Language: UR
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی میں مختلف احباب کو جو خطوط تحریر فرمائے ان کو افادہ عام کے لئے بعد میں کتابی شکل دی گئی ۔ ان مکتوبات میں جو بظاہر متفرق موضوعات پر مختلف احباب کو لکھے گئے یا ان کے خط کے جواب میں بھیجے گئے، ان میں قارئین کے لئے بہت زیادہ علمی و روحانی تسکین کے سامان موجودہیں۔ موجودہ کمپیوٹرائزڈایڈیشن میں مکتوب الیہ کے اعتبار سے مکتوبات کی جلدیں مرتب کی گئی ہیں جن سے مطالعہ میں سہولت ہوجاتی ہے۔ نیزان مکتوبات سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی معاصرہندوو آریہ پنڈتوں،عیسائی پادریوں اور مناظروں، مختلف مسالک کے مسلمان علماء، عشق و وارفتگی سے پُر اپنے معزز اصحاب اور متفرق احباب سے اعلیٰ برتاؤ اور آپ کی سادگی، روزمرہ زندگی،توکل علیٰ اللہ، بیماری و شدید مالی مشکلات پر صبراور اخلاق حسنہ کی گہرائی کا بھی پتہ چلتا ہے۔
مکتوبات احمد حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مهدی معهود علیه السلام کے خطوط اور مکاتیب جلد سوم
اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے عرض ناشر احباب جماعت کی خدمت میں مکتوبات احمد کی جلد سوم پیش کی جارہی ہے.یہ جلد حضرت مولانا شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی مرتبہ مکتوبات احمدیہ کی جلد پنجم نمبر پنجم اور بعض مزید خطوط پر مشتمل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اشاعت دین کے لئے مختلف ذرائع اختیار فرمائے.چنانچہ آپ نے اپنی کتاب فتح اسلام میں اشاعت اسلام کی چوتھی شاخ ان مکتو بات کو قرار دیا جو حق کے طالبوں یا مخالفوں کی طرف لکھے جاتے ہیں.ان قیمتی مکتوبات کی تدوین واشاعت کا اولین کام حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے سرانجام دیا.انہوں نے اولاً اپنے اخبار الحکم میں شائع کیا اور بعدۂ مکتوبات احمد یہ کے نام سے ان کو کتابی صورت میں یکجا کر دیا.مکتوبات احمد کا موجودہ ایڈیشن خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی منصوبہ کا حصہ تھا جس میں حضور علیہ السلام کے خطوط کو از سر نو مرتب کر کے شائع کیا جا رہا ہے.مکتوبات احمد جلد سوم میں مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے خطوط کے علاوہ مکتوبات احمد جلد اوّل اور دوم میں رہ جانے والے بعض خطوط کو بھی شامل کر دیا گیا ہے.اسی طرح اس جلد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ کے نام لکھا گیا ایک خط بھی شامل ہے نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین صحا به حضرت میر ناصر نواب صاحب، حضرت سید فضل شاہ صاحب اور حضرت پیر افتخار احمد صاحب کے نام مکتو بات بھی اس جلد کی زینت بنائے گئے ہیں.مکتوبات احمد جلد اوّل میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے نام دو خطوط شامل ہونے سے رہ گئے.اسی طرح مکتوبات احمد جلد دوم میں حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب ، حضرت نواب محمد علی خان صاحب، حضرت حاجی سیٹھ اللہ رکھا عبدالرحمن مدراسی صاحب اور حضرت منشی رستم علی صاحب کے نام بعض خطوط
|| شامل ہونے سے رہ گئے تھے ، وہ خطوط جلد ھذا میں شامل اشاعت ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے جن خطوط کے عکس مہیا ہو سکے ہیں وہ تمام عکس اس کتاب کی زینت بنا دیئے گئے ہیں.جن خطوط کے عکس شامل ہیں ان مکتو بات پر ستارے کا نشان لگا دیا گیا ہے.اس جلد کی تیاری میں خاکسار کے ساتھ جن احباب نے انتہائی محنت اور اخلاص کے ساتھ معاونت فرمائی ہے وہ شکریہ کے مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو اور ان سب احباب کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے کسی نہ کسی طور پر اس کتاب کی تدوین واشاعت میں حصہ لیا ہے.فجزاهم الله تعالى احسن الجزاء اللہ تعالیٰ اس جلد کی اشاعت کے نیک اور بابرکت ثمرات ظاہر فرمائے اور اسے اشاعتِ دین کا مفید ذریعہ بنا دے.آمین.یکم دسمبر ۲۰۱۳ء
صفحہ نمبر L ۱۵ ۳۱ ۴۷ 3 ۷۲ ۸۳ ۱۳۹ ۱۴۷ ||| مکتوبات احمد جلد سوم ترتي خطوط بنام نمبر شمار حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب حضرت میر ناصر نواب صاحب حضرت منشی احمد جان صاحب حضرت نواب علی محمد خان صاحب آف جھجر حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور حضرت منشی ظفر احمد صاحب حضرت منشی محمد خان صاحب حضرت خان صاحب عبدالمجید خاں صاحب حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی سرساوی حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب حضرت سید محمد عسکری صاحب ง ۹ 1.
IV نمبر شمار ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ N ۲۷ ۲۸ ۲۹ خطوط بنام حضرت مولوی ابوالخیر عبد اللہ صاحب حضرت میر حکیم حسام الدین صاحب سیالکوٹی حضرت مولوی محمد شادی خان صاحب سیالکوٹی حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب حضرت خان صاحب ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحب حضرت شیخ فتح محمد صاحب حضرت مولوی عبد القادر صاحب لو د ہا نوی حضرت سیدامیر علی شاہ صاحب ایک مدرس کے نام خط حضرت مولوی اللہ دیتا صاحب لودھی منگل حضرت صوفی سید حافظ تصور حسین صاحب حضرت سید ناصر شاہ صاحب حضرت سید فضل شاہ صاحب حضرت چوہدری الہ داد خاں صاحب حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب حضرت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب حضرت صدیقہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت قریشی محمد عثمان صاحب صفحہ نمبر ۱۵۷ ۱۶۳ ۱۸۵ ۲۴۹ ۲۵۹ ۲۷۵ ۲۸۳ ۲۸۹ ۲۹۶ ۲۹۹ ۳۱۳ ۳۲۳ ۳۳۵ ۳۴۹ ۳۶۵ ۳۷۵ ۳۸۱
صفحہ نمبر E ۳۱ ۳۲ ۳۳ خطوط بنام حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب بھیروی حضرت خان صاحب نواب محمد علی خان صاحب حضرت حاجی سیٹھ اللہ رکھا عبدالرحمن صاحب مدراسی حضرت منشی رستم علی صاحب صفحہ نمبر ۳۸۷ ۳۹۳ ۳۹۷ ۴۰۱ ۴۰۵ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ۳۴
حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کے نام مکتوب
مکتوبات احمد والد محترم حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب کے نام حضرت اقدس کا ایک عجیب مکتوب جلد سوم ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک گرامی قدر مکتوب درج کیا جاتا ہے اس مکتوب کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کس طرح اول عمر ہی سے اس دنیا سے متنفر اور اللہ سے اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کی فکر میں رہتے تھے.یہ مکتوب آپ نے اپنے والد ماجد مرزا غلام مرتضی خان صاحب مرحوم کی خدمت میں ایسے وقت میں لکھا تھا جب آپ بد وشباب میں تھے.یہ مکتوب ہی آپ کی پاکیزہ فطرتی اور مطہر سیرت کا ایک جزو ہے.(ایڈیٹر بدر ) حضرت والد مخدوم من سلامت ! بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مراسم غلامانہ وقواعد فدویا نہ بجا آورده معروض حضرۃ والا میکند چونکه در بین ایام برای العین می بینم و بچشم سر مشاہدہ میکنم کہ در ہمہ ممالک و بلاد ہر سال چنان وبائے مے افتد که دوستان را از دوستان و خویشان را از خویشان جدا می کند و هیچ سالے نه بینم که این نائر عظیم و چنین حادثه الیم در آن سال شور قیامت نیفگند.نظر بر آن دل از دنیا سرد شده است و رو از خوف جان زرد و اکثر این دو مصرعه شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی بیاد مے آئند واشک حسرت ریخته میشود.مگن تکیه بر عمر نا پائیدار مباش ایمن از بازی روزگار و نیز این دو مصرعه ثانی از دیوان فرخ قادیانی نمک پاش جراحت دل میشود.بدنیائے دوں دل مبند اے جوان که وقت اجل میرسد ناگهان
مکتوبات احمد جلد سوم لہذا مے خواہم کہ بقیہ عمر در گوشہ تنہائی نشینم و دامن از صحبت مردم چینم و بیاد اوسجانه مشغول شوم مگر گزشته را عذرے و مافات را تدار کے شود.عمر بگذشت و نماند است جز آیا می چند که در یاد کسے صبح کنم شامے چند که دنیا را اساسی محکم نیست و زندگی را اعتبارے نے.وَ أَيسَ مَنْ خَافَ عَلَى نَفْسِهِ مِنْ افَةِ غَيْرِهِ - والسلام میریز ( نوٹ :.اس خط کو غور سے پڑھنے پر عجیب معرفت ہوتی ہے کہ آپ کو آخری الہام جو اپنی وفات کے متعلق ہوا وہ بھی یہی تھا.مکن تکیه پر عمر نا پائیدار مباش ایمن از بازی روزگار اور آپ نے یا دالہی میں مصروف ہونے کے لئے جس طرح پر والد مکرم سے اجازت چاہی اس میں بھی اسی سے استدلال فرمایا.) ( ترجمه از مرتب : - ) مخدوم من حضرت والد صاحب سلامت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مراسم غلامانہ اور قواعد فدویا نہ بجالاتے ہوئے حضور والا میں معروض ہوں کہ چونکہ ان ایام میں میں برای العین دیکھتا ہوں اور بچشم سر مشاہدہ کر رہا ہوں کہ تمام ممالک اور بلا د میں ہر سال کوئی نہ کوئی وباء آجاتی ہے جو دوستوں کو دوستوں سے اور عزیزوں کو عزیزوں سے جدا کر دیتی ہے اور کسی سال بھی میں یہ نہیں دیکھتا کہ یہ بھڑکتی آگ اور یہ دردناک حوادث اس سال شور قیامت بر پا نہیں کرتے ان حالات کو دیکھتے ہوئے دل دنیا سے سرد ہو چکا ہے اور چہرہ اس کے خوف سے زرد.اور اکثر شیخ مصلح الدین حمد اخبار بدر نمبر ۳۲ جلد ۸ مورخه ۳ / جون ۱۹۰۹ء صفحه ۲
مکتوبات احمد جلد سوم سعدی شیرازی کے یہ دو مصرعے یاد آتے ہیں اور حسرت کے آنسو بہتے چلے جاتے ہیں.مکن تکیه بر عمر نا مباش ایمن از بازی پائیدار روزگار عمر نا پائیدار پر تکیہ نہ کر اور روزگار کے اس کھیل سے کبھی اپنے آپ کو امن میں نہ سمجھ.اور دوسرے مصرعے فرخ سے قادیانی کے دیوان سے دل کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں.بدنیائے دوں دل مبند اے جوان که وقت اجل ے رسد ناگہاں اے نو جوان اس گھٹیا دنیا سے دل نہ لگا.کہ اجل کا وقت اچانک آ جایا کرتا ہے.لہذا میں چاہتا ہوں کہ میں بقیہ عمر گوشتہ تنہائی میں بیٹھوں اور لوگوں کی صحبت سے دامن بچاؤں اور اللہ سبحانہ کی یاد میں مشغول ہو جاؤں تا گزشتہ پر عذر اور مافات کا تدارک ہو سکے.عمر بگذشت و نماند است جز آیا می چند به که در یاد کسے صبح کنم شام چند عمر گزرگئی ہے اور صرف چند قدم باقی رہ گئے ہیں بہتر ہے کسی کی یاد میں چند شاموں کو صبح کردوں.دنیا کی بنیاد مضبوط نہیں اور زندگی کا کوئی اعتبار نہیں.وَ أَيسَ مَنْ خَافَ عَلَى نَفْسِهِ مِنْ افَةِ غَيْرِهِ.و شخص مایوس ہو گیا جو دوسرے کی آفت دیکھ کر اپنے نفس کے بارہ میں خوف زدہ ہو جائے.والسلام ے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرخ تخلص فرماتے تھے.(ناشر)
مکتوبات احمد ۶ جلد سوم
حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کے نام مکتوب
مکتوبات احمد جلد سوم
مکتوبات احمد جلد سوم مکتوب حضرت امام آخر الزمان حضرت میر ناصر نواب صاحب کے نام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمی اخویم میر صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا انشاء اللہ القدر تمام مراتب دافع الوساوس کے حصہ دوم میں بتفصیل آجائیں گے.حصہ اول اب قریب الاختتام ہے صرف ایک خط چھپنا باقی ہے جو پیرزادوں اور سجادہ نشینوں کی طرف لکھا گیا ہے اور بلحاظ مشایخ عرب کے وہ عربی میں خط ہے اور فارسی میں مولوی عبدالکریم صاحب نے اس کا ترجمہ کیا ہے.جو آپ نے اپنے عملی طریق کے لئے دریافت کیا ہے وہ یہی امر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی اتباع کی طرف رغبت کریں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن اعمال پر نہایت درجہ اپنی محبت ظاہر فرمائی ہے وہ دو ہیں ایک نماز اور ایک جہاد نماز کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قُرَّةُ عَيْنِي فِی الصَّلوةِ یعنی میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے اور جہاد کی نسبت فرماتے ہیں کہ میں آرزو رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کیا جاؤں.سواس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ کا جہاد یہی ہے کہ اعلاء کلمہ اسلام میں کوشش کریں مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں.دین متین اسلام کی خوبیاں دُنیا میں پھیلا دیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی دنیا پر ظاہر کریں.یہی جہاد ہے جب تک خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دُنیا میں ظاہر کرے.
مکتوبات احمد جلد سوم اور نماز اپنی اُسی پہلی حالت پر ہی چاہئے کہ نماز میں خدا تعالیٰ سے ہدایت چاہیں اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کا تکرار کریں خواہ گنجائش وقت کے ساتھ وہ تکرار نو مرتبہ تک پہنچ جائے سجدہ میں اکثر یاحی یا قیوم....الخ بتما متر عجز کہا کریں مگر نماز کی قنوت میں عربی عبارتیں ضروری نہیں.قنوت اُن دعاؤں کو کہتے ہیں جو مختلف وقتوں میں مختلف صورتوں میں پیش آتی ہیں سو بہتر ہے کہ ایسی دعائیں اپنی زبان میں کی جائیں.قرآن کریم اورا دعیہ ماثورہ اسی طرح پڑھنی چاہئیں جیسا کہ پڑھی جاتی ہیں مگر جدید مشکلات کی قنوت اگر اپنی زبان میں پڑھیں تو بہتر ہے تا اپنی مادری زبان نماز کی برکت سے بے نصیب نہ رہے.قنوت کی دعاؤں کا التزام حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے بعض پانچ وقت کے قائل ہیں اور بعض صبح سے مخصوص رکھتے ہیں اور بعض ہمیشہ کے لئے اور بعض کبھی کبھی ترک بھی کر دیتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ قنوت مصائب اور حاجات جدیدہ کے وقت یا نا گہانی حوادث کے وقت ہوتا ہے چونکہ مسلمانوں کے لئے یہ دن مصائب اور نوازل کے ہیں اس لئے کم سے کم صبح کی نماز میں قنوت ضروری ہے.قنوت کی بعض دعائیں ماثور بھی ہیں مگر مشکلات جدیدہ کے وقت اپنی عبارت میں استعمال کرنی پڑیں گی.غرض نماز کو مغز دار بنانا چاہئے جود عا اور تسبیح تہلیل سے بھری ہوئی ہو.اور دعا اور استغفار اور درود شریف کا التزام رکھنا چاہئے اور ہمیشہ خدا تعالیٰ سے نیک کاموں اور نیک خیالوں اور نیک ارادوں کی توفیق مانگنی چاہئے کہ بجز اس کی توفیق کے کچھ نہیں ہو سکتا.یہ ہستی سخت نا پایدار اور بے بنیاد ہے غفلت اور غافلا نہ آسائش کی جگہ نہیں.ہر یک سال اپنے اندر بڑے بڑے انقلاب پوشیدہ رکھتا ہے.خدا تعالیٰ سے عافیت مانگنی چاہئے اور ہراساں اور ترساں رہنا چاہئے کہ وہ ڈرنے والوں پر رحم کرتا ہے اگر چہ وہ گنہگا رہی ہوں اور چالاکوں اور خود پسندوں اور ناز کرنے والوں پر اُس کا قہر نازل ہوتا ہے اگر چہ وہ کیسے ہی اپنے تئیں نیک سمجھتے ہوں.والسلام ۲۱ / جنوری ۱۸۹۲ء البدر نمبر ۳۰ جلد ۲ مورخه ۱۴/ اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۳۹ خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم.نمبر پنجم مختلف احمدی احباب و خدام کے نام ) جلد سوم مکتوبات احمدیہ کی پانچویں جلد کے چوتھے نمبر میں حضرت حجة اللہ نواب محمد علی خان مــد ظـلــه العالی کے نام کے مکتوبات میں نے شائع کئے تھے.اس پانچویں جلد میں حضرت کے وہ مکتوبات شریک ہیں جو آپ نے اپنے مخلص خدام کے نام لکھے.جن احباب کے نام خطوط کا ایک مخصوص ذخیرہ تھا وہ میں نے جدا گانہ ہر ایک کے نام سے شائع کر دیا.اب اس جلد کے پانچویں نمبر میں مختلف احباب کے نام کے خطوط کو جمع کر رہا ہوں اور جتنی جلد میں شائع ہو چکی ہیں اگر اس سلسلہ کے بعض خطوط رہ گئے ہوں وہ بھی اس میں شائع ہو جائیں گے وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ.یہ سب تالیفات ( جیسا کہ میں متعد دمرتبہ بیان کر چکا ہوں ) حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے سوانح حیات اور سیرت مطہرہ کی کڑیاں ہیں.اس لئے میں نے تالیف کی سہولتوں کو مد نظر رکھ کر مختلف حصص شائع کئے.مثلاً سوانح حیات میں حیاتِ احمد کے نام سے متعد د حصص اور سیرت و شمائل کے کئی حصے اور مکتوبات کی کئی جلدیں.اللہ تعالیٰ جو عَالِمُ السِّرِّ وَ النِّيَّاتِ ہے جانتا ہے کہ میری غرض اس کی رضا ہے.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام کے بلند کرنے کا آپ وعدہ دیا.میں نے چاہا کہ ان
مکتوبات احمد ۱۲ جلد سوم اسباب و ذرائع میں میرا بھی حصہ ہو.اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس نابکار کو موقع دیا کہ الحکم کے ذریعہ آپ کی سیرت و سوانح اور آپ کے ملفوظات اور الہامات اور تاریخ سلسلہ کو محفوظ کرنے کی توفیق روزی ہوئی.وہ کام میری جوانی کے آغاز سے شروع ہوا اور اب جبکہ میں اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکا یعنی ستر سال کا ہو گیا.اسی کے فضل اور توفیق سے چاہتا ہوں کہ اسی خدمت میں آخری وقت تک مصروف رہوں تا میری نجات کا یہی ذریعہ ہو جاوے.اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی سے تو فیق چاہتا ہوں.هُوَ نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ - ۱۰/جون ۱۹۴۴ء خاکسار یعقوب علی ( عرفانی کبیر ) سکندر آباد
مکتوبات احمد ۱۳ جلد سوم احباب لو دہانہ کے نام لود ہانہ کو تاریخ سلسلہ میں بہت بڑی اہمیت ہے اور خدا تعالیٰ کی اس وحی میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل ہوئی، لودہانہ کا ذکر ہے چنانچہ ۲۰ رفروری ۱۸۸۶ء کو جو اشتہار آپ نے مختلف اخبارات میں اور علیحدہ شائع کیا اور ریاض ہند پریس امرتسر میں طبع ہوا.اس میں ارشاد ہوتا ہے.میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو قبولیت کی جگہ دی اور تیرے سفر کو ( جو ہوشیار پور اور لودہانہ کا سفر ہے ) تیرے لئے مبارک کر دیا.اور یہی وہ مقام ہے جہاں حضرت اقدس نے با علام الہی سلسلہ بیعت شروع کیا.چنانچہ ۴ مارچ ۱۸۸۹ء کو جو اعلان آپ نے بیعت کرنے والوں کے لئے شائع کیا، اس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ تاریخ ھذا سے ۲۴ / مارچ ۱۸۸۹ ء تک یہ عاجز لود بہانہ محلہ جدید میں مقیم ہے.اس عرصہ میں اگر کوئی صاحب آنا چاہیں تو لودہا نہ میں ۲۰ تاریخ کے بعد آجاویں.یہ مکان جہاں بیعت ہوئی حضرت منشی احمد جان رضی اللہ عنہ کے مکان کا ایک حصہ تھا اور اب وہاں دار البیعت کے نام سے سلسلہ کی ملکیت میں ایک شاندار عمارت ہے اور ۲۳ / مارچ ۱۹۴۴ء کو حضرت مصلح موعوداً يَّدَهُ اللهُ الْوَدُودُ کے دعوئی کے اعلان واظہار میں جلسہ ہو چکا ہے.پھر لاود ہانہ کو یہ بھی فضلیت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ براہین احمدیہ کے آغاز میں اسی شہر کے ایک فرد میر عباس علی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اشاعت براہین کے لئے کھڑا کر دیا.افسوس ہے کہ ان کا انجام کسی پنہانی معصیت کی وجہ سے ارتداد پر ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مسیح موعود ہونے کا اعلان بھی پہلی مرتبہ لودہانہ ہی سے کیا اور لو د ہا نہ ہی میں وہ عظیم الشان مباحثہ ہوا ، جو مباحثہ لو د ہا نہ کے نام سے الْحَق میں شائع ہوا جس میں مولوی محمد حسین بٹالوی کو خطر ناک شکست ہوئی اور جس میں اس کی علمی اور اخلاقی پردہ دری ہوئی.لود ہا نہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے دعویٰ سے پیشتر لودہا نہ والوں کی متواتر درخواستوں اور التجاؤں پر ۱۸۸۳ء میں تشریف لائے اور محلہ صوفیاں میں ڈپٹی امیر علی صاحب کے
مکتوبات احمد ۱۴ جلد سوم مکان میں حسب تجویز میر عباس علی صاحب قیام فرمایا تھا.لودہانہ کے متعلق آپ کے بعض رؤیا اور کشوف بھی ہیں جو اپنے اپنے وقت پر پورے ہوئے.ان کی تفصیل کی اس جگہ ضرورت نہیں اپنے موقع پر ان کا مناسب ذکر آئے گا.سلسلہ مکتوبات میں جس کے شائع کرنے کی خاکسار کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے توفیق ملی.پہلی جلد اور ہانہ ہی کے میر عباس علی صاحب کے نام کے مکتوبات ہیں.میر صاحب کا معمول اور اعتقاد اس وقت اس حد تک تھا کہ وہ با وضو ہو کر ان مکتوبات کو پڑھتے اور ان کی نقل کرتے تھے.میر صاحب کا مختصر تذکرہ میں جلد اول میں کر چکا ہوں.یہ جلد اوّل نہایت بیش قیمت حقائق و معارف کی دنیا ہے.چونکہ وہ قریباً ختم ہو چکی ہے دوسرے ایڈیشن کو اس موجودہ تقطیع ہی پر نہایت احتیاط سے شائع کر دیا جائے گا.( انشاء اللہ ) اور اس میں مندرجہ پیشگوئیاں جو پوری ہو چکی ہیں ان کی تفصیل بھی دی جاوے گی.بہر حال لود بانہ سلسلہ کی تاریخ میں بہت بڑی اہمیت اور امتیاز رکھتا ہے.جیسے اوّلاً اسی شہر میں معاونین کی ابتدا ہوئی اسی شہر سے اول الکافرین کی ایک خطرناک جماعت بھی پیدا ہوئی اور انہوں نے اس سلسلہ کے مٹانے اور فنا کر دینے کے لئے اپنی تمام طاقتوں اور حیلوں کو استعمال کیا مگر وہ نامراد و نا کام رہے.پھر اس زمانے میں یعنی حضرت امیر المؤمنین مصلح موعود کے عہد خلافت میں ان کی ذریت نے بڑے فرعونی دعاوی کے ساتھ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے اعلان کئے اور خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ خلیفہ نے اعلان کیا کہ ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین کو نکلتے دیکھتا ہوں اور آخر وہی ہوا جو اس نے با علام الہی کہا تھا اور شیطان کو اس جنگ میں دوبارہ شکست ہوئی.اَلْحَمْدُ لِلهِ.اب میں بغیر کسی مزید تمہید و تصریح کے احباب لودہانہ کے نام متفرق خطوط کو جو اس وقت تک مجھے مل سکے ہیں، درج کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کو دنیا کی ہدایت اور میری اس خدمت کو قبول فرمائے.آمین (خاکسار عرفانی کبیر )
حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ تعالی عنہ
مکتوبات احمد ۱۷ جلد سوم حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کے نام تعارفی نوٹ حضرت منشی احمد جان رضی اللہ عنہ لودہا نہ محلہ جدید میں ایک صاحب ارشاد بزرگ تھے اور ان کے مریدوں کی بہت بڑی تعداد تھی.ان کا مفصل تذکرہ کتاب تعارف میں انشاء اللہ العزیز آئے گا.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کے متعلق حضرت حکیم الامۃ خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ کو ایک مکتوب مورخہ ۲۳ / جنوری ۱۸۸۸ء میں مختصر تذکرہ لکھا ہے اور اس وقت حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی شادی کی تجویز حضرت منشی صاحب کی صاحبزادی صغری بیگم صاحبہ مد ظلتها سے ہو رہی تھی.حضرت نے تحریر فرمایا کہ:.اب میں تھوڑ اسا حال منشی احمد جان صاحب کا سنا تا ہوں.منشی صاحب مرحوم اصل میں متوطن دہلی کے تھے.شاید ایام مفسدہ ۱۸۵۷ء میں لودہا نہ آکر آباد ہوئے.کئی دفعہ میری ان سے ملاقات ہوئی.نہایت بزرگوار، خوبصورت ، خوب سیرت، صاف باطن، متقی ، با خدا اور متوکل آدمی تھے.مجھ سے اس قدر دوستی اور محبت کرتے تھے کہ اکثر ان کے مریدوں نے اشارتا اور صراحتا بھی سمجھایا کہ آپ کی اس میں کسرشان ہے.مگر انہوں نے ان کو صاف جواب دیا کہ مجھے کسی شان سے غرض نہیں اور نہ مجھے مریدوں سے کچھ غرض ہے.اس پر بعض نالائق خلیفے ان کے منحرف بھی ہو گئے مگر انہوں نے جس اخلاص اور محبت پر قدم مارا تھا اخیر تک نباہا اور اپنی اولا د کو بھی یہی نصیحت کی.جب تک زندہ رہے خدمت کرتے رہے اور دوسرے تیسرے مہینے کسی قدر روپے اپنے رزق خدا داد سے مجھے بھیجتے رہے.اور میرے نام کی اشاعت کے لئے بہ دل و جان ساعی رہے.اور پھر حج کی تیاری کی.اور جیسا کہ انہوں نے اپنے ذمہ مقدر کر رکھا تھا.جاتے وقت بھی چپیش رو پے بھیجے اور ۲۵ یک بڑا لمبا اور دردناک خط لکھا.جس کے پڑھنے سے رونا آتا تھا.اور حج سے آتے وقت
مکتوبات احمد ۱۸ جلد سوم راہ میں ہی بیمار ہو گئے اور گھر آتے ہی فوت ہو گئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ.اس میں کچھ شک نہیں کہ منشی صاحب علاوہ اپنی ظاہری علمیت و خوش تقریری و وجاہت کے جو خدا داد انہیں حاصل تھی مومن صادق اور صالح آدمی تھے جو دنیا میں کم پائے جاتے ہیں.چونکہ وہ عالی خیال اور صوفی تھے اس لئے ان میں تعصب نہیں تھا.میری نسبت وہ خوب جانتے تھے کہ یہ حنفی تقلید پر قائم نہیں ہیں اور نہ اسے پسند کرتے ہیں پھر بھی یہ خیال انہیں محبت و اخلاص سے نہیں روکتا تھا.غرض کچھ مختصر حال منشی احمد جان صاحب مرحوم کا یہ ہے اور لڑکی کا بھائی صاحبزادہ افتخار احمد صاحب بھی نوجوان صالح ہے.جو اپنے والد مرحوم کے ساتھ حج بھی کر آئے ہیں.“ حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ کی فراست مومنانہ نے بہت پہلے دیکھ لیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود بن کر مبعوث ہوں گے.چنانچہ انہوں نے جو اعلان براہین احمدیہ کی اعانت کے لئے شائع کیا اس میں لکھا.تم مسیحا مسیحا بنو خدا کے لئے اگر چہ وہ اعلان بیعت سے پہلے فوت ہو گئے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو مبائعین میں شریک قرار دیا اور ان کے اخلاص و عقیدت کو انعام میں داخل فرمایا.حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنی اولا د اور مریدوں کو قبول سلسلہ کی وصیت فرمائی اور خدا کے فضل و کرم سے آپ کا سارا خاندان سلسلہ احمدیہ میں شریک اور صدق و وفا کے اعلیٰ مقام پر ہے اور حضرت موصوف کی صاحبزادی صغری بیگم صاحبہ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریک سے اس جلیل القدر انسان کے نکاح میں آئیں جس کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.چہ خوش بودے اگر ہر یک ز اُمت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے اور جس کے اخلاص و ایثار اور قربانی کا یہ ثمرہ اس دنیا میں ہوا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد آپ کے خلیفہ اول منتخب ہوئے اور حضرت منشی احمد جان رضی اللہ عنہ کی نواسی کو یہ شرف
مکتوبات احمد ۱۹ حاصل ہوا کہ ایک وہ خلیفہ کی بیٹی اور دوسرے خلیفہ کی اہلیہ ہوں.جلد سوم میں سمجھتا ہوں اس قدر تعارفی نوٹ کافی ہے.تفصیل انشاء اللہ کتاب تعارف میں آئے گی جس کی پہلی جلد اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اس سال شائع ہو گی.اب میں ان کے نام کے مکتوبات درج کرتا ہوں.وَبِاللهِ التَّوْفِيقِ
مکتوبات احمد مکتوب نمبر فہرست مکتوبات بنام حضرت منشی احمد جان صاحب تاریخ تحریر ۶ / مارچ ۱۸۸۴ء ۱۵/ مارچ ۱۸۸۴ء ۲۸ / مارچ ۱۸۸۴ء صفحہ ۲۱ ۲۳ ۲۵ جلد سوم ۲۷ ۱۳۰۳ھ と
مکتوبات احمد ۲۱ جلد سوم مکتوب نمبرا حضرت منشی احمد جان رضی اللہ تعالی عنہ کے نام مند و می مکرمی اخویم منشی احمد جان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ بعد ھذا آں مخدوم کے دونوں عنایت نامہ مع اشتہار پہنچ گئے.جَزَاكُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ - خدا وند کریم آپ صاحبوں کی کوشش میں برکت ڈالے اور آپ کو وہ اجر بخشے جو آپ کے خیال سے باہر ہو.آں مخدوم نے جو کچھ اس عاجز کی اپنی نسبت لکھا ہے وہ عاجز کے دل میں ہے.مُشتِ خاک کی کیا حقیقت ہے کہ کچھ دعوا می کرے یا زبان پر لاوے.لیکن اگر خداوند کریم نے چاہا اور توفیق بخشی تو حضرت احدیت میں عاجزانہ دعا کروں گا.آپ اپنے کام میں جہاں تک ممکن ہو ، سرگرمی سے متوجہ ہوں.کیونکہ ایسی محبت مستحق ہوتی ہے اور حصہ چہارم کے صفحہ ۵۱۹ میں ایک الہام یہ ہے مَنْ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ وَاَحْسَنَ إِلَى أَحْبَابِكُمْ يہ الہام اگر چہ بصورت ماضی ہے لیکن اس سے استقبال مراد ہے اور اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ تم پر احسان کرے گا اور تمہارے دوستوں سے نیکی کرے گا اور پھر حصہ چہارم صفحہ ۲۴۲ میں الہام ہوا وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ! اس کے بھی یہی معنی ہیں کہ جو لوگ ارادت سے رجوع کرتے ہیں ان کا عمل مقبول ہے اور ان کے لئے قدم صدق ہے.پھر صفحہ ۲۴۱ میں ایک الہام ہے.يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُّوحِيَ إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ سے یعنی تیری مدد وہ کریں گے جن کے دلوں میں ہم آپ ڈالیں گے.سوان سب الہامات سے خوشنودی حضرت احدیت کی نسبت سمجھی جاتی ہے جن کو خدا نے اس طرف رجوع بخشا ہے.اس سے زیادہ ذریعہ حصول سعادت اور کوئی نہیں کہ جو مرضی مولا ہے اُس کے موافق کام کیا جائے اور مولا کریم کی ایک نظر عنایت انسان کے لئے کافی ہے.میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ جو اخوان مومنین اس بات کی توفیق دیئے گئے ہیں جو انہوں نے صدق دل سے ے تذکرہ صفحہ ۷۵ مطبوعہ ۲۰۰۴ء ۲ تذکرہ صفحہ ۱۹۷۷ مطبوعه ۲۰۰۴ء سے تذکره صفحه ۳۹ مطبوعه ۲۰۰۴ء
مکتوبات احمد جلد سوم اس احقر عباد کا انصار ہونا قبول کیا ، ان کے لئے حضرت احدیت کے بڑے بڑے اجر ہیں اور میں اجمالی طور پر ان کو عجیب نور سے منور دیکھتا ہوں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ نہایت سعید ہیں اور دنیا کی روشنی ہیں.ایک الہام حصہ چہارم کے صفحہ ۵۵۶ کی آخری سطر میں درج ہے اور وہ یہ ہے.وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ یہ الہام اس کثرت سے بار بار ہوا تھا جس کی تعدا د خدا ہی کو معلوم ہے.اس میں انواع اقسام کا وعدہ ہے.غرض کریم میزبان تب کسی کو اپنی طرف بلاتا ہے کہ جب اس کے طعام کا بندو بست کر لیتا ہے اور وہی لوگ اس کے خوانِ نعمت پر بُلائے جاتے ہیں جن کو اُس عالم الغیب نے اپنی نظر عنایت سے چن لیا ہے.سوجن کو اس نے پسند کر لیا ہے ان کو وہ رڈ نہیں کرے گا اور ان کی خطیبات کو معاف فرمائے گا اور ان پر راضی ہوگا کیونکہ وہ کریم ورحیم اور بڑا وفادار اور نہایت ہی محسن مولیٰ ہے.فَسُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمُ - (۶ / مارچ ۱۸۸۴ء مطابق ۷/ جمادی الاول ۱۳۰۱ھ ) ( نوٹ ) اس مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت مطہرہ اور تعلق باللہ کی ایک شان نمایاں ہے اور آپ کی جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشا رات کے وعدے ہیں جن کو آج ہم پورا ہوتے دیکھتے ہیں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ.ے تذکره صفحه ۷۵ مطبوعه ۲۰۰۴ء
مکتوبات احمد ۲۳ مکتوب نمبر ۲ مند و می فکر می اخویم منشی احمد جان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ جلد سوم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ بعد ھذا کارڈ آں مخدوم پہنچا.سوال آپ کی طرف سے یہ ہے کہ اس کارخیر میں کتنے لوگ بصدق دل ساعی ہیں.سو واضح ہو کہ آں مخدوم کے سوا چار آدمی ہیں کہ ارادت اور حسن ظن سے ساعی ہیں.پٹیالہ میں منشی عبدالحق صاحب اکو نٹنٹ دفتر نہر ، سرہند.ڈیرہ غازی خاں میں منشی الہی بخش صاحب اکو نٹنٹ.پشاور میں مولوی غلام رسول صاحب صدر قانون گو.انبالہ میں منشی محمد بخش صاحب ، ان چاروں صاحبوں نے سعی میں کچھ فرق نہیں کیا.منشی عبدالحق صاحب نے سب سے پہلے اس کارخیر کی طرف قدم رکھا اور جانفشانی سے کام کیا اور ان کی کوشش سے لاہور اور انبالہ اور کئی ایک شہروں میں خریداری کتاب کی ہوئی اور اب بھی وہ بدستور سرگرم ہیں.کچھ حاجت کہنے کہانے کی نہیں.منشی الہی بخش صاحب نے سعی اور کوشش میں کچھ دریغ نہیں کیا اور منشی محمد بخش صاحب بھی بدل و جان مصروف ہیں اور ان کی سعی سے بہت مدد پہنچی.یہ چاروں صاحب دلی مخلص ہیں اور حتی الوسع اپنی خدمت ادا کر چکے ہیں.مگر پھر سے دوبارہ منشی عبد الحق صاحب و منشی الہی بخش صاحب کو لکھا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ سعی میں کچھ فرق نہ کریں گے اور نہ کیا ہے.اور ان کے سوا دو تین آدمی اور بھی ہیں کہ جنہوں نے حسب مقدار جوش اپنے کچھ خدمت کی ہے.مگر بہتر ہے کہ ان کی اسی قدر خدمت پر قناعت کی جائے تا موجب کسی ابتلا کا نہ ہو.(۱۵/ مارچ ۱۸۸۴ء مطابق ۱۶ / جمادی الاول ۱۳۰۱ھ ) (نوٹ) مندرجہ بالا مکتوب کے متعلق مجھے نہایت درد دل کے ساتھ ایک ضروری امر کا اظہار کرنا پڑتا ہے اور یہ مقام خوف ہے.جن بزرگوں کا اس مکتوب میں حضرت اقدس نے ذکر فرمایا ہے سوائے مولوی غلام رسول صاحب کے، میں تینوں بزرگوں سے ذاتی
مکتوبات احمد ۲۴ جلد سوم واقفیت رکھتا ہوں.یہ لوگ مولوی عبداللہ غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے ملنے والوں میں سے تھے.جہاں تک ظاہر کا تعلق ہے ان کی زندگیاں حتی الوسع شریعت کے مطابق تھیں.صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ میں فدائیوں میں سے تھے اور ہر خدمت کو بجالانا اپنی سعادت اور خوش بختی سمجھتے تھے.بعض حالتوں میں طبع کتب کے سلسلے میں یا اور ایسی ہی دینی ضرورتوں کے لئے حضرت اقدس ، منشی الہی بخش یا عبد الحق سے قرض بھی لے لیا کرتے تھے.اس وقت یہ اپنے اخلاص میں بے نظیر تھے.لیکن حضرت کے دعوائے میسجیت کی ابتداء تک ان کی یہی حالت چلی گئی.منشی الہی بخش صاحب کو الہام ہونے کا دعوی تھا لیکن ان کی طبیعت میں خشونت اور ضد بے حد تھی.رفتہ رفتہ ان میں تکبر اور رعونت پیدا ہونے لگی.میں اس وقت ساری داستان نہیں لکھ سکتا اگر چہ میں پورے طور سے شاہد عینی کے طور پر اس سے واقف ہوں.اس تکبر اور رعونت نے انہیں حق سے ڈور ڈالنا شروع کر دیا.آخری مرتبہ وہ منشی عبد الحق کو ساتھ لے کر قادیان آئے اور حضرت اقدس سے ملاقات کی اور اپنے الہام وغیرہ سناتے رہے.شام کے وقت بغیر کسی ارادے اور تجویز کے حضرت مخدوم الملۃ مولانا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کہ بلعم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں باوجود اپنی نیکی کے کیوں رڈ کر دیا گیا ؟ اس پر حضرت اقدس نے ایک تقریر کی لیکن منشی الہی بخش نے یہ سمجھا کہ مجھ کو بلعم باعور بنایا گیا.اس غصے میں پیچ و تاب کھا تا ہوا آخر وہ یہاں سے چلا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہی ایام میں ضرورۃ الا مام“ شائع کی لیکن وہ بھی الہی بخش کے زیغ کا علاج نہ کر سکی بلکہ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا کا باعث ہو گئی.آخر وہ اس سلسلے سے کٹ گیا اور اس نے مخالفت پر کمر باندھی.مگر اس کا جو درد ناک انجام ہوا وہ بہت عبرت انگیز ہے.اس کا کچھ ذکر میرے مکرم و محترم مخلص بھائی با بو فضل دین صاحب اوورسیئر نے ایک عینی شاہد کی حیثیت سے لکھا ہے.میرا مقصد اس واقعہ کے بیان کرنے سے صرف اس قدر ہے کہ انسان اپنی خدمات پر نہ اترائے بلکہ مومن کا خاصہ ہے کہ جس قدر سے نیکی کی توفیق ملتی ہے اُسی قدر
مکتوبات احمد ۲۵ وہ شرمندہ ہوتا ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ ان لوگوں نے حضرت کے ابتدائی زمانے میں بڑی خدمات کیں مگر خدا جانے کہ ان کے ساتھ ان کے نفس کی کیسی بُری ملونی تھی کہ ان کا خاتمہ قابل افسوس ہوا.منشی عبد الحق کی طبیعت الہی بخش سے متغائر واقع ہوئی تھی مگر اسے اس کی دوستی نے تباہ کیا.بابو محمد صاحب اخیر وقت تک سلسلے میں رہے گو اُن کو کچھ شکوک سلسلے کے بعض اخراجات کے متعلق پیدا ہو گئے تھے.انہوں نے کبھی تعلق کو نہ تو ڑا اور اخیر وقت تک اسے قائم رکھا.پس مقام خوف ہے.انسان اپنی نیکی اور خدمت پر اترائے نہیں اور ہمیشہ حسنِ خاتمہ کے لئے دعا کرتا رہے.اس مقصد سے میں نے اس عبرت انگیز واقعہ کولکھا.(عرفانی) جلد سوم مکتوب نمبر ۳ مخدومی مکر می اخویم منشی احمد جان صاحب سلمہ اللہ تعالى - وَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آں مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا.خداوند کریم کے احسانات کا شکر ادا نہیں ہوسکتا جس نے اس احقر العباد کے لئے ایسے دلی احباب میسر کیے جن کا وجود اس ناچیز کے لئے موجب عزت وفخر ہے.خدا وند کریم آپ کو خوش و خرم رکھے اور آپ کو ان دلی تو جہات کا اجر بخشے.یہ عاجز سخت نا کارہ اور حقیر ہے اور حضرت ارحم الراحمین کا سراسر منت اور احسان ہے کہ اس نالائق پر بغیر ایک ذرہ استحقاق کے تفضلات کثیرہ کی بارش کر رہا ہے.قصور پر قصور پاتا ہے اور احسان پر احسان کرتا ہے اور ظلم پر ظلم دیکھتا ہے اور انعام پر انعام کرتا ہے.فی الحقیقت وہ نہایت رحیم وکریم ہے.ایسی زباں کہاں سے لاؤں جو اس کا شکر ادا کر سکوں.یہ عاجز بیچ اور ذلیل اور بے بضاعت اور سراسر مفلس ہے.اس نے خاک میں مجھے پایا اور اُٹھا لیا اور نالائق محض دیکھا اور میری پردہ پوشی کی.میرے ضعف پر نظر کر کے
مکتوبات احمد ۲۶ جلد سوم مجھ کو آپ قوت دی اور میری نادانی کو دیکھ کر مجھ کو آپ علم بخشا.میرے حال پر وہ عنایتیں کیں جن کو میں گن نہیں سکتا اور اس کی عنایات کا ایک یہ ظہور ہے کہ آپ جیسے بزرگ بھائیوں کے دلوں میں اس احقر کی محبت ڈال دی.سو اس کے احسانات سے تعلق ہے کہ اس محب کو ترقی دے گا اور وہ ان سب پر فضل کرے گا جن کو اس سلک میں منسلک کیا ہے.اس خط کی تحریر کے بعد یہ شعر کسی بزرگ کا الہام ہوا.هرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق بر جریده عالم دوام ما مثبت است (۲۸ / مارچ ۱۸۸۴ء مطابق ۲۹ / جمادی الاول ۱۳۰۱ھ ) ( نوٹ ) اس مکتوب سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل پر محبت وعظمت الہی کا بے انتہا غلبہ ہے اور اپنی فروتنی ہمسکینی اور خاکساری کا کمال بھی نمایاں ہے.انہی تفصیلات اور انعامات پر شکر گزاری کی روح آپ کے اندر بول رہی ہے اور جو عشق و محبت آپ کو حضرت باری عزاسمہ سے ہے اس کی صداقت اس الہام باری سے ہوتی ہے جو اس مکتوب کی تحریر کے بعد آپ کو ہوا.ہرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق مثبت است جريدة عالم دوام ما یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غیر فانی اور ابدی زندگی اور دنیا میں شہرت دوام اور امیٹ ہونے کی عظیم الشان پیشگوئی کو لئے ہوئے ہے.آج ساٹھ برس بعد اس کی شہادت روئے زمین کے بسنے والے ہر ملک اور ہر قوم میں دے رہے ہیں اور دنیا کی ہر زبان میں یہ نام مبارک پہنچ چکا ہے.اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِكُ وَسَلّمُ.تذکره صفحه ۹۷ مطبوعه ۲۰۰۴ء
مکتوبات احمد ۲۷ جلد سوم مکتوب نمبر۴ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد ، با اخویم مخدوم ومکرمی منشی احمد جان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بعد السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامه آن مخدوم پہنچا.اس عاجز کی غرض پہلے خط سے حج بیت اللہ کے بارے میں صرف اسی قدرتھی کہ سامان سفر میسر ہونا چاہئے.اب چونکہ خدا تعالیٰ نے زاد راہ میسر کر دیا اور عزم مصمم ہے اور ہر طرح سامان درست ہے.اس لئے اب یہ دعا کرتا ہوں کہ خداوند کریم آپ سے یہ عمل قبول فرمائے اور آپ کا یہ قصد موجب خوشنودی حضرت عزّ اسمہ ہو.اور آپ خیر و عافیت اور سلامتی سے جاویں اور خیر و عافیت اور سلامتی سے بہ تحصیل مرضات اللہ واپس آویں.امین یا رب العالمین.اور انشاء اللہ یہ عاجز آپ کے لئے بہت دعا کرے گا اور آپ کے پچیس روپے پہنچ گئے ہیں.آپ نے اس ناکارہ کی بہت مدد کی ہے اور خالصا اللہ اپنے قول اور فعل اور خدمت سے حمایت اور نصرت کا حق بجالائے.جَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ وَاَحْسَنَ إِلَيْكُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْعُقْبَى - يہ عاجز یقین رکھتا ہے کہ آپ کا یہ عمل بھی حج سے کم نہیں ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ.دل تو آپ کی اس قدر جدائی سے محزون اور مغموم رہے گا لیکن آپ جس دولت اور سعادت کو حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں اس فوز عظیم پر نظر کرنے سے انشراح خاطر ہے.خدا تعالیٰ آپ کا حافظ اور حامی رہے اور یہ سفر مِنْ كُلِّ الْوُجُوه مبارک کرے.آمین اس عاجز ناکارہ کی ایک عاجزانہ التماس یا درکھیں کہ جب آپ کو بیت اللہ کی زیارت بفضل اللہ تعالیٰ میسر ہو تو اس مقام محمود مبارک میں اس احقر عباداللہ کی طرف سے انہیں لفظوں سے مسکنت وغربت کے ہاتھ بحضور دل اُٹھا کر گزارش کریں کہ :."اے ارحم الراحمین! ایک تیرا بندہ عاجز اور نا کارہ، پُر خطا اور نالائق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں ہے.اس کی یہ عرض ہے کہ اے ارحم الراحمین! تو مجھ سے راضی ہو اور میری خطیبات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفور و رحیم ہے اور مجھ سے وہ کام کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہو جائے.مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق اور مغرب کی ڈوری ڈال اور میری
مکتوبات احمد ۲۸ جلد سوم زندگی اور میری موت اور میری ہر یک قوت اور جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار.اور اپنے ہی کامل متبعین میں مجھے اُٹھا.اے ارحم الراحمین! جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچا اور اس عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جواب تک اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر اور اس عاجز اور اس عاجز کے تمام دوستوں اور مخلصوں اور ہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کی نظر سے اپنے ظل حمایت میں رکھ کر دین و دنیا میں آپ ان کا متکفل اور متوتی ہو جا اور سب کو اپنی دارالرضا میں پہنچا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی آل اور اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام و برکات نازل کر.آمِيْنَ يَارَبِّ الْعَلَمِيْنَ “.یہ دعا ہے جس کے لئے آپ پر فرض ہے کہ ان ہی الفاظ سے بلا تبدل و تغیر بیت اللہ میں حضرت ارحم الراحمین میں اس عاجز کی طرف سے کریں.۱۳۰۳ھ والسلام خاکسار غلام احمد مکرر کہ خط ہذا بطور یادداشت اپنے پاس رکھیں.خط دیکھ کر بتامتر حضور ورقتِ دل دعا کریں.والسلام (نوٹ) یہ خط آپ نے حضرت منشی احمد جان رضی اللہ عنہ کو جب کہ وہ حج بیت اللہ کے لئے جارہے تھے اور آپ نے جیسا کہ مکتوب مبارک سے ظاہر ہے، بیت اللہ میں اس دعا کے لئے تاکید کی تھی.چنانچہ حضرت صوفی احمد جان رضی اللہ عنہ نے اپنی جماعت کے ساتھ بیت اللہ اور عرفات میں دعا کی.اس سال حج اکبر ہوا یعنی جمعہ کے دن، حج سے فراغت پا کر بخیر و عافیت جیسا کہ حضرت اقدس نے تحریر فرمایا تھا.واپس تشریف لائے اور گیارہ بارہ روز زندہ رہ کر تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۲۶۵
مکتوبات احمد ۲۹ جلد سوم ۱۳۰۳ھ میں لودہا نہ میں وفات پائی.یہ اس دعا کی قبولیت کا ایک نشان ہے.حضرت اقدس نے منشی صاحب کی بخیر و عافیت واپسی کے لئے دعا کی تھی.اس دعا کی قبولیت تو ان کی مع الخیر واپسی سے ظاہر ہے اور یہی ثبوت ہے کہ دعا جو اس خط میں درج ہے.وہ بھی قبول ہوئی اور بعد کے واقعات اور حالات نے اس کی قبولیت کا مشاہدہ کرا دیا.کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے یہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت میں ایک مبسوط باب کا متن ہے.میں قارئین کرام سے بار بار درخواست کروں گا کہ وہ اس کو پڑھیں کہ کیا یہ اس قلب کی تصویر ہو سکتی ہے جس کو کا ذب اور مفتری کہا جاتا ہے؟ یا اس ضمیر پر تنویر کا مرقع ہے جو غیر فانی جوش اپنے قلب میں رکھتا ہے اور وہ اس شعور سے بول رہا ہے کہ خدا نے اسے کھڑا کیا ہے اور اس کی زندگی کا مقصد صرف ایک ہے کہ میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو جائے.اگر یہ صیح ہے اور ضر ور صحیح ہے تو اس کے بعد اس کی تکذیب سمجھ لو! کیا نتیجہ پیدا کرے گی؟ یہی وہ دعا ہے جن کے لئے خدا تعالیٰ نے اس پر شعر الہام کیا.آورم دلم می بلرزد یاد مناجات شوریده اندر حرم (عرفانی کبیر )
حضرت نواب علی محمد خان صاحب رضی اللہ تعالی عنہ آف جهجر
مکتوبات احمد جلد سوم حضرت نواب علی محمد خان صاحب رضی اللہ تعالی عنہ آف جھجر کے نام تعارفی نوٹ حضرت نواب علی محمد خان صاحب آف جهجر ( جو فتنہ غدر کے بعد لودہا نہ آکر مقیم ہو چکے تھے ) جھجر کے حکمراں خاندان میں سے تھے.۱۸۵۷ء کے غدر کے بعد جھجر کے خاندان پر بھی الزام آیا اور اس کا نتیجہ اس خاندان کا عزل تھا.نواب علی محمد خان صاحب اود ہا نہ آکر آباد ہوئے اور انہوں نے اپنی رہائش کیلئے ایک عالیشان کوٹھی معہ باغ تعمیر کی اور اس کے ساتھ ہی ایک مسجد عبادت کے لئے اور ایک سرائے تعمیر کی تا کہ وہ آمدنی کا ذریعہ ہو.راقم الحروف خاکسار عرفانی کو بفضلہ تعالیٰ نواب مرحوم سے سعادت ملاقات و ہم نشینی اس وقت سے حاصل ہوئی جب کہ و ہ ۱۸۸۹ء میں لودہانہ کے بورڈ سکول کا ایک طالب علم تھا اور روزانہ ظہر کی نماز ان کی مسجد میں پڑھا کرتا تھا اور نواب صاحب با قاعده شریک جماعت ہوتے تھے.سرائے میں ایک مدرسہ عربیہ بھی قائم تھا جس کی صدر مدرسی حضرت مولوی عبد القادر صاحب رضی اللہ عنہ کے سپر دتھی.اسی عہد کے بعض یاران قدیم، الحمد لله ، سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شریک ہو گئے جیسے حضرت مولوی ابوالبقا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری اور ان کے برادر محترم حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ.حضرت نواب علی محمد خان صاحب ایک نہایت دیندار.خدا ترس مخیر اور شب زندہ دار بزرگ تھے.غدر کے حوادث اور انقلابات نے ان کی طبیعت میں دنیا کی بے ثباتی اور دنیوی شان وشوکت اور مال و منال کی حقیقت کو نمایاں کر دیا تھا.غدر کے مصائب اور انقلابات نے انہیں یقین دلا دیا تھا کہ مسلمانوں کا بقا صرف مسلمان ہو کر رہنے میں ہے.اگر چہ جیسا کہ ان کے واقف کاروں نے بتایا کہ وہ ہمیشہ سے ایک پر ہیز گاراور متقی انسان تھے مگر اس انقلاب کے بعد ان کی زندگی میں بھی ایک غیر معمولی انقلاب پیدا ہوا اور ان کا
مکتوبات احمد ۳۴ جلد سوم اکثر وقت عبادت ، ذکر الہی اور مطالعہ کتب دینیہ میں گزرتا تھا اور حمایت اسلام کی اعانت میں اکثر جلسے ان کے ہی مکان پر ہوا کرتے تھے.وہ ایک لمبے قد کے خوش رو انسان تھے اور ان کے چہرہ کو دیکھ کر ہی ان کی متقیانہ زندگی کا اثر ہوتا تھا.داڑھی کو حنا کرتے تھے.لباس نہایت سادہ ہوتا تھا اور چلتے پھرتے ذکر الہی میں مصروف رہتے تھے.چونکہ پرانی طرز کے صوفی تھے اس لئے ہر وقت تسبیح ہاتھ میں رہتی تھی.نہایت خوش اخلاق ، ملنسار، منکسر المزاج اور خندہ پیشانی رکھتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے آپ کی ارادت ۸۲ ۱۸۸۳ء میں شروع ہوئی اور یہ براہین احمدیہ کا اثر تھا.نواب صاحب خود صاحب علم تھے اور علوم عربیہ دینیہ اور تصوف کے ماہر تھے.میر عباس علی صاحب ( اللہ تعالیٰ ان کی خطاؤں کو معاف کرے ) اس وقت بڑے سرگرم معاونین میں سے تھے اور ان معاونین کی جماعت میں نواب علی محمد خان بھی پیش پیش تھے.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت تک اس پایہ کا کوئی آدمی بھی حضرت اقدس کے ارادت مندوں میں شریک نہ ہوا تھا.اس لئے کہ گو اس وقت ان کی وہ خاندانی حکومت کا جاہ وجلال باقی نہ تھا مگر ابھی اس دور حکومت کے اثرات باقی تھے اور وہ اپنی خاندانی عظمت کے علاوہ اپنی عملی زندگی اور ہمدردی اسلام کے سچے جوش کی وجہ سے مشار الیہ تھے.چونکہ حضرت قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرموں کا اڈا پاس ہی تھا اور وہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بڑے بے ریا اور مخلص اور جان نثار اور دلیرانسان تھے.اکثر نواب صاحب کے ہاں ان کی نشست و برخاست رہتی اور حضرت اقدس کے حالات اور تازہ واقعات کا تذکرہ رہتا.نواب صاحب کو حضرت اقدس کے ساتھ غایت درجہ کا عشق اور محبت تھی.اس لئے کہ انہوں نے خود اپنی ذات میں ان نشانات و آیات کا مشاہدہ کیا تھا جو خدا کے مرسلوں کے سوا کسی اور کو نہیں دیئے جاتے.حضرت اقدس نے ان نشانات کا اپنی تصانیف میں بھی ذکر فرمایا ہے اور ان خطوط میں بھی جو میں ذیل میں درج کر رہا ہوں ، بعض نشانات کا ثبوت ملے گا.نواب علی محمد خاں صاحب بیعت اولی میں شریک تھے اور سابقین الاولین
مکتوبات احمد ۳۵ جلد سوم کی اس جماعت میں ممتاز تھے.چونکہ صوفی مشرب تھے اور حضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحب جمالی نعمانی کے خاندان سے بھی انہیں ارادت و عقیدت تھی اس لئے صاحبزادہ صاحب جب بھی لو د ہا نہ آتے ان کے ہاں ہی قیام فرماتے.ان کے خاندان کے بعض لوگ پیر صاحب کے سلسلے میں مرید بھی تھے.اگر چہ اس تعارفی نوٹ کا مقصد سوانح حیات کا بیان نہیں تاہم میں اس نوٹ کو بھی درج کر دینا ضروری سمجھتا ہوں جو صاحبزادہ مرحوم نے مغفور نواب صاحب کے متعلق اپنے سفر نامہ میں لکھا ہے تا کہ احباب کو ایسے بزرگ کے لئے جو سلسلہ کی بنیادی اینٹوں میں سے ایک ہیں اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اور حضرت اقدس جن سے محبت رکھتے تھے.دعا کی خاص تحریک ہو اور میں اُذْكُرُوا مَوْتَاكُمُ بِالْخَيْرِ کے ارشاد کی تعمیل کا ثواب حاصل کر سکوں.وَبِاللهِ التَّوْفِيقِ نواب صاحب موصوف حکمت اور تصوف میں اور علوم شرعیہ میں ید طولیٰ رکھتے تھے اور خصوصاً تصوف میں ایسی معرفت رکھتے تھے کہ میں نے سینکڑوں درویش صوفی دیکھے مگر معلومات اور یہ دستگاہ نہیں دیکھی.نواب صاحب اہل اللہ کے بڑے معتقد تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق جانباز تھے.ہر وقت درود شریف پڑھتے رہتے.با وجود اس قدر وسیع معلومات اور تصوف میں ماہر ہونے کے حضرت اقدس علیہ السلام سے اعلیٰ درجہ کا عشق تھا اور پورا اعتقاد رکھتے تھے.نواب صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ جو بات میں نے حضرت میرزا غلام احمد صاحب قادیانی میں دیکھی وہ کسی میں نہیں دیکھی.بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اگر کوئی شخص ہے تو یہی ہے.اس کی تحریر میں نور اور ہدایت ، اس کے کلام میں، اس کے چہرہ میں نور ہے.ایک روز میں نے نواب صاحب سے اپنا کشف بیان کیا جو آگے آئے گا.تو اس کو سن کر نہایت خوش ہوئے اور وہ کشف لوگوں سے بیان کیا اور وہ کشف حضرت اقدس کی تصدیق میں تھا.حضرت اقدس علیہ السلام بھی کبھی کبھی نواب صاحب سے ملنے جایا کرتے تھے اور نواب صاحب بھی آپ سے ملنے کے لئے اکثر آیا کرتے تھے.نواب صاحب کے انتقال کے وقت حضرت اقدس علیہ السلام لودہا نہ میں تشریف رکھتے تھے.بوقت انتقال
مکتوبات احمد جلد سوم نواب صاحب نے دعا و سلامتی ایمان اور نجات آخرت کے لئے ایک آدمی حضرت اقدس کی خدمت میں بھیجا اور جوں جوں وقت آتا جاتا تھا.آدھ آدھ گھنٹہ اور دس دس منٹ کے بعد آدمی بھیجتے رہے اور کہتے رہے کہ میں بڑا خوش ہوں کہ آپ میرے اخیر وقت میں لود ہا نہ تشریف رکھتے ہیں اور مجھے دعا کرانے کا موقع ملا.پھر بیہوشی طاری ہوگئی لیکن جب ذرا بھی ہوش آتا تو کہتے کہ حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں آدمی جائے اور عاقبت بخیر اور اچھے انجام کے لئے عرض کرے.اور جب حالت نزع طاری ہوئی تو یہ وصیت کی کہ میرے جنازہ کی نماز حضرت مرزا صاحب پڑھائیں تا کہ میری نجات ہو.ادھر حضرت اقدس بھی نواب صاحب کے لئے بہت دعائیں کرتے رہے اور ہر بار آدمی سے یہی فرماتے رہے کہ ہاں ہاں! تمہارے واسطے دعائیں کیں اور کر رہا ہوں اور یہ وصیت نماز جنازہ بھی حضرت اقدس تک پہنچادی اور نواب صاحب مرحوم کا انتقال ہو گیا.جب نواب صاحب کا انتقال ہوا تو نواب صاحب کے اقرباء ان کی اولاد اور بھائی مولویوں کے زیراثر اور مرعوب تھے اور مولوی محمد اور مولوی عبد اللہ اور مولوی عبدالعزیز یہ تینوں حضرت اقدس علیہ السلام کے مکفر اور مکفرین اولین میں سے تھے.تینوں یہود صفت بلکہ ان سے بھی بڑھ چڑھ کر تھے اور اُس وقت سے مکفر اور سخت مخالف تھے کہ جب سے براہین احمدیہ شائع ہوئی تھی.تمام مولوی خاموش یا موافق تھے.مگر یہ بدقسمت اور ایک بد بخت مولوی غلام دستگیر قصوری مخالف ، تکفیر کے علاوہ سب وشتم کرنے والے تھے اور ان مولویوں کی یہ عادت تھی کہ جو مولوی در ویش لودہا نہ میں آیا اور ان سے مل لیا تو خیر اور جو نہ ملا تو بس اُس کو کفر کا نشانہ بنایا.یہ تینوں مثلث مولوی اس آیت کے مصداق تھے کہ انْطَلِقُوا إلى ظِلَّ ذِى ثَلَكِ شُعَبٍ لَّا ظَلِيلٍ وَ لَا يُغْنِی مِنَ اللَّهَبِ.چلو اس تین رُفے سایہ کی طرف جس میں نہ سایہ ہے ، نہ ٹھنڈک ہے اور نہ گرم لپٹ سے بچاؤ کی کوئی صورت ہے.انہوں نے اُس زمانہ میں حضرت اقدس علیہ السلام کی مخالفت میں ایک قیامت برپا کر رکھی تھی.ان مولویوں کو بھی خبر نواب صاحب کی وصیت نماز جنازہ پہنچ چکی تھی.ان مولویوں المرسلت: ۳۲،۳۱
مکتوبات احمد ۳۷ جلد سوم اور معتقدوں نے نواب صاحب کے اقرباء کو کہلا بھیجا کہ اگر مرزا ( امام موعود علیہ السلام) جنازہ پر آیا تو ہم اور کوئی مسلمان جنازہ پر نہ آئیں گے اور تم پر کفر کا فتو ی لگ جاوے گا اور آئندہ تم میں سے جو مرے گا تو نماز جنازہ کوئی نہ پڑھے گا.وہ بیچارے ڈر گئے اور یہ خیال نہ کیا کہ ان یہو دصفت مولویوں کی کیا مجال ہے کہ ایسا کر سکیں؟ کیا یہ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟ اور کیا اور کوئی بندہ خدا کا نماز جنازہ پڑھانے والا نہ ملے گا؟ اور حضرت اقدس علیہ السلام کے مرید لودہا نہ میں نہیں ہیں؟ ان کی کمزوری اور ضعف ایمانی نے ان کو ڈبو دیا.وہ مرحوم بھی ان سے متنفر تھا اور جب ان مولویوں کا ذکر کبھی مرحوم کے روبرو کوئی کرتا تو مرحوم کی پیشانی پر بل پڑ جاتے تھے اور وہ اُن کو بدتر سے بدتر خیال کرتا تھا.ان اَشَرُّ النَّاس مولویوں کی نماز سے تو بے نماز ہی جنازہ رہتا تو بہتر تھا اس لئے کہ مسیح وقت علیہ السلام خود دعائیں کر چکا اور مرحوم دعائیں کرا چکا اور نماز جنازہ بھی تو ایک دعا ہی ہے.ایمان ایک ایسی شے بے بہا ہے کہ کوئی شے اس کو دور نہیں کرسکتی.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی ایمان پر اس دنیا سے رخصت ہو تو اس کو بول و براز میں پھینک دے تو اس کا کچھ نہیں بگڑتا اور اگر کوئی بے ایمان مرے تو کیسے ہی اُس کو عطر و گلاب میں رکھے تو اس کو کچھ فائدہ نہیں پہنچتا.پھر یہ حدیث شریف پڑھتے.الْقَبَرُ رَوْضَةٌ مِّنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ اَوْ حُفْرَةٌ مِّنْ حُفَرِ النِّيْرَانِ الغرض حضرت اقدس نے نواب صاحب کے جنازہ کی نماز اپنے مکان پر پڑھی اور دعاء مغفرت و رحمت بہت کی.جنازہ کی نماز جو حضرت اقدس علیہ السلام پڑھاتے تھے.سبحان اللہ ! کیسی عمدہ اور باقاعدہ موافق سنت پڑھاتے تھے.(عرفانی) ل سنن الترمذى كتاب صفة القيامة والرقاق والورع باب ۲۶ حدیث ۲۴۶۰ صفحہ ۶۶۷ - الطبعة الاولی.مطبع دار الاحیاء التراث العربی بیروت
مکتوبات احمد ذب نمبر ۳۸ فہرست مکتوبات بنام حضرت نواب علی محمد خان صاحب آف جهجر تاریخ تحریر ۱۸؍ جنوری ۱۸۸۳ء بلا تاریخ ۱۱ رمئی ۱۸۸۴ء صفحہ ۳۹ ۴۲ جلد سوم
مکتوبات احمد ۳۹ جلد سوم مکتوب نمبرا مخد و می مکرمی عنایت فرمائے ایں عاجز نواب صاحب علی محمد خان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ بعد ھذا اس عاجز نے ماہ صفر ۱۳۰۰ھ میں آپ کے حق میں بہت سی دعائیں کیں اور میں امید نہیں رکھتا کہ کوئی گدا حضرت کریم میں اس قدر دعائیں کر کے بھی محروم رہے.سواگر چہ تعین نہیں ہو گی مگر امید واثق ہے کہ خدا وند کریم آپ کے حال پر جس طرح چاہے گا کسی وقت رحم کرے گا.وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّحِمِينَ.میں نے قریب صبح کے کشف کے عالم میں دیکھا کہ ایک کاغذ میرے سامنے پیش کیا گیا اس پر 66 لکھا ہے کہ ایک ارادت مند لدھیانہ میں ہے.پھر اس کے مکان کا مجھے پتہ بتایا گیا اور نام بھی بتایا گیا جو مجھے یاد نہیں اور پھر اس کی ارادت اور قوت ایمانی کی یہ تعریف اسی کا غذ میں لکھی ہوئی دکھائی.أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون شخص ہے مگر مجھے شک پڑتا ہے کہ شاید خدا وند کریم آپ ہی میں وہ حالت پیدا کرے یا کسی اور میں.وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.اپنی خیر و عافیت سے اطلاع بخشیں.والسلام ۱۸/جنوری ۱۸۸۳ء الراقم عاجز غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور نوٹ: اس نوٹ میں حضرت حجتہ اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کو لو دہانہ کے ایک شخص کے اخلاص و ارادت کے متعلق اطلاع دی گئی ہے.اگر چہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا پتہ، نشان بتا دیا تھا مگر اپنی مشیت خاصہ کے تحت اسے بھلا دیا.ایک وقت میں آپ اس کا مصداق میر عباس علی صاحب کو بھی سمجھتے رہے.اس وجہ سے کہ وہ خدمت دین میں بظاہر کامل اخلاص وارادت کا اظہار کر رہا تھا لیکن اس کے انجام نے ثابت کر دیا کہ وہ اس کا تذکره صفحه ۴۵، ۲۶ مطبوعه ۲۰۰۴ء
مکتوبات احمد ۴۰ جلد سوم مصداق نہ تھا اور حضرت اقدس کے اس مکتوب سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے نواب علی محمد خان آف جھجر کو بھی اس کا مصداق سمجھا اور واقعات نے اس کی تصدیق کی کہ وہ آخر وقت تک اخلاص وارادت کا ایک پیکر بنا رہا.حضرت اقدس نے جنوری ۱۸۸۲ء میں ہی ایک مکتوب میر عباس علی صاحب کے نام لکھا تھا جو مکتوبات احمدیہ کی جلد اول میں مکتوب نمبر ۳ کے عنوان سے طبع ہوا ہے اس میں فرمایا : خصوص ایک عجیب کشف سے جو مجھ کو ۳۰ / دسمبر ۱۸۸۲ء بروز شنبہ کو یک دفعہ ہوا.آپ کے شہر کی طرف نظر لگی ہوئی تھی اور ایک شخص نا معلوم الاسم کی ارادت صادقہ خدا نے میرے پر ظاہر کی جو باشندہ اور ہانہ ہے.اس عالم کشف میں اس کا تمام پستہ ونشان سکونت بتلا دیا جواب مجھ کو یاد نہیں رہا صرف اتنایا درہا کہ سکونت خاص لودہانہ اور اس کے بعد اس کی صفت میں یہ لکھا ہوا پیش کیا گیا.سچا ارادت مند اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ لَ یعنی اس کی ارادت اتنی قوی اور کامل ہے کہ جس میں نہ کچھ تزلزل ہے نہ نقصان.بعض لوگ میر عباس علی صاحب کے ارتداد پر اور اب بھی کبھی اعتراض کر دیتے ہیں کہ اس کے متعلق یہ الہام ہوا تھا، یہ غلط ہے.اور ہانہ کے کسی شخص کے متعلق ہوا تھا اور اس کا نام و پتہ اللہ تعالیٰ نے بتلا کر پھر آپ کے حافظہ سے اسے محو کر دیا اور ۱۸ جنوری ۱۸۸۳ء کو جو مکتوب آپ نے نواب علی محمد خان صاحب کے نام لکھا اس میں آپ نے اپنا خیال نواب صاحب میں ہی اس حالت کے پیدا ہو جانے کا ظاہر فرمایا اور واقعات نے بتایا کہ اس کے مصداق نواب علی محمد خان رضی اللہ عنہ ہی تھے.اس مکتوب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نواب صاحب کے تعلقات حضرت اقدس سے ۱۸۸۲ء سے پہلے قائم ہو چکے تھے اور یہ زمانہ تالیف براہین احمدیہ ہے.( عرفانی کبیر ) تذکره صفحه ۴۵ مطبوعه ۲۰۰۴ء
مکتوبات احمد جلد سوم مکتوب نمبر ۲ یہ حصہ مکتوب دراصل میر عباس علی صاحب کے مکتوب کا ایک حصہ تھا مگر چونکہ نواب صاحب کے متعلق تھا اس لئے میں نے اسے علیحدہ نمبر دے کر یہاں درج کر دیا.(عرفانی کبیر ) نواب صاحب کے بارے میں جو آپ نے دریافت فرمایا ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ نواب صاحب کے لئے یہ عاجز ایک مدت تک بہت تضرع سے دعا کرتا رہا ہے.ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ نواب صاحب کی حالت غم سے خوشی کی طرف مبدل ہوگئی ہے اور آسودہ حال اور شکر گزار ہیں اور نہایت عمدگی اور صفائی سے یہ خواب آئی اور یہ خواب بطور کشف تھی.چنانچہ اسی صبح نواب صاحب کو اس خواب کی اطلاع دی گئی.پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ایک صاحب الہی بخش نام اکومنٹٹ نے جو اس کتاب کے معاون ہیں کسی اپنی مشکل میں دعا کے لئے درخواست کی اور بطور خدمت پچاس روپے بھیجے اور جس روز خواب آئی اس دن سے دو چار دن پہلے ان کی طرف سے دعا کے لئے الحاح ہو چکی تھی.دیگر یہ عاجز نواب صاحب کے لئے مشغول تھا.اس لئے ان کے لئے دعا کرنے کو کسی اور وقت پر موقوف رکھا.جس روز نواب صاحب کے لئے بشارت دی گئی تو اس دن خیال آیا کہ آج منشی الہی بخش کے لئے بھی توجہ سے دعا کریں.سو بعد نماز عصر وقت صفا پایا اور دعا کا ارادہ کیا گیا تو پھر بھی دل نے یہی چاہا کہ اس دعا میں نواب صاحب کو بھی شامل کر لیا جاوے.سواس وقت نواب صاحب اور منشی الہی بخش دونوں کے لئے دعا کی گئی.بعد دعا اسی جگہ الہام ہوا کہ نُنَجِّيْهِمَا مِنَ الْغَم کے یعنی ہم ان دونوں کو غم سے نجات دیں گے.چونکہ یہ عاجز اسی دن صبح کے وقت نواب صاحب کی خدمت میں خط روانہ کر چکا تھا اور بذریعہ رویائے صادقہ نواب صاحب کو بہت تسلی دی گئی تھی.اسی لئے اسی خط پر کفایت کی گئی اور منشی الہی بخش کو اس الہام سے اطلاع دی گئی اور بر وقت صدور اس الہام کے موجود تھے اور اتفاقاً دو ہند و ملا وامل اور شرمیت نامی بھی کہ جو اکثر آیا جایا کرتے ہیں.عین اس وقت پر موجود تھے.ان کو بھی اسی وقت اطلاع دی گئی اور کئی مہمان آئے ہوئے تھے ان کو بھی خبر دی گئی.پھر چند روز کے بعد نواب صاحب کا خط آگیا کہ سرائے تذکره صفحه ۹۸ مطبوعه ۲۰۰۴ء
مکتوبات احمد ۴۲ جلد سوم کا کام جاری ہو گیا ہے.سو چونکہ یہ دعا اسی کام کے لئے کی گئی تھی.پھر اطلاع دینا فضول سمجھا گیا.مگر خداوند کریم کا بڑا شکر ہے کہ مجمع کثیر میں یہ الہام ہوا اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے عین الہام کے صدور کے وقت دو ہندو موجود تھے جن کو اسی وقت مفصل بتایا گیا اور دوسرے نمازیوں کو بھی خبر دی گئی اور منشی الہی بخش کو بھی لکھا گیا.نواب علی محمد خان صاحب کی ارادت اور محبت اور دلی توجہ اور اخلاص قابل تعریف ہے.خدا تعالیٰ ان کو ہر غم سے خلاصی بخشے اور حسن عاقبت عطا فرمائے.آپ نواب صاحب کو بھی اطلاع دیں کہ مالیر کوٹلہ سے نواب ابراہیم علی خان صاحب والی مالیر کوٹلہ کے ایک سررشتہ دار کا خط آیا کہ وہ مبلغ پچاس روپے بطور امداد بھیجیں گے.ابھی نہیں آئے.مکتوب نمبر ۳ مند و می مکر می حضرت والاشان نواب صاحب بہا در سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد هذا والا نامہ آنحضرت عین انتظار میں اس احقر العباد کو پہنچا.خدا وند کریم کے لطف و احسان کا شکریہ ادا کیا جاوے جس نے اس ناچیز کی دعا کو قبول فرما یا اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ - آں مخدوم کا منی آرڈر بھی پہنچ گیا.جَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ وَ أَحْسَنَ إِلَيْكُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ - آں مخدوم نے اپنے دلی اعتقاد سے بہت کچھ مدد فرمائی.خدا تعالیٰ آپ کو خوش و خرم رکھے اور آپ کی عمر و عزت اور عافیت میں برکت اور ترقی بخشے.حضرت خدا وند کریم کی قبولیت کی ایک یہ نشانی ہے کہ بعض اوقات آپ کی ترقیات کی مجھ کو وہ خبر دیتا رہتا ہے اور پرسوں کے دن بھی ایک عجیب بات ہوئی کہ ابھی آں مخدوم کا منی آرڈر نہیں پہنچا تھا اور نہ خط پہنچا تھا کہ ایک منی آرڈر آپ کی طرف سے برنگ زرد مجھ کو حالت کشفی میں دکھایا گیا اور پھر آں مخدوم کے خط سے اس عاجز کو بذریعہ الہام اطلاع دی گئی اور آپ کے مافی الضمیر اور خط کے مضمون سے مطلع کیا گیا جس میں بہ پیرا یہ الہامی
۴۳ جلد سوم مکتوبات احمد عبارت بطور حکایت آں مخدوم کی طرف تھا.میرے خیال میں یہ آپ ہی کی توجہ کا اثر ہے.چنانچہ یہ خط کا مضمون اور مافی الضمیر کا منشاء تین ہندوؤں اور بہت سے مسلمانوں کو بھی بتلایا گیا اور زاں بعد آپ کا منی آرڈر اور خط بھی آگیا.سو حضرت خداوند کریم کا پیش از وقوع آپ کے نام اور آپ کے منی آرڈر اور آپ کے خط اور آپ کے مضمون خط اور آپ کے مافی الضمیر سے مطلع فرمانا اس بات پر دلیل ہے کہ حضرت ارحم الراحمین کی آپ کے حال پر رحمت شامل ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ.آں مخدوم کے لئے یہ عاجز دعا کرے گا اور آپ کے دلی اعتقاد اور ربط بھی قائم مقام دعا کا ہی ہو رہا ہے اور دلی دعا اور ربط کو خاص مدعا میں بہت دخل ہے اور جس سے دلی ربط اور توجہ ہوا گر چہ اس حق میں کسی وقت دعا نہ کرے تب بھی اثر ہو جاتا ہے.مجھ کو یاد ہے اور شائد عرصہ تین ماہ یا کچھ کم و بیش ہوا ہے کہ اس عاجز کے فرزند نے ایک خط لکھ کر مجھ کو بھیجا کہ جو میں نے امتحان تحصیلداری کا دیا ہے اس کی نسبت دعا کریں کہ پاس ہو جائے اور بہت کچھ انکسار اور تذلل ظاہر کیا کہ ضرور ہی دعا کریں.مجھ کو وہ خط پڑھ کر بجائے دعا کے غصہ آیا کہ اس شخص کو دنیا کے بارے میں کس قدر ہم وغم ہے.چنانچہ اس عاجز نے وہ خط پڑھتے ہی یہ تمام تر نفرت اور کراہت چاک کر دیا اور دل میں کہا کہ دنیوی غرض اپنے مالک کے پیش کروں.اس خط کے چاک کرتے ہی الہام ہوا کہ پاس ہو جائے گا وہ عجب الہام بھی اکثر لوگوں کو بتایا گیا.چنانچہ وہ لڑ کا پاس ہو گیا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ.سوخدا وند کریم کی عالیشان درگاہ میں نازک آداب ہیں.جب کوئی عرض آداب کے مطابق صادر ہوتی ہے تو قبول ہو جاتی ہے اور ربط محبت و اعتقاد کرنا ان معاملات میں بہت کچھ دخل ہے.صاحب محبت اور ارادت کے بہت سے ایسے آفات اور مکروہات بباعث عین محبت دور کئے جاتے ہیں کہ اس کی اس کو خبر نہیں ہوتی.نواب صاحب مالیر کوٹلہ کا اب تک کچھ روپیہ نہیں آیا.مناسب ہے کہ آں مخدوم تا کیدی طور پر ان کو یا ددلائیں.والسلام ☆ ۱۱ مئی ۱۸۸۴ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان تذکره صفحه ۹۵ مطبوعه ۲۰۰۴ء الحکم نمبر ۱۰ جلد۳۷ مورخه ۲۱ / مارچ ۱۹۳۴ء صفحه ۹
مکتوبات احمد ۴۴ جلد سوم ( نوٹ ) اس مکتوب میں جس لڑکے کا ذکر آپ نے فرمایا ہے وہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب رضی اللہ عنہ آپ کے سب سے بڑے بیٹے تھے.ان ایام میں وہ نائب تحصیلدار تھے.اس مکتوب میں آپ نے دعا کی قبولیت کے لئے یہ بھی ایک گر بتایا ہے کہ تعلقات اور ربط ایک ایسی چیز ہے جس کا قبولیت دعا سے بہت بڑا تعلق ہے.نواب علی محمد خان مرحوم اس خط کو اپنی نوٹ بک میں رکھتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت اور آپ کے مقام قرب کے اظہار کے لئے ہر اس شخص کو دکھاتے تھے جن سے وہ حضرت اقدس کا ذکر کرتے تھے.وہ آپ کے دلائل صداقت میں اپنے اس ذاتی نشان کا ذکر فرماتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس نشان کا ذکر اپنی کتاب نزول المسیح کے نشان نمبر ۹۳ میں کیا ہے.اس کو میں یہاں اس لئے درج کر رہا ہوں تا پڑھنے والے کا ایمان بڑھے اور جس روک کے اُٹھائے جانے کا ذکر ہے.مکتوب نمبر ۲ میں اس کے متعلق صاف ذکر موجود ہے.د علی محمد خان صاحب نواب جھجر نے لدھیانہ میں ایک غلہ منڈی بنائی تھی.کسی شخص کی شرارت کے سبب ان کی منڈی بے رونق ہوگئی اور بہت نقصان ہونے لگا.تب انہوں نے دعا کے لئے میری طرف رجوع کیا لیکن پیشتر اس کے کہ نواب صاحب کی طرف سے میرے پاس کوئی خط اس خاص امر کے لئے دعا کے بارے میں آتا، میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر پائی کہ اس مضمون کا خط نواب موصوف کی طرف سے آ رہے گا.چنانچہ میں نے اس واقعہ کی خبر اپنے خط کے ذریعہ سے نواب محمد علی خان کے مرحوم کو قبل از وقت دے دی اور ایسا اتفاق ہوا کہ اس طرف سے تو میرا خط روانہ ہوا اور اسی دن ان کی طرف سے اسی مضمون کا خط میری طرف روانہ ہو گیا جو میں نے خواب میں دیکھا تھا جس کی روانگی کی میں نے اسی وقت ان کو خبر دے دی تھی کہ گویا ایک ہاتھ سے انہوں نے ڈاک میں چٹھی ڈالی اور دوسرے ہاتھ سے وہی خط میرا ان کو مل گیا جس میں اس روانہ شدہ چٹھی کا مع مضمون اس کے ذکر تھا تب تو نواب محمد علی خان کے خط کو پڑھ کر ایک عالم سکتہ ۲۰۱ سہو کا تب ہے اصل نام علی محمد خان ہے.(ناشر)
مکتوبات احمد ۴۵ جلد سوم میں آگئے اور تعجب کیا کہ یہ راز کا خط جس کو میں نے ابھی ڈاک میں روانہ کیا کیونکر اس کا حال ظاہر کیا گیا.اس علم غیب نے ان کے ایمان کو بہت قوت دی.چنانچہ انہوں نے با رہا مجھے جتلایا کہ اس خط سے خدا پر میرا ایمان بہت بڑھ گیا.اُس خط کو وہ ہمیشہ اپنی کتاب جیبی میں بطور تبرک رکھا کرتے تھے.ایک مرتبہ انہوں نے خلیفہ محمد حسین کو بھی جو وزیر اعظم پٹیالہ تھے بڑے تعجب سے وہ خط دکھایا اور موت سے ایک دن پہلے پھر اس خط کو مجھے دکھلایا کہ میں نے اپنی جیسی کتاب میں رکھ لیا تھا.اور اس نشان کے ساتھ دوسرانشان یہ ہے کہ جب عالم کشف میں ان کا دوسرا خط مجھ کو ملا جس میں بہت بے قراری ظاہر کی گئی تھی تو میں نے اس جواب کے خط کو پڑھ کر ان کے لئے دعا کی اور مجھ کو الہام ہوا کہ " کچھ عرصہ کے لئے یہ روک اُٹھا دی جاوے گی اور ان کو اس غم سے نجات دی جائے گی.یہ الہام ان کو اسی خط میں لکھ کر بھیجا گیا تھا جو زیادہ تر تعجب کا موجب ہوا.چنانچہ وہ الہام جلد تر پورا ہوا اور تھوڑے دنوں کے بعد ان کی منڈی بہت عمدہ طور پر بارونق ہو گئی اور روک اُٹھ گئی.اس نشان میں دو نشان ظاہر ہوئے.اوّل قبل از وقت اطلاع دینا کہ ایسا واقعہ پیش آنے والا ہے.دوئم قبولیت دعا سے اطلاع ہونا کہ منڈی پھر بارونق ہو جائے گی ،، ! نواب صاحب نے اس واقعہ کو اپنی نوٹ بک میں درج کیا تھا اور محمد حسین خان صاحب وزیر پٹیالہ کو بھی میرے سامنے اپنی کتاب دکھائی تھی.وزیر صاحب کی مجلس میں بیٹھنے والے لوگ اور لدھیانہ کے کئی آدمی اس واقعہ کے گواہ ہیں.نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۹۷،۵۹۶
