Language: UR
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی میں مختلف احباب کو جو خطوط تحریر فرمائے ان کو افادہ عام کے لئے بعد میں کتابی شکل دی گئی ۔ ان مکتوبات میں جو بظاہر متفرق موضوعات پر مختلف احباب کو لکھے گئے یا ان کے خط کے جواب میں بھیجے گئے، ان میں قارئین کے لئے بہت زیادہ علمی و روحانی تسکین کے سامان موجودہیں۔ موجودہ کمپیوٹرائزڈایڈیشن میں مکتوب الیہ کے اعتبار سے مکتوبات کی جلدیں مرتب کی گئی ہیں جن سے مطالعہ میں سہولت ہوجاتی ہے۔ نیزان مکتوبات سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی معاصرہندوو آریہ پنڈتوں،عیسائی پادریوں اور مناظروں، مختلف مسالک کے مسلمان علماء، عشق و وارفتگی سے پُر اپنے معزز اصحاب اور متفرق احباب سے اعلیٰ برتاؤ اور آپ کی سادگی، روزمرہ زندگی،توکل علیٰ اللہ، بیماری و شدید مالی مشکلات پر صبراور اخلاق حسنہ کی گہرائی کا بھی پتہ چلتا ہے۔
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی سابق ہریش چندر موہیال ولد مہتہ گوراندتہ مل صاحب سکنہ کنجروڑ دتاں تحصیل شکر گڑھ (سابق ضلع گورداسپور حال ضلع نارووال) پر اللہ تعالیٰ نے خاص فضل کیا کہ پنڈت لیکھرام اور چوہدری رام بھجدت جیسے آریہ معاندینِ اسلام کی برادری میں سے ہونے کے باوجود پندرہ سولہ سال کی عمر میں حضرت امام الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شناخت کی توفیق عطا کی.آپ کے والد نے زبردستی آپ کو قادیان سے اُٹھالے جانے کی کوشش کی جب کامیابی نہ ہوئی تو منت و لجاجت سے تحریری وعدہ حضور کی خدمت میں پیش کر کے چند دن کے لئے لے گئے لیکن وہاں جا کر گھر میں جو جانگلی علاقہ میں تھا اتنی کڑی نگرانی میں رکھا کہ کوئی مسلمان آ کر دیکھ بھی نہیں سکتا تھا.اللہ تعالیٰ اس آگ سے آپ کو صحیح و سلامت نکال لایا اور حضور کے قدموں میں دھونی رما کر بیٹھنے کی توفیق دی.حضور کے وصال کے وقت آپ حضور کی خدمت میں ہی حاضر تھے.آپ کا نام، ضمیمہ انجام آتھم میں تین سو تیرہ صحابہ میں ۱۰۱ نمبر پر ہے.غیر مبائعین کے فتنہ کے وقت بھی آپ نے نہایت سرگرمی سے قابل قدر خدمات سرانجام دیں.۱۹۲۴ء میں مصلح موعود حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے سفر یورپ کے رفقاء میں آپ بھی شامل تھے اور روزانہ کے حالات بصورت خطوط قادیان ارسال کرنے کی آپ کو سعادت حاصل ہوئی جو بہت مقبول ہوئے.فتنہ ارتداد ملکانہ کے موقعہ پر آپ نے اس علاقہ میں نہایت قابل قدر کام سرانجام دیا چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دس ہزار اشخاص کے برابر قرار
دیا.۱۹۴۸ء میں آپ کو پھر قادیان میں آنے کا موقعہ ملا.اس وقت سے آپ یہاں بطور درویش مقیم ہیں.اپریل ۱۹۵۰ء میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قلم مبارک سے آپ کو اور حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی کو خاص طور پر دعا کے لئے تحریر فرمایا آپ کے نام کے ساتوں خطوط آپ ہی نے مجھے بلاک بنوانے کے لئے عنایت فرمائے تھے.فَجَزَاہُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ.فہرست مکتوبات بنام حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ؓ مکتوب نمبر تاریخ تحریر صفحہ ۱ ۲۳؍نومبر ۰۶ء ژ ۵ ۲ بلا تاریخ ژ ۵ ۳ بلا تاریخ ژ ۶ ۴ بلا تاریخ ژ ۷ ۵ بلا تاریخ ژ ۸ ۶ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۸ء ژ ۹ ۷ بلا تاریخ ژ ۱۰
مکتوب نمبر۱ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ آٹھ روپے پہنچے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.میں انشاء اللہ دعا کروں گا.ہمیشہ اپنے حالات خیریت سے اطلاع دیتے رہیں.۲۳؍ نومبر ۰۶ء والسلام مرزا غلام احمد نوٹ از مرتب: تاریخ حضرت اقدسؑ کے قلم مبارک کی لکھی ہوئی نہیں بلکہ حضرت بھائی جی کے قلم سے تحریر شدہ ہے.ـ---------- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ آقائی و مولائی ایدکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضور آپ کا ایک الہام جس کا مضمون یہ ہے آریوں کا بادشاہ آیا اس کے اصل الفاظ کیا ہیں.۵؍ مارچ ۱۹۰۸ء عبدالرحمن قادیانی احمدی مکتوب نمبر۲ژ السلام علیکم یہ مدت دراز کا الہام ہے مجھ کو صرف اسی قدر یاد ہے معلوم نہیں کہ یہ وہی الفاظ ہیں یا کچھ تغیر ہے.غالباً یاد یہی پڑتا ہے کہ وہی الفاظ ہیں.واللّٰہ اعلم.مرزا غلام احمد
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ آقائی و مولائی ایدکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضور مبلغ ایک روپیہ پیش خدمت کر کے ملتجی ہوں کہ لِلّٰہِ قبول فرمایا جاوے.اور اس خاکسار غلام کے حق میں دعا کی جاوے کہ اللہ تعالیٰ خدمت دین کی توفیق عطا فرماوے.اور قوتِ ایمانی اور اعمال صالحات کی توفیق ملے اور خاتمہ بالخیر ہو.آمین.حضور کی خادمہ اور ایک بچہ عبدالقادر بھی ملتجی ہیں ان کے حق میں بھی سعادت دارین اور انجام بخیر کی دعا فرمائی جاوے.حضور مَیں بہت کمزور حالت میں ہوں مجھے خاص خاص دعاؤں میں یاد فرمایا جاوے.۳؍ اپریل ۱۹۰۸ء والسلام خاکسار عبدالرحمن قادیانی احمدی مکتوب نمبر ۳ژ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ ایک روپیہ پہنچ گیا.جَزَاکُُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.آمین.اِنْشَآئَ اللّٰہُ الْقَدِ ْیر دعا کروں گا.مرزا غلام احمد
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ میرے آقا اور میرے مولا خدا آپ کا حامی و ناصر ہو.آمین السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضور ایک کھال چیتل کی پیش خدمت کر کے ملتجی ہوں کہ قبول فرمائی جاوے اور اس خاکسار غلام کے حق میں دعا فرمائی جاوے کہ اللہ تعالیٰ قوتِ ایمانی اور توفیق اعمال صالحات عطا فرماوے.حضور مَیں بہت ہی کمزور اور قابلِ رحم ہوں.لِلّٰہ میرے واسطے خاص طور سے دعا فرمائی جایا کرے.حضور ایسا ہو کہ میری زندگی دین کی خدمت میں حضور کے منشا اور رضائے الٰہی کے عین مطابق ہو جاوے.حضور میری یہ بھی خواہش ہے کہ یہ کھال حضور کی نشست گاہ میں ایسی جگہ رہے جہاں ہمیشہ میرے واسطے حضور کی خدمت میں دعاؤں کے واسطے عرض کرتی رہے.فقط ۵؍ اپریل ۱۹۰۸ء خاکسارغلام عبدالرحمن قادیانی احمدی مکتوب نمبر ۴ژ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کھال پہنچ گئی.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.انشاء اللہ اپنے استعمال میں لائی جاوے گی.والسلام مرزا غلام احمد
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ آقائی و مولائی ایدکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضور۱۸؍اپریل ۱۹۰۸ء کا الہام جو حضو ر نے ۱۹ کو قبل ظہر بیان فرمایا تھا.بغرض صحت پیش خدمت کرکے ملتجی ہوں کہ حضور ملاحظہ فرمالیں.نیز اس کے متعلق اگر کوئی تفہیم ہو یا اس کے بعد کا کوئی اور الہام قابل اشاعت ہو تو عطا فرمایا جاوے.۱۸؍اپریل = زَلْزَلَۃُ الْارْض حقُّ الْعَذَابُ وَ تدلٰی ۱؎ ترجمہـ= زمین کا ہلنا.عذاب سچ ہے اور وہ اتر پڑا.خاکسار غلام در عبدالرحمن قادیانی احمدی مکتوب نمبر ۵ژ (از قلم مبارک حضرت اقدس علیہ السلام) ۱.بشریٰ.۲.میرے لئے ایک نشان آسمان پر ظاہر ہوا.۳.خیر وخوبی کا نشان.۴.میری مرادیں پوری ہوئیں.۱؎ نوٹ از مرتب :ـ الحکم میں زلزلت الارض.فحق العذاب و تدلّٰی شائع ہوا ہے.(الحکم جلد۱۲ نمبر۲۹ مورخہ ۲۲؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۱)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ آقائی و مولائی ایدکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضور یہ ایک چیتے کی کھال ہے قبول فرمائی جائے اور اس خاکسار غلام کے حق میں دعا فرمائی جاوے کہ اللہ تعالیٰ خادم دین بناوے.اعمال صالحات کی توفیق عطا ہو اور ایسی پاک زندگی میسر آجاوے جو خدا کی رضا مندی کا باعث ہو اور خاتمہ بالخیر ہو.حضور اب لاہور جانے والے ہیں ہماری بہت سی کمزوریاں حضور کے سایہ کی وجہ سے نظرانداز کی جاتی تھیں.اب حضو رکے وجود مبارک کا سایہ جو کہ خدا کی طرف سے اس کے فضل اور رحمت کا سایہ بن کر ہماری ِسپر بنا ہوا تھا حکمت ِ الٰہی کی وجہ سے لاہور جاتا ہے.لہٰذا اب ہم لوگ حضور کی خاص دعا اور توجہ کے از بس محتاج ہیں.لہٰذا نہایت عاجزی سے بصد ادب التماس ہے کہ خاص خاص اوقات میں اس خاکسار اور حضور کی خادمہ اور بچے اور اقربا کے واسطے ضرور دعا کی جایا کرے.فقط ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۸ء حضور کا غلام در عبدالرحمن قادیانی احمدی بقلم خود مکتوب نمبر۶ژ السلا م علیکم کھال پہنچی.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.انشاء اللہ دعا کروں گا.۱ ؎ والسلام مرزا غلام احمد ۱؎ نوٹ از مرتب: اس پر حضرت بھائی جی کے قلم کا ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۸ء کا ذیل کا نوٹ درج ہے.
’’حضرت اقدس کاپی دیکھ رہے تھے.ہاتھ میں پنسل ہی تھی.حضرت اقدس کے الفاظ پنسل سے تھے میں نے سیاہی سے اوپر قلم پھیر دی‘‘.۲۴؍ اپریل ۱۹۰۸ء عبدالرحمن قادیانی احمدی بقلم خود ـــــــــــــــــــ---------- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ آقائی و مولائی فداک روحی ایدکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضور قادیان سے حضور کی خادمہ کا آج ہی خط آیا ہے کہ رات کے وقت ہمیں تنہائی کی وجہ سے خوف آتا ہے کیوں کہ جس مکان میں رہتا ہوں وہ بالکل باہر ہے.لہٰذا اگر حکم ہو اور حضور اجازت دیں تو میںجا کر ان کو کسی دوسرے مکان میں تبدیل کر آؤں یا اگر حضور کے دولت سرائے میںکوئی کوٹھڑی خالی ہو تو وہاں چھوڑ آؤں.جیسا حکم ہو تعمیل کی جاوے.۱۴؍ مئی ۱۹۰۸ء حضور کی دعاؤں کا محتاج خادم در عبدالرحمن قادیانی احمدی مکتوب نمبر ۷ژ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ابھی جانا مناسب نہیں ہے لکھ دیں کہ کسی شخص کو یعنی کسی عورت کو رات کو سلا لیا کریں یا مولوی شیر علی صاحب بندوبست کر دیں کہ کوئی لڑکا آپ کے گھر میں سو رہا کرے.مرزا غلام احمد
حضرت محمد ابراہیم خاں صاحبؓ محترم محمد ابراہیم خاں صاحب مرحومؓ کے صاحبزادہ جناب احسان اللہ خاں صاحب سے ذیل کا مکتوب اور کوائف حاصل ہوئے آپ ہائی کمشنر برائے پاکستان متعینہ دہلی کے سیکرٹری کے معزز عہدہ پر سرفراز ہیں.اگست ۱۹۵۲ء میں خاکسار کی وہاں ان سے ملاقات ہوئی تھی.ان کا بیان ہے کہ میرے والد صاحب اور گلزار خان صاحب مرحوم سکنہ کراچی دونوں نے قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کی تھی.یہ غالباً ۱۹۰۱ء یا ۱۹۰۲ء کی بات ہے.والد صاحب نے ۲۰؍ مئی ۱۹۳۱ء کو بمقام خیر پور (سندھ) وفات پائی جہاں آپ کی قبر معروف ہے.آپ کے ذریعہ مکرم ڈاکٹر حاجی خاں صاحب سابق صدر جماعت کراچی کا خاندان احمدی ہوا.چچا حسن موسیٰ خاں صاحب آسٹریلیا میں کان کنوں کے لئے رسد کے قافلوں کے مینیجر تھے بعد ازاں جنرل مرچنٹ کا کام کرتے رہے آپ نے وہیں سے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی اور پھر وہیں سے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے عہد مبارک میں قادیان آئے اور غالباً ۱۹۴۳ء میں آسٹریلیا میںبمقام پرتھ (Perth) وفات پائی.عمر بھر وہاں بطور مبلغ کام کرتے رہے.اور خلافتِ ثانیہ سے بھی وابستہ تھے.چچا محمد حسین خاں صاحب سناتے تھے کہ میرے والد صاحب کی بیعت کے بعد میںنے بھی بیعت کی اور حضور کی زیارت سے مشرف ہوا.محمد حسین خاں صاحب اور گلزار خاں صاحب (جو غالباً ۱۹۲۶ء میںکراچی میں فوت ہوئے) اور والد صاحب غیر مبائع خیالات کے تھے.لیکن بالآخر والد صاحب نبوت کے قائل ہوگئے تھے گو انہوںنے باقاعدہ بیعت نہیں کی لیکن انہوں نے مجھے تاکید کی تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایّدہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کر لوں چنانچہ مجھے اس کی توفیق
ملی.والدہ صاحبہ نے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ہی بیعت کر لی تھی گو زیارت کا موقع نہیں ملا.۱۹۱۱ء میں بوقت وفات انہوں نے حضور کی صداقت کا بار بار اقرار کیا اور اس وقت ان پر کشفی حالت طاری ہوئی اور جو باتیں انہوں نے اس وقت بتائیں جلد پوری ہوگئیں.مکرم احسان اللہ خان صاحب کے پاس متعدد تبرکات ہیں جن کی تفصیل خاکسار کی طرف سے بدر جلد۲ نمبر۸ ا بابت ۱۴؍ مئی ۱۹۵۳ء میں شائع ہو چکی ہے.
مکتوب ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ اخویم محمد ابراہیم خاں صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ روپے مرسلہ آپ کے جو آپ نے کمال اخلاص سے روانہ کئے تھے مجھ کو پہنچ گئے اور آپ کے لئے دعائے خیر کی گئی.اس لئے میں آپ کو رسید روپے سے شکرگزاری کے ساتھ اطلاع دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس خدمت کی جزائے خیر آپ کو بخشے.آمین.باقی خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد (لفافہ پر کاپتہ)بمقام کراچی بندر مکان قریب گورنمنٹ گارڈن بخدمت محبیّ اخویم محمد ابراہیم خاں صاحب بن حاجی موسیٰ خاں صاحب راقم خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۳۰؍ اگست ۱۹۰۳ء نوٹ از مرتب: جس روپیہ کا اوپر ذکر آیا ہے اس کی رسید حضور کی دستخطی بھی موجود ہے جس پر مرقوم ہے ’’مرزا غلام احمد ۲۹؍ اگست ۱۹۰۳ء‘‘ ۱؎ ان ایام میں ڈاک گورداسپور سے ہو کر جاتی ہوگی کیونکہ ڈاک خانہ قادیان کی مہر ۲۹؍ اگست کی گورداسپور کی ۳۱؍ اگست کی اور کراچی کی ۳؍ ستمبر کی ثبت ہے.۱؎ دستخط اور تاریخ کے درمیان حضور کی مہر ثبت ہے جو پڑھی نہیں جاتی…ملفوف اور رسید
حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ و حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی ؓ حضرت قاضی ضیاء الدینؓ کوٹ قاضی ضلع گوجرانوالہ کے باشندہ تھے.آپ پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں قادیان ۷؍ فروری ۱۸۸۵ء کو حاضر ہوئے تھے.آپ سلسلہ ٔاحمدیہ سے اس کے آغاز میں وابستہ ہونے والے سابقون الاوّلون میں سے تھے.آپ کا خاندان ان معدودے چند خوش قسمت خاندانوں میں سے ایک ہے جن کے ایک سے زیادہ افراد ۳۱۳ صحابہ میں شمار ہوئے.چنانچہ آئینہ کمالات ِاسلام میں نمبر۱۰۴ پر اور انجام آتھم میں نمبر۳۵ پر آپ کا نام مرقوم ہے.انجام آتھم میں آپ کے دونوں صاحبزادگان قاضی عبدالرحیم صاحبؓ اور قاضی عبداللہ صاحبؓ کے اسماء ۱۴۵ اور ۲۸۱ نمبر پر درج ہیں.آئینہ کمالات اسلام میں حضرت قاضی صاحب کا نام مطبع وغیرہ کے لئے ۲۹؍ دسمبر ۱۸۹۲ء کو چندہ کا وعدہ کرنے والوں میں مرقوم ہے.تریاق القلوب میں زیر نشان نمبر۴ ۷ حضرت اقدس نے قریباً دو صفحات میں قاضی صاحب کا خط درج فرمایا ہے.اس میں قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور ؑ نے میرے متعلق ایک پیشگوئی فرمائی تھی جو بعینہٖ پوری ہوئی.اس میں قاضی عبدالرحیم صاحبؓ کا بھی ذکر آتا ہے.آپ ۱۹۰۴ء میں قادیان میں جہاں آپ ہجرت کر کے مقیم ہوگئے تھے فوت ہو کر قادیان کے مشرقی جانب پرانے قبرستان میں مدفون ہوئے اس وقت ابھی بہشتی مقبرہ کا قیام عمل میں نہ آیا تھا.قاضی عبدالرحیم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ولادت ۲۳؍ جون ۱۸۸۱ء وفات ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۵۳ء بمقام ربوہ مبارکہ) کو قادیان میں تکمیل منارۃ المسیح و پل براستہ بہشتی مقبرہ، مسجد نور، تعلیم الاسلام ہائی اسکول، مسجد مبارک ربوہ کی تعمیر کی سعادت نصیب ہوئی.حقیقۃ الوحی میں چراغ دین جمونی کی تحریر کا جو عکس دیا گیا ہے یہ تحریر آپ ہی نے جموں سے بھجوائی تھی.آپ ہی
صاحبزادہ (اور خاکسار کے استاذ المحترم) قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی پرنسپل و صدر جماعت احمدیہ نیروبی (مشرقی افریقہ) سے ذیل کے مکتوبات مجھے نقل کرنے کا موقعہ ملا ہے.آپ قادیان کی زیارت کے موقعہ پر گذشتہ اپریل میں میرے لکھنے پر مکتوبات قادیان لے آئے تھے.مکرم قاضی محمد عبداللہ صاحب کو بھی بہت سی خدمات سلسلہ کا موقعہ ملا ہے.فہرست مکتوبات بنام حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ و حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی ؓ مکتوب نمبر تاریخ تحریر صفحہ ۱ ۹؍فروری ۸۳ء ۳۵ ۲ ۱۷؍فروری ۸۳ء ۳۶ ۳ ۲۳؍مارچ ۱۸۹۰ء ۳۷ ۴ ۲۵؍جون ۱۸۹۲ء ۳۸ ۵ ۴؍اکتوبر ۱۸۹۲ء ۳۹ ۶ بلا تاریخ ۴۱ ۷ ۲۸؍اپریل ۱۸۹۵ء ۴۱ ۸ ۳؍دسمبر ۱۹۰۰ء ژ ۴۲ ۹ بلا تاریخ ژ ۴۴ ۱۰ ۱۹۰۴ء ژ ۴۶ ۱۱ بلا تاریخ ژ ۴۹ ۱۲ بلا تاریخ ۵۰
مکتوب نمبر ۱ مشفقی مکرمی اخوی ام … السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اس پرُآشوب وقت میں ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں کہ اللہ اور رسول کی تائید کے لئے اور غیرت دینی کے جوش سے اپنے مالوں میں سے کچھ خرچ کریں اور ایک وہ بھی وقت تھا کہ جان کا خرچ کرنا بھی بھاری نہ تھا.لیکن جیسا کہ ہر ایک چیز پورانی ہو کر اس پر گرد غبار بیٹھ جاتا ہے.اب اسی طرح اکثر دلوں پر حب دنیا کا گرد بیٹھا ہوا ہے.خدا اس گرد کو اُٹھادے.خدا اس ظلمت کو دور کرے.دنیا بہت ہی بے وفا اور انسان بہت ہی بے بنیاد ہے.مگر غفلت کی سخت تاریکیوں نے اکثر لوگوں کو اصلیت کے سمجھنے سے محروم رکھا ہے اور چونکہ ہر ایک عسر کے بعد یسر اور ہر ایک جذر کے بعد مد اور ہر ایک رات کے بعد دن بھی ہے.اس لئے تفضّلاتِ الٰہیہ آخر ترو ماندہ بندوں کی خبر لے لیتے ہیں.سو خداوند کریم سے بھی تمنا ہے کہ اپنے عاجز بندوں کی کامل طور پر دستگیری کرے اور جیسے انہوں نے اپنے گذشتہ زمانہ میں طرح طرح کے زخم اٹھائے ہیں.ویسے ہی ان کو مرہم عطا فرماوے اور ان کو ذلیل اور رسوا کر ے جنہوں نے خود کو تاریکی اور تاریکی کو نور سمجھ لیا ہے اور جن کی شوخی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور نیز ان لوگوں کو بھی نادم اور منفعل کریجنہوں نے حضرت احدیت کی توجہ کو جو عین اپنے وقت پر ہوئی غنیمت نہیں سمجھا اور اس کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ جاہلوں کی طرح شک میں پڑے.سو اگر اس عاجز کی فریادیں ربُّ العرش تک پہنچ گئی ہیں تو وہ زمانہ کچھ دور نہیں جو نور محمدی اس زمانہ کے اندھوں پر ظاہر ہو اور الٰہی طاقتیں اپنی عجائبات دکھلاویں.اس عاجز کے صادق دوستوں کی تعداد ابھی تین چار سے زیادہ نہیں.جن میں سے ایک آپ ہیں اور باقی لوگ لاپرواہ اور غافل ہیں.بلکہ اکثروں کے
حالات ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ وہ اپنی تیرہ باطنی کے باعث سے اس کارخانہ کو کسی مکر اور فریب پر مبنی سمجھتے ہیں اور اس کا مقصود اصلی دنیا ہی قرار دیتے ہیں.چونکہ خود جیفہ دنیا میں گرفتار ہیں.اس لئے اپنے حال پر قیاس کر لیتے ہیں.سو ان کی روگردانی بھی خداوند کریم کی حکمت سے باہر نہیں.اس میں بھی بہت سی حکمتیں ہیں جو پیچھے سے ظاہر ہوں گی.انشاء اللہ تعالیٰ.مگر اپنے دوستوں کی نسبت اس عاجز کی یہ دعا ہے کہ ان کو ان کے صدق کا اجر بخشے اور ان کو اپنی استقامت میں بہت مضبوط کرے.چونکہ ہر طرف ایک زہرناک ہوا چل رہی ہے اس لئے صادقوں کو کسی قدر غم اٹھانا پڑے گا اور اس غم میں ان کے لئے بہت اجر ہیں٭.۹؍فروری ۸۳ء بمطابق ۳۰؍ربیع الاول ۱۳۰۰ھ مکتوب نمبر۲ عمل وہی معتبر ہے جس کا خاتمہ بالخیر ہو اور صدق اور وفاداری سے انجام پذیر ہو اور اس پرُفتنہ زمانہ میں اخیر تک صدق اور وفا کو پہنچانا اور بدباطن لوگوں کے وساوس سے متاثر نہ ہونا سخت مشکل ہے.اس لئے خداوند کریم سے التجا ہے کہ وہ اس عاجز کے دوستوں کو جو ابھی تین چار سے زیادہ نہیں.آپ سکینت اور تسلی بخشے.زمانہ نہایت پرُآشوب ہے.اور فریبیوں اور مکاریوں کے افترائوں نے بدظنیوں اور بدگمانیوں کو افراط تک پہنچا دیا ہے.ایسے زمانہ میں صداقت کی روشنی ایک نئی بات ہے اور اس پر وہی قائم رہ سکتے ہیں.جن کے دلوں کو خداوند کریم آپ مضبوط کرے اور چونکہ خداوند کریم کی بشارتوں میں تبدیل نہیں اس لئے امید ہے کہ وہ اس ظلمت میں سے بہت نورانی دل پیدا کر کے دکھلاوے گا کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے.٭٭ ۱۷؍فروری ۸۳ء بمطابق ۸ربیع الثانی ۱۳۰۰ھ ٭ ، ٭٭ الحکم نمبر۳۲ جلد۲ مورخہ ۲۲؍اکتوبر ۹۸ء صفحہ۳
مکتوب نمبر ۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مشفقی مکرمی اخویم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچ کر بدر یافت حادثہ ، واقعہ وفات اہلیہ مغفورہ مرحومۂ آنمکرم سخت اندوہ و حزن ہوا.’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘.مومنوںکے لئے یہ دنیا دار الابتلاء ہے.خاص کر ان مومنوں کے لئے جو خلوص اور اتحاد زیادہ پیدا کر لیتے ہیں.حدیث صحیح میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ سے محبت رکھتا ہے.اس کو قضا ء و قدر کی مصیبتوں کے لئے تیار رہنا چاہئے کیونکہ جو شخص مجھ سے محبت رکھے اس پر اس قدر مصیبتیں نازل ہوتی ہیں کہ جیسے پہاڑ کے اوپر سے نیچے جلدتر پتھر آتا ہے.سو آپ لِلّٰہ محبت واخلاص رکھتے ہیں.ضرور تھا کہ آزمائے جاتے.سخت تر مصیبت یہ ہے کہ اس مرحومہ کے خوردسال بچے اپنی والدۂ مہربان کا منہ دیکھنے سے محروم رہ گئے.خدا تعالیٰ ان کے دلوں کو غیب سے تسلیّ اور خوشی بخشے اور آپ کو نعم البدل عطا کرے.میرے نزدیک تلاش نکاح ثانی کی ضروری ہے.یہی سنت ہے.آپ کی عمر کچھ بڑی نہیں ہے.زیادہ خیریت ہے.٭ والسلام ۲۳؍مارچ ۱۸۹۰ء ۱؎ ٭ اصحاب احمد جلد ششم صفحہ ۱۴ ۱؎ یہ خط خاکسار پہلی بارشائع کر رہا ہے.الحکم ۳۶؍۲؍۱۴ میں ’’خط کا متن‘‘ نہیں صرف اس کی تاریخ کا ذکر ہے.وہاں قاضی محمد عبد اللہ صاحب کی تقریر ذکر حبیب شائع ہوئی ہے.وہاں سہواً تاریخ مکتوب ۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء تحریر ہے.حضرت قاضی صاحبؓ نے ۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء کو آغاز بیعت کے روز بیعت کی.اس کے گیارہ ماہ بعد ان کی اہلیہ محترمہؓ کا انتقال ہوا.جس پر حضورؑ نے تعزیتی مکتوب ارسال فرمایا.چنانچہ حضرت قاضی صاحبؓ کے روزنامچہ میں یہ مکتوب نقل ہے اور وہاں تاریخ ۲۳؍مارچ ۱۸۹۰ء د۶۵د رج ہے اور یہی روزنامچہ قاضی محمد عبدا للہ صاحب کی اطلاع کا ماخذ ہے.(مؤلف)
مکتوب نمبر ۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مکرمی اخویم قاضی ضیاء الدین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا پُردرد و غم خط مجھ کو ملا.آپ صبر کریں جیسا کہ خدا تعالیٰ کے صابر و شاکر بندے صبر کرتے رہے ہیں خدا تعالیٰ ان غموں سے اور ان پریشانیوں سے نجات دے دے گا اور درود شریف بہت پڑھیں تا اُس کی برکات آپ پر نازل ہوں اس جگہ میں نے مطبع منگوایا ہے اس میں رسالہ دافع الوساوس چھپے گا اور انشاء اللہ عنقریب چھپنا شروع ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں.اور اگر طبیعت پریشان ہے تو چند ماہ کے لئے میرے پاس آ جائیں.زیادہ خیریت ہے.٭ ۲۵؍ جون ۱۸۹۲ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ---------- مندرجہ ذیل خطوط عالی جناب سیدنا مسیح الزّمان و مہدی دوراں حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب ایدہ اللہ الصمد نے ہمارے بھائی قاضی ضیاء الدین صاحب ساکن قاضی کوٹ کے نام اُن دنوں میں لکھے تھے جب کہ مخالفین اُن کو طرح طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں دے رہے تھے.مکتوب نمبر دوم کے مطالعہ سے ہمارے ناظرین کو خصوصاً معلوم ہوگا.کہ یہ گرامی نامہ ایک جلیل القدر پیش گوئی پر مشتمل ہے.جس کو ہم نے جلی قلم سے شائع کیا ہے.ایڈیٹر.٭ الحکم نمبر۳۲ جلد۲ مورخہ ۲۲؍اکتوبر ۹۸ء صفحہ۳
مکتوب نمبر ۵ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مکرمی اخوی ام قاضی ضیاء الدین صاحب سلمہ ُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچ کر بہ دریافت خیر و عافیت خوشی ہوئی.جس قدر ابتلا آں مکرم کو پیش آیا ہے یہ خدا تعالیٰ کے مستقیم الحال بندوں کو پیش آیا کرتا ہے تا ان کی استقامت اور قوتِ ایمانی لوگوں پر ظاہر ہو اور تاوہ اس ذریعہ سے بڑے بڑے ثواب حاصل کریں.اس میں کچھ شک نہیں کہ سخت دل مخالف لوگوں نے جو ہمارے ہی قوم کے علماء اور ان کے ہم خیال ہیں اپنی فتنہ اندازی کو انتہا تک پہنچادیا ہے.اور اگر ان کے اختیار میں قتل اور سفک دماء ہوتا تو وہ یہی کر گذرتے مگر خدا تعالیٰ نے عنان حکومت ایک دوسری قوم کو دے دی ہے.یہ عاجز خوب جانتا ہے.کہ اللہ جلّ شانہٗ ہم کو اور ہماری جماعت کو اس ابتلا میں نہیں چھوڑے گا اور وہ دن جلدی آنے والے ہیں جو حق کی چمک لوگوں پر ظاہر ہوجائے گی اور مخالف حق کے نادم اورخائب ہوں گے.جناب سیّدنا رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی حالات کو دیکھو کہ کیا کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو دُکھ درد اُٹھانے پڑے تھے.یہاں تک کہ وطن عزیز چھوڑنا پڑا اور سب دوست دشمن ہوگئے لیکن آخر خداوند تعالیٰ نے ڈوبتی ہوئی کشتی کو اپنے ہاتھ سے تھام لیا اور اسلام کو زمین میں پھر جما دیا.یہی حال اس جگہ ہوگا.اور مخالفوں کو بجز سیاہ روئی اور ندامت کے اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا.خدا تعالیٰ اُن کی بد دعائیں انہیں پر ڈالے گا اور وہ گردشیں جن کی وہ انتظار کرتے ہیں انہیں پر پڑیں گی.میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ تین چار ہفتہ کے لئے قادیان میں تشریف لے آویں اور قاضی محمد یوسف صاحب ساتھ آجائیں اس
میں انشاء اللہ القدیر آپ کو روحانی فائدہ ہوگا اور قاضی صاحب کے لئے بھی بہتر ہوگا.انسان جس چیز کا قصد کرتا ہے خدا تعالیٰ وہ میسر کردیتا ہے.یہی بات قاضی صاحب کو بعد السلام علیکم میری طرف سے کہہ دیں کہ آپ کے ساتھ بالاتفاق تشریف لے آویں.آپ کی ملاقات کو دل چاہتا ہے.نہ زمانہ کا کچھ اعتبار نہ عمر کا کُچھ بھروسہ.بہتر ہے کہ ضرور آجائیں اور قاضی صاحب کو ساتھ لے آویں مگر تین چار ہفتہ کے لئے وہاں کا کچھ بندوبست کر آویں.باقی عند التلاقی.آپ کے خواب کا پرچہ میں نے رکھ لیا ہے.انشاء اللہ القدیر شائع کروں گا.۴؍ اکتوبر۱۸۹۲ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم کا خط حضرت اقدس کی خدمت میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ بحضور ا مامنا و حبیبنا بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عرضداشت آنکہ کل قاضی محمد عالم صاحب کی جانب سے عاجز کے نام ایک خط آیا ہے.حضور کی خدمت میں ہزاراں ہزار تحیہّ و سلام کے بعد عرض کرتا ہے کہ مجھ عاجز کو دعائے مخلصانہ سے بھلا نہ دیں.حضرت جی یہ محمد عالم اس سلسلہ کا عجیب رنگ کا مخلص نکلا ہے.شب و روز تبلیغ میں لگا رہتا ہے.خدا تعالیٰ نے محمد یوسف کا نعم البدل دیا ہے.مخالفوں کی اولاد کو ایک ایک کر کے سمجھاتا ہے.خدا تعالیٰ نے اس کی زبان میں تاثیر بھی رکھی ہے اور حضور سے ایک عاشقانہ تعلق رکھتا ہے اور موقع خدمت بھی خوب نبھاتا ہے.حضور اس کی ترقی محبت کے واسطے ضرور دعا کریں.میری طرف الحاح سے دو دو صفحہ خط کے بھر دیتا ہے.دوسری عرض یہ ہے کہ اگر فرماویں تذکرۃ الشہادتین بھی اس کو بھیجا ج.والسلام
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جواب مکتوب نمبر۶ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے آج بھی محمد عالم کے لیے دعا کی ہے اور پہلے بھی کرتا رہا ہوں.ان کو اطلاع دے دیں اور یہ کتاب تذکرۃ الشہادتین حکیم صاحب سے لے کر اُن کو بھیج دیں اور لکھ دیں کہ اس کار تبلیغ میں بہت سرگرم رہیں کہ اس سے بہتر اور کوئی طریق قرب الٰہی کا نہیں.٭ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُ ہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی نَبِیِّہِ الْکَرِیْمِ محبیّ مکرمی اخویم قاضی ضیاء الدین صاحب سلّمہُاللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مدت مدید کے بعد آپ کا محبت نامہ کل کی ڈاک میں مجھ کو ملا.خدا تعالیٰ آپ کو ہموم غموم سے نجات بخشے.اہل حق کو اوائل میں تکلیفیں پہنچتی ہیں مگر آخر اُن تکالیف سے نجات پاتے ہیں.اب آپ ایک تجرد کی حالت میں ہیں.اگر اس عاجز کے پاس ہی آبیٹھیں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس طرح خدا تعالیٰ آپ کی ضرورت کا متکفّل ہوجائے گا.وہ تو ہر چیز پر قادر ہے.مومن کی نظر خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت پر ہوتی ہے نہ اسباب پر.مجھے یاد پڑتا ہے کہ پہلے بھی یہی بات زبانی کہی تھی.عمر ناپائیدار اور کارِدنیا ہمہ ہیچ.حقیقت یہ ہے کہ اس عمر کے ہم سب لوگ موت کے کنارے بیٹھے ہیں.اور آسمانی آسماں ہر یک کو اپنے وقت پر پہنچے گی.اس
صورت میں فکر موت بہت مقدم ہے تا حسرت کے ساتھ جان نہ نکلے.خدا تعالیٰ آپ کو ہر ایک نیک کام کی قوت بخشے اور اپنی محبت میں ترقی عطا کرے.آمین.آتھم کی پیش گوئی کی نسبت ایک مبسوط رسالہ اسی جگہ قادیان میں چھپ رہا ہے.یہ رسالہ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ الْقَدِیْرُ.دو ماہ تک شائع ہوگا.پھر اس عرصہ کے بعد یاد دلانا چاہئے.تمام دوستوں کو السلام علیکم.٭ ۲۸ ؍ اپریل ۱۸۹۵ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر۸ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیزی اخویم قاضی صاحب سلّمہُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا بہت خوشی کی بات ہے کہ آپ تشریف لاویں آپ کی بہو کے لئے اگر ساتھ لے آویںتین چار ماہ تک کوئی بوجھ نہیں.ایک یا دو انسان کا کیا بوجھ ہے.پھر تین چار ماہ کے بعد شاید آپ کے لئے اللہ تعالیٰ اس جگہ کوئی تجویز کھول دے.وَ مَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ.۱؎ سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ ہمارا اور آپ کی عمر کا آخری حصہ ہے بھروسہ کے لائق ایک گھنٹہ بھی نہیں ایسا نہ ہو کہ جدائی کی موت موجب حسرت ہو.موت انسان کے لئے قطعی حکم ہے اور اس جگہ موت سے ایک جماعت میں نزول رحمت کی امید ہے.غرض ہماری طرف سے نہ صرف آپ کو اجازت بلکہ یہی مراد ہے کہ آپ اس جگہ رہیں.ہماری طرف سے روٹی کی مدد دوانسان کے لئے ہو سکتی ہے اور دوسرے بالائی اخراجات کے لئے آپ کوئی تدبیر کر لیں اور امید ہے کہ خدا کوئی تدبیر نکال دے.زیادہ خیریت ہے.۳؍ دسمبر ۱۹۰۰ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭ الحکم نمبر۱۲، ۱۳ جلد۲ مورخہ ۲۰،۲۷؍مئی ۱۸۹۸ء صفحہ ۱۱ ۱؎ الطلاق : ۴ نوٹ : اس مکتوب میں ’’بہو‘‘ سے مراد محترمہ صالح بی بی صاحبہ مرحومہؓ اہلیہ محترم قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی ؓہیں.موصوفہ نے ۱۳؍ نومبر ۱۹۵۰ء کو راولپنڈی میں وفات پائی اور امانتاً دفن ہوئی.آپ کے بیٹے محترم قاضی عبدالسلام صاحب تابوت کو جو قدرت خداوندی سے بالکل محفوظ تھا ربوہ لے آئے اور ۹؍ فروری ۱۹۵۴ء کو انہیں بہشتی مقبرہ میں اپنے خاوند کے دائیں جانب دفن کر دیا گیا.قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے از راہِ ذرہ نوازی بعد ظہر جنازہ پڑھایا اس سے قبل بھی ان کی وفات پر مسجد مبارک ربوہ میں نماز جمعہ کے بعد جنازہ غائب پڑھا تھا.سو مرحومہ کی یہ خوش قسمتی تھی کہ دو دفعہ خلیفۂ وقت نے ان کا جنازہ پڑھا.(مرتب) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بحضور امامنا و حبیبنا بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عرضداشت آنکہ مہدی حسین صاحب رخصت سے واپس آگئے ہیں.اب عاجز کے واسطے کیا حکم ہے یہاں کوچہ میں جلد بندی کی بہت چیزیں لڑکے بے خبر اُٹھالے جاتے ہیں کوئی چیز محفوظ نہیں رہتی.اس سے پہلے یہ عاجز چھاپہ خانہ۱؎ کے مشرقی دروازہ میں حکیم صاحب کے حکم سے بیٹھتا رہاہے.۲؎ چونکہ اور کوئی ایسی جگہ موجود نہیں لہٰذا سال بھر سے زیادہ وہیں گزارہ ہوتا ہے کیا اب بھی وہیں اجازت دیتے ہیں یا کوئی اور جگہ جو عاجز کے حال کے موزوں ہو.دراصل جگہ کے بارہ میں عاجز از حد مضطر ہے.گھر کی نسبت یہ حال ہے کہ پرسوں ڈپٹی کے بیٹے نے بذریعہ ڈاک نوٹس۱؎ دیا ہے کہ ایک ہفتہ تک مکان خالی کر دو ورنہ تین روپیہ ماہوار کرایہ مکان واجب الادا ہوگا.اس دقّت کے رفع کے لئے بھی حضور دعا فرماویں کہ بے منت غیرے کوئی جگہ مولا کریم میسر کرے.۱۷؍ جولائی ۱۹۰۲ء والسلام والاکرام عریضہ نیاز مسکین ضیاء الدین عفی عنہ
نوٹ : اس مکتوب میں ’’بہو‘‘ سے مراد محترمہ صالح بی بی صاحبہ مرحومہؓ اہلیہ محترم قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی ؓہیں.موصوفہ نے ۱۳؍ نومبر ۱۹۵۰ء کو راولپنڈی میں وفات پائی اور امانتاً دفن ہوئی.آپ کے بیٹے محترم قاضی عبدالسلام صاحب تابوت کو جو قدرت خداوندی سے بالکل محفوظ تھا ربوہ لے آئے اور ۹؍ فروری ۱۹۵۴ء کو انہیں بہشتی مقبرہ میں اپنے خاوند کے دائیں جانب دفن کر دیا گیا.قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے از راہِ ذرہ نوازی بعد ظہر جنازہ پڑھایا اس سے قبل بھی ان کی وفات پر مسجد مبارک ربوہ میں نماز جمعہ کے بعد جنازہ غائب پڑھا تھا.سو مرحومہ کی یہ خوش قسمتی تھی کہ دو دفعہ خلیفۂ وقت نے ان کا جنازہ پڑھا.(مرتب) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ۱؎ مراد مطبع ضیاء الاسلام ہے جو مطب حضرت خلیفہ اوّلؓ سے ملحق جانب جنوب تھا اور خلافت ثانیہ میں بطور گیراج استعمال ہوتا رہا.اب بھی گیراج کی شکل میںموجود ہے (مطب اور پریس کے نقشہ کے لئے دیکھئے اصحاب احمد جلد دوم صفحہ۱۶؍۱۶) حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی فرماتے ہیں کہ بعد ازاں حضرت قاضی صاحبؓ مہمان خانہ کے اس کمرہ میں جلد سازی کی دکان کرتے رہے جو نلکا کے پاس جانب شمال ہے اور اس کا ایک دروازہ احمدیہ بازار میں کھلتا ہے.۲؎ مراد حضرت حکیم مولوی فضل الدین صاحب بھیرویؓ ہیں جو مطبع ضیاء الاسلام قادیان کے مہتمم تھے اور حضور کے جواب میں ان کا ذکر ہے.
ہے کیا اب بھی وہیں اجازت دیتے ہیں یا کوئی اور جگہ جو عاجز کے حال کے موزوں ہو.دراصل جگہ کے بارہ میں عاجز از حد مضطر ہے.گھر کی نسبت یہ حال ہے کہ پرسوں ڈپٹی کے بیٹے نے بذریعہ ڈاک نوٹس۱؎ دیا ہے کہ ایک ہفتہ تک مکان خالی کر دو ورنہ تین روپیہ ماہوار کرایہ مکان واجب الادا ہوگا.اس دقّت کے رفع کے لئے بھی حضور دعا فرماویں کہ بے منت غیرے کوئی جگہ مولا کریم میسر کرے.۱۷؍ جولائی ۱۹۰۲ء والسلام والاکرام عریضہ نیاز مسکین ضیاء الدین عفی عنہ مکتوب نمبر۹ژ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حکیم فضل دین صاحب سے دریافت کر لیجئے کیا مہمان خانہ میں آپ کے لئے جگہ نہیں اور عنقریب میرے اس دالان کے پیچھے ایک مکان بننے والا ہے اس میں آپ رہ سکتے ہیں بالفعل گزارہ کر لیں کوئی گھرتلاش کر لیں.والسلام نوٹ: اس پر دستخط موجود نہیں مگر تحریر حضور ؑکی ہے.(مرتب) ۱؎ محترم قاضی عبدالسلام صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت قاضی عبدالرحیم صاحبؓ نے مجھے لکھوایا کہ حضرت دادا صاحبؓ جب قادیان میں آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دارالمسیح میں رہائش کی جگہ دی تھی.میری ولادت دسمبر ۱۹۰۲ء میںاس مکان میں ہوئی جہاں اب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا مکان ہے.یہ جگہ ڈپٹیوں کی تھی اور کرایہ پر لی ہوئی تھی.
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ سیدی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضور نے غلام کی ہمشیرہ امۃ الرحمن کے رشتہ کے لئے اپنے رشتہ داروں میں کوشش کرنے کے لئے فرمایا تھا.سو عاجز نے مطابق حکم حضور اپنے قبیلہ میں ہرچند کوشش کی ہے کوئی صورت خاطر خواہ میسر نہیں آئی.جو خواہاں ہیں وہ حضور کے مخالف ہیں مخالفوں سے تعلق قائم کرنا پسند نہیں.عاجز کی گزارش ہے کہ اس معاملہ کو زیادہ عرصہ تک ملتوی نہ رکھا جائے.حضور جس جگہ مناسب سمجھیں تجویز فرماویں.عاجز کو کل جناب نواب صاحب۱؎ نے بھی جلدی فیصلہ کرنے کی تاکید کی ہے اور دیر کو بہت مکروہ خیال کیا ہے.چند آدمیوں کا انہوں (نے۲؎ )نام بھی لیاہے اور ان کی شرافت کی بہت تعریف کی ہے.اُن میں سے ایک اخویم احمد نور صاحب کابلی ہیں.احمد نور صاحب کی طرف کبھی کبھی والد صاحب مرحوم بھی خیال کیا کرتے تھے مگر محض لِلّٰہ.حضور جیسا مناسب جانیں اور جہاں بہتر سمجھیں تجویز کر دیں مگر جلدی فیصلہ ہونا ضروری ہے.عاجز کا اور ہمشیرہ امۃ الرحمن کا اس بات پر کامل ایمان ہے کہ حضور کے فیصلہ میں نور اور برکت ہوگی.مورخہ ۳۰؍ جولائی ۱۹۰۴ء والسلام حضور کی جوتیوں کا غلام عبدالرحیم ولد قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم ۱؎ مراد حضرت نواب محمد علی خاں صاحب ؓ آف مالیر کوٹلہ.(مرتب) ۲؎ خطوط و حدانی کا لفظ خاکسار مرتب کی طرف سے ہے.
