروی کی ہے.یہاں بھی کرنی چاہیے.حضرت صاحبؑ کو آپ صاف کہیں کہ مدرسہ کا انتظام تباہ ہو گیا ہے.مدرسہ کا اعتبار اُٹھ جائے گا اور کم ہو رہا ہے… ‘‘ میں نے یہ خط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں بھیج دیا.تاکہ حضورؑ چاہیں تو مجھے سیالکوٹ ساتھ نہ لے جائیں.اس پر حضور ؑ نے مجھے لکھا.مکتوب نمبر ۲۳ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ جو کچھ مقدمہ کا نتیجہ ہوا ہے.وہ تو ایک آسمانی امر ہے.اور ہم بہرحال انجام بخیر کی توقع رکھتے ہیں.سیالکوٹ کے سفر کے لئے میں نے خود سوچ لیا ہے.اِس ہفتہ عشرہ کے سفر میں آپ کو ساتھ لے جائوں.آئندہ اگر خدا تعالیٰ چاہے تو خاتمہ سفر کا ہے.میری طبیعت بہت علیل ہے.سفر کے قابل نہیں.اگر سیالکوٹ والے اِس سفر سے معذور رکھتے تو بہتر تھا.چونکہ مصلحتِ وقت سے عیال اطفال ہمراہ ہوں گے.اِس وجہ سے اسباب بھی زیادہ ہو گا.اِس لئے میں نے تجویز کی ہے کہ آپ اس سفر میں کہ دس۱۰ د ن سے زیادہ نہیں ہو گا.میرے ہمراہ چلیں.اِن دس۱۰ دنوں کو اُنہیں گورداسپور کے دنوں میں شمار کریں.ہر یک کی رائے اور مصلحت خدا تعالیٰ نے جُدا جُدا بنائی ہے.اِس لئے میں نے اپنی رائے کے مناسب حال لکھا ہے.بیشک دُنیا کے تدابیر کی الگ ہے.اور میں اقرار کرتا ہوں کہ وہ مجھ میں نہیں ہے.میرے لئے کافی ہے کہ خدا پر بھروسہ رکھوں.والسلام ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء مرزا غلام احمد عفی

Page 207

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت مرشدنا و امامنا مہدینا و مسیحنا السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ پہلے د۲و دن بخار نہیں ہوا.پھر تین دن ہوا.آج صبح سے نہیں ہے.مگر مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ نبض صاف نہیں.ہاتھ پائوں سرد رہتے ہیں.عرق بید و چرائتہ وغیرہ کا استعمال کرتاہوں.قبض اکثر رہتی ہے.دُودھ سے قبض نہیں کھلتی بلکہ دُودھ ریح کرتا ہے.اگر قبض کشا دوائی کھائی جائے تو ایک دن آرام رہ کر پھر وہی حال ہو جاتا ہے.دُعا کے واسطے عاجزانہ التماس ہے.مضمون لکھنے کے لئے بہت عمدہ کاغذ لاہور سے آئے ہیں.تھوڑے سے ارسال خدمت کرتا ہوں.اُمید ہے کہ جناب کو پسند آئیں گے.سنسکرت کی لغات جو بڑی ہیں وہ بیس پچیس روپیہ کو مل سکتی ہیں.لیکن ایک لغت مبلغ چار روپیہ آٹھ آنے ( )کو آتی ہے.اور امید ہے کہ اُس سے ہمارا کام نکل جائے گا.ترجمہ الفاظ انگریزی میں ہے.اگر حکم ہو تو منگوائی جائے.۲۹؍نومبر ۱۹۰۴ء حضورؑکی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفا اﷲ عنہ مکتوب نمبر ۲۴ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ انشاء اﷲ تعالیٰ شفا ہو جائے گی.برابر دُعا کی جاتی ہے.(۸)کی ڈِکشنری بذریعہ وی پی بل منگوالیں.آنے پر قیمت دی جائے گی.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 208

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود مہدی معہودؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کل حضورؑ نے فرمایا تھا کہ ضعف کے واسطے کوئی تجویز کی جائے گی.اِس واسطے یاد دلاتا ہوں.حالت یہ ہے (۱) دل دھڑکتا ہے اور گھٹتا ہے (۲) پیشاب باربار آتا ہے.(۳) دودھ ریح کرتا ہے اور ریح بَدبُودار ہوتی ہے.(۴) رات کو نیند نہیں آتی.پائوں کے تلوئوں پر گھی ملوانے سے آرام ہوتا ہے.(۵) ہاتھ پائوں سرد رہتے ہیں.۲؍ دسمبر ۱۹۰۴ء حضور ؑکی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفا اﷲ عنہ قادیان مکتوب نمبر ۲۵ میرے نزدیک بالفعل مناسب ہے.کونین ایک رتی تولہ نربسی دورتی ۲ تولہ جائفل ایک رتی تولہ زنجبیل ایک رتی تولہ عرق کیوڑہ دو تولہ (۵ رتی خوراک) (۹۶) گولیاں (۴۸ یوم کے لئے) دونوں وقت استعمال کریں.

Page 209

مکتوب نمبر۲۶ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ جلد مجھے اِس بات سے اطلاع دیں کہ یورپ یا امریکہ کے عیسائیوں میں سے کوئی ایسا آدمی یا چند آدمی ہیں.جو ہمارے سلسلے میں داخل ہوئے اور صاف لفظوں میں اس کا اظہار کیا.ان کا نام پورا معہ سکونت خوشخط اردو میں ابھی بھیج دیں.ضرورت ہے.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ --------------------- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود ؑ السلام علیکم و علیٰ من لدیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ (۱) کل گولی ایک بجے کھائی تھی.کوئی ایک گھنٹہ کے بعد خفیف سا بخار ہوا.شام کے قریب ذرا زیادہ ہوا.اور رات کو تھوڑا تھوڑا رہا.مناسب ہو تو گولی پھر مرحمت فرماویں.(۲) دوسری گذارش یہ ہے کہ میں نے سُنا ہے کہ پیر سراج الحق چند ماہ کے واسطے اپنے وطن کو جاتے ہیں.حضور کو معلوم ہے.جو تکلیف مکان کی مجھے ہے.اگر حکم ہوتو اُن کی واپسی تک یہ عاجز اس مکان میں رہے.والسلام ۲۱؍دسمبر ۱۹۰۴ء حضور ؑکی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی اﷲ عنہ مکتوب نمبر۲۷ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اگر صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب جاتے ہیں تو کچھ مضائقہ نہیں.آپ اس مکان میں آجائیں اور سُنا ہے کہ سری ناتھ مکان خرید کر دہ کو بیچتا ہے.آپ بطور خود دریافت کریں کہ کیا یہ سچ ہے کہ کس قدر قیمت پر بیچتا ہے.والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 210

مکتوب نمبر۲۸ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کی اس تحریر سے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ بہ نسبت سابق بخار میں کچھ تخفیف ہے یا زیادہ ہے یا بدستور ہے.کیونکہ اگر بہ نسبت سابق ایک ذرّہ بھی تخفیف ہو تو آپ گولی کھا لیں اور اگر بہ نسبت سابق گولی کھا نے سے زیادہ ہو.تو گولی نہیں کھانی چاہئیے اور اگر حالت بدستور ہو تو گولی کھا لیں.اوّل اطلاع دیں.تا اگر مناسب ہو تو گولی بھیج دوں.والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر ۲۹ محبیّ اخویم مفتی صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ چونکہ ہمیں لنگر خانہ اور زنانہ باورچی خانہ کے لئے مرزا نظام الدین والا حصہ مکان کی ضرورت ہے.مناسب ہے کہ اپنی طرف سے اس کے مکان کی قیمت دریافت کریں یا شیخ یعقوب علی کی معرفت دریافت کریں اور آج ہی اطلاع دیں.والسلام (۶؍ جنوری ۱۹۰۵ء بخط مفتی صاحب) مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۳۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم مفتی محمد صادق صاحب سلمہُ اﷲ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کو معلوم ہے کہ محمود احمد پڑھائی میں بہت کمزور ہے.اس لئے میرے نزدیک یہ تجویز مناسب

Page 211

ہے کہ آپ تجویز کر دیں کہ ایک ہشیار طالب علم ایک وقت مقرر کرکے پڑھایا کرے.جو کچھ آپ مقرر کریں اس کو ماہ بماہ دیا جائے گا.ضرور تجویز آج ہی کر دیں اور مجھ کو اِطلاع دیں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت مرشدنا و مہدینا مسیح موعود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حسب الحکم میاں محمود احمد صاحب کے واسطے اُستاد کی تجویز کی گئی ہے.رات کو بخار رہا.مولوی صاحب کے فرمانے پر کونین اور حضور والی گولی کھائی ہے.دُعا.دُعا.دُعا.آج رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک دیوانہ آدمی میرے پیچھے دوڑا.میں بھاگا مگر اُس نے مجھے پکڑ لیا.میرے ہاتھ میں ایک لمبی چھڑی ہے.جس کے ساتھ میں اسے مارتا ہوں.پر وہ نہیں چھوڑتا پھرمیں کیا دیکھتا ہوں کہ وہی دیوانہ مُرغی بن گیا.اور میری چھڑی چاقو بن گئی ہے.میں نے چاقو اُس مرغی کے گلے پر مارا تو وہ مر گئی اور میں چلاآیا.۱۲؍جنوری۱۹۰۵ء والسلام حضور ؑکی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفا اﷲ عنہ مکتوب نمبر ۳۱ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ دعا برابر کرتا ہوں.انشاء اﷲ خدا تعالیٰ شفا دے گا اور خواب نہایت عمدہ ہے.یہ صریح شفا پر دلالت کرتی ہے.بہت خوب ہے.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 212

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت مرشدنا و مہدینا امامنا و مسیحنــا السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حسب الحکم چرائِتہ کا پانی ہمراہ سفوف ست گلو وغیرہ اور عرق بید کا استعمال کرتا ہوں.آج تین روز سے بخار نہیں ہے.مگر موجودہ حالت: ضعف بہت ہے.دل دھڑکتا ہے.دل گھٹتا ہے.پیشاب جلد جلد آتا ہے.آج رات ۱۲ بجے سے ۵ بجے تک نیندنہیں آئی.ریح فاسد بہت ہوتی ہے.موجودہ خوراک : پھلکا شوربا، دُودھ نصف سیر صبح، نصف رات کو.دُودھ ریح بدبودار پیدا کرتا ہے.پاخانہ کھل کر نہیں آتا.ہاتھ پائوں سرد رہتے ہیں.دل بہت کمزور اور دھڑکتا ہے.اس کے واسطے جو دوائی حکم کریں.دُعا کے واسطے عاجزانہ التماس ہے.حضورؑ کے خادم اور میرے دوست مولوی فضل الٰہی احمد آبادی نے بڑے الحاح کے ساتھ واسطے دُعا کے لِکھا ہے.علیٰحدہ کاغذ پر بھی اُن کا نام ارسال ہے.حسب الحکم اِذَا تَنَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ مبلغ ایک روپیہ ارسال ہے اور امید ہے کہ قبول فرماویں گے.مکتوب نمبر ۳۲ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ عہٰ؍ (ایک روپیہ)واپس ہے.دُعا ہر روز بلاناغہ آپ کے لئے کی جاتی ہے.تسلّی رکھیں.ضعف کے لئے کوئی تجویز کی جائے گی.والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 213

۱۸؍جنوری ۱۹۰۵ء کو جبکہ میں قادیان کے ہائی سکول میں ہیڈماسٹر تھا.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خدمت بابرکت میں ایک رقعہ لکھا تھا.جس کا اصل بمعہ جواب درج کرنا مناسب ہے.امید ہے کہ ناظرین کی دلچسپی کا موجب ہو گا.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ صاحبزادہ میاں محمود احمد کا نام برائے امتحان (مڈل) آج ارسال کیا جائے گا.جس فارم کی خانہ پرُی کرنی ہے اس میں ایک خانہ ہے کہ اس لڑکے کا باپ کیا کام کرتا ہے.میں نے وہاں لفظ نبوت لکھا ہے.کان میں طنین ہوتا ہے.گولیو۱؎ں کا کھانا اگر مناسب ہو تو ارسال فرمائیں.حضورؑ کو باربار تکلیف دیتے بھی شرم آتی ہے.اگر مناسب ہو تو اس کا نسخہ تحریر فرمائیں.میں خود بنا لوں.۱۸؍جنوری ۱۹۰۵ء والسلام حضور کی جوتیوں کا غلام محمد صادق عفا اللہ عنہ مکتوب نمبر۳۳ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ نبوت کوئی کام نہیں.یہ لکھ دیں کہ فرقہ احمدیہ جو تین لاکھ کے قریب ہے اس کے پیشوا اور امام ہیں.اصلاح قوم کام ہے.غلام احمد عفی عنہ پس میں نے اس فارم پر حضرت ؑ کا نام یوں لکھا.National reformation and leadership of Ahmadiyya........it (300,000 members) ۱؎ ایک دفعہ میں بیمار ہو گیا تھا.معدہ میں کچھ خرابی تھی.بخار ہو جاتا تھا.حضرت صاحب (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام) ایک نسخہ کے تازہ اجزاء ہر روز منگوا کر ایک گولی اپنے دست مبارک سے بنا کر مجھے بھیجتے تھے.اس سے اللہ تعالیٰ نے مجھے شفاء دی.اس کے اجزاء مجھے اس وقت معلوم نہ تھے.بعد میں حضرت صاحب ؑ نے مجھے بتلا دیئے تھے.(صادق)

Page 214

مکتوب نمبر۳۴ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مبلغ ایک روپیہ پہنچ گیا.جَزَاکُمُ اﷲ.سورنجان شیریں کے ساتھ مصری ملاویں.سورنجان ایک تولہ، مصری چھ ماشہ، صبح و شام د۲و د۲و ماشہ کھا لیا کریں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ سورنجان مصری ۹ خوراک تولہ +  تولہ=  تولہ ۱۸ ماشہ  دن ۱۸ خوراک ۲ تولہ + ایک تولہ= ۳ تولہ ۹دن ـ--------------------- السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ گولی کے کھانے کے بعد پہلے دن تو بالکل بخار نہیں ہوا.دوسرے دن خفیف سے ذرہ زیادہ اور تیسرے دن خفیف.جس دن سے گولی کھاتا ہوں صبح کو بخار بالکل نہیں ہوتا.پہلے ہوتا تھا.پاخانہ بھی ٹھیک آ جاتا ہے.بدن میں طاقت بھی محسوس ہوتی ہے.پھر جیسا حضور مناسب خیال فرماویں.مکان کے متعلق حضور نے کیا حکم فرمایا ہے.حضورکی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق مکتوب نمبر۳۵ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ گولی بھیجتا ہوں.کھالیں.والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 215

مکتوب نمبر ۳۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی اخویم مفتی صاحب سلمہُ اﷲ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کے خط میں لکھا تھا کہ گویا میں نے آپ کو کچھ پینے کے لئے بتلایا ہے حالانکہ میں نے کچھ نہیں بتلایا.نسخہ مناسب یہ ہے.گلو تازہ ۲ تولہ ، چرائتہ ۲ تولہ، پانچ سیر پانی میں جوش دیں.جب آدھا سیر رہ جائے تو کِسی گِلی برتن میں جو نیا ہو رکھ چھوڑیں.اور ہر روز پانچ تولہ ہمراہ عرق بید1 ماشہ اور ست گلو ۲ ماشہ پی لیا کریں.مکتوب نمبر ۳۷ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مجھے افسوس ہے کہ میں نے پہلے اخویم مولوی عبدالکریم صاحبکو تاکید کی تھی کہ اس جگہ سے کوئی ہماری جماعت میں سے نہیں جانا چاہئیے.اب ایک طرف میری طبیعت بیمار ہے.کھانسی سے دم اُلٹ جاتا ہے.اور طلب کرانے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ طلب کرانا ملتوی کرا دے.ان کو لکھ دیں کہ یہ بہت بے موقع ہے اور میری نسبت لکھ دیں کہ اُن کی طبیعت سخت بیمار ہے.غرض مولوی مبارک علی اس کارروائی کو ملتوی کراسکتا ہے.اگر نیّت نیک ہو.اور ان گواہوں کی جگہ ہماری جماعت کے سیالکوٹ میں بہت واقف موجود ہیں.سو ان کو تاکیدًا لکھا جائے کہ یہ تینوں سمن ملتوی کرا دیں.وہ عدالت میں کہہ دیں کہ میں ان کو طلب کرانا نہیں چاہتا.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 216

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت مرشدنا و مہدینا مسیح موعود ومہدی معہود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ قاضی صاحب کے لڑکے کی وفات کی تحریک۱؎ پر حضور نے جمعہ کے دن جو ہمدردی کا وعظ کیا تھا.اس کو میں نے اس طرح درج اخبار کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ موجودہ واقعہ کا ذکر نہ ہو اور عام طور پر جماعت احمدیہ کو ایک نصیحت ہو.کہ ہماری جماعت کا کوئی فرد شہید طاعون سے ہو تو کس طرح ہمدردی کرنی چاہئیے.مگر افسوس ہے کہ بہ سبب نہ ہونے پریس کے ہمارا اخبار اب تک نکل نہیں سکا اور شیخ یعقوب علی صاحب نے اِس واقعہ کو اور جماعت کی غلطی کو صاف اور کُھلے لفظوں میں شائع کر دیا ہے.اب کیا حضور پسند کرتے ہیں کہ میں بھی اِسی طرح لِکھ دوں.اس میں شماتت کا اندیشہ ہے اور دشمن نکتہ چینی کریں گے.لیکن الحکم شائع ہو چکا ہے.یا میں اپنی پہلی تجویز کے مطابق اس کو عام نصیحت کے پیرایہ میں لِکھوں.والسلام حضورکی جوتیوں کا غلام محمد صادق عفی عنہ مکتوب نمبر ۳۸ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میرے نزدیک بہتر ہے کہ کوئی ذکر نہ کیا جائے.صرف نصیحت کی تقریر لکھ دی جائے.مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 217

مکتوب نمبر۳۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم مفتی صاحب سلمہُ اﷲ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ جو شخص روٹی پکانے والا آیا ہے.سُنا ہے کہ وہ ایک سخت طاعون کی جگہ سے آیا ہے اور کئی عزیز اُس کے مر گئے ہیں.اُس سے کم از کم دس روز تک پرہیز ضروری ہے.سُنا ہے ایک لڑکا بھی ساتھ ہے اور وہ بیمار ہے.شاید طاعون ہے.جلد نکال دیا جائے اور جو بھانجا مولوی یار محمد صاحب کا مر گیا ہے.جلد اُس کو دفن کر دیا جائے.مولوی یار محمد صاحب جنازہ پڑھ لیں بہت مجمع جمع نہ ہو.بلاشُبہ وہ طاعون سے مرا ہے.پوری احتیاط درکار ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ مکتوب نمبر ۴۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط بطور یادداشت میں نے رکھ لیا ہے.چند ضروری مضمون جو لکھ رہا ہوں.اُن کے بعد انشاء اﷲ اس کو لکھوں گا کیونکہ یہ مضمون غور کرنے کے لائق ہے.جلدی نہیں لِکھ سکتا.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ

Page 218

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کل کا واقعہ حضور اقدس نے سُنا ہی ہو گا.ابتدا اس کی یُوں تھی کہ گائوں کے بعض خبیث ہمارے طلباء کو گلی میں سے گذرتے ہوئے کھڑکی میں سے چھیڑا کرتے تھے.ایسا ہی … …… کل جو ایک نے چھیڑا جس کا نام مہندا بتایا جاتا ہے.تو ایک لڑکا اس کو کھڑکی سے ہٹانے کے واسطے باہر گلی میں نکلا.انہوں نے اس کو مارنا چاہا.وہ بھاگتا ہوا واپس آیا …… محمد صادق مکتوب نمبر۴۱ السلام علیکم اس میں کچھ مضائقہ نہیں.مگر اوّل یہ تدبیر سوچ لینا چاہئیے کہ اس جگہ سخت بدمعاش لوگوں کا فرقہ ہے.اگر تھانہ سے کوئی شخص تفتیش حال کے لئے آیا.تو ہندو اور مسلمان دونوں مل کر خلافِ واقعہ بیانات کریںگے اور پھر انہیں کے مطابق تھانہ دار رپورٹ کرے گا.اوّل ان باتوں کو خوب سوچ لینا چاہئیے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی اللہ

Page 219

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ آنانکہ خاک را بنظر کیمیا کنند اما بود کہ گوشۂ چشمے بماکنند حضرت اقدس امامنا و مرشدنا مسیح موعود ومہدی معہود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ایک ڈبیا قلموں کی ارسال خدمت ہے.یہ اس نمونہ کے مطابق ہے جو کلکتہ کے ایک سوداگر کے ذریعہ انگلینڈ سے منگوائی گئی تھیں.ان کا رنگ ویسا نہیں ہے مگر مضبوط ضرور ہیں.حضورؑ ان کا تجربہ کرکے مطلع فرماویں.نیز پرانی قلموں میں سے ایک مرحمت فرماویں.حضور ؑکی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی عنہ مکتوب نمبر ۴۲ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ڈبیا پہنچی.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.اور ایک قلم پُورانی ارسال ہے.والسلام غلام احمدعفی عنہ

Page 220

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ عاجز کو ہمیشہ کرایہ کے مکانات میں اِدھر اُدھر بہت سرگردانی رہتی ہے.اور وہ بھی کوئی قریب نہیں ملتا.مدّت کی بات ہے.ایک دفعہ حضور نے ارشاد فرمایا تھا کہ غلام جیلانی والا مکان ملے گا تو تم کو دیا جائے گا.مگر چونکہ اس جگہ مہمانخانہ کی تجویز ہے.اس واسطے میں نے مناسب نہ جانا کہ یاد دلائوں.اب اس وقت دو جگہیں خالی ہیں.ایک تو سفید زمین جو مرزا سلطان احمد سے حضور نے لی ہے.جہاں خیمہ لگا ہے.اگر وہ حضور مجھے مرحمت فرماویں.تو میں اپنے خرچ سے وہاں مکان بنوالوں.دوم.باورچی خانہ خالی ہو گیا ہے.اگر اُن میں سے کوئی جگہ مجھے عطا فرمانا مناسب خیال فرماویں.تو ہر دو قریب ہیں اور تکلیف بھی دور ہو.یہ عاجز کا خیال ہے.پھر جو حضور مناسب خیال فرماویں.اُسی میں خوشی ہے.خطاکار عاجز محمد صادق عفا اللہ عنہ مکتوب نمبر۴۳ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ افسوس ہے کہ اس وقت ایسی صورت ہے کہ ان باتوں میں مجبوری ہے.جو حصّہ زمین سلطان احمد کی زمین کا ملا ہے.بجز اس کے ملحق کرنے کے مہمانخانہ بالکل ناتمام ہے.جو ہرگز کافی نہیں ہے اوردوسری زمین، جہاں سے لنگر خانہ اٹھایا ہے.میر صاحب نے اپنی ضروریات کے لئے لے لی ہے.مگر مجھے آپ کی حیرانی اور پریشانی کا بہت فکر ہے.امید کہ انشاء اﷲ کوئی صورت پیدا ہو جائے گی.آپ مطمئن رہیں.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 221

حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ تحریر کرتے ہیں.جبکہ عاجز اکثر ہلکے بخار میں گرفتار رہنے میں مبتلا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اکثر خود میرے علاج کی طرف توجہ فرماتے تھے.ایک دفعہ میں نے ایک گولی کے متعلق جو حضورؑ نے مجھے کھانے کے واسطے دی کچھ لکھا اور دوبارہ وہی گولی طلب کی.تو حضورؑ نے یہ جواب لکھا: مکتوب نمبر۴۴ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ معلوم نہیں کہ آپ نے کس وقت گولی کھائی تھی اور گولی کھانے کے بعد کیا اثر اُس کا رہا.طبیعت میں کیا حالت محسوس ہوئی.اور پہلے کی نسبت اُس گولی کے بعد کیا معلوم ہوا اور گولی کس وقت کھائی.اور بخار کس وقت ہوا.۱۹۰۵ء مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ اخبار بدر جب قادیان میں چھپتا تھا.تو اس کے مالک میاں مِعراج الدین صاحب عمر جو لاہور میں رہتے ہیں.اور ایڈیٹری پر عاجز مامُور تھا.اور مجھے روپے تنخواہ ملتی تھی.رفتہ رفتہ بدر کا کام بڑھ گیا.اس واسطے میں نے حضرت صاحبؑ کو لکھا کہ اخبار پہلے آٹھ صفحہ کا تھا.اب بارہ ۱۲ صفحہ کا ہے.خریداروں میں بھی تین سَو کا اضافہ ہو گیا ہے.اور میری محنت بڑھ گئی ہے.میں چاہتا ہوں کہ میاں صاحب کو لِکھوں اورمجبور کروں کہ میری تنخواہ میں ترقی کریں.اِس کے جواب میں حضورؑ نے مجھے تحریر فرمایا:

Page 222

مکتوب نمبر۴۵ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میرے دِل میں یہ آتا ہے کہ ہر یک کام صبر اور آہستگی سے عمدہ ہوتا ہے اَور خدا تعالیٰ اس میں مدد دیتا ہے.اِس لئے بہترہے کہ جس طرح ہو سکے د۲وماہ اور صبر کریں.اور طرح طرح کے پَیرایہ میں اپنی محنت اور کارگزاری اور اخبار کی ترقی کا اخبار میں ہی اِن مہینوں میں حال لکھتے رہیں.اِس طریق سے امید ہے کہ وہ خود ملزم ہو جائیں گے اور آپ کے وسیع اخلاق اور صبر کا آپ کو اجر ملے گا.اور بعد انقضاء د۲وماہ کے اُن پر ظاہر کر دیں کہ اب تک میں نے ان تمام تکالیف کی برداشت کی ہے مگر اَب یہ تکلیف فوق الطاقت ہے.اور د۲وماہ کچھ زیادہ نہیں.یونہی گذر جائیں گے.۲۰ ؍ مارچ۱۹۰۶ء والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ ---------------------------------- جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کتاب چشمہ مسیحی تصنیف فرمائی.تو عاجز نے اجازت چاہی کہ ساری کتاب اخبار بدر کے ایک ہی نمبرمیں شائع کر دی جائے.تا یک دفعہ لوگوں کو پہنچ جائے.اِس کے جواب میں حضورؑ نے لکھا: مکتوب نمبر۴۶ السلام علیکم بہتر ہے چھاپ دیں.۲۱ ؍ مارچ ۱۹۰۶ء والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 223

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود ؑ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ شبہہ چنتک کے تمام پرچے نہیں ملے.جو ملے ہیں وہ میں نے دیکھ ڈالے ہیں.ان میں تین جگہ صاف لفظوں میں حضور کی موت اور سلسلہ کی تباہی کا تذکرہ ہے.باقی گالیوں کے الفاظ بہت جگہ ہیں.اگر ضرورت ہو تو وہ بھی لکھ لئے جاویں.باقی پرچوں کے واسطے شیخ یعقوب علی صاحب نے بٹالہ سے منگوانے کی کوشش کی ہے.والسلام حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی اللہ عنہ قادیان مکتوب نمبر۴۷ژ السلام علیکم آپ کو یاد نہیں رہا میں تو ان کی گالیوں کے پرچے طلب کرتا ہوں.آپ براہ مہربانی صفحہ وار و تاریخ وار گالیاں لکھ کر بھیج دیں.مرزا غلام احمد

Page 224

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج اخبار کی آخری کاپی لکھی جائے گی.اگر کوئی تازہ وحی الٰہی(ہو) تو مطلع فرمانویں.والسلام حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی اللہ عنہ مکتوب نمبر۴۸ژ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل مجھ کو ایک الہام ہوا تھا اس کے پورے الفاظ یاد نہیں رہے اور جس قدر یاد رہا وہ یقینی ہے مگر معلوم نہیں کس کے حق میں ہے لیکن خطرناک ہے اور وہ یہ ہے.’’ایک دم میں دم رخصت ہوا‘‘ ۱؎ یہ الہام ایک موزوں عبارت تھی.ایک لفظ درمیان کا بھول گیا.واللہ اعلم ۱؎ تذکرہ صفحہ ۵۶۳ ایڈیشن ۲۰۰۴ء

Page 225

حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود السلام علیکم ثناء اللہ والا مضمون رجسٹری کراکر بھیجنا ہے.اس کے واسطے ایک روپیہ() اور دوسرے خط و کتابت کے واسطے (دوروپے) ارسال فرمانویں کل  (تین روپے).عاجز محمد صادق عفی اللہ عنہ مکتوب نمبر۴۹ژ السلام علیکم بہتر ہے اخبار عام کو تحریری مضمون جو بھیجنا ہے میری طرف بھیج دیںتا میں اپنے خط کے ذریعہ سے بھیج دوں.والسلام غلام احمد

Page 226

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج اخبار کی آخری کاپی لکھی جائے گی.تازہ الہامات سے مطلع فرمانویں تاکہ درج ہوں.والسلام حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی اللہ عنہ مکتوب نمبر۵۰ژ ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۶ ء مطابق نہم شعبان ۱۳۲۴؁ھ روز پیر الہام وحی الٰہی.موت.تیراں ۱۳ ماہ حال کو.۱؎ غالباً تیراں ماہ حال مراد تیراں ماہ شعبان ہے.وَاللّٰہُ اَعْلَمُ اور میں نہیں جانتا کہ تیراں ماہ حال سے یہی شعبان مراد ہے یا کسی اور شعبان کی تیراں تاریخ اور میں قطعی طور پر نہیں جانتا کہ کس کے حق میں ہے اس لئے طبیعت غمگین ہے.خدا تعالیٰ فضل کرے.آمین ۱؎ تذکرہ صفحہ ۵۷۰ ایڈیشن ۲۰۰۴ء

Page 227

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میاں معراج الدین صاحب (پروپرائٹر اخبار بدر) نے ایک شخص داروغہ چراغ دین نام بدر کا خزانچی مقرر کرکے بھیجا ہے.(دس روپیہ) اُس کی تنخواہ مقرر کی ہے.اور ساتھ ہی اس کو تحریری اجازت دی ہے کہ( دس روپیہ )سے زیادہ بھی چاہے تو لے لے.اور زبانی اُس کو اختیار دیا ہے کہ بدر کے واسطے تم قادیان میں میرے قائم مقام ہو.اوّل تو بدر میں نہ اتنا روپیہ ہے اور نہ اتنا کام ہے کہ دس روپیہ ماہوار کا بوجھ اور ڈالا جائے.لیکن وہ اپنے روپیہ کے مالک ہیں.میں نے ان کو کچھ کہنا مناسب نہ جانا کیونکہ یہ روپیہ کا معاملہ ہے اور شک و شبہ کا مقام ہے.لیکن اب مشکل یہ پڑی ہے کہ وہ شخص مجنون ہوتا جاتاہے اور ساعت بساعت اس کا جوش بھڑکتا جاتا ہے.یہ حالت دراصل پہلے بھی اُس کی تھی مگر اب بڑھتی جاتی ہے.دفتر کے لوگوں کو مارتا ہے اور موقوف کرتا ہے.اخبار کے کام میں بہت حرج ہو رہا ہے.باہر بھی لوگوں سے لڑتا ہے.صبح سے میاں نجم دین.احمد نور افغان.عرب صاحب.محمد نصیب کے ساتھ لڑائی کر چکا ہے.فحش گالیاں دیتا ہے.سب لوگ حیران ہیں.میرے نزدیک تو مناسب ہو گا کہ اس کو کسی طرح سے رخصت کیا جائے.آئندہ جو حکم ہو.قریباً۱۹۰۶ء محمد صادق عفا اﷲ عنہ مکتوب نمبر۵۱ یہی مناسب ہے کہ اس کو رخصت کر دیں اور بلاتوقف اس کی حالت کی اطلاع دے دیں.مرزا غلام احمدعفی عنہ

Page 228

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود السلام علیکم آج کاکوئی الہام ہو تو حضور مطلع فرمانو یں تاکہ درج اخبار ہو جائے.والسلام حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق مکتوب نمبر۵۲ژ اَصْلِحْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَتِیْ سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ ۱؎ یہ الہام کہ اَصْلِحْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَتِیْ اس کے یہ معنی ہیں کہ اے میرے خدا! مجھ میں اور میرے بھائیوں میں اصلاح کر.یہ الہام درحقیقت تتمہ ان الہامات کا معلوم ہوتا ہے جن میں خدا تعالیٰ نے اس مخالفت کا انجام بتلایا ہے اور وہ یہ الہام ہیں.خَرُّوْا عَلَی الْاَذْقَانِ سُجَّدًا رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا اِنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ.تَاللّٰہِ لَقَدْ آثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَ اِنْ کُنَّا لَخَاطِئِیْنَ.لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ.یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَ ھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ.۲؎ یعنی بعض سخت مخالفوں کا انجام یہ ہوگا کہ وہ بعض نشان دیکھ کر خدا تعالیٰ کے سامنے سجدہ میں گریں گے کہ اے ہمارے خدا ! ہمارے گناہ بخش ہم خطا پر تھے اورمجھے مخاطب کرکے کہیں گے کہ بخدا …خدا نے ہم پر تجھے فضیلت دی اور تجھے چُن لیا اور ہم غلطی پر تھے کہ تیری مخالفت کی.اس کا یہ جواب ہوگا کہ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں.خدا تمہیں بخش دے گا وَ ھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ہے.یہ اس وقت ہوگا کہ جب بڑے بڑے نشان ظاہر ہوں گے آخر سعید لوگوں کے دل کُھل جائیں گے اور وہ دل میں کہیں گے کہ کیا کوئی سچا مسیح اس سے زیادہ نشان دکھلا سکتا ہے یا اس سے زیادہ اس کی نصرت اور تائید ہو سکتی ہے تب یکدفعہ غیب سے قبول کے لئے ان میں طاقت پیدا ہو جائے گی اور وہ حق کو قبول کر لیں گے.۲۳؍اپریل ۱۹۰۷ء ۱؎ تذکرہ صفحہ ۶۰۵ ایڈیشن ۲۰۰۴ء ۲؎ تذکرہ صفحہ ۶۰۵ ایڈیشن ۲۰۰۴ء

Page 229

اعطیت ھذہ المکتوب بید سیدنا مسیح الموعود لعبد الحمید افندی مصری لیکون لہ البرکۃ.٭ المفتی محمد صادق عفا اللہ عنہ یوم العید ۱۱؍فروری ۱۹۳۸ء قادیان بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اپنی زندگی تو انشاء اﷲ حضور ؑکے قدموں میں گذرہی رہی ہے اور آئندہ بھی خدا سے دُعا ہے کہ دین پر خاتمہ ہو.لیکن آئندہ اولاد کے واسطے بھی یہ حیلہ ہے کہ ان کے لئے ایک مکان بنا دیا جائے.تو ان کے ذہن نشین ہو جاوے کہ ہمارا وطن اور گھر اسی جگہ حضرت خلیفۃ اﷲ کے قدموں میں ہے اور جس مکان کو حضورؑنے ایک دفعہ دیکھا تھا وہ طیار ہو گیا ہے اور اب اس میں جانے کا ارادہ ہے جس کے واسطے حضور کی اجازت کا خواہاں ہوں.حضورؑ دُعا فرماویں کہ اﷲ تعالیٰ اس مکان کو میرے اور میرے آل و اہل کے واسطے موجب برکت اور اپنی رضامندیوں کا ذریعہ بناوے.حضورؑ کی سُنّت کے مطابق میں چاہتا ہوں کہ اس مکان کا کچھ نام رکھوں اور میرے خیال میں وہ نام بیت الصدق ہے.اگر حضورؑ کی اجازت ہو.۰۷.۸.۴ حضورکی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صاد ق عفا اللہ عنہ قادیان ٭ الحکم جلد۴۱ نمبر۵مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۳۸ء صفحہ۵

Page 230

مکتوب نمبر۵۳ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مکان خدا مبارک کرے.آمین.نام بہت موزوں ہے.ایک روپیہ آپ کا پہنچ گیا ہے.والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ ------------------------- َٖٖمیں نے حضرت صاحب کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا جو حضرت صاحبؑ کے جواب کے ساتھ درج ذیل کیا جاتا ہے.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ چونکہ حضور، سیٹھ صاحب (عبدالرحمن مدراسی) کو خود خط لکھا کرتے ہیں.اس واسطے چندلفافے جن پر ٹکٹ لگا ہے.اور سیٹھ صاحب کا پتہ انگریزی میں لکھا ہے.ارسال خدمت ہیں.ان لفافوں کے اندر کاغذ بھی ہیں.عاجز پرسوں سے بیمار ہے.ریزش.بخار.سردرد.حضور دعا فرمائیں.حضورؑ کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی اﷲ عنہ مکتوب نمبر۵۴ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ نے لفافے بھیج کر بہت آسانی کے لئے مجھے مدد دی.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.خدا تعالیٰ شفاء بخشے.والسلام ۱۰ جنوری ۱۹۰۸ء مرزا غلام احمد

Page 231

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مُرشدنا و مہدینا مسیح موعود ومہدی معہود السلام علیکم اسٹیشن ریل کے قریب ایک انگریز سیّاح سے ملنے کا مجھے اتفاق ہوا.جس کو میں نے حضورؑ کے دعویٰ اور دلائل سے اِطلاع دی تو اُس نے حضورؑ کی ملاقات کا بہت شوق ظاہر کیا.وہ اُسی وقت ساتھ آتا تھا مگر میں نے کہا کہ میں پہلے حضورؑ سے اجازت حاصِل کر لوں.اگر مناسب ہو تو بعد نماز ظہر میں اُن کو لے آئوں.حضورکی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی اﷲ عنہ مکتوب نمبر۵۵ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مجھے معلوم نہیں کہ کیسا او رکس خیال کا انگریز ہے.بعض جاسُوسی کے عہدے پر ہوتے ہیں اور بعد ملاقات خلاف واقع باتیں لِکھ کر شائع کرتے ہیں.صرف یہ اندیشہ ہے.جیسا کہ قنصل رُومی کا انجام ہوا.والسلام مئی ۱۹۰۸ء.لاہور مرزا غلام احمد یہ انگریز پروفیسر ریگ تھا.اس کو میرے دوبارہ عرض کرنے پر حضرت صاحبؑ نے اجازت دے دی تھی.ملاقات کے مفصل حالات کے واسطے ملاحظہ ہوذکر حبیب باب نمبر ۱۹

Page 232

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہودؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اگر اجازت ہو تو عاجز ایک روز کے واسطے قادیان ہو آوے.اور دفتر وغیرہ کا حساب دیکھ آوے.صرف ایک دن لگے گا.جیسا حکم ہو.حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفا اﷲ عنہ مکتوب نمبر۵۶ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ بے شک آپ ہو آویں.اختیار ہے.والسلام مئی ۱۹۰۸ء مرزا غلام احمد بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مُرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود ؑ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کل میں پروفیسر سیّاح کو ملا تھا.جو حضورؑ کو ملنے کے واسطے آیا.اُس نے بعض اور انگریزوں سے حضورؑ کا ذکر کیا ہوا تھا.ان میں سے ایک مجھے ملنے آیا.دیر تک گفتگو ہوتی رہی.انہوں نے بہت خواہش ظاہر کی کہ اگر حضورؑ کی اجازت ہو تو ہفتہ کے سہ۳ پہر کو یعنی کل حضورؑ کی

Page 233

زیارت کے واسطے آویں.جیسا حکم ہو.ان کو اطلاع دی جاوے.۱۵؍ مئی ۱۹۰۸ء حضورؑ کی جوتیوں کا ـغلام عاجز محمد صادق عفی اﷲ عنہ مکتوب نمبر۵۷ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کل میں نے مَہندی لگانا ہے.انشاء اﷲ.اور مہندی لگانے کے دن دو۲ بجے تک فراغت نہیں ہوتی.پھر بعض اوقات کوفت کے سبب بھی طبیعت قائم نہیں رہتی.اس لئے آپ نہ پختہ طور پر بلکہ انشاء اﷲ کے ساتھ پیر کادن مقرر کریں.نماز ظہر کے بعد.والسلام مرزا غلام احمد اللہ تعالیٰ کی سُنّت ہمیشہ ایک ہی رنگ رکھتی ہے.احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض دفعہ عرصہ تک وحی نازل نہیں ہوئی تھی.اس پر کفار نے اعتراض کیا.جواب آیا. ۱؎.یہی سنّت ان ایاّم میں حضرت مسیح موعود کے حالات میں دیکھنے میں آتی ہے.عاجز کی عادت ہے کہ منگل کے روز تازہ الہامات کے دریافت کرنے کے واسطے حضرت کے حضور عریضہ لکھا کرتا ہوں.چنانچہ اس دفعہ لکھا گیا تو حضرت نے جو جواب لکھا ہے وہ بمعہ اپنے خط کے ہدیہ ناظرین کرتا ہوں.(مفتی محمد صادق ) ۱؎ الضحیٰ : ۴

Page 234

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج اخبار کی آخری کاپی انشاء اللہ لکھی جائے گی.حضور تازہ الہامات سے مطلع فرماویں.والسلام حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی اللہ عنہ مکتوب نمبر۵۸ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘ خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے کئی دن سے الہامات کا دروازہ قطعاً بند ہے.نہ معلوم اس میں کیا حکمت ہے.اس لئے مجبوری ہے.والسلام٭ میرزا غلام احمد ٭ بدر نمبر۲۴ جلد۶ مورخہ ۱۳؍جون ۱۹۰۷ء صفحہ۴

Page 235

(ایک دوست بابو محمد الٰہی صاحب … کوہاٹ نے مجھے خط لکھا کہ میں بمعہ چند اور احباب کے آپ کو اس کام کے واسطے کچھ ماہوار چندہ دینا چاہتا ہوں.میں ڈرا کہ میرے واسطے ایسا چندہ (اگرچہ وہ خفیف رقم ہی ہو) کا لینا ناجائز ہو گا.اس واسطے میں نے بابو صاحب کو خط لکھا کہ سردست میں کوئی ماہوار چندہ نہیں لے سکتا.ہاں آپ کی تحریک پر میں اس امر کے متعلق استخارہ کروں گا.پھر جو نتیجہ ہو گا.دیکھا جائے گا.اور حضرت سے حکم بھی طلب کروں گا.اس کے بعد کوئی چھ ماہ تک مجھے کوئی ایسا موقعہ نہ ملا کہ میں اس امر کے متعلق توجہ اور استخارہ کرتا.چھ ماہ کے بعد مجھے ایک وقت میسر آیا کہ میں نے دعا کی اور استخارہ کیا اور پھر حضرت امام علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خدمت میں یہ سب باتیں عرض کیں اور یہ بھی دریافت کیا کہ آیا اس کام کو جاری رکھوں یا نہ رکھوں؟ حضرت امام علیہ السلام نے جواب میں لکھا.) مکتوب نمبر۵۹ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میرے نزدیک جہانتک کچھ دقّت اور حرج واقعہ نہ ہو.اس کام میں کچھ مضائقہ نہیں ہے.موجب تبلیغ ہے اور جو صاحب اس کام میں مدد دینا چاہیں وہ بیشک دیں.خاکسار مرزا غلام احمد

Page 236

Page 237

Page 238

Page 239

Page 240

Page 241

Page 242

Page 243

Page 244

Page 245

Page 246

Page 247

Page 248

Page 249

حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل ؔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 250

حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکملؓ آپ ۲۵؍مارچ ۱۸۸۱ء کو پنجاب کی مردم خیز سرزمین دریائے چناب کے کنارے ضلع گجرات کے ایک گائوں گولیکی میں پیدا ہوئے.آپ کے جدّامجد اور والد ماجد دونوں علوم عقلیہ و نقلیہ کے متبحر عالم تھے.اگرچہ آپ نے دنیوی تعلیم مشن ہائی سکول گجرات میں میٹرک تک حاصل کی لیکن عربی و فارسی ، فقہ و حدیث اور علوم قرآنی پر( دستور کے مطابق) مسجد اور خانقاہوں میں عبور پایا.آپ کو اردو علم و ادب اور صحافت سے بچپن ہی سے لگائو تھا.چنانچہ ۱۷برس کی عمر ہی میں آپ کے مضامین ، نظم و نثر برصغیر کے تمام قابل ذکر اخبارات و رسائل میں شائع ہونے لگ گئے.آپ چونکہ ۱۸۹۷ء ہی میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہو چکے تھے اس لئے دسمبر ۱۹۰۶ء میں گھربار چھوڑاپنے آقا و مقتدا کے حضور اس نیت کے ساتھ حاضر ہو گئے کہ ؎ ہم قادیاں کو چھوڑ کے ہرگز نہ جائیں گے کوچے میں اپنے یار کے دھونی رمائیں گے ۱۹۱۱ء تک آپ نے اخبار بدر میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کیا اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے آپ کو رسالہ تشحیذ الاذہان کا ایڈیٹر مقرر کر دیا.۱۹۲۰ء میںریویوآف ریلیجنز کی ادارت کے علاوہ آپ نے ناظم طبع و اشاعت کے مہتمم کا عہدہ سنبھالا جس کے تحت قادیان سے شائع ہونے والے سلسلہ کے تمام اخبار و رسائل الفضل، مصباح، سن رائیز اور احمدیہ گزٹ وغیرہ کی ایڈیٹری ، مینیجری آپ خود کرتے رہے.چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’جب الفضل نکلا ہے اس وقت

Page 251

یک شخص جس نے اس اخبار کی اشاعت میں شائد مجھ سے بڑھ کر حصہ لیا وہ قاضی ظہور الدین صاحب اکمل ہیں.اصل میں سارے کام وہی کرتے تھے اگر ان کی مدد نہ ہوتی تو مجھ سے اخبار چلانا مشکل ہوتا‘‘.(الفضل ۴؍جولائی ۱۹۲۴ء) قاضی صاحب کے قلم سے آج تک ۳۶ کے قریب تالیفات بھی شائع ہو چکی ہیں جن میں ’’ظہور المسیح‘‘ ’’ظہور المہدی‘‘ اور ’’الواح الہدی ٰ ‘‘ بہت مشہور ہیں.(تاریخ احمدیت جلد ۱ صفحہ ۶۵۴ ) ۱۹۳۸ء میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ خانہ نشین رہے.تاہم مشق سخن برابر جاری رہی.پاکستان کے قیام پر ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کے بعد لاہور میں فروکش رہے اور ۱۷؍ستمبر ۱۹۵۶ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے بلانے پر دارالصدر شرقی کے ایک کوارٹر میں رہائش اختیار کر لی جہاں ۲۷؍ستمبر ۱۹۶۶ء کو صبح چھ بجے حرکت قلب بند ہونے سے وفات پائی.آپ کا مزار بہشتی مقبرہ ربوہ میں قطعۂ صحابہ اولین میں ہے.اس طرح آپ کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہوئی.؎ اے مسیحائے زماں صدقہ آل اطہر مقبرے میں مجھے مل جائے زمین تھوڑی سی٭ ٭ تلخیص از نغمات اکمل صفحہ ا تا ج از جنید ہاشمی صاحب

Page 252

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میرے سید و مولیٰ میرے مطاع و آقا! گنہ گار ، سیہ کار، خطاکار (اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ عبارت آرائی کے لحاظ سے نہیں لکھا گیا بل الانسان علی نفسہٖ بصیرۃ) آپ کا غلام، اکملؔ نام جس کے پاس سوائے حضور کی محبت کے اور کچھ بھی نہیں ، اپنی جسمانی و روحانی کمزوریوں کے لئے خاص دعائوں کا محتاج ہے.تین جلد کتابیں نذر کرنے کی اجازت چاہتا ہوں.ایک ’’ظہور المسیح‘‘.اس میں اکثر مخالف کتابوں کو پیش نظر رکھ کر وفات مسیح کو ثابت کیا گیا ہے اور آیت  ۱؎کی تفسیر ہے جس میں یہ بات بھی ہے کہ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ کے اعداد ۱۳۰۵ ظاہر کرتے ہیں کہ تمام خلافتیں اس سن میں بروزی طور سے جمع ہوں گی اور ل کے اعداد ۳۰.اگر خلافت ِ خلفاء اربعہ کی مدت بتاتے ہیں تو ھُمْ کے خلافتِ آخرہ کے جو مطابق حدیث ہیں.دوسری کتاب ’’ خُلق محمدی‘‘ ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق و عادات کا سلیس نظم میں ذکر ہے.تیسری ’’الاستخلاف‘‘ ردِّ شیعہ ہے صرف قرآن مجید سے، مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے طرز پر.افسوس ان کی چھپوائی اچھی نہیں.مگر اس میں میرا قصور نہیں.٭ گر قبول افتدزہے عزوشرف ۶؍مارچ ۱۹۰۸ء والسلام مع الاکرام دعائوں کا طالب خادمِ حضور ناچیز محمد ظہور الدین اکمل عفی اللہ عنہ دفتر بدر قادیان ۱؎ النّور : ۵۶ ٭ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ فروری ۱۹۶۲ء صفحہ ۲۲، ۲۳

Page 253

مکتوب ژ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کی تینو۳ں کتابیں آپ کی طرف سے تحفہ مجھ کو ملا جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.تھوڑا تھوڑا میں نے تینوں کو دیکھ لیا ہے.عمدہ اور مدلل بیان ہے.خدا تعالیٰ جزائے خیر دے آمین.آپ کو اس کی ہر یک موقع مناسب پر اشاعت کرنی چاہیے تا دو ہرا ثواب ہو.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 254

Page 255

Page 256

Page 257

Page 258

Page 259

حضرت قاضی محمد عالم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 260

حضرت قاضی محمد عالم صاحبؓ حضرت قاضی محمد عالم صاحب رضی اللہ عنہ سکنہ کوٹ قاضی ڈاک خانہ لدھے والا ضلع گوجرانوالہ بہت ہی نیک اور اخلاص مند صحابی تھے.آپ نے حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ احمدیت قبول کی.آپ انٹرنس پاس تھے.آپ تبلیغ میں سرگرم رہتے جس کا اظہار ایڈیٹر اخبار’’بدر‘‘ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کے نام آپ کی ایک چٹھی سے ہوتا ہے.آپ لکھتے ہیں.’’پیارے مفتی جی! دل چاہتا ہے کہ مال و جان اور اولاد تک اسلام کی پاک خدمت میں لگ جاوے.‘‘ ٭ آپ کے حالات کا زیادہ علم نہیں.آپ کی اہلیہ محترمہ بھی مخلص اور قربانی کا جذبہ رکھنے والی خاتون تھیں، سلسلہ حقہّ سے بہت اخلاص رکھتی تھی، اپنے کئی زیور فروخت کر کے سلسلہ میں امداد دی تھی، انہوں نے اگست ۱۹۱۲ء میں وفات پائی.٭ ٭ فہرست مکتوبات بنام حضرت قاضی محمد عالم صاحبؓ ٭ بدر ۶؍اپریل ۱۹۱۱ء صفحہ۵ کالم۱ ٭٭ بدر ۱۹؍ستمبر ۱۹۱۲ء صفحہ۱۱ کالم ۱

Page 261

مکتوب نمبر۱ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط میں نے اوّل سے آخر تک پڑھا.اِنْشَائَ اللّٰہُ الْقَدِیْر کئی دفعہ دعا کروں گا.مجھے کبھی کبھی یاد دلاتے رہیں.قاضی ضیاء الدین مرحوم بہت عمدہ آدمی تھے اور قریباً بیس برس سے مجھ سے تعلق محبت رکھتے تھے.ان کے فوت ہونے سے مجھے بہت غم ہوا.اللہ تعالیٰ آپ میں وہ صفات پیدا کرے اور استقامت عطا فرمائے.باقی خیریت ہے.٭ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ محبیّ اخویم قاضی محمد عالم صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط معہ مبلغ (دو روپیہ  ) مجھ کو مل گیا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.میں نے تمام خط پڑھ لیا ہے.انشاء اللہ دعا کروں گا.باقی سب طرح سے خیریت ہے.اپنے حالات سے یاد دلاتے رہیں.تا سلسلہ دعا جاری رہے.٭ ٭ والسلام ۲۲؍جولائی۱۹۰۷ء مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ: سن صاف طور پر پڑھا نہیں گیا.انگریزی 7 کے مشابہ ہے.نقل مطابق اصل کر دی گئی ہے.٭ ، ٭٭ الحکم قادیان جلد۴۷ نمبر ۱۲، ۱۳ مورخہ۷ و ۱۴؍ اپریل ۱۹۴۳ء صفحہ ۳

Page 262

مکتوب نمبر۳ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط میں نے پڑھا.انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے لئے دعا کروں گا.وقتاً فوقتاً حالات سے اطلاع دیں.٭ خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۴ قاضی صاحب کے ایک خط پر حضرت اقدس ؑ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو لکھا کہ ’’جواب لکھ دیں کہ رقعہ پہنچ گیا ہے.دعا کی گئی.ضرور جواب لکھ دیں.٭ ٭ خاکسار مرزا غلام احمد عفی اس پر حضرت مفتی صاحب نے اس رقعہ پر لکھ دیا کہ دعا کے متعلق حضرت اقدس ؑ کی اپنی تحریر ارسال خدمت کرتا ہوں تاکہ آپ کے واسطے موجب تشفّی ہو.خاکسار محمد صادق عفی اللہ عنہ

Page 263

آپ کے خط پر حضرت اقدس ؑ نے اپنے دست مبارک سے چند کلمات لکھ کر عاجز کے پاس برائے تعمیل بھیجے ہیں.وہ تحریر مبارک باصلہ ارسال خدمت کرتا ہوں تاکہ آپ کے واسطے موجب تشفیّ ہو.دنیا کے ابتلاء مومن پر آتے ہیں.مبارک ہے وہ جو ثابت قدمی کے ساتھ وفاداری میں قدم آگے بڑھائے.آپ خدا سے دعا میں مصروف رہیں.اپنے اندر بدیوں کو تلاش کر کے باہر پھینکیں.انسان جب ایک گھر میں رہنے کا عادی ہوتا ہے.اسے کوئی چیز برُی معلوم نہیں ہوتی.لیکن جب جھاڑو لے کر صفائی پر کمربستہ ہوتا ہے تو بہت سی ناپاک چیزیں باہر نکال کر پھینکتا ہے.گو تھوڑی دیر کے واسطے گردوغبار اس کو دکھ دیتے ہیں.لیکن جب تک اندر کی صفائی نہ ہو.معزز مہمان کے داخلے کے لائق کوئی گھر بن نہیں سکتا.والسلام خادم محمد صادق عفی اللہ عنہ نوٹ : حضرت اقدس علیہ السلام کے الفاظ جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے، حسبِ ذیل ہیں.مکتوب نمبر۵ السلام علیکم و رحمۃ اللہ تین روپے پہنچ گئے.رسید سے اطلاع دیں اور نیز لکھ دیں کہ انشاء اللہ دعا کروں گا.٭ مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭ الحکم قادیان جلد۴۷ نمبر ۱۲، ۱۳ مورخہ۷ و ۱۴؍ اپریل ۱۹۴۳ء صفحہ ۳

Page 264

Page 265

حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 266

حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحبؓ حضرت قاضی محمد عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی ولادت ۹؍نومبر ۱۸۸۶ء کی ہے.آپ قاضی ضیاء الدین صاحب کے بیٹے تھے.حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ کی بیعت ۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء کی ہے اور آپ کی بیعت بھی ساتھ ہی ہو گئی.۲۹؍مارچ ۱۹۰۰ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل ہوا.ان ہی ایام میں آپ مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان میں چھٹی جماعت میں داخل ہوئے.آپ نے بی اے بی ٹی تک تعلیم پائی.حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں زندگی وقف کی.آپ نے انگلستان میں ۶؍ستمبر ۱۹۱۵ء تا ۲۸؍نومبر ۱۹۱۹ء کا عرصہ فریضہ تبلیغ میں گزارا.کشمیر کمیٹی میں بھی حضرت قاضی صاحب کو خدمات کا موقع ملا.پھر ملکانہ میں شدھی کی تحریک کا مقابلہ کرتے رہے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ہیڈماسٹر بھی رہے.آپ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کو دیکھا اور پھر ہمیشہ اپنے عمل سے ثابت کیا کہ انہوں نے اس عظیم شخصیت کو صرف دیکھا ہی نہیں بلکہ اپنے آقا کا رنگ بھی اپنی زندگی پر چڑھانے کی آخر دم تک کوشش کی.جو آپ کو عزت و احترام کا موجب بناتی رہی.قاضی کے طور پر اور صحافت کے فرائض بھی مرکز میں سرانجام دیئے.۸۶ برس کی عمر میں وفات پائی اور آپ کا جنازہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے پڑھایا.آپ کی وفات ۳۱۳ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سب سے آخر میں ہوئی.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں.٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۳۰۳، ۳۰۴

Page 267

مکتوب ژ آج سے نصف صدی پیشتر سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریک وقف زندگی پر لبیک کہتے ہوئے حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب نے ۲۷؍ستمبر ۱۹۰۷ء کو ایک درخواست لکھی جس کی پشت پر حضور اقدس نے مندرجہ ذیل الفاظ زیب رقم فرمائے.خدا کی عجیب قدرت ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑنے ۱۹۰۷ء میں جو وعدہ فرمایا تھا وہ آٹھ سال بعد حضرت فضل عمر کے ہاتھوں پورا ہوا اور آپ مسلسل پانچ برس تک انگلستان کو درس اسلام دیتے رہے.اس لحاظ سے یہ تاریخی مکتوب خلافت ثانیہ کی حقانیت کا یقینا ایک بھاری ثبوت ہے.(ادارہ)٭ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ خط کے مضمون سے مجھ کو آگاہی ہوئی.امید ہے آپ کو انتظام کے وقت پر میں یاد کروں گا اور مناسب جگہ پر خدمت دین کے لئے بھیجوں گا.مناسب ہے کہ اپنا نام مفتی صاحب کی فہرست میں درج کرا دیں.والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ ٭ ماہنامہ خالد ربوہ اگست ۱۹۵۶ء صفحہ ۲

Page 268

Page 269

Page 270

Page 271

Page 272

Page 273

مولانا سیّد محمد عبد الواحد صاحب آف بنگال

Page 274

مولانا سیّد محمد عبد الواحد صاحب جماعت احمدیہ بنگال کے امیر حضرت مولانا سید محمد عبد الواحد صاحب جو کہ مشرقی بنگال کے ایک ممتاز خاندان کی یادگار اور صوبہ بنگال کے ایک فاقد النظیر و عدیم المثال محقق علامہ تھے اور جن کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے بنگال میں ہزاروں کی احمدیہ جماعت قائم کی ہے.بتاریخ ۴؍ماہ رمضان جمعرات کے دن ۹ بجکر ۲۳ منٹ پر ۷۳ برس کی عمر میں اس دارفانی سے سرائے جاودانی کی طرف رحلت کر کے اپنے مولیٰ سے جا ملے.اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.حضرت مولانا مرحوم نے شہر ڈھاکہ کے گورنمنٹ عربی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد تکمیل علوم دینیہ کے لئے ہندوستان کا سفر اختیار کیا تھا اور ہندوستان کی مختلف درسگاہوں کو تنقیدی نگاہ سے معائنہ کرتے ہوئے لکھنؤ فرنگی محل کے مشہور علامہ مولانا مولوی عبد الحی صاحب کی شاگردی پسند فرمائی اور عرصہ دراز تک وہاں علم دین حاصل کرتے رہے.مولانا صاحب مرحوم کے فارغ التحصیل ہونے کے بعد مولانا عبد الحی صاحب نے نظام حیدرآباد کی حکومت میں ۵۰۰ روپیہ تنخواہ پر ایک جلیل القدر عہدے کے لئے بھیجنا چاہا لیکن بیماری کی وجہ سے آپ نے حیدرآباد کے گرم علاقہ میں جانا پسند نہ فرمایا.پھر ایک دفعہ گورنمنٹ مدرسہ ڈھاکہ کے مدرّس دوم کے عہدہ کے لئے نامزد کئے گئے.لیکن بیماری کی وجہ سے وہاں بھی نہ جا سکے.مشیت ایزدی و مصلحت الٰہی سے آپ کو کسی عظیم الشان مقصد کے لئے برہمن بڑیہ میں رکھنا مقدر ہو چکا تھا.آپ نے برہمن بڑیہ میں ہی غربت اور تنہائی کی زندگی کو پسند کیا.برہمن بڑیہ کے مسلمانوں اور اسکول کمیٹی کے ممبروں کی خواہش اور درخواست پر یہاں کے قاضی اور مدرّس ہائی اسکول مقرر ہوئے اور اس طرح ایک عرصہ دراز گزار دیا.اس اثنا میں آپ کی دیانت و تقویٰ و تبحر علمی نے اس اطراف کے لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنا دیا اور جم غفیر کو آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل کر دیا.آپ بنگال کے اُفق سعادت پر ایک درخشندہ ستارہ تھے.جو بنگالیوں کے لئے نور ہدایت ہو کر چمکے………… آپ کو عمر کے آخیر حصہ میںمشیت الٰہی نے سلسلہ احمدیہ کی تخم ریزی کے لئے ا س طرح کھڑا کیا کہ آپ کے ایک دوست منشی دولت احمد خاں وکیل عدالت برہمن بڑیہ نے جو کہ

Page 275

حکیم محمد حسین صاحب قریشی لاہور کے مفرح عنبری کے خریدار تھے اور حکیم صاحب نے ایک دفعہ دوائی کے ساتھ حضرت اقدس کے دعاوی کے متعلق ایک اشتہار بھیج دیا تھا.وہ اشتہار مولانا مرحوم کی خدمت میں پیش کیا.مولانا مرحوم اس کو دیکھ کر چونک پڑے اور حضرت اقدس کے دعاوی کی تحقیقات میں اپنے تئیں ہمہ تن مصروف کر دیا.قریباً دس سال تک ۱۹۰۲ء سے ۱۹۱۲ء تک تحقیقات میں مصروف رہے اور اس عرصہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے بھی خط و کتابت کا سلسلہ جاری رکھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دست ِمبارک سے آپ کو بہت سے خطوط لکھے.……… حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مولانا مرحوم کا ذکر براہین احمدیہ حصہ پنجم میں بھی کیا ہے.آخر جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ۱۹۰۸ء میں انتقال ہو گیا تو حضرت خلیفہ اوّل کے عہد مبارک میں آپ کو شرح صدر ہوا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت نہ کر سکنے کے سبب سے افسوس کرتے ہوئے اس کبرسنی میں قادیان جا کر بیعت کرنے کا مصمم ارادہ کیا.چنانچہ اپنے تین شاگردوں کو ہمراہ لے کر ۱۹۱۲ء کے اکتوبر میں دارالامان روانہ ہوئے اور راستہ میں ہندوستان کے مشاہیر علماء … سے ملاقات کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر بحث مباحثہ کرتے ہوئے وارد دارالامان ہوئے.اور حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کے دست مبارک پر (۱۹۱۲ء میں)بیعت کر کے کچھ عرصہ وہاں ٹھہرنے کے بعد حسب اجازت حضرت خلیفۃ المسیح اوّل برہمن بڑیہ واپس آ گئے.٭ فہرست مکتوبات بنام مولانا سیّد محمد عبد الواحد صاحب ٭ تلخیص از الفضل نمبر۱۰۲ جلد۳ ۱ مورخہ ۱۳؍اپریل ۱۹۲۶ء صفحہ ۹، ۱۰

Page 276

مکتوب نمبر۱ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ اخویم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.اس وقت میں نہایت قلیل الفرصت ہوں.مگر میں نے ارادہ کیا ہے کہ آپ کے شبہات کا جواب اپنے ایک رسالہ میں جو میں نے لکھنا شروع کیا ہے لکھ دوں.یہ رسالہ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو نومبر۱۹۰۵ء تک ختم ہو جائے گا اور چھپ جائے گا.یہ آپ کے ذمہ ہو گا کہ نومبر کے اخیر میں یا دسمبر ۱۹۰۵ء کے ابتداء میں مجھے اطلاع دیں تو میں یہ رسالہ آپ کی خدمت میں بھیج دوں اور میں امید رکھتا ہوں کہ رسالہ کے دیکھنے سے علاوہ آپ کے شبہات کے ازالہ کے اور بھی کئی قسم کی آپ کی واقفیت بڑھے گی.اگرچہ میرے نزدیک یہ معمولی اعتراضات ہیں جن کا کئی متفرق کتابوں میں باربار جواب دیا گیا ہے.مگر چونکہ آپ کی تحریر سے سعادت اور حق طلبی مترشح ہو رہی ہے.اس لئے میں محض آپ کے فائدہ کے لئے پھر یہ تکلیف اپنے پر گوارا کر لوں گا کہ آپ کے فہم اور مذاق کے مطابق جہاں تک مجھ سے ہو سکے لکھ دوں گا.آئندہ ہر یک امر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.مجھے امید تھی کہ یہ باتیں ایسی سہل اور راہ پر پڑی ہیں کہ آپ تھوڑی سی توجہ سے خود ہی ان کو حل کر سکتے تھے.لیکن اس میں کچھ مصلحت ِ الٰہی ہو گی کہ مجھ سے آپ نے جواب مانگا.باقی خیریت ہے.٭ ۱۷؍اگست ۱۹۰۵ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ قادیان ضلع گورداسپور پنجاب ٭ الفضل قادیان جلد۳۴ نمبر۱۴۸ مورخہ۲۶؍جون ۱۹۴۶ء صفحہ ۲

Page 277

مکتوب نمبر۲ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ اخویم سید محمد عبد الواحد صاحب سلّمہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.میں د۲و تین۳ ہفتہ سے پھر بیمار ہوں.اس لئے کام چھپوائی کتاب کا ابھی شروع نہیں کر سکا.آپ کے نئے اعتراض بھی میری نظر سے گزرے.خدا تعالیٰ آپ کو تسلیّ بخشے.آمین.میں اگر ان اعتراضات کا بھی جواب لکھوں تو طول بہت ہو جائے گا.اور میں اپنی متفرق کتابوں میں ان کا جواب دے چکا ہوں.میں نے یہ تجویز سوچی ہے کہ جس طرح ہو سکے آپ ایک ماہ کی رخصت لے کر اس جگہ آجائیں.آمدورفت کا تمام کرایہ میرے ذمہ ہو گا.اس صورت میں ایک ماہ کے عرصہ میں آپ پوری تسلیّ سے سب کچھ دریافت کر سکتے ہیں.انشراح صدر خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے لیکن اپنی طرف سے ہریک بات سمجھا دی جائے گی اور اگر کوئی بات خدانخواستہ سمجھ نہ آوے تو مقام افسوس نہ ہو گا اور اس صورت میں آپ اس تمام کتاب کو جس میں آپ کے اعتراضات کا جواب ہے قبل از اشاعت دیکھ سکتے ہیں.میرے نزدیک یہ نہایت عمدہ طریق ہے.آپ یہ خیال نہ کریں کہ مجھے خرچ آمدورفت کے بھیجنے میں کچھ تکلیف ہو گی.کیونکہ آپ کی تحریر میں رُشد اور سعادت کی بوُ آتی ہے اور آپ جیسے رشید کے لئے کچھ مال خرچ کرنا موجب ثواب اور اجر آخرت ہے.جواب سے ضرور مطلع فرماویں.٭ ۲۴؍جنوری ۱۹۰۶ء والسلام راقم مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ ٭ روزنامہ الفضل قادیان جلد۳۴ نمبر ۱۳۷ مورخہ ۱۲؍جون ۱۹۴۶ء صفحہ ۲

Page 278

Page 279

Page 280

Page 281

Page 282

Page 283

Page 284

Page 285

حضرت مولوی محمد علی صاحب ایم.اے رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 286

حضرت مولوی محمد علی صاحب ؓ ایم.اے مرحوم کپورتھلہ کے ایک گائوں مرار میں حافظ فتح الدین صاحب کے ہاں دسمبر ۱۸۷۴ء میں پیدا ہوئے اور ۱۳؍اکتوبر ۱۹۵۱ء کو وفات پائی.جنوری ۱۸۹۲ء میں جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مباحثہ عبد الحکیم کلانوری کے سلسلہ میں لاہور میں تشریف لائے تھے.پہلی مرتبہ حضور کی زیارت کا شرف حاصل کیا.۱۸۹۴ء میں اسلامیہ کالج کے ریاضی کے پروفیسر مقرر ہوئے اور یہیں خواجہ کمال الدین صاحب سے (جو بیعت میں داخل ہو چکے تھے اور کالج کے سٹاف میں شامل تھے) راہ و رسم پیدا ہو گئی.دواڑھائی سال میں جب باہمی تعلقات محبت بہت ترقی کر گئے تو خواجہ صاحب نے انہیں قادیان جانے کی تحریک کی.جس پر آپ کے ہمراہ مارچ ۱۸۹۷ء میں قادیان پہنچے اور حضور کی شبانہ روز اہم خدمات دینیہ اور اشاعت اسلام کا جذبہ دیکھ کر شامل احمدیت ہو گئے.(’’پیغام صلح‘‘ ۲۷؍جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۲) آپ ایل ایل بی کا امتحان پاس کر کے گورداسپور میں وکالت کرنا چاہتے تھے اور اس کے لئے انتظامات مکمل بھی کر لئے تھے کہ جون ۱۸۹۹ء میں یورپ کے لئے ایک انگریزی رسالہ کی تجویز ہوئی جس کے لئے حضور کی نظر انتخاب آپ پر پڑی اور آپ ہجرت اختیار کر کے قادیان آ گئے جہاں چودہ سال تک ریویو آف ریلیجنزکی ادارت اور صدر انجمن احمدیہ کی سیکرٹری شپ وغیرہ مختلف خدمات سرانجام دینے کی سعادت نصیب ہوئی.مارچ ۱۹۱۴ء میں نظام خلافت سے الگ ہو کر لاہور چلے گئے اور ’’احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور‘‘ بنا لی.ایک مرتبہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ خواب میں دکھائے گئے حضور ؑ نے ان سے رؤیا میں کہا.’’آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے آئو ہمارے ساتھ بیٹھ جائو‘‘ (البدر یکم اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۴) ٭ ٭ تاریخ احمدیت جلد۱ صفحہ ۶۵۴

Page 287

۱۱؍اگست ۱۹۰۶ء کو مولوی محمد علی صاحب ایم اے نے مندرجہ ذیل خط حضرت مسیح موعود کو لکھا.سیدی و مولائی سلّمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت مولوی صاحب نے مجھے تحریر فرمایا تھا کہ میاں شادی خاں صاحب کو بلا کر مہر کا فیصلہ کیا جائے.میں نے ان کو بلایا تھا.وہ کہتے ہیں.حضرت صاحب سے دریافت کیا جاوے.اس لئے حضور مناسب حکم سے مطلع فرما دیں.نیز مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ نکاح آج ہی ہو جاوے اور عائشہ کو بھی اطلاع دی جاوے جیسے حضور کا ارشاد ہو کیا جائے اگر حضور پسند فرماویں تو عصر کی نماز کے وقت ہو سکتا ہے.والسلام خاکسار محمد علی مندرجہ بالا رقعہ کی پشت پر مندرجہ ذیل جواب حضور ارقام فرماتے ہیں.مکتوب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آج میری طبیعت دوران سر کے باعث اس قدر بیمار رہی ہے کہ چارپائی سے اٹھنا مشکل تھا.اس وقت اٹھ کر بیٹھا ہوں.مگر باہر آنے کے قابل نہیں.میرے نزدیک پانسو روپیہ ()مہر کافی ہے.اس قدر مہر اس لئے تجویز کرتا ہوں کہ یہ نکاح قوم میں نہیں ہے.اور لڑکا ہونہار ہے.اس پر کوئی بوجھ نہیں ہے.امید کہ اس کی لیاقت اور حیثیت اس مہر سے بہت زیادہ ہو جائے گی.میرے نزدیک اس سے کم ہرگز نہیں.اگر زیادہ ہو تو مضائقہ نہیں.٭ والسلام مرزا غلام احمد ٭ الفضل قادیان نمبر۷۴ جلد۱۵ مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۷

Page 288

Page 289

حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 290

حضرت نواب محمد علی خاں صاحبؓ حضرت نواب محمد علی خاں رضی اللہ عنہ کے مورث اعلیٰ شیخ صدر الدین جلال آباد کے باشندہ تھے.شیروانی قوم کے پٹھان تھے جو ۱۴۶۹ء میں سلطنت بہلول لودھی کے زمانہ میں اپنے وطن سے ہندوستان میں آئے اور ایک قصبہ آباد کیا جس کا نام مالیرکوٹلہ ہے.آپ کے والدماجد کا نام نواب غلام محمد خاں صاحب تھا.ابتدائی تعلیم چیفس کالج (انبالہ و لاہور) سے حاصل کی.آپؓ ۱۸۸۷ء سے ۱۸۹۴ء تک محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس سے وابستہ رہے.اور آپؓ نے علی گڑھ کے مشہور سٹریجی ہال کی تعمیر میں پانچ صد روپیہ چندہ دیا.حضرت اقدس مسیح موعود ؑ سے خط و کتابت کا آغاز آپ کے استاد مولوی عبد اللہ فخری کاندھلوی (بیعت ۴؍مئی ۱۸۸۹ء) کی تحریک سے ہوا.حضرت نواب صاحب ؓ اپنے ایک خط میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کو لکھتے ہیں.’’ابتداء میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا لیکن صرف اس قدر کہ آپ اور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے مؤید نہیں ہیں.بلکہ مخالفانِ اسلام کے مقابل پر کھڑے ہیں.مگر الہامات کے بارے میں مجھ کو نہ اقرار تھا اور نہ انکار.پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور ان پر غالب نہ ہو سکا تو میں نے سوچا کہ آپ نے بڑے دعوے کئے ہیں.یہ سب جھوٹے نہیں ہو سکتے.تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط و کتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی اور جب قریباً اگست میں آپ سے لودیانہ ملنے گیا تو اس وقت میری تسکین خوب ہو گئی اور آپ کو ایک باخدا بزرگ پایا اور بقیہ شکوک کو بعد کی خط و کتابت نے

Page 291

میرے دل سے بکلّی دھویا اور جب مجھے یہ اطمینان دی گئی کہ ایک شیعہ جو خلفائے ثلاثہ کی کسرشان نہ کرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو سکتا ہے.تب میں نے آپ کی بیعت کر لی…‘‘ رجسٹر بیعت میں آپ کی بیعت ۲۱۰ نمبر پر درج ہے.آپ نے ۱۹؍نومبر ۱۸۹۰ء کو حضرت اقدس ؑ کی بیعت کا شرف حاصل کیا.آپ کے گھر روحانی بادشاہ کی بیٹی آئی اور آپ کا نکاح حضرت مسیح الزمان و مہدی دَوراں کی مقدس صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے ہوا.حضرت مسیح موعود ؑ کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی نسبت ایک الہام میں ’’حجۃ اللہ‘‘ کے نام سے یاد فرمایا.حضرت اقدس ؑ نے کتاب’’ منن الرحمن ‘‘میں اشتراک السنہ کے کام میں جاں فشانی کرنے والے مردان خدا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آپ کا ذکر بھی فرمایا ہے.آپ ایک سال کی علالت کے بعد ۱۰؍فروری ۱۹۴۵ء کو وفات پا گئے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود ؓ نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور حضرت مسیح موعود ؑ کے قرب میں بہشتی مقبرہ میں آپ کی تدفین ہوئی.٭ نوٹ.حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے خطوط مکتوبات احمد جلد نمبر دوم میں آ چکے ہیں.مزید ایک خط شائع کیا جارہا ہے.( ناشر) ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۸۸، ۸۹

Page 292

مکتوب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ چونکہ میرے گھر کے لوگ بیمار ہیں اور ان کو مراق کی بیماری میں سخت گھبراہٹ ہوتی ہے.ڈاکٹروں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ اس مرض میں سیر کرنا ضرو ری ہے مگروہ اس بیماری میں پیادہ پا نہیں چل سکتے.انہوں نے خود کہا ہے کہ نواب صاحب کو لکھو کہ وہ ایک عمدہ رتھ کوٹلہ سے منگوا دیں.جس قدر قیمت ہو گی وہ خود ادا کریں گی.جب رتھ آجائے گی بعد میں محمل خریدی جائے گی.اس کی تکلیف دیتا ہوں جس طرح ممکن ہو آپ اس کا بندوبست فرمائیں اور جس قدر قیمت کی ضرورت ہے اس سے مطلع فرمائیں تا اس کی (تعمیل) ۱؎ کی جاوے.خیریت سے مطلع فرمائیں.مکرر گذارش ہے کہ ایسی رتھ چاہئے جس میں چھ ۶ سات ۷ آدمی فراغت سے بیٹھ جائیں.٭ والسلام مرزا غلام احمد ۱؎ پڑھا نہیں گیا.٭ سیرت حضرت عبد الستار خان افغانؓ المعروف بزرگ صاحب صفحہ ۱۰۹

Page 293

مولوی محمد فضل صاحب آف چنگا بنگیال

Page 294

مولوی محمد فضل صاحب آف چنگا بنگیال مولوی محمد فضل صاحب چنگا بنگیال گوجر خان ضلع راولپنڈی سے تعلق تھا.ابتدائی زمانہ میں بیعت کی اور بعض مفید کتب بھی لکھیں.جن میں ’’اسرار شریعت ‘‘ معروف ہے.مولوی محمد فضل خاں چنگا بنگیال نے بعد میں احمدیت سے ارتداد اختیار کیا اور یہ اعلان اخبار اہلحدیث امرتسر ستمبر ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں نازیبا کلمات کہے اور اسی حالت میں آپ نے ۱۹۳۸ء میں وفات پائی.٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۲۰۰، ۲۰۱

Page 295

مکتوب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ و ایدہ بخدمت محبی اخویم مولوی محمد فضل السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ بعد ہذا آپ کا محبت نامہ جو اخلاص اور محبت سے بھرا ہوا اور معارف اور نکات پر مشتمل تھا، مجھ کو ملااور باعث سرور اور فرحت ہوا.جزاکم اللّٰہ تعالـٰی خیرًا جو کچھ آپ نے لکھا ہے وہ واقعی اور درست ہے مگر افسوس کہ دنیا میں بہت ہی تھوڑے ایسے انسان ہیں جو ان حقائق حقہّ کو سمجھتے ہیں.بہرحال صرف اسقدر تحریر آپ کے صفائی ٔباطن اور علم اور معرفت اور فراستِ صحیحہ پر دلالت کر رہی ہے.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنی محبت میں ترقی بخشے.یہ عاجز چند روز بباعث شدت کم فرصتی جواب لکھنے سے معذور رہا.باقی خیریت ہے.٭ ۲۹؍مئی ۱۸۹۶ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ٭ الحکم جلد۸ نمبر۴۳،۴۴ مورخہ۱۷.۲۴؍دسمبر۰۴ ۱۹ء صفحہ ۹

Page 296

Page 297

محمد قدسی صاحب شامی

Page 298

محمد قدسی صاحب شامی قریباً عرصہ چھ سال کا گزرا ہے کہ قادیان میں دو شخص ایک بغدادی اور ایک شامی قریباً عرصہ چھ سال کا گزرا ہے کہ قادیان میں دو شخص ایک بغدادی اور ایک شامی بقصدِزیارت حضرت مسیح موعود ؑ واردہوئے.شامی جو قوی ہیکل نوجوان آدمی تھا اس نے قادیان میں پڑھنے کی خواہش ظاہر کی چنانچہ حضرت حکیم الامت کے حلقہ درس میں شامل ہو گیا اور کتب وغیرہ جس چیز کا اس نے احتیاج ظاہر کیا اس کے لئے مہیا کیا گیا.حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کو یہ بات سن کر بہت خوشی ہوئی کہ یہ شخص یہاں سے اپنی تعلیم کا نصاب پورا کر کے عربی بولنے والے ممالک میں جا کر تبلیغ کرے گا مگر قادیان چونکہ ایک معمولی قصبہ ہے جس کی آبادی غالباً تین ہزار آدمی کی ہو گی.اس میں سے ہر منش آدمی کی طبیعت اکتا جائے تو کچھ تعجب نہیں.شامی نے چند ماہ کے بعد ظاہر کیا کہ حج کا موسم قریب ہے.حج کو جانا چاہتا ہوں.حضرت اقدس کو ایک رقعہ لکھا اور کچھ روپے طلب کئے.اس کا نام محمد قدسی مشہور تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے محمد قدسی کو مندرجہ ذیل جواب نصیحتاً لکھا.جس کو ہم بعینہٖ یہاں درج کرتے ہیں.میں نے یہ خط محمد قدسی سے لے کر نقل کر لیا تھا.( محمد فضل)٭ ٭ الحکم نمبر۴۰ جلد۸ مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۴ صفحہ ۱۱

Page 299

مکتوب اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ بَلَغَ اِلَیَّ مَکْتُوْبُکَ فَالْاَسَفُ کُلَّ الْاَسَفِ.اِنَّکَ مَا تَفْھَمُ مَا قَصَدْنَا لَکَ اِنَّکَ تَطْلُبُ قَشْرَ الْاِسْلَامِ وَ کُنَّا اَرَدْنَا اَنْ تُرْزَقَ مِنْ لُبِّ الْاِسْـلَامِ وَرُوْحِہٖ لَوْ کُنْتَ تَخَافُ اللّٰہَ لَفَکَّرْتَ فِیْ اَمْرِنَا وَ فِیْمَا بَعَثَنِیَ اللّٰہُ بِہٖ وَاَعْلَمُ اِنَّ عَمَلاً مِّنَ الْاَعْمَالِ لَایُفِیْدُ لِاَحَدٍ مِّنْ دُوْنِ اَنْ یَّعْرِفَنِیْ وَ یَعْرِفَ دَعْوٰی وَ دَلَائِلِیْ فَالْخَیْرُ کُلَّ الْخَیْرِلَکَ اَنْ تَتُوْبَ مِنْ خِیَالِ ذَھَابِکَ بَعْدَ الْعِیْدِ وَ تَلَبَّثَ عِنْدَنَا بُرْھَۃً مِّنَ الزَّمَانِ وَ تَتَعَلَّمَ عِلْمًا اَتَانَا اللّٰہُ وَ لَااَعْلَمُ اَیَّ فَائِدَۃٍ لَّکَ فِی الْحَجِّ قَبْلَ تَصْحِیْحِ الْاِیْمَانِ وَ اِنِّیْ اَرْسُلُ اِلَیْکَ اَرْبَعَۃً رُوْبِیَۃً فَاَنْفِقْ فِیْمَا حَدَثَ لَکَ مِنَ الضُّرُوْرَۃِ فَاِنْ شِئْتَ فَالَبِّثْ وَ اَمْکِثْ فَاِنْ شِئْتَ فَاذْھَبْ بِھٰذَا الزَّادِ مِنَّا وَ لَیْسَ لَکَ فِیْ ذَھَابِکَ خَیْرٌ بَلْ خُسْرَانٌ مُّبِیْنٌ وَلَاکِنْ کَیْفَ اَفْھَمُکَ وَ لَاتَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰـکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ.٭ وَ السَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.الراقم المتوکّل علی اللّٰہ الاحد احمد عفی اللّٰہ عنہ ترجمہ: السلام علیکم.مجھے تمہارا خط پہنچا.بڑا افسوس ہے جس بات کا ہم نے تمہارے لئے ارادہ کیا تھا ُتو اس کو نہیں سمجھتا توُ اسلام کا چھلکا طلب کرتا ہے اور ہم نے ارادہ کیا تھا کہ تجھے اسلام کے مغز و روح سے بہرہ وَر کیا جائے اگر تجھے خوف خدا ہوتا تو ہمارے کام اور جس امر ٭ الحکم نمبر۴۰ جلد۸ مورخہ ۲۴؍ نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ۱۱

Page 300

کے لئے ہمیں خداوند تعالیٰ نے بھیجاہے اس میں فکر کرتا.میں خوب جانتا ہوں کہ آجکل کسی کو کوئی عمل فائدہ نہیں دے سکتا سو ااس کے کہ مجھے اور میرے دعوے اور میرے دلائل کو پہچانے اور سمجھے.تیرے لئے ساری بھلائی اس میں ہے کہ عید کے بعد جانے کے خیال کو چھوڑ دو اور ہمارے پاس کچھ زمانہ رہ کر اس علم کو سیکھو جو علم ہم کو خداوند تعالیٰ نے دیا ہے میں نہیں جانتا کہ صحت ایمان کے پہلے تجھے حج کو جانے میں کیا فائدہ حاصل ہو گا.میں تجھے چار روپیہ بھیجتا ہوںجو ضرورت پیش ہے اس میں خرچ کرو.اگر چاہو تو یہاں ہی رہو اور اگر جانا چاہو تو اسی خرچ کے ساتھ ہماری طرف سے رخصت ہو تیرا یہاں سے جانا اچھا نہیں بلکہ سراسر نقصان و زیاں ہے لیکن میں تجھے کس طرح سمجھائوں.آنکھیں نابینا نہیں ہیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ نابینا ہیں.خدا سلامت رکھے ہر ایک ایسے شخص کو جو اسلام کا سچا تابعدار ہے.الراقم المتوکل علی اللہ الاحد احمد عفی اللہ عنہ

Page 301

حضرت شیخ محمد نصیب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 302

حضرت شیخ محمد نصیب صاحبؓ ولد شیخ قطب الدین صاحب.تاریخ بیعت ۱۶؍اگست ۱۸۹۷ء طلب علم کی غرض سے ۱۶؍اگست ۱۸۹۷ء کو قادیان دارالامان آئے اور پھر یہیں کے ہو رہے.آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سب سے اوّل حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی زیارت کی جن کی طرف مجھے بابو غلام رسول صاحب سٹیشن ماسٹر نے بھیجا تھا.وہاں چند اور احباب سے ملاقات ہوئی.گول کمرہ میں کھانے کا انتظام تھا.حضرت مسیح موعود ؑ ، مولوی صاحب اور دوسرے احباب کو ملک غلام حسین صاحب اور پیراںدتہ پہاڑیہ نے کھانا پیش کیا.کھانا کھانے کے بعد نماز ظہر مسجد مبارک (جو اس وقت بالکل چھوٹی سی تھی.چوڑائی میں بہت کم) میں حضور پرُنورکی زیارت نصیب ہوئی.ملاقات پر حضور ؑ نے حالات دریافت فرمائے.اس وقت پادری مارٹن کلارک نے حضرت صاحب پر اقدام قتل کا مقدمہ دائر کر رکھا تھا.چنانچہ ۱۸؍اگست کو گورداسپور مع قافلہ روانہ ہوئے.تاریخ پیشی ۲۰؍اگست تھی جب آپ گئے تو بارش کا نام و نشان نہ تھا.تشریف لے جانے کے بعد اسقدر بارش ہوئی کہ تمام راستے بند ہو گئے اور جناب ڈگلس صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر ضلع نے ۲۳؍اگست حکم سنانے کو تاریخ مقرر کی.حضرت واپس نہیں آئے.ایک آدمی کے ذریعہ یہاں حضرت بیوی صاحبہ کو اطلاع کی کہ ہم حکم سن کر ہی آئیں گے.چنانچہ پیشگوئی کے ماتحت کامیاب واپس آئے.ان دنوں یہاں اپنا کوئی مدرسہ وغیرہ نہ تھا.مالیر کوٹلہ میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے ایک سکول جاری کر رکھا تھا.جس کے ناظم مرزا خدا بخش صاحب مرحوم تھے.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے مجھے آریوں کے اینگلو ورنیکر مڈل سکول (جس کا ہیڈ ماسٹر ایک سخت متعصب سومراج نام آریہ تھا) میں مجھے داخل کرا دیا.چند ماہ وہاں پڑھتا رہا.بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی اور بھائی عبد الرحیم مجھے مضامین لکھ دیتے جو سکول میں سنائے جاتے اور اس سے وہ سخت جل جاتے.آخر مجھے انہوں نے سکول سے خارج کر دینے کا ارادہ کیا.حکیم فضل دین صاحب مرحوم کی مالی اعانت سے خاکسار نے معمولی کاروبار (خوردنی اشیاء بسکٹ وغیرہ) شروع کیا.یہ سلسلہ بعد میں خاصی ترقی کر گیا.