مکتوبات احمد ۴۶ جلد سوم احباب کپورتھلہ کے نام تعارفی نوٹ جماعت کپورتھلہ کے وہ بزرگ ( جو جماعت مذکور کے بانیوں میں سے تھے اور جنہوں نے اپنے عشق و وفا کا وہ عملی ثبوت دیا کہ خدا کے برگزیدہ مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے انہیں جنت میں اپنے ساتھ ہونے کا وعدہ دیا.گویا یہ وہ لوگ تھے جو عشرہ مبشرہ کے نمونہ کے لوگ تھے ) ان کا تذکرہ تو سیرۃ صحابہ میں انشاء اللہ ہوگا اور کسی قدر ہر ایک بزرگ کے متعلق الحکم میں مختلف اوقات میں لکھا بھی گیا ہے.یہاں صرف ان مکتوبات کا اندراج مقصود ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ان مخلصین وصادقین کو لکھے.میری تحقیقات میں کپورتھلہ کی جماعت کے آدم حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ تھے اور ان کے اخلاص اور عملی زندگی نے دوسروں کو شیدائے مسیح موعود کر دیا اور پھر یہ کہنا مشکل ہو گیا کہ کون پہلے ہے اور کون پیچھے.ہر ایک اپنے اپنے رنگ میں بے نظیر اور واجب التقلید تھا.اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنے رحم و کرم کے بادل برسائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات دے اور ہمیں ان کی عملی زندگی کی توفیق.جماعت کپورتھلہ کے مخلصین کے نام مکتوبات بہت کم ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ عشق و محبت کے یہ پروانے ذرا فرصت پاتے تو قادیان پہنچ جاتے اور خط و کتابت کی نوبت ہی نہ آتی.جہاں حضرت جاتے یہ ساتھ جاتے.تاہم جو تبرکات ان سے حاصل ہوئے وہ درج ذیل ہیں.(عرفانی کبیر)
حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رضی اللہ تعالی عنہ رئیس حاجی پور
مکتوبات احمد ۴۹ جلد سوم حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رضی اللہ تعالی عنہ رئیس حاجی پور کے نام تعارفی نوٹ حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب دو قالب و یک جان تھے حضرت منشی صاحب کے بزرگوار حاجی ولی اللہ صاحب براہین کے خریدار تھے اور ان ایام میں خوش عقیدت بھی تھے.ان کی کتاب براہین احمدیہ نے حضرت ظفر المظفر ( حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ ، منشی ظفر احمد صاحب کو اسی نام سے عام گفتگو میں پکارا کرتے تھے ) کو کھینچا اور پھر یہ دونوں بزرگ حضرت اقدس میں ہو کر ایک ہی باپ کے توام بیٹے ہو گئے.حاجی پوران ہی حاجی صاحب کا آباد کیا ہوا گاؤں تھا.جہاں کے رئیس منشی صاحب مغفور تھے.( عرفانی کبیر )
مکتوبات احمد فہرست مکتوبات بنام حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور مکتوب نمبر ۶ تاریخ تحریر ۴ / جنوری ۱۸۹۲ء ۲۵ /جنوری ۱۸۹۲ء ۲۷ رمئی ۹۲ء ۱۳ / اگست ۹۲ء ۱۹ ؍ دسمبر ۱۸۹۲ء ۱۹ اکتوبر ۱۸۹۴ء صفحہ ۵۱ ۵۱ ۵۲ ۵۲ ۵۳ ۵۳ جلد سوم
مکتوبات احمد ۵۱ جلد سوم مشفقی مجی اخویم مکتوب نمبرا السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته محبت نامہ پہنچ کر آپ کے ترددات کا حال دریافت کر کے بہت غم ہوا.دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو تمام تر ڈدات سے مخلصی عطا فرما دے.آپ نے بہت ثواب کا کام کیا کہ دس رسالے مفت تقسیم کئے.جَزَاكُمُ الله - اب عنقریب انشاء اللہ رسالہ دافع الوساوس بھی شائع ہو جائے گا.میں یقینا کہتا ہوں کہ آپ کی خواب نہایت عمدہ ہے.منشی ظفر احمد جو موجود تھے اس سے مراد انشاء اللہ ظفر ہے یعنی فتح آپ کو ہے.۴/جنوری ۱۸۹۲ء والسلام خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی مشفقی اخویم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مدت کے بعد آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا.ایک رسالہ آپ کے نام روانہ ہو گیا ہے.دافع الوساوس بعد اس کے شائع ہو گا.زیورات کی نسبت جو آپ نے دریافت کیا ہے یہ اختلافی مسئلہ ہے.مگر اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ جو زیور مستعمل ہو اس کی زکوۃ نہیں ہے.مگر بہتر ہے کہ دوسرے کو عاریتاً کبھی دے دیا کریں مثلاً دو تین روز کے لئے کسی عورت کو اگر عاریتا پہننے کے لئے دے دیا جائے تو پھر بالا تفاق ( زکوۃ ) ساقط ہو جاتی ہے.خواب آپ کی نہایت عمدہ ہے.والسلام ۲۵ جنوری ۱۸۹۲ء راقم خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد ۵۲ مکتوب نمبر ۳ مشفقی مجی اخویم منشی حبیب الرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته جلد سوم عنایت نامہ پہنچ کر بد ریافت واقعہ ہائکہ حادثہ وفات آپ کی ہمشیرہ کے بہت غم و اندوہ ہوا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ.خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے اور اس مرحومہ کو راضیات جنت میں داخل فرمائے.آمین ثم آمین.باقی بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے.والسلام ۲۷ رمئی ۹۲ء مکتوب نمبر ۴ خاکسار غلام احمد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.ڈیڑھ میل تک شہر میں اپنے گاؤں سے آنا بجز حرج کے متصور نہیں.چونکہ گاؤں میں مسجد ہے.اگر شہر کے نزدیک بھی ہے تب بھی ایک محلہ کا حکم رکھتا ہے.کسی حدیث صحیح میں اس ممانعت کا نام ونشان نہیں.بلاشبہ جمعہ جائز ہے.خدا تعالیٰ کے دین میں حرج نہیں.کتاب دافع الوساوس چھپ رہی ہے.۱۳ اگست ۶۹۲ والسلام خاکسار غلام احمد
مکتوبات احمد ۵۳ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۵ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مجی اخویم منشی حبیب الرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا محبت نامہ پہنچا.آپ کی علالت کی خبر سن کر تفکر ہوا.اللہ تعالیٰ آپ کو جلد صحت کامل عطا فرما دے.نہایت آرزو ہے کہ آپ ۲۷/ دسمبر ۱۸۹۲ء کے جلسہ میں تشریف لاویں.اگر آٹھ نو روز تک صحت کامل ہو جاوے تو آپ آسکتے ہیں.امید کہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں گے.مرض کی حالت میں قصر نماز نہیں چاہئے.اگر طاقت کھڑا ہونے کی نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں.۱۹؍ دسمبر ۱۸۹۲ء مکتوب نمبر 1 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی عزیزی اخویم منشی حبیب الرحمن صاحب والسلام محمد خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جوتا جو آپ نے بھیجا نہایت عمدہ تھا.صرف اس قدر فرق تھا کہ وہ کچھ مردانہ قطع تھی.دوسرے جیسا کہ زنانہ جوتیاں ہوا کرتی ہیں نازک کا حصہ انچان کم ہے اور بقدر ایک جو اس پہلی جوتی کے چھوٹی ہے باقی تھا.۱۹ را کتوبر ۱۸۹۴ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان حمد الحکم نمبر ۱۲/۱۳ جلد ۴۳ مورخه ۱۴/۲۱دسمبر ۱۹۴۰ء صفحه ۴
مکتوبات احمد ۵۴ جلد سوم (نوٹ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عموما لو دہانہ کا بنا ہوا نرم نری کا سرخ رنگ کا جوتا پہنا کرتے تھے اور منشی حبیب الرحمن مرحوم کی یہ عادت تھی کہ وہ عمو مالود ہانہ سے جو تا بنوا کر پیش کیا کرتے تھے.ان کے گاؤں میں دیمک کی کثرت تھی.اکثر کا غذات اور کتب ان کے تباہ ہو گئے.یہ خط بھی ایک دو جگہ سے صاف نہیں پڑھا جاتا.البتہ یہ سمجھ میں آتا تھا کہ اس مرتبہ جو جوتا آپ نے پیش کیا اس میں بعض نقائص رہ گئے.تا ہم حضور نے او لا اس کی خوبی اور عمدگی کو بیان کیا تا کہ جس اخلاص اور محبت سے تیار کرا کر انہوں نے بھیجا تھا اس کو ٹھیس نہ لگے اور اس میں جو واقعی نقص رہ گیا تھا وہ اس وجہ سے کہ اصل غرض پوری نہ ہو سکتی تھی اس کا بھی ذکر فرما دیا.(عرفانی کبیر)
عکس مکتوب بنام حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب بین الا عالی عنہ
3 عکس مکتوب نمبر ۶ ارج اله اکلوت شد و لیلا مجھے از راجویی بھجیا نا بہت معمور تھا صرف اسقدر فرق رہتا کردہ گھر روانہ قطبع تھی دردسر جوتی بھلا که ما که زنانه جوتیان ماکرتی ہیں ناوک کھے انجان کم باران در یک جو اس ملی جوگی چھوٹی پر جاتی ہے انسانی اس پر تھا تا کی و مقام محمدثر مادیان والسلام حاجی پوره تخفیفه و نشانه بیگواره ست کورت قلم کونت مجھے عزیز را خوب مجھے جمیل الرحمان صالات
مکتوبات احمد ۵۷ حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کے نام تعارفی نوٹ جلد سوم حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ میری تحقیقات میں کپورتھلہ کی جماعت کے آدم ہیں.عین عنفوانِ شباب میں انہوں نے براہین احمدیہ کو پڑھا اور اس نور سے حصہ لیا.ان کا تاریخی نام انظار حسین تھا.وہ ضلع مظفر نگر ( یو.پی ) کے اصل باشندے تھے اور ایک شریف معزز اور عالم خاندان کے فرد تھے.خاندان میں شرافت کے علاوہ دینداری کا ہمیشہ چر چا رہا اس لئے کہ یہ خاندان عرصہ دراز سے خاندان مغلیہ کے عہد میں مسلمان ہو چکا تھا اور اس عہد کی تاریخوں میں اس خاندان کے تذکرے آتے ہیں.یہ قانون گو کہلاتے تھے.قرآن کریم کے حفظ کرنے کا بھی شوق اس خاندان میں پایا جاتا ہے.چنانچہ خود حضرت منشی صاحب کے والد صاحب.دادا صاحب.پردادا صاحب سب حافظ قرآن تھے.مگر خدا تعالیٰ نے حضرت منشی صاحب کو قرآن مجید کے حقائق و معارف کے ایک چشمہ جاریہ پر لا کر کھڑا کر دیا اور وہ سیراب ہو گئے اور دوسروں کو سیراب کرتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عشاق میں سے تھے اور اہلِ بیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت ان کے ایمان کا جز و اعظم تھا.اس جگہ مجھے ان کی زندگی کے واقعات کی تفصیل مطلوب نہیں سرسری تعارف زیر نظر ہے.بزرگانِ ملت حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ، حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ اور دوسرے اصحاب کبار آپ کے ساتھ محبت رکھتے تھے جو دراصل خود ان کی اس محبت کا عکس تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا.جی فی اللہ منشی ظفر احمد صاحب.یہ جوان صالح ، کم گو اور خلوص سے بھرا ، دقیق فہم آدمی ہے.استقامت کے آثار و انوار اس میں ظاہر ہیں.وفاداری کی علامات و امارات اس میں پیدا ہیں.ثابت شدہ صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے اور ان سے لذت اٹھاتا ہے اللہ اور
مکتوبات احمد ۵۸ جلد سوم رسول سے سچی محبت رکھتا ہے اور ادب جس پر تمام مدار حصول فیض کا ہے اور حسن ظن جو اس راہ کا مرکب ہے.دونوں سیر تیں ان میں پائی جاتی ہیں.جَزَاهُمُ اللهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ ۱۹۲۰ بکرمی کے قریب قصبہ باغیت میں پیدا ہوئے اور ۲۰ / اکتوبر ۱۹۴۱ء کو کپورتھلہ میں فوت ہوئے اور وہاں سے ان کا جنازہ قادیان لایا گیا اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے (رضی اللہ عنہ ).(خاکسار عرفانی کبیر) لے ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۳،۵۳۲
جلد سوم صفحه ۶۰ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۵۹ فہرست مکتوبات بنام حضرت منشی ظفر احمد صاحب تاریخ تحریر ۱۱ مئی ۱۸۸۹ء بلا تاریخ ۱۴/ نومبر ۱۸۹۶ء ۳۰ / جنوری ۱۹۰ء بلا تاریخ مکتوبات احمد
مکتوبات احمد ۶۰ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبرا نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد با خویم مکرم منشی ظفر احمد صاحب بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ آپ کا پہنچا حرف حرف اس کا پڑھا گیا اور آپ کے لئے دعا کی گئی.قبض اور بے مزگی اور بے ذوقی کی حالت میں مجاہدات شاقہ بجا لا کر اپنے مولا کو خوش کرنا چاہئے اور یا درکھنا چاہئے کہ وہ مجاہدہ جس کے حصول کے لئے قرآن شریف میں ارشا دوتر غیب ہے اور جو مور دکشود کار ہے.وہ مشروط بہ بے ذوقی و بے حضوری ہے.اور اگر کوئی عملی ذوق اور بسط اور حضور اور لذت سے کیا جائے اس کو مجاہدہ نہیں کہہ سکتے اور نہ اس پر کوئی ثواب مترتب ہوتا ہے.کیونکہ وہ خود ایک لذت اور نعیم ہے اور تم اور تلڈذ کے کاموں سے کوئی شخص مستحق اجر نہیں ہو سکتا.ایک شخص شربت شیر میں پی کر اس کے پینے کی مزدوری نہیں مانگ سکتا، سو یہ ایک نکتہ نہایت باریک ہے کہ بے ذوقی اور بے مزگی اور تلخی اور مشقت کے ختم ہونے سے و ہیں ثواب اور اجر ختم ہو جاتا ہے اور عبادات ، عبادات نہیں رہتیں بلکہ ایک روحانی غذا کا حکم پیدا کر لیتی ہیں.سوحالت قبض جو بے ذوقی اور بے مزگی سے مراد ہے یہی ایک ایسی مبارک حالت ہے جس کی برکت سے سلسلہ ترقیات کا شروع رہتا ہے.ہاں بے مزگی کی حالت میں اعمالِ صالحہ کا بجالا نا نفس پر نہایت گراں ہوتا ہے مگر ادنی خیال سے اس گرانی کو انسان اُٹھا سکتا ہے جیسے ایک مزدور خوب جانتا ہے کہ اگر میں نے آج مشقت اُٹھا کر مزدوری نہ کی تو پھر رات کو فاقہ ہے اور ایک نوکر یقین رکھتا ہے کہ میں نے تکالیف سے ڈر کر نوکری چھوڑ دی تو پھر گزارہ ہونا مشکل ہے.اسی طرح انسان سمجھ سکتا ہے کہ فلاح آخرت بجز اعمال صالحہ کے نہیں اور اعمال صالحہ وہ ہوں جو خلاف نفس ہوں اور مشقت سے ادا کئے جاویں.اور عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ دل سے جس کام کے لئے معتم عزم کیا جاوے اس کے انجام کے لئے طاقت مل جاتی ہے.سو تم عزم اور عہد واثق سے اعمال کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور نماز میں اس دعا کو پڑھنے میں کہ
مکتوبات احمد ۶۱ جلد سوم اِهْدِنَا الصِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الخ) بہت خشوع اور خضوع سے زور لگانا چاہئے اور بار بار پڑھنا چاہئے.انسان بغیر عبادت کچھ چیز نہیں بلکہ جمیع جانوروں سے بدتر ہے اور شَرُّ الْبَرِيَّةِ ہے.وقت گزر جاتا ہے اور موت در پیش ہے اور جو کچھ عمر کا حصہ ضائع طور پر گز ر گیا وہ نا قابل تلافی اور سخت حسرت کا مقام ہے.دعا کرتے رہوا اور تحکومت.لَا تَايْسُوا مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ ل یہ عاجز آپ کے لئے دعا کرتا رہے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.ہر ایک بات کے لئے ایک وقت ہے.صابر اور منتظر رہنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ صبر میں کچھ فرق آجاوے کہ استعمال سم قاتل ہے.اگر فرصت ہو تو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہئے.غور سے ترجمہ قرآن شریف کا دیکھا کرو.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آپ نے خواب میں دیکھا ہے یہ بہتر ہے.فاروق کی زیارت سے قوت و شجاعت دین حاصل ہوتی ہے.میری دانست میں فقر کے یہ معنی ہیں کہ اعمال کی ضرورت ہے نہ نسب کی.بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ کیا کام کیا ؟ یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ کس کا بیٹا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے مناسبت و پیروی و محبت اور پھر کثرت درود شریف شرط ہے.یہ باتیں بالعرض حاصل ہو جاتی ہیں خدا تعالیٰ کے راضی ہو جانے کے بعد اور بآسانی یہ امور طے ہو جاتے ہیں.۱۱ار مئی ۸۹ء ☆ والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان نوٹ :.اس مکتوب میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی ایک رؤیا کا ذکر بھی حضرت نے فرمایا ہے جس میں انہوں نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا اور حضرت نے اس کی تعبیر عام بھی فرما دی ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ حقیقی تعبیر ہے.لیکن میں اپنے ذوق پر اس کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس میں حضرت منشی صاحب کو قبل از وقت بشارت دی تھی کہ وہ اس عصر سعادت کے فاروق فضل عمر کو دیکھ لیں گے.ل يوسف: ۸۸ حمل الحکم نمبر ۳۰ جلد ۲۰ مورخه ۱۴ ستمبر ۱۹۱۸ صفحه ۸
مکتوبات احمد ۶۲ جلد سوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں ایک یہ بھی ہے کہ:.فِيْكَ مَادَّةٌ فَارُوقِيَّةٌ اس میں کیا شبہ ہے کہ حضرت بجائے خود بھی فاروق ہی تھے لیکن اس وحی میں یہ ہے کہ تجھ میں فاروقی مادہ ہے اور اس کا ظہور آپ کی صلبی اولاد میں سے ایک اولوالعزم مولود کے ذریعہ ہونے والا تھا ، جو زبان وحی میں فضل عمر کہلایا.بہر حال حضرت منشی ظفر احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ وہ اس عہد کے فاروق کو دیکھیں گے اور یہ خواب اسی سال کا ہے جب کہ وہ مولود مبشر ، موعود عالم وجود میں آچکا تھا.یعنی ۱۸۸۹ء.پس میرے ذوق میں اس خواب کی تعبیر واقعات کے رنگ میں بھی نمایاں ہے اور میں حضرت ظفر کو مبارک باد دیتا ہوں کہ انہوں نے اس عہد مبارک کو پالیا اور حضرت فضل عمر کو دیکھ لیا.مکتوب نمبر ۲ (عرفانی کبیر ) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکر می اخویم منشی ظفر احمد صاحب نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تعدیل ارکان اور اطمینان سے نماز کو ادا کرنا نماز کی شرط ہے جس قدر رکوع سجود آہستگی سے کیا جاوے وہی بہتر ہے.اسی طرح پر پڑھنے سے نماز میں لذت شروع ہو جاتی ہے.سو یہ بات بہت اچھی اور نہایت بہتر ہے کہ رکوع سجود بلکہ تمام ارکان نماز میں تعدیل و اطمینان اور آہستگی سے ے تذکره صفحه ۸۲ مطبوعه ۲۰۰۴ء
مکتوبات احمد ۶۳ جلد سوم رعایت رکھی جاوے اگر نماز تہجد میں تکرار سے یہ دعا کرو اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.تو یہ طریق نہایت اقرب دل پر نورانی اثر ڈالنے کے لئے ہے ☆ اور یہ عاجزان دنوں قادیان میں ہی ہے.زیادہ خیریت.و السلام ہیں خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۳ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مجی اخویم منشی ظفر احمد صاحب سلّمه السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ لڑکا نوزاد مبارک ہو.اس کا نام محمد احمد رکھ دیں.خدا تعالی با عمر کرے.آمین.۱۴/ نومبر ۱۸۹۶ء والسلام و خاکسار غلام احمد عفی عنہ ( پتہ ) بمقام کپورتھلہ خاص دارالر یاست.بخدمت مجھی اخویم منشی ظفر احمد صاحب اپیل نویس الحکم نمبر ۳۳ جلد ۲۰ مورخه ۷ اکتوبر ۱۹۱۸ صفحه ۷ محمد اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۶۹
مکتوبات احمد ۶۴ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ بِ مجی! مکتوب نمبر۴ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم آپ کی رؤیا انشا اللہ القدیر رویا صالحہ ہے اور جیسا کہ زمانہ کی موجودہ حالت کی حقیقت ہے گویا اس کو ظاہر کرائی ہے.اور نیز آپ کے خاتمہ بالخیر پر دلالت کرتی ہے.حافظ احمد اللہ کے واسطے دعا کی گئی ہے.استغفار میں مشغول رہیں اگر انہیں طاقت ہو اور ملاقات کریں تو انشاء اللہ القدیر ملاقات کی دعا زیادہ اثر رکھتی ہے.اور سب طرح خیریت ہے.والسلام حمید ۳۰/جنوری ۱۹۰ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اخوی مکرمی معظمی منشی ظفر احمد صاحب سَلَّمَهُ رَبُّهُ الْأَحَد السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط پہنچا جو خواب آپ نے تحریر کی ہے وہ بہت عمدہ اور مبارک ہے جس سے آپ کی نسبت یہ خیال کیا جاتا ہے کہ روحانی ترقی اور برکت کی طرف آپ قدم بڑھا رہے ہیں.خدا وند کریم مبارک کرے.مجھ کو علالت طبع کے سبب خود خط تحریر کرنے سے معذوری ہے.والسلام ہے خاکسار غلام احمد از قادیان حمد الحکم نمبر ۳۳ جلد ۲۰ مورخه ۷ اکتوبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۷ الله الحکم نمبر ۳۳ جلد ۲۰ مورخه ۷/اکتوبر ۱۹۱۸ء صفحه ۷
حضرت منشی محمد خان صاحب بری عالی عالی عنہ و حضرت خان صاحب عبدالمجید خاں صاحب نب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تعالی
مکتوبات احمد ۶۷ حضرت منشی محمد خان صاحب رضی اللہ تعالی عنہ محمدخان صاحب حضرت خان صاحب عبدالمجید خاں صاحب رضی اللہ تعالی عنہ بین له کے نام تعارفی نوٹ جلد سوم خان صاحب عبدالمجید خاں صاحب ریٹائر ڈ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کپورتھلہ حضرت منشی محمد خاں صاحب رضی اللہ عنہ کے فرزند اکبر ہیں.حضرت منشی محمد خاں صاحب کپورتھلہ کی جماعت کے ان عشاق میں سے تھے جو اپنی عقیدت و اخلاص اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ محبت و ایثار میں بہت بلند درجہ رکھتے ہیں.منشی محمد خان صاحب کا ذکر میں پہلے اس گشتی مکتوب میں کر آیا ہوں جو بشیر اول کی وفات پر حضرت نے لکھا تھا.اور تفصیلی تذکرہ کتاب تعارف میں انشاء اللہ مزید آئے گا.منشی محمد خان صاحب افسر بگھی خانہ کپورتھلہ تھے جب ان کی وفات ہوئی.اس جگہ کے لئے کپورتھلہ کے کئی شخص امیدوار تھے اور حالت یہ تھی کہ حضرت منشی محمد خاں صاحب کی علالت کی طوالت کے باعث حساب کتاب بھی نامکمل تھا اور مختلف قسم کے خطرات در پیش تھے مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بذریعہ وحی بتا دیا تھا کہ اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا چنانچہ منشی عبدالمجید خاں صاحب افسر بگھی خانہ مقرر ہوئے اور بالآخر ترقی کرتے کرتے وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہوئے اور اسی عہدہ سے پنشن پائی.خان صاحب عبدالمجید خان صاحب اپنے اخلاص وارادت میں اپنے والد مرحوم کے نقش قدم پر ہیں اور سلسلہ کی خدمت کے لئے ہمیشہ تیار رہنا اپنی سعادت اور خوش قسمتی یقین کرتے ہیں اللهُمَّ زِدْ فَزِدْ - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خطوط سے پہلے میں ایک مکتوب مکرمی مفتی فضل الرحمن صاحب مرحوم کا درج کرتا ہوں اس لئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشان کا ایک شاہد ہے.(عرفانی کبیر )
جلد سوم ۶۸ مکتوبات احمد فہرست مکتوبات بنام حضرت منشی محمد خان صاحب حضرت خان صاحب عبد المجید خان صاحب صاحب تاریخ تحریر ۱۴ رمئی ۹۱ء ۲۶ اگست ۲۷ / جنوری ۱۸۹۴ء ور جولائی ۱۹۰۶ء ار جولائی ۱۹۰۶ء ۱۵ را گست ۱۹۰۶ء ۲۶ / اگست ۱۹۰۶ء ۲ جنوری ۱۹۰۷ء بلا تاریخ بلا تاریخ ۴ / جون ۱۹۰۷ء صفحه ۷۲ ۷۳ ۷۳ ۷۴ ۷۵ ۷۹ ΔΙ ۸۲ ۱۲ / جون ۱۹۰۷ء ۱۰؍ فروری ۱۹۰۸ء بلا تاریخ بلا تاریخ 1.۱۲ ۱۴ ۱۵
مکتوبات احمد ۶۹ جلد سوم مفتی صاحب کا خط حضرت منشی اروڑے خاں صاحب کے نام مکرمی منشی صاحب السلام علیکم خاکسار کل ۲ بجے یہاں پہنچا.حضور علیہ السلام سے عرض کیا گیا.فرمایا مجھے۲ / جنوری کو ایسی حالت طاری ہوئی تھی جیسے کوئی نہایت عزیز مرجاتا ہے ساتھ ہی الہام ہوا.اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا، اطلاعاً عرض ہے.دعا کے واسطے کہا گیا.حضور کو بہت سخت رنج ہوا ہے.میرے بعد میرے والد صاحب کی دو تاریں آئی تھیں.اس لئے آج بھیرہ جاتا ہوں.کل سے بارش شروع ہے.۱۳ تاریخ انشاء اللہ گورداس پور پہنچ جاؤں گا اور خیریت ہے.عبدالمجید خاں وغیرہ سب کو السلام علیکم خاکسار فضل الرحمن از قادیان (نوٹ : اب اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکتوبات درج کئے جاتے ہیں.) عرفانی کبیر تذکره صفحه ۴۱۸ مطبوعه ۲۰۰۴ء
مکتوبات احمد حضرت منشی محمد خان صاحب رضی اللہ تعالی عنہ مکتوب نمبرا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مشفقی اخویم محمد خان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته جلد سوم آپ کا عنایت نامہ پہنچا.اگر مولوی حمید اللہ صاحب حسب شرائط ذیل بحث کرنا چاہیں تو قبول ہے.(۱) مسیح ابن مریم کی حیات و وفات کی نسبت بحث ہو کہ قال اللہ وقال الرسول سے اس کا زندہ ہونا ثابت ہوتا ہے یا فوت ہونا اور ہماری طرف سے یہ عہد ہے کہ اگر ان کا زندہ ہونا ثابت ہو تو مسیح موعود کا دعوی ہم چھوڑ دیں گے اور الہام کو ربانی الہام نہیں سمجھیں گے کیونکہ اگر وہ زندہ ہیں تو پھر مسیح موعود وہی ہیں نہ اور کوئی.سو اس بحث میں شرط ضروری یہی ہے کہ صرف مسیح کی وفات وحیات کی نسبت بحث ہو کیونکہ یہی بحث اصل ہے اور باقی سب فرع اور ہمیشہ فرع کا ثبوت یا عدم ثبوت اصل کے ثبوت یا عدم ثبوت کا تابع ہوتا ہے.(۲) دوسرے یہ کہ بحث تحریری ہو مجھے باعث کثرت کا رفرصت نہیں.صرف دو پرچے کافی ہوں گے.پہلے مولوی حمید اللہ صاحب کو مسیح ابن مریم کی حیات کی نسبت لکھنا چاہیئے جس قدر چاہیں لکھیں اور دوسرے پرچہ میں میری طرف سے دلائل وفات ہوں گے اور اسی پر بحث ختم ہو جائے گی.ناحق کا طول اور تضیع اوقات نہیں ہوگا.سو اگر بلا کم و بیش منظور ہے تو بلا توقف تشریف لے آویں.والسلام بخدمت جمیع احباب السلام علیکم.اس خط کی بحفاظت نقل رکھ کر بجسم اس کو مولوی صاحب کی خاکسار محمد غلام احمد خدمت میں بھیج دیو ہیں.۱۴ مئی ۹۱ء از لودیانه الفضل نمبر ۳۵ جلد ۵۴/۱۹ مورخه ۱۳ فروری ۱۹۶۵ء صفحه ۳
مکتوبات احمد جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ عزیزی مخلصی اخویم محمد خان صاحب مکتوب نمبر ۲ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا اخلاص نامہ پہنچا.ہر ایک صدمہ اور مصیبت پر اللہ جل شانہ ثواب عطا فرماتا ہے اور اگر مصیبت نہ ہوتی تو مومن کے لئے خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے بارہ میں اور کوئی راہ نہ ملتا جو کچھ وہ پسند کرے وہی بہتر ہے.بانشراح دل صبر کرنا چاہیئے.تا مولیٰ جلیل راضی ہو اور گناہ بخشے جاویں.یہ عاجز ضعیف اور بیمار ہے اس لئے زیادہ نہیں لکھ سکا.آپ کی ہمشیرہ مرحومہ کے لئے بھی دعائے مغفرت کی گئی ہے.مطمئن رہیں.والسلام ☆ ۲۶ اگست مکتوب نمبر ۳ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مجی مخلصی اخویم محمد خان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ زبانی اخویم منشی محمد اروڑا صاحب معلوم ہوا کہ آں محبت نے اخویم مولوی حکیم نورالدین کی تحریر کو اپنی نسبت خیال کیا ہے مگر حاشا و کلا ایسا نہیں ہے.آپ دلی دوست اور مخلص ہیں اور میں آپ کو اور اپنی اس تمام مخلص جماعت کو ایک وفادار اور صادق گروہ یقین رکھتا ہوں اور مجھے آپ سے اور بدر نمبر ۳۲ جلد ۸ مور محه ۳ / جون ۱۹۰۹ء صفحه ۶
مکتوبات احمد ۷۲ جلد سوم منشی محمد اروڑ ا صاحب اور دوسرے کپورتھلہ کے دوستوں سے دلی محبت ہے پھر کیونکر ہو کہ ایسی جماعت کی نسبت کوئی نا گوار کلمہ منہ سے نکلے.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس دنیا اور آخرت میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرے ساتھ ہوں گے اور آپ ان دوستوں میں سے ہیں جو بہت ہی کم ہیں.آپ نے دلی محبت سے ساتھ کیا اور ہر ایک موقع پر صدق دکھلایا پھر کیونکر فراموش ہو سکتے ہیں.چاہیئے کہ فرصت کے وقتوں میں ہمیشہ ملتے رہیں.باقی تمام احباب کو السلام علیکم.۲۷ / جنوری ۱۸۹۴ء خاکسار میر میرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ حضرت خان عبد المجید خاں صاحب رضی اللہ تعالی عنہ مکتوب نمبر۴ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محجبی اخویم عبدالمجید خان صاحب ستلمه نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط پہنچا.میں انشاء اللہ القدیر دعا کروں گا.خدا تعالیٰ ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے.اسی طرح بار بار یاد دلاتے رہیں تا دعا کا سلسلہ جاری رہے.باقی سب طرح سے خیریت ہے.ور جولائی ۱۹۰۶ء والسلام مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ حمد اخبار بد ر نمبر ۳۷ جلدے مورخہ یکم اکتوبر ۰۸ صفحه ۶
مکتوبات احمد ۷۳ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محبی عزیزی اخویم نَحْمَدُهُ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط مجھ کو ملا.بباعث علالت طبع میں جلد تر جواب نہیں لکھ سکا.آپ کے...سے بہت رنج اور افسوس ہوا.اللہ تعالیٰ آپ کو صبر بخشے اور نعم البدل عطا فرمادے.دنیا کی بنا انہیں عموم پر ہے اور ہر ایک مصیبت کا ثواب ہے اور خدا تعالیٰ کریم و رحیم ہے.آپ کے بھائی خیریت و عافیت سے پہنچ گئے ہیں.بخدمت مولوی عبد الرحیم صاحب السلام علیکم.باقی سب خیریت ہے.ار جولائی ۱۹۰۶ ء والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر 4 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ محبی اخویم میاں عبدالمجید خاں صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط ملا.میری طبیعت کئی دنوں سے بہت علیل ہو رہی ہے.اپنے ہاتھ سے خط لکھنے کی طاقت نہیں.لیکن بوجہ آپ کے تر ڈر کے یہ خط میں نے آپ کہہ کر لکھوایا ہے.باقی سب خیریت ہے.میری علالت کی وجہ سے جواب لکھنے میں تاخیر ہو گئی.مرسله ۱۵ راگست ۱۹۰۶ء مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ۷۴ جلد سوم مکتوب نمبر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم میاں عبدالمجید خاں صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ چاول اور آم مرسلہ آپ کے پہنچ گئے.جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرًا.ایک گھوڑی نہایت عمدہ نسل کی دہنی گھیپ کے علاقے کی ہے.عمدہ قد کی ہے اور خوب چالاک اور ساری خوبیاں اس کے اندر ہیں اور عمر کی جوان بچھری یعنی نوجوان.صرف یہ بات ہے کہ ذرا ڈرتی ہے اور ہمارے بچے کمزور ہیں.میں خود اندیشہ کرتا ہوں کہ اس چالاک گھوڑی پر سواری ان کے مناسب نہیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی پاس شدہ ہے اور اس پر ای.آئی کمپنی کا داغ دیا ہوا ہے.صرف بہ باعث خوف و ڈر اس کے میرا یہ ارادہ ہے کہ اس کے عوض کوئی اور گھوڑی اصیل جو ڈرتی نہ ہو اور ناخن نہ لیتی ہو اور بد لگام نہ ہو اور چک گیر نہ ہو ، چال بہت صاف بغیر ٹھو کر کے ہو ، خرید لی جائے اور میرے خیال میں آپ اس کام کو بخوبی انجام دے سکتے ہیں اور آپ کا اختیار ہے کہ اس جگہ اور گھوڑی بدلا کر بھیج دیں یا اس کو بیچ کر اور گھوڑی عمدہ خرید کر بھیج دیں اور ضرور توجہ کر کے اس کام کو انجام دیں نہایت تاکید ہے.اور آپ ایک ہوشیار آدمی بھیج کر گھوڑی منگوا لیں اور ہم اس جگہ سے اس کے ہمراہ اپنا ایک آدمی کر دیں گے.۲۶ / اگست ۱۹۰۶ء والسلام مرزا غلام احمد از قادیان (نوٹ) اس مکتوب سے ظاہر ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اعلیٰ درجے کے شاہ سوار تھے.جو ہدایات آپ نے گھوڑی کی خرید کے متعلق دی ہیں ان سے اس علم کا بھی پتہ لگتا ہے جو گھوڑوں کی خوبی کے متعلق آپ کو تھا.نیز اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے بچپن ہی سے صاحبزادوں کی تربیت ایک ایسے رنگ میں فرمائی جو ان کی آئندہ زندگی کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتا ہے، خصوصیت سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی تربیت میں آپ کو خاص شغف تھا.یہ گھوڑی حضرت امیر المومنین ہی کی سواری کے لئے لی گئی تھی اور حضرت امیر المومنین ایک عمدہ شاہ سوار ہیں.
مکتوبات احمد ۷۵ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۸ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ہر ایک خط پہنچنے پر دعا کی گئی ہے.انشاء اللہ بعد میں کئی دن دعا میں کوشش کی جائے گی.اللہ تعالیٰ ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے.آمین.۲ جنوری ۱۹۰۷ء مرزا غلام احمد (نوٹ ) اس خط سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک خاص عادت کا پستہ ملتا ہے اور میں اس کو ذاتی علم اور بصیرت سے بھی جانتا ہوں.حضرت اقدس کا معمول تھا کہ جب ڈاک آتی تو ایک اجمالی دعا سب کے لئے کرتے اور پھر ہر خط کو پڑھتے وقت اور کھولتے وقت صاحب خط کے مقاصد کے لئے دعا فرماتے اور اس کے بعد یہ بھی انتظام تھا کہ دعا کے لئے ایسے تمام ارباب کی ایک فہرست تیار ہو کر حضور کی خدمت میں بھیجی جاتی تھی.خاں صاحب عبدالمجید خان صاحب کے نام اس خط میں آپ نے ہر بلا سے محفوظ رکھے جانے کی دعا کی اور دورانِ ملازمت میں دشمنوں کی ہر مخالفت اور منصوبے سے جو ان کو نقصان پہنچانے کا کیا گیا.اللہ تعالیٰ نے ان کو محفوظ رکھا وَلِلَّهِ الْحَمْدُ......( عرفانی کبیر)
مکتوبات احمد ۷۶ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مند و می مکرمی خان صاحب مکتوب نمبر ۹ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ہو آج آپ کا خط مجھے ملا جس میں آپ تا کید فرماتے ہیں کہ حضرت کے نام جو آپ کا خط ج اس کا جواب آپ سوائے حضرت کے اور کسی کے ہاتھ سے نہیں چاہتے.ساتھ حضرت نے آج مجھ سے دریافت فرمایا ہے کہ عبدالمجید صاحب کے خطوط کا جواب کیوں نہیں دیا جاتا.میں تعجب کرتا ہوں کہ حضرت کے نام آپ کے خطوط کا جواب فوراً دیا جاتا ہے اور عموماً میں خود لکھتا ہوں بلکہ حضرت کی تحریر بھی آپ کو روانہ کرتا ہوں.پھر بھی آپ نے حضور کو ایسے الفاظ لکھے ہیں جن سے حضور کو یہ خیال ہوا ہے کہ گویا آپ کو خطوط کا جواب ہی نہیں دیا جا تا.آپ کو چاہئے تھا کہ بوضاحت لکھتے کہ میرے خطوط کا جواب حضور کی طرف سے بہ دستخط محمد صادق پہنچتا ہے مگر مجھے اس کی ضرورت نہیں.اور اب بھی آپ حضرت کو اطلاع کر دیں اور کھول کر.اب رہی یہ بات کہ ہم آپ کے خطوط کا جواب لکھا کریں یا نہ لکھا کریں.سو اس کے متعلق یہ گزارش ہے کہ مجھے آپ کا حکم مانتے بھی کبھی تامل نہ ہوتا مگر میں حضور علیہ السلام کے حکم سے مجبور ہوں.مجھے جب حکم ہوتا ہے کہ میں ایک خط کا جواب لکھوں تو وہ مجھے ضرور لکھنا پڑتا ہے، خواہ کسی کو پسند ہو یا نا پسند.اس کا خیال نہیں.اطاعت حکم سے مطلب ہے.آج حضور نے مجھے حکم دیا کہ اس کا جواب لکھو.میرے عرض کرنے پر پھر فرمایا کہ اچھا میں بھی لکھوں گا مگر آپ بھی لکھو.فرمائیے اب میں کیا کروں.اللہ تعالیٰ کا فضل آپ کے والسلام خادم شامل حال ہو.محمد صادق عفی اللہ عنہ قادیان اس واقعہ سے محبت اور اطاعت کے گراں قدر جذ بے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں.
مکتوبات احمد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ جناب عالی ! LL نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ جلد سوم حضور ! عاجز کئی ایک عریضہ جات خدمت بابرکت میں گزارش کر چکا ہے.مگر اس وقت تک کوئی جواب غلام کو نہیں ملا.اس صورت میں طبیعت بے قرار ہو جاتی ہے.اس لئے بار بار تکلیف دی جاتی ہے.یہاں پلیگ بڑی سخت ہے.حضور ہمارے لئے دعا فرماویں ، بارگاہ الہی میں محض حضور کے تعلق کو جتا جتا کر دعا کی جاتی ہے ورنہ ہماری روحانی حالت بہت گندی ہے.حضور کے جواب کا منتظر.از کپورتھلہ ۲۰ مارچ ۱۹۰۷ء عبدالمجید خاں حضور کا غلام برادرم السلام علیکم بشارت نامہ ارسال خدمت ہے.خدا تعالیٰ کا فضل آپ کے ساتھ ہو.خادم محمد صادق ( نوٹ ) اس کے بعد کے خطوط میں خاں صاحب کے اصل خط بھی درج کر دیئے ہیں جن کے جوابات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے دیئے گئے ہیں.(عرفانی کبیر) مکتوب نمبر ۰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ جواب لکھ دیں کہ خطوط آپ کے پہنچتے ہیں.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو مع تمام عزیزوں کے طاعون سے محفوظ رکھے.والسلام
مکتوبات احمد جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر11 نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ہر ایک خط کے پہنچنے پر دعا کی گئی.اِن شَاءَ اللہ بعد میں کئی دعائیں کی جائیں گی.خدا تعالیٰ ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے.آمین.۴ / جون ۱۹۰۷ء والسلام مرزا غلام احمد عفی اللہ مکتوب نمبر ۱۲ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ حبی فی اللہ عبد المجید خاں السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط ملا.آپ کے واسطے دعا کی جاتی ہے.حساب سرکاری میں اللہ تعالیٰ سہولت عطا فرمائے.والسلام.انشاء اللہ القدیر دعا کروں گا.آپ کا قریباً ہر روز خط پہنچتا ہے اور دعا بھی کی ہے.۱۲ / جون ۱۹۰۷ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد (نوٹ) خط نمبر ۱۲ کا ابتدائی حصہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب قبلہ کا قلمی ہے جو ان ایام میں حضور کے کاتب خطوط تھے یا آجکل کی اصطلاح میں پرائیویٹ سیکرٹری.ان کی عادت میں تھا کہ جن خطوط کے جواب کے لئے حضرت کا ارشاد بھی ہوتا تھا.خط لکھنے کے بعد حضرت کے حضور اس نیت اور مقصد سے پیش کر دیتے کہ حضرت بھی خود کوئی جملہ یا کم از کم اپنا دستخط ہی کر دیں جس کے خدام طلب گار رہتے تھے.ان ایام میں حضرت منشی محمد خاں صاحب رضی اللہ عنہ
مکتوبات احمد ۷۹ کے ایام علالت کا حساب ہو رہا تھا اور حضرت منشی اروڑے خاں صاحب اور حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رضی اللہ عنھما یہ کام کر رہے تھے.اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق حساب میں سہولت اور اولاد کے لئے نرم سلوک کے انوار ظاہر کر دیئے.مرحوم منشی صاحب ہی کا کچھ روپیہ ایصال طلب ثابت ہوا اور حکومت کپورتھلہ نے اسے ادا کر دیا.حضرت مرحوم اپنی دیانت، امانت اور تقوی و طہارت نفس میں ایک بے نظیر آدمی تھے.با وجود اتنے بڑے عہدہ پر مامور ہونے کے اپنی زندگی درویشا نہ گزارتے تھے.جو ملتا تھا اس میں سے صرف قوت لایموت رکھ کر سلسلہ کی نذر کر دیتے تھے.اللہ ! اللہ ! کیا لوگ تھے.رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ.(عرفانی کبیر) جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۱۳ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط پہنچا.میری یہ حالت ہے کہ میں قریباً ہمیں روز سے بیمار ہوں ، کھانسی کی بہت شدت ہے ، دوسرے عوارض بھی ہیں.اس وقت میں ایسا کمزور ہو گیا ہوں کہ دعا میں پورا مجاہدہ اور کوشش نہیں کر سکتا.اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو شخص مذکور کے لئے دعا کروں گا.اللہ تعالیٰ رحم فرمادے.میں اس قدر کمزور ہو گیا ہوں کہ اس قدر تحریر بھی مشکل سے کی ہے.یہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ اگر میری صحت میں خدانخواستہ کچھ زیادہ خلل نہ ہوا تو حتی المقدور دعا کروں گا.انشاء اللہ تعالیٰ.۱۰ / فروری ۱۹۰۸ء مرزا غلام احمد ( نوٹ ) اس مکتوب سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خطوط کے جواب میں کس قدر محتاط اور مستعد تھے.اور آپ انسان کی فطرت کو سمجھتے تھے کہ خطوط
مکتوبات احمد ۸۰ جلد سوم کے جواب کے لئے وہ کسی قدر مضطرب رہتا ہے.دوسرے آپ نے دعا کے متعلق بھی قبول ہونے والی دعا کا راز بتایا کہ وہ ایک خاص مجاہدہ اور کوشش کو چاہتی ہے.سوم.آپ کی طبیعت پر صداقت کس قدر غالب ہے.نمائش اور ریا سے آپ پاک ہیں.چونکہ بوجہ علالت شدید دعا کے لئے وہ حالات میسر نہیں ، صاف اعتراف فرمایا کہ اس وقت دعا نہیں کر سکتا.اس مکتوب کے ہر لفظ سے آپ کا تو کل علی اللہ نمایاں ہے.(عرفانی کبیر ) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ جناب عالی نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ حضور کی علالت طبع کا سن کر دل کو صدمہ ہوا.خدا تعالیٰ جلد صحت کئی عطا فرما دے.حضور جان ہیں اور گل جہاں جسم ہے.حضور کی بیماری کی خبر سخت بے چینی کا موجب ہوتی ہے.حضور بواپسی ڈاک اپنی صحت سے اطلاع بخشیں.اس معاملہ میں جس کے لئے حضور نے توجہ فرمائی تھی.وہ اب درست ہوتا معلوم ہوتا ہے یعنی صاحب بہادر نے جو استعفی دیا تھا وہ اب واپس لینے کے قریب ہیں.حضور کی خدمت میں بطور یاد دہانی بعد عجز التماس ہے کہ حضور دعا فرما دیں کہ سری حضور اندر دام اقبالۂ یعنی مہا راجہ صاحب بہادر کے دل میں نرمی پیدا ہو اور وہ صاحب بہادر کی دلجوئی کر دیں.اتنے میں صاحب خوش ہو جائیں گے اور کام بدستور بنار ہے گا.صاحب بہادر کی میم ، حضور کی خدمت میں بعد معجز دعا کے لئے التماس کرتی ہیں.خود حاضر ہونے کو تیار ہیں.مگر حالات موجودہ اجازت نہیں دیتے.بعد میں وہ اس معاملہ میں کوشش کریں گے.حضور کے جواب کا منتظر ۱۴ / فروری ۱۹۰۸ء عاجز غلام بندہ عبدالمجید نائب مہتمم از کپورتھلہ
مکتوبات احمد ΔΙ مکتوب نمبر ۱۴ جواب ضرور لکھ دیں.ہم دعا میں مشغول ہیں.تسلی رکھیں.والسلام مرزا غلام احمد جلد سوم برادرم مکرم خان صاحب السلام علیکم حضور جب آپ کے واسطے دعا میں مشغول ہیں تو تمام مشکلات خود ہی حل ہو جائیں گے.آپ کے مضطر بانہ خط پڑھ کر عاجز نے بھی دعا کی ہے.مگر حضور اقدس کی دعا کے بعد کسی کی دعا کی ضرورت نہیں.مگر حصولِ ثواب کے واسطے اور آپ کی تکلیف کو محسوس کر کے محبت دلی سے بے اختیار دعا ہوتی ہے.اپنے حال سے روزانہ اطلاع کیا کریں.تازہ الہام ظَفَرَكُمُ اللَّهُ ظَفْرًا مُّبِينًا خادم محمد صادق عفی اللہ عنہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ جناب عالی السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته عاجز اپنے چھوٹے بھائی عزیز بشیر احمد کو سہارنپور کے کالج متعلقہ باغات کی اور سیر کلاس میں داخل کرنا چاہتا ہے مگر بجر حضور کی اجازت حاصل کئے اور اس کے داخلہ کے قبل دعا کرائے بغیر میں ہرگز اس کو وہاں پر بھیج نہیں سکتا.اجازت حاصل کرنے کے واسطے ایک عریضہ بذریعہ ڈاک گزارش تذکر صفحه ۶۳۶ مطبوعه ۲۰۰۴ء
مکتوبات احمد ۸۲ جلد سوم کر چکا ہوں جس کا جواب عاجز کو موصول نہیں ہوا اور اگر حضور اجازت دے دیں تو وقت داخلہ تھوڑا ہے.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ بذریعہ عریضہ دستی اجازت کی درخواست کی جائے اور دعا کے لئے خواستگار ہوں.چنانچہ حامل عریضہ ھذا کو حضور کی خدمت میں بھیجتا ہوں کہ کالج مذکور میں سہ سالہ پڑھائی ہے اور گورنمنٹ ملا زمت دینے کی ذمے دار ہے اور جو تعلیم پوری کر کے ملازمت کریں ان کو گورنمنٹ ابتدائی تنخواہ سے روپیہ کے قریب دے گی.کالج نیا ہے.شروع میں وظیفہ بھی پڑھائی کے لئے سرکار سے قریباً کل لڑکوں کو ملتا ہے.اگر حضور پسند فرماویں تو اجازت دے دیں اور دعا فرما کر فخر بخشیں تا کہ عزیز بشیر احمد کے داخل کرانے کا جلد انتظام کرایا جاوے ورنہ جیسا حکم ہو کیا جاوے.حضور کے جواب باصواب کا منتظر.عاجز غلام ۱۶ مارچ ۱۹۰۸ء بند و عبدالمجید نای مهتم از کپورتھلہ ( حضور میں اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھوں.اگر حضور کسی چیز کے لئے حکم کریں جو کہ بین ماه حال کو یعنی جب قادیان حاضر ہوں ہمراہ لیتا آؤں.عاجز غلام.بندہ عبدالمجید ) مکتوب نمبر ۱۵ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا ڈاک میں بھی خط پہنچا تھا.مجھے چونکہ دورہ کے طور پر بیماری لاحق ہو جاتی ہے اس وقت جواب لکھنے سے معذور ہو جاتا ہوں.آج جواب لکھنا چاہتا تھا کہ آج بھی بیمار رہا.میرے نزدیک کچھ مضائقہ نہیں تو کلاً علی اللہ داخل کرا دیا جاوے.میں انشاء اللہ دعا کروں گا کہ خدا تعالیٰ کا میاب کرے اور بلاؤں سے محفوظ رکھے.باقی خیریت ہے.محمود احمد اس جگہ نہیں ہے خط اس جگہ رکھ لیا ہے وہ امرتسر گیا ہوا ہے.باقی خیریت ہے.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ
عکس مکتوبات بنام حضرت خان عبدالمجید خان صاحب بعض الطقعالی عنہ
3 عکس مکتوب نمبر۴ ہم اور الر حمن الرحيم عدے سا چی اطوع عبد الحمو خانه ات کو است اما انا اتنا آنے والی پر ایم این اشار المها العلوان میں هسته دمان که تا اور ان کی ایک ایسی صورتون ایم ایس حدي طرح بارید باید دورتی با تن تاورهای سیستم حال وہ رہے باقی با طرح کے چراتے تھے ॐ انتشارات انجام پروشه صدر بارور و پر کیروقت کی اور و الفقار علی کا لایا ہے سوفت
4 عکس مکتوب نمبر ۵ مایع و حشر اور حرام این محتوی این دو پای جدالات قطیع مین هوش تونایت شما اگر شما آیپک شهر راداشت میں بہت کوجب کے اصرار نہیں کیا اور خالی آپ کو ھر موشی بر رفع الین مدنی فریاد سے ریلی کی بلا اشتی مجھے ہو ہیں اور پر کیا بات ہور ہے ہر روز ا ا ا ا ا ا ا ا و و و و و در راه است شریح گئے.ہے کہا کے میں رائج し رسم علق بالی 2 مسلم في با سلام سند معیت میر کیا ہے کے %
5 عکس مکتوب نمبر ۶ بيسم بالذد الرحمن الرحيم بھی اخویم میاں عبد المجید خان صاحی مسلمہ ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا د میں کاشت کے آپ کا نقطہ سلاد میری طبیعت کئی دنوں سے بہت علیل مہ داری ہے.اپنے ہاتھ سے خط لکھنے کی طاقت نہیں.لیکن ہو جہ آپ کیسے توبہ و سکے ہر حال میں نے آپ کہو کہ پکھوایا ہے.باقی سب خیریت ہے.غیر کی علامت کی وجہ سے جواب لکھنے میں تاخیر ہو گئی.هران
6 عکس مکتوب نمبرے ما می بینیم در راست عنا القرار یزید به رام کان درد اصلیلا رشته الخارج محمت و اعتی ۲۲ و روایات به أقدم مياك حائل اورلی مراسم است پیام ع الوالد گے ا که دوره از روایی ای کی که در برنا &
7 گئی اور اسیر ہی آئی لینے کا سوچ رہا سی اکھا حرف عام خودت اور اور اسکی کی مراتب از نوع کی روز ما ده ست حراست تو اور حامل بہت خرا یا 2 اور یہی حال میں اسی کام کو کوئی انجام دی مت کریں احتليه رفتاری گر برشهای ا مراه او را بیش داره رسی جنگه شایع عمرة 蓖
عدالله السلام 8 عکس مکتوب نمبر ۱۰ محور تو ان کی جان
9 عکس مکتوب نمبر ۱۴ حریر که گاه متنان یکبیری پا کسری اسع tr
10 عکس مکتوب نمبر ۱۵ اسلم کی رحمت اول و ده رگام آپ کا درست این بین کو سر ينا لنا می ایا الحمام شر رومی کا ہے راحت کی جاتی ہیں اسوقت جو اوپ کیا ہے جوارب یک ہے اسی تصور ہو یا ا ایران اور خور یا لگتی کرنا شمار نع بلیوں سے بھی کھل گئی.حماسی را اثار یا اور رگیر نیاورده امور تر
حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی سرساوی بھی ان دنیای مد
مکتوبات احمد ۸۵ جلد سوم حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق جمالی نعمانی سرساوی رضی اللہ تعالی عنہ کے نام تعارفی نوٹ حضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحب سَابِقُونَ الْأَوَّلُونَ میں سے ہیں اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ انہوں نے سلسلہ کے لئے بہت بڑی قربانی کی تھی.وہ ایک سجادہ نشین خاندان کے رکن تھے اور اپنے مریدوں کا بھی ایک وسیع حلقہ رکھتے تھے لیکن جب ان پر سلسلہ کی صداقت کھل گئی تو انہوں نے اس عظمت و راحت پر لات مار دی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دروازہ پر دھونی رمالی.میں انشاء اللہ العزیز صاحبزادہ صاحب کی زندگی پر بہت جلد ایک مضمون لکھنے کا عزم رکھتا ہوں.ایک شخص جس کی عمر کا بہت بڑا حصہ ناز و نعمت میں گزرا ہو اور جو اپنے خاندان اور اپنے مریدوں میں اکرام و احترام کا مرکز ہو،سلسلہ احمدیہ میں آنے کے بعد اس کی زندگی میں حیرت انگیز تغیر ہوا.وہ فی الحقیقت ایک درویش کی زندگی بسر کرتا تھا.آخری وقت تک اس نے کوشش کی کہ وہ اپنی محنت سے روٹی کمائے.کتابت کے ذریعہ کچھ عرصے تک وہ اپنی قوت لایموت پیدا کرتے رہے لیکن جب قومی نے جواب دے دیا اور اس کام کو نہ نبھا سکے تو حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز خصوصیت سے ان کی ضروریات کا لحاظ رکھتے تھے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی زندگی کا آخری دور نہایت عسرت اور امتحان کا دور تھا مگر وہ اس دور میں پورے ثابت قدم رہے اور اس امتحان میں کامیاب ہوئے.ان کی زندگی کا آخری کارنامہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی لکھ رہے تھے جو انہیں یاد تھے.میں ان کی زندگی میں چاہتا تھا کہ اس مسودہ کو دیکھوں.انہوں نے
مکتوبات احمد ۸۶ خواہش بھی کی لیکن مجھے اپنے بکھیڑوں سے فرصت نہ ملی.وہ اکثر بیمار رہتے تھے.مگر نہایت صبر و حوصلہ سے اس بیماری کو برداشت کرتے جب ذرا افاقہ ہو جاتا تو باہر نکل آتے.آخر عمر میں لوگوں سے مصافحہ کرنے سے گھبراتے تھے.اس لئے کہ لوگ جو محبت سے ہاتھ کو دباتے تو وہ اس شدت کو برداشت نہ کر سکتے تھے.مجھے بعض احباب کے متعلق یہ حسرت رہے گی کہ میں ان کی آخری ساعات میں ان کے پاس نہ تھا.غرض کا غذات میں کچھ مکتوبات مل گئے جن کو میں صاحبزادہ صاحب کی یاد تازہ رکھنے کو ذیل میں درج کرتا ہوں.(عرفانی) جلد سوم
جلد سوم مکتوبات احمد AL فہرست مکتوبات بنام حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی سرساوی مکتوب نمبر مکتوب نمبر تاریخ تحریر صفحہ ۴ / نومبر ۸۷ء بلا تاریخ ۱۰۲ ۱۳ / دسمبر ۱۸۸۷ء ۲۸ مئی ۱۸۸۸ء ۱۸ / اگست ۱۸۸۸ء قد ۱۹ / اگست ۱۸۸۸ء ۴ نومبر ۱۸۸۸ء ۷/دسمبر ۱۸۸۹ء ۲۵/جنوری ۱۸۹۰ء بلا تاریخ ۲۲ فروری ۹۰ ۷/ جون ۱۸۹۰ء ۶ ستمبر ۱۸۹۰ء ۱۰۴ ۱۰۴ ۱۰۵ 1+4 1+4 1.2 ۱۰۸ 1+A 1+9 1+9 ۲۲ اکتوبر ۱۸۹۰ء ۲۵ اکتوبر ۱۸۹۰ء 11 + 11.نومبر ۹۰ء ۱۷ ۸۹ ۱۸ ۸۹ ۱۹ تاریخ تحریر صفح ۲۲ /اگست ۱۸۸۳ء ۲ رمئی ۱۸۸۴ء ۸/دسمبر ۱۸۸۴ء ۷ / مارچ ۱۸۸۵ء ۹/ جون ۸۵ء ۲۱ / جون ۱۸۸۵ء ۲۷ / جون ۱۸۸۵ء ۹/ مارچ ۱۸۸۶ء بلا تاریخ ۲۶ اپریل ۱۸۸۶ء ۱۴ جون ۱۸۸۶ء ۳ جولائی ۱۸۸۶ء ۵/ دسمبر ۸۶ء ۴ را پریل ۱۸۸۷ء ۳۰ / جولائی ۷ ۱۸۸ء ۲۲ اکتوبر ۸۷ء ۲۰ ۹۱ ۲۱ ۹۲ ۲۲ ۹۳ ۲۳ ۹۴ ۲۴ ۹۵ ۲۵ ۹۷ ۲۶ ۹۷ ۲۷ ۹۸ ۲۸ ۹۹ ۲۹ ۹۹ ۳۰ 1++ ۳۱ 1+1 ۳۲ 1+1 ۶ ۹ 1.11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶
مکتوب نمبر تاریخ تحریر مکتوبات احمد ٨٨ تاریخ تحریر مکتوب نمبر صفحہ ۳۳ بلا تاریخ ۳۴ ۸ مئی ۹۱ء ۳۵ ۳۶ ۱۸ رمئی ۱۸۹۱ء ۴۸ ۱۱۲ ۴۹ ۱۱۴ ۷ار جولائی ۹۰ ۱۱۴ ۵۱ ۳۷ ۱۸ / اگست ۱۸۹۱ ۳۸ ۳۹ ۱۹ ستمبر ۹۱ء یکم اکتو بر ۹۱ ۴۰ بلا تاریخ ام ۱۳/ نومبر ۱۸۹۱ء ۴۲ ۴۳ ۲۶ نومبر ۱۸۹۱ء بلا تاریخ ۴۴ ۱۲ / جنوری ۱۸۹۲ء ۴۵ ۴۶ ۱۹ جنوری ۱۸۹۲ء علیم اپریل ۱۸۹۲ء ۵۲ ۱۱۵ ۵۳ ۱۱۵ ۵۴ 117 112 ۵۶ 112 ۵۷ ۱۱۸ ۵۸ ١١٩ ۵۹ ۱۱۹ ۶۰ ۱۲۰ ۶۱ ۱۲۰ ۴۷ ۱۵ را پریل ۱۸۹۲ء ۱۲۱ جلد سوم صفح ۱۶ را پریل ۱۸۹۲ء ۱۲۱ ۲۸ / اگست ۱۸۹۲ ۱۲۲ ۶ ستمبر ۱۸۹۲ء ۱۲۲ ۱۱ اکتوبر ۱۸۹۲ء ۲۳ نومبر ۱۸۹۲ء ۱۲۳ ۱۲۴ ۸/دسمبر ۱۸۹۲ء ۱۲۵ ۱۱/جون ۹۴ء ۱۲۵ بلا تاریخ ۱۲۶ بلا تاریخ ۱۳۳ ۲۴ ستمبر ۲۲ ستمبر ۱۸۹۸ء ۱۳۳ ۱۳۴ ۲۳ را پریل ۱۹۰۶ء ۱۳۵ درمئی ۱۹۰۷ء ۱۳ اگست ۱۹۰۷ ۱۳۶ ۱۳۷
مکتوبات احمد ۸۹ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد مکتوب نمبرا بخدمت اخویم مخدوم و مکرم حضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلّمۂ تعالیٰ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته عنایت نامہ پہنچا موجب مہربانی ہوا.اب جس طور سے خدا تعالیٰ نے چاہا معاہدہ ہو چکا.آں مخدوم دعا کریں کہ اللہ تعالی مدد و نصرت فرما دے.آپ کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے اور سفر دہلی میں چند موانع کے باعث سے ہنوز تو قف ہے.انشاء اللہ القدیر جب اس طرف کا پختہ ارادہ ہوگا اطلاع دوں گا اور بشرط زندگی و توفیق ایزدی حالات جدیدہ سے اطلاع دیتا رہوں گا.والسلام ۲۲ / اگست ۱۸۸۳ء خاکسار غلام احمد عفی اللہ عنہ مکتوب نمبر ۲ مخدومی مکر می اخویم مولوی سراج الحق صاحب سلّمه السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ بعد سلام مسنون آں مخدوم کے پانچ روپیہ اس عاجز کو آج پہنچ گئے اس لئے بطور رسید اطلاع دیتا ہوں.باقی سب خیریت ہے.۲ رمئی ۱۸۸۴ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد مکتوب نمبر ۳ مند و می مکر می اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلّمۂ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ جلد سوم آں مخدوم کا عنایت نامہ جو محبت سے بھرا ہوا ( تھا پہنچا.عرفانی) جَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ وَ اَحْسَنَ إِلَيْكُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْعُقْبی.یہ عاجز حضرت عزّ اسمہ میں شکر گزار ہے کہ ایسے مخلص دوست اسی نے میرے لئے میر کئے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ - ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں اور اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب خیریت سے ہے.۸/دسمبر ۱۸۸۴ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ ( نوٹ ) اس مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحب ۱۸۸۴ء میں حضرت کی خدمت میں پہنچ چکے تھے اور اخلاص و عقیدت کی منزلوں کو طے کر رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر تو اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح کا اثر غالب تھا اور وہ ہرا مر کو فعل باری ہی کا نتیجہ یقین کرتے تھے.حضور کے مکتوبات کے پڑھنے سے یہ بھی نمایاں ہوتا ہے کہ حضور اپنے خدام اور غلاموں کو کس محبت اور ادب سے خطاب کرتے تھے.یہ آپ کے اعلیٰ اخلاق کا ایک نمونہ ہے.خدام اور وابستگانِ دامن آپ کی روحانی اولاد تھی اور آپ اَكْرِمُوا أَوْلَادَكُمُ کے ماتحت ہر شخص سے یہ محبت واکرام پیش آتے تھے.(عرفانی کبیر)
مکتوبات احمد ۹۱ جلد سوم مکتوب نمبر۴ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته عنایت نامه آن مخدوم پہنچا ، موجب خوشی ہوا.خدا وند کریم آئمکرم کو خوش و خرم رکھے.یہ عاجز کچھ عرصہ بیمار رہا اور اب بھی اس قد ر ضعف ہے کہ کوئی کام محنت کا نہیں ہوسکتا.اسی باعث سے ابھی کام حصہ پنجم شروع نہیں ہوا.بعد درستی و صحت طبیعت انشاء اللہ شروع کیا جائے گا.آپ نے جو سورۃ فاتحہ کے پڑھنے کی اجازت چاہی ہے یہ کام صرف اجازت سے نہیں ہو سکتا بلکہ امر ضروری یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ کے مضمون سے مناسبت حاصل ہو.جب انسان کو ان باتوں پر ایمان اور ثبات حاصل ہو جائے جو سورۃ فاتحہ کا مضمون ہے تو برکات سورۃ فاتحہ سے مستفیض ہو گا.آپ کی فطرت بہت عمدہ ہے اور میں بھی امید رکھتا ہوں کہ خدا وند کریم جل شانہ آپ کی جد و جہد پر ثمرات حسنہ مرتب کرے گا.وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۷ مارچ ۱۸۸۵ء والسلام * خاکسار غلام احمد از قادیان (نوٹ) یہ مکتوب شریف قریباً پچاس سال پہلے کا ہے.پیر صاحب چونکہ ایک سجادہ نشین کے بیٹے تھے اور عملیات اور چلہ کشیوں کو ہی معراج سلوک و معرفت یقین کرتے تھے.اس لئے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس زمانے میں جب کہ ابھی بیعت بھی نہیں لیتے تھے.سورہ فاتحہ کے برکات اور فیوض کو بطور منتر حاصل کرنے کے لئے اجازت چاہی ، جیسا کہ آج کل کے مروجہ پیروں اور سجادہ نشینوں میں یہ طریق جاری ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ جب تک العنكبوت: ٧٠ الحکم نمبر ۱ جلد ۲۰ مورخه ۲۱ / اپریل ۱۹۱۸ صفحه ۴
مکتوبات احمد ۹۲ جلد سوم انسان اس روح کو اپنے اندر پیدا نہ کر لے جو سورہ فاتحہ میں رکھی گئی ہے محض منتر جنتر کے طور پر پڑھنے سے وہ برکات حاصل نہیں ہو سکتے.یہ عجیب نکتہ معرفت ہے اور اس سے آپ کی ایمانی اور عملی قوت کا پتہ لگتا ہے کہ معرفت الہیہ کے کس بلند مقام پر آپ پہنچے ہوئے تھے.مکتوب نمبر ۵ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدومی و مکرم محبی صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلّمۂ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اس جگہ بفضلہ تعالیٰ ہر ایک طرح سے خیریت ہے.خدا وند کریم آں محب مخلص کو خوش رکھے.عنایت نامه جس وقت آیا دوسرے روز یہاں سے جواب لکھ کر روانہ کیا گیا تھا مگر کل کے عنایت نامہ سے جو وارد ہو کر موجب خوشی ہوا معلوم ہوا کہ وہ پہلا خط اس عاجز کا نہیں پہنچا.یہ عاجز آپ کی توجہ کا بہت شکر گزار ہے اور آپ کے ملنے کو دل چاہتا ہے مگر موقوف بر وقت ہے.آپ بلا تکلف کاروبار متعلقہ اس طرف سے مسرور فرمایا کریں.حصہ پنجم انشاء اللہ اب عنقریب چھپنے والا ہے اور ایک خبر تازہ خبر یہ ہے کہ اندرمن مراد آبادی نے جو ایک بڑا مخالف اسلام ہے دعوی کیا تھا کہ اگر چوہیں سو روپیہ میرے لئے سرکار میں جمع کرا دیا جائے تو میں ایک سال تک قادیان میں کوئی نشان دیکھنے کے لئے ٹھہروں گا اور اسی غرض سے اس نے اول نابھہ سے اور پھر لاہور میں آ کر خط لکھا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے شکست کھا کر بھاگ گیا یعنی چوبیں (سو ) روپیہ ایک مسلمان نے اُس کے ایک سال کے لئے اس عاجز کو دے دیئے کہ تا حسب منشا اندر من سر کار میں جمع کرائے جائیں.آخر وہ اس بات کا نام سنتے ہی فراری ہوا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ - ۱۹ جون ۸۵ء والسلام خاکسار غلام احمد
مکتوبات احمد ۹۳ جلد سوم مکتوب نمبر ۶ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدوم و مکرم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلّمه السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کل ایک خط خدمت میں روانہ کر چکا ہوں.مگر آپ کے سوال کا جواب رہ گیا تھا سواب لکھتا ہوں.علماء اس سوال کے جواب میں اختلاف میں ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ یعنی اگر تم مریض ہو یا کسی ↓ سفر قلیل یا کثیر پر ہو تو اس قدر روزے اور دنوں میں رکھ لو.سو اللہ تعالیٰ نے سفر کی کوئی حد مقرر نہیں کی اور نہ احادیث نبوی میں حد پائی جاتی ہے.بلکہ محاورہ عام میں جس قدر مسافت کا نام سفر رکھتے ہیں وہی سفر ہے.ایک منزل جو کم حرکت ہو اس کو سفر نہیں کہا جاتا.والسلام م ۲۱ / جون ۱۸۸۵ء عاجز غلام احمد عفی عنہ ( نوٹ ) سفر میں روزہ کے متعلق بڑی عجیب و غریب بحثیں ہیں اور سفر کے تعین اور مقدار میں مختلف آراء ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک ایسا آسان اور عام فہم اصل تعلیم فرما دیا ہے جس سے ایک عامی بھی فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور حقیقت میں الدِّينُ يُسر کے یہی معنی ہیں.خو د سفر اور حالت بیماری میں روزہ کو خدا تعالیٰ نے يُسر کے رنگ میں بیان کیا ہے.پھر اس میں ایچا پیچی نئے مشکلات پیدا کرنا ہے.یہ حضرت کے تفقہ کا ایک بین ثبوت اور امتیاز ہے.(عرفانی کبیر ) البقره: ۱۸۵ حمد الحکم نمبر ۵ جلد ۳۹ مورخه ۱۴ / فروری ۱۹۳۶ء صفحه ۶
مکتوبات احمد ۹۴ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد مکتوب نمبرے نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ بخدمت اخویم مخدوم مکرم صاحبزادہ سراج الحق صاحب نعمانی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته عنایت نامہ پہنچا موجب مسرت ہوا.اللہ تعالیٰ آپ کو بہت خوش و خرم رکھے.بعد اتمام کارروائی خطوط رجسٹری شدہ حصہ پنجم چھپنا شروع ہو گا.اوّل اس کا رروائی کا انجام تک پہنچ جانا از بس ضروری ہے.خدا تعالیٰ کوئی ایسی تقریب کرے کہ آپ کی ملاقات ہو جائے.ماہ شوال میں اس عاجز کا دہلی جانے کا ارادہ ہے اور شاید سہارنپور بھی جانا ہو گا اگر اس تقریب پر ملاقات ہو تو ممکن ہے.بخدمت مولوی عبد الکریم صاحب سلام مسنون پہنچے.۲۷ / جون ۱۸۸۵ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ۹۵ جلد سوم مکرمی مخدومی اخویم ! مکتوب نمبر ۸ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامه نیز یک دستار ہدیہ آں مخدوم پہنچا.حقیقت میں یہ عمامہ نہایت عمدہ خوبصورت ہے جو آپ کی دلی محبت کا جوش اس سے مترشح ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے.( آمین ) اور اب یہ عاجز شاید ہفتہ عشرہ تک اس جگہ ٹھہرے گا.زیادہ نہیں.۹ / مارچ ۱۸۸۶ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ از ہوشیار پور ( نوٹ ) حضرت اقدس کا سفر ہوشیار پور ایک تاریخی سفر ہی نہیں بلکہ اس سفر کے ساتھ بہت سے نشانات وابستہ ہیں.اللہ تعالیٰ کی ایک تحریک خفی کے ماتحت کچھ عرصے کے لئے ضلع گورداسپور کے پہاڑی علاقہ (سو جان پور) کی طرف جا کر عبادت کرنا چاہتے تھے.لیکن پھر خدا تعالیٰ کی صاف صاف وحی نے آپ کو ہوشیار پور جانے کا ایماء فرمایا اور اس شہر کا نام بتایا.اس سفر میں تحریر کا ایک خاص کام بھی زیر نظر تھا.چنانچہ حضور نے مرحوم چوہدری رستم علی خان صاحب کو لکھا تھا کہ حسب ایماء خدا وند کریم بقیہ کام رسالہ کے لئے اس شرط سے سفر کا ارادہ کیا ہے کہ شب و روز تنہائی ہی رہے اور کسی کی ملاقات نہ ہو اور خداوند کریم جل شانہ نے اس شہر کا نام بتا دیا ہے کہ جس میں کچھ مدت بطور خلوت رہنا چاہئے اور وہ شہر ہوشیار پور ہے.الی آخرہ.یہ سفر حضرت نے قادیان سے سیدھا ہوشیار پور کو کیا تھا“.چنانچہ ۱۹ / جنوری ۱۸۸۶ء کو حضور معہ حضرت حافظ حامد علی صاحب و حضرت منشی عبد اللہ صاحب و میاں فتح خاں ( یہ شخص بعد میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے اثر میں آگیا ،ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا تھا ) روانہ ہوئے اور بروز جمعہ ہوشیار پور پہنچ کر طویلہ شیخ مہر علی صاحب
مکتوبات احمد ۹۶ جلد سوم میں فروکش ہوئے تھے.اسی سفر میں ماسٹر مرلی دھر سے مباحثہ ہوا جو کتاب سرمہ چشم آریہ کی صورت میں شائع ہوا.اس سفر کے برکات عظیم الشان ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں فرمایا تھا ”تیرے سفر کو جو ہوشیار پور اور لودہانہ کا سفر ہے تیرے لئے مبارک کر دیا.“ (اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء) ان عظیم الشان برکات میں سے ایک وہ ہے جو مصلح موعود اور پھر بشیر کے متعلق ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ مکتوبات کی اس جلد کے شائع کرتے وقت حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد أَيَّدَهُ اللهُ الاَحَدُ نے خدا تعالیٰ کی وحی اور الہام سے مشرف ہوکر مصلح موعود ہونے کا دعوی کر دیا ہے اور اس کا اعلان دنیا میں ہو چکا ہے.اسی سلسلہ میں ہوشیار پور، لاہور اور دہلی میں کامیاب جلسے ہو چکے ہیں.خدا کا فضل اور رحم ہے کہ خاکسار عرفانی کبیر تو عرصہ دراز سے اس موعود کے متعلق ایمان رکھتا تھا جیسا کہ اس کی تحریروں سے ظاہر ہے مگر اب کشف غطاء ہو گیا اور منکرین کے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہا.تا ہم ہدایت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے.آنکھ کے اندھوں کے لئے بینات اور حقائق کام نہیں آتے.(عرفانی کبیر)
مکتوبات احمد ۹۷ جلد سوم مکتوب نمبر ۹ مخدومی مکرمی اخویم صاحبزادہ صاحب سراج الحق صاحب سلّمۂ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آج عنایت نامہ پہنچ کر طبیعت کو نہایت بشاشت اور خوشی ہوئی.خدا وند کریم آپ کے فرزند دلبند کی عمر دراز کرے اور آپ کے لئے مبارک کرے.آمین ثم آمین.آں مخدوم نے اول مجھ کو ہدیہ عمامہ خوب و عطر عمدہ بھیجا اور اب مہندی اور جونہ کے لئے آپ نے لکھا ہے.چونکہ محض محبت اور اخلاص کی راہ سے آپ لکھتے ہیں اس لئے مجھے منظور ہے.یہ تا گا جو خط کے درمیان بھیجتا ہوں اس عاجز کے جوتہ کی نوک تک آتا ہے کل لمبائی جو تہ کی یہی ہے.افسوس کہ اشتہار موجود نہیں.انشاء اللہ اگر مل گئے تو روانہ کر دوں گا.زیادہ خیریت.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ ب نمبر.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مخدومی مکرمی نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ جَزَاكُمُ اللهُ وَ اَحْسَنَ إِلَيْكُمُ.یہ عاجز چوڑے پنجہ کا جوتا پہنتا ہے اور ہر طرح سے خیریت ہے.۲۶ اپریل ۱۸۸۶ء حمد الحکم نمبر ۱۳ جلد ۳۹ مورخه ۱۴ را پریل ۱۹۳۶ء صفهیم والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ۹۸ جلد سوم مند و می مکر می اخویم سلّمه تعالی مکتوب نمبر11 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ پیشہ روپے پہنچ گئے.آپ اپنی محبت برادرانہ سے اس عاجز کی تائید میں بہت کوشش کر رہے ہیں.اور خلوص و محبت کے آثار بارش کی طرح آپ کے وجود سے ظہور میں آتے جاتے ہیں.اللہ جل شانہ آپ کو خوش رکھے.۱۴ جون ۱۸۸۶ء والسلام خاکسار غلام احمد (نوٹ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چونکہ شکور خدا کے عبد شکور تھے.اس لئے اپنے خدام کی ہر خدمت کو نہایت عزت و قدر سے دیکھا کرتے تھے.معمولی سے معمولی کام بھی کوئی کرتا تو جَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ فرماتے اور اس کو قدر وعزت کی نظر سے دیکھتے.اس چیز نے آپ کے صحابہ میں اخلاص کی ایک عملی روح پیدا کر دی تھی اور ہر ایک صادق چاہتا تھا کہ خدمت کے لئے آگے بڑھے.صاحبزادہ سراج الحق صاحب اب ہمارے درمیان نہیں.وہ خود ایک پیرزادہ تھے اور لوگوں سے نذرانہ لیتے اور ایسی فضاء میں ان کی تربیت اور اُٹھان ہوئی تھی کہ خدمت اسلام کے لئے کچھ خرچ کرنے کا موقع نہ تھا لیکن جب خدا تعالیٰ نے انہیں راہ حق دکھایا تو انہوں نے اپنے اخلاص کا ہر رنگ میں ثبوت دیا.فَجَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ (عرفانی کبیر)
مکتوبات احمد ۹۹ جلد سوم مکتوب نمبر ۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مخدومی مکرمی صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلّمۂ تعالیٰ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي سلام عليك ورحمة الله کوئی تین روز ہوئے پارسل اسٹیشن بٹالہ میں آگیا ہے لیکن بلٹی آپ کے پاس واپس کی گئی ہے.آپ بلٹی بہت جلد واپس کر دیں اس میں جس قدر دیر ہوگی اسٹیشن پر ایک آنہ یومیہ پارسل کا کرایہ دینا پڑے گا.۳ جولائی ۱۸۸۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۱۳ مخدومی مکر می اخویم سلّمه تعالی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پہلے آج ہی ایک خط روانہ خدمت ہو چکا ہے.اب دوبارہ اس لئے تحریر خدمت کرتا ہوں کہ چونکہ نسخہ جات براہین احمدیہ صرف ہیں عدد میرے پاس موجود ہیں اس لئے قرین مصلحت یہ ہے کہ اگر کم سے کم ۲۵ روپے فی نسخہ پر خریدار دیں.ان حیدر آبادی صاحب کو منظور ہو تو جس قد رخریداری کا پختہ اور قطعی طور پر ارادہ ہو اس سے وعدہ جلد دیں بطور ولیو پے ایبل لے بھیجے جائیں.یہ مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ اُس جگہ جمع رہیں کیونکہ بلحاظ ضخامت کتاب ۲۵ روپے ایک ادنی قیمت ہے اور ممکن ہے کہ ان جلدوں کے روانہ کرنے کے بعد اس طرف بعض عمدہ خریدار پیدا ہو جا ئیں جو سور و پیہ فی نسخہ پر کتاب لینے کو تیار ہوں تب اگر اس جگہ کوئی کتاب ہی نہ ہو تو کیا کیا جائے اور یہ نہایت صاف انتظام ہے کہ حیدر آباد میں جیسے جیسے کوئی خریدار کم سے کم ۲۵ روپے پر پیدا ہو اس کی وہاں سے اطلاع آجائے Value Payable (VP) 25/-
مکتوبات احمد جلد سوم اور فی الفور بذریعہ ولیو پے ایبل وہاں کتاب بھیجی جائے تا کوئی حرج عائد نہ ہو.کیونکہ حساب کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الحقیقت در اصل سو روپیہ قیمت کی کتاب ہو گی اور جو کچھ کم قیمت پر کتابیں فروخت ہوتی ہیں ان کا حرج اٹھاتا رہوں گا.اوّل میرا خیال تھا کہ شاید صندوق میں کتابیں بہت ہوں گی اور روپیہ کی ضرورت تھی تو اس دھوکہ سے لکھا گیا تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ کہتا ہیں تو ختم ہو چکیں.آپ مفصل حال دریافت کر کے اطلاع دیں اور اس وقت تک کتا ہیں روانہ نہیں ہوسکتیں کہ اس میں حرج متصور ہے.جب تک پختہ بات نہ ہو تب تک ناحق کے جھگڑے کا اندیشہ ہے.پہلے کئی جگہ ایسا معاملہ پیش آچکا ہے.اور چار جلدیں ایک نسخہ کی ارسال خدمت ہیں ان کی رسید سے مطلع فرماویں.والسلام ۵/ دسمبر ۸۶ء خاکسار غلام احمد از مقام صد را نباله احاطه نا گر ہنی متصل محلہ کو ہستان بنگلہ شیخ محمد لطیف مکتوب نمبر ۱۴ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي مخدومی مکر می اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہ اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ امرتسر میں آئمکرم کا عنایت نامہ مجھ کو ملا اور آپ کی خیر وعافیت سے خوشی حاصل ہوئی.میں نے آپ کے پہلے کارڈ کی بھی ابھی تک تعمیل نہیں کی.انشاء اللہ تعالیٰ قادیان میں جا کر یہ کتابیں روانہ کر دوں گا.تین چار روز تک انشاء اللہ قادیان میں پہنچ جاؤں گا اور آپ کی توجہ اور جد و جہد کا شکر گزار ہوں.۴ را پریل ۱۸۸۷ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
مکتوبات احمد 1+1 جلد سوم مکتوب نمبر ۵ ۱۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ بخدمت اخویم مخدومی مکرمی صاحبزادہ محمد سراج الحق صاحب سلّمۂ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا موجب اطمینان خاطر و فرحت دل ہوا.انشاء اللہ جب اس عاجز کا مصمم ارادہ سفر دہلی کا ہوگا تو تاریخ سے اطلاع دوں گا اور آپ کے ملنے کا بہت شوق ہے.۳۰ / جولائی ۱۸۸۷ء مکتوب نمبر ۱۶ مخدومی مکر می اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلّمه والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا موجب خوشی ہوا.اللہ جل شانہ آپ کی دلی مراد پوری کرے آمین.کچھ تھوڑا عطر کیوڑہ یا جو اس سے بھی عمدہ معلوم ہو، یہ آپ کی مرضی پر موقوف ہے، بمقام لدھیانہ محلہ صوفیاں پاس میر عباس علی شاہ صاحب ارسال فرما دیں کہ یہ عاجز دس روز تک لدھیانہ میں رہنا چاہتا ہے.تکلیف دینے کو دل نہیں چاہتا مگر چونکہ آپ نے دوستانہ طور پر بلا تکلف لکھا ہے اس ( لئے ) آپ کی اخوت اور محبت کے لحاظ سے تحریر کیا گیا.اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے اور کل یہ عاجز لدھیانہ کی طرف روانہ ہو جائے گا.پتہ یہی لکھا جائے بمقام لدھیانہ محلہ صوفیاں پاس میر عباس علی شاہ صاحب.