مکتوب نمبر۱۰ژ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امۃ الرحمن کے معاملہ میں مجھے بہت حیرت ہے کوئی صورت خاطر خواہ ظاہر نہیںہوئی.احمد نور نیک بخت آدمی ہے.بہت مخلص ہے.مگر وہ پردیسی ہے.زبان پنجابی اور اُردو سے محض ناواقف ہے.اس صورت میں اصول معاشرت میں پہلے ہی یہ نقص ہے کہ ایک دوسرے کی زبان سے ناواقف ہیں پھر وہ عنقریب ایک لمبے سفر کے لئے جاتے ہیں جوخطرناک زمین کابل کا سفر ہے معلوم نہیں کہ کیا ہو میں نے کئی جگہ کہہ دیا ہے اپنے اختیار میں نہیں ایسی جلدی نہیں چاہئے جس میں اور فساد پیدا ہو.مرزا غلام احمد عفی عنہ (۱) ’’۱۹۰۴‘‘ بحرف انگریزی خط والی سیاہی سے مختلف سیاہی سے مرقوم ہے.مکرم قاضی عبدالسلام صاحب فرماتے ہیں کہ معلوم نہیں کہ کب ’’۱۹۰۴‘‘ لکھا گیا.غالباً والد صاحب مرحوم نے لکھا ہوگا.حضرت قاضی ضیاء الدینؓ صاحب کی وفات ۱۹۰۴ء ہی میں ہوئی تھی.(۲) محترم قاضی عبدالسلام صاحب تحریر کرتے ہیں کہ: ’’عاجز کی پھوپی صاحبہ کا اصلی نام فاطمہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بدل کر امۃ الرحمن تجویز فرمایا کہ فاطمہ نام کے ساتھ کچھ صعوبت کی زندگی کا اشارہ پایا جاتا ہے.ان کی ولادت ۲۱؍ شعبان ۱۲۹۵ھ کو ہوئی اور وفات رتن باغ لاہور میں ۱۳؍ دسمبر۱۹۴۷ء کو ہوئی چوبرجی والے قبرستان میں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے قریب دفن ہوئیں.میں وہاں سے ہڈیاں وغیرہ نکال لایا اور ۲۸؍ مارچ۱۹۵۴ء کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں حضرت والد صاحبؓ کے قریب دفن کیا.ان کی شادی غالباً ۱۹۰۶ء میں دارالمسیح میں منشی مہتاب علی صاحب سیاحؓ سکنہ ضلع جالندھر سے ہوئی تھی.حضرت اُمّ المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خود انہیں رخصت کیا تھا.پھوپھی صاحبہ مرحومہ بیان کیا کرتی تھیں کہ رخصتانہ کے وقت جب حضرت اُمّ المؤمنین نے فکر سے کہا کہ یہ تو اب جاتی ہے تو حضور نے فرمایا فکر نہ کرو ہم اس کا’’ مُکلاوا‘‘ لمبا کریں گے یعنی خاوند سے واپس آئے گی تو زیادہ دیر تک اپنے پاس ٹھہرائیں
گے.منشی صاحبؓ نے ہمارے خاندان کے ایک نوجوان فیض اللہ نامی سے مباہلہ کیا تھا جو ایک سال کے اندر طاعون سے ہلاک ہو گیا تھا.حضور نے تتمہّ حقیقۃ الوحی میں صفحہ ۱۶۵،۱۶۶ پر اس نشان کا ذکر فرمایا ہے.منشی صاحبؓ ۱۹۲۱ء میں فوت ہوئے.اولاد میں سے صرف میری بیوی مبارکہ بیگم زندہ ہیں.باقی بچے بچپن میں فوت ہوگئے تھے‘‘.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ سیدی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خاکسار نے ایک عریضہ چراغ دین کی وفات پر حضور پُرنور کی خدمت میں ارسال کیا تھا اور اخبار میں چھپنے کے واسطے بھی لکھ دیا تھا اس کے جواب میں مفتی صاحب نے لکھا کہ چراغ دین کے متعلق چند باتیں تحقیقات سے دریافت کر کے لکھو جو کچھ مجھے دریافت کرنے سے معلوم ہوا میں نے تحریر کر دیا لیکن مجھے یہ وہم بھی نہ تھا کہ یہ خط اخبار میں چھاپا جائے گا.میں نے اس خیال پر کہ شاید چراغ دین کے متعلق کوئی مضمون لکھا جائے گا وہ کل حالات صرف پرائیویٹ طور پر تحریر کئے تھے اور اس خیال سے تحریر کئے تھے کہ اس مضمون کے لئے مصالحہ درکار ہوگا اس لئے میں نے اس خط میں بعض باتیں بے تعلق بھی درج کر دی تھیں جن کا اصل غرض کے ساتھ کوئی لگاؤ نہ تھا.اگر اخبار کے لئے مضمون لکھتا تو طرز تحریر بدل دیتا جیسے کہ پہلے خط میں مَیں نے قابلِ گرفت الفاظ کا لحاظ رکھا ہے ایسے ہی اس خط میں بھی ان باتوں کو مدِّنظر رکھتا.میں نے تو صرف حضور کے واسطے لکھا تھا نہ اخبار کے لئے.مفتی صاحب کی طرف اس لئے لکھا تھا کہ شاید مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی جابجا مفتی صاحب خط وکتابت کا کام کرتے ہیں کیونکہ حضرت کی خدمت میں جو خط لکھا تھا اس کا جواب مفتی صاحب نے دیا تھا.اور نیز میں نے یہ اجازت نہیں دی کہ اس کو اخبار میں شائع کیا جاوے جب کہ پہلے خط میں دی تھی اور اگر میں لکھ بھی دیتا کہ اس کو شائع کیا جاوے تو بھی ایڈیٹر صاحب اور مینیجر صاحب کا فرض تھاکہ چھپنے سے پیشتر مضمون پر ہر ایک پہلو سے غور کر لیتے اور بعد قانونی تصحیح کے چھاپتے کیونکہ کرم الدین کے مقدمہ نے پورا پورا سبق سکھا دیا تھا.جن مخالفوں نے ایک لئیم کے لفظ پر اس قدر زور مارا کیا اب وہ کچھ کم کریں گے؟ آئندہ
ماشاء اللہ ان کو تو خدا خدا کر کے ایسے موقعے ہاتھ لگتے ہیںاب بھلا وہ کس طرح درگزر کریں.اصل مضمون میں یہ الفاظ ہیں.’’اس کی عورت پر لوگ یاری آشنائی کے الزام لگاتے ہیں ممکن ہے وہ اس کی زندگی میں بھی خراب ہو‘‘.یعقوب مسیحی سے میں نے یہ سنا تھا لیکن اب وہ انکاری ہے اور ثبوت طلب کرتا ہے.یہی عیسائی اور مسلمان اس پر تُلے ہوئے ہیں کہ عورت کی طرف سے فوجداری مقدمہ کرایا جاوے آج کل میں مقدمہ دائر کرنے والے ہیں پیروی کے واسطے ایک بڑی کمیٹی مقرر ہوئی ہے بظاہر ان کے باز رہنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.۱۹؍ فروری کا الہام ’’ عورت کی چال.ایلی ایلی لما سبقتانی۱؎ ‘‘ شاید یہی چال نہ ہو.میں دین کے کام میں لڑنے اور تکلیف سے نہیں ڈرتا.صرف ناداری اور عیالداری کی وجہ سے خوف ہے اس وقت میرے پاس کوئی سرمایہ نہیں جو مقدمہ میں کام آئے اور مقدمہ کی ایک پیشی بھی سرمایہ بغیر بھگتی نہیں جا سکتی.اس لئے یہ مقدمہ میرے لئے سخت ابتلا ہے.حضور خاص توجہ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ عورت کے شر سے بچالے.بھروسہ ہے تو صرف اس کی ذات بابرکات پر ہے.نرے مادی اسباب بھی کارگر نہیں ہوا کرتے.بواپسی جواب (سے ۲؎ ) سرفراز کریں کہ کیا تجویز کی جاوے.کیونکہ آج کل میں مقدمہ جاری ہونے والا ہے.دیگر عرض ہے کہ شیخ رحیم بخش صاحب کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ چراغ دین کی کتاب چھپوانے کے واسطے حضور نے سخت تاکید کی ہے سو عرض ہے کہ میں مہتمم چھاپہ خانہ کے اس غرض سے کئی دفعہ گیا ہوں اس سے یہی معلوم ہوا کہ اب چھپنے کی تجویز ملتوی ہوگئی ہے.ان کے پاس روپیہ نہیں اور میں خود اس لئے نہیں چھاپتا کہ یہ کوئی مفید کتاب نہیں جو دست بدست فروخت ہو سکے.آخر میں نے اسے بہت کچھ طمع و ترغیب دے کر چھاپنے پر آمادہ کر لیا ہے کل لاگت کوئی یا روپیہ تک ہوگی جس کے ادا کرنے کے واسطے میں نے اس سے عہد کر لیا ہے.کچھ کتب حق تصنیف میں دی جائیںگی اور کچھ کتب مہتمم چھاپہ خانہ کی نذر ہونگی.اگر خریدار پیدا ہو جاویں تو باقی ماندہ کتب فروخت کر کے لاگت کا کچھ حصہ وصول ہو ۱؎ تذکرہ صفحہ ۵۰۹ مطبوعہ ۲۰۰۴ء ۲؎ خطوط وحدانی کا لفظ مرتب کی طرف سے ہے.
سکتاہے وہ نقلیں جو حضور کی خدمت میں ارسال کی تھیں وہ کاپی میں آگئی ہیں کچھ مسودہ اِدھر اُدھر منتشر ہے.مہتمم چھاپہ خانہ اس کے جمع کرنے کی فکر میں ہے.فراہم ہو جانے کے بعد ٹھیک ٹھیک فیصلہ کیا جاوے گا.دعا کریں کہ جیسے پہلے نقل حاصل کرنے میں خدا نے مجھے کامیاب کیا تھا ایسا ہی اب بھی کامیاب کرے جواب سے ممنون فرماویں.عاجز کا بڑا بچہ اور منجھلے سے چھوٹا بیمار ہیں اور عاجز کی اور عاجز کی بیوی کی بھی صحت درست نہیں ہے.حضور خاص توجہ سے دعا کریں کہ شافی مطلق پوری پوری صحت بخشے.والسلام مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۶ء عاجز قاضی عبدالرحیم نقشہ نویس محکمہ نہر از جموں میں نے اس میں کسی کی شکایت نہیں کی اور نہ ایڈیٹر صاحب پر شاکی ہوں جو کچھ مقدر ہوتا ہے ہو گزرتا ہے.صرف اصلیت امر کو ظاہر کیاہے.اس خط پر حضور نے اپنی قلم مبارک سے تحریر فرمایا: مکتوب نمبر۱۱ژ اس خط کو بہت محفوظ رکھا جائے اور اس کا جواب لکھ دیا جاوے کہ اب صبر سے خدا تعالیٰ پر توکّل کریں.دعا کی جائے گی.والسلام مرزا غلام احمد نوٹ: (۱) مکرم قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی ذکر کرتے تھے کہ میرے بھائی کو ۱۹۴۷ء میں اچانک اپنے گھر سے نکلنا پڑا.بعد ازاں قادیان کا ایک سکھ دوست آیا اور کہنے لگا کہ گھر سے کچھ لانا ہے تو میرے ساتھ چلیں.بھائی گئے اور صرف وہ تھیلا لائے جس میں یہ مکتوبات تھے.یقینا حضورؑ کے ارشاد کے باعث کہ ’’اس خط کو بہت محفوظ رکھاجائے‘‘.حضور کے اور صحابہؓ کرام کے کئی مکتوبات بچ گئے.(۲) اس مقدمہ کے متعلق قاضی عبدالرحیم صاحب نے قاضی عبدالسلام صاحب کو بتایا کہ ’’اس مقدمہ ازالہ حیثیت عرفی کے متعلق یہ واقعہ ہوا کہ عین اس تاریخ جس دن دعویٰ دائر ہونا تھا اور سب تیاری ہر طرح سے مکمل ہو چکی تھی تو علی الصبح پتہ لگا کہ وہ عورت اپنے آشنا کے ساتھ غائب ہوگئی اور اس طرح ان مخالفوں کی ساری کارستانی پر پانی پھر گیا‘
مکتوب نمبر۱۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مخدومی مکرمی اخویم سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ آپ کی خواب انشاء اللہ تعالیٰ نہایت مطابق واقعہ اور درست معلوم ہوتی ہے اور تعبیر صحیح ہے جن لوگوں کو تاویل رویا کا علم نہیں ان کو ان تعبیرات میں کچھ تکلف معلوم ہو گا.مگر صاحب تجربہ خوب جانتا ہے کہ رویا کے بارے میں اکثر عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ حقیقت کو ایسے ایسے پیرایوں اور تمثلات میں بیان فرماتا ہے.مسلمؓ نے انسؓ سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ خواب دیکھی کہ عقبہ بن رافع کے گھر جو کہ ایک صحابی تھا.آپ تشریف رکھتے تھے.اسی جگہ ایک شخص طبق رطب ابن طاب کا لایا اور صحابہ کو دیا اور رطب ابن طاب ایک خرما کا قسم ہے کہ جس کو ابن طاب نام ایک شخص نے پہلے پہل کہیں سے لا کر اپنے باغ میں لگایا تھا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی تعبیر کی کہ دنیا و آخرت میں صحابہ کی عاقبت بخیر و رفعت ہے اور حلاوت ایمان سے وہ خوش حال اور متمتع ہیں.سو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عقبہ کے نام سے عاقبت کا نام نکالا اور رفع خدا کا نام ہے.اس سے رفعت سمجھ لی اور خرماء کی حلاوت سے حلاوت ایمان کی اور ابن طاب میں طاب کالفظ ہے جس کے معنے ہیں خوشحال ہوا.پس اس سے خوشحال ہونے کی بشارت سمجھ لی.عرض تعبیر رویا میں ایسی تاویل واقعی اور صحیح ہے.آپ کے خواب کی بہت عمدہ بشارت ہے.محافط دفتر کے لفظ سے یاد آتا ہے کہ ایک مرتبہ اس عاجز نے خواب میں دیکھا کہ ایک عالیشان حاکم یا بادشاہ کا ایک جگہ خیمہ لگا ہوا ہے اور لوگوں کے مقدمات فیصل ہو رہے ہیںاور ایسا معلوم ہوا کہ بادشاہ کی طرف سے یہ عاجز محافظ دفتر کا عہدہ رکھتا ہے اور جیسے دفتروں میں مسلیں ہوتی ہیں.بہت سی مسلیں پڑی ہوئی ہیں اور اس عاجز کے تحت میں ایک شخص نائب محافظ دفتر کی طرح ہے.اتنے میں ایک آدمی دوڑا آیا کہ مسلمانوں کی مسل پیش ہونے کا حکم ہے.وہ جلد نکالو.پس یہ رویا بھی دلالت کر رہا ہے کہ عنایات الٰہیہ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کی طرف متوجہ ہیں اور یقین کامل ہے اور توکل کو جو مسلمانوں کو فراموش ہو گئی ہیں پھر خداوند کریم یاد دلائے گا اور بہتوں کو اپنی خاص برکات سے متمتع کرے گا کہ ہر ایک برکت ظاہری اور باطنی اسی کے ہاتھ میں ہے.اس عاجز نے پہلے لکھ دیا تھا کہ آپ اپنے تمام اوزار مغمولہ کو بدستور لازم اوقات رکھیں.صرف ایسے طریقوں سے پرہیز چاہیے جن میں کسی نوع کا شرک بابدعت ہو.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم سے اشراق پر مداومت ثابت نہیں.تہجد کے فوت ہونے پر یا سفر سے واپس آکر پڑھنا ثابت ہے لیکن تعبد میں کوشش کرنا اور کریم کے دروازہ پر پڑے رہنا.عین سنت ہے.وَاذْکُرُوااللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.٭
حضرت ڈاکٹر سیّد ظہور اللہ احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
فہرست مکتوبات بنام حضرت ڈاکٹر سیّد ظہور اللہ احمد صاحبؓ مکتوب نمبر تاریخ تحریر صفحہ ۱ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۶ء ژ ۶۲ ۲ ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۶ء ژ ۶۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بخدمت امامنا و مخدومنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خداوندکریم و رحیم کا بڑا فضل ہمارے شامل حال ہوا کہ ہم نے اُس نعمتِ عظمٰی کو پا لیا جس کے لئے ہمارے آبا و اجداد ایک زمانہ دراز سے متمنیّ گزر گئے کہ ہم کو حضرت والا کی بیعت کا شرف حاصل ہوا جس سے لاکھ لاکھ شکر ہے اُس خداوند کریم کا کہ ہمارے ایمان و اتقان میں ایک نمایاں تبدیلی واقع ہوئی حضور سے استدعا ہے کہ ہمارے لئے ایسی دعا فرمائیں کہ خداوند کریم ہمیں شیاطین الانس والجنّ سے محفوظ رکھ کر ہمارے خاتمہ بخیر کرے اور ہمارے آخر دم تک اپنی اور اپنے پیارے نبی کی فرمانبرداری کا ایک سچا عملی اور پُر اثر جوش مرحمت فرمائے اور ہم سے راضی و خوش ہو جائے.اور یہ امر بھی ضروری الفرض ہے کہ حضور کی خاص توجہ دینیات کی وجہ یہاں ہمیں کسی قسم کی تکلیف پیش نہیں آئی جس چیز کی ضرورت ہوئی حسب خواہش مہیاّ ہوتی رہی.ہر چند دل کی خواہش تو یہی ہے کہ ایک لمحہ کے لئے حضور سے جُدا نہ ہوں لیکن ایام رخصت کے قریب الاختتام ہونے و اسباب معاش کی انجام دہی کے لئے ضرورت کی وجہ( سے) ہم خدام مستدعی اجازت ہیں کہ کل صبح اپنے وطن کی جانب راہی ہو جائیں.خاکساران سید ظہور اللہ احمد سید عابد حسین سرجن دواخانہ راجورہ وردال منصب دار علاقہ نظام حیدر آباد ضلع بیدر علاقہ نظام حیدر آباد بخط کنٹری سید نعیم اللہ احمد دستخط بشیر احمد سوداگر نوٹ: ڈاکٹر سید ظہور اللہ احمد صاحبؓ حیدر آبادی کے نام جو د۲و خطوط ہیں.وہ مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل وکیل ہائیکورٹ یادگیر کی کوششوں سے ملے ہیں.جَزَاہُ اللّٰہُ خَیْرًا.اصل خطوط مکرم سید اسد اللہ صاحب حیدر آبادی جو اُن کے فرزند ہیں کے پاس محفوظ ہیں.(مرتب)
مکتوب نمبر۱ ژ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میرے خیال میں تھا کہ آپ کی رخصت کے دن ابھی بہت باقی ہیں اور اب معلوم ہوا ختم ہی ہو گئے افسوس ہے آپ کو صرف تھوڑے دن رہنے کا اتفاق ہوا اس لئے بو جہ مجبوری ملازمت کچھ نہیں کہہ سکتے لہٰذا مجبورًا اجازت ہے کہ آپ چلے جائیں اور اپنے حالات سے یاد دلاتے رہیں تا سلسلہ دعا کا جاری رہے.۱۷؍اپریل ۱۹۰۶ء والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر ۲ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ محبی اخویم سید ظہور اللہ احمد صاحب سَلَّمَکَ رَبُّکَ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا محبت نامہ پہنچا خط کے پڑھنے سے جس قدر آپ کا اخلاص اور ہمدردی اور تعلق دلی معلوم ہوتا ہے درحقیقت وہ ایک ایسا امر ہے کہ بہت کم لوگ اس درجہ اخلاص تک پہنچتے ہیں.اور شکر کا مقام ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت میں ایسے بااخلاص پیدا کئے ہیں.خدا تعالیٰ
آپ کو اس نیت اور خلوص کا اجر بخشے اور آپ کو معہ اپنے عزیزوں اور اہل و عیال کے سلامت رکھے.روپیہ مرسلہ بقدر چونتیس۳۴ روپیہ بھی پہنچ گئے ہیں اور چند ہفتے سے میری طبیعت بہت ہی علیل ہے طاقت نہیں کہ اپنے ہاتھ سے خط لکھوں اس لئے میں نے یہ خط گو اپنے ہاتھ سے نہیں لکھا مگر آپ اپنی عبارت سے لکھوایا ہے.امید ہے کہ آپ ہمیشہ اپنی اور اپنے عزیزوں کی خیریت سے اطلاع دیتے رہا کریں گے اور بہت خوشی کی بات ہے کہ اگر فرصت میسر ہو تو آپ اپنی ملاقات سے مسرور فرماویں او ر یہ خط کسی قدر دیر کے بعد لکھا گیا ہے اس کا یہ سبب ہے کہ میری طبیعت علیل ہو گئی تھی کہ لکھوانے کی طاقت بھی نہیں تھی آج کسی قدر افاقہ ہوا کہ یہ خط لکھوایا گیا.باقی خیریت ہے.۱۰؍ستمبر ۱۹۰۶ء بروز پیر والسلام مرسلہ مرزا غلام احمد مولیٰ بس مرزا غلام احمد عفی عنہ (نوٹ ) یہ مہر ’’مولیٰ بس‘‘ والی انگوٹھی کی ہے جو حضرت اقدس نے بنوائی تھی.تحریر بظاہر حضرت ام المومنین ؓ کی معلوم ہوتی ہے.واللہ اعلم بالصواب.(مرتب)
حضرت میر محمد سعید صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ (۱) عریضہ بیعت مولوی سید بشارت احمد ایڈووکیٹ و امیر جماعت احمدیہ حیدر آباد دکن و ہمشیرہ صاحبہ موصوفہ سے متعلق نوٹ (۲) معہ اصل خط حضرت میر محمد سعید صاحبؓ (۳) اصل خط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مولوی سید بشارت احمد صاحب ایڈووکیٹ و امیر جماعت احمدیہ حیدر آباد دکن (سابق نام میر بشارت علی صاحب) کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ تحریر اصلی معہ دیگر عریضہ کے موجود تھے جو ان سے حاصل کر کے مکتوبات احمدیہ جلد ہفتم ہذا میں شائع کئے جا رہے ہیں.اصل تحریر سے پہلے خود مولوی صاحب موصوف کے نوٹ درج ہیں.۷؍ستمبر ۱۹۵۴ء (محمد اسماعیل فاضل وکیل ہائی کورٹ یادگیر) عریضہ بیعت کے متعلق نوٹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ’’میں میر بشارت علی خاں ہاشمی ولد میر احمد علی خاں صاحب منصب دار علاقہ حضور نظام میر محبوب علی خاں شاہ وقت ریاست حیدر آباد دکن ہوں.مدت سے یہ آرزو تھی کہ اعلیٰ حضرت حضور اقدس مسیح موعود و مہدی مسعود حضرت اقدس و اعلیٰ مرزا غلام احمد صاحب ساکن قادیان سے جو کہ برحق مسیح تھے جن کے لئے تیرہ سَو سال سے انتظار تھا شرف قدم بوسی حاصل کروں لیکن بوجوہات عسرت و امور خانگی حضور کی دیدار و قدم بوسی سے محروم رہا.واقعہ یہ … ہے کہ میر محمد سعید صاحب احمدی کشمیری جو کہ میرے استاد اور بزرگ تھے وہ ماہ مئی ۱۹۰۸ء میں حضور اقدس کی خدمت میں جب کہ آپ دارالسلطنت لاہور میں بغرض تبدیل آب و ہوا معہ اُمّ المؤمنین رونق افروز تھے جانے کا مقصد
ظاہر فرمایا گو کہ میںتمام خرچ روانگی وغیرہ بہم پہنچایا اور جانے کے لئے ایک روز باقی تھا کہ حضرت قبلہ جنابہ سردار بیگم صاحبہ جو کہ میری مشفق اور چاہتی ماں ہیں انہوں نے بوجہ جدائی و سفر دور دراز سخت مضطرب و بدحال ہوگئے اور مانع بھی ہوئے.پس باایں نصیحت حضرت اقدس کہ (جو شخص اپنے ماں باپ کی اطاعت نہ کرے وہ میری مریدی سے خارج ہے.دیکھو کشتی نوح)جانے سے باز رہا اور کچھ نذرانہ خدمت اقدس میں بذریعہ مولوی صاحب موصوف معہ ایک عریضہ شوق و نیزیک عریضہ بایں بیان کہ میری ہمشیرہ یعنی غریب النساء بیگم عرف حاجی بیگم صاحبہ بیعت میں داخل ہوتے ہیں لہٰذا حضور شریک فرما کر خاص اپنے دستخط خاص سے کچھ نصیحت وغیرہ تحریر فرما کر غلام کو سرفراز فرمائیں معہ نذر روانہ خدمت کیا تھا چنانچہ مولوی صاحب موصوف جب کہ لاہور پہنچ گئے تو میرا و نیز ہمشیرہ صاحبہ کا عریضہ بمعہ نذر حضرت کی خدمت میں پیش کیا جس پر حضور نے نذر قبول فرما کرخاص اپنے دستِ مبارک سے بتاریخ ۱۸؍ مئی ۱۹۰۸ء اپنی وفات کے نو روز قبل بمقام لاہور عزیز منزل میں یہ جواب تحریر فرمایا ہے جس کی نقل صفحہ۶۶ کتاب ہذا پر ہے.‘‘ نوٹ نمبر۲ از مولوی سید بشارت احمد صاحب ایڈووکیٹ و امیر جماعت احمدیہ حیدر آبا د دکن گو کہ میں نے ۱۹۰۶ء میں اپنے گھر میں سب سے پہلے بیعت کی اور حضور کی زندگی تک کثرت سے عرائض دعا کے لئے لکھتا رہااور اپنے پتہ سے پوری طرح اطلاع نہ دے سکا تو میرے خطوط کے جواب میں جو خطوط حضور بھجواتے تھے محض واپس جانے سے اور اخبار میں میرے کو تسلّی دینے کے لئے چھپوا دیا جاتا رہا کہ دعائیہ خطوط بھیجتے ہیں اور دعا کی جاتی ہے بوجہ طفولیت میں اپنے پتہ خطوط میں نہیں لکھا کرتا تھا ورنہ جوابات مجھے وصول ہوتے.میری ہمشیرہ کا خواب: میری ہمشیرہ نے ایک خواب دیکھا کہ ایک بزرگ جن کا رتبہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کا ہے میرے گھر تشریف لا کر چنبیلی کے منڈوے کے پاس جو کہ میرے صحن میں تھا کھڑے تھے اتنے میں میری ہمشیرہ ان کی بیعت کے لئے میرے کمرہ میں
سے ایک مخمل کی میری شیروانی لے کر باہر آئیں اور بیعت کی تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعبیر اس رنگ میں پوری ہوئی کہ میں نے اپنے خط میں اپنی ہمشیرہ کا جو ذکر لکھا تو حضور نے ان کی بیعت کے ساتھ میری بیعت کا بھی ذکر فرما دیا.نوٹ نمبر۳ از محمد اسماعیل وکیل یادگیر مولوی سید بشارت احمد صاحب ایڈووکیٹ کی ہمشیرہ صاحبہ جن کا ذکر اس بیعت میں موجود ہے ان کی شادی بعد میں جناب نواب اکبر یار جنگ بہادر جج ہائی کورٹ حیدر آباد سے ہوئی تھی وہ اب دیر ہوئے فوت ہوچکی ہیں جن کے بطن سے ایک لڑکا رشید الدین احمد صاحب بقیدِ حیات ہے جو سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندر آباد کے داماد ہیں.(نقل تحریر حضرت مولوی میر محمد سعید صاحبؓ) بحضور حضرت اقدس مدّظلہّ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ عریضہ بیعت برادرم میربشارت علی صاحب معہ نذر ۲۷؍ روپیہ کلدار و انگریزی یک روپیہ و سکہ حالی نقد روپیہ و چار آنہ.دو آنہ و پیسہ خورد و کلاں برائے ملاحظہ گرامی کہ راندہ و سہ اشرفی از جانب بندہ کمتریں و دو از جانب خوش دامن بندہ پیش است گر قبول افتد زہے عزوشرف.درخواست برادرم میربشارت علی صاحب چنیں است کہ حضور بدست انور یک دو حرف بطور نصیحت صرف تحریر فرمایند عنایت تقویۃ دل و ایمان نمایند زیادہ حد ادب.۱۸؍مئی ۱۹۰۸ء والسلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ عریضہ کمترین ناچیز میرمحمد سعید احمدی
صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے (جو مولوی سید بشارت احمد صاحب ایڈووکیٹ کے خسر اور جماعت احمدیہ حیدر آباد کے بانی تھے) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں بیعت فارم سید بشارت احمد صاحب اور ان کی بہن کا پیش فرمایا تھا جس کا حضور اقدس نے جواب دیا وہ دوسرے صفحہ پر درج ہے.نقل مطابق اصل تحریر مبارکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مکتوب نمبر ژ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بیعت ونذر میر بشارت علی صاحب و ہمشیرہ شان بدعا خیر منظور است نصیحت ہمیں کہ اقامت صلوٰۃ و معموری آن بدعاہا و استقامت براحادیث صحیحہ و احکام قرآن و کثرت درود شریف و استغفار دایم لازم.بجملہ یادکنندگان سلام شوق.۱۸؍ مئی ۱۹۰۸ء مرزا غلام احمد لاہور عزیز منزل
پر میاں صاحب نے کہا اگر میرا بیٹا اس طاعون سے فوت ہو گیا تو مسیح موعود (نعوذباللہ) جھوٹے اور تم سچے اگر اس کے اُلٹ ہوا تو تمہیں ماننا پڑے گا.چنانچہ سیٹھی عبد الحق زندہ رہے اور ۸۵ سال کی عمر پائی جبکہ اس وقت ہر طرف موتا موتی تھی.لیکن لوگوں نے وعدہ کے باوجود نہ مانا.سیٹھی عبد الحق صاحب اپنے پھوڑے کا نشان دکھایا کرتے تھے.آپ کی وفات ۲۴؍ستمبر ۱۹۲۶ء کو ہوئی.بمطابق وصیت حضرت مولوی برہان الدین ؓ کے ساتھ جہلم کے قبرستان میں دفن ہیں اور آپ کی اہلیہ محترمہ کرم بی بیؓ بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہیں.٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۲۴۵، ۲۴۶
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک غیرمطبوعہ مکتوب ذیل میں درج کیا جاتا ہے.یہ شیخ ابراہیم صاحب مرحوم کے جواب میں حضور انور نے پیرسراج الحق صاحب نعمانی سے لکھوا کر بھجوایا تھا.یہ مضمون ڈاک خانہ کے پرانے طرز کے چھوٹے سائز کے ایک کارڈ پر مرقوم ہے.اصل کارڈ مکتوب الیہ کے فرزند سیٹھی خلیل الرحمن صاحب کے پاس محفوظ ہے.خاکسار فضل حسین کارکن صیغہ تالیف وتصنیف مکتوب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ حضرت امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تمہارا اضطراب نامہ پہنچا.تم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖ و سلم کے حالات پُرازتکالیف دیکھو کہ ان پر کیا کیا گزری.مال علیٰحدہ رہا، جان کی بھی مشکلات پڑگئی.تمہاری کیا تکلیف ذرا سی تکلیف، وہ بھی نہیں جھیلی جاتی.آپ درود واستغفار کا ورد کریں.لاحول بکثرت پڑھیں.خدا سے اخلاص اور عبودیت پیداکریں.صبر کو کام میں لاویں.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ ۱؎پر نگاہ غور کریں.کیا حضرت رسول اللہ کے وقت میں ریل جاری تھی یا یکّے چلتے تھے.وہ بھی توبندۂ خدا تھے.ہزاروں سینکڑوں کوسوں کاسفر پیدل کرتے تھے.وہی خصلتیں پیدا کرو.وہی عادات اختیار کرو.اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم۲؎.ہم بھی دعاکریں گے.فقط ٭ ۱۶؍ مئی ۹۴ء والسلام علیکم کتبہ باذن حضرت امام ہمام الکاتب سراج الحق از قادیان پنجاب ۱؎ البقرۃ : ۱۵۴ ۲؎ الممتحنۃ : ۱۳ ٭ الفضل نمبر ۱۷۸ جلد ۳۴ مورخہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۴۳ء صفحہ ۳
حضرت سیٹھ ابوبکر یوسف صاحب ؓ حضرت ابوبکر یوسف صاحب رضی اللہ عنہ المعروف بہ سیٹھ ابوبکر یوسف آف جدہ ابن مکرم محمد جمال یوسف صاحب متولد پٹن ضلع گجرات احمدآباد ریاست بڑودہ ہندوستان.آپ کی پیدائش غالباً ۱۸۶۵ء بنتی ہے.آپ صدیقی النسب تھے اور گزشتہ تین سو سال سے آپ کے آبائو اجداد کے مستقل گھر دوملکوں میں تھے.ایک گھر گجرات کا ٹھیاواڑ میں تھا اور ایک عرب میں.عرب میں آپ کے دو گھر تھے ایک مکہ معظمہ میں اور دوسرا جدہ میں جو آپ کی تجارت کا مرکز ہونے کی وجہ سے زیادہ معروف و مشہور تھا.دو ممالک میں گھر ہونے کی وجہ سے عرب سے ہندوستان آپ کا آنا جانا لگا رہتا تھا.عرب اور ہندوستان میں آپ ایک بڑی اعلیٰ ساکھ کے مالک تاجر تھے.آپ بمبئی سے سفیدجوار، چاول اور کالی مرچ عرب میں لے جاتے مگر زیادہ نام آپ نے ہیرے جواہرات کی تجارت میں کمایا.آپ کو دین کا گہرا علم تھا اس لئے آپ کا عبادات، مناجات اور مجاہدات کی طرف بھی بہت رجحان تھا.عالم اسلام کی زبوں حالی کے تصور سے آپ کی حالت بسا اوقات یوں ہو جاتی کہ گویا آپ کا آخری وقت آن پہنچا ہے.ایک رات کچھ ایسے ہی لمحات میں گزر ہوئی اور جبکہ طلوع فجر کا عمل تھا کہ ایک نظارہ دیکھا جس میں آپ کو روضۂ اقدس حضرت رسول کریم ﷺ پر پانچ منور چراغ دکھائے گئے.پھر وہی پانچ منور چراغ بارہ چراغوں کی صورت میں نور افشاں کرتے ہوئے دکھائی دیئے.پھر ایک اور چراغ ان سب کے سوا دکھائی دیا جو شعلہ پکڑنے سے پہلے پھڑپھڑا رہا تھا اورپھر وہ چراغ ایک شان سے بقعۂ نور ہو گیا.یہ نظارہ دیکھنے کے بعد یہی خیال آتا رہا کہ بارہ اماموں کا نورانی زمانہ تو گزر چکا ہے اس لئے آخری امام الزمان کے نور کے ظہور کا وقت قریب ہے.یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا ظہور ہو چکا ہو.اس کی تلاش کرنی چاہئے.ایسے میں بالآخر خدا کے فضل نے آپ کی دستگیری فرمائی
اور بحمد اللہ بالیقین آپ پر یہ منکشف ہو گیا کہ اس وقت کے ہادی اور امام جس کے ہم منتظر تھے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃو السلام ہی ہیں.یوں آپ خدا تعالیٰ کی براہِ راست راہنمائی کے نتیجہ میں ۱۹۰۵ء میں ہی حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت پر صدق دل سے ایمان لے آئے تھے.مگر بیعت اس وجہ سے نہ کر سکے کہ آپ کو علم نہ تھا کہ خط کے ذریعہ بھی بیعت کی جا سکتی ہے.چنانچہ اسی انتظار میں رہے کہ کب قادیان حاضرِخدمت ہو کر دستی بیعت کا شرف حاصل کریں.۱۹۰۷ء میں جیسے ہی حضرت سیٹھ ابراہیم صاحب سے معلوم ہوا کہ عریضہ کے ذریعہ بھی بیعت پیش کی جا سکتی ہے تو آپ نے بلاتوقف مکرمی زین الدین محمد ابراہیم صاحب کے گھر سے ہی بیعت کا خط تحریر کر دیا.تحریری بیعت کے چند ماہ بعد ۱۵؍ستمبر ۱۹۰۷ء بروز اتوار ظہر کی نماز سے قبل آپ قادیان دارالامان حاضر ہوئے اور نماز کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام سے مسجد مبارک میں ہی بالمشافہ حاضری کا شرف حاصل کیا.۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی آپ کو نظام وصیت میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی.آپ ۳؍۱ کے موصی تھے.آپ نے ایک حج حضرت مسیح موعود ؑ کی نیت سے اور ایک حج حضرت مصلح موعود ؓ کی نیت سے بھی کیا تھا.آپ کی انتہائی خوش نصیبی ہے کہ یکم فروری ۱۹۲۶ء کو آپ کی بیٹی الحاجہ سیدہ عزیزہ بیگم صاحبہ المعروف بہ اُمّ وسیم صاحبہ حضرت مصلح موعود ؓ کے عقدِ زوجیت میں آئیں اور ’’خواتین مبارکہ‘‘ کے زمرہ میں شامل ہوئیں.اگرچہ جدہ میں آپ کے اس وقت کے شریف مکہ سے گہرے روابط تھے مگر قبول احمدیت کی وجہ سے ملک بدر کر دیئے گئے تو آپ ہجرت کر کے مستقل رہائش کے لئے قادیان آ گئے.اور پھر قادیان سے ہجرت کر کے ربوہ آ گئے.آپ ۱۰؍جنوری ۱۹۵۵ء کو ۹۰ سال کی عمر پا کر بہشتی مقبرہ ربوہ میں صحابہ کرام کے مدفنوں کی معیت میں آسودہ خاک ہیں.٭ ٭ تلخیص از مصالح العرب جلد اوّل صفحہ ۵۲ تا ۵۹
حضرت سیٹھ ابوبکر یوسف جمال صاحبؓ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے مخلص صحابی ہیں.اور جن کی شخصیت اس تعلق کی وجہ سے بھی جو آپ کو سیدنا امیرالمؤمنین سے ہے جماعت میں نمایاں ہے.آپ نے ایک دفعہ جب حضرت کی زندگی میں تشریف لائے تو آپ نے حضور سے سفر کی اجازت چاہی.تو جو خط آپ نے لکھا اور اس پر جو حضور نے جواب لکھا اس کی نقل طبع کے لئے دفتر الحکم کو ارسال فرمائی ہے.جسے شکریہ سے درج کیا جاتا ہے.(ایڈیٹر) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ حضرت اقدس ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں خاکسار ابوبکریوسف آپ کا خادم کا کل صبح کو وطن جانے کا ارادہ ہے.بسبب والد صاحب کا ارادہ ہے جدہ جانے کا اور مجھ کو بھی جدّہ جانا ہو گا.اس لئے اجازت چاہتا ہوں کہ حضرت دعا فرمائیں کہ خداوند دین کو دنیا پر ہرحالت میں مقدم رکھنے کی توفیق رفیق عطا کرے.الراقم الحقیر ابوبکر یوسف عرب ساکن پٹن حضرت اجمیر سے معلم سید لعل محمد نے آپ کو سلام عرض کیا ہے.گرمودیک صافہ اور واسکٹ اور پائجامہ اور جراب ارسال ہے.قبول کرنا اور پانچ روپے.
مکتوب حضرت مسیح موعود ؑ کا جواب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ افسوس کہ آپ نے جلد جانے کا ارادہ کیا ہے.اچھا خدا تعالیٰ خیروعافیت سے پہنچاوے.آمین.آپ کی طرف سے مبلغ پانچ روپے اور پارچات پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.ان کی طرف السلام علیکم.٭ خاکسار مرزا غلام احمد ٭ الحکم جلد ۳۸ نمبر۱مورخہ ۱۴؍جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۱
حضرت سیّد احمد حسین صاحبؓ …یہ مکتوب سونگھڑہ ضلع کٹک کے سیکرٹری جناب حضرت سید احمد حسین صاحب مرحوم کے نام ہے.جو کہ موصی اور مخلص احمدی تھے.مرحوم جماعت کٹک کے احمدیوں میں سے پہلے شخص تھے کہ جنہوں نے حضرت اقدس کی زندگی میں قادیان حاضر ہو کر کافی عرصہ قیام کیا.اور حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بابرکت صحبت سے فیضیاب ہوئے.مرحوم نے اپنے قیام قادیان کے دوران میں حضور علیہ السلام کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا جس میں دیگر امور کے علاوہ یہ بھی عرض کیا تھا کہ ہمارے علاقہ میں جماعت کی بڑی سخت مخالفت ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ہم لوگ سخت پریشان ہیں.اگر حضور اجازت دیں تو میں ان مخالفین کی فہرست بنا کر پیش حضور کروں.تا حضور بددعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ذلّت و خواری نصیب کرے.جس کے جواب میں حضور علیہ السلام نے مندرجہ ذیل مکتوب رقم فرمایا.یہ خط ہمیں مکرمی مولوی محمد یعقوب صاحب مولوی فاضل سے دستیاب ہوا ہے.جزاھم اللّٰہ احسن الجزاء.٭ (خاکسار محتاج دُعا ملک فضل حسین کارکن صیغہ تالیف و تصنیف قادیان) ٭ الفضل نمبر۲۲۶ جلد۳۱ مورخہ ۲۵؍ستمبر ۱۹۴۳ء صفحہ ۲
حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب چٹھی مسیحؓ سلسلہ کے مشہور پنجابی شاعر مولوی محمد اسماعیل صاحب ساکن ترگڑی ضلع گوجرانوالہ نے جب اپنی مقبولِ عام پنجابی نظم ’’چٹھی مسیح‘‘ لکھی تو وہ خود اس کا مسودہ لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسجد مبارک میں جبکہ حضور علیہ السلام اور صحابہ کرام تشریف فرماتھے.مولوی صاحب موصوف نے اس نظم کے پڑھنے کی اجازت چاہی اور اجازت ملنے پر آپ نے کھڑے ہو کر ایک خاص انداز اور خوش الحانی کے لہجہ میں سنائی.اس نظم کو سن کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام مسرور ہوئے.یہ نظم ’’چٹھی مسیح‘‘ کے نام سے چھاپی گئی اور اس وقت تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں.اس کے کچھ عرصہ بعد مولوی محمد اسماعیل صاحب نے ایک دفعہ حضور علیہ السلام کی خدمت میں اس مضمون کا عریضہ لکھا کہ میرے علاقہ میں ایک صوفی ہے جو کہتا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ (مولوی محمد اسماعیل صاحب) ہندئووں کے طرفدار ہو کر ان کی طرف سے جھگڑتے ہو اور آپ کے پاس پٹاخے ہیں.ان پر لفظ ’’گناہ‘‘ لکھا ہے اور آپ کے متعلق یہ الفاظ مجھے دکھائے گئے.’’من الاسلام برطرفھا‘‘ مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم نے اس خواب کے ساتھ اپنی پریشانی کا بھی حال تحریر کیا اور لکھا کہ میں بڑا حیران ہوں اور بہت استغفار کر رہا ہوں.ان کا خط پڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو لکھا کہ (ان دنوں حضرت مفتی صاحب ڈاک کا جواب دیا کرتے تھے).
مکتوب انہیں جواب لکھ دیں کہ ’’توبہ استغفار عمدہ چیز ہے مگر ان لوگوں کی خوابوں کا ہرگز اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ لوگ تقویٰ سے بعید ہیں اور شیطان کے مس سے خالی نہیں.ابھی تک تو میں تمہارے درمیان زندہ ہوں اور صدہا نشانِ الٰہی ظاہر ہو رہے ہیں.چاہیے کہ ایک ماہ کے بعد میری کتاب حقیقۃ الوحی منگوا کر دیکھیں کہ اس وقت تک وہ چھپ جائے گی.جس شخص کو تزکیۂ نفس حاصل نہیں وہ جس قدر شیطان کے قریب ہے اس قدر خدا کے قریب نہیں.‘‘ یہ تحریر مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم کے فرزند مرزا محمد حسین صاحب کلرک حوالدار جالندھر چھائو نی کے پاس محفوظ ہے.خاکسار فضل حسین دفتر تالیف و تصنیف قادیان٭ ٭ الفضل نمبر۱۲۳ جلد۳۱ مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۴۳ء صفحہ ۳
حضرت مولوی الٰہی بخش صاحبؓ آف بنارس حضرت مولوی الٰہی بخش صاحب جن کو یہاں کی جماعت کا صدر کہنا چاہیے بنارس کے ایک بہت پرانے مدرسہ کے ہیڈ مولوی ہیں.سینکڑوں ان کے شاگرد ہیں.جس راستہ سے گزرتے ہیں، سب ہندو مسلمان عزت کے ساتھ آپ کو سلام کرتے ہیں.اپنے تقویٰ اور ُخلق کے سبب ہرجگہ عزت و تعظیم سے دیکھے جاتے ہیں.بنارس سے سب سے پہلے یہی صاحب اپنے دوست محمد کریم خاں کے ساتھ قادیان تشریف لائے تھے.فرماتے تھے کہ ’’سب سے پہلے جو میں حضرت مسیح موعود کو عزت اورمحبت کی نگاہ سے دیکھنے لگا اس کا ذریعہ حضور کا ایک پرانا خط تھا جو کہ الحکم میں چھپا تھا.جس میں کسی دعا کے درخواست کنندہ کو حضرت مرحوم ومغفور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے لکھا تھاکہ’’ ان دنوں میں بسبب مرض خارش تکلیف میں ہوں.‘‘ فرمایا کہ اس فقرے پر میں حیران ہوا کہ ایک طرف مسیحیت کا دعویٰ اور دوسری طرف یہ سادگی اور صفائی کہ اپنی خارش کا حال خط میں لکھ ڈالا ہے.ایک بناوٹی آدمی ہرگز ایسا نہیں کر سکتا.اس سے میرا حسن ظن بڑھتا چلا گیا.مولوی الٰہی بخش صاحب اپنے عزیز دوست بخشی عبدالرزاق صاحب کے ساتھ اکتوبر ۱۹۰۷ء میں قادیان تشریف لائے تھے اور یہاں سے لاہور گئے تھے.ان دنوں میں حضرت مرزا صاحب علیہ السلام نے ان کو خط لکھا تھا جو کہ مولوی صاحب نے مجھے دکھلایا.فقط اشارہ کرتا تھا کہ یہ آخری ملاقات ہے.اس خط کی نقل درج ذیل ہے.٭ ٭ بدر نمبر۹ جلد۱۰ مورخہ ۵؍جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۹
مکتوب السلام علیکم و رحمۃ و برکاتہ میری تو یہی مراد اور یہی خواہش ہے کہ مولوی صاحب بواپسی اگر کم سے کم ایک ہفتہ اور قادیان میں رہ جائیں.اگر رخصت کم ہے تو بڑا سہل طریق ہے کہ آج ہی درخواست دے کر ہفتہ عشرہ کی اور رخصت منگوا لیں.کیونکہ عمر کا ہرگز اعتبار نہیں ہوا کرتا.بہت ملاقاتیں ہیں کہ جو آخری ملاقاتیں ہوتی ہیں.اور یہ تو مثل مشہور ہے کہ کارِ دنیا کسے تمام نکرد ؎ مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار مباش ایمن از بازیئِ روزگار یہ تجویز جو میں نے پیش کی ہے مشکل نہیں ہے مگر کچھ دن اس جگہ رہنا بہت ضروری ہے.اتنی دوردراز مسافت سے باربار آنا اگرچہ عمر بھی باقی ہو مشکل ہے.٭ ۲۲؍اکتوبر ۱۹۰۷ء والسلام مرزا غلام احمد ٭ بدر نمبر۹ جلد۱۰ مورخہ ۵؍جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۹ ، ۱۰
حضرت سردار امام بخش خاں صاحبؓ آف کوٹ قیصرانی ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ایک مکتوب مبارک کا جو خدا تعالیٰ کے ایک بہت بڑے نشان کا حامل ہے عکس دیا جاتا ہے.یہ مکتوب حضور نے سردار امام بخش خاں صاحب مرحوم کوٹ قیصرانی کے نام اس وقت تحریر فرمایا تھا جب سردار صاحب موصوف کو ان کے والد صاحب کے کہنے پر گورنمنٹ نے ریاست سے نکال دیا اور اس بے کسی اور بے بسی کی حالت میں سردار صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بیعت کر کے اپنی مشکلات کے دور ہونے کے لئے درخواست دعا کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سردار صاحب کے خط کے جواب میں ان کو یہ مکتوب ارقام فرمایا اور تسلیّ دیتے ہوئے لکھا کہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کے لئے بہتر کرے گا.گو جلدی یا کسی قدر دیر سے.‘‘ آخر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ان الفاظ کو پورا کرنے کے لئے یہ انتظام کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے عہد سعادت مہد کے شروع میں سردار صاحب کے والد صاحب نے گورنمنٹ کو ان کے واپس آنے کی اجازت کے لئے لکھااور انہیں اجازت مل گئی.اس کے بعد تھوڑے عرصہ میں ہی ولی عہد دیوانہ ہو گیا اور ان کے والد صاحب فوت ہو گئے.اس پر سردار صاحب رئیس مقرر کئے گئے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا معجزانہ رنگ میں پوری ہوئی.٭ ٭ الفضل نمبر۸۵ جلد۱۵ مورخہ ۲۷؍اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۷
مکتوب ژ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط پہنچا.ہریک امر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.اگر آپ سچے اعتقاد اور ایمان پر قائم ہوں گے.امید کہ اللہ تعالیٰ بہرحال آپ کے لئے بہتر کرے گاگو جلدی یا کسی قدر دیر سے.استقامت اور حسن ظن کی طرف رہیں.آپ کو معہ آپ کی اہلیہ کے بیعت میں داخل کر لیا گیا ہے.بہتر ہے کہ اپنے حالات سے باربار اطلاع دیں.اور د۲و ہفتہ یا تین۳ ہفتہ کے بعد اطلاع دے دیا کریں یہ ضروری ہے اور اگر ایک دفعہ قادیان میں آ جائیں تو بہت بہتر ہے.باقی سب طرح سے خیریت ہے.۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۶ء والسلام غلام احمداز قادیان
حضرت مولوی امام الدّین صاحب فیضؓ آف گولیکی حضرت مولوی امام الدّین صاحب فیضؓ ولد مولانا بدرالدین صاحب نومبر۱۸۵۱ء میں پیدا ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت ۱۸۹۵ء میں کی.اور غالباً ۱۸۹۵ء میں ہی بیعت کرکے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے.سورج چاند گرہن کا نشان ظاہر ہونے پر آپ کی توجہ احمدیت کی طرف مبذول ہوئی.چنانچہ بٹالہ آ کر آپ نے قادیان کا پتہ لگایا اورچپ چاپ یہاں پہنچ کر حضرت اقدس علیہ السلام سے ملاقات کی اور بیعت کا شرف حاصل کیا.اکتوبر ۱۹۲۵ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ سے اجازت لے کر اپنے وطن گولیکی سے ہجرت کر کے قادیان تشریف لے گئے.آپ کی آنکھ میں نزول الماء ہو رہا تھا اور عارضہ فتق بھی لاحق ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود ایک کثیر تعداد شاگردوں کی آپ کے اردگرد جمع ہو گئی جو آپ سے علم حاصل کر کے مولوی فاضل ، ادیب اور مدرس کے علاوہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے.حضرت مولانا صاحب ایک جیّدعا ِلم اور عارف تھے.صاحب کشف والہامات اور مستجاب الدعوات تھے.باوجود پیرانہ سالی اور ضعیفیکے ہر نماز باجماعت ادا کرتے اور باقاعدگی سے نماز تہجد پڑھتے تھے.آپ ۱۲؍اپریل ۱۹۴۰ء کو آٹھ بجے شام نہایت طمانیت و سکون کے ساتھ واصل بحق ہوئے.اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۱؎.آپ کے فرزند قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.آپ معروف شاعر اور اخبار نویس تھے.آپ نے ساری عمر سلسلہ کی خدمت میں گزاری.٭ ۱؎ البقرۃ : ۱۵۷ ٭ تلخیص از الفضل نمبر۹۵ جلد۲۸مورخہ ۲۷؍اپریل ۱۹۴۰ء صفحہ ۴ تا ۶
فہرست مکتوبات بنام حضرت مولوی امام الدین صاحب فیضؓ آف گولیکی نمبرشمار تاریخ تحریر صفحہ ۱ بلا تاریخ ۱۲۱ ۲ بلا تاریخ ۱۲۱
مکتوب نمبر۱ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ نصیحت اس سے بڑھ کر اور کیا نصیحت ہو سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ ۱؎.ترجمہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں جو مجھ سے ڈرتے اور میرے احکام پر چلتے ہیں.یعنی وہ جو صرف بدی سے پرہیز نہیں کرتے بلکہ بدی کو ترک کر کے نیک اعمال بھی بجا لاتے ہیں سو خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ میں پرہیزگاروں اور نیکوکاروں کے ساتھ ہوں.اس کے یہ معنے ہیں کہ ایسے لوگ موردمراحم اور الطاف اور فیوض الٰہیہ ہیں.جس شخص کے ساتھ صرف چراغ ہو اس کی راہ کی تاریکی دور ہو جاتی ہے.پس جس کے ساتھ خدا ہو وہ کیونکر تاریکی میں رہ سکتا ہے.مگر تقویٰ شعاری اور نیکوکاری بھی مشکل ہے.درحقیقت ایک موت ہے.اور یہ مرتبہ کثرت دعا اور کثرت استغفار سے میسر آ سکتا ہے.پھر بھی خدا کا فضل شرط ہے.بجز فضل کے نہ دنیا درست ہو سکتی ہے اور نہ زبان اور نہ دل.فضل ہر یک توفیق کی جڑ ہے.٭ والسلام میرزا غلام احمد ـــــــمکتوب نمبر۲ حضور کی خدمت میں درخواست کی گئی کہ چند کلمات دعائیہ لکھ دیں جو موجب برکت ہوں.السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ میاں احمد دین بہت استغفار پڑھتے رہیں یعنی اس قدر کہ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ.اور یہ دعا بہت پڑھیں.یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ.اور اپنی زبان میں بھی گناہوں کی معافی چاہتے رہیں.٭٭ والسلام میرزا غلام احمد ۱؎ النحل : ۱۲۹ ٭، ٭٭ بدر نمبر۱۷ جلد۷ مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۷
حضرت قاضی امیر حسین صاحب ؓآف بھیرہ حضرت قاضی امیر حسین رضی اللہ عنہ بخاری سیّد تھے.آپ کی ولادت ۱۸۴۸ء میں بھیرہ میں ہوئی.مغلوں کے عہد میں آپ کے آباء کو قاضی کا جلیل القدر عہدہ ملا تھا.حصول تعلیم کا آغاز جوانی کے عالم میں ہوا.اس سے قبل اپنے والد صاحب کے ساتھ گھوڑوں کی تجارت کرتے تھے.سہارن پور کے مدرسہ مظہر العلوم سے تعلیم کی تکمیل کی.جب واپس بھیرہ تشریف لائے تو محلہ قاضیاں میں اپنی خاندانی مسجد میں حدیث کا درس دیا کرتے تھے.آپ کی شادی حضرت حکیم مولانا نور الدینؓ صاحب کی بھانجی سے ہوئی.آپ نے ’’مدرسۃ المسلمین‘‘ امرتسر میں ملازمت کا آغاز کیا.مئی ۱۸۹۳ء میں جنگ مقدس (مباحثہ پادری عبد اللہ آتھم) امرتسر کے دوسرے روز آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کی کہ میری دعوت منظور فرماویں.حضرتؑ نے آپ کی دعوت کو حضرت شیخ نور احمد صاحبؓ کی منظوری پر رکھا.حضرت قاضی صاحب نے دعوت کی حضرت اقدس ؑ نے منظوری دے دی.اس دعوت کے بعد حضرت قاضی صاحب نے بیعت کر لی.آپ امرتسر سے ملازمت چھوڑ کر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان آگئے.آپ کے شاگردوں میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد (خلیفۃ المسیح الثانیؓ)اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب ؓشامل تھے.’’جہیرالصوت‘‘ ہونے کے باوجود کلام الٰہی کی تلاوت آہستہ آہستہ کرتے تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ آپ کی قرآن فہمی کی اکثر داد دیتے تھے اور ان کے قرآنی نکات کی قدر کرتے تھے.آپ حضرت مسیح موعودؑ کے عشق و محبت اور آپ کی اطاعت میں گداز تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو خدا تعالیٰ کی ایک آیت رحمت یقین کرتے تھے.آپ کے
تلامذہ میں سے حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.آپ کے بعض علمی مضامین الحکم اور الفضل میں شائع ہوتے رہے.حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی تصنیف آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شریک ہونے والوں اور چندہ دہندگان میں آپ کا ذکر فرمایا ہے.آپ نے ۲۴؍اگست ۱۹۳۰ء کو وفات پائی.آپ کا وصیت نمبر ۲۱۲۵ ہے.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی.٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۱۴۴، ۱۴۵
حضرت سید تفضل حسین صاحبؓ اکسٹرا اسسٹنٹ علی گڑھ ضلع فرخ آباد حضرت مولوی سید تفضل حسین رضی اللہ عنہ کا اصل وطن اٹاوہ تھا.آپ کے والد ایک بزرگ عارف باللہ مولوی الطاف حسین مرحوم کے خلف الرشید تھے.آپ فطرتاً صالحیت اپنے اندر رکھتے تھے.جس زمانہ میں آپ تحصیلدار تھے تو آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کے ساتھ خاص عقیدت تھی.وہ کئی مرتبہ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں علی گڑھ تشریف لانے کی درخواست کر چکے تھے جسے حضور ؑ نے قبول فرمایا.حضور اپنے اس سفر میں حضرت سید صاحب کی خدمت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.’’حبی فی اللہ مولوی محمد تفضل حسین صاحب … یہ عاجز جب علیگڑھ میں گیا تھا تو درحقیقت مولوی صاحب ہی میرے جانے کا باعث ہوئے تھے.اور اس قدر انہوں نے خدمت کی کہ میں اس کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا.…‘‘ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۵۴۳) حضرت اقدس ؑ اپریل ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ سے علی گڑھ تشریف لے گئے.اس سفر میں حضور ؑ کے ہمراہ آپ کے خدام میں حضرت مولوی عبد اللہ سنوریؓ اور حضرت حافظ حامد علی ؓبھی تھے.حضرت اقدس ؑ سید محمد تفضل حسین صاحب (تحصیلدار) کے ہاں ٹھہرے.جو ان دنوں دفتر ضلع میں سپرنٹنڈنٹ تھے.