Page 303

حضرت مولوی نور الدین صاحب اکثر دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں عرض کرتے کہ حضور ہمارے کچھ بچے آریوں کے سکول میں پڑھتے ہیں.وہ ان کو تنگ کرتے ہیں اس لئے اپنا سکول ہونا چاہیے.جواب میں حضور فرماتے ٹھیک ہے.بہت اچھا غرضیکہ کئی ماہ تک یہ سلسلہ جاری رہا.آخر ایک روز بارہ بجے دن کے حضرت صاحب کے ہمراہ گول کمرہ میں کھانا کھانے کے لئے حضرت مولوی صاحب تشریف لے گئے اور بھی احباب تھے.وہاں سکول کا ذکر چل پڑا.حضرت مسیح موعود ؑ نے اس تجویز کو منظور فرمایا.اسی وقت موجودہ احباب میں سے بعض نے تھوڑا تھوڑا چندہ لکھایا جس کی میزان غالباً دس بارہ روپے ماہوار سے زیادہ نہ تھی.اس میں سب سے زیادہ پانچ روپے ماہوار حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ کا تھا.پس اسی قدر ماہوار رقم کی بنا پر حضرت صاحب نے اللہ کے توکل پر سکول کی بنیاد رکھ دی.یہ سال ۱۸۹۸ء کا واقعہ ہے.اس وقت نہ کوئی سکول کی عمارت تھی نہ ہی کوئی مدرس تھا.نہ سوائے میرے مستقل طور پر کوئی طالب علم موجود تھا.تاہم حضرت صاحب کے حکم سے جلدی ہی سکول کا اجرا کیا گیا.مفتی فضل الرحمن صاحب.شیخ عبد الرحمن صاحب قادیانی.شیخ عبد الرحیم صاحب.شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی.منشی فضل الدین صاحب کلانوری اور حافظ احمد اللہ صاحب مدرس بنائے گئے.بعد میں مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم بھی سکول میں جا کر ہمیں انگریزی پڑھایا کرتے تھے اور میں ان سے گھر پر عربی فارسی بھی پڑھا کرتا اور ان کی خدمت کیا کرتا.امرتسر سے حضرت صاحب کے حکم سے مکرمی شیخ یعقوب علی صاحب کو جو ان دنوں امرتسر سے اخبار الحکم نکالا کرتے تھے سکول کی ہیڈماسٹری کے لئے بلایا گیا.تا وہ قادیان میں رہ کر یہ کام سرانجام دیں اور اسی طرح مکرمی قاضی امیرحسین صاحب کو بطور مدرس دینیات بلایا گیا.جو ایم اے او ہائی سکول امرتسر میں مدرس دینیات تھے.سکول کے اجراء کے وقت سب سے بڑی جماعت اوّل مڈل تھی اور میں اسی میں پڑھتا تھا.٭ فہرست مکتوبات بنام حضرت شیخ محمد نصیب صاحبؓ ٭ رجسٹر روایات صحابہ( غیرمطبوعہ) نمبر ۱۵ صفحہ ۲۳ تا ۳۲

Page 304

مارچ اپریل ۱۹۰۸ء کا ذکر ہے کہ میری لڑکی امۃ اللہ جو میاں نصیر احمد کی رضاعی بہن تھی مرض خسرہ میں مبتلا ہو گئی.حضرت اقدس ؑ کو دعا کے لئے عرض کیا آپ نے فرمایا مجھے ہر روز دعا کے لئے یاد دلایا کرو.اور اس کی حالت سے اطلاع دیا کرو.چنانچہ تعمیل کی جاتی اور آپ دعا فرماتے رہے.مگر قضاء قدر کے سامنے کسی کی پیش نہیں جاتی.آخر ۹؍اپریل ۱۹۰۸ء کو یعنی حضور ؑ کے وصال سے قریباً ڈیڑھ ماہ قبل فوت ہو گئی.اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن.میری بیوی کی والدہ یہاں پہنچی.اس نے چاہا کہ اپنی لڑکی کو ہمراہ لے جائے تاکہ اس کا غم غلط ہو.میں نے حضرت اقدس ؑ کو لڑکی کے فوت ہونے کی اور اپنی ساس کے ارادہ سے آگاہ کیا.اس پر حضرت اقدس ؑ نے ذیل کا خط مجھے لکھا.مکتوب نمبر۱ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میں نے خط پڑھ لیا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ بہت دعا کروں گا کہ خدا تعالیٰ نعم البدل عطا فرمائے.مگر صبر شرط ہے.جب انسان خدا تعالیٰ کے ایک فعل پر حد سے زیادہ بے صبری کرتا ہے تو اپنے ثواب کو کھو بیٹھتا ہے.والدین کے گھر میں جانے کا مضائقہ نہیں.مگر عورت کے لئے اپنے مرد سے زیادہ کوئی مونس وغمخوار نہیں ہوتا.چند روز کے لئے اگر چلی جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں.مگر زیادہ ٹھہرنا مناسب نہیں.اس غم میں آپ اور وہ دونوں شریک ہیں.پس کس طرح ان کو گوارہ ہے.آپ کو اس غم کی حالت میں اکیلا چھوڑ کر چلی جائیں.اور ہماری شریعت کی رُو سے زیادہ غم آئندہ ملنے والے اجر سے محروم کر دیتا ہے.یہ سب خدا تعالیٰ کے ابتلاء ہیں جس کو چاہتا ہے بھیجتا ہے جس کو چاہتا ہے اٹھا لیتا ہے.غم حد سے زیادہ زیادہ نہیں ہونا چاہیے.حد سے زیادہ غم مبارک نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ کا مقابلہ ہے اور ایمان کے برخلاف ہے.زیادہ آپ خود سمجھتے ہیں.اگر صبر اور استقامت سے مجھے یاد دلاتے رہیں گے تو میں دعا کروں گا.مجھے شک ہے کہ یہ اٹھرا کی بیماری ہے.اس میں بڑی دوائی جو میرے تجربہ میں آچکی ہے کہ میاں بیوی ڈیڑھ برس تک ایک دوسرے سے علیٰحدہ رہیں یعنی جماع سے پرہیز کریں.بلکہ بھائی بہن کی طرح رہیں.دل پاک و صاف رکھیں اور دعا کرتے رہیں.تب یہ بیماری انشاء اللہ تعالیٰ دور ہو جائے گی.اس کے ساتھ دوسری دوائیں بھی دی جائیں گی.مجھے یاد دلانے پر نسخہ لکھ دوں گا.٭ والسلام مرزا غلام احمد ٭ الحکم جلد۴۲ نمبر۱ مورخہ ۱۴؍جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ ۴

Page 305

اس کے چند روز بعد میں نے حضرت مسیح موعود ؑ کو ان کے ارشاد کے ماتحت نسخہ کے لئے یاد دلایا تو پھر مندرجہ ذیل دوسرا خط حضرت نے مہربانی فرما کر مجھے بھیجا.مگر کچھ غلطی پہلی طبع کے وقت کاتب سے ہو گئی تھی.اب درستی کی جاتی ہے.مکتوب نمبر۲ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ دوائی میرے تجربہ کی رو سے یہ ہے کہ ایک حصہ مشک خالص مثلاً ۶ماشہ نریسی خالص ۳ ماشہ.فولاد قلمی ۳ ماشہ.یہ دوا خوب پیس کر باہم ملا کر دو دو رتی کی گولیاں بنا لیں اور ہر روز شام کے وقت ایک گولی کھا لیا کریں.(عورت کھائے.ناقل) فکر اور غم سے جہاں تک ممکن ہو.اپنے تئیں بچائیں کہ اس کا دل پر اثر ہوتا ہے اور دل سے تمام اعضاء پر اور خدا تعالیٰ سے بھی نماز میں پنج وقت دعا کرتے رہیں.خدا کے فضل سے کیا تعجب ہے کہ خدا لڑکی کی جگہ لڑکا دیدے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور میں انشاء اللہ تعالیٰ دعا کرتا رہو ں گا.ہمیشہ یاد دلاتے رہیں.٭ والسلام میرزا غلام احمد اس کے بعد اللہ کے فضل اور حضور ؑکی دعا سے میرے ہاں دو لڑکے پیدا ہوئے اور پھر دو لڑکیاں.بڑا لڑکا تین چار سال کا ہو کر فوت ہو گیا.باقی اولاد خدا کے فضل سے اب تک زندہ موجود ہے اور صاحبِ اولاد ہے.الحمد للہ.٭ الحکم جلد۴۲ نمبر۱ مورخہ ۱۴؍جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ ۴

Page 306

Page 307

حضرت چوہدری مولا بخش صاحب بھٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 308

حضرت چوہدری مولا بخش صاحب بھٹیؓ حضرت چوہدری مولا بخش صاحب بھٹی رضی اللہ عنہ چونڈہ ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.۱۸۶۵ء میں پیدا ہوئے اور۲۸؍ستمبر ۱۹۰۰ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت کے ساتھ وابستہ ہوئے.آپ ایک جاں نثار اور اخلاص سے پرُوجود تھے.قبول احمدیت کے بعد اس کی تبلیغ و اشاعت میں کوشاں رہے.حضرت اقدس علیہ السلام کے مشہور لیکچر ’’لیکچر سیالکوٹ‘‘ موسومہ بہ ’’اسلام‘‘ کو مفید عام پریس سیالکوٹ سے چھپوا کے افادہ عام کے لئے شائع کیا.(روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۲۰۱ ٹائٹل پیج لیکچر سیالکوٹ) اسی طرح ایک کثیر رقم سے منارۃ المسیح کا کتبہ بنایا جو منارۃ المسیح پر نصب ہے.آپ ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تصویر بنانے کا موقع ملا.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بے پناہ محبت تھی.اسی محبت کے تعلق کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو ایک گرم کوٹ تبرکا ًعنایت فرمایا.۲؍نومبر ۱۹۱۶ء کو وفات پائی.آپ کی اہلیہ حضرت رمضان بی بی صاحبہؓ (وفات ۲۵؍جنوری ۱۹۵۰ء)بھی صحابیہ تھیں اور ایک مخلص خاتون تھیں.سلسلہ احمدیہ کے مخلص خادم محترم ڈاکٹر محمد شاہنواز صاحب ریٹائرڈ میجرو میڈیکل مشنری سیرالیون آپ ہی کے فرزند تھے.٭ ٭ تلخیص از مقالہ ’’تاریخ تحصیل چونڈہ ضلع سیالکوٹ‘‘ مقالہ نگار مکرم خالد احمد ثاقب صاحب

Page 309

فہرست مکتوبات بنام حضرت چوہدری مولا بخش صاحب بھٹی ؓ

Page 310

مکتوب نمبر۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اخویم منشی مولا بخش صاحب سلّمہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کومعلوم ہو گا کہ جو خادمہ آپ نے روانہ کی تھی وہ صرف چارروزرہ کرواپس اپنے گھر کو چلی گئی اور اس نے آتے ہی کہا کہ میں اس جگہ نہیں رہ سکتی کیونکہ میرا بیٹا ہے اور میری والدہ ہے میں تو صرف بیعت کرنے آئی ہوں اس لئے واپس چلی گئی.خادمہ کے نہ ہونے کی وجہ سے بڑی تکلیف ہے اور خادمہ ایسی چاہئے کہ بازار میں بھی جا سکے اور لنگرخانہ سے روٹی اور گوشت لا سکے پردہ دار عورت کسی کام کی نہیں.آپ کو مکرّر لکھتا ہوں کہ آپ جہاں تک ممکن ہو کوشش کریں اور اخویم ڈاکٹر سید عبد الستار صاحب نے اب تک کوئی خادمہ نہیں بھیجی.آپ ان کو اطلاع دے دیں کہ آپ بھی جہاں تک ہو سکے کوشش فرما کر کوئی خادمہ روانہ فرماویں.دو خادمہ کی ضرورت ہے کیونکہ ایک خادمہ تو لڑکے کے لئے چاہئے اور دوسری خادمہ متفرق کاموں کے لئے.۳۰؍مئی ۱۹۰۳ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 311

(حضرت چوہدری مولا بخش صاحب بھٹی ؓ کا مکتوب بابت استفسار مسئلہ جنازہ) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ بحضور جناب مسیح معہود و مہدی موعود امام زمان سلمہُ اللہ الرحمن جناب عالی! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ شہر میں ایک جنازہ ایسی ہو گئی تھی جوکہ حضور کے مصدّق نہ تھے پر تھے وہ رئیس یا لحاظ والے.اکثر جماعت کے دوست ان کی جنازہ پڑھنے گئے.کمترین نہ گیا.دریافت پر کمترین نے جواب دیا کہ جو لوگ حضور کے مخالف یا مکذّب ہیں.کمترین ان کا جنازہ ہرگز ہرگز نہ پڑھے گا جس پر حضور کا خط دربارہ اعادت نماز پڑھ کر سب جماعت کے دوستوں کو سنایا گیا.اس خط میں حضور نے نماز جنازہ کی اعادت کی بابت ہی حکم صادر فرمایا ہوا تھا کو میں نے دوستوں کو… پیش کیا کہ اگر کوئی مخالف حضور کا جو کہ حضور کو سخت دشمن جانتا ہے اور … فحش بکتا ہے.اگر وہ مر جائے ، خدا کرے ضرور مر جاوے تو کیا اس کی نماز جنازہ جماعت کے دوست پڑھیں گے؟ اس پر سب نے بالاتفاق کہا کہ حضرت ہی کے خط سے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت پائی جاتی ہے لیکن کمترین کے خیال میں اجازت نہیں پائی جاتی ہے.پھر کمترین نے سوال کیا کہ حضرت رسول کریمؐ فداہ ابی و امی کافر کا جنازہ پڑھا کرتے تھے؟ جواب ملا کہ نہیں.اس پر کمترین نے عرض کی کہ جو مخالف ہماری جماعت کو کافر جانتے ہیں اور ہمارا مال اسباب لوٹ لینا باعث ثواب خیال کرتے ہیں چونکہ ہم کافر نہیں ہیں اس لئے بموجب حدیث رسول کریم ؐ کفر اُلٹ کر ان پر ہی پڑتا ہے او ر وہ خود کافر ہو جاتے ہیں.اگر وہ مر جاویں تو ہم ان کا جنازہ کیوں پڑھیں اس پر سب دوستوں نے یہ صلاح دی کہ اس کی نسبت حضور سے فوری عرض کر کے دریافت کیا جاوے.اس بارے میں حضور جو حکم صادر فرماویں تو اس کے مطابق عمل ہو گا.اس اختلاف کو مٹانے کے لئے حضور حکم صادر فرماویں.اس خادم کی بیوی اور بچوں اور … کا سلام قبول ہو.۲۳؍فروری ۱۹۰۴ء سیالکوٹ غلام… عاجز مولا بخش… ضلع سیالکوٹ

Page 312

حضرت اقدس علیہ السلام کا جواب جو شخص صریح گالیاں دینے والا کافر کہنے والا اور سخت مکذب ہے اس کا جنازہ تو کسی طرح درست نہیں.مگر جس شخص کا حال مشتبہ ہے گویا منافقوں کے رنگ میں ہے اس کے لئے کچھ ظاہراً حرج نہیں کیونکہ جنازہ صرف دعا ہے اور انقطاع بہرحال بہتر ہے.مرزا غلام احمد --------------------- استفسار بابت قصر نماز بحضور جناب مسیح موعود و مہدی معہود امام زمان سلمہُ اللہ الرحمن جناب عالی! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میں دارالامان سے روانہ ہو کر اپنے سسرال میں بمعہ عیال و اطفال چلا گیا تھا.وہاں میرا ارادہ آٹھ یوم قیام کرنے کا تھا.میں نے یہ مسئلہ سنا ہوا تھا کہ پندرہ یوم تک اگر قیام ہو تو نماز کو قصر کرنا چاہئے.جب میں نے اور میری بیوی نے وہاں جا کر قصر نماز کیا تو میری سالی نے جو کہ حضور کی خادمہ ہے، روکا.میں نے کہا کہ میں نے یہ مسئلہ حضرت صاحب کے کسی مخلص مولوی مرید سے سنا ہوا ہے.اس میری سالی نے حضرت حکیم الامت جناب مولانا حکیم نور الدین صاحب کی خدمت میں اس قصر نماز کی نسبت خط لکھا جہاں سے حضرت مولوی صاحب موصوف نے تحریر فرمایا کہ اگر چار یوم تک قیام کا ارادہ ہو تو ہی قصر پڑھنی چاہئے.تردّدکی حالت میں بیس یوم تک قصر کر لو.اب حضور عالی! مجھ کو بہت فکر پڑ گئی ہے.آٹھ یوم تک میں نے برابر قصر کیا ہے.اب میں اس قصور کا کیا علاج کروں.حضور اپنے دست مبارک سے تحریر فرماویں.اوّل.کیا میں نے قصر کرنے میں غلطی کی ہے؟ اگر غلطی کی ہے تو اس کا اب کیا علاج

Page 313

Page 314

Page 315

Page 316

Page 317

Page 318

Page 319

Page 320

Page 321

Page 322

Page 323

حضرت نواب سیّد مہدی حسن صاحب فتح نواز جنگ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 324

حضرت نواب سیّدمہدی حسن صاحبؓفتح نواز جنگ حضرت نواب صاحب نے انگریزی سوسائٹی میں آنکھ کھولی اور مغربی طرز تمد ن و معاشرت میں نشوونما پائی تھی اور نازونعم کے ماحول میں پل کر علمی شہرت حاصل کی تھی.فتح نواز جنگ حضرت سید مولوی مہدی حسن صاحب بیرسٹر ایٹ لاء سابق چیف جسٹس و ہوم سیکرٹری حیدر آباد دکن.آپ علیگڑھ کالج کے ٹرسٹی اور آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے نامور اور ممتاز ممبروں میں سے تھے.یہ وہ ادارہ تھا جس نے مسلمانان ہند کی علمی ترقی کے لئے ۱۸۸۶ء سے ۱۹۰۶ء تک سنہری خدمات انجام دیں.مولوی صاحب موصوف نے علوم عربیہ کو باقاعدہ تحصیل کیا اور نئی روشنی سے بھی پورا حصہ لیا.آپ کو حضرت اقدس امام ہمام کی خدمت میںحاضر ہونے کا شوق کیونکر پیدا ہوا؟ اس کا جواب خود نواب صاحب موصوف نے اثنائے گفتگو میں یہ دیا کہ پاوینیر میں بشپ لاہوری کے متعلق جب ایک چٹھی شائع ہوئی تو ان کو خیال پیدا ہوا کہ یہ کوئی معمولی انسان نہیں ہو سکتا جو اتنے بڑے آدمی کو ایک فوق العادت دعوت کرتا ہے جس کے متبعین میں اس درجہ اور طبقہ کے لوگ شامل ہیں.اس کے بعد ان کو سیرت مسیح موعود کے پڑھنے کا اتفاق ہوا جس نے ان کو اپنا گرویدہ ہی تو کر لیا اور ان کی روح نے اندر ہی اندر ایک جوش پیدا کیا کہ ایک بار ایسے انسان کو ضرور دیکھنا چاہیے.چنانچہ ۱۹۰۰ء میں حضرت سید مہدی حسن کانفرنس میں شرکت سے قبل قادیان دارالامان پہنچے اور ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۰ء کو امام عصر حاضر کی خدمت میں باریابی کا شرف نیاز حاصل کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی آمد پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا.’’ہر ایک قدم جو صدق اور تلاش حق کے لئے اٹھایا جاوے اس کے لئے بڑا ثواب اور اجر ملتا ہے مگر عالم ثواب مخفی عالم ہے جس کو دنیادار کی آنکھ دیکھ نہیں سکتی…… خدا کی راہ میں سختی کا برداشت کرنا، مصائب اور مشکلات کے جھیلنے کے ہمہ تن تیار ہو جانا ایمانی تحریک ہی سے ہوتا ہے.ایمان ایک قوت ہے جو سچی شجاعت اور ہمت انسان کو عطا کرتا ہے.اس کا نمونہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی زندگی میں نظر آتا ہے.‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۴۰۶) پھرحضورؑنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.’’…… بعض اوقات انسان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ کہیں جاتا ہے اور پھر جلد چلا آتا ہے مگر اس کے بعد اس کی روح میں دوسرے وقت اضطراب ہوتا ہے کہ کیوں چلا آیا.ہمارے دوست آتے ہیں اور اپنی بعض مجبوریوں

Page 325

کی وجہ سے جلد چلے جاتے ہیں لیکن پیچھے ان کو حسرت ہوتی ہے کہ کیوں جلد واپس آئے.‘‘ اس موقع پر انہوں نے عرض کیا کہ میرا بھی یقینا یہی حال ہو گا اگر میں نواب محسن الملک صاحب اور دوسرے دوستوں کو تار نہ دے چکا ہوتا تو میں اور ٹھہرتا.حضور نے آپ کی معذرت کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے فرمایا.’’بہرحال میں نہیں چاہتا کہ آپ تخلّف وعدہ کریں اور جب کہ ان کو اطلاع دے چکے ہیں تو ضرور جانا چاہیے‘‘ چونکہ کانفرنس میں شریک ہونا تھا اس لئے جلد تشریف لے گئے اور پھر دارالامان آنے کے واسطے تڑپتے رہے اور بارہا تلاش موقع میں رہے مگر افسوس کہ وہ یہ آرزو دل ہی میں لے گئے.آپ نے زیارت امام ہمام سے فیضیاب ہونے کے بعد لکھنؤ میں زور شور سے خدمت دین میں سرگرم ہو گئے.وفات سے قبل آپ کو ایک ایسا عظیم ملی کارنامہ انجام دینے کی توفیق ملی جو برصغیر کی تاریخ میں زریں حروف سے لکھا جائے گا اور وہ یہ کہ ۱۹۰۴ء میں جب ایجوکیشنل کانفرنس کے انعقاد کا اعلان ہوا تو لکھنؤ میں ایک خوفناک مخالف برپا ہو گیا.خدا کا فضل ہوا کہ دانش مندی ، دوراندیشی، استقلال اور ثابت قدمی نے غلط فہمیوں پر فتح پائی اور یہ اجلاس غیر معمولی طور پر کامیابی سے ہمکنار ہوا.مسلمان فرقوں کی مصالحت اور کانفرنس کی کامیابی کا سہرا جن بزرگوں کا مرہون منت تھا ان میں آپ بھی تھے.کانفرنس کے بعد جلد ہی آپ کو اپنے آسمانی آقا کا آخری بلاوا آ گیا جس پر لبیک کہتے ہوئے آپ ۱۳؍جنوری ۱۹۰۴ء کو انتقال فرما گئے.٭ فہرست مکتوبات بنام حضرت نواب سید مہدی حسن صاحب ؓ فتح نواز جنگ ٭ تلخیص از روزنامہ الفضل ۱۵؍فروری ۲۰۰۷ء صفحہ ۳،۴

Page 326

مکتوب نمبر۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ مکرمی اخویم سید مہدی حسن صاحب سلمہُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آں محب کے گیارہ روپے مرسلہ پہنچے میں نے اپنے لنگر خانہ کے لئے اس روپے کا آٹا لے کر اس طرح سے آپ کو اس کا ثواب پہنچایا کیونکہ جو ایک گروہ محتاجوں غریبوں حق کے طالبوں اور یتیموں اور بیوہ عورتوں کا اس لنگرخانہ سے تعلق رکھتا ہے اورر وٹی کے محتاج ہیں.ان کی خبرگیری مقدم ہے.یہ آپ کی صدق دلی اور محبت اور اخلاص اور خداترسی کا تقاضا ہے جو ایسے ثواب کے موقعوں پر آپ کو توجہ دلاتا ہے.ملاقات کے بعد جس فراست نے آپ کی نسبت رائے لگانے کا مجھے موقعہ دیا ہے.وہی فراست مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں آپ کو جہاں تک مجھ سے ہو سکتا ہے ان امور سے اطلاع دوں جن کے لئے میں مامور ہوں اور دنیا ان کو نہیں پہچانتی کیونکہ میں نے خداداد فراست سے سعادت کے نقوش آپ کے چہرہ پر مطالعہ کیے ہیں اور میرا خیال ہے کہ آپ دینی معارف اور باریک باتوں کو بہت جلد سمجھ سکتے ہیں اور پھر ان کی اشاعت کے لئے سعی اور کوشش کر سکتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں اپنے پاک دین کی اشاعت کے لئے ایک ارادہ فرمایا ہے جو نہایت عمیق حکمت پر مبنی ہے اور وہ یہ کہ دکھایا جائے کہ یہ دین ایسا پاک اور کامل دین ہے کہ نہ تو خدا کے حقوق بیان کرنے میں کوئی کوتاہی اور نقصان اس میں پایا جاتا ہے اور نہ بنی نوع کے حقوق قرار دینے میں کوئی کسر اس میں ثابت ہوتی ہے اور نہ اس دین کے منجانب اللہ ہونے میں کسی شبہ کی جگہ ہے خدا کے حقوق اگر پورے طور پر محفوظ

Page 327

کیے جائیں تو اس کا نتیجہ توحید اور اطاعت اور خدا کو سب پر مقدم کر لینا ہے اور بنی نوع کے حقوق کی اگر پورے طور پر رعایت کی جائے تو اس کا نتیجہ انصاف اور احسان اور رحم اور طبعی ہمدردی ہے جس میں کوئی بناوٹ نہ ہو.اب ہماری قوم کا یہ حال ہے کہ ان ہر دو قسم کے حقوق کو پامال کر رہے ہیں اور دین اسلام کو منجانب اللہ سمجھنا بھی محض عادت اور رسم کے طور پر ہے.امیروں اور دولتمندوں کو دنیا کے خرخشوں سے فرصت نہیں جب تک قبر میں داخل نہ ہو جائیں گویا ان کے نزدیک خدا کا نام لینا بھی خلاف تہذیب ہے اور جولوگ ادنیٰ درجہ کے ہیں ان کی ہمتیں نہایت پست ہیں اور دنیا اور دین دونوں کھو بیٹھے ہیں اور اکثر علما کی حالتیں بھی قابل شرم ہیں اور میں دن رات اس درد میں ہوں کہ کوئی مرد حقیقت کو سمجھے اور پھر دل و جان سے میرے ساتھ ہو اور چونکہ میں نے آپ کو دیکھا اور مجھے آپ کی صورت دیکھ کر آپ پر نیک ظن پیدا ہوا اس لئے یہ میری خواہش ہے کہ جس طرح ہو سکے آپ اپنی زندگی کے دنوں میں سے کم سے کم دو ماہ تک میرے پاس رہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ اس روشنی کو اپنے جو ہر قابل کی قوت سے بہت جلد دیکھ لیں گے اور پھر جوانمردی کے ساتھ اس آسمانی فلسفہ کو دنیا میں پھیلائیں گے.بہت باتیں ہیں جو تحریر میں نہیں آسکتیں.میں انصار کا محتاج ہوں اور ہر ایک وقت میری روح میں سے مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ کی آواز نکل رہی ہے.کیا تعجب کہ خدا آپ کو میرے انصار میں سے بنا دے.میری روح آپ کی نسبت انکار نہیں کرتی.مقدمہ کے بگڑنے کی اطلاع ہوئی.دعا بھی ایک ایسی چیز ہے کہ قدیم سے لوگ اس میں مختلف رائیں رکھتے رہے ہیں.بعض قطعاً دعا کی تاثیرات سے منکر ہیں اور بعض ایسا سمجھتے ہیں کہ مقبولان الٰہی کی علامت یہ ہے کہ جو دعا ان کے منہ سے نکلی وہ فی الفور منظور ہو جائے مگر یہ دونوں گروہ غلطی پر ہیں.اصل بات یہ ہے کہ دعا میں بڑی بڑی تاثیریں ہیں لیکن اس وقت کہ دعا کنندہ کو وقت ملے اور کامل درد پیدا ہو اور عقد ہمت میسر آجائے اور یہ موقع ہر ایک وقت عطا نہیں ہوتا.٭ والسلام ٭ الحکم نمبر۳۶ جلد۵ مورخہ ۳۰؍ستمبر۱۹۰۱ء صفحہ ۴

Page 328

مکتوب نمبر۲ محبیّ مکرمی اخویم سید صاحب سلمہُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا میرے امر میں جس قدر آںمحب کو تردّد اور کشاکش درپیش ہے وہ بھی نیک فطرت اور سعادت منشی کی علامت ہے کیونکہ مومن جوانمرد کو قبل اس کے جو کسی امر میں کوئی فیصلہ کرلے اپنے ہی مختلف خیالات سے ایک لڑائی کرنی پڑتی ہے.مگر چونکہ اس کا سب کام نیک نیتی سے ہوتا ہے اس لئے اس لڑائی میں خدا تعالیٰ خود اس کو مدد دیتا ہے تب وہ خدا تعالیٰ سے قوت پا کر اور ایک آسمانی روشنی حاصل کر کے ایک صحیح صحیح فیصلہ کر لیتا ہے لیکن یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے انسان جس طرح رحم مادر میں تاریکی میں پر ورش پاتا رہتا ہے اور جب تک اس کی پوری بناوٹ رحم میں نہ ہو جائے تب تک اس تاریکی سے نہیں نکلتا.یہی سنت اللہ روحانی پرورش میں بھی ہے.انسان روحانی طور پر خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے قدیم قانون کے موافق کچھ کچھ بنتا جاتا ہے مگر تاریکی بھی ساتھ ساتھ ہوتی ہے اور کبھی کبھی وہ بے چین کر دیتی ہے اور ایک حرکت پیدا ہوتی ہے جس طرح رحم میں چار مہینے کے بعد بچہ میں حرکت پیدا ہوتی ہے.آخر اپنی خلقت کو پورا کر کے ان تین ظلماتی حجابوں میں سے باہر نکل آتا ہے.ظلمات کے دن بھی ضروری ہیں جب تک کہ بناوٹ پوری ہو جاوے اور یہ امر یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اس عاجز کا یہ دعویٰ اور یہ کاروبار اس غرض سے نہیں ہے کہ مجھے ایک بت کی طرح پوجا جائے یا میری ذاتی اغراض کے لئے کوئی مجمع اور کوئی گروہ میرا تابع ہو جائے بلکہ آسمانوںکے ذوالجبروت خدا نے محض اپنے جلال اور توحید ظاہر کرنے کے لئے اور لوگوں کی اعتقادی اور عملی حالتوں کو درست کرنے کے لئے یہ سلسلہ قائم کیا ہے.ہاں قدرتی طور پر مجھ کو اس کام کے لئے واسطہ بنایا گیا ہے تاجہاں تک میرے قویٰ سے ہو سکتا ہے میں اس خدمت کو بجالائوں.مجھے اس کام میں کسی فتح یا شکست سے کام نہیں ہے.میں ایک بندہ عبودیت شعار ہوں.مجھے یہ جوش بخشا گیا

Page 329

ہے کہ میں خدا کی توحید اور جلال ظاہر کرنے کے لئے کوشش کروں.اگر تمام دنیا میرے مخالف ہو جائے تو میں اس سے اپنی ہمت اور استقلال کو سست نہیں کروں گا اور اگر تمام دنیا میرے ساتھ ہو جائے تو میں اس پر بھروسا نہیں کروں گا.بیشک میں اس کام کے لئے انصار کا محتاج ہوں مگر کوئی میری طرف آنہیں سکتا جب تک میرا خدا اس کو اس طرف روانہ نہ کرے.تفتیش اور تحقیق کرنا عقلمندوں کا حق ہے اور ایسا ہی ان کو کرنا چاہیے.کاش اس نیک سیرت اور پاک ارادہ کے سب لوگ ہو جائیں.آمین.اور مجھے اس نیک ظن کی کشش سے جو آپ کی نسبت پیدا ہو گیا ہے.باربار یہ خیال دل میں آتا ہے کہ آپ اگر ایک مختصر بلکہ نہایت مختصر حصہ اپنی زندگی اور اپنے اوقات کا مثلاً دو مہینے تک میری صحبت میں آکر خرچ کریں.امید ہے کہ وہ اس ضروری سفر طے کرنے کے لئے آپ کی مستعد طبیعت کو ایک پرُزور انجن کا کام دے گا بیشک آپ ایک عجیب خاصیت اپنے اندر رکھتے ہیں کہ باوجود صدہا طور کی دنیوی روکوں کے پھر بھی آپ کی روح زور کر کے روحانیت کی تلاش میں لگ جاتی ہے.خدا تعالیٰ آپ کو اس ارادہ میں کامیاب کرے.آمین.اگر آپ اس جگہ تشریف لاویں تو دعا کے لئے بھی خوب موقع ہو گا.ہر ایک چیز کے لئے ایک قانون ہے ایسا ہی دعا کے لئے بھی.٭ والسلام ٭ الحکم نمبر۳۶ جلد۵ مورخہ ۳۰؍ستمبر۱۹۰۱ء صفحہ ۴،۵

Page 330

مکتوب نمبر۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزی اخویم نواب صاحب سلّمہ ربُّہٗ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اخویم مولوی عبدالکریم صاحب نے آپ کا خط مجھے سنایا باعث مسرت اور خوشی ہوا ابتدا سے میری فراست یہ کہتی ہے کہ آپ میں ایک خاص سعادت اور رشد کا ایسا مادہ ہے کہ وہ باوجود کشاکش دنیوی مشاغل کے پھر ہماریطرف کھینچتا رہتا ہے.میری دعا ہے کہ خداوند قدیر اس مبارک مادہ کو بہت نشوونما بخشے اور آپ کی عمر اور آسائش میں بہت سی برکت دیکر آپ کے ہاتھ سے بڑے بڑے روحانی کام کراوے.مجھے ایسے مردان میدان کی بہت ضرورت ہے جو ایسے پرُآشوب زمانہ میں طریق مستقیم پردین کی نصرت کریں اور وہ جلال جو اسلام مدت سے کھو بیٹھا ہے اس کے بازآمد کے لئے اپنی تمام کوشش اور تمام اخلاص سے زور لگا ویں.یہ مختصر زندگی بہرحال ختم ہو جاوے گی وہ لوگ بھی نہ رہیں گی جو اسلام کے اعلیٰ مقاصد صرف اسی قدر سمجھتے ہیں جو یہ قوم جو مسلمان کہلاتی ہیں.اہل یورپ کے دوش بدوش ہو جائیں اور ان کے اقبال اور صفات اور چال چلن سے پورا حصہ لے لیں.اور نہ وہ لوگ رہیں گے جو اسلامی روحانیت کے قائم کرنے کے لئے دن رات خداوند جلیل کے سامنے روتے ہیں مگر میں جانتا ہوں کہ موخرالذکر لوگ بہت مبارک ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر پہلے سے اسلام میں ایسی ہی ذریت ہوتی کہ وہ یورپ سے مشابہت پیدا کرنے کے عاشق ہوتے تو کبھی سے اسلام کا خاتمہ ہو

Page 331

جاتا.ہم اس بات سے نہیں روکتے کہ حد اعتدال تک دنیا کی لیاقتیں حاصل کی جائیں مگر ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا نہ کرے کہ مسلمانوںپر وہ دن آوے کہ ان کے مردوں اور عورتوں کی ایسی زندگی ہو جیسا کہ عام اہل یورپ مثلاً خاص لندن اور پیرس میں نمونہ پایا جاتا ہے چونکہ زمانہ اپنی تاریکی کی انتہا تک پہنچ گیا ہے اس لئے اکثر لوگوں کی آنکھوں سے اسلامی خوبیاں مخفی ہو گئی ہیں.وہ چاہتے ہیں کہ یورپ کے قدم بقدم چلے یہاںتک کہ حکم قرآنی:   ۱؎ کو بھی الوداع کہہ کر اپنی پاکدامن عورتوں کو یورپ کی ان عورتوں کی طرح بناویں جن کو نیم بازاری کہہ سکتے ہیں.آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے خدا جلد نصیب کرے.٭ والسلام خاکسار میرزا غلام احمد ۱؎ النُّور : ۳۱ ٭ الحکم نمبر۳۹ جلد۶ مورخہ ۳۱؍اکتوبر۱۹۰۲ء صفحہ۱۵

Page 332

Page 333

حضرت سیدمہدی حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (تمام مکتوبات رجسٹر روایات صحابہ (غیرمطبوعہ) نمبر ۱۱ صفحہ ۱۸۷ تا ۲۹۹ سے لئے گئے ہیں.ناشر)

Page 334

حضرت سید مہدی حسین صاحبؓ حضرت سید مہدی حسین رضی اللہ عنہ پٹیالہ کے گائوں سید خیری میں ایک شیعہ خاندان میں ۷؍محرم ۱۲۸۵ھ کو پیدا ہوئے.لدھیانہ میں علم خطاطی سے شناسائی حاصل کی.’’سرمہ چشم آریہ‘‘ ’’سبز اشتہار‘‘ تصانیف حضرت اقدس مسیح موعود ؑ پڑھنے کے بعد ایک خواب میں یہ تحریر پڑھی ’’جے حضرت مرزا صاحب‘‘ اس سے حضرت اقدس ؑ کی صداقت کے قائل ہو گئے اور ۱۸۹۳ء میں بیعت کر لی.آپ کا بیان ہے کہ ’’میں جب قادیان پہنچا تو سیدھا مسجد اقصیٰ میں گیا.ڈاکٹر فیض علی صاحب نے مجھے کہا کہ چلئے حضرت صاحب سے ملئے.میں آپ کو لے چلتا ہوں.میں نے کہا.میں دن کے وقت ملوں گا.اس وقت نہیں.انہوں نے کہا کہ ملنے کا یہ وقت ہے.دن کو حضرت صاحب کسی سے نہیں ملتے.پھر کل اسی وقت ملاقات ہو سکے گی.اس پر میں کچھ دھیما ہو گیا.اور وہ میری گٹھری اٹھا کر مسجد مبارک کو چلے اور مجھے کہا کہ میرے پیچھے چلو….مجھے کہا کہ یہ حضرت صاحب تشریف رکھتے ہیں.میں نے غلطی سے مولوی عبد الکریم صاحب کی طرف رخ کیا.جو محراب میں بیٹھے تھے اور مولوی صاحب نے مجھے حضرت صاحب کی طرف بھیج دیا.میں نے السلام علیکم کہہ کر حضور سے مصافحہ کیا.اس وقت مجھے اس قدر سرور حاصل ہوا کہ سب کلفت راہ کی بھول گئی اور میں اپنے کو جنت میں پاتا تھا.یہ دسمبر ۱۹۰۰ء تھااور ۱۰ اور ۱۵؍ دسمبر کے درمیان کا کوئی وقت تھا.حضرت اقدس نے تھوڑی دیر کے بعد مجھ سے دریافت فرمایا.آپ کہاں سے آئے ہیں.میں نے جگہ کا نام بتلایا.تو مولوی عبد الکریم صاحب نے فرمایا کہ ہاں ان کے خطوط آتے ہیں.پھر تھوڑی دیر بعد حضور نے دریافت فرمایا.آپ نے کھانا کھایا ہے؟ میں نے عرض کی کہ حضور اس وقت تو میرا کھانا یہ چہرہ مبارک ہے جس کے لئے میں سات سال ترس رہا تھا.مجھے اس سے بڑھ کر اور کوئی غذا نہیں چاہییٔ.جو مجھے اس وقت حاصل ہو رہی ہے.‘‘ (رجسٹر روایات صحابہ (غیرمطبوعہ)جلد۱۱ روایات سید مہدی حسین صفحہ ۲۶۶) ’’جب ۱۹۰۱ء میں میں ہجرت کر کے آیا تو خدا تعالیٰ کی توفیق سے میں نے ایک نظم اپنی

Page 335

آمدہ متعلق الحکم میں شائع کی جس کا پہلا مصرعہ یہ ہے.’’خدایا شکر ہے تیرا کہ مجھ کو قادیان لایا‘‘ (رجسٹر روایات صحابہ (غیرمطبوعہ)جلد۱۱ روایات سید مہدی حسین ) ۱۹۰۱ء میں ہجرت کر کے قادیان آ گئے.حضرت سید مہدی حسین صاحب حضرت اقدس ؑ کے کتب خانہ کے مہتمم تھے اور حضرت صاحب کے دیکھنے کے بعد کبھی کبھی اپنے شوق سے کاپی اور پروف وغیرہ دیکھ لیا کرتے تھے.اس طرح آپ کے سپردلنگرخانہ کا انتظام بھی تھا.اکتوبر ۱۹۳۴ء میں بغرض تبلیغ ایران تشریف لے گئے اور چھ ماہ تک اعلائے کلمۃ اللہ میں مصروف رہنے کے بعد ۱۲؍مئی ۱۹۳۵ء کو واپس آئے.۳۱؍اگست ۱۹۴۱ء کو وفات پائی.آپ بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں.٭ فہرست مکتوبات بنام حضرت سید مہدی حسین صاحبؓ ٭ تین سوتیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۲۱۶، ۲۱۷

Page 336

بحضور امام الزمان السلام علیک والصلوٰۃ علیک یانبی اللہ یا شفیع اللہ میرے گھر میںدو تین روز سے وجع مفاصل اور اعضاء شکنی ہو رہی ہے خواباتمتوحش دیکھتی ہیں اور گھر جانے کا بہت خیال رکھتی ہیں.حضور والا دعا سے مدد فرماویں.اگر حکم ہو تو ایک روز کے لئے جا کر ان کو وہاں چھوڑ آئوں.والسلام فدوی مہدی حسین خادم المسیح مکتوب نمبر۱ السلام علیکم ابھی سردی نہایت پڑتیہے.لوگوں کو ذات الریہ کی بیماری ہوتی ہے.آپ دس دن تک ٹھہر جائیں.اور میں انشاء اللہ دعا کروں گا.والسلام مرزا غلام احمد

Page 337

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس و اطہر السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کے بعد التماس ہے کہ کمترین کے لئے کچھ سلسلہ مصائب ترقی کر رہا ہے.بہت ہی کمزوریوں نے آ دبایا ہے.ان سے بچنے کے لئے حضور میں دعا کے واسطے عرض کر کے حفظِ الٰہی میں آنا چاہتا ہوں.حضور کے اوقات میں دخل دینا موجب گناہ سمجھتا ہوں.مگر جب بہت لاچارہوتا ہوں تو مجبوراً سمع خراشی کی نوبت آتی ہے.باہر بھی اسی طرح میرا وطیرہ رہا ہے.اب یہاں تو حضور کے قدموں میں رہتا ہوں.ہر قسم کی بلیات سے پناہ کے لئے حضور کی دعا ہی سپر ہو سکتی ہے.پس اس سے فیضیاب فرمایا جاوے.فدوی مہدی حسین خادم المسیح مکتوب نمبر۲ السلام علیکم اس مصیبت کی کچھ تشریح کرنی چاہیے جس کے لئے دعا کی جائے اور خرچ بھیج دیتا ہوں.مرزا غلام احمد

Page 338

مکتوب نمبر۳ السلام علیکم تنخواہ مبلغ چار روپیہ ارسال ہیں.کہ سفر میں ضرورت ہوتی ہے اور انشاء اللہ القدیر آدمی کا کوئی بندو بست کر دیا جائے گا.مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۴ السلام علیکم یہ الہام تو بہت عمدہ ہوا ہے.اس کے یہ معنے ہیں کہ اگر خدا کی تسبیح و تمجید کریں تو خدا ہلاکت سے بچا لے گا.تو یہ وقت دعا اور تسبیح کا ہے.میرے نزدیک اس وقت سفر خطرناک ہے.دعا کرنا چاہییٔ.دعا میں بہت تاثیر ہے.میں بھی دعا کرتا رہوں گا.اللہ تعالیٰ شفا بخشے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ بحضور عالی.الصلوٰۃ والسلام علیکم یا احمد رسول اللہ کمترین کے گھر سے میری ہمشیرہ کی جانب سے عرصہ دوماہ سے خطوط آ رہے ہیں.کہ وہ سخت بیمار ہے.فدوی نے پرواہ نہیں کی کہ خدمت میں حرج ہو گا.مگر اب ایک خط آیا ہے.اس میں لکھا ہے کہ چار یوم سے کھانا بھی بند ہے.……… اگر حضور والا مناسب تصور فرماویں.تو چار پانچ یوم کے لئے کمترین وہاں ہو آوے.فقط

Page 339

مکتوب نمبر۵ السلام علیکم اختیار ہے کہ وہاں ہو آویں.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۶ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ابھی تک مجھے معلوم نہیں.کونسی فرصت ہو گی.اتوار کے بعد رات کو ہی پھر سفر کرنا ہے اور پیر کے دن حاضر ہونا لیکن اگر مولوی محمد علی صاحب رات کو آ گئے.اور کچھ تاریخ بڑھ گئی تو پھر فرصت ہو جائے گی.اس صورت میں آپ جا سکتے ہیں.لیکن کل آپ کو لاہور بھیجنے کے لئے ایک بہت ضروری کام ہے.علی الصبح جانا ہو گا اور جلد واپس آنا.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۷ السلام علیکم ضرور ابھی سے اشتہار دونوں اخباروں میں شائع کرنا چاہیے.قیمت کتاب بلا جلد  دور پیہ آٹھ آنہ اور قیمت مجلد (تین روپے)ہے.مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 340

مکتوب نمبر۸ السلام علیکم ورحمۃ اللہ بیشک آپ کو اختیار ہے کہ جا کر ان کی خبر لو.لیکن اگر اس گائوں میں یا کسی حصہ گائوں میں طاعون باقی ہو اور آپ کو جا کر معلوم ہو جائے کہ خط لکھنے کے وقت یہ ساری حقیقت ظاہر نہیں کی گئی تو ایسی حالت میں ایسی سرزمین سے اپنے گھر کے لوگوں کو ہرگز نہ لاویں کیونکہ اندیشہ فتنہ ہے اور اگر خود آویں تو چند روز بٹالہ یا امرتسر میں بطور قرنطین ٹھہر کر پھر آویں کیونکہ اس کارڈ میں اگرچہ امن لکھا ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ طاعون کے بارے میں بہت سے لوگ غلطی سے یا کسی اور مصلحت سے لکھ دیتے ہیں کہ امن ہے اور اصل میں امن نہیں ہوتا.یا بے خبری سے لکھ دیتے ہیں.ان شرائط کے ساتھ آپ کو واپس آنا ہو گا اور ہماری طرف سے صاف اجازت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَحْمَدُاللّٰہَ وَاُصَلِّیْ بحضور افضل الناس امام الزمان سید و مولیٰ دام برکاتہم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضور کو معلوم ہے کہ عرصہ ایک ماہ کا ہوا.فدوی کے گھر میں خدا تعالیٰ نے ایک دختر عطا فرمائی ہے.بخوف علالت طبع نام وغیرہ کے لئے عرض کرنے سے قاصر رہا ہوں.اب چونکہ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے اور نام کی ضرورت پیش آتی ہے.لہٰذا بادب التماس ہے کہ

Page 341

دعائے خیروعافیت و صلاح و تقویٰ و خادم ملّت ہونے کے ساتھ اس کا کوئی نام تجویز فرماویں کہ اللہ تعالیٰ اس کوحضرت ختم المرسلین و شفیع المذنبین کی امت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زیر ہدایت و متابعت عمر وعافیت و خیروبرکت عطا فرماوے جو میرے لئے موجب ازدیاد صلاحیت ہو.والسلام ۲۸ ذوالحجہ ۱۳۲۴ھ فدوی مہدی حسین خادم المسیح مکتوب نمبر۹ السلام علیکم و رحمۃ اللہ نام اس دختر کا صالحہ رکھ دیں.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 342

Page 343

حضرت چوہدری مہر نبی بخش صاحب المعروف حضرت چوہدری عبد العزیز صاحب نمبردار بٹالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 344

حضرت چوہدری عبد العزیز صاحب ؓ المعروف حضرت چوہدری مہر نبی بخش صاحب حضرت منشی چوہدری نبی بخش رضی اللہ عنہ بٹالہ میں ذیلدار تھے.آپ کا اصل نام عبدالعزیز تھا.آپ کے والد صاحب کا نام محمد بخش صاحب تھا.آپ کی ولادت سال ۱۸۲۷ء میں ہوئی.آئینہ کمالات اسلام میں آپ کا نام ۱۶۸نمبر پر مہر نبی بخش صاحب نمبردار و میونسپل کمشنر بٹالہ لکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک مکتوب مورخہ ۱۱؍مئی ۱۸۸۸ء بنام چوہدری رستم علی صاحب جالندھر تحریر فرمایا.’’بشیر احمد سخت بیمار ہو گیا تھا.اس لئے یہ عاجز ڈاکٹر کے علاج کے لئے بٹالہ میں آگیا ہے.شاید ماہ رمضان بٹالہ میں بسر ہو.… نبی بخش ذیلدار کے مکان پر جو شہر کے دروازہ پر ہے فروکش ہوں‘‘ ۲۸؍مئی ۱۸۸۸ء کے مکتوب بنام حکیم مولوی نور الدین صاحب (خلیفۃ المسیح الاولؓ) کو جموںلکھا.’’یہ عاجز بمقام بٹالہ نبی بخش ذیلدار کے مکان پر اترا ہوا ہے‘‘ اسی طرح ۳؍جون اور ۴؍جون ۱۸۸۸ء کے مکتوبات میں تحریر فرمایا ہے.’’یہ عاجز اب تک بٹالہ میں ہے.‘‘ پھر ۵؍جون ۱۸۸۸ء کے مکتوب میں تحریر فرمایا.’’یہ عاجز اخیر رمضان تک اس جگہ بٹالہ میں ہے غالباً عید پڑھنے کے بعد قادیان جائوں گا.‘‘ گویا حضرت اقدس ؑ چوہدری نبی بخش ؓ بٹالہ کے پاس اوائل مئی سے اواخر جون ۱۸۸۸ء

Page 345

تک بسلسلہ علاج بشیر اوّل قیام فرما رہے.آپ کی بیعت ۲۸؍جون ۱۸۸۹ء کی ہے.رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کا نام یوں درج ہے.نمبر۱۰۲ منشی عبد العزیز معروف نبی بخش ولد میاں محمد بخش ساکن بٹالہ ہاتھی دروازہ پیشہ زمینداری.حضور نے آپ کا نام آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء اور چندہ دہندگان سراج منیر، چندہ مہمان خانہ، تحفہ قیصریہ، جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور کتاب البریہ اور آریہ دھرم میں پرُامن جماعت کے ضمن میں ذکر ہے.نیز انجام آتھم میں حضرت اقدس ؑ نے آپ کا نام درج فرمایا ہے.آپ نے ایک سو گیارہ سال کی عمر میں ۲؍جولائی ۱۹۳۸ء میں وفات پائی.٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۱۳۰

Page 346

ذیل میں ہم اپنے پرانے بھائی چوہدری عبدالعزیز صاحب نمبرداربٹالہ کاتوبہ نامہ شائع کرتے ہیں جو انہوں نے حضرت اقدس کے حضور ارسال کیا ہے.بیشک چوہدری صاحب نے بڑی اخلاقی جرأت سے کام لیا ہے.آجکل اپنی بات کا نبھانا اورضد کرنا ایک معمولی سی بات ہو گئی ہے.مگر یہ خدا کا فضل ہے کہ چوہدری صاحب نے اپنی غلطی کا اقرار کیا اور آپ کو خدا تعالیٰ کے صادق مسیح موعود کے خدام میں داخل ہونے کے سوا نجات کی کوئی راہ نظر نہ آئی اور حقیقت میں آج نجات کے لئے خدا تعالیٰ نے یہی راہ پسند کی ہے.بحضور عالی جناب حضرت اقدس ؑ مسیح موعوددام برکاتہ جناب عالی فدوی شیطان کے دھوکہ میں آکر آپ سے مرتد ہوا اور دلی بصیرت کو کھو کر ضلالت کے گڑھے میں گرا اور سال سے زیادہ عرصہ تک اسی میں رہا.اب خداوند تعالیٰ نے آپ ہی مہربانی فرماکر حق بینی کی آنکھیں عطافرمائیں جن سے معلوم ہوا کہ صرف حضور کے ہی سلسلہ میں نجات ہے اور باقی سب جگہ ہلاکت.پس آپ بھی رحمۃ للعالمین ہیں.اس عاصی کی دستگیری کریںاورپچھلی خطا معاف فرماکرپھر سلسلہ احمدیہ میں داخل فرمائیں تاکہ نجات ہو.٭ مورخہ ۹؍اکتوبر ۱۹۰۲ء فدوی عبدالعزیز نمبرداربٹالہ ٭ الحکم نمبر۳۷ جلد ۶ مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۶

Page 347

مکتوب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبی اخویم مہرنبی بخش صاحب سلمہُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط پہنچا.اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ.اس لئے ہم آپ کی لغزش آپ کو معاف کرتے ہیں اور آپ کی تحریر کے موافق پھر آپ کو داخل بیعت کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو استقلال اورثابت قدمی بخشے اور اب خاتمہ اسی توبہ پر کرے کہ وہ غفور ورحیم ہے.آمین.بیشک اجازت ہے.جب چاہیں آویں اوربہتر ہے کہ جلسہ دسمبر میں آویں اورانشاء اللہ تعالیٰ جیسا مناسب ہوگا آپ کاخط یا کوئی حصہ اُس کا الحکم میں چھپوایا جائے گا اور آپ کے پاس ایک نسخہ’’ کشتی نوح‘‘ اور ایک نسخہ’’ تحفۃ الندوہ‘‘ ارسال ہے کہ شائد ابھی تک نہیں پہنچا ہوگا.اوراگر پہنچ گیا ہے تو کسی اور کو جہاں چاہیں دے دیں.رسالہ ابھی نہیں دیکھا.فرصت کے وقت انشاء اللہ تعالیٰ دیکھوں گا.شائد تین ماہ کا عرصہ ہوگیا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ قادیان کی اُس گلی میں جس میں ہم اکثر سیر کو جاتے ہیں آپ مصافحہ کے لئے میری طرف آرہے ہیں سو وہ بات پوری ہوگئی.٭ خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ٭ الحکم نمبر۳۷ جلد۶ مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۶

Page 348

Page 349

حضرت مولانا حکیم مولوی نور الدین صاحب بھیروی خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 350

حضرت مولانا حکیم مولوی نور الدین صاحب بھیروی خلیفۃ المسیح الاوّلؓ حضرت مولوی حاجی حافظ حکیم نور الدین صاحب (خلیفۃ المسیح الاوّل) رضی اللہ عنہ کے والد ماجد کا نام حافظ غلام رسول صاحب تھا.آپ کا نسب نامہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے.اس طرح آپ کی قریشی فاروقی نسبت ہے.آپ کی والدہ صاحبہ کا نام نور بخت تھا.آپ کی ولادت ۱۸۴۱ء کی ہے.آپ نے اپنی والدہ ماجدہ کی گود میں قرآن کریم پڑھا اور انہی سے پنجابی زبان میں فقہ کی کتابیں پڑھیں.کچھ حصہ قرآن شریف کا والد صاحب سے بھی پڑھا.حکمت اور دیگر علوم بھیرہ، لاہور، رام پور، لکھنؤ ، بھوپال اور مکہ معظمہ کے علماء سے حاصل کیے.آپ کے استادوں میں مولوی رحمت اللہ کیرانوی اور شاہ عبد الغنی مجددی شامل تھے.حضرت اقدس ؑ سے تعلق و تعارف آپ کو سب سے پہلے ضلع گورداسپور کے ایک شخص شیخ رکن الدین صاحب کے ذریعہ ہوا جو اُن دنوں جموں میں ملازم تھے.شیخ صاحب نے بتایا کہ ضلع گورداسپور کے ایک گائوں قادیان میں ایک شخص مرزا غلام احمد صاحب ؑ نے اسلام کی حمایت میں رسالے لکھے ہیں.غالباً ان دنوں براہین احمدیہ شائع ہو رہی تھی.آپ بھی مہاراجہ جموں کے ہاں ان دنوں ملازم تھے.حضرت مولوی صاحب نے یہ سن کر حضرت کی خدمت میں خط لکھ کر کتابیں منگوائیں اور ان کے آنے پر جموں میں حضرت اقدس ؑ کا چرچا ہو گیا.حضرت مولوی صاحب ؓمزید فرماتے ہیں.’’آپ کا ایک مباحثہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت پر ایک بڑے انگریزی تعلیم یافتہ اور مسلمان عہدیدار سے ہوا تھا اور اس کے خیالات اس قسم کے تھے کہ آنحضرت ؐ نے کمال دانائی اور عاقبت اندیشی سے ختم نبوت کا دعویٰ کیا کیونکہ آپ کو زمانہ کی حالت سے یہ یقین تھا کہ لوگوں کی عقلیں اب بہت بڑھ گئی ہیں اور آئندہ زمانہ اب نہیںآئے گا کہ لوگ کسی کو مرسل یا مہبط وحی مان سکیں.ایک طرف آپ کو ان خیالات سے صدمہ ہوا دوسری طرف وزیراعظم جموں نے حضرت اقدس ؑ کا پہلا اشتہار دیا.اس میں اس ’’سوفسطائی‘‘ کا ظاہر اور بیّن جواب تھا.آپ یہ اشتہار لے کر اس عہدیدار کے پاس گئے اور اس سے

Page 351

کہا کہ دیکھو کہ تمہاری وہ دلیل غلط اور ظنی ہے اس وقت بھی ایک شخص نبوت کا مدعی موجود ہے اور وہ کہتا ہے کہ خدا مجھ سے کلام کرتا ہے.وہ سخت گھبرایا اور حیرت زدہ ہو کر بولا اچھا دیکھا جاوے گا.‘‘ حضرت مولوی صاحب اس اشتہار کے مطابق اس امر کی تحقیق کے واسطے قادیان کی طرف چل پڑے.مارچ ۱۸۸۵ء میں قادیان پہنچے.اس وقت حضور نے نہ بیعت کا سلسلہ شروع کیا اور نہ مسیحیت کے مدعی تھے مگر مولوی صاحب نے حضور ؑ کا نورانی مکھڑا دیکھتے ہی انوار مسیحیت کو بھانپ لیا اور آپ کی محبت اور عقیدت میں ایسے کھوئے گئے کہ سچ مچ اپنے آپ کو حضور کے قدموں پر قربان اور فدا کر دیا.آپ نے دیکھتے ہی دل میں کہا ’’یہی مرزا ہے اس پر میں سارا قربان ہو جائوں‘‘ یہ تعلق محبت بڑھتا گیا یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت مولوی صاحب جموں میں بیمار ہوئے تو حضرت اقدس ؑ مولوی صاحب کی تیمارداری کے لئے جموں بھی تشریف لے گئے.حضرت مولوی صاحب نے ایک عرصہ سے حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں عرض کر رکھا تھا کہ جب حضور کو بیعت کا اذن ہو تو سب سے پہلی بیعت آپ کی لی جائے.چنانچہ حضور ؑ نے یہ درخواست منظور فرمائی.جب حضور کو بیعت کا اذن ہو اتو حضور نے آپ کو بیعت سے پہلے استخارہ کا ارشاد فرمایا.چنانچہ مولوی صاحب استخارہ کر کے لدھیانہ پہنچے.۲۳؍ مارچ ۱۸۸۹ء کو بیعت کا دن مقرر تھا اور آپ نے سب سے پہلے بیعت کی سعادت حاصل کی.آپ کی زوجہ حضرت صغریٰ بیگم جو حضرت صوفی احمد جان ؓ لدھیانہ کی بیٹی تھیں، نے خواتین میں سے سب سے پہلے بیعت کی.تاریخ بیعت ۲۵؍مارچ ۱۸۸۹ء ہے اور بیعت نمبر۶۹ ہے.(رجسٹر بیعتِ اولیٰ) حضرت حکیم حافظ مولانا نورالدین صاحب (خلیفۃ المسیح الاولؓ ) اپنے ایک خط میں اپنی فدائیت اور اخلاص کا یوں ذکر فرماتے ہیں.’’مولانا.مرشدنا.امامنا! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ.عالیجناب میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں اور امام زمان سے جس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیا وہ مطالب حاصل کروں.اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفاء دے دوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑا رہوں.یا اگر حکم ہو تو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلائوں اور اسی راہ میں جان دوں.میں آپ کی راہ میں قربان ہوں.میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے.حضرت پیرومرشد! میں کمال راستی سے یہ عرض کرتا

Page 352

ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا.اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمایئے کہ یہ ادنیٰ خدمت بجالائوں کہ اس کی تمام قیمت اپنے پاس سے واپس کر دوں.حضرت پیرومرشد نابکار شرمسار عرض کرتا ہے اگر منظور ہو تو میری سعادت ہے.میرا منشاء ہے کہ براہین کے طبع کا تمام خرچ میرے پر ڈال دیا جائے.پھر جو کچھ قیمت میں وصول ہو وہ روپیہ آپ کی ضروریات میں خرچ ہو.مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے طیار ہوں.دعا فرماویں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو.‘‘ حضرت اقدس ؑ اپنی کتاب فتح اسلام میں فرماتے ہیں.’’ سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کرنے کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام ان کے نور اخلاص کی طرح نور دین ہے.میں ان کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلائِ کلمہ اسلام کے لئے وہ کر رہے ہیں ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہو سکتیں.ان کے دل میں جو تائید دین کے لئے جوش بھرا ہے اس کے تصور سے قدرتِ الٰہی کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.وہ اپنے تمام مال اور تمام زور اور تمام اسباب مقدرت کے ساتھ جو ان کو میسر ہیںہر وقت اللہ، رسول کی اطاعت کے لئے مستعد کھڑے ہیں.اور میں تجربہ سے نہ صرف حسن ظن سے یہ علم صحیح واقعی رکھتا ہوں کہ انہیں میری راہ میں مال کیا بلکہ جان اور عزت تک سے دریغ نہیں اور اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہردم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے.‘‘ پھر حضرت اقدس ؑ نے اس وجود صدق و وفا کے بارہ میں فرمایا.؎ چہ خوش بودے اگر ہر یک زِ اُمت نورِ دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پرُ از نورِ یقیں بودے ’’وہ تمام دنیا کو پامال کر کے میرے پاس فقراء کے رنگ میں آ بیٹھے ہیں جیسا کہ اخص صحابہ نے طریق اختیار کر لیا تھا.‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۳۱) حضرت اقدس ؑ فرماتے ہیں.’’ حضرت مولوی صاحب علوم فقہ اور حدیث اور تفسیر میں اعلیٰ درجہ کی معلومات رکھتے ہیں.فلسفہ اور طبعی قدیم اور جدید پر نہایت عمدہ نظر ہے.فن طبابت میں ایک حاذق طبیب ہیں.ہر ایک فن کی

Page 353

کتابیں بلاد مصر وعرب و شام و یورپ سے منگوا کر ایک نادر کتب خانہ طیار کیا ہے اور جیسے اور علوم میں فاضل ہیں مناظرات دینیہ میں بھی نہایت درجہ نظروسیع رکھتے ہیں.بہت ہی عمدہ کتابوں کے مؤلف ہیں.حال میں کتاب تصدیق براہین احمدیہ بھی حضرت ممدوح نے ہی تالیف فرمائی ہے جو ہر ایک محققانہ طبیعت کے آدمی کی نگاہ میں جواہرات سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے.منہ.‘‘ (فتح اسلام روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۳۷ حاشیہ) حضرت مولوی صاحب ۱۸۹۲ء میں حضرت اقدس ؑ کی زیارت کے لئے تشریف لائے تو حضور نے آپ کو اپنے پاس قادیان ٹھہرالیا.آپ کے بارہ میں حضرت اقدس ؑ کو یہ الہام ہوا کہ ’’ لَاتَصْبُوَنَّ اِلَی الْوَطَنْ فِیْہِ تُھَانُ وَ تُمْتَحَنْ ‘‘ (تذکرہ صفحہ : ۶۵۲) حضرت اقدس ؑ نے مجھ سے فرمایا کہ وطن کا خیال چھوڑ دو چنانچہ میں نے وطن کا خیال چھوڑ دیا اور کبھی خواب میں بھی وطن نہیں دیکھا.‘‘ ۱۸۹۲ء میں آپ قادیان ایسے آئے کہ واقعی حضرت اقدس ؑپر سارے قربان ہو گئے.سفر و حضر میں حضور کی رفاقت تاوفات رہی.خطبات اور نمازوں کی امامت کی توفیق ملتی رہی.لیکھرام کی کتاب تکذیب براہین احمدیہ کا جواب تصدیق براہین احمدیہ حضور ؑ کے ارشاد پر تحریر فرمایا.۱۹۰۲ء میں آپ نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد (خلیفۃ المسیح الثانی ؓ) کا ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین ؓ کی بیٹی صاحبزادی محمودہ بیگم سے نکاح پڑھا.۱۹۰۲ء میں آپ کا ایک خطبہ فونوگراف پر ریکارڈ کیا گیا.حضرت اقدس ؑ کی وفات کے بعد ۲۷؍مئی ۱۹۰۸ء کو بطور خلیفۃ المسیح ، منصبِ خلافت پر فائز ہوئے اور ۶ سال تک نہایت نازک حالات میں اس الٰہی جماعت کی کامیاب قیادت فرمائی.انگلستان میں پہلا مشن ہائوس آپ کے عہد خلافت میں قائم ہوا.جہاں حضرت چوہدری فتح محمد صاحبؓ سیال پہلے مبلغ بھجوائے گئے.آپ کا وصال ۱۳؍مارچ ۱۹۱۴ء کو ہوا.آپ کی وفات کے بعد ۱۴؍مارچ ۱۹۱۴ء کو خلافتِ ثانیہ کا قیام عمل میں آیا اور آپ کی نماز جنازہ اور تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی.٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۵۱ تا ۵۵

Page 354

مکتوب مخدومی مکرمی حضرت مولوی صاحب سلّمہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ جو امر یعنی دختر شادی خاں کی نسبت میں نے بیان کیا تھا.ابھی اس کو کوئی وعدہ نہیں دینا چاہیے.کیونکہ اس لڑکی اور اس کے باپ کے منشاء سے ہمیں اطلاع نہیں صرف گمنام طور پر بغیر تصریح کسی کے نام کے اس سے دریافت فرما دیں.دوسرے ایک اور موقعہ ہے یعنی شیخ نیاز احمد وزیر آبادی کی بیوی فوت ہو گئی ہے.وہ تو بہت مالدار ہیں.ان کو بھی شادی کی ضرورت ہے.شاید وہ اس موقعہ کو پسند کر لیں.لیکن اگر اس جگہ اس کا نکاح ہو تو یہ فائدہ ہے کہ یہ شرط کی جاوے گی کہ غلام محمد اسی جگہ رہے اس طرح ایسا آدمی کسی وقت کام آ سکتا ہے.آئندہ جو آپ کی مرضی ہو.٭ مرزا غلام احمد نوٹ.حضرت مولانا حکیم مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کے نام خطوط مکتوبات احمدجلد دوم میں آچکے ہیں.مزید ایک خط شائع کیا جار ہا ہے.(ناشر) ٭ الفضل نمبر۷۴ جلد۱۵ مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۷

Page 355

حضرت میاں نور محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 356

مکتوب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی مخلصی اخویم میاں نور محمد صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے آپ کے وہ تمام خط سنے جو آپ نے بدست ماموں شاہ صاحب بنام مولوی حکیم نور الدین صاحب بھیجے تھے.حقیقت میں خدا تعالیٰ نے آپ کو بہت اخلاص اور محبت اور جوش عطا کیا ہے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ دن بدن اس میں ترقی بخشے اور اپنی مرضی کی راہوں میں کامل کرے.آمین.اور میری یہ حالت ہے کہ جس طرح ایک چرواہا اپنی بکریوں کو محبت اور ہمدردی سے چراتا ہے کہ اگر کوئی بکری لنگڑی ہو یا ابھی بچہ ہو تو رحم سے ایسا انتظام کرتا ہے کہ وہ ہم پایہ خاص ہو بلکہ بسا اوقات اپنے کاندھے پر اٹھا لیتا ہے.اگردو بکریاں لڑیں تو کوشش کرتا ہے کہ لڑائی سے باز آجاویں سو ایسا ہی اپنی جماعت کے لئے میرا خیال ہے.چاہئے کہ اچھے برُوں پر رحم کریں اور ان کے حق میں دعا کریں کہ وہ بھی نیک اور خاکسار ہو جاویں.چاہئے کہ ایک بھائی اپنے دوسرے بھائی کا گناہ بخشے.٭ والسلام ۷؍جنوری ۱۸۹۵ء مرزا غلام احمد ٭ الحکم نمبر۲۱ جلد ۷ مورخہ ۱۰؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۲

Page 357

حضرت سید یعقوب شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 358

ایک شخص سید یعقوب شاہ کے ملک حیات و نبیر بتاریخ ۴ شھر محرم الحرام ۱۳۲۵ھ نے چند کتب کے لئے فارسی میں رقعہ لکھ کر درخواست کی.حضور نے جواباً تحریر فرمایا.مکتوب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ چند کتب کہ برائے خود مفید بیند از سید مہدی حسین صاحب محافظ کتب بگیرند و ہمیں رقعہ من اوشان را بنمایند.٭ والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ ترجمہ از ناشر جو کتابیں کہ اپنے لئے مفید دیکھتے ہو سید مہدی حسین صاحب محافظ کتب سے لے لو اور یہی میرا رقعہ ان کو دکھا دیں.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭ رجسٹر روایات صحابہ (غیرمطبوعہ)نمبر ۱۱ صفحہ ۱۸۹

Page 359

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 360

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ آپ کا نام یعقوب علی اور والد کا نام محمد علی تھا.آپ کو لدھیانہ کے محلہ جدید میں مشہور و معروف صوفی اور اہل اللہ حضرت منشی احمد جان صاحب مرحوم کے جوار میں رہنے کا موقع ملا.آپ کےآباء کا تعلق حضرت مسیح موعود ؑ کے آباء سے پرانا تھا چنانچہ نومبر ۱۸۷۵ء میں جبآپ کی پیدائش ہوئی تو جنگی شاہ ایک مجذوب نے قادیان ہی میں آپ کے والد صاحب کو یہ خبر سنائی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ تیرا یہ بیٹا قادیان میں رہے گا اور ایک اہل اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ہو گا چنانچہ خدا تعالیٰ نے وہ موقع آپ کو دیا کہ آپ قادیان میں رہے اور اس مامور و مرسل کے فدائیان میں شامل ہوئے.آپ نومبر ۱۸۸۱ء میں ایک دیہاتی مدرسہ میں داخل ہوئے اور ۱۸۹۳ء میں انٹرنس پاس کر کے تعلیمی سلسلہ کو ختم کیا.آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر کلاس میں نمایاں پوزیشن سے پاس ہوتے رہے.زمانہ طالب علمی میں ہی آپ کو عیسائیوں اور آریہ صاحبان سے مناظروں کا شوق پیدا ہوا اور اسی زمانہ میں ہی آپ کو جالندھر کے اخبار آفتاب ہند میں کبھی کبھی مضمون لکھنے کا موقع ملا.آپ کو ۱۸۸۹ء میں شیخ اللہ دیا صاحب واعظ انجمن حمایت اسلام کے ذریعہ پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود ؑ سے ملنے کا شرف حاصل ہوا.شیخ صاحب نے آپ کے سنسکرت پڑھنے کا ذکر کیا جس کو سن کر حضرت ؑ بہت خوش ہوئے اور ہر قسم کی مدد کرنے کا وعدہ فرمایا.فروری ۱۸۹۲ء میں جب حضرت مسیح موعود ؑ لاہور تشریف لے گئے تو آپ نے بیعت کر لی اور لاہور کے تمام حالات کو آنکھ سے دیکھا اور بعض جگہ نہایت جرأت کے ساتھ آپ ؑ کے سلسلہ کی تبلیغ کی اور ماریں کھائیں.آپ نے اخبار نویسی کا مستقل کام ریاض ہند اخبار امرتسر کے مکرر اجراء سے شروع کیا.اس کے علاوہ مختلف اخبارات کی ایڈیٹری بھی کی.سلسلہ کی ضروریات کے اعلان اور اظہار کے لئے اور اس پر جو اعتراضات پولیٹیکل اور مذہبی پہلو سے کئے جاتے تھے.ان کے جوابات کے لئے ایک اخبار کی ضرورت محسوس ہوئی.چنانچہ اکتوبر ۱۸۹۷ء میں امرتسر سے اخبار الحکم جاری کیا گیا جو جنوری ۱۸۹۸ء میں قادیان آگیا.الحکم کے ذریعہ حضرت مسیح موعود ؑ کی تقریروں، تحریروں اور خطوط کو شائع کیا جانے لگا.اس کے علاوہ بزرگان سلسلہ کے خطبے، مواعیظ لیکچر اور

Page 361

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کے دروس قرآن مجید کو دوسروں تک پہنچایا جانے لگا.آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح ؓ کے حکم سے ’’اصلاح النظر‘‘ ایک رسالہ لکھا اور ان کے علاوہ ’’سالانہ جلسہ ۱۸۹۷ء کی رپورٹ‘‘ ، ’’مکتوبات احمدیہ‘‘ اور ’’سیرت مسیح موعود ؑ ‘ ‘ کو ترتیب دے کر شائع کیا.اسی طرح ’’حیات النبیؐ ‘‘ اور ’’حیات احمد‘‘ کے نام پر متعدد جلدوں میں حضرت مسیح موعود ؑ کی حیاتِ طیبہ کے حالات شائع کئے جو ابتداء سے ۱۹۰۰ء تک کے واقعات پر مشتمل ہے.۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے انتقال ہونے پر جب جماعت میں عظیم تفرقہ واقع ہوا تو حضرت شیخ صاحب مرحوم نہایت اخلاص کے ساتھ خلافت ثانیہ سے وابستہ رہے اور بحمد اللہ اسی پر ان کا خاتمہ ہوا.۱۹۲۴ء میں سفر یورپ کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ شیخ صاحب کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے اور مسجد لنڈن کے افتتاح کے موقع پر بھی آپ لنڈن میں موجود تھے.جون ۱۹۲۵ء میں آپ یورپ اور بلاد اسلامیہ کی سیاحت کے لئے روانہ ہوئے اور دو سال تک آپ یورپ کے مختلف ممالک اور بلاد اسلامیہ میں ہی رہے.اپریل ۱۹۳۲ء میں سلطنت آصفیہ کی ایک شہزادی بیگم وقار الامراء نے آپ کو ساڑھے بائیس سو روپے ماہوار تنخواہ پر حیدرآباد بلایا.اس کے بعد آپ وہیں کے ہو رہے.یہاں تک کہ ۵؍دسمبر ۱۹۵۷ء کو آپ راہی ملک عدم ہو کر بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے.آپ سلسلہ احمدیہ کے سب سے پہلے مؤرخ و صحافی اور بلندپایہ انشاء پرداز تھے.٭ فہرست مکتوبات بنام حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ ٭ تلخیص از الفضل ۶،۷؍مئی ۱۹۵۸ء

Page 362

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سیدی و مولائی علیک الصلٰوۃ والسلام مدرسہ کی اصلاح کی طرف حضور نے جو توجہ فرمائی تھی.اس کے لئے یہ سوچا گیا تھا کہ ایام کرسمس کی تعطیلات میں اس سوال کو عام طورپر جماعت کے اہل الرائے اورسنجیدہ لوگوں کے سامنے پیش کرکے فیصلہ کیا جاوے.یہ امر توصرف شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْر کے ماتحت ہے ورنہ فیصلہ وہی ہے جو حضور پسند فرمائیں گے.یہاں کے خدام کی جو رائیں ہیں وہ حضور سن چکے.اور حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب کی جو رائے ہے وہ بھی حضور نے سن لی ہے.اب اگر حضرت مولوی صاحب کی رائے کے موافق مدرسہ کو موجودہ صورت ہی پر رہنے دینا حضور پسند فرماتے ہیں اوراس میں کوئی ترمیم یا اصلاح حضور کا منشاء نہیں توپھر مولوی صاحب ممدوح کی رائے کو عملی صورت میں لانے کی تحریک ہو ورنہ جوحضور کا منشاء ہے اس کے موافق نصاب تعلیم وغیرہ تجویز ہو.غرض حضور تحریری طور پر ارشاد فرمائیں تاکہ جماعت میں پیش کرکے آخری فیصلہ ہو.سال قریب الختم ہے اس لئے اس کا انتظام ہو جانا از بس ضروری ہے.۲۰؍دسمبر ۱۹۰۵ء والسلام خاکسار یعقوب علی عفی اللہ عنہ

Page 363

مکتوب نمبر۱ژ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وقت دو طرف کے خیال نے مجھ کو تردّد میں ڈال رکھا ہے ایک یہ کہ اصل غرض اس قدر روپیہ خرچ کرنے سے یہ ہے کہ اس مدرسہ کے ذریعہ سے لوگوں پر کامل اثر پڑے اور ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو علم دین میں پختہ ہو کر لائق تبلیغ اور وعظ ہوں اور یہ امر تب میسر ہو سکتا ہے کہ علم دین کو سب پر مقدم رکھا جائے اور اپنے پر زور ڈالا جائے.دوسرے یہ امر حیران کر رہاہے کہ اگر اس مدرسہ کی بکلی صورت بدل دی جائے تو وہ لوگ جو محض دنیا کی لیاقت حاصل کرانے کے لئے اپنے بچے اس مدرسہ میں بھیجتے ہیں وہ بھیجنا ترک کردیں گے.اوراس طرح سے جو تھوڑا بہت اثر ان لڑکوں پر ہوتا ہے وہ بھی نہیں ہوگا اور سرِدست مدرسہ میں بے رونقی بھی ہوگی.بالفعل کوئی ایسا طریق چاہئے کہ غرض اصلی بھی حاصل ہو اور یہ مدرسہ عام اثر پر بھی خالی نہ رہے.پس اگر تعطیلات کے دنوں میں جو اکثر مہمان آئیں گے ان کے سامنے بھی یہ مشکلات پیش کئے جائیں اورا ن کی بھی رائے لی جائے تو کچھ حرج نہیں شائد کوئی بہتر طریق نکل آوے.مرزا غلام احمد

Page 364

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سیدی و مولائی علیک الصلوٰۃ و السلام حضور کی خادمہ میری اہلیہ کو وطن گئے چار سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے.چار پانچ روز کے لئے وطن جانے کی تحریک کر رہی ہے.لہٰذا ادب سے التماس ہے کہ اجازت ہو تو میں اس کو اپنے والدین سے ملا لائوں.بصورت اجازت دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ حفظ و امن میں رکھے اور حضور کے سایہ میں ہی جینا اور مرنا اور حشر ہو.خادمہ حضورروپیہ( ایک روپیہ) بطور نذر پیش کرتی ہے جو ارسال ہیں.نیازمند یعقوب علی ایڈیٹر الحکم مکتوب نمبر۲ژ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اجازت ہے انشاء اللہ القدیر دعا کروں گا.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 365

Page 366

Page 367

Page 368

Page 369

مکتوب بنام جماعت گولیکی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک مکتوب کی نقل درج ہے.تاریخ ۵؍مئی ۱۹۰۷ء ہے یا ۱۹۰۶ء.گولیکی کے ایک غیراحمدی محلہ میں طاعون تھا.اور احمدی محلہ کی طرف بھی کچھ کیس ہو رہے تھے.میرے عرض حال پر یہ جواب گولیکی کی جماعت کو بھجوانے کے لئے رقم فرمایا.(اکمل عفی اللہ عنہ) ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ دعا تو پنج وقت کی جاتی ہے.پھر بہت دعا کروں گا.جب بلا نازل ہو جاتی ہے تو اس وقت سنت اللہ کے موافق دعا کم اثر کرتی ہے.بہرحال دعا کروں گا.آج تہجد اور صبح کے وقت بھی بہت دعا کی تھی.مگر یہ وقت امتحان ایمان کا وقت ہے.بہت مضبوطی سے خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور خود بھی دعا کرتے رہیں.والسلام مرزا غلام احمد عفا اللہ عنہ بہتر ہے وہ جگہ چھوڑ دیں.باہر میدان میں چلے جائیں.۵؍مئی‘‘ ٭ ٭ الفضل نمبر۱۰۱ جلد۲۸ مورخہ ۴؍مئی ۱۹۴۰ء صفحہ ۳

Page 370

مکتوب بنام جماعت راولپنڈی حضرت اقدس مرشدنا و مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ احباب راولپنڈی میں ایک اختلاف ہوا ہے کہ بعد نماز جمعہ مسجد میں اسی جگہ بیٹھ کر برادرانِ احمد یہ کا باہم ملاقات کرنا، مسائل دینیہ پر بحث کرنا، اپنی جماعت کے متعلق کتب اخبارات وغیرہ سننا یا سنانا جائز ہے یا نہیں؟ ایک فریق کہتا ہے کہ ایسا کرنا  کے حکم کی مخالفت ہے.دوسرا فریق کہتا ہے کہ دینی اغراض کے لئے رہنا جائز ہے.والسلام ۷؍اکتوبر ۱۹۰۴ء عاجز محمد صادق السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ایسی بحث غلط فہمی سے ہے.اصل بات یہ ہے کہ اغراض صحیحہ دینیہ کے لئے بعد نماز مسجد میں بیٹھنا جائز ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسا ثابت ہے اور یہ حکم بطور رخصت کے ہے نہ بطور فرض کے.چونکہ عیسائیوں کی تعطیل کے دنوں میںقطعاً بیکاری فرض تھی وہ اپنی دکانیں بند رکھتے تھے.اس کے رد کے لئے یہ حکم ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ تم پر حرام نہیں ہے کہ بعد نمازِ جمعہ سارا دن بے کار رہو.البتہ بانگ نماز سنتے ہی مسجد میں حاضر ہو جائو.اور پھر تمہیں رخصت ہے کہ اپنی تجارت وغیرہ میں مشغول ہو جائو.یہ ایسا ہی حکم ہے جیسا کہ یہ حکم ہے ۱؎ پس کُلُوْا وَاشْرَبُوْا سے یہ مطلب نہیں ہے کہ رمضان کے روزہ بھی نہ رکھو اور ہمیشہ کھاتے رہو.غرض یہ حکم اہل کتاب کے رد میں ہے اور اس سے اصل مطلب رخصت ہے نہ فرضیت جیسا کہ سنت سے ظاہر ہے.٭ والسلام مرزا غلام احمد ۱؎ الاعراف : ۳۲ ٭ الحکم نمبر۳۴،۳۵ جلد۸ مورخہ ۱۰،۱۷؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۶

Page 371

جناب مرشدنا و مولانا امام الزمان علیہ الصلوٰۃ و السلام بعد از السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ ہم تین شخص جماعت احمدیہ مقام مونگ ضلع گجرات سے تین روز سے حاضر حضور ہوئے ہیں.اپنی عرض حال کے واسطے کوئی موقع اور وقت ایسا ہاتھ نہیں آیا جو اپنے حالات زبانی حضور میں عرض کئے جاتے.اس لئے یہ عریضہ خدمت حضور میں پیش کرتے ہیں.اوّل میں مسمی عبداللہ موچی اپنا عرض حال کرتا ہوں کہ مجھ کو حضور سے بیعت ہوئے عرصہ تقریباً ڈیڑھ سال کا گزرا ہے.اس عرصہ میں مخالفین نے اکثر تکالیف پہنچائی ہیں اور اب بھی پہنچا رہے ہیں.کاروبار دنیوی میں بھی ہر طرح سے روک ڈال رہے ہیں.غرضیکہ ہر طرحسے نقصان پہنچاتے ہیں.کوشش بلیغ کرتے ہیں بلکہ خاص رشتہ دار بھی میرے دشمن ہو گئے ہیں.مجھ کو وہاں پر رہنا بہت مشکل ہو گیا ہے.کسی صورت سے مجھ کو وہاں پر گزارہ کرنا نظر نہیں آتا.بہر طور وہاں پر مجبور ہو گیا ہوں اور میری طبیعت بھی خود ان لوگوں سے بیزار ہے.میں خود ان میں رہنا نہیں چاہتا.مگر مجبور پڑا ہوا ہوں.اب میری بابت جیسا کچھ حضور انور مناسب سمجھیں حکم فرماویں.اب مجھ کو کیا کرنا چاہیے.جیسا حکم ہو عمل میں لائوں.دوسرا میرا بھائی احمد الدین ہے.اس کی بھی ایسی ہی حالت ہے.وہ بھی وہاں پر رہنا نہیں چاہتا.اور تیسرا امام الدین نامی کشمیری ہے اس کو وہاں پر ہماری جیسی تکلیف تو نہیں ہے مگر دعا کے واسطے وہ بھی عرض کرتا ہے.کیونکہ مخالف زیادہ ہیں اور ہم صرف تین شخص احمدی ہیں.