مکتوبات احمد ۱۰۲ جلد سوم زیادہ خیریت ہے اور جب تک آپ جے پور میں تشریف رکھیں ضرور کبھی کبھی اپنی خیریت سے مطلع فرماتے رہیں.۲۲/اکتوبر ۸۷ء مکتوب نمبر ۱۷ مخدومی مکر می اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلّمه تعالی والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته مدت مدید ہوئی کہ حال آں صحت سے بالکل بے خبر ہوں بلکہ رسالہ سُرمہ چشم آریہ جو آپ کی خدمت میں بھیجا گیا تھا اس کی رسید بھی نہیں آئی.میں آج تک اسی جگہ چھاؤنی انبالہ میں ہوں اور میرا پتہ یہ ہے کہ مقام انبالہ چھاؤنی صدر بازار.امید کہ آپ اپنی خیریت سے مطلع فرما دیں گے اور سب طرح سے خیریت ہے.۴ رنومبر ۸۷ء والسلام خاکسار غلام احمد از صدر بازار مکتوب نمبر ۱۸ مخدومی مکرمی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمۂ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کئی دن کے بعد آج عنایت نامہ آں مخدوم پہنچا.خدا تعالیٰ آپ کو ہمیشہ اور ہر جگہ خوش وخرم رکھے.فتح خاں سے اشتہار لے کر بلا توقف بھیجا جاتا لیکن فتح خاں مدت تیس روز سے لا ہور گیا ہوا ہے.ایک ادنی کام دو تین روز کا ہے.نہایت اندیشہ کی بات ہے کہ اب تک واپس نہیں آیا.لاہور
مکتوبات احمد جلد سوم امرتسر میں بیماری بکثرت پھیلی ہوئی ہے اور ہیضہ بکثرت ہے ایسا نہ ہو کہ بیمار ہو گیا ہو.جب فتح خاں بخیر و عافیت واپس آتا ہے تو اشتہار لے کر ارسال خدمت کروں گا.جیند سے اب تک روپیہ تک نہیں آیا اور نہ فروسی سے آیا ، شاید کل پرسوں تک آجائے.آں مخدوم نے جو سو جلد کتاب ” سراج منیر کی فروخت اپنے ذمہ ڈال لی خدا تعالیٰ آپ کو اس کا اجر بخشے اور آپ کو دنیا و آخرت میں مرادات دلی تک پہنچاوے اور ہمیشہ خیر و عافیت سے مطلع فرمایا کریں اور سب طرح سے خیریت ہے.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور مکتوب نمبر ۱۹ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي مکرمی مجی اخویم صاحبزادہ صاحب سلّمۂ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ عنایت نامہ پہنچا.خدا تعالیٰ آپ کو مخالفوں پر غلبہ بخشے اور ہمیشہ اہل حق کو غلبہ ہی دیتا ہے.آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے.دیکھیں پھر کب تقریب نکلتی ہے.میں نے آج ایک اشتہار چھپنے کے لئے بھیجا ہے.آپ مجھے دس دن کے بعد یاد دلا دیں تا میں چند پر چہ آپ کی خدمت میں بھیج دوں.دیگر خیریت ہے.۱۳ / دسمبر ۱۸۸۷ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد ۱۰۴ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۲۰ مخدومی مکر می اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مدت مدید کے بعد عنایت نامہ پہنچا موجب خوشی ہوا.حال یہ ہے کہ قریباً عرصہ بین" روز ہوئے یہ عاجز باعث علالت طبع بشیر احمد پسر اپنے کے بٹالہ میں آیا ہوا ہے.ارادہ یہ تھا کہ دو تین روز تک رہ کر پھر قادیان میں واپس جاؤں گا مگر بشیر احمد کی مرض بہت غلبہ کر گئی.ڈاکٹر علاج کرتا ہے.اب بفضلہ تعالیٰ کچھ تخفیف ہے.میرا ارادہ ہے کہ تمام رمضان اسی جگہ رہوں.اپنے حالات خیریت آیات سے جلد جلد مطلع فرمایا کریں.۲۸ رمئی ۱۸۸۸ء والسلام خاکسار غلام احمد از بٹالہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مخدومی مکر می اخویم سلّمہ اللہ تعالیٰ مکتوب نمبر ۲۱ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.جب آپ تحریر فرماویں بالا نسخہ کتاب آپ کی خدمت میں روانہ کر دیئے جائیں گے.آپ خود مختار ہیں جو قیمت ان کی سمجھیں تجویز کر لیں.آپ کی مخلصانہ کوششیں جو خالص اللہ آپ کرتے ہیں اللہ جل شانہ دُنیا و آخرت میں اس کا آپ کو اجر بخشے.میرا ارادہ دو ماہ تک انبالہ چھاؤنی میں رہنے کا ہے چنانچہ میں انشاء اللہ تعالیٰ اگست کی ۲۲ یا ۲۳ تک روانہ ہو جاؤں گا اور بارہ نسخہ
۱۰۵ جلد سوم مکتوبات احمد ۱۵ براہین ساتھ لے جاؤں گا.جس وقت آپ تحریر فرمائیں گے اسی جگہ سے بھیج دوں گا.آپ پہلے خریداروں سے یہ شرط کر لیں کہ کوئی نسخہ کم سے کم پندرہ روپیہ قیمت پر خریدا جائے کیونکہ دراصل اس قیمت پر بھی آئندہ کی ذمہ داریوں اور مصارف کے لحاظ سے اندیشہ حرج ونقصان ہے.لیکن آپ جو کچھ تجویز فرمائیں گے انشاء اللہ بہر صورت بہتر فرمائیں گے.انبالہ چھاؤنی میں میرا پتہ یہ ہے.بمقام انبالہ چھاؤنی صدر بازار معرفت با بومحمد بخش صاحب کلرک دفتر نہر.۱۸ را گست ۱۸۸۸ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور مخدومی مکر می اخویم مکتوب نمبر ۲۲ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ مدت مدید کے بعد پہنچ کر موجب خوشی وخرمی ہوا.اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے.بشیر احمد سخت بیمار ہو گیا تھا ایسا کہ آثار ظاہری مایوسی کئی پر دلالت کرتے تھے مگر آٹھ روز سے اللہ جل شانہ نے دوبارہ زندگی بخشی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى إِحْسَانِهِ ـ روپیہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ پہنچ گیا تھا.دیگر خیریت ہے.۱۹ اگست ۱۸۸۸ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد مکرمی 1+7 مکتوب نمبر ۳ ۲۳ السلام علیکم جلد سوم میں باعث علالت طبع اپنے لڑکے کے یعنی بشیر احمد کے سخت غم وہم میں گرفتار رہا ہوں.آخر بقضاء ایز دی تنیس روز بیمار رہ کر انتقال کر گیا اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ.آج لڑکا فوت ہوا ہے.٢٣٠ ۴ رنومبر ۱۸۸۸ء خاکسار غلام احمد از قادیان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمی اخویم مکتوب نمبر ۲۴ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا.یہ عاجزان دنوں میں اسی جگہ قادیان میں ہے آپ اسی جگہ بتوفیق حضرت باری جلّ شانہ تشریف لائیے.باقی خیریت ہے.۷/دسمبر ۱۸۸۹ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسه لورد اسپور
مکتوبات احمد 1.2 جلد سوم مکتوب نمبر ۲۵ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم صاحبزادہ سراج الحق سلّمه تعالی السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ واقعہ وفات آپ کی والدہ ماجدہ سے حزن و اندوہ ہوا اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ - خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے.اس میں کیا شک ہے کہ آپ اولیاء کے قائل ہیں اور حقیقت ولایت کو بدلی اعتقاد مانتے ہیں.عجیب خیال کے وہ لوگ ہیں کہ قائلین کو منکرین قرار دیں اور تکفیر میں مستعجل ہوں.ایک مولوی صاحب نے میری تکفیر کے لئے مکہ معظمہ تک تکلیف کشی کی.کسی کے کافر کہنے سے کب کوئی کا فربن سکتا ہے.کا فروہ ہے جو خدا کے نزدیک کا فر ہے.جوشخص مسلمان کو کافر کہے درحقیقت وہی خدا تعالیٰ کے نزدیک کافر ٹھہرتا ہے.ایسے لوگوں کی باتوں سے مضطرب نہیں ہونا چاہئے.میرے نزدیک مومن کی یہی نشانی ہے کہ نادان لوگ اس کو کافر کہیں.فرعون نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا وَفَعَلْتَ فَعَلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ وَأَنْتَ مِنَ الْكَفِرِینَ.صرف اس مضمون کے چند کلمے شائع کر دیئے جائیں کہ بھائیو! ہم مسلمان ہیں اور اولیاء کے وجود کے قائل ہیں اور حقیقت ولایت کے معترف ہیں.جو شخص ہم پر الزام لگاتا ہے وہ جھوٹا ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ۲۵ / جنوری ۱۸۹۰ء خاکساری الشعراء :٢٠ حمد الحکم نمبر۱۱ جلد ۲۰ مورخه ۲۱ را پریل ۱۹۱۸ء صفحه ۴ غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد مکرمی اخویم ۱۰۸ مکتوب نمبر ۲۶ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ جلد سوم آپ کے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ امام صاحب کی سیرۃ اور صورت کے مشابہ اور ان کے کمالات کا مثیل کوئی امام پیدا ہوگا اور وہ آپ کو یقین اور علم و معرفت کا سبق پڑھائے گا یعنی آپ کے اطمینان اور دفع وساوس کا موجب ہوگا.بشیر کی وفات کے متعلق ایک دوست کو میں نے خط لکھا ہے.امید ہے کہ ہفتہ عشرہ تک اس کی نقل آپ کی خدمت میں روانہ کروں گا.خیر و عافیت سے مطلع فرماتے رہیں.والسلام ہیں مکتوب نمبر ۲۷ خاکسار غلام احمد از قادیان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ محبی مکرمی اخویم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ معہ گولیاں پہنچا.جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرًا.مقدمہ معلومہ کے دفع رفع کے لئے بحضرت عزت دعا کی گئی اللہ جل شانہ اس بلا کو دور فرما دے.بِرَحْمَةِ الْخَاصَّةِ - جلد جلد اپنے حالات خیریت آیات سے مجھے مطلع و مطمئن فرماتے رہیں کہ طبیعت گراں دمتر ڈد ہے.دیگر خیریت ہے.۲۲ فروری ۹۰ء والسلام خاکسار غلام احمد از لود یا نہ محلہ اقبال گنج حمد الحکم نمبر جلد ۲۰ مورخه ۲۱ را پریل ۱۹۱۸ صفحه ۴
مکتوبات احمد 1+9 جلد سوم مکتوب نمبر ۲۸ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مشفقی مکر می اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب ستلمه نَحْمَدُه وَنُصَلِّي السلام علیکم و رحمۃ اللہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.میں عرصہ ماہ سے بیمار ہوں.اب بہ نسبت سابق بہت آرام ہے.اُمید کہ انشاء اللہ شفا ہو جاوے گی.مجھے یاد ہے کہ باوجود شدت بیماری آپ کے پہلے خط کا جواب لکھا گیا تھا.شاید گم ہو گیا ہو گا.آپ ہمیشہ اپنی خیر و عافیت سے مطلع و مطمئن فرماتے رہیں اور میں بوجہ ضعف و ناتوانی اپنے ہاتھ سے خط نہیں لکھ سکا.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۷/جون ۱۸۹۰ء مرزا غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۲۹ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمی اخویم صاحبزادہ صاحب سلّمه تعالی السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مبلغ دور و پیه مرسلہ آں مکرم پہنچ گئے جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ - کتاب براہین احمدیہ کی جلد چہارم جو آپ نے طلب فرمائی ہے وہ لو دیا نہ میں روانہ نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ عاجز محض مجردانہ طور پر لود یا نہ میں آیا ہے.جس وقت میں قادیان جاؤں گا اس وقت بذریعہ اپنے خط کے مطلع فرماویں.کتب انشاء اللہ روانہ خدمت کروں گا.معلوم نہیں کہ کب آپ کی ملاقات ہو.ہمیشہ تا دم ملاقات مطلع فرمایا کریں.۶ ستمبر ۱۸۹۰ء والسلام خاکسار غلام احمد
مکتوبات احمد 11 • مکتوب نمبر.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي مکرمی اخویم صاحبزادہ صاحب سلّم، تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته جلد سوم عنایت نامہ پہنچا.یہ عاجزان دنوں میں قادیان میں ہے.آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے.دیکھیں کس وقت یہ تقریب پیش آوے.دیگر خیریت ہے.۲۲ اکتوبر ۱۸۹۰ء والسلام خاکسار مکتوب نمبر ۳۱ غلام احمد عفی عنہ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مکرم صاحبزادہ سراج الحق صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا جو کچھ آپ نے بطور تحفہ عمامہ وعطر ارسال فرمایا ہے اس ہد یہ دوستانہ کا آپ سے شکر گزار ہوں.جَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ وَاَحْسَنَ إِلَيْكُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْعُقْبَى - خدا تعالیٰ آپ کو بہت خوش رکھے اور مکروہات دنیا و دین سے بچاوے.آمین ثم آمین.جس ہندو کے بارے میں آپ نے لکھا ہے جنبشِ رحمت اس کے اعتقاد اور اخلاص پر موقوف ہے.اللہ جل شانہ غنی بے نیاز ہے بجز قدم خلوص و نیاز مندی اور کوئی حیلہ اس درگاہ میں پیش نہیں جاتا.شرط کے طور پر اس کی راہ میں کچھ دینا ایک رشوت کا طریق ہے خدا تعالیٰ رشوت ستاں نہیں ہے.ہاں اس کی جناب میں کچھ درخواست کرنے کے لئے کسی متمول حاجت مند کے لئے یہ طریق ہے کہ اپنے خلوص اور نیاز مندی کے اثبات کے لئے اُس کی راہ میں اور اُس کے کام کی امداد میں کوئی نذرحسب حیثیت پیش کرے اور اگر چہ ظاہر کرے تو جو کچھ اُس کے حق میں خیر یا شر مقدر ہے یا جو کچھ اُس کے امر کا انجام کار ہے.
مکتوبات احمد جلد سوم اُمید قوی ہے کہ ظاہر ہو جائے لیکن یہ جدو جہد کا کام ہے شاید ہفتہ عشرہ اس طرف مشغول اور توجہ کرنی پڑے.سو توجہ بھی جو سخت محنت پر موقوف ہے ہر ایک کے لئے نہیں ہو سکتی اور ناحق کی تضیع اوقات معصیت میں داخل ہے.ہاں ! ایسے شخص سے اگر کوئی دینی امداد پہنچ جائے اور وہ کوئی ہد یہ امدادی فی سبیل اللہ داخل کر سکے تو محنت ہو سکتی ہے ورنہ نہیں.سو اُس ہند و کو آپ سمجھا دیں کہ اگر وہ اپنے نفس میں یہ طاقت پاتا ہے اور حسب حیثیت امداد دین میں خدمت بجالا سکتا ہے تو اُس کے لئے توجہ کر سکتے ہیں.اُس توجہ میں اگر چہ غالب امید استجابت دعا ہے لیکن اگر نا کا می کے لئے تقدیر مبرم ہے تو پھر مجبوری ہوگی.زیادہ خیریت.۲۵ اکتوبر ۱۸۹۰ء والسلام راقم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور مکتوب نمبر ۳۲ مشفقی مکرمی محبی صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ سرفراز نامه سامی صادر ہوا.عمامہ و عطر آپ کا پہنچا.خداوند کریم آپ کو اس خدمت یا اخلاص کا اجر نیک عطا فرمائے.اس ہندو کے بارے میں اطلاع دی جاتی ہے کہ جیسا کہ اس نے خواہش ظاہر کی ہے ویسا کرنے کے واسطے جد و جہد اور دعا و توجہ کی اشد ضرورت ہے اور یہ عاجز اس وقت بسبب بیمار رہنے کے ایک عرصہ تک جد و جہد سے مجبور ہے.میرا کوئی ایسا اشتہار نہیں ہے جو موافق خیال ہندو مذکور کے ہو یعنی یہ کہ جو کچھ وہ خواہش کرے اس کی خواہش کے مطابق کوئی خرق عادت خدا وند کریم ظاہر فرما دے بلکہ اشتہار یہی ہے کہ جیسا خداوند کریم کو منظور ہو کوئی خرق عادت ظہور میں آئے گا جو انسانی طاقتوں سے باہر ہو.طلب اسلام میں بدیدن خرق عادت کے اسی خرق عادت کا طالب ہونا جس کو مدعی خود درخواست کرے اور کسی دوسرے امر پر قانع نہ ہو جو خدا وند کریم کی مرضی سے ظاہر ہو، ایک قسم کی ہٹ دھرمی ہے.اگر اس کو اسلام کی خواہش ہے اور وہ میرے
۱۱۲ جلد سوم مکتوبات احمد اشتہار کے مضمون پر بہ تحمل آنا چاہتا ہے تو اس کی تسلی کے واسطے میں تیار ہوں اور اگر وہ دنیا طلبی کے پیرا یہ میں دین کا طالب ہونا چاہتا ہے، یہ امر اگرچہ محالات سے نہیں ہے مگر تا ہم مشکلات سے معلوم ہوتا ہے.امید ہے کہ آپ نے بھی اشتہار شرطیہ کو دیکھا ہو گا اور اس لئے بھی آپ اس کو اس کا مطلب اچھی طرح پر سمجھا دیں.پھر اگر اس کو خواہش کچی ہو تو وہ اپنی تسکین کر سکتا ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدى زياده زياده...۷ نومبر ۹۰ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم مکتوب نمبر ۳۳ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته میر ناصر نواب صاحب کے گھر سے بہت تاکید کی گئی ہے کہ آپ کی طرف میں لکھوں اور آپ وہ گولیاں بھیج دیں جو اٹھرا کی گولیاں ہیں جس میں مرکب اجزاء وغیرہ پڑتے ہیں.اس لئے مکلف ہوں کہ اگر گولیاں طیار ہوں تو براہ مہربانی ضرور بھیج دیں اور اپنے حالات خیریت سے مطلع فرماویں.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ١١٣ مکتوب نمبر ۳۴ مخلصی محبی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمه تعالی جلد سوم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا موجب خوشی اور شکر گزاری ہوا.آپ کی استقامت اور حسنِ ظن اور فراست کی یہ برکت ہے کہ آپ کو ایسے پر آشوب وقت میں کوئی تزلزل پیش نہیں آیا.خدا تعالیٰ آپ کو دن بدن مراتب محبت اور اخلاص میں ترقی بخشے اور آپ کے ساتھ میں آپ کی ملاقات کا بہت مشتاق ہوں اگر رمضان کے بعد ماہ شوال میں آپ کی زیارت ہو تو مجھے بہت خوشی ہوگی.میں انشاء اللہ القدیر دو تین ماہ تک ابھی اس جگہ لدھیانہ میں ہوں.رسالہ ازالہ اوہام طبع ہو رہا ہے.درمیان میں طرح طرح کے حرجوں کے باعث سے اب تک تو قف ہوا.امید کی جاتی ہے کہ انشاء اللہ القدیر بہت جلد نکل آوے.زیادہ خیریت ہے.۸ رمئی ۹۱ ء روز جمعه والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ از لدھیانہ اقبال گنج
مکتوبات احمد ۱۱۴ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ میرے پیارے دوست مکتوب نمبر ۳۵ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ آپ کا مہر بانی نامہ اور مبلغ دور و پیدا اور دوا وغیرہ سب پہنچ گئے.اللہ جل شانہ آپ کو جزائے خیر بخشے.یہ عاجز علیل ہے.بالفعل آپ کے سوالات کا بوجہ ضعف و نقاہت جواب نہیں دے سکتا.انشاء اللہ کسی دوسرے وقت میں دوں گا.خدا جانے اب آپ کی ملاقات کب ہو گی.شاید یہ عاجز تین ماہ تک لود یا نہ میں رہے.مرسله ۱۸ رمئی ۱۸۹۱ء مکتوب نمبر ۳۶ والسلام خاکسار غلام احمد از لود یا نه اقبال گنج بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مشفقی اخویم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ عنایت نامہ اود یا نہ میں مجھ کو ملا.یہ عاجز دو ماہ تک اسی جگہ رہنا چاہتا ہے.آئندہ ہر یک امر خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.کتاب تصدیق براہین کی مجھے اطلاع نہیں.معلوم نہیں کہ وہ پورے طور پر طبع ہو گئی ہے یا نہیں.سنا ہے کہ وہ سیالکوٹ میں چھپتی ہے اور ایک حصہ چھپ گیا ہے.مولوی حکیم نور دین صاحب کو اس کی اطلاع ہوگی.زیادہ خیریت ہے.والسلام موصولہ ۷ ار جولائی ۹۰ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ۱۱۵ جلد سوم مکتوب نمبر ۳۷ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمی مجی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلّمه نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا.چنانچہ خط کو پڑھ کر طبیعت کو نہایت خوشی ہوئی.جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرًا.اُمید ہے انشاء اللہ القدیر یہ خط درج کتاب کروں گا.یہ بھی فرمائیں کہ آپ کی ملاقات کب ہوگی.مدت مدید آپ کی ملاقات پر گزرگئی.میں خداوند کریم کا شکر کرتا ہوں کہ ایسے مخلص اور جان شار دوست اس نے مجھے عطا کئے ہیں.۱۸ / اگست ۱۸۹۱ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور مکتوب نمبر ۳۸ اخوی مکرم معظم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عرض خدمت ہے کہ آپ کا عنایت نامہ معہ خط مولوی رشید احمد صاحب پہنچا.حال مندرجہ معلوم ہوا.لوگوں کے ولولہ اور شور وغل سے ڈرنا نہ چاہئے.دینِ انور کی اشاعت میں کسی قسم کا رنج اور مصیبت پیش آجائے تو عین راحت ہے.مولوی رشید احمد کے خط کا جواب روانہ کر دیا.نقل واسطے ملاحظه بلف ھذا روا نہ خدمت ہے.یہاں مرض ہیضہ چند روز سے کچھ زیادتی پر ہے.اس عاجز کی
مکتوبات احمد 117 بڑی لڑکی عصمت نام اسی مرض سے پرسوں فوت ہوگئی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ.وار ستمبر ۹۱ء راقم غلام احمد بقلم عباس علی جلد سوم مکتوب نمبر ۳۹ ۹ بخدمت مکر می اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب جمالی السلام علیکم ورحمۃ اللہ میں اس وقت دہلی میں ہوں اور بازار بلیما راں کو بھی نواب لوہارو میں فروکش ہوں.آپ جلد اپنی خیر و عافیت سے اطلاع دیں.میں تین ہفتہ تک انشاء اللہ اسی جگہ ہوں.یکم اکتو برا۹ء پستہ دہلی بازار بیماراں کو بھی نواب لوہارو والسلام راقم خاکسار غلام احمد از دیلی بازار بیماراں
مکتوبات احمد جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمی مکتوب نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں دہلی میں ہوں.تجویز بحث ہو رہی ہے.آپ اگر پہنچ سکتے ہیں تو تشریف لاویں لیکن ۱۷ را کتوبر ۱۸۹۱ء تک آنا چاہئے.والسلام خاکسار مکرمی اخویم صاحبزادہ صاحب مکتوب نمبر1 غلام احمد از دہلی بازار بلیما راں کوٹھی نواب لوہارو السلام علیکم ورحمۃ اللہ میں بخیریت قادیان میں پہنچ گیا ہوں اور ہر طرح سے خیر و عافیت ہے.آپ کی جدائی سے بہت رنج ہے لیکن ہر ایک امراپنے وقت سے وابستہ ہے اگر خدائے تعالیٰ چاہے گا تو پھر ملاقات ہو جاوے گی.اُمید کہ تا وقت ملاقات ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع ومسرور الوقت فرماتے رہیں.۱۳/ نومبر ۱۸۹۱ء الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد ۱۱۸ جلد سوم مکتوب نمبر ۴۲ مکرمی محبی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلّمه السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ مجھ کو قادیان میں ملا.مجھے یقین ہے کہ آپ اس نواح میں اشاعت حق کے لئے بڑی سرگرمی سے کام کرتے ہوں گے لیکن ترتیب اثر وقت پر موقوف ہے.آپ نے جو ایک انسپکٹر کے نام جیند میں کتاب روانہ کرائی تھی.وہ شخص بڑی کراہت کے ساتھ کتاب لینے سے انکار کر گیا اور کتاب واپس آئی.آئندہ آپ کو اگر کوئی شخص خریداری کتاب کا شوق ظاہر کرے تو اول خوب آزما لینا چاہئے کہ آیا فی الواقع سچے دل سے خریدنے کے لئے مستعد ہے یا صرف لاف و گزاف کے طور پر بات کرتا ہے.وجہ یہ ہے کہ آج کل لوگوں کے دلوں میں سخت کینہ پیدا ہو رہا ہے اور بجائے اخلاص کے بغض و عداوت میں ترقی کر رہے ہیں.آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے.دیکھئے کب میسر آتی ہے.امید ہے کہ تا دم ملاقات اپنی خیر وعافیت سے مطمئن و مسرور فرماتے رہیں گے.باقی خیریت ہے.۲۶ نومبر ۱۸۹۱ء والسلام الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
مکتوبات احمد 119 جلد سوم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمی اخویم مکتوب نمبر ۴۳ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ حسب مشوره جلسه ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۱ء اشتہار چھپنے کے لئے بھیجا گیا ہے.انشاء اللہ القدیر بر وقت چھپ جانے کے ارسال خدمت ہو گا.وہ رسالہ ہے صرف اشتہار نہیں ہے.انشاء اللہ القدیر چند رسالے خدمت شریف میں پہنچ جائیں گے.آپ کی تقریروں کا کسی پر اثر پڑا یا نہیں.والسلام مکتوب نمبر ۴۴ خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمی اخویم صاحبزادہ صاحب سلمه نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ اور کاغذات مباحثہ پہنچے.ان کے پڑھنے سے بہت خوشی ہوئی.خدا تعالیٰ ہر یک کام میں آپ کی مدد کرے.اشتہارات جدیدہ جو چھپ رہے ہیں اب تک چھپ کر نہیں آئے جب چھپ کر آئیں گے ارسال خدمت کروں گا.حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں.۱۲/جنوری ۱۸۹۲ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد ۱۲۰ جلد سوم مکتوب نمبر ۴۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکر می اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلّمۂ تعالیٰ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.خدا تعالیٰ آپ کے مباحثات میں اثر اور برکت بخشے.یہ عاجز ۲۱ جنوری ۱۸۹۲ء کو لاہور جانے کو طیار ہے.شاید اس جگہ ایک ماہ تک رہوں.رسالہ جدیدہ جو اشتہار ہے اب تک طبع ہو کر نہیں آیا.ہمیشہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع ومسرور الوقت فرماتے رہیں.۱۹؍ جنوری ۱۸۹۲ء والسلام خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۶م بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمی اخویم صاحبزادہ صاحب سلّمه نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.افسوس کہ فیصلہ آسمانی سب ختم ہو چکی ہیں چونکہ مفت دیئے گئے اس لئے لوگوں نے ہر طرف سے لے لئے.اُمید ہے کہ اپنے حالات خیریت آیات سے ہمیشہ شاد و خرم و خورسند فرماتے رہیں.زیادہ خیریت ہے.یکم اپریل ۱۸۹۲ء والسلام خاکسار غلام احمد از لودھیانه محله اقبال گنج
مکتوبات احمد ۱۲۱ مکتوب نمبر ۴۷ جلد سوم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمی اخویم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا.آپ کی ملاقات کو دل بہت چاہتا ہے اور عرصہ بہت ہو گیا ہے اور اتفاقاً میں اس وقت لدھیانہ میں ہوں.اگر تکلیف فرما کر تشریف لاویں تو بہت مہربانی ہوگی.الباقی عند التلاقی.۱۵ / اپریل ۱۸۹۲ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمی اخویم مکتوب نمبر ۴۸ والسلام خاکسار غلام احمد از لدھیانہ محلہ اقبال گنج نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچ کر باعث خوشی و خرمی ہوا.یہ عاجز انشاء اللہ القدیر ماہ رمضان کے اخیر تک لدھیانہ میں ہے اور شاید زیادہ بھی رہوں بہر حال یہ مہینہ رمضان کا تو انشاء اللہ اسی جگہ ہوں.ملاقات کا بہت شوق ہے.اُمید کہ اپنی ملاقات سے مسرور الوقت فرمائیں گے.زیادہ خیریت ہے.۱۶ راپریل ۱۸۹۲ء والسلام خاکسار غلام احمد از لدھیانہ محلہ اقبال گنج
مکتوبات احمد بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمی اخویم مکتوب نمبر ۴۹ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ام جلد سوم محبت نامہ اور نیز هر روپیہ پہنچے میں افسوس کرتا ہوں کہ اب رسالہ ”نشان آسمانی‘ بالکل باقی نہیں ہے.دست بدست لوگ وہ لے گئے.جو روپیہ آپ نے قیمت کا بھیجا ہے اگر آپ چاہیں تو اس کے عوض میں رسالہ ” دافع الوساوس خرید لیں کیونکہ انشاء اللہ القدیر دو ماہ تک وہ رسالہ طیار ہو جائے گا.زیادہ خیریت ہے.از طرف احقر العباد حامد علی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پہنچے.والسلام خاکسار ۲۸ را گست ۱۸۹۲ء غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۵۰ یہ مکتوب ناقص ہے کچھ حصہ کا غذات میں مل گیا ہے.عرفانی ) آپ کی تشریف آوری کا انتظار ہے خدا تعالیٰ آپ کی ملاقات نصیب کرے.مولوی عبد الکریم صاحب اور عرب صاحب اس جگہ ہیں اور آپ کے منتظر ہیں.منشی محمد اعظم صاحب کا خط بھی میں نے پڑھ لیا اور ان کے حق میں دعا کی گئی.ان کو اطلاع دیں اور کہہ دیں کہ استغفار بہت پڑھیں اور ہر نماز کے بعد کم از کم گیارہ دفعہ لاحول پڑھا کریں.۶ ستمبر ۱۸۹۲ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد ۱۲۳ جلد سوم مکتوب نمبر۵۱ مکرمی اخویم صاحبزادہ صاحب سلّمۂ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ایک بڑی بھاری بحث مولوی نذیر حسین صاحب سے پیش ہے.اگر آپ اس بحث پر تین چار روز تک پہنچ سکیں تو عین خوشی اور تمنا ہے مگر آنے میں توقف نہیں چاہئے.آپ کے آنے سے بہت مدد ملے گی.۱۱/اکتوبر ۱۸۹۲ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ مقام دہلی بازار بیماراں کوٹھی نواب لو ہارو (نوٹ) صاحبزادہ سراج الحق صاحب نے اپنے سفر نامہ میں دہلی آنے اور مباحثہ کے متعلق بعض حالات کا تذکرہ لکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خدام کو شریک ثواب ہونے کا ہر موقعہ دیا کرتے تھے.صاحبزادہ کو اس موقعہ پر اس خدمت میں شریک ہونے کا موقع ملا.دہلی کے علماء نے یہ فیصلہ کیا کہ حضرت اقدس کو اگر کسی کتاب کی ضرورت پڑے تو نہ دی جائے.حق پوشی کے اس مظاہرے سے انہوں نے اپنی جگہ یہ سمجھا تھا کہ وہ حق کا مقابلہ کر سکیں گے لیکن خدا تعالیٰ نے غیب سے کتابوں کے میسر آنے کے سامان تو پیدا کر دیئے مگر ان دشمنانِ حق کو باوجود اپنے ہر قسم کے ساز وسامان کے مقابلہ میں آنے کی جرات نہ ہوئی اور سید نذیر حسین استاذ الکل کہلانے کے باوجود مقابلہ سے فرار کر گیا.یہ واقعات بجائے خود بہت دلچسپ ہیں اور انشاء اللہ سوانح حیات میں آجائیں گے.اسی سلسلہ میں سید نذیر حسین صاحب کے ایک واقعہ کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا اور وہ
مکتوبات احمد ۱۲۴ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دوسری شادی جو اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان نشانوں کے ماتحت دہلی میں ہوئی تو یہی نذیر حسین حضور کا نکاح پڑھنے کے لئے آئے تھے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نکاح بڑے فخر کے ساتھ پڑھا تھا.اس تقریب پر دستور کے موافق پانچ روپے بھی اور ایک جانماز ان کو دیئے گئے تھے.(عرفانی کبیر ) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمی اخویم مکتوب نمبر ۵۲ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم جلد سوم ایک خط اس عاجز کا تمام مقامات میں گھومتا ہوا آخر پھر میرے پاس واپس آیا.افسوس کہ آپ کو نہ پہنچ سکا.اب ایک کارڈ آپ کا ملا چونکہ جلسہ سالانہ جو ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۲ء کو ہونا ہے بہت نزدیک ہے اور یقین کہ ہماری جماعت کے تمام احباب اس جلسہ پر تشریف لائیں گے.اُمید کہ آپ ابھی بلا توقف اس طرف کا قصد فرما ئیں.خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے یہ کارڈ آپ تک پہنچا د یوے.زیادہ خیریت ہے.۲۳ نومبر ۱۸۹۲ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محبی مکرمی اخویم ۱۲۵ مکتوب نمبر ۵۳ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جلد سوم آپ کی علالت طبع سے بہت تر ڈر ہوا.نہایت اشتیاق ہے کہ آپ جس طرح ہو سکے تشریف لا دیں.خدا تعالیٰ صحت کامل بخشے.لکھا جاتا ہے.۲۶ / دسمبر ۱۸۹۲ء تک آجانا چاہیئے.غلام احمد از قادیان ۸/دسمبر ۱۸۹۲ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۵۴ مجی مکر می اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلّم، تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مدت دراز کے بعد عنایت نامہ پہنچا.اب یہ عاجز قادیان میں ہے اور انشاء اللہ القدیر ابھی رہائش قادیان میں ہی ہے.یہ عاجز آپ کے اخلاص اور محبت کا نہایت شکر گزار ہے اور خدا تعالیٰ سے بھی امید رکھتا ہے کہ آپ سے ہر ایک ابتلا میں اول درجہ استقلال اور ثابت قدمی ظہور میں آتی رہے گی.آپ کے نواح کی طرف اگر کسی نے یہ خبر مشہور کی ہے کہ گویا اس عاجز نے دعویٰ مسیح موعود سے تو بہ کی ہے تو کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ آج ہمارے مخالفوں کا دن رات افتراؤں پر گزارہ ہے.یہ مخالف لوگ اگر انصاف پر ہوں تو خود ان کو حضرت مسیح کے دعوی حیات سے جو قرآن کریم اور
مکتوبات احمد ۱۲۶ جلد سوم احادیث صحیح سے بر خلاف ہے، تو بہ کرنا چاہئے نہ کہ ایسے ایسے افترا کریں.جس قدر آپ محض لِلهِ کوشش اور مباحثہ کر رہے ہیں خدا تعالیٰ اس کا آپ کو اجر بخشے.آپ کی ملاقات کو بہت عرصہ گزر گیا ہے کبھی ملاقات بھی چاہئے.اس وقت میں نے ایک رسالہ طبع کرانا چاہا ہے جس کا نام نشان آسمانی ہے وہ رسالہ طبع ہورہا ہے.شاید دو ہفتہ تک طبع ہو کر میرے پاس آ جائے.دو ہفتہ کے بعد آپ مجھ کوضرور یا د دلا ئیں تا وہ رسالہ آپ کی خدمت میں بھی بھیج دوں.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۱۱/جون ۹۴ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۵۵ مخدوم مکرم معظم مولوی رشید احمد صاحب سلّمه تعالی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد لهذا عرض خدمت ہے کہ صاحبزادہ سراج الحق نے آپ کا خط بجنسہ میرے پاس بھیج دیا حرف بحرف ملاحظہ کیا گیا.آپ جو اس عاجز کو واسطے بحث کے سہارنپور بلاتے ہیں ، مجھ کو کچھ عذر نہیں مگر اتنی بات خدمت میں عرض کرنی ہے کہ امن قائم کرنے کے واسطے آپ نے کیا بندو بست کیا ہے؟ ڈپٹی کمشنر صاحب کی تحریری اجازت ہونی ضروریات سے ہے اور مجالس بحث میں سپرنٹنڈنٹ یا اور کسی حاکم با اختیار کا ہونا بھی امر ضروری ہے.بنابر میں اس قسم کی تسلی بخش تحریر ہمارے پاس بھیج دیں تو بندہ واسطے بحث کے حاضرِ خدمت ہو جائے گا.اگر لاہور آپ تشریف لے چلیں تو تسلی بخش تحریر امن قائم کرنے کی آپ کے پاس ہم بھیج دیں.پس اس تحریر کے جواب میں جیسا آپ مناسب سمجھیں اطلاع دیں.راقم غلام احمد بقلم عباس علی
مکتوبات احمد ۱۲۷ جلد سوم مولوی رشید احمد گنگوہی سے مباحثہ کی تحریک اور آخر اس کا انکار میں ( پیر سراج الحق) نے ایک بار حضرت اقدس علیہ السلام سے عرض کیا کہ یہ مولوی رہ گئے اور سب کی نظر مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی طرف لگ رہی ہے.اگر حکم ہو تو مولوی رشید احمد صاحب کو لکھوں کہ وہ مباحثہ کے لئے آمادہ ہوں.فرمایا اگر تمہارے لکھنے سے مولوی صاحب مباحثہ کے لئے آمادہ ہوں تو ضرور لکھ دو اور یہ لکھ دو کہ وو مرزا غلام احمد قادیانی آج کل لودھیا نہ میں ہیں.انہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ہو گئی ، وہ اب نہیں آویں گے اور جس عیسی کے اس اُمت میں آنے کی خبر تھی.وہ میں ہوں.اور مولوی تو مباحثہ نہیں کرتے ہیں.چونکہ آپ بہت سے مولویوں اور گروہ اہل سنت والجماعۃ کے پیشوا اور مقتدا مانے گئے ہیں اور کثیر جماعت کی آپ پر نظر ہے آپ مرزا صاحب سے اس بارہ میں مباحثہ کر لیں چونکہ آپ کو محدث اور صوفی ہونے کا بھی دعوئی ہے اور ماسوا اس کے آپ مدعی الہام بھی ہیں.مدعی الہام اس واسطہ کر کے کہ مولوی شاہ دین اور مولوی مشتاق احمد اور مولوی عبدالقادر صاحب نے گنگوه مولوی رشید احمد صاحب متوفی کے پاس جا کر حضرت اقدس علیہ السلام کے الہامات جو براہین احمدیہ میں درج ہیں ، سنائے تھے.مولوی رشید احمد صاحب نے چند الہام سن کر جواب دیا تھا کہ الہام کا ہونا کیا بڑی بات ہے.ایسے ایسے الہام تو ہمارے مریدوں کو بھی ہوتے ہیں اور اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آپ کے مریدوں کو اگر ایسے الہام ہوتے ہیں تو وہ الہام ہمارے سامنے پیش کرنے چاہئیں تا کہ ان الہاموں کا یا آپ کے الہاموں کا، کیونکہ مریدوں کو جب الہام ہوں تو مرشد کو تو ان سے اعلیٰ الہام ہوتے ہوں گے ، موازنہ اور مقابلہ کریں اور لَو تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ کی وعید سے ڈریں.مولوی صاحب نے کہنے کو کہہ دیا مگر کوئی الہام اپنا یا کسی اپنے مرید کا پیش نہیں کیا کہ یہ الہام ہمارے ہیں اور یہ ہمارے مریدوں کے ہیں.غرض کہ اب آپ کا حق ہے کہ اس بحث میں پڑیں اور مباحثہ کریں اور کسی طرح سے پہلو تہی نہ کریں.الحاقة: ۴۵
مکتوبات احمد ۱۲۸ جلد سوم کس لئے ؟ کہ اِدھر تو حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کا زور شور سے بیان کرنا ، وفات کا دلیلوں یعنی نصوص صریحہ قرآنیہ اور حدیثیہ سے ثابت کرنا اور علماء اور ائمہ سلف کی شہادت پیش کرنا اور پھر مدعی مسیحیت کا کھڑا ہونا اور لوگوں کا رجوع کرنا اور آپ جیسے اور آپ سے بڑھ کر علما پلے کے مرید ہونے سے دنیا میں ہل چل مچ رہی ہے اور بحث اصل مسئلہ میں ہونی چاہئے یعنی عیسی علیہ السلام کی حیات و وفات میں“.بس میں نے یہ خط لکھا اور حضرت اقدس علیہ السلام کو ملاحظہ کرا کے روانہ کر دیا.اور آپ نے اس پر دستخط کر دیئے اور راقم سراج الحق نعمانی و جمالی سرساوی لکھا گیا.مجھے یہ خط مولوی رشید احمد صاحب کو لکھنا اس واسطے ضروری ہوا تھا کہ میں اور مولوی صاحب ہم زُلف ہیں اور باوجود اس رشتہ ہم زُلف ہونے کے تعارف اور ملاقات بھی تھی اور قصبہ سرساوہ اور قصبہ گنگوہ ضلع سہارنپور میں ہیں اور ان دونوں قصبوں میں پندرہ کوس کا فاصلہ ہے اور ویسے برادرانہ تعلق بھی ہیں اور میری خوشدامن اور سسرال کے لوگ ان سے بعض مرید بھی ہیں.بس یہ میرا خط مولوی صاحب کے پاس گنگوہ جانا تھا اور مولوی صاحب اور ان کے معتقدین اور شاگردوں میں ایک شور برپا ہونا تھا اور لوگوں کو ٹال دینا تو آسان تھا لیکن اس خاکسار کو کیسے ٹالتے اور کیا بات بتاتے بجز اس کے کہ مباحثہ کو قبول کرتے.مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میں لکھا کہ مخدوم مکرم پیر سراج الحق صاحب پہلے میں اس بات کا افسوس کرتا ہوں کہ تم مرزا کے پاس کہاں پھنس گئے.تمہارے خاندان گھرانے میں کس چیز کی کمی تھی اور میں بحث کو مرزا سے منظور کرتا ہوں.لیکن تقریری اور صرف زبانی.تحریری حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب تم جانتے ہو کہ حکماء کا رجوع کرنا اور ہمارے ساتھ ہونا غلط نہیں ہے.ایک تو حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب ہیں جو اُن سے کم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ کر ہی ہیں.اور ایسا ہی مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب ہیں جنہوں نے رسالہ اعلامُ الناس چھپوا کر ہمارے دعوی کی تصدیق میں بھیجا ہے حالانکہ ان کی اور ہماری ابھی تک ملاقات بھی نہیں ہوئی ہے.اور یہ کیسا عجیب رسالہ کہ اس میں ہمارا مافی الضمیر دیا ہے اور اس میں ہمارا اور مولوی صاحب کا توارد ہو گیا ہے اور دو ایک اور مولویوں بھی لئے تھے جو مجھے اس وقت یاد نہیں ہے.ہیں سیدھے نقل بمطابق اصل
مکتوبات احمد ۱۲۹ جلد سوم مجھ کو ہرگز منظور نہیں ہے اور عام جلسہ میں بحث ہوگی.اور وفات وحیات مسیح میں کہ یہ فرع ہے، بحث نہیں ہوگی بلکہ بحث نزول مسیح میں ہوگی جو اصل ہے.کتبہ رشید احمد گنگوہی.یہ خط مولوی صاحب کا حضرت اقدس علیہ السلام کو دکھلایا.فرمایا خیر شکر ہے کہ اتنا تو تمہارے لکھنے سے اقرار کیا کہ مباحثہ کے لئے تیار ہوں، گو تقریری سہی ورنہ اتنا بھی نہیں کرتے تھے.اب اس کے جواب میں یہ لکھ دو کہ مباحثہ میں خلط مبحث کرنا درست نہیں.بحث تحریری ہونی چاہئے تا کہ غائبین کو بھی سوائے حاضرین کے پورا پورا حال معلوم ہو جاوے اور تحریر میں خلط مبحث نہیں ہوتا اور زبانی تقریر میں ہو جاتا ہے.تقریر کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اور نہ اس کا اثر کسی پر پڑتا ہے اور نہ پورے طور سے یادرہ سکتی ہے اور تقریر میں ایسا ہوناممکن ہے کہ ایک بات کہہ کر اور زبان سے نکال کر پھر جانے اور مکر جانے کا موقع مل سکتا ہے اور بعد بحث کے کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا اور ہر ایک کے معتقد کچھ کا کچھ بنا لیتے ہیں کہ جس سے حق و باطل میں التباس ہو جاتا ہے.اور تحریر میں یہ فائدہ ہے کہ اس میں کسی کو کمی بیشی کرنے یا غلط بات مشہور کرنے کی گنجائش نہیں رہتی ہے.اور آپ جو فرماتے ہیں کہ مباحثہ اصل میں جو نزول مسیح ہے ہونا چاہئے ، سو اس میں یہ التماس ہے کہ مسیح اصل کیوں کر ہے؟ اور وفات وحیات مسیح فرع کس طرح سے ہوئی ؟ اصل مسئلہ تو وفات حیات مسیح ہے.اگر حیات مسیح کی ثابت ہوگئی تو نزول بھی ثابت ہو گیا اور جو وفات ثابت ہوگئی تو نزول خود بخو د باطل ہو گیا.جب ایک عہدہ خالی ہو تو دوسرا اس عہدہ پر مامور ہو.ہمارے دعوے کی بناء ہی وفات مسیح پر ہے.اگر مسیح کی زندگی ثابت ہو جاوے تو ہمارے دعوے میں کلام کرنا فضول ہے.مہربانی فرما کر آپ سوچیں اور مباحثہ کے لئے تیار ہو جاویں کہ بہت لوگوں اور نیز مولویوں کی آپ کی طرف نظر لگ رہی ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے اس پر دستخط کر دیئے اور میں نے اپنے نام سے یہ خط مولوی صاحب کے پاس گنگوہ بھیج دیا.مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میں یہ لکھا کہ افسوس ہے مرزا صاحب اصل کو فرع اور فرع کو اصل قرار دیتے ہیں اور مباحثہ بجائے تقریری کے تحریری مباحثہ میں نہیں کرتا اور ہمیں کیا غرض ہے کہ ہم اس مباحثہ میں پڑیں.یہ خط بھی میں نے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کو سنا دیا.آپ نے یہ فرمایا کہ ہمیں افسوس کرنا چاہیے نہ مولوی صاحب کو، کیونکہ ہم نے تو ان کے گھر یعنی
مکتوبات احمد ۱۳۰ جلد سوم عقائد میں ہاتھ مارا ہے اور ان کی جائیداد دبالی ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کو جن پر ان کی بڑی بڑی امیدیں وابستہ تھیں اور ان کے آسمان سے اترنے کی آرزور رکھتے تھے، مار ڈالا ہے.جس کو وہ آسمان میں بٹھائے ہوئے تھے اس کو ہم نے زمین میں دفن کر دیا ہے اور ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے اور بقول ان مولویوں کے اسلام میں رخنہ ڈال دیا ہے اور لوگوں کو گھیر گھار کر اپنی طرف کر لیا ہے.جس کا نقصان ہوتا ہے وہی روتا اور چلاتا ہے.یہ مولوی حامیانِ دین اور محافظ اسلام کہلا کر اتنا نہیں سمجھتے کہ اگر کوئی ان کی جائیداد دبا لے اور مکان اور اسباب پر قبضہ کرلے تو یہ لوگ عدالت میں جا کھڑے ہوں اور لڑنے مرنے سے بھی نہ ہیں اور نہ ملیں جب تک کہ عدالت فیصلہ نہ کرے اور آپ یہ بہانے بناتے ہیں کہ ہمیں کیا غرض ہے.گویا یوں سمجھو کہ ان کو دین اسلام اور ایمان سے کچھ غرض نہیں رہی.اور اب یہ حیلہ و بہانہ کرتے ہیں کہ ہمیں کیا غرض ہے.اگر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں اور ان کے ہاتھ پلے کچھ نہیں ہے اور در حقیقت کچھ نہیں ہے.ان کے باطل اعتقاد کا خرمن جل کر راکھ ہو گیا.یہ اگر اس بحث میں پڑیں تو ان کی مولویت کو بٹہ لگتا ہے اور ان کے علم و فضل کو سیاہ دھبہ لگتا ہے.ان کی پیری پر آفت آتی ہے.ان کو لکھو کہ مولوی صاحب آپ تو علم لدنی اور باطنی کے بھی مدعی ہیں.اگر ظاہری علم آپ کا آپ کو مدد نہ دے، باطنی اور لدتی علم سے ہی کام لیں یہ کس دن کے واسطے رکھا ہوا ہے.پس میں نے یہ تقریر حضرت اقدس علیہ السلام کی اور کچھ اور تیز الفاظ نمک مرچ لگا کر قلم بند کر کے مولوی صاحب کے پاس بھیج دی.اس کے جواب میں مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے یہ لکھا.میں تقریری بحث کرنے کو تیار ہوں اور اگر مرزا صاحب تحریری بحث کرنا چاہیں تو ان کا اختیار ہے.میں تحریری بحث نہیں کرتا.لاہور سے بھی بہت لوگوں کی طرف سے ایک خط مباحثہ کے لئے آیا ہے.مرزا چاہے تقریری بحث کرے.جب کسی طرح مولوی صاحب کو مفر کی جگہ نہ رہی اور سراج الحق سے مخلصی نہ ہوئی اور لاہور کی ایک بڑی جماعت کا خط پہنچا اور ادھر حضرت اقدس کی خدمت میں بھی اس لاہور کی جماعت کی طرف سے مولوی رشید احمد کے مباحثہ کے لئے درخواست آگئی اور اس جماعت نے یہ بھی لکھا کہ مکان مباحثہ کے لئے اور خور و نوش کا سامان ہمارے ذمہ ہے اور میں نے بھی مولوی صاحب کو یہ لکھا کہ اگر آپ مباحثہ نہ کریں گے اور ٹال مثال بتائیں گے اور کچے پکے عذروں سے جان چھڑاویں
مکتوبات احمد ۱۳۱ جلد سوم گے تو تمام اخبارات میں آپ کے اور ہمارے خط چھپ کر شائع ہو جاویں گے.پڑھنے والے آپ نتیجہ نکال کر کے مطلب و مقصد اصلی حاصل کر لیں گے.پھر دوسرے موقعہ پر حضرت اقدس نے فرمایا مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو ضرور لکھو اور حجت پوری کرو اور یہ کھو کہ اچھا ہم بطریق تنزّل تقریری مباحثہ ہی منظور کرتے ہیں مگر اس شرط سے کہ آپ تقریر کرتے جاویں اور دوسرا شخص آپ کی تقریر کولکھتا جاوے اور جب ہم تقریر کریں تو ہماری جوابی تقریر کو بھی دوسرا شخص لکھتا جاوے اور جب تک ایک کی تقریر ختم نہ ہوئے تو دوسرا فریق بالمقابل یا اور کوئی دوران تقریر میں نہ بولے.پھر وہ دونوں تقریریں چھپ کر شائع ہو جاویں.لیکن بحث مقام لاہور ہونی چاہئے.کیونکہ لاہور دار العلوم ہے اور ہر علم کا آدمی وہاں پر موجود ہے.میں نے یہی تقریر حضرت اقدس امام ہمام علیہ السلام کی مولوی صاحب کے پاس بھیج دی.مولوی صاحب نے لکھا کہ تقریر صرف زبانی ہوگی، لکھنے یا کوئی جملہ نوٹ کرنے کی کسی کو اجازت نہ ہوگی اور جو جس کے جی میں آوے گا حاضرین میں سے رفع اعتراض وشک کے لئے بولے گا.میں لاہور نہیں جاتا.مرزا ہی سہارنپور آجاوے اور میں بھی سہارنپور آ جاؤں گا.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا بودا پن ہے اور کیسی پست ہمتی ہے کہ اپنی تحریر نہ دی جاوے.تحریر میں بڑے بڑے فائدے ہیں کہ حاضرین و غائبین اور نزدیک و دور کے آدمی بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور فیصلہ کر سکتے ہیں.زبانی تقریر محدود ہوتی ہے جو حاضرین اور سامعین تک رہ جاتی ہے.حاضرین و سامعین بھی زبانی تقریر سے پورا فائدہ اور کامل فیصلہ نہیں کر سکتے.مولوی صاحب کیوں تحریر دینے سے ڈرتے ہیں.ہم بھی تو اپنی تحریر دیتے ہیں.گویا ان کا منشا یہ ہے کہ بات بیچ بیچ میں خلط مبحث ہو کر رہ جاوے.اگر گڑ بڑ پڑ جائے.اور سہارنپور میں مباحثہ ہونا مناسب نہیں ہے، سہارنپور والوں میں فیصلہ کرنے یا حق و باطل کی سمجھ نہیں ہے.لاہور آج دار العلوم اور مخزن علم ہے اور ہر ایک ملک اور شہر کے لوگ اور ہر مذہب و ملت کے اشخاص وہاں موجود ہیں.آپ لا ہور چلیں اور میں بھی لاہور چلا چلتا ہوں اور آپ کا خرچ آمد و رفت اور قیام لاہور ایام بحث تک اور مکان کا کرایہ اور خرچ میرے ذمہ ہو گا.سہارنپور اہل علم کی بستی نہیں ہے.سہارنپور میں سوائے شور و شر اور فساد کے کچھ نہیں ہے.یہ مضمون میں نے لکھ کر اور حضرت اقدس علیہ السلام کے دستخط کرا کر گنگوہ بھیج دیا.
مکتوبات احمد ۱۳۲ جلد سوم مولوی رشید احمد صاحب نے اس کے جواب میں پھر یہی لکھا کہ میں لا ہور نہیں جا تا صرف سہارنپور تک آ سکتا ہوں اور بحث تحریری مجھے منظور نہیں.نہ میں خود لکھوں اور نہ کسی دوسرے شخص کو لکھنے کی اجازت بھی دے سکتا ہوں.حضرت اقدس نے اس خط کو پڑھ کر فرمایا کہ ان لوگوں میں کیوں قوت فیصلہ اور حق و باطل کی تمیز نہیں رہی اور ان کی سمجھ بوجھ جاتی رہی.یہ حدیث پڑھاتے ہیں اور محدث کہلاتے ہیں مگر فہم وفراست سے ان کو کچھ حصہ نہیں ملا.صاحبزادہ صاحب! ان کو یہ لکھ دو کہ ہم مباحثہ کے لئے سہارنپور ہی آجاویں گے.آپ سرکاری انتظام کر لیں جس میں کوئی یورپین افسر ہوا اور ہندوستانیوں پر پورا اطمینان نہیں ہے.بعد انتظام سرکاری ہمیں لکھ بھیجیں اور کاغذ سرکاری بھیج دیں.میں تاریخ مقرر پر آجاؤں گا اور ایک اشتہار اس مباحثہ کی اطلاع کے لئے شائع کر دیا جاوے گا تاکہ لاہور وغیرہ مقامات سے صاحب علم اور مباحثہ سے دلچسپی رکھنے والے صاحب سہارنپور آ جاویں گے.ور نہ ہم لاہور میں سرکاری انتظام کر سکتے ہیں اور پورے طور سے کر سکتے ہیں.رہا تقریری اور تحریری مباحثہ وہ اُس وقت پر رکھیں تو بہتر ہے، جیسی حاضرین جلسہ کی رائے ہو گی.کثرت رائے پر ہم تم کار بند ہوں ، خواہ تحریری خواہ تقریری جو مناسب سمجھا جاوے گا وہ ہو جاوے گا.آپ مباحثہ ضرور کریں کہ لوگوں کی نظریں آپ کی طرف لگ رہی ہیں.یہ تقریر میں نے مولوی صاحب کو لکھ بھیجی.مولوی صاحب نے کچھ جواب نہ دیا.صرف اس قدر لکھا کہ انتظام کا میں ذمہ دار نہیں ہو سکتا ہوں.پھر میں نے دو تین خط بھیجے جواب ندارد.
مکتوبات احمد ۱۳۳ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۵۶ مخدومی مکرمی اخویم سلّمہ اللہ تعالیٰ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا.چونکہ اب رسالہ ” سراج منیر ، بہت جلد چھپنے والا ہے اور اس کی لاگت کا تخمینہ چودہ سور و پیہ بتلایا گیا ہے اور سرمایہ نہیں اور رسالہ سرمہ چشم آریہ کے لئے پانچ سورو پیہ نقد قرضہ لیا گیا تھا اس میں سے بھی ابھی ایک صدا دا نہیں ہوا.خیر یہ تو سب کچھ اللہ جلّ شانہ آسان کر دے گا لیکن اگر بجد و جہد مخلصین یہ رسالہ بہت جلد فروخت ہو جائے تو کسی قد رفراہمی سرمایہ اس سے ہوسکتی ہے.بخدمت مولوی سلطان الدین صاحب سلام مسنون.مکتوب نمبر۵۷ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مخدومی مکر می اخویم مولوی سراج الحق صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته عنایت نامه مرسلہ آپ کا پہنچا.بدریافت خیریت مزاج آں صاحب تسلی حاصل ہوئی.ٹھنڈی سیاہی کی بابت جو یہ تحریر فرمایا ہے کہ بسبب قیام سرساوه و کارنول وغیرہ کے جے پور پہنچنے میں تو قف ہوا.اس لئے سیاہی مذکور نہیں بھیجی سو اس کا کچھ مضائقہ نہیں جس وقت آپ جے پور میں پہنچیں روانہ فرما دیں اور حسب تحریر آپ کے جو اشتہار جدید یا کتاب طبع ہوا کرے گی انشاء اللہ تعالیٰ پہلے آپ کو اطلاع دی جایا کرے گی.ہر طرح خیال رہے گا اطمینان رکھیں.اور یہ جو تحریر فرمایا کہ سوجلد سراج منیر کی ہماری معرفت فروخت ہو جائے گی اس کے لئے
مکتوبات احمد ۱۳۴ جلد سوم مشکوری ہوئی.اللہ تعالیٰ آپ کی سعی کا اجر بخشے.جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ.یہ آپ کی دوستانہ و مخلصانہ ہمدردی ہے اور پانچ جلد شحنہ حق کی قیمت اور ایک جلد سُرمہ چشم آریہ کی معرفت سخی اللہ صاحب و ایضاً قیمت یک جلد سر مه چشم آریہ معرفت اسماعیل خان اب تک میرے پاس نہیں پہنچی.شاید انہوں نے ابھی روانہ کرنے میں توقف کیا ہو گا.مولوی صاحب کو سلام مسنون فرما دیں اور صحت یابی سے مطلع کریں.مورخه ۲۴ رستمبر بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمی اخوییم صاحبزادہ صاحب مکتوب نمبر ۵۸ خاکسار میرزا غلام احمد عفی عنہ بقلم عاجز عبد الحق غفرلہ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته محبت نامہ پہنچا.انشاء اللہ القدیر سید صاحب کے لئے انشاء اللہ دعا کروں گا.سیّد حشمت علی صاحب کو مطمئن کر دیں اور آپ کی ملاقات کا بہت اشتیاق ہے.امید ہے آپ جلد اس طرف توجہ فرمائیں گے اور ایک روپیہ کا عطر عمدہ اگر ملے تو ضرور خرید کر لے آنا مگر آپ کا آنا از بس ضروری ہے اس جگہ کتاب ” دافع الوساوس کا کام شروع ہے.شاید چند جزو کے قریب کتاب طبع ہو چکی ہے.۲۲ ستمبر ۱۸۹۸ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ از قادیان
مکتوبات احمد ۱۳۵ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۵۹ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.آپ ضرور اس شخص نان بائی کو ساتھ لے آویں جو کرا یہ ہو گا اس جگہ دیا جائے گا اور مبلغ عنہ روپیہ کا تنور بھی ساتھ خرید کر لے آویں اور اگر رو پیہ نہ ہوتو بوا لپسی ڈاک مجھ کو اطلاع دیں کہ تا یہاں سے مبلغ ہیں رو پید اور کرایہ بھیج دیا جائے مگر جلد اطلاع دیں لیکن یہ بات اس کو سنا دینی چاہئے کہ اکثر دو وقت ایک ننوا کے قریب مہمانوں کی روٹی پکانی پڑتی ہے.ایسا نہ ہو کہ صرف دین بین آدمی کی روٹی پکا سکتا ہو.یہ تنخواہ تو ہمیں منظور ہے اور تنور خریدنے کے لئے آپ کو کہہ دیا ہے.مگر یہ امر فیصلہ طلب ہے کہ آیا اس میں یہ طاقت ہے کہ ساٹھ ، ستر یا ایک سو آدمی کی تنور میں ہر روز وہ روٹی طیار کر دے گا اور دتی کے نان بائیوں کی طرح عمدہ اور صاف روٹی ہوگی.اگر وہ اپنی باتوں میں سچا ہے تو بہتر ہے اور بہت خوب ہے.صرف یہ خیال ہے کہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جو صرف دس ہیں روٹیاں پکا سکتے ہیں.مگر یہاں لنگر خانہ میں بعض اوقات دو دو سو آدمی مہمان جمع ہو جاتے ہیں جیسا کہ آپ کو معلوم ہے.غرض اگر ہر طرح پر قابل ہو تو میری طرف سے اجازت ہے کہ عنہ روپیہ کا تنور خرید دیں اور اپنی طرف سے کرایہ دے کر لائیں اور اگر بطور قرضہ دو چار دن کے لئے روپیہ مل جائے یعنی جس صورت میں آپ کے پاس نہ ہو تو قرضہ لے کر تنور لے لیں اور اگر روپیہ نہ ہو اور نہ ملے تو اطلاع دیں تا فی الفور بھیج دیئے جاویں.والسلام ۲۳ را پریل ۱۹۰۶ء خاکسار مرزا غلام احمد آپ کے گھر میں سب خیر و عافیت سے ہیں اور لڑکا ہر طرح اچھا ہے.
مکتوبات احمد ۱۳۶ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مند و می مکرمی پیر صاحب مکتوب نمبر ۶۰ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آپ کے خطوط حضرت کی خدمت میں پہنچے.حضرت دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل آپ پر ہوا اور مقدمہ کی مشکلات سے جلد مخلصی ہو کر آپ کو دارالامان میں واپس آنے کا موقع مل جائے.فی الواقع یہ دوری اور مہجوری آپ کے واسطے بہت تکلیف کو سامنا.جس شخص کی اتنی مدت سے قادیان میں رہائش مستقل ہو اُس کے واسطے تو اتنی مدت باہر رہنا نہایت مشکل بلکہ ایک ایک دن بمنزلہ سال کے ہو گا.اچھا خدا کا فضل کرے اور آپ کو بخیریت فتح کے ساتھ واپس لائے.۸رمتی ۱۹۰۷ء والسلام خادم محمد صادق عفی عنہ
مکتوبات احمد ۱۳۷ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۶۱ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ جو غم اور مصیبت کے صدمہ سے بھرا ہوا تھا مجھ کو لا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ.چونکہ خدا تعالیٰ جبکہ کوئی مصیبت نازل کرتا ہے تو بعد اس کے کوئی راحت بھی پہنچاتا ہے.اس لئے اس کے رحم اور کرم سے کسی حالت میں نومید نہیں ہونا چاہئے اور ساتھ ہی تو بہ اور استغفار بہت کرنا چاہئے کیونکہ بعض مصائب بعض گناہوں کے سبب سے بھی ظہور میں آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تو ہر چیز پر قادر ہے.چاہے تو ایک بیٹے کی جگہ دین ابیٹے دے دے وہ سب کچھ کر سکتا ہے.آپ کی نومیدی کی عمر نہیں ہے.ہم نے بچشم خود دیکھا ہے کہ نوے برس تک جن کی عمر تھی ان کے لڑکے پیدا ہو گئے اور ساتھ ہی پینسٹھ برس تک عورتوں کی بھی اولاد ہوسکتی ہے.ہاں جب یہ خیال آتا ہے کہ کس قدر فرقان الرحمن کی پرورش کے لئے آپ نے محنت اٹھائی تھی اور کیا کچھ امنگ اور آرزوئیں تھیں تو دل پر صدمہ پہنچتا ہے لیکن ایسی مصیبتیں ہر یک کے ساتھ لگی ہوئی ہیں.خدا تعالیٰ پر تو کل کرنے والے آخر اپنی مراد کو پالیتے ہیں.میرے ہمیشہ خیال میں رہا ہے کہ یہ سفر ہی منحوس تھا.آپ کو ایسے لوگوں سے تعلقات کرنے پڑے جو سچائی اور راستبازی کے دشمن ہیں اور ہر یک مکر اور فریب کو حلال سمجھتے ہیں.انسان کا قاعدہ ہے کہ تعلق ہونے کے بعد کئی ٹھوکروں میں مبتلا ہو جاتا ہے سو میں اسی لئے ڈرتا ہوں کہ یہ خدا کی طرف سے ایک سرزنش نہ ہو.پاکوں اور مقدسوں کو بھی کبھی مصیبت آ جاتی ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ لڑکے مر گئے مگر ساتھ اس کے صبر جمیل تھا ، کوئی جزع فزع نہ تھا.اسی واسطے لکھا ہے کہ مصیبت دو قسم کی ہے (۱) ایک ترقی درجات کی مصیبت جو نبیوں اور تمام راستبازوں پر آتی ہے (۲) اور دوسری جزاء السیئات کی مصیبت جو انسان پر گناہ اور غفلت کی حالت میں آتی ہے اور غم کے ساتھ دیوانہ بنا دیتی ہے.بہر حال تو بہ اور استغفار کے ساتھ وہ مصیبت جاتی رہتی ہے اور خدا تعالیٰ نعم البدل عطا کرتا ہے.خدا تعالیٰ تو بہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے.بجز خدا کی طرف جھکنے کے کوئی چارہ نہیں.دُنیا کی
مکتوبات احمد ۱۳۸ جلد سوم زندگی ہر قسم کی تلخیوں سے بھری ہوئی ہے مگر جو شخص سچی توبہ کرتا ہے اور مکر اور فریب کی تمام شاخیں اپنے اندر سے باہر نکال دیتا ہے خدا کی رحمت کا اس پر سایہ ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ آگ میں سے اس کو نکال لیتا ہے.بجز خدا کے کوئی کسی کا ساتھی نہیں.جو خدا کی طرف آتے ہیں وہ اس کی رحمتوں کے امیدوار ہو جاتے ہیں.اس کی دلوں پر نظر ہے نہ زبانوں پر.ہمیں آپ کے فرزند کی وفات کی خبر پڑھ کر بہت صدمہ ہوا ہے.خدا تعالیٰ اس کا بدل عطا کرے.آمین.گھر میں بیوی اور ان کی والدہ بھی یہ خبر سن کر نہایت غمگین ہوئیں اور ان کو بہت صدمہ پہنچا اور روتی رہیں مگر قضاء وقد ر الہی سے کیا چارہ ہے.ہمارا تو یہی تجربہ ہے کہ کچھ اپنا ہی گناہ ہوتا ہے جب فوق الطاقت قہر الہی نازل ہو جاتا ہے ور نہ وہ تو بڑا کریم ورحیم ہے.اس کی رحمتیں بے انتہاء ہیں.وہ جو اس کی طرف سچے دل سے جھکتے ہیں وہ فوق الطاقت صدموں سے انہیں بچا لیتا ہے.والسلام ۱۳ اگست ۱۹۰۷ء خاکسار غلام احمد از قادیان
عکس مکتوبات بنام حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمان بن الطقعالی عنہ
3 عکس مکتوب نمبرا EAST INDIA POST CARD THE ADDRESS ONLY TO HE WETEN ON THIS SIDE ای ایام الله تعالی ایشین ایرانی پور عقابی LUARE ANTO Literotr EGAMABAD 2 AJG بسم الله من الرحیم عن وجميع علی ارس و در کاری ایی در این راه و راه است تا این ما را یارا رجے بطور ہے قدرتی ہے نے اہم معاہدہ ہی اہانت کردی کو بیت الا جاتا ہے اور سو دیلی می چند مربع کے حبت ها تنور توقف به امارات القدر بالات انته ا ا ا ا ا ا ا اور ان کا دور با او زنده در رویا
2 رٹ 4 عکس مکتوب نمبر ۲ EAST INDIA POST CARD/ THE ADDRESS ONLY TO BE WRITTEN ON THIS SIDE.محتاج ہائے ضلع حصار خانقاہ حضرت حاد تطلب سحوقت کے امریکا اروع مودی سموم المقاصحاب الان Haush IS, VH با میں تاخیر کی کرج کرا کے ریلے بطور رسید اطلا4 ج رنا سوٹ لائے و سلام به خو ہے ہارٹ ہوئے.خانصار میں حاضرین ہے
5 عکس مکتوب نمبرے EAST INDIA POST CARD/ THE ADDRESS ONLY TO BE WRITTEN ON THIS SIDE.کیلاتی سر ساده صلح بها را بشور پر قدیم صاحب اور سور کی کیا صحاب Jaharampar ے کی کا SIRSAWA ایی که در روی شانه عفاف امام و خیار رایت م اس انکار کر پیست موسوی وفی کے بعد اتان ہے این کار روسیت کا انجام تک اروع بابا از بس ضروری ماه شوال میں برطانوی ویلی جایی که اراده است اور باشد ر رہی جانا ہو گا اگر اسی سود میں ترمیم کن نے محور مولوی عبد الکر می کی شکلی فنون اور مجھے در جاده خاکی علی احمد کی ہے KWARTE
6 عکس مکتوب نمبر ۱۰ PIE DE APR.20 86 EAST INDIA POST CARD THE ADDRESS ONLY TO DE WRITTEN ON THIS SIDE.محتاج جی اور ناخنوں - ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ر نی یاری علم اتار کر انما المالانه اسم المتن جالب - م رعب احمر الالم عبد الله کیا کب سے شورة ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ه د الله ما را یکی بر از مردان و یافتہ استاد اور رسالے کے ریت سے
7 عکس مکتوب نمبر ۱۲ EAST INDIA POST CARD THE ADDRESS ONLY TO RE WBITTER ON THIS SIDE مقام بی پور مکان عبد الر حطاب مرسته و دور صدارت رد کی صاجزادہ سراج الحق صاحب کے پاس پونچر Jehan Haghm 2 X730 30 برابر الرحمن العملم محمدہ و نصلح سلام علیک و محمود در ارم ورد تخته واو ک ہی روز ہوئی پارسالی استینی بیا ده مین آیا بر میکنی بالٹی آپکی یا کی واپسی کے گیا بہت آپ بھی بہت بعید در سیسی ہی جلد کردین اسمینی چقدر دیر ہو کے استین پر ایک آنہ پر میلہ پارسیل کا کرایہ و اتا ر کر لیکھا ایک یا ایده مطلب ها و نوشته ها
8 عکس مکتوب نمبر ۱۴ EAST INDIA POST CARD THE ADDRESS ONLY TO BE WRITTEN ON THIS SIDE مقیم چی اور سلام والای اسلامی اسلونی لاله های SECOND.DELY EYPORE APR 6 محمد واسع ) وسام حاصل کر کے جینے کے I کے بھی رہی است i و از قاریان می انار در کتابی رو در کردی نگاشتن ها را در رنگ امان الله 2.ا ا ا ا ا ا را دارد و او را در اینده کارگزار مان 泌
9 عکس مکتوب نمبر ۱۵ BAST INDIA ADOR [SASAWA POST ONLY TO BE WRITTEN ON REPLY.سریا وہ جنکو ہماری نورد پڑے کو سلام او پیز رج الحق काजसराजुल हक Rocheur far کم الله الرحمن الرحیم محو و نضع میں کہ امریکی ار یا برای اداله له مانانه دور می شویم رسمی علی در مهاراته رانه هیات نامه بر ماموریت اطمینان حافظ و درخت دل ہوا اور خاک بارو
10 عکس مکتوب نمبر ۱۹ EAST INDIA POST CARD THE ADDRESS ONLY TO BE WRITTEN ON THIS SIDE, با ا ا ا اشاراتی که به بار کوت علی علاقہ کمر متعلق ریاست جارتی مران النوع اور بنده سریع الحق اعشاب کیا انگور من الام ی و رسایی ماری جسے انوع جدا رتا ہے اسے ملاقات کا بہت شوی د دین پور كب تقريب الطارة ایک الناس
11 عکس مکتوب نمبر ۲۰ م اینکه صنایع محمود والصلے محرومی کرمی اخر می مردند برای یکی است یا د خوع ایا اور مری و برای او بیا تا به وانا الامارات مدت مدید حویے ہوا حال ہیں.کر ہے کہ قریبا کرم و این روز پیش کر طبع پر احمد برانک بار می اراده مروستا که د قون 11/1 علام که تمام رمضان سے باہر ہوں ان حالات جرات کیا ہے الا یہ مطلع فرمایا کشیده فاکار
12 عکس مکتوب نمبر ۲۱ ما ابتدا نگاهم عند الضع ا ا ا ا ا ا ا ا ا ور ا س و جاشه ایک وقت میں پرواز کردی جا باقی آپ خود بھی رہیں جو سیپالا ستان عت - آیا مخلصانہ کوشش جو خالصاً رو نجیے میرا ارادہ دو ماہ تک ابالی تعادلی میں رہنے کا رجان مین زنان را در سایه اش را هم یا منی است روزی م چاہوں گا اور ی کے نسخہ بروہی بات میں دوں گا جو وقت
13 رہے رہے کے مہروں گا خرید وسه سالی سے سیر پڑھا کریں کہ کئی نہ کم سے کم مٹ قیمت ویندر جائی کریگر در محل اگر قسمت سی ای او اور مصارف ان کائی سے ان کی چھا دو فضا میں نے وانقضاة لحاظ دیا کہ لنا ولی ما میرا شہر میں ہے تحقیام انبالم مبادیا صدر بارش موقت شد با محمد شیشه های کلارک دختر هنر صد الوليد ندور در تکاوران احمد در
EAST INDIA 14 عکس مکتوب نمبر ۲۲ POST CARD THE ADORESS ONLY TO BE WRITTEN ON THIS SICE مقام ہماری ضلع حصار خانقاه مایه قطب 1 مولتن موادی مربی افریم صابر رده سورج طلقا اے HANSY AUG 36 Hlasur ایا یا امی کو دیا اور انا کیا مست میدیا سابر احمد سخت سیارہ ہوگیا تھا رہا کہ آثار طائر ہے ہوا QUARTERA STATE وس های طاقت که علی حد SE
15 عکس مکتوب نمبر ۲۳ مکتوست الہ بانی مهر EAST INDIA POST CARD THE ADDRESS ONLY TO BE WRITTEN ON THIS SIDE THE ANNEKED CARD IS INTENDED THE ANSWER For بقاع مدار فنان احمد محم من مات ها اہل توس Kisuniter سرم ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ایران را دید و بیاریم روز به ه راجون شما برا قوت برای برگزار شد در خاکهار اعلام اسعد دریایی این N.195 15 * 130 7 NOV.88
16 عکس مکتوب نمبر ۲۴ ST INDIA POST CARD: ETADDRESS ONLY TO BE WRITTEN ON THIS SIDE.QUARTER ANNA به نام سر ساده امسال سه بار نور مین کرمی ا و م ا ا ا د ر ا ا ق حساب جهانی ما یکی شه هرام کرمی در خویم رو عناست نا نہ ہو نا مہ یار پہ ہے ان دان مین رہے جگہ قادیان میں ہے آپ رہے جگہ بت رفیق حضرت باری حال ما نه شریف اور یکے باقی خیریت سیم در سلام
17 عکس مکتوب نمبر ۲۷ 06 EAST IMA THE ADDRESS POST C TO BE WRITTEN ON THIS WRITTEN D E BAREBAR محمد اقبل محموری بی سایر کمر ساده ضلع اعمار النور حب اعلی مهرگویان او نا مردم را حضرت باران دوما کے لئے اور جل شانہ اس بلا کو دور رینا دے به همته الخاصہ صلد جلد ایسے حالات حریت ریاس سے تھی مسلح وسطی اور تر است اگر همت شرارت و مستند ہے
18 عکس مکتوب نمبر ۲۸ EAST INDIA POST CAR.THE ADDRESS ONLY TO BE WRITTEN ON THIS SIYE تقار Tye بیرون شہر مکان ابو محمد نام ایک درجه اول میں Jeusur بسم الله الرحمن الرحيم - مخمنه دلفی مشرق کرمی اندیم می نادر سرایان ور خدا پر یہ ایک عمات نا ہر پیونچی امین اب است سابق است ہم ماہ سے بیمار ہوں.کرام تھے.امید کہ انٹا ہی شفا ہو یا دیگی.سمجھی جا یاد ہے.کہ باوجود شدت بیماری انگی سیلی خط کا جواب کہا گیا ہتا.شاید گم ہوگیا ہوگا..آب ہمیشہ اپنے خیر و عافیت سے مطلع و مسلمان فرماتے ربیتا مہ اور ملین بوجہ ضعف زنا تو ا نے اپنی رہا ہے سے خط بین بکر سکا نہ زیادہ خرت بہتر والسلام مرزا غلام احمد از قاریان - سرحون
19 عکس مکتوب نمبر ۲۹ POSTCARD TILLS SIDE QUARTER ANNA عات صلح کو یہ کائندہ The Reenanesen SECOND DELAY REWAREE 9 SEP 30 بین تیر ان الاليم مطلع فرما دیں.خار زوه حساب التحية for رام اسم جواد بررسی احمد وه سود بانه میون روزام می به عار محو می دانیم ر کر دیا مین آنان به وقت میں قادیان مارکت ہیں
20 عکس مکتوب نمبر ۳۰ EAST INDIA THE ADDRESS ONLY TO BE WRI ATH تانی در دوره اسان دانش شایست دارسی ماریہ مساج رنده سراج الحق صاحب جمانے میں ہے Jikus QUARTER ANNA) DEL OC.2b 90 مع القا هم واهم مربی رجوع ماحرازه ماست را راهی ایران عم والعلاما عمالک کار را به یاد یا ہے ایک ملاقات است و در باقی گوشت به تدریب ریاتی 21/155
सरांगण्रहक 21 221 عکس مکتوب نمبر ۳۳ نظام کو پتا ہیں تو مسیر متعلقہ ا ما تريد انا الاب الام اور INDIA POST CARIY ONLY TO BE WHITTEN ON THIS SIDE نہیں لی کریں پلے بلوار ساری سرخی معلق کا بیان می گیریم ارسید ہو گیا ہے مجھے اطوع رساله ای ریہ کرتا ہے اسکے لکھا نہیں ہے فر ز میدین در سلام
ال 22 عکس مکتوب نمبر ۳۵ ر سفرنامه مولیگا نکا الی خیلی بارید) EAST POST CARD THE ADDRESS ONLY TO JE WRITTEN ON THIS SIDE عتبار کوٹ پتلی را حد معین کرتی انواع ماموراده سراج الحق صاحب Rall ساسه میری سیار یا دوست اور دورد علیل ہے یا تعمل ایک کو الاست با بلوجر صحت و نقابات خواب ہیں دی اسال اللہ کے دو کم وقت ہی یا دوا سکتا
23 عکس مکتوب نمبر ۳۶ EAST INDIA POST CA THE ADDRESS CNLY TO BE WRITTEN ON THIS SIDE RANNA علام این خانقاه ما قاله من ملی حصار ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ار این سایت ரந்உ House قدر یہ عنائت ما تمر سوریا ئه مین کو بعد سر سایر دریا ایک اسے دو ماه نام یک در خداستانی اختیار میں کتاب نقدی بر است می از طبیع ترین معلمی شبی که دره مورنی طور پر HRAS) 17 JUL.90 چنے اور ایک حصہ کہ وہ کیا سکرت سہنے طع ہو لے کر یاریشی سنہا ہے
SEAST 24 عکس مکتوب نمبر ۳۷ PAU.215 HE ADARES ONLY TO WRITTE ورد نظر ما ر ہم ایک خدمتن ترکی رجوع صاجزادہ سراج الحوار وجب 66 sb درج کرنا ہو تی ہے تو ہی پیار کمالی ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ار این اهانته خیر برای باز کرانه هیات باب مری کی عادت مدید گرگ س خداوند کرا داران است مخلص اور این کار دست راستے بھی عطا کئے ہیں
25 25 عکس مکتوب نمبر ۳۹ این EAST INDIA 'POST CARD ADDRESS ONLY TO BE WRITTEN ON THIS ہو گئی جی ہے سراج الحق امارات متازه are راقهم حالا غلام احمد در والی بارز السمار اور مار در بیمارات مولتی موری کے اردو فروکش مرز اے جید اہے میری.اللہ اسے جگر ہولت اور کہ ته ویلی اور بیماران گوتی نوین و انار HARTER ATN HAN 4 OCT.91 * * REWAREE SECOND DELX
26 26 عکس مکتوب نمبر ۴۰ EAST INDA POST CARD THE ADDRESS CHLY TO BE WRITTEN ON THIS SIDE علاقه تقام کو قبلی ریاست کہتر علی کو میسور E مدکشی کرلی ہو اور دوازده سراج بھی ہے من ارابیم لیکن ہو رہی ہے سے منو با ما کی شامی انداز ہے باردار سلی روان حرکتی مورب و دارو یو بود
27 عکس مکتوب نمبر ۴۱ EAST INDIA POST CARD THE ADDRESS ONLY TO BE WRITTEN ON THIS SIDE (QUARTER ANNA) یا ای ای را برای این نشانی کیا اسلام задний اہین ہونے کی روایت کیا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ایرانی استان های اگر رات لے یا اور رانا ماریا مانگا تاوقت ملاقات میشه حالات میری بات سے ✔ مطلع و سرد را یافت فرما تمامی نیا GAAL
28 عکس مکتوب نمبر ۴۳ QUARTER ALLA 10 EAST INDIA by Past cal THE ADDRESS ONLY TO BE WRITTEN ON THIS SIDE Go one t سلام جي پور حققین کرکی اخوان ها برنده سر او رحق صاحب جمالی تعالی gori JAM KHETDI عمارت سلام ورحمته تیری کی کہانی ہے.ابن الہ العقیر بر وقت جہت ماہیے ارسال هروقت ہوگا وہ رسالہ ہے رع 92
29 عکس مکتوب نمبر ۴۴ BASAXIN THE ADARE BC WRITTEN ON THIS SIDE 26 PARTER ANNA بهنام کمتری علامه می خوری ریاست ا الأمر رائع ش ارایه کاری روی ما داده است و ملته الله راشه من ایرانی اور اطارات ہیں جدیدہ موجی اہے میں ایک جنگ کرتی ہے 1813
30 عکس مکتوب نمبر ۴۵ EAST INDIA کر POST CARI THE ADDRESS CHLY TO BE WRITTEN ON THIS SIDE بحقانی کوشت تیکی ریاست تشہری علاقہ جی کہیں Kai puitte gayrim کمی سے ورمت مدراستای تامیه مسابقات بین شانده ر جگه ریکی داشت ریمون رساله جدیده صور استان به ان کیا کہتے رہتے حالات و بندریا سے
31 عکس مکتوب نمبر ۴۶ EAST INDIA POST CARD THE ADDRESS ONLY TO BE WAITTEN ON THIS SIDE تمام تر عمل کرتی اور محله ما سر می مالیات حدمت برمی البوم مدانده مراح العود مکان بر ما مد بخش قاب کو ان کے مرکری سے کے لیے ایندی اپنے حالات اس بات کے امیر یا در خرم وحدت اسعدی فرماتی است زن امر است ہے کو اسلامی ما یک واسطه یکم است و بیانیه معلم اقبال کرنے کی کہ اسکے لیے
32 عکس مکتوب نمبر ۴۷ EAST INDI THE ADDRESS ONLY TO BE WRITTEN ON THIS SIDE THE ANAFXED CARD TS INTENSco C THE ANDME.و باران در مقام مینو مور سر این مکن بر می هم هست اور آئی جی پور Wat wow! که در نگه می کنیم عد اسے گرمی انواع اسلام کی مسات نار ہوگیا ہے عورت کو ان سایت ماشا نے اور اسرت یر گیا را در اتفاقات مین زیر دست و چانه می توان دارا شکلات ارگو مصدر المعلاق و السلام حال الله الحمد در که مایه علم اقبال 102
33 عکس مکتوب نمبر ۴۸ EAST IED THE ADCA APOST CARY ONLY BE WRIETY THIS SIDE.ستار بیرون بیاوری مکان برای خوردستان علاقم چھیا کورس الا ان امحمدسرا کتنا حساب سنانی حريم ورا الله الله کاری نیکی ماه در سایت اش دارد Ca مشک
34 عکس مکتوب نمبر ۴۹ EAST INDIA بك ستان POST CARD THE ADDRESS ONLY TO BE WRITTEN ON THIS SIDE ا ا ا ا اور مال را مگر ساسانی سید نورانیه صاص عالي انخانی QUARTER ANNA) PORS Jaipur DELX AU.50 #2 یکھے نا محبت تان را در بیرو دراما ورحمته الله ) کرمی از مویم م سے اگاہ ہے اسی تور یک عرض می رسام دوماه که ده سالم ظاهر به بارگاه خیار 20 K
35 عکس مکتوب نمبر ۵۲ NÓRA R-ARMAD EAST IND ہے شفیع اشتہار میں پہلے سر اور ان انام و ورود سید جمالی ی در شکم ورپین یا اونوں کو آپ کو نہ سوچ سکا ی سیاست اور ناک است دالتی ماریا هی است که تمام رهایت الی بعد توقف السطور را دوران اتنی اپنے تنقل کی ہے یہ کا بڑا اسے ملک
36 عکس مکتوب نمبر ۵۳ EAST INDIA THE ADDRESS ONLY TO BE WRIT T CARD THIS SIDE, QUARTE بخواد نه بینی ما مراوده سریع کی گام harassa ا اللہ کرنا کی رابع آن عدالت ممنوع ہے.استاف سبت رود د د د د د د ده ده نداده ایم DE سے بات
37 عکس مکتوب نمبر ۵۶ EAST INDIA POST THE ADDRESS ONLY TO BE WRITTEN ON THE FE ا در را جوتانه مکان مولوی سلطان الحمله سایا در عرفیت اقوم و براده برای اتاق های همسالان jepur maran ند ر سے عناست تاکہ پر چھا چونکہ اب رساله سی به تمیز کر ا اور ریا نور ست بوده سود که مدیا میرا نند ائیں سے بی این ایات میں دور ہی میں تعقد مشیر درست ترکے تو دور کی سرائی کرین کے سرکے کے سم رساله نیست بلند و وقت الحرجه
کیا ہوگا 38 عکس مکتوب نمبر ۵۷ ليسم الدوائر حمن الرحيم خروجی کریمی رفت مولوی سراج مناسب و سلام کا بر کار است حیرت ملی اعشاب یسے حاصل ہوئی.مینڈی سانگی ات میومد ہماری معرفت فروخت پر جا کمین کی را یلی دوستاره مخلصانه سیایی آپ جیو یونین پر کنین روند فرما دینی احمد حب قرآنی جو اشتہار جو د بانتداب طبع مواد رنگی داشت برادری علی از یک و اطلاعی ریبا با گرگان برای خیالی امکان اطمینان سنگین
خاکسار و 39
40 عکس مکتوب نمبر ۵۸ ی وسلیم محبت نام به اقوام میرزاده ها السلام وطن کردی اور رشتہ ملاقات ناسبت اشتیاق ہے امیدار آب معد بر مروز اسراف انا براز برا نے مریکی المدرسات و ام اند اما این نیروگاه از ما را نا
41 عکس مکتوب نمبر ۵۹ تحفظ و اصلی تاریخ استه ایم و همه اصود تک کا شکر ر سلام ان کا عناست نام ہے جتنا آپے روز اس شخصی مان ہے کامنتونه و یا ای گام لی روشن اور در اشت کو عش ملے ہیں کر آئے مجمکو اطل اور سر کو تاکیان سے مبلغ پر رومہ اور ہیں الیکن ربات ان کو سنا دیئے چاہہے ہیں ایسا نہ ہم که حرف درس پیشر برقی کے لیے میں سے در
42 محررة اور سور کی کی ہے ا گریه در مطیع طلب پی ایم آرتارکین یاقت کیا کہ روز ہیں کر یا تم نشر یا ایکیو رومی کی مرز نیلی وہ کوئی کیا ہے کردوں گا اور ترقی کی نان یا میری کی طرح عمدہ اور صحافت والی روئی ہوگی مگر وہ اپنی خون منی کا یہ روایت ہے اور اس موسم ہے رفت پہ لال ہو کر ان کاروں میں روسکی ہے.روقان نکاس کے شی گراییان کرد سلال ? چاکم ا ا ا ا ا ا و و و و شان و با سرمه ای تا کی کو روبات صبح ہو جاتا آنے کو علم عرفت اگر گاهی قابل پر تردیدی سایت گفت رحال پر کہ میں کو ئه کاتوز به انتن اور رائے ہے دفتر
43 اشه یک روی او رورگر کشور قرقره دو و پروران ترکیه ہو روم تر ورنہ میر نوری بیعت اور ایک رویہ نہ ہو اور شمالی جاد مور وسیع دیگر نمائی الوز عمر اور اب کام ها احمد کی کریں سیر و عالیات سے میں بداع النات
تشاو Cier MAWAR 44 عکس مکتوب نمبر ۶۰ آپکے خطوط حضرات 10 خدمت میں پہنچے.حضرت دعا کرتے ہیں کہ راہ لی ہے کا فضائل آپ پر ہوا اور مقدم اور مشکلات سے جلد مخلص ہو کر آبکو د ارزندان میں کالی کرنے کا موقع مل جای نمی در اقع بے دردی اور مجبوری آپ کے در سطح بہت تکلیف کو سامنا.جس شخص کے انتی مدت کیسے تاریان بین رہائش مستقل اس آپ کے در سطح تو انتی بدست با ہر رینا بنا ئیت شکل ملکہ ایک ایک دنیا سبز لہ سال کا ہو گا.اچھی خدا کا فضل کرے اور ریکو بغیر میت نے کار سانتیم والیس ماده - و السلام طارم در ریاست کا امنه MO
45 آپ کے عکس مکتوب نمبر ۶۱ کم روبعد الرحمن الرحیم حه اصلی ؟ ری که در همه را در میرجامه رسانان می کوله د تر شده و برای این را جوان چونکه هورستانی کئی مصیبت تمام کرتا 3 پا سکتی اس کی رحم یه شرع مریم تایی بویم 少 حریم توسعه رسکی کوئی چاہیں اور ساہتیہ ہیں.بعض وصایک بھی گیا.بعض نین وقتی مین اور اللہ تو ایک بیٹی کی جگرہ واحد ی کی حالت میں و ر ا کرتا ان کی سب میں ہی کام میں ر قادریی چایی 07 ویدی وہ سب
46 1 نہا کی توبیوی کی عمر شر کیا امین پیچ خودایکیایی که نونی ترسین مرک ک کی مرتی ایک لڑکی ہوا ہوگی اور سامری بیشتر و سکتی ان جب یہ خیال بان الرحمع شکل کی کی رسم کی محنت اتناہی کی اور i کیا کچر انگار از زمین این شوال پر ود ہو تا ہے لیکن که سرح قدر مناسی که وشگل تری والی اور اپنی مراد کی پالتی ما برای شیشه خیالی ماری ہے حلال اینچ لله کشی انستان کافه شهد ید لوگوں سے ملاقات کری ہم کی ہیں کر تعلق في سوسن طاری تھی
47 وره مربی که یه خوری کی طرف اسی اریک کی روش به پیر کہ پا ا ایک اور مقدسو کو بھی کبھی بیت آنها کی ہی حیا کم نگیا کہ انکو ملی اور الہ وسلم کی کیارا ہے وکی مرگی لباره ندر سانتی اسکی جبر جیل یا کوئی فوج نئی نہ تھا اسی ور سطلی لگتا ہے کو بہت دو قسم کی پی.ای ایک شرقی درجات کی حریت جو بیون اور تاع در سیارات کے آتی ہیں.(ہی) اور دور کریں جوڑائی کیات کی نصبت خوراسانی کے گناہ اور غفلت کی حالت میں الی سرع وقتی น خواست در اسفار کی سانچہ وہ بہت جائیں اچھی ہیں اور اورر درسهای النعم البدل عطا کرتا یی د روستای توبه ترکی واریان
پزشکی طرح کی دل کی 48 پیار کرتا ہی جو خود کی طرح چمکنی کی کوئی ما ہوں میں پا اور شربت شاهین کی کام اپنی اندوری تاریخ 717 روشتی پاراست ہیں پایا اور حلال ہے جو خوراکی طرح آئی ہیں وہ رشکی ریچھوں کی امیدوار شین جو آرتی رای من ارسکی اور روشنی ہی نہ زبانوں کے میں آیا کی اروند کی وفات کی خبر راہ راست خو سکا ناست عملکر سنکران کی والدہ بن یہ خبریہ کیا وگیا اور ولی تشریح ربون مین مرسی اور ریکو te دهد لی سیاه اجله في عاید تویی تجربه می که ظهیر اتناہی 7 22 ہوتا ہے جب فوق السلامت تہتر مالتی متمایل به
حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب رضی اللہ تعالی عنہ
مکتوبات احمد مکتوب نمبر الدا فہرست مکتوبات بنام حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب تاریخ تحریر بلا تاریخ ۲۴ اکتوبر ۱۸۹۴ ۳۱ اکتوبر ۱۸۹۴ء بلا تاریخ بلا تاریخ بلا تاریخ صفحہ الده ۱۴۲ الدلد الدلد الدله ۱۴۵ جلد سوم
مکتوبات احمد ۱۴۲ جلد سوم مکتوب نمبرا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مکرمی اخویم صاحبزادہ افتخار احمد صاحب سلّمه نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مدت مدید کے بعد آنمکرم کا خط پہنچا.رسالہ ”نشانِ آسمانی ارسال خدمت ہے.نیز فرماویں آپ کی ملاقات اب کب ہوگی کیونکہ ایک مدت مدید گزرگئی ہے یہ عاجز قادیان میں ہے اور جوش مخالفوں کا بدستور.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محبی اخویم مکتوب نمبر ۲ از قادیان نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.خدا تعالیٰ سب کو شفا بخشے مگر آپ بھی بعد ایام رخصت ہر طرح آجانا.ایسا نہ ہو کہ رفتہ رفتہ آنا ہی موقوف رکھیں.۲۴ اکتوبر ۱۸۹۴ء والسلام خاکسار غلام احمد
مکتوبات احمد ۱۴۳ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر مجی اخویم صاحبزادہ افتخار احمد صاحب نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ آپ کا کارڈ پہنچ کر دختر معصومہ محمودہ بیگم کی خبر وفات سن کر والدہ محمود کو بہت ہی رنج اور غم ہوا جو اس خط میں آ نہیں سکتا اور سخت قلق اور اندوہ جو خیال میں نہیں تھا انہوں نے ظاہر کیا.آخر ان کو نصیحت اور صبر کے وعظ.سے شکیب کے لئے کہا گیا کیونکہ یہ امر قضاء و قدر ہے کسی کے اختیار میں نہیں.چاہئے کہ آپ بھی اسی طرح صبر کریں اور ان کی طرف سے آپ کے گھر کے لوگوں کو السلام علیکم پہنچے اور نیز یہ کہ ہم کو آپ سے اس حادثہ سے کچھ کم رنج نہیں پہنچا.مگر خدا تعالیٰ کی تقدیر میں بجز صبر و شکیب کے اور کچھ چارہ نہیں اور نیز کہا ہے کہ لڑ کا چھوٹا اب تک بیمار ہے.تپ آتا ہے بہت ڈبلا کمزور ہو گیا ہے.اس لئے نہیں آسکی ورنہ میں ضرور لاتی اور ان کی والدہ صاحبہ نے سخت افسوس کیا.باقی خیریت.۳۱ اکتوبر ۱۸۹۴ء والسلام خاکسار غلام احمد اور واضح ہو کہ میں نے آپ کے گھر کے لوگوں کو بار بار کہا تھا کہ ایسے وقت میں مت جاؤ اور بچوں پر ظلم مت کرو مگر انہوں نے ایک نہ مانی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جگہ کی ہوا بہت عمدہ تھی گویا بہشت سے دوزخ میں جا پڑے اور والدہ محمود کہتی ہے کہ اس سے پہلے دولڑ کیاں میریاں لدیا نہ کی نذر ہو چکی تھیں اب تیسری بھی ان کی نافہمی سے یعنی آپ کے گھر کے لوگوں کی کو نہ اندیشی سے انہی لڑکیوں کے ساتھ جاملی.بہتیر اسمجھایا مگر کچھ نہ مانا.ان کا کیا گیا لڑ کی ہماری گئی.اگر چہ تقدیر ہر یک جگہ آ جاتی ہے مگر رعایت اسباب بھی خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور تا کیڑا لکھا ہے کہ جس جگہ وہا ہو یا ہوا اچھی نہ ہو اس جگہ مت جاؤ.اس جگہ جانے میں خیر نہیں.