حضرت مولوی صاحب نے ۷؍اپریل ۱۸۸۹ء کو بیعت کی.آپ کی بیعت ۷۸نمبر پر درج ہے.ازالہ اوہام میں مخلصین اور کتاب البریہ میں پرُامن جماعت میں آپ کا ذکر ہے.آپ ایک مخلص اور فدائی احمدی تھے.۳۱۳ کبار صحابہ میں جگہ پائی.آپ نے ۳؍نومبر ۱۹۰۴ء کو اٹاوہ میں وفات پائی.٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۱۸۹
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو جو محبت اپنے مخلص احباب سے ہے اور کس طرح سے آپ بدل اس امر کو چاہتے ہیں کہ احمدی احباب آپ کی صحبت بابرکت میں رہ کر فیضان الٰہی کے چشموں سے اپنے دلوں کی زمین کو سیراب کریں وہ آپ کو ذیل کے خط سے ظاہر ہو سکتا ہے.جو کہ حضرت امام الزمان ؑ نے سید تفضل حسین صاحب پنشنر رئیس اٹاوہ کے نام ان کے ایک خط کے جواب میں تحریر فرمایا.جبکہ سید صاحب قادیان میں ہی مقیم تھے اور جانے کے لئے رخصت طلب کی تھی.مکتوب محبی اخویم مولوی سید تفضل حسین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا یہ عنایت نامہ بہت ناگوار گزرا.مجھے پہلے ہی امید تھی کہ آپ جلد رخصت لیویں گے.یہ واقعی بات ہے کہ میں نہیں جانتا کہ پھر ملاقات ہو یا نہ ہو.کسی نے سچ کہا ہے.غنیمت جان رل مل بیٹھنے کو جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے.لیکن آپ کے اس عذر کے سامنے کہ چند امور ضروری درپیش آ گئے ہیں کیا کہہ سکتا ہوں… خدا تعالیٰ آپ کا حافظ ہو.دنیا ایک بے وفا اور سرائے فانی ہے.آخرت کی طرف ہمیشہ متوجہ رہیں.اور پھر نیت رکھیں کہ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو پھر ملاقات کریں.٭ ۴؍مارچ ۱۹۰۴ء خاکسار مرزا غلام احمد ٭ بدر نمبر۱۵ جلد ۲ مورخہ۱۶؍اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۷
حضرت منشی جلال الدین صاحب بلانویؓ پنشنر سابق میر منشی رجمنٹ نمبر۱۲ موضع بلانی کھاریاں ضلع گجرات حضرت منشی جلال الدین رضی اللہ عنہ مغل برلاس خاندان سے تعلق رکھتے تھے.آپ کے آبائو اجداد قندھار (افغانستان) سے ہجرت کر کے صوبہ پنجاب کے علاقہ گجرات میں آئے تھے.آپ کے والد کا نام مرزا غلام قادر صاحب تھا جو اس علاقہ میں طبیب تھے.آپ ۱۸۳۰ء کو موضع بلانی میں پیدا ہوئے.…… ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت خواب میں ہوئی تو دل کی بے قراریاں اور بڑھ گئیں.دو بارہ جب حضرت اقدس ؑ کی زیارت خواب میں ہوئی تو آپ نے حضور کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا حضور ؑ ! آپ مجھے اپنے نام اور جائے قیام سے مطلع فرمائیں تو حضرت ؑ نے آپ کو نام اور رہائش بتادی.جب آپ کی رجمنٹ جھانسی چلی گئی تو ۱۸۸۲ء یا ۱۸۸۳ء میں آپ نے چند ماہ کی رخصت لی اور قادیان کے لئے رختِ سفر باندھا.یکیّ والا حضرت اقدس ؑ کے علاوہ کسی اور کے پاس آپ کو لے گیا تو آپ نے کہا کہ یہ وہ شخص نہیں اس پر یکیّ والا آپ کو حضرت اقدس ؑ کے پاس لے گیا.حضور پرُنور کو دیکھتے ہی آپ نے پہچان لیا اور بیعت کی درخواست کی لیکن حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ ابھی بیعت لینے کا حکم نہیں ملا.جب حضرت اقدس ؑ نے بیعت کا اعلان فرمایا تو آپ نے فوراً بیعت کر لی.رجسٹر بیعت میں آپ کی بیعت ۹۳ نمبر پر درج ہے.بیعت کے بعد ایک نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی کہ آپ کی عبادات میں اس قدر ر ّقت اور خشیت تھی کہ آنسوئوں سے آپ کا چہرہ مبارک تر ہو کر کرُتا بھی بھیگ جایا کرتا……
ازالہ اوہام میں آپ کا ذکر مخلصین میں ہے.حضرت اقدس ؑ نے انجام آتھم میں اپنے مخلص دوستوں میں اور اشتہار ۲۲؍فروری ۱۸۹۸ء میں اپنی پرُامن جماعت میں آپ کا نام درج فرمایا ہے.اشتہار یکم جولائی ۱۹۰۰ء میں چندہ دہندگان منارۃ المسیح میں آپ کا نام درج ہے.اسی طرح ملفوظات جلد چہارم میں بھی آپ کا نام محبت بھرے الفاظ میں درج ہے.اگست ۱۹۰۲ء میں آپ وفات پا گئے اور تدفین موضع بلانی میں ہوئی.آپ کا کتبہ یادگار بہشتی مقبرہ قادیان میں ہے.آپ کی وفات پر حضرت اقدس ؑ نے سرد آہ بھر کر فرمایا’’ حضرت منشی جلال الدین مرحوم ہمارے یکتا اور بے نظیر دوست تھے.‘‘٭ فہرست مکتوبات بنام حضرت منشی جلال الدین صاحب بلانویؓ نمبرشمار تاریخ تحریر صفحہ نمبر ۱ ۹؍جنوری ۱۸۹۶ء ۱۳۹ ۲ ۱۳؍مارچ ۱۸۹۷ء ۱۳۹ ۳ ۱۰؍مئی ۱۹۰۱ء ۱۴۰ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۱۹، ۲۰
مکتوب نمبر۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ امام ہمام مہدی و مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ فرماتے ہیں کہ ہماری تو عین تمناّ ہے کہ آپ قادیان میں آئیں.خدا تعالیٰ وہ تقریب جلد نکالے کہ آپ کی ملاقات نصیب ہو.مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی سیالکوٹ میں بیمار تھے اب آرام ہے.مولوی نور الدین صاحب مالیر کوٹلہ ہیں.دو تین ماہ میں آئیں گے.مولوی سید محمد احسن صاحب امروہہ میں ہیں.وہ خدا جانے کب آئیں گے.٭ والسلام ۹ جنوری ۱۸۹۶ء از سراج الحق کاتب سلام مسنون از قادیان بلانی تحصیل کھاریاں ضلع گجرات پنجاب بخدمت منشی محمد جلال الدین صاحب پنشنر سلمہُ اللہ تعالیٰ مکتوب نمبر۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی منشی صاحب السلام علیکم بیشک ٹھیک ہے.حضرت اقدس کو بہت روز ہوئے ایک خواب بدیں طور ہوئی کہ ہماری پگڑی اور عصا اور چوغہ چوری ہوگیا.چوغہ تو جلد مل گیا.مگر عصا و پگڑی کے لئے آدمی واپس ٭ رجسٹر روایات صحابہ نمبر۱۴ صفحہ ۱۶۰
لینے گیا ہے اور کچھ الہام بھی متوحش ہوئے.وہ ضرور اس پیشگوئی کے متعلق معلوم ہوتا ہے خدا خود فضل کرے گا.دشمن طرح طرح کے افترا اور بہتان کر رہے ہیں.مگر وہ سب ذلیل و خوار ہوں گے.حضرت اقدس کا سلسلہ کوئی انسانی منصوبہ نہیں ہے.یہ اس ہاتھ سے قائم ہوا ہے جو سب دُنیا پر حکمران ہے.خدا کے بندوں کا مقابلہ کرنا گویا خدا تعالیٰ کا مقابلہ کرنا ہے.کچھ فکر و اندیشہ کی بات نہیں.پانچ روپیہ کا منی آرڈر وصول ہوچکا ہے.آپ مطمئن رہیں.٭ قادیان ۱۳ مارچ ۱۸۹۷ء والسلام عاجز مرزا خدا بخش بلانی ڈاکخانہ بیلہ ضلع گجرات بحکم حضرت اقدس بخدمت منشی جلال الدین صاحب مکتوب ۳ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت اقدس آپ کو کبھی بھولے نہیں.آج کل بڑی تحریکات کے دن ہیں.تین عظیم الشان اشتہار چھپ رہے ہیں.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.٭٭ ۱۰؍مئی ۱۹۰۱ء عاجز عبدالکریم منشی محمد دین صاحب کی خدمت میں سلام عرض کر دیں.جناب منشی جلال الدین صاحب پنشنر موضع بلانی ڈاکخانہ بیلہ ضلع گجرات ۱۶؍مئی ٭ رجسٹر روایات صحابہ نمبر۱۴ صفحہ ۱۶۲ ٭٭ رجسٹر روایات صحابہ نمبر۱۱ صفحہ۱۳۴
حضرت مرزاخدا بخش صاحبؓ مرزا خدا بخش جھنگ شہر میں مرزا مراد بخش صاحب کے گھر ۱۸۵۹ء میں پیدا ہوئے.محلہ باغوالہ جھنگ سے آپ کا تعلق تھا.بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا.ہائی کورٹ لاہور میں بطور مترجم ملازمت مل گئی.…… رجسٹر بیعت کے مطابق ۶۴ نمبر پر آپ کی بیعت درج ہے.جو ۲۴؍مارچ ۱۸۸۹ء کی ہے.آپ نے حضرت اقدس ؑ کے اخلاق کریمہ سے متاثر ہو کر سرکاری ملازمت چھوڑ دی.حضرت اقدس ؑ نے مکان کے ایک حصہ میں آپ کو جگہ دی.حضرت مسیح موعود ؑ کے فیض روحانی کے پھیلانے کے لئے ہندوستان کے مختلف شہروں میں جا کر آپ نے علماء سے مباحثے کئے.آپ کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی کتاب ’’عسل مصفّٰی‘‘ کی تصنیف ہے.اسے حضرت مسیح موعود ؑ نے تین ماہ تک مغرب سے عشاء تک سنا اور اظہار خوشنودی فرمایا.یہ کتاب دو جلدوں میں ہے اور چودہ سو صفحات پر مشتمل ہے.ازالہ اوہام میں آپ کا ذکر صاف باطن اور ہمدردی اسلام کا جوش رکھنے والوں میں ہے.آسمانی فیصلہ میں پہلے جلسہ میں شامل ہونے والوں، آئینہ کمالاتِ اسلام میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء اور چندہ دہندگان ، تحفہ قیصریہ میں ڈائمنڈ جوبلی میں شرکت کرنے والوں اور سراج منیر اور کتاب البریہ میں پرُامن جماعت میں آپ کا ذکر کیا ہے.کتاب منن الرحمن میں حضرت اقدس ؑ نے اشتراک السنہ میں جاں فشانی کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آپ کا بھی ذکر فرمایا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کی وفات کے بعد مبائعین خلافت سے وابستہ نہ رہے اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام، لاہور کے ساتھ شامل ہو گئے.۴؍اپریل ۱۹۳۸ء کو بعمر ۷۸سال وفات پائی.٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۸۷،۸۸
فہرست مکتوبات بنام حضرت مرزاخدا بخش صاحبؓ نمبر شمار تاریخ تحریر صفحہ ۱ ۱۷؍ مئی ۱۸۸۹ء ۱۴۵ ۲ بلا تاریخ ۱۴۷
مکتوب نمبر۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مکرمی اخویم مولوی خدابخش صاحب سلمہ ٗ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.مجھے نہایت افسوس ہے کہ میں اس جماعت پرنظر ڈال کر جنہوں نے مجھ سے بیعت کی ہے اپنے دل سے یہ فتویٰ نہیں پاتا کہ وہ لوگ اس کاربراری کاذریعہ ہو سکیں کیونکہ قریباً اکثر لوگ اُن میں سقیم الحال اور مسکین اور تنگدست اور تنگ حال ہیں اور بعض شائد ادنیٰ درجہ کے وسعت رکھتے ہوں مگر ان کے لئے یہ سوال ابتلا اورآزمائش ہوگا جس سے ان کی حالت کے بگڑ جانے کا اندیشہ ہے.کیونکہ آج کل کی طبیعتوںمیں سوء ظن بہت ہے.جنہوں نے بیعت کی ہے بالفعل ان کی اسم نویسی ہوگئی ہے.ابھی میرے پر نہیں کھلا کہ ان میں سے واقعی طور پر سچا معتقد اورمخلص کون ہے اور پھسلنے والا اور لغزش کھانے والا کون ہے.البتہ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا دو تین برسوں تک ایسے آدمیوں کا گروہ پیدا ہو جاوے گا جو سچا اخلاص رکھتے ہوں تب وہ اسلام اور مسلمانوں کے کام آویں گے ابھی ان کچے حالات والوں کو ٹٹولنا فراست ایمانی سے بعید ہے میرا دل صاف شہادت دے رہا ہے کہ ابھی یہ لوگ کوئی کام نہیں کر سکتے مجھے آپ کے کام میں دل وجان سے دریغ نہیں.مگر جو طریق ہونہار نظرنہیں آتا بلکہ اس میں فساد دکھلائی دیتا ہے اس کا اختیار کرناآپ کے لئے کچھ مفید نہیں.لوگ ابھی نہایت کچے ہیں اورادنیٰ خیال سے بگڑنے پر مستعد اور نیز روحانی تعارف مجھ سے نہیں رکھتے.بہت باتیں ایسی بھی ہیں جو اس خط میں قابل تحریر نہیں اگر آپ روبرو ہوں تو آپ پر ظاہر کی جائیں.اس لئے بالفعل یہ راہ مسدود ہے اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو کسی وقت کھل جائے گا.خدائے واحد جلّشانہ شاہد ہے کہ اس عاجز کو آپ کی نسبت نہایت دل سوزی و ہمدردی ہے مگر آپ پر یہ آزمائش کا وقت ہے کہ کامیابی کی راہ میں مشکلات ہیں آپ سب طرف سے پاس کلیّ کرکے خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور استغفار بہت
پڑھیں.مجھے کبھی کبھی اپنے حالات سے اطلاع دیتے رہیں اگرچہ وہ ہندو مسلمان ہونے پر کیسا ہی مستعد معلوم ہو مگر میری رائے میں بہتر ہے کہ اُس سے بھی قطع امید کرکے اپنے مولا غفور الرحیم پر نظر رکھیں تا وہ کوئی راہ پیدا کرے.میںآپ کے لئے سوچ میں رہتا ہوں خدا تعالیٰ چاہے گا تو کوئی راہ پیدا کرے گااس پریشانی سے جو آپ لاہور میں گزارتے ہیں اگر آپ میرے پاس رہتے تو بہتر تھا مجھے آپ کے بارے میں دل میں درد اور فکر ہے مگر ایمانی غیرتمندی کی وجہ سے ایسے لوگوں کی طرف دامن سوال پھیلانے سے کارہ ہوں جن کی صحت خلوص واعتقاد میں مجھے کمال درجے کا شک اور اُن کے بگڑ جانے کا قریب قریب یقین کے گمان ہے خصوص ان دنوں میں جو ہر طرف سے فتنے اور سوء ظن کی آوازیں سنتا ہوں مگر یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ جلد ایسے لوگ میرے گروہ میں داخل کردے گا کہ جو اسلام اور مسلمانوں کے کام آویں گے.آخر اس دعاپر ختم کرتاہوں کہ یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ اپنے عاجز بندے خدابخش پر بخشش اور رحمت فرما کہ آخر تیرا ہی رحم ہے جو مصیبتوں سے نجات دیتا ہے.آمین ثم آمین.٭ ۱۷؍مئی ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمدعفی عنہ اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب ان دنوں میں کشمیر میں ہیں.ایک خط سے معلوم ہوا تھا کہ اُن کی والدہ صاحبہ فوت ہوگئے ہیں جہاں تک مجھے اُن کے ذاتی امور کا بہت علم تھا میں نے زبانی آپ سے بیان کردیا تھا.چندہ کے بارے میں انشاء اللہ ان کی خدمت میں تحریر کروں گا مگر میرے نزدیک بہتر تھا کہ جس وقت وہ جموں آئیں تو آپ تحریری تاکید میری طرف سے لے جاتے اب اگر آپ کا بھی منشاء ہے تو آپ مجھے اطلاع دیں تو میں خط لکھ کر آپ کے پاس بھیج دوں گا.آپ اس خط کو پڑھ کر خود روانہ کردیں مگر آپ کے اطلاع دینے کے بعد یہ خط تحریر کیا جائے گا.فقط.٭ الحکم نمبر۲۶جلد۷مورخہ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱،۱۲
مکتوب نمبر۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مشفقی محبیّ اخویم مرزا خدا بخش صاحب سلّمہُ اللہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا جو کچھ آپ نے بطور ہمدردی دین تحریر فرمایا ہے.وہ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے لئے بموجب ثواب و اجر ہے.ہر ایک شخص جو اصلاح خلق اللہ کے لئے مامور من اللہ ہو.وہ طبعاً اور فطرتاً اپنے اندر یہ جوش رکھتا ہے کہ ہر دم اور ہر وقت خدا تعالیٰ سے خواستگار ہو کہ جو لوگ اس کے دامن کے ساتھ وابستہ ہو گئے ہیں اور سچے دل سے اس کے سلسلۂ بیعت میں داخل ہو چکے ہیں ان کی اندرونی غلاظتیں اور دلی ظلمتیں دور ہو جائیں.لیکن نور سے ظلمت کی طرف اور ضلالت سے ہدایت کی طرف کھیچنایہ خاص خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور بشرکی طاقت نہیں کہ خود بخود کسی مردہ دل کو زندہ کر سکے جب تک بالائی طاقت اس کو زندگی نہ بخشے.اکثر لوگ خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے بندوں کے بارے میں یہ معیار اور محک بنانا چاہتے ہیں کہ ان کے متبعین کی حالت کو دیکھیں کہ کہاں تک وہ محبت اور اطاعت الٰہی میں ترقی کر گئے ہیں اور اگر ایسے خدا رسیدہ متبعین نہ پاویں تو بلا توقف یہ فیصلہ کرنے کو تیار ہوتے ہیں کہ وہ شخص متبوع برکات روحانیہ سے خالی ہے.حالانکہ یہ ان کی پرلے درجے کی غلطی ہے.وہ بوجہ اپنی بے بصیرتی کے ایسا خیال کر بیٹھتے ہیں کہ گویا نورانی اشخاص کے لئے یہ امر لازم غیرمنفک ہے کہ ان کا نور خواہ نخواہ ہر ایک طبع اوراستعداد میں سرایت کرے حالانکہ یہ خیال سراسر غلط ہے.جسمانی طور پر بھی اگر دیکھا جاوے تو جس قدر منور اجرام آسمان کی فضا میں پائے جاتے ہیں.وہ ہر ایک آنکھ کو روشنی نہیں بخش سکتے جب تک کہ آنکھ میں فطرتی طور پرروشنی قبول کرنے کا مادہ نہ ہو مثلاً شپرک یا اور تمام ایسے لوگوں کو جو آنکھ کے اندھے ہوں آفتاب کے وجود پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا.اگرچہ یہ بات سچ ہے کہ نورانی لوگوں کی صداقت اور راستبازی اسی بات پر منحصر ہے کہ ان کے نور سے عموماً تاریک خیال لوگ منورہوجائیں تو پھر بعض انبیاء پر
اعتراض وارد ہوتا ہے جن کے فیض صحبت سے بہت کم لوگ ہدایت یاب ہوئے ہیں.بلکہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ بہت سے نبی ایسے بھی گزرے ہیں کہ جن کے ہاتھ سے ایک شخص بھی ہدایت یاب نہیں ہوا.اللّٰہ جلّ شانہٗ نے حضرت لوط ؑ کا قصہ بھی یہی نمونہ دکھلانے کے لئے قرآن کریم میں درج فرمایا ہے کہ باوجودیکہ حضرت لوط ؑسچے نبی اور مؤید بتائید الٰہی تھے مگر تب بھی ان کی قوت قدسیہ کا ایک ذرہ اثر ان کی قوم پر نہ پڑا بلکہ سخت اور نہایت مکروہ اور ناگفتی فواحش میں وہ مبتلا رہے اور اسی میں جانیں دیں یہاں تک کہ حضرت لوطؑ کی بیوی بھی باوجود اس کے کہ ایسے پاک باطن اور مقدس رسول سے اس کا ایک خاص تعلق تھا معصیت اور نافرمانی سے بچ نہ سکی.اسی کے قریب قریب حضرت نوح علیہ السلام کا حال ہے جو نو سو برس تک برابر دعوت حق کرتے رہے مگر بجز معدودے چند کے اور تمام لوگ حتیّٰ کہ ان کا ایک بیٹا بھی عذاب طوفان میں مبتلا ہو کر داخل جہنم ہوئے.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اصحاب اور صحبت یافتہ لوگوں کا حال دیکھنا چاہئے کہ قرآن کریم میں کسقدر ان کے فسق و فجور اور معاصی اور نافرمانیاں بیان کی گئی ہیں یہاں تک کہ وہ باوجود ایک رسول کے صحبت یاب ہونے کے ہر ایک زمانہ کے بدمعاشوں اور اوباشوں کا ننگ معلوم ہوتے ہیں اور پھر حضرت مسیح ؑ کے حواری جن کے مثیل ہونے کے لئے یہ عاجز مامور کیا گیا ہے.غور کرنے کی جگہ ہے انجیلوں سے یہ ایک تاریخی ثبوت ملتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ پر ان کی کل زمانہ رسالت میں بیاسی آدمی ایمان لا کر ان کے خاص دوستوں اور مصاحبوں اور دن رات کے رفیقوں میں داخل ہوئے تھے.ازانجملہ ستر۷۰ آدمی ایک ابتلا کے وقت ان کی بیعت…… اور اطاعت سے دست بردار ہو کر اپنے اپنے گھروں میں چلے گئے اور پھر مدت العمر بداعتقادی کے ساتھ انہوں نے عمر بسر کی.باقی رہے بارہ حواری ان کا یہ انجام ہوا کہ ایک ان میں سے یہودا اسکریوطی نام جس کو بہشت کے بارہویں تخت کا وعدہ بھی دیا گیا تھا.یہودیوں کے مولویوں فقیہوں سے تیس۳۰ روپیہ رشوت لیکر اس جرم کا مرتکب ہوا کہ اپنے آقا اور رسول کو ان کے ہاتھ میں پکڑوا دیا اور آخر بے ایمان ہو کر مرا.اور ازانجملہ ایک حواری میاں پطرس جس کی نسبت حضرت مسیح کی پیش گوئی تھی کہ پطرس ایسا مقرب الٰہی آدمی ہے کہ جس کے ہاتھ میں بہشت کی کنجیاں ہیں جس کے لئے چاہے بہشت
کے دروازے کھول دے اور جس پر چاہے دروازہ بند کر دے لیکن اس کا حال انجیل میں لکھا ہے وہ بھی یہودا اسکریوطی کے حال سے کچھ کم نہیں بلکہ اگر سوچ کر دیکھو تو زیادہ ہے کیونکہ یہودا نے گورشوت تو لی مگر زبان سے انکار نہ کیا.مگر اس شخص نے تین مرتبہ زبان سے انکار کیا بلکہ تیسری دفعہ حضرت مسیح کی طرف جو سامنے کھڑے تھے اشارہ کر کے بلند آواز سے کہا کہ میں اس شخص پر لعنت بھیجتا ہوں اور باقی دس۱۰ حواری جو تھے وہ خوف کے مارے ایسے بھاگے اور ان کو اس بات کی ذرا پرواہ نہ رہی کہ ہمارا مقتدا اور رسول گرفتار کیا گیا ہے.ہمیں اگر زیادہ نہیں تو دو تین منٹ ہی صبر کرنا چاہئے.اب دیکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح کے ہدایات کی کیا تاثیر ہوئی تھی.اگرچہ یہ بات تو تاریخی طور پر مسلّم اور انجیل سے بھی ثابت ہے کہ یہودیوں کے مولویوں اور فقیہوں اور عالموںفاضلوں میں ایک شخص بھی حضرت مسیح پر ایمان نہیں لایا تھا.صرف یہود کے اَن پڑھ اور اُمیّ اور ناخواندہ مچھوے ایمان لائے تھے لیکن افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ وہ بھی اپنے ایمان پر ثابت قدم اور مستقیم نہ نکلے اور قابل شرم سوانح چھوڑ گئے.پھر کیا ہم ان سوانح پر نظر ڈال کر حضرت مسیح ؑ یا کسی دوسرے کو برکات روحانیہ سے نعوذ باللہ خالی سمجھ سکتے ہیں.ماسوا اس کے ہمارے سیدومولا جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کی سوانح پر نظر ڈالنی چاہئے کہ مکہ کے تیرہ برس میں کس قدر لوگ مشرف باسلام ہو گئے تھے.اگرچہ جہاد اور جنگ کے زمانہ میں تو اس قدر لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوئے جن کا شمار کرنا مشکل ہے.سو اکثر ان میں وہی تھے جو اسلام کا غلبہ دیکھ کر اور سیف و سنان کی چمکار ملاحظہ کر کے مشرف باسلام ہوئے تھے اور اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگرچہ تزکیہ نفس اور دیگر کمالات باطنی میں سب سے زیادہ ترقی کر گئے تھے.لیکن وہ ترقی یکدفعہ اور دور بیٹھے نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بصدق و وفاداری تمام سرآستانہ نبوی پر جا بیٹھے تھے اور بقیہ حصہ اپنی عمروں کا خرچ کر کے اور اپنے مال اور اپنی جان اور اپنی عزت اسی راہ میں فدا کر کے اس بات کے مستحق ٹھہر گئے تھے کہ خدا تعالیٰ کا فضل ان پر خاص ہو ایسا ہی جاننا چاہئے کہ جب تک کوئی سچے دل اور سچی وفاداری سے فضل الٰہی کا طالب نہیں ہوتا تب تک اس کو کسی رسول سے فائدہ نہیں پہنچتا.دیکھنا چاہیے کہ ابوجہل اور ابولہب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اقارب قریبہ میں سے تھے.جن کے وجود میں
آنحضرت کی جدی خون کی شراکت تھی لیکن پھر باوجود بے حد تبلیغ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ان کو نور رسالت سے ایک ذرہ بھی روشنی نہ پہنچی بلکہ ان پر بہ حکم آیت کریمہ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ۱؎.اور بھی حجاب پر حجاب پڑ گئے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آئے نہ ہوتے تو یہ یقینی امر ہے کہ ابوجہل وغیرہ کفرہ فجرہ اس انتہائی درجہ کی شرارت تک ترقی نہ کرتے جو ترقی کر گئے کہ واصلانِ الٰہی جب ظہور فرماتے ہیں تو ایک ذرہ توجہ کر کے یا ایک تھوڑی سی پھونک مار کر تاریک فطرت کے آدمی کو خاک سے افلاک تک پہنچا دیتے ہیں.سراسر ایک غلط خیال اور فاش غلطی ہے جب کہ حق بات یہ ہے کہ جو ازل سے بلائے گئے ہیں وہی دعوت حق قبول کرتے اور وہی فیض سماوی سے مستفیض ہوتے ہیں.حسن ز بصرہ بلال از حبش صہیب ز روم زخاک مکہ ابوجہل ایں چہ بوالعجبی ست اور یہ جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ سید احمد صاحب کی تاثیرات باطنی عام طور پر لوگوں کے دلوں پر اثر کر گئے ہیں اور بڑے بڑے مشاہیر علماء ان کے حلقہ اطاعت میںآ گئے تھے.یہ تقریر از قبیل خطابیات ہے جس کے اثبات کے لئے کوئی سند صحیح یا حجت قطعی کسی کے ہاتھ میں نہیں.اصل بات یہ ہے کہ جب بعض اکابرومشائخ دنیا سے گزر جاتے ہیں تو پیچھے سے ان کے سوانح اور لائف لکھنے والے بہت سے حواشی اپنی طرف سے ملا کر اور ان کے حالات کو ایک اعجوبہ کی طرح بنا کر لکھتے ہیں.تا وہ تصویر جو اپنے خیالات کے دخل سے وہ لوگ کھینچتے ہیں.لوگوں کو دلکش معلوم ہو.ورنہ صاف ظاہر ہے کہ وقت کے مولوی اور فقیہ کبھی کسی نبی اور رسول پر بھی ایمان نہیں لائے.حضرت مسیح پر بھی ایمان نہیں لائے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان نہیں لائے.امام حسین رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کے ہاتھ سے بہت تکلیفیں اٹھائیں.سید عبد القادر گیلانی رضی اللہ عنہ پر سولہ سو مولویوں نے کفر کا فتویٰ لکھا اور امام غزالی صاحب کے زمانہ میں مولویوں نے انہیں کافر ٹھہرایا.سید الطائفہ حضرت بایزید بسطامی صاحب سترّ دفعہ کافر ٹھہر ا کر بسطام سے نکالے گئے.مجدد الف ثانی صاحب پر مولوی عبدالحق صاحب دہلوی نے کفر کا فتویٰ لکھا اور ہندوستان کے تمام مشاہیر علماء کے اس پر مہریں لگوائیں اور اس پر بھی بس نہ کی بلکہ شاہِ وقت کو افروختہ کر کے گرفتار کرایا اور زدوکوب ہوئے اور گوالیار کے قلعے میں ایک ۱؎ البقرۃ : ۱۱
مدت تک قید رہے.ان تمام واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ سچے اور راستباز لوگ اپنے وقت کے مولویوں سے دکھ اٹھاتے رہے ہیں.غور کر کے دیکھنا چاہئے کہ سید عبد القادر صاحب کی آج کل کیسی عظمت لوگوں کے دلوں میں ہے لیکن اس زمانے میں جب مولویوں نے انہیں کافر ٹھہرایا تو برابر دوسو برس تک کسی نے ان کا نام نہیں لیا.الاماشا ء اللّٰہ.پھر بعد اس کے عبد اللہ یافعی پیدا ہوئے تو انہوں نے سن سنا کر ان کے حالات اور خوارق لکھے اور ایک یہ امر بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جب کوئی ایسا زاہد وعا بد خلق اللہ کو اپنی طرف بلاتا ہے جس کو بجز خاموشی و گوشہ گزینی کے اورذکر الٰہی کے اور کوئی خدمت منجانب اللہ سپردنہیں ہوتی اس کی محبت جلدتر دلوں میں بیٹھ جاتی ہے اور اس کے بارے میں لوگوں کو کوئی ابتلا پیش نہیں آتا.لیکن جب کوئی ایسا مامور من اللہ ظاہر ہوتا ہے جس کا منصب اور فرض یہ ہو کہ وہ اصلاح خلق اللہ کرے اور علماء اور فقرا کی غلطیاں ان پر کھولے اور ایسے ایسے تصفیہ طلب امور کا فیصلہ کرے جن سے بڑے بڑے جھگڑے برپا ہو جائیں تو ایسے شخص کے ظہور کے وقت یہ امر ضروری ہوتا ہے کہ علماء فضلاء اس کے دشمن جانی بن جائیں.مثلاً دیکھنا چاہیے کہ جس قدر یہودیوں اور عیسائیوں کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ذاتی عداوت و عناد ہے.وہ سکھوں کے بابا نانک سے ہرگز نہیں اس کی کیا وجہ ہے یہی تو ہے کہ بابانانک خواہ کیسا ہی ہے ……… مگر اس کو یہود و نصاریٰ کی غلطیوں کی اصلاح سے کچھ تعلق و واسطہ نہ تھا اور بجز خاموشی و گوشہ گزینی کے اور کوئی اس کا کام نہ تھا.مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس کام کے لئے آئے کہ تا اصلاح خلق اللہ کریں اور جو جو غلطیاں لوگوں نے اپنے راہوں میں ڈال رکھی ہیں.ان کو ان سے متنبہ کریں سو بلاشبہ یہ طریق ایسا ہی ہے جس سے نفسانی آدمی ایسے مصلح کو اپنا دشمن سمجھ لیتے ہیں اور تاریکی سے پیار کرنے والے ہرگز نہیں چاہتے کہ نور کی اشاعت ہو.غرض اس وجہ سے جو لوگ اصلاح خلق اللہ کے لئے مامور ہو کر آتے ہیں پہلے دشمن ان کے ہر ایک گروہ کے مولوی اور فقیہ ہی ہوتے ہیں ورنہ گوشہ گزین زاہدوں عابدوں سے خواہ وہ ربانی ہوں یا صرف مزوّر ہوں مولویوں کو کچھ غرض و واسطہ نہیں ہوتا بلکہ ان کی طرف رجوع کر لیتے ہیں.ہمارے دیکھنے کی بات ہے کہ ہمارے اس ضلع میں ایک موضع رترچہترنام یا مکان شریف کے اسم سے موسوم ہے اس میں ایک صاحب امام علی شاہ نام رہا کرتے تھے
مجھے معلوم ہے کہ کئی ہزار ان کے مرید تھے اور بہت سے مولوی ان کے سلسلۂ بیعت میں داخل اور اس قدر اخلاق مندوہ مولوی تھے کہ مزدوروں کی طرح کسی عمارت کے وقت مٹی کی ٹوکریاں اپنے سرپر اٹھاتے تھے.اور نہایت خسیسہ خدمت کے کام کرتے تھے لیکن باوجود اس کے جب دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کا وہ تمام مجمع اس سچی روشنی سے خالی و بے بہرہ تھا جس کو حقیقت اسلام کہہ سکتے ہیں.اگر وہ شاہ صاحب پوری راستبازی کے ساتھ اصلاح خلق اللہ کی طرف متوجہ ہوتے تو یہ سب مولوی جو خدمتگاروں کی طرح ان کے آگے حاضر رہتے تھے کافر کافر کہہ کر بھاگ جاتے غرض مولویوں کا مجمع کسی کے گرد رہنا اس کے حقانی ہونے کی نشانی نہیں ہے بلکہ حقانی آدمی ضرور اپنے زمانے لوگوں سے دکھ اٹھاتا ہے اگرچہ حقانی آدمی اپنے اندر تاثیرات قدسیہ رکھتا ہے.لیکن ان تاثیرات سے وہی لوگ متاثر اور فیض یاب ہوتے ہیں جو صدق اور وفا سے سچائی کی راہ ڈھونڈتے ہیں.خدا تعالیٰ کا قدیم سے یہی قانون قدرت ہے کہ اس کو ڈھونڈنے والے ہی پاتے ہیں.مثلاً ایک شہر کے قریب ایک چشمہ شیریں اور نہایت صافی اور خوشگوار موجود ہے اور بہت سے پیاسے اس چشمہ سے دور رہ کر ہر وقت اس چشمہ کو کوستے اور گالیاں دیتے ہیں کہ یہ چشمہ کیوں ہمارے منہ تک نہیں آجاتا اور ہماری پیاس نہیں بجھاتا.تو یہ گالیاں ان کی سراسر نادانی اور کوتاہ فہمی کے راہ سے ہیں اگرو ہ اس چشمہ کے سچے طالب ہوتے تو افتاں و خیزاں اس چشمہ تک آ پہنچتے اور منہ اس کے کنارے پر رکھتے تب بلاشبہ سیراب ہو جاتے.مگر اب اس چشمہ کا کیا گناہ اور کیا قصور ہے ایک شخص اس کے نزدیک نہیں اور اپنے منہ کو اس کے آب شفاف تک نہیں پہنچاتا اور دور بیٹھے اس کی شکایت کرتا ہے.سو جاننا چاہیے کہ یہی مثال چشمہ حقانی آدمیوں کے متعلق ہے.ایک شخص جو اپنے ایک باخدا مرشد کی منشاء کے موافق اس کے سلسلہ ارادت میں داخل نہیں ہوتا اور پوری پوری اس کی محبت اور وفاداری اپنے اندر نہیں رکھتا اور اس کے ہدایتوں کے موافق پورے جوش سے عمل نہیں کرتا اور اس کی دولت صحبت کو جیفۂ دنیا پر مقدم قرار نہیں دیتا اور پھر وہ اپنے اس شیخ کی شکایت کرتا ہے کہ اس کے انوار فیض سے میں مستفیض نہیں ہوا اور اپنی اس محرومی کو اسبات کی دلیل ٹھہراتا ہے کہ اس کا شیخ
افاضہ باطنی میں کمزور ہے یہ کس قسم کی کج فہمی ہے.کیا کوئی بیمار بغیر طبیب کے پوری اطاعت اور پورے طور پر اس کی اطاعت میں محو ہو جانے کے بغیر کوئی فائدہ اس کی دوا سے حاصل کر سکتا ہے.آفتاب اگرچہ کیسا ہی روشن اور بڑی تیز شعاعوں کے ساتھ نکلتا ہے لیکن اگر اپنے کو ٹھڑی کے دروازے آفتاب کی طرف سے بند کر دیوے تو کیا اس کی روشنی اس پر پڑ سکتی ہے ہرگز نہیں بلکہ روشنی کے طالب کے لئے یہی قانون قدرت ہے کہ آفتاب کی طرف کواڑ پورے طورپر کھول دیوے تا آفتاب کی کھلی کھلی کرنیں اس پر پڑیں.غرض فیض حاصل کرنے کے لئے یہی ایک قدیم قاعدہ چلا آتا ہے کہ طالب فیض اپنے تئیں فیض قبول کرنے کے لئے ایسے صاف اور بے حجاب طور سے پیش کرے کہ کوئی مانع اور سدّ راہ درمیان میں نہ ہو.ورنہ اللہ جلّ شانہٗ بے نیاز ہے کسی کی پرواہ نہیں ہے اور خوارق کے بارے میں جو آپ نے لکھا ہے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اکثر لوگ یہی طرز اور طریق اختیار کرتے آئے ہیں کہ مشائخ گذشتہ کے گذرنے اور فوت ہونے کے بعد ہزارہا کرامات کے انبار ان کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں یا اپنے سلسلہ کو وہ رونق دیویں اور قواعد تحقیق و اثبات کے شکنجہ پر چڑھا کر ان کی ان دعائوں کو پرکھا جاوے تو شائد دس ہزار کرامات میں سے کوئی ایک سچی نکلے باقی خیرخواہ مریدوں کے حواشی ہی ہوں.دنیا میں دیانت و امانت اور راستبازی بہت کم ہے اور کذب اور افترا اکثر دنیا پر غالب رہا ہے.یہ عاجز یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ اپنے اختیار سے کسی شقی کو سعید بنا سکتا ہوں یا کسی محروم ازلی کو کسی مراد سے متمتع کر سکتا ہوں.البتہ یہ بات ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی کی پابندی سے اکثر دعائیں اس عاجز کی قبول فرماتا ہے.اور پیش از وقوع خبریں ظاہر کرتا ہے.اور اسرار وحقائق و معارف کھولتا ہے.سو یہ وہ فضول باتیں نہیں ہیں جو قصوں اور کہانیوں کی طرح بے اثر ہوں بلکہ یہ وہ امور ہیں جو آزمائش کرنے والے کو آزما سکتے ہیں.اس قدر محض آپ کی زیادتِ بصیرت کے لئے لکھا گیا ہے.ورنہ طبیعت اس قدر علیل ہو رہی ہے کہ ایک ذرہ طاقت تحریر نہیں.امید کہ ہمیشہ اپنے خیالات خیریت آیات سے مطلع اور مسرور الوقت فرماتے رہیں گے.٭ الراقم خاکسار غلام احمد قادیان ضلع گورداسپور ٭ الحکم نمبر ۱۰ جلد۱۲ مورخہ ۶؍فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۲،۳
حضرت سیّد خصیلت علی شاہ صاحبؓ ڈپٹی انسپکٹر ڈنگہ حضرت سید خصیلت علی شاہ رضی اللہ عنہ خاندان سادات کے چشم و چراغ تھے.آپ کی اصل سکونت مالومہے تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ میں تھی.آپ خوارزمی بخاری سیّد تھے.آپ کے والد کا نام سیّدہدایت علی شاہ صاحب تھا.آپ کی ولادت ۱۸۵۶ء کی ہے.بیعت کے وقت ڈنگہ ضلع گجرات میں ڈپٹی انسپکٹر پولیس تھے.آپ تین بھائی سیّد محمد علی شاہ صاحب ؓ، سیّد احمد علی شاہ صاحبؓ اور سیّدامیر علی شاہ صاحبؓ تھے.حضرت شاہ صاحب ؓنے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دریافت حال کے لئے اپنے محکمہ سے تین ماہ کی رخصت لی.ان دنوں حضرت اقدس ؑ حویلی سندھی خاں کوتوالی امرتسر میں فروکش تھے.حضرت اقدس ؑ ۷؍جولائی ۱۸۹۱ء کو دن کے دس بجے دیوان خانہ میں رونق افروز ہوئے.حضرت سید محمد علی شاہؓ اور حضرت سید احمد علی شاہ ؓ بھی آپ کے ساتھ امرتسر گئے تھے.حضرت اقدس ؑ نے واعظانہ تقریر شروع کی مگر حضرت شاہ صاحب ؓ پر نیند نے غلبہ کیا.آپ نے اٹھ کر منہ پر پانی بھی ڈالا لیکن پھر نیند کا غلبہ ہوا.دیکھا کہ ایک باغ میں داخل ہوتے ہیں.اندر ایک حوض ہے جو خشک تھا.پھر آپ جنوب کی طرف چلے گئے.وہاں الماریاں اور طاق بنے ہوئے ہیں اور آپ کے والدصاحب کھڑے ہیں.انہوں نے آپ سے فرمایا کہ یہ گھاس اور کتابیں اب طاق میں رکھ دو.تعمیل ارشاد کی.فوراً سر کو جھٹکا لگا اور معاً تفہیم ہوئی کہ تم پہلا علم اور حال بالائے طاق رکھو.چونکہ آپ کے والد صاحب آپ کے
پیر طریقت بھی تھے.اسی وقت حسب ایماء آنجناب حضرت مسیح موعودؑ سے شرف بیعت حاصل کی اس کے بعد بالکل نیند نہ آئی.آپ کی شادی ۱۸۷۷ء میں حضرت حکیم سیّد میر حسام الدین صاحب کی بیٹی سے ہوئی تھی.اس سے ظاہر ہے کہ آپ کے حضرت اقدس سے قدیمی مراسم تھے.کیونکہ حضرت اقدس کا قیام حضرت حکیم سیدمیر حسام الدین کے ہاں ہوا کرتا تھا.۱۸۷۹ء میں محکمہ پولیس میں عارضی طور پر مقرر ہوئے اور پھر اپنی خداداد لیاقت سے ۲۰ سال بعد انسپکٹر پولیس کے عہدے پر پہنچ گئے.آپ کا نام رجسٹر بیعت اولیٰ میں ۱۳۸ نمبر پر ہے.آپ نے ۹؍جولائی ۱۸۹۱ء کو بیعت کی.آپ نے جلسہ ۱۸۹۲ء میں بھی شرکت کی.جس کا ذکر حضرت اقدس ؑ نے آئینہ کمالاتِ اسلام میں فرمایا ہے.’’(۲۱) سید خصیلت علی شاہ ڈپٹی انسپکٹر پولیس کڑیانوالہ ضلع گجرات‘‘ حضرت اقدس نے ایک تعزیتی خط میں حضرت حکیم سید میر حسام الدین رضی اللہ عنہ کو حضرت شاہ صاحب کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے لکھا.سید خصیلت علی شاہ صاحب کو جس قدر خدا تعالیٰ نے اخلاص بخشا تھا اور جس قدر انہوں نے ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کی تھی اور جیسے انہوں نے اپنی سعادت مندی اور نیک چلنی اور صدق اور محبت کا عمدہ نمونہ دکھایا تھا یہ باتیں عمر بھر کبھی بھولنے کی نہیں ہمیں کیا خبر تھی کہ ا ب دوسرے سال پر ملاقات نہیں ہو گی.‘‘ آپ کو شوگر کی تکلیف تھی.کھاریاں قیام کے دوران آپ بیمار ہوئے.۱۵؍ستمبر ۱۸۹۸ء کو ۴۲ سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے.گجرات میں آپ کا جنازہ پڑھا گیا.حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی نماز جنازہ غائب ادا کی.٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۲۶۱ تا ۲۶۳
مکتوب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم سید خصیلت علی شاہ صاحب سلّمہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ چند روز ہوئے کہ پونچاتھا مجھ کو معلوم نہیں کہ میں نے جواب لکھ دیا تھا یا نہیں.غالباً یہی خیال آتا ہے کہ جواب لکھ دیا گیا تھا.اب باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ میں نے بعض آپ کے سچے دوستوں کی زبانی جو درحقیقت آپ سے تعلق اخلاص اور محبت اور حسن ظن رکھتے ہیں سنا ہے کہ امور معاشرت میں جو بیویوں اور اہل خانہ سے کرنی چاہیے کسی قدر آپ شدت رکھتے ہیں یعنے غیظ و غضب کے استعمال میں بعض اوقات اعتدال کا اندازہ ملحوظ نہیں رہتا.میں نے اس شکایت کو تعجب کی نظر سے نہیں دیکھا.کیونکہ اوّل تو بیان کرنے والے آپ کی تمام صفات حمیدہ کے قائل اور دلی محبت آپ سے رکھتے ہیں.اور دوسری چونکہ مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ حکومت قسام ازلی نے دے رکھی ہے اور ذرہ ذرہ سی باتوں میں تادیب کی نیت سے یا غیرت کے تقاضا سے وہ اپنی حکومت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں.مگر چونکہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کے ساتھ معاشرت کے بارے میں نہایت حلم اور برداشت کی تاکید کی ہے.اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہآپ جیسے رشید اور سعید کو اس تاکید سے کسی قدر اطلاع کروں.اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے.عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۱؎ یعنے اپنی بیویوں سے تم ایسے معاشرت کرو.جس میں کوئی امر خلاف اخلاق معروفہ کے نہ ہو اور کوئی وحشیانہ حالت نہ ہو.بلکہ ان کو اس مسافر خانہ میں اپنا ایک دلی رفیق سمجھو اور احسان کے ساتھ معاشرت کرو اور رسول اللہ صلی اللہ فرماتے ہیں.خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ بِاَھْلِہٖ.یعنی تم میں سے بہتر وہ انسان ہے جو بیوی سے نیکی سے پیش آوے اور حسن معاشرت کے لئے اس قدر تاکید ہے کہ میں اس خط میں لکھ نہیں سکتا.عزیز من! انسان کی بیوی ایک مسکین اور ضعیف ہے جس کو خدا نے ۱؎ النسآء : ۲۰
اس کے حوالہ کر دیا اور وہ دیکھتا ہے کہ ہر یک انسان اس سے کیا معاملہ کرتا ہے.نرمی برتنی چاہئے اور ہریک وقت دل میں یہ خیال کرنا چاہئے کہ میری بیوی ایک مہمان عزیز ہے جس کو خدا تعالیٰ نے میرے سپرد کیا ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کیونکر شرائط مہمانداری بجالاتا ہوں اور میں ایک خدا کا بندہ ہوں اور یہ بھی ایک خدا کی بندی ہے مجھے اس پر کونسی زیادتی ہے.خونخوار انسان نہیں بننا چاہیے.بیویوں پر رحم کرنا چاہیے اور ان کو دین سکھلانا چاہیے.درحقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کے امتحان کا پہلا موقعہ اس کی بیوی ہے.میں جب کبھی اتفاقاً ایک ذرّہ درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے کہ ایک شخص کو خدا نے صدہا کوس سے میرے حوالہ کیا ہے.شاید معصیت ہو گی کہ مجھ سے ایسا ہوا.تب میں ان کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لئے دعا کرو کہ اگر یہ امر خلاف مرضی حق تعالیٰ ہے تو مجھے معاف فرماویں.اور میں بہت ڈرتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہو جائیں.سو میں امید رکھتا ہوں کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے.ہمارے سیدومولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر اپنی بیویوں سے حلم کرتے تھے.زیادہ کیا لکھوں.٭ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ٭ بدر نمبر۳ جلد۱ مورخہ ۲۰؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۷
حضرت شیخ رحمت اللہ صاحبؓ جناب شیخ رحمت اللہ صاحب ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.آپ نے ۲۹؍مئی ۱۸۹۱ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کا نام ۲۲۹ نمبر پر ہے.ستمبر ۱۸۹۱ء کو حضرت مسیح موعود ؑ نے دہلی کا سفر اختیار فرمایا تو اس میں جناب شیخ رحمت اللہ صاحب حضور ؑ کے ساتھ تھے.حضرت اقدس ؑ نے ’’ازالہ اوہام‘‘ میں آ پ کے متعلق لکھا.’’حبیّ فی اللہ شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی، شیخ رحمت اللہ جوان صالح، یک رنگ آدمی ہے.ان میں فطرتی طور پر مادہ اطاعت اور اخلاص اور حسن ظن اس قدر ہے.جس کی برکت سے وہ بہت سی ترقیات اس راہ میں کر سکتے ہیں.ان کے مزاج میں غربت اور ادب بھی از حد ہے اور ان کے بشرہ سے علامات سعادت ظاہر ہیں.حتیّٰ الوسع وہ خدمات میں لگے رہتے ہیں….‘‘ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۵۳۷) ’’آسمانی فیصلہ‘‘ اور ’’آئینہ کمالا ت اسلام‘‘ میں جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء و ۱۸۹۲ء ’’تحفہ قیصریہ ‘‘میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں’’ آریہ دھرم‘‘ ’’ سراج منیر‘‘ میں پرُامن جماعت کے ضمن میں نام درج ہے.ملفوظات کی تمام جلدوں میں مختلف رنگ میں ذکر ہے.’’ضمیمہ انجام آتھم ‘‘میں خصوصی معاونت کرنے والوں میں آپ کا نام شامل ہے.لاہور انگلش وئیرہائوس کے نام سے آپ کا کپڑے کا بڑا کاروبار تھا.آپ حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں گرم کپڑے تیار کر کے بڑے اخلاص سے پیش کیا کرتے تھے.آپ کے بھائی شیخ عبد الرحمن صاحب ؓ اور بھتیجے عبد الرزاق صاحب بیرسٹرؓ نے بھی حضرت اقدس ؑ کی بیعت کی.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کی وفات کے بعد نظامِ خلافت سے وابستہ نہ رہے
غیرمبائعین میں شامل ہو گئے.آپ کی وفات ۱۰؍مارچ ۱۹۲۴ء کو ہوئی.مگر کبھی بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی مخالفت نہ کی.٭ ---------- مکرم معظم جناب شیخ رحمت اللہ صاحب کے نام مفتی صاحب شیخ صاحب کو پہنچا دیں.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کے خط کے جواب میں حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا.مکتوب میں اس ابتلا میں ان کے لئے بہت دعا کرتا ہوں.اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی.درحقیقت ابتلا بڑی رحمت کا موجب ہوتے ہیں کہ ایک طرف عبودیت مضطر ہو کر اور چاروں طرف سے کٹ کر اسی اکیلے سبب ساز کی طرف توجہ ہو جاتی ہے اور اُدھر سے اُلوہیت اپنے فضلوں کے لشکرلے کر اس کی تسلی کے لئے قدم بڑھاتی ہے.میں ہمیشہ یہ سنت ِ انبیا علیہ السلام اور سنت اللہ میں دیکھتا ہوں کہ جس قدر اس گرامی جماعت کی رافت و رحمت ابتلا کے وقت اپنے خدام کی نسبت جوش مارتی ہے آرام و عافیت کے وقت وہ حالت نہیں ہوتی.٭٭ قادیان ۸؍ستمبر ۱۹۰۰ء عاجز ۱۲ بجے دن عبد الکریم ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۱۲۴، ۱۲۵ ٭ ٭ الحکم نمبر ۳۵ جلد ۱۰ مورخہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۰