Page 372

مکتوب بنام جماعت مونگ ضلع گجرات السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میں نے تمام خط پڑھ لیا ہے.میرے نزدیک مناسب ہے کہ بے صبری نہ کریں.بلکہ اپنے صبر اور استقامت اور نرمی اور اخلاق کے ساتھ دشمن کو شرمندہ کریں اور نیک سلوک سے پیش آویں.اور بہت نرمی کے ساتھ اپنے عقائد کی خوبی اور راستی ان کے ذہن نشین کریں اور اپنا نیک نمونہ ان کو دکھلاویں.ممکن ہے کہ وہ ایذادہی کی خصلت سے باز آجاویں.بہر حالت بے صبری نہیں کرنی چاہیے اور کچھ صبر استقامت سے کام لینا چاہیے اور اپنے دشمنوں کے حق میں ہدایت کی بھی دعا کرتے رہیں.کیونکہ ہمیں خدا نے آنکھیں عطا کی ہیں اور وہ لوگ اندھے اور دیوانہ ہیں.ممکن ہے کہ آنکھ کھلے تب حقیقت کو پہچان لیں.علاوہ اس کے خدا تعالیٰ نے مجھے ایک بڑے نشان کا وعدہ دیا ہے اور جہانتک میرا خیال ہے وہ ایک سخت زلزلہ ہو گا جو دنیا کے دلوں کوہلا دے گا اور وہ بہت سخت ہو گا.بہتیرے اس کے صدمہ سے دنیا سے گزر جائیں گے اور بہتیرے ایمان پائیں گے.مردے زندہ ہوں گے اور زندہ مریں گے اور ضرور ہے کہ جاہل لوگ اپنی ضد پر قائم رہیں جب تک خدا تعالیٰ کا وہ دن آوے اور ہر ایک دنیا کو زیروزبر کرے سو اس وقت تک اپنے صبر اور نیک چلنی کا لوگوں کو نمونہ دکھائو اور بدی کی جگہ نیکی کرو تا آسمان پر تمہارے لئے اجر ہو اور میں انشاء اللہ تعالیٰ سب کے لئے دعا کروں گا.٭ ۹؍فروری ۱۹۰۶ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ٭ الحکم نمبر۶ جلد۱۰ مورخہ ۱۷؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۲

Page 373

مکتوب بنام احمدی قوم بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بخدمت جمیع اخوان و احباب ایں سلسلہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ سب سے پہلے مجھے اللہ تعالیٰ کا شکر دل میں جوش مارتا ہے جس نے میری جماعت کو سچی ارادت اور محبت اور ہمدردی عطا فرمائی ہے اگر خدا تعالیٰ کا فضل ان کے ساتھ نہ ہوتا تو یہ توفیق ان کو ہرگز نہ دی جاتی کہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے قدم پر اس درجہ کی اطاعت کرتے کہ باوجود اپنی مالی مشکلات اور کمی آمدن کے اپنی طاقت سے بڑھ کر خدمت مالی میں مصروف ہوتے.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان سب کے مالوں میں برکت دے اور یہ نصرت اور اعانت جو وہ دینی اغراض کی تکمیل کے لئے کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ دونوں جہانوں میں ان کی بھلائی کا موجب کرے.آمین ثم آمین.بعد اس کے اے عزیزان! اس وقت اخویم میرزا خدا بخش صاحب کو آپ صاحبوں کی خدمت میں اس غرض سے روانہ کیا جاتا ہے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ مدرسہ قادیان کی قائمی کے لئے جو آمدن ہونی چاہیے اس کی حالت بہت ابتر ہے اور اگر یہی حال رہا تو پھر اس مدرسہ کا قیام مشکل ہے اگرچہ ہمارے سلسلہ کے لیے جو اصل غرض ہماری زندگی کی ہے کوئی عمدہ اور معتدبہ نتیجہ ابھی تک اس مدرسہ سے پیدا نہیں ہوا مگر اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ اگر پوری احتیاط اور انتظام سے کام لیا جاوے تو پیدا ہو سکتا ہے.زمانہ حال میں حکمت عملی پر چلنے والے جس قدر فرقے ہیں انہوں نے مان لیا ہے کہ سادہ دلوں پر اثر تعلیم ڈالنے کے لئے جس قدر سریع الاثر اور پائدار یہ طریق ہے اور کوئی طریق نہیں اسی لئے وہ لڑکے جو پادریوں کے سکولوں کالجوں میں پڑھ کر اور ایک مدت تک ان کے زیر اثر رہ کر جسقدر خراب ہوتے اور نفرت دل سے اسلام کے دشمن ہو اجاتے ہیں اسقدر وہ لوگ نہیں جو محض روپیہ کے لالچ سے عیسائی ہوتے

Page 374

ہیں سو جب کہ دلوں پر اثر ڈالنے کا ایک یہ بھی طریق ہے تو ہم کیوں اس میں پیچھے رہیں بہرحال اس مدرسہ کا قائم رہنا اسی بات پر موقوف ہے کہ ہماری جماعت کی اس طرف بھی پوری توجہ ہو.بباعث اس سلسلہ کے ابتدائی حالت کے ہر ایک شاخ میں مشکلات تو بہت ہیں.منار کے لئے ابھی روپیہ کافی نہیں بعض کتابیں جن کے لئے ارادہ ہے کہ کم سے کم بیس بیس ہزار چھپ جائیں ان کے لئے کچھ بھی سامان نہیں.مہمان خانہ کے لئے بعض ضروری عمارتوں کی ضرورت ہے ان کے لئے روپیہ نہیں لیکن یہ ایسے امور ہیں کہ ابھی ہماری جماعت کی طاقت سے خارج معلوم ہوتے ہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ ان غموں کو خدا تعالیٰ ہمارے دل پر سے دور کرے لیکن اگر ہماری جماعت کی توجہ ہو تو قادیان کے مدرسہ کے قائم رہنے کے لئے بالفعل بہت مدد کی ضرورت نہیں اگر ایک ہزار آدمی چارچار آنے ماہواری اپنے ذمہ قبول کرلے تو اڑ۲۵۰ھائی سو روپیہ ماہواری مدرسہ کو مل سکتا ہے اور رونق کے بعد فیس کی آمدن بھی ہو سکتی ہے.غرض اس مشکل کے دور کرنے کے لئے مرزا خدابخش صاحب کو روانہ کیا جاتا ہے ہر ایک صاحب جو اس کام کے لئے کوئی مدد تجویز فرماویں وہ لنگرخانہ سے اس مدد کو مختلّط نہ کر دیں.یہ اختیار ہو گا کہ اگر مقدرت نہ ہو تو لنگرخانہ کی رقم … سے جو ان کے ذمہ ہے کچھ کم کر کے اس میں شامل کر دیں مگر اس کو بالکل الگ رکھیں اور یہ رقم بخدمت محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خان صاحب بمقام قادیان یا جس کو وہ تجویز کریں آنی چاہیے تاحساب صاف رہے کیونکہ لنگرخانہ کا روپیہ میرے پاس پہنچتا ہے اور یہ کام دِقت سے خالی نہیں کہ پہلے مدرسہ کا روپیہ میرے پاس پہنچے اور پھر میں وہ روپیہ کسی دوسرے کے حوالہ کروں بالفعل یہ تمام کاروبار مدرسہ نواب صاحب موصوف کے ہاتھ میں ہے پس انہیں کے نام روپیہ آنا چاہیے بہر حال اس مدرسہ کے لئے کوئی خاص ر قم مقرر ہونی چاہیے جو ماہ بماہ آیا کرے.میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ قائمی مدرسہ بامید اس نیک نتیجہ کے ہے جس کے ہم امیدوار ہیں اسی لئے ہم اس سلسلہ کے ضروری اخراجات میں اس کو شریک کرتے ہیں.والسلام علی من اتبع الھدٰی٭ الراقم المفتقر الی اللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ و اید ٭ الحکم نمبر۲۳ جلد۶ مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۰۲ء صفحہ ضمیمہ الحکم

Page 375

مکتوب بنام مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مکرمی اخویم مولوی احمداللہ صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ افسوس کہ مجھے دہلی سے واپس آنے کے وقت آپ سے ملاقات کرنے کا اتفاق نہ ہوا.ہرچند ارادہ تو تھا کہ چند روز آپ کی ملاقات کے لئے امرتسر میں ٹھہرجائوں مگر اہل وعیال میرے ساتھ تھے اور میں بوجہ مرض خارش مجبور تھا اس وجہ سے ٹھہر نہ سکا.اوراس جگہ آکر بیماری خارش اس قدر ترقی کرگئی کہ ابھی سفر کرنے سے بکلی مجبور ہوں باایں ہمہ آپ کی ملاقات کو دل بہت چاہتا ہے اور تمنائے قلبی ہے کہ آپ سے ملاقات ہو کر بعض امور واجب الاظہار آپ کی خدمت میں عرض کئے جائیں لیکن بوجہ سخت مجبوری بیماری مذکورہ کے امرتسر میں جا نہیں سکتا اور چونکہ خارش امراض مزمنہ میں سے ہے اس لئے معلوم نہیں کہ کب تک اس سے شفا حاصل ہو.آج غلبۂ شوق ملاقات کی وجہ سے اور نیز بنظرِ محبت واخلاص آنمکرم کے یہ خیال آیا کہ اگر آنمکرم کو اسی جگہ آنے کی تکلیف دوں تو اُمید قوی ہے کہ تشریف آوری سے دریغ نہ فرماویں گے لہٰذا مکلف ہوں کہ براہ مہربانی صرف تین چار روز کے لئے ضرور تشریف لاویں آپ کی آمدورفت کا خرچ میرے ذمہ ہوگا محض مصلحت دینی کی وجہ سے آنمکرم کو تکلیف دیتا ہوں کیونکہ دیکھتا ہوں کہ تقویٰ جو راس الخیرات ہے آنمکرم میں پایا جاتاہے اورہر ایک امر دینی فہم اور فراست اور درایت کا تقویٰ پر موقوف ہے.اگر کسی انسان میں تقویٰ موجود نہ ہو تو اگرچہ وہ اتنی کتابوں سے لدا ہوا ہو کہ جس قدر ریل گاڑی میں لکڑی وغیرہ لدی ہوئی ہوتی ہے تب بھی وہ کتابیں بغیر تقویٰ کے اس کو کچھ مفید نہیں ہو سکتیں جیسا کہ یہودیوں میں بہت سے علماء ایسے تھے

Page 376

کہ توریت کی آیت آیت اُن کو حفظ کی طرح تھیں لیکن چونکہ اُن میں تقویٰ نہیں تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں اُن کا نام علماء ربّانی نہیں رکھا بلکہ اُن کو اس لائق بھی قرار نہیں دیا کہ انسان کے نام سے موسوم کئے جائیں.غرض بجز کمال جو ہر تقویٰ کے صرف علم رسمی کی آنکھ کسی کام نہیں آتی.آج کل اکثر لوگوں کی آنکھوں پر جس قدر تاریکی و بدظنی و بدگمانی چھا گئی ہے اگر غور کرکے دیکھا جاوے تو اس کا باعث بجز ترک تقویٰ اورکوئی چیز نہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کسی کو چوری کرتے ہوئے دیکھا تھا اُس کو کہا کہ کیا تو چوری کرتا ہے تو اُس نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے میں چوری نہیں کرتا تب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے اپنی آنکھوں کو جھٹلایا اورتیری تصدیق کی.سوانہوں نے چور کو چوری کرتے ہوئے دیکھ کر پھر صرف اُس کے قسم کھانے پر کیوں اُس کو محل سرقہ سے بری قرار دیا.اُس کا یہی سبب تھا کہ اُس نبی معصوم کی آنکھیں تقویٰ کے کحل الجواہر سے مکحل تھیں.سو اُس نے نہ چاہا کہ ایک شخص کو اللّٰہ جلّ شانہ کی قسم کھاتے دیکھ کر پھر اُس قسم کو ذلّت اورخواری کی نظر سے دیکھے.لیکن اس جگہ اس عاجز نے ان موجودہ علماء کے مقابل پر جو اس عاجز کو ایک عمرسے تائید اور خدمت اسلام میں مشغول اورفدا شدہ دیکھتے ہیں کئی مرتبہ خدا تعالیٰ کی قسمیں کھاکر کہا کہ میں کسی نبوۃ کا دعویٰ نہیں کرتا اورنہ معجزات کا منکر ہوں اورنہ لیلۃ القدر اورمعراج اور ملائکۃ کے وجود کا انکاری اورنہ کسی دوسرے عقیدہ اسلام سے برگشتہ ہوں مگر پھر بھی یہ لوگ تکفیر سے باز نہیں آتے ان کی آنکھوں میں اس عاجز کی اُس چورجتنی بھی قدرنہیں جو مسیح علیہ السلام کی آنکھوں میں تھا اس کا انصاف روزانصاف ہوگا.اللّٰہ جلّ شانہ فرماتا ہےٌ ۱؎ مگر ان لوگوں نے بغیر اس کے کہ میرے حالات کا ان کو پورا علم ہوتا یوں ہی کافر کافر کاشور مچا دیااور ہرچند میں نے ہزارہا دفعہ ا ن کے روبرو شہادت دی کہ میں کلمۂ طیب لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کا قائل اور مقرہوںاور ان سب باتوں پرایمان رکھتا ہوں جو قرآن کریم اوراحادیث صحیحہ ومرفوعہ متصلہ میں درج ہیں اور قبلہ کی طرف نماز پڑھتاہوں لیکن ان علماء نے میرے اس بیان کی بھی کچھ پرواہ ۱؎ بنی اسراء یل : ۳۷

Page 377

نہیں کی.میں نے یہ بھی کہا کہ اگر میری کسی تالیف میں کچھ ایسا کلمہ ہے جو آپ لوگوں نے عقیدہ حقّہ اسلام کے مخالف سمجھ لیا ہے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے میری تالیف کا منشاء وہی ہے جو میں اپنے اشتہارات کے ذریعہ سے شائع کرچکا ہوں اوراگر کوئی آدمیت اوراہلیت سے میری کتاب کے مواضع معترض علیہا میرے سامنے پیش کرے تو میں چند منٹ میں اس کو مطمئن کرسکتاہوں میری تالیفات میں کوئی امر مخالف اسلام نہیں بلکہ ہرایک جگہ اصل عقیدہ اسلام کو مسلم رکھ کر نکات کشفیہ اورمعارف روحانیہ کا بیان ہے لیکن افسوس کہ یہ علماء میرے یہ تمام بیانات سن کر صرف یہی ایک جواب دیتے ہیں کہ تمہارے دل میں تو کفر ہے اورزبان پر ایمان گویا انہوں نے دل کو چیر کردیکھ لیا ہے.بعض یہ آیت پڑھ کر سناتے ہیں ِ  ۱؎ اور نہیں جانتے کہ یہ تو منجانب اللہ بذریعہ وحی رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو بعض پنہانی کفار کی خبردی گئی تھی مگر ان مولویوں پر تو کوئی وحی نازل نہیں ہوئی ان کو تو یہ آیت یاد رکھنی چاہئے جس میں  ۲؎ ہے.غرض ان امور کی بخوبی اطلاع دینے کے لئے اورنیز بعض خاص مسائل متعلقہ اپنے پر مطلع کرنے کے لئے آنمکرم کو تکلیف دیتا ہوں کیونکہ میں دلی یقین سے خیال کرتا ہوں کہ جن امور کو آں مکرم بانشراح صدر سمجھ لیں گے اُن کا دوسروں کے دلوں پرڈالنے کے لئے پوری پوری کوشش عمل میں لائیں گے.سوآپ خالصًا لِلّٰہ یہ سفر چند روز کے لئے اختیار فرماویں. ۳؎.٭ ۲۱؍نومبر ۱۸۹۱ء از قادیان ۱؎ البقرۃ : ۹ ۲؎ النساء : ۹۵ ۳؎ التوبۃ : ۱۲۰ ٭ الحکم نمبر۳ جلد۸ مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۵

Page 378

مکتوب بنام مولوی احمد الدین صاحب (گزشتہ سال مولوی مرتضیٰ خان صاحب (پٹیالہ)نے حضرت مسیح موعود ؑکے ایک خط کی نقل ارسال کی تھی جو حضور نے بزبان فارسی ایک شخص مولوی احمدالدین صاحب کو اپنے دعویٰ سے پہلے ارسال فرمایا تھا.اورانہیں اپنے والدصاحب کی بیاض سے دستیاب ہوا تھا.اس وقت کسی وجہ سے اخبار میں شائع ہونے سے رہ گیا تھا.اب بمعہ ترجمہ شائع کیا جاتاہے.اُمید ہے کہ ناظرین محظوظ ہوں گے.وہو ہذا) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بخدمت اخویم مولوی احمدالدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ آں مخلص رسید.واضح باد کہ فتح باب رحمت الٰہی بیک طریقہ نیست.کسے را بہ روزہ و نماز مے کشند و دیگرے رابصدقہ و خیرات یا بہ عملے دیگر راہ مے دہند.غرض وسائل قبولیت بہ حضرت احدیت مختلف افتادہ اند.وایں احقر بتائید دین و قلع قمع مذاہب شیاطین.مامور است، وہمدریں کار و خدمت لذت و کشائش مے یابد.و ہمیں سیرت را از دیگر کساں نیز دوست میدارد و میخواہد کہ زاہداں کوتہ بیں کہ بدلق خود سروکار میدارند و از غریقان ضلالت و معصیت بکلی دست کشیدہ اند.ہمچو انبیاء بتعلیم عباد اللہ مشغول شوندواز بہر اعلاء کلمہ اسلام جان و مال عزت وآسائش را فدا کنند کہ در حالتِ موجودہ زمانہ ہمیں اعظم عبادت است بفکر خود مبتلا ماندن واز فکربرادر خود بکنی روتافتن نامردی و نا اہلی است پس کارما ہمیں ست تاکہ ذکر یافت وہم بدیں ماموریم و خورسندیم و ہر کہ براہ ما قدم زدن اشتیاقے دارد برو مخفی نماند.کہ مارا ہمیں خدمت سپردہ اند کہ با مخالفین دین متین مناظرہ و مجادلہ کنیم و بدیشاںحجت الٰہی باتمام رسانیم وکسیکہ چنیں سیرتے و خصلتے ندارد گوزاہد باشد یا عابدے یا گوشہ نشینے یا چلّہ کشے اوبامامناسبتے ندارد.واز ما نیست.و کل حزب بما لدیھم فرحون ومن ینصر اللہ ینصرہ.٭ خاکسار مرزا غلام احمد ٭ الفضل نمبر۷۴ جلد۲ مورخہ ۶؍دسمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۶

Page 379

ترجمہ از ناشر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بخدمت اخویم مولوی احمد الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مخلصانہ عنایت نامہ موصول ہوا.واضح ہو کہ رحمت الٰہی کے دروازہ کا کھلنے کا ایک ہی طریق نہیں.کسی پر روزہ و نماز سے کھلتا ہے اور کسی پر صدقہ و خیرات یا کسی اور عمل سے راستہ پاتے ہیں.غرض حضرت احدیت کے حضور قبولیت کے وسائل مختلف ہوتے ہیں.اور یہ احقر دین کی تائید اور شیاطین کے مذاہب کے قلع و قمع پر مامور ہے.اس کام اور خدمت میں لذت اور کشائش حاصل ہوتی ہے اور اسی سیرت کو دوسرے لوگوں میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں اور کوتہ بین زاہد صرف اپنی گدڑی سے سروکار رکھتے ہیں اور ضلالت اور معصیت میں غرق شدہ لوگوں سے بکلّی اپنے ہاتھ کھینچنے والے ہوتے ہیں جس طرح انبیاء خدا کے بندوں کی تعلیم میں مشغول ہو جاتے ہیں اور کلمہ ٔ ۱سلام کی بلندی کے لئے جان ، مال، عزت اور آسائش کو فدا کرتے ہیں.موجودہ زمانہ کے حالات یہی سب سے بڑی عبادت ہے.اپنی فکر میں مبتلا ہونا اور اپنے بھائی سے ناراض رہنا نامردی اور نااہلی ہے.پس ہمارا مذہب یہی ہے اور ہم اسی پر مامور ہیں اور ہر ایک شخص ہمارے راستے پر قدم مارتا ہے اور اشتیاق رکھا ہے اس پر یہ بات مخفی نہیں ہو گی کہ ہمارے سپرد یہ خدمت ہے کہ دین متین کے مخالفین سے ہم مناظرہ و مجادلہ کریں اور ان پر حجتِ الٰہی کا اتمام کریں اور جو شخص یہ سیرت اور خصلت نہیں رکھتا وہ خواہ عابد و زاہد گوشہ نشین یا چلہّ کش کیوں نہ ہو وہ ہمارے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتا وہ ہم میں سے نہیں اور ہرگروہ کے پاس جو کچھ ہے اس پر خوش ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی مدد کرتا ہے اللہ بھی اسی کی مدد فرماتا ہے.خاکسار مرزا غلام احمد

Page 380

مکتوب بنام مکرم نواب احمد علی خان صاحب بہادر از عاجز مستغفر الی اللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ و ایّد بخدمت مکرم نواب احمد علی خان صاحب بہادر عرف سلطان الدولہ سلمہُ اللہ تعالیٰ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اس وقت اس عاجز کو اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب سابق مہتمم مصارف ریاست بھوپال ملے اور مولوی صاحب موصوف نے دلی جوش اور اخلاص محبت کی وجہ سے جو وہ آنمکرم سے رکھتے ہیں بہت کچھ صفات حمیدہ اور اخلاق فاضلہ آنمکرم کا ذکر کیا اور آنمکرم کی عالی دماغی اور متانت شعاری اور دین پروری اور راستبازی اور بلند ہمتی اور نیک نیتی اور ہمدردی اسلام اور محبت اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسقدر باربار ذکر کیا کہ میرے دل میں بوجہ ان محاسن اور خوبیوں کے آپ کی محبت پیدا ہو گئی اور آپ کی خداداد سعادت و نجابت اور جوہر قابل پر نظر کرنے سے میرے دل میں خیال آیا کہ میں خاص طور پر اپنے حالات سے آپ کو مطلع کروں.مگر اس تحریر میں بجز اس بات کے کہ محض لِلّٰہآنمکرم کو ان باتوں پر آگاہ کر دوں جو طلب حق کے لئے کام آ سکتیں ہیں.اور میری کچھ بھی غرض نہیں.مولوی سید محمد احسن صاحب نے آپ کا ذکرِ خیر اس عمدہ طرز سے میرے پاس بیان کیا ہے.جس نے مجھے اس بات کا مشتاق کر دیا کہ میں ان روحانی اور آسمانی نعمتوں سے آپ کو اطلاع دوں جو مجھ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے ہیں.کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جس طرح غربا اور مساکین میرے ساتھ تعلق ارادت کر کے نفع دین و آخرت اٹھا رہے ہیں.ایسا ہی کوئی امرا ء میں سے میرے ساتھ تعلق پیدا کرے دین اور دنیا میں سعادت پیدا کرے اورہر ایک قسم کی کامیابی سے متمتع ہو جائے.سو آپ پر واضح ہو کہ یہ عاجز خدا تعالیٰ سے مامور ہو کر اس صدی چاردہم کی اصلاح اور دین کی تجدید اور اس زمانہ کے ایمان کو قوی کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے اور بہت سے آسمانی

Page 381

نشان مجھ کو دیئے گئے ہیں جو منجملہ ان کے تین ہزار کے قریب ابتک ظاہر ہو چکے ہیں اور مجھے حکم ہے کہ میں لوگوں پر ظاہر کروںکہ میں اس کی طرف سے مسیح ابن مریم علیہ السلام کے نمونہ پر رحمت کے نمونے دکھلانے کے لئے آیا ہوں جو شخص دل اور جان سے میر ا ساتھ کرے گا اس کا ایمان قوی کیا جائے گا اور گناہوں کی زنجیروں سے مخلصی پائے گا اور دنیا کی مشکلات اس پر آسان کی جائیں گی اور خدا تعالیٰ کا خاص فضل اس پر ہو گا.میں ارادہ رکھتا تھا کہ ہندوستان کے امیروں اور نوابوں میں سے کسی کو اپنے اس حال سے اطلاع دوں تا اگر خدا تعالیٰ چاہے تو اس طبقہ کے بعض آدمی بھی میری جماعت میں داخل ہو ں لیکن میں دیکھتا تھا کہ اس ملک میں اکثر امراء اور نوابوں کی حالت اچھی نہیں.اور کاروبار آخرت ان کی نظر میں حقیر ہو رہا ہے.سو میں جانتا تھا کہ یہ لوگ حد سے گزر گئے ہیں لیکن آپ کے حالات جو مولوی سید محمد احسن صاحب نے مجھ کو سنائے ہیں ان سے اہلیت اور متانت اور ہمت اور دینداری کی بوُ آتی ہے.اس لئے مجھ کو یہ خط لکھنا پڑا.میں آپ کو خدا تعالیٰ کے الہام کے ذریعہ سے یاد دلاتاہوں کہ یہ زہرناک ہوا جو مسلمانوں کی ریاست و امارت پر چل رہی ہے اس مہلک ہوا سے وہی امیر بچے گاجودینداری اور تقویٰ شعاری اورخداترسی کا پیرایہ پہن لے گا اور فسق و فجور سے بچے گا اور دوسرے عنقریب سب تباہ ہو جاویں گے.اور دینداری اور خداترسی کے سکھلانے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے جو شخص میری طرف آئے گااس کو سچی دینداری اور تقویٰ دی جاوے گی اور اس کے حق میں خدا تعالیٰ میری دعائیں قبول کرے گا اور اس کے گناہ بخشے جاویں گے اور اس کی دنیا اس پر بحال رکھی جاوے گی.سو یہ میری طرف سے تبلیغ ہے اور محض پیغام ہے جو میں نے آپ کو پہنچا دیا ہے اور بطور نمونہ ایک کتاب رسالہ’’ آسمانی فیصلہ‘‘ بھی اس کے ہمراہ بھیجتا ہوں اور اثر نصیحت خدا تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں.۲۰؍مارچ ۱۸۹۲ء والسلام خاکسار احقر عباد اللہ مرزا غلام احمد قادیانی از مقام جالندھر غلہ منڈی مکان زین العابدین

Page 382

مکرر محض آپ کی توجہ دہی کے لئے لکھا جاتا ہے کہ سید صدیق حسن کے واسطے جو میں نے ان کی آزار دہی کی وجہ سے جوان سے بباعث لاپروائی وقوع میں آئی.قبل وقوع حادثہ گریفن کے براہین احمدیہ میں ان کی نسبت چند الفاظ لکھے تھے ان کا وقوع چند عرصہ کے بعد ہو گیا تھا اور پھر اس نے دعا کرائی تو الہام ہوا تھا کہ سرکوبی اور سزا سے بچایا جاوے گا.چنانچہ وہ بچ گیا اگر آپ کتاب براہین احمدیہ کا حصہ چہارم دیکھیں تو خود آپ کو معلوم ہو جائے گا.مگر بذات خود آزمائش کرنا اس سے بھی بہتر ہے.٭ والسلام ٭ بدرنمبر۳۲ جلد۸ مورخہ ۳؍جون ۱۹۰۹ ء صفحہ ۴،۵

Page 383

مکتوب بنام مولوی اصغر علی صاحب پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ازعاجز احقرعباداللہ احد غلام احمد عافاہ اللہ وایّد بخدمت اخویم مولوی اصغر علی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعدہذا آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا آپ کی یہ صفت قابل تعریف ہے.جوآپ اس گروہ میں سے نہیں ہیں جو محض جلد باز ہیں اور تعصّب کے روسے ایک مسلمان کا نام کافر اوردجال اور بے ایمان بلکہ اکفر کہتے ہیں.اورمعلوم ہوا کہ آپ کی تحریراس غرض سے تھی کہ بعض مقامات حمامۃ البشریٰ میں صرفی یانحوی یا عروضی غلطی ہے.اور نیز آپ کی دانست میں بعض مضامین یا فقرات یا اشعار اس کے چرا لئے ہیں.سو عزیز من! اس کے جواب میں یہ گزارش ہے کہ یہ عاجز نہ ادیب نہ شاعر اور نہ اپنے تئیں کچھ چیز سمجھتا ہے اور نہ اس شغل میں کوئی حصہ عمر کا بسر کیا ہے اور نہ ان عبارتوں اور اشعار کے لکھنے میں کوئی معتدبہ دِقّت وقت خرچ ہوا ہے.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ تحریریں معمولی خطوں کی طرح اپنی اوقات معمورہ میں سے ہر روز ایک دو گھنٹے نکال کر لکھی گئی ہیں اور ساتھ ساتھ کاپی نویس لکھتا گیا اور اگر کبھی اتفاقاً پورا دن ملا تو ایک ایک دن میں سو سو شعر تیار ہوگیا اور وہ بھی پورا دن نہیں کیونکہ اگر آپ اس جگہ آکر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ دن رات کس قدر مشغولی ہے.خطوط کا یہ حال کہ کبھی تین سو کبھی چار سو کبھی پانچ سو ماہوار آجاتاہے اور بعض خطوط کا جواب رسالہ کی طرح لکھنا پڑتا ہے مہمانداری کا یہ حال ہے کہ ایک جہان توجہ کررہا ہے ایک قافلہ مہمانوں کا ہمیشہ رہتا ہے.اور عجیب عجیب صاحب کمال مدنیؔ شامیؔ مصریؔ اور اطراف ہندوستان سے آتے ہیں.بباعث رعایت حقِ ضیف بہت حصہ وقت کا ان کو دینا پڑتا ہے.عمر کا یہ حال ہے کہ پیرانہ سالی ہے.ضعیف الفطرت ہوں علاوہ اس کے دائم المریض اور ضعف ِ دماغ کا یہ حال ہے کہ کتاب دیکھنے کااب زمانہ نہیں جوکچھ خیال میں گزرا وہ لکھ دیا یا لکھا دیا.دورانِ سر لاحق حال ہے.ادنیٰ محنت سے گوفکر اور سوچ کی محنت ہو مرض راس دامنگیرہو جاتاہے.عمر اخیر ہے.مرگ سریرپرتکبرّ اور نازجو لوازم جوانی اورجہل ہیں کچھ

Page 384

توضعف اورپیرانہ سالی نے دور کر دئیے تھے اور بقیہ ان کا اس معرفت نے دور کردیا جو فیاض مطلق نے عطا فرمائی.اب ان حالات کے ساتھ آپ سوچ سکتے ہیں کہ اگر کسی تالیف میں غلطی جو لازم بشریت ہے پائی جائے تو کیا بعید ہے بلکہ بعید تویہ ہے کہ نہ پائی جائے بہت سے نیک دل اور پرہیزگار اس جگہ رہتے ہیں اور نوبت بنوبت اچھے علماء اور ادیب آتے رہتے ہیں اور ایک قافلہ بزرگوں کا لازم غیرمنفک کی طرح اس جگہ رہتا ہے ان سے آپ دریافت کر سکتے ہیں کہ اس عاجز کی طرز تالیف کیا ہے اگر آپ دریافت کریں گے تو آپ پربھی ثابت ہوگا کہ تالیفات ایک خارقِ عادات طور پر ہیں.میر ی عمر کا یہ تجربہ نہیں کہ کوئی انسان بجز خاص تائیدات الٰہی کے باوجود اس ضعف اور دامنگیر ہونے انواع واقسام کے امراض کے اور باوجود اس کثرت شغل خطوط اور مہمانداری کے پھر یہ فرصت پا سکے کہ بہت سا حصہ نثر موزون کا جو بعض اوقات قریب قریب ایک جزو کے ہوتی ہے معہ اُن اشعار کے بعض اوقات سو سو بلکہ سو سے بھی زیادہ ہوگئے ہیں بتیس پھر میں لکھ دئیے.اگر آپ کا کوئی تجربہ ہو تو میں آپ سے کوئی بحث کرنا نہیں چاہتا اورنہ میں اپنے نفس کو کوئی چیز سمجھتا ہوں.باوجود ان سب اسباب کے کبھی مجھ کو موقع نہیں ملتا کہ جو کچھ لکھا ہے سوچ کی نظر سے اس کو دیکھوں.پھر اگر اسطور کی تحریر وں میں اگر کوئی صرفی یا نحوی غلطی رہ جائے تو بعید کیا ہے.مجھے کب یہ دعویٰ ہے کہ یہ غیر ممکن ہے.ان کم فرصتوں اوراس قدر جلدی میں جو کچھ قلم سے گزر جاتا ہے میں اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھتاہوں.ہاں اگرغلطی ہے تو میرے نفس کی وجہ سے.پھر ان غلطیوں کے ساتھ سہو کاتب شامل حال ہو جاتا ہے.پھر کب دعویٰ ہو سکتا ہے کہ یہ کتابیں صرفی یا نحوی غلطی سے پاک ہیں.لیکن باوجود اس کے میں کہتا ہوں اور زور سے کہتا ہوں کہ اس جلدی کے ساتھ جو کچھ نظم اورنثر عربی مخالفوں کے الزام و افحام کے لئے میرے منہ سے نکلتے تھے وہ میرے منہ سے نہیں بلکہ ایک اور ہستی ہے جو ایک جاہل نادان کو اندر ہی اندرمدد دیتی ہے اور بیشک وہ امر خارق عادت ہے اور کسی عدودین اور عدو مادفیتن کو یہ توفیق ہرگز نہیں دی جائے گی کہ وہ انہیں لوازم ارتجال اور اقتضاب کے ساتھ اس کو اخیر تک نباہ سکے.

Page 385

اور جو سرقہ کا خیال آپ نے کیا ہے آپ ناراض نہ ہوں یہ بھی صحیح نہیں.اس عاجز کی ایک عادت ہے شائد اس کو آپ نے سرقہ پر حمل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ مضمون سوچتے وقت اگر سلسلہ تحریر میں جو روانگی کے ساتھ چلا جاتاہے کوئی فقرہ یا بعض وقت کوئی مصرعہ کسی گزشتہ قائل کا دل میں گزر جائے اور مناسب موقعہ معلوم ہو تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھا جاتا ہے اور اُس کے لکھنے میں اگر محل پر چسپاں ہو کچھ بھی حرج نہیں دیکھا جاتا.کیونکہ بے تکلف ہماری راہ میں آگیا اور عجب تر یہ کہ اکثر اوقات مجھے بالکل احساس نہیں ہوتا.اور دوسرا کہتا ہے کہ یہ مصرعہ یا فقرہ فلاں فقرہ یا فلاں مصرعہ سے بالکل مشابہ ہوگیا ہے.بعض اوقات عجیب طور کے توارد سے تعجب کرتا ہوں جانتا ہوں کہ جلدباز اپنی جلد بازی اور سوء ظن سے اس پر اعتراض کرے گا مگر جانتا ہوں کہ میرا کیا گناہ ہو اگر کرے تو کرتارہے.کلام فصیح اپنے کمال پر پہنچ کر ایک نور بن جاتا ہے اورنور نور سے مشابہ ہوتاہے.سرقہ کے لئے جوانی اور جوانی کا زور بازو اوروسیع فرصتیں چاہئیں وہ مجھے کہاں.اگر کوئی سرقہ کا خیال کرے تو کیا کرے جن لوازم کے ساتھ یہ تحریریں ظہور میں آئی ہیں اگر کوئی ان لوازم کے ساتھ تحریر کرکے دکھلاوے تو ایک دفعہ نہیں بلکہ ہزار دفعہ اس کو سرقہ کی اجازت دے سکتا ہوں.آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مضمون خاص کی بحث میں سرقہ کا دروازہ بہت تنگ ہوتاہے جو شخص اس کام (میں) پڑے وہ سمجھے گا کہ یہ الزام ایسے علمی مباحث میں کس قدر بیجا ہے.پھر یہ بات بھی آپ یاد رکھیں کہ صرفی نحوی غلطیاں نکالنے میں عجلت نہیں کرنی چاہییٔ کچھ تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ ایک مخالف مولوی نے اسی طرح میری تالیف میں غلطیاں نکالیں.دوسرے اہل علم اور مخلص نے وہی غلطیاں قرآن سے نکال کر ان کی صحت کردی ہے.ایک مخالف نے ایک شعر کے وزن میں بحث کی اسی وقت ایک ادیب عربی نے قدما میں سے ایک مسلم اور مشہور شاعر کا شعر پیش کیا.یہ خدا تعالیٰ کافضل ہے کہ ہماری جماعت کے ساتھ کئی ایک ادیب شامی مدنی اور اسی ملک کے ہندوستانی شامل ہیں نوبت بنوبت علماء اس جگہ رہتے ہیں.عزیزمن! صرف ونحو کا میدان بڑا وسیع ہے صلوں میں دیکھو کہ کس قدر اختلاف ہے بعض اوقات ایک ایک لفظ کے تین تین چارچار صلے آجاتے ہیں جیسا کہ بَارَکَکَ.بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ.بَارَکَ

Page 386

اللّٰہُ فِیْکَ.بَارَکَ اللّٰہُ عَلَیْکَ.اُنْظُرْ.بعض جگہ مِنْ کی جگہ عَنْ اور عَنْ کی جگہ مَنْ اور فا کی جگہ با اور باکی جگہ فا اورنئے محاورہ میں بہت فرق آگیا ہے.غرض یہ بڑا نازک امرہے.مجھے تعجب ہے کہ آپ کیوں اس میں پڑتے ہیں اور کیوں ایسا دعویٰ کرتے ہیں کہ میں صرفی نحوی غلطیاں ملک میں شائع کروں گا.عزیز من! اگر کوئی واقعی غلطی ہوگی تو ہمیں کب انکار ہے.لیکن اگر بعض آپ کی قراردادہ غلطیاں آخری تحقیقات سے غلطیاں ثابت نہ ہوئیں تو اس شتاب کاری کی کس کو ندامت ہوئی.نکتہ چینوں نے حریری کی بھی غلطیاں نکالیں بلکہ ان دنوں میں ایک خبیث طبع بیروتگی کے عیسائی نے قرآن کریم کی نکتہ چینی کی ہے.پھر جب کہ بدباطن معترض اعتراض کے وقت پر قرآن شریف سے بھی حیانہیں کرتے اور اہل زبان کی نظم ونثر پربھی حملے ہوئے تو پھر میں کیونکر کہوں کہ میں ان حملوں سے بچ سکتا ہوں.لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ بات سچ ہے کہ نکتہ چینی آسان اور نکتہ آوری مشکل ہے.مجھے ایک بات یاد آئی ہے اورمعلوم نہیں کہ کب کا واقعہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی معمارعمارت بنا رہاتھا اور ایک فضول گوجاہل اس کے سر پر کھڑا ہوا اور اس کی عمارت میں نکتہ چینی شروع کی کہ یہ طاق خراب ہے اور یہ شاہ نشین ٹیڑھا ہے معمار کاریگر اور حلیم تھا مگر غصّہ آیا اور اُٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ اگر تیری نکتہ چینی کی بنا کسی واقفیت پر ہے تو ذرا لگا کر مجھے بتلا ورنہ ایسی نکتہ چینی سے شرم کر جس کی بنانادانی اور ناتجربہ کاری پر ہے.عزیزمن! دنیا میں بہت سے ایسے نکتہ چیں ہیں ان کو اپنی لیاقت کاتب ہی پتہ لگتا ہے کہ جب مقابل پر کوئی کام کرنے لگیں.علمی معارف کو فصیح اور بلیغ اوررنگین کلام میں کماحقّہ انجام دینا کوئی آسان بات نہیں ہاں نکتہ چینی کاکرنا بہت آسان بات ہے.ایک گورا ریل پر سوار ریل کے موجد پر سو سو اعتراض کرتاہے کہ اس کے کام میں یہ کسر رہ گئی ہے اور اُن مشکلات کو نہیں سوچتا جو اُس کو پیش آئیں اور جن میں وہ کامیاب ہوا.میں ایک دینی کام میں لگا ہواہوں اور میں ایک کمزور اوربوڑھا آدمی ہوں اور بہت کم وقت ہوگا کہ کسی کام میں میں مصروف نہ ہوں اور آپ جوان ہیں اورعلمی طاقت کا بُت بھی آپ کے ساتھ ضرور ہوگا خدا تعالیٰ اُس کو دورکرے اورآپ ناراض نہ ہوں بہت سے ایسے بُت ہیں

Page 387

جو انسان اُن کو شناخت نہیں کرسکتا اور سعید آدمی چاہتا ہے کہ وہ ٹوٹ جائیں تو اچھا ہو.لیکن اگر آپ کو خیال ہے کہ یہ کام انسانی عام طاقتوں کا ایک عام نتیجہ بلکہ اُس سے بھی گرا ہواہے اور خدا تعالیٰ کی مدد ساتھ نہیں تو یہ ایک بیماری ہے جس کی جڑ نفسانی تکبرّ ہے اگر اس عاجز کے ہاتھ سے دور ہو جائے تو شاید مجھ کو اس کا ثواب ہو اور شاید آپ ایسے ہو جائیں کہ ہماری دینی خدمات کے کام آئیں.لہٰذا میں آپ کی اس درخواست کو بسروچشم قبول کرتاہوں جو آپ نے اپنے خط کے اخیر لکھی ہے کہ میں بمقابل رسالہ لکھنے کے لئے آیا ہوں بشرطیکہ باضابطہ اس امر کا فیصلہ ہو جائے کہ عربی انشاء پردازی کے لحاظ سے جس جانب کا رسالہ بلحاظ اغلاط انقص ہوگا اس کو اپنے دعویٰ زباندانی یا کشف اسرار قرآنی سے آئندہ دست بردار ہونا ہوگا فقط یہ آپ کی درخواست منظور ہے مگر عبارت اس طرح کی چاہیے کہ جس جانب کارسالہ جو دینی، علمی مضامین پر مشتمل ہو بلحاظ اغلاط و بلحاظ دیگر لوازم بلاغت وعدم بلاغت مرتبہ صحت اور عمدگی سے گرا ہوا ہو ایسا شخص آئندہ دعویٰ زبان دانی سے اورنیز دعویٰ کشف اسرار قرآنی سے دست بردار ہو اور چونکہ کشف اسرار قرآنی الہام کے ذریعہ سے ہے اس لئے میں یہ بھی قبول کرتا ہوں کہ اگر آپ کا بالمقابل رسالہ جو مضامین دینیہ پر مشتمل ہو بیان معارف میں باوجود امتزاج بلاغت و فصاحت اور رنگینییٔ عبارت میرے رسالہ سے بڑھ جائے تو پھر اپنے الہام کے عدم صحت کا مجھے قائل ہوناپڑے گا مگر اس مقابلہ کے لئے میری کتابوں میں سے وہ کتاب چاہیے جس کی نسبت خدا تعالیٰ کے الہام نے بے نظیری ظاہر کی ہے.سو میں آپ کو اعلام دیتا ہوں کہ ان دنوں میں نے ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام نور الحق ہے اور اس کے دو حصے ہیں.ایک حصہ نصاریٰ کے ردّ میں اور دوسرا خسوف وکسوف کے بیان میں اور دو خواب اوردو الہام سے مجھ پر ظاہر ہوا ہے کہ دشمن اورمخالف اس کی نظیر بنانے سے عاجز رہے گا.اوراگرچہ بہت ہی تھوڑا کام ہے لیکن میں نے عیسائیوں کو اس کے مقابل بنانے کے لئے دو مہینے کی مہلت دے دی ہے.آپ کے لئے تو صرف پندرہ دن کی مہلت کافی ہے لیکن اس لحاظ سے کہ آپ باربار جھگڑا نہ کریں دو مہینے کی مہلت آپ کو بھی دیتا ہوں ایک مہینہ تالیف کے لئے اور ایک مہینہ شائع کرنے اور چھاپنے کے لئے اگر دو مہینے میں چھپ کر شائع نہ ہو جائے تو معاہدہ فسخ ہوگا.اورالزام گریز آپ

Page 388

پررہے گا مگر چاہیے کہ یہ کاغذ جانبین اور گواہوں کے دستخط سے کسی اخبار میں شائع ہوجائے.شرائط جس کی پابندی آپ پر لازم ہوں گی وہ یہ ہیں:.(۱)دونوں حصے نورالحق جس قدر اجزارکھتے ہیں اسی قدر اجزا آپ کی کتاب کے بھی ضرور ہوں گے.(۲)جس قدر ہردوحصے نورالحق میں اشعار ہیں اسی قدر آپ کے رسالہ میں بھی اشعار چاہئیں ہرگز اختیار نہیں ہوگا کہ اشعار اس سے کم ہوں.(۳)جوقصیدہ نونیہ ہواس کے مقابل پر نونیہ وعلیٰ ہذاالقیاس.(۴)ہر ایک بحر کے مقابل وہی بحر ہو اورجس طرح ہماری کتاب کا ہر ایک فقرہ فقرہ مقفا ہو اور یا استعارات لطیفہ پر مشتمل ہوں یہ پابندی بھی آپ پر واجب ہوگی.(۵)جہاں قصائد میں التزام علمی مضامین یا کسی امر کے دلائل بیان کرنے کا التزام ہے وہی التزام آپ کی طرف سے ہوگا اور جس طور کی سلسلہ بندی کہ نظم میں یا نثر میں میں نے بنایا ہوا ہے وہی سلسلہ بندی انجام تک آپ کے ذمہ ہوگی.(۶)یہ ضروری ہوگا کہ آپ کا رسالہ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّہِیْمُوْنَ کا مصداق نہ ہو.از قسم ہزل نہ ہو.بلکہ جیسا کہ ہمارا رسالہ مباحث علمی پر مبنی ہو.اگرکسی جگہ آپ کو کسی بیان میں مجھ سے اتفاق ہو تو اتفاق ظاہر کریے اورمعارف جدیدہ بیان کریے.اوراگر کسی جگہ اختلاف ہو تو ہمارے مباحث علمیہّ کو ردّ کرکے دکھلائو اور جیسے میرے اشعار ایک مضمون کے بیان کرنے میں مسلسل چلے جاتے ہیں یہی شرط ان میں ملحوظ رہے.بایں ہمہ اشعار اشعار کی تعداد سے مطابق ہوں اورشعر شعر کی تعدادسے مثلاً اگر میرے رسالہ میں دو سو شعر پایا جائے تو آپ کے رسالہ میں بھی دو سو شعر ہونا ضروری ہوگا.(۷)آپ کا اختیار نہیں ہوگا الگ کوئی مضمون چھیڑیں بلکہ آپ کا رسالہ میرے رسالہ کی تصدیق یا تکذیب پر مشتمل ہوگا.(۸)آپ کے لئے کسی اُس تاریخ سے دو مہینے کی مہلت ہوگی کہ جب فریقین کی تحریر کسی اخبار

Page 389

ذریعہ شائع ہو کر آپ کو رسالہ نورالحق مل جائے.(۹)اگرآپ دوماہ میں بالمقابل رسالہ شائع نہ کر سکیں تو آپ کو یہ اقرار کرنا ہوگا کہ میں جس مقابلہ کے لئے اُٹھا تھا اس میں میں نے شکست کھائی.(۱۰) بالمقابل دونوں رسالوں کے نقص اورکمال دیکھنے کے لئے منصف مقررہوں گے اورکم سے کم اُن میں ایک آدمی ایسا ادیب ہوگا جو اہل زبان اورعرب کے کسی حصہ کا رہنے والا ہو.منصف یہ بھی دیکھیں گے کہ شوکت کلام اورمتانت کلام اور پُربرکت اورمؤثرازمضمون اورحق اور راستی کی پابندی سے اورپھر بلاغت سے بھرا ہوا کس کا مضمون ہے.اگر میری شرائط میں سے کوئی شرط بالمقابل رسالہ لکھنے کے لئے ہو جو میرے رسالہ میں نہ ہو توآپ وہ ساقط کراسکتے ہیں.یہ شرائط ہیں جن کی پابندی آپ پر لازم ہوگی.اگر آپ کو منظور ہوں تو ایک پانچ دن کے لئے قادیان میں آجائیں.آپ کے آنے جانے کا خرچ میرے ذمہ ہوگا اگر چاہو توپہلے بھیج دوں.اس جگہ کاغذ معاہدہ آپ کے روبرو لکھا جائے گا اورپھرفریقین کے دستخط اور گواہوں کی شہادت سے شائع کرادیا جاوے گا اور اگر آپ کسی شرط کی برداشت نہ کرسکیں اور وجہ معقول بتادیں تواس شرط میں کسی قدر ترمیم کردی جائے گی.پھر لوگ دیکھ لیں گے کہ خدا تعالیٰ غالب آتاہے یا آپ غالب آتے ہیں.میں اپنے آپ کو کچھ لکھا پڑھا نہیں سمجھتا جو کچھ ہوگا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور خدا تعالیٰ میرا مولیٰ ہے تو خدا تعالیٰ مجھ کوذلیل کرے گا اور میری رسوائی ظاہر کردے گا لیکن اگر ایسا نہیں تو وہ رُسوا ہوگا جو میرے مقابل پر آئے گا کیونکہ میں کچھ نہیں یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.یہ کہاں انسان سے ہو سکتا ہے کہ باوجود صدہا مشغولیوں اوردائمی ضعف اورعلالت کے اس کی تصنیف ایسی عجلت سے ہو.یہ بھی یاد رہے کہ میں نے افسوس کے ساتھ اس مقابلہ کو منظور کیا ہے میں اس وقت عیسائیوں کی طرف متوجہ ہوں.ایک وہ گروہ ہے جو صدق دل سے اپنے وطن چھوڑ کر میرے پاس آبیٹھے ہیں اور خدمت میں مشغول ہیں.کوئی کسی تالیف میں مشغول ہے کوئی خطوط نویسی

Page 390

میں مدد دیتا ہے اور کسی نے انگریزی خط لکھنے کا ذمہ لیا ہے اورکوئی عربوں کے خطوط کا عربی میں جواب دیتاہے.اور چند روز زندگی کو ہیچ سمجھ کر اللہ جلّ شانُـہٗ کی راہ میں فناہورہے ہیں.اس جگہ رہ کر غریبوں کی طرح نان ونمک پر گزارہ کررہے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ بعض انہیں میں بہت روتے ہیں بات بات میں ان کے آنسو جاری دیکھتا ہوں.فاضل ہیں،عالم ہیں، ادیب ہیں، خاکسار ہیں لیکن افسوس کہ آپ کو بے بنیاد عمر کا فکر نہیں کیا اچھا ہوتا کہ محبت کے ساتھ دینی فکرمیں مشغول ہوتے اور مددگاروں میں شامل ہوجاتے اور مجھے راحت پہنچاتے اور اس کا اجر راحت دیکھتے.مثلاً رسالہ نورالحق لاہور میں چھپ رہا ہے اور یہ کسی خود نمائی کی غرض سے نہیں بلکہ محض اُن پلید عیسائیوں کا منہ بند کرنے کے لئے ایک ہتھیار ہے جو قرآن شریف پر ٹھٹھااور اس پاک کلام کی فصاحت پر حملہ کررہے ہیں مگر میں قادیان میں ہوں اور لاہور میں چھپتا ہے لاہور میں کوئی آدمی ایسا نہیں کہ پروف کو بھی دیکھ سکے اور ِ للہ محنت کرے اور اس میں غور کرے اورکوئی غلطی ہو تو درست کرسکے آخر پروف میرے پاس آتا ہے اوربیمار طبع ہوں کوئی محنت کا کام مجھ سے نہیں ہو سکتا.ادنیٰ توجہ سے دردِسر شروع ہو جاتاہے.پھر غلطی رہنے کا احتمال ہوتا بعض ادیب دوست ہیں وہ بھی خدمات سے خالی نہیں اورہمیشہ پاس نہیں رہ سکتے.ایک عرب صاحب محض خط لکھنے کے لئے مقرر ہیں وہ دوسرا کام نہیں کر سکتے ان باتوں کے خیال سے دل بہت دکھتا ہے مجھے اس کی کیاغرض کہ میں نفسانی دعویٰ کروں اور اگر کوئی اس عزت کولینے والا ہو.یہ سب عزت اس کو دے دوں مگر دینی غم خوار کم ہیں.اب نورالحق کے لئے پانچ ہزار روپے کا اشتہار شائع کرچکا ہوں اور چودہ سو اشتہار اردو میں شائع کر چکا ہوں جن میں سے ایک آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں اور اب چودہ سو انگریزی میں چھپ رہا ہے.یہ تو میں نے اسلامی غیرت سے اپنی اس علیل طبیعت میں کیااور نہایت سرسری نگاہ سے صرف چند روز میں اس کو تمام کیا اور میرے دوست جانتے ہیں کہ علاوہ اس کے کہ سوسو شعر گھنٹہ میں تیار ہوئے پھر اگر ایسے اسباب کے ساتھ احتمال غلطی نہ ہو تو غلطی کے لئے اور کون سے اسباب ہوا کرتے ہیں.بعض وقت لکھتا ہوں تو آنکھوں کے آگے اندھیرا اُتر جاتاہے اوریقین ہو جاتاہے کہ غشی آگئی مگر ایسا قائم مقام نہیں پاتا جو بکلّی مہیاّ کاموں کا متکفل ہو جائے.اگرآپ محبت کی راہ سے یہ خدمت

Page 391

اختیار کرتے جو رسالہ نورالحق کو ہی تدبّر سے دیکھتے اور لِلّٰہ خدمت کرتے اور غلطی پاتے تواس کو درست کردیتے اورعیسائی گروہ پررعب ڈالنے کے لئے کوئی تقریظ لکھتے.نشست کا سامان نہیں اور جلدی سے یہ چند سطریں کھینچ دیں ہیں اور یہ خط میں نے ایک ساعۃ فرصت نکال کرلکھا ہے مگر ہمیشہ مجھے اپنے ہاتھ سے لکھنے کی فرصت نہیں اور میں نے کوئی کلمہ سخت آپ کو نہیں لکھا اور نہ کچھ رنج کیا اور نہ رنج کا مقام تھا.اکثر لوگ کافر دجال بے ایمان کہتے ہیں بڑی برُی گالیاں نکالتے ہیں ان کی کچھ پرواہ نہیں کی جاتی معاملہ خدا تعالیٰ سے ہے.آپ کا یہ فرمانا کہ میں نے کوئی نئی بات آپ کی کتابوں میں نہیں دیکھتی ورنہ میں اوّلُ المؤمنین میں ہوتا.عزیز من! جماعۃ بنانے کی آرزو سے تومیں فارغ ہوں اور خدا تعالیٰ نے مدت سے ان خیالات سے میرا دل بھر دیا ہے میں نہیں چاہتا کہ لوگ مجھ کو تعظیم سے دیکھیں اورمیری شان زیادہ ہو اور میری نسبت کسی کمال کا یقین کریں خدا تعالیٰ کے الہام کوصرف تبلیغ کے طور پر میں نے ہر ایک کوپہنچا دیا ہے مگر میں اپنی پرستش کروانی نہیں چاہتا.اگر آپ کے دل میں خدا تعالیٰ نیک بات ڈال دے تو آپ خطوط کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں ورنہ میں آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتا اگر آپ اپنے خیال بالمقابل تالیف کے فیصلہ کے لئے قادیان میں آویں تو اگرچہ ایسی باتوں سے میں دلی کراہت کرتاہوں تاہم مجھے منظور ہے شایدآپ کے لئے اس میں کچھ فائدہ ہو یہ فیصلہ ملاقات سے ہو سکتا ہے حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب اسی جگہ موجود ہیں کئی دن سے آپ کاخط پہنچا ہوا ہے مگر میں درد سے بیمار رہا طاقت نہیں تھی آج ذرا افاقہ ہوا تو خط لکھا ہے مگر ڈاک روانہ ہو چکی ہے شائد تیسرے دن آپ کو خط ملے گا.٭ ۳؍اپریل ۱۸۹۴ء خاکسار میرزا غلام احمدازقادیان ٭ الحکم نمبر۳۸ جلد۷ مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۵ تا ۷

Page 392

مکتوبات بنام مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری مکتوب نمبر۱ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان مکتوبات میں سے بعض مکتوب جو حضور انور نے وقتاً فوقتاً مخالفین کے نام رقم فرمائے تھے.لیکن جو حضور انور کی کتب یا مجموعہ مکاتیب میں درج نہیں ہیں.خاکسار نے مخالفین کی کتب و رسائل سے لے کر الفضل میں شائع کروائے تھے.اسی سلسلہ میں… ایک اور خط ذیل میں درج کیا جاتاہے.جو حضور پُرنور نے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے جواب میں اس وقت تحریر فرمایا تھا جبکہ وہ جنوری ۱۹۰۳ء میں قادیان میں آکر مندر آریہ سماج میں مقیم ہوئے تھے.یہ خط مولوی صاحب کی کتاب’’ تاریخ مرزا ‘‘سے نقل کیا جا رہا ہے.خاکسار ملک فضل حسین کارکن صیغہ تالیف و تصنیف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ از طرف عائذ باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ وایّدہ بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب آپ کا رقعہ پہنچا.اگر آپ لوگوں کی صدق دل سے یہ نیت ہو کہ اپنے شکوک وشبہات پشین گوئیوں کی نسبت یا ان کے ساتھ اورامور کی نسبت بھی جو دعویٰ سے تعلق رکھتے ہوں رفع کراویں.تویہ آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہوگی.اور اگرچہ میں کئی سال ہوگئے کہ اپنی کتاب انجام آتھم میں شائع کر چکا ہوں کہ میں اس گروہ مخالف سے ہرگز مباحثات نہیں کروں گا.کیونکہ اس کا نتیجہ بجز گندی گالیوں اور اوباشانہ کلمات سننے کے اور کچھ ظاہر نہیں ہوا.مگر میں ہمیشہ طالبِ حق کے شبہات دور کرنے کے لئے تیار ہوں.اگرچہ آپ نے اس رقعہ میں دعویٰ تو کردیا ہے کہ میں طالبِ حق ہوں.مگر مجھے تأمّل ہے کہ اس دعویٰ پر آپ قائم رہ سکیں.کیونکہ آپ لوگوں کی عادت ہے کہ ہر ایک بات کو کشاں کشاں بیہودہ اورلغو مباحثات کی طرف لے

Page 393

آتے ہیں.اور میں خدا تعالیٰ کے سامنے وعدہ کر چکا ہوں کہ ان لوگوں سے مباحثات ہرگز نہیں کروں گا.سو وہ طریق جو مباحثات سے بہت دورہے وہ یہ ہے کہ آپ اس مرحلہ کو صاف کرنے کے لئے اوّل یہ اقرار کر دیں کہ آپ منہاج نبوت سے باہر نہیں جاویں گے.اور وہی اعتراض کریں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یا حضرت عیسیٰ پر یا حضرت موسیٰ پر یا حضرت یونس پر عائد نہ ہوتا ہو اور حدیث اور قرآن کی پیشگوئیوں پرزد نہ ہو.دوسری یہ شرط ہوگی کہ آپ زبانی بولنے کے ہرگز مجاز نہیں ہوں گے.صرف آپ مختصر ایک سطر یا دو سطر تحریر دے دیں کہ میرا یہ اعتراض ہے.پھر آپ کو عین مجلس میں مفصّل جواب سنایا جاوے گا.اعتراض کے لمبا لکھنے کی ضرورت نہیں.ایک سطر یا دو سطر کافی ہیں.تیسری یہ شرط ہوگی کہ ایک دن میں صرف ایک ہی اعتراض آپ کریں گے کیونکہ آپ اطلاع دے کر نہیں آئے چوروں کی طرح آگئے.اور ہم ان دنوں بباعث کم فرصتی اور کام طبع کتاب کے تین گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں خرچ کرسکتے.یاد رہے کہ یہ ہرگز نہیںہوگا کہ عوام کالانعام کے روبرو آپ وعظ کی طرح لمبی گفتگو شروع کردیں بلکہ آپ نے بالکل مونہہ بند رکھنا ہوگا.جیسے صمٌ.بکمٌ.اس لئے کہ تاگفتگو مباحثہ کے رنگ میں نہ ہو جائے.اوّل صرف ایک پیشگوئی کی نسبت سوال کریں.تین گھنٹہ تک میں اس کا جواب دے سکتاہوں.اورایک ایک گھنٹہ کے بعد آپ کومتنبہ کیا جائے گا کہ اگر ابھی تسلّی نہیں ہوئی تو اور لکھ کرپیش کرو.آپ کا کام نہیں ہوگا کہ اس کو سناویں.ہم خود پڑھ لیںگے مگر چاہئے کہ دو تین سطر سے زیادہ نہ ہو.اس طرز میں آپ کا کچھ ہرج نہیں ہے.کیونکہ آپ تو شبہات دور کرانے آئے ہیں.یہ طریق شبہات دور کرانے کا بہت عمدہ ہے.میں بآواز بلند لوگوں کو سنا دوں گا کہ اس پیشگوئی کی نسبت مولوی ثناء اللہ صاحب کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا ہے.اوراس کا یہ جواب ہے.اسی طرح تمام وساوس دور کردئیے جاویں گے.لیکن اگر یہ چاہو کہ بحث کے رنگ میں آپ کو بات کا موقعہ دیا جائے.تو یہ ہرگز نہیں ہوگا.چودہویں جنوری ۱۹۰۳ء تک میں اس جگہ ہوں.بعد میں ۱۵؍جنوری کو ایک مقدمہ پر جہلم جائوں گا.سو اگرچہ کم فرصتی ہے.مگر چودہ جنوری تک ۳گھنٹہ تک آپ کے لئے خرچ کر سکتا ہوں.اگر آپ لوگ کچھ نیک نیتی سے کام لیں تو یہ ایک ایسا طریق ہے کہ اسسے آپ کو فائدہ ہوگا.ورنہ ہمارا اور آپ

Page 394

لوگوں کا آسمان پرمقدمہ ہے خود خدا تعالیٰ فیصلہ کردے گا.سوچ کر دیکھ لو کہ یہ بہتر ہوگا کہ آپ بذریعہ تحریر جو سطر دوسطر سے زیادہ نہ ہو.ایک ایک گھنٹہ کے بعدا پنا شبہ پیش کرتے جاویں گے اور میں وہ وسوسہ دور کرتا جائوں گا.ایسے صدہا آدمی آتے ہیں.اور وسوسے دور کرالیتے ہیں.ایک بھلا مانس شریف آدمی ضرور اس بات کو پسند کرلے گا.اس کو اپنے وساوس دور کرانے ہیں اور کچھ غرض نہیں لیکن وہ لوگ جوخدا سے نہیں ڈرتے ان کی تو نیتیں ہی اور ہوتی ہیں.بالآخر اس غرض کے لئے کہ اب آپ اگر شرافت اور ایمان رکھتے ہیں.قادیان سے بغیر تصفیہ کے خالی نہ جاویں.دو قسموں کا ذکر کرتا ہوں.اوّل چونکہ میں رسالہ ’’انجام آتھم‘‘ میں خدا تعالیٰ سے قطعی عہد کرچکا ہوں کہ ان لوگوں سے کوئی بحث نہیں کروں گا اس وقت پھر اس عہد کے مطابق قسم کھا تا ہوں کہ میں زبانی آپ کی کوئی بات نہیں سنوں گا صرف آپ کویہ موقعہ دیا جائے گا کہ آپ اوّل ایک اعتراض جو آپ کے نزدیک سب سے بڑا اعتراض کسی پیشگوئی پر ہو.ایک سطر یا دو سطر حد تین سطر لکھ کر پیش کریں.جس کا مطلب یہ ہو کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.اورمنہاج نبوت کی رو سے قابل اعتراض ہے اور پھر چپ رہیں.اور میں مجمع عام میں اس کا جواب دوں گا.جیسا کہ مفصل لکھ چکا ہوں.پھر دوسرے دن اسی طرح دوسری لکھ کر پیش کریں.یہ تو میری طرف سے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس سے باہر نہیں جائوں گا.اور کوئی زبانی بات نہیں سنوں گا.اورآپ کی مجال نہیں ہوگی کہ ایک کلمہ بھی زبانی بول سکیں اور آپ کو بھی خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ آپ اگر سچے دل سے آئے ہیں تو اس کے پابند ہو جاویں.اور ناحق فتنہ و فساد میں عمر بسر نہ کریں.اب ہم دونوں میں سے ان دونوں قسموں میں سے جو شخص انحراف کرے گا اس پر خدا کی لعنت ہے اور خدا کرے کہ وہ اس لعنت کا پھل بھی اپنی زندگی میں دیکھ لے.اٰمین.سو میں اب دیکھوں گا کہ آپ سنت ِ نبوی کے موافق اس قسم کو پورا کرتے ہیں یا قادیان سے نکلتے ہوئے اس لعنت کو ساتھ لے جاتے ہیں.اور چاہئے کہ اوّل آپ مطابق اس عہد مؤکد بقسم کے آج ہی ایک اعتراض دوتین سطر لکھ کر بھیج دیں.اور پھر وقت مقرر کرکے مسجد میں

Page 395

مجمع کیا جاوے گا.اور آپ کو بلایا جاوے گااور عام مجمع میں آپ کے شیطانی وساوس دور کر دئیے جائیں گے.٭ مرزا غلام احمدبقلم خود (مہر) مکتوب نمبر۲ جواب الجواب حضرت اقدس کی طرف سے مولوی ثناء اللہ صاحب.آپ کا رقعہ حضرت اقدس امام الزمان مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت مبارک میں سنا دیا گیا چونکہ مضامین اس کے محض عناد اور تعصّب آمیز تھے جو طلب حق سے ُبعد المشرقین کی دوری اس سے ظاہر ہوتی تھی.لہذا حضرت اقدس انجام آتھم میں اور نیز اپنے خط مرقومہ جواب رقعہ سامی میں قسم کھا چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے عہد کر چکے ہیں کہ مباحثہ کی شان سے مخالفین سے کوئی تقریرنہ کریں گے.خلاف معاہدہ الٰہی کے کوئی مامور من اللہ کیونکر کسی فعل کا ارتکاب کر سکتا ہے.طالب ِ حق کے لئے جو طریق حضرت اقدس نے تحریر فرمایا ہے.کیا وہ کافی نہیں.لہٰذاآپ کی اصلاح جو بطرز نشان مناظرہ آپ نے لکھی ہے.وہ ہرگز منظور نہیں ہے.اور یہ بھی منظور نہیں فرماتے ہیں کہ جلسہ محدود ہو بلکہ فرماتے ہیں کہ کل قادیان وغیرہ کے اہل الرائے وغیرہ مجتمع ہوں تاکہ حق و باطل سب پر واضح ہو جاوے.والسلام علی من اتبع الھُدٰی.٭ ٭ خاکسار ۱۱؍جنوری ۱۹۰۳ء محمد احسن بحکم حضرۃ امام الزمان عم گواہ شد گواہ شد محمد سرور ابوسعید عفی عنہ ٭ الفضل نمبر۱۷۷ جلد۳۴ مورخہ ۳۰؍جولائی ۱۹۴۶ء صفحہ ۳ ٭٭ الحکم نمبر۵ جلد۷ مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷

Page 396

مکتوب نمبر۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ  بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب السلام علی من اتبع الہدیٰ مدت سے آپ کے پرچہ اہلحدیث میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے.ہمیشہ مجھے آپ اپنے اس پرچہ میں مردود کذّاب دجال مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور کذّاب اور دجال ہے اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افترا ہے.میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے پھیلانے میں مامور ہوں اور آپ بہت سے افترا میرے پر کر کے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں اور ان تہمتوں اور ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہو سکتا اگر میں ایسا ہی کذّاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جائوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذّاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے تا خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے اور اگر میں کذّاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اللہ کے موافق آپ مکذّبین کی سزا سے نہیں بچیں گے.پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے.جیسے طاعون ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئی تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں بلکہ محض دعا کے طور پر.میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم و خبیر ہے.جو میرے دل کے حالات سے تو واقف ہے.اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذّاب ہوں اور دن رات افترا کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا

Page 397

کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے.آمین مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگرمولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و ہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے روبرو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدزبانیوں سے توبہ کرے جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے آمین یارب العالمین.میں ان کے ہاتھ سے بہت ستایا گیا اور صبر کرتا رہا مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بدزبانی حد سے گذر گئی وہ مجھے ان چوروں اور ڈاکوئوں سے بھی بدتر جانتے ہیں جن کا وجود دنیا کے لئے سخت نقصان رساں ہوتا ہے اور انہوں نے ان تہمتوں اور بدزبانیوں میں آیتٌ.۱؎ پر بھی عمل نہیں کیا اور تمام دنیا سے مجھے بدتر سمجھ لیا اور دور دور ملکوں تک میری نسبت یہ پھیلا دیا ہے کہ یہ شخص درحقیقت مفسد اور ٹھگ اور دوکاندار اور کذّاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بد آدمی ہے سو اگر ایسے کلمات حق کے طالبوں پر بداثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ انہیں تہمتوں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تو نے اے میرے آقا اور میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے.اس لئے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذّاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر.اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر.آمین ثم آمین.رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْن.آمین بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس تمام مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں.اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے.٭ مرقومہ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء یکم ربیع الاول ۱۳۲۵ھ الراقم عبد اللہ الصمد مرزا غلام احمد مسیح موعود عافاہ اللہ و ایدہ ۱؎ بنی اسرائیل : ۳۷ ٭ بدر نمبر۱۶ جلد۶ مورخہ ۱۸؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴

Page 398

مکتوب بنام میاں حسن نظامی صاحب.دہلی جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دہلی میں خواجہ شیخ نظام الدین صاحب علیہ الرحمۃ کے مزار مبارک پرتشریف لے گئے تو وہاں کے سجادہ نشینوں میں سے میاں حسن نظامی صاحب نے نہایت محبت سے ساتھ ہو کر تمام مقامات دکھائے.اور ہر مقام کے تاریخی حالات عرض کئے اور بالآخر اپنے خاص حجرے میں بھی حضرت اورخدام کو لے گئے اور ایک کتاب بنام شواہد نظامی پیشکش کی اور حضرت کے وہاں جانے سے پیشتر مکان پر آکر یہ بھی عرض کی تھی کہ آپ جب وہاں آئیں تو بمعہ اصحاب میری دعوت قبول فرمائیں.میاں حسن نظامی صاحب حضرت کی روانگی کے وقت اسٹیشن پر بھی موجود تھے.اور ان کے زبانی اصرار اورتحریری درخواست کے جواب میں جو یہاں بذریعہ ڈاک قادیان پہنچی ہے.حضرت نے اپنے وہاں جانے کے متعلق ایک تحریر ان کو بھیجی ہے جو ذیل میں درج کی جاتی ہے.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ وَ آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَجَمِیْعِ عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ.اما بعد شعبان المبارک ۱۳۲۳ھ میں مجھے جب دہلی جانے کا اتفاق ہوا تو مجھے ان صلحاء اور اولیاء الرحمن کے مزاروں کی زیارت کا شوق پیداہوا.جو خاک میں سوئے ہوئے ہیں کیونکہ جب مجھے دہلی والوں سے محبت اورانس محسوس نہ ہوئی.تومیرے دل نے اس بات کے لئے جوش مارا کہ وہ ارباب صدق و صفاء اور عاشقان حضرت مولیٰ جو میری طرح اس زمین کے باشندوں سے بہت ساجوروجفا دیکھ کر اپنے محبوب حقیقی کو جا ملے.ان کی متبرک مزاروں کی زیارت سے اپنے دل کو خوش کر لوں پس میں اسی نیت سے حضرت خواجہ شیخ نظام الدین ولی اللہ رضی اللہ عنہ کے مزار متبرک پر گیا.اور ایسا ہی دوسرے چندمشائخ کے متبرک مزاروںپر بھی.خداہم سب کو اپنی رحمت سے معمور کرے.آمین ثم آمین.الراقم ٭ ۱۲؍نومبر ۱۹۰۵ء عبداللہ الصمد غلام احمد المسیح الموعود من اللہ الاحد القادیانی ٭ بدر نمبر۳۷ جلد۱ مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۳

Page 399

مکتوب بنام مولوی سید حسین صاحب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مکرمی اخویم مولوی سیدحسین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا تعجب ہے کہ جس حالت میں اس عاجز کے الہام کی نسبت شکوک و شبہات ہیں تومیرا الہام کیونکر آپ کے لئے تسلی بخش ہوگا یہ تمام دعویٰ بھی الہام ہی پر مبنی ہیں پھر جب آپ نے لکھا ہے کہ آپ نے حد سے بڑھ کر ایک بڑے پایہ پر قدم رکھا اور کتاب اللہ و احادیث کے صریح معنوں کو چھوڑ دیا تو پھر اس حالت میں آپ کسی دوسرے الہام کو کب عز ّت کی نگاہ سے دیکھیں گے.عزیز من! نہ میں نے قرآن کریم کو چھوڑا اور نہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو لیکن جو لوگ قرآن اور حدیث میں غور نہ کریں ان کا علاج میں کیا کروں میں نے اپنی کتاب ’’حمامۃ البشریٰ ‘‘ اور رسالہ’’ اتمام الحجۃ ‘‘ اور ’’نور الحق‘‘ وغیرہ میں ان مضامین کو بسط سے لکھا ہے.پھر اگر کوئی نہ سمجھے تو اس کا علاج انسان کے ہاتھ میں نہیں.سچ کے ڈھونڈنے والے فروع پر زور نہیں مارتے بلکہ اصول کو دیکھتے ہیں.پھر جبکہ قرآن اور حدیث اورآثارِ صحابہ اور آئمہ دین کے صریح اقرار سے ثابت ہوگیا کہ حضرت عیسٰی فوت ہوگئے توآپ کس عالم میں مسیح کو آسمان سے اُتارنا چاہتے ہیں.اگر آپ میرے پاس آویں یا میری کتابوں کوغور سے دیکھیں تو میں ہرگز باور نہیں کرتا کہ آپ اس بیہودہ اعتقاد پر ایک ساعت کے لئے بھی قائم رہ سکیں مگر انصاف شرط ہے اورامید رکھتا ہوں کہ آپ منصف مزاج ہوں گے.صرف قلّت معلومات آپ کو مانع ہورہی ہے.کیاعمدہ ہو کہ آپ ایک یا دو ہفتے کے لئے میرے پاس آجاویں تا آپ کی پوری تسلی ہو اور آپ کا ایمان اس صدمہ سے بچ جاوے جو غلط فہمی کا لازمی نتیجہ ہوا کرتاہے.آپ نے قلم اُٹھا کر کئی باتیں ایسے طور سے لکھ دیں جو تقویٰ سے بعید ہیں.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہےٌ.۱؎ ۱؎ بنی اسرائیل : ۳۷

Page 400

افسوس آپ کو پیشگوئیوں کا حال معلوم نہیں وہ تو درحقیقت پوری ہو چکی ہیں مگر آپ نے کتابیں نہیں دیکھی ہیں.میں آپ پر یہ الزام نہیں لگاتا کہ آپ نے عمداً حق سے گریز کی ہے خدا تعالیٰ ہر مومن کو اس بیجا حرکت سے محفوظ رکھے مگر بیشک آپ پر یہ الزام ہے کہ آپ نے باوجود بے خبری کے جلدی رائے ظاہر کردی.مومن کی یہ شان ہونی چاہئے کہ وہ جلدی نہ کرے اور فدک کی بابت جو آپ کو گھبراہٹ ہے میں اس میں تعجب ہی کرتا ہوں کہ یہ گھبراہٹ کیوں ہے.علماء کے اتفاق سے باغ فدک غنیمت کی اس قسم سے تھا جس کو فَيْکہتے ہیں چنانچہ علمائے شیعہ بھی اس کے قائل ہیں اور قرآن کریم کی نصّ صریح سے ثابت ہوتاہے کہ فَيْمیں نہ ہبہ ہو سکتا ہے اور نہ تقسیم ہو سکتی ہے.اس صورت میں اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فدک کادعویٰ کیا تو حضرت فاطمہؓ کی غلطی ہے.قرآن شریف فرماتا ہے کہ فَيْ ایک مشترک چیز ہے.جس میں مہاجرین، ابن السبیل اور ذوالقربیٰ وغیرہ سب داخل ہیں.پھر وہ حضرت فاطمہؓ کو کیونکر دیا جاتا چنانچہ یہی مقدمہ حضرت عمرؓ کی خلافت کے وقت حضرت علیؓ و حضرت عباس نے حضرت عمرؓ کے سامنے پیش کیا تھا اور ہر ایک نے اپنے حق کا دعویٰ کیا تو حضرت عمرؓ نے ان کے حوالہ اس شرط سے کر دیا کہ وہ اس کے متولیّ ہو کر وہ تمام حقوق ادا کریں جو قرآن شریف میں درج ہیں اور انہوں نے تقسیم کی درخواست کی تو وہ نامنظور ہوئی.حضرت علیؓ نے حضرت عمرؓ کے سامنے ذکر کیا کہ باغ فدک آنحضرتؐ نے حضرت فاطمہؓ کو ہبہ کردیا تھا مگر حضرت عباسؓ نے اس بیان کی تکذیب کی اور اس کی صحت سے انکار کیا.غرض فَيْمیں نہ تقسیم ہوتی ہے نہ ہبہ ہوتا ہے.قرآن شریف کے اگر کوئی معارض حدیث ہو تووہ ترک کرنے کے لائق ہے.شیعوں کی معتبر کتاب کلینی میں لکھا ہے اگر کوئی حدیث قرآن کے مخالف ہو تو وہ قبول کرنے کے لائق نہیں اور آپ کی یہ کس قدر غلطی ہے کہ آپ خیال کرتے ہیں کہ سلیمان داؤد کا وارث ہوا.آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت داؤد ؑ کے انیس بیٹے تھے.پس اگر یہ مال کے وارث ہیں تو سلیمان کی تخصیص سے معنے فاسد ہوتے ہیں.اس لئے آیت کے معنے یہ ہیں کہ داؤد کی نبوت دائود کی بادشاہی دائود کا علم

Page 401

حضرت سلیمان کو ملا بھائیوں کو نہیں ملا.پس یہ آیت تو اہل سنّت کے مفید ہے نہ شیعہ کے کیونکہ اس آیت سے صاف پایا جاتاہے کہ دوسرے بھائی ان چیزوں کے وارث نہیں ہوئے جن کا سلیمان وارث ہوا اسی طرح تورات سے ثابت ہوتا ہے کہ موسیٰ اپنے باپ کا وارث نہ ہوا اور نہ موسیٰ کا بیٹا اِس کا وارث ہوا.ایسا ہی انجیل سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح جن کے چار بھائی اور تھے یعنی یعقوب وغیرہ یہی بھائی حضرت مریم کے وارث ہوئے اور حضرت مسیح نے صاف لفظوں میں وراثت سے دست برداری ظاہر کی پھر دیکھیئے کہ یہ حدیث لَا نُوْرَثُ وَمَا تَرَکْنَاہُ فَھُوَ صَدقَۃٌ جو حضرت ابوبکر نے سنائی ہے اس کی ہم مضمون کلینی میں ایک حدیث موجود ہے اور کلینی شیعوں میں وہ کتاب ہے جو اس کی شان میں لکھا ہے کہ مہدی موعود صاحب الزمان نے اس کی تصدیق کردی ہے گویا صاحب کلینی نے یہ کتاب اُن کودکھلا دی اور انہوں نے اس کی صحت کو تصدیق کیا.پھر جبکہ ایسی مقدس کتاب میں یہ لکھا ہوا ہے کہ جو حدیث قرآن کے مخالف ہو وہ ردّی ہے اور نیز یہ کہ وراثت دنیا کا مال نہیں ہوتی.یہ فیصلہ شیعوں کے اقرار سے ہوگیا.باقی رہا یہ وہم کہ حضرت فاطمہؓ نے کیوں دعویٰ کیا اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ کو فدک سے کچھ ملتا ہوگا اور شائد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجمل طور پر کچھ فرمایا ہوگا سو بشریت سے حضرت فاطمہؓ کے اجتہاد میں غلطی ہوئی کہ انہوں نے کہہ دیا کہ یہ سب میرا مال ہے اور قابل تقسیم ہے.علاوہ اس کے اس آثار کے لفظ محفوظ نہیں خدا جانے حضرت فاطمہؓ نے کیا کہا اور راوی نے کیا باور کیا.قرآن شریف مقدم ہے اور اگر حضرت فاطمہؓ جناب الصدیق رضی اللہ عنہ سے آزردہ ہوئیں تو کچھ بات نہیں.جب وہ خود غلطی پر تھیں تو ان کی آزردگی کچھ چیز نہیں ہے.حضرت ابوبکر خلیفۃ اللہ تھے.ان کا حکم خدا کا حکم تھا.٭ والسلام خاکسار غلام احمد ٭ الحکم نمبر۳۷ جلد۷ مورخہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳

Page 402

مکتوب بنام ڈاکٹر رستم علی خان صاحب ذیل میں ہم برادر مکرم مفتی محمدصادق صاحب کا ایک خط درج کرتے ہیں جو انہوں نے اعلیٰ حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد سے ایک ڈاکٹر صاحب کے جواب میں لکھا ہے.ہم جواب کے ساتھ اصل خط بھی شائع کرنا ضروری سمجھتے ہیں.(ایڈیٹر) حضور عالی! السلام علیکم.مہربانی فرما کر ذیل کے سوالوں کا مفصل جواب دے کراس عاجز کو ممنون ومشکور کریں گے.آپ کی بہت بڑی عنایت ومہربانی ہوگی.۱.فی زمانہ یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ جو شخص مریض طاعون کے پاس بیٹھتا ہے یااس کے ساتھ رہتا سہتاہے تو اس شخص کو بسبب اجرام طاعون کے اس کے جسم میں داخل ہونے سے مرض طاعون ہو جاتا ہے مگر رسول اللہ نے اس بات کو نفی اورباطل کیا یعنے سرائیت کرنا مرض کا ایک سے دوسرے کو نہیں ہوتا.لَاعَدْوَی وَلَاطِیَرَۃَ وَلَا ھَامَۃَ وَلَا صَفَرَ.۱؎ ۲.جب کسی جگہ طاعون پھیلتا ہے تو ڈاکٹر لوگ شہروالوں کی خوشی سے یا حکمًا لوگوں کو صاف ہوادار کھلے میدان میں بلحاظ حفظ صحت کے باہر نکل جانے کا حکم دیتے ہیں.مگر رسول اللہ نے حکم دیا ہے.اَلْفَارُّ مِنَ الطَّاعُوْنِ کَالْفَارِّمِنَ الزَّحْفِ وَالصَّابِرُ فِیْہِ لَہٗ اَجْرُ شَہِیْدٍ.۲؎ ۳.حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں جب لشکر اسلام شام پر چڑھائی کو جارہا تھا تب اُس لشکر میں طاعون ظاہر ہوا اس وقت حضرت عمرؓ نے کیا انتظام کیا تھا.اوران کا کیاحکم ہے.۴.کیا کسی آیت یا حدیث سے ثابت ہوتاہے.دوران وباء طاعون میں لوگ کھلے میدانوں میں نکل جاویں مگر اس طاعون زدہ شہر کے حد ہی میں رہیں.٭ خادم رستم علی خان مقام آگرہ مالوہ.وسط ہند.رسالہ نمبر ۳۹مورخہ ۹؍جولائی ۱۹۰۴ء ۱؎ مسلم.کتاب السلام باب لاعَدْوَی وَلَاطِیَرَۃَ…الخ ۲؎ مسند احمد بن حنبل مسند المکثرین من الصحابہ مسند جابر بن عبد اللہ ٭ الحکم نمبر۲۳، ۲۴ جلد۸ مورخہ ۱۷، ۲۴ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۷