مکتوبات احمد ۱۴۴ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محبی اخویم صاحبزادہ صاحب سلمه مکتوب نمبر نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کی والدہ صاحبہ بخیر و عافیت پہنچ گئی.مناسب ہے آپ اپنی نوکری پر ضرور آجائیں شاید ترقی ہو جائے اور آپ نے بہت ہی نا مناسب کیا ہے کہ زیور اور پار چات بھیج کر ہما را غم تازہ کیا.کیا ہم نے بھاگ بھری کو اس لئے بھیجا تھا کہ زیور لا کر اور بھی ہمیں رنج میں ڈالے.یہ پیغام میرے گھر کے لوگوں نے دیا ہے.آپ ضرور اس کو پہنچا دیں.والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محبی اخویم صاحبزادہ صاحب سلمه مکتوب نمبر الله غلام احمد نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کی رخصت گزرنے پر ہے.آپ کو ضرور آنا چاہئے.موسمی بیماریاں ہیں.کچھ مضائقہ نہیں اور گھر میں کہا ہے کہ محمودہ بیگم کی وفات سے اگر چہ بہت رنج ہوا مگر ہم دوسری لڑکی کو بجائے محمودہ بیگم کے سمجھ لیں گے.وہ....اور کہتے ہیں کہ بہتر ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے اپنے گھر کے لوگوں کو لے آویں اور ضرور آدیں.والسلام خاکسار غلام احمد
مکتوبات احمد ۱۴۵ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم صاحبزادہ صاحب سلّمه مکتوب نمبر 1 نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ خط پہونچا.میرے نزدیک مناسب ہے کہ آپ ضرور آ جاؤ بلکہ کچھ مضائقہ نہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے اپنے گھر کے لوگوں کو ساتھ لے آویں اور ضرور آ جاؤ.موسمی اور معمولی بیماری ہے اور آپ نے پار چات اور زیور کیوں واپس کر دیا.محمودہ کی جگہ سعیدہ جو بہن تھی ہم اسی کو محمودہ سمجھے لیں گے اگر اس کی والدہ کی مرضی ہو یعنی مظہر قیوم کی والدہ اور جلد آنا چاہیے.والسلام خاکسار غلام احمد
عکس مکتوبات بنام حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب رضی اللہ تعالی عنہ
QUARTER ALITO 3 عکس مکتوب نمبرا EAST INDIA POST CARD, THE ADDRESS ONLY TO DE WRITTEN ON THIS SIDE 32 رحة واتین من است سکری اقدام مازاده محمد سیمان تو has hurri سانه افتی زندگی طری انواع نگاره برگ لایا کرے اب که نمونه گیر تر و یک حالت سریع زاد داستان ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ایرانی
4 عکس مکتوب نمبر ۲ به دواین عليكم کلاتهایی مدیا رضیت الله رجانا ایا ہو کر افتہ رفتہ اتاتر موقوف You d ارا لم الله
5 عکس مکتوب نمبر ۳ ہم اللہ کا کم عبد الکی کچی اقلاع صامراته افتخار احمد مات ا ا ا ا ا ا ر د الام کارو بر گر دفتر مصرحه محموں کام کی خبروان س سنتر وجہ والله محمود کو بہت ہے ار سکته اچھ اسلام کیا اور محنت خلق اور اندوہ جو خیال من شوربه و عطر اور اگر نفتی اور جرات وفطہ اور ز ہے پاکستہ تھے کیا ہیں جا ہے کی کمی اور قضا و قدری کے اختیا میرا رشته جامات کہ اہم ہیں اسے بڑی برائیوں اور انکی طرف ہے
6 بخرم گرا و سالک ہمیت کم ریخ چے اور کہیے 1 جارہے ہیں اور تیز کرنا ہ که بر ما مرتا لیگ بیمار ہے آپ لا ہے بیت اللہ کروز مریا ہے اسکے ہاں آئیگا ورنہ میں مروع لاتی اور انگری والله مایه با کشت افسوس ها نوس ها باقی مهت حال) اور و ایسے وقت میں مت جاؤ اور لکیروں پر طلع مت کرو مگر
7 انگری کی ایک بیابانی وصد سال و فصل کے رنگوں میں اللہ رسد یت شعور ہیں گویا بہشت سے دوری میں چاہوں اور والدہ کہ اس سے پہلی و و ر کا نہ ہو نذر ہوچکی شین اب بیشتری بای اریایم شد لیتے آپ کی کر کے لکڑی کا کرتے ہوئے ہے اتنی لڑکیوں کے سائے کا کیا گیا با ملی الری تقدیر C بریک لگی آجاتی ہے مگر رعایت الیاس پی کہ جس جیگر و یا هم یا مدرستانی کا کل ہے اور یا ۳) اچھی نہ ہم رہا
8 سم عکس مکتوب نمبر۴ سے مجس الخوام یر و عافیت ترویج السلام م بانی برای پیروز دلایل شاید شرقی میل اور اس کا بہت بریان سرایان و بار جامعات بیات پوری کی اور یہی نہیں رخ میں اور ایئے کیا سنان یہ امتاع ہوا 1
9 عکس مکتوب نمبر ۵ می دانه را ایج نہیں اجروع ملا اور کیا سبت علیکم ورحم الله عالم آنها رحمت گذر جار ۶ آپ کو ضرور آنا چاہے ہو w سترہ ہے حرف
10 عکس مکتوب نمبر ۶ ع الله تک ایسے بھی اخوانی بیروناک سلام کر است روز لحاظ کا ملکہ کی مصالحہ الا مناسب ت ایک وہم ہونگی مقاتل کے لئے ساہتہ کالو اور اور ایجاد کریمی اور میرے اور کہا گیا.رجگہ سعیده جدیتی غم رستی والدہ کی مرے اور جلد راہا ہے واللہ
حضرت سید محمد عسکری صاحب رضی اللہ تعال صاحب اداره عنہ
مکتوبات احمد ۱۴۹ حضرت سید محمد عسکری رضی اللہ تعالی عنہ کے نام تعارفی نوٹ جلد سوم حضرت سید محمد عسکری رضی اللہ عنہ سلسلہ کے سابقین الاولین کی جماعت میں سے ایک نہایت مخلص اور وفادار بزرگ تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کے اخلاص و وفا کی وجہ سے آپ سے خاص محبت تھی.سید صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے پاس آنے کی دعوت دے رہے تھے مگر آپ نے اس وقت ان کی دعوت کو دینی امور میں انہماک اور مصروفیت کی وجہ سے منظور نہ فرمایا.یہ ایسے زمانے (۱۸۸۷ء) کا واقعہ ہے جب کہ ابھی آپ بیعت نہ لیتے تھے.اس مکتوب میں حضور نے اپنی زندگی کا مقصد بیان کیا ہے.احباب متعدد مرتبہ اس مکتوب کو پڑھیں جن سے انہیں حضرت اقدس کی سیرۃ مبارک کے مختلف پہلوؤں کا اندازہ ہوگا.(عرفانی کبیر)
مکتوبات احمد مکتوب نمبر.فہرست مکتوبات بنام حضرت سید محمد عسکری صاحب تاریخ تحریر ۱۸ جون ۱۸۸۶ء ۷ فروری ۱۸۸۷ء بلا تاریخ صفحہ ۱۵۱ ۱۵۳ ۱۵۴ جلد سوم
مکتوبات احمد ۱۵۱ جلد سوم مکتوب نمبرا مقلدین اور غیر مقلدین کے متعلق ایک اہم مکتوب مند و می مکرمی اخویم ستلمه بعد سلام مسنون مقلدین و غیر مقلدین کے بارے میں جو آپ نے خط لکھا تھا اس میں کس فریق کی زیادتی ہے.سواس عاجز کی دانست میں مقلدین و غیر مقلدین کے عوام افراط و تفریط میں مبتلا ہور ہے ہیں اور اگر وہ صراط مستقیم کی طرف رجوع کریں حقیقت میں ایک ہی ہیں.دین اسلام کا مغز اور لب لباب تو حید ہے.اسی توحید کے پھیلانے کی غرض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے اور قرآن شریف نازل ہوا.سو تو حید صرف اس بات کا نام نہیں جو خدا تعالیٰ کو زبان سے وحدہ لاشریک کہیں اور دوسری چیزوں کو خدا تعالیٰ کی طرح سمجھ کر ان سے مرادیں مانگیں.اور نہ تو حید اس بات کا نام ہے کہ گو بظاہر تقدیری اور تشریعی امور کا مبدء اسی کو سمجھیں مگر اس کی تقدیر اور تشریع میں دوسروں کا اس قدر دخل روا رکھیں گویا وہ اس کے بھائی بند ہیں.مگر افسوس کہ عوام مقلدین (حنفی ) ان دونوں قسموں کی آفتوں میں مبتلا پائے جاتے ہیں.ان کے عقائد میں بہت کچھ شرک کی باتوں کو دخل ہے اور اولیاء کی حیثیت کو اُنہوں نے ایسا حد سے بڑھا دیا ہے کہ اَرْبَابًا مِّنْ دُونِ اللهِ تک نوبت پہنچ گئی ہے.دوسری طرف امور تشریعی میں ائمہ مجتہدین کی حیثیت کو ایسا بڑھایا ہے کہ گویا وہ بھی ایک چھوٹے چھوٹے نبی مانے گئے ہیں حالانکہ جیسا امور قضا و قدر میں وحدت ہے.ایسا ہی تبلیغ کے کام میں بھی وحدت ہے.مقلّد لوگ تب ہی راستی پر آسکتے ہیں اور اسی حالت میں ان کا ایمان درست ہوسکتا ہے جب صاف صاف یہ اقرار کر دیں کہ ہم ائمہ مجتہدین کی خطا کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے.غضب کی بات ہے کہ غیر معصوم کو معصوم کی طرح مانا جائے.ہاں بے شک چاروں امام قابل تعظیم اور شکر گزاری ہیں.ان سے دنیا کو بہت فوائد پہنچے ہیں مگر ان کو پیغمبر کے درجے پر سمجھنا ، صفات نبوی ان میں قائم کرنا
مکتوبات احمد ۱۵۲ جلد سوم اگر کفر نہیں ہے تو قریب قریب اس کے ضرور ہے.اگر ائمہ اربعہ سے خطا ممکن نہ تھا تو پھر باہم ان میں صدر با اختلاف کیوں پیدا ہو گئے اور اگر ان سے اپنے اجتہادات میں خطا ہوئی تو پھر ان خطاؤں کو ثواب کی طرح کیوں مانا جائے.یہ بُری عادت مقلدین میں نہایت شدت سے پائی جاتی ہے.ہر ایک دیانت دار عالم پر واجب ہے کہ ایسا ہی ان پر شدت توجہ سے حملہ کرے اور خدائے جلّ شانہ پر بھروسہ کر کے زید و عمر کی ملامت سے نہ ڈرے اور وہ لوگ جو موحدین کہلاتے ہیں.اکثر عوام الناس ان میں سے اولیاء کی حالت اور مقام کے منکر پائے جاتے ہیں.ان میں خشکی بھری ہوئی ہے اور جن مراتب تک انسان بفضلہ تعالیٰ ہوسکتا ہے اس سے وہ منکر ہیں.بعض جاہل ان میں سے ائمہ مجتہدین رضی اللہ عنہم سے جنسی بے جا کرتے ہیں.سوان حرکات بے جاسے وہ کا فرنعمت ہیں اور طریق فقر و توحید حقیقی و ذوق و شوق والی محبت سے بالکل دُور و مہجور پائے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ دونوں فریقوں کو راہِ راست بخشے.۱۸ جون ۱۸۸۶ء
مکتوبات احمد ۱۵۳ جلد سوم مکتوب نمبر ۲ مند و می مکر می اخویم سید محمد عسکری سلَّمَهُ رَبُّهُ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا موجب تسلی ہوا.میں آپ کے واسطے غائبانہ بہت دعا کرتا ہوں اور آپ کے اخلاص سے خوش ہوں.اللہ جل شانہ آپ کے تردّدات دور کرے.اس وقت میں آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتا.اپریل یا مئی کے مہینے میں انشاء اللہ القدیر آپ کی یاد دہانی پر بشرط خیریت و عدم موانع آپ کو اطلاع دوں گا اور شاید ان مہینوں میں کسی ایسے مقام میں میرا قیام ہو جس میں بآسانی ملاقات ہو جائے.مجھے اس وقت تالیف رسالہ ” سراج منیر کے لئے نہایت مصروفیت اور خلوت ہے اور میری زندگی صرف احیاء دین کے لئے ہے.اور میرا اصول دنیا کی بابت یہی ہے کہ جب تک اس سے بلکلی منہ نہ پھیر لیں ، ایمان کا بچاؤ نہیں.راحت و رنج گزرنے والی چیز میں ہیں.اگر ہم دنیا کے چند دم مصیبت و رنج میں کاٹیں گے تو اس کے عوض جاودانی راحت پائیں گے.بہشت انہیں کی وراثت ہے کہ جو دنیا کے دوزخ کو اپنے لئے قبول کرتے ہیں اور لذات عیش و عشرت دنیوی کے لئے مرے نہیں جاتے.دنیا کیا حقیقت رکھتی ہے اور اس کے رنج و راحت کیا چیز ہیں ؟ آخری خوش حالی کی خواہش ہے اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ تکالیف دنیوی کو بانشراح صدر اٹھائے اور اس نابکار گھر کی عزت اور ذلت کچھ چیز نہ سمجھے.یہ دنیا بڑا دھوکہ دینے والا مقام ہے جس کو آخرت پر ایمان ہے وہ کبھی اس کے غم سے غمگین نہیں ہوتا اور نہ اس کی خوشی سے خوش ہوتا ہے.والسلام حمد ۷ فروری ۱۸۸۷ء الحکم نمبر ۲۷ جلد ۳۷ مورخه ۲۸ / جولائی ۱۹۳۴ء صفحریم
مکتوبات احمد ۱۵۴ جلد سوم مکتوب نمبر۳ مقلدوں اور غیر مقلدوں کی نسبت حضرت امام الائمہ حکم و عدل کا فیصلہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ از طرف عائذ باللہ الصمد غلام احمد عافاه الله وایده نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا چونکہ حق میں تلخی کا ہونا ایک لازمی امر ہے.مجھے امید نہیں کہ میرے اس جواب پر ہر ایک راضی ہو سکے.اس میں کیا شک ہے کہ مدار نجات و رضامندی حضرت باری عز اسمۂ اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله الخ لا لیکن اس دوسری بات میں بھی کچھ شک نہیں کہ آج کل جو دو گروہ اس ملک میں پائے جاتے ہیں جن میں سے ایک گروہ اہل حدیث یا موحد کہلاتے ہیں اور دوسرے گروہ اکثر حنفی یا شافعی وغیرہ ہیں اور دونوں گروہ اپنے تئیں اہل سنت سے موسوم کرتے ہیں ان میں سے ایک گروہ نے تفریط کی راہ لی اور دوسرے گروہ نے افراط کی اور اصل منشاء نبوی کو یہ دونوں گر وہ اس تفریط وافراط اور غلو کی وجہ سے چھوڑ بیٹھے ہیں.تفریط کا طریق موحدین نے اختیار کیا ہے.اس گروہ نے ہر ایک طبقہ کے مسلمان اور ہر ایک مرتبہ کی عقل کو اسقدر آزادی دے دی ہے جس سے دین کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے اور درحقیقت اسی آزادی سے فرقہ نیچر یہ بھی پیدا ہو گیا ہے جن کے دلوں میں کچھ بھی عظمت سیدنا نبی علیہ السلام اور خدا کے پاک کلام کی باقی نہیں رہی.جس حالت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ اور ایسا ہی حدیث نبوی میں بھی ہے کہ تم دیکھ لیا کرو کہ اپنے دین کو کس سے لیتے ہو پس یہ کیونکر ہو سکے کہ ہر ایک شخص جس کو ایک کامل حصہ تقویٰ کا بھی حاصل نہیں اور نہ وہ بصیرت اس کو عطا کی گئی ہے جو پاک لوگوں کو دی جاتی ہے.وہ جس طرح چاہے قرآن کے معنی کرے اور جس طرح چاہے حدیث کے معنی کرے بلکہ وہ بلاشبہ ضَلُّوا وَ اَضَلُّوا کا مصداق ہوگا.اگر یہی خدا تعالیٰ کا بھی منشا تھا کہ تمام لوگوں کو ال عمران : ۳۲ ۲ الواقعة : ۸۰
مکتوبات احمد ۱۵۵ جلد سوم اس قدر آزادی دی جائے تو پھر انبیاء علیہم السلام کے بھیجنے کی کچھ بھی ضرورت نہیں تھی بلکہ خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے صرف آسمان سے بغیر توسط کسی انسان کے قرآن شریف نازل ہو سکتا تھا.پس جبکہ یہ سلسلہ ہدایت الہی کا انسانی توسط سے ہی شروع ہوا ہے اور توسط ان لوگوں کا جو خدا سے آنکھیں پاتے ہیں اور خدا سے دل پاتے ہیں اور خدا سے ہدایت پاتے ہیں.پس اس سے سمجھ سکتے ہیں کہ یہی طریق قیامت تک جاری رہے گا اسی کی طرف اشارہ وہ حدیث کرتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ہر ایک صدی کے سر پر مجدد مبعوث ہو گا اور اس کی طرف یہ آیہ کریمہ اشارہ فرماتی ہے.إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ ، یعنی خدا فرماتا ہے کہ میں نے اس دین کی محافظت اپنے ذمہ لی ہے.پس جبکہ خدا کے ذمہ اس دین کی محافظت ہے تو اس سے سمجھا جاتا ہے کہ محافظت کے بارے میں جو قدیم قانون خدا کا ہے اسی طریق اور منہاج سے وہ دین اسلام کی محافظت کرے گا.وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلا ا اور وہ طریق مجددین و مصلحین ہے.غرض موحدین نے تو حد سے زیادہ بے قیدی اور آزادی کا راستہ کھول دیا ہے بغل میں مشکوۃ یا بخاری یا مسلم چاہئے اور عربی خوانی کی استعداد.پھر ایسے شخص کو حسب رائے موحدین کسی امام کی ضرورت نہیں.اور فرقہ مقلدین اس قدر تقلید میں غرق ہیں کہ وہ تقلید اب بت پرستی کے رنگ میں ہو گئی ہے.غیر معصوم لوگوں کے اقوال حضرت سید نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے برابر سمجھے جاتے ہیں.صد ہا بدعات کو دین میں داخل کر لیا ہے.قراءۃ فاتحہ خلف الامام اور آمین بالجبر پر یوں چڑتے ہیں جس طرح ہمارے ملک کے ہند و بانگ نماز پر.خوب جانتے ہیں کہ لَا صَلوةَ إِلَّا بِالْفَاتِحَةِ حدیث صحیح ہے اور قرآن کریم فاتحہ سے ہی شروع ہوا ہے مگر پھر اپنی ضد کو نہیں چھوڑتے.پس اس تنازع میں فیصلہ یہ ہے کہ اہل بصیرت اور معرفت اور تقویٰ اور طہارت کے قول اور فعل کی اس حد تک تقلید ضروری ہے جب تک کہ بہداہت معلوم نہ ہوں اس شخص نے عمداً یا سہواً قرآن اور احادیث صحیحہ نبویہ کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ ہر ایک نظر دقائق دین تک پہنچ نہیں سکتی.لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.مُطَهَّرُ کا دامن پکرنا ضروری ہے مگر ساتھ ہی یہ شرط ہے کہ وہ شخص جس کی ان شرطوں کے ساتھ تقلید کی جاوے زندہ ہو تا معضلات دین جو حالات موجودہ زمانہ کے موافق پیش آویں اس سے حل کر الحجر: ١٠ ٢ الاحزاب :٦٣
مکتوبات احمد ۱۵۶ جلد سوم سکیں اسی کی طرف اشاره حدیث مَنْ لَّمْ يَعْرِفُ اِمَامَ زَمَانِهِ الخ کرتی ہے ہاں جس قدر آئمہ اربعہ رضی اللہ عنہم یا ان کے شاگردوں نے دین میں کوشش کی ہے حتی المقدور ان کوششوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور ان بزرگوں کے اجتہادات کو نیک ظن کے ساتھ دیکھنا چاہئے.ان کا شکر کرنا چاہئے اور تعظیم اور نیکی کے ساتھ ان کو یاد کرنا چاہئے اور ان کی عزت اور قبولیت کو رد نہیں کرنا چاہیئے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى - فقط ☆ حمد الحکم نمبر ۳۵ جلد ۵ مور محه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۱۲
حضرت مولوی ابوالخیر عبد الله صاحب بین له تعالی عنہ
مکتوبات احمد ۱۵۹ حضرت مولوی ابوالخیر عبد اللہ صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کے نام تعارفی نوٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک زمانہ دراز تک لوگوں کی بیعت نہیں لی اور جب کبھی کوئی شخص بیعت کے لئے عرض کرتا تو آپ یہی فرماتے تھے کہ مجھے حکم نہیں یا میں مامور نہیں لیکن جب خدا تعالیٰ نے آپ کو بیعت لینے پر مامور فرمایا تو آپ نے ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء مطابق ۲۰ رجب ۱۳۰۶ھ کو لودہا نہ میں بیعت لی.یہ بیعت حضرت منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور کے ایک مکان میں ہوئی جو اس وقت دار البیعت کے نام سے جماعت لو د ہانہ کے قبضہ میں ہے.اس بیعت کے بعد سب سے پہلا آدمی جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت کی اجازت دی وہ مولوی ابوالخیر عبداللہ صاحب ولد ابوعبداللہ احمد قوم افغان سکنہ تنگی تحصیل چارسدہ ضلع پشاور ہیں.افسوس ہے کہ آج ان کے تفصیلی حالات سے ہم واقف نہیں.تاہم میں اس کوشش اور فکر میں ہوں کہ ان کے حالات معلوم ہوسکیں.مکرمی صاحبزادہ سراج الحق صاحب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے مولوی ابوالخیر صاحب کو دیکھا تھا.تمیں پنتیس سال کے خوش رو نو جوان تھے.میانہ قد تھا ، ذی علم اور متقی انسان تھے.ان کے چہرہ سے رُشد اور سعادت کے آثار نمایاں تھے.حضرت مسیح علیہ السلام نے جو اجازت نامہ مولانا ابوالخیر عبد اللہ صاحب کو لکھ کر دیا تھا وہ تاریخ بیعت سے پورے ایک ماہ چھ دن بعد لکھا یعنی ۲۹ را پریل ۱۸۸۹ء مطابق ۲۸ شعبان ۱۳۰۶ھ.اس اجازت نامہ کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ آپ کن لوگوں سے بیعت لینا چاہتے تھے اور بیعت لینے والے کے فرائض کیا یقین کرتے تھے؟ اس سے اس روح کا پتہ لگتا ہے جو آپ کے اندر اپنے خدام کے لئے تھی یعنی آپ اپنے خادموں کے لئے بہت دعائیں کرتے تھے تا کہ ان میں وہ تبدیلی پیدا ہو جائے جو خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ ہوتی ہے.مولوی ابوالخیر عبداللہ صاحب سابقون الاولون میں سے ہیں.انہوں نے جلد سوم
مکتوبات احمد 17.جلد سوم ۱۹ ؍ رجب ۱۳۰۶ھ کو بمقام لو دہا نہ بیعت کی تھی اور بیعت کرنے والوں میں ان کا نمبر پانچواں تھا جیسا کہ سیرۃ المہدی (جلد اوّل) حصہ سوم کے صفحہ ۵۰۰ (جدید ایڈیشن ) سے ظاہر ہوتا ہے چونکہ پہلے آٹھ نمبر کے احباب کے نام قیاس اور دوسری روایات کی بنا پر لکھے ہیں اس لئے مولوی صاحب کی سکونت کے متعلق بھی محض قیاس سے چارسدہ یا خوست لکھ دیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ وہ تنگی تحصیل چارسدہ ضلع پشاور کے رہنے والے تھے اور سلسلہ میں پہلے آدمی تھے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیعت کی اجازت دی.چنانچہ جو اجازت نامہ ان کو لکھ کر دیا گیا اسے میں نے مکتوبات ہی کے سلسلہ میں درج کر دیا ہے.(عرفانی کبیر ) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبرا نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى اما بعد از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مولوی ابوالخیر عبداللہ پشاوری بعد از سلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ واضح باد کہ چونکہ اکثر حق کے طالب کہ جو اس عاجز سے بیعت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بوجہ ناداری و سفر و دور دراز یا بوجه کم فرصتی و مزاحمت تعلقات قادیان میں بیعت کے لئے پہنچ نہیں سکتے اس لئے باتباع سنت حضرت مولانا وسید نا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم یہ قرین مصلحت معلوم ہوا کہ ایسے معذور و مجبور لوگوں کی بیعت ان سعید لوگوں کے ذریعہ سے لی جائے کہ جو اس عاجز کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں.سو چونکہ آپ بھی شرف اس بیعت سے مشرف ہیں اور جہاں تک فراست حکم دیتی ہے، رشد اور دیانت رکھتے ہیں.اس لئے وکالتا اخذ بیعت کے لئے آپ کو یہ اجازت نامہ دیا جاتا ہے.آپ میری طرف سے وکیل ہو کر اپنے ہاتھ سے بندگانِ خدا سے جو طالب حق ہوں بیعت لیں مگر انہیں کو اس سلسلۂ بیعت میں داخل کریں کہ جو بچے دل سے اپنے معاصی سے تو بہ کرنے والے اور
مکتوبات احمد جلد سوم اتباع طریقہ نبویہ کے لئے مستعد ہوں اور ان کے لئے دلی تضرع سے دعا کریں اور پھر نام ان کے بقید ولدیت و سکونت و پیشہ وغیرہ.اس تصریح سے اصل سکونت کہاں ہے اور کس محلہ میں اور عارضی طور پر کہاں رہ رہے ہیں، بھیج دیں.تا یہ عاجزان کے لئے دعا کرنے کا موقع پا تا ر ہے اور پورے تعارف سے وہ یا در ہیں.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى - اٹھائیس شعبان ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۹ / اپریل ۱۸۸۹ء روز دوشنبه راقم احقر عباداللہ عبداللہ الصمد نشان مُهر أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب مکرمی اخویم ڈاکٹر فیض محمد خان صاحب کو السلام علیکم پہنچا دیں اور ہر ایک صاحب جو بیعت کریں مناسب ہے کہ وہ براہ راست بھی اپنا اطلاعی خط بھیج دیں.
حضرت میر حکیم حسام الدین صاحب سیالکوئی بھی ان نادانی مند رضی
مکتوبات احمد ۱۶۵ احباب سیالکوٹ کے نام تمہیدی نوٹ ے جلد سوم سیالکوٹ کو بھی سلسلہ کی تاریخ میں بہت بڑی اہمیت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے عہد شباب کے آغاز میں کئی سال سیالکوٹ میں گزارے.اس زمانہ کی یاد آپ ہمیشہ رکھتے.چنانچہ جب ۱۹۰۴ء میں آپ سیالکوٹ تشریف لے گئے تو آپ نے ایک لیکچر کے دوران میں اپنی صداقت کے نشانات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا.اور اگر میری نسبت نصرت الہی کو تلاش کرنا چاہے تو یادر ہے کہ اب تک ہزار ہا نشان ظاہر ہو چکے ہیں.منجملہ ان کے وہ نشان ہے.جو آج سے چوبیس برس پہلے براہین احمدیہ میں لکھا گیا اور اس وقت لکھا گیا جب کہ ایک فرد بشر بھی مجھ سے تعلق بیعت نہیں رکھتا تھا اور نہ میرے پاس کوئی سفر کر کے آتا تھا.اور وہ نشان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَأْتِيَكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ - يَأْتُونَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ یعنی وہ وقت آتا ہے کہ مالی تائید ہر ایک طرف سے تجھے پہنچے گی اور ہزار ہا مخلوق تیرے پاس آئے گی اور پھر فرماتا ہے.وَلَا تُصَعِرُ لِخَلْقِ اللَّهِ وَلَا تَسْتَمُ مِّنَ النَّاسِ لا یعنی اس قدر مخلوق آئے گی کہ تو ان کی کثرت سے حیران ہو جائے گا.پس چاہئے کہ تو ان سے بداخلاقی نہ کرے اور نہ ان کی ملاقاتوں سے تھکے.پس اے عزیز و ! اگر چہ آپ کو یہ تو خبر نہیں کہ قادیان میں میرے پاس کس قد ر لوگ آئے اور کیسی وضاحت سے پیشگوئی پوری ہوئی.لیکن اسی شہر میں آپ نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ میرے آنے پر میرے دیکھنے کے لئے ہزار ہا مخلوقات اس شہر کے ہی اسٹیشن پر جمع ہو گئی تھی اور صد ہا مردوں اور عورتوں نے اسی شہر میں بیعت کی.اور میں وہی شخص ہوں جو براہین احمدیہ کے زمانے سے تخمینا سات آٹھ سال پہلے اسی شہر میں قریباً سات برس رہ چکا تھا اور کسی کو مجھ سے تعلق نہ تھا اور نہ کوئی میرے حال سے واقف تھا.پس اب سوچو اور غور کرو تذکر صفحه ۳۹ مطبوعه ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۴۰ مطبوعه ۲۰۰۴ء
مکتوبات احمد ۱۶۶ کہ میری کتاب براہین احمدیہ میں اس شہرت اور رجوع خلائق کی چوبیس سال پہلے میری نسبت ایسے وقت میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ جب کہ میں لوگوں کی نظر میں کسی حساب میں نہ تھا.اگر چہ میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ، براہین کی تالیف کے زمانے کے قریب اسی شہر میں قریباً سات سال رہ چکا تھا تا ہم آپ صاحبوں میں ایسے لوگ کم ہوں گے جو مجھ سے واقفیت رکھتے ہوں.کیونکہ میں اس وقت ایک گمنام آدمی تھا اور اَحَدٌ مِّنَ النَّاسِ تھا اور میری کوئی عظمت اور عزت لوگوں کی نگاہ میں نہ تھی مگر وہ زمانہ میرے لئے نہایت شیر میں تھا کہ انجمن میں خلوت تھی اور کثرت میں وحدت تھی اور شہر میں ایسا رہتا تھا جیسا کہ ایک شخص جنگل میں.مجھے اس زمین سے ایسی ہی محبت ہے جیسا کہ قادیان سے.کیونکہ میں اپنے اوائل زمانہ کی عمر میں سے ایک حصہ اس میں گزار چکا ہوں اور اس شہر کی گلیوں میں بہت سا پھر چکا ہوں.میرے اس زمانے کے دوست اور مخلص اس شہر میں ایک بزرگ ہیں یعنی حکیم حسام الدین صاحب جن کو اس وقت بھی مجھ سے بہت محبت رہی ہے.وہ شہادت دے سکتے ہیں کہ وہ کیسا زمانہ تھا اور کیسی گمنامی کے گڑھے میں میرا وجو د تھا.اب میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ ایسے زمانے میں ایسی عظیم الشان پیشگوئی کرنا کہ ایسے گمنام کا آخر کار یہ عروج ہوگا کہ لاکھوں لوگ اس کے تابع اور مرید ہو جائیں گے اور فوج در فوج لوگ بیعت کریں گے اور باوجود دشمنوں کی سخت مخالفت کے رجوع خلائق میں فرق نہیں آئے گا بلکہ اس قدر لوگوں کی کثرت ہو گی کہ قریب ہو گا کہ وہ لوگ تھکا دیں.کیا یہ انسان کے اختیار میں ہے اور کیا ایسی پیشگوئی کوئی مکار کر سکتا ہے کہ چوبیس سال پہلے تنہائی اور بے کسی کے زمانے میں اس عروج اور مرجع خلائق ہونے کی خبر دے؟ کتاب براہین احمدیہ جس میں یہ پیشگوئی ہے، کوئی گمنام کتاب نہیں بلکہ وہ اس ملک میں مسلمانوں، عیسائیوں اور آریہ صاحبوں کے پاس بھی موجود ہے اور گورنمنٹ میں بھی موجود د ہے.اگر کوئی اس عظیم الشان نشان میں شک کرے تو اس کو دنیا میں اس کی نظیر دکھلا نا چاہیئے.جلد سوم
مکتوبات احمد ۱۶۷ جلد سوم سیالکوٹ میں کئی نشانات آپ کی صداقت کے اس زمانے میں ظاہر ہوئے اور سیالکوٹ کے مولوی فضل احمد صاحب مرحوم کو یہ عزت اور سعادت حاصل تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ طالب علمی میں کچھ عرصہ قادیان میں حضرت اقدس کی تعلیم پر مامورر ہے اور جب آپ نے ماموریت کا دعوی کیا تو سیالکوٹ میں جن لوگوں نے دعوت کو قبول کیا انہوں نے اپنی بے نظیر وفاداری، ایثار اور قربانی سے اپنا مقام بہت بلند رکھا.ان ایام میں جماعت سیالکوٹ تمام جماعتوں میں ممتاز اور سر بلند تھی اور اس جماعت نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت میر حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت خصیلت علی شاہ صاحب رضی اللہ عنہ جیسے مخلص پیدا کئے.حضرت میر حکیم حسام الدین صاحب رضی اللہ عنہ کے نام کا خط آگے آ رہا ہے اور جن احباب کے مکتوب مل سکے ہیں وہ درج ہیں.
مکتوبات احمد ۱۶۸ جلد سوم حضرت میر حکیم حسام الدین صاحب سیالکوٹی رضی اللہ تعالی عنہ کے نام تعارفی نوٹ حضرت میر حکیم حسام الدین صاحب رضی اللہ عنہ سیالکوٹ کے رئیس اور حضرت میر حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے والد بزرگوار تھے.حضرت حکیم صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شرف تلمذ بھی حاصل تھا.آپ نے طب کی بعض ابتدائی کتابیں حضور سے پڑھی تھیں.حکیم صاحب مرحوم نے حضرت اقدس کو عین عنفوان شباب میں دیکھا تھا اور حضور کی متقیانہ زندگی کا اُن پر خاص اثر تھا.حضرت کی نیم شبی دعاؤں اور قرآن مجید کے ساتھ عشق و محبت کے نظارے ان کے دل کو تسخیر کر چکے تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب حضرت اقدس نے خدا کی طرف سے مامور اور مرسل ہونے کا دعوی کیا تو حضرت حکیم صاحب کو ایک لحظہ کے لئے بھی شک و شبہ نہیں ہوا.حضرت اقدس بھی حکیم صاحب سے بہت محبت رکھتے تھے.حکیم صاحب مرحوم تیز طبیعت واقع ہوئے تھے لیکن حضرت اقدس کے سامنے وہ بہت موڈب اور محتاط ہوتے تھے.حضور کو حکیم صاحب کی دلجوئی اور خاطر داری ہمیشہ ملحوظ رہتی تھی.منارة المسح کی تعمیر کا کام جب شروع ہوا تو حکیم صاحب مرحوم ہی کو اس کا اہتمام دیا گیا اور اُنہوں نے اپنے صاحبزادے میر عبدالرشید صاحب مرحوم کو اس کام پر مامور کیا.غرض حضرت اقدس کے ساتھ حکیم صاحب کا اخلاص و محبت قابلِ رشک تھی اور حضور بھی ان کا احترام کرتے تھے.حضرت حکیم صاحب کے ساتھ حضرت میر خصیلت علی شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کو تعلقات دامادی کی عزت حاصل تھی اور خود سیّد خصیلت علی شاہ صاحب بھی اپنے ایمانی جوش اور اخلاص و وفا کے اعلیٰ مقام پر تھے.سیرۃ صحابہ کے سلسلہ میں ان بزرگوں کا انشاء اللہ تفصیلی ذکر آئے گا.
مکتوبات احمد ۱۶۹ حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحب کے انتقال پر حضرت اقدس نے حکیم صاحب مرحوم کو تعزیت کا ایک خط لکھا تھا اور یہی وہ مکتوب ہے جسے میں آج درج کر رہا ہوں.اس کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ سید صاحب مرحوم کے اخلاص و محبت کی حضرت اقدس کے دل میں کیا قدرتھی اور انہوں نے سلسلہ میں داخل ہو کر کیسی پاک تبدیلی کی تھی.اللہ تعالیٰ اُن کے مدارج کو بلند کرے اور ہمیں توفیق دے کہ وہی حقیقت اور روح اپنے اعمال میں پیدا کریں.جلد سوم (عرفانی کبیر ) مکتوب نمبرا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مجی مکرمی اخویم حکیم سید حسام الدین صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته اس وقت یک دفعه دردناک مصیبت واقعہ وفات اخویم سیّد خصیلت علی شاہ صاحب مرحوم کی خبر سن کر وہ صدمہ دل پر ہے جو تحریر اور تقریر سے باہر ہے.طبیعت اس غم سے بے قرار ہوئی جاتی ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ.سید خصیلت علی شاہ صاحب کو جس قدر خدا تعالیٰ نے اخلاص بخشا تھا اور جس قدر انہوں نے ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کی تھی اور جیسے انہوں نے اپنی سعادت مندی اور نیک چلنی اور صدق ومحبت کا عمدہ نمونہ دکھایا تھا یہ باتیں عمر بھر کبھی بھولنے کی نہیں.ہمیں کیا خبر تھی ، اب دوسرے سال پر ملاقات نہیں ہوگی.دنیا کی اسی نا پائیداری کو دیکھ کر کئی بادشاہ بھی اپنے تختوں سے الگ ہو گئے.آپ کے دل پر بھی جس قدر ہجوم غم کا ہو گا اس کا کون اندازہ کر سکتا ہے.اس نا گہانی واقعہ کا غم درحقیقت ایک جا نگاہ امر ہے لیکن چونکہ یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے اس لئے ایسی بھاری مصیبت پر جس قد رصبر کیا جائے اسی قدر امید ثواب ہے.لہذا امید رکھتا ہوں کہ آپ مرضی مولا پر راضی ہو کر صبر فرما دیں گے اور مردانہ ہمت اور استقامت سے متعلقین کو تسلی دیں گے.میں نے ایک جگہ دیکھا ہے کہ بعض
مکتوبات احمد ۱۷۰ جلد سوم خدا کے بندے جب دنیا سے انقطاع کر کے خدا تعالیٰ سے ملیں گے تو ان کے نامہ اعمال میں مصیبتوں کے وقت صبر کرنا بھی ایک بڑا عمل پایا جائے گا.تو اسی عمل کے لئے بخشے جائیں گے.بخدمت محبی اخویم سید حامد شاہ صاحب السلام علیکم ومضمون واحد -.خاکسار غلام احمد از قادیان خط کے پہنچتے ہی دعائے مغفرت بہت کی گئی اور کرتا ہوں مگر یہ تجویز ٹھہری ہے کہ جنازہ جمعہ کے روز پڑھا جاوے.نوٹ.چنانچہ مولانا مولوی عبد الکریم صاحب کے کارڈ سے معلوم ہوا کہ قبل از نماز جمعہ حضور مقدس نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہت دیر تک چپ چاپ کھڑے دعائیں مانگتے رہے.
حضرت مولوی محمد شادی خان صاحب سیالکوٹی یان له تعالی صحه رضی عنہ
مکتوبات احمد ۱۷۳ جلد سوم حضرت مولوی محمد شادی خان صاحب سیالکوٹی رضی اللہ تعالی عنہ کے نام تعارفی نوٹ حضرت مولوی محمد شادی خاں صاحب سیالکوٹ کے باشندے تھے.ابتدائے سنِ شعور سے ان کو اسلام کی عملی زندگی کا شوق تھا اور وہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت حکیم الامۃ مولانا نورالدین صاحب خلیفتہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے خاص احباب اور مخلصین میں داخل تھے جب وہ بزرگ اہل حدیث تھے.مولوی محمد شادی خاں صاحب پر بھی یہ رنگ غالب تھا اور جب وہ احمدی ہوئے تو یہ احمدی ہو گئے.ایک عرصہ تک وہ راجہ امرسنگھ آنجہانی (جموں و کشمیر ) کے خاص ملازموں میں رہے.ان کی دیانت امانت مسلّم تھی.جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ریاست جموں وکشمیر کی خدمت سے فارغ ہو گئے یہ بھی نوکری چھوڑ آئے اور کچھ عرصہ تک لکڑی کی تجارت کرتے رہے بالآ خر سب کچھ چھوڑ جاڑ کر قادیان ہجرت کر آئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کی والدہ صاحبہ مرحومہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت کا بہت بڑا موقع دیا اور ان کے بعد ان کی اولا د بھی سلسلہ کی خادم رہی اور ان کی صاحبزادیاں اپنے علم وفضل کے لحاظ سے ممتاز اور خدمت سلسلہ میں مصروف ہیں.خاکسار عرفانی کبیر کو یہ عزت اور فخر حاصل ہے کہ کچھ عرصہ تک ہجرت کے ابتدائی ایام میں مولوی محمد شادی خاں صاحب کو الحکم کی خدمت کی سعادت نصیب ہوئی اور پھر ان کے صاحبزادہ مرحوم عبد الرحمن کو بھی موقع ملا.مولوی شادی خاں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق تھا اور وہ ایک وفادار اور جان نثار احمدی تھے.سلسلہ کی تحریکوں پر ایسے کام کر گزرتے تھے کہ لوگ حیران رہ جاتے تھے.منارۃ المسیح کے چندہ میں سب کچھ دے دیا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے سو آدمیوں کا ایک خاص گروہ تجویز فرمایا تھا کہ جو جو ایک ایک سو روپیہ دے دے، ان میں حضرت محمد شادی خاں بھی تھے انہوں نے گھر کا ساز و سامان فروخت کر کے دوسور و پیہ دے دیا.
مکتوبات احمد ۱۷۴ ابھی وہ اعلان شائع نہ ہوا تھا ان کو علم ہوا اور انہوں نے روپیہ بھیج دیا.حضرت اقدس جلد سوم نے اس اشتہار میں ان کی نسبت تحریر فرمایا کہ.” دوسرے مخلص جنہوں نے اس وقت بڑی مردانگی دکھائی ہے.میاں شادی خاں لکڑی فروش ساکن سیالکوٹ ہیں.ابھی وہ ایک کام میں ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دے چکے ہیں اور اب اس کام کے لئے دوسور و پیہ چندہ بھیج دیا ہے.اور یہ وہ متوکل شخص ہے کہ اگر اس کے گھر کا تمام اسباب دیکھا جائے تو شاید تمام جائیداد پچاس روپیہ سے زیادہ نہ ہو.انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے.چونکہ ایام قحط ہیں اور دنیوی تجارت میں صاف تباہی نظر آتی ہے تو بہتر ہے کہ ہم دینی تجارت کر لیں.اس لئے جو کچھ اپنے پاس تھا ، سب بھیج دیا اور درحقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا‘ (اشتہار خاص گروہ) یہ صرف تعارفی نوٹ ہے ان کے حالات زندگی اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کتاب تعارف میں تفصیل سے لکھنے کا عزم رکھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے اخلاص اور صدق و وفا کو دیکھ کر انہیں وہ شرف بخشا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مثیل قرار دیا.خاکسار عرفانی کبیر سے ان کو اللہ محبت تھی اور میں تو ان کے مقام کو بہت عزت واحترام سے دیکھتا ہوں مگر اپنے اخلاص کی وجہ سے وہ خاکسار عرفانی کا احترام کرتے تھے اور یہ ان کی اپنی خوبی تھی ورنہ من آنم کہ من دانم.اب میں ان کے نام کے مکتوبات درج کرتا ہوں.وَ بِاللهِ التَّوْفِيقُ.میں یہ بھی ذکر کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ مکتوبات عزیز مکرم میاں فضل حسین مہاجر کی کوشش کا نتیجہ ہیں.(عرفانی کبیر )
مکتوبات احمد ۱۷۵ فہرست مکتوبات بنام حضرت مولوی محمد شادی خان صاحب سیالکوٹی مکتوب نمبر と 3 تاریخ تحریر ۲۹ / جون ۹۸ء بلا تاریخ ۳ اگست ۹۹ ۱۷/جون ۱۹۰۰ء ۱۸؍ جولائی ۱۹۰۰ء بلا تاریخ ۲۸ /اگست ۱۹۰۰ء صفحہ ۱۷۶ 122 ۱۷۸ ۱۷۹ ۱۸۰ ۱۸۰ ۱۸۱ بلا تاریخ ۱۸۳ جلد سوم
مکتوبات احمد مکتوب نمبرا جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجھی مشفق اخویم میاں شادی خاں صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ مجی اخویم حکیم فضل دین صاحب باوجود دو شادیوں کے اب تک بے اولاد ہیں اور اب کئی وجوہ سے ان دو بیویوں کا ہونا نہ ہونا برابر ہے اور حکیم صاحب موصوف مدت سے چاہتے ہیں کہ اگر کسی شریف آدمی کے ساتھ جو اپنی جماعت میں سے ہو.یہ تعلق پیدا ہو جائے تو عین مراد ہے.اس عرصہ میں کئی جگہ ان کے لئے پیدا ہوئیں اور اب بھی ہیں مگر ان کی طبیعت نے کراہت کی.چنانچہ ایک ان میں سے اب تک بار بار خط بھیجتا ہے کہ میں اپنی لڑکی آپ کو دیتا ہوں مگر وہ اس سے کراہت کرتے ہیں.اب دلی توجہ سے آپ کی طرف طبیعت ان کی راغب ہو ئی ہے.آپ کو معلوم ہے کہ کس قدر وہ شریف اور صالح ہیں اور متقی ، حافظ قرآن اور علم دین میں خوب ماہر ہیں اور واقعی مولوی ہیں.علاوہ ان تمام امور کے دنیوی جمعیت رکھتے ہیں، صاحب املاک و جائیداد ہیں.امید ہے آپ اپنی منشا سے اطلاع بخشیں گے اور بعد استخارہ مسنونہ جس طرح آپ کی رائے ہو بلا تکلف اس سے مطلع فرمائیں.زیادہ خیر بیت.۲۹ جون ۹۸ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفا اللہ عنہ
مکتوبات احمد 122 جلد سوم مکتوب نمبر ۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم میاں شادی خاں صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ یہ خط اس وقت آپ کی والدہ صاحبہ سے مجھ سے لکھوا رہی ہیں.ان کو اس بات کے سننے سے بہت ہی فکر اور غم لاحق حال ہوا ہے کہ آپ کو سخت تپ آتا ہے اور انہوں نے ارادہ کیا تھا کہ ایسے وقت سیالکوٹ کی طرف روانہ ہو جائیں.لیکن میں نے روکا کہ موسمی تپ ہے خیر ہو جائے گی.چنانچہ میں رات کے پچھلے حصے میں آپ کے لئے بہت دعا کرتا رہا.امید ہے کہ خدا تعالیٰ صحت بخشے گا.اگر تپ میں قے آوے تو ہوا سے پر ہیز رکھیں اور مناسب ہے کہ چار تولہ کیسٹر آئیل سے بلا تو قف جلاب لے لیں اور بعد اس کے کو تین تین یا چار رتی معہ کا فور بقدر ایک چاول کے تین چار روز تک برابر کھاویں مگر قبض نہ ہونے پائے اور بواپسی ڈاک اپنے حالات سے اطلاع دیں.باقی سب طرح سے خیریت ہے اور کونین کے بعد دودھ پی لیا کریں.سب کو ان کی طرف سے السلام علیکم.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد لے یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خادمہ جو دادی کے نام سے مشہور تھیں.(مرتب)
مکتوبات احمد ۱۷۸ جلد سوم مکتوب نمبر۳ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم میاں محمد شادی خاں صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته میں مناسب دیکھتا ہوں کہ دو تین روز کے لئے آپ آکر ہمیں مل جائیں.چند دفعہ مجھے خبر ملی کہ آپ آنے والے ہیں لیکن پھر آپ نہیں آئے.آپ کی والدہ صاحبہ اورلڑ کے دونوں منتظر ہیں.ضرور اس خط کو دیکھ کر دو تین روز کے لیے آجائیں.زیادہ خیریت ہے.۳ اگست ۹۹ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد
مکتوبات احمد 129 جلد سوم حضرت اقدس نے منارہ مسیح کی تعمیر کے لئے جب تحریک کی تو اس وقت منشی شادی خاں صاحب نے گھر کا اثاثہ فروخت کر کے حضور کی خدمت میں بھیج دیا.جس کے جواب میں حضور علیہ السلام نے یہ خط لکھا.مکتوب نمبر۴ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم میاں شادی خاں صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته آج نصف قطعہ نوٹ یکصد روپیہ مرسلہ آپ کا مجھ کو پہنچا.آپ نے خدا تعالیٰ کی راہ میں بڑی بہادری دکھلائی ہے.اگر کوئی نواب ایک لاکھ روپیہ بھی دے تب بھی وہ اس ثواب کا مستحق نہیں ہوسکتا کیونکہ اپنی طاقت سے بہت بڑھ کر کام کیا ہے.خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے اور آپ کی والدہ معظمہ کو تمام ثوابوں میں داخل کرے.آمین ثم آمین.والسلام ۱۷/جون ۱۹۰۰ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان اس کے بعد منشی صاحب مرحوم نے گھر کی چار پائیاں تک بھی فروخت کر دیں اور پھر مزید ۱۱۰ روپے پیش کئے جس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا.دوصد پڑھنا چاہیئے.(مرتب) حمد الفضل نمبر ۱۸۶ جلد ۳۱ مورخه ۱ را گست ۱۹۴۳ء صفحه ۲
مکتوبات احمد ۱۸۰ مکتوب نمبر ۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ محبی اخویم میاں شادی خاں صاحب سلمہ جلد سوم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ نے جو علاوہ پہلے چندہ مبلغ دو سو روپیہ کے ایک سو دس اور چندہ دیا ہے.یہ کام آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح کیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا اور آخرت میں اجر بخشے.آمین.اس قدر خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال عزیز خرچ کرنا جو ہزار محنت اور مشقت سے جمع کیا جاتا ہے، صاف دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ اور آخرت کو ہر ایک امر پر مقدم رکھتے ہیں.جَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ ۱۸ ؍ جولائی ۱۹۰۰ء والسلام * خاکسار مرزا غلام احمد بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۶ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي میرے نزدیک عائشہ لے کا جانا مناسب نہیں ہے.وہ اس جگہ خدمت سے ثواب حاصل کرتی ہے اور ہمیں اس کی رعائت میں کسی طرح فرق نہیں ہے.اس کو خود لکھ دو کہ جو کچھ اس کو کپڑا وغیرہ کی نسبت حاجت ہوا کرے، وہ بلا توقف کہہ دے.ہم سب کچھ اس کے لئے مہیا کر دیں گے.مگر شرم نہ کرے اور دوسرے یہ امر ہے کہ شریعت اسلام میں اس امر کی ممانعت نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کہ جو عورتیں بیوہ ہو جائیں.ایام عدت کے بعد ان کا نکاح کرایا جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے د الفضل نمبر ۱۸۶ جلد ۳۱ مورخه ۱ را گست ۱۹۴۳ء صفحه ۲ لے بیوه مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم.( مرتب )
مکتوبات احمد ۱۸۱ جلد سوم خودا پنی لڑکیوں کا نکاح ثانی کرایا ہے.اس صورت میں اگر آپ کا منشاء ہو تو اس صورت میں ہماری کوشش سے با مراد یہ مطلب ہو سکتا ہے.لڑکی جوان اور نیک بخت ہے.اس کے لئے ایسا آدمی تلاش ہوسکتا ہے جو عبدالکریم صاحب کا قائم مقام ہو اور دنیا کی حالت بھی آسودہ اور عزت کے ساتھ رکھتا ہو.میرے نزدیک یہ انتظام بھی ہے اور انشاء اللہ جیسا کہ اس جگہ بخیر و خوبی یہ امر حاصل ہو سکتا ہے اور ایسے آدمی کی تلاش ہو سکتی ہے.دوسری جگہ نہیں ہوسکتی.یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی تکالیف کپڑا وغیرہ کی بابت کہہ دیا کرے.والسلام مکتوب نمبرے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مرزا غلام احمد محجبی اخویم میاں شادی خاں صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مناسب سمجھا گیا ہے کہ آپ مع عائشہ بمجرد دیکھتے اس خط کے آجاؤ.باقی حالات زبانی کہے جائیں گے.۲۸ /اگست ۱۹۰۰ء والسلام مرزا غلام احمد
مکتوبات احمد ۱۸۲ جلد سوم ۱۹۰۶ ء میں منشی صاحب مرحوم نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں مندرجہ ذیل عریضہ لکھا جو درج ذیل ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هُوَ رَحْمَةٌ لِّلْعَلَمِينَ - أَمَّا بَعْدُ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته قادیان میں دوکان نکالنے کے واسطے میں نے سفر اختیار کیا کہ اگر برادرم اللہ دتہ صاحب بطریق سابق روپیہ منافع پر دے دے تو دوکان کی جائے مگر اتفاقاً انہوں نے چھترے خریدے ہوئے تھے.پھر میں سیالکوٹ گیا.وہاں بعض نے ہمدردی دکھائی اور کہا ملا زمت چاہو تو مل سکتی ہے.ورنہ دوکان کرو تو روپیہ منافع پر مل جائے گا یا شراکت کرو تو ہم شریک بھی ہو سکتے ہیں مگر میں اب شراکت سے بیزار ہوں.البتہ منافع پر لے لوں گا یا ملازمت کرلوں گا.میرے پاس سندات موجود ہیں.اب حضور ا جازت فرمائیں تو میں اپنا عیال سیالکوٹ لے جاؤں اور دعا کریں کہ رب العلمین دین و عقبی نیک کرے.لَیسَ كَمِثْلِهِ شَيْء وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ.آمین.اگر چہ میں عاصی پر تقصیر ہوں مگر امیدوار ہوں کہ اللہ کریم ، رحیم ، رب العالمین آپ کے طفیل آپ کے جلیس کو دنیا و آخرت میں خوار نہیں فرمائے گا.مجھے حضور علیہ السلام کی جدائی کا سخت رنج رہے گا جب تک پھر نہ میں آؤں گا.مگر جدائی میں اپنے غریب مرید کو محض اللہ یا دفرماتے رہنا اور اپنی دعاؤں میں شامل کرتے رہنا.عاجزانہ عرض ہے.مورخه ۴ را گست ۱۹۰۶ء والسلام فدوی محمد شادی خان کمترین مریدان
مکتوبات احمد ۱۸۳ جلد سوم منشی صاحب مرحوم کے مندرجہ بالا خط کے جواب میں حضور علیہ السلام نے انہی کے رقعہ کی پشت پر مندرجہ ذیل الفاظ تحریر فرمائے.مکتوب نمبر ۸ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ یہ بات تو میرے نزدیک بہت مناسب ہے کہ کوئی کام کیا جائے.بغیر کام کے عیال والے کے اخراجات چل نہیں سکتے.اسی غرض سے میں نے کہا تھا کہ عطاری ہے، کوئی موٹا کام جس کی ہر ایک کو حاجت ہوتی ہے شروع کیا جائے.سو اگر قادیان میں اس کا کوئی انتظام نہیں بنتا تو اجازت ہے سیالکوٹ میں چلے جائیں.شاید اللہ تعالیٰ وہاں کوئی تجویز بنا دے.دل کی نزد یکی چاہیئے اگر بعد مکانی ہو تو کیا مضائقہ ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد
حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب رضی اللہ تعالی عنہ
مکتوبات احمد ۱۸۷ جلد سوم حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کے نام تعارفی نوٹ حضرت مولوی عبداللہ صاحب رضی اللہ عنہ ( جو منشی عبد اللہ سنوری کے نام سے مشہور ہیں ) سابقون الاولون کی جماعت میں ایک سربرآوردہ اور ممتاز بزرگ ہیں وہ اپنے مال و دولت کے لحاظ سے نہیں ، اپنے علم و فضل رسمی کی وجہ سے نہیں بلکہ محض اپنے اخلاص، تقویٰ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کمال عشق و محبت اور آپ کی راہ میں فدا کاری کا شریف جذبہ رکھنے کی وجہ سے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بے شمار نشانات و آیات کا معائنہ کیا اور ایک شاہد عینی کی حیثیت سے اپنے ایمان و اخلاص میں ترقی پائی.حقیقت یہ ہے کہ حضرت منشی عبداللہ صاحب ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ کا نزول برائی العین مشاہدہ کیا.ان کے حالات زندگی پر انشاء اللہ سیرن تذکرہ کتاب تعارف میں ہوگا.یہاں میں صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کو درج کر دیتا ہوں جو حضرت نے ازالہ اوہام میں اپنے مخلص دوستوں کے ضمن میں منشی صاحب مدوح کے متعلق فرمائے.میں یہ بھی ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل و منشی فاضل رضی اللہ عنہ نے حضرت منشی صاحب کے مکتوبات کو جمع کر کے اس کا ایک ایڈیشن شائع کر دیا تھا جس پر قریباً چوتھائی صدی گزرتی ہے مگر میں نے مناسب سمجھا کہ مکتوبات احمد یہ کے اس سلسلہ تکمیل میں انہیں بھی درج کر دوں اور احباب حضرت فاضل محمد اسماعیل کے لئے دعا کریں.اب میں ازالہ اوہام میں شائع شدہ ارشاد حضرت درج کر کے مکتوبات کو جمع کرتا ہوں.وَ بِاللهِ التَّوْفِيقُ.(عرفانی کبیر )
مکتوبات احمد ۱۸۸ جبی فی اللہ میاں عبداللہ سنوری.یہ جوان صالح اپنی فطرتی مناسبت کی وجہ سے میری طرف کھینچا گیا ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان وفا دار دوستوں میں سے ہے جن پر کوئی ابتلاء جنبش نہیں لا سکتا.وہ متفرق وقتوں میں دو دو تین تین ماہ تک بلکہ زیادہ بھی میری صحبت میں رہا اور میں ہمیشہ بنظرِ امعان اس کی اندرونی حالت پر نظر ڈالتا رہا ہوں.سومیری فراست نے اس کی تہ تک پہنچنے سے جو کچھ معلوم کیا وہ یہ ہے کہ یہ نوجوان در حقیقت اللہ اور رسول کی محبت میں ایک خاص جوش رکھتا ہے اور میرے ساتھ اس کے اس قدر تعلق محبت کے بجز اس بات کے اور کوئی بھی وجہ نہیں جو اس کے دل میں یقین ہو گیا ہے کہ یہ شخص محبانِ خدا و رسول میں سے ہے اور اس جوان نے بعض خوارق اور آسمانی نشان جو اس عاجز کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملے بچشم خود دیکھے ہیں جن کی وجہ سے اس کے ایمان کو بہت فائدہ پہنچا.الغرض میاں عبداللہ نہایت عمدہ آدمی اور میرے منتخب محبوں میں سے ہے اور باوجو د تھوڑے سے گزارہ ملازمت پٹوار کے ہمیشہ حسب مقدرت اپنی خدمت مالی میں بھی حاضر ہے اور اب بھی بارہ ہو تو یہ سالانہ چندہ کے طور پر مقرر کر دیا ہے.بہت بڑا موجب روپیہ میاں عبد اللہ کے زیادت خلوص و محبت و اعتقاد کا یہ ہے کہ وہ اپنا خرچ بھی کر کے ایک عرصہ تک میری صحبت میں آکر رہتا رہا اور کچھ آیات ربانی دیکھتا رہا.سو اس تقریب سے روحانی امور میں ترقی پا گیا.کیا اچھا ہو کہ میرے دوسرے مخلص بھی اس عادت کی پیروی کریں.پر ا ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۱ جلد سوم
مکتوبات احمد ۱۸۹ فہرست مکتوبات بنام حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری مکتوب نمبر تاریخ تحریر صفحہ مکتوب نمبر تاریخ تحریر جلد سوم صفحہ ۲۰۴ ۲۰۴ ۲۰۵ ۲۰۵ ۲۰۶ ۲۰۷ ۲۰۷ ۲۰۸ ۲۰۸ ۲۰۹ ۲۰۹ ۲۱۰ ۲۱۰ ۲۱۱ ۲۱۱ ۷ار دسمبر ۱۸۸۸ء ۱۵ر جنوری ۱۸۸۹ء ۲۲ /جنوری ۱۸۸۹ء ۱۲؍ جولائی ۱۸۸۹ء ۲۲ فروری ۱۸۹۰ ۳۱ رمئی ۹۰ ۳/ جون ۹۰ء ۷ ارجون ۹۰ء ۲۰ جون ۹۰ء ۱۵ جولائی ۹۰ ۴ ستمبر ۱۸۹۰ء ور ستمبر ۱۸۹۰ء ۱۲ اکتوبر ۱۸۹۰ء ۲۹ / دسمبر ۱۸۹۰ء ۲ جنوری ۶۹۱ ۱۵ مارچ ۱۸۹۱ء کی ۱۷ ۱۹۲ ۱۸ ۱۹۳ ۱۹ ۱۹۴ ۱۹۵ ۲۱ ۱۹۵ ۲۲ ۱۹۶ ۲۳ ۱۹۶ ۲۴ ۱۹۷ ۲۵ ۱۹۸ ۲۶ ۱۹۸ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۱ ۳۲ ۲۰۱ ۲۰۲ ۷ ستمبر ۱۸۸۴ء ۱۶ اکتوبر ۱۸۸۴ء محمد یکم نومبر ۸۴ ۱۴؍ دسمبر ۱۸۸۴ء ۹ رفروری ۱۸۸۵ء تیم مارچ ۱۸۸۵ء ۲؍دسمبر ۶۸۵ ۲۷ جولائی ۸۶ ۳۰ دسمبر ۱۸۸۶ء ۸ فروری ۸۷ ۱۱ ستمبر ۱۸۸۷ء ۲۶ ستمبر ۱۸۸۷ء ۲۸ اکتوبر۷ ۱۸۸ ۱۱ را گست ۱۸۸۸ء ۲۳ /اگست ۱۸۸۸ء ۲۸ نومبر ۱۸۸۸ء ۲ ۹ 11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶
مکتوب نمبر تاریخ تحریر جلد سوم صفحه ۲۲۶ ۲۲۶ ۲۲۷ ۲۲۸ ۲۲۸ ۲۲۹ ۲۲۹ ۲۳۰ ۲۳۰ ۲۳۱ ۲۳۱ ۲۳۲ ۲۳۴ ۲۳۵ ۲۳۵ ۲۳۶ ۲۳۸ ۲۳۹ ۲۳۹ ۱۹۰ مکتوبات احمد مکتوب نمبر تاریخ تحریر صفحہ ۳۳ ۱۷ مارچ ۱۸۹۱ء ۳۴ ۲۶ جولائی ۱۸۹۱ء ۳۵ ۳۶ ۵/ دسمبر ۹۱ء ۲۳ / جولائی ۱۸۹۲ء ۳۷ ۲ ستمبر ۱۸۹۲ء ۳۸ بلا تاریخ ۳۹ ۲۰ را پریل ۹۳ء ۴۰ ۱۵/ دسمبر ۱۸۹۳ء ام ۲۶ فروری ۱۸۹۴ء ۴۲ ۲۵ / مارچ ۱۸۹۴ء ۴۳ ۲۳ / اکتوبر ۱۸۹۴ء ۴۴ یکم نومبر ۹۴ ۴۵ ۴۶ ۱۲/ نومبر ۱۸۹۴ء ۲۱۸ ۷/دسمبر ۱۸۹۴ء ۴۷ ۱۰ ر د سمبر ۱۸۹۴ء ۴۸ ۴۹ ۲۸ اپریل ۱۸۹۵ء ۱۴ جون ۱۸۹۵ء ۴ / جنوری ۱۸۹۶ء ۵۱ ۵۲ ۱۵ / فروری ۱۸۹۶ء ۲۸ فروری ۱۸۹۶ء ۵۳ ۲۱۲ ۵۴ ۲۱۲ ۵۵ ۲۱۳ ۲۱۳ ۵۷ ۲۱۴ ۵۸ ۲۱۴ ۵۹ ۲۱۵ ۶۰ ۲۱۵ ۶۱ ۲۱۶ ۶۲ ۲۱۶ ۹ ر ا پریل ۱۸۹۶ء ۲۱ اپریل ۱۸۹۶ء ۱۲ رمئی ۱۸۹۶ء ۳۱ رمئی ۱۸۹۶ء ۱۲ جون ۹۶ء ۱۷ جون ۹۶ء ۱۰ جولائی ۱۸۹۶ء ۲۲ جنوری ۹۷ء ارمئی ۱۸۹۷ء ۲۰ نومبر ۱۸۹۷ء ۶۳ ۲۱۷ ۴ را پریل ۹۸ء ۶۴ ۲۱۸ اپریل ۹۸ء جون ۹۸ء ۶۶ ۲۲۱ ۶۷ ۲۴ جولائی ۱۸۹۸ء ۴/دسمبر ۹۸ء ۶۸ ۶۹ ۲۲۳ 4.۲۲۴ ۲۲۵ ۷۲ ۲۲۵ ۱۹/ مارچ ۱۸۹۹ء ۲۸ / جولائی ۱۹۰۱ء ۳۰ را پریل ۱۹۰۲ء اے ۱۸ ستمبر ۱۹۰۲ء ۲۷ /اپریل ۱۹۰۳ء
جلد سوم مکتوب نمبر تاریخ تحریر صفحه ۳ رمئی ۱۹۰۸ء ۲۴۵ بلا تاریخ ۲۴۵ درمئی ۱۹۰۸ء ۲۴۶ بلا تاریخ ۲۴۶ بلا تاریخ ۲۴۷ مکتوبات احمد ۱۹۱ مکتوب نمبر تاریخ تحریر صفحہ ۷۳ ۴ جنوری ۱۹۰۴ء ۷۴ ۲۸ فروری ۱۹۰۵ء ۷۵ ۲۶ اکتوبر ۱۹۰۷ء ۶ / مارچ ۱۹۰۸ ء کو LL ZA بلا تاریخ ۷۹ ۲۴۰ ۸۰ ۲۴۰ ΔΙ ۲۴۱ ۸۲ ۲۴۱ ۸۳ ۲۴۳ ۲ رمئی ۱۹۰۸ء ۲۴۴ نوٹ: حضرت منشی غلام قادر صاحب کے نام مکتوب نمبر۵۷ ۵۸ بھی انہیں کے تحت درج ہیں.( ناشر )
مکتوبات احمد ۱۹۲ جلد سوم مکتوب نمبر ا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مشفقی مکرمی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ بعد سلام مسنون آپ کا عنایت نامہ پہنچا.ابھی تک باعث بعض موانع یہ عاجز قادیان میں ہے سوجان پور کی طرف نہیں گیا اور بوجہ علالت وضعف طبیعت ابھی ہندوستان کی سیر میں تامل ہے.شاید اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو یہ بات موسم سرما میں میسر آجائے.ہر ایک امر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.کبھی کبھی اپنے حالات سے مطلع فرماتے رہیں.خواب آپ کی انشاء اللہ بہت عمدہ ہے کہ بعض نفسانی آلائشوں سے پاک ہونے کی طرف اشارہ ہے.واللہ اعلم.۷ ستمبر ۱۸۸۴ء خاکسار غلام احمد از قادیان (نوٹ ) سو جان پور کی طرف تشریف لے جانے کا ارادہ حضور کا اس بنا پر تھا کہ حضور کو ان ایام میں یہ خواہش تھی کہ کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں نہ ہم کسی کو جانتے ہوں نہ ہمیں کوئی جانتا ہو.اس پر جناب مولوی عبداللہ صاحب نے حضور کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور اس خاکسار (مولوی عبداللہ صاحب) کو بھی اپنے ہمراہ لے جائیں.حضور نے مولوی عبد اللہ صاحب کی اس درخواست کو منظور فرما لیا.اسی بنا پر مولوی عبداللہ صاحب کے خط کے جواب میں حضور نے تحریر فرمایا کہ ابھی تک باعث بعض موانع یہ عاجز قادیان میں ہے.سو جان پور کی طرف نہیں گیا.اسی اثنا میں حضور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ ”تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی لے اس لئے حضور نے سو جان پور کی طرف جانے کا ارادہ ملتوی کر کے ہوشیار پور جانے کا ارادہ فرمالیا.چنانچہ اسی بنا پر حضور تذکره صفحه ۱۰۶ مطبوعه ۲۰۰۴ء
مکتوبات احمد ۱۹۳ جلد سوم شروع جنوری ۱۸۸۶ء میں مولوی عبد اللہ صاحب.حافظ حامد علی صاحب اور ایک مخی فتح خاں نام کو اپنے ہمراہ لے کر سیدھے ہوشیار پور کو روانہ ہو گئے اور وہاں پہنچ کر شیخ مہر علی صاحب رئیس ( جو اس وقت حضور سے محبت اور اخلاص رکھتے تھے ) کے طویلہ میں جا کر چالیس روز تک ایک بالا خانہ میں بالکل الگ رہے.حضور کے ہرسہ خدام رفقاء اسی طویلہ میں نیچے کے حصہ میں الگ رہتے تھے.چنانچہ وہاں حضور نے چلہ کشی کی اور پھر ۲۰ روز وہاں اور ٹھہر کر مارچ ۱۸۸۶ء میں واپس قادیان کو تشریف لائے.ہندوستان کی سیر ۱۸۸۹ء میں آکر حضور نے صرف اس قدر کی کہ لدھیانہ میں بیعت لینے کے بعد علی گڑھ تشریف لے گئے اور وہاں ایک ہفتہ کے قریب سید تفضل حسین صاحب تحصیلدار کے ہاں ٹھہر کر وہاں سے پھر واپس لدھیانہ تشریف لائے.(عرفانی) مشفقی اخویم ستلمه مکتوب نم بعد سلام مسنون آپ کا عنایت نامہ پہنچا.یہ عاجز کچھ دنوں سے بیمار ہے.طاقت زیادہ تحریر کی نہیں.ضعف بہت سا ہو رہا ہے.مگر آپ کی خوا ہیں انشاء اللہ نیک ہیں.جائے فکر نہیں.مفصل لکھنے کی اگر طاقت ہوتی تو لکھتا مگر ضعف سے مجبور ہوں.۱۶ اکتوبر ۱۸۸۴ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد ۱۹۴ جلد سوم مشفقی مکرمی اخویم سلّمہ اللہ تعالیٰ مکتوب نمبر السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته سورۃ بقرہ کا لفظ خواب میں سنائی دینا اس کے بات کی طرف اشارہ ہے کہ سورۃ بقرہ کی طرف رجوع کرو.پس کسی نوع کی کسر ہے جو سورۃ بقرہ کی طرف رجوع دلا یا گیا ہے اور اس سورۃ میں حقوق اللہ اور حقوق عباد کی بہت تفصیل ہے اور امر اور نہی کھول کر بیان کیا گیا ہے اور صبر اور ایثار کی بہت تاکید ہے.پس غور سے سورۃ بقرہ کا ترجمہ پڑھو اور جہاں اور جس امر یا نہی میں اپنے تئیں قاصر دیکھو اس حالت کو درست کرو.آفتاب سے سے مراد اچھی حالت یا والدین مراد ہیں یا ا کابردین جن سے فائدہ دین کا پہنچے.بہر حال یہ خواب اچھی ہے آپ کی تیسری خواب بھی اچھی ہے اور عاجز دعا سے غافل نہیں ہے.یکم نومبر ۸۴ء والسلام خاکسار غلام احمد ا حضور کے اصل خط میں یہ الفاظ اسی طرح پر ہی لکھے ہوئے ہیں.مولوی عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ دو آفتاب جن کے درمیان کچھ تھوڑا سا فاصلہ تھا.مغرب کی طرف سے چڑھے اور نصف النهار تک پہنچتے ہیں.سو جب حضور نے اس خواب کی یہ تعبیر کی تو اس میں ا کا بر دین جن سے فائدہ دین کا پہنچے“ کے الفاظ سے میں اسی وقت یہ بات سمجھا کہ ایک آفتاب تو خود حضور ہیں اور دوسرے آفتاب کے لئے منتظر تھا.جب حضور نے ہوشیار پور سے پسر موعود کا اشتہار دیا تو اس وقت مجھ کو بہت خوشی ہوئی اور مجھے یقین ہو گیا کہ دوسرا آفتاب یہی ہے اور اس کو میں بخوبی دیکھوں گا.سو الْحَمْدُ لِلَّهِ کہ میں نے یہ دوسرا آفتاب بھی دیکھ لیا جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.
مکتوبات احمد ۱۹۵ مکتوب نمبر۴ جلد سوم از طرف خاکسار غلام احمد با خویم میاں عبداللہ صاحب بعد سلام مسنون یہ عاجز اب تک بیمار رہا ہے اور اب بھی طبیعت درست نہیں.اس لئے تحریر جواب سے مجبور رہتا ہے.طاقت تحریر جواب نہیں ہے.بحافظ رحمت اللہ صاحب سلام مسنون پہنچے.۱۴ رد سمبر ۱۸۸۴ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۵ مشفقی مکرمی میاں عبداللہ صاحب بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ چونکہ خطوط کے چھپنے میں ابھی دیر ہے.اس لئے مناسب ہے کہ آپ دو ہزار اشتہا را نگریزی لے کر قادیان چلے آویں اور جس روز یہ خط پہنچے اسی روز روانہ ہو آویں کہ میاں فتح محمد خاں انبالہ کی طرف جائیں گے اور اسی انتظار میں بیٹھے ہیں مگر توقف نہ ہو.فی الفور چلے آویں اور دو ہزار اشتہار لے آویں.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ( نوٹ ) یہ خط بھی حضور نے ۹ فروری ۱۸۸۵ء کو ہی لکھ کر مولوی عبداللہ صاحب کے نام ارسال فرمایا تھا جو • ار فروری کو لاہور میں پہنچا.جیسا کہ ڈاک خانہ کی مہر سے بھی ثابت ہوتا ہے.
مکتوبات احمد از عاجز غلام احمد بعد سلام مسنون ۱۹۶ مکتوب نمبر 4 جلد سوم مناسب ہے کہ آپ جلد تر کچھ خطوط مطبوعہ ساتھ لے کر (اگر سب کالا ناممکن نہ ہو ) آجائیں کہ دیر مناسب نہیں اور بر وقت آنے کے اشیاء مفصلہ ذیل ساتھ لاویں.پان عمدہ.کا تھا.چونہ.تمباکو زردہ جو پان میں کھاتے ہیں.مہندی.وسمہ یہ سب خرچ اور جو اپنے لئے ضرورت ہو منشی الہی بخش صاحب سے لے لیں اور کل خرچ کا حساب ساتھ لے آویں.اگر تین روز اور ٹھہر کر کام ہو سکتا ہو تو ٹھہر جاویں ورنہ آ جائیں.بخدمت منشی الہی بخش صاحب سلام مسنون.یکم مارچ ۱۸۸۵ء خاکسار غلام احمد مکتوب نمبرے السلام علیکم میری دانست میں اشاعت ہدایت کی طرف اشارہ ہے.واللہ اعلم.۲؍دسمبر ۸۵ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ از قادیان ( نوٹ ) جس رات نہایت کثرت کے ساتھ ستارے ٹوٹتے تھے.ان کو دیکھ کر مولوی عبداللہ صاحب نے حضور کی خدمت میں بذریعہ عریضہ ان کے متعلق استفسار کیا تھا جس کے جواب میں حضور نے یہ نوازش نامہ مولوی صاحب موصوف کو لکھا.ے مصنف عصائے موسیٰ.
مکتوبات احمد ۱۹۷ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مشفقی میاں عبداللہ صاحب ب نمبر ۸ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي بعد سلام مسنون.میں نے مناسب سمجھا ہے کہ چونکہ کام ابھی دس پندرہ روز کا معلوم ہوتا ہے.اس قدر عرصہ تک آپ کا امرتسر میں ٹھہرنا بے فائدہ ہے.سو بالفعل واپس چلے آویں اور مفصلہ ذیل چیزیں خرید کر لے آویں.پھولیل عمدہ.انگریزی چونہ در زعمارت مسجد بند کر نے کی.دو بیبه تیل مٹی.برک.انار عمدہ شیریں ۳ عدد.اگر انار عمدہ ملیں تو تین انار لیتے آنا ور نہ خیر اور آج تنخواہ میں ہیں رو پیشی امام الدین صاحب کو بھیجے گئے ہیں.اگر دو تین روپیہ کی ضرورت ہو تو ان سے لے لینا اور پیپہ تیل مٹی بٹالہ میں بر مکان مولوی غلام علی صاحب جو ذیل گھر میں رہتے ہیں ، چھوڑ آنا.یہاں سے کوئی آتا لے آئے گا.تاریخ مہر ڈاک خانہ قادیان ۲۷ جولائی ۸۶ء غلام احمد عفی عنہ ( نوٹ ) منشی امام الدین صاحب حضور کے کاپی نویس تھے.جن کی تنخواہ میں روپیہ ماہوار حضور کی طرف سے مقرر تھی.اس طرح پر کہ جب ضرورت ہوتی تو اسے امرتسر سے یہاں بلا لیا جا تا تھا اور بلانے پر آجاتا.معاہدہ کی رو سے اس کا فرض ہوتا تھا.معاہدہ یہ تھا کہ جب تک یہاں رہ کر کام کرے بیس روپیہ ماہوار اور کھانا اسے دیا جایا کرے گا.