حضرت منشی مولوی رحیم بخش صاحبؓ حضرت منشی مولوی رحیم بخش صاحب ولد چوہدری عبد اللہ صاحب بمقام رعیہ سکنہ فتوکے ضلع نارووال کے رہنے والے تھے.آپ رعیہ کی تحصیل کچہری میں عرائض نویس اور قانون دان تھے.آپ کا دین میں شغف ہونے کی وجہ سے علاقہ کے لوگ آپ سے فتاویٰ حاصل کرتے تھے.احمدیت قبول کرنے سے پہلے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت مخالف تھے.حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کی ڈیوٹی تقریباً ۲۷ سال ان کے علاقہ میں رہی.حضرت ڈاکٹر صاحب کا یہ دستور تھا کہ آپ شفا خانہ میں مریضوں کے علاج معالجہ سے فارغ ہو کر دعوۃ الی اللہ کے لئے کچہری میں تشریف لے جاتے.اس طرح دعوۃ الی اللہ کا سلسلہ جاری رہتا.کچہری میں مولوی رحیم بخش صاحب عرائض نویس تھے.جن سے آپ کا تبادلہ خیالات ہوتا رہتا تھا.۱۹۰۲ء میں ایک روز دوپہر کے وقت حضرت شاہ صاحب مولوی صاحب سے تبادلہ خیالات کر رہے تھے کہ نبوت کے مسئلہ پر مولوی صاحب جوش میں آ گئے اور اس مسئلہ پر آپ نے ایک لوٹا اٹھا کر حضرت شاہ صاحب کے ماتھے پر دے مارا جس سے خون بہنا شروع ہو گیا.حضرت شاہ صاحب کچہری سے فوری طور پر ہسپتال تشریف لے گئے.مرہم پٹی کر کے اور لباس تبدیل کر کے دوبارہ کچہری میں تشریف لے آئے.اس دوران مولوی صاحب کی حالت بدل گئی اور کچہری میں جتنے لوگ موجود تھے سب نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب سرکاری آدمی ہیں.آپ نے یہ کیا کر دیا.آپ کو سزا بھی ہو سکتی ہے.مولوی صاحب اسی گھبراہٹ میں تھے کہ شاہ صاحب نے آ کر مولوی صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا.مولوی صاحب کیا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہے؟ کچہری میں سب دوست شاہ صاحب کے اس
رویہ سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوئے.یہ الفاظ سن کر مولوی صاحب پر رقت طاری ہو گئی اور بے اختیار ہو کر کہنے لگے کہ شاہ صاحب میری بیعت کا خط لکھ دیں.اس کے بعد ان بزرگان کا قادیان جانے کا پروگرام بنا اور زیارت حضرت مسیح موعود ؑ کے لئے قادیان روانہ ہو گئے.منشی صاحب کے احمدی ہونے کے کچھ عرصہ بعد ان کے باقی افراد خانہ بھی جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے.حضرت ڈاکٹر صاحب نے منشی رحیم بخش صاحب کو سیدناحضرت مسیح موعود ؑ کی کتاب ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ مطالعہ کے لئے دی تھی جسے پڑھ کر منشی صاحب وفات مسیح کے قائل ہوئے.حضرت ڈاکٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں منشی صاحب کا ایک خط پیش کیا جس میں آپ نے دو سوال لکھے تھے.جن کا جواب حضرت مسیح موعود ؑنے تفصیلاً دیا.ہمارے مہدی سیدنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی تاثیر قدسی نے اشد ترین مخالف کو بھی ایک فنا فی اللہ وجود بنا دیا.آپ بیعت کے بعد ایک کامیاب داعی الی اللہ بنے.آپعموماً حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کے ہمراہ احمدیت کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے نکلتے.آپ کی اس خدمت کی جھلک حضرت مسیح موعود ؑ کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں.’’خاکسار معہ سید عبد الستار شاہ صاحب ڈاکٹر رعیہ بماہ مئی ۱۹۰۶ء بحضور والا شان مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام بغرض زیارت قادیان دارالامان پہنچا.بروقت رخصت حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارا تعلق بوجہ ہم اعتقادی و ہم طریق مولوی محمد حسین بٹالوی و مولوی عبد الجبار غزنوی وغیرہ سے رہا ہے.ان کو ہمارے دعویٰ میں شک ہے تو ان کو زبانی امورات ذیل سے آگاہ کردو.شاید کوئی سعید فطرت سمجھ جائے… اس ارشاد کی تعمیل میں حضرت منشی صاحب بمعہ حضرت ڈاکٹرصاحب، صاحبان مذکور کے پاس گئے اور ان کو پیغام پہنچایا اور پھر حضرت مسیح موعودؑ کو اپنی کار کردگی بھی تحریر کی جس کے جواب میں حضرت مسیح موعودؑ نے ایک خط دستخطی آپ کو ارسال فرمایا جوذیل میں پیش کیا جاتا ہے.٭ ٭ تلخیص از سیرت حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان صفحہ ۶۱ تا ۷۰
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا جواب مکتوب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ حامداً و مصلیاً محبی اخویم مولوی رحیم بخش صاحب سلمہُاللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا جس قدر آپ نے کوشش کی ہے خدا تعالیٰ آپ کو اس کا اجر بخشے.درحقیقت علماء کو اپنے شائع کردہ اقوال اور عقائد سے رجوع کرنا مشکل ہے ورنہ یہ مسائل ایسے صاف ہیں کہ ان کا سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے.آپ اسی طرح کوشش جاری رکھیں اور ہر ایک نیک طبع انسان کو یہ مسائل سنادیا کریں.جو لوگ قرآن شریف کی کچھ پرواہ نہیں کرتے ان کا سمجھانا مشکل ہے ورنہ بات تو بہت سہل ہے.میں درد نقرس سے بیمار ہوں چلنے کی طاقت بھی نہیں، بہ نسبت سابق کچھ آرام ہے مگر طاقت رفتار نہیں، باقی سب طرح سے خیریت ہے.بخدمت اخویم سید عبدالستار شاہ صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ برسد.٭ ۳۰ ؍جون ۱۹۰۶ء الراقم مرزا غلام احمد ٭ بدر نمبر ۳۳ جلد ۶مورخہ ۱۵؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱
حضرت حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ؓ کا حسب و نسب حضرت ابوبکر صدیق ؓسے ملتا ہے.یہ خاندان خلیفہ بدیع الدین کی سرکردگی میں ہندوستان آیا.خاندان کا کچھ حصہ ممبئی میں اور باقی کا لاہور ٹھہرا.آپ کے والد ماجد خلیفہ حمید الدین صاحب انجمن حمایت اسلام لاہور کے بانیوں میں سے تھے.خلیفہ حمیدالدین صاحب کی رہائش اندرون موچی گیٹ تھی.آپ ہی کے وقت انجمن حمایت اسلام کے تعلیمی ادارے قائم ہوئے.آپ انجمن کے صدر رہے.وفات کے بعد خلیفہ صاحب کو اسلامیہ کالج لاہور میں دفن کیا گیا.حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ حافظ قرآن تھے.سکول کی تعلیم کے بعد آپ نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں تعلیم پائی.اس خاندان کی خصوصیت تھی کہ سب لڑکے اور لڑکیاں حافظ قرآن تھے.آپ نے زمانہ طالب علمی میں ینگ مین محمڈن ایسوسی ایشن (Young Men Mohammaden Association) کی بنیاد رکھی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دستِ مبارک پر ۲؍جنوری ۱۸۹۲ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کا نام ۱۸۷ نمبر پر درج ہے.لاہور اور آگرہ کے میڈیکل کالج میں پروفیسر رہے.ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد آپ ہجرت کر کے مستقل طور پر قادیان آگئے تھے اور نور ہسپتال میں کئی سال تک انچارج کے طور پر کام کیا.آپ اپنے پیشہ سے اس قدر مخلص تھے کہ ایک دفعہ رات بارہ بجے ایک شخص اپنی بیوی کی تشویشناک حالت کے لئے دوائی لینے آیا.آپ اس کی کیفیت کے پیش نظر اس کے ساتھ ہو لئے.خوددوائی دی اور بتایا کہ اسے ایک گھنٹے بعد دوبارہ دورہ پڑے گا.باہر کہیں جانوروں کی جگہ انتظار کرتے رہے ٹھیک
گھنٹہ بعد دوبارہ دوائی دینے کے لئے گئے.اس وقت خاتون کی حالت خراب تھی.آپ نے دوائی دی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے صحت دی.حضرت اقدس ؑ نے آپ کا ذکر ازالہ اوہام، آئینہ کمالات اسلام، سراج منیر، کتاب البریہ ، تحفہ قیصریہ میں اپنے مخلصین چندہ دہندگان اور جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں شامل ہونے والوں میں کیا ہے.حضرت اقدس ؑ نے آپ کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.’’اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت اخلاص دیا ہے.ان میں اہلیت اور زیر کی بہت ہے.اور میں نے دیکھا ہے کہ ان میں نور فراست بھی ہے.‘‘ آپ کی بڑی بیٹی حضرت رشیدہ صاحبہ المعروف حضرت محمودہ بیگم صاحبہ کا نکاح ۱۹۰۲ء میں اور رخصتانہ۱۹۰۳ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے ہوا.جو بعد میں ’’اُمّ ناصر‘‘ کے نام سے معروف ہوئیں.آپ کی وفات یکم جولائی ۱۹۲۶ء کو ہوئی.آپ کا وصیت نمبر ۷۵۳ ہے.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں قطعہ نمبر۳ حصہ نمبر۶ میں ہوئی.٭ خخخ
مکتوب نمبر۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مشفقی عزیزی محبیّ خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ ادویہ مرسلہ آپ کی پہنچ گئیں.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.دو مرتبہ سفید دوائی آنکھوں میں لگائی گئی.بہت فائدہ ہے اور چیپر جو آنکھ میں آتے تھے موقوف ہوگئے ہیں اور صورت آنکھ کی صحت کی طرف بدلی ہوئی ہے.امید ہے کہ انشاء اللہ القدیر یہ دوائی بہت فائدہ کرے گی.ابھی تک آنکھیں کھولنی شروع نہیں کیں.مگر لڑکا سبز پارچہ نہیں باندھتا.جب باندھا جاتا ہے تو اُتار دیتا ہے.باقی سب خیریت ہے.والسلام.بخدمت اخویم محبی میاں عبد الحکیم خان صاحب السلام علیکم.زیادہ خیریت ہے.٭ والسلام ۱۰؍جنوری ۱۸۹۲ء خاکسار غلام احمدعفی اللہ عنہ مکتوب نمبر۲ژ محبیّ عزیزی اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ آپ کی خدمت میں عبد اللہ روانہ ہوتا ہے.آدمی غریب طبع اور عاجز ہے.آپ اپنی مہربانی کے سایہ کے نیچے اس کو جگہ دیں.بہت بیمار رہا.اس لئے پہلے نہیں جا سکا.۱۵؍دسمبر۱۸۹۲ء روز جمعہ والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ٭ الحکم جلد۴۲ نمبر۱۰،۱۱ مورخہ ۲۸؍مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ۰ ۴
مکتوب نمبر۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ عزیزی محبیّ اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ ُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو اور عزیز میاں عبد الحکیم خان صاحب کو جلسہ پر آنے کی فرصت دے.اور میں بھی مشتاق ہوں کہ آپ دونوں عزیز ضرور تشریف لاویں.زیادہ خیریت ہے.٭ ۱۸؍دسمبر۱۸۹۲ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور لاہور میڈیکل کالج.بخدمت اخویم عزیزی خلیفہ رشید الدین صاحب طالب علم مکتوب نمبر۴ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عزیزی محبیّ اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ دوا مرسلہ آپ کی مجھ کو پہنچ گئی.اللّٰہ جلّ شانہٗ آپ کو بہت بہت اجر بخشے.آمین ثم آمین.بخدمت اخویم میاں عبد الحکیم خان صاحب السلام علیکم.٭٭ خاکسار ۹؍جنوری۹۳ء غلام احمد از قادیان بمقام لاہور میڈیکل کالج.بخدمت اخویم عزیز ی خلیفہ رشید الدین صاحب طالب علم ٭ الحکم جلد۴۲ نمبر۱۰،۱۱ مورخہ ۲۸؍مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ۴۰ ٭٭ الحکم جلد ۴۲ نمبر۱۵تا۱۸ مورخہ ۲۸؍مئی و ۷؍جون ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۳
مکتوب نمبر ۵ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ مخلصی عزیزی اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ آپ کا محبت نامہ اور تحفہ لکھنؤ جو آم نہایت عمدہ اور شیریں تھے پہنچا.تمام گھر میں اور جماعت میں تقسیم کئے گئے اور ہرایک ان کو کھا کر بہت خوش ہوا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَالْجَزَائِ.لکھنؤ میں ہمارے دوستوں میں سے کوئی نہ تھا اس لئے خط نہ لکھا.امید کہ اب آپ کے قیام سے تحریکات شروع ہوجائیں گی.ہمیشہ اپنی خیریت وعافیت سے مطلع ومسرور الوقت فرماتے رہیں.اخویم محمد یوسف خان صاحب کو السلام علیکم پہنچے.خدا تعالیٰ آپ کی رفاقت میں ان کی پریشانی بھی دُور کرے.نوٹ:یہ خط۱۸۹۳ء کا ہے جبکہ حضرت والد صاحب مرحوم مغفور تعلیم سے فارغ ہوکر لکھنؤ میں متعین ہوگئے تھے.اس خط پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستخط محفوظ نہیں رہے.٭ خاکسار خلیفہ صلاح الدین ٭ الحکم جلد ۴۲ نمبر۱۰،۱۱مورخہ ۲۸ ؍مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ۰ ۴
مکتوب نمبر۶ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہٗ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا آپ کے آم تحفہ شیریں مجھ کو پہنچ گئے.باقی سب طرح سے خیریت ہے میری حالت طبیعت بہ نسبت سابق اچھی ہے.امید کہ تبدیلی کے وقت مطلع فرماویں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان مکتوب نمبر۷ژ بِسْمِ اللّٰہِ عزیزی مخلصی خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم عبداللہ سے آپ نے وعدہ کیا ہوا ہے اور وہ آدمی غریب اور نیک چلن ہے.مناسب ہے کہ اپنے وعدہ کے موافق اس کو اپنے پاس طلب کر لیں.باقی خیریت ہے.۱۴؍اگست ۱۸۹۳ء والسلام غلام احمد از قادیان
مکتوب نمبر۸ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ عزیزی اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پانچ روپیہ پہنچ گئے.باعث بیماری جواب نہیں لکھ سکا.امید کہ ہمیشہ خیروعافیت سے مطلع فرماتے رہیں.والسلام ۲۳؍ستمبر ۹۳ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر۹ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ عزیزی اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ پنج روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَالْجَزَائِ.امید کہ ہمیشہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں.چند رسالے چھپ رہے ہیں.امید کہ ایک ہفتہ تک چھپ جائیں گے.باقی خیریت ہے.والسلام ۱۰؍اکتوبر۱۸۹۳ء خاکسار غلام احمد از قادیان الراقم خاکسار غلام احمد ازقادیان
مکتوب نمبر۱۰ژ بِسْمِ اللّٰہِ عزیزی محبیّ اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ عاجز ایک ہفتہ سے فیروز پور چھائونی میں ہے.چھ سات روز کے بعد قادیان میں جائوں گا.میاں محمد یوسف ابھی میرے پاس نہیںآئے.غالباً قادیان میں گئے ہوں گے.۲۸؍نومبر۱۸۹۳ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان حامد علی السلام علیکم ورحمۃ اللہ از محمد سعید السلام علیکم مکتوب نمبر۱۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ مخلصی عزیزی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ عاجز علیل رہا ہے اس لئے خط نہیں لکھ سکا.اب بھی کسی قدر علالت طبع باقی ہے.غلبہ ریزش اور کھانسی ہے.آپ کا ہدیہ مرسلہ پارچات یعنی سیاہ چوغہ ، ابرہ لحاف ، کھیس پہنچ گیا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.یک یک یک
ایک اور تکلیف دیتا ہوں کہ ایک مرتبہ قادیان میں آپ نے کونین کی گولیاں بنادی تھیں اور وہ سخت اور مضبوط گولیاں تھیں.بآسانی ثابت ہی حلق کے نیچے اترجاتی تھیں.اب وہ گولیاں ختم ہو چکی ہیں.اور نرم گولی سے تلخی حلق میں پھیل جاتی ہے اور کوئی ایسی سخت گولیاں نہیں بنا سکتا.اس لئے مکلف ہوں کہ ایک روپیہ کی کونین کی گولیاں مگر تین درجہ کی ایک میرے کھانے کے لائق اور ایک محمود کے کھانے کے لائق اور ایک بہت چھوٹی ہوں جن کو ایک بچہ چھ سات ماہ کا کھا سکتا ہو.کیونکہ بشیر کو بھی بخار آتا ہے.اگر گولیاں آویں تو ایک ایک گولی اس کو بھی دے دیا کروں گا.فقط اور ہمیشہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں.باقی خیریت ہے.٭ ۲۲؍دسمبر۱۸۹۳ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان یہ یاد رہے کہ گولیاں سخت ہوں اور تین درجہ کی ہوں.مکتوب نمبر۱۲ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ مخلصی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشیداحمد۱؎ صاحب سلمہ ٗتعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک میں گولیاں کونین کی پہنچی.خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے.گولیاں نہایت عمدہ ہیں اور نہایت محبت اور اخلاص سے بنائی گئی ہیں.امید کہ ہمیشہ اپنی خیروعافیت سے مطمئن فرماتے رہیں.زیادہ خیریت ہے.۳۱؍دسمبر ۱۸۹۳ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ٭ الحکم جلد۴۲ نمبر۱۵ تا ۱۸ مورخہ ۲۸؍مئی و ۷؍جون ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۴ ۱؎ پورا نام رشید الدین ہے(ناشر)
مکتوب نمبر ۱۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ اخویم خلیفہ صاحب سلمہُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا محبت نامہ پہنچا.باعث خوشی ہوا.اس جگہ بفضلِ تعالیٰ سب خیریت ہے.مجھے آپ سے دلی محبت ہے اور آپ یاد آتے رہتے ہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو دنیا و دین کے مکروہات سے بچا کر آپ کی الٰہی مدد کرے.امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں گے.چارہزار کے اشتہار کے بعد پھر کوئی بھی کارروائی نہیں ہوئی.٭ والسلام مکتوب نمبر۱۴ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ عزیزی اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ پنج روپیہ مرسلہ آپ کے اس عاجز کے لئے اور دس روپیہ عرب صاحب کے پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.گولیاں کونین کی ضرور ارسال فرماویں اور محمود کے گلے میں گلٹیاں نکل آئی ہیں لیکن کوئی زخم یادرد نہیں ہے اس کی دوا بھی ارسال فرماویں.۶؍جولائی ۱۸۹۴ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ ٭ سیرت احمد از حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحب صفحہ۲۱۷‘۲۱۸
مکتوب نمبر۱۵ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ عزیزی اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا محبت نامہ پہنچ کر تسلی اور راحت حاصل ہوئی.جلسہ ۲۷؍دسمبر ۹۴ء کے( لئے) بفضلہ تعالیٰ تیار رہیں اور بخدمت اخویم میاں عبدالحکیم خان صاحب السلام علیکم.باقی سب خیریت ہے.۱۴؍نومبر ۱۸۹۴ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور مکتوب نمبر۱۶ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ عزیزی اخویم خلیفہ صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ پانچ روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.شاید میں نے اس سے پہلے بھی وصولی روپیہ کی نسبت لکھا تھا مگر چونکہ بھول گیا اس لئے دوبارہ لکھتا ہوں.باقی سب طرح سے خیریت ہے.۷؍دسمبر۱۸۹۴ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر ۱۷ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ پانچ روپیہ مرسلہ آں محب پہنچ گئے.خدا تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور ہر یک آفت سے بچاوے.مجھ کو آپ سے دلی محبت ہے اور دلی تعلق ہے اور عاجز دعا سے نہیںغافل ہوا گو ارسال خطوط میں کچھ دیر ہوئی.اپنے حالات خیریت آیات سے مجھ کو مطلع فرماتے رہیں.۵؍ جنوری ۱۸۹۵ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۱۸ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ محبیّ عزیزی اخویم سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مجھے یاد نہیں رہا کہ میں پانچ روپیہ کی رسید پہنچا چکا ہوں یا نہیں اس لئے مکرّر یہ کارڈ بطور رسید روانہ کرتا ہوں کہ پانچ روپیہ پہنچ گئے ہیں.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.۱۱؍مارچ ۱۸۹۵ء والسلام
مکتوب نمبر ۱۷ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ پانچ روپیہ مرسلہ آں محب پہنچ گئے.خدا تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور ہر یک آفت سے بچاوے.مجھ کو آپ سے دلی محبت ہے اور دلی تعلق ہے اور عاجز دعا سے نہیںغافل ہوا گو ارسال خطوط میں کچھ دیر ہوئی.اپنے حالات خیریت آیات سے مجھ کو مطلع فرماتے رہیں.۵؍ جنوری ۱۸۹۵ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۱۸ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ محبیّ عزیزی اخویم سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مجھے یاد نہیں رہا کہ میں پانچ روپیہ کی رسید پہنچا چکا ہوں یا نہیں اس لئے مکرّر یہ کارڈ بطور رسید روانہ کرتا ہوں کہ پانچ روپیہ پہنچ گئے ہیں.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.۱۱؍مارچ ۱۸۹۵ء والسلام
مکتوب نمبر۲۱ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ عزیزی محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ دوا پہنچ گئی.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.باقی سب خیریت ہے.والسلام ۱۶؍جولائی ۱۸۹۵ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر۲۲ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ سول سرجن چکراتہ آپ کا محبت نامہ پہنچا.باعث مسرت ہوا.اس جگہ کتاب’’ منن الرحمن‘‘ بہت سرگرمی سے چھپ رہی ہے.خدا تعالیٰ بخیرو عافیت انجام پہنچاوے.میرا چھوٹا لڑکا شریف احمد جو اب پیدا ہوا ہے.چند ہفتہ سے بیمار ہے اب نہایت نحیف ہوگیا ہے.دست سبزگھاس کے رنگ پر آتے ہیں جیسا کہ درخت کا پتہ سبزہوتا ہے اور ساتھ پانی سفید آتا ہے اور درد ہو کر پاخانہ آتا ہے کچھ بیہوش سا پڑا رہتا ہے اور دُبلا ہوگیا ہے.اور معدہ میں تبخیر ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ فضل فرماوے.میں نے معمولی طور پر یونانی علاج تو کیا مگر ابھی کچھ افاقہ نہیں.اگر آپ کی سمجھ میں آوے اور کوئی دوا تجربہ میں آ چکی ہو تو ارسال فرماویں مگر جلد ارسال فرماویں.باقی سب خیریت ہے.۲۶؍جولائی ۱۸۹۵ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوب نمبر ۲۳ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ محبیّ عزیز ی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک میں آپ کا مبلغ پانچ روپیہ مجھ کو پہنچا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.آپ کو خدا تعالیٰ بہت جزائے خیربخشے.آپ صدق اوروفا سے اپنے اُس وعدہ کو جو امداد لِلّٰہ کے لئے کیا تھا اد اکر رہے ہیں اور یہ ایک ایسی عمدہ صفت ہے جو ایسے گندے زمانہ میں لاکھوں ، کروڑوں آدمیوں میں سے کسی کسی فرد بشر میں پائی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے واسطے بات اور وعدہ کا پاس جو سچی جواں مردی کی نشانی ہے بہت ہی کم لوگوں میں پایا جاتا ہے اور بیوی بچوں کی ہمدردیوں یا زینتوں میں ان کے مال خرچ ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ یک دفعہ اس بے وفا دنیا سے واپس بُلائے جاتے ہیں.دین کی طرف جھکنا انہیں دلوں کا کام ہے جن کو آخرت پر سچا ایمان ہوتا ہے.میں آپ سے دلی محبت رکھتا ہوں.اور آپ میں رشد اور صلاح کے آثار پاتاہوں.اور ایک خاص تعلق آپ کا سمجھتا ہوں.ایک مرتبہ میرے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ اب میرے یہ چھوٹے تین لڑکے محمود(ہفت سالہ) بشیر (تین سالہ) شریف (پانچ ماہ) بہتر ہو کہ اگر خد اتعالیٰ چاہے قریب بلوغ ہو کر بشرطیکہ جانبین کی اولاد میں خدا تعالیٰ کے فضل سے خیروعافیت رہے.آپ کی کسی لڑکی سے کوئی لڑکا منسوب ہو.یہ خیال صرف میرے اس نیک ظن سے پید اہوا تھا جو مجھے آپ کے باطنی اخلاص اور محبت پر ہے.مگر پھر میںنے یہ خیال کیا کہ یہ سب امور آپ کے والد صاحب کے اختیار میں ہیں اور ابھی ان کا ذکر بھی نامناسب ہے.اگر کوئی ایسا موقعہ ہوا کہ آپ کی رائے بھی ان بزرگوں کی مجلس میں سنی جائے تب بشرط خیریت جانبین یہ تحریک ہوسکتی ہے.اس شرط سے
کہ موقع بنا ہوا ہو.کوئی تجویز نہ ہوگئی ہو اس لئے اس خیال کو ابھی قابل ذکر نہ سمجھا گیا کہ خود بچے بہت کمسن ہیں.ابھی بلوغ تک زمانہ پڑاہے.وہی ہوگا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقدر اور اس کی نظر میں پسندیدہ ہے.رسالہ ست بچن ، آریہ دھرم ، نورالقرآن ، منن الرحمن تیار ہورہے ہیں.بعض ان میں سے تین ہفتہ تک انشاء اللہ شائع ہوجائیں گے.باقی سب خیریت ہے.۴؍اگست۱۸۹۵ء والسلام خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر۲۴ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ عزیزی محبیّ اخویم ڈاکٹرخلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک سے مبلغ پانچ روپیہ مرسلہ آں عزیز مجھ کو پہنچ گئیاور پہلے اس سے دوا پہنچ گئی ہے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ.میرے لڑکے شریف احمد کو اب بفضلہ تعالیٰ صحتہے.خدا تعالیٰ آپ کو قرۃ العین حسبِ ذوق بخشے.مجھ کو مفصل معلوم نہیں کہ اس وقت آپ کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کتنے لڑکے لڑکیاں ہیں اور کیا کیا عمر ہے اور جو لڑکی ہماری ہے اس کی کیا عمر ہے.۶؍ اگست ۱۸۹۵ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۲۵ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹرصاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خدا تعالیٰ آپ صاحب کے والد صاحب کو جلد شفا بخشے.اِنْشَائَ اللّٰہُ الْقَدِیْرُ ان کی شفا کے لئے کئی دفعہ اور بہت دعا کروں گا.مجھے بہت تفکرّ ہے اور مجھ کو اُن سے محبت ہے.زیادہ تر یہ کہ جبکہ آپ جیسے سعید اوریک رنگ مخلص ان کے خلف رشید ہیں سو یہی باعث بے اختیار محبت کا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو بہت جلد شفاء بخشے.جیسا کہ آپ کو تردّد اور رنج ہوا ہے.ویسا ہی ہم کو ہے.والسلام مکتوب نمبر۲۶ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ مبلغ پانچ روپیہ مرسلہ آں عزیز مجھ کو پہنچ گئے.خدا تعالیٰ جزائے خیر دنیا و آخرت میں بخشے.آمین ثم آمین.امید کہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں گے.معلوم نہیں کہ گھر میں آپ کے اب کیسی طبیعت ہے اور لڑکی کی کیسی طبیعت ہے.اللہ تعالیٰ بہت جلد شفا بخشے.آمین ثم آمین.۶؍ستمبر۱۸۹۵ء والسلام خاکسار غلام احمد
مکتوب نمبر۲۷ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ محبیّ عزیزی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ پانچ روپیہ مرسلہ آں محب پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.’’ست بچن‘‘ ابھی چھپ رہا ہے.شاید بڑے دن تک شائع ہو.باقی سب خیریت ہے.۱۴؍دسمبر۱۸۹۵ء والسلام خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر۲۸ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ سول سرجن چکراتہ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ اب انشاء اللہ عنقریب آپ کی خدمت میں ’’ست بچن‘‘ و ’’آریہ دھرم‘‘ روانہ ہو گا.چونکہ بچوں کے لئے دستوں کے وقت کلوراواین کی ضرورت پڑتی ہے اور مجھے بعض وقت دست آتے ہیں تو مفیدپڑتی ہے اور لاہور سے منگوائی تھی خراب نکلی.اگر آپ کے پاس ولائتی ساخت کی یہ دوا موجود ہو تو ایک شیشی اس میں سے بھیج دیں.یہ وہی دوا ہے جو آپ نے امرتسر کے مباحثہ۱؎ میں خرید کر دی تھی.جب مجھے دست آتے تھے.باقی اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے.بڑے دن پر شاید اکثر احباب آئیں.۲۳؍دسمبر۱۸۹۵ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ۱؎ مراد آتھم کے ساتھ ’’جنگ مقدس‘‘ (ناشر)
مکتوب نمبر۲۹ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ عزیزی محبیّ اخویم خلیفہ صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ مبلغ پانچ روپیہ مرسلہ آں محب مجھ کو پہنچ گئے.خدا تعالیٰ آپ کو ان اپنی خدمات کی جزائے خیر بخشے.آمین ثم آمین.باقی سب خیریت ہے.والسلام ۸؍مارچ۱۸۹۶ء خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر۳۰ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ پنچ روپیہ مرسلہ آں محب مجھ کو عین ضرورت کے وقت میں پہنچے.خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے اور اپنی محبت میں ترقیات بخشے آمین ثم آمین.اس وقت میں کوشش کررہا ہوں کہ یورپ اور جاپان کے لئے کوئی رسالہ تالیف کروں تا وہ انگریزی میں ترجمہ ہو کر ان ملکوں میں تقسیم کرایا جائے.اللّٰہ جلّ شانہ‘ اس رسالہ کو پورا کرے.رسالہ’’ منن الرحمن‘‘ بھی ہنوز بیچ میں پڑا ہے.امید کہ اِنْ شَائَ اللّٰہُ الْقَدِیْرُ وہ بھی تام ہوجائے گا.سول ملٹری کا حملہ محض بیہودہ ہے اس کے ردّ لکھنے کی کچھ ضرورت نہیں.اپنے حالات خیریت آیات سے ہمیشہ مسرور الوقت فرماتے رہیں.والسلام ۸؍ اپریل ۱۸۹۶ء خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوب نمبر۳۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی رشید الدین صاحب سلمہ ُ اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا کارڈ پہنچا.آپ کے بزرگوار والد صاحب کے واقعہ وفات سے اس عاجز کو بہت افسوس ہے. ۱؎.اللّٰہ جلّ شَانُہٗ آپ کو صبر جمیل عطا فرمائے اور اپنی رحمت اور فضل کے سایہ میں ہمیشہ رکھے اٰمین.عزیزمن! کسی انسان کے والدین ہمیشہ ساتھ نہیں رہ سکتے.یہی سنت اللہ ہے.والد کی وفات کا صدمہ بہت بڑا ہوتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا آپ متولی ہوجاتا ہے.مجھ کو یاد ہے کہ جب میرے والد صاحب فوت ہونے کو تھے تو مجھ کو بھی بہت غم ہوا تھا.اور خود خدا تعالیٰ نے مجھ کو ان کی وفات کی خبر سنائی تھی.اور جب میں نے خبر پاکر غم کیا تو یہ الہام ہؤا تھا.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۲؎.سو خدا تعالیٰ نے آپ کو ہر ایک طرح کی رشد اور نیک بختی بخشی ہے.خدا تعالیٰ آپ کو ہرگز کوئی غم نہیں دے گا.میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کو خدا تعالیٰ آپ کے بھائیوں سے زیادہ موردِ رحم اور فضل کرے گا.باپ کے فوت ہونے سے ایک نیا عالم شروع ہوتا ہے اور دنیا بدلتی ہے.پس خدا تعالیٰ یہ تبدیلی آپ کے لئے اپنے فضل اور رحمت کے سہارے سے کرے.اٰمین ثم اٰمین.٭ ۴؍ مئی ۱۸۹۶ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ۱؎ البقرۃ : ۱۵۷.۲؎ الزمر : ۳۷ ٭ الفضل نمبر۱۷۹ جلد ۳۴ مورخہ یکم اگست ۴۶ء صفحہ ۳
مکتوب نمبر۳۲ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کی طرف سے بذریعہ منی آرڈر پانچ روپیہ ایک دفعہ اور مبلغ پندرہ روپے ایک دفعہ کُل بیس روپے پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ.باقی ہر طرح سے خیریت ہے.۶؍ مئی ۱۸۹۶ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر۳۳ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.یہ عاجز بفضلہ تعالیٰ خیر و عافیت سے ہے.خدا تعالیٰ آپ کو خیر وعافیت سے رکھے اور ہر یک مرادمیں کامیاب کرے.(آمین) آپ نے سن لیا ہوگا کہ عبد الحکیم خان صاحب کے والد صاحب آج انتقال کر گئے.۶؍جون ۱۸۹۶ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۳۴ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ سول سرجن چکراتہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میرا لڑکا شریف دس باراں روز سے بعارضہ پیچش خونی سخت بیمار ہے دست سبز رنگ آتا ہے اور خون بھی آتا ہے نہایت دُبلا اور کمزور ہوگیا ہے.اگر اس عمر کے لئے جو ایک برس کی عمرہے.کوئی نسخہ مجرب ہو تو آپ وُہ دوا ضرور بھیج دیں کیونکہ کثرتِ خون سے لڑکا بہت کمزور اور خطرناک حالت میں ہے خدا تعالیٰ فضل کرے.بہت سی تدبیریں کی گئیں مگر خون بند نہیں ہوا.آپ جہاں تک جلد ممکن ہو کوئی دوا اس حالت کے لائق ارسال فرمانویں.والسلام ۱۷؍جون ۱۸۹۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۳۵ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ عزیزی اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا کارڈ پہنچا.اب اِنْشَائَ اللّٰہُ الْقَدِیْر آپ کے لئے دعا شروع کروں گا.خدا تعالیٰ کسی مقام حسب المراد میں آپ کی تبدیلی کر دیوے.آمین ثم آمین.امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے ہمیشہ آپ مطلع فرماتے رہیں.میں آپ سے دلی محبت رکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ اللہ جلّ شانہٗ دین و دنیا میں آپ کے ساتھ ہو اور ہر یک رنج اور بلا سے بچاوے.آمین.باقی خیریت ہے.۲۸؍جون۱۸۹۶ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوب نمبر۳۶ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کی دوا پہنچ گئی تھی اور استعمال کر ائی گئی اب بفضلہ تعالیٰ پیچش خونی سے آرام ہے.بشیرکو تِلی کی بھی بہت شکایت ہے.محمود کو بھی تِلی ہوگئی ہے اور خنازیر بھی.جس سے بہت دُبلا ہو گیا ہے.کبھی کبھی تپ بھی ہو جاتا ہے آپ کوئی مجرب نسخہ تلی اور خنازیر کا ضرور ارسال کریں.۵؍ جولائی ۱۸۹۶ء والسلام خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر۳۷ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج کی ڈاک میں آج کل… دس روپے آپ کے پہنچے.خدا تعالیٰ آپ کو دارین میں اس محبت اور اخلاص کا اجرعظیم بخشے.آمین ثم آمین.لڑکے کا نام اگر نہ رکھا گیا ہو تو حفیظ الدین رکھ دیں اور اگر علیم الدین رکھا گیا ہے تو وہی نام مبارک ہو.باقی خیریت ہے.۱۷؍ جولائی ۱۸۹۶ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۳۸ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزی خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ فرزند سعید کے تولّد سے خوشی ہوئی.خدا تعالیٰ مبارک اور عمر دراز کرے آمین ثم آمین.اگر نام نہ رکھا ہو اور نہ پہلے اپنے بھائیوں میں ایسا نام ہو تو سعید الدین نام رکھ دیں.خدا تعالیٰ سعادت اور عمر نصیب کرے.آمین ثم آمین.۲۱؍ جولائی ۱۸۹۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۳۹ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزی اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کارڈ پہنچا.آپ کی تبدیلی کے لئے جناب الٰہی میں دُعا کی گئی.آپ بھی ہر یک نماز میں دُعا کیا کریں.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کو ہمارے نزدیک لے آوے.درحقیقت آپ کی ملاقات کو بہت مدت گزر گئی ہے.خدا تعالیٰ کوئی احسن تقریب ملاقات کے لئے قائم کردے.۱۴؍ اگست ۱۸۹۶ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۴۰ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کوہ چکراتہ ضلع سہارنپور السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ اس مہمان خانہ میں دن بدن بہت آمدورفت مہمانوں کی ہوتی جاتی ہے اور پانی کی د ّقت بہت رہتی ہے.ایک کنواں تو ہے مگر اس میں ہمارے بے دین شرکاء کی شراکت ہے وہ آئے دن فتنہ فساد برپا کرتے رہتے ہیں.اور نیز سقّہ کا خرچ اس قدر پڑتا ہے کہ اس کی تین سال کی تنخواہ سے ایک کنواں لگ سکتا ہے لہٰذا ان دقتوں کے دُور کرنے کے لئے قرینِ مصلحت معلوم ہو اکہ ایک کنواں لگایا جاوے.سو آج فہرست چندہ مخلص دوستوں کی مرتب کی جس میں آپ کانام بھی داخل ہے.اس چندہ سے یہ غرض نہیں ہے کہ کوئی دوست فوق الطاقت کچھ دیوے بلکہ جیسا کہ چندوں میں دستور ہوتا ہے جو کچھ بطیبِ خاطر میسر آوے وہ بلا توقف ارسال کرنا چاہئے.اور اپنے پر فوق الطاقت کا بوجھ نہ ڈالنا چاہئے کہ اس خیال سے انسان بعض اوقات خود چندہ سے محروم رہ جاتا ہے.یہ کام بہت جلد شروع ہونے والا ہے.اور چاہ کی لاگت تخمیناً۲۵۰روپے ہوگی.اگر خدا تعالیٰ چاہے گا.تو اس قدر دوستوں کے تمام چندوں سے وصول ہوسکے گا.۵؍ستمبر۹۶ء والسلام خاکسار غلام احمد آپ ہمیشہ سے بکمال محبت وصدق دل اعانت اور امداد میں مشغول ہیں.صرف بہ نیت شمول درچندہ دہندگان آپ کا نام لکھا گیا ہے گو آپ۴؍بطور چندہ دے دیں.غلام احمد بقلم خود
مکتوب نمبر۴۱ژ بِسْمِ اللّٰہِ محبیّ عزیزی خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا محبت نامہ پہنچا.میں اِنْ شَائَ اللّٰہُ آپ کے لئے میں بہت دُعا کرونگا.اللہ تعالیٰ آپ کی مراد پوری کرے صرف قبولیت میں ایک فائدہ ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئاً وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ۱؎.امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں.اگر آخری دنوں میںایک مرتبہ پھر ملاقات ہو تو بہتر ہے.۸؍ ستمبر ۱۸۹۶ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۴۲ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.خدا تعالیٰ آپ کے تمام …… آمین.میں اکثر دنوں میں بہت بیمار رہا بلکہ ایک دفعہ تو ایسی خوفناک بیماری تھی کہ زندگی کا خاتمہ معلوم ہوتا تھا.اب طبیعت رو بصحت ہے صرف منہ پکا ہوا ہے اس بیماری کی وجہ سے اب تک وہ مضمون جو جلسہ مذاہب میں پڑھا جائے گا نہیں طیار ہوا.۱.پہلا سوال شروع کیا.آج پندرہ تاریخ دسمبر ہے شاید یہ سوال تین دن تک ختم ہو.۱؎ البقرۃ : ۲۱۷
پندرہ۱۵ پندرہ۱۵ مرتبہ اور کبھی چالیس۴۰ چالیس۴۰ دفعہ پیشاب آتا ہے.سخت ضعف ہو جاتا ہے.یہ نیچے کے دھڑکی حالت ہے.اور اوپر کے حصہ میں دل جو اشرف الاعضاء ہے بیمار ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا.میں محسوس کرتا ہوں کہ یہی دو۲چادریں زردرنگ ہیں جو مسیح موعود کی ذاتی نشانی ہے انہیں دو چادروں کی وجہ سے ضرور تھا کہ مسیح کا ہاتھ دنیا میں اترنے کے وقت دو فرشتوں کے کاندھوں پر رکھا ہوتا.تا آپ ہردوبیماریوں میں محض خدا کا فضل علاج کرتا رہے.باقی خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ مکتوبات نمبر۴۴ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کے مبلغ پچیس روپے مرسلہ مجھ کو پہنچ گئے تھے.اللہ تعالیٰ بہت بہت جزائے خیر آپ کو عطا فرماوے.میں کل سے بہت بیمار ہوں یکدفعہ بدن سرد ہو جاتا ہے.سرد پسینہ بکثرت آتا ہے.نبض کم ہوجاتی ہے.طبیعت غشی کے قریب ہوتی ہے.امید کہ اللہ تعالیٰ فضل اور رحم فرماوے.اس وقت بھی طبیعت اچھی نہیں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان
مکتوب نمبر۴۵ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عزیزی محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک میں مبلغ پانچ روپے مرسلہ آپ کے مجھ کو پہنچے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ.ضمیمہ انجام آتھم چھپ رہا ہے.بعد چھپ جانے کے آپ کی خدمت میں بھیج دیا جائے گا.ابھی مضمون جلسہ مذاہب نہیں چھپا.جب چھپے گا روانہ کروں گا.مولوی غلام دستگیر نے مجھ کو مباہلہ کے لئے بُلایا ہے.غالباًعنقریب مجھے لاہور جانا پڑے گا.باقی خیریت ہے.والسلام ۶؍ جنوری ۹۷ ۱۸ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۴۶ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیز ی خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ پانچ روپے مرسلہ آں محب مجھ کو پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ.باقی بفضلہٖ تعالیٰ ہر طرح سے خیریت ہے.۷؍مئی ۹۷ ۱۸ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان
مکتوب نمبر۴۷ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سول سرجن چکراتہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میرا چھوٹا لڑکا جس کی عمر دو برس کی ہے اس کو بڑی شدت سے تلی ہوگئی ہے.اور بہت بڑھ گئی ہے اور پیٹ بڑا ہوگیا ہے اوربہت پھیل گیاہے اور تین ماہ سے ہے.آپ براہ مہربانی بہت عمدہ دوا جولگانے کی ہو اور نیز کھلانے کی ہو ہفتہ عشرہ کی خوراک اوسطاً ضرور بھیج دیں.والسلام ۳؍جون ۹۷ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ باقی سب خیریت ہے.آج لڑکے کو تپ ہو گیا ہے اس کا لحاظ رکھیں.مکتوب نمبر۴۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ پانچ روپے مرسلہ آپ کے مجھ کو پہنچے.خد اتعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے کہ آپ اپنے وعدہ کو محض ِللہ سنت صادقہ کے ساتھ پورا کر رہے ہیں.اور اس قحط الرجال میں ایسے لوگ بہت ہی کم ہیںکہ خدا تعالیٰ کے لئے مواعید کو پورا کرنے والے ہوں.آج کل مخالفین کا زور حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے.لاہور تو آج کل گویا آتش کدہ ہے.ہر روز نئے نئے فتنہ پیدا ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے.مجھے معلوم نہیں کہ رسالہ ’’سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب‘‘آپ کے پاس پہنچا ہے یا نہیں.اور رسالہ’’ سراج منیر‘‘ اور ’’حجۃ اللہ‘‘ اور’’ استفتاء‘‘ اور چودھویں صدی کے اخبار کا جوابی اشتہار آپ کو پہنچا ہے یا نہیں.ان میں سے اگر کوئی رسالہ یا اشتہار نہ پہنچا ہو تو