Page 403

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی اخویم جناب ڈاکٹر رستم علی خان صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط مورخہ ۹؍جولائی ۱۹۰۴ء حضور اقدس مسیح موعود کی خدمت میں پہنچا.جس میںآپ نے یہ دریافت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَاعَدْوَی وَلَاھَامَۃَ الخ اور آج کل تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ مرض طاعون متعدی ہے اورحدیث سے ثابت ہے کہ طاعون سے بھی بھاگنا گناہ ہے.لیکن فی زمانہ طاعونی جگہ سے نکل کر باہر رہنا مفید پایا گیا ہے.اورایسا ہی آپ نے دریافت کیا ہے کہ طاعون کی جگہ کو چھوڑنے کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کیا حکم تھا اور گائوں سے نکل کر کھلے میدان میں جانا کس آیت یا حدیث سے ثابت ہے.ان سوالات کے جواب میں حسب الحکم حضرت اقدس مہدی معہود علیہ السلام آپ کو تحریر کیا جاتا ہے کہ حدیث شریف لَاعَدْوَی وَلَاھَامَۃَ صحیح ہے مگر اس حدیث کو دیگر احادیث کے ساتھ جو اسی بارے میں آنحضرتؐ سے مروی ہیں ملا کر پڑھنا چاہئے.چنانچہ ایک حدیث میں وارد ہے کہ فِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ فَرَارَکَ مِنَ الْاَسَدِ ۱؎ یعنی کوڑہی سے ایسا بھاگ جیساکہ شیر سے بھاگنا ہے.پس اگر.اوّل الذّکر حدیث سے یہ ثابت ہوتاہے کہ کوئی مرض متعدی نہیں تو دوسری سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امراض متعدی بھی ہوا کرتی ہیں اور رسول اللہ کے کلام میں تناقض نہیں ہوتا.پس اصل بات یہ ہے کہ حکمت اور طبابت کے رنگ میں جو خواص اشیاء میں ہیں ان کا ابطال آنحضرتؐ نے نہیں کیا.بلکہ لَاعَدْوَی وَلَاھَامَۃَ فرمانے سے آپ کا یہ منشاء ہے کہ بغیر اذنِ الٰہی کے کوئی شیٔ کسی کو ضرر نہیں پہنچا سکتی.اصل بات یہ ہے کہ ہمیشہ مشرکین کا یہ طریق رہا ہے کہ وہ بسبب بت پرستی کے توہمات میں بہت غرق ہوتے ہیں اور ہر ایک خوشی یارنج کو خداکے سوائے کسی دیوی دیوتا یا کسی درخت یا پرندہ یا کسی اور مادی چیز کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اسی کی پرستش کرتے ہیں.۱؎ مسند احمد بن حنبل مسند المکثرین من الصحابہ مسند جابر بن عبد اللہ

Page 404

چنانچہ ہندو چیچک کے وقت چیچک کی پوجاکرتے ہیں اور عرب بارش کو ستاروں کی طرف منسوب کرتے تھے کہ فلاں ستارے نے ہم پر بارش برسائی.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عام بت پرستیوں اور توہمات کی بیخ کنی کے واسطے مبعوث ہوئے تھے.اس واسطے آپ نے ہر بات میں توحید کا سبق دیا اور اس معاملہ میں لوگوں کے اس اعتقاد کواُڑایا کہ بیماریاں خود بخود آتی ہیں اور خودبخود چلی جاتی ہیں اور ان کو سکھا یاکہ عَدْوَی اور ھَامَۃَ کچھ چیز نہیں.سب اشیاء خدا کی خادم ہیں اوربغیر اس کے حکم کے نہ کوئی بیماری بڑھ سکتی ہے اور نہ اورکوئی دکھ یا تکلیف کسی کے نزدیک آسکتاہے.یہ ایک خالص توحید تھی جس کی طرف آنحضرتؐ نے قوم کو توجہ دلائی ورنہ اس سے یہ منشاء ہرگز نہیں کہ اشیاء کے طبعی خواص کا انکار کیا جائے.کیونکہ عَدْوٰی کے متعلق خود جذامی سے بھاگنے کی حدیث موجود ہے اور ھامۃ کے متعلق ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت رسول کریم نے حضرت حسنؓ وحسینؓ کو دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ اُعِیْذُ کُمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ شَرِّکُلِّ شَیْطَانٍ وَّ ھَّامَۃٍ ۱؎ اس سے ظاہر ہے کہ اگر ھامۃ دراصل کوئی شے نہیں تو پھر اس سے خدا کی پناہ مانگنا کیا معنے رکھ سکتا ہے.اور دنیا کے تجربہ و مشاہدہ سے بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہر حالت میں ہمیشہ طاعون یا کوئی اور بیماری اپنے خواص متعدی ہونے کے ظاہر نہیں کرتی.گزشتہ سال میں بہت سے شہروں میں کئی لوگوں نے بوجہ ہمدردی کے یا بوجہ معقول مزدوری کے لالچ کے یہ پیشہ اختیار کیا تھا کہ طاعونی مرُدوں کو کوٹھڑیوں میں سے اٹھا کر باہر لے جاتے اور دفن کرتے یا جلاتے اور باوجود ایسے متعفّن مکانات میں داخل ہونے کے اور اپنے ہاتھ سے مُردوں کو اٹھانے اور اتنی دور لے جانے کے وہ سب صحیح وسلامت رہے اور کچھ اثر اُن پر نہ ہوا.اور ایسا ہی کئی لوگ اپنے عزیز مریضوں کی خدمت میں برابر مصروف رہے اور بسا اوقات وہ مریض مر بھی گیا اور متوفی کے کپڑے وغیرہ بھی پس ماندوں نے استعمال کئے مگر اُن کو خدا نے بچا لیا.پس یہ صحیح نہ ہوگا کہ یہ قاعدہ کلیہ بنایا جائے کہ طاعون کی مرض ایسی متعدی ہے اور اس کی یہ خاصیت ایسی طاقتور ہے کہ ہرگز نہیں ٹلتی ایسا خیال انسان کو رفتہ رفتہ توحید سے باہر نکال لے جاتاہے.اصل بات وہی ۱ ؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء

Page 405

ہے جو آنحضرت ؐ نے فرمائی کہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے اور اگر آپ اس قدرت نمائی کا زبردست نشان دیکھنا چاہیں تو قادیان میں دیکھ سکتے ہیں.جہاں کہ گزشتہ دو سال سے طاعون پڑتا ہے اور بہت سے واقعات موت ہوجاتے ہیں.لیکن حضرت مرزا صاحب کے گھر کو خدا تعالیٰ ہمیشہ اپنے وعدہ کے مطابق جو بہت عرصہ پہلے شائع ہو چکاہے کہ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّار ۱؎ محفوظ رکھتا ہے.سوچنا چاہئے کہ جب دیوار بدیوارجو گھرہیں اُن میں برابر وارد اتیں ہوتی ہیں تو کس چیز نے اُن کیڑوں کو جو ساتھ کے گھر میں ہیں اس بات سے روک دیا ہے کہ اس گھر میں آجاویں اور اگر اس گھر میں آگئے ہیں تو کس چیز نے اُن کو روک دیا ہے کہ اپنے فعل سے وہ بالکل بے کار پڑے ہیں.کیا یہ واقع اس امر کے واسطے کافی دلیل نہیں ہے کہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے دست ِ قدرت میں ہے اور دراصل عَدْوٰی اور ھَامَہ کچھ شیٔ نہیں ہے.ایسا ہی طاعونی علاقہ میں جانے یا وہاں سے نکلنے کے متعلق اصل حدیث اس طرح سے ہے.اَلطَّاعُوْنُ رِجْزٌ اُرْسِلَ عَلٰی طَائِفَۃٍ مِّنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ فَاِذَا سَمِعْتُمْ بِہٖ بِاَرْضٍ فَلَا تَقْدِمُوْا عَلَیْہِ وَاِذَا وَقَعَ بِاَرْضٍ وَاَنْتُمْ بِھَا فَـلَا تَخْرُجُوْا فَرَارًا مِّنْہُ.۲؎ یعنی طاعون ایک عذاب ہے جو یہود کے ایک گروہ پر نازل ہوا تھا جس وقت تمہیں خبر لگے کہ کسی زمین میں طاعون ہے تو اس میں نہ جائو اور اگر تم اس شہر میں پہلے سے موجود ہو اور طاعون واقع ہو جائے تو پھر ایسا نہ کرو کہ وہاں سے بھاگ کر کہیں اور جگہ چلے جاؤ.یہ حدیث آپ کے سوالات پر اور نیز طاعون کے عام حالات پربہت روشنی ڈالتی ہے.اوّل تو لا تقدمواسے ثابت ہوتاہے کہ آنحضرتؐ نے طاعون کے متعدی ہونے کے خواص کی طرف سے اشارہ کرکے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ انسان ایسے جگہ پر جا کر خواہ مخواہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالے.دوم.اگر ایک جگہ پھیل جائے تو وہاں سے دوسرے شہروں میں پھیلنے کے ذریعہ کو لاتخرجوا فراراً کا حکم سنا کر روک دیا.کیونکہ دیکھا جاتا ہے کہ جب ایک شخص گندی ہوا سییک دفعہ بھاگ کر ۱؎ تذکرۃ صفحہ ۳۴۸ ایڈیشن ۲۰۰۴ء ۲؎ بخاری.کتاب احادیث الانبیاء باب حدیث الفار

Page 406

دوسرے شہروں میں چلاجاتاہے جہاں ہوا صاف ہوتی ہے تو اس کے اندر کا مادہ خراب اس صفائی کی برداشت نہ کرکے جلد بھڑک اٹھتا ہے اوراگرچہ اپنے شہر میں وہ شخص بخیریت ہوتاہے تا ہم دوسرے شہرمیں آکر وہ بیماری میں مبتلا ہو جاتاہے اور پھر اس کی بیماری اس تمام شہر کے واسطے موجب ہلاکت ہو جاتی ہے.پس اس بات سے رسول اللہ نے منع فرمایا کہ کوئی شخص مطعون شہر سے بھاگ کر دوسرے شہروں کو خراب کرتا پھرے اوراگر اس بات پر ہندوستان میں عمل ہوتا تو بہت سے مصائب سے لوگ بچ جاتے.لیکن یہ اخراج اس وقت منع ہے جب کہ طاعون واقع ہو جائے یعنی خوب بڑھ جائے.لیکن ابتداابتدا میں نکل جانا فلا تقدموا کے حکم کے نیچے ہے.جب آدمی دیکھے کہ کسی جگہ طاعون پڑنے لگا ہے تو پھر وہاں رہنا گویا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے.اس واسطے وہاں سے نکل جانا جائز ہے.تیسرا اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طاعون ایک عذاب ہے اور یہود کے ساتھ اس کی خاص مناسبت ہے اور اس کے آئندہ واقع ہونے کے متعلق آنحضرت نے اس حدیث میں ایک اشارہ کیا ہے اورسمجھایا ہے کہ طاعون ایک عذاب ہے جو ایسے وقت میں نازل ہوتاہے جبکہ لوگ یہود خصلت ہوجائیں اور تمہارے درمیان بھی ایسا ہوگا اوراس وقت تم نے ایسا کرنا اورایسا نہ کرنا.پس یہ پیشگوئی اس زمانہ میں پوری ہوئی ہے.کوئی ہے جو غور کرے اور سوچے اور فائدہ اٹھائے.لیکن یہ بات کہ آدمی اگرچہ دوسرے شہروں میں نہ جائے تاہم یہ مناسب ہے کہ اسی شہر کے اردگرد اچھی ہوا میں جارہے.یہ بات بھی اسی حدیث سے اور آیت  ۱؎سے ثابت ہے.کیونکہ جب طاعون ایک رِجز ہے اور رِجز اور رُجز مترادف الفاظ ہیں جن کے معنے ہیں گندگی، توانسان کو چاہئے کہ گندگی سے بچنے کی کوشش کرے طبعاً بھی جب آدمی کے کپڑے میلے ہو جاتے ہیں تو وہ اُن کو بدلتا ہے اور مکان کی صبح شام صفائی کرتاہے اور جس جگہ بدبو ہو وہاں سے اٹھ کر اور جگہ جا بیٹھتا ہے.پس جب گلی کوچوں میں طاعون کی گندی ہوا پھیل جائے تو ایسی گلی کوچوں کو چھوڑ دینا اور اچھی ستھری جگہ جا بیٹھنا فطرتاً ایک عمدہ اور مفید امر ہے اور اسی پرعمل کرکے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس وقت جبکہ نشیب زمین میں طاعون پڑا تو ان صحابہ کبار کے مشورے کے بعد جو حضرت رسول کریم کی صحبت سے اکثر مستفیض ہو چکے تھے فوج کو وہاں سے ہٹا کر اونچی جگہ یعنے پہاڑی پر چڑھا دیا تاکہ اس جگہ کی گندی ہوا سے سب بچ کر صاف ہوا میں آجاویں اور انتشار موجب صفائی ہو جائے.حضرت عمرؓ کا یہ فعل قرآن شریف اور حدیث قدسی کے متابعت کے مطابق تھا اور یہ حدیث جو آپ نے تحریر کی ہے کہ ۱؎ المدثر : ۶

Page 407

اَلْفَارُّ مِنَ الطَّاعُوْنِ کَالْفَارِّمِنَ الزَّحْفِ وَالصَّابِرُ فِیْہِ لَہٗ اَجْرُ شَہِیْدٍ.۱؎ یعنی طاعون سے بھاگنے والا ایسا ہے جیسا کہ جنگ سے بھاگنے والا اوراس میں صبر کرنے والے کے واسطے شہید کا اجر ہے.یہ حدیث بھی ویسی ہی ہے جیسا کہ عَدْوٰی والی حدیث یعنی طاعون کو بجائے خود ایک قادر مقتدر چیز سمجھ کر انسان کو اس سے خوف نہیں کھانا چاہیے بلکہ اس کو خدا کے ہاتھ میں اور خدا کا ایک خادم سمجھنا چاہئے اوراس سے بھاگ کردوسرے شہروں میں جانا انسان کو نجات نہیں دے سکتا بلکہ خدا کے حکم کے مطابق انسان کو چاہئے کہ اپنی جگہ پر قیام رکھے اور صبر کرے پھر اگر حکم خداوندی کی اطاعت میں مارا بھی جائے تو بسبب اس اطاعت اورصبر کے اس کے واسطے شہید کا سا اجر ہے.یہ معنے تو اس حدیث کے صاف ہیں.لیکن اصل میں اس حدیث شریف میں ایک پیشگوئی ہے یعنی ایک زمانہ میں ایک ایسا طاعون پڑے گا جو مومنوں اور غیرمومنوں کے درمیان جنگ کا حکم رکھتا ہوگا.جیساکہ آنحضرت ؐ کے زمانہ میں کافر بذریعہ جنگ کے جو ان کے لئے عذاب الٰہی تھا ہلاک ہوئے.ایسا ہی اس زمانہ میں غیرمومن بذریعہ طاعون کے ہلاک ہوں گے اوراس وقت دو قسم کے لوگ ہوں گے.ایک وہ جو غیر مومن ہوں گے وہ طاعون کو بُرا مانیں گے اوراس سے بھاگنے کی کوشش کریں گے مگر ان کے واسطے کوئی مفر نہ ہوگا وہ اس جنگ میں بہرحال ہلاک ہوں گے.اور دوسرے مومن ہوں گے جو طاعون کو ایک نشانِ الٰہی سمجھیں گے اوراس کی قدر کریں گے اور وہ ان کے واسطے ازدیادِ ایمان کا موجب ہوگا اور وہ صبر کے ساتھ اس کے نتائج کو دیکھیں گے.اگر ان میں سے فوت بھی ہو جائے گا تو جیسا کہ جہاد کے وقت مرنے والے مومن شہید ہوتے ہیں ایسا ہی وہ بھی شہید ہوں گے.پس یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بڑی پیشگوئی ہے جو اس زمانہ میں آکر پوری ہوئی ہے.امید ہے کہ یہ بیان آپ کے لئے کافی ہوگا.اور اگر کسی امر اور میں شبہ باقی ہو تو پھر تحریر فرماویں.٭ والسلام آپ کا خادم عاجز محمدصادق گورداسپور ۱؎ مسند احمد بن حنبل.مسند المکثرین من الصحابہ.مسند جابر بن عبد اللہ ٭ الحکم نمبر۲۳، ۲۴ جلد۸ مورخہ۱۷،۲۴ ؍ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۷،۸

Page 408

مکتوب بنام مولوی عبدالرحمن صاحب عرف محی الدین ّلکھو کے والے خط جو حضرت اقدس جناب مسیح موعود ؑ کے حکم سے مولانا مولوی عبد الکریم صاحبؓ نے مولوی عبد الرحمن صاحب عرف محی الدین لکھوکے والے کو لکھا.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ سَـلَامٌ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی آپ کا کارڈ وصول ہوا.’’ سرالخلافہ‘‘ کے مقابلہ کی میعاد کی نسبت حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں.آپ جس قدر چاہیں اس کی توسیع ہو سکتی ہے کیونکہ ان کو کامل وثوق ہے اور حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ سے وہ مکرر الہام پا چکے ہیں کہ کوئی ان کا مخالف اس کے مثل لانے سے عہدہ برآ نہ ہو سکے گا.کاش اس وقت جو ایک عالم میں نزاع عظیم اور تشاجر عمیم واقع ہو رہا ہے.آپ جو بڑے ملہم اور مستجاب الدعوات کر کے مشہور ہیں.نہ صرف مسلمانوں پر بلکہ تمام دنیا پر بڑا بھاری احسان کریں کہ سرُّالخلافہ کا مقابلہ کر کے حضرت مرزا صاحب کے اس الہام کو ہی جھوٹا ثابت کریں.صرف اسی کی تکذیب پر جو آپ کے نزدیک کوئی متعسرامر نہیں جناب مرزا صاحب اپنے باقی تمام بڑے اور عظیم دعاوی اور بیّن دلائل اور مبرہن ثبوت چھوڑ دینے پر طوعاً راضی ہیں.سو اگر آپ دینی غیرت اور صوفیانہ حمیت کو کام میں لا کر اس مقابلہ اور مقادمہ کے مکفل ہو جائیں اور کافۂ اہل اسلام کو عموماً اور تمام مولویوں صوفیوں اورملہموں کو خصوصاً اس داغ رسوائی اور فضیحت و تشویر سے مخلصی دلائیں تو آپ کا یہ کارنامہ صفحات دہرپر ہمیشہ کے لئے یادگار رہ جائے گا.اس لئے کہ حضرت مرزا صاحب نے سخت سے سخت غیرت دلانے والے الفاظ اور خطرناک تحدّی آمیز دعووں سے آپ کے نظیر علماء و فقرا پر پردہ در حجت ثابت کی ہے.حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ ہر قسم کے مقابلہ میں فصاحت و بلاغت کا باب ہو.یا تحریر

Page 409

دقائق و حقائق تفاسیر قرآن شریف کا یا استجابت دعوات کا ہر باب میں اللہ تعالیٰ مخصوصاً آپ … کا ناصر و مولیٰ ہے اور دوسرے تمام صوفیؔ ،ملہمؔ، درویشؔ، محدثؔ، فقیہؔ،مقلّدؔ، غیرمقلدؔ، مخذول و مطرود ہیں اور کوئی ان کا مولیٰ نہیں.چنانچہ اس غرض سے ’’فیصلہ آسمانی‘‘ اور دیگر متعدد کتابیں عربی زبان میں لکھیں اور ہر پہلو سے اپنے منکروں کو ملزم اور ساکت کیا.کیا آپ پر یہ واجب الادادین نہیں کہ آپ اپنے دعویٰ ملہمیت کی قوت و استظہار سے اپنے تئیں تمام ہندیوں پنجابیوں اور غزنویوں کی طرف سے فدیہ ادا کرنے والا ثابت کریں.مولوی صاحب قسم بخدائے لایزال آپ کے علماء اور آپ کے ملہمین مخذول و مہجور ٹھہر گئے ہیں اور اس وقت سب آپ کے منہ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ آپ کب اس خوف ناک دھبہ کو دھونے کے لئے مردِ میدان بن کر نکلتے ہیں.۲.آپ لکھتے ہیں حضرت مرزا صاحب کی نسبت آپ کو الہام ہوا.اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ ھَامَانَ اور اسی رنگ کے بعض الہامات ابتدائی وقتوں میں بھی آپ نے بعض لوگوں کو لکھے ہیں.افسوس اگر آپ تقویٰ و طہارت کو مدنظر رکھ کر غور کریں تو آپ پر کھل جائے کہ یہ سب الہامات ابتلا کے رنگ میں خود آپ اور آپ کے مثیلوں پر اُلٹ کر پڑتے ہیں.اس لئے کہ حضرت مرزا صاحب اور ان کا قلیل گروہ تو اس وقت مستضعفین کی ایک جماعت ہے.جو ہر طرح کے استہزاء لعن طعن اور تکفیر و تحقیر کا نشانہ بن رہے ہیں.اور فرعون اور ہامان ان کے مخالفین ہیں جو رعونت نخوت تجبر اور تکبر سے انہیں استیصال و ہلاکت کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور درحقیقت اب تک فرعونی تعلّی اور استکبار کا کوئی دقیقہ تو اٹھا نہیں رکھا.چنانچہ ان سب کے استاد کا اس مصری متکبر والا وہ فقرہ جو اس نے تھوڑا عرصہ ہوا.اپنے رسالہ اشاعت السنہ میں لکھا تھا.اس کے قدیمی مصری بزرگ کو بھی پیچھے ڈالتا ہے اور وہ یہ ہے کہ.’’ہم ہی نے اس کو (مرزا صاحب کو) اونچا کیا تھا اور ہم ہی اس کو نیچے گرائیں گے‘‘.اور درحقیقت جو لوگ مبعوث و مامور ہو کر دنیا میں آتے ہیں.وہ تو ہمیشہ حسب عادت اللہ جناب موسیٰ و ھارون علیھما السلام کی طرح ضعیفوں اور متروکوں کے رنگ میں آتے ہیں.فرعون و ہامان کا لقب ہمیشہ سے ان کے مخالفوں کو ملتا رہا ہے.افسوس آپ نے کبھی اس امر میں غور نہ کی کہ جس قدر الہامات آپ کو اس بارہ میں ہو چکے ہیں وہ سب محتمل المعانی ہیں.شاید وہ آپ کے لئے باریک ابتلا و امتحان کے رنگ میں ہوں

Page 410

کیونکہ کبھی آپ کے الہام رساں نے حضرت مرزا صاحب کا نام لے کر تو آپ کو الہام نہیں کیا.اور جیسا اب تک آپ کے تحریر شدہ الہاموں سے ظاہر ہے.مرزا صاحب کے نام کو فقرہ الہام میں داخل کر کے تو آپ کو الہام نہیں دیا گیا اور میں اس وقت یہ بڑی بھاری اطلاع آپ کو دیتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب بڑے زور سے دعویٰ کر کے کہتے ہیں کہ ان کا نام لے کر یا ان کے نام کی طرف اشارہ کر کے ہرگز ہرگز آپ کو الہام نہ بخشا جائے گا.اور اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ مفتری اور متقوّل ٹھہریں گے.اور بہت جلد آپ کا ۱؎وہ تدارک ہو گا جو کاذبوں اور مفتریوں کا ہوا کرتا ہے.لیجئے ایک اور فیصلہ کی راہ نکل آئی اور آسانی سے قضیہ پاک ہو گیا.اب آپ کو قسم ہے اللہ جَلَّ شانُہٗ کی جو آپ اس طرف توجہ نہ کریں.اگر آپ صادق ملہم ہیں تو دنیائے اسلام کو اپنے الہام کی صداقت دکھائیں اور ایک عالم کو فتن محیط سے نجات دلائیں.یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ آج سے تیرہ برس پہلے براہین احمدیہ میں حضرت مرزا صاحب نے کئی ایک ایسے الہامات مشتہر کئے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام موسیٰ اور ان کے مخالفین کا نام فرعون وہامان رکھا ہے چنانچہ لکھا ہے.اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ مُوْسٰی ۲؎ وَ نَرٰی فِرْعَوْنَ وَھَامَانَ وَجُنُوْدَ ھُمَا مَا کَانُوْا یَحْذَرُوْنَ.۳؎ پھر آئینہ کمالات اسلام میں آپ کا یہ الہام درج ہے کہ کوئی فرعون آپ کی نسبت کہتا ہے.ذَرُوْنِیْ اَقْتُلْ مُوْسیٰ.۴؎ پھر’’ تحفہ بغداد‘‘ میں صفحہ ۴۱ میں آپ کا یہ الہام درج ہے.اَنْتَ فِیْھِمْ بِمَنْزِلَۃِ مُوْسٰی فَاصْبِرْ عَلٰی جَوْرِالْجَآئِرِیْنَ.۵؎ آپ اب خدا کے لئے غور کریں یہ سب الہامات آپ کے الہامات سے بہت پہلے مشتہر ہو چکے ہیں.اس سے کس کا موسیٰ اور کس کا فرعون ہونا ثابت ہوتا ہے.کیا اللہ تعالیٰ کے الہامات اور کلام میں تضاد اور تناقض جائز ہے اور کیا وہ اپنی مرضی سے چاہتا ہے کہ حق و باطل کو ملتبس اور مختلط کر دے کہ ایک طرف تو برسوں پہلے حضرت مرز ا صاحب کو جناب موسیٰ کے نام ۱؎ ناظرین الحکم کو معلوم رہے کہ یہ شخص اس خط کے لکھے جانے کے بعد بہت جلد مرگیا اور اس طرح پر اس کا مفتری علی اللہ ہونا ثابت ہوگیا.فتدبروا… (ایڈیٹر) ۲؎ تذکرہ صفحہ ۶۰۳ ایڈیشن ۲۰۰۴ء ۳؎ تذکرہ صفحہ ۵۵۰ ایڈیشن۲۰۰۴ء ۴؎ تذکرہ صفحہ ۱۶۹ ایڈیشن۲۰۰۴ء ۵؎ تذکر ہ صفحہ ۱۹۵

Page 411

اور ان کے لوازمات سے موسوم و موصوف کرے اور دوسری طرف آپ کو انگیخت کرے کہ تم انہیں فرعون و ہامان کا خطاب دو.درحقیقت موسیٰ وہی ہے جسے برسوں ہو گئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس خلعت اصطفا سے مشرف فرمایا.اب ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے عطا کردہ عہدہ سے پشیمان ہو کر اور اس سے اسے معزول کر کر پھر ایک ناعاقبت اندیش جلدباز کی طرح اسی کو فرعون و ہامان کہنے لگے اور اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ فرعون و ہامان اس موسیٰ کے اعدا و منکر ہیں جو اس وقت تمام فرعونی حیل اور مکائد اور جنود مجندہ کی امداد سے اس ضعیف و قلیل جماعت کے نیست و نابود کرنے کے درپے ہو رہے ہیں اور زور زور سے دعویٰ کرتے ہیں کہ بہت جلد ان ضعفا کو معدوم کر دیں گے.افسوس اگر آپ براہین احمدیہ کے تمام مختلف الہامات کو مجموعی نظر سے مطالعہ کرتے تو یقینا آپ پر واضح ہو جاتا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضرت مرزا صاحب ان تمام اوصاف و محامد کے پورے مستحق و مستوجب ہیں جس کا اب انہوں نے نہ مجدداً بلکہ برنگ دیگر دعویٰ کیا ہے اور آپ کانپ اٹھتے اور آپ کا دل دہل جاتا.ایسے ناسزا فتاوے کے لگانے سے جو آپ ان کی نسبت لگا رہے ہیں اور ایسے ناپاک ناموں کو ان کی طرف منسوب کرنے سے جو بڑی جسارت سے آپ ان پر اطلاق کر رہے ہیں مگر رونا تو اسی بات کا ہے کہ ہاتھ تو آپ ایسے خطرناک اور زہرہ گداز کام میں ڈال دیں اور بڑی جرأت سے امام الکفر بنیں… مگر ایک متقی عفت شعار کی طرح یہ نہ سوچیں کہ حضرت مرزا صاحب کی تصانیف جدیدہ و قدیمہ کو بھی ایک دفعہ بغور نظر دیکھ لیں.مولوی صاحب، صوفی صاحب، ملہم صاحب معاملہ دین و ایمان کا ہے.بازیچہ طفلاں نہیں ہے کہ جو کچھ منہ میں آئے بیساختہ کہہ دیا جائے.ہر ایک شخص اپنے منہ کی باتوں سے پکڑا جائے گا.مسلمانوں کا کثیر گروہ اس طرف بھی روز بروز متوجہ ہو رہا ہے.بنگالؔ، مدراسؔ، بمبئیؔ، برھماؔ، منی پور ؔاور رنگون ؔاور بنگلورؔ اور پنجابؔ ، مصرؔ، مدینہ منورہؔ، مکہ معظمہؔ، طائفؔ، طرابلسؔ الشام سے صدہا خدا ترس مسلمان بے تابانہ شوق سے اس سلسلہ عالیہ میں داخل ہو رہے ہیں اور جو جس کی استطاعت و وسعت اور اختیار میں ہے مال سے ، جان سے، قلم سے اس کارخانہ کی تقویت و تائید میں خرچ کر رہا ہے.

Page 412

ہزاروں روپیوں کا ماہانہ و سالانہ خرچ ان ہی جاں نثاروں اور عشاّق کی امداد کی بنا پر چل رہا ہے اور دوسری طرف ایک وہ گروہ ہے جس کے چشم بد دُور آپ قابل فخر سرغنہ ہیں.وہ اس تمام گروہ پر خلود فی النار کا فتوی لگاتا ہے اور خود حضرت مرزا صاحب بھی کتاب تبلیغ میں فرماتے ہیں کہ میں لوگوں کے سامنے دو چیزیں پیش کرتا ہوں.ایک لعنت اور دوسری برکت.لعنت ان لوگوں کے لئے جو سوء ظن اور عجلت کی راہ سے میرا انکار کریں اور تکفیر اور تذلیل کا قصد کریں اور برکت ان کے لئے جو میری پیروی کریں.ان حیرت انگیز امور کو دیکھ کر اور ان جانفرسا تہدیدات کو سن کر ایک خداترس طالب حق کا فرض ہے کہ ان معاملات میں بڑے ٹھنڈے دل سے غور کرے نہ یہ کہ جلدبازی اور بے التفاتی سے بالکل ٹال ہی دے.یا اناپ شناپ جو کچھ منہ میں آئے کہہ دے.آپ کا فرض ہے اور قسم ہے آپ کو اللہ تعالیٰ کی جو آپ اس فرض کو ادا نہ کریں کہ آپ خلقت کو اگر یہ لعنت ہے تو اس سے بچانے کی کوشش نہ کریں اور اگر یہ برکت ہے تو خود بھی اس سے برکت ڈھونڈیں اور دوسروں کو بھی اس نعمتِ عظمیٰ سے بہرہ مند کرنے کی کوشش کریں.اخیر میں میں چاہتا ہوں کہ کچھ الہامات حضرت مرزا صاحب کے آپ کی خدمت میں عرض کروں اور اس سے میری غرض یہ ہے کہ آپ خائف و متقی دل لے کر ان پر غور کریں اور اپنے ملہم سے دریافت کریں کہ ایسے الہامات حضرت مرزا صاحب کو کرنے سے اس کا کیا مطلب ہے یا اَقلاًّ یہ کہ آیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں یا نہیں.انی ساویتک برکۃ و اجلی انوارھا حتی یتبرک بثیابک الملوک و السلاطین.یا احمد بارک اللہ فیک ما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمٰی لتنذر قوما ما انذر آباء ھم و لتستبین سبیل المجرمین.قل ان افتریتہ فعلی اجرامی و یمکرون و یمکر اللہ و اللہ خیر الماکرین.ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ لامبدل لکلمت اللہ یااحمدی انت مرادی و معی غرست کرامتک بیدی.الحمد للہ الذی جعلک المسیح ابن مریم.قل ھذا فضل ربی و انی اجرد نفسی من ضروب الخطاب و انی احد من المسلمین.نرید

Page 413

ان ننزل علیک ایات من السماء و نمزق الاعداء کل ممزق.حکم اللہ الرحمن لخلیفۃ السلطان فتوکل علی اللہ واصنع الفلک باعیننا و وحینا ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ ید اللہ فوق ایدیھم.شانک عجیب و اجرک قریب و معک جند من السموات و الارضین.انت منی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی فحان ان تعان و تعرف بین الناس.انت وجیہ فی حضرتی اخترتک لنفسی و انت منی بمنزلۃ لا یعلمھا الخلق.یاعبد القادر انی معک اسمع و اری غرست لک بیدی رحمتی و قدرتی و انک الیوم لدینا مکین امین فقبل اللہ عبدہ و براہ مما قالوا و کان عند اللہ وجیھا و لنجعلہ ایۃ للناس و رحمۃ منا و لنعطیہ مجدا من لدنا و کذلک نجزی المحسنین.انت معی و انا معک سرّک سرّی لاتحاط اسرار الاولیاء انک علی حق مبین.غرض اس قسم کے سینکڑوں الہامات ہیں جو اس امام کی جلالت شان اور قبولیت عظمیٰ پر حضرت باری عزّاسمہ کی جناب میں دلالت کرتے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ آپ ان پر غور کریں گے اور ایک فیصلہ کرنے والی کارروائی کرنے پر صدق دل سے آمادہ ہوں گے.میں ہوں آپ کے جواب کا منتظر.٭ ۱۴؍ اگست ۱۸۹۴ء عاجز عبد الکریم از قادیان ٭ الحکم نمبر۲۷ جلد۵ مورخہ ۲۴؍جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۳ تا ۵

Page 414

مکتوب بنام سید عبد المجید صاحب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی سید عبد المجید صاحب سلّمہ آپ کا خط مجھ کو ملا.اگرچہ آپ کے سوالات ایسے غلطی سے پھرے ہوئے ہیں کہ ان کا جواب دینا تضیع اوقات ہے لیکن آپ کے دعوے طلب حق پر خیال کر کے لکھنا پڑا.اوّل.آپ ازالہ اوہام کے صفحہ ۱۴۰ سے یہ نکالنا چاہتے ہیں کہ اس سے اقرار پایا جاتا ہے کہ مسیح موعود جب ظاہر ہو تو اس کا ماننا غیرضروری ہے اور کسی پیشگوئی کا ماننا ایمان میں داخل نہیں.اس عبارت کے معنے آپ نے اُلٹے سمجھ لیے ہیں کیونکہ اخبار قیامت اور حشرونشر اور بہشت و دوزخ سب برنگ پیشگوئیاں بیان کی گئی ہیں.کیا ان پر ایمان لانا نہیں چاہیے اور کیا ان کے انکار سے ایک مسلمان مسلمان رہ سکتا ہے پس جس خدا نے یہ پیشگوئیاں بیان فرمائی ہیں اسی خدا نے مسیح موعود کے آنے کی پیشگوئی بھی بیان فرمائی ہے اگر خدا کی پیشگوئی سے انکار کرنا کفر کا موجب ہے تو اس پیشگوئی کی تکذیب کرنا بھی موجب کفر ہو گا.اور باوجود اس کے یہ بھی سچ ہے کہ طبعی طور پر ہر ایک پیشگوئی ایمانیات کی جزو نہیں ہے بلکہ جزوبنائی گئی ہے.یہی امر ہم نے ازالہ اوہام کے صفحہ ۱۴۰ میں لکھا ہے اور اس عبارت کی تشریح یہ ہے کہ اصل ایمانی امور تو محدود ہیں جو قرآن شریف میں آ چکے ہیں اور ثابت ہو چکے ہیں اور دوسری پیشگوئیاں جو حدیثوں میں درج ہیں وہ اس وقت ایمانیات کی جزو بنائی جاتی ہیں جب ثابت ہو جائے کہ یہ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا قول ہے اور وہی معنے اس کے صحیح ہیں جو بیان کیے گئے ہیں کیونکہ ثبوت کے بعد ایک پیشگوئی کو ایمانیات میں داخل نہ کرنا ایک بے ایمانی ہے لیکن جب تک ثبوت نہ ہو تو ان تشریحوں کو ایمانیات میں داخل کرنا جو محض اجتہادی ہیں، سراسر حماقت اور جہالت ہے.صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین تو بہشت اور دوزخ کی اجتہادی تشریحوں کو بھی ایمانیات میں داخل نہیں سمجھتے تھے چہ جائیکہ اور پیشگوئیاں.پس اسی طرح نزول مسیح کا مسئلہ یعنی

Page 415

یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے.دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ ہوں گے.یہ اعتقاد ہرگز ایمانایت میں داخل نہیں ہے کیونکہ خیالات محض اجتہادی امور ہیں حدیثوں سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ وہ آسمان پر گئے کوئی حدیث ایسی ثابت نہیں ہوئی کہ جس میں یہ ذکر موجود ہو کہ عیسیٰ آسمان پر چلا گیا تھا اور نہ کوئی ایسی حدیث پائی جاتی ہے جس میں یہ لکھا ہو کہ عیسیٰ آسمان سے نازل ہو گا.پس نہ تو آسمان پر جانا ثابت ہے اور نہ آنا آسمان سے.پس اس مضمون کو ماننا ایمانیات میں کیونکر داخل ہو گا ہاں مسیح موعود کا آنا جو بغیر قید نزول کے ہے وہ ضرور ایمانیات میں داخل ہے کیونکہ نہ وہ محض حدیث سے بلکہ قرآن سے ثابت ہے اس لئے اس کا انکار کفر ہے اور جو شخص اس امت کے آخری مسیح کا منکر ہے وہ قرآن کا منکر ہے اور گو عیسیٰ کا آنا آسمان سے حقیقت اسلام سے کچھ تعلق نہیں رکھتا مگر اس امت میں سے آخری زمانہ میں ایک مسیح خاتم الخلفاء پیدا ہونا اسلام سے تعلق رکھتا ہے بلکہ جزو اسلام کا ہے کیونکہ اس کے انکار سے سورہ نور کا تمام بیان باطل ٹھہرتا ہے غرض اگرچہ پیشگوئیاں اصل حقیقت ایمان میں داخل نہیں ہے مگر اس وقت داخل ہو جاتی ہیں جب ثابت ہو جائے کہ ان کے یہ معنی ہیں اور یہ درحقیقت قرآن شریف میں آ گئے ہیں یا درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی فرمایا ہے.کیا آپ اس قدر بھی سمجھ نہیں سکتے کہ جب پیشگوئی کے معنے ثابت ہوگئے اور اجتہاد کو اس میں دخل نہ رہا اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ وہ قال اللہ اور قال الرسول ہے تو پھر کیوں وہ پیشگوئی ایمان میں داخل نہیں ہو گی کیا قیامت اور بہشت وغیرہ کی پیشگوئیاں ایمان میں داخل ہیں یا نہیں.آپ پہلے اس جواب کو خوب سمجھ لیں پھر مجھے اطلاع دیں کہ میں نے اس کو سمجھ لیا ہے یا اگر شک ہو تب بھی اطلاع دیں.ایک سوال کے فیصلہ کے بعد پھر دوسرا سوال کریں.٭ ۶؍دسمبر ۱۹۰۱ء ٭ الحکم نمبر۴۵ جلد۵ مورخہ ۱۰؍دسمبر۱۹۰۱ء صفحہ ۷،۸

Page 416

مکتوبات ۱ ؎ بنام خواجہ غلام فرید صاحب من فقیر بَاب اللّہ غلام فرید سجّادہ نشین الٰی جناب میرزا غُلام احمد صاحب قادیَانِیْ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْاَرْبَابِ وَالصَّلٰوۃُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الشَّفِیْعِ بِیَوْمِ الْحِسَابِ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ الْاَصْحَابِ وَالسَّـلَامُ عَلَیْکُمْ وَ عَلٰی مَنِ اجْتَھَدَ وَاَصَابَ اَمَّا بَعْدُ قَدْ اَرْسَلْتَ اِلَیَّ الْکِتَابَ وَ بِہٖ دَعَوْتَ اِلَی الْمُبَاھَلَۃِ وَ طَالَبْتَ بِالْجَوَابِ وَ اِنِّیْ وَ اِنْ کُنْتُ عَدِیْمَ الْفُرْصَۃِ وَ لٰکِنْ رَاَیْتُ جُزْئَ ہٗ مِنْ حُسْنِ الْخِطَابِ وَ سَوْقِ الْعِتَابِ اِعْلَمْ یَا اَعَزَّ الْاَحْبَابِ اِنِّیْ مِنْ بَدْوِحَالِکَ وَاقِفٌ عَلٰی مَقَامِ تَعْظِیْمِکَ لِنَیْلِ الثَّوَابِ وَمَاجَرَتْ عَلـٰی لِسَانِیْ کَلِمَۃٌ فِیْ حَقِّکَ اِلَّا بِالتَّبْجِیْلِ وَ رِ عَایَۃِ الْآدَابِ وَ الْاٰنَ اَطَّلِعُ لَکَ بِاَنِّیْ مُعْتَرِفٌ بِصَلَاحِ حَالِکَ بِـلَا ارْتِیَابِ وَ مُوْقِنٌ بِاَنَّکَ مِنْ عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَ وَ فِیْ سَعْیِکَ الْمَشْکُوْرِ مُثَابٌ وَقَدْ اُوْتِیْتَ الْفَضْلَ مِنَ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ وَ لَکَ اَنْ تَسْئَلَ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی خَیْرَ عَاقِبَتِیْ وَ اَدْعُوْلَکُمْ حُسْنَ مَاٰبٍ وَلَوْ لَا خَوْفَ الْاَطْنَابِ لَاَزْدَدْتُ فِی الْخِطَابِ.وَالسّلَامُ عَلٰی مَنْ سَلَکَ سَبِیْلَ الصَّوَابِ.فَقَطْ ۲۷ رجب ۱۳۱۴ھ من مقام چاچڑاں. مہر ترجمہ.تمام تعریفیں اس خدا کیلئے ہیں جو ربّ الارباب ہے اور درود اس رسول مقبول پر جو یوم الحساب کا شفیع ہے اور نیز اس کے آل اور اصحاب پر اور تم پر سلام اور ہر ایک پر جو راہ صواب میں کوشش کرنے والا ہو.اس کے بعد واضح ہو کہ مجھے آپ کی وہ کتاب پہنچی جس میں مباہلہ کیلئے جواب طلب کیا گیا ہے اور اگرچہ میں عدیم الفرصت تھا تاہم میں نے اس کتاب کے ایک جز کو( جو)حسن خطاب اور طریق عتاب پر مشتمل تھی پڑھی ہے.سو اے ہر ایک حبیب سے عزیز تر تجھے معلوم ہو کہ میں ابتداء ۱؎ تمام مکتوبات بنام خواجہ غلام فرید صاحب ،سراج منیر روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ ۸۸ تا ۱۰۲ سے لئے گئے

Page 417

سے تیرے لئے تعظیم کرنے کے مقام پر کھڑا ہوں تا مجھے ثواب حاصل ہو.اور کبھی میری زبان پر بجز تعظیم اور تکریم اور رعایت آداب کے تیرے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا اور اب میں تجھے مطلع کرتا ہوں کہ میں بلاشبہ تیرے نیک حال کا معترف ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ تو خدا کے صالح بندوں میں سے ہے اور تیری سعی عنداللہ قابل شکر ہے جس کا اجر ملے گا اور خدائے بخشندہ بادشاہ کا تیرے پر فضل ہے میرے لئے عاقبت بالخیر کی دعا کر اور میں آپ کے لئے انجام خیر و خوبی کی دعا کرتا ہوں.اگر مجھے طول کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں زیادہ لکھتا.والسلام علی من سلک سبیل الصواب.مکتوب نمبر۱ اس کا جواب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مِنْ عَبْدِاللّٰہِ الْاَحَدِ غُلَامِ اَحْمَدَ عَافَاہُ اللّٰہُ وَ اَیَّدَ اِلَی الشَّیْخِ الْکَرِیْمِ السَّعِیْدِ حِبِّیْ فِی اللّٰہِ غُلَامِ فَرِیْدٍ.اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ.اَمَّا بَعْدُ فَاعْلَمْ اَیُّھَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ قَدْ بَلَغَنِیْ مِنْکَ مَکْتُوْبٌ ضُمِّخَ بِعِطْرِ الْاِخْلَاصِ وَالْمَحَبَّۃِ وَکُتِبَ بِاَنَامِلِ الْحُبِّ وَالْاُلْفَۃِ جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ وَ حَفِظَکَ مِنْ کُلِّ اَنْوَاعِ الْبَلَائِ اِنِّیْ وَجَدْتُ رِیْحَ التَّقْوٰی فِیْ کَلِمٰتِکَ فَمَا اَضْوَعَ رَیَّاکَ وَمَا اَحْسَنَ نُمُوْذَجَ نَفَحَاتِکَ وَ قَد اَخْبَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اَمْرِیْ وَاَثْنٰی عَلٰی اَحْبَابِیْ وَ زُمَرِیْ وَقَالَ لَا یُصَدِّقُہٗ اِلَّا صَالِحٌ وَلَا یُکَذِّبُہٗ اِلَّا فَاسِقٌ فَشَرَفًا لَّکَ بِبِشَارَۃِ الْمُصْطَفٰی وَ وَاھًا لَّکَ مِنَ الرَّبِّ الْاَعْلٰی وَ مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ فَقَدْ رُفِعَ وَ مَنِ اسْتَکْبَرَ فَرُدَّ وَ دُفِعَ وَ اِنِّیْ مَا زِلْتُ مُذْ رَأَیْتُ کِتَابَکَ وَ ٰانَسْتُ اَخْلَاقَکَ وَ آدَابَکَ اَدْعُوْلَکَ فِی الْحَضـرَۃِ وَ أَسْئَلُ اللّٰہَ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکَ بِاَنْوَاعِ الرَّحْمَۃِ وَقَدْ سَرَّنِیْ حُسْنُ صِفَاتِکَ وَرَزَانَۃُ حَصَاتِکَ وَعَلِمْتُ اَنَّکَ خُلِقْتَ مِنْ طِیْنَۃِ الْحُرِّیَّۃِ وَ أُعْطِیْتَ مَکَارِمَ السَّجِیَّۃِ وَ اَحِنُّ اِلٰی لِقَائِکَ بِھَوَی الْجَنَانِ اِنْ کَانَ قَدَّرَالرَّحْمٰنُ وَ قَدْ سَمِعْتُ بَعْضَ خَصَائِصِ نَبَاھَتِکَ وَ مَاٰثِرَ وَجَاھَتِکَ مِنْ مُخْلِصِی الْحَکِیْمِ الْمَوْلَوِیْ نُوْرِ الدِّیْنِ فَالْاٰنَ زَادَ مَکْتُوْبُکَ یَقِیْنًا عَلَی الْیَقِیْنِ وَصَارَ الْخَبْرُ عِیَانًا وَالظَّنُّ بُرْھَانًا فَادْعُو اللّٰہَ

Page 418

سُبْحَانَہٗ اَنْ یَبْقٰی مَجْدُکَ وَ بُنْیَانُہٗ وَ یُحِیْطَ عَلَیْکَ رُحْمُہٗ وَغُفْرَانُہٗ وَ کُنْتُ قُلْتُ لِلنَّاسِ اِنَّکَ لَا تَلْوِیْ عِذَارَکَ وَلَا تُظْھِرُ اِنْکَارَکَ فَاُبْشِرْتُ بِاَنَّ کَلِمَتِیْ قَدْ تَمَّتْ وَ اَنَّ فِرَاسَتِیْ مَا اَخْطَأَتْ وَ رَغَّبَنِیْ خُلْقُکَ فِیْ اَنْ اَفُوْزَ بِمَـرْٰاکَ وَ اُسَرَّ بِلُقْیَاکَ فَاَرْجُوْ اَنْ تَسُرَّنِیْ بِالْمَکْتُوْبَاتِ حَتّٰی تَجِیْئَ مِنَ اللّٰہِ وَقْتُ الْمُلَاقَاتِ وَالْاٰنَ اُرْسِلُ اِلَیْکَ مَعَ مَکْتُوْبِیْ ھٰذَا ضَمِیْمَۃَ کِتَابِیْ کَمَا اَرْسَلْتُہٗ اِلٰی اَحْبَابِیْ وَ فِیْھَا ذِکْرُکَ وَ ذِکْرُ مَکْتُوْبِکَ وَاَرْجُوْاَنْ تَقْرَئَ ھَا وَلَوْ کَانَ حَرَجٌ فِیْ بَعْضِ خُطُوْبِکَ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلٰی اَعِزَّتِکَ وَشُعُوْبِکَ.فَقَطْ مِنْ قَادِیَانَ.ترجمہ از ناشر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ خدائے یگانہ کے بندے غلام احمد (اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائے اور اس کی تائید فرمائے) کی طرف سے معزز و سعید شیخ حبیّ فی اللہ غلام فرید کے خط کا جواب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اَمّا بعد اے عبدِ صالح ! معلوم ہو کہ آپ کا خط مجھے موصول ہوا جو اخلاص و محبت کے عطر سے معطّر اور عشق و الفت کے پوروں سے رقم تھا.اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین جزاء عطا فرمائے اور آپ کو ہر قسم کے ابتلاء سے محفوظ رکھے.میں نے آپ کے کلمات میں تقویٰ کی خوشبو محسوس کی.کیا ہی عمدہ تھا تیری خوشبو کا مہکنا اور کیا ہی خوبصورت تھا تیری معطّر ہوائوں کا انداز! حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے بارہ میں پیشگوئی فرمائی اور میرے احباب و اصحاب کی ستائش فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا کہ اس موعود کی تصدیق صرف نیک لوگ کریں گے اور اس کا انکار صرف فاسق لوگ ہی کریں گے.پس بشارت مصطفی (صلی اللہ علیہ و سلم) تیرے لئے باعث ِ شرف اور خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے تیرے لئے آفرین ہو.اور جو اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے تو وہ رفعت سے ہمکنار کیا جاتا ہے اور جو تکبر کرتا ہے پس وہ مردود اور دھتکارا جاتا ہے.اور جب سے میں نے آپ کا خط دیکھا.آپ کے اخلاق و آداب

Page 419

سے مانوس ہوا.میری تویہ حالت ہے کہ میں حضرت احدیت میں آپ کے لئے سراپا دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر ہر نوع سے رجوع برحمت فرمائے.مجھے آپ کے اوصاف جمیلہ اور پرُوقار دانش سنجیدہ نے بہت مسرور کیا ہے اور خوب واقف ہوں کہ آپ کو آزادی کے خمیر سے پیدا کیا گیا ہے اور فطرتی اخلاق سے نوازا گیا ہے اور اگر خدائے رحمان کو منظور ہوا تو میںدلی محبت سے آپ کی ملاقات کا مشتاق ہوں اور میں نے آپ کی شرافت کی بعض خصوصیات اور وجاہت کے آثارونشانات اپنے مخلص دوست حکیم مولوی نور الدین سے سنے ہیں.اب آپ کے خط نے حق الیقین تک پہنچا دیا ہے اور خبر کا لمشاہدہ ہو گئی ہے اور گمان ثبوت کا روپ دھار گیا ہے.پس میں اللہ تعالیٰ سبحانہٗ سے دعا کرتا ہوں کہ آپ کی بزرگی اور اس کا محل قائم رہے اور تجھ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت و غفران سایہ فگن رہیں اور میں لوگوں کو کہتا رہا ہوں کہ آپ کبھی بھی روگردانی اور انکار کا اظہار نہیں کریں گے.پس مجھے خوشی ہے کہ میرا کلمہ پورا ہوا اور میری فراست خطا نہیں ہوئی اور آپ کے اخلاق نے مجھے ترغیب و شوق دلایا کہ میں آپ کے دیدار سے فیضیاب اور آپ کی ملاقات سے پرُ مسرت ہوں.پس میں امید کرتا ہوں کہ آپ اپنے مکتوبات کے ذریعہ میرے لئے خوشی کا سامان کرتے رہیں گے یہانتک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملاقات کا وقت میسر آجائے اور اب میں آپ کو اپنے اس مکتوب کے ساتھ اپنی کتاب کا ضمیمہ ارسال کر رہا ہوں جس طرح میں نے اپنے دیگر احباب کو بھی یہ ضمیمہ ارسال کیا ہے اور اس میں آپ کا ذکرِ خیر اور آپ کے خط کا تذکرہ کیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ اسے ضرور پڑھیں گے خواہ آپ کے بعض اہم امور میں حرج واقع ہو اور آپ پر اور آپ کے اعزّہ اور رفقاء پر سلامتی ہو.فقط از قادیان

Page 420

خواجہؔ صاحب کا دوسرا خط بخدمت جناب میرزا صاحب عالی مراتب مجموعہ محاسن بیکراں مستجمع اوصاف بے پایان مکرم معظم برگزیدۂِ خدائے احد جناب میرزا غلام احمد صاحب متّع اللّٰہ الناس ببقائہ و سرّنی بلقائہ و انعمہ باٰلائہ.پس از سلام مسنون الاسلام و شوق تمام و دعائے اعتلائے نام و ارتقائے مقام واضح ولائح باد.نامۂ محبت ختامہ الفت شمامہ مشحون مہربانی ہائے تامہ معہ کتاب مرسلہ رسیدہ چہرہ کشائے مسرت تازہ و فرحت بے اندازہ گشت.مخفی مباد کہ ایں فقیر از بدوحال خود بتقاضائے فطرت در عربد ہا افتادن و بے ضرورت قدم در معارک مناقشات نہادن پسند ندارد چندانکہ می تو اند خود را از مداخل طوفان نزاع بے معنی برمی آردو چوں اکثر مردم را موافقت ہوا از طلب حق بازداشتہ است و تعصب مجاری تحقیق را بخاک جہل فراانباشتہ براں بکنہ گفتارہا نا رسیدہ و غایت کار ہا نادیدہ غوغائے برمی انگیزند و ہماں غبار جہالت کہ بہوائے عناد برداشتہ بسر خویش می پیزند ورنہ ثمرہ کار ہا برنیت صحیح است و دلالت کنایات ابلغ از تصریح پوشیدہ نماند کہ درین جز و زماں کسانے از علمائے وقت از فقیر مطالبہ جو اب کردہ اند کہ ہمچو کسے را (یعنی آں صاحب را) کہ باتفاق علماء چنین و چنان ثابت شدہ است چرانیک مرد پنداشتہ اندو از چہ رو دروئے حسن ظن داشتہ چون تحریر ایشاں مملو بود از کمال جوش و ترکیب الفاظ ایشان بابرق طپشہا ہم آغوش نظر برآنکہ مضامین شان برغلیان دلہا گواہ است و برنیت ہر کس خدائے دانا تر آگاہ و بہ ہیچ کس گمان بد بردن شیوہ اہل صفا نیست و بے تحقیق کسے را منافق یا مطیع نفس دانستن روا نہ فقیر را در کارشان ہم گمان بدگران مے نمود زیر آنکہ اگر نیت صادق داشتہ باشند غلط شان بمشابہ خطا فی

Page 421

الاجتہاد خواہد بود ورنہ گوش محبت نیوش ہر قدر کہ از غایت کار آن مکرم ذخیرہ آگاہی انباشت دل الفت شامل زیادہ ازان در اخلاص افزود کہ داشت دعا ست کہ از عنایت حق سببے بہتر پیدا آید و ساعتے نیکو روئے نماید کہ حجاب مباعدت جسمانی و نقاب مسافت طولانی از میاں برخیز دو اگر بارسال مضمونیکہ در جلسۂ مذاہب پیش کردہ اند مسرور فرمایند منت باشد.والسلام مع الاکرام فضائل و کمالات مرتبت مولوی نور الدین صاحب سلام شوق مطالعہ فرمایند.و صاحبزادہ محمد سراج الحق صاحب نیز.الراقم فقیر غلام فرید الچشتی النظامی من مقام چاچڑاں شریف ترجمہ از ناشر بخدمت جناب مرزا صاحب عالی مراتب، مجموعہ محاسن بیکراں مستجمع اوصاف بے پایاں مکرم معظم برگزیدہ خدائے احد جناب مرزا غلام احمد صاحب مَتَّعَ اللّٰہُ النَّاسَ بِبَقَائِہٖ وَ سَرَّنِیْ بِلِقَائِہٖ وَ اَنْعُمِہٖ بِاٰ لَائِہٖ.اس سلام کے بعد جو از روئے اسلام مسنون ہے اور کامل شوق اور اس دعا کے بعد کہ آپ کا نام روشن ہو اور آپ کا مرتبہ بلند ہو یہ بات واضح اور عیاں ہے کہ وہ مکتوب جس سے محبت کی بو آتی ہے اور جو کامل مہربانیوں سے بھرا ہوا ہے مع اس کتاب کے جو آنجناب نے بھیجی تھی پہنچا جس نے تازہ خوشی کے چہرہ کو بے نقاب کر دیا اور بے حد خوشی کا موجب ہوا.پس پوشیدہ نہ رہے کہ یہ خاکسار اپنی فطرت کے تقاضا کے مطابق شروع سے ہی جھگڑوں میں پڑنے اور مباحثات میں قدم رکھنے سے گریزاں رہا ہے اور جہاں تک ہو سکتا ہے اپنے آپ کو بے فائدہ نزاع کے طوفان میں داخل ہونے سے بچاتا ہے اور چونکہ اکثر لوگوں کو حرص و ہوا کی موافقت نے طلب ِحق سے دور رکھا ہوا ہے اور تعصب نے تحقیق کے راستوں پر جہالت کی خاک ڈالی ہوئی ہے اس لئے باتوں کی حقیقت تک پہنچے بغیر اور کاموں کے انجام کو دیکھے بغیر شوروغل مچاتے ہیں اور اسی جہالت کے غبار کو جو دشمنی کی ہوس سے اٹھائے ہوئے ہیں اپنے سرپر ڈالتے ہیں.ورنہ اعمال کا ثمرہ صحیح نیت پر موقوف ہے اور کنایات اپنی دلالت میں

Page 422

تصریح سے بڑھ کر رسا ہیں.یہ بات مخفی نہ رہے کہ آج کل کچھ علماء وقت نے مجھ سے جواب طلبی کی ہے کہ کیوں ایک ایسے شخص کو (یعنی آنجناب کو) جو باتفاق علماء ایسا ویسا ثابت ہو چکا ہے نیک مرد قرار دیتے ہیں اور کس وجہ سے ان کے ساتھ حسن ظنی رکھتے ہیں.کیونکہ ان کی تحریر کامل جوش سے بھری ہوئی تھی اور ان کے الفاظ کی ترکیب اپنے اندر بجلی جیسی تڑپ رکھتی تھی مگر اس خیال سے کہ ان کے مضامین ان کے دلوں کے گواہ ہیں اور ہر شخص کی نیت خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور کسی شخص پر بدگمانی کرنا نیک آدمیوں کا طریق نہیں.اور بغیر تحقیق کے کسی کو منافق یا نفس کا مطیع جاننا مناسب نہیں.اس فقیر پر ان کے طریق پر بدگمانی گراں گزرتی ہے کیونکہ اگر وہ نیک نیت رکھتے ہیں تو ان کی غلطی خطا فی الاجتہاد سے مشابہ ہو گی ورنہ حقیقت یہ ہے کہ میرے محبت نیوش کان جوں جوں آنمکرم کی مساعی سے آگاہی کے ذخیرہ سے بہرہ مند ہوتے ہیں میرا محبت شعار دل اس اخلاص میں اور بھی بڑھ گیا ہے کہ جو پہلے رکھتا تھا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ کوئی سبب بہتر پیدا ہو جائے اور مبارک گھڑی ظاہر ہو جائے کہ جس سے جسمانی دوری کا پردہ اور فاصلہ کی لمبائی کا نقاب درمیان سے اُٹھ جائے اور اگر آپ وہ مضمون جو جلسۂ مذاہب میں پیش فرمایا تھا میرے پاس بھیج کر مسرور کریں تو احسان ہو گا.والسلام مع اکرام فضائل اور کمالات کے مراتب رکھنے والے مولوی نور الدین صاحب و صاحبزادہ سراج الحق صاحب بھی سلام شوق مطالعہ فرمائیں.الراقم فقیر غلام فرید چشتی نظامی ازمقام چاچڑاں شریف مہر ۲۷؍ ماہ شعبان المعظم ۱۳۱۴ہجریہ نبویہ

Page 423

مکتوب نمبر۲ جواب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بخدمت حضرت مخدوم و مکرم الشیخ الجلیل الشریف السعید حبّی فی اللّٰہ غلام فرید صاحب کان اللّٰہ معہ و رضی عنہ و ارضاہ.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ امابعد نامہ نامی و صحیفہ گرامی افتخار نزول فرمودہ باعث گونان گون مسرت ہا گردید و بمقتضائے آیہ کریمہ  ۱؎ از چندیں ہزار علماء و صلحا بوئے آشنائی از کلمات طیبات آن مخدوم بشمیدم شکر خدا کہ این سرزمین ازان مردان حق خالی نیست کہ در اظہار کلمۃ الحق ازلوم ہیچ لائمے نمے ترسند.ونورے دارند از جناب احدیت و فراستے دارند از حضرت عزت پس فطرت صحیحہ مطہرہ ایشاں سوئے حق ایشان رامے کشد و در احقاق حق روح القدس تائید شان میفرماید فالحمدللّٰہ ثم الحمدللّٰہ کہ مصداق این امور آن مخدوم را یافتیم.اے برادر مکرم رجوع مشائخ وقت سوئے این عاجز بسیارکم است و فتنہ ہا ازہر سو پیدا.پیش زین حبی فی اللہ حاجی منشی احمد جان صاحب لدھیانوی کہ مؤلف کتاب طب روحانی نیز بودند بکمال محبت و اخلاص بدیں عاجز ارادتے پیدا کردند و بعض مریدان نا اہل در ایشاں چیز ہا گفتند کہ بدیں مشیخت و شہرت کجا افتاد چون اوشان را از آن کلمات اطلاعے شد معتقدان خود را در مجلسی جمع کردند و گفتند کہ حقیقت اینستکہ ماچیزے دیدیم کہ شما نمے بینیدپس اگر از من قطع تعلق میخواہید بسیار خوب است مرا خود پروائے این تعلق ہانماندہ ازین سخن شان بعض مریدان اہل دل بگریستند و اخلاصے پیدا کردند کہ پیش زاں نیز نمے داشتند و مرا وقت ملاقات گفتند کہ عجب کاریست کہ مرا افتادہ کہ من قصد مصمم کردہ بودم کہ اگر مرامے گذارند من ایشانرا گذارم لیکن امر برعکس آں پدید آمدہ و قسم خوردند کہ اکنوں بآن خدمتہا پیش مے آیند کہ قبل زین ازان نشانے نبود این بزرگ مرحوم چون بعد از مراجعت حج وفات کردند اعزہ و وابستگان خود را بار بار ہمین نصیحت نمودند کہ بدین عاجز تعلق ہائے ارادت داشتہ ۱؎ یوسف : ۹۵

Page 424

باشیدو وقت عزیمت حج مرانوشتند کہ مرا حسرتہاست کہ من زمان شمارا بسیار کمتر یافتم و عمرے گرد این و آن برباد رفت و فرزندان وہمہ مردان و زنان کہ اعزہ شان بودند بوصیتؔ شاں عمل کردند و خود را درسلک بیعت این عاجز کشیدند چنانچہ از روزگارے دراز فرزندان آن بزرگ سکونت لدھیانہ راترک کردہ اند و مع عیال خود نزدمن در قادیان می مانند.و شیخے دیگر پیر صاحب العلم است کہ برائے من خواب دیدند و دربارہ من از آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم در مجلسے عظیم شہادت دادند و سوئے من آن مکتوبے نوشتند کہ در ضمیمہ انجام آتھم از نظرآن مکرم گذشتہ باشد.اما ہنوز جماعت این عاجز بدان تعداد نہ رسیدہ کہ برمن ازخدائے من عددآن مکشوف گردیدہ بود میدانم کہ تا اکنون جماعت من از ہشت ہزار دو سہ کم یا زیادہ خواہد بود.اے مخدوم و مکرم این سلسلہ سلسلۂ خداست و بنائے است از دست قادرے کہ ہمیشہ کار ہائے عجائب می نماید اواز کاروبار خود پرسیدہ نمی شود کہ چرا چنین کردی.مالک است ہرچہ خواہد مے کند از خوف او آسمان و زمین می جنبند و از ہیبت او ملائک می لرزند و مرا او در الہام خود آدم نام نہادہ و گفت اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدم چرا کہ میدانست کہ من نیز مورد اعتراض اتجعل فیھا من یفسد فیھا خواہم گردید پس ہر کہ مرا می پذیر د فرشتہ است نہ انسان و ہرکہ سرمے پیچد ابلیس است نہ آدمی ایں قول خدا گفتہ نہ من.فطوبٰی للّذین احبّونی وما عادونی و صافونی وما اذونی و قبلونی ومَا ردّونی اُولٓئک علیھم صلوات اللّٰہ و اُولٓئک ھم المھتدون.و آنچہ آن مخدوم نقل مضمون جلسۂ مذاہب طلب کردہ بودند پس سبب توقف ایں شد کہ من منتظر بودم کہ جزوے از مضمون مطبوع نزدم رسدتا بخدمت بفریستم چنانچہ امروزیک حصۂ ازاں رسید کہ بخدمت روا نہ میکنم وہم چنیں آیندہ نیز بطوریکہ وقتاً فوقتاً می رسد انشاء اللہ تعالیٰ بخدمت روا نہ خواہم کردو قبولیت ایں مضمون ازیں ظاہر است کہ اخبار ہائے سرکاری کہ بہر خبرے سروکارے ندارند و صرف آں اخبار رانویسند کہ عظمتے داشتہ باشند تعریف آں مضمون بخوئے کردہ اند کہ تا حد اعجاز رسانیدہ اند چنانچہ سول ملٹری می نویسد کہ چون این مضمون خواندہ شد برہمہ مردم عالم محویت طاری بود و بالاتفاق نوشتند کہ برہمہ مضامین ہمیں غالب آمد بلکہ

Page 425

نوشتند کہ دیگر مضامینے بہ نسبت آں چیزے نہ بودند پس این فضل خدا ست کہ پیش ازین واقعہؔ از الہام و کلام خود مرا اطلاعے نیز داد و من نیز پیش از وقت آن اعلام الٰہی رابذریعہ اشتہار مشتہر کردم پس عظمت این واقعہ نورٌ علٰی نور شد فالحمد لِلّٰہ علٰی ذالک.و آنچہ آن مکرم دربارہ شکوہ و شکایت علماء ارقام فرمودہ بودند دریں باب چہ گوئیم وچہ نویسیم مقدمہ من و ایشان بر آسمان است پس اگر من کاذبم ودر علم حضرت باری عزّ اسمہٗ مفتری.و دعویٰ من کذبے و خیانتے و دجلے است.درین صورت از خدا دشمن ترے در حق من کسے نیست و جلد ترمرا از بیخ خواہد برکند و جماعت مرا متفرق خواہد ساخت زیر آنکہ او مفتری را ہرگز بحالت امن نمی گزارد.لیکن اگر من ازو و از طرف او ہستم و بحکم او آمدم و ہیچ خیانتے درکار و بارخودندارم پس شک نیست کہ اوز انسان تائید من خواہد کرد کہ از قدیم در تائید صادقان سنت او رفتہ است و ازلعنت این مردم نمی ترسم لعنت آن ست کہ از آسمان ببارد و چون از آسمان لعنت نیست پس لعنت خلق امریست سہل کہ ہیچ راستبازے ازان محفوظ نماندہ لیکن برائے آن مخدوم بحضرت عزت دعا میکنم کہ محض از سعادت فطرت خود ذبّ مخالفان این عاجز کردہ اندپس اے عزیز خدا باتو باشد و عاقبت تو محمود باد جزاک اللّٰہ خیر الجزاء و اَحْسَنَ اِلَیْکَ فی الدُّنیا وَ العُقْبٰی و کان معک اینما کنت وادخلک اللّٰہ فی عبَادہ المَحْبُوبِین.آمین.ترجمہ از ناشر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بخدمت حضرت مخدوم و مکرم الشیخ الجلیل الشریف السعید حبیّفی اللہ غلام فرید صاحب کان اللہ معہ و رضی عنہ و ارضاہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اما بعد نامہ نامی و صحیفہ گرامی افتخار پہنچا.جو گو ناگوں مسرت کا باعث ہوا.بتقاضائے آیت کریمہ  ۱؎.(کہ یقینا میں یوسف کی خوشبو پاتا ہوں خواہ تم مجھے ۱؎ یوسف : ۹۵

Page 426

مجنون ہی قرار دو)کئی ہزا ر علماء و صلحاء میں سے آنمخدوم کے کلمات طیبات سے مجھے آشنائی کی خوشبو آئی ہے.خدا کا شکر ہے کہ یہ سرزمیں ایسے مردانِ حق سے خالی نہیں جو کلمہ حق کے اظہار میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے.اور اللہ تعالیٰ سے نور اور حضرت عزّت سے دانائی رکھتے ہیں.پس ان کی پاک فطرت صحیحہ ان کو حق کی طرف کھینچے رکھتی ہے اور اثبات حق میں روح القدس ان کی تائید فرماتی ہے.فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہ ان امور کا مصداق ہم نے آنمخدوم کو پایا ہے.اے برادر مکرم مشائخ وقت کا اس عاجز کی طرف رجوع بہت کم ہے.اور ہر طرف فتنے برپا ہیں.اس سے قبل حبّی فی اللّٰہ حاجی منشی احمد جان صاحب لدھیانوی کہ جو کتاب طبِ روحانی کے مؤ ّلف ہیں نے بکمال محبت و اخلاص اس عاجز سے مریدی کا تعلق قائم کر لیا ہے.اور بعض نا اہل مریدوں نے ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں بنائیں کہ اتنی بڑی بزرگی اور شہرت رکھنے والا کہاں جا پڑا.جب ان کی ان باتوں کی اُن (حضرت منشی احمدجان) کو اطلاع ہوئی تو آپ نے اپنے معتقدوں کو ایک مجلس میں اکٹھا کیا اور فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے وہ چیز (حقیقت) دیکھی ہے جو تم نہیں دیکھتے ہو.پس اگر آپ مجھ سے قطع تعلق چاہتے ہو تو بہت اچھا.مجھے خود ان تعلقات کی پرواہ نہیں ہے.اُن کی ان باتوں سے بعض اہلِ دل مرید رو پڑے.اور ایسااخلاص پیدا کیا جو اس سے پہلے وہ نہ رکھتے تھے.اور مجھ سے ملاقات کے وقت بتایا کہ میرے ساتھ یہ عجیب معاملہ پیش آیا ہے کہ میں نے پختہ ارادہ کیا تھا کہ اگر وہ مجھ کو چھوڑتے ہیں تو میں بھی ان کو ترک کر دوں گا.لیکن معاملہ اس کے برعکس ظاہر ہوا کہ انہوں نے قسم کھائی کہ اب وہ ایسی خدمات کے ساتھ آئیں گے کہ اس سے پہلے جن کا نشان نہیں تھا.اس بزرگ مرحوم نے مراجعت حج کے بعد وفات پائی.انہوں نے اپنے اعزاء اور وابستگان کو بار بار یہی نصیحت فرمائی کہ اس عاجز کے ساتھ مریدی کا تعلق رکھے رہیں گے اور حج کے ارادہ کے وقت مجھے لکھا کہ مجھے بڑی حسرت ہے کہ میں نے آپ کے زمانہ سے بہت ہی کم وقت پایا اور عمر اِدھر اُدھر کے کاموں میں ضائع ہو گئی اور اولاداور تمام مرد اور عورتیں کہ جو ان کے اعزاء تھے نے ان کی وصیت پر عمل کیا اور خود اس عاجز کے سلسلہ بیعت سے منسلک ہو گئے.چنانچہ لمبے عرصہ سے اس بزرگ کی اولادنے لدھیانہ سے ترک سکونت کر لی ہے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ میرے پاس قادیان میں رہ رہے ہیں.اور ایک اور بزرگ صاحبِ عَلَم ہیں جنہوں نے میری نسبت خواب میں دیکھا کہ

Page 427

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑی مجلس میں میرے بارہ میں شہادت دی اور میری طرف وہ مکتوب تحریر کیا جوضمیمہ انجام آتھم میں آنمکرم کی نظر سے گزرا ہو گا.لیکن ابھی اس عاجز کی جماعت اس تعداد کو نہیں پہنچی کہ جو میرے خدا نے مجھ پر منکشف فرمائی ہے.میرا خیال ہے کہ اب تک میری جماعت آٹھ ہزارسے دو تین سو کم یا زیادہ ہو گی.اے مخدوم و مکرم یہ سلسلہ خدا کا سلسلہ ہے اور اس قادر کے ہاتھوں اس کی بناء ہے کہ جو ہمیشہ کار ہائے عجائب دکھاتا ہے.وہ اپنے کاروبار کے بارہ میں پوچھا نہیں جاتا کہ تو نے ایسا کیوں کیا.وہ مالک ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.اس کے خوف سے آسمان و زمین کانپتے ہیں اور اس کی ہیبت سے ملائکہ لرزاں ہوتے ہیں اور اس نے اپنے الہام میں میرا نام آدم رکھا اور فرمایا.اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ میں بھی اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا کے اعتراض کا مورد بنوں گا.پس جو کوئی مجھ کو قبول کرتا ہے وہ فرشتہ ہے نہ انسان اور جو سرکشی کرتا ہے ابلیس ہے نہ آدمی.یہ قول خدا کا فرمودہ ہے نہ میرا.پس ان لوگوں کو مبارک ہو جو مجھ سے محبت کرتے ہیں اور مجھ سے دشمنی نہیں رکھتے اور جنہوں نے مجھے اختیار کیا ہے اور مجھے تکلیف نہیں دیتے.یہ ایسے لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی برکات نازل ہوں گی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں.آنمخدوم نے جو نقل مضمون جلسہ مذاہب طلب فرمایا تھا اس میں توقف کا سبب یہ ہوا کہ میں منتظر تھا کہ مضمون میں سے ایک مطبوعہ حصہ مجھے پہنچتا تا آپ کی خدمت میں بھجوائوں.چنانچہ آج اس کا ایک حصہ پہنچا کہ آپ کی خدمت میں بھجوا رہا ہوں.اسی طرح آئندہ بھی جس جس طرح پہنچے گا انشاء اللہ خدمت میں روانہ کروں گا.اس مضمون کی مقبولیت اس سے ظاہر ہے کہ سرکاری اخبارات کہ جو ہر خبر سے کوئی سروکار نہیں رکھتے اور صرف وہ خبریں لکھتے ہیں کہ جو عظمت رکھتی ہیں.اس مضمون کی تعریف اس رنگ میں کی ہے کہ حد اعجاز تک پہنچا دیا ہے.چنانچہ سول ملٹری لکھتا ہے کہ جب یہ مضمون پڑھا گیا توتمام لوگوں پر محویت کا عالم طاری ہو گیا اور بالاتفاق لکھا کہ تمام مضامین پر یہی مضمون غالب رہا.بلکہ لکھا کہ دیگر مضامین اس کے مقابل پر کچھ چیز نہ تھے.پس یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس واقعہ سے پہلے ہی خدا نے اپنے کلام اور الہام سے مجھ کو اطلاع بخشی.اور میں نے بھی پیش از وقت اس اعلامِ الٰہی کو بذریعہ اشتہار مشتہر کر دیا تھا.پس اس واقعہ کی عظمت نُوْرٌ عَلٰی نُوْر ہو گئی.فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.

Page 428

آنمکرم نے علماء کے شکوہ و شکایت کے بارہ میںجو تحریر فرمایا ہے اس بارہ میںکیا کہیںاور کیالکھیں؟ میرا اور ان کا مقدمہ آسماں پر ہے.پس اگر میں کاذب ہوں اور حضرت باری عزّ ا سمہٗ کے علم میں مفتری اور میرا دعویٰ کذب، خیانت اور دجل ہے اس صورت میں میرا خدا سے بڑھ کر کوئی دشمن نہیں اور جلدتر مجھ کو جڑ سے اکھاڑ دے گا اورمیری جماعت کو منتشر کر دے گا کیونکہ وہ مفتری کو ہرگز امن کی حالت میں نہیںرہنے دیتالیکن اگر میں اُس سے اور اُس کی طرف سے ہوں اور اُس کے حکم سے آیا ہوں اور میں اپنے کاروبار میں کوئی خیانت نہیں رکھتا تو کوئی شک نہیں ہے کہ وہ ایسے میری تائید کرے گا کہ جیسے قدیم سے صادقوں کی تائید اس کی سنّت چلی آئی ہے.اور میں ان لوگوں کی لعنت سے نہیں ڈرتا.لعنت وہ ہے جو آسمان سے گرتی ہے.اور جب آسمان سے لعنت نہیں ہے تو مخلوق کی لعنت ایک سہل امر ہے کہ کوئی راستباز اس سے محفوظ نہیں رہا.لیکن آنمخدوم کے لئے حضرت عزت میں دعا کرتا ہوں کہ محض اپنی فطرت کی سعادت سے اس عاجز کے مخالفوں کو دور کرے.پس اے عزیز خدا تیرے ساتھ ہو اور تمہارا انجام بخیر ہو.جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ اور تجھ پر دنیا اور آخرت میں احسان فرمائے اور جہاں بھی تم ہو تمہارے ساتھ ہو اور اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے محبوب بندوں میں داخل فرمائے.آمین مثنوی اے فرید وقت در صدق و صفا باتو بادآن رو کہ نام او خدا برتو بارد رحمت یار ازلدر تو تابد نور دلدار ازل از تو جان من خوش ست اے خوش خصالدیدمت مردے درین قحط الرجال درحقیقت مردم معنی کم اندگو ہمہ از روئے صورت مردم اند ۱.اے صدق وصفا میں اس زمانہ کے یگانہ انسان تیرے ساتھ وہ ذات ہو جس کا نام خدا ہے- ۲.تجھ پر اس یار قدیم کی رحمتوں کی بارش ہو اور تجھ میں اس محبوب ازلی کا نور چمکتا رہے- ۳.اے نیک خصلت انسان تجھ سے میری جان راضی ہے اس قحط الرجال میں میں نے تجھ کو ہی ایک مرد پایا ہے- ۴.دراصل حقیقی انسان کم ہوتے ہیں اگرچہ دیکھنے میں سب آدمی ہی نظر آتے ہیں-

Page 429

اے مرا روئے محبت سوئے تو بوئے انس آمد مرا از کوئے تو کس ازین مردم بماروئے نہ کرد این نصیبت بود اے فرخندہ مرد ہر زمان بالعنتے یادم کنند خستہ دل از جوروبیدادم کنند کس بچشم یار صدیقے نہ شد تا بچشم غیر زندیقے نہ کافرؔم گفتند و دجال و لعین بہر قتلم ہرلئیمے درکمین بنگر این بازی کنان راچون جہند از حسد برجان خود بازی کنند مومنے را کافرے دادن قرار کار جان بازیست نزد ہوشیار زانکہ تکفیرے کہ از ناحق بود واپس آید بر سر اہلش فتد سفلۂ کو غرق در کفر نہان ہرزہ نالد بہرکفر دیگران گر خبر زان کفر باطن داشتے خویشتن را بدترے انگاشتے ۵.اے وہ کہ میری محبت کا رُخ تیری طرف ہے مجھے تیرے کوچہ سے انس کی خوشبو آتی ہے- ۶.ان لوگوں میں سے کسی نے بھی ہماری طرف رخ نہ کیا اے نیک نصیب انسان یہ بات تیری قسمت میں ہی تھی- ۷.یہ لوگ تو ہر وقت مجھے لعنت سے یاد کرتے ہیں اور ظلم وجفا سے مجھے دکھ دیتے رہتے ہیں- ۸.یار کی نظر میں کوئی شخص صدیق قرار نہیں پاتا جب تک وہ غیروں کی نظر میں زندیق نہ ہو- ۹.انہوں نے مجھے کافر دجال اور لعنتی کہا اور ہر کمینہ میرے قتل کے لئے گھات میں بیٹھ گیا- ۱۰.ان بازیگروں کو دیکھ کہ کس طرح اچھلتے ہیں یہ حسد کے مارے اپنی جان سے ہی کھیلتے ہیں- ۱۱.کسی مومن کو کافر ٹھیرانا سمجھ دار آدمی کے نزدیک بڑے خطرہ کی بات ہے- ۱۲.کیونکہ جو تکفیر ناحق کی جاتی ہے وہ تکفیر کرنے والے کے سر پر ہی واپس پڑتی ہے- ۱۳.وہ بے وقوف جو مخفی کفر میں غرق ہے وہ اوروں کے کفر پر ناحق بیہودہ غل مچاتا ہے- ۱۴.اگر اسے اپنے باطنی کفر کی خبر ہوتی تو اپنے آپ کو ہی بہت بُرا سمجھتا-

Page 430

تا مرا از قوم خود ببریدہ اند بہر تکفیرم چہا کوشیدہ اند افتراہا پیش ہرکس بردہ اند و از خیانتہا سخن پروردہ اند تا مگر لغزد کسے زاں افترا سادہ لوحے کافر انگارد مرا در رہ ما فتنہ ہا انگیختند بانصاریٰ رائے خود آمیختند کافرم خواندند از جہل و عناد این چنین کورے بدنیا کس مباد بخل و نادانی تعصب ہا فزود کین بجوشید و دوچشم شان ربود ما مسلمانیم از فضل خد مصطفی ما را امام و مقتدا اندرین دین آمدہ از ما دریم ہم برین از دار دنیا بگذریم آن کتاب حق کہ قرآن نام اوست بادۂ عرفان ما از جام اوست آں رسولے کش محمد ہست نام دامن پاکش بدست ما مدام مہر او باشیر شد اندر بدن جان شد و باجان بدر خواہد شدن ۱۵.جب سے لوگوں نے مجھے اپنی قوم سے کاٹ دیا ہے تب سے انہوں نے میرے کافر بنانے میں کتنی کتنی کوششیں کی ہیں- ۱۶.ہر شخص کے روبرو افترا پردازیاں کیں اور خیانت کے ساتھ خوب باتیں بنائیں- ۱۷.تا کہ کوئی تو اس افترا کی وجہ سے پھسل جائے اور بھولا آدمی مجھے کافر سمجھنے لگے- ۱۸.انہوں نے ہمارے راستے میں فتنے کھڑے کیے اور عیسائیوں کے ساتھ ساز باز کی- ۱۹.جہل وعداوت کی وجہ سے مجھے کافر کہا.کاش دنیا میں اتنا اندھا کوئی نہ ہو- ۲۰.بخل ونادانی نے تعصب کو بڑھایا اور کینہ بھڑک کر ان کی دونوں آنکھیں نکال لے گیا- ۲۱.ہم خدا کے فضل سے مسلمان ہیں.محمد مصطفی ہمارے امام اور پیشوا ہیں- ۲۲.ہم ماں کے پیٹ سے اسی دین میں پیدا ہوئے اور اسی دین پر دنیا سے گزر جائیں گے- ۲۳.خدا کی وہ کتاب جس کا نام قرآن ہے ہماری شراب معرفت اسی جام سے ہے- ۲۴.وہ رسول جس کا نام محمد ہے اس کا مقدس دامن ہر وقت ہمارے ہاتھ میں ہے- ۲۵.اس کی محبت ماںکے دودھ کے ساتھ ہمارے بدن میں داخل ہوئی وہ جان بن گئی اور جان کے ساتھ ہی باہر نکلے گی-

Page 431

ہست او خیر الرسل خیرالانام ہر نبوت را بروشد اختتام ما ازو نوشیم ہر آبے کہ ہست زو شدہ سیراب سیرابے کہ ہست آنچہ مارا وحی و ایمائے بود آن نہ از خود ازہمان جائے بود ما ازو یابیم ہر نور و کمال وصل دلدار ازل بے او محال اقتدائے قول او درجان ماست ہرچہ زُو ثابت شود ایمان ماست از ملائک و از خبر ہائے معاد ہرچہ گفت آن مرسل ربّ العباد آںؔ ہمہ از حضرت احدیت است منکر آن مستحق لعنت است معجزات اوہمہ حق اند و راست منکر آن مورد لعن خداست معجزات انبیائِ سابقین آنچہ در قرآن بیانش بالیقین برہمہ از جان و دل ایمان ماست ہر کہ انکارے کند از اشقیاست یک قدم دوری ازان روشن کتاب نزد ماکفر است و خسران و تباب ۲۶.وہی خیرالرسل اور خیرالانام ہے اور ہر قسم کی نبوت کی تکمیل اس پر ہو گئی- ۲۷.جو بھی پانی ہے وہ ہم اسی سے لے کر پیتے ہیں جو بھی سیراب ہے وہ اسی سے سیراب ہوا ہے- ۲۸.جو وحی والہام ہم پر نازل ہوتا ہے وہ ہماری طرف سے نہیں وہیں سے آتا ہے- ۲۹.ہم ہر روشنی اور ہر کمال اسی سے حاصل کرتے ہیں محبوب ازلی کا وصل بغیر اس کے ناممکن ہے- ۳۰.اس کے ہر ارشاد کی پیروی ہماری فطرت میں ہے جو بھی اس کا فرمان ہے اس پر ہمارا پورا ایمان ہے- ۳۱.فرشتوں کے متعلق اور آخرت کے حالات کے متعلق جو کچھ اس رَبُّ الْعِبَاد کے پیغمبر نے فرمایا- ۳۲.وہ سب خدائے واحد کی طرف سے ہے اور اس کا منکر لعنت کا مستحق ہے- ۳۳.اس کے معجزے سب کے سب سچے اور درست ہیں ان کا منکر خدا کی لعنت کا مورد ہے- ۳۴.پہلے سب نبیوں کے معجزے جن کا ذکر صاف اور واضح طور پر قرآن میں ہے- ۳۵.ان سب پر بدل وجان ہمارا ایمان ہے جو انکار کرتا ہے وہ بدبختوں میں سے ہے- ۳۶.اس نورانی کتاب سے ایک قدم بھی دور رہنا ہمارے نزدیک کفر وزیاں اور ہلاکت ہے-

Page 432

لیک دو نان رابمغزش راہ نیست ہردلے از سرآن آگاہ نیست تانہ باشد طالبے پاک اندرون تانہ جوشد عشق یار بیچگون راز قرآن را کجا فہمد کسے بہرنورے نور می باید بسے این نہ من قرآن ہمین فرمودہ ست اندر و شرط تطہّر بودہ است گر بقرآن ہر کسے را راہ بود پس چرا شرط تطہّر را فزود نور را داند کسے کو نورشد و از حجاب سرکشی ہا دور شد ایں ہمہ کوران کہ تکفیرم کنند بے گمان از نور قرآن غافل اند بے خبر از رازہائے این کلام ہرزہ گویان ناقصان و ناتمام درکف شان استخوانے بیش نیست درسر شان عقل دور اندیش نیست مردہ اند و فہم شان مردار ہم بے نصیب از عشق و از دلدار ہم الغرض فرقان مدار دین ماست او انیس خاطر غمگین ماست ۳۷.لیکن ذلیل لوگوں کو قرآن کی حقیقت کی خبر نہیں ہرایک دل اس کے بھیدوں سے واقف نہیں ہے- ۳۸.جب تک طالبِ حق پاک باطن نہیں ہوتا اور جب تک اس یار بے مثال کا عشق اس کے دل میں جوش نہیں مارتا- ۳۹.تب تک کوئی قرآنی اسرار کو کیونکر سمجھ سکتا ہے نور کے سمجھنے کے لئے بہت سا نور باطن ہونا چاہئے- ۴۰.یہ میری بات نہیں بلکہ قرآن نے بھی یہی فرمایا ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لئے پاک ہونے کی شرط ہے- ۴۱.اگر ہر شخص قرآن کو )خود ہی( سمجھ سکتا تو خدا نے تطہّر کی شرط کیوں زائد لگائی- ۴۲.نور کو وہی شخص سمجھتا ہے جو خود نور ہو گیا ہو اور سرکشی کے حجابوں سے دور ہو گیا ہو- ۴۳.یہ سب اندھے جو میری تکفیر کر رہے ہیں.یقیناً قرآن کے نور سے بے خبر ہیں- ۴۴.اور اس کلام کے اسرار سے ناواقف ہیں- بیہودہ گو- ناقص اور خام ہیں- ۴۵.ان کے ہاتھ میں ہڈی سے بڑھ کر کچھ نہیں اور ان کے سر میں دور اندیش عقل نہیں ہے- ۴۶.وہ خود مرُدہ ہیں اور ان کا فہم بھی مرُدار ہے- وہ عشق اور معشوق دونوں سے محروم ہیں- ۴۷.الغرض قرآن ہمارے دین کی بنیاد ہے وہ ہمارے غمگین دل کو تسلی دینے والا ہے-

Page 433

نُورِ فرقان می کشد سوئے خدا می توان دیدن ازو روئے خدا ماچہ سان بندیم زان دلبر نظر ہمچو روئے او کجا روئے دِگر روئے من از نُورِ روئے او بتافت یافت از فیضش دل من ہرچہ یافت چوں دو چشمم کس نداند آن جمال جان من قربان آن شمس الکمال ہم چنین عشقم بروئے مصطفی دل پَرد چُون مرغ سوئے مصطفی تا مرا دادند از حسنش خبر شد دلم از عشق او زیر و زبر منکہ می بینم رخ آن دلبرے جان فشانم گر دہد دل دیگرے ساقی من ہست آن جان پرورے ہر زمان مستم کند از ساغرے محو روئے اوشدست ایں روئے من بوئے او آید زِ بام و کوئے من بس کہ من در عشق او ہستم نہان من ہمانم من ہمانم من ہمان جان من از جان او یابد غذا از گریبانم عیان شد آن ذکا ۴۸.فرقان کا نور خدا کی طرف کھینچتا ہے اس سے خدا کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں- ۴۹.ہم اس معشوق سے اپنی آنکھیں کیونکر بند کر سکتے ہیں اس کے چہرہ جیسا خوبصورت اور کوئی چہرہ کہاں ہے- ۵۰.میرا منہ اس کے منہ کے نور کی وجہ سے چمک اٹھا میرے دل نے جو کچھ بھی پایا اسی کے فیض سے پایا - ۵۱.جس قدر میری آنکھیں اس کے حسن کو جانتی ہیں کوئی نہیں جانتا میری جان کمالات کے اس سورج پر قربان ہے- ۵۲.ایسا ہی عشق مجھے مصطفی کی ذات سے ہے میرا دل ایک پرندہ کی طرح مصطفی کی طرف اُڑ کر جاتا ہے- ۵۳.جب سے مجھے اس کے حسن کی خبر دی گئی ہے میرا دل اس کے عشق میں بے قرار رہتا ہے- ۵۴.میں اس دلبر کا چہرہ دیکھ رہا ہوں اگر کوئی اسے دل دے تو میں اس کے مقابلہ پر جان نثار کردوں- ۵۵.وہی روح پرور شخص تو میرا ساقی ہے جو ہمیشہ جام شراب سے مجھے سرشار رکھتا ہے- ۵۶.یہ میرا چہرہ اس کے چہرہ میں محو اور گم ہو گیا اور میرے مکان اور کوچہ سے اسی کی خوشبو آرہی ہے- ۵۷.از بس کہ میں اس کے عشق میں غائب ہوں- میں وہی ہوں- میں وہی ہوں- میں وہی ہوں- ۵۸.میری روح اس کی روح سے غذا حاصل کرتی ہے اور میرے گریباں سے وہی سورج نکل آیا ہے.