مکتوبات احمد ۱۹۸ جلد سوم مکتوب نمبر 1 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ا خویم مکرم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.میں اس وقت بوجہ کثرت کا راس قد ر کم فرصت ہوں کہ بیان نہیں کر سکتا.تمہارے لئے کئی دفعہ دعا کروں گا کہ اللہ جل شانہ مشکل پیش آمدہ سے مخلصی عطا فرما دے.بخدمت مولوی صاحب کے سلام مسنون کہہ دیں.۳۰ / دسمبر ۱۸۸۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ از قادیان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ اب نمبر ۱۰ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ مناسب ہے کہ چند روز یا اگر فرصت ہو تو ایک دو ماہ کے لئے اس جگہ آجاؤ تا تبدیل خیال ہو.اللہ جل شانہ کے ہر ایک کام میں اسرار اور مصالح ہیں.بہشت کے وارث وہی متقی ہیں جو دنیا کا دوزخ اپنے لئے قبول کر لیتے ہیں.خدا را راضی کن تا جہاں از تو راضی شود - بخدمت مولوی محمد یوسف صاحب سلام مسنون تاریخ مہر ڈاک خانہ قادیان والسلام خاکسار ۸ فروری ۸۷ء غلام احمد عفی عنہ ے مولوی محمد یوسف صاحب جو مولوی عبد اللہ صاحب کے ماموں تھے.
مکتوبات احمد ۱۹۹ جلد سوم ( نوٹ ) حضرت مولوی عبداللہ صاحب نے فرمایا کہ میرا ایک خاص جگہ پر نکاح ثانی کا ارادہ تھا جس کے لئے میں کوشش کر رہا تھا چونکہ اس لڑکی کا والد حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کا معتقد تھا.اس لئے حضور نے بھی اس کے لئے بہت کوشش کی اور لڑکی کے والد کو خود حضور نے بڑے زور سے کہا اور جو جو عذر وہ پیش کرتا رہا ان سب کی حضور نے تردید کی اور آخر یہاں تک فرما دیا کہ ان سب باتوں کا مجھے آپ ضامن سمجھیں.مگر اس نے اپنی بیوی کی ناراضگی کا عذر کر کے صاف انکار کر دیا جس پر حضور فرماتے تھے کہ مجھے بہت رنج ہوا اور میں چاہتا ہوں کہ تازیست اس کی شکل نہ دیکھوں.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس کے بعد اسے حضور کی زیارت نصیب نہ ہوئی.جب حضور نے مجھے اس گفتگو کا واقعہ سنایا تو فرمایا کہ یہ کہتا ہے کہ میرا خدا اور میرا رسول اور میرا پیر میری بیوی ہے، جس جگہ وہ کہے گی وہاں کروں گا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے نکاح ثانی کے بارہ میں اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جو ایک سے زیادہ نکاح کے متعلق ہے، اسے سنایا اور نیز اسے خود بھی اس کے متعلق ارشاد فرمایا.جسے اس نے اپنی بیوی کی وجہ سے ڈر کر صاف انکار کر دیا.حضور کی اس کوشش سے قبل جب حضور نے اس بات کے لئے دعا فرمائی تھی تو حضور کو اس بارہ میں یہ تین الہام ہوئے تھے (۱) ” ناکامی (۲) اے بہا آرزو که خاک شده ۲ (۳) فَصَبْرٌ جَمِيلٌ کے ہاں اس سے قبل حضور نے اس رشتہ کے لئے اس شخص کو خط لکھا تھا جس کے بعد حضور کو الہام ہوا ” نا کا می“ پھر بعد والے اور اس الہامی اطلاع کے بعد اس شخص کی طرف سے بھی نفی میں جواب آ گیا.جس پر مجھے بہت گھبرا ہٹ ہوئی اور اس رشتہ سے نومید ہو گیا.اور حضور کی خدمت میں بھی عرض کیا کہ اب کوشش بے فائدہ ہے کیونکہ نہ صرف ان کی طرف سے انکار ہوا ہے بلکہ الہام کے ذریعہ سے بھی معلوم ہو چکا ہے کہ اس میں کامیابی نہیں ہو سکتی.تو حضور نے فرمایا کہ نہیں ہم کوشش نہیں چھوڑتے بلکہ اب ہم خود اسے کہیں گے اور فرمایا کہ جو تجویز میں اور تدبیر میں ہم نے اختیار کی تھیں ان میں بھی ناکامی ہو چکی ہے اور ممکن ہے کہ کسی اور طریق سے اللہ تعالیٰ ہمیں ۱، ۲، ۳ تذکره صفحه ۶۴۴ مطبوعه ۲۰۰۴ء
مکتوبات احمد ۲۰۰ جلد سوم کامیاب کر دے.کیونکہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ 1.ہر دن اس کی نرالی شان ہوتی ہے.اس سے چند روز بعد حسن اتفاق سے ایک جگہ پر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.حضور عشاء کی نماز کے بعد چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے اور چند معزز خدام بھی حاضر خدمت تھے.جن میں وہ شخص بھی تھا.حضور نے ان احباب سے فرما دیا تھا کہ اب آپ لوگ آرام کریں، ہمیں ان سے کچھ باتیں کرنی ہیں.وہ لوگ اُٹھ کر چلے گئے اور وہ شخص اٹھ کر حضور کے پاؤں دبانے لگ گیا.پیشتر اس سے کہ حضور کے ساتھ گفتگو شروع کرتے.کشف میں حضور نے دیکھا کہ اس شخص نے حضور کے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر دست ( اسہال ) پھر دیا اور پھر کشف ہی میں حضور نے دیکھا کہ اس کی دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت کٹ گئی ہے.حضور نے فرمایا کہ جب مجھے یہ کشف ہوا تو میں اس وقت سمجھ گیا تھا کہ اس معاملہ میں مجھے نہایت گندہ جواب دے گا.چنانچہ اس نے حضور کو ایسے ہی جواب دیئے جو اس نوٹ کے شروع میں درج کئے جاچکے ہیں.اس نشان کی طرف حضرت صاحب نے حقیقۃ الوحی میں میرا ذکر کر کے اشارہ فرمایا ہے.اس کے بعد اس نے اپنی اس لڑکی کا کسی دوسری جگہ نکاح کر دیا جس سے مجھے از سر نو پریشانی ہوئی.اس بات کی حضور کو اطلاع پہنچ گئی.جس پر حضور نے یہ خط نمبر ۱۲ لکھ کر مجھے اپنے پاس بلا لیا.جب اس نے اس لڑکی کا دوسری جگہ نکاح کر دیا تو اس کے بعد یہ واقعات اس کو پیش آئے کہ پہلے اس کا سب سے بڑا اور نو جوان لڑکا مر گیا.جس کا اسے بہت ہی صدمہ پہنچا.اس کے بعد اس کا پوتا چھوٹی عمر کا جوا سے بہت ہی عزیز تھا، مر گیا.اس کے بعد اس کا دوسرا نوجوان لڑکا مر گیا.اس کے بعد اس کی اسی بیوی کا انتقال ہو گیا اور ان سب کے واقعات وفات دیکھ کر آخر وہ خود بھی مر گیا اور اس کے مرنے کے بعد اس کی لڑکی کا خاوند بھی ایک لڑکا اور ایک لڑکی چھوڑ کر مر گیا اور وہ لڑکی بیوہ ہو گئی.میری دوسری شادی اس شخص کی زندگی میں ہی حضور نے ایک جگہ کرا دی تھی جو فریقین کے لئے بفضلہ تعالیٰ بہت ہی مبارک ثابت ہوئی.جب اس نے اس بات کو مشاہدہ کر لیا اور نیز اس پر مذکورہ بالا صدمات آئے تو وہ اپنے انکار پر بہت پچھتایا اور مجھے کہا کہ الرحمن: ٣٠
مکتوبات احمد ۲۰۱ جلد سوم آپ بذریعہ خط حضرت اقدس کے پاس میرے لئے سفارش کریں کہ حضور مجھے معافی دے دیں اور میری بیعت منظور فرماویں.چنانچہ میں نے حضور کی خدمت میں اس کی معافی اور بیعت کے لئے خط لکھ دیا.حضور نے اس کی بیعت منظور فرما لی.مکتوب نمبر مشفقی مکرمی میاں عبداللہ صاحب سلمہ بعد سلام مسنون.آپ بواپسی ڈاک یہ تحریر فرما دیں کہ آپ کے ضروری کام کس قدر عرصہ تک ختم ہو سکتے ہیں.اگر آپ کا حرج نہ ہو تو بہتر ہے کہ یکم اکتو بر ۱۸۸۷ ء تک ضرور اس جگہ پہنچ جائیں اور اگر کچھ حرج ہو تو اطلاع بخشیں.بخدمت مگر می مولوی و نیز حکیم صاحب سلام مسنون پہنچے.والسلام خاکسار ۱۱ر ستمبر ۱۸۸۷ء غلام احمد مکتوب نمبر ۲ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي مشفقی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلّمۂ تعالیٰ بعد سلام مسنون اب کام بہت قریب ہے.آپ کو اگر فرصت ہوا اور کسی قسم کا حرج قلیل یا کثیر نہ ہو تو آنا چاہئے اور اگر حرج ہو تو اطلاع دینا چاہئے.جواب سے جلدی مطلع کریں.۲۶ ؍ستمبر ۱۸۸۷ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد ۲۰۲ جلد سوم مکتوب نمبر ۱۳ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مشفقی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کے تفرقہ اور واقعہ وفات آپ کی دادی صاحبہ سے بہت حزن و غم ہوا.خدا تعالیٰ آپ کو تسلی بخشے.میں تم پر بہت راضی ہوں اور جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے دل میں خلوص اور محبت بھری ہوئی ہے اور لوگوں کے بگڑنے اور بدظن ہو جانے سے مجھے اندیشہ نہیں بلکہ راحت ہے.خس کم جہاں پاک.میں مخلوق پرست نہیں ہوں کہ مخلوق کی دوستی یا دشمنی پر نظر رکھوں.زیادہ خیریت ہے.۲۸ /اکتوبر ۱۸۸۷ء والسلام.خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۱۴ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مشفقی مکرمی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.بشیر احہ سخت ہو گیا تھا.یہاں تک کہ تین مرتہ اس پر ایسی نوبت آئی کہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا آخری دم ہے مگر اب بفضلہ تعالیٰ بہت آرام ہے.میاں اسمعیل کے وفات فرزند محل غم واندوہ ہے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - اسمعیل بیچارہ پر بڑا صدمہ ہوا.خدا تعالیٰ اسے صبر بخشے.میں نے ایک اشتہار آپ کی خدمت میں بھیجا تھا.یقین کہ پہنچ گیا ہو گا.ہمیشہ خیر و عافیت سے مطلع فرماتے رہیں.۱۱/ اگست ۱۸۸۸ء والسلام.خاکسار غلام احمد از قادیان بشیر اول یہاں پر ” بیمار“ کا لفظ اصل خط سے ہی رہ گیا ہوا ہے.اس لئے یہاں جگہ خالی چھوڑی گئی ہے.
مکتوبات احمد ۲۰۳ جلد سوم مکتوب نمبر ۱۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مشفقی عزیزی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کل کی ڈاک میں آپ کا خط پہنچ کر موجب خوشی و خرمی ہوا.میں آپ کے اخلاص اور محبت سے شکر گزار ہوں.جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرًا.آج چند اشتہار بھیجے جاتے ہیں اور سب طرح سے خیریت ہے.بشیر احمد بفضلہ تعالیٰ صحیح و تندرست ہے گویا نئے سرے اللہ تعالیٰ نے اس کے قالب میں جان ڈالی ہے.مولوی محمد یوسف صاحب و دیگر احباب کو السلام علیکم.۲۳ اگست ۱۸۸۸ء مکتوب نمبر 4 خاکسار غلام احمد از قادیان ( منقول از نسخه منقولہ جو خود حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے نقل کروا کر اس کے آخر پر خود دست مبارک سے حسب ذیل کلمات تحریر فرمائے.) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مشفقی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته میں نے مناسب سمجھا کہ ایک نقل جواب مولوی حکیم نورالدین صاحب آپ کی خدمت میں روانہ کروں.سو بھیجتا ہوں.باقی خیریت ہے.ہمیشہ اپنے حال خیریت مال سے مطلع فرماتے رہیں.۲۸ نومبر ۱۸۸۸ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد ۲۰۴ جلد سوم مکتوب نمبر۱۷ عزیزی اخویم میاں عبد اللہ صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.آپ کی رؤیا انشاء اللہ القدیر نہایت عمدہ ہے.بہر حال جلد یا دیر سے اس کا ظہور ہو جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ میں نے رفع وساوس خام طبع لوگوں کے لئے چند اشتہار چھپوائے ہیں.امرتسر میں چھپ رہے ہیں.جب آئیں گے تو اشتہار بھیجا جائے گا.۱۷/دسمبر ۱۸۸۸ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۱۸ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۱۹ جمادی الاول کو میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے جس کا نام بطور تفاؤل بشیر الدین احمد رکھا گیا.بروز جمعہ اس کا عقیقہ ہے اطلاعاً لکھا گیا.۱۵/جنوری ۱۸۸۹ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد ۲۰۵ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر 1 ۱۹ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آپ کا اخلاص نامہ پہنچا.چونکہ مجھے پہلے سے آپ کے آنے کی بہت ضرورت ہے.اس لئے آپ کی تحریر سے مجھے بہت خوشی ہوئی.امید کہ بلا توقف دو چار روز تک ہی آجائیں.یہ عاجز ا کثر بیمار رہتا ہے.لوگوں کے خطوط کا جواب بھی نہیں لکھا جاتا.امید ہے کہ آپ ہر یک طرح کا کام محض لِلہ کر کے مجھے آرام پہنچائیں گے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى.۲۲ / جنوری ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد از قادیان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مشفقی مجسی میاں عبداللہ صاحب سلّمۂ تعالی نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.خط کے پڑھنے کے بعد آپ کے لئے دعا کی گئی.خدا تعالیٰ آپ کے ترددات دور فرمادے.آمین.اور دین میں استقامت بخشے.آمین.رو بق ہونا صرف ایک ہی خیال سے پیدا ہو جاتا ہے.جلد جلد اپنے حالات خیریت سے مطلع فرمایا کریں.والسلام ۱۲؍ جولائی ۱۸۸۹ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ۲۰۶ جلد سوم مکتوب نمبر ۲۱ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مشفقی اخویم میاں عبداللہ صاحب سنوری نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ میں سترہ روز سے لودہانہ میں آیا ہوا ہوں.محلہ اقبال گنج اترا ہوا ہوں.آپ کو اطلاع دی گئی تھی مگر کمال افسوس کہ آپ کا خط تک نہیں آیا.ابھی میں ۴ / مارچ ۹۰ ء تک اسی جگہ ہوں اس لئے مکلف ہوں کہ اپنی خیریت سے اطلاع دیں اور اگر ایک دن کے لئے آجائیں تو بہت خوب.راقم از طرف حامد علی اور حافظ نور احمد السلام علیکم ۲۲ فروری ۱۸۹۰ء غلام احمد از لودہانہ اقبال گنج مکتوب نمبر ۲۲ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مشفقی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلّمۂ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عرصہ دو ماہ سے یہ عاجز بیمار ہے.پہلے دنوں میں بیماری کی ایسی شدت ہوئی تھی.بظاہر امید زندگی منقطع ہو چکی تھی بلکہ خبر وفات مشہور ہوگئی تھی.اب بفضلہ تعالیٰ بہت کچھ آرام ہے.مگر تا ہم ضعف و ناتوانی اس قدر ہے کہ خط لکھنا تو درکنار، خط لکھوانا بھی مشکل ہے اور ہر طرف سے خط بکثرت آتے ہیں.آپ اگر براہ مہربانی اس وقت اپنے وعدہ کا ایفا فرما دیں.یعنی ایک دو ماہ تک یہاں رہ جاویں تو مجھ کو بہت مدد ملے گی اور آپ کو ثواب ہو گا.بخدمت مولوی محمد یوسف صاحب السلام علیکم.براہ مہربانی یہ خط جہاں میاں عبداللہ صاحب ہوں.وہیں پہنچا دیں.والسلام مرسله مرزا غلام احمد از قادیان ۳۱ رمئی ۹۰ء یه خط و نیز خطوط نمبر ۲۳ لغایت ۲۵ حضرت اقدس کے اپنے دست مبارک کے لکھے ہوئے نہیں مگر لفظ بہ لفظ لکھوائے ہوئے حضرت اقدس ہی کے ہوتے ہیں.واللہ اعلم )
مکتوبات احمد ۲۰۷ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۲۳ مشفقی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم و رحمۃ اللہ جلد سوم آپ کا خط پہنچا.چونکہ میں ایک عرصہ سے بیمار ہوں اور بہت ناطاقت ہو گیا ہوں.اس لئے مجھے سے خطوط کا جواب نہیں لکھا جاتا.اگر آپ ایسے موقع پر دو مہینے کے لئے آجائیں تو بہتر ہوگا.امید ہے کہ ہفتہ دو ہفتہ تک وصولی مالیہ سے فراغت ہو جائے گی.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۳/ جون ۹۰ء مرسله مرزا غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۲۴ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مشفقی اخویم میاں عبداللہ صاحب نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ آپ کا خط پہنچا.میری طبیعت بہ نسبت سابق رو بصحت ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ.آپ بعد وصول مالیہ اس جگہ آنے کا قصد کریں.عوضی مقرر کرا کر رخصت حاصل نہ کریں.بعد وصولی مالیہ بہ تسکین تام رخصت لے کر آرام سے آجاویں.جلدی نہ کریں تا کہ حرج نہ ہو.زیادہ خیریت ہے.۷ ارجون ۹۰ء والسلام مرسله مرزا غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد ۲۰۸ جلد سوم مکتوب نمبر ۲۵ مشفقی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ آپ کا کارڈ پہنچا.پہلے خط کا جواب دیا گیا.اب میرا ارادہ ہے کہ ایک دو مہینے کے واسطے بغرض تبدیل آب و ہوا دس بارہ روز تک بمقام لدھیا نہ جاؤں گا.آپ کو اطلاع دی جاتی ہے.آپ بعد فراغت از کام وفرائض منصبی اپنے کے رخصت لے کر آرام سے آویں.والسلام ۲۰ / جون ۹۰ء مرسله مرزا غلام احمد قادیان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مشفقی اخویم مکتوب نمبر ۲۶ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.یہ عاجز بمقام لدھیانہ محلہ اقبال گنج.مکان شہزادہ حیدر مقیم ہے.اسی جگہ پر آپ تشریف لا دیں.بوجہ علالت وضعف زیادہ نہیں لکھ سکا.والسلام ۱۵ جولائی ۹۰ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ از لدھیانہ محلہ اقبال گنج
مکتوبات احمد ۲۰۹ جلد سوم مکتوب نمبر ۲۷ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مشفقی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم و رحمۃ اللہ نہایت تعجب کا مقام ہے کہ پھر نہ آپ آئے اور نہ کوئی خط آیا.سخت حیرانی اور تفکر ہے.مناسب ہے کہ بوالپسی ڈاک اپنے حالات خیریت سے اطلاع دو.اور یہ بھی کہ اب آنا ہو سکتا ہے یا نہیں.میں نے سنا تھا کہ باعث کارو بار مردم شماری اب آنا مشکل ہے.ضرور اپنے حال سے بہت جلد اطلاع دیں.۴ ستمبر ۱۸۹۰ء والسلام خاکسار غلام احمد از لدھیانہ مکتوب نمبر ۸ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي مشفقی اخویم میاں عبد اللہ صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ آپ کا محبت نامہ پہنچ کر باعث تسلی ہوا.یہ عاجز ابھی اگر خدا تعالیٰ نے چاہا اخیر ستمبر تک اسی جگہ لدھیانہ میں ہی ہے.باقی خیریت ہے.بخدمت سید محمد شاہ صاحب السلام علیکم.والسلام ۹ ستمبر ۱۸۹۰ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ۲۱۰ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۲۹ مشفقی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ تعالیٰ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم و رحمۃ اللہ یه عاجز بتاریخ ۱۵ را کتوبر ۱۸۹۰ء بروز بدھ بر وقت ۱۲ بجے دن کے انشاء اللہ القدیر قادیان کی طرف روانہ ہو گا.اس لئے اطلاع کرتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو ملنے کے لئے آجائیں اور اگر حرج کا رہو تو خیر.کسی دوسرے وقت ملاقات ہو جائے گی.اپنی خیریت سے مطلع فرماویں.والسلام ۱۲ اکتوبر ۱۸۹۰ء مکتوب نمبر ۳۰ مشفقی و محی اخویم میاں عبداللہ صاحب خاکسار غلام احمد عفی عنہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پس از سلام مسنون.واضح رہے کہ آپ کا کارڈ مورخہ پہنچا.امر معلومہ لے کے واسطے کوشش کی گئی ہے اور حسب درخواست آپ کے ایک شخص کو اس امر کے واسطے کہہ دیا گیا ہے، بندوبست ہو رہا ہے.جس وقت معاملہ طے ہو جاتا ہے آپ کو اطلاع دی جائے گی.مناسب یہ ہے کہ آپ اختتام مردم شماری کے بعد یہاں قادیان میں آویں اور ضرور آویں.بالمشافہ اس امر معلومہ پر زیادہ گفتگو کی جائے گی.ایک جدید رسالہ بنام فتح اسلام تیار ہوا ہے اور مطبع میں زیر طبع ہے.عنقریب شائع ہوا چاہتا ہے.یہ رسالہ دنیا میں ایک بالکل بظا ہر نئی مگر در اصل قدیم بات کا ظاہر کرنے والا ہو گا.آپ عنقریب اس کو مطالعہ کریں گے.بعد اس کے کہ مطبع سے نکلتا ہے.آپ کے پاس بھیج دیا جائے گا اور سب طرح فضل الہی سے خیریت ہے.۲۹ دسمبر ۱۸۹۰ء راقم مرزا غلام احمد از قادیان یہ خط بھی حضرت اقدس کا اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا نہیں ہے بلکہ کسی اور شخص کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے ) ے مولوی صاحب کا نکاح ثانی
مکتوبات احمد ۲۱۱ مکتوب نمبر ۳۱ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي جلد سوم مجی اخویم منشی عبداللہ صاحب سلّمهُ رَبُّهُ السلام علیکم رحمۃ اللہ وبرکاتہ کے بعد مد عا یہ ہے کہ خط مرسلہ آپ کا آیا.حال معلوم ہوا.آپ کے کام کا انتظام در پیش ہے.آپ تسلی رکھو اور دعا بھی کروں گا.والسلام خیر الختام از بنده خدا بخش جالندھری شیخ حافظ حامد علی السلام علیکم مرزا غلام احمد ۲ جنوری ۹۱ء از قادیان اور یہ خط ۳۱ بھی مثل خط نمبر ۳۰ حضور کا اپنے دست مبارک کا لکھا ہوا نہیں ہے ) مکتوب نمبر ۱۳۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ اخویم محبی نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا.آپ کے لئے دعا کی گئی اور حوالہ بخداوند کریم کیا گیا.آپ ضرور دو ماہ کے لئے میرے پاس آجادیں کہ میرے پاس خطوط کا کام بہت ہے اور میں ایک طرف بیمار ہوں.ایک طرف کام بہت ہے.سخت لاچار ہوں.مکان وہی لدھیا نہ محلہ اقبال گنج ہے.والسلام ۱۵/ مارچ ۱۸۹۱ء خاکسار مولوی عبداللہ صاحب کا نکاح ثانی غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ۲۱۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۳۳ مجی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جلد سوم دس روپیہ آپ کے پہنچ گئے.جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرًا.آپ کے تفکر پیش آمدہ کی نسبت ضرور تحریر فرما دیں کہ اب اس سے ہر طرح خدا تعالیٰ نے نجات بخشی ہے.باقی خیریت ہے.۱۷ مارچ ۱۸۹۱ء والسلام خاکسار بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مشفقی اخویم مکتوب نمبر ۱۳۴۷ غلام احمد از قادیان نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ ایک اور ضروری کام ہے.آتے ہوئے ایک روپیہ کے چوزہ مرغ یعنی ایسے مرغ جو کم عمر ہوں.چھ مہینہ سے زیادہ کے نہ ہوں.ضرور خرید کر لے آویں اس جگہ سے وہ سب روپیہ انشاء اللہ دیا جائے گا.چار روپیہ کا روغن اور ایک روپیہ کے مرغ نوجوان.کل پانچ روپیہ.والسلام بخدمت سید محمد شاہ صاحب السلام علیکم ۲۶ جولائی ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ از لدھیانہ محلہ اقبال گنج
مکتوبات احمد ۲۱۳ جلد سوم مکتوب نمبر ۳۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مشفقی محبی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ تعالیٰ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کارڈ پہنچا مگر ایسے وقت میں کہ میں بوجہ خارش بہت تکلیف میں تھا.میں انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے بہت دعا کروں گا.میں چند ہفتہ سے بہت علیل ہوں.خدا تعالیٰ آپ کی پریشانی دور فرما دے.وہ ہر چیز پر قادر ہے.از حامد علی صاحب السلام علیکم ۵/ دسمبر ۹۱ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۶ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ اس وقت ایک رسالہ ”نشانِ آسمانی آپ کی خدمت میں ارسال ہے اور رسالہ ” دافع الوساوس“ طبع ہو رہا ہے.شاید دو ماہ تک چھپ جائے.دیکھئے آپ کی ملاقات کب ہوتی ہے.اپنی ملاقات سے مسرور الوقت کرتے رہیں.۲۳ / جولائی ۱۸۹۲ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد ۲۱۴ جلد سوم مکتوب نمبر ۳۷ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مجی عزیزی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.آپ کے مقدمہ کے لئے بحضرت عزت جل شانه و عزّ اسمه دعا خیر کی گئی.اللہ جلّ شانہ منظور فرما دے.آمین ثم آمین.آپ کے آنے کی خوشخبری سے بہت خوشی ہوئی.کتاب آئینہ کمالات اسلام چھپ رہی ہے.باقی سب خیریت ہے اور آپ کی انتظار.والسلام ۲ ستمبر ۱۸۹۲ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۳۸ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عزیزی محبی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا.خدا تعالیٰ آپ کو کامیاب کرے.دعا کی گئی ہے.امید ہے کہ تا دست داد ملاقات اپنے حالات خیریت سے مطلع فرماتے رہیں.باقی خیریت ہے.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
مکتوبات احمد ۲۱۵ جلد سوم ( مکتوب نمبر ۳۹ مکتوب حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ جو حضرت ممدوح نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حکم سے جناب مولوی عبداللہ صاحب سنوری کو بھیجا ) السلام علیکم آج صبح کے آٹھ بجے تین شوال ،۲۰ را پریل ۱۸۹۳ء حضرت کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا.مبارک باد.سب احباب کو اطلاع دے دینا.۲۰ را پریل ۶۹۳ والسلام نورالدین از قادیان مکتوب نمبر ۴۰ مجی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ میں کل قریباً ایک ماہ سفر میں رہ کر قادیان میں آیا ہوں.امید کہ اپنے صاحبزادہ کی خیر و عافیت سے مطلع فرما دیں.۱۵/ دسمبر ۱۸۹۳ء والسلام خاکسار غلام احمد
مکتوبات احمد ۲۱۶ جلد سوم مکتوب نمبر ۴۱ عزیزی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ السلام علیکم میں نے دعا کی ہے اور بدل و جان آپ کے لئے دعا کروں گا.خدا تعالیٰ آپ پر اپنا فضل شاملِ حال رکھے.آمین ثم آمین.اس وقت نہایت کم فرصتی ہے اس لئے کم لکھا.۲۶ فروری ۱۸۹۴ء والسلام خاکسار غلام احمد مکتوب نمبر ۴۷۲ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مجی عزیزی اخویم میاں عبد اللہ صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں بوجہ علالت طبیعت جلدی سے جواب نہیں لکھ سکا.جو کچھ آپ نے مجھ سے مشورہ لینا چاہا ہے.میری دانست میں اس کام میں بہت احتیاط اور سوچ لینا چاہئے اور میری دانست میں جب تک آپ نہ دیکھ لیں.جلدی نہیں کرنا چاہئے.بوجہ علالت زیادہ نہیں لکھ سکا.مگر اس بات کو خوب یا درکھیں.بخدمت اخویم سید محمد شاہ صاحب السلام علیکم ۲۵ / مارچ ۱۸۹۴ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد ۲۱۷ جلد سوم (نوٹ) یہ مشورہ مولوی عبداللہ صاحب نے ایک جگہ پر اپنے نکاح ثانی کے متعلق بذریعہ عریضہ حضور سے لیا تھا.جس کی تاریخ نکاح ۲ شوال ۱۳۱۱ ھ بھی اور دوسور و پیر مہر بھی مقرر ہو چکا تھا.مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے محض تبر کا حضور سے اس بارے میں مشورہ طلب کیا تھا اور اپنے عریضہ میں ظاہر بھی کر دیا تھا کہ تمام امور طے ہو چکے ہیں.صرف تبرک کے لئے حضور سے مشورہ طلب کیا ہے.جس پر حضور نے یہ جواب لکھ کر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کی اشد تا کید فرمائی.چنانچہ میں حضور کے اس ارشاد کی بنا پر رمضان شریف ہی میں غوث گڑھ سے دو تین احباب کو ہمراہ لے کر اس گاؤں میں پہنچا اور جا کر کشیم خود اس لڑکی کو دیکھا.وہ کوئی بدشکل نہیں تھی مگر مجھے اس کی شکل دیکھتے ہی اس سے اس قدر نفرت اور کراہت ہوئی کہ جس کو میں بیان نہیں کر سکتا.اس وجہ سے اس نکاح کی تجویز منسوخ کی گئی اور میرا ایمان حضرت اقدس پر اور بھی بڑھ گیا.مکتوب نمبر ۴۷۳ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي مشفقی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ اپنے والد صاحب کی طبیعت کا حال لکھیں.ابھی اشتہار چار ہزار چھپ کر نہیں آیا.جس وقت آئے گا.انشاء اللہ آپ کی خدمت میں مرسل ہوگا.۲۳ اکتوبر ۱۸۹۴ء والسلام خاکسار غلام احمد وو ے چار ہزار روپیہ والا اشتہار جو تھم کے متعلق شائع فرمایا تھا.
مکتوبات احمد ۲۱۸ جلد سوم مکتوب نمبر ۴۴۷ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کے والد صاحب کی صحت سے خوشی ہوئی.اب آپ کو خدا تعالیٰ مقدمات کے ہم وغم سے نجات بخشے.آج میں نے آپ کے لئے جناب باری تعالیٰ میں دُعا کی.اللہ تعالیٰ آپ پر خاص فضل کرے.آمین ثم آمین.امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں.والسلام یکم نومبر ۹۴ء آپ کے پاس اشتہار تین ہزار و چار ہزار پہنچ گئے یا نہیں.خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۴۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي مجی و مشفقی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته آپ کے لئے حضرت باری عزاسمہ میں تہجد میں دعا کی گئی.امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع و مسرور الوقت فرما دیں اور اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے.اپنی خیریت عافیت سے جلد مطلع فرما دیں.۱۲/ نومبر ۱۸۹۴ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ۲۱۹ جلد سوم ( نوٹ ) مولوی عبد اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے اس دُعا کی قبولیت ایک عظیم الشان نشان کی صورت میں دیکھی جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک دفعہ محکمہ نظامت بسی (ریاست پٹیالہ ) میں ایک مال کے مقدمہ میں ایک شہادت کے لئے میری طلبی ہوئی تھی اور میرا ارادہ اس رمضان میں غوث گڑھ کی مسجد میں اعتکاف کرنے کا تھا.ناظم صاحب بھی چونکہ مسلمان اور پابند صوم وصلوٰۃ تھے.میں نے پروا نہ طلبی پر رپورٹ کر دی کہ یہ میرے اعتکاف کے دن ہوں گے.اس لئے مہربانی فرما کر کوئی اور تاریخ مقرر فرما دیں.اس پر میں حاضر ہو جاؤں گا.اس رپورٹ کے پیش ہونے پر ناظم صاحب نے اس غصہ میں آکر کہ ہمارے حکم کی تعمیل نہیں کی مجھے معطل کر دیا اور اسی تاریخ پر حاضری کا مجھے مکر رحکم بھیج دیا.میں اعتکاف تو ڑ کر کسی میں حاضر عدالت ہو گیا.دو مہینہ بھر میں وہاں ہر روز کچہری میں پورے وقت کے لئے حاضر ہوتا رہا کوئی پیشی نہ ہوئی.جس پر میرے ایک عزیز بھائی ہاشم علی صاحب زراہ ہمدردی میرے پاس وہاں بسی میں پہنچے اور مجھ سے کہا کہ اس طرح پر تو معلوم نہیں آپ کو کب تک یہاں بیٹھے رہنا پڑے.میں اس ناظم کے کسی رشتہ دار کی اس کے پاس سفارش لے آتا ہوں.یہ حاضر کر لے گا.میں نے انہیں جواب دیا کہ آپ مجھے اس بارہ میں حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام سے اجازت لے لینے دیں.اس کے بعد جس طرح پر ارشاد ہو گا کریں گے.چنانچہ میں نے حضور کی خدمت میں اس بارہ میں مفصل عریضہ لکھ دیا اور اس میں لکھا کہ اگر حضور ا جازت دیں تو اس کے پاس کسی کی سفارش کرالی جائے.میرے اس عریضہ کے جواب میں حضور نے یہ خط خاکسار کو لکھا جس میں یہ بشارت تھی کہ اس کے لئے حضرت باری عزاسمہ میں تہجد میں دعا کی گئی.مجھے اس والا نا مہ کے پہنچتے ہی اطمینان ہو گیا اور میں نے منشی ہاشم علی صاحب کو کہہ دیا کہ اب کسی سفارش کی ضرورت نہیں کیونکہ حضرت صاحب نے خدا تعالیٰ کی جناب میں سفارش فرما دی ہے اور مجھے اطمینان ہو گیا ہے کہ اب میرا کام بن گیا ہے.اس کے بعد منشی ہاشم علی صاحب واپس چلے گئے اور اس سے تین چار روز بعد میری پیشی ہوگئی.ناظم صاحب نے اظہار افسوس کے ساتھ اپنے حکم کو واپس لیا اور مجھے کام پر واپس حاضر کر دیا اور ایام معطلی کی تنخواہ
مکتوبات احمد ۲۲۰ جلد سوم بھی دلا دی.اور پھر اسی پر بس نہیں کی بلکہ میں جب اپنے حلقہ میں چلا گیا.تو اس کے پندرہ بیس روز کے بعد اپنا ایک خاص آدمی میرے پاس بھجوا کر مجھے اپنے پاس بلوایا اور ایک اپنا خاص اعتباری نج کا کام میرے سپرد کر دیا اور مجھ کو بر کمان اپنے پاس رکھ لیا اور میری جگہ پر میری خواہش اور درخواست کے مطابق میرے ایک شاگر دعزیز عطاء الہی کو جو غوث گڑھ کا رہنے والا ہے اس حلقہ غوث گڑھ پر میرا قائم مقام پٹواری کر دیا.میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے اس کام کو عرصہ ایک سال میں بہت عمدگی کے ساتھ سرانجام دیا جس سے اسے بہت ہی خوشی ہوئی.اس عرصہ میں اُس نے اپنے ماتحت ایک آسامی پر جس کی تنخواہ میری اس وقت کی موجودہ تنخواہ سے دو چند سے بھی زیادہ تھی بغیر میری خواہش اور اطلاع کے مجھے ترقی دلا دی اور اس کی منظوری بھی لے لی.اس کے بعد مجھے اس نے اطلاع دی.لیکن یہ بات مجھے پسند نہ آئی کیونکہ میں غوث گڑھ ہی میں رہنا پسند کرتا تھا.جب اس کی منشا کے مطابق میں اس کے کام کو سرانجام دے چکا اور اس سے فارغ ہو گیا تو چونکہ وہ کام اس کے بہت بڑے دنیوی فائدہ کا تھا.اس لئے وہ بہت ہی خوش ہوا اور اس موقع پر اس نے نوکروں کو انعامات دیئے.اس وقت میں نے موقع پا کر اُس سے کہا کہ آپ مجھے بھی کچھ انعام دیجئے.اُس نے کہا اچھا کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا کہ آپ مجھے خوشی سے علاقہ غوث گڑھ میں عہدہ پٹوار پر ہی واپس کر دیں.میں ترقی لینا نہیں چاہتا اس پر وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ تو تو بیوقوف ہے.تیرے ساتھ میں بھی بیوقوف بن جاؤں.میں تو تجھ کو اس سے بھی زیادہ ترقی دے کر اپنی پیشی میں رکھنا چاہتا ہوں.میں نے اپنی بات پر اصرار کیا اور کہا کہ میں یہاں نہیں رہنا چاہتا.آپ مجھے پٹوار پر حلقہ غوث گڑھ میں واپس کر دیں.اس کے بعد میرے والد صاحب اور دوسرے اقرباء کو اس بات کا علم ہوا کہ وہ ناظم مجھے اپنی پیشی میں رکھنا چاہتا ہے اور میں انکار کر رہا ہوں اور پٹوار پر غوث گڑھ واپس آنا چاہتا ہوں.اس بات سے میرے والد صاحب و دیگر متعلقین سب ناراض ہوئے.آخر میں نے یہ معاملہ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا.حضور نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک آپ کا غوث گڑھ میں رہنا مفید ہے.اس پر میں نے سب کو قطعی جواب
مکتوبات احمد ۲۲۱ جلد سوم دے دیا اور ناظم صاحب کو بھی کہہ دیا کہ میں واپس ہی جاؤں گا.آخر انہوں نے افسوس کے ساتھ لکھا کہ میں نے تو تمہیں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ایسا چاہا تھا.اگر ایسا نہیں چاہتا تو میں اجازت دیتا ہوں.آخر میں واپس اپنے حلقہ غوث گڑھ میں آ گیا.اس وقت وہ ترقی کر کے میر منشی ہو گیا تھا.مجھے غوث گڑھ میں واپس آنے سے بہت فائدے پہنچے چنانچہ تمام گاؤں احمدی ہو گیا.وہ میرے غوث گڑھ واپس آجانے اور خود بڑے عہدہ پر ہو جانے کے بعد بھی میری بہت عزت کرتا تھا اور اکثر میری سفارشیں منظور کیا کرتا تھا.اب کچھ عرصہ سے فوت ہو چکا ہے.مکتوب نمبر ۴۰۶ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي مجی عزیزی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ امید کہ اپنی خیر خیریت اور حالات خیریت آیات سے مطلع و مسرور الوقت فرما دیں اور اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے.۷ / دسمبر ۱۸۹۴ء والسلام خاکسار غلام احمد
مکتوبات احمد ۲۲۲ جلد سوم مکتوب نمبر ۴۷ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی عزیزی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کی خدمت میں خط تو کئی بھیجے گئے مگر چونکہ پتہ درست نہ تھا.اس لئے غالبا نہیں پہنچے ہوں گے.کل آپ کے خط پہنچنے سے خوشی ہوئی کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے ایک بلا سے نجات دی اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کے والد صاحب کو بھی جلد شفا بخشے.آمین.امید ہے کہ خیر خیریت سے جلد اطلاع بخشیں ( گے ).۱۰ر دسمبر ۱۸۹۴ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۴۸ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی عزیزی میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا محبت نامہ مجھ کو ملا.امید کہ اپنی صحت تندرستی سے بہت جلد اطلاع دیں.اللہ تعالیٰ آپ کو جلدی شفا بخشے اور غم وہم دور کرے.آمین.۲۸ را پریل ۱۸۹۵ء والسلام خاکسار غلام احمد
مکتوبات احمد ۲۲۳ جلد سوم مکتوب نمبر ۴۹ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم میاں عبداللہ صاحب سنوری سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ایک مدت کے بعد آپ کا محبت نامہ پہنچا.مقام شکر ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو ہم وغم سے نجات بخشی.وہ غفور ورحیم ہے اور آخر بندوں پر رحم کرتا ہے اور جو آپ نے اپنی غفلت کا حال لکھا ہے.عزیز من! در حقیقت نہایت خوف کی جگہ ہے.یہ زندگی جس کے ساتھ ہزار ہا بلائیں اور خوفناک مرضیں اور انواع واقسام کی مصیبتیں لگی ہوئی ہیں وہ بجز خدا تعالیٰ کے رحم کے بسر نہیں ہوسکتی.پس ہر ایک رات اور دن میں خدا تعالیٰ سے ڈرنا اور اپنے اعضاء کو بدیوں سے بچانا جان گداز مصیبتوں سے بچنے کے لئے اس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں.انسان کا وجود ایک طرفتہ العین کے لئے بھی اپنی زندگی کا مالک نہیں.رات کو ہنستا سو دے اور دن کو روتا اُٹھے.یہی دنیا کی وضع ہے.جس کی پناہ سے ہر ایک دم گزرتا ہے.اگر وہی ناراض ہو تو پھر کیا ٹھکانا ہے؟ مناسب کہ بہت استغفار کرتے رہیں اور اللہ جل شانہ کی عظمت اپنے دل میں بٹھا وہیں اور میں نے آپ کے تقوی اور استقامت ایمانی اور صراط مستقیم کے لئے دعا کی ہے.اللہ جل شانہ قبول فرما دے اور کبھی کبھی اگر رخصت مل سکے تو ضرور ملا کریں.رسالہ ”نور القرآن جواب چھپا ہے شاید آپ کو پہنچا ہو گا اور ایک اور کتاب نہایت لطیف چھپ رہی ہے.چونکہ عمر کا اعتبار نہیں معلوم نہیں کہ کس وقت اس کا ئنات عائم سے گزر جائیں اس لئے یہی دعا اور مدعا ہے کہ دینی خدمات حسب المراد ہم سے صادر ہوں.باقی سب خیریت ہے.۱۴ جون ۱۸۹۵ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ۲۲۴ جلد سوم مکتوب نمبره بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ ۲۲ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مبلغ بائیں رو پے حسب تفصیل آپ کے خط کے مجھ کو پہنچ گئے مگر مجھ کو ان لفظوں سے سخت حیرانی ہوئی جو آپ نے اپنی نسبت استعمال کئے ہیں.اس واسطے اطلاع دیں تا اگر کوئی امر قابل دعا ہو تو آپ کے لئے دعا کی جائے.ایسے الفاظ استعمال کرنا منع ہے.لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ " ۴ جنوری ۱۸۹۶ء ہے.والسلام خاکسار غلام احمد آپ کا اقرار تھا.ایسا ہی مجھ کو یاد ہے کہ کچھ مدت رخصت لے کر یہاں رہیں گے.اللہ تعالیٰ یہ موقعہ کرے کہ آپ رخصت لے کر آویں.مولوی عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ جن الفاظ کی طرف حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے اشارہ فرمایا ہے.وہ یہ ہے کہ مجھے اپنا نام ”عبداللہ لکھتے ہوئے اپنی حالت پر نظر کر کے شرم آئی اور میں نے اپنے خیال پر نظر کر کے خط کے نیچے اپنا نام بجائے عبداللہ لکھنے کے ” عبد الشیطان“ لکھ دیا جس پر حضور نے ہدایت فرمائی.الزمر : ۵۴
مکتوبات احمد ۲۲۵ جلد سوم مکتوب نمبر ۵۱ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آپ کا عنایت نامہ پہنچا.آپ کو ضرور آنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ رخصت منظور ہو جاوے.میں اس وقت علیل ہوں.زیادہ نہیں لکھ سکا.۱۵/فروری ۱۸۹۶ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ از قادیان مکتوب نمبر ۵۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ محبی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط پہنچا.مقدمہ کی فتح آپ کو مبارک ہو.اور اس جگہ آپ کی انتظار لگی ہوئی ہے ،ضرور آویں مگر ایک مہینہ سے رخصت کم نہ ہو.اس سے پہلے بھی ایک خط روانہ کر چکا ہوں.اب احتیاطاً دوسراخط لکھا گیا ہے.باقی خیریت ہے.۲۸ فروری ۱۸۹۶ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ۲۲۶ جلد سوم مکتوب نمبر ۵۳ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محبی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ چونکہ میاں غلام قادر کی طبیعت اچھی نہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ روز بروز کمزور ہوتی جاتی ہے.ابھی تک کچھ فائدہ نہیں معلوم ہوتا.اس لئے آپ خود آ کر یا کسی دوسرے کو بہت جلد بھیج کر اس بات کی تحریک کریں کہ کسی طرح وہ سنور میں چلے جائیں.شاید تبدیلی ہوا سے خدا تعالیٰ فضل کرے.اس میں تو قف نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اگر حالت زیادہ خراب ہو تو پھر سفر مشکل ہے.۹ را پریل ۱۸۹۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۵۴ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آپ کا کارڈ پہنچا.بہت خوشی کی بات ہے کہ آپ کی دوماہ کی رخصت منظور ہوگئی.اب آپ کو جلد اس جگہ آنا چاہئے.منشی غلام قادر صاحب کی طبیعت بہ نسبت سابق صحت کی طرف مائل معلوم ہوتی ہے.البتہ تپ ہنوز دامنگیر ہے.خدا تعالیٰ شفاء بخشے.آپ جہاں تک ممکن ہو بہت جلدی آویں.دیر نہ کریں کیونکہ آپ کے آنے سے ان کو بہت حوصلہ ہوگا.زیادہ خیریت ہے.والسلام ۲۱ را پریل ۱۸۹۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ نے مولوی عبد اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ میاں غلام قادر میرے رشتہ کے بھائی تھے.انہیں مرض سل ہو گئی تھی اور بہت ڈ بلے ہو گئے تھے.جس پر بغرض علاج از حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ میں انہیں یہاں لے آیا تھا.حضرت اقدس نے بھی ان کے لئے ایک نسخہ تجویز فرمایا تھا.مگر وہ جانبر نہ ہوئے اور وا پس سنور پہنچ کر وفات پاگئے.
مکتوبات احمد ۲۲۷ جلد سوم مکتوب نمبر ۵۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ اب تک نہیں آئے.مانع بخیر ہو.اول منشی غلام قادر کی نسبت میرا یہ خیال تھا کہ بعض مجرب نسخے جو میرے والد صاحب سے مجھ کو یاد ہیں اور ایسی بیماریوں کی نسبت گو یا حکم اکسیر رکھتے ہیں اس جگہ ان کو ٹھہرا کر استعمال کراؤں لیکن بعد اس کے مجھ کو معلوم ہوا کہ اس جگہ وہ دوائیں تازہ بتازہ پیدا ہونا بہت مشکل اور محال کی طرح ہے اور کسی قدر ضعف ان کو زیادہ ہے.اس لئے اب تاخیر علاج میں کرنا ہرگز مناسب نہیں ہے.سو میرے نزدیک بہت مناسب ہے کہ وہ سنور میں ٹھہریں اور امید ہے کہ اس جگہ وہ دوائیں روز بروز تازہ بتازہ ہل جائیں گی.یہ تجویز نہایت عمدہ ہے.میں چاہتا ہوں کہ جہاں تک جلد ممکن ہو یہ تجویز کی جائے.انشاء اللہ مجھے قوی امید ہے کہ خدا تعالیٰ شفاء بخشے.لہذا آپ کو مکلف ( کرتا ) ہوں کہ دو تین روز کے لئے آپ ضرور آجائیں.ہرگز توقف نہ کریں کیونکہ ان بیماریوں میں غفلت کرنا ہرگز مناسب نہیں.اپنا حرج کر کے بھی آجائیں.اگر میں اس جگہ اس بات کو ممکن دیکھتا کہ یہ علاج بآسانی ہو سکتا ہے تو آپ کو تکلیف نہ دیتا مگر اب یہی دیکھتا ہوں کہ بغیر ان کے سنور رہنے کے یہ علاج ہو نہیں سکتا.ماسوا اس کے ان کی والدہ بھی نہایت قلق میں ہیں.اس صورت میں ان کو بھی تسلی رہے گی.تاکید یہی ہے کہ جلد آویں اور اگر کوئی ایسا مانع ہو تو اپنی جگہ عبد الرحمن یا کسی اور کو بھیج دیں تاکید ہے.۱۲ رمئی ۱۸۹۶ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ ( نوٹ ) مولوی عبداللہ صاحب نے فرمایا کہ عبدالرحمن میرے ماموں زاد بھائی ہیں.
مکتوبات احمد ۲۲۸ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۵۶ مجی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ جلد سوم منشی غلام قادر صاحب کے خط سے معلوم ہوا کہ وہ ابھی سنور میں ہیں.آج میں نے جواب لکھ دیا ہے.چاہئے کہ توجہ سے ان کا علاج کریں اور ماء الشعیر میں یہ دوائیں ڈال دیا کریں.عناب ۵ عدد تخم خشخاش سفید ۵ ماشه اصل السوس مقشر ۳ ماشه کبر با ۵ رتی اور جلد جلد اطلاع دے دیں اور بنفشہ اب ڈالنا مناسب نہیں.۳۱ رمئی ۱۸۹۶ء سپستان ۷ دانہ سرطان مغسول ۳ عدد خاکسار غلام احمد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ محبی اخویم منشی غلام قادر صاحب ستلمه مکتوب نمبر۵۷ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اخویم میاں عبداللہ صاحب کا خط پہنچا.پہلے اس سے گولیاں ارسال کر چکا ہوں.مناسب ہے کہ ایک شیشی پوٹ وائن کی جو انگریزی دوا ہے خرید کرلیں اور غذا کے بعد ایک چاء کے چمچے کی مقدار پر پی لیا کریں اور اگر موافق ہو تو دو چمچہ پی لیا کریں اور کبھی دودھ میں چاء ڈال کر پیو یں.ایسی غذا کھاویں جو جلدی ہضم ہو جاوے.۱۲ جون ۹۶ء والسلام خاکسار غلام احمد
مکتوبات احمد ۲۲۹ جلد سوم مکتوب نمبر ۵۸ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم منشی غلام قادر صاحب سلمه نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ جو گولیاں بھیجی گئی ہیں ان میں ہر گز کوئی بُری چیز نہیں ہے.صرف کسی وجہ سے دھوکا لگا ہے.مناسب ہے کہ اوّل ایک گولی کا چہارم حصہ کھا لیا کریں.پھر رفتہ رفتہ گولی زیادہ کر لیں اور قریب ۲ رتی کے کہر با پیس کر کھایا کریں.باقی سب طرح سے خیریت ہے.والسلام ۱۷ جون ۹۶ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۵۹ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عزیزی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے آج ایک خط آپ کی نسبت بخدمت ماسٹر قادر بخش صاحب روانہ کر دیا ہے.اطلاعاً لکھا گیا.خدا تعالیٰ آپ کے تمام کام درست کرے.آمین.باقی سب خیریت ہے.۱۰ جولائی ۱۸۹۶ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد ۲۳۰ جلد سوم مکتوب نمبر ۶۰ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کو نئی شادی مبارک ہو.بروز جمعہ حسب تحریر آپ کے طعام ولیمہ آپ کی طرف سے مہمانوں کو کھلایا گیا.چونکہ مہمان بہت تھے اور سیٹھ صاحب کے اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور دوسرے بہت معزز دوست موجود تھے اور اسی سے کچھ زیادہ ہوں گے.اس لئے دس روپیہ کافی نہ تھے.لہذا اس خوشی میں دون روپیہ میں نے اپنی طرف سے ڈال کر بیس روپیہ دعوت میں خرچ کئے.عمدہ پلا ؤ نمکین اور زردہ نہایت عمدہ اور روغن جوش اور قورمہ اور نان اور شیریں چاء وغیرہ کھانا تھا.مہمان نہایت خوش ہوئے اور کھا کر آپ کو دعاء خیر کہی.شاید یہ طعام ولیمہ اس خوبی سے کسی جگہ آپ کو اتفاق نہیں ہوگا.والسلام ع ۲۲ جنوری ۹۷ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر 4 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مجی مشفقی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آپ کا عنایت نامہ پہنچ کر جناب الہی میں آپ کے لئے دعا کی گئی.اللہ تعالیٰ مشکلات پیش آمدہ دور فرمادے اور آپ کی مراد آپ کو عطا فرمائے.آمین ثم آمین.بیشک آپ بعد استخارہ مسنونہ تبدیلی کے التوا کے لئے کوشش کریں.اللہ تعالیٰ حسب المراد تقریب پیدا کرے.والسلام ۱ارمئی ۱۸۹۷ء لے سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ۲۳۱ جلد سوم مکتوب نمبر ۶۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اس وقت آپ کا خط پہنچا.آپ کے والد صاحب کی بیماری کا حال معلوم کر کے ان کے لئے دعا کی گئی.اللہ تعالیٰ ان کو شفا بخشے اور تقصیر معاف کرے.آمین ثم آمین.اس وقت ، وقت بہت تنگ.اسی قدر پر کفایت کرتا ہوں اور انشاء اللہ پھر بھی دعا کروں گا.والسلام ۲۰ / نومبر ۱۸۹۷ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۶۳ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محبی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کی فتح یابی سے طبیعت خوش ہوئی.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلِكَ.سنایا گیا کہ آپ کی طبیعت کچھ بیمار ہے.خدا تعالیٰ شفا بخشے.امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے جلد مطلع فرما دیں اور اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے.بخدمت اخویم مولوی محمد یوسف صاحب السلام علیکم والسلام خاکسار ۴ را پریل ۶۹۸ غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
مکتوبات احمد ۲۳۲ جلد سوم مکتوب نمبر ۶۴ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی عزیزی میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.لدھیانہ میں طاعون پیدا ہونے سے بہت اندیشہ ہوا.خدا تعالیٰ خیر کرے.اس میں مسئلہ شرعی یہ ہے کہ اگر طاعون یا ہیضہ کی ایک دو واردات ہوں تو اس شہر سے نکلنا جائز ہے.لیکن اگر و با پھیل جاوے.تو پھر نکلنا حرام ہے.چونکہ ابھی لدھیانہ میں وبا پھیلا نہیں ہے.اس لئے اختیار ہے کہ وہاں سے جلد نکل جائیں.اس جگہ بڑی مشکل یہ ہے کہ مکان نہیں ملتا.اکثر لوگ شرارت سے دیتے نہیں.ہمارے گھر میں بیس کے قریب عورتیں بھری ہوئی ہیں.نواب صاحب بھی مع عیال واطفال اس جگہ ہیں.سو اس گھر میں تو بالکل گنجائش نہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ قریب قریب بھی کوئی گنجائش نہیں اور دور میں شاید بہت تلاش کرنے سے کوئی ویران کو ٹھہ بے پردہ مل جائے تو تعجب نہیں مگر شرفاء کے رہنے کے لائق تو کوئی نظر نہیں آتا.جب تک مکان کا پختہ بندوبست نہ ہو دے، ہر گز قدم نہیں اُٹھانا چاہئے تا عیال اور اطفال کو تکلیف نہ ہو.دوسرے یہ بات بھی سوچنے کے لائق ہے کہ طاعون کا دورہ ساٹھ ساٹھ اتنی اتنی برس ہوتا ہے.پس اگر طاعون لدھیانہ میں پھیل گئی تو یہ سمجھو کہ شاید اس صدی کے پورے ہونے تک پیچھا نہیں چھوڑے گی.یہ یقینی امر ہے نہ ظنی.طبی تجر بے اس کی گواہی دیتے ہیں.پھر اگر شہر کو چھوڑ نا ہو تو اس نیت سے چھوڑ نا چاہئے کہ اب تمام عمر ہم اس سے الگ رہیں گے اور اپنے مکانات اور دوسرے تعلقات کا پورا انتظام کرنا چاہئے کیونکہ یہ سفر گویا ہمیشہ کے لئے الوداع ہے.پھر دوبارہ شہر میں داخل ہونا ممانعت ہوگی.اگر خدا چاہے تو چند وارداتوں کے بعد اس بیماری کو لدھیانہ سے دور کر دے لیکن اگر یہ بیماری لدھیانہ میں پھیل گئی تو پھر غالبا ایک عمر لے گی.دیکھو کتنے برس سے بمبئی میں پھیل رہی ہے.یہ تمام امور سوچ لینے چاہئیں.یہ سرسری کام نہیں ہے.اگر لدھیانہ کے قریب کوئی گاؤں ہو جو طاعون سے پاک ہو تو بہتر ہوگا کہ اس میں گھر لیا جائے.اس میں فائدہ یہ ہے کہ برابر ہر روز خبر رکھ سکتے ہیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام
مکتوبات احمد ۲۳۳ جلد سوم (نوٹ ) اس خط پر حضور نے تاریخ نہیں دی ہے.ہاں اس بات سے اس سال کا اندازہ ہو سکتا ہے.جس میں یہ حضور نے لکھا ہے کہ یہ طاعون کے حملے پہلے سال کا واقعہ ہے.حضور اپنے مکتوب مورخہ ۲۷ / اپریل ۹۸ء بنام سیٹھ حاجی عبدالرحمن اللہ رکھا صاحب مدراسی رضی اللہ عنہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس طرف طاعون کا بہت زور ہے.سنا ہے ایک دو مشتبہ وارداتیں امرتسر میں بھی ہوئی ہیں اور مکتوب مورخہ ۱۵ رمئی ۹۸ء بنام سیٹھ صاحب موصوف، نیز فرماتے ہیں کہ اس طرف طاعون چمکتی جاتی ہے.اب اسی کے قریب گاؤں ہیں.جن میں زور و شور ہو رہا ہے.قادیان میں یہ حال ہے کہ لڑکوں اور جوانوں اور بڑھوں کو بھی خفیف سا تپ چڑھتا ہے.دوسرے دن کانوں کے نیچے یا بغل کے نیچے یا بُن ران میں گلٹی نکل آتی ہے.گلٹی تیسرے چوتھے روز خود بخود تحلیل ہو کر کم ہو جاتی ہے مگر اس خط بنام مولوی عبداللہ صاحب میں یہ کوئی ذکر نہیں کہ اس علاقے میں بھی طاعون نمودار ہورہی ہے.جس سے بطور تخمینہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خط مارچ یا اپریل ۹۸ء کا لکھا ہوا ہے.اس لئے اس کو اس محل پر درج کیا گیا اور اس خط کے آخر میں حضور نے اپنا اسم مبارک بھی تحریر نہیں فرمایا ہے مگر یہ خط ہے حضور کے اپنے قلم اور دست مبارک کا لکھا ہوا.یہ خط حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے جناب مولوی عبداللہ صاحب کو مولوی صاحب کے ایک ایسے خط کے جواب میں تحریر فرمایا تھا جو انہوں نے ماسٹر قا در بخش صاحب احمدی ساکن لودہانہ کی طرف سے حضور کی خدمت میں لکھا تھا.
مکتوبات احمد ۲۳۴ جلد سوم مکتوب نمبر ۶۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی عزیزی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلّمۂ تعالیٰ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبارک ہو.اللہ تعالیٰ عمر رکھا ہے.کل بہت تکلیف سے گیا ہے.دو دنبے ذبح کئے گئے.جن کا گوشت نہایت عمدہ تھا اور ایک دیگ گوشت کے پلاؤ کی اور ایک دیچہ زردہ شریں مزعفر کا تیار کیا گیا اور روٹی اور گوشت بھی پکایا گیا اور نہایت عمدگی سے مہمانوں کو جو ستر کے قریب ہوں گے.کھلایا گیا آپ کی نیک نیتی کی وجہ سے دونوں پلا کا ایسے عمدہ تھے جو چھوڑنے کو دل نہ چاہتا تھا.باعث نہایت لذیذ..دود دو ر کا بیاں کھائیں اور بہت ہی...کی قدرت ہے کہ اتفاقاً چاول..عمدہ اور باریک ہاتھ آگئے کہ قادیان میں پیدا نہیں ہو سکتے.اس لطف کے ساتھ یہ کام صرف (ه ) روپیہ تک انجام پذیر ہو گا مگر آپ سے میں اس قدر لینا نہیں چاہتا.ہم اس خوشی میں نصف کے شریک ہو جاتے ہیں لہذا آپ صرف ( ه ) روپیہ کسی وقت بھیج دیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ اتفاقا دعوت عقیقہ کے روز جس قدر مرد مہمان تھے.گھر میں عورتیں مہمان بھی بہت جمع تھیں.یہ خوشی کی بات ہے کہ پلاؤ شیر میں نمکین نہایت عمدہ خوشگوار تیار ہوا اور گوشت شور به وسالن بہت عمدہ تھا اور روغن جوش کی قسم میں سے تھا.والسلام نے اس خط میں تین جگہ پر کچھ عبارت کٹی ہونے کی یہ وجہ ہے کہ اس اصل خط کا اتنا حصہ جدا ہو کر کہیں ضائع ہو گیا ہوا ہے.ان کٹی ہوئی سطروں سے پہلی اور چھٹی سطر کی کٹی ہوئی عبارت کے متعلق اندازہ سے بھی کچھ نہیں لکھا جا سکتا ہے.دوسری سطر کے کٹے ہوئے حصہ کا مفہوم جیسا کہ مولوی عبداللہ صاحب نے بتایا.یہ تھا کہ ” دراز کرے اس کا نام برکت اللہ تیسری جگہ کے اس حصہ کا مفہوم مولوی صاحب نے یہ بتایا کہ اس کا عقیقہ کیا اور چوتھی کا ہونے کے بجائے ایک ایک رکابی کے (بعض) نے “ اور پانچویں کا خوش ہوئے خدا تعالیٰ“.
مکتوبات احمد ۲۳۵ (نوٹ ) خط پر تاریخ درج نہیں تھی مگر اس میں شک نہیں کہ یہ خط تخمینا ۵/ جون ۹۸ء کے بعد دو تین دن کے اندر کا لکھا ہوا ہے کیونکہ ۵/جون کا حضرت مولوی صاحب ( خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ) کا مولوی عبد اللہ صاحب کے نام جو خط ہے اس میں لکھا ہے کہ حضور نے اس عقیقہ کے لئے دو بکرے تلاش کرنے کا حکم دیا اور نام برکت اللہ رکھا ہے.مکتوب نمبر ۶۶ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ محبی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ جلد سوم آپ کے گھر کے لوگوں کے لئے دعا کی گئی.آپ پھر لکھیں کہ اب کیسی حالت ہے.باقی خیریت ہے.۲۴ جولائی ۱۸۹۸ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۶۷ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ محبی مخلصی اخویم میاں عبداللہ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته بوصول خط بدریافت صحت عزیزی رحمت اللہ اطمینان ہوئی.خدا تعالیٰ عمر دراز کرے.آمین اور تفصیل روپیہ (ص) سے اطلاع ہوئی.خدا تعالیٰ آپ کو اور تمام شر کا ء خدمت کو ثواب اور اجر بخشے.آمین ثم آمین.امید کہ کبھی کبھی ملاقات کے لئے بھی وقت نکالا کریں.والسلام تمام احباب کو سلام علیکم ۴ دسمبر ۹۸ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ۲۳۶ جلد سوم مکتوب نمبر ۱۶۸ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی عزیزی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنائت نامہ پہنچا.انشاء اللہ القدیر آج ہی عبد الوحید کے لئے دعا کروں گا.اللہ تعالیٰ اس کو کامیاب کرے.آمین.اور انشاء اللہ القدیر آپ کے اور آپ کی چھوٹی بیوی کے لئے بھی جناب الہی میں دعا کروں گا.وہ دوا جو دی گئی تھی کھانے کے بعد کھانا بہتر ہے اور کسی قدر بقدر ہضم دودھ استعمال کرنا چاہئے.باقی سب خیریت ہے.۱۹/ مارچ ۱۸۹۹ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان مکتوب نمبر ۶۹ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محجبی عزیزی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا تحفہ مرسلہ نتھ طلائی یہ سبیل ڈاک مجھ کو پہنچ گیا.اس سے بڑھ کر علامت اخلاص اور دلی محبت کیا ہو گی کہ آپ نے اپنے گھر کے لوگوں کے زیور کو بھیج دیا اور نیز آپ کے گھر کے لوگوں کی محبت اور اخلاص قابل تعریف ہے کہ زیور جو عورتوں کو بالطبع عزیز ہوتا ہے.اس کے دینے سے دریغ نہیں کیا.معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ آپ کو اس سلسلہ کی خدمت کے لئے دل میں جوش آ رہا تھا اور باعث کثرت مصارف اور قلت آمدن روپیہ میسر نہ ہو سکا.اس صورت میں دل کی بیتابی نے یہی ہدایت مولوی عبداللہ صاحب کے ماموں زاد بھائی تھے.
مکتوبات احمد ۲۳۷ جلد سوم دی کہ آپ اپنی عزیز زوجہ کا زیور اتار کر بھیج دیں.سو خدا تعالیٰ آپ کو اس اخلاص کی بہت بہت جزائے خیر دے اور آپ کی زوجہ کو علاوہ ثواب آخرت کے دنیا میں بہت سے زیور طلائی عنایت کرے کہ ”دہ دنیا ستر آخرت تو ایک وعدہ ہے.آمین ثم آمین.ہم نے آپ کی مرضی کے موافق تعمیل کر دی ہے اور مدت دراز گزرگئی ہے کہ آپ نہیں آئے.بہتر ہے کہ موسم سرما میں کوئی ایسی تجویز نکالیں کہ ایک ماہ تک قادیان میں ٹھہر سکیں.دیکھیں آئندہ طاعون کی کیا صورت ہے.کب تک ده اس کے ٹھہرنے کے لئے حاکم حقیقی کا حکم ہے.باقی خیریت ہے.والسلام ۲۸ جولائی ۱۹۰۱ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ( نوٹ نمبر 1) حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی باتوں کو پورا کرنے والے اللہ تعالیٰ نے حضور کی اس بات کو بھی کہ وہ دنیا اور ستر آخرت تو ایک وعدہ ہے اب میں سال کے بعد لفظ بلفظ پورا کیا اور وہ اس طرح سے کہ اگست ۱۹۲۱ء میں مولوی عبداللہ صاحب کے فرزند اصغر اور مولوی صاحب موصوف کی اس چھوٹی بیوی کے اکلوتے بیٹے عزیز عبد القدیر کی اہلیہ کے رخصتانہ کے موقع پر اس ایک نتھ طلائی قیمتی ( ہے ) روپیہ کی بجائے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اور اپنی خاص حکمت سے جس کو وہی جانتا تھا.عزیز کی اہلیہ کو دس طلائی زیور جن کی قیمت اس نتھ کی قیمت سے وہ چند سے بھی یک صد روپیہ اوپر ہے پہنائے جس کے متعلق پہلے وہم و گمان بھی نہ تھا.زیوروں کو شمار کرنے کے وقت حضور کی یہ بات یاد آئی.جسے اس وقت مولوی صاحب موصوف نے اپنے گھر کے لوگوں کے پاس بیان کیا جس سے سب کے ایمان بفضلہ تعالیٰ اور بھی بڑھے.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ ( نوٹ نمبر ۲) مولوی عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ عبد القدیر میرا لڑکا ( جو برکت اللہ کے بعد پیدا ہوا) اس کا عقیقہ میں نے خود قادیان آکر حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام سے کرایا.عقیقہ کے دن حضور کو سر درد کا دورہ تھا.شام کے وقت جب میں حضور کے پاس اندر گیا تو حضور نے فرمایا کہ ہم نے جو کھانا عقیقہ کے کھانے میں اپنے لئے منگوایا تھا.وہ
مکتوبات احمد ۲۳۸ جلد سوم اسی طرح پڑا ہے ( جس جگہ پر پڑا تھا اس کی طرف اشارہ بھی فرمایا ) چونکہ ہمارے سر درد کا دورہ ہے.اس واسطے اس میں سے ہم نے ایک چاول تک نہیں کھایا.اس کے بعد جب میں نے غوث گڑھ سے حضور کی خدمت میں وہ زیور بھیجا.جس کا اس خط میں ذکر ہے تو میں نے ساتھ ہی یہ درخواست بھی بذریعہ عریضہ حضور کی خدمت میں کی کہ کل چونکہ عقیقہ کے روز حضور نے کھانا نہیں کھایا تھا.اس لئے گزارش ہے کہ مہربانی فرما کر اس زیور کی قیمت میں سے فلاں قدر رقم ( غالبا دور و پیہ لکھے تھے یا اس سے کم و بیش ) کا عمدہ کھانا میری طرف سے تیار کروا کر حضور تناول فرماویں.اس بات کی طرف حضور نے اپنے اس فقرہ میں اشارہ فرمایا ہے کہ ” آپ کی مرضی کے موافق تعمیل کر دی ہے“.مکتوب نمبر ۷۰ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا چندہ مرسلہ مبلغ ہے ( تمہیں روپے سات آنے ) پہنچ گیا ہے.میں نے ابھی آپ کے لئے دُعا کی ہے.سخت امتحان کے دن ہیں.آپ بھی توجہ سے تو بہ استغفار کرتے رہیں.بہت دُعا کرتے رہیں.ہماری جماعت کے لئے ایک خاص رعایت ہوئی مگر معلوم رہے کہ کسی حد تک بعض کا بطور شہادت فوت ہونا ممکن مگر تشویش کامل.تباہی خانگی سے محفوظ رہے گی.کم ابتلا ہو گا.تو بہ کے لئے ہر ایک پر زور دیں اب وقت ہے آئندہ جاڑا خطرناک ہے تاریخ مہر روانگی از ڈاک خانہ قادیان ۳۰ را پریل ۱۹۰۲ء والسلام خاکسار غلام احمد
مکتوبات احمد ۲۳۹ جلد سوم مکتوب نمبر اے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محبی عزیزی میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته عنائت نامہ آپ کا پہنچا.افسوس کہ آپ کے پہلے خط کا مضمون مجھے یاد نہیں رہا اور تعجب کہ آپ کو جواب نہ پہنچا.نہ معلوم کیا سبب ہوا یا شاید خط گم ہو گیا ہو.میاں عبد العزیز اور ابراہیم کے لئے انشاء اللہ دُعا کروں گا اور ٹیکہ اگر چہ بیہودہ سا علاج ہے اور کہتے ہیں کہ خطرہ سے خالی نہیں اور بعض اس سے مجزوم اور دیوانہ بھی ہو گئے ہیں.بعض طاعون کو خود بلا کر جان عزیز کھوتے ہیں مگر آپ ملازم ہیں.آپ کو شاید تو کل علی اللہ لگانا ہی پڑے گا.میں نے ٹیکہ کے باب میں ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام ہے "کشتی نوح وہ چھپ رہا ہے.اگر آپ دو ہفتہ کے بعد اطلاع دیں تو آپ کو پہنچ سکتا ہے.والسلام ۱۸ ستمبر ۱۹۰۲ء مکتوب نمبر ۷۲ خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا کارڈ پہنچا.چونکہ عمر کا اعتبار نہیں.آپ کو مناسب ہے کہ دو تین ماہ کی رخصت لے کر قادیان میں آجائیں.آپ کو عمر کے اوائل حصہ میں اگر چہ قادیان رہنے کا اتفاق ہوا مگر اب نہیں ہوا.اب ہونا ضروری ہے.اس بات میں ضرور غور کرنا چاہئے.والسلام اخویم سید محمد شاہ صاحب کو سلام علیکم ۲۷ /اپریل ۱۹۰۳ء خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان
مکتوبات احمد ۲۴۰ جلد سوم مکتوب نمبر ۷۳ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ عزیزی مشفقی مجی میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته کئی دن سے آپ کا خط پہنچا ہوا ہے.مگر مجھے دو ماہ سے اس قدر کھانسی ہے کہ میں جواب لکھنے سے مجبور رہا.اس وقت بھی میری حالت تحریر کے قابل نہیں تھی.اپنے تئیں ضبط کر کے لکھا ہے.افسوس کہ میں علالت طبع سے زیادہ لکھ نہیں سکتا.بعد صحت انشاء اللہ آپ کے لئے دُعا کروں گا.صرف رسید کے طور پر یہ خط بھیجتا ہوں.۴/جنوری ۱۹۰۴ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۴ سے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی عزیز ی اخویم میاں عبد اللہ صاحب سلّمۂ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آپ کا عنایت نامہ پہنچ کر بدریافت خیر و عافیت نہایت خوشی ہوئی.امید کہ جلد جلد اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع کرتے رہیں گے اور جو کچھ آپ نے ارادہ کیا ہے کہ یک صد روپیہ سالانہ معہ چندہ احباب غوث گڑھ روانہ کرتے رہیں.خدا تعالیٰ اس کا آپ کو ثواب بخشے.باقی ہر طرح سے یہاں خیریت ہے.ایک اشتہار ساتھ اس کے ارسال ہے.۲۸ رفروری ۱۹۰۵ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ا خویم مولوی محمد علی صاحب کو اطلاع دے دی گئی ہے.کبھی آپ کو ملاقات کے لئے بھی آنا چاہئے.
مکتوبات احمد ۲۴۱ جلد سوم مکتوب نمبر ۷۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ کی رخصت منظور ہونے سے بہت خوشی ہوئی اور دُعا ہے کہ عزیز رحمت اللہ کو بھی خدا تعالیٰ اس عہدہ پر پر مستقل فرما دے.آمین.اور یہ آپ کے اختیار میں ہے ، جس بات میں آرام دیکھیں وہی طریق اختیار کریں.چاہیں تو عیال کو ہمراہ لے آویں.چاہے مجتر د آ جائیں.چند روز سے ہمارے گھر میں بعض مہمان معہ عیال اُترے ہوئے ہیں اور ان کا ارادہ معلوم ہوتا ہے کہ عید تک اسی جگہ رہیں.لہذا عید تک کل مکان رکا ہوا ہے لیکن اگر آپ معہ عیال آویں.تو انشاء اللہ کوئی اور بندوبست ہو جاوے گا.مستمی علیا کی بیعت منظور کی گئی ہے.خد تعالی اس کو استقامت بخشے.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ ۲۶ اکتوبر ۱۹۰۷ء مکتوب نمبر ۶.۷۶ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ از عائذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم میاں عبد اللہ صاحب سنوری نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مدت مدید کے بعد آپ کا عنایت نامہ پہنچا.تمام خط اول سے آخر تک غور سے پڑھا گیا.میں بخوبی اس بات پر مطمئن ہوں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے دل میں خلوص اور محبت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور آپ کو فطرتی مناسبت ہے اور ایسی محبت ہے کہ زمانے کے رنگ بدلا نے سے دور نہیں ہوسکتی.سو میں آپ پر بہت خوش ہوں.ظاہری ملاقات میں اگر کچھ بعد واقع ہوگئی ہے تو یہ صوری بعد آپ
مکتوبات احمد ۲۴۲ جلد سوم کے باطنی قرب کا کچھ حارج نہیں.انشاء اللہ ملاقات بھی کسی وقت ہو جائے گی اور آج جس قد ربعض لوگوں میں بد خیالات وظنونِ فاسدہ پیدا ہو گئے ہیں.میں ان سے کچھ آزردہ نہیں اور نہ ایسے لوگ میری کا رروائیوں کو کچھ نقصان پہنچا سکتے ہیں.بات یہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ سے اکثر لوگ سریع اتغیر اور کچے خیال کے ہوتے رہے ہیں.ایسا ہی اس زمانہ میں بھی ہیں.مگر ایسے لوگ نہ اپنے بشمول سے کچھ برکت زیادہ کرتے ہیں اور نہ اپنے مخالفانہ قیل و قال سے کچھ بگاڑ سکتے ہیں.انسان کے لئے اس کا حقیقی محاسب خدا تعالیٰ ہے.اگر وہ کسی بندہ پر ناراض ہو تو تمام دنیا مل کر اس بندہ کو اپنی مرادات میں کامیاب نہیں کر سکتی اور اگر راضی ہو تو اُس کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی.جو شخص حقیقت میں سچا اور زیر سایہ حمایت الہی ہو اس کو کسی کی دوستی و دشمنی کی پروا بھی نہیں ہوتی.ہر یک شخص اپنا جو ہر ظاہر کرتا ہے.نیک آدمی اپنی نیک باتوں اور وفاداری اور صدق اور صفا سے اپنی نکو کاری کا ثبوت دیتا ہے اور بد آدمی اپنی بد خیالی اور بد افعالی اور بدگمانی سے اپنے مادہ بد کو ظاہر کرتا ہے.اللہ جل شانه نے فرمایا ہے.كُلُّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِه ا یعنی ہر یک شخص اپنے مادہ اور اپنی فطرت کے مطابق عمل کر رہا ہے اور اس جگہ اور سب طرح سے خیریت ہے.والسلام سب کی طرف سے السلام علیکم خاکسار ۲ مارچ ۱۹۰۸ء ا بنی اسرائیل: ۸۵ غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد ۲۴۳ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر۷۷ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا ایک نہایت درد ناک خط پہنچا.درحقیقت اس قد رغم اور صدمہ جو چاروں طرف سے آپ کے دل کو گھیر رہا ہے.یہ خدا تعالیٰ کا بڑا امتحان ہے.خدا کرے جو آپ اس امتحان میں صادق نکلیں.میں نے اس خط کے لکھنے سے پہلے جناب الہی میں بہت دعا کی ہے.اگر تقدیر مبرم نہ ہو تو قبول ہونے کی امید ہے.مجھے اب تک آپ نے پتہ نہیں دیا کہ مرض کی کیا حالت ہے.کیا دست تو نہیں آتے؟ بدن تو بہت لاغر نہیں؟ کس درجے پر بخار معلوم ہوتا ہے؟ اور بخار کو کتنے دن ہو گئے ہیں؟ اور میں ایک نسخہ اس خط کے ہمراہ بھیجتا ہوں.وہ میرے بہت سی جگہ تجربہ میں آچکا ہے.برگ بیدا اور گل نیلوفر کے عرق کے ساتھ اس کو کھانا چاہئے.بلا توقف کھانا شروع کر دیں اور دل برداشتہ نہ ہوں.خدا سب چیز پر قادر ہے.دو تین ماہ کی مدت ہوئی کہ میرا لڑ کا مبارک احمد جو اس کی والدہ کو بہت ہی پیارا تھا.تپ سے فوت ہوا ہے.اس کے انتقال کے قریب وقت میں.میں نے ان کو کہہ دیا کہ دیکھو اب یہ لڑکا مرنے والا ہے اور ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ جو مارنے والا ہے وہ مرنے والے سے ہمیں زیادہ پیارا ہے اور یہی طریق ایمان کا مل کا ہے کہ صرف یہ کہو کہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ.خدا کی امانت تھی.خدا نے لے لی.سوانہوں نے لڑکے کی موت کے وقت ایسا ہی کہا.یہ تو ظاہر ہے کہ اگر کوئی مرجائے تو یہ غیر معمولی بات نہیں.ہم بھی تو ہمیشہ کے لئے اس دنیا میں نہیں رہیں گے.خدا کے نزدیک انہیں کو مراتب ملتے ہیں جو اس چند روزہ زندگی میں تلخی دیکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ اگر خوش ہوتا ہے تو بدل عطا کرتا ہے.ہرگز ہرگز طریق عوام نہیں اختیار کرنا چاہئے.خدا جس سے پیار کرتا ہے اس کو کوئی مصیبت بھی بھیجتا ہے.سونہایت استقلال سے خدا تعالیٰ پر تو کل کرو اور اس سے نو امید مت ہو اور مجھے اطلاع دیتے رہیں.والسلام را قم مرزا غلام احمد بقلم خود لے مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضور کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرما کر رحمت اللہ کو اپنے فضل سے صحت و عافیت بخشی.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلِك
مکتوبات احمد ۲۴۴ (نسخه مرض رق و سهل و دیگر چها) هو الشافي جلد سوم گل سرخ منزوع ربُّ السوس سری منزوع طباشیر صمغ كثيرا نشاسته ۲ درم ۲ درم ۲ درم درم مغز تخم خیارین کدو تخم خرفہ کافور ۴ درم ۴ درم ۶ درم زعفران ۴ درم یک درم نیم درم کوفته بیخته به لعاب ایسبغول اقراص بندند - خوراک دو نیم درم.یہ سب دوائیں.قرص بنا کر اور ان میں کا فور داخل کر کے یا بطور سفوف رکھ کر دو وقت تین تین ماشہ دے دیں اور پھر پانچ ماشہ کر دیں.اگر عرق تیار نہ ہو تو بلا توقف یہی نسخہ دیں.پھر جلدی سے عرق تیار کر لیں.اس خط پر تاریخ درج نہیں تھی سیاق و سباق دیکھ کر اس کو اس جگہ پر درج کیا گیا ) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۷۸ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مجھے لاہور میں آپ کا خط ملا.میں باعث علالت طبع والدہ محمود احمد کے اور نیز باعث خود اپنی بیماری کے تبدیل آب و ہوا کے لئے لاہور میں آگیا ہوں.کمزوری دماغ کے لئے میری دانست میں یخنی جیسی اور کوئی عمدہ چیز نہیں ہے وہ استعمال کرنا چاہئے.انشاء اللہ دعا کروں گا.باقی خیریت ہے.والسلام ۲ رمئی ۱۹۰۸ء مرزا غلام احمد از (لاہور)
مکتوبات احمد ۲۴۵ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۷۹ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ لاہور میں قادیان سے ہو کر دونوں خط آپ کے مجھ کو ملے.خدا تعالیٰ آپ کو اس دل آزار تشویش سے نجات بخشے اور آپ کے لخت جگر کو کامل شفا عطا فرما دے.آمین ثم آمین.انشاء اللہ دُعا کرتا رہوں گا.حالات سے مجھ کو اطلاع دیتے رہیں.میں بیمار تھا اور میرے گھر کے لوگ مجھ سے زیادہ بیمار تھے.اس لئے تبدیل ہوا کے لئے لاہور میں آگئے.خدا تعالیٰ آپ کو غم سے رہائی بخشے.۳ مئی ۱۹۰۸ء والسلام.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۸۰ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی عزیزی میاں عبداللہ صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ کا محبت نامہ پہنچا.رحمت اللہ کی صحت سے بہت خوشی ہوئی اَلْحَمْدُ لِلهِ مگر مناسب ہے کہ جب تک پوری قوت نہ ہو دوا کھاتے رہیں.ابھی قرص کا فور کو نہیں چھوڑ نا چاہیئے اور بہتر ہے کہ اکثر اوقات با ہر ہوا میں رہیں.اگر ایسی جگہ میسر آوے کہ باغ ہو اور درختوں کا سایہ ہو اور کھلی ہوا تو یہ بہت ہی بہتر ہے اور ایک بڑی دوا ہے اور تاریک جگہ اور بند ہوا کی جگہ میں ہرگز نہیں رہنا چاہیئے.باغ کے سایہ کی ہوا حکم اکسیر رکھتی ہے مگر شام کے وقت باغ میں نہ رہیں اور گائے کا دودھ بہت پیویں جس قدر ہو سکے تھوڑا جوش دے لیا کریں.خداوند تعالیٰ کامل صحت عطا فرمادے.باقی سب خیریت ہے.مجھ کو اطلاع دیتے رہیں.( میں نے تمام خط پڑھ لیا ہے) والسلام.خاکسار مرزا غلام احمد
مکتوبات احمد ۲۴۶ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۸۱ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته مجھے لا ہور میں آپ کا خط ملا.اَلحَمدُ لِلہ آپ کے فرزند لخت جگر کو مرض سے صحت ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلہ.میرے گھر کے لوگ بیمار تھے.تبدیل آب ہوا کے لئے لایا ہوں.شاید ایک ماہ تک ہم یہاں رہیں.باقی سب خیریت ہے.۵رمئی ۱۹۰۸ء خاکسار مرزا غلام احمد مشفقی میاں عبداللہ صاحب مکتوب نمبر ۸۲ السلام علیکم انشاء اللہ کل آپ کو سمجھا دوں گا اور کل کسی وقت آپ بیعت کر لیں.( نوٹ ) اس پر چہ پر کوئی تاریخ درج نہیں.ہاں تخمین ۹۳ء کا لکھا ہوا ہے کیونکہ یہ بیعت جس کا اس میں ذکر ہے.۸۹ ء والی بیعت سے تین چار سال بعد میں ہوئی تھی.اس خط کی تاریخ ٹھیک طور پر معلوم نہیں ہو سکتی اور نہ کہ ترتیب میں اسے کس خط کے بعد اور کس سے قبل رکھنا چاہئے.اس لئے اسے اس جگہ پر درج نقل کیا گیا.