مطلع فرماویں.تاآپ کو بھیج دیا جاوے.زیادہ خیریت ہے.٭ والسلام ۹؍جولائی۱۸۹۷ء خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ کیا آپ کی نینی تال کی بدلی ہوگئی ہے یانہیں اگر ہوگئی ہے تو مفصل پتہ ارسال فرماویں تاآئندہ اُس پتہ پر خط لکھاکروں.بالفعل چکراتہ میں ہی یہ خط بھیجتا ہوں.مکتوب نمبر۴۹ژ یہ مکتوب اس وقت کا ہے.جب کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام ڈاکٹر ہنری مارٹن کے دعویٰ کرنے پر امرتسر کے مجسٹریٹ نے وارنٹ گرفتاری جاری کیا تھا.جس کی اطلاع پرائیویٹ طور پر حضور انور کو قبل از وقت مل گئی تھی.جو بعد میں منسوخ ہوگیا.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تازہ خبر یہ ہے کہ ایک مفسد کذّاب نے صاحب ڈپٹی کمشنر امرتسر کے پاس یہ جھوٹی مخبری کی ہے.کہ گویا میں نے ان کو ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے قتل کرنے کے لئے بھیجا تھا.چنانچہ اس پر ڈاکٹر کے دعویٰ کرنے سے وارنٹ گرفتاری میرے پر جاری ہوا ہے.جو آج ۷؍ اگست ۱۸۹۷ء د۲و تین گھنٹہ تک قادیان میں پہنچ جائے گا.اور پھر بحیثیت گرفتاری امرتسر کی عدالت میں حاضر ہونا ہوگا.اطلاعاً لکھا گیا.آپ محبیّ خواجہ کمال الدین اور عزیزی اسمٰعیل کو بھی اطلاع دے دیں.٭٭ ۷؍ اگست ۱۸۹۷ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭ سیرت احمد ازحضرت قدرت اللہ سنوری صاحب صفحہ۲۲۰، ۲۲۱ ٭٭ الفضل نمبر۱۸۳ جلد۳۴ مورخہ ۷؍اگست ۴۶ء صفحہ ۳
مکتوب نمبر۵۰ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ اخویم خلیفہڈاکٹر رشید الدین صاحب سلمہ‘ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ پنج روپیہ مرسلہ آں محب مجھ کو پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ.لِلّٰہِ جلّ شانہ‘اس محبت اور اخلاص کے جو محض ِللہ آپ سے ظہور میں آرہی ہے.دارین میں بہت بہت جزاء بخشے.مجھے آپ سے دلی محبت ہے اور میں خدا تعالیٰ سے یہ امید رکھتا ہوں کہ آپ کو دن بدن اپنی محبت میں ترقیات عطا فرماوے اور دنیا و عاقبت میں حافظ و ناصر رہے.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۵۱ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ‘ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا کارڈ پہنچا.میں اِنْ شَائَ اللّٰہُ الْکَرِیْمُ آپ کے لئے دعا کروں گا.مگر آپ نہایت استقامت سے اپنے تئیں رکھیں.کم دلی ظاہر نہ ہو.خدا تعالیٰ کا فضل ہر جگہ پر درکار ہے.مسافرت اور غربت میں دعا اور تضرع سے بہت کام لینا چاہئے.میں چاہتا ہوں کہ کسی قدر دوا ئی طاعون آپ کے لئے روانہ کروںکیونکہ وہ نہ صرف طاعون کے لئے بلکہ اور بہت سے امراض کے لئے مفید ہے.غالباً اِنْ شَآئَ اللّٰہُ اس ہفتہ کے اندر اندر روانہ کردوں گا.آپ روزانہ قریب چار رتی کھا لیا کریں اور کسی
قدر دودھ پی لیا کریں.باقی ہر طرح سے خیریت ہے.اس ملک میں پھر طاعون کے خطرات معلوم ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ رحم فرماوے.۲۲ ؍جولائی ۱۸۹۸ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر۵۲ژ محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تریاقِ الٰہی یعنی دوا ئی طاعون کل کی ڈاک میں آپ کی خدمت میں روانہ ہوچکی ہے.اب یہ اشتہار روانہ کرتا ہوں.۲۴ ؍جولائی ۱۸۹۸ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد مکتوب نمبر۵۳ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ پچاس روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچ گئے تھے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.لیکن ابھی تک معلوم نہ ہوا کہ آپ کی عرضی پر کیا حکم آیا.امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے ہمیں مطلع فرمائیں گے.اب اگر آب و ہوا موافق نہیں تو اللہ تعالیٰ یہ فضل فرماوے کہ وہاں سے پنجاب میں تبدیلی ہو جاوے.امید ہے کہ تادم ملاقات خیریت آیات سے مسرور الوقت
فرماتے رہیں.زیادہ خیریت ہے.یکم اکتوبر ۱۸۹۸ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ازقادیان ضلع گورداسپور مکتوب نمبر۵۴ محبی عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہُاللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ آں محب کا عنایت نامہ مع مبلغ پچاس روپیہ مجھ کو ملا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ.چونکہ اس خط میں بخار آجانے کا ذکر تھا.اس لئے طبیعت متردّد ہے.امید کہ دوسرے خط میں اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماویں.اللہ تعالیٰ آپ کو بفضل خود خیروعافیت سے اس جگہ سے مخلصی عنایت فرماوے.آمین ثم آمین.اس جگہ تادم تحریر ہر طرح سے خیر و عافیت ہے.چار نئی کتابیں چھپ رہی ہیں.یقین کہ جلد تر چھپ جائیں گی.نہایت خوشی کی بات ہے اگر آپ کو حکاّم کی طرف سے واپسی کی اجازت آجائے.بہر حال استقامت سے ہر ایک کام کرنا چاہئے اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہئے.بمبئی میں پھر طاعون ترقی کر رہی ہے.اور مدراس کے تین ضلعوں میںبھی شروع ہے.دیکھیں اللہ تعالیٰ کا کیا ارادہ ہے.ہندو جوتشی تو ۹۹ء میں دنیاکا خاتمہ بتاتے ہیں.وَالْعِلْمُ کُلُّھُمْ لِلّٰہِ٭ ۱۴؍اکتوبر ۱۸۹۸ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان ٭ الفضل جلد۳۴ نمبر ۱۹۹ مورخہ ۲۶؍اگست ۴۶ء صفحہ۳
مکتوب نمبر۵۵ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ آج کی ڈاک میں مبلغ پچاس روپیہ مرسلہ آپ کے مجھ کو مل گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.عجیب اتفاق ہے کہ مجھ کو آج کل اشد ضرورت تھی.آج ۴؍نومبر۱۸۹۸ء میں خواب میں مجھ کو دکھلایا گیا کہ ایک شخص روپیہ بھیجتا ہے.میں بہت خوش ہوا.اور یقین رکھتا تھا کہ آج روپیہ آئے گا چنانچہ آج ہی ۴؍نومبر۱۸۹۸ء کو آپ کا پچاس روپیہ آگیا.فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ جَزَاکُمُ اللّٰہُ.معلوم ہوتا ہے کہ یہ روپیہ بھیجنا درگاہ الٰہی میں قبول ہے.چنانچہ آج جو جمعہ کا روز ہے میں نے آپ کے لئے درگاہ الٰہی میں نماز جمعہ میں دعا کی.امید کہ اِنْشَائَ اللّٰہُ پھر کئی دفعہ کروںگا.مجھے آپ سے دلی محبت ہے.اب دل بہت چاہتا ہے کہ آپ نزدیک آجائیں.اللہ تعالیٰ اسباب پیدا کرے.باقی خیریت ہے.والسلام ۴؍نومبر۱۸۹۸ء روز جمعہ خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۵۶ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.آپ کے گھر کے لوگوں کے لئے دعا کی گئی.اللہ تعالیٰ شفا بخشے.آمین ان دنوں میں سرکار کی طرف سے میرے پر بشمولیت محمد حسین ایک فوجداری مقدمہ دائر
مکتوب نمبر۵۸ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.اِنْ شَآئَ اللّٰہُ اب خاص توجہ سے آپ کے لئے دُعا کرتا رہوں گا کہ اللہ تعالیٰ جلد تر اُس جگہ سے مخلصی عطا فرماوے.اب فوجداری مقدمہ کی تاریخ ۱۴؍ فروری ۱۸۹۹ء ہوگئی ہے.دراصل بات یہ ہے کہ اب تک یہی معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کی نیت بخیر نہیں.جمعہ کی رات مجھے یہ خواب آئی ہے کہ ایک لکڑی یا پتھر کو میں نے جناب الٰہی میں دُعا کرکے بھینس بنا دیا ہے اور پھر اس خیال سے کہ ایک بڑانشان ظاہر ہوا ہے.سجدہ میں گرا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ ربّی الاعلٰی.ربّی الاعلٰی میرے خیال میں ہے کہ شاید اس کی یہ تعبیر ہو کہ لکڑی اور پتھر سے مراد وہی سخت دل اور منافق طبع حاکم ہو اور پھر میری دُعا سے اُس کا بھینس بن جانا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ ہمارے لئے ایک مفید چیز بن گئی ہے جس کے دودھ کی امید ہے اگر یہ تاویل درست ہے تو امید قوی ہے کہ مقدمہ پلٹا کھا کر نیک صورت پر آجائے گا اور ہمارے لئے مفید ہو جائے گا اور سجدہ کی تعبیر یہ لکھی ہے کہ دشمن پر فتح ہو.الہامات بھی اس کے قریب قریب ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس خواب کے ظہور کا محل کوئی اور ہو بہرحال ہمارے لئے بہتر ہے خوا ہ کسی پیرایہ میں ہو.باقی سب طرح سے خیریت ہے.والسلام ۵؍فروری ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان
مکتوب نمبر۵۹ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں خیریت سے ہوں مگر افسوس کہ وہ شخص جو آپ کے ساتھ گیا تھا جس کا نام محمد یوسف خان تھا جو افغان تھا اپنی شقاوت کی وجہ سے عیسائی ہوگیا.اور امرتسر کے مشن میں مخالفت اسلام میں بہت سرگرم ہے.اب اس نے اپنا نام یوسف خان رکھا یاہے.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۶۰ژ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج مبلغ پانچ روپیہ مرسلہ آں عزیز مجھ کو پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ.بدبخت یوسف خان عیسائی ہو گیا اور اپنے کسی رسالہ …میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بے ادبی لکھی ہے.اب فرض ہے کہ اس پلید طبع آدمی سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھیں اور کسی خط کا جواب نہ دیں.اور اگر کوئی خط آوے تو واپس کریں.آپ کا ذکر بھی اس نے کچھ کیا ہے محض لالچ اور بے ایمانی اختیار کی ہے اوراس کا ساتھی محمد سعید… ایسے مادہ کا معلوم ہوتا ہے اگرچہ وہ ابھی عیسائی نہیں ہوا لیکن اس سے بھی خط و کتابت کرنے سے پرہیز کرنی چاہئے.کیونکہ ایک خط میں نے اس کا پڑھا ہے جو میرے پاس موجود ہے وہ اس خط میں لکھتا ہے کہ اگر یوسف خان
عیسائی ہو گیا… اور ممکن نہیں کہ مسلمان رہوں.یہ خط اس نے احمد اللہ خان کی طرف لکھا تھا اور اس سے مجھ کو ملا.بہرحال یہ کلمہ کفر ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ مرتد ہو گیا.جب تک توبہ نہ کرے ان لوگوں سے…… مکتوبات نمبر۶۱ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ پچاس روپیہ مرسلہ آپ کے مجھ کو پہنچ گئے ایسے نازک اور ضرورت کے وقت میں جبکہ بدطینت حاسدوں نے عدالت میں میرے پر مقدمہ اٹھایا ہوا ہے.آپ کا متواتر مالی مدد کرنا قابل شکر گذاری ہے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ.اب مقدمہ کی تاریخ ۲۴ ؍فروری ۱۸۹۹ء ہے.غالباً اتوار کے دن عید ہوگی اس صورت میں پیر کو بمقام پٹھان کوٹ مقدمہ پر جانا ہوگا.وَاللّٰہُ اَعْلَمُ.اب میں نے عہد کرلیا ہے کہ کچھ عرصہ آپ کے لئے دعا کرتا رہوں گا.اللہ تعالیٰ دوری مہجوری سے بخیروعافیت رستگاری عنایت فرماوے.آمین ثم آمین.باقی سب طرح خیریت ہے.۱۱؍ فروری ۱۸۹۹ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان ضلع گورداسپور
مکتوب نمبر۶۲ژ محبیّ اخویم ڈاکٹر صاحب سلّمہ یہ مرا لڑکا شریف بہت دُبلا پتلا ہوتا جاتا ہے کوّ ا کے دونوں طرف کی گلٹیاں پھولی ہوئی ہیں کھول کرمونہہ دیکھ لیں اور میں نے آج سکاٹش ایملشن لاغری کے لئے اس کو کھلائی ہے.والسلام غلام احمد مکتوب نمبر۶۳ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مقدمہ آخر ۲۴؍ فروری ۱۸۹۹ء کوفیصلہ ہوگیا.مجھ کو بری کیا لیکن فریقین کے لئے مجھ سے اور محمد حسین سے اس مضمون کے نوٹس لئے کہ کوئی فریق دوسرے فریق کی نسبت موت کی پیشگوئی نہ کرے.کوئی فریق دوسرے فریق کو کافر ، دجال، کذّاب نہ لکھے.قادیان کو چھوٹی کاف سے نہ لکھے.مجھ کو ہدایت ہوئی کہ اگر آپ چاہیں تو محمد حسین پر نالش کرکے اس کو سزا دلائیں کہ اس نے سخت الفاظ استعمال کئے اور محمد حسین کو بری نہیں کیا صرف نوٹس لے کر چھوڑ دیا اور مجھ کو بری کیا اور مثل داخل دفتر کی.دیگر خیریت ہے.۲۸؍ فروری ۱۸۹۹ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۶۴ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ عنایت نامہ مع مبلغ ساٹھ روپیہ بہ تفصیل مندرجہ خط پہنچے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَالْجَزَائِ.آمین.مقدمہ متدائرہ ۲۴؍فروری۱۸۹۹ء کو خارج کیا گیا اور مجھ کو بری کیا گیااور محمد حسین کو فہمائش کر کے رہا کر دیا گیا مگر بری نہیں ہوا.جانبین سے دو نوٹسوں پر دستخط کرائے گئے کہ آئندہ کسی کی موت کی پیشگوئی نہ کریں اور ایک دوسرے فریق کو کافر اور کذاب اور دجال نہ لکھیں.قادیان کو چھوٹے کاف سے نہ لکھیں اور نہ بٹالہ کو طاء سے اور محمد حسین کو یہ بھی فہمائش ہوئی کہ وہ اپنے دوستوں کو گندی گالیاں اور فحش گوئی سے روکے.غرض اس طرح پر مقدمہ فیصلہ ہوگیا.اب میں اِنْشَائَ اللّٰہُ الْقَدِیْرُ آپ کے لئے دُعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس جگہ سے بخیر وعافیت جلد لاوے.باقی سب طرح سے خیریت ہے.۳؍مارچ۱۸۹۹ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر۶۵ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک ۱۷؍مارچ۱۸۹۹ء کو مبلغ پچاسروپیہ مرسلہ آپ کے پہنچے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.مجھے خوف ہے کہ آپ نے جو چند دفعہ پچاس، پچاس روپے بھیجے ہیں یہ امر آپ کی تکلیف اور آپ کے حرج کا موجب نہ ہو.آپ کا محبت اور اخلاص ایک امر ہے.جو پختہ یقین سے مرکوز خاطر
ہے ا س لئے میں نہیں چاہتا کہ آپ طاقت سے زیادہ تکلیف اُٹھایا کریں.میںنے آپ کے لئے سلسلہ دعا کا جاری کیا ہے.امید کہ اللہ تعالیٰ یا تو کسی بشارت کے ذریعہ سے اور یا خود بخود اثر دُعا ظاہر کرے گا.آج کل ایک ماہ کی رخصت لے کر ڈاکٹر عبد الحکیم خان صاحب قادیان میں میرے پاس موجو دہیں.اور ایک ہفتہ برابر اور یہاں رہیں گے.مقدمہ فیصلہ ہوگیا.خد اتعالیٰ نے مجھ کو دشمنوں کے الزام سے بری کیا.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.کتاب حقیقۃ المہدی آپ نے دیکھ لی ہو گی خدا تعالیٰ نے قبل فیصلہ مقدمہ تمام حال ظاہر کردیا تھا.اللہ تعالیٰ آپ کو جلد تراس ملک میں لاوے.اور بہت خوب ہوکہ کسی قریب تر مقام میں پنجاب میں آپ متعین ہوں.باقی سب خیریت ہے.از طرف ڈاکٹر عبد الحکیم صاحب اور دیگر حاضرین کے السلام علیکم.والسلام ۱۸؍مارچ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۶۶ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج کی تاریخ مبلغ پچاس روپیہ مرسلہ آپ کے مجھ کو پہنچے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ.اب بہت عرصہ گزر گیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو جلدتر اس ملک میں لاوے.میں دعا میں مشغول ہوں.امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم اور کرم سے جلدتر دعا منظور ہو جائے کہ وہ ہرچیز پر قادر ہے.حالات خیریت آیات سے جلد جلد مطلع فرماتے رہیں.اِنْشَائَ اللّٰہُ الْقَدِیْرُ دعا برابر اوقات خاصہ میں کرتا رہوں گا.اور بفضلہ تعالیٰ امید اجابت کی ہے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۷؍اپریل ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان
مکتوب نمبر۶۷ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیز ی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ چونکہ مجھے ایک اشد ضرورت درپیش ہے.اس لئے بہمراہ چند اور مخلص دوستوں کے آپ کو بھی جو اوّل درجہ کے اخلاص اور محبت پر ہیں بوجہ ضرورت تکلیف دیتا ہوں کہ وہ پانچ روپیہ جو آپ ماہ بماہ مجھے دیتے ہیں وہ چار ماہ کے پیشگی کے حساب سے بیس روپیہ بھیج دیں اورا ٓئندہ جب تک اس بیس پیشگی روپیہ کی میعاد ختم نہ ہو کچھ نہ بھیجیں.ضرورت کی وجہ سے تکلیف دی ہے.جہاں تک ممکن ہوجلد ارسال فرماویں.اور کل سے میاں عبد الحکیم صاحب ڈاکٹر پٹیالہ ملنے کے لئے آئے ہوئے ہیں.۳۰؍مئی۱۸۹۹ء تک میرے پاس رہیں گے.٭ یکم مئی ۱۸۹۹ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد مکتوب نمبر۶۸ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا کارڈ پڑھ کر بہت تردّد ہوا.اللہ تعالیٰ لڑکی کو بہت جلد شفا عنایت فرماوے آمین.اِنْ شَائَ اللّٰہُ الْقَدِیْرُ دُعا کرتا رہوں گا.اللہ تعالیٰ قبول فرماوے.میرا لڑکا ایک دفعہ تپ سے سخت بیمار ہوا تھا.میں نے خفیف سی تاخیر کے بعد یعنی صرف ایک دفعہ نرم پاخانہ آنے کے ٭ سیرت احمد از حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحبؓ صفحہ ۲۲۲
بعد ڈیڑھ رتی کونین اور ڈیڑھ رتی کافور کی گولی بناکر عرق گائو زبان اور بیدمشک کے ساتھ دے دیا.لڑکا جو میت کی طرح تھا گولی اور عرق دینے کے بعد صرف چند منٹ کے بعدہی اُٹھ کر بیٹھ گیا اور اگر یہ دوا چند دفعہ دی جائے تو یقین ہے کہ انشاء اللہ بہت فائدہ ہو گا مگر قبض نہ ہو اور نہ بہت اسہال ہو صرف رفع قبض کی حالت ہو.دعا انشاء اللہ برابر کی جائے گی.اطلاع دیتے رہیں.یہ بھی خیال رہے کہ جگر میں خدانخواستہ ورم نہ ہو یا طحال نہ ہو کیونکہ تیز تپ اگر زیادہ مدت رہے تو اکثر طحال یا ورم جگر ہو جاتی ہے.اس صورت میں تپ اترنے میں نہیں آتا کیونکہ وہ اس وقت ورم کا ایک لازمی عارضہ ہوتا ہے.ایسی صورت میں بلاتوقف علاج ورم کرنا چاہئے.یہ لیپ نہایت مفید ہے اور بہت مجرب ہے.انبلتاس مع خیارشیر آردجو یعنی جو کا آٹا.افسنتین سنبل الطیب ۴ تولہ ۵ ماشہ ۵ ماشہ ۵ ماشہ روغن گل سرکہ اَب گلو مصطگی ۹ ماشہ ۶ ماشہ ۴ تولہ ۵ ماشہ بدستور دوائیں پیس کر لیپ کی طرح بنا کر گرم کر کے ورم کی جگہ پر لگادیں اور اوپر روئی باندھ دیں.اگر تپ تلبین اورکونین اور کافور اور عرق سمّ الفار سے دور نہ ہو تو پھر غالباً کسی مرض کا عرض ہوتا ہے.خدا تعالیٰ جلدتر شفا بخشے.آمین.آج میرے پسر چہارم مبارک احمد کا عقیقہ روز دو شنبہ میں ہوا ارادہ یکشنبہ کا تھا مگر ایسی مجبوری پیش آئی کہ دو شنبہ کو عقیقہ کرنا پڑا.بعد میں یاد آیا کہ عرصہ چودا۱۴ں برس کا ہوا ہے کہ ایک خواب آئی تھی کہ چار لڑکے ہوں گے اور چوتھے لڑکے کا عقیقہ پیر کے دن ہو گا.سو یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پیشگوئی تھی جو پوری ہوئی.۲۶؍جون۱۸۹۹ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۶۹ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ اسسٹنٹ سرجن حسین آباد لکھنؤ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پھر آپ نے حالات خیریت آیات سے اطلاع نہیں دی اس لئے طبیعت کو تفکرّ ہوا.اللہ تعالیٰ ہر طرح سے خیر و عافیت شامل حال رکھے.آمین.امید کہ خیر و عافیت فرزند ارجمند اور گھر کے لوگوں سے مطلع فرماویں اور میرا لڑکا مبارک احمد نام جو اب پیدا ہوا ہے.اب تک ناف اس کی ایک زخم کی طرح ہے معلوم نہیں کہ چِھل گیا یا شاید غسل کے وقت پانی اندر داخل ہو گیا.صورت زخم یہ ہے کہ بقدر دونیّ زخم ہے جو درد کرتا ہے.اس میں چیرا دے کر ایسا نہ ہو کہ کوئی فساد ہو.آپ اطلاع بخشیں کہ کون سی چیز لگائی جائے تا اگر خدا تعالیٰ چاہے یہ زخم خشک ہوجائے زخم سرخ رنگ اور درد کرتا ہے اکثر ناف ہفتہ عشرہ میں اچھی ہو جاتی ہے لیکن یہ زخم ستائیس روز سے ایسا ہی پڑا ہے اور اگر دوا مَلنے کے لائق ہو تو ارسال فرماویں مگر دوا نرم اور قابل برداشت بچہ ہو.باقی ہر طرح سے خیریت ہے.والسلام ۸؍جولائی ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۷۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ عزیزی محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ آپ کا محبت نامہ مع سفوف اور مرہم پہنچ کر موجب شکر گزاری ہوا.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے عظیم بخشے.آپ نہایت محبت اور اخلاص سے ہر ایک امر میں بکمال مستعدی
تعمیل کرتے ہیں.باقی سب خیریت ہے.٭ والسلام ۱۳؍جولائی۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر ۷۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہُاللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا محبت نامہ پہنچا.آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ اب مقدمہ کی تاریخ۲۴؍ اگست ۱۸۹۹ء مقرر ہوئی ہے.چونکہ محمد حسین نے میرے پر الزام لگایا ہے کہ لیکھرام کا قاتل یہی شخص ہے.اس لئے لیکھرام کے قتل میں طلب ہونے پر محمد بخش ۱؎ ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ نے لکھوایا ہے کہ افواہ یہی تھی کہ لیکھرام کے قاتل یہی ہیں.اور نیز یہ بھی لکھوایا ہے کہ ان کا یہی طریق ہے کہ کسی کے مرنے کی پیشگوئی کر دیتے ہیں اور پھر اپنی جماعت کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کو پورا کرتے ہیں.یہی بشیر حسین انسپکٹر نے اظہار دیا ہے.محمد بخش نے یہ بھی لکھوا دیا ہے کہ سرحدی لوگ جو سرکار انگریزی کے دشمن ہیں ان کے پاس پوشیدہ طور پر آتے رہتے ہیں.اور یہ خطرناک ہیں.حاکم کے دل میں ایک ذخیرہ شکوک کا اور ہے کہ درحقیقت یہ اور ان کی جماعت سرکار انگریزی کے باغی اور بد خواہ اور مقابلہ کے لئے تیاری کر رہے ہیں ڈالا گیا ہے اور جس قدر اس ضلع کے رئیس وغیرہ ملتے ہیں.وہ بھی یہی گواہی دیتے ہیں کہ باغی اور خطرناک ہیں تمام جماعت خطرناک ہے اور پوشیدہ طور پر لوگوں کی خونریزی کے لئے لگے رہتے ہیں ان پلید بیانوں کی ٭ سیرت احمد از حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحب ؓ صفحہ ۲۱۷ ۱؎ یہ مکرم شیخ نیاز محمد صاحب ریٹائرڈ انسپکٹر پولیس کے والد تھے.جو اس قسم کے افعال کی وجہ سے عمر کے آخری حصہ میں تائب ہوکر رجوع کرچکے تھے.جس کی تفصیل شیخ صاحب موصوف کی ان روایات میں موجود ہے جو الفضل ۲۴ ؍ فروری ۴۰ء میں شائع ہوچکی ہیں.خاکسار.ملک فضل حسین
حقیقت خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے.یہ حاکم عالم الغیب تو نہیں ہے.اس کے دل میں یہ جما دیا گیا ہے کہ ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء کی پیشگوئی محمد حسین کو سخت صدمہ پہنچانے کے لئے کی گئی تھی.غرض بہتان اور جھوٹ اور افترا کو کمال تک پہنچا دیا ہے.۲۴ ؍اگست ۱۸۹۹ء پیشی کے لئے مقرر ہے.٭ ۸؍ اگست ۱۸۹۹ء والسلام خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر۷۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک میں آپ کا عنایت نامہ جس میں ایک دس روپیہ کا نوٹ بھی تھا.اور دوا بھی تھی پہنچ کر باعث مسرت ہؤا.اور آپ کے حق میںدعائے عافیت دنیا و آخرت کی گئی.یہ بھی ایک خوشی کی بات ہوئی کہ میں نے وہ آپ کا محبت نامہ بند کا بند گھر میں دے دیا تھا.اور ان سے کہہ دیا تھا کہ اس میں تمھارے لئے ہے جو کچھ ہے خط مجھے لا دینا.اور دل میں یہ خیال تھا کہ اور کیا ہوگا دوا ہوگی.مگر انھوں نے کھولکر مجھے ایک نوٹ دس روپیہ کا دکھایا اور کہا کہ اب یہ میرا ہوا کیونکہ تم نے کہا تھا کہ اس میں جو کچھ ہے تمھارا ہے سو میں نے وہ نوٹ گھر میں دے دیا.گویا آپ نے دوا کے ساتھ یہ غذا بھی بھیجی.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَ ا لْجَزَا ء ِ.کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ تواب بالکل طیار ہے لیکن چونکہ مرزا خدا بخش صاحب نصیبین کی طرف تیار تھے.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ ایک عربی کتاب تیار کرکے ان کو دی جائے.سو کتاب ’’تریاق القلوب ‘‘جس میںسے صرف دو چار ورق باقی ہیں بالفعل ملتوی رکھی گئی.اور کتاب عربی لکھنی شروع کر دی گئی.جس میں سے اب ٭ الفضل نمبر ۱۹۰ جلد ۳۴ مورخہ ۱۵؍اگست ۱۹۴۶ء صفحہ ۳
تک سو صفحہ چھپ چکا ہے.شاید د۲و ماہ تک یہ کتاب ختم ہو.بہرحال اس کتاب کے ختم ہوچکنے کے بعد یہ جماعت نصیبین کی طرف جائے گی.امید کہ ہمیشہ آپ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں گے.اس طرف جالندہر کے علاقہ میں اب پھر طاعون شروع ہے.دیکھیں خدا تعالیٰ کیا کرتا ہے.باقی خیریت ہے.٭ ۱۵ ؍فروری ۱۹۰۰ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان مکتوب نمبر۷۳ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ دس روپے مرسلہ آں محب مجھ کو پہنچے.خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے آمین.میں آپ سے ایک خاص طور پر محبت رکھتا ہوں یہ آپ کے اس دلی اخلاص کا اثر معلوم ہوتا ہے جو میرے دل کو محبت کی طرف کھینچتا ہے.اس عید ۱؎ پر کثیر احباب جمع ہوں گے.بہت تاکید کی گئی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سب دوست قادیان میں عید پڑھیں.لہٰذا بہت آرزو ہے کہ اگر ممکن ہوسکے تو آپ بھی اس عید پر تشریف لاویں تا دوستوں کے مجمع کو دیکھ کر خوشی حاصل ہو.اور نیز سب دعا میں ٭ الفضل نمبر۲۱۰ جلد ۳۴ مورخہ ۹ ؍ستمبر ۴۶ء صفحہ ۳ ۱؎ یہ عید آخری اس سال میں ہے خدا جانے آئندہ سال میں کون زندہ رہے اور کون نہ رہے.
شریک ہوں.امید کہ ایک ہفتہ کی رخصت کے لئے کوشش کریں گے.اگر خدا تعالیٰ چاہے تو تعجب نہیں کہ مل جائے مگر شاید ہفتہ کافی نہ ہو دس دن ضروری ہوں مگر کوشش کرنی چاہئے.۲۲؍ مارچ ۱۹۰۰ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد نوٹ:.اس خط کے ملحقہ صفحہ پر ڈاکٹر صاحب مرحوم کی اپنی تحریر ہے.کہ دریائے گونتی کے کنارے جنگل میں بچے اکیلے چھوڑ کر خدا تعالیٰ نے قادیان میں آنے کی توفیق عطا فرمائی.فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ.خاکسار خلیفہ رشید الدین مکتوب نمبر۷۴ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی اخویم… ڈاکٹر صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وقت مبلغ پچیس روپیہ کا منی آرڈر مرسلہ آں محب پہنچا.حسب منشا خط تقسیم کیا گیا جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.طاعون قادیان سے ۳ میل کے فاصلہ پر آگیا ہے.کتوّں کی طرح لوگ مرتے ہیں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۷۵ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ‘ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تین شیشی عطر اور ایک سکّہ طلائی قیمتی روپیہ معہ خط کے جو سب پارسل کے اندر تھے مجھ کو مل گئے.خدا تعالیٰ آپ کو بہت بہت جزائے خیر دے.آمین.اور امید کہ آپ کا امتحان شروع ہوگیا ہوگا.اللہ تعالیٰ اس میں کامیاب فرماوے.آمین ثم آمین.بعد کامیابی امتحان ( خدا آپ کو کامیاب کرے) مناسب بلکہ ضروری ہے کہ آپ کچھ رخصت لے کر قادیان میں رہیں کیونکہ آپ کو قادیان میں رہنے کا بہت کم اتفاق ہوا ہے بلکہ اگر کسی وقت ممکن ہو تو دو تین ہفتہ کی رخصت لے کر مع اپنے گھر کے لوگوں کے قادیان میں اس مدت تک رہیں تا جیسا کہ اور دوستوں کے اہل خانہ بیعت کرتے ہیں آپ کے گھر کے لوگ بھی بیعت کر جائیں.انشاء اللہ آپ کے امتحان کے لئے دعا کرتا رہوں گا.اللہ تعالیٰ کامیاب فرماوے.آمین ثم آمین.خاکسار ۵؍جون ۱۹۰۰ء مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۷۶ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک میں مبلغ دہ روپیہ مرسلہ آں عزیز مجھ کو پہنچ گئے جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَالْجَزَائِ.باقی ہر طرح سے خیریت ہے.والسلام ۷ ؍جولائی ۱۹۰۰ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان
مکتوب نمبر ۷۷ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ ہرسہ قسم عطر مرسلہ آں محب یعنی عطر فتنہ و عنبر و مشک مجھ کو ملا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ.اور نیز ایک اشرفی روپیہ بھی ساتھ اس کے پہنچی.خد اتعالیٰ بہت بہت جزائے خیر دے.میں زیادہ تکلیف دینا آں محب کو پسند نہیں کرتا اور میں نے عطر مشک و عنبر اس ارادہ سے لکھا تھا کہ اس کی قیمت میں اداکروں گامگر آپ نے مجھے اطلاع نہیں دی کہ اس کی کیا قیمت ہے بلکہ برعکس اس کے روپے اور اپنی طرف سے بھیج دئیے.میں آپ کی خدمات سے بہت شرمندہ ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے.آمین ثم آمین.آپ نے مجھے اطلاع نہیں دی کہ عطر مشک وعنبر ایک تولہ کس طرح بکتا ہے.امید کہ مطلع فرمائیں گے.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۴؍جولائی۱۹۰۰ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ازقادیان مکتوب نمبر۷۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہُاللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا میں ہمیشہ آپ کو دعا سے یاد رکھتا ہوں اور آپ سے مجھے محبت ہے.مگر بباعث کثرت کاروبار تالیف جواب لکھنے میں کوتاہی ہوتی ہے.زیادہ خیریت.٭ و السلام ۲۵؍جولائی ۱۹۰۰ء خاکسار مرزا غلام احمد ٭ اخبار بدر نمبر۳ جلد۸ مورخہ ۲۶؍نومبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۳
مکتوب نمبر۷۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ آپ کے متواتر عنایت نامے پہنچے.چونکہ میں دردسر اور اسہال وغیرہ عوارض سے بیمار رہا.اس لئے جواب نہیں لکھ سکا.اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور کامیاب فرماوے.افسوس ہے کہ ا یک دوست ایک کافی حصہ قادیان میں رہا ہے مگر آپ کو بہت کم اتفاق ہو اہے.بہتر ہو کہ کسی وقت آپ کو مہینہ ڈیڑھ مہینہ کے لئے قادیان میں رہنے کا اتفاق ہو.آپ کی فطرت میں بہت مادئہ سعادت ہے.پس اس سعادت کے ساتھ قرب کے فیوض سے کم حصہ لینا جائے افسوس ہے.امتحان پیش آمدہ میں خدا تعالیٰ آپ کو پاس کرے.آمین لکھنؤ کے عمدہ تحفوں میں سے عطر ہوتا ہے اور مجھے بھی عطر سے بہت محبت ہے اگر عطر کیوڑہ یا فتنہ یااورکوئی عمدہ عطر ہو تو آپ بقدر ایک تولہ عنایت فرماویں.زیادہ خیریت ہے.دُعا آپ کے لئے کررہاہوں.خدا تعالیٰ قبول فرماوے.۲۴؍اکتوبر۱۹۰۰ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ
سیدی و مولائی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ دوتاریں ایک لیفٹنٹ گورنر کے نام اور ایک وائسرائے کے نام.ملکہ معظمہ کی وفات پر اظہار افسوس کی لکھی ہیں.صبح خلیفہ رشیدالدین صاحب کے ہاتھ بھیجی جائیں گی.آٹھ روپے قریباً ان پر خرچ ہوں گے.خاکسار ۲۳؍جنوری ۱۹۰۱ء محمد علی مکتوب نمبر۸۰ژ محبیّ اخویم ڈاکٹرصاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ افسوس شدّت سر دی اور زور زکام کی وجہ سے میں نہیں آسکا ابھی تک طبیعت درست نہیں.یہ افسوس ہے کہ صبح آپ نے جانا ہے اور میں بیمار ہوگیا.والسلام مبلغ روپیہ ارسال ہیں.مرزا غلام احمد مکتوب نمبر۸۱ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ادویہ یعنی صابون ہر دو قسم اور گولیاں لاہور سے مجھ کو پہنچ گئیں.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.دوا کا استعمال شروع ہو گیا ہے.غالباً موسم کے باعث سے ہی یہ جوشِ خون ہے.بہر حال اللّٰہ جلّ شانہٗ کی محافظت درکار ہے.امید کہ آپ ہمیشہ اپنے حالات خیریت آیات سے مجھ کو مطلع فرماتے رہیں.دیگر خیریت ہے.والسلام ۱۱؍مارچ ۱۹۰۱ء خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ
مکتوب نمبر۸۲ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جو کہ آپ کو برخوردار محمود احمد کے رشتہ ٔ نسبت کی نسبت پہلے آپ کی خدمت میں لکھا گیا تھا کہ آپ کی بڑی لڑکی کی نسبت جو رشیدہ ہے.میرا خیال ہے اب اس رشتہ پر محمود راضی معلوم ہوتا ہے.اور گو ایسا ابھی الہامی طور پر اس بارے میں کچھ معلوم نہیں.جس کے معلوم ہونے کے بارے میں مجھے خواہش ہے تا کوئی کام ہمارا مرضی الٰہی کے مخالف نہ ہو مگر محمود کی رضامندی کی ایک دلیل اس بات پر ہے کہ یہ امر غالباً واللہ اعلم جناب الٰہی کی رضامندی کے موافق انشاء اللہ ہوگا.لہٰذا آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ کی یہ مرضی ہو اور اس میں کوئی ممانعت نہ ہو جائے جس کے مقابل پر سب ارادے کالعدم ہوجاتے ہیں تو اس صورت میں اور اس شرط سے آپ طیار اور مستعد رہیں کہ جب آپ کو مسنون طور پر نکاح کے لئے لکھا جائے تو آپ کو اس میں کوئی تأمّل اور تاخیر نہ ہو اور آپ خود بھی اس کام کے لئے چند ہفتہ تک استخارہ کرلیں کہ ہریک کام جو استخارہ اور خدا تعالیٰ کی مرضی سے کیا جاتا ہے وہ بھی نیک مبارک ہوتا ہے.دوسرے میرا ارادہ ہے کہ اس نکاح میں انبیاء کی سنّت کی طرح سب کام ہو.کوئی بدعت اور بیہودہ مصارف اور لغو رسوم اس نکاح میں نہ ہوں بلکہ ایسے سیدھے سادھے طریق پرجو خدا کے پاک نبیوں نے پسند فرمایا ہے نکاح ہوجاوے تا موجب برکات ہو.باقی ہر طرح سے خیریت ہے.امید کہ آپ عید کے دن تک قادیان رہیں گے بشرط رخصت.باقی خیریت ہے.۱۵؍ مارچ ۱۹۰۱ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد
مکتوب نمبر۸۳ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ پچیس روپے مرسلہ آپ کے پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.چنانچہ آپ کے مبلغ پانچ روپیہ مدرسہ کے لئے دئیے گئے.مجھے معلوم نہیں ہوا کہ اب وہاں کیا صورت ہے.امید کہ مفصل حالات سے اطلاع بخشیں.باقی خیریت ہے.والسلام ۷؍جون ۱۹۰۱ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۸۴ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر صاحب سلمہ‘ اسسٹنٹ سرجن ریاست رامپور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج کے دن مبلغ روپے مرسلہ آپ کے حسب تفصیل مندرج پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ.پہلے خط سے بہت تشویش ہوئی اور دعا کی گئی لیکن مفصل حال کچھ بھی معلوم نہ ہوا.امید کہ مفصل حالات سے مطلع فرماویں.باقی تادم تحریر اس جگہ خیریت ہے.میرے چھوٹے لڑکے کو یعنی مبارک کو جس کی عمر د۲و برس کی ہے پھنسیاں سفید رنگ بہت نکل رہی ہیں.داہنی گال پھنسیوں سے لال ہو گئی ہے.خارش ہوتی ہے اور خون بہتا ہے.مجھے پھنسیوں سے کسی قدرآرام ہے.اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے.اب طاعون کا زور بھی بہت کم ہو گیا ہے.ہاں لوگوں کے دلوں پر گناہ اور غفلت کا بہت زور ہے.اگر ممکن ہو تو کچھ رخصت لے لیں اور قادیان میں رہیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ از قادیان
مکتوب نمبر۸۵ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ اور نیز لاہور سے دوائیں پہنچ گئیں.دوا آنے سے پہلے کچھ تخفیف مرض ہو چکی تھی اور اب استعمال سے اور بھی فائدہ ہوا اور امید ہے کہ انشاء اللہ چند روز تک فائدہ کُلِّی ہو جائے گا.باقی ہر طرح سے خیریت ہے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.امید کہ حالات خیریت آیات سے ہمیشہ مسرور الوقت فرماتے رہیں.۸؍جولائی ۱۹۰۱ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۸۶ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میرے نزدیک تو مناسب ہے کہ کل تشریف لے جاویں.کل کے لئے تو اجازت ہے آج توقف فرماویں.لڑکا ایک دن کے لئے دہلی جائے گا.٭ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭ سیرت احمد از حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحبؓ صفحہ ۲۲۹
مکتوب نمبر۸۷ژ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ مکان تو خدا تعالیٰ کے فضل سے دارالامان ہے اور وہ طرف بہت خراب ہے جب طاعون پڑتی ہے تو اکثر اسی جگہ سے شروع ہوتی ہے.اور وہ مکان اور اس کا اردگرد بھی خراب اور گندہ ہے.والدہ محموداحمد بھی کہتی ہیں یہ مناسب نہیں ہے کہ عمدہ جگہ سے خراب جگہ میں جانا.ایسا ہی میری رائے بھی یہی ہے.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۸۸ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ عزیزی اخویم خلیفہ صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچ کر باستماع خبر درد ناک واقعہ لخت جگر آں عزیز دل کو صدمہ پہنچا.اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۱؎.شاید دانتوں کی بیماریوں کے سلسلہ میں یہ واقعہ پیش آیا.اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.خدا تعالیٰ اُس کی والدہ کو صبرجمیل عطا فرماوے اور نعم البدل عطاکرے فرزندوں کی موت انسان کے دل پر طبعاً بہت دردناک اثر کرتی ہے.اور یہ مصیبت اگر صبر کے ساتھ برداشت کی جائے تو وعدہ الٰہی ہے کہ صاحب عمر اولاد عطا کی جاتی ہے.اس طرف بچوں کی بیماری کی ایک وباء پھیلی ہوئی ہے.ایک سخت تپ چڑھتا ہے.ساتھ ہی قے اور دست آنے لگتے ہیں.رات کو شروع ہو کر آٹھ بجے تک بچہ مرجاتا ہے.۱؎ البقرۃ : ۱۵۷
مبارک کو یہی بیماری ہوگئی تھی.دن میں آٹھ دفعہ سخت غشی اور تشنج ہوا.آٹھویں دفعہ میں دعا میں تھا کہ خبر دی گئی.کہ لڑکا فوت ہوگیا.جب میں نے آکر دیکھا تو تنفس اور نبض کچھ باقی نہ تھا.اور برف کی طرح ٹھنڈا ہوچکا تھا.بہت حیلہ کیا گیامگر فائدہ نہ ہوا.جب سمجھ چکے کہ حقیقت میں مرگیا اور سب حاضرین نے اِنَّا لِلّٰہِ کہہ دیا.تو یک دفعہ کچھ حرکت محسوس ہوئی.پانی گرم میں دیر تک رکھا گیا.مدت دراز کے بعد زندگی کے آثار ظاہر ہونے لگے.آخر دوسری رات کے گیارہ بجے کے قریب دوبارہ زندگی خد اتعالیٰ نے عطا کی.اسی طرح خدا تعالیٰ آپ کے لئے وہ دن جلد لاوے کہ خد اتعالیٰ عمر والا بدل عطا کرے.زیادہ خیریت.۱۸؍اگست۱۹۰۱ء روز یکشنبہ والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ مکتوب نمبر۸۹ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ بیس روپے کا نوٹ پہنچ گیا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.اسوقت سخت لرزہ اور کچھ تپ کی سی حالت ہے.زیادہ لکھ نہیں سکتا.خدا کا فضل درکار ہے.۲۱؍ دسمبر۱۹۰۱ء غلام احمدعفی عنہ
مکتوب نمبر۹۰ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ گھر میں والدہ محمود کے دل میں یہ بہت خواہش ہے کہ مسنون طور پر ابھی نکاح برخوردار محمود احمد کا ہو جائے اور لڑکی چند روز رہ کر پھر چلی جائے اور بعد بلوغ پھر آجائے اس طور یہ تعلقات اور اُنس باہمی بڑھ جائے گا.اور نیز یہ کہ فی التاخیر آفات ایک مشہور امر ہے میں جہاں تک اس میں غور کرتا ہوں.مجھے اس خواہش میں کوئی مضائقہ معلوم نہیں ہوتا کیونکہ صرف نکاح ہو جانا فریقین کے لئے سردست اس خوشی کو پیدا کرے گا کہ وہ اپنے ایک فرض سے عمدہ طور پر سبکدوش ہوگئے ہیں اور اکثر امراء دہلی میں اسی طرح کرتے ہیں بلکہ بہت پہلے نا بالغوں کا نکاح کردیتے ہیں اور پھر اپنے وقت پر مراسم شادی بجا لاتے ہیں.اس لئے لکھا جاتا ہے کہ آپ کی اس میں کیا رائے ہے اگر اس میں آپ متفق ہوں تو آپ لکھیں کہ کس مہینہ میں اس کارِخیر کے انجام کے لئے لڑکا مع چند کس آپ کے پاس نکاح کے لئے پہنچ جائے اور مختصرطور زیور اور پارچات کا بندوبست کیا جائے.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۹۱ژ بِسْمِ اللّٰہِ محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.گھر میں یہ بات منظور کرلی ہے کہ چند ماہ توقف کی جائے لیکن چونکہ بعض وجوہ کے سبب سے اکتوبر کے مہینہ سے زیادہ توقف کرنا مصلحت نہیں ہے اس لئے اس کارِ خیر کے لئے یکم اکتوبر سے ۷؍ اکتوبر تک جو تاریخ آپ پسند کریں.تجویز کی گئی.اوّل ضروری وجہ یہ ہے کہ یہ شادی بحاضری سید محمد اسماعیل ماموں محمود احمد کے ہونی چاہئے اور اب وہ تعطیلوں کی تقریب سے۱۴؍ اکتوبر تک قادیان میں ہیں اور پھرلاہور چلے جائیں گے.(۲) یہ بھی اندیشہ ہے کہ پھر طاعون شروع نہ ہو جائے کیونکہ اکتوبر سے اندیشہ ہے.اندیشہ ہے.(۳) تیسرے یہ کہ گھر میں ایام حمل معلوم ہوتے ہیں.اب غالباً تیسرا مہینہ ہے اور ان کی عادت ہے کہ چھٹے ماہ سے کچھ تکلیف اور سستی پھر گھبراہٹ شروع ہوجاتی ہے.اس لئے وہ مہینے اس کام کے لئے بالکل موزوں نہیں ہیں.میری دانست میں کسی قدر سا مان مہیا کرنے کے لئے یہ ڈھائی ماہ کافی ہیں.دوسرے یہ دریافت طلب امر ہے کہ آپ کا کیا ارادہ ہے کیا شادی لاہور میں ہونی چاہئے یا رُڑکی میں آپ برادری وغیرہ کا ہریک پہلو سوچ کر اس کا جواب دیں.باقی ہر طرح سے خیریت ہے.۱۹ ؍جولائی ۱۹۰۲ء الراقم مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۹۲ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.میرے نزدیک یہ تو ہرگز مناسب نہیں کہ لڑکی کو قبل از نکاح قادیان لاویں.کیونکہ یہ رسم ہمارے خاندان کی نہیں ہے اور جاہلوں کو نکتہ چینی کے لئے موقعہ ملتا ہے.جو ایسا موقعہ دینا شرعاً ممنوع ہے اور شریعت نے بعض رسوم شریفانہ کو جن میں شرک نہیں اور مصلحت ہے بحال رکھا ہے اور نیز اس میں لڑکیوں کی بے عزتی ہے اور یہ بھی مناسب نہیں کہ یہ نکاح لاہور میں ہو کیونکہ لاہور میں بہت شریر لوگ بھی ہیں اور آج کل لاہور میں طاعون شروع ہوگئی ہے.پس بہتر طریق یہ ہے کہ جس جگہ آپ اس وقت ہوں ٹھہر رہیں.اسی جگہ لڑکا معہ چند مہمانوں کے آجائے گا اور یہ تجویز آپ کے لئے ضروری ہے کہ ایک خادمہ جیسا کہ اس ملک میں دستور ہے کہ ایک نائن لڑکی کے ساتھ آیا کرتی ہے طیار رکھیں.لاہور سے منگوالیں یا اپنی جگہ سے جیسا کہ مناسب ہو.۳۱ ؍اگست ۱۹۰۲ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۹۳ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امید کہ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی اس جگہ سے برات کے لوگ ۲ ؍ اکتوبر یا ۳ ؍ اکتوبر ۱۹۰۲ ء کو روانہ ہوں گے.وُہ امرتسر سے یا بٹالہ سے جیسا موقعہ ہو تار دے دیں گے کہ فلاں وقت وہ پہنچ سکتے ہیں.دو تین مستورات بھی ساتھ ہوں گی.اُن کی سواریوں کے لئے بندوبست کر چھوڑیں.باقی خیریت ہے.۲۸ ؍ستمبر ۱۹۰۲ ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر۹۴ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ کئی دن ہوئے کہ پہنچا تھا.مجھے خونی زحیر ہوگئی تھی اور گھر میں بخار ہوگیا تھا اور دوسرے عوارض بھی تھے.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے آرام ہے مگرگھر میں ابھی درد عصابہ باقی ہے.اِنْ شَائَ اللّٰہُ الْقَدِیْرُ وہ بھی آرام ہوجائے گا.باقی سب طرح سے خیریت ہے.۸؍مارچ ۱۹۰۳ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۹۵ژ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی اخویم خلیفہ ڈاکٹر رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج مشورہ والدہ محمود کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ برخوردار محمود کی شادی کو اکتوبر ۱۹۰۳ء تک ایک سال ہوجائے گا.اس لئے مناسب ہے کہ آپ اکتوبر کے ابتداء میں لڑکی کو رخصت کردیں.اب زیادہ دیر ہرگز مناسب نہیں ہے.آئندہ ہر یک امر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.اپنی طرف سے یہ قطعی فیصلہ کیا گیا ہے.والسلام ۷؍جون ۱۹۰۳ء خاکسار مرزا غلام احمد مکتوب نمبر۹۶ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ آپ کی اہلیہ محترمہ کی شدت بیماری کی خبر بزبانی اخویم مولوی محمد احسن صاحب مجھ کو ملی.خدا تعالیٰ جلد تر شفا بخشے امید کہ حالات خیریت آیات سے اطلاع بخشیں.باقی سب طرح سے خیریت ہے.۳۰؍ستمبر۱۹۰۴ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۹۷ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ محبیّ عزیزی اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ پنج روپیہ نقد اور نیز دوا مرسلہ آں عزیز مجھ کو پہنچ گئی.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.باقی سب خیریت ہے.۹؍ جون ۱۹۰۵ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۹۸ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اقبال علی کا خط ہے.معلوم ہوا کہ آپ کو سخت درد زانو ہے.خدا تعالیٰ شفا بخشے.بظاہر تو یہ درد بہت بھاری بیماری نہیں ہے لیکن اگر تکلیف حد سے بڑھ گئی ہے اور قابلِ برداشت نہیں ہے توکچھ رخصت جو مناسب ہولے کر تبدیل آب و ہوا کر لینا چاہئے.خط سے بیماری کا کچھ مفصّل حال معلوم نہیں ہوا.خدا تعالیٰ شفا بخشے (آمین) والسلام ۲۵ ؍جولائی ۱۹۰۵ء خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ
مکتوب نمبر۹۹ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ محبیّ عزیزی اخویم خلیفہ صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کے خط نے جو آگرہ سے آیا تھاہمیں بڑے قلق اور کرب میں ڈال دیا.اللہ تعالیٰ آپ کو جلد تندرست کرے.آمین.نہایت بیقراری ہے اور جناب الٰہی میں دُعا کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ جلد صحت بخشے.رعایت ظاہری ضروری ہے غذا اور ہر یک امر میں پرہیز واجب ہے.اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے.بواپسی ڈاک اپنی خیر و عافیت سے اطلاع بخشیں.خدا تعالیٰ حافظ ہو.۱۲؍ دسمبر ۱۹۰۵ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد مکتوب نمبر۱۰۰ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط پہنچ کر بہت تردّد ہوا.اللہ تعالیٰ بہت جلد شفا بخشے.اس حالت میں جہاں تک جلد ممکن ہو رخصت لے لینی چاہئے.امید کہ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ تبدیلی َہوا اور باقاعدہ علاج سے جلد شفا ہو جائیگی اور میں اِنْ شَائَ اللّٰہُ الْقَدِیْرُ دعا کرتا رہوں گا.اب ہر روز آپ کے آنے کی انتظار رہے گی.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۱۰۱ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ محبیّ عزیزی اخویم خلیفہ ڈاکٹررشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک میں مبلغ پانچ روپیہ مرسلہ آپ کے مجھ کو پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.باقی ہر طرح سے خیریت ہے.ابھی کوئی رسالہ چھپ کرشائع نہیں ہوا.امید کہ دس روز تک اِنْ شَآئَ اللّٰہُ شائع ہو جائے گا.زیادہ خیریت ہے.والسلام مرزا غلام احمد مکتوب نمبر۱۰۲ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗوَنُصَلِّیْ محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا الحمد للہ.اب میرے گھر میں آرام ہے.معالجے والے جو کہتے ہیں وہ آپ کی دوا ہے.ایک تدبیر کے ساتھ استعمال کرتے رہے.اس سے بہت فائدہ ہوا تھا.اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے.میں بوجہ اس کے کہ ایک عربی کتاب عرب کے لوگوں کے لئے لکھ رہا ہوں تاکہ وہ …… بدست مرزا خدابخش صاحب عرب میں بھیجی جائے.باقی ہر طرح سے خیریت ہے.۲۳؍جنوری ۱۹۰۶ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان
مکتوب نمبر۱۰۳ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗوَنُصَلِّیْ محبیّ عزیزی اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ پانچ روپیہ مرسلہ آں محب مجھ کو پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.میں نے اپنے مہتمم کتب کو کہہ دیا ہے کہ ایک نسخہ ’’ست بچن ‘‘ آپ کے بھائی صاحب کی خدمت میں روانہ کردیوے.امید کہ جلد پہنچ جائے گا.باقی سب طرح سے خیریت ہے.والسلام ۷؍ مارچ ۱۹۰۶ء خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر۱۰۴ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کے گھر کی طرف سے ایک میرے نام خط آیا.اس سے بہت تفکرّ بھی ہوا میں نے کیونکہ لکھا تھا کہ آپ کو سخت بخار ہے.بہت دعا کی گئی امید ہے کہ انشاء اللہ شفا ہوجائے گی.اس طرف بھی لوگوں کو سخت تپ چڑھتی ہے مگر انجام بخیر ہوتا ہے خدا تعالیٰ جلد تر شفا بخشے.آمین.میں نے خاص اپنے کاروبار کے لئے ایک مختصر مکان بنایا ہے ارادہ ہے کہ اسی میں تالیف اور تصنیف کا کام کروں اس کے لئے ایک شطرنجی کی ضرورت ہے جو سوا پچیس فیٹ لمبی ہو اور سوا نو فیٹ چوڑی ہو اور سنا گیا ہے کہ آگرہ میں بہت عمدہ شطرنجیاں موٹی ڈل کی اور
خوبصورت طیار ہوتی ہیں.اس لئے مکلف ہوں کہ ایک عمدہ شطرنجی جو سوا پچیس فیٹ لمبی اور نو فیٹ چوڑی ہو تلاش کراکر بھیج دیں اور اگر صرف پچیس۲۵ فیٹ لمبی اور نو ۹ فیٹ چوڑی ہو تب بھی گذارہ ہوجائے گا اس اندازہ سے کم نہ ہو اور اگر لمبائی پچیس۲۵ فٹ کی (یا) چھبیس۲۶ فیٹ لمبی ہو اور دس فیٹ چوڑی ہو تب بھی گزارہ ہو سکتا ہے مگر اس اندازہ سے بہر صورت کم نہ ہو زیادہ لمبائی چوڑائی جس قدر ہو کچھ مضائقہ نہیں.خدا تعالیٰ آپ کو صحت بخشے.اس کام کو جلد تر انجام دے کر بذریعہ ریل بھیج دیں اور قیمت اس کی جس قدر ہو آپ دیں گے.اپنے چندہ میںجو وقتاً فوقتاً آپ بھیجتے ہیں محسوب کرلیں.باقی سب طرح سے اس جگہ خیریت ہے.کوئی امر تازہ نہیں ہے.محمودہ بیگم کی والدہ بھی قادیان میں آگئی ہیں.والسلام ۲۴ ؍مئی ۱۹۰۶ء مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۱۰۵ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ عزیزی محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک میں مبلغ پنج روپیہ مرسلہ آں محب مجھ کو پہنچے.خدا تعالیٰ آپ کو ان دینی خدمات کی جزائے خیر بخشے آمین ثم آمین.اس جگہ کئی کتابوں کی طبع کا انتظام ہورہا ہے اور بعض چھپ رہی ہیں اور بعض لکھی جارہی ہیں.جس وقت کوئی کتاب طیار اور قابلِ اشاعت ہوئی.اِنْ شَائَ اللّٰہُ الْقَدِیْرُ آپ کی خدمت میں بھجوا دی جائے گی.زیادہ خیریت ہے.۴ ؍جون ۱۹۰۶ء والسلام خاکسار غلام احمد
مکتوب نمبر۱۰۶ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗوَنُصَلِّیْ محبیّ اخویم خلیفہ صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ گولیاں اور پہلے اس سے پانچ روپیہ نقد بھی آپ کی طرف سے مجھ کو پہنچ گیا.خدا تعالیٰ جزائے خیر بخشے.امید کہ ہمیشہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں.امید کہ مرزا احمد بیگ کے دامادکی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی اس کا اشتہار آپ کو پہنچ ہی گیا ہوگا.۴ا؍ اگست ۱۹۰۶ء والسلام خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر۱۰۷ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗوَنُصَلِّیْ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک میں مبلغ پنجروپیہ مرسلہ آں محب مجھ کو پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.باقی سب طرح سے خیریت ہے.۸؍ ستمبر ۱۹۰۶ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۱۰۶ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗوَنُصَلِّیْ محبیّ اخویم خلیفہ صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ گولیاں اور پہلے اس سے پانچ روپیہ نقد بھی آپ کی طرف سے مجھ کو پہنچ گیا.خدا تعالیٰ جزائے خیر بخشے.امید کہ ہمیشہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں.امید کہ مرزا احمد بیگ کے دامادکی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی اس کا اشتہار آپ کو پہنچ ہی گیا ہوگا.۴ا؍ اگست ۱۹۰۶ء والسلام خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر۱۰۷ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗوَنُصَلِّیْ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک میں مبلغ پنجروپیہ مرسلہ آں محب مجھ کو پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.باقی سب طرح سے خیریت ہے.۸؍ ستمبر ۱۹۰۶ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر ۱۱۰ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویمخلیفہ ڈاکٹر رشید الدین صاحب سلّمہ اسسٹنٹ سرجن حسین آباد لکھنؤ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.میں ہمیشہ آپ کو دُعا میں یاد رکھتا ہوں.اور آپ سے مجھے محبت ہے مگر بباعث کثرت کاروبار تالیف جواب لکھنے میں کوتاہی ہوتی ہے.اس وقت باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ چونکہ گھر میں ابھی کسی قدر عارضہ باقی ہے اور دائی نے وہ آپ کی دوا استعمال کی تھی اور اس سے فائدہ ہوا.اس لئے پھر اسی دوا کی حاجت ہے اور وہ دوا وہی ہے جو سفوف کو کپڑہ پر چھڑک کر استعمال کرتے ہیں اور روئی کاسہارا دیتے ہیں یہ وہی سفوف ہے جس کے ساتھ لیپ بھی تھا جس کے سبب سے خارش ہوگئی تھی.اب وہی سفوف پھر درکار ہے اور لیپ کی ضرورت نہیںصرف سفوف درکار ہے.آپ براہِ مہربانی جہاں تک جلد ممکن ہو وہ سفوف روانہ فرماویں.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.تجویز انشاء اللہ بہت عمدہ ہے.خدا اس کو مبارک کرے (آمین) اچھا کیا جو آپ نے منظور کیاہے.راقم خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
مکتوب نمبر۱۱۱ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.پچھلے کئی روز ۱؎ سے دست اور کثرت پیشاب کامرض ساتھ ساتھ چلی جاتی ہے.بہتر ہوتا اگر بل پختہ تازہ کسی قدر آجائے.باقی خیریت ہے.اس طرف طاعون کا سخت دورہ ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۱۱۲ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبیّ اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.ترقی تنخواہ آپ کو مبارک ہو (آمین).گھر کے مشورہ اور اتفاق سے مَیں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ ستمبر کے مہینہ میں برخوردار محمود احمد کا اُس طرف روانہ ہونا مناسب نہیں سمجھا گیا اور یہی قرار پایا ہے کہ وہ اِنْشَائَ اللّٰہُ الْقَدِیْرُ آگرہ میں آپ کے پاس آئے گا.باقی بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۱؎.زائد کیا گیا.(ناشر)
مکتوب نمبر۱۱۳ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ انتیس روپے پہنچے.حسب تحریر تقسیم کی گئی جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.طبیعت کا یہ حال ہے کہ میں نے حسب تحریر آپ کے عرق کافور ترک کردیا تھا اور بجائے اس کے کوکووائن استعمال کرنا شروع کیا اور سکاٹش ایملشن مگر میں سمجھ نہیں سکتا.تعجب کی جگہ ہے کہ ابھی ایک دن بھی اس تبدیلی پر نہیں گزرا تھا.قریباً نصف رات کے بعد یا کچھ پہلے سونے کی حالت میں مجھ کو سخت بے قراری نہایت درجہ کی حرارت معلوم ہوئی اور دل چاہا ہے کہ تمام کپڑے اُتار کر باہر نکل جائوں.کچھ سمجھ نہیں آتی کہ اس قدر گھبراہٹ اور گرمی کیوں ہے اور لوگ لحاف میں لیٹے ہوئے سردی کی شکایت کرتے ہیں مگر مجھے گرمی محسوس ہوتی تھی نبض میں بھی تیزی آگئی ایسی گرمی کہ جس کا اثر خطرناک محسوس ہوتا تھا.آخر میرے دل میں گذرا کہ وہی عرق کافور پی کر دیکھوں تب میں نے اندازہ سے بھی زیادہ پی اور کچھ عرق کھجور پیا تب طبیعت بحال ہوگئی اس وقت سے بحال ہے.ابھی تک کچھ کم درجہ کی غیر طبع حرارت کے استعمال کرنے سے فائدہ ہوتا ہے.درحقیقت طبائع کا بھی کچھ ٹھکانہ نہیں.اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.باقی ہر طرح سے خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۱۱۴ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم محبیّ عزیزی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ‘ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا کارڈمرسلہ پہنچ گیا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَالْجَزَائِ.اس وقت آپ کو اس کام کے لئے تکلیف دیتاہوں کہ آپ مجھے ایک عمدہ عطر فتنہ کا بھیج دیں اور نیز یہ تحقیق کر یں کہ آیا لکھنؤ میں عطر مشک بھی ہوتا ہے یا نہیں میں نے بہت تلاش کیا وہ نہیں ملتا اور اگر وہ ہو تو وہ میرے مزاج کے بہت موافق ہے اور پھر اس کے بعد یہ کہ عطر عنبر بھی ہوتا ہے یا نہیں اگر موجود ہوں تو مجھے مطلع فرماویں.تا تین۳ تین۳ ماشہ ان دونوں میں سے منگوالوں.باقی سب خیریت ہے.اشتہار پہنچ گئے ہوں گے.والسلام ۱۸ ؍جنوی ۱۹۰۸ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۱۱۵ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا محبت نامہ پہنچا.اسجگہ بفضلہ تعالیٰ تادم تحریر خط ھٰذا ہر طرح سے خیریت ہے.خدا تعالیٰ آپ کو خوش و خرم رکھے.آمین.آپ کی منظوری رخصت کی بہت انتظار ہے.خدا تعالیٰ اپنا ایسا فضل و کرم کرے کہ رخصت منظور ہو جائے.جس کتاب کو میں تالیف کر رہا ہوں وہ بھی اب قریب الاختتام ہے.شائد مئی ۱۹۰۸ء تک ختم ہو جائے.معلوم نہیں کہ فرخ آباد میں کسی کو ہمارے سلسلہ کی اطلاع ہے یا نہیں.آپ کے لئے خوب موقعہ ہے کہ کچھ نہ کچھ تخم ریزی کر آویں.
اس جگہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۰۸ء کو ……صاحب۱؎ فنانشل اور چند دیگر انگریز حکام آنے والے ہیں صرف ایک دن قیام قادیان میں رہے گا.غالب یہ دل میں ہو گا کہ اس جماعت کے حالات دریافت کریں.ورنہ دورہ میں ایک دن قادیان کا قیام کرنا غیر معمولی معلوم ہوتا ہے.باقی خیریت ہے.والسلام ۱۵؍مارچ ۱۹۰۸ء خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ از قادیان ضلع گورداسپور مکتوب نمبر۱۱۶ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ خلیفہ رشید الدین صاحب قادیان بر رخصت یکسال السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ الحمدللہ ہم بخیروعافیت لاہور پہنچ گئے ہیں اور تا دم حال ہر طرح سے خدا تعالیٰ کا فضل ہے.آپ کی تحریر سے بڑا اطمینان ہوا اور آپ کے روپیہ آنے سے بڑی تسلی ہے.اللہ تعالیٰ ہر یک آفت سے محفوظ رکھے.آمین.اور میری دلی خواہش ہے کہ آپ تکلیف اٹھا کر ایک دفعہ اخویم بابو شاہ دین صاحب کو دیکھ لیا کریں اور مناسب تجویز کرتے رہیں اور میں بھی ان کے لئے پنج وقت دُعامیں مشغول ہوں.وُہ بڑے مخلص ہیں اُن کی طرف ضرور پوری توجہ رکھیں.اور ایک خط بلفّ خط ہذا ان کی طرف بھی بھیجتا ہوں وہ پہنچا دیں.باقی خیریت ہے.۳۰؍ اپریل ۱۹۰۸ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۱؎ (سرجیمزولسن صاحب فنانشل کمشنر پنجاب) تاریخ احمدیت جلد۲ صفحہ ۵۱۷
مکتوب نمبر۱۱۷ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین قادیان بر رخصت یکسال السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں لاہور میں اگر سخت مجبوری میں پیش گیا ہوں.ارادہ صرف یہ تھا کہ میم ڈاکٹر سے دوائیں دریافت کرکے قادیان میں جلد واپس آجائیں گے مگر وُہ میم ڈاکٹر کہتی ہیں کہ اگر ایک ماہ لاہور میں رہ کر علاج نہ کرایا تو حالت خطرناک ہوجائے گی اور جان کاخطرہ ہے.اس صورت میں سخت مجبوری کے ساتھ ایسی جگہ ٹھہرناپڑا.امید کہ آپ مکان کی حفاظت کا پورا پورا بندوبست رکھیں گے.کل اسباب قادیان میں ہیں اور دشمن بہت ہیں.آپ پورے طور پر نگرانی رکھیں اور بیت الدعا کا وہ حجرہ جہاں اسباب ہیں.ایک طرف اس کے چوبارہ ہے اور دوسری طرف وہ دالان ہے جو مسجد سے ملحق ہے دونوں طرف کی حفاظت چاہئے.بابوشاہ دین صاحب بڑے مخلص آدمی ہیں.ان کی نسبت جو کچھ آپ نے لکھا ہے وہ خط پڑھ کر بہت افسوس ہوا.اگر ایسے وقت میں قائمی قوت کے لئے تھوڑی تھوڑی دی جائے تو کیا مضائقہ ہے یہ دوا قادیان میں مل سکتی ہے.شاید اللہ تعالیٰ اسی کے ذریعہ سے فضل کرے.آپ ضرور ہر روز تکلیف اٹھا کر محض لِلّٰہ ایک دفعہ ان کو دیکھ لیا کریں.اور میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں.مرض گو کیسی خطرناک ہو مگر تاہم اگر خدا تعالیٰ چاہے تو نومیدی میں سچی امید پیدا کر سکتا ہے.وہ ہر چیز پر قادر ہے یہ تو معلوم ہے کہ حالت نازک ہے مگر اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر پورے غور کے ساتھ تدبیر کرتے رہیں.آپ کو ثواب ہو گا اور نیز میری خوشنودی کا باعث ہو گا.۱۰؍مئی ۱۹۰۸ء والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ
مکتوب نمبر۱۱۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.بابوشاہ دین صاحب کے تعہد اور خبرگیری میں آپ کو بہت ثواب ہو گا.میں بہت شرمندہ ہوں کہ ان کے ایسے نازک وقت میں قادیان سے سخت مجبوری کے ساتھ مجھے آنا پڑا.اور جس خدمت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے میں حریص تھا وہ آپ کو ملا.امید کہ ہر روز آپ خبر لیں گے اور دعا بھی کرتے رہیں.اور میں بھی دعا کرتا ہوں.میاں غلام محمد مع اپنی بیوی کے لاہور میں آئے ہیں.معلوم نہیں کہ ان کے بعد اس حصہ مکان میں جہاں وہ سوتے تھے کسی دوسرے کے سلانے کے لئے کیا بندوبست ہوا.یہ آپ کے ذمہ ہے کہ آپ ان کی جگہ کسی ایسے عیالدار اپنی جماعت کے آدمی کو سلائیں جو خیرخواہ اور ہمدرد ہو خواہ شیخ محمد نصیب کو سلاویں اور اگر وہ نہ آسکیں تو اپنی جماعت کے خاص لوگوں میں سے کسی کو سلاویں.خواہ مرزا محمود بیگ کو سلاویں.بندوبست قابل تسلی ہونا چاہئے.باقی سب خیریت ہے.چو۴تھے روز ڈاکٹر بینی آتی ہے.دوا شروع ہے اور شفا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.اللہ تعالیٰ جلدتر شفا بخشے.آمین ثم آمین.٭ والسلام ۱۳؍مئی ۱۹۰۸ء مرزا غلام احمد از لاہور ٭ اخبار بدر جلد۷نمبر۳۱ مورخہ ۱۳؍اگست ۱۹۰۸ء صفحہ۳
مکتوب نمبر۱۱۹ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عزیز ی محبیّ اخویم خلیفہ رشید الدین صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.اس دوا کا نام سیلی سلاس ہے.خوراک اس کی چھ رَتی تک ہے.نہار پانی کے گھونٹ سے دن میں تین مرتبہ صبح، دوپہر، شام ہر یک دفعہ چھ رَتی اور مناسب ہے کہ آپ اپنے والدصاحب اور ان کی صحت اور آخرت کے لئے بہت دعا کیا کریں.اور بردباری اور حلم اور درگذر اپنی عادت ڈالیں.آج کل جس قدر علماء کا تکفیر پر زور ہے.اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی جلدتر فرو ہو جائے گا.باطل کو قیام نہیں آخر حق غالب آجاتا ہے.سو جس قدر آپ ان دنوں میں دلوں میں جوش مخالفت دیکھتے ہیں.تھوڑے دنوں کے بعد نہیں رہے گا.والسلام بخدمت اخویم میاں عبدالکریم صاحب السلام علیکم مع …۱؎ والسلام مرزا غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر۱۲۰ژ محبیّ اخویم ڈاکٹرصاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مندرجہ ذیل کام مہربانی فرما کر آج کر دیں.(۱) حافظ احمد اللہ صاحب کی بیوی بیمار ہے.غور سے امتحان کریں کہ مسلول تو نہیں اور اگر مسلول نہیں تو کیا دِق ہے یا دونوں سے محفوظ.(۲) ایک مریضہ عورت بیمار کا مفصّل حال اس کے خاوند کا لکھا ہوا بھیجتا ہوں.آپ سوچیں کہ کیا بیماری ہے اور کیا علاج اور پھر پر چہ مذکورہ کل تک بھیج دیں.(۳) کو کاوائین کی بوتل بھیجتا ہوں آپ چکھ کر بتلاویں یہ کیا چیز ہے اگر آپ کا ارشاد ہو تو اس کو پھینک دیا جائے.(آٹھ روپے) ابھی منگوائی تھی.حافظ احمد اللہ صاحب کی بیوی کو اب دیکھ لیں اور اگر مناسب ہو تو صبح کودیکھیں اور قارورہ بھی دیکھیں.۲؎ ۱؎ و ۲؎ یہ مکتوب نامکمل ہیں.(ناشر)
حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ تقریباً ۱۸۸۱ء میں رنمل ضلع گجرات میں پیدا ہوئے.آپ رنمل ضلع گجرات کے مشہور پیروں کے خاندان میں سے تھے.آپ کے بھائی ڈاکٹر رحمت علی صاحب مرحوم اپنے خاندان میں سے پہلے احمدی ہوئے.ان کی تحریک و تبلیغ سے باقی تینوں بھائی بھی حلقہ بگوش احمدیت ہو گئے.حافظ صاحب قرآن حفظ کر کے غالباً ۱۹۰۰ء میں قادیان آئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ سے تمام دینی اور عربی علوم کی تحصیل کی.آپ کا حافظہ بے نظیر تھا.صفحوں کے صفحے صرف ایک دفعہ سن کر قریباً دوبارہ سنا سکتے تھے.آپ کو بلامبالغہ ہزاروں شعر عربی کے حفظ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے قصائد کے قصائد زبانی سنا دیتے تھے.آپ کی صرف ایک آنکھ میں بینائی تھی.مگر کتاب نہ پڑھ سکتے تھے.اس لئے تمام علوم سن سن کر تحصیل کئے.آپ نہایت خوش آواز قاری تھے کیونکہ غیراحمدی بھی ہمارے تبلیغی جلسوں میں آپ کی آواز سے مسحور ہو جاتے تھے.آپ کو خدا نے قبولیت بھی عطا فرمائی تھی.سب احمدی بچے، جوان ، بوڑھے آپ سے محبت رکھتے تھے اور دل و زبان سے آپ کی خوبیوں کے قائل تھے.آپ نہایت بے شر تھے.کسی سے جھگڑا نہ تھا.طبیعت نہایت مستغنی، کسی سے لالچ نہ تھا.آپ وجیہ اور بارعب تھے.آپ پر رویائے صالحہ اور کشف کا دروازہ بھی کئی مرتبہ کھولا گیا.ہندوستان کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ آپ شام و مصر اور ممالک یورپ تک ہو آئے تھے.ملک شام میں آپ کی تقریروں اور مباحثوں کی دھوم مچ گئی
تھی.آپ سلسلہ عالیہ کے مفتی تھے.قاضی بھی رہے تھے.مکرم مولاناجلال الدین صاحب شمس و مولانا ابوالعطاء صاحب اور دوسرے نوجوان مبلغین آپ کی تعلیم و تربیت کے رہینِ منت تھے.آپ نہ صرف خود عالم و مبلغ تھے.بلکہ عالم و مبلغ گر بھی تھے.وفات کے وقت آپ جامعہ احمدیہ کے پروفیسر تھے.ذہین حافظ اور قادر الکلام تھے.آپ وقت کے بڑے پابند تھے.باقاعدہ گھڑی رکھتے اور ہر کام کے موقعہ پر گھڑی دیکھتے.آپ نے مورخہ ۲۳؍جون ۱۹۲۹ء کو ۴۸ سال کی عمر میں وفات پائی.٭ آپ کے بھائی مرحوم رحمت علی احمدی انواروبرکات کے وارث تھے چنانچہ امام پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ جو کہ آپ نے یکم فروری ۱۹۰۴ء کی سیر اور قبل ازعشاء مجلس میں فرمائے.’’وہ واقعی قابل تعریف آدمی تھے اور ایک نمونہ تھے.اخلاص اور محبت سے پرُ تھے.تقویٰ بھی ان میں تھا اور نور سے ان کا منہ چمکتا تھا.حقیقت میں ایک آدمی ایسا فوت ہوا ہے کہ بظاہر اس جیسا پیدا ہونا مشکل معلوم ہوتا ہے.ایسے اخلاق اور محبت والے جماعت میں کم ہیں.خدا تعالیٰ قادر ہے.اس کی جناب میں کمی نہیں وہ اور کسی طور سے اس نقصان کو پورا کر دے گا.صحابہ کرام کس قدر شہید ہوتے تھے مگر تاہم کمی نہ ہوتی تھی اسلام دن بدن پھیلتا ہی گیا.فرمایا۱۵ یا ۲۰ دن یا شاید ایک ماہ کا عرصہ ہوا ہے مجھے الہام ہوا تھا.ایک وارث احمدی فوت ہو گیا.‘‘ پھر جیسا کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کے بھائی حافظ روشن علی صاحب نے ایک عریضہ برائے طلب رخصت حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے اس کا یہ جواب تحریر فرمایا.جس سے عزیز رحمت علی مرحوم کے اعمال حسنہ کی عنداللہ قدر کا اندازہ لگ سکتا ہے.٭٭ ٭ تلخیص از الفضل نمبر۱۰۰ جلد۱۶ مورخہ ۲۸؍جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۷،۸ ٭٭ البدر نمبر۶ جلد۳ مورخہ ۸؍فروری ۱۹۰۴ء صفحہ۲،۳
مکتوب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ درحقیقت مجھے بھی ان کے فوت ہونے سے بہت صدمہ ہوا ہے کہ بیان سے باہر ہے.ایسا نیک بخت، مخلص اور عالی ہمت جوان ہم سے جدا ہو گیا.ہزاروں میں سے کوئی اس کی مانند ہو گا لیکن تقدیر الٰہی سے کیا چارہ ہے.اگر کوئی مصیبت ایسی ہوتی جو پہلے مجھے خبر ہوتی تو میں دعا کرتا مگر یہ ناگہانی امر ہے.چاہئے کہ تمام عزیز خدا تعالیٰ کے فعل پر صبر کریں کہ صبر کا بہت اجر ہے اورآپ کو اجازت ہے کہ آپ چلے جاویں.٭ فروری ۱۹۰۴ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ٭ البدر نمبر۶ جلد۳ مورخہ ۸؍فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۴،۵
حضرت منشی زین الدین محمد ابراہیم صاحبؓ جناب منشی زین الدین محمد ابراہیم صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے مخلصوں میں سے تھے.بمبئی میں انجینئر تھے.حضرت اقدس ؑ نے آئینہ کمالات اسلام میں آپ کا ذکر کیا ہے.گویا اس تصنیف کے وقت آپ بیعت کر چکے تھے.آپ ایک کپڑے کی مل میں انجینئر تھے.عمر کے آخری حصے میں بہت اونچا سننے لگے تھے.آپ نے خلافت ثانیہ کی بیعت بھی کی تھی لیکن بعد میں غیرمبائعین کے ہم خیال ہو گئے.حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کتاب انجام آتھم میں آپ کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’ہمارے مخلص دوست منشی زین الدین محمد ابراہیم صاحب انجینئربمبئی وہ ایمانی جوش رکھتے ہیں کہ میں گمان نہیں کر سکتا کہ تمام بمبئی میں ان کا کوئی نظیر بھی ہے.‘‘ حضرت اقدس ؑ نے سراج منیر میں دنیا کو اپنے الہام یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ ۱؎ کے تحت اپنے مخلصین کی مثال دیتے ہوئے فرمایا ’’ کہاں ہے بمبئی جس میں منشی زین الدین ابراہیم جیسے مخلص پرُجوش طیار کئے گئے.‘‘ اسی طرح حضو ر آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۸۱ حاشیہ حصہ عربی میں اپنے محبّین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.’’ و من الاحباء فی اللّٰہ منشی زین الدین محمد ابراہیم بمبئی‘‘ کتاب البریہ میں آپ کا ذکر پرُامن جماعت کے ضمن میں فرمایا ہے.سراج منیر میں چندہ مہمان خانہ کے ضمن میں بھی آپ کا نام درج ہے.آپ کی وفات ۱۹۲۶ء میں ہوئی.وفات کے وقت غیر مبائع تھے اور نظام خلافت سے وابستہ نہ تھے.آپ کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے رؤیا میں دیکھا کہ مولوی عبدالکریم ۱؎ تذکرہ صفحہ ۱۹۵ ایڈیشن ۲۰۰۴ء
مرحوم آئے ہیں.زین الدین صاحب کو لے جانا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس رؤیا کی تعبیر کی جو منشی صاحب کی وفات پر دلالت کرتی تھی.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے آپ کا جنازہ پڑھا.جنازہ کے موقع پرآپ ؓ نے فرمایا.’’(زین الدین صاحب) یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے مخلصوں میں سے تھے.بمبئی میں انجینئر تھے.اب ضعیف العمر تھے.بہت اونچا سنتے تھے لیکن بعد میں سیٹھ اسماعیل آدم صاحب ؓ کے سبب غیرمبائعین کے ہم خیال ہو گئے.چونکہ خود وہ اونچا سنتے تھے اور سیٹھ اسماعیل آدمؓ کے ساتھ ان کے تعلقات تھے.اس لئے سیٹھ صاحب ہی ان کے کان تھے.سیٹھ صاحب بہت مخلص تھے اور اب بھی وہ مخلص ہیں لیکن جب وہ کسی حد تک پیغامی ہو گئے تو یہ بھی کچھ سست ہو گئے اور ادھر متوجہ ہو گئے… میرے نزدیک غیرمبائعین کا جنازہ پڑھنا جائز ہے.زین الدین کے متعلق بھی میں نے دیکھا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم آئے ہیں.میں نے دریافت کیا آپ کہاں؟ فرمانے لگے.میں بھی آیا ہوں اور حضرت صاحب بھی آئے ہیں.زین الدین کو لے جانا ہے.میں نے اس سے سمجھ لیا کہ رؤیا ان کی موت پر دلالت کرتی ہے.ان کی عمر ۹۵ یا سو سال کے قریب تھی.حضرت صاحب کے دیرینہ مخلص تھے… چند لوگ جنہیں حضرت صاحب بہت پیار کرتے تھے.ان میں سے ایک زین الدین صاحب بھی تھے.‘‘٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفاصفحہ ۲۷۰ ، ۲۷۱
مکتوب ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی مکرمی محبیّ اخویم منشی زین الدین محمدابراہیم صاحب سلمہُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج کارڈ مکرر آپ کا دربارہ خبر وفات عزیز بدرالدین موصول ہو کر اپنے دردناک الفاظ سے دوبارہ دردوغم کا تازہ کرنے والا ہوا.خدا تعالیٰ عزیز مرحوم کی جدائی پر آپ کو صبر عطا فرماوے.اور یہ سخت صدمہ جو آپ کو پہنچ گیا ہے.خدا بفضل وکرم خاص اس کا بدل عطا کرے.یہ عاجز اپنے دل کا حال بیان نہیں کر سکتا کہ قدرت خدا تعالیٰ سے اس عاجز نے غائبانہ صدق واخلاص عزیز مرحوم کی وجہ سے عزیزمرحوم کو اپنے دل میں جگہ دے دی تھی اور اپنے اوّل درجہ کے مخلصین اور محبیّن میںسے شمار کرتا ہے.اس واقعہ ہائلہ کی خبر پہونچنے سے چند روز پہلے ایسا اتفاق ہوا کہ اس عاجز نے ایک رسالہ’’ آسمانی فیصلہ‘‘ نام ایک مطبع میں چھپوایا تھا اور خدا تعالیٰ کی جناب میں نذر کر لی تھی کہ یہ سارا رسالہ مفت تقسیم کر دیا جائے گا.چنانچہ تقسیم کر دیا گیا.مگر اس کے مصارف کاغذ واجرت مطبع وغیرہ ایک سو روپیہ کے قریب ہو گیا تھا اور بوجہ صورت متوکلانہ روپیہ موجود نہ تھا اور میرے دل میں خیال آیا کہ یہ روپیہ بطور قرض کسی سے لے کر تقاضہ کُنندوں کو ادا کروں اور سوچا کہ کہاں سے لوں.بعد بہت سی سوچ کے میرے دل میں گزرا تھا کہ میں عزیز مرحوم … تا وہ اس قدر روپیہ آپ سے لے کر مجھ کو بطور قرضہ بھیج دیں.یہ خط لکھنے کو تھا کہ آپ کا خط پہنچ کر ایک طوفان غم کا موجب ہوا.مجھے سخت افسوس ہے کہ ایک پیارا دوست ہمارا جو اخلاص میں اعلیٰ درجہ کا رنگ رکھتا تھا.اس سال میں ہم سے جدا ہو
گیا.دل توڑنے والے واقعہ نے مجھ کو عجیب دردوغم میں ڈالا.میں نے اس عزیز مرحوم کے لئے دل وجان سے دعا کی ہے.اور آپ کے لئے بھی دُعا کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے فضل وکرم سے صبر عطا فرماوے.اس سے سخت تر صدمہ دُنیا میں نہیں.کہ باپ اپنے پیارے اور جوان لڑکے کو اپنے ہاتھ سے دفن کرے.… آپ کے دل کوتھام لے اور اس رنج کے بعد اپنے فضل سے کوئی بڑی خوشی پہنچا دے.آمین ثم آمین.ہمیشہ اپنی خیروعافیت سے مجھے مطلع ومسرورالوقت فرماتے رہیں.۴؍ فروری ۱۸۹۴ء والسلام خاکسار غلام احمد از سیالکوٹ مکان میر حکیم حسام الدین صاحب رئیس
حضرت مولوی حکیم سراج الدین صاحب ؓ آف مڈھ رانجھا حضرت مولوی حکیم سراج الدین صاحبؓ مڈھ رانجھا کے رہنے والے تھے.آپ قرآن مجید اورمشکوٰۃ شریف سے خوب واقف تھے اورخود عامل بھی تھے اور لوگوں کو بھی انہی میں سے وعظ و پند سنایا کرتے تھے اورپہلا وعظ اہل و عیال پر ہوتا تھا.طب آپ نے باقاعدہ لاہور میں حاصل کی تھی اور تجربہ تعلیم سے بڑھ کر تھا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر جا کر بیعت کی اور واپس آکر خاموشی اختیار نہ کی بلکہ ہروقت تبلیغ میں کوشاں رہتے.حضرت کی کتابیں خریدتے.لوگوں کو جو آپ کے پاس بیٹھتے ان کو سناتے اخباریں دکھاتے.غرض یہ کہ اب آپ کے لئے آسمان نیا تھا اور زمین بھی نئی تھی.تضرع بھی حد سے بڑھ کر تھا کہ اللہ تعالیٰ ہدایت کے لئے لوگوں کے دل کھولے.باوجود امور خانہ داری و پیرانہ سالی جس کو موئے سفید ظاہر کر رہے تھے.تہجد آپ نے نہ گرمی میں چھوڑا نہ سردی اور نہ برسات میں.آپ کی عمر پینسٹھ سال کے قریب تھی کہ یکم جولائی ۱۹۲۸ء کو واصل باللہ ہوئے.٭ ٭ تلخیص از الحکم نمبر۳۴ جلد۳۷ مورخہ ۲۱؍ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۷،۸
فہرست مکتوبات بنام حضرت مولوی حکیم سراج الدین صاحبؓ آف مڈھ رانجھا مکتوبات تاریخ تحریر صفحہ ۱ ۷؍ فروری ۱۹۰۸ء ۴۲۵ ۲ بلا تاریخ ۴۲۶
مکتوب نمبر۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ آپ کے مرسلہ مبلغ پچاس روپے مجھ کو پہنچے جو بطورامانت رکھے گئے مگر حال یہ ہے کہ نلکا کی اسقدر ضرورت نہیں کہ کنواں پاس موجود ہے.اور ایک ضرورت درپیش ہے اور وہ یہ ہے کہ پختہ مہمان خانہ کا صحن قابل فرش کے ہے.اگر اس میں پختہ فرش ہو جائے تو مہمانوں کو یہ فائدہ ہو گا کہ اس صورت میں چارپائیوں کی چنداں ضرورت نہیں ہو گی اور غرباء مساکین اسی پر چٹائی بچھا کر سو سکتے ہیں اور صحن پاکیزہ اورصاف ہو جائے گا.مدت سے یہی تجویز میرے دل میں ہے لیکن بباعث نہ میسر آنے سرمایہ کے ملتوی چلی آتی ہے.اس کا اندازہ معلوم کیا گیا تھاتو ہوتے ہیں.سو میں مناسب دیکھتا ہوں کہ یہ پچاس روپے اس کارِخیر کے لئے امانت رکھے جائیں.جب خدا تعالیٰ مبلغ دو سو روپیہ میسر کر دے تو پھر کام فرش کا شروع کرادیا جائے.یہ عمل بھی بطور صدقہ جاریہ کے ہے کیونکہ جب تک یہ فرش رہے گا غرباو مساکین کے کام دے گا.تب تک آپ کو ثواب ہوتارہے گا.٭ ۷؍فروری ۱۹۰۸ء والسلام محررہ غلام احمد لفافہ کا پتہ.بمقام مڈھ رانجھا ضلع شاہ پور بخدمت محبی اخویم میاں سراج الدین صاحب راقم خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۷؍فروری ۱۹۰۸ء ٭ الحکم جلد۳۷ نمبر۳۴ مورخہ ۲۱؍ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۸
مکتوب نمبر۲ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ آپ کا خط پہنچا.آپ کا مبلغ روپیہ بطور امانت رکھا گیا ہے.اب اپنی تجویز ملتوی کر کے یہی تجویز ہے کہ نلکہ لگا دیا جائے.تا آپ کا مقصود پورا ہو.فرش کا کام اور صورت سے ہو جائے گا.خدا تعالیٰ آپ کے لڑکے کی عمر دراز کرے.آمین٭ والسلام مرزا غلام احمد از قادیان ٭ الحکم جلد۳۷ نمبر۳۴ مورخہ ۲۱؍ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۸
حیدر آباد سے ایک صاحب عابد حسین نام کا خط تجدیدِ بیعت کے واسطے حضرت کی خدمت میں پہنچا.حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا کہ: مکتوب آپ کی جدید بیعت منظور ہے.آئندہ استقامت رکھیں اور خدا تعالیٰ سے استقامت کے لئے دعا کرتے رہیں.٭ مرزا غلام احمد ٭ ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۷۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ
حضرت شیخ عبد الرحمن صاحبؓ نومسلم بھیرہ حضرت شیخ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ (سابق سردار مہرسنگھ ) ڈومیلی تحصیل پھگواڑہ (ریاست کپورتھلہ) ضلع جالندھر کے ایک سکھ خاندان کے چشم و چراغ تھے.آپ کا نام والدین نے مہر سنگھ رکھا تھا.آپ کی ولادت سال ۱۸۷۲ء کو ہوئی.آپ کے والد صاحب کا نام سردار دسوندھارام تھا.سکھ قوم اور ہندوانہ طرز معاشرت سے نالاں تو تھے ہی.بغرض علاج حضرت مولوی خدا بخش صاحب جالندھری کی وساطت سے حضرت حکیم مولانا نورالدین ؓ کی خدمت میں بغرض علاج بھیرہ تشریف لے گئے.قادیان حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی خدمت میںحاضر ہو کر اٹھارہ سال کی عمر میں ۱۴؍دسمبر۱۸۹۰ء کو بیعت کی.رجسٹربیعت میں آپ کا نام ۲۱۱ نمبر پر درج ہے.بھیرہ میں دسویں تک تعلیم حاصل کی اور قادیان میں بی.اے کیا.۱۹۰۲ء میں آپ کی شادی حضرت خلیفہ نور دین جمونیؓ کی صاحبزادی غلام فاطمہ سے ہوئی جن کو حضور کے گھر خدمت کی سعادت حاصل ہوئی.آپ نے ۳۶ علمی و تحقیقی کتب تصنیف کیں.آپ سے مروی روایات ’’سیرت المہدی‘‘ میں درج ہیں.بیعت کے ریکارڈ میں ساکن دہلی اور عمر پانزدہ سال ہے.آپ تین سال کے لئے جزائر انڈیمان میں بطور ہیڈماسٹر رہے اہل و عیال کو بھی ساتھ بھجوایا گیا.اس بنیاد پر آپ کالے پانی والے بھی مشہور ہوئے تھے.تحفہ قیصریہ میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی میں شرکت اور چندہ دہندگان اور کتاب البریہ میں پرُامن جماعت میںذکر ہے.٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۲۸۵،۲۸۶
مکتوب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ محبیّ اخویم ماسٹر عبد الرحمن صاحب سلمہُ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کے سب خطوط پہنچے جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.مگر میرے نزدیک سب پہرہ چوکی بے فائدہ ہے جب تک مسجد کے اندر اور بیت الفکر کے اندر دو تین آدمی نہ سلائے جائیں سو یہ کوشش کریں کیونکہ گھر کے لوگ سب باہر کے دالان میں رہتے ہیں اور دالان خالی رہتا ہے.بہت تاکید ہے.٭ والسلام خاکسار میرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ ٭ اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ ۱۲۹
حضرت منشی عبد الرحمن صاحب کلرکؓ جناب منشی عبد الرحمن صاحب ساکن گجرات، جناب شیخ رحمت اللہ صاحب ؓ کے بھائی تھے.آپ کی بیعت ۱۷۶ نمبر پر رجسٹر بیعت میں درج ہے.حضرت منشی صاحب اندرون موچی دروازہ لاہور میں رہتے تھے.پہلے ریلوے میں کلرک تھے پھر بسلسلہ روزگار افریقہ چلے گئے تھے.آپ کو جماعت احمدیہ کے پہلے جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء میں شمولیت کی توفیق ملی جس میں ۷۵افراد شامل ہوئے.’’آسمانی فیصلہ‘‘ میں حضور نے آپ کا نام منشی عبد الرحمن صاحب کلارک لوکو آفس لاہور لکھا ہے.تحفہ قیصریہ اور کتاب البریہ میں حضرت اقدس ؑ نے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں ، جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور پرُامن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر کیا ہے.خلافت ثانیہ کی بیعت نہ کی اور نظام خلافت سے غیرمبائعین میں شامل ہو گئے.خلافت ثانیہ کی ابتداء میں وفات پائی.٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۲۵۳، ۲۵۴
وطن سے دُور اور اپنے عزیز سے ہمیشہ کے لئے جدا ہمارے مکرم دوست السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ خدا آپ کے ساتھ ہو اور آپ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے.عزیز کی وفات کی خبر آپ کو پہنچ چکی ہوگی.ایسے وقت میںکن الفاظ کے ساتھ میں آپ کے پاس پہنچ سکتا ہوں جن سے آپ کے دل میں طمانیت ہو لیکن حضور اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور میں جب یہ جانکاہ خبر پہنچی ہے تو حضور نے مجھے حکم دیا ہے کہ ان کی طرف سے میں آپ کو خط لکھوں جس سے آپ کے دل کو اطمینان اور آرام حاصل ہو.ایسے جوان خوبصورت ہونہار فرزند کی جدائی ایک بہت بڑا صدمہ ہے اور اس کا برداشت کرلینا ہر ایک شخص کا کام نہیں لیکن ایک تازہ واقعہ اسی قسم کا یہاں بھی ہو چکا ہے اور وہ آپ کے امام اور امیر کے گھر میں ہو اہے.میں دیکھتا تھا کہ حضرت اقدس ؑ کو میاں مبارک احمد کے ساتھ جس قدر محبت تھی آپ کو خود معلوم ہو گا اور اس کی وفات ایک سخت صدمہ تھا لیکن حضرت نے کیا خود بیوی صاحبہ نے اس صبر کے ساتھ اس صدمہ کو برداشت کیا.فرمایا جب خدا کی اس میں رضا ہے تو میں خدا کو راضی رکھنا چاہتی ہوں خواہ ہزار مبارک احمد وہ لے لے.سو میرے پیارے آپ کا عزیز آپ کو بہت عزیز تھا.پر خدا نے اس کو لیا اور آپ کی پیاری چیز اس نے لے لی.لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ۱؎.جب تک کہ تم اپنی پیاری چیزیں خدا کی راہ میں دے نہ دو.تم بھلائی کو پا نہیں سکتے.خدا بڑا قادر اور حکیم ہے.اس نے آپ پر ایک ابتلاء وارد کیا ہے اور اس کا فضل خالی از حکمت نہیں اور ابتلاء ایک بڑے انعام کو اپنے ساتھ لاتا ہے.ابتلا ء گذشتہ گناہوں کو بخشواتا ہے اور آئندہ کے واسطے نعمتوں کا دروازہ کھولتا ہے.حضرت ایوب علیہ السلام کے درجنوں بیٹے ہلاک ہوئے پر اس نے صبر کے ساتھ سب کچھ پایا اور پہلے سے بھی بڑھ کر پایا.خدا تعالیٰ نے آپ کو ایک بڑا موقعہ دیا ہے کہآپ اس کی رضا کو حاصل کر لیں.کیونکہ دنیا میں سب سے بھاری شے جو آپ کی تھی وہ اس نے لے لی اور آپ سے مانگے بغیر لے لی.کیونکہ وہ مالک ہے پس آپ اپنے ۱؎ ٰال عمران : ۹۳