Page 434

Page 435

صحت نیت چو باشد در دلے بر گلِ صدق اوفتد چون بُلبلے بر شرارتہا نمی بندد میان ترسد از دانائے اسرار نہان لیکن ایں بے باکی و ترک حیا افترا بر افترا بر افترا ایں نہ کارِ مومنان و اتقیاست این نہ خوئے بندگانِ باصفاست ہرکہ او ہر دم پرستارِ ہوا من چسان دانم کہ ترسد از خدا خویشتن را نیک اندیشیدہ اند ہائے این مردم چہ بد فہمیدہ اند اتباع نفس اعراض از خدا بس ہمین باشد نشان اشقیا ہرکہ زیں سان خبث در جانش بود کافرم گر بوئے ایمانش بود منؔ برین مردم بخواندم آن کتاب کان منزہ اوفتاد از ارتیاب ہم خبرہا پیش کردم زاں رسول کو صدوق از فضل حق پاک از فضول لیکن اینان را بحق روئے نبود پیش گُرگے گریۂ میشے چہ سُود ۷۰.جب دل میں نیک نیتی ہوتی ہے تو وہ صدق کے پھول پر بلبل کی طرح گرتا ہے- ۷۱.اور شرارتوں پر کمر نہیں باندھتا- وہ پوشیدہ بھیدوں کے جاننے والے سے ڈرتا ہے- ۷۲.لیکن یہ بے باکی اور بے شرمی اور افترا پر افترا- ۷۳.یہ ایمانداروں اور پرہیزگاروں کا کام نہیں ہے- نہ یہ پاک دل بزرگوں کی خصلت ہے- ۷۴.وہ جو ہر وقت اپنی خواہشوں کا غلام ہے میں کیونکر جانوں کہ وہ خدا سے ڈرتا ہے- ۷۵.انہوں نے اپنے تئیں نیک خیال کر رکھا ہے افسوس ان لوگوں نے کیسا غلط سمجھا- ۷۶.نفس کی پیروی اور خدا سے روگردانی بس یہی بدبختوں کی نشانی ہے- ۷۷.جس کے دل میں اس طرح کی گندگی ہے اگر اس میں ایمان کی بُو بھی ہو تو پھر میں کافر ہوں- ۷۸.میں نے ان لوگوں کے سامنے وہ کتاب پڑھی جو ریب اور شک سے پاک ہے )یعنی قرآن(.۷۹.نیز اس رسول کی حدیثیں بھی پیش کیں جو بفضلِ خدا راستباز ہے اور لغوگوئی سے پاک- ۸۰.لیکن ان کا ارادہ ہی حق قبول کرنے کا نہ تھا بھیڑیے کے آگے بھیڑ کا رونا فضول ہے-

Page 436

کافرم گفتند و روہا تافتند آن یقین گویا دلم بشگافتند اندرینان خوب گفت آن شاہ دیں کافران دل برون چون مومنین ہر زمان قرآن مگر در سینہ ہا حُبّ دُنیا ہست و کبر و کینہ ہا دانش دیں نیز لاف است و گذاف پشت بنمودند وقت ہر مصاف جاہلانے غافل از تازی زباں ہم ز قرآن ہم ز اسرار نہان کبرِ شان چون تاکمال خود رسید غیرتِ حق پردہ ہائے شان درید دشمنان دین چون شمرِ نابکار دین چو زین العابدین بیمار و زار تن ہمی لرزد دل و جان نیزہم چون خیانتہائے ایشان بنگرم مکرہا بسیار کردند و کنند تا نظام کارما برہم زنند لیکن آن امرے کہ ہست از آسمان چون زوال آید برد از حاسدان من چہ چیزم جنگ شان با آن خداست کزدو دستش این ریاض و این بناست ۸۱.انہوں نے مجھے کافر کہا اور منہ پھیر لیا اور یقین کر لیا کہ گویا انہوں نے میرا دل چیر کر دیکھ لیا ہے- ۸۲.انہی کے بارے میں اس شاہِ دین نے کیا خوب فرمایا ہے کہ یہ لوگ دل کے کافر ہیں اور ظاہر کے مومن- ۸۳.ان کی زبان پر قرآن ہے مگر ان کے سینوں میں دنیا کی محبت، تکبرّ اور عداوتیں ہیں- ۸۴.دین کی سمجھ کا دعویٰ بھی صرف لاف وگزاف ہے کیونکہ ہر جنگ کے وقت انہوں نے پیٹھ دکھائی ہے- ۸۵.یہ وہ جاہل ہیں جو عربی زبان سے ناواقف ہیں نیز قرآن اور اس کے باریک بھیدوں سے بھی- ۸۶.جب ان کا تکبرّ اپنے کمال کو پہنچ گیا تو خدا کی غیرت نے ان کے پردے پھاڑ دئیے- ۸۷.شمرنا بکار کی طرح یہ لوگ دین کے دشمن ہیں اور دین زین العابدین کی طرح بیمار اور کمزور ہے- ۸۸.میرا بدن کانپ جاتا ہے اور جان ودل لرز جاتے ہیں جب میں ان کی خیانتیں دیکھتا ہوں- ۸۹.انہوں نے بہت مکر کئے اور اب بھی کر رہے ہیں تا کہ ہمارے کام کے نظام کو درہم برہم کر دیں- ۹۰.لیکن وہ بات جو آسمان کی طرف سے ہے اس پر حاسدوں کے حسد سے کیونکر زوال آسکتا ہے- ۹۱.میں کیا چیز ہوں ان کی لڑائی تو اس خدا کے ساتھ ہے جس کے دونوں ہاتھوں سے یہ باغ اور یہ محل تیار ہوا ہے-

Page 437

ہرکہ آویزد بکار و بار حق اوستادہ ازپئے پیکار حق فانی ایم و تیرِ ما تیرِ حق است صیدِ ما دراصل نخچیر حق است صادقے دارد پناہِ آن یگان دست حق در آستینِ او نہاں ہرکہ با دست خدا پیچد زِ کین بیخ خود کندد چو شیطان لعین اے بسا نفسے کہ ہمچو بلعم است کار او از دست موسیٰ برہم است آمدم بروقت چون ابر بہار بامن آمد صدنشان لُطفِ یار آسمان از بہر من بارد نشان ہم زمین الوقت گوید ہر زمان ایں دو شاہد بہرِ من استادہ اند باز در من ناقصان افتادہ اند ہائے این مردم عجب کور و کراند صد نشان بینند غافل بگذرند این چنین اینان چرا بالا پرند یا مگر زان ذات بے چون منکر اند او چو برکس مہربانی می کند از زمینی آسمانی می کند ۹۲.جو شخص خدائی کاروبار میں دخل انداز ہوتا ہے وہ دراصل خدا سے جنگ کرنے کھڑا ہوتا ہے- ۹۳.ہم تو فانی لوگ ہیں اور ہمارا تیر خدا کا تیر ہے اور ہمارا شکار دراصل خدا کا شکار ہے- ۹۴.صادق تو اس یکتا کی پناہ میں ہوتا ہے اور خدا کا ہاتھ اس کی آستین میں چھپا ہوا ہوتا ہے- ۹۵.جو شخص دشمنی کی وجہ سے خدا کے ساتھ لڑتا ہے وہ شیطان لعین کی طرح اپنی ہی جڑ اکھیڑتا ہے- ۹۶.بہت سے لوگ بلعم کی طرح ہیں جن کا کام موسیٰ کے ہاتھوں تہس نہس ہو جاتا ہے- ۹۷.میں ابر بہار کی طرح وقت پر آیا ہوں اور میرے ساتھ خدا کی مہربانیوں کے سینکڑوں نشانات ہیں- ۹۸.آسماں میرے لیے نشان برساتا ہے اور زمین بھی ہر دم یہی کہتی ہے کہ وقت یہی ہے- ۹۹.میری تائید میں یہ دو گواہ کھڑے ہیں پھر بھی یہ بیوقوف میرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں- ۱۰۰.ہائے افسوس یہ لوگ عجب طرح کے اندھے اور بہرے ہیں سینکڑوں نشان دیکھتے ہیں پھر بھی غافل گزر جاتے ہیں- ۱۰۱.یہ اس قدر کیوں اونچے اُڑتے ہیں (یعنی اتنے متکبرّ کیوں ہیں)شاید اس بے مثل ذات کے منکر ہیں- ۱۰۲.وہ خدا تو جب کسی پر مہربانی کرتا ہے تو اسے زمینی سے آسمانی بنا دیتا ہے-

Page 438

عزتش بخشد ز فضل و لطف و جود مہرومہ را پیشش آرد در سجود من نہ از خود ادعائے کردہ ام امر حق شد اقتدائے کردہ ام کارِحق است ایں نہ از مکرِ بشر دشمنِ این دشمن آں داد گر آں خدا کایں عاجزے راچیدہ ست رحمتش در کوئے ما باریدہ است مردم و جانان پس از مردن رسید گم شدم آخر رُخے آمد پدید میل عشق دلبرے پُرزور بود غالب آمد رختِ مارا در ربود من نہ دارم مایۂ کردارہا عشق جوشید و ازو شد کار ہا بہرمن شد نیستی طور خدا چون خودی رفت آمد آن نُورِ خدا روبدو کردم کہ روآن روئے اوست ہر دل فرخندہ مائل سوئے اوست در دو عالم مثل او روئے کجاست جز سر کوئش دگر کوئے کجاست آن کسان کز کوچۂ او غافل اند ازسگان کوچہ ہا ہم کمتراند ۱۰۳.اپنے فضل لطف اور کرم سے اسے عزت بخشتا ہے سورج اور چاند کو اس کے سامنے سجدہ میں گراتا ہے- ۱۰۴.میں نے اپنے پاس سے یہ دعویٰ نہیں کیا بلکہ خدا کے حکم کی پیروی کی ہے- ۱۰۵.یہ خدا کا کام ہے نہ کہ انسان کا مکر اس کا دشمن اس عادل خدا کا دشمن ہے- ۱۰۶.وہ خدا جس نے اس عاجز کو منتخب کیا ہے اس کی رحمت ہماری گلی میں برسی ہے- ۱۰۷.جب میں مر گیا تو مرنے کے بعد میرا محبوب آگیا جب میں فنا ہو گیا تو اس کا چہرہ مجھ پر ظاہرہو گیا - ۱۰۸.دلبر کے عشق کی رَو زوروں پر تھی- وہ غالب آگئی اور ہمارا سب سامان بہا کر لے گئی- ۱۰۹.میرے پاس اعمال کا ذخیرہ نہیں بلکہ عشق جوش میں آیا اور اس سے یہ سب کام ہو گئے- ۱۱۰.میرے لئے نیستی ہی خدا کا طور بن گئی جب خودی جاتی رہی تو خدا کا نور آگیا- ۱۱۱.میں نے اسی کی طرف اپنا رخ پھیر لیا کیونکہ دیکھنے کے لائق وہی چہرہ ہے اور ہر مبارک دل اسی کی طرف مائل ہے- ۱۱۲.دونو جہان میں اس کی طرح کا کوئی چہرہ کہاں ہے؟ اور اس کے کوچہ کے سوا اور کوئی کوچہ کہاں ہے؟ ۱۱۳.وہ لوگ جو اس کے کوچہ سے غافل ہیں وہ گلیوں کے کتّوں سے بھی زیادہ ذلیل ہیں-

Page 439

خلق و عالم جملہ در شور و شراند عاشقانش در جہان دیگر اند آن جہان چون ماند برکس ناپدید از جہان آن کور و بدبختی چہ دید راہِ حق بر صادقان آسان تر است ہرکہ جوید دامنش آید بدست ہرکہ جوید وصلش از صدق و صفا رہ دہندش سوئے آن ربّ السّما صادقان را می شناسد چشم یار کیدومکر اینجا نمی آید بکار صدق می باید برائے وصل دوست ہرکہ بے صدقش بجوید حمق اوست صدق ورزی در جناب کبریا آخرش می یابد از یمن وفا صد درے مسدود بکشاید بصدق یار رفتہ باز مے آید بصدق صدق درزان را ہمین باشد نشان کزپئے جاناں بکف دارند جان دوختہ در صورت دلبر نظر و از ثناء و سَبِّ مردم بے خبر کارؔ عقبیٰ باعمل ہا بستہ اند رستہ آن دلہا کہ بہرش خستہ اند ۱۱۴.مخلوقات اور دنیا سب شورو شر میں مبتلا ہے مگر اس کے عاشق اور ہی عا َلم میں ہیں- ۱۱۵.وہ عا َلم جس شخص سے پوشیدہ رہا- اس بدبخت نے دنیا میں آکر دیکھا ہی کیا؟ ۱۱۶.صادقوں پر خدا کا راستہ پانا آسان ہے جو خدا کو ڈھونڈتا ہے تو اس کا دامن اس کے ہاتھ میں آجاتا ہے- ۱۱۷.جو بھی صدق وصفا کے ساتھ اس کا وصل چاہتا ہے اس کے لئے آسمانوں کا خدا وصل کا راستہ کھول دیتا ہے- ۱۱۸.یار کی نظر سچوں کو پہچان لیتی ہے مکر اور چالاکی یہاں کام نہیں دیتی- ۱۱۹.دوست کے وصل کے لئے صدق درکار ہے جو بغیر صدق کے اسے ڈھونڈتا ہے وہ بیوقوف ہے- ۱۲۰.خدا کے حضور صدق کو اختیار کرنے والا آخر کار اپنی وفا کی برکت سے اسے پالیتا ہے- ۱۲۱.سینکڑوں بند دروازے صدق کی وجہ سے کھل جاتے ہیں کھویا ہوا دوست صدق کی وجہ سے واپس آجاتا ہے- ۱۲۲.سچوں کی یہی علامت ہے کہ محبوب کی خاطر ان کی جان ہتھیلی پر ہوتی ہے- ۱۲۳.دلبر کی صورت پر ان کی ٹکٹکی لگی ہوتی ہے اور لوگوں کی تعریف اور مذمت سے وہ بے خبر ہوتے ہیں- ۱۲۴.آخرت کے لئے ان کے سب عمل ہیں وہ دل نجات یافتہ ہیں جو خدا کے لئے زخمی اور شکستہ ہیں-

Page 440

از سخن ہا کے شود این کار و بار صدق مے باید کہ تا آید نگار علم را عالم بتے دارد براہ بت پرستی ہا کند شام و پگاہ گر بعلم خشک کار دین بُدے ہر لئیمے راز دار دین بُدے یار ما دارد بباطن ہا نظر ہان مشو نازان تو با فخر دِگر ہست آن عالی جنابے بس بلند بہر وصلش شورہا باید فگند زندگی در مردن عجز و بکاست ہرکہ اُفتادست او آخر بخاست تانہ کار درد کس تاجان رسد کے فغانش تا در جانان رسد ہرکہ ترک خود کند یابد خدا چیست وصل از نفس خود گشتن جدا لیک ترک نفس کے آسان بود مردن و از خود شدن یکسان بود تانہ آن بادے وزد بر جان ما کور باید ذرّۂ امکانِ ما کے درین گرد و غبارے ساختہ مے توان دید آن رخ آراستہ ۱۲۵.باتیں بنانے سے یہ کام نہیں چلتا کامیابی کے لئے وفاداری درکار ہے- ۱۲۶.عالموں نے اپنے علم کو ُبت بنایا ہوا ہے اور وہ صبح شام ُبت پرستی میں مشغول ہیں- ۱۲۷.اگر خشک علم پر ہی دین کا مدار ہوتا تو ہر نالائق انسان دین کا محرم راز ہوتا - ۱۲۸.ہمارا یار تو باطن پر نظر رکھتا ہے تو اپنی کسی اور خوبی پر نازاں نہ ہو- ۱۲۹.وہ بارگاہ نہایت اونچی اور عالی شان ہے اس کے وصل کے لئے بہت آہ وزاری کرنی چاہئے- ۱۳۰.زندگی مرنے اور انکسار اور گریہ وزاری میں ہے جو گر پڑا وہی آخر )زندہ ہو کر( اُٹھے گا- ۱۳۱.جب تک درد کا معاملہ جان لینے تک نہ پہنچے تب تک اس کی آہ وفریاد درِ جاناں تک نہیں پہنچتی- ۱۳۲.جو خودی کو ترک کرتا ہے وہ خدا کو پا لیتا ہے وصل کیا چیز ہے اپنے نفس سے الگ ہو جانا- ۱۳۳.لیکن نفس کو مارنا آسان کام نہیں- مرنا اور خودی کا چھوڑنا برابر ہے- ۱۳۴.جب تک ہماری جان پر وہ ہوا نہ چلے جو ہماری ہستی کے ذرہ تک کو اُڑا لے جائے- ۱۳۵.تب تک اس مصنوعی گرد وغبار میں وہ حسین چہرہ کس طرح دیکھا جا سکتا ہے-

Page 441

تا نہ قربان خدائے خود شویم تانہ محو آشنائے خود شویم تانہ باشیم از وجود خود برون تانہ گردد پُر زِ مہرش اندرون تا نہ برما مرگ آید صد ہزار کے حیاتے تازہ بینیم از نگار تا نہ ریزد ہر پر و بالے کہ ہست مرغ ایں رہ را پریدن مشکل است بدنصیبے آنکہ وقتش شد بباد یار آزردہ دل اغیار شاد از خرد مندان مرا انکار نیست لیکن این رہ راہ وصلِ یار نیست تانہ باشد عشق و سوداء و جنون جلوہ نہ نماید نگار بے چگون چون نہان است آن عزیزے محترم ہر کسے را ہے گزیند لاجرم آن رہے کو عاقلان بگزیدہ اند ازتکلف روئے حق پوشیدہ اند پردہ ہا بر پردہ ہا افراختہ مطلبے نزدیک دور انداختہ ماکہ با دیدار او رو تافتیم ازرہ عشق و فنایش یافتیم ۱۳۶.جب تک ہم اپنے خدا پر قربان نہ ہو جائیں اور جب تک اپنے دوست کے اندر محو نہ ہو جائیں- ۱۳۷.جب تک ہم اپنے وجود سے علیحدہ نہ ہو جائیں اور جب تک سینہ اس کی محبت سے بھر نہ جائے- ۱۳۸.جب تک ہم پر لاکھوں موتیں وارد نہ ہوں تب تک ہمیں اس محبوب کی طرف سے نئی زندگی کب مل سکتی ہے- ۱۳۹.جب تک اپنے اگلے بال و پرَ نہ جھاڑ ڈالے تب تک اس راہ کے پرندے کے لئے اُڑنامشکل ہے - ۱۴۰.بدقسمت ہے وہ شخص جس کا وقت برباد ہو گیا- یار ناراض ہو گیا اور دشمنوں کا دل خوش ہوا- ۱۴۱.مجھے دانائوں کی عقلمندی سے انکار نہیں ہے مگر یہ یار کے وصل کا راستہ نہیں- ۱۴۲.جب تک عشق اور سودا اور جنون نہ ہو تب تک وہ بے مثال محبوب اپنا جلوہ نہیں دکھاتا- ۱۴۳.چونکہ وہ عزت والا محبوب پوشیدہ ہے تو ہر شخص کوئی نہ کوئی راستہ( اس سے ملنے کے لئے) اختیار کرتا ہے- ۱۴۴.لیکن عقل والوں نے جو راستہ اختیار کیا ہے تو انہوں نے بہ تکلف خدا کے چہرہ کو اور بھی چھپا دیا ہے- ۱۴۵.پہلے َپردوں پر اور َپردے ڈال دیئے مقصد نزدیک تھا مگر اسے اور دُور کر دیا- ۱۴۶.ہم لوگ جنہوں نے اس کے دیدار سے اپنا چہرہ روشن کیا ہے ہم نے تو اسے عشق اور فنا کے راستہ سے پایا ہے-

Page 442

ترکِ خود کردیم بہرِ آن خدا ازفنائے ما پدید آمد بقا اندرین رہ دردِسر بسیار نیست جان بخواہد دادنش دشوار نیست گرنہ او خواندے مرا از فضل و جود صد فضولی کردمے بیسود بود از نگاہے این گدا را شاہ کرد قصہ ہائے راہِ ما کوتاہ کرد راہِ خود برمن کشود آن دلستان دانمش ز انسان کہ گل را باغبان ہرکہ در عہدم زِ من ماند جدا می کُند بر نفسِ خود جور و جفا پُر زِ نُور دلستان شد سینہ ام شد ز دستے صیقلِ آئینہ ام پیکرم شد پیکرِ یارِ ازل کارِ مَن شُد کارِ دِلدارِ ازل بسکہ جانم شد نہان در یارِ من بوئے یار آمد ازین گلزارِ من نور حق داریم زیرِ چادرے از گریبانم برآمد دلبرے احمدِ آخر زمان نامِ من است آخرین جامے ہمین جامِ مَن است ۱۴۷.اس خدا کے لئے جب ہم نے اپنی خودی ترک کر دی تو ہماری فنا کے نتیجہ میں بقا ظاہر ہو گئی- ۱۴۸.اس راستے میں زیادہ تکلیف اٹھانی نہیں پڑتی وہ صرف جان مانگتا ہے اور اس کا دینا مشکل نہیں ہے- ۱۴۹.اگر وہ خود اپنے فضل وکرم سے مجھے نہ بلاتا تو خواہ میں کتنی ہی کوششیں کرتا سب بے فائدہ تھیں.۱۵۰.اس نے ایک نظر سے اس فقیر کو بادشاہ بنا دیا اور ہمارے لمبے راستہ کو مختصر کر دیا- ۱۵۱.اس محبوب نے خود اپنا راستہ میرے لئے کھولا میں یہ بات اس طرح جانتا ہوں جیسے باغبان پھول کو- ۱۵۲.جو میرے زمانہ میں مجھ سے ُجدا رہتا ہے تو وہ خود اپنی جان پر ظلم کرتا ہے- ۱۵۳.محبوب کے نور سے میرا سینہ بھر گیا میرے آئینہ کا صیقل اسی کے ہاتھ نے کیا- ۱۵۴.میرا وجود اس یار ازلی کا وجود بن گیا اور میرا کام اس دلدار قدیم کا کام ہو گیا- ۱۵۵.چونکہ میری جان میرے یار کے اندر مخفی ہو گئی اس لئے یار کی خوشبو میرے گلزار سے آنے لگی- ۱۵۶.ہماری چادر کے اندر خدا کا نور ہے وہ دلبر میرے گریبان میں سے نکلا- ۱۵۷.’’احمد آخر زماں‘‘ میرا نام ہے اور میرا جام ہی )دنیا کے لئے( آخری جام ہے-

Page 443

طالب راہِ خدا را مژدہ باد کش خدا بنمود این وقتِ مُراد ہر کہ را یارے نہان شد از نظر از خبر دارے ہمین پُرسد خبر ہر کہ جویانِ نگارے می بود کے بیک جایش قرارے می بود مے دود ہر سوہمے دیوانہ وار تا مگر آید نظر آن روئے یار ہرکہ عشق دلبرے درجان اوست دل زِ دستش اوفتد از ہجرِ دوست عاشقان را صبر و آرامے کجا توبہ از روئے دل آرامے کجا ہر کہ را عشقِ رخِ یارے بود روز و شب با آن رخش کارے بود فرقتش گر اتفاقے اوفتد در تن و جانش فراقے اوفتد یک زمانے زندگی بے روئے یار مے کند بر وے پریشان روزگار بازچون بیند جمال و روئے او مے دود چوں بے حوا سے سوئے او مے زند در دامنش دست از جنون کز فراقت شد دلم اے یار خون ۱۵۸.راہِ خدا کے طالب کو خوشخبری ہو کہ اسے خدا نے کامیابی کا زمانہ دکھایا- ۱۵۹.جس کسی کا دوست اس کی نظر سے غائب ہو جاتا ہے تو وہ کسی واقف سے اس کی خبر پوچھتا ہے- ۱۶۰.اور جو کسی معشوق کا طلب گار ہوتا ہے تو اسے ایک ہی جگہ پر کب چین آتا ہے- ۱۶۱.وہ ہر طرف دیوانہ وار دوڑتا ہے تا کہ شائد یار کا چہرہ کہیں نظر آجائے- ۱۶۲.جس کی جان میں دلبر کا عشق سما گیا ہے تو دوست کے فراق میں اس کا دل ہاتھ سے نکل نکل جاتا ہے- ۱۶۳.عاشقوں کے لئے صبر اور آرام کہاں! اور معشوق کے چہرے سے روگردانی کہاں؟ ۱۶۴.جسے دوست کے منہ سے محبت ہوتی ہے اسے تو دن رات اس کے چہرہ کا ہی خیال رہتا ہے- ۱۶۵.اگر اتفاقاً اس سے ُجدائی ہو جائے تو اس کے جان وتن میں ُجدائی ہو جاتی ہے- ۱۶۶.یار کے بغیر اس کی زندگی کا ایک لمحہ بھی اس پر زندگانی کو تلخ کر دیتا ہے- ۱۶۷.پھر جب وہ اس کا ُحسن اور اس کا چہرہ دیکھتا ہے تو بے حواسوں کی طرح اس کی طرف دوڑتا ہے- ۱۶۸.اور یہ کہہ کر دیوانہ وار اس کے دامن کو پکڑ لیتا ہے کہ اے دوست میرا دل تیری ُجدائی میں خون ہو گیا-

Page 444

ایں چنیں صدق از بود اندر دلے گل بجوید جائے چون بُلبُلے گر تُو اُفتی با دو صد درد و نفیر کس ہمے خیزد کہ گردد دستگیر تافتن رو از خورِ تابان کہ من خود بر آرم روشنی از خویشتن این ہمین آثار ناکامی بود بیخِ شقوت نخوت و خامی بود عَالمے را کور کردست این خیال سرنگون افگند در چاہِ ضلال سوئے آبے تشنہ را باید شتافت ہرکہ جست از صدق دل آخر بیافت آں خرد مندے کہ جوید کوئے یار آبرو ریزد زِ بہر روئے یار خاک گردد تا ہوا بر بایدش گم شود تاکس رہے بنمایدش بے عنایات خدا کار است خام پختہ داند این سخن را والسلام ۱۶۹.اگر ایسا صدق کسی کے دل میں ہو تو وہ ُبلبل کی طرح پھول کو اپنا ٹھکانا بنا لیتا ہے- ۱۷۰.اگر تو دو سو چیخوں اور آہوں کے ساتھ گر پڑے تو پھر ضرور کوئی مدد کے لئے کھڑا ہو جاتاہے- ۱۷۱.(یہ خیال کرکے) روشن سورج سے منہ پھیر لینا کہ میں اپنے اندر سے آپ ہی روشنی پیدا کر لوں گا- ۱۷۲.یہی تو نا ُمرادی کے آثار ہوا کرتے ہیں بدبختی کی جڑ تکبرّ اور خامی ہے- ۱۷۳.اس خیال نے ایک جہان کو اندھا کر رکھا ہے اور اسے گمراہی کے کنوئیں میں سر کے بل ڈال دیا ہے- ۱۷۴.پیاسے کو پانی کی طرف دوڑنا چاہئے جس نے صدقِ دل سے تلاش کی اس نے آخر کار مقصود کو پا لیا- ۱۷۵.وہ آدمی عقلمند ہے جو یار کی گلی ڈھونڈتا ہے اور روئے یار کی خاطر اپنی عزّت ڈبوتا ہے- ۱۷۶.وہ خاک بن جاتا ہے کہ ہوا اُسے لے اُڑے اور فنا ہو جاتا ہے تا کہ کوئی اسے راستہ دکھائے- ۱۷۷.خدا کی مہربانی کے بغیر کام اُدھورا رہتا ہے عقلمند ہی اس بات کو جانتا ہے- والسلام

Page 445

ایں ہمہ کہ از خامہ این عاجز بیرون آمد از حال است نہ از قال و از جوشیدن است نہ از تکلفات کوشیدن اکنون آن بہ کہ تخفیف تصدیع کنم آنچہ در دلِ ماست خدا در دلِ شما الہام کندو دل رابدل راہ دہد از مکرمی اخویم مولوی حکیم نور الدین و صاحبزادہ محمد سراج الحق جمالی السلام علیکم مولوی صاحب بذکر خیرآن مکرم اکثر رطبُ اللّسان می مانند عجب کہ او شان در اندک صحبتے دلی محبت و اخلاص بآن مکرم چند بار این خارق امر ازان مخدوم ذکر کردہ اند کہ مر ایک درود شریف برائے خواندن ارشاد فرمودند کہ ازین زیارت حضرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم خواہد شد چنانچہ ہمان شب مشرف بہ زیارت شدم.والسلام الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان ترجمہ از ناشر یہ سب باتیں جو اس عاجز کے قلم سے نکلی ہیں حال سے ہیںنہ قال سے اوردلی جوش سے ہیںنہ تکلفات سے.اب بہتر ہے زحمت کم کی جائے (آپ کی سردردی کی تکلیف کو کم کروں) جو ہمارے دل میں ہے.خدا آپ کے دل میں الہام کرے.دل کو دل سے راہ پیدا ہو جائے.مکرمی اخویم مولوی حکیم نور الدین اور صاحبزادہ محمد سراج الحق جمالی کی طرف سے السلام علیکم.مولوی صاحب آنمکرم کے ذکر خیر میں اکثر رطب اللسان رہتے ہیں.تعجب ہے کہ ایک مختصر صحبت میں آنمکرم سے دلی محبت اور اخلاص اس قدر زیادہ ہے کہ انہوں نے آپ کے اس خارق امر کا ذکر کئی مرتبہ کیا ہے.آنمحترم نے مجھے ایک درود شریف پڑھنے کا ارشاد فرمایا ہے کہ اس سے حضرت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت نصیب ہو گی چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ اسی رات مَیں زیارت سے مشرف ہوا.والسلام الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 446

خواجہ صاحب کا تیسرا خط بخدمت جناب معانی آگاہ معارف پناہ حقائق نگاہ شریعت انتباہ اَلْمُسْتَظْہِرْ بِاللّٰہِ الْمُعْرِضْ مِمَّا سِوَاہُ، اَلْمُؤَیَّدْ مِنَ اللّٰہِ الصَّمَدْ جناب مرزا غلام احمد صاحب مکارم لا تعدّ سَلَّمَہُ اللّٰہ الاَحد.السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.جوش اشتیاق ہمچون مکارم اخلاق آن سلالہ انفس و آفاق ازحد بیرون ست و محبت بآں مجاہد فی سبیل اللہ روز افزوں.منت جو ادبی ضنت کہ اوقات ایں فقیر را بعنایت بیغایت.بر مجاری عافیت ظاہر و باطن جاری فرمود.و تائیدآن مرضیۃ الشمائل محمودۃ الخصائل از جناب عزت خطابش مسئول و مقصود.سلک لآلی آبدار محبت ووداد و عقد جواہر تابدار صداقت و اتحاد اعنی نامہء اخلاص ختامہ مملو بمواد خلوص و صفا و محشو بذخائر خلت و ا صطفا و رود کرم آمود نمودہ مسرورنا محصور فرمود فقیر از الفاظ اُلفت آمیز و معانی انبساط خیز و معارف حیرت انگیز آن غواص بحار معالم ذخیرۂ احتظاظ قلب فراہم نمود.و ورود مضمون جلسۃ المذاہب مرسلہ آنصاحب کہ باوجود آذوقہ حقائق گرانبہا جدت ادارا مشتمل بود.دل از مستمعان در ربود.ہموارہ باین مجاہدات رفیع الغایات بعنایات غیبیہ و تفضلات لاریبہ مؤید و مکرم باشند و فقیر را مستخبر حالات مسرت سمات دانستہ بارسال فضائل رسائل و ارقام کرائم رقائم مبتہج میفرمودہ باشند.۴.شوال المکرم ۱۳۱۴ہجریہ قدسیہ.الراقم فقیر غلام فرید الچشتی النظامی.سجادہ نشین از چاچڑاں شریف مہر 

Page 447

ترجمہ از ناشر بسم اللہ الرحمن الرحیم.بخدمت آنجناب کہ جو معانی سے پوری آگاہی رکھتے ہیں اور جو معارف کا مخزن ہیں جن کی نگاہ حقائق کو دیکھنے والی ہے اور جو شریعت سے باخبر ہیں.اللہ تعالیٰ جن کا پشت پناہ ہے غیر اللہ کو چھوڑ کر اسی کی طرف متوجہ ہیں اور جو خدائے بے نیاز سے تائیدیافتہ ہیں جناب مرزا غلام احمد صاحب جو بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں.خدائے یگانہ آنجناب کو سلامت رکھے.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ہمیں جناب سے جو کہ تمام نفوس اور تمام جہان کے روح رواں ہیںملاقات کا شوق اتنا زیادہ ہے جتنے کہ آپ کے اخلاق کریمانہ زیادہ ہیں اور اس مجاہد فی سبیل اللہ کی محبت روز بروز بڑھتی جاتی ہے.اس سخی ذات کا جو بخل سے پاک ہے بڑا احسان ہے کہ اس فقیر کے اوقات کو بے حد مہربانی سے ظاہر و باطن کی عافیت کی راہوں پر چلا رکھا ہے اور ہماری دعا اور مقصود ہے کہ خدائے عزیز آپ جیسے پسندیدہ اخلاق اور حمیدہ خصائل انسان کا مؤید رہے اور محبت اور پیار کے چمکتے ہوئے موتیوں کی لڑی اور صداقت و اتحاد کے درخشندہ جواہر کا ہار یعنی جناب کا وہ خط جو سراپا اخلاص اور صفا کے مواد سے بھرا ہوا ہے اور جو راستی اور سچی محبت کے ذخیروں سے لبریز ہے اس نے ہمیں اپنے کریمانہ ورود سے مشرف فرمایا اور ہمیں بے حد مسرت بخشی.اے معالم کے سمندروں میں غوطہ لگانے والے اس فقیر نے آپ کے الفت آمیز الفاظ اور مسرت بخش معانی اور حیرت انگیز معارف سے ایک ایسا ذخیرہ حاصل کیا ہے جس سے دل بے حد محظوظ ہوا اور جلسہ اعظم مذاہب لاہور کا مضمون جو آنجناب نے ارسال فرمایا ہے باوجود ایک بیش قیمت حقائق کی (روحانی) غذا ہونے کے (اس کے مضمون کو) حیرت انگیز طریق سے ادا کیا گیا ہے جس نے سامعین کے دل موہ لیے.دعا ہے کہ آنجناب ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی غائبانہ نوازشات اور کرم فرمائیوں سے اس قسم کے مجاہدات کی توفیق پاتے رہیں.اور فقیر کو مسرت بخش حالات کی آگاہی کا طالب سمجھ کر اپنے اعلیٰ رسائل اور بلندپایہ مکاتیب تحریر فرما کر مسرور فرماتے رہا کریں.۴ شوال المکرم ۱۳۱۴ ہجریہ قدسیہ.الراقم فقیر غلام فرید الچشتی النظامی.سجادہ نشین از چاچڑاں شریف

Page 448

مکتوب بنام فخر الدین احمد صاحب امروہے سے ایک شخص نے حضرت اقدس کی خدمت میں متعہ کے جواز و عدم جواز پر ایک خط لکھا حضرت اقدس نے وہ خط جناب مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب کو جواب کے لئے سپرد کر دیا مولانا موصوف نے جو اس کا جواب رقم فرمایا ہے وہ یہاں ناظرین الحکم کے لئے مندرج کیا جاتا ہے وہ یہ ہے.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ حامداً و مصلیاً محبی حضرت فخر الدین احمد صاحب.بعد سلام مسنون الاسلام آنکہ حضرت اقدس نے آپ کا خط متضمن استفسار جواز و عدم جواز متعہ باستدلال آیت فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ الآیہ واسطے لکھنے جواب کے مجھ کو دیا.لہٰذا جواب اس کا محرر کیا جاتا ہے و ھو ہذا.جواز متعہ یعنی جواز عقد موقت کے لئے اس آیت سے استدلال کرنا ایسا ہے جیسا کہ لاتقربوا الصلوٰۃ سے نماز کے نہ پڑھنے پر استدلال کرنا جس کا بیان مختصر یہ ہے کہ مشتقات لفظاِسْتَمْتَعْتُمْ کے قرآن مجید میں چند جگہ آئے ہیں اور سب جگہ اس کے معنے فائدہ اٹھانا اور نفع حاصل کرنا ہیں نہ عقد موقت اور متعہ شیعہ وغیرہ کا چنانچہ اللہ تعالیٰ منافقین کے بارہ میں فرماتا ہے  ۱؎ یعنی پس فائدہ اٹھایا تم نے اپنے حصہ کے ساتھ جیسا کہ نفع اٹھایا تھا ان لوگوں نے جو تم سے پہلے تھے اپنے حصہ کے ساتھ ایضاً فرمایا.اللہ تعالیٰ نے کفار کے حق میں ۲؎ ترجمہ تم لے چکے اپنی طیبات یعنی مزہ کی چیزیں اپنی زندگانی دنیا میں اور ان سے فائدہ اٹھا چکے.ان دونوں آیتوں میں اور نیز دیگر مقاموں میں معنی استمتاع کے بالاتفاق عقد موقت یعنی متعہ کے ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتے.آگے رہی آیت متنازع فیہا تو واضح ہو کہ خود اسی آیت میں ۱؎ التوبہ : ۶۹ ۲؎ الاحقاف: ۲۱

Page 449

رد عقد موقت یعنی متعہ کا موجود ہے جس کا بیان مختصر یہ ہے کہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے.  jَ k lَmٖ nَّ o ۱؎ آیت میں لفظ مُحْصِنِیْنَ جس کا مادہ حصن ہے دلالت کر رہا ہے کہ جس عقد نکاح کا ذکر ماسبق آیت کے ہے وہ ایک قلعہ کی مانند ہو جس میں سے زوجہ خود بخود بغیر طلاق کے باہر نہ ہو سکے تاکہ معنی احصان کے پورے طور پر حاصل ہوں.پس لفظ مُحْصِنِیْنَ سے عقد موقت یعنی متعہ خارج ہو گیا کیونکہ اس میں تو وقت عقد کے ہی نفی احصان کی ہوتی ہے یعنی عورت بغیر طلاق کے بعد انقضائے اجل کے خود بخود جُدا ہو جاتی ہے.پھر لفظ غیر مُسَافِحِیْنَ بھی دلالت کر رہا ہے کہ وہ نکاح صرف شہوت رانی کے لئے نہ ہو کہ بعد نکالنے مستی کے چند روز کے بعد عورت بغیر طلاق کے مطلق العنان ہو جاوے.پس عقد متعہ منافی ہے لفظ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ کے لئے بھی.آگے لفظ فا۳ موجود ہے جو تعقیب کے لئے آیا ہے.لہذا مضمون مَااسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ کا بعد اس نکاح کے ہونا چاہئے جس کا ذکر بشرائط مذکورہ ہو چکا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ بعد ایسے نکاح کے جو بشرائط مذکورہ ہو عقد موقت یعنی متعہ کہاں ہو سکتا ہے بلکہ بعد ایسے نکاح کے منکوحات سے فوائد جماع اور مباشرت وغیرہ کے حاصل کیے جاتے ہیں.پس آیت متنازعہ فیھا میں معنے استمتاع کے فائدہ جماع وغیرہ کا حاصل کرنا متعین ہوئے لاغیر پس ایک لفظ فَانے ہی عقد متعہ کی نفی کر دی.پھر لفظ ماہے جو غیرذوی العقول کے لئے حقیقتاً آیا ہے پس لفظ ماسے مراد عورتیں کیونکر ہو سکتی ہیں کہ بلاضرورت حقیقت سے صرف الی المجاز لازم آتا ہے اور اگر تسلیم بھی کیا جاوے تو پھر مِنْھُنَّ کی کیا ضرورت ہے.پس مراد اس سے جماع یا مباشرۃ وغیرہ ہے ہو لاغیر اور ضمیر بہ کی جو مفرد ہے اسی لفظ ماکے مفہوم کی طرف راجع ہے.ہاں ضمیر جو مِنْھُنَّ ۵ میں ہے ان عورتوں کی طرف راجع ہے جن سے نکاح بطور احصان اور غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ کی حالت میں ہوا ہے اور چونکہ بعد نکاح کے منکوحات سے جماع وغیرہ کے ساتھ ہی ابتدا کی جاتی ہے لہذا لفظ مِنْ ۶ مِنْھُنَّ میں موجود ہے جو ابتدا کے لئے آتا ہے پس آیت مذکورہ سے عدم جواز متعہ پایا گیا نہ جواز.اور ترجمہ ماحصل آیت کا یہ ہوا ۱؎ النساء : ۲۵

Page 450

کہ ماورا ء محرمات مذکورہ بالا کے سب عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئیں کہ بدلے اموال کے تم ان کو ایسے نکاح میں لانا چاہو جو مانند قید حصن کے ہو اور صرف شہوت رانی کے لئے نہ ہو.پھر بعد عقد نکاح کے جس چیز کے ساتھ یعنی جماع وغیرہ کے ساتھ تم ان سے نفع اٹھائو تو ان کے مہر فریضہ اور مقررہ ان کو دو یعنی درصورت فائدہ اٹھانے کی منکوحات سے ساتھ جماع وغیرہ کے پورا مہر فریضہ اور مقررہ دینا ہو گا.یہ معنی آیت کے نہایت مربوط و مرتب اور درست ہوتے ہیں لیکن اگر آیت فما استمتعتم کو ماسبق سے علیحدہ کر کر معنی استمتاع کے عقد متعہ کے لئے جاویں تو اولاًحرف فا لغو اور باطل ہو ا جاتا ہے.ثانیاً اور کوئی ربط ماسبق سے باقی نہیں رہتا اور نیز ثالثاً معنی آیت کے فی نفسھا فاسد ہو جاویں گے کیونکہ اس صورت میں لازم آتا ہے کہ بمجرد واقع ہونے عقد متعہ کے بغیر حصول فوائد جماع وغیرہ کے پورا مہر یا اجورکا ادا کرنا ضروری ہو حالانکہ پورا مہر مقررہ تو بمجرد عقد نکاح کے بھی لازم نہیں آتا جب تک کہ استمتاع جماع وغیرہ کے ساتھ واقع نہ ہولے.پس اس معنے سے فساد پرفساد لازم آیا.وتعالی شان کلام اللہ تعالی عن ذلک علوا کبیرا.اور سورہ مومنوں کی آیت بھی عقد متعہ کی نفی کر رہی ہے.قال اللہ تعالیٰ . . ۱؎.کیونکہ عورت ممتوعہ نہ ملک یمین میں داخل ہے اور نہ ازواج میں داخل ہو سکتی ہے کیونکہ احکام وراثت و ملک یمین وغیرہ سے اس کو کچھ بھی حصہ نہیں ملتا ہے لہذا عورت ممتوعہ ماوراء ذالک میں داخل ہوئی اور جو شخص ایسے عقد کا ابتغا کرے و ہ عادون میں داخل ہے.وھو المدعا.اب رہیں احادیث سو جس باب احادیث میں بسبب شدۃ ضرورت اور قلت نساء کے متعہ کا جواز خاصۃً کسی کے لئے جہاد میں پایا جاتا ہے اُسی باب میں اس کی حرمت موبدہ بڑی تاکید سے ثابت ہوتی ہے اور سرّ اس روایت جواز اور حرمت کا یہ ہے کہ جب تک حرمت کسی شے کی بامرالٰہی نازل نہ ہوتی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس کو اباحت اصلیہ کے ماتحت رکھتے تھے پس بعض لوگوں نے جب بحسب ضرورت اشد متعہ کیا تو حسب عادت کریمہ اس رحمۃ للعالمین ۱؎ المومنون: ۶ تا۸

Page 451

نے اپنی طرف سے اس کو حرام نہ فرمایا لیکن جب حرمت اس کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو گئی تب آپ نے بآواز بلند فرما دیا کہ ان اللہ قد حرم ذلک الی یوم القیامۃ اورنیز فرمایا.الا انھا حرام من یومکم ھذا الی یوم القیامۃ جیسا کہ احادیث صحاح میں موجود ہے لہٰذا قول یا فعل کسی صحابی کا یا کسی امام کا آئمہ اربعہ میں سے یا کسی عالم کا علماء کبار میں سے مقابل نصوص قرآنیہ کے حجت نہیں ہو سکتا بلکہ نصوص قرآنیہ کی تبدیل تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی جائز نہیں چہ جائیکہ اوروں کی کما قال تعالٰی    .۱؎ لہٰذا ہمارے اس خط کے جواب میں کوئی صاحب مجاز نہیں ہیں کہ کسی کا قول پیش کریں ہاں جو ہم نے استدلال بآیات قرآن مجید کیا ہے اس کی ہر ایک دلیل اور مقدمہ کو منقوض کریں ورنہ وہ جواب مسموع نہ ہو گا.والسلام خیر ختام ٭ ۸؍دسمبر ۱۹۰۱ء الراقم سید محمد احسن امروہوی شاہ علی سرائے ۱؎ یونس: ۱۶ ٭ الحکم نمبر۴۵ جلد۵ مورخہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۶،۷

Page 452

مکتوب بنام مولوی مشتاق احمد صاحب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم مولوی مشتاق احمد صاحب سلمہ ُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میں نے بہت خوشی سے اس اشتہار کو پڑھا.جس میں آپ اس عاجز کو بحث کے لئے بلاتے ہیں.زیادہ تر خوشی مجھے اس بات سے ہے کہ آپ ایک مہذب اور بااخلاق آدمی ہیں.امید ہے کہ یہ بحث حسب مراد خوش اسلوبی سے ہو گی.مجھے بسروچشم یہ منظور ہے.بحث تقریری ہو اور اس طرح پر ہو کہ ایک ہندومنشی سوال وجواب لکھتا جائے.مثلاً آپ اوّل یا میں اوّل جیسا کہ آپ کا منشاء ہو ایک سوال تحریر کروائیں اور وہ سوال پڑھا جائے اور عام طور پر سنایا جائے.پھر فریق ثانی اسی طرح اپنا جواب لکھا دیوے فریقین ایک دوسرے سے مخاطب نہ ہوں بلکہ جو کچھ لکھنا ہو جلسہ ٔ عام میں بآواز بلند لکھادیں اور ساتھ ساتھ دستخط ہوتے جائیں.چند سوال آپ کی طرف سے ہوں اور چند اس عاجز کی طرف سے.غرض یہ شرط آپ کی اس عاجز کو منظور ہے جبکہ عین انصاف پر مبنی ہے.تو بھلا کیوں منظور نہ ہو.سو عرض خدمت ہے کہ یہی شرط اس عاجز کی طرف سے بھی ہے اور جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ فریقین کی تقریر میں کوئی اور شخص شامل نہ ہو.صراحتاً یا اشارتاً کسی طرف سے مدد نہ پہنچے.بہت خوب ہے جزاکم اللہ.یہی تو میں چاہتا تھا کہ ایسی روش منصفانہ میں کوئی بحث کرے.رہی یہ بات کہ بحث کس امر میں ہو گی.سو وہ بھی ظاہر ہے کہ بحث اس امر کی نسبت ہونی چاہیے جو اس تمام جھگڑے کی اصل اور بنیاد ہے سو اس اصل کے تصفیہ سے فروع کا خود تصفیہ ہو جائے گا کیونکہ فرع اصل کی تابع ہے اس وجہ سے طریق مستقیم مناظرہ کا یہی ہے کہ متخاصمین اصول میں گفتگو کریں اور آں محب پر یہ بات واضح ہے کہ اصل امر متنازعہ فیہ وفات یا حیات مسح ہے اور الہام الٰہی نے اسی کو اصل ٹھہرایا ہے جیسا کہ

Page 453

الہامی عبارت میں ہے کہ ’’مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں وعدہ کے موافق تو آیا یعنی جو مسیح ابن مریم کے آنے کے لئے وعدہ تھا وہ ظلّی طور پر تیرے آنے سے پورا ہو گیا کیونکہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے اور اب ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اصل جھگڑا مسیح ابن مریم کی وفات یا حیات کا ہے اگر مسیح ابن مریم کا زندہ ہونا ثابت ہو جائے تو پھر میں بھی جھوٹا اور میرا الہام بھی جھوٹا.لہٰذافروع میں بحث کرنے کی کچھ ضرورت ہی نہیں.اصل کی بحث میں بہت باتیں طے ہو جاویں گی.میں خود اقرار کرتا ہوں کہ اگر آپ مسیح کا اب تک زندہ ہونا ثابت کر دکھائیں گے.تو پھر میں اس الہام کو الہام الٰہی نہیں سمجھوں گا.کیونکہ جبکہ مسیح ابن مریم اب تک زندہ ہے تو میرا الہام جو اس کی وفات ظاہر کرتا ہے صریح جھوٹا نکلا تو پھر کیا مجال ہے کہ میں اس پر اڑا رہوں اور اگر آپ یہ کہیں کہ ہم مسیح ابن مریم کی وفات مان چکے ہیں اس لئے اس میں بحث کرنا نہیں چاہتے صرف اس بات میں بحث کریں گے کہ تم اس کی جگہ آئے ہو نہ اور کوئی اس بات کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو میری طرف سے اس امر کے لئے کسی پر جبر نہیں کہ خواہ مخواہ مجھ کو قبول کرے اور مجھ پر ایمان لاوے بلکہ میری طرف سے صرف تبلیغ تھی.جس کا حق میں نے ادا کر دیا.اگر میں خدا کی طرف سے ہوں تو وہ مجھے اور میری کارروائی کو ضائع نہ کرے گا اور عنقریب لوگ دیکھ لیں گے کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے یا نہیں میری طرف سے کسی پر جبراور اکراہ تو نہیں تا وہ دلیل اور نشان کا طالب ہو.نشان خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہے گا دکھائے گا.ماسوا اس کے یہ عاجز بے نشان۱؎ بھی نہیں بھیجا گیا.اگر آپ پہلے مسیح کی وفات یا حیات کا فیصلہ کر لیں جو اصل اصول اس تنازعہ کا ہے تو پھر آپ یہ شخصی بحث بھی کر سکتے ہیں کیونکہ میرا آنا مسیح ابن مریم کی فرع ہے اگر مسیح اب تک زندہ ہے تو میرے جھوٹا ٹھہرانے کے لئے کسی اور بحث کی ضرورت نہیں.اگرآپ مسیح ابن مریم کا زندہ ہونا ثابت کر دیں تو میں اپنے باطل پر ہونے کا خود اقرار کردوں گا.اگر آپ مسیح ابن مریم کی وفات کو مان گئے ہیں تو اوّل بذریعہ اشتہار عام و خاص میں یہ اپنی رائے شائع کیجئے.اس لئے گو اصل امر قابل بحث یہی تھا لیکن میں نے بوجہ اپنے تبدل رائے کے اس کو چھوڑ دیا سو آپ کے لئے دو امروں میں سے ایک امر ۱؎ چنانچہ ہزارہا نشان دکھائے گئے.ایڈیٹر

Page 454

ضروری ہے اگر وفات مسیح ابن مریم میں شک ہے تو سب سے پہلے اس کی بحث کیجئے کیونکہ تمام تنازعات کی جڑ تو یہی ہے.اگر مسیح ابن مریم کو آپ اب تک زندہ مانتے ہیں اور وہ بجسدہ العنصری دوسرے آسمان پر بیٹھے ہیں تو ان کی زندگی ثابت کر دکھائیں اس کے بعد میری کیا مجال کہ میں اپنے اس دعوے میں دم بھی مار سکوں.میرے اس دعوے کی تو وفات مسیح شرط ہے جب مسیح کا زندہ ہونا ثابت ہو گیا تو بحکم اذا فات الشرط فات المشروط.میرا دعویٰ خود ہی ٹوٹ گیا اور اگر آپ کے نزدیک بھی مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے اور اب صرف آپ کے دل میں یہ دھڑکا ہے کہ مثالی طور پر آنے والا یہی شخص ہے یا کوئی اور ہے تو اوّل بسم اللہ کر کے مسیح ابن مریم کی وفات کا اشتہار شائع کیجئے.پھر دوسری بحث بھی کیجئے اور آپ نے جو لکھا ہے کہ میں مسافر ہوں.امن قائم کرنے کے لئے پولیس وغیرہ کا تمہیں انتظام کرنا چاہئے.تو حضرت آپ کے نزدیک کیا یہ عاجز اس شہر کا قدیمی باشندہ ہے.میں صرف چند ماہ سے عارضی طور پر اس جگہ آیا ہوں.آپ اس جگہ کے معزز ملازم ہیں اور بوجہ ملازمت ہر ایک سے تعلق رکھتے ہیں.میں بوجہ اختلافی مسئلہ کے قریباً تمام شہر کی نظر میں مہجور و متروک ہوں کوئی کافر کہتا ہے کوئی ملحد مگر آپ تو ایسے نہیں ہیں اگر آپ مسافر ہیں تو کیا وہ سارے علماء و امراء اور ملازمت پیشہ جو آپ کے ہم مشرب ہیں وہ بھی مسافر ہیں.کیا آپ اس بحث میں اکیلے ہی ہیں اور باقی سب میری بات پر ایمان لے آئے ہیں.امن قائم رکھنے کے لئے انتظام کرنا میرے جیسے غریب الوطن مخذول کا کام نہیں جس کے ساتھ اب علماء کے فتوے سے السلام علیکم بھی جائز نہیں اور جس کو ممبر پر چڑھ کر بدتر سے بدتر بیان کیا جاتا ہے.ماسوا اس کے یہ امر ضروری طور پر قابل دریافت ہے کہ اس عاجز نے براہ راست کسی کو اپنے اشتہار میں …… بلکہ آپ سب صاحبان کا …… مولوی عبد العزیز صاحب کو قرار دے کر انہیں کے توسط سے ہر ایک کا بحث کرنا منظور رکھا ہے.یعنی سب سے پہلے بحث کرنے کا حق انہیں کا ٹھہرایا گیا ہے.کیونکہ وہ شہر کے رئیس اور اکثر لوگوں کے مقتداء ہیں.اگر وہ بحث کرنے سے عاجز ہوں تو میں نے اپنے اشتہار میں براہ راست کسی کو نہیں بلایا.بلکہ یہ ظاہر کیا ہے کہ رئیس مولوی صاحب اپنے عجز اور درماندگی کی حالت میں آپ کو یا کسی اور کو اپنا وکیل کر کے پیش کر دیں.سو میں معلوم کرنا چاہتا

Page 455

ہوں کہآپ نے کس منصب سے یہ اشتہار جاری کیا ہے.اگر بلا وساطت ان کی مستقل طور پر جاری کیا ہے تو یہ میرے اشتہار کا منشا ء نہیںاور نہ میں نے مستقل طور پر آپ کو بلایا ہے اور اگر مولوی عبد العزیز صاحب کی التجاء سے آپ کھڑے ہو گئے ہیں تو آپ کو صریح الفاظ میں یہ واقع بذریعہ اشتہار شائع کرنا چاہئے.والسلام علی من اتبع الھدیٰ٭ ۸؍مئی ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد از لودیانہ اقبال گنج مکرّر یہ کہ اگر شام یا کل جمعہ تک آپ کا جواب نہ پہنچا تو یہ سکوت اور اعراض پر حمل کیا جاوے گا.فقط

Page 456

مکتوب بنام محمد احسان علی صاحب الکتاب المرقوم فی تفسیر غُلِبَتِ الرُّوْم بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ حَامِدًا وَّ مُصَلِّـیًا محب مکرم حضرت محمداحسان علی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ محبت نامہ آپ کا آیا اور اُس کے مندرجہ سے آگاہی حاصل ہوئی.مسئلہ مہدی جو آپ نے سوال نمبر ۱،۲ میں دریافت فرمایا ہے اُس کی تحقیق کَمَا یَنْبَغِیْ تو ہمارے رسائل میں کی گئی ہے.لہٰذا ضرور ہے کہ جو رسائل مصنفہ اسباب میںہیں اُن کو مطالعہ فرمائیے تاکہ ان کے دیکھنے سے حقیقت مہدی آپ پر بخوبی واضح ہو جائے بالفعل آپ کے ہر دوسوال کی نسبت کچھ مختصراً چند الفاظ لکھے جاتے ہیں.واضح ہو کہ ایک مہدی تو وہ ہے جو صرف لوگوں کے خیال و وہم میں ہے اور قرآن وحدیث میں اس خیالی وہمی مہدی کا کہیں پتہ اورنشان نہیں پایا جاتا.اورثانیاً مہدی آخرالزمان خاتم الخلفاء نفس الامری من عنداللہ ہے جس کے دعویٰ کے ثبوت کے لئے نصوصِ قرآنیہ و حدیثیہ موجو دہیں اور اُس کی شہادت کے لئے تمام آیات وامارات اور صدہا نشان الٰہی بیرونی واندرونی واقع ہوگئے ہیں جو رسائل مصنفہ میں لکھی گئی ہیں.سوال نمبر ۱.میں جو آپ نے زوال سلطنت اسلام سلطان روم کا یا اُس کا بیعت یا معیت مہدی میں داخل ہونا یا فتوحات خزائن ارضیہ کا اُس کے ہاتھ میں آجانا اُس کی علامات سے قرار دیا ہے وہ نہ قرآن مجید میں مذکور ہے اور نہ کسی حدیث صحیح میں آیا ہے بعض رسائل اردو آثار محشر وغیرہ میں جو اسباب میں سلطان روم کی نسبت روایات لکھی ہیں مؤلّفین رسائل نے

Page 457

اس پشین گوئی کو بالکل نہیں سمجھا اصل حقیقت اُس کی مختصراً لکھی جاتی ہے.واضح ہو کہ مراد روم سے نصاریٰ روم ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں سلطنت نصاریٰ کی نصاریٰ روم میں ایک زبردست سلطنت تھی اور بنیاد سلطنت ملک روم میں نصاریٰ ہی کے ہاتھ سے قائم ہوئے تھے اور یہ استعمال عرب میں ایسا ہی ہے جیسا کہ برطانیہ سے مراد سلطنت برطانیہ اورروس و یورپ وغیرہ سے مراد اہالیے یورپ واہالیے روس مراد ہوتے ہیں غرض کہ کتب معتبرہ تواریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ملکِ روم میں سلطنت نصاریٰ ہی کی تھی.دیکھو کتب تفاسیر اور شروح حدیث کو.اس پشین گوئی مندرجہ سوال نمبر ایک کی حقیقت یہ ہے کہ اول سورہ روم میں یہ آیت موجود ہے ...۱؎ یعنی رومی جو نصاریٰ ہیں قریب کی زمین میں مغلوب ہوگئی ہیں لیکن رومی اپنے مغلوب ہونے پیچھے عنقریب چند سال میں غالب ہو جاویں گے.اس آیت میں دو قراء تیں آئی ہیں.اوّل غُلِبَتْ بصیغہ مجہول اور سَیَغْلِبُوْنَ بصیغہ معروف اس قراء ت کی رو سے جو متواتر ہے وہی قصہ مراد ہے جو روم نصاریٰ اہلِ کتاب کی شکست خسرو بادشاہ فارس مشرک کے مقابلہ میں ہوئی تھی اور مسلمانوں کو اس شکست روم سے بوجہ اہلِ کتاب ہونے اُن کے کے کسی قدر رنج ہوا تھا اور مشرکین عرب کو بوجہ مشرک ہونے فارس کے خوشی حاصل ہوئی تھی لہٰذا مسلمانوں کی تشفیّ کے لئے یہ آیت سورہ روم میں نازل ہوئی جس میں دو پیشین گوئی عظیم الشان بیان فرمائی گئی ہیں.ایک تو روم کا غالب ہونا فارس پر میعاد ہشت سال میں جو مفہوم بضع سنین کا ہے جس کی نسبت حضرت صدیق اکبر کا روم کے غالب ہو جانے پر ابی بن خلف سے شرط لگانا روایات صحیحہ میں مذکور ہوا ہے.دوسری خوشخبری مسلمانوں کے لئے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی بضع سنین میں نصرت اور فتح عظیم کا حاصل ہونا جس سے مومنین کو ایک بڑی خوشی اورفرحت حاصل ہوگی جوآیت ذیل میں بڑے زور شور کے ساتھ بیان فرمائی گئی ہے.۱؎ الرّوم : ۱ تا ۴

Page 458

. ۱؎ یعنی جب کہ رومی غالب ہوں گے مسلمان اللہ کی مدد سے خوش ہوجائیں گے اللہ تعالیٰ جس کی مدد چاہتا ہے کرتا ہے اور وہی زبردست رحم والا ہے.چنانچہ نزول سورہ روم سے ہشت سال میں بایام جنگ بدر یہ دونوں پیشین گوئیاں اپنے پورے مضمون کے ساتھ پوری ہوئیں اور حضرت صدیق اکبر نے اپنی شرط کو فریق ثانی سے وصول کیا.والحمدللہ.دیکھو تفصیل اس کی کتب تفاسیر معتبرہ اور شروح احادیث میں.دوسری قراء ت غَلَبَتْ بصیغہ معروف اور سَیُغْلَبُوْنَ بصیغہ مجہول آئی ہے چونکہ قراء ت غیرمتواترہ حکم حدیث صحیح کا رکھتی ہے اس لئے اس کے حکم کا ترک کرنا بھی جائزنہیں کیونکہ علم اصول کا قاعدہ ہے کہ اَ لْاَعْمَالُ خَیْرٌ مِّنَ الْاَھْمَالِ یعنی عمل کرنا ہی افضل ہے ترک کرنے سے پس پہلی قراء ت کے بموجب یہ دوسری پیشین گوئی ہوئی کہ روم نصاریٰ پھر ایک مدت میں جو المضاعف پہلی مدت سے ہے یعنی غالب ہونے کے زمانہ سے بضع سنین ہی ہے اہلِ اسلام کے ہاتھ سے مغلوب ہو جائے گی اور ہم نے اہلِ اسلام کی شرط اس واسطے لگائی ہے کہ تمام نصوصِ قرآنیہ اورتورات میں یہ نصرت اور فتح اہلِ اسلام کے لئے لکھی ہوئی ہے.قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی  ۲؎ یعنی بیشک ہم لکھ چکے ہیں زبور میں بعد پندو نصیحت کے کہ تحقیق زمین مقدس کے وارث میرے نیک بندے ہو جائیں گے چنانچہ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت ۱۶ھ میں روم نصاریٰ مسلمانوں کے قبضہ میں آگئی اوریہ زمانہ مغلوب ہونے روم کا اُس کے غالب ہونے سے وہی آٹھ سال ہوتے ہیں جو بضع سنین میں داخل ہیں اس صورت میں یہ آیت ذیل بھی بخوبی چسپاں ہوگئی.لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَیَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ بِنَصْرِاللّٰہِ یَنْصُرُ مَنْ یَّشَآئُ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ یعنی پہلے سب سے اوربعد سب کے حکم اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے اور اُس دن خوش ہوں ۱؎ الرّوم : ۵،۶ ۲؎ الانبیاء : ۱۰۶

Page 459

گے مسلمان ساتھ مدد خداکے مددکرتاہے وہ جس کو چاہتا ہے اور وہی غالب ہے مہربان.کیونکہ اس وقت میں بھی بسبب حصول فتح عظیم کے مومنین لشکر اسلام کو بڑی خوشی حاصل ہوئی کہ حضرت عمرؓ کے وقت میں ینصر اللّٰہ العزیز الرحیم روم فتح ہوئی اور تمام اہلِ اسلام کو بڑی خوشی اورفرحت حاصل ہوئی.والحمد للّٰہ صدق اللّٰہ وللّٰہ الامر من قبل ومن بعدُ.اس معنی کرکر حضرت عمر ؓ ایک ایسے مہدی ہوئے جن کے وقت میں ملک روم فتح ہوا اور تمام خزائن اُس ملک کے اُن کے قبضہ میں آگئے اور چونکہ جملہ خلفاء راشدین کی نسبت مہدی فرمایا گیا ہے.چنانچہ حدیث صحیح میں ہے.علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین من بعدی.یعنی لازم پکڑو تم میری سنّت کو اور نیز سنّت میرے خلفاء کو جو راشد اورمہدی ہیں.اس حدیث کے بموجب جو شخص خلیفہ راشد آنحضرت کا حامی اسلام ہواس کو بھی مہدی کہیں گے لہٰذا حضرت عمر بھی مہدی ہوئے اوراگر اس غالبی اورمغلوبی کی مدت کا علم بضع سنین میں محصور نہ رکھا جاوے جیسا کہ ان آیات کے آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے..۱؎ یعنی اسی غالبی اور مغلوبی روم کا وعدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے نہیں خلاف کرتا اللہ وعدہ اپنا ولیکن اکثر لوگ اُس کا علم نہیں رکھتے یعنی بعض راسخون فی العلم کو اُس مدت کا علم حاصل ہو سکتا ہے جیسا کہ شیخ اکبر ؒ نے اعداد ابجد المّ سے استنباط کیا ہے اورغلبہ نصاریٰ کی مدت ۴۹۷ نکالی ہے اور مغلوب ہونے کی مدت ۵۸۳ برس تو اس قراء ت کے بموجب بضع سنین سے قطع نظر کرکر ایک اور غالبی مغلوبی روم کی مستنبط ہوتی ہے جس کی طرف حدیث ذی مخبر کی جو ابو دائود سے مشکوٰۃ شریف میں ہے دلالت کرتی ہے.۱؎ الروم : ۷

Page 460

المّ سے استنباط کیا ہے اورغلبہ نصاریٰ کی مدت ۴۹۷ وعن ذی مخبر قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول ستصالحون الروم صلحا اٰمنا فتغزون انتم وھم عدو من ورائکم فتنصرون وتغنمون وتسلمون ثم ترجعون حتی تنزلوا بمرج ذی تلول فیرفع رجل من اہل النصرانیۃ الصلیب فیقول غلب الصلیب فیغضب رجل من المسلمین فیدقۃ فعند ذالک تغدر الروم و تجمع للملححہ وزاد بعضھم فیشور المسلمون الی اسلحتھم فیقتلون فیکرم اللّٰہ تلک العصابۃ بالشہادۃ رواہ ابو داؤد.ترجمہ تشریحی.اورروایت ہے ذی مخبر سے کہ خادم ہے حضرت کا اور بھتیجا ہے نجاشی کا کہا کہ سنا میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے تھے نزدیک ہے کہ صلح کرو گے تم اے مسلمانو روم سے صلح باامن کہ طرفین فتنہ اورغدر سے نڈر ہوں گے پس جنگ کرو گے تم اے مسلمانو اور وہ رومی باہم متفق ہو کر دشمنوں سے کہ سوائے تمہارے ہیں پس نصرت کئے جائو گے تم یعنی مدد کرے گا تمہاری اللہ تعالیٰ ان پر اور غنیمت پائو گے اور سلامت رہو گے یعنی زخمی ہونے سے اور مارے جانے سے پھر پھروگے یعنی دشمنوں کے پاس سے یہاں تک کہ اُترو گے تم اور اہل روم ایک سبزہ کی جگہ کہ ٹیلے ہوں گے اس میں پس بلند کرے گا ایک شخص اہل نصرانیت سے چلیپاف مراد اہلِ نصرانیت سے روم ہیں اس لئے کہ روم دین نصرانیت پر تھی اور چلیپا ایک لکڑی مربع ہوتی ہے کہ گمان کرتے ہیں نصرانی کہ عیسیٰ اُس پر سوُلی دے کر قتل کئے گئے.پس کہے گا وہ شخص کہ غالب آئی چلیپا یعنی غالب آئے ہم بسبب برکت چلیپا کے پس غصہ ہوگا ایک شخص مسلمانوں میں سے یعنی بسبب اس کے کہ نسبت کی غلبہ کی غیر اسلام کی طرف پس توڑ ڈالے گا وہ مسلمان چلیپا پس نزدیک اس قصہ کے عہد توڑیں گے رومی اورجمع کریں گے لوگوں کو جنگ کے لئے اور زیادہ کیا بعض راویوں نے اس عبارت کو کہ پس دوڑیں گے مسلمان طرف ہتھیاروں اپنے کے پس لڑیں گے مسلمان اُن سے پس بزرگی دے گا اللہ تعالیٰ اُس جماعت مسلمانوں کو ساتھ شہادت کے نقل کی یہ ابودائود نے ترجمہ مشکوٰۃ شریف.اس حدیث کے ذیل میں حاشیہ کواکب درّیہ اردو میں لکھا ہے کہ حدیث ذی مخبر زبان زدخلائق ہے جس کا انتظار اہل اسلام کررہے ہیں

Page 461

حالانکہ اُس کے مضمون کی تصدیق زیادہ چھ سو سال ہوئے ہو چکی مگر تعجب کہ ہنوز اہل اسلام اُس کے منتظر ہیں کیونکہ بعد صلح ہارون رشید شارلیمن کے اہل روم نے عذر کیا کہ موضع ذی تلول پر میکائیل ہفتم آیا اور اُس نے کہا کہ آج صلیب کوغلبہ ہے پس طغرل ایک مرد مسلمان کو غصہ آیا اور اُس نے اُس کو تکابوٹی کرڈالا پھر بنی اصفر اَسّی۸۰ کمپوں سے جس میں دس لاکھ فوج تھی چڑھی اور مسلمانوں کو شہید کرکے بیت المقدس پراٹھاسی سال تک غالب رہی مگر خوفناک انتہی موضع الحاجۃ.اور یہ غلبہ نصاریٰ کا آخر صدی پنجم یعنی ۴۹۷ھ میں بموجب حدیث ذی مخبر کے واقع ہوا اور چونکہ اس غَلَبَتْ کے بعد سَیُغْلَبُوْنَ پیشین گوئی موجود ہے لہٰذاصلاح الدین کے عہد سلطنت میں روم نصاریٰ پھر مغلوب ہوگیا اور صلاح الدین نے ۵۸۳ھ میں روم کو فتح کرلیا دیکھو تواریخ کو اس صورت میں چونکہ صلاح الدین بھی ایک بادشاہ حامی اسلام تھا لہٰذا بسبب اپنے صلاح وتقویٰ کے وہ بھی ایک معنی کرکرمہدی یعنی ہدایت یافتہ ہو سکتا ہے مگر یہ پیشین گوئی جو قرآن مجید سے بموجب ایک قراء ت غیرمتواترہ کے بطور ایک لطیف استنباط کے مستنبط ہوتی ہے متعلق خلافت اور سلطنت کے ہے اس خاتم الخلفاء مہدی آخر الزّمان سے جس کی نسبت لامہدیّ الَّا عیسٰی وارد ہے کچھ تعلق نہیں رکھتی کیونکہ ہمارے اَدِلّہ نصوص صریحہ ہیں نہ ایسے خفی اور دقیق اور پھر اس مہدی کی نسبت صحیح بخاری میں یضع الحرب وارد ہے.الحاصل فتح روم کے متعلق اگر کوئی روایت ہے تو اس کی اصل حقیقت صرف اسی قدر ہے جو قرآن مجید سے مستنبط ہے اور حدیث ذی مخبر سے مفہوم ہوتی ہے دگر ہیچ مؤلّفین رسائل نے حقیقت اس پیشین گوئی کی بالکل نہیں سمجھی اوراس پر علاوہ یہ کہ اپنے خیالات کی بموجب جو مہدی کے بارے میں رکھتے ہیں ان روایات مختلفہ کی شرح کردی ہے جس سے عوام لوگ دھوکہ میں پڑ گئے ہیں.دگر ہیچ.دوسرے سوال کی نسبت مختصراً تحریر ہے کہ جبکہ مہدی وسط متعدد ہو سکتے ہیں تو ممکن ہے کہ

Page 462

بنی فاطمہ میں سے بھی کوئی مہدی ہوا ہو بلکہ ہوئے بھی ہیں جنہوںنے علاوہ عدل و انصاف کے حمایت اسلام اور دفع حملجات مخالفین اسلام میں جہاد بھی کئے ہیں دیکھو ریاض المستطابہ صفحہ۸۰ واما الذین قاموا بالامامۃ من الفاطمین فی بلاد العجم والعراق اکثر من عشرین اماما وتمکن منھم بضعۃ عشر الخ یعنی وہ لوگ کہ جنہوں نے بنی فاطمہ میں سے دعویٰ امامت و خلافت کیا عراق و عجم کے بلاد میں وہ بیس اماموں سے زیادہ ہیں اورانہیں میں سے دس صاحبوں سے زیادہ نے خلافت اور امامت پر قدرت پائی…آخر عبارت تک اور ان کی خلافت اور امامت میں کامل درجہ پر عدل و انصاف بھی ہوا اور تائید اسلام اور اعلاء کلمۃ اللہ اور جہاد بشرائط اسلامی بھی واقع ہوا اور بعضوں کی ان میں سے مواطاۃ ساتھ نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی پائی جاتی ہے مگر ہم کو ان آئمہ سے کچھ بحث نہیں کیونکہ یہ روایات دربارہ مہدی نہایت مختلف اور متضاد ہیں جن کی تطبیق میں شراح حدیث نہایت درجہ حیران ہیں اگر ہم ان روایات کو تسلیم بھی کریں تو اس کی تاویل یہی کریں گے کہ قرآن و حدیث میں اکثر جگہ پر مراد اسما سے وہ صفات ہوتی ہیں جو مدلول اسما ہیں نہ فقط اسماء مجرداز صفات کیونکہ اسم مجرد از صفت سے کیا کام چل سکتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جس قدر اسما ہیں وہ بھی سب صفاتی ہیں علیٰ ہذا القیاس خاتم الخلفاء کے اسما بھی صفاتی ہی ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے نام بھی سب صفاتی ہی ہیں کما قال اللہ تعالیٰ ولہ الاسماء الحسنٰی یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے سب اسماء یعنی سب صفات بہت اچھی ہیں اندریں صورت مطلب حدیث کا اگر صحیح ہوتو یہ ہے کہ اس کی صفت میری جیسی صفت ہوگی یعنی تمام کاروبار اُس کا علیٰ منہاج النبوۃ المحمدیہ واقع ہوگا اوراس کے باپ کی صفت میرے باپ کی سی صفت ہوگی یعنی جس طرح پر میرے باپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا معلوم نہیں تھا سو اُس کے باپ کو بھی اس کا مسیح موعود ہونا یاخاتم الخلفاء ہونے کا علم نہ ہوگا یا قبل اس دعوے کے اس کے ماں باپ فوت ہو جائیں گے اگر یہ مراد نہ لی جائے توصرف مواطاۃ اسم سے کیا نتیجہ حاصل

Page 463

ہو سکتا ہے کہ یہ مواطاۃ اسماء کی تو صدہا جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسما کے ساتھ پائی جاتی ہے یا جس طرح پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد ان کی ماں کی طرف سے رکھا گیااُس کا نام بھی احمد ہی رکھا جائے گا مگر ایک لطیف نکتہ کے ساتھ یعنی غلام احمد.دیکھو تفصیل اس کی رقیمۃ الوداد مندرجہ الحکم نمبر میں.اوریہ بات خوب یاد رہے کہ ان خلفاء اور سلاطین مذکور کو اس مسیح موعود سے کوئی نسبت نہیں ہے کیونکہ اس کی نسبت تو صحیح بخاری میں یضع الحرب آگیا ہے یہ تو مسیح موعود اور خاتم الخلفاء امت محمدیہ اور مہدی آخر الزّمان ہے جس کے لئے آسمان وزمین شہادت دے رہے ہیں.کسوف خسوف آسمانی سے لے کر زمینی طاعون تک صدہا نشان اس کی تصدیق کے لئے موجود ہیں.؎ آسماں بارد نشاں الوقت میگوید زمیں ایں دو شاہد از پیٔ تصدیق من استادہ اند اورفی الحقیقت ایسے عظیم الشان مہدی اور مسیح کی تصدیق کے لئے جب تک صدہانشانہائے الٰہی موجود نہ ہوں تب تک اس کی عظمت شان کیونکر ظاہر ہوسکتی ہے.لہٰذا آپ کو چاہئے کہ دو، سہ۳ کتاب حضرت اقدس کی یا ہمارے رسائل کا ملاحظہ فرماویں جیساکہ تریاق القلوب وتحفہ گولڑوی وغیرہ وغیرہ ہیں.اوراگر کسی کے خیال میں ناموں مہدی کی نسبت یہی مرکوز ہے کہ وہی ہُوَ ہُوَ نام ہو تو پھر دریافت طلب یہ امر ہے کہ مہدی سوڈ ان نے بھی شروع ۱۳۰۰ھ میں دعویٰ مہدویت کیا پھر آپ نے اس کی سوانح میں دیکھا ہوگا کہ وہ قوم کا سیدبھی تھا اوراس کے باپ کانام عبداللہ و کذا وکذا اور پھر اس کا جو کچھ انجام ہوا وہ بھی سب کو معلوم ہے اس کی کیا وجہ کہ بالآخر وہ کامیاب نہ ہوا اور یہ مسیح موعود بھی ۱۳۰۰ھ ہی سے دعویٰ مامور من اللہ ہونے کا کر رہا ہے اس کی ترقی روز بروز اب تک ہوتی چلی جاتی ہے.صادق کے نشانوں کو کوئی نہیں چھپا سکتا اور کاذب صادق کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتا اور پھر اس کی کارروائی کی تائید دعائوں اورا لہاموں اورکشفوں کے ذریعہ سے ہو رہی ہے.نصوص قرآنی شاہد ہیں کہ مفتری کاذب ہرگز ہرگز کامیاب نہیں ہوگا.دیکھو صیانۃ الناس عن وسواس الخناس وغیرہ کو.