مکتوبات احمد ۲۴۷ جلد سوم الفاظ بیعت أولى ( جو حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے ۲۰ ؍رجب ۱۳۰۶ھ کو بمقام لدھیانہ لی تھی ۱۸۸۹ء میں ) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے ان تمام گنا ہوں اور خراب عادتوں سے تو بہ کرتا ہوں جن میں میں مبتلا تھا.اور سچے دل اور پکے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اپنی عمر کے آخری دن تک تمام گناہوں سے بچتا رہوں گا اور دین کو دنیا کے آراموں اور نفس کی لذات پر مقدم رکھوں گا اور ۱۲ / جنوری کی دن شرطوں پر حتی الوسع کار بند رہوں گا اور اب بھی اپنے گزشتہ گنا ہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی چاہتا ہوں.اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي اَسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي، اسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ كُلّ ذَنْبٍ وَّاتُوبُ إِلَيْهِ - اَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِى وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذَنْبِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ - ۲۰/ رجب ۱۳۰۶ھ مکتوب نمبر ۸۳ ہر دو اہلیہ مولوی محمد عبد اللہ صاحب) نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ میں محض تمہاری دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لئے تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم نماز کی پابند رہو اور اپنے خاوند میاں عبداللہ کی تابعداری رکھو کیونکہ عورتوں کے لئے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر وہ اپنے خاوندوں کی اطاعت کریں گی تو خدا ان کو ہر ایک بلا سے بچائے گا اور ان کی اولا د عمر والی ہوگی اور نیک بخت ہوگی.والسلام مرزا غلام احمد
عکس مکتوبات بنام حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری رضی اللہ تعالی عنہ
3 عکس مکتوب نمبرا مسات ميا بعد سلام منون زینده سانت بار سر بنا لیتی رینڈر گرین سے پاک قرن عارف محضر سرحان مورا اطرف میں گیا اور دو وجود است صوات اگر خدا کے بنے جائے تو میرات موسم یہ ہیں حات مرک در رسوم میرے رفتار من کیس کی رہنے والد کے ضلع برا ئے.ونے کا اراد ہ بہت عمدہ ہے کہ تفریق کے چه شده
4 محمدمم عکس مکتوب نمبر ۲ یاسیات A ہمار ے طاقت کے زیادہ نا 7 تحریری مشن صنعت بہت سال یا اسے گرائی کی い اننے کے من مصر هاست می را طاقت مرنے تو کتی کو صوف سے میچ بری درسم حالات فارمات 1 اور اس
بربورس اہوئی ہر حال مرضوں کے بہین ہے سوال 5 عکس مکتوب نمبر ۳ رجوكم سلام ہے کی کی طرف اشارہ مہینے ایسی بات کی طرف درباره ل سریع وره بقوه من طرف رجوع ولایا گیا ہے اور ریس داشت حقوق الله روا معوق عباده تثبیت تحصیل ر انی کر رک جانے کیا گیا نو سے بت اثیر ہے سور نور سے سورت یقہ کا ر کر ہم اور ہم امریالی اپنے یز نور میاں اور جن اور پانی میں ان بین واحد یہ کورسی حالت کو درست کرو رفت کے کردار اچھی حالات /
6 عکس مکتوب نمبر۴ ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ایرانیان با انتشارات راہیں مدیروں سے حاضر ا ناگ کیا کر رہا ہے اور رائے طبیعت دوست نہین رسالے کو تر جو ایک مچھر یہاں طاقت تقریر خوب باشم پس در سلام خاک يرحمه علام کا تصور
7 عکس مکتوب نمبر ۵ مورد ایان را دارد و در این دو را یارانه ملا تے مریکہ دیویاں ایسے ہیں اپنی دیریے و رنگے لیکر مادیات حملے ادبی اور جس روز یہ اوین مدیر فین ایک روز رور اوس سایت فتح محمدمات ایما نو ں طرف جانئے اور اسے استکاریں بہتے میں گرا توقف ما نہ ہرے اور چلے اوین اور دو مررر رشادت -
8 عکس مکتوب نمبر ۶ کنگ کے با کودک ا این ربات در مناسب شد در وقت اتنی اشاره ها ست ما وارده جبارن کہانی ہان رکھنے کا تہ م.وكم مندر یه سریع اوری اورید اما ضرور ہو روز اور ترکر نام پرستار می نوشد فارس در هر آن است شاندار سندور الجماه
9 عکس مکتوب نمبر ۸ مناشد ہوا کرے ہے اپنی دس مند منورہ اور کامیا و با تمثل اراس ملی اوس اور فضلاء مروز زیر کر لیے اوس به دلیل عمده انگریزی خونه در بیارید برای محمد انایی ایران این که ما این توتی از این که در نیریز نعم عمور
10 عکس مکتوب نمبر ۹ با رشته به شما اهم Be فرون عدور سے ریکا ساخت تاریر کجا می از بوقت توجه کثریت در راستات را در میان کاروان امارات متروی شرکتی ادارات ر مادیان مدوست بالای اساسی را بکاریم C م کے سامان او
11 عکس مکتوب نمبر ۱۰ این کیک ها را در ایام تاب را که به دوره دار و اس ور سے فرحبت سر پر ایک رومانی تر بیر اس جگه انجاز تا تبدیل ات ریای کارا کاری تا میدیکل ريده اسرار بنت او وروسته و پرستی میں جو دنیا یا دارای بیستم و
12 عکس مکتوب نمبر 11 ہے ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا دارای دارای پرواز عود السيرة اما او را در های کارینا کالای ایر نوری جائیں اور اگر پیر جی سی تواضع بحرقت مکران موکه
13 عکس مکتوب نمبر ۱۲ الب cee کا کام موهای ری اکتا کر واتس اب کے کام بہت کرب کر رہے کہ اگر وقت مر اور کے الد محمود بار این شور زنا جا
14 عکس مکتوب نمبر ۱۳ اندیشہ نہیں بلکہ راحت ہے مخلوق پرست میں شعروں کو کل کی میع جم سعال دموں اور رهاشتا ہم کیا ہے
15 عکس مکتوب نمبر ۱۴ عمت وضع یر خواهان عبد الحد تعمیرات عدالت نام ہو تھی میرا کہ محنت ہوئیں کیا یہاں تک طریقی کرایہ اشہر سے روایت کیسے کہ علی مینا تا کہ گیا اور ا ا ا ا ا ا ا ا حط اثبات خوشی ہوگی بیتی اخیر فرودگ سلام عليكم ورجمد الدوير كاتي رای رازگوران و لی تسلیم سیاره
16 عکس مکتوب نمبر ۱۵ بایچ خللی بوریری امدیم بیان حد المدم کا پہلے کل کے نظر نوع کرد من ابسط وصندوق اور محبت کے لئے رسمی بازرسی اور سے ہے دنت کہ شیرزاد رستان است از تامین سلامت
17 عکس مکتوب نمبر ۱۶
18 عکس مکتوب نمبر ۱۷ ورت وقوع میان خود بودهای ماه یا یکی دو هزار و ماه المصا.روال ہوئی رہے رے رہو قاع طبع قام علی کو کوئی روایتی چندرا مونگ ا شاعر از تعریفا و لای راستی جور المار ہوائی میں اور ترین جب رہے し ستانی کی علام احمد اتر مادیان عالی کو رشت
19 عکس مکتوب نمبر ۱۸ تک دبیر ان الاهم وسلام علیکم بود و او رایانه من أربع هر کانام لصور فتاوای به روز جمهور ورتی اساسی ندیس ریا پودر موسوست }} با ما کر کرنے پر اتنا اکتالیا
20 عکس مکتوب نمبر ۱۹ صافہ بی ار ام را یکی در ماه یا کم آیا اور ماند برای میکر اور محمد کریمی شمار سے می علی سے آئے لیکن بہت ضرورت اس کے است روی سے f ہوئی امید کر بلا توقفت اور اپر اور منگ کسی تریک پہر کا سٹی سترم کا علام
21 24 عکس مکتوب نمبر ۲۰ م بر هویت اسلام با اراده ای دارد کے رنگہ احم احم منطقی مجھے مال عبد اللہ ایک یا را محسن و قصے خوب است کی ہے پر ہے ررین دعا کے لئے خواتی ہے آپ کا دور دور رہا ہے اور دمین من استقام محی الت تحقیق یعنی حرف آتی ہے ایک خیال سے ہوا ہو جاتا ہے جلد جلد اپنے حالات جاری ہے "
mag Chambersity راف ظرف حامد علی اور حافظه بود مجله 22 22 عکس مکتوب نمبر ۲۱ محمد ریت کے دربار ها رسیع کو اضلاع ماری کے مرنگ ایسے خبر مولا محبت کر رہے خریدیہ سے اطلاع دین اور اگر
اور دیگر خواب پا و گونگے بخرست میجر محمد پویان م علیکم 23 عکس مکتوب نمبر ۲۲ و تصلح الرحیم رستنده نہ ہم یہ عرصہ ہورہا ہے ہے عاجز بیمار ہے.پہلی دو تین بار یکی ایسے شدت ہوئی رہتی.ابنا پر امید زندگیه منقطع ہو چکی تھیں ی که خوانات مشہور ہو گئی ہیں.اب بفضلہ کا بہت کپه ارام با ہے کہ گھر تا ہم ضعف و ناتور نے است در ایام خورد یکتا تو در کنار خط لکھوانا ہی مشکل ہے اور ہر طرف سے خط کثرت دستی ہیں.آپ اگر برك کوست اپنی دعوں کا ایفا نمادیں.یعنی ایکرد تدیه کر تک پیما ناره جادیں.تم کمکی بہت مدد لینکی محمد از مادیان
24 لله عکس مکتوب نمبر ۲۳ بسم اله الرحمن الرحیم نحمده ونفت صر مر شفق خونی میان بند دان چونیم که علم - ومقدار - الفا حظ بوئی چونکہ میں ایک عرصہ سے پیار ہیں.اور بہت نا فاقت C ہو گیا ہوئے.اسلئے مجبہ خطوط فاخور جاتا.اگر ایک ایسے موقعہ پر دو مہینے دو بعدة حمايا لئے اپنا سکتے بعضه ہم ہفتہ بات وہ ہولے ہانیہ سے فروخت ہوتی ہیئے بائی بد حرم - کوسلام - مرسله زنده حریری ور سلام احواز جھے قادیان
25 25 عکس مکتوب نمبر ۲۴ بسم اله الرحمن الرحيم - حمله داني شیا امیری نانی به ایران عبدالله میدیدم کم - در منہ رہے.الف خط بیرونی میرے طبیعت به نسبت سابت أو صحت اطعة الحمد للہ - اب بعد وصولی مالیه مسحله استکان -- باید و تند ت کریں - عوضی متور رزرگر رخصت بالدانت ترین - بعد معمولی پلی به استکین تمام خصت پیک ارام سے آپ اپنی جلد در این اگر می انان رسد وزر علی احمد از مامانات ، امین
26 26 عکس مکتوب نمبر ۲۵ ومد موزر غلام احمد قادمان توابع • التی که در حمو ر ہے.ایک کار و پر پہنچا.السلاح ہلے خط کا جواب دیا گیا.روه الف اب ہوا اور اوہ ہے کہ ایک ام پیئے کیور کے بفرق مدیر آب و ہوا اس باره روز یک شا ممقام لو وما نه با دیگا.ایکو اطلاع و بی تے.است ایب اند بعد فراغت انگام و فرائض منصی اینی خصت کیک ارام سے اونے.اسلام
27 عکس مکتوب نمبر ۲۶ بی رنگه من اهم مشتقه تحمت وسیلے 躞 ا ا ا ے سے کسی سرعافر عظام اور پانی ソ و رحمته عناست را خیال برنج شماره شاهزاده حیدر در علالت آرام تیل یک تا دو سلام ان این کاری که دارای کچی رقابل
28 عکس مکتوب نمبر ۲۷ کا علیکم الله ا ا ا ا ا ا ا ایده ای دارای یکی دیاریه حسان عبود القرحة خت جزا ئے اور نظر سناب کر اور سے دارک اپنے الات حرکت اطلاع l ریکا ریاستی نے سلام کر ریاست کار و باربردی ماری
29 29 عکس مکتوب نمبر ۲۸ ☑ عليكم ورحمة الله نها فرحان علی اسلام وپر کا شہر اس عامر کا براده شده این کار بخشد و نصلح شقق الجويم سمان عبد الله ات شام سے عابر الی اگر فوری ہے یان نور محمد ان کو سلام خوشی مینا و نوار نے کے کی حامد از 14/0
30 عکس مکتوب نمبر ۲۹ خاک را س کیلئے سری بر تاریخ اور انور رشته به در برده بروقت یا ار کی دن کے انسانی الہ الغدیر قادیانیت کے مخلص لوازم اسے اطلع کرتا مریست که اگر حملو لئے رمائیں اور اگر جمع کار ہو تو خیر کے دوسری
31 عکس مکتوب نمبر ۳۰ مشقی دمی تقویم بیان عبدالله بیا ایران در دکاندا پسی از سیم شوی واقع ہے کہ آپ کا کارڈ مورخہ پہونچا.اسم ملومہ کے آوے وشش کی گئی ہے اور حسب و خواست خود آپکے ایک شخص رہا کرتے - M رسیم کردیا گیا ہے بند دلت ہو رہا ہے جس وقت معاملہ ملے ہوجاتا ہے آپ کر اطلاع دی جائے گی.مناسب ہے ہے ہ دی یہ کہ آپ انتظام مردم شماری کے بعد یہاں قادیان میں آرمین اور بیزار آراین و با نشانہ اس سرستونہ پر زیادہ گفتگو کی جائے گی تیری جدید رسالہ بنام نیم الاسلام تیار ہوا ہے اور مطیع بین از موضوع ہے غربی شائع ہوا چاہتا ہے.یہ رسالہ دنیا میں ایک بالکل انجام کئی گر در اصل قدیم بات کا ظاہر کرنے والا ہوگا.آپ تقریر اس کو اور سیب طرح فضل الہی سے خیریت سے ا م م ر ا ا ا ایران و ایا دیا مورقه ۲۹ رشت
32 عکس مکتوب نمبر ۳۱ محمدہ ونصلے.مجھی شفقر اقویم نے عبداللہ طالب سلم رسلام الفا ان حال معلوم مرا نیکی کام کا انتظام درویش ہے آپ سبھی لکھی اور I برا لگا و السلام مرا الحمام آب صورت شله بنده خوری باید در تاریخ حافظ خام ملی اتقدم مستم مشهورتر أف فرتری اوربان
33 عکس مکتوب نمبر ۳۲ 2007 س سے رقوم کے استایل عانت تاثر ہوئی درماه تو یه مرداس الطارین مکان ہے کو بام عمر اقبال کا ست کے لمحت الامارت ما
34 =4 عکس مکتوب نمبر ۳۳ العلاج ب الله I عالم مجمرا اور کیا بعید الدین رس سه 2 ست و از تحریر و مادرستی E باجی حریت کے سکے گرو
35 عکس مکتوب نمبر ۳۴ کی وکے چار روسیه باردین اور اتی اور اگر روی کار در حوزه برنی اپنے ایسے شروع جرکم عمر مواد جہانیہ سے زیادہ کر رہے ضرور مراد سر کے اوین دیگر کے وہاب
36 عکس مکتوب نمبر ۳۵ ن راجع سے ہے کہ خخ الگی اور ارگانه کارڈ مگر ایسے وقت میں کریں بوجہ لیا تقل میں تھا میں زش بست قال سلام محمد تم تا دراین گاور ور سلام سے است القدرات دعا کروں گا منی منو میفتہ ہے و علیل ہوت فروشی کے
37 عکس مکتوب نمبر ۳۶ الله ال ورحمته ر ا ا ا ا ا ا سکے وقت ایک رساله را پرساد مدمن ارسالی سر از دور رساله از تو پوری دگر شکسته است شار و دریای سنگ و به انگیر تیم اسلامات کم سن رہے ہے رنے کمالات سے مس در شدت بر کارت بہت
38 م العالم می رسم عکس مکتوب نمبر ۳۷ مجھے ورد این سال علام عدد السعرات الامام اله الا انه مات شما را شاد کر کے تحریفات حان نشانه و عزا یہ وعاله مر عنانت رہے گئے الله الا امر مشاورت زیادی امین رسید جوی محور کتاب استنه کمالات اسلام ے ایک دور سے سنے والے رہے باقی سب فرنیت داور راست انتظام در راهم
39 عکس مکتوب نمبر ۳۸ کم راند و لایح می زنم روری کے وقوع سال بعد بعلم خدمت کی آپ کو اصحاب اور دوائی 1 سے السیدیم تا داست الاسلام است اول حالات حالات سے مطیع و باقی فریم کردورا خاکیان
40 لله رسه عکس مکتوب نمبر ۴۰ مجھے رکی م علیکم و شکل ادیگاه رہے رہے کی جو وہ جو خبر دینا بہت سے صلح $310.0
41 عکس مکتوب نمبر ۴۱ در مان عبد الله نے روح کی ہے اور بھول جانے وپے نے روناک دن کا ورزش در آب ہے اپنا نقل بار حال بان سال رہے انین این را داشته امانت کاراته تاریکی از آنها در کار ماندا
42 عکس مکتوب نمبر ۴۲ کم السلام می مسلح لی ایک م و از ایام هیات عماد الدورات وحة المصدر قائم میں بھی عدالت لیست جلوت کے صورت شین جو کہ آہو کے چھے سے موہ لیا جائے نام میں جب انگ یست احتیاط اور سوچے لینا چا ہے اور میر دانست میز جلاب برج علالت در ایادی استان کار را به کار می کردند و راه های دو بعد مراقبت منظورم شیر محمد نے لگا جانتے ا ا یکی از ماها تمام ایا ای على
43 عکس مکتوب نمبر ۴۳ صباغ ثار کے اس امر کرکے کہا کہ سان 2 جار حال نگشت الی اللہ چاہے مروز چند کرشن را حس وقت انساه پر بال گرنار از ایف شلة
☐ 44 عکس مکتوب نمبر ۴۴ عليكم کر ته عمر الله میں انہیں مانتے صحت ہے ہوئے ہے اب است کا ہم رقم ہے.والدم کی خواہی کے اح.انته اکالا a' ور اسلام می اناک قربانی
45 سیم اگه من الهم کو علم عکس مکتوب نمبر ۴۵ یاعلی استان در کتنے باری صار یا شہد میں رہائی کے اسلام اہلے والات شربت مت A ولی و سرور الوقت واقیع اور بنگر تعلیم تعالی سے کے سے وقت میریت عام است صد صلح میانونه دلدار ماند می آمد ترا یہ101 عائد شرای
46 عکس مکتوب نمبر ۴۶ ایسی ازین شرع میان فیریرشت اور حالات التهابات واز شT
47 عکس مکتوب نمبر ۴۷ میے اور اس کی میاران شوری در روش ده سبیح کے دور اندیم سيم V کا رسکے نا ہی ہے ہو تے پرانی کیا ہے نیوز سامی ائی ایک بلا سے کاشت در ا را داری تاران ا الاتاب کر صدر تانی ارتع کئے اپنی اسلام میر امت بخش در هم ماند شق حصد اطلاع
ん 48 عکس مکتوب نمبر ۴۸ علیکم رستان 7 سات کا صحت で مد رسیدم پانی صحت تندرستی کے بہت رسد بعد القلاع ومنا طا کئے اور تم دریم و شفا یکی داریم کاش مقاله در این کشور
تمنح 49 عکس مکتوب نمبر ۴۹ سائی پر ختم ہے اور آخر حققت سانس خومت کی نگری در زندگی کی ماتم پروری بادینی اور روانی و میز ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا کیا کیا ستر ہو سکتے ہیں ہم ایک رات اور دن میں خود ستائی سے دورنا اور رائے اعضا کی بولیاں سے کیانا جای نگر از میمتی وقت کہنے کا رہے سے بہتر کوئی تے ه این نگاهی است کاستاری
50 50 اوروں کو روتا رہتی ہیں ا وضو ہے جسکی منہ سے بہ یک دم اور تار ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا وا شد دارای ریمین اور ا ا ا ا ا ال ای دی ان ایما و دندان های شیشه ای از استات ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ر ی اور کی کمی ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا رساله نور اسلو آنتن خوب کہاں شاطر ب شناست زعیار اس کی بات مانے سے گرین شیری دور دها انکے میں رعایت کر دینے حلقات خرادیئے اور و سے مرد اما ابھی رفت بیروت
51 عکس مکتوب نمبر ۵۰ د یہاں رنگی صبح 7 عبد الله مجھی رجوع معاینال ہیں استان علیکم و رحمه اند ارقام صلح طلب روئین 0 کت چرایا ہے جو کہتے ہارا ہے ارے سیشت ہو ر حال ات کی و مالیات ایسے التفاف اسمال رہا بہتے م لا تقنطوا من رحمة الله Car
52 عکس مکتوب نمبر ۵۱ اب کلارک رمضاني المبارة 2.
53 عکس مکتوب نمبر ۵۲ ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ر بابه گر ایک امن ترین سیاست کا نہ کہ اس سے عالی اسب احیانا درسم را شرقی تا avo م است ,1y
$ - 54 عکس مکتوب نمبر ۵۳ ว پر ما ایسی بات ان تیتر این که که شاید بیشترین - al
55 59 عکس مکتوب نمبر ۵۴ كس ابلاغ G رہ کارٹی ر کیا بات کرنے کی بات ہے کہ آیا ) ཐམས་ 20 د رحمة به است باقی صحت کا کار فسال اصلی تاریکی البتہ یہ مردار اور کیا ہے بہت جلوی ایراین دیر پر را بہت دو ملزم کا شکریہ
56 عکس مکتوب نمبر ۵۵ تحب العمل على یور دیکیام y آکے مانع بخیر ہو اویل میے مقام تاریکی شب میں میخیال تھا کہ معصیت از مجرب نسخی جز تیر ی او اور کیا سے کیکو یاد ہیں اور ایس ت کو کم کرد و این بار بار بار اسال الله پرسی گردید بہت مشکل اور شمال کی کما طرح است استماره من م اگر زیادہ ہے اسے اپ اتاری علم میں کارای کارت
57 حبات یان ایک بات اسی یا کرو تو میں روس اور ایری که انبار ها در این روز بروز تازه تازه ای نمی میرنیوز نایت کی ہے میں جانتا ہوں کہ جی ہے کہ علی کی مر ا ا ا ا ا ا ا ال ان بی تو اسی کی داد بنانی شاه س کے روز آپ کو معلق رہنا کہ دو تین روز که الی نه چو در تامین مرکز توقف زمین گیر تهران بیماران کیا عقلت کرنا اشتر ناسینی انا مجھے ان ہی اقای اثر میں دیگر اس بات کو ست که مرور رہے تو یہ علم میری ا و رسته ای الا ای وای بیایم این است و سورت کی بے خبر بعد الرجيم رنگی پی شلع فزیکی
58 عکس مکتوب نمبر ۵۶ وئی ہے علم رکی 70 چین را عویم به ہریار نے جائے کم تر ہے اور الر ریٹر تین سے دور کی دال دیا گیا تم خو ارایه مسلمات اصل اور قسطه کپ پشرك سلام -
59 عکس مکتوب نمبر۵۷ Shirt عسم تی همیشه تولیت پرور کی تصویر تقوی کا نیا گردن اور اگر موافق شاور چھ سے کیا کیا اور کی وہ کہیا جام
على 60 عکس مکتوب نمبر ۵۸ ت مبالغ آئی میرے شد ہوئے ایران اور قریب دو قتال کرنا کی کہاں کرینا باقی ماطلع سے طریقت سے ماند
61 عکس مکتوب نمبر ۵۹ یوار و باریم عزیزی زیرینم ناسته ز نسبت کویت با شتر مادری اوریم جا رے کے تمام کام درست از امین تان میانه بود از رازیان کے
62 عکس مکتوب نمبر ۶۱ MY 3 به تمام سنفور ریاست پیشگام بورت میری شفیق شدیم دینی بیداری است ار آنان مراد اب کو عطا ارادت اتی کام این با کاستام میر ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا استری کا لیتے ا ا ا ا ا ا ا ا او را با نام انگار مودی اور ای او یا دارای شرار
63 عکس مکتوب نمبر ۶۲ اوانت میں
64 عکس مکتوب نمبر ۶۳ جت a رائع خبرشور بصیرت رو ایم اپنے حالات چرم ایات کیتے از قاضی شادی کی نان به
65 عکس مکتوب نمبر ۶۸ C والسلام علیکم ورحمته الله و برکام رہے الدار عبدا دعا کردن گارد و نگار کو کامیاب اپنا دیکھیں که اور اشار المدعتی اور انسانی کی یہ وہ دور جو رہی تو یہ الہی میں دوغارون ا را یکی یکی یکی است و در کیش در دک 346 پر شمالی کرتا
66 عکس مکتوب نمبر ۶۹ محور راید مجیبی مزیزی انواع ساین مدار در راسته گیا ادراری کو اور
67 ایز ارم برت قرار بی خبر دے اور آپ کے زوجہ کو بالا در آب اورزی گیاه از این بابت سے ای در بالا یک مقامات کر دیا کے انا در هر دو شهید t یوست تھی عورت حاکم دقیقہ کا حکم ہے تے تھے بر در کرم می کارت دی وی دی را فرات او است
68 عکس مکتوب نمبر ۷۰ مان تجویدا شور سنا علیکم و جهت اینکه نامه و پنج شیار ورت استانیان دارم میبت اما این برنم سے مین راستا به کری بہت بیت و شکار کی بریست ايت گار مجھے کا اور این...وقته
69 عکس مکتوب نمبر اے دینگ کم یکم احد الرابع سایر سالم و هشتم اليود به هامة اسلام だ افسوس کہ اسے پہلی خط کا مضمون بھی یاد نہیں رہا آپ اور تعمیر کے آپ کو جواب نے ہر بنا ئے علی کیا کہ سب اہم با نام حظ し علاج او ہے اور کہتے میں کو فرقہ سے خاکیا تی اور پیشین ے کو رجوع اور دوران میں مر گئے آن با کو خود ملکه جان نویز مورتی میں را کے آپ ایم این ان کو ندر عزیز شانه روزه کار خود بار کیا آپ نام لینے
70 بے میں ایک رسالم للي سنے نوع در صہب ہے اگر آپ او نہ کر توآپ کو لیڈی لگا فالات سے رم داری نام 어
71 عکس مکتوب نمبر ۷۲ زدویمه که از مرا ا سامان یکی در همه داور ایران به کو نا مت کرو ر قیمت لیکر تادیات میره زمانی یہ اس کو شرک
72 عکس مکتوب نمبر ۷۳ صح عليكم اج خورنر بنا میں اگر بھی ادارہ سے مجبورا ا وقت تین گیاهی است و تیران دایت کرتے لگا ہے امواج می خواست و طی است وب تر کیا کرتے بعد صحت
73 دعا اثاراله اشکات و ماروں کا حوت دیا عت الیده طوری به خطر مینا کماست ر سی ای ای که به ما نگر سلام مرمر سم کویر
74 عکس مکتوب نمبر ۷۴ میں ریپ سے ایفوم سایل دور گزر گیا رند و برنار بدریافت شهر وحدانیت نداشت تو طلبہ کو اپنے ما لمتد W را ہو پھوٹے گوره رو تر کرتی رہیں تم
75 عکس مکتوب نمبر ۷۵ يم الطائرة في اليتيم منة والعمل على ترانه امام ہے مینی اطوار میان دو داوری که سالیان داشت شده مستقل خرید ایشن اور یہ ان کا اختیار میں ی ایرانیان ایرانی ها این اختیار برای ماست السياسية کیا مبین می بریم سردمانی است با ما اورانها موسم تو کمیته ای خیار www
نداریم 76 عکس مکتوب نمبر ۷۶ تھا میں کوئی اس بابت اسم ہے اورر رینگ بلا کیے سے دور سے دار کمی بعد و واقع مریا ملات میں کئے کہ بایت مسطرة رنا مرے میں ایسے چند مین اور ارایه میں بات
78 عکس مکتوب نمبر ۸۰ به را در بر می داریم محمده و اجمالی باردار از ん ا ا ا ا ا ن اور روس کی با اسلم علیکم ورحمت صدور کا اپنا محبت کم ہوتی رحمت الى فرض رسه ای صحت به اگربار روقات 1 کوردی قوت که حال او سوال میرا رہی آپ کر باع میں اور در قرآن کا اس پر اور نیکی م پر تو یہ بہت ہی بہتری اور پانی ہوگی
79 دوری اور ایک بار اور عام کی گرین ہووے دار شود بنا شدم چای فاع کر رہے ہیں چیکی بیری گرام کی وقت تاریخ میں تر مره کی گال کی کا دورہ آرت باقی بیش از رشت حقد اور ال راحت و عمامي أوربا で
80 عکس مکتوب نمبر ۸۱ بم در هر پوش و داریم عطور عين ور سے ستر رستے رہے 01 مر فوق آپ کی تے سہی ثم الحمدلله برای لیوان لوگ پیاری فیزیکی ش اچھی نام کیا ہے میر ہے مان که مورد مهم آنها در فنی شهر کے ہے
حضرت خان صاحب ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سلمہ
مکتوبات احمد ۲۵۱ جلد سوم حضرت خان صاحب ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاح کے نام تعارفی نوٹ حضرت مخدومی ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب جماعت احمدیہ میں ایک خاص مقام رفیع رکھتے ہیں.اپنے علم وفضل ، تقوی وطہارت ، اخلاق فاضلہ کے لحاظ سے اور اس نسبت کی وجہ سے جو ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہے.آپ حضرت اُم المومنین (مَتِّعْنَا اللهُ بِطُولِ حَيَاتِهَا ) کے حقیقی بھائی ہیں ان کی تربیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر کیمیا اثر کے نیچے ہوئی ہے.میں حضرت میر صاحب کو جماعت احمدیہ کے صوفی منش بزرگوں میں سب سے بلند مقام پر دیکھتا ہوں.وہ روحانیت سے سرشار اور قرب الہی کے لئے بیتاب قلب رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق روایات کے سلسلے میں اہل بیت کی روایات کو مستی کر کے آپ کا مقام ہی بلند ہے اور میں تو ان کو بھی اہل بیت میں داخل سمجھتا ہوں.ان کی بیان کردہ روایات نہایت صاف اور صحیح ہیں.انہوں نے چوتھائی صدی کا زمانہ حضرت اقدس کے ساتھ گزارا ہے.وہ خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک نشان ہیں اور میں ان کو آیت اللہ یقین کرتا ہوں.ان کی زندگی اور ان کا ڈاکٹر ہونا یہ سب ایک پیشگوئی کا نتیجہ ہے.حضرت میر صاحب کا تذکرہ تفصیل سے مرحوم عرفانی صغیر لکھنا چاہتے تھے.ان کے نوٹوں کی بنا پر اب کتاب تعارف میں انشاء اللہ خدا کے فضل سے خاکسار لکھنے کا عزم رکھتا ہے.حضرت میر صاحب کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ جیسے حضرت نانا جان رضی اللہ عنہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عزت صہر حاصل تھی.حضرت میر صاحب کو حضرت خلیفہ امسیح ثانی ( جوالمصلح الموعود اور مثیل مسیح بھی ہیں ) سے یہ نسبت خدا کے فضل سے حاصل ہے.حضرت میر صاحب کے نام کے مکتوبات ان کی روایات کے سلسلے میں سیرۃ المہدی میں درج ہوئے ہیں اسی سے لے کر معہ ان روایات کے جن کے تحت وہ درج ہوئے ہیں اور حضرت مخدومی مرزا بشیر احمد صاحب سَلَّمَهُ اللهُ الْأَحَدُ کے نوٹ کے ساتھ درج کر رہا ہوں.( عرفانی کبیر )
جلد سوم مکتوبات احمد ۲۵۲ فہرست مکتوبات بنام حضرت خان صاحب ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سلمہ اب نمبر تاریخ تحریر بلا تاریخ ۱۱ را پریل ۱۹۰۵ء ۳۱ را گست ۱۹۰۵ء بلا تاریخ صفحہ ۲۵۲ ۲۵۳ ۲۵۴
مکتوبات احمد ۲۵۳ جلد سوم عزیزی میر محمد اسماعیل صاحب مکتوب نمبرا السلام علیکم حامل ہذا کو محمود احمد کی خیر و عافیت کی دریافت کے لئے بھیجا جاتا ہے.اور احتیاطاً دس روپے محمود احمد کے لئے بھیجے جاتے ہیں اگر کولو وائن کی قیمت میں کمی ہو تو دس روپے میں سے دے دیں باقی خیریت ہے.خاکسار مرز اغلام احمد عفی عنہ مکرر یہ ہے کہ محمود احمد کی والدہ چاہتی ہیں کہ ایک دن کے لئے محمود احمد کی خبر لے آویں.مناسب ہے کہ میاں معراج دین صاحب کو اطلاع دے چھوڑیں کہ ایک دن کے لئے اپنا حصہ مکان جہاں پہلے رہی تھیں خالی کرا دیں صرف ایک رات رہیں گی ابھی یہ بات ایسی پکی نہیں ہے مگر شاید وہ روانہ ہوں محمود احمد کو بہت یاد کرتی ہیں اور بے قرار ہیں.والسلام اس چٹھی پر ذیل کی یادداشت درج ہے.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ یہ رقعہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب کے دست مبارک کا لکھا ہوا ہے جو کہ فاطمہ بنت قاضی ضیاء الدین صاحب کے پاس سے ملا ہے اور تبر کا اس کو اپنے پاس رکھتا ہوں.فقط.اور محمد عبد الله احمدی بوتالوی.“ حمید اصحاب احمد جلد ہفتم صفحه ۱۷، ۱۷۱
مکتوبات احمد ۲۵۴ جلد سوم ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مکان کے مختلف حصوں میں رہائش تبدیل فرماتے رہتے تھے.سال ڈیڑھ سال ایک حصہ میں رہتے.پھر دوسرا کمرہ یا دالان بدل لیتے.یہاں تک کہ بیت الفکر کے اوپر جو کمرہ مسجد مبارک کی چھت پر کھلتا ہے اس میں بھی آپ رہے ہیں اور ان دنوں میں گرمی میں آپ کی اور اہل بیت کی چار پائیاں اوپر کی مسجد میں جو صحن کی صورت میں ہے بچھتی تھیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے جس زمانے کا ہوش ہے میں نے آپ کو زیادہ تر اس کمرہ میں رہتے دیکھا ہے جس میں اب حضرت اماں جان رہتی ہیں جو بیت الفکر کے ساتھ شمالی جانب واقع ہے.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں لاہور میڈیکل کالج میں ففتھ ائیر کا سٹوڈنٹ تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا.مکتوب نمبر ۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عزیزی اخویم میر محمد اسماعیل صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ چونکہ بار بار خوفناک الہام ہوتا ہے اور کسی دوسرے سخت زلزلہ ہونے کی اور آفت کے لئے خبر دی گئی ہے.اس لئے مناسب ہے کہ فی الفور بلا توقف وہ مکان چھوڑ دو.اور کسی باغ میں جار ہو.اور بہتر ہے کہ تین دن کے لئے قادیان میں آکر مل جاؤ.۱۱ را پریل ۱۹۰۵ء ☆☆ و السلام کنید خاکسار مرزا غلام احمد حمد سیرت المہدی جلد اول حصہ سوم صفحہ ۷۳۵، ۷۳۶ جدید ایڈیشن محمد سیرت المہدی جلد دوم حصہ چہارم صفحه ۳۱ جدید ایڈیشن
مکتوبات احمد ۲۵۵ جلد سوم ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میری شادی کی تیاری ہوئی تو میں دہلی کے شفا خانہ میں ملازم تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کے متعلق خط و کتابت ہوتی تھی.میں پہلے اس جگہ راضی نہ تھا.آپ نے مجھے ایک خط میں لکھا کہ اگر تمہیں یہ خیال ہو کہ لڑکی کے اخلاق اچھے نہیں ہیں تو پھر بھی تم اس جگہ کو منظور کر لو.اگر اس کے اخلاق پسند یدہ نہ ہوئے تو میں انشاء اللہ اس کے لئے دعا کروں گا جس سے اس کے اخلاق درست ہو جائیں گے.حضور کے خط کی نقل یہ ہے.مکتوب نمبر ۳ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ عزیزی میر محمد اسمعیل صاحب سلّم، تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته میں نے تمہارا خط پڑھا.چونکہ ہمدردی کے لحاظ سے یہ بات ضروری ہے کہ جو امر اپنے نزدیک بہتر معلوم ہواس کو پیش کیا جائے.اس لئے میں آپ کو لکھتا ہوں کہ اس زمانے میں جو طرح طرح کی بدچلنیوں کی وجہ سے اکثر لوگوں کی نسل خراب ہو گئی ہے.لڑکیوں کے بارے میں مشکلات پیدا ہوگئی ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ بڑی بڑی تلاش کے بعد بھی اجنبی لوگوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے کئی بد نتیجے نکلتے ہیں.بعض لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے باپ یا دادوں کو کسی زمانے میں آتشک تھی اور کئی مدت کے بعد وہ مرض ان میں بھی پیدا ہو جاتی ہے.بعض لڑکیوں کے باپ دادوں کو جذام ہوتا ہے تو کسی زمانہ میں وہی مادہ لڑکیوں میں بھی پیدا ہو جاتا ہے.بعض میں سل کا مادہ ہوتا ہے.بعض میں دق کا مادہ اور بعض کو بانجھ ہونے کی مرض ہوتی ہے اور بعض لڑکیاں اپنے خاندان کی بد چلنی کی وجہ سے پورا حصہ تقویٰ کا اپنے اندر نہیں رکھتیں.ایسا ہی اور بھی عیوب ہوتے ہیں کہ اجنبی لوگوں سے تعلق پکڑنے کے وقت معلوم نہیں ہوتے لیکن جو اپنی قرابت کے لوگ ہیں ان کا سب حال معلوم ہوتا ہے.اس لئے میری دانست میں آپ کی طرف سے نفرت کی وجہ بجز اس کے کوئی نہیں ہوسکتی کہ یہ بات ثابت ہو جائے کہ بشیر الدین کی لڑکی دراصل بدشکل ہے یا کانی یعنی یک چشم ہے یا
مکتوبات احمد ۲۵۶ جلد سوم کوئی ایسی اور بدصورتی ہے جس سے وہ نفرت کے لائق ہے.لیکن بجز اس کے کوئی عذر صحیح نہیں ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ لڑکیوں کے اپنے والدین کے گھر میں اور اخلاق ہوتے ہیں اور جب شوہر کے گھر آتی ہیں تو پھر ایک دوسری دنیا ان کی شروع ہوتی ہے.ماسوا اس کے شریعت اسلامی میں حکم ہے کہ عورتوں کی عزت کرو اور ان کی بد اخلاقی پر صبر کرو اور جب تک ایک عورت پاک دامن اور خاوند کی اطاعت کرنے والی ہو تب تک اس کے حالات میں بہت نکتہ چینی نہ کرو کیونکہ عورتیں پیدائش میں مردوں کی نسبت کمزور ہیں.یہی طریق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کی بد اخلاقی کی برداشت کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اپنی عورت کو تیر کی طرح سیدھی کر دے وہ غلطی پر ہے.عورتوں کی فطرت میں ایک کبھی ہے.وہ کسی صورت سے دور نہیں ہوسکتی.رہی یہ بات کہ سید بشیر الدین نے بڑی بد اخلاقی دکھلائی ہے.اس کا یہ جواب ہے کہ جو لوگ لڑکی دیتے ہیں.ان کی بداخلاقی قابل افسوس نہیں.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ہمیشہ سے یہی دستور چلا آتا ہے کہ لڑکی والوں کی طرف سے اوائل میں کچھ بداخلاقی اور کشیدگی ہوتی ہے اور وہ اس بات میں بچے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی جگر گوشہ لڑکی کو جو ناز و نعمت میں پرورش پائی ہوتی ہے.ایک ایسے آدمی کو دیتے ہیں جس کے اخلاق معلوم نہیں اور وہ اس بات میں بھی سچے ہوتے ہیں کہ وہ لڑکی کو بہت سوچ اور سمجھ کے بعد دیں کیونکہ وہ ان کی پیاری اولاد ہے اور اولاد کے بارہ میں ہر ایک کو ایسا کرنا پڑتا ہے اور جب تم نے شادی کی اور کوئی لڑکی پیدا ہوئی تو تم بھی ایسا ہی کرو گے.لڑکی والوں کی ایسی باتیں افسوس کے لائق نہیں ہوا کرتیں.ہاں جب تمہارا نکاح ہو جائے گا اور لڑکی والے تمہارے نیک اخلاق سے واقف ہو جائیں گے تو وہ تم پر قربان ہو جائیں گے.پہلی باتوں پر افسوس کرنا دانا ئی نہیں.غرض میرے نزدیک اور میری رائے میں یہی بہتر ہے کہ اس رشتہ کو مبارک سمجھو اور اس کو قبول کرلو.اور اگر ایسا تم نے کیا تو میں بھی تمہارے لئے دعا کروں گا.اپنے کسی مخفی خیال پر بھروسہ مت کرو.جوانی اور ناتجربہ کاری کے خیالات قابل اعتبار نہیں ہوتے.موقعہ کو ہاتھ سے دینا سخت گناہ ہے.اگر لڑ کی بد اخلاق ہوگی تو میں اس کے لئے دعا کروں گا کہ اس کے اخلاق تمہاری مرضی کے موافق ہو جائیں گے اور سب کبھی دور ہو جائے گی.ہاں اگر لڑکی کو دیکھا نہیں ہے تو یہ ضروری ہے کہ اول اس کی شکل و شباہت سے اطلاع حاصل کی جائے.لڑکپن اور طفولیت کے زمانہ کی اگر بد شکل بھی ہو
مکتوبات احمد ۲۵۷ جلد سوم تو وہ قابلِ اعتبار نہیں ہوتی.اب شکل وصورت کا زمانہ ہے.میری نصیحت یہ ہے کہ شکل پر تسلی کر کے قبول کر لینا چاہئے.مولود بے شک پڑھے.آخر وہ تمہارا ہی مولود پڑھے گی.حرج کیا ہے.۳۱ را گست ۱۹۰۵ء والسلام مرزا غلام احمد ( آخر صفحہ کے بعد ) مکرر یہ کہ اس خط کے پڑھنے کے بعد صاف لفظوں میں مجھے اس کا جواب ایک ہفتہ کے اندر بھیج دیں.وَالدُّعَا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ خط بیاہ شادی سے تعلق رکھنے والے امور کے متعلق ایک نہایت ہی قیمتی فلسفہ پر مبنی ہے اور یہ جو حضرت صاحب نے خط کے آخر میں مولود کے متعلق لکھا ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ ہماری ممانی صاحبہ اپنے والدین کے گھر میں غیر احمدیوں کے رنگ میں مولود پڑھا کرتی تھیں اور غالباً ان کے والد صاحب کو اصرار ہوگا کہ وہ بدستور مولود پڑھا کریں گی.جس پر حضرت صاحب نے لکھا کہ اس میں کوئی حرج نہیں.جب لڑکی بیاہی گئی اور خاوند کے ساتھ اس کی محبت ہو گئی تو پھر اس نے ان رسمی مولودوں کو چھوڑ کر بالآ خر گو یا خاوند کا ہی مولود پڑھنا ہے.سو ایسا ہی ہوا اور اب تو خدا کے فضل سے ہماری ممانی صاحبہ احمدی ہو چکی ہیں.
مکتوبات احمد ۲۵۸ جلد سوم مکتوب نمبر ۴ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مبارک احمد کی وفات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا تھا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عزیز مبارک احمد ۶ ارستمبر ۱۹۰۷ء بقضاء الہی فوت ہو گیا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ.ہم اپنے رب کریم کی قضا و قدر پر صبر کرتے ہیں.تم بھی صبر کرو.ہم سب اس کی امانتیں ہیں اور ہر ایک کام اس کا حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے.والسلام مرزا غلام احمد خاکسار عرض کرتا ہے کہ کہنے کو تو اس قسم کے الفاظ ہر مومن کہہ دیتا ہے.مگر حضرت صاحب کے منہ اور قلم سے یہ الفاظ حقیقی ایمان اور دلی یقین کے ساتھ نکلتے تھے اور آپ واقعی انسانی زندگی کو ایک امانت خیال فرماتے تھے اور اس امانت کی واپسی پر دلی انشراح اور خوشی کے ساتھ تیار رہتے تھے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ہمارے حقیقی ماموں ہیں.اس لئے ان کے ساتھ حضرت مسیح موعود اپنے چھوٹے عزیزوں کی طرح خط و کتابت فرماتے تھے.ان کی پیدائش ۱۸۸۱ء کی ہے.حضرت مسیح موعود نے ان کا ذکر انجام آتھم کے۳۱۳ صحابہ کی فہرست میں۷۰ نمبر پر کیا ہے مگر چونکہ سید محمد اسمعیل دہلوی طالب علم کے طور پر نام لکھا ہے.اس لئے بعض لوگ سمجھتے نہیں.ست بچن میں بھی ان کا نام انہی الفاظ میں درج ہے.
حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحب سنه الله تعالی
مکتوبات احمد ۲۶۱ جلد سوم احباب بمبئی حضرت سیٹھ اسماعیل آدم سلمہ اللہ تعالی کے نام تعارفی نوٹ بمبئی کو اپنی تجارتی اور سیاسی حیثیت سے جو اہمیت حاصل ہے وہ ظاہر ہے.بمبئی گویا باب عالم ہے.جن کو بمبئی کو دیکھنے کا کبھی موقع ملا ہے وہ وہاں کی مصروف زندگی کو دیکھ کر یہ خیال نہیں کر سکتا کہ یہاں کے رہنے والوں کو مذہب کے متعلق سوچنے کا بھی وقت مل سکتا ہے.بمبئی ایک بین الاقوامی شہر بن گیا ہے.ہندوستان کے اس سب سے بڑے شہر میں احمدیت کی بنیا د ۱۸۹۲ء میں رکھی گئی اور سب سے پہلے بابا زین الدین ابراہیم جو ایک کپڑے کی مل میں انجینئر تھے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اس وقت ہمارے محترم بھائی سیٹھ اسماعیل آدم بد و شباب میں تھے.وہ ایک معزز میمن خاندان کے فرد تھے.اسی قبیلہ کے جس کے ایک فرد حضرت سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی رضی اللہ عنہ تھے.اسی زمانہ کا اسماعیل آدم اپنی قوم کے نوجوانوں میں ایک ہونہار اور علمی مذاق کا نوجوان تھا.مذہب کی اہمیت مقبولیت کے رنگ میں گو سمجھتا تھا مگر مذہب کی عملی روح اس زمانہ کے تاجر نو جوانوں کی طرح نہ تھی.ہاں علمی مذاق تھا.اخبار بینی اور اخبار نویسی کا بھی مذاق تھا.یہی مذاق انہیں احمدیت کے لئے رہنمائی کرنے والا ہوا.۸۵ - ۱۸۸۶ء کے قریب ان کے اندر حق پرستی اور حق جوئی کی فطرتی چنگاری سلگ اُٹھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق اخبار اذکار نے ان کو تحقیق حق کی طرف متوجہ کیا.اس کے متعلق مفصل حالات ان کے تذکرہ میں آئیں گے انہوں نے اپنے پیر صاحِبُ الْعَلَمُ (جھنڈے والا پیر ) سے ایک حلفی بیان چاہا اور فارسی زبان میں ایک خط لکھا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے.ہم تو دنیا دار ہیں اور روحانی آنکھوں سے اندھے ہیں اور آپ لاکھوں انسانوں کے پیشوا اور رہنما ہیں.صاحب بصیرت ہیں.لہذا آپ حلفاً جواب دیں کہ
مکتوبات احمد ۲۶۲ جلد سوم میرزا غلام احمد صاحب قادیانی مدعی مهدویت و مسیحیت اپنے دعوئی میں صادق ہیں یا کا ذب؟ اگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ (مرزا صاحب) سچے ہوئے اور ہم ہدایت سے محروم ہو گئے تو آپ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کے ذمہ دار ہیں اور اگر وہ جھوٹے ہیں اور ہم نے نادانی سے ان کو مان لیا تو ہماری گمراہی کا وبال سب آپ کے سر پر ہے.اس کا جواب حضرت پیر سائیں جھنڈے والے صاحب نے جو لکھا.وہ بھی درج ذیل ہے.شہادت اول :.ہمارے سلسلہ کا دستور ہے کہ مابین نماز مغرب وعشاء ہم اپنے مریدوں کے ساتھ حلقہ کر کے ذکر اللہ کیا کرتے ہیں.ایک روز حلقہ میں بحالت کشف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے دیکھا تو ہم نے آپ سے سوال کیا کہ یا حضرت ! یہ شخص مرزا غلام احمد کون ہے؟ تو آپ نے جواب دیا.از ماست 66 یعنی مرزا غلام احمد تو ہماری طرف سے ہے.شہادت دوم :.ہمارے خاندان کا وطیرہ ہے کہ بعد از نماز عشاء ہم کسی سے کلام نہیں کرتے اور سو جاتے ہیں یہی سنت رسول ہے.ایک دن خواب میں ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا.تو ہم نے سوال کیا کہ حضور مولویوں نے اس شخص ( حضرت مسیح موعود ) پر کفر کے فتوے لگا دئے ہیں اور اس کو جھٹلاتے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا.در عشق ما دیوانه شده است یعنی مرزا غلام احمد تو ہمارے عشق اور محبت میں دیوانہ ہیں.شہادت سوم :.ہمارا سلسلہ اور خاندان تہجد گزار ہے.اس لئے ہم روزانہ رات کو تین بجے کے بعد اٹھتے ہیں اور بعد نماز تہجد کروٹ پر لیٹے رہتے ہیں اور اسی وضو سے صبح کی نماز پڑھتے ہیں اور یہ بھی سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے.ایک دن اسی کروٹ لیٹنے کی حالت میں کچھ وقت غنودگی طاری ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے.اس وقت ہماری حالت نیند اور بیداری کے درمیان تھی تو ہم نے آپ کا دامن پکڑ لیا اور عرض کی.یا رسول اللہ ! اب تو سارا ہندوستان چھوڑ عرب کے علماء نے بھی کفر کے فتوے دے دیئے تو آپ نے بڑے جلال میں تین بار
مکتوبات احمد دوہرا کر فرمایا.۲۶۳ 66 جلد سوم هُوَ صَادِقٌ هُوَ صَادِقٌ.هُوَ صَادِقٌ “ یعنی مرزا غلام احمد تو بچے ہیں.مرزا غلام احمد تو سچے ہیں.مرزا غلام احمد تو سچے ہیں.یہ جواب’ پیر سائیں جھنڈے والے صاحب نے جناب سیٹھ اسمعیل آدم صاحب آف بمبئی کے پاس یہ لکھ کر کہ یہ ہے سچی گواہی جو ہمارے پاس ہے.ہم آپ کی قسم سے سبکدوش ہو گئے.مانا نہ ماننا آپ کا کام ہے.“ ( راقم رشید الدین پیر صَاحِبُ الْعَلَمُ ) بھیج دیا.یہ جواب پہنچنا تھا کہ سیٹھ اسمعیل صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی اور آپ کے حلقہ اطاعت میں داخل ہو گئے.سلسلہ بیعت میں داخل ہونے کے بعد کل کا اسماعیل بالکل بدل گیا اور حقیقی معنوں میں ابدال ہو گیا.قابلیت موجود تھی ، اخلاص تھا.اس سلسلہ میں آکر ترقی کرتا چلا گیا اور وہ پھر بمبئی کے سلسلہ کا آدم قرار پایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عاشقانہ رنگ میں اخلاص ہے اور سلسلہ کی خدمت میں انہوں نے بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں.ان کی تفصیل کتاب تعارف میں آئے گی.خلافت ثانیہ کی اوّل ہی بیعت کر لی مگر بعد میں شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم اور دوسرے لا ہوری احباب کے اثر میں لاہور سے تعلق رہا مگر قادیان سے قطع تعلق کیا نہ فسخ بیعت.بالآخر اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ اصل مرکز سے کامل طور پر وابستہ ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی سیٹھ صاحب سے بڑی محبت تھی اور اس محبت کے اظہار کو خاکسار عرفانی نے بارہا دیکھا.۱۸۹۸ء سے مجھے شرف ملاقات نصیب ہوا اور اس تعلق مودت و اخوت میں ہر نئے دن نے ترقی بخشی.اب ہم دونوں ستر سے اوپر جارہے ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں ہو کر ایک ہی باپ کے بیٹے ہیں.ذیل کے خطوط انہیں کے نام ہیں اور حضرت سیٹھ صاحب اب کاروباری سلسلہ سے ریٹائر ہو کر سلسلہ کے کاموں میں مصروف ہیں اور جماعت احمدیہ بمبئی کے امیر ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو خدمت سلسلہ کے لئے تا دیر سلامت رکھے.آمین.(خاکسار عرفانی کبیر)
جلد سوم صفحه ۲۶۵ ۲۶۵ ۲۶۶ ۲۶۷ ۲۶۸ ۲۶۹ ۲۶۹ ۲۷۰ ۲۷۰ ۲۷۱ ۲۷۲ مکتوبات احمد مکتوب نمبر ۲۶۴ فہرست مکتوبات بنام حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحب سلمہ اللہ تاریخ تحریر ۱۲ / فروری ۱۹۰۰ء ۹ جنوری ۱۹۰۲ء ۳۰ را کتوبر ۱۹۰۲ ۲۵ / دسمبر ۱۹۰۴ء ۳ رمئی ۱۹۰۷ء ۲۷۲ ۲۷۳ ۲۷۳ ۲۷۴ ۲۷۴ بلا تاریخ بلا تاریخ ۳ / اگست ۱۹۰۷ء ۵ /اکتوبر ۱۹۰۷ء ۲۱ / اکتوبر ۱۹۰۷ء بلا تاریخ یکم دسمبر ۱۹۰۷ء بلا تاریخ بلا تاریخ ۲۲ / دسمبر ۱۹۰۷ء ۲۰ جنوری ۱۹۰۸ء ۹ · 11 ۱۲ ۱۴ ۱۵ ۱۶
مکتوبات احمد ۲۶۵ جلد سوم بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبرا نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته آج آپ کا محبت نامہ معہ مبلغ دس روپے میرے پاس پہنچا خدا تعالیٰ آپ کو بہت بہت جزائے خیر بخشے.آمین ثم آمین.تجارت کی رونق اور بے رونقی اور امور کی طرح خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.یہ سب اس ملک کی شامت اعمال میں ہے.آپ ایک مدت تک مجھے یاد دلاتے رہیں.میں انشاء اللہ القدیر دعا کرتا رہوں گا.باقی بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے.۱۲ ر فروری ۱۹۰۰ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۲ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آپ کا عنایت نامہ پہنچا اور نیز مبلغ دس روپے کا نوٹ پہنچا خدا تعالیٰ آپ کے ترددات دور فرمادے اور نعم البدل عطا کرے.آمین.اللہ تعالیٰ بہت کریم ورحیم ہے.وہ بہت کریم ورحیم ہے.اللہ تعالی زیادہ فضل و کرم کرتا ہے.دنیا میں انسانوں کو تھوڑی سی تکلیف دے کر رحمتوں کا دروازہ کھول دیتا ہے.اس پر تو کل رہنا چاہئے اور میں نے بھی آپ کے لئے دعا کی ہے.خدا تعالیٰ قبول فرمادے.آمین.باقی سب طرح سے خیریت رہے.۹ جنوری ۱۹۰۲ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد
مکتوبات احمد ۲۶۶ جلد سوم بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محبی عزیزی ا خویم سیٹھ اسمعیل آدم ستلمه مکتوب نمبر نَحْمَدُهُ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا محبت اور اخلاص کا تحفہ جو آپ نے برخوردار محمود اور بشیر کی شادی کی تقریب پر بھیجا ہے یعنی ایک ٹوپی اور ایک اوڑھنی پہنچ گیا ہے.میں آپ کے اس محبانہ تحفہ کا شکر کرتا ہوں اور آپ کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دین اور دنیا میں اس کا اجر بخشے.آمین.باقی خیریت ہے.۳۰ اکتوبر ۱۹۰۲ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ نوٹ نمبر ا :.حضرت سیٹھ اسماعیل آدم کے نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ایک خاص مکتوب درج کیا جاتا ہے.اس خط کا فوٹو احکام کےجوبلی نمبر میں محو محمود احمد عرفانی نے شائع کیا تھا.یہ خط اپنے اندر ایک تاریخ رکھتا ہے.حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی شادی پر یمکر می حضرت سیٹھ اسماعیل آدم نے ایک تحفہ حضرت کی خدمت میں بھیجا تھا وہ ایک ٹوپی تھی اور اوڑھنی تھی.ٹوپی پر کلابتوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام درج تھا.فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْاَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَأَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت سیٹھ صاحب دوسرے اکابر صحابہ کی طرح اس وقت بھی حضرت خلیفہ ثانی کے مصلح موعود ہونے کا یقین رکھتے تھے.نوٹ نمبر ۲:.حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحب کے نام کے خطوط سے خود سیٹھ صاحب کی سیرۃ پر بھی ایک روشنی پڑتی ہے.گو مکتوبات کی اشاعت میں مکتوب الیہ کے سوانح حیات یا سیرۃ پر بحث مقصود نہیں.یہ چیزیں خود ان کے سوانح حیات میں تفصیلاً اور کتاب تعارف میں اجمالاً آئیں گی تذکره صفحه ۱۱۰ مطبوع ۲۰۰۴ء
مکتوبات احمد ۲۶۷ جلد سوم مگر میں یہاں اپنے دلی جوش کو دبا نہ رکھوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خطوط سے مکرم سیٹھ صاحب کا یہ عمل ثابت ہوتا ہے کہ وہ جب حضرت صاحب کی خدمت میں عریضہ لکھتے تو اس کے ساتھ ضرور ایک مقررہ رقم بھیجتے.خواہ ایسے خطوط کتنی مرتبہ لکھنے پڑتے.یہ دراصل قرآن مجید کی اس ہدایت پر عمل تھا کہ مومنو جب تم رسول سے علیحد ہ مشورہ کرو تو اپنے مشورہ سے پہلے صدقہ پیش کیا کرو یہ تمہارے لئے خیر و برکت کا باعث ہے“.یہ ایک روح تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قدسی نے اپنی جماعت میں پیدا کر دی تھی.وَلِلَّهِ الْحَمْدُ - (عرفانی کبیر ) مکتوب نمبر ۴ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ محبی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آج کی ڈاک میں مبلغ پندرہ روپے مرسلہ آپ کے مجھ کو عین اس وقت پہنچے جب کہ سالانہ جلسه آخری...میں ضرورت تھی.خدا تعالیٰ آپ کو ان تمام خدمات کی جزائے خیر بخشے.آمین.باقی بفضلہ تعالیٰ ہر طرح سے خیریت ہے.گاہے گاہے اپنی خیریت سے مطلع فرماتے رہیں.۲۵ / دسمبر ۱۹۰۴ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد
مکتوبات احمد ۲۶۸ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۵ مجی اخویم سیٹھ اسماعیل آدم صاحب سلمہ اللہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے خط آمدہ سے واقعہ درد ناک آپ کی اہلیہ کی وفات سے اطلاع ہوئی إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ.دعا بہت کی گئی تھی مگر تقدیر مبرم کے ساتھ کیا چارہ ہے بجز اس کے کہ صبر اور رضا سے کام لیا جائے.مجھے آپ کی زبانی معلوم ہے کہ آپ کی یہ اہلیہ مرحومہ بڑی خیر خواہ اور آپ کی تکالیف کے وقت خود اپنے آپ کو درد اور تکالیف میں ڈالتی تھی.جب کہ آپ کو طاعون ہوئی تو آپ کی خدمت کرنے کے وقت اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی.درحقیقت ایسی دلی خیر خواہ بیویاں بہت ہی کم ملتی ہیں اور ان کے مرنے سے زندگی تلخ ہو جاتی ہے اور نیز ان کے مرنے سے خانہ داری کا انتظام تمام درہم برہم ہو جاتا ہے مگر خدا تعالیٰ کی قضاء وقدر سے موافقت کرنا اور اس کی رضا پر راضی ہونا بچے ایماندار کا کام ہے.خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ وہ مصیبت کے وقت انشراح صدر سے صبر کرتے ہیں یا نہیں.مجھے معلوم تھا کہ آپ کی بیماری میں آپ کو بہت تکلیف ہے اس لئے دعا بار بار کی گئی مگر چونکہ آسمان پر ان کی موت مقرر ہو چکی تھی اور عمر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اس لئے دُعا بے کو تھی.بہر حال اب آپ کو صبر کرنا چاہئے.خدا تعالیٰ قادر ہے کہ کسی نعم البدل سے اس درد کو دور کر دے.آپ کی موجودہ تکالیف کی گھبراہٹ تو بے شک آپ کو بہت صدمہ پہنچ رہی ہو گی مگر صبر کریں خدا آپ کو اس مصیبت کی جزا دے.آمین.باقی سب طرح سے خیریت ہے.۳ رمئی ۱۹۰۷ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد بقلم خود
مکتوبات احمد ۲۶۹ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۶ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته پہلے آپ کے خط کا میں جواب لکھ چکا ہوں اور نوٹ دس روپیہ کے پہنچنے کی بھی اطلاع دے چکا ہوں.آپ کے تجارتی کام میں تشویش ہونا میرے لئے باعث تفکر ہے.خدا تعالیٰ غیب سے آپ کے لئے کوئی سامان میسر کرے اور کام میں رونق بخشے.آمین.باقی سب طرح سے خیریت ہے.دوسرا خط بھی پہنچ گیا.باقی سب خیریت ہے.والسلام غلام احمد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبرے نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا اخلاص نامہ مع نوٹ مبلغ دس روپیہ مجھ کو ملا.خدا تعالیٰ آپ کو آپ کی ان خدمات کا دست بدست بدلہ دے.آمین.در حقیقت تجارت کے امور میں ہر جگہ یہی ہوا چل رہی ہے مگر اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ اس ہوا کو بدلا دے.آمین.انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے دعا کرتا رہوں گا.ہمیشہ اپنے حالات ابتلا آت سے مطلع فرماتے رہیں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد
مکتوبات احمد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم ۲۷۰ مکتوب نمبر ۸ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جلد سوم آپ کا عنایت نامہ پہنچا.میں نے پہلے خط کا جواب بھیج دیا تھا.شاید ڈاک میں گم ہو گیا ہو.میں انشاء اللہ دعا کروں گا.پہلے بھی دعا کی تھی.منی آرڈر نہیں پہنچا ، غالبا کل تک پہنچ جائے گا.باقی بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے.۳ اگست ۱۹۰۷ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد قادیان بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۹ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ آپ کا خط مشتمل عزا پرسی عزیز مرحوم مبارک احمد معہ مبلغ دس روپیہ کے نوٹ کے پہنچا.خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے.میں ہمیشہ آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اور انشاء اللہ کرتا رہوں گا.باقی سب طرح سے خیریت ہے.۵/اکتوبر ۱۹۰۷ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد
مکتوبات احمد ۲۷۱ جلد سوم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۱۰ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا اخلاص نامہ مع نوٹ مبلغ وہ رو پے پہنچا.جَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا.خدا تعالی یہ نئی شادی آپ کے لئے مبارک کرے اور اس میں آپ کا صدمہ اور غم بھلا دے.آمین.بفضلہ تعالیٰ سب طرح خیریت ہے.میں یہ خط بمبئی میں بھیجتا ہوں.امید ہے انشاء اللہ العزیز اس خط کے پہنچنے تک آپ بخیر و عافیت بمبئی میں پہنچ گئے ہوں گے.خدا تعالیٰ آفات سے محفوظ رکھے.والسلام ۲۱ اکتوبر ۱۹۰۷ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عید الفطر مبارک باد جناب مرشد نا ومولانا حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود ایتد کم اللہ بنصره السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ قبل اس کے ایک عریضہ مع ایک پارسل بذریعہ ڈاک مورخہ ۲۳ / رمضان المبارک کے روز خدمت عالی میں ارسال کیا تھا یقین ہے کہ پہنچا ہو گا.آج روز اس عریضہ کے ساتھ مبلغ دس روپیہ کا نوٹ ارسال خدمت ہے.غالبا یہ عید الفطر کے روز پہنچے گا.یہ تحفہ عید قبول فرما دیں اور دعا سے یاد شاد فرما دیں.۵/ نومبر ۱۹۰۷ء آپ کا خاکسار خادم اسماعیل آدم از بمبئی
مکتوبات احمد دس روپیہ پہنچ گئے.۲۷۲ مکتوب نمبر 11 والسلام ( غلام احمد ) جلد سوم مخدومی السلام علیکم اتفاقاً پرانے کاغذات میں سے یہ کاغذ نکلا ہے جس پر حضرت صاحب کے دست مبارک سے لکھا ہوا ہے اس واسطے ارسال خدمت ہے.والسلام عاجز محمد صادق مکتوب نمبر ۱۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مجی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ع آج کی تاریخ آپ کا محبت نامہ مع مبلغ دس روپیہ مجھ کو ملا.خد اتعالیٰ آپ کو ان تمام خدمتوں کی جزائے خیر بخشے آمین.اس طرف بھی قحط پڑ گیا ہے.یہ تمام انسانوں کی شامت اعمال ہیں.آگے طاعون کے دن بھی قریب آتے جاتے ہیں.معلوم نہیں کیا ہونے والا ہے.ایک پیش گوئی میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آئندہ ایک سخت طاعون ہونے والا ہے.معلوم نہیں کہ اس سال یا آئندہ سال.اسی طرح ہمیشہ خیر و عافیت سے مطلع فرماتے رہیں.والسلام یکم دسمبر ۱۹۰۷ء حل یہاں کا غذ سے مراد ' دس روپے پہنچ گئے “ والا مکتوب ہے.( ناشر ) مرزا غلام احمد
مکتوبات احمد حضرت اقدس ۲۷۳ جلد سوم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته سیٹھ اسمعیل آدم کا لڑکا پلیگ سے بیمار ہے.انہوں نے دعا کے واسطے لکھا ہے.(محمد صادق) مکتوب نمبر ۱۳ السلام علیکم میرے نام بھی کل خط آیا تھا اور نیز دس روپیہ آئے تھے کہ اب بہ نسبت سابق اچھا ہے اور کل تار آئی تھی.میری طرف (سے) آپ خط لکھ دیں کیونکہ میں اس وقت بیمار ہوں اور خط میں لکھ دیں کہ تار پہنچ گئی تھی دعا کی گئی تھی اور اب خط بھی پہنچ گیا اور دس روپیہ بھی پہنچ گئے ہیں.دُعا کی جاتی ہے جلد اور واپسی صحت سے اطلاع بخشیں.یہی خط میری طرف سے ڈاک میں روانہ کر دیں.اپنے ہاتھ سے لکھ دیں اور میری طرف سے لکھ دیں کہ آج بخار سے میں خود نہیں لکھ سکتا.والسلام خاکسار مکتوب نمبر ۱۴ مرزا غلام احمد بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا محبت نامہ پہنچا الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالْمَنَّةُ کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے لخت جگر کو طاعون کے صدمہ میں بچا لیا.در حقیقت یہ نئی زندگی ہے.خدا تعالیٰ نے آپ پر بہت ہی رحم کیا کہ اس مہلک مرض میں بچا لیا.اس خط میں ایک نوٹ مبلغ دس روپیہ پہنچا.جَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ ـ باقی بفضلہ تعالیٰ ہر طرح خیر و عافیت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد
مکتوبات احمد ۲۷۴ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۱۵ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کے پارچہ جات کا پارسل پہنچا.جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرًا.آمین.اس وقت وہ تمام پارچہ جات جو تقسیم کرنے کے لائق تھے غرباء مستحقین کو تقسیم کر دیئے.خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے.آمین اور جو خاص ہمارے گھر کے لئے آپ کا تحفہ تھا اس کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو اس کا بدلہ دے.آمین.باقی بفضل تعالیٰ تا دم حال سب طرح سے خیریت ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی مع اہل وعیال خیریت اور امن اور امان سے رکھے اور بلاؤں سے بچاوے.آمین ثم آمین.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ تعالیٰ ۲۲ / دسمبر ۱۹۰۷ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۶ الله از قادیان نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ معہ مبلغ دس روپے کے نوٹ کے پہنچا.جَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ.میں انشاء اللہ آپ کے لئے کئی دفعہ دعا کروں گا.خدا تعالیٰ آپ کو حوادث روزگار سے بچا دے.آمین.یہ آپ کے اخلاص کی نشانی ہے کہ باوجودیکہ کاروبار تجارت کی ویسی حالت نہیں جیسا کہ آپ لکھتے ہیں تب بھی ہمارے سلسلہ کے لئے آپ کی طرف سے برابر مدد پہنچتی ہے.خدا تعالیٰ آپ کے کاروبار تمام آسان کر دے اور مشکلات سے نجات بخشے.آمین والسلام خاکسار ۲۰ جنوری ۱۹۰۸ء مرزا غلام احمد
عکس مکتوبات بنام حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحب بنی الہ عا
3 عکس مکتوب نمبر ۳ 1903 - 10 -30-araة lang Recend 3-11-19+2 سم الارا صوابع نے چھی فریوے اقوام کشته اسمائیل کا تحطم جو رسوائی بر خودرو و جو تقریب سے میری منبع مربح لب اور ان کے حق مینا بال احمد اعمال
4 عکس مکتوب نمبر ۱۶ عمر خواییم ال با عنایت که هم به مسیح و نعم و از کرکی کا خورمائی آٹھ کروٹ اور گاہ کی رو سے ایشین نے آئے عروض کی شکر بھی رہی ہے ا ا ا ا ا ا ا رات ایک اور ریاست تھی جس کے پر تم میں تب میں مارا مسلہ بھی آئی آپ کی بیعت کیا شتراس ا ا ا ا ی ی ی ی ی ی ی ی ی اسلامی را در انار -
حضرت شیخ فتح محمد صاحب بانی ان اعمال محمد صاحب رضی عنہ
مکتوبات احمد ۲۷۷ حضرت شیخ فتح محمد صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کے نام تعارفی نوٹ جلد سوم شیخ فتح محمد صاحب آغاز شباب میں بحیثیت طالب علم حضرت خلیفہ المسح اول رضی اللہ عنہ کے حضور جموں پہنچے اور آپ کی خدمت میں کچھ کتابیں پڑھیں اور آپ کے توسط سے سلسلہ ملا زمت میں منسلک ہو گئے.ذہین اور زیرک ہونے کے ساتھ طبیعت تیز تھی اور اس وجہ سے دوستوں کی بجائے دشمن زیادہ پیدا کر لیتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اخلاص رکھتے تھے اور حضور مؤلفۃ القلوب کے طور پر ہمیشہ دلداری فرماتے.پنشن لے کر آخر قادیان آگئے تھے.حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز بھی ہمیشہ چشم پوشی فرماتے رہے.بالآخر میں تو قادیان سے باہر گیا ہوا تھا معلوم ہوا کہیں روپوش ہو گئے اور پھر واپس نہ آئے.اللہ تعالیٰ ان کی ستاری فرمائے.ان کی اولا د میں صلاحیت ہے اور وہ سلسلہ سے وابستہ ہیں.شیخ صاحب کے پاس حضرت اقدس کے خطوط کا ایک اچھا مجموعہ تھا اور مجھے دینے کا وعدہ کرتے رہے مگر میری غیر حاضری اور ان کی روپوشی نے موقعہ نہ دیا.ذیل کے مکتوبات ان کے فرزند رشید صالح محمد صاحب سے حاصل کر کے ملک فضل حسین صاحب نے الفضل میں شائع کئے ہیں.(عرفانی کبیر )
مکتوبات احمد ۲۷۸ مکتوب نمبر فہرست مکتوبات بنام حضرت شیخ فتح محمد صاحب تاریخ تحریر ۹ / مارچ ۱۸۹۰ء ۱۶ رستمبر ۱۸۹۰ء ۱۸ مارچ ۱۸۹۱ء ۱۸؍ جولائی ۱۸۹۱ء ۲۳ / اگست ۱۸۹۱ء ۲۳ / دسمبر ۱۸۹۱ء ۲ جولائی ۱۸۹۲ء صفحہ ۲۷۹ ۲۷۹ ۲۸۰ ۲۸۰ ۲۸۱ ۲۸۱ ۲۸۲ جلد سوم
مکتوبات احمد ۲۷۹ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمی اخویم مکتوب نمبرا نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ فتح محمد حصول بشارت کے لئے دو رکعت نماز وقت عشاء پڑھ کر اکتالیس دفعہ سورۃ فاتحہ پڑھے اور اس کے اول و آخر گیارہ گیارہ دفعہ درود شریف پڑھے اور اپنے مقصد کے لئے دعا کر کے رو بقبلہ باوضوسور ہے.جس دن سے شروع کریں.اُسی دن تک اس کو ختم کریں.انشاء اللہ العزیز وہ امر جس میں خیر اور برکت ہے.حالت منام میں ظاہر ہوگا.والسلام * ۹ / مارچ ۱۸۹۰ء خاکسار غلام احمد بباعث ضعف و علالت فتح محمد کی طرف خطا نہیں لکھا گیا.( پتہ ) بمقام جموں دار الریاست - مکر می اخویم حکیم نورالدین صاحب ملازم و معالج ریاست.مکتوب نمبر ۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ عزیزی میاں فتح محمد صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خط پہنچا.چونکہ اکثر اوقات طبیعت ضعیف رہتی ہے اس لئے خط کے جواب میں تاخیر ہوئی.ہمیشہ اپنے حالات خیریت سے مطلع کرتے رہیں.۱۶ ستمبر ۱۸۹۰ء والسلام غلام احمد عفی عنہ بمقام لدھیانہ اقبال گنج الفضل نمبر ۱۰۹ جلد ۳۱ مورخه ۸ رمئی ۱۹۴۳ء صفحه ۳
مکتوبات احمد ۲۸۰ جلد سوم مکتوب نمبر ۳ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا مہر بانی نامہ پہنچا.آپ کے تر ذرات بہت طول پذیر ہو گئے.خدا تعالی رہائی بخشے.شاید ایک ہفتہ ہوا.میں نے آپ کو خواب میں دیکھا.گویا آپ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں کیا کروں تو میں نے آپ کو یہ کہا ہے.خدا سے ڈر پھر جو چاہے کر.سو آپ تقوی اختیار کریں.اللہ جل شانہ آپ کوئی راہ پیدا کر دے گا.۱۸ مارچ ۱۸۹۱ء والسلام غلام احمد از لدھیانہ محلہ اقبال گنج ( نوٹ از ناقل ) اس خط کے بائیں طرف اوپر کے حصہ میں مندرجہ ذیل عبارت بھی لکھی ہوئی ہے.از طرف عاجز حامد علی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.یہ الہامی الفاظ جس روز آپ کا خط پہنچا اسی روز معلوم ہوئے.“ مکتوب نمبر۴ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مشفقی اخویم میاں فتح محمد صاحب سلمہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا شفقت نامہ اور ہا نہ میں مجھ کو ملا.آپ کی بیماری کی وجہ سے بہت تر ڈ دہوا.آپ کے لئے دعا کی گئی.خدا تعالیٰ آپ کو بہت جلد شفا بخشے.اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے.۱۸ ؍ جولائی ۱۸۹۱ء والسلام خاکسار غلام احمد از لودھیانه
مکتوبات احمد ۲۸۱ جلد سوم بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مشفقی مجی اخویم سلّمه مکتوب نمبر ۵ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم و رحمۃ اللہ آپ کا خط پہنچا.تسلی رکھیں.انشاء اللہ العزیز میں آپ کے لئے بہت دعا کروں گا.مشکلی نیست که آساں نشود استغفار کاور درکھیں اور مجھ کو اپنے حالات سے خبر دیتے رہیں.میں لودھیا نہ میں اسی مکان میں ہوں.۲۳ اگست ۱۸۹۱ء والسلام خاکسار غلام احمد از لودھیانه مکتوب نمبر ۶ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ عزیزی میاں فتح محمد صاحب سلمہ اللہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.آپ کی صحت سے بہت خوشی ہوئی اور میں بھی علیل رہا ہوں.اب بفضلہ تعالی آرام ہے.آپ بوجہ تعلق ملا زمت معذور ہیں کچھ معلوم نہیں کہ کب آپ کی ملاقات ہو.ہمیشہ اپنی خیر و عافیت سے مطلع ومسرور کرتے رہیں.زیادہ خیریت.والسلام ۲۳ / دسمبر ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محبی اخویم ۲۸۲ مکتوب نمبرے نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جلد سوم آپ کا خط پہنچا.افسوس کہ آپ پھر معطل اور بے کار ہیں.میں انشاء اللہ العزیز آپ کے لئے دعا کروں گا اور ظاہری سعی و کوشش آپ کرتے رہیں اور التزام نماز اور توبہ واستغفار ضروریات سے ہے.خدا تعالیٰ آپ کی پریشانی دور کرے اور وہ ہر ایک بات پر قادر ہے.۲ جولائی ۱۸۹۲ء والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان
حضرت مولوی عبدالقادر صاحب لود بہانوی رضی اللہ تعالی عنہ
مکتوبات احمد مکتوب نمبر ۲۸۴ فہرست مکتوبات بنام حضرت مولوی عبد القادر صاحب او د بانوی تاریخ تحریر ۲۱ رمئی ۸۳ء ۹/ جون ۱۸۹۱ء صفحہ ۲۸۶ ۲۸۸ جلد سوم
مکتوبات احمد ۲۸۵ جلد سوم حضرت مولوی عبد القادر صاحب لود با نومی رضی اللہ تعالی عنہ کے نام تعارفی نوٹ حضرت مولوی عبد القادر صاحب رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے براہین احمدیہ کے زمانے سے عقیدت وارادت رکھتے تھے اور قدیم طرز کے علماء میں سے یہ ایک ایسے بزرگ تھے جو سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے با وجود قدیم وضع کے عالم ہونے کے اخلاص کے رنگ میں رنگین ہوئے.وہ ایک جید عالم تھے.حنفی المذہب تھے.آپ کے والد ماجد مولوی محمد موسیٰ صاحب رضی اللہ عنہ بھی بڑے عالم تھے.لودہا نہ میں ان کا مدرسہ بڑی شان کا مدرسہ تھا.اسی مدر سے سے مکر می مولوی ابوالبقا صاحب بقا پوری اور ان کے برادر بزرگ مولوی حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب بقا پوری رضی اللہ عنہ انہیں کے شاگردوں میں سے ہیں.حضرت مولوی عبد القادر صاحب کو تبلیغ کا بہت شوق اور جوش تھا اور وہ جہاں جاتے حضرت اقدس کے دعوے اور دلائل کو پیش کرتے اور علماء میں تبلیغ کرتے رہتے.خاکسار عرفانی سے ۱۸۸۹ء سے تعلقاتِ اخوت تھے.وہ مولوی مشتاق احمد صاحب کے پاس باقاعدہ آیا کرتے تھے اور مولوی صاحب موصوف میرے استاد تھے.افسوس ہے ان کو ہدایت نہ ہوئی.ان کا ذکر مکتوبات کی چوتھی جلد کے دوسرے نمبر میں آئے گا.جہاں ان کے نام کا خط درج ہو گا.غرض حضرت مولوی عبدالقادر صاحب رضی اللہ عنہ سلسلے کے اولین علماء میں سے ایک نہایت مخلص اور جید عالم تھے.وہ خود لکھنے سے قاصر تھے اس لئے لو دہا نہ میں عموماً میر عباس علی صاحب کے خطوط میں جو کچھ عرض کرنا ہوتا کر دیتے تھے اور ان کے خطوط ہی میں جواب مل جاتا تھا اور کثرت سے قادیان آتے رہتے تھے اس لئے کچھ زیادہ خط و کتابت نہ کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان پر اپنے بیکراں فضل کرے.آمین.(خاکسار عرفانی)
مکتوبات احمد ۲۸۶ جلد سوم مکتوب نمبرا بخدمت مخدومی مولوی عبد القادر صاحب! بعد سلام مسنون عرض یہ ہے کہ جو کچھ آپ نے سمجھا ہے نہایت بہتر ہے.دنیا میں دعا جیسی کوئی چیز نہیں.الدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ ہے یہ عاجز اپنی زندگی کا مقصد اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کے لئے ایسی دعائیں کرنے کا وقت پاتا رہے کہ جو رب العرش تک پہنچ جائیں اور دل تو ہمیشہ تڑپتا ہے کہ ایسا وقت ہمیشہ میسر آجایا کرے مگر یہ بات اپنے اختیار میں نہیں.سواگر خدا وند کریم چاہے گا تو یہ عاجز آپ کے لئے دعا کرتا رہے گا.یہ عاجز خوب جانتا ہے کہ سچا تعلق وہی ہے جس میں سرگرمی سے دُعا ہے.مثلاً ایک شخص کسی بزرگ کا مرید ہے مگر اس بزرگ کے دل میں اس شخص کی مشکل کشائی کے لئے جوش نہیں اور ایک دوسرا شخص ہے جس کے دل میں بہت جوش ہے اور وہ ایسے کام کے لئے ہو رہا ہے کہ حضرت احدیت سے اس کی رستگاری حاصل کرے.سوخدا کے نزدیک سچا رابطہ یہ شخص رکھتا ہے.غرض پیری مریدی کی حقیقت یہی دعا ہے.اگر مرشد عاشق کی طرح ہو اور مرید معشوق کی طرح ، تب کام نکلتا ہے یعنی مرشد کو اپنے مرید کی سلامتی کے لئے ایک ذاتی جوش ہو ، تا وہ کام کر دکھا دے.سرسری تعلقات سے کچھ ہو نہیں سکتا.کوئی نبی اور ولی قوتِ عشقیہ سے خالی نہیں ہوتا یعنی ان کی فطرت میں حضرت احدیت نے بندگان خدا کی بھلائی کے لئے ایک قسم کا عشق ڈالا ہوا ہوتا ہے.پس وہی عشق کی آگ ان سے سب کچھ کراتی ہے اور اگر ان کو خدا کا یہ حکم بھی پہنچے کہ اگر تم دعا اور غم خواری خلق اللہ نہ کرو تو تمہارے اجر میں کچھ قصور نہیں تب بھی وہ اپنے فطرتی جوش سے رہ نہیں سکتے اور ان کو اس بات کی طرف خیال بھی نہیں ہوتا کہ ہم کو اس جان کنی سے کیا اجر ملے گا کیونکہ ان کے جوشوں کی بنا کسی غرض پر نہیں بلکہ وہ سب کچھ قوت عشقیہ کی تحریک سے ہے اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ کے خدا اپنے نبی کو سمجھاتا ہے کہ اس قدر غم اور درد کہ تو لوگوں کے مومن بن جانے کے لئے اپنے دل پر اُٹھاتا ہے، اس سے تیری جان جاتی رہے گی.سو وہ عشق ہی تھا جس ترمذى كتاب الدعوات الشعراء :
مکتوبات احمد ۲۸۷ جلد سوم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جان جانے کی کچھ پرواہ نہ کی.پس حقیقی پیری مریدی کا یہی احوال ہے اور صادق اسی سے شناخت کئے جاتے ہیں کیونکہ خدا کا قدیمی احوال ہے کہ قوت عشقیہ صادقوں کے دلوں میں ضرور ہوتی ہے تا وہ بچے غم خوار بننے کے لئے لائق ٹھہر میں جیسے والدین اپنے بچہ کے لئے ایک قوتِ عشقیہ رکھتے ہیں تو ان کی دعا بھی اپنے بچوں کی نسبت قبولیت کی استعداد زیادہ رکھتی ہے.اسی طرح جو شخص صاحب قوت عشقیہ ہے وہ خلق اللہ کے لئے حکم والدین رکھتا ہے اور خواہ نخواہ دوسروں کا غم اپنے گلے میں ڈال لیتا ہے کیونکہ قوت عشقیہ اس کو نہیں چھوڑتی اور یہ خدا وند کریم کی طرف سے ایک انتظامی بات ہے کہ اس نے بنی آدم کو مختلف فطرتوں پر پیدا کیا ہے.مثلاً دنیا میں بہادروں اور جنگجو لوگوں کی ضرورت ہے سو بعض فطرتیں جنگ جوئی کی استعداد رکھتی ہیں.اسی طرح دنیا میں ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہے کہ جن کے ہاتھ پر خلق اللہ کی اصلاح ہوا کرے سو بعض فطرتیں یہی استعداد لے کر آتی ہیں اور قوتِ عشقیہ سے بھری ہوئی ہوتی ہیں.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى الْآلَاءِ ظَاهِرُهَا وَبَاطِنُهَا - ۲۱ رمئی ۸۳ء بمطابق رجب ۱۳۰۰ھ م الحکم نمبر ۲۴ ۲۵ جلد ۲ مورخه ۲۰، ۲۷ /اگست ۱۸۹۸ء صفحه ۱۲ خاکسار مرزا غلام احمد
مکتوبات احمد ۲۸۸ مکتوب نمبر ۲ مشفقی اخویم مولوی عبد القادر صاحب سلّمہ اللہ تعالیٰ جلد سوم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وقت مخلصی میاں عبداللہ صاحب اس غرض سے آپ کے پاس آتے ہیں کہ میں نے میاں گلاب شاہ صاحب کی وہ تمام پیشگوئی کتاب ازالہ اوہام میں درج کر لی ہے مگر ایک کسر اس میں باقی ہے اور وہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہے نوا دو ستو آدمی کی تصدیق سے میاں کریم بخش کی راست بازی اور صادق القول ہونے کی گواہی لی جائے.جس قدر ایسے آدمی ہوں اسی قدر بہتر ہوسکیں گے اور نیز اگر گاؤں میں اور آدمی میاں گلاب شاہ کے دیکھنے والے باقی ہوں ان سے ان کی نسبت بطور گواہی کچھ زیادہ دریافت کیا جائے.براہ مہربانی پوری پوری کوشش کر کے اس کام کو انجام دلا دیں یہ نہایت ضروری ہے.۹ر جون ۱۸۹۱ء فقط ☆ غلام احمد از لودھیانه م روزنامه الفضل نمبر ۲۹۰ جلد ۳۰ مورخه ۱۳؍ دسمبر ۱۹۴۲ء صفحه ۳
لیا حضرت سیّد امیر علی شاہ صاحب بین الله تعالی عنہ
مکتوبات احمد ۲۹۱ مکرم سیدامیر علی شاہ صاحب رضی اللہ تعالی عنہ (نوٹ) ان سید امیر علی شاہ صاحب کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کون بزرگ تھے مگر حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی محمد تفضل حسین صاحب رضی اللہ عنہ کے ذریعہ وہ حضرت اقدس کے دعاوی اور مقاصد سے جلد سوم آگاہ ہوئے تھے.انہیں اس امر پر غالباً اصرار تھا کہ حضرت اقدس اپنے دعاوی کا اظہار نہ کریں مگر حضور نے اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ جو شخص مامور برائے اصلاح خلق ہوتا ہے وہ اگر اظہار نہ کرے تو معصیت ہوتی ہے.(عرفانی کبیر)
مکتوبات احمد ۲۹۲ جلد سوم بخدمت اخویم مکرم سید امیر علی شاہ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته تلطف نامه بلف عنایت نامه اخویم مولوی محمد تفضل حسین صاحب رسیده موجب ممنونی با گرویدہ.کلماتے کہ از راہنمائی نور ایمان و حسن ظن که سیرت اخوان مومنین است حوالہ قلم آں مهربان به پیرا یہ مدح و ثنا شدہ آں ہمہ بر صفائی نظر فر است صحیحه و طہارت باطن آں مکرم دلیل کافی است - ثَبَّتَكُمُ اللهُ عَلَيْهَا وَ اَلْزَمَكُمُ كَلِمَةَ التَّقْواى - اما سوالاتے کہ تحریر فرموده اند - درباره آں شرمندگی با دارم که بوجه علالت طبع و قلت فرصت از ارقام جواب آں کہ طولے دار د قاصرام ونصیحتے چند که درج تلطف نامه است شکر آن بر من واجب است - جَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ وَاعْبُكُمُ دَقَائِقَ الْهُدى وَالنُّهى لیکن منع از اظہار الہامات که اشار تے بسوئے آن می فرمائند معنی اش نمی فہم.شاید در وقت تحریر این نصیحت عبودیت ایں عاجز نظر انداز خیال سامی شده - بنده نه از خود راه اسرار میگزیند نه راه اعلان بنده را بخود روی چه کار تابع مرضی مولئے است بہر سو که می کشد میرود.مردہ بدست زنده است، بهر نج که گردش دهند میگردد و این هم عجب است که هر چه از اظہار اسرار ملکوت و قدرت حتى لا يموت انبیاء علیهم السلام را جائز است بر جانشینان شان که به انبیاء بنی اسرائیل تشبیه داده شده اند حرام ناجائز باشد حالانکه ایشان مثل انبیا مامور شده می آئند و اتمام حجته وقطع عذرات منکرین لا زم منصب ایشان است - آرے آن گوشه نشینان که به اصلاح خلق کارے ندارند، و نه از بہر دعوت حق مامور می شوند ایشان را ہمیں مناسب است مستور ومخفی دارند - اما آنکه مامور با ظهار است او اگر راه اخفا گزیند عاصی و نافرمانست - قومی هستند که خفا و کتمان پیرا یہ شان باشد اگر اظهار کنند مظنه سلب ولائت ایشان باشد چرا که اظهارشان از جنبش نفس شان خواهد بود - به امر الله تعالیٰ و قومی دیگر است که از خود و نفس خود بکلی مسلوب اند و بعشق اظہار الہی ملبت و معمور ایشان اگر چه نبی نیستند مگرشان نبوت دارند و مثل انبیاء برائے اصلاح خلق می آیند لا جرم بنائے کارشان بر اظہار است نه برا خفا وادعائے منازل و جاہت و دعوئی مقامات ولائت و بیان معاملات ربانی و مکالمات
مکتوبات احمد ۲۹۳ جلد سوم رحمانی و کشف اسرار روحانی در حق شان مضرت ندارند بلکه باعث خوشنودی مولی و موجب ترقی مدارج و تحقق شجاعت عظیمی است- غور فرمائند که از ائمه هدی چه قدر کلمات فخریه خود در کتب و رسائل شان موجود اند.مثلاً تالیفات وقصائد سیدی عبد القادر رضی اللہ عنہ واشعار فخر یہ سید الشہد ا در معرکہ کر بلایان تو اتر یافته میشوند و چنداں ازیں جنس کلمات پر هستند که نتواں نہفت.بچھنیں جا بجا ایں چنیں کلمات و ایس چنیں دعاوی عالیه در کتب این قوم مملواند حاجت زیادت بیان نیست.وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِی اِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّى ہر کہ برائے اظہار چیزے مامور من الله باشد آن اظهار از جانب مظہر حقیقی ست نه از جانب او.براں طعن و تشنیع بعید از کسانے ہست که میدانند که این راه درامت حضرت خیر الا نام علیه الف الف سلام از قدیم مکشوف است و ایں چنیں مردم همیشه در یں اُمت بوده اند و هستند و خواهند بود.اگر کے بہ نسبت تحدیث به نعمت الله چیزی از آلا ونعماء که از حق و جل و علا نصیبش شده بیان کند بشر طیکه مامور با خفا نہ باشد دراں ہم باکے نیست بلکہ اشاعت علم و معرفتے و خلق را ازاں علم و معرفت متمتع و مستفیض گردانیدن بہتر از اخفائے آن علم و معرفت است و در حدیث آمده است که هر که را علمی داده شد و او ازاں علم بندگان خدا را نفع نہ رسانید بروز قیامت از و مواخذه خواهد شد غرض حقیقت این است که بیان کردم - وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِحَالِ الْأَعْمَالِ بِالنِّيَّاتِ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى - خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ا یوسف:۵۴ حمد بدر نمبر ۳۲ جلد ۸ مورخه ۳ / جون ۱۹۰۹ء صفحه ۶، ۷
مکتوبات احمد ۲۹۴ جلد سوم فارسی مکتوب کا ترجمہ بخدمت اخویم مکرم سیدامیر علی شاہ صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مولوی خویم محمد تفضل حسین صاحب کے عنایت نامہ کے ہمراہ آپ کا تلطف نامہ ملکر بہت ہی ممنونی کا موجب ہوا.وہ کلمات جو نور ایمان کی راہنمائی و حسن ظن کہ جو مومن بھائیوں کی سیرت سے ہے آں مہربان نے مدح وثنا کے پیرا یہ میں حوالہ قلم کئے ہیں وہ تمام صفائی نظر فراست صحیحہ اور آں مکرم کی طہارت باطنی پر کافی دلیل ہے.ثَبَّتَكُمُ اللهُ عَلَيْهَا وَ الْزَمَكُمُ كَلِمَةَ التَّقْواى.جو سوالات که تحریر فرمائے گئے ہیں میں اس بارہ میں شرمندہ ہوں کہ بوجہ علالت طبع و فرصت کی کمی کے جواب لکھنے سے جو کہ کافی طویل ہوگا قاصر ہوں اور چند نصیحتیں جو کہ تلطف نامہ میں درج ہیں اُن کا شکر یہ مجھ پر واجب ہے.جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ وَ اَعْطَكُمُ دَقَائِقَ الْهُدَى وَالنُّهَى.لیکن الہامات کے اظہار سے منع کرنے کے متعلق جو اشارے آپ نے فرمائے ہیں اُس کے معنی میں نہیں سمجھا شاید اس نصیحت کے لکھتے وقت اس عاجز کی عبودیت آپ کے خیال عالی سے نظر انداز ہوگئی ہے.یہ بندہ خود اپنی طرف سے نہ تو اخفا کی راہ اختیار کرتا ہے اور نہ اعلان کی راہ.اس بندے کو اپنی مرضی سے کیا کام.یہ تو مولیٰ کی مرضی کے تابع ہے جس طرف وہ کھینچتا چلا جاتا ہے.مردہ زندہ کے ہاتھ میں ہے.جس طرح بھی پھیر دے اسی طرف ہو جاتا ہے اور یہ بھی عجیب ہے کہ جو کچھ اظہا ر اسرار ملکوت کے اظہار اور قدرت حی لا یموت کے انبیاء علیہم السلام کو جائز ہے اُن کے جانشینوں پر جن کو انبیاء بنی اسرائیل سے تشبیہہ دی گئی ہے حرام اور نا جائز ہے.حالانکہ وہ انبیاء کی مانند مامور ہو کر آتے ہیں اور اتمام حجت وقطع عذرات منکرین اُن کے منصب کے لوازم میں سے ہے.دیکھیں وہ گوشہ نشین کہ جن کو اصلاح خلق سے کام نہیں ہے اور نہ ہی دعوت حق کے لئے مامور ہوتے ہیں اُن کو یہی مناسب ہے کہ ان اسرار کو مستور ومخفی رکھیں لیکن وہ جو مامور بہ اظہار ہے وہ اگر اخفا کی راہ اختیار کرے تو وہ گنہگار اور نا فرمان ہے.کچھ تو میں ہیں کہ اخفا اور چھپانا ان کا طریق ہے اور اگر اظہار کریں تو سلب ولائت ہوتی ہے کیونکہ اُن کا اظہار نفس کے جوش سے ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے امر سے ایک دوسری قوم ہے جو اپنی ذات سے اور اپنے نفس سے بگھی مسلوب ہیں اور
مکتوبات احمد ۲۹۵ جلد سوم عشق اظہار الہی سے مکتب و معمور.اگر چہ وہ نبی نہیں ہیں مگر شان نبوت رکھتے ہیں اور انبیاء کی مانند اصلاح خلق کے لئے آتے ہیں اور لاجرم اُن کے کام کی اساس اظہار پر ہے نہ اخفا پر.اور منازل و جاہت و مقامات ولائت و بیان معاملات ربانی و مکالمات رحمانی اور کشف اسرار روحانی میں ان کے دعاوی اُن کے لئے نقصان دہ نہیں بلکہ مولیٰ کی خوشنودی کا باعث اور ترقی مدارج اور عظیم شجاعت کے تحقق کا موجب ہیں.غور فرمائیں کہ ائمہ ہدی سے کس قدر کلمات فخریہ خود اُن کی کتب و رسائل میں موجود ہیں.مثلا سیدی عبد القادر رضی اللہ عنہ تالیفات وقصائد میں اور معرکہ کربلا میں اشعار فخریہ سید الشہدا تواتر سے پائے جاتے ہیں اور اس قسم کے کئی الفاظ بھرے پڑے ہیں کہ اُن کو چھپایا نہیں جا سکتا.اسی طرح جابجا اس طرح کے کلمات اور اس قسم کے دعاوی عالیہ اس قوم کی کتب میں بھرے ہوئے ہیں اس سے زیادہ بیان کی ضرورت نہیں وَ مَا أُبَرِّئُ نَفْسِی اِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبّی کی رو سے جس چیز کا اظہار ماموریت من اللہ سے ہو وہ اظہار مظہر حقیقی کی طرف سے ہے اور اُس پر طعن و تشفیع ایسے لوگوں کی طرف سے بعید ہے جو کہ یہ جانتے ہیں کہ یہ راہ اُمت حضرت خیر الا نام جن پر ہزاروں ہزا ر سلام ہوں میں قدیم سے مکشوف ہے ایسے لوگ ہمیشہ اس امت میں رہے ہیں اور ہیں اور رہیں گے اور اگر کوئی شخص تحدیث نعمت اللہ کی نسبت سے آلا ونعما جو اُ سے حق جل وعلاء کی طرف سے نصیب ہیں بیان کرے بشرطیکہ مامور باخفا نہ ہو.اس میں ہرج نہیں بلکہ اشاعت علم و معرفت.اور اس علم و معرفت سے لوگوں کو متمتع اور مستفیض کرنا اس علم و معرفت کے اخفا سے بہتر ہے.اور حدیث میں آیا ہے کہ جس کسی کو کوئی علم دیا گیا اور اُس نے اُس علم سے بندگان خدا کو نفع نہ پہنچا یا قیامت کے دن اُس سے مواخذہ ہو گا.غرض حقیقت یہی ہے جو میں نے بیان کر دی.وَاللهُ أَعْلَمُ بِحَالِ الْأَعْمَالِ بِالنِّيَّاتِ - وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى - خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
مکتوبات احمد ۲۹۶ ایک مدرس کے نام تعارفی نوٹ تعلیم الاسلام قادیان کے ایک مدرس نے ۱۹۰۶ء میں حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں ایک معروضہ پیش کیا.جس میں بعض حالات کے ماتحت وہ استعفیٰ دینا چاہتا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی تحریر کیا کہ مجھے بھیک مانگنی منظور ہے پر اس در سے نہ ٹلوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے جو فراست عطا فرمائی تھی اس کا نمونہ اس جواب سے ظاہر ہے اور نیز مدرسہ تعلیم الاسلام سے حضرت اقدس کا کیا منشا تھا نمایاں ہے.(عرفانی کبیر ) جلد سوم
مکتوبات احمد ۲۹۷ جلد سوم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میرے نزدیک یہ ارادہ ہرگز مناسب نہیں.اس سے خود غرضی اور دنیا طلبی سمجھی جاتی ہے.آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ مدرسہ محض دینی اغراض کی وجہ سے ہے اور صبر سے اس میں کام کرنے والے خدا تعالیٰ کی رحمت سے نزدیک ہوتے جاتے ہیں.چونکہ یہ مدرسہ نیک نیتی سے محض دینی تخم ریزی کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے اس لئے میرے خیال میں استعفا دینے والوں کے استعفا سے اس کا کچھ بھی حرج نہ ہو گا.خدا تعالیٰ اس کے لئے اور خدمت کرنے والا پیدا کر دے گا لیکن اگر کوئی اس مدرسہ سے الگ ہو کر اپنی دنیا طلبی میں اِدھر اُدھر خراب ہوگا تو وہ رفتہ رفتہ دین سے دور ہو جائے گا.چاہئے کہ صبر کے ساتھ گزارا کریں.اگر خدا تعالیٰ اس قدر لیاقت نہ دیتا تب بھی تو پانچ سات روپیہ میں گزارہ کرنا ہوتا بلکہ میں نے آپ کے امتحان کی ناکامیابی کے وقت سوچا تھا کہ اس میں کیا حکمت ہے تو میرے دل میں یہی حکمت خیال آئی تھی کہ تا دنیوی طمع کا دامن کم کر کے دین پیش کیا جاوے.پس امتحان میں پاس نہ ہونا ایسا ہی تھا جیسا کہ خضر نے کشتی کا تختہ توڑ دیا تھا تا عمدہ حالت میں ہو کر غیروں کے ہاتھ میں نہ جاپڑیں.اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر آپ اس جگہ سے استعفا دو گے تو عیالداری کے لحاظ سے قادیان کو چھوڑنا ہی پڑے گا اور یہی صورت دینی تعلقات سے دور ہونے کے لئے مد ہو جائے گی.صحابہ رضی اللہ عنہم کی حالت سب خدا کے لئے ہو گئی تھی مگر اس زمانہ میں اس قدر غنیمت ہے کہ اس جماعت کی ایسی حالت ہو جائے کہ کچھ خدا کے لئے اور کچھ دنیا کے لئے ہوں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد
مکتوبات احمد ۲۹۸ جلد سوم
حضرت مولوی الہ دیتا صاحب لودی نگل لینی لاله تعالی عنہ
مکتوبات احمد ۳۰۱ مولوی اللہ دیتا صاحب لودی نگل رضی اللہ تعالی عنہ کے نام تعارفی نوٹ مولوی الله د تا صاحب لودی منگل ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے.آپ کے صاحبزادے مولوی حکیم نور محمد صاحب رضی اللہ عنہ جو ایک حکیم حاذق اور جید عالم تھے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں ایک بہترین مبلغ تھے.مولوی الہ دتا صاحب اہلِ حدیث مشرب کے تھے اور آپ کے صاحبزادہ حضرت مولوی نوراحمد صاحب بھی فرقہ اہلِ حد حدیث میں ممتاز تھے.۱۸۷۲ء میں حضرت اقدس (علیہ الصلوۃ والسلام ) نے مولوی الہ دتا صاحب مرحوم کو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب اور مرز افضل احمد صاحب کی تعلیم کے لئے بلایا تھا اس لئے کہ وہ ایک جید عالم تھے.مولوی الہ دتا صاحب جب قادیان میں آئے تو اکثر حضرت اقدس سے بعض مسائل پر تبادلہ خیالات بھی ہوا کرتا تھا.اس زمانہ میں فرقہ اہل حدیث ( جو اس وقت وہابی مشہور تھے ) کے لوگ بڑے خشک سمجھے جاتے تھے اور وہ تقلید و عدم تقلید کے مسائل میں متشدّ دواقع ہوئے تھے.روحانیت کے ساتھ انہیں دلچسپی نہ تھی.ظاہری امور پر زور دیتے تھے جیسے مسیح ناصری علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد میں فقیہ اور فریسی ہوتے تھے.مولوی الہ دتا صاحب زیادہ عرصہ تک قادیان میں نہ رہ سکے اور اس کام کو چھوڑ کر چلے گئے مگر حضرت اقدس سے ان کو محبت اور اخلاص تھا اور حضرت اقدس کے زُہد و ورع کے وہ قائل تھے.واپس جانے کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے حضرت اقدس کو ایک منظوم خط لکھا اور وہ فارسی زبان میں تھا.حضرت اقدس نے اس کا جواب فی البد یہ فارسی نظم میں لکھ کر بھیج دیا اس خط کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کے اس وقت بھی قائل تھے اور آپ کو زندہ نبی یقین کرتے تھے.جلد سوم اس خط سے اس محبت وعقیدت کا بھی پتہ چلتا ہے جو آپ کو نبیوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم
مکتوبات احمد ۳۰۲ سے تھی اور یہ اس قدر آپ پر غالب تھی کہ من تو شدم تو من شدی کا مضمون صادق آتا ہے.حضرت مولوی نور احمد صاحب اس تبرک کو نہایت عزت و احترام سے رکھتے تھے.تبرک مکتوب ۱۹۰۹ء میں کپورتھلہ حضرت مفتی ڈاکٹر صادق صاحب سلمہ کے ذریعہ پہنچا اور پھر شائع ہو گیا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب نے اصل سے نقل کیا.(عرفانی کبیر) جلد سوم
مکتوبات احمد جلد سوم مکتوب نمبرا مکتوب در مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم سپاس آں خداوند یکتائے رابمہر بمہر و و بمہ عالم آرائے را اس بے مثل خداوند کا شکر ہے جس نے دنیا کو چاند اور سورج سے آراستہ کیا بهر لحظه امید یاری از وست بہر حالتے دوست داری از دست ہے ہمیں ہر وقت اس کی طرف سے مدد کی امید ہے اور ہر حالت میں اسی سے محبت کا تعلق جہاں جملہ یک صنعت آباد اوست خنک نیک بخته که در یادِ اوست سارا جہاں اسی کی کاریگری کا مظہر ہے خوش قسمت ہے وہ نیک بخت جو اس کی یاد میں رہتا.رسول خدا پر تو از نور اوست ہمہ خیر ما زیر مقدور اوسر رسول اللہ اس کے نور کا پرتو ہیں اور ہماری ساری بھلائیاں انہیں کے ساتھ وابستہ ہیں بست نقش نقش جہاں ہماں سرور و سید و نور جاں محمد کزو محمد کزو بست وہی سردار، سید اور جاں کا نور محمد ہے جس کی وجہ سے جہان کی تخلیق ہوئی نہ بودے اگر چون محمد بشر بشر کے بدے از ملک نیک تر کیوں کر بڑھ جاتا اگر محمد سا بشر پیدا انسان فرشتے دلش هست نورانی و سرمدی : ہوتا بتابد درو فرة ایزدی اس کا دل نورانی اور ازلی ہے اور اس میں خدا کی عظمت اور شان چمکتی کے کش بود مصطفی رہنما سر بخت بخت او باشد اندر ہ شخص جس کا رہنما مصطفیٰ ہو اس کا نصیبہ بلندی میں آسمان تک پہنچتا وہ ہے سماء نکسار از یاد او هست جان و بخواب اندر اندیشہ ہم میرے جان و دل اس کی یاد سے معمور ہیں خواب میں بھی مجھے کوئی دوسرا خیال نہیں آتا شفیق کرم گستر و ہم طریق ہم رہ پس از وے سلامم بتو اے شفیق و اس کے بعد اے مہربان اور شفیق اور ہم خیال دوست میں تجھے سلام کہتا ہوں
مکتوبات احمد ۳۰۴ که یاد من خسته کردی از دور فرستاده جلد سوم نامه بھیجو حور کیونکہ تو نے اس عاجز کو اتنی دور سے یاد کیا اور ایک خط جو حور کی طرح حسین ہے مجھے بھیجا چناں نظم و نثرش که مانند آل ندیدم بعمر خود اندر پس زانوئے جہاں اختفا اس کی نظم اور نثر ایسی تھی کہ اس جیسی میں نے کبھی دنیا میں نہیں دیکھی صفاہا چناں اندر آن بیش بیش کہ حاسد به بیند در آن روئے خویش اس میں ایسی اعلیٰ درجہ کی صفائی ہے کہ دشمن اس میں اپنا منہ دیکھ سکتا ہے ظہوری گر آگہ شدے زاں صفا نشسته اگر ظہوری شاعر اس صفائی سے واقف ہو جاتا تو وہ منہ چھپا کر بیٹھ جاتا چنان در سخن صفوت و بندوبست که عقد گهر را دهد صد شکست آپ کی باتوں میں ایسی چمک اور ایسی ترتیب ہے کہ وہ موتیوں کے ہار کو بھی مات کرتی ہے تو گفتی سریری است صفوت اساس ، مرضع ز یاقوت و مرجان و ماس گویا وہ ایک ایسا چیدہ اور منتخب تخت ہے جو یا قوت، مرجان اور الماس سے جڑا ہوا ہے سداد ہمہ صرف آن نحو باد پیر و ہے نوخاسته نحو آن بود نحو ر ہے واہ وا اس کی نحو کیسی اعلیٰ نحو ہے کہ میری ساری گویائی اس نحو پر قربان سخن را ازاں گونه آراسته نمی آید از اس میں کلام کو اس طرح آراستہ کیا گیا ہے کہ اور کوئی نہیں کر سکتا خواہ بوڑھا ہو یا جوان سخن سے کو نمودست در عدن معنے لفظ سخن کلام سے گویا ایک در عدن ظاہر ہو گیا جس نے الفاظ کو معانی تک پہنچا دیا ہائے آں خامہ زہے پختگی رسانید سخن نام دریافت زاں نامہ اس خط سے سخن نے نام پایا.واہ وا اور اس تحریر کی پختگی کے کیا کہنے نوٹ: ان ہر دو شعروں میں کاغذ کے بوسیدہ ہو کر پھٹ جانے کے سبب پہلے دو دو لفظ معلوم نہ تھے.منشی ظفر احمد صاحب نے نقل کے وقت سیاق و سباق کے مطابق یہ الفاظ لکھ دیئے ہیں.