مالک کو خوش کر لیں اگر وہ خوش ہو گیا تو پھر کوئی غم نہیں بلکہ خوشی ہی خوشی ہے.میرے خیال میں بہتر ہو گا کہ اب آپ تین ماہ کی رخصت حاصل کر کے وطن کو آجاویں.آپ کو گئے ہوئے بھی بہت عرصہ ہو گیا ہے.خدا آپ کو صبر جمیل عطا فرماوے.آمین.۲۹؍جنوری ۰۸ء آپ کا خادم محمد صادق عفی اللہ عنہ قادیان اس خط کو لکھ کر میں نے حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کیا کہ حضور اپنے دست مبارک سے بھی چند سطریں لکھ دیں.تاکہ بابو صاحب کے مرُدہ دل کے واسطے موجب ِ زندگی ہوں.جس پر حضور نے مفصلہ ذیل چند سطور ارقام فرمائیں.مکتوب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.سنت اللہ اسی طرح سے جاری ہے کہ جب کسی پر مصیبت نازل کرتا ہے تو بعد میں اس کے لئے کوئی آرام اور خوشی کا بھی سامان کر دیتا ہے سو مناسب ہے کہ پوری استقامت کے ساتھ خدا تعالیٰ پر توکل کریں.خدا تعالیٰ اور اولاد دے دے گا.ان مصیبتوں سے دنیا میں کوئی خالی نہیں.آخر ہرایک شخص صبر ہی کرتا ہے لیکن صبر وہی خدا تعالیٰ کے نزدیک قبول ہوتا اور قابل اجر ہوتا ہے جو تازہ مصیبت کے وقت کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے.مبارک وہ لوگ کہ جو اس کی قضا ء و قدر کی تلخی پر صبر کرتے ہیں.٭ والسلام میرزاغلام احمد ٭ بدر نمبر۵ جلد۷ مورخہ ۶؍فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بحضور فیض گنجور جناب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ نہایت ہی عاجزانہ عرض ہے کہ بندہ اس جگہ نو۹یں جماعت میں پڑھتا ہے لیکن حضور کی متواتر اور برکت والی دو روزہ تقریر سے بندہ کو بہت ہی اثر ہوا.اس واسطے حضور کی خدمت میں عرض ہے کہ بندہ اپنے والدین کی رضامندی سے اپنی زندگی اللہ کی راہ میں بڑی خوشی سے وقف کرتا ہے.اِلَّا مَا شَائَ اللّٰہُ.اور جو جو علم حضور میرے لئے تجویز فرماویں وہی بندہ کو صدقِ دل سے منظور ہیں.والسلام درخواست دعا حضور کا تابعدار خاکسار عبدالرحمن ولد مستری قمر الدین احمدی بھیروی مکتوب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ بہت عمدہ اور مبارک راہ ہے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.خدا اس میں برکت دے.یہ ارادہ معرفت الحکم و بدر شائع کر دیں.٭ والسلام مرزا غلام احمد ٭ الحکم نمبر۲ جلد۱۰ مورخہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۳
حضرت شیخ عبد الوہاب صاحبؓ (نومسلم) آپ کے والد صاحب کا نام پنڈت چندو لال تھا اور آپ چار بھائیوں میں سے تیسرے نمبر پر تھے.سن شعور کو پہنچے تو سکول جانا شروع کر دیا.سکول میں ایک دن ایک لڑکے نے کہا کہ ایک مسلمان لڑکے نے شوجی مہاراج (ایک پتھر کا بت)کو اینٹ ماری تو اس کے سر سے گھڑوں خون بہہ گیا.کہتے ہیں کہ یہ بات سن کر مجھ کو یقین نہ آیا چنانچہ میں نے خود شوجی مہاراج کے سر میں اینٹیں ماریں مگر خون نہ نکلا.اس واقعہ کے بعد سے میرا دل اس مذہب سے بیزار ہونا شروع ہو گیا.چنانچہ انہوں نے آٹھویں جماعت میں ہیسکول چھوڑ دیا اور والد صاحب کے پنڈت ہونے کی وجہ سے پنڈتائی، جنم پتری، برس پھل اور ٹیوہ وغیرہ بنانے میں خاص ملکہ پیدا ہو گیا اور اس کام میں کافی شہرت حاصل کی.حضرت شیخ صاحب ایک نیک سیرت بزرگ حاجی امیر محمد صاحب (جو مقبرہ بہشتی میں مدفون ہیں) کی خدا ترسی اور نیک اخلاق سے بہت متأثر ہوئے اور ان کے نیک نمونے کی وجہ سے اسلام کی چند کتب مطالعہ کیں جنہوں نے ان کے دل کی کایا پلٹ دی اور آپ ہندوازم چھوڑ کر علی الاعلان مسلمان ہو گئے.کچھ عرصہ بعد ایک آریہ برہمن سے ان کی ملاقات ہوئی تو اس نے اسلام پر کچھ اعتراضات کئے جن کے جوابات کے لئے آپ مختلف مسلمان علماء کے پاس گئے مگر کسی سے بھی تسلی بخش جواب نہ ملنے کی وجہ سے بہت دلبرداشتہ ہوئے اور اسلام چھوڑ کر دوبارہ شدھی ہونے کا فیصلہ کر لیا.جب آپ نے شدھی ہونے کے لئے لاہور کا سفر شروع کیا تو راستے میں خیال آیا کہ
شدھی تو ہونا ہی ہے تو کیوں نہ قادیان سے ہی ہو آئوں جہاں اور مولوی میں نے دیکھے وہاں یہ بھی دیکھ لوں.شیخ صاحب فرماتے ہیں.مجھے یہ تو یاد نہیں کہ میں کس سن میں قادیان گیا.البتہ اس وقت مولوی عبد الکریم صاحبؓ زندہ تھے.سب سے پہلے میں نے مسجد میں مولوی عبد الکریم صاحبؓ کو دیکھا تو سمجھا یہی مرزا صاحب ہیں.جب نماز کے وقت حضرت مسیح موعود ؑ باہر تشریف لائے تو سب کے سب ادب کے لئے کھڑے ہو گئے.اس وقت میں نے جانا کہ یہ مسیح موعود ؑ ہیں.حضرت شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ میں قریب دو ماہ دارالامان ٹھہرا.خدا کا فرستادہ نبی ہم میں مغرب سے عشاء تک بیٹھتا اور میں اس سے نور حاصل کرتا.دن میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی صحبت سے مستفید ہونے سے میرے تمام اعتراضات کے مفصّل اور مدّلل جوابات مل جاتے.آخر میرے دل نے فیصلہ کیا کہ قادیان والے جو اسلام پیش کرتے ہیں.اس کا مقابلہ کوئی مذہب کر ہی نہیں سکتا.یہ واقعی نور ہی نور ہے اور تمام مذاہب میں ظلمت، تاریکی.اس کے بعد میں بیعت کر کے واپس آ گیا.شیخ صاحب نے اپنی والدہ اور بھائیوں کو بھی تبلیغ کی اور وہ خدا کے فضل کے ساتھ سب احمدی ہو گئے.٭ ٭ تلخیص از الفضل نمبر۲۷۶ جلد ۲۶ مورخہ یکم دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۴،۵
مکتوب ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مجھ کو یہ بات سن کر بہت رنج ہوا اور دل کو سخت صدمہ پہنچا کہ تم اپنی والدہ مسماۃ نکیّ کی کچھ خدمت نہیں کرتے اور سختی سے پیش آتے ہو اور دھکے بھی دیتے ہو.تمہیں یاد رہے کہ یہ طریق اسلام کا نہیں ہے.خدا اور اس کے رسول کے بعد والدہ کا وہ حق ہے جو اس کے برابر کوئی حق نہیں.خدا کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ جو والدہ کو بدزبانی سے پیش آتا ہے اور اس کی خدمت نہیں کرتا اور نہ ہی اطاعت کرتا ہے وہ قطعی دوزخی ہے.پس تم خدا سے ڈرو.موت کا اعتبار نہیں ہے.ایسا نہ ہو کہ بے ایمان ہو کر مرو.حدیثوں میں آتا ہے کہ بہشت ماں باپ کے قدموں کے نیچے ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص کی والدہ کو رات کے وقت پیاس لگی تھی اس کا بیٹا اس کے لئے پانی لے کر آیا اور وہ سو گئی.بیٹے نے مناسب نہ سمجھا کہ اپنی والدہ کو جگائے.تمام رات پانی لے کر اس کے پاس کھڑا رہا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ کسی وقت جاگے اور پانی مانگے اور اس کو تکلیف ہو.خدا نے اس خدمت کے لئے اس کو بخش دیا.سو سمجھ جائو کہ یہ طریق تمہارا اچھا نہیں ہے اور انجام کا ر ایک عذاب میں گرفتار ہو جاوے اور اپنی عورت کو بھی کہو کہ تمہاری والدہ کی خدمت کرے اور بدزبانی نہ کرے اور اگر باز نہ آوے تو اس کو طلاق دیدو.اگر تم میری ان نصیحتوں پر عمل نہ کرو تو میں خوف کرتا ہوں کہ عنقریب تمہاری موت کی خبرنہ سنوں.تم نہیں دیکھتے کہ خدا تعالیٰ کاقہر زمین پر نازل ہے اور طاعون دنیا کو کھاتی جاتی ہے.ایسا نہ ہو کہ اپنی بدعملی کی وجہ سے طاعون کا شکار ہو جائو.اور اگر تم اپنے مال سے اپنی والدہ کی خدمت کرو گے تو خدا تمہیں برکت دے گا.یہ وہی والدہ ہے کہ جو دعائوں کے ساتھ تمہیں ایک
مصیبت کے ساتھ پالا تھا اور ساری دنیا سے زیادہ تم سے محبت کی.بس خدا اس گناہ سے درگزر نہیں کرے گا.جلد توبہ کرو.جلد توبہ کرو ورنہ عذاب نزدیک ہے.اس دن پچھتائو گے دنیا بھی جائے گی اور ایمان بھی.میں نے باوجود سخت کم فرصتی کے یہ خط لکھا ہے.خدا تمہیں اس لعنت سے بچاوے جو نافرمانوں پر پڑتی ہے.اگر تمہاری والدہ بدزبانی کرتی ہے اور کیسی ہی بدخلقی کرتی ہے خواہ کیسی ہی تمہارے نزدیک بری ہے وہ سب باتیں اس کو معاف ہیں کیونکہ اس کے حق ان تمام باتوں سے بڑھ کرہیں.تمہاری خوش قسمتی ہو گی کہ میری اس تحریر کو پڑھ کر توبہ کرو اور سخت بدقسمتی ہو گی کہ میری اس تحریر سے فائدہ نہ اٹھائو.والسلام علی من اتبع الھدیٰ ۱۲؍فروری ۱۹۰۷ء خاکسار مرزا غلام احمد مسیح موعود انگوٹھا کا نشان
حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیرّ ؓ حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب ؓ نیرّ دسمبر ۱۸۸۳ء میں ریاست کپورتھلہ میں پھگواڑہ کے قریب ایک گائوں میں پیدا ہوئے.آپ کے والد محترم کا نام (حافظ) محمد سلیمان تھا.آپ کے بچپن میں والد صاحب اور لڑکپن کی عمر میں والدہ صاحبہ کا انتقال ہو گیا.آپ پانچویں یا چھٹی کلاس میں تھے کہ حضرت حاجی حبیب الرحمن صاحب حاجی پورہ کے ساتھ قادیان جانا شروع کیا اور بالآخر ۱۹۰۱ء میں حضرت مسیح موعود ؑ کے ہاتھ پر بیعت کر کے وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کے مصداق ہو گئے.تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد رکونہ ضلع بہرائج میں ملازمت کرنے لگ گئے.وقتاً فوقتاً قادیان آتے رہتے اور مسیح پاک کا دیدار کرتے رہتے.آپ ان مجاہدین کی صف اوّل میں تھے جنہوں نے اندرون ملک کے علاوہ یورپ اور افریقہ میں تبلیغ ، اشاعت اسلام کی توفیق پائی.قادیان آنے سے قبل کپورتھلہ میں سکول ماسٹر تھے مگر بیعت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقناطیسی محبت آپ کو کھینچ کر بالآخر دیارِحبیب میں لے آئی اور آپ ستمبر ۱۹۰۶ء سے قادیان میں رہائش پذیر ہو گئے.ابتداء ً آپ مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے استاد مقرر ہوئے اور کئی سال تک نہایت اخلاص و محنت سے یہ خدمت سرانجام دی.۱۵؍جولائی ۱۹۱۹ء کو چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے ساتھ اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے انگلستان روانہ ہوئے.انگلستان میں کئی ماہ فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد آپ کو افریقہ بھجوایا گیا۲۱؍فروری ۱۹۲۱ء کو آپ نے ساحل افریقہ پر قدم رکھا اور سب سے پہلے سیرالیون اور مغربی افریقہ کے دوسرے علاقوں میں پہنچے.آپ کو حیرت انگیز کامیابی نصیب ہوئی اور ہزاروں افریقی حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.ایک سال نائیجیریا ٹھہرنے کے بعد دوبارہ
انگلستان بھجوا دیا گیا جہاں سے آپ ۱۹۲۴ء کے آخر میں حضرت فضل عمر ؓکی رفاقت میں بانیل و مرام واپس آگئے.انگلستان سے واپسی کے بعد آپ نے پانچ سال تک دعوت و تبلیغ کے سلسلہ میں بھوپال اور حیدرآباد میں خدمت سرانجام دیں.۱؎ آپ ۱۹۴۸ء میں قادیان سے پاکستان آ گئے.کچھ عرصہ لاہور رہنے کے بعد گوجرانوالہ رہائش اختیار کر لی.چند ماہ بیمار رہنے کے بعد آپ ۱۷؍ستمبر ۱۹۴۸ء کو خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے سایہ میں ہمیشہ کے لئے چھپ گئے.اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.آپ کی امانتاً تدفین گوجرانوالہ میں ہی ہوئی.اور ۲۹؍جنوری ۱۹۵۵ء کو آپ کی نعش بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپرد خاک کر دی گئی.٭ فہرست مکتوبات بنام حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیرّ ؓ مکتوب نمبر تاریخ تحریر صفحہ ۱ بلا تاریخ ژ ۴۵۹ ۲ بلا تاریخ ژ ۴۶۰ ۳ بلا تاریخ ژ ۴۶۱ ۴ بلا تاریخ ۴۶۲ ۵ بلا تاریخ ۴۶۲ ۱؎ تاریخ احمدیت جلد۲ صفحہ ۲۰۰ ٭ تلخیص از مقالہ بعنوان حضرت مولوی عبد الرحیم نیرّ صاحبؓ از مکرم نعمت اللہ بشارت صاحب متعلّم جامعہ احمدیہ
سیدی و مولائی ادام اللّٰہ فیضکم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ افسوس کہ میری طبیعت اچھی ہو کر پھر بگڑ جاتی ہے.کل کسی قدر بخار پھر ہو گیا اور کل تمام دن زور سے کھانسی آتی رہی.رات ایک دفعہ کھانسی آئی اور پسینہ آیا.صبح سے اب دس بجے تک بڑے زور سے تین دفعہ آ چکی ہے.آنکھوں سے پانی نکل پڑتا ہے.سخت تکلیف ہوتی ہے.میرے لئے دعا فرماویں اور کوئی دوا بھی عنایت کریں.شاید اللہ اس سے ہی شفا بخشے.افسوس میں نے کچھ بھی نہیں کیا.میری خواہش تھی کہ حضور کی مزید کامیابی دیکھوں.خدا معلوم اب میسر آئے گی یا نہیں.خیر میں دُعا سے ناامید نہیں.میرے لئے زور سے دعا فرماویں.عاجز دعا کا سخت محتاج عبدالرحیم نیرّ بڑی شرم کے ساتھ چار آنے اس خط میں رکھتا ہوں اور امید ہے کہ آج اس غریب نادار بیمار کے لئے خاص توجہ سے دعا کی جائے گی.مکتوب نمبر۱ ژ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ انشاء اللہ میں زور سے دعا کروں گا اور کوئی دوا بھی تجویز کروں گا.دوسرے تیسرے دن یاد دلاتے رہیں.٭ والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭ الحکم نمبر۱۵ تا ۱۸ جلد۴۲ مورخہ ۲۸؍مئی و ۷؍ جون ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۰
چند روز کی صحت کے بعد میں پھر بیمار ہو گیا.زکام بخار خفیف کھانسی خشک اب پھر زور پر ہے.سوائے دعا کے کوئی علاج نہیں.سیدی! اس سے قبل مجھے کوئی فکر نہیں تھا.کیونکہ حضور کے قدموں میں آچکا تھا اور سب سے قطع تعلق کر لیا تھا.مگر اب شادی کرنے سے دو فکر ہو گئے.ایک تو قرض دوسرا بیوی.قرض کی بے باقی کی کوئی صورت ظاہراً سوائے زندگی کے کوئی نہیں دیکھتا.اگرچہ میں ہجرت کے وقت سے ہی خدمات مفوضہ سے بڑھ کر خدا کے فضل سے ہی کام کرتا رہا ہوں.ابھی میرے دل میں بہت امیدیں ہیں اور کچھ اور خدمت کرنا چاہتا ہوں.اللہ کرے میں حضور کی مزید کامیابی دیکھ سکوں.میری صحت کے لئے دعا فرماویں.مجھے سخت گھبراہٹ ہے.متواتر دعا فرماویں.عبد الرحیم (نیرّ) مکتوب نمبر۲ژ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ انشاء اللہ میں بہت دعا کروں گا.کبھی کبھی صحت تک یاد دلاتے رہیں.کل سے میں بھی دردِ جگر سے بیمار ہوں.٭ والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭ الحکم نمبر۱۵ تا ۱۸ جلد۴۲ مورخہ ۲۸؍مئی و ۷؍ جون ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۰
مکتوب نمبر۳ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط مجھ کو ملا.چونکہ خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق کئی نشان میری تائید میں ظاہر ہونے والے ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ جلد ظاہر ہوں گے ا س لئے میرے نزدیک بالفعل مباہلہ کی ضرورت نہیں.آپ ان آسمانی نشانوں کے منتظر رہیں.باقی سب خیریت ہے.اور اخویم ذوالفقار علی خان اور تمام دوستوں کو السلام علیکم.٭ خاکسار مرزا غلام احمد عفی اللہ ---------- حضرت مولانا عبد الرحیم نیر صاحب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ لکھا: سیدی و مولای علیک التحیات و السلام آیت مجید اِنَّکَ لَعَلـٰی خُلُقٍ عَظِیْم ۱؎ مجھے جرأت دلاتی ہے کہ حضور کو اس عریضہ کے جواب تحریر فرمانے کی تصدیع دوں.خادم کی رخصت قریب الاختتام ہے اس لئے بعد از جمعہ واپس جانے کی اجازت کا طلبگار ہے.میں حضور کے دعاوی کا ہندی زبان میں ترجمہ کرنا چاہتا ہوں، آیا کشتی نوح میں سے حضرت کی تعلیم کا حصہ ہی پہلے لے لوں یا جو حکم ہو.دعا فرماویں کہ اللہ پاک خادم کو سلسلہ عالیہ کی اشاعت میں کامیاب کرے.دعا کا خواستگار حضور کا ایک ادنیٰ غلام عبد الرحیم آمدہ از پورب ۲۳؍جون ۱۹۰۵ء ٭ الحکم جلد۴۱ نمبر۲مورخہ ۲۸؍جنوری ۱۹۳۸ء صفحہ ۷ ۱؎ القلم : ۵
مکتوب نمبر۴ حضرت اقدس ؑ کا جواب : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ چونکہ تعلق ملازمت ہے اس لئے آپ کو اجازت ہے کہ آپ تشریف لے جاویں اور نیز میں آپ کو خوشی سے اجازت دیتا ہوں کہ آپ کشتی نوح کی نصائح کا حصہ ترجمہ کر کے اس ملک میں شائع کریں اور نیز بہتر ہو گا اگر میرے دعویٰ اور ثبوت اور نشانوں کے متعلق کسی قدر جو تبلیغ کے لئے کافی ہو اس زبان میں ترجمہ کر کے شائع کر دیں اور مناسب ہے کہ کسی وقت دوبارہ آنے کا قصد رکھیں کہ ضرروری ہے.٭ والسلام مرزا غلا احمد عفی عنہ ---------- الحمد للہ کہ حضور کی دعا سے اب میری طبیعت بہت اچھی ہے.بقایا مرض کے دفعیے کے لئے دعا فرماویں.فقط والسلام ۲۸؍فروری ۱۹۰۷ء عاجز عبد الرحیم مکتوب نمبر۵ حضور کا جواب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ الحمد للہ کچھ افاقہ ہے.اللہ تعالیٰ صحت کامل عطا فرماوے.انشاء اللہ سلسلہ دعا کا جاری رہے گا.٭ ٭ والسلام مرزا غلام احمد ٭ رجسٹر روایات صحابہ کرام نمبر۱۱ صفحہ ۳۱۳،۳۱۴ ٭٭ رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۱۱ صفحہ ۳۰۳
حضرت ماسٹر عبد العزیز صاحب ایمن آبادیؓ حضرت حکیم عبد العزیز خان صاحبؓ کی پیدائش ۱۸۸۰ء میں ایمن آباد ضلع گوجرانوالہ کی ہے.آپ ککے زئی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ایمن آباد کی وجہ سے ایمن آبادی مشہور ہوئے.حکیم عبد العزیز خان صاحب مالک ’’طبیہ عجائب گھر قادیان‘‘ کے طور پر بھی مشہور ہیں.آپ ۱۹۰۴ء میں قادیان آئے اور ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود ؑ کے دست ِ مبارک پر بیعت سے مشرف ہوئے.محمود عرفانی صاحب اپنی کتاب سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ صفحہ۳۸۱ ، ۳۸۲ و مرتبہ شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب میں رقمطراز ہیں کہ حکیم عبد العزیز خان صاحب کو حضرت مسیح موعود ؑ کے بچوں کی تعلیم میں ابتدائی حصہ لینے کا شرف ان کو حاصل ہے اور اس طرح نہایت قریب سے حضرت ام المؤمنین ؓ کے اخلاق و عادات کے مشاہدہ کا ان کو موقع ملا.صاحبزادگان کی تعلیم کے سلسلہ میں ان کو حضرت صاحب کے الدار میں ایک کمرہ ملا ہوا تھا اس کے ساتھ ایک قنات ہوتی تھی.جہاں آپ بچوں کو پڑھاتے تھے.حضرت امّ المؤمنین ؓ آپ کی ضروریات کا خاص طور پر خیال رکھتی تھیں اور گھر میں جو بھی تحفہ از قسم پھل مٹھائی وغیرہ آتا اس میں سے ان کو بھی ضرور حصہ دیا کرتی تھیں.حکیم صاحب کی اہلیہ کی وفات کے بعد ان کی ایک بیٹی عائشہ اور ایک بیٹے کو حضرت اماں جان نے اپنے پاس رکھا اور اپنی نگہداشت میں پرورش فرمائی اور آپ کی بیٹی کی خود شادی ۱۹۲۶ء میں فرمائی اور شادی پر کچھ جہیز تحفہ میں دیا.بلکہ حضرت امّ المؤمنینؓ نے آپ کی بیٹی کو مبلغ ۶۰ (ساٹھ روپے) کا طلائی گلو بند جو غالباً ۳ تولے خالص سونے کا تھا تحفۃً عطا فرمایا.صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب اپنے ایک مضمون میں ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں
کہ حکیم عبد العزیز خان صاحب میں دو خصوصیتیں تھیں.ایک تو آپ حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابی تھے.دوسرے ان کو حضرت مسیح موعود ؑ کے خاندان سے خاص طور پر محبت تھی اور یہ فخر بھی ان کو حاصل تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی اولاد اور پھر آگے ان کی اولاد کو بھی پڑھاتے رہے.آپ حضرت مسیح موعود ؑ کے بچوں سے کبھی سختی سے بھی پیش آتے تو کوئی اس پر برُا نہ مناتا اور وہ ہمیشہ اپنے رنگ میں کہا کرتے تھے.’’میں نے تینوں بھی پڑھایا تے تیرے پیو نوں بھی پڑھایا‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ عزت بخشی تھی ، اس لئے ان کو یہ بات کہنے کا حق تھا.ان کو طب کا شوق تھا اس لئے سکول سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد آپ نے ’’طبیہ عجائب گھر‘‘ کی بنیاد ڈالی اور نہایت ایمانداری سے اسے چلایا کہ قادیان اور باہر سے بھی احباب ان سے دیسی ادویات منگواتے.(بحوالہ روزنامہ الفضل قادیان مورخہ ۹؍فروری ۱۹۴۶ء) آپ کی وفات ۲۹؍جنوری ۱۹۴۶ء کو قادیان میں ہی ہوئی.تقریباً ۶۶ سال کی عمر میں.آپ کی وصیت کا نمبر۳۴ تھا.آپ بہشتی مقبرہ قادیان میں ہی مدفون ہیں.فہرست مکتوبات بنام حضرت ماسٹر عبد العزیز صاحب ایمن آبادیؓ مکتوب نمبر تاریخ تحریر صفحہ ۱ بلا تاریخ ۴۷۳ ۲ بلا تاریخ ۴۷۳ ۳ بلا تاریخ ۴۷۳ ۴ بلا تاریخ ۴۷۴ ۵ بلا تاریخ ۴۷۴
مکتوب نمبر۱ السلام علیکم انشاء اللہ دعا کروں گا.بہت توجہ کرنی چاہیے.خدا کے وجود سے انکار جیسا اور کوئی گناہ نہیں ہے.اس خبیث قوم کی صحبت کے اثر سے بچنا چاہیے.مرزا غلام احمد مکتوب نمبر۲ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اگر خواب میں لڑکی کا نام مریم معلوم ہوا ہے تو مریم ہی رکھ دیں ورنہ عائشہ رکھ دیں.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۳ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مجھ کو بہت خوشی ہوئی کہ آپ کی کوشش سے اسقدر شریف احمد نے ترقی کی.میں لکھتا ہوں کہ آپ آئندہ بھی بہت توجہ سے کوشش کریں.والسلام مرزا غلام احمدعفی عنہ
مکتوب نمبر۴ السلام علیکم آپ خود کوشش کریں اور ناول ترک کرا دیں.گھر میں بہت کہا جاتا ہے.مگر استاد کی بات کا اثر بہت ہوتا ہے.والسلام مرزا غلام احمد مکتوب نمبر۵ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ شریف احمد کے لئے بہت کوشش کریں.آپ کو بہت ثواب ہو گا.ابھی اس کو پڑھنے کی طرف سچا اور دلی شوق نہیں.صرف آپ کی دن رات کی کوشش سے پڑھتا ہے.ایسا کرنا چاہیے کہ اس کے دل میں علم کا شوق پیدا ہو جائے.یہ خدمت انشاء اللہ خدا تعالیٰ کے نزدیک موجب ثواب عظیم ہو گی.مبلغ روپیہ پہنچ گیا ہے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَاء والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ.یہ تمام مکتوبات سیرت احمد از حضرت قدرت اللہ سنوری صاحب ؓ صفحہ ۴۱ تا ۴۳ سے لئے گئے ہیں (ناشر)
حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ؓ حضرت مولوی عبد الکریم رضی اللہ عنہ ۱۸۵۸ء میں سیالکوٹ میں چوہدری محمد سلطان صاحب کے ہاں پیدا ہوئے.آپ نے سیالکوٹ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی.بورڈ سکول سیالکوٹ میں فارسی مدرس کے طور پر کام کیا.آپ کے مضامین رسالہ ’’انوار الاسلام‘‘ اور ’’الحق‘‘ سیالکوٹ میں شائع ہوتے تھے.عیسائیت کے منادوں سے مذاکرات کا آپ کو خاص ملکہ تھا.آپ کبھی کبھی اردو ، فارسی میں ’’صافی‘‘ تخلّص سے شعر بھی کہتے تھے.۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء کو حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی بیعت کی.رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کا بیعت نمبر ۴۳ ہے.آپ کی والدہ حضرت حشمت بی بی صاحبہؓ کی بیعت ۷؍فروری ۱۸۹۲ء اور اہلیہ حضرت زینب بی بی صاحبہ ؓ کی بیعت بھی اسی روز کی ہے.اس سے قبل سرسید احمد خاں کی تحریرات سے متاثر تھے.۱۸۹۸ء میں سیالکوٹ چھوڑ کر قادیان تشریف لے آئے.قادیان میں ہجرت کرنے کے بعد آپ حضرت اقدس ؑ کی تائید میں مضامین لکھنے کے علاوہ خطبات ، تقاریر اور لیکچرز بھی دیتے تھے.حضرت اقدس ؑ ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں.’’حبیّ فی اللہ مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی.مولوی صاحب اس عاجز کے یک رنگ دوست ہیں اور مجھ سے ایک سچی اور زندہ محبت رکھتے ہیں اور اپنے اوقات عزیز کا اکثر حصہ انہوں نے تائید دین کے لئے وقف کر رکھا ہے.ان کے بیان میں ایک اثر ڈالنے والا جوش ہے.اخلاص کی برکت اور نورانیت ان کے چہرہ سے ظاہر ہے میری تعلیم کی اکثر باتوں سے وہ متفق الرائے ہیں.… اخویم مولوی نوردین صاحب کے انوار ِ صحبت نے بہت سانورانی اثر ان کے دل پہ ڈالا ہے.…‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۵۲۳) حضرت مسیح موعود ؑ حضرت مولانا عبد الکریم صاحبؓ کی اس محبت کی کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں.
’’ ان کو میرے ساتھ نہایت درجہ کی محبت تھی اور وہ اصحاب الصفہ میں سے ہو گئے تھے جن کی تعریف خدا تعالیٰ نے پہلے سے اپنی وحی میںکی تھی‘‘.(اخبار البدر قادیان ۱۲؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۳) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں.’’مسجد مبارک کے پرانے حصہ کی اینٹیں اب بھی ان کی ذمہ دار تقریروں سے گونج رہی ہیں.‘‘ آپ ذیابیطس کے باعث بیمار ہوئے جس کی علامت کاربنکل ظاہر ہوئی.بیماری کے دوران حضرت اقدس ؑ کو الہام ہوا کہ ’’دو شہتیر ٹوٹ گئے‘‘ چنانچہ آپ ۱۱؍اکتوبر ۱۹۰۵ء کو انتقال فرما گئے اور قادیان میں تدفین ہوئی.بہشتی مقبرہ کا قیام آپ کی وفات کے بعد ہوا.جہاں بعد میں آپ کی تدفین سے بہشتی مقبرہ کا عملاً افتتاح ہوا.حضرت اقدس ؑ نے آپ کی وفات پر ایک طویل فارسی نظم تحریر کی.٭ فہرست مکتوبات بنام حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ؓ مکتوب نمبر تاریخ تحریر صفحہ ۱ ۷؍ اگست ۱۸۹۹ء ۴۷۹ ۲ ۲۴؍اکتوبر ۱۸۹۹ء ۴۸۱ ۳ بلا تاریخ ۴۸۲ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ۴۰،۴۱
مکتوب نمبر۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ عزیزی اخویم …… السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا حال یہ ہے کہ اگرچہ عرصہ بیس سال سے متواتر اس عاجز کو جو الہام ہوا ہے اکثر دفعہ اُن میں رسول یا نبی کا لفظ آگیا ہے جیسا کہ یہ الہام ہوا.ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ۱؎ اور جیسا کہ یہ الہام ہوا جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآئِ۲؎ اور جیسا کہ الہام ہوا.دنیا۳؎ میں ایک نبی آیا مگر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا.ایسے ہی بہت سے الہام ہیں جن میں اس عاجز کی نسبت نبی یا رسول کا لفظ آیا ہے لیکن وہ شخص غلطی کرتا ہے جو ایسا سمجھتا ہے کہ اس نبوت اور رسالت سے مراد حقیقی نبوت اور رسالت ہے جس سے انسان خود صاحبِ شریعت کہلاتاہے بلکہ رسول کے لفظ سے صرف اسی قدر مراد ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا اور نبی کے لفظ سے صرف اسی قدر مراد ہے کہ خدا سے علم پا کر پیشگوئی کرنے والا یا معارف پوشیدہ بتانے والا سو چونکہ ایسے لفظوں سے جو محض استعارہ کے رنگ میں ہیں اسلام میں فتنہ پڑتا ہے اور اس کا نتیجہ سخت بد نکلتا ہے اس لئے اپنی جماعت کی معمولی بول چال اور دن رات کے محاورات میں یہ لفظ نہیں آنے چاہئیں اور دلی ایمان سے سمجھنا چاہئے کہ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ اس آیت کا انکار کرنا یا استخفاف کی نظر سے دیکھنا درحقیقت اسلام سے علیٰحدہ ہونا ہے جو شخص انکار میں حد سے گزرتا ہے جس طرح کہ وہ ایک خطرناک حالت میں ہے ایسا ہی وہ بھی خطرناک حالت میں ہے جو شیعوں کی طرح اعتقاد میں حد سے گذر جاتا ہے.جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ ۱؎ تذکرہ صفحہ ۳۶ مطبوعہ ۲۰۰۴ء ۲؎ تذکرہ صفحہ ۶۳ مطبوعہ ۲۰۰۴ء ۳؎ ایک قرأت اس الہام میں یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا.اور یہی قرأت براہین میں درج ہے اور فتنہ سے بچنے کے لئے یہ دوسری قرأت درج نہیں کی گئی.منہ
نے اپنی تمام نبوتوں اور رسالتوں کو قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیاہے.اور ہم محض دین اسلام کے خادم بن کر دنیا میں آئے ہیں اور دنیا میں بھیجے گئے ہیں نہ اس لئے کہ اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور دین بناویں.ہمیشہ شیاطین کی رہزنی سے اپنے تئیں بچانا چاہئے اور اسلام سے سچی محبت رکھنی چاہیئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو بھلانا نہیں چاہئے.ہم خادمِ دینِ اسلام ہیں اور یہی ہمارے ظہور کی علّتِ غائی ہے اور نبی اور رسول کے لفظ استعارہ اور مجاز کے رنگ میں ہیں.رسالت لغت عرب میں بھیجے جانے کو کہتے ہیں اور نبوت یہ ہے کہ خدا سے علم پاکر پوشیدہ باتوں یا پوشیدہ حقائق اور معارف کو بیان کرنا سو اس حد تک مفہوم کو ذہن میں رکھ کر دل میں اس کے معنے کے موافق اعتقاد کرنا مذموم نہیں ہے مگر چونکہ اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں یا نبی سابق کی اُمت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفاضہ کسی نبی کے خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ہوشیار رہنا چاہئے کہ اس جگہ بھی یہی معنی نہ سمجھ لیں.کیونکہ ہماری کتاب بجز قرآن کریم کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی رسول بجز محمد مصطفٰے صلے اللہ علیہ وسلّم کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں ہے اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے.سو دین کو بچوں کا کھیل بنانا نہیں چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیں بجز خادمِ اسلام ہونے کے اور کوئی دعویٰ بالمقابل نہیں ہے اور جو شخص ہماری طرف اس کے خلاف منسوب کرے وہ ہم پر افترا کرتا ہے ہم اپنے نبی کریم کے ذریعہ سے فیض و برکات پاتے ہیں.اور قرآن کے ذریعہ سے ہمیں فیض معارف ملتا ہے.سو مناسب ہے کہ کوئی شخص اس ہدایت کے برخلاف کچھ بھی دل میں نہ رکھے.ورنہ وہی خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کا جواب دہ ہوگا.اگر ہم اسلام کے خادم نہیں ہیں تو ہمارا سب کاروبار عبث اور مردود اور قابلِ مواخذہ ہے زیادہ خیریت ہے.٭ ۷؍اگست ۱۸۹۹ء والسلام ٭ الحکم نمبر۲۹ جلد ۳ مورخہ ۱۷ ؍ اگست ۹۹ء صفحہ ۶
مکتوب نمبر۲ مکرمی اخویم مولوی عبد الکریم صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اس وقت قریباً دو بجے کے وقت وہ خط پہنچا جو اخویم سید حامد شاہ صاحب نے آپ کے حالات علالت کے بارہ میں لکھا ہے.خط کے پڑھتے ہی کوفت غم سے وہ حالت ہوئی جو خدا تعالیٰ جانتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنا خاص رحم فرمائے.میں خاص توجہ سے دعا کروں گا.اصل بات یہ ہے کہ میری تمام جماعت میں آپ دو ہی آدمی ہیں جنہوں نے میرے لئے اپنی زندگی دین کی راہ میں وقف کر دی ہے.ایک آپ اور ایک مولوی حکیم نور الدین صاحب.ابھی تک تیسرا آدمی پیدا نہیں ہواہے.جس قدر قلق ہے اور جس قدر بے آرامی ہے بجز خدا تعالیٰ کے اور نہیں جانتا ہے.اللہ تعالیٰ شفا بخشے اوررحم فرمائے اور آپ کی عمر دراز کرے.آمین ثم آمین.جلد کامل صحت سے مجھے اطلاع بخشیں.٭ ۲۴؍اکتوبر ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ٭ الحکم نمبر۳ جلد۴ مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۰۰ء صفحہ ۵
چونکہ عام طور پر یہ مشہور تھا کہ حضرت اقدس علیہ السلام کا قیام ۳؍ستمبر تک لاہور میں ہے.اس لئے حضرت حکیم نورالدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب کی رائے یہ تھی کہ اب سفر کے قیاس پر نماز قصر اور جمع کر کے ادا نہ کی جاوے بلکہ پوری نماز اپنے اپنے وقت پر ادا کی جاوے اور بعض دیگر اصحاب کا خیال تھا کہ جب تک ۱۵ دن کا قیام نہ ہو.تب تک سفر ہی شمار ہو گا اور قصر نماز جمع کر کے ادا ہو گی.آخر کار اس امر کے فیصلہ کے لئے حضرت امام الزمان کی طرف رجوع کیا گیا اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک رقعہ بدیں مضمون حضور کی خدمت والا میں تحریر کیا.آقائی صلوٰۃ اللہ علیک وسلامہٖ امام بخاری کے اجتہاد کے موافق پہلے ہم قصر کرتے ہیں کہ جب تک ہمیں یہ یقین نہ ہو جاوے کہ تین روز سے زیادہ ہمارا قیام ہو گا.اب لاہور میں قریب دس روز تک قیام ہے جناب کیا فرماتے ہیں.خاکسارعبد الکریم مکتوب نمبر۳ اس کا جواب جو حضرت اقدس کی طرف سے آیا وہ یہ ہے.دراصل قیام کا ارادہ کو ئی مستقل نہیں ہے.صرف ظنی… ہے.ہم بغیر کسی کام کے تفریح خاطر کے لئے آئے ہیں.شدت گرمی یا اور وجوہ کے باعث یا ارادہ بدلنے کے باعث ہم کوچ کرنے کو طیار ہیں.آئندہ آپ کا اختیارہے.ہمارا کوئی مستقل اور یقینی ارادہ نہیں ہے.٭ والسلام خاکسار میرزا غلام احمد ٭ بدر نمبر۳۳ جلد ۳ مورخہ یکم ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۳
ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک مکتوب گرامی شائع کیا جاتا ہے جو حضور علیہ السلام نے عرصہ ہوا قاضی عبد المجید صاحب مرحوم سالٹ انسپکٹر کے نام رقم فرمایا تھا.اس کا اصل قاضی صاحب مرحوم کے لڑکے قاضی عبد الوحید صاحب کے پاس محفوظ ہے.خاکسار ملک فضل حسین کارکن صیغہ تالیف تصنیف مکتوب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ بعد ہذا آپ کا خط پہنچا.خدا تعالیٰ آفات دین و دنیا سے محفوظ رکھے آمین.ہر ایک امر خدا تعالیٰ کی توفیق پر موقوف ہے.جس کسی شخص پر خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے.تو اس کی یہ علامت نہیں ہے کہ وہ بہت دولت مند ہو جاتا ہے.یا دنیوی زندگی اس کی بہت آرام سے گزرتی ہے.بلکہ اس کی یہ علامت ہے کہ اس کا دل خدا تعالیٰ کی طرف کھینچا جاتا ہے اور وہ خدا سے فعل اور قول کے وقت ڈرتا ہے اور سچی تقویٰ اس کے نصیب ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ ہم سب کو اپنی مرضی کی راہوں پر چلاوے اور دنیا و آخرت کے عذاب سے بچاوے.آمین.باقی سب خیریت ہے.٭ والسلام مرزا غلام احمد ٭ الفضل نمبر۱۷۱ جلد۳۱ مورخہ ۲۲؍جولائی ۱۹۴۳ء صفحہ ۳
حضرت مرزا عزیز احمد صاحبؓ حضرت صاحبزادہ صاحب رضی اللہ عنہ ۳؍اکتوبر ۱۸۹۰ء کو پیدا ہوئے.تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں ابتدائی تعلیم پائی.جس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے علی گڑھ تشریف لے گئے.آپ لمبے عرصہ تک ایک محنتی فرض شناس اور دیانتدار افسر کی حیثیت سے سرکاری ملازمت میں رہے اور بالآخر ۱۹۴۵ء میں اے ڈی ایم کے اعلیٰ عہدہ سے ریٹائر ہوئے.اس کے بعد بقیہ ساری زندگی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت کے لئے وقف رکھی.قیام پاکستان اور ہجرت کے بعد ۱۶؍جولائی ۱۹۴۹ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ کو صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا ناظر اعلیٰ مقرر فرمایا.اس عہدہ پر آپ ۳۰؍اپریل ۱۹۷۱ء تک فائز رہے.پہلی بیوی کے انتقال کے بعد مارچ ۱۹۳۰ء میں آپ کی دوسری شادی حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی محترمہ سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ سے ہوئی جن کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے پانچ صاحبزادیاں اور دو صاحبزادے عطا فرمائے.حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کا وجود باجود اپنے نہایت اعلیٰ اوصاف اور اہم دینی خدمات کے علاوہ اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نشان تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو بذریعہ خواب آپ کے قبول احمدیت کا نظارہ دکھایا گیا تھا جو کہ حیرت انگیز رنگ میں پورا ہوا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے والد بزرگوار سے پہلے یعنی مارچ ۱۹۰۶ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائی.٭ ٭ سیرت حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مولفہ میرانجم پرویز صاحب صفحہ ۸ تا ۱۰
مرزا عزیز احمد صاحب نے میانوالی سے مفصلہ ذیل خط حضرت کی خدمت میں بھیجا تھا.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بخدمت امام زمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ فدوی اپنے گذشتہ قصوروں کی معافی طلب کرتا ہے اور التجا کرتا ہے کہ اس خاکسار کی گذشتہ کوتاہیوں کو معاف کر کے زمرہ ٔتابعین میں شامل کیا جائے.نیز اس عاجز کے حق میں دعا فرماویں کہ آئندہ اللہ تعالیٰ ثابت قدم رکھے.حضور کا عاجز عزیز احمد اس کے جواب میں حضرت صاحب نے فرمایاکہ.مکتوب ’’ہم وہ قصور معاف کرتے ہیں.آئندہ اب تم پرہیزگار اور سچے مسلمانوں کی طرح زندگی بسر کرو اور برُی صحبتوں سے پرہیز کرو.برُی صحبتوں کا انجام آخر برُا ہی ہوا کرتا ہے.‘‘ ٭ ٭ الحکم نمبر۳۸ جلد ۱۱ مورخہ ۲۴؍اکتوبر۱۹۰۷ء صفحہ ۱۴
حضرت مولوی غلام حسن صاحب پشاوری ؓ حضرت مولوی غلام حسن رضی اللہ عنہ کے والد صاحب کا نام جہان خان صاحب تھا.آپ کی اصل سکونت میانوالی تھی اور یہ علاقہ ضلع بنوں میں تھا.آپ کے خاندان کے احباب اب بھی اس علاقے خصوصاً موسیٰ خیل میں موجود ہیں.آپ کی عارضی سکونت پشاور میں تھی.بیعت کے وقت آپ گورنمنٹ سکول (یعنی میونسپل بورڈ سکول پشاور) میں مدرّس تھے.بعد میں آپ رجسٹرار ہو گئے تھے.حضرت مولوی صاحب ؓ کے مہربان و مربی حضرت مرزا محمد اسماعیل قندھاری ؓ (جن کی ہمشیرزادی سے آپ کا نکاح ہوا تھا) ایک بلندپایہ صوفی بزرگ تھے جو پشاور محلہ گل بادشاہ کے رہنے والے تھے.حکومت انگریزی میں ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز تھے.انہوں نے کتاب براہین احمدیہ کی اشاعت کے لئے چندہ بھیجا تھا اور براہین احمدیہ کو پڑھ کر فرماتے تھے کہ اس شخص کی تحریر مسیح ناصری کی تحریر و تقریر سے ملتی ہے.یہ بڑے عالی مرتبہ کا ولی ہے.حضرت مرزا محمد اسماعیل صاحبؓ کی تحریک پر مولوی صاحب نے لدھیانہ جا کر حضرت اقدس ؑ سے ملاقات کی.انہی ایام میں حضرت اقدس ؑ نے بیعت لینے کا اعلان بھی کیا.حضرت مولوی غلام حسن صاحب ؓ نے ۱۷؍مئی ۱۸۹۰ء کو بیعت کی.رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کی بیعت نمبر۱۹۲ پر درج ہے اور سکونت اصلی میانوالی ضلع بنوں ہے.(رجسٹر بیعت اولیٰ مندرجہ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ ۳۵۳) ازالہ اوہام میں حضرت اقدس ؑ نے فرمایا.’’وفادار اور مخلص ہیں.بہت جلد ِللّٰہی راہوں اور دینی معارف میں ترقی کریں گے کیونکہ فطرت نورانی رکھتے ہیں.‘‘ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد سوم) آپ مفسرِ قرآن بھی تھے اور ایک کتاب ’’تفسیر حسن بیان‘‘ لکھی تھی.قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کا یہ عالم تھا کہ کوئی دو ہزار سے زائد مرتبہ تلاوت قرآن کر چکے تھے اور جن مقامات کو نہیں سمجھتے تھے ان کے بارے میں یہ خیال تھا کہ یہ انسان کی اپنی استعدادوں کا قصور ہے.حضرت مولوی صاحب نے یکم فروری ۱۹۴۳ء کو قادیان میں وفات پائی اور بہشتی مقبر
قادیان میں تدفین ہوئی.آپ نے ۲۲؍جنوری ۱۹۴۲ء کو خلافت ثانیہ کی بیعت کرلی تھی.۱۹۱۱ء میں آپ کی خدمت کے پیش نظر دہلی دربار میں خان بہادر کا خطاب دیا گیا.آپ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے خسر تھے.٭ فہرست مکتوبات بنام حضرت مولوی غلام حسن صاحب پشاوری ؓ مکتوب نمبر تاریخ تحریر صفحہ ۱ ۵؍ ستمبر ۱۸۹۶ء ژ ۴۹۵ ۲ بلا تاریخ ژ ۴۹۶ ۳ بلا تاریخ ژ ۴۹۷ ۴ بلا تاریخ ژ ۴۹۸ ۵ بلا تاریخ ژ ۴۹۹ ۶ ۱۹۰۴ء ژ ۵۰۰ ۷ ۹؍جولائی ۱۹۰۶ء ژ ۵۰۱ ۸ ۱۳؍جون ۱۹۰۷ء ژ ۵۰۲ ۹ ۳۰؍جولائی ۱۹۰۷ء ژ ۵۰۳ ۱۰ ۱۴؍ اگست ۱۹۰۷ء ژ ۵۰۴ ۱۱ ۲۲؍ستمبر ۱۹۰۷ء ژ ۵۰۴ ۱۲ ۹؍ نومبر ۱۹۰۷ء ژ ۵۰۵ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۹۹ تا