Page 464

اورجبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہدی اور مسیح موعود کے لئے مشرقی بلاد میں مبعوث ہونا ارشاد فرما دیا ہے چنانچہ صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث سے ثابت ہے جو بلفظ اوما الی المشرق فرمایا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر مسیح موعود پر مشرق کی طرف کو اشارہ فرمایا تو دیارعرب میں مبعوث ہونا اس امام آخرالزمان کا کیونکر ثابت ہو سکتا ہے.ہاں اُس کی تبلیغ کل دنیا میں پہنچ جاوے گی چنانچہ رفتہ رفتہ کل دنیا میں تبلیغ اس کی پہنچ رہی ہے.پھر عرب میں بھی تبلیغ اس کی پہنچ رہے گی.اسی تبلیغ کا پہنچنا دیارعرب میں عرب کی طرف اس کا پہنچنا یا مبعوث ہونا ہی جیسا کہ الہام میں وارد ہو ہی چکا ہے کہ وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ یعنی نہیں مبعوث کیا ہے ہم نے تجھ کو بطور امامت اور مہدویت کے مگر واسطے رحمت تمام جہان کے لوگوں کے دیکھو مصر،افریقہ، امریکہ، یورپ وغیرہ تک ملکوں میں اس کی تبلیغ پہنچ گئی ہے اور اس کے مقابلہ سے امریکہ کاڈوئی اب تک فرار ہے اور پگٹ لندن کا مفقود الخبر ہوگیا ہے اور پھر آپ انجام کو دیکھیں کہ مخالفین مذکور کی نوبت کہاں تک پہنچتی ہے.اوردروازہ خانہ کعبہ کے اُکھاڑے جانے میں جو روایات آئی ہیں وہ ایسی مختلف ہیں کہ شارحین حدیث بھی ان کی تدقیق و تطبیق میں حیران ہیں ایک حدیث میں تویہ آیا ہے کہ لَا یَسْتَخْرِجُ کَنْزُ الْکَعْبَۃَ اِلَّاذُوالسویقتین مِنَ الْحَبْشَۃِ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤد یعنی نہیں اکھاڑے گا خزانہ کعبہ کو مگر ایک حبشی جس کی دونوں پنڈلیاں بہت چھوٹی اورپتلی ہوں گی.یہ حدیث محل مذمت میں بیان کی گئی ہے دوسری روایت میں آیاہے کہ اِنَّ الْمَہْدِیَّ یُخْرِجُ کَنْزَ الْـکَعْبَۃَ ھٰکَذَا فِی اللَّمَعَاتِ یعنی بے شک مہدی خزانہ کعبہ کو نکالے گا یہ محل مدح میں بیان کیا گیا ہے پس ان دونوں روایتوں میں تطبیق کیونکر ہو سکتی ہے بجز اس کے کہ کہا جاوے کہ کعبہ سے مراد اسلام ہے اور خزانہ اس کا جو مدفون ہے اس کے دروازہ میں وہ قرآن مجید کے معارف اور دقائق ہیں جو اس کے دروازہ یعنی سورہ فاتحہ میں مخزون ہیں.اب ظاہر ہے کہ اس خزانہ معارف قرآنی کو یہ مہدی آخر الزمان تمام مسلمانوں کو تقسیم کررہا ہے.د یکھو اس کی کتابوں

Page 465

براہین احمدیہ وتفاسیر سورہ فاتحہ وغیرہ کو اوریہ معنی اس روایت کے کچھ بعید الفہم بھی نہیں ہیں.حدیث صحیح طواف دجال و طواف مسیح موعود میں کعبہ سے مراد دین اسلام ہے لیا گیا ہے یعنی مسیح موعود کا طواف کعبہ اسلام کے لئے تو حفاظت اسلام کے لئے ہوگا جیسا کہ کوتوال شہر کا حفاظت شہر کی کیا کرتاہے اوردجال کا طواف ایسا ہوگا جیسا کہ چور کسی مکان کی نقب زنی کے لئے طواف کیاکرتاہے کسی شاعر نے کہا ہے ؎ تفاوت است میان شنیدن من و تو تو بستن درو من فتح باب می شنوم یعنی دروازہ محبوب سے جو آواز آتی ہے میں اور تو دونوں سنتے ہیں مگر اس میں بڑا فرق ہے ُتو تو دروازہ کے بند ہونے کی آواز سنتا ہے اور میں دروازہ محبوب کے کھلنے کی آواز سنتا ہوں.ایسا ہی طواف دجال کا اسلام کی بیخ کنی کے لئے ہوگا جیساکہ الحال پادریان نصاریٰ سے مشاہدہ ہو رہا ہے اور مسیح موعود کی حفاظت اسلام کے لئے اطراف عالم میں بذریعہ کتب ورسائل و اشتہارات ہو رہی ہے.سائل کو ان معنی کالطف اس وقت حاصل ہو کہ جب ان روایتوں کا لحاظ بھی کیا جاوے جن میں قرآن مجید اٹھایا جانا صدور اہل اسلام سے مذکور ہوا ہے.اورپھر اس حدیث صحیح کو بھی پیش نظر رکھے کہ لَوْکَانَ الْعِلْمُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ فَارِس یعنی اگر علم دین وعلم قرآن مجید دنیا سے اٹھ جائے اور ثریا پر چلاجائے تب بھی ایک رجل فارسی النسل اس علم کو پالیوے گا.ان حدیثوں پر غور کر کے پھراہل زمانہ کا مشاہدہ کرے کہ علومِ قرآن سے ابناء زمانہ کس قدر بعید اور دور پڑے ہوئے ہیں بعد غور و تامل کے ان احادیث اور واقعات میں پھر اس کو لُطف ان معنی کا معلوم ہوگا اورپھر غور کرنے کا مقام ہے کہ ایسے زمانہ پر شرور اور فتن کے بھرے ہوئے وقت میں خزانہ ارضی کا کسی جگہ سے اکھاڑا جانا اسلام کے لئے کیا مفید ہو سکتاہے اوراس خزانہ ارضی سے اہل ارض جو انواع انواع کے فتنوں میں پڑے ہوئے ہیں ان کو کیا فائدہ حاصل ہو سکتاہے.آپ نہیں دیکھتے امراء اور نوابوں

Page 466

اہل اسلام کو کہ بسبب اپنی امارت اور خزانوں کے کس قدر عیاشی اور فسق وفجور میں پڑے ہوئے ہیں جو ناگفتہ بہ ہے.اور آگے رہی حدیث ذوالسُّوَیْقَتَیْن کی سو اس کی نسبت شارحین نے خود لکھا ہے.وھذا عند قرب السّاعۃ حیث لا یبقی قائل اللّٰہ اللّٰہ الی ان قال القرطبی ھذا بعد رفع القرآن من الصدور بعد موت عیسٰی وھو الصحیح یعنی اس خانہ کعبہ کا اکھاڑا جانا ذوالسُّوَیْقَتَیْنکے ہاتھ سے عین قرب قیامۃ میں ہوگا جبکہ کوئی شخص اللہ اللہ کہنے والا بھی باقی نہ رہے گا.یہاں تک کہ کہا قرطبی نے کہ یہ امر بعد موت عیسیٰ موعود کے بوقت اٹھائے جانے قرآن کے سینوں سے واقع ہوگا اوریہی صحیح ہے.اورپھر ایک اور بات یاد رہے کہ اگر یہ پیشین گوئیاں مخبرصادق علیہ السلام کی جس کا مصداق یہ مسیح موعود ہے نہ بھی ہونویں تب بھی یہ مجدّدِ اسلام اپنی ذات میں ایک ایسا مجمع نشانوں الٰہی کا ہے کہ اس کی تصدیق کے لئے قرآن و حدیث ہم کو مجبور کررہی ہیں پھر جبکہ پیشین گوئیاں مخبر صادق کی بھی اس پر صادق آگئی ہیں اور پھراندرونی اوربیرونی نشانات الٰہی بھی اس کی ذات میں موجود ہیں تو پھر تو نُوْرٌعَلٰی نُوْرٍ کا مضمون واقع ہوگیا.فَاَیْنَ الْمَفَرُّ.اورپھر ان سب امور پر علاوہ یہ ہے کہ اس کے حق میں واقع ہے کہ وہ منجانب اللہ حَکَمْ ہو کر مبعوث ہوگا تو جو روایات رطب و یابس یا موضوع ہیں ان کو وہ کیونکر قبول کرسکتا ہے کہ درصورت قبول کرنے ان کے کے ایک تو اجتماع اضداد لازم آتا ہے اور حَکَمِیَّتْ اس کی جو مسلّم فریقین ہے باطل ہوئی جاتی ہے کیونکہ حکم من اللہ کے معنے تو یہی ہیں کہ جو عقائد فاسدہ اور خیالات کاسدہ حسب روایات موضوعہ اہل اسلام میں رواج پاگئی ہوں گی.ان میں وہ حَکَم ہو کر فیصلہ کر دیوے.اور یہ امر تو ہرگز خیال میں نہیں آسکتا کہ وہ ایسا حکم ہو کہ تمام فرق مختلفہ اسلامیہ کے خیالات اوران کی تمام روایات متضادم کو بھی تسلیم کر لیوے اورپھر حکم ہی رہے ہذا خلف.اوریہ بھی یاد رہے کہ مہدی بھی تو ایک مجدد ہی ہوگا لاغمرکیونکہ لفظ مجدد کا ایک ایسا عام ہے کہ خلیفہ اوّل سے لے کر مسیح موعود تک بلکہ قیامت تک جو شخص مصداق ہو.ان اللّٰہ یبعث لہذہ الامۃ علٰی راس کل مائۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا

Page 467

وہی مجدد ہوگا خواہ خلیفہ اول صدیق اکبر ہوں یا مسیح موعود خاتم الخلفاء و مہدی مسعود ہو ہاں یہ سب مجدّدین سب کے سب یکساں اورمتساوی فی الدرجہ نہیں ہیں بلکہ بحکم  ۱؎ کے امت محمدیہ میں بھی یہ حکم فضیلت کا جاری ونافذ ہے.اللہ تعالیٰ اکثر جگہ پر بعد ذکر انبیاء اور مرسلین کے جابجا فرماتا ہے کہ  ۲؎ یعنی جس طرح پر مرسلین اورانبیاء کو ہم اجر وثواب اور مدارج عنایت فرماتے ہیں اسی طرح پر جو لوگ ان کے متبعین میں سے احسان کا درجہ رکھنے والے ہیں ان کو بھی مراتب فضیلت دیتے ہیں وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ.آپ کی مرض کے لئے دعا کی جاوے گی مگر وقتاً فوقتاً ذریعہ مراسلت کے آپ یاد دلاتے رہیں.ہاں یاد رہے کہ آپ نے علاج جسمانی اور اصلاح یا ترقی امور دنیوی کو مقدم رکھا ہے اور علاج روحانی کو مؤخر ڈالا ہے یہ طریقہ مسلک صواب نہیں ہے کیونکہ روحانی علاج دنیا وی امور سے مقدم ہونا چاہئے جبکہ کوئی انسان روحانی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتا ہے تب اللہ تعالیٰ کافضل بالضرور اس کے شامل حال ہو جاتا ہے اور اس کی اصلاح دنیاوی بھی ہو جاتی ہے لا عکس ایسی شرط کرنا متقی کا کام نہیں ہے.دیکھو اوّل سورہ بقرہ کو ....۳؎ غور کرو کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جو ۴؎ فرمایا ہے وہ بعد اصلاح روحانی کے ارشاد فرمایا گیا ہے و برعکس اور جس جگہ اللہ تعالیٰ نے فتوحات دینی و دنیوی

Page 468

کے لئے وعدہ فرمایا ہے وہ بعداصلاح روحانی کے ہی فرمایا ہے لاعکس.آپ نے جو صدق مقال اور اکل حلال کے لئے اپنی نسبت بیان کیا ہے یہ بڑی ایک صفت عمدہ ہے اگر اس زمانہ میں کسی کو میسر ہو تو کبریتِ احمر ہے بعد اس کے اطمینان حاصل ہو جاوے گا.اَ لَابِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ.اَ لَابِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ مورخہ ۱۲؍اگست ۱۹۰۳ء کتبہ محمداحسن بامر المسیح الموعود٭

Page 469

مکتوب بنام محمد اسماعیل صاحب پٹواری ذیل میں ہم حضرت اقدس حضرت حجۃ اللہ امام الوقت حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود ادوم اللہ فیوضھم کا ایک مکتوب درج کرتے ہیں جو محمد اسماعیل نام ایک پٹواری کے جواب خط میں لکھا گیا مکتوب مذکور حضرت کی طرف سے حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے لکھا تھا بہر حال وہ ہر دو خط یعنی پٹواری صاحب اور حضرت امام الوقت کا یہ ہے.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ جناب مرزا صاحب السلام علیکم آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ خود بدولت مہدی اور مسیح موعودہیں اور تمام پیشینگویاں متعلق ظہور مہدی و نزول مسیح جو قرآن مجید وحدیث شریف میں وارد ہیں ان کا مورد آپ ہی کی ذات شریف ہے اور خروج دجال سے غلبہ کفار مراد ہے اور حسب عقائد مسلمہ امت اسلام بجز آپ کے کوئی مہدی ظہور نہیں کرے گا اور نہ جناب مسیح بن مریم علیہم السلام نازل ہوں گے کیونکہ وہ فوت ہو چکے ہوئے ہیں.چنانچہ ان سب باتوں کے جوابات کافی وشافی آپ کو علماء اسلام نے کافی شافی طور پر دیئے ہیں خواہ آپ نے ان جوابات کو تسلیم کیا ہو خواہ نہ کیا ہو مگر میں یقین کرتا ہوں کہ وہ جوابات سچ اور درست ہیں اور ان کے مقابلہ میں آپ کے دلائل صرف تحریف معنوی کلام الٰہی کے اور باطل اور لاطائل ہے لیکن چونکہ اپنی تشفیّ کے واسطے مجھ کو آپ سے خودبخود گفتگو کرنے کی ضرورت معلوم ہوتی ہے اس واسطے مفصلہ ذیل اعتراض کرتا ہوں.آپ اس کا جواب دیویں.وھوہذا.آپ نے جناب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا مرجانا اس آیت سے ثابت کیا ہے کہ ’’‘‘ ۱؎میں کہتا ہوں کہ

Page 470

ایک وقت میں جبکہ یہودیوں کے ہاتھ سے جناب عیسیٰ علیہ السلام تنگ تھے جناب الٰہی نے ان سے وعدہ کیا کہ میں تم کو موت (بمعنی پورا قبض کرنا) کروں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا اور کافروں سے پاک کروں گا پس جبکہ  کا وعدہ بغیر رفع معہ جسم عنصری کے پورا نہیں ہو سکتا اور ظاہر ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ لَایُخْلِفُ الْمِیْعَادَ تو ضرور ہوا کہ فوت کا معنی مرجانا نہیں ہو سکتا.کیونکہ اگر صرف روح کے واسطے مُطَھِّرُکَ کا وعدہ تسلیم کیا جاو ے تو عامہ ارواح سے روح عیسوی کی فضیلت نہیں پائی جاتی اور ضروری ہے کہ کفار حکام وقت نے اس جسم پاک کے ساتھ کئی طرح کی بے ادبی کی ہو اور اس صورت میں خداوند عالم کے ذمہ وعدہ خلافی کا الزام عائد ہو سکتا ہے.معاذ اللہ منھا.پس ضرور ہوا کہ جناب موصوف حسب وعدہ خداوندی معہ جسم عنصری آسمان پر اٹھائے گئے ثانیاً آیت شریف .۱؎ سے ثابت ہوتا کہ آنجناب بعد رَفَعَ اِلَی السَّمَآئِ.اب تک معہ جسم عنصری آسمان پر زندہ موجود ہیں اور کسی وقت میں بموجب مسلمات امت اسلام زمین پر نازل ہوں گے اور تمام اہل کتاب یعنی مسلمان و یہود و نصاریٰ ان کے ساتھ متفق ایمان ہوں گے اس کے بعد وہ مریں گے.سو چونکہ آپ کے وجود میں یہ صفت نہیں پائی جاتی اس لئے میں آپ کے دعویٰ پر یقین نہیں لاتا پس اگر آپ بالحق مامور ہیں اور مسیح موعود ہیں تو میرے اس اعتراض کا جواب دے کر تشفیّ کریں اور تحریر جواب کے واسطے ۱؍کا ٹکٹ ارسال ہے.اور اگر اس کا جواب نہ دیویں تو لازم ہے کہ دعویٰ باطل چھوڑ کر سچے سیدھے مسلمان ہو جاویں.٭ فقط تحریر ۵؍رمضان المبارک ۱۳۱۴ ہجری الراقم محمد اسماعیل پٹواری موضع پسنانوالہ ڈاکخانہ ڈہریوالہ ضلع گورداسپور

Page 471

مکتوب (از قادیان ضلع گورداسپوربحکم حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود لکھا گیا.محمد احسن) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ میاں محمد اسماعیل صاحب پٹواری و علیکم السلام آپ کا خط حضرت اقدس کی خدمت مبارک میں پڑھا گیا.معلوم ہوا کہ آپ نے ہمارے رسائل مصنفہ میں سے کسی ایک رسالہ کا بھی مطالعہ نہیں کیا لہٰذا آپ پر ضرور ہے کہ ہماری کتابیں دیکھو تاکہ حق واضح ہو جاوے یہاں پر آکر تمام شکوک اور شبہات رفع کر لو بالفعل مختصر طور پر تمہارے دونوں شبہات متعلقہ ہر دوآیات رفع کی جاتی ہیں.آیت اول مندرجہ خط ’’ ‘‘ ۱؎سے تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ حسب وعدہ مظہر مندرجہ آیت کے حضرت عیسیٰ کا معہ جسم عنصری کے آسمان پر اٹھایا جانا ضروری ہے ورنہ بہ سبب بے ادبی کرنے کفار کے ساتھ جسم عنصری حضرت عیسیٰ کے اس کے جسم کی تطہیر نہ ہو گی اور وعدہ اطہر میں خلف لازم آئے گا.یہ شبہ تمہارا محض وہم اور خیال فاسد ہے.آپ پر لازم ہے کہ اول کسی دلیل شرعی سے آپ یہ ثابت کریں کہ کسی مطہر اور مقدس شخص کے جسم کے ساتھ کفار کی بے ادبی کرنے سے وہ شخص مطہر نہیں رہتا بلکہ بجائے تطہیر کے تجنیس ثابت ہو جاتی ہے لیکن اس امر کا ثابت کرنا تو آپ کو منجملہ محالات شرعیہ کے ہے کیونکہ نصوص صریحہ قرآنیہ مثل آیت ویقتلون النبیین بغیر حق وغیرہ بآواز بلند ثابت کر رہی ہے کہ بعض انبیاء کے جسم مطہر کے ساتھ کفار کی بے ادبی کرنے کی یہانتک نوبت پہنچی کہ ان کو قتل ہی کر ڈالا چنانچہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو قتل کر کے سرمبارک آنحضرت کا ایک کنجری کو دیا گیا اور اس نے اس کی سخت بے ادبی کی.علاوہ انبیاء کے اٰمرین بالمعروف بھی اکثر قتل…… فرمایا اللہ تعالیٰ نے وَ یَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ تو کیا آپ کے نزدیک انبیاء و اولیاء مقتولین مطہر اور مقدس نہ رہے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْھَا.الّا اعتقاد ثانیاً اہلِ بیت کے واسطے آیت تطہیر موجود ہے فرمایا اللہ تعالیٰ نے.

Page 472

.۱؎ مجھ کو یقین ہے کہ حضرت امام حسین وغیرہ کو آپ بالضرور داخل اہل ِ بیت رکھتے ہوںگے.پھر کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ان کے جسم مطہر کے ساتھ کیسی کیسی بے ادبیاں کی گئیں.پھر آپ کے مذہب کے بموجب یہاں پر چند اشکال پیدا ہوتے ہیں.اوّل جو امر اللہ تعالیٰ کی مرادات میں سے تھا وہ حاصل نہ ہوا.دوم حضرت امام حسین آپ کے مذہب کے بموجب مطہر نہ رہے.سوم وعدہ الٰہیہ میں جو بتاکید تمام یعنی کلمہ انما و تاکید مفعول مطلق وغیرہ فرمایا گیا تھا.خلف لازم آیا یہاں بھی تو اس آیت کو پڑہیئے کہ .۲؎ فما ہو جوابکم فھو جوابنا.ھو اور رفع کی نسبت آپ خودہی سوچ لیں کہ آیت میں توفّیکے بعد ہی اقل درجہ تو یہ ضروری ہے کہ توفّی کے ساتھ ہے بغیر توفّیکے آیت میں نہیں.پھر وفات کے ساتھ کونسا رفع ہوا کرتا ہے کیا وفات کے ساتھ جسم عنصری بھی آسمان پر اٹھایا جاتا ہے تمام احادیث اور نیز قرآن مجید سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ روح کاہی رفع ہوا کرتا ہے نہ جسم کا دیکھو تفسیر آیت   ۳؎ کو.اور معنی توفّیکے جو باب تفعّل سے ہے تمام قرآن مجید اور احادیث میں موت اور قبض روح کے ہی آئی ہیں لاغیر ائمہ کبار مثل امام مالک وغیرہ بھی حضرت عیسیٰ کی موت کے ہی قائل ہیں.حضرت عبد اللہ ابن عباس نے بھی بروایت صحیح بخاری معنی توفی کے موت کے ہی کئے ہیں اور دیکھو حاشیہ جلالین میں لکھا ہے وتمسک ابن حزم بظاہر الآیۃ و قال بموتہ تمام کتب لغت پکارپکار کر کہہ رہی ہیں کہ توفاہ اللہ ای قبض اللہ روحہ پھر فرمائیے کہ مخالفین نے ہمارے ان دلائل یقینیہ وبراہین قطعیہ کا کیا جواب دیا ہے.آپ ہمارے رسائل کو دیکھیں اے حضرت مخالفین سے کسی ایک امر کا جواب بھی نہیں ہو سکا باوجودیکہ ہم نے ہزارہا روپیہ کے انعام کا اشتہار بھی دیا.اگر آپ علم عربی سے واقف نہیں اور زیادہ بحثوں میں پڑنا نہیں چاہتے تو میں آپ کو ایک سہل تدبیر بتلائے دیتا ہوں آپ اپنے کاغذات پٹوارگری کوہی دیکھو بھالو کہیں نہ کہیں آپ کو لفظ توفّـیکسی اسامی دیہہ کے نام کے مقابل خسرہ وغیرہ میں ضرور ملے گا.پھر اگر قانون گو یا تحصیلدار صاحب سے اس اسامی متوفے کی نسبت آپ فرماویں کہ حضور وہ شخص تو مرا نہیں

Page 473

اس کا جسم آسمان پر اٹھایا گیا ہے اور وہ آسمان پر زندہ ہے خصوصاً جب کہ اس کو توفّیہوئے بھی اتنی مدت گزر گئی ہو جس میں احتمال اس کی حیات کا باقی نہیں ہو سکتا تو قانون گو یا تحصیلدار صرف آپ کے اس اظہار کا جواب آپ کو کیا دیویں گے.میں آپ کی نسبت تو کچھ نہیں کہتا مگر کسی دوسرے پٹواری کی نسبت کہتا ہوں کہ تحصیلدار صاحب اس کو پاگل قرار دے کر رپورٹ اس کی برطرفی عہدہ پٹوار گری سے کرادیویں گے.اب آپ کو زیادہ بحث میں پڑنے کی بھی ضرورت نہ رہی اور اپنے ہی کاغذات سے لفظ متوفی کی تحقیق ہو گئی.نہ ہلدی لگی نہ پھٹکری.آیت دوم مندرجہ خط دوسری آیت  ۱؎ سے آپ کو یہ شبہ نہیں ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ جسم عنصری کے ساتھ اب تک آسمان پر زندہ بیٹھے ہوئے ہیں.دین اسلام پر جو ہزارہا آفتیں وارد ہو رہی ہیں ان کا تماشہ دیکھ رہے ہیں اور شائد جبکہ اسلام زمین پر بالکل نہ رہے گا اس وقت پھر زمین پر نازل ہوں گے تب نئے سرے سے جملہ اہل کتاب یہود و نصاریٰ معہ نام کے مسلمانوں کے ان پر ایمان لاویں گے مگر یہ سب کچھ تو جب ہو سکتا تھا کہ حضرت عیسیٰ کا زندہ بجسم عنصری آسمان پر جانا ثابت کر لیا جاوے.مثل مشہور ہے شبت العرش ثم النفس نزول خیالی آپ کا تو فرع صعود کے ہے پس جبکہ جسم عنصری سے حضرت عیسیٰ کا آسمان پر چڑھ جانا ہی ثابت نہیں ہوا تو اتر نا آسمان سے کیونکر ثابت ہو سکتا ہے اور آیت مذکورہ میں نہ کہیں نزول کا ذکر ہے نہ آسمان پر چڑھنے کا اور نہ حیات کا بلکہ موت کا ہی ذکر ہے پس صاف اور سیدھے معنی آیت کے یہی ہیں (کوئی اہل کتاب میں سے نہیں مگر کہ وہ بالضرور بیان مذکورہ بالا کو قرآن مجید عیسیٰ کی موت کے پہلے سے ہی مانتا چلا آیا ہے کیونکہ اسی مقام پر صیغہ مستقبل کا واسطے استمرار کے آتا ہے) حاصل الآیہ یہ ہے کہ ضمیر بہ کی بیان مذکورہ قرآن مجید کی طرف راجع ہے اور یہ محاورۂ قرآن مجید کا نسبت رجوع ضمیر کی طرف مذکور کی اثر پایا جاتا ہے اور وہ حاصل یہ ہے کہ سولی سے قتل ہوا نہیں حضرت عیسیٰ کے اہل کتاب شک میں پڑ گئے تھے اور کوئی وجہ علمی ان کے پاس بجز اٹکلوں کے نہیں تھی جس سے یقین پیدا ہو کہ سولی سے حضرت عیسیٰ مقتول ہوئے ہیں اور غرض اس سب بیان کی اللہ تعالیٰ کے کلام میں یہی ہے کہ یہود کا قول یعنی ۲؎جو بڑی تاکیدات سے انہوں

Page 474

نے کہا تھا اس کی نفی کی جاوے تاکیدات سے ہی دوسرے معنی آیت کے یہ بھی ہو سکتے ہیں جو تمام تفاسیر میں لکھے ہیں کہ ہر ایک اہل کتاب اپنی موت سے پہلے اس پر ایمان لے آتا ہے اور جو معنی آپ نے سمجھے ہیں وہ معنی محض غلط ہیں ان کی تغلیط تفاسیر معتبرہ میں بھی لکھے ہوئے ہیں.دیکھو تفسیر مظہری صفحہ ۷۳۱ و ۷۳۲ کو جس میں ان معنوں کا غلط ہونا ثابت کیا ہے.ولیس ذلک فی شی من الاحادیث المرقومہ و کیف یفتح ہذا التاویل مع ان کلمہ ان من اہل الکتاب شامل الموجودین فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم الیہ سواء کان ہذا لحکم خاصابھم اولا فان حقیقۃ الکلام للحال ولاوجہ لان برادہ فریق من اہل الکتاب یوجدون جلن نزول عیسیٰ علیہ السلام فالتاویل الصحیح ہو الاول ویویدہ قراء ۃ ابی ابن کعب آخر تک.ترجمہ: یعنی احادیث مرفوعہ ہیں.ان معنی کا کوئی اصل صحیح موجود نہیں اور یہ تاویل کیونکر صحیح ہو سکتی ہے باوجودیکہ کلمہ ان من اہل الکتاب ان اہل الکتاب کو بھی شامل ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں موجود تھے خواہ یہ کلمہ یعنی ان من اہل الکتاب انہیں سے خاص ہو یا خاص نہ ہو لیکن حقیقت کلام جو زمانہ حال آنحضرت (صلی اللہ علیہ و سلم) کا زمانہ ہے وہ سب زمانوں سے مراد ہونے میں زیادہ استحقاق رکھتا ہے اور کوئی وجہ اس کی نہیں پائی جاتی کہ کیوں وہی اہلِ کتاب خاص کئے جاویں جو حضرت عیسیٰ کے نزول کے وقت موجود ہوں گے.پس صحیح تاویل وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں قراء ۃ ابی بن کعب بھی اسی کی مؤید ہے آخر تک.آگے رہا ہمارا دعویٰ دربارہ مسیح موعود ہونے اور مہدیت کے سوا اس کے ثبوت کے لئے ہزارہا نشانات موجود ہیں تم برائے چندے یہاں پر آکر قیام کرو تاکہ حقیقت دعویٰ کی تم کو ثابت ہو جاوے اب غور کرو کہ جس کھیت کے نمبر کا زمیندار وں میں کچھ جھگڑ ا پڑتا ہے پٹواری کا حاضر ہونا موقعہ نزاع پر ضروریات سے ہوتا ہے مثل مشہور ہے قضیہ زمین برسرزمین.والسلام علی من اتبع الھدٰی.٭ ۱۴؍جنوری ۱۸۹۷ء راقم مرزا غلام احمد

Page 475

مکتوب بنام شیخ محمد چٹو صاحب لاہوری بعد دعا کے واضح ہو کہ بدر کے اخبار مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۰۷ء نمبر۴ میں جو میری طرف سے آپ کی طرف ایک مضمون چھپا تھا اس کے جواب میں کسی شخص نے اخبار مورخہ ۲۴؍جنوری کو ایک مضمون طبع کراکر اور رجسٹری کراکر میری طرف بھیجا ہے اور اخیر پر آپ کا نام لکھ دیا ہے گویا اس تحریر کے آپ ہی راقم ہیں اور اس میں مجھے مخاطب کر کے یہ اعتراض کیا ہے کہ کس طرح سمجھا جاوے کہ یہ آپ کی طرف سے مضمون ہے.اس پر آپ کے دستخط نہیں اور قرآن شریف میں ہے کہ اگر کوئی فاسق یعنی بدکار خبر دیوے تو تحقیق کر لینا چاہیے کہ وہ خبر صحیح ہے یا نہیں اور اس فقرہ سے کاتب مضمون نے میرے دوست عزیز القدر مفتی محمد صادق ایڈیٹر اخبار کو جو ایک صالح اور متقیآدمی ہیں.فاسق اور بدکار آدمی قرار دیا ہے.میں باور نہیں کر سکتا کہ ایسی ناپاک تہمت کا لفظ جس کے رو سے خود ایسا انسان فاسق ٹھہرتا ہےآپ کے مونہہ سے نکلا ہو اور ہر ایک اہل علم کو معلوم ہے کہ شریعت اسلام کا یہ فتویٰ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو کافر یا فاسق کہے اور وہ اس لفظ کا مستحق نہ ہو تو وہ کفر اور فسق اسی شخص کی طرف لوٹ آتا ہے اور گورنمنٹ انگریزی کے قانون کے رو سے بھی کسی کو فاسق یا بدکار کہنا ایسے صاف طور پر جرم ازالۂ حیثیت عرفی میں داخل ہے کہ ایسا شریر انسان ایک ہی پیشی میں جیل خانہ دیکھ لیتا ہے.پس کچھ شک نہیں کہ اگر مفتی صاحب عدالت میں اس ازالۂ حیثیت عرفی کی نسبت نالش کریں تو ایسا بدقسمت اور جاہل انسان جس نے ان کی نسبت یہ ناپاک لفظ بولا ہے.فوجداری جرم میں بے چون و چرا سزا پا سکتا ہے مگر آپ پر میں نیک ظن کرتا ہوں.مجھے امید نہیں اور ہرگز امید نہیں کہ ایسا لفظ آپ کے مونہہ سے نکلا ہو چونکہ آپ محض ناخواندہ ہیں اور بوجہ ناخواندہ ہونے کے اخباروں اور رسالوں کو پڑھ نہیں سکتے اس لئے مجھے یقین ہے کہ آپ اس نالائق حرکت سے بری ہیں بلکہ کسی خبیث اور ناپاک طبع اور نہایت درجہ کے بدفطرت کا یہ کام ہے کہ بغیر تفتیش کے نیکوں اور راستبازوں کا نام بدکار اور فاسق کہتا ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ آپ مجھے براہ مہربانی اطلاع دیں گے کہ کس پلید

Page 476

طبع اور بدفطرت کے مونہہ سے یہ کلمہ نکلا ہے تا اگر مفتی صاحب چاہیں تو عدالت میں چارہ جوئی کریں کیونکہ بدکار اور فاسق ہونے کی حالت میں ان کے اخبار کی بدنامی ہے اور وہ علاوہ سزا دلانے کے دیوانی نالش سے اپنا ہر جہ بھی لے سکتے ہیں اور ایسی تحریر جس میں ایسے گندے اور ناپاک الفاظ ہیں.میں کسی طرح آپ کی طرف منسوب کر ہی نہیں سکتا آپ کی بڑی مہربانی ہو گی.اگر آپ ایسے ناپاک طبع کے نام سے اطلاع دیں گے.آئندہ اگر آپ کچھ لکھانا چاہیں تو اس حالت میں اعتبار کیا جاوے گا جبکہ اس تحریر پر آپ کے دستخط ہوں گے اور دو معززگواہوں کے بھی دستخط ہوں گے.مجھے خیال آتا ہے کہ شاید آپ کے کسی ناپاک طبع پوشیدہ دشمن نے آپ کی طرف سے ظاہر کرنے کے لئے خود یہ لفظ بدکار اور فاسق کا لکھ دیا ہے اور محض چالاکی سے آپ کی طرف اس ناپاک اور گندے لفظ کو منسوب کر دیا ہے تا آپ کو اس پیرانہ سالی کی عمر میں کسی سخت سزا میں پھنسا دے.براہ مہربانی جلد اس کا جواب دیں.میں ہوں آپ کا دلی خیر خواہ مرزا غلام احمد مسیح موعود یاد رہے کہ میں نے اپنے ہاتھ سے یہ چند سطریں لکھ کر اخبار میں چھپوائی ہیں اور اسی غرض سے یہ تحریر دستخطی اپنی آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں.آپ بھی جو کچھ میرے جواب میں چھپوا دیں.اصل پرچہ دستخطی اپنا جس پر دو گواہوں کی شہادت ہو اور آپ کے دستخط ہوں ساتھ بھیج دیں.٭ مرزا غلام احمد مسیح موعود

Page 477

مکتوب بنام منشی محمد عبد الرحمن صاحب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ از طرف عبد اللہ الصمد غلام احمد بخدمت منشی محمد عبد الرحمن صاحب سلّمہ بعد ما وجب آپ کا عنایت نامہ پہنچا.بہتر ہوتا کہ آپ خط لکھنے سے پہلے اپنے علماء سے اس مسئلہ کو دریافت کر لیتے کیونکہ ان کا مسلم عقیدہ ہے کہ مسیح موعود پر اسی طرح وحی نازل ہو گی جس طرح انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوتی رہی.صرف اس قدر فرق ہو گا کہ شریعت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو چکی ہے.وہ کوئی نئی شریعت نہیں لائے گا.مگر وحی ختم نہیں ہوئی جیساکہ مسلم کی حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے.سو غلطی اور نافہمی سے ان علماء کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی دوبارہ زمین پر اترآئیں گے مگر ان کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ وہی پوری وحی انجیل والی اس پر نازل ہو گی بلکہ صاف طور پر یہ عقیدہ ہے کہ تازہ اور نئی وحی الفاظ کے ساتھ وقتاً فوقتاً ان پر نازل ہوتی رہے گی.پس ایسا اعتقاد کہ قرآن شریف کے بعد پھر نئی وحی جو وحی متلو ہو ہرگز نازل نہیں ہو گی.یہ خدا اور رسول کے فرمودہ کے برخلاف ہے اور ایسی باتوں سے تو انسان اسلام سے باہر ہو جاتا ہے اور اہل سنت کا عقیدہ صرف اسی حدتک نہیں بلکہ وہ تمام اولیاء کے لئے بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ للہ باولیاء ہٖ مکالمات مخاطبات پس مکالمات تو وہی ہوتے ہیں کہ ساتھ لفظ بھی رکھتے ہوں اور واقعی یہی بات ہے کہ آج سے برابر بائیس سال سے قرآن شریف کے وضع اور طرز پر مجھے وحی ہوتی ہے جس کے لفظ خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتے ہیں جو بارہا چھپ کر شائع ہو چکے ہیں اور اس سے قرآن شریف کا کوئی استخفاف لازم نہیں آتا کیونکہ ایسے نبی علیہ السلام کے اتباع کی وجہ سے یہ وحی بطور ظلّ قرآن نازل ہوئی ہے اور ظلّ کا اصل سے مشابہت ضروری ہے.پس اس کا انکار قلّت ِ علم یا قلّت ِ تدبّرکی وجہ سے ہے اور میاں غلام دستگیر سراسرحق پرہیں چونکہ عمر کا اعتبار نہیں مناسب ہے کہ اس غلط خیال سے توبہ کریں.تمام نبیوں کی تعلیم کے برخلاف ہے بالفعل اسی قدر تحریر کافی.٭ خاکسار ۳؍اگست ۰۳ ء مرزا غلام احمد از قادیان

Page 478

مکتوب بنام سید نادر شاہ صاحب از پاکپٹن شریف مکرم و مخدوم بندہ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آجکل بیماری طاعون کا ہر چہار طرف دور دورہ ہے.اہل اسلام اس بیماری سے بچائو کے واسطے احکام دینی کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں.علمائے دین مختلف فتاویٰ عائد کر کے نہایت مشکلات میں ڈال دیتے ہیں.پس آنجناب کو برگزیدہ و رکن اعظم اسلام تسلیم کر کے التماس ہے کہ بحوالہ کتب معتبرہ مفصلہ ذیل فتویٰ سے آگاہی بخشیں.کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ مقام طاعون زدہ سے جائے انتقال کرنی جائز ہے یا نہیں.اور ایسی بیماری سے بچائو کے لئے کیا تدابیر اور وسائل اختیار کئے جاویں.براہ نوازش بنظر ہمدردی اسلام ورفاہ عام جواب سے بواپسی عند اللہ ماجور و عند الناس مشکور فرماویں.والسلام احقر العبادسیّد نادرشاہ عفی اللہ عنہ پیرزادہ درگاہ حضرت مولانا سید بدرالدین اسحاق رحمت اللہ علیہ از پاک پٹن شریف ضلع منٹگمری فتوے ٰ بموجب حدیث صحیح کے یہ فتویٰ ہے کہ اگر طاعون کی ابتدائی حالت ہو تو اس شہر سے نکل جانا چاہیے اور اگر طاعون زور پکڑ جائے تو نہیں جانا چاہیے.مگر مضائقہ نہیں کہ اسی گائوں کی سرزمین میں باہر سکونت اختیار کریں.مرزا غلام احمد

Page 479

مکتوب بنام مولوی نظیر حسین سخا صاحب دہلوی قبلہ و کعبہ مدّظلکم العالی حضور کے پابوس کا از حد شوق تھا الحمد للہ کہ شرف زیارت حاصل ہوا.حاجت ہے تو صرف یہ ہے کہ کچھ ہدایت فرمائی جاوے تاکہ حضوری حاصل ہو اور خدا کی طرف دل لگے.اگر اسی پر جواب سے سرفرازی ہو تو یہ دستاویز عزت ہمیشہ حرزجان رہے گی.زیادہ حد آداب.فقط.عریضہ نظیر حسین سخا دہلوی جواب حضرت اقدس السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ طریق یہی ہے کہ نماز میں اپنے لئے دعا کرتے رہیں اور سرسری اور بے خیال نماز پر خوش نہ ہوں بلکہ جہاں تک ممکن ہو توجہ سے نماز ادا کریں اور اگر توجہ پیدا نہ ہو تو پنج وقت ہریک نماز میں خدا تعالیٰ کے حضور میں بعد ہر ایک رکعت کے کھڑے ہو کر یہ دعا کریں کہ اے خدائے قادر ذوالجلال میں گنہگار ہوں اور اسقدر گناہ کی زہر نے میرے دل اور رگ وریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے ر ّقت اور حضور نماز حاصل نہیں ہو سکتا تو اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش اور میری تقصیرات معاف کر اور میرے دل کو نرم کردے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھادے تاکہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دور ہو کر حضور نماز میں میسّرآوے اور یہ دعا صرف قیام پر موقوف نہیں بلکہ رکوع میں اور سجود میں اور التحیات کے بعد بھی یہی دعا کریں اور اپنی زبان میں کریں اور اس دعا کے کرنے میں ماندہ نہ ہوں اور تھک نہ جاویں بلکہ پورے صبر اور پوری استقامت سے اس دعا کو پنج وقت کی نمازوں میں اور نیز تہجد کی نماز میں کرتے رہیں اور بہت بہت خدا تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں کیونکہ گناہ کے باعث دل سخت ہو جاتا ہے ایسا کرو گے تو ایک وقت یہ مراد حاصل ہو جائے گی.مگر چاہئے کہ اپنی موت یاد رکھیں آئندہ زندگی کے دن تھوڑے سمجھیں اور موت قریب سمجھیں یہی طریق حضور حاصل کرنے کا ہے.٭ والسلام

Page 480

مکتوب بنام مولوی نیاز احمد صاحب جناب من عرض آنکہ نقل شقہ جناب مجدد صاحب یعنے حضور اقدس مرزا غلام احمد رئیس قادیان جو بنام بندہ آیا ہے برائے درج اخبار روانہ خدمت شریف کرتا ہوں براہ مہربانی درج اخبار فرماویں.وھو ہذا.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مکرمی مولوی نیاز احمد صاحب سلّمہ السلام علیکم پیکٹ اشتہارات بھیجا جاتا ہے.آ پ کی دینی سرگرمی اور جدوجہد اور اخلاص سے ظاہر ہے کہ آپ اس لائق ہیں کہ ِللہ عیسائیوں کے وساوس باطلہ کے دور کرنے کے لئے وعظ کریں.اس لئے بطور مختصر یہ سند اجازت و عظ آپ کو دی جاتی ہے.خدا تعالیٰ آپ کے کام میںبرکت ڈالے.خلق اللہ کی بھلائی کے لئے خالصاً للہ راہ حق کی طرف لوگوں کو خبر دو.٭ مورخہ یکم اگست ۱۸۸۵ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان

Page 481

الیگزنڈر آر ویب صاحب ہم نے جو ایک چٹھی ایک لائق اور طالب حق انگریز کی اس کتاب کے صفحہ ۴۶ میں درج کی ہے اسی انگریز کی ایک دوسری چٹھی آج یکم اپریل ۱۸۸۷ء کو امریکہ سے پہنچی ہے جس میں اس قدر شوق اور اخلاص اور طلب حق کی بو آتی ہے کہ ہم نے اپنے مخالف ہم وطنوں کے ملاحظہ کے لئے کہ جو باوجود نزدیک ہونے کے بہت ہی دور ہیں اس چٹھی کا بجنس معہ ترجمہ درج کردینا قرین مصلحت سمجھا اور ساتھ ہی وہ مختصر جواب جو ہم نے لکھا ہے ناظرین کی اطلاع کے لئے تحریر کیا گیا ہے.اور وہ چٹھی …یہ ہے:.۳۰۲۱.ایسٹن ایونیو سینٹ لوئیس مسوری یو.ایس.اے ۲۴؍ فروری ۱۸۸۷ء مرزا غلام احمد صاحب مخدومنا آپ کی چٹھی مورخہ ۱۷؍ دسمبر میرے پاس پہنچی.میں اس قدر شکر گزار اور مرہون منت ہوا کہ بیان نہیں کرسکتا.جواب پہنچنے کی میں تمام امیدیں قطع کرچکا تھا.لیکن اس آپ کی چٹھی اور اشتہار نے توقّف کا پورا پورا عوض دے دیا.بہ سبب ہیچمدانی اور کم واقفیّتی کے میں صرف اسی قدر جواب میں لکھ سکتا ہوں کہ ہمیشہ سے میرا یہی شوق اور یہی آرزو ہے کہ سچی حقیقتوں سے مجھے اور بھی زیادہ خبر ہو.آپ کا اشتہار پڑھنے کے بعد میرے دل میں ایک خیال پیدا ہوا جس کو میں بغرض غور و تفکّر حضور پیش کروں گا نہ صرف معقولی طور سے بلکہ ایمانی جوش کی تحریک سے یقین کرتا ہوں کہ آپ جو روحانی ترقی میں میرے سے بڑھ کر اور خدا کے قریب تر ہیں مجھ کو ایسی طرز سے جواب دیں گے جو کہ افضل و انسب ہو.اگر میرے لئے ہندوستان میں پہنچنا ممکن ہوتا تو میں نہایت خوشی سے پہنچتا لیکن میری ایسی حالت ہے کہ پہنچنا محال معلوم ہوتا ہے.میری شادی ہوچکی ہے ا

Page 482

تین بچے ہیں قریب دو سال کے ہوئے میں نے گوشہ نشینی اختیار کررکھی ہے اور ایسا ہی بقیۃ العمر کرتا رہوں گا میری آمدنی اس قدر نہیں ہے کہ میں اپنے کام سے بلا قباحت علیحدہ ہوسکوں کیونکہ اس آمدنی سے میںبانتظام تمام اپنے عیال و اطفال کی پرورش کرسکتا ہوں اس وجہ سے اگر میں ہندوستان پہنچنے کے لئے کافی زاد راہ بہم پہنچا بھی سکوں تاہم یہ غیر ممکن معلوم ہوتا ہے کہ اپنے عیال کے لئے دوری کی حالت میں کافی ذخیرہ مہیا کرسکوں.اس لئے ہندوستان میں پہنچنا دور از قیاس دیکھ کر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں اسی جگہ (آپ کی اعانت سے) سچائی پھیلانے میں کچھ خدمت کرسکتا ہوں اگر جیسے کہ آپ فرماتے ہیں دین اسلام ہی سچا دین ہے تو پھر کیا وجہ کہ میں امریکہ میں تبلیغ و اشاعت کا کام نہ کرسکوں بشرطیکہ مجھ کو کوئی رہبر مل جائے.میں خیال کرتا ہوں کہ مجھ کو اس طرح کی اشاعت کے لئے معقول موقعات حاصل ہیں.مجھ کو یقین ہوا ہے کہ نہ صرف محمدؐ صاحب نے بلکہ عیسیٰ و گوتم بدھ و ذورو سیترا اور بہت سے اور لوگوں نے سچ کی تعلیم دی اور یہ بتلایا کہ ہم کو نہ انسان کی بلکہ خدا کی عبادت اور پرستش کرنی لازم ہے اور اگر مجھ کو یہؔ سمجھ آجاوے کہ جو محمد صاحب نے تعلیم دی ہے وہ اوروں کی تعلیم سے افضل ہے تب میں اس قابل ہوجائوں گا کہ دین محمدی کی دیگر مذاہب سے بڑھ کر حمایت اور اشاعت کروں لیکن ان کی تعلیمات کا جو مجھ کو قدرے علم ہوا ہے اس قدر علم سے میں حمایت و اشاعت کرنے کے قابل نہیں ہوں.باشندگان امریکہ کی توجہ عام طور سے مشرقی مذاہب کی طرف کھنچی ہوئی ہے اور تحقیقات مذہب بدھ میں دیگر تمام مذاہب کی نسبت زیادہ مشغول ہیں میرے قیاس کے موافق آج کل عام لوگوں کے خیالات ہمیشہ کی نسبت قبولیت دین اسلام و مذہب بدھ کے لئے زیادہ تر لائق و قابل ہورہے ہیں اور یہ ممکن معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے طفیل سے یہ مذہب میرے ملک میں اشاعت پاجاوے میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ آپ شوق و ذوق کے ساتھ مصروف ہیں.میں کسی دلیل سے شبہ نہیں کرسکتا کہ آپ کو خدا نے بغرض اشاعت نور حقّانیت مشرّف بالہام کیا ہے پس یہ میری سرور حقیقی کا باعث ہوگا کہ میں آپ کی تعلیم کی زیادہ قدر و منزلت کروں اور آپ سے اور تعلیم بھی حاصل کروں خداوند تعالیٰ جو دلوں کے بھیدوں سے واقف ہے جانتا ہے کہ میں سچ کی تلاش کررہا ہوں اور جب کبھی مل جائے قبول کرنے کے لئے آمادہ و مشتاق ہوں اگر آپ حقّانیت کی مبارک روشنی کی طرف

Page 483

میری رہنمائی کریں تو آپ دیکھیں گے کہ میں سردجوش مقتدی نہیں ہوںبلکہ ایک گرم جوش طالب ہوں.میں تین سال سے اسی تلاش میں ہوں اور بہت کچھ معلوم بھی کرچکا ہوں کہ خدا نے مجھ پر بافراط اپنی برکتیں نازل کیں اور میری یہ تمنّا ہے کہ اس کے کام کو بشوق بصدق تمام ترسر انجام دوں ہاں یہ کشمکش پیدا ہورہی ہے کہ کس طرح سے اس کام کو کروں کیا کروں اور کس طرح کروں کہ یہ کام اکمل طور سے پورا کرسکوں اس کی جناب میں یہ دعا ہے کہ مجھ کو راہ کی صاف صاف رہنمائی ہو اور گمراہی سے محفوظ رہوں.اگر آپ میری مدد کریں تو میں امید کرتا ہوں کہ آپ ایسا کردیں گے میں آپ کی چٹھی کو حفاظت سے رکھوں گا اور اس کی نہایت تکریم کروں گا میں آپ کے اشتہار کو امریکہ کے کسی نامور اخبار میں چھپوا دوں گا اور ایک نسخہ اس اخبار کا آپ کے پاس بھی بھیجوں گا جس سے اس کی شہرت بہت وسعت پا جائے گی اور وہ ایسے لوگوں کی نظروں میں گزرے گا جو اس طرح کے معاملات میں شوق اور توجہ ظاہر کریں گے آئندہ کو کوئی اور حقیقت جو آپ عام طورسے مشتہر کرنا چاہیں گے اور میرے پاس اسی غرض سے بھیجیں گے تو یہ میری کمال خوشی اور سرور کا باعث ہوگا اور اگر آپ میری خدمتوں کو امریکہ میں امور حقّانی کی اشاعت کے قابل سمجھیں تو آپ کو ہر وقت مجھ سے ایسی خدمت کرانے کا پورا پورا اختیار ہے بشرطیکہ مجھ تک آپ کے خیالات پہنچتے رہیں اور میں ان کی حقّانیت کا قائل ہوتا رہوں مجھ کو یہ تو بخوبی یقین ہوچکا ہے کہ محمدؐ صاحب نے سچ پھیلایاا ور راہ نجات کی ہدایت کی اور جو شخص کہ اس کی تعلیمات کے پیرو ہیں ان کو ہمیشہ کے لئے خوش اور مبارک زندگی حاصل ہوگی.مگر کیا عیسیٰ مسیح نے بھی سچا اور سیدھا راہ نہیںؔ بتلایا؟ اور اگر میں ہدایت عیٰسی کی متابعت کروں تو پھر کیا نجات کی ایسی یقینی طور سے امید نہیں کی جاسکتی جیسے کہ دین اسلام کی متابعت سے؟ میں سچ معلوم کرنے کی غرض سے سوال کررہا ہوں نہ مباحثہ وجدال کی غرض سے میں حق کی تلاش کررہا ہوں.میں کسی خاص دعویٰ کے اثبات کے لئے جدل نہیں کرنا چاہتا میں خیال کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ آپ محمدؐ صاحب کے فی الحقیقت ہدایات کے پیرو ہیں نہ ان عقائد کے جو عامہ خلائق دین محمدی سے مراد لیتے ہیں اور تمام مذاہب میں جو سچ سچ حقیقتیں موجود ہیں ان کو مانتے ہیں نہ ان عقائد کو جو عام لوگ بعد میں اپنی طرف سے زیادہ کرتے رہے مجھے یہ بھی سخت افسوس ہے کہ میں آپ کی زبان سمجھ نہیں سکتا ہوں اور نہ آپ میری زبان سمجھ سکتے ہیں ورنہ میں یقینًا کہتا ہوں کہ جو سبق میں آپ سے

Page 484

چاہتا ہوں وہ ضرور آپ مجھے سکھاتے تاہم امید قوی رکھتا ہوں کہ اگر میں خدا کی محبت کے لائق ہونے کی طلب میں رہوں گا تو بے شک وہ کوئی نہ کوئی ایسا طریق نکال دے گا.مبارک ہو اس کا پاک نام.اب امیدوار ہوں کہ پھرآپ سے کچھ اور حال سنوں.اور اگرچہ جسمانی ملاقات حاصل نہ ہوسکے تاہم روحانی ملاقات نصیب ہو آپؔ پر اور آپ کے کلمات سننے والوں پر خدا کا فضل ہو.دعا کرتا ہوں کہ تمام آپ کی امیدیں اور تدبیریں پوری ہوں.زیادہ آداب و نیاز.٭ آپ کا نیاز مند الگزنڈر آر.ویب سینٹ لوئیس مسوری ۳۰۲۱.ایسٹن ایونیو.امریکہ ــــ--------------------- (یہ اس خط کی نقل ہے جو بجواب چٹھی مندرجہ بالا بھیجا گیا) مکتوب صاحب من آپ کی چٹھی جو دل کو خوش اور مطمئن کرنے والی تھی مجھ کو ملی جس کے پڑھنے سے نہ صرف زیادت محبت بلکہ میری وہ مراد بھی جس کے لئے میں اپنی زندگی کو وقف سمجھتا ہوں (یعنی یہ کہ میں حق کی تبلیغ انہیں مشرقی ممالک میں محدود نہ رکھوں بلکہ جہاں تک میری طاقت ہے امریکہ اور یورپ کے ملکوں میں بھی جنہوں نے اسلامی اصول کے سمجھنے کے لئے اب تک پوری توجہ نہیں کی اس پاک اور بے عیب ہدایت کو پھیلائوں) کسی قدر حاصل ہوتی نظر آتی ہے سو میں شکر گزاری سے آپ کی درخواست کو قبول کرتا ہوں اور مجھے اپنے خداوند قادر مطلق پر جو میرے ساتھ ہے قوی

Page 485

امید ہے کہ وہ آپ کی پوری پوری تسلی کرنے کے لئے مجھے مدد دے گا میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ پانچ ماہ کے عرصہ تک ایک ایسا رسالہ جو قرآنی تعلیموں اور اصولوں کا آئینہ ہو تالیف کرکے اور پھر عمدہ ترجمہ انگریزی کراکر اور نیز چھپوا کر آپ کی خدمت میں بھیج دوں گا جس پر قوی امید ہے کہ آپ جیسے منصف اور زیرک اور پاک خیال کو اتفاق رائے کے لئے مجبور کرے گا اور انشراح صدر اور قوت یقین اور ترقی معرفت کا موجب مگر شاید کم فرصتی سے یہ موجب پیش آجائے کہ میں ایک ہی دفعہ ایسا رسالہ ارسال خدمت نہ کرسکوں تو پھر اس صورت میں دو یا تین دفعہ کرکے بھیجا جائے گا اور پھر اسی رسالہ پر موقوف نہیں بلکہ آپ کی رغبت پانے سے جیسا کہ میں امید رکھتا ہوں اس خدمت کو تا بحیات اپنے ذمہ لے سکتا ہوں آپ کے محبانہ کلمات مجھے یہ بشارت دیتے ہیں کہ میں جلد تر خوشخبری سنوں کہ آپ کی سعادت فطرتی نے حقانی ہدایت لینے کے لئے نہ صرف آپ کو بلکہ امریکہ کے بہت سے نیک دل لوگوں کو دعوت حق کی طرف کھینچ لیا ہے.اب میں زیادہ تصدیع دینا نہیں چاہتا اور اپنے اخلاص نامہ کو اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ الٰہُ العالمین جانبین کو آفات ارضی و سماوی سے محفوظ رکھ کر ان ہماری مرادوں کو انجام تک پہنچا دے کہ سب طاقت اور قوت اسی کو ہے.آمین.٭ ۴؍ اپریل ۱۸۸۷ء آپ کا دلی محب اور خیر خواہ غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب

Page 486

مکتوب بنام میاں گل محمد صاحب عیسائی آج کے دن میاں گل محمد صاحب نے پھر ایک حجت کھڑی کی اور حضرت اقدس کی تحریر لینے کی کوشش کی تاکہ لاہور میں وہ پیش کر سکیں چونکہ حضرت اقدس کتاب تذکرۃ الشہادتین کی تصنیف میں مصروف تھے اور آپ کو بالکل فرصت نہ تھی آپ نے مفتی محمد صادق صاحب کو جنہوں نے میاں گل محمد صاحب سے ملاقات اور گفتگو میں کمال انٹرسٹ لیا تھا فرمایا کہ وہ جواب دیویں.مگر میاں گل محمد صاحب کس کی مانتے تھے آخر ان کے بڑے اصرار سے حضرت اقدس نے پھر ان کو ایک تحریر دی جس کی نقل ہم ذیل میں کرتے ہیں.نقل رقعہ منجانب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بنام میاں گل محمد صاحب عیسائی ’’بشرواخیر و عافیت اور نہ پیش آنے کسی مجبوری کے میری طرف سے یہ وعدہ ہے کہ اگر ۲۰؍اکتوبر۱۹۰۳ء کے بعد میاں گل محمد صاحب اس بات کی مجھے اطلاع دیں کہ وہ قادیان میں آنے کے لئے طیار ہیں تو میں ان کو بلا لوں گا تا جو سوال کرنا ہو وہ کریں.سوال صرف ایک ہو گا اور فریقین کے لئے جواب اور جواب الجواب دینے کے لئے چار دن کی مہلت ہو گی اور انہی چار دنوں کے اندر میرا بھی حق ہو گا کہ یسوع مسیح اور اس کی خدائی کی نسبت یا انجیل اور تورات کے تناقض کی نسبت جو عیسائیوں کے موجودہ عقیدہ سے پیدا ہوتا ہے کوئی سوال کروں ایسا ہی ان کا حق ہو گا کہ وہ جواب دیں پھر میرا حق ہو گا کہ جواب الجواب دوں اور یہ امر ضروری ہو گا کہ میاں گل محمد صاحب قادیان سے جانے سے پہلے مجھے اطلاع دیں کہ وہ اسلام یا قرآن شریف پر کیا اعتراض کرنا چاہتے ہیں تاہم بھی دیکھیں کہ واقعی وہ اعتراض ایسا ہے کہ یسوع مسیح کی انجیل یا اس کی چال چلن یا اس کے نشانوں پروارد نہیں ہوتا گو مجھے بہت افسوس ہے کہ ایسے لوگوں کو مخاطب کروں کہ اب بھی اور اس زمانہ میں اس شخص کو جس کے انسانی ضعف اس کی اصل حقیقت کو ظاہر کر رہے ہیں خدا کر کے مانتے ہیں مگر ہمارا فرض ہے کہ ذلیل سے ذلیل مذہب والوں کو بھی ان کے چیلنج کے وقت رد نہ کریں اس لئے ہم رد نہیں کرتے.بالآخر یہ ضروری ہے

Page 487

کہ وہ اپنا صحیح اور پورا پتہ لکھ کر مجھے دیںتاجواب کے پہنچنے میں کوئی د ّقت پیش نہ آوے یعنی لاہور میں کہاں اور کس محلہ میں رہتے ہیں اور پورا پتہ کیا ہے مکرر یہ کہ آپ کے اطمینان کے لئے جیسا کہ رات کو آپ نے تقاضا کیا تھا.میں یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ میرے لکھنے پر قادیان میں آویں اور میری کسی مجبوری سے بغیر مباحثہ کے واپس جاویں تو میں دو طرفہ آپ کو لاہور کا کرایہ دوں گا اور جو رات کو آپ کو مبلغ تین روپیہ دیئے گئے ہیں اس میں آپ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ کسی حرجہ کے رو سے آپ کا یہ حق تھا کیونکہ جس حالت میں ہم نے اپنی گرہ سے خرچ اٹھا کرآپ کو روکنے کے لئے لاہور میں تار بھیج دیا تھا اور تین خط بھی بھیجے پھر اس صورت میں آپ کا یہ نقصان آپ کے ذمہ تھا مگر میں نے محض مذہبی مروت کے طور پر آپ کو تین روپے دیئے ورنہ کچھ آپ کا حق نہ تھا ایسا ہی اس وقت تک کہ آپ کی نیت میں کوئی صریح تعصب مشاہدہ نہ کروں ایسا ہی ہر ایک دفعہ بغیر آپ کے کسی حق کے کرایہ دے سکتا ہوں محض ایک نادار خیال کر کے نہ کسی اور وجہ سے.٭ ۶؍اکتوبر ۱۹۰۳ء الراقم خاکسار میرزا غلام احمد ‘‘ یہ رقعہ لے کر پھر بھی میاں گل محمد کو قرار نہ آیا اور جب کہ ظہر کے وقت حضرت اقدس ؑ تشریف لائے تو کہنے لگے جو الفاظ میں ایزاد کرانا چاہتا ہوں وہ کردو.مگر خدا کے مسیح ؑ نے اسے مناسب نہ جانا اور آخر میاں گل محمد صاحب رخصت ہوئے.

Page 488

مکتوب بنام لالہ بھیم سین صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سورۃ فاتحہ کا جو اُمّ ُالکتب ہے خاص علم دیا گیا تھا.آپ تمام مذاہب باطلہ کی تردید اسی ایک سورۃ سے کرنے کی معجزنما قدرت رکھتے تھے.اس کا نمونہ آپ کی تقریرں میں عام طور پر پایا جاتا ہے.اور براہین احمدیہ میں خصوصیت سے اس امر کو دکھایا گیا ہے.لالہ بھیم سین صاحب سے اس سیرۃ کے پڑھنے والے واقف و آگاہ ہو چکے ہیں.لالہ بھیم سین صاحب ایک نیک دل اور خوش اخلاق انسان تھے.حضرت مسیح موعودؑ سے آپ کو ایک محبت اور وداد کا تعلق تھا.ان کے پرانے کاغذات میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک تحریر عالی جناب لالہ کنور سین صاحب ایم.اے.پرنسپل لا کالج خلف الرشید لالہ بھیم سین آنجہانی کی کرم فرمائی سے مجھے ملی ہے جو آپ نے لالہ بھیم سین صاحب کو لکھی تھی.اس تحریر کے مطالعہ سے معلوم ہو گا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مخاطب دوست کی کس قدر عزت اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی تعریف کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں آپ کس طرح پر ان کو اسلام کے اعلیٰ اور اکمل مذہب ہونے کی طرف توجہ دلاتے ہیں.… یہ مضمون بقول قبلہ والد ماجد مرزا صاحب نے ان ایام میں اپنے دوست اور میرے والد صاحب کی خاطر لکھا تھا.جب کہ ہر دو صاحب سیالکوٹ میں مقیم تھے اور علاوہ مشاغل قانونی و علمی کے اخلاقی و روحانی مسائل پر بھی غور وبحث کیا کرتے تھے.اس سے اس زمانہ کے مشاغل کا عام پتہ ملتا ہے بہرحال وہ مضمون یہ ہے) ہٰذا کِتَابٌ رَحْمَۃُ اﷲِ عَلٰی قَائِلِہٖ وَ قَابِلِہٖ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (۱) حمد را باتو نسبتیست درست بر در ہر کہ رفت بردرِ تست (۲) امابعد مخاطب من کسے است کہ طالب حقیقت است و بر صدق و عدل قائم مے ماند.(۳) ودر محافل مغرور و تعصّب نمے نشینَد.و بر سخن ہزل واستہزا گوش نمے نہد.و بر صلاح (۴) مکاران نمے رود و آرزو مند پیروی ارادئہ خدا ست.بدان ارشدک اللہ تعالیٰ.(۵) کہ درد فاتِرقوم ہنود حق پژ وہی و حقیقت گزاری بس نایاب وہم پرستی نمود ہ اندو افسانہ ہائے (۶)نا بود ہ بر نوشتہ.گرو ہے بر آنند کہ ایزد بیہماں راانبار نمے گیریم.(۷) آنکہ بر ہما وبشن و مہا دیو ر اخدا میدا نیم ازیں خیال است کہ ایزد بیچوں بدیں ۸) سہ پیکر مجسم شدو غبارے بد امنِ وحدت اونہ نشت.وآنکہ بیگا نگان طعنِ

Page 489

) بُت پرستی مے کنند نہ چنین است بلکہ پیکریکے را ازیں ہر سہ صورتِ پیش نہاد چشم (۱۰) مے سازیم تا اویسہu را از پراگندگی باز دار یم و دلv راکہ خواہش دیدار میکند تکمیل آرزو کنیم.(۱) و پایۂ wپایۂ از مثال پرستی وا پر داختہ بد ریائے حقیقت در شویم وبت ماx (۲) وقتِ عبادت ہمچو عینک است بیش نیست.وقومے دگرآںہر سہ اشخاص را ملائک مید انند (۳)ومیگویند کہ برہما عبارت از جبریل آمدہ کہ پیدا کنندہ است و بشن عبارت از اسرافیل آمد ہ (۴) کہ نگہد ارندہ است و رُدر یعنی مہا دیو عبارت از عزرائیل آمد ہ کہ فنا کنندہ است (۵) وخدائے عالمیان دیگر است کہ از تعدد و زادن و زائیدن بر تراست وایں قوم خدا را (۶) معدوم الصفات مید اندواللہ اعلم و خودر ابیدانتی مے نامند گو کہ ایںفرقہ بلحاظ بادی الرائے (۷) ازدیگرفرقہ ہائے ہنود خیلے مائل صلاحیت است مگر آنکس کہ براستی دل و آزادیئِ فکر تأمل میکند (۸) معلوم او خواہد بود کہ چہ قدر جائے آویز شبہاست ودر حقیقت مذہب بید انتیاں (۹) ہمیں است کہ عالم راصانعے ہست اما صفت ندارد و تاثیرات کہ در عالم ہست از وسایط ہست (۱۰) نہ ازاں ذات و معلوم مے شود کہ دراصل مذہب ہمہ ہنود ہمیں بود بعد ازاں قومے از جہلاء (۱۱) آں ہر سہ ملائیک رافی الحقیقت خدا گمان بردہ خود رادربت پرستی انداختہ چو (۱۲) ایں مقامات مبالغہ کردن از لوازم لاینفک عوام است.(۱۳)ہر چند نتیجۂ عقیدہ ثانی بت پرستی است مگر خدائے کامل الصفات خالق مطلق را (۱۴) معدوم الصفات پند اشتن کم ازبت پرستی نیست.لعنۃ اللّٰہ علیھم وَاحِدًا وَاحِدًا (۱۵) ازا نجا کہ ازمااین استفسار است کہ تعریف بت پرستی چیست و کدام شے ایشان رابت پرست مے گرداندوا جب آمد کہ تحریر ش کنیم.باید دانست کہ پرستش نتیجہ عقاید است وعقاید اہل حق ایں است کہ خدا یکے است و صفات او جلّ شانُہٗ بریکے انداز ست نہ صفاتش را تبدل است ونہ تغیر است ونہ فنا است و نہ حدوث است.خدائے راستوحق ابدی سر مدی خدا مخلوق نیست کہ متو ّلد شود ازاں صفات برتر است کہ دل مااز تسلیم آنہا نفرت کند صفات او آرام گاہِ دلِ ما است و دلِ ما مانوس صفات اوست از ازل واحد است کدام دل است کہ منکر وحدتِ اوست ازابد یکے است و کدام دل است کہ مقرّتثلیثِ اوست.

Page 490

اے بے خبر مرو زِ رہِ راستی بروں واقعۂ دل بہ بیں کہ چہ تحریر کردہ اند تامل در آئینہ دل کنی صفائی بتدریج حاصل کنی وقتیکہ او جلوہ خواہد داد آں کیست کہ انکارِ او خواہد کرد و در فطرتِ اوّلین ہمہ کس راجلوہ داد ہمہ کس اقرار الوہیتش کردندو کلا مش شنید ند وآں در د لہا نشست و قرار گاہ دلہا شد از ینجاست کہ ہر گاہ انسان ارادہ حقیقی دلِ خود دریابد مے داند کہ تاوقتیکہ اقرار آں واحد لطیف نکند گنہ گار است لیکن چونکہ عقل رابطور خود وانگذاشتہ اند بلکہ وہم و خیال دنبال آں گرفتہ و از ادراک اکثر امور عاجز و معطل ماندہ عقل بمنزلہ بصارت بود امادر تاریکی وہم و خیال گرفتار خدائے کریم از نہایت رحمت خود آفتاب کلام خود فرستاد وباید دانست کہ عقل را برائے دانستن وحدت خدا و راستی کلام او حاجتِ چیزے نیست ازینجاست کہ بر غا فلانِ جزیرہ نشیناں کہ ندائے رسالتِ نبوی تا گوش اوشاں نرسیدہ تکلیف ایمان ایںقدر ہست کہ خدا را واحد دانستہ باشند و اگر بت پرستی خواہند کرد معذب بعذاب الٰہی خواہند شدگو کہ ندائے رسالتِ نبوی تا گوش اوشاں نرسیدہ باشد اکنوں شکر ایں نعمتِ عظمیٰ برما لازم است کہ ما ازیادِ حق غافل شدہ بودیم و بایں تمثیل رسیدہ بودیم کہ دوستے را دوستے گفت کہ بفلاں شب و در فلاں محفل نزد من حاضرباشی اینک برائے یاداشت دامنت راگر ہ میدہم پس آں دوست را ہر وقت گرہ دامن یادمے دہانید واو اگرچہ دراں محفل رسید مگر از باعث تیرگی شب در تلاش دوست ضبط مے نمود آخر کار دوست اوبروے رحم کردہ برائے او شمع فر ستاد پس او بر ہبری شمع بکمال آسانی تا درِ دوست رسید پس شکرکردن ایں نعمتِ عظمیٰ را کہ خدائے کریم و رحیم بر مابندگان ارزانی فرمود عبادت مے نامندونعمت ایں است کہ اوّل مارا از عرصہ عدم بو جود آوردہ بعدہ خود رابرما جلوہ داداہ اقرار وحدتِ خود در دلِ ما نشان کرد و کلامِ خودتا گوشِ ما رسانید بازآفتاب کلامِ خود برما فرستاد.اماجواب ایں امر کہ ذات کامل الصفات راباستایش مخلوق چہ افتخار.ایں است کہ حق تعالیٰ محبت کمالِ ذات و صفات خود تقاضا میفرماید کہ ہر کہ خالی از نقصان نبا شد برائے او تذلّل کند بنحویکہ فواید آں بآفرید ہ باز گردد و موجب بقاء انواع مخلوقات شود پس عبادت چنانچہ حکمت کل رامقتضااست ہمچناں متقضائے صورت نوعی انسان است و طریق خدا پرستی بتمامہٖ در سورۃ فاتحہ بیان شدہ از ہمیں سبب است کہ در ہر رکعت نماز خواندن آں واجب گردیدہ و ترکِ آں مبطل صلوٰۃ آمدہ اکنوں معنے آں سورۃ

Page 491

مقدسہ بیان میشود کہ تا حقیقتِ خدا پرستی دانستہ باشی.قولہ تعالیٰ..حمد است خدا ئے ر اکہ رب ہمہ عالم ہاست امہربانی بر مہربانی کنندہ.بادشاہِ روزِ عدالت..ترا عبادت میکنیم وازتو مدد میخواہیم.یعنی عبادت کر دن کارِ ما است و بدرجہ قرب و معرفت رسانیدن کا رِ ُتست.چنانچہ در آیت مابعد تفصیل معنی مدد گاریست کہ خود تعلیم میفرماید..تو ہدایت کن مارا راہِ راست راہ کسا نیکہ بدرجہ معرفت رسانیدی آنہار ا کسا نیکہ بر ایشاں خشم نمے گیری کسانیکہ از تو دور نیستند.باید دانست کہ در آیات ماقبل  تعلیم معنی عبادت است و در آیاتِ مابعد تعلیم معنی استعانت یعنی مدد خواستن است چنانچہ بر ناظربصیر مخفی نیست اکنوں در ذیل ایں کلام ازالہ اوہام بت پرستان تحریر میشود کہ سابق ذکر کردہ شد.درصفحہ اوّل سطر ہفتم و ہشتم ایں رسالہ میگویند کہ ایزدبیچوں بریں سہ پیکرمجسم شدو غبارے بردامن وحدتِ اونہ نشست.میگویم کہ یکے بودن او تعالیٰ و محیط بودن اوہمہ موجودات راوغیر محدود بودن او از ازل تا ابد یکساںبودن او و بزرگ ازہمہ بودن او وغیرہ صفات ہاکہ میدارد ہمہ صفات او درد لِ مااز روز ِازل نشستہ است و آرام گاہ جانہاشدہ وقرار گاہِ دلہا گرد یدہ صفات او مرجع د لِ ما است ودل ما مانوس صفات اوست وسہ گفتن کفّار و مجسم گفتن و صاحب زن و فرزند و مادر و پدر گفتن فقط بر ز بانہا کفار است و دل را از تسلیم آں بہرہ نیست.پس زیادہ تر ازیں کدام غبار خواہد بود کہ آں امور در ذاتِ حق گمان مے کنند.شہادتِ دل برآں نیست و اگر مراداز غبار آں غبار است کہ ازتودئہ خاک حاصل میشود ایں امر دیگر است پوشیدہ نماند کہ تکلیف ایمان را شہادتِ دِل ضروری است.زیر آنکہ احتمال کذب از دامن اخبار دست بردار نیست وعلامت کلام ربّانی ہمیں است کہ بر صدق تعلیمات او دل شہادت دہد قیاس باید کرد کہ ازاں کہ سخنے خواستن داورم را تکلیف شنیدن دادن از عدالت دور ترست پس خدائے کریم و

Page 492

رحیم کہ عادل و منصف است این چنیں تکلیف ما لا یطاق کہ دل را از صدق و کذب آں اثرے نیست چسان تجویز خواہد کرد کہ باوصف آنکہ دریں اعتقاد ہمہ ہنود متفق نیستند.مؤرخین ایشاںمے گویند کہ ایں ہرسہ اشخاص ہمعصر بودند و با مردمان اختلاط مے داشتندمے خورد ندو مے نوشیدند و بول و براز میکر دند وبازنانِ خود مجامعت مے کردندو امور فواحش نیز از ایشاں سرزد شد چنانچہ ایں ہمہ بیان بر ناظر کتب ہنود مخفی نیست و تاویل پر ستانِ ایں قوم میگویند کہ ایں ہر سہ ملائک بودند چنانچہ سابق ذکریا فت و حکماء ایشاں میگو یند کہ ایں ہر سہ نام زمانہ است و زمانہ راسہ جزو تقسیم میکنندو صاحب ملل و نحل و مصنف و بُستان میگوید کہ قومے از ہنود ایں ہر سہ اشخاص راعبارت از خُصیتین و آلۂ تناسل داشتہ و باز در دلایل دیگر ان راخموش گردانیدہ.آرے .۱؎ صفحہ اوّل سطر نہم.میگویند کہ طعن بت پرستی خطا است اہل اسلام حقیقتِ عقائد مانمے فہمند.پیکر یکے را ازیں ہر سہ مظہر الوہیت وجہ ہمت مے سازیم.میگویم کہ ہر گا ہ مجسم شدن نسبت حق تعالیٰ باطل است پس ایں خیال از قبیل بنائِ فاسد بر فاسد شد.صفحہ اوّل سطردہم.میگویند کہ نصب العین داشتن است برائے این است کہ تادل را از پراگندگی باز داریم.میگویم دل را دو حرکت است یکے سوئے خارج وآں مبدء شہوات جسمانی است و باعث پراگندگی دل و منجملہ شہوات آں یکے بت پرستی است.دویم.حرکت سوئے داخل و آں مبدئِ قرب و معرفت است و باعث اطمینان و آرام و تقسیم نفس بہ نفسِا مّارہ و نفسِلوّامہ و نفسِ مطمئنّہ تعمیر بریں بنیاد است و دل بر پراگندگی مخلوق نیست ورنہ مکلف عبادت نشدے.میگویند کہ وجہ دیگر برائے بت پرستی آن ست کہ دل راکہ خواہش دیدار میکند تکمیل از رو میکنیم.میگویم کہ خواہش دل وصال خدا است پس آں شوق بجز وصال خداکجا تسکین خواہد یافت ایں بدوں میماند کہ کسی محتاج آب است او ر ابآتش انداختن.صفحہ۲ سطر ا و ۲.میگویند کہ پایہ پایہ از مثال پرستی وا پر داختہ بد ریائے حقیقت مے رویم و ُبت ما وقت پرستش ہمچو عینک است بیش نیست یعنی چنانکہ عینک مدد گار چشم است ہمچنان بت ہا مدد گار دل اند و موجبِ سُرعت وصول دل بدرجہ معرفت ہستند.

Page 493

میگویم آن درجہ معرفت ازچہ مراد است اگر عبارت از داشتن اسماء صفاتِ حق تعالیٰ است پس اجمال آں در دل خود موجود است و تفصیل آں از پیروی کلامِ ر ّبانی حاصل میشود و اگر مراد ازدرجہمعرفت دراصل بخداشدن است کہ وصفِ اولیاء و انبیاء است پس باید دانست کہ آن مقام ازاختیار انسان بلند تر است و در انجا حکمت و تدبیرپیش نمے رود تفصیل ایں اجمال آنکہ از تلاوت آیات ربّانی ارادہ حق چنیں دریافت مے شود کہ برائے ایمان آوردن برو حدت باری تعالیٰ واِذعان ہمہ صفات اوقوتے در دل انسان ازدستِ تقدیر تحریر است وہماں قوت باعث تکلیف ایمان و نیز قوت من وجہ برائے کسب عبادت دادہ شد وہماں باعث تکلیف عبادت است اماانسان ہیچ قوتے برائے تقرب و وصالِ حق نمیدارد و انسان را برعلم حقائقِ انوار الٰہی طاقتے و مقدورے نیست.چراکہ خدا محکوم نیست کہ بر ا را دہ انسان تابع باشد و انسان حاکم خدا نیست کہ در خزانہ انوار ایزدی دست انداز گردد پس ذرّہ امکان بر ذات محیط العالمین چگو نہ محیط گردد ویک کس مخلوق خالق ہمہ کس راچساں دریافت کند.بدوں آنکہ او خود جلوہ انداز گردد دویم دل را منور گرداند لہٰذا تقاضائے رحمت ایزدی اجازت استعانت از حضرت والائے خود بخشید بدیں مضمون کہ ہر گاہ بر نماز قائم شویم باید کہ در تصّور اسماء و صفات حق تعالیٰ دل خود را از ہمہ چیز ہا باز پس کشیدہ بظلماتِ حیرت انداز یم در آں وقت از خدائے خود استعانت بخواہیم کہ اے بار خدایا ما خویشتن را از نشیب گاہِ محسوسات حتّی المقدور خود برآوردہ سوئے تصور جلال تو مابرکشیدیم مگر از طاقتِ خود بآں درگاہ عالی نتوانیم رسید اکنوں انتظار دستگیری تست اما باید کہ ایں تصور استعانت در آں ظلمات حیرت چناں باجان ودل یکے بودہ باشد کہ گویا جان و دل صورت تصور است ایں غایت جہد ما بنی آدم است بعد ازاں بدرجہ معرفت رسانیدن و سوئے خود کشیدن کار خدا است چنانچہ در آیۃ کریمہ  اشارہ بدیں استعانت است و کفّار بتاں را مظہر ایں استعانت میدانند و آرام و اطمینانِ دل و رسیدن خود بدرجہ معرفت از وسیلۂ بتاں می خواہند چنانچہ گفتن اوشاں کہ بت ما وقتِ عبادت ہمچو عینک است دلالت بریں معنی دارد یعنی چنانچہ عینک مددگار بصارت است و نظر را بمقصد اصلی میرساند ہمچناں بت ہائے ما مددگارِ دل اند کہ دل را از پراگندگی باز می دارند و بدرجہ قرب و معرفت مے رسانند ایں نہ معلوم کہ حق تعالیٰ از ازل روئے دل سوئے خود داشتہ است پس پراگندگی کجا ست و بدرجہ معرفت رسیدن کارِ انسان نیست.پس در مومن

Page 494

و بت پرست فرق ایں استعانت است.بت پرست آں را میگویند کہ برائے کشفِ انوارِ حقیقت استعانت از بت مے خواہد و مدد از اشکال تراشیدہ خود مے طلبدو بت پرست مے گوید کہ از مددگارِ بت بدریائے حقیقت خواہم پیوست ما مے پُر سیم کہ آں دریائے حقیقت چہ قدر است آیا دل انسان برذات محیط العالمین محیط تواند شد.اے دانائے بصیر تو قیاس کن کہ ذرّات انسان را باذاتِ قدیم الصفات چہ مطابقت و محدود راباغیر محدود چہ مساوات.و نہایت پذیر را بابے نہایت چہ پیوند.نہایت جہد انسان ایں است کہ دلِ خود را از ہمہ محسوسات و مرئیات باز پس کشیدہ و ہمہ اشکال و اجسام را زیرِ لَائے نَافیہ کردہ تصور جلال آں ربّ العالمین دلِ خود را بظلماتِ حیرت در اندازد و دراں وقت چنانچہ تشنہ و گرسنہ و درد مند کہ جان بلب رسیدہ باشند آب و غذا و دوا را میخواہند ہمچناں استعانت کشف انوار حقائق از درگۂ حق مسئلت نماید واز دلِ خود چیزے نتراشد چنانچہ کفّار ہنود کہ عبادت خارجی ایشاں بت پرستی است و ہرگاہ کہ از بت پرستی و ارستہ بجائے خود تصور میکنند.یکے شعلہ برابر انگشت از وہم خود تراشیدہ پیش تصور خود میدارند و ایں ہم از نوع بت پرستی است.ایں نہ معلوم کہ خدا محکوم انسان است نیست کہ تابع تصور انسان باشد آیا آنکہ محیط العالمین است در تصوّر انسان تواند گنجید قیاس تو بروئے نگرد د محیط.دروغ و کذب را در محل راستی آوردن و مفروض خود را رونق فی الحقیقت دادن شیوہ بت پرستاں است مولانا مولوی رومی میفرماید ؎ در عبادت خواہم از ذات توّاب ربِّ جہاں استعانتہا کہ میخواہند کفّار از بتاں و ایں بیت ترجمہ آیت کریمہاست اندازہ آرزو مندی و اندازہ آرزو مندے‘ آرزو مندے خود بروئے کشف انوار حقائق و مدد خواہی خود از حق تعالیٰ در بیت ثانی میفرمایند.؎ آنچہ برما مے رود گر برشتر رفتی زِ غم میزدندے کافراں بر جَنَّۃُ الْمَأْوَیٰ عَلَمْ وظاہر است کہ انسان در تصوّر بجائے یک شعلہ ہزار شعلہ تواند قایم کرد کدام مشکل افتادہ ہست زیرا کہ جان را درد تکلیف نیست و دل را درد سوختگی نے.در رہِ جَعل و فریب کشادہ است در یکے شعلہ محصور نیست مگر عبادات اہل اسلام جان باختن است کہ عاشق صادق بروں و در تلاش آن یار حقیقی دلِ خود را آشنائے دریائے ظلمات گردانیدن و درجان و تن درد و گداز افتادن و از چشم خواب رفتن و جان و

Page 495

دل مستغرق بیقراریہا شدن و سوختن و ساختن و فی الحقیقت انبار غم ہا برداشتن و از دل مہجور آواز ہائے ہائے بر آمدن و پیش از ُمردن ُمردن و حامل چنداں غمہا و درد ہا شدن من کیستم کہ تحریرش کنم پس آن عادل و مقدس دلہا را بدلہا رہ داشتہ است آیا بیخبر از چنیں طالبِ خود خواہد بود آیا او دستِ خود دراز کردہ ایں چنیں بندہ جاں باز را سوئے خود نخواہد کشید.پس اکنوں منصف در دلِ خود بسنجد کہ ایں طریق عشق و محبت و دردمندی کہ جان و دل را در آرزوئے جلوہ انوار حقیقی سوختن است و خود را بارنج و درد امیختن برحق و راست است یا آں طریق کہ یکے شعلہ از جعل و فریب خود در دل تصوّر بستن کہ ازاں شعلہ نے جاں را احتراق است و نے دل را سوختگی است و ظاہراً بنیاد ایں شعلہ از دروغ و باطل است چرا کہ خدا مطیع تصورِ ما نیست و ذاتِ محیط السّماوات بتصورِ انسان در نمے آید پس عبادتِ دل کہ سزا وار ربّ العالمین است درکار آن شعلہ دادن کفر است اکنوں میخواہم کہ خلاصہ جواب گفتہ کلام را ختم کنم سوال اینست کہ تعریف بت پرستی چیست اکنوں گوش کردہ سخن من باید فہمید اندریں شک نیست کہ نصب العین داشتن بت در زعم کفّار برائے حصول غرضے است آن غرض را در زبان شریعت استعانت نامیدہ شد قولہ تعالیٰ. پس خلاصہ آیاتِ ربّانی چنیں است کہ خدا مے فرماید ہر کہ عبادت من کند و استعانت از بت خواہد درحقیقت بُت را عبادت کردہ است زیرا کہ من محتاجِ عبادت نیستم یعنے وجوب عبادت برائے حاجت برآمدن انسان است چراکہ معنی عبادت استدعائے مدد است و شکر کردن مدد و اگر انسان را مدد از خدا نرسد ہلاک شود لہٰذا در کلام اﷲ آمدہ است کہ عبادت باعثِ حیاتِ انسان است و موجب بقائے بنی آدم ؎ تو قایم بخود نیستی یک قدم زِ غیبت مدد میرسد دمبدم و آدمی زیادہ تر محتاجِ استعانت در تعدیل و اقامت دل و وصالِ حق است پس اگر آدمی گوید کہ ایں حاجتِ من باستعانت و یاوری بت حاصل شدہ است آن آدمی عبادتِ خود کردہ است خدا را بمنزل متاعے فرض کردہ کہ بوسیلہ بت دستیاب خواہد شد.فقط ٭

Page 496

ترجمہ ہٰذَا کِتَابٌ رَحْمۃُ اللّٰہِ عَلٰی قَائِلِہٖ وَ قَابِلِہٖ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (۱).تعریف صرف تجھے ہی زیبا و درست ہے.جو کوئی کسی کے بھی دروازے پر جائے تو وہ تیرے ہی دروازہ پر ہوگا.(۲).اما بعد!میرا مخاطب وہ شخص ہے جو طالب حقیقت اورصدق و عدل پرقائم رہتا ہے.(۳).مغروراورمتعصب لوگوں کی محفلوں میں نہیں بیٹھتا اوراستہزا اور بیہودہ باتوں پر کان نہیں دھرتا.(۴).اور مکاروں کی باتوں میں نہیں آتا اور خدا تعالیٰ کے ارادہ کی پیروی کا خواہش مند ہے.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ تجھے ہدایت دے.(۵).قوم ہنود کی کتب میں تلاش حق اوربیان حقیقت گوئی کلیتاً نایاب (اور) وہم پرستی جابجاہے.(۶).اور بیہودہ خیالی افسانے لکھے ہیں.ایک گروہ اس اعتقادپر ہے کہ ہم خدائے بے مثل کے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھہراتے.(۷).ہم اس خیال سے برہما و بشن و مہادیو کو خدا سمجھتے ہیں کہ خدائے بے مثل (۸).ان تین پیکر سے مجسم ہوا اور اسکا دامنِ وحدت غبار آلودہ نہ ہوا.اور جو بیگانے (۹).بت پرستی پر طعن کرتے ہیں.ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ ہم ان تینوں (کے ملاپ سے مل کر بننے والے.مترجم)ایک پیکر کو (۱۰).اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتے ہیں تا کہ اویسہu کو پراگندگی سے روکیں اور دvل جو خواہشِ دید رکھتا ہے اس آرزو کی تکمیل کریں ۱).اوربتدریج w مثال پرستی کو چھوڑتے ہوئے دریائے حقیقت میں غوطہ زن ہوتے ہیں اور ہمارے بتx عبادت

Page 497

(۲).کے وقت عینک کی طرح ہوتے ہیں اس سے زیادہ(وقعت)نہیں (رکھتے).اور ایک دوسرا گروہ ہے، وہ ان تینوں کو فرشتہ جانتے ہیں (۳).اور کہتے ہیںکہ برہما جبرائیل سے تعبیر کیا جاتا ہے،جوپیدا کرنے والا ہے اور بشن اسرافیل سے تعبیر کیا جاتا ہے.(۴).جو نگہبان ہے اور رُدّر یعنی مہادیو عزرائیل سے تعبیر کیا جاتا ہے جوکہ فنا کرنیوالا ہے.(۵).اورعالمین کا خدا کوئی اور ہے جو تعدّد و جننے و متولّدہونے سے برتر ہے اور یہ قوم خدا کو (۶).معدوم الصفات سمجھتی ہے واللہ اعلم اورخودکو بیدانتی کہتے ہیں گو کہ یہ فرقہ بادی الرائے میں (۷).ہندؤوں کے دوسرے فرقوں کی نسبت زیادہ مائلِ صلاحیت ہے البتہ اگر کوئی صدقِ دل اور آزادیئِ فکر سے غور کرے (۸).تو اسے معلوم ہوگا کہ اس(اعتقاد)میں کتنے ہی شبہات جھول رہے ہیں اور درحقیقت بیدانتیوںکامذہب (۹).یہی ہے کہ دنیا کا کوئی صانع ہے لیکن وہ کوئی صفت نہیں رکھتا اور جو تأثیرات دنیامیں رونما ہوتی ہیں (۱۰).وہ وسیلوں کے ذریعے سے ہوتی ہیں نہ اس کی ذات کے ذریعے سے.اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ فی الحقیقت تمام ہندؤوں کا مذہب یہی ہے.بعدمیں جاہلوںمیں سے (۱۱).ایک گروہ نے ان تینوں فرشتوں کو خدا گمان کرکے بت پرستی میں اپنے آپ کومبتلاکرلیا کیونکہ (۱۲).ان مقامات میں مبالغہ آمیزی کرنا عوام النّاس کا لازمہ ہے.(۱۳).اگرچہ عقیدہ ثانی کا نتیجہ بت پرستی ہے مگر خدائے کامل الصفات خالق مطلق کو (۱۴).معدوم الصفات سمجھنا بھی بت پرستی سے کم نہیں.لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ وَاحِدًا وَاحِدًا(ان میں سے ہر ایک پر اللہ کی لعنت ہو) (۱۵).جہاں تک ہم سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ بت پرستی کی تعریف کیا ہے اور ان لوگوں کو کونسی چیز بت پرست بناتی ہے،لازم ہے کہ ان امور کو ہم بیان کریں.جاننا چاہیے کہ عبادت ، عقاید کا نتیجہ ہے اور اہل حق کے عقاید یہ ہیں کہ خدا ایک ہے اور اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی

Page 498

صفات ہمیشہ سے قائم و دائم ہیں یعنی نہ اسکی صفات میں تبدّل ہے نہ ہی تغیُّر اور نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا ہے.سچا اور حقیقی خدا ابدی اور ازلی ہے کوئی مخلوق نہیں کہ متولّد ہواورایسی صفات سے برتر ہے جن کو تسلیم کرنے سے ہمارا دل نفرت کرے.اسکی صفات تو ہمارے دل کا قرارہیں اور ہمارا دل اس کی صفات سے مانوس ہے.وہ ازل سے واحدہے کونسا دل ہے جو اسکی وحدت کا منکر ہے.ابدسے وہ ایک ہے اور کونسادل ہے جو اسکی تثلیث کا اقرار کرتا ہے.اے بے خبرانسان راہ راستی سے باہر نہ جا.اپنے دل کی خواہش کو دیکھ کہ اُس پر کیا تحریر کیا ہے.جب تو اپنے دل کے آئینہ پر غور کرے گا تو بتدریج پاکیزگی کو حاصل کرلے گا.جس وقت و ہ اپنے آپ کو ظاہر کرے گا تو کون ہے جو اس کا انکار کرسکتا ہے اورجب اس نے انسان کی فطرتِ حقیقی پر جلوہ کیا تھا تو اس نے اسکی الوہیت کا اقرار کیا اور اسکے کلام کو سنا اور وہ کلام دلوں میںدس بیٹھا اور دلوں میں گھر کر گیا تھا.یہی وجہ ہے کہ جب بھی انسان اپنے دل کے ارادہ حقیقی کو پالے تو وہ جان لے گا کہ جب تک وہ اس واحد لطیف کا اقرار نہیں کرتا (اس وقت تک) گناہ گار ہے.لیکن چونکہ انہوں نے اپنی عقل کا استعمال چھوڑدیا ہے اور وہم اور خیال نے اسکی پیروی میں جگہ لے لی اوراکثر امور کے سمجھنے سے عاجزوقاصرہوکران کی عقل محض بصارت کی حد تک ہوکررہ گئی تھی تاہم وہم و خیال کی تاریکی میں مبتلا ان لوگوں کے لئے خدا ئے کریم نے اپنی بے نہایت رحمت سے اپنے آفتاب کلام کو بھیجا.جاننا چاہیے کہ عقل کو خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور اسکے کلام حق کو پہچاننے کے لیے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے.یہی وجہ ہے کہ بے خبر جزیرہ نشین جن کے کانوں تک رسالت نبوی کی ندا نہیں پہنچی اس ایمان کے مکلف ہیں کہ خدا تعالیٰ کو واحد جانیں اور اگر بت پرستی کریں گے تو عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوں گے اگرچہ رسالتِ نبویؐ کی ندا ان کے کانوں تک نہ بھی پہنچی ہو.اب اس نعمت عظمٰی کا شکر ہم پر لازم ہے کہ ہم یادِحق سے غافل تھے اور ہمارے حال پر یہ مثال صادق آتی تھی کہ ایک دوست نے دوسرے دوست کو کہا کہ فلاں شب کو فلاں محفل میں حاضر ہونا اور یاد دہانی کے لیے میں تیرے دامن کو یہ گِرہ دے رہا ہوں.پس وہ دامن کی گرہ ہر وقت اس کو دوست کی یاد دلاتی.گو وہ اس محفل میں پہنچ توگیالیکن اندھیرے کی وجہ سے اپنے دوست کی ملاقات سے رُکا رہا.آخرکار اسکے دوست نے اس پر رحم کرتے ہوئے شمع بھیجی تا شمع کی راہنمائی سے آسانی کے ساتھ دوست کے

Page 499

دروازے تک پہنچ جائے.پس جو نعمت عظمٰی خدائے کریم ورحیم نے ہم لوگوں پرفرمائی ہے اس کے شکر کو ہی عبادت کہتے ہیں اوروہ نعمت یہ ہے کہ پہلے ہمیں عدم سے وجود میں لایا اور اسکے بعداپنی ذات کا جلوہ دکھایا اپنی توحید کے اقرار کو ہمارے دلوں پر ثبت کیا اور اپنے کلام کوہمارے کانوں تک پہنچایا پھر اپنے کلام کے آفتاب کو ہم پر بھیجا.اس امر کا جواب کہ ذات کامل الصفات کو مخلوق کی ستایش سے کیا فخر ہو سکتا ہے یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی ذات و صفات کی کامل محبت تقاضا کرتی ہے کہ ہر شخص جو ہر آن گھاٹے میں جا رہا ہے.وہ خدا کے حضور اس طرح تذلل اختیار کرے کہ اس طریق پر اسکے افضال مخلوق کی طرف اتریں اور وہ انواعِ مخلوقات کی بقاکا موجب بنیں.پس عبادت اُسی طرح حکمت کامل کی مقتضی ہے جس طرح نوعِ انسان کی ظاہری صورت.اور عبادت کے تمام طریق سورہ فاتحہ میں بیان ہوئے ہیں.یہی وجہ ہے کہ نماز کی ہررکعت میں اسکو پڑھنا واجب اوراس کو چھوڑنا نماز کو باطل کر دیتا ہے.اب اس سورۃ مقدسہ کے معارف بیان کیے جارہے ہیں تا تُوخدا پرستی کی حقیقت کو سمجھ لے.اللہ کا ارشاد ہے حمد صرف خدا کے لیے ہے جوتمام جہانوں کا رب ہے.مہربانی پر مہربانی فرمانے والا. عدالت کے دن کا بادشاہ.ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں یعنی عبادت کرنا ہمارا کام اور قرب و معرفت تک پہنچانا تیرا کام ہے.اس کے بعد آنے والی آیت میں استعانت کے معنی کی تشریح ہے جس کی وہ خودتعلیم فرماتا ہے. تو ہمیں راہِ راست کی طرف ہدایت دے ان لوگوں کی راہ کی طرف جن کو تُونے معرفت کے درجہ تک پہنچایا ہے.جن پر تو ناراض نہیں ہوتااور جولوگ تجھ سے دورنہیں ہیں.جاننا چاہیے کہ  سے پہلے والی آیاتمیں عبادت کے معانی تعلیم کئے گئے ہیںاور کے بعد والی آیات میں استعانت کے معانی بتائے گئے ہیںیعنی مدد چاہنا جو کسی صاحب بصیرت پر مخفی نہیں.