مکتوبات احمد ۳۰۵ جلد سوم آں چناں باید و استوار حاصل سخن گفتن نابکار چه بات ایسی ہی عمدہ اور پختہ ہونی چاہیے بے سود باتیں کرنے کا کیا فائدہ! از گفتن ایں چنیں کہ لب با نه جنباند از آفرین خموشی سخن به ہنر ایسی (فضول) باتوں سے تو چپ رہنا اچھا ہے جو لوگوں کے منہ سے تعریف حاصل نہیں کر سکتیں معدن در و سیم و طلاست اگر نیک دانی ہمیں کیمیاست کلام تو موتی ، چاندی اور سونے کی کان ہے اگر تو اس بات کو خوب سمجھ لے تو یہی کیمیا ہے سخن گرچه باشد چو لولوئے تر گزار یدنش نیز خواہد اگرچہ گوہر آبدار کی طرح ہو مگر اس کے پیش کرنے کو بھی ہنر چاہیے سخن قامتے بست با اعتدال فصاحت چو خذ و بناگوش و خال کلام کی مثال ایک خوبصورت قد کی سی ہے اور اس کی فصاحت رخسار، نوک اور تل کی طرح ہے چو گفتار باشد بلیغ و اتم اثر با کند جب کلام بلیغ اور اعلیٰ ہوتا تو ضرور دل و خرار در ولے لا جرم پر ہے اثر کرتا وگر منطقه مهمل است خراب چو خواب پریشاں رود بے حساب لیکن اگر گفتگو بے معنی اور خراب ہو تو وہ خواب پریشاں کی طرح رائیگاں جاتی ہے زباں گرچہ بحرے بود موجزن طلاقت نگیرد بجز علم و فن زبان اگر چه طوفانی سمندر کی طرح ہو پھر بھی فصاحت بغیر علم و فضل کے نہیں آتی کیسے کو ندارد وقوفے تمام طورش سیاقت بود شخص (زبان کی پوری واقفیت نہیں رکھتا اس کے کلام میں روانی کیونکر آ سکتی بحمد اللہ گاں مشفق پُر سداد دریں جملہ اوصاف یکتا فتاد خدا کا شکر در کلام کہ آپ جیسا ہے جیسا مخلص شفیق ان سب صفات میں یکتا عجب ذوق میداشت آن روز چند که بودیم در خدمت ہے ہے ارجمند وہ دن نہایت پُر لطف تھے ہم آپ کی بابرکت خدمت میں حاضر تھے لے اگر لفظ سیاق میں جس کے معنی روانگی ہے.شاید جائز ہو.تو سیاقت ہے.ورنہ لیاقت.( ظفر احمد )
مکتوبات احمد ۳۰۶ جلد سوم کجاشد دریغ آن زمان وصال کجاشد چنان خرم آں ماہ و سال افسوس! وہ ملاقات کا زمانہ کہاں گیا اور وہ مبارک مہینہ اور سال کدھر چلا گیا بدستم از آن جز خیالی نماند از آں جام کے یک سفالے نماند میرے ہاتھ میں سوائے اس کے خیال کے کچھ بھی نہ رہا اور اس جام شراب کی ایک ٹھیکری بھی باقی نہ رہی در میں کوشه چون یادِ یاراں کنیم ردو دیده چو ابر بہاراں اس سنج تنہائی میں جب ہم دوستوں کو یاد کرتے ہیں تو دونوں آنکھوں کو ابر بہار کی طرح بنا دیتے ہیں یسے دل خود بدنیا چه بندد کسے که ایام الفت ندارد کوئی اس دنیا سے اپنا دل کیا لگائے کہ محبت کے دن زیادہ باقی نہیں رہا کرتے چه فرق است در روز و شب جز که یار فتد خاک بر فرق این روزگار یار کے بغیر دن اور رات میں فرق ہی کیا ہے؟ اس زمانہ کے سر پر خاک پڑے دست دعا پیش حق گسترم که چهرت نماید بفضل و کرم میں اپنے دونوں ہاتھ خدا کے حضور میں پھیلاتا ہوں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے تیرا چہرہ دکھائے بمكتوب گہ کہ بکن شاد کام خط و نامه با ما چرا شد حرام کبھی کبھی خط لکھ کر ہمیں خوش وقت کر دیا کر.تو نے ہمیں خط بھیجنا کیوں ترک کر دیا دگر آنچہ تحریر کرد آن رفیق کرم گسترد رو و مهربان و شفیق جو لکھا ہے نیز آن مکرم کرم فرما!! مہربان اور شفیق نے که از بحث دیں زاں نکردیم یاد خوف ملال تو در دل فتاد کہ ہم نے اس لئے اس خط میں دین کی بحث کا ذکر نہیں کیا کہ ہمارے دل میں ناراضگی پیدا نہ ہو ( تو واضح ہو ) من آن نیستم کز رو بغض و کیس برنجم ز تحریک در بحث دیں کہ میں ایسا انسان نہیں ہوں کہ دشمنی اور کینہ وری کی وجہ سے دینی مباحث کی تحریک سے ناراض ہو جاؤں ترا ناحق ایں این بدگمانی فتاد درون کیسے بدگماں ہم مباد آپ کو ناحق یہ بدگمانی لاحق ہوئی.خدا کرے کسی کا دل بدظن نہ ہو
مکتوبات احمد ۳۰۷ به غمخواریت گویم اے نیک مرد! نه باید به غمخوار دل رنجه کرد نیک مرد میں تجھے بطور غمخوار عرض کرتا ہوں اور غم خوار سے ناراض نہیں ہونا چاہیے زندگی نبی نشان است بر موت دلها جلی پر که انکار کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے انکار.منکروں کے دلوں کی موت کی کھلی کھلی علامت ہے جہاں جمله مرده فتادست و زار یکی زنده او هست از کردگار سارا جہان مُردہ اور بیمار ہے خدا کی طرف سے صرف وہی ایک زندہ ہے چنین است ثابت بقول سروش اگر راز الہام الہی الہی سے یہی ثابت اگر ہے.تیری سمجھ میں و گر اگر در ہوا ہمچو مرغاں پری اگر راز معنی معنی نیابی خموش راز نه آئے تو چپ ره برسر آب با بگذری پر ہا جلنے لگے پرندوں کی طرح تو ہوا میں اُڑنے لگے یا پانی و گر ز آتش آئی سلامت بروں وگر خاک را زر کنی از فسوں اور اگر تو آگ سے سلامت باہر نکل آئے یا پھونک مار کر مٹی کو سونا بنا دے اگر منکری از حیات رسول سراسر زیاں است و کار فضول لیکن اگر تو رسول کی زندگی کا منکر ہے تو یہ سب باتیں سراسر فضول اور بے کار ہیں خدایش چو خوانده گواہ جہاں چرا داندش عاقل از غائباں خدا نے جب اسے اہل دنیا کے لیے شاہد فرمایا تو عظمند اسے غائب کیوں سمجھے اگر منکر او خبر بجاں دامنش نیز اگر منکر کو اس کی خبر ہوتی تو خواہ جان دینی پڑتی مگر اس کا دامن نہ چھوڑتا بمہر منیرش خطاب از خداست دریغا ازیں پس گمانها چراست خدا کی طرف سے مہر منیر اس رسول کا خطاب ہے تو افسوس اس کے بعد فضول گمان کیوں ہیں اگر یکدے گم شود آفتاب شود عالم از تیرگی با خراب اگر آفتاب ایک دم کے لیے بھی غائب ہو جائے تو دنیا اندھیرے میں مبتلا ہو جائے نگذاشتے جلد سوم
مکتوبات احمد ۳۰۸ جلد سوم خردمند نیکومنش طبع راست نتابد سر از آنچه حق و بجاست جو شخص عقل مند، صالح اور نیک فطرت ہے وہ حق اور سچائی سے روگردانی نہیں کرتا چو ببیند سخن را از حق پروری دگر مشو عاشق زشت رو زینهار در سخن کم کند داوری جب وہ حق شناسی سے بات پر غور کرتا ہے تو پھر وہ اس بات میں جھگڑا نہیں کرتا زینهار وگر خوب گم گردد از روزگار تو ہرگز کسی بدشکل کا عاشق نہ ہو چاہے دنیا سے حسین گم ہو جائیں مکافات دارد ہمہ کاروبار تو خار و خسک تا توانی مکار ہر بات کی جزا سزا مقرر ہے اس لیے جہاں تک ممکن ہے تو کانٹے اور گو کھرو نہ بو زمین از زراعت تهی داشتن از تخم خار و خسک کاشتن زمین کو زراعت سے خالی رکھنا اس سے بہتر ہے کہ اس میں کانٹے اور گوکھرو بوئے جائیں ز ہے دولت من که فضل مجید مرا اندریں اعتقاد آفرید یہ میری خوش قسمتی ہے کہ خدا کے فضل نے مجھے اس اعتقاد پر پیدا کیا ہے وگر ز من نیک تر آنکه بعد از خبر نیارد بدل اعتقاد اور مجھ سے بھی اچھا وہ شخص ہے جو علم ہو جانے کے بعد دل میں اس کے خلاف اعتقاد نہ رکھے زبان را کند منع زاں ہر سخن که دور از ادب باشد و سوء وء ظن اور زبان کو ہر اس بات سے باز رکھے جو ادب کے خلاف اور بدظنی مدظنی ہو بدنیا ہمہ نوع سود و زیاں زیاں با غلب رسد از ممر زباں دنیا میں ہر قسم کا نفع کا نفع اور نقصان اکثر زبان کے راستے سے پیدا ہوتا ہے از سخن مایه یافتن مقرب شدن پایه یافتن تواں ہے کلام کے ذریعے دولت مل سکتی ہے نیز مقرب ہونا اور عزت پانا بھی ممکن هم از گفتگو با یکی آن بود که در گفتنش خطره جان بود اسی طرح بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے کہنے میں جان کا خطرہ ہو جاتا ہے
مکتوبات احمد ۳۰۹ جلد سوم جہاں گفته من بفهمی تمام جہاں ریزم اندر دلت این کلام میری بات کو تو پوری طرح کیونکر سمجھے کس طرح میں اپنے کلام کو تیرے دل میں ڈال دوں اگر جاہلے سر بتابد نے پند عجب نیست، گوخود به جهل است بند اگر کوئی جاہل نصیحت ماننے سے انکار کرے تو تعجب نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی جہالت میں پھنسا ہوا ہے ولے از تو دارم عجب اے اخی کہ فرزانہ باشی و نادان شوی لیکن اے بھائی مجھے تو تیری طرف سے حیرانی ہے کہ تو دانا ہو کر نادان بنتا ہے رَسُولے معظم که دادار جاں چراغ چراغ جهانش جهانش بگوید بگوید عیاں وہ رسول معظم جسے خدا نے صاف طور پر جہان کا چراغ فرمایا ہے چه چیز از تو او را حجاب است و بند چه دیوار داری کشیده بلند تو پھر کونسی چیز ہے جو تیری راہ میں بطور حجاب حائل ہے اور وہ کونسی اونچی دیوار ہے جو تیرے سامنے کھنچی ہوئی ہے مشو غره بر گفته یک کسے عقل و تدبر نہ دارد ہے اس نه شخص کے قول فریفتہ نہ جو عقل و دانش نہیں رکھتا یہ ہو ز ہر فاضلے بہرہ گیر اے جوان! بعقل و ادب باش پیر اے جوان! اے جوانمرد.ہر عالم سے فائدہ اُٹھا اور عقل و ادب کی رو سے اے جوان تو بزرگ بن جا تقلید اہل کمال که خود اوفتند ناگہاں در ضلال اہل کمال کی تقلید کی راہ پر چل کہ آدمی خود رائی سے نا گہاں گمراہی میں جا پڑتا ہے میانہ گزیں باش و با اعتدال که یک سو روئی باشد از اختلال میانہ روی اور اعتدال کے طریقہ کو اختیار کر کہ یک طرفہ چلنا فساد کا موجب ہوتا ہے دو چشم کسے، چوں سلامت بود بیک چشم دیدن دیدن ندامت بود جس کی دونوں آنکھیں سلامت ہوں تو صرف ایک آنکھ سے دیکھنا اس کے لیے باعث ندامت ہوتا ہے تحقیق باید نظر پست داشت دیده معطل نباید گذاشت ہمیشہ تحقیق کی نظر چست رکھنی چاہیے اور آنکھوں کو بے کار نہیں چھوڑنا چاہیے رو
مکتوبات احمد ۳۱۰ جلد سوم چو صوف و صفا در دل آمیختند مداد ، از سوادِ عیون ریختند صفائی کا صوف دل میں ملاتے ہیں تو آنکھوں کی سیاہی سے روشنی ڈالتے ہیں دو چیز است چوپان دنیا و دیں دل روشن و دیده دور بین دو چیزیں دین و دنیا کی محافظ ہیں ایک تو روشن دل دوسرے دُور اندیش نظر خدا راست آں بندگانِ کرام که از بهر شان میکند صبح و شام خدا کے نیک بندے ایسے بھی ہیں جن کے لیے خدا صبح و شام کو پیدا کرتا ہے بدنبال چشمے، چو جب وہ ہ کن انکھیوں ے بنگرند جہانے بدنبال خود سے ر دیکھتے ہیں تو ایک جہان کو اپنے پیچھے ے شند بھینچ لیتے ہیں گفتگو ہائے شاں چکد نور وحدت زِ رُو ہائے شان اثر هاست در ان کے کلام میں اثر ہوتا ہے اور ان کے چہروں سے توحید کا نور ٹپکتا ہے در او شان به اظهار اظہار ہر خیر و شر نها دست حق خاصیت مستتر ان میں نیکی اور بدی کے اظہار کے لیے خدا تعالیٰ نے مخفی خاصیت رکھ دی ہے بگفتن اگر چه خدا اگر چہ کہنے کو وہ نیستند ولی از خدا ہم جدا نیستند خدا نہیں ہیں لیکن خدا ނ جدا بھی نہیں ہیں و طغیاں بود را که او ظل یزدان بود قیاسش بخود جهل جو شخص خدا کا ظل خدا کا ظل ہو اس کو اپنے پر قیاس کرنا جہالت اور سر کشی بروش ازاں سُو گر آید کتاب ازیں سو، بزودی بگویم جواب اس کے رد میں اگر کوئی کتاب شائع ہو تو میں اس طرف سے فوراً جواب دوں گا ولیکن بیاید یہ چاہیے کتا بے وہ کتاب تمام که باشد محیط ނ ما پیام پوری ہو اور تمام مقاصد پر حاوی ہو ز عہدے کہ کردم نگردم گہے نہ گردم رباید صبا زیں رہے میں کبھی اس عہد سے نہیں پھروں گا جو میں نے کیا ہے ہوا میری گرد کو بھی اس رستے سے نہیں ہٹا سکتی
مکتوبات احمد مگر ۳۱۱ جلد سوم ک سمانے دگر گونه کار فراز آید از گردش روز گار سوائے اس کے کہ آسمان سے کوئی اور امر گردش زمانہ کی امر گردش زمانہ کی وجہ سے نازل ہو گویم ز تدریس اطفال حال که دارم دل از حال شاں پُر ملال اس زمانہ کے بچوں کی تعلیم کا کیا حال بیان کروں کہ میرا دل ان کی وجہ سے بہت رنجیدہ ہے میتر شود بست کس ولیکن بنرر مشکل این است بس ملتے ہیں بیسیوں استاد مل سکتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ صرف روپیہ سے کجا آں قناعت گزیں اوستاد کہ اند کے آمد از اتحاد پر وہ قانع استاد اب کہاں رہے جو اپنے اخلاص کے باعث تھوڑے گزارہ پر مل جاتے تھے بکوشیم و کہ آں خواہش و رائے یزداں بود ہے انجام کار آن بود کوشش کرتے ہیں مگر نتیجہ وہی ہوتا ہے جو خدا کی مرضی اور خواہش ہوتی فتاد است در فاضلال حرص و آز ہمہ جائیگاه شد در طمع باز عالموں کے دلوں میں حرص اور لالچ پیدا ہو گیا ہے اور ہر جگہ طمع کے دروازے کھل گئے ہیں طمع عہد ہائے گراں بگسلد از دلدار پیوند جاں بگسلد لالچ تو بڑے بڑے مضبوط اقراروں کو توڑ دیتا ہے بلکہ محبوب کے ساتھ گہرے ربط کو بھی تو ڑ دیتا ہے بجویند از حرص کثرت بمال ازاں خود فتد اندران اختلال یہ لوگ حرص کی وجہ سے کثرت مال چاہتے ہیں حالانکہ مال کمانے میں بھی حرص کی وجہ سے فتور پڑتا ہے دریغا ندانند این مردِ مان کہ آہستگی ہم رساند افسوس کہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ آہستگی سے بھی ان کی یہ مراد پوری ہو سکتی ہے زمانه با بیذق آہستہ راند که ناگاه بر جائے فرزیں نشاند زمانہ نے بہت سے پیادے شطرنج کے آہستہ آہستہ بڑھائے جن کو آخر یکدم فرزین کی جگہ بٹھا دیا نظم این قدر ماجرائے پرفت بپوشی گر از من خطائے پرفت یہ تھوڑا سا حال میں نے نظم میں لکھا ہے اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو پردہ پوشی کر براں
مکتوبات احمد ۳۱۲ با گوهرم که من بندہ ناکس و کهترم نہ گوہر شناسم نہ کیونکہ میں ایک کمزور اور عاجز انسان ہوں نہ جوہر شناس ہوں نہ جوہری احرار از عیب پاک اگر جاہلے عیب ببیند چه باک بود شریفوں کی آنکھ تو عیب گیری کے نقص سے پاک ہوتی ہے ہاں جاہل عیب بین ہوا کرے تو اس کا کوئی مضائقہ نہیں.جلد سوم ۲ ستمبر ۱۸۷۲ء بندہ آشم غلام احمد عفی اللہ عنہ ( نوٹ ) اس نظم میں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرۃ کے مختلف پہلوؤں پر جو روشنی پڑتی ہے وہ ایک مختصر نوٹ میں بیان نہیں ہو سکتی تاہم حضرت کی اس محبت و اخلاص کا پتہ لگتا ہے جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ آپ کو تھا.(عرفانی کبیر) بدر جلد ۸ نمبر ۲۷ مورخه ۲۹ / اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ ۲،۱.نوٹ: اس نظم کا ترجمہ ہم نے در مشین فارسی مترجم، ترجمه فرمودہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے صفحہ ۳۱۳ تا۳۲۴ سے لیا ہے.(ناشر )
حضرت صوفی سید حافظ تصور حسین صاحب بنی اللہ تعالی عنہ
مکتوبات احمد ۳۱۵ حضرت صوفی سیّد حافظ تصور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام تعارفی نوٹ حافظ سید تصور حسین صاحب رضی اللہ عنہ بریلی کے رہنے والے تھے.جب حضرت سید عزیز الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ بیعت کر کے بریلی پہنچے تو انہوں نے علم تبلیغ کو بلند کیا.وہ نہایت جری اور نذیر عریاں تھے.بریلی ایک خاص قسم کے علماء دین کا مرکز تھا اور اب بھی ہے.ان کے جانے سے وہاں احمدیت کا گھر گھر چرچا ہونے لگا.اسی سلسلہ میں حضرت صوفی سیّد تصور حسین صاحب رضی اللہ عنہ کو سلسلہ کی طرف اوّلاً مخالفانہ رنگ میں توجہ ہوئی جو آخر انہیں سلسلہ حقہ میں لے آئی.حضرت سید عزیز الرحمن صاحب نے ان کے تذکرہ میں فرمایا : جلد سوم الغرض گھر گھر احمدیت کا چرچا تھا.اس چرچے کی وجہ سے صوفی تصور حسین صاحب مرحوم و مغفور کو بھی توجہ ہوئی.ان کو شاعری کا شوق تھا اور اس وجہ سے تمام بڑے بڑے امرائے شہر سے ان کا تعلق تھا.عالم بھی تھے.حافظ بھی تھے.قرآن خوب یا د تھا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خط دس بارہ صفحے کا لکھا اور تمام بڑے آدمیوں کو دکھایا کہ میں یہ خط مرزا صاحب کو بھیج رہا ہوں.سب نے اس خط کی بڑی تعریف کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب یہ ملا تو انہوں نے مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس کا جواب لکھ دو.مولوی صاحب نے ایک خط پر لکھا کہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یا تو ہماری کتابیں پڑھو یا ہمارے پاس آ جاؤ.جب وہ کارڈ بریلی میں پہنچا تو وہ اس کا رڈ کو لے کر تمام بریلی میں پھرے.ہر شخص کو خط دکھاتے اور کہتے کہ دیکھو یہ مرزا صاحب کی علمی لیاقت ہے.میرے خط کے جواب میں یہ کارڈ آیا ہے.الغرض خوب مذاق اُڑایا.میں ان سے اسی سبب سے ناراض ہو گیا.سلام علیک تک جاتی رہی.ایک لمبے عرصے کے بعد ملاقات ہوئی.میں نے بغیر سلام علیکم کہنے خطبہ الہامیہ ان کے سامنے
مکتوبات احمد ۳۱۶ جلد سوم رکھ دیا.انہوں نے اسے لے لیا اور دیر تک پڑھتے رہے.ایک بجے کے قریب جوش.انہوں نے اللہ اکبر کہا اور حضرت کو بیعت کا خط لکھ دیا اور لکھا کہ میرا دل حضور کے ملنے کو بہت چاہتا ہے.مگر میرے پاس کرایہ نہیں.حضور نے جواب لکھا کہ تو کل پر چلے آؤ.خط ملنے پر انہوں نے لکڑی کندھے پر رکھی اور چند روٹیاں پکوا کر لے آئے اور مجھے کہا کہ میں قادیان جا رہا ہوں.میں حیران ہوا اور ان کو روکا کہ اس طرح نہیں جانا چاہئے.انہوں نے حضرت کا کارڈ دکھلایا کہ یہ حکم ہے.میں نے کہا کہ اچھی بات ہے اگر تو کل پر جانا ہے تو آج رات کو آپ کو روانہ کر دیں گے.لہذا رات کی گاڑی سے قادیان روانہ کر دیا.صوفی تصور حسین صاحب کی بیعت کے بعد بریلی میں اور بھی شور پڑ گیا.لوگ ان کے دشمن ہو گئے.ایک دفعہ جب کہ وہ گلی سے گزر رہے تھے تو لوگوں نے ان کو پکڑ لیا اور قتل کرنے کی نیت سے ان کے سینے پر چاقو رکھ دیا.صوفی صاحب نے اپنے دشمن سے کہا کہ تم اپنا کام کرو.میں حضرت مرزا صاحب کو کبھی جھوٹا نہیں کہوں گا.را بگیروں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو انہوں نے شور مچایا کہ ایک آدمی کو کیوں مارتے ہو.اس شور پر بد معاش ان کو چھوڑ کر بھاگ گئے.اس طرح پر حافظ صاحب قادیان آگئے اور پھر آکر نہ گئے.اکل حلال سے ان کو محبت تھی باوجودیکہ ایک رنگ میں صوفیوں اور مشائخوں کی زندگی بسر کی تھی مگر قادیان میں انہوں نے ہمیشہ محنت اور مشقت سے عار نہیں کیا.مختلف قسم کی تجارتیں کیں.میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ ایک قسم کی عسرت کی زندگی بسر کرتے تھے مگر کبھی حرف شکایت زبان پر نہ آتا تھا.آخر مقبرہ بہشتی میں آرام فرما ہوئے (رضی اللہ عنہ ) یہ مختلف مکتوبات ان کے رقعہ جات کے جواب میں ہیں.مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس ان کے اور بھی خطوط کی نقل تھی مگر وہ خدا تعالیٰ کی مصلحت سے ضائع ہو گئے.(عرفانی کبیر)
جلد سوم ۳۱۷ فہرست مکتوبات بنام حضرت صوفی سیّد حافظ تصورحسین صاحب تاریخ تحریر بلا تاریخ ۴ / مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۳۱۸ ۳۱۹ ۳۱۹ ۳۲۱ ۳۲۲ ۳۲۲ بلا تاریخ بلا تاریخ بلا تاریخ بلا تاریخ مکتوبات احمد مکتوب نمبر と ۶
مکتوبات احمد ۳۱۸ جلد سوم مجی اخویم حافظ صاحب مکتوب نمبرا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط میں نے اوّل سے آخر تک پڑھ لیا.یہ بات بہت درست ہے کہ سعید انسان کی علامت یہی ہے کہ جب تک گوہر مقصود ہاتھ نہ آوے ست نہ ہو اور کسل کی طرف مائل نہ ہو.کسی نے سچ کہا ہے.گر نباشد بدوست ره بردن شرط عشق است در طلب مردن خدا تعالیٰ کی طلب بڑا مشکل کام ہے.گویا ایک موت ہے بلکہ درحقیقت موت ہے.پھر دوسرے پہلو میں عالی ہمت اور عالی فطرت ، وفادار دل کے لئے بہت سہل بھی ہے.وہ وہ ہے جو زمانہ دراز کے طلب کو ایک ساعت سے بھی کم سمجھتا ہے.بقول حافظ گویند سنگ لعل شود در مقام صبر آرے شود ولیک بخون جگر شود مگر افسوس دنیا میں شتاب کا روں، بدظنوں کا اور کم ہمتوں کا فرقہ بہت بہت ہے اور یہی لوگ محروم ازل سے ہیں.چاہتے ہیں کہ ایک پھونک مارنے سے عرش معلی تک پہنچ جائیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ تُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا أَمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ لا والسلام و خاکسار مرزا غلام احمد نوٹ.اس مکتوب کو مکر رسہ مکرر پڑھو کہ اس میں سعادت کی علامت اور اس سے اس مقام رفیع کا بھی پتہ لگتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.العنكبوت: حمد الحکم نمبر ۹ جلد ۲۰ مورخه ۷ را پریل ۱۹۱۸ء صفحه ۳
مکتوبات احمد ۳۱۹ جلد سوم مکتوب نمبر ۲ مجی اخویم مولوی تصور حسین صاحب ستلمه السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط پہنچا.میں اس وقت بیمار ہوں اور بہت ضعف ہے.خون بہت آیا ہے اس لئے میں زیادہ جواب نہیں لکھ سکتا.میرے نزدیک آپ کی خواب بہت عمدہ ہے کیونکہ اس میں شرح صدر کا لفظ ہے جو تسلی اور اطمینان پر دلالت کرتا ہے.زیادہ لکھنے سے معذور ہوں.خدا تعالیٰ فضل شامل حال رکھے.آمین.۴ / مارچ ۱۹۰۵ء محبی اخویم حافظ صاحب مکتوب نمبر۳ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں باعث دردفم معده و کمر و دیگر عوارض بیمار رہا اور اب بھی بیمار ہوں.اسی وجہ سے مسجد میں بھی جانے سے مجبور رہا.انسان کے لئے مداومت استغفار اور تو بہ اور دعا جیسی کوئی بھی چیز نہیں.ہمیشہ تضرع اور در دو گداز کے ساتھ مرضات اللہ کی طلب میں مشغول رہنا چاہئے اور ستی و آرام نہ کرنا چاہئے.جب تک مطلب حاصل نہ ہو.یہی طریق مردانِ راہ ہے.ماسوا اس کے تدبر سے درود شریف کو پڑھنا اور ہر ایک موقعہ مناسب پر دعا کرنا چاہئے اور سب سے زیادہ علامت شقاوت جلد بازی اور بدظنی ہے اس سے بچنا چاہئے.نماز میں بہت دعا کرنی چاہئے بجز قرآن شریف اور ادعیہ ماثورہ کے بے شک اپنی زبان میں دعا کرو.فقط خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ حمد الحکم نمبر ۹ جلد ۲۰ مورخه ۷ را پریل ۱۹۱۸ء صفحه ۳
مکتوبات احمد جلد سوم (نوٹ) اس مکتوب شریف سے واضح ہوتا ہے کہ آپ اپنے خدام کی عملی تربیت کس طرح فرماتے تھے.زمانہ حال کے پیروں اور مشایخ کی طرح غیر مسنون اور بدعتی طریقوں پر چلہ کشیاں نہیں کراتے تھے بلکہ جو صحیح اور مجرب صراط مستقیم ہے اس پر لے جاتے تھے.دعاؤں پر آپ کا بہت زور تھا اور استغفار اور درود شریف کے پڑھنے کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتے تھے اور یہ آپ کا خود تجربہ کردہ نسخہ تھا.دعاؤں کے سلسلہ میں آپ نے بھی اس امر کی طرف بھی توجہ کیا کہ ادعیہ ماثورہ کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعائیں کرنی چاہئیں.یہ اس لئے کہ اپنی زبان میں انسان اپنے جذبات اور مطلو بات کو نہایت وضاحت سے بیان کر سکتا ہے اور وہ نفس مدعا کو سمجھتے ہوئے اپنے قلب میں جوش اور خشوع پیدا کرنے میں آسانی پاتا ہے.جہاں تک میری تحقیقات ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس تعلیم میں پہلے شخص ہیں.عربوں کی زبان تو عربی تھی اس لئے ماثورہ ادعیہ کے وقت ان کے مفہوم اور منشا سے واقف ہونے کی وجہ سے ان کے قلوب خشوع و خضوع سے بھر جاتے تھے مگر دوسری اقوام جب تک اپنی زبان میں بھی دعائیں نہ کریں وہ کیفیت پیدا نہیں ہوسکتی.اس مکتوب سے خود حضرت اقدس کے معمولات پر بھی روشنی پڑتی ہے.(عرفانی کبیر )
مکتوبات احمد ۳۲۱ جلد سوم محبی اخویم ستلمه مکتوب نمبر ۴ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ سجدہ میں دعا يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيْتُ بہت پڑھو.اصل امرتزکیۂ نفس ہے جو نہایت مشکل امر ہے خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی مدد مانگتے رہو.میں بھی انشاء اللہ دعا کروں گا مگر ایسی دعائیں بہت زمانہ چاہتی ہیں یہی سنت اللہ ہے.موتی کتوں کے منہ میں ڈالنا مرا د رکھتا ہے کہ نا اہل کی تربیت کرنا نا اہل سے نیک امید رکھنا اور یہ سچ ہے کہ خبیث آدمی کی بیعت سے پر ہیز ضروری ہے.اے با ابلیس آدم روئے پس بہر دستے باید داد بہر حال ہمت مردانہ اور عزم درست اور استقامت اور خدا تعالیٰ کے سامنے صدق صفا آخر کا میاب کر دیتا ہے مگر صبر درکار ہے.والسلام میں خاکسار (نوٹ).مرزا غلام احمد اس مکتوب میں دعاؤں کی قبولیت کے لئے ایک اصل فرمایا ہے کہ عزم صحیح اور استقامت کو نہ چھوڑا جاوے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ہر آدمی اس کا اہل نہیں ہوتا کہ انسان اس کی بیعت کرے بلکہ احق اور اؤ لی وہی لوگ ہیں جن کا وجود خدا نما ہو.( عرفانی کبیر) حمد الحکم نمبر ۹ جلد ۲۰ مورخه ۱۷ را پریل ۱۹۱۸ء صفحه ۳
مکتوبات احمد ۳۲۲ جلد سوم مکتوب نمبر ۵ مجی اخویم حافظ تصور حسین صاحب سلّمه السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یہ درست ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانت جس سے مراد تمام انسانی قوی یعنی روحانی اور جسمانی قو تیں ہیں اسی کی راہ میں خرچ کرنی چاہیئے لیکن اسرار کا پوشیدہ کرنا صرف اس حد تک درست ہے کہ ایک نااہل کے آگے ایسے معارف بیان نہیں کرنے چاہئیں جن کا وہ متحمل نہ ہو سکے اور مذہب وحدت شہود کا صحیح ہے یہی وحدت اس مرتبہ تک پہنچتی ہے کہ گویا وحدت وجود کا اس میں جلوہ ہے اور صرف قیل وقال کچھ چیز نہیں ہے.عملی رنگ میں ترقی کرنا چاہیئے اور اس جگہ بعض آدمی ہمارے منشا کے مطابق اپنی حالت درست کرنے میں سرگرم ہیں اور بعض ابھی حقیقت سے دور ہیں.امید ہے کہ انشاء اللہ جو سعید ہیں وہ بہت کچھ ہدایت کریں گے.والسلام حمید خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ شاہ صاحب مکتوب نمبر ۶ السلام علیکم انشاء اللہ میں دُعا کروں گا.چاہیئے کہ ہر نماز کے بعد اور صبح استغفار کا التزام کریں کہ اکثر پریشانی اور ہجوم عموم گناہوں کی شامت سے ہوتے ہیں اور صبر سے منتظر ر ہیں.مرزا غلام احمد الحکم نمبر ۱۸ جلد ۲۰ مورخه ۱۴ارجون ۱۹۱۸ء صفحه ۱۰ و الحکم نمبر ۱۸ جلد ۲۰ مورخه ۱۴ر جون ۱۹۱۸ء صفحه۱۰
w حضرت سیّد ناصر شاہ صاحب رضی اللہ تعالٰی عنہ
ملتوبات احمد ۳۲۵ حضرت سید ناصر شاہ صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کے نام تعارفی نوٹ جلد سوم حضرت سید ناصر شاہ صاحب رضی اللہ عنہ اصل میں کشمیر کے باشندے تھے مگر ان کے بزرگ لاہور میں آکر آباد ہو گئے تھے.اس خاندان میں احمدیت شاہ صاحب کے ماموں مولوی کرم الہی صاحب رضی اللہ عنہ کے ذریعہ آئی اور شاہ صاحب کے برادر بزرگ حضرت سید فضل شاہ صاحب رضی اللہ عنہ پہلے داخل سلسلہ ہوئے.شاہ صاحب موصوف کو حضرت اقدس کے ساتھ محبت و اخلاص کا وہی تعلق ہے جو حضرت منشی عبد اللہ صاحب سنوری کو تھا.سید فضل شاہ رضی اللہ عنہ کو حضرت اقدس کی خدمت کا بڑا موقعہ ملا اور ا نہوں نے حضرت پر وحی آتے ہوئے بھی دیکھی.سید ناصر شاہ صاحب ایک نہایت مخلص، کم سخن اور گداز طبیعت کے بزرگ تھے.خاکسار عرفانی کے ساتھ ان تمام بزرگوں کو قلبی محبت تھی اور وہ اس سے اپنے اسرار اور راز کی باتیں بھی کر لیا کرتے تھے.حضرت سید ناصر شاہ صاحب ریاست جموں کشمیر میں ملازم تھے اور حضرت اقدس کی خدمت میں ہمیشہ اپنے مالی نذرانے پیش کرتے رہتے.آپ بہت ہی کم اپنی ذات پر خرچ کرتے.ان کا مفصل تذکرہ کتاب تعارف میں آتا ہے.ان کی سب سے بڑی خدمت یہ تھی کہ نزول امسیح کے طبع کے تمام اخراجات انہوں نے ادا کئے.جَزَاهُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ فِي الدُّنْيَا وَالْعُقْبَى - اب دونوں بھائی مقبرہ بہشتی میں آرام فرماتے ہیں.ذیل کے مکتوبات ان کے ہی نام کے ہیں.(عرفانی کبیر)
مکتوبات احمد اب نمبر ۶ ۳۲۶ فہرست مکتوب بنام حضرت سید ناصر شاہ صاحب تاریخ تحریر ۱۷/جون ۱۸۹۳ء ۱۴ / اگست ۱۸۹۶ء ۱۴ / اکتوبر ۱۹۰۱ء ۲۰ جنوری ۱۹۰۲ء ۲۱ / جنوری ۱۹۰۶ء ۱۹ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۳۲۷ ۳۲۷ ۳۲۸ ۳۲۹ ۳۲۹ ۳۳۰ جلد سوم ۳۳۰ ۳۳۱ ۳۳۱ ۳۳۲ ۳۳۲ ۳۳۳ ۳۳۳ ۳۳۴ ۳۱ / جون ۱۹۰۶ء ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۶ء ۲۹ جولائی ۱۹۰۶ء ۲۶ را گست ۱۹۰۶ء ۹ نومبر ۱۹۰۶ء بلا تاریخ ۴ جنوری ۱۹۰۷ء ۷ / دسمبر ۱۹۰۷ء ۹ 1.と ۱۴
مکتوبات احمد ۳۲۷ جلد سوم مکتوب نمبرا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بہت بہت استغفار پڑھ کر آپ دعا کریں اور دعا کے وقت کامل یقین قبولیت کا ہو.دعا میں ماندگی ظاہر نہ ہو.میں بھی دعا کروں گا.نماز میں خاص کر دعا کریں جس زبان میں ممکن ہو ، مضائقہ نہیں.از راقم نوردین السلام علیکم والسلام ۱۷/جون ۱۸۹۳ء مرزا غلام احمد از قادیان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم سید ناصر شاہ صاحب مکتوب نمبر ۲ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا اُمید ہے کہ انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کرتا رہوں گا.آپ بھی یاد دلاتے رہیں اور دوا جو تجویز کی گئی ہے.اس سے بھی اطلاع دیں کیسی ہے.خدا تعالیٰ آپ کو صاحب اولا دکرے.آمین ثم آمین اور میں بہت خواہش رکھتا ہوں کہ کچھ مدت محبی اخویم سید فضل شاہ صاحب میرے پاس رہیں اور شاید آگے میں نے ذکر کیا تھا.ان کی خدمت میں میری طرف سے السلام علیکم.اگر قادیان آجا ئیں تو نہایت بہتر ہے اس تقریب سے چند روز پھر ملاقات ہوتی رہے گی.۱۴ را گست ۱۸۹۶ء ہے سیرت احمد صفحه ۲۳۰ از حضرت قدرت اللہ صاحب سنوری و السلام کی ہیں ☆ خاکسار غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ۳۲۸ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۳ مجی عزیزی اخویم سیّد ناصر شاہ صاحب نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته کتاب نزول اسیح چونکہ بڑھ گئی ہے اس لئے میں انداز و کرتا ہوں کہ دو سور و پیر تک اس کا اتمام ہو گا یعنی علاوہ اس روپیہ کے جو خرچ ہو چکا ہے اور دوسو روپیہ لگے گا تب کتاب پوری ہوگی.آپ نے اس مدد کو اپنے ذمہ اٹھا لیا اور یہ خرچ اور آپ کو ادا کرنا پڑا ہے.ایک دفعہ اگر غیر ممکن ہو تو دو تین دفعہ کر کے بھیج دیں.کتاب کشتی نوح جونزول المسیح کا ایک جزو ہے.آپ کی خدمت میں بھیجی جاتی ہے.دو نسخے بھیجے جاتے ہیں.ایک آپ کے لئے اور ایک مجی اخویم سید فضل شاہ صاحب کے لئے.باقی سب طرح سے خیریت ہے.اب روپیہ کی عنقریب ضرورت ہے.۱۴ اکتوبر ۱۹۰۱ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ۳۲۹ جلد سوم مکتوب نمبر ۴ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی عزیزی اخویم سید ناصر شاہ صاحب سلمه نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آپ کا پہنچ گیا.خدا تعالیٰ آپ کو بہت بہت جزائے خیر پہنچائے اور آپ کے ساتھ ہو.بخدمت اخویم محبی سید فضل شاہ صاحب السلام علیکم خط پہنچ گیا.اگر جموں میں طاعون کی ترقی کا خطرہ نہیں تو خیر ورنہ ضرور عیال کو اس جگہ سے نکالنا چاہئے.۲۰ / جنوری ۱۹۰۲ء والسلام خاکسار مرز ا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۵ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى مجی عزیزی اخویم سید ناصر شاہ صاحب سلمه السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ آپ کا خط آج کی ڈاک میں مجھ کو ملا.میں انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کروں گا.مطمئن رہیں اور ہمیشہ خیر و عافیت سے اطلاع دیتے رہیں.باقی بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے.۲۱ جنوری ۱۹۰۶ء والسلام راقم مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد جلد سوم بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۶ مجی عزیزی اخویم سید ناصر شاہ صاحب سلمه نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.بدر یافت خیر و عافیت خوشی ہوئی اور اس سے پہلے مبلغ ایک سو روپیہ ایک دفعہ اور مبلغ پچاس روپیہ (پھر) آپ کے مرسلہ پہنچے اور مبلغ آٹھ روپے کی نسبت مجھ کو یا نہیں.شاید پہنچے ہیں.ان کا حال دریافت کر کے لکھوں گا.باقی ہر طرح سے خیریت ہے.میں آپ کے لئے انشاء اللہ دعا کروں گا.خدا تعالیٰ روکوں کو درمیان سے اٹھا دے.سنا گیا ہے کہ کشمیر میں طاعون ہے.معلوم نہیں یہ خبر کہاں تک صحیح ہے.مکرر یہ کہ آج ۱۹ / مارچ ۱۹۰۶ء کو مبلغ آٹھ روپے کا منی آرڈر پہنچ گیا.اسی وقت پہنچا ہے.انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کرتا رہوں گا.خدا تعالیٰ والسلام حاسدوں سے محفوظ رکھے.۱۹/ مارچ ۱۹۰۶ء مکتوب نمبرے مرزا غلام احمد عفی عنہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ محبی اخویم سید ناصر شاہ صاحب ستلمه السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کے دو عنایت نامہ پہنچے.میں باعث بیماری نقرس اور تکلیف درد جواب نہیں لکھ سکا.گلاس پہنچ گئے ہیں مگر سخت ترش تھے اس لئے ان کا اچار ڈال دیا.کسی دوسرے پھل کی تلاش رکھیں جو اس ملک میں نہ ہوتا ہو اور میں انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے لئے ہمیشہ دعا کرتا رہوں گا.اب میری طبیعت بہ نسبت سابق رو بہ صحت ہے مگر چل نہیں سکتا.چلنے سے سخت درد ہوتی ہے.۳۱ / جون ۱۹۰۶ء والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ۳۳۱ جلد سوم مکتوب نمبر ۸ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مجی عزیزی اخویم سید ناصر شاہ صاحب سلّمه نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کئی روز کا آپ کا خط آیا ہوا تھا.میں بیمار رہا.جواب نہیں لکھ سکا.جہاں تک ممکن ہے دعا توجہ سے کی گئی ہے.امید ہے کہ آپ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرمائیں گے.باقی سب طرح سے خیریت ہے.۱۰؍ جولائی ۱۹۰۶ء والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۹ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محبی عزیزی اخویم سید ناصر شاہ صاحب سلمه السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ میں آپ کے خط کا بباعث علالت طبع جلد جواب نہیں دے سکا.دعا بہت کی گئی.امید ہے اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرمائیں گے.خدا تعالیٰ آپ کو ہر ایک وقت میں محفوظ رکھے.باقی اس جگہ بفضلہ تعالیٰ ہر طرح سے خیریت ہے.۲۹ جولائی ۱۹۰۶ ء والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ۳۳۲ جلد سوم مکتوب نمبر ۱۰ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محبی عزیزی اخویم سید ناصر شاہ صاحب سلمه نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ اور نیز مبلغ پچاس روپیہ معہ اس کے جو منظوری آئی ، پہنچ کر بہت خوشی ہوئی.خدا تعالیٰ آپ کو یہ ترقی مبارک کرے اور آپ کی آسائش اور عمر میں برکت دے اور آفات سے بچاوے.آمین.باقی بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے.۲۶ را گست ۱۹۰۶ء والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان مکتوب نمبر11 بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي مجی عزیزی اخویم سید ناصر شاہ صاحب سلمه السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ آپ کا محبت نامہ مجھے کو ملا.میں انشاء اللہ تعالیٰ کار معلوم میں دعا کروں گا.خدا تعالیٰ آپ کی دعا منظور فرمائے.آمین.(چہرہ ) رو پے پالتی گئے.باقی خیر بیت.۹/ نومبر ۱۹۰۶ء والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوبات احمد ۳۳۳ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۱۲ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مجی عزیزی اخویم سید ناصرشاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ مبلغ پچاس روپیہ مرسلہ آپ کے آج کی ڈاک میں مجھ کو ملے.جَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا - خدا تعالیٰ آپ کو ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے اور مشکلات حل فرمائے.میں غائبانہ آپ کے لئے دعائیں کیا کرتا ہوں.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین.اس نواح میں ہیضہ کا بہت ہی زور سنا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ امن میں رکھے.آمین.انشاء اللہ دعا کرتا رہوں گا.باقی سب طرح سے خیریت ہے.والسلام مکتوب نمبر ۱۳ مرزا غلام احمد عفی عنہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مند و می مکر می اخویم سلّمہ اللہ تعالیٰ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ خط آپ کا معرفت حکیم حضرت مولوی نورالدین صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچا.حضرت صاحب نے آپ کے حق میں بہت دعا فرمائی ہے اور بہت فکر ہے.اپنی طبیعت کی خیریت سے جلد جلد اطلاع دیں.حضرت صاحب کا خیال آپ کی طرف لگا ہوا ہے.والسلام ۴ ر جنوری ۱۹۰۷ء بدست ( مفتی ) محمد صادق عفی اللہ عنہ از قادیان
مکتوبات احمد ۳۳۴ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۱۴ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مجی عزیزی اخویم سید ناصرشاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مجھ کو افسوس ہے کہ میں باعث بیماری جلد جواب نہیں دے سکا اور اس وجہ سے مجھے یاد نہیں کہ میں نے پہلے خط کا جواب بھی دیا یا نہیں.میں نے اس وقت آپ کے لئے دعا کی ہے مگر میں اس وقت بھی بیمار ہوں.انشاء اللہ بہت دعا کروں گا.بہت ضروری ہے کہ آپ ان اضطرار کے دنوں میں جلد جلد بلکہ روز اطلاع دیں.مجھ کو بہت فکر ہے.آپ کے الفاظ نہایت ( تشویش ) میں رکھتے ہیں.۷ / دسمبر ۱۹۰۷ء والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ
w حضرت سیّد فضل شاہ لاله شاہ صاحب رضی اللہ تعالی عنہ
مکتوبات احمد اب نمبر ۳۳۷ فہرست مکتوبات بنام حضرت سید فضل شاہ صاحب تاریخ تحریر ۱۶ فروری ۱۸۹۱ء ۱۸ / اپریل ۱۸۹۱ء صفحہ ۳۳۸ ۳۳۹ جلد سوم ۳۴۰ ۳۴۱ ۳۴۱ ۳۴۲ ۳۴۳ ۳۴۴ ۳۴۵ ۳۴۶ ۳۴۶ ۳۴۷ ۳۴۸ ۱۹ / اپریل ۱۸۹۱ء بلا تاریخ بلا تاریخ بلا تاریخ ۶ جولائی ۱۹۰۰ء ۳۰ ستمبر ۱۹۰۰ء بلا تاریخ ۸/نومبر ۱۹۰۰ء ۴ را کتوبر ۱۹۰۴ء ۱۸ رمئی ۱۹۰۵ء بلا تاریخ ۹ 11 ۱۲ L نوٹ : مکتوب نمبر ا نا نمبر ۱۲ کتاب سیرت احمد از حضرت قدرت اللہ صاحب سنوری سے لئے گئے ہیں.(ناشر)
مکتوبات احمد ۳۳۸ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محجبی سید فضل شاہ صاحب سلّمۂ تعالیٰ مکتوب نمبرا نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.میں اس وقت سیالکوٹ میں ہوں اور آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ جل شانہ آپ کے تمام مقاصد پورے کرے.آمین.اس وقت بباعث شدت کم فرصتی میں زیادہ نہیں لکھ سکا انشاء اللہ کسی دوسرے وقت میں مفصل خط لکھوں گا.۱۶ رفروری ۱۸۹۱ء از طرف احقر العباد حامد علی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اس عاجز نے کئی دفعہ دعا کے لئے یاد کرایا ہے.والسلام خاکسار غلام احمد از سیالکوٹ
مکتوبات احمد ۳۳۹ جلد سوم مکتوب نمبر ۲ عزیزی مجی سید فضل شاہ صاحب سلّمه تعالی السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ آپ کا خط اور آپ کی وہ تمام چیزیں جو آپ نے مہربانی فرما کر ارسال کی ہیں پہنچ گئی ہیں.جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ.خداوند کریم آپ کی ان سب خدمات کا جو آپ کرتے رہے ہیں.اجر بخشے اور آپ پر راضی ہو.مجھے اپنی خیر و عافیت سے مطلع فرماتے رہیں.اور اخویم منشی کرم الہی صاحب کے لئے دعا خیر کی گئی ہے.میں خوب جانتا ہوں منشی صاحب اس عاجز سے اخلاص رکھتے ہیں.ایک نئے مسئلے میں منشی صاحب کو اصل حقیقت معلوم نہیں تھی.ورنہ وہ خود بہتوں سے جھگڑتے پھرتے اور جس وقت ازالہ اوہام شائع ہوا اُس وقت اُمید رکھتا ہوں کہ سب سے پہلے منشی صاحب لاہور میں اس کی اشاعت کے لئے قدم اُٹھا ئیں گے.غرض میں منشی صاحب سے بدل راضی ہوں.نا واقفیت کی حالت میں جو کچھ منہ سے نکل گیا وہ عند اللہ قابل معافی ہے.خدا تعالی دلوں کو دیکھتا ہے.۱۸ سر اپریل ۱۸۹۱ء والسلام غلام احمد از لدھیانہ محلہ اقبال گنج
مکتوبات احمد ۳۴۰ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۳ مجھی مشفقی اخویم منشی کرم الہی صاحب و سید فضل شاہ صاحب سلّمه تعالی نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ پارسل مرسلہ آپ کا جو پار چات پاجامہ وکر تہ وکیلا و سنگترے تھے پہنچ گئے.جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرَ الْجَزَاء - مجھ کو بہت ندامت اور شرمندگی ہے کہ بیکاری اور تنگی کے ایام میں اس تکلیف کے اُٹھانے کا وقت نہیں ہے.خدا تعالیٰ میرے عزیز دوست سید فضل شاہ صاحب کو برسر کا ر کرے اور نیز اپنی مرادات تک پہنچاوے.پھر مانگ کر بھی تکلیف دیا کریں گے.مجھے خوب معلوم ہے کہ میرے عزیز سید فضل شاہ صاحب کو مجھ سے بہت محبت اور اخلاص ہے اور وہ مخالف بدگو کے مقابل پر بوجہ جذ بہ اخلاص صبر نہیں کر سکتے.ہمارے لئے دن صبر اور حلم کے ہیں.ہمیں بھی چاہئے کہ لوگ گالیاں دیں اور ہم اس کو برداشت کریں.آخر حق غالب آجایا کرتا ہے اور کوئی اس کو روک نہیں سکتا.ہمارے بولنے کی حاجت نہیں کام کرنے والا آسمان پر کر رہا ہے.بس عاجز کو خود دن رات سید فضل شاہ صاحب کے لئے خیال ہے اور بغیر یاد دہانی کے دعا کر رہا ہوں.آج خط کے پڑھنے کے بعد بھی دعا کی اور آپ کے لئے بھی کے آج رسالہ فتح اسلام اور توضیح مرام روانہ خدمت کرتا ہوں.ازالہ اوہام جس وقت آیا روانہ خدمت کروں گا.ہمیشہ اپنے حالات سے مطلع فرمایا کریں.۱۹ر اپریل ۱۸۹۱ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از لدھیانہ محلہ اقبال گنج
مکتوبات احمد ۳۴۱ جلد سوم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۴ مجی عزیزی اخویم سید فضل شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ عنه نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مبلغ ہیں روپیہ جو عزیزی سید ناصر شاہ صاحب نے اس عاجز کے لئے اور نیز مبلغ پنج روپیہ جو عرب صاحب کے لئے بھیجے ہیں کل پچیس روپے پہنچ گئے.جَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا.یہ عاجز باعث علالت لڑکی اب تک لدھیانہ میں رہا.اب ۱۰ رمئی ۱۸۹۴ء کو لڑ کی بقضائے الہی فوت ہوگئی.سواب انشاء اللہ ۱۴ رمئی ۱۸۹۴ء کو قادیان کی طرف جاؤں گا.عزیزی سید ناصر شاہ صاحب کو بعد السلام علیکم مضمون واحد ہے.والسلام خاکسار غلام احمد از لدھیانہ محلہ اقبال گنج مکتوب نمبر ۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجی عزیزی سید فضل شاہ صاحب سلمه نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا اگر چه عزیز مرحوم حیدر شاہ صاحب کی وفات آپ کے لئے بڑے صدمے کا باعث ہوئی لیکن اس صبر جمیل کا ثواب خدا تعالیٰ آپ کو بہت دے گا.صبر کرنا بھی ہر یک کا کام نہیں.انہیں ایمانداروں کا کام ہے کہ جو خدا تعالیٰ کو ہر ایک چیز پر مقدم رکھتے ہیں آپ کے الفاظ سے مجھے بہت خوشی حاصل ہوئی اور حقیقت میں اس سے بڑھ کر کامل ایماندار اور کیا لکھ سکتا ہے.خدا تعالیٰ آپ کو اس کا بہت اجر دے اور نعم البدل عطا کرے اور آپ کی عمر دراز کرے.آمین.آپ کو معلوم ے مرحوم، شاہ صاحب کی پہلی بیوی کے بطن سے تھا.(ناشر)
مکتوبات احمد ۳۴۲ جلد سوم سے وہ ہے کہ پہلے زمانہ میں سادات پر کیا کیا تکالیف اور مصائب آئے ہیں اور کس قوتِ ایمانی - صبر کرتے رہے ہیں پس اسی صبر کی آپ کے خط میں خوشبو آتی ہے.اللہ تعالیٰ بے رحم نہیں وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے یعنی دوسرے لوگوں میں ان کا اندازہ ایمان ظاہر کرتا ہے.سو آپ کی قوتِ ایمانی ایسے خط سے ظاہر ہے.ایمان جیسی کوئی چیز نہیں ایمان گم شدہ چیز کو بہتر صورت میں واپس لاتا ہے امید کہ یہ مصیبت دوسری تکالیف سے رہائی پانے کا بھی موجب ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا - خدا تعالیٰ آپ پر فضل کرے اور تمام مشکلات سے رہائی بخشے.آمین.باقی خیریت ہے.والسلام خاکسار مرز اغلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر ۶ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم سید فضل شاہ صاحب سلّمه تعالی السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کے تفرقہ خاطر سے طبیعت نہایت مغموم متفکر ہوئی لیکن بقول شخصے مشکلی نیست که آساں نشود مرد باید کہ ہراساں نشود خدا تعالیٰ کے عجائب قدرت اور کاموں کی طرف نظر کر کے کچھ غم باقی نہیں رہتا.دیر آید درست آید.انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے اور آپ کے برادر ناصر شاہ صاحب کے لئے توجہ سے دعا کروں گا.آپ تسلی رکھیں اور رسالہ ازالہ اوہام شاید ہمیں روز تک چھپ کر آئے.اُسی وقت بھیج دوں گا.والسلام عمر زیادہ خیریت ہے.غلام احمد لدھیانہ اقبال گنج الم نشرح : ٦، حمد سیرت احمد صفحه ۲۳۶ ، ۲۳۷ مرتبہ قدرت اللہ سنوری
مکتوبات احمد ۳۴۳ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبرے مجی عزیزی ا خویم سید فضل شاہ صاحب ستلمه نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته افسوس! کہ اس وقت میں باعث دردسر جو بوجہ گرمی ہو گئی ہے حاضر نہیں ہو سکا.آپ نے جو چند کلمات نصیحت کے لئے لکھے ہیں اسی قدر کافی ہے کہ آپ ہمیشہ اپنے رب کریم قادر قیوم کے احکام کو یا د رکھیں اور وہ یہ کہ نماز پنجگانہ دلی خلوص سے ادا کریں.ہمیشہ نماز میں بعض دعائیں اپنی پنجابی زبان میں کر لیا کریں اور نماز میں اپنی زبان میں بہت دعا کیا کریں.جہاں تک ممکن ہو نماز تہجد کا بھی التزام رکھیں اور اس میں بھی اپنی زبان پنجابی میں دعا کیا کریں موت کو یا درکھیں کہ یہ موت جب آتی ہے تو باز کی طرح ایک پوشیدہ جست سے اپنا شکار بنا لیتی ہے جہاں تک ممکن ہو ہمیشہ کوشش کریں کہ جلد جلد اس جگہ آیا کریں کہ جس طرح ہر ایک چیز فانی ہے اسی طرح ہمارے وجود کی بھی حالت ہے.ایک وقت آنے والا ہے کہ ہمارا وجود اور یہ ہماری مجلسیں خواب و خیال کی طرح ہو جائیں گی.اور لازم ہے کہ بد صحبت سے پر ہیز کر یں.دل کو گناہ کے منصوبوں سے پاک رکھیں کہ بد قسمت ہے وہ انسان اور بد بخت ہے وہ آدمی جس کا دل ہمیشہ گناہ کے منصوبے سوچتا ہے.آپ کو دُنیا کے شغل میں کئی ابتلا پیش آئیں گے ہر ایک ابتلا میں خدا پر بھروسہ کریں.نہ عمدہ حالت کسی تکبر کا موجب ہو اور نہ کسی تنگی کی حالت بے صبر کر سکے.باتیں بہت ہیں مگر بالفعل اس پر کفایت کرتا ہوں کہ خدا کا خوف اور اس کی مخلوق سے ہمدردی اور اپنی بیوی اور اہل سے طریق رحمت اور درگزر اور اولاد کو دین کی رغبت دینا اور بھائی کے ساتھ حلم اور خلق کے ساتھ معاشرت کرنا اور عام لوگوں کے ساتھ حتی المقدور بھلائی اور ترک شر سے پیش آنا اور اپنے خدا اور اس کے رسول کو سب پر مقدم رکھنا اور چالیس دن میں سے ایک مرتبہ خدا تعالیٰ کے خوف سے رونا یہی طریق سعادت ہے
مکتوبات احمد ۳۴۴ جلد سوم خدا تعالیٰ توفیق بخشے.مجھے اس وقت سر درد ہے طاقت حاضری مسجد نہیں اسی جگہ دونوں نمازیں پڑھوں گا اس لئے دوا مطلوبہ اور ایک کرتہ اور یہ نصیحت نامہ ارسال ہے.والسلام ۶ جولائی ۱۹۰۰ ء خاکسار مرزا غلام احمد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۸ مجی عزیزی اخویم سید فضل شاہ صاحب وسید ناصرشاہ صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.انشاء اللہ جہاں تک میرے لئے ممکن ہوگا.آپ کے امر مرقومہ کے لئے دعا کروں گا.خدا تعالیٰ کامیاب فرمائے.آمین ثم آمین.اگر اس کی مصلحت ہو تو کیا بعید ہے.امید ہے حالات خیریت آیات سے ہمیشہ مطلع فرماتے رہیں گے.آپ کے چند خطوط پہلے بھی پہنچے تھے.بعض کا جواب لکھنے سے میں قاصر رہا.اہم مقصود دعا ہوتی ہے.سو میں اپنے مخلص دوستوں کے لئے کسی حالت میں دعا سے غافل نہیں ، نماز میں بھی دعا کرتا ہوں.آپ کے لئے اور عزیزی سید ناصر شاہ صاحب کے لئے کئی دفعہ خاص طور پر دعا کی گئی ہے اور پوشیدہ طور پر بہت سی تاثیرات دعاؤں کی ہیں کہ ہمیشہ بلائیں رڈ ہوتی رہتی ہیں.زیادہ خیریت.والسلام ۳۰ ستمبر ۱۹۰۰ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد ۳۴۵ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مشفقی محبی اخویم سید فضل شاہ صاحب مکتوب نمبر ۹ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کے کئی عنایت نامے پہنچے ہیں.یوجہ سر گردانی سفر کے جلد جواب نہیں لکھ سکا مگر مجھ کو آپ کی پریشانی سے سخت تر ڈر اور غم ہے.اور میں دل سے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کے فکر کو جلد دور کرے اور اپنی طرف سے آپ کے لئے وجہ معاش عطا فرما دے.مجھے آپ کا بہت خیال اور از حد خیال رہتا ہے اور دعا کی جاتی ہے مگر ہر ایک امر وقت پر موقوف ہے.وہ لوگ بیوقوف ہیں جو آپ کو ڈراتے ہیں کہ آپ بہت سادہ ہیں کہ آپ سے نوکری نہیں ہوگی.وہ نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے مگر میرے نزدیک بجائے نوکری کے اگر آپ کسی ٹھیکہ کی طرف توجہ فرماویں تو یہ بہتر ہے اور میں اس وقت بمقام جالندھر ہوں اور غلہ منڈی میں برمکان.....زین العابدین اترا ہوا ہوں.آپ کی ملاقات کا از حد شوق ہے لیکن وقت پر موقوف ہے.زیادہ خیریت.والسلام خاکسار از طرف حامد علی السلام علیکم از طرف مولوی عبدالکریم سہارنپوری السلام علیکم غلام احمد از جالندھر
مکتوبات احمد ۳۴۶ جلد سوم مکتوب نمبر ۱۰ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم سید فضل شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.میری دانست میں نوکری چھوڑنے کے لئے جلدی نہیں کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ مقلب القلوب ہے.اور دلوں پر تصرف رکھتا ہے.ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس انگریز کے دل کو آپ کی طرف پھیر دے.یا کسی اور مہربان حاکم کے ماتحت کر دے.میں بھی انشاء اللہ دعا کرتا رہوں گا.جلد جلد مجھ کو خبر دیتے رہیں.زیادہ خیریت.۸/نومبر ۱۹۰۰ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد مکتوب نمبر 11 نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مجی اخویم سید فضل شاہ صاحب سلّمه تعالی السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا.عزیزی سید ناصر شاہ کی علالت طبیعت سے سخت قلق واضطراب ہے.خط کو پڑھتے ہی بدرگاہ حضرت ارحم الراحمین دعائے صحت کی گئی.اللہ جل شانہ صحت کامل عطا فرمائے.اُمید ہے کہ صحت اور خیر وعافیت سے جلد مطمئن فرماویں گے کہ صحت کامل کا بہت خیال رہے گا اور آپ کی نسبت مجھے ہر وقت خیال رہتا ہے.اور خدا تعالیٰ کی طرف نظر ہے.والسلام و ۴ اکتوبر ۱۹۰۴ء حمد سیرت احمد صفحه ۲۳۱ مرتبه قدرت اللہ سنوری خاکسار غلام احمد از قادیان
مکتوبات احمد ۳۴۷ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۱۲ مجی اخویم سید فضل شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.چونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے آفت زلزلہ کے وقت اور روز سے مجھ کو اطلاع نہیں دی بلکہ یہ بھی اطلاع نہیں دی کہ وہ آفت جس کا نام زلزلہ رکھا گیا ہے.کیا وہ حقیقت میں زلزلہ ہے یا کوئی اور آفت شدیدہ ہے جو زلزلہ کے رنگ میں ہے.اس لئے میں مناسب نہیں سمجھتا کہ بہت مدت تک ہماری جماعت باہر جنگل میں تکلیف اٹھاوے.ہاں اگر شہر میں کچھ زور طاعون کا ہے تو اس صورت میں شہر میں آنا مناسب نہ ہوگا.اور میں بھی چاہتا ہوں کہ ایک دو ہفتہ کے بعد یا جب خدا تعالیٰ چاہے باغ سے قادیان کے اندر چلا جاؤں.میری یہی تمنا ہے کہ اس آنے والی آفت کا خدا تعالیٰ کی طرف سے کچھ مفصل حال معلوم ہو جائے.سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے مگر بہت خوشی ہو گی اگر خدا تعالیٰ کی وحی سے تاریخ اور وقت کا پتہ لگ جائے.سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.بیشک سب احباب جماعت جو باہر ہیں شہر میں آجائیں.اگر لوگ ٹھٹھا کریں تو کہہ دیں آج تم ٹھٹھا کرتے ہو اور وہ وقت آنے والا ہے جو ہم ٹھٹھا کریں گے.ہر ایک کے لئے خدا تعالیٰ نے وقت مقرر کیا ہے.۱۸ رمئی ۱۹۰۵ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد
مکتوبات احمد ۳۴۸ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۱۳ عزیزی مجی اخویم سید فضل شاہ صاحب و نشی کرم الہی صاحب سلمه نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مولوی محمد حسین صاحب نے پھر رجسٹر کرا کر خط بھیجا تھا اور ۲۱ را پریل تک جواب مانگا تھا اس لئے آپ کی طرف وہ خط روانہ کرتا ہوں.آپ براہ مہربانی دو آدمی ساتھ لے کر اگر خلیفہ رجب الدین یہیں ہوں تو مناسب ہے ورنہ آپ دونوں میرا خط انہیں پہونچادیں اور رسید لے لیں اور مجھے بھیج دیں.والسلام خاکسار غلام احمد از لودهیانه اقبال سنج
حضرت چوہدری الہ داد خاں صاحب رضی اللہ تعالی عنہ
مکتوبات احمد ۳۵۱ حضرت چوہدری الہ داد خاں صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کے نام تعارفی نوٹ چوہدری اللہ داد خاں صاحب ضلع شاہ پور کے باشندے تھے.وہ پچپن روپیہ ماہوار کی سرکاری ملازمت ترک کر کے قادیان ہجرت کر کے آگئے تھے اور ریویو میں کام کرنے لگے جہاں ان کو پچیس روپیہ ماہانہ ملتے تھے.یہ بہت بڑی قربانی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرمایا اور آخر وہ یہاں ہی فوت ہو گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے ایثار و قربانی اور دینی خدمات کے زیر نظر مقبرہ بہشتی میں دفن کرنے کی اجازت دی اور جنازہ پڑھا.چوہدری صاحب کے نام جو مکتوب ہے اس کی حقیقت سمجھنے کے لئے خود چوہدری صاحب مرحوم کا خط بھی میں نے درج کر دینا مناسب سمجھا.چوہدری صاحب بہت ہر دلعزیز ، خوش اخلاق اور جماعت کے نوجوانوں کی تربیت و تبلیغ کا خاص جوش رکھتے تھے.لوگ ان کو امین سمجھ کر اپنی امانتیں بھی ان کے پاس رکھتے تھے اور بعض احباب ان کو امین الملہ بھی کہا کرتے تھے.بڑی خوبیوں کے بزرگ تھے.جو ان سال فوت ہو گئے.اللہ تعالیٰ ان کو جوار رحمت میں جگہ دے.آمین جلد سوم (عرفانی کبیر )
مکتوبات احمد واب نمبر ۴ ۳۵۲ فہرست مکتوبات بنام حضرت چوہدری الہ داد خاں صاحب تاریخ تحریر ۱۷ اکتوبر۹۷ء بلا تاریخ ۲۰ / جنوری ۱۹۰۲ء ۴/دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۵۳ ۳۵۴ ۳۵۵ ۳۶۳ جلد سوم
مکتوبات احمد ۳۵۳ جلد سوم مکتوب نمبرا حسب ایما حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام تحریر ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ برادرم منشی صاحب نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاته آپ کے خط کا مضمون حضرت اقدس کو سنایا تھا.آج دوسرا خط بھی آپ کا حضرت اقدس کے نام آیا.حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ اس امر میں استخارہ کی ضرورت نہیں ہے.آپ کو فوراً قادیان آ کر قرآن شریف پڑھنا چاہیئے.ترقی دلانے والا بھی خدا ہے وہ خود ہی کوئی صورت نکال دے گا اگر آپ نوکری پر چلے بھی گئے اور ترقی نہ ہوئی تو آپ کو سخت حسرت اور افسوس رہے گا کہ قرآن شریف بھی نہ پڑھا اور ترقی بھی نہ ہوئی.بہتر ہے کہ آپ اپنے افسر کو ترقی کی درخواست دے کر چلے آویں.والسلام حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ یہاں آپ کا آنا مفید ہوگا.اپنے بھائی کو میری طرف سے مبارکباد دیو ہیں.۱۷ اکتوبر۹۷ء حمد البدر نمبر ۳۴ جلد ۲ مورخه ۱۱ارستمبر ۱۹۰۳، صفحه۳۷۰ بقلم مرزا خدا بخش
مکتوبات احمد ۳۵۴ مکتوب نمبر ۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ صادق آن باشد که ایام بلا السلام علیکم می گذارد با محبت با وفا جلد سوم ہر ایک مرضی الہی پر صبر کرنا اور اپنے مولی سے کامل تعلق اور گاڑھا پیوند کرنا چاہئے.اور مخالفین کی کوئی پرواہ نہ کرنی چاہیئے.متوکل علی اللہ رہنا چاہیئے.درود، استغفار، تلاوت کلام مجید میں لگے رہنا بہتر ہے.خدا تعالیٰ وہ دن لاتا ہے کہ مخالف روسیاہ اور موافق مسرور وسرخرو ہوں گے.آپ کے واسطے دعا کی گئی ہے.خدا تعالیٰ ہر بلا سے نجات دیوے.از کا تب سراج الحق نعمانی السلام علیکم حمد الحکم نمبر ۵ ۶ جلد ۲ مورخه ۲۷ / مارچ تا ۶ را پریل ۱۸۹۸ء صفحه ۶ بحکم حضور امام الزمان ما از قادیان
مکتوبات احمد ۳۵۵ یہ خط حضرت اقدس نے ان ایام میں چوہدری صاحب کو لکھا جب کہ وہ شاہ پور میں تھے.انہوں نے اپنے بعض ابتلاؤں کا ذکر کر کے ایک عریضہ حضرت کے حضور لکھا تھا اس کا جواب حضرت نے حسب ذیل فرمایا.(عرفانی کبیر ) مکتوب نمبر ۳ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ جلد سوم مجی اخویم منشی الہ داد صاحب کلرک سلّمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.یادر ہے کہ ہر ایک مومن کے لئے کسی حد تک تکالیف اور ابتلا کا ہونا ضروری ہے اس کو صدق دل سے برداشت کرنا چاہئے اور خدا تعالیٰ کی رحمت کا انتظار کرنا چاہیئے.جو شخص اس بات پر یقینی ایمان لاتا ہے کہ میرا خدا ہے جو قادر اور کریم اور رحیم اور علیم ہے اس کو اپنے ایمان کے موافق استقامت اور استقلال دکھانا چاہئے.وہ خدا تو قادر ہے ایک دم میں مشکلات پیش آمدہ کو حل کر دے مگر بندہ کی تربیت کے لئے جو اس کے مصالح کسی بنا پر کسی حد تک اس کا ابتلا چاہتے ہیں.ان مصالح کو ترک کرنا حقیقی رحمت کے برخلاف ہے.سو یقین رکھو کہ وہ خدا موجود ہے جو ہر ایک مصیبت کو ہر ایک دم میں دور کر سکتا ہے اور وہ اس سے بے خبر نہیں ہے مگر اس کی مصلحت اور حقیقی رحمت یہ کام کر رہی ہے.اپنی نمازوں میں اپنی ہی زبان میں اپنی مشکلات کے لئے دعا کرتے رہو.قیام میں، رکوع میں ، سجود میں ، التحیات میں ، ہر ایک وضع میں دعا کرو.کوئی نیا امر نہیں ہے جس مومن سے خدا پیار کرتا ہے اس کو کسی قد را بتلا کا مزہ چکھاتا ہے تا اس کی آنکھ کھلے اور وہ سمجھے کہ دنیا کیا چیز ہے؟ اور کس قدر تلخیوں کی جگہ ہے.سوضرور ہے کہ کسی قدر یہ دکھ پہنچیں اور در حقیقت کوئی دکھ دکھ نہیں صرف ایمان کا قصور دکھ ہے.صدق دل سے اپنے تئیں خدا کے حوالہ کرو اور یقین سے سمجھو کہ وہ ان لوگوں کو ضائع نہیں کرتا جو اس کے ہو جاتے ہیں.کچی تو بہ کرو اور گنا ہوں سے اپنی ہی زبان میں خدا سے معافی چاہوتا وہ رحم کرے.یہ کوئی نئی بات
مکتوبات احمد ۳۵۶ جلد سوم نہیں کوئی اس دروازے کے راہ سے نہیں آتا جس کو یہ سب کچھ دیکھنا نہیں پڑتا بلکہ اس سے زیادہ خدا طاقت بخشے.چند روز دنیا ہے، مخلوق طاعون سے مر رہی ہے، ہمت میں اپنا صدق دکھلاؤ.امتحان کے وقت اس بات میں خوبی نہیں کہ بہت جزع فزع کر کے مخلصی چاہیں بلکہ اس میں خوبی ہے کہ ایسے موقع پر استقلال دکھانا چاہئے.۲۰ / جنوری ۱۹۰۲ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان یہ خط جس عریضہ کے جواب میں ہے میں پہلے اسے درج کرتا ہوں تا کہ حضرت اقدس کے مکتوب کی پوری وضاحت ہو جاوے.اس کے بعد وہ قادیان ہجرت کر گئے.(عرفانی کبیر) چوہدری صاحب کا عریضہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ بحضور منبع علوم ربانی و مخزن انوار و فیوض رحمانی، واقف رموز حقانی و کان گوہر معانی حضرت اقدس مرسل یزدانی جناب مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته چونکہ حضور کے حکم سے اپنے درد دل کی داستان گزارش بندگان عالی کرنے کی اجازت ہوئی ہے.اس واسطے کسی قدر تفصیل کے ساتھ عرض کروں گا.۲.اس امر کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں سمجھتا کہ خاکسار کے دل میں عرصہ دراز سے شعلہ
مکتوبات احمد ۳۵۷ جلد سوم محبت بھڑ کا ہوا تھا.سال ۱۸۹۰ء یعنی ایام طالب علمی سے جب کہ خاکسارا بھی انٹرنس میں تعلیم پاتا تھا.محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضور کے ساتھ تعلق اخلاص مندی نصیب ہوا جس کو اب چودھواں سال جارہا ہے.بفضلہ تعالیٰ اس تعلق میں روز افزوں ترقی ہی ہوتی چلی آئی اور یہ رشتہ دن بدن مستحکم ہی ہوتا گیا اور بتدریج محسوس ہوتا گیا کہ اس پیوند کی مضبوط رسی کے ذریعے عالم تاریکی سے ایک بین روشنی کی طرف کھینچا جا رہا ہوں اور الفت و محبت قلبی نے تو ایسی ترقی کی کہ چھ سات سال سے بڑے جوش کے ساتھ یہی دلی خواہش رہی کہ کوئی صورت ایسی پیدا ہو کہ بقیہ ایام زندگی حضور کے بابرکت اور سراپا نور خیز قدموں میں گزاروں.جس سے دین و دنیا کی اصلاح ہو کر حسنات دارین سے مستفیض و بہرہ مند ہوں.کیونکہ جب ایسا مبارک زمانہ پایا ہے اور ایسی نعمت غیر مترقبہ نصیب ہوئی ہے تو اس کی قدر نہ کرنا اور ایسی نعمت الہی سے وقت پر متمتع نہ ہو نا محض شومئی قسمت کا باعث ہے.۳.چونکہ دل میں بڑے ذوق کے ساتھ اس امر کی گدگدی و چاہت لگی ہوئی تھی.اس کے ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد دل و دماغ نے یہی مشورہ و فتویٰ دیا کہ مرسل صادق کے مبارک قدموں میں زندگی گزارنا تمہارا مقصود بالذات ہونا چاہئے اس لئے اس غرض کے حصول کے لئے کئی بار یہاں دارالامان کے مقیم احباب و برادران کو تصد یعہ دیتا رہا.چنانچہ ایک دفعہ نومبر ۱۹۰۰ء میں مکرمی اخویم جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے ایک ایسی صورت پیدا بھی کر دی تھی کہ خاکسار اسی وقت مستقل طور پر یہاں آجاتا مگر کچھ نا سازی قسمت و مخالفوں کی سعی سے اس وقت کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا کیونکہ اس وقت مخالف آریہ افسروں نے عمد أوقت پر رخصت سے استفادہ نہ کرنے دیا حالانکہ اس وقت حضور کی جانب سے بھی آنے کے لئے اجازت ہو چکی تھی.اس وقت عاجز کے نہایت ہی مکرم و محسن و فخر قوم جناب مخد و می مکر می مولوی عبد الکریم صاحب نے جن الفاظ سے خاکسار کو خطاب کیا تھا وہ الفاظ اب تک عاجز کے لوح قلب پر نقش بر سنگ کی طرح منقش ہیں جو یہ ہیں.حج وونج دونوں ہاتھ آویں پھر آنے میں کیا تا مل ہے.اس نعمت کے لینے میں ہرگز توقف نہ چاہیئے.“ سو واقعی سچ ہے اور بالکل سچ ہے کہ جب ہر دو چیزیں حاصل ہو جاویں پھر اس سے بڑھ کر اور کیا چاہئے.اول الذکر کے لئے تو مامور ومرسل الہی کی صحبت و خاکپائی کا شرف کافی.امر دوم کے
مکتوبات احمد ۳۵۸ جلد سوم لئے وجہ معاش کا ذریعہ.جب دونوں مل جاویں پھر اور کسی چیز کی کیا ضرورت؟ ۴.وہ پہلا موقع تو جاتا رہا تھا کیوں کہ میرے توقف کرنے سے مکرمی مفتی صاحب کی تجویز ہوگئی.مگر اس کے بعد بھی دل میں یہی تڑپ لگی رہی کہ کسی طرح آں ہادی و مهدی زمان کے مبارک قدموں میں رہنے کا موقع ملے.دل خاکسار تو پہلے ہی سے آتش محبت سے شعلہ زن ہوا تھا مگر اب یہاں آکر اور کچھ عرصہ یہاں رہ کر سچے دل کے ساتھ محسوس کیا ہے کہ خصوصاً میرے جیسے مذاق کے انسان کے لئے دارالامان سے باہر رہنا تو زندگی کا عبث گزارنا ہے.خاکسار پہلے دو ماہ کی رخصت لے کر آیا تھا مگر دو ماہ کے گزرنے پر ہرگز دل نہ چاہا کہ وطن کا رُخ کروں کیونکہ وطن میں بے وطنی اور قادیان میں وطن نظر آتا ہے.مجبوراً تین ماہ کی اور رخصت لی.اس صورت میں اب چوتھا ماہ جا رہا ہے.اب تو دن بدن دل کی یہ حالت ہے کہ یہاں سے نکلنا ایک موت نظر آتا ہے.رات دن اسی دعا میں تھا کہ کوئی ایسی صورت نکلے کہ معمولی گزارہ چل سکے تو حضور کے مبارک قدموں میں رہنے کی سبیل بن جائے ، جو اصلی مدعا ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ کہ ایک ایسا امر پیدا ہو گیا ہے کہ جس سے خاکسار کے گزارہ کی بھی پوری صورت پیدا ہوگئی ہے اور انتظام بھی مستقل ہے.وہ یہ ہے کہ دفتر میگزین میں کلرک کی جگہ خالی تھی.وہاں میرے قدیمی مکرم و محسن جناب مخدومی مولوی محمدعلی صاحب ایم.اے نے عاجز کے لئے پچیس روپیہ ماہوار کی مستقل تجویز فرمائی ہے اور کل بالمواجہ پختہ وعدہ فرمایا ہے اور خود آپ ذمہ اُٹھایا ہے کہ جب تک میگزین کا وجود ہے بشرط زندگی اقل درجے پچیس روپیہ ماہوار تک میں تنخواہ دینے کا ذمہ دار ہوں اور اگر اس میگزین کے کام میں ترقی ہوتی گئی جو ضرور بفضلہ تعالیٰ ہوگی تو اس میگزین کی ترقی کے ساتھ تمہاری بہبودی و ترقی کا خیال بھی رہے گا.اوّل تو وہی رازق حقیقی ہی ہر کسی کا کفیل ہے اور اپنے سچے دل وایمان کے ساتھ اسی کی کفالت پر نظر ہے اور نابکار جیسے متوکلوں کا تو خاص اُسی پر ہی بھروسہ ہے مگر مولوی صاحب موصوف نے بھی جو وعدہ فرمایا ہے اور ذمہ داری اُٹھائی ہے.اس پر بھی خاکسار کو پوری تسلی ہو چکی ہے.اوّل تو جس قادر مطلق کے ارادے و منشا سے اس میگزین کا پودہ لگایا گیا ہے وہ خود ہی اس کی ترقی ، استحکام و پا بجائی کی صورت و ذرائع پیدا کرتا رہے گا اور بفضلہ تعالی اس پودہ کی جڑیں
مکتوبات احمد ۳۵۹ جلد سوم پورا استحکام پکڑیں گی.اس میں انشاء اللہ تعالیٰ ترقی ہوگی اور یہ بڑی عمر پائے گا.بفرض محال اگر کوئی صورت دگرگوں بھی ہو تو میگزین کی عمر بالمقابل ہماری اپنی عمر کے کیا ہستی ہے.خاکسار خود اپنی عمر پر کیا اعتبار کر سکتا ہے.یہی غنیمت ہے کہ یہ چند روزہ ایام زندگی صادق مامور کی پاک صحبت و معیت میں گزر جاویں اس سے بڑھ کر اور کیا نعمت غیر متناہی حاصل ہوسکتی ہے..یہ پچیس روپیہ ماہوار کی جو تجویز ہوئی ہے اس میں عاجز کا بخوبی گزارہ چل سکتا ہے.خاکسار بچپن سے بالکل سادگی سے زندگی بسر کرنے کا عادی ہے.اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی صورت فراخی نکل آوے تو وہ تو اس جواد کریم کا خاص رحم ہے.اس کی نعمت کے لینے سے کون انکار کر سکتا ہے ور نہ ایسے تو میں معمولی قلیل سے قلیل چیز پر بھی اکتفا کر سکتا ہوں.خاکسار تو اس کو خاص ترحم و فضل الہی سمجھتا ہے کہ ایک تو گزارہ کے لئے صورت نکل آئی.دوم پیارے امام الزمان علیہ الصلوۃ والسلام کے فیوض صحبت سے بہرہ اندوز ہونے کا ایک عمدہ موقعہ حاصل ہوا جو عین دلی منشا تھا اور جس کے لئے عرصہ سے در پے تھا..یہ مسئلہ کہ جس نیک کام کرنے کے لئے صافی نیت و سچے دل کے ساتھ انسان کوشش کرتا ہے خواہ بظاہر وہ کیسا ہی مشکل کام ہو.اللہ تعالیٰ الْاَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ “ کی بنا پر اس کو اس کام میں ضرور ہی کا میابی بخشتا ہے.آج عاجز کو روز روشن کی طرح کھل گیا ہے.خاکسار کئی سال سے اس مدعا کے در پے تھا.مگر اب چار پانچ ماہ سے تو برابر اس مدعا کے حصول کے لئے خلوص نیت سے دعاؤں میں لگا رہا.کئی دفعہ استخارہ کئے اور دعاؤں میں تو بہت ہی کثرت کی.ان دعاؤں و استخاروں کے بعد خوا میں بھی دیکھیں.جن سب کا ماحصل یہی تھا کہ اس جگہ دارالامان میں رہنا مفاد دارین کے لئے ضروری ہے اور اسی میں کامیابی ہوگی بلکہ بعض اوقات دعا کی حالت میں غنودگی سی آئی اور اس غنودگی میں اس فائز المرامی کا تمام نقشہ دکھلایا گیا مگر باوجود یکہ دوماہ سے اس قسم کی خوا ہیں آرہی تھیں مگر پھر بھی خاکسار دعاؤں میں لگا رہا.ان تمام کیفیات کا تذکرہ مجملاً اپنے قدیمی عزیز بھائیوں برادرم مکرم مولوی شیر علی صاحب بی.اے.و برادرم مخدوم مفتی محمد صادق صاحب سے کیا جو میرے ہم وطن و ابتدائے بچپن کے عزیز اور ابتدائی واقف ہیں.ان کا بھی خاکسار کے ساتھ اتفاق رائے ہوا.