مکتوب نمبر۱ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ اخویم مولوی غلام حسن صاحب سلّمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ چونکہ اس جگہ بباعث کثرت مہمانداری پانی کی دقّت رہتی ہے.ایک کنواں تو ہے مگر وہ ہمارے مخالف اور بے دین شرکاء کے قبضہ میں ہے وہ لوگ خواہ نخواہ آئے دن فساد رکھتے ہیں.لہٰذا یہ تجویز ہوئی ہے کہ اپنے گھر میں ایک کنواں لگوایا جاوے لاگت تخمیناً ۲۵۰روپیہ ہے بوجہ دِقّتِ خرچ مناسب سمجھا گیا کہ چند مخلص دوستوں کو منتخب کرکے اس کام کے لئے ان سے چندہ لیا جائے.سو آج فہرست ایسے دوستوں کی مرتب ہو کر آپ کا نام بھی اس میں لکھا گیا لہٰذا مکلّف ہوں کہ آپ اس کام کے لئے جو کچھ بلا تکلّف انشراح خاطر سے میسر ہو سکے جلد تر ارسال فرمانویں.کوئی فوق الطاقت تکلیف دینا منظور نہیں ہے بلکہ جیسا کہ چندوں میں دستور ہوتا ہے جو کچھ آسانی سے بطیبِ خاطر میسر آسکے ارسال فرمانویں.چونکہ یہ امور ہمارے ذاتی آرام کے لئے نہیں ہیں بلکہ اس مہمان خانہ کی ضرورتوں کی وجہ سے ہیں اور دن بہ دن مہمانوں کی کثرت آمد ہے لہٰذا رفع تکلیف مہمانداری کے لئے یہ تجویز ہے.اور اس جگہ ایک عمدہ کتاب چھپ رہی ہے جس کا نام ’’انجامِ آتھم‘‘ ہے.اُمید ہے تین ہفتہ تک چھپ کر شائع ہو جائے گی.ہم بطور فرمائش اپنے لئے یہ چاہتے ہیں کہ جس وقت انگور بیدانہ جو کھلے پکتے ہیں.شاید کشمش تر ہونے پر آویں تو آپ کسی قدر ضرور بھیج دیں.۵؍ستمبر ۱۸۹۶ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۲ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ اخویم مولوی غلام حسن صاحب سلّمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ محض اس بات کے لئے تکلیف دیتا ہوں کہ صفیہ بنت قدرت اللہ خان کا جو عبدالحنان سے نکاح ہوا تھا اب وہ کرکے بہت تنگ ہے.اس کی طرف سے ایک تار آئی ہے اور ایک خط بھی آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت ہی تنگ ہے.اور خاوند اس کو ہر یک پہلو سے ایذا دیتا ہے.میں نے خوب سوچا ہے کہ یہ بات راست آتی معلوم نہیں ہوتی ایک نہ ایک دن نتیجہ بد نکلے گا.مجھے اس کی علامات سے یہ بھی خطرہ ہے کہ کسی دن تنگ آکر خودکشی نہ کرلے.اس صورت میں ان کے ان منحوس تعلقات سے بہت خوف ہے اور نہایت خطرہ ہے.شریعت یہی تاکید کرتی ہے کہ ایسی صورتوں میں خلع کیا جائے.اس لئے مناسب ہے کہ چونکہ دونوں فریق ہماری جماعت میں سے ہیں.آپ عبدالحنان کو کہہ دیں کہ ایسا نکاح تمہارے لئے بھی خطرناک اور شریعت کی رو سے بھی عورت کی سخت نہ رضامندی کی حالت میں خلع کا حکم ہے.اسی لئے مکہ معظمہ میں ایسی صورتوں میں ہر روز بیسیوں خلع ہوتے ہیں.آپ اگر فہمائش کریں گے تو یہ فتنہ بذریعہ طلاق فرو ہو جائے گا ورنہ ہماری جماعت میں یہ ایک فتنہ برپا ہوگا.خدا جانے کہاں تک اس کی آگ مشتعل ہوگی.اس لئے قدرت اللہ خان آپ کی طرف روانہ ہوتا ہے.اس نے کہا تھا کہ میں آپ کی طرف کچھ لکھ دوں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۳ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ مکرمی اخویم مولوی غلام حسن صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل میرے نام میاں عبدالحنان صاحب کا خط آیا تھا کہ صفیہ کچھ زیورات وغیرہ میرا اسباب لے آئی ہے وہ مجھے واپس ملنا چاہیئے.اس بارے میں میں نے صفیہ سے دریافت کیا وہ کہتی ہے کہ میں نے کوئی اسباب عبدالحنان کا نہیں لیا اس نے خود مولوی صاحب کے گھر مجھے پہنچایا تھا اور میرے ساتھ آیا تھا البتہ یہ زیور جو مجھے دیا تھا میرے پاس ہے.وزن حل طلب مسئلہ ہے.جگنی سونے کی.کڑے ہاتھوں کے اور چوڑیاں چاندی کی.پیروں کی پائل چاندی اور جھمکے سونے کے جو آئے تھے وہ خود عبدالحنان نے بیچ دیئے تھے.اب بموجب شرع شریف فتویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ خاوند اور عورت کی مفارقت کی حالت میں وہ چیزیں جو خاوند نے عورت کو دی ہوں وہ واپس نہیں ہوں گی گو سونے کا پہاڑ ہو.پس زیور جو دیا گیا کسی صورت میں واپسی کے لائق نہیں.باقی رہا مہر.پس اگر طلاق ہو یا خلع ہو.اگر ایسی صورت ہو کہ اصل مفارقت کا موجب خاوند ہو اور اس کی کسی بد ُخلقی اور تکلیف دہی سے طلاق یا خلع تک نوبت پہنچی ہو تو مہر دینا پڑتا ہے بلکہ اگر صفیہ نکاح کی حالت میں مہر کی نالش کرتی تو بموجب قانون اور شرع کے عبدالحنان پر ڈگری ہو جاتی.اس صورت میں ایک طرح سے صفیہ مظلوم ہے کہ پانچ سَو روپیہ کا اس کا نقصان ہو گیا.اب بہرحال میاں عبدالحنان کو اس فیصلہ پر خوش ہونا چاہیئے کہ صفیہ کا تو مہر ضائع ہوا اور اُس کا زیور.اس کے بعد کوئی جھگڑا ہرگز مناسب نہیں ہے مہر تو ایسی چیز ہے کہ اس میں استحباب یہی ہے کہ اسی وقت یعنی نکاح کے ادا کر دیا جائے اگر خاوند کی طرف سے حسن معاشرت میں فرق نہ آتا تو اس حالت میں خلع سے مہر باطل ہوتا مگر یہ ایسی صورت نہیں.پھر اگر خاوند کی رجولیت میں فرق ہے تو
اس نے نہ صرف حسنِ معاشرت میں فرق دکھلایا بلکہ دھوکہ بھی دیا اس لئے مہر ضرور واجب الادا تھا.مگر ان باتوں کو خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ فریقین میں سے سچا کون ہے اور جھوٹا کون.اس لئے یہ فیصلہ نہایت عمدہ اور صحیح ہے کہ صفیہ کا مہر ضائع ہوا اور میاں عبدالحنان کا زیور.دونوں کی بدقسمتی ہے کہ اس رشتہ کا ایسا منحوس انجام ہوا.کچھ شامتِ اعمال ہے توبہ استغفار کرنا چاہیئے.مجھے نہ صفیہ کی کچھ رعایت ہے نہ عبدالحنان سے کچھ فرق ہے.اس کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور مجھے اس رشتہ کے ٹوٹنے پر افسوس ہے کہ ناحق شماتتِ اعداء کا موجب ہوا.البتہ مرد اس قدر قابل ملامت ہے کہ اگر مرد سے جیسا کہ شرط ہے آثار محبت اور حسن معاشرت ظاہر ہوں تو کبھی ممکن نہیں کہ عورت اس سے علیٰحد گی چاہے.خیر ہرچہ شد شکوہ.الخیر فیما وقع.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۴ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ مکرمی اخویم مولوی غلام حسین۱؎ صاحب سلّمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس سے پہلے اخویم مولوی عبدالکریم صاحب نے برخوردار محمود احمد کے رشتہ ناطہ کے لئے عام دوستوں میں تحریک کی تھی اور آپ کے خط کے پہنچنے سے پہلے ایک دوست نے اپنی لڑکی کے لئے لکھا اور محمود نے اس تعلق کو قبول کر لیا تھا بعد اس کے آج تک میرے دل میں تھا کہ بشیر احمد اپنے درمیانے لڑکے کے لئے تحریک کروں جس کی عمر دس ۱۰دس۱۰ برس کی ہے اور صحت اور متانت مزاج اور ہر یک بات میں اس کے آثار اچھے معلوم ہوتے ہیں اور آپ کی تحریر کے موافق عمر بھی باہم ملتی ہے اس لئے یہ خط آپ کو لکھتا ہوں اور میں قریب ایام میں اس بارے میں استخارہ ۱؎ مراد ’’حسن‘‘ ہے.ناشر
بھی کروں گا اور بصورت رضامندی یہ ضروری ہوگا کہ ہمارے خاندان کے طریق کے موافق آپ لڑکی کو ضروریات علم دین سے مطلع فرماویں اور اس قدر علم ہو کہ قرآن شریف باترجمہ پڑھ لے.نماز اور روزہ اور زکوٰۃ اور حج کے مسائل سے باخبر ہو اور نیز بآسانی خط لکھ سکے اور پڑھ سکے.اور لڑکی کے نام سے مطلع فرماویں اور اس خط کے جواب سے اطلاع بخشیں.دیگر خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ چونکہ دونوں کی عمر چھوٹی ہے اس لئے تین برس تک شادی میں توقف ہوگا.مکتوب نمبر۵ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ اخویم مولوی غلام حسین۱؎ صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ تجویز قرار پائی ہے کہ ہمارے دونوں لڑکوں کی انہی دنوں میں شادی کی جائے تا اس کام سے فراغت ہو.ہاں ایسا ہو گا کہ دونوں لڑکیاں بطور رسم قادیان میں ایک ہفتہ تک رہ کر پھر اس وقت تک اپنے والدین کے گھر میں رہیں گی کہ جب تک بالغ ہو جائیں.اس طرح پر ہمارے سر پر سے یہ دو فرض ادا ہو جائیں گے.ایک طرف سے قبول کا خط آگیا ہے اب آپ بھی اپنی منشا سے مطلع فرماویں.آپ کو اپنی لڑکی کے لئے دنیا داروں کی طرح بہت کچھ سامان کی کچھ ضرورت نہیں ہوگی ہریک وقت ایسے موقعوں کے لئے کھلا ہے.جواب سے جلد تر مطلع فرماویں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۱؎ مراد ’’حسن‘‘ ہے.ناشر
اطلاع کے لئے لکھا جاتا ہے کہ محمود احمد کی نسبت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی لڑکی سے ہو چکی ہے اور انہیں دنوں میں بشیر احمد کی نسبت آپ کے ہوئی.سو یہ صلاح قرین مصلحت معلوم ہوئی کہ یہ دونوں نکاح ماہ اکتوبر تک کئے جائیں.خلیفہ رشید الدین صاحب نے باوجود اپنی بے سامانی کے قبول کر لیا ہے اور ۵؍اکتوبر ۱۹۰۲ء تاریخ نکاح قرار پا چکی ہے پس آپ بھی تاریخ سے اطلاع دیں چونکہ میر اسماعیل ماموں لڑکوں کا پندرہ اکتوبر تک اپنی ڈاکٹری کی پڑھائی پر چلے جائیں گے اس لئے ضرور یہ ہونا چاہیئے کہ پندرہ اکتوبر سے پہلے ہی یہ دونوں نکاح ہو جائیں آپ مناسب تاریخ سے اطلاع دیں.مکتوب نمبر۶ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ محبیّ اخویم مولوی غلام حسن صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ باعث تحریر خط ہذا یہ ہے کہ میرے گھر میں اور نیز میں بھی اس امر کو مناسب سمجھتا ہوں کہ بشیر احمد کی بیوی اگرچہ خورد سال ہے چند ہفتہ کے لئے اس کو قادیان میں منگوایا جائے تا گھر میں اس کو اچھی طرح تعارف پیدا ہو جائے کیونکہ بچپن کے زمانہ کا تعارف دل میںبیٹھ جاتا ہے اور کسی طرح کی وحشت نہیں رہتی اور دلی تعلق پیدا ہو جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ رسم ملک اور خاندان کے مطابق جہاں تک ممکن ہو لڑکی کے لئے زیورات طیار کئے جائیں تا بعد طیاری زیورات برخوردار بشیر احمد معہ ایک مخلصین کی جماعت کے لینے کے واسطے پشاور جاویں.سو چونکہ سب سے اوّل ان امور کے بارے میں آپ سے دریافت کرنا ضروری ہے اس لئے یہ خط لکھا گیا ہے امید ہے آپ جہاں تک ممکن ہو سکے جلد تر جواب سے مسرور الوقت فرماویں تا زیورات اور پارچات کی طیاری کے لئے بندوبست کیا جائے.باقی سب طرح سے خیریت ہے.والسلام ۱۹۰۴ء الراقم.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ازقادیان
مکتوب نمبر۷ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ اخویم مولوی غلام حسن صاحب سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ انگور سفید کے دو ٹوکرہ پہنچے جس میں سے بباعث شدت گرمی قریب نصف خراب ہو گیا تھا باقی دوستوں میں تقسیم کیا گیا اور جب انگور پہنچا تب میرے لڑکے مبارک احمد اور لڑکی کو سخت خسرہ نکلا ہوا تھا اب وہ ضد کرتے ہیں کہ ہمارے لئے منگوا دو اور بباعث گرمی خسرہ ان کو مفید ہے.اس لئے دوبارہ تکلیف دیتا ہوں کہ دو ٹوکرہ انگور جو آپ نے محض اپنی مرضی سے بھیجے تھے اب ایک ٹوکرہ انگورسفید ہماری مرضی سے بھیج دیں اور جہاں تک ممکن ہو جلد اطلاع دے دیں تا خراب نہ ہو مگر اس خط کے پہنچنے کے بعد بہت جلد بھیج دیں.باقی سب طرح سے خیریت ہے.۹؍ جولائی ۱۹۰۶ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان مہر انگوٹھی
مکتوب نمبر۸ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ واضح ہو کہ سرور سلطان اس بات کو پسند نہیں کرتی کہ کارِ خیر سے فراغت ہونے کے لئے پشاور میں جاوے اور پشاور بھیجنے کا نام سن کر ہی روتی ہے اس لئے ہم نے یہ صلاح موقوف رکھی ہے کہ وہ پشاور میں جاوے.لہٰذا اطلاع دی جاتی ہے کہ کوئی لینے کے واسطے نہ آوے یہی تجویز قرار پاچکی ہے کہ اسی جگہ رہنا ہوگا.۱۳؍جون ۱۹۰۷ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان اور ہم وقت پر خط بھیج دیں گے اس وقت اس کی والدہ آجاویں اور ہمارے خط کے منتظر رہیں.والسلام
مکتوب نمبر۹ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ چونکہ سرور سلطان کے ایام وضع حمل کے قریب معلوم ہوتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ والدہ سرورسلطان اگست ۱۹۰۷ء کی دس ۱۰ تاریخ تک قادیان میں پہنچ جائیں اور یہ ضروری ہے کہ ایک ایسی نوکر عورت ساتھ لے کر آئیں کہ ان دنوں میں کچھ مدت تک سرور سلطان کے پاس رہے تا بچہ کو رکھے اور اس کی خدمت بھی کرے جو تنخواہ مقرر کی جائے گی ہم دے دیں گے کیونکہ والدہ محمود احمد بیمار رہتی ہیں اور کوئی محنتی اور قابل اعتبار عورت ملتی نہیں وہاں سے ایک خادمہ عورت کا آنا ضروری ہے.پشاور سے تلاش کرا کر ساتھ لانی چاہیئے.زیادہ خیریت ہے.مکرر یہ کہ دس۱۰ اگست ۱۹۰۷ء تک ضرور آجاویں گو دس اگست سے دو تین روز پہلے ہی آجائیں کیونکہ غالباً یکم اگست سے دسواں مہینہ شروع ہوگا اور بموجب قاعدہ طبی کے نو۹ مہینہ اور دس دن ہوا کرتے ہیں.اس لئے آپ کوکھول کر لکھا گیا ہے.۳۰؍ جولائی ۱۹۰۷ء والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۱۰ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عزیزہ سرور سلطان کو آج سات روز سے شدید بخار ہے ہریک تدبیر کی گئی ہے ایک ذرہ فائدہ نہیں بظاہر حالت خطرناک ہے.آج اس وقت تک کہ ایک بجے دن کا وقت ہے.ایک سو۱۰۵ پانچ درجہ کا بخار ہے.دو ڈاکٹراس جگہ موجود ہیں اور مولوی حکیم نور دین صاحب بھی موجود ہیں اور ایک اور ڈاکٹر بلائے گئے ہیں وہ بھی پرسوں تک پہنچ جائیں گے.باقی سب خدا تعالیٰ پر توکل ہے.اب تک کچھ ایسی ردّی علامات نہیں ہیں.آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس بلا سے نجات دے.والسلام ۱۴؍ اگست۱۹۰۷ء مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر۱۱ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بشیر احمد کی بیوی سرور سلطان بفضلہ تعالیٰ اب پورے طور پر تندرست ہیں مگر بشیر احمد کی والدہ بہت بیمار ہیں.جس دن سے لڑکا فوت ہو گیا ہے اسی دن سے بیمار ہیں اور دن بدن بیماری ترقی پر ہے اور آج محمود احمد کی بیوی بھی بیمار ہو گئی ہے اصل بات یہ ہے کہ بوجہ خراب سیلاب کے پانی کے کہ ہمارے مکان کے نزدیک دریا کی طرح گزرا ہے.بیماری بڑھتی جاتی ہے اور پانی گندہ ہے.اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ ان ہی خراب دنوں میں سرور سلطان پشاور سے ہو آوے مگر اس جگہ سے کوئی جا نہیں سکتا.مناسب ہے کہ مولوی صاحب یا سرور سلطان کا بھائی اس کو ایک ہفتہ تک لے جاویں.دیگر خیریت ہے.والسلام ۲۲؍ستمبر ۱۹۰۷ء مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر۱۲ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ گھر میں تاکید کرتے ہیں کہ اب عید گذر گئی ہے جس طرح ممکن ہو سرور سلطان کو قادیان پہنچادیں یا خود ایک دن کے لئے آکر چھوڑ جائیں.باقی سب خیریت ہے.بشیر احمد مڈل میں پاس ہو گیا ہے.انار آج پہنچ گئے ہیں.زیادہ خیریت.۹؍نومبر ۱۹۰۷ء والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر ۸۹ ملفوف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلّمہ تعالیٰ.بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ بارادہ خود کسی طرف حرکت نہ کریں.مشیت الٰہی پر چھوڑ دیں.لیکن اگر دل میں بہت اضطراب پیدا ہو جاوے تو تب اختیار ہے کہ آپ ہی سلسلہ جنبانی کریں.کیونکہ اضطراب منجانب اللہ ہوتی ہے.اور آپ کو معلوم ہوگا کہ دعا میں مجھے فرق نہیں.انشاء اللہ تعالیٰ انجام بہتر ہو گا.روغن زرد و پان پہنچ گئے ہیں.پیسے انشاء اللہ کل بوٹے خان صاحب کے پاس بھیج دیئے جائیں گے اور خادم کی اشد ضرورت ہے.لیکن آپ اوّل بخوبی معلوم کر لیں کہ وہ نیک چلن اورنیک بخت ہے اور محنتی ہے اور پھر تنخواہ بھی بکفایت ہو.اس کے حال سے مفصل اطلاع بخشیں.پھر انشاء اللہ طلب کی جائے گی اور جب خادم آوے تو اس کے ہاتھ بھی پان ارسال فرماویں.والسلام ۲؍ ستمبر ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۹۰ پوسٹ کارڈ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم سلّمہ تعالیٰ.بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مدت ہوئی روغن زرد اورپان پہنچ چکے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ میرا خط نہیں پہنچا.آپ کی نسبت وہی تجویز میرے نزدیک بھی مناسب ہے جو آپ نے لکھی ہے.میں آپ کے لئے اور چوہدری محمد بخش صاحب کیلئے دعا کرتا ہوں.اللہ جلّشانہٗ جلد شفا بخشے.اس جگہ مینہ روز برستا ہے، شاذو نادر کوئی دن خالی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ بحضور فیض گنجور حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضور کی کل تقریر سن کر میں نے پختہ عہد کیا ہے کہ میں آئندہ دنیا کے واسطے ہرگز نہیں پڑھوں گا.بلکہ آج سے میں اپنی زندگی کو دین کے واسطے وقف کرتا ہوں اور حضور کے منشاء کے مطابق دینی تعلیم اور صرف انگریزی زبان اور سنسکرت پڑھوں گااور اس کے بعد اگر زندگی نے وفا کی تو محض لِلّٰہدین کی خدمت میں زندگی بسر کروں گا.پر چونکہ انسان کمزور ہے اور پھر بچپن اور بھیکمزور کرتا ہے.لہٰذااس تحریر کے ذریعہ میں حضور سے اس عہد اور ارادہ پر قائم رہنے اور اس کی توفیق ملنے کے لئے دعا کی استدعاکرتا ہوں.حضور کا غلام ۲۷؍دسمبر۱۹۰۵ء خاکسار غلام حسین ولد میاں محمد یوسف اپیل نویس مردان پشاور طالب علم جماعت فورتھ ہائی مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان مکتوب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میں مطلع ہوا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.خدا تعالیٰ اس راہ میں برکت دے اور اخیر تک اس راہ پر استقامت بخشے آمین.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنا یہ ارادہ پرچہ الحکم و بدر میں شائع کرا دیں اور خدا سے ارادہ پر قائم رہنے کے لئے دعا کرتے رہیں.٭ والسلام مرزا غلام احمد ٭ الحکم نمبر۳ جلد ۱۰ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۳
حضرت شیخ غلام نبی صاحبؓ حضرت شیخ غلام نبی صاحب رضی اللہ عنہ موضع کوٹھیاں ضلع چکوال کے رہنے والے تھے جو بعد میں بسلسلہ تجارت راولپنڈی چلے گئے آپ کے والد کا نام شیخ فضل دین تھا خواجگان برادری تجارت کلکتہ بنگال سیٹھی فیملی سے تعلق رکھتے تھے.۱۸۹۲ء میں جب حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹی ؓ کے چچا چوہدری محمد بخش سیالکوٹی ؓ راولپنڈی گئے تو ان دنوں حضرت شیخ غلام نبی صاحب ؓ راولپنڈی میں تھے.چوہدری محمد بخش صاحب نے ذکر کیا کہ حضرت مرزا غلام احمد نے مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے.حضرت شیخ صاحب کا اس سے قبل حضرت حافظ حکیم مولانا نور الدین رضی اللہ عنہ (خلیفۃ المسیح الاوّل ) اور مولوی عبد الکریم سیالکوٹی ؓ سے قریبی رابطہ معلوم ہوتا ہے.اس لئے آپ نے موصوف سے پوچھا کہ مولوی نورالدین صاحب ؓ (خلیفۃ المسیح الاوّل) اور مولوی عبد الکریم سیالکوٹی ؓ کا کیا حال ہے انہوں نے آپ سے کہا کہ دونوں قادیان گئے ہیں.چنانچہ آپ کی درخواست پر چوہدری صاحب کا رڈ لے آئے (حضرت شیخ صاحب بخار میں مبتلا تھے.) بیعت کا کارڈ انہوں نے ہی لکھا اور آپؓ نے ٰامَنَّا وَ صَدَّقْنَا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاھِدِیْنَ لکھ کر دستخط کر دیئے.سیٹھی غلام نبی ؓ کے احمدیت قبول کرنے پر بھائیوں میں اختلاف ہوا اور کاروبار الگ الگ ہو گیا.تھوڑی مدت کے بعد آپ قادیان گئے تو حضرت اقدس ؑ کے بالاخانے پر حضرت اقدس ؑ کے خادم حضرت حافظ حامد علی ؓ کے ساتھ ملاقات ہوئی.حضرت اقدس ؑکھڑے رہے اور آپ کو چارپائی پر بیٹھنے کو کہا اور خود ایک بکس میں سے مصری نکالی اور خود شربت بنا کر آپ کو پلایا.مذکورہ ملاقات میں آپ نے حضرت اقدس ؑ سے براہین احمدیہ مانگی جو ختم ہو چکی تھی.صرف ایک نسخہ حضرت ؑکے استعمال کا تھا جسے آپؑ نے سیٹھی صاحب کو دے دیا.واپسی پر آپ بھیرہ حضرت حکیم مولانا نورالدینؓ (خلیفۃ المسیح الاوّل) سے ملاقات کر کے گھر واپس آئے.ایک روایت کے مطابق آئینہ کمالات اسلام توسیع کے زیر تصنیف کے ۸۰ صفحات حضرت اقدس ؑ نے آپ کو دیئے.ایک دفعہ سیٹھی صاحب کا قیام حضرت مولانا حکیم نور الدینؓ (خلیفۃ المسیح الاوّل) کے گھر
ہوا.رات کے بارہ بجے کسی نے دروازے پر دستک دی.دیکھا کہ ایک ہاتھ میں لیمپ اور ایک ہاتھ میں گلاس دودھ کا لئے حضرت مسیح موعود ؑ کھڑے ہیں اور فرمایا بھائی صاحب کہیں سے دودھ آ گیا تھا تو میں آپ کے لئے لے آیا.(آپ راولپنڈی میں تجارت کرتے تھے.آپ ۱۹۲۴ء میں قادیان ہجرت کر کے آگئے اور دارالرحمت میں مکان لیا)کتاب البریہ میں آپ کاپرُامن جماعت کے ضمن میں ذکر ہے.آپ ۱۶؍اپریل ۱۹۳۰ء کو وفات پا گئے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب ؓ کے پہلو میں دفن ہوئے.چکوال میں کاروبار نہ چلنے کی وجہ سے آپ قادیان چلے گئے تھے.٭ فہرست مکتوبات بنام حضرت شیخ غلام نبی صاحبؓ نمبرشمار تاریخ تحریر صفحہ ۱ ۲۷؍نومبر ۱۸۹۱ء ۵۴۳ ۲ ۱۰؍دسمبر ۹۱ء ژ ۵۴۵ ۳ ۲۹؍اگست ۱۸۹۴ء ژ ۵۴۶ ۴ ۱۴؍اکتوبر ۱۸۹۸ء ۵۴۶ ۵ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۰ء ژ ۵۴۸ ۶ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۲ء ژ ۵۵۰ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۱۳۹، ۱۴۱
مکتوب نمبر۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ مخدومی و مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ معہ پارسل ادویہ پہنچا.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ.امید کہ انشاء اللہ القدیر دوائی مجوزہ آں مکرم شروع کروں گا.ہنوز میری حالت شدت خارش کی بدستور ہے.جو زخم ہو جاتا ہے وہ مشکل سے بھرتا ہے.درد شدید اورضربان اور سوزش اور جلن ایسی لازم حال رہتی ہے کہ مجھ سے کوئی کام نہیں ہو سکتا اللہ جل شانہ کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں.میرا ارادہ تھا کہ امرت ؔسر.کپورؔتھلہ.سیالکوٹ ایک مرتبہ دیکھ آئوں.لیکن اس مرض کے سبب سے میری حالت سفر کے لائق ہرگز نہیں.شیخ بتالوی اپنی فتنہ انگیزی میں اب تک سست اور کاہل نہیں ہوئے اور اپنے تمام جذبات نفسانی اسی راہ میں خرچ کرنا چاہتے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو ان مولویوں کے ذریعہ سے تحریک منظور ہے اور چاہتا ہے کہ جلدی اپنے کام کو دنیا میں پھیلا دیوے کیونکہ بغیر اطلاع یابی کے کوئی شخص طلب کے لئے قدم نہیں اٹھا سکتا.…… کا جموں میں تشریف لانا معلوم ہوا.اگرچہ اس دارالابتلا میں خدا تعالیٰ نے اولاد کو بھی فتنہ میں ہی داخل رکھا ہے جیسا کہ اموال کو لیکن اگر کوئی شخص صحت نیت کی بناء پر محض اس غرض سے اور سراسر اس وجد اور فکر سے طالب اولاد ہوکہ تا اس کے بعد اس کی ذریت میں سے کوئی خادم دین پیدا ہو جس کے وجود سے اس کے باپ کو بھی دوبارہ ثواب آخرت کا حصہ ملے تو خاص اس نیت اور اس جوش سے اولاد کا خواہش مند ہونا نہ صرف جائز بلکہ اعلیٰ درجہ کے اعمال صالحہ میں سے ہے جیسا کہ اس خواہش کی تحریک اس آیہ کریمہ میں بھی پائی جاتی ہے.اللّٰہ جلّ شانہٗ نے فرمایا ہے.وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا ۱ ؎.س۱۹.لیکن سچ مچ اور واقعی ۱؎ الفرقان : ۷۵
اور حقیقی طور پر یہی جوش پیدا ہونا اور اسے لِلّٰہی جوش کی بنا پر اولاد کا خواہش مند ہونا ان ابرار و اخیار اور اتقیاء کا کام ہے.جو اپنے اعمال خیر کے آثار باقیہ دنیا میں چھوڑ جانا چاہتے ہیں.سو …… جہاں تک تجربہ کیا گیا ہے.بے شک ایک سچے خادم دین ہیں.خدا تعالیٰ ان کو اس نیت اور اس جوش میں پورے طور پر مکمل کر کے ان کی مرادات انہیں عطا فرماوے اور یہ عاجز بھی اپنے لئے اور نیزآں مکرم کے لئے بھی بجوش دل یہی دعا کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہماری نسل اور ذریت میں سے بھی اپنے دین کے خادم اور اپنی راہ کے سچے جان نثار پیدا کرے.یہ دعا اس عاجز کی اپنے لئے اور آپ کے لئے اور … کے لئے اور ہر ایک دوست کے لئے ہے.لیکن ابنائے روزگار کی رسم اور عادت کے طور پر خواہش مند اولاد ہونا اور یہ خیال رکھنا کہ ہماری موت فوت کے بعد ہماری زخارف دنیا کی ہماری اولاد وارث بنے اور شرکاء ہماری جائداد کے قابض نہ ہونے پائیں بلکہ ہمارے بیٹے ہمارے ترکہ پر قبضہ کریں اور شریکوں سے لڑتے جھگڑتے رہیں اور ہمارے مرنے کے بعد دنیا میں ہماری یادگار رہ جاوے یہ خیال سراسر شرک اور فساد اور سخت معصیت سے بھرا ہوا ہے اور میں جانتا ہوں کہ جب تک یہ خیال دل میں سے دور نہ ہولے کوئی شخص سچا موحد اور سچا مسلمان نہیں ہو سکتا.ہمیں ہر روز خدا تعالیٰ کی طرف قدم بڑھانا چاہئے اور جن امور کو وہ فتنہ قرار دیوے.بغیر تحقق صحت نیت کے ان کو اپنی درخواست سے اپنے پر نازل نہیں کرانا چاہیے.جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ اس کے لئے ہو جاتا ہے.وہ اس کے اندرونی پاک جوشوں اور مظہر جذبات کو خوب جانتا ہے بلکہ درحقیقت پاک دل انسان کے اندرونی جوش اس کی طرف سے ہوتے ہیں اور پھر وہ انہیں کو پورا بھی کر دیتا ہے.جس وقت وہ دیکھتا ہے کہ ایک لِلّٰہی حالت کا آدمی اس کے دین کی خدمت کے لئے اپنا کوئی وارث چاہتا ہے تو اللہ جلّ شانہ اس کو ضرور کوئی وارث عنایت کرتا ہے.اس کی دعائیں پہلے ہی سے قبول شدہ کے حکم میں ہوتی ہیں.خدا تعالیٰ ہم سب کو اسی حالت سے اور اس کے نتائج سے تمتع کامل عطا فرماوے اور کسی جگہ مکان بنانے کے لئے یہ عاجز ارادہ الٰہی کی طرف دیکھ رہا ہے.اس لئے ابھی کوئی بات منہ پر نہیں لا سکتا.لیکن اس عاجز کی دلی منشاء ہے آں مکرم کا اس بات میں تو ارد ہے کہ یہ عاجز اور آں مکرم بقیہ زندگی ایک جگہ بسر کریں.سو یہ
عاجز دعا میں مشغول ہے.امید کہ اللہ جلّ شانہ کوئی ایسی راہ پیدا کردے گا.جو کہ خیر و برکت سے معمور ہو گی.زیادہ خیریت ہے.٭ والسلام ۲۷؍نومبر ۱۸۹۱ء الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر۲ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ اخویم شیخ غلام نبی صاحب سلّمہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ اور… نوٹ مبلغ پنج روپیہ مجھ کو ملا.آپ اس بات پر یقین کر سکتے ہیں کہ جس قدر آپ محض لِلّٰہ خدمات میں مشغول ہیں.آپ فراموش نہیں ہو سکتے لیکن اس زندگی میں کوئی شخص ابتلاء اور امتحان سے خالی نہیں ہوتا.سو اسی غرض سے اللہ تعالیٰ بعض اوقات دعائوں کو معرض التواء میںڈالتا ہے تا غافل بندہ کو جو اکثر امور آخرت سے بے خبر ہوتا ہے ثواب حاصل ہو.آپ تسکین اور اطمینان رکھیں کہ آخر اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.اور بہتر ہے کہ دو تین ہفتہ کے لئے میرے پاس قادیان میں آجائو.میں آپ کی ہمدردی سے غافل نہیں ہوں.ا س وقت مجھے بشدّت دردسر ہو رہا ہے تاہم یہ خط ایسی حالت میںمَیں نے لکھا ہے.اب دل کمزور ہوتا جاتا ہے.والسلام ۱۰؍دسمبر ۹۱ء خاکسار مرزا غلام احمدعفی عنہ از قادیان ٭ الحکم نمبر ۳۳ جلد۲ مورخہ ۲۹؍اکتوبر ۱۸۹۸ء صفحہ ۳، ۴
مکتوب نمبر۳ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ محبیّ مشفقی اخویم شیخ غلام نبی صاحب سلّمہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا محبت نامہ پہنچا.آپ تحریر فرماویں کہ کیا نو ر الحق اور رسالہ روافض یعنی سرّ الخلافہ اب تک آپ کے نہیں پہنچا.یا دوسری جلدیں مانگتے ہیںاور کس قدر مانگتے ہیں جب تک مفصل تحریر نہ ہو کیوں کر ارسال کریں اور آتھم کی پیشگوئی کا وقت ِ انتظار ہے.خدا تعالیٰ اس کو جلد پوری کرے.آمین ثم آمین.باقی خیریت ہے.والسلام ۲۹؍اگست ۱۸۹۴ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر۴ محبیّ عزیزی اخویم شیخ غلام نبی صاحب سلمہُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ … مرسلہ آں محب پہنچ گئے.جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ.اور دعا کے بارے میںیہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ میں دعا سکھلائی ہے.یعنے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ.صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ اس میں تین لحاظ رکھنے چاہئیں.(۱) ایک یہ کہ تمام بنی نوع کو اس میں شریک رکھے.
(۱) ایک یہ کہ تمام بنی نوع کو اس میں شریک رکھے.(۲) تمام مسلمانوں کو.(۳) تیسرے ان حاضرین کو جو جماعت نماز میں داخل ہیں.پس اس طرح کی نیت سے کل نوع انسان اس میں داخل ہوں گے.اور یہی منشاء خدا تعالیٰ کا ہے.کیونکہ اس سے پہلے اسی سورت میں اس نے اپنا نام ربُّ العالمین رکھا ہے.جو عام ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے.جس میں حیوانات بھی داخل ہیں.پھر اپنا نام رحمان رکھا ہے.اور یہ نام نوع انسان کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے.کیونکہ یہ رحمت انسانوں سے خاص ہے.اور پھر اپنا نام رحیم رکھا ہے اور یہ نام مومنوں کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے.کیونکہ رحیم کا لفظ مومنوں سے خاص ہے اور پھر اپنا نام مالک یوم الدین رکھا ہے اور یہ نام جماعت موجودہ کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے.کیونکہ یَوْمُ الدِّیْن وہ دن ہے جس میں خدا تعالیٰ کے سامنے جماعتیں حاضر ہوں گی.سو اسی تفصیل کے لحاظ سے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا ہے.پس اس قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دعا میں تمام نوع انسانی کی ہمدردی داخل ہے اور اسلام کا اصول یہی ہے کہ سب کا خیر خواہ ہو.٭ ۱۴؍اکتوبر ۱۸۹۸ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ٭ الحکم نمبر ۳۳ جلد ۲ مورخہ ۲۹؍ اکتوبر ۱۸۹۸ء صفحہ ۴
مکتوب نمبر۵ ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ محبی عزیز ی شیخ غلام نبی صاحب سلّمہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کل کی ڈاک میں مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا.میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کی اس نیک نیتی اور خوف الٰہی پر اللہ تعالیٰ خود کوئی طریق مخلصی پیدا کر دے گا.اس وقت تک صبر سے استغفار کرنا چاہیے اور سوُد کے بارے میں میرے نزدیک ایک انتظام احسن ہے اور وہ یہ ہے کہ جس قدر سوُد کا روپیہ آوے آپ اپنے کام میں اس کو خرچ نہ کریں بلکہ اس کو الگ جمع کرتے جائیں اور جب سوُد دینا پڑے اس روپیہ میں سے دے دیں اور اگر آپ کے خیال میں کچھ زیادہ روپیہ زیادہ ہو جائے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے کہ وہ روپیہ کسی ایسے کام میں خرچ ہو جس میں کسی شخص کا ذاتی خرچ نہ ہو بلکہ صرف اس سے اشاعت دین ہو.میں اس سے پہلے یہ فتویٰ اپنی جماعت کے لئے بھی دے چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سوُد حرام فرمایا ہے وہ انسان کی ذاتیات کے لئے ہے.حرام یہ طریق ہے کہ کوئی انسان سوُد کے روپیہ سے اپنی اور اپنے عیال کی معیشت چلاوے یا خوراک یا پوشاک یا عمارت میں خرچ کرے یا ایسا ہی کسی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ اس میں سے کھاوے یا پہنے.لیکن اس طرح پر کسی سوُد کے روپیہ کا خرچ کرنا ہرگز حرام نہیں ہے کہ وہ بغیر اپنے کسی ذرہ ذاتی نفع کے خدا تعالیٰ کی طرف ردّ کیا جائے یعنی اشاعت دین پرخرچ کیا جائے.قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر یک چیز کا مالک ہے.جو چیز اس کی طرف آتی ہے وہ پاک ہو جاتی ہے بجز اس کے کہ ایسے مال نہ ہوں کہ انسانوں کی مرضی
کے بغیر لیے گئے ہوں جیسے چوری یا راہزنی یا ڈاکہ.کہ یہ مال کسی طرح سے بھی خدا اور دین کے کاموں میں بھی خرچ کرنے کے لائق نہیں لیکن جو مال رضامندی سے حاصل کیا گیا ہو وہ خدا تعالیٰ کے دین کی راہ میں خرچ ہو سکتا ہے.دیکھنا چاہیے کہ ہم لوگوں کو اس وقت مخالفوں کے مقابل پر جو ہمارے دین کے ردّ میں شائع کرتے ہیں کس قدر روپیہ کی ضرورت ہے.گویا یہ ایک جنگ ہے جو ہم ان سے کر رہے ہیں.اس صورت میں اس جنگ کی امداد کے لئے ایسے مال اگر خرچ کیے جائیں تو کچھ مضائقہ نہیں.یہ فتویٰ ہے جو میں نے دیا ہے.اور بے گانہ عورتوں سے بچنے کے لئے آنکھوں کو خوابیدہ رکھنا اور کھول کر نظر نہ ڈالنا کافی ہے.اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا.یہ تو شکر کی بات ہے کہ اس سلسلہ کی تائید میں آپ ہمیشہ اپنے مال سے مدد دیتے رہتے ہیں.اس ضرورت کے وقت یہ ایسا کام ہے جو میرے خیال میں خدا تعالیٰ کے راضی کرنے کے لئے نہایت اقرب طریق ہے.سو شکر کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دے رکھی ہے.اور میں دیکھتا ہوں کہ ہمیشہ آپ اس راہ میں سرگرم ہیں.ایسے عملوں کو اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے.وہی جزا دے گا ہاں ماسوا اس کے دعا اور استغفار میںبھی مشغول رہنا چاہیے باقی خیریت ہے.۲۴؍اپریل ۱۹۰۰ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان سوُد کی اشاعت دین میں خرچ کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی انسان عمداً اپنے تئیں اس کام میں ڈالے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری سے جیسا کہ آپ کو پیش ہے یا کسی اتفاق سے کوئی شخص سوُد کے روپیہ کا وارث ہو جائے تو وہ روپیہ اس طرح پر جیسا کہ میں نے بیان کیا خرچ ہو سکتا ہے.اور اس کے ساتھ ثواب کا بھی مستحق ہو گا.
مکتوب نمبر۶ژ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی محبیّ عزیزی میاں شیخ غلام نبی صاحب سلّمہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کارڈ پہنچا.آپ کو اپنے فرزند دلبند کی وفات سے بہت صدمہ ہوا ہو گا.اللہ تعالیٰ آپ کو نعم البدل عطا فرماوے.یہ خیال آپ دل میں نہ لاویں کہ اس لڑکے کی پیدائش تو بطور معجزہ تھی پھر وہ کیوں فوت ہو گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَا نَنْسَخْ مِنْ ٰایَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَأْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَا اَوْ مِثْلِھَا.اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ ۱؎.یعنی اگر کوئی نشان اور معجزہ ہم دور کر دیتے ہیں تو اس سے بہتر اور نشان ظاہر کرتے ہیں اور اولاد کے بارے میں یہ بھی فرمایا ہے.اِنَّمَا اَمْوَالُـکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ ۲؎ یعنی تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے فتنہ ہے یعنی آزمائش کی جگہ ہے.خدا تعالیٰ دیکھتا ہے کہ تم میں سے کون قائم رہتا ہے اور کون ٹھوکر کھاتا ہے.بالخصوص جبکہ آپ کی عمر ہنوز بہت تھوڑی ہے اور مرد کو نوّے برس کی عمر میں بھی اولاد ہو سکتی ہے اس لئے میں لکھتا ہوں کہ آپ اب کی دفعہ تو ثواب حاصل کرلو اور اس آیت کی رو سے موعود رحمت میں حصہ لے لو.جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرَاتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۳؎.سو ہرگز خوف نہ کرو اور خدا کے دوسرے معجزہ کے منتظر رہو.والسلام ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۲ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۱؎ البقرۃ : ۱۰۷ ۲؎ التغابن : ۱۶ ۳؎ البقرۃ : ۱۵۶
حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیرویؓ حضرت حکیم مولوی حافظ فضل الدین رضی اللہ عنہ بھیرہ کی ایک معزز خواجہ فیملی سے تعلق رکھتے تھے جو حضرت مولانا نورالدین صاحب (خلیفۃ المسیح الاوّلؓ ) کے بچپن کے دوست تھے.آپ اکثر حضور کی خدمت میں قادیان حاضر ہوتے تھے.آپ کی بیعت غالباً۱۸۹۰ء کی ہے کیونکہ’’ فتح اسلام‘‘ میں آپ کے صدق و اخلاص اور مالی قربانی کا ذکر ہے.آپ کی ہر دوزوجہ نے بیعت کی.آپ کی اہلیہ حضرت فاطمہ صاحبہ کی بیعت کا اندراج رجسٹر بیعت میں ۱۰۳ نمبر پر ہے.آپ کی دوسری زوجہ حضرت مریم بی بی صاحبہ تھیں.آپ سلسلہ کی خدمت دل کھول کر کرتے تھے.آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی خوشنودی حاصل تھی.ایک روز حکیم فضل الدین ؓ نے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ سے عرض کیا کہ یہاں میں نکماّ بیٹھا کیا کرتا ہوں مجھے حکم ہو تو بھیرہ چلا جائوں وہاں درس قرآن کروں گا یہاں مجھے بڑی شرم آتی ہے کہ میں حضور کے کسی کام نہیں آتا اور شاید بیکار بیٹھنے میں کوئی معصیت ہو حضور ؑ نے فرمایا آپ کا بیکار بیٹھنا بھی جہاد ہے اور یہ بے کاری ہی بڑا کام ہے.قادیان میں آپ نے مطبع ضیاء الاسلام قائم کیا جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں چھپتی تھیں.اس کے علاوہ مدرسہ احمدیہ کے سپرنٹنڈنٹ اور کتب خانہ حضرت مسیح موعود ؑکے مہتمم اور لنگر خانہ حضرت مسیح موعود ؑ کا کام آپ کے سپرد تھا.حضرت اقدس ؑ کے چھ گروپ فوٹوز میں سے چار میں شامل ہونے کا آپ کو اعزاز ملا.حضرت اقدس ؑ فتح اسلام میں فرماتے ہیں.’’… حکیم صاحب ممدوح جس قدر مجھ سے محبت اور اخلاص اور ُحسنِ ارادت او ر اندرونی تعلق رکھتے ہیں میں اس کے بیان سے قاصر ہوں.وہ میرے سچے خیرخواہ اور دلی ہمدرد ا
ہمدرد اور حقیقت شناس مرد ہیں… ‘‘ وہ ہمیشہ درپردہ خدمت کرتے رہتے ہیں اور کئی سو روپیہ پوشیدہ طور پر محض ابتغاء لمرضات اللہ اس راہ میں دے چکے ہیں خدا تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے.(فتح اسلام روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۳۸) حضرت اقدس ؑ نے آپ کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے ازالہ اوہام میں فرمایا.’’…معلوم ہوتا ہے کہ انہیں دین کی حقانیت کے پھیلانے میں اسی عشق کا وافر حصہ ملا ہے جو تقسیم ازلی سے میرے پیارے بھائی حکیم نور الدین صاحب کو دیا گیا ہے.وہ اس سلسلہ کے دینی اخراجات بنظر غور دیکھ کر ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ چندہ کی صورت پر کوئی ان کا احسن انتظام ہو جائے چنانچہ رسالہ فتح اسلام جس میں معارف دینیہ کی پنج شاخوں کا بیان ہے انہیں کی تحریک اور مشورہ سے لکھا گیا تھا.ان کی فراست نہایت صحیح ہے.وہ بات کی تہہ تک پہنچتے ہیں اور ان کا خیال ظنون فاسدہ سے مصفّٰی اور مزکّٰی ہے.‘‘ آپ کی وفات ۸؍اپریل ۱۹۱۰ء کو دورانِ سفر لاہور میں ہوئی اور تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی.٭ فہرست مکتوبات بنام حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیرویؓ مکتوب نمبر تاریخ تحریر صفحہ ۱ بلا تاریخ ژ ۵۶۷ ۲ بلا تاریخ ۵۶۸ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۵۸ تا ۶۰
دیںکہ اگر وہ اس مدت تک سچی توبہ کر کے اپنی تبدیلی کرے تو بہتر ہے ورنہ اس کے اس شور اور سرکشی سے سمجھا جائے گا کہ وہ خود طلاق مانگتی ہے تو اس صورت میں تمہارا اختیار ہو گا کہ اس کو طلاق دے دیں.اور بہتر ہے کہ یہی مضمون کسی اخبار میں چھپوا دیا جائے.کیونکہ اب یہ معاملہ پوشیدہ نہیں رہ سکتا.اس سے اس کے دل پر رعب پیدا ہو گا.اور یہ بہت قرین مصلحت ہے کہ اس مقرر کردہ مدت میں نہ اس کے گھر سے کھانا کھایا جائے اور نہ وہاں سونا ہو گا.اور یہ بھی شرط لکھ دیں کہ وہ بلاتوقف اپنے بھائی اور ماں کو رخصت کر دے.ورنہ نافرمان متصوّر ہو گی.پھر اس قدر کوشش کے بعد اگر باز نہ آوے تو اس کو طلاق دے دیں تا اس کے شر سے نجات ہو.٭ والسلام مرزا غلام احمد ٭ الحکم نمبر ۶جلد۱۰ مورخہ ۱۷؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۲
حضرت منشی گلاب دین صاحب رہتاسیؓ حضرت منشی گلاب دین رضی اللہ عنہ کا مسکن رہتاس ضلع جہلم تھا.آپ سکول ٹیچر تھے اور بڑے اعلیٰ پایہ کے شاعر بھی.آپ کے والد صاحب کا نام منشی شرف الدین تھا.آپ کا سلسلہ نسب حضرت علیؓ کی غیرفاطمی اولاد سے ہے.آپ کا خاندان مغل بادشاہ نصیر الدین ہمایوں کے ساتھ وادی سون سکیسر سے ہوتا ہوا رہتاس آیا.آپ قبول احمدیت سے قبل شیعہ خیالات رکھتے تھے اور اپنے علاقہ کے مشہور واعظ اور ذاکر تھے… منشی صاحب یوم عاشور اورچہلم کے مواقع پر مجالس عزا سے خطاب کرتے تھے ا ور اہل تشیع میں مقبول اور ہر دلعزیز تھے.قبول احمدیت کے بعد آپ نے یہ تمام مصروفیات ترک کر دیں اور حضرت امام مہدی آخر الزمان کے دامن سے وابستہ ہو کر احمدیت کے شیدائی بن گئے.آپ جب جہلم تشریف لایا کرتے تو مسجد واقع نیا محلہ میں نماز جمعہ پڑھاتے اور درس دیتے تھے.حضرت منشی گلاب دینؓ نے رہتاس میں تعلیم کے لئے پہلا مڈل سکول قائم کیا.حضرت مولانا برہان الدین جہلمی رضی اللہ عنہ قادیان اور ہوشیار پور سے حضرت اقدس ؑکی زیارت کے بعد لوٹے.تو منشی صاحب نے کچھ اعتراض کئے.اس پر حضرت مولوی برہان الدین ؓ نے کہا پہلے اسے جا کر دیکھ آئو پھرمیرے ساتھ بات کرنا.چنانچہ منشی صاحب اور آپ کے ایک قریبی رشتہ دار ملک غلام حسین قادیان پہنچے.حضرت اقدس ؑ سیر سے واپس آرہے تھے تو ملاقات ہوئی.آپ حضرت اقدس ؑ کا نورانی چہرہ دیکھ کر واپس آ گئے.بعد میں جب حضرت اقدس ؑ نے دعویٰ کیا تو بیعت کا خط لکھ دیا.آپ کی بیعت ۸؍ستمبر ۱۸۹۲ء کو حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے منظور
منظور فرمائی.رجسٹر بیعت اُولیٰ میں آپ کا نام ۳۵۳ نمبر پر درج ہے.آئینہ کمالات اسلام میںشاملین چندہ دہندگان برموقعہ جلسہ ۱۸۹۲ء کی فہرست میں آپ کا نام درج ہے.کتاب البریہ میں پرُامن جماعت کے ضمن میں بھی آپ کا نام درج ہے.آپ نے پیشگوئی لیکھرام کا نشان پورا ہونے کی شہادت دی جس کا ذکر تریاق القلوب میں ہے.۲۳؍ نومبر ۱۹۲۰ء کو آپ کا انتقال ہو گیا.آپ موصی تھے کتبہ یادگار بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ نمبر ۱ حصہ نمبر ۴ میں نصب ہے.آپ کا جنازہ حضرت مولوی عبد المغنی ؓ ابن حضرت مولوی برہان الدین جہلمی رضی اللہ عنہ نے پڑھایا.قلعہ رہتاس کے دروازہ خواص کے باہر مزار کمال چشتی کے احاطہ میں جانب مشرق دفن کئے گئے.آپ کی ایک کتاب ’’کلیات گلاب‘‘ بھی ہے.٭ ٭ تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ ۷۴ تا ۷۶
مکتوب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ محبیّ عزیزی منشی گلاب الدین صاحب سلّمہُ اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ موازی ۴؍مرسلہ آپ کے پہنچ گئے اور آپ کا نام کتاب مبایعین میں درج کیا گیا ہے.ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع رکھیں اور حتیّ الوسع اس کے حکموں کو بجالاتے رہیں.بیعت کنندوں کے نمبر ۳۵۲ میں آپ کا نام ہے.٭ ۸؍ستمبر ۱۸۹۲ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ٭ الفضل نمبر۵۶ جلد۸ مورخہ ۲۷؍جنوری ۱۹۲۱ء صفحہ ۷