Page 500

اب اس کلام کے ذیل میں بت پرستوں کے اوہام کا ازالہ تحریر کیا جارہاہے جیساکہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے.اس رسالے کے پہلے صفحہ کی ساتویں اور آٹھویں سطر میں یہ کہتے ہیں کہ خدائے بے مثل ان تین اجسام سے مجسم ہوا پھر بھی اس وحدانیت کا دامن غبارآلود نہیں ہوا.میں کہتا ہوںکہ خدائے تعالیٰ کا واحد ہونا اور اسکاتمام موجودات پر محیط ہونا اور اسکا غیرمحدودہونااور ازل سے ابد تک اس کایکساں ہونااورسب سے بزرگ تر ہونا وغیرہ جو صفات رکھتا ہے اسکی یہ تمام صفات روزِاوّل سے ہمارے دل پر نقش ہیں اور ہماری روحیںاورقلوب اس کی قرارگاہ اورا ٓرام گاہ ہو چکے ہیں اور اسکی تمام صفات ہمارے دل کا مرجع اور ہمارے دل ان صفات سے مانوس ہیں.اور کفار کا خدا کے مجسم اور تین وجود ماننااور انہیں بیوی بچوں اور ماں باپ والا کہنا ان کا صرف زبانی دعویٰ ہے اور دل کو اس کے تسلیم سے کچھ حصّہ نہیں.پس اس سے بڑھ کر تکلیف دہ بات اور کیا ہوگی کہ وہ جن امور کو حق تعالیٰ کی ذات میں گمان کرتے ہیں،دل کی شہادت اس پر نہیں ہے اور اگر اس غبار سے مراد وہ غبار ہے جو تودہِ ء خاک سے حاصل ہوتاہے تو یہ امرِدیگر ہے.واضح ہو کہ ایمان لانے کے لیے دل کی شہادت ضروری ہے کیونکہ روایات کا دامن کذب سے آلودہ ہونے کا احتمال ہو سکتا ہے اور ربّانی کلام کی نشانی یہی ہے کہ اسکی تعلیمات کی سچائی پردل گواہی دے.پس خدائے کریم و رحیم جوکہ عادل و منصف ہے اسطرح کی تکلیف ما لایطاق کو جس کے صدق و کذب کا دل پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا کس طرح تجویزکرے گا.باوجودیکہ اس اعتقاد پر تمام ہندو متفق نہیں؟ ہندومؤرخین یہ کہتے ہیں کہ یہ تینوں اشخاص ہم عصر تھے اور لوگوں کے ساتھ ملتے جلتے،کھاتے پیتے ، بول وبراز کرتے تھے اور اپنی بیویوں سے تعلقات قائم کرتے نیز ان سے امورِ فواحش بھی سرزد ہوئے.چنانچہ ہنود کی کتب کے مطالعہ کرنے والوں پر یہ تمام بیان مخفی نہیں ہے.اور اس قوم کے تأویل کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ تینوں فرشتے تھے جس کا پہلے ذکر ہوچکا ہے اور ان کے دانشور کہتے ہیں کہ یہ تینوں زمانہ کے نام ہیں، اور وہ زمانہ کو تین جزو میں تقسیم کرتے ہیں.ملل ونحل اور مصنّف اور دبستان کے مصنّفین یہ کہتے ہیں کہ ہندوؤں میں سے ایک فرقہ ان تینوں اشخاص کے بارہ میں کہتا ہے کہ یہ خصیتین و آلہئِ تناسل سے تعبیر ہیں اور پھر وہ دلائل میں

Page 501

دوسروں کوساکت کردیتاہے.ہاں!  ۱؎ صفحہ اوّل کی نویں سطر میں تحریر ہے کہ یہ لو گوں کو کہتے ہیںکہ بت پرستی پر طعن کرنا غلط ہے (کیونکہ) اہل اسلام ہمارے عقائدکی حقیقت کو نہیں سمجھتے.ہم ان ہرسہ میں سے ہرایک کو مَظہرِالوہیّت اوراپنی توجہات کامرکزقراردیتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ کو مجسم ماننے کا عقیدہ ہمیشہ سے باطل ہے.پس ایساخیال کرنا فاسد پر فاسد کی بناء رکھنے کی طرح ہے.صفحہ اوّل دسویں سطر.ہندو یہ کہتے ہیں کہ ان بتوں کو آنکھوں کے سامنے رکھنا اس وجہ سے ہے کہ تا دل کو ہم پراگندگی سے بچا ئیں.میں کہتا ہوں کہ دل کی دوحرکتیں ہیں.ایک بیرونی حرکت ہے جو مبدئِ شہواتِ جسمانی ہے اور دل کی پراگندگی کاباعث ہے.منجملہ ان شہوات میں سے ایک بت پرستی ہے.دوسری اندرونی حرکت ہے جو مبدء قرب و معرفت اور اطمینان وآرام کا باعث ہے.اور نفس کی تقسیم، نفس امّارہ ،نفس لوّامہ و نفس مطمئنہ کی اسی بنیادپرہے اور دل کی پراگندگی پر مخلوق نہیں ہے ورنہ انسان عبادت کے لیے مکلف نہ ٹھہرتا.اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ :بت پرستی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ دل دید کی خواہش کرتا ہے اور ہم اس خواہش کی تکمیل بت پرستی سے کرتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ دل تو وصال خدا کا طالب ہے پس وہ شوق بجز وصال خدا کے کہاں تسکین پائے گا.یہ تو اسی مثل کے مصداق ہے کہ کسی کو پانی کی احتیاج ہو اور اس کو آگ میں پھینک دیا جائے.صفحہ۲ کی سطر۲.ہندو کہتے ہیں کہ ہم بتدریج اجسام پرستی سے دریا ئے حقیقت کے طرف جاتے ہیں اور ہمارے بت پرستش کے وقت عینک کی مانند ہیں اس سے زیادہ ہمارے نزدیک وقعت نہیں رکھتے یعنی عینک جو آنکھ کی مددگار ہے اسی طرح بُت بھی دل کے مددگار ہیں جو دل کو جلدترعرفان کے درجہ پر پہنچا دینے کا موجب ہیں.

Page 502

میں کہتا ہوں کہ اس درجہ معرفت سے کیا مراد ہے؟ اگریہ اسماء صفات باری جاننے سے تعبیر ہیں تو اس کا اجمال تو خوددل کے اندر ہی نقش ہے جس کی تفصیل کلامِ ربّانی کی پیروی سے حاصل ہوتی ہے اور اگر درجہ معرفت سے مراد دراصل فانی فی اللہ ہونا ہے جو انبیاء و اولیاء کا وصف ہے.تو جاننا چاہیے کہ وہ مقام انسان کے اختیا رسے بلند تر ہے اوراس میں حکمت و تدبیر پیش نہیں جاتی.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ تلاوت کلام ربّانی سے حق تعالیٰ کا ارادہ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ وحدت باری پر ایمان لانے اور اسکی تمام صفات کے اقرار کے لیے دستِ تقدیر نے ایک قوت انسان کے دل میں تحریرکردی ہے اور وہی قوت ایمان لانے کا باعث ہے ایک پہلو سے یہ قوت عبادت بجالانے کے لیے دی گئی ہے اور وہی فریضہ عبادت بجا لانے کا مکلف بناتی ہے جہاں تک انسان کا تعلق ہے وہ بذاتِ خود قرب و وصالِ حق کے لیے طاقت نہیں رکھتا اور انسان کو انوارِالٰہی کے حقائق کا علم حاصل کرنے کی (ذاتی طور پر) طاقت و مقدرت نہیں ہے کیونکہ خدا محکوم نہیں ہے کہ انسان کے ارادہ کے تابع ہو اور انسان حاکمِ خدا نہیں کہ انوارِ ایزدی کے خزانہ میں دخل اندازی کرسکے.پس ایک ذرہ امکان محیط العالمین کی ذاتِ والا پر کس طرح محیط ہواور ایک حقیرمخلوق ہرچیزکے پیداکرنے والے کو کس طرح دریافت کرے سوائے اسکے کہ وہ خوداپنی ذات کا جلوہ کسی کو دکھلائے اور دوسرے یہ کہ وہ خود اس کے دل کو منور کردے.لہٰذا تقاضائے رحمتِ ایزدی نے خداوندمتعال کی طرف سے خود استعانت کی اجازت بخشی.یہی مضمون ہے کہ جب بھی ہم نماز قائم کریں تو چاہیے کہ اسماء و صفات ِحق تعالیٰ کے تصورسے ہر چیز کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اپنے دل کوظلماتِ حیرت میں ڈالیں اوراس وقت اپنے خدا سے استعانت کے طلب گار بنیں کہ اے خدایا! ہم نے محسوسات کے نشیب گاہ سے حتیّ المقدور اپنے آپ کو باہر نکال کر خودکوتیرے جلال کے تصور کی طرف کھینچا ہے لیکن اپنی طاقت کے بل بوتے پر ہم اُس درگاہِ عالی تک نہیں پہنچ سکتے اب تیری مدد کے منتظر ہیں.لیکن جاننا چاہیے کہ یہ تصورِ استعانت اس طرح روح و دل کے ساتھ ظلمات حیرت میں یکجا ہو جائے کہ گویا روح و دل ہی صورتِ تصور ہے.یہ ہم بنی آدم کی انتہا درجہ کی کوشش ہے اسکے بعد معرفت کے درجہ پر پہنچانا اور اپنی طرف کھینچنا خدا کا کام ہے.چنانچہ آیتمیں اسی استعانت کی جانب

Page 503

ہے اور کفار بتوں کو اس استعانت کا مظہر جانتے ہوئے آرام واطمینانِ دل اور معرفت کے درجہ تک پہنچنے کا وسیلہ ان بتوں کوبناتے ہیں.چنانچہ انکا یہ کہنا کہ ہمارے بت عبادت کرتے وقت عینک کی طرح ہوتے ہیں ،انہی معنی پر دلالت کرتے ہیں یعنی جس طرح عینک بصارت کی مددگار ہے اور نگاہ کو ہدفِ حقیقی تک پہنچا تی ہے اسی طرح ہمارے بت بھی دل کے مددگار ہیں جو دل کو پراگندگی سے بچاتے ہیں اورقرب و معرفت کے درجہ تک پہنچا دیتے ہیں.یہ معلوم نہیں کہ حق تعالیٰ نے ازل سے روئے دل کواپنی طرف جذب کر رکھا ہے پس پراگندگی کہاں ہے جبکہ معرفت تک پہنچنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے.پس مومن اور بت پرست میں فرق اسی استعانت کا ہے.ُبت پرست کشفِ انوارِحقیقت کے لیے استعانت بتوں سے مانگتا ہے اور مدد اپنے ہاتھوں تراشیدہ بتوں سے طلب کرتا ہے اور بُت پرست کا دعویٰ ہے کہ بتوں کے توسّط سے مَیں دریائے حقیقت سے مل جاؤں گا.ہم پوچھتے ہیں کہ وہ دریائے حقیقت کتنا زیادہ ہے کیا انسان کا دل محیط العالمین کی ذات پر محیط ہوسکتا ہے؟ اے دانائے بصیر!ذرا قیاس تو کر کہ انسانی ذرّات کو قدیم الصفات (خدا) کی ذات سے کیا مطابقت اور محدود کو غیر محدود سے کیا برابری اور نہایت پذیر کو بے نہایت ذات سے کیا نسبت؟انسان کی سعی کا منتہایہ ہے کہ اپنے دل کو تمام محسوسات و مرئیات سے کنارہ کشی کرتے ہوئے تمام اشکال و اجسام کو زیرِلائے نافیہ لاتے ہوئے اُس ربّ العالمین کے جلال کے تصور سے اپنے دل کو ظلماتِ حیرت میں ڈال دے اور اس وقت ایسابھوکاا ور پیاسا اور سخت تکلیف میں ہو کہ جاں بلب ہورہا ہواور اس کوپانی،غذا اور علاج کی ضرورت ہواس طرح کشفِ انوار حقایق کے لیے درگاہ ِحق میں طلبگارہواور اپنی طرف سے کوئی چیزنہ تراشے.چنانچہ کفّار ہنود جن کی ظاہری عبادت بُت پرستی ہے اور جب وہ بُت پرستی سے ہٹ کراسے اپنے طورپر تصور کرتے ہیں اورتو اپنے ہی وہم سے انگشت برابر شعلہ کاخیال باندھ کراپنے تصورمیں رکھتے ہیں تو یہ بھی بُتپرستی کی ایک قسم ہے.(مذکورہ عقیدہ میں) یہ نہ جانتے ہوئے کہ خداانسان کا محکوم ہے یا نہیں جو انسان کے تصورکاتابع ہو.کیا وہ جو محیط العالمین ہے(وہ) انسان کے تصورمیں سماسکتا ہے ؟تیرا قیاس اس پر ہرگزمحیط نہیںہوگا.دروغ و کذب کو راستی کے محل پر لانا اور اپنے مفروضہ

Page 504

کورونقِ حقیقت بخشنا تو بت پرستوں کا شیوہ ہے.مولانامولوی رومی فرماتے ہیں: مَیں عبادت میں توبہ قبول کرنے والے جہاںکے ربّ سے ویسی ہی استعانت کا طلبگار ہوں جیسی کفا ر بتوں سے مانگتے ہیں.یہ شعر آیتکاترجمہ ہے.حاجت کا اندازہ اور حاجتمند کا قیاس.حاجتمند(مولانا مولوی رومی) تو خود اللہ تعالیٰ سے کشفِ انوارِ حقایق کی غرض سے اللہ تعالیٰ سے استعانت کے خواستگار ہوتے ہوئے بیت ثانی میں فرماتے ہیں: جو ہم پرغم سے گزری اگراونٹ پرگزرتی تو کافرجَنّۃُ الماویٰ پرَ علمَ نصب کردیتے.ظاہر ہے کہ انسان تصوّر میں ایک شعلہ کی بجائے ہزار شعلے قائم کر سکتا ہے کونسی مشکل آن پڑی ہے(کہ ایک پر ہی بس کرے.مترجم).کیونکہ نہ روح کو احساسِ درد ہے نہ دل کو جلنے کی تکلیف.جعل و فریب کے راستے کھلے ہیں ایک شعلہ تک محدود نہیں مگر اہل اسلام کی عبادات اپنے اوپرموت وارد کرلینا ہے کہ عاشق صادق اور متلاشی کو اس یار حقیقی کی تلاش میں اندر اور باہر اپنے دل کو ظلمات کے دریا سے آشنا کرنا اور روح و تن کودرد وغم میں پگھلانا اور آنکھوں سے نینداڑا دینا اور روح ودل کابے قراریوں میں مستغرق کرنا اس راہ میں جلنا اور چارہ جوئی کرنااور درحقیقت غموں کے پہاڑ اٹھانا اور دل مہجور سے ہائے ہائے کی آواز نکلنا اور مرنے سے پہلے مرنا اور بیکراں غم و درد کاپیکرہوجانا ہے.غرض یہ کہ میں کیونکران کیفیات کو تحریر کروں.پس اس عادل ومقدس نے دلوں کا دلوں سے تعلق رکھاہے کیا وہ اپنے ایسے طالب سے بیخبرہوگا؟کیا و ہ اپنے ہاتھ کو دراز کرکے اس طرح کے جانبازبندہ کو اپنی طرف نہیں کھینچے گا؟پس اب منصف مزاج از خود تأمل کرے کہ عشق و محبت و دردمندی کا یہ طریق کہ روح ودل کو جلوہ انوارِحقیقی کی آرزو میں جلانا اور خودکو رنج و تکلیف سے دوچار کرنا حق و راست ہے یا وہ طریق کہ اپنے دجل وفریب سے دل میں ایک شعلے کا تصور باندھنا جس سے نہ روح میں احتراق ہے اورنہ ہی دل میں سوزوگداز.ظاہر ہے کہ اس شعلہ کی اصل دروغ و باطل پرہے کیونکہ خدا تعالیٰ ہمارے تصور کا تابع نہیں اور نہ ہی ذات محیط السّماوات انسان کے تصور میں سما سکتی ہے.پس وہ قلبی عبادت جو رَبُّ الْعَالَمِیْنکو زیباہے اس میں شعلہ کاکام قراردینا کفرہے.اب میں چاہتا

Page 505

ہوں کہ اپنے اس مختصر جوابِ کلام کوختم کروں.سوال یہ ہے کہ بُت پرستی کی تعریف کیا ہے؟اب میرے نکتہ کلام کو غور سے سن کرسمجھنا چاہیے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بتوں کوآنکھوں کے سامنے رکھنا کفارکے زُعم میں ایک مقصد کے حصول کے لیے ہے اور شریعت کی زبان میں اسی غرض کا نام استعانت ہے.ارشادِ باری تعالیٰ ہے.پس ان آیات ربّانی کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کوئی جو عبادت تومیری کرے اوراستعانت بُت سے طلب کرے تو اس نے درحقیقت بُت کی پوجا کی.کیونکہ میں تو محتاجِ عبادت نہیں ہوں یعنی وجوبِ عبادت انسان کی حاجت روائی کے لیے ہے کیونکہ عبادت کے معنی مدد طلب کرنا اور اس مددکا شکر بجا لانا ہے اور اگر انسان کو مدد من جانب اللہ نہ پہنچے تو ہلاک ہو جائے.لہٰذاکلام اللہ میں یہ تحریر ہے کہ عبادت باعثِ حیاتِ انسان اورموجبِ بقائے بنی آدم ہے.اگرغیب سے ہردم مدد نہ پہنچے توتُو ایک لمحہ کے لیے بھی از خود قائم نہیں رہ سکتا.اور انسان راستی ،میانہ روی، استقامتِ دل اور وصالِ حق کے لیے زیادہ تر محتاجِ استعانت ہے.پس اگر انسان کہے کہ میری یہ حاجت بُت کی دستگیری اوراعانت سے پوری ہوئی ہے تو اس انسان نے خوداپنی عبادت کی اور خدا کوایک متاع کے طور پرفرض کیا جو وسیلہ بُت سے دستیاب ہوگا.فقط ٭

Page 506

مکتوب بنام پنڈت حکیم سنت رام صاحب پنڈت لیکھرام کے قتل کے بعد جب آریہ سماج کی طرف (سے)یہ شور مچایا جانے لگا کہ یہ قتل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سازش کا نتیجہ ہے.تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اشتہار شائع کیا.جس میں آریوں کو دعوت دی کہ اگر تمہیں اس افتراء پر اصرار ہے تو موکد بعذاب قسم کھائیں.اس پر تین چار آریہ صاحبان قسم کھانے پر آمادہ ہوئے جن میں سے ایک پنڈت حکیم سنت رام آریہ مسافر اپدیشک آریہ سماج تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ان کے ایک خط کے جواب میں ان کو مندرجہ ذیل مکتوب لکھا تھا.جو آج تک احمدیہ لٹریچر میں شائع نہیں ہوا.لیکن حکیم سنت رام مذکور نے اپنے ایک رسالہ مسمّٰی ازالہ اوہام احمدیہ حصہ اوّل کے ضمیمہ صفحہ ۲ پر درج کیا ہے جہاں سے ہم اسے نقل کر کے شائع کر رہے ہیں.(خاکسارملک فضل حسین احمدی مہاجر) مکتوب مشفقی حکیم سنت رام صاحب بعد ما وجد آپ کا رجسٹری شدہ خط پہنچا.آپ نے اگر میرے اشتہار کے منشاء کے موافق قسم کھانے کا ارادہ کیا ہے تو نہایت عمدہ بات ہے.یقین ہے کہ اس … اصولوں پر بہت روشنی پڑے گی.اس کام میں کوئی مشکل امر نہیں ہے.آپ مفصلہ ذیل اقرارنامہ مؤکد بحلف دس معزز آریہ سماج والوں کی گواہی سے جن میں سے کم سے کم پانچ لاہور کے رہنے والے ہوں.بذریعہ اشتہار شائع کر دیں اور پھر قادیان میں آکر نمونہ مندرجہ اشتہار کے موافق بالمواجہ بھی قسم کھا لیں.تب وہ عہد میرے ذمہ ہو جائے گا جس کا میں نے اشتہار میں اقرار کیا ہے اور نمونہ اقرار نامہ آپ کی طرف سے ہو گا.(جو) یہ ہے.میں فلاں بن فلاں قوم فلاں ساکن دیہہ فلاں ضلع فلاں اس وقت اپنے حواس کی قائمی اور پورے

Page 507

یقین کے ساتھ پرمیشور کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ پنڈت لیکھرام مرزا غلام احمد قادیان کی سازش اور مشورہ یا صلاح یا ان کے علم اور واقفیت سے جو کسی انسان کی طرف سے ان کو حاصل ہوا ہے قتل ہوا ہے اور یہ پیشگوئی جو خدا کی طرف سے بیان کی جاتی ہے یہ بالکل جھوٹ ہے.اگر میں اپنے اس بیان میں اس خدا کے نزدیک جھوٹا ہوں.جو مجرم اور … کو بے سزا نہیں چھوڑتا.تو میں دعا کرتا ہوں کہ وہ سچا قادر مجھے ایک برس کے اندر موت دے اور وہ موت قتل کے ذریعہ سے نہ ہو.بلکہ ہیضہ اور طاعون یا مہلک بیماری و حادثہ یا بجلی گرے.تحریر تاریخ.گواہ uشد.گواہ vشد.گواہwشد.گواہx شد.گواہ yشد.گواہz شد.گواہ{ شد.گواہ |شد.گواہ} شد.گواہut شد.ان خالی مدوں میں دس آریوں کی گواہی ہو گی.جب یہ اشتہار شائع کئے جائیں تو کم سے کم  پرچہ اشتہار سے میری طرف بھی بھیج دیں اور پھر بلا توقف تاریخ اشتہار سے تین دن کے اندر قادیان میں آکر بالمواجہ قسم کھائیں.یہ پختہ کارروائی اس لئے ہے کہ تا پیچھے سے لوگ اعتراض نہ کریں کہ کارروائی خفیہ طور پر ہوئی ہے اور ایک سال کی میعاد کم نہیں ہو سکتی.کیونکہ وہ الہامی امر ہے.میں نے اس غرض سے پہلے ہی جو ان اور تندرست آدمی کی قید لگا دی ہے.موت خدا کے اختیار میں ہے.آپ کااگر سچا مذہب اور سچ پر قسم کی ہو گی تو پرمیشور ضرور ٹال دے گا.اگر نیت نیک ہے تو اب جلدی کرنی چاہیے.فقط٭ مورخہ ۱۱۵؎؍مارچ ۱۸۹۷ء الراقم مرزا غلام احمد قادیان ضلع گورداسپور (منقول از ازالۂ اوہام احمدیہ حصہ اوّل.مصنفہ حکیم سنت رام آریہ مسافر مطبوعہ ۱۸۹۸ء لاہور)

Page 508

Page 509

Page 510

مکتوب جھانسی سے ایک دوست کا خط حضرت کی خدمت میں آیا جس میں یہ دریافت کیا گیا تھا کہ ’’پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم کا سایہ تھا یا کہ نہیں.بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ سایہ حضور پرُ نور کا زمین پر نہیں گرتا تھا‘‘ اس خط کے جواب میں حضرۃ نے تحریر فرمایا.’’یہ امر کسی حدیث صحیح سے ثابت نہیں ہوتا اور نہ کسی ثقہ مورخ نے لکھا ہے جو معجزات محدّثین نے اپنی کتابوں میں جمع کئے ہیں ان میں اس کا ذکر نہیں‘‘.٭ مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ --------------------- ایک شخص نے تحریر کیا کہ یہاں اور بہت لوگوں کو الہام ہوتا ہے مجھ کو خواب تک نہیں آتی.آپ دعا کریں کہ مجھ کو بھی الہام ہوا کریں کیونکہ میری عمر کا ایک بہت بڑا حصہ اس میں گزرا ہے.اس لئے کوئی ایسی بات بتائیں جس سے میری مراد پوری ہو جائے اس پر جو حضرت صاحب نے حکم تحریر کیا ہے.اس قابل ہے کہ ناظرین … بھی اس سے مطلع کئے جائیں کیونکہ یہ اس امام برحق کے الفاظ ہیں جس کا ایک ایک لفظ ہمارے لئے جو اہرات سے بڑھ کر قیمت رکھتا ہے.ایڈیٹر مکتوب السلام علیکم الہام خدا تعالیٰ کا فعل ہے.بندہ کی الہام میں فضیلت نہیں بلکہ اعمال صالحہ میں فضیلت ہے اور اس میں کہ خدا تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے سو نیک کاموں میں کوشش چاہئے تاکہ موجب نجات ہو.٭ ٭ والسلام مرزا غلام احمد

Page 511

اپنی جماعت کے ایک دوست نے اپنے بعض الہامات اور پھر ان میں ایک وقت شیطانی دخل کا اور اپنی خوابوں اور مکاشفات کا ذکر کرتے ہوئے ایک تحریر حضرت اقدس مسیح موعود کی خدمت میں بھیجی جس کے جواب میں حضرت اقدس نے ان کو ایک خط لکھا ہے جس میں وضاحت کے ساتھ حضور نے بیان فرمایا ہے کہ سچا الہام کن لوگوں کو ہو سکتا ہے.عام فائدہ کے واسطے وہ خط شائع کیا جاتا ہے.مکتوب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میں نے یہ تمام خط پڑھ لیا ہے.میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ انسان مکالمات الٰہیہ سے مشرف ہو سکتا ہے.ہاں میں یہ کہتا ہوں کہ یہ بڑا مشکل امر ہے.جب تک انسان فناء کی حالت تک نہ پہنچے اور وہ خدا کی سخت آزمائشوں کے وقت صادق نہ ٹھہرے اور کئی موتیں اس پر وارد نہ ہوں اور کئی قسم کی تلخیاں خدا کی راہ میں نہ اٹھاوے اور جب تک کہ ہر ایک قسم کی نفس پرستی اور عُجب یا شہرت کی خواہش اس سے دور نہ ہو اور جب تک کہ سچی تبدیلی اس میں پیدا نہ ہو اور جب تک کہ خدا کی رضا جوئی کے نیچے ایسا محو نہ ہو کہ کچھ بھی نہ رہے اور جب تک کہ وہ خدا کو وہ استقامت نہ دکھاوے کہ بارش کی طرح اس پر بلائیں برسیں اور وہ صابر رہے اور جب تک کہ اس کا حقیقی تعلق خدا سے نہ ہو جاوے کہ تمام نفسانی پرَوبال جھڑ جاویں اور تمام سفلی خواہشیں جل جاویں اور جب تک کہ نفس لوّ امہ کا جنگ ختم نہ ہو جائے اور جب تک یہ آگ اس میں پیدا نہ ہو کہ وہ خدا کی رضا کو اپنی تمام اور کامل مراد بناوے اور دوسری تمام مرادیں درحقیقت معدوم ہو جاویں اور جب تک کہ ایک تپش اور خلش لازمی طور پر خدا کی محبت میں اس کے سینے میں پیدا نہ ہو جائے اور جب تک کہ وہ درحقیقت خدا کے لئے ذبح نہ ہو جائے اور جب تک کہ اس کی ہستی پر ایک بھاری انقلاب نہ آوے اور جب تک کہ وہ خدا کے مقابل پر سخت امتحانوں کے وقت اور اس کے جلال ظاہر کرنے کے لئے ہر ایک لحظہ میں اور ہر ایک حالت میں

Page 512

فدا ہونے کے لئے طیار نہ ہو اور جب تک کہ ریا کی تمام جڑیں اور عُجب کی تمام جڑیں اور نفسانی غضب کی تمام جڑیں اور نفسانی حسد کی تمام جڑیں اور نفسانی خود نمائی کی تمام جڑیں اس کے دل سے بکلّی دور نہ ہو جاویں اور جب تک کہ خدا کی مہیمنت ایسے زور سے اس پر اثر نہ کرے کہ دوسرے تمام وجود ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح محسوس ہوں نہ ان کی ستائش سے خوش ہو نہ ان کی مذمت سے رنج پہنچے اور جب تک کہ ایک سچی اور پاک قربانی اپنے تمام وجود اور تمام قوتوں کی خدا کے سامنے پیش نہ کرے اور جب تک کہ نہ معمولی روح سے بلکہ اس کے ساتھ زندہ ہو اور جب تک کہ اس کے لئے ہر ایک تباہی اپنے ہاتھ سے کرنے کے لئے طیار نہ ہو اور جب تک سچی اور کامل محبت آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اس میں پیدا نہ ہو اور جب تک کہ وہ سچے اور کامل طور پر اعلاء کلمۃ الاسلام پر عاشق نہ ہو تب تک ہرگز ہرگز مکالماتِ الٰہیہّ سے مشرف نہیں ہو سکتا.اسی کی طرف خدا تعالیٰ نے ان دو مختصر لفظوں میں اشارہ فرمایا ہے..۱؎ ایسے لوگوں کی دماغی بناوٹ بھی ایک خاص ہوتی ہے.جس قدر ان پر غم پڑتے ہیں اور جسقدر وہ متواتر نہایت سنگین امتحانوں کے ساتھ آزمائے جاتے ہیں اور ایک لمبا سلسلہ ناکامی کا دیکھنا پڑتا ہے اور کسی شخص کا دل اور دماغ ایسا نہیں ہوتا اور اگر ان کے مسلسل غموں میں سے کچھ تھوڑا غم بھی دوسرے پر پڑے تو یا تو وہ مر جاتا ہے اور یا دیوانہ ہو جاتا ہے.پس مکالماتِ الٰہیہّ کی اپنے نفس سے خواہش نہیں ظاہر کرنی چاہئے خواہش کرنے کے وقت شیطان کو موقعہ ملتا ہے اور ہلاک کرنا چاہتا ہے بلکہ اپنا مدّعا اور مقصود ہمیشہ یہ ہونا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق تزکیہ نفس حاصل ہو اور ا س کی مرضی کے موافق تقویٰ حاصل ہو اور کچھ ایسے اعمال حسنہ میسر آ جاویں کہ وہ راضی ہو جائے.پس جس وقت وہ راضی ہو گا تب اس وقت ایسے شخص کو اپنے مکالمات سے مشرف کرنا اگر اس کی حکمت اور مصلحت تقاضا کرے گی تو وہ خود عطا کر دے گا.لیکن اصل مقصود اس کو ہرگز نہیں ٹھہرانا چاہییٔ کہ یہی ہلاکت کی جڑ ہے بلکہ اصل مقصود یہی ہونا چاہیے کہ قرآن شریف کی تعلیم کے موافق احکام الٰہی پر پابندی نصیب ہو اور تزکیہ نفس حاصل ہو اور خدا تعالیٰ کی محبت اور عظمت دل میں بیٹھ جائے اور گناہ سے نفرت ہو.خدا نے بھی یہی دعا سکھائی ہے کہ 

Page 513

 ۱؎ الشمس : ۱۰ ، ۱۱ پس اس جگہ خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ تم یہ دعا کرو کہ ہمیں الہام ہو بلکہ یہ فرمایا ہے کہ تم یہ دعا کرو کہ راہ راست ہمیں نصیب ہو.ان لوگوں کے راہ جو آخر کار خدا تعالیٰ کے انعام سے مشرف ہو گئے.بندہ کو اس سے کیا مطلب ہے کہ وہ الہام کا خواہشمند ہو اور نہ بندہ کی اس میں کچھ فضیلت ہے بلکہ یہ تو خدا تعالیٰ کا فعل ہے نہ بندہ کا کوئی عمل صالح تا اس پر اجر کی توقع ہو اور پھر جبکہ انسان کے ساتھ یہ آفتیں بھی لگی ہوئی ہیں کہ کبھی حدیث النفس میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اسی کو الہام سمجھنے لگتا ہے اور کبھی شیطان کے پنجہ میں پھنس جاتا ہے اور اسی کو الہام سمجھنے لگتا ہے.پس کس قدر یہ خطرناک راہ ہے.بغیر خدا کی زبردست شہادتوں کے ایسے الہام کب قبول کے لائق ہیں.سخت بدقسمت وہ لوگ ہوتے ہیں کہ کبھی اپنی حالت کا مطالعہ نہیں کرتے کہ کن کن باتوں میں وہ خدا کے نزدیک پاس یافتہ ٹھہر سکتے ہیں اور کن کن آزمائشوں کے بعد ان کا صدق خدا کے نزدیک ثابت ہو سکتا ہے.ان سخت گھاٹیوں کے طے کرنے سے پہلے ہی الہام کے خواہشمند ہو جاتے ہیں.اس سے پرہیز کرنا چاہییٔ اور توبہ اور استغفار میں مشغول ہونا چاہییٔ.الہام بغیر پورے تقویٰ اور پوری جاں فشانی اور پوری محویت کے طبل تہی ہے اور سخت خطرناک اور زہرقاتل ہے انسان جس سے قریب ہوتا ہے اسی کی آواز سنتا ہے.پس پہلے خدا سے قریب ہو جائو اور شیطان سے دور تا خدا کی آواز سنو.٭ خاکسار مرزا غلام احمد

Page 514

بدر نمبر۴۷ جلد۶ مورخہ ۲۱؍نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۸ مکتوب محبیّ اخویم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میں ایک مدت سے بیماریوں میں رہا اور اب بھی ان کا بقیہ باقی ہے.میں چاہتا تھا کہ اپنے ہاتھ سے جواب لکھوں مگر بباعث بیماری کے لکھ نہ سکا.آپ کے پہلے خط کا ماحصل جس قدر مجھ کو یاد ہے یہ ہے کہ میری نسبت آپ نے … کی جماعت کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا تھا کہ روپیہ کے خرچ میں بہت اسراف ہوتا ہے.آپ اپنے پاس روپیہ جمع نہ رکھیں اور یہ روپیہ ایک کمیٹی کے سپرد ہو جو حسب ضرورت خرچ کیا کریں اور یہ بھی ذکر تھا کہ اسی روپیہ میں سے باغ کے چند خدمتگار بھی روٹیاں کھاتے ہیں اور ایسا ہی اور کئی قسم کے اسراف کی طرف اشارہ تھا جن کو میں سمجھتا ہوں.آپ نے اپنی نیک نیتی سے جو کچھ لکھا بہتر لکھا.میں ضروری نہیں سمجھتا کہ اس کا رد لکھوں.میں آپ کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں جس کی قسم کو پورا کرنا مومن کا فرض ہے اور اس کے خلاف ورزی معصیت ہے کہ آپ… کی تمام جماعت کو اور خصوصاً ایسے صاحبوں کو جن کے دلوں میں یہ اعتراض پیدا ہوا ہے ، بہت صفائی سے اور کھول کر سمجھا دیں کہ اس کے بعد ہم… کا چندہ بکلّی بند کرتے ہیں اور ان پر حرام ہے اور قطعاً حرام ہے اور مثل گوشت خنز یر ہے کہ ہمارے کسی سلسلہ کی مدد کے لیے اپنی تمام زندگی تک ایک حبہّ بھی بھیجیں.ایسا ہی ہر شخص جو ایسے اعتراض دل میں مخفی رکھتا ہے اس کو بھی ہم یہی قسم دیتے ہیں.یہ کام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جس طرح وہ میرے دل میں ڈالتا ہے خواہ وہ کام لوگوں کی نظر میں صحیح ہے یا غیر صحیح درست ہے یا غلط میں اسی طرح کرتا ہوں.پس جو شخص کچھ مدد دے کر مجھے اسراف کا طعنہ دیتا ہے وہ میرے پر حملہ کرتا ہے ایسا حملہ قابلِ

Page 515

برداشت نہیں.اصل تو یہ ہے کہ مجھے کسی کی بھی پروا نہیں.اگر تمام جماعت کے لوگ متفق ہو کر چندہ بند کر دیں یا مجھ سے منحرف ہو جائیں تو وہ جس نے مجھ سے وعدہ کیا ہوا ہے وہ اورجماعت ان سے بہتر پیدا کردے گا جو صدق اور اخلاص رکھتی ہو گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے.یَنْصُرُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ.۱؎ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ.۲؎ یعنی خدا تیری اپنے پاس سے مدد کرے گا.تیری وہ مدد کریں گے جن کے دلوں میں ہم آپ وحی کریں گے اور الہام کریں گے.پس اس کے بعد میں ایسے لوگوں کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح بھی نہیں سمجھتا جن کے دلوں میں بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں اور کیا وجہ کہ انہیں جبکہ میں ایسے خشک دل لوگوں کو چندہ کے لئے مجبور نہیں کرتا جن کا ایمان ہنوز ناتمام ہے.مجھے وہ لوگ چندہ دے سکتے ہیں جو اپنے سچے دل سے مجھے خلیفۃ اللہ سمجھتے ہیں اور میرے تمام کاروبار خواہ ان کو سمجھیں یا نہ سمجھیں ان پر ایمان لاتے اور ان پر اعتراض کرنا موجب سلب ایمان سمجھتے ہیں.میں تاجر نہیں کہ کوئی حساب رکھوں.میں کسی کمیٹی کا خزانچی نہیں کہ کسی کو حساب دوں.میں بلند آواز سے کہتا ہوں کہ ہر ایک شخص جو ایک ذرہ بھی میری نسبت اور میرے مصارف کی نسبت اعتراض دل میں رکھتا ہے اس پر حرام ہے کہ ایک کوڑی میری طرف بھیجے.مجھے کسی کی پروا نہیں جبکہ خدا مجھے بکثرت کہتا ہے گویا ہر روز کہتا ہے کہ میں ہی بھیجتا ہوں جو آتا ہے اور کبھی میرے مصارف پر وہ اعتراض نہیں کرتا تو دوسرا کون ہے جو مجھ پر اعتراض کرے.ایسا اعتراض آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی تقسیم اموال غنیمت کے وقت کیا گیا تھا.سو میں آپ کو دوبارہ لکھتا ہوں کہ آئندہ سب کو کہہ دیں کہ تم کو اس خدا کی قسم ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور ایسا ہی ہر ایک جو اس خیال میں اس کا شریک ہے کہ ایک حبہّ بھی میری طرف کسی سلسلہ کے لئے کبھی اپنی عمر تک ارسال نہ کریں پھر دیکھیں کہ ہمارا کیا حرج ہوا.اب قسم کے بعد میرے پاس نہیں کہ اور لکھوں.٭ خاکسار مرزا غلام احمد

Page 516

تذکرہ صفحہ ۳۹ ایڈیشن ۲۰۰۴ء ۲؎ تذکرہ صفحہ ۵۳۵ ایڈیشن۲۰۰۴ء ٭ الحکم نمبر ۱۱ جلد۹ مورخہ ۳۱؍مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۸،۹ مکتوب (ایک صاحب نے حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ حقہ پینا کیسا ہے؟ حضور نے ان کو یہ جواب ارقام فرمایا) مکرمی السلام علیکم حقہّ پینا ناپسند امر ہے.گو حرام نہیں لیکن لغو اور داخل اسراف ہے اور نقصان دہ شے ہے.پس ہر ایک احمدی کو اس سے اجتناب لازمی ہے.٭ ـــــــــــــمکتوب (حضرت مسیح موعود ؑکا ایک دستی خط جو کہ ایک کارڈ پر ہے اور ایک صاحب کے کسی سوال کے جواب میں ہے.ایک شیشہ کے اندر چوکھٹے میں لگا رکھا ہے اس میں لکھا ہے) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ جو کچھ خیال اعتراض کے طور پر کیا گیا تھا.وہ خیال راست نہیں.انجیل سے تو خود ثابت ہوتا ہے کہ آنے والا مسیح اور ہے جیسا کہ آنے والا الیاس اور تھا اور کسی حدیث میں یہ نہیں لکھا ہے کہ مسیح آسمان پر گیا.حدیث سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح مر گئے جیسا کہ حدیث معراج سے ثابت ہے اور پھر قرآن شریف سے بڑھ کر اور کونسی حدیث ہے اور کونسی کتاب ہے.وہاں صاف لکھا ہے..۱؎ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آسمان سے ہی نازل ہوتا ہے.٭٭ ۲۶؍نومبر ۱۹۰۷ء والسلام

Page 517

الفضل قادیان دارالامان نمبر۹ جلد۳مورخہ ۱۳؍جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ۲ ۱؎ المائدۃ : ۱۱۸ ٭٭ بدرقادیان نمبر۵۱،۵۲ جلد۹مورخہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ۱۲ مکتوب (ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں اپنی حالت زار پیش کر کے دعا کے واسطے درخواست کی.حضرت نے اس کو مفصلہ ذیل جواب تحریر فرمایا) ’’ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ذوق شوق عبادت اور حضور نماز وغیرہ حالات کے بارے میں صرف یہ طریق رکھنا چاہییٔ کہ ہمیشہ نماز میں اپنے لئے دعا کریں.خدا تعالیٰ کے کام بہت آہستگی سے ہوتے ہیں وہ جلدباز کو پسند نہیں کرتا.جس طرح یہ امر خطرناک ہے کہ انسان کا دل گناہ سے سرد نہ ہو عبادت کا مزہ نہ آوے.اس سے بڑھ کر یہ امر خطرناک ہے کہ انسان جلدی کرے اور خدا کو آزماوے بلکہ چاہییٔ کہ انسان سچے دل سے توبہ اور استغفار میں لگا رہے.گو دعا میں بیس برس گزر جاویں اور کوئی نشان قبولیت دعا کا ظاہر نہ ہو.خدا تعالیٰ بے نیاز ہے.صبر کے ساتھ ہر ایک کو اس کا پھل دیتا ہے اور میں تو اپنی نماز میں اپنی جماعت کے ہر ایک فرد کے لئے عا کرتا رہتا ہوں.کسی وقت تو دعا سن لے گا.‘‘ ٭ مکتوب (ایک شخص نے اپنے مصائب اور تکالیف کو ناقابل برداشت بیان کرتے ہوئے ایک لمبا خط حضرت صاحب کی خدمت میں لکھ کر یہ ظاہر کیا کہ میں بہ سبب ان مصائب کے ایسا تنگ ہوں کہ خودکشی کا ارادہ رکھتا ہوں.حضرت نے جواب میں اس کو لکھا کہ) ’’خود کشی کرنا گناہ ہے اور اس میں انسان کے واسطے کچھ فائدہ اور آرام نہیں ہے کیونکہ مرنے سے انسان کی زندگی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا بلکہ ایک نئے طرز کی زندگی شروع ہو جاتی ہے.اگر انسان اس دنیا میں تکالیف میں ہے تو خدا تعالیٰ کی نارضامندیوں کو ساتھ لے کر اگر دوسری طرف چلا جائے گا تو وہاں کے مصائب اور تلخیاں اس جگہ کی مرارت سے بھی بڑھ کر ہیں.پس ایسی خودکشی اس کو کیا فائدہ دے گی.

Page 518

انسان کو چاہییٔ کہ صبرکے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا مانگنے میں مصروف رہے اور اپنی حالت کی اصلاح میں کوشش کرے.اللہ تعالیٰ جلد رحم کر کے تمام بلائوں اور آفتوں سے اس کو نجات دے گا.‘‘٭٭ ٭ ، ٭٭ بدر نمبر۳۰ جلد۲ مورخہ۲۶؍جولائی۱۹۰۶ء صفحہ۹ مکتوب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اجازت ہے.خدا تعالیٰ آپ کے ترددات معاش دور کرے اور ہر طرح کامیابی نصیب کرے.آمین.باقی خیریت ہے.٭ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب (ایک صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں خط لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ نماز کس طرح پڑھنی چاہییٔ اور تراویح کے متعلق کیا حکم ہے اور سفر میں نماز کا کیا حکم ہے اور کچھ اپنے ذاتی معاملات کے متعلق دعا کرائی تھی.اس کے جواب میں حضرت نے تحریر فرمایا) السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ نماز وہی ہے جو پڑھی جاتی ہے.صرف تضرع اور انکسار سے نماز ادا کرنی چاہئے اور دین دنیا کے لئے نماز میں بہت دعا کرنی چاہئے خواہ اپنی زبان میں دعا کرلیں اور تمہارے قرضہ کے لئے انشاء اللہ دعا کروں گا.یاد دلاتے رہیں.لڑکے کے لئے بھی دعا کروں گا.سفر میں دوگانہ سنت ہے.تراویح بھی سنت ہے پڑھا کریں اور کبھی گھر میں تنہائی میں پڑھ لیں.کیونکہ

Page 519

Page 520

(اخبار کی قیمت اگرپیشگی وصولی کی جاوے تو اخبار کے چلانے میں سہولت ہوتی ہے جو لوگ پیشگی قیمت نہیں دیتے اور بعدکے وعدے کرتے ہیں.ان میں سے بعض تو صرف وعدوں پر ہی ٹال دیتے ہیں اور بعض کی قیمتوں کی وصولی کے لئے باربار کی خط و کتابت میں اور ان سے قیمتیں لینے کے واسطے یادداشتوں کے رکھنے میںاس قدر د ّقت ہوتی ہے کہ اس زائد محنت اور نقصان کو کسی حد تک کم کرنے کے واسطے اور نیز اس کا معاوضہ وصول کرنے کے واسطے اخبار بدر کی قیمت مابعد نرخ میں ایک روپیہ زائد کیا گیا ہے یعنی مابعد دینے والوں سے قیمت اخبار بجائے  (تین روپے)کے (چار روپے) وصول کئے جائیں گے.اس پر ایک دوست لائل پور نے دریافت کیا ہے کہ کیا یہ صورت سود کی تو نہیں ہے؟ چونکہ یہ مسئلہ شرعی تھا.اس واسطے مندرجہ بالا وجوہات کے ساتھ حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں پیش کیا گیا اس کا جواب جو حضرت نے لکھا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے.) مکتوب السلام علیکم میرے نزدیک اس سے سوُد کو کچھ تعلق نہیں.مالک کا اختیار ہے جو چاہے قیمت طلب کرے.خاص کر بعد کی وصولی میں ہرج بھی ہوتا ہے.اگر کوئی شخص اخبار لینا چاہتا ہے تو وہ پہلے بھی دے سکتا ہے.یہ امر خود اس کے اختیار میں ہے.٭ والسلام مرزا غلام احمد ٭ بدر جلد۶ نمبر۷ مورخہ ۱۴؍فروری۱۹۰۷ء صفحہ ۴

Page 521

(مدت سے ایک افغان ایک ایسے علاقہ کا رہنے والا جہاں اپنا عقیدہ و ایمان کے اظہار موجب قتل ہو سکتا ہے.اس جگہ قادیان میں دینی تعلیم کے حصول کے واسطے آیا ہوا ہے.حال میں اس کے والدین نے اس کو اپنے وطن میں طلب کیا ہے.اب اس کو ایک مشکل پیش آئی کہ اگر وطن کو جائے تو خوف ہے کہ مبادا وہاں کے اس بات سے اطلاع پا کر کہ یہ شخص خونی مہدی اور جہاد کا منکر ہے.قتل کے درپے ہوں اور اگر نہ جاوے تو والدین کی نافرمانی ہوتی ہے.پس اس نے حضرت سے پوچھا کہ ایسی حالت میں کیا کروں.حضرت نے جواب میں فرمایا) مکتوب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ چونکہ در قرآن سیر تلف درآن امور کہ مخالف شریعت نہ باشند.حکم اطاعت والدین است.لہٰذا بہتر است کہ این قدر اطاعت کنند کہ ہمراہ شان روند و آن جا چو محسوس شود کہ اندیشہ قتل یا حبس است.بلاتوقف باز بیأیند.چراکہ خود را درمعرض ہلاک انداختن جائز نیست.ہم چنین مخالفت والدین ہم جائز نیست.پس درین صورت ہر دو حکم قرآن شریف بجاآوردہ مے شود.٭ والسلام مرزا غلام احمد ترجمہ ازناشر السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ چونکہ قرآن شریف میں ان امور جو شریعت کے مخالف نہیںہیں ان میں والدین کی اطاعت کا حکم ہے.لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس قدر اطاعت کریں کہ جو ان کے ہمراہ چلے اور جس جگہ ایسا محسوس ہو کہ قتل یا قید کا اندیشہ ہو بلاتوقف اس سے رُک جائیں کیونکہ اپنے آپ کو معرضِ ہلاکت میں ڈالنا جائز نہیں ہے اورایسے کاموں میں والدین کی مخالفت بھی جائز ہے.پس اس صورت میں قرآن کریم کے ہر دو احکام کی تعمیل ہوتی ہے.والسلام مرزا غلام احمد ٭ بدر نمبر۷ جلد۶ مورخہ ۱۴؍فروری۱۹۰۷ء صفحہ ۴

Page 522

مکتوبژ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ہمہ مکتوب شما خواندم خدا تعالیٰ شمارا شفاء بخشد انشاء اللہ دعا خواہم کرد و برعایت اسباب معالجہ خود از اخویم مولوی حکیم نور الدین صاحب …… و بعد از چند وم انشاء اللہ صاحب بیعت ہم خواہد شد.٭ والسلام مرزا غلام احمد ترجمہ از ناشر السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کے تمام خطوط میں نے پڑھ لئے ہیں.خدا تعالیٰ آپ کو شفا عطا فرمائے.انشاء اللہ دعا بھی کروں گا اور اسباب کی رعایت کرتے ہوئے اپنا معالجہ اخویم مولوی حکیم نور الدین صاحب سے( کروالیں) اور چند دنوں کے بعد انشاء اللہ بیعت بھی ہو جائے گی.والسلام مرزا غلام احمد ٭ سیرت حضرت عبد الستار خان افغان ؒ از عبد الرحیم خان عادل مولوی فاضل صفحہ ۱۱۲

Page 523

Page 524

مکتوب میاں محمد دین احمدی کباب فروش لاہور (حال ساکن موضع دھورہ ڈھیری بٹاں ریاست جموں) نے ایک عریضہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا جس میں لکھا تھا.’’ یا حضرت میں نے چند روز سے محض رضائے الٰہی کے لئے جناب باری تعالیٰ میں یہ دعا شروع کی ہے کہ میری عمر میں سے دس سال حضرت اقدس مسیح موعود کو دی جاوے کیونکہ اسلام کی اشاعت کے واسطے میری زندگی ایسی مفید نہیں.کیا ایسی دعا مانگنا جائز ہے؟‘‘.حضرت اقدس نے جواب میں تحریر فرمایا.’’ایسی دعا میں مضائقہ نہیں بلکہ ثواب کا موجب ہے.‘‘ ٭ اطلاع (ہر دو کتب دفتر بدر ایجنسی سے مل سکتی ہیں.چشمہ مسیحی.لغات القرآن. (دو روپے آٹھ آنے )یک ہزار صفحہ) سید عبدالحی عرب صاحب نے میری کتاب چشمہ مسیحی کو عام فائدہ کے لئے دوبارہ چھپایا ہے اور درحقیقت ان کتابوں کا عام طور پر ملک میں شائع ہونا ضروری ہے.پس اگر کوئی صاحب ہمت خرید کر کے عام لوگوں میں تقسیم کرے تو انشاء اللہ موجب ثواب ہو گا.عیسائی پادری ہر ایک رسالہ بیس۲۰ بیس۲۰ ہزار چھپوا کرشائع کرتے ہیں.سو افسوس یہی ہے کہ دنیا کو ہماری تالیفات بہت ہی کم ملتی ہیں.دوسرے صاحب موصوف نے جو عربی زبان رکھتے ہیں.لغات القرآن ایک کتاب تالیف کی ہے.میری دانست میں وہ کتاب بھی مفید ہے.ہر ایک پر لازم ہے کہ قرآن شریف کے سمجھنے کے لئے خاص توجہ کرے.کیونکہ دینی علوم کا یہی خزانہ ہے اور علم لغات قرآن ضروری ہے.٭ ٭ والسلام میرزا غلام احمد ٭ ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۲۲۹ ٭٭ بدر نمبر۳۲ جلد۶ مورخہ ۸؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۹

Page 525

اطلاع بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ میں بڑی خوشی سے یہ چند سطریں تحریر کرتا ہوں کہ اگرچہ منشی محمد افضل مرحوم ایڈیٹر اخبار البدر قضائے الٰہی سے فوت ہو گئے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے شکر اور فضل سے ان کا نعم البدل اخبار کو ہاتھ آ گیا ہے یعنے ہمارے سلسلہ کے ایک برگزیدہ رکن جو ان صالح اور ہر یک طور سے لائق جن کی خوبیوں کے بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں یعنی مفتی محمد صادق صاحب بھیروی قائم مقام منشی محمد افضل مرحوم ہو گئے ہیں.میری دانست میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اس اخبار کی قسمت جاگ اٹھی ہے کہ اس کو ایسا لائق اور صالح ایڈیٹر ہاتھ آیا.خدا تعالیٰ یہ کام ان کے لئے مبارک کرے اور ان کے کاروبار میں برکت ڈالے آمین ثم آمین.٭ ۲۳ ؍ محرم الحرام ۱۳۲۳ھ علی صاحبہا التحیہ والسلام خاکسار ۳۰؍مارچ ۱۹۰۵ء میرزا غلام احمد البدر جلد ۱ نمبر۱مورخہ ۶؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱

Page 526

مکتوب بنام شاہِ کابل (ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہ کرامت نامہ درج کیا جاتاہے جو ۱۳۱۳ ہجری کے شوال مہینے میں اعلیٰ حضرت نے سابق شاہِ کابل کے نام بغرض تبلیغ لکھا تھا.اس خط کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ حضور نے کس بصیرت اور شوکت کے ساتھ اپنے دعوے کو پیش کیا ہے.اور ساتھ ہی تاج برطانیہ کی برکات کو کس دلیری سے ظاہر کیا ہے.اس سے معلوم ہوگا کہ حضرت مسیح موعود ؑبطور مذہبی فرض کے گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری کا وعظ کررہے ہیں.اُمید ہے یہ خط نہایت دلچسپی سے پڑھا جاوے گا.(ایڈیٹر) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد عافا اللہ وا ّید بحضرت امیر ظلّ سبحانی مظہر تفضّلات یزدانی شاہ ممالک کابل سلّمہُ اللہ عزّوجلّ بعد ادعیہ سلام ورحمت وبرکت باعث ایں تصدیعہ آن کہ خاصہ فطرت انسانی است کہ چون خبرے از چشمۂ شیریں یابد کہ مشتمل بر چندیں منافع نوع انسان باشد برغبتے و محبتے سوئے آن پیدا آید باز آں رغبت از قلب برجوارح اثر اندازد و میخواہد کہ بہر نحویکہ تواندسوئے آں چشمہ دود و آنرا بیند و از آب زلال آن منتفع و سیراب گردد ہمچنیں چون صیت اخلاق فاضلہ و عادات کریمہ و ہمدردی اسلام بمسلمین آن شاہ نیک خیال بدیار ہند جا بجا متواتر رسید و ذکر ثمرات طیبہ آن شجرہ مبارکہ دولت و سلطنت بشہرو دیار منتشرگشت و دیدہ شد کہ مردم شریف و نجیب بمدح سلالہ دودمان شاہی رطب اللسانند.مرا کہ دریں قحط الرجال بباعث کمی مردمان اولوالعزم و شاہان ذوالمجد والکرم بہ حزن واندوہ زندگی بسر میکنم چنداں مسروری و فرحتے دست دادکہ نزدم آن الفاظ نیست کہ ادائے آن کیفیت تواند کرد.ہزار ہزار شکر و سپاس آن خدائے کریم را کہ چنیں مبارک وجودے.بے شمار وجود ہا را از انواع واقسام تباہی ہا بحفظ و حمایت خوددر آورد.درحقیقت آن مردم بسیار خوش قسمت اند کہ ایں چنیں شاہے گیتی پناہے نیک نیت و

Page 527

نیک نہاد سرچشمہ انصاف وداد درایشاں موجود است و خوشابخت کسانیکہ بعد از مرورزمانہ ہا این ہمہ را شمار تواند کرد لیکن از بزرگترین نعمت ہا وجود دو طبقہ ہست.اول کسانیکہ بقوت ہائے راستی و راستبازی پر شدہ و طاقت روحانی حاصل کردہ گرفتاران ظلمت و غفلت راسوی نور معرفت میکشند و تہی دستان اندرون را متاعے وافراز معارف می دہند و بحمایت تقدس و تطہر خود کمزوران را ازیں وادی دار الابتلاء بسلامت ایمان می گذارنند.وطبقہ دویم کسانے ہستند کہ نہ باتفاق و بخت بلکہ بمقتضائے جو ہر قابل و روح سعادت و علوّ ہمت و بروق فطرت از طرف حکیم وعلیم سزاوار سلطنت و ملکداری قرارمی یابند و حکمت ومصلحت الٰہی ایشاں را قائم مقام ذات خود کردہ فرامین ایشاں را مظہر قضاء قدر خود مے گرداند و چندیں ہزار جان و مال و آبرو را سپرد ایشاں میکند لا جرم ایشاں در شفقت و رحم و چارہ سازی دردمنداں و تعہد حال غریبان و بیکساں و حمایت اسلام مسلمانان ظل حضرت رب العالمین می باشند.اما حال این فقیر این است کہ خدای کہ بروقت کثرت مفاسد و ضلالت از پیٔ مصلحت عام بندۂ را از بندگان خود خاص میکند تا بذریعہ او گمراہان را ہدایت بخشد و کوراں را بینایٔ عطا فرماید وغافلان را توفیق عمل دہد و بردست او تجدید دین متین و تعلیم معارف و براہین فرماید ہمان خداوند کریم و رحیم ایں زمانہ را زمانہ پُر فتنہ دیدہ و طوفان ضلالت ارتداد در انمشاہدہ کردہ این ناچیز را بر صدی چہار دہم برائے اصلاح خلائق و اتمام حجت مامور کرد.و چونکہ فتنہ این زمان فتنہ علماء نصاریٰ بودد مدار کاربرکسر صلیب.لہٰذا ایں بندہ درگاہ الٰہی برقدم مسیح علیہ السلام فرستادہ شد تا آن پیشگوئی بطور بروز بظہور آید کہ در بارہ دوبارہ آمدن مسیح علیہ السلام زبان زد خاص و عام است.قرآن شریف صاف ہدایت فرماید کہ ہر کہ از دنیا بگذشت او بگذشت و باز آمدن او در دنیا ممکن نیست البتہ ارواح گذشتگان بطور بروز باز می آئیند یعنی شخصے بر طبیعت شان پیدا می شود لہٰذا عنداللہ ظہور او و برحکم ظہور او شاں می باشد ہمیں طریق باز آمدن ہست کہ دراصطلاح متصوفین بروز نام دارد ورنہ اگر گذشتگان راوی باز آمدن کشادہ بودے مارابہ نسبت عیسٰی علیہ السلام برائے دوبارہ آمدن حضرت سیدالوریٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ حاجت ہا بود لیکن آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز نہ گفت کہ من دوبارہ دردنیا خواہم آمد ہان ایں فرمود کہ

Page 528

شخصے خواہد آمد کہ اسم او اسم من خواہد بود یعنی بر طبیعت و خوی من خواہد آمد پس آمدن مسیح نیز ازیں قبیل است نہ آنچنان کہ در اول و آخر نمونہ آن در دنیا موجود نیست ہمین سبب بود کہ امام مالک رضی اللہ عنہ و امام ابن حزم و امام بخاری و دیگر آئمہ کباربہمیں مذہب رفتہ اند البتہ اکثر عوام کہ اعجوبہ پسندمی باشند ازیں نکتہ معرفت آگہی نہ دارند و درخیالات شان مرتسم است کہ بطور جسمانی نزول مسیح خواہد شد وآن روز روزِ تماشائے عجیب خواہد بود در انسان کہ فانو سے بآتش افروختہ بود از بلندی سو ی زمین میل میکند ہم چنیں نزول مسیح درتصور ایشاں ست کہ بشوکت تمام نازل خواہد شد و ہر طرف نعرہ ہائی این می آید ایں می آید برخیزد.لیکن این سنّت اللہ نیست اگر اینچنیں عام نظارہ قدرت پدید آید پس ایمان بالغیب نمی ماند.آن مردم سخت خطا می کنند کہ ایں چنیں می فہمند کہ گویا عیسٰی علیہ السلام تاہنوز برآسمان زندہ است حاشا و کلا ہرگز نیست قرآن باربارذکر وفات مسیح می کند و حدیث معراج نبوی کہ درصحیح بخاری پنج جاموجوداست او را بر وفات یافتگان می نشاند پس او چگونہ زندہ باشد لہٰذا اعتقاد حیات مسیح گویا از حکم قرآن و حدیث بیرون رفتن است و نیز از آیت کریمہ .۱؎ بصراحت معلوم میگردد کہ نصاریٰ مذہب خود رابعد از وفات عیسیٰ علیہ السلام خراب کردہ اند نہ درایام حیات.پس اگر فرض کنیم کہ عیسیٰ ہنوز در قید حیات است بر مالازم می آید کہ قبول کنیم کہ نصاریٰ نیز تااین وقت مذہب خود را خراب نکردہ اند برصواب محض اند واین چنین خیال کفر صریح است لہٰذا ہر کہ برنصوص قرآنیہ ایمان می آرد اورا لا بد است کہ بروفات مسیح بہم و ایمان داشتہ باشد واین بیان ما اند کے ازان دلائل است کہ نادر کتب خود بطور مبسوط نوشتیم ہر کہ تفصیلے بخواہد ازا نجابجوید.القصہ ضرور بود کہ در آخر زمان ہم ازین امت شخصے بیرون آید کہ آمدن او بطور بروز در حکم عیسیٰ علیہ السلام باشد و حدیث کسر صلیب کہ در صحیح بخاری موجود است بہ بلند آواز میگوید کہ آمدن چنیں کس دروقت غلبہ نصاریٰ خواہد بود و ہر دانشمندے می داند کہ در زمانہ ما آنچنان غلبہ نصاریٰ برروئے زمین است کہ نظیر آن در ایام پیشین یافتہ نمی شود و دجل علماء نصاریٰ و کارستانیہائے شان در ہرنوع تلبیس وتزویر بآن مرتبہ کمال رسیدہ کہ وبہ یقین می توان گفت کہ دجال معہود ہمین

Page 529

۱؎ المائدۃ : ۱۱۸ مخربان ومحرفان کتب مقدسہ اند آنانکہ قریب دو ہزار تراجم محرفہ انجیل و توریت در ہر زبان شائع کردہ اند و کتب آسمانی را از خیانتہا پرکردہ ومی خواہند کہ انسانے بخدائے پرستیدہ شود.اکنوں انصاف باید کرد بغور باید دید کہ ازیشان بزرگتر دجالے کدام کس گذشتہ تاآئندہ نیز توقع داشتہ شود کہ دجال اکبر دیگرے آید لیکن چونکہ از ابتدائے بنی آدم تا ایندم در انواع مکرو دجل و اشاعت مکاید نظیر ایشان نمی بینم پس بعدازیں کدام آثار درپیش چشم اند تا یقینے یا شکے پیدا آید کہ دجالے بزرگتر ازایشان درغارے مختفی است و معذالک اجتماع کسوف و خسوف شمس و قمر ہم دریں ایام در ملک ماشدہ واین علامت ظہور آن مہدی موعود است کہ در دارقطنی بحدیث امام باقر نوشتہ شدہ است.فتنہ ہائے نصاریٰ از حد درگذشتند ودشنام ہائے غلیظ و توہین ہائے سخت بہ نسبت ذات اقدس حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم از زبان و قلم علماء نصاریٰ وفلاسفہ ایشان بظہور آمد چندانکہ درآسمان شوری افتاد تا مسکینے را برائے اتمام حجت مامور کردند این سنت اللہ است کہ ہر نوع فسادکہ بر زمین غالب میگردد مناسب ہمان نوع مجددے برزمین پیدا مے گردد پس ہر کرا چشم است بہ بیند کہ درین زبان نائرہ فساد برکدام رنگ مشتعل شدہ و کدامی قومی است کہ تبردردست گرفتہ حملہ ہا براسلام میکند.اے آنکہ برائے اسلام غیرت می دارید فکر کنید کہ آیا این صحیح است یا غلط آیا ضروری نبود کہ بر اختتام صدی سیزدہم کہ بنیاد فتنہ ہا نہا دبرصدی چہاردہم رحمت الٰہی برائے تجدید دین متین متوجہ گردد و ازین در شگفت مانند کہ چرا این بندہ را برنام عیسیٰ علیہ السلام فرستادہ شدچرا کہ صورت فتنہ ہا ہمیںروحانیت را میخواست.چون مرا فرمان پیٔ قوم مسیحی دادہ اند مصلحت را ابن مریم نام من بنہادہ اند آسمان بارد نشان الوقت میگوید زمین این دو شاہد از پیٔ تصدیق من استادہ اند ازہمیں بود کہ خداوند کریم مرا مخاطب کرد و گفت بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید وپائے محمدیان بر منار بلند تر محکم افتاد.این کار خداوند حکیم و علیم است و درنظر مردم عجیب.ہر کہ مرا قبل

Page 530

بحکومت و سلطنت این جہان کارے نیست غریب آمدم و غریب روم و مامورم کہ بلطف و نرمی دلایل حقیت اسلام درین ایام پُرآشوب پیش چشم مردم ہر دیار نہم ہم چنیں مرا بدولت و حکومت برطانیہ کہ زیر سایہ ایشان بامن زندگی بسرکنم تعرضے نیست بلکہ خدارا شکرمی کنم و سپاس نعمت او بجا می آرم کہ در عہد چنیں پُرامن حکومتے مرا برخدمت دین مامور کردد چگونہ شکر این نعمت نگذارم کہ بریں غربت و بیکسی و شورسفہاء قوم باطمینان کار خود تحت حکومت و دولت انگلیشہ میکنم و چنان آرام یافتم کہ اگر شکر این دولت نکنم شکر خدائے خود بجانیاوردہ باشم واین امر را اگر پوشیدہ داریم ظالم باشیم کہ چنانکہ پادریان ملت نصاریٰ دراشاعت مذہب خود آزادی دارند ہم چنیں آزادی وعدم مزاحمت برائے اشاعت اسلام مانیز حاصل داریم بلکہ منافع این حریت و آزادی ما را بیشتر حاصل است زانسان کہ ما اہل اسلام را فواید این حریت میسر می شوند ودیگراں را ازاں نصیبے نیست چرا کہ ایشان بر باطل اندو ما برحق و اہل باطل از آزادی سودے نمی بردارند بلکہ ازیں آزادی پردۂ شان بیشتر ازبیشتر می درد و دریںروشنی دجل ایشان بخوبی آشکارا میگردد.پس این فضل خدا برماست کہ این چنیں تقریبے برایء ما میسر کردہ واین نعمتے برائے ما بالخصوص داشتہ.البتہ علماء نصاریٰ را از امداد قوم خود لکھوکھہا روپیہ برائے اناجیل خود و اباطیل خود بہم می رسد و مارا نیست وممد ومعاون ایشان در ممالک یورپ چون مورو ملخ بکثرت موجود اند وما را بجز خدائے ما دیگرے نیست پس اگر درکاروبار ما از ناداری ہا حرجے است این حرج از دولت برطانیہ نیست بلکہ این قصور قوم ماست کہ دربارہ دین بسیار غفلتے دارند.و اوقات نصرت را بظنون فاسدہ وبہانہ ہائے منافقانہ از سر خود دفع می کند آرے در امور ننگ و ناموس خود ہمچو اسپ تو سن می دوند نمی بیند کہ دریں زمان اسلام در صد ہا دشمنان استادہ است و ہر مذہبے در میدان آمدہ است تا کرا فتح باشد پس ہمیں وقت است کہ خدمت اسلام کنیم و اعتراضات فلسفہ را از بیخ برکنیم و حقانیت قرآن کریم ہمہ خویش و بیگانہ را وا نمائیم و عزت کلام رب جلیل در دلہا نشانیم و کوشش کنیم کہ دریں معرکہ جنگ و جدل لوائے فتح و نصرت مارا باشد و بجان بکوشیم تا اسیران وساوس نصرانیت را از چاہ ضلالت بیرون آریم و مستعدان فساد وارتداد را از ہلاکت بازداریم.ہمین کار است کہ برذمہ ماست یورپ و جاپان بہر دودست و منتظر ہدیہ ماست و امریکہ برائے دعوت ہا دہان خود کشادہ

Page 531

است پس سخت نامردی است کہ ما غافل نشینیم غرض ہمین کار است کہ برذمہ ماست و ہمیں آرزو است کہ از خدائے خود می طلبیم و دعا می کنیم کہ خدا انصار ما پیدا کند و منتظریم کہ کے از جائے نسیمبے برخیزدد کے از طرفے بشارتے می آید.اے شاہ کابل گرامروز سخن مابشنوی و از بہر نصرت ہا باموال خود برخیزی دعا کنیم کہ ہر چہ طلبی خدا ترا دہد و از مکروہات محفوظ دارد و در عمر وزندگی تو برکت بخشد.واگر کسے را در ماو در دعوے ما تامّلے باشد البتہ او را در صدق اسلام تامّلے نخواہد بود.پس چونکہ این کار کارِ اسلام ست و این خدمت خدمتِ دین است ازین جہت وجود ما را درمیان نایدپنداشت و خلوصِ نیت برائے امداد اسلام مے بائید داشت و تائید برائے محبت حضرت سید المرسلین مے بائید کرد.اَیُّھَا الْمَلِکُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ وَعَلَیْکَ وَلَکَ اِعْلَمْ اَنَّ الْوَقْتَ وَقْتُ النُّصْرَۃِ فَھِیَ لَکَ ذَخَائِرُ الْعَاقِبَۃِ اِنِّیْ اَرَاکَ مِنَ الصَّالِحِیْنَ.فَاِنْ سَبَقْتَ غَیْرَکَ فَقَدْ سَبَقْتَ غَیْرَکَ وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ عِنْدَ اللّٰہِ وَاِنَّہٗ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ وَ وَاللّٰہِ اِنِّیْ مَأْمُوْرٌ مِنَ اللّٰہِ وَھُوَ یَعْلَمُ سِرِّیْ وَ جَھْرِیْ وَھُوَ بَعَثَنِیْ عَلٰی رَأْسِ الْمِائَۃِ لِاِحْیَائِ الدِّیْنِ.اِنَّہٗ رَأَی الْاَرْضَ فَسُدَتْ وَطُرُقَ الضَّلَالَۃِ کَثُرَتْ وَالدِّیَانَۃَ قَلَّتْ وَالْخِیَانَۃَ کَثُرَتْ فَاخْتَارَ عَبْدًا مِّنْ عِبَادِہٖ لِتَجْدِیْدِ الدِّیْنِ وَجَعَلَہٗ خَادِمَ عَظْمَتِہٖ وَخَادِمَ کِبْرِیَائِہٖ وَخَادِمَ کَلَامِہِ الْمُبِیْنِ وَ لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ یُلْقِیْ عَلٰی مَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہٖ فَـلَا تَعْجَبُوْا مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ وَلَا تَصَعَّرُوْا ظَانِّیْنَ ظَنَّ السَّوْئِ.وَاقْبَلُوا الْحَقَّ وَکُوْنُوْا مِنَ السَّابِقِیْنَ، وَھٰذَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْنَا وَعَلٰی اِخْوَانِنَا الْمُسْلِمِیْنَ فَیَا حَسْرَۃً عَلَی الَّذِیْنَ لَا یَعْرِفُوْنَ الْاَوْقَاتَ وَلَا یَنْظُرُوْنَ اَیَّامَ اللّٰہِ وَنِیَامُوْنَ غَافِلِیْنَ.وَمَا کَانَ شُغْلُھُمْ اِلَّا اَنْ یُّکَفِّرُوْا مُسْلِمًا اَوْ یُکَذِّبُوْا صَادِقًا، وَمَا یُفَکِّرُوْنَ قَائِمِیْنَ لِلّٰہِ وَلَا یُؤْثِرُوْنَ سُبُلَ الْمُتَّقِیْنَ.فَھُمُ الَّذِیْنَ کَفَّرُوْنَا وَ لَعَنُوْنَا وَ نَسَبُوْا اِلَیْنَا اِدِّعَائَ النُّبُوَّۃِ وَاِنْکَارَ الْمُعْجِزَۃِ وَ الْمَلَائِکَۃِ، وَمَا بَلَغُوْا مِعْشَارَمَا قُلْنَا وَمَا کَانُوْا مُتَدَبِّرِیْنَ.وَفَتَحُوْا

Page 532

اَفْوَاہَہُمْ مُسْتَعْجِلِیْنَ.وَاِنَّا نُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکِتَابِہِ الْقُرْاٰنِ وَالرَّسُوْلِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ حَبِیْبِ الرَّحْمَانِ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ وَنُؤْمِنُ بِکُلِّ مَا جَائَ نَبِیُّنَا الْمُصْطَفٰی وَسَیِّدُنَا مُحَمَّدَنِ الْمُجْتَبٰی، وَنُؤْمِنُ بِالْاَنْبِیَائِ اَجْمَعِیْنَ وَنَشْہَدُ بِصَمِیْمِ قَلْبِنَا اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَخَیْرُ الْمُرْسَلِیْنَ.ھٰذِہٖ عَقَائِدُنَا نَلْقَی اللّٰہَ تَعَالٰی عَلَیْھَا وَاِنَّا مِنَ الصَّادِقِیْنَ.اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعَالَمِیْنَ.اِنَّہٗ بَعَثَ عَبْدًا مُجَدَّدًا عِنْدَ وَقْتِہٖ أَفَتَعْجَبُوْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ.وَ اِنَّ النَّصَارٰی فُتِنُوْا بِحَیَاتِ الْمَسِیْحِ وَسَقَطُوْا فِی الْکُفْرِ الصَّرِیْحِ فَأَرَادَ اللّٰہُ اَنْ یَّھْدِمَ بُنْیَانَھُمْ وَیُبْطِلَ بُرْھَانَھُمْ وَیُظْھِرَ اَنَّھُمْ کَانُوْا کَاذِبِیْنَ.فَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِالْقُرْاٰنِ وَیَرْغَبُ فِیْ فَضْلِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ.فَلْیَأْتِنِیْ مُصَدِّقًا وَلْیَدْخُلْ فِی الْمُبَائِعِیْنَ.وَ مَنْ أَلْحَقَ نَفْسَہٗ بِنَفْسِیْ وَ وَضَعَ یَدَہٗ تَحْتَ یَدِیْ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ یَرْفَعُھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِـرَۃِ وَ یَجْعَلُھُمْ فِی الدَّارَیْنِ مِنَ الْفَائِزِیْنَ فَسَتَذْکُرُوْنَ قَوْلِیْ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللّٰہِ وَ مَا اَشْکُوْ بَثِّیْ وَ حُزْنِیْ اِلَّا اِلَیْہِ ھُوَ رَبِّیْ تَوَکَّلْتُ عَلَیْہِ یَرْفَعُنِیْ وَلَا یُضِیْعُنِیْ وَیُعِزُّنِیْ وَلَا یُخْزِیْنِیْ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَنَّھُمْ کَانُوْا مِنَ الْخَاطِئِیْنَ.٭وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.٭ ماہ شوال ۱۳۱۳ھـ اَلْمُلْتَمِسُ عَبْدُ اللّٰہِ الْاَحَدِ غلام احمد الحکم نمبر۶ جلد۱۱ مورخہ ۱۷؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸ تا ۱۰ اُردو ترجمہ

Page 533

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ہم خدا کا شکر کرتے ہیں اور رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں.عاجز خدا کی پناہ لینے والے غلام احمد کی طرف سے (خدا اس کی کمزوریوں کو معاف فرمائے اور اس کی تائید کرے) بحضور امیر ظلِّ سُبحانی.مظہر تفضّلاتِ یزدانی.شاہ ممالک کابل (اللہ اس کو سلامت رکھے) بعد دعوات سلام و رحمت و برکت کے باعث اس خط لکھنے کا وہ فطرتِ انسانی کا خاصہ ہے کہ جب کسی چشمۂ شیریں کی خبر سنتا ہے کہ اس میں انسان کے لئے بہت فوائد ہیں تو اس کی طرف رغبت اور محبت پیدا ہوتی ہے پھر وہ رغبت دل سے نکل کر اعضاء پر اثر کرتی ہے اور انسان چاہتا ہے کہ جہاں تک ہو سکے اس چشمہ کی طرف دوڑے اور اس کو دیکھے اور اس کے میٹھے پانی سے فائدہ اٹھائے اور سیراب ہو جائے اسی طرح جب اخلاق فاضلہ اور عاداتِ کریمانہ اور ہمدردیٔ اسلام و مسلمین اس بادشاہ نیک خصال کی اطلاع ہندوستان میں جا بجا ہوئی اور ذکر پاک پھل اس شجرہ مبارک دولت اور سلطنت کا ہر شہروملک میں مشہور ہوا اور دیکھا گیا کہ ہر شریف اور نجیب آدمی اس بادشاہ کی مدح میں تر زبان ہے تو مجھے کہ اس قحط الرجال کے زمانہ میںبسبب کمی مردمانِ اولوالعزم کے غم اور اندوہ میں زندگی بسر کرتا ہوں.اس قدر سرور اور فرحت حاصل ہوئی کی میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے اس کیفیت کو بیان کر سکوں.خداوند کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے ایک ایسے مبارک وجود سے بے شمار وجودوں کو بہت اقسام کی تباہی سے بچا رکھا ہے.اصل میں وہ آدمی بہت خوش قسمت ہیں کہ جن میں ایسا بادشاہ جہاں پناہ نیک نہاد اور منصف موجود ہے اور وہ لوگ بہت خوش قسمت ہیں کہ جنہوں نے بعد عرصہ دراز کے اس نعمتِ غیر مترقبہ کو حاصل کیا.خداوند کریم کی بہت نعمتیں ہیں.کہ کوئی ان کو شمار نہیں کر سکتا مگر بزرگ تر نعمتوں میں سے وجود دو انسانوں کا ہے.اوّل وہ جو راستی اور راستبازی کی قوت سے پُر ہوئے اور طاقت رُوحانی حاصل کی.اور پھر وہ گرفتارانِ ظلمت اور غفلت کو نورِ معرفت