مکتوبات احمد ۳۶۰ جلد سوم کیونکہ وہ ابتداء سے جانتے تھے کہ خاکسار کس مذاق و مشرب کا آدمی ہے اور یہ بھی ان کو بخوبی معلوم تھا کہ عاجز کی فطرت بھی اس امر کی مقتضی ہے اور مناسبت رکھتی ہے کہ دارالامان میں رہے.یہ افتادہ خاکسار حضور کی خاص دعاؤں سے بھی استفاده و استفاضہ کر ہی رہا تھا.انہی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کے حصول کے لئے ذرائع خود بخود پیدا کر دیئے اور ایک صورت گزارہ بھی نکل آئی.یہ سب بطفیل دعائے آں قبلہ دارین کے اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے ورنہ یہ نابکار عاجز کسی رعایت کا مستحق تھا کہ اس قدر ذمہ داری کے وعدہ بھی دیئے جار ہے ہیں.اس قادر مطلق سچے مربی و حقیقی محسن کے ہزار ہزار سجدات شکر بجالاتا ہوں.جس نے اس خوشی کے دن دیکھنے کی امیدیں دلائی ہیں اور اسی ذات ستودہ صفات جامع کمالات پر بھروسہ ہے کہ وہ بے نیل المرام عاجز کو نہ چھوڑے گا.اب کل سے پختہ امید لگنے لگی ہے کہ رحمت الہی سے کچھ بعید نہیں ہے کہ عاجز جیسے ناکارہ کو جلدی ہی مستقل طور پر اس نعمت سے متمتع ہونے کا موقعہ نصیب کرے.ے.جس قدر حال عرض ہوا ہے وہ صرف خاکسار کے اپنے ذاتی مفاد تک محدود تھا.اب دیکھتا ہوں کہ اگر خاکسار کو اس جگہ دارالامان میں رہنا نصیب ہو جاوے تو صرف یہی نہیں ہے کہ اس کا فائدہ خاکسار کے وجود تک ہی محدود رہے گا.بلکہ اس کا فائدہ خاکسار کی بڑی برادری و رشتہ داری تک بھی اگر فضل ایزدی شامل حال ہو تو پہنچ سکے گا بلکہ رفقا و اجبا بھی اس کے اثر سے خالی نہ رہیں گے.سر دست میرے بھائیوں کے لڑکے جو ۹ ، ۱۰ کے قریب ہیں.میری اس جگہ رہائش کے توسل سے اس جگہ دارالامان کے سکول میں آکر داخل ہو جاویں گے اور اس جگہ تعلیم پاویں گے.ان کا یہاں آنا صرف میری یہاں کی رہائش سے وابستہ ہے اور میرے اور ان کے تعلق سے دیگر متعلقین کی آمد ورفت شروع ہو جائے گی جو بفضلہ تعالیٰ ان کی ہدایت وفیض یابی کا باعث ہوتی جائے گی.اور اس تعلق سے کیا عجب ہے کہ اس نواح کے اور بھی بہت سے لڑکے اس جگہ آکر تعلیم پاویں کیونکہ ابتداء میں صرف تحریک چاہئے پھر پیچھے خود بخود کام چل پڑتا ہے.اس وقت تک کوئی ذریعہ تحریک کا اس طرف پیدا نہیں ہوا.اپنی جانب سے تو کوشش ہے.آگے اس کوشش میں خود اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا.اس طرف کی مہر شاہی دام تزویر کا اثر اسی طرح سے انشاء اللہ تعالیٰ مٹے گا جب تک
مکتوبات احمد ۳۶۱ جلد سوم طلباء و دیگر لوگ اس جگہ کی آمد ورفت کے ذریعہ سے تبدیلی خیالات نہ کریں اور یہاں کے روحانی خیالات سے مؤثر و منور نہ ہوں تب تک مہر شاہی مزوّرانہ طلسمات کا زنگ ان کے زنگ آلودہ دلوں سے محو و زائل نہیں ہو سکتا.اللہ کرے کوئی ایسی ہی سبیل پیدا ہو کہ مہر شاہی بُت ان کے دلوں کے مندروں سے ٹوٹ جاوے.آمین ثم آمین..باقی رہا معاملہ ابتلا.ابتلاؤں سے بچانا بھی اسی ذات مقدس کا کام ہے اور اسی سے ہر وقت دعا ہے کہ محض اپنے فضل و کرم سے ہر مصیبت وا بتلا سے محفوظ و مامون رکھے.ایسے تو ابتلا کا میدان ہر جگہ وسیع ہے کسی خاص جگہ کی خصوصیت نہیں ہے.ہر جگہ اسی ذات جامع کمالات ہی کا تصرف ہے.اس کے تصرف سے کوئی جگہ خالی نہیں بلکہ مقابلہ یہ دارالامان کی سرزمین اور جگہوں کی نسبت ابتلاؤں کی سپر ہے.کیا بلحاظ روحانیت ہو کیا بلحاظ جسمانیت ہو.روحانیت کی پیاس بجھانے کے لئے تو آب زلال حیات ابدی کا حوض کوثر موجود ہے جس کے پینے سے ابد الآباد تک پیاس نہیں لگتی.جسمانیت کے لحاظ سے یہاں کے تیار شدہ دل تو کچھ ایسے ابتلاؤں کی برداشت بھی کر سکتے ہیں اور یہاں کے سکول معرفت کی تعلیم یافتہ روحیں ایسے ابتلاؤں چنداں گھبراتی نہیں ہیں ورنہ کسی دیگر جگہ کے جِیفَةُ الدُّنْیا کے طالب کو تو اگر ذرا سا بھی ابتلا آ جائے تو اس کو اپنے وجود تک ہوش نہیں رہتی.دور کیوں جائیں خود ہمارا اپنا واقعہ سال ۱۸۹۷ء کا حضور کو بخوبی یاد ہوگا کہ میرے چھوٹے بھائی پر ایک مقدمہ بن گیا تھا جس کے واسطے حضور کی خدمت میں بھی دعا کے لئے بہت کچھ عرض کیا تھا اور بطفیل دعائے آں حضرت بفضلہ تعالیٰ انجام کاربریت و مخلصی تو ہوگئی تھی مگر سال بھر کی مقدمہ بازی سے جس قدر تکلیف اٹھائی تھی اور جس قدر خرچ کی زیر باری ہوئی تھی وہ حاجت بیان نہیں.اڑھائی ہزار روپیہ سے بڑھ کر خرچ مقدمہ ہو گیا تھا.وہاں شاہ پور میں خاکسار کی موجودہ حالت بھی کچھ ابتلا سے کم نہیں ہے جو...افسر ہے بوجہ عناد مذہبی کے سخت مخالف ہے.خود بھی اس کے ورغلانے سے ایسی کوشش میں ہیں کہ اگر موقعہ لگے نہ تو صرف موقوفی تک اکتفا کرے بلکہ اس سے بڑھ کر نقصان پہنچا دے.معمولی بجا آوری فرائض الہی تک میں سخت تنگی کرتے ہیں.چنانچہ مکرمی اخویم مرزا خدا بخش صاحب و جناب حافظ محمد اسحاق صاحب سب اور سیر خود یہ تمام حال مشاہدہ کر آئے ہیں.
مکتوبات احمد ۳۶۲ جلد سوم علی ھذا القیاس ایسے سینکڑوں دنیوی ابتلا ہیں جو د نیوی اشغال کی حالت میں انسان کو ان میں مبتلا ہونا پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ ہی محفوظ رکھے.یہاں دار الامان میں تو اللہ تعالیٰ کا ہر طرح سے فضل ہے.کہاں دار الامان کی رحمت خیز سرزمین اور کہاں حِيْفَةُ الدُّنْيَا کا دیگر زاد بوم عالم.چه نسبت خاک را با عالم پاک ۹.جملہ حالات کو بہ ہیئت مجموعی زیر نظر لانے کے بعد خاکسار کے دل میں تو ایک ایسا جوش پیدا ہوا ہوا ہے کہ مرنا قبول مگر دار الامان کی سرزمین سے قدم باہر رکھنا محال بلکہ معرکہ قیامت سے کم نہیں اگر چہ پہلے حضور کی ایک دفعہ اجازت ہو چکی ہوئی ہے کہ خاکسار اس جگہ آجاوے اور اسی سابقہ سلسلہ میں یہ اب یہ دوسرا موقعہ پیش آیا ہے.مگر موجودہ موقعہ کے لئے بھی حضور کی منظوری ضروری خیال کر کے نہایت مؤدبانہ خواستگار اجازت ہوں اور ساتھ ہی مستدعی دعا بھی کہ اللہ تعالیٰ اس رہائش میں برکت ڈالے اور جن اغراض کی بنا پر یہ سعی کارخیر کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ اس کے ثمرات حسنہ سے اس احقر کمترین خادم حضور کو بہرہ مند فرماویں.کیا ہی خوش قسمتی کی وہ گھڑی ہو گی جس لمحہ میں اس دہن مبارک سے حکم اجازت نفاذ پا کر اس خادم کی روح رواں کی تر و تازگی و شادابی کا باعث ہوگا اور اس نیم مردہ جسم و جان میں از سرنو روح حیات پھونکی جاوے گی کیونکہ اس حکم اجازت پر ہی نابکار کی آئندہ قسمت کا فیصلہ ہے اور یہ حکم اب ایسے اجلاس سے صادر ہونا ہے جس کے آگے کوئی اپیل ہی نہیں.حسن اتفاق سے آج روز جمعہ آ گیا ہے اس واسطے یہ بھی ایک فال سعید خیال کر کے اس عریضہ نیاز کے ذریعہ عَلَى الصِّبَاحِ ہی شرف باریابی حاصل کرنے کی جرات کرتا ہوں.چونکہ تقسیم برکات کا دن اور اعلیٰ انعم الہی کے عطا ہونے کی گھڑی ہے.اس واسطے امید ہے کہ اس سخاوت مجسم در سے خاکسار کی یہ مؤدبانہ گزارش خالی از قبولیت نہ جاوے گی.والسلام معروضه ۴ / دسمبر ۱۹۰۳ء جواب باصواب کا منتظر حضور کا کمترین خادم احقر العباد الہ داد عفی اللہ عنہ احمدی کلرک شاہ پور حال قادیان
مکتوبات احمد ۳۶۳ مکتوب نمبر ۴ حضرت اقدس کا جواب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته جلد سوم میں نے آپ کا خط اوّل سے آخر تک تمام پڑھ لیا ہے.اگر چہ سرکاری نوکری جو پچاس روپیہ آپ کو ملتے ہیں ایک ظاہر بین شخص کی نظر میں اس کو چھوڑ نا اور پیش رو پہ پر جو وہ بھی ابھی ایک ظنی بات ہے قناعت کرنا دنیوی مصلحت کے برخلاف ہے لیکن آپ جیسا آدمی جو استقامت اور اخلاص اور تو کل علی اللہ کا ہنر اپنے اندر رکھتا ہو.اس کے لئے درحقیقت ان خیالات سفلیہ کی پیروی کرنا ضروری نہیں.یہ سچ ہے کہ عمر نا پائدار اور اس جگہ کی صحبت از بس غنیمت ہے اور بہر حال خدا تعالیٰ رزاق ہے.زیادہ سے زیادہ اگر یہ فرض کر لیں کہ کسی دن میگزین کا سلسلہ بند ہو جائے گا مگر خدا تعالیٰ کے فضل کا سلسلہ بند نہیں ہوسکتا.چو از راه حکمت بندد درے کشاید بفضل و کرم دیگرے آپ کے صدق و ثبات پر نظر کر کے میری رائے یہی ہے کہ آپ تو تکلا علی اللہ اس نوکری کو لعنت بھیجیں اور اس صحبت کو غنیمت سمجھیں اور بالفعل بچیں.پر قناعت کریں.والسلام ۴؍ دسمبر ۱۹۰۳ء خاکسار مرزا غلام احمد
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب رضی اللہ تعالی عنہ
مکتوبات احمد ۳۶۷ حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کے نام تعارفی نوٹ جلد سوم حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب رضی اللہ عنہ سلسلہ کے نو جوانوں کے لئے ایک مؤثر نمونہ کے نوجوان تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت میں وہ گداز تھے اور ان کی عملی زندگی قابل رشک تھی.” در جوانی تو بہ کر دن شیوہ پیغمبری کا مفہوم ان کے حسب حال تھا.ان کی سیرۃ بہت کچھ لکھوانا چاہتی تھی.اللہ تعالیٰ نے چاہا تو میں کتاب تعارف میں تفصیل سے لکھنے کا عزم رکھتا ہوں.میری تحقیقات میں وہ اپنے خاندان میں پہلے احمدی تھے.گو ان کے برادر بزرگ مخدومی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم و مغفور کہتے تھے کہ میں نے پہلے بیعت کی ہے لیکن چونکہ ایک دوسرے کو پتہ نہ تھا اس لئے تقدیم تاخیر کی بحث ہو سکتی ہے.بہر حال مرحوم ایوب صادق ایک فرشته خصلت پاک باز نوجوان تھا.وہ عین جوانی میں فاضل کا میں فوت ہو گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب مقبرہ بہشتی اللہ تعالیٰ کی وحی کے ماتحت قائم فرمایا تو حضرت ایوب صادق کی ہڈیوں کو وہاں سے منگوا کر مقبرہ میں دفن فرمایا.اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ وَنَوِّرُ مَرْقَدَهُ - مرحوم مرزا یعقوب بیگ صاحب ان کی سیرۃ لکھنا چاہتے تھے اور کچھ حصہ میرے اہتمام میں طبع ہوا تھا پھر وہ رہ گیا اور اختلاف کے بعد بھی ڈاکٹر صاحب نے الحکم میں ان کے متعلق لکھا اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکتوبات گرامی پھر شائع کئے.میرا خیال ہے کہ ان کے نام کے اور بھی خطوط ہونے چاہئیں.میں نے عزیز مکرم مرزا مسعود بیگ صاحب کو لا ہو ر لکھا تھا اور انہوں نے وعدہ بھی کیا تھا مگر اس اشاعت تک وہ مکتوبات نہ آسکے.اس لئے جو میرے پاس ہے شائع کر دیا جاتا ہے.میں اسے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے نوٹ کے ساتھ درج کر رہا ہوں اور مزید خطوط مل جانے پر انشاء اللہ آئندہ شائع ہو جائیں گے.وَبِاللهِ التَّوْفِيقِ (عرفانی کبیر)
مکتوبات احمد ۳۶۸ سیرت ایوب کا مختصر خاکہ جلد سوم اس وقت جو میں عزیز مرحوم ایوب بیگ کی سیرت لکھ رہا ہوں میر اوہ خط جو کہ عین عزیز مرحوم کی وفات کے بعد میں نے آخر اپریل ۱۹۰۰ء میں الحکم میں چھپوایا تھا.میرے سامنے ہے.اس خط میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ولی اللہ کے حالات کو گویا کہ ایک کوزہ میں بند کیا گیا ہے.اس کے پڑھنے سے جو میرے دل کی حالت ہوئی ہے اور جو رقت اس وقت مجھ پر طاری ہے میں بیان نہیں کرسکتا.خط کو پڑھتے پڑھتے میں کئی دفعہ سجدہ میں گرا اور مرحوم اور اُس کے والدین بلکہ کل مسلمانوں کے لئے بہت دعا کی اور اپنے خاتمہ بالخیر کے لئے بھی دعا کی.پیشتر اس کے کہ احباب تک مکمل سیرت پہنچے.یہ خط بغرض اشاعت ارسال ہے.ممکن ہے کہ اہل دل کو اس سے فائدہ ہو اور حضرت مسیح موعود کی صداقت اور آپ کی برکات صحبت اس کے لئے سرمہ چشم بن سکیں.آمین.گوش کن گر اہل دل بشنو گر عاقلی شاید که نتوان یافتن دیگر چنیں ایام را دار السلام ڈلہوزی ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۳۵ء مرحوم کی وفات پر خاکسار کا خط خاکسار مرزا یعقوب بیگ در حقیقت بس است یار یکے ہر که او عاشق یکے باشد دل یکے جاں یکے نگار یکے ترک و دنیا پیشش اند کے باشد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ برادران ! آج میرے لئے نہایت افسوس کا دن ہے کہ میں اپنے اس عزیز اور نہایت ہی پیارے بھائی کی وفات کا تذکرہ آپ کے سامنے کرتا ہوں جو کہ اپنی جوانی اور عین شباب کے ایام میں جب کہ وہ نونہال ابھی برگ و بر لانے کے قابل ہوا تھا یک لخت کاٹا گیا اور ہم سے اس دنیا میں ہمیشہ کے لئے دور ہو گیا اور پس ماندگان کے لئے داغ مفارقت چھوڑ گیا اور اپنی صرف پچیس سالہ عمر میں سب سے
مکتوبات احمد ۳۶۹ جلد سوم پہلے دوسرے جہاں میں بلایا گیا.بھائی بھائی تو دنیا میں بہت ہوتے ہیں اور ایک بھائی کی وفات دوسرے بھائی کے لئے ایک بڑا بھاری صدمہ ہوتی ہے مگر اس بھائی مرحوم میں اور مجھ میں جو تعلق محبت اور یگانگت کا تھا میں دنیا کے برادرانہ رشتوں میں اس کی نظیر نہیں دیکھتا.یہ کہنا کچھ مبالغہ نہ ہوگا کہ ہم میں سے ہر ایک دوسرے کا عاشق و شیدا تھا اور اس قدر دلی لگاؤ کی صرف ایک ہی وجہ تھی یعنی آج سے آٹھ نو سال پیشتر جب کہ مجھے ابھی داڑھی کا آغا ز شروع ہی ہوا تھا اور مرحوم ایوب بیگ مجھ سے بھی خوردسال تھا.خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور مہربانی سے اور ہمارے والدین کے خوش طالع سے آخری وقت کے امام کے قدموں تک ہماری پہنچ ہوئی.اس پیر بزرگ نے غایت کرم اور کمال مہربانی سے ہم دونوں کو اپنے بچوں کی طرح کنار عاطفت میں لیا اور ہم کو بھی نہایت تکلف کے ساتھ اس نور سے بہرہ ور کیا جو اس کے اپنے سینہ میں روشن تھا اور ہم کو بھی اپنے زمرہ خدام میں شمولیت کا شرف بخشا ( ان دونوں پودوں پر خدا تعالیٰ کی رحمت کی بارش ہوتی رہی.اور اس مرسل باغبان کے باغ میں پرورش پاتے رہے.جس کے باغ کو کسی بیرونی آبپاشی کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے اندر ہی اندر ہر ایک درخت کی جڑ کے نیچے نہر چلتی ہے اور اس کو سیراب کرتی ہے اور اس الہی پیوند سے اور اس باغبان کی کوشش سے دونوں پودے بڑھے، پھولے اور سرسبز ہوئے.ان کا رنگ و بونہایت خوشگوار اور دل و دماغ کو راحت بخشنے والا ہوا.دردمند با غبان ان کو جب کبھی دیکھتا نہایت ہی خوش ہوتا.یہاں تک کہ قضائے الہی سے ایک دن آندھی چلی اور ان دونوں درختوں میں سے چھوٹا پودا اکھاڑا گیا اور اس آندھی کے اندھیرے میں کوئی اس کو اٹھا کر لے گیا.جب باغبان نے ادھر نظر کی تو اس کو نہ پایا.نہایت متردد ہوا اور قریب تھا کہ درد سے آہ نکالے کہ خداوند ذوالجلال نے آواز دی کہ یہ پودا سب پودوں سے مجھے پسند آیا.میں نے اس کو سفلی باغ سے اٹھا کر علوی باغ میں لگا لیا ہے.یہ قبولیت کی خبر سن کر باغبان کا دل نہایت خوش ہوا اور اس ذرہ نوازی کا شکر بجالایا.وہ تو نہایت خوش قسمت تھا کہ جس کی جڑھ بہشت میں جا لگی جس کو کبھی بھی انقطاع نہ ہوگا اور ابدالآباد تک بڑھے گا اور پھولے گا مگر ابھی دوسرے پودے اور دیگر درختوں کی ہستی معرض خطر میں ہے کہ ان کا کیا انجام ہو گا کہ وہ کھڑے کھڑے ہی سوکھ جاتے ہیں یا ان کو بھی اعلیٰ طبقات میں ہی جگہ ملتی ہے ).اس مبارک پیوند کا نتیجہ یہ ہوا کہ صدق اور راستی سے محبت ہو گئی اور ہر ایک قسم کے جہل اور
مکتوبات احمد ۳۷۰ جلد سوم تاریکی سے نفرت.اور دل جو ابھی کسی قسم کے اثرات سے متاثر نہ ہوئے تھے اس نیک صحبت سے فیض یاب ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کہ افضل البشر اور خیر الرسل ہے اور ہر ایک خیر وخوبی کی جڑھ ہے غایت درجہ کا اُنس ہو گیا اور خدا اور کتاب اللہ سے خاص لگاؤ اور محبت ہو گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا سے خدا تعالیٰ کے خوف وخشیت نے دل میں جگہ لی.ہمارا جسمانی باپ تو ایک تھا ہی.روحانی طور پر بھی ہم ایک باپ کے فرزند ہو گئے اور مامور کے اس یگانگت کے تعلق سے قلوب کو ایک دوسرے سے کچھ ایسا لگاؤ تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ ہم دونوں بھائی ایک دوسرے کے لئے ایک جان اور دو قالب تھے.مرحوم کی وفات جب کہ میرے اور اس عزیز کے ایسے تعلقات تھے تو ایسے آرام قلب اور راحت جان شفیق کے گزرجانے سے ممکن تھا کہ عام دنیا داروں کی طرح میں بھی اندوہ غم وکرب میں مبتلا ہو کر فراق میں ہلاک ہو جا تا مگر تسلی دینے والی ایک ہی بات تھی کہ اس عزیز کا خاتمہ بخیر ہوا.جو کہ اس امام زماں کے ایک خواب سے قریب چھ ماہ پیشتر معلوم ہو چکا تھا.اسم بامسمیٰ ایوب.یہ سعید نوجوان اپنے رشد اور نیک بختی اور طہارت میں اسلام کے اس برگزیدہ سلسلہ میں ایک نمونہ تھا اور جو صبر اور استقلال اس نے اپنی ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ کی بیماری میں دکھایا.اس کی اس زمانہ میں بہت کم نظیر ملتی ہے.یعنی اس تمام عرصہ میں ایک لحظہ بھر کے لئے بھی اس کے ایمان اور استقلال کو جنبش نہیں آئی اور وہ اخیر وقت تک اس بیماری میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی پر شاکر تھا جیسے کہ کوئی دنیا دار کسی دنیاوی نعمت پانے پر خوشی اور انبساط سے شکر کا لفظ منہ پر لاتا ہے.تمام بیماری میں اس اسم بامسٹی ایوب نے اُف تک نہ کی.اور آخری سانس تک بیماری کے دکھ سے اس کی آنکھ میں آنسو نہ آیا.اور ایسی سخت بیماری کے اس ڈیڑھ سال کے عرصہ میں اس کی نیند کا بہت سا حصہ جاگنے میں گزر رہا تھا اور کئی کئی راتیں اس نے اپنی آنکھوں میں گزاری تھیں.اس نے کبھی ناشکری نہیں کی اور نہ کبھی کوئی لفظ مایوسی کا منہ سے نکالا.میں نے بارہا اس کو ساری ساری رات کھانستے سنا اور بے آرامی میں دیکھتا تھا مگر جب کبھی میں پوچھتا کہ بھائی کیا حالت ہے تو جواب دیتا
مکتوبات احمد ۳۷۱ جلد سوم کہ الْحَمْدُ لِلہ میں بہت اچھا ہوں.اس بیماری کی حالت میں بھی اس نے کوئی نماز قضا نہ کی.اور کامل الایمان میں طبیب ہوں.میں نے ہزار ہا بیمار دیکھے ہیں.بیماری سے اکثر انسان ہراساں ہو جاتا ہے ور متعلقین و تیمار داروں کو بیمار کو تسلی و تشفی دینی پڑتی ہے مگر میں نے اسے ایسا تسلی یا فتہ بیمار پایا کہ ہمیشہ اپنے لواحقین و متعلقین کو تسلی دیتا اور اس کی نازک حالت کو دیکھ کر اگر کوئی رشتہ داراپنی آنکھوں سے آنسو بہاتا تو وہ بڑے مضبوط دل اور واثق یقین سے اُس کو تسلی دیتا اور کہتا کہ خدا کے فضل سے مایوس نہ ہو.میں تو اس کی رحمت سے نومید نہیں ہوں.تم کیوں پریشان ہوتے ہو.حضرت مسیح موعود سے عشق و محبت.وہ اعلیٰ درجہ کے اخلاص اور ایمان کا نمونہ تھا.حضرت مسیح موعود کو جس سے اُس کو یہ دولت ملی تھی ، آخر وقت تک ہمیشہ یاد کرتا رہا.اور اس کی اخیر ایام میں بڑی بھاری یہی آرزو تھی کہ حضرت مسیح موعود کی آخری قدم بوسی سے مشرف ہو اور مرنے کے وقت کلمہ شہادت کل لوازمات ایمان کا اپنی زبان سے اقرار کرنے کے بعد اس نے کہا کہ میرا حضرت مسیح موعود امام آخر الزماں پر ایمان ہے.بس یہی اس کے آخری کلمات تھے.اس کے بعد زبان بند ہو گئی.اور حضرت مسیح موعود کا خط جن کا کہ وہ کامل درجہ عشق رکھتا تھا، اس کی عین نزع کی حالت میں پہنچا.وہ خط اس وقت اس عزیز کو جو خدا تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے بالکل تیار بیٹھا تھا سنایا گیا اور وہ اس پیارے امام کے مبارک ہاتھوں کی تحریر جس کو وہ چومنے اور آنکھوں سے لگانے کی نہایت آرزو رکھتا تھا.اس کے منہ اور آنکھوں سے لگا کر اس کے سینے پر رکھ دی گئی.اس کے بعد معا وہ پاک روح ہمارے پاس سے پرواز ہوگئی.گویا کہ اس کو صرف اس خط کی انتظار تھی.یہ ایک شخص تھا جو اولیاء اللہ کی صفات اپنے اندر رکھتا تھا اور اس کی زندگی انبیاء کے طریق پر تھی.مروجہ علوم میں اس نے بی اے تک تعلیم پائی تھی مگر دین اور خدا شناسی میں وہ اس چھپیں سالہ عمر میں اس مرتبہ کو پہنچ گیا تھا کروڑہا مخلوقات کو وہ معرفت پیری میں بھی نصیب نہیں ہوتی اور اس جہان میں ہی اس کا تعلق اُس جہان سے نزدیک تر ہو گیا تھا اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے ایسا پُر تھا کہ
مکتوبات احمد ۳۷۲ جلد سوم وہ سارا ہی اس کا ہو گیا تھا اس لئے اس رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ نے اس کو اپنے ہی پاس بلالیا اور یہ سب فضل اور برکت اور حسن خاتمت اس امام مسیح موعود کے انفاس طیبات اور محبت اور دعا کا نتیجہ تھا.میں دعا کرتا ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک فرد اس مسیح موعود کا ایسا ہی سچا خادم اور جاں نثار ثابت ہو جیسا کہ ہمارا بھائی مغفور و مرحوم ایوب تھا.خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک کا ایسا ہی اچھا خا تمہ ہو جیسا کہ اس عزیز کا ہوا.(آمین) اس عزیز نوجوان کی صلاحیت اور تقوی کی وجہ سے حضرت اقدس کو بھی اس سے غایت درجہ کی محبت اور پیار تھا جو کہ حضرت مسیح موعود کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے دوگرامی ناموں سے ظاہر ہوگا جو ذیل میں درج ہیں.اوّل وہ خط ہے جس کا میں پہلے ذکر کر آیا ہوں.وہ آں عزیز کے دام واپسیس پر ملا اور دوسرا اس مخبر صادق کی طرف سے تعزیت نامہ ہے.مجھے اپنے منصبی فرائض اتنے ہیں کہ فرصت نہیں رکھتا کہ میں سب احباب کی طرف اس عزیز کی وفات کے متعلق حالات لکھ سکوں.اس لئے میں نے مختصر طور پر عریضہ آپ صاحبان کی طرف لکھا ہے تا کہ جہاں جہاں کہ آپ ہوں اس واقعہ ناگزیری کی خبر ہو اور آپ سب صاحبان اس مرحوم و مغفور کے لئے اگلے جہاں میں ترقی مدارج و مغفرت کی دعا کریں.وہ عزیز اس تمام جماعت کا پیارا تھا اور ہر ایک کی محبت اس کے دل میں تھی.اس مرحوم متقی نوجوان کا آپ سب صاحبان کو آخری سلام پہنچے.اس عزیز نے عمر تو تھوڑی پائی مگر اس کی صلاحیت اور تقوی کا قصہ لمبا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس کو ایک کتاب کی صورت میں پیش کروں.شاید ہے کہ اس نو جوان کی پاک مثال سے کوئی دل مؤثر ہو جاوے اور اس نور کے چشمہ کی طرف ہمہ تن رجوع کرے.جو اس آخری زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض کوثر سے نکالا ہے.تا کہ اس کا ایک گھونٹ اندر کے خفیہ درخفیہ معاصی کی آگ بجھانے کا کام دے اور ایمان کا پودا اس سے نشو و نما پا جائے اور یہ اس کی نجات کا موجب ہو جائے.اس کی زندگی اور موت تو نمونہ تھی ہی.اس کی وفات کے بعد کے حالات بھی عجیب ہیں جو کہ کئی متقی اور صالح لوگوں نے کثرت سے اس کو اولیاء اللہ اور انبیاء کی مجلس میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت میں جنت کے نعماء کھاتے اور خوش وخرم پھر تے عالم رؤیا میں دیکھا ہے.
مکتوبات احمد ۳۷۳ جلد سوم میں سچ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر سچ کہتا ہوں.کیونکہ مجھے کوئی بات جھوٹ کہنے پر مجبور نہیں کرتی.اگر دین کی ترقی چاہتے ہو اور اس خاتم الانبیاء کے پیارے بننا چاہتے ہو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی عزت حاصل کرنی چاہتے ہو تو اس مسیح موعود کا دامن پکڑ و جو کہ اس آخری زمانہ کا امام ہے اور اگر دنیا میں عزت اور آسودگی اور کشائش رزق چاہتے ہو تو بھی اس مسیح موعود کے آگے بسر تسلیم خم کرو کیونکہ یہ سچی اطاعت کی راہ بتلاتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ اپنے فرض منصبی کو پورا کرنا والسلام کس قدرضروری ہے.مرقومہ آخری اپریل ۱۹۰۵ء مرزا یعقوب بیگ ایل.ایم.الیس اسسٹنٹ سرجن از فاضل کا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مجی عزیزی مرزا ایوب بیگ صاحب و محبی عزیزی مرزا یعقوب بیگ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اس وقت جو میں دردسر اور موسمی تپ سے یک دفعہ سخت بیمار ہو گیا ہوں.مجھ کو تا ر ملی.جس قدر میں عزیزی مرزا ایوب بیگ کے لئے دعا میں مشغول ہوں اس کا علم تو خدا تعالیٰ کو ہے.خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہرگز ناامید نہ ہونا چاہئے.میں تو سخت بیماری میں بھی آنے سے فرق نہ کرتا لیکن میں تکلیف کی حالت میں ایسے عزیز کو دیکھ نہیں سکتا.میرا دل جلد صدمہ قبول کرتا ہے.یہی چاہتا ہوں کہ تندرستی اور صحت میں دیکھوں.جہاں تک انسانی طاقت ہے اب میں اس سے زیادہ کوشش کروں گا.مجھے پاس اور نزدیک سمجھیں نہ ڈور.میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے میں اس درددل کو بیان کروں.خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہرگز نا اُمید مت ہو.خدا بڑے کرم اور فضل کا مالک ہے اس کی قدرت اور فضل اور رحمت سے کیا دور ہے کہ عزیزی ایوب بیگ کو تندرستی میں جلد تر دیکھوں.اس علالت ر کے وقت جو تار مجھ کو ملی ، میں ایسا سراسیمہ ہوں کہ قلم ہاتھ سے چلی جاتی ہے.میرے گھر میں بھی
مکتوبات احمد ۳۷۴ جلد سوم یوب بیگ کے لئے سخت بے قرار ہیں.اس وقت میں ان کو بھی اس تار کی خبر نہیں دے سکتا کیونکہ کل سے وہ بھی تپ میں مبتلا ہیں اور ایک عارضہ حلق میں ہو گیا ہے.مشکل سے اندر کچھ جاتا ہے.اس کے جوش سے تپ بھی ہو گیا ہے.وہ نیچے پڑے ہوئے ہیں اور میں اوپر کے دالان میں ہوں.میری حالت تحریر کے لائق نہ تھی لیکن تار کے درد انگیز اثر نے مجھے اس وقت اُٹھا کر بٹھا دیا.آپ کا اس میں کیا حرج ہے کہ اس کی ہر روز مجھ کو اطلاع دیں.معلوم نہیں کہ جو میں نے ابھی ایک بوتل میں دوار وانہ کی تھی وہ پہنچی ہے یا نہیں.ریل کی معرفت روانہ کی گئی تھی اور معلوم نہیں کہ مالش ہر روز ہوتی ہے یا نہیں.آپ ذرہ ذرہ حال سے مجھے اطلاع دیں اور خدا بہت قادر ہے.تسلی دیتے رہیں.چوزہ کا شور بہ یعنی بچے خورد کا ہر روز دیا کریں.معلوم ہوتا ہے کہ دستوں کی وجہ یہ ہے کہ کمزوری نہایت درجہ تک پہنچ گئی ہے.۲۵ را پریل ۱۹۰۰ء والسلام الراقم خاکسار مرزا غلام احمد قادیانی نوٹ :.یہ وہی خط ہے جس کا ذکر خاکسار نے اپنے خط مورخہ آخر ا پریل ۱۹۰۰ ء میں کیا ہے جو کہ مرحوم کے عین نزع کے وقت پہنچا اور عین اس آخری وقت یعنی حالت نزع میں موصول ہوا.یہ خط مرحوم کو اس وقت پڑھ کے سنایا گیا اور اس کی آنکھوں اور ہونٹوں سے لگایا گیا اس کے معاً بعد اس کی رُوح جاں بحق تسلیم ہوئی.گویا کہ اسی خط کی اُسے انتظار تھی اور پھر رفیق اعلیٰ سے جاملی إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ - ۲۸ ؍ جولائی ۱۹۳۵ء مرزا یعقوب بیگ ڈلہوزی
حضرت ڈاکٹر مرزا الیعقوب بیگ صاحب رضی اللہ تعالی عنہ
مکتوبات احمد اب نمبر ۳۷۷ فہرست مکتوبات بنام حضرت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تاریخ تحریر بلا تاریخ ۲ / دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۳۷۸ ۳۷۹ جلد سوم
مکتوبات احمد ۳۷۸ جلد سوم مکتوب نمبرا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محبی عزیزی مرزا یعقوب بیگ صاحب نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا وہ تارجس کا چند روز سے ہر وقت اندیشہ تھا آخر کل عصر کے بعد پہنچا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اِلَيْهِ رجِعُونَ - عزیزی مرزا ایوب بیگ جیسا سعیدلڑ کا جو سراسر نیک بختی اور محبت واخلاص سے پر تھا.اس کی جدائی سے بھی بہت صدمہ اور دکھ پہنچا.اللہ تعالیٰ تمہیں اور اس کے سب عزیز وں کو صبر عطا کرے اور اس مصیبت کا اجر بخشے.( آمین ثم آمین ) اس مرحوم کے والد ضعیف کمزور کا کیا حال ہو گا اور اس کی بیوہ عاجزہ پر کیا گزرا ہو گا.ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ سب کو اس صدمہ کے بعد صبر عطا فرمائے.ایک جوان صالح نیک بخت جو اولیاء اللہ کی صفات اپنے اندر رکھتا تھا اور ایک پودہ نشو ونما یافتہ جواب امید کے وقت پر پہنچ گیا تھا یک دفعہ اس کا کاٹا جانا اور دنیا سے نا پدید ہو جانا سخت صدمہ ہے.اللہ جل شانہ سوختہ دلوں پر رحم کی بارش کرے.اسی خط کے وقت جو ایوب بیگ مرحوم کی طرف میری توجہ تھی کہ وہ کیونکر جلد ہماری آنکھوں سے نا پدید ہو گیا اور تمام تعلقات کو خواب و خیال کر گیا کہ یکدفعہ الہام ہوا.مبارک وہ آدمی جو اس دروازہ کے راہ سے داخل ہوا.سیہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عزیزی ایوب بیگ کی موت نہایت نیک طور پر ہوئی ہے اور خوش نصیب وہ ہے جس کی ایسی موت ہو.ایک دفعہ عزیز مرحوم کی زندگی میں بکثرت اس کی شفا کے لئے دعا کی.تب خواب میں دیکھا کہ ایک سڑک ہے گویا وہ چاند کے ٹکڑے اکٹھے کر کے بنائی گئی ہے اور ایک شخص ایوب بیگ کو اس سڑک پر لے جا رہا ہے اور وہ سڑک آسمان کی طرف جاتی ہے اور نہایت خوش اور چمکیلی سڑک ہے.گویا زمین پر چاند بچھایا گیا ہے.میں نے یہ خواب اپنی جماعت میں بیان کی اور تکلف کے طور پر یہ سمجھا کہ یہ صحت کی طرف ے تذکره صفحه ۲۹۲ مطبوعه ۲۰۰۴ء
مکتوبات احمد ۳۷۹ جلد سوم اشارہ ہے لیکن دل نہیں مانتا تھا کہ اس خواب کی تعبیر صحت ہو.سواب اس خواب کی تعبیر ظہور میں آئی إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ.میری طرف سے اپنے والد صاحب کو بھی عزا پر سی کا پیغام پہنچا دیں.خدا تعالیٰ نے جو چاہا ہو گیا.اب صبر و رضا درکار ہے رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّحِمِينَ والسلام - نوٹ.یہ حضرت مسیح موعود کا تعزیت نامہ ہے جو کہ مرحوم کی وفات کے بعد موصول ہوا.اللہ تعالیٰ اسے غریق رحمت کرے.(آمین ) مرزا یعقوب بیگ ڈلہوزی ۲۸/۷/۳۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر 1 نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي مجی عزیزی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ آپ کے دو خط اور مبلغ ہیں روپے پہونچے.جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرًا.ابھی مفتی صاحب کے پاس شاید آپ کا کوئی خط نہیں آیا جب آوے گا دیکھ لوں گا اور انشاء اللہ چھپ جائے گا.باقی سب طرح سے خیریت ہے بہت خوشی ہوگی کہ پھر آپ کو رخصت کا موقعہ ملے گا اور خدا تعالیٰ ایسا کرے کہ آپ لا ہو ر آ جائیں.آمین.۲ / دسمبر ۱۹۰۵ء والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ المؤمنون : ١١٩
عکس مکتوب بنام حضرت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب رضی اللہ تعالی عنہ
3 عکس مکتوب نمبر ۲ ہم احمد الرحمن الرحيم داکتر عمله و اصلاح سجاگ شما شه اس امم لال السنة الله د رام ان دو عالی اور صبح 1 پر تھی جوانی اله طور اپنی نے صاحب وہیں ساریان 1 انکا کر کی فوری شب آیا یہ کہے گا دیگر برون کا اور اشاء اللہ ہیں جہا ہا ہاتھی سب طرح کے توریت صورت خوشے ہم دینگے کہ ہر ایک کو روته کا موقع یکی اور مور والی اس کے کہ آئے ام سلام آجائین رئیس در مست مسیح رہا
حضرت دیقہ بیگم صاحب برای سال مالی منتها لى اہلیہ حضرت قریشی محمد عثمان صاحب رضی اللہ تعالی عنہ
مکتوبات احمد ۳۸۳ حضرت صدیقہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالی عنہا اہلیہ حضرت قریشی محمد عثمان صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کے نام تعارفی نوٹ قریشی محمد عثمان صاحب ایس.ڈی.او.سلسلہ کے پرانے مخلصین میں سے ہیں.ان کی اہلیہ محترمہ مرحومہ کے خطوط کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تین مکتوب لکھے تھے جن کو رسالہ مصباح نے الفضل ۳ / نومبر ۱۹۴۳ء سے لے کر شائع کیا تھا.مصباح نومبر ۱۹۴۳ء سے لے کر یہاں درج کئے جاتے ہیں.(عرفانی کبیر) جلد سوم
مکتوبات احمد مکتوب نمبر ۳۸۴ فہرست مکتوبات بنام حضرت صدیقہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت قریشی محمد عثمان صاحب تاریخ تحریر ۱۳ / جون ۹۷ء بلا تاریخ ۲۰ فروری ۰۸ء صفحہ ۳۸۵ ۳۸۵ ۳۸۶ جلد سوم
مکتوبات احمد ۳۸۵ جلد سوم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ عزیزہ صدیقہ بیگم مکتوب نمبرا نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته تمہارا خط پہنچا.خدا تعالیٰ تم کو معہ تمام عزیز ان کے خوش رکھے اور تمہیں عمر والالر کا عطا فرمائے.آمین.بہتر ہوگا کہ جب خدا تعالیٰ موقع دے تو دو تین مہینے اس جگہ رہ جائیں.یہ تمہاری محبت اور اخلاص کی نشانی ہے کہ تم نے میری طرف خط لکھا.ہمیشہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع کرتی رہو.میں تم پر بہت خوش ہوں.ہمیشہ نماز کی پابندی رکھیں.۱۳ / جون ۹۷ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکتوب نمبر ۲ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ تمہارا خط پہنچا.تمہارے اخلاص اور محبت سے بہت خوشی ہوئی.خدا تمہیں بہت خوش رکھے اور دنیا کی بلاؤں اور آفتوں سے بچائے.آمین.ہمیشہ اپنی خیریت سے اطلاع دیتی رہو.تم اپنے میاں سے بڑھ کر اخلاص مند ثابت ہوئی ہوا اور تمہارے خط میں بہت محبت اور اخلاص کی بو آتی ہے.میں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں کہ تم ہمیشہ خوش رہو اور تمہارے بہت لڑکے ہوں اور خاتمہ بالخیر ہو.آمین.والسلام مرزا غلام احمد
مکتوبات احمد ۳۸۶ جلد سوم مکتوب نمبر ۳ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ تمہارا خط پہنچا.تمہارے اخلاص اور محبت سے مجھے تعجب آتا ہے کہ خدا نے اس قدرتمہیں سچی ارادت اور محبت سے حصہ دیا ہے اور تمہارے دل میں یقین بھر دیا ہے.خدا تمہیں بہت خوش رکھے اور اولا دصالح عنایت کرے اور تمہیں موقع دے کہ دو تین مہینے تک اس جگہ رہ جاؤ.میں تم سے بہت خوش ہوں اور ایسی عورتیں میں نے بہت کم دیکھی ہیں جو اس قدر یقین اور اعتقاد رکھتی ہوں.تمہارے دل میں محبت اور اعتقاد رچا ہوا معلوم ہوتا ہے.خدا تمہیں ہر ایک مصیبت سے بچائے اور تمہیں خوش رکھے.زیادہ خیریت.۲۰ فروری ۰۸ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان
حضرت مولانا حکیم مولاناحکیم نورالدین صاحب بھیروی رضی اللہ تعالی عنہ
مکتوبات احمد لتوب نمبر ۳۸۹ فہرست مکتوبات بنام حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب بھیروی مولاناحکیم تاریخ تحریر بلا تاریخ ۱۳ ستمبر ۱۸۹۲ء صفحہ ۳۹۰ ۳۹۲ جلد سوم
مکتوبات احمد ۳۹۰ جلد سوم مکتوب نمبرا مخدومی ومکرمی حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ یقین کہ آں مکرم بخیر و عافیت بھیرہ میں پہنچ گئے ہوں گے میں امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ بہر حال آپ سے بہتر معاملہ کرے گا.میں نے کتنی دفعہ جو توجہ کی تو کوئی مکر وہ امر میرے پر ظاہر نہیں ہوا.بشارت کے امور ظاہر ہوتے رہے اور دو دفعہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا.إِنِّي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَ اَری.ایک دفعہ دیکھا گیا کہ گویا ایک فرشتہ ہے اس نے ایک کاغذ پر مہر لگا دی اور وہ مہر دائرہ کی شکل پر تھی.اس کے کنارہ پر محیط کی طرف اعلیٰ کے قریب لکھا تھا.نور دین اور درمیان یہ عبارت تھی.اَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ میری دانست میں ازواج دوستوں اور رفیقوں کو بھی کہتے ہیں اس کے یہ معنی ہوں گے کہ نورالدین خالص دوستوں میں سے ہیں کیونکہ اسی رات اس سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا کہ فرشتہ نظر آیا.وہ کہتا ہے کہ تمہاری جماعت کے لوگ پھرتے جاتے ہیں فلاں فلاں اپنے اخلاص پر قائم نہیں رہا.تب میں اس فرشتہ کو ایک طرف لے گیا اور اس کو کہا کہ لوگ پھرتے جاتے ہیں تم اپنی کہو کہ تم کس طرف ہو تو اس نے جواب دیا کہ ہم تو تمہاری طرف ہیں تب میں نے کہا کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ میری طرف ہے تو مجھے اس کی ذات کی قسم ہے کہ اگر سارا جہان پھر جائے تو مجھے کچھ پرواہ نہیں پھر بعد اس کے میں نے کہا کہ تم کہاں سے آتے ہو اور آنکھ کھل گئی اور ساتھ الہام کے ذریعہ سے یہ جواب ملا کہ ابى مِنْ حَضْرَةِ الْوِتْرِ میں نے سمجھا کہ چونکہ اس بیان سے جو فرشتہ نے کیا وتر کا لفظ مناسب تھا کہ وتر تنہا اور طاق کو کہتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ کا نام الوتر بیان کیا.اس خواب اور اس الہام سے کچھ مجھے بشریت سے تشویش ہوئی اور پھر سو گیا.تب پھر ایک فرشتہ آیا اور اس نے ایک کاغذ پر مہر لگادی اور نقش مہر جو چھپ گیا دائرہ کی طرح تھا اور وہ اس قدر دائرہ تھا جو ذیل میں لکھتا ہوں اور تمام شکل یہی تھی.تذکره صفحه ۲۶۸ مطبوعه ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۱۶۴ مطبوعه ۲۰۰۴ء
مکتوبات احمد ۳۹۱ جلد سوم نوردین ازواج مطهرة مجھے دل میں گزرا کہ یہ میری دل شکنی کا جواب ہے اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ ایسے خالص دوست بھی ہیں جو ہر ایک لغزش سے پاک کئے گئے ہیں جن کا اعلیٰ نمونہ آپ ہیں.بخدمت اخویم حکیم فضل دین صاحب السلام علیکم و السلام کی خاکسار غلام احمد از قادیان تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه ۱۳۵، ۱۳۶ (جدید ایڈیشن) بحواله منقول از اخبار زمیندار ۱۹/ نومبر ۱۹۳۲ء بحوالہ "برق آسمانی از مولوی ظہور احمد صاحب بگوی صفحه ۶۶ تا ۶۸
مکتوبات احمد ۳۹۲ جلد سوم مکتوب نمبر ۲ مخدومی و مکر می اخویم حضرت مولوی صاحب سلّمه السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته عنایت نامہ پہنچ کر باعث مشکوری ہوا.عام طور پر لوگ آں مکرم کے استقلال کو بڑی تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.در حقیقت اللہ جل شانہ کے بندے جو اس کی ذات پر تو کل رکھتے ہیں ان کے لئے خدا تعالیٰ کافی ہے کسی راجہ رئیس کا کیا پرواہ ہے.جب کہ اس بات کو مان لیا خدا ہے اور ان صفتوں والا کہ ایک طرفتہ العین میں جو چاہے کر دیوے تو پھر ہم کیوں غم کریں اور زید وعمر کی بے التفاتی سے ہمارا کیا نقصان.آپ کو اپنے بہت سے برکات کا مورد بنا دے کہ آپ نے اس عاجز کی اللہ وہ خدمت کی ہے کہ جس کی نظیر اس زمانہ میں ملنا مشکل ہے.میں چاہتا ہوں کہ چونکہ انسان کے بعض اخلاق مخفیہ کا خلقت پر ظاہر ہونا کسی قسم کی تکلیف پر موقوف ہے اس لئے وہ رحیم و کریم اپنے مستقیم الحال بندوں پر حوادث بھی نازل کرتا ہے.تا ان کے دونوں قسم کے اخلاق جو ایام راحت اور ایام رنج سے متعلق ہیں ظاہر ہو جاویں اسی وجہ سے ہم خدا تعالیٰ کے مشیت میں کھینچے چلے جاتے ہیں تا جو کچھ ہمارے اندر ہے ظاہر ہو جاوے.اس عاجز کا پہلا خط جس میں ایک دو الہام درج ہیں شاید پہنچ گیا ہو گا.۱۳ ستمبر ۱۸۹۲ء والسلام محمد خاکسار غلام احمد از قادیان تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه ۱۳۶، ۱۳۷ (جدید ایڈیشن) بحواله منقول از اخبار زمیندار ۱۹ نومبر ۱۹۳۲ء بحوالہ "برق آسمانی از مولوی ظہور احمد صاحب بگوی صفحه ۶۸
حضرت خان صاحہ نواب محمدعلی خان صاحب نی نی لاله تعالی عنہ
مکتوبات احمد ۳۹۵ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محجبی عزیزی اخویم نواب صاحب ستلمه نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا.اللہ تعالیٰ آپ کو صبر اور استقامت بخشے اور اس مصیبت کا اجر عطا فرما دے.دنیا کی بلائیں ہمیشہ نا گہانی ہوتی ہیں.یہ نہایت ضروری ہے کہ جہاں تک جلد ممکن ہو آپ دوسری شادی کی تجویز کریں.میں ڈرتا ہوں کہ آپ کو اس صدمہ سے دل پر کوئی حادثہ نہ پہنچے.جہاں تک ممکن ہو کثرت غم سے پر ہیز کر یں.دنیا کی بھی رسم ہے نبیوں اور رسولوں کے ساتھ بھی ہوتی آئی ہے.اللہ تعالیٰ جس سے پیار کرتا ہے اس کو کسی امتحان میں ڈالتا ہے اور جب وہ اپنے امتحان میں پورا نکلتا ہے تو اس کو دنیا اور آخرت میں اجر دیا جاتا ہے.ایک آپ کو اطلاع دینے کے لائق ہے کہ آج جو پیر کا دن ہے یہ رات جو پیر کی گزری ہے اس میں غالباً تین بجے کے قریب آپ کی نسبت مجھے الہام ہوا تھا اور وہ یہ ہے.فَبِأَيِّ عَزِيزِ بَعْدَهُ تَعْلَمُونَ یہ اللہ جل شانہ کا کلام ہے.وہ آپ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اس حادثہ کے بعد اور کون سا بڑا حادثہ ہے جس سے تم عبرت پکڑو گے اور دنیا کی بے ثباتی کا تمہیں علم حاصل ہوگا.درحقیقت اگر چہ بیٹے بھی پیارے ہوتے ہیں اور بھائی بہن بھی عزیز ہوتی ہیں لیکن میاں بیوی کا علاقہ ایک الگ علاقہ ہے جس کے درمیان اسرار ہوتے ہیں.بیوی میاں ایک ہی بدن اور ایک ہی وجود ہو جاتی ہیں.ان کو صدہا مرتبہ اتفاق ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی جگہ سوتے ہیں.وہ ایک دوسرے کا عضو ہو جاتے ہیں.بسا اوقات ان میں ایک عشق کی سی محبت پیدا ہو جاتی ہے.اس محبت اور با ہم انس پکڑنے کے زمانہ کو یا دکر کے کون سا دل ہے جو پُر آب نہیں ہو سکتا.یہی وہ تعلق ہے جو چند ہفتہ باہر رہ کر آخر فی الفور یاد آتا ہے.ایسے تعلق کا خدا تعالیٰ نے بار بار ذکر کیا کہ با ہم محبت اور انس کرنے کا یہی تعلق ہے.تذکره صفحه ۲۶۹ مطبوعه ۲۰۰۴ء
مکتوبات احمد ۳۹۶ جلد سوم بسا اوقات اسی تعلق کی برکت سے دنیوی تلخیاں فراموش ہو جاتی ہیں.یہاں تک کہ انبیاء علیہم السلام بھی اس تعلق کے محتاج تھے.جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی غمگین ہوتے تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ران پر ہاتھ مارتے تھے اور فرماتے تھے کہ اَرِحْنَا يَا عَائِشَةُ یعنی یا عائشہ ہمیں خوش کر کہ ہم اس وقت غمگین ہیں.اس سے ثابت ہے کہ اپنی پیاری بیوی یار موافق ، رئیس عزیز ہے جو اولاد کی ہمدردی میں شریک غالب اور غم کو دور کرنے والی اور خانہ داری کے معاملات کی متولی ہوتی ہے جب وہ یکدفعہ دنیا سے گزر جاوے تو کیسا صدمہ ہے اور کیسی تنہائی کی تاریکی چاروں طرف نظر آتی اور گھر ڈراؤنا معلوم ہوتا ہے اور دل ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہے.سواس الہام میں خدا تعالیٰ نے یہی یاد دلایا ہے کہ اس صدمہ سے دنیا میں قدم آگے رکھو.نماز کے پابند اور سچے مسلمان بنو.اگر ایسا کرو گے تو خدا جلد اس کا عوض دے گا اور غم کو بھلا دے گا.وہ ہر یک بات پر قادر ہے.یہ الہام تھا اور پیغام تھا اس کے بعد آپ ایک تازہ نمونہ دین داری کا دکھلائیں.خدا برحق ہے اور اس کے حکم برحق ہیں.تقوی سے غموں کو دور کر دیتا ہے.والسلام کو ۲۲ نومبر ۹۸ء حمد الحکم نمبر ۳۶ جلد۷ مورخه ۳۰ رستمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۵ خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان
حضرت حاجی سیٹھ اللہ رکھا عبد الرحمن صاحب مدراسی بینی اللہ تعالی عنہ
مکتوبات احمد ۳۹۹ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آنمکرم کا عنایت نامہ پہنچا.الآخر میں ان دنوں میں ضعیف اور علیل ہوں اور موت اپنا چہرہ دکھا رہی ہے پھر ایک قوم پیچھے بنانی ہے مگر عجیب حالت ہے کہ اس حالت میں بھی میں دعا سے غافل نہیں.صبح دعا کرتا ہوں ، شام دعا کرتا ہوں، رات دعا کرتا ہوں اور ہمیشہ منظوری کی...دیکھنا چاہتا ہوں.امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کسی روز یہ دن دکھائے گا.چونکہ اس وقت طبیعت میں بہت ہی ضعف ہے اس لئے زیادہ نہیں لکھ سکتا.و السلام ہیں خاکسار غلام احمد بدر جلد ۱ انمبر ۲۲ مورخه ۲۲ فروری ۱۹۱۲ء صفحه ۲
حضرت منشی رستم علی صاحب ا ا ا ا ا اهالی محله
مکتوبات احمد ۴۰۳ جلد سوم بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمی محبی منشی رستم علی صاحب سلمه تعالی مكتو نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ آپ کا پہنچا.وہ جو آپ نے میر صاحب کی طرف لکھا ہے اُس کا حرف حرف آپ کے پُر جوش اخلاص اور محبت اور ارادت اور عقیدت پر شاہد ناطق ہے بلکہ اُن الفاظ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک چشمہ صافیہ یقین اور معرفت سے وہ باتیں نکلی ہیں.مجھ کو اس کے پڑھنے سے جس قدر خوشی اور انشراح صدر ہوا وہ اندازہ سے باہر ہے.اس میں سارے فقرات ایسے ہیں کہ گویا میرے ہی قلم اور زبان اور دل سے نکلے ہیں.میں جانتا ہوں کہ جب تک انسان کو پورے درجہ کا خلوص اور پورے درجہ کی محبت اور پورے درجہ کی روحانی مناسبت حاصل نہ ہو تب تک واقعات حقہ کے بیان کرنے میں ایسا تو ارد ہونا اُس سے مشکل ہے.مجھے یقین ہے کہ آپ کو اس تحریر سے بڑا اجر ملا ہو گا کہ آپ کی تحریر میں قَلَّ وَ دَلَّ عبارت میں پوری پوری مدافعت ہے جَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ وَ اَحْسَنَ إِلَيْكُمُ فِي الدُّنْيَا وَالْعُقْبَى.میں چاہتا ہوں کہ اگر وہ خط روا نہ نہیں کیا گیا تو بلا توقف روانہ کر دیا جاوے اور جو یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت خطا فی الاجتہاد کا اعتقادر کھتے ہیں یعنی یہ اعتراض کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایسا گمان کرنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی بعض پیشگوئیوں کے سمجھنے میں بمقتضائے بشریت سہو کر گئے ہیں.ایسا اعتراض اُن لوگوں کا کام ہے جن کو قرآن اور حدیث سے کچھ تعلق نہیں اور اپنی ساری عمر غفلت اور نادانی میں گزاری ہے ورنہ یہ مسئلہ تو سواد اعظم اسلام کے مسلمات میں سے ہے.اور خود قرآن کریم اس کی شہادت دیتا ہے کہ نبی کے لئے جو ضروریات سے ہے کہ اسرار خفیہ کی پیشگوئیوں کے راز اس کو سمجھائے جاویں.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض پیشگوئیوں کی نسبت آپ فرمایا ہے کہ پہلے میں نے کسی پیشگوئی کے کچھ معنے سمجھے تھے لیکن آخر کو معنے صحیح نہ نکلے اور ظہور کے وقت اُس کا مخالف ظاہر ہوا جیسا کہ صحیح بخاری اور مسلم میں ایسی حدیثیں بہت سی بھری پڑی ہیں.جس شخص کو نہ قرآن کی خبر ہو نہ حدیث کی اُس کو کیا سمجھا دیں.اور دوسرا دعوی رسول نمائی کا بالکل دروغ
مکتوبات احمد ۴۰۴ جلد سوم بے فروغ اور بے بنیا د لاف و گزاف ہے.ایک مرد ضعیف اور پیر فرتوت کی عقل جاتی رہی ہے کہ خلاف قال الله قال الرسول ایسی بے اصل باتیں منہ پر لاتا ہے اگر آزمائش کے لئے پکڑا جائے تو خدا جانے کس قدر ذلت اٹھاوے لیکن ہماری طرف سے بہر حال رفق اور نرمی اور درگز ر چاہئے.اگر اُن کا اشتعال حد سے بڑھ گیا تو پھر اُن کے لئے وہ وقت آ جاوے گا.جس میں وہ خود اپنا چہرہ دیکھ لیں گے اُن کو یہ معلوم نہیں کہ انبیاء علیم السلام میں خدائی نہیں ہوتی اور آثار و خواص بشریت کے ان سے دور نہیں کئے جاتے.تبلیغ احکام میں بیشک انبیاء معصوم و محفوظ ہوتے ہیں لیکن علاوہ تعلیمات اسلام کے امور زائدہ میں جیسے پیشگوئیاں ہیں جب وہ اجتہاد کرتے ہیں تو کبھی وہ مصیب اور کبھی مخفی بھی ہوتے ہیں.جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ایک خوشه انگور دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ بہشتی انگور ہے اور ابو جہل کے لئے دیا گیا ہے اور خیال کیا کہ ابو جہل مسلمان ہو جاوے گا مگر آپ فرماتے ہیں کہ وہ میرا خیال صحیح نہ نکلا.بجائے ابو جہل کے عکرمہ مسلمان ہوا اور پھر ایک جگہ صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ ایک زمین مجھ کو دکھلائی گئی اور کہا گیا کہ یہ تیری ہجرت کی جگہ ہے اور میں نے خیال کیا کہ وہ زمین ہجر یا یمامہ ہے جو یمن کے دیہات میں سے دو قصبے ہیں لیکن آخر کار یہ میرا خیال صحیح نہ نکلا اور ہجرت کی جگہ مدینہ نکلی.ایسی اور کئی حدیثیں ہیں.اب جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا بھی نہیں مانتا یعنی رسول اللہ تو یہ فرماتے ہیں کہ کبھی کسی پیشگوئی کے سمجھنے میں مجھ سے خطا ہو جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ کبھی خطا نہیں ہوتا.تو گویا رسول سے زیادہ دعویٰ رکھتا ہے.شیخ سعدی ٹھیک فرماتے ہیں.بزہدو ورع کوش صدق وصفا لیکن میفرائے اور میری طبیعت ہنوز بہت علیل ہے.خارش کا بہت غلبہ ہورہا ہے.اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں.۲۱ نومبر ۱۸۹۱ء والسلام * راقم خاکسار غلام احمد بر مصطفے حمد الحکم نمبر ۲۲/۲۳ جلد ۱۵ مورخه ۲۱،۱۴ ستمبر ۱۹۱۱، صفحه ۴ ، ۵ از قادیان ضلع گورداسپوره
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی
مکتوبات احمد ۴۰۷ فہرست مکتوبات بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تاریخ تحریر ۹ رفروری ۱۸۸۵ء بلا تاریخ صفحہ ۴۰۸ ۴۰۹ جلد سوم
مکتوبات احمد ۴۰۸ جلد سوم دستی خط بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو اس وقت لاہور میں رہتے تھے ) مکتوب نمبر 1 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ بخدمت اخویم مکرم مولوی صاحب بعد السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مسودہ خط شکستہ آں مخدوم جومحمد شاہ نام ایک شخص نے مجھ کو دیا ہے مجھ سے اچھی طرح پڑھا نہیں گیا ہے.دوسرا مسودہ جو شمس الدین کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے، پڑھ لیا ہے.اس عاجز نے محض اتمام حجت کی غرض سے یہ قصد کیا ہے.بعد اجرائے نوٹس اگر کوئی مقابلہ کے لئے آیا ، یا نہ آیا.بہر حال اتمام حجت ہے اور إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ سے خالی نہیں.انشاء اللہ تعالیٰ عمر کا اعتبار نہیں.جس قدر جلدی ہو بہتر ہے.اخیر خط میں یہ عبارت ضرور چاہئے کہ اگر کوئی شخص آنے کا ارادہ کرے تو اول بذریعہ درخواست اپنے ارادہ سے مطلع کرے.میاں عبداللہ پٹواری جو اس کام کے لئے گئے ہوئے ہیں ان کو آپ فہمائش کر دیں کہ دو ہزار اشتہار انگریزی لے کر قادیان میں آجائیں اور خطوط بعد میں پہنچ جائیں گے ان کا زیادہ تو قف کرنا کچھ ضروری نہیں.والسلام ۹ رفروری ۱۸۸۵ء خاکسار غلام احمد عفی عنہ ے جس اشتہار کا اس خط میں ذکر ہے یہ وہ اشتہار ہے جو سرمہ چشم آریہ وشحنہ حق و آئینہ کمالات اسلام و برکات الدعا کے اخیر میں بھی لگا کر شائع کیا گیا تھا اور جس کے ایک صفحہ پر اردو مضمون متعلق براہین احمدیہ و دعوای ماموریت ومجددیت ہے اور دوسرے صفحہ پر اسی اردو مضمون کا انگریزی میں ترجمہ ہے اور جس خط کا اس میں ذکر ہے یہ وہ خط ہے جو اشتہار مذکور کے ساتھ حضور نے مختلف مذاہب کے لیڈروں اور پیشواؤں کے نام رجسٹرڈ کرا کر بھیجا تھا اور جس میں دو ہزار چار سو روپیہ ایک سال کے لئے بغرض نشان دیکھنے کے یہاں آ کر رہنے والے غیر مذہب کے ممتاز لوگوں کو دینے کا ذکر ہے.
مکتوبات احمد ۴۰۹ مکتوب نمبر ۲ بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدوم و مکرم مولوی صاحب بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ جلد سوم عنایت نامہ آں مخدوم پہنچا.اگر چہ ڈمی کاغذ کی کتابیں اب شاید تین چار باقی ہیں اور اندریں بہت ضائع ہو گئیں لیکن آپ کی تاکید کے لحاظ سے بھیجی جاتی ہیں.طبیعت اس عاجز کی بدستور ہے.چونکہ اس جگہ مہمانوں کی اس قدر کثرت ہے کہ اکثر وقت ان کی ملاقاتوں میں خرچ ہوتا ہے.اس لئے یہ عاجز تر ڈو میں ہے کہ ترتیب و تالیف حصہ پنجم کے لئے کس طرح فرصت نکالی جائے.بارہا دل میں یہ گزرتا ہے کہ کسی ایسی طرف چلا جائے کہ جس میں کوئی پرسان نہ ہو تا خاطر خواہ فراغت سے محنت اور کوشش کی جائے مگر ابھی تک کوئی جگہ قائم نہیں ہوئی.آپ نے جس قد رسعی اور توجہ کی ہے اس کے صلہ میں رسمی شکر گزاریوں سے درگزر کر کے یہ چاہتا ہوں کہ حضرت مولا کریم عزّ اسمۂ وجل شانہ آپ کی اس خدمت کو اپنی رضامندی اور خوشنودی کا موجب کر دے کہ انسان کے لئے یہ بڑی مہم عظیم ہے کہ اس کا مالک اس پر راضی ہو جائے.یہی فوز عظیم ہے جس کو بذریعہ مخلصانہ عملوں کے طلب کرنا چاہئے.خدا ہم کو اور آپ کو اس سے متمتع فرما دے.آمین.والسلام خاکسار غلام احمد
عکس مکتوبات بنام مولوی محمد حسین صاحب
3 عکس مکتوب نمبرا سه ر که نداریم سور سلعه ر شاہ نام ایک سفر کے محیا کر دیا سی کی ہرہ کیا ہے.اس تاجر نے محض اتمام 2 توافق سے یہ مقصد کیا ہے بعد ادرار رائس کے کیا - روزیرو بر استقاله جلدي های سی ان ادرار را علم کا اختیاری چقدر عیدی ام بهتر اخیر زمین سے عبارت خود رہا ہے کہ ان کی شھر آئی کا ر او را یار اول دینی در مرور اپنے ارادود سے مطلع کری
4 عکس مکتوب نمبر ۲ در خاطر شاهد اور اندرس برست اغت از نگام در شایدش با 10 I 7 شرة ریکی کار گذار دین سے در گور کر کے آپکے اس خدمت کو اپنے رضامندی اور خوشنودی محمد کا.تمہیں