Page 534

کی طرف کھینچتے ہیں.اور خالی اندرونوں کو متاع معارف کے دیتے ہیں.اور اپنے تقدس کے سبب سے کمزوریوں کو اس دُنیا سے بسلامتی ایمان لے جاتے ہیں.دوسرا وہ آدمی سازیٔ درد منداں اور غریبوں و بیکسوں کے حال پر نگران اور حمایت اسلام و مسلماناں میں خدا کا سایہ ہوتے ہیں.اس فقیر کا یہ حال ہے کہ وہ خدا جو بروقت بہت مفاسد اور گمراہی کے مصلحت عام کے واسطے اپنے بندوں میں سے کسی بندہ کو اپنا خاص بنا لیتا ہے.تا اس کے ذریعہ گمراہوں کو ہدایت ہو.اور اندھوں کو روشنی اور غافلوں کو توفیق عمل کی دی جائے اور اس کے ذریعہ دین اور تعلیم معارف و دلائل کی تازہ ہو.اُسی خدائے کریم و رحیم نے اس زمانہ کو زمانہ پُر فتن اور طوفانِ ضلالت و ارتداد کو دیکھ کر اس ناچیز کو چودھویں صدی میں اصلاحِ خلق اور اتمام حجّت کے واسطے مامور کیا.چونکہ اس زمانہ میں فتنہ علمائے نصاریٰ کا تھا.اور مدار کارصلیب پرستی کے توڑنے پر تھا.اس واسطے یہ بندہ درگاہ الٰہی مسیح علیہ السلام کے قدم پر بھیجا گیا.تا وہ پیشگوئی بطور بروز پوری ہو.کہ جو عوام میں مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے کی بابت مشہور ہے.قرآن شریف صاف ہدایت فرماتا ہے.کہ دُنیا سے جو کوئی گیا وہ گیا.پھر آنا اس کا دُنیا میں ممکن نہیں.البتہ ارواحِ گذشتگان بطور بُروز دُنیا میں آتی ہیں.یعنی ایک شخص ان کی طبیعت کے موافق پیدا کیا جاتا ہے.اس واسطے خدا کے ہاں اُس کا ظہور اُسی کا ظہور سمجھا جاتا ہے.دوبارہ آنے کا یہی طریق ہے.کہ صوفیوں کی اصطلاح میں اس کو بروز کہتے ہیں.ورنہ اگر مُردوں کا دوبار آنا روا ہوتا تو ہم کو بہ نسبت عیسٰی علیہ السلام کے دوبارہ آنے کے حضرت سیّد الوریٰ خاتم الانبیاء صلے اللہ علیہ وسلم کی زیادہ ضرورت تھی.لیکن آنحضرت نے ہر گز فرمایا نہیں کہ مَیں دوبارہ دُنیا میں آئوں گا.ہاں یہ فرمایا.کہ ایک شخص ایسا آئیگا کہ وہ میرا ہم نام ہو گا.یعنی میری طبیعت اور خُو پر آئے گا.پس مسیح علیہ السَّلام کا آنا بھی ایسا ہی ہے نہ ویسا کہ اس کا نمونہ دُنیا کے اول اور آخر میں موجود

Page 535

نہیں.اسی واسطے امام مالک اور امام ابن حزم اور امام بخاری اور دوسرے بڑے بڑے اماموں کا یہی مذہب تھا.اور بہت بزرگانِ دین اسی مذہب پر گئے ہیں.البتہ عوام عجوبہ پسند ہوتے ہیں اور اس نکتہ معرفت سے بے خبر ہیں.ان کے خیال میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ مسیح کا نزول جسمانی ہو گا اور اس روز عجب تماشا ہو گا.جیسا کہ غبارہ کاغذی جو آگ سے بھرا ہوا ہو.بلندی سے نیچے کی طرف اُترتا ہوا دکھائی دیوے.ایسا ہی ان کے خیال میں مسیحؑ کا نزول ہو گا.اور بڑی شوکت سے نزول ہو گا.اور ہر طرف سے یہ آتا ہے وہ آتا ہے سُنا جاویگا.لیکن یہ خدا کی عادت نہیں.اگر ایسا عام نظارہ قدرت کا دکھلایا جاوے تو ایمان بالغیب نہیں رہتا.وہ آدمی سخت خطا پر ہیں.جنہوں نے ایسا سمجھا ہوا ہے کہ اب تک عیسٰے علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں.ہر گز ایسا نہیں ہے.قرآن بار بار مسیح کی وفات کا ذکر کرتا ہے.اور حدیث معراج نبوی کی جو صحیح بخاری میں پانچ جگہ موجود ہے اس کو مُردوں میں بتاتی ہے.پس وہ کس طرح سے زندہ ہے.لہذا اعتقاد حیات مسیح کا رکھنا قرآن اور حدیث کے برخلاف چلنا ہے اور نیز آیت کریمہ ۱؎سے بصراحت یہ بات معلوم ہوتی ہے.کہ نصاریٰ نے اپنے مذہب کو عیسٰے علیہ السلام کے مرنے کے بعد خراب کیا ہے نہ کہ ان کی زندگی میں.بالفرض اگر عیسٰے علیہ السَّلام اب تک زندہ ہیں تو ہمیں لازم ہے کہ ہم اس بات کا بھی اقرار کریں کہ اس وقت تک نصاریٰ نے اپنے مذہب کو خراب نہیں کیا.اور بالکل صواب پر ہیں.ایسا خیال کفر صریح ہے.پس جو کوئی قرآن کی آیتوں پر ایمان رکھتا ہے اُسے ضروری ہے کہ وہ مسیح کی وفات پر بھی ایمان لائے.اور یہ بیان ہمارے ان دلائل میں سے بہت تھوڑا سا حصہ ہے.جن کو ہم نے اپنی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے.جسے تفصیل سے دیکھنا منظور ہو وہ ہماری کتابوں میں تلاش کرے.اَلْقِصَّہ ضرور تھا کہ آخر زمانہ میں اسی امّت سے ایک ایسا شخص نکلے کہ جس کا آنا حضرت عیسٰے علیہ السلام کے آنے کے ساتھ مشابہ ہو اور حدیث کسر صلیب جو صحیح بخاری میں موجود ہے بلند آواز سے کہہ رہی ہے کہ ایسے شخص کا آنا نصاریٰ کے غلبہ کے وقت ہو گا.اور ہر دانشمند جانتا

Page 536

ہے کہ ہمارے زمانہ میں نصاریٰ کا غلبہ رُوئے زمین پر ایسا ہے کہ اس کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں پائی جاتی.اور فریب علمائے نصاریٰ اور ان کی کارستانی ہر ایک طرح کے مکروفریب میں یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ یقینا کہہ سکتے ہیں کہ دجّال معہود یہی خراب کرنے والے اور تحریف کرنے والے کتب مقدسہ کے ہیں.جنہوں نے قریب دو ہزار کے انجیل اور توریت کے ترجمے ہر زبان میں بعد تحریف شائع کئے اور آسمانی کتابوں میں بہت خیا نتیں کیں اور چاہتے ہیں کہ ایک انسان کو خدا بنایا جائے.اور اس کی پرستش کی جائے اب انصاف اور غور سے دیکھنا چاہئے کہ کیا اُن سے بڑا دجّال کوئی گزرا ہے کہ تا آئندہ بھی اس کی امید رکھی جاوے.ابتدائے بنی آدم سے اِس وقت تک مکروفریب ہر قسم کا انہوں نے شائع کیا ہے جس کی نظیر نہیں.پس اس کے بعد وہ کونسا نشان ہماری آنکھوں کے سامنے ہے جس سے یقین یا شک تک پیدا ہو سکے کہ کوئی دوسرا دجّال ان سے بڑا کسی غار میں چھپا ہوا ہے.ساتھ اس کے چاند اور سُورج کو گرہن لگنا جو اس ہمارے مُلک میں ہوا ہے.یہ نشان ظہور اُس مہدی کا ہے جو کتاب دارقطنی میں امام باقر کی حدیث سے موسوم ہے.نصاریٰ کا فتنہ حد سے بڑھ گیا ہے اور ان کی گندی گالیاں اور سخت توہین ہمارے رسول کی نسبت علماء نصاریٰ کی زبان و قلم سے اس قدر نکلیں جس سے آسمان میں شور پڑ گیا.حتیّٰ کہ ایک مسکین اتمامِ حجت کے واسطے مامور کیا گیا.یہ خدا کی عادت ہے کہ جس قسم کا فساد زمین پر غالب ہوتا ہے اُسی کے مناسب حال مجدد زمین پر پیدا ہوتا ہے.پس جس کی آنکھ ہے وہ دیکھے کہ اس زمانہ میں آتشِ فساد کس قسم کی بھڑکی ہے اور کونسی قوم ہے جس نے تبر ہاتھ میں لے کر اسلام پر حملہ کیا ہے.کن کو اسلام کے واسطے غیرت ہے وہ فکر کریں کہ آیا یہ بات صحیح ہے یا غلط اور آیا یہ ضروری نہ تھا کہ تیرھویں صدی کے اختتام پر جس میں کہ فتنوں کی بنیاد رکھی گئی.چودھویں صدی کے سر پر رحمتِ الٰہی تجدید دین کے لئے متوجہ ہوئی؟ اور اس بات پر تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ کیوں اس عاجز کو عیسٰے علیہ السلام کے نام پر بھیجا گیا ہے.کیونکہ فتنہ کی صُورت ایسی ہی رُوحانیّت کو چاہتی تھی جبکہ مجھے قوم مسیح کے لئے حکم دیا گیا ہے تو مصلحتاً میرا نام ابنِ مریم رکھا گیا.آسمان سے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور زمین پکارتی ہے کہ وہ وقت آ گیا.میری

Page 537

تصدیق کے لئے یہ دو گواہ موجود ہیں.۱؎ اسی واسطے خداوند کریم نے مجھ کو مخاطب کرکے فرمایا.کہ تو خوش ہو کہ تیرا وقت نزدیک آ گیا.اور قدم محمدیاں بلند مینار پر پہنچ گیا ہے یہ کام خداوند حکیم وعلیم کا ہے اور انسان کی نظر میں عجیب.۲؎ جو کوئی مجھے پورے ظہور سے پہلے شناخت کرے اس کو خدا کی طرف سے اجر ہے.اور جو کوئی آسمانی تائیدوں کے بعد میری طرف رغبت کرے وہ ناچیز ہے اور اس کی رغبت بھی ناچیز ہے اور مجھ کو حکومت و سلطنت اس جہاں سے کچھ سروکار نہیں.مَیں غریب ہی آیا اور غریب ہی جائونگا.اور خدا کی طرف سے مامور ہوں کہ لطف اور نرمی سے اسلام کی سچائی کے دلائل اس پُر آشوب زمانہ میں ہر ملک کے آدمیوں کے سامنے بیان کروں.اسی طرح مجھے دولتِ برطانیہ اور اس کی حکومت کے ساتھ جس کے سایہ میں مَیں امن سے زندگی بسر کر رہا ہوں کوئی تعرّض نہیں.بلکہ خُدا کا شکر کرتا ہوں اور اس کی نعمت کا شکر بجا لاتا ہوں.کہ ایسی پُر امن حکومت میں مجھ کو دین کی خدمت پر مامور کیا.اور مَیں کیونکر اس نعمت کا شکر ادا نہ کروں کہ باوجود اس غُربت و بے کسی اور قوم کے نالائقوں کی شورش کے مَیں اطمینان کے ساتھ اپنے کام کو سلطنتِ انگلشیہ کے زیر سایہ کر رہا ہوں.اور مَیں ایسا آرام پاتا ہوں کہ اگر اس سلطنت کا مَیں شکر ادا نہ کروں تو میں خدا کا شکر گزار نہیں ہو سکتا.اگر ہم اس بات کو پوشیدہ رکھیں تو ظالم ٹھہرتے ہیں.کہ جس طرح سے پادریانِ نصاریٰ کو اپنے مذہب کی اشاعت میں آزادی ہے ایسی ہی آزادی ہم کو اسلام کی اشاعت میں حاصل ہے.بلکہ اس آزادی کے فوائد ہمارے لئے زیادہ ہیں.جس طرح کہ ہم اہلِ اسلام کو اس آزادی کے فوائد حاصل ہیں دوسروں کو وہ نصیب نہیں.کیونکہ وہ باطل پر اور ہم حق پر ہیں.اور جُھوٹے آزادی سے کچھ فائدہ حاصل نہیں کر سکتے.بلکہ اس آزادی سے ان کی پردہ دری زیادہ ہوتی ہے اور اس روشنی کے زمانہ میں ان کا مکر زیادہ ظاہر ہوتا ہے.پس یہ ہم پر خدا کا فضل ہے.کہ ہمارے واسطے ایسی تقریب پیدا ہوئی اور یہ نعمت خاص ہم کو عطا ہوئی.البتہ علمائِ نصاریٰ کو اپنی قوم کی امداد سے لاکھوں روپیہ اپنی انجیلوں اور جھوٹوں کے پھیلانے میں ملتے ہیں اور ہم کو کچھ نہیں ملتا.اور ان کے مددگار ملک یورپ میں (خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ یہ عبارت حضرت مسیح موعودؑ کے دو فارسی شعروں کا ترجمہ ہے) ۲؎ (یہ حضرت مسیح موعودؑ کے ایک الہام کا ترجمہ ہے.مؤلف)

Page 538

موروملخ کی طرح ہیں.اور ہمارا سوائے خدا کے دوسرا کوئی مددگار نہیں.پس اگر ہمارے کاروبار میں ناداری کے سبب کوئی حرج واقع ہو تو یہ دولتِ برطانیہ کا قصور نہیں.بلکہ یہ ہماری اپنی قوم کا قصور ہے کہ دین کے کام میں غفلت کرتے ہیں.اور بہت آدمی وقتِ امداد کو منافقانہ بہانوں اور جھوٹے ظنّوں سے اپنے سر سے دُور کرتے ہیں.ہاں اپنے نگ و ناموس کے کاموں میں گھوڑوں کی طرح دوڑتے ہیں.اور نہیں سمجھتے.کہ اس زمانہ میں اسلام صدہا دشمنوں میں اکیلا ہے.اور ہر ایک مذہب میدان میں اُترا ہوا ہے.دیکھیں کس کو فتح ہوتی ہے.پس یہی وقت ہے کہ ہم اسلام کی خدمت کریں اور فلسفہ کے اعتراضوں کو جلد سے جلد دُور کریں اور قرآن کریم کی سچائی تمام خویش و بیگانہ پر ظاہر کریں.اور خدا کے کلام کی عزت دلوں میں بٹھا دیں.اور کوشش کریں کہ اس مذہبی لڑائی میں ہم کو فتح حاصل ہو.اور جان توڑ کوشش کریں کہ نصرانیّت کے وسوسوں میں جو گرفتار ہیں ان کو گمراہی کے چاہ سے باہر نکالیں.اور جو ہلاکت کے قریب پہنچ گئے ہیں.ان کو بچاویں.یہی ہے ہمارا کام جو ہمارے ذمہ ہے.یورپ اور جاپان دونوں ہمارے ہدیہ کے منتظر ہیں.اور امریکہ ہماری دعوت کے واسطے کشادہ دہان ہے.پس سخت نامردی ہے کہ ہم غافل بیٹھیں.غرض یہ کام ہمارے ذمہ ہے اور یہی ہماری آرزو ہے جسے ہم خدا سے طلب کرتے ہیں اور دُعا کرتے ہیں.کہ خدا ہمارے مددگار پیدا کرے اور ہم منتظر ہیں کہ کب کسی طرف سے نسیم اور بشارت آتی ہے.اے شاہِ کابل! اگر آپ آج میری باتیں سُنیں اور ہماری امداد کے واسطے اپنے مال سے مستعد ہوں.تو ہم دُعا کریں گے کہ جو کچھ تو خدا سے مانگے وہ تجھے بخشے.اور بُرائیوں سے محفوظ رکھے اور تیری عمرو زندگی میں برکت بخشے.اور اگر کسی کو ہمارے دعویٰ کی سچائی میں تأمّل ہو تو اس کو اسلام کے سچا ہونے میں تو کوئی تأمّل نہیں ہوگا.چونکہ یہ کام اسلام کا کام ہے اور یہ خدمت دین کی خدمت ہے اس واسطے ہمارے وجود اور دعووں کو درمیان میں نہ سمجھنا چاہئے.اور اسلام کی امداد کے واسطے خالص نیّت کرنی چاہئے.اور تائید بہ سبب محبت حضرت سیّد المرسلین کے کرنی چاہئے.اے بادشاہ!اللہ تجھے اور تجھ میں اور تجھ پر اور تیرے لئے برکت دے.جان لیں کہ یہ وقت وقت امداد کا ہے.پس اپنے واسطے ذخیرہ عاقبت جمع کر لیں.کیونکہ مَیں آپ کو نیک بختوں

Page 539

سے دیکھتا ہوں.اگر اس وقت کوئی آپ کا غیر سبقت لے گیا.تو بس آپ کا غیر سبقت لے گیا.اور سبقت کرنے والے سبقت کرنے والے ہیں اللہ کے نزدیک اور اللہ کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا.اور اللہ کی قسم مَیں اللہ کی طرف سے مامور ہوں.وہ میرے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے اور اُسی نے مجھے اس صدی کے سر پر دین کے تازہ کرنے کے لئے اُٹھایا ہے.اس نے دیکھا کہ زمین ساری بگڑ گئی ہے اور گمراہی کے طریقے بہت پھیل گئے ہیں.اور دیانت بہت تھوڑی ہے اور خیانت بہت.اور اس نے اپنے بندوں میں سے ایک بندہ کو دین کے تازہ کرنے کے لئے چُن لیا.اور اسی نے اس بندہ کو اپنی عظمت اور کبریائی اور اپنے کلام کا خادم بنایا اور خدا کے واسطے خلق اور امر ہے.جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے.اپنے بندوں سے جس پر چاہتا ہے رُوح نازل کرتا ہے.پس خدا کے کام سے تعجب مت کرو.اور اپنے رخساروں کو بدظنی کرتے ہوئے اُونچا نہ اُٹھائو.اور حق کو قبول کرو.اور سابقین میں سے بنو.اور یہ خدا کا ہم پر اور ہمارے بھائی مسلمانوں پر فضل ہے.پس ان لوگوں پر حسرت ہے جو وقتوں کو نہیں پہنچانتے اور اللہ کے دنوں کو نہیں دیکھتے اور غفلت اور سُستی کرتے ہیں.اور ان کا کوئی شغل نہیں سوائے اس کے کہ مسلمانوں کو کافر بنائیں اور سچے کو جھٹلائیں.اور اللہ کے لئے فکر کرتے ہوئے نہیںٹھہرتے اور متقیوں کے طریق اختیار نہیں کرتے.پس یہ وہ لوگ ہیں.جنہوں نے ہم کو کافر بنایااور ہم پر لعنت کی اور ہماری طرف نسبت کیا جھوٹا دعویٰ نبوّت کا اور انکار معجزہ اور فرشتوں کا اور جو کچھ ہم نے کہا اس کو نہیں سمجھا اور نہ اس میں تدبرّ یعنی فکر کرتے ہیں.اور انہوں نے جلدی سے اپنے منہ کھولے اور ہم ان اُمور سے بَری ہیں جو انہوں نے ہم پر افتراء کئے.اور ہم خدا کے فضل سے مومن ہیں.اور اللہ پر اور اس کی کتاب قرآن پر اور رسول خدا پر ایمان رکھتے ہیں.اور ہم ان سب باتوں پر ایمان رکھتے ہیں جو ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم لائے اور ہم تمام انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں اور ہم تہِ دل سے گواہی دیتے ہیں کہ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللَّہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہِ ـ یہ ہیں ہمارے اعتقاد اور ہم ان ہی عقائد پر اللہ تعالیٰ کے پاس جائیں گے اور ہم سچے ہیں تحقیق خداتمام عالم پر فضل کرنے والا ہے.اس نے اپنے ایک بندہ کو اپنے وقت پر بطور

Page 540

مجدّد پیدا کیا ہے کیا تم خدا کے کام سے تعجب کرتے ہو اور وہ بڑا رحم کرنے والا ہے.اور نصاریٰ نے حیات مسیح کے سبب فتنہ برپا کیا.اور کفر صریح میں گِر گئے.پس خدا نے ارادہ کیا کہ ان کی بنیاد کو گِرادے اور ان کے دلائل کو جُھوٹا کرے.اور ان پر ظاہر کردے کہ وہ جھوٹے ہیں.پس جو کوئی قرآن پر ایمان رکھتا ہے اور خدا کے فضل کی طرف رغبت کرتا ہے پس اُسے لازم ہے کہ میری تصدیق کرے.اور بیعت کرنے والوں میں داخل ہو اور جس نے اپنے نفس کو میرے نفس سے ملایا اور اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کے نیچے رکھا اس کو خدا دُنیا میں اور آخرت میں بلند کرے گا اور اس کو دونوں جہان میں نجات پانے والا بنائے گا.پس قریب ہے کہ میری اس بات کا ذکر پھیلے اور مَیں اپنے کام کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں.اور میرا شکوہ اپنے فکروغم کا کسی سے نہیں سوائے اللہ کے.وہ میرا رب ہے مَیں نے تو اسی پر توکّل کیا ہے.وہ مجھے بلند کرے گا اور مجھے ضائع نہیں ہونے دے گا.اور مجھے عزت دیگا اور ذلّت نہیں دے گا.اور جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ان کو جلد معلوم ہو جائے گا کہ وہ خطا پر تھے.اور ہماری آخری دُعا یہ ہے کہ ہر قسم کی تعریف خدا کے واسطے ہے اور وہ تمام عالموں کا پالنے والا ہے.٭ ماہ شوال ۱۳۱۳ھ الملتمس عبداللہ الصمد غلام احمد سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۵۸۰ تا۵۸۷

Page 541

مکتوب بنام ایک عرب (ایک عرب کا خط حضرت کی خدمت میں آیا تھا جس میں حضور مسیح موعود کے دعاوی کے دلائل طلب کئے تھے.اس خط کا جواب حضرت مولوی محمداحسن صاحب نے عربی میں تحریر فرمایا تھا اور عربی خط کے معنوں کو فائدہ عام کے واسطے حضرت مولوی صاحب موصوف نے اردو میں بھی تحریر فرمایا ہے)(ایڈیٹر) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ اَیُّھَا الْحَبِیْبُ قَدْ بَلَغَ کِتَابُکَ اِلَی الْحَضْرَتِ الْاَقْدَسِ وَالْجَنَابِ الْمَقْدَسِ جَرِیِ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآئِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ وَالْمَہْدِیِ الْمَسْعُوْدِ.وَھَوَیْتَ فِیْہِ اَنْ یُّکْتَبَ الْکِتَابُ فِی الْعَرَبِیِّ فَاَمَرَنِیْ اَنْ اُجِیْبَ کَمَا ھَوَیْتَ اَیُّھَا الْحَبِیْبُ مُرْحِبَّکَ مُحَمَّدَ یُوْسُفَ وَغَیْرُہٗ مِنْ اَحْبَابِکَ اَنْ یُّطَالِعَ الرَّسَائِلَ الَّتِیْ صَنَّفَھَا الْاِمَامُ الْہُمَامُ فِی الْعَرَبِیِّ الْمُبِیْنِ وَبَلَّغَ فِیْھَا مَا اَمَرَہُ اللّٰہُ اَنْ یُّبَلِّغَ تَبْلِیْغًا لِّلْعَالَمِیْنَ لِاَنَّ فِیْھَا شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُ الظَّالِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا وَلَا یَسَعُ ھٰذَا الْقِرْطَاسُ الْمُخْتَصِرُ اَنْ اُکْتَبَ فِیْہِ مَضَامِیْنَھَا اللَّطِیْفَۃَ وَفَحَاوِیْھَا الشَّرِیْفَۃَ وَلَاکِنْ بِحُکْمِ الْمِثْلِ الْمَشْھُوْرِ اَعْنِیْ مَا لَا یُدْرَکْ کُلُّہٗ لَایُتْرَکْ کُلُّہٗ اَکْتُبُ لَکَ بَعْضًا مِّنْھَا کَالْقَطْرَۃِ مِنَ الْھُجُوْرِ اُنْظُرْ اِلٰی مَا قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِیْ اٰیَتِہِ الْاِسْتِخْلَافِ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ الاٰیَۃ.دَلَّتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ الشَّرِیْفَۃُ عَلٰی اَنَّ الْاِسْتِخْلَافَ فِی الْاُمَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ یَکُوْنُ کَالْاِسْتِخْلَافِ الَّذِیْ مَضٰی فِیْ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ وَیَکُوْنُ الْخَلِیْفَۃُ مِنْکُمْ لَا مِنَ الْیَھُوْدِ وَالنَّصَارٰی فَانْظُرْ اِلٰی اَوَّلِ السِّلْسَلَۃِ الْمُوْسَوِیَّۃِ اَنَّہٗ بَقِیَ الدِّیْنُ الْمُوْسَوِیُّ عَلَی الْحَالَۃِ الْاَصْلِیَّۃِ اِلَی الْقَرْنِ الثَّالِثِ کَذَالِکَ الدِّیْنُ الْمُحَمَّدِیُّ بَقِیَ عَلٰی حَالِہِ الْاَصْلِیَّۃِ وَمَا فَشَی الْکِذْبُ فِیْہِ

Page 542

کَمَا اَخْبَرَ بِہِ الْمُخْبِرُ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ خَیْرُالْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ وَقَالَ ثُمَّ یَفْشُوا الْکِذْبُ وَھٰکَذَا اُنْظُرْ اِلٰی اٰخِرِالسِّلْسَلَۃِ الْمُوْسَوِیَّۃِ جَآئَ الْمَسِیْحُ بْنُ مَرْیَمَ فِی الْقَرْنِ الرَّابِعِ بَعْدَ الْاَلْفِ وَھُوَ خَاتِمُ سِلْسَلَۃِ الْمُوْسَوِیَّۃِ فَکَذَالِکَ یَجِبُ اَنْ یَّاْتِیَ خَاتِمُ الْخُلَفَائِ السِّلْسَلَۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ وَیَکُوْنُ لِیُمَاثِلَ السِّلْسَلَتَانِ کَمَا ھُوَ مُقْتَضٰی لَفْظٍ کَمَا.وَ ھُوَ یَکُوْنُ الْمَسِیْحُ مِنَ الْاُمَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ کَمَا یَقْتَضِیْ لَفْظُ مِنْکُمْ فِی الْاٰیَۃِ وَالْحَدِیْثِ الصَّحِیْحِ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ وَیَجِیْ ُٔ فِیْ وَقْتٍ یُقَارِبُ الْوَقْتَ الَّذِیْ جَآئَ فِیْہِ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ لِیُتِمَّ الْمُشَابَھَۃُ الَّتِیْ یَقْتَضِیْھَا لَفْظُ کَمَا ثُمَّ انْظُرْ اِلٰی تَطَابُقِ مَضْمُوْنِ الْاٰیَۃِ لِلْوَاقِعَاتِ لِاَنَّ الْمَسِیْحَ الْمَوْعُوْدَؑ اِدَّعٰی عَلٰی رَأْسِ الْقَرْنِ الرَّابِعِ بَعْدَ الْاَلْفِ وَبَرْھَنَ عَلٰی دَعْوَاہُ بِالْآیَاتِ الْبَیِّنَاتِ الَّتِیْ ظَھَرَتْ فِی الْاٰفَاقِ مِنَ الْاَرْضِیَاتِ وَالسَّمَاوِیَّاتِ ؎ آسمان بارد نشان الوقت میگوید زمین این دو شاہد از پیٔ تصدیق من استادہ اند وَاَیْضًا ظَھَرَتِ الْاٰیَاتُ الْکَثِیْرَۃُ عَلٰی یَدَیْہِ کَمَا تَدُلُّ الْکُتُبُ الْمُصَنَّفَۃُ عَلَیْہِ.فَتَصْدِیْقُ دَعْوَاہُ تَصْدِیْقٌ لِاٰیَۃِ الْاِسْتِخْلَافِ وَتَکْذِیْبُھَا تَکْذِیْبٌ لِاٰیَۃِ الْاِسْتِخْلَافِ کَمَا یُکَذِّبُ بِھَا فِرْقَۃُ الرَّوَافِضِ وَالْخَوَارِجِ مِنْ اَوَّلِ السِّلْسَلَۃِ اِلٰی اٰخِرِھَا.وَمِنَ الْاٰیَاتِ الْاَرْضِیَّۃِ اَلطَّاعُوْنُ وَالزَّلَازِلُ وَغَیْرُھُمَا.کَمَا جَآئَ تْ فِیْ عَلَامَاتِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِؑ وَمِنَ الْاٰیَاتِ السَّمَاوِیَّۃِ الْخَسُوْفُ وَالْکَسُوْفُ اُنْظُرْ کَیْفَ جَمَعَ بِھَا اللّٰہُ فِیْ شَھْرِ رَمَضَانَ ۱۳۱۲؁ ھِجْرِیَّۃِ کَمَا فِیْ حَدِیْثِ الدَّارِقُطْنِیْ وَغَیْرِہٖ اَلْفَاظُہٗ مِنْ کُتُبِ الْحَدِیْثِ اِنَّ لِمَھْدِیِّنَا اٰیَتَیْنِ لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ تَنْخَسِفُ الْقَمَرُ فِیْ اَوَّلِ لَیْلَۃٍ مِّنْ رَمَضَانَ.یَعْنِیْ فِیْ اَوَّلِ لَیْلَۃٍ مِّنَ اللِّیَالِیِ الَّتِیْ یَکُوْنُ فِیْھَا الْخَسُوْفُ وَ تَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِی النِّصْفِ مِنْہُ یَعْنِیْ فِیْ نِصْفِ الْاَیَّامِ الَّتِیْ تَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِیْھَا وَمَا یُوْرِدُ الْمُخَالِفُوْنَ عَلٰی ھٰذَا الْحَدِیْثِ مِنْ اِیْرَادَاتٍ فَھِیَ بَاطِلَۃٌ.بَعْضُھُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ اَسْنَادَ ھٰذَا الْحَدِیْثِ ضَعِیْفٌ وَلَا یَفْھَمُوْنَ اِصْطَـلَاحَ اُصُوْلِ الْحَدِیْثِ اِنَّ مِنْ ضُعْفِ

Page 543

الْاَسْنَادِ لَایَلْزِمُ عَدْمُ صِحَّۃِ مَضْمُوْنِ الْحَدِیْثِ لِاَنَّ الْحَدِیْثَ وَاِنْ کَانَ مِنْ حَیْثُ الْاَسْنَادِ ضَعِیْفًا وَّلٰـکِنْ اِنْ صَحَّحَہُ الْوَاقِعَاتُ اَوِ التَّجَارِبُ الصَّحِیْحَۃُ اَوِالْاِلْھَامَاتُ الصَّادِقَۃُ اَوِ الْکَشُوْفُ الْمُصَدَّقَۃُ فَیَکُوْنُ صَحِیْحًا قَوِیًّا.بَلْ یَکُوْنُ اَصْبَحُ مِنَ الْاَقْوٰی اَحَادِیْثِ الصَّحِیْحَۃِ الَّتِیْ صَحَّتْبِحَسْبِ الْاَسْنَادِ فَھٰذَا الْحَدِیْثُ شَھِدَ عَلٰی صِدْقِہِ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِجِرْیَانِھَا وَالسَّمٰوَاتُ السَّبْعُ بِدَوْرَانِھَا فَاَیْنَ الْمَفَرُّ.وَ بَعْضُھُمْ یَعْتَرِضُ عَلَیْہِ اَنَّ اِجْتِمَاعَ الْخَسُوْفِ وَالْکَسُوْفِ لَیْسَ مُخْتَصًّا بِزَمَانِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِؑ.بَلْ کَانَ فِی الْاَزْمِنَۃِ السَّابِقَۃِ اَیْضًا مِرَارً اکَثِیْرَۃً وَلَا یَفْھَمُ ھٰذَا الْجَاہِلُ اَنَّ ضَمِیْرَ لَمْ تَکُوْنَا یَرْجِعُ اِلَی الْاٰیَتَیْنِ مِنْ حَیْثُ اَنَّھُمَا تَکُوْنَانِ اٰیَتَیْنِ لِصِدْقِ دَعْوَاہُ الصَّادِقَۃُ فَلْیُبَیِّنْ اَلْمُعْتَرِضُ الْجَاہِلُ اَنَّ الْخَسُوْفَ وَالْکَسُوْفَ بِاِجْتِمَاعِھِمَا فِیْ رَمَضَانَ ۱۱،۱۳۱۲؁ ھ بِالْحَیْثِیَّۃِ الْکَذَائِیَّۃِ الَّتِیْ اِشْتَھَـرَۃٗ فِی الْاَخْبَارِ الْمُعْتَبَرَۃِ الْمَشْھُوْرَۃِ الْاِنْجَلِیْزِیَّۃِ مَتٰی وَقَعَا اَیُّ شَخْصٍ اِدَّعٰی اَنَّھُمَا اٰیَتَانِ لِصِدْقِ دَعْوَایَ وَاَمَّا اِجْتِمَاعُ الْخُسُوْفِ وَالْکُسُوْفِ فِیْ رَمَضَانَ ۱۱،۱۳۱۲؁ ھ فَقَدْ وَقَعَا بِالْحَیْثِیَّۃِ الْکَذَائِیَّۃِ الَّتِیْ اِنْدَرَجَتْ فِی الْحَدِیْثِ الْمَذْکُوْرِ وَاِدَّعَی الْمَھْدِیُّ الْمَوْعُوْدُ اَنَّھُمَا اٰیَتَانِ لِصِدْقِ دَعْوَایَ وَلَمْ یَدَعْ اَحْدٌ مِّنَ الْمَاْمُوْرِیْنَ السَّابِقِیْنَ اَنَّھُمَا اٰیَتَانِ لِدَعْوَایَ وَ اِنْ وَقَعَا فِیْ زَمَانِھِمْ فَصَدَقَ الْمُخْبِرُ الصَّادِقُ اَنَّھُمَا لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ بِالْحَیْثِیَّۃِ الْکَذَائِیَّۃِ وَلَوْ لَا الْاِعْتِبَارَاتُ لَبَطَلَتِ الْحِکْمَۃُ الْحَدِیْثِ.فَتَصْدِیْقُ دَعْوَاہُ عَیْنُ تَصْدِیْقِ الْحَدِیْثِ وَتَکْذِیْبُھَا تَکْذِیْبُ کَلَامِ النُّبُوَّۃِ.اَیْضًا قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی.وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ وَفُسِّرَ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ فِیْ حَدِیْثِ مُسْلِمَ اَوْرَدَہٗ فِیْ ذِکْرِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ وَیُتْرَکُ الْقَـلَاصُ فَـلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا.فَانْظُرُوْا اِلٰی تَعَطُّلِ الْعِشَارِ وَالْقَـلَاصِ فِیْ ھٰذَا الزَّمَانِ بِاِجْرَآئِ الْبَوَابِیْرِ الْرَیَّۃِ فِیْ سِکَکِ الْحَدِیْدِ حَتّٰی اَنَّھَا جَرٰی فِیْ مُلْکِ الْحِجَازِ اَیْضًا وَسَتَتِمُّ فَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا فَانْظُرُوْا کَیْفَ یَسْعٰی فِیْ اِجْرَائِہٖ مُلْکُ الرُّوْمِ وَ جُمْلَۃُ اَھْلِ الْاِسْلَامِ.فَاِنْ یُعَذِّرْاَحَدٌ مِّنَ الْمُخَالِفِیْنَ فَلْیَسَعْ لاِِ نْسِدَادِہٖ لِاَنَّ اِجْرَآئَ ہٗ مُوْجِبٌ لِتَعْطِیْلِ الْعِشَارِ وَالْقَلَاصِ وَتَعْطِیْلُھَا مُوْجِبٌ

Page 544

ِتَصْدِیْقِ دَعْوَاہُ کَمَا اَخْبَرَ بِہِ الْمُخْبِرُ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ فَالْحَاصِلُ اَنَّ تَکْذِیْبَ دَعْوَاہُ تَکْذِیْبُ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَلَوْ حَرَّرْتَ دَلَائِلَ الشَّرْعِیَّۃَ عَلٰی دَعْوَاہُ لَجَاوَزَ عَدَدُھَا مِنَ الْاَلْفِ فَعَلَیْکُمْ بِمُطَابَعَۃِ الْکُتُبِ وَالرَّسَائِلِ الَّتِیْ طُبِعَتْ وَ اُشِیْعَتْ فِی الْاٰفَاقِ.کَتَبَہٗ مُحَمَّدُ اَحْسَنُ خَادِمُ الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ وَالْمَہْدِیُّ الْمَعْہُوْدُ عَلَیْہِ اَلْفَ صَلٰـوۃٍ مِنَ الرَّبِّ الْوَدُوْدِ الَّذِیْ ۹؍فروری ۱۹۰۸ء عربی خط کا مضمون اُردو میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اے میرے حبیب آپ کا خط محبت نامہ حضرت اقدس جری اللہ فی حلل الانبیاء مسیح موعود و مہدی مسعود کی خدمت بابرکت میں پہنچا ہے.آپ نے چاہا ہے کہ خط اگر عربی میں لکھا جاوے تو بہتر ہے کہ یہاں کے احباب کی زبان تامل ہے.ہاں عربی زبان کو بھی بآسانی سمجھ سکتے ہیں.لہٰذا حضرت اقدس نے خاکسار سے ارشاد فرمایا ہے کہ آپ کو خط عربی میں لکھوں اوّلاً آپ کی خدمت میں واضح ہو کہ ایک مختصر خط میں مطالب کا آنا اورپھر اس کے جملہ دلائل کا بیان ہونا کیونکر ہو سکتا ہے.اس لئے آپ اپنے دوست محمدیوسف وغیرہ سے فرمائیے کہ کتب اور رسائل مصنفہ حضرت امام ہمام علیہ السلام کا مطالعہ ضرورکریں جو عربی فصیح میں متحد یانہ بکثرت تصنیف کی گئی ہیں.جیسا کہ حمامۃ البشریٰ،اعجاز المسیح فتویٰ مندرجہ حقیقۃ الوحی وغیرہ وغیرہ ان کتابوں میں حضرت مامور من اللہ نے وہ حقائق و معارف اور مطالب اور ان کے دلائل اور دیگر نشانات ارضی و سماوی تحریر فرمائے ہیں جو دلوں کی بیماریوں کے لئے شفاء کامل ہیں اور مومن کے لئے عین رحمت ِ الٰہی ہیں.ہاں ناانصاف ظالم لوگوں کے لئے توبجز خسارہ اور ضرر کے اور کیا متصوّر ہو سکتاہے.

Page 545

اگر صدباب حکمت پیش نادان بخوانند آئیدش بازیچہ درگوش اس لئے یہ کاغذ مختصرا ًاُن اُن مضامین لطیفہ اور مطالب شریفہ کے مندرج ہونے کی کب گنجائش رکھتا ہے.مگر بحکم مَا لَا یُدْرَکْ کُلُّہٗ لَایُتْرَکْ کُلُّہٗ کے بمنزلہ ایک قطرہ کی دریاء زخار سے لکھتا ہوں.اوّل آیت استخلاف پرہی غور کرو جو سورہ نور میں موجود ہے جس کا حاصل ترجمہ تفسیری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وعدہ فرماچکا ہے اُن مومنوں سے جو تم میں سے ہیں یعنی اُمت ِمحمدیہ میں سے اور نیکوکار بھی ہیں کہ آئندہ بعد حضرت سیدالمرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کے جانشین پیداکرتا رہے گا.جس طرح سے کہ پہلے ان کے یعنی بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کے بعد جانشین اور خلفاء بناتا رہا ہے.آخر تک اس آیت اور اس کے ترجمہ کو آخر تک خوب غور سے دیکھو.بعد تھوڑے سے غور کے تم کو معلوم ہوگا کہ یہ وعدہ الاستخلاف کا امت محمدیہ میں جو بعد نبی کریم ؐ کے آئندہ زمانوں میں واقع ہو گا وہ دو صورتوں میں ہوگا.اول صورت تو یہ کہ جانشین نبی کریمؐ کے اسی امت محمدیہ میں سے ہوں گے.بنی اسرائیل یعنی یہود ونصاریٰ میں سے کوئی شخص جانشین ہمارے نبی کریمؐ کا نہیں آوے گا.خواہ کوئی پیغمبر ہو یا غیر پیغمبر.دوسری قید یہ ہے کہ البتہ یہ سلسلہ استخلاف کا مانند سلسلہ استخلاف حضرت موسیٰ ہی کے ہوگا.گویا سلسلہ استخلاف حضرت موسیٰ کا بمنزلہ ایک توطیہ اور تمہید کے تھا واسطے سلسلہ استخلاف محمدیؐ کے اب ہم دونوں سلسلوں کی اوّل اور آخر پر غور کرتے ہیں اوردرمیانی سلسلوں کو کتب مطولات کے حوالہ پرچھوڑتے ہیں تو ہم تواریخ بائبل سے پاتے ہیں کہ سلسلہ استخلاف موسوی میں قرنوں تک بہ لحاظ دین موسوی کے بحالت اصل باقی رہا.اور کسی طرح کی تحریف وتبدیل دین موسوی میں واقع نہیں ہوئی.جو کچھ بدعات اور تحریفات واقع ہوئیں وہ بعد تین قرنوں کے بھی واقع ہوئیں.پھر جو ہم دین اسلام کے اوائل پر نظر کرتے ہیں تو یہ تواتر پاتے ہیں کہ تین قرنوں تک دین اسلام ہی اپنی حالت اصلی پر بڑے زور و شور کے ساتھ ترقی پذیر رہا.اور جو کچھ دینی خرابیاں اور بدعات جاری ہوئیں وہ بھی تین صدی کے بعد ہی واقع ہوئیں.جیساکہ دین موسوی میں واقع ہوئی تھیں.اور مخبر صادق کی وہ پیشگوئی بھی کامل طورپر پوری ہوئی.جو کلام نبوت میں وارد ہوئی تھی

Page 546

کہ سب قرنوں سے افضل قرن تو مرا قرن ہے اور اس کے بعد جو قرن اس کے قریب ہوگا.اورپھر اس کے بعد جو قرن اس کے قریب ہوگا اور پھر اس کے بعد کذب یعنی بدعات اورخرابیاں دین اسلام میں شائع ہو جاویں گی اورایسا ہی واقع ہوا.فصدق رسولہ الکریم.اب ہم دونوں سلسلوں کی آخر پر بھی نظر کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کے بعد قریباً چودہویں صدی میں جبکہ تحریفات اوربدعات کا زمانہ بڑے زور و شور پر تھا.حضرت عیسیٰ بن مریم واسطے اصلاح اُمت موسوی کے مبعوث ہوئے اور وہی خاتم الخلفاء سلسلہ موسویہ کے بھی ہوئے ہیں.پس حسب مقتضاء لفظ کما کے ضروری ہوا کہ خاتم خلفاء سلسلہ محمدیہ کا بھی بنام مسیح بن مریم تقریباً چودہویں صدی ہجریہ میں امت محمدیہ میں سے ہی مبعوث ہوئے تاکہ دونوں سلسلوں میں تماثل اور تشابہ پیدا ہو جاوے اور لفظ کما کا نعوذ باللہ عبث اور لغو نہ ہو.الحمدللہ کہ ایسا ہی واقع ہوا اور واقعات نے شہادت دے دی ہے کہ دونوں سلسلوں میں ایسا ہی تطابق ہے جیساکہ لفظ کما کا مقتضاء ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے راس صدی چہاردہم ہی پر دعویٰ مجددیت و مسیحائی و مہدویت دنیا میں شائع کیا اور ان کے اس دعویٰ پر علاوہ اَدِلہّ شرعیہ کتاب و سنت کے نشانات آسمانی و زمینی سے ہی منجانب اللہ شہادت حاصل ہوگی جو تمام دنیا میں شہرۂ آفاق ہے.آسمان بارد نشان الوقت میگوید زمین این دوشاہد از پیٔ تصدیق من استادہ اند الحاصل تصدیق آپ کے دعویٰ کی تصدیق آیات الٰہیہ کی ہے.اور تکذیب آپ کے دعویٰ کی تکذیب آیاتِ الٰہیہ کی ہے خواہ آیات قرآنیہ ہوں یا نصوص حدیثیہ یا نشانات آسمانی ہوں یا نشانات زمینی.جن کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخبر صادق نے کی تھی اور دواوین حدیث میں موجود ہے اب فرمائیے کہ ایسے اربعہ متناسبہ کو کون کو دن تسلیم نہ کرے گا جن کا تناسب واقعات نے ثابت کردیا.مثلاً نشاناتِ ارضیہ میں سے طاعون اور زلازل ہیں جو احادیث میں ذیل علامات مسیح موعود میں مذکور کی گئی ہیں.اور پھر بڑے زوروشور کے ساتھ زمانہ مسیح موعود میں وہ واقع ہو چکی اور آیاتِ سماویہ میں سے کسوف و خسوف ہے.جس کو اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان

Page 547

و ۱۳۱۲ ہجریہ میں جمع فرمایا.الفاظ حدیث یہ ہیں جو دارقطنی وغیرہ کتب معتبرہ حدیث میں مذکور ہے.ان لمھدینا اٰیتین لم تکونا منذ خلق السَّمٰوٰت والارض تنخسف القمر فی اول لیلۃ من رمضان یعنی فی اول لیلۃ من اللیالی التی یقع فیھا الخسوف و تنکسف الشمس فی النصف منہ یعنی فی نصف الایام التی تنکسف الشمس فیھا انتھٰی.بعض جہلا اس حدیث پر چند اعتراض کرتے ہیں حالانکہ وہ سب اعتراض بالکل باطل اور لغو و فاسد ہیں.ایک اعتراض یہ ہے کہ یہ حدیث من حیث الاسناد ضعیف ہے.یہ معترض اصول حدیث کے قاعدہ کو ہی بالکل نہیں سمجھتا.جو ایسا واہی اعتراض کرتا ہے کیونکہ سلمنا کہ اسناد ضعیف ہے.مگر قاعدہ اصول ہے کہ اگر کوئی حدیث من حیث الاسناد ضعیف ہو جو ایک اصطلاح حدیث کی ہے تو ضعف اسناد سے لازم نہیں آتا کہ وہ حدیث بھی غلط ہو جاوے مثلاً اگر واقعات اس کی تصحیح کردیویں.توپھر وہ حدیث تو اس حدیث سے بھی اصح اور اقویٰ ہو جاوے گی جو من حیث الاسناد توصحیح ہوں.لیکن واقعات اس کے مصدق نہ ہوئے ہوں.اس لئے یہ حدیث تو نہایت درجہ پرصحیح اورا قویٰ ہے کیونکہ اس کی صحت اور قوت پر زمین وآسمان نے منجانب اللہ شہادت دے دی ہے.فَصَارَالْاِعْتِرَاضُ ھَبَائً مَّنْشُوْرًا.اور بعض کم فہم یہ اعتراض کرتے ہیں کہ زمانہ سابقہ میں ہی چند بارایسا اجتماع کسوف اور خسوف کا واقع ہوا ہے.یہ جاہل معترض نہیں سمجھتا کہ ضمیر لم تکونا.جو بمعنی دونشانوں کے ہے اور ظاہر ہے کہ کسی شخص نے زمانہ سابقہ میں کسوف اور خسوف کا اپنے دعویٰ کی تصدیق کے لئے نشان ہونے کا دعویٰ ہرگز ہرگز نہیں کیا بخلاف مانحن فیہ کے کہ حضرت مسیح موعود نے ہزارہا رسائل اور کتب اوراشتہارات میں ان کے نشان ہونے کا دعویٰ تمام دنیا میں شائع کیاہے.پس مخبر صادق کی پیشگوئی تو یہ تھی کہ یہ اجتماع کسوف و خسوف ہمارے سچے مہدی کے لئے د۲و نشان ہوویں گے.سو یہ پیشگوئی واقع ہوگئی.اب پھر یہ کہنا کہ ایسے واقعات تو ہمیشہ ہی ہوا کرتے ہیں کیسی حماقت ہے.جس سے تمام نشانہائے مندرجہ قرآن مجید کی تکذیب لازم آتی ہے کیونکہ جملہ انبیاء کے لئے جو نشانات من جانب اللہ دئیے گئے ہیں وہ دنیا میں واقع تو ہوتے ہی رہتے ہیں.پس معترض پر ان سب

Page 548

تکذیب لازم آوے گی حتیّٰ کہ فرعون اور آلِ فرعون کا غرق ہونا بھی کوئی نشان صداقت موسوی کے لئے نہیں ہو سکے گا کیونکہ اکثر جہاز اور کشتیاں غرق ہوتی رہتی ہیں.الحاصل دارومدار کسی واقعہ کے نشان صداقت مامور من اللہ کے لئے ہونے کا پیشگوئی ہوا کرتی ہے.جو ویسے ہی واقع ہو جیسا کہ مامور من اللہ نے اس کی خبر دی ہے.یہ اجتماع خسوف وکسوف دونشان تصدیق مسیح موعود کے لئے ایسے ہی واقع ہوئے جیسا کہ حدیث میں وارد ہے اور قیامت تک آپ کا نشان ہونا زبانِ خلق پر جاری رہے گا.فصدق المخبر الصادق فی اخبارہ انھما لم تکونا منذ خلق السمٰوات والارض.پس تصدیق آپ کے دعویٰ کی عین تصدیق کلام نبوت کی ہے اور تکذیب اس کی عین تکذیب کلام نبوت کی ایضاً فرمایا.اللہ تعالیٰ نے اوریاد کرو اس وقت کو کہ اونٹنیاں معطّل کی جاویں گی.اس آیت کی تفسیر خود کلام نبوت میں مذکور ہے.جو صحیح مسلم میں باب مسیح بن مریم میں مندرج ہے کہ یترک القلاص فلا یسعٰی علیھا کہ جوان اونٹنیاں متروک کی جاویں گی.اوران پر دوڑ نہ کی جاوے گی.یعنی سواری نہ کی جاوے گی.اب دیکھو کہ ہندوستان میں مدت سے اُونٹنیوں کی سواری بمقابلہ ریل کے متروک ہو ہی گئی ہے.لیکن عرب میں بھی حجاز ریلوے کے سبب سواری اونٹنیوں کی متروک ہوتی جاتی ہے.اورقریب تربالکل مسافات بعیدہ تک متروک ہو جاوے گی.اب غورکرو کہ اس نشان کے پورا کرنے کے لئے اوّل تو گورنمنٹ انگلشیہ نے کیسی جان توڑ کوششیں کی ہیں اور لاکھوں روپیہ اس کی تیاری میں صرف کیا اور الحال گورنمنٹ رومیہ معہ جملہ اہالی اسلام کے حجاز ریلوے وغیرہ کی تیاری میں کیسی مساعی جمیلہ عمل میں لار ہے ہیں.اب ہمارے مخالفین کو چاہئے کہ اس نشانِ الٰہی کو جس کی خبر قرآن مجید اور حدیث صحیح دونوں میں موجود ہے پورا نہ ہونے دیویں تاکہ اونٹنیاں معطّل اور بیکار نہ ہوویں جس سے تصدیق مسیح موعود کی لازم آتی ہے.اوراس ریل کی سواری کی خبر متعدد جگہ پر قرآن مجید میں موجود ہے.کما قال اللہ تعالیٰ  .۱؎ ..۲؎

Page 549

اب فرمائیے کہ ما لا تعلمون سے بجز سواری ریلوے کے اور کیا مراد ہو سکتی ہے.پس لفظ ما سے مراد بقرینہ سباق آیت والخیل والبغال والحمیر کے بجز سواری کے اور کیا ہوگی اور مثل جہاز کے جو دریائی سواری ہے.بجز ریلوے کے جو برّی سواری ہے اور کیاہے.اگراس مختصرخط میں نشانات اور دلائل شرعیہ کی تفصیل کی جاوے تو براہین کا شمار عدد ہزار سے بھی متجاوز ہو جاوے اس لئے آپ صاحبوں کو لازم ہے کہ کتب مصنّفہ اور رسائل حضرت صاحب کو مطالعہ کرو.وبس.وآخر دعوانا ان الحمد لِلّٰہ ربّ العالمین.٭ ۱۳؍فروری ۱۹۰۸ء کتبہ محمداحسن نزیل قادیان

Page 550

مکتوب بنام ایڈیٹر صاحب اخبار عام (اخبار عام کے لئے یہ ہمیشہ فخر رہے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آخری وقت تک اس کے خریدار تھے.اوریہ عزت و شرف بھی اس کے حصہ میں آیا کہ آپ کا آخری مکتوب اسی روز شائع ہوتاہے جبکہ حضور علیہ السلام اپنے مولیٰ کریم کی طرف مرفوع ہو چکے تھے.اس خط کی تحریر اور اشاعت کا باعث یہ ہوا کہ:.۱۷؍ماہ مئی ۱۹۰۸ء کو بمقام لاہور جلسہ دعوت پر جو تقریر حضرت اقدس نے فرمائی تھی.اس تقریر کی بنا پر یہ غلط خبر پرچہ اخبار عام ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء میں شائع ہوئی کہ آپ نے اس جلسہ دعوت میں دعوائے نبوت سے انکار کیا ہے.تواسی روز حضور نے ایڈیٹر اخبار مذکور کی طرف ایک خط لکھا.جس میں اس غلط خبر کی تردید کی.چنانچہ حضرت اقدس کا وہ خط یہ ہے) جناب ایڈیٹر صاحب! اخبار عام پرچہ اخبار عام ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء کے پہلے کالم کی دوسری سطر میں میری نسبت یہ خبر درج ہے.کہ گویا میں نے جلسہ دعوت میں نبوت سے انکار کیا.اس کے جواب میں واضح ہو کہ اس جلسہ میں مَیں نے صرف یہ تقریر کی تھی کہ میں ہمیشہ اپنی تالیفات کے ذریعہ سے لوگوں کو اطلاع دیتا رہا ہوں.اوراب بھی ظاہر کرتا ہوں کہ یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں.جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا.اور جس کے یہ معنی ہیں کہ میں مستقل طورپر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا.اوراپنا علیٰحدہ کلمہ اور علیٰحدہ قبلہ بناتا ہوں اورشریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتدار اورمتابعت سے باہر جاتا ہوں یہ الزام صحیح نہیں

Page 551

ہے بلکہ ایسا دعویٰ نبوت کا میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر ایک کتاب میں ہمیشہ یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں.اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے اور جس بناء پر میں اپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں.وہ صرف اس قدر ہے کہ میں خدا کی ہمکلامی سے مشرف ہوں.وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتاہے اورمیری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا اورآئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جب تک انسان کو اس کے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو.دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا.اورانہیں امور کی کثرت کی وجہ سے اس نے میرا نام نبی رکھا ہے.سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں.اوراگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا.اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے.تو میں کیوں کرانکار کرسکتا ہوں.میں اس پر قائم ہوں.اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جائوں.مگر میں ان معنوں سے نبی نہیں ہوں کہ گویا میں اسلام سے اپنے تئیں الگ کرتا ہوں.یا اسلام کا کوئی حکم منسوخ کرتا ہوں.میری گردن اس جوئے کے نیچے ہے جو قرآن کریم نے پیش کیا.اور کسی کو مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن شریف کا منسوخ کر سکے.سو میں صرف اس وجہ سے نبی کہلاتا ہوں کہ عربی اورعبرانی زبان میں نبی کے یہ معنی ہیں کہ خدا سے الہام پا کر بکثرت پیشگوئی کرنے والا اوربغیر کثرت کے یہ معنی تحقیق نہیں ہو سکتے.جیسا کہ صرف ایک پیسہ سے کوئی مالدار نہیں کہلا سکتا.سو خدا نے مجھے اپنے کلام کے ذریعہ بکثرت علمِ غیب عطا کیاہے.اور ہزارہا نشان میرے ہاتھ پر ظاہر کئے ہیں اور کر رہاہے.میں خود ستائی سے نہیں بلکہ خدا کے فضل اوراس کے وعدہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ اگر تمام دنیا ایک طرف ہو اور ایک طرف صرف میں کھڑا کیا جائوں.اورکوئی ایسا امر پیش کیا جائے.جس سے خدا کے بندے آزمائے جاتے ہیں.تو مجھے اس مقابلہ میں خدا غلبہ دے گا.اورہر ایک پہلو کے مقابلہ میں خدا میرے ساتھ ہوگا.اورہر ایک میدان میں وہ فتح دے گا.پس اسی بنا پر خدا نے میرا نام نبی رکھا ہے.اس زمانہ میںکثرت مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ اورکثرت اطلاع پر علوم غیب صرف مجھے ہی عطا کی گئی ہے.اورجس حالت میں عام طورپر لوگوں کو خوابیں بھی آتی ہیں.بعض کو الہام بھی ہوتاہے.اور کسی قدر ملونی کے ساتھ علم غیب سے بھی اطلاع دی جاتی ہے.مگر وہ الہام مقدار

Page 552

میں نہایت قلیل ہوتاہے.اور اخبار غیبیہ بھی اس میں نہایت کم ہوتی ہیں.اور باوجود کمی کے مشتبہ اور مکدر اور خیالات نفسانی سے آلودہ ہوتی ہیں.تو اس صورت میں عقل سلیم خود چاہتی ہے کہ جس کی وحی اور علم غیب اس کدورت اورنقصان سے پاک ہو اس کو دوسرے معمولی انسانوں کے ساتھ نہ ملایا جائے بلکہ اس کو کسی خاص نام کے ساتھ پکارا جائے تاکہ اس میں اوراس کی غیر میں امتیاز ہو.اس لئے محض مجھے امتیازی مرتبہ بخشنے کے لئے خدا نے میرا نام نبی رکھ دیا.اور مجھے ایک عزت کا خطاب دیا گیا ہے تاکہ اُن میں اور مجھ میں فرق ظاہر ہوجائے.ان معنوں سے میں نبی ہوں اور امتی بھی ہوں.تاکہ ہمارے سیدو آقا کی وہ پیشگوئی پوری ہو کہ آنے والا مسیح امتی بھی ہوگا اور نبی بھی ہوگا.ورنہ حضرت عیسیٰ جن کے دوبارہ آنے کی باری ہے.ایک جھوٹی امید اور جھوٹی طمع لوگوں کو دامنگیر ہے.وہ امتی کیوں کر بن سکتے ہیں.کیا آسمان سے اتر کر نئے سرے سے مسلمان ہوں گے.یا کیا اس وقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء نہیں رہیں گے.والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ ٭ ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء الراقم خاکسار المفتقر الی اللّٰہ الاحد غلام احمدعفی عنہ از شہرلاہور

Page 553

مکتوب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا اگرچہ یہ سوالات جو آپ نے اپنے خط میں لکھے ہیں کئی دفعہ میں اپنی کتابوں میں ان کا جواب لکھ چکا ہوں.لیکن آپ کے اصرار کی وجہ سے اب بھی کچھ تھوڑا سا لکھ دیتا ہوں.قاعدہ کلی کے طور پر آپ یہ یاد رکھیں کہ ہمارا مذہب یہ ہے کہ ہم سب سے مقدم قرآن شریف کو جانتے ہیں اور پھر اس کے بعد وہ حدیثیں ہماری ماخذ و استدلال ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور پھر اس کے بعد وہ امور مشہودہ محسوسہ جس سے کوئی عقل انکار نہیں کر سکتی اور ماسوا اس کے جس قدر احادیث یا اقوال اور آثار قرآن شریف کے مخالف ہیں یا امور مشہودہ محسوسہ بدیہیہ سے مخالف پڑے ہیں.ہم ان کو نہیں مانتے.اب اس مختصر تقریر کی رو سے ہمارا یہ جواب ہے کہ جس قدر حدیثیں آپ نے پیش کی ہیں.ان میں سے کچھ تو ایسی ہیں کہ قرآن کے مخالف اور معارض ہیں اور نیز ایسی حدیثوں کے مخالف ہیں.جو قرآن کے مطابق ہیں اور ان میں سے ایسی حدیثیں ہیں جو مجروح اور مخدوش ہیں اور محدّثین کو ان کی صحت میں کلام ہے.چنانچہ مفصل جواب سوالات کا ذیل میں لکھا جاتا ہے.اوّل.قحط کی نسبت جو سوال کیا گیا ہے یہ سراسر جہالت پر مبنی ہے.اس بات کو ہر ایک اہل علم جانتا ہے کہ مسلم میں ایک حدیث ہے کہ مسیح کے زمانہ میں ایک سخت قحط پڑے گا.زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں.دوم.کفر کے فتوے جن لوگوں نے دیے ان سے ہمارا کچھ حرج نہیں کیونکہ جب کہ ہم قرآن اور حدیث اور آسمانی نشانوں سے ثابت کر چکے ہیں کہ ہم حق پر ہیں تو یہ فتوے ہمیں کیا ضرر پہنچا سکتے ہیں بلکہ اس سے تو ہماری اور بھی حقیقت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے..۱؎ پھر ماسوا اس کے حدیث اور آثار کی کتابوں میں نظر کرو.ان میں

Page 554

لکھا ہے کہ مہدی معہود پر کفر کا فتویٰ لگایا جاوے گا.اگر اور کوئی کتاب نہ ہو تو حجج الکرامہ میں مہدی کے باب میں دیکھو.پس اس صورت میں کفر کا فتویٰ لگانا ہمارے لئے کچھ مضر نہ ہوا بلکہ ایک نشان ہوا جو مکفرّین کے ہاتھ سے ظہور میں آیا.۳.جو شخص رمل کہتا ہے اس کا ثبوت دے اور جب تک وہ ثبوت نہ دے وہ قابل خطاب نہیں ہے.۴.یہ مطالبہ معجزات کا جو ہے یہ عجیب امر ہے کہ ایک ہی جگہ دو متناقض امر درج کر دیئے ہیں.پہلے میں لکھا ہے کہ پیشگوئیاں کرتے ہیں اور دوسرے میں لکھا ہے کہ نہیں کرتے پھر ماسوا اس کے اگر کسی کو ہمارے نشان دیکھنے ہیں تو ہماری کتاب تریاق القلوب کو منگا کر دیکھ لے اس میں سو سے زیادہ نشان لکھے ہیں جن کے لاکھوں گواہ موجود ہیں.۵.آپ نے لکھا ہے کہ دجال کی علامتیں کو نسی ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اس دجال فرضی و وہمی کو ہرگز نہیں مانتے جس کی ہمارے مخالف علماء کے دلوں میں تصویر ہے کیونکہ اس دجال کا وجود اور اس کی صفات قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کے مخالف ہیں.قرآن کی یہ آیت.۱؎ صاف ظاہر کر رہی ہے کہ دنیا میں قیامت تک دو قوموں کو غلبہ رہے گا یا حقیقی متبع حضرت مسیح ؑکے یعنی اہل اسلام یا ادعائی متبع حضرت مسیح ؑ کے یعنی نصاریٰ.اور دجال نہ حقیقی متبع حضرت مسیح ؑکا ہے نہ ادعائی اس لئے وجود اس کا باطل ہے اور بخاری میں صحیح حدیث یہ ہے کہ یکسر الصلیب اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح ؑ عیسائیت کے غلبہ کے وقت ظہور کرے گا اور اس کے غلبہ کو توڑے گا پس کیونکر ممکن ہے کہ ایک وقت میں عیسائی دین کا بھی غلبہ ہو اور کسی دجال کی سلطنت کا بھی غلبہ ہو اور ماسوا اس کے یہ مان لیا گیا ہے اور یہ عقیدہ ہمارے تمام مخالف علماء کا ہے کہ دجال کا تسلط بجز حرمین شریفین کے کل دنیا پر ہو گا اور یہ حدیث یکسر الصلیب کی بیان کر رہی ہے کہ مسیح عیسائیت کے غلبہ کے وقت آئے گا پس جس حالت میں دجال کا غلبہ تمام روئے زمین پر ہو گا تو عیسائی سلطنت اور مذہب کا غلبہ کس زمین پر ہو گا.اور چونکہ یکسر الصلیب کی حدیث قرآن کی آیت مذکورہ بالا ۱؎ آل عمران : ۵۶

Page 555

سے مطابق اور موافق ہے اور یہ حدیث بخاری کی ہے اس لئے بباعث اس توافق اور تظاہر کے بھی حدیث صحیح ہے اور یہی مذہب صحیح ہے.۶.یہ سوال کہ مسیح کا نزول آسمان سے ہو گا اور مسجد اقصیٰ کے منار پر ہو گا.میرے خیال میں ایسا خیال کوئی اہل علم نہیں کرے گا بجز ایک جاہل اور بیخبر کے جس کو علم حدیث کا نہیں ہے کیونکہ جہاں تک ہمارے لئے ممکن تھا ہم نے کل کتابیں حدیثوں کی دیکھیں آسمان کا لفظ کہیں نہیں دیکھا اور نہ دیکھا کہ مسیح ؑ آکر منارہ پر بیٹھ جائے گا.اگر کسی کے پاس ایسی حدیث ہو بشرطیکہ مرفوع متصل ہو جس کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچے جب تک وہ ایسی حدیث پیش نہ کرے تب تک لائق خطاب و جواب نہیں ہے.ہاں البتہ اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ حدیثوں میں نزول کا لفظ موجود ہے لیکن نزول سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ آسمان سے نزول ہو گا بلکہ زبان عرب میں یہ لفظ تشریف اور اکرام کا ہے جیسا کہ کہتے ہیں کہ فلاں لشکر فلاں جگہ اُترا اور آپ کہاں اُترے ہیں اور فارسی میں اس جگہ فروکش کا لفظ آتا ہے اس سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ آسمان سے اُترے ہیں اسی وجہ سے نزیل زبان عرب میں مسافر کو کہتے ہیں.۷.یہ وسوسہ کہ ابھی منار بنا رہے ہیں تو پھر کیا بنانے کے بعد اس پر چھلانگ ماریں گے اس کا جواب ہم ابھی دے چکے ہیں کہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ مسیح ؑمنار پر آکر بیٹھ جائے گا.ایسا معترض جب حوالہ تلاش کرنے کے لئے کتابوں کو دیکھے گا تو ضرور شرمندہ ہو گا.۸.اور جو حدیث آپ نے بخاری اور مسلم کی لکھی ہے کہ مسیح ؑاُترے گا اور صلیب کو توڑے گا اور سوروں کو مارے گا اور جزیہ رکھ دے گا.افسوس کہ اس حدیث کا صحیح ترجمہ معترض نے نہیں لکھا اور بجائے اس کے کہ جزیہ موقوف کرے گا جزیہ لگا دے گا ترجمہ کیا ہے.میں نہیں جانتا کہ یہ حدیث ہمارے سامنے کیوں پیش کی ہے.یہ تو اس کو مضر اور ہمارے لئے مفید ہے.کیونکہ اول اس میں آسمان کا ذکر نہیں صرف نزول کا ذکر ہے جو زبان عرب میں مسافروں کے لئے مستعمل ہوتا ہے جیسا کہ مسلم کی ایک دوسری حدیث میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک طرف مسیح ترے گا اور دوسرے مقام میں دجال اُترے گا یعنی دجال اُحد پہاڑ کے پیچھے نزول کرے گا پھر اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح ؑ نصاریٰ کے غلبہ کے وقت اترے گا اور تمہارا عقیدہ یہ ہے

Page 556

دجال کے غلبہ کے وقت اُترے گا اور یہ جو ہے کہ جزیہ رکھ دے گا یعنی موقوف کرے گا.اس صحیح بخاری کی دوسری قرأت یہ ہے کہ یضع الحرب کہ جنگ کو موقوف کرے گا اور وہ کوئی لڑائی نہیں کرے گا اور یہ قرأت صحیح ہے کیونکہ ایک دوسری حدیث اس کی مؤید ہے اور وہ یہ ہے یقع الامنۃ فی الارض عند نزول المسیح یعنی مسیح کے نزول کے وقت بھی امن کی حالت ہو جاوے گی اور کوئی لڑائی نہیں ہو گی.۹.اور جو مال کی بابت اعتراض کیا گیا ہے.البتہ اس کا تو مجھے اقرار کرنا پڑے گا کہ میں نے علماء حال کا بہت نقصان کیا ہے کہ ان کی موہوم امیدیں جو درہم و دینار کے متعلق تھیںسب ٹوٹ گئیں لیکن ذرا زیادہ غور کر کے وہ خود سمجھ جائیں گے کہ یہ امیدیں کسی نص قرآنی اور حدیثی پر مبنی نہ تھیں صرف غلط فہمی تھی.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۱؎ تو کیا مال بیشمار دیکر خدا ان کو فتنہ میں ڈال دے گا اور بجز اس کے ایک حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام درہم اور دینار نہیں چھوڑتے ان کے وارث ان کے علم کے وارث ہوتے ہیں پس ان تمام حدیثوں سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود جو دنیا میں آئے گا وہ ایک روحانی مال عطا کرے گا جس کی دنیا محتاج ہو گی ورنہ مسیح کسی مہاجن سا ہوکار کی صورت میں نہیں آئے گا کہ لوگوں کو اپنی آسامیاں ٹھہرا کر روپیہ تقسیم کرے.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کا نام مال رکھا ہے اور حکمت کا نام بھی مال رکھا ہے جیسا کہ فرماتا ہے کہ   ۲؎ مفسر لکھتے ہیں کہ اس کے معنے ہیں.مَالًا کَثِیْرًا لغت میں خیر کے معنے مال کے لکھے ہیں اور ایک اور حدیث میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ میں نے ایک بڑی دعوت کی اور ہر ایک قسم کا کھانا پکایا تو بعض کھانا کھانے کے لئے آئے انہوں نے کھانا کھا کر حظّ اٹھایا اور بعض نے اس دعوت سے انکار کیا وہ بے نصیب رہے.اب دیکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پلائو اور قورمہ وغیرہ پکایا تھا یا روحانی کھانے تھے.اصل بات یہ ہے کہ انبیاء اکثر روحانی امور کو طرح طرح کے پیرا یوں میں بیان فرمایا کرتے ہیں اور نفسانی آدمی ان کو جسمانی امور کی طرف لے جاتے ہیں.بھلا ہم پوچھتے ہیں کہ مسیح

Page 557

آکر درہم و دینار بہت سے تقسیم کرے گا کہ علماء وغیرہ کے گھر سونے چاندی سے بھر جائیں گے لیکن اس کا کہاں تذکرہ ہے کہ وہ لوگ جو روحانی طور پر بھوکے پیاسے ہوں گے ان کی اسی طور سے پوری حاجت براری کرے گا.پس اگر یہ تذکرہ کسی اور جگہ نہیں تو یقینا یاد رکھو کہ یہ وہی تذکرہ ہے جو استعارہ کے رنگ پر بیان کیا گیا ہے.۱۰.اعتراض یہ ہے کہ جب حضرت مسیح آئیں گے تو نماز کے بارہ میں آپس میں مہدی و مسیح تواضع کریں گے اور ایک دوسرے کو کہیں گے کہ وہ امام ہو یا یہ امام ہو.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیثیں جو امام مہدی کے متعلق ہیں کل مجروح و مخدوش ہیں.ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں کہلا سکتی.جو لوگ ان حدیثوں کو مانتے ہیں وہ اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں اور کوئی بھی جرح سے خالی نہیں ما سوا اس کے ان حدیثوں کے مخالف ایک دوسری حدیث ہے.لا مھدی الا عیسٰی جو ابن ماجہ اور مستدرک میں لکھی ہوئی ہے.یہ حدیث ہمارے نزدیک صحیح ہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ اس حدیث کے مخالف جو حدیثیں مہدی اور مسیح کے بارے میں آئی ہیں وہ ایک میان میں دو تلواریں ڈالنی چاہتی ہیں یعنی ایک ہی وقت میں دو خلیفے جمع کرتے ہیں.ایک طرف تو امام مہدی خلیفہ ہوئے اور دوسری طرف جو شخص آسمان سے اُترا اور ایک بڑا قصد کر کے آیا اور خدا نے اس کو بڑی اصلاح کے لئے بھیجا.اگر اس کو خلیفہ نہ سمجھا جائے تو خدا کا یہ سارا کام لغو ٹھہرتا ہے گویا خدا کی اوّل تو یہ مرضی تھی کہ اس کو خلیفہ مقرر کرے اور اسی نیت سے اس کو آسمان سے زمین کی طرف روانہ کیا اور ابھی وہ زمین پر نہیں پہنچا تھا کہ خدا کی نیت بدل گئی.ایک اور شخص کو اس نے خلیفہ کر دیا.وہ بیچارہ ابھی اس مقصد سے جس کے لئے وہ خوشی خوشی اُترا تھا نامراد رہا اور دوسری نامرادی اور دلی سوزش اس کے لئے اس سے اور بھی بڑھی کہ قریباً دو ہزار برس تک یا اس سے زیادہ اس کو امیدیں دلاتے رہے کہ وہ عہدہ تجھے ملے گا اور جب وقت آیا تو دوسرے کو دے دیا پس خدا کی شان سے یہ بعید ہے کہ ایسی بیجا حرکت جس سے مسلمانوں کے گروہ میں تشویش پیدا ہو ایسے نازک وقت میں کرے جس میں اسلام کو اتفاق کی ضرورت ہے گویا یہ مسئلہ روافض کے مسئلہ کے قریب قریب مشابہ ہو گیا کہ ایک طرف تو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم کو نبی کر ے بھیجا اور دوسری

Page 558

طرف حضرت علی کے کان میں پھونک مار دی کہ نبوت کا تیرا حق تھا جبرئیل کو یہ غلطی لگ گئی.۱۱.عیسیٰ اُتریں گے پھر نکاح کریں گے اور ان کے اولاد ہو گی.میں نہیں سمجھتا کہ یہ اعتراض کیوں پیش کیا ہے.ہر ایک شخص نکاح کرتا ہے اور اولاد بھی ہو جاتی ہے ہاں اس صورت میں اعتراض ہو سکتا تھا کہ اب تک میں نے کوئی نکاح نہ کیا ہوتا یا اولاد نہ ہوتی نکاح موجود ہے اولادبھی چھ۶ لڑکے ہیں.۱۲.اور یہ اعتراض جو مسیح ؑکا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر میں دفن کیا جانا ضروری ہے اول تو یہ قبل از وقت ہے کیونکہ ابھی تک میں زندہ موجود ہوں.پھر ماسوا اس کے جو معنے اس حدیث کے آپ لوگ سمجھتے ہیں.اس سے تو لازم آتا ہے کہ حضرت مسیح اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی وقت میں ایک قبر میں دفن کئے جاویں کیونکہ حدیث میں معی کا لفظ موجود ہے اور دوسرا فساد یہ ہے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھودی جاوے اور یہ نبی کی قبر کی توہین اور تحقیر ہے.اس لئے اس حدیث کے معنے بھی روحانی طور پر ہیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب قریب اس کا مرتبہ ہو گا اور وہ بہشت جو میری قبر کے نیچے ہے اس سے وہ پورے طور پر حصہ پائے گا.بات یہ ہے کہ تمام صوفیا کرام اور اہل اللہ اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ ہر ایک شخص اپنی وفات کے بعد اسی درجہ تک اخروی نعمتوں سے حصہ پا سکتا ہے جس درجہ تک اس کاآنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر سے قرب ہے.ہر ایک انسان جو مرتا ہے خواہ مشرق میں مرے خواہ مغرب میں اگر وہ مومن ہوتا ہے تو اس کی قبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر سے روحانی طور پر نزدیک کی جاتی ہے اور جو کافر مرتا ہے اس کی قبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر سے دور کی جاتی ہے.کیونکہ جب کہ ہر ایک مومن کے لئے بہشت کی کھڑکی قبر میں کھولی جاتی ہے اور بہشت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے نیچے ہے تو بالضرور ماننا پڑا کہ ہر ایک مومن اپنے مرتبہ اور عزت کے موافق مرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر سے نزدیک ہو جاتا ہے.۱۳.اور یہ حدیث مسلم کی جو ایک لمبی حدیث ہے جس میں دجال کا کانا ہونا اور اس کا مینہ برسانا وغیرہ لکھا ہے ہم اس وقت اس کا جواب دیں گے جب کہ آپ اس کا جواب دے لیں

Page 559

گے کہ قرآن جو قیامت تک دوقوموں کا غلبہ قرار دیتا ہے ایک اہل اسلام اور دوسرے نصاریٰ اور جیسا کہ ابھی ذکر ہوا حدیث صاف بتلاتی ہے کہ حضرت مسیح کسر صلیب کے لئے آئیں گے یعنی صلیب کے غلبہ کے وقت اس حدیث اور قرآن کی اس آیت سے یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ دجال کی حدیث بالکل جھوٹی اور مردود ہے جو شخص اس کو مانتا ہے.اس کو قرآن کا انکار کرنا پڑے گا اور حدیث یکسر الصلیب کا بھی انکار کرنا پڑے گا اس لئے یہ حدیث اس لائق نہیں ہے کہ ہم اس کا کچھ جواب دیں.۱۴.اور یہ حدیث جو آپ نے لکھی ہے کہ مہدی فلاں خاندان سے اور اس کے باپ کا نام یہ ہو گا.ہم ابھی بیان کر چکے ہیں کہ یہ حدیثیں کل مردود اور موضوع ہیں قابل توجہ نہیں ہیں.کیونکہ قرآن اور احادیث صحیحہ کے مخالف ہیں جبکہ یہ حدیث اسی صحاح ستہّ میں موجود ہے کہ لا مہدی الا عیسٰی تو پھر اس حدیث کے ماننے کے بعد یہ ماننا پڑتا ہے کہ اس کے مخالف جس قدر حدیثیں ہیں وہ صحیح نہیں ہیں اور جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں.یہ صحیح بڑے پایہ کی حدیث ہے.کیونکہ اس میں وہ اختلاف اور غیرمعقولیت نہیں پائی جاتی جو دوسری حدیثوں میں پائی جاتی ہے یعنی ایک ہی وقت میں دو خلیفے مقرر کرنا اور ہمارے سامنے یہ پیش کرنا کہ مہدی بنی فاطمہ ہی سے ہو گا یا فلاں خاندان سے ہو گا عبث ہے.ہم کب یہ دعوے کرتے ہیں کہ ہم وہ مہدی ہیں جو ان صفات کا ہو گا بلکہ ایسے مہدی کے وجود سے ہم قطعاً منکر ہیں اور کوئی صحیح حدیث اس کی تائید میں پیدا نہیں ہوتی.ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ہم وہ مہدی ہیں جو مسیح بھی ہے اور ظاہر ہے کہ مسیح کے لئے ضروری نہیں کہ بنی فاطمہ سے ہو اصل بات یہ ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسی حدیثیں عباسی سلطنت کے عہد میں بنائی گئی ہیں اسی واسطے بعض نے ان میں سے اپنا لقب مہدی رکھا تھا اور اس مہدی کے متعلق جو بنی فاطمہ سے سمجھا گیا ہے جسقدر قصے ایک ناول کے طور پر بنائے گئے ہیں جن میں سے بعض کا آپ نے ذکر بھی کیا ہے.یہ تمام قصے غلط اور لغو ہیں اور صریح قرآن کے مخالف ہیں.بھلا یہ کیونکر ہو کہ مہدی تو آکر لڑائیوں کا ایک طوفان برپا کر دے گا اور مسیح کے حق میں یہ لکھا ہو کہ یضع الحرب یعنی لڑائیوں کی صف لپیٹ دے ایک کا مقصد کچھ اور اور دوسرے کا مقصد کچھ اور اور دونوں ایک ہی وقت میں.

Page 560

اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہم جیسا کہ بیان کر چکے ہیں.قرآن کو سب حدیثوں پر مقدم رکھتے ہیں اور ان حدیثوں کو مانتے ہیں جو قرآن کے موافق ہیں اور ہمارے مخالف دیوانوں کی طرح باربار وہ حدیثیں پیش کرتے ہیں جو قرآن کے مخالف پڑی ہیں اور خود باقرار ان کے علماء کے ضعیف اور مجروح ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.َ ۱؎ یعنی قرآن کے بعد کس حدیث کو تم مانو گے.سو ہم اس آیت پر ایمان لاتے ہیں اور قرآن کے بعد اور کسی حدیث کو جو اس کے مخالف ہو نہیں مانتے.مکرم آنکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسیح موعودکا نام حَکَمْ رکھا ہے پس مسیح موعود کے لئے عملی ثبوت حکم ہونے کا بھی چاہیے تاکہ اس کا حکم ہونا ثابت ہو جاوے اور حکم ہونا اسی وقت مسیح موعود کا مانا جاوے گا کہ وہ متنازعہ فیہ امور کو صاف کر کے دکھادے اور جو حدیثیں کہ مجروح و مخدوش ہوں یا قرآن شریف کے خلاف ہوں.ان کو علیٰحدہ کر دے اور ان کا مجروح ہونا ثابت کر کے دکھا دے اور جو احادیث قرآن شریف کے مطابق اور موافق ہوں اور وہ صحیح ہوں.ان کی صحت پر اپنی مہر صداقت لگادے.اگر وہ ہر ایک فرقہ کی حدیثوں کو قبول کرلے اور ہر ایک فرقہ اور مشرب کے لوگوں کی ہاں میں ہاں ملاتا رہے تو وہ کاہے کا حَکَمْ ہو گا وہ حَکَمْ اسی وقت مانا جاوے گا کہ خبیث و طیّب اور مردود و مقبول صحیح و موضوع احادیث میں تصرّف کر کے اور خدا سے علم صحیح پا کر تمیز و تفریق کر کے دکھادے.سو ہم نے خدا کے فضل اور اس کی تعلیم سے ہر ایک امر میں بحیثیت حَکَمْ ہونے کے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے.فرق کر دیا ہے اور صحیح حدیثوں کو الگ اور موضوع اور مجروح حدیثوں کو الگ کر کے دکھادیا اور بتلا دیا کہ مہدی کی حدیثیں سب ناقابل اعتبار اور قرآن شریف کے خلاف ہیں.ان میں اگر صحیح حدیث ہے تو یہی ہے کہ لا مھدی الا عیسٰی اور دجال کی وہ حدیثیں جو خلاف قرآن اور شرک سے پرُ ہیں.یہی بتلا دیا کہ خراب اور ایمان کی برباد کرنے والی ہیں اور سراسر جھوٹی ہیں.٭ ۲۲؍جولائی ۱۹۰۰ء والسلام

Page 561

مکتوب ۱۷؍مارچ ۱۹۰۸ء کو ایک صاحب علاقہ بلوچستان نے حضرت اقدس کی خدمت میں خط لکھا کہ ’’آپ کا ایک مرید نور محمد نام میرا دلی دوست ہے.وہ بڑا نماز ی ہے، نیکوکار ہے.سب اس کی عزت کرتے ہیں.ہمہ صفت موصوف خلیق شخص ہے.دیندار ہے.اس سے ہم کو آپ کے حالات معلوم ہوئے تو ہمارا عقیدہ یہ ہو گیا ہے کہ حضور بڑے ہی خیرخواہ امت ِ محمدیہ و مداح جناب رسول مقبول و اصحاب کبار ہیں.آپ کو جو برُے نام سے یاد کرے وہ خود برُا ہے مگر باوجود ہمارے اس عقیدہ و خیال کے نور محمد مذکور ہمارے ساتھ باجماعت نماز نہیں پڑھتا اور نہ جمعہ پڑھتا ہے اور وجہ یہ بتلاتا ہے کہ غیر احمدی کے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوتی.آپ اس کو تاکید فرماویں کہ وہ ہمارے پیچھے نماز پڑھ لیا کرے تاکہ تفرقہ نہ پڑے کیونکہ ہم آپ کے حق میں برُا نہیں کہتے.‘‘ یہ اس خط کا اقتباس اور خلاصہ ہے.اس کے جواب میں اسی خط پر حضرت نے عاجز۱؎ کے نام تحریر فرمایا.جواب میں لکھ دیں کہ چونکہ عام طور پر اس ملک کے ملاّں لوگوں نے اپنے تعصّب کی وجہ سے ہمیں کافر ٹھہرایا ہے اور فتوے لکھے ہیں اور باقی لوگ ان کے پیروہیں.پس اگر ایسے لوگ ہوں کہ وہ صفائی ثابت کرنے کے لئے اشتہار دے دیں کہ ہم ان مکفرّ مولویوں کے پیرو نہیں ہیں تو پھر ان کے ساتھ نماز پڑھنا روا ہے ورنہ جو شخص مسلمانوں کو کافر کہے وہ آپ کافر ہو جاتا ہے پھر اس کے پیچھے نماز کیونکر پڑھیں یہ تو شرعِ شریف کی رُو سے جائز نہیں ہے.‘‘ ‘ ٭

Page 562

مکتوب جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام ۱۹۰۴ء میں چند روز کے واسطے لاہور تشریف لے گئے تھے.ایک سبزپوش فقیر نے اصرار کیا کہ آپؑ مجھے لکھ دیں کہ جو کچھ آپ نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے.سب سچ ہے.حضور ؑ نے فرمایا.ایک ہفتہ بعد آئو ہم لکھ دیں گے.جب ایک ہفتہ کے بعد وہ آیا تو حضور ؑ نے یہ الفاظ لکھ کر اور اپنی مہر لگا کر اسے دیئے.’’میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر جو جھوٹوں پر لعنت کرتا ہے.یہ گواہی دیتا ہوں کہ جو کچھ میں نے دعویٰ کیا ہے یا جو کچھ اپنے دعویٰ کی تائید میں لکھا ہے.یا جو میں نے الہام الٰہی اپنی کتابوں میں درج کئے ہیں.وہ سب صحیح ہے، سچ ہے اور درست ہے.والسلام علی من اتبع الھدٰی٭ الراقم خاکسار مرزا غلام احمد مہر

Page 563

’’میں نے پہلے بھی اس اقرار مفصل ذیل کو اپنی کتابوں میں قسم کے ساتھ لوگوں پر ظاہر کیا ہے اور اب بھی اس پرچہ میں اس خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر لکھتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میں وہی مسیح موعود ہوں جس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان احادیث صحیحہ میں دی ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور دوسری صحاح میں درج ہیں.وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا ٭ ۱۷؍اگست ۱۸۹۹ء الراقم مرزا غلام احمد عفا اللہ عنہ اید

Page 563